• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

سیر روحانی ۔خلیفۃ المسیح الثانی ۔ مرزا بشیر الدین محمود احمد رض ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سیر روحانی ۔ یونی کوڈ

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
پیش لفظ
برادران! ا َاَلسَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
’’سَیْرِروحانی‘‘میرے لیکچروں کامجموعہ ہے۔یہ لیکچر ۱۹۳۸ء سے شروع ہوئے تھے ابھی مکمل نہیںہوئے۔ تفصیل اور محرّک ان لیکچروںکا اندرکے صفحات پربیان ہے اس لئے اس کے متعلق کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ پہلے ایک جلد میںپہلے سال کالیکچر شائع ہؤا تھا اس کے بعد التواء ہوتا چلاگیا اَب ایک جلد میں ۱۹۳۸ء ،۱۹۴۰ ء اور ۱۹۴۱ء تین سالوں کے تین لیکچر اکٹھے شائع کئے جا رہے ہیں۔ پہلی مطبوعہ جلد بھی اسی جلد میںشامل کردی گئی ہے اور خیال ہے کہ تین جلدوں میںسب لیکچر شائع کر دئیے جائیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کو نافع الناس بنائے۔ ٰامِیْنَ
خاکسار
مرزا محمودا حمد
۲۳؍دسمبر ۱۹۵۴ء
اَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمّٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ھُوَالنَّاصِرُ
سیر روحانی (۱)
(تقریر فرمودہ ۲۸ دسمبر۱۹۳۸ء برموقع جلسہ سالانہ قادیان)
مَیں نے پالیا۔ مَیں نے پالیا
تشہّدتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
ایک اہم تاریخی سفر
میرا آج کا مضمون میرے اس سفر سے تعلق رکھتا ہے جو اس سال اکتوبر کے مہینہ میںمجھے پیش آیا۔ میںپہلے کام کے لئے قادیان سے
سندھ کی طرف گیا اور وہاں کچھ دن ٹھہر کرسمندرکی ہوا کھانے کے لئے کراچی چلا گیا کیونکہ میرے گلے میںمزمن خراش کی تکلیف ہے جس کی وجہ سے مجھے سالہاسال تک کاسٹک لگوانا پڑتا رہا ہے۔کچھ عرصہ ہؤا مجھے ڈاکٹروں نے کہا کہ اب آپ کاسٹک لگانا چھوڑ دیں ور نہ گلے کا گوشت بِالکل جل جائے گا۔ چنانچہ میں نے اُس وقت سے کاسٹک لگوانا تو ترک کر دیا ہے مگر اور علاج ہمیشہ جاری رکھنے پڑتے ہیں ورنہ گلے اور سر میں درد ہوجاتی ہے ۔چونکہ ڈاکٹروں کی رائے میںاس مرض کیلئے سمندر کا سفر خاص طور پر مفید ہے اس لئے گزشتہ دو سال میںمَیں نے کراچی سے بمبئی کا سفر جہاز میںکیا۔ پہلے سفر میںاوّل تو تکلیف بڑھ گئی مگر بعد میںنمایاں فائدہ ہؤا اور روزانہ دوائیں لگانے کی جو ضرورت محسوس ہوتی تھی اُس میں بہت کمی آگئی اس لئے اس سال میں نے پھر موقع نکالا ۔اِ س سفر میںمجھے یہ بھی خیال آیا کہ حیدر آباد دکن کے دوست مجھے ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ میں کبھی وہاں بھی آئوں سو اِس دفعہ حیدرآباد کے دوستوں کی اگر یہ خواہش پوری ہو سکے تو مَیں اسے بھی پورا کردوں ۔ چنانچہ مَیںسندھ سے کراچی گیا،کراچی سے بمبئی ، بمبئی سے حیدرآباد، حیدرآباد سے آگرہ ، آگرہ سے دہلی اور دہلی سے قادیان آ گیا۔
حیدرآباد کاتاریخی گولکنڈہ کا قلعہ
حیدرآباد میں مَیں نے بعض نہایت اہم تاریخی یادگاریں دیکھیں جن میں سے ایک گولکنڈہ کاقلعہ
بھی ہے۔ یہ قلعہ ایک پہاڑ کی نہایت اونچی چوٹی پر بنا ہؤا ہے اور اس کے گرد عالمگیر کی لشکر کشی کے آثار اور اہم قابلِ دید اشیاء ہیں۔ یہاں کسی زمانہ میںقطب شاہی حکومت ہؤا کرتی تھی اور اس کا دارالخلافہ گولکنڈہ تھا۔ یہ قلعہ حیدرآباد سے میل ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر واقع ہے ایک نہایت اونچی چوٹی پر بڑا وسیع قلعہ بنا ہؤا ہے یہ قلعہ اتنی بلند چوٹی پر واقع ہے کہ جب ہم اس کو دیکھنے کے لئے آگے بڑھتے چلے گئے تو حیدرآباد کے وہ دوست جو ہمیں قلعہ دکھانے کے لئے اپنے ہمراہ لائے تھے اور جو گورنمنٹ کی طرف سے ایسے محکموں کے افسر اور ہمارے ایک احمدی بھائی کے عزیز ہیں انہوں نے کہا کہ اب آپ نے اسے کافی دیکھ لیا ہے آگے نہ جائیے اگر آپ گئے تو آپ کو تکلیف ہو گی۔ چنانچہ خود انہوںنے شریفے لئے اور وہیںکھانے بیٹھ گئے مگر ہم اس قلعہ کی چوٹی پر پہنچ گئے، جب میں واپس آیا تو مَیں نے دریافت کیا کہ مستورات کہاںہیں؟ انہوںنے کہا کہ وہ بھی اوپر گئی ہیں۔خیر تھوڑی دیر کے بعد وہ واپس آ گئیں، مَیں نے اُن سے کہا کہ تم کیوں گئی تھیں؟ وہ کہنے لگیں اِنہوں نے ہمیں روکا تو تھا اورکہا تھا کہ اوپرمت جائو اور حیدر آبادی زبان میں کوئی ایسا لفظ بھی استعمال کیا تھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ اوپر گئے تو بڑی تکلیف ہوگی، مگر ہمیںتو کوئی تکلیف نہیںہوئی شاید حیدرآبادی دوستوں کو تکلیف ہوتی ہو۔ تو خیر ہم وہاں سے پِھر پِھرا کر واپس آ گئے۔ یہ قلعہ نہایت اونچی جگہ پرہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نہایت شاندار اور اسلامی شان وشوکت کا ایک پُرشوکت نشان ہے۔ اِس قلعہ کی چوٹی پر مَیں نے ایک عجیب بات دیکھی اور وہ یہ کہ وہاںہزاروں چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی ہیں ان میں سے ایک ایک مسجد اِس سٹیج کے چوتھے یا پانچویں حصّہ کے برابر تھی، پہلے تو مَیں سمجھا کہ یہ مقبرے ہیں مگر جب مَیں نے کسی سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ یہ سب مسجدیں ہیں اور اُس نے کہا کہ جب عالمگیر نے اس جگہ حملہ کیا ہے تو اسے ریاست کو فتح کرنے کے لئے کئی سال لگ گئے اور مسلسل کئی سال تک لشکر کو یہاں قیام کرنا پڑا اِس وجہ سے اُس نے نمازیوںکے لئے تھوڑے تھوڑے فاصلہ پرہزاروں مسجدیںبنا دیں، مجھے جب یہ معلوم ہؤا تو میرا دل بہت ہی متأثرہؤا اورمَیں نے سوچا کہ اُس وقت کے مسلمان کس قدر باجماعت نمازادا کرنے کے پابند تھے کہ وہ ایک ریاست پر حملہ کرنے کے لئے آتے ہیں مگر جہاں ٹھہرتے ہیں وہاں ہزاروں مسجدیں بنا دیتے ہیں تا کہ نماز باجماعت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہ ہو۔ اسی طرح آگرہ اسلامی دنیا کے عظیم الشان آثار کا مقام ہے۔ وہاں کا تاج محل دُنیا کے سات عجائبات میںسے ایک عجوبہ سمجھا جاتا ہے، وہاں کا قلعہ فتح پورسیکری اور سلیم چشتی صاحب جو خواجہ فرید الدین صاحب گنج شکر پاکپٹن کی اولاد میںسے تھے ان کا مقبرہ عالمِ ماضی کی کیف انگیز یادگاریں ہیں۔
مَیں نے ان میںسے ایک ایک چیز دیکھی اور جہاں ہمیں یہ دیکھ کر مسرّت ہوئی کہ اسلامی بادشاہ نہایت شوکت اور عظمت کے ساتھ دنیا پرحکومت کرتے رہے ہیں وہاں یہ دیکھ کر رنج اور افسوس بھی ہؤا کہ آج مسلمان ذلیل ہو رہے ہیں اور کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں، فتح پور سیکری کا قلعہ درحقیقت مُغلیہ خاندان کے عروج کی ایک حیرت انگیز مثال ہے۔چند سال کے اندر اندر اکبر کا اس قدر زبردست قلعہ اور شہر تیار کردینا جس کے آثار کو اب تک امتدادِ زمانہ نہیں مٹا سکا بہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی پر دلالت کرتا ہے۔ یہ اتنا وسیع قلعہ ہے کہ دُوربین سے ہی اس کی حدوںکودیکھا جا سکتا ہے خالی نظر سے انسان اس کی حدوں کو اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا اور اب تک اس کے بعض حصّے بڑے محفوظ اور عمدگی سے قائم ہیں۔ یہ باتیں بتاتی ہیں کہ مسلمانوںکوبہت بڑی طاقت اور سامانوں کی فراوانی حاصل تھی ورنہ چند سالوں کے اندر اندر اکبر اس قدر وسیع شہر اور اتنا وسیع قلعہ ہرگز نہ بنا سکتا۔ مُغلیہ خاندان کے جو قلعے مَیں نے دیکھے ہیں ان میںسے درحقیقت یہی قلعہ کہلانے کا مستحق ہے ورنہ آگرہ کا قلعہ اور دہلی کا قلعہ صرف محل ہیں قلعہ کا نام انہیں اعزازی طور پردیا گیا ہے۔ قلعہ کی اغراض کو دکن کے قلعے زیادہ پورا کرتے ہیں اور یا پھر فتح پور سیکری کے قلعہ میںجنگی ضرورتوں کو مدِّنظررکھا گیا ہے۔ دہلی میں مَیں نے جامع مسجد دیکھی، دہلی کا قلعہ دیکھا ، خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کامقام دیکھا، منصور اور ہمایوں کے مقابر دیکھے،قطب صاحب کی لاٹ دیکھی ،حوضِ خاص دیکھا، پرانا قلعہ دیکھا، جنتر منتر دیکھا، تغلق آباد اور اوکھلا بند دیکھا۔ ہم نے ان سب چیزوں کو دیکھا اور عبرت حاصل کی، اچھے کاموں کی تعریف کی اور لغو کاموں پر افسوس کا اظہار کیا۔ مسلمانوں کی ترقی کا خیال کر کے دل میں ولولہ پیدا ہوتا تھا اور ان کی تباہی دیکھ کر رنج اور افسوس پیدا ہوتا تھا۔ جن لوگوں نے ہمت سے کام لیا ان کے لئے دل سے آفرین نکلتی تھی اور جنہوں نے آثارِ قدیمہ کی تحقیق کی بعض گڑی ہوئی عمارتوں کو کھودا، پُرانے سکّوں کو نکالا اور جو آثار ملے انہیںمحفوظ کر دیا ان کے کاموں کی ہم تعریف کرتے تھے۔
ان میں سے بعض مقامات میرے پہلے بھی دیکھے ہوئے تھے جیسے دہلی اور آگرہ کے تاریخی مقامات ہیں مگر بعض اس دفعہ نئے دیکھے اور ہر ایک مقام سے اپنے اپنے ظرف کے مطابق ہم نے لُطف اُٹھایا۔ مَیں نے اپنے ظرف کے مطابق، میرے ساتھیوں نے اپنے ظرف کے مطابق اور مستورات نے اپنے ظرف کے مطابق۔
عبرتناک نظارہ
یوں تو ہر جگہ میری طبیعت ان نشانات کو دیکھ دیکھ کر ماضی میں گُم ہو جاتی تھی۔ مَیں مسلمانوں کے ماضی کودیکھتا اور حیران رہ جاتا تھا کہ انہوں نے کتنے
بڑے بڑے قلعے بنائے اور وہ کس طرح ان قلعوں پر کھڑے ہو کر دنیا کو چیلنج کیا کرتے تھے کہ کوئی ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکے۔ مگر آج مسلمانوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ پھر میں ان کے حال کو دیکھتا اور افسردہ ہو جاتا تھا، لیکن تغلق آباد کے قلعہ کودیکھ کر جو کیفیت میرے قلب کی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ یہ قلعہ غیاث الدین تغلق کا بنایا ہؤا ہے اور اس کے پاس ہی غیاث الدین تغلق کا مقبرہ بھی ہے۔یہ قلعہ ایک بلند جگہ پر واقع ہے، خاصّہ اوپرچڑھ کر اس میںداخل ہونا پڑتا ہے جہاں تک ٹوٹے پھوٹے آثار سے مَیں سمجھ سکا ہوں اس کی تین فصیلیں ہیں اور ہر فصیل کے بعد زمین اور اُونچی ہو جاتی ہے جب ہم اس پر چڑھے تو میرے ساتھ میری بڑی ہمشیرہ بھی تھیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے کہ ’’نواب مبارکہ بیگم ۱؎ ‘‘ اسی طرح میری چھوٹی بیوی اور امتہ الحئ مرحومہ کے بطن سے جومیری بڑی لڑکی ہے وہ بھی میرے ہمراہ تھیں ہمشیرہ تو تھک کر پیچھے رہ گئیں، مگر مَیں، میری ہمراہی بیوی اور لڑکی ہم تینوں اوپرچڑھے اور آخرایک عمارت کی زمین پر پہنچے جو ایک بلند ٹیکرے پر بنی ہوئی تھی۔ یہاں سے ساری دہلی نظر آتی تھی، اس کا قُطب اس کا پُرانا قلعہ، نئی اور پُرانی دہلی اور ہزاروں عمارات اور کھنڈر چاروں طرف سے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہے تھے اور قلعہ ان کی طرف گُھوررہا تھا۔مَیں اس جگہ پہنچ کر کھڑ ا ہوگیا اور پہلے تو اس عبرتناک نظارہ پر غور کرتارہا کہ یہ بلند ترین عمارت جو تمام دہلی پربطور پہرہ دار کھڑی ہے اس کے بنانے والے کہاںچلے گئے، وہ کس قدر اولوالعزم ، کس قدر باہمت اور کس قدر طاقت وقوت رکھنے والے بادشاہ تھے جنہوںنے ایسی عظیم الشان یادگاریں قائم کیں، وہ کس شان کے ساتھ ہندوستان میںآئے اور کس شان کے ساتھ یہاں مرے ، مگر آج ان کی اولادوں کاکیا حال ہے، کوئی ان میں سے بڑھئی ہے، کوئی لوہار ہے، کوئی معمار ہے، کوئی موچی ہے اور کوئی میراثی ہے۔
مَیں انہی خیالات میںتھا کہ میرے خیالات میرے قابو سے باہر نکل گئے اور مَیںکہیں کاکہیں جا پہنچا، سب عجائبات جو سفر میں مَیں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے، دہلی کا یہ وسیع نظارہ جو میری آنکھوں کے سامنے تھا میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا اور آگرہ اور حیدر آباد اور سمندر کے نظارے ایک ایک کر کے سامنے سے گزرنے لگے، آخر وہ سب ایک اَور نظارہ کی طرف اشارہ کر کے خود غائب ہو گئے ۔ میں اس محویت کے عالَم میںکھڑا رہا ، کھڑا رہا اور کھڑا رہا اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اِس کوکیا ہو گیا؟ یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی کہ ابّاجان!دیرہوگئی ہے میںاس آواز کو سن کر پھرواپس اِسی مادی دنیا میں آگیا، مگر میرا دل اُس وقت رقت انگیز جذبات سے پُر تھا ، نہیں وہ خون ہورہا تھا اور خون کے قطرے اس سے ٹپک رہے تھے مگر اس زخم میںایک لذّت بھی تھی اور وہ غم سرور سے ملاہؤا تھا۔ مَیں نے افسوس سے اِس دنیا کو دیکھا اور کہا کہ ’’مَیں نے پالیا۔ مَیںنے پا لیا۔‘‘ جب مَیںنے کہا ’’مَیں نے پالیا۔ مَیں نے پالیا‘‘ تواُس وقت میری وہی کیفیت تھی جس طرح آج سے دوہزار سال پہلے گِیاؔ کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے گوتم بُدھ کی تھی جب کہ وہ خداتعالیٰ کا قُرب اور اُس کا وِصال حاصل کرنے کے لئے بیٹھا اور وہ بیٹھا رہا اور بیٹھا رہا یہاں تک کہ بُدھ مذہب کی روایات میں لکھا ہے کہ بانس کا درخت اُس کے نیچے سے نکلا اور اُس کے سر کے پار ہو گیا،مگر محویت کی وجہ سے اس کو اس کا کچھ پتہ نہ چلا، یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں لوگوں نے بنا لیا۔ اصل بات یہ ہے کہ بُدھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا اور وہ دنیا کے راز کو سوچنے لگا یہاں تک کہ خدا نے اُس پر یہ راز کھول دیا۔ تب گوتم بُدھ نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا ’’مَیںنے پا لیا۔ مَیں نے پالیا۔‘‘ میری کیفیت بھی اُس وقت یہی تھی۔ جب میں اس مادی دنیا کی طرف واپس لوٹا تو بے اختیار مَیں نے کہا ’’مَیں نے پالیا۔ میں نے پالیا۔‘‘
اُس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امۃ القیو م بیگم چلی آرہی تھی اُس نے کہا، ابّاجان! آپ نے کیا پالیا؟ میںنے کہا، میں نے بہت کچھ پالیا مگر مَیںاِس وقت تم کو نہیں بتا سکتا، اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو مَیں جلسہ سالانہ پربتائوں گا کہ مَیں نے کیا پایا؟ اُس وقت تم بھی سُن لینا، سو آج میں آپ لوگوں کو بتاتا ہوں کہ مَیںنے وہاں کیا پایا اور وہ کیا تھا جسے میری اندرونی آنکھ نے دیکھا۔
میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ جو کچھ مَیں نے اُس وقت وہاں دیکھا وہ وہی تھا جو میں آج بیان کرونگا اُس وقت میری آنکھوں کے سامنے سے جو نظارے گزرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو راز مجھ پر کھولا گیا گو وہ تفصیل کے لحاظ سے بہت بڑی چیز ہے اور کئی گھنٹوں میںبھی بیان نہیں ہو سکتی مگر چونکہ فکر میںانسان جلدی سفر طے کر لیتا ہے اس لئے اُس وقت تو اس پرچندمنٹ شاید دس یا پندرہ ہی خرچ ہوئے تھے پس جو انکشاف اُس وقت ہؤا وہ بطور بیج کے تھا اور جو کچھ مَیںبیان کروں گا وہ اپنے الفاظ میںاُس کی ترجمانی ہوگی اور اُس کی شاخیں اور اُس کے پتے اور اُس کے پھل بھی اپنی اپنی جگہ پرپیش کئے جائیں گے۔ـ
اس سفر میں مَیں نے کیا کچھ دیکھا
اب مَیں قدم بقدم آپ کو بھی اپنے اُس وقت کے خیالات کے ساتھ ساتھ لے جانے کی کوشش
کرتا ہوں اور آپ کو بھی اپنی اس سیر میںشامل کرتا ہوں۔ جب میں اُس وسیع نظارہ کودیکھ رہا تھا اور سَلف کے کارنامے میر ے سامنے تھے، میرے دل نے کہا مَیں کیا دیکھتا ہوں اور کِن گزشتہ دیکھی ہوئی چیزوں کی یاد میرے دل میںتازہ ہو رہی ہے کہ نہ صرف وہ نظارے بلکہ ابتدائی حصّۂ سفر کے نظارے بھی میری آنکھوں کے سامنے آگئے، اُس وقت مجھ پر ایک ربودگی کی حالت طاری تھی، مجھے کراچی کے نظارے بھی یادآ رہے تھے، مجھے حیدرآباد کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے، مجھے آگرہ کے نظارے بھی یاد آ رہے تھے اور دہلی کے نظارے بھی میری آنکھوں کے سامنے تھے یہ تمام نظارے ایک ایک کرکے میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ گئے اور مجھے یوں معلوم ہؤا کہ گویا مَیں کہُرمیں کھڑا ہوں اور ہر چیز دُھند لی ہو کر میری آنکھوں کے سامنے سے گزر رہی ہے۔ غرض میر ے دل نے کہا کہ مَیں کیا دیکھتا ہوں اور کِن گزشتہ نظاروں کی یاد میرے دل میں تازہ ہو رہی ہے جب یہ سوال میرے دل میںپیدا ہؤا تو میرے دل نے جواب دیا کہ:-
۱۔ میں نے قلعے دیکھے ہیں جن کے دو اَثر میرے دل پر پڑے ہیں۔ ایک یہ کہ ان قلعوں کے ذریعہ کیسے کیسے حفاظت کے سامان مسلمان بادشاہوں کی طرف سے پیدا کئے گئے تھے دوسرے یہ کہ کس طرح یہ حفاظت کے سامان خود مٹ گئے اور ان کو دوبارہ بنانے والا کوئی نہیں کیونکہ ان حکومتوں کا نام لیوا اب کوئی نہیں۔
۲ ۔ پھر مَیں نے کہا دوسری چیزجو مَیں نے دیکھی ہے مُردہ بادشاہوں کے مقابر ہیں ، اُن بادشاہوں کے جو فوت ہو چکے ہیں مگر اُن کے مقبرے اُن کی یاد دلا رہے ہیں اور اُن کی شوکت کوہماری آنکھوں کے سامنے لا رہے ہیں۔
۳۔ تیسرے مَیں نے مساجد دیکھی ہیں ، نہایت خوبصورت مساجد، چھوٹی بھی اور بڑی بھی جو ہزاروں آدمیوں کو خداتعالیٰ کے ذکر کے لئے جمع کرنے کے لئے کہیں سُرخ اور کہیں سفید پتھر سے تیار کی گئی ہیں۔
۴۔ چوتھے میں نے ایک وسیع اور بلند مینار دیکھا ہے، آسمان سے باتیں کرتا ہؤا جس کی بلندی کو دیکھ کر انسانی نظر مرعوب ہو جاتی ہے۔
۵۔ پانچویں مَیں نے نوبت خانے دیکھے ہیں جہاںموسیقی سے لوگوں کے جذبات کو اُبھارا جاتا تھا، جہاں طبل او رنفیریاں بجتیں اور سپاہیوں کے دل اُچھلنے لگتے اور وہ جنگ کو جنگ نہیں بلکہ بچوں کا کھیل سمجھتے، اُن کے گھوڑے ہنہنانے لگتے اور اُن کا خون گرم ہو کرجسم میںدَوڑنے لگتا اور جہاں سے بادشاہ کے اعلان کو گرجتے ہوئے بادلوں کی طرح نوبتوں کے ذریعہ دنیا کو سُنایا جاتا تھا۔
۶۔ چَھٹے مَیں نے باغات دیکھے ہیں جو کسی وقت اپنی سرسبزی وشادابی کی وجہ سے جنت نگاہ تھے اورآنکھوں کو سرور اور دلوں کولذّت بخشا کرتے تھے۔
۷۔ ساتویںمَیں نے کہا۔ مَیں نے دیوانِ عام دیکھے ہیں جہاںبادشاہ اپنے انصاف اورعدل سے اپنی رعایا کی تکلیفوں کو دُور کیا کرتے تھے اور آتے ہی اعلان کر دیاکرتے تھے کہ جس شخص پر کوئی ظلم ہؤا ہو وہ ہمارے پاس فوراً شکایت کر ے جس پر امیر وغریب حتّٰی کہ بھنگی اور چمار بھی آتا اور بادشاہ کے سامنے فریاد کرتا۔
۸۔ آٹھویں مَیںنے دیوانِ خاص دیکھے ہیں جہاںبادشاہ اپنے خاص درباریوں سے راز ونیاز کی باتیں کیا کرتے تھے۔
۹۔ نویںمیں نے نہریں دیکھی ہیں جو اِدھر سے اُدھر پانی پہنچایا کرتی تھیں اور پیاسے درختوں کونئی زندگی بخشتی تھیں اور جن سے سیراب ہو کر درخت لہرا لہرا کر اپنی بہار دکھایا کرتے تھے۔
۱۰۔ دسویں مَیں نے لنگرخانے دیکھے ہیںجن سے بادشاہوں کے ہم مذہبوں اور اُس کے مذہبی مخالفوں کو بھی الگ الگ کھانے تقسیم ہؤا کرتے تھے۔ مسلمانوں کے الگ لنگرخانے ہؤا کرتے تھے اور غیر مذاہب والوں کے الگ۔مسلمانوں کے لنگرخانوں میںمسلمان تقسیم کرنے والے ہوتے اورغیر مذاہب کے لنگرخانوں میں غیرمُسلم تقسیم کرنے پر مقرر ہوتے۔
۱۱۔گیارہویں میں نے دفتر دیکھے ہیںجہاں تمام ریکارڈ رکھے جاتے تھے اورہر ضروری امر کو محفوظ رکھا جاتا تھا۔
۱۲۔ بارھویں مَیں نے کُتب خانے دیکھے ہیںجہاں پُرانی کتب کے تراجم ہوتے تھے اور پرانے علوم کو محفوظ کیاجاتا تھا۔
۱۳۔ تیرھویں مَیں نے بازار دیکھے ہیں جہاں ہر چیز جس کی انسان کو ضرورت ہو فروخت ہوتی تھی۔
۱۴۔ چودھویں مَیں نے جنتر منتر دیکھا ہے جو ستاروں کی گردشیں معلوم کرتا تھا اور حسابِ سنین کو بتاتا تھا یا آئندہ کے تغیّرپرروشنی ڈالتا تھا۔
۱۵۔ پندرھویں مَیں نے ایک وسیع سمندر بھی دیکھا ہے جس کاکنارہ تو ہے مگر اُس کا اندازہ لگانا انسانی فطرت کی طاقت سے بالا ہے اور جہاز میںبیٹھنے والا اُسے بے کِنار ہی سمجھتا ہے جس کے راز دریافت کرنے اور اُس سے فائدہ اُٹھانے کے لئے ہزاروں بڑے بڑے جہاز جوبعض دفعہ ایک ایک گائوں کے برابر ہوتے ہیں اور دودو ہزار آدمی اس میںبیک وقت بیٹھ جاتے ہیں ہر وقت اُس میںچلتے رہتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک وسیع شہر میں ایک چیونٹی پھر رہی ہے۔
۱۶۔ سولھویں مَیں نے آثارِ قدیمہ کے محکموں کے وہ کمرے دیکھے ہیں جہاں قدیم چیزیں انہوں نے جمع کر رکھی ہیں،کہیں زمین کھود کرانہوں نے سِکّے نکالے ، کہیں زمین کھود کر انہوں نے پُرانے کاغذات دستیاب کئے اور کہیں زمین کھود کر انہوں نے پُرانے برتن نکالے اور اس طرح پُرانے زمانہ کے تمدّن اور تہذیب کا نقشہ انہوں نے ان چیزوں کے ذریعہ ہمارے سامنے رکھا، یہ تمام چیزیں ایک ترتیب کے ساتھ رکھی تھیں۔ پس مَیں نے آثارِ قدیمہ کی ان محنتوں کو بھی دیکھا اور پُرانے آثار کو نکال کردنیا کے سامنے پیش کرنے پرمیرے دل نے ان کے کام پرآفرین کہی۔
ایک نئی دنیا جو میری آنکھوں کے سامنے آئی
یہ امور تفصیلاً یااجمالاً اُس وقت میرے ذہن میں آئے اور پھر
میر ے دل نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا یہ تیری زندگی کا بہترین تجربہ ہے، کیا ان سے بڑھ کر ایسی ہی چیزیں تو نے نہیں دیکھیں، کیا ان سے بڑھ کر مفیدکام تو نے نہیںدیکھے اور کیا ان سے بڑھ کر عبرت کے نظارے تو نے نہیں دیکھے؟ اور اس سوال کے پیدا ہوتے ہی وہ تمام نظارے جو میری آنکھوں کے سامنے تھے غائب ہو گئے اور ایک اور نظارہ میری آنکھوں کے سامنے آ گیا اور ایک نئی دنیا میری آنکھوں کے سامنے آہستہ آہستہ گزرنے لگ گئی۔ مَیں اس نئی دنیا کے آثارِ قدیمہ کو دیکھنے میں مشغول ہؤا تو مَیں نے ایسے ایسے عظیم الشان آثارِ قدیمہ دیکھے جو اِن آثارِ قدیمہ سے بہت زیادہ شاندار تھے جن کے خیال میں میرا دل محو تھا بلکہ ایک فوق العادت کارنامہ آثارِ قدیمہ کی دریافت کا میرے سامنے آ گیا، ایک بڑا جنتر منتر جس کا اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت سے بالا ہے میری آنکھوں کے سامنے پیدا ہؤا، بڑے بڑے غیرمعمولی خوبصورتیوں والے باغات، عدیم المثال نہریں ،بے کِنار سمندر، عالیشان قصر، ان کے لنگرخانے ، دیوانِ عام ، دیوانِ خاص، بازار،لنگرخانے،کتب خانے، دفتر، بے انتہاء بلند مینار اور غیرمحدود وُسعت والی مسجد، دلوں کو دہلادینے والے مقبرے اور مِسمار شُدہ یادگاریں ایک ایک کر کے میری نگاہوں کے آگے پھرنی شروع ہو ئیں اور مَیں نے کہا اُف مَیں کہاں آ گیا۔ یہ چیزیں میرے پاس ہی موجود تھیں، تمام دنیا کے پاس موجود ہیں،لیکن دنیا ان کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیںدیکھتی اور بچوں کی طرح کھلونوں کے پیچھے بھاگتی پھرتی ہے۔ میرا دل خون ہو گیا اپنی بے بسی پرکہ مَیں یہ چیزیں دنیاکو دکھانے سے قاصر ہوں، میرا دل خون ہو گیا دنیا کی بے توجّہی پر، مگر میرا دل مسرور بھی تھا اُس خزانے کے پانے پر، اُن امکانات پر کہ ایک دن مَیں یا خدا کاکوئی اور بندہ یہ مخفی خزانے دنیاکو دکھانے میںکامیاب ہو جائے گا اورمَیں نے جب ان چیزوں کو دیکھا تو بے اختیار یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہوئے کہ مَیں نے پالیا۔ مَیں نے پالیا۔ ہا ںہاںیہ یقینی بات ہے کہ تغلق کے قلعہ میں مَیں نے ایک اَور دنیا کو پالیا، ایک بالا دنیا ، ایک بالاطاقت کے نشانات اور مَیں پہلے اس دنیا میں کھویا گیا، پھر مَیں نے ایک اور دنیا کو جو اس سے کہیں زیادہ شاندار ،کہیں زیادہ وسیع،کہیں زیادہ پائیدار اور پھر ایک لحاظ سے بوسیدہ کھنڈر اور تباہ حال تھی، اُسے دیکھااُسے پایا۔ اس خستہ حالی پر میرا دل رویا اس کی شان اور پائیداری سے میر ا دل مسرور ہؤا۔ اب آئو مَیں اس کے کچھ حصّہ کی آپ کوسیر کراتا ہوں۔
۱۔آثار ِ قدیمہ
پہلے مَیں آثارِ قدیمہ کو لیتا ہوں ، مگر چونکہ ہماری جماعت کے بہت سے زمیندار اصحاب آثارِقدیمہ کا مفہوم نہیں سمجھتے ہوں گے اس لئے اُن کی واقفیت کے لئے مَیںیہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ لفظ عربی زبان کا ہے۔ اثر کے معنے نشان کے ہوتے ہیں، اُردو میںبھی کہتے ہیں کہ فلاں چیز کا کوئی اثر باقی نہیں رہا، آثار اس کی جمع ہے اور اس کے معنے ہیںبہت سے نشانات ،قدیمہ کے معنی پُرانے کے ہیں۔ پس آثارِ قدیمہ کے معنی ہوئے پُرانی چیزوں کے نشانات ، وہ عمارتیں جو زمین میں دب کر نظروں سے غائب ہو جاتی ہیں یاپُرانے سکوّں ،پُرانے کپڑوں ، پُرانے برتنوں اور پُرانے کاغذوں کومہیا کرنے کے لئے یہ محکمہ گورنمنٹ نے بنایا ہؤا ہے اور اس کاکام ہے کہ خواہ اسے زمین میں دبی ہوئی عمارتیں مل جائیں یا کاغذات مل جائیں یا سکّے مل جائیں انہیں محفوظ کر دے۔ پس یہ محکمہ پُرانی یادگاروں کو تلاش کر کے ان سے پُرانے تمدّن ،پُرانے حالات اور پُرانی ترقیات پرروشنی ڈالتا ہے اور ان کو دنیا میں قائم اور زندہ رکھتا ہے۔ایسے آثارِ قدیمہ کے کمروں میں بعض بوسیدہ کپڑے رکھے ہوئے ہوتے ہیں جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ یہ فلاںزمانہ کے ہیں اور ان کو دیکھ کر لوگ اندازہ لگاتے ہیں کہ اُس وقت کے لوگ کس قسم کے کپڑے بُنا کرتے تھے،صنّاعی کیسی تھی، یاکچھ پُرانے سکّے رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پُرانے ہتھیار رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پُرانے کاغذات رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ پُرانے ٹُوٹے ہوئے گھڑے اور برتن رکھے ہوئے ہوتے ہیں، کچھ ٹُوٹی ہوئی چپلیاں ہوتی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کپڑا دو ہزار سال پہلے کا ہے، یہ سکہّ آج سے تین ہزار سال پہلے استعمال ہوتا تھا ۔غرض ان سب چیزوں کو اکٹھا کر کے ایک عجائب خانہ بنا دیتے ہیں۔امریکہ تک سے لوگ آتے ہیں اور ان چیزوں کو دیکھ دیکھ کر تعریف کرتے ہیں اور جس کسی نے کوئی پُرانا چیتھڑا یا کوئی دونی اٹھنّی تلاش کر کے دی ہوتی ہے اس کی بڑی تعریف ہوتی ہے۔ کہتے ہیں فلاں تو علّامہ ہیں ان کا کیا کہنا ہے، انہوں نے آج سے دو ہزار سال پہلے کی استعمال ہونے والی اٹھنّی بڑی تلاش سے دستیاب کی ہے اور فلاں عجائب خانہ میںپڑی ہے۔ غرض چند ٹوٹی ہوئی عمارتیں جو زمین میںدب کر نظروں سے غائب ہو گئی تھیں ، چند ٹوٹے ہوئے کتبے، کچھ بوسیدہ کپڑے، کچھ گھِسے ہوئے سکّے،مٹّی اور پتھر کے برتن، پھَٹے ہوئے بوسیدہ کاغذات اور دستاویزات محکمہ آثارِ قدیمہ کی کُل کائنات ہوتے ہیں،جن کو جوڑ جاڑکر زمانۂ سلف کے حالات کو یہ محکمہ اخذ کرتا اور دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور عالِم وجاہل اس کی محنت کی داد دیتے اور اس کے کارناموںکو عزّت سے بیان کرتے ہیں۔مَیں بھی ان سے متأثر ہؤا، مگر تغلق کے قلعہ میںجو آثارِ قدیمہ مَیں نے دیکھے انہوں نے ان آثارِقدیمہ کو میری نگاہ میں بالکل بے حقیقت بنا دیاکیونکہ وہ ان سے بہت پُرانے، بہت وسیع، بہت متنوّع اور بہت ہی مفید تھے۔
اب میںاس آثارِ قدیمہ کے دفتر میں آپ کو بھی لے جاتا ہوں اور اس کی ایک دریافت اور تحقیق کو کسی قدر بسط سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور بعض کو اختصار سے پیش کرتا ہوں۔
یہ امر ظاہر ہے کہ انسانی آثار میں سے سب سے پُرانے آثار وہی ہیں جو انسان کی ابتدائی پیدائش اور اس کے ابتدائی کاموں سے تعلق رکھتے ہیں اس کے علاوہ کوئی بھی آثار ہوں خواہ وہ ہزاروں سال کے ہوں بہرحال بعد ہی کے ہوں گے اور آثارِ قدیمہ کے نقطہ نگاہ سے گھٹیا قسم کے۔پس میںاس محکمہ کی ایسی ہی تحقیقات کو آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔
اس محکمہ آثارِ قدیمہ کا نام ہے قرآن اور ا س کے انچارج کانام ہے محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ اس محکمہ میں جو آثارِ قدیمہ مَیں نے سب سے پہلے زمانے کے دیکھے اور جن کی گرد کو بھی موجودہ آثارِ قدیمہ نہیں پہنچتے، ان کی ایک مثال ذیل میں مَیں پیش کرتا ہوں۔
دُنیا کس طرح پیدا ہوئی؟
لوگ حیران ہیںکہ دُنیا کس طرح پیداہوئی؟ پہلا انسان کون تھا؟ وہ کس تمدّن پر عمل پیرا تھا؟ وہ کس طرح اس دنیا
میں پیدا ہؤا؟ اور اس نے کس طرح اس دنیا کو چلایا؟ مَیں نے قرآن کریم کا درس دیتے وقت ہمیشہ دیکھا ہے ، مشکل سے مشکل آیت کا مَیں مفہوم بیان کر رہا ہوتا ہوں تو لوگ بڑے مزے سے اُسے سُنتے رہتے ہیں، مگر جہاں آدم اورشیطان کا قصّہ آیا سوالات کی مجھ پریوں بھرمار شروع ہو جاتی ہے کہ میںخیال کرتا ہوں آدم کے بچے مجھے نوچ نوچ کر کھا جائیں گے اور ان کی خواہش یہ ہے کہ جلد سے جلد انہیں ان کے اباجان کی گود میں بٹھاآئوں تولوگوں کے دلوں میں آدم والے واقعہ کے متعلق بے انتہاء جستجو پائی جاتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا کیا کھاتے تھے، کیا پہنتے تھے کہاں رہتے تھے؟ اور یہ صرف مسلمانوں میںہی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لوگوں میںجستجو پائی جاتی ہے۔
ہندوئوں کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق
ہندوئوں کی تو ساری میتھالوجی اور ان کی ساری بحثیں ہی دنیا کی پیدائش پر
ہیں کہیںلکھا ہے کہ برہما جی نہانے گئے تو اُن کی جٹا میں سے جو قطرے گِرے اُس سے گنگابہہ نکلی، کہیں دنیا کی پیدائش کا ذکر آتا ہے تو اِس رنگ میں کہ فلاں دیوتا کی فلاں سے لڑائی ہوئی، دوسرا دیوتا جب مارا گیا تو اُس کی ٹانگوں سے زمین اور اُس کے ہاتھوں سے چاند وغیرہ بن گئے، گویا ہر شخص کے دل میں یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ معلوم کرے یہ دنیا کس طرح پیدا ہوئی ؟ پہلا انسان کو ن تھا؟ وہ کس طرح اس دنیا میںپیدا ہؤا ؟ اور کس طرح اس نے اس دنیا کو چلایا؟
تورات کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق
تورات نے اس بارے میں جو نظریہ دنیا کے سامنے پیش کیا ہے، مَیں سب سے
پہلے وہی آپ لوگوں کوسناتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ تورات دنیا کی پیدائش کس طرح بتاتی ہے۔
تورات میں لکھا ہے:-
’’زمین ویران اور سُنسان تھی اور گہرائو کے اُوپر اندھیرا تھا اور خدا کی روح پانیوں پر جُنبش کرتی تھی اور خدا نے کہا کہ اُجالا ہو اور اُجالا ہو گیا اور خدا نے اُجالے کو دیکھا کہ اچھا ہے اور خدا نے اُجالے کو اندھیرے سے جُدا کیا اور خدا نے اُجالے کو دن کہا اور اندھیرے کو رات کہا، سو شام اور صبح پہلا دن ہؤا۔ اور خدا نے کہا کہ پانیوں کے بیچ فضا ہووے اور پانیوں کو پانیوں سے جُدا کرے۔ تب خدا نے فضا کو بنایا اور فضا کے نیچے کے پانیوں کو فضا کے اوپر کے پانیوں سے جُدا کیا اور ایسا ہی ہو گیا اور خدا نے فضا کوآسمان کہا سوشام اور صبح دوسرا دن ہؤا۔ اور خدا نے کہا کہ آسمان کے نیچے کے پانی ایک جگہ جمع ہوویں کہ خشکی نظر آوے اور ایسا ہی ہو گیا اور خدا نے خشکی کو زمین کہا اور جمع ہوئے پانیوں کو سمندر کہا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے اور خدا نے کہا کہ زمین گھاس اور نباتات کو جو بیج رکھتیں اور میوہ دار درختوں کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق پھلتے جو زمین پر آپ میںبیج رکھتے ہیں اُگاوے اور ایسا ہی ہو گیا۔ تب زمین نے گھاس اور نباتات کو جو اپنی اپنی جنس کے موافق بیج رکھتیں اور درختوں کو جو پھل لاتے ہیں جن کے بیج اُن کی جنس کے موافق اُن میں ہیں اُگایا اور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے سوشام اور صبح تیسرا دن ہؤا۔ اور خدا نے کہا کہ آسمان کی فضا میں نیّر ہوں کہ دن اور رات میںفرق کریں اور وے نشانوں اور زمانوں اور دِنوں اور برسوں کے باعث ہوں اور وے آسمان کی فضا میں انوار کے لئے ہوویں کہ زمین پرروشنی بخشیں اور ایسا ہی ہو گیا، سو خدا نے دو بڑے نور بنائے، ایک نیّرِ اعظم جو دن پرحکومت کرے اور ایک نیّرِاصغر جو رات پرحکومت کرے اور ستاروں کو بھی بنایا اور خدا نے ان کوآسمان کی فضا میں رکھا کہ زمین پرروشنی بخشیں اور دن پر اور رات پر حکومت کریںاور اُجالے کو اندھیرے سے جُدا کریںاور خدا نے دیکھا کہ اچھا ہے سو شام اور صبح چوتھا دن ہو ا‘‘۔ ۲؎ (گویا تورات کے بیان کے مطابق رات دن پہلے بنے ہیں مگر سورج چاند بعد میںبنے ہیں، اسی طرح گھاس نباتات اور درخت پہلے اُگے ہیں مگر سورج وغیرہ جن کی شُعاعوں کی مدد سے یہ چیزیں اُگتی ہیں بعد میں بنائے گئے ہیں، کیونکہ لکھا ہے کہ جب گھاس اُگ چُکا، میوہ دار درخت تیار ہو چکے ، نباتات ظاہر ہو گئی رات دن بن گئے تو اس کے بعد خدا نے دو بڑے نور بنائے۔ ایک نیّرِاعظم جو دن پرحکومت کرے اور ایک نیّرِاصغر جو رات پر حکومت کرے)
تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اور اپنی مانند بناویں کہ وے سمندر کی مچھلیوں پراور آسمان کے پرندوں پراور مویشیوں پر اور تمام زمین پر اور سب کیڑے مکوڑوں پر جو زمین پر رینگتے ہیں سرداری کریںاور خدا نے انسان کو اپنی صورت پرپیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اس کو پیداکیا،نر وناری ان کو پیدا کیا اور خدا نے ان کو برکت دی اور خدا نے انہیںکہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور کرو اور اس کو محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں پر اور آسمان کے پرندوں پر اور سب چرندوں پرجو زمین پر چلتے ہیں سرداری کرو ۳؎
اور خداوند خدا نے عدن میںپورب کی طرف ایک باغ لگایا اور آدم کو جسے اس نے بنایا تھا وہاں رکھا۴؎
اور خداوندخدا نے آدم کو حکم دے کر کہا کہ تو باغ کے ہر درخت کا پھل کھایا کر، لیکن نیک وبد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا کیونکہ جس دن تو اس سے کھائے گا تو ضرور مرے گا اور خداوند خدا نے کہا کہ اچھا نہیں کہ آدم اکیلا رہے میں اس کے لئے ایک ساتھی اس کی مانند بنائوں گا اور خداوند خدا نے میدان کے ہر ایک جانور اور آسمان کے پرندوں کو زمین سے بنا کر آدم کے پاس پہنچایا تا کہ دیکھے کہ وہ ان کے کیا نام رکھے سو جو آدم نے ہر ایک جانور کو کہا وہی اُس کا نام ٹھہرا اور آدم نے سب مویشیوں اور آسمان کے پرندوں اور ہر ایک جنگلی جانور کا نام رکھا۔ پرآدم کو اس کی مانند کوئی ساتھی نہ ملا اور خداوند خدا نے آدم پر بھاری نیند بھیجی کہ وہ سو گیا اور اُس نے اُس کی پسلیوں میںسے ایک پسلی نکالی اور اس کے بدلے گوشت بھر دیا اور خداوند خدا نے اُس پسلی سے جو اُ س نے آدم سے نکالی تھی ایک عورت بنا کے آدم کے پاس لایا اور آدم نے کہا کہ اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میںسے گوشت ہے اس سبب سے وہ ناری کہلاوے گی کیونکہ وہ نر سے نکالی گئی ‘‘۔ ۵؎
یہ تورات کا نظریہ ہے جو اس نے پیدائش عالم کے متعلق دنیا کے سامنے پیش کیا۔
ڈارون۶؎ کی تھیوری انسانی پیدائش کے متعلق
اُنیسویں صدی عیسوی میںجب اِس مسئلہ پرزیادہ غور کیاگیا اور علومِ جدیدہ
کے ذریعہ نئی نئی تحقیقاتیں ہوئیں تو سب سے پہلے ایک انگریز نے جس کا نام ڈارون تھا انسانی پیدائش کے متعلق ایک نئی تھیوری پیش کی، اُس کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ:-
(۱) انسان ارتقائی قانون کے مطابق بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا اور یہ خیال جو بائیبل میں پیش کیا گیا ہے کہ یکدم اللہ تعالیٰ نے انسان کی صورت میںایک شخص کو بنا کر کھڑا کر دیا یہ درست نہیں بلکہ آہستہ آہستہ لاکھوں بلکہ کروڑوں سالوں میںانسان تیار ہؤا ہے۔
(۲) دوسرے اُس نے یہ مسئلہ نکالا کہ انسان نے جو ترقی کی ہے یہ جانوروں سے کی ہے پہلے دنیا میںچھوٹے جانور بنے ، پھر اس سے بڑے جانور بنے، پھر اس سے بڑے جانور بنے اور پھر ان جانوروں میں سے کسی جانور سے ترقی کر کے انسان بنا،مگر جس جانور سے ترقی کر کے انسان بنا ہے وہ اب نہیں ملتا کیونکہ یہ کڑی غائب ہے ہاں اتنا پتہ چلتا ہے کہ اسی جانور کی ایک اعلیٰ قسم بندر ہے۔ گویا ڈارون نے دوسرا نظریہ یہ پیش کیا کہ انسان گواِر تقائی قانون کے مطابق بنا ہے مگر اس کایہ ارتقاء بندروں کی قسم کے ایک جانور سے ہؤا ہے جس کی آخری کڑی اب مفقود ہے جس میں سے بعض خاص قسم کے بندر اورانسان نکلے ۔
پہلے امر کی دلیل کہ انسان یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا بلکہ ہزاروں لاکھوں سالوں میںتیار ہؤا ہے وہ یہ دیتا ہے کہ مختلف زمانوں کے انسانوں کی جو کھوپڑیاں اور جسم وغیرہ ملے ہیں ان کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کھوپڑیوں اور جسموں کا آپس میں بہت بڑا فرق ہے پس یہ خیال کرنا کہ آج سے لاکھوں سال پہلے بھی انسان اسی طرح تھا جس طرح آج ہے غلط ہے اگر یہ بات صحیح ہوتی تو جسموں، ہڈیوں اور کھوپڑیوں وغیرہ میں کوئی فرق نہ ہوتا، مگر انسانی جسم کی جو بہت پُرانی ہڈیاں نکلی ہیں ان ہڈیوں کے دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان اور موجودہ انسانی جسم کی ہڈیوں میںبہت بڑا فرق ہے۔ اسی طرح موجودہ انسانی دماغ اور پُرانے انسانی دماغ میںبھی بہت بڑا فرق نظر آتا ہے پس مختلف زمانوں کے انسانوں کی کھوپڑیوں اور جسم کی ہڈیوں کا اختلاف اس امر کا یقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ انسان ارتقائی قانون کے ماتحت بنا ہے یکدم اپنی موجودہ حالت کو نہیں پہنچا۔ دوسری دلیل اس فلسفہ کے معتقد اس ارتقاء کی یہ دیتے ہیں کہ ماں کے پیٹ میںجب جنین کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس جنینکو اپنی ابتدائی حالتوں میںمختلف قسم کے جانوروں سے مشابہت ہوتی ہے۔ کبھی وہ جنین خرگوش سے مشابہ ہوتا ہے ۔کبھی مچھلی سے مشابہ ہوتا ہے اور کبھی کسی اور جانور سے۔ یہ رحمِ مادر میں بچے کی پیدائش کی مختلف کیفیات دراصل ابتدائے خَلق کی ہی کیفیات ہیں۔یعنی پچھلے زمانہ میں جن جن جانوروں کی شکل میں سے انسان گزرا ہے، ان ساری شکلوں میں سے ایک بچے کو رحمِ مادر میں سے گزرنا پڑتا ہے۔تیسری دلیل اس ارتقاء کی یہ دی جاتی ہے کہ انسان اور دوسرے جانوروں میںایسی کئی مشابہتیں پائی جاتی ہیں جو اس امر کو ثابت کرتی ہیں کہ یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں اور انسان کو جسم اپنی منفردانہ حیثیت میںنہیں ملا بلکہ جانوروں کے جسم سے ترقی کر کے اُسے ایک اور جسم حاصل ہؤا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس امر کے ثبوت کے لئے گوریلا وغیرہ قسم کے بندروں کو دیکھ لیا جائے اُن کی انسان سے اتنی شدید مشابہت ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ الگ بنے ہیں اور یہ الگ ،گویا ارتقاء کی تیسری دلیل وہ مشابہتیں دیتے ہیں جو انسان کو بعض دوسرے جانوروں سے اور دوسرے جانوروں کو آپس میں یا اپنے سے نیچے کے جانوروں سے ہیں۔
دوسرا دعویٰ ڈارون نے یہ کیا تھا کہ انسان اور بندر کا ارتقاء ایک جانور سے ہؤا ہے جو اب مفقود ہے۔ اس کے ثبوت میںوہ یہ امر پیش کرتا ہے کہ بندروں کی بعض اقسام کو انسان سے انتہائی مشابہت ہے مگر وہ کہتا ہے کہ درمیان میں ایک کڑی غائب ہو گئی ہے اور اس مفقود کڑی کا ثبوت وہ فاصلہ ہے جو طبعی طور پر بندروں کی موجودہ قسم اور انسان میں،اور بندروں اور ان سے ادنیٰ قسم کے جانوروں میں نہ پایا جانا چاہئے تھا مگر چونکہ ہمیں ایک طرف بندروں اور انسان میںانتہائی مشابہت نظر آتی ہے اور دوسری طرف بندروں اور ان سے نچلے درجہ کے جانوروں میںایک فاصلہ نظر آتا ہے جو طبعی طور پر نہیں پایا جانا چاہئیے تھا اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ درمیان میں سے کوئی کڑی غائب ہو گئی ہے جس سے انسان اور بندر نے ترقی کر کے اپنی موجودہ شکل کو اختیار کیا، تبھی یہ زنجیر مکمل نہیں بنتی۔
ہیکل کا نظریہ انسانی پیدائش کے متعلق
ہیکل۷؎ ایک اور مفکّر ہے وہ ڈارون کے اِس فلسفہ پرغور کرنے کے بعد اِس نتیجہ پر پہنچا
ہے کہ وہ جانور جو ہمیں نہیں ملتا اُس کانام لیپوٹائیلو (LIPOTYLU) ہے۔ یہ جانور درمیان میں سے غائب ہو گیا ہے اگر یہ مل جائے تو وہ کڑی جو درمیان سے ٹوٹتی ہے مکمل ہو جائے اور انسانی ارتقاء کے مسئلہ میںکوئی بات مُبہم نہ رہے۔ اس قسم کے اکثر مفکّر گوریلا اور چِمپنزی (CHIMPANZEE) قسم کے بندروں کے آباء کو انسانی نسل کے آباء قرار دیتے ہیں۔
جب ڈارون نے انسانی پیدائش کے متعلق یہ فلسفہ پیش کیا تو انگریزوں میں سے ہی بعض نے اس فلسفہ پراعتراض کیا اور کہا کہ انسان اور گوریلا میںاس قدر اختلاف ہے کہ اس کی موجودگی میں کسی صورت میںبھی یہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ گوریلا وغیرہ اقسام کے بندروں کے آباء ہی انسانی نسل کے آباء تھے اس پر ہکسلے۸؎ نے انہی اختلافات کو جو انسان اور گوریلا میںہیں اور جو پہلے ارتقاء کے خلاف پیش کئے جاتے تھے ارتقاء کے ثبوت میںپیش کر دیا اس طرح کہ اس نے کہا کہ جو اختلاف انسان اور گوریلا میں ہے اس سے بہت زیادہ اختلاف گوریلا اور بعض دوسری قسم کے بندروں میںہے، اب بتائو کہ اس اختلاف کے باوجود تم ان سب کو بندر مانتے ہو یا نہیں؟ جب مانتے ہو تو اگر ارتقاء میںبعض بندر بعض دوسرے بندروں سے اس قدر دُور جا سکتے ہیں توکیوں انسان گوریلا سے دُور نہیں جا سکتا۔ پس یہ اختلاف ارتقاء کے خلاف نہیں بلکہ اس کا ایک ثبوت ہے۔
موجودہ زمانہ کی تحقیق
موجودہ تحقیق جو قریب زمانہ میں ہوئی ہے اور جس کے مؤیّد ایک تو پروفیسر جونز ہیں اور ایک ڈاکٹر آسبرن ۔ وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ
گوانسان نے ارتقائی قانون کے ماتحت ہی ترقی کی ہے مگر وہ حیوانات کی نسل سے بہت پہلے سے جُدا ہو چکا تھا اور اُس وقت سے آزادانہ ترقی کر رہا تھا۔ گویا انسان کی جانوروں سے جُدائی اُس بندر سے نہیں ہوئی جس بندر سے جُدائی ڈارون پیش کرتا ہے بلکہ اس سے بہت پہلے ہو چکی تھی مگر بہرحال انسانی ترقی ارتقاء کے ماتحت ہوئی ہے یکدم نہیں ہوئی۔
انسانی تہذیب کے تین بڑے دَور
اس کے ساتھ ہی آثارِ قدیمہ والوں نے یہ دریافت کیا ہے کہ انسانی تہذیب پرتین دَور آئے ہیں۔
(۱) ایک دَور تو پتھروں کے استعمال کرنے کا تھا یعنی ابتداء میںجب انسان نے تہذیب وتمدّن کے دَور میں اپنا پہلا قدم رکھا ہے تو اُس وقت چونکہ یہ جانوروں سے ہی ترقی کر کے انسان بنا تھا اور اس کے پنجے نہیں تھے جن سے دوسرے جانور کام لے لیا کرتے ہیں اور نہ ان کی طرح اس کے تیز دانت تھے اس لئے اس نے اپنی حفاظت کیلئے پتھروں کا استعمال شروع کر دیا۔ پس پہلا دَور انسانی تہذیب پر پتھروں کے استعمال کا آیا ہے ۔
(۲) پھر پیتل کے استعمال کا دَور آیا ۔یعنی جب انسان نے اور زیادہ ترقی کی تو اس نے اپنی حفاظت کے لئے ڈھالیں وغیرہ بنالیں۔
(۳) اور تیسرا دَور لوہے کے استعمال کرنے کا تھا جب کہ انسان نے اپنی حفاظت کے لئے نیزے اور تلواریں وغیرہ ایجاد کیں۔
آثارِ قدیمہ والوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ پُرانی عمارتوں کے کھودنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسان قدیم زمانہ سے کسی نہ کسی تہذیب کا حامل ضرور رہا ہے۔
پیدائشِ انسانی کے متعلق قرآنی نظریہ
اب مَیں اُن آثارِ قدیمہ کوپیش کرتا ہوں جنہیںقرآن کریم نے انسان کی پیدائش اور
اس کی تہذیب کے بارہ میں پیش کیا۔
پہلا حوالہ اس بارہ میں سورۃ نوح کا ہے جہاں آثار ِ قدیمہ کی کچھ مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔ مَالَکُمْ لَاتَرْجُوْنَ لِلّٰہِ وَقَارًاوَقَدْخَلَقَکُمْ اَطْوَارً۔اَلَمْ تَرَوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا وَّجَعَلَ الْقَمَرَفِیْھِنَّ نُوْرًاوَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا۔ وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتاً ثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیھْاَ وَیُخْرِجُکُمْ اِخْرَاجًا۹؎
موجودہ زمانہ میںجو تحقیق انسانی پیدائش کے متعلق کی گئی ہے اس کے مقابلہ میں قرآن کریم کی جو تحقیق ہے اس کا کچھ ذکر ان آیات میں ہے جو ابھی مَیں نے پڑھی ہیں، ان آیات میں اللہ تعالیٰ حضرت نوح علیہ السلام کی زبان سے یہ کہلواتا ہے کہ اے انسانو! تمہیں کیا ہو گیا کہ تم یہ خیال نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ بے حکمت کام نہیں کیا کرتا اور جب بھی وہ کوئی کام کرتا ہے حکمت سے کرتا ہے تم اپنے متعلق تو یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص تمہیں یہ کہے کہ تم نے فلاں کام بیوقوفی کا کیا اور اگر کوئی کہے تو اِس پر بُرا مناتے ہو مگر تم خدا کے متعلق یہ کہتے رہتے ہو کہ اُس نے انسان کو بغیر کسی غرض کے پیدا کر دیا۔ تمہیں کیا ہو گیا کہ تم اتنی موٹی بات کو بھی نہیں سمجھتے کہ وَقَدْخَلَقََکُمْ اَطْوَارًا اُس نے تمہیں یکدم پید ا نہیں کیا بلکہ قدم بقدم کئی دَوروں میں سے گزارتے ہوئے بنایا ہے۔ اَلَمْ تَرَوْاکَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا o
کیا تمہیں دکھائی نہیں دیتا کہ اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو ایک دوسرے کی مطابقت میںرہنے والا بنایا ہے اسی طرح اُس نے چاندبنایا اُس نے سورج بنایا۔ـ
وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا۔ ثُمَّ یُعِیْدُکُمْ فِیْھَا وَیُخْرِجُکُمْ اِخْرَاجًا
اور انہیں دَوروں میںسے جن میں خداتعالیٰ نے تمہیں گزارا، ایک دَور یہ بھی تھا کہ خدا نے تمہیں زمین میںسے نکالا اورآہستہ آہستہ تمہیںاپنے موجودہ کمال تک پہنچایا۔
پیدائشِ انسانی کے مختلف دَور
یہ ابتدائی پیدائش کا نقشہ ہے جوقرآن کریم نے کھینچا ۔ اس سے ظاہر ہے کہ ارتقاء کا وہ مسئلہ جسے یورپ والے
آج پیش کر رہے ہیں قرآن کریم نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے ظاہر کر دیاتھا اور بتا دیا تھا کہ یہ صحیح نہیں کہ انسان یکدم پیدا ہو گیا یا خُدا نے یوں کیا ہوکہ مٹّی گوندھی اور اُس سے ایک انسانی بُت بنا کر اُس میں پھونک ماردی اور وہ چلتا پھرتا انسان بن گیا بلکہ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا اُس نے کئی دَوروں میںسے گزارتے ہوئے تمہیں یہاں تک پہنچایا ہے۔ وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا ۔ اوریہ جو درجہ بدرجہ ترقی ہوئی ہے اس میں انسان کی پیدائش دراصل زمین سے شروع ہوتی ہے۔ پھر ہم اسے بڑھاتے بڑھاتے کہیں کا کہیں لے گئے ہیں۔ گویا اسلام نے صاف طور پر آج سے تیرہ سَو سال پہلے بتادیا تھا کہ انسان یکدم نہیں بنابلکہ وہ خَلَقَکُمْ اَطْوَارًا کے مطابق کئی دَوروں میںتیار ہؤا ہے اور وَاللّٰہُ اَنْبَتَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا کے مطابق سب سے پہلے وہ زمین سے تیار ہؤا ہے مگر کیا ہی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم نے تو یہ دو باتیں پیش کی تھیں کہ انسان آہستہ آہستہ تیارہؤا ہے اور دوسرے یہ کہ وہ زمین میں سے پیدا ہؤا ہے مگر مسلمانوں نے اِن دونوں باتوں کو ردّ کر دیا اور ایک طرف تو انہوں نے یہ خیال کر لیا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے یکدم بنادیا تھا اور دوسری طرف اس امر کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ یہ کہہ رہا ہے کہ ہم نے انسان کو زمین میں سے تیارکیا ہے یہ کہنا شروع کر دیا کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پہلے جنتِ سماوی میںپید ا کیا پھر زمین پر پھینک دیا اور تیسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ کے پاس ایک روحوں کی تھیلی ہے وہ جس شخص کو زمین پر بھیجنا چاہتا ہے اُس کی روح چھوڑ دیتا ہے گویا جس طرح بٹیرے پکڑنے والے اپنی تھیلیوں میںسے ایک ایک بٹیرہ نکالتے جاتے ہیں، اسی طرح خدا پہلے ایک رُوح چھوڑتا ہے پھر دوسری پھر تیسری گویا اِس زمانہ کے علماء نے یہ ٹھیکہ لے لیا ہے کہ قرآن کریم میں جو بات لکھی ہو گی اس کے وہ ضرور خلاف کریں گے۔
اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں تسلیم کیا ہے کہ انسانی پیدائش آہستگی سے ہوئی ہے اور فرمایا ہے کہ اِس میں حکمت تھی۔ اگر پیدائش اِس رنگ میںنہ ہوتی تو بہت سے نقائص رہ جاتے مگر آجکل کے علماء اس بارہ میں جو کچھ عقیدہ رکھتے ہیں اس کا پتہ اس سے لگ جاتا ہے کہ مولوی سیّد سرور شاہ صاحب سنایا کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ان کے ایک اُستاد نے لڑکوں کو بتایا کہ دنیا میںجو ہمیں بہت بڑا تفاوت نظر آتا ہے ، کوئی خوبصورت ہے کوئی بدصورت اور کوئی درمیانی صورت رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پید اکرنا چاہا تو اُس نے کہا کہ آئو مَیں انسان بنانے کا کسی کوٹھیکہ دے دُوں۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے فرشتوں کو ٹھیکہ دے دیا اور اُن سے کہا کہ مَیں شام تک تم سے اتنے آدمی لے لُوں گا ۔خیر پہلے تو وہ شوق اور محنت سے کام کرتے رہے اور انہوں نے بڑی محنت سے مٹّی گوندھی پھر نہایت احتیاط سے لوگوں کے ناک، کان، آنکھ، منہ اور دوسرے اعضاء بنائے اور اِس طرح دوپہر تک بڑی سرگرمی سے مشغول رہے، اِس دَوران میںجو آدمی ان کے ذریعہ تیار ہو گئے وہ نہایت حسین اور خوبصورت بنے مگر جب دوپہر ہو گئی اور انہوں نے دیکھا کہ ابھی کام بہت رہتا ہے اور وقت تھوڑا رہ گیا ہے تو انہوں نے جلدی جلدی کام شروع کر دیا اور کچھ زیادہ احتیاط اور توجہ سے کام نہ لیا اور اس طرح عصر تک کام کرتے رہے اس دَوران میں جو لوگ تیار ہوئے وہ درمیانی شکلوں کے تھے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ عصر ہو گئی ہے اور اب سورج غروب ہی ہونے والا ہے اور ٹھیکہ کے مطابق تعداد تیارنہیں ہوئی تو انہوں نے یوں کرنا شروع کردیا کہ مٹّی کا گولہ اُٹھائیںاور اُسے دو تھپکیاں دے کر بُت بنا کر مُنہ کی جگہ ایک اُنگلی مار دیں اور آنکھوں کی جگہ دو اُنگلیاں اور اس طرح جلدی جلدی آدمی بناتے جائیں یہ آدمی بدصورت بنے جو بدصورت قوموں کے آباء ہو گئے۔
اب یہ ہے تو دین سے تمسخر او ر استہزاء مگر حقیقت یہ ہے کہ عام طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں میں پیدائشِ انسانی کے متعلق ایسے ہی خیالات رائج ہو چکے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اسی طرح بنایا ہے کہ مٹّی کو گوندھا اور انسانی بُت بنا کر اس کے سوراخ بنا دئیے اور پھر ایک پھونک ماری اور وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا ، مگر اسلام یہ نہیں کہتا۔ وہ کہتا ہے کہ ہم نے تم کو کئی دَوروں سے گزارا ہے اور خاص حکمت کو مدّنظر رکھتے ہوئے آہستہ آہستہ بنایا ہے یہ نہیں کہ تمہیںیکدم بنا دیا ہو ۔
انسانی پیدائش کا دَورِ اوّل عدم سے شروع ہؤا
دوسری بات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ انسانی پیدائش کا
دَورِ اوّل عدم تھا۔ یہ اختلاف دنیا میںہمیشہ سے چلا آیا ہے کہ دنیا کی ابتداء کس طرح ہوئی؟ آریہ کہتے ہیں کہ مادہ جس سے تمام دنیا کی تخلیق ہوئی یہ ازلی ہے۔ خدا نے صرف اتنا کیا ہے کہ مادہ اور رُوح کو جوڑ جاڑ دیا اور اس طرح انسان بن گیا، مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ عقیدہ غلط ہے مادہ ازلی نہیں بلکہ اسے خدا نے پیدا کیا ہے اور یہ کہ پہلے کچھ نہ تھا پھر خدا نے انسان کو پیدا کیا۔چنانچہ فرماتا ہے۔ اَوَلَایَذْکُرُالْاِنْسَانُ اَنَّاخَلَقْنٰـہُ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ یَکُ شَیْئًا۱۰؎ کہ کیا انسان کو یہ بات معلوم نہیں کہ ہم نے جب اُسے پیدا کیا تو وہ اُس وقت کوئی شئے بھی نہیں تھا۔ آجکل کی پیدائش اور قسم کی ہے آجکل نُطفہ سے انسان پیدا ہوتا ہے اس آیت میں جس خَلق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ موجودہ دَور سے بہت پہلے کی ہے۔ گویا ابتدائی حالت انسان کی عدم تھی۔ پھر خدا اسے عالمِ وجود میں لایا مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عدم سے وجود پیداہؤا بلکہ وہ کہتا ہے کہ پہلے عدم تھا پھر وجود ہؤا ۔ یہ دھوکا زیادہ تر ’’سے‘‘ کے لفظ سے لگتا ہے کیونکہ ’’سے ‘‘ کا لفظ اُردو زبان میں مادہ کے متعلق استعمال ہوتا ہے۔ کہتے ہیں لکڑی سے کھلونا بنایا یا لوہے سے زنجیر بنائی ۔ جس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ پہلے لکڑی اور لوہاموجود تھا جس سے اَور چیزیں بنائی گئیں۔ اس لئے جب مسلمانوں کی طرف سے یہ کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو عدم سے بنایا تو غیرمذاہب والے اعتراض کرتے اور یہ کہتے ہیں کہ جب کچھ بھی نہیں تھا تو اس سے خدا نے انسان کو بنایا کس طرح؟ پس یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام یہ نہیں کہتا کہ عدم سے انسان بنا ہے بلکہ وہ کہتا ہے کہ پہلے عدم تھا پھر اس کا وجود ہؤا۔ پس خدا نے عدم سے انسان کو نہیں بنایا بلکہ اپنے حُکم کے ماتحت بنایا ہے مگر یہ کہ اُسے کس طرح بنایا ہے اس کا ذکر خداتعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس کے سمجھنے کی انسان میں قابلیت نہیں۔ اگر انسان اس کو سمجھ سکتا تو وہ بھی انسا ن بنانے پر قادر ہوتا۔
وجودِ انسانی کے دَورِ ثانی کی کیفیت
انسان کا دَورِ ثانی قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک زمانہ میں انسانی وجود تو تھا مگر بِلادماغ کے۔
گویا انسانی وجود تو تھا مگر انسان نہ تھا اور نہ اس کی حالت کو سوچنے والا کوئی دماغ تھا، گویا دماغی ارتقاء سے پہلے کی حالت میںتھا۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اُس وقت جمادی رنگ میںتھا یا نباتی رنگ میں۔مگر بہرحال خواہ وہ اُس وقت جمادی رنگ میں ہو خواہ نباتی رنگ میں، حیوانی رنگ میں نہیں تھا اور اس کا پتہ بھی قرآن کریم سے لگتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھَلْ اَتٰی عَلَی الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّھْرِلَمْ یَکُنْ شَیْئًامَّذْکُوْرًا ۱۱؎ کہ کیا انسان کو یہ معلوم ہے یا نہیں کہ انسان پریقینا ایک ایسا زمانہ گزر چکا ہے جب کہ وجودِ اِنسانی تو موجود تھا مگر مذکور نہیں تھا وہ یاد نہیں کیا جاتا تھا۔گویا حِسِّ شناخت جو انسان میںموجود ہے وہ اُس وقت نہیں تھی ۔ایک وجود موجود تھا مگر بغیر عقل اور بغیر شعور کے،ایک دوسرے کے متعلق اسے کوئی واقفیت نہ تھی۔ اسے کوئی علم نہ تھا کیونکہ یہ باتیں دماغ سے تعلق رکھتی ہیں اور دماغ دَورِ ثانی میںنہیںتھا۔
انسانی پیدائش کا تیسرادَور
تیسرا دَور قرآن کریم سے انسانی پیدائش کے متعلق وہ معلوم ہوتا ہے جب کہ وہ ایسی شکل میں آیا کہ اس کی پیدائش نُطفہ
سے ہونے لگی یعنی مرد وعورت کے تعلق سے اور اُس وقت سے اس کے مزاج میںتنوّع پیدا ہؤا۔ حیوانوں میں سے بھی بعض حیوان نرو مادہ نہیں ہوتے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر انسان پر وہ دَور آیا جب کہ اُسے نر ومادہ میں تقسیم کر دیا گیایعنی حیوان بنا اور حیوان سے ترقی کر کے اُس حالت کو پہنچا کہ جب تناسل نُطفہ سے شروع ہو جاتی ہے جو بات کہ اعلیٰ درجہ کے حیوانوں میں پائی جاتی ہے اور پھر اس سے ترقی کر کے وہ ایسا حیوان بنا جو نُطفۂ اَمشاج سے بنتا ہے یعنی اس کے اندر مختلف قویٰ پیدا کئے گئے۔ اللہ تعالیٰ اس امر کاذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اِنَّاخَلَقْنَاالْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ ۱۲؎ کہ ہم نے انسان کو نُطفہ سے پیدا کیا جو مرکّب تھا اور جس کے اندر بہت سے اجزاء مِلائے گئے تھے کیونکہ ہم نے اس سے مرکّب قسم کا کام لینا تھا۔ پس چونکہ ہم نے اس سے مرکّب کا م لینا تھا اس لئے ہم نے نُطفہ میںبھی مرکّب طاقتیں رکھ دیںیہ تیسرا دَور ہے جو انسانی پیدائش پر آیا۔
انسانی پیدائش کا چوتھا دَور
چوتھا دَور انسانی پیدائش پر وہ آیا جب کہ انسانی دماغ کامل ہو گیا اور اس میںسمجھ اور ترقی کا مادہ پیدا ہو گیا گویا اب
دماغی ارتقاء اور دماغی قوتوں کے ظہور کا زمانہ آ گیا اور وہ سامع اور باصر وجود سے سمیع اور بصیروجود بنا، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فَجَعَلْنٰـہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًا۱۳؎ اس دَور میںجب کہ انسانی پیدائش نُطفہ سے ہونے لگ گئی تھی اور وہ ذَکر واُنْثٰی بن گئے تھے ابھی ان میںانسانیت نہیں آئی تھی بلکہ حیوانیت ہی تھی کیونکہ گو نر ومادہ کی تمیز پیدا ہو گئی تھی مگر یہ تمیز حیوانوں میںبھی پائی جاتی ہے اس طرح گواُس دَور میں انسان باصر اور سامع تھا جیسا کہ حیوان بھی باصر اور سامع ہوتا ہے حیوان بھی دوسروں کو دیکھتا اور حیوان بھی آہٹ کو سُن لیتا ہے پس اس دَور میںوہ ایک حیوان تھا مگر اس کے بعد دَورِ رابع اس پروہ آیا جب کہ دماغی اور ذہنی ارتقاء کی وجہ سے تحقیق اور تجسُّسکا مادہ اس میںپیدا ہو گیا اور وہ بصیر اور سمیع بن گیا۔دیکھتا تو ایک جانور بھی ہے مگر وہ باصر ہوتا ہے بصیر نہیں ہوتا ۔ بصیر وہ ہوتا ہے جو عقل سے کام لے اور کُرید، تحقیق اور ایجاد کامادہ اس میںموجود ہو اور یہ انسانی صفات ہی ہیں حیوانی نہیں۔ پس چوتھا دَور انسان پر وہ آیا جب کہ وہ سامع اور باصر وجود سے سمیع وبصیر بنا یعنی کُرید، تحقیق ایجاد اور ترقی کا مادہ اس میں پیدا ہو گیا اور وہ حیوانی حالت سے ترقی کر کے حیوانِ ناطق بن گیا۔
یہ سب دَوروں کی ابتدائی کڑیاں ہیں، درمیانی زمانوں کا ذکر خداتعالیٰ نے چھوڑ دیا ہے کیونکہ قرآن کوئی سائنس کی کتاب نہیں وہ ضروری باتوں کا ذکر کر دیتا او رباقی امور کی دریافت کو انسانی عقل پر چھوڑ دیتا ہے پس اِن چار دَوروں کا یہ مطلب نہیں کہ انسان پر یہی چار دَور آئے بلکہ یہ چار دَوروں کی ابتدائی کڑیاں ہیںان کے درمیان اور بھی بہت سی کڑیاں ہیں چنانچہ بعض درمیانی کڑیوں کا حال بھی قرآن کریم کی بعض اور آیات سے معلوم ہوتا ہے مثلاً فرماتا ہے۔ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا ۱۴؎ پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ وَاللّٰہُ اَنْبَتـَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًا کہ خدا نے تمہیں زمین میںسے نکالا ہے اور یہاںیہ فرمایا ہے کہ خدا نے تمہیں خشک مٹی میںسے پیدا کیا ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ پھر نُطفہ سے پیدا کیا یہاں پھر درمیانی دَوروں اور درمیانی دَوروں کی مختلف کڑیوں کاذکر چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ مَیں آگے چل کر ثابت کرونگا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واقعہ میں بعض دَور چھوڑ دیئے ہیں۔غرض فرماتا ہے پھر ہم نے نُطفہ بنایا اور تم نرو مادہ سے پیدا ہونے لگ گئے۔ ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا پھر ہم نے تم کو انسانِ کامل بنایا ، ایک ایساانسان جو تمدّنی صورت اختیار کر گیا اور باقاعدہ نظام میںمُنسلک ہو گیا۔
لفظِ ازواج کی تشریح
یہاں ازواج کے معنے مردعورت کے نہیںکیونکہ پہلے نُطفے کاذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا اس نے تم کو
ازواج بنایا اگر ازواج کے معنے مرد عورت کے ہی ہوں تو ان الفاظ کے الگ لانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ نُطفہ کے ذکر میں ہی یہ بات آ سکتی تھی کیونکہ نطفہ سے اسی وقت پیدائش ہوتی ہے جب مردعورت دونوںموجود ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے پہلے نطفہ کا ذکر کیا ہے اور اس کے بعد فرمایا ہے کہ ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ ازواج سے مراد مردو عورت نہیں بلکہ کچھ اور مراد ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں اَزْوَاجاً سے مراد اقسام ہیں نہ کہ مرد وعورت ، ورنہ نطفہ تو ہوتا ہی زوج کے وقت سے ہے اور اس کی تصدیق اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ زوج کے معنے عربی زبان میں صنف کے بھی ہوتے ہیں اور یہی معنے اس جگہ مراد ہیں ، پس اَزْوَاجًاسے مراد اَصْنَافًا ہیں نہ کہ مرد وعورت اور مطلب یہ ہے کہ جب تمہاری دماغی ترقی ہوئی تو تم میںمختلف قسم کے گروہ پیدا ہو گئے اور پارٹیاں بننی شروع ہو گئیں غرض اس آیت میںاللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ پہلے انسان تُرابی حالت میں تھا یعنی جمادی حالت میں پھر اس پر ایک زمانہ آیا (درمیانی زمانہ کاذکراس جگہ چھوڑ دیا ہے) کہ وہ حیوانی صورت اختیار کر گیا اور مردوعورت سے اس کی پیدائش ہونے لگی(پھر درمیانی زمانہ کا ذکر چھوڑ دیا ہے) پھر وہ زمانہ آیا کہ وہ ترقی کر کے تمدّنی صورت اختیار کر گیا اور باقاعدہ ایک نظام میں منسلک ہو گیا۔
اسی طرح درمیانی کڑیوں میںسے ایک کڑی طینی حالت بھی ہے جب کہ تُراب سے پانی ملا، چنانچہ حیاتِ انسانی کا مادہ پانی ہونے کے متعلق فرماتا ہے وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَائِ کُلَّ شَیْئٍ حَيٍّ اَفَلایُؤْمِنُوْنَ۱۵؎ کہ کیا تمہیں معلوم نہیں ہم نے ہر چیز کو پانی سے زندگی بخشی ہے اگر پانی نہ ہوتا تو حیاتِ انسانی کا مادہ بھی پیدا نہ ہوتا، پھر یہ کڑی کہ پانی مٹی سے ملا اور اس سے پیدائش ہوئی اس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَّذِیْٓ اَحْسَنَ کُلَّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ وَبَدَأَخَلْقَ الْاِ نْسَانِ مِنْ طِیْنٍ ۱۶؎ کہ خد ا نے انسان کو طین سے پیدا کیا۔ گویا پانی اور مٹی باہم ملائے گئے اور ان دونوں کے ملانے سے جو حالت پیدا ہوئی اس کے نتیجہ میں زندگی کا ذرّہ پیدا ہؤا اور ترقی کرتے کرتے انسان اپنے معراجِ کمال کو پہنچ گیا۔
اس بات کا ثبوت کہ کڑیاں درمیان سے حذف بھی کر دی جاتی ہیں اس بات سے ملتا ہے کہ اوپر کی آیت میںبتایا ہے کہ انسان کی پیدائش اوّل طین سے ہوئی اس کے بعد فرماتا ہے۔ ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَہٗ مِنْ سُلٰلَۃٍ مِّنْ مَّائٍ مَّھِیْن۱۷؎ کہ پیدائشِ ثانی طین سے نہیں بلکہ مَائٍ مَّھِیْنٍ یعنی نُطفہ سے ہوئی ہے اور ہم نے بجائے مٹی اور پانی کے نسلِ انسانی کے لئے نُطفہ کا سلسلہ جاری کر دیا ۔ جیسا کہ ایک اور موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلَمْ نَخْلُقْکُّمْ مِّنْ مَّائٍ مَّھِیْنٍ۔ فَجَعَلْنٰـہٗ فِیْ فَرَارٍ مَّکِیْنٍ اِلٰی قَدَرٍمَّعْلُوْمٍ ۱۸؎ یعنی کیا ہم نے تم کو ایک کمزور او رحقیر پانی کی بوند سے پیدا نہیں کیا اور پھر اس کمزور اور حقیر بوند کو ایک قراروثبات کی جگہ میں ایک زمانہ تک رکھ کر پیدا نہیں کیا؟ پس صاف معلوم ہو گیا کہ مٹی کی حالت ایک وقت کی تھی پھر وہ وقت آیا جب کہ مٹی اور پانی ملایا گیا ، مگر نسلِ انسانی جو پیدا ہوئی ہے یہ مٹی سے نہیں بلکہ نُطفہ سے ہوئی ہے پس مٹی والا زمانہ اَور ہے پانی والا زمانہ اَور ہے اَور نُطفے والا زمانہ اَور ہے۔
پیدائشِ انسانی کے متعلق عام قرآنی اُصول
پھر عام اصول پیدائش کا قرآن کریم نے یہ بتایا کہ وَاَنَّ اِلٰی رَبِّکَ الْمُنْتَھٰی۔
وَاَنَّہٗ ھُوَ اَضْحَکَ وَاَبْکٰی۔ وَاَنَّہٗ ھُوَاَمَاتَ وَاَحْیٰی۔ وَاَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُ نْثٰی۔ مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی۔ وَ اُنَّ عَلَیْہِ النَّشْاَ ۃَالْاُخْرٰی۱۹؎ کہ دیکھو تمہاری ابتداء خدا سے ہوئی اور تمہاری انتہاء بھی خدا تک جاتی ہے تمہاری حالت ایسی ہی ہے جیسے قوس کے درمیان وتر ہوتا ہے جس طرح کمان کو خم دیدیا جائے تو اس کے دونوں اطراف آپس میں مل جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر تم اپنی پیدائش کی طرف چلتے چلے جائو اور دیکھو کہ تم کس طرح پیدا ہوئے تو تمہیں ایک خدا اِس تمام خَلق کے پیچھے نظر آئے گا۔ اور اگر تم دیکھو کہ مرنے کے بعد انسان کہاں جاتا ہے تو وہاں بھی تمہیں خدا ہی دکھائی دے گا، گویا انسان کی پیدائش بھی خداتعالیٰ سے شروع ہوتی ہے اور اس کی انتہا بھی خداتعالیٰ پر ہے اور باریک در باریک ہوتے ہوئے آخر خداتعالیٰ پر سببِ اُولیٰ ختم ہو جاتا ہے۔
یہ اوپر کی آیات جو مَیں نے پڑھی ہیں ان سے یہ نتائج نکلتے ہیں کہ:-
(۱) انسان مادہَ ازلی نہیں ہے بلکہ وہ خداتعالیٰ کے ہاتھوں سے پیداکیا گیا ہے۔
(۲) دوسرے یہ کہ انسان کی پیدائش ارتقاء سے ہوئی ہے یہ نہیں ہؤا کہ وہ یکدم پیدا ہو گیا۔
(۳) تیسرے یہ کہ انسان، انسان کی حیثیت سے ہی پیدا کیا گیا ہے۔ یہ خیال صحیح نہیں کہ بندروں کی کسی قسم سے ترقی کر کے انسان بنا جیسا کہ ڈارون کہتا ہے۔
(۴) چوتھے یہ کہ پہلے وہ جمادی دَور سے گزرا ہے یعنی ایسی حالت سے جو جمادات والی حالت تھی۔
(۵) پانچویں یہ کہ اس کے بعد وہ حیوانی حالت میںآیا جب کہ اس میںزندگی پیدا ہو گئی تھی ، لیکن ابھی اس میں عقل پیدا نہ ہوئی تھی۔ وہ جانوروں کی طرح چلتا پھرتا اور کھاتا پیتا تھا۔
(۶) اس کے بعد اس میں عقل پیدا ہوئی اور وہ حیوانِ ناطق ہو گیا مگر ابھی چونکہ اس میںکچھ کسر باقی تھی اس لئے پھر
(۷) اُس نے اور زیادہ ترقی کی اور وہ اس حالت سے بڑھ کر متمدّن انسان ہو گیا جس کا اشارہ اللہ تعالیٰ نے ثُمَّ جَعَلَکُمْ اَزْوَاجًا۲۰؎ میں کیا ہے یعنی انفرادی ترقی کی جگہ نظام اور قانون کی ترقی نے لے لی اور پارٹی سِسٹم شروع ہو گیا اور اب بجائے اس کے کہ ہر انسان الگ الگ کام کرتا جیسے بندر اور سؤر اور کُتّے وغیرہ کرتے ہیں ۔ انسان نے مل کر کام کرنا شروع کر دیا اور نظام اور قانون کی ترقی شروع ہوئی۔
یہ چار بڑے بڑے دَور ہیں جو قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں یعنی:-
(۱) جمادی دَور (۲) حیوانی دَور (۳) عقل کا دَور اور (۴) متمدّن انسان کا دَور ۔
ان کے درمیان اور بھی کڑیاں ہیں لیکن وہ حذف کر دی گئی ہیں۔
اس تمہید کے بعد مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انسانی دَور دراصل وہی کہلا سکتا ہے جب کہ بشر نے عقل حاصل کی۔ جب تک اسے عقل حاصل نہیںتھی وہ ایک حیوان تھا گو خدا کے مدّنظر یہی تھا کہ وہ اسے ایک باشعور اور متمدّن انسان بنائے مگر بہرحال جب تک اس میں عقل نہیں تھی وہ انسان نہیںکہلا سکتا تھا اُس وقت اس کی ایسی ہی حالت تھی جیسے ماں کے پیٹ میںبچہّ ہوتا ہے۔ اب ماں کے پیٹ میںجب بچہّ ہوتا ہے تو وہ انسانی بچہّ ہی ہوتا ہے کُتاّ نہیں ہوتا مگر چونکہ اس میں ابھی بہت کچھ کمزوری ہوتی ہے اس لئے وہ کامل انسان بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح انہیں انسانی شکل تو حاصل تھی مگر انسانیت کے کمالات انہوں نے حاصل نہیں کئے تھے اور نہ ابھی تک ان میںعقل پیدا ہوئی تھی۔انسان کہلانے کا وہ اُسی وقت مستحق تھا جب کہ اس نے عقل حاصل کی، لیکن اس دَور کو بھی حقیقی معنوں میں دَور ِ انسانیت نہیں کہاجا سکتاکیونکہ انسان کی کامل خصوصیّت عقل نہیں بلکہ نظام اور قانون کے ماتحت زندگی بسر کرنا ہے اور یہی انسانی پیدائش کا مقصود ہے اسی لئے میںاصطلاحاً عقل والے دَور کوبشری دَورِ اوّل کہوںگا اور نظام والے دَور کو انسانی دَور کہوں گا۔یعنی پہلے دَور میں وہ صرف بشر تھا اور دوسرے دَور میں بشروانسان دونوں اُس کے نام تھے۔
آدمؑ سب سے پہلا کامل انسان تھا
اِس وقت تک جو مضمون بیان ہؤا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا عقلی دَور دو حصوں میں
منقسم تھا ایک حصّہ تو وہ تھا کہ اس میںعقل تو تھی مگر انفرادی حیثیت رکھتی تھی تمدّنی ّ حِس نے ترقی نہ کی تھی اور وہ اکیلے اکیلے یا جوڑوں کی صورت میںزندگی بسر کرتا تھا ۔د وسرا دَور وہ آیا جبکہ تمدّنی حِس ترقی کر گئی تھی اور وہ ایک قانون کے تابع ہونے کا اہل ہو گیا یعنی وہ اس بات کے لئے تیار ہو گیا کہ ایک قانون کے ماتحت رہے جب قانون یہ فیصلہ کر دے کہ کسی پرحملہ نہیںکرنا تو ہر ایک کا فرض ہوکہ کسی پر حملہ نہ کرے، جب قانون یہ فیصلہ کردے کہ فلاں کو یہ سزا ملنی چاہئے تو اس کا فرض ہو کہ وہ اس سزا کوبخوشی برداشت کرے، جب یہ ّحِس اس میں ترقی کر گئی اور وہ قانون کے تابع ہونے کا اہل ہو گیا تو اُس وقت انسانِ کامل بنا اور قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب انسانوں کے اندر یہ مادہ پیدا ہو گیا کہ وہ نظام اور قانون کی پابندی کریںاور انسانی دماغ اپنی تکمیل کو پہنچ گیا تو اُس وقت سب سے پہلا شخص جس کا دماغ نہایت اعلیٰ طور پر مکمل ہؤا اُس کانام آدم ؑ تھا۔ گویا آدم جو خلیفۃ اللہ بنا وہ نہیں جس کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے اسے مٹی سے گوندھا اور پھر اس میں پھونک مار کر اُسے یکدم چلتا پھرتا انسان بنا دیا بلکہ جب انسانوں میں تمدّنی روح پیدا ہو گئی تو اُس وقت جو شخص سب سے پہلے اس مقام کو پہنچا اور جس کے دماغی قوٰی کی تکمیل سب سے اعلیٰ اور اَرفع طور پر ہوئی اُس کا نام خدا تعالیٰ نے آدمؔ رکھا، مگر جب دیر سے ایک طریق چلا آ رہا ہو اُ س میںتبدیلی لوگ آسانی کے ساتھ برداشت نہیں کر سکتے اسی لئے جب کامل انسانیت کی ابتداء ہوئی ناقص انسانوں کا بقیہ اس کے ساتھ تعاون کرنے سے قاصر تھاکیونکہ گو اُن میں عقل تھی مگر مادۂ تعاون وتمدّن ان میں مکمل نہ تھا۔ پس یقینا اُس وقت بہت بڑا فساد ہؤا ہو گا جیسے اگر ایک سِدھا ہؤا گھوڑا بے سدھے گھوڑے کے ساتھ جوت دیا جائے تو دونوں مل کر کام نہیں کر سکتے۔ بے سِدھا گھوڑا لاتیں مارے گا، اُچھلے گا،کُودے گا اور وہ کوشش کر ے گا کہ نکل کر بھاگ جائے اسی طرح اُس وقت بعض لوگ متمدّن ہو چکے تھے اور بعض کہتے تھے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم اکٹھے رہیںاور قانون کی پابندی کریں۔
لفظِ آدم میں حکمت
قرآن کریم نے جوپہلے کامل انسان کا نام آدم رکھا تو اس میں بھی ایک حکمت ہے عربی زبان میں آدم کا لفظ دو مادوں سے نکلا ہے ،
ایک مادہ اس کا ادیم ہے اور ادیم کے معنے سطح زمین کے ہیںاور دوسرا مادہ اُدمَہْ ہے اور اُدْمَہْ کے معنے گندمی رنگ کے ہیں۔ پس آدم کے معنے سطح زمین پر رہنے والے یا گندمی رنگ والے کے ہیں اور دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے کیونکہ کھلی ہَوا اور زمین پررہنے کی وجہ سے دھوپ کے اثر سے اس کے رنگ پر اثر پڑا۔
حقیقت یہ ہے کہ جب آدم کے ذریعہ خداتعالیٰ نے تمدّن کی بنیاد رکھی تو اُس وقت آدم اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے لوگوں نے یہ فیصلہ کیاکہ بجائے زمین کی غاروں میں رہنے کے ہمیںسطح زمین کے اوپر رہنا چاہئے اور پندرہ پندرہ بیس بیس گھروں کاایک گائوں بنا کر اس میںآباد ہو جانا چاہئے اس سے پہلے تمام انسان غاروں میں رہتے تھے اور چونکہ سطح زمین پر اکیلے اکیلے رہنے میں خطرہ ہو سکتا تھا کہ کوئی شیر یا چیتا حملہ کر ے اور انسانوں کو پھاڑ دے اس لئے وہ آسانی کے ساتھ سطح زمین پر رہنے کو برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ تبھی سطح زمین پر رہنا برداشت کر سکتے تھے جب کہ بہت سے آدمی ایک جگہ اکٹھے ہوں اور وہ متحدہ طاقت سے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہوں مگر یہ صورت اُسی وقت ہو سکتی تھی جب انسانوں میںاکٹھا رہنے کی عادت ہو اور وہ ایک قانون اور نظام کے پابند ہوں ۔ جب تک وہ ایک نظام کے عادی نہ ہوں، اُس وقت تک اکٹھے کس طرح رہ سکتے تھے۔ پس اُس وقت آدم اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم آئندہ غاروں میں نہیں رہیں گے بلکہ کھلے مکانوں میں رہیں گے اور چونکہ انہوں نے باہر سطح زمین پر رہنے کا فیصلہ کیا اِس لئے ان کا نام آدم ہؤا یعنے سطح زمین پررہنے والے۔ اور کھلی ہَوا میں رہنے کا یہ لازمی نتیجہ ہؤا کہ ان کا رنگ گندمی ہو گیا۔
پس آدم اس کا نام اس لئے رکھا گیا کہ وہ کھلی زمین میں مکان بنا کر رہنے لگا اور کھلی زمین پر رہنے کے سبب سے اس کا جسم گندمی رنگ کا ہو گیا جیساکہ سورج کی شُعاعیں پڑنے سے ہو جاتا ہے اور ادیم اور اُدْمَہْ جو لفظِ آدم کے مادے ہیں ان دونوں کا مفہوم بھی ایک ہی ہے یعنی کھلی ہؤا اور زمین پررہنے کی وجہ سے اس کے رنگ پر اثر پڑا۔
زمانہ آدم کی تمدّنی حالت
اس آدم کے زمانہ میںلازماً بشری دَور اوّل کے زمانہ کے بھی کچھ لوگ تھے جو تمدنی قوانین کی برداشت نہیں کر سکتے تھے اور
لازماً وہ سطحِ زمین پر سہولت سے نہیں رہ سکتے تھے کیونکہ جوطاقت مجموعی طاقت سے مل سکتی ہے اور جو انسان کو کھلے میدانوں میں رہنے میں مدد دیتی ہے وہ انہیں حاصل نہ تھی پس وہ غاروں میںرہتے تھے جیسا کہ جانور وغیرہ رہتے ہیں اور چونکہ ان میںتمدّن نہ تھا ان کے لئے کوئی قانون بھی نہ تھا ،حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں جب یہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگ سطح زمین پر رہیں اور غاروں میں رہنا چھوڑ دیں ، تو وہ لوگ جو سطح زمین پر نہیں رہنا چاہتے تھے انہوں نے آپ کی مخالفت کی جیسے افریقہ کے حبشی پہلے ننگے رہا کرتے تھے۔ شروع شروع میں جب انگریز آئے ہیں تو انہوں نے کوشش کی کہ حبشیوں کو کپڑے پہنائے جائیں ۔چنانچہ انہوںنے شہر کے دروازوں پرآدمی مقرر کر دئیے اور انہیں کپڑے دے کر حُکم دیدیا کہ جب کوئی حبشی شہر کے اندر داخل ہو نا چاہے تو اُسے کہاجائے کہ وہ ننگا شہر میںداخل نہ ہو بلکہ تہہ بند باندھ کر اندر جائے، چونکہ وہ ہمیشہ ننگے رہتے چلے آئے تھے اور کپڑے پہننے کی انہیںعادت نہ تھی اس لئے وہ بڑے لڑتے اور کہتے کہ ہم سے یہ بے حیائی برداشت نہیں ہو سکتی۔کہ ہم کپڑے پہن کر شہر میںداخل ہوں ، ہمارے بھائی بنداور دوست ہمیں دیکھیں گے تو کیا کہیں گے۔مگر انہیںکہا جاتا کہ ننگے جانے کی اجازت نہیں،کپڑے پہن لو اور چلے جائو، چنانچہ مجبوراً وہ کپڑے پہنتے مگر جب شہر میں سے گزرتے تو اِدھر اُدھر کنکھیوں سے دیکھتے بھی جاتے کہ کہیں ان کا کوئی دوست انہیں اِس بے حیائی کی حالت میں دیکھ تو نہیں رہا، چنانچہ بڑی مشکل سے وہ شہر میں کچھ وقت گزار تے اور جب شہر سے باہر نکلنے لگتے توا بھی پچاس ساٹھ قدم کے فاصلہ پر ہی ہوتے تو تہہ بند اُتار کر زور سے پھینک دیتے اور ننگے بھاگتے ہوئے چلے جاتے۔ تو جس چیز کی انسان کو عادت نہیں ہوتی اُس سے وہ گھبراتا ہے۔حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی چونکہ ایسے لوگ تھے جو قانون کی پابندی نہیں کر سکتے تھے اس لئے انہوں نے سطح زمین پررہنا پسند نہ کیا اور وہ بدستور غاروں میں رہتے رہے۔ جنس ایک ہی تھی، لیکن اس کا ایک حصہ تو سطح زمین پر آ گیا دوسرا سطح زمین پر نہ آیا اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہؤا کہ جس طرح انسانِ کامل باہر رہنے کی وجہ سے آدم نام پانے کا مستحق بنا اسی طرح انسانِ ناقص غاروں میں رہنے کی وجہ سے ’’جن‘‘ نام پانے کا مستحق ہؤا کیونکہ جن کے معنی پوشیدہ رہنے والے کے ہیں۔ پس اُس وقت نسلِ انسانی کے دو نام ہو گئے ایک وہ جوآدم کہلاتے تھے اور دوسرے وہ جو جنؔ کہلاتے تھے۔آدم کے ساتھ تعلق رکھنے والے جو لوگ تھے اُنہوں نے میدان میںجھونپڑیاں بنائیں، مکانات بنائے اور مِل جُل کر رہنے لگ گئے۔ پس سطح زمین پر رہنے اور سورج کی شعاعوں اور کھلی ہَوا میں رہنے سے گندم گُوںہو جانے کی وجہ سے وہ آدم کہلائے، اسی طرح وہ انسان بھی کہلائے کیونکہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے اُنس کرتے اور متمدّن اور مہذّب انسانوں کی طرح زمین پر مِل جُل کر رہتے اور ایک دوسرے سے تعاون کرتے۔ اس کے مقابلہ میںدوسرے لوگ جو گو اسی جنس میںسے تھے مگر چونکہ وہ قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہوئے اور غاروں میںچھپ کر رہے اس لئے وہ جن کہلاتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں بعد میںبھی بڑے آدمی جو اندر چُھپ کر رہتے ہیں انہیں جن کہا جانے لگا کیونکہ ان کی ڈیوڑھیوں پر دربان ہوتے ہیں اور ہر شخص آسانی سے اندر نہیں جا سکتا۔ اسی طرح غیر اقوام کے افراد کو بھی ’’جن‘‘ کہا جاتا ہے چنانچہ قرآن کریم میںصاف الفاظ میں غیر قوموں کے افراد کے لئے بھی جن کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر چونکہ یہ تفصیل کاوقت نہیں ہے اس لئے میں وہ آیات بیان نہیں کر سکتا، ورنہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مَیں نے قرآن کریم سے ایسے قطعی اور یقینی ثبوت نکال لئے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں جن کا لفظ انسانوں کے لئے استعمال ہؤا ہے۔مَیں نے اُن آدمیوں کا بھی پتہ لے لیا ہے جنہیں قرآن کریم میں ’’جن‘‘ کہا گیا۔اُن شہروں کابھی پتہ لے لیا ہے جن میں وہ جن رہتے تھے اور تاریخی گواہیاں بھی ا س امر کے ثبوت کے لئے مہیا کرلی ہیں کہ وہ ’’جن‘‘ انسان ہی تھے کوئی غیر مرئی مخلوق نہ تھی۔
اب میں آیاتِ قرآنیہ سے اُن مسائل کے دلائل بیان کرتاہوں جن کا اِس وقت مَیں نے ذکر کیا ہے۔
آدم پہلا بشر نہیں
میرا پہلا دعویٰ یہ تھا کہ قرآن کریم سے یہ امر ثابت ہے کہ آدم پہلا بشر نہیں یعنی یہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے یکدم پیدا کردیا ہو او رپھر اس
سے نسلِ انسانی کا آغاز ہؤا ہو، بلکہ اس سے پہلے بھی انسان موجود تھے، چنانچہ اس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہے اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں آدم کے ذکر میں فرماتا ہے کہ اس نے فرشتوں سے کہا۔ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ۲۱؎ میں زمین میںایک شخص کو اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ا گر آدم پہلا شخص تھا جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو اسے فرشتوں سے یوں کہناچاہئے تھا کہ میں زمین میں ایک شخص کو پیدا کرنے والا ہوں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ میں پیدا کرنے والا ہوں بلکہ یہ کہا کہ میں زمین میں اپنا خلیفہ بنانے والا ہوں۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اَور لوگ پہلے سے زمین میںموجود تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان میں سے آدم کو اپنا خلیفہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ پس یہ پہلی آیت ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق آتی ہے او ریہاں پیدائش کا کوئی ذکر ہی نہیں۔
دوسری آیت جس سے اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ملتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے پہلے بھی آدمی موجود تھے سورہ اعراف کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَقَدْ خَلَقْنٰـکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰـکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰـئِکَۃِ اسْجُدُوْالِاٰدَمَ۲۲؎ یعنی ہم نے بہت سے انسانوں کو پیدا کیا، پھر ان کو مکمل کیا پھر ان کے دماغوں کی تکمیل کی اور انہیں عقل والا انسان بنایا اور پھر ہم نے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ یہ نہیں کہا کہ میں نے آدم کو پیدا کیا اورفرشتوں کو حُکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ بلکہ یہ فرماتاہے کہ اے نسلِ انسانی! مَیں نے تم کو پیدا کیا اور صرف پیدا ہی نہیںکیا بلکہ صَوَّرْنٰـکُمْ میں نے تمہیں ترقی دی ،تمہارے دماغی قوٰی کوپایۂ تکمیل تک پہنچایا اور جب ہر لحاظ سے تمہاری ترقی مکمل ہو گئی تو مَیں نے ایک آدمی کھڑا کر دیا اور اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے سجدہ کرو۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہو چکے تھیکیونکہ خَلَقْنٰـکُمْ اور صَوَّرْنٰـکُمْ پہلے ہؤا ہے اور آدم کا واقعہ بعد میں ہؤا ہے حالانکہ اگر وہی خیال صحیح ہوتا جو لوگوں میں پایا جاتا ہے تو خداتعالیٰ یوں کہتا کہ میں نے پہلے آدم کو پیدا کیا اور فرشتوں کو اُسے سجدہ کرنے کا حُکم دیا۔ پھر میں نے تم کو اس سے پیدا کیا۔ مگر خداتعالیٰ یہ نہیں فرماتا بلکہ وہ یہ فرماتا ہے کہ میں نے پہلے انسانوں کو پیدا کیا، ان کی صورتوں کی تکمیل کی اور پھر ان میںسے آدم کے متعلق ملائکہ کو حُکم دیا کہ اسے سجدہ کریں۔ پس یہ آیت اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ پہلے کئی انسان پیدا ہو چکے تھے۔
آدم اور ابلیس دونوں نسلِ انسانی میں سے تھے
میرا دوسرا دعویٰ یہ تھا کہ آدم اور ابلیس درحقیقت نسلِ انسانی میں
سے ہی تھے اس بات کا ثبوت بھی قران کریم سے ملتا ہے۔
(۱) اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میںجہاں اس نے آدم کی پیدائش کا ذکر کیا ہے فرماتا ہے۔ فَاَزَلَّھُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْھَا فَاَخْرَجَھُمَامِمَّا کَاناَ فِیْہِ وَقُلْنَااھْبِطُوْابَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّوَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ۲۳؎ کہ آدم اور اُس کی بیوی دونوں کوشیطان نے ورغلادیا اور دھوکا دیا، نتیجہ یہ ہؤا کہ ہماری ناراضگی ہوئی اور ہم نے کہا کہ اِھْبِطُوْا تم اے شیطان کے لوگو اور اے آدم کے ساتھیو! سارے کے سارے یہاں سے چلے جائو۔ جمع کا صیغہ ہے جو خداتعالیٰ نے استعمال کیا۔ اگر اس سے مراد صرف آدم اور حوا ہوتے تو وہ تو دو ہی تھے ان کے لئے جمع کا صیغہ کیوں استعمال کیا جاتا۔انہیں زیادہ سے زیادہ یہ کہا جاتا کہ تم دونوں چلے جائو مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا بلکہ فرماتا ہے ساری کی ساری جماعت یہاں سے چلی جائے۔ آدم حوا اور ان کے ساتھیوں کو بھی یہ حُکم دیتا ہے اور ابلیس اور اس کے ساتھیوں کو بھی یہ حُکم دیتا ہے اور سب سے کہتا ہے کہ اس علاقہ سے چلے جائو کیونکہ اب تمہاری آپس میں عداوت ہو چکی ہے ۔ یہ آیت اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ آدم اور ابلیس دونوں نسلِ انسانی میں سے ہی تھے۔
ایک شُبہ کا ازالہ
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ قرآن کریم میںایک اور مقام پر اِھْبِطُوْا کی بجائے اِھْبِطَا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے مگر وہاں بھی قرآن کریم نے اس
مشکل کو آپ ہی حل کر دیا ہے اللہ تعالیٰ سورۃ طٰہٰ میں فرماتا ہے۔ قَالَ اھْبِطَا مِنْھَا جَمِیْعًا بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ۲۴؎ کہ ہم نے کہا دونوں یہاں سے چلے جائو تم دونوں ایک دوسرے کے دشمن رہو گے۔ اب اگر دونوں سے مرادآدم اور حوا لئے جائیں تو اس آیت کا مطلب یہ بنتا ہے کہ آدم اور حوا آپس میں دشمن رہیں گے حالانکہ یہ معنے بالبداہت غلط ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس جگہ دونوں سے مراد دونوں گروہ ہیں نہ کہ آدم اور حوا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اِھْبِطَا مِنْھَا جَمِیْعًاکہہ کر یہ حکم دیا ہے کہ اے آدم کے گروہ اور اے شیطان کے گروہ! تم دونوں اِس جگہ سے چلے جائو ۔ اب تم دونوں گروہ آپس میں ہمیشہ دشمن رہو گے ،پھر اس بات کا ایک اور ثبوت کہ ان دو سے مراد دو گروہ ہیں نہ کہ آدم اور حوا یہ بھی ہے کہ اِھْبِطَا کے ساتھ جَمِیْعًا کا لفظ بھی آتا ہے ، حالانکہ دو کے لئے عربی زبان میں جَمِیْعًا کبھی نہیں آ سکتا ۔ پس چونکہ آدم کے بھی کئی ساتھی تھے اور شیطان کے بھی کئی ساتھی تھے اس لئے دونوں کے لئے اِھْبِطَامِنْھا جَمِیْعًا کے الفاظ استعمال کئے گئے۔ا سی طرح جہاں دشمنی کا ذکر ہے وہاں بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ کے الفاظ ہیں اور کُمْ کے لفظ نے بھی جو تین یا تین سے زیادہ کے لئے بولا جاتا ہے بتادیا ہے کہ جن کو نکلنے کا حُکم دیا ہے وہ ایک جماعت تھی نہ کہ دو شخص۔
پھر اس آیت سے یہ پتہ بھی لگتا ہے کہ آدم کی نسل اور شیطان کی نسل دونوں نے ایک جگہ اکٹھا رہنا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنٍ۔ کہ اے شیطان کے ساتھیو اور اے آدم کے ساتھیو! تم دونوں نے دنیا میں اکٹھا رہنا ہے پس ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تم دونوں ایک دوسرے کی دشمنی سے بچتے رہنا اور اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔ پھر اس سے بھی بڑھ کر ایک اور بات ان آیات سے نکلتی ہے اور وہ یہ کہ یہ دونوں کوئی الگ الگ جنس نہیں تھے بلکہ ایک ہی جنس میں سے تھے چنانچہ سورۃ بقرہ میںہی اللہ تعالیٰ شیطان کے ساتھیوں اور آدم کے ساتھیوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے۔ـ قُلْنَا اھْبِطُوْا مِنْھَا جَمِیْعًا فَاِمَّا یَأْتِیَنَّکُمْ مِّنِّیْ ھُدًی فَمَنْ تَبِعَ ھُدَایَ فَلَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ ۲۵؎ کہ اے آدم کے ساتھیو! اور اے ابلیس کے ساتھیو تم سب یہاں سے چلے جائو، مگر یاد رکھوکہ کبھی کبھی تمہارے پا س میرے نبی بھی آیا کریں گے جولوگ ان انبیاء کو مان لیں گے وہ ہر قسم کے روحانی خطرات سے محفوظ رہیں گے مگر وہ لوگ جو ان کو نہیں مانیں گے وہ میری ناراضگی کے مورد ہونگے۔ اس آیت سے یہ معلوم ہؤا کہ آدم کی اولاد کبھی شیطان کی ساتھی بن جایا کریگی اور کبھی شیطان کی اولاد آدم کی اولاد بن جایا کر یگی کیونکہ اس آیت سے یہ امر مستنبط ہوتا ہے کہ ابلیس اور نسلِ ابلیس کے لئے بھی ایمان لانا ممکن تھا اور جب کہ نسلِ ابلیس کے لئے بھی ایمان لانا ممکن تھا اور یہ بھی امکان تھا کہ کبھی آدم کی اولاد کسی نبی کا انکار کر دے تو صاف معلوم ہؤا کہ یہ دونوں نسلیںآپس میںتبادلہ کرتی رہیں گی۔ کبھی شیطان کی نسل آدم کی نسل ہو جائے گی اور کبھی آدم کی نسل شیطان کی نسل ہو جائے گی کیونکہ ابلیس اور نسلِ ابلیس کے لئے اس آیت سے ایمان لانا ممکن ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر ان کا ایمان لانا ممکن ہی نہ ہوتا تو ان کی طرف ہدایت کے آنے کے کوئی معنے نہ تھے۔
پھر سورہ اعراف میںاس مضمون کے بعد یہاں تک بیان فرمایا ہے کہ اے آدم کی نسل اور اے ابلیس کی نسل! فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَفِیْھَاتَمُوْتُوْنَ وَمِنْھَاتُخْرَجُوْنَ ۲۶؎ تم دونوں اسی زمین کے اندر زندہ رہوگے، یہیںمروگے اور اسی زمین سے تمہارا حشر ہو گا یعنی بنوآدم کے ساتھ ابلیس اور اس کے ساتھی نہ صرف رہیں گے بلکہ بنوآدم کی طرح زمین پرزندگی بسر کریں گے، انہی کی طرح مریں گے اور زمین میں دفن ہونگے اور پھر انہی کی طرح ان کا قبور سے حشر ہو گا پس معلوم ہؤا کہ یہ جن کسی اور جنس کے لوگ نہیں بلکہ نسلاً یہ لوگ وہی ہیں جو بنو آدم ہیں کیونکہ ان آیات میںاللہ تعالیٰ نے یہ صاف بتا دیا ہے کہ جس طرح آدم کی نسل زمین میںزندہ رہے گی اسی طرح ابلیس اور اس کی نسل زمین میں زندہ رہے گی، جس طرح آدم کی نسل کھائے پئے گی اسی طرح ابلیس کی نسل کھائے پئے گی۔ جس طرح آدم کی نسل مرے گی اور زمین میںدفن ہوگی اسی طرح ابلیس کی نسل مرے گی اور زمین میںدفن ہو گی۔ اور پھر یہ بھی بتادیا کہ جب ہمارے انبیاء آئیں گے تو وہ اِن دونوں کو مخاطب کرینگے ،پھر جو لوگ انہیں مان لیںگے وہ آدم کی حقیقی اولاد کہلائیں گے اور جو لوگ نہیں مانیں گے وہ ابلیس بن جائیںگے پس معلوم ہؤا کہ آدم کے مقابلہ میں جو لوگ تھے خواہ انہیں ابلیس اور نسلِ ابلیس کہہ لو اور خواہ جن کہہ لو بہرحال جنس کے لحاظ سے وہ بشر ہی تھے۔فرق صرف اخلاق، تمدّن، اور شریعت کا تھا جس کی وجہ سے ان دونوں میں آپس میں امتیاز کر دیا گیا۔
آدم اور جن کی بجائے انہیں مؤمن او رکافر کیوں نہ کہا گیا
اب ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ
نے ان ناموں سے انہیں یادکیوں کیا؟ کیوں سیدھے سادھے الفاظ میںانہیں کافر اور مؤمن نہیں کہہ دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ لوگوں کے لئے سیدھا سادہ لفظ کافر اور مؤمن ہے اور ان کے لئے سیدھا سادہ لفظ آدم اور ابلیس یا اِنس اور جن تھا۔ آج انسان کا دماغ اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ وہ شریعت کے باریک در باریک مسائل کو سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے، مگر آدم کے زمانہ میں جو شریعت آئی اس کا تعلق صرف تمدّن اور رہائشِ انسانی کے ساتھ تھا اور اس وقت کے لوگوں کے لئے باریک مسائل کا سمجھنا بالکل ناممکن تھا وہ اگر سمجھ سکتے تھے تو صرف موٹی موٹی باتیں سمجھ سکتے تھے۔ پس کافر ومؤمن کی جگہ اِنس اور جن دو نام ان کے رکھے گئے تا کہ اُس وقت کے تمدّن اور بنائے اختلاف کو بھی ظاہر کر دیاجائے اور اس وقت کے لوگوں کی سمجھ میں بھی یہ بات آجائے۔ آج چونکہ انسانی دماغ بہت ترقی کر چکا ہے اس لئے جب کسی کو مؤمن یاکافر کہا جاتا ہے تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ ان الفاظ کا کیا مفہوم ہے مگر اُس زمانہ میںاگر انہیں کافر کہا جاتا اور بتایا جاتا کہ تم اس لئے کافر ہو کہ تم آدم کی بات کو نہیں مانتے تو وہ اس بات کو سمجھ ہی نہ سکتے کہ آدم کی بات کو نہ ماننے کی وجہ سے ہم کافر کس طرح ہو گئے ۔ پس اُس وقت ان لوگوں کا نام جنہوں نے آدم کو مانا اور تمدّن کی زندگی کو قبول کر لیا اِنس رکھا گیا اور اُن لوگوں کا نام جنہوں نے آدم کی بات کو نہ مانا او رغاروں میں ہی چُھپے رہنے کا فیصلہ کرلیا جن رکھا گیا اور یہ ایسی بات تھی جسے وہ آسانی کے ساتھ سمجھ سکتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ واقعہ میں ان میںسے کچھ لوگ زمین پر رہتے ہیں اور کچھ زمین کے اندر غاروں میں رہتے ہیں۔ پس جب انہیں جن کہا جاتا تو وہ کہتے ٹھیک ہے ہم واقعہ میں غاروں سے نہیں نکلنا چاہتے اور جب دوسروں کو جو سطح زمین پر رہتے ہیں اِنس کہا جاتا تو یہ بات بھی ان کی سمجھ میں آ جاتی اور وہ کہتے کہ واقعہ میںوہ سطح زمین پر رہتے ہیںاور اس وجہ سے جن نہیں کہلا سکتے ۔پس جس طرح موجودہ زمانہ میں کافر اور مؤمن دو ناموں سے انسانوں کو یاد کیا جاتا ہے اسی طرح اُس زمانہ میں اِنس اور جن دوناموں سے انسانوں کو یاد کیا جاتا تھا کیونکہ اُس زمانہ میں اختلاف کی بنیاد تمدّن تھی۔ پس مؤمن وکافر کی جگہ اِنس وجن دو نام ان کے رکھے گئے تا کہ اُس وقت کے تمدّن اور بنائے اختلاف کو بھی ظاہر کردیا جائے اور بتایا جائے کہ اِنس وہ تھے جنہوں نے الٰہی حُکم کے مطابق باہمی اُنس اختیار کر کے متمدّن زندگی کی بنیاد رکھی اور جن وہ تھے جنہوں نے اس سے انکار کر کے اطاعت سے باہر رہنے اور تمدّنی زندگی اختیار نہ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ پس وہ جنہوں نے تمدّنی زندگی اختیار کرلی اور سطح زمین پر رہنے لگ گئے وہ اِنس کہلائے اور جنہوں نے سطح زمین پررہنے اور تمدّنی زندگی اختیار کرنے سے انکار کر دیا اور یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ غاروں میں ہی رہیں گے وہ جن کہلائے۔
آج یورپ کے ماہرینِ آثارِقدیمہ اس بات سے پُھولے نہیں سماتے کہ انہوں نے انیسویں صدی میں ہزار تحقیق وتجسّس کے بعد یہ راز دریافت کرلیا ہے کہ ابتداء میں انسان غاروں میںرہا کرتے تھے مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے ایسے لوگوں کا نام جن رکھ کر بتا دیا کہ وہ غاروں میں رہا کرتے تھے۔
آثارِ قدیمہ سے قرآنی نظریہ کی تصدیق
آج پُرانے سے پُرانے آثارِ قدیمہ کو زمینوں میں سے کھود کھو د کر اس بات کا
اعلان کیا جا رہا ہے کہ ابتدائی انسان غار میں رہا کرتا تھا۔ پھر بعد میں وہ سطح زمین پر رہنے لگا، مگر ہمارے قرآن نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے یہ بتا دیا تھا کہ انسان پہلے جنّ بنا اور بعد میں انسان بنا۔ پہلے وہ غاروں میںرہا مگر بعد میں سطح زمین پر آ کر بسا۔ جب تک وہ غاروں میں رہا وہ جنّ نام کا مستحق تھا مگر جب وہ سطح زمین پر آکر بسا تو وہ آدم اور انسان کہلانے لگ گیا۔
لوگ سر دُھنتے ہیں اُن کتابوں کو پڑھ کر جوآج سے صرف سَو سال پہلے لکھی گئی ہیں اور وہ نہیں دیکھتے اُس کتاب کو جو آج سے تیرہ سَو سال پہلے سے یہ مسئلہ پیش کر رہی ہے پس جن کا لفظ تیرہ سَو سال پہلے سے اس ’’کیومین‘‘ (Cave Man) کی خبر دیتا ہے جسے یورپ نے بارہ سَو سال بعد دریافت کیا ہے۔ ہمارے قرآن نے اس ’’کیومین‘‘ کا ذکر ’’جن‘‘ کے نام سے جس کے قریباً لفظی معنے ’’کیومین‘‘ کے ہی ہیں آج سے صدیوں پہلے کردیا تھا۔ پس وہ جس کا نام لوگوں نے ’’کیومین‘‘ رکھا ہے اُس کا نام قرآن نے ’’جن‘‘ رکھا ہے یعنی غاروں کے اندر چُھپ کر رہنے والا۔ جب اس نے سطح زمین پر رہنا شروع کیا تو اس کا نام آدم ہؤا اور آدم کے لفظی معنے یہی ہیں کہ سطح زمین پر رہنے والا۔
اگر کہاجائے کہ ابلیس تو کہتا ہے کہ اَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ ۲۷؎ میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا ہے اور آدم کو پانی ملی ہوئی مٹی سے ، تو جب ان کی پیدائش مختلف اشیاء سے ہے تو وہ ایک کس طرح ہو گئے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ دونوں ایک جگہ رہیں گے، ایک ہی جگہ مریں گے ، ایک ہی زمین میںدفن ہو نگے اوردونوں کی طرف خداتعالیٰ کے انبیاء آئیں گے جن کو قبول کر کے بعض دفعہ شیطان کی اولاد آدم کی اولاد بن جائے گی اور انکار کر کے آدم کی اولاد شیطان کی اولاد بن جائے گی تو پھر وہی معنے اس آیت کے درست ہونگے جو دوسری آیات کے مطابق ہوں۔ سو ہم دیکھتے ہیں کہ ان معنوں کو ترک کر تے ہوئے جو عام لوگ اس آیت کے سمجھتے ہیں ایک اور معنے بھی بن سکتے ہیں جن سے یہ آیت باقی تمام آیات کے مطابق ہو جاتی ہے او رقرآن کریم کی کسی آیت میں اختلاف نہیںرہتا۔
عربی زبان کا ایک محاورہ
عربی زبان کا ایک محاورہ ہے جوقرآن کریم میں بھی استعمال ہؤا ہے کہ خُلِقَ مِنْہُ اِس سے یہ مراد نہیںہوتاکہ فلاں شخص فلاں مادہ
سے بنا ہے بلکہ اس سے یہ مراد ہوتا ہے کہ یہ امر اُس کی طبیعت میں داخل ہوتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میںیہ محاورہ سورہ انبیاء میںاستعمال ہؤا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
خُلِقَ الْاِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَاُوْرِیْکُمْ اٰیٰـتِیْ فَلا تَستَعْجِلُوْنِ۲۸؎ کہ انسان جلدی سے پیداکیا گیا۔ اب جلدی کوئی مادہ نہیںہے جسے کُوٹ کُوٹ کراللہ تعالیٰ نے انسان بنا دیا ہو، بلکہ یہ ایک محاورہ ہے جواستعمال ہؤا اور اس کامطلب یہ ہے کہ انسان بہت جلد باز ہے اور اس کی فطرت میںجلد بازی کا مادہ رکھا گیا ہے۔جب پیشگوئیاں ہوتی ہیں تو کئی لوگ اس گھبراہٹ میں کہ نہ معلوم یہ پیشگوئیاں پوری ہوں یا نہ ہوں، مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں اور کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے یہ جھوٹا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسی امر کا اس جگہ ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے سَاُوْرِیْکُمْ اٰیٰـتِیْ فَلا تَسْتَعْجِلُوْنِ تم ہمارے انبیاء کی پیشگوئیاں سنتے ہی اُسے جھوٹا جھوٹا کیوںکہنے لگ جاتے ہو؟ تم جلدی مت کرو ہماری پیشگوئیاںبہرحال پوری ہو کر رہیںگی۔ اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور جگہ بھی یہ محاورہ استعمال کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْم بَعْدِ ضُعْفٍ قُوَّۃً ثُمَّ جَعَلَ مِنْم بَعْدِقُوَّۃٍ ضُعْفًاوَّشَیْبَۃً ۲۹؎ کہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ضعف سے پیداکیا۔ اب بتائو کہ کیا ضُعف کوئی مادہ ہے؟ اس کامطلب صرف یہ ہے کہ انسان کی طبیعت میںکمزوری ہوتی ہے چنانچہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے فطری طور پر سخت کمزور ہوتا ہے ۔پھر ہم بچے کو جوان بناکر اس کے قویٰ کومضبوط کرتے ہیں ، پھر اور بڑھا کر اُسے بُڈھا کر دیتے ہیں پس یہاں خَلَقَکُمْ مِّنْ ضُعْفٍ سے مرادبچے کے قویٰ کی کمزوری اور اس کی دماغی طاقتوں کا ضعف ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اس کی طبیعت میںکمزوری ہوتی ہے نہ یہ کہ کمزوری کوئی مادہ ہے جس سے وہ پیدا ہوتا ہے۔ان دونوں آیتوں سے خُلِقَ مِنْہُ کے معنے بالکل واضح ہوجاتے ہیںاور انہی معنوں میںابلیس اللہ تعالیٰ کو خطاب کر کے کہتا ہے کہ اَنَا خَیْرٌ مِّنْہُ خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّخَلَقْتَہٗ مِنْ طِیْنٍ۔۳۰؎ اے اللہ! تو نے میری طبیعت میں تو آگ کا مادہ رکھا ہے اور اُس میں طین کا۔ یعنی تونے میری طبیعت تو ناری بنائی ہے اور آدم کی طینی، یہ تو غلام فطرت ہے اور یہ تو ممکن ہے دوسرے کی بات مان لے لیکن مَیں جو ناری طبیعت رکھتا ہوں دوسرے کی غلامی کس طرح کر سکتا ہوں۔ اَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ کا مطلب یہ ہے میں تو حُر ہوںدوسرے کی غلامی نہیں کر سکتا یہیاَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ کا دعویٰ ہے جو آجکل انارکسٹ وغیرہ کرتے رہتے اور کہتے ہیں ہم سے دوسرے کی غلامی برداشت نہیںہو سکتی ہم تو بغاوت کریںگے اور دوسرے کی غلامی کو کبھی برداشت نہیں کریں گے۔ دنیا پر نگاہ دوڑا کر دیکھ لو آج بھی تمام دنیا میں اَنَاخَیْرٌ مِّنْہُ کے نعرے لگ رہے ہیں۔ انہی معنوں میں ابلیس اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ اے اللہ ! تو نے مجھے ناری طبیعت بنایا ہے اور آدم کی طبیعت طینی ہے۔ مجھے تو کوئی بات کہے تو آگ لگ جاتی ہے۔میں توآدم کی طرح دوسرے کی بات کبھی مان نہیں سکتا۔
اُردو میںبھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے کہتے ہیں فلاں شخص تو آگ ہے۔اب اس کے یہ معنے تو نہیں ہوتے کہ اس کے اندر کوئی دِیا جل رہا ہوتا ہے یاآگ کے شُعلے اس کے منہ سے نکل رہے ہوتے ہیں؟ مطلب یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسرے کی بات مان نہیں سکتا۔ اسے کوئی نصیحت کی جائے تو آگ لگ جاتی ہے۔انگریزی میں بھی کہتے ہیں کہ فلاں شخص ’’فائربرینڈ‘‘ (FIREBRAND) ہے مطلب یہ کہ وہ شرارتی آدمی ہے حالانکہ اس کے لفظی معنے یہ ہیں کہ جو چیز جل رہی ہو۔ مگر مفہوم یہ ہے کہ فلاں شخص ایسا شرارتی ہے کہ ہر جگہ آگ لگا دیتا ہے۔ یہی معنے اس آیت کے بھی ہیں اور ابلیس کہتا ہے کہ خدایا میری طبیعت اطاعت کو برداشت نہیں کر سکتی۔ دنیا میں بھی روزانہ ایسے واقعات دیکھنے میںآتے ہیں ۔ایک شخص کی دوسرے سے لڑائی ہو جاتی ہے تو بعض لوگ چاہتے ہیں ان کی آپس میں صلح ہو جائے ۔ اب ایک شخص تو صلح کے لئے تیار ہوتا ہے مگر دوسرے کو جب صلح کے لئے کہا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے میں اس سے صلح کرنا کسی صورت میںبرداشت نہیںکر سکتا۔ میں تو ایک لفظ بھی سننا نہیںچاہتا ۔وہ ناری طبیعت ہوتا ہے اور اسی طبیعت کے اقتضاء کے ماتحت اس قسم کے الفاظ اپنی زبان پرلاتا ہے لیکن دوسراجس کی طینی طبیعت ہوتی ہے وہ کہتاہے کہ میں تو ہر وقت صلح کے لئے تیار ہوں ۔ گویا جس طرح گِیلی مٹی کو جس سانچے میںچاہو ڈھال لو اسی طرح اس سے جوکا م چاہو لے سکتے ہو تو خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ کے یہ معنے ہیں کہ میں کسی کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسانی نسل ترقی کرتے کرتے ایک ایسے مقام پرپہنچی کہ اس میں مادۂ تعاون وتمدّن پیداہو گیا اور اس میں یہ طاقت پیدا ہو گئی کہ وہ دوسرے کی اطاعت کا جؤا اپنی گردن پر اُٹھائے تو خداتعالیٰ نے ان میںسے ایک بہترین آدمی کا انتخاب کر کے اس پر اپنا الہام نازل کیا اور اُسے کہا کہ اب نظام اور تمدّن کی ترقی ہونی چاہئے اور انسانوں کو غاروں میں سے نکل کر سطح زمین پر مِل جُل کر رہنا چاہئے۔
آدم کی مخالفت
جس وقت آدم کی طرف سے یہ اعلان کیا گیاہو گا کہ غاروں کو چھوڑو اورباہر نکلو تو ہر شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ اُس وقت کس قدر عظیم الشان شور برپا
ہؤا ہو گا۔ لو گ کہتے ہیں یہ پاگل ہو گیا ہے، سٹھیاگیا ہے، اس کی عقل جاتی رہی ہے یہ ہمیں غاروں سے نکال کر سطح زمین پربسانا چاہتاہے اور اس کا منشاء یہ ہے کہ ہمیں شیرکھا جائیں ، چیتے پھاڑ جائیںاور ہم اپنی زندگی کو تباہ کرلیں اور اپنے جیسے دوسرے آدمیوں کے غلام بن کر رہیں۔مگر بہرحال کچھ لوگ آدم کے ساتھ ہو گئے اور کچھ مخالف رہے۔ جوآدم کے ساتھ ہو گئے وہ طینی طبیعت کے تھے ا ور جنہوں نے مخالفت کی وہ ناری طبیعت کے تھے۔طین کے معنے ہیںجو دوسری شَے کے نقش کو قبول کر لے۔ پس آدم کی طبیعت طین والی ہوگئی تھی یعنی وہ نظام کے ماتحت دوسرے کی بات مان سکتا تھا جوفریق اس اطاعت اور فرمانبرداری کے لئے تیار نہ تھا اس نے اس کی فرمانبرداری سے انکار کیا اور کہا کہ ہم اعلیٰ ہیں ہم ایسی غلطی نہیں کر سکتے، یہ تو غلامی کی ایک راہ نکالتا ہے۔ یہ وہی جھگڑا ہے جو آج تک چلا آ رہا ہے۔
موجودہ زمانہ کے ناری طبیعت انسان
آج دنیا متمدّن ہے، آج دنیا مہذّب ہے، آج دنیا مِل جُل کر رہتی ہے مگر آج بھی
ناری طبیعت کے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم دوسرے کی کیوں اطاعت کریں ۔یہی ناری طبیعت والے پیغامی تھے جو حضرت خلیفہ اوّل کی ہمیشہ مخالفت کرتے رہے اور یہی ناری طبیعت والے پیغامی تھے جنہوں نے کہا کہ ہم ایک بچہ کی بیعت نہیں کر سکتے۔ کل کا بچہ ہو اور ہم پرحکومت کرے یہ ہم سے کبھی برداشت نہیںہو سکتا ۔وہ جنہوں نے مخالفت کی وہ ناری طبیعت کے تھے مگرآپ لوگ طینی طبیعت کے تھے۔آپ نے کہا ہم آدم کے زمانہ سے خدا تعالیٰ کے حُکم کے ماتحت دوسروں کی اطاعت کرتے چلے آ ئے ہیں اب خلیفۂ وقت کی اطاعت سے کیوں منہ موڑیں۔ مصری صاحب نے بھی اسی ناری طبیعت کی وجہ سے میری مخالفت کی اور انہوں نے کہا کہ میں موجودہ خلیفہ کی اطاعت نہیں کر سکتا اسے معزول کر دینا چاہئے تو آج تک یہ دونوں فطرتیں چل رہی ہیں۔ناری مزاج والے ہمیشہ نظام سے بغاوت کرتے ہیںاور اپنے آپ کو حُر کہتے ہیںمگر طینی مزاج والے نظام کے ماتحت چلتے اور اپنے آپ کو کامل انسان کہتے ہیں دونوں اصولوں کاجھگڑا آج تک چلا جا رہا ہے،حالانکہ دونوں اسی زمین میں رہتے، اسی میںمرتے اور اسی میںدفن ہوتے ہیں اور دونوں ہی کی طرف نبی آتے اور ان سے خطاب کرتے ہیں مگر قاعدہ ہے کہ پہلے تو انبیاء کی تعلیم کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن آہستہ آہستہ جب وہ تعلیم دنیا کی اور تعلیموں پرغالب آجاتی ہے تو مُنکر بھی اسے قبول کرلیتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب ایک خدا کی تعلیم دینی شروع کی تو عیسائی اس تعلیم پر بڑا ہنستے اور کہتے کہ ایک خدا کس طرح ہو گیا؟ زرتشی بھی ہنستے ،مشرکینِ مکہ بھی ہنستے، مگر آہستہ آہستہ جب اس تعلیم نے دلوں پرقبضہ جمانا شروع کیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ آج کوئی قوم بھی نہیں جو خداتعالیٰ کی وحدانیت کی قائل نہ ہو۔ حتّٰی کہ عیسائی بھی تثلیث کا عقیدہ رکھنے کے باوجود اس بات کے قائل ہیںکہ خدا ایک ہی ہے تو طینی اور ناری مزاج والوںکا جھگڑا آج تک چلا آ رہا ہے اور ہمیشہ سے یہ نظر آتا ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نئی تعلیم آتی ہے تو کچھ لوگ فرمانبرداری کرتے ہیںاور کچھ غصّہ سے آگ بگولا ہو جاتے ہیںاور وہ مخالفت کرنی شروع کر دیتے ہیں۔ قرآن کریم میں یہ آگ کامحاورہ بھی استعمال ہؤا ہے۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایک چچا کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تَبَّتْ یَدَآ اَبِیْ لَھَبٍ وَّتَبَّ۳۱؎ کہ آگ کے شُعلوں کا باپ ہلاک ہو گیا۔ اب خدا نے اس کانام ہی آگ کے شعلوں کا باپ رکھ دیا مگر اس کے یہ معنے تو نہیں کہ اس سے آگ نکلتی تھی،بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ شیطانی قسم کے لوگوں کاسردار تھا (بعض مُفسّر اس نام کو ُکنیت بھی قرار دیتے ہیں اور بعض سفید رنگ کی طرف اشارہ مرادلیتے ہیں) پس خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ یا مَارِجٍ مِّنْ نَّارٍ۳۲؎ وغیرہ الفاظ سے اشارہ انسان کی اس حالت کی طرف ہے جب کہ وہ ابھی متمدّن نہیں ہؤا تھا اور شریعت کا حامل نہیں ہو سکتا تھا۔
حضرت آدم کے متعلق ایک اور زبردست انکشاف
ایک اور زبردست انکشاف قرآن کریم آدمِ انسانیت
کی نسبت یہ کرتا ہے کہ جنت میں لائے جانے سے پہلے ہی اُس کے پاس اُ س کی بیوی تھی، چنانچہ قرآن کریم میںآدم کی بیوی کی پیدائش کاکوئی ذکر ہی نہیں،بلکہ عبارت ظاہر کرتی ہے کہ بیوی عام طریق پر اس کے ساتھ تھی جیسے مردوعورت ہوتے ہیں۔ چنانچہ:-
(۱) سورہ بقرہ میںجہاں آدم اور اس کی بیوی کا ذکر آتا ہے وہاں آدم کی بیوی پیدا کرنے کا کوئی ذکر ہی نہیں۔ محض یہ حکم ہے یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۳۳؎ ا ے آدم !جا تو اور تیری بیوی تم دونوںجنت میںرہو۔ یہ نہیں کہا کہ آدم اکیلا تھا اور اُس کی پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا بلکہ آیت کا جو اسلوبِ بیان ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ میاں بیوی پہلے سے موجود تھے۔ اُنہیں صرف یہ حُکم دیدیا گیا کہ تم فلاں جگہ رہو۔
(۲) سورہ اعراف میں بھی صرف یہ ذکر ہے کہ یٰٓاٰدَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۳۴؎
(۳) تیسری جگہ جہاں آدم کی بیوی کاذکر ہے وہ سورۃ ٰطہٰ ہے مگر اس میںبھی صرف یہ ذکر ہے کہ یٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَاعَدُوٌّلَّکَ وَلِزَوْجِکَ ۳۵؎ یہ ذکر نہیں کہ آدم کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی بیوی کو بھی پیدا کیا ہو۔
ان تینوں جگہوں میںجہاںآدم کی پیدائش کاذکر کیا گیا ہے اس کی بیوی کا ذکر محض ایک عام بات کے طور پر کیا گیا ہے حالانکہ اگر آدم اکیلا ہوتا اور حوا کو اُس کی پسلی سے پیداکیا گیا ہوتا تو اس کی بیوی کا ذکرخاص اہمیت رکھتا تھا اور یہ بتایا جانا چاہئے تھا کہ آدم کی ایک پسلی نکال کر اسے عورت بنادیا گیا بیشک ایک حدیث میں ایسا ذکر آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے مگراس کا مطلب میرے کسی مضمون میں آگے چل کر بیان ہو گا ہاں سورۃ نساء رکوع۱، سورۃ اعراف رکوع۲۴، سورۃ الزمر رکوع۱ میں ایک بیوی کی پیدائش کا ذکر ہے ایک جگہ لکھا ہے وَخَلَقَ مِنْھَازَوْجَھَا اور دوجگہ لکھا ہے وَجَعَلَ مِنْھَازَوْجَھَا اور ان الفاظ سے یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شاید عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے مگر ان تینوں جگہ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ کے الفاظ آتے ہیں آدم کا نام نہیں ہے کہ یہ شبہ کیا جا سکے کہ اِن آیات میںآدم اور حوا کی پیدائش کا ذکر ہے چنانچہ ان میں سے ایک حوالہ سورہ نساء کا ہے اس میںاللہ تعالیٰ نے یہ فرمایاہے کہ۔ یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا ۳۶؎ کہ اے انسانو! اپنے اس رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک جان سے پیداکیااور اس سے اس کی بیوی کو بنایا ان الفاظ میںآدم اور اس کی بیوی کا کوئی ذکر ہی نہیں صرف خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ کے الفاظ آتے ہیں مگر ان کامفہوم بھی جیسا کہ مَیںآگے چل کر بتائوں گا اور ہے ، بہرحال آدم اور حوا کایہاں کوئی ذکر نہیں۔ یہی حال سورہ اعراف اور سورہ زمر کی آیات کاہے ان میں بھیخَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ کے الفاظ ہیں۔آدم کے الفاظ نہیں، مگر ان تینوںآیات میںسے جو ہم معنی ہیں سورۃ اعراف کا حوالہ اس بات کو وضاحت سے ثابت کرتا ہے کہ اس سے مراد عام انسان ہیں نہ کہ آدم ،کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَازَوْجَھَالِیَسْکُنَ اِلَیْھَا فَلَمَّا تَغَشّٰھَا حَمَلَتْ حَمْلاً خَفِیْفاً فَمَرَّتْ بِہٖ فَلَمَّآ اَثْقَلَتْ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّھُمَالَئِنْ اٰتَیْتَنَا صَالِحاً لَّنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِْینَ۔فَلَمَّآ اٰتٰھُمَا صَالِحاً جَعَلالَہٗ شُرَکَائَ فِیْمَا اٰتٰھُمَا فَتَعَالَی اللّٰہُ عَمَّایُشْرِکُوْنَ۳۷؎ فرماتا ہے۔ و ہ خدا ہی ہے جس نے تمہیںایک جان سے پیداکیا اور اُس سے اُس کی بیوی کو پیدا کیا تاکہ اُس سے تعلق رکھ کر وہ اطمینان اور سکون حاصل کر ے، جب اُس نفسِ واحد نے اپنی بیوی سے صحبت کی تو اُسے ہلکاسا حمل ہو گیا مگر جب اس کا پیٹ بھاری ہو گیا اور دونوں کو معلوم ہو گیا کہ حمل قرار پکڑ گیا ہے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کی الٰہی! اگر تونے ہمیں تندرست اور خوبصورت بچہ عطا کیا تو ہم تیرے ہمیشہ شکر گزار رہیںگے مگر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اچھا اور تندرست بچہ دیدیا تو وہ اللہ تعالیٰ کو بھُول گئے اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کا بعض اور لوگوں کوشریک بنالیا اور اس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دُور تر چلے گئے۔
اب بتائو کیا ان الفاظ میں آدم اور حوا کا ذکر ہے یا عام انسانوں کا۔ کیاآدم اور حوا نے پہلے یہ دعا کی تھی کہ ہمیں ایک صالح لڑکا عطا فرمانا اور جب وہ پیدا ہو گیا تو انہوں نے مشرکانہ خیالات کا اظہار کیا اور وہ بعض ہستیوں کو اللہ تعالیٰ کا شریک قرار دینے لگ گئے؟ انہوں نے ہرگز ایسا نہیں کیا اور آدم جو اللہ تعالیٰ کے نبی تھے ایسا کرہی نہیں سکتے تھے۔ پس صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاںآدم کاذکر نہیں بلکہ آدمی کا ذکر ہے اور انسانوں کے متعلق ایک قاعدہ کا ذکر ہے کسی خاص آدمی کا بھی ذکر نہیں اور چونکہ سب آیات کے الفاظ ایک سے ہیں اس لئے معلوم ہؤا کہ سب جگہ ایک ہی معنے ہیں۔
نفسِ واحدۃ سے پیدائش کی حقیقت
حقیقت یہ ہے کہ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ سے مراد صرف یہ ہے کہ ایک ایک انسان سے
قبائل وخاندان چلتے ہیںاور بیوی اسی میں سے ہونے کے معنے اسی کی جنس میں سے ہونے کے ہیںاور بتایا ہے کہ ایک ایک آدمی سے بعض دفعہ خاندان کے خاندان چلتے ہیں اگر ماں باپ مُشرک ہوں تو قبیلے کے قبیلے گندے ہو جاتے ہیں اور اگر وہ نیک ہوں تو نسلاً بعد نسلٍ ان کے خاندان میںنیکی چلی جاتی ہے۔ پس ھُوَالَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّجَعَلَ مِنْھَازَوْجَھَا اور اسی طرح کے دوسرے الفاظ کا مفہوم یہ ہے کہ اے مرد و! جب تم شادی کرو تو احتیاط سے کام کیا کرو ، اور جب میاں بیوی آپس میں ملیں تو اُس وقت بھی وہ احتیاط سے کام لیا کریں، اگر وہ خود مُشرک اور بدکار ہونگے تو نسلوں کی نسلیں شرک اور بدکاری میں گرفتار ہو جائیں گی اور اگر وہ خود موحّد اور نیکی وتقویٰ میںزندگی بسر کرنے والے ہونگے تو نسلوں کی نسلیں نیک اور پارسا بن جائیں گی۔
اِن معنوں کے بعد اگر آدم پر بھی ان آیات کو چسپاں کیا جائے تو بھی یہی معنے ہونگے کہ آدم کی بیوی اسی کی جنس میںسے تھی۔یعنی طینی طبیعت کی تھی ناری طبیعت کی نہ تھی اور ممکن ہے اس صورت میںادھر بھی اشارہ ہو کہ آدم کو حکم تھا کہ صرف مؤمنوں سے شادی کریں غیروں سے نہیں۔
جب یہ ثابت ہو گیا کہ آدم کے وقت میںاَور مرد وعورت بھی تھے اور آدم کی بیوی انہی میں سے تھی یعنی وہ آدم کی ہم مذہب تھی تو وہ سوال کہ آدم کی اولادشادیاں کس طرح کرتی ہو گی آپ ہی آپ دُور ہو گیا۔ جب مرد بھی تھے عورتیں بھی تھیں توشادیوں کی دِقّت نہیں ہو سکتی تھی، ہاں اگر اس سے پہلے کا سوال ہو توآدم سے پہلے بشر تو شریعت کے تابع ہی نہ تھے، نہ وہ شادی کے پابند تھے نہ کسی اور امر کے۔کیونکہ وہ تو نظام سے آزاد تھے اور جب وہ نظام سے آزاد تھے تو ان کے متعلق کوئی بحث کرنی فضول ہے۔بحث تو صرف اس شخص کے متعلق ہو سکتی ہے جو شریعت کا حامل ہو اور عقلِ مدنی اس میں پیدا ہو چکی ہو اور ایسا پہلا وجو د ابوالبشر آدم کا تھا اور ان کے بعد ان کے اَتباع کا وجود تھا ان کے لئے اخلاق وشریعت کی پابندی لازمی تھی۔ ان سے پہلے انسان نیم حیوان تھا اور ہر اعتراض سے بالا اور ہر شریعت سے آزاد ۔
عورت کے پسلی سے پیدا ہونے کا مفہوم
اب میں اُس حدیث کو لیتا ہوں جس میںیہ ذکر آتا ہے کہ عورت پسلی سے پیدا
کی گئی ہے۔حدیث کے اصل الفاظ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مروی ہیں یہ ہیں کہ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ۳۸؎ یہ الفاظ نہیں ہیں کہ خُلِقَتْ حَوّاء مِنْ ضِلْعٍ جس طرح قرآن کریم کی اُن آیات میں جن میں خَلَقَ مِنْھَازَوجَھاَ کے الفاظ آتے ہیں ہر عورت کا ذکر ہے حوا کا ذکر نہیں ۔ اسی طرح حدیث میں بھی حوا کا کہیں نام نہیں بلکہ تمام عورتوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں کہ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍٍ اگر یہ الفاظ ہوتے کہ خُلِقَتْ زوجۃ اٰدم مِنْ ضِلَعٍ تب تو یہ کہا جا سکتا کہ حوا جو آدم کی بیوی تھیںوہ پسلی سے پیدا ہوئیں مگر جب کسی حدیث میںبھی ا س قسم کے الفاظ نہیں آتے بلکہ تمام عورتوں کے متعلق یہ ذکر آتا ہے کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئیں تو محض حوا کوپسلی سے پیدا شدہ قرار دینا اور باقی عورتوں کے متعلق تاویل سے کام لینا کس طرح درست ہو سکتا ہے اسی طرح ایک اور حدیث میںیہ الفاظ آتے ہیں کہ اَلنِّسَائُ خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ۳۹؎ کہ ساری عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں۔ پس جس طرح قرآنی آیات میں تمام عورتوں کاذکر ہے۔اسی طرح احادیث میں بھی تمام عورتوں کاذکر ہے اور ہر ایک کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئی ، اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ پسلی سے پیدا ہونے کے کیا معنے ہیں؟کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ کوئی عورت پسلی سے پیدا نہیں ہوئی بلکہ جس طرح مرد پیدا ہوتے ہیں اسی طرح عورتیں پیدا ہوتی ہیں پس جب کہ عورتیں بھی مردوں کی طرح پیدا ہوتی ہیں، تو سوال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ کیوں فرمایا کہ عورتیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں، سو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بھی اسی محاورہ کے مطابق ہے جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے اور اس محاورہ سے صرف یہ مراد لی جاتی ہے کہ یہ امر فلاں شخص کی طبیعت میں داخل ہے پس خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍٍ سے صرف یہ مراد ہے کہ عورت کو کسی قدر مرد سے رقابت ہوتی ہے اور وہ اس کے مخالف چلنے کی طبعاً خواہشمند ہوتی ہے، چنانچہ علمائے احادیث نے بھی یہ معنے کئے ہیں اور مجمع البحار جلد دوم میںجو لغتِ حدیث کی نہایت مشہور کتاب ہے ضِلْعٍٍکے نیچے لکھا ہے۔ خُلِقنَ مِنَ الضِّلْعِ اِسْتِعَارَۃٌ لِلْمُعوجِ اَیْ خُلِقْنَ خَلْقاً فِیْھاَ ا لْاِعْوِجَاجُ… خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ۴۰؎ ایک محاورہ ہے جو کجی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ عورتوں کی طبیعت میںایک قسم کی کجی ہوتی ہے یہ مطلب نہیںکہ عورتوں میں بے ایمانی ہوتی ہے بلکہ یہ ہے کہ عورت کو خاوند کی بات سے کسی قدر ضروررقابت ہوتی ہے۔مرد کہے یوںکرنا چاہئے تو وہ کہے گی یوں نہیںاسی طرح ہونا چاہئے اور خاوند کی بات پر ضرور اعتراض کرے گی اور جب وہ کوئی بات مانے گی بھی تو تھوڑی سی بحث کرکے اور یہ اس کی ایک ناز کی حالت ہوتی ہے اور اس میںوہ اپنی حکومت کا راز مسطور پاتی ہے۔
تمدّنی ترقی کاایک عظیم الشان گُر
غرض خُلِقْنَ مِنْ ضِلْعٍ کے یہی معنے ہیںکہ عورت مرد پر اعتراض ضرور کرتی رہے گی، ان
میںمحبت بھی ہو گی، پیار بھی ہو گا ، تعاون بھی ہو گا،قربانی کی روح بھی ہو گی ، مگر روزمرہ کی زندگی میںان میںآپس میں نوک جھوک ضرور ہوتی رہے گی اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش نہ کرو اگر سیدھا کرو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی،یعنی اگر تم چاہو کہ وہ تمہاری بات کی تردید نہ کرے تو اُس کا دل ٹوٹ جائیگا، اُسے اعتراض کرنے دیا کرو کیونکہ عورت کی فطرت میںیہ بات پائی جاتی ہے کہ اگر تم بالکل ہی اُس کی زبان بندی کر دو گے تو وہ جانور بن جائے گی اور عقل اور فکر کا مادہ اُس میںسے نکل جائے گا۔ یہ تمدّن کا ایک عظیم الشان نکتہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیان فرمایا۔آپؐ کا اپنا عمل بھی اس کے مطابق تھا، چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی بیویوں سے کسی بات پر ناراض ہو کر گھر سے باہر چلے گئے اور آپؐ نے باہر ہی رہائش اختیار کر لی۔ حضرت عمرؓ کی لڑکی چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیاہی ہوئی تھیں اس لئے انہیں بھی یہ اطلاع پہنچ گئی۔ حضرت عمرؓ کا طریق یہ تھا کہ آپ مدینہ میں نہیں رہتے تھے بلکہ مدینہ کے پاس ایک گائوںتھا وہاں آپ رہتے اور تجارت وغیرہ کرتے رہتے، اُنہوں نے ایک انصاری سے بھائی چارہ ڈالا ہؤا تھا اور آپس میںانہوں نے یہ طے کیا ہؤا تھا کہ وہ انصاری مدینہ میں آجاتا اور مدینہ کی اہم خبریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں سُن کر حضرت عمرؓ کو جا کر سُناد یتا اور کبھی حضرت عمرؓ مدینہ آ جاتے اور وہ انصاری پیچھے رہتا اور آپ اُس کو باتیںبتا دیتے، غرض جو بھی آتا وہ تمام باتیں معلوم کر کے جاتا اور دوسرے کو بتاتا کہ آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ الہام ہؤا ہے۔ آج آپ نے مسلمانوں کو یہ وعظ فرمایا ہے غرض اس طرح ان کی دینی تعلیم بھی مکمل ہو جاتی اور ان کی تجارت بھی چلتی رہتی۔ ایک دن وہ انصاری مدینہ میںآیا ہؤا تھا اور حضرت عمرؓ پیچھے تھے کہ عشاء کے قریب اُس انصاری نے واپس جا کر زور سے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیااور کہا کہ ابن خطاب ہے؟ ابن خطاب ہے؟ حضرت عمرؓ کہتے ہیں، میں نے جب اُس کی گھبرائی ہوئی آواز سُنی اور اُس نے زور سے میرا نام لے کر دروازہ کھٹکھٹایا تو میںنے سمجھا کہ مدینہ میں ضرور کوئی حادثہ ہو گیا ہے۔ اُن دنوں یہ افواہ زوروں پرتھی کہ ایک عیسائی بادشاہ مدینہ پر حملہ کرنے والا ہے، حضرت عمرؓ کہتے ہیں مَیں نے سمجھا اس بادشاہ نے حملہ کر دیا ہے چنانچہ میں فوراً اپنا کپڑا سنبھالتا ہؤا باہرنکلا اور میںنے اُس سے پوچھا کیا ہؤا؟ وہ کہنے لگا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی بیویوں کو چھوڑ دیا ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں مَیںگھبرا کر مدینہ کی طرف چل دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پہنچا ا ور آپؐ سے عرض کیا یَارَسُوْلَاللّٰہ! آپؐ اپنے گھر سے باہر آ گئے ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں۔ مَیں نے عرض کیا یَارَسُوْلَاللّٰہ! لوگ کہتے ہیںآپؐ نے اپنی بیویوں کو طلاق دیدی ہے۔ آپؐ نے فرمایا نہیں میں نے کسی کو طلاق نہیںدی۔ مَیں نے کہا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ پھر مَیں نے عرض کیا یَارَسُوْلَاللّٰہ! آپؐ کو میں ایک بات سنائوں؟ آپ نے فرمایا ہاں سنائو، مَیں نے کہا، یَارَسُوْلَاللّٰہ! ہم لوگ مکہ میں اپنے سامنے عورت کو بات نہیں کرنے دیتے تھے، لیکن جب سے میری بیوی مدینہ میںآئی ہے وہ بات بات میں مجھے مشورہ دینے لگ گئی ہے ایک دفعہ میں نے اُسے ڈانٹا کہ یہ کیا حرکت ہے اگر پھر کبھی تو نے ایسی حرکت کی تو میں تُجھے سیدھا کر دونگا تو وہ مجھے کہنے لگی، تو بڑا آدمی بنا پھرتا ہے مَیں نے تو دیکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیویاں آپ کومشورہ دے لیتی ہیں، پھر کیا تو ان سے بھی بڑا ہے کہ مجھے بولنے نہیںدیتا اور ڈانٹتا ہے۔مَیں نے کہا ہیں! ایسا ہوتا ہے؟ وہ کہنے لگی ہاں واقعہ میںایسا ہوتا ہے ۔ میں نے کہا تب میری بیٹی کی خیر نہیں۔ یہ بات سُن کر مَیںاپنی بیٹی کے پاس گیا اور اُسے کہا دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے کوئی بات نہیں کرنی۔ اگر تو نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ سوال جواب کیا تو وہ کسی دن تُجھے طلاق دیدیں گے۔حضرت عائشہ پاس ہی تھیں وہ میری بات سن کر بولیں تو کون ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے گھر کے معاملات میںدخل دینے والا، چلویہاں سے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ بات سُن کر ہنس پڑے اور آپ کا غصہ جاتا رہا ۴۱؎ اورحضرت عمرؓ کی بھی اس واقعہ کے سنانے سے یہی غرض تھی کہ کسی طرح آپ ہنس پڑیں اور آپ کی ناراضگی جاتی رہے۔
تو بعض قوموں میںیہ رواج ہے کہ وہ سمجھتی ہیں عورت کا یہ حق نہیںکہ وہ مرد کے مقابلہ میںبولے مگر عورت ہے کہ وہ بولے بغیر رہ نہیں سکتی۔ اسے کوئی بات کہو وہ اس میںاپنا مشورہ ضرور پیش کر دے گی کہ یوں نہیں یوں کرنا چاہئے، پھر خواہ تھوڑی دیر کے بعد وہ مرد کی بات ہی مان لے مگر اپنا پہلو کچھ نہ کچھ اونچا ہی رکھنا چاہتی ہے اور مرد کے مشورہ پر اپنی طرف سے پالش ضرور کرنا چاہتی ہے۔
عورتوں کے حقوق
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسی لئے لوگوں کو نصیحت کی ہے کہ تم عورت کی روح کو کُچلنے کی کوشش نہ کیا کرو۔ اس کے اندر یہ ایک
فطرتی مادہ ہے کہ وہ مرد سے کسی قدر رقابت رکھتی اور طبعاً ایک حد تک اس کے مخالف رائے دینے کی خواہشمند ہوتی ہے پس اگر اس کی بحث غلط بھی معلوم ہؤا کرے تو اس کی برداشت کیا کرو کیونکہ اگر تم اسے چُپ کرادوگے تو یہ اس کی فطرت پر گراں گزرے گا اور وہ بیمار ہو جائے گی۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی اخلاقی تعلیم ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دی مگر لوگوں نے اس حدیث کے یہ معنی کر لئے کہ عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہے۔
پہلے دَورِ انسانی کا نظامِ قانون
قرآنی آثارِ قدیمہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس نظام والی ابتدائی حکومت کا قانون کیا تھااور معلوم ہوتا
ہے کہ پہلا دَورِ انسانی صرف تمدنی ترقی تک محدود تھا۔ا س طرح کہ:-
(۱)۔ لوگوں میں خداتعالیٰ کا اجمالی ایمان پیداہو گیا تھا اور انسان کو الہام ہونا شروع ہو گیا تھا جیسا کہ قُلْنَا یٰٓاٰدَمُ وغیرہ الفاظ سے ظاہر ہے۔
(۲)۔ انسانوںمیں عائلی زندگی پیدا کرنے کا حُکم دیا گیا تھا وہ زندگی جو قبیلوں والی زندگی ہوتی ہے اور انہیں کہا گیا تھا کہ ایک مقام پررہو اور اکٹھے رہو چنانچہ یہ امر اُسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ اْلْجَنَّۃَکے الفاظ سے ظاہر ہے۔
(۳)۔آدم پر اور لوگ بھی ایمان لائے اور ایک جماعت تیار ہو گئی تھی جو نظام کے مطابق رہنے کے لئے تیار تھی۔اِس کا ثبوت سورۃ ٰطہٰ کی آیت قَالَا اھْبِطَا مِنْھَا جَمِیْعاً بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ہے جَمِیْعاً کا لفظ بتاتا ہے کہ اس سے مراد دونوں گروہ ہیں نہ کہ آدم اور اس کی بیوی اور بَعْضُکُمْ کا لفظ بتاتا ہے کہ وہ ایک جماعت تھی۔
(۴)۔اَلْجَنَّۃَ اور کُلاَ مِنْھَارَغَدًا کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت کی معظم غذا پھل وغیرہ تھے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت تک سبزیوں، ترکاریوں کے اُگائے جانے کا کام ابھی شروع نہیں ہؤا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے کہیں میوہ دار درختوں کے جُھنڈ پیداکر دئیے اور انہیں حُکم دیا کہ تم وہاں جا کر رہو۔ شاید بعض لوگ کہیں کہ اتنے بڑے جُھنڈ کہاں ہو سکتے ہیں جس پرسینکڑوں لوگ گزارہ کر سکیں؟ سو ایسے لوگ اگر جنوبی ہند کے بعض علاقے دیکھیں تو اُن پر الْجَنَّۃَ کے لفظ کی حقیقت واضح ہو جائے ۔وہاں بعض بیس بیس مِیل تک شریفے کے درخت چلے جاتے ہیں اور وہاں کے لوگ جن دنوں شریفہ پکتا ہے روٹی کھانی بِالکل چھوڑ دیتے ہیںاور صبح شام شریفے ہی کھاتے رہتے ہیں۔ اب تو گورنمنٹ انہیں نیلام کر دیتی ہے پہلے حکومت بھی ان کو نیلام نہ کیا کرتی تھی اور لوگ مُفت پھل کھاتے تھے۔اِسی طرح افریقہ میں آموں کے جنگل کے جنگل پائے جاتے ہیں، کیلے بھی بڑی کثرت سے ہوتے ہیں، اِسی طرح ناریل وغیرہ بھی بہت پایا جاتا ہے، اسی طرح بعض علاقوں میںسیب، خوبانی وغیرہ خودرَوکثرت سے پائے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے کسی ایسے ہی مقام کو حضرت آدم علیہ السلام کے لئے منتخب فرمایا اور انہیں حُکم دے دیا کہ وہاں جا کر ڈیرے لگا دو اور خوب کھائو پیو۔ خلاصہ یہ کہ اَلْجَنَّۃ َ وغیرہ الفاظ سے جو قرآن کریم میںاستعمال ہوئے ہیں، یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت عام طور پر لوگوں کی غذا پھل تھے۔
(۵)۔ پانچویںبات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ اُس وقت ابھی کپڑے کی ایجاد نہیں ہوئی تھی اور اِس پر آیت طَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْھِماَ مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ۴۲؎ شاہد ہے وہ چٹائیوں کی طرح بھوج پترّ وغیرہ لپیٹ لیتے تھے اور رہائش کے لئے انہی کے خیمے بنا لیتے تھے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی شکار کرنے کے طریق بھی ایجاد نہ ہوئے تھے اور کھالوں کا استعمال بھی شروع نہ ہؤا تھا بلکہ چٹائیاں بطور لباس اور شاید بطورمکان کے استعمال ہوتی تھیں، اگر شکار کرنے کے طریق ایجاد ہو چکے ہوتے تو وہ کھالوں کا لباس پہنتے۔
(۶)۔ اُن میںتمدّنی حکومت قائم کی گئی تھی اور تمدّنی حکومت کی غرض یہ بتائی گئی تھی کہ ایک دوسرے کی (۱) کھانے کے معاملہ میں مدد کریں(۲) پینے کے معاملہ میں مدد کریں(۳) عُریانی کو دُور کرنے کے معاملہ میں مدد کریںاور(۴) رہائش کے معاملہ میں مدد کریں۔ چنانچہ فرمایا۔ اِنَّ لَکَ اَلاَّ تَجُوْعَ فِیْھَا وَلَاتَعْرٰی۔ وَاَنَّکَ لَا تَظْمَؤُا فِیْھَا وَلَاتَضْحٰی۴۳؎ کہ تمہارے لئے ا س بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ تم جنت میںرہنے کی وجہ سے بھُوکے نہیں رہوگے،پیاسے نہیںرہو گے، ننگے نہیںرہو گے اور دُھوپ میں نہیں پھرو گے گویا کھانا، پانی ، کپڑا اور مکان یہ چار چیزیں تمہیں اس تعاونی حکومت میںحاصل ہونگی ان الفاظ سے جیسا کہ بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں یہ مراد نہیں کہ انہیں بھوک ہی نہیںلگتی تھی کیونکہ اگر انہیں بھوک نہیں لگتی تھی تو وَکُلاَ مِنْھَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُماَ۴۴؎کے کیا معنے ہوئے، جب خدا نے اُن کی بھوک ہی بند کر لی تھی تو اس کے بعد انہیں یہ کہنا کہ اب خوب کھائو پیو بالکل بے معنی تھا۔ پس کُلاَ کے لفظ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہیں بھوک لگتی تھی مگر ساتھ ہی انہیں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے کا بھی حکم دیا گیا تھا۔ انہیں کہا گیاتھا کہ باغ ساری کمیونٹی کی ملکیت ہے مگر دیکھو قاعدہ کے مطابق کھائو پیو۔ اگر کسی کو زیادہ ضرورت ہے تووہ زیادہ لے لے اور اگر کسی کو کم ضرورت ہے تو وہ کم لے لے۔ پس اِنَّ لَکَ اَلَّا تَجُوْعَ فِیْھاَ وَلَا تَعْرٰی اُس نئے نظام کی تفصیل ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ قائم کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ ا گر اِس نئے نظام کے ماتحت رہو گے تو تمہیں یہ یہ سہولتیں حاصل ہونگی۔
(۷)۔ قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ُاس وقت الہامی طور پر بعض بوٹیوں کے خواص وغیرہ بتائے گئے تھے اور بعض اخلاقی احکام بھی دئیے گئے تھے چنانچہ آیت وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَائَ کُلَّھاَ۴۵؎ اس پر دال ہے مگر یہاں کل کے معنے ضرورت کے مطابق ہیں، جیسا ہُد ہُد ملکہ سبا کے متعلق کہتا ہے اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَيْ ئٍ۴۶؎ کہ ملکہ سبا کے پاس سب کچھ موجود ہے حالانکہ جب اُ س نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس تحفہ بھیجا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اُس وقت کہا تھا کہ میرے پاس تو اِس سے بھی بڑھ کر چیزیں ہیں مَیں ان تحفوں سے کیونکر متأثر ہوسکتا ہوں۔پس جب حضرت سلیمان علیہ السلام کہتے ہیں کہ میرے پاس ملکہ سبا سے بڑھ کر مال ودولت اور سامان موجود ہے ا ور اس کے باوجود ہُد ہُد کہتا ہے کہ اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَي ئٍ ملکہ سبا کو ہر چیز میسّر تھی تو یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اُوْتِیَتْ مِنْ کُلِّ شَي ئٍ سے یہ مراد نہیں تھی کہ ملکہ سبا کو ہر نعمت میسّر تھی بلکہ یہ مراد تھی کہ اس کی مملکت کے لحاظ سے جس قدر چیزوں کی ضرورت ہوسکتی تھی وہ تمام چیزیں اُ سے حاصل تھیں اسی طرح عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھاَ سے یہ مراد ہے کہ اُس وقت جس قدر علوم کی ضرورت تھی وہ تمام آدم کو سکھادئیے گئے مثلاً یہ بتا دیا گیا کہ فلاں فلاں زہریلی بوٹیاں ہیں ان کو کوئی شخص استعمال نہ کرے، یا فلاں زہریلی چیز اگر کوئی غلطی سے کھا لے تو فلاں بوٹی اس کی تریاق ہو سکتی ہے یا ممکن ہے اسی طرح طاقت کی بعض دوائیں الہامی طور پر بتا دی گئی ہوں۔اسی طرح بعض اخلاقی احکام بھی حضرت آدم علیہ السلام کو الہاماً بتائے گئے ہوں۔
(۸)۔ آٹھویں انہیں ایک واجب الاطاعت امیر ماننے کا بھی حکم تھا، جیسا کہ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً۴۷؎ کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
(۹)۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میںبعض ایسے احکام بھی نازل ہوئے تھے جن میں یہ ذکر تھا کہ تمہیںبعض جرائم کی سزا بھی دینی چاہئے جیسے قتل وغیرہ ہیں۔ اس امر کا استنباط اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّ مَائَ۴۸؎ کے الفاظ سے ہوتا ہے۔یعنی فرشتے اللہ تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ اب دنیا میںایک عجیب سلسلہ شروع ہو جائے گا کہ بعض آدمیوں کو قانونی طور پر یہ اختیار دے دیا جائے گا کہ وہ دوسروں کو مارڈالیں، جیسے ہر گورنمنٹ آجکل قاتلوںکو پھانسی دیتی ہے مگر گورنمنٹ کے پھانسی دینے کو بُرا نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کی تعریف کی جاتی ہے لیکن اگر کوئی اور قتل کر دیتا ہے تو اُسے سخت مُجرم سمجھا جاتا ہے۔فرشتوں کے لئے یہی بات حیرت کا موجب ہوئی اور انہوں نے کہا، ہماری سمجھ میں یہ بات نہیںآئی کہ پہلے تو قتل کو ناجائز سمجھا جاتا تھا مگر اب آدم جب کسی کو قتل کی سزا میں قتل کر دے گا تو اس کایہ فعل اچھا سمجھا جائے گا۔کوئی اور گھر سے نکال دے تو وہ مُجرم سمجھا جاتا ہے ، لیکن اگر آدم کسی کو جلا وطنی کی سزا دے گا تو یہ جائز سمجھا جائے گا۔ا ِس زمانہ میںروزانہ ایسا ہی ہوتا ہے گورنمنٹ مجرموں کو پھانسی پر لٹکاتی ہے مگر کوئی اُسے ظالم نہیں کہتا، وہ لوگوں کو جلاوطنی کی سز ا دیتی ہے مگر کوئی نہیں کہتا کہ گورنمنٹ نے بُرا کیا لیکن اُس زمانہ میں یہ ایک نیا قانون تھا اور فرشتوں کے لئے قابلِ حیرت۔ پس فرشتے بطور سوال اسے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرتے ہیںاور کہتے ہیں ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ پہلے تو قتل کو ناجائز سمجھا جاتا تھا مگر اب قتل کی ایک جائز صورت بھی پیدا کرلی گئی ہے یا پہلے تو دوسروں کو اپنے گھروں سے نکالنا جُرم سمجھا جاتا تھا، لیکن اب اس کی ایک جائز صورت بھی نکل آئی ہے اور آدم جب یہی فعل کرے گا تو اس کا فعل جائز اور مستحسن سمجھا جائے گا۔اللہ تعالیٰ اگلی آیت میںاُ ن کے اسی سوال کا جواب دیتا اور فرماتا ہے کہ تمہیں علم نہیں ، دنیا میںنظام کے قیام کے لئے ضروری ہے کہ مجرموں کو سزائیں دی جائیں اگر ان کو سزائیں نہ دی جائیں تو کارخانۂ عالَم بالکل درہم برہم ہو جائے تو اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُفِیْھَا وَیَسْفِکُ الدِّمَائَ کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ اُس وقت جرائم کی سزا بھی مقرر ہو چکی تھی۔
(۱۰)۔ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت شادی کے احکام بھی نازل ہو چکے تھے کیونکہ آدم کی بیوی کا ذکر کیا گیا ہے، گویا مرد وعورت کے تعلقات کو ایک قانون کے ماتحت کر دیا گیا تھا۔
پیدائشِ انسانی کے متعلق قرآنی آثارِ قدیمہ کا خلاصہ
خلاصہ یہ کہ قرآنی آثارِ قدیمہ نے ابتدائے خلق کاذکر یوں
کیا ہے کہ مخلوق خالق کے حُکم سے بنی ہے۔ پہلے باریک ذرّات تیار ہوئے، پھر پانی نے الگ شکل اختیار کی پھر وہ خشک ذرّات سے مرکّب ہؤا، اور ایک قوتِ نامیہ پیدا ہوئی۔ اس سے مختلف تغیّرات کے بعد حیوان پیدا ہؤا، حیوان آخر نُطفہ سے پیدا ہونے والا وجود بنا یعنی نر ،مادہ کا امتیاز پیدا ہؤا، ا س کے بعد ایک خاص حیوان نے ترقی کی اور عقلی حیوان بنا۔مگر عقل تھی مگر تھاناری، تمدّن کے قبول کرنے کی طاقت اس میںنہ تھی ،غاروں میں رہتا تھا۔ اس کے بعد ایساانسان بنا جو تمدّن کا اہل تھا اسے الہام ہونا شروع ہؤا اور وہ پہلا تمدّن صرف اتنا تھا کہ (۱) نکاح کرو (۲) قتل نہ کرو(۳) فساد نہ کرو(۴) ننگے نہ رہو(۵) ایک دوسرے کی کھانے، پینے، پہننے اور رہائش کے معاملہ میں مدد کرو (۶) اللہ تعالیٰ سے دعا کر لیا کرو (۷) ایک شخص کو اپنا حاکم تسلیم کر لو اور اُس کے ہر حکم کی اطاعت کرو اور اگر تم اس کے کسی حکم کو توڑو تو تم سزا برداشت کرنے کے لئے تیار رہو۔
یہ اُس وقت کی گورنمنٹ تھی اور یہی اس گورنمنٹ کا قانون تھا اور یہ علم جو میں نے قرآن کریم سے اَخذ کر کے بیان کیا ہے ایسا واضح ہے کہ موجودہ تحقیق اِس سے بڑھ کر کوئی بات بیان نہیں کر سکتی، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آدم کے متعلق کوئی تاریخ ایسا علم مہیا نہیں کر تی جیسا علم کہ قرآن کریم سے ثابت ہوتا ہے۔ڈارون تھیوری پر اہل یورپ کو بہت کچھ ناز ہے مگر سچ بات یہ ہے کہ ڈارون تھیوری بھی ا س کے مقابلہ میںنہیں ٹھہر سکتی۔ وہ نہایت ہی بیوقوفی کی تھیوری ہے جو اہلِ مغرب کی طرف سے پیش کی جاتی ہے، میں ہمیشہ اس تھیوری کے پیش کرنے والوں سے کہا کرتا ہوں کہ اچھا جس چیز سے انسان پہلے بنا تھا اُس چیز سے اب کیوں نہیں بن سکتا؟ میںنے دیکھا ہے جب بھی میں یہ سوال کروں وہ عجیب انداز میںسرہلا کر گویا کہ میں اس تھیوری سے بالکل ناواقف ہوں کہہ دیتے ہیں کہ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ یہ تغیّر لاکھوں بلکہ کروڑوں سال میں ہؤا ہے، میں انہیں یہ کہا کرتا ہوں کہ اس زمانہ میںجو جانور موجود ہیں ان پر بھی لاکھوں کروڑوں سال گزر چکے ہیں پھر وہ تغیّر کیوںبند ہو گیا ہے اس میںشک نہیں کہ آدم سے لے کر اِس وقت تک لاکھوں کروڑوں نہیںہزاروں سال گزرے ہیں، لیکن حیوانات آدم کے زمانہ سے تو شروع نہیں ہوئے وہ تو لاکھوں کروڑوں سال ہی سے موجود ہیں اور آدم کے بعد کے زمانہ نے اس میں کسی قدر زیادتی ہی کی ہے، پس لاکھوں کروڑوں سالوں کے بعد جو تغیّر ہونا ضروری تھا وہ آج بھی اسی طرح ہونا چاہئے جس طرح کہ ہزاروں سال پہلے ہؤا تھا،کیونکہ زمانہ اس کے بعد ممتد ہو رہا ہے ُسکڑ نہیں رہا۔بلکہ حق یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں سال کے بعد جو تغیّر حیوانات میںہؤا تھا وہ پہلی دفعہ کے بعد جاری ہی رہنا چاہئے تھا کیونکہ لاکھوں کروڑوں سالوں بعد جن تغیّراتسے بشر کا مورثِ اعلیٰ جانور پیدا ہؤا تھا اگلی صدی میںاور اس سے اگلی صدی میںاور بعد کی بیسیوں اور صدیوں میں بقیہ جانوروں پر اس سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے جس قدر کہ پہلے تغیّر کے وقت گزرا تھا ۔پس اگر اس قسم کا تغیر ہؤ ا تھا جس کا ذکر ڈارون کے فلسفہ کے قائل کرتے ہیںتو بعد میں وہ تغیر بند نہیں ہونا چاہئے تھا بلکہ جاری رہنا چاہئے تھا سوائے اس صورت کے کہ سابق کے تغیّراتایک بِالا رادہ ہستی نے ایک خاص غرض اور مقصد کے ماتحت پیدا کئے ہوں اور ان اغراض ومقاصد کے پورا ہونے پر اسی سلسلہ کو بند کر دیا ہو اور یہی ہمارا عقیدہ ہے۔
شجرہ ٔآدم کیا چیز ہے؟
اب میںاس سوال کو لیتا ہوں کہ شجرۂ آدم کیا چیز ہے میں نے دیکھا ہے بعض لوگوں کو ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ وہ شجرہ کیا چیز تھی
جس کے قریب جانے سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو روکا ، مگر میں کہتا ہوں اس بارے میںسب سے بہتر طریق تو یہ ہے کہ جس بات کو قرآن کریم نے چُھپا یا ہے اُس کو معلوم کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔حضرت آدم علیہ السلام سے کوئی غلطی ہوئی مگر خدا نے نہ چاہا کہ اپنے ایک پیارے بندے کی غلطی دنیا پر ظاہر کرے اور اس نے اُس غلطی کو چُھپا دیا۔اب جبکہ خدا نے خود اسے چُھپا دیا ہے تو اور کون ہے جو اس راز کو معلوم کر سکے، جسے خدا چُھپائے اُسے کوئی ظاہر کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ یہ بالکل ویسی ہی مثال ہے جیسے اللہ تعالیٰ سورہ تحریم میںفرماتا ہے۔ وَاِذْاَسَرَّ النَّبِیُّ اِلٰی بَعْضِ اَزْوَاجِہٖ حَدِیْثاً فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِہٖ وَ اَظْھَرَہُ اللّٰہُ عَلَیْہِ عَرَّفَ بَعْضَہٗ وَاَعْرَضَ عَنْ بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَھَا بِہٖ قَالَتْ مَنْ اَنْبَأَ کَ ھٰذَا قَالَ نَبَّاَ نِیَ الْعَلِیْمُ الْخَبِیْرُ۴۹؎
یعنی اُس وقت کو یا دکرو جب ہمارے نبی نے مخفی طور پر ایک بات اپنی ایک بیوی سے کہی جب اُس بیوی نے وہ بات کسی اور سے کہہ دی تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ خبر دیدی کہ تمہاری بیوی نے وہ بات فلاں شخص سے کہہ دی ہے اِس پر ہمارے نبی نے اپنی بیوی کوکچھ بات بتا دی اور کچھ نہ بتائی جب ہمارے نبی نے وہ بات اپنی بیوی سے کہی تو اُس نے کہا کہ آپ کو یہ بات کس نے کہہ دی؟ آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ بات اُسی نے بتائی ہے جو زمین وآسمان کا خدا ہے اور جو دلوں کے بھیدوں سے واقف اور تمام باتوں کو جاننے والا ہے۔ اب یہاں اِس بات کا ذکر جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی ایک بیوی سے کہی تھی محض ضمیروں میں کیا گیا ہے اور صرف یہ کہا گیا ہے کہ ایک بات تھی جو ہمارے نبی نے اپنی ایک بیوی کو بتائی ، وہ بات اُس بیوی نے کسی اَور کو بتا دی ۔ اِس پر خدا نے الہام نازل کیا اور اپنے رسول کو بتایا کہ وہ بات جو تو نے اپنی بیوی سے کہی تھی وہ اُس نے کسی اور سے کہہ دی ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس بات کا اپنی بیوی سے ذکر کر دیا بیوی کہنے لگی یہ بات آپ کو کس نے بتائی؟ آپ نے فرمایا مجھے علیم اور خبیر خدا نے یہ بات بتائی ہے۔یہ ساری ضمیریں ہیں جن میں اِس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مگر بات کا کہیں ذکر نہیں، لیکن ہمارے مفسّرین ہیں کہ وہ اپنی تفسیروں میںیہ بحث لے بیٹھے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی بیوی سے کیا بات کہی تھی۔ پھر کوئی مفسّر کوئی بات پیش کرتا ہے اور کوئی مفسّر کوئی بات پیش کرتا ہے حالانکہ اِس جھگڑے میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی، جب خدا نے ایک بات کو چھپایا ہے اور یہ پسند نہیں کیا کہ اُسے ظاہرکرے تو کسی مفسّر کاکیا حق ہے کہ وہ اس بات کو معلوم کرنے کی کوشش میں لگ جائے اور اگر وہ کوئی بات بیان بھی کر دے تو کون کہہ سکتا ہے کہ وہ بات درست ہوگی، یقینا جس بات کو خدا چُھپائے اُسے کوئی ظاہر نہیں کر سکتا اور اگر کوئی قیاس دَوڑائے گا بھی تو وہ کوئی پختہ اور یقینی بات نہیں ہوگی محض ایک ظن ہو گا یہی حال شجرہ آدم کا ہے جب خدا نے یہ ظاہر نہیںکیا کہ وہ شجرہ کیا تھا تو ہم کون ہیں جو اس شجرہ کو معلوم کر سکیں۔ تم کسی چیز کا نام شجرہ رکھ لو، مختصر طور پر اتنا سمجھ لو کہ خدا نے یہ کہا تھا کہ اُس کے قریب نہ جانا مگر حضرت آدم علیہ السلام کو شیطان نے دھوکا دے دیا اور وہ اُس کے قریب چلے گئے جس پر انہیں بعد میںبہت کچھ تکلیف اُٹھانی پڑی بہرحال بہتریہی ہے کہ جس بات کو خدا نے چُھپایا ہے اُس کی جستجو نہ کی جائے اور بِلاوجہ یہ نہ کہا جائے کہ شجرہ سے فلاں چیز مراد ہے ، لیکن اگر کسی کی اس جواب سے تسلی نہیں ہوتی تو پھر وہ یوں سمجھ لے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا تھا کہ دیکھنا شیطان کے پاس نہ جانا وہ تمہارا سخت دشمن ہے اگر اس کی باتوں میں آگئے تو وہ ضرور کسی وقت تمہیں دھوکا دے دیگا۔ حضرت آدم علیہ السلام نے ایسا ہی کیا مگر شیطان نے جب دیکھا کہ یہ میرے دائو میںنہیں آتے تو اُس نے کہا کہ صُلح سے بڑھ کر اور کیا چیز ہو سکتی ہے۔بہتر یہی ہے کہ ہم اور تم آپس میں صُلح کر لیں اور اِن روز روز کے جھگڑوں کو نپٹا دیں جیساکہ یورپ والے بھی آجکل بظاہر ’’پِیس پِیس‘‘ (PEACE-PEACE) کا شور مچا رہے ہوتے ہیں اور اندر بڑے زور سے جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں۔اٹلی کی جب ٹرکی سے لڑائی ہوئی تو اِس لڑائی سے تین دن پہلے اٹلی کے وزیر اعظم نے اعلان کیا تھا کہ تُرکوں سے ہماری اتنی صلح ہے اور اس قدر اس سے مضبوط اور اچھے تعلقات ہیںکہ پچھلی صدی میںاس کی کہیں نظیر نہیں مل سکتی ، مگر اس اعلان پر ابھی تین دن نہیں گزرے تھے کہ اٹلی نے ٹرکی پر حملہ کر دیا۔یہی حال باقی یوروپین اقوام کاہے وہ شور مچاتے رہتے ہیں کہ صلح بڑی اچھی چیز ہے، امن سے بڑھ کر اور کوئی قیمتی شَے نہیں ،مگر اندر ہی اندر سامان جنگ تیار کر رہے ہوتے ہیں۔ گویا وہ صلح صلح اور امن امن کے نعرے اس لئے نہیں لگاتے کہ انہیں صلح اور امن سے محبت ہوتی ہے بلکہ اس لئے نعرے لگاتے ہیں کہ انہوں نے ابھی پوری طرح جنگ کی تیاری نہیںکی ہوتی اور وہ چاہتے ہیں کہ صلح اور امن کا شور مچا کر دوسروں کوجس حد تک غافل رکھا جا سکے اُس حد تک غافل رکھا جائے اور پھر یکدم حملہ کر دیا جائے۔یہی حال حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میںبھی ہؤا۔خداتعالیٰ نے آدم کو کہا دیکھنا شجرہ ٔشیطانی کے قریب نہ جانا بلکہ ہمیشہ اس کے خلاف لڑائی جاری رکھنا کیونکہ شیطان کے ساتھ جب بھی صلح ہو گی اس میں مؤمنوں کی شکست اور شیطان کی فتح ہو گی اور اس صلح کے نتیجہ میںتمہارے لئے بہت زیادہ مشکلات بڑھ جائینگی۔حضرت آدم علیہ السلام نے اِس حُکم کے نتیجہ میں شیطان سے لڑائی شروع کر دی۔ جب شیطان نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیںبنے گا تو اس نے صلح صلح کاشور مچادیا او رکہا کہ بھلا لڑائی سے بھی کبھی امن قائم ہو سکتا ہے امن تو صلح سے ہو سکتا ہے پس بہتر ہے کہ ہم آپس میں صلح کر لیں ۔حضرت آدم علیہ السلام سے غلطی ہوئی اور انہوں نے شیطان سے صلح کر لی۔نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ بھی اسی جنت کے اندر آ گیا جہاں حضرت آدم علیہ السلام اور آپ کے ساتھی رہتے تھے اور اس طرح اندر رہ کر اس نے قوم میںفتنہ وفساد پیدا کر دیا اور وہ مقصد جس کوباہر رہ کر وہ حاصل نہیں کر سکا تھا وہ اُس نے اندر آ کر حاصل کر لیا اور بہت بڑا فساد پیدا ہو گیا ۔تب اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اب ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ یہاں سے چلے جائو اور زمین میں پھیل جائو ۔پس اگر اس کے کوئی معنے ہو سکتے ہیں تو یہی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو حکم دیا تھا کہ خاندانِ ابلیس سے دُور رہو، ابلیس نے صلح کی دعوت دی اور کہا کہ اس سے بڑی ترقی ہو گی، حضرت آدم اس دھوکا میں آگئے اور شیطان سے صلح کر کے انہوں نے بہت کچھ تکلیف اُٹھائی نتیجہ یہ ہؤا کہ خداتعالیٰ نے کہا کہ تم یہاں سے چلے جائو اور زمین میںپھیل جائو او ریاد رکھو کہ تم دونوں گروہوں میں ہمیشہ جنگ رہے گی یہ معنے بھی ہیں جو اِن آیات کے ہو سکتے ہیں، لیکن بہتر یہی ہے کہ جسے خدا نے چُھپایا ہے اُس کی جستجو میںہم اپنے وقت کو ضائع نہ کریں اور جس سبق کے سکھانے کے لئے اس واقعہ کو بیان کیاگیا ہے وہ سبق حاصل کر لیں۔
پیدائشِ انسانی میں ارتقاء کا ایک اور ثبوت
پیدائش انسانی میںارتقاء کا ایک اور ثبوت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے
الہام میںبھی ارتقاء رکھا ہے۔ کامل اور مکمل شریعت پہلے ہی روز نہیں آ گئی بلکہ آہستہ آہستہ اور درجہ بدرجہ الہام میں ترقی ہوئی ہے۔ چنانچہ جب بھی غیر مذاہب والوں کی طرف سے اسلام پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگرقرآن میں کامل شریعت تھی تو ابتدائے عالَم میں ہی اللہ تعالیٰ نے اسے کیوں نازل نہ کر دیا، تو اِس کا جواب ہماری طرف سے یہی دیا جاتا ہے کہ اگر اُس وقت قرآن نازل کر دیا جاتا تو کسی انسان کی سمجھ میں نہ آسکتاکیونکہ ابھی عقلی ترقی اِس حد تک نہیں ہوئی تھی کہ وہ قرآنی شریعت کے اسرار اور غوامض سمجھ سکے تو الہامِ الٰہی کا فلسفہ جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اس سے صریح طور پریہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انسان کی ترقی بھی ارتقاء کے ماتحت ہوئی ہے۔دیکھ لو پہلے حضرت آدمؑ آئے، پھر حضرت نوحؑ آئے، پھر حضرت ابراہیم ؑ آئے، پھر حضرت موسیٰ ؑ آئے، پھر حضرت عیسیٰ ؑ آئے، مگر باوجود یکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک ہزاروں برس گزر چکے تھے آپ نے لوگوں سے فرمایا کہ:-
’’مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روحِ حق آئیگا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا‘‘ ۵۰؎
اس سے ظاہر ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ تک بھی ابھی لوگوں کی حالت ایسی نہیں ہوئی تھی کہ وہ کامل شریعت کو سمجھ سکتے اور اس بات کی ضرورت تھی کہ اُن کے لئے نسبتاً نامکمل انکشاف ہو۔ یہ ارتقاء جو الہام اور شریعت میںہؤا ہے اس بات کایقینی اور قطعی ثبوت ہے کہ انسان کی جسمانی ترقی بھی ارتقائی تھی اگر یکدم ترقی کر کے انسان کامل بن گیا ہوتا تو پہلے ہی دن اس کے لئے کامل شریعت کانزول ہو جاتا ۔
یہ عجیب بات ہے کہ آجکل آرین خیالات کے لوگ اسلام پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اسلام ارتقاء کا قائل نہیں اور یہ کہ مسلمانوں نے مسئلہ ارتقاء کا ردّ کیا ہے حالانکہ اسلام ہی ہے جو جسمانی اور رُوحانی دونوں قسم کے ارتقاء کا قائل ہے اس کے مقابلہ میں آرین خیالات الہام کے متعلق قطعاً غیر ارتقائی ہیں۔ چنانچہ آریہ مذہب کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے عالَم میں ہی ایک مکمل الہامی کتاب بنی نوع انسان کی راہنمائی کے لئے نازل فرما دی۔ یہ عقیدہ بتاتا ہے کہ آریہ مذہب نہ صرف رُوحانی ارتقاء کا قائل نہیں بلکہ جسمانی ارتقاء کا بھی قائل نہیںکیونکہ اگر ابتداء میں انسان عقلی لحاظ سے کمزور تھا تو کامل الہامی کتاب کا نزول اس کے لئے بے فائدہ تھا اور اگر پہلے روز وہ اُسی طرح کامل انسان تھا جس طرح آج ہے تو معلوم ہؤا کہ آرین عقائد کے رُو سے انسان کی پیدائش جسمانی ارتقاء کے ماتحت نہیںہوئی۔ غرض آرین خیالات اس بارہ میں قطعاً غیر ارتقائی ہیں اور وہ اسلام پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتے۔ اس کے مقابلہ میں سمیٹک(SEMITIC) یعنی سامی نسلیں رُوحانی ارتقاء کی قائل ہیں اور یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ پہلے حضرت آدم ؑ آئے، پھر حضرت نوحؑ آئے جنہوں نے کئی روحانی انکشافات کئے پھر حضرت ابراہیم ؑ آئے، پھر حضرت موسیٰ ؑ آئے اور ان سب نے کئی روحانی انکشاف کئے ۔ پس سامی نسلیں ہی ہیں جو ارتقاء کو تسلیم کرتی چلی آئی ہیں ، مگر عجیب بات یہ ہے کہ سامی نسلوں پرہی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ ارتقاء کی قائل نہیں اور جو اعتراض کرنیوالے ہیںان کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ سے ارتقاء کا انکار کرتے چلے آئے ہیں۔یہ ایسی ہی بات ہے جیسے فرانسیسی درسی کتب میں قصہ لکھتے ہیںکہ ایک فرانسیسی لڑکا اپنے کسی دوست سے ملنے گیا۔ اس کے پاس ایک لٹّو تھا اُ س نے شوق سے اپنے دوست کو وہ لٹّو دیکھنے کو دیا جس نے لٹّو دیکھ کر اپنی جیب میںڈال لیا اور سلام کہہ کرچل پڑا۔ جب لٹّو والے لڑکے نے لٹّو واپس مانگا تو اُ س نے کہا کہ لٹّو تو میرا ہے۔ یہی ان کا حال ہے ہماری چیز لے کر اس پر اپنا قبضہ جما لیتے ہیں اور پھر بڑ ے زور سے قہقہہ لگا کرکہتے ہیں کہ مسلمانوں کو تو کچھ پتہ ہی نہیں۔
ا ِس جگہ اس امر کا ذکر کرد ینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ گو سمیٹک نسلیں ارتقائی ترقی کی قائل ہیں لیکن قرآن کریم کے سِوا دوسری سمیٹک تعلیم بھی اس بارہ میں ایک دھوکا کھا گئی ہے اور وہ یہ کہ اس نے جسمانی ارتقاء کا انکار کر دیا ہے حالانکہ روحانی ارتقاء بذاتِ خود اس بات پر دال ہے کہ جسمانی ارتقاء بھی ہؤا ۔بہرحال صرف قرآن کریم ہی ایک ایسی کتاب ہے جس نے اپنے دونوں پہلوئوں کے لحاظ سے اس مسئلہ کو بیان کیا ہے اور یہ اس کی برتری اورفوقیت کا ایک بڑا ثبوت ہے ۔ اگر کوئی کہے کہ جب آخر میں ایک جگہ آ کر شریعت کو تم نے بھی بند تسلیم کر لیا ہے تو پھر شروع میں ہی ایسا کیوں نہ کیا گیا اور کیوں شروع میں تو ارتقاء کا سلسلہ جاری رہا مگر اب وہ ارتقائی سلسلہ بند ہو گیا۔
شریعت میںارتقاء ختم ہو جانے کی وجہ
ا ِس کا جواب یہ ہے کہ اس میںبھی روحانی عالَم ظاہری عالَم کے مشابہ ہے اور شریعت میں ارتقاء
آج اُسی طرح ختم ہو چکا ہے جس طرح انسانی جسم میںارتقاء ختم ہو چکا ہے۔آخر انسانی جسم کے جس قدر حصے ہیں اب ان میں کونسا بنیادی فرق ہوتا ہے جس طرح آج ایک شخص پیدا ہوتا ہے، اسی طرح آج سے ہزار سا ل پہلے پیدا ہؤا تھا اور جس طرح آج اس کے ہاتھ، پائوں، ناک، کان اور منہ ہوتے ہیں اسی طرح آج سے ہزار سال پہلے ا س کے اعضاء ہوتے تھے پس جس طرح جِسم انسانی میںبنیادی ارتقاء ختم ہو چکا ہے اسی طرح شریعت میںبھی پہلے جو ارتقاء کا سلسلہ جاری تھا وہ ختم ہو گیا ہے۔ہاں ایک بات اور ہے اور وہ یہ کہ اب گو جسمانی ترقی بند ہو چکی ہے مگر دماغی ترقی بدستور جاری ہے اور اب وہ ارتقاء جو پہلے جسم میںہؤا کرتا تھا دماغ کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور انسان کی دماغی قابلیتوں میںہر روز نیا سے نیا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح گو اب شریعت کا نزول بند ہو چکا ہے مگر اب وہی ارتقاء اس شریعت کے معارف کی طرف منتقل ہو گیا ہے اور نئے سے نئے قرآنی اسرار دنیا پرمُنکشف ہوتے جارہے ہیں۔ پس اس ارتقاء میں بھی روحانی عالَم ظاہری عالَم کے مشابہ ہے۔وہاں بھی پہلے جسمانی بناوٹ میں ارتقاء ہؤا پھر خالص دماغی ارتقاء رہ گیا۔اسی طرح شریعت میںبھی پہلے ظاہری وباطنی احکام میںارتقاء ہؤا لیکن آخر میں ظاہری شریعت حدِکمال کو پہنچ گئی اور اب صرف باطنی ارتقاء باقی ہے جس کا دروازہ قیامت تککھلا ہے۔پس ہم دونوں طرف سے ارتقاء کے قائل ہیںجسمانی طرف سے بھی اور روحانی طرف سے بھی۔ اور ہم گو یہ ایمان رکھتے ہیںکہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ شریعت اپنی تکمیل کو پہنچ گئی مگر ہم اِس بات پر بھی ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے اندر غیر محدود معارف وحقائق کے خزانے ہیں اور قرآن کریم کے معارف کا یہ باطنی ارتقاء بند نہیں ہؤا بلکہ قیامت تک جاری ہے چنانچہ ہم اس کا نمونہ اپنی ذات میںدیکھ رہے ہیں کہ جو معارفِ قرآنیہ ہم پر کھلے ہیں وہ پہلے مفسّروں پر نہیںکھلے۔
خلاصہ یہ کہ اسلام نے آدم ؑکے آثارِ قدیمہ اس رنگ میں ظاہر کئے ہیں کہ ان کی مثال کسی اَور جگہ نہیں پائی جاتی۔اسی طرح حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بارہ میں زبردست انکشاف اس نے کئے ہیں ، مگر سرِدست مَیں اس مضمون کو چھوڑ کر بعض دیگر انکشافات کو لیتا ہوں جو مختلف انبیاء کے بارہ میںقرآن کریم نے کئے ہیں۔
حضرت ہارون علیہ السلام کے متعلق قرآنی انکشاف
میںقرآنی آثارِ قدیمہ کے اُس کمرہ کو دیکھنے کے
بعد عالمِ تخیّل میںالٰہی آثارِ قدیمہ کے ایک اور کمرہ میںچلا گیا اور وہاں مَیںنے ایک اور عجیب نشان دیکھا۔مجھے دکھائی دیا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ ہے اور آپ کے بھائی ہارون علیہ السلام کہ وہ خود بھی نبی تھے اپنی قوم کو مخاطب ہوتے ہوئے کہہ رہے ہیں۔ یٰـقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَ اَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ۵۱؎ اے میری قوم! تم ایک ابتلاء میںڈالے گئے ہو تم میری پیروی کرو اور جو کچھ میںکہتا ہوں اُس کی اطاعت کرو۔مَیں نے سمجھا کہ کوئی فتنہ ہے جو اُس زمانہ میں پیدا ہؤا ۔ پھر مَیں نے اپنے دل میںکہاآئو مَیںمعلوم تو کروں اُ س وقت کیا فتنہ اُٹھا تھا۔مگرمیں نے فیصلہ کیا کہ پہلے میں اُس کتاب کو دیکھوں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے زمانہ سے چلی آتی ہے اور اُسے پڑھ کر معلوم کروں کہ اُ س میں کیا لکھا ہے۔چنانچہ مَیںنے تورات اُٹھائی اور اُسے پڑھنا شروع کیا تو اس میںلکھا تھا:-
’’اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ پہاڑسے اُترنے میںدیری کرتا ہے تو وے ہارون کے پاس جمع ہوئے اور اُسے کہا کہ اُٹھ ہمارے لئے معبود بناکہ ہمارے آگے چلیں۔ کیونکہ یہ مرد موسیٰ جو ہمیں مصر کے ملک سے نکال لایا ہم نہیں جانتے کہ اُسے کیا ہؤا، ہارون نے انہیں کہا کہ زیور سونے کے جوتمہاری جوروئوں اور تمہارے بیٹوں اور تمہاری بیٹیوں کے کانوں میںہیں توڑ توڑ کے مجھ پاس لائو ، چنانچہ سب لوگ سونے کے زیور جو اُن کے کانوں میںتھے توڑ توڑ کے ہارون کے پاس لائے اور اُس نے اُ ن کے ہاتھوں سے لیا اور ایک بچھڑا ڈھال کر اُس کی صورت حکّاکی کے ہتھیار سے درست کی اور انہوں نے کہا کہ اے اسرائیل! یہ تمہارا معبود ہے جو تمہیںمصر کے ملک سے نکال لایا‘‘ ۵۲؎
گویا تورات یہ کہتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پہاڑ پرجانے کے بعد جب فتنہ پیدا ہؤا تو لوگوں نے حضرت ہارون علیہ السلام پر زور دینا شروع کیا کہ ہمیں ایک بُت بنا دو جس کی ہم پرستش کریں۔ حضرت ہارو ن علیہ السلام نے کہا اپنے اپنے گھر سے زیور لے آئو۔ چنانچہ وہ زیور لائے اور انہوں نے اُن زیورات کو ڈھال کر ایک بُت بنا دیا اور کہا کہ یہی وہ تمہارا معبود ہے جو تمہیں مصر کی زمین سے نکال لایا۔یہودی کہتے ہیں کہ یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا الہام ہے مگر محقّقین کہتے ہیں کہ یہ الہام نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دو تین سَو سال کے بعد اُس وقت کے حالات ہیں جو مؤرّخین نے لکھے۔بہرحال کم سے کم یہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہماالسلام کے قریب زمانہ کی لکھی ہوئی تاریخ ہے لیکن حضرت موسیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ساڑھے انیس سَوسال کا فاصلہ ہے اور یہ کتاب جس میں حضرت ہارون علیہ السلام پر بُت گری کا الزام لگایا گیا قریباً سترہ اٹھارہ سَو سال پہلے کی لکھی ہوئی ہے پس وہ کتاب جو قرآن مجید سے سترہ اٹھارہ سَو سال پہلے لکھی گئی ، اس میںتو یہ لکھا ہے کہ حضرت ہارون نے زیورات کو ڈھال کر خود ایک بچھڑا بنایا اور لوگوں سے کہا کہ یہی وہ تمہارا خدا ہے جو تمہیں مصر کے ملک سے نکال لایا، مگر جب ہم قرآنی آثارِ قدیمہ کو دیکھتے ہیں تو وہاں یہ لکھا ہؤا پاتے ہیں کہ وَلَقَدْ قَالَ لَھُمْ ھَارُوْنُ مِنْ قَبْلُ ٰیقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِہٖ وَاِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ ٰیقَوْمِ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَاَطِیْعُوْٓا اَمْرِیْ۵۳؎ کہ موسیٰ کے جانے کے بعد جب لوگوں نے ایک بچھڑا ڈھال کر اُسے اپنا معبود بنا لیا تو ہارون نے اُن سے کہا کہ اے لوگو! بدمعاشوں نے تمہیں دھوکا میںڈال دیا ہے اِنَّ رَبَّکُمُ الرَّحْمٰنُ تمہارا رب تو وہ ہے جو رحمن ہے جو زمین وآسمان کا پیدا کرنے والا ہے فَاتَّبِعُوْنِیْ پس تم میری اتباع کرو اُن بدمعاشوں کی اِتّباع نہ کرو جنہوں نے تم کو غلط راستہ پرڈال دیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو مجھے قرآنی آثارِ قدیمہ میں سے ملی ۔ اس کے بعد مَیں نے بائیبل کو بھی دیکھا کہ اس کی چوری کہیں سے پکڑی بھی جاتی ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر حضرت ہارون علیہ السلام سے یہ مشرکانہ فعل سرزد ہؤا ہوتا تو نبوت تو کیا انہیں ایمان سے بھی چھٹی مل جاتی اور کوئی شخص انہیںمؤمن سمجھنے کے لئے بھی تیار نہ ہوتا کُجا یہ کہ اُنہیں نبی مانتا۔مگر جب ہم بائیبل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے پہاڑ سے واپس آکر جب دیکھا کہ لوگوں نے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی ہے تو انہوں نے لوگوں کو سخت ڈانٹا۔بچھڑے کو آگ سے جلا دیا اور قریباً تین ہزار آدمیوں کو قتل کی سزا دی۔۵۴؎ اس فتنہ کو فرو کرنے کے بعد وہ پھر پہاڑ پر گئے اور جب وہاں سے واپس آئے تو حضرت ہارون علیہ السلام کے لئے خداتعالیٰ کا یہ حکم لائے کہ:-
’’ہارون کو مقدس لباس پہنا اور اس کو چُپڑ۔ اور اُسے مقدس کر تا کہ کاہن کا کام میری خدمت میںکرے اور اُ س کے بیٹوں کو نزدیک لا اور اُ ن کو کُرتے پہنا اور اُن کو چُپڑ۔ جیسے اُ ن کے باپ کو چُپڑاہے تا کہ وہ کاہن کا کام میری خدمت میں کریں اور یہ مساحت اُ ن کے لئے اور اُن کے قرنوں کیلئے ہمیشہ کی کہانت کا باعث ہو گی اور موسیٰ نے ایسا کیا سب جو خداوند نے اس کو حکم کیا تھا عمل میںلایا‘‘۔۵۵؎
گویا اس مشرکانہ فعل کے بعد جو بروئے بائیبل حضرت ہارون علیہ السلام سے سرزد ہؤا تھا خداتعالیٰ نے حضرت ہارون علیہ السلام پر بجائے کسی ناراضگی کا اظہار کرنے کے فیصلہ یہ کیا کہ ہارون کو مقدس لباس پہنایا جائے اور نہ صرف اس کی عزّت افزائی کی جائے بلکہ اس کی تمام اولاد کی عزت کرنا بھی بنی اسرائیل پر فرض قرار دیا جائے اور عبادت گاہوں اور مساجد کی ذمہ داری ان کے سپرد کی جائے۔ کیا ایک مشرکانہ فعل کایہی نتیجہ ہؤا کرتا ہے؟اور کیا اگر حضرت ہارون علیہ السلام سے یہ فعل سرزد ہؤا ہوتا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان سے یہی سلوک کیا جاتا؟ بائیبل کی یہ اندرونی گواہی صاف طورپر بتا رہی ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے شرک کی تائید نہیںکی تھی بلکہ شرک کی مخالفت کی تھی اور چونکہ انہوںنے خداتعالیٰ کی توحید کی تائید کی اس لئے خدا بھی اُن پر خوش ہؤا اور اُس نے کہا کہ چونکہ ہارون نے میری عبادت دنیامیں قائم کی ہے اس لئے آئندہ تمام عبادت گاہوں کا انتظام ہارون اور اس کی اولاد کے سپرد کیا جائے۔ پس بائیبل کی یہ اندرونی گواہی اس الزام کی تردید کر رہی ہے جو اُس نے اسی کتاب میں حضرت ہارون علیہ السلام پر لگایا ہے اور قرآن کریم کے بیان کی جو اس کے نزول کے ساڑھے اُنیس سَوسال بعد یا اس کی تحریر کے سترہ اٹھارہ سَو برس بعد نازل ہؤا ہے تصدیق کرتی ہے۔
ہر قوم کی طرف خدا تعالیٰ نے رحمت کا ہاتھ بڑھایا ہے
ـپھرمَیں نے آثارِ قدیمہ کا تیسر اکمرہ دیکھا تو مجھے نظرآیا
کہ تمام قوموں میںیہ احساس پایا جاتا ہے کہ اُن کے سَواصداقت سے کوئی آشنا نہیں۔ ہر قوم دوسری قوم کے متعلق یہ خیال کرتی ہے کہ اُس میں جھوٹ، فریب اور دغابازی کے سوا اور کچھ نہیں۔میں نے ہندوئوں سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ خداتعالیٰ نے سب معرفت اور ہدایت ہمارے بزرگوں کی معرفت دنیاکو دیدی ہے، اب اس کے بعد کسی اور الہام کی ضرورت ہی کیا ہے کہ کسی اور قوم میں کوئی رِشی آتا ۔ مَیں نے زرتشتیوں کی طرف دیکھا تو اُنہیں بھی یہ کہتے سنُا کہ زرتشتیوں کے سوا اور کوئی مذہب سچا نہیں۔ مَیں نے یہودیوں کو دیکھا تو اُنہیں بھی یہ کہتے پایا کہ قریباً تمام انبیاء خدا نے بنی اسرائیل میں ہی بھیجے ہیں، دوسری اقوام کو اللہ تعالیٰ نے اس فضل سے محروم ہی رکھا ہے اور مَیں نے مسیحیوں کی طرف نگاہ کی تو اُن کا عقیدہ بھی مجھے ایساہی نظر آیا۔غرض ہر قوم کو مَیں نے یہ کہتے سنا کہ روحانی تہذیب کا نشان اس کے سوا اور کہیں نظر نہیں آ سکتا، مگر جب مَیںنے قرآنی آثارِقدیمہ کے محکمہ کو دیکھا تو مَیں نے اس کے ایک کمرہ میں یہ لکھا ہؤا پایاکہ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْھَانَذِیْرٌٌ۵۶؎ کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جس میںخداتعالیٰ کے انبیاء مبعوث نہ ہوئے ہوں، نہ ہندو بغیرنبی کے رہے نہ ایرانی بغیر نبی کے رہے، نہ یہود بغیر نبی کے رہے اور نہ یورپین لوگ بغیر نبی کے رہے، غرض قرآن کے آثارِ قدیمہ کے محکمہ نے بتایا کہ خدا نے ہر جگہ روشنی کے مینار کھڑے کئے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ بعد میں انہوں نے اس روشنی سے فائدہ اُٹھانا چھوڑ دیا مگر بہرحال خدا کی طرف سے انہیں ہدایت سے محروم نہیں کیا گیا ۔ان میں جو خرابیاں پید اہوئی ہیں وہ بعد میں ہوئی ہیں جن کی ذمہ داری خود اُن پر ہے ورنہ خدا نے سب سے یکساں سلوک کیا ہے او رہر ایک کی طرف اپنی رحمت کا ہاتھ بڑھایا ہے۔ مَیں نے جب یہ دیکھا تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی ، مگر مَیں نے کہا آئو اب میںان عظیم الشان ہسیتوں کے کچھ نشانات بھی دیکھ لوں۔بیشک اُنہوںنے عظیم الشان کام کیا اور دنیامیں ایک تغیر عظیم پیدا کر دیا مگر مَیں دیکھوں تو سہی کہ انہوں نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا ہے۔مَیں اس جستجو اور تلاش میںسابقہ کتب کے محکمہ آثارِ قدیمہ میں داخل ہو گیا مگر یہ دیکھ کر میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی کہ ان عظیم الشان ہسیتوں کے کپڑوں پر جو اُن کے اتباع کے پاس موجود تھے نہایت گندے اور گھنائونے داغ تھے کسی کے جُبہّ پر چور لکھا تھا اور کسی کے جُبہّ پر بٹمار اور کسی کے جُبہّ پر ظالم اور دوسروں کا مال کھانے والا اور کسی کے جُبہّ پر فاسق وفاجر۔کسی کے جُبہّ پر جھوٹا اور کسی کے جُبہّ پر غاصب ،یہاں تک کہ بعض کے جُبّوں پر مشرک کے الفاظ تحریر تھے اور یہ سب اُن کے اتباع کے ہاتھوں میںتھے غیروں کے دست بُرد کا اس میں دخل نہ تھا۔ مَیں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اتنے گندے لباس ان عظیم الشان ہستیوں کے ہوں جن کے احسانات کے بارِگراں کے نیچے دنیا دبی ہوئی ہے۔ میں نے اُن کے اس لباس کودیکھ کر نفرت کا اظہار کیا اور مَیں نے کہا میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ اُن کے لباس نہیں ہو سکتے اسی حیرت اور استعجاب کے عالَم میں قرآنی آثارِ قدیمہ کے ایک کمرہ میں داخل ہو گیا اور وہاں جو مَیں نے اُن کا لباس دیکھا، اُس کی چمک اور خوبصورتی دیکھ کر میری آنکھیں خیرہ رہ گئیں،چنانچہ مَیں نے انعام رکوع ۱۰ میں قرآنی آثارِ قدیمہ کا ایک کمرہ دیکھا جس میںلکھا تھا۔ وَتِلْکَ حُجَّتُنَآ اٰتَیْنٰـھَآاِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ- نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَائُ اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ - وَوَھَبْنَالَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَاوَنُوْحًا ھَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَھَارُوْنَ وَ کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ- وَزَکَرِیَّا وَیَحْيٰ وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ- وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطًا وَکُلًّا فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ وَ مِنْ اٰبَائِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَانِھِمْ وَاجْتَبَیْنٰـھُمْ وَھَدَیْنٰـھُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ذٰلِکَ ھُدَی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ وَلَوْاَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّا کَانُوْایَعْمَلُوْنَ- اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰـھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ فَاِنْ یَّکْفُرْبِھَا ھٰٓؤُ لائِ فَقَدْ وَکَّلْنَابِھَا قَوْماً لَّیْسُوْابِھَا بِکٰفِرِیْنَ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ قُلْ لَّآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِنْ ھُوَاِلَّا ذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ۵۷؎ کہ یہ ہمارے دلائل اور نشانات تھے جو ہم نے ابراہیم کو اُ س کی قوم کے خلاف بخشے اور ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کر دیتے ہیں۔تیرا رب بڑی حکمت سے کام کرنے والا اور تمام باتوں کو بخوبی جاننے والا ہے۔ ہم نے ابراہیم کو اسحق اور یعقوب دیئے اور اُن کو ہدایت دی اسی طرح اس سے قبل نوح کو بھی ہم نے ہدایت دی۔ پھر ابراہیم کی ذرّیت میں سے دائود،سلیمان ، ایوب، یوسف، موسیٰ اور ہارون ہوئے اور ہم اسی طرح نیک لوگوں کو جزاء دیا کرتے ہیں، اسی طرح زکریاؑ،یحییٰ ؑ، عیسیٰ ؑ اور الیاسؑ یہ سارے نیک لوگ تھے اور اسمعٰیلؑ ،الیسعؑ،یونسؑ اور لوط ؑان سب کو ہم نے دنیا پر عزت اور بزرگی بخشی اور اُن کے باپ دادوں میں سے اُن کی ذرّیت اور اُن کے بھائیوں میں سے بھی ہم نے کئی لوگوں کو چُنا اور انہیں سیدھا راستہ دکھایا۔ یہ ہدایت ہے اللہ تعالیٰ کی جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اگر یہ لوگ مشرک ہوتے یا خراب ہوتے تو یقینا یہ اپنے مقصد میںناکام رہتے ۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ہم نے کتاب دی اور حُکم بخشااو رنبوت عطا فرمائی۔ اگر ان لوگوں کے بعض منکر ہیںتو یقینا ہم نے ایسے لوگ بھی بنادئیے ہیں جوان کی قدر وعظمت کو سمجھتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی۔ پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! جو کچھ یہ لوگ کرتے رہے ہیں تو بیشک وہی کام کر۔ کیونکہ انہوں نے کوئی کام ہدایت کے خلاف نہیں کیا اور لوگوں سے کہدے کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ قرآن تو دنیا کے لئے نصیحت اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ا گر لوگ ان باتوں کومان لیں گے تو اس میں اُ ن کا اپنا فائدہ ہے اور اگر انکار کریں گے تو اس کانقصان بھی اُنہیں ہی برداشت کرنا پڑیگا۔
اب قرآن تو یہ کہتا ہے کہ یہ سب لوگ نیک اور راستباز تھے، مگر جب مَیں نے غیر مذاہب کی تعلیموں کو دیکھا تو مجھے ان میں نظر آیا کہ کوئی کہہ رہا ہے ابراہیم نے جھوٹ بولامَیں نے ایک نظر اس الزام پر ڈال کر جب قرآن کو دیکھا تو مجھے معلوم ہؤا کہ قرآن اس کی تردید کر رہا ہے، اسی طرح پُرانے آثار میںاسحاق ؑاور یعقوب ؑکے متعلق عجیب عجیب قصّے پائے جاتے ہیں، اسحاقؑ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے جھوٹ بولا اور یعقوب ؑکے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے فریب سے نبوّت حاصل کی، مگر یہاں آ کر دیکھا تو مجھے معلوم ہؤاکہ اسحاق ؑاور یعقوب ؑمیںکوئی نقص نہ تھا۔ اسی طرح نوح ؑکے متعلق جب مَیں نے بائیبل کے مطابق اس کے آثار کو دیکھا تو وہاںمجھے یہ نظر آیا کہ نوح ؑ شراب پِیا کرتا تھا ، دائود ؑکے متعلق یہ کہا جاتا تھا کہ وہ قاتل اور خونریز تھا، مگر قرآنی آثارِ قدیمہ میں مجھے ان میںسے کوئی بات دکھائی نہ دی، بلکہ اس کے برعکس یہ لکھا ہؤا پایا کہ یہ لوگ معصوم تھے انہوں نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اسی طرح سلیمان کے متعلق کہاجاتا ہے کہ انہوںنے کفر کیا، ایوب ؑ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے بے صبری دکھائی، یوسف کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ چور تھا۔ اسی طرح موسیٰ ؑکے متعلق کئی قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں اور ہارون ؑ کے متعلق تو کھلے طور پر کہا جاتا ہے کہ اس نے بنی اسرائیل کے سامنے بچھڑا بنا کر رکھ دیا اور انہیں کہا کہ یہی تمہارا خدا ہے یہی حال زکریاؑ، یحییٰ ؑ،عیسیٰ ؑ،الیاس ؑ، اسمعٰیل ؑ، الیسعؑ،یونس ؑ او ر لوطؑ وغیرہ کا ہے اور کرشن، رامچندر اور زردشت کے اپنے قومی آثارِ قدیمہ بھی اُن کے متعلق ایسی ہی روشنی ڈالتے ہیں جو اُن کو اچھی شکل میںپیش نہیں کرتے اور مَیں نے دیکھا کہ ان کے لباس جو لوگ بتاتے ہیں وہ نہایت پَھٹے پُرانے اور میل و ُکچیل سے بھرے ہوئے تھے مگر جب قرآن کریم کے آثارِ قدیمہ کے کمروں کو مَیں نے دیکھا تو ان میں ہر نبی کا لباس نہایت صاف سُتھرا اور پاکیزہ دکھائی دیا ۔ پھر مَیں نے اپنی نظر اُوپر اُٹھائی توا س کمرہ کے دروازہ پر ایک بورڈ لگا ہؤا تھا اور اس پر لکھا تھا۔ اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰ ھُمُ اقْتَدِہْ یہ لوگ بڑے صاف ستھرے اور پاکیزہ تھے۔اُنہوں نے کوئی بات ہمارے حکم کے خلاف نہیں کی۔ پس جس بات کے متعلق بھی تمہیں یقینی طور پر پتہ لگ جائے کہ وہ ان انبیاء میں سے کسی نے کی ہے اُس پر بغیر کسی خدشہ کے فوراً عمل کرلیاکرو کیونکہ وہ ضرور اچھی ہو گی۔
(۲) جنتر منتر
دوسری سَیر مَیںنے جنتر منتر کی کی۔ جنتر منتر ایک رصد گاہ کا نام ہے جہاں اجرامِ فلکی کے نقشے بنے ہوئے ہیں۔اسی طرح بعض بلند جگہیں بنی ہوئی ہیں جہاں سے ستاروں اور اُن کی گردشوں کااچھی طرح معائنہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ رصد گاہیں تین کام دیتی تھیں۔
اوّلؔ: علمِ ہیئت اور حسابِ اوقات کی صحیح معلومات حاصل کرنا۔ـ
دومؔ: اپنے خیال کے مطابق علمِ غیب دریافت کرنا۔
سومؔ: ستاروں کے بد اثرات سے بچنے کی کوشش کرنا۔
یہ نہایت خوشنما جگہ ہے اور لوگ اسے ایک پُرانے زمانہ کی یادگار سمجھ کر دیکھنے کے لئے آتے رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ محمد شاہ بادشاہ کے وقت میںمہاراجہ جے پور نے اسے تعمیر کرایا تھا۔ مَیں نے کہا اس چھوٹے سے نقشہ کی تو لوگ قدر کرتے ہیں اور اس کے بنانے والے کو عزّت واحترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، لیکن کبھی بھی وہ اُس حقیقی جنتر منتر کی طرف نگاہ نہیں اُٹھاتے جس کا یہ نقشہ ہے اور نہ اس کے بنانے والے کی صنعت کی عظمت کا اقرار کرتے ہیں۔مٹی اور پتھر کی اگر کوئی دو اینٹیں لگا دے تو کہہ اُٹھتے ہیںواہ واہ! اُس نے کسقدر عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ وہ کتنی عظیم الشان طاقتوں کا مالک خدا ہے جس نے اس جنتر منتر سے کروڑوں درجے بڑا ایک اورجنتر منتر بنایا اور نہ صرف اس نے اتنا بڑا نقشہ بنایا بلکہ اس نقشہ کا دیکھنا بھی ممکن کر دیا کیونکہ قرآن کریم میں اصل نقشہ کی سیر کا بھی امکان پیداکیاگیا ہے مَیں نے اس غرض کے لئے سورہ انعام کو دیکھا تو وہاں یہ لکھا ہؤاپایا۔وَکَذٰلِکَ نُرِیْٓ اِبْرٰہِیْمَ مَلَکُوتَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلِیَکُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِیْنَ۵۸؎
کہ اسی طرح ہم نے ابراہیم کو زمین و آسمان کے اسرار کھول کر دکھائے تا کہ وہ علم میںترقی کرے اور ہماری قدرتوں پریقین لائے ۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ امر کھول کر بیان کر دیا ہے کہ مَیں نے ابراہیم کو اصل جنتر منتر کی سیر کرا دی اور زمین وآسمان کا نقشہ اسے دکھادیا۔ پھر یہیں پر بس نہیںبلکہ قرآن کریم کی امداد کے ذریعہ ان جنتروں منتروں پر انسان کُلّیۃًحاوی ہو جاتا ہے اور کوئی چیز اس کے احاطۂ اقتدار سے باہر نہیں رہتی چنانچہ فرماتا ہے دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْاَدْنٰی۵۹؎ کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کوخداتعالیٰ نے اپنی طرف اُٹھایا اور سورج چاند ستاروں سب کی سیر کراتا ہؤا آپؐ کو اتنا قریب لے گیا کہ کوئی فاصلہ درمیان میں رہا ہی نہ۔ پس مَیں نے دیکھا کہ وہ باتیں جن کی تلاش میںلوگ سالوں سرگردان رہتے ہیں اور پھر بھی ناکام و نامراد رہتے ہیں وہ قرآن کریم کی اتباع میںایسی آسانی سے حاصل ہو جاتی ہیں کہ نہ صرف اپنی خواہشات کو انسان پورا ہوتا دیکھ لیتا ہے بلکہ اور بھی ہزاروں قسم کے علوم اُسے حاصل ہو جاتے ہیں مگر آہ! لوگ معمولی اینٹوں کے بنائے ہوئے جنتر منتر کی تو قدر کرتے ہیں مگر وہ اس جنترمنتر کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتے جو ان کو ہزاروں فوائد سے متمتع کر سکتا ہے۔
قرآنی رصدگاہ میںستاروں کے بداثرات سے بچنے کا علاج
پھر مَیں نے کہا لوگ رصدگاہیں
اس لئے بناتے ہیں کہ وہ ستاروں کے بداثرات کا علم حاصل کر کے ان سے بچ سکیں مگر قرآنی رصدگاہ میں بھی ستاروں کے بداثرات سے بچنے کا کوئی علاج ہے یا نہیں۔ مَیں نے جب دیکھا تو قرآن میںمجھے اس کا بھی علاج نظر آ گیا، آخر لوگ ستاروں کے بداثرات سے بچنے کی کیوں کوشش کرتے ہیں اسی لئے کہ کہیں ان پر کوئی تباہی نہ آ جائے۔ اب آئو ہم دیکھیں کہ کیا تباہیوں سے بچنے کا قرآن کریم نے بھی کوئی علاج بتایا ہے یا نہیں؟ اس مقصد کیلئے جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ گُر بھی قرآن کریم میں بیان ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَ َلآ اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ- اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ - لَھُمُ الْبُشْرٰی فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ لَاتَبْدِیْلَ لِکَلِمٰتِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُ الْعَظِیْمُ ۶۰؎
مَیں نے دہلی میںدیکھا کہ بالکل لغو اور فضول جنتر منتر ہیں جن کا مصائب کے دور کرنے پر کوئی اثر نہیںہو سکتا مگر اس کے مقابلہ میںقرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ دُکھوں او رتکلیفوں سے بچنے کا واحد ذریعہ یہ ہے کہ خدا کے دوست بن جائو پھر جس ستارے کا بھی بدا ثر تم پرہو سکتا ہو اس کو خدا خود دور کردیگا، تمہیں گھبرانے اور فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے ، تمام جنتر منتر اُس کے قبضہ میںہے اگر وہ دیکھے گا کہ سورج کے کسی اثر کی وجہ سے تمہیںنقصان پہنچنے والا ہے تو وہ اس کے بداثر سے تمہیں بچالے گا، اگر دیکھے گا کہ چاند کی کسی گردش سے تم پر تباہی آنیوالی ہے تو وہ خود اس تباہی سے تمہیںمحفوظ رکھے گا، تم ماش اور جَو پر پڑ ھ پڑھ کر کیا پھونکتے ہو؟ تم اللہ تعالیٰ سے دوستی لگائو جب تمہاری اس سے دوستی ہو جائے گی تو مجال ہے کہ اُ س کے کُتیّ تمہیں کچھ کہہ سکیں۔ پس مَیں نے جب قرآنی رصدگاہ میںسے اس علاج کو دیکھا تو میرے دل نے کہا واقعہ میں وہ بالکل فضول طریق ہیں جو لوگوں نے ایجاد کر رکھے ہیں کیوں نہ اِس رصدگاہ کا جو اصل مالک ہے اور جو زندہ اور طاقتور خدا ہے اس سے دوستی لگائی جائے اگر مریخ کی کسی چال کا ہمیںنقصان پہنچ سکتا ہو گا تو خدا خود اس کا علاج کرے گا۔ہم میں ذاتی طور پر یہ کہاں طاقت ہے کہ ہم تمام ستاروں کے بداثرات سے بچ سکیں۔ اگر بِالفرض ایک ستارے کے بداثر سے ہم نکل بھی گئے تو ہمیں کیا پتہ کہ کوئی اور ستارہ ہمیں اپنی گردش میں لے آئے۔پس یہ بالکل غلط طریق ہے کہ انسان ایک ایک ستارہ کے بداثر سے بچنے کی کوشش کرے اصل طریق وہی ہے جو قرآن کریم نے بتایا کہ انسان ان ستاروں کے مالک اور خالق سے دوستی لگالے پھر کسی ستارے کی مجال نہیں کہ وہ انسان پر بداثر ڈال سکے۔
ایک بزرگ کا قصہّ
قصّہ مشہور ہے کہ کوئی بزرگ تھے ان کے پاس ایک دفعہ ایک طالبعلم آیا جو دینی علوم سیکھتا رہا، کچھ عرصہ پڑھنے کے بعد جب وہ اپنے وطن
واپس جانے لگا تو وہ بزرگ اس سے کہنے لگے میاں ایک بات بتاتے جائو۔ وہ کہنے لگا دریافت کیجئے میں بتانے کے لئے تیار ہوں۔ وہ کہنے لگے اچھا یہ تو بتائو کہ تمہارے ہاںشیطان بھی ہوتا ہے ؟ وہ کہنے لگا حضور شیطان کہاں نہیں ہوتا شیطان تو ہر جگہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا اچھا جب تم نے خداتعالیٰ سے دوستی لگانی چاہی اور شیطان نے تمہیں ورغلادیا تو تم کیا کرو گے؟ اس نے کہا میںشیطان کا مقابلہ کروں گا۔ کہنے لگے فرض کرو تم نے شیطان کا مقابلہ کیا اور وہ بھاگ گیا، لیکن پھر تم نے اللہ تعالیٰ کے قُرب کے حصُول کے لئے جدوجہد کی اور پھر تمہیں شیطان نے روک لیا تو کیا کرو گے؟ اس نے کہا مَیں پھر مقابلہ کرونگا۔ وہ کہنے لگے اچھا مان لیا تم نے دوسری دفعہ بھی اُسے بھگا دیا لیکن اگر تیسری دفعہ وہ پھر تم پر حملہ آور ہو گیا اور اس نے تمہیں اللہ تعالیٰ کے قُرب کی طرف بڑھنے نہ دیا تو کیا کرو گے؟ وہ کچھ حیران سا ہو گیا مگر کہنے لگا میرے پاس سوائے اس کے کیا علاج ہے کہ میں پھر اُس کا مقابلہ کروں۔ وہ کہنے لگے اگر ساری عمر تم شیطان سے مقابلہ ہی کرتے رہو گے تو خدا تک کب پہنچو گے۔ وہ لاجواب ہو کر خاموش ہو گیا، اس پر اس بزرگ نے کہا کہ اچھا یہ توبتائو اگر تم اپنے کسی دوست سے ملنے جائو اور اُس نے ایک کُتّا بطور پہرہ دار رکھا ہؤا ہو، اور جب تم اس کے دروازہ پر پہنچنے لگو تو وہ تمہاری ایڑی پکڑ لے تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا کُتّے کو مارونگا اور کیا کرونگا۔ وہ کہنے لگے فرض کرو تم نے اسے مارا اور وہ ہٹ گیا، لیکن اگر دوبارہ تم نے اس دوست سے ملنے کیلئے اپنا قدم آگے بڑھایا اور پھر اس نے تمہیں آپکڑا تو کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا میںپھر ڈنڈا اٹھائونگا اور اُسے ماروں گا انہوں نے کہا اچھا تیسری بار پھر وہ تم پر حملہ آور ہو گیا تو تم کیا کرو گے؟ وہ کہنے لگا اگر وہ کسی طرح باز نہ آیا تو مَیں اپنے دوست کو آواز دونگا کہ ذرا باہر نکلنایہ تمہارا کُتّا مجھے آگے بڑھنے نہیں دیتا اسے سنبھال لو۔ وہ کہنے لگے بس یہی گُر شیطان کے مقابلہ میں بھی اختیار کرنا اور جب تم اس کی تدابیر سے بچ نہ سکو تو خدا سے یہی کہنا کہ وہ اپنے کُتّے کو روکے اور تمہیں اپنے قُرب میںبڑھنے دے یہی نسخہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان کیا ہے وہ فرماتا ہے۔ اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَائَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔
اے بڑی بڑی رصدگاہیں اور جنتر منتر بنانے والو! تم ستاروں کی گردش سے ڈر کر جنتر منتر کی پناہ کیوں ڈھونڈتے ہو، تم اس کاہاتھ کیوں نہیںپکڑ لیتے جس کے قبضۂ قدرت میں یہ تمام چیزیں ہیں۔ اگر تم اس سے دوستی لگا لو تو تمہیںان چیزوں کا کوئی خطرہ نہ رہے اور ہر تباہی اور مصیبت سے بچے رہو۔ یہ علاج ہے جو قرآن کریم نے بتایا ہے۔ رصدگاہوں اور جنتر منتر کا علاج تو بالکل ظنّی ہے مگر یہ وہ علاج ہے جو قطعی اور یقینی ہے۔
قرآنی رصدگاہ سے علِم غیب کی دریافت
دوسری بات جس کی وجہ سے لوگ ستاروں کی طرف توجہ کرتے ہیں علمِ غیب
کی دریافت ہے سو یہ بات بھی حقیقی طور پر قرآنی رصدگاہ سے ہی حاصل ہوتی ہے باقی سب ڈھکونسلے ہیں، چنانچہ مَیں نے دیکھا کہ اس رصدگاہ کے قوانین میںلکھا ہؤا تھا۔ قُلْ لَّا یَعْلَمُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ الْغَیْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ بَلِ ادّٰرَکَ عِلْمُھُمْ فِی الْاٰ خِرَۃِ بَلْ ھُمْ فِیْ شَکٍّ مِّنْھَا بَلْ ھُمْ مِّنْھَا عَمُوْنَ ۶۱؎
فرماتا ہے زمین وآسمان میںسوائے خدا کے اور کوئی غیب نہیںجانتا۔یعنی مصفّٰی علمِ غیب صرف خداتعالیٰ کو ہے اور یہ لوگ جو ستاروں کے پرستار ہیںاور انہیں دیکھ کر غیب کی خبریں بتانے کے دعویدار ہیں یہ تو اپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیں بتا سکتے اوراتنی بات بھی نہیںجانتے کہ ان کی قوم کب ترقی کریگی۔ یہ برابر تباہ ہوتے جا رہے ہیں مگر نہیں جانتے کہ ان کی تباہی کب دُور ہو گی۔ اس کے مقابلہ میںمحمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو پہلے اکیلا تھا آج بہتوں کا سردار بنا ہؤا ہے اگر انہیں ستاروں سے علِم غیب حاصل ہو سکتا ہے تو کیوں یہ اپنی ترقی کا زمانہ نہیں بتا سکتے اور کیوں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ترقی کوجو ستاروں سے علمِ غیب حاصل کرنے کا قائل نہیں روک نہیں دیتے؟ جب یہ اپنی ترقی کا زمانہ بھی نہیںبتا سکتے تو انہوں نے اور کونسی غیب کی خبر بتانی ہے۔پھر فرمایا یہ تو دنیا کی بات ہے بَلِ ادّٰرَکَ عِلْمُھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ۔بعد الموت کی حالت کے متعلق یہ علم سے بالکل خالی ہیںاور حق بات تو یہ ہے کہ یہ اندھوں کی طرح تخمینے کرتے ہیں جو کبھی غلطی کرتا اور کبھی ٹھیک راستہ پر چلتا ہے ۔ جس طرح اندھے کے ہاتھ کبھی لکڑی آجاتی ہے اور کبھی سانپ، اسی طرح ان کو بھی کبھی کوئی ایک آدھ بات درست معلوم ہو جاتی ہے اور کبھی حق سے دُور باتوں کو سچ سمجھ کر یہ پکڑ لیتے ہیں۔
جب مجھے یہ آیت معلو م ہوئی تو مَیں نے کہا کہ اگر مصفّٰی علمِ غیب صرف خداتعالیٰ کے پاس ہی ہے تو ہمیںاس کاکیا فائدہ ہؤا، اٹکل پچو والے کو تو پھر بھی کبھی لکڑی مل جاتی ہے مگر ہم تو اس طرح اٹکل پچو والے فائدہ سے بھی محروم ہو گئے۔ اس پر مَیں نے دیکھا کہ قرآن نے میرے اس شُبہ کا بھی جواب دے دیا اور اس نے فرمایا۔ عٰلِمُ الْغَیْبِ فَلا یُظْھِرُ عَلٰی غَیْبِہٖٓ اَحَدًا اِلَّامَنِ ارْتَضٰی مِنْ رَّسُوْلٍ ۶۲؎ کہ ہم نے یہ علمِ غیب صرف اپنے پاس ہی نہیں رکھا بلکہ ہم کبھی اپنے بندوں کو اس غیب سے مطلع بھی کر دیا کرتے ہیں مگر انہی کوجن کو ہم چُن لیتے ہیں ، ہر کس وناکس کوغیب کی خبریں نہیں بتاتے۔
پھر مَیں نے کہا کہ غلبۂ غیب کا بیشک نبیوںکو ہی حاصل ہو مگر عام انسانوں کوبھی توکبھی علمِ غیب کی ضرورت ہوتی ہے کیا ان کے لئے بھی کوئی راہ ہے؟ اس پرمجھے جواب ملا کہ ہاں۔ اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا تَتَنَزَّلُ عَلَیْھِمُ الْمَلٰئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوْاوَلاتَحْزَنُوْا وَاَبْشِرُوْا بِالْجَنَّۃِ الَّتِیْ کُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ- نَحْنُ اَولِیٰـؤُکُمْ فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَاوَفِی ا لْاٰخِرَۃِ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَدَّعُوْنَ- نُزُلاً مِّنْ غَفُوْرٍ رَّحِیْمٍ۶۳؎
وہ لوگ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر انہوںنے لوگوں کی مخالفت کی پروانہ کی بلکہ استقامت سے سچے مذہب پر قائم رہے اُن پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ کہ ڈرو نہیں اور نہ غم کرو۔ہم فرشتے تمہاری حفاظت ِکیا کریں گے ، تمہاری پچھلی خطائیں معاف ہو چکیں اورآئندہ کے لئے تمہارے ساتھ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ تمہیں جنت میں داخل کریگا، ہم تمہارے دوست ہیں اس دنیا میںبھی اور آخرت میں بھی۔ وہاں جس چیز کے متعلق بھی تمہارا جی چاہے گا وہ تمہیں مل جائیگی اور جو کچھ مانگو گے وہ تمہیںدیا جائے گا،یہ تمہاری مہمان نوازی ہے جو بخشنے والے مہربان رب کی طرف سے ہے۔اس نے تمہارا ماضی بھی درست کر دیااور اس نے تمہارے مستقبل کو بھی ہر قسم کے خطرہ سے آزاد کر دیا۔ـ
منجّموںکی خبروں اور الہام الٰہی میںفرق
اس میںیہ جواب بھی آ گیا کہ ستاروں کی خبریں صرف خبریں ہوتی ہیں اور یہ تقدیر
ہوتی ہے یعنی وہ لوگ جو ستاروں کی گردشیں دیکھ کر دوسروں کو خبریں بتایا کرتے ہیں وہ صرف خبر بتاتے ہیں مثلاً یہ کہہ دیتے ہیں کہ فلاں شخص مرجائے گا۔اب یہ صرف ایک خبر ہے اس میں یہ ذکر نہیں کہ وہ کسی طریق پر عمل کر کے موت سے بچ بھی سکتا ہے لیکن الہا مِ الٰہی میںجہاں انذار ہوتا ہے وہاں تبشیر بھی ہوتی ہے ۔ اگر ایک طرف یہ ذکر ہوتا ہے کہ تمہیں ترقی ملے گی تو دوسری طرف یہ ذکر بھی ہوتا ہے کہ تمہارے دشمن ہلاک کئے جائیںگے اور پھر اُن دشمنوں کو بھی بتا یاجاتا ہے کہ اگر ہمارے نبی پر ایمان لے آئو تو تم ان آنے والی مصیبتوں سے بچ جائو گے لیکن اگر مخالفت اور دشمنی پر مُصِرّ رہے تو پھر تمہاری ہلاکت یقینی ہے۔ گویا ایک تقدیر اور قدرت ہے جو الہامِ الٰہی میںپائی جاتی ہے مگر کسی رصدگاہ سے جو لوگ کوئی خبر معلوم کرتے ہیں اس میں کوئی قدرت اور جلال کاپہلو نہیں ہوتا۔بسا اوقات رصدگاہ والا خود اپنے متعلق جب کوئی بات معلوم کرنا چاہتا ہے تو اُسے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ تیرا بیٹا مر جائے گا اب وہ ہزار کوشش کرے کہ کسی طرح مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ مَیں کس طرح اس مصیبت سے بچ سکتا ہوں تو اسے کسی طرح یہ بات معلوم نہیں ہو سکتی، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف جب توجہ کی جائے تو اس قسم کے تمام عُقدے حل ہو جاتے ہیں پس وہ خبریں صرف خبریں ہوتی ہیں، لیکن الہامِ الٰہی میںقدرت اور جلال کا پہلو پایا جاتا ہے۔
ستاروں سے حاصل کردہ خبروں کی حقیقت
پھر مَیں نے پُوچھا کہ ستاروںسے جو خبریں ملتی ہیں اُن کی حقیقت کیا
ہوتی ہے؟ اس کے جواب میں مجھے ایک نہایت ہی لطیف بات سورۃ الصّٰفّٰتسے معلوم ہوئی۔اللہ تعالیٰ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَاِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَاِبْرٰھِیْمَ اِذْجَائَ رَبَّہٗ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ اِذْقَالَ ِلاَبِیْہِ وَقَوْمِہٖ مَاذَا تَعْبُدُوْنَ اَئِفْکًا اٰلِھَۃً دُوْنَ اللّٰہِ تُرِیْدُوْنَ فَمَاظَنُّکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ فَتَوَلَّوْاعَنْہُ مُدْبِرِیْنَ فَرَاغَ اِلٰٓی اٰلِھَتِھِمْ فَقَالَ اَ َلا تَأْکُلُوْنَ مَالَکُمْ َلا تَنْطِقُوْنَ فَرَاغَ عَلَیْھِمْ ضَرْباً بِالْیَمِیْنِ فَاَقْبَلُوْا اِلَیْہِ یَزِفُّوْنَ قَالَ اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْنَ وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَ مَا تَعْمَلُوْنَ قَالُوا ابْنُوْا لَہٗ بُنْیَانًا فَاَلْقُوْہُ فِی الْجَحِیْمِ فَاَرَادُوْا بِہٖ کَیْدًا فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَسْفَلِیْنَ وَقَالَ اِنِّیْ ذَاھِبٌ اِلٰی رَبِّیْ سَیَھْدِیْنِ۶۴؎
حضرت ابراہیم علیہ السلام اُس قوم سے تعلق رکھتے تھے جو ستارہ پرست تھی چنانچہ قرآن مجید میں ہی ایک دوسرے مقام پر ذکرآتا ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ مخالفوں کو چڑانے اور انہیں سمجھانے کے لئے طنزاً کہا کہ فلاں ستارہ میرا رب ہے مگر جب وہ ڈوب گیا تو کہنے لگے کہ یہ خدا کیسا ہے جو ڈوب گیا۔ مَیں تو ایسے خدا کا قائل نہیںہو سکتا۔ اس کے بعد اُنہوں نے طنزاً چاند کے متعلق کہا کہ وہ میرا رب ہے اور جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے مَیں تو سخت غلطی میں مبتلاء ہو جاتا اگر میرا خدا میری رہبری نہ کرتا، بھلا وہ بھی خدا ہو سکتا ہے جو ڈوب جائے۔ پھر سورج کے متعلق انہوںنے کہا کہ وہ میرا رب ہے مگر جب وہ بھی غروب ہو گیا تو وہ کہنے لگے کہ مَیں ان سب مشرکانہ باتوں سے بیزار ہوں۔میرا خدا تو ایک ہی خدا ہے جو زمین وآسمان کا مالک ہے۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام جس قوم میںسے تھے وہ ستارہ پرست تھی اور چونکہ ستاروں کی پرستش نہیںہو سکتی اس لئے اُنہوں نے مختلف ستاروں کے قائمقام کے طور پر بہت سے بُت بنائے ہوئے تھے اور وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اگر ان بُتوں کی عبادت کی جائے تو جس ستارہ کے یہ قائم مقام ہیں اس کی مدد ہمیںحاصل ہو جائے گی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام جس خاندان میںسے تھے وہ بھی پروہتوں کا خاندان تھا چنانچہ ان کے باپ نے ایک بُتوں کی دکان کھولی ہوئی تھی جس پر وہ کبھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی بٹھا دیتا اور کبھی ان کے دوسرے بھائیوں کو ۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اندر بچپن سے ہی سعادت کا مادہ رکھا ہؤا تھا، چنانچہ یہودی روایات(طالمود) میں آتا ہے کہ ایک دن ان کابھائی انہیں دکان پر بٹھا گیا اور بُتوں کی قیمت وغیرہ بتا کر کہہ گیا کہ اگر کوئی گاہک آئے تواُسے بُت دیدینا۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ ایک بڈھا شخص اس دکان پر آیا اور کہنے لگا کہ مجھے ایک بُت چاہئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک بُت اٹھایااور گاہک کے ہاتھ میں دیدیا۔ وہ اُسے دیکھ کر کہنے لگا کہ اچھا ہے اس کی قیمت بتائو۔ انہوں نے کہا کہ تم پہلے یہ بتائو کہ تم اس بُت کو کیا کرو گے۔ اُس نے کہا اِسے گھر میںلے جائوںگا اور اپنے سامنے رکھ کر اس کے آگے سجدہ کیا کرونگا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ سن کر بڑے زور سے ایک قہقہہ لگایااور کہا تجھے اس کے آگے جھکتے ہوئے شرم نہیںآئے گی۔ تو ستّر اسّی سال کی عمر کا ہو گیا ہے اور یہ بُت وہ ہے جو کَل ہی میرے چچا نے بنوایا ہے بھلا اس بُت نے جسے کل سنگ تراش نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے تجھے کیا فائدہ پہنچانا ہے اور کیا تجھے شرم نہیں آئے گی کہ تو اتنا بڑا آدمی ہو کر اس کے آگے جُھک جائے۔ اب وہ گو بُت پرست ہی تھا مگر یہ فقرہ سُن کر اس کے اندر بُت کو گھر لے جانے کی ہمّت نہ رہی اور وہ وہیں اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ان کے بھائیوں کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے باپ سے شکایت کر دی کہ ابراہیم کو دکان پر نہ بٹھایا جائے ورنہ یہ تمام گاہکوں کو خراب کر دیگا۔ تو ان لوگوں میںستاروں کا علم خاص طو رپر پایا جاتا تھا اور علمِ رمل اور علمِ نجوم آئندہ نسلوں کو سکھایا جاتا تھا ۔جس طرح ہندوئوں میں پنڈت اس کام میں مشّاق ہوتے ہیں اوروہ زائچہ نکالتے اور جنم پتری دیکھتے ہیں اسی طرح ان کو بھی زائچہ نکالنا اور جنم پتری دیکھنا سکھایا جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی چونکہ ایسے ہی خاندان میںسے تھے اس لئے لازماً انہوں نے بھی یہ علم سیکھا، مگر جب بڑے ہوئے اور انہوں نے لوگوں کو توحید کی تعلیم دینی شروع کر دی تو قوم سے ان کی بحثیں شروع ہو گئیں۔
حضرت ابراہیم کا ستارہ پرستوں کو درسِ توحید
ایک دن وہ اپنے رشتہ داروں اور قوم کے دوسرے لوگوں سے
کہنے لگے کہ تم یہ تو سوچو کہ آخر تم کس چیز کی عبادت کرتے ہو۔ تم جھوٹ اور فریب کے ساتھ خداتعالیٰ کوچھوڑ کر اور معبود بناتے ہو اور پھر یہ جانتے ہوئے کہ تم نے خود اپنے ہاتھ سے ان بُتوں کو بنایا ہے ان کے پیچھے چل پڑتے ہو اور انہیں خدا کاشریک قرار دیتے ہو۔ تم جو ستاروں کے پیچھے چل رہے ہو ہمیشہ تم کہتے ہو کہ مریخ نے یہ کر دیا، زحل نے وہ کر دیا۔مشتری نے یہ کیا اور عطارد نے وہ کیا ۔ تم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ربّ العٰلمین کیا کر رہا ہے کس قدر ایک وسیع نظام ہے جوہر چیز میںنظر آتا ہے۔کیا یہ تمام نظام ایک بالا قانون کے بغیر ہی ہے ساری چیزیں اس کے اشاروں پر چل رہی ہیں اور ان ستاروں میں بھی جس قدر طاقتیں ہیں وہ خداتعالیٰ کی ہی عطا کردہ ہیں۔ پس عبادت کا اصل مستحق خدا ہے نہ کہ کوئی اور چیز۔ یہ تقریر آپ کر ہی رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک لطیف نکتہ سمجھا دیا فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِآپ نے ستاروں میں دیکھا فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ اور کہا کہ مَیں بیمار ہوں آپ کایہ کہنا تھا کہ لوگ چلے گئے اور مجلس منتشر ہو گئی۔یہاں مفسّرین کو بڑی مشکل پیش آئی ہے اور وہ حیران ہیں کہ فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ فَقَالَ اِنِّیْ سَقِیْمٌ کے کیا معنی کریں بعض کہتے ہیں کہ اس روز آپ واقعہ میں بیمار تھے جب بحث زیادہ ہو گئی تو انہوں نے کہا اب مجھے آرام کرنے دو مَیں بحث کر کے تھک گیا ہوں۔ مگر بعض کہتے ہیں کہ آپ اس روز بیمار تھے ہی نہیں۔آپ نے اِنِّیْ سَقِیْمٌ جو کہا تو محض ان سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہا ،چونکہ وہ بحث کرتے ہی چلے جاتے تھے اور بس کرنے میںنہیںآتے تھے اس لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بول کر کہدیا کہ مَیں بیمار ہوں چنانچہ وہ چلے گئے۔بعض کہتے ہیں کہ آپ نے جھوٹ نہیں بولا تھوڑے بہت آپ ضرور بیمار تھے چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ آپ کو اُس دن نزلہ کی شکایت تھی۔آپ نے ا نہیں کہہ دیا کہ بھائی اب معاف کرو مَیں بیمار ہوں۔غرض مفسّرین اس موقع پر عجیب طرح گھبرائے ہوئے نظر آتے ہیں اور اُن سے کوئی تاویل بن نہیںپڑتی، کبھی کوئی بات کہتے ہیں اور کبھی کوئی ، مگر سوال یہ ہے کہ اِنِّیْ سَقِیْمٌ سے پہلے یہ الفاظ ہیں کہ فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ۔ انہوں نے ستاروں کو دیکھا۔اب سوال یہ ہے کہ ان کے بیمار ہونے کی خبر کا ستاروں سے کیا تعلق ہے؟ بعض کہتے ہیں کہ انہوں نے ستاروں کو دیکھ کریہ معلوم کیا تھاکہ اب بحث کرتے کرتے بہت دیر ہو گئی ہے حالانکہ دیر ہوجانے کا ستاروں سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔آپ ہی انسان سمجھ لیتا ہے کہ اب فلاں کام کرتے کرتے مجھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ ستاروں کی طرف دیکھ کر کوئی یہ نہیں کہا کرتا کہ اب بہت دیر ہو گئی ہے پھر سوال یہ ہے کہ اگر ستاروں کو دیکھ کر انہوں نے یہی فیصلہ کیا تھا کہ دیر ہو گئی ہے تو انہیں کہہ دینا چاہئے تھا اب بہت دیر ہو گئی ہے تم چلے جائو مگر وہ یہ نہیں کہتے کہ دیر ہو گئی ہے تم چلے جائو بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ مَیں بیمار ہوں۔ اس پر بعض مفسّرین لُغت کی پناہ ڈھونڈنے لگے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ سَقِیْمٌ کے ایک معنے بیزار کے بھی ہیں انہوں نے بحث کرتے کرتے ستاروںکی طرف دیکھا اور کہا کہ مَیں ان ستاروں سے سخت بیزار ہوں۔ اس پر یہ اعتراض پڑتا ہے کہ یہ قول بھی صحیح نہیں ہو سکتا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان مشرکین سے یہ کہنا چاہئے تھا کہ میں تم سے بیزار ہوں۔ ستاروں کے متعلق یہ کہنے کا کیافائدہ تھا کہ میں ان سے بیزار ہوں ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان معنوں میں سے کوئی معنے بھی صحیح نہیں۔ اصل معنے فَنَظَرَ نَظْرَۃً فِی النُّجُوْمِ کے یہ ہیں کہ جب آپ ان لوگوں سے بحث کر رہے تھے تو بحث کرتے کرتے اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں یہ بات ڈالی کہ ان زبانی باتوں سے تو ان کا اطمینان نہیںہو گا تم یوں کرو کہ اسی وقت اپنا زائچہ نکالو چنانچہ جب وہ تقریر کر رہے تھے کہ ستاروں میں کوئی طاقت نہیں کہ وہ کسی کو نقصان پہنچائیں، سب طاقتیںاور قدرتیں خداتعالیٰ کو ہی ہیں۔ تومعاً آپ نے اپنی تقریر کا رُخ بدلا اور کہا دیکھو تم جو ستاروں کی گردشوں اور اُن کی چالوں کے بہت قائل ہو، مَیں تم پر اتمامِ حُجّت کرنے کے لئے تمہارے سامنے اپنا زائچہ نکالتا ہوں چنانچہ انہوں نے جو زائچہ دیکھا تو اس سے مہورت ۶۵؎ یہ نکلی کہ ابراہیم کی خیر نہیں وہ ابھی بیمار ہو جائے گا۔ اس امر کو معلوم کرنے کے لئے چاہے انہوں نے اوپردیکھا ہو اور ممکن ہے کہ اوپر ہی دیکھا ہو کیونکہ فِیْ کا لفظ آیت میںاستعمال ہؤا ہے اور ممکن ہے کہ انہوں نے نقشہ دیکھا ہو، بہرحال جب انہوں نے ستاروں کی چال کو دیکھا اور مقررہ نقشہ سے اپنا زائچہ نکالا، تو اُس میںلکھا تھا کہ فلاں ستارہ کی گردش سے ابراہیم اسی گھڑی بیمار ہو جائے گا (گویا اِنِّیْ سَقِیْمٌ کے یہ معنی نہیں کہ میں بیمار ہوں بلکہ یہ ہیں کہ مَیں بیمار ہونے والا ہوں) جب یہ زائچہ نکل آیا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اب میری اور تمہاری بحث ختم۔ اگرمَیں بیمار ہو گیا تو مَیں مان لونگا کہ تم سچ کہتے ہو اور اگر مَیں بیمار نہ ہؤا تو تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ ستاروں کی گردشوں اور چالوں پر یقین رکھنا اور یہ خیال کرنا کہ ستاروں کا انسانوں پر بھی اثر ہوتا ہے بیہودہ بات ہے۔ چنانچہ اسی پر بات ختم ہو گئی اور وہ اُٹھ کر چلے گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہاں سے فارغ ہوتے ہی بُت خانہ میں گئے اور انہوں نے بُت توڑنے شروع کر دئیے۔ جب ان کے بُت ٹوٹے اور لوگوں کو یہ خبر ہوئی تو وہ دوڑے دوڑے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوںنے کہا دکھائی نہیںدیتا کیا کر رہا ہوں، تمہار ے بُتوں کو توڑ رہا ہوں تا کہ تمہیں یہ معلوم ہو کہ میںبیمار نہیں ہوں اور تمہارے زائچہ نے جو کچھ بتایا تھا وہ غلط ہے انہوں نے جب دیکھا کہ ہمیں دُہری ذلّت پہنچی ہے یعنی ایک تو یہ ذلّت کہ ستارے کا اثر جو زائچہ سے نکلا تھا وہ غلط ثابت ہؤا اور دوسری یہ ذلّت کہ ہمارے بُت اُسی گھڑی توڑے گئے ہیں جس گھڑی ابراہیم نے بیمار ہونا تھا تو وہ سخت طیش میںآ گئے اور انہوں نے فیصلہ کیا کہ ابراہیم کو اُسی وقت آگ میںڈال کر جلا دیا جائے تاکہ ہم لوگوںسے یہ کہہ سکیںکہ زائچہ میںجو یہ لکھا تھا کہ ابراہیم پر ایک آفت آئے گی وہ یہی آفت تھی کہ ابراہیم آگ میں جل کر مر گیا۔مگر جب انہوں نے آگ جلائی اور حضرت ابراہیم ؑکو اس میںڈالا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کئے کہ بارش ہو گئی اور آگ بُجھ گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس میںسے سلامت نکل آئے اور اس طرح جو تدبیر انہوں نے زائچہ کو درست ثابت کرنے کے لئے اختیار کی تھی وہ بھی ناکام گئی۔یہی وجہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس کے بعد دوسرے یا تیسرے دن انہوں نے دوبارہ آگ میں نہیںڈالا کیونکہ اگر دوسرے تیسرے دن پھر آگ میںڈالتے تو ان کی سچائی ثابت نہ ہو سکتی ۔ ان کے زائچہ کی سچائی اُسی وقت ثابت ہو سکتی تھی جب کہ اُسی گھڑی حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں جل جاتے جس گھڑی آپ پر کسی آفت کا اُترنا زائچہ بتلاتا تھا مگر جب وہ وقت گزر گیا تو چونکہ اس کے بعد اگر آپ کو وہ دوبارہ بھی آگ میںڈالتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تکذیب نہیںہو سکتی تھی اس لئے پھر انہوں نے آپ کو آگ میں نہ ڈالا حالانکہ اگر انہوں نے آپ کو توحید کی وجہ سے ہی آگ میںڈالا تھا تو چاہئے تھا کہ ایک دفعہ جب وہ اپنے مقصد میں ناکام رہے تھے تو دوسری دفعہ پھر آپ کو جلانے کی کوشش کرتے مگر انہوںنے بعد میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی جس سے یہ بات یقینی طور پر ثابت ہو تی ہے کہ انہوں نے آپ کو آگ میں اسی لئے ڈالا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ ان کی وہ خبر درست نکلے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق زائچہ سے نکلی تھی۔
اب دیکھو یہ کس طرح ایک مکمل دلیل ستارہ پرستوں کے خلاف بن گئی۔ زائچہ دیکھا گیا اور اس سے سب کے سامنے یہ نتیجہ نکلا کہ ابراہیم پراسی وقت کوئی شدید آفت آنیوالی ہے جو اسے تباہ کر دیگی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا بس اسی پرمیری اور تمہاری بحث ختم۔ اگر میںتباہ ہو گیا تو تم سچے اور اگر نہ ہؤا تو مَیںسچا۔ جب وہ چلے گئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی تکذیب واضح کرنے کے لئے بُتوں کو توڑنا شروع کر دیا۔ اگر یہ معنی نہ کئے جائیں تو اُس دن بُتوں کو خاص طور پر توڑنے کا کوئی مطلب ہی نہیںہو سکتا۔آپ نے اُس دن خاص طور پر اسی لئے بُت توڑے کہ جس وقت آپ بُت توڑ رہے تھے وہی وقت زائچہ کے مطابق آپ کی بیماری کا تھا۔ پس آپ نے اپنے عمل سے انہیں زبردست شکست دی اور بتایا کہ تم توکہتے تھے مَیں فلاں وقت بیمار ہو جائوںگا مگر میں نے اسی وقت تمہارے بُتوں کے ناک کاٹ ڈالے ہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ جب ان کی قوم کو یہ خطرناک زِک پہنچی تو اس کے بعد آپ نے سمجھا کہ اب اس عملی زِک کے نتیجہ میںلوگوں کے دلوں میںایسا بُغض بیٹھ گیا ہے کہ میرا یہاں رہنا ٹھیک نہیں چنانچہ وہ اس علاقہ کو چھوڑ کر کسی دوسرے علاقہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے۔
پھر مَیں نے کہا کہ اچھا جو حصہ حساب وتاریخ کا رہ گیا ہے اس کے متعلق مجھے اس رصدگاہ سے کیا اطلاع ملتی ہے جب میرے دل میں یہ سوال پیداہؤا تو مجھے اس کے متعلق یہ اطلاعات ملیں۔
سورج، چاند اور ستارے سب انسان
اوّل: سورج اور چاند اور ستارے سب اپنی ذات میں مقصود نہیں بلکہ یہ سب ایک اعلیٰ ہستی
کی خدمت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں
کے کام اور فائدہ کے لئے بنائے گئے ہیںاور وہ اعلیٰ ہستی انسان ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ نحل
میں فرماتا ہے۔ وَسَخَّرَ لَکُمُ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌ بِاَمْرِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۶۶؎
کہ اے بیوقوف انسان! تو خواہ مخواہ سورج، چاند اور ستاروں کی طرف دَوڑ رہا ہے کیا تجھے معلوم نہیں کہ یہ رات دن سورج ،چانداور ستارے سب تیری خدمت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں مگر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ جسے ہم نے خاد م قرار دیا تھا اس کو تم اپنا مخدوم قر ار دے رہے ہو اور جسے ہم نے مخدوم بنا کر بھیجا تھا وہ خادم بن رہا ہے تم ان سے ڈرتے اور گھبراتے کیوں ہو۔ کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کوئی آقا اپنے نوکر سے ڈر رہا ہو اور اس کے آگے ہاتھ جوڑ تا پھرتا ہو، یا کوئی افسر اپنے چپڑاسی کی منتیں کرتا رہتا ہو اور گر تم کسی کو ایسا کرتے دیکھو تو کیا تم نہیں کہو گے کہ وہ پاگل ہو گیا ہے۔ پھر تمہیں کیوں اتنی موٹی بات بھی سمجھ نہیںآتی کہ وَسَخَّرَ لَکُمْ ہم نے تو ان تمام چیزوں کو تمہارا غلام بناکر دنیا میںپید ا کیا ہے اور ان سب کا فرض ہے کہ وہ تمہاری خدمت کریں۔ بیشک یہ بڑی چیزیں ہیں مگر جس ہستی نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان سے بھی بڑی ہے ۔ اس نے تو ان چیزوں کو تمہاری خدمت کے لئے پیدا کیا ہے مگر تمہاری عجیب حالت ہے کہ تم اُلٹا انہیں کے آگے اپنے ہاتھ جوڑ رہے ہو ۔قرآ ن کریم نے جوشرک کی اس بیہودگی کی طرف اس زور سے توجہ دلائی ہے ۔ مجھے اس کے متعلق ایک قصہ یاد آ گیا وہ بھی بیان کرتا ہوں کہ اس سے مُشرکوں کی بے وقوفی پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ وہ قصّہ یہ ہے کہ فرانس میںدو پادری ایک دفعہ سفر کر رہے تھے کہ سفر کرتے کرتے رات آ گئی اور انہیں ضرورت محسوس ہوئی کہ کہیں رات آرام سے بسر کریں اور صبح پھر اپنی منزلِ مقصود کی طرف روانہ ہو جائیں۔ انہوں نے ایک مکان کا دروازہ کھٹکھٹایا، اندر سے ایک عورت نکلی، انہوں نے کہا ہم مسافر ہیں ، صرف رات کاٹنا چاہتے ہیں اگر تکلیف نہ ہو تو تھوڑی سی جگہ کا ہمارے لئے انتظام کر دیا جائے ،ہم صبح چلے جائیں گے۔ اس نے کہا جگہ تو کوئی نہیں ،ایک ہی کمرہ ہے جس میں ہم میاںبیوی رہتے ہیں مگر چونکہ تمہیںبھی ضرورت ہے اس لئے ہم اس کمرہ میں ایک پردہ لٹکالیتے ہیں ایک طرف تم سوتے رہنا،دوسری طرف ہم رات گذار لیں گے۔ چنانچہ اس نے پردہ لٹکا دیا اور وہ دونوں اندر آگئے۔ اتفاق یہ ہے اُن کے پاس کچھ روپے بھی تھے، اب جب وہ سونے کے لئے لیٹے تو انہیں خیال آیا کہ کہیںیہ گھر والے ہماری نقدی نہ چُرالیں۔ اس لئے انہوں نے ایک دوسرے سے کہا کہ ذرا ہوشیار رہنا اور جاگتے رہنا، ایسا نہ ہو کہ ہم لُوٹے جائیں۔ا دھر میاں جوپیشہ میںقصّاب تھا اس خیال سے کہ ہمارے مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو بیوی سے آہستہ آہستہ باتیںکرنے لگا ان پادریوں کے پاس چونکہ روپیہ تھا انہوں نے سوچا کہ کہیں یہ لوگ ہمیں لُوٹنے کی تجویز تو نہیں کر رہے اور کان لگا کر باتیں سننے لگے۔ اُن دونوں میاں بیوی نے دو سؤر پال رکھے تھے جو سؤر خانے میںتھے اور وہ چاہتے تھے کہ ان میںسے ایک کو دوسرے دن ذبح کر دیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ ایک سؤر موٹا تھا اور ایک دُبلا تھا۔ا سی طرح ایک پادری بھی موٹا تھا اور ایک دُبلا۔جب پادریوں نے کان لگا کر سُننا شروع کیا تو اُس وقت میاں بیوی آپس میںیہ گفتگو کر رہے تھے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک کو ذبح کر دیا جائے ،خاوند کہنے لگا کہ میری بھی یہی صلاح ہے کہ ایک کوذبح کر دیا جائے۔ پادریوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے سمجھا کہ بس اب ہماری خیر نہیںیہ ضرور چھُرا لے کر ہم پر حملہ کر دیں گے اور ہمیں مار کر نقدی اپنے قبضہ میں کر لیں گے مگر انہوں نے کہا ابھی یہ فیصلہ کرنا ٹھیک نہیں ذرا اور باتیں بھی سُن لیں ۔ پھر انہوں نے کان لگائے تو انہوںنے سُنا کہ بیوی کہہ رہی ہے پہلے کس کوذبح کریں؟ میاںنے کہا پہلے موٹے کو ذبح کرو پتلا جو ہے اُسے چند دن ِکھلا ِپلا کر پھر ذبح کردینگے۔ یہ بات انہوںنے جو نہی سُنی وہ سخت گھبرائے اور انہیں یقین ہو گیا کہ اب ہمارے قتل کی تجویز پختہ ہو چکی ہے چنانچہ انہوںنے چاہا کہ کسی طرح اس مکان سے بھاگ نکلیں۔ دروازے چونکہ بند تھے اس لئے دروازوں سے نکلنے کا تو کوئی راستہ نہ تھا۔ وہ بالا خانہ پر لیٹے ہوئے تھے انہوں نے نظر جوماری تو دیکھاکہ ایک کھڑکی کھلی ہے بس انہوںنے جلدی سے اُٹھ کر کھڑکی میں سے چھلانگ لگا دی جو موٹا پادری تھا وہ پہلے گِرا اور جو دُبلا پادری تھا وہ اس موٹے پادری کے اوپرآ پڑا۔دُبلے کو تو کوئی چوٹ نہ لگی، مگر موٹا جو پہلے گِرا تھا اس کے پائوں میںسخت موچ آ گئی اور وہ چلنے کے ناقابل ہو گیا۔ یہ دیکھ کر دُبلا پادری فوراً بھاگ کھڑا ہؤا اور ساتھی کو کہتا گیا کہ مَیں علاقہ کے رئیس سے کچھ سپاہی مددکے لئے لاتا ہوں تم فکر نہ کرو اور اِدھر اُدھر چمٹ کر اپنے آپ کو بچائو۔ اُدھر موٹے پادری کو یہ فکر ہؤا کہ کہیں گھر والے چھُری لے کر نہ پہنچ جائیں اور مجھے ذبح نہ کر دیں۔چنانچہ اُس نے آہستہ آہستہ گھسٹنا شروع کیا اور گھسٹتے گھسٹتے وہ اُس سؤر خانہ کے پاس جاپہنچا جس میںمیزبان کے سؤر بند تھے مگراسے کچھ پتہ نہ تھا کہ اندر سؤر ہیں یاکیا ہے، اُس نے خیال کیا کہ مَیں یہاں چُھپ کر بیٹھ جاتا ہوں تا کہ گھر والے میرا تعاقب کرتے ہوئے مجھے دیکھ نہ لیں ۔ جب اُ س نے سؤر خانہ کا دروازہ کھولا تو سؤر ڈر کے مارے نکل بھاگے اور یہ اندر چھپ کر بیٹھ گیا۔تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ قصاب چُھری لے کے موٹے سؤر کو ذبح کرنے کے لئے وہاں پہنچ گیا۔پادری نے سمجھا کہ اب میری خیر نہیں یہ ضرور مجھے مارڈالے گا۔چنانچہ وہ اور زیادہ دبک کر کونے میںچھپ گیا قصاب نے ڈنڈا ہلایا اور کہانکل نکل ، مگر وہ اور زیادہ سمٹ سمٹا کر ایک طرف ہو گیا وہ حیران ہؤا کہ سؤر نکلتا کیوں نہیں مگر خیرا س نے اور زیادہ زور سے ڈنڈا پھیر ا اور آواز دے کر سؤر کو باہر نکالنا چاہا اور آخر گھسیٹ کر باہر نکال لیا۔پادری نے سمجھ لیا کہ اب کوئی چارہ نجات کانہیں اب میرے ذبح ہونے کا وقت آ گیا ہے اور وہ آخری کوشش کے طور پر قصاب کے آگے ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میں پادری ہوں مَیں نے تمہارا کوئی قصور نہیں کیا۔ خدا کے لئے معاف کرو۔ ادھر قصاب نے جب دیکھا کہ سؤر کی بجائے اندر سے ایک آدمی نِکل آیا ہے تو وہ سخت حیران ہؤا اور اس نے سمجھا کہ یہ کوئی فرشتہ ہے جو میری جان نکالنے کے لئے یہاں آیا ہے چنانچہ وہ ڈر کر دوزانو ہو کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اور ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے لگ گیا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو ابھی میں مرنے کے قابل نہیں مجھے اپنے کام درست کر لینے دو اور اپنے گناہوں سے تائب ہو لینے دو۔ اب یہ عجیب نظارہ تھا کہ ایک طرف پادری ہاتھ جوڑ ے جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ خدا کے لئے مجھ پر رحم کرو اوردوسری طرف وہ قصاب ہاتھ جوڑ رہا تھا اور کہہ رہا تھا خدا کے لئے مجھ پررحم کرو۔تھوڑی دیر تو وہ اسی طرح ایک دوسرے کی منتیں سماجتیں کرتے رہے اور گھبراہٹ میں نہ وہ اس کی سنتا تھا اور نہ یہ اس کی مگر آخر دونوں کے ہوش کچھ بجا ہونے لگے اور انہوں نے دیکھا کہ نہ وہ اس کو ذبح کرتا ہے اور نہ یہ اس کی جان نکال رہا ہے بلکہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ رہے ہیں یہ دیکھ کر اُن کی عقل کچھ ٹھکانے لگی اور حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے اور قصاب نے جو غور کیا تو اپنے سامنے رات والا پادری بیٹھا دیکھا اور حیرت سے پوچھا کہ تم یہاں کہاں؟ اس نے کہا کہ رات کو ہم نے تم میاںبیوی کو یہ کہتے ہوئے سن پایا تھا کہ موٹے کو صبح ذبح کر دینگے او ر دُبلے کو کچھ دن ِکھلا ِپلا کر۔ اس لئے ہم کھڑکی سے کُود کر بھاگے اور میرا چونکہ پائوں چوٹ کھا گیا تھا مَیں اِس سؤرخانہ میں چُھپ کر بیٹھ گیا اور میرا ساتھی فوج کی مدد لینے گیا ہے۔ا س پر قصاب نے بے اختیار ہنسنا شروع کیااور بتایا کہ ان کے دو سؤر ہیں ایک موٹا اور ایک دُبلا۔ وہ تو ان سؤروں میں سے موٹے کے ذبح کرنے کی تجویز کر رہے تھے او رآہستہ آہستہ اس لئے بول رہے تھے کہ مہمانوں کی نیند خراب نہ ہو۔اتنے میں سرکاری سوار بھی آ گئے او ر اس حقیقت کو معلو م کر کے سب ہنستے ہنستے لَوٹ گئے۔یہی حال ستارہ پرستوں کا ہے۔ اللہ میاں نے ان کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقرر کیاہے اور وہ انسان کی خدمت کر رہے ہیں مگر انسان ہے کہ ان کے آگے ہاتھ جوڑ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ خدا کے لئے ہم پر رحم کرو۔گویا ستارے اس کے غلام بن رہے ہیں اور یہ ان کا غلام بن رہا ہے ۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے آخر میں بیان کی ہے کہ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ یہ سب انسانوں کے خدمتگذار تو ہیں مگر انہی کے لئے جو ان امور کو دیکھیں اور عقل اور سمجھ سے کام لیں ایسے لوگ کبھی بھی ان کو خدائی صفات والا قرار نہیں دے سکتے ۔ہاں اگر کوئی اس فرانسسکن (FRANCISCAN) پادری کی طرف بِلاوجہ ڈر کرہاتھ جوڑنے لگ جائے تو اور بات ہے۔
سب اجرامِ فلکی ایک عالمگیر قانون کے تابع ہیں!
(۲) دوسری بات مجھے یہ معلوم ہوئی کہ سورج چاند اور
ستارے سب ایک عالمگیر قانون کے ماتحت چل رہے ہیںاور اس امر کا ثبوت ہیں کہ ایک زبردست ہستی ان سب پر حاکم ہے، چنانچہ مَیں نے قرآن کریم کو دیکھا تو وہاں یہ لکھا ہؤا تھاکہ اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ یَسْجُدُلَہ‘ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُوْمُ وَ الْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَ الدَّوَابُّ وَکَثِیْرٌ مِّنَ النَّاسِ وَکَثِیْرٌ حَقَّ عَلَیْہِ الْعَذَابُ۔ وَمَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍ۔ اِنَّ اللّٰہَ یَفْعَلُ مَایَشَائُ ۶۷؎
یعنی اے بیوقوفو! کیا تمہیں معلوم نہیںآسمان اور زمین میں جو کچھ ہے اور سورج، چاند، ستارے،پہاڑ، درخت،چوپائے اور انسانوں میںسے بھی بہت سے لوگ سب خداتعالیٰ کی اطاعت میں لگے ہوئے ہیں اور بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے لئے عذاب مقرر ہو چکا ہے اور جسے خدا ذلیل کرے اُسے کوئی عزّت نہیں دے سکتا، اللہ تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔غرض بتایا کہ دنیا میں جس قدر چیزیں ہیںوہ سب ایک قانون کے ماتحت چل رہی ہیں، سورج کیا اور چاند کیا اور ستارے کیا اور پہاڑ کیا اور درخت کیا سب ایک خاص نظام کے ماتحت حرکت کرتے ہیں اور ہر ایک کے منہ میں لگام پڑی ہوئی ہے پھر تم ان چیزوں کو جن کو خود لگامیں پڑی ہوئی ہیں خدا کس طرح قرار دیتے ہو۔ یہ چیزیں تو خود تمہارے آگے آگے بطور خدمت گار چل رہی ہیں مگر تم ایسے احمق ہو کہ تم انہی کے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے ہو اور اس طرح اپنے آپ کو ذلیل کر رہے ہو اور یہ اس امر کی سزا ہے کہ تم نے اپنے پیدا کرنے والے خدا کو چھوڑ دیا۔ پس اُس نے تم کوتمہارے ہی غلاموں کا غلام بنا دیا وَمَنْ یُّھِنِ اللّٰہُ فَمَالَہ‘ مِنْ مُّکْرِمٍ اور جسے خدا ذلیل کرد ے اسے کوئی عزت نہیںدے سکتا۔ـ
سورج کو ضیاء اور چاند کو نُور بنایا گیا ہے۔
(۳)تیسری بات مجھے یہ معلوم ہوئی کہ سورج اپنی ذات میںروشن ہے اور چاند
دوسرے سے روشنی اخذ کرتا ہے چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن مجید میں لکھا ہؤا ہے۔ ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَائً وَّالْقَمَرَنُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَالسِّنِیْنَ وَ الْحِسَابَ مَاخَلَقَ اللّٰہُ ذٰلِکَ اِلَّابِالْحَقِّ۔ یُفَصِّلُ ا لْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ۶۸؎
کہ خدا ہی ہے جس نے سورج کو ضیاء بنایا اور چاندکو نور ۔ضیاء کے معنے ہیں اپنی ذات میں جلنے والی اور روشن چیز۔ ا ور نور اُسے کہتے ہیں جو دوسرے کے اثرکے ماتحت روشن ہو۔ پس خداتعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتادیا کہ سورج تو اپنی ذات میں روشن ہے مگر چاند سورج سے اکتسابِ نور کرتا ہے۔
پھر اسی مضمون کو مَیں نے ایک اور لطیف طرز میںبھی قرآن کریم میںموجود پایا چنانچہ مَیں نے دیکھا کہ قرآن مجید میںلکھا ہے۔اَلَمْ تَرََوْا کَیْفَ خَلَقَ اللّٰہُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَا قاً وَّجَعَلَ الْقَمَرَ فِیْھِنَّ نُوْرًا وَّجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ۶۹؎
کہ کیا تم نہیں دیکھتے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو کس طرح تہہ بہ تہہ بنایا ہے اور چاند کو اُ س نے نور اور سورج کو اس نے سراج بنایا ہے، سراج اُس دئیے کو کہتے ہیں جس میں بتی روشن ہو۔ پس سراج کا لفظ استعمال کر کے بھی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ سورج کے اندر خود ایک آگ ہے جس کی وجہ سے اس کی روشنی تمام جہان پر پھیلتی ہے۔موجودہ تحقیق نے بھی یہی ثابت کیا ہے کہ سورج میں ریڈیم کے اجزاء کی وجہ سے ایک جلتی ہوئی آگ ہے اور اسی وجہ سے وہ روشن ہے۔ اب دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے صرف سراج کے لفظ میں ہی آج سے تیرہ سَو سال پہلے وہ نکتہ بتا دیا تھاجسے تیرھویں صدی ہجری میںیورپین محققین نے دریافت کیا اور بتادیا تھا کہ سورج کی روشنی ذاتی ہے اور چاند کی طفیلی جس طرح دئیے کی بتّی جلتی ہے اسی طرح سورج میںایک ایسی آگ ہے جس کی وجہ سے وہ ہر وقت روشن رہتا ہے مگر چاند میںایسی کوئی روشنی نہیںوہ جو کچھ حاصل کرتا ہے سورج سے حاصل کرتا ہے اسی لئے سورج کو تو سراج کہا مگر چاند کو نور قرا ردیا۔
(۴) چوتھی بات قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ سورج اور چاند کی بناوٹ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آخر یہ بھی فنا ہو جائیںگے، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَھَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ۔ کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ۷۰؎
کہ خدا ہی ہے جس نے آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے بلند کیا۔ پھر وہ عرش پر جاگزیں ہو گیا اور اس نے سورج اور چاند کو انسانوں کی خدمت کے لئے مقر رکردیا، ان میں سے ہر ایک اپنے اپنے دائرہ میں حرکت کر رہا ہے مگر یہ تمام حرکات لِاَجَلٍ مُّسَمًّی ایک وقت مقررہ تک ہیں، جب مقررہ وقت ختم ہو گیا تو اس کے بعد ان پر تباہی آجائے گی، آجکل اہل یورپ کی تحقیقات سے بھی یہی ثابت ہؤا ہے کہ یہ تمام چیزیں ایک دن تباہ ہو جائیں گی، پہلے یورپین لوگ قیامت کے منکر ہؤا کرتے تھے اور وہ اسلام کے اس عقیدہ کو تسلیم نہیں کرتے تھے کہ کسی دن تمام کارخانۂ عالَم درہم برہم ہو جائے گا اور سورج ، چاند اور ستارے سب فنا ہو جائیںگے مگر موجودہ تحقیق سے وہ اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ستاروں، چاند اور سورج کی گردش ایک دن یقینا ٹوٹ جائے گی اور دنیا پر قیامت آ جائے گی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میںیہی فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو تمہارے لئے ّمسخر تو کیا ہے مگر ان تمام کی رفتار یں ایک دن ختم ہونے والی ہیں یہ نہیں کہ یہ کوئی دائمی چیز ہیں۔
سورج اور چاند کا حساب اور تاریخ سے تعلق
(۵) پھر مَیں نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ ان رصدگاہوں سے جو
حساب وغیرہ نکالتے ہیں۔ کیا یہ صحیح ہے اور کیا قرآنی رصدگاہ میںاس کو تسلیم کیا گیا ہے،مَیں نے جب غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ قرآن اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے اور وہ فرماتا ہے کہ سورج اور چاند یہ دونوں حساب اور تاریخ بتانے کے لئے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ھُوَالَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَائً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّ قَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَالسِّنِیْنَ وَالْحِسَابَ۔
کہ ہم نے سورج کو ضیاء اور قمر کو نور بنایا ہے اسی طرح سورج اور چاند کی ہم نے منازل مقرر کردی ہیں تا کہ تمہیں سالوںکی گِنتی اور حساب معلوم ہؤا کرے گویا سورج اور چاند دونوں سالوں کی گِنتی اور حساب کا ایک ذریعہ ہیں، اسی طرح فرمایا۔ فَالِقُ الْاِصْبَاحِ وَجَعَلَ اللَّیْلَ سَکَناً وَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ حُسْبَاناً۔ ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِالْعَلِیْمِ۔۷۱؎
کہ خدا صبح کو نکالنے والا ہے۔اسی نے رات کو سکون کا موجب اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا ہے اور یہ فیصلہ ایک غالب اور علم رکھنے والے خدا کا ہے پھر فرمایا اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُبِحُسْبَانٍ۷۲؎
سورج اور چاند دونوں ہم نے حساب کے کام پر لگائے ہوئے ہیں۔
مَیں نے جب قرآن کریم میںان آیات کو دیکھا اور ان پرغور وتدبّر کیا تو مَیںاس نتیجہ پر پہنچا کہ واقع میں تاریخ اور حساب کے ساتھ سورج اور چاند دونوں کا بہت بڑا تعلق ہے اور یہ علوم کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے تھے اگر سورج اور چاند کا وجود نہ ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ حساب کی وسعت ستاروں کی رفتار سے ہوئی ہے اور جس قدر باریک حساب ہیں وہ علمِ ہیئت کی وجہ سے ہی ہیں۔ اگر علمِ ہیئت نہ ہوتا اور ستاروں کی گردشیں اور ان کی رفتاریں مقرر نہ ہوتیں تو اربوں کھربوں کے جس قدر حسابات ہیں وہ کبھی صحیح طور پر نہ ہو سکتے۔ اسی طرح سورج اور چاند اگر نہ ہوتے تو دِنوں اور سالوں کا اندازہ نہ ہو سکتا اس لئے کہ اندازہ اور فاصلہ معلو م کرنے کے لئے کسی مستقل چیز کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے جیسے پٹواری جب حساب لگاتے ہیںتوکہتے ہیں کہ فلاں زمین فلاں کنویں سے اتنے کرم کے فاصلہ پر ہے یا فلاں درخت سے اتنے کرم کے فاصلہ پر ہے پس کسی مستقل چیزکے بغیر فاصلے کا معلوم کرنا ناممکن ہوتا ہے اسی وجہ سے سالوں اور دنوں کا بھی اندازہ نہ ہو سکتا اگر سورج اور چاند نہ ہوتے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر سورج اور چاند نہ ہوتے اور یونہی روشنی ہو جاتی یا تاریکی ہو جاتی تو اس طرح بھی دن رات ہو سکتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ اگر یونہی روشنی ہو جاتی تو اس کامستقل کنارہ کونسا ہوتا اور کیونکر معلوم ہوتاکہ فلاں مستقل کنارے سے فلاںسال شروع ہؤا ہے اور فلاں مستقل کنارے سے فلاں سال۔
تقویم شمسی کی ضرورت اور اس کی اہمیت
بہرحال چاند اور سورج دونوں کا سالوں مہینوں اور دنوں کے حساب سے
تعلق ہے، لیکن مجھے خیال آیا کہ چاند سے تو ہم پھر بھی کچھ نہ کچھ فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور ہجری قمری ہم میں جاری ہے جس سے لوگ بہت کچھ فائدہ اُٹھاتے ہیں مگر سورج سے تو ہم بالکل فائدہ نہیں اُٹھا رہے حالانکہ جیسا کہ قرآن کریم بیان کرتا ہے سورج اور چاند دونوں ہی حساب کے لئے مفید ہیں اور دوسری طرف عقلی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو ان دونوں میںفوائد نظر آتے ہیں۔ چنانچہ وقت اور زمانہ کی تعیین کے لحاظ سے سورج مفید ہے اور عبادتوں کوشرعی طریق پر چلانے کے لئے چاند مفید ہے اس لئے کہ چاند کے لحاظ سے موسم بدلتے رہتے ہیں اور انسان سال کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا قرار پا سکتا ہے۔مثلاً رمضان ہیَ اب اس کا انحصار چونکہ قمری مہینوں پر ہے اس لئے ۳۶ سال میں ایک دَور ختم ہو جاتا ہے اور سال کے بارہ مہینوں میں ہی رمضان کے ایام آجاتے ہیں، کبھی جنوری میں آجاتا ہے، کبھی فروری میں آ جاتا ہے، کبھی مارچ میں آجاتا ہے، کبھی اپریل میں آجاتا ہے غرض وہ کبھی کسی مہینہ میںآ جاتا ہے اور کبھی کسی مہینہ میں اور اس طرح سال کے تین سو ساٹھ دنوںمیں ہر دن ایسا ہوتا ہے جس میںانسان نے روز ہ رکھا ہوتا ہے لیکن اگر قمری مہینوں کی بجائے شمسی مہینوں پر روزے مقرر ہوتے تو اگر ایک دفعہ جنوری میں روزے آتے تو پھر ہمیشہ جنوری میں ہی روزے رکھنے پڑتے اور اس طرح عبادت کو وسعت حاصل نہ ہوتی ۔پس عبادت کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے اور اس غرض کے لئے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لحظہ کے متعلق یہ کہہ سکے کہ وہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت میںگزارا ہے، عبادت کا انحصار قمری مہینوں پر رکھا گیا ہے،لیکن وقت کی تعیینِ صحیح کے لئے سورج مفید ہے اور سال کے اختتام یا اس کے شروع ہونے کے لحاظ سے انسانی دماغ سورج سے ہی تسلی پاتا ہے۔ بہرحال مجھے خیال آیا کہ ہم مسلمانوں نے قمری تاریخوں سے تو فائدہ اُٹھایا ہے لیکن شمسی تاریخوں سے فائدہ نہیں اٹھایا ، حالانکہ قمری شمسی دونوں میںفوائد ہیں اور چونکہ ہر انسان شمسی حساب پر مجبور ہوتا ہے اس لئے مسلمانوں نے بھی مجبوراً عیسوی سن استعمال کرناشروع کر دیا حالانکہ اگر ہم ہجری قمری کے ساتھ ہجری شمسی بھی بناتے اور ہجری قمری تاریخوں کے بِالمقابل ہجری شمسی تاریخیں بھی ہوتیں توقطعاً کوئی جھگڑا نہ ہوتا۔
اب اگر کوئی شخص یہ معلوم کرنا چاہے کہ ۶۲۲ ہجری کب تھا اوراُس وقت شمسی کے لحاظ سے کونسا سال تھا تو وہ فوراً معلوم نہیں کر سکتا اور محض۶۲۲ہجری کہنے سے اس کی تسلی نہیں ہوتی کیونکہ سال کے لحاظ سے انسانی دماغ سورج ہی سے تسلی پاتا ہے، اسی وجہ سے لوگ ہجری قمری سالوں کے عیسوی سن معلوم کرتے ہیں اور اس طرح خواہ مخواہ مسلمان بھی عیسوی سن کو اپنے اندر رائج کئے ہوئے ہیں۔
میرے نزدیک ضروری تھا کہ جس طرح ہجری قمری بنائی گئی تھی اسی طرح ہجری شمسی بھی بنائی جاتی اور ان دونوں سے فائدہ اُٹھایا جاتا، مگر مجھے یہ بات جنتر منتر کودیکھ کر سُوجھی اور مَیں نے اسی وقت سے تہیہ کرلیا کہ اس بارہ میں کامل تحقیق کر کے عیسوی شمسی سن کی بجائے ہجری شمسی سن جاری کر دیا جائے گا۔ جب میں واپس آیا تو اتفاق کی بات ہے کہ مجھے اس بارہ میں اپنی لائبریری سے ایک کتاب بھی مل گئی۔ میر ے ساتھ خداتعالیٰ کی یہ عجیب سنت ہے کہ مجھے جب بھی کسی چیز کی شدید ضرورت ہو وہ آپ ہی آپ میرے سامنے آجاتی ہے بعض دفعہ مجھے قرآن کریم کی آیتوں کے حوالوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اُس وقت کوئی حافظ پاس ہوتا نہیں تو مَیں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایسے وقت میںبسا اوقات جب قرآن کھولتا ہوں تو وہی آیت سامنے آ جاتی ہے جس کی مجھے ضرورت ہوتی ہے۔
گزشتہ سال مَیں نے جلسہ سالانہ پرجو تقریر کی، اُس کے نوٹ لکھنے کی مجھے فُرصت نہیں ملتی تھی۔ ایک دن میں نے اس کا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب سے ذکر کیا تووہ ہنس کر کہنے لگے کہ میں نے تو دیکھا ہے جب بھی آپ کو فُرصت نہ ملے اُس وقت خداتعالیٰ کی خاص تائید ہوتی ہے چنانچہ واقعہ میںایسا ہی ہؤا جب مَیںنوٹ لکھنے کے لئے بیٹھا جس کے لئے بہت سے حوالوں کی ضرورت تھی تو وہ حیرت انگیز طور پر جلد جلد نکلتے گئے حتیٰ کہ ایک عجیب بات یہ ہوئی کہ بعض حوالجات کی مجھے ضرورت پیش آئی مگر میراذہن اُس طرف نہ جاتا تھا کہ وہ حوالجات کس کتاب میںسے ملیں گے۔ارادہ تھا کہ بعض اور دوستوں کو بُلا کر اُن کے سپرد حوالجات نکالنے کا کام کردُوں کہ اتفاقاً کسی اور کتاب کی تلاش کے لئے مَیں نے کتابوں کی الماری جو کھولی تو مَیں نے دیکھا کہ اس میں چندکتابیں بے ترتیب طو ر پر گِری ہوئی ہیں مَیں نے انہیں ٹھیک کرنے کے لئے اُٹھایا تو ان میں سے مجھے ایک کتاب مل گئی جس کے لائبریری میںہونے کا مجھے علم نہیں تھا، مَیں نے اُسے کھولا تو اس میںاکثر وہ حوالے موجود تھے جن کی مجھے اُس وقت ضرورت تھی۔
اسی طرح مَیں بعض اور کتابوں کی تلاش کر رہا تھا کہ اتفاقاً ایک کتاب نکل آئی جس کا نام ہے ’’تقویمنا الشمسی‘‘ اس میں مصنف نے بحث کرتے ہوئے تاریخی طور پر اس بات کو ثابت کیا ہے کہ مسلمانوں میں دیر سے یہ خیال چلا آ رہا ہے کہ ہجری قمری کی طرح ہجری شمسی بھی ہونی چاہئے وہ کہتا ہے کہ خلفاء عباسیہ نے بھی ہجری شمسی تقویم بنانے کی کوشش کی مگر اس میں فلاں فلاں روک پیدا ہو گئی اسی طرح وہ لکھتا ہے کہ بعد میں دولتِ عثمانیہ نے بھی ہجری شمسی بنائی مگر رائج نہ ہو سکی، غرض اس نے تاریخی طو ر پر اس کتاب میں یہ بحث کی ہے کہ مسلمانوں میںیہ خیال کب پیدا ہؤا اور اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے کیا کیا کوششیں ہوئیں اور کیا کیا نقائص ہوتے رہے۔ بہرحال یہ خیال مسلمانوں میںدیر سے پایا جاتا ہے بلکہ اس حد تک یہ خیال مضبوطی سے گڑا ہؤا معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کا مصنف کتاب کا نام محض تقویم شمسی نہیں رکھتا بلکہ ’’تقویمنا الشمسی‘‘ رکھتا ہے یعنی ہماری اپنی شمسی ہجری تقویم۔
میرا رادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو آئندہ عیسوی شمسی سن کی بجائے ہجری شمسی سن جاری کیا جائے اور عیسوی سن کے استعمال کو ترک کر دیا جائے میرا ارادہ ہے کہ ایک دو مہینہ تک اس بارہ میں پوری تحقیق کر کے ہجری شمسی سن جاری کر دیا جائے اور آئندہ کے لئے عیسوی سن کا استعمال چھوڑ دیا جائے، خواہ مخواہ عیسائیت کا ایک طَوق ہماری گردنوں میں کیوں پڑا رہے (یہ تحقیق میری مقررہ کر دہ ایک کمیٹی نے مکمل کر کے تقویم شمسی ہجری تیار کر دی ہے اور دو سال سے اس کا کیلنڈر شائع ہو رہاہے)
نظام شمسیکا تمدّنی ترقی سے تعلق
(۶) قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ نظام شمسی ایک خاص قانون کے ماتحت ہے اور اس کا قانون
انسانی کاموں کے لئے بطور ایک نمونہ کے مقرر کیا گیا ہے اور اس سے انسان کی تمدّنی ترقی کے لئے ایک ہدایت اور رہنمائی حاصل ہوتی ہے فرماتا ہے۔ اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍ وَّالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسجُدَانِ وَالسَّمائَ رَفَعَھَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَ اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ۔وَاَقِیْمُواالْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَاتُخْسِرُواالْمِیْزَانَ۔۷۳؎
سورج اور چاند دونوںایک حساب کے ماتحت کام کر رہے ہیں ۔یعنی ان کی حرکات قانون سے آزاد نہیںہیں بلکہ ایک معیّن اور مقررہ قانون کے مطابق ہیں اور اسی مقررہ قانون کا نتیجہ یہ ہے کہ زمین کی روئیدگی اور سبزہ اس قانون کے ماتحت چلتا ہے اور اس سے متأثر ہوتا ہے، سجد ہ کے معنے فرمانبرداری کے بھی ہوتے اور یَسْجُدَانِ کے اس جگہ یہی معنے ہیں اور نجم کے معنے جڑی بوٹی کے بھی ہوتے ہیں اور وہی معنے اس جگہ مراد ہیں کیونکہ شجر کے ساتھ جس کے معنے درخت کے ہیں اس کا عطف ہے اور آیت کامطلب یہ ہے کہ بغیر تنے والی سبزیاں ہوںیا تنے والے درخت ہوں سب اپنے اُگنے، نشوونما پانے اور پھل لانے میںسورج اور چاند کے پیچھے چلتے ہیں اور ان سے متأثر ہوتے ہیں ۔ چنانچہ دیکھ لو دنیا کے حصہ شمالی اور حصہ جنوبی میں موسم کا فرق ہوتا ہے جب شمال میںسردی ہوتی ہے جنوب میں گرمی ہوتی ہے اور جب شمالی حصہ میں گرمی ہوتی ہے جنوبی حصہ میں سردی ہوتی ہے اور اس تغیّر کی وجہ سے دونوں حصوں کی فصلوں کے موسموں میں بھی فرق پڑجاتا ہے اور اسی کی طرف وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُیَسْجُدَانِمیں اشارہ فرمایا ہے کہ سورج اور چاند جس قانون کے تابع ہیںاسی کے تابع سبزیاں، ترکاریاں، جڑی بوٹیاں اور بڑے درخت ہیں اور وہ ان سے متأثر ہوتے ہیں۔ پس اس آیت سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ زمین کے اندر جو تغیرات ہوتے ہیں وہ نظام شمسی کا ایک حصہ ہیںاور ان سے متأثر ہوتے ہیں آزاد نہیں ہیں۔ پھر فرماتا ہے وَالسَّمَائَ رَفَعَھَاوَوَضَعَ الْمِیْزَانَ یعنی اس سورج چاند کے نظام کے اوپر ایک اور نظام ہے یعنی نظامِ شمسی نظامِ عالَم کے ماتحت ہے جس طرح کہ نظامِ ارضی نظامِ شمسی کے ماتحت ہے اور نظامِ عالَم بھی ایک معیّن اور مقررہ قانون کے تابع ہے اور اس کے اجزاء ایک دوسرے سے آزاد نہیں ہیں۔ اس آیت میںکیسی زبردست سچائی بیان کی گئی ہے جو قرآن کریم کے وقت میں کسی کو معلوم نہ تھی، بلکہ صرف حال ہی کے زمانہ میںاس کا علم لوگوں کو ہؤا ہے اور وہ یہ ہے کہ نظامِ شمسی ہی ایک نظام نہیں بلکہ وہ نظام ایک اور بالا اور وسیع تر نظام کا حصہ ہے جو سَمَاء یعنی عالَمِ محتوی کہلاتا ہے اور رَفَعَھَا کہہ کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ نظام ماقبل کے بیان کردہ نظاموں سے یعنی نظامِ ارضی اور نظامِ شمسی سے بلند مرتبہ اور وسیع تر ہے اور وَضَعَ الْمِیْزَانَ کہہ کر یہ بتایا ہے کہ وہ بالا اور بلند نظام بھی میزان کے تابع رکھا گیا ہے اور ایک قانون کا پابند کر دیا گیا ہے آزاد نہیں ہے۔
اس مضمون میں مندرجہ ذیل علوم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے:-
(۱) نظامِ ارضی نظامِ شمسی کے تابع ہے نہ کہ اس پر حاکم یہ وہ نکتہ ہے جسے مشہور مہندس گلیلیو (GALILEO) نے جب دریافت کیا اور اس امر کا اعلان کیا کہ زمین سورج کے گِرد گھومتی ہے نہ کہ سورج زمین کے گرد، جیسا کہ اُس وقت عام خیال تھا تو اُس پر عیسائی دنیا نے کُفر کا فتویٰ لگادیا اور کہا کہ اگر اس امر کو تسلیم کرلیا جائے کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو پھر سورج کو زمین سے افضل ماننا پڑیگا اور اس کے نتیجہ میںانسان کی افضلیت مشتبہ ہو جائے گی اور مذہب باطل ہو جائے گا اور اس دلیل کی بناء پر گلیلیو پر سخت ظلم کئے گئے اُسے قید کیا گیا، پِیٹا گیا یہاں تک کہ سالہاسال کے ظلموں کوبرداشت نہ کر کے اس غریب کو یہ کہہ کر توبہ کرنی پڑی کہ جو عیسائیت کہتی ہے وہ ٹھیک ہے شیطان نے مجھے دھوکا دیکر یہ دکھادیا کہ زمین سورج کے گِرد چکر لگاتی ہے تب جا کر اُس کی تکلیف کسی قدر دُور ہوئی،لیکن قرآ ن کریم کو دیکھو وہ کس طرح شروع سے ہی فرما رہا ہے کہ وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدَانِ ہم نے سورج اور چاند کو خاص قانون کے ماتحت بنایا ہے اور وہ اس قانون کی پابندی کر رہے ہیں اور زمین کی روئیدگیاںآگے ان کے قانون کے تابع چل رہی ہیں۔
اگر کوئی کہے کہ سورج کے گِرد تو زمین چل رہی ہے ،لیکن چاند تو زمین کے گِرد چکر لگا رہا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہی تو قرآن کریم کا منشاء ہے کہ ایک کُرّہ جس کے تابع زمین ہے اس کو لے لیا گیا ہے اور ایک وہ جو زمین کے تابع ہے اُسے لے لیا گیا ہے اور بتایا ہے کہ زمین دونوں سے متأثر ہو رہی ہے۔ ا س سے بھی جس کے گِرد وہ گھومتی ہے اور اس سے بھی جو اس کے گِردگھومتا ہے اور ا س سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ادنیٰ بھی اعلیٰ پر اثر انداز ہوتا ہے اور ماتحت بھی حاکم پراپنا اثر چھوڑتا ہے اس لئے طاقتور کو غرور سے کام نہیںلینا چاہئے اور کمزور سے آنکھیںنہیں بند کرلینی چاہئیں کیونکہ یہ ا س سے بھی متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا اور ضرور ہے کہ اس کے اثر کو بھی قبول کرے پس اگر اس کی اصلاح نہ کرے گا تو خود بھی تباہ ہو گا اور اگر اسے نہ اُٹھائے گا تو خود بھی گِرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون ہی یہ ہے کہ ہر شَے اپنے سے اعلیٰ اور اپنے سے ادنیٰ دونوں سے اثر قبول کرتی ہے اور حاکم اور محکوم دونوں اس پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
نظامِ ارضی نظامِِ شمسی کا ایک حصّہ ہے
خلاصہ یہ ہے کہ اوپر کی آیات میںیہ قانون بیان کیا گیا ہے کہ نظامِ ارضی ایک وسیع نظام
یعنی نظامِ شمسی کا ایک حصہ ہے اور یہ نہیں کہ سورج اس زمین کے گِرد چکر کھاتا ہے اور اس کے تابع ہے جیسا کہ کچھ عرصہ قبل تک دنیا کا عام خیال تھا ۔دوسری بات یہ بتائی ہے کہ نظامِ شمسی ایک اور نظام کے تابع ہے جو اس سے بالا اور وسیع تر ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو قرآن کریم کے زمانہ تک دنیا کے کسی فلسفی یا مذہبی شخص نے بیان نہیں کیا تھا بلکہ وہ سب کے سب نظامِ شمسی ہی کو اہم ترین اورآخری نظام سمجھتے تھے مگر قرآن کریم نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے بتا دیا تھا کہ نظامِ شمسی ایک اور نظام کے تابع ہے جو اس سے بالا اور وسیع تر ہے۔
فلک کی تشریح
اگر کہا جائے کہ پہلے فلاسفروں نے بھی افلاک کے وجود کو تسلیم کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے بھی فلک کا وجود تسلیم کیا ہے مگر وہ شَے سماء
سے جُدا ہے فلک درحقیقت نظامِ شمسی کے پھیلائو کا نام ہے اور ان وسعتوں کو کہتے ہیں جن میں نظامِ شمسی کے افراد چکر لگاتے ہیں۔ چنانچہ سورہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَھُوَ الَّذِیْ خَلَقَ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُونَ۷۴؎
یہی مضمون سورہ یٰسرکوع ۳ میں بھی آیا ہے ۔ پس فلک یا افلاک کو تسلیم کر کے یونانی فلاسفر اس نظامِ سماوی کے قائل نہیں کہلا سکتے جس کا ذکر قرآن کریم نے کیا ہے۔ وہ افلاک کے علاوہ اَور شَے ہے اور نظامِ شمسی کے اوپر کے نظاموں پر دلالت کرتا ہے اور صرف ایک محیط پر دلالت نہیں کرتا جس میںنظامِ شمسی کے افراد چکر لگاتے ہیں۔
تیسری بات اس آیت میں یہ بتائی گئی ہے کہ یہ نظام ہم نے اس لئے بنایا ہے کہ ۔ اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ وَاَقِیْمُواالْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلَا تُخْسِرُواالْمِیْزَانَ۔
تم میزان میں تعدّی سے کام نہ لو اور انصاف کے ساتھ وزن کو قائم رکھو اور وزن میں کوئی کمی نہ کر و۔یا یہ کہ ہم نے تم کو بیان العلوم اس لئے سکھایا ہے کہ تا میزان میں تعدّی سے کام نہ لو وغیرہ وغیرہ۔اس میں یہ نکتہ بتایا ہے کہ ا نسان اُسی وقت ظلم اور زیادتی سے کام لے سکتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو قانونِ عالَم سے آزاد سمجھتا ہو لیکن اگر وہ اپنے آپ کو عالَم کی مشین کا ایک پُرزہ سمجھتا ہو تو کبھی اپنے مقام کو نہیں بھول سکتا۔ کیونکہ مشین کا جوپُرزہ اپنی جگہ سے ہِل جائے تو وہ ٹوٹنے اور کمزور ہو جانے کے خطرہ میںپڑ جاتا ہے یا خود اُس مشین کو توڑ ڈالتا ہے جس کا وہ پُرزہ ہوتا ہے ۔ پس فرماتا ہے کہ نظامِ شمسی انسانی ہدایت کا موجب ہے اور اس کی تأثیرات کو دیکھ کر انسان معلوم کر سکتا ہے کہ میں آزاد نہیں بلکہ ایک نظام کا فرد یا ایک مشین کا پُرزہ ہوں۔ پس اگر مَیں نے دوسرے کَل پُرزوں کے کام میںدخل دیا اور اُن کے حق کو چھیننا چاہا یا اپنے کام میں سُستی کی یا دوسروں کے حق ادا کرنے میں کوتاہی کی تو اس کا نقصان مجھے ہی پہنچے گا اور جب میں بظاہر دوسرے پر ظلم کر رہا ہوں گا تو درحقیقت مَیں اپنی ہی جان پر ظلم کر رہا ہو نگا اور جب مَیں کسی کا حق کسی اور کو دے رہا ہوں گا تو درحقیقت اپنے ہی حق کو ضائع کر رہا ہونگا۔
چوتھی بات یہ بتائی ہے کہ نظامِ عالَم انسان کے تمدّن میںترقی کے لئے ایک بہت بڑی ہدایت ہے اگر انسان نظامِ عالَم کو اپنا رہنما بنا کر اس کے مطابق نظامِ انسانی کو ڈھال لے تو وہ ہر قسم کی تکالیف سے بچ سکتا ہے اور نقصانوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اس نظام میں ہر فرد اپنے مفوّضہ کام کو بجا لا رہا ہے اور دوسرے کے دائرہ میں دخل نہیں دیتا نہ ظلم کے ساتھ نہ تخسیر کے ساتھ یعنی نہ اس سے زیادہ کام لیتا ہے نہ اس کا حق کم کرتا ہے اور نہ دوسرے کے کام میں دخل دیتا ہے۔یہی اطاعت ذمّہ داری کی ادائیگی کا احساس اوردوسرے کے امور میں دخل اندازی سے اجتناب ہی ایسے قوانین ہیںجن کو نظر انداز کر کے بنی نوع انسان اپنے تمدّن کو تباہ اور برباد کر رہے ہیں۔
نظامِ عالم کی کامیابی کے تین اصل
اس جگہ نظامِ عالَم کے کامل ہونے کے تین اصل بیان فرمائے ہیں۔
(۱) ۔کوئی فرد اپنے مفوّضہ کام سے زیادہ نہیں کر رہا ۔
(۲)۔ ہر فرد اپنے مفوّضہ کام کو پوری طرح ادا کر رہا ہے۔
(۳)۔ کوئی فرد دوسرے فرد کو اس کے فرض کی ادائیگی سے روک نہیں رہا ، یا اس کے اد ا کرنے کی قابلیت سے اسے محروم نہیں کر رہا۔
غور کر کے دیکھ لو نظامِ عالَم کی کامیابی کا انحصار انہی تین باتوں پر ہے اور انسانی نظام کی خرابی یا بے ثباتی کا سبب بھی ا ن تینوں یاان میں سے کسی کا فُقدان ہوتا ہے اور انہیں سے محفوظ رہنے کے لئے قرآن کریم نے نظامِ عالَم کو دیکھنے اور اس سے سبق لینے کے لئے اس جگہ اشارہ فرمایا ہے۔ یہ آیات سورہ الرحمن کے شروع میں ہیںجہاں کہ قرآن کریم کی آمد کی غرض بیان کی گئی ہے۔ظاہر ہے کہ خالی ترازو کے تول اور بٹّوں کے درست رکھنے کا مضمون نہ تو قرآن کریم کے نزول کے اغراض سے خاص تعلق رکھتا ہے اور نہ نظامِ عالَم سے ۔ پس ظاہر ہے کہ اس جگہ گیہوں اور چاولوں کے ماپ اور تول کا ذکر نہیں بلکہ انسانی اعمال کے ماپ اور تول کا ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان کو اپنی سوسائٹی کے بنیادی اصول نظامِ عالَم کے مطابق رکھنے چاہئیں اور جو قیود اور حدبندیاں اس پر الٰہی قانون نے لگائی ہیں ان کو توڑنا نہیں چاہئے اور نہ تو یہ کرنا چاہئے کہ کام کا اس قدر جوش ہو کہ دوسروں کے مفوّضہ کاموںمیں دخل دینے لگ جائے اور نہ یہ غفلت کرے کہ اپنے فرض کو بھی ادا نہ کرے اور نہ یہ ظلم کر ے کہ دوسروں کو بھی ان کے کام سے روکے خواہ بِالواسطہ یا بِلاواسطہ۔
قومی تباہی کے اسباب
اب دیکھ لو کہ نظام انسانی کی تباہی ان تین امور سے ہی وابستہ ہے جب کوئی قوم ہلاک یا تباہ ہوتی ہے تو اس کایا تو یہ سبب ہوتا ہیکہ
بعض ذہین اور طبّاع لوگ اپنے جوشِ عمل سے گمراہ ہو کر دوسروں کی ذمہ داریاں اپنے اوپر لینی شروع کر دیتے ہیں یا توغیر قوموں کی حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میںلینے کی کوشش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ دنیا پراحسان کر رہے ہیں یا خود اپنے ملکی یا قومی نظام میںا س قدر کام اپنے ذمہ لے لیتے ہیں کہ ان کا پورا کرنا ان سے ناممکن ہوتا ہے اور اس طرح ملکی یا ملّی کام تبا ہ ہو جاتے ہیں اور قوم یا ملک بجائے ترقی کرنے کے تنزّلکی طرف چلا جاتا ہے۔بڑے بڑے فاتحین جو شہاب کی طرح چمکے شہاب کی طرح ہی غائب ہو گئے ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ انہوں نے خود تو کچھ شُہرت اور عزّت حاصل کرلی لیکن قومی نظام کو ایک دھکّا لگا گئے اور نظامِ ارضی کی مشین میںان کی قوم کے پُرزہ کی جو جگہ تھی اس سے ہِلا کر دوسری جگہ کر گئے جس سے قوم کو بھی صدمہ پہنچا اور دنیا کو بھی ۔اسی طرح وہ جو شیلے قومی کارکن جو ہر مجلس پر چھا جانا چاہتے ہیں اور جوشِ عمل کی وجہ سے سب عُہدے اپنے ہی ہاتھوں میںرکھنا چاہتے ہیں قوم کی تباہی کاموجب ہو جاتے ہیں، کیونکہ ایک تو وہ سب کام اچھی طرح کر ہی نہیں سکتے اور دوسرے اس وجہ سے قوم میںاچھے دماغ پیدا ہونے کا امکان کم ہو جاتا ہے کیونکہ باقی دماغ نکمیّ رہ کر کمزور ہو جاتے ہیں۔حال ہی میںایک وسیع ہندوستانی ادارہ کے بارہ میں ایک معزّز ہندوستانی نے مجھ سے کہا کہ مَیںبارہا اس ادارہ کے کرتا دھرتا کو کہہ چکا ہوں کہ تم اس ادارہ کو منظم کرو، سیکرٹریٹ بنائو، انسپکٹر مقرر کرو، تا کہ کام وسیع ہو اور کام کرنے والوں کی جماعت تیار ہو مگر وہ سنتا ہی نہیں۔ یہ شکایت ان کی بجا تھی اور مَیں نے دیکھا ہے کہ اس کانتیجہ یہ ہؤا ہے کہ اس ادارہ میںکام کرنے والی کوئی نئی پود تیار نہیںہورہی۔ ڈکٹیڑوں پر ڈیماکریسیز کو اسی وجہ سے فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ اس میں کام کرنے والے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور ان کے آگے بڑھنے کے لئے راستہ ُکھلا رہتا ہے پس جو قوم یا ملک اچھا نظام اور پائیدار نظام قائم کرنا چاہے اسے نظامِ عالَم سے یہ سبق سیکھ لینا چاہئے کہ ہر فرد اپناکام ہی کرے دوسروں کے کام سمیٹنے کی کوشش نہ کرے ، ورنہ وہ سب کام نہ کر سکے گا اور دوسروں کے دماغ معطل ہوجائینگے۔ قومی زندگی پائیدار بنانے کے لئے متواتر لائق افراد کاپیداہوناضروری ہے اور لائق افراد بغیر تجربہ اور عملی کام کے پیدا نہیں ہو سکتے۔پس زیادہ ذہین اور قابل اشخاص کا فرض ہے کہ وہ کام کو اچھا بنانے کے شوق میںدوسروں کے لئے راستہ بند نہ کریں بلکہ دوسروں کو جو خواہ ان سے کم لائق ہوں کام کرنے کا موقع دیں ، تا کہ وہ بھی تجربہ حاصل کر کے اس خلاء کو پُر کرنے کے قابل ہوں جوبڑوں کے مرنے کے بعد ضرورہو کر رہیگا۔
دوسری خرابی جو نظامِ ملکی یا سیاسی کو تباہ کرنے کا موجب ہوتی ہے یہ ہے کہ ہر فرد اپنے فرض کو پوری طرح ادا نہیںکر رہا ہوتا جس طرح زیادہ کام اپنے ہاتھ میںلے لینا نقصان کاموجب ہوتا ہے اسی طرح اپنے مفوّضہ کام کو پورا نہ کرنا بھی تباہی کا موجب ہوتا ہے۔پس سوسائٹی یا ملک یا قوم اُسی وقت کامیاب ہو سکتی ہے جب کہ اس کے تمام افرا د میںذمہ داری کا علم اور اُس کی ادائیگی کا احساس پیدا ہو۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ اوّل تمام قوم کے اندر علم پیداکیاجائے اور پھر اس علم کو عمل کی صورت میں بدلنے کی کوشش کی جائے تا کہ قوم کا ہر فرد اپنی ذمہ داری کو اد اکرے جس طرح کہ نظامِ عالَم کا ہر فرد اپنے فرض کوادا کر رہا ہے۔
تیسری خرابی قومی نظام کو تباہ کرنے والی یہ ہے کہ بعض لوگ دوسروں کو بِالواسطہ یابِلاواسطہ کام سے روکنے لگتے ہیںیعنی یا تو ظلماً ایک فرقۂ قوم کوکام سے الگ کر دیتے ہیں اور صرف ایک حصۂ قوم کوکام کے قابل قرار دیتے ہیں جیسے آرین نسلیں ہیں کہ قومی برتری کے خیال سے وہ صرف اپنی ہی نسل کے لوگوں کو ملک وقوم کا بوجھ اُٹھانے والا قرار دیکر دوسری نسلوں اور قوموں کے لوگوں کو کام سے بے دخل کر دیتی ہیںاور اس طرح قومی تنزّلکے سامان پیدا کردیتی ہیں۔ اور یہ نہیں سمجھتیں کہ ادنیٰ اقوام کی خرابی بھی اُلٹ کر اعلیٰ قوم پر اثر انداز ہو جاتی ہے اور اسے خراب کر دیتی ہے۔ اور یہ عقیدہ کہ صرف اعلیٰ ادنیٰ پراثر انداز ہوتا ہے غلط ہے، چنانچہ نظامِ عالَم میں سورج جو بڑ ا ہے وہ بھی زمین پر اثر انداز ہو رہا ہے اور چاند جو چھوٹا ہے وہ بھی زمین پر اثر انداز ہو رہا ہے ۔پس چھوٹوں کو نظر انداز کرنا بالکل خلافِ عقل ہے اور جو افراد یا اقوام بعض افراد یا اقوام کو چھوٹا اور ادنیٰ قرار دے کر نظر انداز کر دیتی ہیں اور قومی مشین کے پُرزوں سے ان کو خارج کر دیتی ہیںوہ آخر تباہ ہو جاتی ہیں اور ادنیٰ افراد یا اقوام ان کو بھی قعرِمذلّت میںگِرا دیتے ہیں۔
اسی طرح بِالواسطہ طور پر کسی کے حق میں کمی کرنا بھی قوم کے حق میں نقصان دہ ہوتا ہے یعنی کمزور اور غریب اور مزدور اقوام کی تعلیم یاتربیت سے غفلت یا اولاد کی تربیت سے اِعراض یہ سب بِالواسطہ اِخْسَارفِی الْمِیْزَان ہے۔یعنی گو عقیدۃً انہیںادنیٰ نہیں سمجھا جاتا، لیکن عملاً ان سے سلوک وہی ہوتا ہے جو غیر ضروری حصّہ سے ہو سکتا ہے،لیکن چونکہ وہ افراد بھی قانونِ قدرت کے مطابق قوم کا ضروری حصّہ ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ساری مشین خراب ہوجاتی ہے اور نظامِ ملکی یا قومی درہم برہم ہو جاتا ہے۔
دیکھو کس خوبی سے اوّل ـ نظامِ عالَم کی حقیقت بیان کی ہے اور پھر نظامِ انسانی کو اس پر چسپاں کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے بابلیوںؔ نے اور ان کے بعد یونانیوں نے نظامِ شمسی پرنظامِ تمدّن کو ڈھالنے کی کوشش کی ہے مگر جس خوبی، جس اختصار اور جس ہمہ گیری کے ساتھ قرآن کریم نے چند مختصر الفاظ میں ان دونوں نظاموں کی حقیقت اور مماثلت کو بیان کیا ہے اس کی نظیر ان اقوامِ عالَم کے فلاسفروں کے کلام میں نہیں پائی جاتی۔
اور مسائل بھی علمِ ہیئت کے قرآن کریم میںبیان ہوئے ہیں مگر اجمالاً انہیں امور پر کفایت کی جاتی ہے۔
(۳) ایک وسیع اور عظیم الشّان سمندر
تیسری چیز جو مَیںنے دیکھی تھی سمندر تھا،مَیں نے اس وقت اپنے دل میں کہا کہ ایک اور سمندر قرآن نے پیش کیا ہے مگر افسوس کہ لوگ اسے بھول گئے ہیں وہ اس کی طرف سے ہنس کرگزر جاتے بلکہ اُسے حقیر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ سمندر خود ہماری کتاب قرآن کریم ہے۔ سمندر کیا ہوتا ہے؟ سمندر کے معنے ایک ایسی وسیع چیز کے ہیں جس کا کنارہ نظر نہیں آتا اور جس میںموتی، مونگا اور اسی قسم کی اور بیسیوں قیمتی چیزیں ہوتی ہیں۔ مَیں نے دیکھا کہ اسی قسم کی ایک چیز ہمارے پاس بھی ہے مگر افسوس کہ ہم اس کی قدر نہیں کرتے ۔ہم موتی نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں،ہم مونگا نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم مچھلیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم مچھلیوں کا تیل نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم سیپیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں، ہم کوڑیاں نکالنے والوں کی قدر کرتے ہیں،مگر ہم نہیں قدر کرتے تو اُس شخص کی جوقرآن کریم کے سمندر میںسے قیمتی موتی نکال کر ہمارے سامنے پیش کرے، حالانکہ یہ وہ سمندر ہے کہ جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَنَزَّلْنَاعَلَیْکَ الْکِتٰبَ تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْئٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً وَّ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ ۔۷۵؎
یعنی اے رسول! ہم نے تجھ پر وہ کتاب نازل کی ہے جو تِبْیَاناً لِّکُلِّ شَیْئٍ ہے جس میں ہر چیزکا بیان موجود ہے اور جس کا کوئی کنارہ ہی نہیں۔ اس میں موتی بھی ہیں، اس میں مونگے بھی ہیں، اس میں ہیرے بھی ہیں، اس میںجواہرات بھی ہیں، غرض خشکی اور تری کی تمام نعمتیں اس میںجمع ہیں جب بھی تمہیںکسی چیز کی ضرورت ہو تم اس سمندر میںغوطہ لگائو وہ چیزتمہارے ہاتھ میں آجائے گی۔پھر سمندر میںتو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ انسان غرق ہو جائے بعض دفعہ سمندروں میںطوفان آتے اور بڑے بڑ ے جہاز تباہ ہو جاتے ہیں مگر فرمایا یہ وہ سمندر ہے کہ ھُدًی وَّرَحْمَۃً اس سمندر میں جو غوطہ لگائے وہ کبھی تباہ نہیں ہو سکتا اور سمندروں میںبڑے بڑے کپتان بھی بعض دفعہ راستہ بھول جاتے ہیںمگر یہ سمندر ہے کہ جہاں کوئی انسان رستہ بُھولنے لگتا ہے وہ کہتا ہے کہ غلط راستے پر نہ جائو۔ صحیح راستہ یہ ہے اِدھر آئو۔ پھر یہ صرف ھُدًی نہیں بلکہ رَحْمَۃً بھی ہے۔ ان سمندروں میںتو لوگ ڈوبتے اور عذاب میں مبتلاء ہوتے ہیں مگر یہ وہ سمندر ہے جو انسان کو زندگی بخشتا اور اُسے ہر قسم کی تباہی سے محفوظ رکھتا ہے ۔پھر اسی حد تک بس نہیں بلکہ بُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ۔ اس سمندر میںتیرنے والا ہمیشہ خوشی محسوس کرتا ہے اور کبھی کسی خطرہ سے اسے دوچار ہونا نہیں پڑتا۔ اس کے آگے بھی رحمتیں ہوتی ہیں اس کے پیچھے بھی رحمتیں ہوتی ہیں۔ جب ایک نعمت اسے مل جاتی ہے تو اُسے کہا جاتا ہے کہ اسی نعمت پر بس نہیں آئو تمہیں دوسری نعمت بھی دیں۔ اور جب دوسری نعمت مل جاتی ہے تو تیسری نعمت اس کے سامنے پیش کر دی جاتی ہے وہ ایک مقام پر اپنا قدم روکتا ہے تو اُسے آواز آتی ہے کہ صاحب ٹھہرتے کیوں ہیں، اگلی منزل پراس سے بھی زیادہ اچھی نعمتیں ہیں اور جب وہ دوسری منزل پرپہنچتا ہے تو آواز آتی ہے کہ صاحب آگے بڑھیئے ہماری نعمتیں تو ابھی آپ نے دیکھی ہی نہیں سمندر میں تو جب انسان دو چار سو میل آگے جاتا ہے تو جہاز خطرے میںگھر جاتا ہے مگر یہاں ہر قدم پر یہ آواز آتی ہے کہ گھبرائیے نہیں،آپ تو امن اور سلامتی کی طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
قرآنی سمندر کی وسعت
پھر سورۃ لقمان رکوع ۳ میںاس سمندر کی وسعت بتائی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَلَوْاَنَّ مَافِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَۃٍ اَقْلامٌ
وَّالْبَحْرُ یَمُدُّہٗ مِنْ بَعْدِہٖ سَبْعَۃُ اَبْحُرٍ مَّانَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ ۷۶؎
یعنی زمین میںجس قدر درخت ہیں اگر اُن تمام کو کاٹ کاٹ کر قلمیں بنا دی جائیں اور جنگلوں اور باغات کا ایک درخت بھی نہ رہنے دیاجائے سب کی قلمیں تیا ر کرلی جائیں وَالْبَحْرُیَمُدُّہٗ اور سمندر سیاہی بن جائے اور پھر اور سات سمندروں کاپانی بھی سیاہی بنا دیا جائے اور ان قلموں اور اس سیاہی سے کلام اللہ کے معنے لکھے جائیں تو مَانَفِدَتْ کَلِمٰتُ اللّٰہِ قلمیں ٹوٹ جائینگی،سات سمندروںکی سیاہی خشک ہو جائے گی، مگرقرآن کا سمندر پھر بھی بھرا ہؤا ہو گا اور اس کے معارف ختم ہونے میں نہیں آئیں گے۔ اِنَّ اللّٰہَ عَزَیْزٌ حَکِیْمٌ کیونکہ اللہ غالب حکمت والا ہے۔غالب ہونے کی وجہ سے اس نے وہ وسعت قرآنی معارف کو بخشی ہے کہ اگر تمام درخت قلمیںبن جائیں اور تمام سمندر سیاہی بن جائیں اور ان سے اس کے معارف لکھے جائیں، پھر بھی وہ ختم ہونے میںنہ آئیں۔مگر وسعت بعض دفعہ لغو بھی ہو جاتی ہے، بڑے بڑے شاعر جس قدر گزرے ہیں ان کے اشعار میں کسی نہ کسی حد تک لغویت ضرور آ گئی ہے۔ اسی طرح جتنے بڑے نثار گزرے ہیں ان تمام کی نثر کے بعض حصوں میںفضولیات پائی جاتی ہیں۔مگر فرمایا یہاں ایسا نہیں، باوجود قرآنی مطالب اس قدر وسیع ہونے کے اس میںکوئی بات لغو اور بے فائدہ نہیں کیونکہ ایک حکیم ہستی کایہ نازل کردہ کلام ہے اور جو حکیم خدا کی طرف سے نازل شدہ کلام ہو اس میں لغو بات کس طرح ہو سکتی ہے ۔پس ایک طرف تو قرآنی معارف میںاس قدر وسعت ہے کہ سات سمندروں کی سیاہی ختم ہوجائے مگر اس کے معارف ختم نہ ہوں اور دوسری طرف اس میں ایک بات بھی خلافِ حکمت نہیں بلکہ ایک ایک بات کو دیکھ کر انسان قربان ہو جاتا ہے۔
پھر سورہ دخان رکوع ایک میں فرماتا ہے۔ حٰم۔وَالْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ اِنَّااَنْزَلْنٰـہُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ اِنَّاکُنَّامُنْذِرِیْنَ فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍ حَکِیْمٍ اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَااِنَّاکُنَّا مُرْسِلِیْنَ ۔۷۷؎
کہ حمید مجید خدا کی طرف سے ایک کتاب آئی ہے جو کھول کھول کر تمام سچائیوں کو بیان کرنے والی ہے اور میں اسی کتاب کو اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں کہ تمہار اخدا بڑا بزرگی والا خدا ہے ہم نے یہ قرآن ایک ایسے تاریک زمانہ میںاُتارا ہے جو رات سے مشابہت رکھتا تھا اور جس میںقسم قسم کی تباہیاں اور قسم قسم کے گند اور فساد تھے مگر باوجود ان فسادوں کے وہ زمانہ ایک لحاظ سے مبارک بھی تھا کیونکہ اِنَّاکُنَّامُنْذِرِیْنَ ۔ اس میں خداکی طرف سے یہ آواز بلند ہوئی تھی کہ ہوشیار ہوجائو۔ گو تمہارے گھر ڈاکوئوں کا شکار ہو رہے ہیں مگر اب خدا خود تمہاری حفاظت کے لئے آ رہا ہے۔ پس ہم نے خود ا س کتاب کے ذریعہ اپنے بندوں کو ہوشیار اور بیدار کیا۔
مُنذرکے عام طورپر نہایت غلط معنے کئے جاتے ہیں ،یعنی اُردو میںاس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ہم ڈرانے والے ہیں، حالانکہ عربی زبان میںاِنذار کے معنے ڈرانا نہیں بلکہ ہوشیار اور بیدار کرنا ہیں۔ تو فرمایا گویہ رات تھی اور تاریک رات تھی، چاروں طرف ڈاکے پڑر ہے تھے اور دین وایمان کہیں نظر نہیںآتا تھا مگر پھر بھی یہ مبارک رات تھی کیونکہ اس میںخدا خود چوکیدار بن کرآیا اور اس نے خود پہرہ دیا او رآوازیں دیں کہ میرے بندو! ہوشیار ہو جائو، بھلا اس سے زیادہ مبارک رات اور کونسی ہو سکتی ہے۔ فِیْھَایُفْرَقُ کُلُّ اَمْرٍحَکِیْمٍ یہ مبارک رات کیوں نہ ہو، راتوں کے وقت چوروں کی طرف سے مال اٹھایا جاتا ہے مگر اس رات میں لوگوں کو خود ہماری طرف سے مالا مال کیا جا رہا ہے اور انہیں بُلا بُلا کر کہا جا رہا ہے کہ آئو اور اپنے گھروں کو برکتوں سے بھر لو۔اَمْرًامِّنْ عِنْدِنَا یہ سب کچھ ہمارے حکم کے ماتحت ہو رہا ہے کیونکہ آج ہم اس بات پر تُلے ہوئے ہیں کہ لوگوں کو نعماء سے مالا مال کر دیں۔ پس اس سے زیادہ مبارک رات اور کون سی ہو سکتی ہے کہ بغیر مانگے اور سوال کئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانی ضرورتیں پوری کی جا رہی ہیں۔ اَمْرٍ حَکِیْمٍ سے مراد وہی معارف اور علوم ہیں جو بغیر کسی انسانی کوششوں کے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کھولتا ہے۔ اگر کوئی شخص روٹی کھا رہا ہو اور کوئی دوسراآ کر اُسے کہے کہ تو روٹی کھا رہا ہے تو وہ حکیم نہیں کہلاسکتا، حکیم وہی کہلائے گا جو ایسی بات بتائے جس کا دوسرے کو علم نہ ہو۔ پس قرآن صرف کلام ہی نہیں بلکہ اَمْرٍ حَکِیْمٍ ایسے حقائق اور معارف کا حامل ہے کہ بندے لاکھ سرپٹکتے رہتے وہ ان علوم اور معارف کو اپنی ذاتی جدوجہد سے کبھی حاصل نہ کر سکتے۔
اسی طرح سورہ یوسف میں اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے۔ مَاکَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰی وَلٰـکِنْ تَصْدِیْقَ الَّذِیْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَتَفْصِیْلَ کُلِّ شَيْئٍ وَّھُدًی وَّرَحْمَۃً لِّقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۷۸؎
کہ یہ بات جھوٹی نہیں۔ یہ پہلی کتابوں کی پیشگوئیوں کو پورا کر رہی ہے اور ہر چیز اس میں بیان کر دی گئی ہے اور یہ مؤمنوں کی ہدایت اور رحمت کا موجب ہے۔
(۵) سورہ عنکبوت میں فرماتا ہے۔ اَوَلَمْ یَکِْفِھِمْ اَنَّآ اَنْزَ لْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْھِمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً وَّ ذِکْرٰی لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَ۷۹؎
ارے! اب بھی ان کو کسی اور جگہ جانے کی ضرورت ہے جب کہ ہم نے انہیں اتنی بڑی چیز دیدی ہے جس کی اور کہیں مثال ہی نہیں ملتی۔یعنی ہم نے ایک کتاب اُتار دی ہے اور وہ ایسی کتاب ہے کہ یُتْلٰی عَلَیْھِمْ سمندر کے پاس تو لوگ جاتے ہیں مگر یہ سمندر ایسا ہے کہ آپ تمہارے پاس چل کر آ گیا ہے۔پھر دنیا میں تو لو گ استادوں کے پاس جاتے اور ان سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے فلاں بات کس طرح ہے مگر یہاں وہ استاد بھیجا گیا کہ جسے خدا کی طرف سے یہ حکم ہے کہ بَلِّغْ مَآاُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ۸۰؎ تم خود لوگوں کے پاس جائو اور اُنہیں یہ تمام باتیں پہنچائو اور یاد رکھو کہ اگر تم نے ان میںسے ایک بات بھی نہ پہنچائی تو ہم کہیں گے کہ تم نے کچھ بھی نہیںپہنچایا گویا ہمارا اُستاد اور ہمارا آقا خود ہمارے گھروں پر چل کر آ گیا ہے ، اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً اگر تم سوچو تو تمہیں معلوم ہو کہ ہم نے اپنے رسول کو جو یہ حکم دیا ہے یہ تم پر ہمارا اتنا عظیم الشان انعام ہے جس کی کوئی حد نہیں گویا پنجابی کی وہی مثال یہاں صادق آ رہی ہے کہ ’’چوپڑیاں تے دو دو‘‘یعنی روٹیاں چپڑی ہوئی بھی ہوں اور پھر ملیں بھی دو دو تو اور کیا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ بھی کہتا ہے کہ ہم تمہیں ایک تو چپڑی ہوئی روٹیاں دے رہے ہیں اور پھر دو دو دے رہے ہیں ایک تو ہم نے وہ کتاب دی جو ہر طرح کامل ومکمل ہے اور جس کی نظیر کسی اور الہامی کتاب میں نہیں مل سکتی اور پھر اپنے رسول کو یہ حکم دیدیا ہے کہ جائو اور ہماری یہ کتاب خود لوگوں کے گھر پہنچ کر انہیں سنائو اور اس کی تعلیموں سے انہیں آ گاہ کرو۔
وَذِکْرٰی۔ایک نعمت تو یہ تھی کہ اتنی عظیم الشان نعمت گھر بیٹھے مل گئی اور دوسری نعمت یہ ہے کہ جو اس کتاب کو مان لیںگے ، دنیا میںان کی عزت قائم کر دی جائے گی،بعض لوگ اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں نصیحت کی باتیں ہیں۔یہ معنے بھی درست ہیں مگر ا س کے یہ معنے بھی ہیں کہ جو لوگ اس کتاب پر سچے دل سے ایمان لائیں گے، ان کا ذکرِ نیک دنیامیں جاری رہے گا اور کہا جائے گا کہ فلاں نے یہ خدمت کی اور فلاں نے وہ خدمت کی گویا یہ کتاب نہ صرف ذاتی کمالات کے لحاظ سے ایک شرف اور عظمت رکھتی ہے بلکہ جو لوگ اس پر صدقِ دل سے ایمان لائیں گے وہ بھی دنیا میں معزز اور مکرم ہو جائیں گے۔
پھر فرمایا۔ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ فِیْ ھٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ فَاَ بٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا ۸۰؎
کہ ہم نے قرآن میںہر قسم کی باتیں بیا ن کر دی ہیں ، مگر افسوس انسان پر کہ وہ ہر بات کو سُنکر کہتا ہے کہ ابھی اور چاہئے اور جوبات اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اس کا انکار کر دیتا ہے، اگر اس کے اندر ایک ذرہ بھی شرافت کا مادہ ہوتا تو یہ ان باتوں کو قبول کرتا جو اس کے سامنے پیش کی گئی تھیں اور اگر دل میںاُن کے بعد بھی پیاس رہتی تو کسی اور چیز کی طلب کرتا ، مگر یہ عمل تو کرتا نہیں اور اَور چیزیں مانگے جاتا ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس کو ہدایت سے کوئی غرض نہیں، محض ایک پاگل اور احمق انسان کی طرح ہاتھ پھیلائے کہے جاتا ہے کہ اَور دو، اَور دو۔ اوریہ نہیں دیکھتا کہ جو اسے دیا گیا ہے اسے اس نے اپنی پیٹھ کے پیچھے پھینک رکھا ہے اسی طرح فرمایا۔
وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِیْ ھٰذَا الْقُراٰنِ لِلنَّاسِ مِنْ کُلِّ مَثَلٍ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَيْئٍ جَدَ ًلا ۸۲؎
ہم نے قرآن میں انسان کے نفع کے لئے ہر چیز رکھدی ہے مگر افسوس کہ وہ پھر بھی اس پاک کتاب کاانکار کئے جاتا ہے۔یہی مضمون سورہ روم ع۶ اور سورہ زمر ع۳ میں بھی بیان ہؤا ہے۔
قرآنی سمندر کی گہرائیوں کاپتہ لگانا کسی انسانی عقل کا کام نہیں
یہ وہ سمندر ہے جو مَیں نے دیکھا
اور یہ وہ بحرِزخّار ہے جس کا مَیں نے مشاہدہ کیا، اس سمندر کا کوئی کنارہ نہیں، اس سمندر کی کوئی انتہا نہیں۔اس سمندر کی گہرائیوں کا پتہ لگانا کسی انسانی عقل کا کام نہیں اور اس کی وسعتِ بے پایاں کو کوئی انسانی دماغ نہیں سمجھ سکتا۔مجھے حیرت ہوتی ہے، مجھے تعجب آتا ہے، مجھے رونا آتا ہے کہ معمولی معمولی خلیجوں کے کنارے ہمارا ایک سیاح یا شاعر کھڑا ہوتا اور فرطِ مسرت میں جھومتے ہوئے کہتا ہے کہ اس کا کوئی کنارہ نہیں یہ بے کنار خلیج یا بے کنار دریا ہے حالانکہ ایک دن کی منزل یا دو دن کی منزل پر اس کا کنارہ موجود ہوتا ہے ۔بڑے بڑے سمندروں کا بھی دس پندرہ دن کے سفر کے بعد کنارہ آجاتا ہے، مگر وہ اس کنارے والے سمندر کے متعلق کہتا ہے کہ وہ بے کنار ہے پس مجھے حیرت ہوئی اور میرا دل اس غم سے خون ہو گیا کہ وہ عظیم الشان سمندر جسے خدا نے بے کنار کہا، جس کی وسعت کو اس نے خود غیر محدود قرار دیا اور جس کے کنارہ کو کوئی انسانی عقل تلاش نہیں کر سکتی اس کے متعلق مولویوں کو یہ کہتے ہوئے ذرا شرم نہیں آتی کہ اس کی آیات کی طبری اور بیضاوی نے جو تفسیر لکھ دی ہے اب اس کے بعد کچھ اور کہنا تفسیر بِالرائے ہے۔ یقینا وہ جھوٹے ہیں ،کیونکہ خدا کہتا ہے کہ اگر ساری دُنیا کے درختوں کی قلمیں بنائی جائیں اور سات سمندروں کی سیاہی بنالی جائے اور ان قلموں او ر سیاہیوں سے خدا تعالیٰ کی اس پاک کتاب کے معارف لکھے جائیں تب بھی قلمیں ٹوٹ جائیں گی، سیاہیاں خشک ہو جائینگی، مگر اس کتاب کے معارف ختم نہیں ہوں گے لیکن یہ دو چار سَو صفحوں کی چند جلدیں لکھنے کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ اب ان باتوں سے زیادہ کوئی اور بات بیان کرنی حرام ہے۔ مَیں کہتا ہوں اور مَیں کیا خدا کا کلام کہہ رہا ہے کہ جس دن تم سارے درختوں کی قلمیںبنا کر اور سارے سمندروں کی سیاہی بنا کر ان سے قرآن کے معارف لکھ لو گے تو اس کے بعد تم بیشک میر ے پاس آ جانا اور کہنا کہ اب قرآن کی اور تفسیر مت کرولیکن دنیا نے ابھی تو قرآن کی تفسیرلکھنے میں ایک جنگل کی لکڑی بھی ختم نہیں کی اور سمندر چھوڑ ایک کنویں کے پانی جتنی سیاہی بھی اس پر خرچ نہیںکی۔ پس ابھی ہمیں اس حق سے کوئی روک نہیں سکتا اور یہ حق ہمارا اُس وقت تک چلتا چلا جائے گا جب تک سمندروں میںپانی کا ایک قطرہ بھی موجود ہے ۔یا درخت کی ایک شاخ بھی دنیا میں پائی جاتی ہے ہاںتمہارا بے شک یہ حق ہے کہ تم ثابت کروکہ ہم قرآن کریم کی جو تفسیر کرتے ہیں وہ اسلام کے خلاف ہے، اس بات سے تمہیں کوئی نہیں روکتا مگر جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم قرآن کے نئے معانی کیوں کرتے ہو میں ان سے کہتا ہوں کہ اے نالائقو ! اور اے احمقو! تم تو خشکی میں تڑپ رہے ہو اور ہم خداتعالیٰ کے ایک وسیع سمندر میں غوطے لگا رہے ہیں۔ تم ریت کے تودوں پر لَوٹتے ہو اور طعنے ان لوگوں کو دے رہے ہو جو سمندر کی تہہ سے موتی نکالنے والے ہیں۔ پس خدا سے ڈرو اور خدا تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے بحرِ زخّار کو پتوں کی کشتیوں میں پار کرنے کی کوشش نہ کرو اور کود کر اس کو چھلانگ جانے کے دعووں سے اپنی نادانی ظاہر نہ کرو ۔
مَیں نے جب ان باتوں کو دیکھا تو میری حیرت کی کوئی انتہا ء نہ رہی اور مَیں نے کہا، افسوس خزانے موجود ہیں، قلعے موجود ہیں ، رصدگاہیں موجود ہیں، سمندر موجود ہے مگر ان کو دیکھنے والا کوئی نہیں، آثارِ قدیمہ کی جن لوگوں کے ہاتھوں میں خدا نے کنجیاں دی تھیں اُنہوں نے اُن آثارِ قدیمہ کو خراب کر دیا، تباہ کر دیا اور اس قدر ان کی حالت کو مشتبہ کر دیا کہ ان پرکوئی شخص اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا تھا تب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ قرآن کریم کو نازل کیا۔ یہ آپ کے دل کا خون ہی تھا جو آسمان سے قرآن کو کھینچ لایا۔ اس قرآن کے آثارِ قدیمہ کے مختلف کمروں میں آدم ؑ اور نوحؑ اور ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور ہارون ؑ اور دیگر تمام انبیاء کی چیزیں ایک قرینہ سے پڑی ہوئی ہیں میل وکچیل سے مبرّا داغوں اور دھبوں سے صاف چھینٹوں اور غلاظت سے پاک ہر چیز اصل اور حقیقی رنگ میںہمارے پاس ہے۔پُرانے سے پُرانے آثار اس میںپائے جاتے ہیں اور صحیح سے صحیح حالات اس میں موجود ہیں مگر افسوس ہزار افسوس کہ لوگ اس عظیم الشان خزانہ کی تو قدر نہیں کرتے مگر چند پھٹے ہوئے کاغذ، چند ٹوٹی ہوئی چُھریاں ، چند پُرانے اور بوسیدہ کپڑے اور چند شکستہ برتن جب کوئی زمین سے نکالتا ہے تو اس کی تعریف کے شور سے آسمان سرپراُٹھالیتے ہیں اورکہتے ہیں۔ واہ واہ! اس نے کس قدر عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیا۔ وہ خزانہ جو خدا نے اُن کو دیا تھا اس کو وہ بھول گئے ،وہ سمندر جو خدا نے ان کو عطا کیا تھا اس سے انہوں نے منہ موڑ لیا، وہ تمام رصدگاہیں جوقرآن میں موجود تھیں اُن سے وہ غافل اور لاپرواہ ہو گئے تب خدا نے میرے دل پر اس عظیم الشان راز کا انکشاف کیا اور میرے دل نے کہا’’مَیں نے پالیا، مَیں نے پالیا‘‘ اور جب میں نے کہا۔ ’’مَیں نے پالیا، مَیں نے پالیا‘‘ تو اس کے معنے یہ تھے کہ اب یہ نعمتیں دنیا سے زیادہ دیر تک مخفی نہیں رہ سکتیں۔مَیں دنیا کے سامنے ان تمام نعمتوں کو ایک ایک کر کے رکھونگا اور اُسے مجبور کروں گا کہ وہ اس کی طرف توجہ کرے۔ـ
قرآن کریم کا بلند ترین مقام
پس اے دوستو! مَیں اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان خزانہ سے تمہیں مطلع کرتا ہوں۔ دنیا کے علوم اس کے
مقابلہ میںہیچ ہیں۔ دنیا کی تمام تحقیقاتیں اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں اور دنیا کی تمام سائنس اس کے مقابلہ میںاتنی حقیقت بھی نہیں رکھتی جتنی سورج کے مقابلہ میںایک کرمِ شب تابِ حقیقت رکھتا ہے۔ دنیا کے علوم قرآن کے مقابلہ میںکوئی چیز نہیں، قرآن ایک زندہ خدا کا زندہ کلام ہے اور وہ غیر محدود معارف وحقائق کا حامل ہے۔ یہ قرآن جیسے پہلے لوگوں کے لئے ُ کھلا تھا اسی طرح آج ہمارے لئے ُکھلا ہے، یہ ابوبکرؓ کے لئے بھی ُ کھلا تھا، یہ عمرؓ کے لئے بھی ُ کھلا تھا، یہ عثمانؓ کے لئے بھی ُکھلا تھا، یہ علیؓ کے لئے بھی ُکھلا تھا یہ بعد میں آنے والے ہزار ہا اولیاء وصلحاء کے لئے بھی ُکھلا تھا او رآج جب کہ دنیا کے علوم میں ترقی ہو رہی ہے یہ پھر بھی ُکھلا ہے بلکہ جس طرح دُنیوی علو م میںآجکل زیادتی ہو رہی ہے اسی طرح قرآنی معارف بھی آجکل نئے سے نئے نکل رہے ہیں۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے اچھا تاجر پہلے اپنا مال مخفی رکھتا ہے، مگر جب مقابلہ آ پڑتا ہے تو پہلے ایک تھان نکالتا ہے پھر دوسرا تھان نکالتا ہے پھر تیسرا تھان نکالتا ہے اور یکے بعد دیگرے نکالتا ہی جاتا ہے یہاں تک کہ تھانوں کا انبار لگ جاتا ہے۔ اسی طرح جب بھی دنیا ظاہری علوم میںترقی کر جانے کے گھمنڈ میںقرآن کا مقابلہ کرنا چاہے گی، قرآن اپنے ماننے والوں سے کہے گا میاں! ذرا میرے فلاں کمرہ کو تو کھولنا۔اسے کھولا جائے گا تو دنیا کے تمام علوم اس کے مقابلہ میںہیچ ہو کر رہ جائیں گے۔پھر ضرورت پر وہ دوسرا کمرہ کھولے گا او رپھر تیسرا اور اس طرح ہمیشہ ہی دنیا کو اس کے مقابل پر زِک پہنچے گی اور ہمیشہ ہی قرآن نئے سے نئے علوم پیش کرتا رہے گا ۔یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا اور یہی وہ چیز ہے جس کو پیش کرنا ہماری جماعت کا اولین فرض ہے اور ہم حتی المقدور اپنے اس فرض کو اد ا بھی کر رہے ہیں۔ دنیا ہماری اسی لئے مخالف ہے کہ وہ کہتی ہے کہ تم قرآن کی خوبیاں لوگوںکے سامنے کیوں پیش کرتے ہو، مگر ہم کہتے ہیں ،اسی وجہ سے تو خدا کی غیرت بھڑکی اور جب اس نے دیکھا کہ تم اس کی کتاب کو صندوقوں او رغلافوں میں بند کر کے بیٹھ گئے ہو تو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا اور آپ کو حُکم دیا کہ جائو اور قرآن کے معارف اور علوم سے دنیا کو روشناس کرو۔ یہی وہ خزائن ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے تقسیم کئے اور یہی وہ خزائن ہیں جو آج ہم تقسیم کر رہے ہیں۔ دنیا اگر حملہ کرتی ہے تو پرواہ نہیں، وہ دشمنی کرتی ہے تو سَو بار کرے، وہ عداوت اور عناد کا مظاہرہ کرتی ہے تو لاکھ بار کرے ہم اپنے فرض کی ادائیگی سے غافل ہونے والے نہیں ہم انہیںکہتے ہیں کہ تم بے شک ہمارے سینوں میں خنجر مارے جائو اگر ہم مر گئے تو یہ کہتے ہوئے مریں گے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جھنڈا بلند کرتے ہوئے مارے گئے ہیں اور اگر جیت گئے تو یہ کہتے ہوئے جیتیں گے کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جھنڈا دنیا میں بلند کر دیا۔
دوستوں کو نصیحت
آخر میں مَیں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمار ے سُپرد ایک عظیم الشان کام ہے ہم نے اسلام کی عظمت اور اس کی برتری دنیا کے تمام مذاہب پرثابت کرنی
ہے پس دوستوں کو چاہئے کہ جہاں تک ان سے ہو سکے وہ اسلام کوسیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ دشمن کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے وہ تو عداوت اور دشمنی کے جوش میں بیہودہ اعتراضات کرتا ہی رہے گا، ہاں اپنے نفس کی اصلاح سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے، اگر اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں ہم اس کے دین کے حقیقی خدمت گزار ہوں تو بشریت کی وجہ سے جو غلطیاں ہم سے سرزد ہونگی اللہ تعالیٰ انہیں یقینا معاف کر دیگا کیونکہ وہ اپنے بندوں کو دنیا کی نگاہ میںکبھی ذلیل نہیں کر سکتا۔ بشری کمیاں انبیاء میں بھی ہوتی ہیں ۔ پس اگر ایسی غلطیاں خدمتِ دین کے ساتھ ہوں تو خدا ان پر گرفت نہیں کرتا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ایک حبشی کو اپنا وہ بچہ کس قدر خوبصورت نظر آتا ہے جس کا رنگ سیاہ ہوتا ہے، موٹے موٹے ہونٹ ہوتے ہیں، آنکھوں میںغلاظت بھری ہوتی ہے اور شکل نہایت بھیانک اور ڈراؤنی ہوتی ہے۔ پھر اگرایک حبشی اپنے مَیلے کُچیلے اور بدصورت بچہ کی تحقیر نہیں کر سکتا،بلکہ اسے اپنے دل کا ٹکڑا سمجھتا ہے تو کس قدر نادان ہے وہ شخص جو خیال کرتا ہے کہ گو ہم خداتعالیٰ کے دین کی تائید کے لئے کھڑے ہو جائیںاور اللہ تعالیٰ کے روحانی فرزند بن جائیں وہ پھر بھی ہماری بعض غلطیوں کی وجہ سے ہمیں دھتکاردیگا۔ وہ ہمیںدھتکارے گا نہیں بلکہ اپنے سینہ سے لگائے گا اور ہماری کمزوریوں اور خطائوں سے چشم پوشی کریگا، ہاں اپنے طور پر ہر انسان کو یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ وہ کمزوریوں اور خطائوں پر غالب آ ئے اگر وہ اپنی طرف سے ان خطائوں اورکمزوریوں پر غالب آنے کے لئے پوری جدوجہد اور سعی کرتا ہے تو وہ اُس بچے کی طرح ہے جو زمین پر گِرتا اور پھر اُٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس طرح ایسے بچہ کو باپ نہایت پیار کے ساتھ اپنے گلے لگا لیتا ہے۔اسی طرح خدا بھی اپنے اس بندے کو اپنے قُرب میں جگہ دیتا اور خود اسے اٹھا کر اپنے پاس بٹھا لیتا ہے پس کمزوریوں اور خطائوں پر غالب آنے کی کوشش کرو اور اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کرتے رہو کہ وہ ہمارے دلوں میںقرآن کی محبت پیدا کرے،اپنے دین کی محبت پیدا کرے، اپنے رسول کی محبت پیدا کرے اور ہمیں دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے تا کہ ہم اس کے نام کو دُنیا کے کناروں تک پھیلاسکیں اور ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی کمزوریوں پر غالب آئیںاور اپنی خطائوں کو دُور کرسکیں لیکن اگر باوجود ہماری کوشش کے پھر بھی ہم میں کوئی عیب یا گُناہ رہ جائے تو وہ اپنے فضل سے ہمیں بخش دے اور ہمارے دشمن کو ہم پرغالب آنے کاموقع نہ دے وہ اپنے فضل کی چادر میں ہم سب کو لپیٹ لے اور اپنے محبوبین اور مقربین میںہمیںشامل فرمائے تاہم کہہ سکیں کہ ہماری زندگی کی ایک ایک حرکت خدا تعالیٰ کے دین کے اِحیاء کے لئے ہے اور ہمارا خالق اور مالک خدا بھی ہم سے محبت کرتا ہے۔
۱؎ تذکرہ صفحہ ۴۱۳ ۔ ایڈیشن چہارم۔
۲؎ پیدائش باب ۱ آیت ۲ تا ۱۹ نارتھ انڈیابائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ئ۔
۳؎ پیدائش باب ۱ آیت ۲۶ تا ۲۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ئ۔
۴؎ پیدائش باب ۲ آیت ۸نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ئ۔
۵؎ پیدائش باب ۲آیت ۱۶تا ۲۳ نارتھ انڈیابائبل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ئ۔
۶؎ ڈارون (ERASMUS DARWIN) 1731ء تا 1802ئ۔ انگریز سائنسدان۔ اگرچہ طبیب مگر اس نے ایک لمبی نظم ’’نباتیاتی باغ‘‘ (THE BOTANIC GARDEN) بھی لکھی۔ ایک نظم ’’زونومیا‘‘ (ZOONOMIA) میں ارتقائی نظریات کی پیشگوئی ملتی ہے۔ جہاز بیگل پر ماہرِ موجودات کے عہدہ پر فائز ہونے سے پہلے اس نے طبّ اور مذہب کا مطالعہ کیا۔ اس کے انکشافات، مشاہدات اور تحقیقات سے ارتقاء کا وہ نظریہ قائم ہؤا جو ڈارونیت (DARWINISM) بھی کہلاتا ہے۔ اس نظریہ پر اس نے اپنی کتاب ’’آغازِ انواع‘‘ (ORIGION OF SPECIES) میں بحث کی ہے۔ (اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۱ صفحہ ۶۱۷ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ئ)
۷؎ ہیکل(HAECKEL ERNST HEINRICH) 1834ء تا 1919ئ۔جرمن حیاتیات دان اور فلسفی پاٹسڈم (POTSDAM) برلن اور ویانا میں طب اور حیوانیات کا مطالعہ کیا اور اعلیٰ ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۸۶۵ء میں JENA یونیورسٹی میں حیوانات کا پروفیسر ہوگیا اور ۵۰ سال تک نظریۂ ارتقاء کی اشاعت کرتا رہا۔ وہ پہلا سائنسدان تھا جس نے حیوانی زندگی کا شجرۂ نسب مرتب کیا۔ (اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۸۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
۸؎ ہکسلے(HUXLEY T(HOMAS) H(ENRY)انگریز حیاتیات دان۔ جب وہ جہاز رٹیل سینک پر نائب سرجن تھا تو اس نے بحر الکاہل کے رقبوں میں سمندری زندگی کے نمونے اکٹھے کئے۔ ڈارون کا حامی تھا اور اس نے ارتقاء ، تشریح، عضویات اور سائنس کے دوسرے موضوعات پر لکھا۔
(اردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۵۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
۹؎ نوح : ۱۴ تا ۱۹
۱۰؎ مریم : ۶۸
۱۱؎ الدھر : ۲
۱۲،۱۳؎ الدھر : ۳
۱۴؎ فاطر : ۱۲
۱۵؎ الانبیاء : ۳۱
۱۶؎ السجدۃ : ۸
۱۷؎ السجدۃ : ۹
۱۸؎ المرسلٰت : ۲۱ تا ۲۳
۱۹؎ النّجم : ۴۳ تا ۴۸
۲۰؎ فاطر : ۱۲
۲۱؎ البقرۃ : ۳۱
۲۲؎ الاعراف : ۱۲
۲۳؎ البقرۃ : ۳۷
۲۴؎ طٰہٰ : ۱۲۴
۲۵؎ البقرۃ : ۳۹
۲۶؎ الاعراف : ۲۶
۲۷؎ ص ٓ : ۷۷
۲۸؎ الانبیاء : ۳۸
۲۹؎ الرّوم : ۵۵
۳۰؎ الاعراف: ۱۳
۳۱؎ اللّھب : ۲
۳۲؎ الرحمٰن : ۱۶
۳۳؎ البقرۃ : ۳۶
۳۴؎ الاعراف : ۲۰
۳۵؎ طٰہٰ : ۱۱۸
۳۶؎ النساء : ۲
۳۷؎ الاعراف : ۱۹۰،۱۹۱

۳۸؎ بخاری کتاب النکاح باب الوصاۃ بالنّساء
۳۹؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۴۹۷ المکتب الاسلامی بیروت ۱۹۷۸ء
۴۰؎ مجمع البحار جلد ۲ صفحہ ۲۹۴ مطبع نولکشور ۱۳۱۴ھ
۴۱؎ بخاری کتاب التفسیر باب یٰٓاَیُھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَیّرمُ مَااَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ۔
۴۲؎ طٰہٰ : ۱۲۲
۴۳؎ طٰہٰ : ۱۱۹ ، ۱۲۰
۴۴؎ البقرۃ : ۳۶
۴۵؎ البقرۃ : ۳۲
۴۶؎ النمل : ۲۴
۴۷،۴۸؎ البقرۃ : ۳۱
۴۹؎ التحریم : ۴
۵۰؎ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ ، ۱۳ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۵۱؎ طٰہٰ : ۹۱
۵۲؎ خروج باب ۳۲۔ آیت ۱ تا ۴ نارتھ انڈیا بائیل سوسائٹی مرزا پور مطبوعہ ۱۸۷۰ء
۵۳؎ طٰہٰ : ۹۱
۵۴؎ خروج باب ۳۲ آیت ۲۰ ( مفہوماً)
۵۵؎ خروج باب ۳۲ آیت ۱۹ تا ۲۸ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۲۲ء (مفہوماً)
۵۶؎ فاطر : ۲۵
۵۷؎ الانعام : ۸۴ تا ۹۱
۵۸؎ الانعام : ۷۶
۵۹؎ النجم : ۹ ، ۱۰
۶۰؎ یونس : ۶۳ تا ۶۵
۶۱؎ النمل : ۶۶ ، ۶۷
۶۲؎ الجنّ : ۲۷ ، ۲۸
۶۳؎ حٰمٓ السجدۃ: ۳۱ تا ۳۳
۶۴؎ الصّٰفّٰت : ۸۴ تا ۱۰۰
۶۵؎ مہورت: کسی کام کیلئے
ستاروںکی چال کے مطابق
مبارک وقت معلوم کرنا
۶۶؎ النحل : ۱۳
۶۷؎ الحج : ۱۹
۶۸؎ یونس : ۶
۶۹؎ نوح : ۱۶ ، ۱۷
۷۰؎ الرعد : ۳
۷۱؎ الانعام : ۹۷
۷۲؎ الرحمٰن : ۶
۷۳؎ الرحمٰن : ۶ تا ۱۰
۷۴؎ الانبیاء : ۳۴
۷۵؎ النحل : ۹۰
۷۶؎ لقمان : ۲۸
۷۷؎ الدخان : ۲ تا ۶
۷۸؎ یوسف : ۱۱۲
۷۹؎ العنکبوت : ۵۲
۸۰؎ المائدۃ : ۶۸
۸۱؎ بنی اسرائیل: ۹۰
۸۲؎ الکہف : ۵۵

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیر روحانی (۲)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر ۱۹۴۰ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام قادیان)
تشہّدتعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:-
(۴) مساجد
میں نے اس سفر میں جو چیزیں دیکھی تھیں ان میں سے کچھ مساجد بھی تھیں جو بڑی خوبصورت اور مختلف امتیازات والی تھیں کسی میں کالے پتھر لگے ہوئے تھے، کسی میں سفید اور کسی میں سُرخ اور بعض میں اگر سادگی تھی تو وہ سادگی اپنی ذات میں اتنی خوبصورت تھی کہ دل کو لبھا لیتی تھی۔ اسی طرح بعض مساجد اتنی وسیع تھیں کہ ایک ایک لاکھ آدمی ان میں بَیَکوقت عبادت کر سکتا تھا اور بعض اتنی بلند تھیں کہ انسان اگر اُن کی چھت کو دیکھنے لگے تو اس کی ٹوپی گِر جائے غرض اپنے اپنے رنگ میں ہم میں سے ہر ایک نے اُن مساجد کو دیکھ کر لُطف اٹھایا اور جہاں موقع مل سکا وہاں ہم نے نفل بھی پڑھے۔
مساجد کی تعمیر میں نیّتوں کا تفاوت
میں نے جب ان مساجد کو دیکھا تو اپنے دل میں کہا کہ ان خدا کے بندوں نے کیسی کیسی
عظیم الشان مساجد بنا کر خداتعالیٰ کے ذکر اور اس کی عبادت کو دنیا میں قائم کرنے کا اہتمام کیا تھا مگر ساتھ ہی میرے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ یہ مساجد گو بڑی شاندار ہیں اور ان کے بنانے والوں نے ان کے بنانے پر بہت سا وقت اور روپیہ خرچ کیا ہے اور بہت بڑی قربانی سے کام لیا ہے تاہم نہ معلوم انہوں نے ان مسجدوں کو کس کس نیت سے بنایا۔ کسی نے ان کو اچھی نیت سے بنایا ہوگا اور کسی نے بُری نیت سے، کسی نے تو اس خیال سے مسجد تعمیر کی ہوگی کہ لوگ کہیں گے یہ مسجد فلاں بادشاہ نے بنائی تھی۔ اس رِیاکاری کی وجہ سے ممکن ہے وہ اِس وقت جہنم میں جل رہا ہو اور لوگ مسجد دیکھ کر کہہ رہے ہوں کہ واہ واہ! فلاں مسلمان نے کتنی بڑی نیکی کا کام کیا حالانکہ اُس نے چونکہ رِیاء کی وجہ سے مسجد بنائی تھی اس لئے وہ جہنم میں اپنے اس فعل کی سزا پا رہا ہوگا۔ پھر کسی نے ایسی نیک نیتی سے مسجد تیار کی ہوگی کہ گو وہ مر گیا اور اُس کی بنائی ہوئی مسجد بھی ویران ہو گئی مگر اُس کو خداتعالیٰ کے فرشتے ہر روز جنت میں آکر سلام دیتے ہونگے اور کہتے ہونگے کہ تو نے دنیا میں چونکہ خدا کا گھر بنایا تھا اس لئے اب آخرت میں ہم تجھ پر سلامتی بھیجتے ہیں۔بیشک اُس کی مسجد میں اب لوگ نہیں آتے اور نہ وہاں آکر سلام کہتے ہیں مگر جنت میں اُسے فرشتے روزانہ اَلْسَّلامُ عَلَیْکُمْ کہتے ہوں گے۔ غرض جب میں اس قلعہ کی چھت پر کھڑا تھا تو اُس وقت میرے خیالات یہ تھے کہ یہ دُنیوی چیزیں تھیں جن کو میں نے دیکھا اور جن سے اپنی معلومات میں اضافہ کیا، مگر ان دُنیوی چیزوں کے مقابلہ میں بعض روحانی چیزیں بھی اسی قسم کی ہیں لیکن دنیا ان کی طرف توجہ نہیں کرتی۔ وہ اپنی شان میں ان دُنیوی چیزوں سے کہیں بڑھ کر ہیں، وہ اپنی بلندی میں ان سے کہیں اونچی ہیں اور وہ اپنی خوبیوں میں ان سے کہیں اعلیٰ ہیں، غرض وہ ایسی نادر روزگار چیزیں ہیں کہ دنیا کو اگر سینکڑوں نہیں ہزاروں صدیوں کا سفر کرکے بھی ان کی تلاش میں جانا پڑے تب بھی وہ سفر بیکار نہیں کہلا سکتا ، مگر باوجود اس کے لوگ ان کو دیکھنے کا شوق نہیں رکھتے اور نہ ان کے بنانے والوں کی کوئی قدر کرتے ہیں، لیکن ان دُنیوی چیزوں کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ یہ خیالات تھے جو اُس وقت میرے دل اور دماغ پر مسلّط تھے۔
عالَمِ روحانی کی شاندار مساجد
میں بتا چکا ہوں کہ میں نے اِس سفر میں بعض پُرانی اور شاندار مساجد دیکھیں، ایسی وسیع اور شاندار مساجد جن
میں ہزاروں آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں۔ تب میں نے غور کیا کہ یہ تو دُنیوی مساجد ہیں، کیا ان سے بھی بڑھ کر روحانی دنیا میں کوئی مسجدیں ہیں یا نہیں؟ اور اگر ہیں تو دنیا ان سے کیا سلوک کر رہی ہے جب میں نے اس امر پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ ان مساجد سے بہت زیادہ شاندار مساجد روحانی دنیا میں موجود ہیں۔ مٹی کی اینٹوں کی بنی ہوئی نہیں، چونے اور پتھروں سے بنی ہوئی نہیں بلکہ وہ مسجدیں ایمان کی اینٹوں سے تیار ہوئی ہیں اور ان کی شان کو کوئی اور مسجد کبھی نہیں پہنچ سکتی۔
مساجد کیوں بنائی جاتی ہیں
یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ دو چیزو ں میں مشابہت کسی نہ کسی وجہ سے ہوتی ہے کبھی مشابہت شکل میں ہوتی ہے اور
کبھی کام میں مثلاً ایک انسان کی تھوتھنی باہر نکلی ہوئی ہوتی ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ ُ ّکتا ہے، کوئی گردن اکڑا کر رکھتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ یہ سؤر ہے، ایک انسان بڑا بہادر اور دلیر ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں یہ شیر ہے۔ اب کسی کو شیر یا ُکتّا یا سؤر اس وجہ سے نہیں کہا جاتا کہ اُس کے بھی شیر کی طرح پنجے ہوتے ہیں، یا وہ بھی کُتّے اور سؤر کی طرح ہوتا ہے بلکہ کبھی روحانی اور اخلاقی مشابہتوں کی وجہ سے ایک کو دوسرے کا نام دیدیا جاتا ہے اور کبھی ظاہری مشابہت کی بناء پر ایک کو دوسرے کا نام دیا جافتا ہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ مسجد کے مشابہ دنیا میں کونسی چیز ہے؟ میں نے اس کے لئے سب سے پہلے اس امر پر غور کیا کہ مسجد کا کام کیا ہوتا ہے اور وہ کس غرض کے لئے بنائی جاتی ہے؟ اس سوال کو حل کرنے کے لئے جب میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے آل عمران رکوع 10 میں یہ آیت نظر آئی کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکاً وَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَo ۱؎ یہ آیت بیت اللہ کے متعلق ہے جو درحقیقت اوّل المساجد ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سب سے پہلی مسجد اور سب سے اوّل اور مقدّم مسجد وہ ہے جو مکہ میں بنی اور جس کی نقل میں دوسری مساجد تیار ہوتی ہیں۔ یہاں بیت سے مراد درحقیقت بیت اللہ ہے یعنی اللہ کا گھر اور مسجدیں بھی اللہ کا گھر ہی کہلاتی ہیں، آگے بیان فرماتا ہے کہ اس بیت اللہ کا کام کیا ہے اور اسے دوسرے مقامات پر کیا فوقیت حاصل ہے فرماتا ہے بیت اللہ کے بنانے میں ہماری تین اغراض ہیں۔
بیت اللہ کی تین اہم اغراض
اوّل وُضِعَ لِلنَّاسِ۔ یہ مسجد تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے کسی خاص فرد کے لئے نہیں۔ وہ زید
کے لئے نہیں، بکر کے لئے نہیں ، خالد کے لئے نہیں بلکہ وُضِعَ لِلنَّاسِ وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی ہے۔ پھر مُبَارَکاً وہ برکت والی ہے۔ تیسرے ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ سب انسانوں کے لئے ہدایت کا موجب ہے۔ پس دنیا میں سب سے پہلی مسجد جو بنائی گئی اس کی تین اغراض تھیں۔
(۱) مساوات کا قیام
اوّل وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے بنائی گئی تھی، مطلب یہ کہ مسجد ایسا گھر ہوتا ہے کہ مساوات پیدا کرتا ہے اس میں غریب اور امیر
اور مشرقی اور مغربی کا امتیاز بالکل مِٹا دیا جاتا ہے۔ مسجد کے دروازہ کے باہر بیشک ایک بادشاہ بادشاہ ہے اور غلام غلام ، ایک شخص حاکم ہے اور دوسرا محکوم، ایک افسر ہے اور دوسرا ماتحت مگر اِدھر مسجد میں قدم رکھا اور اُدھر امیر اور غریب، حاکم اور محکوم سب برابر ہو گئے۔ کوئی بادشاہ ایسا نہیں جو مسجد میں ایک غلام سے بھی یہ کہہ سکے کہ یہاں مت کھڑے ہو تم وہاں جاکر کھڑے ہو بلکہ اسلام میں یہ مساوات اس حد تک تسلیم کی جا چکی ہے کہ بنواُمیّہ کے زمانہ میں جب بادشاہوں نے ظلم کرنے شروع کر دیئے تو پہلے تو مسجد میں جب بادشاہ آتا تو تعظیم کے طور پر لوگ اس کے لئے جگہ چھوڑ دیتے مگر بعد میں وہ اپنی جگہ پر ہی بیٹھے رہتے اور جب نوکر کہتے کہ جگہ چھوڑ دو تو وہ کہتے کہ تم ہمیں مسجد سے اُٹھانے والے کون ہو مسجد خدا کا گھر ہے اور یہاں امیر اور غریب کا کوئی امتیاز نہیں۔ آجکل کا زمانہ ہوتا تو بادشاہ نوکروں سے لوگوں کو پٹوانا شروع کر دیتے مگر اُس وقت اسلام کا اس قدر رُعب تھا کہ بنوامیہ نے مسجد کے باہر حُجرے بنائے اور وہاں نماز پڑھنا شروع کر دیا مگر یہ جرأت نہ ہوئی کہ مسجد میں آکر لوگوں کو اُٹھا سکیں۔ تو مسجد وُضِعَ لِلنَّاسِ ہوتی ہے اور اس کے دروازے تمام بنی نوع انسان کے لئے کھلے ہوتے ہیں۔ کالے اور گورے کی اس میں کوئی تمیز نہیں ہوتی، چھوٹے اور بڑے کا اس میں کوئی فرق نہیں ہوتا، بلکہ ہر ایک کا مسجد میں مساوی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔ غرض مسجد کا ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ بنی نوع انسان میں مساوات پیدا کرتی ہے۔
(۲) تقدّس اور ذکرِ الٰہی کا مرکز
دوسری غرض مسجد کی اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے مُبَارَکاً وہ مقامِ مبارک ہوتا ہے۔ میں مسجد
کے مقامِ مبارک ہونے کی اور مثالیں دیدیتا ہوں۔
(الف) مسجد اس لئے مقامِ مبارک ہوتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے مخصوص ہوتی ہیں، باقی گھروں میں تو اور کئی قسم کے دُنیوی کام بھی کر لئے جاتے ہیں مگر وہاں دُنیوی کاموں کی اجازت نہیں ہوتی۔ یا اگر کئے بھی جائیں تو وہ اتنے قلیل ہوتے ہیں کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔ جیسے مسجد میں اگر کوئی غریب شخص رہتا ہو تواُسے اجازت ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر کھانا کھا لے مگر بہرحال زیادہ تر کام مساجد میں یہی ہوتا ہے کہ وہاں ذکرِ الٰہی کیا جاتا ہے۔ اور درود پڑھا جاتا ہے اور دعائیں کی جاتی ہیں اور اس طر ح اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی برکتیں نازل ہوتی ہیں۔
(ب) پھر مساجد اس لحاظ سے بھی مقامِ مبارک ہوتی ہیں کہ وہ پاکیزگی کا مقام ہوتی ہیں اور یہ اجازت نہیں ہوتی کہ وہاں گند پھینکا جائے، مثلاً پاخانہ پیشاب کرنے، ُتھوکنے یا بلغم پھینکنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اسی طرح حکم ہے کہ گندگی اور بَدبُودار چیزیں کھا کر مسجد میں مت آئو۔ جُنبی کا مسجد میں آنا بھی منع ہے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ یہ ہدایت دیا کرتے تھے کہ مساجد کو صاف سُتھرا رکھو اور اس میں خوشبوئیں جلاتے رہو۲؎ مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اِس ہدایت کو بالکل نظر انداز کر رکھا ہے اور ان کی مسجدیں اتنی گندی ہوتی ہیں کہ وہاں نماز پڑھنے تک کو جی نہیں چاہتا۔
(۳) بنی نوع انسان کی ہدایت کا ذریعہ
تیسری غرض اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ یعنی مسجدیں
لوگوں کے لئے ہدایت کا موجب ہوتی ہیں۔ وہ اس طرح کہ وہاں دین کی تعلیم اورتبلیغ کا انتظام مثلاً خطبہ ہوتا ہے جس میں وعظ و نصیحت کی جاتی ہے، دینی اور اخلاقی باتیں بتائی جاتی ہیں اور لوگوں کو قربانیوں پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تذکیر و تحمید سے کام لیا جاتا ہے، دینی و دُنیوی اصلاحات کے متعلق مشورے ہوتے ہیں اور مسلمانوں کی بہتری اور ان کی ترقی کی باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ اسی طرح مسجدوں میں قرآن کا درس ہوتا ہے ، حدیث کا درس ہوتا ہے، پھر نمازوں میں سے تین نمازیں بِالخصوص ایسی ہیں جن میں تلاوت بِالجہر کی جاتی ہے اور تلاوت بِالجہر ایک قسم کا وعظ ہوتا ہے، کیونکہ قرآن کریم کی ہر آیت وعظ ہے اور جب بلند آواز سے اُس کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو لوگوں کے قلوب صاف ہوتے ہیں اور ان میں اللہ تعالیٰ کی خشیت اور محبت پیدا ہوتی ہے۔ غرض مسجدیں ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ کا کام دیتی ہیں وہاں لوگوں کی دینی تربیت ہوتی ہے، انہیں اعلیٰ روحانی باتیں بتائی جاتی ہیں اور اسلامی احکام دوسروں تک پہنچائے جاتے ہیں پس مسجد کی یہ تین اغراض اس آیت سے مستنبط ہوتی ہیں۔
مساجد کی بعض اور اغراض
اس کے بعد میں نے او ر غور کیا تو مجھے قرآن کریم میں ایک اور آیت بھی نظر آئی جس میں مساجد کے بعض اور
مقاصد بیان کئے گئے ہیں اور وہ آیت یہ ہے۔ وَاِذْجَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی وَ عَھِدْنَآ اِلٰٓی اِبرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَ الْعٰکِفِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ۳؎
فرماتا ہے اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے اس گھر یعنی خانہ کعبہ کو لوگوں کے لئے مَثَابَہ بنایا، یعنی تمام دنیا کے لئے نسل اور قومیت کے امتیاز کے بغیر اور ملک اور زبان کے امتیاز کے بغیر ہر ایک انسان کے لئے اس کے دروازے کھلے ہیں مَثَابَۃً کے لُغت میں یہ معنے لکھے ہیں کہ مجتمع الناس وَ مَاحَوْلَ الْبِئْرِ مِنَ الْحِجَارَۃِ۴؎ یعنی مَثَابَۃ کے معنے ہیں جمع ہونے کی جگہ اسی طرح مَثَابَۃ اُس منڈیر کو کہتے ہیں جو کنویں کے اِردگِرد بنائی جاتی ہے اور جس سے غرض یہ ہوتی ہے کہ جب زور کی ہوا چلے تو کوڑا کرکٹ اور گوبر اُڑ کر اندر نہ چلا جائے، یا کوئی اور گندی چیز کنویں کے پانی کو خراب نہ کر دے ، اسی طرح منڈیر سے یہ غرض بھی ہوتی ہے کہ کوئی شخص غلطی سے کنویں میں نہ گر جائے، غرض منڈیر کا مقصد کنویں کو بُری چیزوں اور لوگوں کو گِرنے سے بچانا ہوتا ہے۔
مساجد دینی تربیت کا مرکز، بُرائیوں سے محفوظ
رکھنے کا ذریعہ اورقیامِامن کا موجب ہوتی ہیں
پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے ہم نے اِس مسجد کو ایک تو اس غرض کے لئے بنایا ہے کہ دنیا کے چاروں طرف سے لوگ اس جگہ آئیں اور یہاں آکر
دینی تربیت اور اعلیٰ اخلاق حاصل کریں۔ دوسرے ہم نے مسجد کو اس لئے بنایا ہے تاکہ وہ دنیا کے لئے منڈیر کا کام دے اور ہر قسم کی بُرائیوں اور شر سے لوگوں کو محفوظ رکھے۔ تیسری غرض یہ بیان فرمائی کہ مسجد امن کے قیام کا ذریعہ ہوتی ہے اس کے بعد فرماتا ہے وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی ہم نے اس مسجد کو اس لئے بھی قائم کیا ہے تاکہ لوگ مقامِ ابراہیم پر بیٹھیں اور اسے مصلّٰی بنائیں۔ اور ہم نے ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ کو بڑے زور سے یہ نصیحت کی تھی اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ کہ تم میرے اس گھر کو پاک رکھو (ان الفاظ میں بعض اور اغراض بھی بیان کر دی گئی ہیں) لِلطَّائِفِیْنَ مسافروں کے لئے وَالْعٰکِفِیْنَ اور مقیموں کے لئے وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ اور اُن لوگوں کے لئے جو اپنے کاروبار کو چھوڑ کر اس مسجد میں ذکرِ الٰہی کرنے کے لئے آبیٹھے ہیں۔
اس آیت سے مسجد کی یہ مزید اغراض معلوم ہوتی ہیں۔ (۴) مساجد لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ (۵) مساجد شر سے روکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ (۶) مساجد امن کے قیام کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ (۷) امامت کو ان کے ذریعہ زندہ رکھا جاتا ہے۔
مسئلہ امامت کا دائمی احیاء
چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو مدینہ میں ہوتے تھے مگر مسلمان جہاں کہیں ہوتے ایک شخص کو امام بنا کر اُس کی
اقتداء میں نمازیں ادا کرنے لگ جاتے اور اب بھی ہر مسجد میں ایک امام ہوتا ہے جس کی اقتداء میں لوگ نمازیں ادا کرتے ہیں۔ امام درحقیقت قائمقام ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اور مقتدی قائمقام ہوتے ہیں صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے۔ جس طرح صحابہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے تھے اسی طرح آج ہر مسجد میں مسلمان ایک امام کی اقتداء میں نمازیں ادا کرتے ہیں۔ گویا سابق نیکی کے لیڈروں کو زندہ رکھا جاتا اور مساجد کے ذریعہ امامت کو ہر وقت قوم کی آنکھوں کے سامنے رکھا جاتا ہے اور مساجد لوگوں کو یہ مسئلہ یاد دلاتی رہتی ہیں کہ تم میں ایک امام ہونا چاہئے اور اس امام کی اقتداء میں تمہیں ہر کام کرنا چاہئے۔
مسافر اور مقیم کے فوائدمساجد سے ہی وابستہ ہیں
(۸) مساجد مسافروں کے فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہیں۔
مثلاً مسافر وہاں ٹھہر سکتا ہے اور چند روزہ قیام کے بعد اپنی منزلِ مقصود کو جاسکتا ہے۔
(۹) الْعٰکِفِیْنَ مساجد شہر میں بسنے والوں کے فائدہ کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ مثلاً
(الف) گھروں میں تو شوروشغب ہوتا ہے اور انسان سکون کے ساتھ ذکرِ الٰہی نہیں کر سکتا مگر وہاں ہر قسم کے شوروشر سے محفوظ ہو کر آرام سے لوگ ذکرِ الٰہی کر سکتے ہیں۔
(ب) وہ وہاں اجتماعی عبادت کا فائدہ اُٹھاتے ہیں اگر مساجد نہ ہوں تو ایک نظام کے ماتحت عبادت نہ ہوسکے۔ مثلاً جب جمعہ کا دن آتا ہے تو سب مسلمان اپنے اپنے محلوں کی مساجد کی بجائے جامع مسجد میں اکٹھے ہو جاتے اور اجتماعی عبادت بجا لاتے ہیں، اس طرح مساجد انہیں اجتماعی حیثیت سے کام کرنے کی عادت ڈالتی ہیں۔
(۱۰) وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ اُن میں وہ لوگ رہتے ہیں جو خالص اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیتے ہیں۔
واقفینِ زندگی اور مساجد
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں جو لوگ اپنے آپ کوخدمتِ دین کے لئے وقف کر دیا کرتے تھے وہ مسجد
میں ہی رہتے تھے اور انہیں اَصْحَابُ الصُّفَّہ کہا جاتا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسجد میں تشریف لاتے تو وہ آپ کی باتیں سُنا کرتے اور بعد میں لوگوں تک پہنچا دیتے۔ غرض مسجدیں واقفینِ زندگی کو جمع کرنے کا ایک ذریعہ ہیں۔ گائوں والے بعض دفعہ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ وہ الگ کسی جگہ مدرسہ نہیں کھول سکتے ایسی حالت میں وہ مسجد سے مدرسہ کا کام بھی لے سکتے ہیں، کیونکہ ہمارا مدرسہ بھی مسجد ہے اور واقفینِ زندگی کی جگہ بھی مسجد میں ہے۔
مساجد کے مشابہ صرف انبیاء کی جماعتیں ہیں
اب میں بتاتا ہوں کہ یہ اغراض اور مقاصد آیا کسی اور
چیز کے بھی ہیں یا نہیں اور مسجد کے مشابہ عالَم روحانی میں بھی کوئی چیز دکھائی دیتی ہے یا نہیں؟ اس کے لئے پہلے میں علمِ تعبیر الرؤیا کو لیتا ہوں کیونکہ رؤیا میں تمثیلی زبان استعمال کی جاتی ہے اور خوابوں کی تعبیر سے انسان معلوم کر سکتا ہے کہ ظاہری چیزوں کی مشابہت کن روحانی چیزوں سے ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لئے جب ہم علمِ تعبیر الرؤیا کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مسجد انبیاء کی جماعت کو کہتے ہیں۔ پس مساجد کے مشابہ عالَمِ روحانی میں اگر کوئی چیزیں ہیںتو انبیاء کی جماعتیں ہیں۔ اب دیکھنا یہ چاہئے کہ کیا انبیاء کی جماعتوں میں وہ باتیں پائی جاتی ہیں جو مساجد کی اغراض ہیں۔ اگر پائی جاتی ہیں تو ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ واقعہ میں روحانی دنیا میں بھی مساجد ہیں اور وہ ظاہری مساجد سے بہت زیادہ شاندار ہیں۔ آج تک دنیا میں خداتعالیٰ کے بہت سے انبیاء ہوئے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت نوح علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوئے ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام ہوئے ہیں۔ اسی طرح حضرت داؤد ، حضرت سلیمان، حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ہوئے ہیں اور ہرنبی نے کوئی نہ کوئی جماعت قائم کی ہے۔ پس اگر ہم غور کریں تو ہر نبی کی جماعت میں ہمیں یہ مشابہتیں نظرآجائیں گی اور ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان امور کے پورا کرنے کے لئے مختلف روحانی مساجد بنائی گئی تھیں مگر میں تفصیلاً ان کے حالات اس جگہ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ (۱) ایک تو مضمون لمبا ہو جاتا ہے (۲) دوسرے سب مساجد کے تفصیلی حالات محفوظ نہیں۔ اس لئے میں صرف آخری مسجد کو لے لیتا ہوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں تیار ہوئی اور جس کی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیںکہ مَسْجِدِیْ اٰخِرُ الْمَسَاجِدِ ۵؎
صحابہ ؓ کے متعلق ایک اُصولی نکتہ
اب میں ایک ایک کرکے مساجد کی اغراض کی نسبت ثابت کرتا ہوں کہ وہ تمام کی تمام اس روحانی مسجد
سے پوری ہوئی ہیں۔ مگر ایک بات میں کہہ دینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ بعض واقعات اِس قسم کے ہوتے ہیں کہ اگر ان کے متعلق تاریخی طور پر بحث کی جائے تو وہ بہت لمبی ہو جاتی ہے اس لئے اصولی طور پر ایک نکتہ یاد رکھنا چاہئے اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ ۶؎ آپ کے اخلاق و عادات اگر معلوم کرنا چاہو تو قرآن پڑھ لو جو کچھ اس میں لکھا ہے وہی کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ نے یہ بات جس موقع پر بیان فرمائی، اس کی تفصیل یہ ہے کہ آپ کی خدمت میں بعض لوگ حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ حالات سُنائے جائیں۔ آپ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُمجھ سے حالات کیا پوچھتے ہو، قرآن پڑھ کر دیکھ لوجتنی نیک اور پاک باتیں اس میں لکھی ہیں وہ سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں پائی جاتی تھیں، مجھے بھی کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق و عادات کے متعلق ایک ایسی کتاب لکھی جائے جس میں تاریخ یا حدیث سے مدد نہ لی جائے بلکہ صرف قرآن کریم سے استنباط کرکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر روشنی ڈالی جائے ( کاش! کوئی شخص اسی اصل کے مطابق ایک مدلّل کتا ب لکھ کر اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کرے)
غرض جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرت عائشہ ؓ نے یہ فرمایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ آپؐ کے اخلاقِ عالیہ کا پتہ لگانے کے لئے تاریخی کتب کی ورق گردانی اور زید بکر سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔ قرآن اُٹھائو اور اسے پڑھ لو، جتنی اچھی باتیں ہیں وہ سب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھیں۔ اسی طرح صحابہ ؓ کے متعلق بھی ہمیں ایک اصولی نکتہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَ کَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ ۷؎
فرماتا ہے اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی جماعت! تم وہ ہو کہ تمہارے دلوں میں خدا نے ایمان کی محبت ڈال دی ہے اور تمہاری حالت یہ ہوتی ہے کہ قرآن جو کچھ کہتا ہے تم اس پر فوری طور پر عمل کرنے لگ جاتے ہو اور اس نے ایمان کو تمہاری نظروں میں اتنا خوبصورت بنا دیا ہے کہ تمہیں اس کے بغیر چین ہی نہیں آتا جس طرح خوبصورت چیز کی طرف جھکتے ہو اور اُسے ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے وَکَرَّہَ اِلَیْکُمُ الْکُفْرَ وَالْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَ اور اُس نے کُفر، فسق اور نافرمانی سے تمہیں اتنا متنفر کر دیا ہے کہ تم اس کی طرف رغبت ہی نہیں کرتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اور صحابہ ؓ دو مترادف الفاظ ہیں اگر اسلام میں کوئی حُکم پایا جاتا ہے تو صحابہ ؓ نے اس پر یقینا عمل کیا ہے اور اگر صحابہؓ نے کسی بات پر عمل کیا ہے تو اسلام میں وہ ضرور پائی جاتی ہے جس طرح حضرت عائشہ ؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا تھا کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْاٰنُ اسی طرح صحابہ ؓ جس بات پر عمل کریںاُس کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ وہ اسلام میں پائی جاتی ہے اور اسلام نے جس قدر احکام دیئے ہیں اُن کے متعلق سمجھ لینا چاہئے کہ ان پر صحابہ ؓ نے ضرور عمل کیا ہے۔ اس تمہید کے بعد اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں اور بتاتا ہوں کہ مسجد کی اغراض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ؓ نے کس طرح پوری کیں۔
صحابہ کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت
اوّل ۔ غرض مسجد کی یہ ہے کہ لِلنَّاس ہوتی ہے
یعنی اس کے ذریعہ بنی نوع انسان کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے اور سب انسانوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ اس بارہ میں قرآن کریم میں آتا ہے۔ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ ۸؎
یعنی اے مسلمانو! تم سب اُمتوں سے بہتر ہو۔ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم کسی ایک قوم کے فائدہ کے لئے کھڑے نہیں ہوئے بلکہ تم کالوں کے لئے بھی ہو اور گوروں کے لئے بھی ہو، مشرقیوں کے لئے بھی ہو اور مغربیوں کے لئے بھی ہو، تمہارا دروازہ سب کے لئے کھلا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ تم سب کو آواز دو اور کہو کہ آجائو مشرق والو، آجائو مغرب والو، آجائو شمال والو، آجائو جنوب و الو، آجائو غریبو، آجائو امیرو، آجائو طاقت ورو، آجائو کمزورو۔ غرض تم سب کو آواز دو کیونکہ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم وہ قوم ہو جو ساری دنیا کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہو۔ جس طرح وہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ وہ پہلا گھر ہے جو لِلنَّاسِ بنا، اسی طرح انبیاء کی جماعتیں بھی جب کھڑی کی جاتی ہیں تو لِلنَّاسِ کھڑی کی جاتی ہیں۔ موسیٰ ؑکے زمانہ میں اُمتِ موسوی کا دروازہ گو صرف بنی اسرائیل کے لئے کھلا تھا مگر اپنے دائرہ میں وہاں بھی کامل مساوات تھی لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اس دائرہ کو ایسا وسیع کر دیا گیا کہ ساری دنیا کو اس کے اندر شامل کر لیا گیا۔ پس فرماتا ہے اے مسلمانو! تم لوگوں کے فائدہ کے لئے بنائے گئے ہو۔ اس کے بعد اس کا ذکر فرماتا ہے کہ مسلمانوں سے لوگوں کو فائدہ کس طرح پہنچے گا فرماتا ہے تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ تم لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتے ہو تمام بنی نوع انسان کو تبلیغ کرتے ہو، انہیں نیک اخلاق سکھاتے ہو، کہتے ہو کہ فلاں فلاں بات پر عمل کرو تاکہ تمہیں خداتعالیٰ کا قُرب حاصل ہو وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ اور تم بدیوں سے لوگوں کو روکتے ہو، وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ اور تم نڈر ہو کر یہ کام کرتے ہو۔ یہاں ایمان سے صرف مان لینا مراد نہیں، کیونکہ اَمْر بِالْمَعْرُوفِ اور نَہِی عَنِ الْمُنْکَرِ خداتعالیٰ پر ایمان لائے بغیر نہیں ہو سکتا اور جب ایمان پہلے ہی حاصل تھا تو آخر میں تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ کہنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر اس ایمان سے مراد محض خدا پر ایمان لانا ہوتا تو آیت یوں ہوتی کہ تُؤْمِنُوْنَ وَ تَامُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِمگر آیت اس کے اُلٹ ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان کے معنے صرف مان لینے کے نہیں بلکہ کچھ اور ہیں۔ اور وہ معنے جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں یہ ہیں کہ تم لوگوں سے نہیں ڈرتے بلکہ خدا سے ہی ڈرتے ہو اور ان کاموں میں کسی نقصان کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ نڈر ہو کر کام کرتے ہو جیسے فرماتا ہے۔
فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَایَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَائِمٍ ۹؎
امر بالمعروف اور نہی عَنِ المنکر
غرض اس آیت میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ جس طرح مادی مسجد تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے
ہوتی ہے، اسی طرح یہ روحانی مسجد تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے ہے اور وہ اس پر عمل مندرجہ ذیل طریق سے کرتی ہے۔
(الف) تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ سب انسانوں کو حُسنِ سلوک کی تعلیم دیتی اور اس طرح لوگوں کے حقوق کو محفوظ کرتی ہے۔ تَاْمُرُوْنَ کے الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے نظام کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ مسلمان صرف وعظ ہی نہیں کرتے بلکہ لوگوں سے نیک باتیں منواتے ہیں۔ اگر صرف تَعِظُوْنَ النَّاسَ ہوتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ وہ لوگوں کو وعظ و نصیحت کرتے ہیں مگر خدا نے تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ کے الفاظ استعمال کئے ہیں جس میں یہ بتایا ہے وہ لوگوں کو صرف وعظ و نصیحت کی بات کہدینا کافی نہیں سمجھتے بلکہ لوگوں سے عمل بھی کراتے ہیں۔ اگر تعلیم سے عمل ہو تو تعلیم دیتے ہیں، تربیت سے عمل ہو تو تربیت کرتے ہیں، منّت سماجت سے کوئی عمل کرنے کے لئے تیار ہو تو اس کی منّت سماجت کرتے ہیں اور اگر کوئی نگرانی کا محتاج ہو جیسے نابالغ بچے ہیں تو اسے حُکم دیتے ہیں (یعنی ان امور میں اور ان لوگوں کو جن میں اور جن کو حُکم دینے کی اجازت ہے حُکم دیتے ہیں ورنہ بالغ اور عاقل سے جبراً کوئی امر منوانا جو اس کے عقیدہ کے خلاف ہو اسلام میں جائز نہیں) غرض وہ صرف اپنی زبان سے بات نکال کر خوش نہیں ہو جاتے بلکہ جس طرح بھی بن پڑتا ہے لوگوں سے عمل کرانے کی جِدّوجُہد کرتے ہیں اور جب تک لوگوں کی عملی حالت درست نہ ہو جائے خوش نہیں ہوتے۔
(ب) تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ تمام بنی نوع انسان کو ظلم اور تعدّی اور شرارت سے روکتے ہیں۔ یہاں بھی نہی کا لفظ استعمال فرمایا ہے وعظ کا نہیں۔
توکّل علی اللہ
(ج) وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ اس جگہ تُؤْمِنُوْنَ کو آخر میں رکھنا صاف بتا رہا ہے کہ یہاں عام ایمان مراد نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کاموں میں کسی نقصان
سے نہیں ڈرتے اور نڈر ہو کر کام کرتے ہیں۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس مسجد نے اس غرض کو کس طرح پور اکیااور کس طرح تمام بنی نوع انسان میں اُس نے مساوات کو قائم کیا۔
مساوات کے قیام کے لئے غلامی کو مِٹا دیا گیا!
مساوات کے قیام کے لئے اس جماعت نے سب سے پہلے غلامی کو
مِٹایا اور جس طرح مسجد میں کوئی آقا اور کوئی غلام نہیں رہتا اسی طرح مسلمان ہو کر کوئی آقا اور کوئی غلام نہیں رہتا۔ غلامی کے متعلق اسلام نے ایک مفصّل تعلیم دی ہے میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ؓ نے سارا زور اس امر پر صرف کر دیا کہ دنیا سے غلامی کو مِٹا دیا جائے۔ چنانچہ اس مسئلہ کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک اصل بیان کیا ہے اور میں اپنی جماعت کے لیکچراروں کو ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ وہ اسے بیان کیا کریں۔ وہ اصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَاِمَّا مَنَّا بَعْدُوَ اِمَّا فِدَائً ۱۰؎ کہ جب کوئی غلام پکڑا جائے تو اس کے متعلق شریعت میں صرف دو۲ ہی حُکم ہیںیا تو احسان کرکے چھوڑ دو یا جُرم کا جُرمانہ وصول کرکے چھوڑ دو، قید کا حُکم کہیں نہیں۔ پس دو ہی حُکم ہیں یا تو یہ کہ غلام پر احسان کرو اور اُسے آزاد کرو اور یا یہ حُکم ہے کہ کچھ ٹیکس اور جُرمانہ وصول کرو اور اُسے چھوڑدو۔ پھر اس جُرمانہ کے متعلق بھی یہ شرط ہے کہ اگر غلام مکاتبت چاہے تو مکاتبت بھی کر سکتا ہے اور یہ مکاتبت کی شرط اس لئے رکھی گئی ہے کہ فرض کرو ایک شخص کے پاس روپیہ تو نہیں مگر وہ آزاد ہونا چاہتا ہے تو وہ کرے تو کیا کرے۔ اگر نقد روپیہ دیکر غلام آزاد ہو سکتا تو جس کے پاس روپیہ نہ ہوتا وہ اعتراض کرسکتا تھا کہ میری رہائی کی کوئی صورت اسلام نے نہیں رکھی۔ مگر اسلام چونکہ کا مل مذہب ہے اس لئے اس نے اس روک کو بھی دُور کر دیا اور یہ اصول مقرر کردیا کہ اگر غلام مکاتبت کا مطالبہ کرے تو اُسے مکاتبت دے دینی چاہئے۔ مکاتبت کا مطلب یہ ہے کہ غلام کہہ دے میں آزاد ہونا چاہتا ہوں تم میرا جُرمانہ مقرر کر دو۔ میںمحنت اور مزدوری کرکے اپنی کمائی میں سے ماہوار قسط تمہیں دیتا چلا جائوں گا۔ جب کوئی غلام یہ مطالبہ کرے تو اسلامی شریعت کے ماتحت قاضی کے پاس مقدمہ جائیگا اور وہ اس کی لیاقت اور قابلیت کو دیکھ کر اور یہ اندازہ لگا کر کہ وہ ماہوار کتنا کما سکتا ہے اس کے ذمّہ ایک رقم مقرر کر دیگا اور پھر اس کے ماہوار گزارے کو منہا کرکے مطالبہ کرے گا کہ اتنی رقم ماہوار تم تاوان کے طور پر ادا کرتے چلے جائو۔ اس طرح وہ اقساط کے ذریعہ تاوان ادا کرتا رہے گا مگر جزوی آزاد وہ اسی دن سے ہو جائے گا جس دن وہ قاضی کے سامنے یہ اقرار کریگا۔ اگر ادائیگئ رقم سے پہلے وہ شخص فوت ہو جائے تو اس کا بقیہ مال اور ترکہ آقا کو مل جائے گا اور اگر وہ زندہ رہے گا تو اس فیصلہ کے ماتحت وہ اپنی رقم ادا کرنے پر مجبور ہوگا۔ غرض اسلامی جنگوں کے ماتحت جب بھی غلام گرفتار ہوکر آئیں گے انہیں یا تو ہمیں خود چھوڑ دینا ہوگا یا ہمیں حُکم ہوگا کہ ہم تاو ان وصول کریں۔اگر اس کے بھائی بند اور رشتہ دار اس وقت آزادی کی قیمت ادا کریں تو وہ اس وقت آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے رشتہ دار غریب ہوں یا وہ فدیہ ادا کرنا پسند نہ کریں تو وہ مکاتبت کا مطالبہ کرنے کا حق دار ہوگا اور مسلمان قاضی کا فرض ہوگا کہ وہ اُس کی حیثیت کے مطابق اس پر فدیہ عائد کرے اور پھر اس کا گزارہ مقرر کرکے مناسب رقم ماہوار بطور فدیہ آزادی ادا کرنے کا اُسے حُکم دے۔ جب یہ عہدوپیمان تحریری طور پر ہو جائے گا تو اس دن سے ہی وہ اپنے اعمال کے لحاظ سے آزاد ہو جائے گا۔
اب دیکھو اس تعلیم کے ہوتے ہوئے کیا کوئی شخص بھی اپنی مرضی کے خلاف غلام رہ سکتا ہے؟ جب بھی کوئی غلام آئے گا ہم اس بات کے پابند ہونگے کہ یا تو اُسے خود آزاد کر دیں یا وہ فدیہ ادا کرکے آزاد ہو جائے اور اگر اس کی طاقت میں یہ بات نہ ہو تو اس کے بیوی بچے اور رشتہ دار فدیہ ادا کر دیں اور اگر وہ بھی ادا نہ کر سکتے ہوں تو قاضی کے پاس جاکر فدیہ ادا کرنے کا اقرار کرے اورقاضی ادائیگی کی جو صورت تجویز کرے اُس پر عمل کرے، ان تمام صورتوں میں وہ آزاد ہو جائے گا۔ اور اگر کوئی شخص ان شرائط میں سے کسی شرط سے بھی فائدہ نہیں اُٹھاتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ اپنے آپ کو غلام نہیں سمجھتا بلکہ گھر کا ایک فرد سمجھتا ہے اور عُرفِ عام کی رو سے آزاد ہونے کو پسند ہی نہیں کرتا۔
حضرت زیدؓ کا اپنی آزادی پر محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کو ترجیح دینا
ممکن ہے کوئی کہہ دے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے گھر کو اپنے گھر سے بہتر قرار دے اور کسی شرط پر بھی آزاد ہونا پسند نہ کرے سو اس کے
لئے میں ایک مثال دیدیتا ہوں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ایسے حالات بھی پیدا ہوسکتے ہیں کہ کوئی شخص غلامی کو اپنے گھر کی آزادی پر ترجیح دینے کے لئے تیار ہو جائے وہ مثال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جس قدر غلام تھے اُن تمام کو حضرت خدیجہ ؓ سے شادی ہوتے ہی آپ نے آزاد کر دیاتھا۔ اس کے بعد تاریخ سے ثابت نہیں کہ آپ نے اپنے پاس کوئی غلام رکھا ہو ہاں غلام کو آزاد کرکے اسے خادم کے طور پر رکھا ہو تو یہ اور بات ہے۔ لیکن ایک غلام جن کا نام زید تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہی رہے اور انہوں نے آزاد ہونا پسند نہ کیا۔ یہ ایک مالدار خاندان میں سے تھے۔ کسی جنگ میں انہیں یونانی لوگ پکڑکر لے گئے تھے، پھر فروخت ہوتے ہوتے یہ مکہ پہنچے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خرید لیا۔ جب حضرت خدیجہ ؓ کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شادی ہوئی تو انہوں نے اپنا تمام مال اور غلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہبہ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ اس ہبہ کے بعد میں پہلا کام یہ کرتا ہوں کہ ان تمام غلاموں کو آزاد کر دیتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے سب کو آزاد کر دیا۔ ادھر حضرت زیدؓ کے باپ اور چچا، زید کو تلاش کرتے ہوئے اور ڈھونڈتے ہوئے مکہ آنکلے۔ وہاں انہیں معلوم ہؤا کہ زید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے۔ وہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیا کہ ہمارا ایک بچہ آپ کے پاس غلام ہے آپ ہم سے روپیہ لے لیں اور اسے آزاد کر دیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو اسے آزاد کر چکا ہوں۔ انہیں خیال آیا کہ شاید یہ بات انہوں نے یونہی ہمیں خوش کرنے کے لئے کہہ دی ہے ورنہ کیسے ممکن ہے کہ انہوں نے بغیر روپیہ لئے اسے آزاد کر دیا ہو۔ چنانچہ وہ پھر منت سماجت کرنے لگے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید کو آواز دی اورجب وہ آئے تو آپ نے فرمایا یہ تمہارے باپ اور چچا ہیں اور تمہیں لینے کے لئے آئے ہیںـ، میرے ساتھ مسجد میں چلو تاکہ میں اعلان کر دوں کہ تم غلام نہیں بلکہ آزاد ہو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسجد میں لے گئے اور اعلان کر دیا کہ زید غلام نہیں وہ آزاد ہے اور جہاں جانا چاہے جا سکتا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان کر دیا تو ان کے باپ اور چچا دونوں بہت خوش ہوئے اور زید سے کہا کہ اب ہمارے ساتھ چلو، مگر حضرت زید اُسی وقت مسجد میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا اے لوگو! تم اس بات کے گواہ رہو کہ گو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آزادکر دیا ہے مگر میں اُن سے آزاد نہیں ہونا چاہتا اور انہی کے پاس رہنا چاہتا ہوں۔ باپ اور چچا نے شورمچا دیا کہ تم عجیب بے وقوف ہو کہ اپنے گھر اور اپنے والدین پر اس شخص کی رفاقت کو ترجیح دیتے ہو۔ انہوں نے کہا مجھے باپ سے بھی محبت ہے اور ماں سے بھی، اسی طرح باقی سب رشتہ داروں سے مجھے اُلفت ہے مگر بخدا! یہ شخص مجھے سب سے زیادہ پیارا ہے اور میں اس سے جُدا ہونا پسند نہیں کرسکتا۔ یہی وہ موقع ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا کہ زید اب میرابیٹاہے۔۱۱؎ گویا پہلے تو آپ نے زید کو آزاد کیا اور پھر اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ اب دیکھو زید ایک غلام تھا جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کیا مگر اس نے اپنے گھر کی آزادی اور دولت کو پسند نہ کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صُحبت میں رہنا اُسے زیادہ پیارا معلوم ہؤا۔
جنگوں میں گرفتار ہونے والوں کے متعلق اسلامی احکام
اسی طرح جب بھی اسلامی جنگوں کے نتیجہ
میں غلام گرفتار ہو کر آئیں اُن کے متعلق شریعت کا یہی حُکم ہے کہ مسلمان یا تو احسان کر کے انہیں چھوڑ دیں یا فدیہ وصول کر کے چھوڑ دیں یا مکاتبت کے ذریعہ سے چھوڑ دیں اور اگر اس کے باوجود کوئی شخص آزاد نہیں ہوتا تو یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے۔ اگر اس کے پاس روپیہ نہیں تو وہ مجسٹریٹ کے پاس جا کر درخواست دے سکتا ہے کہ میرے پاس روپیہ نہیں میری حیثیت کے مطابق مجھ پر جُرمانہ لگا دیا جائے، میں روپیہ کما کر ماہوار اتنی رقم ادا کرتا چلا جائوں گا۔ لیکن اگر اس کے باوجود وہ آزادی کے لئے کوشش نہیں کرتا تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ مسلمان کا گھر اُسے ایسا اچھا معلوم ہوتا ہے کہ وہ کفر کی آزادی کو پائے اِستحقار سے ُٹھکرانے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ پس جس طرح مسجد مساوات کو قائم کرتی ہے اسی طرح اسلام نے غلامی کو مٹا کر دُنیا میں مساوات قائم کی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ
پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی نمونہ یہ دکھایا کہ اپنی پھوپھی زاد بہن کو اسی زید
سے جوآزاد شُدہ غلام تھا بیاہ دیا، حالانکہ عرب لوگ اسے بہت بُرا سمجھتے تھے۔ اسی طرح اسامہ جو زید کے بیٹے تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ ایسے لشکر کا سردار مقرر کر دیا جس میں دس ہزار مسلمان تھے اور جس میں ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ تک شامل تھے حالانکہ عربوں میں غلاموں کے بیٹے بھی غلام ہی سمجھے جاتے تھے۔ اب بتاؤ دنیا کی اور کونسی قوم ہے جس نے لوگوں کو اس قسم کی آزادی عطا کی اور مساوات کا یہ حیرت انگیز ثبوت پیش کیا ہو کہ آزاد شُدہ غلام کے بیٹے کو ایک لشکرِ جرار کا اس نے سردار مقرر کیا اور اس لشکر میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ بھی شامل ہوں۔ پھر یہ نہیں کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمر ؓ نے اسامہ کے ماتحت جنگ کرنے میں کوئی ہتک محسوس کی ہو بلکہ وہ بڑی بشاشت اور خوشی کے ساتھ ان کی ماتحتی میں جنگ پر جانے کے لئے تیار ہو گئے، بلکہ اس لشکر کو تو تاریخِ اسلام میں ایسی عظمت حاصل ہوئی کہ اور کسی لشکر کو ایسی عظمت حاصل ہی نہیں اور وہ اس طرح کہ یہ لشکر ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ نہیں فرمایا تھا کہ آپؐ وفات پا گئے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے۔ آپ مجبوراً خلافت کی وجہ سے جنگ پر نہیں جا سکتے تھے، مگر آپ ازخود اس لشکر سے علیحدہ نہیں ہوئے بلکہ اسامہ کو لکھا کہ چونکہ مسلمانوں نے مجھے خلیفہ مقرر کیا ہے اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں مدینہ میں ہی رہوں چنانچہ انہوں نے اجازت دے دی۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے لکھ بھیجا کہ حضرت عمرؓ کا بعض ضروری معاملات میں مشورہ دینے کے لئے مدینہ میں رہنا ضروری ہے اس لئے اجازت دیجئے کہ عمرؓ بھی یہیں رہیں چنانچہ انہوں نے حضرت عمرؓ کو بھی مدینہ میںرہنے کی اجازت دے دی۔۱۲؎ پس حضرت ابوبکرؓ نے اپنی خلافت کے ایام میں ایک غلام بچہ کو اتنی عظمت دی کہ اس کی سیادت اور حکومت کا حق اپنی خلافت کے وقت میں بھی تسلیم کیا اور ایک آدمی بھی بغیر اجازت لشکر سے پیچھے نہیں رہا۔
مساوات کے قیام کے لئے اسلام کا دوسرا اہم حکم
مساوات کے قیام کے لئے اسلام کا دوسرا حکم جس پر تمام
صحابہ اور تمام مسلمان بھی شدت سے عمل کرتے رہے ہیں یہ ہے کہ اسلام نے جُرم کی سزا میں چھوٹے بڑے کا کوئی فرق نہیں رکھا۔ اسلام کے نزدیک مُجرم خواہ بڑا ہو یا چھوٹا بہرحال وہ تعزیر کا مستحق ہوتا ہے اور اس میں کسی قسم کے امتیاز کو روا نہیں رکھا جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک عورت نے جو کسی بڑے خاندان سے تعلق رکھتی تھی چوری کی اور معاملہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا، ساتھ ہی بعض لوگوں نے سفارش کر دی اور کہا کہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے بلکہ معمولی تنبیہہ کر دی جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ سُنا تو آپ کے چہرہ پر غضب کے آثار ظاہر ہوئے اور آپؐ نے فرمایا خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اُس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ پھر آپ نے فرمایا ، دیکھو پہلی قومیں یعنی یہود اور نصاریٰ اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب اُن میں سے کوئی بڑا آدمی جُرم کرتا تو اُسے سزا نہ دیتے، جب کوئی چھوٹا آدمی جُرم کرتا تو اسے سزا دیتے۔ مگر اسلام میں اس قسم کا کوئی امتیاز نہیں اورہر شخص جو جُرم کرے گا اسے سزا دی جائیگی خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا۔۱۳؎
تمدنی معاملات میں مساوات کی اہمیت
پھر اسلام نے مساوات کو تمدنی پہلو میں اتنی عظمت دی ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کوئی شخص آپ کے پاس دودھ بطور تحفہ لایا۔ آپؐ نے کچھ دودھ پیا اور پھر خیال آیا کہ کچھ دودھ حضرت ابوبکرؓ کو دیدوں کیونکہ وہ بھی اُس وقت مجلس میں موجود تھے اور پھر آپ کے رشتہ دار بھی تھے۔ مگرآپ نے دیکھا کہ وہ دائیں طرف نہیں بیٹھے بلکہ بائیں طرف بیٹھے ہیں اور دائیں طرف ایک نوجوان بیٹھا ہے۔ اسلام نے چونکہ دائیں طرف والے کا حق مقدم رکھا ہے اس لئے آپ نے اُس لڑکے سے کہا کہ اگر تم اجازت دو تو میں یہ دودھ ابوبکرؓ کو دیدوں اس لڑکے نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! یہ میرا حق ہے یا آپ یونہی مجھ سے پوچھ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ بات یہ ہے کہ دائیں طرف بیٹھنے کی وجہ سے اس دودھ پر تمہارا حق ہی ہے مگر میں تم سے اجازت چاہتا ہوں کہ اگر کہو تو ابوبکرؓ کو دودھ دے دُوں۔ اس نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ!جب یہ میرا حق ہے تو پھر آپؐ کے تبرّک کو کوئی کس طرح چھوڑ سکتا ہے اور یہ کہہ کر اس نے دودھ کا پیالہ آپ سے لیکر پینا شروع کر دیا۔۱۴؎
مرض الموت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک واقعہ بتاتاہے کہ کس طرح
اسلام میں مساوات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ جب آپؐ کی وفات کا وقت قریب آیا تو صحابہؓ کو آپ نے باربار خداتعالیٰ کی وحی سے خبر دی اور بتایا کہ اب میرا زمانۂ وفات نزدیک ہے ۔ اُس وقت ان پر ایک عجیب رقّت طاری تھی اور دلوں میں سوز و گداز پیدا تھا۔ ایک دن آپ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے صحابہ کو نصیحتیں کرتے ہوئے فرمایا۔ اے لوگو! اسلامی قانون کے لحاظ سے مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں، اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو مجھ سے بدلہ لے لو۔ اور فرمایا کہ اس معاملہ میں اگر دنیا میں مجھے سزا مل جائے تو میں اسے زیادہ پسند کروںگا بہ نسبت اس کے کہ اس غلطی کے بارہ میں خداتعالیٰ مجھ سے جواب طلبی کرے۔ جب آپ نے یہ فرمایا تو ایک صحابی اُٹھے اور انہوں نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! میرا ایک حق آپ کے ذمہ ہے آپ نے فرمایا کیا؟ اس نے کہا فلاں موقع پر جبکہ آپ لڑائی میں مسلمانوں کی صفیں درست کر رہے تھے، اگلی صف میں کچھ خرابی تھی آپ صف میں راستہ بنا کر آگے گزرے تو آپ کی کُہنی مجھے لگ گئی۔ آپ نے فرمایا کہاں لگی تھی؟ اُس نے پیٹھ پر ایک جگہ دکھائی اورکہا اس جگہ لگی تھی، آپ اُس وقت بیٹھ گئے اور فرمایا میرے بھی اسی جگہ کُہنی مار لو۔ اس صحابی نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ!اُس وقت میرے تن پر کُرتا نہیں تھا، ننگا جسم تھا اورننگے جسم پر آپ کی ُکہنی لگی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا اور یہ کہہ کر آپ نے پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھایا اور فرمایا اب تم کُہنی مار لو۔ صحابہؓ کی حالت کا تم اُس وقت اندازہ لگا سکتے ہو، ایک طرف ان کے دلوں میں یہ جذبات موجزن تھے کہ خدا کا رسول عنقریب ہم سے جُدا ہونے والا ہے اور اس وجہ سے اُن کے دل سوزوگداز سے بھرے ہوئے تھے اور دوسری طرف اس صحابی کا یہ مطالبہ ان کے سامنے تھا۔ اگر ان کا بس چلتا تو وہ یقینا اس صحابی کی تِکّہ بوٹی کر دیتے مگر اسلامی شریعت انہیں روک رہی تھی اس لئے وہ خون کے گھونٹ پی پی کر صبر کر گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کُرتا اُٹھایا اور فرمایا تم نے ٹھیک کیا کہ مجھ سے اب بدلہ لینے لگے ہو اور قیامت پر اُٹھا نہیں رکھا۔ تو وہ صحابی جنھوں نے مطالبہ کیا تھا پُرنم آنکھوں کے ساتھ آپ پر جُھکے اور آپؐ کی پیٹھ پر بوسہ دیتے ہوئے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ!بیشک مجھے آپ کی کُہنی لگی تھی مگر میں نے یہ سارا بہانہ اِس وقت صرف اس لئے بنایا تھا تاکہ میں اِس وقت کہ آپ اپنی جُدائی کا ذکر کر رہے ہیں آخری دفعہ آپ کے جسم کو بوسہ دے لوں۔۱۵؎ یہ کس قدر زبردست مساوات ہے جو اسلام نے قائم کی۔ کیا دنیا اس مساوات کی کوئی بھی نظیر پیش کر سکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح مسجد میں امیر اور غریب کا امتیاز اُٹھ جاتاہے، بادشاہ اور رعایا کا فرق جاتا رہتاہے، اسی طرح اسلام میں داخل ہونے کے بعد تمام مساوات کے دائرہ میں آجاتے ہیں اور کسی کو کسی دوسرے پر فضیلت نہیں رہتی۔
حضرت عمرؓ کے عہدِ خلافت کا ایک زرّین واقعہ
پھر یہ عمل آپؐ تک ہی ختم نہیں ہو گیا بلکہ آپ کی وفات کے بعد
بھی برابر جاری رہا، حضرت عمرؓ کا ایک مشہور واقعہ ہے جس کے نتیجہ میں گو آپ کو تکلیف بھی اُٹھانی پڑی مگر آپ نے اس تکلیف کی کوئی پرواہ نہ کی اور وہ مساوات قائم کی جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ جبلۃ ابن ایہم ایک بہت بڑے عیسائی قبیلے کا سردار تھا جب شام کی طرف مسلمانوں نے حملے شروع کئے تو یہ اپنے قبیلہ سمیت مسلمان ہو گیا اور حج کے لئے چل پڑا۔ حج میں ایک جگہ بہت بڑا ہجوم تھا،اتفاقاً کسی مسلمان کا پائوں اس کے پائوں پر پڑگیا۔ بعض روایتوں میں ہے کہ اُس کا پائوں اُس کے جُبّہ کے دامن پر پڑگیا۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو ایک بادشاہ سمجھتا تھا اور خیال کرتا تھا کہ میری قوم کے ساٹھ ہزار آدمی میرے تابع فرمان ہیں، بلکہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ ساٹھ ہزار محض اس کے سپاہیوں کی تعداد تھی۔ بہرحال جب ایک ننگ دھڑنگ مسلمان کا پیر اس کے پیر پر آپڑا تو اس نے غصہ میں آکر زور سے اسے تھپڑ مار دیا اور کہا تو میری ہتک کرتا ہے تو جانتا نہیں کہ میں کون ہوں، تجھے ادب سے پیچھے ہٹنا چاہئے تھاتو نے گستاخانہ طور پر میرے پائوں پر اپنا پائوں رکھدیا۔ وہ مسلمان تو تھپڑ کھا کر خاموش ہو رہا مگر ایک اورمسلمان بول پڑا کہ تجھے پتہ ہے کہ جس مذہب میںتو داخل ہؤا ہے وہ اسلام ہے اور اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں۔ بِالخصوص اس گھر میں امیر اور غریب میںکوئی فرق نہیں سمجھا جاتا۔ اُس نے کہا میں اس کی پروا نہیں کرتا۔ اس مسلمان نے کہا کہ عمرؓ کے پاس تمہاری شکایت ہو گئی تو وہ اس مسلمان کا بدلہ تم سے لیں گے۔ جبلۃ ابن ایہم نے جب سنا تو آگ بگولا ہو کر کہنے لگا کیا کوئی شخص ہے جو جبلۃ ابن ایہم کے منہ پر تھپڑ مارے۔ اس نے کہا کسی اور کا تو مجھے پتہ نہیں مگر عمرؓ تو ایسے ہی ہیں یہ سنکراُس نے جلدی سے طواف کیا اور سیدھا حضرت عمرؓ کی مجلس میں پہنچا اور پوچھا کہ اگر کوئی بڑا آدمی کسی چھوٹے آدمی کو تھپڑ مار دے تو آپ کیا کِیا کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا یہی کرتے ہیں کہ اس کے منہ پر اس چھوٹے شخص سے تھپڑ مرواتے ہیں۔ وہ کہنے لگا آپ میرا مطلب سمجھے نہیں میرامطلب یہ ہے کہ اگر کوئی بہت بڑا آدمی تھپڑ مار دے تو پھر آپ کیا کِیا کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اسلام میں چھوٹے بڑے کا کوئی امتیاز نہیں۔ پھر آپ نے کہا جبلۃ! کہیں تم ہی تو یہ غلطی نہیں کر بیٹھے؟ اِس پر اُس نے جھوٹ بول دیا اور کہا کہ میں نے تو کسی کو تھپڑ نہیں مارا، میں نے تو صرف ایک بات پوچھی ہے۔ مگر وہ اُسی وقت مجلس سے اُٹھا اور اپنے ساتھیوں کو لے کر اپنے ملک کی طرف بھاگ گیا اور اپنی قوم سمیت مرتدہو گیا اور مسلمانوں کے خلاف رومی جنگ میں شامل ہؤا۔ لیکن حضرت عمرؓ نے اس کی پرواہ نہ کی۔۱۶؎
یہ ہے وہ مساوات جس کی مثال کسی اور قوم میں نہیں ملتی اور یہ ویسی ہی مساوات ہے جیسے مسجد مساوات قائم کیا کرتی ہے۔ جس طرح وہاں امیر اور غریب میں کوئی فرق نہیں ہوتا اِسی طرح اسلام میں چھوٹے بڑے میں کوئی فرق نہیں۔
مساوات کے قیام کے لئے اسلام میں زکوۃ کا حُکم
پھر مساوات قائم کرنے کا ایک اور ذریعہ اسلام نے
اختیار کیا اور جس پر صحابہ بڑی شدّت سے عمل کرتے تھے زکوٰۃ کا مسئلہ ہے۔ اسلام نے زکوٰۃ اسی لئے مقرر کی ہے تاکہ لوگوں میں مساوات قائم رہے یہ نہ ہو کہ بعض لوگ بہت امیر ہو جائیں اور بعض لوگ غریب ہو جائیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زکوٰۃ کے بارہ میں فرماتے ہیں۔تُؤْخَذُ مِنْ اَغْنِیَائِ ھِمْ وَ تُرَدُّ عَلٰی فُقَرَائِ ھِمْ ۱۷؎ کہ وہ امیروں سے لی جائے گی اور غریبوں کو دی جائے گی، کیونکہ ان کے اموال میں اس قدر حصہ دراصل غرباء کا ہے اوراُن کا حق ہے کہ اُن کا حصّہ ان کو واپس دیا جائے۔ یہ زکوٰۃ سرمایہ پر اڑھائی فیصدی کے حساب سے وصول کی جاتی ہے اگر سرمایہ پر چھ فیصدی نفع کا اندازہ لگایا جائے تواَڑھائی فیصدی زکوٰۃ کے معنی یہ بنتے ہیں کہ منافع کا چالیس فیصدی اللہ تعالیٰ غرباء کو دینے کا ارشاد فرماتا ہے گویا شریعت نے ایک بڑا بھاری ٹیکس مسلمانوں پر لگا دیا ہے تاکہ اس روپیہ کو غرباء کی ضروریات پرخرچ کیا جائے اور ان کی ترقی کے سامان مہیا کئے جائیں۔
فتوحات میں حاصل ہونے والے
اموال کی تقسیم کے متعلق قرآنی ہدایات
اسی طرح فئ یعنی وہ اموال جو فتوحات میں حاصل ہوں ان کے متعلق شریعت کا حُکم ہے کہ انہیں علاوہ اور قومی ضرورتوں پر خرچ کرنے کے غرباء میں بھی تقسیم کیا جائے تاکہ
امیر اور غریب کا فرق مِٹ جائے، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن کریم میں ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ مَآاَفَائَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُری فَلِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ وَ لِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ ۱۸؎
کہ وہ اموال جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تم کو بغیر کسی محنت کے مل جایا کریں ، ان کے متعلق ہماری یہ ہدایت ہے کہ وہ اموال اللہ تعالیٰ کا حق ہیں شریعت کو جب ہم اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حق سے کیا مراد ہے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حق سے مراد یہ ہے کہ وہ مال غرباء اور ضروریاتِ دین اور ضروریاتِ قومی پر خرچ کیا جائے۔ ضروریاتِ دینی و ضروریاتِ قومی تو ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذمہ داری ہونے کی وجہ سے اللہ کے لفظ میں شامل ہیں، غرباء کے متعلق سوال ہو سکتا ہے کہ وہ اللہ کے لفظ میں کس طرح شامل ہیں؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَامِنْ دَا بَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّاعَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا ۱۹؎ یعنی ہر چلنے والی چیز جو زمین پر رینگتی یا چلتی ہے اللہ تعالیٰ کے ذمّہ ہے کہ اسے رزق پُہنچائے۔ پس جب اللہ تعالیٰ کے ذمّہ ہر جاندار کا رزق ہے تو جاندار ایسے ہیں کہ ان کے لئے رزق کمانے کا طریق خداتعالیٰ نے جاری کیا ہے اگر وہ رزق نہ کما سکیں تو اللہ تعالیٰ کے خزانہ سے انہیںرزق دینا ہوگا اور سب سے مقدّم خزانہ اللہ تعالیٰ کا وہی مال ہے جسے خدا کا مال شریعت نے قرار دیا ہو۔
حدیث میں بھی اس آیت کی تشریح دوسرے الفاظ میں آتی ہے لکھا ہے کہ جب قیامت کے دن لوگ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونگے تو اللہ تعالیٰ ان میں سے بعض کو فرمائے گا کہ تم جنت میں جائو کیونکہ میں بُھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا، میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا، میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ تب مؤمن حیران ہو کر کہیں گے کہ اے خدا! تو ہم سے ہنسی کرتا ہے، آپ ننگے کب ہو سکتے تھے، آپ بھوکے اور پیاسے کب ہو سکتے تھے کہ ہم آپ کو کپڑے پہناتے، ہم آپ کو کھانا کھلاتے اور ہم آپ کو پانی پلاتے۔ تب خداتعالیٰ فرمائیگا کہ تم میری بات کو نہیں سمجھے، جب دُنیا میں کوئی غریب بندہ ُبھوکاہوتا تھا اور تم اسے کھانا کھلاتے تھے تو تم اسے کھانا نہیں کھلاتے تھے بلکہ مجھے کھانا کھلاتے تھے اور جب دُنیا میں کوئی غریب آدمی پیاسا ہوتا تھا اور تم اسے پانی پلاتے تھے تو تم اسے پانی نہیں پلاتے تھے بلکہ مجھے پانی پلاتے تھے اورجب دنیا میں کوئی غریب آدمی ننگا ہوتا تھا اور تم اسے کپڑے پہناتے تھے تو تم اسے کپڑے نہیں پہناتے تھے بلکہ مجھے کپڑے پہناتے تھے۔۲۰؎
اس حدیث کا بھی یہی مطلب ہے کہ غریبوں کو دینا اللہ تعالیٰ کو دینا ہے کیونکہ ان کا رزق اللہ تعالیٰ کی ذمہ داریوں میں سے ہے پھر فرماتا ہے۔ وَلِلرَّسُوْلِ ان اموال میں ہمارے رسول کا بھی حصہ ہے اور رسول کے حصہ سے مراد بھی غرباء میں اموال تقسیم کرنا ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے ثابت ہے کہ آپ اس قسم کے اموال اپنے پاس نہیں رکھا کرتے تھے بلکہ غرباء میں تقسیم کر دیا کرتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ جو ذمہ داریاں خداتعالیٰ کی ہیں وہی ظلّی طور پر رسول کی ہیں اس لئے ان ذمہ داریوں کی ادائیگی پر جو رقم خرچ ہوگی وہ رسول کو دینا ہی قرار دی جائیگی۔ پھر فرماتا ہے وَلِذِی الْقُرْبٰی۔ذِی الْقُربیٰ کابھی اس میں حق ہے شیعہ لوگ اسکے عام طور پر یہ معنے کرتے ہیں کہ اموالِ فئے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کا بھی حق ہے حالانکہ اس قسم کے اموال میں ان کا کبھی بھی حصہ نہیں سمجھا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ذِی الْقُرْبٰی سے مراد وہی لوگ ہیں جن کا وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ کہہ کر ایک آیت میں ذکر کیا گیا ہے یعنی قُربِ الٰہی حاصل کرنے والے لوگ اور وہ درویش جو اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے وقف کر دیتے ہیں اور ان کے گزارہ کی کوئی معیّن صورت نہیں ہوتی۔ گو اسی جماعت میں شامل ہو کر اہلِ بیت ان اموال کے اوّل حقدار قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ پھر فرماتا ہے وَالْیَتٰمٰی ان اموال میں یتامیٰ کا بھی حق ہے اور یتامیٰ بھی غریب ہی ہوتے ہیں وَالْمَسَاکِیْنِ اسی طرح مسکینوں کا حق ہے وَابْنِ السَّبِیْلِ اور مسافروں کا بھی حق ہے اور مسافر بعض حالات میں عارضی طور پر ناداروں کی طرح ہو جاتا ہے۔ آگے فرماتا ہے ہم نے یہ تقسیم اس لئے کی ہے کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ تاکہ مال امیروں کے ہاتھوں میں ہی چکر نہ لگاتا رہے بلکہ غریبوں کے پاس بھی جائے اور وہ بھی اس سے فائدہ اُٹھائیں پس ہم حُکم دیتے ہیں کہ یہ اموال غرباء میں تقسیم کئے جائیں تاکہ امراء کے ہاتھوں میں مال چکر نہ کاٹتا رہے۔
ایک زمیندار دوست کا واقعہ
زمیندار بعض دفعہ بات کرتے ہیں توبڑے پتہ کی کرتے ہیں۔ ایک زمیندار دوست نے سنایا کہ میں
ایک دفعہ گورنر صاحب سے مِلا اور میں نے اُن سے کہا کہ حضور ایک بات سمجھ میں نہیں آتی اور وہ یہ کہ سرکار بعض دفعہ رعایا پر خوش ہوتی ہے اور سرکار ڈپٹی کمشنر کو لکھتی ہے کہ ڈیڑھ دو سَو مربع غرباء میں تقسیم کر دیا جائے۔ آپ کے ڈپٹی کمشنر غرباء کو تلاش کرتے ہیں تو انہیں کوئی غریب دکھائی ہی نہیں دیتا، جس گائوں کو دیکھتے ہیں اُنہیں امیر ہی امیر نظر آتے ہیں۔ آخر بڑی مشکل سے وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں ملک صاحب کو اتنے مربعے دیدیئے جائیں اور فلاں چوہدری صاحب کو اتنے مربعے دیئے جائیں کیونکہ وہ بھوکے مر رہے ہیں۔ ملک صاحب کے پاس تو صرف تیس ہزار ایکڑ زمین ہے اور چوہدری صاحب کے پاس بیس ہزار ایکڑ ، اسی طرح کسی کے پاس۱۵ ہزار ایکڑ زمین ہے اور کسی کے پاس دس ہزار، اگر ان کو مربعے نہ دیئے گئے تو بیچارے بھوکے مر جائیںگے، چنانچہ سب زمینیں ان میں تقسیم کر دی جاتی ہیں۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جب اعلیٰ سرکاری خدمات سرانجام دینے کے بدلے گورنمنٹ کچھ انعامات تقسیم کرنا چاہتی ہے وہ کہتی ہے کہ اب یہ انعامات اعلیٰ خاندانوں یں تقسیم کئے جائیں، اس پر پھر ڈپٹی کمشنر صاحب جب اعلیٰ خاندانوں کی تلاش میں نکلتے ہیں تو وہی لوگ جو پہلی دفعہ انہیں غریب دکھائی دیئے تھے اب انہیں امیر نظر آنے لگ جاتے ہیں اور انہی میں پھر انعامات تقسیم کر دیئے جاتے ہیں۔ سرکار یہ دیکھ کر ہمیں تو کچھ پتہ نہیں لگتا کہ ہم بڑے ہیں کہ چھوٹے ہیں۔
پس آجکل اموال کی تقسیم کا طریق یہ ہے کہ بڑے بڑے امراء اور متمول لوگوں کو چُن کر ان میں اموال تقسیم کر دیئے جاتے ہیں، مگر اسلام یہ نہیں کہتا بلکہ وہ کہتا ہے کہ تم غرباء میں اموال تقسیم کرو۔ کَیْ لَا یَکُوْنَ دُوْلَۃً بَیْنَ الْاَغْنِیَائِ مِنْکُمْ تاکہ مالدار وں کے ہاتھوں میں ہی روپیہ جمع نہ رہے بلکہ غرباء کے ہاتھوں میں بھی آتا رہے۔ اسی لئے اسلام نے کہیں وراثت کا مسئلہ رکھ کر، کہیں زکوٰۃ کی تعلیم دے کر اور کہیں سُود سے روک کر امراء کی دولت کو توڑ کر رکھدیا ہے اور اس طرح امراء اور غرباء میں مساوات قائم کرنے کا راستہ کھول دیا ہے۔
قیام مساوات کے لئے دنیا کے تمام
مذاہب کے متعلق ایک پُرحکمت اصول
پھر ایک مساوات یہ ہوتی ہے کہ مختلف مذاہب کے درمیان انصاف قائم کیا جائے، اسلام اس مساوات کا بھی حکم دیتاہے، چنانچہ فرماتاہے۔ وَلَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ
بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّ مَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْراً ۲۱؎
کہ اگر دنیا میں ہم مسلمانوں کو کھڑا نہ کرتے اور اس طرح اسلام کے ذریعہ تمام اقوام کے حقوق کی حفاظت نہ کی جاتی تو یہودیوں کی عبادت گاہیں، عیسائیوں کے گرجے، ہندوؤں کے مندر اور مسلمانوں کی مسجدیں امن کا ذریعہ نہ ہوتیں بلکہ فتنہ و فساد اور لڑائی جھگڑوں کی آماجگاہ ہوتیں۔ یہ امر ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا مذہب ایسا ہے جس نے اپنی مساجد میں ہر قوم کو عبادت کا حق دیا ہے اور وہ یہی چاہتا ہے کہ ہر قوم کو عبادت کا مساوی حق حاصل ہو۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آزادی سے عیسائیوں کو اپنی مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دی اس کی مثال کوئی اور قوم پیش نہیں کر سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اگر ہم مسلمانوں کو اس کام کے لئے کھڑا نہ کرتے اور مسلمان اپنا خون بہا کر اس حق کو قائم نہ کرتے تو دنیا میں ہمیشہ فتنہ و فساد رہتا اورکبھی بھی صحیح معنوں میں امن قائم نہ ہو سکتا۔
مساجد کی دوسری غرض کا صحابہ کرام کے ذریعہ ظہور
(۲) مسجد کی دوسری غرض ایک مقامِ مبارک کا قیام ہے
اور وہ دو طرح ہوتا ہے (الف) اس طرح کہ وہ ذکرِ الٰہی کے لئے مخصوص ہوتی ہے۔ اس جماعت کے حق میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ذکرِ الٰہی کے لئے مخصوص ہے چنانچہ فرماتا ہے۔ فِیْ بُیُوْتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَ یُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔رِجَالٌ لَّاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ اِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَ الْاَبْصَارُ۲۲؎
یعنی خدا کی رحمتیں اور برکتیں اُن گھروں پر نازل ہونگی اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ جن کے متعلق خدا نے یہ حُکم دے دیا ہے کہ انہیں اونچا کیا جائے وَ یُذْکَرَفِیْھَا اسْمُہٗ اور اُن میں خدا کا نام لیا جائے گویا وہ ذکرِ الٰہی کے لحاظ سے بالکل مسجدوں کی طرح ہو جائیں گے اور اس کاموجب ان گھروں میں رہنے والے ہونگے یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ۔ رِجَالٌ لَّاتُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّ لَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ صبح شام ان میں اللہ تعالیٰ کی تسبیح ایسے لوگ کرتے رہتے ہیں جن کو ہر قسم کی تجارت ملکی ہو یا درآمد برآمد سے تعلق رکھنے والی ہو اسی طرح زمیندارہ، صنعت و حرفت کے کارخانے ذکرِ الٰہی سے غافل نہیں کرتے (اس آیت میں دو لفظ ہیں تجارت اور بیع اورکوئی تجارت بغیر بیع کے نہیں ہو سکتی۔ پس مراد یہ ہے کہ بعض کاموں میں دونوں جہت یعنی خرید و فروخت سے انسان نفع کماتا ہے وہ تجارت ہے اور بعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ کام کرنے والا خریدتا نہیں صرف فروخت کرتاہے جیسے زمیندار یا صنّاع ہے کہ جو چیز وہ فروخت کرتا ہے وہ اس کی پیداوار ہے پس اس کا کام درحقیقت فروخت کا ہے خرید کا نہیں اسے تجارت سے الگ بیان کرکے تجارتی کاروبار کی سب قسمیں بیان کر دی ہیں) گویا کوئی بات بھی انہیں نہ تو نمازوں کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے اور نہ زکوٰۃ کی ادائیگی سے ان کی توجہ پھراتی ہے۔ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ وہ فقط اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن اُن کے دل اور اُن کی آنکھیں پھری ہوئی ہونگی اور وہ گھبرائے ہوئے اِدھر اُدھر دَوڑ رہے ہونگے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص اس جماعت میں شامل ہوتا ہے وہ ذکرِ الٰہی کے لئے مخصوص ہو جاتا ہے اور یہی مسجد کا خاص کام ہے پس وہ ایک چلتی پھرتی مسجد بن جاتا ہے۔
عبادت اور ذکرِ الٰہی میں ایک دوسرے سے آگے بڑ ھنیکی خواہش
صحابہ ؓ ذکرِ الٰہی میں ترقی کرنے
کی اتنی کوشش کیا کرتے تھے کہ ان کی یہ جدوجہد وارفتگی کی حد تک پہنچی ہوئی تھی، احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ غرباء رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے عرض کیاکہ جس طرح ہم نمازیں پڑھتے ہیں، اسی طرح امراء نمازیں پڑھتے ہیں، جس طرح ہم روزے رکھتے ہیں اسی طرح امراء روزے رکھتے ہیں جس طرح ہم حج کرتے ہیں اسی طرح امراء حج کرتے ہیں مگر یَارَسُوْلَاللّٰہ!ہم زکوٰۃ اورصدقہ و خیرات اور چندے وغیرہ نہیں دے سکتے اس وجہ سے وہ نیکی کے میدان میں ہم سے آگے بڑھے ہوئے ہیں۔ کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ امراء ہم سے آگے نہ بڑھ سکیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا، میں تمہیں ایک ایسی ترکیب بتاتا ہوں کہ اگر تم اس پر عمل کرو تو تم پانچ سَو سال پہلے جنت میں داخل ہو سکتے ہو، انہوں نے عرض کیا کہ وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا وہ ترکیب یہ ہے کہ ہر فرض نمازکے بعد تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ تینتیس دفعہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ اور چونتیس دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ لیاکرو، وہ وہاں سے بڑی خوشی سے اُٹھے اور انہوں نے سمجھا کہ ہم نے میدان مار لیا مگر کچھ دنوں کے بعد پھر وہی وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا اور عرض کیا کہ ہم پر بڑا ظلم ہؤا ہے۔ آپ نے فرمایا کس طرح؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ نے ہمیں جو بات اُس روز بتائی تھی وہ کسی طرح امیروں کو بھی پہنچ گئی اور اب انہوں نے بھی یہ ذکر شروع کر دیا ہے ہم اب کیا کریں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرنیکی حاصل کرنے کا اُن کے دلوں میں اس قدر جوش پایا جاتا ہے تو میں انہیں روک کس طرح سکتا ہوں؟ ۲۳؎ یہ وہ فضیلت تھی جس نے صحابہؓ کو جیتی جاگتی مسجد بنا دیا تھا۔
صحابہ ؓکی پاکیزگی اورطہارت پر الٰہی شہادت
(ب) دوسری صورت مقامِ مبارک کی یہ ہے کہ وہ پاکیزگی کا مقام ہوتا
ہے اسی طرح انبیاء کی جماعت کو پاک رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے، چنانچہ اسکے متعلق قرآن کریم میں شہادت موجود ہے کہ صحابہ ؓ پاک کئے گئے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ۲۴؎
کہ یہ رسول صحابہؓ کے سامنے ہمارے نشانات بیان کرتا ہے وَ یُزَکِّیْھِمْ اوران کو پاک کرتا ہے وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ اور ان کو کتاب اور حکمت سکھاتا ہے گویا خدا خود صحابہؓ کی پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔ دوسری جگہ ان کی پاکیزگی کی شہادت ان الفاظ میں دی گئی ہے کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ۲۵؎ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے۔ تیسری جگہ یہ شہادت اس طرح دی گئی ہے کہ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ۲۶؎ یعنی یہ خدا کے اتنے نیک بندے ہیں کہ ان میں سے بعض تو اُس عہد کو جو انہوں نے خدا سے کیا تھا پورا کرچکے ہیں اور بعض گو دل سے پوراکر چکے ہیں مگر ابھی عملی رنگ میں انہیںعہد کو پورا کرکے دکھانے کا موقع نہیںملا اور وہ اُس وقت کا انتظار کر رہے ہیں جبکہ انہیں بھی خدا کی طرف سے یہ موقع عطا ہو، حدیثوں میں صحابہؓ کی اس قربانی کے متعلق ایک مثال بھی بیان ہوئی ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اپنے عہد کو کس طرح پورا کیا۔
ایک صحابی ؓ کی عظیم الشان قربانی
جب جنگِ بدر کا موقع آیا تو صحابہ ؓ کو یہ احساس نہیں تھا کہ کوئی لڑائی ہونے والی ہے بلکہ خیال یہ تھا
کہ ایک قافلہ کی شرارتوں کے سدّباب کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے ہیں، اسی لئے کئی صحابہ مدینہ میں بیٹھے رہے تھے اور ساتھ نہیں گئے مگر جب اسی لشکر کے باہر نکلنے کا نتیجہ یہ ہؤا کہ کفار کے لشکر سے بغیر امید کے جنگ ہو گئی اور کئی صحابہ نے قربانی کا بے مثال نمونہ دکھایا تو جو لوگ اس جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے ان کے دلوں میں رشک پیدا ہؤا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک حضرت انس کے چچا تھے، جب کسی مجلس میں جنگ بدرکے کارناموں کا ذکر ہوتا اورشامل ہونے والے صحابہ کہتے کہ ہم نے یہ کِیا وہ کِیا توپہلے تو وہ خاموشی سے سُنتے رہتے مگر آخر وہ بول ہی پڑتے اورکہتے ، تم نے کیا کِیا۔ اگر میں ہوتا تو تم کو بتاتا کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں۔ صحابہؓ اِس بات کو سنتے اور ہنس پڑتے مگر آخر خداتعالیٰ نے اُن کی دعائیں سن لیں اور اُحد کا دن آگیا۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی غفلت سے ایک وقت ایسا آیا کہ اسلامی لشکر تتّربتّر ہو گیا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گِرد صرف گیارہ صحابی رہ گئے۔ مسلمانوں کے مقابلہ میںکفار تین ہزار تھے۔ جب دشمن نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گِرد صرف چند آدمی رہ گئے ہیں تو اُس نے یکدم حملہ کر دیا اور کفار کے لشکر کا ایسا ریلا آیا کہ اُن گیارہ آدمیوں کے بھی پائوں اُکھڑ گئے۔ حملہ چونکہ سخت تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم آئے اور آپؐ کے خَود کا ایک کیل آپؐ کے سر میں ُگھس گیا اور دندان مبارک بھی ٹوٹ کر گر گئے اور ان زخموں کی تاب نہ لا کر آپؐ بیہوش ہو کر گڑھے میں گر گئے۔۲۷؎ اس کے بعد آپ کے جسمِ اطہر پر بعض اور صحابہ شہیدہو کر گر گئے اور اس طرح آپؐ کا جسم لوگوں کی نگاہ سے چُھپ گیا۔ مسلمانوں نے آپ کو اِدھر اُدھر تلاش کیا مگر چونکہ آپ نظر نہ آئے اس لئے یہ افواہ پھیل گئی کہ رسول کریم شہید ہو گئے ہیں بعد میں جب صحابہ کی لاشیں نکالی گئیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی نظر آگئے آپؐ اُس وقت صرف بیہوش تھے مگر بہرحال اِس افواہ کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لئے مسلمانوںکے حواس جاتے رہے۔ بعد میں جب انہیں معلوم ہؤاکہ آپ زندہ ہیں تو ان کی تکلیف جاتی رہی اور وہ بہت خوش ہوگئے۔ اس جنگ میںچونکہ ابتداء میں مسلمانوں نے فتح حاصل کر لی تھی اس لئے بعض مسلمان اطمینان سے اِدھراُدھر چلے گئے اُنہی میں حضرت انس کے چچا بھی تھے۔ وہ ایک طرف آرام سے کھجوریں کھاتے پھرتے تھے کہ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ ایک پتھر پر بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں۔ وہ حضرت عمرؓ کے پاس گئے اورکہا کہ عمرؓ کیا یہ رونے کا وقت ہے یا خوشی منانے کا وقت ہے؟ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی ہے اور تم رو رہے ہو۔ انہوں نے کہا تمہیں پتہ نہیں بعد میں کیا ہؤا۔ وہ کہنے لگے مجھے تو کچھ پتہ نہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا فتح کے بعد دشمن نے پھر حملہ کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ وہ انصاری کھجوریں کھا رہے تھے اور اُس وقت اُن کے ہاتھ میں آخری کھجور تھی، انہوں نے اُس کھجور کی طرف دیکھا اور کہا میرے اور جنت کے درمیان اِس کھجور کے سِوا اور ہے ہی کیا۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اس کھجور کو پھینک دیا اورپھر حضرت عمرؓ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے واہ عمر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے اور تم رو رہے ہو، ارے بھائی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گئے ہیں وہی جگہ ہماری بھی ہے۔ یہ کہا اور تلوار لے کر دشمن پر ٹوٹ پڑے ایک ہاتھ کٹ گیا تو انہوں نے تلوار کو دوسرے ہاتھ میں پکڑ لیا دوسرا ہاتھ کٹ گیا تو لاتوں سے انہوں نے دشمن کو مارنا شروع کر دیا اور جب لاتیں بھی کٹ گئیں تو دانتوں سے کاٹنا شروع کر دیا، غرض آخری سانس تک وہ دشمن سے لڑائی کرتے رہے۔ بعد میں جب ان کی تلاش کی گئی تو معلوم ہؤاکہ دشمن نے ان کے جسم کے ستّر ٹکڑے کر دیئے تھے اور وہ پہچانے تک نہیں جاتے تھے، حدیثوں میں آتاہے کہ یہ صحابی انہی لوگوں میں سے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُ یہ وہ برکت والے گھر تھے جس کی وجہ سے خدا نے ان کے متعلق یہ فرمایا کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ۔ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ کے یہی معنے ہیں کہ انہوں نے خدا کی رضا حاصل کر لی۔
صحابہ کرام کی ظاہری برکات کے بعض ایمان افروز واقعات
پھر ان کی ظاہری برکات کے بھی کئی
نمونے موجود ہیں ایک دفعہ صحابہ ؓ کسی جگہ گئے تو وہاں کے رہنے والوں میں سے ایک کو سانپ نے کاٹ لیا، پُرانے دستور کے مطابق وہ دم کرنے اور کچھ پڑھ کر پُھونک مارنے والے کو بلایا کرتے تھے انہوں نے صحابہؓ سے دریافت کیا کہ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے؟ ایک صحابی نے کہا مَیں ہوں۔ وہ اُسے ساتھ لے گئے اور انہوں نے سؤرۃ فاتحہ پڑھ کر دم کر دیا اور وہ شخص بِالکل اچھاہو گیا۔ اس خوشی میں گھر والوں نے انہیں کچھ بکریاں تحفہ کے طور پر دیں جو انہوں نے لے لیں، باقی صحابہؓ نے اس پر کچھ اعتراض کیا اور جب مدینہ آئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کا ذکر کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی کے دل کو خوش کرنے کے لئے فرمایا کہ اس تحفہ میں سے میرا حصہ بھی تو لائویعنی یہ تحفہ تو اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے تھا۔ مطلب یہ کہ اس قسم کے جنتر منتر تو اسلام میں نہیں، لیکن ان لوگوں کو ایمان دینے کے بعد اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ کو برکت بخشی اور ایک نشان دکھایا۔ پس جو تحفہ ملا وہ بابرکت شَے ہے اس برکت میں سے مجھے بھی حصہ دو۔ تو دیکھو صحابہؓ کو خداتعالیٰ کی طرف سے کیسی برکت ملی کہ انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھ کر پُھونک ماری اور مارگزیدہ اچھا ہو گیا۔ بعض لوگ اس کی نقل میں آجکل بھی سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عادی ہیں مگر ان کے دم میں کوئی اثر نہیں ہوتا، بلکہ اگر کوئی غیر مومن سَو دفعہ بھی سورۃ فاتحہ پڑھ کر پھونک مارے تو کوئی اثر نہیں ہوگا۔ سورۃ فاتحہ اس شخص کی زبان سے نکلی ہوئی بابرکت ہو سکتی ہے جس کے اندر خود برکت ہو۔
پھر ایک اور واقعہ اسی قسم کامولانا روم نے لکھا ہے وہ لکھتے ہیں کہ رومیوں کو جب شکست ہوئی تو کچھ عرصہ کے بعد قیصر روم کو سر درد کا دورہ شروع ہو گیا۔ ڈاکٹروں نے بہت علاج کیا مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہؤا۔ آخر اسے کسی نے کہا کہ تم مسلمانوں کے خلیفہ کو لکھو وہ اپنی کوئی برکت والی چیز تمہیں بھیج دیں جس سے ممکن ہے تمہیں آرام آجائے۔ قیصرنے حضرت عمرؓ کے پاس اپنا ایلچی بھیجا کہ مجھے اپنی کوئی برکت والی چیز بھیجیں میرے سر درد کو آرام نہیں آتا، ممکن ہے اس سے آرام آجائے۔ عرب کے لوگ اپنے بالوں میں خوب تیل لگانے کے عادی تھے، حضرت عمرؓ نے اپنی ایک پُرانی ٹوپی جسے تیل لگا ہؤا تھا اورجس پر بالشت بالشت بھرمیل جمی ہوئی تھی اُس کے ہاتھ بھیج دی اور پیغام دیا کہ اسے اپنے سر پر رکھاکر و۔ قیصر جو سر پر تاج رکھنے کا عادی تھا اُس نے جو گاڑھے کی میلی کچیلی ٹوپی دیکھی تو وہ سخت گھبرایا مگر ایک روز جب اُسے درد کا شدید دورہ ہؤا تو اس نے مجبوراً ٹوپی اپنے سر پر رکھ لی اور خداتعالیٰ کی قدرت نے یہ نشان دکھایا، ادھر اس نے اپنے سر پر ٹوپی رکھی اور اُدھر اُسے آرام آگیا۔ پھر تو اُس کا دستور ہی یہی ہو گیا کہ جب وہ دربار میں بیٹھتا تو حضرت عمرؓ کی میلی کچیلی اور پھٹی پُرانی ٹوپی اپنے سر پر رکھ لیتا۔ تو اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو برکتیں دیتاہے اُن کی چیزوں میں بھی برکت پیدا ہو جاتی ہے۔ ایک دفعہ ایک دوست نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان کی ریڑھ کی ہڈی میں سِل کا مادہ پیدا ہو گیا تھا۔ ایکسرے کرایا تو بھی یہی نتیجہ نکلا، آخر وہ کہتے ہیں میں قادیان آگیا کہ اگر مرناہے تو قادیان چل کر مَروں اورمیں نے تمام علاج چھوڑ کر آپ سے دعا کرائی۔نتیجہ یہ ہؤا کہ کچھ عرصہ کے بعد مجھے آرام آنا شروع ہو گیا اور آخر بِالکل صحت ہو گئی۔ میں پھر لاہور گیا اور ایکسرے کرایا تو انہیں ڈاکٹروں نے جنھوں نے پہلے میراایکسرے کیا تھا، ایک بار ایکسرے کیا پھر دوسری بار ایکسرے کیا اورجب کہیں بھی انہیں سِل کا مادہ نظر نہ آیا تو وہ کہنے لگے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہڈی ہی بدل گئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے جن بندوں کو برکت دیتا ہے اُن کی باتوں میں، ان کے کپڑوں میں، اُن کی دعائوں میں اور اُن کی تمام چیزوں میں برکت رکھ دیتا ہے۔ غرض جس طرح مسجد ایک برکت والی چیز ہے اسی طرح صحابہ کا گروہ برکت والا تھا اور دنیا نے اس گروہ کی جسمانی اور روحانی برکات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔
صحابہ کرام تمام دنیا کے لئے ہدایت کا موجب تھے
مسجد کی تیسری غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ
ہوتی ہے یہ بات بھی صحابہؓ میں پائی جاتی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ سورۂ اعراف میں فرماتا ہے۔ وَ مِمَّنْ خَلَقْنَآ اُمَّۃٌ یَّھْدُوْنَ بِالْحَقِّ وَ بِہٖ یَعْدِلُوْنَ ۲۸؎
اِس رکوع میں پہلے تو اللہ تعالیٰ نے یہود کی بُرائیاں بیان فرمائی ہیں اور بتایا ہے کہ وہ کیسے نالائق ہیں اس کے بعد فرماتا ہے کہ سارے ہی ایسے نالائق نہیں بلکہ اِس رسول کے ذریعہ ہم نے جن لوگوں کو کھڑاکیا تھا وہ ایسے ہیں جو سچائی کو دنیا میں پھیلاتے ہیں اور انصاف سے کام لیتے ہیں۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہؓ کی ہدایت کی شہادت دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ فَبِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ ۲۹؎ کہ میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس طرح تم کسی ستارے کونشان قرار دیکر چل پڑو تو منزلِ مقصود پر پہنچ سکتے ہو، اسی طرح تم میرے کسی صحابی کے پیچھے چل پڑو وہ تمہیں خدا کے دروازہ پر پہنچا دیگا۔ چنانچہ سب صحابہ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ کا ایک عملی نمونہ تھے اور وہ دوسروں کو نیکی کی تعلیم دینے میں سب سے آگے رہتے تھے۔ مکی زندگی کا یہی ایک واقعہ صحابہؓ کے اس طریق عمل پر روشنی ڈالنے کے لئے کافی ہے۔ ایک صحابی جن کا نام عثمان بن مظعونؓ تھا تیرہ چودہ سال کی عمر میں مسلمان ہوئے، اُن کا باپ عرب میں بہت وجاہت رکھتا تھا۔ جب یہ مسلمان ہو گئے تو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس نے جو اُن کے باپ کا دوست تھا انہیں اپنے پاس بُلایا اور کہا آجکل مسلمانوں کی سخت مخالفت ہے، میں تمہیں اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں تمہیں کوئی شخص تکلیف نہیں پہنچا سکے گا۔ انہوں نے اس کی بات مان لی اور اُس رئیس نے خانہ کعبہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ عثمانؓ میرے بھائی کا بیٹا ہے اسے کوئی شخص دُکھ نہ دے۔ عربوں میں یہ طریق تھا کہ جب ان میں سے کوئی رئیس کسی کو اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کر دے تو پھر اسے کوئی تکلیف نہیں دیتا تھا اگر ایسا کرتا تو اسی رئیس اور اُس کے قبیلہ سے لڑائی شروع ہو جاتی تھی۔ ایک دن حضرت عثمانؓ کسی جگہ سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا ایک مسلمان غلام کو کفار بڑی بیدردی سے مارپیٹ رہے ہیں۔ ان کے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ یہ بہت بُری بات ہے کہ میں تو مکہ میں امن سے رہوں اور میرے بھائی تکلیف اُٹھاتے رہیں چنانچہ وہ سیدھے اُس رئیس کے پاس پہنچے اور اُسے کہا کہ آپ نے جو مجھے اپنی پناہ میں لینے کا اعلان کیا تھا میں اس ذمہ داری سے آپ کو سبکدوش کرتا ہوں اور آپ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتا۔ اس نے کہا تم جانتے نہیں کہ مکہ مسلمانوں کے لئے کیسی خطرناک جگہ ہے اگر میں نے اپنی پناہ واپس لے لی تو لوگ فوراً تم کو ایذاء دینے لگ جائیں گے۔ انہوں نے کہا مجھے اس کی پروا نہیں، مجھ سے یہ دیکھا نہیں جاتا کہ میں تو آرام سے رہوں اور میرے بھائی تکلیفیں اُٹھاتے رہیں۔ چنانچہ ان کے اصرار پر اُس نے خانۂ کعبہ میں جاکر اعلان کر دیا کہ عثمان بن مظعونؓ اب میری پناہ میں نہیںرہا۔ اس اعلان پر ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ عرب کا ایک مشہور شاعر جس کا قصیدہ سبعہ معلقہ میں شامل ہے مکہ میں آگیا۔ اہل عرب کا دستور تھا کہ جب کوئی مشہور شاعر آتا تو بہت بڑی مجلس منعقد کی جاتی اور اس کے کلام سے لوگ محظوظ ہوتے۔ اس کے آنے پر بھی ایک بہت بڑی مجلس منعقد کی گئی اور تمام مکہ والے اس میں شامل ہوئے۔ حضرت عثمان بن مظعون بھی اس کا کلام سُننے کے لئے وہاں جاپہنچے اُس نے شعر پڑھتے پڑھتے ایک مصرعہ یہ پڑھا کہ :-
؎
اَلاَ کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بِاطِلٌ
۳۰؎
سنو سنو! خدا کے سِوا دنیا کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے
حضرت عثمانؓ اِس مصرعہ پر بہت خوش ہی ہوئے اور انہوں نے بڑے جوش سے کہا ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ شاعر نے جس کا نام لبید تھا شور مچا دیا کہ اے مکہ کے لوگو! کیا تم میں اب کسی شریف آدمی کی قدر نہیں رہی، میں عرب کا باپ ہوں اور یہ کَل کا چھوکرا مجھے داد دے رہا ہے اور کہتا ہے ٹھیک کہا، ٹھیک کہا۔ یہ میری عزت نہیں بلکہ ہتک ہے اور میں اسے کبھی برداشت نہیں کر سکتا۔ لبید کے اس اعتراض پر لوگوں میں ایک جوش پیدا ہو گیا اور وہ عثمانؓ کو مارنے کیلئے اُٹھے لیکن بعض نے کہا نادان بچہ ہے ایک دفعہ تو اس نے ایسی حرکت کر دی ہے اب آئندہ نہیں کریگا۔ چنانچہ لوگ خاموش ہو گئے اس کے بعد لبید نے اسی شعر کا دوسرا مصرعہ پڑھا
؎
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٌ
۳۱؎
ہر نعمت آخر زائل اور تباہ ہو جائے گی۔ اِس پر حضرت عثمان بن مظعونؓ پھر بول اُٹھے کہ بالکل غلط ہے، جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہونگی۔ اب تم خود ہی اندازہ لگا سکتے ہو کہ جو شخص ان کی تعریف سے ناراض ہؤا تھا وہ ان کی تردید پر کس قدر جوش سے بھر گیا ہوگا۔ چنانچہ جب انہوں نے سرِمجلس کہہ دیا کہ یہ بات غلط ہے تو اُس نے نظم پڑھنی چھوڑ دی اور کہا کہ میری ہتک کی گئی ہے۔ اس پر بعض نوجوان غصہ سے اُٹھے اور انہوں نے مارنا شروع کر دیا، ایک نے اِس زور سے آپ کی آنکھ پر گھونسہ مارا کہ انگوٹھا اندر دھنس گیا اور آنکھ کا ڈیلا پھٹ گیا۔ وہ رئیس جس نے انہیں اپنی پناہ میں رکھا تھا اُس وقت وہیں موجود تھا اور چونکہ ان کا باپ اس کا دوست تھا اس لئے عثمانؓ کی تکلیف کو دیکھ کر اُس کے دل میں محبت کا جوش پیدا ہؤا۔ لیکن سارے مکہ کے جوش کے مقابل پر اپنے آپ کو بے بس دیکھ کر کمزوروں کی طرح عثمان بن مظعونؓ پر ہی غصہ نکال کر اپنے دل کو ٹھنڈا کرنا چاہا، چنانچہ غصہ سے انہیں مخاطب کرکے کہا کہ کیا میں نے نہیں کہا تھاکہ تم میری پناہ میں رہو، آخر تمہاری ایک آنکھ لوگوں نے نکال دی۔ حضرت عثمان بن مظعون نے اپنی آنکھ کا خون پونچھتے ہوئے فرمایا، مجھے اس کی کوئی پروا نہیں کہ سچ کے بدلے میری ایک آنکھ نکل گئی ہے میری تو دوسری آنکھ بھی اِسی قسم کے سلوک کا انتظار کر رہی ہے۔۳۲؎ اب دیکھو صحابہ کس طرح ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ ثابت ہوئے وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے تھے کہ حق کے خلاف کوئی بات سُنیں اور اس کی تردید نہ کریں۔
ایک صحابی سے ایک دفعہ کسی نے کہا کہ آجکل بنوامیہ کی حکومت ہے تم کوئی بات نہ کرو، اگر وہ اس حکومت کے ارکان تک پہنچ گئی تو تمہیں نقصان ہوگا۔ وہ فرمانے لگے مجھے اس کی پروا نہیں، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سُنا ہؤا ہے کہ اگر کسی کو کوئی سچی بات معلوم ہو اور اُس کی گردن پر تلوار رکھی ہوئی ہو تو اسے چاہئے کہ تلوار چلنے سے پہلے جلدی سے حق بات اپنے منہ سے نکال دے۔ تو ہدایت کے پہنچانے میں صحابہ نے ایساکمال دکھایا تھا کہ اس کی نظیر اور کہیں نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں کا اذانیں دینا، خطبے پڑھانا سب اس کے ماتحت ہے کیونکہ ان ذرائع سے بھی حق کی بات دوسروں تک پہنچتی اور اُن کو ہدایت اور راہنمائی حاصل ہوتی ہے۔
پھر صحابہؓ دوسروں کو ہدایت دینے میں جس سرگرمی اور انہماک سے کام کیا کرتے تھے اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنی ساری عمر دین سکھانے میں لگا دی۔ اور اتنی حدیثیں جمع کر دیں کہ آج اگر ان کو جمع کیا جائے تو پشتاروں کے پشتارے۳۳؎ لگ جائیں۔
آجکل تحریر کا زمانہ ہے اور روایات بڑی آسانی سے محفوظ ہو سکتی ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ہماری جماعت کے صحابہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روایات جمع کرنے میں وہ کوشش نہیں کی جو صحابۂ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کے جمع کرنے میں کی تھی۔ کئی صحابہ ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے کئی واقعات معلوم ہیں مگر ابھی تک وہ ان کے سینوں میں ہی ہیں اور انہوں نے ظاہر نہیں کئے، اسی طرح کئی تابعین ہیں جنہوں نے کئی صحابہ سے روایات سنی ہوئی ہیں، ان کا بھی فرض تھا کہ وہ ایسی تمام روایات کو ضبطِ تحریر میں لے آتے مگر مجھے افسوس ہے کہ، اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی گئی حالانکہ چاہئے تھا کہ وہ رات دن ایسی باتیں سُناتے رہتے تاکہ وہ دنیا میں محفوظ رہتیں۔ صحابۂ رسولِ اکرمؐ نے یہ کام کیا اور ایسی عمدگی سے کیا کہ آج حدیثوں کی سَو دو سَو جلدیں پائی جاتی ہیں، یہ ان کی ہدایتِ عام کی سند اور ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ ہونے کا ایک بین ثبوت ہے۔
انصار اور مہاجرین کی باہمی مؤاخات
(۴) مساجد کا چوتھا کام یہ ہوتاہے کہ وہ لوگوں کو جمع کرنے کے لئے بنائی جاتی ہیں،
یہ کام بھی انبیاء کی جماعتیں کیا کرتی ہیں۔ جس طرح مسجد کہتی ہے کہ آجائو عبادت کی طرف، یہی حال انبیاء کی جماعتوں کا ہوتا ہے اور وہ سب لوگوں کے لئے اپنے دروازے کھول دیتی ہیں اورکہتی ہیں کہ ہماری طرف آجائو۔ چنانچہ قرآن کریم میںصحابہؓ کے ایک حصہ کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُحِبُّونَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَ لَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَ لَوْکَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ ۳۴؎
یعنی انصار اتنے وسیع الحوصلہ ہیں کہ ان کے دلوں میں دُنیوی اموال اور نعمتوں کی کوئی خواہش ہی نہیں اُن کا یہی جی چاہتا ہے کہ دوسرے مسلمان بھائیوں کی مدد کریں خواہ خود انہیں تنگی ہو یا تکلیف وہ دوسروں کو آرام پہنچانے کا فکر رکھتے ہیں۔ جس طرح مسجد کے دروازے ہر ایک کے لئے کُھلے ہوتے ہیں اسی طرح انصار نے اپنی جائد ادیں بانٹ دیں اور مکان دیدیئے۔ جب مہاجرین ہجرت کرکے مدینہ گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کو بلایا اور فرمایا کہ یہ لوگ باہر سے آئے ہیں، آئو میں تم دونوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دوں۔ چنانچہ ایک ایک انصاری اور ایک ایک مہاجر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھائی بھائی بنا دیا۔ ہمارے ہاں بعض لوگ بچپن سے ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں مگر وہ کسی کے لئے کوئی قربانی نہیں کرتے، لیکن انصار کا یہ حال تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کو ان کا بھائی بنا دیا تو ان میں سے بعض نے اُس وقت گھر جا کر اپنی جائدادیں تقسیم کر دیں اور مہاجرین سے کہا کہ آدھی جائداد ہماری ہے اور آدھی تمہاری۔ بعض جو تاجر تھے انہوں نے مہاجرین کو اپنی تجارت میں شریک کر لیا۔ مہاجرین نے بیشک انکار کر دیا اور کہا کہ تم ہمیں اُجرت دیدینا ہم تمہاری خدمت کریں گے مگر اُنہوں نے اپنی طرف سے احسان کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ بلکہ ایک صحابی نے تو اس حد تک غُلوّ کیا کہ وہ اپنے مہاجر بھائی کو اپنے گھر لے گئے اُن کی دو بیویاں تھیں اور پردہ کا حُکم ابھی نازل نہیں ہؤا تھا، انہوں نے اپنی دونوں بیویاں اُن کے سامنے کر دیں اور کہا کہ ان میںسے جس کو تم پسند کرو میں اُسے طلاق دیدیتا ہوں تم اس سے شادی کر لو۔ یہ کتنی بڑی قربانی ہے جو انصار نے کی۔ جس طرح مسجد کے دروازے ہر ایک کے لئے کھلے ہوتے ہیں اسی طرح انہوں نے اپنے دروازے مہاجرین کے لئے کھول دیئے۔ یہ اتنی اعلیٰ درجہ کی مثال ہے کہ تاریخ میں اس قسم کے وُسعتِ حوصلہ کی مثال اور کہیں نظر نہیں آتی۔
انتخابِ خلافت کے وقت انصارکا
عدیم النظیرایثار اور وُسعتِ حوصلہ
پھر سب سے بڑی حو صلہ کی مثال انصار نے اُس وقت قائم کی جب خلافت کے انتخاب کا وقت آیا۔ مسائلِ خلافت نبی کے زمانہ میں ہمیشہ مخفی رہتے ہیں، اگر نبی کے زمانہ میں ہی یہ باتیں بیان
کر دی جائیں تو ماننے والوں کی جانیں نکل جائیں کیونکہ ان کو نبی سے ایسی شدید محبت ہوتی ہے کہ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے وہ تو زندہ رہیں اور نبی فوت ہو جائے اس لئے نبی کے زمانہ میں خلافت کی طرف صرف اشارے کر دیئے جاتے ہیں۔ یہی حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صحابہؓ کا تھا، وہ یہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو جائیں گے اور وہ زندہ رہیں گے۔مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے تو انصار نے خلافت کے متعلق الگ مشورہ شروع کر دیا اورمہاجرین نے الگ۔ انصار نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم شہر والے ہیں اور مہاجرین باہر کے رہنے والے ہیں، اس لئے باہر سے آنے والوں کا کوئی حق خلافت میں تسلیم نہیں کیا جاسکتا، یہ ہمارا ہی حق ہے اور لیڈر ہم میں سے ہی ہونا چاہئے۔ مہاجرین کو جب یہ اطلاع ملی تو ان میں سے بھی بعض وہیں آگئے۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر رضی اللہ عنہمااور حضرت ابوعبیدہ ان میں شامل تھے۔ یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ اپنے ذاتی مفاد کے لئے وہاں گئے تھے بلکہ وہ اسلام میں تفرقہ پیدا ہونے کے خوف سے وہاں گئے اور انہوں نے چاہا کہ انصار کوئی ایسا فیصلہ نہ کریں جو مسلمانوں کے لئے مُضِرّ ہو۔ غرض جب یہ وہاں پہنچے تو میٹنگ ہو رہی تھی۔ مہاجرین نے کہا کہ پہلے ہماری بات سُن لو اور وہ یہ ہے کہ عرب لوگ آپ کی اطاعت کے عادی نہیں، اگر انصار میں سے کوئی خلیفہ ہؤا تو مسلمانوں کو بہت سی مشکلات پیش آنے کا ڈر ہے اس لئے مکہ کے لوگوں میں سے آپ جس کو چاہیں اپنا امیر بنا لیں مگر انصار میں سے کسی کو نہ بنائیں۔ اس پر ایک انصاری نے کہا کہ اگر آپ لوگ ہماری بات نہیں مانتے تو پھر مِنَّااَمِیْرٌ وَ مِنْکُمْ اَمِیْرٌ چلو ایک خلیفہ ہمارا ہو جائے اور ایک آپ کا۔حضرت ابوبکرؓ نے اس کے نقائص بیان کئے اور آخر میں فرمایا کہ اگر انصار میںسے کوئی خلیفہ ہؤا تو عرب کے لوگ اسے نہیں مانیں گے۔ اس پر بعض انصار جوش میں کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا اس کے معنے یہ ہیں کہ انصار ہمیشہ غلامی ہی کرتے رہیں؟ وہ اس وقت بھی مہاجرین میں سے کسی کو خلیفہ مان لیں اور بعد میں بھی مہاجرین میں خلیفہ بنتے رہیں، انصار میں سے کوئی خلیفہ نہ بنے اور اس طرح وہ ہمیشہ کے لئے غلام اور ماتحت رہیں۔ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے یہ سُنکر انصار کو بہت سی نصیحتیں کیں اور فرمایا ہم آپ لوگوں کا احسان مانتے ہیں، مگر آپ کو اس وقت یہ دیکھنا چاہئے کہ اسلام کا فائدہ کس بات میں ہے؟ یہ سنکر ایک انصاری کھڑے ہوئے اور انہوں نے ایک تقریر کی جو اسلامی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھی جائے گی۔
انہوں نے انصار کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا اے لوگو! تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں خدا کی رضا کے لئے بُلایا تھا یا خلافت کے حصول کے لئے؟ اور اگر تم نے اسلام میں داخل ہو کر بڑی بڑی قربانیاں کیں تو اس لئے کی تھیں کہ خدا راضی ہو جائے یا اس لئے کی تھیں کہ خلافت ملے؟ اگر تمام قربانیاں تم نے خداکی رضا کے حصول کے لئے کی تھیں تو خدارا! اب اپنی قربانیوں کو خلافت کی بحث میں برباد نہ کرو۔ مہاجرین جو کہتے ہیں سچ کہتے ہیں مناسب یہی ہے کہ تم اس معاملہ کو خدا پر چھوڑ دو اور اپنی تجاویز کو جانے دو۔ اُس صحابی کا یہ فقرہ کہنا تھا کہ ساری قوم نے شور مچا دیا، بالکل درست ہے بالکل درست ہے۔ چنانچہ مہاجرین میں سے خلیفہ کا انتخاب کیا گیا اور انصار نے خوشی سے اس کی بیعت میں اپنے آپ کو شامل کر لیا۔۳۵؎ یہ عجیب بات ہے کہ آج تک بھی انصار میں سے کسی کو بادشاہت نہیں ملی، گو تصوّف والے اس کی ایک وجہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اب تمہیں دنیا میں کچھ نہیں مل سکتا جو کچھ لینا ہے حوضِ کوثر پر آکر لے لینا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا قیامت کے دن کسی کو اجر ملنا کوئی کم برکت والی چیز ہے، حقیقت یہ ہے کہ بیشک دُنیوی انعامات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہوتے ہیں مگر اصل انعام وہی ہیں جو انسان کو عالَمِ آخرت میں ملیں۔ پس اگر انہیں قیامت کے دن انعامات مل گئے تو پھر تو اُنہیں سب کچھ مل گیا۔ لیکن بہرحال انصار نے دنیا میں کبھی حکومت نہیں کی اور یہ ایسی شاندار قربانی ہے جو بتاتی ہے کہ ان لوگوں نے کس طرح اپنے دل اسلام اور مسلمانوں کے لئے کھول رکھے تھے۔
صحابہ کرامؓ لوگوں کو شر سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ تھے!
پانچویں خصوصیت مساجد کی یہ ہے کہ وہ شر اور بدی سے
روکنے کے لئے بنائی جاتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ۳۶؎ کہ نماز انسان کو بدی اور بے حیائی کی باتوں سے روکتی ہے اس بارہ میں بھی صحابہ نے بے نظیر مثال قائم کی ہے چنانچہ شر سے بچانے کا بہترین ثبوت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد کا ایک واقعہ ہے جس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ مسلمانوں نے دنیا میں کس طرح انصاف قائم کیا۔ جب اسلامی لشکر رومیوں کو شکست دیتے دیتے شام تک چلا گیا تو ایک وقت ایسا آیا جبکہ رومی بادشاہ اپنا سارا لشکر جمع کرکے مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے آمادہ ہو گیا، اُس وقت اسلامی جرنیلوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کچھ علاقے چھوڑ کر پیچھے ہٹ جانا چاہئے مگر اُن علاقوں کے لوگوں سے چونکہ انہوں نے ٹیکس اورجزیے وصول کئے ہوئے تھے اور اس ٹیکس اورجزیہ کے حصول کرنے کی غرض یہ ہؤا کرتی ہے کہ اسی روپیہ کو خرچ کرکے لوگوں کی جان و اموال کی حفاظت کی جائے۔ اس لئے جبکہ وہ ان علاقوں سے واپس جا رہے تھے انہوں نے سمجھا کہ اگر ہم نے ان کے ٹیکس انہیں واپس نہ کئے تو یہ ظلم ہوگا، چنانچہ انہوں نے تمام شہر والوں کو ان کا جزیہ واپس دیدیا اور کہا کہ اب ہم واپس جا رہے ہیں اور چونکہ تمہاری حفاظت نہیں کر سکتے اس لئے ہم تمہارا ٹیکس تمہیں واپس دیتے ہیں۔ اس واقعہ کا یروشلم کے عیسائیوں پر ایسا اثر ہؤا کہ باوجود اس کے کہ مسلمانوں کے مقابلہ میں عیسائی بادشاہ تھا اور باوجود اس کے کہ وہ اُسے لاکھوں روپیہ بطور نذرانہ دیاکرتے تھے جس وقت صحابہؓ کا لشکر یروشلم کو چھوڑنے لگا تو عورتیں اورمردچیخیں مار مار کر روتے تھے اور دعائیں کرتے تھے کہ خداتعالیٰ آپ لوگوں کو پھر اس جگہ واپس لائے۔ دنیا کی کسی تاریخ میں اس قسم کی مثال ڈھونڈنے پر بھی نہیں مل سکتی کہ کوئی قوم اُس وقت جبکہ وہ کسی علاقہ کو خالی کر رہی ہو لوگوں کو اُن کے وصول شُدہ ٹیکس واپس دے دے بلکہ آجکل تو ایسی حالت میں لوگوں کو اور زیادہ لُوٹ لیا جاتا ہے۔ اسی طرح شر سے روکنے کی مثالیں تو اور بھی بہت سی ہیں مگر میں وہ مثالیں دینا چاہتاہوں جن کو سب دنیا مانتی ہے حتیٰ کہ مسلمانوں کے دشمن بھی تسلیم کرتے ہیں۔
شراب اور ُجوئے کی ممانعت
چنانچہ ایک مثال میں جوئے کی پیش کرتا ہوں اس سے اسلام نے روکا ہے۔ اسی طرح شراب سے اسلام نے
بڑی سختی سے روکا ہے کیونکہ شراب بھی بڑی خرابیوں کا موجب ہوتی اور اس سے انسان کی عقل ماری جاتی ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان کے شر اور فساد کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اِنَّمَا یُرِیدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَائَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ۳۷؎
فرمایا ہم نے شراب اور جوئے سے تمہیں روکا ہے مگر جانتے ہو ہم نے کیوں روکاہے؟ اس لئے کہ ان کے ذریعہ فساد پیدا ہوتاہے اور یہ چیزیں ذکرِ الٰہی اور عبادت کی بجاآوری میں روک بنتی ہیں اس طرح آپس میں عداوت اور ُبغض پیدا ہوتا ہے۔ آج تمام یورپ اس امر کو تسلیم کرتا ہے کہ شراب بُری چیز ہے اور یوروپین مدبّر چاہتے ہیں کہ شراب نوشی روک دیں مگر وہ اپنی کوششوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ امریکہ نے شراب کے خلاف بڑا زور مارا مگر اڑھائی پرسنٹ (PER CENT ) شراب کی اس نے بھی اجازت دیدی۔ گویا اس معاملہ میں امریکہ کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں ایک کشمیری کہیں بیٹھا ہؤا تھا اور اُس نے اپنے اوپر ایک بہت بڑی چادر لپیٹی ہوئی تھی کسی شخص نے اس سے پوچھا کہ تمہارا کوئی بچہ بھی ہے؟ وہ کہنے لگا کوئی نہیں۔ اس نے کہا نہیں سچ سچ بتائو ایک یا دو تو ہوں گے، کہنے لگا سچ کہتاہوں میرا تو ایک بچہ بھی نہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ کشمیری اُٹھا تو چادر کے نیچے سے چار بچے نکل آئے، یہ دیکھ کر وہی شخص اُسے کہنے لگا کہ تم تو کہتے تھے کہ میرا ایک بچہ بھی نہیں اور یہ تو چار بچے تمہارے ساتھ ہیں۔ اس پر وہ کشمیری کہنے لگا، حضرت چار پُتّربھی کوئی پُتّرہوندی ہے یعنی چار بیٹے بھی کوئی بیٹے ہوتے ہیں ( یہ مثال لوگوں نے اسی امر کے اظہار کے لئے بنائی کہ مَاشَائَ اللّٰہُ کشمیریوں کے اولاد بہت ہوتی ہے) اسی طرح امریکہ والوں نے کہہ دیا کہ ۲۱۲ پرسنٹ شراب کوئی شراب نہیں۔ مگر اس قدر اجازت دینے کے باوجود جب اس نے قانوناً شراب کی ممانعت کر دی تو ملک میں خطرناک فساد برپا ہو گیا۔ ہزارہا آدمی سالانہ محض اس کی وجہ سے مارا جاتا تھا کیونکہ جنہیں شراب پینے کی عادت تھی وہ شراب کے لئے دوسروں کو روپیہ دیتے اور وہ چوری چُھپے لے آتے۔ آخر لفنگوں اور بدمعاشوں کی کمیٹیاں بن گئیں جو لوگوں سے روپیہ وصول کرتیں اور اُنہیں کسی نہ کسی طرح شراب مہیا کر دیتیں اور چونکہ اس طرح مختلف کمیٹیوں والوں کی آپس میں رقابت ہو گئی اس لئے وہ موقع ملنے پر ایک دوسرے کے آدمیوں کو مروا دیتیں۔ پھر پولیس کو مقدمات چلانے پڑتے اور درجنوں کو گورنمنٹ پھانسی کی سزا دیتی۔ غرض ہزاروں مقدمات چلے، لاکھوں آدمی مارے گئے اور لاکھوں اس طرح مرے کہ جب انہیں شراب نہ ملتی تو وہ میتھی لیٹڈ سپرٹ METHYLATED SPIRIT) (پی لیتے جو سخت زہریلی چیز ہے اور اس طرح کئی مرجاتے اور کئی اندھے ہو جاتے۔ غرض امریکہ اڑھائی فیصدی شراب کی اجازت دے کر بھی اپنے ملک کو شراب پینے سے نہ روک سکا اور لاکھوں قتل ہوئے، لاکھوں مقدمات ہوئے اور لاکھوں اندھے اور بیکار ہوگئے۔ یہاں تک کہ آخر میں حکومت کو اپنا سر جُھکانا پڑا اور اس نے کہدیا کہ ہم ہارے اور شراب پینے والے جیتے چنانچہ اس نے ممانعتِ شراب کا قانون منسوخ کر دیا۔
محمدؐ رسول اللہ کے اعلان پر صحابہؓ نے شراب کے مٹکے توڑ ڈالے
مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
دیکھو جب یہ آیت اُتری کہ شراب حرام ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو مدینہ کی گلیوں میں اِس کا اعلان کرنے کے لئے مقرر کیا تو احادیث میں آتا ہے ایک جگہ شادی کی مجلس لگی ہوئی تھی اور گانا گایا جا رہا تھا۔ اتنے میں باہر سے آواز آئی کہ شراب حرام ہو گئی ہے، لکھا ہے جس وقت یہ اعلان ہؤا اُس وقت وہ لوگ شراب کا ایک مٹکا ختم کر چکے تھے اور دو مٹکے ابھی رہتے تھے۔ نشہ کی حالت ان پر طاری تھی اور وہ شراب کی ترنگ میں گا بجا رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی شراب حرام کر دی گئی ہے۔ یہ سنتے ہی ایک شخص نشہ کی حالت میں بولا کہ کوئی شخص آوازیں دیتا ہے اورکہتا ہے شراب حرام ہو گئی ہے۔ دروازہ کھول کر پتہ تو لو کہ بات کیا ہے؟ اوّل تو کوئی شرابی نشہ کی حالت میں اس قسم کے الفاظ نہیں کہہ سکتا مگر ان کا دینی جذبہ اس قدر زبردست تھا کہ انہوں نے معاً آواز پر اپنا کان دھرا اور ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ دروازہ کھول کر دریافت کرو کہ بات کیا ہے؟ دوسراشخص جس کو اس نے مخاطب کیا تھا وہ دروازہ کے پاس بیٹھا تھا اور اس نے اپنے ہاتھ میں ایک مضبوط ڈنڈا پکڑا ہؤا تھا اس نے جواب دیا کہ پہلے میں ڈنڈے سے مٹکوں کو توڑوں گا اور پھر دریافت کرونگا کہ کیا بات ہے؟ جب ہمارے کان میں یہ آواز آگئی ہے کہ محمد رسول اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے تو اب اس کے بعد ایک لمحہ کا توقّف بھی جائز نہیں اس لئے میں پہلے مٹکے توڑوں گا اور پھر دروازہ کھول کر اس سے دریافت کرونگا۔ چنانچہ اس نے پہلے مٹکے توڑے اور پھر منادی والے سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب حرام کر دی ہے۔ اس نے کہا الْحَمْدُ لِلّٰہِ ہم پہلے ہی مٹکوں کو توڑ چکے ہیں۔۳۸؎ اب بتائو کہ کونسی مسجد ہے جو اس طرح بدیوں کو مٹا سکتی ہے۔
قتلِ اولاد کی ممانعت
دیکھو قتلِ اولاد ایک مانی ہوئی بدی ہے۔ ساری قومیں اس امر کو تسلیم کرتی ہیں کہ قتلِ اولاد بہت بڑا جُرم ہے مگر کسی قوم نے اس
کے متعلق شرعی حکم نہیں دیا۔ صرف اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دنیا کے سامنے سب سے پہلے اس حقیقت کو رکھا اور بتایا کہ اولاد کا مارنا حرام ہے اور اس طرح دنیا کو ایک بہت بڑے شر سے بچایا۔
عورتوں کے حقوق کی حفاظت
اسی طرح عورتوں پر ظلم ہوتے تھے آج ساری دنیا میں یہ شور مچ رہا ہے کہ عورتوں کو ان کے حقوق دینے چاہئیں،
عورتوں کو ان کے حقوق دینے چاہئیں اور بعض مغرب زدہ نوجوان تو یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ عورتوں کو حقوق عیسائیت نے ہی دیئے ہیں۔ حالانکہ ان کو یہ کہتے ہوئے شرم آنی چاہئے کیونکہ عورتوں کے حقوق کے سلسلہ میں اسلام نے جو وسیع تعلیم دی ہے عیسائیت کی تعلیم اُس کے پاسنگ بھی نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورتوں کو بہت وسیع حقوق دیئے ہیں۔ عربوں میں رواج تھا کہ ورثہ میں اپنی مائوں کو بھی تقسیم کر لیتے مگر اسلام نے خود عورت کو وارث قرار دیا، بیوی کو خاوند کا، بیٹی کو باپ کا اور بعض صورتوں میں بہن کو بھائی کا بھی۔ پھر فرمایا وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ۳۹؎ کہ انسانی حقوق کا جہاں تک سوال ہے عورتوں کو بھی ویسا ہی حق حاصل ہے جیسے مردوں کو، ان دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ کَل ہی مَیں نے عورتوں میں تقریر کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مردوں اور عورتوں کو یکساں احکام دیئے ہیں اسی طرح انعامات میں بھی اُنہیں یکساں شریک قرار دیا ہے اور جن نعماء کے مرد مستحق ہوں گے اسلامی تعلیم کے ماتحت قیامت کے دن وہی انعام عورتوں کو بھی ملیں گے۔ بلکہ کَل تو مجھے ایک عجیب استدلال سُوجھا۔ میں نے کہا کہ قرآن اور حدیث نے تمہارا صرف ایک ہی مذہبی حق چِھینا ہے اور وہ یہ کہ نبی مرد ہو سکتاہے، عورت نہیں ہو سکتی۔ صرف یہ ایک ایسا مقام ہے جس کے متعلق عورت کہہ سکتی ہے کہ مجھے کم انعام دیا گیا ہے اورمرد کو زیادہ مگر میں نے انہیں بتایا کہ نبوت صرف ایک عہدہ ہے اور اس عہدہ کے ساتھ بہت بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، پس اس لئے خدا نے اسے نبی نہیں بنایا۔ مگر انعامات کے لحاظ سے جو انعام عالَمِ آخرت میں نبی کو ملے گا وہی اس کی بیوی کو بھی ملے گا، کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَائِھِمْ وَ اَزْوَاجِھِمْ وَ ذُرِّیّٰتِھِمْ وَ الْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ۴۰؎
کہ جو لوگ جنت میں داخل ہونگے ان کے ساتھ ان کے والدین، ان کی بیویوں اور ان کے بچوں کو بھی رکھا جائے گا۔ اگر ایک شخص خود تو جنت کے اعلیٰ مقام پر ہوگا مگر اس کی بیوی کسی ادنیٰ مقام پر ہوگی تو اللہ تعالیٰ بیوی کو اسی جگہ رکھے گا جہاں اس کا خاوند ہوگا اور یہ پسند نہیںکرے گا کہ میاں بیوی جُداجُدا ہوں۔ پس موسیٰ ؑ کی بیوی موسیٰ ؑ کے ساتھ رکھی جائے گی دائود ؑ کی بیوی دائود ؑ کے ساتھ رکھی جائے گی، سلیمان ؑ کی بیوی سلیمان کے ساتھ رکھی جائے گی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکھی جائیں گی۔ بیشک موسیٰ ؑ کی بیوی نبی نہیںمگر نبوت کے انعام میں وہ بھی شریک ہو جائے گی۔ بیشک دائود ؑ کی بیوی نبی نہیں مگر دائود ؑ کے انعامِ نبوت میں ان کی بیوی بھی شریک ہوجائے گی۔ اسی طرح حضرت سلیمان ؑ کی بیویاں گو نبی نہیں مگر خدا انہیں وہی انعامات دے گا جو وہ سلیمان ؑ کو دیگا۔ پھرمیں نے انہیں کہا کہ تم تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہو اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ بیویاں اور تین بیٹیاں تھیں، گویا ایک مرد کے ساتھ چودہ عورتیں انعام میں شریک ہوگئیں یہ کس قدر وسیع فیضان ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اورکس طرح اس نے اپنی رحمت میں عورتوں کو ڈھانپ لیا ہے کہ نہ اِس دنیا میں ان کی کوئی حق تلفی کی ہے اور نہ اگلے جہاں میں اُنہیں کسی انعام سے محروم رکھا ہے، حالانکہ عورتوں کی قوم اتنی مظلوم تھی کہ عرب لوگ روپوں کے بدلے اپنی مائوں اور بیویوں تک کو بیچ دیا کرتے تھے۔ پس یہ مسجد کنویں کی منڈیر کا کام کرتی ہے یعنی وہ رسوم یا عادات یا اعمال جن سے لوگ تباہ ہوں اُن سے بچاتی اور گندگی کو اندر گرنے سے روکتی ہے۔
قیامِ امن کے متعلق اسلام کی جامع تعلیم
(۶) چھٹے مسجد امن کا موجب ہوتی ہے اوریہ مسجد ایسی ہے کہ جب اس کا نام
ہی اسلام ہے اور اس کے ماننے والوں کا نام مُسلم اور مُسلم کے معنے ہی یہ ہیں کہ وہ ایسا شخص ہے جو دوسروں کو امن دیتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہٖ وسلم فرماتے ہیں۔ اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ یَدِہٖ وَ لِسَانِہٖ ۴۱؎
کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اورجس کی زبان کے شر سے ہر وہ شخص محفوظ ہوتا ہے جو کسی کو نقصان نہیں پہنچاتا۔
اب میں تفصیل بتاتا ہوں کہ امن کن چیزوں سے برباد ہوتا ہے سو یاد رکھنا چاہئے امن چار چیزوں سے برباد ہوتا ہے۔
۱۔ امن برباد ہوتاہے بدظنی سے۔
۲۔ امن برباد ہوتا ہے ظلم سے۔
۳۔ امن برباد ہوتا ہے غصہ کو اپنے اوپر غالب آنے دینے سے۔
۴۔ امن برباد ہوتاہے لالچ سے۔
غرض دنیا میں جس قدر فسادات ہوتے ہیں وہ انہی چار وجوہ سے ہوتے ہیں یعنی یا تو بدظنی کی وجہ سے فساد ہوتا ہے یا ظلم کی وجہ سے فساد ہوتا ہے یا غصے کو غالب آنے دینے سے فساد ہوتا ہے یا لالچ کی وجہ سے فساد ہوتا ہے ۔
اِس کے مقا بلہ میں امن بھی چار چیزوں سے قائم ہوتا ہے۔
۱۔ امن قائم ہوتا ہے خیر خواہی سے۔
۲۔ امن قائم ہوتا ہے مغفرت سے۔ مثلاً اگر کوئی گالی دے اور دوسرا معاف کر دے تو لڑائی کس طرح ہو سکتی ہے، کہتے ہیں تالی دونوں ہاتھ سے بچتی ہے جب فریقین میں سے ایک مغفرت سے کام لے اور عفو و درگزر کا سلوک کرے تو لڑائی بڑھ ہی نہیں سکتی۔
۳۔ اسی طرح احسان سے امن قائم ہوتاہے۔
۴۔ پھر امن دین کو دُنیا پر مقدم رکھ کر بھی ہوتاہے کیونکہ جب کوئی انسان اُخروی حیات پر ایمان رکھتا ہو اور اُس کو دنیا کی زندگی پر ہر لحاظ سے ترجیح دیتا ہو تو وہ امن کے قیام کی خاطر ہر قسم کی قربانی کر سکتا ہے۔
اب یہ آٹھوں باتیں جو نفی اور مثبت سے تعلق رکھتی ہیں ہمیں دیکھناچاہئے کہ صحابہؓ میں پائی جاتی تھیں یا نہیں؟
اسلام میں بدظنی کی ممانعت
اوّل بدظنی ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ یٰٓـاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا
کَثِیْراً مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا۴۲؎
کہ اے مومنو! تم اکثر گمانوں سے بچا کرو کیونکہ بعض ظنّ ایسے ہیں جن سے گناہ پیدا ہوتاہے۔ وَلَا تَجَسَّسُوْا اور تم دوسروں کے عیوب تلاش نہ کیا کرو۔ اب اگر کوئی شخص دوسرے پر حُسنِ ظنی کرے تو وہ اس کے عیب کو تلاش ہی نہیں کر سکتا۔عیب اُسی وقت انسان تلاش کرتا ہے جب دل میں بدظنی کا مادہ موجود ہو۔ اب ہم صحابہؓ کے طریقِ عمل کو دیکھتے ہیں کہ اُن میں حُسنِ ظنی کس حد تک پائی جاتی تھی۔
تاریخِ اسلام میں جب صحابہؓ کے واقعات دیکھے جاتے ہیں تو انسان حیران رہ جاتا ہے کہ اُن میں کس قدر خوبیاں پائی جاتی تھیں۔ ان میں نیک ظنی تھی تو کمال درجہ کی اور دیانت و امانت تھی تو اُس حد تک کہ اس کی اور کہیں مثال ہی نہیں ملتی۔ ان کی نیک ظنی کی مثال یہ ہے کہ لکھا ہے حضرت عمرؓ کے عہد میںایک شخص پر قتل کا مقدمہ چلا اور قضاء نے اس کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے اس کے قتل کئے جانے کا حُکم دیدیا۔ جب اسے قتل کرنے کے لئے لوگ لے گئے تو اُس نے کہا کہ میرے گھر میں کئی یتیموں کی امانتیں پڑی ہوئی ہیں، مجھے اجازت دی جائے کہ میں گھر میں جا کر وہ امانتیں اُن کو واپس دے آئوں، پھر میں اس جگہ اتنے دنوں میں حاضر ہو جائوں گا۔ انہوں نے کہا کہ اپنا کوئی ضامن لائو۔ اُس نے اِدھراُدھر دیکھا آخر اس کی نظر ابوذرصحابیؓ پر جا پڑی اور اس نے کہا کہ یہ میرے ضامن ہیں۔ ابوذرؓ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ اس کی ضمانت دینے کے لئے تیار ہیں؟ انہوں نے کہا ہاں۔ خیر انہوں نے ضمانت دی اور وہ گھر چلا گیا۔ جب عین وہ دن آیا جو اُس کی حاضری کے لئے مقرر تھا تو صحابہؓ اِدھراُدھر گھبراہٹ سے پھرنے لگے کیونکہ وہ شخص ابھی تک آیا نہیں تھا جب بہت دیر ہو گئی اور وہ نہ آیا تو صحابہؓ نے حضرت ابوذرؓ سے پوچھا کہ کچھ آپ کو پتہ بھی ہے وہ کون شخص تھا؟ انہوں نے کہا مجھے تو علم نہیں۔ صحابہ کہنے لگے اُس کا جُرم قتل تھا اور آپ نے بغیر کسی واقفیت کے اس کی ضمانت دے دی، یہ آپ نے کیا کِیا؟ اگر وہ نہ آیا تو آپ کی جان جائے گی۔ انہوں نے کہا، بیشک میں اسے جانتا نہیں تھا مگر جب ایک مسلمان نے ضمانت کے لئے میرا نام لیا تو میں کس طرح انکار کر سکتا تھا اورکس طرح یہ بدظنی کر سکتا تھا کہ ممکن ہے وہ حاضر ہی نہ ہو۔ اب دیکھو اُن میں حُسنِ ظنی کاکس قدر مادہ پایا جاتا تھا کہ ایک شخص جس کی انہیں کچھ بھی واقفیت نہیں اُس کی اُنہوں نے ضمانت دیدی محض اس وجہ سے کہ وہ بدظنی کرنا نہیں چاہتے تھے۔ جب وقت بالکل ختم ہونے لگا تو صحابہ کو دُور سے گرد اُڑتی دکھائی دی اور انہوں نے دیکھا کہ ایک سوار بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے کو دَوڑاتاہؤا آرہا ہے۔ سب کی نظریں اُس سوارکی طرف لگ گئیں جب وہ قریب پہنچا تو وہ وہی شخص تھا جس کی حضرت ابوذرؓ نے ضمانت دی ہوئی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے سے اُترا اورچونکہ بڑی تیزی سے اپنے گھوڑے کو دَوڑاتا چلا آیا تھا اس لئے اس کے اُترتے ہی گھوڑا گِر کر مر گیا۔ اس نے پاس آکر کہا کہ مجھے معاف کرنا، یتامٰی کی امانتیں تقسیم کرتے ہوئے مجھے کچھ دیر ہو گئی جس کی وجہ سے میں جلدی نہ آسکا اور اب میں گھوڑے کو دوڑاتا ہی آرہا تھاتاکہ وقت کے اندر پہنچ جائوں سو خدا کا شکر ہے کہ میں پہنچ گیا، اب آپ اپنا کام کریں۔ اس کی اس وفاداری کا اس قدر اثر ہؤا کہ جن لوگوں کا جُرم تھا انہوں نے فوراً قاضی سے کہدیا کہ ہم نے اپنا جُرم اس شخص کو معاف کر دیا۔۴۳؎
یہ وہ نیک ظن لوگ تھے جو دوسروں پر بدظنی کرنا جانتے ہی نہیں تھے اور پھر خدا بھی ان کے نیک ظنوں کو پورا کر دیتا تھا۔
اسلام میں ہر قسم کے ظلم کی ممانعت
پھر فساد ظلم سے پیدا ہوتا ہے اور ظلم کی کئی قسمیں ہیں مگر اسلام نے اُن سب کو مٹا دیا ہے
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:- وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضاً۴۴؎ کہ ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیونکہ یہ بھی ایک قسم کا ظلم ہوتا ہے اور دوسرے کی عزت پر اس سے حملہ ہوتا ہے۔
دوسری چیز مال ہے جس کی وجہ سے ظلم کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بارہ میں بھی ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ وَلَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِل۴۵؎ کہ جھوٹ اور فریب سے ایک دوسرے کے اموال نہ کھایا کرو۔
پھر جان ہوتی ہے اس کے متعلق فرمایا وَلَا تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ ۴۶؎ کہ اپنے آپ کو قتل مت کرو۔
اسی طرح تجارت میں بعض دفعہ ظلم کا ارتکاب کر لیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس سے بھی روکا اور فرمایا وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ الَّذِیْنَ- اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ- وَ اِذَا کَالُوْ ھُمْ اَوْوَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ۴۷؎
کہ *** ہے اُن پر، ہلاکت ہے اُن پر جو لوگوں کے حقوق کو غصب کرتے ہیں اور جب چیزیں لیتے ہیں تو تول میں پوری لیتے ہیں اور جب دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں گویا اسلام نے ظلم کی تمام شِقوں سے روک دیا اور اس طرح اُس نے جان کو بھی محفوظ کر دیا، عزّت کو بھی محفوظ کر دیا اور صحابہؓ نے اس پر ایسا عمل کرکے دکھایا کہ جس طرح حرم میں داخل ہو کر انسان امن میں آجاتا ہے اس طرح وہ لوگوں کی عزّتوں اور ان کے مالوں اور ان کی جانوں کے محافظ تھے اور امانتیں تو ان کے پاس اس طرح محفوظ رہتی تھیں کہ آجکل کے بنکوں میں بھی ویسی محفوظ نہیں رہتیں۔ ایک صحابی ایک دفعہ ایک گھوڑا فروخت کرنے کے لئے لائے اور انہوں نے اس کی دو سَو دینار قیمت بتائی۔ ایک اور صحابی نے کہا کہ میں یہ گھوڑا لینا چاہتا ہوں مگر تم غلط کہتے ہو کہ اس کی دو سَو دینار قیمت ہے اس کی تو پانچ سَو دینارقیمت ہے وہ کہنے لگے میں صدقہ خور نہیں کہ زیادہ قیمت لے لوں اس کی اصل قیمت دو سَو دینار ہی ہے۔ اب وہ دونوں جھگڑنے لگ گئے۔ بیچنے والا کہتا تھا کہ میں دو سَو دینار لوں گا اور خریدنے والا کہتا تھا کہ میں پانچ سَو دینار دونگا۔ اب بتائو جہاں اِس قسم کے لوگ ہوں وہاں امن کس شان کا ہوگا مگر اب تو جتنا کوئی مالدار ہو اُتنا ہی دوسروں کو لوٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ میں ایک دفعہ بمبئی میں ایک دُکان پر کپڑا لینے کے لئے گیا میرے ساتھ مستورات بھی تھیں مگر وہاں ہمیں کافی دیر لگ گئی اور دُکاندار ایک اور شخص سے جھگڑنے میں مصروف رہا۔ آخر میں نے اس سے کہا کہ بات کیا ہے او اتنی دیر سے جھگڑ کیوں رہے ہو؟ اس نے کہا کیا بتائوں آج تو میں مصیبت میں پھنس گیا تھا یہ شخص بمبئی کا سب سے بڑا مشینوں کا مالک ہے۔ اس نے مجھ سے بیس پچیس کپڑے لئے اور میں نے ان کا بِل ایک سَو آٹھ روپیہ کا بنا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ اس پر یہ جھگڑنے لگا کہ میں اتنا بڑا آدمی ہوں میری رعایت کیا تم نہ کرو گے میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہماری دُکان پر ایک قیمت ہوتی ہے اتنا وقت ضائع کرنے کے بعد اس کے سیکرٹری نے سَو کا نوٹ رکھ دیا اور کہا کہ اب بس کرو باقی رقم کا مطالبہ نہ کرو اور میری یہ حالت کہ میں اسے ناراض بھی نہیں کر سکتا، لیکن دوسری طرف اگر قیمت کم لیتا ہوں تو میری دُکان کا اصول ٹوٹتا ہے اب یہ زور سے کم قیمت دے کر چلا گیا ہے۔
غرض مسلمان اپنے غلبہ کے وقت میں اتنا سیرچشم تھا کہ اگر کوئی غلطی سے کم قیمت مانگتا تھا تو وہ اصرار کرتا تھا کہ میں اس کی قیمت زیادہ دونگا، مگر آج کے کروڑ پتی بھی سودے میں کچھ معاف کروانے کے لئے خواہ جائز ہو یا نہ ہو گھنٹوں صَرف کر دیتے ہیں، دوسری طرف دکاندار اور کارخانہ دار قیمت زیادہ وصول کرنے پر مُصِرّ ہوتے ہیں۔
تکبّر کی بُرائی
اسی طرح دنیا میں خیالات کی خرابی کی وجہ سے بھی ظلم ہوتا ہے ایک انسان یہ خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ میں بہت بڑا ہوں اور اس طرح وہ تکبر میں آکر
دوسروں کی حق تلفی کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے اس غرور کو بھی توڑا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے وَلَاتَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحاً اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً ۴۸؎
اے انسان! تو زمین میں متکبرانہ طور پر نہ چلا کر کیونکہ اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ اْلاَرْضَ تو زمین میں سے کہیں باہر نہیں نکل سکتا۔ یہی تیرے غریب بھائی جو تیرے اِرد گِرد ہیں ان سے تجھے دن رات کام رہتا ہے اورتو نے ان کے ساتھ مل جل کر کام کرنا ہے۔ خرق کے معنے پھاڑنے کے بھی ہوتے ہیں اور ملک میں سے گزرنے کے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ تو نے اس زمین میںسے کہیں نکل نہیں جانا بلکہ اس دنیا میں رہنا ہے اور دنیا میں انسان کو آرام اُس وقت تک نہیں مل سکتا جب تک وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ مِل جُل کر نہ رہے۔ پس اللہ تعالیٰ لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ دیکھو تکبر نہ کرو کیونکہ اگر تم تکبر کروگے اور اپنے اِردگِرد کے لوگوں کو ذلیل اور حقیر سمجھو گے تو تم اکیلے پھرتے رہو گے اور لوگ تمہیں غیر جنس خیال کرنے لگ جائیں گے اور اس وجہ سے تمہیں امن میسر نہیں آسکے گا۔ بھلا کبھی گھوڑوں اور گدھوں میں رہ کر بھی انسان کو امن حاصل ہو سکتا ہے۔ امن تو اُس وقت حاصل ہوتا ہے جب انسان اپنی جنس کے ساتھ رہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میاں دیکھو تم نے کسی اور جگہ نہیں جانا بلکہ تمہارے ان غریب بھائیوں نے ہی رات دن تمہارے کام آنا ہے اگر تم اپنے آپ کو کوئی غیر جنس سمجھو گے تو دُنیا میں اس طرح رہو گے جس طرح چڑیا گھر میں انسان رہتاہے۔ پھر فرماتاہے وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلاً اگر تم نے یہ طریق جاری رکھا تو یاد رکھو تم اس صورت میں کبھی بھی قوم کے سرداروں میں شامل نہیں ہو سکو گے۔ اس لئے کہ جب تم قوم کو ذلیل سمجھو گے تو قوم تمہیں اپنا سردار کس طرح بنائے گی وہ تو تمہاری دشمن ہوگی اور تمہیں اپنی قوم کی نگاہوں میں عزّت نہیں بلکہ ذلّت حاصل ہوگی۔
قومی اخلاق کو بگاڑنے کی ممانعت
پھر قومی ظلموں میں سے ایک اخلاقی ظلم قوم کے اخلاق کو بگاڑنا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان
کو اس سے بھی روکتا اور فرماتا ہے لَایُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلَمَ۴۹؎ کہ اللہ تعالیٰ یہ پسند نہیں فرماتا کہ کوئی بُری بات اونچی آواز سے کہی جائے۔ لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ اگر کوئی مظلوم ہو تو اسے بیشک اجازت ہے کہ وہ برسرِعام جو جی میں آئے کہتا پھرے لیکن کسی اور کو اس کی اجازت نہیں۔ مگر میرے نزدیک اس آیت کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اگر کوئی مظلوم ہو تب بھی یہ پسندیدہ بات نہیں کہ وہ لوگوں میں بُرائیاں بیان کرتا پھرے۔ گویا اللہ تعالیٰ ہر ایک کو اس طریق سے روکتا اور فرماتا ہے کہ تو جو اپنے ظلم کے خلاف شور مچاتا ہے تجھے یہ تو سمجھنا چاہئے کہ تو اپنے ظلم کے متعلق تو شور مچا رہا ہے اور قوم کے اخلاق کو تباہ کر رہاہے جیسے اگر کوئی ماں بہن کی گندی گالیاں دینا شروع کر دے اور پاس سے عورتیں گزر رہی ہوں تو ہر شریف آدمی اسے روکتا اور کہتا ہے کہ تجھے شرم نہیں آتی کہ تو لوگوں کے اخلاق خراب کر رہا ہے اسی طرح خدا فرماتا ہے تو شور کس بات پر مچا رہا ہے؟ کیا اس بات پر کہ تجھ پر ظلم ہؤا ہے مگر تجھے اتنی سمجھ نہیں کہ تو اپنے ظلم پر شور مچا رہا ہے اور ساری قوم پر ظلم کر رہا ہے۔
بَیْنَ الْاَقوامیمناقشات کا سدِّباب
پھر ایک اور ظلم حکومتوںپر ہوتاہے اللہ تعالیٰ نے اس بارہ میں بھی کئی ہدایات دی ہیں اس کے
متعلق تفصیلی بحث میری کتاب ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام ‘‘ میں موجود ہے۔ میں اس جگہ مختصراً چند باتیں بیان کر دیتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ طَا ئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْ بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰٓی اَمْرِاللّٰہِ فَاِنْ فَائَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَ اَقْسِطُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ۵۰؎
اگر دو مومن حکومتیں آپس میں لڑ پڑیں تو باقی تمام حکومتوں کو چاہئے کہ سب مل کر ان سے کہیں کہ آپس میں صلح کر لو۔ اگر ان میں سے کوئی صلح کی تجویز کو مان کر باغی ہو جائے یا صلح کی تجویز کو قبول ہی نہ کرے اور لڑائی پر آمادہ رہے تو وہ حکومت جس نے بغاوت سے کام لیا ہو اس کے ساتھ سب مل کر لڑو اور مظلوم کو اکیلا نہ رہنے دو حَتّٰی تَفِیْئَ اِلٰی اَمْرِاللّٰہِ یہاں تک کہ ابتداء کرنے والی حکومت یا قوم خداتعالیٰ کے فیصلے کو مان لے فَاِنْ فَائَ ت اگر وہ ظلم سے باز آجائے اور اقرار کر لے کہ ا س سے غلطی ہوئی تو پھر اس سے انتقام نہ لو اور اپنے آپ کو فریقِ مخالف قرار دے کر اس سے بیجا مطالبات نہ کرو، بلکہ ابتدائی مخاصمین کے درمیان صلح کرادو۔ وَاَقْسِطُوْا اور انصاف سے کام لو ایسا نہ ہو کہ تم غصہ سے کسی کے خلاف کوئی ایسا فیصلہ کردو جو عدل و انصاف کے منافی ہو اور کہو کہ چونکہ اس نے پہلے ہماری بات کو نہیںمانا تھا اس لئے اب اس پر سختی کرنی چاہئے۔ تمہیں جنبہ داری اور کینے کے تمام پہلوئوں کو نظر انداز کرتے ہوئے انصاف سے کام لینا چاہئے اور سمجھ لینا چاہئے کہ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت رکھتا ہے۔ میں اِس وقت تفصیلاً اس مسئلہ کو بیان نہیں کر سکتا۔ تین چار سال ہوئے جب ایبے سینیا پر اٹلی نے حملہ کیا تھا تو اُس وقت جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے اس مضمون پر روشنی ڈالی تھی اور بتایا تھا کہ امن کے قیام کے لئے ایسی ہی لیگ آف نیشنز کام دے سکتی ہے جس کی بنیاد اسلامی اصول پر ہو۔ اگر اسلامی اصول پر لیگ آف نیشنز (LEAGUE OF NATIONS) کی بنیاد نہ رکھی جائے تو وہ کبھی امن قائم نہیں کر سکتی۔ اس وقت یہ دستور ہے کہ جب کوئی قوم مغلوب ہو جاتی ہے تو اسے ہر ممکن طریق سے ذلیل اور رُسوا کرنیکی کی کوشش کی جاتی ہے جیسے گزشتہ جنگ کے اختتام پر جرمنی کو ’’معاہدہ وارسائی‘‘۵۱؎ کے ذریعہ کُچلنے کی پوری کوشش کی گئی اور انصاف کی حدود کو نظر انداز کر دیا گیا، حالانکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ جب کوئی قوم ہتھیار ڈال دے تو اس کے بعد جو بھی معاہدہ کیا جائے اس کی بنیاد انصاف پر ہونی چاہئے۔ یہ نہیں ہونا چاہئے کہ چونکہ ایک فریق مخالفت کر چکا ہے اور ہار چکا ہے اس لئے اس کے خلاف سخت فیصلہ کرکے اسے ذلیل کیا جائے یا اس سے بدلہ لیا جائے۔ گویا صلح کرانے والوں کو اپنے آپ کو فریقِ مخالف نہیں بنا لینا چاہئے بلکہ جنگ کے باوجود اپنے آپ کو ثالثوں کی صف میں رکھنا چاہئے۔ دوسرے آجکل کی لیگ کے قوانین میں یہ شرط نہیں رکھی گئی کہ اگر کسی فریق نے مقابلہ کیا تو اس سے لڑائی کی جائے گی بلکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم منوانے کی کوشش کریں گے۔ اب جسے پتہ ہو کہ میرا کام صرف منوانے کی کوشش کرنا ہے وہ لڑائی کے لئے تیاری کیوں کرے گا اور بد اندیشے رکھنے والے لوگ اس لیگ سے ڈریں گے کیوں؟ تیسرے اسلام نے یہ ہدایت دی تھی کہ اگر دو متحارب فریقوں میں سے ایک لڑائی پر آمادہ ہو جائے تو دوسرا قدم یہ اُٹھایا جائے کہ باقی سب اقوام اس کے ساتھ مل کر لڑیں اور چونکہ ایک قوم سب اقوام کا مقابلہ نہیں کر سکے گی اس لئے لازماً وہ ہتھیار ڈال دے گی اور صلح پر آمادہ ہو جائے گی مگر لیگ آف نیشنز میں ایسا کوئی قانون نہیں اس لئے اس کے فیصلہ سے کوئی قوم مرعوب نہیں ہوتی اور چونکہ ان نقائص کی وجہ سے بارہا لیگ آف نیشنز امن کے قائم کرنے میں ناکام رہی ہے اس لئے اب بڑے بڑے مدبّر بھی یہ لکھ رہے ہیں کہ لیگ آف نیشنز کے پیچھے کوئی فوج ہونی چاہئے حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ لیگ آف نیشنز کے پاس صرف فوج ہی نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس کے علاوہ اس میں وہ باتیں بھی ہونی چاہئیں جو اسلام نے بتائی ہیں ورنہ امن قائم نہیں ہو سکتا۔
اپنے نفس پر ظلم کرنے کی ممانعت
یہ تو ہوتا ہے غیر پر ظلم مگر ایک ظلم نفس پر بھی ہوتا ہے جیسے انسان شادی کرنا چھوڑ دے۔ اب یہ تو
ممکن ہے کہ کوئی شخص شادی نہ کرے مگر جو خواہشات اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے دل میں پیدا کی گئی ہیں اُن کو وہ کس طرح دبا سکتا ہے۔ اسی طرح کوئی شخص بھوکا تو رہ سکتا ہے مگر بھوک کی خواہش کو نہیں مٹا سکتا کیونکہ یہ خدا نے پیدا کی ہے۔ اور کسی انسان کا اپنی جائز خواہشات کو پورا نہ کرنا بھی ایک ظلم ہے جو کسی غیر پر نہیں بلکہ اپنے نفس پر ہے اور اسلام اس ظلم سے بھی روکتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَا رَھْبَانِیَۃَ فِیْ الْاِسْلَامِ۵۲؎ اسلام میں رہبانیت نہیں اور قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ رہبانیت جو بعض مذاہب نے شروع کر رکھی ہے اس کا ہم نے انہیں حکم نہیں دیا تھا بلکہ ان کی اپنی ایجاد ہے۔ اس طرح قرآن کریم میں آتا ہے یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْن اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ ۵۳؎
کہ اے مسلمانو! تم اپنی جانوں کی حفاظت کرو۔ ہم نے بیشک تمہیں حُکم دیا ہے کہ تم تبلیغ کرو، ہم نے تمہیں حُکم دیا ہے کہ تم تعلیم دو، ہم نے تمہیں حُکم دیا ہے کہ تم دوسروں کی تربیت کرو، لیکن اگر کبھی کوئی ایسا موقع آجائے کہ دوسرے کو ہدایت دیتے دیتے تمہارے اپنے ایمان کے ضائع ہو جانے کا بھی خطرہ ہو تو ایسی حالت میں تم دوسرے کو بیشک ہلاک ہونے دو اور اپنے ایمان کی حفاظت کرو۔
دیال سنگھ کالج کے بانی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ بالکل اسلام کے قریب پہنچ گئے تھے مگر جو شخص انہیں تبلیغ کر رہا تھا اُس نے ایک دفعہ صرف اس آیت پر تھوڑی دیر کے لئے عمل چھوڑ دیا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ اسلام سے منحرف ہو گئے۔ سردار دیال سنگھ صاحب جن کے نام پر لاہور میں کالج بنا ہؤا ہے سکھ مذہب سے سخت متنفر تھے کسی مولوی سے انہیں اسلام کا علم ہؤا اور جب اسلامی تعلیم پر انہوں نے غور کیا تو وہ بہت ہی متأثر ہوئے اور انہوں نے اپنی مجلس میں اسلام کی خوبیوں کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور کہنے لگ گئے کہ میں اب اسلام قبول کرنے والا ہوں۔ ان کا ایک ہندو دوست تھا جو بڑا چالاک تھا اس نے جب دیکھا کہ یہ مسلمان ہونے لگے ہیں تو اس نے اُنہیں کہاکہ سردار صاحب! ہاتھی کے دانت کھانے کے اور ہوتے ہیں اور دکھانے کے اور۔ یہ تو محض مسلمانوں کی باتیں ہیں کہ اسلام بڑا اچھا مذہب ہے ورنہ عمل کے لحاظ سے کوئی مسلمان بھی اسلامی تعلیم پر کاربند نہیں۔ اگر آپ کو میری اس بات پر اعتبار نہ ہو تو جو مولوی آپ کو اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے آتا ہے آپ اس کے سامنے ایک سَو روپیہ رکھ دیں اور کہیں کہ ایک دن تو میری خاطر شراب پی لے، پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ شراب پیتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا بہت اچھا۔ چنانچہ جب دوسرے دن وہی مولوی آیا تو انہوں نے سَو روپیہ کی تھیلی اس کے سامنے رکھ دی اور کہا مولوی صاحب اب تو میں نے مسلمان ہو ہی جانا ہے، ایک دن تو آپ بھی میرے ساتھ شراب پی لیں اور دیکھیں میں نے تو آپ کی کتنی باتیں مانی ہیں کیا آپ میری اتنی معمولی سے بات بھی نہیں مان سکتے۔ اس کے بعد تو میں نے شراب کو ہاتھ بھی نہیں لگانا، صرف آج شراب پی لیں۔ اُس نے سَو روپیہ کی تھیلی لے لی اور شراب کا گلاس اُٹھا کر پی لیا۔ سردار دیال سنگھ صاحب پر اس کا ایسا اثر ہؤا کہ وہ بجائے مسلمان ہونے کے برہمو سماج سے جاملے اور انہوں نے اپنی ساری جائداد اس کے لئے وقف کر دی۔ یہ نتیجہ تھا درحقیقت اس آیت کی خلاف ورزی کا حالانکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ لَا یَضُرُّکُمْ مَنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ اگر روٹی کا سوال ہو تو بیشک خود بھوکے رہو اور دوسرے کو کھانا کھلائو، لیکن جہاں ہدایت کا سوال آجائے اور تمہیں محسوس ہو کہ اگر تمہارا قدم ذرا بھی ڈگمگایا تو تم خود بھی ہدایت سے دُور ہو جائو گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ ایسی صورت میں تمہیں مضبوطی سے ہدایت پر قائم رہنا چاہئے اور دوسرے کی گمراہی کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے۔
شرک کی ممانعت
تیسرا ظلم خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے اسکے بارہ میں فرماتا ہے وَاعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیئًا ۵۴؎ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس
کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ غرض اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے توحید کو دنیا میں قائم کیا اور اس طرح اس ظلم کا خاتمہ کر دیا جس کا خدا سے تعلق ہے اور مسلمان ہی وہ قوم ہے جس نے کبھی دوسروں پر ظلم نہیں کیا اور مسلمان ہی وہ قوم ہے جس نے کبھی اپنے نفس پر بھی ظلم نہیں کیا اور اس طرح اس نے امن کے برباد کرنے والے تمام اسباب کا خاتمہ کر دیا۔
بے جا غضب کی ممانعت
(۳) امن کو برباد کرنے والا تیسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ انسان غصہ کو اپنے اوپر غالب آنے دیتا ہے۔ قرآن کریم
نے اس بدی کی بھی بیخ کنی کی ہے اور اصولی طور پر ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰـکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا ۵۵؎ کہ ہم نے تمہیں اُمَّۃً وَّسَطًا بنایا ہے یعنی ایسی امت جوہر کام میں اعتدال کو مدّنظررکھتی ہے پس تمہارا فرض ہے کہ تم نہ تو غصہ میں بہہ جائو اور نہ محبت میں بہہ جائو بلکہ اگر محبت کرو تو ایک حد تک اور اگر غصہ کرو تو ایک حد تک۔ پھر فرماتا ہے وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ۵۶؎ کہ مؤمن لوگ اپنے غصہ کو دبا کر رکھتے ہیں۔
حدیث میں آتا ہے جب کسی کو غصہ آئے تو اگر وہ اُس وقت چل رہا ہو تو کھڑا ہو جائے اگر کھڑا ہو تو بیٹھ جائے اور اگر بیٹھا ہو تو لیٹ جائے اور اگر پھر بھی غصہ ٹھنڈا نہ ہو تو پانی پی لے۔ میں نے بچپن میں دیکھا ہے کہ جب بعض طالب علموں کی آپس میں لڑائی ہو جاتی تو ایک پانی لیکر دوسرے کے منہ میں ڈالنے لگ جاتا اور اس طرح وہ لڑکا جسے غصہ آیا ہوتا تھا بے اختیار ہنس پڑتا اور غصہ جاتا رہتا۔
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس کے دبانے کو اتنی اہمیت دی ہے کہ آپ فرماتے ہیں۔ لَیْسَ الشَّدِْیدُ بِالصُّرْعَۃِ اِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِیْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَ الْغَضَبِ۵۷؎ کہ بہادر اُس کو نہیں کہتے جو کُشتی میں دوسرے کو گِرا لے، بہادر وہ ہے جسے غصہ آئے تو وہ اُسے روک لے۔ پس بہادر غلام محمد پہلوان نہیں، بڑا بہادر ککر سنگھ پہلوان نہیں بلکہ بڑا بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے جذبات پر قابو رکھے اور اُس کو روک لے۔ اس بارہ میں حضرت علیؓ کی ایک مثال بڑی ایمان افزاء ہے۔ جنگ خیبر میں ایک بہت بڑے یہودی جرنیل کے مقابلہ کے لئے نکلے اور بڑی دیر تک اس سے لڑتے رہے چونکہ وہ بھی لڑائی کے فن کا ماہر تھا اس لئے کافی دیر تک مقابلہ کرتا رہا، آخر حضرت علیؓ نے اُسے گِرا لیا اور آپ اس کی چھاتی پر چڑھ کر بیٹھ گئے اور ارادہ کیا کہ تلوار سے اُس کی گردن کاٹ دیں۔ اتنے میں اس یہودی نے آپ کے منہ پر ُتھوک دیا۔ اِس پر حضرت علیؓ اُسے چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے۔ وہ یہودی سخت حیران ہؤا کہ انہوں نے یہ کیا کِیا؟ جب یہ میرے قتل پر قادر ہو چکے تھے تو انہوں نے مجھے چھوڑ کیوں دیا۔ چنانچہ اس نے حضرت علیؓ سے دریافت کیا کہ آپ مجھے چھوڑ کر الگ کیوں ہو گئے؟ آپ نے فرمایا کہ میں تم سے خدا کی رضا کے لئے لڑ رہا تھا مگر جب تم نے میرے منہ پر ُتھوک دیا تو مجھے غصہ آگیا اور میں نے سمجھا کہ اب اگر میں تم کو قتل کرونگا تو میرا قتل کرنا اپنے نفس کے لئے ہوگا، خدا کے لئے نہیں ہوگا۔ پس میں نے تمہیں چھوڑ دیا تاکہ میرا غصہ فرو ہو جائے اور میرا تمہیں قتل کرنا اپنے نفس کے لئے نہ رہے۔ یہ کتنا عظیم الشان کمال ہے کہ عین جنگ کے میدان میں انہوں نے ایک شدید دشمن کو محض اس لئے چھوڑ دیا تاکہ اُن کا قتل کرنا اپنے نفس کے غصہ کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہو۔
لالچ اور حسد کی ممانعت
(۴) امن کے برباد کرنے کا چوتھا سبب لالچ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی روکتا اور فرماتا ہے اَمْ یَحْسُدُوْنَ النَّاسَ
عَلٰی مَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ۵۸؎
کہ یہودی قوم بھی کوئی قوم ہے کہ خدا تو لوگوں پر فضل کرتا ہے اور یہ حسد سے مری جاتی ہے دوسری جگہ فرماتاہے وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ۵۹؎
خدانے دنیا میں مختلف قوموں پر جو فضل کئے ہیں ان کی وجہ سے ان قوموں سے حسد نہ کرو بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو۔
قیامِ امن کے ذرائع

اب اسکے مقابل پر مَیں امن کے ذرائع کو لیتا ہوں۔
خیر خواہی
(۱) پہلا ذریعہ قیامِ امن کا خیر خواہی ہے ہمارے ملک میں یہ جذبہ اتنا کم ہے کہ جب بھی کوئی افسر بدلتا اور اس کی جگہ کوئی دوسرا افسر آتاہے تو وہ پہلے افسر کے کام
کے ضرور نقائص نکالتا ہے اگر ڈپٹی کمشنر آتا ہے تو پہلے ڈپٹی کمشنر کا نقص نکالتا ہے، کمشنر آتا ہے تو وہ پہلے کمشنر کے کام کی خرابیاں بتاتا ہے اور اگر جرنیل آتا ہے تو پہلے جرنیل کی سکیموں میں نقص نکالتاہے مگر مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے کیسی اعلیٰ تعلیم دی ہے وہ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ جَائُ وْا مِنْم بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ۶۰؎
سچا مسلمان وہ ہوتا ہے کہ جب خدا اسے کسی مقام پر کھڑا کرتا ہے تو پہلے لوگ جو فوت ہو چکے ہوں اُنکے متعلق یہ نہیں کہتا کہ فلاں سے یہ غلطی ہوئی اور فلاں سے وہ غلطی ہوئی بلکہ وہ ان کی خوبیوں کا اعتراف کرتا ہے اوراگربعض سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو ان کے متعلق دُعائیں کرتا رہتا ہے کہ اے میرے رب! مجھے بھی بخش اور میرے اُن بھائیوں کو بھی بخش جو مجھ سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور اے ہمارے رب! ہمارے دلوں میں مؤمنوں کا کوئی کینہ نہ رہنے دیجیئو۔ اے رب! تو بڑا مہربان ہے تو ان پر بھی رأفت اور رحم کر اور ہمارے دل میں ان کے متعلق محبت کے جذبات پیدا فرما تاکہ ہم اپنے پیشروئوں کے نقص نکالنے کی بجائے ان کی خوبیوں کو بیان کرنے کے عادی ہوں۔
اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَا یُؤْمِنُ اَحَدَُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ ۶۱؎ کہ کوئی مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کی نسبت وہ تمام باتیں نہ چاہے جو وہ اپنی نسبت چاہتا ہے۔ غور کرو کتنی وسیع خیر خواہی ہے جس کی اسلام اپنے ماننے والوں کو تعلیم دیتا ہے۔
مغفرت
(۲) امن کے قیام کا دوسرا ذریعہ مغفرت ہے اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے متقی وہ ہوتے ہیں وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس
جو غصّے کو دباتے ہیں اور لوگوں کے گناہوں کومعاف کرتے ہیں اسی طرح فرماتا ہے خُذِالْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ ۶۲؎ کہ عفو کو اپنی عادت بنالو یہ نہیں ہونا چاہئے کہ تم کبھی کبھار کسی کو معاف کردو بلکہ دوسروں کو معاف کرنا تمہاری عادت میں داخل ہونا چاہئے اور جو نیک اور پسندیدہ باتیں ہیں ان کا لوگوں کو حُکم دو اور اگر کوئی تمہیں غصہ دلائے تو اس کے فریب میں نہ آنا بلکہ ایسے جاہلوں سے اعراض کرنا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک صحابی نے پوچھا یَارَسُوْلَاللّٰہ! انسان دن میں کتنی دفعہ مغفرت کرے؟ آپؐ نے فرمایا: ستّر مرتبہ اب ستر سے مرا ستّرہی نہیں کیونکہ انسان دن بھر میں دو یا چار قصور کرے گا۔ ستّر قصور نہیں کر سکتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ستر دفعہ معاف کرو۔ دراصل اس ستّرسے مراد کثرت ہے کیونکہ ستّر یا سات کے معنے عربی زبان میں کثرت کے ہوتے ہیں اسی طرح فرماتا ہے وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَاللّٰہُ لَکُمْ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۶۳؎
مؤمنوں کو چاہئے وہ عفو کریں، درگزر کی عادت ڈالیں اور اس کا فائدہ یہ بتایا کہ کیا تم نہیں چاہتے کہ خداتعالیٰ تمہارے گناہ بخشے، جب تم چاہتے ہو کہ خدا تمہارے گناہوں کو بخشے تو اے مؤمنو! تم بھی اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو، اگر تم اپنے بھائیوں کے گناہوں کو بخشو گے تو خدا تمہارے قصوروں کو معاف کرے گا۔
احسان
(۳) امن کو قائم کرنے کا ایک ذریعہ احسان ہے اسکے متعلق بھی قرآن کریم میں حُکم موجود ہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے وَالْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ
وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ ـ
کہ مؤمن وہ ہیں جو غصّے کو دباتے ہیں جو لوگوں کو معاف کرتے ہیں اور پھر ان پر احسان بھی کرتے ہیں، اسی طرح فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَائِ ذِی الْقُرْبٰی۶۴؎
کہ اللہ تعالیٰ عدل، احسان، ایتائے ذی الْقُرْبیٰ کا حکم دیتا ہے ان تینوں کی مثال میں مَیں ایک واقعہ بیان کر دیتا ہوںجو مَیں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبان سے سنا اور جسے بعد میں مَیں نے اور کتابوں میں بھی پڑھا ہے۔ وہ واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت امام حسنؓ نے اپنے ایک غلام کو کوئی برتن لانے کے لئے کہا۔ اتفاقاً وہ برتن اُس نے بے احتیاطی سے اُٹھایا اور وہ ٹوٹ گیا، وہ برتن کوئی اعلیٰ قسم کا تھا حضرت امام حسنؓ کو غصہ آیا۔ اس پر اُس غلام نے یہی آیت پڑھ دی اور کہنے لگا وَالکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ کہ مؤمنوں کو اللہ تعالیٰ کا حُکم ہے کہ وہ اپنے غصہ کو دبالیں۔ حضرت امام حسنؓ نے فرمایا کَظَمْتُ الْغَیْظَ کہ میں نے اپنے غصہ کو دبا لیا اس پر اُس نے آیت کا اگلہ حصہ پڑھ دیا اور کہنے لگا وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاس کہ مؤمنوں کو صرف یہی حُکم نہیں کہ وہ اپنے غصہ کو دبالیں بلکہ یہ بھی حُکم ہے کہ وہ دوسروں کو معاف کیا کریں۔ حضرت امام حسنؓ فرمانے لگے عَفَوْتُ عَنْکَ جائو میں نے تمہیں معاف کر دیا اس پر وہ کہنے لگا وَاللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ اس سے آگے یہ بھی حُکم ہے کہ مؤمن احسان کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی محبت محسنوں کو حاصل ہوتی ہے اس پرحضرت امام حسنؓ نے فرمایا جائو میں نے تمہیں آزاد کر دیا۔ گویا پہلے انہوں نے اپنے غصہ کو دبایا پھر اپنے دل سے اسے معاف کر دیا اور پھر احسان یہ کیا کہ اسے آزادکر دیا۔
دین کو دنیا پرمُقدّم رکھنا
(۴) چوتھی بات جس کا امن کے قیام کے ساتھ تعلق ہے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک انسان
کو یہ یقین نہ ہو کہ مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے اُس وقت تک وہ حقیقی قربانی نہیں کر سکتا، کیونکہ کچھ قربانیاں تو ایسی ہیں جن کا دنیا میں بدلہ مل جاتا ہے مگر بیسیوں قربانیاں ایسی ہیں جن کا دنیا میں کوئی بدلہ نہیں ملتا۔ پس حقیقی قربانی بغیر اُخروی زندگی پر یقین رکھنے کے نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کے بغیر انسان اپنی قربانی کو ضائع سمجھتا ہے اور چونکہ حقیقی قربانی کے بغیر امن نہیں ہو سکتا اس لئے جب تک اُخروی زندگی پر ایمان نہ ہو اُس وقت تک حقیقی امن دنیا کو نصیب نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ اس کے متعلق قرآن کریم میں توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی۶۵؎
کہ مؤمن تو دین کو دنیا پر مقدم کرتاہے مگر تم وہ ہو جو دنیا کو دین پر مقدم کر رہے ہو۔ اِنَّ ھٰذَا لَفِی الصُّحُفِ الْاُوْلٰی صُحُفِ اِبْرٰھِیْمَ وَ مُوْسٰی۶۶؎ پہلے نبیوں کو بھی یہی تعلیم دی گئی کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھو مگر ان کے اتباع نے اس تعلیم کو بھلا دیا او دنیا کا امن برباد ہو گیا غرض یہ آٹھوں باتیں جو امن کے قیام کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مسلمانوں میں پائی جاتی تھیں وہ قیامت پر ایمان رکھتے تھے وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے، وہ محسن تھے، وہ مغفرت سے کام لیتے تھے، وہ خیر خواہ تھے، وہ بدظنی سے بچتے تھے، وہ ظلم کا ارتکاب نہیں کرتے تھے، وہ لالچ سے محفوظ رہتے تھے اور وہ غصے کو اپنے اوپر غالب نہیں آنے دیتے تھے۔
امامت کے وجود کا ظہور
(۷) ساتویں بات یہ ہے کہ مساجد کے ذریعہ قیامِ امامت کو قوم کے سامنے رکھا جاتا ہے تاکہ یہ سبق بھولے نہیں اور
امامِ حقیقی کے وقت کام آئے، دوسرے سابقون کی نیکیاں قوم میں زندہ رکھنے کا خیال رہے۔ درحقیقت جس طرح مسجد، خانہ کعبہ کی یاد کو تازہ رکھتی ہے اس طرح امام نبوت کی یاد کو تازہ رکھتاہے۔ اب دیکھ لو اس امرکو بھی مسلمانوں نے تازہ کیا اور مقامِ ابراہیم کو مُصَلّٰی بنایا یعنی امامت کا وجود ظاہر کیا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر صحابہؓ نے خلافت کو قائم کیا اور امامت کو زندہ رکھا۔
پہلے حضرت ابوبکرؓ ، پھر حضرت عمرؓ ، پھر حضرت عثمانؓ اور پھر حضرت علیؓ مقامِ ابراہیم پر کھڑے رہے، گویا بِالکل مسجد کا نمونہ تھا جس طرح مسجد میں لوگ ایک شخص کو امام بنا لیتے ہیں اس طرح صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فوت ہوتے ہی ایک شخص کو اپنا امام بنا لیا۔ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا۔ گجرات کے ایک دوست نے سنایا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کی خبر پھیلی تو ایک مولوی کہنے لگا کہ جماعت احمدیہ انگریزی خوانوں کی جماعت ہے اسے دین کا کچھ پتہ نہیں اب فیصلہ ہو جائیگا کہ مرزا صاحب نبی تھے یا نہیں؟ کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے اور تم میں چونکہ انگریزی خوانوں کا غلبہ ہے وہ ضرور انجمن کے ہاتھ میں کام دیدیں گے اور اس طرح ثابت ہو جائے گا کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے۔ دوسرے ہی دن یہاں سے تار چلا گیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ ہو گئے ہیں یہ خبر جماعت کے دوستوں نے اس مولوی کو بھی جا کر سنا دی۔ وہ کہنے لگا مولوی نور الدین دین سے واقف تھا وہ چالاکی کر گیا ہے اس کے مرنے پر دیکھنا کہ کیا بنتا ہے۔ جب حضرت خلیفہ اوّل فوت ہوئے تو اُس وقت وہ ابھی زندہ تھا اور اُس وقت چونکہ یہ شور پیداہو چکا تھا کہ بعض لوگ کہتے ہیں اصل جانشین انجمن ہے اور بعض خلافت کے قائل ہیں اس لئے اُس نے سمجھاکہ اب تو جماعت ضرور ٹھوکر کھا جائے گی۔ چنانچہ اس نے کہنا شروع کر دیا کہ میری بات یاد رکھنا اب ضرور تم نے انجمن کو اپنا مُطاع تسلیم کر لینا ہے مگر معاً یہاں سے میری خلافت کی اطلاع چلی گئی۔ یہ خبر سن کر وہ مولوی کہنے لگا کہ تم لوگ بڑے چالاک ہو۔
خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے جو یہ فرمایا کہ ہر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے تو اس لئے کہ مسجد سے اس کی مشابہت ثابت ہو جس طرح مسجد بنائی ہی اسی لئے جاتی ہے تاکہ عبادت میں اتحاد قائم رہے اسی طرح نبیوں کی جماعت قائم ہی اسی لئے کی جاتی ہے تاکہ عبودیت میں اتحاد قائم رہے ۔ پس جس طرح مسجد خانۂ کعبہ کی یاد کو قائم رکھتی ہے اسی طرح خلافت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد کو قائم رکھتی ہے یہی وہ حکم ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دیا تھا کہ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی۔ ایک خانۂ خدا قائم کر دیا گیا ہے اب تم بھی ابراہیمی طریق پر زندگی بسر کرو اور اس کی رُوح کو زندہ رکھو۔
مقامِ ابراہیمی کو مصلّٰی بنانے کا مفہوم
مقامِ ابراہیم کو مصلّٰی بنانے کے یہ معنے نہیں کہ ہر شخص ان کے مصلّٰی پر جاکر کھڑا ہو یہ تو
قطعی طور پر ناممکن ہے اگر اس سے یہی مراد ہوتی کہ مقامِ ابراہیم پرنماز پڑھو تو اوّل تویہی جھگڑا رہتا کہ حضرت ابراہیم نے یہاں نمازپڑھی تھی یا وہاں اور اگر بِالفرض یہ پتہ یقینی طور پر بھی لگ جاتا کہ انہوںنے کہاں نماز پڑھی تھی تو بھی ساری دنیا کے مسلمان وہاں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔ صرف حج میں ایک لاکھ کے قریب حاجی شامل ہوتے ہیں، اگرحنفیوں کی طرح نماز میں مُرغ کی طرح ٹھونگیں ماری جائیں تب بھی ایک شخص کی نماز پر دو منٹ صرف ہونگے اس کے معنے یہ ہوئے کہ ایک گھنٹہ میں تیس اور چوبیس گھنٹے میں سات سَو بیس آدمی وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں اب بتائو کہ باقی جو ۹۹ ہزار ۲۸۰ رہ جائیں گے وہ کیا کریںگے اور باقی مُسلم دنیا کے لئے تو کوئی صورت ہی ناممکن ہوگی ۔ پس اگر اس حُکم کو ظاہر پر محمول کیا جائے تو اس پر عمل ہو ہی نہیں سکتا۔ پھر ایسی صورت میں فسادات کا بھی احتمال رہتا ہے بلکہ ایک دفعہ تو محض اس جھگڑے کی وجہ سے مکہ میں ایک قتل بھی ہو گیا تھا پس اس آیت کے یہ معنے نہیں بلکہ جیساکہ میں بتا چکا ہوں اس میں اللہ تعالیٰ نے امامت کی طرف اشارہ کیا ہے اور ہدایت دی ہے کہ تمہارا ایک امام ہو تاکہ اس طرح سنتِ ابراہیمی پوری ہوتی رہے، درحقیقت آیت اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ- وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی۶۷؎
میں دو امامتوں کا ذکر کیا گیا ہے پہلے فرمایا کہ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا میں تجھے امام یعنی نبی بنانے والا ہوں۔ اس پر حضرت ابراہیم نے عرض کیا وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ میری ذریت کو بھی نبی بنا، کیونکہ اگر مَیں مر گیا تو کام کس طرح چلے گا۔ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ بات غلط ہے، تمہاری اولاد میں سے تو بعض زمانوں میں ظالم ہی ظالم ہونے والے ہیں، یہ کس طرح ہو سکتاہے کہ ان ظالموں کے سپرد یہ کام کیا جائے۔ ہاں ہم تمہاری اولاد کو یہ حکم دیتے ہیں کہ سنّتِ ابراہیمی کو قائم رکھیں جو لوگ ایسا کریں گے ہم ان میں سے امام بناتے جائینگے۔ اس طرح ابراہیم ان میں زندہ رہے گا اور وہ خداتعالیٰ کے تازہ بتازہ انعامات سے حصہ لیتے چلے جائیں گے۔ پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو امامتوں کا ذکر کیا ہے، ایک امامتِ نبوت جو خدا تعالیٰ کی طرف سے براہِ راست ملتی ہے اور دوسری امامتِ خلافت جس میں بندوں کا بھی دخل ہوتاہے اور جس کی طرف وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرَاھِیْمَ مُصَلًّی میں اشارہ کیا گیا ہے یعنی اس میں کسب کا دخل ہے پس تم اس کے لئے کوشش کرتے رہو۔ غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو یہ ہدایت کی ہے کہ جب امامتِ نبوت نہ ہو تو امامت خلافت کو قائم کر لیا کرو، ورنہ اگر ظاہری معنے لئے جائیں تو اِس حُکم پر کوئی عمل نہیںکر سکتا۔
اسلام میں مہمان نوازی پر خاص زور
(۸) آٹھویں بات یہ ہے کہ مساجد مسافروں کے لئے بنائی جاتی ہیں یہ خوبی بھی
اسلام اور مسلمانوں میں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ کیونکہ شریعتِ اسلامی میں مسافروں کی مہمان نوازی کاشدید حُکم ہے خود قرآن کریم نے اِبْنُ السَّبِیْل کی خدمت کو خاص احکام میں شامل کیا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی احادیث میں مسلمانوں کومہمان نوازی کی بار بار تلقین کی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں اس حُکم پر اس طرح عمل کیا جاتا تھا کہ جو مسافر آتے وہ مسجد میں آکر ٹھہر جاتے اور روزانہ یہ اعلان کر دیا جاتا کہ آج مسجد میں اِس قدر مہمان ٹھہرے ہوئے ہیں جس جس کو توفیق ہو وہ انہیں اپنے گھروں میں لے جائے اور ان کی مہمانی کرے۔ ایک دفعہ ایسا ہی واقعہ پیش آیا مسجد میں ایک مہمان آگیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کی طرف دیکھ کر فرمایا کیا اس مہمان کو اپنے گھر لے جا سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا کہ بہت اچھا۔ چنانچہ وہ اسے لیکر گھر پہنچا اور بیوی سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے میرے سپرد آج ایک مہمان کیا ہے کیا گھر میںکچھ کھانے کے لئے موجود ہے؟ اس نے کہا کہ بس ایک آدمی کا کھانا ہے میری تو یہ خواہش تھی کہ آج میں اور تم دونوں فاقہ کرتے اور کھانا بچوں کو کھلا دیتے مگر اب چونکہ مہمان آگیا ہے اس لئے اب کھانا مہمان کو کھلا دیتے ہیں اور بچوں کو کسی طرح تھپکا کر مَیں سُلا دیتی ہوں۔ صحابی نے کہا یہ توہو جائے گا مگر ایک بڑی مشکل ہے ۔ بیوی نے پوچھا وہ کیا؟ خاوند کہنے لگا جب یہ کھانا کھانے بیٹھا تو اصرار کرے گا کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانا کھائیں پھرہم کیا کریں گے؟ (اُس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہیں ہؤا تھا) بیوی کہنے لگی کہ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی ہے اور وہ یہ کہ جب وہ کھانا کھانے بیٹھے تو میں اور تم دونوں اس کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اُس وقت تم مجھے کہنا کہ روشنی کم ہے فتیلہ ذرا اوپر کردو۔ اورمیں روشنی کو تیز کرنے کے بہانے سے اُٹھوںگی اور چراغ کو بُجھا دونگی تاکہ اندھیرا ہو جائے اور وہ دیکھ نہ سکے کہ ہم اس کے ساتھ کھانا کھا رہے ہیں یا نہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا۔ دستر خوان بِچھا تو خاوند کہنے لگا روشنی کچھ کم ہے ذرا اونچی کر دو۔ بیوی اُٹھی اور اُس نے چراغ کو بُجھا دیا ۔ جب اندھیرا ہو گیا تو خاوند کہنے لگا آگ سُلگائو اور چراغ روشن کرو۔ بیوی نے کہا آگ تو ہے نہیں، اُس نے کہا ہمسایہ سے مانگ لو اس نے کہا اِس وقت ہمسائے کو کون جاکر تکلیف دے بہتر ہے کہ اسی طرح کھا لیا جائے۔ مہمان بھی کہنے لگا اگر اندھیرا ہو گیا ہے تو کیا حرج ہے اسی طرح کھانا کھائیں گے۔ چنانچہ اندھیرے میں ہی میاں بیوی اس کے قریب بیٹھ گئے اورمہمان نے کھانا کھانا شروع کر دیا، خاوند اوربیوی دونوں نے چونکہ مشورہ کیا ہؤا تھا اس لئے مہمان توکھاتا رہااور وہ دونوں خالی منہ ہلاتے رہے اور یہ ظاہر کرتے رہے کہ گویا وہ بھی کھانا کھا رہے ہیں۔ خیر کھانا ختم ہؤا اور مہمان چلا گیا۔ اللہ تعالیٰ کو ان دونوں میاں بیوی کی یہ بات ایسی پسند آئے کہ رات کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دیدی۔ جب صبح ہوئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا لوگو! کچھ پتہ بھی ہے کہ رات کو کیا ہؤا؟ صحابہ ؓ نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ!ہمیں تو معلوم نہیں اس پر آپؐ نے یہ تمام واقعہ بیان کیا اور فرمایا کہ جب میاں بیوی دونوں اندھیرے میں بیٹھے خالی منہ ہلا رہے تھے تو اُس وقت اللہ تعالیٰ ان کی اس حرکت پر عرش پر ہنسا، پھر آپؐ نے ہنستے ہوئے فرمایا جب اس بات پر اللہ تعالیٰ ہنسا ہے تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیوں نہ ہنسے۔۶۸؎ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ صحابہ مہمان نوازی کو کس قدر اہم قرار دیتے تھے اور کس طرح مسجدوں کی طرح ان کے گھر کے دروازے مہمانوں کے لئے کھلے رہتے تھے۔ اسی طرح ایک واقعہ ہم نے بچپن میں اپنے کورس میں پڑھا تھا بعدمیں اس کا پڑھنا کسی بڑی کتاب میں یادنہیں۔ وہ اس طرح ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا جو بڑا ہی خبیث الفطرت تھا۔ رات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سونے کے لئے بستردیا، تو اُس نے دشمنی اور عداوت کی وجہ سے اس بستر میں پاخانہ پھر دیا اور علی الصبح اُٹھ کر چلا گیا مگر جاتے ہوئے وہ اپنی کوئی چیز بھول گیا۔ جب صبح ہوئی تو کسی خادمہ نے دیکھ لیا اور وہ غصہ میں آکر اُس یہودی کو گالیاں دینے لگ گئی۔ اتفاقاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بھی اُس کی آواز کو سن لیا اور جب دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ یہودی بستر میںپاخانہ پِھر کر چلا گیا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانی لائو میں خود دھو دیتا ہوں چنانچہ وہ پانی لائی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بستر کو صاف کرناشروع کر دیا۔ اسی دوران میں یہودی اپنی بُھولی ہوئی چیز لینے کے لئے آگیا۔ جب وہ قریب آیا تو اس نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود بسترکو دھو رہے ہیں اور اُس خادمہ سے کہہ رہے ہیں کہ چُپ چُپ گالیاں مت دو۔ اگر یہ بات پھیل گئی تو وہ شخص شرمندہ ہوگا۔ اس بات کا اس یہودی کے دل پر اتنا اثر ہؤاکہ اُسی وقت مسلمان ہو گیا۔ تو ضیافت میں مسلمانوں نے کمال کر دکھایا تھا اورمسلمانوں کے گھر مسجدیں بن گئے تھے جس طرح مسجد میں مہمان آگر ٹھہرتے ہیں اسی طرح ان کے دروازے ہر وقت مسلمانوں کیلئے کھلے رہتے ۔ اسی بناء پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر قصبہ پر تین دن کی ضیافت فرض ہے اور اگر کسی گائوں کے رہنے والے اس فرض کو ادا نہ کریں تو اُن سے تین دن تک زبردستی دعوت لینے کی اجازت ہے۶۹؎ بلکہ اس حکم کا مسلمانوں پر اتنا اثر تھا کہ ایک صوفی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ وہ کماتے نہیں تھے ایک دفعہ کسی دوسرے بزرگ نے انہیں نصیحت کی کہ یہ عادت ٹھیک نہیں۔ ساری دنیا کماتی ہے آپ کو بھی رزق کے لئے کچھ نہ کچھ جدوجہد کرنی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ مہمان اگر اپنی روٹی خود پکائے تو اس میں میزبان کی ہتک ہوتی ہے۔ میں خدا کا مہمان ہوں اگر خود کمانے کی کوشش کروں تو اس سے خدا ناراض ہوگا۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے آپ خدا کے مہمان ہوں گے مگر آپ کو معلوم ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہمانی صرف تین دن ہوتی ہے وہ کہنے لگے یہ تو مجھے معلوم ہے مگر میرے خدا کا ایک دن ہزار سال کے برابرہوتاہے جس دن تین ہزار سال ختم ہوجائیں گے اُس دن میں بھی اس کی مہمانی چھوڑ دونگا۔
ذکرِالٰہی اور دین کے لئے قربانی کرنے والوں کا ّجتھا
(۹) نویں بات یہ ہے کہ مساجد کا ایک فائدہ شہریوں
کے لئے ہوتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وَالْعٰکِفِیْنَ میں اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ دوسری جگہ قَائِمِیْنَ کا لفظ آتا ہے اور ان ہر دو کے مفہوم میں شہری ہی داخل ہیں اورشہریوں کو مسجد سے پہلا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ وہاں ہر قسم کے شور و شغب سے محفوظ ہو کر ذکرِالٰہی کرتے اور عبادتِ الٰہی بجالاتے ہیں اور یہی کام سب انبیاء کی جماعتیں کرتی ہیں ایک ّجتھا ذکرِ الٰہی کے لئے بن جاتا ہے اور وہ عبادت کے معاملہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہے جو اکیلے اکیلے انسان کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں میں بھی یہی طریق رائج تھا بعض بعض کو پڑھاتے تھے اور بعض دوسروں کو لوگوں کے ظلموں سے بچاتے تھے جیسے حضرت ابوبکرؓ نے بہت سے غلام آزاد کئے اگر وہ لوگ متفرق ہوتے تو یہ فائدہ نہ ہو سکتا ۔
قومی ترقی کیلئے اجتماعی کاموں کی تلقین
(ب) مساجد کا شہریوں کو دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اجتماعی عبادت کا کام دیتی
ہیں۔ یہ کام بھی انبیاء کی جماعت کا ہوتاہے اورمسلمانوں نے کِیا۔ مثلاً وہ چندے جمع کرکے غرباء کی خدمت کرتے، اکٹھے ہو کر جہاد کرتے، اسی طرح قوم کی ترقی کے لئے اقتصادی اور علمی کام سر انجام دیتے۔
امر باِلمعروف اور نہی عَنِ الْمُنکرکا فریضہ سر انجام دینے والا گروہ
(۱۰) دسواں کام مساجد کا یہ بتایا کہ
وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ یعنی مساجد میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے وقف ہوتے ہیں مسلمانوں نے یہ نمونہ بھی دکھایا چنانچہ قرآن کریم میں حکم ہے وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۷۰؎
کہ تم میں ایک ایسی امت ہونی چاہئے جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائے انہیں نیک باتوں کا حکم دے اور انہیں بُری باتوں سے روکے، یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ اس حکم کے مطابق مسلمانوں میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی تھی جن کا دن رات یہی کام تھا مثلاً حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت عبداللہ بن عمروؓ، حضرت ابوذر غفاریؓ، حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت ابوہریرہؓ اور حضرت انسؓ بن مالک وغیرہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں اس غرض کے لئے وقف کر دی تھیں اور ان لوگوں کا کام صبح و شام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے علمِ دین سیکھنا اور اسے لوگوں تک پہنچانا تھا۔ ان کے علاوہ وہ لوگ بھی تھے جو گو کچھ دُنیوی کام بھی کرتے تھے مگر اکثر وقت اسی کام میں لگے رہتے تھے ان میں حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ وغیرہ رضوان اللہ علیہم شامل تھے۔ ان لوگوں نے ایسے کٹھن اور صبر آزما حالات میں یہ کام کیا ہے کہ ان کی زندگی کے واقعات پڑھ کر رونا آتا ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ کی دین کیلئے فاقہ کشی
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی
کے آخری چھ سالوں میں داخلِ اسلام ہؤا تھا اور چونکہ اسلام پر کئی سال گزر چکے تھے اس لئے میں نے دل میں تہیہ کر لیا کہ اب میں ہر وقت مسجد میں بیٹھا رہوںگا تاکہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرمائیں میںفوراً سن لوں اور اُسے دوسرے لوگوں تک پہنچا دوں۔ چنانچہ انہوں نے مسجد میں ڈیرہ لگا لیا اور ہر وقت وہیں بیٹھے رہتے۔ ان کا بھائی انہیں کبھی کبھی کھانا بھجوا دیتا لیکن اکثر انہیں فاقے سے رہنا پڑتا۔ وہ خود بیان کرتے ہیں کہ بعض دفعہ کئی کئی دن کا فاقہ ہو جاتا اور شدتِ بھوک کی وجہ سے میں بے ہوش ہو جاتا۔ لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور وہ میرے سر میں جوتیاں مارنے لگ جاتے کیونکہ عرب میںاُن دنوں مرگی کا علاج یہ سمجھا جاتا تھا کہ آدمی کے سر پر جوتیاں ماری جائیں۔ غرض میں تو بھوک کے مارے بیہوش ہوتا اور وہ مجھے مرگی زدہ سمجھ کر میرے سر پر تڑاتڑ جوتے مارتے چلے جاتے۔ کہتے ہیں اسی طرح ایک دفعہ میں مسجد میں بھوکا بیٹھا تھا اور حیران تھا کہ اب کیا کروں مانگ میں نہیں سکتا تھا کیونکہ مانگتے ہوئے مجھے شرم آتی تھی اور حالت یہ تھی کہ کئی دن سے روٹی کا ایک ُلقمہ تک پیٹ میں نہیں گیا تھا۔ آخر مَیں مسجد کے دروازہ پرکھڑاہو گیا کہ شاید کوئی مسلمان گزرے اورمیری حالت کو دیکھ کر اسے خود ہی خیال آجائے اور وہ کھانا بھجوا دے۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ حضرت ابوبکرؓ چلے آرہے ہیں۔ میں نے اُن کے سامنے قرآن کریم کی ایک آیت پڑھ دی جس میں بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ذکرآتا ہے اور میں نے کہا کہ اس کے معنے کیا ہیں؟ حضرت ابوبکرؓ نے اُس آیت کی تفسیر بیان کی اور آگے چل پڑے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں مجھے بڑا غصہ آیا اور میں نے اپنے دل میں کہاکہ مجھے کیا تفسیر کم آتی ہے کہ یہ مجھے اس کی تفسیر بتانے لگے ہیں۔ خیر وہ گئے تو حضرت عمرؓ آگئے۔ میں نے اپنے دل میں کہا یہ بڑا زیرک انسان ہے یہ ضرور میرے مقصد کو سمجھ لے گا چنانچہ میں نے ان کے سامنے بھی قرآن کی وہی آیت پڑھ دی اورکہا کہ اس کے معنے کیا ہیں؟ انہوں نے بھی اُس آیت کی تفسیر کی اور آگے چل پڑے۔ مجھے پھر غصہ آیا کہ کیا عمرؓ مجھ سے زیادہ قرآن جانتے ہیں؟ میں نے تو اس لئے معنے پوچھے تھے کہ انہیں میری حالت کا احساس ہو مگر یہ ہیں کہ معنے کرکے آگے چل دیئے۔ جب حضرت عمرؓ بھی چلے گئے تو میں سخت حیران ہؤا کہ اب کیا کروں؟ اتنے میں میرے کانوں میں ایک نہایت ہی شیریں آواز آئی کہ ابوہریرہؓ کیا بھوک لگی ہے؟ میں نے مڑ کر دیکھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے، پھر آپ نے فرمایا، ادھر آئو ہمیں بھی آج فاقہ تھا مگر ابھی ایک مسلمان نے دودھ کا پیالہ تحفہ بھیجا ہے پھر آپ نے فرمایا مسجد میں نظر ڈالو، اگر کوئی اور شخص بھی بھوکا بیٹھا ہو تو اسے بھی اپنے ساتھ لے آئو۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں میں مسجد میں گیا تو ایک نہ دو بلکہ اکٹھے چھ آدمی میرے ساتھ نکل آئے۔ میں نے اپنے دل میںکہا کہ آج شامت آئی۔ دودھ کا پیالہ تو مجھ اکیلے کیلئے بھی بمشکل کفایت کرتا مگر اب تو کچھ بھی نہیں بچے گا۔ بھلا جہاں سات آدمی دودھ پینے والے ہوں وہاں کیا بچ سکتا ہے مگر خیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حُکم تھا میں ان کو اپنے ہمراہ لیکر کھڑکی کے پاس پہنچا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ دودھ کا پیالہ بجائے مجھے دینے کے اُن میں سے ایک کے ہاتھ میں دیدیا۔ میں نے کہا بس اب خیر نہیں، اس نے دودھ چھوڑنا نہیں اور میں بھوکا رہ جائوں گا۔ خیر اس نے کچھ دودھ پیا اور پھر چھوڑ دیا میں نے اپنے دل میں کہا کہ شکر ہے کچھ تو دودھ بچا ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دودھ دینے کی بجائے ایک دوسرے شخص کو پیالہ دیا کہ اب تم پیو۔ جب وہ بھی سیر ہو کر پی چکا تومیں نے کہا اب تو میری باری آئے گی اور میں اس بات کا منتظر تھا کہ اب پیالہ مجھے دیا جائیگا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پیالہ لے کر ایک اور شخص کو دیدیا اور میں نے سمجھا کہ بس اب خیر نہیں، اب تو دودھ کا بچنا بہت ہی مشکل ہے مگر اس کے پینے کے بعد بھی دودھ بچ رہا۔ اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور کو پیالہ دیدیا پھر اس کے بعد ایک اور کو دیدیا۔ اسی طرح چھ آدمی جو میرے ساتھ آئے تھے سب کو باری باری دیا اور آخر میں مجھے دیا اور فرمایا ابوہریرہ اب تم دودھ پیو۔
(میں ضمناً یہ ذکر کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ اس قسم کے معجزات کوئی خیالی باتیں نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء و صلحاء کو ایسے نشانات بھی دیتا ہے تاکہ ماننے والے اپنے یقین اور ایمان میں ترقی کریں مگر یہ نشانات صرف مؤمنوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں تاکہ ایمان میں غیب کا پہلو قائم رہے) غرض حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں میں نے پیالہ لیا اور دودھ پینا شروع کر دیا اور اس قدر پیا اس قدر پیا کہ میری طبیعت بالکل سیر ہو گئی اور میں نے پیالہ رکھدیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ! اور پیو میں نے پھر کچھ دودھ پیا اور پیالہ رکھدیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ابوہریرہ! اور پیو۔ میں نے اس پر پھر دودھ پینا شروع کر دیا یہاں تک کہ مجھے یوں محسوس ہؤا کہ دودھ کی تراوت میرے ناخنوں تک پہنچ گئی ہے، آخر میں نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! اب تو بالکل نہیں پیا جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور آپ نے پیالہ لے کر بقیہ دودھ خود پی لیا۔ ۷۱؎
غرض صحابہؓ کی قربانی کا یہ حال تھا کہ وہ بعض دفعہ فاقوں پر فاقے کرتے مگر مسجد میں بیٹھے رہتے تاکہ ایسا نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی بات فرمائیں اور وہ اسے سننے اور لوگوں تک پہنچانے سے محروم رہ جائیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ اُنہیں ہمیشہ فاقے آتے تھے کیونکہ مسلمان انہیں کھلاتے بھی رہتے تھے اور بعض صحابہ کے گھروں سے تو انہیں باری باری کھانا آتا تھا البتہ کبھی کبھی انہیں فاقہ بھی برداشت کرنا پڑتا تھا۔ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت ہر جمعرات یا جمعہ کو انہیں چقندر پکا کر بھیجتی تھی اس طرح کسی دن کوئی صحابی کھانا بھجوا دیتا اور کسی دن کوئی۔ جب وہ عورت فوت ہو گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم نہ ہؤا۔ چند دن کے بعد آپؐ نے دریافت فرمایا کہ فلاں عورت گئی دنوں سے دیکھی نہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یَارَسُوْلَاللّٰہ !وہ تو فوت ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں؟ وہ تو اصحاب الصفہ کو چقندر کھلایا کرتی تھی اگر تم مجھے بتاتے تو میں خود اس کا جنازہ پڑھاتا۔۷۲؎
غرض صحابہؓ نے وہ سب کام کرکے دکھائے جو مسجد سے مقصود ہوتے ہیں وہ عبادت کے محافظ تھے، وہ عابدوں کے جمع کرنے والے تھے، وہ شر سے بچانے والے تھے، وہ امن کو قائم کرنے والے تھے، وہ امامت کو زندہ رکھنے والے تھے وہ مسافروں کے لئے ملجائ، وہ متوطنوں کے لئے مأوٰی، وہ واقفینِ زندگی کے لئے جائے پناہ تھے۔ ان کے مقابل پر یہ شاہی مسجد اور مکہ مسجد اور جامع مسجد اور موتی مسجد بھلا کیا حقیقت رکھتی ہیں۔ اس روحانی مسجد نے ایک گھنٹہ میں جو ذکر ِالٰہی کا نمونہ دکھایا وہ ان مساجد میں صدیوں میں بھی ظاہر نہ ہؤا۔ مگر افسوس کہ لوگ ان پتھر اور اینٹ کی مسجدوں کو دیکھتے اور ان کے بنانے والوں کی ہمت پر واہ واہ کرتے ہیں، لیکن قرآن، حدیث اور تاریخ کے صفحات پر سے اُس عظیم الشان مسجد کو نہیں دیکھتے جس کا بنانے والا دنیا کا سب سے بڑا انجینئر محمد ؐنامی تھا (صلی اللہ علیہ وسلم) اور جس مسجد کی بناء سرخ و سفید پتھروں سے نہیں بلکہ مقدس سینوں میں لٹکے ہوئے پاکیزہ موتیوں سے تھی۔ یہی وہ مسجد ہے جس کو دیکھ کر ہر عقلمند اور شریف انسان جس کے اندر جذباتِ شکر اور احسان مندی پائے جاتے ہوں بے اختیار کہہ اُٹھتا ہے اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرٰھِیْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرٰھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرٰھِیْمَ وَ عَلٰی آلِ اِبْرٰھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ
(۵) مادی قلعے کے مقابلہ میں قرآنی قلعہ
ایک بات میں نے یہ بیان کی تھی کہ میں نے اس سفر میں کئی قلعے دیکھے چنانچہ گولکنڈہ کا قلعہ دیکھا، فتح پور سیکری کا قلعہ دیکھا، اسی طرح دہلی کے کئی قلعے دیکھے اور میں نے اپنے دل میں کہا کہ:-
(۱) ان قلعوں کے ذریعہ سے کیسے کیسے حفاظت کے سامان پیدا کئے گئے ہیں۔
(۲)اور پھر ساتھ ہی میں نے اپنے دل میں کہا کہ کس طرح یہ حفاظت کے سامان خود مٹ گئے ہیں اور ان کو بنانے والا اب کوئی نہیں کیونکہ ان حکومتوں کا نام لیوا کوئی نہیں رہا، بلکہ اب تو بہت سے قلعوں میں جانور آزادانہ پھرتے ہیں اور گوبر سے ان کے صحن اٹے ہوئے ہیں۔ بہت سے قلعوں میں گوجروں نے گھر بنا رکھے ہیں کیونکہ انہیں شہر کے باہر مکان چاہئیںاور یہ قلعے ان کے کام خوب آتے ہیں۔ کئی قلعے جو کسی حد تک محفوظ ہیں اب ان حکومتوں کے دشمنوں کے ہاتھوں میں ہیں جنھوں نے وہ قلعے بنائے تھے۔ ان بادشاہوں کی اولاد کو تو ان قلعوں میں جانے کی اجازت نہیں، لیکن ان کے دشمن ان میں اکڑتے پھرتے ہیں اور اپنی حکومت کے گھمنڈ میں ان کی گردنیں لقّا کبوتروں کی طرح اینٹھی ہوئی ہیں۔ دلّی کاقلعہ جس میں داخل ہوتے ہوئے ہندو راجے بھی سات سات دفعہ جُھک کر سلام کرتے تھے اب بقّالوں اور بنیوں کے قبضہ میں ہے اس سے پہلے سمندر پار کے انگریزوں کے قبضہ میں تھا اور اس کے بنانے والے مغل بادشاہوں کے کئی شاہزادے اس کے سامنے مشکیزوں سے پانی پلا کر پیسے کماتے ہیں اور بے چھنے آٹے کی روٹی سے اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتے ہیں ان میں اکڑ کر چلنے والے بادشاہوں کی روحیں آج اپنی اولادوں کی اس بیکسی کو دیکھ کر کس طرح بے تاب ہو رہی ہونگی۔
ان قلعوں کو بنانے والوں نے تو یہ قلعے اس لئے بنائے تھے کہ یہ ہماری حفاظت کریں گے مگر یہ قلعے بھی مٹ گئے اور ان کو بنانے والے بھی کوئی نہ رہے پس میں نے سوچا کہ ان قلعوں کو ان بادشاہوں نے کیوں بنایا تھا؟ اور پھر خود ہی میرے دل نے اس سوال کا یہ جواب دیا کہ ا س لئے کہ دشمن اُن کے ملک پر حملہ نہ کر سکے اور ان کی رعایا دشمنوں کے حملوں سے محفوظ رہے مگر میں نے دیکھا کہ باوجود ان قلعوں کے دشمن غالب آتا رہا اور ان قلعوں کی دیواروں کو توڑ کر اندر داخل ہوتا رہا۔ گولکنڈہ کا قلعہ بڑی اعلیٰ جگہ پر ہے آخر اورنگ زیب نے اسے فتح کر ہی لیا۔ اسی طرح دہلی اور آگرہ کے قلعے مغلوں نے بنائے اور انگریزوں نے ان کو توڑ دیا اور اب وہ ہندوؤں کے ہاتھ میں ہیں۔ پس میںنے سوچا کہ کیا کوئی ایسا قلعہ بھی ہے جسے عالَمِ روحانی میں قلعہ کا مقام دیا گیا ہو اور جو اِن شاندار قلعوں سے زیادہ مضبوط اور پائدار ہونے کا مدعی ہو۔
قلعے کیوں بنائے جاتے ہیں؟
مگر میں نے اس تلاش سے پہلے یہ غور کرنا ضروری سمجھا کہ قلعے کیوں بنائے جاتے ہیں اور میں اس نتیجہ
پر پہنچاکہ تین باتوں کے لئے۔
اوّل ۔قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ ملک کے لئے وہ نقطۂ مرکزی ہو جائیں اور فوج وہاں جمع ہو کر اپنے نظام کو مضبوط کر سکے اور اطمینان سے ملکی ضرورتوں کے متعلق غور کر سکے۔
دوم۔قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ غیر پسندیدہ عناصر اندر نہ آسکیں اور جس کو روکنا چاہیں اس قلعہ کی فصیلیں روک دیں اور اندر امن رہے۔
سوم۔ قلعے اس لئے بنائے جاتے ہیں تاکہ اردگرد کے علاقہ کی حفاظت کرکے امن قائم رکھیں چنانچہ قلعوں پر توپیں لگا دی جاتی ہیں یا پُرانے زمانہ میں منجنیقیں لگا دی جاتی تھیں اور ان سے صرف قلعہ ہی کی نہیں بلکہ اردگرد کے علاقہ کی بھی حفاظت ہوتی تھی مگر یہ سب تدبیریں یا تو ناقص ثابت ہوتیں یا پھر ایک وقت تک کام دیتی تھیں۔ اس کے بعد یہ قلعے صرف اپنے بنانے والوں کی یاد تازہ کرکے زائرین کے لئے لاچار آنسو بہانے کا موجب ہوتے تھے۔ ان قلعوں کو دیکھ کر کہ آیا ان عبرت پیدا کرنے والے قلعوں کے مقابلہ میں کوئی خدائی قلعہ بھی ہے جو ان اغراض کو بھی پورا کرتا ہو جن کے لئے یہ قلعے بنائے جاتے تھے اور پھر امتدادِ زمانہ سے پیدا ہونے والی بلائوں سے بھی محفوظ ہو؟ غور کرنے پر مجھے معلوم ہؤا کہ ایک روحانی قلعہ کا ذکر قرآن میں ہے جسے خداتعالیٰ نے انہی اغراض کے لئے بنایا جن کے لئے قلعے بنائے جاتے تھے اور اسے ایسا مضبوط بنایا کہ کوئی غنیم اسے فتح نہیں کر سکتا اور جو سب دوسرے قلعوں پر غالب آجاتا ہے اور قیامت تک اسی طرح کھڑا رہے گا جس طرح کہ وہ ابتداء میں تھا اور کبھی بھی کسی دشمن کے ہاتھ میں اس طرح نہیں آئے گا کہ اپنے بنانے والے کی غرض کو پورانہ کر سکے۔
بیت اللہ کی اہم اغراض
قرآن کریم میں اس قلعہ کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْناً وَ اتَّخِذُوْا
مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی وَ عَھِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰھِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِیْنَ وَالْعٰکِفِیْنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوْدِ oوَاِذْقَالَ اِبْرٰھِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَاُمَتِّعُہٗ قَلِیْلاً ثُمَّ اَضْطَرُّہٗٓ اِلٰی عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِیْرُ o۷۳؎
اُس وقت کو یاد کرو جب ہم نے بیت اللہ کو مَثَابَہ بنایا۔ مَثَابَہ کے معنے ہیںمجتمع الناس۷۴؎ یعنی لوگوں کے لئے جمع ہونے کا مقام۔ اسی طرح مَثَابَہ کے ایک معنی لغت میں کنویں کی منڈیر کے بھی آتے ہیں۔۷۵؎ گویا جس طرح قلعہ اس لئے بنایا جاتا ہے تاکہ فوج وہاں جمع ہو کر اپنے نظام کو مضبوط کر سکے اسی طرح خدا نے بیت اللہ کو لوگوںکے جمع ہونے کا مقام بنایا۔ اور جس طرح قلعہ کی یہ غرض ہوتی ہے کہ ناپسندیدہ عناصر اندر نہ آسکیں اسی طرح بیت اللہ کو خدا نے منڈیر بنایا تاکہ غیر پسندیدہ عناصر اس سے دُور رہیں۔ پھر قلعہ کی تیسری غرض اردگرد کے علاقہ کی حفاظت کرکے امن قائم رکھنا ہوتی ہے یہ غرض بھی بیت اللہ میں پائی جاتی ہے چنانچہ خدا تعالیٰ نے اَمْنًا کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ اسے قیامِ امن کے لئے بنایا گیا ہے گویا بیت اللہ نظام کے قیام کا مرکز بھی ہے غیر پسندیدہ عناصر کے دُور رکھنے کا ذریعہ بھی ہے اور دنیا کے امن کے قیام کا سبب بھی ہے۔
پھر میں نے اورغور کیا تو مجھے قرآن کریم میں ایک یہ آیت نظر آئی کہ جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَامًا لِّلنَّاسِ۷۶؎
کہ ہم نے کعبہ کو جو خداتعالیٰ کا بنایا ہؤا محفوظ گھر ہے قِیَامًا لِّلنَّاسِ بنایا ہے۔ قیام کے معنی نظام یا ستون کے ہوتے ہیں۷۷؎ اور ان تمام چیزوں کے لئے یہ لفظ بولا جاتا ہے جن کے ذریعہ سے کوئی چیز اپنی اصل حالت پر رہے اور قیام کے معنے خبرگیر اورنگران اور انتظام کرنے کے بھی ہوتے ہیں ۷۸؎ پس قِیَامًا لِّلنَّاسِ کے معنے ہوئے کہ کعبہ انسانوںکے نظام کو درست رکھنے کے لئے اور ان کی محبت کو قائم رکھنے کے لئے اور ان کی حالت کو درست اور ٹھیک رکھنے کے لئے اور ان کی خبرگیری اورنگرانی کے لئے بنایا گیا ہے۔ جب میں نے یہ آیت پڑھی تومیں نے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جو قلعہ کے مشابہ ہے کیونکہ اس کی غرض یہ بتائی گئی ہے کہ:-
(۱) لوگ اس میں جمع ہوں اور تمدنِ انسانی ترقی کرے ۔
(۲) وہ بنی نوع انسان کو بیرونی ناجائز دخل اندازی سے محفوظ رکھے۔
(۳) دنیا کے امن کا ذریعہ ہو اور اس کی توپوں سے اردگرد کے علاقوں کی بھی حفاظت کی جائے۔
(۴) اس کے ذریعہ سے انسانی تمدن کی چھت کو گرنے سے بچایا جائے۔
(۵) اس کے ذریعہ سے انسانی صحیح نظام کو درست رکھا جائے۔
(۶) اس کے ذریعہ سے انسان کی خبرگیری کی جائے اور مصیبتوں سے اسے بچایا جائے۔
اعلیٰ درجہ کے قلعوں کی گیارہ خصوصیات
پیشتراس کے کہ میں یہ دیکھتا کہ آیا یہ کام اس قلعہ کے پورے ہوئے ہیں یا نہیں
میں نے کہا آئو مَیں مقابلہ کروں کہ لوگ قلعے کِن جگہوں پر بناتے ہیں اورکِن امور کو اُن کے بنانے میں مدنظر رکھتے ہیں تاکہ میں فیصلہ کر سکوں کہ آیا یہ قلعہ ان امور کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے اور ظاہری سامانوں کے لحاظ سے قلعہ کی اغراض کو پورا کرنے کی قابلیت رکھتا ہے یا نہیں؟ جب میں نے سوچا اور دنیا کے مشہور قلعوں کی تاریخ پر غورکیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ اچھے قلعوں کی تعمیر میں مندرجۂ ذیل امور کا خیال رکھا جاتا ہے۔
(۱) قلعے ایسی جگہ بنائے جاتے ہیں جہاں پانی کا بافراغت انتظام ہو تاکہ اگر کبھی محاصرہ ہو جائے تو لوگ پیاسے نہ مر جائیں۔
(۲) دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ جہاں نہر، دریا یا سمندر ہو وہیں قلعے بنائے جاتے ہیں چنانچہ فتح پور سیکری کا قلعہ موسٰی ندی کے پاس ہے۔ اسی طرح دلّی کا قلعہ جمنا کے کنارے واقعہ ہے پس قلعے بِالعموم یا تو سمندر کے کنارے بنائے جاتے ہیں یا دریائوں اور نہروں کے پاس بنائے جاتے ہیں۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک تو نہانے دھونے کی ضرورت باآسانی پوری ہوسکتی ہے۔ دوسرے جانوروں کے لئے بھی بافراغت پانی میسّر آسکتاہے۔ تیسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی صورت میں محاصرہ مکمل نہیں ہو سکتا کیونکہ کشتیوں کے ذریعہ انسان باہر نکل سکتا ہے اسی طرح رسد وغیرہ قلعہ والوں کو دریا کے رستے پہنچ سکتی ہے۔ پھر اس ذریعہ سے آگ بُجھائی جاسکتی ہے۔ خندقیں پُر کی جاسکتی ہیں اور ذرائع رُسل و رسائل کھلے رہ سکتے ہیں۔
(۳) تیسری بات میں نے یہ دیکھی کہ لوگ قلعہ بناتے وقت اس امر کا خیال رکھتے ہیں کہ علاقہ ایسا ہو کہ اُس میں خوراک کے ذخائر کافی ہوں اور کافی مقدار میں غلّہ پیدا ہو سکے تامحصور ہونے کی صورت میں فوج خوراک کے ذخائر جمع کر سکے۔
(۴) چوتھے قلعہ بِالعموم ایسی جگہ بنایا جاتا ہے جس کے اردگرد یا جس کے پاس جنگل ہوں جہاں سے ایندھن کافی جمع ہو سکے اور دشمن پر حملہ کرنے میں سہولت ہو چنانچہ گوریلہ وار یا جنگِ چپاول جنگلوں میں بڑی آسانی سے کی جاسکتی ہے اسی لئے عام طور پر قلعے جنگلوں کے قریب بنائے جاتے ہیں تاکہ تھوڑی فوج بھی بڑے غنیموں کو دِق کر سکے۔
(۵) پانچویں اگر پہاڑی علاقہ ہو تو قلعہ ہمیشہ اونچی جگہ پر بنایا جاتا ہے تاکہ سب طرف نگاہ پڑ سکے اور دشمن تو حملہ نہ کر سکے مگر خود آسانی سے حملہ کیا جاسکے۔
(۶) چھٹے قلعہ کی تعمیر نہایت اعلیٰ درجہ کے چونہ اور پتھروں سے کی جاتی ہے تاکہ اگر دشمن اس پر گولے برسائے یا کسی اور طرح حملہ کرے تو اس کی دیواروں کو ضُعف نہ پہنچے۔
(۷) ساتویں قلعہ کی تعمیر اس طرح کی جاتی ہے کہ وہ شہر کی حفاظت کر سکے اور اس کی فصیلیں شہر کے گِرد پھیلتی جائیں۔
(۸) آٹھویں اس کی طرف آنے والے راستے ایسے رکھے جاتے ہیں جن کو ضرورت پر آسانی سے بند کیا جاسکتا ہو مثلاً تنگ وادیوں میں سے راستے گزریں تاکہ چند آدمی ہی دشمن کو قلعہ سے دُور رکھ سکیں۔
(۹) نویں قلعوں میں یہ احتیاط کی جاتی ہے کہ اس کے گِرداگِرد کو خوب مضبوط کیا جائے او ر جنگی چوکیوں کے ذریعہ سے اس کی حفاظت کی جائے۔
(۱۰) دسویں قلعہ کے اندر رہنے والوں کو بہادر اورجنگجو بنایا جاتا ہے تاکہ وہ دشمن سے خوب لڑ سکیں۔
(۱۱) گیارھویں اس میں حملہ کرنے ، توپوں سے بم پھینکنے یا منجنیقوں سے پتھرائو کرنے کے لئے باہر کی طرف سوراخ ہوتے ہیں اور ا س میں باہر کی طرف توپیں یا منجنیقیںرکھی ہوئی ہوتی ہیں۔
یہ وہ گیارہ خصوصیتیں ہیں جو عام طور پر قلعوں کی تعمیر میں بڑے بڑے انجینئرمدنظر رکھا کرتے ہیں۔
یہ روحانی قلعہ ایسی جگہ پر بنایا گیا جہاں پانی کم یاب تھا
اب میں نے کہا آئو!یہ قلعہ جو قرآن نے پیش کیا
ہے اس پر غور کرکے دیکھیں کہ یہ باتیں اس میں پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ اور میں نے ایک ایک کرکے ان امور کی اس روحانی اصول پر تیار شُدہ قلعہ کے متعلق پڑتال کی اور میری حیرت کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ :-
(۱) اس قلعہ کے لئے پانی کا کوئی انتظام نہ تھا صرف ایک چشمہ اس کے قریب تھا اور وہ بھی کھاری اور پھر اس کا پانی بھی اتنا کم تھا کہ لوگوں کی ضروریات کے لئے کسی صورت میں کافی نہیں تھا۔ ملکہ زبیدہ نے بعد میں وہاں ایک نہر بنوا دی تھی جسے نہرِ زبیدہ کہتے ہیں مگر وہ نہر ایسی ہی ہے جیسے کوئی نالا ہوتا ہے۔ غرباء عام طور پر زمزم کا پانی استعمال کرتے ہیں اور باقی لوگ بارش ہوتی ہے تو تالابوں میں پانی جمع کر لیتے ہیں اور اسے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ غرض وہاں پانی کی اتنی کمی ہے کہ دنیا کا کوئی سمجھ دار انجینئر وہاں قلعہ نہیں بنا سکتا تھا۔
یہ روحانی قلعہ دریا اور سمندر سے دُور بنایا گیا
(۲) دوسری بات میں نے یہ دیکھی کہ آیا وہ کسی نہر یا دریایا سمندر کے
کنارے واقع ہے تومجھے معلوم ہؤا کہ نہ وہاں کوئی دریا ہے نہ سمندر، گویا اس بارہ میں بھی خانہ خالی تھا اور نہر یا دریا کا نام و نشان منزلوں تک نہ تھا۔ وہ جسے لوگ نہر زبیدہ کہتے ہیں وہ صرف نالی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں۔ رہی بندرگاہ سو وہ سَو ڈیڑھ سَو میل دور تھی اور اب نئی بندرگاہ جدّہ بھی پچاس میل کے قریب دُور ہے گویا سمندر بھی دُور ہے اور اندر بھی کوئی نہر نہیں کہ لوگ کثرت سے فوجی ضروریات کے لئے اونٹ اور گھوڑے وغیرہ رکھ سکیں بندرگاہ بے شک موجود تھی مگر اول تو وہ اتنی دور تھی کہ اس سے کوئی فائدہ اُٹھایا نہیں جاسکتا تھا۔ دوسرے اگر ممکن بھی ہوتا تو وہاں کے باشندوں کی یہ حالت تھی کہ ان کا سمندر کے نام سے دَم نکلتا تھا۔
یہ روحانی قلعہ ایک بنجر علاقہ میں بنایا گیا
(۳) تیسری بات یہ دیکھی جاتی ہے کہ علاقہ زرخیز ہو تاکہ خور و نوش کا سامان
پیدا کیا جاسکے اور بوقتِ ضرورت جمع کیا جاسکے۔ مگر میں نے دیکھا کہ اِس قلعہ کو جو بنانے والا ہے وہ خود کہتا ہے کہ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ ۷۹؎ یہ وادی غَیْرِذِیْ زَرْعٍ ہے اور اس میں ایک دانہ تک پیدا نہیں ہوتا نہ گیہوں، نہ باجرا، نہ گندم، نہ چنا۔ بلکہ ایک شخص نے وہاں باغ لگانا چاہا تو اس کے لئے وہ دوسرے ملکوں سے مٹی منگواتا رہا اور آخر بڑی مشکل سے اس نے چند درخت لگائے اور وہی چند درخت اب باغ کہلاتے ہیں۔ میں نے خود اس قلعہ کو جاکر دیکھا ہے قریب سے قریب سبزی طائف میںہے اور طائف وہاں سے تین منزل کے فاصلہ پر ہے۔ باقی چاروں طرف بے آب و گیاہ جنگل کے سِوا کچھ نہیں، نہ غلّہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ اسے جمع کرنے کے کوئی سامان ہیں۔
اس قلعہ کے اِردگِرد کوئی جنگل نہیںتھا
(۴) چوتھے یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ گِرد وپیش جنگل ہو تاکہ ایندھن مل سکے اور دشمن
پر حملہ میں آسانی ہو مگر میں نے اس قلعہ کو دیکھا کہ ِمیلوں ِمیل تک اس کے پاس جنگل چھوڑ درخت تک بھی کوئی نہیں۔
یہ روحانی قلعہ اونچے مقام کی بجائے نشیب مقام میںبنایا گیا
(۵) پانچویں اگر پہاڑی پاس ہو تو
قلعہ اونچی جگہ پر بنایا جاتاہے مگر یہ قلعہ ایسا ہے کہ اس کے پاس ’’حِرائ‘‘ اور ’’ثَور‘‘ دو پہاڑیاں ہیں، لیکن یہ قلعہ نشیب میں بنایا گیا ہے اور اس طرح دشمن پہاڑوں پر قبضہ کرکے اسے شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اس قلعہ کی تعمیرمیں معمولی گارا اور پتھر استعمال کئے گئے
(۶) چھٹے یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ قلعہ کی تعمیر
عمدہ مصالحہ سے ہو مگر اس قلعہ کی تعمیر نہایت معمولی مصالحہ اور گارے وغیرہ سے ہے۔
اس قلعہ کے اِردگرد کوئی فصیل نہیں
(۷) ساتویں یہ امر مدنظر رکھا جاتا ہے کہ قلعہ کی تعمیر اس طرح ہو کہ شہر کی حفاظت ہو سکے اور
فصیلیں دُور تک پھیلی ہوئی ہوں مگر یہ عجیب قلعہ ہے کہ شہر اِردگِرد ہے اور قلعہ شہر کے بیچوں بیچ ہے اور فصیل کا نام و نشان نہیں جس کی وجہ سے شہر کی حفاظت میں وہ کوئی مدد نہیں دے سکتا۔
اس قلعہ کے چاروں طرف کُھلے راستے پائے جاتے ہیں
(۸) آٹھویں بات یہ مدنظر رکھی جاتی ہے کہ
اس کی طرف آنیوالے راستے ایسے ہوں کہ حسبِ ضرورت بند کئے جاسکیں مثلاً تنگ وادیوں میں سے گزریں مگر اس قلعہ کے راستے نہایت کھلے اور بے روک ہیں۔ قرآن کریم خود فرماتاہے عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّأْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۸۰؎
کہ اس قلعہ کی طرف لوگ دوڑے چلے آتے ہیں اور انہیں آنے میں کسی قسم کی روک نہیں۔ کھلے راستے اور وہ بھی ناہموار اس کے چاروں طرف موجود ہیں۔
اس قلعہ کے گِرد کوئی جنگی چوکیاں نہیں
(۹) نویں بات یہ ہے کہ قلعہ کے گِرد ا گِرد کو جنگی چوکیوں سے محفوظ کیا جاتا ہے
تاکہ قلعہ سے دور دشمن کے حملہ کو روکا جا سکے مگر یہ قلعہ عجیب ہے کہ اس کے گِرد کئی کئی میل کے دائرہ میں اسلحہ لیکر پھرنے سے روکدیا گیا ہے اور حُکم دیدیا گیا ہے کہ کوئی شخص اس کے اِردگِرد چار چار پانچ پانچ میل تک کوئی ہتھیار لیکر نہ چلے۔
اس قلعہ میں رہنے والوں کو شکار تک کی ممانعت
(۱۰) دسویں قلعہ کے اندر رہنے والوں کو جنگجو بنایا جاتا ہے مگر اس
کے اندر رہنے والوں کو حُکم ہے کہ کوئی شکار نہ ماریں سوائے سانپ، بچھو، چیل اور چوہے کے جن کا مارنا ضرورتاً ہوتا ہے نہ کہ جنگجوئی پیدا کرنے کے لئے۔
دشمن کے حملہ کو روکنے کیلئے توپوں اورمنجنیقوںکی
بجائے نمازوں اور دعائوں سے کام لینے کا ارشاد
(۱۱) گیارھویں بات میں نے یہ بتائی تھی کہ قلعہ کے اندر حملہ کو روکنے کے لئے باہرکی طرف منہ کرکے منجنیقیں
یا توپیں رکھی ہوتی ہیں مگر اس قلعہ میں مَثَابَہ اور امن کا ذریعہ یہ بتایا ہے کہ فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھِیْمَ مُصَلًّی یعنی جب دشمن حملہ کرے تو مَثَابَہ اور امن کے قیام کے لئے دشمن کی طرف پیٹھ کرکے اورکعبہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جائو۔ غرض قلعوں کو مضبوط بنانے یا دیر تک محاصروں کی برداشت کرسکنے کے لئے جس قدر سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے نہ صرف یہ کہ اس میں پائے نہیں جاتے بلکہ اکثر امور میں ان کے برعکس حالات پائے جاتے ہیں جو قلعوں کو اُجاڑنے کا موجب ہوتے ہیں مثلاً بے پانی، بے غذا، نہروں سے دُور، جنگلوں سے پَرے، فصیلوں اور چوکیوں کے بغیر کوئی قلعہ قلعہ نہیں کہلا سکتا مگر یہ قلعہ ایسا تھا کہ اس میں مجھے ان سامانوں میں سے کوئی سامان بھی دکھائی نہ دیا۔ حتّٰی کہ اس قلعہ کے اِردگِرد اسلحہ لے کر پھرنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔
یہ قلعہ کب بنایا گیا؟
اب میں نے سوچا کہ یہ قلعہ ہے کب کا؟ تومجھے معلوم ہؤا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے کیونکہ خود حضرت کو
الہام ہؤا کہ وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ۸۱؎ اس پُرانے گھر کا لوگ آکر طواف کیا کریں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قلعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے بھی پہلے کا ہے اسی طرح آتا ہے اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکاً وَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ فِیْہِ اٰیَاتٌ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا۸۲؎
سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے فائدہ اور ان کی حفاظت کے لئے بنایا گیا تھا وہ ہے جو مکہ میں ہے اس میں ہر قسم کی برکتیں جمع کر دی گئی ہیں اور تمام جہانوں کے لوگوں کے لئے اس میں ہدایت کے سامان اکٹھے کر دیئے گئے ہیں اس کے ساتھ بڑے بڑے اور روزِروشن کی طرح واضح نشان وابستہ کر دیئے گئے ہیں وہ آخری دَور میں ابراہیم کا مقام بنایا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ جو اِس میں داخل ہو اُسے امن دیا جائے گا۔
حدیث میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہاجرہؓ اور اسماعیلؓ کو مکہ کے مقام پر چھوڑ کر واپس لَوٹے تو حضرت ہاجرہ کو شک گزرا کہ ہمیں چھوڑ چلے ہیں اور وہ ان کے پیچھے پیچھے چلیں اور اس بارہ میں ان سے سوالات کرنے شروع کر دیئے۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام خاموش رہے اور رقّت کے غلبہ کی وجہ سے اُن کے منہ سے کوئی بات نہ نکل سکی۔ آخر حضرت ہاجرہ نے کہا یَااِبْرَاھِیْمُ! اَیْنَ تَذْھَبُ وَ تَتْرُکُنَا فِیْ ھٰذَا الْوَادِی الَّذِیْ لَیْسَ فِیْہِ اَنِیْسٌ وَلَاشَیٌ۔ اے ابراہیم! آپ کہاں جا رہے ہیں اور ہم کو ایک ایسی وادی میں چھوڑ رہے ہیں جس میں نہ آدمی ہے اور نہ کھانے کی کوئی چیز۔ فَقَاَلَتْ لَہٗ ذٰلِکَ مِرَارًا وَّ جَعَلَ لَا یَلْتَفِتُ اِلَیْھَا حضرت ہاجرہ نے یہ بات بار بار دُہرائی مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام صدمہ کی وجہ سے اس کا جواب نہیں دیتے تھے۔ جب حضرت ہاجرہ نے دیکھا کہ یہ کسی طرح بولتے ہی نہیں تو انہوں نے کہا اَاَللّٰہُ اَمَرَکَ بِھٰذَا؟ اچھا اتنا تو بتا دو کہ کیا خدا نے آپ کو اس بات کا حکم دیا ہے؟ قَالَ نَعَمْ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ ہاں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ جواب حضرت ہاجرہؓ نے سُنا تو باوجود اس بات کے جاننے کے کہ یہاں پانی نہیں، یہاں کھانے کے لئے کوئی چیز نہیں اور یہاں کوئی آدمی نہیں جو ضرورت کے وقت مدد دے سکے، انہوں نے نہایت دلیری سے کہا اِذًا لَّایُضَیِّّعُنَا اگر یہ بات ہے تو پھر خدا ہمیں ضائع نہیں کرے گا آپ بے شک جائیے ثُمَّ رَجَعَتْ اس کے بعد حضرت ہاجرہ واپس لَوٹ آئیں فَانْطَلَقَ اِبْرَاہِیْمُ اور حضرت ابراہیم واپس چلے گئے حَتّٰی اِذَا کَانَ عِنْدَ الثَّنِیَّۃِ حَیْثُ لَا یَرَوْنَہٗ اِسْتَقْبَلَ بِوَجْہِ الْبَیْتِ یہاں تک کہ جب موڑ پر پہنچے جہاں سے ان کی بیوی اور بچہ انہیں دیکھ نہ سکتے تھے تو ان کے جذبات قابو سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے اپنا منہ خانہ کعبہ کی طرف کر دیا اور ہاتھ اُٹھا کر یہ دُعا کی: رَبَّنَا اِنّیْ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ۸۳؎ اے میرے رب! میں اپنی اولاد کو تیرے مقدس گھر کے قریب اس وادی میں چھوڑ کر جا رہا ہوں جس میں کوئی کھیتی نہیں جس میں کوئی چشمہ نہیں، محض اس لئے کہ وہ تیری عبادت کریں۔ پس تو ہی ان کی حفاظت فرما اور ان کو شرور اور مفاسد سے محفوظ رکھ اس سے معلوم ہؤا کہ یہ قلعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بعثت سے بھی پہلے تعمیر ہو چکا تھا۔
سرولیم میور کی شہادت
تاریخ بھی اس کے نہایت قدیم ہونے کی شہادت دیتی ہے چنانچہ سرولیم میور لائف آف محمدؐ میں لکھتے ہیں کہ مکہ کے مذہب
کے بڑے اصولوں کو ایک نہایت ہی قدیم زمانہ کی طرف منسوب کرنا پڑتا ہے گو ہیروڈوٹس۸۴؎ نے نام لیکر کعبہ کا ذکر نہیں کیا مگر وہ عربوں کے بڑے دیوتائوں میں سے ایک دیوتا اِلالات کا ذکر کرتا ہے اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ مکہ کا یہ بڑا بُت اس قدیم زمانہ میں بھی پوجا جاتا تھا۸۵؎ یہ ہیروڈوٹس ایک یونانی مؤرخ تھا جو ۴۸۴ قبل مسیح سے ۴۲۵ قبل مسیح تک ہؤا، گویا حضرت مسیح کے صلیب کے واقعہ سے مدتوں پہلے لاتؔ کی شُہرت وغیرہ دُور تک پھیلی ہوئی تھی پھر لکھا ہے کہ ڈایوڈورس سکولس مؤرخ جو مسیحی سنہ سے پچاس سال پہلے گزرا ہے وہ بھی لکھتا ہے کہ عرب کا وہ حصہ جو بحرۂ احمر کے کنارے پر ہے اس میں ایک معبد ہے جس کی عرب بڑی عزت کرتے ہیں۸۶؎ پھر لکھتا ہے قدیم تاریخوں سے پتہ نہیں چلتاکہ یہ بنا کب ہے یعنی ایسے قدیم زمانہ کا ہے کہ اس کے وجود کا تو ذکر آتا ہے مگر اس کی بناء کا پتہ نہیں چلتا۔
پھرلکھتاہے کہ بعض تاریخوں سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ نے اسے دوبارہ بنایا تھا اور کچھ عرصہ تک ان کے پاس رہا اورتورات سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں تباہ ہوئے گویا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے بھی پہلے عمالقہ اس پر قابض رہ چکے ہیں اور وہ اس کے بانی نہ تھے یہ گھر ان سے بھی پہلے کا ہے انہوں نے اس کے تقدس پر ایمان لاتے ہوئے اسے دوبارہ تعمیر کیا تھا خروج باب ۱۲ آیت۸،۱۶ اور گنتی باب۲۴ آیت۲۰ سے پتہ چلتا ہے کہ عمالقہ کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تباہ کیا تھا۔ پس ان سب باتوں سے پتہ لگتا ہے کہ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پہلے کا ہے کیونکہ عمالقہ نے اس کو دوبارہ تعمیر کیا تھا اور حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت موسیٰ علیہما السلام میں اڑھائی سَو سال سے چار سَو سال کا فاصلہ ہے۔ اگر عمالقہ کی سَو ڈیڑھ سَو سال کی حکومت بھی فرض کر لی جائے تو بھی اُن کا اسے دوبارہ تعمیر کرنا کئی سَو سال پہلے کے عرصہ پر دلالت کرتا ہے اور اس وقت بھی اس کی تعمیر ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس کی مرمت ثابت ہوتی ہے۔
اب میں نے سوچا کہ اس قدر قدیم قلعہ جس کی سارا مُلکِ عرب عزت کرتا تھا اگر اس طرح تمام معلومہ اصول کے خلاف تیار ہؤا تھا تو اسے یقینا تباہ ہو جانا چاہئے تھا اور اگر وہ تباہ نہیں ہؤا تو پھر یقینا وہ ایسی عجیب قسم کا قلعہ ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی کہ بغیر ظاہری سامانوں کے وہ قائم ہے اور اپنا کام کر رہا ہے۔
قدیم اقوام کے متواتر حملوں میںاس روحانی قلعہ کی سلامتی
تب میں نے غور کیا کہ کیا انعلاقوں
کی طرف جہاں یہ قلعہ تھا قدیم زبردست اقوام نے حملے کئے تھے؟ اور میں نے دیکھا کہ سب سے پہلے نینوا والوں نے ایشیائے کوچک سے نکل کر اِدھر حملہ کیا اور شام اور فلسطین کو پامال کرتے ہوئے مصر کی طرف نکل گئے۔ وہ نینوا سے چلتے ہیں اور جنوب مغرب کی طرف آتے ہیں مگر جس وقت اس قلعہ کی سرحد پر پہنچتے ہیں توآگے بڑھنے کی جرأت نہیں کرتے اُس وقت میںنے سمجھا کہ اس قلعہ کے لئے ضرور کوئی ایسے مخفی سامانِ حفاظت تھے کہ جن کی وجہ سے وہ ادھررُخ نہ کر سکے اور وہ مرعوب ہو گئے۔
بابلیوں کی چڑھائی
تب میں نے سوچا کہ کیا اس کے بعد بھی کوئی دشمن اُٹھا ہے یا نہیں اور میں نے دیکھا کہ ان کے بعد بابلیوں نے انہی علاقوں پر چڑھائی کی۔
وہ عراق کی طرف سے بڑھے اور انہوں نے شام فتح ،کیا مصر فتح کیا، مگر وہ بھی اسی راہ پر نکل گئے اور اس قلعہ کی طرف انہوں نے رُخ نہ کیا۔
کیانیوں کی فتوحات
پھر میں نے دیکھا کہ کیانیوں نے ایران سے نکل کر عراق فتح کیا ، ایشیائے کوچک فتح کیا، شام فتح کیا، فلسطین، مصر، یونان، رومانیہ
اور اوکرین کو مغرب کی طرف فتح کیا اور بلخ، بخارا، سمرقند، افغانستان، بلوچستان اور پنجاب کو مشرق میں فتح کیا، لیکن اس قلعہ کو درمیان سے وہ بھی چھوڑ گئے۔
سکندر رومی کی یلغار
پھرمَیں نے سکندر رومی کو بڑھتے ہوئے دیکھا وہ بجلی کی طرح کوندا اور یورپ سے نکل کر ایشیائے کوچک وغیرہ کے علاقوں کو فتح کرتے
ہوئے ہندوستان تک بڑھ آیا، لیکن اس قلعہ کو وہ بھی درمیان میں چھوڑ گیا۔
رومی حکومت کا مشرق پر اقتدار
پھر میں نے رومی حکومت کو مشرق کی طرف آتے ہوئے دیکھا اُس نے مصر فتح کیا، طرابلس فتح کیا،
ایبے سینیا جو مکہ کے مقابل پر ہے اسے فتح کیا، شام اور فلسطین کو فتح کیا، شمالی عرب سے بعض علاقوں کو فتح کیا اور آخر عراق تک فتح کرتے ہوئے نکل گئے، لیکن درمیان میں اس قلعہ کی طرف انہوں نے بھی رُخ نہ کیا۔
ابرہہ کا بیت اللہ پر حملہ
جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے کہا یہ قلعہ واقعہ میں زمانہ کے عجائبات میں سے ہے کہ مشرق سے آندھی اُٹھتی ہے تو وہ اسے
چھوڑ جاتی ہے اورمغرب سے طوفان اٹھتا ہے تو اسے چھوڑ جاتا ہے مگر میں نے کہا کہ ابھی ایک سوال حل طلب ہے اور وہ یہ کہ ممکن ہے اس قلعہ کے جائے وقوع کے لحاظ سے فاتحین کو خیال بھی نہ آیا ہو کہ وہ اسے فتح کریں کیونکہ وہ اس میں کوئی فائدہ نہ دیکھتے تھے۔ اس خیال کے آنے پر میں نے تاریخ پر نگاہ ڈالی اورمیںنے دیکھا کہ چھٹی صدی مسیحی میں ایبے سینیا کی حکومت بہت طاقتور ہو گئی تھی اور اُس نے عرب کے بعض علاقوں کو فتح کر لیا تھا اُس کی طرف سے ابرہہ نامی ایک شخص یمن میں گورنر مقرر ہؤا اور اس نے عرب میں مسیحیت کی اشاعت کے لئے کوشش شروع کی اوریمن کے دارالحکومت صنعاء میں اس نے ایک بہت بڑا گِرجا بنایا اور خوف اور لالچ سے لوگوں کو اس گِرجا کی طرف مائل کرنا شروع کر دیا، مگر جب کچھ عرصہ کی کوششوں کے بعد اُس نے اپنے ارادہ میں ناکامی دیکھی اور اسے محسوس ہؤا کہ عرب اس کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں تو اس نے اپنے درباریوں کو بلایا اور ان سے مشورہ کیا کہ کیوں میری کوششیں کامیاب نہیںہوتیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ مکہ میں ایک گھر ہے، عرب کے لوگ اسے چھوڑ نہیں سکتے۔ جب تک وہ گھر موجود ہے صنعاء کا گِرجا آباد نہیں ہوگا۔ پس اگر صنعاء کو آباد کرنا چاہتے ہو تو اُسے جاکر گرا دو۔ چنانچہ ابرہہ نے ۵۶۹ء میں ایک بہت بڑی فوج اور ہاتھی ساتھ لے کر مکہ کا رُخ کیا عرب قبائل نے مقابلہ کیا مگر ایک کے بعد دوسرا شکست کھاتا چلا گیا اور وہ مکہ سے تین دن کے فاصلہ پر مشرق کی طرف طائف تک جا پہنچا اور طائف کے لوگوں سے کہا کہ مکہ تک پہنچنے میں میری مدد کرو۔ طائف والے جو مکہ پر اس لئے حسد کرتے تھے کہ ان کے بُت کی خانہ کعبہ کے آگے کچھ نہ چلتی تھی انہوں نے انعامات کے لالچ اور مکہ والوں کے بُغض کی وجہ سے ایک راہنما دیا مگر وہ رستہ میں ہی مر گیا۔ آخر ابرہہ کا لشکر مکہ سے چند میل کے فاصلہ پر جا ٹھہرا اور ابرہہ نے ایک وفد بھجوایا اور مکہ والوں کو کہلا بھیجا کہ ہم عیسائی ہیں اور فطرتاً رحمدل ہیں اس لئے میں تمہیں ہلاک کرنا نہیں چاہتا اور نہ تم سے مجھے کوئی گِلہ ہے۔ میں صرف کعبہ کے پتھرگِرا کر واپس چلا جائوں گا یا خود ہی کعبہ کو گِرا دو تو میں آگے نہیں بڑھوں گا اور واپس چلا جائونگا۔ مکہ اور حجاز کے لوگوں نے اس سے انکار کیا اور کہا کہ ہم تمہاری حکومت ماننے کے لئے تیار ہیں ہم اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ تمہیں اپنی آمد کا ایک ثُلث ہر سال دیتے رہیں مگر خدا کے لئے کعبہ کو نہ گرائو۔ لیکن وہ نہ مانا۔ آخر سفیروں نے اہل مکہ کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ ابرہہ کے پاس وفد لے کر جائیں اور اُسے اپنے خیالات سے آگاہ کریں۔ چنانچہ عبدالمطلب اور بعض دوسرے عمائدینِ مکہ ابرہہ کے پاس گئے۔ ابرہہ، عبدالمطلب کی وجاہت سے بہت متاثر ہؤا اور خوش ہو کر کہنے لگا کہ مجھ سے آپ جو بھی خواہش کریں میں اسے ماننے کے لئے تیار ہوں۔ اس سے پہلے ابرہہ کے سپاہیوں نے چھاپہ مار کر عبدالمطلب کے دو سَو اونٹ پکڑ لئے تھے۔ جب ابرہہ نے کچھ مانگنے کو کہا تو انہوں نے اپنے دو سَو اونٹ جو اس کے سپاہیوں نے پکڑ لئے تھے طلب کئے اور کہا کہ وہ مجھے واپس کر دیئے جائیں۔ اس پر ابرہہ نے کہا کہ میں تو آپ کو بڑا عقلمند سمجھتا تھا مگر آپ کے اس جواب نے میرے دل پر سے ان اثرات کو بالکل دھو دیا ہے اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ نے کس خیال سے ایسا معمولی مطالبہ کیا۔ اِس وقت حالت یہ ہے کہ کعبہ خطرے میں ہے اور آپ مجھ سے بجائے یہ خواہش کرنے کے کہ میں کعبہ پر حملہ کا ارادہ ترک کر دوں یہ کہہ رہے ہیں کہ میں آپ کے دو سَو اونٹ آپ کو واپس دِلوادوں۔ اس سے ظاہر ہے کہ آپ کو اونٹوں کی تو فکر ہے مگر کعبہ کی کوئی فکر نہیں۔ عبدالمطلب کہنے لگے، بات یہ ہے کہ وہ اونٹ میرے ہیں اس لئے مجھے ان کی فکر ہے، لیکن کعبہ خدا کا گھرہے اس لئے اس کی فکر خدا کو ہوگی مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے اور یہ کہہ کر واپس آگئے۔ ابرہہ نے نوٹس دیدیا کہ فلاں دن حملہ ہوگا۔ انہوں نے واپس آکر مکہ والوں کو اطلاع دیدی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ مقابلہ فضول ہے۔ اس قدیم قلعہ کو خالی کرکے پہاڑوں پر چڑھ جائو پاس ہی جبلِ حراء اور جبلِ ثور ہے، انہوں نے مکہ کو خالی کر دیا اور تمام لوگ پہاڑوں پر چلے گئے۔
حضرت عبدالمطلب کی عاجزانہ دُعا
جب وہ اس قدیم قلعہ کو چھوڑ رہے تھے تو اُس وقت عبدالمطلب نے اُس حُکم کو یاد کیا کہ جو
فَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبرٰھِیْمَ مُصَلًّی میں دیا گیا ہے کہ جب کبھی مصیبت کا وقت آئے تم اِس توپ خانہ یعنی کعبہ کی طرف منہ کرکے کھڑے ہو جائو اور اللہ تعالیٰ سے عاجزی اور زاری سے دعائیں کرو۔ چنانچہ وہ بیت اللہ کے دروازہ پر آئے اور اُس کی زنجیر کو پکڑ کر کہا اے خدا! ہم میں طاقت نہیں کہ دشمن کا مقابلہ کر سکیں یہ تیرا گھر ہے تو اپنے اس گھر کی آپ حفاظت کر اور صلیب کو کعبہ پر فتح نہ پانے دے۔ یہ کہا اور سب لوگوں سمیت مکہ کو چھوڑ کر پہاڑوں کو چل دیئے۔
انسانی آنکھوں سے دکھائی نہ دینے والے سپاہیوں کی گولہ باری
اب یہ قلعہ خالی تھا اور اس کی
بظاہر کمزور دیواریں ابرہہ کو چیلنج کر رہی تھیں کہ دیکھو میں اب انسانوں سے خالی ہوں آ اور مقابلہ کر۔ پھر کہا کہ سُن تو تو یہاں آکر حملہ کرے گا میں یہیں سے تُجھ پر گولہ باری کرتاہوں۔ چنانچہ کعبہ کی دیواروں سے نہ نظر آنے والے سپاہیوں نے گولہ باری شروع کر دی ابرہہ کے ہاتھی چِھد گئے، اس کے اونٹ چِھد گئے، اُس کے گھوڑے چِھد گئے اس کے سپاہی ان گولیوں کی بے پناہ بوچھاڑ سے زخمی ہو کر گرنے لگ گئے، لشکر کا نظام ٹوٹ گیا اور اُس میں بھاگڑ پڑ گئی اور سر پر پائوں رکھ کر لشکر واپس لوٹا۔ ابرہہ بھی یمن پہنچنے سے پہلے پہلے ان گولیوں سے مارا گیا اور سب لشکر تباہ و برباد ہو گیا اورمسیحی حکومت یمن میں ایسی کمزور ہو گئی کہ اس علاقہ پر ایرانی حکومت نے قبضہ کر لیا۔ یہ کعبہ سے چلنے والی گولیاں جب وہاں تک پہنچتی تھیں تو چیچک کی صورت میں اُس کے لشکر کو چِمٹ جاتیں جس سے دانوں کو ُکھجلا ُکھجلا کر سپاہی مر جاتے اور پرندے اُن کی بوٹیاں نوچ نوچ کر اُن کو پتھروں پر مار مار کر کھاتے۔ اور جس طرح وہ کعبہ کے پتھر توڑنے آیا تھا اسی طرح کعبہ کے گرد کے پتھروں نے ان کی بوٹیوں کو توڑا۔ یہ سپاہی جو گولیاں چلا رہے تھے خداتعالیٰ کے فرشتے تھے اور وہ جو ان گولیوں کے نشانہ بنے وہ ابرہہ اور اُس کے ساتھی تھے چنانچہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر آتا ہے وہ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ- اَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَ ھُمْ فِیْ تَضْلِیْلٍ- وَّ اَرْسَلَ عَلَیْھِمْ طَیْراً اَبَابِیْلَ oلا تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ oلا فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ ۸۷؎
فرماتا ہے دیکھو ایک شخص تھا جو مکہ پر حملہ کرنے کے لئے آیا اور کہنے لگا کہ میں کعبہ کے پتھروں کو توڑ دونگا۔ ہم نے اس کی سزا کے لئے پرندوں کو بھیجا اور وہ جو کعبہ کے پتھر توڑنے کے لئے آئے تھے انہی کی بوٹیاں اُن پتھروں پر مار مار کر توڑیں یہ بتانے کے لئے کہ کیا تم نے کعبہ کے پتھروں کو توڑ لیا؟ عربی زبان میں ب کے معنے علٰی کے بھی ہوتے ہیں اور کبھی قلبِ نسبت بھی ہو جاتی ہے جیسے کہتے ہیں ’’پرنالہ چلتا ہے‘‘ تو تَرْمِیْھِمْ بِحِجَارَۃٍ مِّنْ سِجِّیْلٍ کے معنے یہی ہیں کہ وہ ان کی بوٹیاں پتھروں پر مار مار کر کھاتے تھے اور یہی چِیلوں وغیرہ کا طریق ہے۔ وہ بوٹی کو پتھر پر مارتی اورپھرکھاتی ہیں۔ تو وہ جو کعبہ کے پتھر توڑنے چلا تھا اس کی بوٹیاں جانوروں نے پتھرپر مار مار کر کھائیں۔
مسیحی اس روحانی قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے
جب میں نے یہ نظارہ دیکھا تو میں نے کہا کون کہہ سکتا ہے کہ اس قلعہ
پر حملہ نہیں ہؤا۔ حملہ ہؤا اور اس میں یہ قلعہ مضبوطی سے قائم رہا۔ اس کے بعد اور زمانہ گزرا۔ ایک دفعہ مسیحیوں نے فلسطین پر قبضہ کر لیا اور میں نے دیکھا کہ وہ باوجود اس غصہ کے کہ مسلمانوں نے اُن کے معابد پر قبضہ کیا ہے اس قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے۔
ہلاکو خاں بھی اس قلعہ کو کوئی گزند نہ پہنچا سکا
اور ایک دفعہ ہلاکو خاں نے بغداد اور اسلامی ممالک کو تباہ کیا مگر اس قلعہ کو
وہ بھی کوئی گزند نہ پہنچا سکا۔ پھر جنگِ عظیم کا وقت آیا اور تُرک جن کے قبضہ میں یہ قلعہ تھا وہ فاتح اقوام کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ میں نے کہا اب اس قلعہ کے لئے خطرہ ہے مگر تب بھی یہ محفوظ رہا اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے خاص سامان پیداکر دیئے پھر یہ نئی جنگ شروع ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اب کے پھر دونوں فریق اس کی حفاظت کا اعلان کر رہے تھے۔
غرض ہزاروں سال کی تاریخ میں اس عجیب و غریب قلعہ کو دنیا کا مقابلہ کرتے ہوئے میں نے دیکھا اور ہمیشہ مجھے یہ محفوظ و مصئون ہی نظر آیا۔ یہ نہیں کہ اس کے کبھی مغلوب ہونے کی خبر ہو۔ بعض احادیث میں آتا ہے کہ ایک وقت یہ مغلوب ہوگا اورکعبہ گِرایا جائے گا مگر ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ بات قیامت کی علامت ہوگی۔۸۸؎ اب اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ عارضی طورپر دشمن اس پر قبضہ کرے گا مگر اس پر قیامت آجائے گی اور وہ فتنہ اورخونریزی ہوگی کہ اَلْاَمَان اور یہ معنے بھی ہوسکتے ہیں کہ حقیقی قیامت کے وقت جب اس کی ضرورت نہ رہے گی، اس قلعہ کامالک اسے گِرنے دے گا۔
اس عظیم الشان قلعہ کی حفاظت کیلئے ایک اورچھوٹے قلعہ کی تعمیر
اب اس زمانہ میں کہ اس قلعہ
کے گرد یاجوج وماجوج چکر لگا رہے ہیں جیسا کہ قلعوں کے متعلق قاعدہ ہے کہ جب قلعہ پر حملہ ہو تو لشکر باہر نکل کر چھوٹے چھوٹے قلعے اور چوکیاں بنا کر مدافعت کرتا ہے تاکہ دشمن وہیں حملہ کرتا رہے اور قلعہ کی طرف نہ بڑھ سکے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کے لئے ایک اور قلعہ بنا دیا ہے اور اس کے سپرد اس بڑے قلعہ کی حفاظت کا کام کیا ہے اور چونکہ یہ قلعہ بھی دین کی اسی طرح حفاظت کر رہا ہے اس لئے اسے بھی ارضِ حرم کے نام سے موسوم کیا گیا ہے چنانچہ اس قلعہ کی تعمیر میں جس نے حصہ لیا وہ خود کہتا ہے :-
خدا کا ہم پہ بس لطف و کرم ہے
وہ نعمت کونسی باقی جو کم ہے
زمینِ قادیاں اب محترم ہے
ہجومِ خلق سے ارضِ حرم ہے
ظہورِ عون و نصرت دمبدم ہے
حسد سے دشمنوں کی ُپشت خم ہے
سنو! اب وقت توحیدِ اتم ہے
سِتم اب مائلِ ملکِ عدم ہے
خدا نے روک ظلمت کی اُٹھا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ
۸۹؎
ساکنینِ ارضِ حرم کے فرائض
یہ قلعہ خدا نے خانۂ کعبہ کی حفاظت کے لئے قائم کیا ہے ، یہ قلعہ اس لئے قائم ہؤا ہے تاکہ دشمن کے حملوں
کو وہ اپنے اوپر لے اور اُسے خانہ کعبہ کی طرف ایک قدم بھی بڑھنے نہ دے اور چونکہ یہ قلعہ خانۂ کعبہ کی حفاظت کر رہا ہے اس لئے لازماً یہ بھی ارضِ حرم کا جزو ہے اور جو لوگ اس قلعہ کے سپاہیوں میں اپنے آپ کو شامل کر رہے ہیں وہ یقینا ارضِ حرم کے ساکن ہیں اور ان کا فرض ہے کہ وہ دشمن کی گولیاں اپنے سینوں پرکھائیں اور اسے کعبہ کی طرف بڑھنے نہ دیں۔ پس اے قادیان کے رہنے والو! اور اے دوسرے احمدی مراکز کے رہنے والو! آج خانۂ کعبہ کی حفاظت کے لئے گولیاں کھانا تمہارا فرض ہے تم ان لوگوں میں سے ہو جو بڑے قلعوں کی حفاظت کے لئے باہر کی طرف بٹھا دیئے جاتے ہیں تاکہ وہ دشمن کی مدافعت کریں اور گولیوں کو اپنے اوپر لیں۔ پس تم بہادری کے ساتھ اپنے سینوں کو آگے کرو اور دشمن کے ہر حملہ کا پوری شدت کے ساتھ مقابلہ کرو۔
طاعون کے طوفانی حملہ میں اس قلعہ کی حفاظت
میں تمہیں اس قلعہ کی حفاظت کا بھی ایک واقعہ سنا دیتا ہوں کچھ عرصہ ہؤا
دنیا پر ایک غنیم نے حملہ کیا وہ قلعہ پر قلعہ توڑتا چلا آیا۔ آبادیوں پر آبادیاں اُس نے ہلاک کر دیں اور گائوں کے بعد گائوں اُس نے ویران کر دیئے۔ اُس وقت اِس قلعہ کی تعمیر کرنے والا ابھی زندہ تھا اُس نے دنیا کو پکار کر کہہ دیا کہ اِس حملہ سے میرا قلعہ محفوظ رہے گا۔ گولہ باری سے تھوڑا صدمہ پہنچے تو پہنچے مگر اِس قلعہ کو اس حملہ آور کا حملہ کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا یہ حملہ آور بڑھا اور قادیان پر حملہ آور ہؤا کئی سال تک اس نے متواتر حملہ پر حملہ کیا مگر ناکام رہا یہ قلعہ محفوظ رہا اور دشمن سے دشمن نے بھی اس قلعہ کی حفاظت کا اقرار کیا۔ یہ حملہ آور مرضِ طاعون تھا جس کے حملوں سے حفاظت کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پہلے سے خبر دیدی۔
احمدی نوجوانوں سے خطاب
اب مَیں احمدی نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اس قلعۂ عظیمہ کی حفاظت کا کام ان کے سپرد ہؤا ہے انہیں یہ امر اچھی
طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ محض ایک جماعت کے فرد نہیں بلکہ خانۂ کعبہ کی حفاظت کے لئے اس کے اِردگِرد جو قلعے بنائے گئے ہیں اس کے وہ سپاہی ہیں۔ پس اے عزیزو! جس طرح قلعہ پر جب دشمن حملہ آور ہو تو فوج کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کے حملوں کی مدافعت کرے اور اس کی گولیاں اپنے سینوں پر کھائے اسی طرح اے احمدی نوجوانو! تم آگے بڑھو اور دجّالی سنگینوں کو اپنے سینوں پر روکتے ہوئے کعبہ کے دشمنوں پر حملہ آور ہو۔ یاد رکھو! خدائے قہار تمہارا کمانڈر ہے اور شیطانی فوجیں حملہ آور ہیں۔ پس اس قدیم صداقت کے دشمن کو ُکچلتے اور اپنے پائوں تلے مَسلتے ہوئے آگے بڑھو اور اس کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دو تاکہ پھر کعبہ کے قلعہ کی طرف کوئی بُری نگاہ سے نہ دیکھ سکے اور یہ گڑھی جو اِس قلعہ کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے اپنے وجود کی ضرورت کو دنیا سے منوا لے اور لوگ تسلیم کرنے پر مجبور ہوں کہ فیِ الواقع یہ زمین ارضِ حرم کا ہی حصہ ہے کیونکہ وہ جس نے حرم کی حفاظت کی وہ حرم ہی کا حصہ ہے وہ جس کی رگوں میں ماں کا خون دَوڑ رہا ہوتا ہے وہی ماں کی حفاظت کرتا ہے اور جو ماں پر حملہ ہوتے ہوئے خاموش رہتا ہے وہ ہرگز حلال کا بچہ نہیں ہوتا اور نہ اُس کا لڑکا کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ پس دنیا کے اعتراضوں کی پروا مت کرو۔ تمہارے سپرد خداتعالیٰ نے خانۂ کعبہ اور اسلام کی حفاظت کا کام کیا ہے، پس تم دلیری دکھائو اور جرأت سے کام لو۔ خدا تمہارے آگے چل رہا ہے اور اُس کی فوجیں تمہارے دائیں اور بائیں ہیں جس دن تم ہمت کرکے دشمن کے مقابلہ کے لئے نکل کھڑے ہو گے اُس دن خدا تمہارے لئے وہی نشان دکھائی گا جو اُس نے ابرہہ کے لشکر کے لئے دکھایا۔
خدائے قادر کا ایک عظیم الشان معجزہ
لوگ کہتے ہیں کہ معجزہ کیا ہوتا ہے مگر یہ کیا معمولی معجزہ ہے۔ تاریخی شہادت موجود ہے
کہ ایسے حالات میں جبکہ اس کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں تھا ایک لشکرکعبہ کی طرف حملہ کرنے کے لئے بڑھا مگر پیشتر اسکے کہ وہ کعبہ تک پہنچتا خدا نے اُس کو تباہ و بربادکر دیا۔ غرض جب دُنیوی طور پر کعبہ پر حملہ ہؤا تو اس نے چیچک بھیج دی اور جب دینی طور پر اس پر حملہ ہونے لگا تو اس کے مقابلہ کیلئے اُس نے مسیح موعود ؑکو بھیج دیا۔
پس احمدیوں کو یاد رکھنا چاہئے۔ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کی غرض خانۂ کعبہ کی حفاظت ہے یعنی جن اغراض کے لئے خانۂ کعبہ کو قائم کیا گیا ہے وہی اغراض ہماری جماعت کے قیام کی ہیں۔ پس ہماری جماعت اس لئے قائم کی گئی ہے تاکہ تمام دنیا میں امن قائم کیاجائے۔ خدائے واحد کی عبادت کو رائج کیا جائے، شرک اور بدعت کو مٹایا دیا جائے۔ مسافر اور مقیم دونوں کی ترقی کی تدابیر سوچی جائیں اور نظام کو ایسا مکمل کیا جائے کہ لوگوں کا ایک حصہ رات دن بنی نوع انسان کی خیر خواہی کے کاموں میںمصروف رہے جب تک ہم اس کام کو نہیں کریں گے اُس وقت تک ہم اپنی ذمہ داری کو پوری طرح اداکرنے والے قرار نہیں دیئے جاسکتے۔ پس صرف چندے دینا کافی نہیں، صرف جلسہ سالانہ پر مرکز میں آجانا کافی نہیں، صرف نمازیں ہی پڑھنا کافی نہیں بلکہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اِس دجّالی فتنہ کو روکے جو خانہ کعبہ کے خلاف برپا ہے۔ اس کے لئے ایسے نوجوانوںکی ضرورت ہے جو ساری دنیا پر چھاجائیں اور اس لئے واقفینِ زندگی کی تحریک شروع کی گئی ہے مگر افسوس ہے کہ جماعت نے اس تحریک کی طرف زیادہ توجہ نہیں کی۔
شیطان کو کان سے پکڑ کر اس کی غاروں سے باہر نکال دو
یاد رکھو! خدا نے قادیان کو بھی ایک چھوٹا قلعہ بنایا
ہے اور قلعہ اسی لئے بنایا جاتا ہے تاکہ اس میں سے آسانی سے حملہ کیا جا سکے جو جرنیل یہ سمجھتاہے کہ اس کے لئے صرف مدافعت کرنا کافی ہے وہ کبھی فتح نہیں پاسکتا۔ یاد رکھو! تم مدافعت سے نہیں بلکہ حملہ سے جیتو گے۔ اگر تم قادیان میں بیٹھے رہے تو دشمن شکست نہیں کھائے گا بلکہ دشمن اُس وقت شکست کھائے گا جب تم جاپان میں جاکر دشمن سے لڑو گے، چین میں جاکر دشمن سے لڑو گے، افریقہ میں جاکر دشمن سے لڑو گے، انگلستان میں جاکر دشمن سے لڑو گے، امریکہ میں جاکر دشمن سے لڑو گے اور شیطان کو اُس کی غاروں سے کان سے پکڑ کر نکال دو گے۔ اگر تم ایساکرو گے تو تم یقینا کامیاب ہو گے اور یقینا تمہارا دشمن ناکامی کی موت مرے گا۔
خلاصہ یہ کہ میں نے قرآن کریم کے ذریعہ سے ایک ایساقلعہ دیکھا جو تمام قلعوں کے اصول کے خلاف تعمیر ہؤا تھا مگر میں نے دیکھا کہ ہزاروں سال کا عرصہ بھی اس قلعہ کو کمزور نہ کر سکا بلکہ اس کی مضبوطی بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ وہ ساری دنیا کا مرجع ہو گیا اور میں نے کہا انسان، بے وقوف انسان قطب شاہیوں کے گولکنڈہ کے قلعہ کو دیکھتا ہے اور اس پر تعجب کرتا ہے اور فتح پورسیکری کے قلعہ کو دیکھتاہے اور اس پر حیران ہوتا ہے اور دہلی کے تغلقوں کے قلعہ کو دیکھتاہے اور اس پر واہ واہ کہتاہے حالانکہ یہ قلعے سَو دو سَو سال بھی نہ گزار سکے اور اب ان کی مرمت کرنے والا بھی کوئی نہیں اور لوگ موجود ہیں جنھوں نے ان قلعوں کو فتح کیا مگر وہ اس حیرت انگیز قلعہ کے دیکھنے کی تکلیف گوارا نہیںکرتا اور اس کی تعمیر کی داد نہیں دیتا جو انجینئرنگ کے تمام معلومہ اصول کے خلاف پایا گیا۔ فنِ حرب کے تمام اصول کے خلاف اس کے لئے مقام چنا گیا۔ قیادت کے تمام اصولوں کے خلاف اس کی حفاظت کا انتظام کیا گیا، پھر بھی وہ کھڑا رہا، کھڑا ہے کھڑا رہے گا۔ اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔
۱؎ اٰل عمران : ۹۷
۲؎ ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب اتخاذ المساجد فِی الدُّوَرَ
۳؎ البقرۃ : ۱۲۶
۴؎ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ ۹۷۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵؎ مسلم کتاب الحج باب فضل الصلوٰۃِ بمسجدی مَکَّۃَ و المدیْنَۃ
۶؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحہ ۹۱ مطبوعہ ۱۳۱۳ھ مطبع میمنۃ مصر
۷؎ الحجرٰت : ۸
۸؎ اٰل عمران : ۱۱۱
۹؎ المائدۃ : ۵۵
۱۰؎ محمد : ۵
۱۱؎ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد ۲ صفحہ ۲۲۵۔ مطبوعہ بیروت ۱۳۷۷ھ
۱۲؎ تاریخ الامم و الملوک لابی جعفرمحمد بن جریر الطبری جلد ۴ صفحہ ۴۶
دارالفکر بیروت ۱۹۸۷ء
۱۳؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب ذکر اُسامۃ بن زید
۱۴؎ بخاری کتاب الاشربۃ باب اَلْاَیْمَنُ فِی الشُّرْبِ۔
۱۵؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۱۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۱۶؎
۱۷؎ بخاری کتاب الزکٰوۃ باب وجوب الزکٰوۃ۔
۱۸؎ الحشر : ۸ ۱۹؎ ھود : ۷
۲۰؎ مسلم کتاب البر والصلۃ و الادب باب فضل عیادۃ المریض
۲۱؎ الحج : ۴۱ ۲۲؎ النور : ۳۷ ، ۳۸
۲۳؎ مسلم کتاب الصلٰوۃ باب استحباب الذکر بعد الصلٰوۃ
۲۴؎ الجمعۃ : ۳
۲۵ ؎ التوبۃ : ۱۰۰
۲۶؎ الاحزاب : ۲۴
۲۷؎ سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ۸۴ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۲۸؎ الاعراف : ۱۸۲
۲۹؎ مشکٰوۃ کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃ
۳۰؎ ،۳۱؎، ۳۲؎ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد ۳ صفحہ ۳۸۵،۳۸۶مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۳۳؎ پُشْتارہ :ڈھیر، انبار
۳۴؎ الحشر : ۱۰
۳۵؎ تاریخ طبری اُردو حصہ دوم صفحہ ۳۱،۳۲ مطبوعہ کراچی۔
۳۶؎ العنکبوت : ۴۶ ۳۷؎ المائدۃ : ۹۲
۳۸؎ بخاری کتاب التفسیر ۔ تفسیر سورۃ المائدۃ باب لیس علی الذین اٰمَنُوا
و عملوا الصٰلحٰت (۔۔۔۔)
۳۹؎ البقرۃ : ۲۲۹ ۴۰؎ الرعد : ۲۴،۲۵
۴۱؎ بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون من لسانہ و یدہٖ۔
۴۲؎ الحجرات: ۱۳
۴۳؎ تاریخ اہل عرب مصنفہ سائمن اوکلے
۴۴؎ الحجرات : ۱۳
۴۵؎ البقرۃ : ۱۸۹
۴۶؎ النساء : ۳۰
۴۷؎ المطفّفین : ۲ تا ۴
۴۸؎ بنی اسرآء یل : ۳۸
۴۹؎ النساء : ۱۴۹
۵۰؎ الحجرات : ۱۰
۵۱؎ معاہدہ وارسا: مغربی ممالک کے حملوں کی روک تھام کے لئے ۱۴ مئی ۱۹۵۵ء کو ایک معاہدہ ہؤا۔ مشرقی یورپ کے کمیونسٹ ممالک البانیہ، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ، مشرقی جرمنی، ھنگری، رومانیہ، پولینڈ اور روس کے درمیان اس معاہدہ پر دستخط ہوئے۔ یہ معاہدہ رکن ممالک کے درمیان بیس سال کے عرصہ کے لئے باہمی مفادات کے تحفظ کے سلسلہ میں طے پایا تھا۔ اس کا صدر دفتر ماسکو میں ہے۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۷۸۱ ، ۱۷۸۲ مطبوعہ لاہور۱۹۸۸ئ)
۵۲؎ النھایۃ لابن الاثیر جلد ۲ صفحہ ۱۲۰ مطبوعہ مطبع الخیریہ مصر ۱۳۰۶ھ
۵۳؎ المائدۃ : ۱۰۶
۵۴؎ النساء : ۳۷
۵۵؎ البقرۃ : ۱۴۴
۵۶؎ اٰل عمران : ۱۳۵
۵۷؎ بخاری کتاب الادب باب الحذر من الغضب
۵۸؎ النساء : ۵۵
۵۹؎ النساء : ۳۳
۶۰؎ الحشر : ۱۱
۶۱؎ بخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لفنسہٖ
۶۲؎ الاعراف : ۲۰۰
۶۳؎ النور : ۲۳
۶۴؎ النحل: ۹۱
۶۵؎ الاعلٰی : ۱۷،۱۸
۶۶؎ الاعلٰی : ۱۹، ۲۰
۶۷؎ البقرۃ : ۱۲۵، ۱۲۶
۶۸؎ بخاری کتاب مناقب الانصار باب قول اللّٰہ عَزَّوَ جَلَّ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ ۔۔۔
۶۹؎ بخاری کتابُ الْاَدَب بابُ اِکْرام الضیف وخدمتہٖ
۷۰؎ اٰل عمران : ۱۰۵
۷۱؎ بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔
۷۲؎
۷۳؎ البقرۃ : ۱۲۶،۱۲۷
۷۴؎ ،۷۵؎ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ ۹۷ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷۶؎ المائدۃ : ۹۸
۷۷؎ ، ۷۸؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ ۱۰۵۴ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷۹؎ ابراھیم : ۳۸ ۸۰؎ الحج : ۲۸ ۸۱؎ الحج : ۳۰
۸۲؎ اٰل عمران : ۹۷ ، ۹۸
۸۳؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفُّوْن
۸۴؎ ھیروڈوٹس (HERODOTUS) یونانی مو ء رخ اور نثرنگار۔ اس نے عالَمِ شباب میں یونان، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے سفر کئے اور اس دوران مختلف اقوام کی عادات اور مذاہب کا مطالعہ کیا۔ چار سال میں ایتھنز میں رہنے کے بعد ۴۴۳ ق م میں جنوبی اٹلی میں تھوری(THURII)کے مقام پر رہائش اختیار کی اور پھر وفات تک وہیں مقیم رہا۔ اس کی تاریخ یونانی اور اہلِ فارس کی جِدّوجُہد کی وضاحت کے لئے کافی مواد پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس نے تاریخ کے موضوع پر کتابیں لکھیں۔ وہ تاریخ عالَم کا پہلا مو ء رخ ہے جس نے تنقیدی احساس کے ساتھ تاریخ کو قلمبند کیا ہے۔ (اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۸۸۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ئ)
‏۸۵؎ ، ۸۶؎ LIFE OF MAHOMET- BY SIR WILLIAM MUIR - ا
LONDON 1877 PAGE XIV
۸۷؎ الفیل : ۲ تا آخر
۸۸؎ بخاری کتاب الحج باب ھَدْم الْکَعْبَۃ
۸۹؎ درثمین اُردو صفحہ ۵۶، ۵۷

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیرِ روحانی (۳)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر۱۹۴۱ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان)

تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
(۶) جسمانی مقبرے اور روحانی مقبرے
چھٹی بات جومَیں نے مذکورہ بالا سفر میںدیکھی تھی شاندار مقبرے تھے جوبادشاہوں کے بھی تھے اور وزیروں کے بھی تھے، امیروں کے بھی تھے ا ور فقیروں کے بھی تھے، اولیاء اللہ کے بھی تھے اور غیر اولیاء اللہ کے بھی تھے، حتی کے کتوں کے بھی مقبرے تھے مگر ان مقبروں میں کوئی پہلو فن کے لحاظ سے صحیح معلوم نہیںہوتا تھا۔یوں عمارتیں بڑی شاندار تھیںاور وقتی طور پر اُن کو دیکھ کر دل پر بڑا اثر ہوتا تھا چنانچہ آگرہ کا تاج محل بڑا پسندیدہ نظر آتا ہے، ہمایوں کا مقبرہ بڑا دل پسند ہے، اسی طرح منصور اور عماد الدولہ کے مقبرے وہیں ہیں اور جہانگیر کامقبرہ شاہدرہ لاہور میں سب اچھے معلوم ہوتے ہیں مگر جب ان مقابر کو ہم مجموعی حیثیت سے دیکھتے ہیںتو ہم سمجھتے ہیں کہ لوگوں نے ان کی تعمیر میںفن کو مدّنظر نہیں رکھا۔
جسمانی مقابر میںتاریخی حقائق اور باہمی توازن کا فُقدان
چنانچہ دیکھ لو مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ وہ
اُس شخص کی زندگی کا ایک نشان ہو جس کا وہ مقبرہ ہے اور اُس کی تاریخ کو وہ دنیا میں محفوظ رکھے، مگر ہمیں ان بادشاہوں، وزیروں، امیروں اور فقیروں وغیرہ کی زندگی کانشان ان مقبروں میںکچھ بھی نظر نہیں آتا اور نہ ان مقبروں میںکوئی باہمی توازن دکھائی دیتا ہے۔مثلاً بعض ادنی درجہ کے لوگ نہایت اعلیٰ مقبروں میں تھے اور بعض اعلیٰ درجے کے لوگ نہایت ادنی مقبروں میںتھے۔ اسی طرح جو دُنیوی لوگ ہیں اور جو روحانی لحاظ سے ادنی سمجھے جاتے ہیں ، مجھے نظرآیا کہ ان دُنیوی لوگوں کے مقبرے تو بڑے اعلیٰ ہیں مگر وہ روحانی لوگ جو سردار تھے بادشاہوں کے اور سردار تھے وزیروں کے ان کے مقبرے نہایت ادنی ہیں پھر مجھے حیرت ہوئی کہ نہ صرف ان کے مقبرے دوسروں کے مقابل میں نہایت ادنی ہیں بلکہ جس صورت میںبھی ہیں وہ اس شخص کے مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہیں جس کی غلامی اختیار کر کے انہوں نے دنیا میں عزّت حاصل کی۔ چنانچہ حضرت نظام الدین صاحب اولیاء اور بعض دوسرے بزرگوں کی قبروں پرفرش ہے اور بعض کے اِرد گِرد سنگِ مرمر کے کٹھیرے ہیںاور یہ چیزیں ہماری شریعت میں جائز نہیں۔ پس مجھے حیرت ہوئی کہ اوّل تو ظاہری لحاظ سے مقبروں میں کوئی نسبت ہی قائم نہیں بعض ادنی لوگوں کے اعلیٰ مقبرے ہیں اور بعض اعلیٰ کے ادنی۔اور پھر روحانی لوگوں کے جومقبرے ہیں اوّل تو وہ جسمانی بادشاہوں کے مقابر سے ادنی ہیں حالانکہ وہ ان بادشاہوں کے بھی سردار تھے پھر جو کچھ بھی ظاہر میں ہے وہ ان کے اپنے اصول اور دین کے خلاف ہے۔ گویا ان کے مقبرے ایک طرف اپنے غلاموں سے بھی ادنی تھے اور دوسری طرف ان کے اپنے آقا کے حُکم کے خلاف تھے اور اس طرح ان میںکوئی بھی جوڑا ور مناسبت دکھائی نہیں دیتی تھی۔ پس مَیں نے اپنے دل میںکہا کہ کوئی انصاف کی تقسیم نہیں۔ ہمایوں جو مغلیہ خاندان کا ایک مشہور بادشاہ ہندوستان کا فاتح اور اکبر کا باپ تھا اُس کے مقبرہ کا اگر شاہجہان کے مقبرہ سے مقابلہ کیا جائے تو ان دونوں میںکوئی بھی نسبت دکھائی نہیں دیتی۔ وہ شخص جس نے مغلیہ سلطنت کی بنیادوں کومضبوط کیا، جس نے ہندوستان کوفتح کیا اور جس کا بیٹا آگے اکبر جیسا ہؤا اُس کامقبرہ تو بہت ادنی ہے مگر شاہجہان جو اُس کا پڑپوتا ہے اُ س کا مقبرہ بہت اعلیٰ ہے ۔پھر شاہجہان کے مقبرہ کے مقابلہ میں جہانگیر کے مقبرہ کی کوئی حیثیت نہیں اور اورنگ زیب جو ظاہری حکومت کے لحاظ سے بڑا تھا اُس کا مقبرہ ان دونوں کے مقابلہ میں کچھ نہیں۔ پھر ان کے مقابلہ میںخواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکی اور خواجہ نظام الدین صاحب اولیاء کے مقبروں کی کوئی حیثیت نہ تھی اور ان دونوں کے مقابلہ میں خواجہ باقی باللہؒ ، خواجہ میر درد ؒ ، شاہ ولی اللہ ؒ او رمرزا مظہر جان جاناں ؒ کی قبروں کو کوئی نسبت نہ تھی بلکہ کسی نے ان کا مقبرہ بنانے کی کوشش بھی نہیں کی مگر جیسا کہ مَیں نے کہا ہے جو کچھ تھا اور جن بزرگوں کا مقبرہ بنا ہؤا تھا وہ بھی ہماری شریعت کے خلاف تھا۔
کتوںکے مقبرے
پس مجھے حیرت ہوئی کہ یہ نظارے دنیامیں نظر آتے ہیں کہ اوّل تو ظاہری لحاظ سے ادنیٰ واعلیٰ میںکوئی نسبت ہی نہیں اور اگر ہے تو وہ
دین اور دنیا کے سراسر خلاف ہے۔ پھر جب مَیں نے بعض جگہ کُتّوں کے مقبرے بھی دیکھے تو مَیںاور زیادہ حیران ہؤا کیونکہ کُتّوں کے مقبرے ہندوستان کے اکثر بزرگوں کے مقبر وں سے بھی بہت اعلیٰ تھے۔ مَیں نے سوچا کہ یہ مقبرے بیشک عبرت کا کام تو دیتے ہیں مگر انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر نہیں ہوتی اور انسان ان شخصیتوں کا غلط اندازہ لگانے پر مجبور ہو تا ہے حالانکہ مقبرہ کی غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کے حقیقی مقام کی حفاظت کی جائے اور مقبرہ کے ذریعہ اس کے اعمال کے نشان کو قائم رکھا جائے، اس سے زیادہ مقبرہ کی کوئی غرض نہیں ہوتی۔ مگر یہ غرض ان مقبروں سے ظاہر نہیںہوتی اور بجائے اس کے کہ انصاف اور حقیقت ان سے ظاہر ہو وہ انسانی شخصیتوں کا غلط اندازہ پیش کرتے ہیں اور بجائے علم دینے کے دوسروں کو جہالت میںمبتلاء کرتے ہیں۔
مقبروں کی عمارات سے صرف چار امور کا عِلم
پس مَیں نے سمجھا کہ یہ مقبرے زیادہ سے زیادہ ان باتوں پر دلالت کر سکتے ہیں: -
اوّل: اِس وقت عمارت کا فن کیسا ہے یعنی مرنے والوں کو ان مقبروں کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا صر ف یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اُس وقت عمارتیں کیسی بنتی تھیں۔
دوم: مرنے والے یا اس کے رشتہ دار کے پاس کس قدر مال تھا۔یہ معلوم نہیں ہوتا کہ بادشاہ اچھا تھا یا بُرا، عالِم تھا یا جاہل، البتہ یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ اس کے یا ا س کے رشتہ داروں کے پاس کس قدر روپیہ تھا۔
سوم: مرنے والے یا اس کے پس ماندگان کا تعمیرمقبرہ کے متعلق کیا عقیدہ یا رُجحان تھا یعنی ان مقبروں سے صرف اتنا معلوم ہو سکتا ہے کہ مرنیوالے یا اس کے پس ماندگان کا عقیدہ کیا تھا آیا اُن کے نزدیک اس قسم کامقبرہ بناناجائز تھا یا نہیں۔
چہارم: ان مقبروں سے ہمیں یہ بھی پتہ لگ سکتا ہے کہ بعد میں آنے والے لوگوں کو ان کے لُوٹنے سے کس قدر دلچسپی تھی یا یوں کہو کہ ان کے لئے اس میں دلچسپی کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ اسے باقی رہنے دیا جائے ۔چنانچہ کئی مقبرے ٹوٹے ہوئے نظر آتے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ سنگِ مرمر بعد میں لوگ لوٹ کر لے گئے اور بعض اب تک بڑے شاندار نظر آتے ہیں۔ پس چوتھی بات ان مقبروں سے یہ معلوم ہو سکتی ہے کہ اس بادشاہ کے مرنے کے بعد کوئی تنزّل کا زمانہ آیا ہے یا نہیں۔ غرض ان مقابر کو اگر دیکھا جائے تو یہی چار باتیں ان سے ظاہر ہوتی ہیں۔ پس مَیں نے افسوس کیا کہ مقبرہ کی اصل غرض تو یہ ہوتی ہے کہ مرنیوالے کی حقیقی عظمت کاپتہ چلے اور اس کانشان قائم رہے مگر ان مقبروں سے تو یہ معلوم نہیں ہوتا۔ ان سے تو شاہجہان اکبر اور اورنگ زیب سے بڑا ، شمس الدین تغلق، شیر شاہ سوری سے بڑا، اور وزیر منصور اور عمادالدولہ تمام خلجی تغلقوں اور لودھیوں وغیرہ سے بڑے نظر آتے ہیں، اور پھر یہ سب کے سب روحانی بادشاہوں سے بڑے دکھائی دیتے ہیں۔
آثارِ قدیمہ سے مرتب کردہ مضحکہ خیز تاریخ
مَیں نے سوچا کہ اگر دنیا سے تاریخ مٹ جائے اور آثارِ قدیمہ سے تاریخ مرتب
کی جائے تو تاریخ لکھنے والے یوںلکھیںگے کہ ہندوستان کاسب سے بڑا بادشاہ شاہجہان تھا اس سے اُتر کر جہانگیر پھر اس سے اُتر کر اکبر بادشاہ تھا۔ اکبر بادشاہ سے اُتر کر عمادالدولہ ( جو محض ایک نواب تھا) پھر ہمایوں بادشاہ ہؤا ان کے بعد منصور بادشاہ ہوئے پھر شمس الدین بادشاہ بنے اس کے بعد بعض کُتّے ہندوستان کے بادشاہ ہوئے ان کے علاوہ ہندوستان کے اندربعض ادنی درجہ کے اُمراء کا بھی پتہ لگتا ہے۔جیسے خواجہ قطب الدین صاحب اور خواجہ نظام الدین صاحب۔ پھر کچھ غلاموں اور امیر نوکروں کے بھی نشان ملتے ہیں جیسے خواجہ باقی بِاللہ صاحب، شاہ ولی اللہ صاحب، مرزا مظہر جان جاناںصاحب اور خواجہ میر درد صاحب۔ اگر کوئی شخص ایسی تاریخ لکھے اور ہندوستان کی اصل تاریخ دنیا سے مٹ جائے تو اس پر بڑے بڑے ریویو لکھے جائیں گے اور کہا جائے گا کہ اس شخص نے تحقیق میں کمال کر دیا ہے اور اس میں کیا شُبہ ہے کہ مقبروں کے لحاظ سے وہ نہایت سچی تاریخ ہو گی مگر واقعات کے لحاظ سے وہ اوّل درجہ کی جھوٹی اور مُفتریات سے پُرکتاب ہو گی۔ وہ الف لیلہ کا قصہ تو کہلا سکتی ہے مگر کوئی عقلمند انسان اسے تاریخ کی کتاب نہیں کہہ سکتا، لیکن اگر مقبرے کسی کی شان اور کام کو بتانے کے لئے ہوتے ہیں اور اُن سے غرض یہ ہوتی ہے کہ مرنے والے کی حقیقی عظمت کا پتہ چلے اور اس کا نشان دنیا میںقائم رہے تو پھر ہندوستان میں سب سے زیادہ شاندار مقبرے حضرت خواجہ معین الدین صاحب چشتی ؒ، حضرت خواجہ قطب الدین صاحب بختیار کاکیؒ، حضرت خواجہ فریدالدین صاحب شکر گنج ؒ، حضرت شاہ محمد غوث صاحبؒ، حضرت سید علی ہجویری صاحب ؒ، حضرت خواجہ نظام الدین صاحب اولیائؒ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ، حضرت خواجہ باقی باللہ صاحبؒ، حضرت مرزا جان جاناں صاحب، حضرت خواجہ میر درد صاحب ؒاور حضرت سید احمد صاحب بریلوی ؒکے ہوتے اور ان سے اُتر کر چھوٹے چھوٹے مقبرے ا کبر، ہمایوں، شاہجہان ، جہانگیر اور دوسرے غلاموں ، خلجیوں، تغلقوں، لودھیوں، مُغلوں اورسُوریوں کے ہوتے اور کتوں کی ہڈیاں بجائے مقبروں میںہونے کے مَیلے کے ڈھیروں پر پڑی ہوئی ہوتیں۔ ہم لکھنؤ تو نہیں گئے مگر مَیں نے سُنا ہے کہ لکھنؤ میں بٹیروں کے بھی مقبرے ہیں۔کسی نواب کابٹیرہ مر جاتا تو لوگ کہناشروع کر دیتے کہ سُبْحَانَ اللّٰہِ اس بٹیرے کاکیاکہنا ہے وہ تو ہر وقت ذکرِ الٰہی میںمشغول رہتا تھا اور نواب صاحب بھی کہتے کہ تم سچ کہتے ہو ولی اللہ جو تھا، آخر اُس کا مقبرہ بنا دیا جاتا ۔
اُن لوگوں کا تصور جن کی قبریں اُکھیڑ دی گئیں
یا جنہیں قبریں بھی نصیب نہیں ہوئیں!
پھر مَیںنے سوچا یہ تو مقبرہ والوںسے بے انصافی ہو رہی تھی وہ ہزاروں ہزار لوگ جن کے مقبرے بنے ہی نہیں ان کا حال ہمیں کس طرح معلوم ہو سکتا ہے، آخر
ان کا کوئی نشان بھی تو دنیا میں ہوناچاہئے مگر ہمیں دنیا میں ان کا کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ پھر جب مَیں نے دِلّی میںپُرانی آبادیوں کو کُھدتے ہوئے دیکھا اور قبرستانوں میں عمارتوں کو بنتے دیکھا تو مَیں نے خیا ل کیا کہ افسوس ان جگہوں کے مکینوں کے لئے مقبرے تو الگ رہے قبریں تک بھی نہیں رہیں۔ ان کی ہڈیاں نکال کر پھینک دی گئی ہیں اور ان کی قبریں کھو د کر وہاں سیمنٹ کی بلند اور عالیشان عمارتیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ پس مَیں نے کہا ایک تو وہ ہیں جن کے مقبرے بنے مگر غلط اصول کے مطابق اور ایک یہ ہیں کہ ان کی صرف قبریں بنیں مگر لوگوں نے ان کی قبروں کا رہنا بھی پسند نہ کیا اور انہیںکھود کر ہڈیوں کو پرے پھینک دیا۔ پھر مَیں نے خیال کیاکہ گو ان کی قبریں آج اُکھیڑ دی گئی ہیں مگر چلو دو چار سَو سال تو انہیں قبروں میں سونے کاموقع مل گیا، لیکن وہ لاکھوں اور کروڑوں ہندو جو مذہبی تعلیم کے ماتحت جلا دئیے جاتے ہیں اُن کو تو یہ قبریں بھی نصیب نہ ہوئیں۔پھر مجھے پارسیوں کا خیال آیا کہ وہ لاش پر دہی لگا کر چِیلوں کے آگے رکھ دیتے ہیں اور وہ نوچ نوچ کر اُسے کھا جاتی ہیںیا کُتّوں کے آگے اُسے ڈال دیتے ہیں اور وہ کھا جاتے ہیں۔ مَیں نے اپنے دل میں کہا کہ افسوس! انہیں تو قبر بھی نصیب نہ ہوئی۔ پھر مجھے ان لوگوں کا خیال آیا جو جل کر مر جاتے ہیں اور جن کی راکھ عمارت کی مٹی سے مل جاتی ہے۔ مجھے ان لوگوں کا خیال آیا جو ڈوب کرمر جاتے ہیں اور جنہیں مچھلیاں کھا جاتی ہیں۔ چنانچہ کئی جہاز ڈوب جاتے ہیں اور وہ بڑے بڑے امیر آدمی جنہیں مخمل کے فرش پر بھی نیند نہیں آیا کرتی، مچھلیوں کے پیٹ میں چلے جاتے ہیں ۔ پھر مجھے ان لوگوںکا خیال آیا جو کھڈّوں میں گِر جاتے اور پرندے یا گیدڑ وغیرہ کھا جاتے ہیں۔
دنیا میں عجیب اندھیر
پھر میری توجہ ان لوگوںکی طرف پھری جن کو جنگلوں میںشیر اور بھیڑئیے کھا جاتے ہیں اور مَیں نے کہا کہ دنیا میں عجیب اندھیر ہے کہ:-
اوّل: مقبرے بے انصافی سے بنے۔
دوم: قبروں کی آرام گاہوں کو عمارتوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
سوم: بعض کو خود ان کی قوم نے جلا کر راکھ کر دیایا پرندوں کو ِکھلا دیا اور بعض کو حوادث نے خاک میں، پانی میں ، درندوں کے پیٹوں میںپہنچا دیا۔ پس مَیں نے کہا اگر مقبرے کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے ذریعہ مرنے والے کانشان قائم رکھاجائے تو یہ غرض سب کو حاصل ہونی چاہئے تھی نہ یہ کہ جس کے رشتہ دار امیر ہوتے وہ تو مقبرہ بنا لیتے او رباقی لوگوں کے مقبرے نہ بنتے۔ پھر جن کے مقبرے بنے تھے یا جوقبروں میںمدفون ہوئے تھے اُن کے مقبر ے اور ان کی قبریں محفوظ رہنی چاہئے تھیں مگر نہ تو سب کے مقبرے بنے اور نہ سب کی قبریںمحفوظ رہیں۔ پس مَیں نے کہا یہ تجویز تو بڑی اچھی ہے او ر مقبرہ بنانے کا خیال جس شخص کے دل میں پہلی مرتبہ آیا اسے واقعہ میں نہایت اچھا خیال سُو جھا مگر انسانی عقل دنیا کے مقبروں کو دیکھ کرتسلی نہیں پاتی اس لئے کیا کوئی ایسا مقبرہ بھی ہے جس سے وہ غرض پوری ہوتی ہو جو مقبرہ کاموجب بنی ہے اور جس میں کوئی بے انصافی نہ ہوتی ہو، بلکہ ہر ایک کا نشان اس کے حق کے مطابق قائم رکھا جاتا ہو۔
ایک اور مقبرہ
مَیں نے دیکھا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک اور مقبرہ بھی ہے اور اس میں وہ تمام باتیںپائی جاتی ہیں جو مقبرہ میںہونی چاہئیں، چنانچہ
اس میں لکھاتھا خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ۱؎
فرماتا ہے ہم نے انسان کو پیدا کیا فَقَدَّرَہٗ پھر ہم نے انسان کے اندر اس کی پیدائش کے وقت ہی جس حد تک اس کا نشوونما ممکن تھا اس کے مطابق تمام طاقتیں اور قوتیں پیدا کر دیں، اسے دماغ دیا، دماغ کے اندر سیلز بنائے ا ور ہر سیل کے اندر بات کومحفوظ رکھنے کی طاقت پیدا کی۔ اسی طرح ہم نے اسے ذہانت دی اور اس ذہانت کے لئے اس کے دماغ کے کچھ حصے مخصوص کئے۔ کچھ فہم کے لئے مخصوص کئے، کچھ جرأت اور دلیری کے لئے مخصوص کئے، پھر ہاتھوں اورپیروں کو طاقت دی تا کہ وہ اپنا اپنا کام کر سکیں۔معدہ کو طاقت دی کہ وہ غذا ہضم کر کے تمام اعضاء کو قوت پہنچائے۔ ہڈیوں کو طاقت دی، قوی کو طاقت دی غرض اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے بعد اس کے قو ی کا اندازہ مقرر کیا اور ہر عضو کو اس کے مناسبِ حال طاقت دی تا کہ وہ خاص اندازہ کے مطابق ترقی کر سکے۔ عام قاعدہ یہ ہے کہ جو چیز بنائی جائے وہ اسی معیّن حلقہ میں کام کرتی ہے جس معیّن حلقہ میں کام کرنے کے لئے اُسے بنایا جاتا ہے مگر فرمایا ہم نے انسان کو ایسا نہیں بنایاجیسے پتھروغیرہ ہیں کہ وہ اپنی شکل نہ بدل سکے بلکہ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی قابلیت اس میں رکھی ہے ۔ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ جب ہم نے اس میں طاقتیں اور قوتیں رکھیں تو ہم نے محسوس کیا کہ اب ان طاقتوں اور قوتوں سے کام بھی لیا جانا چاہئے اور ایسا رستہ ہونا چاہئے جس پر چل کر انسان ان طاقتوں سے کام لے کر چل سکے۔آخر جب خدا نے ہر انسان میںسوچنے کی طاقت رکھی ہے تو لازماً ایسی باتیں ہونی چاہئیں جن پر انسان غور کرے اور اس طرح اپنی اس طاقت سے فائدہ اُٹھائے یا جب خدا نے ہر انسان کے اندر یہ طاقت پیدا کی ہے کہ وہ خدا کے قُرب میں بڑھ سکتا ہے تو کوئی ایسا رستہ بھی ہونا چاہئے جس پر چل کر اُسے قُرب حاصل ہو سکے۔ پھر جب خدا نے انسان کو اندازہ لگانے کی طاقت دیدی ہے تو اس کے نتیجہ میں لازماً وہ بعض کو اچھا قرار دیگا اور بعض کو بُرا۔ چنانچہ دیکھ لو کچھ کھانے اچھے ہوتے ہیں کچھ بُرے ہوتے ہیں۔ پھرکام بھی کچھ اچھے ہوتے ہیںاور کچھ بُرے ہوتے ہیں ۔ پھر آپس کے مقابلوں میںسے بھی کچھ مقابلے مشکل ہوتے ہیں اور کچھ آسان ہوتے ہیںاور انسا ن اپنی ذہانت اور ان طاقتوں سے کام لے کر جو خدا نے ہر انسان کے اندر ودیعت کی ہوئی ہیں فیصلہ کرتا ہے کہ کونسی بات اچھی ہے اور کونسی بُری ۔
اسلام کی مطابقِ فطرت تعلیم
پس چونکہ ہر انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے کئی قسم کی طاقتیں پیدا کی تھیں اس لئے کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے تھا چنانچہ یہ راستہ
اللہ تعالیٰ نے خود ہی تجویز کر دیا مگر یہ راستہ مشکل نہیں بلکہ فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ خدا نے اس راستہ کو آسان بنایا ہے یعنی اسے (۱) الہام اور (۲) مطابقِ فطرت تعلیم دی ہے۔ ایسا راستہ نہیں بنایا کہ جس پر انسان چل ہی نہ سکے جیسے انجیل نے کہہ دیا کہ اگر کوئی شخص تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تُو اپنا دوسرا گال بھی اس کی طر ف پھیر دے۔ اب یہ تعلیم بظاہربڑی خوش کن معلوم ہوتی ہے مگر کوئی شخص اس پر عمل نہیںکر سکتا۔
مصر کاایک لطیفہ مشہور ہے وہاں چند سال ہوئے ایک عیسائی مبلغ نے تقریریں شروع کر دیں اور لوگوں پر ان کا اثر ہونا شروع ہو گیا۔ایک پُرانی طرز کا مسلمان وہا ں سے جب بھی گزرتا دیکھتا کہ پادری وعظ کر رہا ہے اور مسلمان خاموشی سے سُن رہے ہیں اس نے سمجھا کہ شاید کوئی مسلمان مولوی اس کی باتوں کا جواب دے گا۔ مگر وہ اس طرف متوجہ نہ ہوئے اور خود اس کی علمی حالت ایسی نہیںتھی کہ وہ اُس کے اعتراضوں کا جواب دے سکتا اس لئے وہ اندر ہی اندر کڑھتا رہتا۔ ایک روز خدا تعالیٰ نے اُس کے دل میںجوش پیداکردیا اور جب پادری وعظ کرنے لگا تو اُس نے زور سے اُس کے مُنہ پر تھپڑ دے مارا۔ پادری نے سمجھا کہ اگر مَیں نے اس کا مقابلہ نہ کیا تو یہ اَور زیادہ دلیرہو جائے گا چنانچہ اس نے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھایا۔ مصری کہنے لگا میںنے تو اپنے مذہب پر عمل کیا ہے تم اپنے مذہب پر عمل کر کے دکھادو۔تمہاری تعلیم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پر تھپڑ مارے تو اُس کی طرف تمہیں اپنا دوسرا گال بھی پھیر دینا چاہئے۔ مَیں تو اس امید میں تھا کہ تم اپنے مذہب کی تعلیم کے مطابق اپنا دوسرا گال بھی میری طرف پھیر دو گے مگر تم تو مقابلہ کے لئے تیار ہو گئے ہو، اگر تمہاری تعلیم قابلِ عمل ہی نہیں تو تم وعظ کیا کرتے ہو۔ پادری اس وقت جوش کی حالت میں تھا اس نے زور سے اُسے گھونسا مار کر کہا اِس وقت تو میںتمہارے قرآن پر ہی عمل کروں گا۔ انجیل پر عمل کروں گا تو تم مجھے اور مارا کرو گے۔ تو ہماری شریعت میںکوئی بات ایسی نہیں جو ناممکن العمل ہو۔ وہ کہتا ہے کہ اگر تم سے کوئی شخص بدی کے ساتھ پیش آتا ہے تو تم عفو سے کام لو بشرطیکہ تم سمجھو کہ عفو سے اس کی اصلاح ہو جائے گی، لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ عفو سے اس کے اند رنیکی اور تقویٰ پیدا نہیں ہوگا بلکہ وہ اور زیادہ بدی پر دلیر ہو جائے گا تو تم اس سے انتقام بھی لے سکتے ہو۔ غرض اللہ تعالیٰ نے اسلامی شریعت کو ایسا بنایا ہے کہ ہر شخص ہر حالت میں اس پر عمل کر سکتا ہے اور کوئی بات ایسی نہیں ہے جس کے متعلق کہا جا سکے کہ ا نسان کے لئے اس پر عمل کرنا ناممکن ہے، لیکن دوسری شریعتوں کایہ حال نہیں۔ انجیل نے ہی تعلیم تو یہ دے دی ہے کہ اگر کوئی شخص ایک گال پرتھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیردو، لیکن عملی رنگ میں انگریز اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں ، جرمن اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ و ہ عیسائی ہیں، فرانسیسی اس کے خلاف کرتے ہیں حالانکہ وہ عیسائی ہیں، اور وہ سب آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور ان میںسے کوئی بھی اس تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ۔ پھر ہماری غرض چونکہ اس تعلیم کے بھیجنے سے یہ تھی کہ انسان اس پر عمل کریںاور ہمارے انعامات کے مستحق ٹھہریں اس لئے جب کوئی شخص عمل ختم کر لیتا اور امتحان کا پرچہ ہمیں دے دیتا ہے اور امتحان کا وقت ختم ہو جاتا ہے تو ہم اسے قبر میں ڈال دیتے ہیں۔
ہر انسان کو خداتعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کو خداتعالیٰ خود قبر میں ڈالتا ہے
یہ مٹی کی قبر جس میں ہم انسان کو دفن کر کے آجاتے ہیں یہ اصل میںمادی جسم کا ایک نشان ہوتا ہے ورنہ اصل قبر وہی ہے جو خدا بناتا ہے۔ اس مادی قبر میں مُردے کو دفن کرنے، گڑھا کھودنے، میّت کو غسل دینے اور کفن پہنانے کا تمام کام ہمارے ذمہ ہوتا ہے مگر اصلی قبر میںڈالنے کا کام اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لیا ہؤا ہے۔
اس مقبرہ کے متعلق مجھے کم سے کم یہ معلوم ہؤا کہ اس میںسب انسانوں سے یکساںسلوک ہوتا ہے یعنی سب کا مقبرہ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ اکبر کا مقبرہ ہو اور ابوالفضل کا نہ ہو بلکہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کا اللہ تعالیٰ نے مقبرہ بنایا ہے اکبر کا بھی اور اکبر کی دایہ کا بھی، اکبر کے بچہ کی کھلائی کابھی، اکبر کے درزی ، اکبر کے دھوبی اور اکبر کے چوہڑے کا بھی کیونکہ انہوںنے بھی کوئی نہ کوئی کام اپنے درجہ اور لیاقت کے مطابق کئے تھے اور اُن کی حفاظت بھی ضروری تھی۔ پس یہ قبرستان ایسا ہے جس میں کسی سے بے انصافی نہیں کی گئی بلکہ ہر ایک کامقبرہ موجود ہے ۔نیز مَیں نے دیکھا کہ جن کو لوگ جَلا دیتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاںموجود تھے، جن کوشیرکھا جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاںموجود تھے، جو سمندر میںڈوب جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے،جومکانوں میںجل جاتے ہیں ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے، جن کی قبروں کو لوگوں نے اُکھیڑ دیا ان کے مقبرے بھی یہاں موجود تھے، وہ اس دنیا کی قبروں کو اُکھاڑ کر پھینک سکے مگر اس مقبرہ کو تو چُھو بھی نہیں سکے۔ غرض کوئی انسان ایسا نہ تھا جس کا مقبرہ یہاں نہ ہو خواہ اُسے جلا دیا گیا ہو، مٹا دیا گیا ہو، مشینوں سے راکھ کر دیا گیا ہو، چِیلوں اور کُتّوں نے اسے کھا لیا ہو، مچھلیوں کے پیٹ میںچلا گیاہو، شیروں اور بھیڑیوں نے اُسے ُلقمہ بنا لیا ہو، کھڈّوں میں گر کر مرا ہو اور گیدڑ اور دوسرے جنگلی جانور اُسے کھا گئے ہوں، ہر شخص کا مقبرہ یہاں موجود تھا، غرض چھوٹے بڑے، امیر غریب، عالِم جاہل سب کو مقبرہ حاصل تھا۔ مَیں نے جب اس مقبرہ کو دیکھا تو کہا دنیا نے بہتیری کوشش کی کہ لوگوں کی قبروں کو مٹا ڈالے اور حوادثِ زمانہ نے بھی نشانوں کو محو کرنے میں کوئی کمی نہ کی مگر پھر بھی ایک نہ ایک مقام تو ایسا ہے جس میں تمام انسانوں کے مقبرے موجود ہیں۔
ثواب عذاب ظاہری قبر میں نہیں
بلکہ عالَمِ برزخ کی قبر میںملتا ہے
جیساکہ مَیں نے بتایا ہے اس آیت میں قبر کا لفظ جوآتا ہے اس سے مراد وہ مقام ہے جس میں مرنے کے بعدا رواح رکھی جاتی ہیں خواہ مؤمن کی رُوح ہو یا کافر کی۔ سب کی روحیں اس مقام
پر رکھی جاتی ہیں ا ور درحقیقت یہی قبر ہے جس میں ثواب یا عذاب ملتا ہے۔ وہ جو حدیثوں میں آتا ہے کہ مرنے کے بعد کافروں کو قبر کا عذاب دیا جاتا ہے اس سے مراد یہی قبر ہے ظاہری قبر مراد نہیں ۔کئی بیوقوفوں کے متعلق آتا ہے کہ انہوں نے بعض منافقین کی قبریں کھولیں یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا قبر میںاُن کے لئے دوزخ کی کھڑکی ُکھلی ہے یا نہیں؟ مگر جب انہوں نے قبرکو کھولا تو انہیں کوئی آثار دکھائی نہ دئیے۔ درحقیقت یہ ان کی غلطی تھی، اگر اسی قبر میںثواب وعذاب ہو تو وہ پارسی جو اپنے مُردے چِیلوں کو کھلا دیتے ہیں، وہ ہندو جو اپنے مُردوں کو جَلا دیتے ہیں اور وہ لوگ جو ڈوب یا جل کر مر جاتے ہیں ان کو تو قبر کاعذاب یا ثواب ملے ہی نہ۔ کیونکہ ان کی تو قبریں ہی نہیں بنیں صرف مسلمان اسلام پر عمل کر کے گھاٹے میں رہے۔ مگر یہ بات غلط ہے اور حدیث میں تو ظاہری قبر مراد نہیں، ظاہری قبر میں تو بعض دفعہ یکے بعد دیگرے بیس بیس مُردوں کو دفن کرد یا جاتا ہے اور ہر شہر میںیہ نظارہ نظر آتا ہے ۔ایک قبر بنائی جاتی ہے۔ مگر پندرہ بیس سال کے بعد اس کا نشان مٹ جاتا ہے اور اس جگہ اور قبر بن جاتی ہے۔لاہور کا قبرستان پانچ سَو سال سے چلا آ رہا ہے، اس میں ایک ایک قبر میں پندرہ پندرہ بیس بیس آدمی دفن ہو چکے ہونگے۔ ایسی حالت میں ان میں سے کوئی تو شدید دوزخی ہو گا اور کوئی ادنیٰ قسم کا دوزخی ہو گا۔ کوئی اعلیٰ جنتی ہو گا اور کوئی ادنیٰ جنتی ہو گا۔ اگر دوزخ اور جنت کی کھڑکی اسی قبر میں کُھلتی ہو تو بالکل ممکن ہے کہ پہلے ایک دوزخی اس میں دفن ہو اور پھر کوئی جنتی اس میںدفن ہو جائے۔ایسی صورت میںلازماً دوزخ کی آگ جنتی کو لگے گی اور جنت کی ہوا دوزخی کو پہنچے گی اور ثواب وعذاب بالکل مضحکہ خیز صورت اختیا رکر لیں گے ۔ پس یہ غلط ہے کہ وہ قبر جس میں ثواب یاعذاب ملتا ہے یہ ظاہری قبرہی ہے۔ وہ قبر وہ ہے جس میں خداتعالیٰ خود انسان کو ڈالتا ہے چنانچہ اس کامزید ثبوت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْحَقُّ وَاَنَّہٗ یُحْیِ الْمَوْتٰی وَاَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌوَّاَنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ لَّا رَیْبَ فِیْھَا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ۲؎
فرماتا ہے ہم نے جو بات کہی ہے کہ اللہ ہی اصل چیز ہے اور وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر بات پر قادر ہے اس کا ثبوت یہ ہے کہ قیامت آنے والی ہے جس میں کسی قسم کاشک وشبہ نہیں وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِِ ۔ اور یہ کہ قیامت کے دن جو لوگ قبروں میں ہونگے اللہ تعالیٰ اُن کو زندہ کردیگا۔ اب اگر قبر سے مراد یہی ظاہری قبر ہو تو اس کے معنے یہ ہونگے کہ قیامت کے دن صرف مسلمان زندہ کئے جائیں گے۔ہند و جو اپنے مُردے کو جلادیتے ہیں، پارسی جو اپنے مُردے چِیلوں کو کھلا دیتے ہیں او رعیسائی کہ وہ بھی اب زیادہ تر مرُدوں کو جلاتے ہیں زندہ نہیں کئے جائیں گے۔ عیسائی پہلے تو مُردوں کو دفن کیا کرتے تھے مگر اب بجلی سے جلا کر راکھ کردیتے ہیں۔ پس اگر یہی مفہوم ہو تو لازم آئے گا کہ قیامت کے دن مسلمانوں کے سِواا ور کوئی زندہ نہ ہو کیونکہ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کی حالت اب دنیا کے اکثر حصہ میںنہیں پائی جاتی۔ اس صورت میں مسلمان او ریہودی تو اپنے اعمال کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہو جائیں گے مگر باقی سب چُھوٹ جائیں گے۔پس یہ معنے درست نہیں بلکہ اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان قبروں میں سے جو اس کی بنائی ہوئی ہیں سب مرُدوں کو زندہ کرے گا اور ان خدائی قبروں میں وہ بھی دفن ہوتے ہیں جو مادی قبروں میںدفن ہیں اور وہ بھی جو جلائے جاتے ہیںاور وہ بھی جن کو درندے یا کیڑے مکوڑے کھا جاتے ہیں۔ پس اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ ا س سے مراد وہی قبر ہے جس میں خدا رکھتا ہے، وہ قبر نہیں جس میں انسان رکھتا ہے۔ اور سب مُردوں کو خواہ وہ دریا میں ڈوب جائیں خواہ انہیں پرندے کھا جائیں خواہ وہ جلائے جائیں قبر والا قرار دیا گیا ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ قبر اصل میںوہ مقام ہے جس میںاللہ تعالیٰ ہر روح کو رکھتا ہے خواہ وہ مٹی کی قبر میں جائے خواہ ڈوب کر مرے اور خواہ جلایا جائے۔
ایک اعتراض اور اُس کا جواب
ا س مقام پرکوئی شخص اعتراض کر سکتا ہے کہ تم بیشک مانتے ہو کہ قرآن خدا کا کلام ہے مگر ہم تواسے
درست نہیں سمجھتے ہمارے نزدیک قرآن کے مصنف نَعُوْذُبِاللّٰہِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور انہوں نے اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِکے الفاظ اس لئے استعمال کئے ہیں کہ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ بعض لوگ اپنے مُردوں کو جلا بھی دیتے ہیں وہ یہی سمجھتے تھے کہ سب لوگ مُردوں کو دفن کرتے ہیں اس لئے انہوں نے اَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ کے الفاظ استعمال کر دئیے پس آیت کا یہ حصہ ان کی ناواقفی پر دلالت کرتا ہے۔ اس سے یہ کس طرح ثابت ہو گیا کہ سمندر میںڈوبنے والا بھی کسی قبر میںجاتا ہے اور درندوں کے پیٹ میں جانے والا بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور جسے راکھ بنا کر اُڑا دیا گیا ہو وہ بھی کسی قبر میں جاتا ہے اور پھر ان سب کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اُٹھائے گا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آپ کوجلانے والوں کا علم نہیں تھا تو آیا ڈوبنے والوں کا علم تھا یا نہیں ، مکہ سے سمندر چالیس میل کے فاصلہ پر ہے اور کشتیاں اُس زمانہ میں بھی چلا کرتی تھیں اور ڈوبنے والے ڈوبتے تھے ۔پس اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ کچھ لوگ اپنے مُردے جلاتے ہیں تو کم از کم آپ کو یہ تو معلوم تھا کہ بعض لوگ ڈوب جاتے ہیں اور وہ قبر میں دفن نہیں ہو سکتے۔پھر اس کو بھی جانے دو کیا مکہ میںکبھی کسی گھر میں آگ لگتی تھی یا نہیں اور کیا آپ نہیں جانتے تھے کہ بعض لوگ جل کر راکھ ہو جاتے ہیں؟ پھر کیا مکہ کے اردگرد جو کچھ فاصلہ پرجنگلات ہیں وہاں کے شیر اور بھیڑئیے مشہور نہیں تھے؟ اور کیا آپ کے زمانہ میں یہ جانور کبھی کسی آدمی کو پھاڑ کر کھاتے تھے؟ یا نہیں اورآپ کو علم تھا یا نہیں کہ قبر میںدفن ہونے کے علاوہ ایسے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جنہیں شیر اور بھیڑئیے کھاجائیں؟ جو آگ میں جل کر مر جائیں اور جو سمندر میں ڈوب مریں ؟پھر اس کو بھی جانے دو عرب کے ساحل کے ساتھ مجوسی لوگ تھے اور وہ اپنے مُردوں کو دفن نہیں کرتے تھے بلکہ چِیلوں اور کُتّوں کو کھلا دیا کرتے تھے۔ یہ لوگ بوجہ عرب کے قُرب کے آپؐ کو ملتے تھے بلکہ ان لوگوں میںسے بعض مسلمان بھی ہوئے آپؐ ان کے حالات کو خوب جانتے تھے اور یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ آپ کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ بعض قومیں اپنے مُردے جلا دیا کرتی ہیں۔ پھر کیا عجیب بات نہیں کہ جب یہ لوگ قرآن کریم کی جامع مانع تعلیم پر اعتراض کرتے ہیں تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف تھے، آپ نے ان کی اچھی باتیںاپنی کتاب میںدرج کر لیں حتیٰ کہ بعض لوگ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ آپؐ نے فلاںفلاں بات ویدوں سے لی ہے مگر دوسری طرف یہ کہہ دیتے ہیںکہ آپ کو یہ علم تک نہیں تھا کہ بعض لو گ مُردے دفن کرنے کی بجائے جلایا کرتے ہیں حالانکہ جو شخص مجوسیوں اور یہودیوں کی تعلیم سے واقف ہو سکتا ہے جو بقول معترضین کے ژند آوستا، توراۃ، انجیل اور ویدوں سے واقف ہو سکتا تھا کیا وہ اس امر سے ناواقف ہو سکتا تھا کہ بعض لوگ مُردے دفن نہیں کرتے بلکہ جلا دیتے ہیں یا جانوروں کو کھلا دیتے ہیں۔
الٰہی مغفرت کا ایک ایمان افر وز واقعہ
پھر علاوہ ان دلائل کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے بھی معلوم ہوتا
ہے کہ آپ کو علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں اور گو اس میں صرف ایک شخص کاذکر آتا ہے مگر مسئلہ ایک کے ذکر سے بھی ثابت ہو جاتا ہے وہ حدیث یہ ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں انَّ رَجُلا حَضَرَہُ الْمٰوْتُ فَلَمَّا یَئِسَ مِنَ الْحَیٰوۃِ اَوْصٰی اَھْلَہٗ اِذَا اَنَامِتُّ فَاجْمَعُوْالِیْ حَطَبًا کَثِیْرًا وَاَوْقِدُوْا فِیْہِ نَارًا حَتّٰی اِذَا اُکِلَتْ لَحْمِیْ وَخَلصَتْ اِلٰی عِظَامِیْ فَامتحشت فَخذوھا فاطحنوھا ثُمِّ انْظُرُوْا َیوْمًا رَاحًا فاذروہ فی الْیَمِّ فَفَعَلُوْا فَجَمَعَہُ اللّٰہُ فَقَالَ لَہٗ لِمَ فَعَلْتَ ذٰلِکَ قَالَ مِنْ خَشْیَتِکَ فَغَفَرَاللّٰہُ لَہٗ۳؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کیا اور کہا کہ جب میں مر جائوں تو لکڑیاں جمع کر کے اُ ن کو آگ لگانا ا ور پھر اس آگ میں مجھے ڈال دینایہاں تک کہ میرا سارا گوشت کھایا جائے اور ہڈیاں گل جائیں پھر جو جلی ہوئی ہڈیاں باقی رہ جائیں ان کو خوب پیسنا اور جب کسی دن تیز آندھی آئے تو میری ان پِسی ہوئی ہڈیوں کو دریا میں بہادینا۔ انہوں نے ایسا ہی کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کو پھر زندہ کر دیااور اس سے پوچھا کہ تُونے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ خدایا! میںسخت گنہگار تھا اور میںڈرتا تھا کہ اگر میری روح تیرے قابو آئی تو تُو مجھے ضرور سزا دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا جب تُو مجھ سے اس قدر ڈرتا تھا تو جا مَیںنے تجھے معاف کر دیا۔
اب دیکھو اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا کہ بعض لوگ جلائے جاتے ہیں کم سے کم ایک شخص کے متعلق آپ کو یقینی طور پر معلوم تھا کہ اُسے دفن نہیں کیا گیا بلکہ آگ میںجلایاگیا مگر پھر بھی وہ خدا کے قابو چڑھ گیااور اسے زندہ کر کے اس نے اپنے سامنے کھڑا کر دیا۔پس درحقیقت وہ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ میں ہی شامل تھا اور گو وہ جَلا کر ہَوا میں اُڑادیا گیا مگر پھر بھی قرآنی اصطلاح میںاسے قبر والا ہی قرار دیا گیا ہے۔
غرض اوّل تو قرآن کریم خدا کا کلام ہے جسے سب کچھ علم ہے، لیکن اگر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاکلام ہی سمجھ لیا جائے تب بھی آپ پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ بعض لوگ دفن نہیںہوتے بلکہ جلائے جاتے ہیں۔ پس باوجود لوگوں کے ڈوبنے، جلنے اور درندوں اور پرندوں کے پیٹ میں جانے کے پھر بھی قبر کے لفظ کا استعمال بتاتا ہے کہ قبر سے مرادو ہی مقام ہے جس میں سب ارواح رکھی جاتی ہیں نہ کہ مادی قبر جو ہر ایک کو نصیب نہیں۔
غرض قرآن کریم نے وہ مقبرہ پیش کیا ہے کہ رشتہ دارمیت سے خواہ کچھ سلوک کریں وہ اُسے جلا دیں وہ اُس کی ہڈیاں پِیس دیں وہ اُسے چِیلوں اور کتوں کے آگے ڈال دیں اور اس سے کیسی ہی بے انصافی کریں اللہ تعالیٰ خود اس کے لئے مقبرہ بناتا ہے اور اسے زندگی بخش کر اپنے پاس جگہ دیتا ہے اور اس میں کافر اور مؤمن کا کوئی امتیاز نہیں ہوتا۔ مرنے والے کے لواحقین اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اُسے کتوں کے آگے ڈال دیتے ہیں، وہ اپنے مذہب کے غلط عقائد کے ماتحت اسے چِیلوں اور گِدھوں کو کھلا دیتے ہیں،مگر خدا کا فر اور مؤمن سب کی ارواح کو قبر میں جگہ دیتا ہے۔
ہر شخص کا روحانی مقبرہ اس کے اعمال کے مطابق ہو گا
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر ایک کا
مقبرہ اس کے اعمال کے مطابق ہو سکتا ہے اور یہ کیونکر ممکن ہے کہ ہر شخص کامقبرہ اس کے عمل کے مطابق ہو۔ دنیامیں بڑے بڑے فریبی اور دغاباز ہوتے ہیں جن کی عمریں فریب اور دغا میں ہی گزر جاتی ہیں مگر ظاہر میں وہ بڑے متقی اور پرہیز گار دکھائی دیتے ہیں اور ان کے دل میں تو کچھ ہوتا ہے مگر ظاہر کچھ کرتے ہیں۔
حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک انگریز سرحد میں جا کر دس سال تک لوگوں کو نمازیں پڑھاتا رہااور کسی کو یہ احساس تک نہ ہؤا کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ انگریز ہے۔ اسی طرح برٹنؔ ایک عیسائی تھا جو نام بدل کر حج کے لئے چلا گیا۔اب فرض کرو وہ شخص اسی جگہ مر جاتا تو لوگ اس کا مقبرہ بنادیتے اور اُ س پر لکھ دیتے کہ یہ فلاں حاجی صاحب تھے جو حج کرنے کے لئے آئے اور مکہ میں ہی فوت ہوگئے حالانکہ وہ منافق تھا۔اسی طرح ہزاروں ایسے آدمی ہوتے ہیںجو دو سرے مذہب میںشامل ہو جاتے ہیں مگر درحقیقت وہ شامل نہیں ہوتے۔ قرآن کریم میں ہی منافقوں کا ذکر آتا ہے اور منافق وہی ہوتا ہے جو چُھپ کر رہے۔ اوپر سے تو ظاہر کر ے مگر دل میں اس کے کچھ اور ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان منافقوں کا بیشک یہ کہہ کرردّ کیا ہے کہ وَمَا ھُمْ بِمُؤْمِنِیْنَ۴؎۔ وہ مؤمن نہیں ہیں مگر ان کانام تو ظاہر نہیں کیا کہ پتہ لگ جاتا فلاں مؤمن نہیں بلکہ منافق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان منافقوں کا علم دیا گیا تھا اور بعض کے نام آپؐ نے ظاہر بھی فرمائے مگر کئی ایسے منافق تھے جن پر پردہ پڑا رہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عام لوگوں کو نہیں بتایا کہ وہ منافق ہیں۔ حضرت حذیفہؓ ایک صحابی تھے انہیں اس بات کا بڑا شوق تھا کہ وہ یہ معلوم کریںکہ ہم میں منافق کون کون ہیں چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پڑے رہتے تھے کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ ! مجھے ان کے نام بتا دیجئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے اصرار کو دیکھ کر آخر بتا دئیے۔ رفتہ رفتہ لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ حدیفہؓ کو منافقین کا علم ہے چنانچہ جس کے جنازہ پر حذیفہؓ نہیںجاتے تھے اس کے جنازہ پر باقی صحابہ بھی نہیں جاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ وہ منافق ہی ہو گا تبھی حذیفہؓ اس کے جنازہ میں شامل نہیں ہوئے۔
صحابہؓ میںبھی بعض منافق لوگ تھے
اب دیکھو وہ منافق تو تھے مگر خداتعالیٰ نے ان پر پردہ ڈال دیا اور لوگوں کے لئے یہ معلوم کرنا
مشکل ہو گیا کہ کون کون منافق ہیں۔ایسی حالت میں کسی منافق کا بھی مقبرہ بنا دیا جائے اور اس پر اس کی بڑی تعریف لکھ دی جائے تو دُنیوی لحاظ سے یہ بالکل صحیح ہو گامگر واقعات کے لحاظ سے اس سے بڑا جھوٹ اور کوئی نہیں ہوگا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقین کاسردار تھا اسے تو خداتعالیٰ نے ظاہر کر دیا مگر اس امر سے انکار نہیں کیاجا سکتا کہ اور بھی کئی منافق تھے جو ظاہر نہیں ہوئے قرآن کریم اس پر شاہد ہے ایسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ ہم لوگ صحابہ میںان کانام دیکھ کر ان کی تعریفیں کرتے ہوں مگر وہ خداتعالیٰ کی ناراضگی کے مورَد ہوں۔آخر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں بتایاکہ کون کون منافق ہے تو ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ مخفی رہے ہوں۔ بڑے لوگوں میںسے نہیں بلکہ ادنیٰ درجہ کے صحابی جن میں سے بعض کے نام بھی اسلامی کارناموں میں نہیںآتے ممکن ہے کہ ان میںسے بعض منافق ہوں۔ اب بالکل ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کے مقابر پر کوئی شخص لکھدے کہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ مقربانِ بارگاہِ صمدی ، مگر واقعہ یہ ہو کہ وہ راندئہ درگاہ ہوںنہ کہ خدا کے مقرب اور اس کی رضا حاصل کرنے والے۔ اس جگہ کوئی شیعہ صاحب اگر یہ اعتراض کر دیں کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ صحابہ میں بعض منافق تھے اور وہ پوشیدہ رہتے تھے پھر اگر ہم صحابہ کو منافق کہتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہمیں منافقوں کو منافق کہنے پر اعتراض نہیں بلکہ مؤمنوںمخلصوں الْسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کو منافق کہنے پر اعتراض ہے قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے کچھ ساتھی منافق تھے، لیکن وہ صحابہ کی بڑی جماعت کو مخلص اور رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ۵؎ کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ الْسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ ابتدائی زمانہ اسلام میں ثُلَّۃٌ تھے یعنی ایک بڑی جماعت تھے اور عام مؤمن اور مخلص بھی بڑی جماعت تھے ہمیں صرف یہ اعتراض ہے کہ شیعہ صاحبان بڑی جماعت کو منافق اور صرف چند اصحاب کو مؤمن کہہ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکام اور نامراد قرارد یتے ہیں۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذَالِکَ۔ حالانکہ قرآن کریم آپ کی قوتِ قدسیہ کوکامیاب وبامراد فرماتا ہے اور تاریخ اور واقعات بھی اس پر شاہد ہیں اور دشمن بھی اقراری ہیں۔ وَالْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ
کاموں کی اہمیت کاصحیح اندازہ لگانے میں مشکلات
دوسری مشکل ہمیںیہ پیش آتی ہے کہ علاوہ منافقت
کے کاموں کی اہمیت کا بھی صحیح اندازہ دنیامیں نہیں لگایا جا سکتا۔بعض کام بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں مگر بعد میں ان سے بڑے بڑے اہم نتائج پید اہوتے ہیں۔بعض فقرات چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں مگران کے اثرات بڑے وسیع ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلہ میںکئی باتیں وقتی طور پر بڑی دکھائی دیتی ہیں مگر نتائج کے اعتبار سے بالکل بے حقیقت ہوتی ہیں پھر کئی کام ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہوتا حالانکہ اُن سے بھی انسان کے اخلاق وعادات پرنہایت گہری روشنی پڑتی ہے پس مَیں نے سوچا کہ جب تک یہ مشکل حل نہیں ہو گی اُس وقت تک کام نہیں بنے گا۔بیشک قرآن سے ایک مقبرے کا تو پتہ لگ گیا مگر جب تک مقبرہ ہرشخص کے اعمال کے مطابق نہ ہو اُس وقت تک مقبرہ کی غرض پوری نہیں ہو سکتی۔
روحانی مقبرہ میں انسان کے ہر
چھوٹیبڑے عملکومحفوظ رکھا جاتا ہے
جب مَیں نے اس کے متعلق قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے دکھائی دیاکہ قرآن کریم نے اس مشکل کاحل کیا ہؤا ہے اور وہ بتاتا ہے کہ اس مقبرہ کے متعلق ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ اس میںہر شخص کا
چھوٹا بڑا عمل لکھ کر رکھ دیا جاتا ہے اور اس طرح مقبرہ کی اصل غرض پوری ہو جاتی ہے چنانچہ فرماتا ہے وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّافِیْہِ وَیَقُوْلُوْنَ یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ھٰذَا الْکِتٰبِ لَا یُغَادِرُصَغِیْرَۃً وَّلَاکَبِیْرَۃً اِلَّااَحْصٰھَا وَوَجَدُوْا مَاعَمِلُوْا حَاضِرًاط وَلَایَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا ۶؎
یہاں چونکہ دوزخیوں کا ذکر ہے اس لئے فرماتا ہے وَوُضِعَ اْلِکتٰبُ اور ان کے اعمال نامے ان کے سامنے رکھ دیئے جائیں گے اورجب انہیں معلوم ہوگا کہ ان کے سارے اعمال اس میں آ گئے ہیں تو تُومجرموں کو دیکھے گا کہ وہ کانپنے لگ جائیں گے اور کہیںگے اوہو! جواعمال ہم نے چُھپائے تھے وہ تو آج سب ظاہر ہو گئے اور کہیں گے ارے موت! تو کیسی میٹھی چیز ہے تو کیسی اچھی چیز ہے تو آ تاکہ ہم مرجائیں اور اِس ذلّت اور رُسوائی کو نہ دیکھیں مگر وہاں موت کہاں۔ پھر وہ کہیں گے یہ کیسی کتاب اور کیسا اعمال نامہ ہے کہ کوئی چھوٹا یا بڑا عمل نہیں چھوڑتی خواہ گھر میں کیا جائے خواہ باہر کیا جائے، خواہ بیوی بچوں کی موجودگی میں کیا جائے اور خواہ ان سے چُھپ کر کیا جائے، خواہ دوستوں میں کیاجائے خواہ دوستوں کی عدم موجودگی میں کیا جائے، پھر چاہے وہ عمل کسی غار میں کیا جائے اور چاہے میدان میں اور جو کچھ انہوںنے کیا ہو گا، سینما کی تصویروں کی طرح ان کے سامنے آ جائے گا اور ان کے ہر عمل کی فلم ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگ جائے گی گویا ان کے خلاف ڈبل شہادت ہو گی۔ ایک طرف تو ان کے اعمال کی فہرست ان کے سامنے پیش ہو گی اوردوسری طرف انہوں نے اپنے ہاتھوں اور پائوں سے جوکیا ہو گا اس عمل کی فلم بنا کر ان کے سامنے لائی جائے گی، اسی مفہوم کو ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ ان کے ہاتھ اور پائوں ان کے خلاف گواہی دیں گے یعنی انسان نے اپنے ہاتھوںاور پائوں وغیرہ سے جو جو اعمال کئے ہونگے ان کو ظاہر کرنے کے لئے اعمال کے ریکارڈ پر گراموفون کی سوئی لگا دی جائے گی جس سے ان کے اپنے گزشتہ اعمال کی تمام تفصیل ان کے سامنے آ جائے گی وَلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ اَحَدًا اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا وہ یہ نہیں کر سکتا تھا کہ بغیر حُجّت کے انہیں سزا دے اسی لئے وہ ایک طرف تو فرشتوں کو بطور گواہ پیش کرے گا جو اعمالنامہ اس کے سامنے رکھ دیں گے اور دوسری طرف اس کے اعمال کی فلم اس کی آنکھوں کے سامنے لائی جائے گی۔ـ
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص کے عمل چھوٹے ہوںیا بڑے اس مقبرہ میںمحفوظ رکھے جاتے ہیں تا کہ مقبرہ کی جو اصل غرض ہے کہ انسان کی گزشتہ زندگی کا نشان قائم رہے وہ پورا ہو۔
ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیاجائے گا
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کے مطابق سلوک بھی ہوتا
ہے یا نہیں؟ یہ تو معلوم ہو گیا کہ ہر شخص کے عمل محفوظ رکھے جاتے ہیںمگر کیا اس کے مطابق ہر شخص کامقبرہ بھی بنایا جاتا ہے یا نہیںاس کے متعلق جب ہم غور کرتے ہیں تو قرآن کریم سے ہی ہمیں اس کا یہ جواب ملتا ہے وَاِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَھُمْ اِنَّہٗ بِمَا یَعـْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ ۷؎
کسی شخص کو بھی اس کے اعمال کا اب تک پورا بدلہ نہیں ملا لیکن ایک دن ایسا آئے گا کہ ہر ایک شخص کو اس کے اعمال کا اللہ تعالیٰ پورا پورا بدلہ دیگا کیونکہ وہ تمہارے اعمال کو اچھی طرح جانتا ہے۔
بعض دفعہ لوگ کسی معمولی ابتلاء پرہی کہہ دیتے ہیں کہ یہ شامتِ اعمال کا نتیجہ ہے اور اس طرح وہ اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ جو سزا ا نہیں ملنی تھی وہ مل گئی ہے اسی طرح مؤمنوں کو دنیا میں جو ترقی حاصل ہوتی ہے اس کو دیکھ کر بھی خیال کیا جا سکتا ہے کہ شاید مؤمنوں کو جو انعامات ملنے تھے وہ مل گئے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمَّا ہر گز نہیں ابھی تک نہ مؤمنوں کو انعامات ملے ہیں نہ کافروں کو سزا ملی ہے۔ لَمَّا کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اب تک یہ فعل نہیں ہؤا۔ اس آیت میں لَمَّا کا فعل حذف ہے جو یُوَفَّوْا اَعْمَالَھُمْ ہے اور مطلب یہ ہے کہ ابھی تک انہیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ نہیں ملا مگر ایک دن ضرور تیرا رب انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ پس وہ تمام کام جو تم راتوں کو کرتے ہو، لوگوں سے چُھپ کر کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ لوگوں پر ظاہر نہ ہوں، اسی طرح وہ تمام کام جو تم لوگوں کے سامنے کرتے ہو، ان تمام اعمال کواگر توبہ قبول نہ ہوئی تو خدا تعالیٰ اُس دن ظاہر کر دے گا اور جس رنگ کے اعمال ہوںگے اُسی کے مطابق مقبرہ دیا جائے گا۔
اسی طرح سورۃ نَبَا میں فرماتا ہے کہ جَزَائً مِّنْ رَّبِّکَ عَطَائً حِسَابًا ۸؎ قیامت کے دن جو بدلہ ملے گاوہ تیرے رب کی طرف سے حساب کے مطابق ہو گا یعنی جس طرح بنیا پیسہ لیتا ہے اور سَودا دے دیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی عطاء بھی اُس دن حسابی ہوگی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اعمال کے مطابق بدلہ ہو گا اور جو شخص جس درجہ کا ہو گا اسی درجہ میں رہے گا یہ نہیں کہ اوّل کو دوم اور دوم کو اوّل کر دیا جائے گا۔
عَطَائًحِسَاباً اور یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا
بِغَیْرِ حِسَابٍمیں کوئی اختلاف نہیں
اس جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم میںاس بارہ میںدو قسم کی آیات آتی ہیں ایک قسم کی تو وہ آیات ہیں جو اوپر بیان ہوئی ہیںمگر ایک قسم کی وہ آیات ہیں جن میںیہ
مضمون بیان ہؤا ہے کہ مؤمنوں کو بغیرحساب رزق دیا جائے گا۔چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاُولٰٓئِکَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّۃَ یُرْزَقُوْنَ فِیْھَا بِغَیْرِحِسَابٍ ۹؎
وہ لوگ جنت میں داخل کئے جائیںگے اور انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا۔ اب پہلی آیت میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ وہاں عَطَائً حِسَابًا پیسے پیسے کا حساب ہوگا مگر یہاں یہ فرمایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق دیا جائے گا۔اسی طرح دوزخیوں کے متعلق فرماتا ہے فَاِنَّ جَھَنَّمَ جَزَاؤُکُمْ جَزَائً مَّوْفُوْرًا۱۰؎
کافروں کو مَوْفُوْر یعنی کثرت والاعذاب ملے گا۔ اب بظاہر یہ اختلاف نظر آتا ہے کیونکہ پہلی آیات میں مؤمنوں کے متعلق بتایا گیا تھا کہ انہیںحساب کے مطابق جزاء ملے گی اور دوسری آیات میںیہ بتایا کہ انہیں بغیر حساب کے رزق ملے گا۔ اسی طرح دوزخیوں کے متعلق پہلے تو یہ بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان پر ظلم نہیں کرے گابلکہ ان کے چھوٹے بڑے اعمال کو مدِّنظر رکھ کر سزا دے گا مگر اس آیت میں یہ بتایا کہ انہیں کثرت سے سزا دی جائے گی جس کے معنے بظاہر یہ معلوم ہوتے ہیں کہ وہ عذاب ان کے حق سے زائد ہو گا، مگر درحقیقت ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ مَوْفُوْر کا منشاء صرف یہ ہے کہ عذاب جو بھی ہو وہ زیادہ ہی معلوم ہؤا کرتا ہے خواہ وہ استحقاق سے تھوڑا ہی کیوں نہ ملے پس جَزَاؤُکُمْ جَزَائً مَوْفُوْرًا کے یہ معنے نہیں کہ تمہیں تمہارے حق سے زیادہ عذاب دیا جائے گا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ تم جو بھی گناہ کرتے ہو اس کا بدلہ تمہاری برداشت سے باہر ہو گا پس زیادتی سے مراد عمل سے زیادہ سزا نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ گناہ تو انسان دلیری سے کرلیتا ہے مگرا س کی سزا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ پوری سزا کا تو کیا ذکر ہے آدھی سزا بھی برداشت نہیں کر سکتا۔دوسرے مَوْفُوْر کے معنے پور ے کے بھی ہوتے ہیں اس لحاظ سے اس آیت پر کوئی اعتراض ہی نہیں ہوسکتا۔
یہ تو مَوْفُوْر کی تشریح ہے باقی رہا جنتیوں کا سوال سو وہ بھی پہلے اصل کے خلاف نہیں کیونکہ بغیر حساب کسی ایک شخص کے بارہ میں نہیں بلکہ تمام جنتیوں کے بارہ میں ہے پس اگر الف کو بغیر حساب کے ملے گا تو ب کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ج کو بھی بغیر حساب کے ملے گا اور ظاہر ہے کہ جب سب کو بغیر حساب کے انعام ملے تو یہ کسی کے حق کوزائل نہیں کرتا بلکہ سب کا درجہ بڑھاتا ہے۔لیکن جب خداتعالیٰ نے کہا کہ انعام حساب سے ملے گا تو اس کے یہ معنی ہیں کہ کسی کا درجہ کم نہ ہوگا بلکہ اسی حساب سے ہر ایک کو زیادہ ملے گا پس اس کے یہ معنے ہوئے کہ جنتیوں کو ان کے اعمال کے مقابلہ میںبغیر حساب زیادہ ملے گا۔ اور ان کے محدود اعمال کو مدّنظر نہیں رکھا جائے گا، لیکن یہ بغیر حساب ایک حساب کے ماتحت بھی ہو گا اور اس امر کا لحاظ رکھا جائے گا کہ نمبر ۲ نمبر اوّل سے نہ بڑھ جائے اور جب ہرایک کو بغیر حساب یعنی استحقاق سے بہت زیادہ ملنا ہے تو ظاہر ہے کہ نمبر ۲ نمبر ایک سے بڑھ ہی نہیں سکتا کیونکہ اسے بھی بغیر حساب ملے گا۔
خلاصہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ نے بغیر حساب کہا تو اس کے معنی ہیں اپنے عمل کے مقابل پر۔ اور جب حساب سے کہا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اپنے سے اوپر والے نمبرکے مقابل پر۔ یعنی ہر ایک کے درجہ کو قائم رکھا جائے گا اور نمبر اوّل والا دوم نہیں ہو گا اور دوم اوّل نہیں ہو گا اور ایک کا درجہ دوسرا نہیں لے سکے گا، اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے ایک شخص کے پاس ایک کروڑ روپیہ ہودوسرے شخص کے پاس دو کروڑ روپیہ ہو اور تیسرے کے پاس تین کروڑ روپیہ ہو۔ اب اگر کوئی دوسرا شخص یہ فیصلہ کرے کہ سب کو ایک ایک کروڑ اور روپیہ دیدیا جائے تو لازماً سب کا مال بڑھ جائے گا اور جو درجہ ان کا قائم ہو چکا تھا اس میں بھی کوئی نقص واقعہ نہیں ہوگا درجہ اوّل والا پھر بھی درجہ اوّل میں ہی شمار ہو گا اور درجہ دوم اور سوم والے پھر بھی دوم اورسوم درجوں میں ہی شمار ہو ں گے۔ پس جہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ مؤمنوں کو حسابی عطا ملے گی وہاں یہ مطلب ہے کہ جنتیوں کے درجے نہیں توڑے جائیں گے اور جہاںیہ فرمایا کہ بغیرحساب کے رزق دیا جائے گا تو وہاں یہ مفہوم ہے کہ عمل کی نسبت جزائیں بہت زیادہ ہونگی۔ پس ہر ایک کا مقام قائم رہے گا اور کسی کا بھی ریکارڈ خراب نہیں ہوگا۔ یہ نہیں ہو گا کہ مثلاً اگر اکبر کا مقبرہ پہلے درجہ پر ہے اور شاہجہان کامقبرہ دوسرے درجہ پر، تو شاہجہان کا مقبرہ اکبر سے بڑھ جائے بلکہ اللہ تعالیٰ اگر شاہجہان کو کبھی زیادہ انعام دے گا تو ساتھ ہی اکبر کو بھی اور دے گا اور فرمائے گا اس کے مقبرہ کواور اونچا کرو تاکہ تفاوتِ مراتب قائم رہے۔
غرض بغیر حساب کے الفاظ بتاتے ہیں کہ عمل کے مقابلہ میں جزاء زیادہ ہو گی اور عَطَائً حِسَابًا کے الفاظ بتاتے ہیں کہ نمبر توڑ کرنچلے درجہ والے کو اوپر نہیں لے جایاجائے گا۔
مرنیوالوں کا صحیح مقام روحانی مقبرہ سے ہی ظاہر ہوتا ہے
خلاصہ یہ کہ اس انتظام میں ہر ایک کا مقبرہ
ہے اور ہر ایک کا مقبرہ اس کے درجہ کے مطابق ہے اور یہی انتظام مقبروں کی غرض کو پورا کرنے والا ہے ا س میں صرف نام یاشُہرتِ ظاہری کے مطابق مقبرہ نہیں بنتا بلکہ خالص عمل اور حقیقی درجہ کے مطابق مقبرہ بنتا ہے اور یہ مقبرے گویا مرنے والوں کے صحیح مقام کو ظاہر کرتے ہیں۔
دنیامیں بعض دفعہ ایک شخص بڑا نیک ہوتا ہے مگر اس کے گھر کھانے کے لئے سُوکھی روٹی بھی نہیں ہوتی اور دوسرا شخص خدا تعالیٰ کو گالیاں دیتا ہے مگر اس کے گھر میں پلائو زردہ پکتا ہے۔ ایک کی ڈیوڑھی پر دربان بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور کسی کو اندر ُگھسنے نہیں دیتے اوردوسرے کے پاس اپنا سرچھپانے کے لئے جھونپٹری بھی نہیں ہوتی حالانکہ وہ بہت نیک اور خدا رسیدہ ہوتا ہے۔ اگر عمارتیں نیکی اور تقویٰ کی بناء پر بنائی جائیں اور جو زیادہ نیک ہو اس کی عمارت زیادہ شاندار ہو جو اس سے کم نیک ہو اس کی عمارت اس سے کم شاندار ہو تو شہر میں داخل ہوتے ہی پتہ لگ جائے گا کہ یہاں کے لوگوں کے اعما ل کیسے ہیں۔ مگر دنیا میں ایسا نہیں اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ایسے مقبرے بنائے ہیں کہ جن میں داخل ہوتے ہی ساری دنیا کی تاریخ کھل جائے گی اور ساری ہسٹری (HISTORY) آنکھوں کے سامنے آجائے گی کیونکہ وہ ہسٹری ان کے مکانوں اور ثوابوں اور عذابوں کی صورت میں لکھی ہو ئی ہو گی۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے پاک لوگوں
کے مقبروں کی حفاظت کا انتظام
پھر جو دنیا کے مقبرے ہیں ان میں اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ مقابر پر کُتّے پاخانہ پھر جاتے ہیں اور کوئی انہیں روکنے والا نہیںہوتا۔ انگریزوں نے آثارِ قدیمہ کا ایک محکمہ بنا کر پُرانے آثار کو کسی قدر
محفوظ رکھنے کی کوشش کی ہے مگر پھر بھی وہ مقبروں کی پوری حفاظت نہیں کر سکے اور حال یہ ہوتا ہے کہ مقبرے پر تو پچاس ساٹھ لاکھ روپیہ صَرف ہو چکا ہوتا ہے مگر وہاں جا کر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کُتّے آتے اور پاخانہ کر کے چلے جاتے ہیں۔ مگر وہ مقبرے جو اللہ تعالیٰ بناتا ہے ان کی یہ حالت نہیں ہوتی بلکہ وہاںہر شخص قابلِ عزت ہوتا ہے اس کے مقبرہ کی حفاظت کی جاتی ہے اور صرف گندے لوگوں کے مقبروں کی حالت ہی خراب ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُولٰئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ۱۱؎ جو نیک لوگ ہونگے انہیں جنت میںجگہ دی جائے گی اور ان کے اعزاز کو ہمیشہ قائم رکھا جائے گا، کوئی ان پر الزام نہیں لگاسکے گا۔ کوئی ان کی بے عزتی نہیں کر سکے گا اور کوئی ان کے درجہ کو گرا نہیں سکے گا۔
ناپاک لوگ اس مقبرہ میں کوئی بہتر مقام حاصل نہیں کر سکیں گے
اس کے مقابلہ میں جو کافر ہیں
ان کے متعلق فرماتا ہے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَنْ تُغْنِیَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ وَلَآاَوْلَادُھُمْ مِّنَ اللّٰہِ شَیْئًا وَاُولٰئِکَ ھُمْ وَقُوْدُ النَّارَ۱۲؎ جو کافر ہیں ان کے اموال خدتعالیٰ کے مقابل پر ان کے کام نہ آئینگے نہ اولاد کام آئے گی اور وہ ضرور آگ کا ایندھن بنیں گے۔
دنیاکے مقبرے بنانے والے کون ہوتے ہیں وہی ہوتے ہیں جن کے پاس مال ہوتا ہے۔ ایک انسان گندہ ہوتا ہے فریبی اور مکّار ہوتا ہے مگر اُس کے پاس دس لاکھ روپے ہوتے ہیں جب وہ مرتا ہے تو وہی دس لاکھ روپے اُس کی اولاد کے قبضہ میں چلے جاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ہمارا باپ خبیث تھا اس نے اپنی زندگی میں ہمیشہ جھوٹ اور فریب سے کام لیا اور کئی قسم کے ظلموں سے لوگوں کے مالو ں کو لُوٹا مگر محض اس وجہ سے کہ روپیہ ان کے پاس بافراط ہوتا ہے وہ اس کا شاندار مقبرہ بنا دیتے ہیں اور اس طرح لوگوں کے سامنے وہ بات پیش کرتے ہیں جو واقعات کے لحاظ سے بِالکل غلط ہوتی ہے۔ چنانچہ کئی بادشاہوں کے مقبرے بھی موجود ہیں۔ ان کے زمانہ کے لوگ کہا کرتے تھے کہ یا اللہ! ان کا بیڑا غرق کر مگر جب مر گئے تو ان کے وارثوں نے اُن کے مقبرے بنا دئیے، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے نظام میں یہ خرابی نہیں۔ دنیا میںتو غیر مستحق لوگوں کی اولاد یا مالی وُسعت ان کے مقبروں کو شاندار بنائے رکھتی ہے اور اس طرح لوگوں کو دھوکا لگتا ہے مگر فرماتا ہے تم ہمارے مقبرہ میں ایسا نہ دیکھو گے اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْالَنْ تُغْنِیَ عَنْھُمْ اَمْوَالُھُمْ جو لوگ کافر ہیں اگر وہ شاہجہان سے بھی زیادہ مال اپنے پاس رکھتے ہیں تو وہ ہمارے مقبرے میںاس روپیہ سے اپنے لئے کوئی بہتر جگہ حاصل نہیں کر سکتے۔ پھر فرماتا ہے کہ ممکن ہے کہ ان کا یہ خیال ہو کہ ہماری اولاد ہمارا مقبرہ بنا دیگی جیسے جہانگیر مر گیا تو اس کے عزیزوں نے اس کامقبرہ بنا دیا، مگر فرمایا یہ خیال بھی غلط ہے ان کی اولاد بھی ان کے کام نہیں آسکتی وَاُولٰئِکَ ھُمْ وَقُوْدُالنَّارِ ان کا مقبرہ تو آگ ہی ہے جس میں وہ ڈالے جائیں گے اور اپنے اعمال کی سزا پائیں گے۔
نوح ؑکا مقبرہ
پھر مَیں نے سوچا کہ کیا ان مقابر کا کوئی نشان اِس دنیا میں بھی ہے اور کیا اس کی کوئی علامت یہاں پائی جاتی ہے تا اسے دیکھ کر ہم ان غیر مرئی مقابر کا
اندازہ لگا سکیں۔یہ ساری باتیں تو اگلے جہان سے تعلق رکھتی ہیں اور بیشک ہم ان باتوں پرایمان رکھتے ہیں مگر لوگوں کو کس طرح دکھائیں کہ یہ باتیں سچی ہیں اس کی کوئی علامت یہاں بھی ہونی چاہئے جسے دیکھ کر اگلے جہان کے مقابر کا اندازہ لگایا جا سکے۔ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ دنیا میں بھی ان مقابر کے نشان قائم کئے گئے ہیں چنانچہ مَیں نے قرآن کو دیکھا تو مجھے اس میں ایک مقبرہ نوح کا نظر آیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰ خِرِیْنَ- سَلَامٌ عَلٰی نُوْحٍٍ فِی الْعٰلَمِیْنَ- اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ۱۳؎
فرماتا ہے ہم نے نوح کا دنیا میں روحانی مقبرہ قائم کیا ہے وہ بڑا اچھا آدمی تھا اور اگلے جہان میں ہم نے اسے بڑی عزّت سے رکھا ہؤا ہے۔ اور چونکہ جنت کے مقبرے میںسلامتی ہی سلامتی ہوتی ہے اس لئے تم بھی جب نوح کا ذکر آئے تو کہا کرو نوح عَلَیْہَ السَّلامُ اور اس کے مقام کویا د رکھو وہ خدا کی سلامتی کے نیچے ہے اور جب بھی اس کا نام لو اس کے ساتھ ’’عَلَیْہَ السَّلامُ‘‘ کا اضافہ کر لیاکرو۔ فرماتا ہے اس مقبرہ کے ہم ذمہ دار ہیں اور ہم اعلان کئے دیتے ہیں کہ اس مقبرہ کو کوئی توڑ نہیں سکے گا۔ لوگوں کے مقبرے بنائے اور توڑے جاتے ہیں مگر نوح کا مقبرہ ہم نے ایسا بنایا ہے جسے کوئی شخص توڑ نہیں سکتا چنانچہ دیکھ لو آج اس مقبرہ کا محافظ خدا نے ہمیں مقرر فرمایا ہے یہود ان کو بھول چکے ہیں، عیسائی ان کو بھول چکے ہیں، مگر آج بھی جب نوح کا ذکر آتا ہے تو سب مسلمان بے اختیار کہہ اُٹھتے ہیںعَلَیْہَ السَّلامُ۔
الیاس ؑ کا مقبرہ
اسی طرح حضرت الیاس ؑ کے متعلق فرماتا ہے وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرِیْنَ سَلَامٌ عَلٰٓی اِلْیَاسِیْنَ- اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ۱۴؎
حضرت الیاس بھی ہمارے مقرب بندوں میںسے تھا اور ہم نے مناسب سمجھا کہ اگلے جہان میں اس کا بھی مقبرہ بنے اور اِس جہان میں بھی۔تا کہ لوگوں کے لئے ایک نشان ہو اور ان کے دلوں میں بھی یہ تحریص پیدا ہو کہ ہم بھی ایسے ہی بنیں۔ پھر فرماتا ہے سَلَامٌ عَلٰٓی اِلْیَاسِیْنَہم نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تینوں الیاسوں پر سلام ہؤا کرے چنانچہ آج بھی جب کوئی حضرت الیاس کا نام لیتا ہے تو کہتا ہے الیاسعَلَیْہَ السَّلامُ۔اس جگہ اِلْیَاسِیْنَ کے بارے میں لوگوں کو تردّد ہؤا ہے، لیکن یہ تردّد نہیں بلکہ ایک زبردست پیشگوئی ہے اور و ہ یہ کہ الیاسین کا ظہور دُنیا میں تین دفعہ مقدر تھا۔ پہلا خود الیاس کے وجود میں دوسرا یحییٰ کے ذریعہ سے اور تیسرا پھرایک دفعہ تا الیاس سے الیاسین بولا جا سکے۔ اس لفظ نے ثابت کر دیا ہے کہ مسیح کا دوبارہ نزول تمثیلی رنگ میںہو گا کیونکہ اگر پہلے ہی مسیح نے دوبارہ آنا ہوتا تو اس کا الیاس تو یحییٰ کے رنگ میںظاہر ہو چکاتھا پھر آسمان پرسے آنے والے کے لئے کسی راستہ صاف کرنے والے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ پس تیسری دفعہ الیاس کے آنے سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ دوسرا مسیح پہلے مسیح سے علیحدہ وجود ہو گا اور اِسی دنیا سے پیدا ہو گا تبھی اس کے لئے ایک اور الیاس پیداکیا جائے گا۔ تا کہ اس کے راستہ کو صاف کر ے۔ اس تیسرے الیاس کا سلام گو ابھی دنیا میںقائم نہیں ہؤا مگر خداتعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ اس کا سلام بھی قائم ہو گا اور یہ سلام غیر نبی کے لئے جائز ہوتا ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تیسرا الیاس جب نبی نہیں تو اس کے لئے سلام کا لفظ کس طرح استعما ل کیا جا سکتا ہے ۔غیرنبی کے لئے بھی سلام کا لفظ استعمال ہو جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت علی ؓ کے نام کے ساتھ عَلَیْہَ السَّلامُ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ پس غیر نبی کے نام کے ساتھ بھی عَلَیْہَ السَّلامُ کہا جا سکتا ہے اور تیسرے الیاس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ کایہی فیصلہ ہے کہ پہلے دو الیاسوں کی طرح اس کے متعلق بھی عَلَیْہَ السَّلامُ کہا جائے گا۔
مریم ؑ اور مسیحؑ کا مقبرہ
وَابْنَھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ۱۵؎
پھر فرماتا ہے ہم نے ایک اور مقبرہ بھی بنایا ہے چنانچہ فرمایا وَالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَھَا فَنَفَخْنَا فِیْھاَ مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰھَا
اُس عورت کو یاد کرو جس نے اپنے تمام قویٰ کو خدا کے لئے وقف کر دیا
ہم نے اس میں اپنی رُوح پھُونکی اور اُسے اور اس کے بیٹے کو ہمیشہ کے لئے یاد گار بنا دیا۔ یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو خداتعالیٰ نے بنایا چنانچہ آج بھی حضرت عیسیٰعَلَیْہَ السَّلام اور حضرت مریم صدیقہ عَلَیْہَاالسَّلَامُ ہی کہا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ کا مقبرہ
اسی طرح حضرت ابراہیم عَلَیْہَ السَّلامُ کے متعلق فرماتا ہے وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِہِ النُّبُوَّۃَ وَالْکِتٰبَ وَاٰتَیْنٰـہُ اَجْرَہٗ
فِی الدُّنْیَا وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ۱۶؎
ابراہیم بھی ہمار ے مخصوص لوگوںمیںسے تھا جس کے لئے ہم نے رُوحانی مقبرہ بنایا اور یہ مقبرہ دو طرح ظاہر ہؤا۔ ایک اس طرح کہ جب بھی ابراہیم ؑ کانام لیا جائے گا لوگ عَلَیْہَ السَّلامُ کہیں گے اور دوسرے اس طرح کہ آئندہ ہم نے نبوت کا اس کی اولاد کے لئے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لئے ان کے ذریعہ سے زندہ رہے گی خواہ وہ ذرّیت جسمانی ہو خواہ روحانی۔ اس طرح ہم نے اسے دنیا میں بھی اجر دیدیا اور آخرت میں بھی، کیونکہ وہ ہمارے صالح بندوں میں سے ہے چنانچہ ہمیشہ آپ پر درود بھیجا جاتا ہے اور جب بھی مسلمان کہتے ہیں اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلامُ کا نام اور آپ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور یہی مقبرے کی غرض ہوتی ہے۔
مختلف انبیائے سابقین کے مقبرے
پھر فرماتا ہے وَتِلْکَ جُحَّتُنَآ اٰ تَیْنٰـھَآ اِبْرٰھِیْمَ عَلٰی قَوْمِہٖ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَائُ
اِنَّ رَبَّکَ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ- وَوَھَبْنَالَہٗٓ اِسْحٰقَ وَیَعْقُوْبَ کُلًّا ھَدَیْنَاج وَنُوْحاً ھَدَیْناَمِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّیَّتِہٖ دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ وَاَیُّوْبَ وَیُوْسُفَ وَمُوْسٰی وَہٰرُوَنَط وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ- وَزَکَرِیَّا وَیَحْیٰی وَعِیْسٰی وَاِلْیَاسَ کُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ۔ وَاِسْمٰعِیْلَ وَالْیَسَعَ وَیُوْنُسَ وَلُوْطاً وَکُلاًّ فَضَّلْنَا عَلَی الْعٰلَمِیْنَ- وَ مِنْ اٰبَائِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَانِھِمْ وَاجْتَبَیْنٰھُمْ وَھَدَیْنٰـھُمْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ- ذٰلِکَ ھُدًی اللّٰہِ یَھْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَائُ مِنْ عِبَادِہٖ وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّاکَانُوْایَعْمَلُوْنَ - اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ وَالْحُکْمَ وَالنُّبُوَّۃَ فَاِنْ یَّکْفُرْبِھَآ ھٰٓؤُلَائِ فَقَدْ وَکَّلْنَا بِھَا قَوْماً لَّیْسُوْا بِھَابِکٰفِرِیْنَ - اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللّٰہُ فَبِھُدٰ ھُمُ اقْتَدِہْ قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْرًا اِنْ ھُوَ اِلَّاذِکْرٰی لِلْعٰلَمِیْنَ ۱۷؎
یہا ں خداتعالیٰ نے وہ سارے نام اکٹھے کر دئیے ہیں جن کی یاد کو اس نے قائم کیا ہے فرماتا ہیں یہ وہ حُجّتہے جو ہم نے ابراہیم ؑ کو اس کی قوم کے مقابلہ میںعطا کی ۔ ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کرتے ہیں۔یقینا تیرا رب حکمت والا اور جاننے والا ہے اور ہم نے اسے اسحاقؑ اور یعقوب ؑدئیے اور ان میں سے ہر ایک کو ہدایت دی اور اس سے قبل ہم نے نوحؑ کو بھی ہدایت دی۔اسی طرح اس کی اولاد میں سے داود ؑ اور سلیمان ؑ اور ایوبؑ اور یوسف ؑ او رموسیٰ ؑ اور ہارون ؑ سب کو ہدایت دی اور ہم محسنوں کو اسی طرح جزا ء دیا کرتے ہیں۔ اسی طرح زکریاؑ اور یحییٰ ؑ اور الیاس ؑ سب نیک لوگوں میںسے تھے۔اور اسماعیل ؑ اور الیسعؑ اور یونس ؑ اور لوط ؑسب کو ہم نے دنیا پر فضیلت بخشی۔ اسی طرح ان کے آباء واجداد اور ان کی ذرّیت اور ان کے بھائیوں میںسے بھی ایسے لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے عزت بخشی اور جنہیں صراطِ مستقیم کی طرف ہم نے ہدایت دی۔ یہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اگر یہ لوگ مشرک ہوتے تو ان کے تمام اعمال ضائع ہو جاتے۔ یہ وہ لوگ ہیںجن کو ہم نے کتاب دی حکمت دی اور نبوت دی۔ اگرمشرک لو گ آج کل اس تعلیم کے خلاف چلتے ہیںتو ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہم نے مسلمانوں کی قوم کو کھڑا کر دیا ہے جو ان کی یاد کو تازہ اور ان کے قیام کی حفاظت کرے گی یہ وہ لوگ تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی پس اے محمد ! صلی اللہ علیہ وسلم تو اِن کی ہدایت کے پیچھے چل کیونکہ ان کے ذکر کو تازہ رکھنا ضروری ہے۔ تو کہہ دے کہ مَیں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا، یہ قرآن تو سب دنیا کے لئے نصیحت کا موجب ہے اگر تم اس قرآن پر عمل کرو گے تو صرف محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پر ہی عمل نہیں کرو گے بلکہ اس طرح وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو موسیٰ ؑکو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو عیسٰی ؑ کو ملی ، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو نوح ؑ کو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو ابراہیم ؑ کو ملی، وہ تعلیم بھی زندہ ہو گی جو داود ؑ اور سلیمان ؑ اورایوب ؑ اور یوسف ؑ اور زکریاؑ اور یحییٰ ؑ اور الیاس ؑ اور اسماعیل ؑ اور الیسع ؑ اور دوسرے نبیوں کو ملی(عَلَیْہِمُ السَّلاَمُ کُلِّہِمْ) اور اگر مسلمان سارے قرآن پر عمل کرینگے تو اس طرح ان کے مقبرے بھی قائم رہیں گے اور اللہ تعالیٰ ان کے ناموں کو بھی زندہ رکھے گا۔
سردارِ انبیاء حضرت محمّد مصطفی صَلَّی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے
اب سب سے آخر سردارِ انبیاء
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو یاد رکھنے کے قابل ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ آپؐ کا مقبرہ کس طرح بنا اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْاعَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسِْلیْمًا۱۸؎
فرماتا ہے لوگوں کے دومقبرے ہوتے ہیں۔ایک جنت میں اور ایک اس دنیا میں ، مگر ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تین مقبرے ہیں۔ایک جنت میں ، ایک عرش پر اور ایک اس دنیا میں چنانچہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ عرش پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یاد ہمیشہ تازہ رکھی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے فرشتوں کے نام ہمیشہ احکام جاری ہوتے رہتے ہیں کہ اس پر ہماری رحمتیںنازل کرو ہماری رحمتیں نازل کرو اور دوسرا مقبرہ جنت میں، تیسرا مقبرہ دنیا کا ہے چنانچہ فرماتا ہے ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْاتَسْلِیْمًا۔ اے مؤمنو ! جب بھی تمہارے سامنے ہمارے رسول کا ذکر ہو تم کہو۔ صلّی اللہ علیہ وسلم۔ صلّی اللہ علیہ وسلم۔
انبیائے سابقین کے متّبعین اور رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کے مقبرے
اب دیکھو یہ بھی ایک مقبرہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا پھر چونکہ انبیاء علیہم السلام کے اتباع میں سے بھی بعض بڑے نیک اور بزرگ تھے اس لئے جہاں پہلے انبیاء کاذکر کیا وہاں
یہ بھی فرمایا وَمِنْ اٰبَائِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَاِخْوَاِنھِمْ یعنی ان کے باپ دادا، ان کی ذرّیت اور ان کے بھائی بھی ان انعامات میں شریک ہونگے۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی تھے اللہ تعالیٰ نے ان کے مقبرے بھی قائم کئے اور فرمایا وَالَّذِیْنَ جَاؤُا مِنْ بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّناَ اغْفِرْلَنَا لِاِخْوَانِنَا الَّذِْینَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَاتَجْْعَلْ فِیْ قُلُوْبِناَ غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْارَبَّنَا اِنَّکَ رَئُ وْفٌ رَّحِیُمٌ ۱۹؎
فرمایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو ساتھی ہیں ان کو ہم نے یہ رُتبہ عطا فرمایا ہے کہ آئندہ کے لئے ہم نے یہ شرط قرار دیدی ہے کہ جو لوگ بعد میںآئیں ان میں سے کسی شخص کا ایمان کامل نہیں ہو سکتا جب تک وہ ایمان لانے کے بعد ہمیشہ یہ دعا نہ کرتا رہے کہ اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش اور ان کے بھی جو ہم سے پہلے ایمان لائے تھے گویا ایمان کی تکمیل کے لئے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ روزانہ اپنے گناہوں کے ساتھ ساتھ اپنے سے پہلے مسلمانوں کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کرتا رہے۔
پھر غَفَر کے معنی خالی گناہ کی معافی کے ہی نہیں بلکہ اصلاحِ حالات کے بھی ہوتے ہیں۲۰؎ اس لحاظ سے اس کے یہ معنے بھی ہونگے کہ اے ہمارے رب! ہمارے حالات کو بہتر سے بہتر بناتا جا اور اسی طرح ان لوگوں کے حالات کو جو ہم سے پہلے گزر چکے ہیں اور تیرے مؤمن تھے۔ گویا نہ صرف خداتعالیٰ نے گزشتہ زمانہ کے مؤمنوں کی یاد تازہ کی بلکہ یہ بھی سامان کئے کہ مقبرہ کی مرمت ہوتی رہے اور اس میںزیادتی ہوتی رہے اور اسے ہمیشہ پہلے سے زیادہ شاندار بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ جب مرنے کے بعد بھی اصلاحِ حالات کا امکان پایا جاتا ہے اور پہلوں کے لئے پچھلے یہ دعا کرتے رہتے ہیں تو لازماً مرنے والے اپنے مقام میں بڑھتے جاتے ہیں اور پھر لازماً ان کے شایانِ شان ان کا روحانی مقبرہ بھی زیادہ شاندار ہو تا جاتا ہے۔
شیعوں کا صحابہؓ کو بُرا بھلا کہنا اسلامی تعلیم کے خلاف ہے
پھر فرماتا ہے یہ بھی دعا کیاکرو کہ
ہمارے دل میںان کے متعلق کوئی بغض پیدا نہ ہو، اس آیت سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ شیعوں کا یہ کیسا خطرناک عقیدہ ہے کہ وہ صحابہؓ سے عداوت رکھنے اور ان کو بُرا بھلا کہنے میں ہی اپنی نجات سمجھتے ہیں حالانکہ خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ مَیں تمہیں تب مؤمن سمجھوں گا جب تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ کے لئے دعائیںکرتے رہو گے اور اُن کا کینہ اور بُغض اپنے دلوں میں نہیں رکھو گے، مگر آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ اُن سے کینہ اور بُغض رکھنا ہی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
اب تھوڑے دنوں تک محرّم کا مہینہ آنیوالا ہے ان ایام میں کس طرح تبرّا کیا جاتا اور ابوبکرؓ،عمرؓ اور عثمانؓ کو گالیاں دی جاتی ہیں حالانکہ قرآن یہ کہتا ہے کہ ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ان کے متعلق دل میں کسی قسم کا بُغض نہ ہو اور نہ صر ف بُغض نہ ہو بلکہ انسان محبت اور اخلاص کے ساتھ ان کے لئے ہمیشہ دُعائیں مانگتا رہے۔
ایک واقعہ مشہور ہے کہ ایک شیعہ بادشاہ کے پاس ایک دفعہ ایک سنّی بزرگ گئے اور اس سے امداد کے طالب ہوئے۔ وہ آدمی نیک تھے مگر چونکہ ان کا گزارہ بہت مشکل سے ہوتا تھا اس لئے انہیںخیال آیا کہ مَیں بادشاہ کے پاس جائوں اور اس سے کچھ مانگ لائوں وہ گئے تو وہاں اور بھی بہت سے لوگ موجو دتھے جو اپنی حاجات کے لئے آئے ہوئے تھے مگر وہ سب شیعہ تھے اور یہ سنّی۔ جب بادشاہ مال بانٹنے کے لئے کھڑا ہؤا تو وزیر نے بادشاہ کے کان میں کچھ کہا اور اُس نے اس سنّی بزرگ کے علاوہ باقی سب کو مال تقسیم کر دیا اور وہ ایک ایک کر کے رخصت ہو گئے۔ یہ سنّی بزرگ وہیں کھڑے رہے۔آخر جب انہیں کھڑے کھڑے بہت دیر ہو گئی تو بادشاہ نے وزیر سے کہا کہ اسے بھی کچھ دیکر رخصت کردو۔ وزیر نے کہا مَیں دے تو دُوں مگر یہ شخص شکل سے سنّی معلوم ہوتا ہے بادشاہ نے کہا۔ تمہیں کس طرح معلوم ہؤا وہ کہنے لگا بس شکل سے مَیں نے پہچان لیا ہے۔ بادشاہ نے کہااچھا تو اس کا امتحان کر لو۔چنانچہ وزیر نے حضرت علی ؓ کی فضیلت بیان کرنی شروع کر دی، وہ سنّی بزرگ بھی شوق سے سنتے رہے اور کہنے لگے حضور! حضرت علی ؓ کی شان میںکیا شبہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور آپ کے داماد تھے خداتعالیٰ نے انہیں خلافت عطا فرمائی۔ آپ کی شان سے تو انکار ہو ہی نہیں سکتا۔ بادشاہ کہنے لگا اب تو ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے، وزیر کہنے لگا ابھی نہیں مَیں بعض اور باتیں بھی دریافت کر لوں۔ چنانچہ اُس نے اور کئی باتیں کیں، مگر وہ بھی ان سب کی تصدیق کرتے چلے گئے بادشاہ نے کہا۔ بس اب تو تمہیں یقین آ گیا ہو گا کہ یہ سنّی نہیں بلکہ شیعہ ہے۔ وزیرکہنے لگا ابھی نہیں۔ تبرّا دیکر دیکھیں اگر یہ تبرّے میںشامل ہو گیا تو پتہ لگ جائے گا کہ شیعہ ہے اور اگر شامل نہ ہؤا تو معلوم ہو جائے گا کہ سنّی ہے۔چنانچہ بادشاہ نے کہا برہرسہ ***۔ یعنی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان ؓ پر *** ۔وزیر نے بھی کہا برہرسہ ***۔ وہ بزرگ سنّی بھی بول اُٹھے کہ برہرسہ ***۔ بادشاہ نے کہا اب تو یقینی طور پر ثابت ہو گیا کہ یہ شیعہ ہے۔ وزیر نے کہا حضور! میرا اب بھی یہی خیال ہے کہ یہ شخص منافقت سے کام لے رہا ہے۔ وہ کہنے لگا اچھا تو پھر اس سے پوچھو کہ تم کون ہو۔ وزیر نے پوچھا کہ کیا آپ شیعہ ہیں؟ وہ کہنے لگا نہیں مَیں تو سنّی ہوں۔ وزیر کہنے لگا کہ مجھے آپ کی اور باتیں تو سمجھ آگئی ہیں کہ جب میں حضرت علیؓ کی تعریف کرتا تھا تو آپ اس لئے اس تعریف میں شامل ہو جاتے تھے کہ حضرت علیؓ آپ کے نزدیک بھی واجب التعظیم ہیں مگر جب ہم نے یہ کہا کہ برہرسہ *** تو آپ نے بھی برہرسہ *** کہا، اس کی وجہ میری سمجھ میںنہیںآئی۔ وہ کہنے لگے جب آپ نے کہا تھا برہرسہ ***، توآپ کی مراد تو یہ تھی کہ ابوبکرؓ ، عمرؓاور عثمانؓ پر *** ہو مگر جب مَیں نے برہرسہ *** کہا تو میرا مطلب یہ تھا کہ وزیر پر بھی *** اور بادشاہ پر بھی اور مجھ پر بھی جو ایسے گندے لوگوں کے گھر میں آ گیا ہوں۔ غرض شیعوں کا یہ طریق کہ صحابہ کرام کو گالیاں دیتے ہیں اور اکابر صحابہ کو منافق کہتے ہیں ناپسندیدہ اورمذکورہ بالاآیتِ قرآنی کے خلاف ہے حضرت علیؓ کا درجہ بلند ماننے کے لئے اس کی کیا ضرورت ہے کہ حضرت ابوبکرؓ ، عمرؓ اور عثمانؓ رِضْوَانُ اللّٰہِ عَلَیْہِمْ کو منافق کہا جائے اس کے بغیر بھی شیعیت قائم رہ سکتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم نہایت واضح طور پر فرماتا ہے کہ خداتعالیٰ کے جو پاک بندے گزرچکے ہیں تمہیں ان کے متعلق دُعائوں سے کام لینا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ خدایا! ہمارے دلوں میںان کے متعلق بُغض پیدا نہ ہو کیونکہ اگر بُغض پیدا ہؤا تو ایمان ضائع ہو جائے گا گویا ہمیشہ کے لئے خدا نے اُن کے لئے دعائوں کا سلسلہ جاری کر دیا اور اس طرح دنیا میں بھی ان کا مقبرہ بنا دیا۔
روحانی مقبرہ میں رشتہ داروں کو اکٹھا رکھنے کا انتظام
پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی مقابر والوں نے
تو یہ انتظام کیا ہوتا ہے کہ ان کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ مقبروں میںدفن ہوں۔ کیا اس مقبرہ میں بھی کوئی ایساانتظام ہے تو مَیں نے دیکھا کہ دُنیوی مقبروں میں بیشک بعض قریبیوں کودفن کیا گیا ہے جیسے شاہجہان کے ساتھ اس کی بیوی دفن ہے مگر سب کے لئے گنجائش نہیں تھی جیسے یہ نہیں ہؤا کہ شاہجہان کے بیٹے بھی اُس کے ساتھ دفن کئے جاتے اور نہ باہمی بُغض و عداوت کی وجہ سے وہ اکٹھے دفن کئے جا سکتے ہیں۔ جیسے شاہجہان کو نورجہاں سے بُغض تھا اس وجہ سے اس نے جہانگیر کے پاس اسے دفن نہ کیا بلکہ الگ دفن کیا اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک بڑے نے ادنیٰ مقبرہ بنایا ہے اور بعد کے کسی چھوٹے درجہ والے نے بڑا مقبرہ بنایا ہے اس وجہ سے بھی بڑا اس کے ساتھ دفن نہ کیا جا سکا جیسے شاہجہان کے مقبرہ میں بابرؔ، ہمایوںؔ ، اکبرؔ اور جہانگیرؔ کو لا کر دفن نہیں کیا گیا۔ یہ نہیں ہؤا کہ ان کی ہڈیاں کھود کر انہیں شاہجہان کے مقبرہ میں دفن کیا جاتا۔ پھر بعض حوادث نے ان کو الگ الگ رکھا جیسے اورنگ زیب حیدرآباد میںفوت ہؤا اور اورنگ آباد میں اس کا مقبرہ بنا۔ حیدرآباد چونکہ گرم علاقہ ہے اور وہاں سے لاش لانے میںدقّت تھی اس لئے وہ شاہجہان کے ساتھ اسے دفن نہ کر سکے بلکہ اگر چاہتے تب بھی یہ خواہش پوری نہیں ہو سکتی تھی اور بعض دفعہ فاصلے کا سوال ایسا اہم ہوتا ہے جسے کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور باوجود خواہش کے ایک جگہ سب قریبی دفن نہیں ہو سکتے غرض کئی وجوہ ایسے ہو سکتے ہیں جن کی بناء پر سب کو اکٹھا دفن نہیں کیا جا سکتا۔ بعض دفعہ بُغض وعناد، بعض دفعہ جگہ کی تنگی، بعض دفعہ فاصلہ کی زیادتی اور بعض دفعہ اچانک حادثات اِس قسم کے ارادوں میں حائل ہو جاتے ہیں۔ پس مَیں نے سوچا کہ کیا اس مقبرہ میں بھی کوئی ایسا انتظام ہے کہ سب رشتہ دار اکٹھے رہیں جب مَیں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ یہ مقبرہ بیشک ایسا ہے جس میں سب رشتہ داروں کے جمع کرنے کا انتظام ہے۔بشرطیکہ ان کی طبائع ملتی ہوں تا کہ جھگڑا فساد نہ ہو چنانچہ مَیں نے دیکھا کہ اس مقبرہ کے متعلق حکم تھا جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَائِھِمْ وَاَزْوَاجِھِمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَالْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ- سَلَامٌ عَلَیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبیَ الدَّارِ۲۱؎
فرمایا وہ جو اگلے جہان کامقبرہ ہے اس میں ہر شخص اپنے اپنے درجہ کے مطابق خداتعالیٰ کا انعام پائے گا، مگر رشتہ داروں کے لحاظ سے ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ جس کے ایسے رشتہ دار ہونگے جن کے ساتھ وہ محبت سے رہ سکتا ہو اور جن کے عقائد اور خیالات سے وہ متفق ہو ایسے سب رشتہ داروں کو اکٹھا کر دیا جائے گا خواہ باپ ہوں ، بیٹے ہوں، بیویاں ہوں۔ اور فرشتے اُن پر چاروں طرف سے داخل ہوں گے اور کہیں گے الْسَّلامُ عَلَیْکُمْ۔
ملائکہ کو تمام رشتہ داروں کی ّعزت کرنے کا حُکم
امیروں کے گھروں میں اگر ان کے غریب رشتہ دار آ جائیں تووہ
اُن کے ساتھ نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور وہ رشتہ دار بھی ان کے پاس رہنے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لطیفہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہندو نے اپنے ایک بیٹے کو نہایت اعلیٰ تعلیم دلائی اور اپنی زمین اور جائداد وغیرہ فروخت کر کے اسے پڑھایا۔ یہاں تک کہ وہ ڈپٹی بن گیا اس زمانہ میں ڈپٹی بڑا عہدہ تھا ۔ایک دن وہ امراء ورئوساء کے ساتھ اپنے مکان کے صحن میں بیٹھا تھا کُرسیاں بچھی ہوئی تھیں کہ اتفاقاً اُ س کا باپ ملنے کے لئے آ گیا۔ اس نے ایک میلی کُچیلی دھوتی پہنی ہوئی تھی، وہ آیا اور بے تکلفی سے ایک کُرسی پر بیٹھ گیا۔اس کے گندے اور غلیظ کپڑے دیکھ کر جو ای، اے، سی اور دوسرے معززین بیٹھے ہوئے تھے انہیں بڑی تکلیف محسوس ہوئی مگر انہوں نے سمجھا کہ مالک مکان اسے خود ہی اُٹھا دیگا، ہمیں کہنے کی کیا ضرورت ہے۔لیکن مالک مکان نے کچھ نہ کہا آخر انہوں نے ڈپٹی صاحب سے پوچھا کہ ان کی کیا تعریف ہے؟ اس پر وہ لڑکا جسے اُس کے باپ نے فاقے برداشت کر کر کے تعلیم دلائی تھی بولا کہ یہ ہمارے ٹہلیے ہیں، یعنی ہمارے گھر کے نوکر ہیں۔ اس پر باپ کو سخت غصّہ آیا اور وہ کہنے لگا مَیں ان کا ٹہلیا تو نہیں ان کی والدہ کا ضرور ہوں۔ اس فقرہ سے سب لوگ سمجھ گئے کہ یہ شخص ڈپٹی صاحب کا والد ہے اور انہوں نے ان کو سخت ملامت کی کہ آپ بڑے نالائق ہیں کہ اس طرح اپنے باپ کی ہتک کرتے ہیں ۔ تو دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ غریب رشتہ دار جب اپنے کسی امیر رشتہ دار کے ہاں جاتے ہیں تو ان کی عزّت میں فرق آ جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم فرشتوں کو حکم دیں گے کے دیکھو سَلامٌ عَلَیْکَ نہ کہنا بلکہ سَلامٌ عَلَیْکُمْ کہنا اور ان سب رشتہ داروں کی عزت کرنا جو اس کے پاس جمع کئے گئے ہوں گے پس سَلامٌ عَلَیْکُمْ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ان کی عزت کو بھی قائم کر دیا۔
جماعت کو نصیحت
یہ وہ مقبرے ہیں جو مَیں نے دیکھے اور خوش قسمت ہے وہ جو ان مقبروں میں اچھی جگہ پائے، مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ
ابھی تک ہماری جماعت کے بعض دوستوں نے بھی اس حقیقت کو نہیں سمجھا۔ میں ایک دن بچوں کے قبرستان میں گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ قریباً ہر قبر پر بڑے بڑے کتبے لگے ہوئے تھے حالانکہ قبریں بالکل سادہ بنانی چاہئیں اور نمودونمائش پر اپنا روپیہ برباد نہیں کرنا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود عَلَیْہَ السَّلامُ کی قبر کو دیکھو وہ کیسی سادہ ہے اسی طرح تمہیں بھی اپنے عزیزوں کی قبروںمیں سادگی مدّنظر رکھنی چاہئے اور بِلاضرورت اپنے روپیہ کو ضائع نہیں کرنا چاہئے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان کے اندر یہ طبعی خواہش پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی قبروں کی حفاظت کرے، لیکن تمہارے مرنے کے بعد ان قبروں کی حفاظت کا کون ذمہ دار ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ بعد میںآنے والے ان قبروں کو اُکھیڑ کر ان میں اپنے مُردے دفن کر دیں اور تمہارے مُردوں کاکسی کونشان تک بھی نہ ملے۔ لیکن خداتعالیٰ کے ہاںجو مقبرہ بنتا ہے اسے کوئی شخص اُکھیڑنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ پس اپنی قبریں اُسی جگہ بنائو جہاں خداتعالیٰ تمہاری قبروں کی حفاظت کا خود ذمّہ دار ہوگا اور اگر دنیا میں اپنی قبریں کسی اچھی جگہ بنانے کی خواہش رکھتے ہو تو پھر بہشتی مقبرہ میں بنائو۔ اور یاد رکھو کہ اگر وصیت کے بعد تم کسی مقام پر قتل کر دئیے جاتے ہو یا کسی چھت کے نیچے دب کرہلاک ہو جاتے ہو یا آگ میں گِر کر جل جاتے ہو یا دریا میں غرق ہو جاتے ہو یا شیر کا شکار بن جاتے اور اس طرح بہشتی مقبرہ میں تمہارا جسم دفن نہیں ہو سکتا تو مت سمجھو کہ تمہارا خداتمہیں ضائع کردے گا۔ جب کوئی شخص شیر کے پیٹ میں جا رہا ہو گا تو اُس شیر کے پیچھے جبریل ہاتھ پھیلائے کھڑا ہو گا کہ کب اس کی رُوح نکلتی ہے کہ میں اسے اپنی آغوش میں لے لُوں ۔ا سی طرح جب کوئی شخص آگ میں جل رہا ہو گا تو گو لوگوں کو یہی نظر آ رہا ہو گا کہ وہ جل کرفنا ہو گیا مگر خدا کے دربار میں وہ اُس کی محبت کی آگ میں جل رہا ہو گا اور خدا کے فرشتے اس کی عزّت کر رہے ہو نگے۔
پس دنیا کے مقبروں پر اپنا روپیہ ضائع مت کرو، بلکہ اپنی قبریں بہشتی مقبرہ میں بنائو۔ اور یا پھر اُس بہشتی مقبرہ میںبنائو جہاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں، جہاں نوح ؑ بھی ہیں، جہاں ابراہیم ؑ بھی ہیں، جہاںموسیٰ ؑ بھی ہیں، جہاںعیسیٰ ؑ بھی ہیں اور جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی ہیں۔ اسی طرح تمہارے آباء واجداد بھی وہیں ہیں۔پس کوشش کرو کہ وہاں تمہیں اچھے مقبرے نصیب ہوں اور تمہیں اُ س کے رسولوں کا قرب حاصل ہو۔
(۷)۔ مِینا بازار
ساتویں چیز جس کے نشان میں نے اس سفر میں دیکھے اور جن سے میں متأثر ہؤا وہ مینا بازار تھے۔ چنانچہ میں نے ان یادگاروں میں بازاروں کی جگہ بھی دیکھی جہاں شاہی نگرانی میں بازار لگتے تھے اور ہر قسم کی چیزیں وہاں فروخت ہوتی تھیں۔ یہ بازار شاہانہ کرّوفر کا ایک نمونہ ہوتے تھے اور بادشاہ خود اِ ن بازاروں میں آکر چیزیں خریدا کرتے تھے۔ آج کل بھی شاہی نگرانی میں بعض دفعہ بازار لگتے ہیں، چنانچہ لاہور میں کبھی کبھی نمائش ہوتی ہے جس میں تمام قسم کی دکانیں ہوتی ہیں اور انسان کو جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے وہ اُسے مل جاتی ہے۔ لنڈن میں بھی ایک دفعہ ویمبلےؔ کی نمائش ہوئی تھی۔ اسی موقع پر ایک مذہبی کانفرنس بھی ہوئی جس میں مَیں نے مضمون پڑھا تھا۔ اُس وقت مَیں نے بھی اس بازار کو دیکھا تھا ، مگر جو دُھندلانقش میرے دماغ پررہ گیا ہے اُس سے معلوم ہوتا ہے کہ میں اس سے کچھ زیادہ متأثر نہ ہؤا تھا۔ پُرانے زمانہ کے بادشاہ بھی اسی قسم کے بازار لگایا کرتے تھے اور وہاں قسم قسم کی چیزیں فروخت ہؤا کرتی تھیں۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ کیا ہی اچھے بازار ہوتے ہوں گے جہاں بادشاہ اور وزراء خود خریدار بن کر آتے ہوں گے اور اچھی سے اچھی چیزیں بِکتی ہوں گی۔
مینابازار میں فروخت ہونیوالی اشیاء
پھر مَیں نے اپنے ذہن میںسوچا کہ وہاں کیا کیا چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی؟ اور اس
سوال کا میرے دل نے مجھے یہ جواب دیا کہ :-
اول: وہاں نہایت اعلیٰ درجہ کے مؤدب اور سیکھے ہوئے غلام فروخت ہوتے ہونگے۔
دوم: وہاں عمدہ سے عمدہ سواریاں بِکتی ہوں گی۔
سوم: میں نے اپنے دل میںسوچا کہ وہاں پینے کی چیزیں بھی فروخت ہوتی ہوں گی۔ کوئی کہتا ہوگا برف والا پانی لے لو، کوئی کیوڑہ اور بیدمشک کا شربت فروخت کرتا ہو گا، کوئی تازہ دُودھ فروخت کرتا ہوگا، کوئی شہد فروخت کرتا ہو گا، کوئی اُس وقت کے ملک کے رواج کے مطابق شراب فروخت کرتا ہو گا اور کوئی گرم چائے فروخت کرتا ہو گا۔
چہارم: پھر کھانے کے لئے عمدہ سے عمدہ چیزیں فروخت ہوتی ہوں گی، کہیں پرندوں کے کباب فروخت ہوتے ہوں گے، کہیں انگور، کیلے، انار اور سنگترے وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے۔
پنجم: کسی جگہ لباس کی دُکانیں ہوں گی اور اچھے سے اچھے لباس فروخت ہوتے ہونگے۔
ششم:کہیں زینت کے سامان آئینے، کنگھیاں، رِبن او رپائوڈر وغیرہ فروخت ہوتے ہوں گے۔
ہفتم: کسی دُکان پر خوشبوئیں اور عطر وغیرہ فروخت ہوتا ہو گا۔
ہشتم: بعض ایسی دُکانیں ہوںگی، جہاں سے طاقت کی دوائیں ملتی ہوں گی جن سے زندگی کی حفاظت ہو۔
نہم: کسی دُکان پرنہایت اعلیٰ اور نفیس برتن فروخت ہوتے ہوں گے۔
دھم: کسی دُکان پرجنگ کے سامان یعنی تلواریں اور طپنچے۲۲؎ وغیر ہ فروخت ہوتے ہونگے۔
یازدھم: کسی دُکان پر گھروں کا سامان قالین، تکیے اور تخت وغیرہ فروخت ہوتے ہونگے۔
ایک اَور روحانی بازار
میں نے سوچا کہ یہ بازار نہایت دلکش ہوتے ہوں گے اور دیکھنے کے قابل اور بہت اعلیٰ درجہ کی چیزیں یہاں آتی ہوں گی۔ مگر
جب میں اس قلعہ پر تھا تو مَیں نے سوچا کہ کیا اس سے اچھے بازار بھی کہیں ہو سکتے ہیں؟ تو مَیں نے دیکھا ایک اور روحانی بازار کا ذکر قرآن کریم میں ہے جس میں نہ صرف یہ سب چیزیں بلکہ ان سے بھی اعلیٰ درجہ کی چیزیں ملتی ہیں۔ مگر مَیں نے اس بازار کا طریق ان بازاروں سے ذرا نرالا دیکھا یعنی اُن بازاروں میںتو یہ ہوتا ہے کہ الگ الگ دکاندار ہوتے ہیں۔ کوئی شربت فروخت کر رہا ہوتا ہے، کوئی شہد لے کر بیٹھا ہوتا ہے، کسی کے پاس قالین اور تکیے وغیر ہ ہوتے ہیں، کسی دُکان پرلباس اور کسی پر پھل وغیرہ فروخت ہوتا ہے اور باہر سے گاہک آتا ہے جیب سے پیسے نکالتا ہے اور چیز خریدلیتا ہے۔ مگر اس بازار کا مَیں نے عجیب حساب دیکھا کہ بیچنے والے بہت سے تھے مگر گاہک ایک ہی تھا اور پھر جتنے بیچنے والے تھے وہ سب کے سب صرف دو چیزیں بیچتے تھے اور جو گاہک تھا وہ ان دو چیزوں کے بدلہ میں انہیں بہت کچھ دیدے دیتا تھا ۔مَیں نے کہا یہ عجیب قسم کا مینا بازار ہے اَور بازاروں میں تو یہ ہوتا ہے کہ پچاس دکانیں ہوں تو سَو خریدار ہوتا ہے مگر یہاں دُکانیں تو لاکھوں اور کروڑوں تھیں مگر خریدار ایک ہی تھا اور پھر ان دکانوں کی خوبی یہ تھی کہ ان میں صرف دو ہی چیزیں بِکتی تھیں زیادہ نہیں اور وہاں تو خریدار پیسے دیتے تھے مگر یہ عجیب گاہک تھا کہ فروخت کرنیوالے کو ہر قسم کا سامان بدلہ میں دے دیتا تھا اور یہ بھی کہہ دیتا کہ اپنی ان دو چیزوں کو بھی اپنے پاس ہی رکھو، چنانچہ اس بازار کا یہ نقشہ مَیں نے قرآن کریم میں دیکھا۔ـاِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیَقْتُلُوْنَ وَیُقْتَلُوْنَ وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّافِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ وَالْقُرْاٰنِ وَمَنْ اَوْفٰی بِعَھْدِہٖ مِنَ اللّٰہِ فَاسْتَبْشِرُوْا بِبَیْعِکُمُ الَّذِیْ بَایَعْتُمْ بِہٖ وَذٰلِکَ ھُوَالْفَوْزُالْعَظِیْمُ۲۳؎
فرماتا ہے مینابازار لگ گیا ، شاہی بازار آراستہ وپیراستہ ہو گیا تم سب آ جائو مگر خریدار ہو کر نہیں بلکہ اپنا سامان لے کر یہاں بیچنے کیلئے آجائو، بادشاہ خود خریداربن کرآیا ہے اور اُس نے تمہارے مال یعنی اموالِ مادی اور جانیں دونوں تم سے خریدلیں۔ وہ مال ادنیٰ تھا یا اعلیٰ ، قیمتی تھا یا حقیر، تھوڑا تھا یا بہت سب ہی خرید لیا اور قیمت تمہاری نیتوںکے مطابق ڈالی اور سب کو اس مال کے بدلہ جنت قیمت میں ادا کی۔ گویا سارا مینا بازار اُن کوبخش دیا اور سب مال فروشوں کو حقیر مال کے بدلہ میں مالامال کر دیا۔ا تنی بڑی قیمت ہم اس لئے اد ا کرتے ہیں کہ یہ لوگ خداتعالیٰ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں یادشمن کو مارتے ہیں یا خود مارے جاتے ہیں۔ پس چونکہ وہ ہماری راہ میں اپنی تھوڑی پونجی سے ُبخل نہیں برتتے، ہم بڑے مالدار ہو کرکیوں ُبخلسے کام لیں۔ پھر ہم وعدہ وفا ہیں اور ان فروخت کنندوں سے یہ وعدہ ہمارا آج کا نہیں پُرانا ہے۔ یہ وعدہ ہم نے تورات میں بھی کیا تھا اور پھر انجیل میں بھی کیا تھا اور حال میں اُسی وعدے کو قرآن میں دُہرایا تھا اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ وعدہ وفا کرنے والا کون ہو سکتا ہے۔ پس اے لوگو! آج جو سودا تم نے کیا ہے اس کے نتائج پر خوش ہو جائو اور یقینا ایسا ہی سَودا بڑی کامیابی کہلا سکتا ہے گویا خریدار ایک ہے فروخت کرنے والے بہت سے ہیں مگر وہ سب دو ہی چیزیں فروخت کرتے ہیں اور اس کے بدلہ میں اُن کو وہ سب چیزیں ملتی ہیں جو مینا بازاروںمیں ہؤا کرتی تھیں ا ور اس طرح ایک ہی سَودے میں سب سَودے ہو جاتے ہیں۔
دُنیوی اور روحانی مینا بازار میں عظیم الشان فرق
پھر مَیں نے جب اس بازار کو دیکھا تو مَیں نے کہا ایک اور
فرق بھی اس مینا بازار اور دُنیوی مینا بازاروں میں ہے اور وہ یہ کہ مینا بازاروں کی اشیاء کو خریدنے کی طاقت تو کسی انسان میں ہوتی تھی اور کسی میں نہیں، مثلاً وہاں کہا جاتا تھا کہ یہ چیز دس ہزار روپیہ کی ہے اور خریدار کے دل میں اُس کو خریدنے کی خواہش بھی ہوتی تھی مگر وہ خرید نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس کے پاس دس ہزار روپے نہیں ہوتے تھے۔
اسی طرح کسی کو کوئی اور چیز پسند آئی اور وہ قیمت دریافت کرتا تو اُسے بتایا جاتا کہ ایک سَو روپیہ ہے ، مگر وہ ایک سَو روپیہ دینے کی طاقت نہیں رکھتا تھا اور اس طرح اس کو خریدنے سے محروم رہتا تھا، کیونکہ وہاں قیمتیں مقرر ہوتی تھیں اور ان میں کمی بیشی نہیں ہو سکتی تھی، یہ نہیں کہ زید آیا تو اُسے کہدیا اس کی قیمت بیس ہزار روپیہ ہے اور بکر آیا تو کہہ دیا پانچ ہزارروپیہ ہے اور خالد آیا تو کہہ دیا ایک ہزار روپیہ ہے، عمر و آ گیا تو اُسے وہی چیز سَو روپیہ میں دے دی۔بدردین آگیا تو وہی چیز اُسے آٹھ آنے میں دے دی ، شمس الدین پہنچا تو اُسے ایک پیسے میں دیدی اور علائوالدین آیا تو اُسے ایک کوڑی میں دے دی۔ یہ طریقہ دُنیوی مینا بازاروں میں نظر نہیں آتا، مگر اس مینا بازار میں ہمیں یہی حساب نظر آتا ہے۔ ایک شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے جنت چاہئے، اُس سے پوچھا جاتا ہے تیرے پاس کتنا مال ہے؟ وہ کہتا ہے ایک کروڑ روپیہ۔ اُسے کہا جاتا ہے اچھا لائو اپنی جان اور ایک کروڑ روپیہ اور لے لو جنت۔ پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے مجھے بھی جنت چاہئے، اُ س سے پوچھا جاتا ہے کہ تمہارے پاس کتنا روپیہ ہے؟ وہ کہتا ہے ایک لاکھ روپیہ۔ اُسے کہا جاتا ہے اچھا لائواپنی جان اور ایک لاکھ روپیہ اور لے لو جنت۔ اُسی وقت ایک تیسر ا شخص آجاتا ہے اور وہ کہتا ہے میرے پاس صرف سَو روپیہ ہے مگر میں بھی جنت لینا چاہتا ہوں اُسے کہا جاتا ہے اچھا تم بھی اپنی جان اور سَو روپیہ لائو اور جنت لے لو۔ پھر ایک اور شخص آتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے پاس سَو روپیہ تو کیا ایک پیسہ بھی نہیں ہے صرف مُٹّھی جَو کے دانے ہیں مگر خواہش میری بھی یہی ہے کہ مجھے جنت ملے۔ اُسے کہا جاتا ہے کہ تمہارا سَودا منظور لائو جان اور مُٹّھی بھر دانے اور لے لو جنت ۔۲۴؎ بلکہ اس بازار میں ہمیں ایسے ایسے بھی دکھائی دیئے کہ چشمِ حیرت کُھلی کی کُھلی رہ گئی۔ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہ! مجھ سے ایسا ایسا گناہ ہو گیا ہے، آپؐ نے فرمایا تو پھر اس کا کفارہ ادا کرو اور اتنے روزے رکھو۔ اُس نے کہا یَارَسُوْلَاللّٰہ! مجھ میں تو روزے رکھنے کی طاقت نہیں۔ آپؐ نے فرمایا اچھا روزے رکھنے کی طاقت نہیں تو غلام آزاد کردو۔ وہ کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہ! میں نے تو کبھی غلام دیکھے بھی نہیں اُن کو آزاد کرنے کے کیا معنی ۔آپؐ نے فرمایا اچھا تو اتنے غریبوں کو کھانا کھلا دو، کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہ! خود تو کبھی پیٹ بھر کر کھانا کھانا نصیب نہیں ہؤا ، غریبوں کو کہاں سے کھلائوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا کہ لائو دو ٹوکرے کھجوروں کے اور وہ اُسے دیکر فرمایا کہ جائو اور غریبوں کو کھلا دو، وہ کہنے لگا یَارَسُوْلَاللّٰہ! کیا سارے مدینہ میں مجھ سے بھی زیادہ کوئی غریب ہے؟ آپؐ ہنس پڑے اور فرمایا اچھا جائو اور تم ہی یہ کھجوریں کھالو،۲۵؎ میں نے کہا یہ عجیب نظارے ہیں جو اس مینا بازار میں نظر آتے ہیں کہ جنت یعنی مینا بازار کا سب سامان صرف اس طرح مل جاتا ہے کہ جو پاس ہے وہ دے دو۔ جس کے پاس کروڑروپیہ ہوتا ہے وہ کروڑ روپیہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس ایک پیسہ ہو تا ہے وہ ایک پیسہ دے کر سب چیزوں کا مالک ہو جاتا ہے اور جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اُسے خریدار اپنے پاس سے کچھ رقم دے کر کہتا ہے لو اس مال سے تم سَودا کر لو تم کوجنت مل جائیگی۔
رُوحانی مینا بازار میں گاہک کا تاجروں سے نرالا سلوک
پھر میں نے ایک اَور فرق دیکھا کہ عام مینا بازاروں
میںتو یہ ہوتا ہے کہ گاہک آئے انہوں نے چیزیںخریدیں اور انہیں اُٹھا کر اپنے گھروں کو چلے گئے اور دکاندار بھی شام کے وقت پیسے سمیٹ کر اپنے اپنے مکانوں کو روانہ ہو گئے۔مگر اس مینا بازار میں گاہک چیزیں خریدنے کے بعد وہیں چیزیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے ا ور اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جاتا گویا وہی یوسفؑ والا معاملہ ہے کہ غلّہ بھی دے دیا اور پیسے بھی بوریوں میں واپس کر دئیے۔ اسی طرح ایک طرف تو قرآنی گاہک جان اور مال لیتا ہے اور اُدھر چُپ کر کے کھسک جاتا ہے، دکاندار سمجھتا ہے کہ شاید وہ بھول گیا ہے، چنانچہ وہ کہتا ہے آپ اپنی چیزیں لے جائیں، مگر وہ کہہ کر چلاجاتاہے کہ ان چیزوں کو اپنے پاس ہی امانتًا رکھو اور مناسب طور پر اس میںسے خرچ کرنے کی بھی تم کو اجازت ہے مجھے جب ضرورت ہوئی لے لوں گا۔ گویا قیمت لے کر وہ پھر قیمت واپس کر دیتا ہے اور کہتا ہے تم اسے اپنے پاس ہی رکھو، جس قدر موقع کے مناسب ہو گا میں تم سے لے لونگا چنانچہ میں نے دیکھا کہ مال اور جان مینا بازار کی سب چیزوں کے مقابل پر لے کر وہ جان اور مال دینے والوں سے کہتا ہے ۔ وَمِمَّارَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ ۲۶؎ وہ ساری جان اور سارا مال گو میرے حوالے کر دیتے ہیں، مگر میںساری جان اور سارا مال اُ ن سے عملاً نہیں لیتا، بلکہ اُنہی کو دیکر کہتا ہوں کہ ا س میں سے کچھ میرے لئے خرچ کرو اور باقی اپنے پاس رکھو اور اپنے کام میںلائو اور اس سے نہ ڈرو کہ میں نے جو قیمت دی ہے اُ س میں کمی ہو گی وہ تم کوپوری ملے گی۔
جان اور مال کا مطالبہ
اب مَیں نے غور کیا کہ گو یہ نرالا اور عجیب سَودا ہے ، لیکن آخر اس میں عجیب سَودے کا مطالبہ بھی تو کیا گیا ہے، یعنی اپنے آپ
کو غلام بنا دینے کا ۔بیشک اس مینا بازار میں اعلیٰ سے اعلیٰ چیزیں ملتی ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ کیا غلام بننا کوئی آسان کام ہے اور کیا جان اور مال دوسرے کو دے دینا معمولی بات ہے۔ دنیا میں کون شخض ہے جو غلامی کو پسند کرتا ہو پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ مجھے غور کر لینا چاہئے کہ کیا یہ سَودا مجھے مہنگا تو نہیں پڑے گا اور کیا اعلیٰ سے اعلیٰ چیزوں کے لالچ میں اپنا آپ دوسرے کے حوالے کر دینا موزوں ہے؟ پس مَیں نے کہا پہلے سوچ لو کہ غلام ہونا اچھا ہے یا یہ چیزیں اچھی ہیں۔
غلامی کیوں بُری سمجھی جاتی ہے ؟
جب میں نے اس غلامی پر غور کیا کہ یہ کس قسم کی غلامی ہے اور یہ کہ کیا اس غلامی کو قبول کرنااس بازار
کے سامان کے مقابلہ میں گراں تو نہیں؟ تو میں نے سوچا کہ غلامی کیوں بُری ہوتی ہے اور پھر میرے دل نے ہی جواب دیا اس لئے کہ:-
اوّلؔ: اس میں انسان کی آزادی چِھن جاتی ہے۔
دومؔ: انسان کا سب کچھ دوسرے کا ہو جاتا ہے۔
سومؔ: اس میں انسان کی خواہشات ماری جاتی ہیں۔
چہارمؔ: اس میں غلام اپنے عزیزوں سے جُدا ہو جاتا ہے۔بیوی بچوں سے نہیں مل سکتا بلکہ جہاں آقا کہے وہیں رہنا پڑتا ہے۔
مَیں نے کہا یہ چار بُرائیاں ہیں جن کی وجہ سے غلامی کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ پس میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں آزاد ہو کر غلام کس طرح بن جائوں اور کس طرح اس دھوکا اورفریب میں آ جائوں۔
قیدوبند میںمبتلا انسان اپنی حماقت
سے اپنے آپ کو آزاد سمجھتا ہے
میں انہی خیالات میں تھا کہ یکدم مَیں نے دیکھا کہ مَیں ( اور مَیں سے مراد اس وقت انسان ہے نہ کہ میرا ذاتی وجود) جو اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا، درحقیقت قید وبند میں پڑا ہؤ ا تھا۔ مَیں نے دیکھا
کہ میری گردن میں طَوق تھا، میر ے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں تھیں اور میرے پائوں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں، مگر مَیں یونہی اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا، حالانکہ نہ ہتھکڑیاں مجھے کام کرنے دیتی تھیں، نہ پائوں کی بیٹریاں مجھے چلنے دیتی تھیں، نہ گردن کا طَوق مجھے گردن اونچی کرنے دیتا تھا۔ یہ طَوق اُن گناہوں ، غلطیوں اور بیوقوفیوں کا تھا جو مجھے گردن نہیں اُٹھانے دیتی تھیں اور یہ زنجیریں، اُن بدعادات کی تھیں جو مجھے آزادی سے کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں۔ بس میں اسی طرح ہاتھ ہلانے پر مجبور تھا جس طرح میری زنجیریں مجھے ہلانے کی اجازت دیتی تھیں اور یہ بیڑیاں اُن غلط تعلیموں کی تھیں جو غلط مذاہب اور غلط قومی رواجوں نے میر ے پائوں میںڈال رکھی تھیں اور جو مجھے چلنے پھرنے سے روکتی تھیں۔ تب میں حیران ہؤا کہ انسان اپنے آپ کوکیوں آزاد کہتا ہے حالانکہ وہ بدترین غلامی میں جکڑا ہؤا ہے نہ ہاتھوں کی ہتھکڑیاں اُسے کام کرنے دیتی ہیں، نہ پائوں کی بیٹریاں اُسے ہلنے دیتی ہیںاور نہ گردن کا طَوق اُسے سر اُٹھانے دیتا ہے۔ یہ طَوق اُن گناہوں ، غلطیوں اور بیوقوفیوں کا ہوتا ہے جو اس کی گردن میںہوتا ہے۔ مختلف گناہ، مختلف غلطیاں اور مختلف بیوقوفیاںوہ کر چکا ہوتا ہے اور اس کے نتائج اس کے اردگرد گھوم رہے ہوتے ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ ان سے نجات حاصل کرے مگر انہوں نے اُس کو گردن سے پکڑا ہؤا ہوتا ہے اور اُسے کوئی بھاگنے کی جگہ نظر نہیں آتی۔ اسی طرح جو زنجیریں ہوتی ہیں وہ بدعادات کی ہوتی ہیں۔ درحقیقت بدعادات اور بدعمل میںفرق ہے۔بدعمل ایک انفرادی شَے ہے کبھی ہؤا کبھی نہ ہؤا، مگر بدعادت ہمیشہ زنجیر کے طور پر چلتی ہے اور وہ انسان کو آزادی سے کوئی کام نہیںکرنے دیتی وہ چاہتا ہے کہ نماز پڑھے مگر اُسے عادت پڑی ہوئی ہے کہ کسی بُری مجلس میں بیٹھ کر شطرنج یا جوا یا تاش کھیلنے لگ جاتا ہے تو اب باوجود نماز کی خواہش کے وہ نماز پڑھنے نہیں جائے گا بلکہ شطرنج یاتاش کھیلنے چلا جائیگا۔ اسی طرح بیڑیاں غلط تعلیموں کی ہوتی ہیں جو غلط مذاہب یا غلط قومی رواجوں کے ماتحت اس کے پائوں میں پڑ ی ہوئی ہوتی ہیں اور جس طرح درخت زمین نہیں چھوڑ سکتا اسی طرح وہ انسان اپنی قوم سے الگ نہیں ہو سکتا۔ تب مَیں حیران ہؤا کہ اوہو! انسان تو اپنے آپ کو آزاد سمجھ رہا تھا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک خطرناک قیدی ہے۔ اس کے پائوں میں بیٹریاں پڑی ہوئی ہیں، اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ہیں اور اس کے گلے میں طَوق ہیں۔ پس یہ تو پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے ظالم مالک کا جو اُسے ہر وقت تباہی کی طرف لئے جاتا ہے۔ پس میں نے کہا جب انسان پہلے ہی غلام ہے اور غلام بھی ایسے مالک کا جو اسے کچھ نہیں دیتا تو اس دوسری غلامی کے اختیار کر لینے میں اس کا کیا حرج ہے اس کے ساتھ تو ایک جنت کا وعدہ بھی ہے۔
داروغہء جنت نے تمام بیٹریاں کاٹ دیں!
تب مَیں نے اُ س داروغہ کی طرف دیکھا جس کے سپر دمجھے کیا گیا تھا اور
مَیں نے یہ کہنا چاہا کہ اب تم مجھے اپنی بیٹریاں اور زنجیریں اور طَوق ڈال دو میں پہلے ہی غلام تھا اور اب بھی غلام بننے کو تیار ہوں، مگر مَیں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ بجائے اس کے کہ اُس داروغہ کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں، بیٹریاں اور طَوق ہوں اُس کے ہاتھ میںایک بڑا سا کلہاڑا تھا اور جب میں نے کہا میں غلام بننے کو تیار ہوں، تو وہ داروغہ محبت سے میری طرف دیکھنے لگا اور بجائے اس کے کہ میرے گلے اور ہاتھوں او رپائوں میں نئی ہتھکڑیاں، نئی بیٹریاں اور نئے طَوق ڈالتا اُس نے مجھے اپنے پاس بٹھا کر اُس کلہاڑے سے میری سب زنجیریں، سب بیٹریاں اور سب طَوق کاٹ دئیے اور مَیں نے پہلی مرتبہ آزادی کا سانس لیا مگر ساتھ ہی مَیں اس امید میں رہا کہ پہلی زنجیریں ،بیٹریاں اور طَوق کاٹنے کے بعد اب یہ نئی زنجیریں ، نئی بیٹریاں اور نئے طَوق مجھے ڈالے گا مگر ایسا نہ ہونا تھا نہ ہؤا بلکہ آسمان سے ایک نہایت ہی پیاری آواز آئی جو یہ تھی کہ اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًاعِنْدَھُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِ یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِوَیُحِلُّ لَھُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰـئِثَ وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْابِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ اُولٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ۲۷؎
وہ لوگ جو اتباع کرتے ہیں اُس محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہمارا نبی ہے اور اُمّی ہے اور جس کا ذکر تورات اور انجیل میں بھی موجود ہے وہ انہیں اچھی باتوں کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں بُری باتوں سے روکتا ہے اور ساری حلال چیزوں کی انہیںاجازت دیتا ہے اور ان باتوں سے انہیں روکتا ہے جو مُضِرّ ہوتی ہیں اور انہوں نے غلاموں کی طرح اپنے سروں پر جو بوجھ لادے ہوئے تھے انہیں ان کے اوپر سے دُور کر دیتا ہے، اسی طرح لوگوں کے گلوں میں جو طَوق پڑے ہوئے تھے انہیں ہمارا یہ رسول کاٹ کر الگ پھینک دیتا ہے۔ پس وہ لوگ جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایما ن لاتے ہیں آپ کی مدد کرتے اور اس نور کے پیچھے چلتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا ہے، اُ ن کے ہاتھوں اور پائوں میں کبھی ہتھکڑیاں او ربیٹریاں نہیںرہ سکتیں اور نہ اُن کی گردنوں میں طَوق ہو سکتے ہیں بلکہ وہ ہمیشہ کے لئے آزاد ہو جاتے ہیں۔
مَیں نے کہا مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ میر ے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پائوں میں بیٹریاں اور گردن میں طَوق پڑے ہوئے ہیں، میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتا تھا مگر جب مجھے اپنی حقیقت کا علم ہؤا تو میںاس خیال کے ماتحت اس داروغہ کے سامنے گیا کہ جب میںپہلے غلام ہوں تو ایک نئی مگر پہلے سے اچھی غلامی برداشت کرنے میں کیا حرج ہے مگر یہاں جس کے حوالے کیا گیا اس نے بجائے طَوق اور بیٹریاں پہنانے کے پہلے طَوق اور بیٹریوں کو کاٹ دیا اور کہا کہ اب ان کے قریب بھی نہ جانا۔
داروغہء غلاماں کا مسرّت افزا پیغام
میں یہ نظارہ دیکھ کر سخت حیران ہؤا اور میںیہ سمجھا کہ آج انسان نے اس داروغہء غلاماں کے
ذریعے پہلی دفعہ آزادی کا سانس لیا ہے مگر میں نے سوچا بیٹریاں اور زنجیریں تو کٹ گئیں ، لیکن آخر انسان غلام تو ہؤا ۔ غلامی کی دوسری باتیں تو ہوں گی اور جو کچھ اس کا ہے وہ لازماً اس کے آقا کا ہو جائے گا۔ چنانچہ میں اب اس انتظار میں رہا کہ مجھ سے کہا جائے گا کہ لائو اپنی سب چیزیں ہمارے حوالے کر دو، تم کون ہو جو یہ چیزیں اپنے پاس رکھو، مگر بجائے اس کے کہ غلاموں کا داروغہ یہ کہتا کہ لائو اپنی سب چیزیں میرے حوالے کرو اُ س نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ اب جو تم میر ے آقا کے غلام بنے ہو تو لو سُنو! اُس نے مجھے یہ پیغام دیا ہے کہ وَھُوَیَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ۲۸؎ اگر اچھی طرح غلامی کر وگے تو وہ تمہارا پوری طرح کفیل ہو گا اور تمہاری سب ضرورتوں کو پور ا کرے گا، میں نے کہا یہ اچھی غلامی ہے۔ دنیا میں غلام تو آقا کو کما کر دیا کرتے ہیں اور یہ آقا کہتا ہے کہ ہم تمہاری سب ضرورتوں کے کفیل ہوتے ہیں۔ چنانچہ دیکھ لو دنیا میں غلاموں سے مختلف قسم کے کام لئے جاتے ہیں کوئی نجاری کاکام کرتا ہے، کوئی لوہارے کا کام کرتا ہے، کوئی مزدوری کا کام کرتا ہے، کوئی درزی کا کام کرتا ہے، اسی طرح اور کئی قسم کے کام اُن سے لئے جاتے ہیں اور وہ جو کچھ کماتے ہیں اپنے آقا کے سامنے لا کر رکھ دیتے ہیں۔ مگر یہاں اُلٹی بات ہوتی ہے کہ جب کوئی غلام بنتا ہے تو اسے یہ پیغام دے دیا جاتا ہے کہ چونکہ تم غلام ہو گئے ہو اس لئے تمہاری سب ضرورتوں کے ہم کفیل ہو گئے ہیں۔
ایک بزرگ کا دلچسپ واقعہ
ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ روزی کمانے کے لئے کوئی کام نہیں کرتے تھے اور توکّل پر گزارہ کرتے تھے۔
اللہ تعالیٰ انہیں جو کچھ بھیج دیتا کھا لیتے۔ ایک دفعہ اُنہیں ایک اَور بزرگ نے سمجھایا کہ یہ آپ ٹھیک نہیں کرتے آپ کو کوئی کام کرنا چاہئے اس طرح لوگوں پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ وہ کہنے لگے بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا مہمان ہوں اور مہمان اگر اپنے کھانے کا خود فکر کرے تو اس میں میزبان کی ہتک ہوتی ہے، اس لئے مَیں کوئی کام نہیں کرتا وہ کہنے لگے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تین دن سے زیادہ مہمانی جائز نہیں۲۹؎ اور اگر تین دن کوئی شخص مہمان بنتا ہے تو وہ سوال کرتا ہے آپ کے تین دن ہو چکے ہیں اس لئے آپ اب کام کریں۔ انہوں نے کہا حضرت مجھے بالکل منظور ہے مگر میں جس کے گھر کا مہمان ہوں وہ کہتا ہے اِنَّ یَوْماً عِنْدَرَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّاتَعُدُّوْنَ۔۳۰؎ تیرے رب کا ایک دن تمہارے ایک ہزار سال کے برابر ہوتا ہے پس تین ہزار سال تو مجھے کچھ نہ کہیں۔ جس دن تین ہزار سال گزر گئے میں اپنا انتظام کر لونگا ابھی تو میں خدا تعالیٰ کا مہمان ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے پاک بندوں کی الگ الگ کی مہمانیاں ہوتی ہیں اور جیسے انسان مختلف ہوتے ہیں اسی طرح اس کا سلوک بھی مختلف قسم کا ہوتا ہے مگر بہرحال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا غلام بن جائے تو پھر وہ اُس کی ضروریات کا آپ متکفل ہو جاتا ہے۔
تمام خواہشات کے پورا ہونے کی خوشخبری
پھر میں نے سوچا کہ اچھا غلام بن کر ایک بات تو ضرور ہو گی کہ مجھے اپنی
خواہشات کو چھوڑنا پڑے گا اور خواہشات کی قربانی بھی بڑی بھاری ہوتی ہے۔ اس پر مجھے اسی غلاموں کے داروغہ نے کہا، آقا کی طرف سے ایک اور پیغام بھی آیا ہے اور وہ یہ کہ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃ فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰدِیْ وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ ۳۱؎
اے میرے بندے!چونکہ اب تُوہمار ا غلام بن گیا ہے اس لئے جہاں آقا ہو گا وہیں غلام رہے گا تو جا اور ہماری جنت میں رہ ۔مگر اس جنت میں آ کر یہ خیال نہ کرنا کہ آقا کامال میں کس طرح استعمال کروں گا۔ وَلَکُمْ فِیْھَا مَاتَشْتَھِیْٓ اَنْفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْھَامَاتَدَّعُوْنَ۳۲؎ تمہارے دلوں میں جو بھی خواہش پیداہو گی وہ وہاں پوری کر دی جائے گی یعنی ادھر تمہارے دلوں میں خواہش پیدا ہو گی، اُدھر اس کے مطابق چیز تیار ہو گی اور جو مانگو گے ملے گا۔
اَعزّہ و اقرباء کی دائمی رفاقت
پھر مجھے خیال آیا کہ بہر حال غلامی کی یہ شرط تو باقی رہے گی کہ مجھے اب اپنے عزیزواقرباء چھوڑنے پڑیں گے۔
کیونکہ جب غلام ہؤا تو اُن کے ساتھ رہنے پرمیرا کیا اختیار لیکن اس بارہ میں بھی داروغۂ غلامان نے مجھے حیران کر دیا اور کہا کہ دیکھو میاں! آقا نے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَھَا وَمَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَائِھِمْ وَاَزْوَاجِھمْ وَذُرِّیّٰتِھِمْ وَالْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ
یعنی بجائے اس کے رشتہ داروں کو الگ الگ رکھا جائے سب کو اکٹھا رکھاجائے گا ، اگر ان میں سے بعض ادنیٰ عمل والے ہوں گے تب بھی اُن کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اعلیٰ مقام والوں کے پاس لے جائے گا اور رشتہ داروں کو جُدا جُدا نہیں رکھے گا۔
روحانی مینابازار میں ملنے والی نعماء
تب مَیں نے کہا یہ تو بڑے مزے کی غلامی ہے کہ اس غلامی کو قبول کر کے قید وبند سے نجات ہوئی،
ہمیشہ کے لئے آقا نے کفالت لے لی، خواہشات نہ صرف قربان نہ ہوئیں بلکہ ان میںوہ وسعت پید ا ہوئی کہ پہلے اس کا خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا، پھر رشتہ دار اور عزیز بھی ساتھ کے ساتھ رہے۔ تب مَیں نے شوق سے اس بات کو معلوم کرنا چاہا کہ یہ تو اجماعی انعام ہؤا، وہ جو مینا بازار کی چیزوں کا مجھ سے وعدہ تھا اس کی تفصیلات بھی تو دیکھوں کہ کیا ہیں اور کس رنگ میں حاصل ہوں گی۔
بے عیب غلام
مَیں نے سوچا کہ اُن مینا بازاروں میں غلام فروخت ہوتے تھے اور مَیں گو ایک لحاظ سے آزاد ہوں مگر بہرحال غلام ہوںاس لئے غلام تو مجھے نہیں مل سکتے۔
یہ کمی تو ضرور رہے گی، مگر مَیں نے دیکھا اس جگہ دربار سے اعلان کیا جا رہا ہے کہ جو اس آقا کے غلام ہو کر جنت میں داخل ہو جائیں گے وَیَطُوْفُ عَلَیْھِمْ وِلْدَانٌ مُّخَلَّدُوْنَ اِذَارَاَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْراً ۳۳؎
اُن کی خدمت پر نوجوان غلام مقرر ہوںگے جو ہمیشہ وہاں رہیں گے اور وہ موتیوں کی طرح بے عیب ہوں گے اور کثرت سے ہوںگے۔
میں نے کہا دیکھو یہ کیسا فرق ہے اس مینا بازار اور دنیا کے مینا بازاروں میں ، دُنیوی مینا بازاروں میں جو غلام خریدے جاتے ہیں اُن کے متعلق پہلا سوال تویہی کیا جاتا ہے کہ قیمت کتنی ہے؟ اب بالکل ممکن ہے کہ ایک غلام کی قیمت زیادہ ہو اور انسان باوجود خواہش کے اسے خرید نہ سکے، پھر اگر خرید بھی لے تو ممکن تھاکہ وہ غلام چند دنوں کے بعد بھاگ جاتا، اگر نہ بھاگتا تو ہو سکتا تھا کہ مر جاتا، اگر وہ نہ مرتا تو خریدنے والا مر سکتا تھا۔غرض کوئی نہ کوئی نقص کا پہلو اس میں ضرور تھا، مگر مَیں نے کہا یہ عجیب قسم کے غلام ملیں گے جونہ بھاگیں گے نہ مریں گے بلکہ مُخَلَّدُوْن ہونگے یعنی ہمیشہ ہمیش رہیں گے۔
پھر دُنیوی مینا بازاروں میںتو انسان شاید ایک غلام خرید کر رہ جاتا یا دو غلام خرید لیتا یا تین یا چار خرید لیتا ، مگر اس مینا بازار میں تو بے انتہاء غلام ملیں گے چنانچہ فرماتا ہے اِذَارَاَیْتَھُمْ حَسِبْتَھُمْ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا جس طرح سمندر سے سینکڑوں موتی نکلتے ہیں اسی طرح وہ غلام سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں ہوںگے۔ پھر دُنیوی غلاموں میں سے تو بعض بدمعاش بھی نکل آتے ہیں، مگر ان کے متعلق فرمایا وہ لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا کی طرح ہونگے، دیکھو کیا لطیف تشبیہہ بیان کی گئی ہے۔ دنیا میں موتی کو بے عیب سمجھا جاتا ہے اور کسی کی اعلیٰ درجہ کی خوبی بیان کرنے کے لئے موتی کی ہی مثال پیش کرتے ہیں۔ پس اس مثال کے لحاظ سے لُؤْلُؤًا مَّنْثُوْرًا کا مفہوم یہ ہؤا کہ اُن میں کسی قسم کا جھوٹ، فریب، دغا ، کینہ اور کپٹ نہیں ہوگا، مگر موتی میںایک عیب بھی ہے اور وہ یہ کہ اُسے چور چُرا کر لے جاتا ہے، اسی لئے اُسے چُھپا چُھپا کر رکھا جاتا ہے مگر فرمایا کہ وہ بیشک اپنی خوبیوں میں موتیوں کی طرح ہونگے مگر وہ اتنے بے عیب ہوں گے کہ تم بیشک انہیں کُھلے طور پرپھینک دو اُن پر کوئی خراب اثر نہیں ہوگا۔ دنیامیں غلام ایک دوسرے کا بداثر قبول کر لیتے ہیں اس لئے انہیں بُری صحبت سے بچانے کی ضرورت ہوتی ہے مگر فرمایا وہ بداثر کو قبول ہی نہیں کرینگے اس لئے ان کو چُھپانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی بلکہ تم نے ان کو بے پروائی سے بکھیرا ہؤا ہو گا اور تمہیں ان کے متعلق کسی قسم کا خوف اور تردّد نہیں ہو گا۔
اعلیٰ درجہ کی سواریاں
پھرمیں نے سوچا کہ اُ س مینا بازار میں بڑی عمدہ سواریاں ملتی تھیں کیا یہاںبھی کوئی سواری ملے گی۔ تو مَیں نے دیکھا کہ اس جگہ
بھی سواری کا انتظام تھا چنانچہ لکھا تھا اُولٰئِکَ عَلٰی ھُدًی مِّنْ رَّبِّھِمْ وَاُولٰئِکَ ھُمُ اْلمُفْلِحُوْنَ۳۴؎ وہ متقی لوگ جو غلام بن چکے ہیں اُن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت کی سواریاں آئیں گی جن پر سوار ہوکروہ اللہ تعالیٰ کے دربار میں پہنچیں گے، مَیں نے کہا یہ سواری تو عجیب ہے مینا بازار سے تو ہگنے ، مُوتنے اور گھاس کھانے والا گھوڑا ملتا تھا مگر یہاں ہدایت کی سواری ملے گی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گی۔ مَیں نے سمجھا کہ اگر وہاں گھوڑا ملتا تو وہ لِید کرتا اور اس کی صفائی میرے ذمہ ہوتی ، وہ گھاس کھاتا اور اس کا لانا میرے ذمہ ہوتا، پھر شایدکبھی مُنہ زوری کرتا، میں اُسے مشرق کو لے جانا چاہتا اور وہ مجھے مغرب کو لے جاتا اور شاید مجھے گِرا بھی دیتا، مگر یہ گھوڑا جو مجھے ملا ہے، یہ نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ ہگتا ہے نہ ُموتتا ہے، نہ مُنہ زوری کرتا ہے اور نہ اپنے سوار کو گِراتا ہے بلکہ سیدھا اللہ تعالیٰ کے پاس لے جاتا ہے۔
پھر اس گھوڑے پر چڑھ کر کوئی خاص عزّت نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ ہر شخص جس کے پاس سَو پچاس روپے ہوں، گھوڑا خرید سکتا ہے، مگر یہ گھوڑا خلعت کا گھوڑا ہو گا جو زمین وآسمان کے بادشاہ کی طرف سے بطور اعزاز آئے گا۔ پس معمولی ٹٹّو پر چڑھنا اور بات ہے اور یہ کہنا کہ بادشاہ کی طرف سے جو گھوڑا آیا ہے اُس پر سوار ہو جائیے یہ اور بات ہے۔
ٹھنڈے شربت
(۳) تیسرے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میں ٹھنڈے پانی ملتے تھے مَیں نے کہا دیکھیں ہمارے مینا بازار میں بھی ٹھنڈے پانی ملتے ہیں یا نہیں؟
تو میں نے دیکھا کہ ان دنیا کے مینا بازاروں میں جو ٹھنڈے پانی ملتے تھے وہ توبعض دفعہ پینے کے بعد آگ لگا دیتے تھے اور صرف عارضی تسکین دیتے تھے، چنانچہ ہر شخص کا تجربہ ہو گا کہ گرمی میں جتنی زیادہ برف استعمال کی جائے اتنی ہی زیادہ پیاس لگتی ہے۔ مگر یہ پانی جو آسمانی مینا بازار میںملتے تھے ان کی یہ کیفیت تھی کہ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا۳۵؎ ا س جنت کے مینا بازار میںمؤمنوں کو ایسے بھرے ہوئے پیالے ملیںگے جن کی ملونی اور جن کی خاصیت ٹھنڈی ہوگی، وہ کافوری طرز کے ہونگے اور ان کے پینے کے بعد گرمی نہیں لگے گی۔ یعنی نہ صرف جسمانی ٹھنڈک پیدا ہو گی بلکہ ان کے پینے سے دل کی گرمی بھی دُور ہو جائے گی اور گھبراہٹ جاتی رہے گی اور اطمینان اورسکون پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کافوری پیالے اُ ن کواس لئے ملیں گے کہ اُن کے دلوں پر خداتعالیٰ کا خوف طاری تھا اور وہ اُس کے جلال سے ڈرتے تھے اس وجہ سے اُن کا خوف دُور کرنے اور اُن کے دلوں کو تسکین عطا کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اُن کو کافوری مزاج والے پیالے پلائے جاتے۔ چنانچہ فرماتا ہے فَوَقٰھُمُ اللّٰہُ شَرَّذٰلِکَ الْیَوْمِ وَلَقّٰھُمْ نَضْرَۃً وَّسُرُوْرًا ۳۶؎
وہ لوگ خداتعالیٰ کی ناراضگی سے ڈرا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی ہیبت ان کے دلوں پر طاری تھی اس لئے خداتعالیٰ نے چاہا کہ اُن کی ہیبت دُور کرنے کے لئے ا ن کو کافوری پیالے پلائے۔
گرم چائے
پھر مَیں نے سوچا کہ اچھا ٹھنڈے شربت تو ہوئے مگر کبھی گرم چائے کی بھی ضرورت ہوتی ہے تا کہ سردی کے وقت اس سے جسم کو گرمی پہنچائی جائے۔
ایسے وقت میںتو سرد یا سرد مزاج پانی سخت تکلیف دیتا ہے۔ پس اگر یہ کافوری پیالے ہی ملے تو ایسے وقت وہ کفایت نہ کریں گے، ایسے وقت میںتو گرم چائے کی ضرورت ہوگی۔ جب مجھے یہ خیال آیا تو میں نے دیکھا کہ اس آسمانی مینابازار میں چائے کا بھی انتظام تھا۔ چنانچہ لکھا ہے وَیُسْقَوْنَ فِیْھَا کَأْسًا کَانَ مِزَاجُھَازَ نْجَبِیْلاً ۳۷؎
چونکہ انسان کو کبھی گرمی کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے اس لئے جنتیوں کو ایسے پیالے بھی ملیں گے جن کے اندر سونٹھ کی طرح گرم خاصیت ہو گی۔
تو دیکھو دونوں ضرورتوں کو خداتعالیٰ نے پورا کر دیا، گرمی دُور کرنے کے لئے مؤمنوں کو ایسے پیالے پلانے کا انتظام کر دیا جوکافوری مزاج والے ہوں گے اور سردی کے اثرات کو دُور کرنے کے لئے ایسے پیالے پلانے کا انتظام فرما دیا جو زنجبیلی مزاج والے ہوں گے۔ پھر اس کی وجہ بھی بتا دی کہ کافوری پیالوں کی کیوں ضرورت ہوگی اور زنجبیلی پیالوں کی کیوں؟ کافوری پیالوں کی تو اس لئے ضرورت ہو گی کہ مؤمن خداتعالیٰ کا خوف اپنے دل میںرکھتے تھے اور اُن کے دل ودماغ میں گھبراہٹ رہتی تھی کہ نہ معلوم وہ اللہ تعالیٰ کی رضاء کے مقام کو حاصل کرتے ہیں یا نہیں، اس لئے اگلے جہاں میںانہیں تسکین کے لئے کافوری پیالے پلائے جائیں گے اور زنجبیلی پیالے اس لئے پلائے جائیں گے کہ انہوں نے دین کے لئے گرمی دکھائی تھی اور بے تاب ہو کر اللہ تعالیٰ کے راستہ پر چلتے رہے تھے، اس لئے جب اُن کو گرمی کی ضرورت ہو گی انہیں گرمی پیدا کرنے کے سامان دئیے جائیںگے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت میں لوگوں کو نکمّا بنا کر نہیں بٹھادیا جائے گا بلکہ اُن کی ساری لذّت ہی کام میں ہوگی اور انہیں زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تا کہ اُن میں کام کی اور زیادہ قوت پیدا ہو۔ پس یہ خیال غلط ہے جوبعض مسلمانوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے کہ جنت میں کوئی کام نہیں ہو گا، اگر ایسا ہی ہوتو ایک ایک منٹ جنتیوں کے لئے مصیبت بن جائے۔ ـ
اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے اِنَّ ھٰذَ اکَانَ لَکُمْ جَزَائً وَّکَانَ سَعْیُکُمْ مَّشْکُوْرًا ۳۹؎ چونکہ تم نے دنیا میںبڑے بڑے نیک اعمال کئے تھے اس لئے تمہارے اُن کاموں کو قائم رکھنے اور تمہاری ہمتوں کو تیز کرنے کے لئے زنجبیلی پیالے پلائے جائیں گے تاکہ تم میں نیکی، تقویٰ اور قوتِ عمل اَور بھی بڑھے اور تاتم پہلے سے بھی زیادہ ذکرِ الٰہی کرو پس جنت نکمّوں کی جگہ نہیں بلکہ اس دنیا سے زیادہ کام کرنے کی جگہ ہے۔
شیریں چشمے
پھر میں نے ایک اَور فرق دیکھا کہ دُنیوی مینا بازاروں کا کام تو ختم ہو جاتا تھا گلاس پِیا اور ختم۔ بعض دفعہ کہا جاتا شربت کیوڑہ دو تو جواب ملتا کہ
شربت کیوڑہ ختم ہو چکا ہے۔ بعض دفعہ برف مانگی جاتی تو کہہ دیا جاتا کہ برف ختم ہو گئی ہے۔ اسی طرح بعض مذہبی آدمی زمزم کاپانی یا گنگا جل بوتلوں میں بھر کر لاتے ہیں وہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ آسمانی پانی نرالا تھا جو ختم ہی نہ ہوتا تھا بلکہ اُس کے چشمے پھوڑے گئے تھے چنانچہ فرماتا ہے یُطَافُ عَلَیْھِمْ بِکَأْسٍ مِّنْ مَّعِیْنٍ۴۰؎ وہاں ان کو ایسے بھرے ہوئے پیالے پلائے جائیں گے جو اُن چشموں سے لائے جائیں گے جو بہتے پانی والے ہوں گے یعنی وہ پانی محدود نہیں ہوگا جاری رہے گا۔
دُودھ کی نہریں
پھرمَیں نے کہا کہ اُن مینا بازاروں میںدودھ بھی بکتا ہے کیا وہاں دُودھ بھی ملے گا کہ وہ ایک ضروری غذاء ہے ۔ تومَیں نے دیکھا کہ ان
بازاروں میںتو دُودھ بوتلوں اور پائونڈوںاور سیروں کے حساب سے بکتا ہے پھر بھی کبھی خراب نکلتا ہے یا خراب ہو جانے کا ڈر ہوتا ہے اور جلدی پینا پڑتا ہے۔مگر وہاں کے دُودھ کا یہ حال ہے کہ مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْھَآ اَنْھٰـرٌ مِّنْ مَّائٍ غَیْرِ اٰسِنٍ وَاَنْھَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ ۴۱؎
مؤمنوں سے جن جنتوں کا وعدہ ہے اُن کی کیفیت یہ ہے کہ وہاں پانی کی نہریں ہوں گی جو کبھی سڑے گا نہیں اور دُودھ کی نہریں ہوں گی جس کامزہ کبھی بدلے گا نہیں بلکہ وہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہو گا۔ دنیا میں آج تک کبھی کسی بھینس نے ایسا دُودھ نہیںدیا جو لَمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ کامصداق ہو مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے مینا بازار میں ایسا ہی دودھ ملے گا پھریہاں تو کسی جگہ روپیہ کا آٹھ سیر دودھ ملتا ہے اور کسی جگہ دس سیر اور کسی جگہ روپے سیر مگر وہاں دُودھ کی نہر بہہ رہی ہو گی اور نہر بھی ایسی ہو گی کہ لَمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ اس کے دودھ کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ اسے جلدی اُبال لو، ایسا نہ ہو خراب ہو جائے یا شام کا دودھ ہے جلدی سے ناشتہ میں ہی استعمال کر لیا جائے دوپہر تک خراب ہو جائے گا، وہاں کا دُودھ کبھی خراب نہیں ہو گا۔
اس آیت سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ دُودھ کی بڑی کثرت ہو گی مگر سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ کیا اس دُودھ کے استعمال پرکوئی روک تو نہیں ہوگی؟ اس کا ازالہ اللہ تعالیٰ نے ایک اَور مقام پر کیا ہے فرماتا ہے وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْاوَعَمِلُواالصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ۴۲؎
تو مؤمنوں کو بشارت دے کہ اُن کو ایسی جنتیں ملیں گی جن کی نہریں اُن باغوں کے متعلق ہونگی یعنی جن کے باغ اُن کی نہریں ۔ یہ نہیں ہو گا کہ جس طرح دنیا میں نہری پانی کے استعمال کی اور اس کی مقدار کی گورنمنٹ سے اجازت لی جاتی ہے اسی طرح وہاں بھی اجازت لینی پڑے بلکہ جب چاہو ان نہروں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہو، خواہ وہ دُودھ کی نہریں ہوں یا شہد کی نہریں ہوں یا پانی کی نہریں ہوں سب باغ والوں کے قبضہ میں ہوں گی۔
مصفّٰی شہد
پھر مَیں نے کہا کہ دنیا کے مینا بازاروں میں شہد بھی ملتا ہے آیا اُس مینا بازار میں بھی شہد ملتا ہے یا نہیں؟ جب میرے دل میں یہ خیال آیا تو معاً میں نے یہ لکھا ہؤا
دیکھا کہ اَنْھَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی۴۳؎ وہاں خالص شہد کی نہریں بھی بہتی ہونگی دنیا میں عام طور پر اوّل تو خالص شہد ملتا ہی نہیں۔ لو گ مصری کا شربت بنا کر اور تھوڑا سا اس میں شہد ملاکر کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ خالص شہد ہے اور اگر خالص شہد کا کچھ حصہ ہو بھی تو موم ضرور ہوتا ہے اور اگر شہد کا شربت بناکر پِیا جائے تو زبان پر موم لگ جاتا ہے، لیکن اگر کسی جگہ سے خالص شہد مل بھی جائے تو وہ پونڈوں اور ڈِبوں کی شکل میں ملتا ہے مگر فرمایا ہمارے ہاں یہ نہیں ہوگا کہ پونڈوں کے وزن کے ڈِبے پڑے ہوئے ہوں اور ہم کہیں کہ یہ چنبے کا شہد ہے اور یہ آسٹریلیا کا شہدہے بلکہ شہد کی نہریں بہتی ہونگی اور تمہارا اختیار ہو گا کہ جتنا شہد چاہو لے لو۔
پُر لذّت شراب
پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی مینا بازاروں میں شراب بھی بِکتی تھی اور گو شراب ایک بُری چیز ہے اور مسلمانوں کے لئے اس کا استعمال جائز نہیں،
مگر قرآن کریم یہ تومانتا ہے کہ اس میں کچھ فائدے بھی ہوتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَناَفِعُ لِلنَّاسِ۴۴؎
لوگ تم سے شراب اور جوئے کے متعلق پوچھتے ہیں تم کہہ دو کہ اُن کے استعمال میں بڑا گناہ ہے مگر لوگوں کے لئے ان میں کچھ منافع بھی ہیں۔ پس میں نے کہا جب قرآن خود یہ مانتا ہے کہ شراب میں کچھ فائدے بھی ہیں تو بہرحال شراب کے نہ ہونے سے ہم ان منافع سے تو محروم ہو گئے جو شراب سے حاصل ہو سکتے تھے، بیشک دُنیوی مینا بازاروں میں جوشراب ملتی تھی ، اُس کے پینے سے انسان گناہوں میںملوّث ہو جاتا تھا، مگر بہرحال اُسے شراب کے فائدے بھی پہنچتے تھے۔ اس لئے شراب میں کچھ منافع بھی ہیں توکیا اس کی خرابیوں سے بچا کر مجھے اس کے منافع سے فائدہ نہیں پہنچایا جا سکتا؟ یہ خیال میرے دل میں آیا تو مَیں نے دیکھا کہ یہ چیز اس مینا بازار میں بھی موجود تھی چنانچہ میں نے ایک بورڈ دیکھا جس پر لکھا تھا وَاَنْھَارٌمِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ۴۵؎ وہاں شراب کی نہریں بہتی ہوں گی جو پینے والوں کے لئے بڑی لذّت کا موجب ہوں گی۔
ایک اعلیٰ درجہ کی سربمہر شراب
میں نے کہا اوہو! دنیا میں شراب تو صرف مٹکوں میں ہوتی ہے مگر یہاں نہروںکی صورت میں ہوگی
اور اتنی کثرت سے ہوگی کہ اس کی کوئی حد بندی ہی نہیں ہوگی مگر ا س کے ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ مٹکوں کی شراب کو گورنمنٹ اعلیٰ نہیں سمجھتی اور وہ اس کی بجائے ولایتی شراب بوتلوں میںبند کر کے بھیجتی ہے جو اپنے اثر اور ذائقہ میںزیادہ بہتر سمجھی جاتی ہے، مَیں نے کہا کہ اس مینا بازار میں تو شراب میں فرق کیا جاتا ہے ، کیا اُس مینا بازار میں بھی ایسا فرق ہے؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہاں بھی دو قسم کی شراب ہو گی ایک وہ جو نہروں کی صورت میں ہوگی اور گویا مٹکوں والی شراب کی قائم مقام ہوگی اور دوسری شراب وہ ہوگی جو بوتلوں میںبند ہو گی چنانچہ فرماتا ہے یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ خِتٰمُہٗ مِسْکٌ۴۶؎ اس نہروں والی شراب کے علاوہ ایک اَور شراب بھی وہاں ہو گی جو بوتلوں میںبند ہو گی جس پر مُہریں لگی ہوئی ہوں گی اور جوایسی اعلیٰ درجہ کی ہو گی کہ اُس کی تلچھٹ۴۷؎ بھی مُشک کی خوشبو اپنے اندر رکھتی ہو گی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی شراب میںفرق ہو گا، ایک تو عا م شراب ہو گی جیسے بیئر(BEAR) وغیرہ اور ایک اعلیٰ درجہ کی شراب ہو گی جو آقا کا خاص تحفہ ہوگی اور سر بمہر ہو گی اور اس کی دُرد۴۸؎ مُشک کی ہوگی۔
روحانی شراب کی ایک عجیب خصوصیّت
تب میں نے سوچا کہ دُنیوی شراب تو عقل پرپردہ ڈال دیتی ہے صحت برباد
کر دیتی ہے انسان کو خمار ہو جاتا ہے وہ گند بکنے لگ جاتا ہے اور اس کے خیالات ناپاک اور پریشان ہو جاتے ہیں۔ بیشک شراب میں کچھ فائدے بھی پائے جاتے ہیں لیکن انہی عیوب کی وجہ سے دنیا کی پچاس ساٹھ سالہ زندگی بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کہہ دیا کہ شراب نہ پیو، پھر ہمیشہ کی زندگی میں اس کے استعمال کو جائز کیوں رکھا گیا اورکیا ایسا تو نہیںہو گا کہ اس شراب کوپی کر مَیںاپنی عبودیت کو بھُول جائوں؟ اس پرمَیں نے دیکھا کہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرمارہا ہے لَافِیْھَا غَوْلٌ وَّلَا ھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ ۴۹؎
غَوْلٌکے معنی عربی میں عقل اور بدن کی صحت کے چلے جانے اور خمار کے پیدا ہو جانے کے ہیں۔۵۰؎ پس لَافِیْھَا غَوْلٌکے معنے یہ ہوئے کہ اس سے عقل ضائع نہیں ہو گی، بدن کی صحت پر کوئی بُرا اثر نہیں پڑے گا اور پینے کے بعد خمار نہیں ہو گا۔ یہ تین عیب ہیں جو دنیا میں شراب پینے سے پیدا ہوتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کے بنائے ہوئے مینا بازار کی جو شراب ملے گی اُس سے نہ عقل خراب ہو گی اور نہ صحت کو کوئی نقصان پہنچے گا۔ یہاں شراب پینے والوں کو رعشہ ہو جاتا ہے گنٹھیا کی شکایت ہو جاتی ہے اور جب نشہ اُتر تا ہے تو اُس وقت بھی اُنہیں خمار سا ہوتا ہے اور اُن کے سر میںدرد ہوتا ہے، لیکن اس مینا بازار میں جو شراب ملے گی اُس میں اِن نقائص میں سے کوئی نقص نہیں ہوگا۔
اسی طرح نزف کے معنے ہوتے ہیں ذَھَبَ عَقْلُہَّ اَوْسُکِّرَ۵۱؎ یعنی عقل کا چلے جانا اور بہکی بہکی باتیں کرنا۔ یہ بات بھی ہر شرابی میں نظر آسکتی ہے۔ خود مجھے ایک شرابی کا واقعہ یاد ہے جو میرے ساتھ پیش آیا، اب تو میں حفاظت کے خیال سے سیکنڈ کلا س میں سفر کیا کرتا ہوں لیکن جس زمانہ کی یہ بات ہے اس زمانہ میں مَیں تھرڈ کلاس میں سفر کیا کرتا تھا، مگر اتفاق ایسا ہؤا کہ اُس دن تھرڈ کلاس میں سخت بِھیڑ تھی مَیں نے سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیا مگر سیکنڈ کلاس کا کمرہ بھی ایسا بھرا ہؤا تھاکہ بظاہر اس میں کسی اور کے لئے کوئی گنجائش نظر نہیں آتی تھی۔ چھوٹا سا کمرہ تھا اور اٹھارہ بیس آدمی اس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ بہرحال جب میں اس کمرہ میں گُھساتو ایک صاحب جو اندر بیٹھے ہوئے تھے وہ مجھے دیکھتے ہی فوراً کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے کہنے لگے تمہیںشرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور یہ کھڑے ہیں ان کے لئے بھی جگہ بنائو تا کہ یہ بیٹھیں۔ مَیں نے سمجھا کہ گومَیں انہیں نہیں جانتا مگر یہ میرے واقف ہوںگے۔ چنانچہ اُن کے زور دینے پر لوگ اِدھر اُدھر ہو گئے اور میرے بیٹھنے کے لئے جگہ نکل آئی۔ جب میں بیٹھ گیا تو وُہی صاحب کہنے لگے کہ آپ کیا کھائیں گے؟ مَیں نے کہا آپ کی بڑی مہربانی ہے مگر یہ کھانے کا وقت نہیں میں لاہور جا رہا ہوں وہاں میرے عزیز ہیں وہاں سے کھانا کھا لوںگا۔ کہنے لگے نہیں پِھر بھی کیا کھائیں گے؟ مَیں نے کہا عرض تو کر دیا کہ کچھ نہیں۔ اس پر وہ اور زیادہ اصرار کرنے لگے اور کہنے لگے اچھافرمائیے کیا کھائیں گے؟ مَیںنے کہا بہت بہت شکریہ میں کچھ نہیں کھائوں گا۔ کہنے لگے اچھاتو پھر فرمائیے ناکہ آپ کیا کھائیں گے؟ مَیں اب گھبرایا کہ یہ کیا مصیبت آ گئی ہے۔ اس سے پہلے مَیں نے کسی شرابی کو نہیں دیکھا تھا اس لئے میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں۔ اتنے میں ایک سکھ صاحب کمرہ میں داخل ہوئے اس پر وہ پھر کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے کہنے لگے ، تمہیں شرم نہیں آتی کمرہ میں ایک بھلا مانس آیا ہے اور تم اُس کے لئے جگہ نہیں نکالتے۔اور یہ بات کچھ ایسے رُعب سے کہی کہ لوگوں نے اس کے لئے بھی جگہ نکال دی۔ جب وہ سکھ صاحب بیٹھ چکے تو دو منٹ کے بعد وہ اُن سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے سردار صاحب کچھ کھائیںگے؟ مَیں نے اُس وقت سمجھا کہ یہ شخص پاگل ہے اتنے میں ایک اور شخص کمرہ میں داخل ہوگیا۔ اس پر وہ انہی سردار صاحب کو جن کو چند منٹ پہلے بڑے اعزاز سے بٹھا چکا تھا کہنے لگا تمہیں شرم نہیں آتی کہ خود بیٹھے ہو اور اس کے لئے جگہ نہیں نکالتے۔ آخر مَیں نے کسی سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے؟ تو اس نے بتایا کہ انہوں نے شراب پی ہوئی ہے اس پر مَیں اگلے سٹیشن کے آتے ہی وہاںسے کھسک گیا اور میں نے شکر کیا کہ اُس نے مجھ کو جھاڑ ڈالنے کی کوشش نہیںکی۔
توشراب انسانی عقل پربالکل پردہ ڈال دیتی ہے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَاھُمْ عَنْھَا یُنْزَفُوْنَ نہ انہیں نشہ چڑھے گا اور نہ بیہودہ باتیں کریں گے۔
پاکیزہ مذاق
اسی طرح فرماتا ہے یَتَنَازَعُوْنَ فِیْھَا کَأسًالَّالَغْوٌ فِیْھَاوَلَاتَأْثِیْمٌ ۵۲؎ مؤمن وہاں آپس میں بڑی صلح صفائی اور محبت پیارسے رہیںگے اور جس
ہنسی مذاق میں ایک بھائی دوسرے بھائی سے کوئی چیز چھین کر لے جاتا ہے اسی طرح وہ ایک دوسرے سے چھین چھین کر کھائیں گے۔ یہ نہیں کہ اُن کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیںہوگا جس کی وجہ سے انہیں چھیننا پڑے گا بلکہ اُن کے پاس ہر چیز کی کثرت ہوگی، یہاں تک کہ دُودھ اور شہد اور پانی کی نہریں چل رہی ہوں گی مگر پھر بھی وہ محبت اور پیارے کے اظہار کے لئے ایک دوسرے سے پیالے چھین چھین کر پئیں گے۔ مگر دنیا میں تو اِس چھیننے کے نتیجہ میں کئی دفعہ لڑائی ہو جاتی ہے اور لوگ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں ۔ ایک کہتا ہے تم بڑے خبیث ہو اور دوسرا کہتا ہے تم بڑے خبیث ہو مگر فرمایا لَالَغْوٌفِیْھَا وَلَا تَأْثِیْمٌ وہاں قلوب اتنے صاف ہوں گے کہ انسان کے دل میں اس سے کوئی رنجش پیدا نہیں ہوگی کہ اُس کے بھائی نے اس سے پیالہ چھین لیا ہے بلکہ اُن کی آپس کی محبت اور زیادہ ترقی کر ے گی اور وہ اور زیادہ نیک اور پاک بن جائیں گے۔ اس سے معلوم ہؤا کہ نہ صرف وہ شراب پاک ہوگی بلکہ جتنا زیادہ اُس شراب کو پئیں گے اُتنا ہی اُن کا دل پاک ہو گا اس سے صاف ظاہر ہے کہ دُنیوی شراب کی بُرائیاں اُ س میں نہیں ہوں گی۔
تزکیۂ نفس پیدا کرنے والی شراب
مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اُس کی خوبیاں کیا ہیں جن کی وجہ سے وہ پلائی جائے گی۔ تو اس کا
جواب مَیں نے یہ پایا کہ وَ سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَاباً طَھُوْرًا۵۳؎ طَھُوْر کے معنے پاک کے بھی اور پاک کرنے والے کے بھی ہوتے ہیں اور طَاھرِ کے معنے ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں پاک ہو پس سَقٰھُمْ رَبُّھُمْ شَرَاباً طَھُوْرًا کے معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کو ایسی شراب پلائے گا جو اُن کے دلوں کو بالکل پاک کر دے گی ، معلوم ہؤا کہ وہ شراب صرف نام کے لحاظ سے شراب ہے ورنہ اصل میں کوئی ایسی چیز ہوگی جس سے دل پاک ہوں گے پھر طَھُوْر کے لفظ سے جس کے معنے پاک کرنے والی شَے کے ہوتے ہیں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ شراب چیزوں کو سڑاکر نہیں بنائی جائے گی بلکہ اللہ تعالیٰ کے کُنْ کہنے کے نتیجہ میں پیدا ہو گی۔
ا سی طرح ایک اور لطیف اشارہ اس میں یہ کیا گیا ہے کہ شراب خود گندی ہوتی ہے اور جو چیز آپ گندی اور سڑی ہوئی ہووہ دوسروں کو بھی گند میں مبتلاء کرتی ہے مگر فرمایا وہ شراب نہ خود سڑی ہوئی ہو گی اور نہ دوسروں کو گند میں مبتلاء کر ے گی، گویا اس کے دونوں طرف پاکیزگی ہوگی۔ وہ نہ آپ گندی اور سڑی ہوئی ہو گی او رنہ دوسروں کو گندگی میں مبتلاء کر ے گی۔
’’تسِنیم واٹر‘‘
پھر فرماتا ہے وَمِزَاجُہٗ مِنْ تَسْنِیْمٍ۵۴؎ اس شراب میں ایک پانی ملا یا جائے گا جو شرف ، بلندی اور کثرت کا ہو گا جیسے انگریز شراب پیتے ہیں تو
اُس میں سوڈا واٹر ملا لیتے ہیں۔ اسی طرح فرمایا ہم اس شراب میں تسنیم واٹر ملائیں گے گویا وہاں بھی سوڈا واٹر ہو گا، مگر اس کانام ہو گا تسنیم واٹر۔ اور تسنیم کے معنے بلندی،شرف اور کثرت کے ہیں، گویا اُس پانی کو پی کر یہ تینوں باتیں انسان کو حاصل ہو ں گی۔ کیونکہ یہ معمولی پانی نہیںہو گا بلکہ بلندی، شرف اور کثرت کے چشمہ کا ہو گا جو جنت میں بہتا ہو گا اور عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ۵۵؎ یہ ایک ایسا چشمہ ہو گا جس سے مقرب لوگ پانی پئیں گے، گویا دو گروہوں کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ ایک گروہ تو وہ ہوگا جس کی شراب میں ذائقہ کے لئے تسنیم کا پانی ملایا جائے گا اور جب بھی وہ شراب پینا چاہیں گے انہیںاس کے مطابق تسنیم کا پانی شراب میں ملانے کے لئے دیدیا جائے گا، مگر ایک اور گروہ مقربین کا ہو گاجنہیں معمولی مقدار میں تسنیم کا پانی نہیں دیا جائے گا، بلکہ عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَ کے مطابق انہیں اجازت ہوگی کہ وہ جب بھی چاہیں تسنیم کے چشمہ سے پانی لے لیں جو بلندی،شرف اور کثرت کا چشمہ ہو گا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جنت میں جس شراب وغیرہ کا ذکر آتا ہے اُس سے مراد رُوحانی چیزیں ہیں ورنہ دُنیا میں کیا کبھی شرف، بلندی اور کثرت کا پانی بھی ہؤا کرتا ہے یا کوئی ایسی شراب بھی ہؤا کرتی ہے جو سٹرے نہیں؟ اور پھر وہ شراب ہی کیاہے جس میں نشہ نہ ہو،بلکہ شراب میں جتنا زیادہ نشہ ہو اتنی ہی وہ اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور اُسی قدر ہمارے شاعر اس کی تعریف کرتے ہیں۔ذوقؔ کہتا ہے
؎
یہ وہ نشہ نہیں جسے تُرشی اُتار دے
مگر جنت میں جو شراب دی جائے گی اس میں نہ نشہ ہو گا نہ وہ سڑی ہوئی ہو گی اور نہ صحت اور عقل کو نقصان پہنچائے گی۔
اسی طرح فرماتا ہے اس شراب میں ایک چشمہ کاپانی ملایاجائے گا جس کان سَلْسَبِیْلا۵۶؎ ہو گا سَبِیْل کے معنے راستہ کے ہیں اور سَلْ٭ کے معنے اگر اس کے سَالَ یَسِیْلُ سے سمجھا جائے تو یہ ہوں گے کہ چل اپنے راستہ پر ۔ یا دَوڑ پڑ۔ یعنی دنیاوی شراب پی کر تو انسان لڑکھڑا جاتے ہیں مگر وہ شراب ایسی ہو گی کہ اُسے پی کر انسان دَوڑنے لگے گا اور اُس کو پیتے ہی کہا جائے گا کہ اب سب کمزوری رفع ہو گئی چل اپنے راستہ پر۔
یہ فرق بھی بتا رہا ہے کہ شراب مادی نہیں، ورنہ دنیا کی شراب پی کر انسان کے پائوں لڑکھڑا جاتے ہیں اور وہ کبھی بھی دَوڑ نہیں سکتا۔
مادی شراب کے نشہ کی کیفیت
مجھے ایک لطیفہ یاد ہے ، قادیان میںجہاں آج کل صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر ہیں اور جہاں سے ایک گلی
ہمارے مکانوں کے نیچے سے گزرتی ہے، وہاں ایک دن مَیں اپنے مکان کے صحن میں ٹہلتا ہؤا مضمون لکھ رہا تھا کہ نیچے گلی سے مجھے دو آدمیوں کی آواز آئی۔ ان میں سے ایک تو گھوڑے پر سوار تھا اور دوسرا پیدل تھا۔ جو پیدل تھا وہ دوسرے شخص سے کہہ رہا تھا کہ سُندر سنگھا!پکوڑے کھائیں گا؟ میں نے سمجھا کہ آپس میں باتیںہو رہی ہیں اور ایک شخص دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ تم پکوڑے کھائو گے؟ مگر تھوڑی دیر کے بعد مجھے پھر آواز آئی کہ سُندر سنگھا پکوڑے کھائیں گا اور وہ شخص جو گھوڑے پر سوار تھا برابر آگے بڑھتا چلا گیا، یہاں تک کہ وہ اُس موڑپر جا پہنچا جو مسجد مبارک کی طرف جاتا ہے مگر وہ برابر یہی کہتا چلا گیا کہ سُندر سنگھا! پکوڑے کھائیں گا؟ سندر سنگھا!پکوڑے کھائیں گا؟ آخر گھوڑے کے قدموںکی آواز غائب ہو گئی اور آدھ گھنٹہ اس پر گزر گیا مگر مَیں نے دیکھا وہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہیں گلی میں بیٹھا ہؤا یہ کہتا چلا جاتا تھا کہ سُندر سنگھا! پکوڑے کھائیں گا؟ سُندر سنگھا!ـ پکوڑے کھائیں گا؟ حالانکہ سُندر سنگھ اُس وقت گھر میں بیٹھا ہؤا پُھلکے کھا رہا ہو گا۔ دراصل وہ شراب کے نشہ میں تھا اور اس نشہ کی حالت میں یہی سمجھ رہا تھا کہ میں اس کے ساتھ چل رہا ہوں مگر شراب کی وجہ سے اُس سے چلا نہیں جاتا تھا اور عقل پر ایسا پردہ پڑا ہؤا تھا کہ وہیں دیوار کے ساتھ بیٹھا ہؤا وہ سُندر سنگھ کو پکوڑوں کی دعوت دیتا چلا جاتا تھا۔
تو شراب کی کثرت کی وجہ سے ٹانگوں کی طاقت جاتی رہتی ہے، عقل زائل ہو جاتی ہے قویٰ کو نقصان پہنچتا ہے اور انسان بہکی بہکی باتیں کرنے لگتا ہے مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ شراب پلا کر ہم کہیںگے ۔ سَلْ سَبِیْلا ۔ اب تمہاری سب کمزوری رفع ہو گئی ہے تو اَپنے راستہ پر دَوڑ پڑو۔
دوسرے معنے اس کے سَأَلَ یَسْأَلُ کے بھی ہو سکتے ہیں، یعنی سوال کر، پوچھ، دریافت کر۔ اس کا امر بھی سَلْ ہی بنتا ہے۔یعنی دنیا میں شراب پینے والا جب بہت سی شراب پی لیتا ہے تو اُس کی عقل ماری جاتی ہے ، مگر وہ شراب ایسی ہو گی کہ جب وہ پلائی جائے گی تو اُسے کہا جائے گا کہ اب تیری عقل تیز ہو گئی ہے تو روحانیت اور معرفت کی ہم سے نئی نئی باتیں پوچھ۔ گویا اُس شراب سے ایک طرف قوتِ عملیہ بڑ ھ جائے گی اور دوسری طرف قوتِ عقلیہ بڑھ جائی گی اور وُہ خدا تعالیٰ سے کہے گا کہ خدایا مجھے اور رُوحانی علوم دئیے جائیں اور اس کے بدن میںایسی طاقت آجائے گی کہ جس طرح دریا اپنی روانی میں بہتا ہے اسی طرح وہ خداتعالیٰ کی راہ میں بہنے لگ جائے گا۔
پھل اور گوشت
(۴) چوتھی بات جو دُنیوی مینا بازاروں میں پائی جاتی ہے وہ کھانے کی چیزیں ہیں، مَیں نے اس جنت میں دیکھا تو اس میں بھی یہ سب سامان
موجو دتھے چنانچہ فرماتا ہے وَفَا کِھَۃٍ مِّمَّا یَتَخَیَّرُوْنَ- وَلَحْمِ طَیْرٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ ۵۶؎
کہ جنت میں کھانے کو پھل ملیں گے جوبھی وہ پسند کریں گے،یہاں ہم بعض دفعہ بعض پھلوں کو پسند کرتے ہیں مگر ہمیں ملتے نہیں۔ ہمار ا جی چاہتا ہے ہمیں انگور کھانے کو ملیں مگر جب بازار سے دریافت کرتے ہیںتو کہا جاتا ہے تمہاری عقل ماری گئی ہے یہ بھی کوئی انگور کا موسم ہے۔ سنگترے کو جی چاہے تو دُکاندار کہہ دیگا، آج کل تو سنگترے کا موسم ہی نہیں ، کیلاؔ موجود ہے یہ لے لیں۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہاں یہ سوال نہیںہو گا کہ انگوروں کا موسم نہیں یا اناروں کا موسم نہیں یاکیلے کا موسم نہیں یا سردے کا موسم نہیں ، وہاںجو بھی پھل انسان چاہے گا، اُسے فوراً مل جائے گا ۔ اسی طرح جس پرندے کا گوشت وہ چاہیں گے اُس کا گوشت انہیںدیا جائے گا، پھر فرماتا ہے وَاَمْدَدْنٰـھُمْ بِفَا کِھَۃٍ وَّلَحْمٍ مِّمَّا یَشْتَھُوْنَ ۵۷؎
کہ انہیں کھانے کے لئے پھل ملیںگے اور گوشت بھی جس قسم کا وہ چاہیں گے، یہ شرط نہیں کہ انہیں پرندوں کا ہی گوشت ملے گا بلکہ اگر وہ مچھلی چاہیں گے تو مچھلی ملے گی ، دُنبے کا گوشت چاہیں گے تو دُنبے کا گوشت مل جائے گا۔
جنّتی پھلوں کی دلچسپ خصوصیات
اسی طرح فرماتا ہے ۔ وَدَانِیَۃً عَلَیْھِمْ ظِلاَ لُھَا وَذُلِّلَتْ قُطُوْ فُھَا تَذْلِیْلا۵۸؎ کہ
جنت میں مؤمنوں کو جو پھل ملیں گے، اُن کی یہ ایک عجیب خصوصیت ہو گی کہ وہ پھل بہت ہی جُھکے ہوئے ہوں گے ا ور جب اُن کا جی چاہے گا انہیں ہاتھ سے توڑ لیںگے، یہاں پھل اُتارنے کے لئے لوگوں کو درختوں پر چڑھنا پڑتا ہے، مگر فرمایا وہاں ایسا نہیں ہو گا۔ وہاں پھل اس قدر جُھکے ہوئے ہونگے کہ جس کا جی چاہے گا ہاتھ سے توڑ لے گا۔
اسی طرح فرماتا ہے۔ وَفَاکِھَۃٍ کَثِیْرَۃٍ لَّامَقْطُوْعَۃٍ وَّلَا مَمْنُوْعَۃٍ ۵۹؎ کہ انہیں وہاںکھانے کے لئے کثرت سے پھل ملیں گے اور وہ پھل ایسے ہوں گے، جو کبھی مقطوعہ نہیں ہوںگے یعنی کبھی ایسا نہیں ہو گا کہ کہہ دیا جائے آج رنگترے نہیں ملیں گے، صرف شہتوت ملیں گے۔ وَلَامَمْنُوْعَۃٍ اور نہ وہ ممنوع ہوں گے۔یعنی یہ ایک عجیب خاصیت اُن میں ہوگی کہ کبھی ایسا نہیںہو گا کہ وہ انسان کو بیما ر کر دیں۔ دنیا میں تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ڈاکٹر کہہ دیتا ہے تمہارے لئے کیلا کھانا منع ہے یا تم صرف انار کاپانی پی سکتے ہو اَور کوئی پھل نہیں کھا سکتے، مگر جنت میںجو پھل ملیںگے انہیںکوئی بُرا کہنے والا نہیں ہو گاکیونکہ وہ بیماریاں پیداکرنے والے نہیںہوں گے بلکہ تندرستی اور صحت پیدا کرنے والے ہونگے پس وَلَا مَمْنُوْعَۃٍ کے یہ معنے ہیں کہ ایسا نہیں ہو گا کہ ان پھلوں کے کھانے سے بدہضمی ہو خواہ وہ کسی قدر کھا لئے جائیں انسان کوکوئی تکلیف نہیںہوگی ۔ دنیا میںانسان ذرا بے احتیاطی کرے تو بیمار ہو جاتا ہے مگر وہاںایسا نہیں ہو گا۔لیکچر دیتے وقت میری عادت ہے کہ میںتھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد گرم چائے کا ایک گھونٹ لے لیتا ہوں چنانچہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد میرے آگے چائے کی پیالیاں رکھی جاتی ہیں اور اُن میںسے اکثر بغیر چکھے کے اُٹھالی جاتی ہیں۔کیونکہ میرے سامنے پڑی پڑی ٹھنڈی ہو جاتی ہیںاور بعض دفعہ میں ایک گھونٹ پی بھی لیتا ہوں، مگر اس تمام عرصہ میںتیس چالیس دفعہ پیالیاں میرے سامنے سے گزر جاتی ہیں اور جو ناواقف ہوتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ شاید میں ساری پیالیاں پی جاتا ہوں۔ ایک دفعہ ایک نئے دوست احمدی ہوئے جو بعد میں بہت مخلص ہو گئے، ڈپٹی آصف زمان صاحب اُن کا نام تھا۔ وہ پہلے سال جلسہ میںشریک ہوئے تو انہوں نے بعد میں مولوی ذوالفقار علی خاں صاحب سے کہا کہ خان صاحب! یہ کیا غضب کرتے ہیں۔ خلیفۃ المسیح کو تو لیکچر میں ہوش ہی نہیں رہتی اور آپ لوگ تیس چالیس پیالیاں چائے کی اُن کے آگے رکھ دیتے ہیں۔ اتنی چائے انہیں سخت نقصان دے گی۔ تو دنیا میں جب کسی چیز کو بے احتیاطی سے استعمال کیا جائے تو اس کی وجہ سے انسان کو تکلیف ہو جاتی ہے مگر فرمایا: وہ پھل عجیب خاصیت اپنے اندر رکھتے ہوں گے کہ نہ تو کسی موسم میںختم ہوں گے اور نہ کوئی بداثر جسم پر پڑیگا بلکہ ہر حالت میںانسان اُن کو کھا سکے گا۔ دنیا کی غذائوں کو تو روکنا پڑتا ہے مگر رُوحانی چیزیں چونکہ ایسی نہیں ہوتیں اور اُن کی بڑی غرض یہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے علم ا ور معرفت میں بڑھ جائے اس لئے جنت کی چیزیں انسان رات اور دن کھاتا چلاجائے گا اور اسے کسی وقفہ کی ضرورت محسوس نہیںہو گی۔ یہ خواص بتاتے ہیں کہ ان پھلوں سے مادی پھل نہیں بلکہ روحانی پھل مراد ہیں۔اسی وجہ سے احادیث میں آتا ہے کہ جنت کے رزق کا کوئی پاخانہ نہیں آئے گا اور آئے کس طرح جب کہ وہ رزق مادی ہو گا ہی نہیں بلکہ رُوحانی ہو گا۔
نعماء کے پہلو بہ پہلو مغفرت کا دَور
جب مَیںیہاں پہنچا تو مجھے خیال آیا کہ اُف! کھانے اورپینے کی جہاں اتنی چیزیں ہوںگی،
وہاں تو دن اور رات میںکھانے اور پینے میں ہی مشغول رہوں گا اور میرا آقا مجھ سے ناراض ہو گا کہ یہ کیسا غلام ہے جو رات دن کھاتا پیتا رہتا ہے۔ پس میرے دل میں خوف پیدا ہؤا کہ کہیں میں ان کھانے پینے کی چیزوں کے ذریعہ اپنے آقا کی ناراضگی تومول نہیں لے لونگا اور کیا وہ مجھے یہ نہیں کہے گا کہ میں نے تم کو اس لئے غلام بنایاتھا کہ تم رات اور دن کھاتے پیتے رہو۔
جب میرے دل میںیہ ڈر پیدا ہؤا تو مَیں نے پھر قرآن کریم کی طرف نظر کی کہ میرے ساتھ کیامعاملہ ہونے والا ہے اور مَیں نے وہاں یہ لکھا ہؤا دیکھا کہ مَثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ فِیْھَا اَنْھَارٌ مِّنْ مَّائٍ غَیْرِاٰسِنٍ وَاَنْھَارٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُہٗ وَاَنْھَارٌ مِّنْ خَمْرٍ لَّذَّۃٍ لِّلشّٰرِبِیْنَ وَاَنْھَارٌ مِّنْ عَسَلٍ مُّصَفًّی وَلَھُمْ فِیْھَامِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ وَمَغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ ۶۱؎
اس جنت کی حالت اور کیفیت جس کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ لوگ اپنے باغوں کو پانی دیتے ہیں تو وہ زمین کے پتوں کے ساتھ مل کر بدبودار ہوجاتا ہے اور اس کے اندر ایسی سڑاند پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگوں کے لئے وہاں سے گزرنا مشکل ہو جاتا ہے مگر وہاں ایسا پانی ہو گا جو بِالکل پاک اور صاف ہو گا جس میں مٹی اور ریت ملی ہوئی نہیں ہو گی اور جب کھیتوں کوپانی دیا جائے گا تب بھی بدبو پیدا نہیں ہوگی۔اور وہاں ایسے دودھ کی نہریں ہوں گی جس کا مزہ کبھی خراب نہیں ہو گا اور وہاں شراب کی بھی نہریں ہوں گی جو پینے والوں کے لئے لذت کا موجب ہوں گی اور وہاں خالص شہد کی بھی نہریں ہوں گی اور وہاں اُن کے لئے ہر قسم کے میوے ہوں گے جنہیں وہ خوب کھائے گا۔ اور جب دیکھے گا کہ اس نے خوب کھا لیا اور خوب پی لیا تو اُسے خیال آئے گا کہ میرا کام تو خدمت کرنا تھا، اب میرا آقا ضرور مجھ سے ناراض ہو گا اور کہے گا نالائق تو کھا ئو پیُو بن گیا۔چنانچہ وہ ڈر کے مارے کھڑا ہو جائے گا مگر جونہی وہ گھبرا کر کھڑا ہو گا وہ دیکھے گا کہ اُس کا آقا اُس کے سامنے کھڑا ہے اور اُسے کہہ رہا ہے کہ میرے اس بندے کوبخش دو کہ اس نے میرا پانی پیا۔ میر ے اس بندے کو بخش دو کہ اس نے میرا شہد پیا۔ میرے اس بندے کو معاف کر و کہ اس نے میرے دودھ کو استعمال کیا۔ اور میرے اس بندے کو معاف کر و کہ اس نے میرے پھلوں کو کھایا۔ گویا ہر کھانے اور ہرپینے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے بخشش نازل ہو گی اور مؤمنوں کے درجات میں اور زیادہ ترقی ہو گی۔ تب میں نے ایک طرف تو یہ سمجھا کہ یہ رُوحانی غذائیں ہیں تبھی ان کے نتیجہ میں مغفرت حاصل ہونے کے کوئی معنے نہیں دوسری طرف مَیں نے یہ بھی سمجھا کہ اللہ تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو خدا خود کھلاتا اور پلاتا ہے اور ان کا کھانا اور پینا بھی عبادت میںشامل ہوتا ہے جیسے حضرت مسیح ناصری کو بھی کھائو اور پِیُو کہا گیا۔
سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کے ایک ارشاد کی حقیقت!
اسی طرح اس آیت سے میرے
لئے سیّد عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ کا یہ واقعہ بھی حل ہو گیاکہ مَیں نہیں کھاتا جب تک خدا مجھے نہیںکہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم توُ ضرور کھا اور مَیں نہیںپیتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تُو ضرور پی۔ا ور میں نہیں پہنتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر! تجھے میری ذات ہی کی قسم تُو ضرور پہن۔ یہاںبھی فرماتا ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ ہر مؤمن سے کہے گا کہ کھائو مَیں تمہارے گناہ بخشوں گا،میری شراب پیو کہ مَیں تم سے حسن سلوک کروں گااور میرے پھل کھائو کہ میں تم پر اپنی رحمتیں نازل کروں گا۔یہ الفاظ کتنی محبت پر دلالت کرتے ہیں اور کس طرح ان الفاظ سے اس شفقت کا اظہار ہوتا ہے جو مؤمن بندے کے ساتھ خداتعالیٰ کرے گا۔
اعلیٰ درجہ کے لباس
(۵) پھر مَیں نے سوچا کہ دُنیوی بازاروں میںتو لباس فروخت ہؤا کرتے ہیں۔آیا ہمارے مینا بازار میں بھی لباس ملتے ہیں یا نہیں ۔
مَیں نے غور کیا تو اس بارہ میں بھی یہ تشریح موجود تھی وِلِبَاسُھُمْ فِیْھَا حَرِیْرٌ۔ وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ ۶۲؎
یعنی اس کے اندر مؤمنوںکو ایسا لباس دیا جائے گا جو ریشمی ہوگا وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِ۔ اور دنیا میں تو لوگ ریشمی لباس پہن کر متکبر ہو جاتے ہیںاور دوسرے سے کہتے ہیں کہ کیا تو میرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ مگر وہاںایسا نہیں ہوگا۔ ہمارے ملک میں تو ایسی بُری عادت ہے کہ ذرا کسی کی تنخواہ زیادہ ہو جائے اور اس کا غریب بھائی اور رشتہ دار اس سے ملنے کیلئے آئے تو وہ گردن موڑ کر چلا جاتا ہے۔اب اُس کی گردن آپ ہی نہیں مُڑتی بلکہ اُسے جو تنخواہ مل رہی ہوتی ہے وہ اس کی گردن کو موڑ دیتی ہے مگر فرماتا ہے وہ حریر جو جنت میں ملے گا عجیب قسم کا ہو گا کہ وَھُدُوْٓا اِلَی الطَّیِّبِ مِنَ الْقَوْلِادھر انسان وہ حریر پہنے گا اور اُدھر اس میں انکسار پیدا ہو جائے گا اور اس ریشم کے پہنتے ہی اس میں محبت اور پیار اور خلوص کے جذبات پیدا ہو جائیں گے وَھُدُوْٓا اِلٰی صِرَاطِ الْحَمِیْدِ اور دنیا میں تو لوگ ریشم پہن کر خوب اکڑ اکڑ کر مال روڈ پر چلتے ہیں۔ عورتیں ان کو دیکھتی ہیںاور وہ عورتوں کی طرف دیکھتے ہیں اور اس طرح بداخلاقی کے مرتکب ہوتے ہیں مگر وہ حریر اس قسم کا ہو گا کہ اسے پہن کر مؤمن اللہ تعالیٰ کی طرف دَوڑنے لگ جائیں گے اور اللہ میاں کے دربار میں جانے کی خواہش اُن کے دلوں میں زیادہ زور سے پیدا ہو جائے گی۔
پھرا س لباس کے علاوہ ایک اور لباس کا بھی پتہ چلتا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلِبَاسُ التَّقْوٰی ذٰلِکَ خَیْرٌ ۶۳؎ قویٰ کا لباس سب سے بہتر ہوتا ہے۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا یہ تقویٰ کا لباس بھی اس مینا بازار میںملتا ہے یا نہیں؟ اس کے لئے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں قرآن کریم میںیہ لکھا ہؤا دکھائی دیتا ہے وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی وَّاٰتٰـھُمْ تَقْوٰھُم ۶۴؎
کہ جو لوگ ہدایت پاتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کو ہدایت میںاور زیادہ بڑھاتا ہے یہاں تک کہ اُن کو تقویٰ عطا کر دیتا ہے ۔مطلب یہ کہ ہر ایک کو اُس کی ہدایت کے مطابق لباس ملے گا اور جس قدر کسی نے روحانیت میںترقی کی ہو گی اُسی قدر اس کالباس زیادہ اعلیٰ ہو گا۔
زیب وزینت کے سامان
(۶) چھٹے میں نے دیکھا کہ مینا بازار میںزینت کے سامان یعنی آئینے اور کنگھیاں اور رِبن اور پائوڈر وغیرہ فروخت
ہوتے تھے۔ مَیں نے سوچا کہ یہ تو پُرانے زمانے کے مینابازاروں کی بات ہے، آج کل تو انار کلی اور ڈبی بازار میں پوڈروںاو رلپ سٹکوں اور رُوج وغیرہ کی وہ کثرت ہے کہ پُرانے مینا بازار ان کے آگے ماند پڑ جاتے ہیںاور عورتوں کو ان کے بغیر چَین ہی نہیں آتا، گو آج کل کے مرد بھی کچھ کم نہیں اور وہ بھی اپنے بالوں میں مانگ نکال کر اور ریوڈی کلون اور پوڈر وغیرہ چھڑک کر ضرور خوش ہوتے ہیں مگر عورتیںتو اپنی زینت کے لئے ضروری سمجھتی ہیں کہ منہ پر کریم ملیں، پھر اس پر پوڈر چِھڑکیں، پھر لپ سٹک لگائیں پھر رُوج اور عطر وغیرہ استعمال کریں یہاں تک کہ اپنے بچوں کے منہ پر بھی وہ کئی قسم کی کریمیں اور چکنائیاں ملتی رہتی ہیں۔ چنانچہ بعض بچوں کو جب پیار کیا جاتا ہے تو ہاتھ پر ضرور کچھ سُرخی، کچھ چِکنائی اور کچھ پوڈر لگ جاتا ہے اور جلد جلد غسلخانہ جانا پڑتا ہے۔ پس میں نے کہا آئو میں دیکھو ں کہ آیا یہ چیزیں بھی وہاں ملتی ہیںیا نہیں؟ کیونکہ اگر یہ چیزیںوہاں نہ ہوئیں تو اوّل تو آج کل کے مرد بھی وہاں جانے سے انکار کر دیں گے ورنہ عورتیں تو ضرور اَڑ کر بیٹھ جائیں گی اور کہیں گی بتائو جنت میںسرخی اور پوڈر ملے گا یا نہیں؟ اگر سرخی، پوڈر اور کریمیں وغیرہ ملتی ہوں تو ہم جانے کے لئے تیار ہیں ورنہ نہیں۔
زینت کے لئے سب سے پہلی چیز ذاتی خوبصورتی ہے مگر کئی عورتیں اس کو نظر انداز کر دیتی ہیں اور وہ خیال کرتی ہیں کہ شاید پوڈر مل کر وہ اچھی معلوم ہونے لگیں گی اور بیوقوفی سے زیادہ سے زیادہ پوڈر مَلنے کو وہ حُسن کی ضمانت سمجھتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب انہوں نے پوڈر ملا ہؤا ہوتا ہے تو یوںمعلوم ہوتا ہے گویا انہوں نے آٹے کی بوری جھاڑی ہے۔ انگریزوں کا رنگ چونکہ سفید ہے اس لئے اُن کے چہروں پر پوڈر بدزیب معلوم نہیں ہوتا ، مگر ہمارے ملک میں نقل چونکہ عقل کے بغیر کی جاتی ہے، اس لئے اندھا دُھند انگریزوں کی اتباع میں پوڈر کے ڈِبے صرف کر دئیے جاتے ہیں۔ اور کئی تو بے چارے اس غلط فہمی میںمبتلا ہو کر کہ شاید اُن کا رنگ سفید ہو جائے ، صابن کی کئی کئی ٹِکیاں خرچ کر دیتے ہیں اور اپنا منہ خوب مل مل کر دھوتے ہیں مگر جو رنگ قدرتی طور پر سیاہ ہو وہ سفید کس طرح ہو جائے۔
سیاہ اور بدنما چہرہ کو خوبصورت بنانے کا نسخہ
ایک دفعہ ایک اینگلوانڈین اُستانی میرے پاس آئی وہ چاہتی تھی کہ
مَیں اس کی ملازمت کے لئے کہیں سفارش کر دوں۔ مَیں نے کہا۔ غور کروں گا۔ اس طرح اُسے چند دن ہمارے ہاں ٹھہرنا پڑا۔وہ اپنے متعلق کہا کرتی تھی کہ میرا رنگ اتنا سفید نہیں جتنا ہونا چاہئے اور واقعہ یہ تھا کہ اُس کا رنگ صرف اتنا کالا نہیں تھا جتنا حبشیوں کا ہوتا ہے۔ میں اُن دنوں تبدیلئ آب وہوا کے لئے دریا پر جا رہا تھا اور اتفاقاً اُن دنوں میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب (مرحوم جو میرے سالے تھے) وہ بھی قادیان آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک انگریز عورت سے شادی کی ہوئی ہے، وہ بھی میرے ساتھ چل پڑے کیونکہ اُن کی ہمشیرہ اُمِّ طاہر مرحومہ اس سفر میں میرے ساتھ جا رہی تھیں۔ اُن کی بیوی نے اُس اُستانی کی بھی سفارش کی کہ میری ہم جولی ہو گی اسے بھی ساتھ لے لو، چنانچہ اُسے بھی ساتھ لے لیا۔وہاں پہنچ کر ہم نے دو کشتیاں لیں۔ ایک میں مَیں، اُمِّ طاہر اور میری سالی (زوجہ سید حبیب اللہ شاہ صاحب مرحوم) تھی اور دوسری میں وہ اُستانی،میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب او رڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے۔ کشتیاں پاس پاس چل رہی تھیں۔ اتنے میں مجھے آوازیں آنی شروع ہوئیں وہ اُستانی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب سے باتیں کر رہی تھیں کہ فلاں وجہ سے میرا رنگ کالا ہو گیا ہے اور میں فلاں فلاں دوائی رنگ کو گوراکرنے کے لئے استعمال کر چکی ہوں آپ چونکہ تجربہ کار ہیں اس لئے مجھے کوئی ایسی دوا بتائیں جس سے میرا رنگ سفید ہوجائے اور ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ فلاں دوائی استعمال کی ہے یا نہیں؟ اُ س نے جواب دیا کہ وہ بھی استعمال کر چکی ہوں غرض اسی طرح اُن کی آپس میں باتیں ہو رہی تھیں۔ مجھے ان کی باتوں سے بڑا لُطف آ رہا تھا۔ وہ ڈاکٹر صاحب سے بار بار کہتی تھی کہ ڈاکٹر صاحب یہ بیماری ایسی شدید ہے کہ باوجود کئی علاجوں کے آرام نہیں آتا حالانکہ یہ تو کوئی بیماری تھی ہی نہیں۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا پیدا کردہ رنگ تھا، سید حبیب اللہ شاہ صاحب بچپن میں میرے دوست ہؤا کرتے تھے اور بعد میں بھی میر ے اُن سے گہرے تعلقات رہے۔ انہیں قرآن مجید پڑھنے کا بہت شوق تھا وہ اُس وقت بھی کشتی میں حسبِ عادت اونچی آواز میں قرآن کریم پڑھ رہے تھے۔ میں یہ تماشہ دیکھنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب اُس کا رنگ کس طرح سفید کرتے ہیں۔ آخر تھوڑی دیر کے بعد سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے قرآن کریم بند کیا اور درمیان میں بول پڑے اور اُسے کہنے لگے ڈاکٹر صاحب تم کو کوئی نسخہ نہیں بتا سکتے۔ اس دنیا میں تمہارا رنگ کالا ہی رہے گا البتہ ایک نسخہ میںتمہیں بتاتا ہوں قرآن کریم میںلکھا ہے کہ جو شخص نیک عمل کرے گا اُس کا قیامت کے دن مُنہ سفید ہو گا۔ پس اِس دنیا میںتو تمہارا رنگ سفید نہیں ہو سکتا ، تم قرآن پر عمل کرو تو قیامت کے دن تمہارا رنگ ضرور سفید ہو جائے گا۔زینت کے یہ سامان بھی جو مَیں بتانے لگا ہوں اسی قسم کے ہیں جس قسم کی طرف سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے اشارہ کیا تھا۔
سفید رنگ
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ ۶۵؎ دُنیا میںاگر کوئی کالا ہے تو گورا نہیں ہو سکتا، بدصورت ہے تو خوبصورت نہیں ہو سکتا، اندھا ہے تو سوجا کھا نہیں
ہو سکتا، نکٹا ہے تو ناک والا نہیں بن سکتا۔ کوئی شخص ہزار کوشش کرے صابن کی ٹِکیوں سے اپنے مُنہ کو صبح وشام مل مل کر دھوئے۔ اگر اس کا رنگ سیاہ ہے تو وہ سفید نہیں ہو گا اور پیدائشی حالت کبھی بدل نہیں سکے گی۔کالجوں کے طلباء میں بھی یہ مرض بہت ہوتا ہے اور وہ کئی قسم کی کریمیں ملتے رہتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے اُ ن کی جو شکل بنا دی ہے وہ بدل نہیں سکتی۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ تم اپنا رنگ سفید کرنے کے لئے کہیں پیئرز سوپ ملتے ہو، کہیں ونولیا سوپ خریدتے ہو۔ کہیں پام اوئل(PALM OIL) سوپ استعمال کرتے ہو مگر پھر بھی تمہارا رنگ نہیں بدلتا۔ آئو ہم تمہیں بتاتے ہیں یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوہٌ ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مؤمنوں کے مُنہ سفید براق ہو جائیں گے، پھر دنیا میںتو سفید رنگ والے بھی کالے ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ذرا بیمار ہوں تو اُن کے رنگ کالے ہو جاتے ہیں۔بعض لوگ بیماریوں میں اندھے اور کانے ہو جاتے ہیں مگر فرمایا وَاَمَّا الَّذِیْنَ ابْیَضَّتْ وُجُوْ ھُھُمْ فَفِیْ رَحْمَۃِ اللّٰہِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۶۶؎
ہمارے مینا بازار میں جن لوگوں کے منُہ سفیدہوں گے وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سایہ تلے رہیں گے اور کبھی اُن کا رنگ خراب نہیں ہو گا۔
بعض لوگ اس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ قرآن کریم کے اس قسم کے الفاظ ظاہری معنوںمیں نہیںلینے چاہئیں، چنانچہ دیکھو قرآن کریم میںہی آتا ہے ۔ وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُھُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا۶۷؎ کہ جب کسی کو لڑکی پیداہونے کی خبر دی جاتی ہے تو اُس کامنہ کالا ہو جاتا ہے۔ اب اس کے یہ معنے تو نہیں کہ اُس کا منہ واقعہ میںکالا ہو جاتا ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ اُس کے دل پر بوجھ پڑتا ہے اور اُسے سخت صدمہ اور غم پہنچتا ہے۔ اسی طرح اُن کے نزدیک یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہٌ کے یہ معنے ہیں کہ اُس دن جنتیوں کی نیکی اور تقویٰ اور عزّت کی وجہ سے اُن کے چہروںپر نور برستا معلوم ہو گا اور خداتعالیٰ کے انوار ان پر نازل ہونگے یہ معنے بھی درست ہیں اور ان کا انکار نہیں ہو سکتا۔
کریمیں، پوڈر اور سُرخی
اب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مرد وعورت اپنی زینت کے لئے کیا کیا چیزیں استعمال کرتے ہیں سو:-
اوّل:- وہ ایسی کریمیںمَلتے ہیں جن سے جسم نرم اور ڈھیلا ہو جائے، مسام ُکھل جائیں، مساموں سے زہر اور مَیل نکل جائے اور سفیدی پیدا ہو جائے۔
دوم:- وہ ایسی کریمیں ملتے ہیں جن سے وہ پھر چُست ہو جائیں، اُن کے مسام سُکڑ جائیں اور اُن کے چہروں پررونق پیدا ہو جائے ، گویاپہلے تو وہ ایسی چیزیں ملتے ہیں جن سے اُن کے مسام ُکھل جائیں اور َمیل وغیرہ نکل جائے اور پھر ایسی چیزیں ملتے ہیں جن سے اضمحلال اور اعضاء کا اِسترخاء جاتا رہے۔ اسی طرح پوڈر لگاتے ہیںتا کہ سفیدی ظاہر ہو اور پھر سُرخیاں لگاتے ہیںتا کہ دوسروںکو جسم سے صحت کے آثار نظر آئیں۔
اب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو وہ فرماتا ہے ۔ وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍنَّاضِرَۃٌ ۶۸؎ یہاں تم پوڈر اور کریمیں وغیرہ لگاتے ہو اور تم نہیں جانتے کہ قیامت کے دن کچھ منہ ہوں گے جو نَاضِرَہ ہوں گے نَاضِرَہ کے معنے عربی میں حُسن اور رونق کے ہیںاور یہ دونوں الگ الگ مفہوم رکھتے ہیں۔ حُسن کے معنے تناسبِ اعضاء کے ہوتے ہیں اور رونق کے معنے صحت کے اُن آثار کے ہوتے ہیں جوچہرے اور قویٰ سے ظاہرہوتے ہیں۔ا گر ایک شخص کاناک پچکا ہؤا ہو، مگر اس کے کلّے اور ہونٹ سُرخ ہوںاور اُس کا رنگ سفید ہو تو اس کے چہرے کی رنگت اُسے کچھ فائدہ نہیں دے سکتی۔ اسی طرح اگر کسی شخص کی آنکھیں خراب ہیںیا اتنی بڑی بڑی ہیں جیسے مٹکے ہوتے ہیں یاماتھا ایسا چھوٹا ہوتا ہے کہ سر کے بال بھووں سے ملے ہوئے ہیں۔یا کلّے اتنے پچکے ہوئے ہیں کہ یوںمعلوم ہوتا ہو گویا کہ دو تختیاں جوڑ کر رکھدی گئی ہیں تو وہ ہر گز حسین نہیں کہلا سکتا۔ میں نے غور کر کے دیکھا ہے ، مختلف انسانی چہرے مختلف جانوروں سے مشابہت رکھتے ہیں اور اگر ایک پہلو سے انسانی چہروں کودیکھا جائے تو بعض انسانی چہرے گیدڑ سے مشابہ معلوم ہوتے ہیں، بعض کُتّے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں، بعض سؤر کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں۔بعض بلّی اور بعض چوہے کے مشابہ معلوم ہوتے ہیں۔ کامل اور اچھا چہرہ وہ ہوتا ہے جس کی ان جانوروں سے کم سے کم مشابہت پائی جاتی ہو اور اگر لوگ کوشش کریں تو وہ اس نقص کو دُور کر سکتے ہیں مگر چونکہ میرایہ مضمون نہیں اس لئے میں اس نقص کو دورکرنے کے طریق نہیں بتا سکتاصرف اجمالاً ذکر کر دیا ہے کہ اکثر انسانی چہرے بعض جانوروں کے مشابہ ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ تر یہی کوشش کرتے ہیں کہ کریمیں مَل لیں یا لپ سٹکیں استعمال کرلیں یا روج لگا لیں، مگر چہرہ کی بناوٹ کو درست کرنے کے جو صحیح طریق ہیں اُن کو اختیار کرنے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کریموں اور غازوں اور لپ سٹکوں سے کیا بنتا ہے؟ اصل چیز تو چہرے کی بناوٹ درست ہونا ہے اور ہمارے مینا بازار میں جانیوالے سب ایسے ہی ہوں گے کہ انہیں کسی فیس پوڈرکی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ اُن کے نقش ونگار درست کر کے انہیںوہاں لے جایا جائے گا۔ اگر کوئی شخص کانا ہو گا تو اُس کا کانا پن جاتا رہے گا، لنگڑا ہو گا تو اُس کا لنگڑا پن جاتا رہے گا،آنکھیں سانپ کی طرح باریک ہوں گی تو اُن کو موٹا کردیا جائے گا، کسی کے دانت باہر نکلے ہوئے ہونگے تو اُس کے سب دانت موتیوں کی لڑی کی طرح بنا دئیے جائیں گے۔آخر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خدا کے مقرب ہوں اور پھر عیب دار ہوں ، یقینا اللہ تعالیٰ اُن کے تمام عیبوں کو دُور کر کے انہیںجنت میں داخل کر یگا۔ـ
ایک لطیفہ
حدیثوں میں ایک لطیفہ آتا ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ وعظ فرما رہے تھے کہ ایک بُڑھیا آئی اور کہنے لگی، یَارَسُوْلَاللّٰہ!یہ باتیں چھوڑیںاور مجھے
یہ بتائیں کہ میں جنت میںجائوںگی یا نہیں؟اب اُس کایہ سوال بے وقوفی کا تھامگر چونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے بھی بہت دِق کیاکرتی تھی اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس وقت مذاق سُوجھا اور آپؐ نے فرمایا، مائی! جہاں تک میرا علم ہے کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ وہ یہ سُنتے ہی رونے پیٹنے لگ گئی کہ ہائے ہائے! میں دوزخ میں جائونگی، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مَیں نے کب کہا ہے کہ تم دوزخ میں جائو گی۔ اُس نے کہا کہ آپؐ نے ابھی تو فرمایا ہے کہ کوئی بڑھیا جنت میں نہیں جائے گی۔ آپؐ نے فرمایا روئو نہیں وہاں سب کو جوان بنا کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ بوڑھے ہونے کی حالت میں جنت میں داخل نہیں کیا جائے گا۔
اصل بات یہ ہے کہ اگلے جہان کی زندگی جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہے مگر میںچونکہ مینا بازار کے مقابلہ کی اشیاء کا ذکر کر رہا ہوں اس لئے جسمانی حصہ پر زیادہ زور دینا پڑتا ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ وہ روحانی دنیا ہے۔مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کوئی روح بغیر جسم کے نہیںہوتی۔ جیسے خواب میںتمہیں بیٹا ہونے کی خبر دی جاتی ہے تو یہ خبر بعض دفعہ بیٹے کی شکل میں نہیں بلکہ آم کی شکل میں ہوتی ہے حالانکہ مراد بیٹا ہوتا ہے۔اسی طرح بظاہر جنت میںجو شراب ملے گی وہ شراب ہی ہوگی اور یہی نظر آئے گا کہ ایک پیالہ میںشراب پڑی ہوئی ہے، مگر اس کے پینے کے نتیجہ میں عقل تیز ہو گی اور بجائے بکواس کرنے کے انسان علم اور عرفان میںترقی کرے گا، بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاضِرَۃٌ جو چیز دنیا میں تم درست نہیں کر سکے اُسے خدا درست کر دے گا نَاضِرَہ کے دوسرے معنے رونق کے ہیں ۔یعنی رنگ نِکھرا ہؤا ہو۔صحت اور تندرستی چہرہ سے ظاہر ہو۔ دنیامیں توکئی لوگ چہروں پرکریم ملے ہوئے ہوتے ہیں، مگر اندر سے بیماریوں نے انہیں کھوکھلا کیا ہؤا ہوتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نہ صرف ظاہری نقش ونگار درست کر دیں گے اور فیس پوڈر اور کریم کی ضرورت ہی نہیں رہے گی بلکہ پیدائشِ جدیدہ کے وقت ایسی رونق پیدا کر دیں گے جو اُن کے چہروں سے پُھوٹ پُھوٹ کر ظاہر ہو رہی ہوگی۔
چمکتے ہوئے چہرے
اسی طرح فرماتا ہے۔ وُجُوْ ہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ۔ ضَاحِکَۃٌ مُّسْتَبْشِرَۃٌ ۷۰؎ اُس دن جنت میںجانے والوں کے چہر ے چمک
رہے ہوں گے۔ دنیا میںلوگ سفید تو ہوتے ہیں مگر مختلف قسم کے۔ کہتے ہیں فلاںفلاں کا جسم سفید تو ہے مگر یوںمعلوم ہوتا ہے جیسے موم ہے اور ایک سفیدی ایسی ہوتی ہے جس میں موتی کی طرح چمک ہوتی ہے فرماتا ہے جو سفیدی وہاں ہوگی وہ ایسی ہوگی کہ اُس کے اندر سے جَھلک پیداہو گی جیسے موتیوں کی جَھلک ہوتی ہے ۔ پھر فرماتا ہے ۔ ضَاحِکَۃٌ دنیا میں جو پوڈر ہوتے ہیں، ان کے لگانے سے دل خوش نہیں ہوتا بلکہ میںنے بعض کتابوں میںپڑھا ہے کہ جب عورتیں پوڈر لگا لیتی ہیں تو پھر وہ زیادہ ہنستی بھی نہیں، تا ایسا نہ ہو کہ شِکن پڑ کر پوڈر گر جائے، مگر فرمایا، ہمارا پوڈر ایسا ہو گا کہ بیشک جتنا چاہو ہنسو کوئی شِگاف پوڈر میں پیدا نہ ہو گا۔مَیں نے سُنا ہے کہ بعض عورتوں نے ایک چھوٹا سا شیشہ اور پوڈر وغیرہ اپنے پاس رکھا ہؤا ہوتا ہے اور جب کسی مجمع میں وہ محسوس کرتی ہیں کہ پوڈر کچھ اُتر گیا ہے تو علیحدہ جا کر وہ پھر پوڈر لگا لیتی ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارا پوڈر عجیب ہے کہ جتنا چاہو ہنسو وہ اُتر ے گا نہیں اور پھر وہ پوڈر ایسا اعلیٰ ہے کہ جس کے چہرہ پر وہ لگا ہؤا ہو گا اُس کا چہرہ نہایت ہی پُر رونق ہو گا۔
شگفتہ پیکر
اسی طرح فرماتا ہے مُسْتَبْشِرَۃ ان کی بڑی خوشیاںہونگی، یہاں پوڈر لگانے والی عورتیں جب پوڈرلگا تی ہیں تو اُن کے دلوں میں یہ بے اطمینانی ہوتی ہے کہ
کہیں اُن کا خاوند کسی اور کا پوڈر دیکھ کر ریجھ نہ جائے اور اس طرح اُن کا گھر نہ اُجڑ جائے ، مگر فرمایا ہمارے ہاںاس قسم کاکوئی خطرہ نہیں ہو گا اور ہرشخص اپنے رب کی نعمتوں پر خوش ہو گا۔
نرم ونازک اور ریشم کی طرح ملائم چہرے
اسی طرح فرماتا ہے وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ ۷۱؎ دنیا میںکریمیں اس لئے
لگائی جاتی ہیں تا وہ جسم کو نرم کر دیں ، مگر فرمایا وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍنَّاعِمَۃٌ ہمارے ہاں اس قسم کی کریموں کی ضرورت ہی نہیںہوگی کیونکہ جنتیوں کے چہروں کی بناوٹ ایسی ہوگی کہ اُن میں کوئی کھردراپن نہیںہوگا بلکہ وہ نرم اورملائم ہوں گے نَاعِمَہ کے معنے عربی زبان میں لین الملمس ۷۲؎ کے ہیں، یعنی اُن کے جسم نرم ہوںگے یہ نہیںہو گا کہ سردی آئے تو اُن کے جسم میںکھردرا پن پیدا ہو جائے اور اگر گرمی آئے توڈِھیلا پن پیدا ہو جائے ، بلکہ وہ ہمیشہ ہی نرم اور ملائم رہیں گے گویا نرم، سفید حسین، پُر رونق یعنی چمکدار اور خوش رنگ ہوں گے کریم ، پوڈر،لپ سٹک اور رُوج کسی کی ضرورت نہیںہوگی۔یہ چیزیں آپ ہی آپ خداتعالیٰ کی طرف سے لگی ہوئی آئیں گی۔
اعلیٰ درجہ کے عطر اور خوشبوئیں
(۷) پھر میں نے سوچا کہ مینا بازار میں تو خوشبوئیں بھی ملتی تھیں۔آیا اس مینا بازار میں بھی خوشبوئیںہوں
گی یا نہیں؟ جب میں نے اس نقطہ نگاہ سے غور کیا تو قرآن میںیہ لکھا ہؤا دیکھا کہ فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ فَرَوْحٌ وَّرَیْحَانٌ وَّجَنَّتُ نَعِیْمٍ۷۳؎
فرماتا ہے اگر یہ ہم سے سَودا کرنے والا مقرب ہو گا، تو اُسے پہلی چیز ہماری طرف سے روح دی جائے گی،یہاںبھی خداتعالیٰ نے دُنیوی اور اُخروی نعماء میںایک عظیم الشان فرق کا اظہار کیا ہے۔ جس طرح یہاں صر ف کریمیں ملتی ہیں، پوڈر ملتے ہیں۔ لپ سٹکیں ملتی ہیں، لیکن اگر کوئی چاہے کہ مجھے آنکھیں یاہونٹ یا دانت یا منہ مل جائے تو نہیں مل سکتا۔ اسی طرح دنیا میں اسّی روپے تولہ کا عطر مل جائے گا، لیکن اگر کسی شخص کے ناک میں خوشبو سونگھنے کی حِس ہی نہ ہو، تو دنیا کی کوئی طاقت اسے نیا ناک نہیںدے سکتی۔اور ہم نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو خوشبو اور بدبو میںاپنے ناک کی خرابی کی وجہ سے تمیز نہیں کر سکتے۔حضرت خلیفہ اوّل نے جب ہمیں طِبّ پڑھائی، تو آپ نے فرمایا ۔ایک بیماری ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں ناک کی حِس ماری جاتی ہے اور انسان خوشبو اور بدبو میں کوئی فرق نہیں کر سکتا۔ چنانچہ یہاں ایک شخص تھا آپ نے فرمایاآنکھیں بند کر کے اگر اس کے سامنے پاخانے کا ٹِھیکرا اور اعلیٰ درجے کاکیوڑے کا عطر رکھ دیا جائے تو وہ یہ نہیں بتا سکے گا کہ پاخانہ کونسا ہے اور عطر کونسا؟ ایک لڑکی میری ایک عزیز کے پاس نوکر تھی، ایک دن انہوں نے اُسے کہاکہ فلاں عطر اُٹھا کر لے آنا وہ کہنے لگی۔بی بی! مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ یہ خوشبو وشبو کیا ہوتی ہے۔ جب اُسے عطر سُونگھایا گیا تو معلوم ہؤا کہ اُس کے ناک میں خوشبو سُونگھنے کی حِس ہی نہیں۔ تو جس طرح چہرہ پہلے ٹھیک ہو، پھر پوڈر سے خوبصورت معلوم ہوتاہے ، اسی طرح ناک ٹھیک ہو تب خوشبو کا لُطف آتا ہے اور اگر کسی کی ناک درست نہ ہو اور تم اُسے باغوں میںبھی لے جائو تو اُسے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ دنیا میں مینا بازار والے عطر دے سکتے ہیں مگر ناک نہیں دے سکتے۔ لیکن ہم کیا دیتے ہیں۔ فَرَوْحٌ ہم سب سے پہلے خوشبو سونگھنے اور اس کو محسوس کرنے کی طاقت ناک میںپیدا کرتے ہیں رَوْحٌکے معنے ہیں وِجْدَانُ الرَّا ئِحَۃِ اور بھی معنے ہیں، لیکن ایک معنے یہ بھی ہیں پس فرمایا۔ دنیا والے تو صرف عطر بیچتے ہیں، مگر ہم پہلے لوگوں کو ایسا ناک دیتے ہیں جو عطروں اور خوشبوئوں کو محسوس کرے (رَوْحٌ) میرے اپنے ناک کی حِس غیر معمولی طور پر تیز ہے، یہاں تک کہ میں دُودھ سے پہچان جاتا ہوں کہ گائے یا بھینس نے کیا چارہ کھایا ہے۔ اسی لئے اگر میرے قریب ذرا بھی کوئی بدبو دار چیز ہو تو مجھے بڑی تکلیف ہوتی ہے اور جو لوگ میرے واقف کار ہیں وہ مسجد میں داخل ہوتے وقت کھڑکیاں وغیرہ کھول دیتے ہیں کیونکہ اگر بند ہوں تو میرا دم گُھٹنے لگتا ہے، مَیں ہمیشہ کثرت سے عطر لگایا کرتاہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی کثرت سے عطر لگایاکرتے تھے مگر حضرت خلیفہ اوّل کو اس طرف کچھ زیادہ توجہ نہیں تھی۔ میںآپ سے بخاری پڑھا کرتا تھا، ایک دن میںآپ سے بخاری پڑھنے کے لئے جانے لگا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجھے فرمانے لگے کہاں چلے ہو؟ مَیںنے کہا مولوی صاحب سے بخاری پڑھنے چلا ہوں۔ فرمانے لگے ، مولوی صاحب سے پوچھنا کیابخاری میںکوئی ایسی حدیث بھی آتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن غسل فرماتے اور نئے کپڑے بدلا کرتے تھے اور خوشبو استعمال فرماتے تھے اصل بات یہ ہے کہ حضرت مولوی صاحب جمعہ کے دن بھی کام میںہی مشغول رہتے تھے۔ یہاں تک کہ اذان ہو جاتی اور کئی دفعہ آپ وضو کر کے مسجد کی طر ف چل پڑتے۔ آپ تھے تو میر ے اُستاد مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بات کہی تھی اس لئے مَیں نے اُسی طرح آپ سے جا کر کہہ دیا۔ آپ ہنس پڑے اور فرمایا، ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی احتیاط کیا کرتے تھے، ہم تو اور کاموں میںبُھول ہی جاتے ہیں۔
مَیں نے تاریخ الخلفاء میں پڑھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا، اگر میںخلیفہ نہ ہوتا تو عطر کی تجارت کیا کرتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ناک کی حِس بھی تیز تھی اور اس امر میںبھی میری اُن کے ساتھ مشابہت ہے۔ تو ناک کی حِس کا موجود ہونا بھی اللہ تعالیٰ کی بڑی بھاری رحمت ہوتی ہے مگر دُنیا یہ حِس کہاں دے سکتی ہے، وہ اپنے مینا بازاروں میں عطر فروخت کر سکتی ہے مگر ناک نہیں دے سکتی۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم پہلے ناک دیںگے ا ور پھر عِطر (رَیْحَانٌ) دیں گے، ناک نہ ملا تو عطر کا کیا فائدہ ۔مثل مشہور ہے کہ ناک نہ ہؤا تو نتھ کیا۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ، ہم جنتیوں کے ناک کی حِس تیز کر دیںگے تا کہ وہ خوشبو کو محسوس کر سکیں اور اس کے بعد ریحان دیں گے رَیْحَانٌ کے معنے ہیں کل نباتٍ طیّبالرِّیْحِ۷۴؎ یعنی ہر خوشبودار چیز اُن کو ملے گی ۔ وَجَنَّتُ نَعِیْمٍ اور پھر ساتھ اُن کے نعمتوں والی جنت بھی ہوگی۔ یعنی یہ نہیں کہ خوشبو باہر سے آئے گی بلکہ جنت خوشبو سے بھر ی ہوئی ہوگی۔
جسمانی طاقت کی دوائیں
(۸) آٹھویں میں نے مینا بازار میں طاقت کی دوائیں دیکھیں۔ کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ معدہ کی طاقت
کے لئے ہے،کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دل کی طاقت کے لئے ہے، کسی دوائی کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ دماغ کی طاقت کے لئے ہے اور اس طرح تحریص دلائی جاتی تھی کہ ان دوائوں کو کھائو پیو اور مضبوط بن کر دنیا کی نعمتوں سے حظ اُٹھائو۔ پس میںنے کہا کہ آیا مجھے وہاں بھی طاقت کی دوائیں ملیں گی یا نہیں؟ اس خیال کے آنے پرمجھے معلوم ہؤا کہ ایک رنگ میں اس بات کا بھی انتظام ہو گا، چنانچہ فرماتا ہے وَقَالَ لَھُمْ خَزَنَتُھَا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوْھَاخٰلِدِیْنَ ۷۵؎
فرمایا طاقت کی دوائیں بیشک ہوتی ہیں مگر ہم وہاںنہیں دیں گے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ طاقت کی دوائیں وہاںدی جاتی ہیں جہاں کمزوری اور بیماری ہو، مگر جہاں بیماری اور کمزوری ہی نہ ہووہاں طاقت کی دوائوں کی کیا ضرورت ہے ؟ دنیا میں چونکہ انسان کمزور اور بیمار ہو جاتا ہے اس لئے اسے طاقت کی دوائوں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے مگر وہاں ہم اسے بیمار ہی نہیں کریںگے اور ہمیشہ تندرست رکھیں گے، چنانچہ فرمایا سَلَامٌ عَلَیْکُمْ تمہیں ہمیشہ کے لئے تندرستی دے دی جائے گی۔ طِبْتُمْ اور تمہاری اندرونی بیماریاں بھی ہر قسم کی دور کر دی جائیگی ، گویا ظاہری اور باطنی دونوں لحاظ سے تندرستی دیدی جائے گی اور یہی دو ذریعے ہیں جن سے بیماری آتی ہے۔ یا تو بیماری جر مز(GERMS) کی تھیوری کے ماتحت آتی ہے کہ باہر سے مختلف امراض کے جراثیم آتے اور انسان کو مبتلائے مرض کر دیتے ہیں اور یا پھر افعال الاعضاء میںنقص واقع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بیماری پیدا ہو جاتی ہے۔غرض بیماریاں دو ہی طرح پیدا ہوتی ہیں یا تو باہر سے طاعون یا ہیضہ یا ٹائیفائڈ کا کیڑا انسانی جسم میں داخل ہو تا اور اسے بیمار کر دیتا ہے یا افعال الاعضاء میں نقص پیدا ہو جاتا ہے۔مثلا معدہ میںتیزابیت زیادہ ہو جائے یا ایسی ہی کوئی خرابی پیدا ہوجائے، مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، وہاں ہمارے فرشتے ان دونوں باتوں کا علاج کردیںگے چنانچہ وہ جنتیوں سے کہیں گے کہ سَلَامٌ عَلَیْکُمْ آج سے طاعون کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، ہیضہ کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، ٹائیفائیڈ کا کوئی کیڑا تم پر حملہ نہیں کر سکے گا، اسی طرح اور کسی مرض کا کوئی جَرم(GERM) تمہارے جسم میںداخل نہیں ہو گا، پھر ممکن تھا کہ باہر سے تو حفاظت ہو جاتی مگر افعال الاعضاء میںنقص واقع ہو جاتا اس لئے فرمایا طِبْتُمْتمہارے اعضاء کو اندر سے بھی درست کر دیا گیا ہے۔ پھر خیال ہو سکتا تھا کہ شاید کچھ عرصہ کے بعد یہ حفاظت اُٹھالی جائے۔ اس لئے فرمایا خٰلِدِیْنَ فِیْھْاَ یہ حالت عارضی نہیں بلکہ ہمیشہ رہے گی اور کبھی زائل نہیںہو گی۔
نفیس برتن
(۹) نویں میں نے مینا بازاروں میں برتن دیکھے جو نہایت نفیس اور اعلیٰ قسم کے تھے، مَیں نے سوچا کہ کیا اس بازار میں بھی ا س قسم کے برتن ملتے ہیں؟ اس پر
میری نظر فوراً اس آیت پر پڑی کہ وَیُطَافُ عَلَیْھِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَxا ۷۶؎
کہ یہ جو ہمارے غلام بنیں گے اور مینا بازار میں ہم سے سودا کریں گے وَیُطَافُ عَلَیْھِمْ بِاٰنِیَۃٍ مِّنْ فِضَّۃٍ اُن کے پاس چاندی کے برتنوں میںخداتعالیٰ کے مقررکردہ خادم چیزیں لائیں گے وَّاَکْوَابٍ کَانَتْ قَوَارِیْرَxا اور ُکوب لائیں گے جو قواریر کی طرز پر ہونگے۔ قَوَارِیْرَxا کے معنے شیشہ کے برتن کے ہیں جس میںشراب ڈالی جائے۔ پس وہ برتن شیشے کی طرح ہوں گے مگر بنے ہوئے چاندی سے ہوں گے یعنی اُن کی رنگت میں وہ سفیدی بھی ہوگی جو چاندی میں ہوتی ہے اور ان میں وہ نزاکت بھی ہو گی جو شیشہ کے برتنوں میںہوتی ہے گویا ان برتنوں میںایک طرف تو اتنی صفائی ہو گی کہ جس طرح شیشہ کے برتن میںپڑی ہوئی چیز باہر سے نظر آ جاتی ہے اسی طرح اُن کے اندر کی چیز باہر سے نظر آ جائے گی اور دوسری طرف ان میں اتنی سفیدی ہوگی کہ وہ چاندی کی طرح چمکتی ہوگی۔ درحقیقت مؤمن کا جنت میںایک دوسرے سے اسی قسم کا معاملہ ہو گا۔ وہ ایک دوسرے کے قلب کو اسی طرح پڑھ لیں گے جس طرح شیشہ کے برتن میںسے شربت نظر آ جاتا ہے۔ یہاں انسان اپنی عزیز ترین بیوی کے متعلق بھی نہیں جانتا کہ اس کے دل میں کیا ہے مگر وہاں یہ حالت نہیںہو گی اورایسی چیزیں جو بظاہر شفاف نہیںہوتیں جیسے چاندی ، وہ بھی وہاں شفاف ہوں گی۔
فِضَّۃ کے معنے عربی زبان میں بے عیب سفیدی کے ہوتے ہیں، پس ان برتنوں کے چاندی سے بنائے جانے کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ ایک طرف تو جنتی بے عیب ہوں گے اور دوسری طرف ان میں کوئی اخفاء نہیں ہو گا، ہر شخص جانتا ہو گا کہ میرا دوست جو بات کہتا ہے درست کہتا ہے شُبہ کا سوال ہی پیدا نہیںہو گا۔
چار پائیاں اور گائو تکیے
(۱۰) پھر میں نے مینا بازار میںگھر کے اسباب فروخت ہوتے دیکھے تھے۔ پس میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں دیکھوں
آیا وہاں بھی گھر کا اسباب ملے گا یا نہیں؟ جب میں نے نظر دَوڑائی تو وہاں لکھا تھا عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ ۷۷؎
مَوْضُوْنَۃٍ کے معنے بُنی ہوئی چارپائی کے ہوتے ہیں ۔ پس عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوَنَۃٍ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ ایسی چارپائیوں پر ہوں گے جو بُنی ہوئی ہونگی۔ عربوں میںدوطرح کا رواج تھا۔ اکثر تو تخت پر سوتے تھے مگر بعض چارپائی بھی استعمال کر لیا کرتے تھے جب ہم حج کے لئے گئے تو مکہ مکرمہ میں ہم نے اچھا سا مکان لے لیا مگر اس میں کوئی چارپائی نہیںتھی، بلکہ اس میںسونے کے لئے جیسے شہ نشین ہوتے ہیں اسی قسم کے تخت بنے ہوئے تھے، لوگ وہاں گدّے بچھا لیتے اور سو جاتے مگر ہمیں چونکہ ان پر سونے کی عادت نہیںتھی اس لئے میں نے اپنے لئے ایک ہوٹل سے چارپائی منگوائی تب جا کر سویالیکن وہ لوگ کثرت سے تختوں پر سوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ وہاں جنت میں بُنی ہوئی چارپائیاں ہوں گی(جو لچکدار ہوتی ہیں)مُتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ ۔ لیکن ایک عجیب بات یہ ہے کہ دنیا میں تو چارپائی سونے کے لئے ہوتی ہے مگر جنت میںسونے کا کہیں ذکر نہیں آتا۔ کہیں قرآن میںیہ نہیں لکھا کہ جنتی کبھی سوئیں گے بھی ۔درحقیقت سونا غفلت کی علامت ہے اور چونکہ جنت میں غفلت نہیں ہو گی اس لئے وہاںسونے کی بھی ضرورت نہیںہوگی۔ اس سے بھی ان لوگوں کا ردّ ہوتا ہے جو جنت کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ عیاشی کا مقام کہتے ہیں۔ عیاشی کے لئے سونا ضروری ہوتا ہے غالب کہتا ہے ۔
؎
ایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہئے
وہ دن کو بھی سونے والی حالت بنانا چاہتا ہے کُجا یہ کہ رات کو بھی سونا نصیب نہ ہو۔ اسی طرح عیاشی میںلوگ افیون کھا کھا کر غفلت پیدا کرتے ہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے جنت میںکہیں بھی سونے کا ذکر نہیں کیا، ہمیشہ کام کی طرف ہی اشارہ کیا ہے اس لئے یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ وہ وہاں چارپائیوں پر سو رہے ہوں گے بلکہ فرمایا عَلٰی سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ مُّتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ وہ اس پر تکیہ لگائے بیٹھے ہوں گے اور تکیہ لگانا راحت اور استراحت پر دلالت کرتا ہے غفلت پرنہیں، ہم کتابیں پڑھتے ہیں، اعلیٰ مضامین پر غور کرتے ہیںتو تکیہ لگائے ہوئے ہوتے ہیں، مگر اُس وقت ہمارے اندر غفلت یا نیند نہیں ہوتی۔ مگر چونکہ تکیہ عموماً لوگ سوتے وقت لگاتے ہیں اور اس سے شُبہ پڑ سکتا تھاکہ شاید وہ سونے کے لئے تکیہ لگائیں گے اس لئے ساتھ ہی فرما دیا مُتَقٰبِلِیْنَ وہ ایک دوسرے کی طر ف مُنہ کر کے بیٹھے ہوئے ہوں گے اور سوتے وقت کوئی ایک دوسرے کی طرف منُہ کر کے نہیں بیٹھا کرتا۔ ایک دوسرے کی طرف منہ کرنے کے معنے یہی ہیں کہ انہیں آرام کرنے کے لئے چارپائیاں ملی ہوئی ہوں گی اور وہ تکیہ لگائے بیٹھے ہونگے مگر سونے کے لئے نہیں، غفلت کے لئے نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی طرف منہ کر کے خداتعالیٰ کی معرفت کی باتیں کر رہے ہونگے اور اس کا ذکر کر کے اپنے ایمان اور عرفان کو بڑھاتے رہیں گے۔
شاہانہ اعزاز واکرام
اسی طرح فرماتا ہے فِیْھَا سُرُرٌ مَّرْفُوْعَۃٌ وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ وَّنَمَارِقُ مَصْفُوَفَۃٌ وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ ۷۸؎
پہلی آیت میں سُرُرٍ مَّوْضُوُنَۃٍ کا ذکر آتا تھا مگر یہاں فرمایا کہ سُرُرٌمَّرْفُوَعَۃٌ ہونگے سَرِیْر کا لفظ جب عربی زبان میں بولا جائے اور اس کی وضاحت نہ کی جائے تو اس کے معنے تختِ بادشاہی کے ہوتے ہیں چارپائی کے معنے تب ہوتے ہیںجب ساتھ کوئی ایسا لفظ ہو جو چارپائی کی طرف اشارہ کر رہا ہو۔ جیسے سُرُرٍ مَّوْضُوْنَۃٍ کے الفاظ تھے ، لیکن اگر خالی سُرُرٌ کا لفظ آئے تو اس کے معنے تختِ شاہی کے ہوں گے اور جب کوئی اور معنی مراد ہوں تو سُرُرٌ کے ساتھ تشریح کے لئے ضرورکوئی لفظ ہو گا۔ یہاں چونکہ خالی سُرُرٌ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے اس سے مراد تختِ شاہی ہی ہے اور پھر تختِ شاہی کی طرف مزید اشارہ کرنے کے لئے مَرْفُوْعَۃٌکہہ دیا، کیونکہ تختِ شاہی اونچارکھا جاتا ہے، مطلب یہ کہ جنتی وہاں بادشاہوں کی طرح رہیں گے۔ دنیا میںتو وہ غلام بنا کر رکھے جاتے تھے مگر جب انہوں نے خدا کے لئے غلامی اختیار کرلی اور اُسے کہہ دیا کہ اے ہمارے رب! ہم تیرے غلام بن گئے ہیں تو خدا نے بھی کہہ دیا کہ اے میرے بندو! چونکہ تم میرے غلام بنے ہو اس لئے میں تمہیں بادشاہ بنادوں گا۔
خداتعالیٰ کی سچی غلامی اختیار کرنے
والے دنیا میں بھی بادشاہ بنا دیئے گئے
دنیا میں بھی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ کسی نے سچے دل سے خداتعالیٰ کی غلامی اختیار کر لی تو خدا نے اُسے بادشاہ بنا دیا۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے متعلق کسی کو خیال بھی نہیں آتا
تھا کہ وہ حکومت کر سکتے ہیںاور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی اسی خیال کے تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور انصار اور مہاجرین میں خلافت کے بارہ میں کچھ اختلاف ہو گیا اور اس اختلاف کی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اطلا ع ہوئی تو وہ فوراً اس مجلس میں گئے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھتے تھے کہ اس مجلس میں بولنے کا میرا حق ہے ابوبکرؓ خلافت کے متعلق کیا دلائل دے سکتے ہیں؟ مگر وہ کہتے ہیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جاتے ہی تقریر شروع کر دی اور ایسی تقریرکی کہ میں نے جس قدر دلیلیں سوچی ہوئی تھیں وہ سب اس میں آ گئیں مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی تقریر ختم نہ ہوئی اور وہ اَور زیادہ دلائل دیتے چلے گئے، یہاں تک کہ میں نے سمجھا کہ میں ابوبکرؓ کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
ابوبکرؓ مکہ کے رئوساء کے مقابل پر کوئی خاص اعزاز نہیں رکھتے تھے اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ وہ ایک معزز خاندان میںسے تھے ، مگر معزز خاندان میں سے ہونا اور بات ہے اور ایسی وجاہت رکھنا کہ سارا عرب اُن کی حکومت کو برداشت کر لے بالکل اور بات ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت عطا فرمائی اور مکہ میں یہ خبر پہنچی کہ حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہو گئے ہیں تو ایک مجلس جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے باپ ابوقحافہ بھی بیٹھے ہوئے تھے وہاں بھی کسی نے جا کر یہ خبر سُنا دی ابو قحافہ یہ خبر سن کر کہنے لگے، کونسا ابوبکرؓ ؟ وہ کہنے لگا وہی ابوبکر جو تمہارا بیٹا ہے۔ کہنے لگے کہ کیا میرے بیٹے کو عرب نے اپنابادشاہ تسلیم کر لیا ہے؟ اُس نے کہا ہاں، ابوقحافہ آخر عمر میں اسلام لائے تھے اور ابھی ایمان میں زیادہ پختہ نہیں تھے مگر جب انہوں نے یہ بات سُنی تو بے اختیار کہہ اُٹھے لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ محمد رسول اللہ ضرور سچے ہیں جن کی غلامی اختیار کر کے ابوبکرؓ بادشاہ بن گیا اور عرب جیسی قوم نے اس کی بادشاہت کو قبول کرلیا۔
تو دُنیوی لحاظ سے کوئی شخص یہ خیال بھی نہیں کر سکتا تھا کہ آپ بادشاہ بن جائیں گے مگر خدا نے آپ کو بادشاہ بنا کر دکھا دیا۔
شاہِ ایران کی ایک ذلیل پیشکش جسے
مسلمانوں نے پائے استحقار سے ُٹھکرادیا
ایران میں جب مسلمان گئے تو کسریٰ کے جرنیلوں نے اُس سے کہا کہ مسلمان اپنی طاقت وقوت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ وہ ایران پر بھی چھاجائیں، ان
کے متعلق کوئی انتظام کرنا چاہئے ۔کسرٰی نے کہا تم میرے پاس اُن کے ایک وفد کو لائو، میں اُن سے خود باتیں کروں گا ۔ جب مسلمان اس کے دربار میں پہنچے تو کسرٰی اُن سے کہنے لگا کہ تم لوگ وحشی اور گوہیں کھا کھا کر زندگی بسر کرنے والے ہو۔ تمہیں یہ کیاخیال آیا کہ تم ہمارے ملک پر فوج لے کر حملہ آور ہوگئے ہو؟انہوں نے جواب دیا کہ آپ نے جو کچھ کہا بالکل ٹھیک ہے، ہم ایسے ہی تھے بلکہ ا س سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل کیا اور اُس نے اپنا نبی بھیج کر ہمار ی کایاپلٹ دی، اب ہر قسم کی عزت خداتعالیٰ نے ہمیں بخش دی ہے۔ کسرٰی کو یہ جواب سن کر سخت طیش آیا مگر اُس نے کہا مَیں اب بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو ہم سے کچھ روپے لے لو اور چلے جائو۔ چنانچہ اس نے تجویز کیا کہ فی افسر دو دو اشرفی اور فی سپاہی ایک ایک اشرفی دیدی جائے۔گویا وہ مسلمان جو فتح کرتے ہوئے عراق تک پہنچ چکے تھے اور جن کی فوجیں ایران میں داخل ہو چکی تھیں اُن کا اُس نے اپنی ذہنیت کے مطابق یہ نہایت ہی گندہ اندازہ لگایا کہ سپاہیوں کو پندرہ اور افسروں کو تیس تیس روپے دیکر خریدا جا سکتا ہے۔ مگر مسلمان اس ذلیل پیشکش کو کب قبول کر سکتے تھے انہوں نے نفرت اورحقارت کے ساتھ اُسے ُٹھکرا دیا۔تب کسریٰ کو غصّہ آ گیا اور اس نے اپنے مصاحبوں کو اشارہ کیا کہ مٹی کا ایک بورا بھر کر لائو۔ تھوڑی دیر میں مٹی کابورا آ گیا، بادشاہ نے اپنے نوکروں سے کہا کہ مسلمانوں کا جو شخص نمائندہ ہے یہ بورا اُس کے سر پر رکھ دیا جائے۔نوکر نے ایسا ہی کیا ۔ جب بورا اس صحابی ؓ کے سر پر رکھا گیا تو بادشاہ نے کہا چونکہ تم نے ہماری بات نہیںمانی تھی اس لئے جائو اس مٹی کے بورے کے سِوا اب تمہیں کچھ نہیں مل سکتا۔ اللہ تعالیٰ جن کو بڑا بناتا ہے اُن کی عقل بھی تیز کر دیتا ہے، وہ صحابی ؓ فوراً تاڑ گئے کہ یہ ایک مشرک قوم ہے اور مشرک قوم بہت وہمی ہوتی ہے۔ انہوں نے اِس بورے کو اپنے گھوڑے کی پیٹھ پر رکھا اور اسے ایڑ لگا کر یہ کہتے ہوئے وہاں سے نکل آئے کہ کسرٰی نے اپنا ملک خود ہمارے حوالے کر دیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پرایسا فضل کیا تھا کہ اُن میںسے ہر شخص بادشاہ بن گیاتھا۔
ایک مسلمان غلام کا کُفّار سے معاہدہ
یہ بھی اُن کی بادشاہی کی علامت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میںایک دفعہ
مسلمانوں کی عیسائیوں سے جنگ ہو گئی۔رفتہ رفتہ عیسائی ایک قلعہ میں محصور ہو گئے اور مسلمانوں نے چاروں طرف سے اُسے گھیر لیا اور کئی دن تک اُس کا محاصرہ کئے رکھا۔ ایک دن کیا دیکھتے ہیں کہ قلعہ کا دروازہ کُھلا ہے اور سب عیسائی اطمینان سے اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں مسلمان آگے بڑھے تو انہوں نے کہا ہماری تو تم سے صلح ہو چکی ہے۔مسلمانوں نے کہا ہمیں تو اس صلح کا کوئی علم نہیں ۔ انہوں نے کہا علم ہو یا نہ ہو، فلاں آدمی جو تمہارا حبشی غلام ہے اُس کے دستخط اس صلح نامہ پر موجود ہیں۔کمانڈر انچیف کو بڑا غصہ آیا کہ ایک غلام کو پھُسلا کر دستخط کروالئے گئے ہیں اور اس کا نام صلح نامہ رکھ لیا گیا ہے۔غلام سے پوچھا گیا کہ کیا بات ہوئی تھی؟ اس نے کہا، مَیں پانی لینے آیا تھا کہ یہ لوگ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اگر تم لوگ یہ یہ شرطیں مان لو تو اس میںکیا حرج ہے؟ میں نے کہا کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے کہا تو پھر لائو انگوٹھا (یا جو بھی اُس زمانہ میںدستخط کا طریق تھا) اور اس طرح انہوں نے میری تصدیق کرالی آخر اسلامی کمانڈر انچیف نے کہا مَیں حضرت عمرؓ سے اس بارہ میں دریافت کروں گا اور وہاں سے جو جواب آئے گا اُس کے مطابق عمل کیا جائے گا چنانچہ حضرت عمرؓ کو یہ تمام واقعہ لکھا گیا آپ نے جواب میں تحریر فرمایا کہ گو معاہدے کے لحاظ سے یہ طریق بالکل غلط ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ کہیں کہ دنیا میںکوئی ایسا مسلمان بھی ہے جس کی بات ردّ کر دی جاتی ہے اسلئے اس دفعہ بات مان لو آئندہ کے لئے اعلان کر دو کہ صلح نامہ صرف جنرل یا اس کے مقرر کر دہ نمائندہ کا مصدّقہ تسلیم ہو گا۔ اب گووہ ایک غلام تھا مگر اس وقت اس کی حیثیت ویسی ہی تسلیم کی گئی جیسے ایک بادشاہ کی ہوتی ہے۔
سامانِ جنگ
گیارہویں بات مَیں نے یہ دیکھی تھی کہ مینا بازار میں سامانِ جنگ ملتا ہے تلواریں ہوتی ہیں ، نیزے ہوتے ہیں، ڈھالیںہوتی ہیں اسی طرح کا
اور سامانِ جنگ ہوتا ہے پس میں نے کہا میںدیکھوں ۔آیا یہ چیزیں بھی ہمارے مینا بازار میںملتی ہیںیا نہیں؟
روحانی ڈھال
جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ اس مینا بازار میںڈھالیں بھی ملتی ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے لَھُمْ دَارُالسَّلامِ عِنْدَرَبِّھِمْ وَھُوَ وَلِیُّھُمْ
بِمَا کَانُوْایَعْمَلُوْنَ۷۹؎
جنت میں ایسا انتظام کر دیا جائے گا کہ کسی جنتی پرکوئی حملہ نہیں ہو سکے گا۔ جس طرح ڈھال تمام حملوں کو روک دیتی ہے اسی طرح جب کسی شخص کوجنت ملتی ہے تو اس پر کوئی شخص حملہ نہیں کر سکتا۔ اسی طرح فرماتا ہے وَالْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْھِمْ مِّنْ کُلِّ بَابٍ سَلامٌ عَلَیْکُمْ بِمَاصَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ
کہ ملائکہ اُن کے پاس ہر دروازہ سے آئیں گے اور کہیں گے اے مؤمنو! تم نے اپنے رب کے لئے بڑی بڑی تکلیفیں اُٹھائیں۔ اب تم کسی مصیبت میں نہیںڈالے جائو گے، کیونکہ خدا نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم پر کوئی خوف اور کوئی مصیبت نہیںآئے گی۔دیکھو! یہ انجام والا گھر کتنا اچھا اور کیسا آرام دِہ ہے۔
خدائی حفاظت کا ایک شاندار نمونہ
دنیا میں بھی اس بات کی مثالیں ملتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے خداتعالیٰ کی حفاظت میںرہتے ہیں
اور دشمن اُن کو لاکھ نقصان پہنچانے کا ارادہ کرے وہ ناکام ونامراد رہتا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسی جنگ سے واپس تشریف لا رہے تھے کہ دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لئے ایک درخت کے نیچے سو گئے۔ باقی لشکر بھی اِدھر اُدھر متفرق ہوگیا۔ ا تنے میں ایک شخص جس کے بعض رشتہ دار مسلمانوں کے ہاتھوں لڑائی میںمارے گئے تھے بلکہ اس کا ایک بھائی بھی مر چکا تھا اور اُس نے قسم کھائی تھی کہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو اس کے بدلہ میں ضرور قتل کرونگا۔
وہ وہاں آپہنچا۔درخت سے آپؐ کی تلوار لٹک رہی تھی۔ اُس نے تلوار کو اُتار لیا اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جگا کر کہا بولو! اب تمہیں میرے ہاتھ سے کون بچا سکتا ہے؟ سب صحابہؓ اُ س وقت اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس اُس وقت کوئی شخص نہیں تھا، مگرایسی حالت میں بھی آپؐ کے دل میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہ ہوئی۔ بلکہ آپؐ کو یقین تھا کہ جس خدا نے میری حفاظت کا وعدہ کیا ہؤا ہے وہ آپ میری حفاظت کا سامان فرمائے گا چنانچہ جب اُس نے کہا کہ بولو! بتائو! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُٹھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کسی حرکت سے کوئی اضطراب ظاہر ہؤا۔ آپ نے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان سے فرمایا اللہ میری حفاظت کریگا۔ یہ سُننا تھا کہ اس کے ہاتھ شل ہو گئے اور تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فوراً تلوار اُٹھالی اور فرمایا بتائو! اب تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ وہ ہاتھ جوڑ کر کہنے لگا آپؐ بڑے شریف آدمی ہیں آپ ہی مجھ پر رحم کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کم بخت! تم مجھ سے سُن کر ہی کہہ دیتے کہ اللہ حفاظت کریگا۔
تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کا کون مقابلہ کر سکتا ہے۔
ایک رؤیا
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسّلام پرجب پادری مارٹن کلارک نے مقدمہ کیا تو مَیں نے گھبرا کر دعاکی۔ رات کو رؤیا میں دیکھا کہ میں سکول سےآرہا
ہوں اور اس گلی میں سے جو مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کے مکانات کے نیچے ہے اپنے مکان میں داخل ہونے کی کوشش کر تاہوں۔ وہاں مجھے بہت سی باوردی پولیس دکھائی دیتی ہے پہلے تو اُن میں سے کسی نے مجھے اندر داخل ہونے سے روکا، مگر پھر کسی نے کہا یہ گھر کا ہی آدمی ہے اسے اندر جانے دینا چاہئے۔ جب ڈیوڑھی میں داخل ہو کر اندر جانے لگا تو وہاں ایک تہہ خانہ ہؤا کرتا تھا جو ہمارے دادا صاحب مرحوم نے بنایا تھا۔ ڈیوڑھی کے ساتھ سیڑھیاں تھیں جو اس تہہ خانہ میں اُترتی تھیں۔بعد میں یہاں صرف ایندھن اور پیپے پڑے رہتے تھے۔ جب میںگھر میں داخل ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ پولیس والوں نے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھڑا کیا ہؤا ہے اورآپ کے آگے بھی اور پیچھے بھی اوپلوں کا انبار لگا یا ہؤا ہے۔ صرف آپ کی گردن مجھے نظر آرہی ہے اور مَیں نے دیکھا کہ وہ سپاہی ان اوپلوں پر مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جب مَیں نے انہیں آگ لگاتے دیکھا تو مَیں نے آگے بڑھ کر آگ بجھانے کی کوشش کی۔ اتنے میں دو چار سپاہیوں نے مجھے پکڑلیا۔ کسی نے کمر سے اور کسی نے قمیص سے اور مَیں سخت گھبرایا کہ ایسا نہ ہو یہ لوگ اوپلوں کو آگ لگا دیں اِسی دَوران میںاچانک میری نظر اوپر اُٹھی اور میں نے دیکھا کہ دروازے کے اوپر نہایت موٹے اور خوبصورت حروف میں یہ لکھا ہؤا ہے کہ :-
’’جو خدا کے پیارے بندے ہوتے ہیں اُ ن کو کون جلا سکتا ہے‘‘
تو اگلے جہان میں ہی نہیں یہاں بھی مؤمنوں کے لئے سلامتی ہوتی ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی میں ایسے بیسیوں واقعات دیکھے کہ آپ کے پاس گو نہ تلوار تھی نہ کوئی اور سامانِ حفاظت مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی حفاظت کے سامان کر دئیے۔
امام جماعت احمدیہ کے قتل کی نیّت
سے آنیوالا ایک ہندوستانی عیسائی
ابھی ایک کیس میں ایک ہندوستانی عیسائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے۔ اس کا جُرم یہ تھا کہ اس نے غصہ میں آ کر اپنی بیوی کو قتل کر دیا۔ جب مقدمہ ہؤا تو مجسٹریٹ کے سامنے اُس نے
بیان دیتے ہوئے کہا کہ مولوی ثناء اللہ صاحب کی تقریریں سُن سُن کر میرے دل میں احمدیوں کے متعلق یہ خیال پیدا ہؤا کہ وہ ہر مذہب کے دشمن ہیں۔عیسائیت کے وہ دشمن ہیں ، ہندومذہب کے وہ دشمن ہیں، سکّھوں کے وہ دشمن ہیں، مسلمانوں کے وہ دشمن ہیں اور مَیں نے نیت کر لی کہ جماعت احمدیہ کے امام کو قتل کر دونگا۔ میں اس غرض کے لئے قادیان گیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ وہ پھیروچیچی گئے ہوئے ہیں، چنانچہ میںوہاں چلا گیا۔پستول مَیں نے فلاں جگہ سے لے لیا تھا اور ارادہ تھا کہ وہاں پہنچ کر اُن پر حملہ کردوں گا، چنانچہ پھیروچیچی پہنچ کر میں اُن سے ملنے کے لئے گیا تو میری نظر ایک شخص پر پڑ گئی جو اُن کے ساتھ تھا اور وہ بندوق صاف کر رہا تھا(یہ دراصل یحییٰ خاںصاحب مرحوم تھے) اور مَیں نے سمجھا کہ اِس وقت حملہ کرنا ٹھیک نہیں ، کسی اور وقت حملہ کرونگا۔ پھر میںدوسری جگہ چلا گیا اور وہاں سے خیال آیا کہ گھر ہوآئوں۔ جب گھر پہنچا تو بیوی کے متعلق بعض باتیں سن کر برداشت نہ کر سکا اور اُسے پستول سے ہلاک کردیا۔ پس یہ ایک اتفاقی حادثہ تھا جو ہو گیا ورنہ میرا ارادہ تو کسی اور کو قتل کرنے کا تھا۔
اب دیکھو کس طرح اس شخص کو ایک ایک قدم پر خداتعالیٰ روکتا اور اس کی تدبیروں کو ناکام بناتا رہا ۔پہلے وہ قادیان آتا ہے مگر مَیںقادیان میںنہیںبلکہ پھیروچیچی ہوں، وہ پھیروچیچیپہنچتا ہے تو وہاں بھی مَیں اُسے نہیں ملتا اور اگر ملتا ہوں تو ایسی حالت میں کہ میرے ساتھ ایک اور شخص ہوتا ہے، جس کے ہاتھ میںاتفاقاً بندوق ہے اور اُس کے دل میں خیال پیدا ہو جاتا ہے کہ اِس وقت حملہ کرنا درست نہیں ۔ پھر وہ وہاںسے چلا جاتا ہے اور اِدھر اُدھر پھرکر گھر پہنچتا ہے اور بیوی کو مار کر پھانسی پر لٹک جاتا ہے۔
فتنہء احرار کے ایام میں ایک نوجوان پٹھان کا ارادہ قتل سے قادیان آنا
اسی طرح احرار کے فتنہ کے ایام
میں ایک دفعہ ایک پٹھا ن لڑکا قادیان آیا اور میرا نام لے کر کہنے لگا میں نے اُن سے ملنا ہے۔ میاں عبدالاحدخاں صاحب افغان اس سے باتیں کرنے لگے۔ باتیںکر تے کرتے یک دم اُس نے ایک خاص طرز پر اپنی ٹانگ ہلائی اور پٹھان اس طرز پراُسی وقت اپنی ٹانگ ہلاتے ہیں جب انہوں نے نیچے چھُرا چھپایا ہؤا ہو۔ میاں عبدالاحدخاں بھی چونکہ پٹھان ہیں اور وہ پٹھانوں کی اس عادت کو اچھی طرح جانتے تھے، اِس لئے جونہی اُس نے خاص طرز پر ٹانگ ہلائی انہوں نے یکدم ہاتھ ڈالا اور چُھری پکڑ لی۔ بعد میں اس نے اقرار بھی کرلیا کہ میرا ارادہ یہی تھا کہ ملاقات کے بہانے اُن پر حملہ کر دونگا۔ اب ایک پٹھان کا قادیان آنا اور اس کی باتوں کے وقت ایک احمدی پٹھان کا ہی موجود ہونا اور اس کا پکڑا جانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ تھا ورنہ اگر کوئی غیر پٹھان ہوتا تو وہ سمجھ بھی نہ سکتا تھا کہ اُس نے ٹانگ کو اس طرح کیوں حرکت دی ہے۔
زہر آلود بالائی کھلانے کی کوشش
اسی طرح مَیںایک دفعہ جلسہ سالانہ میں سٹیج پر تقریر کر رہا تھا کہ کسی نے ایک پرچ میں بالائی رکھ کر دی
کہ یہ حضرت صاحب کو پہنچا دی جائے اور دوستوں نے دست بدست اُسے آگے پہنچانا شروع کردیا۔ رستہ میںکسی دوست کو خیال آیا کہ یہ کوئی زہریلی چیز نہ ہو ، چنانچہ اُس نے چکھنے کے لئے ذرا سی بالائی زبان کو لگائی تو اُس کی زبان کٹ گئی ، مگر چونکہ وہ دست بدست پیچھے سے چلی آ رہی تھی اس لئے یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وہ کون شخص تھا جس نے زہر کھلانے کی کوشش کی۔ تو اس قسم کے کئی واقعات ہوتے رہتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کاپتہ چلتا ہے، مگر پھر بھی جب تک وہ چاہتا ہے حفاظت کا سامان رہتا ہے اور جب وہ چاہتا ہے ان سامانوں کو ہٹا لیتا ہے بہرحال اس جہان کی سلامتی محدود ہے، لیکن اگلے جہان کی سلامتی غیرمحدود اور ہمیشہ کے لئے ہے۔
مذہبی جنگوں میں مسلمانوں کی کامیابی کا وعدہ
پھر مَیں نے سوچا کہ اس دنیا میں تو جنگیں بھی ہوتی ہیں اور جنگوں
میںحفاظت کا سب سے بڑا ذریعہ تلوار اور دوسرے ہتھیار سمجھے جاتے ہیں جو مینا بازار سے میسّر آ سکتے ہیں کیا اس مینا بازار سے بھی ہمیںکوئی ایسی ہی چیز مل سکتی ہے یا نہیں سو اس کے متعلق میں نے دیکھا تو قرآن میںلکھا تھا اِنَّ اللّٰہَ یُدفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَایُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰـتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ نِالَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّا اَنْ یَّقُوْلُوْارَبُّنَا اللّٰہُ وَلَوْلَادَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِیَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسَاجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًاط وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِ یٌّ عَزِیْزٌ ۸۰؎
فرماتا ہے ۔یقینا اللہ تعالیٰ مؤمنوں کی طرف سے دفاع کرنے والا ہے یعنی ہم تلوار تمہارے ہاتھ میں نہیں دیں گے بلکہ اپنے ہاتھ میںرکھیں گے۔ اگر تمہارے ہاتھ میں تلوار دینگے تو وہ ایسی ہی ہو گی جیسے بچہ سے اس کی ماں کہتی ہے کہ فلاں چیز اُٹھا لا اور پھر خود ہی اُس چیز کو اُٹھا کر اُس کا صرف ہاتھ لگو ا دیتی ہے اور بچہ یہ سمجھتا ہے کہ میں نے چیز اُٹھائی ہے۔ پھر فرما تا ہے ، ہم تمہاری کیوں نہ مدد کریں گے جب کہ تم پر حملہ کرنے والے خائن اور کافر ہیں اور تم وہ ہو جو صداقتوں کا اقرار کرتے ہو۔ یا د رکھو! اِس دنیا میں خداتعالیٰ کی طرف سے ان لوگوں کو جن سے لوگ جنگ کرتے ہیں اجازت دی گئی ہے کہ وہ بھی حملہ آوروں کامقابلہ کریں کیونکہ اُن پر حد سے زیادہ ظلم کیا گیا ہے اور اُن پر ناواجب سختی کی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی مدد پریقینا قادر ہے۔ وہ لوگ جو اپنے گھروں سے نکالے گئے بغیر حق کے جن کا صرف اتنا گناہ تھا کہ انہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعہ دُور نہ کرے تو دنیا میںعبادت خانے ، راہبوں کے رہنے کی جگہیں، عیسائیوں کے گرجے ، یہودیوں کی جگہیں اور مسلمانوں کی مسجدیں جن میں خداتعالیٰ کانام کثرت سے لیا جاتا ہے سب مٹا دی جائیں۔
فرماتا ہے ہم نے مذہب کی آزادی کے لئے لڑائی کی اجازت دی ہے مگر چونکہ سچے مخلص تھوڑے ہوتے ہیں اس لئے اس بات سے نہ گھبرانا کہ تم تھوڑے ہو، اللہ تعالیٰ خود اپنے مخلص بندوں کی تائید کے لئے تلوار لے کر کھڑا ہو جاتا ہے اور وہ انہیں ہر میدان میں مظفر ومنصور کر تا ہے اور خدا بڑاہی قوی اور عزیز ہے ۔جس طرف خدا ہو جائے گا اس کی قوت کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا اور جس کی طرف خدا ہو جائے گا اُس پر کوئی دشمن غلبہ نہیں پاسکے گا۔
دشمنوں پرغالب کرنے والا ایک تیز تر اور کامیاب ہتھیار
یہ تو دفاعی جنگ ہے۔ مَیں نے سوچا
کہ اس سامانِ جنگ سے تو میںدشمن کے فتنہ سے بچ سکتا ہوں۔ پس یہ ہتھیار ایک ڈھال کی طرح ہؤا اِ س میں مجھے دوسرے پر حملہ کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے پھر میں دنیا پر غالب کس طرح آئوں گا؟ کیا اس مینا بازار میںکوئی ایسا ہتھیار بھی ہے جو ڈھال کی طرح نہ ہو بلکہ تلوارکی طرح ہو اور جس کی مدد سے مجھے غلبہ عطا ہو؟ تو میں نے دیکھا کہ ایسا ہتھیار بھی موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے وَلَقَدْ صَرَّفْنَاہُ بَیْنَھُمْ لِیَذَّکَّرُوْا فَاَبٰٓی اَکْثَرُ النَّاسِ اِلَّا کُفُوْرًا- وَلَوْشِئْنَا لَبَعَثْنَا فِیْ کُلِّ قَرْیَۃٍ نَّذِیْرًا- فَلا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَ جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا- وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا ۸۱؎
ان آیات میںپہلے پانی کا ذکر ہے جوکلامِ الٰہی سے تشبیہہ دینے کے لئے کیا گیاہے اور فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اُتار تا ہے اور مراد یہ ہے کہ قرآن بھی اسی طرز کا ہے۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس طرح ہم پانی کو لوگوں میںپھیلادیتے ہیں تا کہ وہ ہمارے نشانوں کی قدر کریں، اسی طرح ہم نے قرآن کو اُن کے سامنے پیش کر دیا ہے، مگر اکثر لوگ کفرانِ نعمت کرتے ہیں۔ وہ پانی کی نعمت تو قبول کر لیتے ہیں، مگر کلامِ الٰہی کی نعمت جو اس سے بہت زیادہ بہتر ہے اُسے ردّ کر دیتے ہیں، گویا وہ اشرفیاں تو نہیں لیتے مگر کوڑیوں پرجان دیتے ہیں، اور یہ بالکل بچوں والی حالت ہے۔ میں ایک دفعہ بمبئی گیا وہاں ایک تازہ کیس عدالت میں چل رہا تھا ۔ جو اس طرح ہؤا کہ کسی جوہری کے ساٹھ ہیرے جو کئی ہزار روپیہ کی مالیت کے تھے کہیں گِر گئے، اس نے پولیس میں رپورٹ کر دی، پولیس نے تحقیق کرتے ہوئے ایک آدمی کو پکڑ لیا جس سے کچھ ہیرے بھی برآمد ہوگئے۔ جب اُس سے پوچھا گیا کہ اس نے یہ ہیرے کہاں سے لئے تھے؟ تو اس نے بتایا کہ میں بازار میں سے گزر رہا تھا کہ چند لڑکے ان ہیروں سے گولیاںکھیل رہے تھے، میں نے انہیں دو چار روپے دے کر ہیرے لے لئے۔ بعد میں معلوم ہؤا کہ اس جوہری نے کسی موقع پر اپنی جیب سے رومال نکالا تو یہ ہیرے جو ایک پُڑیہ میںتھے اس کے ساتھ ہی نکل کر زمین پر گر گئے اور بچوں نے یہ سمجھا کہ وہ کھیلنے کی گولیاں ہیں، حالانکہ وہ پچاس ہزار روپے کا مال تھا۔یہی حال لوگوں کا ہے کہ اُس پانی کی قدر کریں گے جو سٹر جاتا اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ناکارہ ہو جاتا ہے مگر جو پانی ان کے اور اُن کی آئندہ نسلوں کے کام آنے والا ہے او رجو نہ صرف ا س زندگی میں بلکہ اگلے جہان میں بھی کام آتا اور انسان کی کایاپلٹ دیتا ہے اُس کو ردّ کر دیتے ہیںاور کہتے ہیں کہ ہم اس کو نہیں لیتے تو فرماتا ہے اکثر لوگ کُفر ہی کرتے ہیں حالانکہ اگر ہم چاہتے تو ساری دنیا میں ہی نذیر بھیجتے ۔یعنی اگر ہم لوگوں پر جلدی حُجّتتمام کرنا چاہتے تو بجائے اس کے کہ ایک رسول بھیجتے اور اس کی تعلیم آہستہ آہستہ پھیلتی،ہربستی میںایک ایک نذیر بھیج دیتے، مگر ہم نے ایسا کیوں نہیں کیا؟ اس لئے کہ اگر سب لوگ ایک دم کُفر کرتے تو دنیا کی تمام بستیوں پر یکدم عذاب آ جاتا اور سب لوگ ہلاک ہو جاتے مگر اب ایسا نہیںہوتا بلکہ اب پہلے عرب پر اتمام حُجّتہوتی ہے اور اس پر عذاب آتا ہے۔ پھر کچھ اور عرصہ گزرتا ہے تو ایران پر اتمامِ حُجّتکے بعد عذاب آجاتا ہے۔ اگر ہر بستی اور ہر گائوں میںاللہ تعالیٰ کے نبی مبعوث ہوتے ، تو ہر بستی اور ہر گائوں پر وہ عذاب نازل ہوتا جو اب براہ راست ایک حصۂ زمین کے مخالفوں پر نازل ہو تا ہے۔ پس تو اُن کافروں کی باتیں مت مان، بلکہ قرآن کریم کے ذریعہ سے سب دنیا کے ساتھ وہ جہاد کر جو سب سے بڑا جہاد ہے یعنی تبلیغ کا جہاد۔ جس کے پاس جانے سے بھی آجکل کے مسلمان کا دم گھٹتا ہے (وہ اس سے تو اس بہانہ سے بھاگتا ہے کہ اصل جہاد تلوار کا ہے اور تلوار کے جہاد سے اس لئے بھاگتا ہے کہ دشمن طاقتور ہے۔مولوی فتویٰ دیتا ہے کہ اے عام مسلمانو! بڑھو اور لڑو۔ اور عام مسلمان کہتے ہیں کہ علمائ! آگے چلو کہ تم ہمارے لیڈر ہو اور پھر دونوں اپنے گھروں کی طر ف بھاگتے ہیں) پس دنیا کے مینا بازار میںتو لوہے کی تلواریںملا کرتی تھیں جنہیں کچھ عرصہ کے بعد زنگ لگ جاتا تھا اور جو ہمیشہ کیلئے لڑائی میںکام نہیں آ سکتی تھیں ،بلکہ بسا اوقات لڑتے لڑتے ٹوٹ جاتی تھیں، مگر خدا نے ہمیں وہ تلوار دی ہے جسے کبھی زنگ نہیں لگتا اور جو کسی لڑائی میں بھی نہیں ٹوٹ سکتی، تیرہ سَو سال گزر گئے اور دنیا کی سخت سے سخت قوموں نے چاہا کہ وہ اس تلوار کو توڑ دیں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں اور اسے ہمیشہ کے لئے ناکارہ بنا دیں مگر دُنیا جانتی ہے کہ جو قوم اس کو توڑنے کے لئے آگے بڑھی وہ خود ٹوٹ گئی مگر یہ تلوار اُن سے نہ ٹوٹ سکی۔
جہاد بِالقرآن سب سے بڑا جہاد ہے
یہ وہ قرآن ہے جو خدا نے ہم کو دیا ہے اور یہ وہ تلوار ہے جس سے ہم ساری دنیاکوفتح
کر سکتے ہیں فرماتا ہے جَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا تلوار کا جہاد اور دوسرے اورجہاد سب چھوٹے ہیں قرآن کا جہاد ہی ہے جو سب سے بڑا اور عظیم الشان جہاد ہے۔ یہ وہ تلوار ہے کہ جوشخص اس پر پڑے گا اُس کا سر کاٹا جائے گا اور جس پر یہ پڑے گی وہ بھی مارا جائے گا یا مسلمانوں کی غلامی اختیار کرنے پر مجبور ہو گا۔ اگر تیرہ سَو سال میںبھی ساری دنیامیںاسلام نہیں پھیلا تو اِس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ تلوار کُند تھی بلکہ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں نے اس تلوار سے کام لینا چھوڑ دیا۔ آج خدا نے پھر احمدیت کو یہ تلوار دیکر کھڑا کیا ہے اور پھر اپنے دین کو دنیا کے تمام ادیان پر غالب کرنے کا ارادہ کیا ہے مگر نادان اور احمق مسلمان احمدیت پر حملہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ احمدی جہاد کے قائل نہیں۔ اُن کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص غلیلے لے کر قلعہ پر حملہ کر رہا ہو، تو یہ دیکھ کر کہ غلیلوں سے قلعہ کب فتح ہوسکتا ہے کچھ اور لوگ توپ خانہ لے کر آ جائیں، مگر غلیلے چلانے والا بجائے اُن کا شکر گزار ہونے کے اُن پر اعتراض کرنا شروع کر دے کہ یہ لوگ غلیلے کیوں نہیں چلاتے؟ وہ نادان بھی اپنی نادانی اور حماقت کی وجہ سے قرآن کی طاقت کے قائل نہیں، ہوش سنبھالنے سے لیکر بُڈّھے ہونے تک وہ نحو اور صَرف پڑھتے رہتے ہیںاور یہی دو علم پڑھ پڑھ کر ان کے دماغ خالی ہو جاتے ہیں ۔ انہوں نے ساری عمر کبھی قرآن کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھا ہوتا اور نہ اس کے مطالب اور معانی پر غور کیا ہوتا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طفیل پھر یہ تلوار ہمارے ہاتھوں میں دی ہے اور میرا دعویٰ ہے کہ دنیامیں کوئی سچا مسئلہ اور کوئی حقیقی خوبی ایسی نہیں ، نہ زمین میں نہ آسمان میں جو اِس کتاب میںموجود نہ ہو۔ اسی طرح کوئی ایسی بات نہیں جس سے دنیا کے دماغ تسلی پا سکتے ہوں مگر وہ بات قرآن کریم میںنہ پائی جاتی ہو۔ پھر فرماتا ہے وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَاعَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ وہ خدا ہی ہے جس نے دو سمندر دُنیا میں ملا دئیے ہیں مرج کے معنے ہوتے ہیں ملا دینے کے پس وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ خدا ہی ہے جس نے دو سمندر دنیا میںملاد ئیے ہیں ھٰذَاعَذْبٌ فُرَاتٌ ایک سمندر اپنی خاصیت کے لحاظ سے میٹھا ہے اور اس کا پانی انسان کے لئے تسکین بخش ہے۔ وَّھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ مگر دوسرا زخم ڈال دینے والا نمکین ہے۔ اور آگ کی طرح گرم وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْ زَخًا وَّ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا مگر باجود اس کے کہ دونوں سمندر ملا دئیے گئے ہیں اِس کے درمیان اور اُس کے درمیان ایک فاصلہ پایا جاتا ہے۔
دنیا میںقاعدہ ہے کہ جب میٹھی اور نمکین چیز ملائی جائے تو ایک تیسری چیز پیدا ہو جاتی ہے جو ان دونوں سے مختلف ہوتی ہے۔ جیسے بعض لوگ میٹھی چائے میں نمک ملا لیا کرتے ہیں، مَیں ایسی چائے کو ’’منافق چائے‘‘ کہا کرتا ہوں اور مجھے اس سے بڑی نفرت ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے ایک شادی ہوئی جس میں لڑکی والوں نے دعا کے لئے مجھے بھی بُلایا، ایسے موقع پر جو چیز بھی سامنے آئے میزبان کی خواہش کے مطابق استعمال کرنی پڑتی ہے، اتفا ق ایسا ہؤا کہ انہوں نے جو چائے تیار کرائی اُس میں نمک بھی ملا دیا۔ میرے ساتھ ایک دوست بیٹھے ہوئے تھے وہ آہستہ سے میرے کان میں کہنے لگے ایسی چائے کوکیا کہتے ہیں ، مَیں نے کہا کہتے تو منافق ہی ہیں مگر اِس وقت پئے ہی جائیں۔ وہ دوست کچھ دلیر سے واقعہ ہوئے ہیں،مَیں ڈرا کہ کہیں وہ میزبان کے سامنے ہی نہ کہہ بیٹھیں اور اُن کی دل شکنی نہ ہو،مگر خیر گزری کہ انہوں نے میزبان کے سامنے کچھ نہ کہا۔
تواللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ پانی منافق نہیں ہوں گے باوجود اس کے کہ وہ دونوں ملے ہوئے ہوں گے اور بظاہرجب د و چیزیں مل جائیں تو دونوں کا ذائقہ بد ل کر کچھ اور ہو جاتا ہے، مگر ہماری طرف سے یہ اعلان ہو رہا ہو گا کہ حِجْرًا مَّحْجُوْرًا۔اے ملنے والو! تمہارے ملنے کے یہ معنے نہیں ہیں کہ تم ایک دوسرے میںجذب ہو جائو بلکہ باوجود ملنے کے الگ الگ رہو۔ دیکھ لویہ وہی پیشگوئی ہے جس کا سورہ رحمٰن میںبھی ان الفاظ میںذکر ہے مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِ بَیْنَھُمَا بَرْزَخٌ لَّایَبْغِیٰنِ۸۲؎ کہ خدا نے دو سمندر اس زمانہ میں بنائے ہونگے، ایک میٹھے پانی کا ہو گا اور ایک کڑوے پانی کا، وہ دونوں آپس میں مل جائینگے مگر باوجود اس کے کہ وہ ملے ہوئے ہونگے ان میں ایسی برزخ حائل ہو گی کہ میٹھا پانی کڑوے میںجذب نہیں ہو گا اور کڑوا پانی میٹھے میںجذب نہیں ہو گا۔
مغر ّبیت کی کبھی نقل نہ کرو
یہ پیشگوئی درحقیقت مغربیت اور دجّالیت کے متعلق ہے، چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم نے اپنے الفاظ میں ہی اس طرف
اشارہ کر دیا ہے فرماتا ہے ھٰذَامِلْحٌ اُجَاجٌ۔ اور اُجَاج سے یاجوج اور ماجوج دونوں قوموں کی طرف اشارہ ہے اس کے مقابلہ میں عَذْبٌ فُرَاتٌ رکھا ہے اور حِجْرًا مَّحْجُوْرًا میں بتا دیا کہ تمہیں ان قوموں سے مل کر رہنا پڑے گا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت تمہیں عیسائی حکومت کے ماتحت رکھا جائے گا۔ایسی حالت میں تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تم میٹھے پانی کا سمندر ہو اور وہ کڑوے پانی کا سمندر ہیں، تم مغربیت کی نقل کبھی نہ کرو اور باوجود ان میں ملے ہونے کے ایسے امور کے متعلق صاف طور پر کہہ دیا کرو کہ تم اَور ہو اور ہم اَور ہیں گویا ایک برزخ تمہارے اور اُن کے درمیان ضرور قائم رہنی چاہئے یہی وہ برزخ ہے جس کو قائم کرنے کے لئے مَیںتحریک جدید کے ذریعہ جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مغربی اثرات کو قبول نہ کریں جو احمدی میٹھے پانی کا ہے وہ ضرور ان سے الگ رہے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کڑوا اور میٹھا پانی ایک دوسرے میں جذب ہو جائے۔اسی طرح جو غیر احمدی ہیں وہ خواہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو نہ مانتے ہوں، انہیں مغربیّت کی نقل نہیںکرنی چاہئے، کیونکہ یہ مسیح موعود کی تعلیم نہیں یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ اُن کے بھیجنے والے خدا کی تعلیم ہے۔مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو کھانے پینے، پہننے اور تمدن ومعاشرت کے دوسرے کئی امور میں مغربیت کی نقل کرتا اور اس نقل میں خوشی اور فخر محسوس کرتا ہے، ایسے لوگ درحقیقت مِلْحٌ اُجَاجٌ ہیں، عَذُبٌ فُرَاتٌ سے تعلق نہیں رکھتے۔ـ
جماعت احمدیہ کے قیام میںایک بہت بڑی حکمت
ایک دفعہ بعض غیر احمدیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام
سے سوا ل کیا کہ شادی بیاہ اور دوسرے معاملات میں آپ اپنی جماعت کے لوگوں کوکیوں اجازت نہیں دیتے کہ وہ ہمارے ساتھ تعلقات قائم کریں۔ آپ نے فرمایا اگر ایک مٹکا دودھ کا بھر اہؤا ہو اور اس میں کھٹی لسّی کے تین چار قطرے بھی ڈال دئیے جائیں تو سارا دُودھ خراب ہو جاتا ہے۔ تو لوگ اس حکمت کو نہیں سمجھتے کہ قوم کی قوتِ عملیہ کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اسے دوسروں سے الگ رکھا جائے اور اُن کے بداثرات سے اُسے بچایا جائے۔آخر ہم نے دشمنانِ اسلام سے روحانی جنگ لڑنی ہے۔ اگر اُن سے مغلوب اور ان کی نقل کرنے والے غیر احمدیوں سے ہم مل جُل گئے تو نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم بھی یورپ کے نقال ہوجائیں گے اور ہم بھی جہادِ قرآنی سے غافل ہو جائیں گے۔ پس خود اسلام اور مسلمانوں کے فائدہ کے لئے حکومتی اور سیاسی اور معاشرتی اتحاد کے آگے ہم کو دوسری جماعتوں سے نہیں ملنا چاہئے تاکہ ہم غافل ہو کر اپنا فرض جو تبلیغِ اسلام کے ہے بُھول نہ جائیں جس طرح دوسرے مسلمان بھول گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ اُن کو بھی ہدایت دے اور انہیں بھی یہ فرض ادا کرنے کی توفیق بخشے۔ اسلام میں پہلے ہی سپاہیوں کی کمی ہے اگر تھوڑے بہت سپاہی جو اُسے میسّر آئیں وہ بھی سُست ہو جائیں تو انہوں نے اسلام کی طرف سے مقابلہ کیا کرنا ہے۔ پس حق یہی ہے کہ یہ میٹھا پانی کڑوے پانی سے الگ رہے گا اور ایک برزخ ان دونوں کو جُدا جُدا رکھے گا، کاش! دوسرے مسلمانوں میںبھی یہ حِس پیدا ہو۔
طبعی اور علمی تقاضوں کے پورا کرنے کا سامان
جب مَیں نے یہ سب کچھ دیکھا تو خیال کیا کہ شاید مینا بازار میں
کوئی ایسی چیزیں بھی ہوتی ہوں گی جن کا مجھے اِس وقت علم نہیں، لیکن میرے نفس میں اُن کی طلب اور خواہش بعد میں کسی وقت پید ا ہو جائے۔ پس میں نے کہا مجھے یہ چیزیں تو مل گئیں، لیکن ممکن ہے آئندہ کسی چیز کے متعلق میرے دل میں کوئی خواہش پیدا ہو اور وہ ملے یا نہ ملے۔ جب میرے دل میں یہ خیال آیا، تو معاً مجھے معلوم ہوا کہ جو غیر معلوم چیزیں ہوتی ہیں وہ عموماً دو قسم کی ہوتی ہیں۔
(۱) ایک وہ جو طبعی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
(۲) دوسری وہ جو علمی تقاضوں سے تعلق رکھتی ہیں۔
پہلی قسم کی چیزوں کی مثال میں بُھوک کو پیش کیا جا سکتا ہے جو ایک طبعی تقاضا ہے۔ انسانی دماغ سوچے یا نہ سوچے وہ خود بخود بُھوک اور پیاس محسوس کرتا ہے۔ اسی طرح نفسانی خواہشات غور اور فکر سے پیدا نہیں ہوتیںبلکہ اگر غور اور فکر سے پیدا ہوں تو وہ جھوٹی خواہشات سمجھی جاتی ہیں۔ مثلاً اگر اچھے کھانے کو دیکھ کر کھانا کھانے کا خیال پیدا ہو تو یہ جھوٹی خواہش ہو گی، جائز اور صحیح خواہش وہی ہوتی ہے جو بغیر غور وفکر طبعی طور پر انسان کے اندر پیدا ہو۔ اسی طرح بعض چیزیں انکار سے تعلق رکھتی ہیں۔ انسان بعض دفعہ چاہتا ہے کہ اُسے کوئی علمی بات معلوم ہو یا اس کے کسی اعتراض کا ازالہ ہو۔ یہ ایک علمی تقاضا ہے جو پورا ہونا چاہئے ۔ گویا تقاضے دو قسم کے ہیں، ایک طبعی اور ایک عقلی۔ طبعی تقاضا تو یہی ہے کہ مثلاً بھوک کی خواہش پیدا ہو، اب روٹی کی خواہش انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے باہر سے نہیں آتی، لیکن نیویارک دیکھنے کی خواہش طبعی طور پر بھوک پیاس کی طرح اس کے اندر سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ جب وہ کسی کتاب میں نیویارک کے حالات پڑھتا یا کسی شخص سے وہاں کے حالات سنتا ہے تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی ہے کہ میں بھی نیویارک دیکھوں۔ تو نیویارک دیکھنے کی خواہش اور قسم کی ہے او ر روٹی کھانے کی خواہش اور قسم کی۔ نیویارک یا ایسا ہی دنیا کا کوئی اور شہر دیکھنے کی خواہش کبھی اندر سے پیدا نہیں ہوتی لیکن روٹی کھانے کی خواہش اندر سے پیدا ہوتی ہے ۔ تو ان دونوں تقاضوں میںفرق ہے۔ مَیں نے سوچا کہ اگر میرے طبعی تقاضے پور ے نہ ہوئے تب بھی میں کمزور ہو کرمر جائوں گا اور اگر میری علمی زیادتی نہ ہوئی اور مجھے اپنی ذہنی اور عقلی پیاس کو بجھانے کا موقع نہ ملا تو اس صورت میں بھی میر ا دماغ کمزور ہو جائے گا۔ پس طبعی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا جسم مکمل ہو اور عقلی تقاضوں کا پورا ہونا بھی ضروری ہے تا کہ میرا دماغ مکمل ہو۔
قرآنی بشارت
مَیں اسی اُدھیڑ بُن میں تھا کہ معاً میرے کان میں آواز آئی وَفِیْھَا مَاتَشْتَھِیْہِ الْاَ نْفُسُ وَتَلَذُّ الْاَعْیُنُ وَاَنْتُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ ۸۳؎
کہ جو جو چیزیںہم پہلے بتا چکے ہیں وہ بھی جنت میں ملیں گی اور اُ ن کے علاوہ جو طبعی تقاضے ہیں جیسے اشتہاء کہ وہ اندر سے پید ا ہوتی ہے اور آنکھوں کی یہ حس کہ اس کے سامنے ایسی چیزیں آئیں جنہیں دیکھ کر وہ لذت اُٹھائے ہم ان تمام تقاضوں کو پورا کریں گے۔ گویا قرآن کریم نے ان خواہشات کو تسلیم کیا ہے جو اندرونی ضرورتوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیںاور فرماتا ہے کہ ان خواہشات کو ہم ضرور پورا کریں گے۔ یہ خواہشات ہر شخص کے اندر پائی جاتی ہیں اور اگر ہم تجزیہ کریںتو بعض دفعہ ایک ایک چیز کی خواہش ہی نہیں ہوتی بلکہ اس چیز کے ایک ایک حصہ کی خواہش انسانی قلب میںپائی جاتی ہے۔
حاملہ عورتوں میں مٹی کھانے کی خواہش
عورتوں کے پیٹ میں جب بچہ ہوتا ہے تو اُن کی حِس اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ بچے کو
جس غذاء کی ضرورت ہوتی ہے، ماں کے دل میں اُسی غذا کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ غذاء کے بعض اجزاء مٹی میں سے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے ایامِ حمل میں عورتوں کو مٹی کھانے کی عادت ہو جاتی ہے۔ درحقیقت انسان کو خداتعالیٰ نے مٹی سے ہی ترقی دیکر بنایا ہے، اس لئے جب بچہ ماں کے پیٹ میںہوتا ہے تو ماں کے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ ایسی مٹی ہو جس میں کچھ پانی ملا ہؤا ہو، یا چِکنی مٹی ہو اور سَو میں سے پچاس ایسی عورتیں ہوتی ہیں جو مٹی کھاتی ہیں۔ وہ یہ نہیں کہتیں کہ ہمیں بھوک لگتی ہے اس لئے ہم مٹی کھاتی ہیں ، بلکہ وہ کہتی ہیں ہمارے دل میں مٹی کھانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔اسی طرح بعض دفعہ حاملہ عورتوں کو سیب کھانے کی شدید طور پر خواہش پیدا ہو تی ہے اور یہ خواہش اتنی سخت ہو تی ہے کہ بعض دفعہ اگر سیب نہیں ملتا تو عورتوں کا حمل گر جاتا ہے۔ اب دنیا کی کوئی طبّ ایسی نہیں جو یہ بتا سکے کہ سیب کے کون سے ایسے اجزاء ہیں جو نہ ملیں تو حمل ضائع ہو جاتا ہے یا مٹی میںکون سے ایسے اجزاء ہیںجن کا حاملہ عورتوں کو دِیا جانا ضروری ہوتا ہے مگر واقعہ یہی ہوتا ہے اور طبیب بھی مانتے ہیں کہ بعض دفعہ ان چیزوں کے نہ ملنے کی وجہ سے حمل گر جاتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ اُن کے اندر دُودھ پینے کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ مجھے ایک عجیب مرض ہے، میں دُودھ پی لوں تو مجھے سردرد کا دورہ ہو جاتا ہے مگر کسی کسی دن مجھے اتنا شدید شوق پیدا ہوتا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکتا اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ مجھے سردرد ہو جائے گی پھر بھی دُودھ پی لیتا ہوں اور اس کے بعد دورہ ہو جاتا ہے۔
تو کئی قسم کی باریک خواہشات انسان کے اندر پائی جاتی ہیں اور وہ ایسی شدید ہوتی ہیں کہ پوری نہ ہوں تو زندگی بے مزہ معلوم ہونے لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَفِیْھَا مَاتَشْتَھِیْہِ الْاَنْفُسُ دنیا میںتو بعض دفعہ انسان کا جی چاہتا ہے کہ اُسے سیب کھانے کو ملے مگر اُسے سیب نہیں ملتا۔ عورت چاہتی ہے کہ مٹی کھائے مگر دوسرے لوگ اُسے کھانے نہیں دیتے، مگر فرمایا وہاںجو بھی طبعی خواہش پیدا ہو گی اس کو پورا کر دیا جائے گا۔
دماغی خواہشات کی تکمیل
پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے کچھ دماغی خواہشیں بھی ہوتی ہیں اور انسان چاہتا ہے کہ ان خواہشوں کے پورا ہونے کا
بھی سامان ہو۔پس مَیں نے سوچا کہ اگر کبھی عقلی ضرورت محسوس ہو گی، گو اس کے ساتھ طبعی خواہش نہ ہوئی تو کیا یہ ضرورت بھی پوری ہو گی یا نہیں؟ اس پر میں نے دیکھا تو اس کا بھی انتظام تھا۔ چنانچہ لکھا تھا لَھُمْ فِیْھَا مَایَشَائُ وْنَ۸۴؎ وہاں جنتی جو کچھ چاہیں گے انہیں مل جائے گا۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ مشیت دل کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، مگر اشتہاء نفسانی خواہشات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے ۔ پس وہاں انسان کی اشتہاء بھی پوری ہو گی اور انسان کی مشیّت بھی پوری ہو گی۔ گویا جن کے اندر طبعی خواہشات پیدا ہوں گی جو اُن کے روحانی جسموں کے مطابق ہوں گی ان کے لئے ان کی طبعی خواہشوں کے پورا کرنے کے سامان کئے جائیں گے اور جنہیں عقلی ضرورت محسوس ہو گی ان کی اس ضرورت کو بھی وہاں پورا کر دیا جائے گا۔
ہمارے خدا کا عجیب وغریب مینا بازار
میں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو کہا سُبْحَانَ اللّٰہِ وہ مینا بازار اور مارکیٹیں تو
ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی چیزیں یا تو میری طاقت سے باہر ہوتی ہیں اور اگر طاقت کے اندر ہوتی ہیں تو ضروری نہیںہوتا کہ میری اشتہاء یا میری مشیّت کو پورا کرنے والی ہوں۔ اور اگر میری اشتہاء یا میری مشیّت کو پورا کرنے والی ہوں تو ضروری نہیں ہوتا کہ میں اُن سے فائدہ اٹھا سکوں۔ مثلاً اگر پینے کے لئے دُودھ مل جاتا ہے لیکن میںبیمار ہو جاتا ہوں تو اس دودھ کا مجھے کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔ اور اگر میں اُن سے فائدہ اُٹھا بھی لوں، تو ایک دن یا وہ فنا ہو جائیں گی یا میں فنا ہو جائوں گا۔ مگر یہ عجیب مینا بازار ہے ہمارے خدا کا کہ اس میں مجھ سے جان اور مال طلب کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے بدلہ میں سارے مینا بازار کی چیزیں اور خود مینابازار کی عمارت تمہارے سپرد کی جاتی ہے۔ جب اس سے کہا جاتا ہے کہ لائو اپنا مال اور لائو اپنی جان کہ میں مینا بازار کی سب چیزیں اور خود مینا بازار کی عمارت تمہارے سپرد کردوں تو بندہ اِدھر اُدھر حیران ہو کر دیکھتا ہے کہ میرے پاس تو نہ مال ہے نہ جان میں کہاں سے یہ دونوں چیزیں لائوں۔ اتنے میں چُپ چاپ اللہ تعالیٰ خود ہی ایک جان اور کچھ مال اُس کے لئے مہیا کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ لو مَیں یہ تمہیں جان اور مال دے رہا ہوں تم یہ مال اور جان میرے پاس فروخت کر دو۔
غالب تھا تو شرابی مگرا س کا یہ شعر کروڑوں روپیہ سے بھی زیادہ قیمتی ہے کہ:-
؎
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اللہ تعالیٰ مؤمنوں سے ایسا ہی معاملہ کرتا ہے وہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ اشْتَرٰی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَھُمْ وَاَمْوَالَھُمْ بِاَنَّ لَھُمُ الْجَنَّۃَ
خدا نے مؤمنوں سے اُن کی جانیں اور مال خرید لئے اور ان کے بدلہ میں انہیں جنت دے دی حالانکہ کون ہے جو یہ کہہ سکے کہ جان اس کی ہے یا کون ہے جو کہہ سکے کہ مال اس کا ہے باوجود اس کے کہ نہ مال اس کے پاس ہوتا ہے نہ جان اس کے پاس ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اس سے سَودا کرنے آتا ہے اور کہتا ہے مجھ سے جان لو اور پھر مجھے یہ جان واپس دے کر مجھ سے سَودا کر لو۔ مجھ سے مال لو اور پھر یہ مال مجھے واپس دے کر مجھ سے سودا کر لو۔ پس عجیب مینا بازار ہے کہ خود ہی ایک جان اور کچھ مال مہیا کیا جاتا ہے اور پھر کہا جاتا ہے لو اسے ہمارے پاس فروخت کر دو۔ اور جب میں اس جان اور مال کو اس کے ہاتھ فروخت کرتا ہوں اور کہتا ہوں کہ بے شک مجھے اپنا غلام بنا لو تویکدم وہ مجھے آزاد کر دیتا ہے اور میرے سارے طوق ، ساری زنجیریں، ساری بیٹریاں اور ساری ہتھکڑیاں کاٹ ڈالتا ہے۔ اور پھر مجھے مینا بازار کی چیزیں ہی نہیں دیتا بلکہ سارا مینا بازار میرے حوالے کر دیا جاتا ہے اور اس کی تمام چیزوں کا مجھے مالک بنا دیا جاتا ہے اور پھر انہی چیزوں کا ہی نہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی انتظام کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی نئی طبعی خواہش پیدا ہو گی تو وہ بھی پوری کی جائے گی۔اور اگر کوئی نئی علمی خواہش پیدا ہو گی تو اُس کو پورا کرنے کے بھی ہم ذمہ دار ہوں گے۔ اور پھر مجھے کہا جاتا ہے کہ ان چیزوں کے متعلق تسلّی رکھنا، نہ یہ چیزیں ختم ہوں گی اور نہ تم ختم ہو گے گویا ان سب چیزوں سے فائدہ اُٹھانے کے لئے مجھ پر سے بھی اور ان چیزوں پر سے بھی فنا کا اثر مٹا دیا جائے گا۔
جب مَیں نے یہ نظارہ دیکھا اور روحانی طور پر مجھے ان الٰہی اسرار کا علم ہؤا تو مَیں اپنے ناقص علم پر جو مجھے آزادی اور غلامی کے متعلق تھا، سخت شرمندہ ہؤا۔ اور میں حیران ہوگیا کہ میں کس چیز کو آزادی سمجھتا تھا اور کس چیز کو غلامی قرار دیتا تھا۔ جس چیز کو مَیں آزادی سمجھتا تھا وہ ایک خطرناک غلامی تھی اور جس چیزکو میں غلامی سمجھتا تھا وہ حقیقی آزادی اور حُریّت تھی۔ میں شرمندہ ہؤا اپنے علم پر، میں حیران ہؤا اس عظیم الشان حقیقت پر اور فی الواقع اُس وقت سر سے لے کرپائوں تک میرا تمام جسم کانپ اُٹھا اور میری روح ننگی اور عُریاں ہو کر خدا کے سامنے کھڑی ہو گئی اور بے اختیار میں نے کہا اے میر ے آقا! یہ غلامی جو تُو پیش کر رہا ہے، اس پر ہزاروں آزادیاں قربان ہیں۔ اے آقا! مجھے جلد سے جلد اپنا غلام بنالے، مجھے بھی اور میرے سب عزیزوں اور دوستوں کو بھی۔بلکہ اے خدا! تُو ساری دنیا کو ہی اپناغلام بنا لے تا کہ ہم سب اس غلامی کے ذریعہ حقیقی آزادی کا مزہ چکھیں اور حقیقی غلامی سے نجات پائیں۔ پس کان منتظر ہیں اُس دن کے جب یہ آواز ہمارے کان سنیں گے کہ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ - ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً - فَادْ خُلِیْ فِیْ عِبَادیْ - وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ- اے اپنے رب کے تعلق پر مطمئن ہونے والی جان! آ آ اپنے رب کی طرف آ۔ تو اُس سے خوش ہے اور وہ تجھ سے خوش ہے۔ آ اور میرے بندوں میںداخل ہو جا اور آ میری جنت میں داخل ہو جا۔
اپنی جانیں اور اپنے اموال خداتعالیٰ کے حضور جلد تر پیش کرو !
یہ وہ عظیم الشان نعمت ہے جو تمہارا خدا تمہیں
دینے کے لئے تیار ہے۔ اب تمہارا فرض ہے کہ تم آگے بڑھو اور اس نعمت کو حاصل کرنے کی کوشش کرو۔وہ اِس زمانہ میں پھر تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں آیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے ذریعہ اُس کی یہ آواز بلند ہوئی ہے کہ اپنی جانیں اور مال مجھے دو اور جنت مجھ سے لے لو۔ وہ تم سے سَودا کرنا چاہتا ہے مگر سَودا کرنے کے لئے اُس نے خود اپنے پاس سے تم کو جان اور مال دیا ہے۔ پس جان بھی اُسی کی ہے اور مال بھی اُسی کا۔ مگر وہ یہ فرض کر کے کہ یہ چیزیں اُس کی نہیں بلکہ تمہاری ہیں تمہارے پاس ایک گاہک کی صورت میں چل کر آیا ہے اور وہ تم سے تمہاری جانوں اور مالوں کامطالبہ کر رہا ہے۔ تمہاری خوش قسمتی ہوگی اگر تم اس آواز کو سنتے ہی کھڑے ہو جائو اور کہو کہ اے ہمارے آقا! آپ ہم سے اپنی ہی چیز مانگ کر ہمیں کیوں شرمندہ کر رہے ہیں، ہم اپنی جانیں آپ کے قدموں پر نثار کر نے کے لئے تیار ہیں اور اپنے اموال آپ کی راہ میں لُٹانے کے لئے حاضر ہیں۔ جب تم اس طرح اپنی جانوں اور اپنے اموال کی قربانی کرنے کے لئے کھڑے ہو جائو گے تو تم دیکھو گے کہ تمہاری جان بھی تمہارے پاس ہی رہتی ہے اور تمہارا مال بھی تم سے چِھینا نہیں جاتا۔ مگر اس ارادۂ نیک اور عملی پیشکش کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہار ا آقا تم سے ہمیشہ کے لئے خوش ہو جائے گا اور وہ تمہیں اُس ابدی جنت میں داخل کر ے گا جس کی نعمتیں لازوال ہیںاور جس کے مقابلہ میںدُنیوی مینا بازار اتنی بھی حقیقت نہیں رکھتے جتنی ایک سورج کے مقابلہ میں ایک ٹمٹماتی ہوئی شمع کی حقیقت ہوتی ہے۔ وہ اس اقرار کے نتیجہ میں ہی تمہاری غلامی کی زنجیروں کو کاٹ کر پرے پھینک دے گا۔ وہ تمہارے سلاسل اور آہنی طوق تمہاری گردنوں سے دُور کر دے گا۔ تم پھر دنیا میں سربلند ہو گے، پھر اپنی گردن فخر سے اونچی کر سکو گے۔ پھر ایک عزت اور وقار کی زندگی بسر کر سکو گے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اتنا چھوٹا سا کام بھی اس کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا، پس آئو ہم اُس کے حضور جھکیں اور اُسی سے یہ التجا کریں کہ اے ہمار ے آقا ! تو ہمیں اپنی محبت سے حصہ دے ، تو اپنے عشق کی آگ ہمارے دلوں میںسُلگا ، تو اپنے نور کی چادر میں ہم کو لپیٹ لے اور ہر قسم کی شیطانی راہوں سے بچا کر ہمیں اپنے قُرب اور اپنی محبت کے راستوں پر چلا، کیونکہ حقیقی حُریّت وہی ہے جو تیری غلامی میںحاصل ہوتی ہے اور بدترین غلامی وہی ہے جو تُجھ سے دُوری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ پس آئو اس جُھوٹی حُریّت کے خیالات کو جو دنیا میں بدترین غلامی پیدا کرنے کاموجب ہیں اپنے دلوں سے دُور کرو اور جلد سے جلد اُس خدائی آواز پر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ بلند ہوئی ہے اپنی جانیں اور اپنے اموال اُس کے حضور پیش کر دو تا کہ تمہیں حقیقی آزادی میسّر ہو اور تمہاری وساطت سے پھر باقی دنیا کو بھی شیطان کی غلامی سے ہمیشہ کے لئے نجات حاصل ہو جائے۔
۱؎ عبس: ۲۰ تا ۲۲ ۲؎ الحج : ۷،۸
۳؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ماذکر عن بنی اسراء یل
۴؎
البقرۃ : ۹
۵؎
التوبۃ : ۱۰۰
۶؎
الکھف : ۵۰
۷؎
ھود : ۱۱۲
۷؎
النباء : ۳۷
۹؎
المؤمن : ۴۱
۱۰؎
بنی اسراء یل : ۶۴
۱۱؎
المعارج:۳۶
۱۲؎
اٰل عمرٰن : ۱۱
۱۳؎
الصّٰفّٰت : ۷۹ تا ۸۱
۱۴؎
الصّٰفّٰت :۱۳۰تا۱۳۲
۱۵؎
الانبیاء : ۹۲
۱۶؎
العنکبوت: ۲۸
۱۷؎
الانعام : ۸۴ تا ۹۱
۱۸؎
الاحزاب : ۵۷
۱۹؎
الحشر : ۱۱
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۲۰؎ اقرب الموارد الجزء الثانی صفحہ ۸۷۹ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۲۱؎ الرّعد : ۲۴ ،۲۵
۲۲؎ طمنچے: طمنچہ کی جمع۔ پستول۔ چھوٹی بندوق
۲۳؎ التوبۃ : ۱۱۱
۲۴؎ بخاری کتاب الزکٰوۃ باب اتَّقُوا النَّارَ وَ لَوْ بِشِقِّ تَمْرَۃٍ
۲۵؎ بخاری کتاب الصوم باب المجامع فی رمضان
۲۶؎
البقرۃ: ۴
۲۷؎
الاعراف: ۱۵۸
۲۸؎
الاعراف: ۱۹۷
۲۹؎ بخاری کتاب الادب باب اِکْرَام الضیف (الخ)
۳۰؎
الحج : ۴۸
۳۱؎
الفجر : ۲۸
۳۲؎
حٰمٓ السجدۃ : ۳۲
۳۳؎
الدھر : ۲۰
۳۴؎
البقرۃ : ۶
۳۵؎
الدھر : ۶
۳۶؎
الدھر : ۱۲
۳۷؎
الدھر : ۱۸
۳۹؎
الدھر : ۲۳
۴۰؎
الصّٰفّٰت : ۴۶
۴۱؎
محمّد : ۱۶
۴۲؎
البقرۃ : ۲۶
۴۳؎
محمّد : ۱۶
۴۴؎
البقرۃ : ۲۲۰
۴۵؎
محمّد : ۱۶
۴۶؎ المطفّفین : ۲۶ ، ۲۷
۴۷؎ تلچھٹ ۔ وہ چیز جو نیچے بیٹھ جائے۔
۴۸؎ دُرد ۔ تلچھٹ
۴۹؎ الصّٰفّٰت : ۴۸
۵۰؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ ۱۲۹۱۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۱؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ۸۹۳۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۲؎
الطّور : ۲۴
۵۳؎
الدّھر : ۲۲
۵۴؎
المطفّفین : ۲۸
۵۵؎
المطفّفین : ۲۹
۵۶؎
الدھر : ۱۹
۵۷؎
الواقعۃ : ۲۱، ۲۲
۵۸؎
الطّور : ۲۳
۵۹
الدھر : ۱۵
۶۰؎
الواقعۃ : ۳۳ ، ۳۴
۶۱؎
محمد : ۱۶
۶۲؎
الحج : ۲۴ ، ۲۵
۶۳؎
الاعراف : ۲۷
۶۴؎
محمد : ۱۸
۶۵؎
اٰل عمران : ۱۰۷
۶۶؎
اٰل عمران : ۱۰۸
۶۷؎
النّحل : ۵۹
۶۸؎
القیامۃ : ۲۳

۶۹؎ لسان العرب المجلد الرّابع صفحہ۱۷۸ مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۸ء
۷۰؎ عبس : ۳۹ ، ۴۰ ۷۱؎ الغاشیۃ : ۹
۷۲؎ اقرب الموارد۔ الجزء الثانی صفحہ۱۳۲۱۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۷۳؎ الواقعۃ : ۸۹ ، ۹۰
۷۴؎ لسان العرب المجلد الخامس صفحہ۳۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء
۷۵؎ الزمر : ۷۴ ۷۶؎ الدھر : ۱۶
۷۷؎ الواقعۃ : ۱۶ ، ۱۷ ۷۸؎ الغاشیۃ : ۱۴ تا ۱۷ ۷۹؎ الانعام : ۱۲۸
۸۰؎ الحج : ۳۹ تا ۴۱ ۸۱؎ الفرقان : ۵۱ تا ۵۴ ۸۲؎ الرحمٰن : ۲۰ ، ۲۱
۸۳؎ الزخرف : ۷۲ ۸۴؎ النّحل : ۳۲

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
دیباچہ
برادران! السَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتَہٗ
سیرِر وحانی جومیرے کچھ لیکچروں کا مجموعہ ہے جس کی غرض وغایت کتاب میںمذکور ہے جس کی جلد اول کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۵۴ء میں شائع ہو چکا ہے اور جس میں ۱۹۳۸ئ، ۱۹۴۰ء اور ۱۹۴۱ء کے لیکچر اکٹھے کر دئیے گئے ہیں اب اِس کی دوسری جلد شائع کی جا رہی ہے اور اس میں ۱۹۴۸ئ، ۱۹۵۰ء اور ۱۹۵۱ء کے لیکچر شامل کر دئیے گئے ہیں اگلے لیکچروں کے متعلق نہیں کہہ سکتے کہ دو جلدوں میں شائع ہوں گے یا ایک جلد میں، اگر ۱۹۵۶ء کے جلسہ میں یہ مضمون مکمل ہو گیا تو اُس وقت معلوم ہو گا کہ آیا کتاب کے دو حصے کرنے ضروری ہیں یا ایک حصہ کافی ہے، حصہ دوم بھی اور اس کے اگلے حصے بھی ایسے مضامین پر مشتمل ہیں جو قرآن کریم کی خوبیوں کا شاندار نقشہ کھینچتے ہیںاور اسلام سے محبت رکھنے والے ہر شخص کو ان کا مطالعہ کرنا چاہئے، اللہ تعالیٰ جلد ان کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے۔
میںاس کتاب کو مریم صدیقہ کے نام معنون کرتا ہوں ، کیونکہ انہی کو حیدرآباد دکھانے کے لئے یہ سفر اختیار کیا گیا تھا جس میںیہ مضمون خداتعالیٰ کے فضل سے کھلا ہے گو اس سفر میں میری ہمشیرہ عزیزہ مبارکہ بیگم بھی ساتھ تھیں اور میری لڑکی عزیزہ امتہ القیوم بیگم بھی ساتھ تھی، مگر اصل میںیہ سفر مریم صدِیقہ کو ہی حیدر آباد دکھانے کے لئے اختیار کیا گیا تھا جہاں ان کے بہت سے رشتہ دار ہیں ۔ چونکہ میں چاہتا ہوں کہ اس کتاب کا ثواب ہمیشہ ان کو پہنچتا رہے زندگی میں بھی اور زندگی کے بعد بھی اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مرنے والے تک صدقہ اور دُعا ہی پہنچتے ہیں اس لئے اس کتاب کا سارا خرچ میں مریم صدیقہ کی طرف سے دونگا تا کہ جو لوگ اس کتاب کو پڑھ کر فائدہ اُٹھائیں وہ ان کے لئے دعا کریں اورجتنی جِلدیں مُفت شائع کی جائیں ان کے صدقہ کا ثواب ان کوتا ابد پہنچے۔
پس میں شرکتِ اسلامیہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ چونکہ اس کی طباعت کا سب خرچ میں مریم صدیقہ کی طرف سے دُونگا، تمام کتب میں سے دو سَو کتابیں غریب مستحقین کو ۸/۱ قیمت پر دیں اور ایسے لوگوں کو دی جائیں جو اس دیباچہ کے پڑھنے اور پڑھوانے کا اور دُعا کا وعدہ کریں اور پانچ سَو کتاب نصف قیمت پر مستحقین کوتقسیم کریںاور باقی کتابوں کی جو قیمت آئے اور جو سب کتابوں کا نفع آئے، اُس کا نام مریم صدیقہ فنڈ رکھ کر ہمیشہ ہمیش کے لئے اسلا می لٹریچر شائع کرتے جائیں اور اس صدقہ جاریہ کو عملاً جاری رکھا جائے۔

مرزا محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
۱۷؍اپریل ۱۹۵۶ء







بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ اْلکَرِیْمِ

سیرِ روحانی (۴)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ مارچ ۱۹۴۸ء بمقام لاہور)
عالَمِ روحانی کا بلند ترین مینار
یا
مقامِ محمدیت
تشہّد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
میری آج کی تقریر کاموضوع ’’سیرِروحانی‘‘ ہے یہ میری اِس مضمون کی تقریروں کا چوتھا نمبر ہے۔ ان تقریروں کا محرک میراایک سفر ہؤا تھا جو مَیں نے ۱۹۳۸ء میںکیا میںاس سال پہلے سندھ گیا وہاں سے کراچی، کراچی سے بمبئی اور بمبئی سے حیدر آباد کاسفر کیا۔ہر جگہ کے دوستوں نے مجھے وہاں کی اہم اور قابلِ دید جگہیں دکھانے پراصرارکیا اور چونکہ میری ایک بیوی، بیٹی اور ہمشیرہ بھی ساتھ تھیں، اس لئے مَیں نے ضروری سمجھا کہ یہ قدیم آثار خود بھی دیکھوں اور ان کو بھی دکھائوں، خصوصاً حیدرآباد، آگرہ اور دلّی کے پُرانے آثار دیکھنے کا ہمیں موقع ملا۔ جب ہم دلّی پہنچے تو ہم غیاث الدین تغلق کا قلعہ دیکھنے کے لئے گئے یہ قلعہ ایک اونچی جگہ پر واقع ہے اور ٹوٹا ہؤا ہے ، لیکن سیڑھیاں قائم ہیں میری ایک بیوی اور لڑکی اس قلعہ کے اوپر چڑھ گئیں۔ میںاُس وقت نیچے ہی تھا اوپر چڑھ کر انہوں نے مجھے کہا کہ یہاں بڑا اچھا نظارہ ہے، ساری دلّی اس قلعہ پر سے نظر آ رہی ہے آپ بھی آئیں اور اس نظارہ سے لُطف اندوز ہوں۔ میرا سر چونکہ اونچائی پر چڑھنے سے چکرانے لگتا ہے اس لئے پہلے تو مَیں نے انکار کیا، لیکن پھر ان کے اصرار پر مَیں بھی اوپر چڑھ گیا اور مَیں نے دیکھا کہ واقعہ میںوہ ایک عجیب نظارہ تھا ۔ ساری دلّی نظر آ رہی تھی اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے ایک فلم آنکھوں کے سامنے پِھر رہی ہو، نہ صرف نئی اور پُرانی دلّی بلکہ اس کے قلعے، مزار ، لاٹیںاور مسجدیں سب آنکھوں کے سامنے تھیں اور ایک ہی وقت دلّی کے یہ پُرانے آثار تاریخی شواہد کومیرے سامنے پیش کر رہے تھے۔
مَیں نے ان آثار کو دیکھا اور اپنے دل میں کہا کہ ان میں سے ہر چیز ایسی ہے جس کی کسی نہ کسی خاندان سے یا کسی نہ کسی قوم یامذہب سے نسبت ہے۔یہ آثار اِن قوموں کے لئے فخر کا موجب تھے، لیکن آج وہ قومیں مٹ چکی ہیںاور ان آثار کو بنانے والوں کانام ونشان بھی نہیںپایا جاتا، بلکہ بعض جگہوں پر تو اُن کا دشمن قابض ہے اور وہ قومیں جنہوں نے یہ یادگاریں قائم کی تھیں محکومیت اور ذلّت کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔یہ ایک عبرت کی بات تھی جو میرے دل میںپیدا ہوئی اور مَیںسوچتے سوچتے انہی خیالات کی رَو میں کھو یا گیا اور میری توجہ ان یادگاروں پر مرکوز ہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد مجھے پیچھے سے آواز آئی کہ اب آجائیں بہت دیر ہو گئی ہے، لیکن میرے خیالات کی رَو میرے قابو سے باہر تھی۔ مَیں نے اُس وقت سوچا اور غور کیا کہ یہ مادی آثار جو دنیا میں اپنی یادگاریں قائم کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں، کیا ان کے مقابلہ میں ہمارے خدا نے بھی کچھ آثار بنائے ہیں؟ اور اگر بنائے ہیں تو ان خدائی آثار اور یادگاروں کی کیاکیفیت ہے اور یہ مادی آثار ان کے سامنے کیا حقیقت رکھتے ہیں؟ مَیں نے سوچنا شروع کیا کہ جن لوگوں نے یہ قلعے بنائے اور دنیا کے سامنے اپنی طاقت اور قوت کا مظاہرہ کیا ، کیا اس کے مقابلہ میںہمارے خدا نے بھی کوئی قلعہ بنایا ہے ۔یا جن لوگوں نے دنیا میں بڑے بڑے مینار بنائے ہیں کیا ان کے مقابلہ میں خداتعالیٰ نے بھی کوئی مینار قائم کیا ہے۔ اسی طرح دنیوی مینابازاروں کے مقابلہ میں کیا خداتعالیٰ نے بھی کوئی مینا بازار بنایا ہے یا دُنیوی دیوانِ عام اور دُنیوی دیوانِ خاص جو بادشاہوں نے بنائے