• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

مضامین بشیر ۔ جلد 2

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
مضامین بشیر ۔ جلد 2

.6
پیش لفظ
.6
رسول اﷲﷺنے آخری زمانہ میں ایمان کے ثریا پراُٹھ جانے کے بعد از سر نو رجال فارس کے ذریعہ اس کے قائم ہونے کی پیشگوئی فرمائی تھی۔ چنانچہ رجل فارس حضرت مسیح موعود ؑ کی مبشر اولاد نے اس الٰہی تقدیر کے مطابق غیر معمولی دینی و علمی کارنامے انجام دینے کی توفیق پائی۔
قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی انہی بابرکت وجودوں میں سے ایک تھے۔آپ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کو الہام ’’نبیوں کا چاند آئے گااور تیرا کام بن جائے گا‘‘ بڑی شان سے پورا ہوا اورحضرت مرزا بشیر احمد صاحب کوحضرت مسیح موعودؑ کے مقصد اور مشن کی تکمیل کے لئے اپنی پوری زندگی وقف کر دینے کی توفیق ملی ۔
بچپن میں ایک دفعہ حضرت میاں صاحب کی آنکھیں خراب ہو کر پلکیں گر گئیں تو حضرت مسیح موعودؑکو یہ الہام ہوا بَرَّق طِفْلی بَشِیِرٌ۔جس کے ایک ہفتہ بعدہی اﷲ تعالیٰ نے آپ کو ایسی شفا دی کہ آنکھیں بالکل تندرست ہو گئیں۔
بَرَّ قَکے لغوی معنے وسعت بصیرت اور روشن نظر ہونے کے بھی ہیں۔اس لحاظ سے بھی اﷲ تعالیٰ نے صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو عظیم الشان ذہنی و علمی استعدادوںسے نوازاتھا۔جس کا اظہارہمیشہ آپ کے قلم اور تحریرات کے ذریعہ 1913ء سے1963ء تا دم وفات خوب ہوتا رہا۔آپ کا عظیم شاہکار ’’سیرت خاتم النبیین‘‘ کی شاندار محققانہ تصنیف ہے۔ اس کے علاوہ آپ نے اپنی گہری بصیرت اورخدا داد صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوتے اہم مسائل پر کئی عام فہم اور مدلل علمی و دینی کتب تالیف فرمائیں جن میںسلسلہ احمدیہ، ہمارا خدا،تبلیغ ہدایت، سیرت المہدی،چالیس جواہر پارے ، ختم نبوت کی حقیقت،حجۃالبالغہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں،اسی طرح آپ جماعت ،یا ملک و قوم کوپیش آمدہ ہر اہم علمی یا عملی مسئلہ اور نازک موڑ پر اپنے قلم کو جنبش میں لائے اورمفاد سلسلہ میں متفرق موضوعات پرجماعت کی اخلاقی و روحانی تربیت اورازدیاد ایمان کے سامان کرتے رہے۔ ان تاریخی،سیاسی و مذہبی موضوعات کا تنوع ان کی دلچسپی اور شان کو اور بھی بڑھا دیتا ہے۔
یہ علمی خزانہ سلسلہ کے متفرق اخبارات و رسائل میں بکھراپڑا تھا جہاں عام آدمی کی رسائی نہیں تھی۔اﷲ تعالیٰ بہت جزا دے مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب سابق صدر انصار اﷲ پاکستان کوجنہوں نے اپنے دور صدارت میں جہاں دیگر نایاب مفید کتب سلسلہ کی اشاعت کروائی وہاں پہلی دفعہ مضامین بشیر جلد اوّل مرتبہ مرزا عدیل احمد صاحب نائب مشیر قانونی 2007ء میں منصہ شہود پر آئی۔جس میں 1913ء سے1945ء تک حضرت میاں صاحب کے جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے مضامین اور تحریرات کو یکجا کر دیا گیا۔یہ کتاب بہت جلدہاتھوں ہاتھ نکل گئی۔ اوراسے اب دوبارہ شائع کرنے کی ضرورت ہے ۔دوریں اثناء مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے زیر نگرانی 1946ء سے 1950ء تک حضرت میاں صاحب کی تحریرات کو بھی اکٹھا کروانے کا اہتمام فرمایا ہے۔مکرم عبدالمالک صاحب کارکن خلافت لائبریری نے اس کام میں معاونت کی توفیق پائی۔فجزاہ احسن الجزاء یوں اس کتاب مضامین بشیر جلد دوم احباب جماعت کے افادئہ عام کے لئے شائع کیا جارہا ہے۔اس جلد کے متنوع مضامین میںاولوالامر کی اطاعت سے مراد، اسلامی پردہ، مساوات اسلامی نماز میں پریشان خیالی کا علاج،اسلامی سزاؤں کا فلسفہ ،مسئلہ تقدیر ،عورت کا نشوز اور مرد کا حق تا دیب ،زندگی کے بیمہ کے بارہ میں اسلامی نظریہ،ابلیس کا گمراہ کن وجود،حضرت امام حسن کی شادیاں اور طلاقیں ، سیرت حضرت خلیفہ اوّل ایسے دلچسپ اور مفید تاریخی و علمی اور اخلاقی و تربیتی موضوعات شامل ہیں۔انشاء اﷲ یہ کتاب جماعتی لٹریچر میں عمدہ اور مفید اضافہ ہو گی۔ اﷲ تعالیٰ حضرت میاں صاحب کے درجات ہمیشہ بلند فرماتا رہے اور آپ کی یہ تحریرات نافع الناس ہوں۔ آمین
والسلام
خاکسار
صدر مجلس انصار اﷲ پاکستان
.6
۱۹۴۶ء
.6
الیکشن کے تعلق میں ایک نہایت ضروری جلسہ
.6
.6چونکہ تحصیل بٹالہ کی الیکشن کا وقت قریب آرہا ہے۔ اس لئے مقامی دوستوں کو حالات بتانے اور الیکشن کی اہمیت کا احساس پیدا کرانے اور آنے والی جدوجہد کے لئے تیار کرنے کے لئے ایک پبلک جلسہ بتاریخ .6۱۸.6 جنوری بروز جمعہ بعد نماز مغرب مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوگا۔ قادیان کے مختلف محلہ جات کے دوستوں کو چاہیئے کہ اس جلسہ میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوکر اس اہم قومی کام میں حصہ لیں۔ انشاء اللہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزندعلی صاحب اور مولوی ابوالعطاء صاحب اور بعض دوسرے اصحاب تقریریں کریں گے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۱۸ ؍جنوری ۱۹۴۶ئ)
تحصیل بٹالہ کے ووٹران کے لئے
حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ
کا ضروری پیغام
.6
.6میں امید کرتا ہوں کہ وہ تمام احباب جن پر میری بات کا کوئی اثر ہوسکتا ہے تکلیف اٹھاکر بھی اور قربانی کرکے بھی آنے والے چند دنوں میں چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے حق میں پراپیگنڈا کریں گے۔ اور جب ووٹ کا وقت آئے گا تو کسی قربانی سے بھی دریغ نہ کرتے ہوئے اپنے مقررہ حلقہ میں پہنچ کر ان کے حق میں ووٹ دیں گے۔ .6 .6 والسلام
.6 .6خاکسار
.6 .6 مرزا محمود احمد
.6نوٹ.6:- تحصیل بٹالہ کے حلقہ میں مختلف پولنگ سٹیشنوں پر غالباً یکم فروری .6۱۹۴۶.6ء سے لے کر
.6۱۴.6 فروری تک پولنگ ہوگا۔ اور قادیان کے پولنگ سٹیشن پر غالباً یکم فروری سے سات فروری تک پولنگ ہوگا۔ تفصیل معلوم ہونے پر بعد میں شائع کی جائے گا۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۲۱ ؍جنوری ۱۹۴۶ئ)
.6
قادیان کا پولنگ پروگرام
.6
.6حلقہ مسلم تحصیل بٹالہ کے ووٹروں کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ قادیان کے ووٹروں کا پولنگ مردوں کے واسطے .6۲.6 فروری و.6۴.6 فروری و.6۵.6 فروری .6۱۹۴۶.6ء مقرر ہوا ہے۔ اور عورتوں کے واسطے .6۵.6فروری و.6۶.6 فروری و .6۷.6 فروری.6۱۹۴۶.6ء مقرر ہوا ہے۔ یہ تاریخیں صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جن کا ووٹ قادیان میں درج ہے۔ تحصیل بٹالہ کے باقی ووٹروں کے لئے دوسری تاریخیں مقرر ہیں۔ قادیان کے مردووٹروں کو یکم فروری .6۱۹۴۶.6ء کی شام تک قادیان پہنچ جانا چاہیئے اور مستورات کو .6۴.6 فروری کی شام تک۔ مرد اور عورتوں کے لئے جو تین تین دن مقرر ہیں اس سے یہ مراد نہیں کہ وہ ان تین دنوں میں سے جس دن چاہیں ووٹ دے سکتے ہیں۔ بلکہ ہر دن کے لئے سرکاری طور پر علیحدہ علیحدہ ووٹرمختص کردیئے گئے ہیں۔ جن کی تفصیل کی اس جگہ گنجائش نہیں۔ پس پولنگ سے ایک دن قبل قادیان پہنچ جانا ضروری ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۲۳ ؍جنوری۱۹۴۶ئ)
چوہدری فتح محمد صاحب سیال پنجاب اسمبلی کے ممبر منتخب ہوگئے
میاں بدرمحی الدین صاحب کے مقابلہ میں ۶۱۵ اور سیّد بہاء الدین۔صاحب کے مقابلہ میں ۲۱۰۳ کی اکثریت
.6
.6قادیان .6۲۱.6 فروری۔ آج ڈپٹی کمشنر صاحب گورداسپور کے دفتر میں حلقہ مسلم تحصیل بٹالہ کی پرچیوں کی سرکاری گنتی ہوگئی او رچوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔اے کی کامیابی کا اعلان کردیا گیاہے۔.6 فالحمد للّٰہ علیٰ ذالک۔.6 ووٹوں کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
.6چوہدری فتح محمد صاحب سیال.6 .6 .6۶۲۶۶
.6میاں بدرمحی الدین صاحب.6 .6 .6۵۶۵۱
.6سید بہاء الدین صاحب.6 .6 .6۴۱۶۳
.6سب سے پہلے میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے ہمیں انتہائی مشکلات میں کامیابی عطا فرمائی اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو ان فرائض کے کما حقہ ادا کرنے کی توفیق عطا کرے ،جو پنجاب اسمبلی کے ممبر ہونے کی حیثیت میںان پر عائد ہوتے ہیں۔ وہ اس حلقہ کے سچے نمائندہ ثابت ہوں اور ملک وملت کی حقیقی خدمت سرانجام دے سکیں۔ آمین
.6اس کے بعد گزشتہ ایام میں جن احمدیوں نے چوہدری صاحب موصوف کوکامیاب بنانے میںکسی نہ کسی رنگ میں کام کیا ہے اور یہ کام میرے علم میں بہت بھاری ہے، ان کا اجر خدا کے پاس ہے اور مجھے اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ ایک قومی فرض تھا جو انہوں نے ادا کیا ہے۔.6 فجزاھم اللّٰہ خیراًوشکر سعیھم.6 مگر میں اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ ان کثیر التعداد غیراحمدی مسلمانوں اور سکھ اور ہندو اصحاب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اپنے آپ کو کئی قسم کے خطرات میں ڈالتے ہوئے اس الیکشن میں ہماری امداد کی اور چوہدری فتح محمد صاحب کو کامیاب بنانے میں شب وروز حصہ لیا۔ وہ انشاء اللہ ہمیں ناشکرگزار نہیں پائیں گے۔ .6وماتوفیقنا الا باللّٰہ العظیم وجزاھم اللّٰہ خیراً.6۔ باقی رہا وہ طبقہ جنہوںنے ہماری مخالفت کی ہے سو ان میں سے جن لوگوں نے نیک نیتی کے ساتھ ایسا کیا ہے ان سے ہمیں کوئی گلہ نہیں کیونکہ نیک نیتی کا اختلاف قابل ملامت نہیں بلکہ قابل قدر ہوتا ہے۔ ہاں ہم امید کرتے ہیں کہ یہ لوگ بھی چوہدری صاحب موصوف کی ممبری کے عملی تجربہ کے نتیجہ میں اپنی رائے میں تبدیلی کرکے آئندہ الیکشن میں ہمارے ساتھ ہوں گے۔ کیونکہ یہ ایک سیاسی معاملہ ہے جس میں مذہبی عقائد کا اختلاف کسی عقلمند کے نزدیک روک کا باعث نہیں ہونا چاہیئے۔
.6بالآخر میں مکرم چوہدری فتح محمد صاحب کو اس کامیابی پر مبارکباد دیتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ سے ان کے لئے بہتری کی دعا کرتے ہوئے یہ مشورہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ ممبری ان کے لئے دہری امانت ہے۔ وہ امانت ہے خدا کی جس کے سامنے وہ اپنے اعمال کے جوابدہ ہیں اور وہ امانت ہے اس حلقہ کے مسلمانوں کی جن کے نمائندہ بن کر وہ اسمبلی میں جارہے ہیں۔ پس انہیں ان دونوں امانتوں کو پوری پوری دیانتداری اور وفاداری کے ساتھ ادا کرنا چاہیئے۔ خدا کی امانت تو زیادہ تر دل کی نیت اور جذبات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ مگر لوگوں کی امانت کے لئے ان کا پہلا فرض یہ ہے کہ گاہے گاہے علاقہ کا دورہ کرکے لوگوں کی ضرورت اور مشکلات کا علم حاصل کرتے رہیں اور پھر اسمبلی میں ان کے حقوق کی پوری پوری حفاظت کریں۔ نیز انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ وہ صرف انہی لوگوں کے نمائندہ نہیں ہیں جنہوں نے ان کے حق میں ووٹ دیئے ہیں بلکہ ممبر ہوجانے کے بعد وہ ان لوگوں کے بھی نمائندہ ہیں جو الیکشن میں ان کے مخالف رہے ہیں۔ پس گو طبعاً ان کی دلی محبت اپنے ان مویدّین کے ساتھ زیادہ ہوگی جنہوں نے مشکل کے وقت میں ان کا ساتھ دیا ہے۔ مگر جہاں تک حقوق کا تعلق ہے انہیں اپنے مخالفین کے ساتھ بھی پوری طرح عدل وانصاف کا معاملہ کرنا چاہیئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور انہیں اپنے فرائض کی بہترین ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
.6
‎(مطبوعہ الفضل۲۲ ؍فروری۱۹۴۶ئ)
.
ڈسٹرکٹ بورڈ گورداسپور کا الیکشن
.6
.6احباب کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ ڈسٹرکٹ بورڈ گورداسپور کے آیندہ الیکشن کے متعلق ابھی تک کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوئی۔ لیکن غالباً آئندہ اکتوبر میں الیکشن ہوگا۔ اس کے لئے ووٹروں کی فہرست کی تیاری پٹواریوں کے سپرد ہوچکی ہے۔ جس کی آخری تاریخ .6۱۵.6 مارچ مقرر ہوئی ہے۔ رائے دہندگی کے لئے جن صفات کا ہونا ضروری ہے۔ وہ ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔ احباب کو چاہیئے کہ وہ پورے طورپر تسلی کرلیں اور نگرانی رکھیں کہ کسی ایسے دوست کا جو ووٹر بن سکتا ہو،نام فہرست میں درج ہونے سے رہ نہ جائے، صفات یہ ہیں:
.6(.6۱.6) مرد ہو۔ اور(.6۲.6) کم از کم .6۲۱.6سال کی عمر ہو۔ اور(.6۳.6) کسی عدالت نے اسے غیر صحیح الدماغ قرار نہ دیا ہو ۔ اور(.6۴.6) ذیلدار۔ سفید پوش یا نمبردار علاقہ ڈسٹرکٹ بورڈ میں ہو یا پانچ ہزار روپے سالانہ معاملہ سرکاری دیتا ہو۔ یا دس روپے کا معافیدار ہو۔ یا انہیں شرائط کا موروثی ہو۔یاانکم ٹیکس ادا کرتا ہو۔ یا ریٹائرڈ یا ڈسچارج شدہ فوجی ہو۔ یا دو روپے سالانہ حیثیتی ٹیکس دیتاہو۔ یا چھ ایکڑ چاہی یا نہری اراضی کا کاشتکار ہو۔ یا بارہ ایکڑ بارانی اراضی کا کاشتکار ہو۔ یا دوہزار کی مالیت کا مکان رکھتا ہو۔ یا پرائمری پاس ہو۔
.6مگر بہرصورت یہ ضروری ہے کہ ڈسٹرکٹ بورڈ کے علاقہ میں رہائش رکھتا ہو۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۲۸ ؍فروری۱۹۴۶ئ)

.6
انصار اللہ کا مقامِ ذمہ واری
سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ منعقد ہ ۲۵ دسمبر ۱۹۴۵ء
.6
.6حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تنظیم کی غرض سے جماعتِ احمدیہ کو تین قسم کے نظاموںمیں منقسم فرمایا ہے یعنی اول اطفال احمدیت کا نظام جو پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے ۔ دوسرے خدام الاحمدیہ کا نظام جو پندرہ سال سے لے کر چالیس سال تک کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اور تیسرے انصار اللہ کا نظام جو چالیس سال اور اس سے اوپر کے اصحاب پر مشتمل ہے۔ یہ تقسیم نہایت حکیمانہ رنگ میں فطری اصولوں کے مطابق کی گئی ہے۔ کیونکہ اگر ایک طرف ہمیں حدیث سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عموماً پندرہ سال سے کم عمر کے بچوں پر قومی جہاد کی شرکت کی ذمہ داری نہیں ڈالتے تھے تو دوسری طرف قرآن شریف ہمیں یہ بتاتا ہے کہ چالیس سال کی عمر انسانی قویٰ کے کامل نشوونما کی عمر ہے جبکہ انسان اپنی بعض مخصوص ذمہ واریوں کے ادا کرنے کی بہترین قابلیت پیدا کرتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
.6
.6.6….6 ۱
.6’’یعنی جب ایک نیک انسان اپنے نشوونما کی کامل پختگی کو پہنچ جاتا ہے اور چالیس سال کا ہوجاتا ہے تو پھر اس کے اندر سے ایک فطری آواز بلند ہوتی ہے کہ خدایا تو نے مجھ پر کتنی نعمتیں فرمائی ہیں کہ پہلے مجھے بہترین طاقتوں کے ساتھ پیدا کیا اور پھر ابتدائی عمر کے خطرات سے گذارکر پختگی کی عمر تک پہنچایا۔ سو اب مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری ان نعمتوں کا بہترین حق ادا کرسکوں۔ جو تونے مجھ پریا میرے والدین پر کی ہیںاور مجھے توفیق عطا کر کہ میں ایسے اعمال بجالائوں جو تیری رضا کا موجب ہوں۔‘‘
.6گویا چالیس سال کی عمر انسانی قویٰ کے کامل نشوونما کی عمر قراردی گئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انبیاء جن کے سپرد لوگوں کی اصلاح کا کام ہوتا ہے۔ عموماً اسی عمر میں مبعوث کئے جاتے ہیں۔ پس جماعت کی یہ تین حصوں والی تقسیم عین فطری اصولوں کے مطابق ہے۔ کیونکہ اطفال کی عمر تو وہ ہے کہ جب ان کی ذمہ داریوں کا بیشتر حصہ خود ان کی اپنی تربیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور باقی چیزیں صرف زائد اور ضمنی حیثیت رکھتی ہیں۔ اور انصار کی عمر وہ ہے کہ جب انسان کی ذمہ .6د.6اریوں کا غالب حصہ دوسروں کی اصلاح اور تربیت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ اور خدام کی عمر وہ ہے جو ان دوحدوں کے درمیان وسطی حصہ ہے۔ جہاں دونوں قسم کی ذمہ .6د.6اریاں گویا ہموزن طور پر ملی جلی رہتی ہیں۔ یعنی ایک طرف تو اپنی تربیت کا پروگرام ہوتا ہے اور دوسری طرف دوسروں کی اصلاح کا اور یہ دونوں پروگرام قریباً ایک جیسے ہی ضروری اوراہم ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہے کہ انصار اور خدام کا لائحہ عمل ایک دوسرے سے جدا ہے۔ اور گو کئی باتوں میں اشتراک بھی ہے۔ مگر دونوں کے کام کو ایک دوسرے پر کلی صورت میں قیاس نہیں کیا جاسکتا۔ اور ہمارا فرض ہے کہ ہم انصار اللہ کا پروگرام اس داغ بیل پر قائم کریں جو ان کے دائرہ عمل کے مطابق ہو۔
.6دوسری بات جو انصار اللہ کے مقامِ ذمہ واری کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے وہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے جہاں کہیں بھی ’’انصاراللہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے وہاں اسے صرف جمالی نبیوں کے اصحاب کے تعلق میں استعمال کیا ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ قرآن شریف نے اس اصطلاح کو یا تو حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق استعمال کیا ہے اور یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق اور ان دونبیوں کے سوا کسی اور نبی کے صحابہ کے لئے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی گئی۔ چنانچہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے :
.6.6 ۲
.6یعنی ’’جب.6 حضرت عیسیٰ ؑ نے اپنی مخاطب قوم بنی اسرائیل کی طرف سے کفر پر اصرار دیکھا تو ایک علیحدہ تنظیم کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے یہ اعلان فرمایا کہ اب میرے خدائی مشن میں کون میرا انصار بنتا ہے۔ جس پر حواریوں نے لبیک کہتے ہوئے کہا کہ ہم انصار اللہ بنتے ہیں۔ اور خدا کی آواز پر ایمان لاتے ہوئے آگے آتے ہیںاورآپ گواہ رہیں کہ ہم آپ کے ہاتھ پر فرمانبرداری کا عہد باندھتے ہیں۔‘‘
.6دوسری جگہ قرآن شریف میں انصاراللہ کے الفاظ سورہ صف میں آتے ہیں۔ جہاں حضرت عیسیٰ کی زبان سے ان کے مثیل احمد نامی رسول کی پیشگوئی کروائی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس مثیل مسیح کے ذریعہ اللہ تعالیٰ آخری زمانہ میں اسلام کو تمام ادیانِ عالم پر غالب کرکے دکھائے گا۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
.6.6.6.6۳
.6یعنی’’اے وہ مسلمانو جو محمدی مسیح کا زمانہ پانے والے ہو۔ تم دین حق کی خدمت میں انصاراللہ بن جائو جس طرح کہ موسوی مسیح نے اپنے حواریوں سے کہا تھا کہ میرے خدائی مشن میں کون میرا انصار بنتا ہے۔ اور اس پر حواریوں نے جواب دیا تھا کہ ہم انصار اللہ بنتے ہیں۔ اور مسیح ناصری کی اس ندا کے نتیجہ میں بنی اسرائیل کا ایک فرقہ ایمان لے آیا اورایک فرقہ کافرہوگیا۔ جس پر ہم نے کافروں کے خلاف مومنوں کی مدد فرمائی اور وہ اس مقابلہ میں کھلے طور پر غالب آگئے۔‘‘
.6ان دو حوالوں میں دونوں مسیحوں کے حواریوں کو انصاراللہ کہا گیا ہے۔ اور ان دوموقعوں کے سوا قرآن شریف نے ’’انصاراللہ‘‘ کی اصطلاح اس مرکب صورت میں کسی اور جگہ استعمال نہیں کی۔ جس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس اصطلاح کو اپنے دو عظیم الشان جمالی نبیوں یعنی مسیح موسوی اور مسیح محمدی کے صحابہ کے لئے مخصوص فرمادیا ہے۔ مگر جیسا کہ آیات کے الفاظ سے ظاہر ہے ،خدا تعالیٰ نے مسیح محمدی کے لئے یہ امتیاز مقرر کیا ہے کہ جہاں مسیح ناصری کے معاملہ میں انصار اللہ بننے کی تحریک مسیح کی زبان سے پیش کی گئی ہے۔ وہاں مسیح محمدی کے معاملہ میں یہ تحریک خود ذات باری تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جس میں یہ اشارہ مقصود ہے کہ یہ تحریک خدا کی خاص نصرت اور برکت سے حصہ پائے گی۔
.6بہرحال قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ انصار اللہ کی اصطلاح خدا تعالیٰ کی نظر میں انبیاء کے جمالی ظہور کے ساتھ مخصوص تعلق رکھتی ہے اور چونکہ جمال کے ساتھ دین حق کی ایسی تشریح وتبلیغ وابستہ ہے جو ایک پیہم اور مسلسل کوشش کی صورت میں دلائل وبراہین کے ذریعہ کی جائے۔ اس لئے انصار اللہ کا اصل کام جمالی رنگ میں ’’تبلیغ‘‘ اور ’’تربیت‘‘ کے دو لفظوں میں محصور ہوجاتا ہے۔ اور چونکہ تبلیغ وتربیت کا کام ایک طرف تنظیم کو چاہتا ہے۔ اور دوسری طرف مالی قربانی کو۔ اس لئے ہمارے کام کے یہ چار ستون قرار پاتے ہیں:
.6اوّل:تبلیغ، دوم: تعلیم وتربیت، سوم : تنظیم اور چہارم ۔کام کے واسطے روپے کی فراہمی اور ظاہر ہے کہ جہاں یہ چار چیزیں بصورت احسن میسر آجائیں.6،.6 وہاں کوئی دنیوی طاقت کسی جماعت کی ترقی کے رستہ میں روک نہیں بن سکتی۔ اور.6 .6.6 .6کا وعدہ پورا ہوکر رہتا ہے۔
.6مسیح محمدی کے کام کی یہی صورت اللہ تعالیٰ نے ایک خوبصورت تمثیل کے ذریعہ سورہ کہف میں .6بھی بیان فرمائی ہے۔ جہاں ذوالقرنین کا ذکر کرکے اور اس کے حالات کو روحانی رنگ میں حضرت .6مسیح موعود علیہ السلام پر چسپاں کرکے فرماتا ہے:
.6.6۴
.6’’یعنی مسیح موعود اپنے صحابہ سے کہے گا کہ میرے پاس تبلیغ کے ذریعہ لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لائو۔ کیونکہ میری طرف آنے سے وہ گویا آہنی اینٹیں بن جائیں گے۔جن کے ذریعہ میں کفر وایمان کے درمیان ایک بلند دیوار چُن دوںگا۔ اور پھر جب وہ مسیح محمدی کے انفاس قدسیہ کی گرمی سے مناسب درجۂ حرارت کو پہونچ جائیں گے۔ تو مسیح ان سے فرمائے گا کہ اب اس آہنی دیوار کو مضبوط کرنے کے لئے پگھلے ہوئے تانبے (یعنی روپے پیسے) کی بھی ضرورت ہے۔ وہ لائو تا میں ا س کے ذریعہ اس دیوار کے رخنوں کو بند کرکے اسے ایک غالب رہنے والی چیز بنادوں۔‘‘
.6اس لطیف تمثیل میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام چیزیں یکجا بیان فرمادی ہیں جو دوسری آیات سے استدلال کرکے اوپر درج کی گئی ہیں۔ یعنی .6.6میں تبلیغ کی طرف ارشاد ہے اور .6.6 .6اور.6 .6.6 میں تعلیم وتربیت کی طرف اشارہ ہے۔ اور.6 .6.6.6 میں مالی قربانیوں کی طرف اشارہ ہے اور یہ سارے کام مسیح موعودؑ اور آپ کی جماعت کے ذریعہ انجام پانے مقدر ہیں۔
.6اب دوست خود غور فرمائیں کہ انصار اللہ کے سر پر کتنی بھاری ذمہ داری کا بوجھ ہے اور جب تک وہ .6اس ذمہ داری کو ادا کرنے میں دن رات مستغرق نہ رہیں۔ اور اسے اپنی زندگیوں کا مقصد نہ قرار دے .6لیں۔ اس وقت تک وہ اس خدائی وعدہ کا مُنہ نہیں دیکھ سکتے۔ جو.6 .6.6ٖ۔۔۔ ۵ .6کے شاندار الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ اور جو بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ پورا ہوکر رہے گا۔ گویہ علم صرف خدا کو حاصل ہے کہ ہم میں سے کون.6 زبرالحدید.6کا رنگ اختیار کرچکا ہے اور کون نہیں اور کس پر خدائی دیوار میں چنے جانے کے لئے فرشتوں کا ہاتھ پڑچکا ہے اور کس پر نہیں اور کس کے رخنے پگھلے ہوئے تانبے کے ذریعہ بھرے جاچکے ہیں اور کس کے نہیں۔ کام خدا کا ہے اورہم نے صرف اپنے آپ کو خدا کے سانچے میں ڈھال کر اس کے سپرد کردینا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ؎
.6بمفت اِیں اجرِ نصرت را، دہندت اے اخی ورنہ
.6قضائے آسمانَ ست اِیں، بہرحالت شود پیدا ۶
.6پس میں دوستوں سے اپیل کروں گا کہ انصار اللہ کے مقدس کام کو ان چار ستونوں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں جو میں نے قرآن شریف سے استدلال کرکے اوپر بیان کئے ہیں۔ یعنی (.6۱.6) تبلیغ (.6۲.6)تعلیم وتربیت (.6۳.6) تنظیم اور (.6۴.6) مالی قربانی۔ اگر وہ ان چار پہلوئوں سے اپنے نظام کو پختہ کرلیںتو ان کے قلعہ کی چاردیواری مکمل ہوجائے گی اورپھر انہیں خدا کے فضل سے کسی مخالف طاقت کا خطرہ نہیں رہے گا۔ بلکہ ہر مخالف طاقت ان کے سامنے مغلوب ہوکر ان کی غلامی کو اپنے لئے باعثِ فخر خیال کرے گی۔ اے خدا تو اپنی ذرّہ نوازی سے ایسا فضل فرما کہ قبل اس کے کہ ہم اس دنیا کی زندگی کو پورا کرکے تیرے دربار میں حاضر ہوں۔ ہمیں تیرے حضور میں وہ مقام حاصل ہوچکا ہو جو تونے صحابہ کرامؓ کی مقدس جماعت کے متعلق ان پیارے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ :-.6رضی اﷲ عنھم ورضواعنہ .6۔.6اے خدا تو ایسا ہی کر۔آمین
.6واٰخردعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العٰلمین
.6
‎(مطبوعہ الفضل۱۳؍ اپریل ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
ہندوستان کی سیاسی الجھن
رات کی بے خوابی میں بستر پر کا تخیّل
.6
.6چند دن ہوئے ایک رات مجھے درد نقرس کی زیادہ تکلیف محسوس ہورہی تھی جس کے ساتھ کافی بے چینی بھی تھی اور میں ایک منٹ کے لئے بھی سو نہیں سکا۔ پہلے تو میں بستر میں پڑے پڑے آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن جب اس کوشش میں ناکام رہا تو میں نے پاس کی میز پر سے ایک اٹلس اٹھائی اور ہندوستان کا نقشہ سامنے رکھ کر ہندوستان کی موجودہ سیاسی الجھن کے متعلق غور کرنے لگا۔ اس سوچ نے شروع میں تو میری جسمانی بے چینی کے ساتھ ساتھ دماغی بے چینی کا بھی اضافہ کردیا۔ مگر بالآخر میں اس نئے مشغلہ میں ایسا کھویا گیا کہ نقرس کی تکلیف عملاً بھول گئی اور میں ایک ناخواندہ سیاستدان کے طور پر (ناخواندہ اس لئے کہ سیاسیات کا مضمون کبھی بھی میری خاص سٹڈی نہیں ہؤا بلکہ میںنے اسے اکثر مذہبی توجہ میں انتشار کا موجب پایا ہے۔ سوائے اس کے کہ سیاسیات کا کوئی حصہ براہ راست مذہب پر اثر انداز ہوتا ہو) ہندوستان کی موجودہ سیاسی الجھن کے متعلق مختلف قسم کے حل سوچنے لگا۔ میں اپنے اس رات کے افکار کو ذیل کے چند مختصر فقروں میں سپردقلم کرتا ہوں مگر یاد رہے کہ یہ تخیلات میرے ذاتی ہیں، انہیں لازماً ہرتفصیل میں جماعت کی طرف منسوب نہ کیا جائے۔
.6(.6۱.6) سب سے پہلے میں نے خیال کیا کہ ہماری جماعت ایک مذہبی اور تبلیغی جماعت ہے اور گو خدا کے فضل سے اس کے ہاتھ پر ہر قسم کی فتوحات مقدر ہیں۔ مگر کم از کم شروع میں ہماری فتوحات کا رستہ نوّے فیصدی تبلیغ کے میدان سے ہوکر گزرتا ہے۔ پس ہمارا سب سے پہلا اور مقدم فرض یہ ہے کہ مستقبل کے ہندوستان میں مذہبی آزادی کے دروازہ کو زیادہ سے زیادہ کھلا کرنے کی کوشش کریں۔ اور اس کے لئے تین باتیں ضروری ہیں:-
.6(الف) ضمیر کی آزادی یعنی انسان جو مذہب بھی اپنے لئے پسند کرے۔اسے اس کا کھلم کھلا اعتراف کرنے کی آزادی حاصل ہو۔ (ب) .6مافی الضمیر.6 کے اظہار کی آزادی یعنی ہر انسان کو اپنے مذہبی خیالات کو دوسروں تک پہنچانے اور تقریروتحریر کے ذریعہ اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہو اور (ج) .6مافی الضمیر.6 کے بدلنے کی آزادی یعنی اگر کوئی انسان اپنے ذاتی مطالعہ یا کسی دوسرے شخص کی تبلیغ کے نتیجہ میں اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہے تو اسے اس کا اختیار ہواور اس اختیار میں اس کے اپنے نابالغ بچے یا ایسے نابالغ عزیز جن کے اخراجات کا وہ متحمل ہے شامل سمجھے جائیں۔ یہ تینوں چیزیں انسانی ضمیر کی آزادی کا لازمی حصہ ہیںاور ہندوستان کے آئندہ دستور اساسی میں صراحت اور تفصیل کے ساتھ شامل ہونی چاہئیں ورنہ خواہ ہندوستان کو پاکستان اور ہندوستان کی صورت میں آزادی ملے یا صرف اکھنڈ ہندوستان کی صورت میں اور خواہ برطانوی ہندوستان کا سوال ہو یا کہ ریاستی ہندوستان کا جب تک کہ غلامی کی اس بدترین صورت کو جو ضمیر کشی سے تعلق رکھتی ہے کچلا نہ جائے گا ہندوستان کو کبھی بھی حقیقی آزادی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اس وقت بظاہر یہ ایک مذہبی سوال سمجھا جاتا ہے مگر حق یہ ہے کہ اپنے بنیادی اصول کے لحاظ سے یہ سوال صرف مذہبی نہیں ہے بلکہ حریت انسانی کا پہلا مطالبہ ہے۔ جو اپنے آئندہ شاخسانوں کے لحاظ سے ہر قسم کی ذہنی نشوونما کے لئے ایک جیسا ضروری ہے۔ خواہ وہ مذہبی ہو یا علمی یا تمدنی۔ یہ خیال کرنا کہ مذہبی آزادی کے اصول کو اجمالی طور پر تسلیم کرلینے میں ساری بات خودبخود آجاتی ہے،ہر گز درست نہیں۔ ایسے امور میں اجمال کو دخل دینا فتنہ کا بیج بونا ہے۔ پس آئندہ دستور اساسی میں خواہ وہ سارے ہندوستان سے تعلق رکھنے والا ہویا اس کے ایسے حصوں کے ساتھ جن میں وہ آئندہ تقسیم کیا جائے۔ اوپر کی تینوں چیزیں (.6یعنی مذہب کی .6آزادی اور.6 .6تبلیغ مذہب کی آزادی اور تبدیلیٔ مذہب کی آزادی) صراحت اورتعیین کے ساتھ شامل ہونی چاہیئے۔ انگریزوں نے خواہ بقول شخصے دوسرے میدانوں میں ہندوستانیوں کا کتنا ہی گلا گھونٹا ہو مگر اس میں شبہ نہیں کہ مذہبی آزادی کے معاملہ میں انہوں نے قابل تعریف فراخدلی سے کام لیا ہے۔ اور ایک مذہبی جماعت کے لئے یہ سب سے بڑی چیز ہے۔ اس کے علاوہ اس جہت سے بھی ہندوستان کے لئے تبلیغ و تبدیلیٔ مذہب کا سوال اہم ہے کہ اس کے ذریعہ سے آئندہ چل کر ملک کے اتحاد بلکہ ملک کے اندر بسنے والی قوموں کے ایک ہوجانے کا رستہ کھلتا ہے جو دوسری صورت میں بالکل ناممکن ہوجائے گا۔
.6(.6۲.6) اس کے بعد میرا خیال مسلمانوں کے مطالبہ پاکستان کی طرف گیا جو آج کل ہندوستانی سیاست کا مرکزی نقطہ بناہوا ہے۔ میں نے خیال کیا کہ دراصل پاکستان کے تصور کی ذمہ .6د.6اری بڑی حدتک ہندوبھائیوں پر عائد ہوتی ہے۔ ہندوئوں نے کبھی بھی ٹھنڈے دل سے اس بات کو نہیں سوچا کہ خواہ ہندو مسلمان ایک ملک میں دوش بدوش رہتے ہیں اور اس لحاظ سے لازماً ان کا کئی باتوں میں اتحاد ہونا چاہیئے مگر مسلمانوں کا مذہب اورتمدن اور قومی ضروریات ہندوئوں سے اس قدر جدا ہیں کہ جب تک ان کے لئے ملک کے اندر ایک خاص حفاظتی ماحول جو ان کی قومی زندگی اور قومی ترقی کے لئے ضروری ہو ،پیدا نہ کیا جائے ان کا ملک میں آزاداورخوش اور تسلی یافتہ شہریوں کے طور پر زندگی گذارنا ناممکن ہے۔ نتیجہ یہ ہو اکہ گو شروع میں مسلمان پاکستان کی نسبت بہت تھوڑے مطالبہ پر راضی تھے وہ آہستہ آہستہ برادران وطن کے عملی رویہ کی وجہ سے اپنے مطالبہ میں سخت اور پھر سخت سے سخت تر ہوتے گئے اور اس کے ساتھ ان کا مطالبہ بھی دن بدن وسیع ہوتا گیا اور ہمارے ہندو بھائیوں نے اتنا بھی نہ سوچا کہ خود ان کا اپنا یہ حال ہے کہ آج سے سات سال پہلے جو کچھ وہ مسلمانوں کو دینے کے لئے تیار تھے وہ اس سے بہت کم تھا جو وہ آج دینے کو تیار ہیں۔ پھر کیا یہ دانشمندی کا طریق نہیں تھا کہ آج سے سات سال پہلے ہی وہ مسلمانوں کا اُس وقت کا مطالبہ مان کر انہیں خوش کردیتے۔ کیونکہ خوش اور تسلی یافتہ ہمسایہ اپنے ہمسایہ کے لئے طاقت اور سہارے کا باعث ہوتا ہے نہ کہ کمزوری اور خطرہ کا موجب۔ گو مثال مکمل نہیں مگر مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ یہ رنگ رکھتا ہے کہ کسی شخص کے دو عضووں کے باہمی جوڑ میں کوئی نقص پیدا ہوجائے اور اس پر کمزور عضو برسوں چِلّاتا رہے کہ اس نقص کا علاج کرکے اسے ٹھیک کرلو تامیری تکلیف دور ہو۔ مگر دوسرا عضو اس کی آہ وپکار پر توجہ نہ دے اور اس پر بالآخر کمزور عضو یہ فیصلہ کرے کہ جب جوڑ ٹھیک ہونے میں نہیں آتا تو چلو اب اسے کاٹ کر الگ ہی کر لیا جائے۔ تاجس طرح بعض درختوں کی کٹی ہوئی قلمیں زمین میں گاڑنے سے دوبارہ اگ آتی ہیں، شاید یہ کٹا ہوا عضوبھی علیحدہ ہوکر پنپنا شروع ہوجائے۔ پس میں نے خیال کیا کہ یہ پاکستان کا مطالبہ زیادہ تر خود ہندوئوں کا پیدا کیا ہواہے جو انہوں نے عدم فیاضی کی روح میں اپنی کاروباری ذہنیت کے ماتحت آہستہ آہستہ پیدا کردیا ہے ورنہ اس بات میں کس عقلمند کو شبہ ہوسکتا ہے کہ ایک وسیع اور قدرت کی رحمت کے ہاتھوں سے غیرمعمولی طور پر برکت یافتہ ملک جس کی زمین گویا معدنی اور زرعی اور پھر سب سے بڑھ کر انسانی پیداوار کا سونا اگلتی ہے،ٹکڑے ٹکڑے کرکے بکھیر دیا جائے۔ خدا اپنے فعل سے جو تار اور ٹیلی فون اور ٹیلی ویژن اور ریڈیو اور پھر ریل اور موٹر اور بحری جہاز اور ہوائی جہاز وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے، دنیا کو انتشار سے اتحاد کی طرف لارہا ہے۔ تو پھر یہ کس قدر افسوس اور بدقسمتی کی بات ہوگی کہ ہم آپس کے قابل حل مسائل کی وجہ سے اتحاد سے انتشار کی طرف قدم اٹھائیں۔
.6(.6۳.6) اس کے بعد میں مسلم لیگ کے مطالبہ پاکستان کی تفصیل میں چلا گیا۔ یعنی یہ سوچنے لگا کہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے یہ مطالبہ ہے کیا۔ سو ظاہری اور سادہ صورت میں تو پاکستان سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ ہندوستان کے وہ صوبے جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے(مثلاً پنجاب وبنگال) یا جن میں مسلمانوں کی اکثریت تو نہیں مگر کوئی دوسری مقامی قوم مسلمانوں کے ساتھ مل کر رہنا چاہتی ہے اور یہ دونوں مل کر اکثریت بن جاتے ہیں (یعنی آسام) انہیں آئندہ دستور اساسی میں جس میں ہندوستان کو آزادی اور خودمختاری ملنے والی ہے۔ ہندوستان کے باقی صوبوں سے علیحدہ اور مستقل حیثیت میں آزادی حاصل ہو .6تا.6کہ وہ کسی دوسری قوم کے ظاہری اور باطنی دبائو کے بغیر اپنی حکومت کو جس طرح چاہیں اپنی ضروریات کے مطابق آزادانہ رنگ میں چلاسکیں۔ اس طرح گویا ہندوستان کے شمال مغرب میں صوبہ پنجاب اور صوبہ سرحد اور صوبہ سندھ اور بلوچستان اور ہندوستان کے شمال مشرق میں صوبہ بنگال اور صوبہ آسام بقیہ ہندوستان سے الگ ہوجائیں گے۔ یہی وہ دوہری سرزمین ہے جس کا نام نئی اصطلاح میں پاکستان رکھا گیا ہے اور جس کی مسلمان آبادی قریباً سات کروڑ تک پہنچتی ہے۔ مسلم لیگ کا یہ مطالبہ ہے کہ یہ پاکستانی علاقہ باقی ماندہ ہندوستان سے کامل اور کُلّیِ طور پر الگ اور آزاد کردیا جائے اور چونکہ پاکستان کے دوبازو ایک دوسرے سے کافی دور اور منقطع ہیں، اس لئے لیگ یہ بھی چاہتی ہے کہ انتظامی سہولت کے لئے شمال مغربی اور شمال مشرقی پاکستان کے درمیان اسے ایک کافی فراخ رستہ بھی دیا جائے جو گویا یو۔پی اور بہار میں سے ہوتا ہوا پنجاب اور بنگال کو ملادے۔ مسلم لیگ یعنی جمہور مسلمانوں کا یہ دعویٰ نہیں ہے کہ وہ آزادی کے بعد بہرصورت بقیہ ہندوستان سے جسے وہ موجودہ اصطلاح میں صرف ہندوستان کا نام دیتے ہیں کلی طور پر الگ رہیں گے بلکہ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ جہاں تک بنیادی آزادی کا تعلق ہے پاکستانی صوبوں کو کامل اور مستقل طور پر خودمختار تسلیم کیا جائے۔ پھر اگر بعد میں یہ پاکستانی صوبے ایک آزاد اور خودمختار حکومت کی حیثیت میں بقیہ ہندوستان کی حکومت کے ساتھ کوئی باہمی معاہدہ (تعاونی یا حفاظتی یا اقتصادی وغیرہ) کرکے آزاد حکومتوں والے اتحاد کی صورت پیدا کرنا چاہیں تو یہ اور بات ہے اور اس کے لئے مسلمانوں کو اعتراض نہیں ہوسکتا۔ اس کے مقابل پر کانگرس یعنی ہندو ا.6کثر.6یت کا یہ مطالبہ ہے کہ تمام ہندوستان ایک ملک ہے اور ایک ہی رہنا چاہیئے اور اس صورت کا نام وہ اکھنڈ ہندوستان رکھتے ہیں۔ البتہ وہ اس بات کے لئے تیار ہیں کہ مسلمان صوبوں کو مناسب حفاظتی مراعات دے دی جائیں۔ مگر ان کا دعویٰ ہے کہ ہندوستان کی مرکزی حکومت بہرحال ایک ہی رہنی چاہیئے اور اسے بعض خاص امور میں (مثلاً فوج اور بیرونی تعلقات وغیرہ) جن میںتمام ملک کے لئے اتحاد اور یکجہتی اور یکسانیت کی ضرورت ہے، صوبوں کے معاملہ میں دخل دینے اور انہیں ہدایات جاری کرنے کا اختیار حاصل ہونا چاہیئے۔ البتہ جہاں تک عام اندورنی معاملات کا تعلق ہے صوبے آزاد ہوں گے اس صورت کا نام فیڈریشن رکھا جاتا ہے۔ یعنی بہت سی نیم آزاد حکومتوں کا ایک واحد آزاد مرکزی نیابتی حکومت کے ساتھ منسلک ہونا۔ مسلم لیگ کا یہ مطالبہ چارستونوں پر قائم ہے۔ (الف) یہ کہ مسلمان نہ صرف اپنے لئے علیحدہ مذہب اور علیحدہ تہذیب و تمدن کے لحاظ سے بلکہ ہندوستان میں اپنی تعداد کے لحاظ سے بھی ایک مستقل قوم کی حیثیت رکھتے ہیں نہ کہ محض ایک اقلیت کی۔ (ب)یہ کہ مسلمانوں کی قومی ضروریات ہندوئوں سے بالکل ممتاز اور جداگانہ ہیں۔جو ایک علیحدہ اور آزاد نظام کے بغیر پوری نہیں ہوسکتیں۔ (ج) یہ کہ ہندوستان میں عملاً ایسے صوبے موجود ہیں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ اور عام جمہوری نظام کے ماتحت بھی ان صوبوں میں مسلمانوں کو حکومت کا حق حاصل ہے اور (د) یہ کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا سابقہ تجربہ بتاتا ہے کہ باوجود حفاظتی مراعات کے ہندو حکومت کے ماتحت مسلمانوں کے حقوق محفوظ نہیں رہ سکتے۔ اور اس کے مقابل پر ہندو صاحبان بھی اپنے مطالبہ میں بلادلیل نہیںہیں۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ (الف) پاکستان بننے سے ہندوستان کی نہ صرف شان وشوکت بلکہ طاقت وقوت بھی خاک میں مل جاتی ہے۔ اور وہ دنیا کے مضبوط ترین اور بہترین ملکوں کی صف سے نکل کر معمولی ملکوں کی صف میں آکھڑا ہوتا ہے۔ (ب) یہ کہ جہاں اس زمانہ میں دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ملک آس پاس کے آزاد ملکوں کے ساتھ اتحادی معاہدات کے ذریعہ اپنی طاقت بڑھا رہے ہیں وہاں پاکستان کی تجویز ہندوستان کے حصے بخرے کرکے اسے اور بھی زیادہ کمزور کرنے کا رستہ کھول رہی ہے۔ (ج) یہ کہ ہندوستان کے ٹکڑے ہوجانے سے وہ آس پاس کے مضبوط ملکوں کا آسان شکار بن جائے گا اور انگریز کی غلامی سے بھاگتے ہی کسی اور قوم کی غلامی سہیڑ لے گا۔ اور (د) یہ کہ پاکستان کے ذریعہ بھی ہندوستان کے فرقہ وارانہ مسائل کا کامل حل میسر نہیں آیا کیونکہ اگر مسلمان اکثریت والے صوبے پورے طور پر آزاد بھی ہوجائیں تو پھر بھی پاکستان اور باقی ماندہ ہندوستان، دونوں میں مخلوط آبادی باقی رہتی ہے۔ یعنی پاکستان میں کافی آبادی ہندوئوں کی رہتی ہے۔ اور ہندوستان میں مسلمانوں کی۔ پس جب پاکستان قائم کرکے بھی مرض جوں کا توں رہا تو پھر خواہ نخواہ ہندوستان کو کمزور کرنے کا کیا فائدہ ہے؟
.6(.6۴.6) مسلمانوں اور ہندوئوں کے موافق ومخالف دلائل میں پڑ کر مجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوئی کہ ہندواس معاملہ میں بہت خوش قسمت ہے کہ بوجہ اس کے کہ وہ ہندوستان میں بھاری اکثریت رکھتا ہے وہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو نیشنل اصطلاحوں اورعام ملکی مفاد کے پردہ میں چھپا سکتا ہے۔ اسے کبھی یہ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آتی کہ یہ چیز ہندو کو دو کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جو چیز وہ ملک کے نام پر لے گا وہ لازماً اکثریت والی قوم کوپہنچے گی۔ پس وہ اپنی قوم کا سوال اٹھانے کے بغیر قوم پروری کرتا چلا جاتا ہے اور اس کی فرقہ وارانہ ذہنیت اس کے اندر موجود ہوتے ہوئے بھی نیشنلزم کے پردہ میں مستور رہتی ہے مگر مسلمان فرقہ وارانہ سوال اٹھانے کے بغیر اپنی قوم کی حفاظت نہیں کرسکتا، اسے بالکل ننگا ہوکر یہ کہنا پڑتا ہے کہ یہ چیز مسلمانوں کو دو۔ پس بسااوقات وہ مظلوم ہوتے ہوئے بھی فرقہ وارانہ زہر کے پھیلانے کا مجرم سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک ملک کے نام پر مانگتا ہے اور بے لوث محب وطن سمجھا جاکر اپنی غرض پوری کرلیتا ہے مگر دوسرا اپنے فرقہ کے نام پر مانگنے کے لئے مجبور ہے، اس لئے ہمیشہ بدنام ہوتا ہے اور اکثر دھتکارا بھی جاتا ہے۔ یہ وہ کھیل ہے جسے انگریز ذہنیت آج تک نہیں سمجھ سکی وہ ہندو کو فراخ دل نیشنلسٹ سمجھتی ہے اور مسلمان کو تنگ دل کمیونسٹ مگر مطالبہ پاکستان کا مطالبہ اس سٹیج پر سے جلد جلد پردہ اٹھارہا ہے۔ کیونکہ پاکستان کے قائم ہوتے ہی اسلامی صوبوں میں ہندوذہنیت اسی طرح بے نقاب ہونی شروع ہوجائے گی جس طرح آج ہندو اکثریت کے راج میں مسلمانوں کی ذہنیت بے نقاب ہورہی ہے۔ بہرحال میں نے اس رات کی بے چینی میں سوچا کہ ہندوستان کا سوال صرف اصل سیاسی مسئلہ کے لحاظ سے ہی مشکل نہیں ہے۔ بلکہ مختلف قوموں کے دلائل کو سمجھنے اور ان کی حقیقت تک پہنچنے کے لحاظ سے بھی بہت پیچدار ہے۔
.6(.6۵.6) ایک اور مشکل میرے ذہن میںیہ آئی کہ ہندوستان کا چپہ چپہ اسلامی یادگاروں سے بھرا پڑا ہے اگر یہاں کسی گذشتہ اسلامی بزرگ کا مزار ہے، جس کے انفاس قدسیہ کی برکت سے ہزاروں لاکھوں ہندوئوں نے اسلام کی روشنی حاصل کی تو وہاں کسی مسلمان بادشاہ یا رئیس کی بنائی ہوئی شاندار مسجد ہے جس کی ایک ایک اینٹ اسلامی شوکت اور بنانے والے کی للّٰہیّت کا پتہ دے رہی ہے۔ پھر اگر اِس جگہ اسلامی حکومت کے زمانہ کا کوئی عظیم الشان قلعہ ہے جو اسلام کی مٹی ہوئی طاقت کی یاد کو زندہ رکھ رہا ہے۔ تو اُس جگہ کسی مسلمان نقاش کے ہاتھ کا بناہوا مسحور کن باغ ہے جس کی وسعت و زینت غیور مسلمانوں کے دلوں پر ایک نہ مٹنے والا نقش قائم کررہی ہے اور یہ زندہ اور زندگی بخش یادگاریں ہندوستان کے شمال سے لے کر جنوب تک اور مغرب سے لے کر مشرق تک اس طرح پھیلی ہوئی ہیں کہ جس طرف بھی نظر اٹھائو وہاںکا منظر اس مصرع کی تفسیر نظر آتا ہے کہ
.6کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا ایں است
.6میری نظر دلّی کی شاہی مسجد اور لال قلعہ اور قطب مینار اور حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار اور ہمایوں کے مقبرہ اور حضرت شاہ ولی اللہ کی قبر سے اٹھ کر آگرہ کے تاج اور سکندرہ کے گنبدوں کے ساتھ لپٹی ہوئی راجپوتانہ کے وسط میں حضرت شاہ معین الدین اجمیری کے مزار پر پہنچی اور میرے دل نے کہا کہ بے شک اس وقت پاکستان کے مطالبہ نے مسلمانوں میں سیاسی اتحاد پیدا کرنے میں بہت بڑا کام کیا ہے مگر یہ بزرگ جو اس مٹی میں دفن ہے۔ اس نے بھی اپنے وقت میں لاکھوں ہندوئوں کو اسلام کی محبت بھری غلامی میں کھینچا تھا اور اب یہ اچھی وفاداری نہیں ہے کہ ہم خود اپنے ہاتھوں سے اس کی قبر کو ہندوئوں کی غلامی میں چھوڑجائیں پھر یہاں سے اٹھ کر میری نظر ہوا میں اڑتی ہوئی گولکنڈا اور حیدرآباد کی چٹانوں تک پہنچی جہاں مجھے کئی اسلامی بادشاہوں اور مسلمان درویشوں کی قبروں نے اپنی طرف بلایا کہ آج کے دھندے میں کل کے گذرے ہوئے بزرگوں کو نہ بھول جانا کہ ان کی ہڈیاں بھی کچھ حق رکھتی ہیں اور پھر اس سے آگے میں نے میسور اور جنوبی ہندوستان کے میدانوں پر نگاہ ڈالی تو حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے اپنی قبروں سے اٹھ کر مجھ سے گلہ کیا کہ ہم نے اپنے وقت میں مٹھی بھر مسلمانوں کو ساتھ لے کر سارے ہندوستان کے لئے جان کھودی اورتم دس کروڑ جانباز ہوکر ہندوستان کے ایک کونہ میں سمٹ کر بیٹھنا چاہتے ہو۔ اگر ہمیں بھول گئے ہو تو کم از کم شیر شاہ سوری کے اس جرنیل .6ر.6ستہ پر نگاہ ڈالو جو پشاور سے بنگال کو ملاتا تھا۔ اور چپہ چپہ پر شاہی سرائوں کی آہنی میخیں گاڑتا چلا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے حال کے زمانہ میں علی گڑھ کی مرکزی اسلامی یونیورسٹی کی طرف بھی خیال گیا جو پاکستان کے علیحدہ ہوجانے سے صرف ہندوگڑھ کی زینت ہوکر رہ جائے گی اور یقینا ایک چھوٹا سا صحرائی نخلستان جو اپنے آب رسانی کے منبع سے جدا ہوجائے زیادہ دیر تک تروتازہ نہیں رہ سکتا۔
.6(.6۶.6) ان خیالات نے مجھے اس گہری سوچ میں ڈال دیا کہ انسانی زندگی کے متعلق اسلام کا نظریہ کیا ہے؟ کیا اسلام خطرے کے موقع سے ہٹ کر گھر میں محصور ہوجانے کو پسند کرتا ہے یا کہ زندگی کی کش مکش میں کود کر آگے بڑھتے چلے جانے کو؟ اس وقت مجھے اپنے پیارے آقا فداہ نفسی کا یہ قول یاد آیا کہ.6 لَا رھبانیۃ فی الاسلام ۔۔۔۷.6۔ میں نے خیال کیا کہ بظاہر یہ ارشاد افراد کے لئے ہے مگر اس میں یہ عظیم الشان قومی راز بھی مخفی ہے کہ اسلام اس طریق کی اجازت نہیں دیتا کہ دنیا کے خطرات سے ڈر کر انسان کسی پہاڑ کی چوٹی یا کسی جنگل کے پیڑ یا کسی خانقاہ کے حجرہ یا کسی مکان کے گوشہ میں تنہا بیٹھ کر اپنی جان کی خیر منانے لگ جائے بلکہ وہ انسانوں کو زندگی کی کش مکش میں دھکیل کر حکم دیتا ہے کہ مرد میدان بن کر ان خطرات کا مقابلہ کرو اور اپنی قوتِ بازو سے دشمن کو زیر کرتے ہوئے اپنی ترقی کا رستہ کھولتے چلے جائو کیونکہ اسلامی نظر یہ ہے کہ جو سمٹا وہ بیٹھا اور جو پیچھے ہٹا وہ گرا اور جو گرا وہ مرا۔ پھر مجھے خلفاء راشدین کے سب سے بڑے سیاستدان حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ قول بھی یاد آیا کہ جب میں مکہ میں مسلمان ہوا۔.6 لم ازل اُضْرَب واَضْرِب فی سِکَکِ مکۃ۔۔۔۸.6 .6 یعنی اس وقت سے میں گھر میں نہیں ٹھہرا بلکہ مکہ میں گلیوں میں پھرتا ہوا پٹتا اور پیٹتا ہی رہا حتیٰ کہ خدااسلام کی فتح کا دن لے آیا میں اپنے آقا اور اس کے مد.6بر.6 صحابی کے ان قولوں کو یاد کرکے اس خیال سے بے چین ہونے لگا کہ بے شک ہندوستان کا مسلمان کمزور بھی ہے اور مظلوم بھی مگر کہیں پاکستان کا تصورقومی رہبانیت کا رنگ تو نہیں رکھتا کیا وہ اسے.6 اُضْرَب.6 و.6اَضْرِب .6کے میدان سے نکال کر گھر کی بظاہر پُر امن مگر دراصل پر خطر چاردیواری میں محصور تو نہیں کررہا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام نے صرف اس وقت تک ترقی کی جب تک کہ مسلمان چند گنتی کے نفوس کی ٹولیوں میں تمام خطرات سے بے پروا ہوکر غیر ملکوں میں گھس جاتے رہے اسلام کی زندگی غیر قوموں کے مقابل پر مسلسل جدوجہد کے ساتھ وابستہ ہے مگر میں ڈرتا ہوں کہ پاکستان کا نظریہ مسلمانوں کو اس جدوجہد سے باہر نکال رہا ہے۔
.6(.6۷.6) پھر میرے دل میں یہ خیال بھی آیا کہ کہیں پاکستان کا اصول اور اسلامی تبلیغ کا نظریہ آپس میں ٹکراتے تو نہیں میرے دل نے کہا کہ تبلیغ کے معنی دوسرے کے گھر میں پُرامن نقب لگانے کے ہیں مگر پاکستان کا مطالبہ اس اصول پر مبنی ہے کہ چونکہ ہندومسلمان آپس میں مل کر امن کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ اس لئے انہیں علیحدہ علیحدہ گھر ملنا چاہیئے، جس میںوہ ایک دوسرے سے جدا رہتے ہوئے چین کی زندگی گذار سکیںتو اس صورت میں جو شخص اس مخصوص سمجھوتہ کے ماتحت دوسرے سے جدا ہوتا ہے کہ ہم آئندہ علیحدہ علیحدہ رہیں گے وہ کبھی بھی دوسرے شخص سے یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اسے کبھی اپنے گھر میں گھر والا بن کر داخل ہونے کی اجازت دے گا۔ پس میرا دل اس خیال سے خائف ہوا کہ پاکستان کا نظریہ اسلامی نفوذ کی پالیسی سے ٹکراتا ہے اور اس کے نتیجہ میں تبلیغ اسلام کا دروازہ بقیہ ہندوستان میں عملاً بند ہوجاتا ہے اور دوسری طرف میں نے سوچا کہ اگرتبلیغ کا دروازہ کھلا رہے تو شمال اور شمال مشرقی پاکستان تو ایک معمولی چیز ہے ہم انشاء اللہ سو پچاس سال کے عرصہ میں سارے ہندوستان کو ہی پاکستان بنا سکتے ہیں یہ ایک ہوائی دعویٰ نہیں ہے بلکہ اسلامی تاریخ اس.6 ب.6ات کی کئی زندہ مثالیں پیش کرسکتی ہے کہ جنگ کے ذریعہ سے نہیں بلکہ پُر امن تبلیغ کے ذریعہ پچاس پچاس سال کے اندر ملکوں کی کایا پلٹ دی گئی ہے بلکہ خود ہندوستان کے اندر ہماری آنکھوں کے سامنے یہ مثال موجود ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے پنجاب میں ہندوئوں کی اکثریت تھی مگر آج مسلمانوں کی اکثریت ہے تو جب ایک معمولی جدوجہد نے یہ انقلابی نتیجہ پیدا کردیا ہے تو ایک وسیع والہانہ کوشش کیاکچھ نہیں کرسکتی؟ مگر میں ڈرتا ہوں کہ پاکستان کا نظریہ ایسی کوشش کا دروازہ بند کرتا ہے مذہبی لوگ عموماً دیوانے سمجھے جاتے ہیں اورشاید دنیوی معیاروں کے مطابق یہ کسی حد تک درست بھی ہو۔ مگر دور کے افق میں اس بات کے یقینی آثار نظر آرہے ہیں کہ انشاء اللہ العزیز ابھی ایک سو سال کا عرصہ نہیں گذرے گا کہ ہندوستان کا وسیع ملک فرقہ وارانہ مناقشات کے خطرہ سے کلی طور پر باہر ہوجائے گا مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ مسلمانوں کو خاص تحفظات کی ضرورت نہیں یقینا موجودہ حالات میں مسلمان کمزور بھی ہیں اور مظلوم بھی اور ملک کا عام قانون ان کی حفاظت نہیں کرسکتا۔ کیونکہ ہندوقوم نے بالعموم نہ تو ان کی ہمسایگت کا حق ادا کیا ہے اور نہ ہی اپنی اکثریت کا۔ پس خاص نظام بہرحال ضروری ہے مگر کیوں نہ ہم ہندوستان کو متحد رکھتے ہوئے کوئی ایسا حق وانصاف کا رستہ تلاش کرنے کی کوشش کریں جو مسلمانوں کو ملکی جدوجہد میں شریک رکھتے ہوئے اہم قومی خطرات سے محفوظ کردے یعنی بقول شخصے سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍اپریل ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
سیرۃ المہدی کی بعض روایتوں پر مخالفین کا اعتراض
اور ان کا مختصر تعارف
.6 مجھے بعض دوستوں کے خطوط سے معلوم ہواہے کہ بعض مخالفوں نے اپنے مناظرات میں سیرۃ المہدی کی بعض روائیتوں پر اعتراض کیا ہے اور کمینہ طعنوں کا رنگ اختیار کرکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات والا صفات کو استہزأ کا نشانہ بنایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وجود باجود جماعت میں اس قدر محبوب ہے کہ حضور کے خلاف جو اعتراض بھی ہوتا ہے وہ طبعاً تمام مخلصین کے دلوں کو سخت مجروح کرتا ہے مگر دوستوں کو یہ بات بھی کبھی نہیں بھولنی چاہیئے کہ مخالفوں کے یہ اعتراض اور یہ کمینے طعنے در اصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی نشانی ہیں کیونکہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ :-
.6۹
.6’’ یعنی افسوس لوگوں پر کہ ان کے پاس خدا کا کوئی رسول نہیں آتا کہ وہ اسے ہنسی ٹھٹھا کا نشانہ نہیں بناتے‘‘
.6مگر یہ طعن وتشنیع محض عارضی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ جلد ہی وہ وقت لے آتا ہے کہ اعتراض کرنے والے ذلیل وخوار ہوکر خاموش ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ:-
.6 .6۱۰
.6’’یعنی جلد ہی وہ وقت آجاتا ہے کہ مخالفوں کا ہنسی مذاق انہیں تباہی کے چکر میں گھیر لیتا ہے۔‘‘
.6اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق تو خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ:-
.6لَا نُبْقِیْ لَکَ مِنَ الْمُخْزِیَاتِ ذِکْراً۔۔۔۱۱
.6’’یعنی دشمن ایک وقت تک تیرے متعلق ضرور تحقیر وتذلیل کا طریق اختیار کرے گامگر وہ وقت آتا ہے کہ ہم تیرے مخالفوں کے طعن وتشنیع کو اس طرح مٹادیں گے کہ گویا وہ کبھی تھے ہی نہیں۔‘‘
.6پس ہمارے دوستوں کو دشمنوں کے ان کمینہ اعتراضوں پر گھبرانا نہیں چاہیئے کیونکہ اگر ایک طرف وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی روشن نشانی ہیں تو دوسری طرف وہ اس عظیم الشان بشارت کے حامل بھی ہیں کہ وہ وقت دور نہیں کہ یہ سب اعتراضات خس وخاشاک کی طرح مٹادیئے جائیں گے اور اعتراض کرنے والوں کو ذلیل ہوکر اپنی غلطی اور ناکامی کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مخاطب کرکے خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
.6یَخِرُّوْنَ عَلَی المَسَاجِدِ۔ رَبَّنَااَ غْفِرْلَنَا.6ٓ.6 اِنَّاکُنَّا خَاطِئِیْنَ ۔۔۱۲
.6’’یعنی وقت آتا ہے کہ مخا.6لف لوگ بے بس ہوکر اپنی مسجد گاہوں میں گریں گے اور خدا سے عرض کریں گے کہ اے ہمارے رب ہمیں معاف فرما۔ ہم واقعی خطاکار تھے۔‘‘
.6 اس کے بعد میں مختصر طور پر ان اعتراضوں کا جواب دیتا ہوں جو حال میں ہی بعض دوستوںکے ذریعہ مجھے پہنچے ہیں اور جو سیرۃ المہدی کی بعض روایتوں پر مبنی ہیں۔ سب سے پہلا .6اعتراض.6 .6 سیرۃ المہدی جلد اوّل کی روایت نمبر .6۴۱.6پر مبنی ہے۔ جس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود .6علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بڑی زوجہ جن کے بطن سے مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم اور مرزا فضل احمد صاحب پیداہوئے اور جن سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آخری زمانہ میں قطع تعلق فرمالیا تھا۔ انہیں بعض اوقات بعض عورتیں پنجابی محاورہ کے مطابق ’’پھجہ دی ماں‘‘ (یعنی فضل احمد کی والدہ) کہہ کر پکارا کرتی تھیںاور اعتراض کرنے والے شخص .6ن.6ے.6 گویا یہ طعن کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک لڑکے کا نام ’’پھجہ‘‘ تھا۔ اس اعتراض کے جواب میں .6لعنۃاللّٰہ علی الکاذبین.6 کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے۔ہر شخص جانتا ہے کہ ہر زبان اور ہر سوسائٹی میں پیار کی وجہ سے بچوں کے نام کو مختصر کرلینے کا رواج پایا جاتا ہے اور یہ طریق ہر ملک اور ہرزمانہ میں نظر آتا ہے مگر اس کی وجہ سے اصل نام نہیں بدل جاتا۔ اور نہ کوئی شریف انسان اس قسم کی محبت کی بے تکلفی کو قابل اعتراض خیال کرتا ہے۔ مگر ہمارے مخالفوں کی ذہنیت اس قدر پست ہوچکی ہے کہ وہ ایسی معصومانہ باتوں کو بھی اعتراض کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتے۔ حالانکہ قریباً ہندوستان کا کوئی ایک گھر بھی ایسا نہیں ہوگا جس میں پیار کی وجہ سے بچوں کے ناموں میں اس قسم کا تصرف نہ کیا جاتا ہو مگر ہمیں دور کی مثال لینے کی ضرورت نہیں۔ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں اس قسم کے تصرف کی مثالیں بکثرت موجود ہیںکہ پیار میں بچوں کے ناموں کو بدل لیا گیا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ اندھا دشمن اپنی جہالت میں یہ بھی نہیں سوچتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراض کرتے ہوئے کہاں تک جا پہنچتا ہے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت علی ؓ حضرت فاطمہ ؓ سے خفا ہوکر مسجد نبوی کے گوشہ میں جاکر بیٹھ گئے۔ جہاں خاک اور گرد کی وجہ سے ان کا سارا جسم مٹی سے ڈھک گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپؐ ان کی تلاش میں آئے اور انہیں مسجدمیں سوئے ہوئے پاکر پیار کے ساتھ یہ کہتے ہوئے جگایا کہ اے ابوتراب ابوتراب! اس گرد میں کہاں لیٹے ہو اٹھو۔ اور روایت آتی ہے کہ اس کے بعد سے حضرت علی ؓ کا نام ابوتراب مشہور ہوگیا جس کے معنی ہیں ’’مٹی کا باپ‘‘ یا ’’مٹی کا مادھو‘‘۔۔۔۱۳
.6 تو کیا اب اس روایت کی بنا پر ہمارے مخالف یہ اعتراض بھی کریں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد اور داماد کا نام ’’مٹی کا باپ‘‘ تھا۔ اسی طرح ایک دوسری حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی کے لڑکے ابو عمر نامی نے ایک سرخ رنگ کی چڑیا پال رکھی تھی جسے وہ ہر وقت اپنے ساتھ لئے پھرتا تھا۔ ایک دفعہ جب اس کی یہ چڑیا مرگئی اور وہ لڑکا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خالی ہاتھ آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیار سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا .6یَاأَبَاعُمَیْرٍ مَافَعَلَ النُّغَیْرُ۔۔۔۱۴.6 .6(یعنی اے ابو عمیر تمہاری وہ.6 نغیر.6 یعنی چڑیا کدھر گئی (.6نغیر.6 عربی میں سرخ چڑیا کو کہتے ہیں) گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیار کا رنگ پیدا کرنے اور وزن ملانے کی خاطر ابو عمر نام کو بدل کر ابو عمیر کردیا۔.6مگر کوئی شریف انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کو اعتراض کا نشانہ نہیں بناتا بلکہ اس سے آپؐ کے جذبۂ محبت اور بے تکلفانہ انداز کا سبق حاصل کیا جاتا ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ اگر اسی قسم کا کوئی معصومانہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں ہو( اور ایسے بے تکلفی کے واقعات دنیا کے ہر گھر میں ہوتے ہیں) تو اس کی وجہ سے آپ کو اعتراض کا نشانہ بنایا جائے۔
.6دوسرا اعتراض سیرۃ المہدی جلد اول کی روایت نمبر .6۵۱.6 کی بنا پر ہے۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ ایک .6دفعہ کسی غیر معروف عورت نے حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا کے سامنے یہ ذکر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود .6علیہ السلام کو بچپن میں ایک عورت نے ’’سندھی‘‘ کہہ کر پکارا تھا اور اس روایت پر بھی اوپر کی .6روایت کی طرح استہزاء کا طریق اختیار کیا جاتا ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام ہی یہ تھا۔ سو اس اعتراض کا مفصل جواب سیرۃ المہدی حصہ اول کے ایڈیشن دوم کی اسی روایت میں ذکر گزر چکا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اول تو یہ روایت ایک غیر معروف غیر معلوم الاسم اجنبی عورت کی ہے اورہم نہیں کہہ سکتے کہ اس نے سچ کہا یا جھوٹ اِ س کے معلومات درست تھے یا غلط۔ دوسرے سندھی کا لفظ ایک ہندی لفظ ہے جس کے معنی ’’جوڑ‘‘ یا ’’ملاپ‘‘ یا ’’اتصال‘‘ کے ہیں۔ چنانچہ سندھی ویلا کے معنی ہیں ’’سانجھ کا وقت‘‘ یا ’’ شام کا وقت‘‘ جبکہ دن رات کی گھڑیاں ملتی ہیںاور .6سندھیا بھی ’’اتصال اورمیل‘‘ کو کہتے ہیں۔ نیز سندھیااس دعا کو بھی کہتے ہیں جو شام کو کی جاتی ہے۔ جبکہ دن اور رات آپس میں ملتے ہیں (دیکھو جامع اللغات) تو گویا سندھی کے معنی ہوئے ’’جوڑ والا‘‘ یا ’’ملاپ والا‘‘ یعنی وہ بچہ جو جوڑ واں یعنی توام پیدا ہوا ہے۔ پس اس لحاظ سے نہ صرف یہ کہ یہ لفظ قابل اعتراض نہیں ہے بلکہ اس سے اس پیشگوئی کی طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ مسیح موعود ؑ کی پیدائش توام صورت میں ہوگی۔ چنانچہ سب لوگ جانتے ہیں کہ آپ کی ولادت جوڑواں ہوئی تھی۔ یعنی آپ کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جو کچھ عرصہ بعد فوت ہوگئی۔ باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام کیا تھا تو جیسا کہ دنیا جانتی ہے اور سیرۃ المہدی کے ایڈیشن دوم کی روایت نمبر.6۳۶.6 میں تفصیل کے ساتھ لکھا جاچکا ہے آپ کا نام غلام احمد ؑ تھا۔ چنانچہ یہی نام آپ کے والدین نے رکھا۔ اسی نام سے آپ پکارے جاتے تھے۔ یہی نام آپؑ نے خود ہمیشہ استعمال کیا اور یہی نام کاغذات سرکاری میں شروع سے لے کر آخرتک درج ہؤا۔.6 ومن ادّعی غیرذالک فقد افتریٰ ولعنۃ اللّٰہ علی من کذب
.6تیسرا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ سیرۃ المہدی حصہ سوم کی روایت نمبر.6۷۸۰.6 میں مکرم ڈاکٹر محمد اسمٰعیل .6صاحب بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک بوڑھی دیہاتن سردی کے موسم میں حضرت مسیح موعود .6علیہ السلام کے پائوں دبانے لگی تو چونکہ سردی کی وجہ سے اس کے ہاتھ ٹھٹھر کربے حس سے ہورہے تھے اس .6نے ٹانگوں کو دبانے کی بجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چارپائی کی لکڑی کو دبانا شروع کردیا اور جب تک اسے اس کی غلطی جتائی نہیں گئی اسے یہ محسوس نہیں ہؤا کہ میں پائوں دبانے کی بجائے چارپائی کی لکڑی دبارہی ہوں وغیرہ ذالک۔ اس روایت کی بنا پر بدباطن مخالف یہ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام گویا غیر محرم عورتوں سے دبوایا کرتے تھے۔ سواس اعتراض کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ خود اس روایت میں ہی مذکور ہے کہ یہ ملازمہ ایک بوڑھی عورت تھی اور اسلام کا یہ مسئلہ سکولوں کے بچے تک جانتے ہیں کہ بوڑھی عورتیں پردہ کی معروف قیود سے آزاد ہوتی ہیں۔(سورہ نور تفسیر ابن جریرد رمنثور وغیرہ)
.6کیونکہ پردہ کے احکام مردوعورت کے اختلاط کے امکانی خطرات پر مبنی ہیں مگر ظاہر ہے کہ جس طرح کم عمر لڑکیاں اس خطرہ سے باہر ہیں اسی طرح سن رسیدہ بوڑھی عورتیں بھی پردہ کی قیود سے آزاد رکھی گئی ہیں ۔پس جب خود روایت کے اندریہ صراحت موجود ہے کہ یہ عورت بوڑھی تھی تو پھر اعتراض کیسا؟ علاوہ اس کے روایت میں یہ بھی صراحت ہے کہ یہ بوڑھی ملازمہ رضائی کے اوپر سے دباتی تھی اور سردی کے زمانہ کی موٹی دلْدار رضائی کے ہوتے ہوئے کون عقلمند خیال کرسکتا ہے کہ اس کے ہاتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جسم کو چھوتے تھے۔ پس خود روایت کے الفاظ ہی معترض کے اعتراض کو رد کررہے ہیں۔ علاوہ اس کے اگر ہمارے مخالفوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق یہ اعتراض ہے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اس حدیث کی کیا تشریح کریں گے کہ:-
.6کَانَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَدْخُلُ عَلٰی اُمِّ حَرَامٍ بِنتِ مِلْحَانَ، وَ کَانَتْ تَحْتَ عبَادَۃ بْنِ الصَّامتِ، فَدَخَلَ عَلَیْھَا یَوْمًا فَاطعَمَتْہٗ، وَجَعَلَتْ تَفْلِیْ رَأسَہُ، فَنَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ثُمَّ اسْتَیْقَظَ وَھُوَ یَضْحَکُ۔۔۔۱۵
.6’’یعنی مدینہ میں ایک صحابیہ عورت ام حرام عبادۃ بن صامت کی بیوی تھیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے تو وہ گھر میں جو کچھ حاضر ہوتا تھا آپؐ کے کھانے کے لئے پیش کیا کرتی تھیں۔ چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے تو انہوں نے حسب طریق کھانا پیش کیا اور پھر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر سہلانے لگ گئیں جس طرح کہ ایک جوئیں دیکھنے والی عورت بالوں کو سہلاتی ہے اور اسی حالت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔‘‘
.6پس جس طرح یہ نیک بخت بوڑھی صحابیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بالوں کو سہلاسکتی تھیں اور آج تک کسی شریف زادہ نے اس روایت پر اعتراض نہیں کیا اور ہر مسلمان اس حدیث کو پڑھتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہوئے آگے سے گذرجاتا ہے ۔اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ شریف زادوں والا سلوک کیوں روا نہیں رکھا جاتا۔ اور کیوں آپ کے معاملہ میں اپنے خبیث باطن کے آئینہ میں اپنی ہی شکل دیکھ کر اعتراض جما دیا جاتا ہے۔ سچ ہے کہ .6المر ء بقیس علیٰ نفسہ.6 یعنی بد انسان اپنی بدفطرتی کی وجہ سے نیک انسان کے متعلق بھی برا خیال ہی دل میں لاتا ہے۔ اس کے علاوہ کیا ہمارے معترضوں کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بائیبل کا یہ حوالہ بھول گیا ہے کہ:-
.6’’دیکھو ایک بدچلن عورت جو اس شہر کی تھی۔ یہ جان کر کہ مسیح اس فریسی کے گھر کھانا کھانے بیٹھا ہے۔ سنگ مرمر کی عطردانی میں عطرلائی اور اس کے پائوں کے پاس روتی ہوئی پیچھے کھڑی ہوکر اس کے پائوں آنسوئوں سے بھگونے لگی۔ اور اپنے سر کے بالوں سے پونچھے اور اس کے پائوں بہت چومے اور ان پر عطر ملا‘‘۔۔۔.6 ۱۶
.6سو اگر حضرت مسیح ناصری کو ایک شہری نوجوان عورت (کیونکہ بدچلن کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ وہ کم از کم بوڑھی نہیں تھی۔ گو یہ ظاہر ہے کہ وہ توبہ کے خیال سے آئی تھی) اپنے جسم سے چھوسکتی ہے اور آپ کے ننگے قدموں کو اپنے کھلے ہاتھوں سے خوشبودار عطر یا تیل مل سکتی ہے اور آپ کے پائوں کو چوم سکتی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ایک نیک بوڑھی دیہاتی عورت جو پردہ کی قیود سے آزاد تھی،موٹی رضائی کے باہر سے کیوں نہیں دباسکتی۔ مگر حق یہی ہے کہ خدا کا یہ ازلی قانون پورا ہونا تھا کہ .6۱۷
.6چوتھا اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ سیرۃ المہدی جلد سوم کی روایت نمبر.6۸۶۵.6 میں حضرت مسیح موعود .6علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف جو بات منسوب کی گئی ہے کہ آپ نے ایک دفعہ اس شعر کی فصاحت وبلاغت کے لحاظ سے تعریف فرمائی کہ
.6یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہؤا یہ انقلاب
.6پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے لکھا
.6اور اس پر یہ تشریحی نوٹ درج ہے کہ شائد اس شعر کے متعلق حضور کی پسندیدگی اس وجہ سے بھی ہوگی کہ آپ’’ اس کے معانی کو اپنے پیش آمدہ حالات پر بھی چسپاں فرماتے ہوں گے‘‘ اس پر بعض بدفطرت معاندین نے نہائت گندے اور دلآزار رنگ میں یہ طعن کیا ہے کہ نعوذباللہ اس نوٹ میں حضور کی جوانی کے ایام کی کسی داستانِ عشق کی طرف اشارہ ہے ۔اس اعتراض کے جواب میں مَیں پھر اس قرآنی آیت کی طرف رجوع کرنے کے لئے مجبور ہوں۔ کہ.6 .6.6۔۔۱۸.6 .6.6 ۱۹.6 .6۔ایسے اعتراضوں سے ہمارا تو خدا کے فضل .6سے کچھ نہیں بگڑ سکتا اور نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاک دامن پر کسی شریف انسان کے .6نزدیک کوئی دھبہ آسکتا ہے۔ لیکن یقینا اعتراض کرنے والے اپنی گندی فطرت کا اظہار کرکے خود اپنے ہاتھ سے اپنی تباہی کا بیج بورہے ہیں۔ روایت کا تشریحی نوٹ بالکل سادہ الفاظ میں ہے اور .6ہرموٹی سے موٹی سمجھ رکھنے والا انسان بھی سمجھ سکتا ہے کہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ چونکہ حضرت .6مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعویٰ مسیحیت پر عوام المسلمین نے آپ کے ساتھ تمام تعلقاتِ محبت قطع کرکے آپ کو گویا اپنی سوسائٹی سے خارج کردیا تھا۔ اس لئے آپ اس شعر کے ذریعہ اس حسرت کا اظہار فرماتے ہیں کہ ایک وقت وہ تھا کہ میں ملک کی اسلامی سوسائٹی میں لوگوں کے اندر گویا محبت سے گھومتا پھرتا تھا۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ مسلمان اپنی نادانی میں مجھ سے کٹ کر الگ ہوگئے ہیں۔ اور میں صرف دور سے ہی اپنے تصور میں ان کی سابقہ محبت کے گلی کو چوں کا نظارہ کرسکتا ہوںا ور بس۔ اس لطیف اور بیّن تشریح کو چھوڑ کر ناپاک اور اوباش لوگوں کی طرح گندی خیال آرائی میں مبتلا ہونا آج کل کے بدنصیب مسلمانوں کا ہی حصہ ہے ۔افسوس! افسوس!! یہ وہ امت ہے جو اس زمانہ میں سیدولد آدم حضرت خاتم النبیین فخراوّلین وآخرین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب ہوتی ہے۔ .6فاناللّٰہ وانا الیہ راجعون
.6میں نے یہ مضمون بخار کی حالت میں شروع کیا تھا اور اب بخار کی تکلیف میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس لئے زیادہ نہیں لکھ سکتا۔ صرف ایک مختصر سی آخری گزارش پر اس مضمون کو ختم کرتاہوں اور وہ یہ ہے کہ ہمارے عقائد کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تصانیف اور مطبوعات پر ہے جو شخص انہیں چھوڑ کر زبانی روایتوں کی بناء پر اعتراض اٹھاتا ہے وہ یقینا بدنیت ہے۔ زبانی روایتیں تو ہم نے ان کی کمزوری کا علم رکھنے کے باوجود (اور اِس زمانہ میں تو لوگوں کے حافظہ کی کمزوری نے زبانی روایتوں کو اور بھی زیادہ کمزور کردیا ہے) بعض زائد ضمنی فوائد کی خاطر جمع کرکے شائع کی ہیں مگر وہ کسی جہت سے بھی ہمارے عقائد کی بنیاد نہیں ہیں۔ قرآن شریف تو یہاں تک فرماتا ہے کہ خود اس کی اپنی متشابہ آیات کی بناء پر بھی اعتراض کرنا دیانتداری کا شیوہ نہیں۔ (سورہ اٰل عمران)
.6چہ جائیکہ اصل اور مستند بنیادی لٹریچر کو چھوڑ کر زبانی روایتوں کو اعتراض کی بنیاد بنایا جائے ۔ایسے لوگ یقینا اس قرآنی وعید کے نیچے آتے ہیں کہ .6.6.6۔۔۔۔۲۰
.6وَاٰخِرُ دَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنْ
.6
‎(مطبوعہ الفضل۶ ؍مئی الفضل۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
ہندوستان کی سیاسی الجھن
کیا پاکستان کا مطالبہ جائز نہیں؟
.6
.6اپنے گزشتہ مضمون میں جو ’’الفضل‘‘مورخہ .6۱۸.6 اپریل میں شائع ہوچکا ہے۔ میں نے ہندوستان کی موجودہ سیاسی الجھن کے بارے میں بعض خیالات کا اظہار کیا تھا اور پاکستان اور اکھنڈ ہندوستان کے متعلق ہر دو قوموں کا نظریہ پیش کرکے بتایا تھا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کے مطالبات کا ماحصل اور دلائل کا خلاصہ کیا ہے اور ساتھ ہی پاکستان کے حسن وقبح کے متعلق بعض اشارے کئے تھے اور مسلمانوں کی کمزوری اور مظلومیّت کی طرف اہل وطن کو توجہ دلائی تھی۔ اس کے بعد گو .6ا.6بھی میرے پاس قریباً تین چوتھائی مضمون کے نوٹ باقی تھے میں نے ایک مصلحت کے ماتحت بقیہ حصہ کو لکھنا ترک کردیا ۔ لیکن ایک بات جو اس بحث میں خاص اصولی رنگ رکھتی ہے اور گویا سارے فیصلہ کی بنیاد ہے بیان کرنی ضروری ہے اور یہ مضمون اسی اصولی امر کی تشریح کے لئے لکھ رہا ہوں۔ .6وانما الاعمال بالنیات وماتوفیقی الا باللّٰہ
.6وہ اصولی سوال جس کی طرف میں نے اوپر اشارہ کیا ہے یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کی طرف سے پاکستان کا مطالبہ جائز مطالبہ نہیں؟ اس سوال کا سیدھا اور صاف جواب تویہ ہے کہ جب ایک قوم اپنے معاملات میں آزادی اور خود اختیاری کے رستہ پر گامزن ہوتے ہوئے کوئی خاص نظام یا خاص طریق عمل اختیار کرنا چاہے تو دنیا کے ہر معروف اخلاقی قانون کے ماتحت اسے اس کا حق ہے اور کسی دوسرے کو اس کے اس حق میں روک ڈالنے یا سدّراہ ہونے کا اختیار نہیں ہوتا۔ کیونکہ جس طرح طبعاً اور فطرتاً ہر شخص اپنے گھر کا مالک ہے اور اس کے گھر کے اندرونی نظم ونسق میں کسی دوسرے کو دخل دینے کا اختیار نہیں۔ اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر ہر قوم اپنے گھر کی آپ مالک ہے اور اسے یہ اختیار ہے کہ اپنے گھر یلو معاملات کو جس طرح چاہے چلائے اور اپنے لئے جو نظام پسند کرے۔ اس پر کاربند ہو۔ اس کے اس اختیار کو محدود کرنا اور اس کی مرضی کے خلاف اسے کسی دوسری قوم یا دوسری حکومت کی ماتحتی میں رکھنا غلامی کی قسموں میں سے ا یک بدترین قسم کی غلامی ہے۔ جو اپنے نتائج کی وسعت کے لحاظ سے انفرادی غلامی سے بھی بہت زیادہ ظالمانہ اور بہت زیادہ خطرناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب فرعون مصر نے حضرت موسیٰ پر یہ احسان جتایا کہ تو ہمارے گھر کے ٹکڑوں پر پلا ہے تو حضرت موسیٰ نے بے ساختہ جواب دیا کہ ایک دریا میں بہتے ہوئے بچے کو باہر نکال کر پال لینا ایک معمولی قسم کی نیکی ہے۔ جس پر تجھے اس طرح فخر کرتے ہوئے شرم محسوس ہونی چاہیئے مگر یہ جو تونے ایک قوم کی قوم کو غلام بنا رکھا ہے یہ کہاں کا انصاف ہے چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:-
.6.6… .6.6۔۔۔۔۔۲۱
.6’’یعنی فرعون نے موسیٰ ؑ سے کہا کیا ہم نے تجھے بچپن میں اپنے گھر میں نہیں پالااور کیا تو نے ہمارے ساتھ رہ کر سالہاسال اپنی زندگی نہیں گزاری……موسیٰ ؑ نے کہا تم میری ذات پر یہ چھوٹا سا احسان جتاتے ہومگر اپنے اخلاق کا یہ بھیانک پہلو بھولے ہوئے ہو کہ تم نے میری ساری قوم بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے۔‘‘
.6پس قوموں کا حقِ خود اختیاری ابتدائی زمانہ سے مسلّم ہے۔ اور کسی دوسری قوم کو اس حق میں جابرانہ دست اندازی کا اختیار نہیں۔ لہذا اگر مسلمانوں کی اکثریت اپنے لئے پاکستان پسند کرتی ہے تو محض اس کی یہ خواہش اور اس کا یہ مطالبہ ہی اس کے جواز کی دلیل ہے اور ہندوئوں یا انگریزوں کو اس پر چیں بچیں ہونے یا اس میں روڑے اٹکانے کا کوئی حق نہیں۔ یہ کہنا کہ پاکستان کی سکیم میں یہ نقص ہے یا وہ نقص ہے۔ یا یہ کہ پاکستان کا مطالبہ مسلمانوں کے لئے نقصان دہ ہے یا یہ کہ پاکستان کی نسبت فلاں سکیم مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہوسکتی ہے۔ ایک ہمدردانہ مشورہ کی حیثیت میں تو قابل اعتراض نہیںکیونکہ مشورہ کی صورت میں مشورہ لینے اور دینے والا دونوں سمجھتے ہیں کہ یہ ایک محض ایک مشورہ ہے اور ضروری نہیں کہ وہ بہر صورت قبول کیا جائے اور آخری فیصلہ بہرحال اس قوم کے ہاتھ میں ہوتا ہے، جس نے اپنے گھر کے انتظام کو چلانا ہے مگر اس معاملہ میں مشورہ کی حد سے نکل کر جبرو استبداد کا رنگ اختیار کرنا اور اپنی مرضی کو دوسری قوم کی مرضی پر اس طرح ٹھونسنا جس طرح کہ ایک فاتح اپنے مفتوح پر اور ایک آمر اپنے مامور پر حکم چلاتا ہے یقینا ایک درجہ ظالمانہ فعل ہے جس کی دنیا کا کوئی ضابطۂ اخلاق اجازت نہیں دیتا مگر افسوس ہے کہ آج کل دنیاکی ہر جابر قوم اپنے کمزور ہمسایوں کے ساتھ یہی کھیل کھیل رہی ہے۔ اور کوئی نہیں پوچھتا۔ قومی یا انفرادی آزادی فطرت کا اوّلین اصول ہے اور اس اصول میں صرف اسی قسم کی ا ستثناء جائز ہے جس طرح کہ بعض اوقات ایک آزاد انسان کو اس کے کسی جرم کی وجہ سے وقتی طورپر قیدخانہ میں .6ڈ.6ال دیا جاتا ہے۔ پس سوائے اس کے کہ ہندوستان کے مسلمان مجرم قرار دیئے جا کر آ.6ز.6ادی کے حق سے محروم قرار دیئے جائیں۔ ان کا حقِ خود اختیاری کا مطالبہ ایک جائز فطری مطالبہ ہے جس کے متعلق دوسرے ایک ہمدرد کی حیثیت سے مخلصانہ مشورہ پیش کرنے کا حق تو بے شک رکھتے ہیں مگر اسے استبدادی رنگ میں رد کرنے کا حق نہیں رکھتے۔
.6اس جگہ اوپر کے سوال کا دوسر اپہلو سامنے آتا ہے کہ آیا قوموں کا حقِ خود اختیاری جسے آج کل کی سیاسی اصطلاح میں رائٹ آف سلف ڈیٹرمینیشن .6Right of self Determination.6 .6کہتے ہیں ایک غیر مشروط حق ہے جو ہر صورت میں ہر قوم کو حاصل ہونا چاہیئے یا کہ وہ بعض خاص شرائط اور بعض خاص حالات کے ساتھ مشروط ہے اور صرف اسی صورت میں کسی قوم کو یہی حق حاصل ہوتا ہے جبکہ اس میں یہ خاص شرائط اور یہ خاص حالات پائے جائیں؟ یہ وہ اہم سوال ہے جو دراصل اس ساری بحث کی جان ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کوئی حق بھی خواہ وہ افراد سے تعلق رکھتا ہو یا کہ اقوام سے غیرمشروط طور پر یعنی گردوپیش کے حالات سے آزاد ہوکر محض فلسفیانہ رنگ میں قابل قبول نہیں ہوتا بلکہ جس طرح دنیا میں ہر چیز کو ایک نسبتی حیثیت حاصل ہے اسی طرح قوموں کا حق خو د اختیاری بھی غیرمشروط نہیں بلکہ گردو پیش کے حالات کی روشنی میں نسبتی حیثیت رکھتا ہے۔اور سارے حالات کے ساتھ سموئے جانے .6کے قابل عمل ہوتا ہے وغیرہ ذالک۔ ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصولاً یہ نظریہ درست ہے مگر اس کا .6یہ مطلب نہیں کہ گردو پیش کے حالات کو اتنی اہمیت دے دی جائے کہ ان کی وجہ سے کسی قوم کا اصل حق ہی باطل ہوجائے یا یہ کہ گردوپیش کے حالات کو آڑ بناکر کسی قوم کو اس کے جائز حق سے محروم کردیا جائے۔ اگر مسلمانوں کو اس قسم کی وجوہات کی بناء پر ان کے حقوق سے محروم کیا جائے تو یقینا یہ اسی قسم کا ظلم ہوگا جو آج تک انگریز آمریّت ہندوستان کو اس کی آزادی سے محروم رکھنے کے لئے روا ر.6کھتی.6 آئی ہے ۔دراصل حقِ آزادی خالقِ فطرت کی پیدا کردہ موٹر پاور ہے اور گردوپیش کے حالات زیادہ سے زیادہ ایک بریک کی حیثیت رکھتے ہیں اور کوئی عقلمند انسان بریک کے استعمال کو اس حد تک نہیں پہنچاتا کہ موٹر ایک ناکارہ وجود بن کر ہمیشہ .6کے لئے کھڑی ہو جائے۔ موٹر بہرحال چلنے .6چلانے کے لئے بنی ہے اور بریک کا وجود صرف موٹر کو اپنے رستہ سے اکھڑنے اور دوسرے ٹریفک کے ساتھ ٹکرانے سے بچانے کے لئے مقصود ہے اور جو شخص اس بریک کو موٹر کے ناکارہ کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے وہ یقینا یا تو ایک نادان دوست ہے اور یا ایک بدنیت دشمن۔ اس نظریہ کے ماتحت اگر ہم غور کریں تو قوموں کا حقِ خود اختیاری پانچ اہم شرطوں کے ساتھ مشروط قرار پاتا ہے۔ پس جہاں بھی یہ شرطیں پائی جائیں گی وہاں کسی دوسرے بہانہ کی آڑ لے کر کسی قوم کو اس کے حقِ خود اختیاری سے محروم کرنا ایک ظلم عظیم ہوگا لیکن جہاں یہ شرطیں نہیں پائی جائیں گی وہاں کسی قوم کا حقِ خود اختیاری کا مطالبہ کرنا بھی جائز نہیں سمجھا جائے گا۔ بلکہ اس صورت میں اس قوم کا فرض ہوگا کہ اپنی ہمسایہ قوموں کے ساتھ مل کر کوئی مشترک اتحادی نظام قائم کرے یہ پانچ شرطیں جیساکہ حق وانصاف کا تقاضا ہے یہ ہیں:-
.6اوّل: مذہب کا اختلاف:.6 ظاہر ہے کہ مذہب افراد اور قوموں کی زندگی پر بھاری اثر رکھتا ہے اور خصوصاً مشرقی ممالک میں تو اسے وہ حیثیت حاصل ہے جسے موجودہ زمانہ کے مغربی قوموں کے لوگ غالباً خیال میں بھی نہیں لاسکتے۔ پس دو الگ الگ مذہب رکھنے والی قوموں کا ایک نظام میںمنسلک ہونا یقینا اپنے اندر ٹکرائو کے بہت سے خطرات رکھتا ہے مگر یاد رکھنا چاہیئے کہ مذہب کے اختلاف سے محض کسی ضمنی عقیدہ کا اختلاف مراد نہیں بلکہ سیاسی میدان میں صرف وہی مذہبی اختلاف مؤثر سمجھا جاسکتا ہے جو بنیادی امور پر مشتمل ہو اور موٹے طورپر یہ بنیادی امور دو ہیں یعنی الف۔ بانی ٔ مذہب کا مختلف ہونا اور ب۔ مذہبی کتاب کا مختلف ہونا۔ پس وہی قوم دوسری قوموں سے الگ ہونے کی حقدار سمجھی جائی گی جس کا مذہبی بانی دوسری قوموں کے مذہبی بانیوں سے اور جس کی مقدس کتاب ’’.6دوسری .6 قوموں کی مقدس کتابوں سے جدا ہے کیونکہ یہ امور ایسے ہیں جن کے متعلق قوموں کا اختلاف نہایت وسیع اور گہرے اثرات رکھتا ہے۔
.6دوم۔ تہذیب وتمدن کا اختلاف:.6 یہ اختلاف بھی مذہبی عقائد کے اختلاف کی طرح بہت وسیع الاثر ہے اور جہاں یہ اختلاف موجود ہوں وہاں دو قوموں میں کامل اتحاد کی صورت پیدا نہیں ہوسکتی دراصل جس طرح ایک لوہے کا ٹکڑا دوسرے ٹکڑے کے ساتھ پیوست اور ایک جان ہونے کے لئے اس بات کو چاہتا ہے کہ یہ دونوں ٹکڑے نہ صرف ایک قسم کے لوہے کے ہوں بلکہ دونوں کا درجہ حرارت بھی اپنے کمال میں ایک جیسا ہو۔ اسی طرح قوموں کا باہمی اتصال و اتحاد بھی تہذیب کی یکسانیت کا متقاضی ہے اور وہ ملک کبھی بھی اتحاد کی برکتوں سے مستفید نہیں ہوسکتا جس میں دوقومیں مختلف و متضاد تہذیب وتمدن رکھنے والی پائی جائیں۔
.6سوم۔ قوموں کی ضروریات کا جدا جدا ہونا: .6ظاہر ہے کہ اگر ایک قوم کی ضروریات دوسری قوم سے جدا اور مختلف ہیں تو پھر جب تک اس قوم کے لئے کوئی اپنا علیحدہ نظام قائم نہ کیا جائے جو اس کی ضروریات کو بصورت احسن پورا کرسکتاہو اس وقت تک یہ قوم کبھی بھی دوسری قوم کے سایہ میں پل کر ترقی نہیں کرسکتی۔
.6چہارم۔ کسی قوم کا کسی علیحدہ ملک یا ملک کے کسی علیحدہ اور معین اور معقول حصہ میں بصورت اکثریت آباد ہونا۔ .6بعض اوقات ایک ملک میں دو جدا جدا قومیں آباد ہوتی ہیں مگر وہ ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح ملی جلی صورت میں آباد ہوتی ہیںکہ الگ الگ مذہب اور الگ الگ تہذیب وتمدن رکھنے کے باوجود ان کے لئے علیحدہ علیحدہ نظامِ حکومت کا قیام ناممکن ہوتا ہے۔ اور اس صورت میں ان کی حکومتوں کو جدا کرنا کسی قوم کے لئے بھی فائدہ کا موجب نہیں ہوتا بلکہ فتنہ وفساد اور ٹکرائو کے موقعوں کو بڑھا دیتا ہے پس حق خود اختیاری .6Right of self Detemination.6 .6کے استعمال کے لئے یہ بھی ایک ضروری شرط ہے کہ جو قوم اس کی مدعی بنتی ہے وہ کسی علیحدہ ملک میں یا ملک کے کسی علیحدہ اور معین اور معقول حصہ میں نمایاں اکثریت کے رنگ میں آباد ہو۔
.6پنجم .6۔مندرجہ بالا شرطوں کے علاوہ یہ شرط بھی ضروری ہے کہ .6قوم کی اکثریت میں اس بات کی خواہش اور مطالبہ پایا جائے کہ ہمارا نظام جدا ہونا چاہیئے.6۔ یہ شرط اس لئے ضروری ہے کہ اگر باوجود مذہبی اور تمدنی اختلاف کے ایک قوم اپنے مخصوص حالات کے ماتحت اپنی ہمسایہ قوموں کے ساتھ مل کر ایک ہی نظام میں منسلک رہنا چاہتی ہے تو یہ ایک مبارک خواہش ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ایسی قوم کو خواہ نخواہ مجبور کرکے علیحدہ کیا جائے اس کے مقابل پر جب ایک قوم کی اکثریت میں علیحدگی کی خواہش موجود ہو تو اسے مجبور کرکے کسی دوسری قوم کے ساتھ اکٹھا رکھنا بھی ایک بھاری ظلم ہے۔ کیونکہ انصاف اور حقِ خود اختیاری کا تقاضا ہے کہ اسے علیحدہ ترقی کا موقعہ دیا جائے۔
.6یہ وہ پانچ اصولی باتیں ہیں جن کے جمع ہونے پر ایک قوم کو عقل وانصاف کی رو سے حقِ خود اختیاری حاصل ہوجاتا ہے اور اسکے بعد اسے اس حق سے محروم کرنا ویسی ہی جابرانہ آمریّت ہے جیسی کہ یورپ والے مشرقی ممالک پرروا رکھنے کے عادی ہیں۔یہ کہنا کہ فلاں حصہ ملک الگ ہوکر اپنی حکومت کو آزادانہ رنگ میں نہیں چلا سکے گا۔ یا یہ کہنا اس طرح وہ دوسری زبردست قوموں کا شکار بن جائے گا یا یہ کہ اس کی اقتصادی مشینری بگڑ کر تباہ ہوجائے گی یا یہ کہ وہ ملک کے دوسرے حصوں پر جس میں خود اس کے اپنے بھائی بندآباد ہیں اپنا اثر ورسوخ کھو بیٹھے گا اپنے اندر ناصحانہ انداز تو ضرور رکھتا ہے اور اس جہت سے کسی قوم کو انکار نہیں ہونا چاہیئے مگر ان باتوں کی وجہ سے کسی قوم کی خواہش اور مطالبہ کو رد کرکے اسے ایک خلاف مرضی نظام کی ماتحتی قبول کرنے پر مجبور کرنا ہر گز انصاف کا شیوہ نہیں آخر جب ہندو کو انگر.6یز.6 کی غلامی سے آزاد ہونے کا حق ہے تو مسلمان کو ہندو کی غلامی سے آزاد ہونے کا حق کیوں نہیں؟ اور جب ہندو انگر.6یز.6 سے یہ کہنے کا حق رکھتا ہے کہ تمہارے خیال میں تمہاری حکومت ہمارے لئے ایک بھاری رحمت ہی سہی مگر بہرحال ہم اسے اب اپنے لئے اچھا نہیں سمجھتے۔ اور اپنے ملک میں اپنے رنگ کی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں تو مسلمان کیوں اسی دلیل کی بناء پر علیحدہ نظام قائم نہیں کرسکتا؟ انصاف کا فطری ترازو بہرحال سب انسانوں کے لئے ایک ہے تو پھر ایسا کیوں ہو کہ ہندو کے لئے انگر.6یز.6 کے ساتھ معاملہ کرنے کا ترازو اور ہو اور مسلمانوں کے ساتھ معاملہ کرنے کے لئے اور؟ ہاں اگر مسلمان ہندوستان کے کسی معین حصہ میں علیحدہ طور پر اکثریت کی صورت میں آباد نہ ہوتے یا ان کا مذہب وتمدن ہندوئوں کے مذہب اور تمدن سے الگ نہ ہوتا یا ان کی قومی ضروریات ہندوئوں کی قومی ضروریات سے جدا نہ ہوتیں۔ یا باوجود ان ساری باتوں کے ان میں علیحدگی کی خواہش نہ ہوتی تو پھر بے شک ہندوئوں کا اکھنڈ ہندوستان کا مطالبہ جائز اور درست تھا۔ لیکن جب کہ حق خود اختیاری کی ساری شرائط موجود ہیں تو پھر مسلمانوں کو اس حق سے محروم کرنا نہ صرف قرین انصاف نہیں بلکہ ملک میں ایسے فتنہ کے بیج بونے کے مترادف ہے کہ جو آئندہ چل کر انگریز آمریت سے بھی زیادہ بھیانک صورت اختیار کرسکتا ہے۔
.6پس موجودہ حالات میں ہندوئوں کے لئے صرف ایک ہی معقول اور منصفانہ راستہ کھلا ہے اور وہ یہ کہ وہ دل کی سچی تبدیلی ثابت کرکے مسلمانوں کو ایسی پختہ اور مستقل مراعات اور ایسے یقینی تحفظات دے دیں کہ ان کے دل میں علیحدگی کی خواہش خود بخود مدھم پڑ جائے۔ اور وہ ہندوئوں کے ساتھ مل کر ایک مشترک نظام میں رہنے کے لئے تیار ہوجائیں اور یہ صورت ہرگز ناممکن نہیں۔ مسلمان طبعاً فیاض دل ہے اور ’’بھول جائو اور معاف کردو‘‘ کے اصول کی طرف بہت جلد کھینچا جاسکتا ہے۔ پس جو بات جبر سے حاصل نہیں ہوسکتی اسے محبت کی زنجیروں سے کھینچ لو۔ کیونکہ محبت کی قوت جبر کی طاقت سے بہت زیادہ دائمی ہے۔ اور دوستی کی کشش دشمنی کے دبائو سے کہیں زیادہ زوردار۔ مگر یاد رکھو کہ اصولاً قربانی دکھانا ہندوئوں کے ذمہ ہے کیونکہ ہندوستان میں ان کی اکثریت ہے اور دولت وتعلیم میں بھی وہ مسلمانوں سے بہت آگے ہیں۔ پس اگر وہ فراخ دلی کے ساتھ مسلمانوں کو اب بھی صوبوں میں مکمل اور حقیقی خود مختاری دیں اور مرکز میں بھی ان کے لئے برابری کے حقوق اور پختہ تحفظات محفوظ کردیئے جائیں تو اس طرح مسلمان کا پاکستان کا مطالبہ قریباً قریباً پورا ہوجاتا ہے۔ اور ہندو بھی اکھنڈ ہندوستان کے خواب سے محروم نہیں رہتا اور ملک کی شان بھی قائم رہتی ہے۔ کاش ایسا ہوسکے۔ اے کاش ایسا ہوسکے اور نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں ہوگا کہ ہندوستان ایک خطرناک جنگ کی آگ سے نکلِ کر دوسری خطرناک جنگ کی آگ میں جاگرے گا اور نہ پاکستان باقی رہے گا اور نہ اکھنڈ ہندوستان۔ بس اِس سے زیادہ میں اس وقت کچھ نہیں کہوں گاکیونکہ باقی تفاصیل کا بیان کرنا .6م.6وجودہ .6حالات میں انتشار کا موجب ہو سکتا ہے جو اس وقت مناسب نہیں ۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ ؍مئی ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
دل کا حلیم
.6
.6یہ ایک مسلّمہ اصول ہے کہ ہر ہستی کا کلام اس کے علم اور اس کی شان کے مطابق ہوتا ہے۔ چنانچہ جہاں ایک عام انسان کا کلام اپنے سطحی معنوں کے اندر محدود ہوتا ہے اور اس میں کوئی گہرائی نہیں پائی جاتی جس میں سننے والے کو غوطہ لگانے کی ضرورت پیش آئے۔ وہاں ایک عالی مرتبہ عالم یا مدبّر کا کلام اپنے اندر بہت سی گہرائیاں رکھتا ہے۔ جن تک پہونچنے کے لئے کافی غوروخوض کی ضرورت ہوتی ہے۔ ورنہ انسان ایسے کلام کے صحیح مفہوم کو نہیں سمجھ سکتا اور اس کے بہت سے لطیف پہلو نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ اسی طرح جہاں ایک عام انسان کے کلام میں کئی الفاظ زائد پائے جاتے ہیں، جو وہ جہالت یا بے احتیاطی کی وجہ سے یا غیر محسوس تکرار کے رنگ میں یا بسااوقات محض عبارت کی ظاہری خوبصورتی کی غرض سے استعمال کرتا ہے ۔ حالانکہ ان کے استعمال سے الفاظ کے معنوی حسن میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا بلکہ بعض اوقات اغلاق اور پیچیدگی کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے ۔ وہاں ایک اعلیٰ درجہ کا عالم یا مدبّر انسان ہر لفظ سوچ کر استعمال کرتا ہے اور اپنے کلام میں حتی الوسع کسی ایسے لفظ کو راہ نہیں دیتا جو زائد یا غیر ضروری یا معانی میں پیچیدگی پیدا کرنے والا ہو۔ پس جب مختلف طبقوں کے انسانوں کے کلام میں یہ فرق پایا جاتا ہے تو عالم الغیب خدا اورا س کی پیدا کردہ ناقص العلم مخلوق کے کلام میں تو یہ فرق بہت زیادہ نمایاں صورت میں پایاجانا چاہیئے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ جہاں مختلف انسانوں کے کلام میں صرف درجہ کا فرق ہوتا ہے وہاں خدا اور انسان کے کلام میں محض درجہ کا ہی فرق نہیں ہوتا بلکہ دراصل خدا کا کلام اپنی نوعیت اور اپنی حقیقت میں انسانی کلام سے بالکل جدا اور نرالا ہوتا ہے اور نہ صرف یہ کہ اس کے کلام میں کوئی حصہ زائد اور غیر ضروری نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر لفظ اور ہر حرف اور ہر حرکت اپنے اندر ایک خاص حقیقت اور خاص غرض وغایت رکھتی ہے۔ اس شاندار خصوصیت کا نظارہ قرآن شریف کے اوراق میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کا خاص الخاص کلام ہے جو اس کی کامل اور ابدی شریعت کا حامل بن کر نازل ہوا ہے۔ مگر خدائی کلام کی یہ خصوصیت قرآنی وحی تک ہی محدود نہیں بلکہ کم وبیش ہر الہام الٰہی میں نظر آتی ہے اور میں ذیل کی سطور میں ایک اسی قسم کی خصوصیت کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
.6کچھ عرصہ ہوا مجھے ایک دوست نے کہا کہ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بسا اوقات اپنے ماتحت کارکنوں پر ایسی سخت گرفت فرماتے ہیں کہ جو بظاہر انتہائی درشتی کا رنگ رکھتی ہے۔ حالانکہ آپ صرف خلیفۂ وقت ہی نہیں بلکہ مصلح موعود بھی ہیںاور حسن واحسان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نظیر بھی۔ میں نے اس وقت لمبی بحث سے احتراز کرنے کے لئے سرسری طور پر جواب دیا کہ امام کو بعض اوقات مفاد سلسلہ کے ماتحت سختی بھی کرنی پڑتی ہے اور اس کے برداشت کرنے میں ہی جماعت کے لئے برکت ہے۔ اس دوست نے کہا کہ کبھی کبھار سختی کا رنگ پیدا ہوجانا اور بات ہے مگر یہاں تو کثرت کے ساتھ یہی صورت نظر آتی ہے اور بعض اوقات تو انتہائی سختی کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں کبھی نہیں پایا گیا۔ میں نے کہا تو پھر بھی کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ حضرت عمرؓ کے متعلق بھی یہی اعتراض پیدا ہؤا تھا۔ حالانکہ آنحضرت صلی اللہ .6علیہ وسلم کے متعلق یہ اعتراض کبھی نہیں ہؤا۔ علاوہ ازیں سخت گیری کی پالیسی تو ایک طرح سے مصلح موعود .6کی نشانی ہے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہاموں میں صاف آتا ہے کہ وہ یعنی مصلح موعود ’’جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔‘‘ پس گھبرائو نہیں اور اپنے دل کو ذرا کڑا کرکے رکھو کیونکہ یہ ’’جلالِ الٰہی‘‘ خدائی منشاء کے مطابق ہے اور جماعت کی بہتری کے لئے ہے۔ اس پر یہ دوست بولے کہ میں خدا کے فضل سے منافق نہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ سے دلی عقیدت اور اخلاص رکھتا ہوںمگر صرف تشریح اور تسلی کے خیال سے پوچھتا ہوں کہ مصلح موعود کے متعلق ’’حلیم ‘‘ کا لفظ بھی تو آیا ہے اور بظاہر یہ سختی حِلم وبردباری کے طریق کے خلاف نظر آتی ہے۔ اس اعتراض پر میں ایک سیکنڈ کے لئے رکا مگر قبل اس کے کہ اس دوست نے میرے رکنے کو محسوس کیا ہو۔ خدا تعالیٰ نے .6اچانک میرے دل میں ایک خیال ڈالا اور میں نے اس دوست سے تجاہل کے رنگ میں پوچھا کہ مصلح موعود .6کو ’’حلیم‘‘ کس الہام میں کہا گیا ہے؟ مجھے تو کوئی ایسا حوالہ یاد نہیں۔ یہ دوست غالباً اس خیال سے کہ بس اب میں نے میدان مار لیا فوراً بولے کہ وہ جو فروری .6۱۸۸۶.6ء کی وحی میں آتا ہے کہ ’’وہ سخت ذہین وفہیم ہوگا اور دل کا حلیم‘‘ اس میں مصلح موعود کے متعلق صاف طور پر ’’حلیم‘‘ کا لفظ بولا گیا ہے۔ اور حلیم کے معنی چشم پوشی اور درگزر کرنے والے کے ہیں۔ میں نے کہا بس آپ کی بحث ختم ہوچکی ہے اب میری سنو کہ یہاں ’’دل کا حلیم‘‘کہا گیا ہے نہ کہ صرف’’حلیم‘‘ اور ان دونوں کے مفہوم میں بھاری فرق ہے۔ کیا وہ خدا جس نے قرآن شریف میں حضرت ابراہیم ؑ کے متعلق حلیم۲۲.6 .6کا لفظ استعمال فرمایا اور پھر ان کے صاحبزادہ حضرت اسمٰعیل کو بھی اسی لقب سے یاد کیا.6۔۲۳.6 .6وہ مصلح موعود کے متعلق خالی حلیم کا لفظ استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ پس جب خدائے علیم نے ’’حلیم‘‘ کے سادہ اور مختصر لفظ کو ترک کرکے اس کی جگہ ’’دل کا حلیم‘‘ کا مرکب اور طولانی محاورہ اختیار فرمایا تو یقینا یہ استعمال بے وجہ نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا کوئی لفظ زائد اور بے معنی نہیں ہؤا کرتا۔ اس مختصر تشریح سے ہمارے اس دوست کی (جو خدا کے فضل سے مخلص بھی تھے اور ذہین بھی) گویا آنکھیں کھل گئیں اور انہوں نے نہائت درجہ شکریہ کے رنگ میں کہا کہ آپ نے مجھے ایک بھاری خلجان سے بچا لیا ہے۔
.6دراصل جیسا کہ میں نے اوپر اشارہ کیا ہے اللہ تعالیٰ نے جو مصلح موعود کے متعلق ’’دل کا حلیم‘‘ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں، یہ اپنے اندر ایک نہائت گہری صداقت رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان الفاظ میں یہ لطیف اشارہ کیا گیا ہے کہ گو مصلح موعود اپنے قلبی جذبات میں حلیم ہوگا۔ مگر اس کے ظاہر میں جلال اور درشتی کا رنگ پایا جائے گا۔ اس لئے اس کے متعلق صرف ’’حلیم‘‘ کی مفرد صفت کا اطلاق درست نہیں ہوگا۔ بلکہ ’’دل کے حلیم‘‘ کی مرکب صفت ہی اس کے فطری خلق کی آئینہ دار ہوسکے گی۔ کیونکہ گو اس کے ظاہر میں ’’جلال‘‘ رکھا گیا ہے مگر اس کے قلب کی گہرائیوں میں ’’حلم‘‘ وبردباری کا بسیرا ہے۔ یہی وہ حقیقی تشریح ہے جو مصلح موعود والی وحی کے گہرے مطالعہ سے ثابت ہوتی ہے۔ اور جس کے نہ .6سمجھنے کی وجہ سے بعض ناواقف لوگ پریشان ہونے لگتے ہیں۔ حالانکہ اگر غور کیا جائے تو حضرت .6خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زندگی کے انتظامی پہلو کا جو مختصر مگر مکمل نقشہ ان تین الفاظ میں کھینچا گیا ہے اس سے زیادہ صحیح تصویر ممکن نہیں ہوسکتی۔ مگر افسوس کہ اکثر لوگ تدبر کی عادت نہیں رکھتے۔ درحقیقت بات یہ ہے کہ قوموں کی تربیت اور ترقی کے لئے جلال اور جمال دونوں ضروری ہیں۔ اسی لئے خدا تعالیٰ کی یہ قدیم سنت ہے کہ وہ کسی نبی میں جلال کے پہلو کو غلبہ دے دیتا ہے اور کسی میں جمال کے پہلو کو اور کسی میں جہاں وقتی ضروریات ایک مرکب صفت والے مصلح کی متقاضی ہوتی ہیں،کسی ایسے انسان کو مبعوث فرماتا ہے جو جلال وجمال دونوں کا مظہر ہوتا ہے۔ یعنی اگر اس کا ظاہر جلال کی صفت پر قائم ہوتا ہے تو اس کا باطن جمال کی صفت کا حامل اور یہی ابدی فلسفہ خلفاء کے سلسلہ میں بھی کام کرتا ہؤا نظرآتا ہے۔ لیکن یہ ایک لمبا مضمون ہے اور میں انشاء اللہ اس موضوع پر عنقریب ایک علیحدہ مضمون لکھوں گا۔.6 وما توفیقی الا باللّٰہ العظیم.6۔
.6نوٹ:- چونکہ اس گفتگو پر کچھ عرصہ گزرچکا ہے اس لیئے ممکن ہے کہ بعض الفاظ کم وبیش ہوگئے ہوں اور بعض میں نے تشریح کے خیال سے دانستہ کم وبیش کیئے ہیں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۴ ؍جون ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
تعلیم الاسلام کالج قادیان کا پہلا نتیجہ
.6
.6اس سال ہمارے تعلیم الاسلام کالج قادیان کی طرف سے پہلی دفعہ ایف۔اے اور ایف۔ایس۔سی کے امتحانوں میں طلباء شریک ہوئے تھے اور کمپارٹمنٹ والے امیدواروں کو شامل کرتے ہوئے خدا کے فضل سے .6۵۹.6 میں سے .6۳۱.6 طلباء کامیاب ہوئے ہیں اور ایک طالب علم نذیر احمد .6۴۹۳.6 نمبر لے کر پنجاب بھر کے مسلمان امیدواروں میں سوم نکلا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ غالباً وہ وظیفہ حاصل کرے گا۔ ابتدائی مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ یونیورسٹی کے اعلان کے مطابق اس سال ایف۔اے اور ایف۔ایس۔سی کا نتیجہ گذشتہ پانچ سالوں میں سب سے زیادہ سخت رہا ہے۔ ہمارا نتیجہ خدا کے فضل سے آئندہ بہت بہتر نتائج کی امید پیدا کرتا ہے۔ احباب کو چاہیئے کہ تھرڈ ایر میں جو اس سال ستمبر کے آخر میں کھل رہی ہے زیادہ سے زیادہ طلباء داخل کرکے اس اہم قومی درسگاہ کی ترقی میں حصہ لیں۔
.6 .6خاکسار
.6 .6مرزا بشیر احمد
.6 .6صدر تعلیم الاسلام کالج سب کمیٹی
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍ جولائی ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
موجودہ سیاسی الجھن کو سلجھانے کے لئے
حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی مساعی جمیلہ
.6
.6دہلی ۔یکم اکتوبر(بذریعہ ڈاک) گو جیسا کہ ’’الفضل‘‘ میں اعلان کیا جاچکا ہے ۔ حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی غرض موجودہ سفر دہلی میں ملک کے سیاسی حالات کا مطالعہ تھی اور خیال یہ تھا کہ حضور دہلی میں چند دن قیام رکھ کر اپنے نمائندوں کے ذریعہ سیاسی لیڈروں کے خیالات معلوم کرنے کی کوشش فرمائیں گے۔ تاکہ ان کی روشنی میں جماعت کی طرف سے ملک کی بہتری کے لئے کوئی قدم اٹھایا جاسکے مگر دلّی پہنچنے پر ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ خود حضور نے بعض سیاسی لیڈروں سے ملنا اور براہِ راست تبادلۂ خیالات کرنا ضروری خیال فرمایا۔ چنانچہ اس وقت تک بعض دوسری ملاقاتوں کے علاوہ حضور مسٹر جناح صدر مسلم لیگ اور مولانا ابوالکلام آزادؔ اور مسٹر گاندھی سے ملاقات فرماچکے ہیں اور حضور کی طرف سے حضور کے نمائندگان نے جو ملاقاتیں کی ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ اس وقت ان ملاقاتوں کی تفصیل لکھنا مناسب نہیںمگر احباب کو دعا کرنی چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ موجودہ نازک وقت میں جو حقیقتاً بے حد نازک ہے۔ مسلمانوں اور ہندوئوں اور دیگر اقوامِ ہند کی ایسے رستہ کی طرف رہنمائی فرمائے جو ملک کی بہبودی اور ترقی کے لئے مفید اور ضروری ہو۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳ ؍اکتوبر ۱۹۴۶ئ)
.6
.
.6
حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دہلی میں
.6
.6۳.6؍ اکتوبر (بذریعہ ڈاک) دہلی میں موجود سیاسی الجھن کو سلجھانے کے لئے حضرت امیرالمؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مساعی کا مختصر ذکر گذشتہ رپورٹ میں گذرچکا ہے۔ اس کے بعد حضور کی ملاقات نواب صاحب بھوپال چانسلر و چیمبر آف پرنسز سے ہوچکی ہے، جو یہاں موجودہ سیاسی حالات کے تعلق میں تشریف لائے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں ایک دعوت کے موقع پر سرناظم الدین صاحب آف بنگال اور سردار عبدالرب صاحب نشتر آف سرحد کی بھی حضور سے ملاقات ہوئی ہے۔ موجودہ سیاسی حالات بڑی سرعت کے ساتھ کسی نہ کسی نتیجہ خیز صورت کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔ اس لئے احباب کو دعائوں کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیئے۔ آج حضور نے سابقہ اعلان کے مطابق اکتوبر کے مہینہ کی پہلی جمعرات کا روزہ رکھا۔ ہز ہائی نس؎؎؎؎؎ سر آغاخاں صاحب نے یورپ سے بذریعہ تار حضور کی موجودہ مساعی کے ساتھ ہمدردی اور اتحاد کا اظہار کیا ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۵ ؍اکتوبر ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
دہلی میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کی مساعی
.6
.6 .6۵.6؍ اکتوبر (بذریعہ ڈاک) حضرت امیرالمومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے ایک چٹھی .6ہزایکسلنسی وائسرائے کے نام بھجوائی ہے کہ گو جماعت احمدیہ ایک تبلیغی جماعت ہونے کی وجہ سے .6مِن حیث الجماعت لیگ میں شامل نہیں مگر موجودہ سیاسی بحران میں اس کی اصولی ہمدردی تمام ترلیگ .6کے ساتھ ہے اور ایک دوسری چٹھی میں حضور نے وائسرائے پر واضح فرمایا ہے کہ اگر خدا نخواستہ موجودہ .6گفت وشنید ناکام ہوتی نظر آئے۔(گو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت کامیابی کی امید .6غالب ہے) تو مایوس ہوکر اسے ناکام قراردینے کی بجائے التواء کی صورت قرار دی جائے۔ تاکہ اس عرصہ میں لیڈر بھی مزید غور کرسکیں اور پبلک (خصوصاً آزاد پبلک) کو بھی اپنا اثر ڈالنے کا موقع مل سکے مگر اس صورت میں ضروری ہوگا کہ جس نکتہ پر ناکامی ہورہی ہو، اسے پبلک کے علم کے لئے ظاہر کیا جائے۔ اسی مضمون کی وضاحت کے لئے حضور کی طرف سے درد صاحب ہزایکسلنسی وائسرائے کے پرائیویٹ سیکرٹری سے بھی مل چکے ہیں۔
.6حضور کی طرف سے چودھری اسد اللہ خاں صاحب اور درد صاحب اور صوفی عبدالقدیر صاحب نواب زادہ لیاقت علی خاں صاحب اور سر سلطان احمد صاحب اور نواب صاحب چھتاری اور سر فیروز خاں صاحب سے بھی ملے ہیں۔ مؤخرالذکر صاحب حضور سے ملنے کے لئے بھی آئے تھے مگر حضور جمعہ کے لئے باہر تشریف لے گئے ہوئے تھے۔ خان بہادر علی قلی خاں صاحب سابق پولیٹیکل ایجنٹ صوبہ سرحد حضور کی ملاقات کے لئے آئے اور نواب صاحب چھتاری سابق گورنر یو۔پی نے علی گڑھ سے ایک تار کے ذریعہ حضور کی مساعی کے ساتھ ہمدردی اور اتحاد کا اظہار کیا۔ بعض پریس کے نمائندے (چیف رپورٹر اخبار ڈان اور ڈائرکٹرز اورینٹ پریس اور سری کرشن صاحب نمائندہ اندراپتر کا وغیرہ) بھی حضور سے ملاقات کرچکے ہیںاور حضور کی طرف سے صوفی عبدالقدیر صاحب نے بعض امریکن اور انگریزی اخباروں کے نمائندوں سے ملاقات کرکے مسلمانانِ ہند کا نقطۂ نظر واضح کیا۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۷؍اکتوبر ۱۹۴۶ئ)
.6
حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ دہلی میں
.6
.6 دہلی .6۹.6 ر اکتوبر (بذریعہ ڈاک) مسلم لیگ اور کانگرس کا متوقع سمجھوتہ تکمیل کے قریب پہنچ گیا ہے مگر ابھی بعض تفصیلات میں گفتگو کا سلسلہ جاری ہے ۔دعا کرنی چاہئے کہ آخری مرحلہ پرکوئی روک نہ پید اہواور حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی سعی اور روحانی توجہ ہندومسلمانوں کے لئے ایک مستقل اور بابرکت نتیجہ پیدا کرنے کاباعث بن جائے آمین ۔ آج کچھ رپورٹیں خلاف بھی آرہی ہیں اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہو۔
.6 عرصہ زیر رپورٹ میں سر فیروز خاں صاحب نون سابق ڈیفنس ممبر گورنمنٹ آف انڈیا او رنواب سر احمد سعید خاں صاحب آف چھتا ری سابق گورنر یو۔پی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے تشریف لائے اور مولانا ابو الکلام صاحب آزاد کے ساتھ بھی حضور کی دوسری ملاقات ہوئی نیز حضور نے ایک پرائیویٹ خط کے ذریعہ مسٹر جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ کو آیندہ کے متعلق بعض مفید تجاویز کی طرف توجہ دلائی۔
.6چونکہ حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا کا آبائی وطن دلّی ہے اس لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت اماں جان کے بعض جدی عزیزوں کی ملاقات کیلئے دلّی کے قدیم محلہ کوچہ چیلاں میں تشریف لے گئے ۔اور اس موقعہ پر دلی کے مشہور صوفی بزرگ اور حضرت اماں جان کے جد امجد حضرت خواجہ میر درد صاحب کا حجرہ بھی دیکھاحضرت خواجہ میر درد صاحب کا وسیع اثر اس سے ظاہر ہے کہ قریباً پونے دو سو سال کا عرصہ گذر جانے کے باوجود گورنمنٹ آف انڈیا نے نئی دہلی کی ایک سڑک کا نام ’’میر درد روڈ ‘‘ رکھا ہے۔
.6کل شام کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے لنڈن کے دو مشہور روزانہ اخباروں کے انگریز نمائندے جو دلّی میں مقیم ہیں حضور کی فرود گاہ میں تشریف لائے اور مختلف قسم کے سوالات کرتے رہے۔ دلّی کے عریبک کالج (جس میں ایم ۔اے تک تعلیم دی جاتی ہے ) کے چار پروفیسر بھی حضور کی ملاقات سے مشرف ہوئے اور ایک دعوت کے موقع پر دلّی کے بعض چوٹی کے مسلمان تاجروں اور دوسرے معززین کی بھی حضور سے ملاقات ہوئی۔ دلّی کی اہمیت اور مرکزی حیثیت کی وجہ سے حضور کو خیال ہے کہ یہاں ایک مضبوط جماعتی مرکز قائم کیا جائے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍اکتوبر ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی مساعی دلّی میں
.6
.6۱۱.6؍ اکتوبر (بذریعہ ڈاک) کوٹھی نمبر .6۸.6 یارک روڈ نئی دہلی کے وسیع صحن میں بدھ کی شام کو ساڑھے پانچ بجے حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک پبلک تقریر ہوئی، جس میں دعوتی رقعوں کے ذریعہ معززین کو مدعو کیا گیا تھا۔ باوجود اس کے کہ تقریر کا وقت مناسب نہیں تھاکیونکہ ملازم پیشہ لوگوں کو دفتر سے فارغ ہوتے ہی آنا پڑتا تھا زائد از چھ سو غیر احمدی اور غیر مسلم معززین تشریف لائے اور آخر وقت تک بیٹھ کر نہایت سکون اور توجہ کے ساتھ حضور کی تقریر کو سنا۔ احمدی سامعین اس تعداد کے علاوہ تھے۔ تقریر کے اختتام پر جو نماز کا وقت ہوجانے پر جلد ختم کردینی پڑی ،بعض غیر احمدی معززین یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ افسوس ہے کہ وقت تنگ ہونے کی وجہ سے تقریر کا مضمون جو نہایت علمی اور دلچسپ تھا ختم نہیں ہوسکا۔ جیسا کہ پہلے اعلان ہوچکا ہے تقریر کا موضوع یہ تھا کہ ’’دنیا کی موجودہ بے چینی کا اسلام کیا علاج پیش کرتا ہے۔‘‘ نماز کے بعد نیز دوسرے دن بعض معززین نے تقریر سے متعلقہ مضمون پر حضور سے بعض سوالات کئے اور تسلی پاکر واپس گئے۔ .6۱۹۴۴.6ء کی تقریر کے مقابلہ پر جبکہ بعض دلّی والوں نے اتنا ہنگامہ برپا کیا تھا۔ .6۱۹۴۶.6ء کی تقریر نے ثابت کردیا کہ اب خدا کے فضل سے اہلِ دہلی کے ’’قفل‘‘ کھلنے شروع ہوگئے ہیں۔
.6مسلم لیگ اور کانگرس کی سیاسی گفت وشنید کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور چھوٹے چھوٹے سوالات اٹھ کر آخری مفاہمت کو التوا میں ڈال رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مسٹر گاندھی نے اس سوال کے متعلق ایک فارمولا پیش کیا تھاکہ کانگریس اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ لیگ جمہور مسلمانانِ ہند کی نمائندہ جماعت ہے مگر کانگرس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کانگرسی مسلمانوں میں سے کسی کو اپنا نمائندہ بنائے۔ مسٹر جناح نے اس فارمولا کو منظور کرلیا تھامگر کانگرس کے بعض اربابِ حل وعقداس پر معترض ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ اگر کوئی خاص روک نہ پیدا ہوگئی یا موجودہ روک نے زیادہ سخت صورت نہ اختیار کرلی تو دوتین دن میں مفاہمت کی صورت پیدا ہوجائے گی۔ احباب کو دعا کا سلسلہ جاری رکھنا چاہیئے۔ جمعرات کی صبح کو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ اور پنڈت نہرو صاحب کی ملاقات ہوئی۔ حضور کا احساس ہے کہ نہرو صاحب کچھ مشوش نظر آتے تھے اس لئے گفتگو زیادہ مفصل نہیں ہوسکی۔
.6ایک خط کے ذریعہ حضور نے ہزہائینس نواب صاحب بھوپال کی مساعی کی تعریف فرمائی ہے اور انہیں تحریک کی ہے کہ درمیانی روکوں کی وجہ سے دل برداشتہ نہ ہوں اور اپنی مخلصانہ مساعی کو جاری رکھیں، جس میں ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔
.6حضور نے نیورمبرگ کے فیصلہ پر اپنے لندن کے دارالتبلیغ کو تار دیا تھا کہ حکومت سے درخواست کرکے اس بات کی کوشش کریں کہ جن جرمن لیڈروں کو موت کی سزا کا حکم ہوا ہے ان سے ملاقات کی اجازت مل جائے اور پھر اجازت ملنے پر ان کے سامنے اسلام پیش کریں،تا مرنے سے پہلے ان کی روحوں کو ابدی سلامتی حاصل ہوسکے، مگر افسوس ہے کہ امریکن حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۱۴ ؍اکتوبر۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
سیدہ امّ طاہر مرحومہ کی بڑی بچّی کی شادی
.6
اور
مسّرت وغم کے مخلوط جذبات
.6
.6پرسوں بروز اتوار بتاریخ .6۱۰.6؍ اکتوبر .6۱۹۴۶.6ء حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی صاحبزادی اور ہمشیرہ سیدہ ام طاہرمرحومہ کی بڑی بچی عزیزہ امۃ الحکیم سلمہا کا رخصتانہ تھا۔ دنیا میں ہر روز ہزاروں لاکھوں شادیاں ہوتی ہیں اور ہر شادی میں لڑکی والوں کے لئے خوشی کے ساتھ ساتھ ایک پہلو غم کا بھی شامل ہوتا ہے۔ کیونکہ پلی پلائی لڑکی جو گھر کی رونق وبہار اور والدین کی نورِ چشم اور راحتِ جان ہوتی ہے ان کے گھر سے رخصت ہوکر ایک دوسرے گھر میں قدم رکھتی ہے اور پھر اس کے بعد وہ عملاً ہمیشہ کے لئے اسی مؤخرالذکر گھر کی ہوجاتی ہے۔ گویا وہ ایک پودا تھا جو ایک باغ سے اکھڑ کر دوسرے باغ میں نصب ہوگیا۔ پس والدین جہاں اس موقع پر اپنی بچی کا گھر آباد ہوتا دیکھ کر اور اس کے سہاگ کی امیدیں دل میں قائم کرکے خوش ہوتے ہیں۔ وہاں ان کا دل اپنی بچی کی جدائی پر اور ایک رنگ میں ہمیشہ کی جدائی پر غم کے آنسو بھی بہاتا ہے۔ دل خوشی سے سینہ میں اچھلتا بھی ہے اور پہلو میں درد بھی اٹھ اٹھ کر بے چین کرتا ہے اور فطرتِ انسانی کے اس مخلوط فلسفہ کو خالقِ فطرت کے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ یہ اسی کی شانِ کبریائی ہے کہ ایک ہی وقت میں ایک ہی سینہ میں آگ وپانی کو جمع کر رکھا ہے۔ آگ جلتی ہے مگر پانی اس کے پہلو میں پڑا ہوا اسے بجھا نہیں سکتا اور پانی ٹھنڈک پہنچاتا ہے مگر آگ اس کے پہلو میں پڑی ہوئی اس کی ٹھنڈک کو مٹا نہیں سکتی۔
.6یہ آگ وپانی والا نظارہ ہر شادی والے گھر میں جہاں سے لڑکی رخصت ہوتی ہے ہر روز ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں دیکھنے میں آتا ہے اور لوگ کچھ خوشی کے گیت گاکر اور کچھ غم کے آنسو بہا کر دوچار دن میں خاموش ہوجاتے ہیں مگر عزیزہ امۃ الحکیم سلمہا کا رخصتانہ اس کی مرحومہ امی کی یاد کی وجہ سے مسرت و خوشی کے ساتھ ساتھ غم والم کے عنصر کو ایسا بھڑکانے والا تھا کہ اسے ایسی جلدی سے بھلایا نہیں جاسکتا۔ سیدہ امِ طاہر مرحومہ جن کی وفات .6۵.6؍ مارچ .6۱۹۴۴.6ء کو ہوئی اپنے اندر دو خاص اوصاف رکھتی تھیں۔ ایک تو یہ کہ وہ ہر غریب وامیر کی خوشی اور غم میں اس طرح شریک ہوتی تھیں کہ گویا وہ خوشی اور غم خود ان کا اپنا ہے۔ کسی کے بیاہ میں جاتیں تو جاتے ہی سارے انتظامات کو اس طرح اپنے ہاتھ میں لے لیتیں کہ گویا یہ خود ان کے اپنے گھر کی شادی ہے اور سب سے زیادہ خوشی انہی کو ہے۔ یہ نظارہ ان کے ساتھ تعلق رکھنے والے خاندانوں نے دس بیس دفعہ نہیں بلکہ سینکڑوں دفعہ دیکھا ہوگاکیونکہ وہ اتنی ہردلعزیز تھیں کہ ہر گھر انہیں بلانے میں خوشی اور فخر محسوس کرتا تھا اور وہ جہاں جاتی تھیں شادی کی رونق کو دوبالا کردیتی تھیں۔ دوسرا نمایاں وصف سیدہ مرحومہ میں یہ تھا کہ وہ اپنے بچوں کے لئے نہائت درجہ شفیق اور محبت کرنے والی ماں تھیں اور ان کا دل اس خواہش سے ہمیشہ معمور رہتا تھاکہ وہ اپنی بچیوں کا گھر بہترین صورت میں آباد ہوتا دیکھ لیں۔ غالباً وہ کبھی کسی شادی میں شریک نہیں ہوئیںکہ جب انہوں نے اپنے ملنے والوں سے یہ دردمندانہ استدعا نہ کی ہو کہ میری لڑکیوں کے واسطے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ انہیں اچھے بَر ا.6و.6ر اچھے گھر عطا کرے۔ خداکی گہری اور ازلی تقدیر کے ماتحت انہیں یہ خوشی دیکھنی نصیب نہیں ہوئی مگر عزیزہ امۃ الحکیم سلمہا کے رخصتانہ کے دن وہ کون سا دل تھا جو حالات سے واقف ہوتے ہوئے مرحومہ کے ان اوصاف کو یاد کرکے مرحومہ کے درجات کی بلندی اور اس کی اولاد کی دینی دنیوی بہبود ی کے لئے دست بدعا نہ ہؤا ہو۔ ہم سب اس وقت انتہا درجہ خوش بھی تھے اور انتہاء درجہ غمگین بھی۔ خوش اس لئے کہ مرحومہ کی سب سے بڑی بچی مرحومہ کی ان ہزاروں دعائوں کو اپنے ساتھ لئے ہوئے جو وہ اپنی اولاد کے واسطے دن رات کیا کرتی تھیں، اپنا نیا گھر آباد کرنے کے لئے جارہی تھی۔ اور غمگین اس لئے کہ آج مرحومہ جو اس وقت سب سے زیادہ خوش ہونے کا حق رکھتی تھی اور جس کے دل میں اس دن کے دیکھنے کی کتنی زبردست خواہش اور زبردست تمنا تھی اور جو اپنی شرکت سے دوسروں کی خوشی کو بھی دوبالا کردیا کرتی تھی۔ اس دنیا میںموجود نہیں ہے۔ اس وقت مجھے حالی کا وہ شعر یاد آیا جو اس نے غالب کی وفات پر کہا تھا کہ :-
.6 بارِ احباب جو اٹھاتا تھا .6 .6دوش احباب پر سوار ہے آج
.6میرے دل نے کہا کہ مرحومہ نے اپنی ساری عمر لوگوں کے بوجھ اٹھانے اور ان کی خوشیوں کو اپنی خوشی بنانے میں گزاردی لیکن جب اس کی اپنی بچی کی شادی کا وقت آیا تو وہ اگلے جہان میں پہنچ چکی ہے اور اس کی جگہ کام کرنے والے دوسرے لوگ اور خوشی منانے والے دوسرے لوگ اور اس کی بچی کے رخصت ہونے پر غم کے آنسو بہانے والے بھی دوسرے لوگ ہیں۔میرا یہ مطلب نہیں کہ مرحومہ کے قائم مقاموں نے اس انتظام میں اور اس موقع کی مخلوط خوشی اور غم کے مخلصانہ اظہار میں کسی رنگ میں کمی کی ہے بلکہ جیسا کہ میں سنتا رہا ہوں، ان کی مخصوص قائم مقام نے جو اس وقت مرحومہ کے بچوں کی ’’مہرآپا‘‘ کہلاتی ہیں نے تو انتہائی سعی ومحنت اور انتہائی مہر ومحبت کے ساتھ یہ سارے فرائض انجام دیئے ہیں۔.6 فجزاھااللّٰہ خیراً وکان اللّٰہ معھافی الدنیا والاٰخرۃ.6۔ مگر فطرت کے خلا کو کون بھر سکتا ہے اور ماں کا دل کس سینہ میں ڈالا جاسکتا ہے؟
.6میں انہی خیالات میں غرق تھا کہ اچانک مجھے ایک غیبی طاقت نے اپنی طرف کھینچ کر اس بات کی طرف متوجہ کیاکہ بیشک اس دنیا میں قضاء وقدر کے قانون کے ماتحت ماں بچہ سے جدا ہوتی ہے اور خاوند بیوی کو چھوڑتا ہے اور بھائی بھائی سے رخصت ہوتا ہے۔ اور دنیا میں جدائی کا یہ جال اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ اس سے بچ کر نکلنا کسی طرح ممکن نہیں۔ مگر کیا خدا کی ذات والا صفات ان سب تغیرات سے بالا نہیں؟ کیا اسلام ہمیں یہ نہیں سکھاتا کہ جب ماں بچہ کو چھوڑ رہی ہوتی ہے تو اس کا آسمانی باپ جس کی محبت ماں کی محبت سے بھی بہت بڑھ چڑھ کر ہے۔ بچہ کی طرف محبت وشفقت کے ساتھ جھک کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ میری تقدیر نے تجھے تیری ماں سے جدا کیا ہے۔ مگرمیں تیرا ودود خدا ہوں۔ اب میری محبت تجھ سے اور بھی زیادہ قریب ہے تو میری گود میں آ اور اس سے بڑھ کر محبت کا نظارہ دیکھ جو کبھی تو نے اپنی ماں کی طرف سے دیکھا ہو۔ چنانچہ بعینہٖ یہی حالت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپؑ کے والد کی وفات کے وقت پیش آئی کیونکہ جب آپ اپنے والد کی جدائی پر اپنی بے سروسامانی کو دیکھ کر غمگین ہوئے تو جھٹ خدا نے آپ کی طرف محبت کے ساتھ جھک کر فرمایا:-
.6الیس اللّٰہ بکافٍ عبدہٗ.6۔۲۴
.6’’ہیں ہیں! کیا تو میرا بندہ ہوکر باپ کی وفات پر بے سرو سامانی کی مایوسی میں مبتلا ہو رہا ہے۔ کیا میں اپنے پیارے بندے کی ساری ضرورتوں کے لئے کافی نہیں‘‘؟
.6پھر حدیث میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسی نکتہ کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلاتے ہیں کیونکہ جب ایک گھمسان لڑائی کے دوران میں ایک عورت کا بچہ اس سے کھویا گیا۔ او روہ اس کی تلاش میں نالاں و سرگرداں پھرتی تھی۔ اور روتی چلّاتی ہوئی کبھی اِدھر جاتی تھی اور کبھی اُدھر اور بالآخر جب اس کا بچہ مل گیا تو وہ اسے اپنے سینہ سے چمٹا کر یوں بیٹھ گئی کہ گویا اسے سارے جہان کی بادشاہت مل گئی ہے۔ تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے صحابہؓ سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم نے اس عورت کی محبت کو دیکھا کہ وہ اپنے بچہ کے لئے کس طرح بے چین تھی اور اسے پاکر کس طرح خوش ہوئی ہے۔ .6واﷲ باﷲ .6خداکی محبت اپنے بندوں کے ساتھ اس محبت سے بہت بڑھ چڑھ کر ہے جو تم نے اس عورت میں اپنے بچہ کے لئے دیکھی ہے۔ ان خیالات کے آتے ہی میں برات کے آنے سے صرف بیس منٹ قبل بہشتی مقبرہ کی طرف جلدی جلدی گیا اور وہاں جاکر خدا سے دعا کی کہ خدایا تیری تقدیر نے یہاں بھی ایک محبت کرنے والی ماں کو اس کے نہایت درجہ عزیز بچوں سے جدا کیا ہوا ہے ہم تیری تقدیر پر راضی ہیں۔ مگر اپنے وعدہ کے مطابق یہاں بھی اپنی اس ازلی رحمت کا چھینٹا ڈال کہ جنت میں ان بچوں کی ماں کی روح تیری قربت میں راحت وسکون پائے اور دنیا میں ان بچوںکے دل تیری محبت میں ماں کی کھوئی ہوئی شفقت کا نظارہ دیکھیں۔.6آمین یا ارحم الراحمین۔.6 اور میں اپنے ناظرین سے بھی یہی درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی خدا کے حضور مرنے والی روح اور پیچھے رہنے والے بچوں کے لئے خدائے دوجہان سے دست بدعا رہیں کہ وہ اس جہان میں پہنچی ہوئی ماں کو اُس جہاں کی نعمتوں سے مالا مال کرے۔ اور اس جہان میں بسنے والے بچوں کو اِس جہان کی حسنات سے کامل حصہ دے۔
.6ونرجوامنہ خیرلھم ربنا الغفو رالودودالرحیم
.6
‎(مطبوعہ الفضل۱۴ ؍نومبر۱۹۴۶ئ)

.6
کیا مسلمانوں کے لئے صرف اسلامی حکومت کی اطاعت
ہی ضروری ہے
قرآنی آیت اولی الامرمنکم کی تشریح
.6
.6آج کل جہاں اور بہت سے نئے خیالات پیداہوگئے ہیں۔ وہاں مسلمانوں کے ایک حصہ میں ایک خیال یہ بھی زور کے ساتھ پیدا ہورہا ہے (اور ایک لحاظ سے تو یہ خیال کافی پرانا ہے) کہ اسلامی تعلیم کی رو سے مسلمانوں کے لئے صرف مسلمان حاکم کی اطاعت ہی ضروری ہے اور کسی دوسرے حاکم یا فرمانروا کی اطاعت ضروری نہیں۔ اس خیال کی تائید میں قرآنی آیت پیش کی جاتی ہے کہ:-
.6.6۔۲۵
.6’’یعنی اے مسلمانو! تم خدا کی اطاعت کرواور اس کے رسول کا بھی حکم مانو اور ان حاکموں کا بھی جو تمھیں سے ہوں۔‘‘
.6اس آیت میں جو.6 .6.6 (یعنی وہ حاکم جو تمھیں سے ہیں) کے الفاظ وارد ہیں ان سے آج کل کے روشن خیال مسلمانوں کا ایک طبقہ جو عیسائی اقتدار سے تنگ آکر آزادی کی جدوجہد میں مصروف عمل ہے ،یہ استدلال کرتا ہے کہ ان الفاظ میں صرف ان حاکموں کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جو مسلمانوں میں سے ہوںیعنی بالفاظ دیگر ہم پر صرف مسلمان حاکموں کی اطاعت فرض قرار دی گئی ہے دوسروں کی نہیں۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ منکم کا لفظ (یعنی جو تمھیں سے ہوں) صاف بتا رہا ہے کہ اس جگہ صرف مسلمان .6.6مراد ہیں نہ کہ وہ کافرو جابر فرمانروا جو مسلمانوں کی گردنوں پر ہر جائز وناجائز طریق سے حکومت کا جوا رکھ کر انہیں اپنی غلامی کی زنجیروں میں بند رکھنا چاہتے ہیں۔
.6اس اعتراض کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ بیشک آزادی ایک نہائت قیمتی چیز ہے اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہر جائز طریق پر اپنی اور اپنے بھائیوں کی آزادی کے لئے کوشاں رہے اور یہ بھی درست ہے کہ اسلام کی کامل ترقی اور پابحالی کے لئے آزادی کا ماحول ایک بہت ضروری اور لابدی چیز ہے۔ مگر آزادی کی ہوس میں قرآنی آیات کو ان کے صحیح معانی سے علیحدہ کرکے ایک خلاف تعلیم اسلام جدّت کا دروازہ کھولنا کسی طرح جائز نہیں سمجھا جاسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں اسلام آزادی کو ایک نہائت قیمتی چیز قرار دیتا ہے۔ بلکہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو قومی غلامی تو دور کی بات ہے انفرادی غلامی کو بھی ایک قابل نفرت اور قابل استیصال چیز سمجھتا ہے۔ وہاں وہ ساتھ ہی یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اگر کسی وقت تمہیں کسی غیر اسلامی حکومت کے ماتحت رہنا پڑے تو تم بغاوت اور بدامنی کا طریق اختیار نہ کرو۔ بلکہ وقت کی حکومت کے فرمانبردار رہواور ساتھ ساتھ جائز اور پُر امن طریق پر اپنی آزادی کے لئے بھی کوشش کرتے رہو۔ چنانچہ علاوہ قولی تعلیم کے قرآن شریف اور حدیث ایسے تاریخی واقعات سے بھرے پڑے ہیں کہ جہاں خدا کے انبیاء ومرسلین نے غیر اسلامی حکومت کے ماتحت زندگی گزاری ہے اور ہمیشہ بغاوت کے طریق سے مجتنب رہتے ہوئے حکومتِ وقت کے ساتھ تعاون اور اطاعت کا طریق اختیار کیا ہے۔
.6مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق قرآن شریف میں مذکور ہے کہ وہ فراعنۂ مصر کی حکومت کے ماتحت تھے اور صرف ماتحت ہی نہ تھے بلکہ انہوں نے اس حکومت میں وزارتِ مال کا عہدہ بھی قبول کیا ہؤا تھا۔ لیکن بایں ہمہ انہیں قانون رائج الوقت کا اس قدر احترام تھا کہ باوجود اس زبردست خواہش کے کہ وہ اپنے بھائی کو اپنے ساتھ رکھ سکیں ،وہ قانون کا احترام کرتے ہوئے اس راستہ سے باز رہے حتیٰ کہ خود خدا نے اپنی کسی مخفی تقدیر کے ذریعہ ان کے لئے ایک جائز راستہ کھول دیا۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے:-
.6.6۲۶
.6’’یعنی ہم نے خود یوسف کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک تدبیر کی۔ کیونکہ یہ .6بات یوسف کے لئے جائز نہیں تھی کہ وہ رائج الوقت شاہی قانون کے خلاف اپنے بھائی کو یونہی زبردستی روک لیتا۔ پس اللہ نے خود اپنی مشیت سے اس کے لئے رستہ کھولا۔‘‘
.6اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام برسوں فرعون کی حکومت ہاں انتہائی درجہ ظالمانہ اور جابرانہ حکومت کے ماتحت رہے مگر کبھی اس کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند نہیں کیا بلکہ جب ایک دفعہ ان سے نادانستہ طور پر قانون شکنی ہوگئی تو اس پر انہوں نے قانون کی زد سے بچنے کے لئے خفیہ طورپر ملک چھوڑ دیا۔ اور.6۲۷.6 .6کہہ کر(یعنی میں حکومت مصر کے مطابق ایک جرم کا ارتکاب کرچکا ہوں) اس بات کو تسلیم کیا کہ حکومت کا میرے خلاف ایک الزام عائد ہوتا ہے۔ اور جب فرعون کے مظالم انتہاء کو پہنچ گئے تو پھر بھی حضرت موسیٰ نے بغاوت کی بجائے ملک سے ہجرت کرجانے کا طریق اختیار کیا اور ملک کے اندر رہتے ہوئے قانون شکنی نہیں کی۔.6٭
.6اسی طرح یہ تاریخی واقعہ بھی دنیا جانتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فلسطین کی رومی حکومت کے ماتحت پیدا ہوئے تھے اور اسی کے ماتحت انہوں نے اپنی ساری معروف زندگی گزاری اور کبھی قانون کا دامن نہیں چھوڑا۔ حتیٰ کہ جب ان کے یہودی دشمنوں نے انہیں بغاوت کے جھوٹے الزام میں پھانس کر ماخوذ کرانا چاہا تو اس وقت بھی انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ میری یہی تعلیم ہے کہ
.6’’قیصر کا حق قیصر کو دو اور خدا کا حق خدا کو دو۔‘‘.6 ۲۸
.6حتیٰ کہ بقول مسیحی صاحبان انہوں نے اسی حکومت روما کی ایک عدالت کے فیصلہ کے مطابق صلیب پر جان دے دی مگر حکومت کے خلاف سر نہیں اٹھایا!
.6پھر ان مشہورو معروف تاریخی واقعات سے کون بے خبر ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہ سال تک مکہ والوں کی حکومت کے مظالم برداشت کئے حتیٰ کہ بعض بے گناہ مسلمان اس عرصہ میںمشرکینِ مکہ کے ہاتھوں شہید بھی ہوگئے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ان سب ظلموں کو انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کیا لیکن حکومت مکہ کے خلاف مکہ میں رہتے ہوئے بغاوت کے طریق سے ہر حال میں مجتنب رہے۔ یہ خیال کرنا کہ مکہ میںکوئی حکومت نہیں تھی اور نہ کوئی قانون تھا اور ہر شخص گویا مادر پدر آزاد تھا درست نہیں ہے کیونکہ خواہ اہل مکہ کی حکومت کیسی بھی ظالمانہ تھی۔ وہ بہرحال ایک حکومت تھی اور مختلف قبائل قریش کے لیڈروں کا ایک بورڈ بھی مقرر تھا۔ جو ندوہ کہلاتا تھا۔ جس کے ممبروں کے ہاتھ میں حکومت کے مختلف شعبہ سپرد تھے اور اس طرح ایک ابتدائی مگر اپنے رنگ میں مکمل جمہوری نظام کی صورت قائم تھی۔۲۹
.6لیکن باوجود اس کے کہ اس مکّی حکومت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی مٹھی بھر جماعت پر سخت سے سخت مظالم کئے۔ آپ نے انہیں کامل صبر کے ساتھ برداشت کیا اور جب یہ مظالم انتہاء کو پہنچ گئے تو اس وقت بھی بغاوت اور فساد کے طریق سے مجتنب رہے۔ اور صرف اتنا کیا کہ ایک حصہ مسلمانوں کا افریقہ میں حبشہ کی طرف بھجوادیا۔ جس نے نجاشی کی عیسائی حکومت کی پناہ لی اور بالآخر خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور باقی ماندہ صحابہ مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کرگئے۔
.6مگرآپ نے اپنے عمل سے دنیا کو بتادیا کہ ہم ایک غیر اسلامی حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے اور حکومت بھی وہ جو انتہا درجہ ظالمانہ تھی ،پھر بھی اس حکومت کے مطیع رہے ہیں اور کسی قسم کی بغاوت یا
.6٭:.6سورۃ طہٰ
.6فساد کے مرتکب نہیں ہوئے۔ کیونکہ اسلام کا یہ صریح حکم ہے کہ:-
.6.6۔۳۰
.6’’یعنی خدا تعالیٰ فساد اور امن شکنی کو کسی صورت میں پسند نہیں کرتا۔‘‘
.6کیا حضرت یوسف اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کی یہ واضح مثالیں اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ خدائی شریعت اس بات کی ہر گز اجازت نہیں دیتی کہ ایک مسلمان محض یہ آڑلے کر کہ وہ ایک غیر اسلامی حکومت کے ماتحت ہے، ملک میں بغاوت اور قانون شکنی کا مرتکب ہو۔ اور حصول آزادی کی جستجو میں فساد کا بیج بوتا پھرے۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ اسلام بے شک یہ کہتا بلکہ حکم دیتا ہے کہ تم دعوۃ الی الحق اورتبلیغ اور تنظیم اور دوسرے پُر امن ذرائع سے اسلام کے قلعہ کو مضبوط کرتے جائو۔ حتیٰ کہ تمہارا ملک بغاوت کے ذریعہ نہیں بلکہ خود اسلام کی اندرونی روحانی طاقت کے ذریعہ کفر کی غلامی سے نکل کر اسلام کی غلامی میں آجائے مگر وہ کسی صورت میں فساد اور امن شکنی اور بغاوت کی اجازت نہیں دیتا اور قرآنی ارشاد کے علاوہ جلیل القدر انبیاء کا اسوہ اس طریق پر ایک زبردست شاہد ہے۔
.6باقی رہا یہ خیال کہ قرآنی آیت میں .6.6کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ .6جس کے یہ معنی ہیں کہ جو تم میں سے تمہارا حاکم ہے اس کی فرمانبرداری اختیار کرو اور گویا کسی اور کی نہ کرو۔ .6سو یہ خیال بالکل بودا اور کمزور ہے کیونکہ اول تو عربی زبان میں.6 مِن.6ْ کا لفظ .6علی .6اور .6فی .6کے معنوں میں بھی آتا ہے.6 ۳۱.6۔.6اور اس طرح .6.6کے معنی یہ بنتے ہیں کہ جو لوگ تم پر حاکم ہیں یا جو لوگ تمہارے اندر بطور حاکم کے ہیں ان کی فرمانبرداری کرواور اس طرح کوئی اشکال نہیں رہتا۔ دوسرے قرآنی کلام کی یہ ایک عجیب وغریب حکمت ہے کہ وہ بعض اوقات ایک عام اور معروف لفظ کو ترک کرکے اس کی جگہ ایک خاص محاورہ اختیار کرتا ہے تاکہ آیت کے معانی میں وسعت پیدا ہو کر ایک نیا اور لطیف رستہ کھل جائے۔ یہ طریق قرآن شریف نے بے شمار جگہ استعمال کیا ہے اور یہ اس کی زبان کے کمالوں میں سے ایک خاص کمال ہے کہ ذرا سے ردّوبدل سے معانی کا ایک وسیع میدان کھول دیتا ہے۔ اب آیت زیر بحث میں عام محاورہ کے لحاظ سے الفاظ یوں ہونے چاہئیں تھے کہ.6 اولی الامر علیکم.6 (یعنی تم پر جو لوگ حاکم ہوں) یا.6 اولی الامر فیکم.6 (یعنی تمہارے اندر جو لوگ بطور حاکم ہوں) مگر قرآن شریف نے ان محاوروںکو ترک کرکے ایک نسبتاً کم معروف محاورہ استعمال کیا ہے۔ یعنی .6.6 .6(یعنی جو لوگ تم سے حاکم ہوئے ہوں) تاکہ نہ صرف ایک ہی لفظ کے ذریعہ.6 علیکم .6اور.6 فیکم .6کے الفاظ کا مرکب مفہوم ادا ہوجائے بلکہ اس کے ساتھ ہی اس مفہوم کی حکمت بھی ظاہر ہوجائے اور یہ بھی پتہ لگ جائے کہ یہ حکم کس قسم کے حالات کے ساتھ مخصوص ہے۔
.6تفصیل اس جمال کی یہ ہے کہ گو جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے عربی زبان میں .6مِن.6ْ کا لفظ بہت سے معانی کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ جن میں .6علٰی.6 اور.6 فی.6 کا مفہوم بھی شامل ہے۔ مگر جیسا کہ بعض ائمہ لغت نے تشریح کی ہے اس کے مخصوص معنی ابتدائ.6ً.6 غایتہ کے ہیں۔ یعنی دراصل اس لفظ میں کسی زمانی یا مکانی نقطہ سے ایک کام کی ابتداء کا اظہار یا ایک چیز کا دوسری چیز میں سے نکلنا مراد ہوتا ہے اور اس لفظ کے باقی سب معانی کم وبیش اسی بنیادی مفہوم پر مبنی ہیں اور اسی کے ارد گرد چکر لگاتے ہیں۔ چنانچہ .6آیت زیر بحث میں جو .6علیٰ .6اور .6فی.6 کے الفاظ ترک کرکے.6 من.6 کا لفظ اختیار کیا گیا ہے۔ وہ بھی اسی حکمت .6کے ماتحت ہے کہ تا آیت کے مفہوم میں .6من.6 کے بنیادی مفہوم کو داخل کرکے ایک وسیع اور لطیف معنی پیدا کردیئے جائیں۔ اس اصول کے ماتحت آیت .6.6 .6کے صحیح معنی یہ ہوں گے کہ .6اے مسلمانو تم پر ایسے حاکموں کی فرمانبرداری فرض ہے جو تم سے حاکم بنے ہیں۔یعنی ان کا .6.6ہونا یا بالفاظ دیگر ان کی امارت غاصبانہ اور جابرانہ رنگ نہیں رکھتی بلکہ تم نے ان کی حکومت کو قولاً یا فعلاً تسلیم کرکے گویا اپنا بنالیا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ انسان کسی حکومت کو امکاناً دوطرح ہی قبول کرسکتا ہے یعنی یا تو وہ اسے قولاً تسلیم کرلیتا ہے اور منہ سے کہہ کر یا قلم سے لکھ کر مان لیتا ہے جیسا کہ معاہدات وغیرہ کی صورت میں ہوتا ہے اور یا وہ قولاً توتسلیم نہیں کرتا مگر عملاً تسلیم کرکے اس کی ماتحتی کو خاموشی کے ساتھ قبول کرلیتا ہے۔ جیسا کہ عموماً مفتوح ممالک کی صورت میں ہوتا ہے۔ اور زیر بحث قرآنی آیت نے ان دونوں صورتوں کو اپنے اندر جمع کرلیا ہے۔ کیونکہ عربی محاورہ کے مطابق یہ دونوں صورتیں .6.6کے مفہوم میں شامل ہیں جس میں ایک چیز کا دوسری چیز سے نکلنا مراد ہوتا ہے۔ پس الفاظ .6.6کے پورے معنی یہ ہوئے کہ:
.6اوّل.6: وہ حاکم جن کی حکومت کو تم قولاً یعنی صراحتاً تسلیم کرچکے ہو۔
.6دوم.6: وہ حاکم جن کی حکومت کو تم عملاً تسلیم کرچکے ہو اور اس کے ماتحت رہنے پر خاموشی کے ساتھ راضی ہوچکے ہو۔
.6اوپر کے بیان سے ظاہر ہے کہ درحقیقت یہ آیت ایک وسیع اصولی رنگ رکھتی ہے اور اس میں اسلامی حکومت یا غیر اسلامی حکومت کی کوئی تخصیص نہیں بلکہ جس حکومت کو بھی مسلمان تسلیم کرلیں۔ خواہ وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی اور خواہ وہ اسے قولاً تسلیم کریں یا کہ عملاً، اس کی اطاعت ان پر فرض ہوجاتی ہے اور اس کے خلاف بغاوت کرنا اور اس کے قانونوں کو توڑنا ان کے لئے جائز نہیں رہتا۔ پس اگر ایک حاکم مسلمان تو ہے مگر وہ جبروا کراہ کے طریق پر دوسرے مسلمانوں کو اپنی ماتحتی میں لانا چاہتا ہے تو اس آیت کے ماتحت اس کی حکومت ناجائز ہوگی۔ لیکن اگر ایک حاکم غیر مسلمان ہے مگر بعض مسلمانوں نے اس کی حکومت کو قولاً یا عملاً تسلیم کرلیا ہے تو اس کی حکومت جائز ہوگی۔ کیونکہ جہاں مقدم الذکر حکومت.6 منکم.6 کے مفہوم کے صریح خلاف ہے۔ وہاں موخرالذکر حکومت.6 .6.6کے مفہوم کے عین مطابق اور موافق ہے۔ یہ وہ لطیف فلسفہ ہے جو صرف.6 علیکم .6یا .6 .6فیکم .6کے الفاظ سے ادا نہیں ہوسکتا تھا اور اسی لئے قرآن شریف نے ان معروف الفاظ کو چھوڑ کر.6 .6.6کا لفظ اختیار کیا ہے۔ تا اس بات کی طرف اشارہ کرے کہ ہر وہ حکومت جو مسلمانوں کی تسلیم شدہ ہے وہ گویا انہی میں سے نکلی ہوئی چیز ہے۔ خواہ وہ کوئی ہو۔ اس لئے اس کے خلاف بغاوت کرنا ہرگز جائز نہیں ۔ کیونکہ اگر ایسی حکومت کے خلاف سر اٹھانا جائز قرار دیا جائے تو پھر امنِ عامہ اور تہذیب وتمدن کی تمام تسلیم شدہ بنیادیں تباہ ہوجاتی ہیں اور فتنہ وفساد اور جنگ وجدال کا ایسا رستہ کھلتا ہے جو پھر کسی طرح بند نہیں کیا جاسکتا ۔ ہاں اگر کوئی قوم کسی حکومت کو اپنے لئے صریحاً اس قدر ظالمانہ خیال کرتی ہے کہ اس کے ماتحت رہنا اس کے لئے بالکل ناممکن ہو جاتا ہے۔ تو اس صورت میں اس کے لئے ہجرت کا رستہ کھلاہے جیسا کہ حضرت موسیٰ ؑ .6کے.6 ماتحت بنی اسرائیل نے مصر سے ہجرت کی یا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ماتحت مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کی۔ مگر ایک تسلیم شدہ حکومت کے ماتحت رہتے ہوئے بغاوت یا قانون شکنی یا فساد کا طریق اختیار کرنا کسی صورت میں جائز نہیں۔ خواہ یہ حکومت اسلامی ہو یا غیر اسلامی ۔یہ وہ نظریہ ہے جو نہ صرف قرآنی تعلیم کی روسے قطعی طور پر ثابت ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی اسوہ بھی اس پر ایک زبردست شاہد ہے۔ .6فبا.6یّ حدیث بعد ذالک یو منون.6۔
.6اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی حکومت اپنی کسی مظلوم رعایا کو ہجرت کرنے سے زبردستی روکے تو اس صورت میں اسلام کیا تعلیم دیتا ہے؟ سو اس کے متعلق جاننا چاہیئے کہ ایسی ظالم حکومت کے خلاف اس کے اندر رہتے ہوئے بھی سر اٹھانا جائز ہوگا۔ کیونکہ جو حکومت ایک طرف اپنی رعایا پر ظلم کرتی ہے اور دوسری طرف اسے ہجرت کرنے سے بھی روکتی ہے تو وہ گویا مخلوقِ خدا پر انصاف اور خود حفاظتی کے سارے دروازے بند کرنا چاہتی ہے اور خدا کا رحیمانہ قانون اس اندھیر نگری کی اجازت نہیں دے سکتا۔ چنانچہ جب فرعون نے بنی اسرائیل کو اپنی حکومت میں انتہائی مظالم کا نشانہ بنایا اور پھر جب وہ ان مظالم سے تنگ آکر ملک سے باہر جانے لگے تو اس نے انہیں زبردستی روکنا چاہا تو خدا نے فرعون کے اس فعل کو کھلی کھلی بغاوت اور سرکشی قرار دیا۔ چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ:
.6۳۲
.6’’یعنی فرعون نے بھاگتے ہوئے بنی اسرائیل کا پیچھا کیا تاکہ انہیں ہجرت .6کرجانے سے زبردستی روکے مگر اس کایہ فعل خدائی قانون کے خلاف ایک کھلی کھلی .6بغاوت تھا اور وہ عدل وانصاف کی تمام حدود کو توڑ کر آگے نکل جانا چاہتا تھا۔‘‘
.6 بلکہ یہ فعل اس قدر ظالمانہ ہے کہ فرعون کے جن سپاہیوں نے اس تعاقب میں حصہ لیا وہ بھی خدا کی نظر میں باغی اور عادی قرار پائے جیسا کہ.6 .6.6کے لفظ سے ظاہر ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ بعض حالات میں آمر کے ساتھ مامور بھی قابلِ مؤاخذہ ہوتا ہے۔
.6مندرجہ بالا بحث سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جب تک کوئی حکومت ملک کی تمام آبادی کو زیر کرکے یا منوا کر اپنا سکہ قائم نہیں کرلیتی اور اسے ملک میں استحکام حاصل نہیں ہوجاتا اس وقت تک وہ ملک کی قائم شدہ حکومت نہیں سمجھی جاسکتی اور اس کے خلاف حسب ضرورت لڑنا جائز ہے اور اسی اصل کے ماتحت یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ ملک کی حکومت کے لئے یہ بھی جائز نہیں ہے کہ اپنی رعایا کی مرضی کے خلاف اسے از خود کسی دوسری حکومت کے سپرد کرکے آپ الگ ہوجائے۔ کیونکہ اس صورت میں بھی نئی حکومت ملک کی تسلیم شدہ حکومت نہیں سمجھی جائے گی۔ خلاصہ کلام یہ کہ مسلمانوں کے لئے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کے علاوہ صرف ایسی حکومت کی اطاعت فرض قرار دی گئی ہے جو ان کی تسلیم شدہ ہو۔ خواہ وہ اسلامی ہو یا غیر اسلامی لیکن جب ایک دفعہ مسلمان ایک حکومت کو قولاً یا عملاً تسلیم کرلیں تو پھر اس کے خلاف بغاوت کرنا ان کے لئے جائز نہیں رہتا۔ سوائے اس کے کہ وہ اس حکومت کے .6مظالم سے تنگ آکر اس کے ملک سے ہجرت کرنا چاہیں اور یہ حکومت انہیں اس ہجرت سے جبراً روکے۔ .6یہ وہ منصفانہ قانون ہے جو افراط اور تفریط کی راہوں سے بچتے ہوئے اسلام نے جاری کیا ہے اور ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہی وہ تعلیم ہے جو دنیا میں حقیقی امن کی بنیا د بن سکتی ہے۔
.6وآخردعوٰنا ان الحمد للّٰہ ربِّ العالمین
.6
‎(مطبوعہ الفضل۲۲ ؍نومبر ۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
اِسلامی اخوّت کا نظریہ
.6
.6بھائی یا اخی کے الفاظ کو ہر شخص جانتا ہے کیونکہ یہ ہمارے روزانہ استعمال کے الفاظ ہیں مگر چونکہ اکثر لوگوں میں غور کا مادہ کم ہوتا ہے۔ اس لئے وہ ان الفاظ کی گہرائی میں نہیں جاتے۔ بس صرف اتنا جانتے ہیں کہ ایک باپ یا ایک ماں کی اولاد ہونے کا نام بھائی ہے۔ حالانکہ اخوت کا مفہوم اس سے بہت زیادہ وسیع اور بہت زیادہ عمیق ہے۔ دراصل اخوت کے لئے تین باتوں کا ہونا ضروری ہے۔
.6اول۔ یہ کہ دو بھائی ایک منبع سے نکلی ہوئی دو ہستیاں ہوتی ہیں یعنی ایک درخت کی طرح ان کی جڑ تو ایک ہی ہوتی ہے مگر شاخیں کئی ہوسکتی ہیں۔
.6دوم۔ جب دو بھائیوں کی جڑ ایک ہوتی ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک درخت کی شاخوں کی طرح وہ بہر حال ہم رنگ اور ہم جنس بھی ہوتے ہیں۔
.6سوم ۔بھائی برابر کے حقوق رکھنے والی ہستیاں ہوتی ہیں یعنی ان میں سے کسی کو دوسرے پر حقوق کے معاملہ میں فوقیت حاصل نہیں ہوتی۔ یہ تین چیزیں اخوت کے لئے گویا بنیادی شرائط کے طور پر ہیں اور جہاں بھی یہ شرائط پائی جائیں گی۔ اخوت کا مفہوم قائم ہوجائے گا۔ خواہ نسلی لحاظ سے بھائی کہلانے والے لوگ ایک نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کئی قسم کی اخوت کو تسلیم کیا ہے ۔مثلاً عرضی اخوت کے علاوہ جسے گویا اخوت نسبی کہنا چاہیئے اسلام نے رضاعت کی اخوت کو بھی تسلیم کیا ہے۔ چنانچہ جب دو شخصوں نے ایک ہی عورت کا دودھ پیا ہو تو اسلامی تعلیم کی رو سے وہ رضاعی بھائی کہلاتے ہیں حالانکہ بسا اوقات ان کی نسل بالکل جدا ہوتی ہے اخوت کی یہ قسم اخوتِ رضاعی کہلاتی ہے۔ اسی طرح اسلام نے ایک اخوتِ دینی قائم کی ہے۔ یعنی ایک ہی شریعت اور ایک ہی امام کے ساتھ وابستہ ہونا۔ اس حال میں بھی گویا منبع ایک ہی ہوتا ہے اور اس منبع سے نکلی ہوئی شاخیں ہم رنگ اور ہم جنس ہونے کے علاوہ مساویانہ حقوق بھی رکھتی ہیں۔ اسی طرح ایک اخوتِ عہدی ہوتی ہے کہ جب دو یا دو سے .6زیادہ اشخاص باہم عہدوپیمان کے ذریعہ ایک دوسرے کے بھائی بن جاتے ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ .6علیہ وسلم نے مدینہ کی ہجرت کے بعض مہاجرین وانصار کے درمیان اخوت کا عہدقائم کیا وغیرہ وغیرہ۔ ان سب قسم کی اخوتوں کا مرکزی نقطہ وہی تین شرائط ہیں جو ہم اوپر بیان کرآئے ہیں یعنی
.6(.6۱.6) ایک منبع سے نکلا ہؤا ہونا(.6۲.6) ہم رنگ وہم جنس ہونا اور (.6۳.6) باہمی مساویانہ حقوق رکھنا اور ان سب اخوتوں کو اسلام نے انتہائی تقدس اور ذمہ داری کا رنگ دے کر اسلامی سوسائٹی کو گویا آپس میں آہنی زنجیروں کے ساتھ باندھ دیا ہے۔ لیکن اس جگہ میرا یہ نوٹ اخوتِ دینی سے تعلق رکھتا ہے۔ جسے وسیع اسلامی اخوت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
.6.6۳۳
.6’’یعنی اسے مسلمانو !تم سب اکٹھے ہوکر خدا کے دین کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رکھو۔ اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا ہونے دو۔ اور اللہ کی اس عظیم الشان نعمت کو یاد رکھو کہ کفر اور بے دینی کی حالت میں تم ایک دوسرے کے دشمن اور خون کے پیاسے تھے۔ مگر اسلام کے ذریعہ خدا نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کردی اور تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔‘‘
.6پھر فرماتا ہے:-
.6.6۳۴
.6’’یعنی تمام مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پس اگر کسی وجہ سے بعض مومنوں میں اختلاف پیدا ہوجایا کرے تو ان میں فوراً صلح کراکے اسلامی اخوت کی عمارت کو شکستہ ہونے سے بچالیا کرو اور آپس کے تعلقات میں خدا کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ تم اس کے فضل ورحم سے حصہ پائو۔‘‘
.6اس اسلامی اخوت کی تشریح میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:-
.6تَرَی المُؤمِنِیْنَ فِیْ تَرَاحُمِھِمْ وَتَوَادِّھِمْ وَتُعَاطُفِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَکَی عُضْوًا تَدَاعَی لَہُ سائِرُ جَسَدِہِ بِالسَّہْرِوَا.6لْحُمَّیٰ ۳۵
.6’’یعنی تو دیکھے گا کہ تمام مومن ایک دوسرے کے ساتھ رحمت وشفقت کا سلوک کرنے اور ایک دوسرے کے ساتھ محبت رکھنے اور ایک دوسرے کی طرف تعاون اور مفاہمت کی روح کے ساتھ جھکنے میں بالکل جسم انسانی کا سا رنگ رکھتے ہیں۔ کیونکہ جسم انسانی کی طرح مومنوں کی جماعت میں بھی یہ طبعی نظارہ نظر آتا ہے کہ جب اس جسم کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے تو باقی ماندہ جسم بھی اس بیمار عضو کی ہمدردی میں بے چینی اور بخار اور سوزش اضطراب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘
.6اخوتِ اسلامی کی یہ لطیف تشبیہہ جو غالباً دنیا بھر کی لطیف ترین تشبیہوں میں سے ہے ،کسی تشریح کی محتاج نہیں۔ اس تشبیہہ میں اسلامی سوسائٹی کو جسم انسانی کے مشابہ قرار دے کر اس سوسائٹی کے افراد کو جسمِ انسانی کے مختلف اعضاء سے تشبیہہ دی گئی ہے اوریہ تشبیہہ کتنی لطیف اور کتنی سچی اور کتنی گہری اور فطرتِ انسانی کی کتنی آئینہ دار ہے؟ اس سوال کا جواب کسی حاذق طبیب یا کسی ماہرِ نفسیات سے پوچھو اور یا پھر مجھ سے سنو۔ جو اس فن کی اصطلاحوں سے نا آشنا ہونے کے باوجود اس وقت اس فطری نظارہ کو خود اپنے نفس میں مشاہدہ کررہا ہے۔ جب میں نے یہ مضمون لکھنا شروع کیا تو بغیر کسی سابقہ انتباہ کے مجھے نقرس کے حملہ نے اچانک آدبوچا۔ اور بائیں پائوں کے ٹخنہ میں اس شدت کا درد اٹھا کہ چند منٹوں کے اندر اندر چلنا پھرنا تو درکنار بستر کے اندر پائوں ہلانا بھی مشکل ہوگیا۔ میرے اس مضمون کے نوٹ میرے سامنے تھے اور میری آنکھیں ان الفاظ کو دیکھ رہی تھیںکہ.6 اِذَااشْتَکَی عُضْوًا .6(یعنی جب جسم انسانی کا کوئی عضو بیمار ہوتا ہے) تو………میں نے دل میں کہا کہ شاید نیر نگئی قدرت اس فلسفہ کا پہلا سبق خود مجھ ہی کو دینا چاہتی ہے اور اب مجھے کچھ عرصہ کے لئے.6 سھر وحمَّیٰ .6(یعنی بے چینی اور بخار) کے واسطے تیار ہوجانا چاہیئے۔ چنانچہ .6یہی ہوا کہ درد تو صرف بائیںپائوں کے ٹخنہ میں تھا اور مائوف مقام غالباً ایک انچ قطرسے .6زیادہ نہیں ہوگا مگر دیکھتے ہی دیکھتے جسم یوں تپنے لگا کہ جیسے قدرت کی کسی غیر مرئی بھٹی نے سارے جسم میں جلد کے نیچے دہکتے ہوئے کوئلوں کی تہہ بچھادی ہے۔ اور اس کے ساتھ بے چینی اور اضطراب کا وہ عالم تھا کہ الامان۔ اس وقت میں حقیقۃً اس سوچ میں پڑگیا کہ اس تکلیف دہ بیماری سے شفا پانے کی دعا پہلے کروں یا کہ اس تازہ بتازہ فطری سبق پر خدا کا شکریہ پہلے ادا کروں؟ بہرحال خواہ میرا یہ مضمون مکمل ہوسکے یا نہ ہوسکے یا خواہ مجھے اس کی تشریح و توضیح کی توفیق ملے یا کہ صرف اشاروں اشاروں میں ہی یہ مضمون ختم ہوجائے۔ یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ جس طرح بسا اوقات سنیما کے پردہ پر ایک دوردراز کے نظارہ کو مصّوری کی فسوں ساز تاروں سے لپیٹ کر دیکھنے والوں کی نظروںکے قریب لے آتے ہیں اسی طرح میری اس بیماری کے غیر متوقع حملہ نے اخوتِ اسلامی کی وہ عدیم المثال تصویر جو اوپر کی حدیث میں بیان ہوئی ہے، میری نظروں کے اس قدر قریب کردی کہ میں گویا سب کچھ بھول کر اسی میں کھویا گیا۔
.6واقعی کیسی سچی اور کیسی پیاری اور کیسی دلکش مثال ہے جو اس حدیث میں بیان کی گئی ہے۔ یہ گویا اس قرآنی آیت کی ایک مجسم تفسیر ہے۔ کہ
.6۳۶
.6’’یعنی نادانو ہم نے ہر ضروری نشان تمہارے اپنے نفسوں میں جمع کر رکھا ہے۔ مگر تم دیکھو بھی۔‘‘
.6انسانی جسم کے ہزاروں بلکہ لاکھوں اعضا یعنی حصے ہیں اور ہر حصہ اپنی ذات میں گویا ایک عالم کا حکم رکھتا ہے اور اپنے اپنے مفوضہ کام کی انجام دہی میں اس طرح لگا ہوا ہے کہ گویا باقی حصوں کی طرف سے بالکل ہی غافل اور بے خبر ہے۔ مگر جونہی کہ ان ہزاروں حصوں میں سے کسی ایک حصہ کو کوئی دکھ پہنچتا ہے باقی حصے فوراً بیدار ہوکر اس کی ہمدردی میں آہ وپکار کرنے لگ جاتے ہیں۔ گویا یہ ایک یک جدی کنبہ تھا۔ جس کے ایک فرد کی موت نے سارے خاندان میں صفِ ماتم بچھادی ہے۔ دکھتی آنکھ ہے مگر دل ودماغ تڑپنے لگ جاتے ہیں۔ درد پسلی میں ہوتا ہے مگر سارے جسم کا رؤاں رؤاں بے چین ہوجاتا ہے۔ کانٹا ایڑی میں چبھتا ہے مگر زبان ہائے ہائے کرتی اور ہاتھ کرب وضطراب میں ادھر ادھر گرتے ہیں۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (.6فداہ نفسی.6) نے الفاظ بھی کیسے حقیقت سے معمور چنے ہیں فرماتے ہیں:
.6تَدَاعَی لَہُ سَائِرُ جَسَدِہِ بِالسَّھْرِوَالْحُمَّیٰ
.6’’یعنی ادھر جسم کا ایک عضو بیمار ہوکر گویا اپنی مدد کے لئے دوسرے اعضا کو پکارتا ہے اور ادھر باقی سارے عضو ماں جائے بھائیوں کی طرح لبیک لبیک کہتے ہوئے اس کی ہمدردی میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اور جب تک اس بیمارعضو کو چین نصیب نہیں ہوتا وہ اس کے پہلو میں بیٹھے رہ کر خود بھی انگاروں پر لوٹتے ہیں۔ اور سوزشِ اضطراب میں اسی طرح جلتے ہیں۔ جس طرح یہ بیمار عضو جلتا ہے۔ ‘‘
.6ذرا سوچو کہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ پیپ تو صرف انگلی کے کور میں پڑتی ہے مگر جسم سارا بے چین .6ہونے لگتا ہے اور بخار سے رؤاں رؤاں تپتا ہے۔ یہ اس لیئے کہ خالقِ ہستی نے انسانی جسم کو ایسی عجیب وغریب بناوٹ عطا کی ہے کہ اگر ایک طرف ہر عضو گویا ایک گونہ مستقل حیثیت رکھتا ہے تو دوسر.6ی طرف وہ باقی تمام اعضاء کے ساتھ ایک مجموعی لڑی میں پرویا ہوا بھی ہے۔اور ایک کے سکھ کے ساتھ دوسرے کا سکھ اور ایک کے دکھ کے ساتھ دوسرے کا دکھ لازم ملزوم کردیا گیا ہے اور اسلامی اخوت کا یہی وہ دلکش نظارہ ہے جو ہمارا پیارا آقا اپنے خادموں کی زندگی میں دیکھنا چاہتا ہے۔ تم بے شک اپنی انفرادی زندگی کو جس جائز طریق پر چاہو گذارو تجارت کرو۔ زراعت کرو۔ صنعت وحرفت میں پڑو۔ ملازمتیں کرو۔ آرٹس میں چمکو،سائنس میں کمال پیدا کرو۔ فنونِ سپہ گری سیکھو۔ دنیا کمائو۔ دین کی خدمت میں وقت گذارو۔ جائیدادیں بنائو۔ جائز تفریحوں میں حصہ لو۔ تمہارا دین تمہیں کسی ایسے کام سے جو تم جائز رنگ میں کرنا چاہو۔ نہیں روکتا۔ کیونکہ انفرادیت بھی انسانی ترقی کے لئے ایسی ہی ضروری ہے جیسا کہ اشتراکیت۔ مگر وہ تم سے یہ ضرور مطالبہ کرتا ہے اور یہ مطالبہ گویا اسلامی اشتراکیت کی جان ہے کہ تم جو بھی ہو اور جیسے بھی ہو اور جہاں بھی ہو تمہارے اندر یہ جذبہ ہمیشہ موجزن رہنا چاہیئے کہ اگر کبھی تمہارے کسی چھوٹے سے چھوٹے عضو یعنی بظاہر حقیر سے حقیر فرد کو بھی کوئی دکھ پہنچے تو یہ دکھ صرف اس عضو اور اس فرد کا ہی دکھ نہ رہے۔ بلکہ اس دکھ کی وجہ سے وسیع اسلامی اخوت کا سارا وجود سر سے لے کر پائوں تک .6سھر حمّٰی .6کے ساتھ تپنا اور تڑپنا شروع ہوجائے۔آج اس اخوت کے مقام پر قائم ہوجائو۔ اور پھر دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اخوتِ اسلامی کا اس قدر اکرام مد نظر تھا کہ جب عرب کے شمال میں غزوہ موتہ کے موقع پر عیسائیوں کی ایک جمیعت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ کو شہید کیا تو آپ نے ان کے انتقام اور اسلامی رعب کے قیام کے لئے صحابہ کی ایک فوج اس علاقہ کی طرف روانہ فرمائی اور اس فوج کی سرداری حضرت زید کے صاحبزادے اسامہؓ کے سپرد کی۔ جو اس وقت صرف انیس سالہ نوجوان تھے اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ جیسے معمر اور جلیل القدر صحابہ کو ان کے ماتحت رکھا۔ تا دنیا پر یہ ظاہر ہو کہ اگر اسلام کے ایک غلام کو بھی کفار کی طرف سے گزند پہنچتا ہے تو اس کے انتقام کے لئے چوٹی کے مسلمان اس غلام کے لڑکے کی رکاب تھامے ہوئے آگے آتے ہیں۔ دنیا کی کونسی طاقت ہے جو اس عظیم الشان روحانی قلعہ کو سر کرسکتی ہے؟
.6کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ تو محض ایک فلسفہ ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے۔ یعنی اس نے ایک جذبہ کو ابھار کر اسے آزاد چھوڑ دیا ہے اور ایک طاقت کو پیدا کر کے اسے آزاد چھوڑ دینا بسا اوقات فائدہ کی نسبت ہلاکت کا زیادہ مو.6جب ہوجاتا ہے۔ کیونکہ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک طاقتور موٹر کو تیزی کے ساتھ حرکت میں لاکر کسی شاہراہ پر بغیر بریکوں اور بغیر ڈرائیور کے چھوڑ دیا جائے۔ مگر یہ اعتراض بالکل بودا اور جہالت کا اعتراض ہے کیونکہ اس حدیث میں اخوت اسلامی کے مواقع نہیں بتائے گئے۔ بلکہ صرف اخوتِ اسلامی کا مقام بیان کیا گیا ہے کہ وہ کس اعلیٰ شان کی ہونی چاہیئے۔ باقی رہا یہ سوال کہ یہ اخوّت کس رنگ میں اور کس موقع پر ظاہر ہو ۔سوا س کے متعلق قرآن وحدیث بھرے پڑے ہیں۔ مگر اس جگہ مثال کے طور پر صرف ایک آیتِ قرآنی اور ایک حدیث نبویؐ پر اکتفا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
.6۳۷
.6’’یعنی اے مسلمانو تم آپس میں نیکی اور تقویٰ کے امور میں تو ضرور تعاون کیا کرو۔ لیکن گناہ اور ظلم و تعدی کے امور میں ہرگز تعاون نہ کیا کرو۔‘‘
.6کیا اس سے زیادہ مضبوط بریک کوئی خیال میں آسکتی ہے جو انسانی فطرت کو لگائی جاسکے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صرف اس قرآنی تشریح پر ہی اکتفا نہیں کی۔ بلکہ مزید تفصیل بیان کرکے گویا اخوتِ اسلامی کے کوڈ کو بالکل واضح اور نمایاں کردیا ہے۔ فرماتے ہیں اور کیا خوب فرماتے ہیں:
.6عَنْ اَنَسؓ قَالَ قَالَ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أُنْصُرْاَخَاکَ ظَالِمًاأَوْمَظْلُوْمًا،فَکَیْفَ نَنْصُرُہُ ظَالِمًا؟ فَقَالَ: تَاخُذُ فَوْقَ یَدَیْہِ۔۳۸
.6’’یعنی انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اپنے مسلمان بھائی کی ہر حال میں مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا کہ مظلوم۔ اس پر صحابہؓ نے (حیران ہوکر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ مظلوم بھائی کی مدد تو ہم سمجھ گئے مگر یہ ظالم بھائی کی مدد کے کیا معنی ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ظالم بھائی کی مدد یہ ہے کہ اس کے ظلم کے ہاتھ کو پکڑ کر روک لو۔‘‘
.6اللہ اللہ!اللہ اللہ! کس شان کا کلام ہے اور کس شیرینی اور کس چاشنی سے لبریز!!!! مگر افسوس ہے کہ بہت سے مسلمان بھی اس کلام کی حقیقت کو نہیں سمجھتے۔ وہ صرف اس خیال کو لے کر خوش ہوجاتے ہیں کہ ہمارے رسول نے اس حدیث میں کیسے لطیف انداز میں ظالم کو روکنے کی تعلیم دی ہے۔ حالانکہ یہ مفہوم اس حدیث کا صرف ایک حصہ ہے اور وہ بھی محض ثانوی حیثیت کا حصہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا اصل مقصد اور مدعا یہ ہے کہ اسلامی اخوت کا اولین فرض یہ ہے کہ ایک مسلمان ہر حال میں اپنے مسلمان بھائی کی امداد کے لئے تیار اور ہوشیار رہے۔ اور کوئی خیال اسے اس فرض کی ادائیگی سے باز نہ رکھ سکے۔ حتیٰ کہ اگر وہ اپنے مسلمان بھائی کو ظالم بھی خیال کرتا ہے تو پھر بھی اس کا فرض ہے کہ آگے آئے اور اپنے بھائی کی امداد کرے۔ گو لازماً ظالم ہونے کی صورت میں یہ امداد دوسرے رنگ میں ظاہر ہوگی۔ مگر بہر حال وہ کسی صورت میں اور کسی حال میں اپنے بھائی کی امداد سے پہلو تہی نہیں کرسکتا۔اگر اس کا بھائی مظلوم ہے تو وہ آئے اور اپنے مظلوم بھائی کی امداد کے لئے اپنے جان ومال کی بازی لگا دے۔ اور اگر بھائی ظالم ہے تو پھر بھی وہ آگے آئے اور اپنے بھائی کے ظلم کے ہاتھ روکے۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کلام کو ان چونکا دینے والے الفاظ سے شروع کیاہے کہ:
.6انصراخاک ظالماً اومظلوماً
.6’’یعنی ہر حال میں اپنے بھائی کی امداد کو پہنچو خواہ وہ ظالم ہے یا کہ مظلوم۔‘‘
.6اور صرف سوال ہونے پریہ تشریح فرمائی ہے۔ کہ ظالم بھائی کی امداد کس طرح ہونی چاہیئے اور کمال حکمت سے آپ نے ظالم کا لفظ پہلے رکھا ہے اور مظلوم کا بعد میںتاکہ اس طرف اشارہ فرمائیں کہ بعض لحاظ سے ظالم بھائی مظلوم بھائی کی نسبت بھی زیادہ قابلِ امداد ہوتا ہے۔ کیونکہ جہاں مظلوم بھائی کی صرف دنیا لٹ رہی ہوتی ہے۔ وہاں ظالم بھائی کی روح اور اس کے اخلاق مٹ رہے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ دانشمندوں کے نزدیک جسم کے نقصان سے روح اور اخلاق کا نقصان بہت زیادہ بھاری ہوتا ہے۔
.6مگر یہ اعلیٰ ضابطۂ اخلاق صرف اسلامی تعلیم کا مرہونِ منت ہے کیونکہ کسی اور مذہب نے یہ تعلیم نہیں دی ۔ دور نہ جائو گاندھی جی کو ہی لے لوکہ ہندوئوں میں گویا ایک عدیم المثال روحانی بزرگ بلکہ رشی اور اوتار خیال کئے جاتے ہیں اور بظاہر دیکھنے میں ان کا کلام بھی روحانی اصطلاحوں سے معمور نظر آتا ہے اور ان کی ہر بات میں روحانی طاقت کے مظاہروں کا ذکر ہوتا ہے مگر کیا یہ ایک تلخ حقیقت نہیں ہے کہ نواکھلی کے چند سو مظلوم ہندوئوں کے لئے تو ان کی روح گداز ہوئی جاتی ہے اور وہ اتنا عرصہ گذرجانے کے باوجود اس علاقہ کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوسکتے۔ لیکن بہار کے لاکھوں ظالم ہندوئوں کی روحیں ان کی آنکھوں کے سامنے اپنے ظلم وستم کے وسیع میدان میں تڑپ رہی ہیں مگر گاندھی جی کے کانوں پر جوں تلک نہیں رینگتی اور انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ ظالم بھائی کے ہاتھ کو روکنا بھی میرے فرائض میں داخل ہے۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی ناکہ گاندھی جی کا فلسفہ مظلوم بھائی کی مدد تو سکھاتا ہے مگر ظالم بھائی کی مدد کی تعلیم نہیں دیتا۔ ان کی آنکھ مظلوم بھائی کے جسم کو جلتا ہوا تو دیکھتی ہے مگر ظالم بھائی کی روح کے شعلوں کو نہیں دیکھ سکتی۔ بہرحال یہ صرف اسلام ہی کی مقدس تعلیم ہے کہ وہ دنیا میں ایسی اخوت قائم کرنا چاہتا ہے کہ جس میں ظالم و مظلوم کا امتیاز باقی نہیں رہتا اور ہر شخص کا فرض قرار دیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں اپنے بھائی کی مدد کو پہنچے۔ خواہ وہ بھائی ظالم ہو یا مظلوم ۔ہاں یہ فرق ضرور ہوگا کہ اگر یہ بھائی مظلوم ہے تو اسے ظلم سے بچایا جائے گا لیکن اگر وہ ظالم ہے تو اس کے ظلم کے ہاتھ .6ک.6و.6 روکا جائے گا۔ کیونکہ ایک صورت میں جسم پر حملہ ہوتا ہے اور دوسری میں روح پر۔
.6خلاصہ کلام یہ کہ اسلام نے اخوت اسلامی کا وہ اعلیٰ معیار قائم کیا ہے کہ اس کی نظیر کسی اور قوم، کسی اور مذہب میں نہیں ملتی وہ اپنے ضابطۂ اخوت کو چار بنیادی ستونوں پر قائم کرتا ہے۔
.6اوّل.6: وہ اسلامی اخوت کا یہ معیار قائم کرتا ہے کہ تمام مسلمان ایک واحد جسم انسانی کا رنگ رکھتے ہیں تا اگر جسم کے کسی ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو باقی جسم بھی بے چینی اور سوزشِ حرارت سے تپنے لگ جائے۔
.6دوم.6: وہ ہر حال میں ہر مسلمان بھائی کی مدد کا حکم دیتا ہے۔ خواہ حالات کچھ ہوں۔
.6سوم.6: وہ ہر مسلمان کو ہدایت دیتا ہے کہ جب بھی اور جہاں بھی تمہیں کوئی مظلوم مسلمان بھائی نظر آئے تو جہاں تک تمہاری طاقت ہے اپنی جان اور اپنے مال سے اس کی مدد کو پہنچو۔
.6چہارم.6: وہ یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ اگر تمہارا کوئی مسلمان بھائی ظلم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے ظلم کے ہاتھ کو روک کر اس کی روح کو تباہی سے بچائو۔
.6یہ وہ چار بنیاری اصول ہیں جن پر اسلامی اخوت کی عمار ت قائم کی گئی ہے اورگو یہ باتیں بظاہر بہت مختصر سی ہیں مگر غور کریں تو ان میں سچی اخوت کا سارا فلسفہ آجاتا ہے۔ اور گو میں اپنی بیماری کی وجہ سے مضمون کو زیادہ تشریح کے ساتھ نہیں لکھ سکا۔ لیکن میں امید کرتا ہوں ہمارے دوست آج کل کے نازک زمانہ میں اسلام کی اس زریں تعلیم کو یاد رکھنے کی کوشش کریں گے۔ جس کا مختصر سا خلاصہ میں نے اوپر کے مضمون میں درج کرنے کی کوشش کی ہے۔
.6وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العٰلمین.6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل۱۹ ؍دسمبر۱۹۴۶ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
حوالہ جات
.6
.6۱.6- .6 .6الاحقاف:.6۱۶
.6۲.6- .6 .6آل عمران:.6۵۳
.6۳.6-.6 .6 الصف:.6۱۵
.6۴.6-.6 .6 الکھف:.6۹۷
.6۵.6-.6 .6 الصف:.6۱۰
.6۶.6-.6 .6 منقول از آئینہ کمالاتِ اسلام ٹائیٹل پیج۔ روحانی خزائن جلد.6۵
.6۷.6-.6 .6 .6کشف الخفاء للعجلونی.6۔.6۲.6:.6۵۶۸
.6۸.6-.6 .6اسد الغابہ جلد.6۳.6۔ عمربن الخطاب، اسلامہٗ رضی اللہ عنہ صفحہ.6۳۲۲.6۔ طبع .6۲۰۰۱.6ء مجمع الذوائد۔ جلد .6۹.6 صفحہ.6۶۴.6۔ طبع .6۱۳۵۳.6ھ۔ القاھرہ۔(مفہوماً)
.6۹.6-.6 .6یٰسین:.6۳۱
.6۱۰.6-.6 .6المومن:.6۸۴
.6۱۱.6-.6 .6تذکرہ صفحہ.6۴۵۲.6،.6۴۹۳.6،.6۴۹۴.6۔ طبع .6۲۰۰۴.6ء
.6۱۲.6-.6 .6 تذکرہ صفحہ.6۱۷۲.6۔ طبع .6۲۰۰۴.6ء
.6۱۳.6-.6 .6 ص.6حیح مسلم کتاب فضائل صحابہ باب من فضائل علی بن طالب ۔.6۴
.6۱۴.6-.6 .6 صحیح البخاری کتاب الادب باب.6 الکُنیۃِ للصَّبِی وَقَبْلَ أَن یُولَدَ للرَّجُلِ.6۔
.6۱۵.6-.6 .6صحیح البخاری کتاب التعبیر۔ باب .6الرُّؤْیَا بِالنَّھَار.6۔ .6۱۲.6۔
.6۱۶.6-.6 .6 لوقاباب .6۷.6۔ آیت .6۳۷.6 تا .6۳۹
.6۱۷.6-.6 .6 یٰسین:.6۳۱
.6۱۸.6-.6 .6 آل عمران:.6۶۲
.6۱۹.6-.6 .6 الشعرائ:.6۲۲۸
.6۲۰.6-.6 .6 آل عمران:.6۷
.6۲۱.6-.6 .6 الشعرائ:.6۱۹.6-.6۲۳
.6۲۲.6-.6 .6ھود:.6۷۶
.6۲۳.6-.6 .6الصّٰٓفٰت.6:.6۱۰۲
.6۲۴.6-.6 .6 تذکرہ صفحہ.6۲۰.6۔طبع .6۲۰۰۴.6ء
.6۲۵.6-.6 .6 النسائ:.6۶۰
.6۲۶.6-.6 .6 یوسف:.6۷۷
.6۲۷.6-.6 .6الشعرائ:.6۱۵
.6۲۸.6-.6 .6متی باب .6۲۲.6۔ لوقا باب.6۲۰
.6۲۹.6-.6 .6تاریخ طبری
.6۳۰.6-.6 .6 البقرہ:.6۲۰۶
.6۳۱.6-.6 .6تاج العروس
.6۳۲.6-.6 .6 یونس:.6۹۱
.6۳۳.6-.6 .6آل عمران:.6۱۰۴
.6۳۴.6-.6 .6 الحجرات:.6۱۱
.6۳۵.6-.6 .6 صحیح البخاری کتاب الادب۔ باب.6 رحمَۃِ النَّاسِ والبھائھم.6۔.6۲۷
.6۳۶.6-.6 .6 الذٰریٰت.6:.6۲۲
.6۳۷.6-.6 .6المائدہ:.6۳
.6۳۸.6-.6 .6صحیح البخاری کتاب المظالم۔ باب.6 أَعِنْ اخاکَ ظَالِمًا أَوْمَظْلُوْمًا۔.6۴
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6۱۹۴۷.6ء
.6
حافظ نور الہٰی صاحب درویش قادیان کی تشویشناک علالت
احباب سے دعا کی درخواست
.6
.6قادیان میں ایک صاحب حافظ نور الٰہی صاحب نامی بہاولپور سے زیارت اور خدمت مرکز کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں ۔یہ صاحب کچھ عرصہ سے بیمار ہیں اور آج فون پر اطلاع ملی ہے کہ اب ان کی حالت تشویشناک ہے ۔چونکہ قادیان کے دوست آج کل جماعت کی مخصوص دعائوں کے حقدار ہیں اور حافظ نور الٰہی صاحب ذاتی طور پر بھی بہت مخلص اور نیک آدمی ہیں۔ اس لئے دوستوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ان کے لئے خصوصیت سے دعا کریں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍اپریل ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
نماز میں اتباعِ امیر اور اتحادِ ملّت کا لطیف سبق
پرسوں مغرب کی نماز کے وقت چونکہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت ناساز تھی۔ اس لئے حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے نماز پڑھائی اور بتقاضائے بشری تیسری رکعت میں دو سجدوںکی بجائے چار سجدے کر گئے۔ بعض قریب کے مقتدیوں نیـــ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ کر اس غلطی کی طرف توجہ بھی دلائی مگر مولوی صاحب نے اس کا خیال نہ کیا اور اپنی یاد کو صحیح سمجھتے ہوئے چار سجدے پورے کر گئے اور جیسا کہ شریعت کا مسئلہ ہے ،ان کی اتباع میں ہم سب کو بھی چار سجدے ہی کرنے پڑے۔ اس وقت مجھے خیال آیا کہ اسلام کیسا کامل اور حکیمانہ مذہب ہے کہ اس معمولی سے مسئلہ میں بھی اس نے اتباعِ امیر اور اتحاد ملت کا سارا فلسفہ بھر دیا ہے۔جو یہ ہے کہ اگر کبھی تمہارا امام کوئی اجتہادی غلطی کرتا ہے یا بشری کمزوری کے ماتحت بھول چوک اور نسیان کا مرتکب ہوتا ہے اور یہ غلطی یا بھول چوک ایسی ہوتی ہے کہ تم اسلامی تعلیم کے ماتحت یقین رکھتے ہو کہ وہ حقیقتاً ایک غلطی اور بھول چوک ہے تو اس صورت میں تم واجبی ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے اسے اس غلطی کی طرف توجہ دلا سکتے ہو لیکن اگر پھر بھی وہ اپنے فعل کو درست خیال کرتے ہوئے اپنے رستہ پر قائم رہے تو تمہیں یہ اختیار ہرگز نہیں ہے کہ اسے چھوڑ کر الگ ہو جائو یا اس کے فعل کے خلاف عمل شروع کر دوبلکہ اس صورت میں بھی تمہارا فرض ہے کہ امام کو غلطی خوردہ سمجھنے کے باوجود اس کا ساتھ دواور بہر حال اس کے فعل کی اتباع کرو تاکہ قومی اتحاد میں رخنہ نہ پیدا ہو۔
یہ وہ لطیف اور اصولی سبق ہے جو نماز سے تعلق رکھنے والے ایک معمولی سے مسئلہ سے ہمیں حاصل ہو تا ہے اور یہ سبق اسلام کے کمال اور اس کے منجانب اللہ ہونے کی ایک بیّن دلیل ہے۔ کیونکہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح اسلام نے اپنے تمام احکام کو خواہ وہ کسی میدان سے تعلق رکھتے ہیں اور خواہ وہ بڑے ہیں یا چھوٹے، بعض مشترکہ اصولوں کی لڑی میں پرو رکھا ہے۔ جیسا کہ نماز کے اس مسئلہ کو کہ اگر امام کوئی بات بھول جائے تو مقتدیوں کو کیا کرنا چاہئے۔ اتباعِ امیر اور اتحاد ملت کے اصول کے ساتھ پیوست کر دیا گیا ہے اوروہ اصول یہ ہے کہ امام کی ہر حالت میں اتباع کرنی چاہئے خواہ وہ ٹھیک رستہ پر گامزن ہو یا کہ کسی وقت بھول کر کوئی غلط رستہ اختیار کر لے۔ ہاں اگر متبع اور مقتدی کو یہ یقین ہو کہ امام غلطی کر رہاہے تو وہ مناسب طریق پر اسے اس غلطی کی طرف توجہ دلا سکتا ہے لیکن اگر پھر بھی امام اپنے رستہ پر قائم رہے تو متبع اور مقتدی کا فرض ہے کہ وہ اس صورت میں بھی امام کی اتباع کرے۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو قومی اور ملی شیرازہ منتشر ہو کر خطرناک فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا۔اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکیمانہ الفاظ فرمائے ہیں کہ:اِنَّمَا جُعِلَ الاِمامُ لِیُؤ تَمَّ بِہِ۔۔۔ ۱
.6’’ یعنی امام کا تقرر تو ہوتا ہی اس لئے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔‘‘
پس نماز کا یہ معمولی سا مسئلہ بھی ہمارے لئے ایک بھاری سبق رکھتا ہے۔ جس پر عمل کر کے ہم قومی تنظیم و ترقی کا دروازہ کھول سکتے ہیںمگر ساتھ ہی اسلام نے کمال حکمت سے ہمیں یہ بھی سمجھا دیا ہے کہ اگر کبھی کوئی امام غلطی کرے تو اسے گستاخانہ رنگ میں برملا طور پر یہ نہ کہا کروکہ آپ غلطی کر رہے ہیں۔بلکہ اشارہ کنایہ کے ساتھ بتا دیا کرو کہ اس معاملہ میں غلطی ہو گئی ہے۔ چنانچہ نماز میں امام کو اس کی غلطی پر توجہ دلانے کے لئے اسلام نے یہ پیارے الفاظ مقرر فرمائے ہیں کہ سبحان اﷲ یعنی’’غلطی اور بھول چوک سے پاک تو صرف خدا ہی کی ذا ت ہے‘‘۔
ان الفاظ میں حکمت یہ ہے کہ ایک طرف امام کا ادب و احترام بھی قائم رہے اور دوسری طرف اسے ان الفاظ سے اس طرف توجہ بھی ہو جائے کہ جب مجھے خدا کا بے عیب ہونا یاد دلایا جا رہا ہے تو شاید مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہے۔ اس طرح اس چھوٹے سے مسئلہ میں اسلام نے اتحاد قومی اور اتباع امام اور احترام امیر کے گہرے فلسفہ کو اس طرح بھر دیا ہے کہ جس طرح ہماری زبان کے محاورہ میں ایک کوزے کے اندر دریا بھر دیا جاتا ہے۔
باقی رہایہ سوال کہ اگر کوئی امیر دانستہ اور جان بوجھ کرکوئی ایسا مسلک اختیار کرے جو صریح طور پر خلاف شریعت ہے تو اس صورت میںاسلام کیا تعلیم دیتا ہے؟ سو جہاں تک خدا کے مقرر کردہ دینی خلفاء کا تعلق ہے۔ ان کے متعلق یہ صورت پیدا ہی نہیںہو سکتی۔کیونکہ خدا جس نے ان کو خلیفہ بنایا ہوتا ہے، خود ان کا محافظ ہوتا ہے اور گو وہ اجتہادی غلطی کر سکتے ہیں اور رائے کی لغزش سے بالا نہیں ہوتے مگر وہ دانستہ اور جان بوجھ کر کسی خلاف شریعت راستہ پر گامزن نہیں ہوتے۔ ہاں دنیوی اور سیاسی امراء کا معاملہ جداگانہ ہے۔ جن کے لئے شریعت نے علیحدہ احکام جاری فرمائے ہیں مگر اس جگہ ان کے بیان کی ضرورت نہیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍فروری ۱۹۴۷ئ)
.6
قادیان میں الحمد للہ سب خیریت ہے
.6
.6گزشتہ ایام کے فسادات کی وجہ سے قادیان بیرونی علاقوں سے بالکل کٹ گیا تھاکیونکہ نہ ریل باقی رہی تھی نہ ڈاک نہ تار اور نہ ٹیلیفون۔ ان ایام میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو جو آج کل سندھ میں تشریف رکھتے ہیں۔ مختلف مقامات سے تاریںدلوا کر حالات سے مطلع رکھنے کی کوشش کی گئی۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ ان تاروں میں سے بہت کم تاریں حضور تک پہنچ سکی ہیں۔ اسی طرح جو تاریں بیرونی جماعتوں کی خیریت دریافت کرنے اور مرکز سلسلہ کی خیریت کی خبر پہنچانے کے متعلق دی گئیں، وہ بھی بہت کم پہنچ سکی ہیں۔ البتہ گاہے گاہے لاہور اور امرتسر کی جماعت کے ساتھ بعض ذرائع سے مواصلات قائم کرنے کا موقع ملتا رہا ہے۔
.6اس عرصہ میں الفضل کو بھی یک ورقہ صورت میں بدل دیا گیا تھا کیونکہ اس کے باہر بھجوانے کی کوئی صورت نہیں تھی اور نہ ہی باہر سے خبریں موصول ہونے کا کوئی انتظام تھا۔ اب چونکہ خدا کے فضل سے کم از کم وقتی طور پر حالات پُر امن ہیں۔ اور ڈاک بھی اولاً تانگوں کے ذریعہ سے اور اب روزانہ ایک ڈیزل کار کی سروس قائم ہو جانے کی وجہ سے جاری ہو گئی ہے۔ اس لئے اس اعلان کے ذریعہ احباب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ قادیان میں خدا کے فضل سے ہر طرح خیریت ہے اور سندھ سے آمدہ اطلاعات سے معلوم ہوا ہے کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی معہ اہل و عیال و عملہ ہر طرح خیریت سے ہیں۔ لاہور اور ملتان اور امرتسر سے بھی اطلاع پہنچ چکی ہے کہ وہاں کی جماعتیں خدا کے فضل سے بخریت ہیں۔ البتہ امرتسر میں ایک دوست کو خفیف ضربات آئی تھیں مگر اب وہ رو بصحت ہیں۔ امرتسر میں جماعت کے بعض دوستوں کا کچھ مالی نقصان بھی ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کا حافظ و ناصر ہو۔ راولپنڈی اور بعض دوسرے مقامات کے دوستوں کے متعلق ابھی تک کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی۔ احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ان فتنوں کے ایام میں جماعت کو اس کے پیارے اما م کی قیادت میں ہر طرح خیریت و حفاظت کے ساتھ رکھے اور دوسرے مسلمانوں ،ہندوئوں اور سکھوں کو بھی توفیق دے کہ وہ آپس میں امن اور محبت کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
.6یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فسادات کے ابتدا میں ہی قادیان میں ایک امن کمیٹی بنا دی گئی تھی۔ جس میں احمدیوں کے علاوہ دوسرے مسلمانوں اور سکھوں اور ہندوئوں نے بھی شرکت کی اور اس کمیٹی.6 کی وجہ سے قادیان اور اس کے ماحول میں الحمد للہ اچھا اثر پیدا ہوا ہے۔ .6 (مطبوعہ الفضل .6۲۰.6 مارچ .6۱۹۴۷.6ئ)
.6
اردو زبان کو خراب ہونے سے بچائو
قرآنی محاورہ کو برقرار رکھنا برکت و فصاحت کا موجب ہے
.6
.6اردو زبان بھی کس قدرقابلِ رحم ہے کہ اسے اس وقت دو قوموں کے سیاسی مصالح کا تیرِ پیہم خراب کرنے کے درپے ہے۔ ہندو اس کے اندر ہندی اور سنسکرت کے انوکھے الفاظ اور غیر مانوس محاورات شامل کر کے اسے گویا شدھ کرنے کا آرزو مند ہے۔ اور مسلمان اس میں عربی اور فارسی کے مشکل صیغے اور دور افتادہ بند شیںداخل کر کے اسے بزعم خود کلمہ پڑھانے اور مومن بنانے کا خواہاں ہے اور اس جدو جہد کو دو نوں قومیں بھاری دینی اور قومی خدمت خیال کر کے نادانستہ طور پر ہماری مشترکہ زبان اردو کا ستیا ناس کر رہی ہیں۔ بے شک دوسری جاندار چیزوں کی طرح زبان بھی ایک بدلنے والی اور ترقی کرنے والی چیز ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سیاسی مصالح کے ماتحت تکلف اور تصنع کا طریق اختیار کر کے زبان کے طبعی نشوونما کو غیر فطری ملمع سازی کے راستہ پر ڈال دیا جائے۔
.6ہندوئوں نے تو اردو زبان میں ہندی اور سنسکرت کے الفاظ کی اتنی بھر مارشروع کر دی ہے کہ میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ جب کوئی ہندوصاحب ریڈیو پر تقریر کرنے کے لئے کھڑئے ہوتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ اردو میں بولنے کے مدعی ہوتے ہیں۔ ان کی تقریر کے پچاس فیصدی الفاظ قطعی طور پر سمجھے نہیں جا سکتے اور دو چار منٹ کی توجہ کے بعد سمجھنے کی کوشش مجبوراً ترک کرنی پڑتی ہے۔ مگر اس جگہ مجھے اصل گلہ ہندوئوں سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے کرنا ہے۔ جو ہندوئوں کی ضد میں آکر خواہ مخواہ اپنی زبان کو خراب کر رہے ہیں اور سادہ اور صاف اور مانوس الفاظ کی جگہ دور افتادہ اور مشکل الفاظ کو داخل کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم زبان کی خد مت کر رہے ہیں۔ حالانکہ یہ خدمت نہیں بلکہ عداوت ہے اور تعمیر نہیں بلکہ تخریب ہے۔ اور پھر لطف یہ ہے کہ بعض نام نہاد اصطلاحیں تو ایسی ہیں کہ ایک فصیح لفظ کو چھوڑ کر جو قرآنی محاورہ کے بھی عین مطابق ہے ( اور قرآن کی زبان عربی محاورہ کی اصل الاصول ہے) ایک نسبتاً غیر فصیح اور قرآنی محاورہ کے خلاف لفظ اختیار کر لیا گیا ہے۔
.6میں اس جگہ زیادہ مثالیں نہیں دیناچاہتا صرف دو بدیہی اور موٹی مثالیں دے کر بتا تا ہوں کہ کس طرح خود مسلمانوں کی طرف سے اردو زبان کو بگاڑا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ہی قرآنی محاوروں کوبھی بدل کر نئے اور بالکل غیر مانوس محاورے قائم کئے جا رہے ہیں ۔اس ضمن میں پہلی مثال جو میں دینا چاہتا ہوں۔ وہ مبارک باد کے لفظ سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ لفظ اردو زبان میں اس قدر کثیرالاستعمال اور متعارف ہے کہ مسلمانوں کا بچہ بچہ تو اسے جانتا ہی ہے۔غیر مسلموں یعنی ہندوئوں اور سکھوں میں بھی یہ لفظ ایسا عام فہم ہے کہ شہری ہندو اور سکھ تو الگ رہے۔ دیہات کے سکھ اور ہندو بھی اس لفظ کو اچھی طرح سمجھتے اور اسے اپنی گفتگو میں کثرت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ مگر مسلمان مصنّفوں اور خصوصاً مسلمان اخبار نویسوں نے اس سادہ اور عام فہم لفظ کو بھی بدل کر ایک ایسی صورت دے دی ہے۔ جو نہ صرف غیر مسلموں کے لئے بالکل غیر مانوس ہے بلکہ بہت سے مسلمان کہلانے والے بھی اس لفظ کو نہیں سمجھتے۔ اور کم از کم ثقیل اور غیر مانوس خیال کرتے ہیں۔ میری مراد ’’تبریک ‘‘ کے لفظ سے ہے۔ جو کچھ عرصہ سے مبارکباد کے لفظ کی جگہ استعمال ہونا شروع ہو گیا ہے۔ حالانکہ یہ لفظ صرف ثقیل اور غیر مانوس ہی نہیں بلکہ قرآنی محاورہ کے بھی سراسر خلاف ہے۔ قرآن شریف نے اس لفظ کو فعل اور اسم فاعل کی صورت میں اٹھارہ جگہ استعمال کیا ہے۔ اور ان اٹھارہ جگہوں میں سے ایک جگہ بھی باب تفعیل کی صورت میں استعمال نہیں کیا۔ جس سے کہ لفظ تبریک تعلق رکھتا ہے بلکہ لازما ًہر جگہ باب مفاعلہ کی صورت میں استعمال کیا ہے ،جس سے لفظ مبا.6ر.6کباد کا تعلق ہے۔ مثلا سورۃ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
.6.6.6۔۔۲
.6اسی طرح سورہ انعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
.6.6۔۔۳
.6ان دونوں موقعوں پر اور اسی قسم کے باقی ماندہ سولہ موقعوں پر قرآن شریف نے بلا استثناء باب مفاعلہ استعمال کیا ہے۔ اور کسی ایک جگہ بھی باب تفعیل استعمال نہیں کیا۔ پھر نہ معلوم کیوں ہمارے دوست بلا وجہ باب مفاعلہ کو چھوڑ کر ’’ تبریک‘‘ کے لفظ کے گرویدہ ہو رہے ہیں۔ جو ثقیل بھی ہے اور غیرمانوس بھی اور قرآنی محاورہ کے خلاف بھی۔ بے شک کبھی کبھی عربی زبان میں ’’برّک‘‘ کا لفظ بھی مبارک باد دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اور لغت کے لحاظ سے ہم اسے غلط نہیں کہہ سکتے لیکن ایک زیادہ فصیح اور زیادہ مستعمل اور زیادہ مانوس لفظ کو چھوڑ کر جو قرآنی محاورہ کے بھی عین مطابق ہے۔ ایک ثقیل اور دور افتادہ اور غیر مانوس لفظ کو اختیار کرنا جو قرآنی محاورہ کے بھی خلاف ہے، ادبی اورلسانی اصول کے لحاظ سے نہایت درجہ قابل اعتراض ہے۔ مگر آج کل جسے دیکھو’’ ہدیہ تبریک ہدیہ تبریک‘‘ کے الفاظ سے سرشار نظر آتا ہے اورخود احمدی نوجوان بلکہ الفضل کے کارکن بھی اس رو میں بہے جارہے ہیںاوراپنی جگہ بہت خوش ہیں کہ ہم نے زبان میں ایک خاص جدت پیدا کی ہے اور بڑی ترقی کا رستہ کھولا ہے۔ حالانکہ زبانوں کے مسلمہ اصول کے مطابق یہ ترقی نہیںبلکہ تنزل اور تخریب .6ہے۔اگر میں بھولتا نہیں تو ا س’’اتحاد ‘‘ کا سہرا غالباً زمیندار اخبار کے سر ہے ۔جس نے جدت پسندی کے .6زبردست جذبہ کے ماتحت یہ لفظ ایجادکیا اور پھر دوسرے مسلمانوںنے محض کورانہ تقلید اور عجوبہ پسندی کے رنگ میں اس کا استعمال شروع کر دیا۔مگر کم از کم ہماری جماعت کے دوست تو جو سلطان القلم کے روحانی فرزند ہیں، اس غلطی سے محفوظ رہنے چاہئیں۔
.6دوسری مثال جو میں اس جگہ دینا چاہتا ہوں وہ لفظ ’’ اسلامی‘‘ سے تعلق رکھتی ہے۔ جو کچھ عرصہ سے لفظ مسلمان کا قائمقام بن کر ہماری زبان کو خراب کر رہا ہے آجکل ایسے محاورے کثرت سے اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں کہ ’’ اسلامیان ہند یہ چاہتے ہیں‘‘ اور’’اسلامیان پنجاب کی غیرت کا تقاضا یہ ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ حالانکہ صحیح لفظ مسلمان ہے نہ اسلامی۔ قرآن شریف نے اس لفظ کو غالبا ًانتالیس جگہ استعمال کیا ہے اور سب جگہ بلا استثناء اسم فاعل کے صیغے کے رنگ میں مسلمان کا لفظ ہی استعمال ہے۔ بلکہ ایک جگہ تو حضرت ابراہیم کی طر ف منسوب کر کے یہاں تک فرمایاہے کہ:.6-
.6.6۔۔۴
.6’’ یعنی حضرت ابراہیم ؑنے تمہارے لئے خدائی منشاء کے ماتحت مسلمان کی اصطلاح قائم کی اور اسے دنیا میں جاری کیا ‘‘
.6پس کوئی وجہ نہیں کہ اس مانوس اور عام فہم بلکہ گویا خداتعالیٰ کے رکھے ہوئے نام کو ترک کر کے جسے نہ صرف خود مسلمان بلکہ ہندئووں اور سکھوں کا بچہ بچہ تک جانتا اور سمجھتا ہے ’’ اسلامی ‘‘ کا لفظ استعمال کیا جائے اور اردو زبان کو نہ صرف مشکل اور غیر مانوس بنایا جائے بلکہ معروف قرآنی محاورہ سے بھی دور کر دیا جائے۔ کیا وجہ ہے کہ ہم ’’ مسلمانانِ پنجاب ‘‘ یا ’’ پنجاب کے مسلمان ‘‘ کے الفاظ کی بجائے ’’ اسلامیانِ پنجاب‘‘ کا محاورہ استعمال کریں۔ جو صرف غیر مانوس ہی نہیں بلکہ قرآنی محاورہ اور اسلامی اصطلاح کے بھی سرا سر خلاف ہے۔
.6اوپر کے دو الفاظ صرف مثال کے طور پر بیان کئے گئے ہیں۔ ورنہ آج کل کی اردو زبان میں ایسے الفاظ اور محاورات کثرت کے ساتھ داخل ہو گئے ہیں ۔ یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہئے کہ داخل کئے جا رہے ہیں جو بلا وجہ اور بلا کسی حقیقی ضرورت کے اردو زبان کو مشکل اور پیچدار بناتے چلے جا رہے ہیں۔ اور اس طرح سادگی اور عام فہمی کے جوہر کو جو دراصل ہر ترقی کرنے والی زبان کی جان ہے، سرعت کے ساتھ ضائع کیا جا رہا ہے۔ جس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ مزید ضد میں آکر ہندو کی یہ کوشش رہتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اردو میں ہندی اور سنسکرت کے الفاظ داخل کر کے اسے مسلمانوں کے لئے ایک گورکھ دھندا بنا دیا جائے۔ کچھ عرصہ ہوا میں نے ایڈیٹر صاحب انقلاب لاہور کو اس نقص کی طرف توجہ دلائی تھی اور انہوں نے کسی حد تک اس کا اعتراف بھی کیا تھا۔ مگر آج کل ایجاد و اختراع کی رو .6ا.6یسی زوروں پر ہے کہ ایڈیٹر صاحب انقلاب بھی عملاً اس کا مقابلہ نہیں کر سکے۔ حالانکہ بالعموم انقلاب کی زبان دوسرے اخباروں کی نسبت زیادہ صاف اور زیادہ بامحاورہ ہوتی ہے۔ بہرحال میں امید کرتا ہوں کہ کم از کم ہماری جماعت کے دوست عموماً اور الفضل اور دوسرے احمدی جرائد کا عملہ خصوصاً اس بارہ میں زمانہ کی غلط رو میں بہنے سے بچے گا اور اردو زبان کو فصاحت اور سلاست کی ان طبعی حدود کے اندر اندر رکھنے کی کوشش کرے گا جو ایک علمی زبان کی زندگی اور ترقی کے لئے ضروری ہیں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۸ ؍مئی ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
خالصہ! ہوشیار باش
سکھ صاحبان سے ایک دردمندانہ اپیل
.6
.6سیاسی حالات بھی عجیب طرح رنگ بدلتے رہتے ہیں۔ ابھی .6۱۹۴۶.6ء کے اوائل کی بات ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات ہو رہے تھے کہ سکھ قوم اس بات پر ہندؤوں سے سخت بگڑی ہوئی تھی کہ وہ کانگرس کے نظام کے ماتحت ان کی پنتھک حیثیت اور پنتھک وقار کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور ان کی مستقل قومی حیثیت کو مٹا کر اپنے اندر جذب کرلینے کے درپے ہیں۔ چنانچہ اسی زمانہ کے بعد کاواقعہ ہے کہ سکھوں کے مشہور لیڈر ماسٹر تارا سنگھ صاحب نے اپنے ’’سنت سپاہی‘‘ نامی گور مکھی رسالہ کے اگست .6۱۹۴۶.6ء کے نمبر میں ’’ہندو مسلماناں نال ساڈے سمبدھ‘‘ کے مضمون کی ذیل میں لکھا تھا کہ:.6-
’’مذہبی اصولوں کے لحاظ سے سکھ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں۔ مگر تہذیب اور برادری کے تعلقات ہندوئوں سے زیادہ ہیں۔۔۔ ہندوئوں میں ایک حصہ ایسا ہے جو ہمیں نگل جانا چاہتا ہے۔۔۔مسلمانوں سے ہمارے تعلقات بھی کم ہیں اور خطرہ بھی کم ہے ۔۔۔میں مسلمانوںسے سمجھوتہ اور بہترتعلقات پیدا کرنے کے حق میں ہو ں۔۔۔ہندوئوں میں ایسے لوگ ہیں جو ڈھنگ یا استادی سے سکھوں کو نگل جانا چاہتے ہیں۔۔۔ ہندوئوں کا پچھلا وطیرہ اور تاریخ ہمیں پورا بھروسہ نہیں ہونے دیتی اور ہمیں خبردار ہی رہنا چاہئے۔۔۔ یقین رکھو کہ کانگرس اور ہندوئوں نے ہماری علیحدہ پولیٹیکل ہستی کو مٹانے کی کوشش کرنی ہے ۔پچھلے انتخابات میں یہ کوشش بہت زور سے کی گئی تھی لیکن ہم بچ گئے۔ اگر آج پنجاب اسمبلی کے سارے سکھ ممبر کانگرس ٹکٹ پر ہوتے تو ہم ختم تھے۔‘‘
.6 .6یہ الفاظ جن کے لکھے جانے پر ابھی بمشکل نو ماہ کا عرصہ گزرا ہے۔ ایک ایسے سکھ لیڈ ر کے قلم سے نکلے ہیں جو ہندو سے سکھ بنا ہے اور ہم ان الفاظ پر قیاس کر کے سمجھ سکتے ہیں کہ اس وقت قدیم سکھوں اور خصوصََا جاٹ سکھوں میں ہندوئوں کے متعلق کیا خیالات موجزن ہوں گے۔ مگر آج یہی پنجاب کا نامور خالصہ ہندوئوں کی آغوش میں راحت محسوس کر رہا ہے۔ مجھے تسلیم کرنا چاہئے کہ اس غیر معمولی تبدیلی کی ذمہ داری کسی حد تک مسلمانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے سکھوں کو اپنے ساتھ ملانے میں پوری توجہ اور جدوجہد سے کام نہیں لیا۔ مگر اس انقلاب کا اصل سہرا ہندو سیاست کے سر ہے ،جس نے اتنے قلیل عرصہ میں اپنی گہری تدبیر کے ذریعہ سکھ کو گویا بالکل اپنا بنا لیاہے لیکن جس اتحاد کی بنیاد محض دوسروں کی نفرت و عداوت کے جذبہ پر ہو، وہ زیادہ دیر پا نہیں ہو ا کر تاا ور سمجھدار سکھوں کی آنکھیں آہستہ آہستہ اس تلخ حقیقت کے دیکھنے کے لئے کھل رہی ہیں کہ ان کے لئے پنجاب میں ہندوئوں کی سانجھ سو فیصدی خسارہ کا سودا ہے۔ـ’’پنجاب کی تقسیم‘‘ یا ’’پنجاب کا بٹوارہ‘‘ ایک ایسا نعرہ ہے جس کے وقتی طلسم میں ہندو سیاست نے سکھ کو مخمور کر رکھا ہے مگر کیا کبھی کسی دانشمند سکھ نے ٹھنڈے دل سے اس حقیقت پر غور کیا ہے کہ پنجاب کی مزعومہ تقسیم کے نتیجہ میں سکھ کیا لے رہا ہے اور کیا دے رہا ہے ۔یہ دو ٹھوس حقیقتیں بچے بچے کے علم میں ہیںکہ (.6۱.6) پنجاب میں سکھ صرف .6۱۳.6 فیصدی ہے اور (.6۲.6) پنجاب کے .6۲۹.6 ضلعوں میں سے کوئی ایک ضلع بھی ایسا نہیں ہے جس میں سکھوں کی اکثریت ہو۔ کیا اس روشن صداقت کے ہوتے ہوئے پنجاب کی کوئی تقسیم سکھ مفاد کو فائدہ پہنچا سکتی ہے؟ جو قوم ہر لحاظ سے اور ملک کے ہر حصہ میں اقلیت ہے وہ ملک کے بٹنے سے بہر حال مزید کمزوری کی طرف جائے گی اور ملک کی ہر تقسیم خواہ وہ کسی اصول پر ہو اس کی طاقت کو کم کرنے والی ہو گی نہ کہ بڑھانے .6والی۔ یہ کہنا کہ فلاں حصہ کے الگ ہو جانے سے اس حصہ میں سکھوں کی آبادی کا تناسب بڑھ جائے گا۔ .6ایک خطرناک سیاسی دھو کہ ہے۔ کیونکہ بہر صورت پنجاب کے دونوںحصوں میں سکھ ایک کمزور اقلیت رہتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں ایک حصہ کے اندر تناسب آبادی میں خفیف سی زیادتی کی وجہ سے اپنی مجموعی طاقت کو بانٹ لینا خود کشی سے کم نہیں۔ برطانوی پنجاب میں .6سکھوں کی موجودہ آبادی ساڑھے سینتیس .6 لاکھ ہے اور ان کی آبادی کا تناسب تیرہ فیصدی ہے۔ .6اب موجودہ تجویز کے مطابق پنجاب اس طرح بانٹا جا رہا ہے کہ ایک حصہ میں پونے سترہ .6لاکھ چلا جاتا ہے اور دوسرے میں پونے اکیس لاکھ اور جس حصہ میں پونے اکیس لاکھ چلا جاتا ہے وہاں ان کی آبادی قریبََا اٹھارہ فیصدی ہو جاتی ہے اور دوسرے حصہ میں قریبََا دس فیصدی رہ جاتی ہے تو کیا اس صورت میں دنیا کا کوئی سیاستدان یہ خیال کر سکتا ہے کہ ایسی تقسیم سکھوں کے لئے مفید ہو گی۔جہاں وہ تیرہ فیصدی سے قریبََا اٹھارہ فیصدی ہو جائیں گے۔ وہاں بھی بہر حال وہ ایک کمزور اقلیت رہیں گے اور ان کے لئے تناسب آبادی کا خفیف فرق عملََا بالکل بے نتیجہ اور بے سود ہو گا مگر دوسری طرف یہ تقسیم ان کی مجموعی طاقت کو دو حصوں میں بانٹ کر (یعنی .6۳۷.6 کی بجائے .6۱۶.6 اور .6۲۱.6 کے دو حصے کر کے) ان کی قومی طاقت کو سخت کمزور کر دے گی۔ یہ ایک ٹھوس اور بین حقیقت ہے جسے دنیا کا کوئی مسلمہ سیاسی اصول رد نہیں کر سکتا ۔اگر پنجاب ایک رہے تو سکھ قوم ساڑھے سینتیس .6 لاکھ کی .6ایک زبردست متحد جماعت ہے۔ جس کا سارا زور ایک ہی نکتہ پر جمع رہتا ہے لیکن اگر پنجاب بٹ جائے تو خواہ وہ کسی اصول پر بٹے سکھوں کی طاقت بہر حال دو حصوں میں بٹ جائے گی اور دوسری طرف ان کے آبادی کے تناسب میں بھی کوئی معتدبہ فرق نہیں آئے گا۔ اور وہ بہرصورت دونوں حصوں میں ایک کمزور اقلیت ہی رہیں گے۔ کیا یہ حقائق اس قابل نہیں کہ سمجھدار سکھ لیڈر ان پر ٹھنڈے دل سے غور کریں؟
.6 .6یہ کہنا کہ پنجاب کے مختلف ضلعے یا زیادہ صحیح طور پر یوں کہنا چاہیئے کہ مختلف حصے آبادی کی نسبت سے نہیں بٹنے چاہئیں بلکہ مختلف قوموں کی جائیداداور مفاد کی بنیاد پر بٹنے چاہئیں ایک طفل تسلی سے زیادہ نہیں کیونکہ:.6-
.6اول تو یہ مطالبہ دنیا بھر کے مسلمہ سیاسی اصولوں کے خلاف ہے اور جمہوریت کا بنیادی نظریہ اس خیال کودور سے ہی دھکے دیتا ہے۔
.6دوسرے جائیدادیں ایک آنی جانی چیزہیں اور ان پر اس قسم کے مستقل قومی حقوق کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی جو انسانی جانوں اور ان جانوں کے تحفظ اور ترقی سے تعلق رکھتے ہیں۔
.6تیسرے ۔اس سوال کو اٹھا نے کا یہ مطلب ہے کہ ملک کے نئے دور کی سیاست کی بنیاد مساوات انسانی پر رکھنے کی بجائے روزِ اول سے ہی انفرادی برتری اورجماعتی تفوق اور جبر و استبداد پر رکھی جائے جس کے خلاف غریب ہندوستان صدیوں سے لڑتے ہوئے آج خدا خدا کرکے آزادی کا منہ دیکھنے لگا ہے۔
.6 چوتھے۔ سکھوں کی یہ جائیدادیں بڑی حد تک ان کی حکومت کے زمانہ کی یادگار ہیں۔ جبکہ ان میں سے کئی ایک نے اولاََ اپنی طوائف الملوکی کے زمانہ میں اور بعدہٗ اپنی استبدادی حکومت کے دوران میں دوسرے حقداروں سے چھین کر ان جائیدادوں کو حاصل کیا۔ تو کیا یہ انصاف اور دیانتداری کا مطالبہ ہے کہ اس رنگ میں حاصل کئے ہوئے اموال پر آئندہ سیاست کی بنیاد رکھی جائے۔ ہم ان کی یہ جائیدادیں ان سے واپس نہیں مانگتے۔ جو مال ان کا بن چکا ہے وہ انہیں مبارک ہو مگر ایسے اموال پر سیاسی حقوق کی بنیاد رکھنا جو آج سے چند سال قبل کسی اور کی ملکیت تھے۔ دیانتداری کا طریق نہیں ہے۔
.6پانچویں۔ دنیا کا بہترین مال انسان کی جان ہے۔ جو نہ صرف سارے مالوں سے افضل اور برتر ہے۔ بلکہ ہر قسم کے دوسرے اموال کے پیداکرنے کا حقیقی ذریعہ ہے۔ پس جان اور نفوس کی تعداد کے مقابلہ پر پیسے کو پیش کرنا ایک ادنیٰ ذہنیت کے مظاہرہ کے سوا کچھ نہیں۔
.6چھٹے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ سکھوں کی جائیدا د کی مالیت واقعی زیادہ ہے۔ کیونکہ جائیداد کی قیمت عمارتوں کی اینٹوں یا زمین کے ایکڑوں پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ بہت سی باتوں کا مجموعی نتیجہ ہوا کرتی ہے۔ اور جب تک ان ساری باتوں کا غیر جانبدارانہ جائزہ نہ لیا جائے۔ سکھوں کا یہ دعویٰ کہ ہماری جائیدادیں زیادہ ہیں۔ ایک خالی دعویٰ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ خصوصاً جب کہ ابھی تک ایکڑوں کا صحیح قوم وار تناسب بھی گنتی میں نہیں لایا جاسکا۔
.6 .6سکھ صاحبان کا یہ خیال کہ ہندو اور ہم ایک ہیںاور اس لئے ان کے ساتھ مل کر مشرقی پنجاب میں ہماری اکثریت ہو جائے گی پہلے دھوکے سے بھی زیادہ خطرناک دھوکہ ہے۔کیونکہ اس میں ایک ایسے پیچ دار اصول کا واسطہ پڑتا ہے ۔ جس کا حل نہ ہندو کے پاس ہے اور نہ سکھ کے پاس۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہندو اور سکھ ایک قوم ہیں؟ اس سوال کے امکانََا دو ہی جواب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ ہاں وہ ایک قوم ہیںاور دوسرے یہ کہ نہیں بلکہ وہ دو مختلف قومیں ہیں۔ جن کا مذہب اور تہذیب و تمدن جداگانہ ہے۔ مگر ان کا آپس میں سیاسی سمجھوتہ ہے۔اب ان دونوں جوابوں کو علیحدہ علیحدہ لے کر دیکھو کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔ اگر سکھ اور ہندو ایک قوم ہیںتو ان کا اس غرض سے پنجاب کو دو حصوں میں بانٹنے کا مطالبہ کہ انہیں اس ذریعہ سے ایک علیحدہ گھر اور وطن میسر آ جاتا ہے۔ بالبداہت باطل ہو جائے گا۔ کیونکہ جب سکھ اور ہندو ایک ہیں تو ظاہر ہے کہ مستقبل کے ہندوستان میں جتنے بھی صوبے ہوں گے، وہ جس طرح ہندوئوں کا گھر اور وطن ہوں گے اسی طرح سکھوں کا بھی گھر اور وطن ہوں گے۔ اور اگر یہ کہو کہ پنجابی سکھوں کا وطن کو نسا ہو گا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو جب ہندو اور سکھ ایک قوم تسلیم کئے گئے تو پنجابی سکھ کے علیحدہ وطن کا سوال ہی نہیں اٹھ سکتا۔ جب سکھ بھی ہندوستا ن کی وسیع ہندوجاتی کا حصہ ہے تو ظاہر ہے کہ جب ہندو جاتی کو وطن مل گیا تو لازماً سکھ کو بھی مل گیا اور اور اس کا علیحدہ مطالبہ سراسر باطل ہے۔ دوسرے اگر ہندو قوم کے ساتھ ایک ہوتے ہوئے پنجابی سکھ کو علیحدہ وطن کی ضرورت ہے تو یو ۔پی اور بہار اور مدراس وغیرہ کے مسلمانوں کو کیوں علیحدہ وطن کی ضرورت نہیں۔ حالانکہ پنجاب کے .6۳۷.6 لاکھ سکھ کے مقابل پر یو۔پی کا مسلمان .6۸۴.6 لاکھ اور بہار کا مسلمان.6۴۷.6 لاکھ ہے۔ اگرمسلمان اپنے سوا کروڑ کمزور بھائیوں کو یو۔پی اور بہار میں ہندوئوں کے رحم پر چھوڑ سکتے ہیں توپنجاب کے .6۳۷.6 لاکھ سکھ جو بقول خود بہادر بھی ہیں اور صاحب مال و زر بھی ،پنجاب کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر کیوں نہیں رہ سکتے۔ دوسرا امکانی پہلو یہ ہے کہ سکھ ہندوئوں سے ایک الگ اور مستقل قوم ہیں اور علیحدہ مذہب اور علیحدہ تمدن رکھتے ہیں، جس کی علیحدہ حفاظت کی ضرورت ہے۔ تو اس صورت میں سوال یہ ہے کہ پنجاب کی تقسیم ان کے لئے کون سا حفاظت کا رستہ کھولتی ہے؟ وہ بہرحال پنجاب کے مشرقی حصہ میں بھی ایک اقلیت ہوں گے۔ جو وسیع ہندو اکثریت کے رحم پر ہو گی۔ اور اکثریت بھی وہ جو صرف انہی کے علاقہ میں اکثریت نہیں ہو گی۔ بلکہ سارے ہندوستانی صوبوں کی بھاری اکثریت اس کی پشت پر ہوگی۔ یہ ماحول کس زندہ اور مستقل قوم کو چین کی نیند سونے دے سکتا ہے؟ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جب قومیںدو ہیں تو پھر ان کا موجودہ سیاسی سمجھوتہ بھی کسی اعتبار کے قابل نہیں۔ کیونکہ اسے کل کے حالات بدل کر کچھ کی کچھ صورت دے سکتے ہیں۔چنانچہ اوپر والے مضمون میں ہی ماسٹر تارا سنگھ صاحب لکھتے ہیں کہ:.6-
’’ لڑائی جھگڑے تو زمانہ کے حالات کے ماتحت ہوتے اور مٹتے رہتے ہیں۔ نہ کبھی کسی قوم سے دائمی لڑائی ہو سکتی ہے اور نہ دائمی صلح۔ اب بھی ہمارا مسلمانو ں کے ساتھ کبھی جھگڑا ہو گا اور کبھی صلح ہو گی۔ یہی صورت ہندوئوں کے ساتھ ہونی ضروری ہے۔‘‘۔۔ ۵
.6اور ماسٹر تارا سنگھ صاحب کے خیال پر ہی بس نہیں دنیا کی تاریخ شاہد ہے کہ دومستقل قوموں میں اس قسم کے عارضی سیاسی سمجھوتے ہرگز اس قابل نہیں ہوا کرتے کہ ان کے بھروسہ پر ایک قوم اپنی طاقت کو کمزور کر کے ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو دوسری قوم کے رحم پر ڈال دے اور سکھ صاحبان تو اپنی گزشتہ ایک سالہ تاریخ میں ہی ایک تلخ مثال دیکھ چکے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ وہ پھر بھی حقائق سے آنکھیں بند رکھنا چاہتے ہیں۔
.6 .6کہا جاسکتا ہے کہ گزشتہ فسادات میں سکھوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے ۔ اس لئے انہیں مسلمانوں پر اعتبار نہیں رہا ۔ میں گزشتہ اڑھائی ماہ کی تلخ تاریخ میں نہیں جانا چاہتا مگر اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں کہ سب جگہ مسلمانوں کی طرف سے پہل نہیں ہوئی۔ اور زیادہ ذمہ داری پہل کرنے والے پر ہوا کرتی ہے۔ اور فسادات تو جنگل کی آگ کا رنگ رکھتے ہیں۔ جو ایک جگہ سے شروع ہو کر سب حصوں میں پھیل جا تی ہے اور خواہ اس آگ کا لگانے والا کوئی ہو۔ بعد کے شعلے بلا امتیاز سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتے ہیں۔ میں اس دعویٰ کی ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ مسلمانوں نے کسی جگہ بھی زیادتی نہیں کی۔ لیکن کیا سکھ صاحبان یہ یقین رکھتے ہیں کہ سکھوں نے بھی کسی جگہ زیادتی نہیں کی؟ آخر امرت سر میں چوک پر اگ داس وغیرہ کے واقعات لوگوں کے سامنے ہیں۔ اور پھر کئی جگہ بعض بے اصول ہندئووں نے تیلی لگا کر سکھوں اور مسلمانوں کو آگے کر دیا ہے۔ اور بالآخر کیا سکھوں کے موجودہ حلیفوں نے بہار میں ہزار ہا کمزور اور بالکل بے بس مسلمانوں پر وہ قیامت بر پا نہیں کی تھی۔ جس کی تباہی اور قتل و غارت کو نہ پنجاب پہنچ سکتا ہے اور نہ نواکھلی یا کوئی اور علاقہ۔ پس اگر گلے شکوے کرنے لگو تو دونوں قوموں کی زبانیں کھل سکتی ہیں۔ لیکن اگرملک کی بہتری کی خاطر ’’معاف کر دو اور بھول جائو‘‘ کی پالیسی اختیار کرنا چاہوتو اس کے لئے بھی دونوں قوموںکے لئے اچھے اخلاق کے مظاہرہ کا رستہ کھلا ہے۔ میں تو شروع ہی سے اپنے دوستوں سے کہتا آیا ہوں کہ موجودہ فسادات کا سلسلہ ایک دور سوء.6 .6vicious circle.6کارنگ رکھتا ہے۔احمد آباد کے.6 بعد کلکتہ اور کلکتہ کے بعد نواکھلی اور نواکھلی کے بعد بہار اور گڑھ مکتیراور بہار اور گڑھ مکتیرکے بعد پنجاب و سرحد اور اس کے بعد خدا جانے کس کس کی باری آنے والی ہے۔ اور جب تک کوئی قوم جرأت کے ساتھ اس زنجیر کی کسی کڑی کو درمیان سے توڑ نہیں دے گی۔ اس آگ کا ایک شعلہ دوسرے شعلے کو روشن کرتا جائے گا۔ جب تک یا تو یہ دونوں قومیں آپس میں لڑ لڑ کر تباہ ہو جائیں گی اور یا قتل و غارت سے تھک کر انسان بننا سیکھ لیں گی۔ انتقام کی کڑی ہمیشہ صرف جرأت کے ساتھ اور عفو اور درگزر کے عزم کے نتیجہ میں ہی توڑی جا سکتی ہے۔ورنہ یہ ایک دلدل ہے، جس میں سے اگر ایک پائوں پر زور دے کر اُسے باہر نکالا جائے تو دوسرا پائوں اور بھی گہرا دھنس جاتا ہے۔ پس اگر ملک کی بہتری چاہتے ہو تو مسلمان کو بہار اور گڑھ مکتیر کو بھلانا ہو گا۔ اور ہندو اور سکھ کو نواکھلی اور پنجاب کو۔ ہاں ان واقعات سے بہت سے سبق بھی سیکھنے والے ہیں۔ جو دونوں قومیں انتقام کے جذبہ کو قابو میں رکھ کر بھی سیکھ سکتی ہیں:.6-
.6 .6میں سکھ صاحبان سے یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ وہ موجودہ جوش و خروش کی حالت میں اس بات کو ہرگز نہ بھولیں کہ عمومََا دو قوموں کے درمیان تین بنیادوں پر ہی سمجھوتے ہوا کرتے ہیں۔ اول یا تو ان کے درمیان مذہبی اصولوں کا اتحاد ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اکٹھا رہنا چاہتی ہیں۔ اور یا دوم ان کا تہذیب و تمدن ایک ہوتا ہے۔ اور یا سوم ان کے اقتصادی نظریے ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اب اگر ان تینوں لحاظ سے دیکھا جائے تو سکھ کا سمجھوتا مسلمان سے ہونا چاہئے نہ کہ ہندو کے ساتھ کیونکہ:.6-
.6 .6اول تو سکھوں اور مسلمانوں کے مذہبی اصول ایک دوسرے سے بہت مشابہ ہیں۔ کیونکہ دونوں قومیں توحید کی قائل ہیں۔ اور ان کے مقابل پر ہندو لوگ مشرک اور بت پرست ہیں۔ جن کے ساتھ سکھوں کا مذہبی لحاظ سے کوئی بھی اشتراک نہیں۔ اور اسی لئے ماسٹر تارا سنگھ صاحب نے صاف طور پر مانا ہے کہ:.6-
.6’’ مذہبی اصولوں کے لحاظ سے سکھ مسلمانوں سے زیادہ قریب ہیں‘‘۔
.6 .6دوسرے تہذیب و تمدن بھی مسلمانوں اور سکھوں کا بہت ملتا جلتا ہے کیونکہ دونوں سادہ زندگی رکھنے والے اور فیاض جذبات کے مالک اور قدیم مہمان نوازی کے اصولوں پر قائم ہیں اور اس کے مقابل پر ہندو تمدن اس سے بالکل مختلف ہے۔
.6تیسرے اقتصادی نقطہ نگاہ کے لحاظ سے بھی مسلمان اور سکھ ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہیں۔ کیونکہ دونو ںکی اقتصادیات کا اسّی فی صدی حصہ وہ محاصلِ اراضی اور فوجی پیشے اور ہاتھ کی مزدوری سے تعلق رکھتا ہے۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ ایک سکھ اور مسلمان زمیندارآپس میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں کہ گویا وہ ایک ہی ہیں۔ مگر یہ ذہنی اور قلبی اتحاد ایک ہندو اور سکھ کو نصیب نہیں ہوتا:.6-
.6پس میں اپنے سکھ ہم وطنوں سے درد مندانہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ گزشتہ واقعات کو بھلا کر اپنے مستقل اور فطری مفاد کی طرف توجہ دیں۔ دیکھو ہر زخم کے لئے خدا نے ایک مرہم پیدا کی ہے اور قومی زخم بھی بھلانے سے بھلائے جا سکتے ہیں۔ مگر غیر فطری جوڑ کبھی بھی پائیدار ثابت نہیں ہو ا کرتے ۔ اگر ایک آم کے درخت کی شاخ نے دوسرے آم کی شاخ کے ساتھ ٹکرا کر اُسے توڑا ہے تو بے شک یہ ایک زخم ہے جسے مرہم کی ضرورت ہے مگر یہ حقیقت پھر بھی قائم رہے گی کہ جہاں پیوند کا سوال ہو گا، آم کا پیوند آم کے ساتھ ہی قائم ہو گا۔ دو لڑنے والے بھائی لڑائی کے با وجود بھی بھائی رہتے ہیں۔ مگر دو غیر آدمی عارضی دوستی کے باوجو د بھی ایک نہیں سمجھے جا سکتے۔ ہم ہندوئوں کے بھی خلاف نہیں۔ وہ بھی آخر اسی مادر وطن کے فرزند ہیں اور بہت سی باتوں میں اُن سے بھی ہمارا اشتراک ہے اور ہماری دلی خواہش تھی کہ کاش ہندوستان بھی ایک رہ سکتا۔ لیکن اگر ہندوستان کو مجبوراً بٹنا پڑا ہے تو کم از کم پنجاب توتقسیم ہونے سے بچ جائے تا اسے مسلمان بھی اپنا کہہ سکیں اور سکھ بھی اس کے اندر بسنے والے ہندو بھی۔ اور شائد پنجاب کا خمیرآیندہ چل کر ہندوستان کو بھی باہم ملا کر ایک کردے۔ لیکن جب تک یہ بات میسر نہیں آتی اس وقت تک کم از کم مسلمان اور سکھ تو ایک ہو کر رہیں۔ یہ جذبہ خود سمجھدار سکھ لیڈروں میں بھی پیدا ہوتا رہا ہے۔ چنانچہ گیانی شیر سنگھ صاحب فرماتے ہیں۔
.6 .6’’ شمالی ہندوستان کے امن کی ضمانت سکھ مسلم اتحاد ہے اوراگر کوئی شخص سکھ مسلم فساد کے زہر کا بیج بوتا ہے تو وہ ملک کا اور خدا کااور نسلِ انسانی کا دشمن ہے۔‘‘۔۔۶
.6 .6اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہندو کو ہندوستان کے باقی صوبوں میں وطن مل رہا ہے اور مسلمان کو پنجاب وغیرہ میں۔ کیا اچھا ہوتا کہ سکھ بھی اتنی تعداد میں ہوتا اور اس صورت میں آباد ہوتاکہ اُسے بھی ایک وطن مل جاتا ۔ لیکن افسوس ہے کہ موجودہ حالات میں اس کمی کا ازالہ کسی کے اختیار میں نہیں ہے کیونکہ پنجاب کو خواہ کسی صورت میں بانٹا جائے، سکھ بہر حال اقلیت میں رہتا ہے بلکہ دو حصوں میں بٹنے سے اپنی طاقت کو اور بھی کم کر دیتا ہے۔ تو پھر کیوں نہ وہ اس قوم کے ساتھ جوڑ ملائے جس کے ساتھ اس کا پیوند ایک طبعی رنگ رکھتا ہے۔ اور پھر اس کے بعد محبت اور تعاون کے طریق پر اور ترقی کے پرامن ذرائع کو عمل میں لا کر اپنی قوم کو بڑہائے اور اپنے لئے جتنا بڑا چاہے وطن پیدا کر لے۔ آج سے پچاس سال قبل سکھ پنجاب میں صرف بیس بائیس لاکھ تھے مگر اب اس سے تقریبا ڈیڑھ دو گنے ہیں۔
.6 .6 اسی طرح آج سے چالیس سال قبل مسلمان پنجاب میں اقلیت کی حیثیت رکھتے تھے مگر اب وہ ایک قطعی اکثریت میں ہیں اور اس کے مقابل پر ہندو برابر کم ہوتا گیا ہے۔۔ پس اس قدرتی پھیلائو اور سکیڑ کو کون روک سکتا ہے ؟ پس سکھوں کو چاہیے کہ غصہ میں آکراور وقتی رنجشوں کی رو میں بہہ کر اپنے مستقل مفاد کو نہ بھلائیں۔ انہیں کیا خبر ہے کہ آج جس قوم کے ساتھ وہ سمجھوتا کر کے پنجاب کو دو حصوں میں بانٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کل کو اپنی وفاداری کا عہد نہ نبھا سکے اور پھر سکھ نہ ادھر کے رہیں اور نہ اُدھر کے ۔ ان کے لئے بہرحال حفاظت اور ترقی کا بہترین رستہ یہی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک باعزت سمجھوتہ کر لیں اور مسلمانوں کا فرض ہے کہ ان کے جائز اور معقول مطالبات کو فراخدلی کے ساتھ قبول کر یں ۔ بالآخر سکھ صاحبان کو یہ بات بھی ضرور یاد رکھنی چاہئے کہ خواہ کچھ ہو سکھوں کے لاتعداد مفادوسطی اور شمالی اور مغربی پنجاب کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان کے بہت سے مذہبی مقامات ان ’’علا قوں‘‘ میں واقع ہیں۔ ان کی بہترین جائیدادیں ان علاقوں میں پائی جاتی ہیں۔ ان کے بہت سے قومی لیڈر انہی علاقوں میں پیدا ہوئے اور انہی میں جوان ہوئے اور انہی میں بس رہے ہیں۔ اور پھر ان کی قوم کا بہترین اور غالبا ًمضبوط ترین حصہ جسے سکھ قوم کی گویا جان کہنا چاہئے انہی علاقوں میں آباد ہے۔تو کیا وہ ہندو قوم کے عارضی سیاسی سمجھوتہ کی وجہ سے جس کا حشرخدا کو معلوم ہے، اپنے اس وسیع مفاد کو چھوڑ کو مشرقی پنجاب میں سمٹ جائیں گے؟ خالصہ ہوشیار باش۔ خالصہ ہوشیار باش۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۹ ؍مئی ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
مسلمانوں کا مطالبۂ پاکستان
اور
اس کے مقابل پر تقسیم پنجاب کا سوال
.6 اس وقت ہندوستان کے موجودہ سیاسی مسائل کے تعلق میں پنجاب کی تقسیم کا سوال خاص اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ مسلمانوں کا یہ مطالبہ ہے کہ چونکہ پنجاب جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک طبعی اور قدرتی صوبہ کا رنگ رکھتا ہے اور ایک ناقابل تقسیم یونٹ (.6unit.6)ہے۔ اس لئے اس کی تقسیم کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا اور کوئی وجہ نہیں کہ اس کا کوئی حصہ مجوزہ پاکستان سے علیحدہ کیا جائے۔ اس کے مقا بل پر ہندوئوں اور سکھوں کا مطالبہ یہ ہے کہ جب ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے تو کیوں پنجاب کے ان حصوں کو تقسیم نہ کیا جائے جن میں ہندو سکھ اکثریت پائی جاتی ہے۔ بظاہر ایک ناواقف شخص ہندوئوں اور سکھوں کے اس مطالبہ کو معقول سمجھ سکتا ہے اور خیال کر سکتا ہے کہ جب پاکستان کی تقسیم کا سوال زیادہ تر اس بناء پر اٹھایا گیا ہے کہ مسلم اکثریت والے صوبوں کو ہندو اکثریت والے صوبوں سے علیحدہ کر دیا جائے ۔ تو پھر اسی قسم کے حالات اور اسی قسم کے دلائل کے ماتحت پنجاب کے اس حصہ کو جن میں ہندو سکھ اکثریت ہے، کیوں مسلم اکثریت والے حصہ سے علیحدہ نہ کیا جائے۔ مگر یہ مطالبہ خواہ بعض لوگوں کو معقول نظر آئے حقیقتََا ایک سراسر غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ مطالبہ ہے ۔ جس کی بنیاد ہندو قوم کی خود غرضانہ پالیسی اور فرقہ وارانہ ذہنیت پر قائم ہے۔اور بد قسمتی سے آج کل سکھوں کی سادہ لوح قوم بھی اس پالیسی کا شکار ہو رہی ہے۔ ہمارے اس دعو یٰ کے موٹے موٹے دلائل مختصر طور پر یہ ہیں:.6-
.6اوّل۔ پاکستان کا بنیادی مطالبہ جیسا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے لاہور والے ریزولیوشن سے ظاہر ہے مسلم اکثریت والے صوبوں کی موجودہ حدود پر مبنی تھا اور اس تعلق میں مسلم لیگ کی قرارداد کے مطابق صرف ایسی خفیف تبدیلی کی گنجا ئش رکھی گئی تھی۔ جو کسی جغرافیائی اصول تقسیم کے لحاظ سے چند مربع میلوں کے آگے پیچھے کرنے کی صورت میں ضروری سمجھی جائے۔ مثلا ًکسی دریا یا پہاڑ کی وجہ سے کسی حصہ میں چند میل آگے حد بڑھانی پڑے یا کسی حصہ میں پیچھے ہٹانی پڑے۔ تا اگر بالفرض کسی جگہ جغرافیائی تقسیم کے لحاظ سے کوئی حد قابل اصلاح ہو تو اس کی اصلاح کی جاسکے۔ لیکن ہندوئوں نے اس امکانی گنجائش کو ناواجب وسعت دے کر پنجاب کے ہی حصے کرنے شروع کر دئے ہیں۔ حالانکہ تقسیم پنجاب کا سوال مطالبہ پاکستان کے بنیادی اصول کے خلاف ہے۔ جو صوبہ ہائے پنجاب و سرحدو سندھ وغیرہ کی موجودہ حالت اور موجودہ وسعت کے پیش نظر کیا گیا تھا۔
.6دوم:.6-.6پنجاب کا .6صوبہ اپنے مخصوص جغرافیائی حالات اور اقتصادی نظام اور زبان وغیرہ کے لحاظ سے ایک بالکل طبعی یونٹ ہے۔ جو ایک مکمل واحد جسم کا حکم رکھتا ہے۔ اورظاہر ہے کہ ایک طبعی اور قدرتی یونٹ کو توڑنا نہ صرف کسی طرح جائز اور درست نہیں۔ بلکہ صوبہ کی ساری آبادی اور جملہ اقوام کے لئے یکساں نقصان دہ اور تباہ کن ہے۔ کون نہیں جانتا کہ جغرافیائی ربط و اتحاد کے علاوہ پنجاب میں مختلف نہروں کے ہیڈ اورنہروں کی تقسیم اور بجلی کے پاور سٹیشن اور بجلی کی تقسیم اور تجارت کے مرکزی شہر جو گویاسارے علاقہ کے لئے اقتصادی مرکز کا حکم رکھتے ہیں اور ضروری خوردنی پیداوار کی تقسیم وغیرہ وغیرہ پنجاب میں ایسی مخلوط صورت میں واقع ہیں کہ پنجاب کو دو حصوں میں بانٹنا خواہ وہ کسی اصول پر ہو، صوبہ کی اقتصادی زندگی کو تہہ و بالا کر دینے کا موجب اور ساری قوموں کے لئے یکساں ضرر رساں ہے۔
.6سوم :۔پنجاب میں مختلف قوموں یعنی مسلمانوں اور ہندوئوں اور سکھوں کی آبادی اس طرح ملی جلی صورت میں پائی جاتی ہے کہ پنجاب کی تقسیم فرقہ وارانہ مسئلہ کے حل میںکسی طرح بھی سہولت پیدا نہیں کر سکتی۔ اور جیسا کہ میں اپنے ایک سابقہ مضمون میں ثابت کر چکا ہوں ،سکھوں کے لئے تو خصوصیت کے ساتھ پنجاب کی تقسیم اس مسئلہ کی پیچیدگیوں کواور بھی زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ کیونکہ وہ دو حصوں میں بٹ کر کسی طرف کے بھی نہیں رہتے اور اپنی مجموعی طاقت کو بری طرح کھو بیٹھتے ہیں۔
.6چہارم:۔یہ خیال کہ چونکہ ہندوستان تقسیم ہو رہا ہے۔ اس لئے پنجاب کو بھی تقسیم کیا جائے۔ ایک محض عامیانہ بلکہ کورانہ خیال ہے۔ جو کسی مسلمہ سیاسی اصول یا حالات کے صحیح موازنہ اور مطالعہ پر مبنی نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر سوال کو اس کے مخصوص حالات کے ماتحت جانچا اور طے کیا جاتاہے اور اس معاملہ میں اندھا قیاس کسی طرح بھی جائز نہیں سمجھا جا سکتا۔ اب اگر ہندوستان اور پنجاب کے حالات کا بالمقابل مطالعہ کیا جائے تو اس بات میں ذرہ بھر بھی شبہ نہیں رہ سکتاکہ دونوں کے حالات ایک دوسرے سے اس قدر مختلف اور متغائرہیں کہ وہ ایک قیاس کے نیچے نہیں آسکتے۔ کیونکہ جہاں پنجاب کا صوبہ ہر جہت سے ایک مستقل قدرتی اور مکمل یونٹ ہے۔ جو حسب ضرورت بقیہ ہندوستان سے علیحدہ کیا جاسکتا ہے (گو ہندوستان کی تقسیم کا سوال بھی دراصل ہندو کا پیدا کیا ہوا ہے۔ جس نے شروع میں مسلمانوں کے قلیل ترین منصفانہ مطالبہ کو رد کر کے انہیں آہستہ آہستہ علیحدہ گھر کے خیال کی طرف دھکیل دیا) وہاں خود پنجاب کے مختلف حصے اس طرح طبعی رنگ میں جغرافیائی حالات اور اقتصادی نظام اور تعلیم وغیرہ کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ مخلوط اور پیوست ہیں کہ کسی غیر متعصب شخص کے نزدیک پنجاب کی تقسیم کا سوال اٹھ ہی نہیں سکتا۔
.6پنجم۔ پنجاب کی تقسیم کا سوال ا س لحاظ سے بھی بالکل غیر طبعی ہے کہ اگر یہ کسی حقیقت پر مبنی ہوتا تو آج کی فرقہ وارانہ کش مکش سے قبل بھی اسے ہندوئوں یا سکھوں وغیرہ کی طرف سے اٹھایا جاتا۔ خصوصا ًجس زمانہ میں کہ سندھ کو بمبئی سے اور اڑیسہ کو بہار وغیرہ سے علیحدہ کرنے کا سوال پیداہوا تھا۔ اس وقت پنجاب کی تقسیم کا سوال بھی اٹھا یا جاتامگر ایسا نہیں کیا گیا ۔جس سے صاف ظاہر ہے کہ پنجاب کی تقسیم کا سوال کسی طبعی اور فطری تقاضے پر مبنی نہیں ہے بلکہ محض مسلما.6نوں کی مخالفت میں غیر طبعی اور مصنوعی طریق پر اٹھا یا جا رہا ہے۔
.6ششم:۔تقسیم پنجاب کا مطالبہ اس لحاظ سے بھی قابل ردّ بلکہ حقیقۃً قابل نفرت ہے کہ وہ کسی جہت سے بھی صداقت اور دیانت داری کے جذبہ پر مبنی نہیں ہے۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جب تک ہندوئوں کے دل میں اکھنڈ ہندوستان کی امید قائم تھی انہوں نے اکھنڈ ہندوستان کی تائید اور پاکستان کی مخالفت میں اپنا پورا زور لگایا۔ لیکن جونہی کہ اکھنڈ ہندوستان کی امید ٹوٹتی نظر آئی انہوں نے جھٹ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا سوال کھڑا کر دیا۔ جس کا یہ صاف مطلب ہے کہ دراصل وہ ہر صورت میں ہندو حکومت کے خواہاں ہیں۔ یعنی ان کا دلی منشاء یہ ہے کہ اول تو مسلمان ہندو حکومت کے تابع رہیں۔ اور اگر ایسا ہونا ممکن نہ ہو تو پھر ہندوئوں کو مسلمانوں کی حکومت سے علیحدہ کر کے اپنی قوم کی طاقت اور اقتدار کو بڑھایا جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک انہیں ایک واحد مرکزی حکومت کے دبائو کی وجہ سے پنجاب اور بنگال کے مسلمانوں کو اپنی ایڑی کے نیچے رکھنے کی صورت نظر آرہی تھی۔ انہوں نے بڑے زور شور سے اکھنڈ ہندوستان کا مطالبہ جاری رکھا۔لیکن جونہی کہ اکھنڈ ہندوستان کاقلعہ جس کی چار دیواری کے اندر وہ مسلمانوں کو اپنے زیر قبضہ رکھ سکتے تھے، گرتا ہوا نظر آیا تو انہوں نے ہندو حکومت کو دوسرے طریق پر وسیع اورمستحکم کرنے کے لئے فورا ًپنجاب اور بنگال کی تقسیم کا سوال کھڑ اکر دیا۔ تا اس ذریعہ سے ایک طرف تو ہندو آبادی کو زیادہ سے زیادہ مسلمان حکومت سے علیحدہ کر لیں۔ اور دوسری طرف جہاں تک ممکن ہو ،سکھ قوم کو اپنی حکومت کے ماتحت لے آئیںاور آہستہ آہستہ ان کی علیحدہ ہستی کو مٹا دیںاور تیسری طرف تاحدِّ امکان پاکستان کو کمزور کر دیں۔یہ واضح حقائق صاف بتا رہے ہیںکہ دراصل ہندوئوں کے یہ دونوں مطالبے یعنی اوّلاً اکھنڈ ہندوستان کا مطالبہ اور بعدہٗ پنجاب اور بنگال کی تقسیم کا مطالبہ خالصۃًاور کلیۃًفرقہ وارانہ ذہنیت کا کرشمہ ہیں اور نیشنلسٹ جذبہ کا ادعادکھا وے اور نمائش کے سوا کچھ نہیں۔
.6 ہفتم: تقسیم پنجاب کی تائید میں بعض اوقات یہ دلیل بھی پیش کی جاتی ہے کہ اس طرح صوبہ میں قوم وار .6آبادی کی تقسیم بہتر ہو جائے گی۔لیکن دراصل یہ بھی ایک خطرناک دھوکہ ہے۔ اور جو جذبہ اس مطالبہ کی تہہ میں کام کر رہاہے، وہ صرف یہ ہے کہ اس ذریعہ سے ہندو اور سکھ آبادی کو مسلمانوں کے علاقہ سے باہر نکال لیا جائے، اور ظاہر ہے کہ یہ جذبہ ملک کے مجموعی حالات کو دیکھتے ہوئے کسی طرح انصاف ودیانت داری کا جذبہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ جب مسلمان اپنے کروڑوں بھائی ہندوئوں کے ہندو صوبوں میں چھوڑ رہے ہیں۔(مثلا یو۔پی میں .6۸۴.6 لاکھ۔ بہار میں .6۴۷.6لاکھ۔ مدراس میں .6۳۹.6 لاکھ اور بمبئی میں .6۱۹.6 لاکھ .6وغیرہ وغیرہ) تو ہندوئوں کو مسلم اکثریت والے علاقہ میں اپنے چند لاکھ ہم مذہبوں کو چھوڑتے ہوئے .6بے چینی اور بے اعتمادی کیوں لاحق ہوتی ہے۔ خصوصاً جب کہ انہیں بہت سے دوسرے صوبوں میں بہترین وطن اور کامل اقتدار حاصل ہو رہا ہے۔ اور اگر ان کا منشاء یہ ہے کہ مسلمانوں سے مکمل جدائی کر لیںاور ملک کے کسی حصہ میں بھی اشتراک نہ رہے تو اس صورت میں ضروری ہو گا کہ وہ ان مسلمان آبادیوں کی علیحدگی کا بھی انتظام کر یں جو ہندو صوبوں میں محصور پڑی ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کمشنری انبالہ کے ہندوئوں کو تو مسلمان صوبہ سے علیحدہ کر کے بزعم خود محفوظ کر لیا جائے۔ مگر یو۔پی اور بہار وغیرہ کے کثیر التعداد مسلمان ہندوئوں کے رحم پرپڑے رہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کمشنری انبالہ کے ہندو ایک مخصوص علاقہ میں آباد ہیں۔جہاں ان کی اکثریت ہے مگر اس کے مقابل پر یو۔پی اور بہار کے مسلمانوں کو ان صوبوں کے کسی حصہ میں بھی اکثریت حاصل نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اس اصول پر کام کرنا ہے کہ مختلف قوموں کی آبادیاں لازماً جدا ہو کر آزادی کا حق حاصل کریں تو پھر کسی خاص علاقہ میں اکثریت ہونے یا نہ ہونے کا سوال باقی نہیں رہتا ۔ بلکہ جہاں جہاںبھی کسی خاص قوم کی معقول تعداد پائی جائے۔ اس کی علیحدگی اور حفاظت کا انتظام ہونا چاہئے۔ اگر یو۔پی اور بہار کے مسلمان ایک جگہ آباد نہیں ہیںتو ان صوبوں کی ہندو حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ انہیں ایک جگہ آباد کرنے کا انتظام کریں۔ تا ایک مخصوص علاقہ میں انہیں اپنی حکومت حاصل ہو سکے۔ لیکن اگر ہندو قوم ایسا نہیں کر سکتی۔ یا نہیں کر نا چاہتی تو پھر انہیں کیا حق ہے کہ انبالہ ڈویژن اور کلکتہ وغیرہ کی علیحدگی کا مطالبہ کریں۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ’’میٹھا میٹھا ہڑپ ہڑپ اور کڑوا کڑوا تھو‘‘ ۔ الغرض انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ یا تو صوبوں کی طبعی حدود قائم رکھی جائیںاور ہر صوبہ میں اقلیت والی قوم اکثریت والی قوم کے ساتھ تعاون کرے اور یا اگر قوم وار تقسیم کی وجہ سے صوبوں کی حدود کو توڑنا ہے تو پھرہر صوبہ میں مختلف قوموں کی آبادیوں کو اکٹھا کر کے سارے صوبوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔ یہ ایک بالکل موٹی سی بات ہے کہ جس صوبے میں کسی قوم کی اکثریت ہے۔ اسے اس صوبہ میں حکومت کا حق ہونا چاہئے۔ اب اس پر منطقی دائرے کھینچ کھینچ کر بعض اضلاع کو اس بناء پر الگ کرنے کی کوشش کرنا کہ ان میں دوسری قوم کی اکثریت ہے۔ ایک بالکل فضول بات ہے کیونکہ اصل بنیاد یونٹوں کی تقسیم پر ہے نہ کہ قوموں کی تقسیم پر او ر اگر قوموں کو ہی تقسیم کرنا ہے ۔تو پھر کیوں یو۔پی اور بہار کے مسلمانوں کو بھی علیحدہ علاقہ نہ دیا جائے۔ بہرحال یہ ہرگز عدل و انصاف کاطریق نہیں کہ انبالہ ڈویژن کے اکتیس لاکھ ہندوئوں کو تو بزعم خود پنجاب سے جدا کر کے محفوظ کر لیا جائے۔مگر یو۔پی اور بہار کے ایک کروڑ اکتیس لاکھ مسلمانوں کو ہندوئوں کے رحم پر رہنے دیا جائے۔
.6باقی رہا سکھوں کا سوال، سو ان کا معاملہ بے شک اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ وہ صرف پنجاب ہی میں آباد ہیں اور کسی دوسرے صوبہ کی حکومت ان کے جذبۂ وطنیت کی تسکین کا موجب نہیں ہو سکتی۔ سو گو یہ ایک مجبوری کی صورت ہے۔ جو کسی کے بس کی بات نہیں۔ مگر بہر حال ان کے متعلق مسلمان اعلان کر چکے ہیں کہ اگر کسی علاقہ میں جو ایک معقول رقبہ اور صورت رکھتا ہو، سکھوں کو اکثریت حاصل ہو تو اس علاقہ میں مسلمانوں کو ان کی حکومت پر اعتراض نہیں ہو گا۔اور جب تک انہیںاکثریت حاصل نہیں۔ مسلمان انہیں تمام جائز اور ضروری تحفظات دینے کے لئے تیار ہیں۔ یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ موجودہ صورت میں پنجاب کی تقسیم سکھوں کے لئے کسی طرح مفید نہیں ہو سکتی بلکہ وہ اپنی موجودہ .6۳۷.6 لاکھ آبادی کو دو حصوں میں بانٹ کر اپنی طاقت کو اور بھی کمزور کر لیں گے۔ پس موجودہ حالات میں ان کے لئے مسلمان کے ساتھ مل کر رہنا جن کے ساتھ ان کا مذہب اور تہذیب و تمدن بہت کچھ اشتراک رکھتا ہے، بہر حال مفید اور بہتر ہے۔
.6خلاصہ کلام یہ کہ پنجاب کی تقسیم کا سوال ہر لحاظ سے غیر منصفانہ اور قطعی طور پر نقصان دہ ہے اور پنجاب کے مسلمان بڑی سختی کے ساتھ اس ظالمانہ مطالبہ کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں اور اٹھاتے رہیں گے۔ اور خود ہماری جماعت یعنی جماعت احمدیہ بھی جوموجودہ سیاسی جدوجہد میںجمہور مسلمانوں کے ساتھ ہے، متعدد مرتبہ اس غیر معقول مطالبہ کے خلاف احتجاج کر چکی ہے۔ لیکن چونکہ ایک چوکس اور دوربین قوم کو ہر امکانی خطرہ کے لئے تیاررہنا چاہئے۔ اس لئے اگر خدانخواستہ ایسے اسباب کے نتیجہ میں جو فی الحال ہماری طاقت سے باہر ہیں۔ پنجاب کی تقسیم وقتی طور پر ناگزیر ہو جائے ( وقتی طور پر اس لئے کہ بہر حال اسلام نے جس کے لئے حقیقۃً وطن کی کوئی قید نہیں تمام اکنافِ عالم میں پھیلنا ہے اور پنجاب اور ہندوستان پر ہی بس نہیں۔ بلکہ ساری دنیا کو ہی تبلیغ و تلقین کے ذریعہ اپنے اثر کے نیچے لانا ہے) تو اس کے لئے بھی پہلے سے ضروری تفاصیل سوچ رکھنی چاہئیں۔ اورمیں انشاء اللہ اپنے اگلے مضمون میں اس کے متعلق کچھ عرض کرنے کی کوشش کروں گا۔
.6وما توفیقی الا باﷲ العلی العظیم.6۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹ ؍مئی ۱۹۴۷ئ)
.6
اگر خدا نخواستہ پنجاب تقسیم ہو تو۔۔۔؟
.6میں نے اپنے گزشتہ مضمون میںجس کا عنوانــ’’ مسلمانوں کا مطالبۂ پاکستان اور اس کے مقابل پر تقسیم پنجاب کا سوال‘‘ تھا،بتایا تھاکہ پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ کسی جہت سے بھی معقول یا منصفانہ مطالبہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک محض مصنوعی اور بناوٹی مطالبہ ہے جس کی تہہ میں صرف مسلمانوں کی مخالفت اور عداوت کا جذبہ کام کر رہا ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں۔ لیکن میں نے ساتھ ہی کہا تھا کہ مسلمانوں کو ایک چوکس اور دوربین قوم کی طرح ہر امکانی خطرہ کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ سو میں ذیل کی سطور میں بتا نا چاہتا ہوں کہ اگر خدانخواستہ ایسے اسباب کے نتیجہ میں جو فی الحال ہماری طاقت سے باہر ہیں ،پنجاب کی تقسیم نا گزیر ہو جائے اور یونین سنٹر کے ساتھ کسی رنگ کا الحاق بھی پاکستان کے نظریہ کے خلاف سمجھا جائے تو ایسی مجبوری کی صورت میں جسے مسلمانوں کے سیاسی لیڈرتسلیم کر لیں ہمیں بعض شرائط کو بہرحال ملحوظ رکھناچاہئے۔ اور یہ شرائط میری رائے میں مندرجہ ذیل اصولوں پر طے ہو نی ضروری ہیں:.6-
.6(.6۱.6) تقسیم بہر حال آبادی کی بناء پر ہونی چاہئے نہ کہ جائیداد وغیرہ کی بناپرجس کی غیرمعقولیت بلکہ بر بریت کے متعلق میں اپنے مضمون ’خالصہ ہوشیار باش.6‘.6میں کسی قدر تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوںاور آبادی کے اعداد وشمار پنجاب کی آخری مردم شماری سے لئے جائیں جو .6۱۹۴۱.6ء میں ہوئی تھی۔ گو یہ امر یقینی ہے کہ .6۱۹۴۱.6ء کے بعد سے لے کر آج تک مسلمانوں کی آبادی اور بھی بڑھ چکی ہو گی۔ جیسا کے وہ خدا کے فضل سے ہر دس سالہ مردم شماری میں برابر بڑھتی ہے۔ لیکن بہرحال اس کے بغیر چارہ نہیں کہ آخری باقاعدہ مردم شماری پر بنیاد رکھی جائے۔ اور آج کل کی امن شکن فضاء تو نئی مردم شماری کی متحمل بھی نہیں ہے ۔سوائے اس کے کہ مجبوری کی حالت میں تقسیم پنجاب کے متعلق کسی قوم کی رائے عامہ معلوم کرنے کی غرض سے محدود مردم شماری کی ضرورت پیش آ جائے۔ ایسی مردم شماری کی ضرورت جسے انگریزی میں ریفرنڈم کہتے ہیں۔ بعض خاص خاص علاقوں میں اچھوت اقوام یا ہندوستانی عیسائیوں کے متعلق پیش آسکتی ہے اور ایسی ضرورت پیش آنے پر اس کا انتظام کرنا ہو گا۔
.6(.6۲.6) جہاں تک تقسیم کے عملی پہلو کا تعلق ہے پنجاب کے جن علاقوں میں مسلمانوں کو آبا دی کے لحاظ سے کامل اکثریت حاصل ہے یعنی جن علاقوں میں مسلمان باقی ساری قوموں کے مجموعے سے بھی زیادہ ہیں۔(یعنی کمشنری ملتان اور کمشنری راولپنڈی اور کمشنری لاہور کے اضلاع لاہور اور سیالکوٹ اور گوجرانوالہ اور شیخوپورہ اور گورداسپور وغیرہ ) وہ سب بلا استثناء اور بشمول ان علاقوں کے جن کا ذکر ذیل کے فقرات نمبری .6۳.6، .6۴.6، .6۵.6 میں آتا ہے مسلم پنجاب میں شامل رکھے جائیں۔ خواہ اس کے لئے موجودہ ضلعوں کی حدود توڑنی پڑیں۔ کیونکہ اگر صوبوں کی حدود تو ڑی جاسکتی ہیں تو اسی قسم کے دلائل کے ماتحت ضلعوں کی حدود کیوں نہیں توڑی جاسکتیں۔ بہر حال مسلم اکثریت والے علاقے خواہ وہ کمشنریوں یا ضلعوں کی صورت میں ہوں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے یا کہ تحصیلوں کی صورت میں (مثلاً ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ۔ اور ضلع جالندھر کی تحصیل ہائے جالندھر ونکودراور ضلع فیروزپور کی تحصیل ہائے فیروز پور وزیرہ اور ضلع گوڑ گائوں کی تحصیل ہائے فیروزپورجھرکادلوح وغیرہ جن میں مسلمانوں کی کامل اکثریت ہے) وہ لازما ًمسلم پنجاب کا حصہ رہنے چاہئیں۔
.6(.6۳.6) جن علاقوں میں مسلمانوں کو کامل اکثریت تو حاصل نہیں مگر ہندوئوں اور سکھوں کے مجموعہ کے مقابل پر قطعی اکثریت حاصل ہے یعنی جن علاقوں میں یہ دونوں قومیں مل کر بھی مسلمانوں کی تعداد سے کم رہتی ہیں(مثلاً ضلع ہوشیار پور کی تحصیل ہائے ہوشیار پور ود سوہاوغیرہ جن میں مسلمانوں کی تعداد ہندوئوںاور سکھوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہے) وہ بھی لازمََا مسلم پنجاب میں شامل رہنے چاہئیں کیونکہ انہیں علیحدہ کرنے کی کوئی جائز وجہ نہیں اور اگر عیسائیوں اور اچھوت اقوام کی رائے کے متعلق شبہ ہو تو وہ حصول رائے عامہ کے طریق پر معلوم کی جاسکتی ہے۔
.6(.6۴.6) جن علاقوں میں مسلمانوں کو ہندو ئوں اور سکھوں کے مجموعے کے مقابل پر تو اکثریت حاصل نہیں مگر وہ انفرادی لحاظ سے ہر دوسری قوم سے زیادہ ہیں۔ یعنی وہ علیحدہ علیحدہ صورت میں ہندوئوں سے بھی زیادہ ہیں اور سکھوں سے بھی زیادہ ہیں اور علاقہ کی سب سے بڑی پارٹی کی حیثیت رکھتے ہیں(مثلاً ضلع امرتسر کی تحصیل امرتسر اور ضلع لدھیانہ کی تحصیل لدھیانہ اور ضلع فیروز پور کی تحصیل ہائے فاضلکا اور مکتیسر اور ضلع انبالہ کی تحصیل انبالہ وغیرہ جن میں مسلمان انفرادی طور پر سب سے بڑی پارٹی ہیں) ایسے علاقہ بھی مسلم پنجاب کا حصہ بننے چاہئیں۔ کیونکہ جب خود اپنے قول کے مطابق بھی ہندواور سکھ دو علیحدہ علیحدہ قومیں ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان دو قوموں کے عارضی سیاسی سمجھوتہ کی وجہ سے جو کل کو ٹوٹ بھی سکتا ہے، ان علاقوں کی سب سے بڑی پارٹی( یعنی مسلمانوں) کے مستقل حقوق کو پامال کیا جائے۔ بے شک مغرب کی جمہوری حکومتوں میں بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ دو اقلیت والی پارٹیاں باہم سمجھو تہ کر کے ایک نسبتی طور پر اکثریت والی پارٹی پر غالب آ جاتی ہیں مگر وہاں ہر پارٹی کی بنیاد محض سیاسی مسلک پر ہوا کرتی ہے مگر یہاں قوموں کی تقسیم تہذیب و تمدن پر مبنی ہے۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ ہندوستان میں ایک محض عارضی سیاسی سمجھوتہ کی وجہ سے اکثریت والی پارٹی کے بنیادی حقوق کو قربان کیا جائے اور سیاسی سمجھوتہ بھی ایسا جو گذشتہ چند سال کے عرصہ میں کئی دفعہ رنگ بدل چکا ہے اور بہر حال ایسی صورت میں بھی حسب ضرورت حصول رائے عامہ کا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے۔
.6(.6۵.6) جن علاقوں میں مسلمان ہر جہت سے اقلیت میں ہیں، ان کے متعلق اگر پنجاب کی تقسیم اٹل ہو جائے اور ذمہ دار مسلمان لیڈروں کو اسے قبول کرنا پڑے تو وقتی طورپر مجبوری ہے۔ لیکن ایسے علاقوں کے بھی وہ حصے جن میں ایسی نہروں کے ہیڈ اور ایسی بجلی کے پاور سٹیشن یا ایسے مرکزی تجارتی شہر وغیرہ واقع ہوں جن کا تعلق مخصوص طور پر ان مسلم اکثریت والے علاقوں کے ساتھ ہے جو فقرہ نمبر .6۲.6، .6۳.6، .6۴.6 میں مذکور ہیں تویہ مقامات بھی مسلم پنجاب کا حصہ بننے چاہئیں۔ کیونکہ ظا ہر ہے کہ ایسے مقامات کی حیثیت محض مقامی نہیں ہے بلکہ ان وسیع علاقوں کے ساتھ غیر منفک طور پر وابستہ ہے۔ جنہیں وہ آبپاشی یا بجلی کی تقسیم یا تجارتی کاروبار کے تعلق کے لحاظ سے ایک یونٹ کی صورت میں فائدہ پہنچا رہے ہیںاور یہ بھی ظاہر ہے کہ ان دو قسم کے علاقوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا سارے صوبہ کی اقتصادی زندگی کو بلا امتیاز قوم و ملت تباہ کر دینے کے مترادف ہے۔ اگر بالفرض تقسیم کا یہ اصول ہمیشہ کے لئے قابلِ تسلیم نہ ہو تو کم از کم ایک بڑے لمبے عرصہ کے لئے ضرور واجب العمل ہونا چاہئے تا اس عرصہ میں مغربی اور وسطی پنجاب اپنا علیحدہ انتظام کر سکے اور چونکہ تقسیم پنجاب کا سوال ہندوئوں اور سکھوں کا اٹھا یا ہوا ہے، اس لئے بہر حال اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی لازما ًانہی پر پڑنی چاہئے۔
.6اوپر کے بیان کردہ اصول کے کے ما تحت امرتسر کا شہر جو ویسے بھی فقرہ نمبر .6۴.6 کے مطابق مسلم پنجاب کا حصہ بنتا ہے، مغربی اور وسطی پنجاب کے ساتھ شامل رہنا چاہئے کیونکہ وہ اس علاقہ کا خاص تجارتی مرکز ہے جس کا تمام کاروبار ان علاقوں کے ساتھ وابستہ ہے جو فقرہ نمبر .6۲.6، .6۳.6 ، .6۴.6 میں مذکور ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ امرتسر سکھوں کا مقدس شہر ہے ۔ تو ہم کہتے ہیں کہ کیا مسلمانوں کو ان کی بعض مقدس یادگاروں سے محروم کرنے کی تدبیر نہیں کی جا رہی؟ اور امرتسر شہر میں تو جہاں سکھ صرف اٹھا ون ہزار یعنی پندرہ فیصدی ہیں۔ وہاں مسلمان ایک لاکھ تراسی ہزار یعنی سینتالیس فی صدی سے بھی زیادہ ہیں اور دربار صاحب کا انتظام بہر حال سکھوں کے ہاتھ میں رہے گا اور اسلامی تعلیم کے ماتحت دربار صاحب ہمارے واسطے بھی ایک قابل احترام جگہ ہو گی۔ یہ وہ چند موٹے موٹے اصول ہیں جن کے ماتحت پنجاب کی تقسیم اگر وہ خدا نخواستہ بالکل ہی ناگزیر ہو جائے عمل میں آنی چاہئے اور گو میں دانستہ زیادہ تشریحات میں نہیں گیا لیکن میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر تقسیم پنجاب کی صورت میں مسلمان ان اصولوں پر پختگی سے جم جائیں اور حکومت پر بھی ان اصولوں کی معقولیت پوری طرح واضح کر دیں تو اول تو سکھ صاحبان ( ہندو اس سوال میں سکھوں کے تابع ہے) ان اصولوں کے نتائج پر غو ر کر کے خود بخود پنجاب کی تقسیم کا مطالبہ ترک کر دیں گے اور اگر وہ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اپنے مطالبہ پر قائم بھی رہیں گے تو انہیں جلد معلوم ہو جائے گا کہ ان کے ہاتھ میں ایک خالی برتن کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ہمیںیاد رکھنا چاہئے کہ سیاست ایک ایسا فن ہے جس میں حق و انصا ف کے علاوہ ہوشیاری اور موقع شناسی اور حسنِ تدبیر کی بھی ضرورت ہو ا کرتی ہے۔ اور بعض اوقات جب کہ کسی قوم کی کورانہ روش براہ راست سمجھوتہ کا دروازہ بند کر دے ،پہلو کی طرف سے ہو کر آنا کامیابی کا رستہ کھول دیتا ہے۔ہماری غرض بہرحال مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت اور ملک کی بہتری ہے اور ہم دوسری قوموں کے ساتھ بھی انصاف کا معاملہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن اگر ایک قوم ضد میں آکر ایک ایسے فیصلہ پر تلی ہوئی ہے،جو نہ ہمارے لئے مفید ہے اور نہ اس کے لئے اور ملک کا بھی اس میں سرا سر نقصان ہے۔تو اس صورت میں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس کے پیش کردہ مطالبہ کا تجزیہ کر کے اور اپنے معقول مطالبات کو وسیع صورت دے کر ایسی قوم پر واضح کیا جائے کہ وہ ضد و عناد کی رو میں بہہ کر صرف دوسروں کا ہی نقصان نہیں کر رہی بلکہ خود اپنی تباہی کا بیج بھی بو رہی ہے۔ کاش وہ سمجھے!
.6 .6بالآخر یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج کل بعض ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ گزشتہ مردم شماری کے اعدادو شمار درست نہیں۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس میں بہت سے فرضی اور جعلی نام داخل ہو گئے ہیں اور اس وجہ سے ممکن ہے کہ جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت دکھائی گئی ہے وہاں حقیقتًا ان کی اکثریت نہ ہو اور محض مردم شماری کی غلطی کی وجہ سے ایسا نظر آتا ہو۔ مگر یہ اعتراض غلط ہونے کے علاوہ موجودہ بحث کے لحاظ سے بالکل لا تعلق بھی ہے۔ اگر بالفرض مردم شماری کے اعداد و شمار میں کوئی غلطی ہے تو ظاہر ہے کہ یہ غلطی مسلمانوں کے لئے خاص نہیں بلکہ ساری قوموں کے لئے یکساں ہے۔ بلکہ چونکہ شمارکنندے زیادہ تر ہندو اور سکھ ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان میں مسلمانوں کی نسبت تعلیم زیادہ عام ہے۔ اس لئے لازمََا اس غلطی یا جعلسازی کا اثر بھی سکھوں اور ہندوئوں کے حق میں ہی زیادہ ہوا ہو گا۔علاوہ ازیں جب کہ .6۱۹۴۱.6ء میں بھی مسلمانوں اور ہندوئوں کی آبادی کی عمومی نسبت قریبََا وہی ہے۔ جو کہ.6۱۹۳۹.6ء میں تھی تو پھر یہ شبہ کرنا بالکل باطل ہے کہ مسلمانوں نے .6۱۹۴۱.6ء میں جعلسازی کے ذریعہ اپنی آبادی کو بڑھا لیا ہے۔ مثلاً اگر لاہور شہر میں .6۱۹۳۱.6ء میں مسلمانوں کی اکثریت تھی اور .6۱۹۴۱.6ء میں بھی اسی سے ملتی جلتی اکثریت ہے۔ یا مثلاً اگر امرتسر شہر میں .6۱۹۳۱.6ء میں ہندو اور سکھ مل کر مسلمانوں سے زیادہ تھے اور .6۱۹۴۱.6ء میں بھی قریباً اسی نسبت سے زیادہ ہیں وغیر ذالک۔ تو اس صورت میں یہ دعو یٰ کرنا کہ مسلمانوں کی مردم شماری میں جعلی اندراجات شامل ہیں، ایک افسوس ناک بہتان سے کم نہیں۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ میں ہر مسلمان کی دیانتداری کا ضامن ہوں۔بے اصول لوگ کم و بیش ہر قوم میں پائے جاتے ہیں مگر کون بہادر ایسا آگے آسکتا ہے جو ہر ہندو اور ہر سکھ کی دیانتداری کا ضامن ہو سکے۔ بلکہ اگر کسی غیر جانب دار شخص سے پوچھا جائے جو ہندوستان کے حالات کا تجربہ رکھتا ہو تو وہ ایسے کاموں میں ہندوئوں اور سکھوں کو بہت زیادہ ہوشیار اور چوکس بتائے گا ۔پھر خدا تم لوگوں کو عقل دے۔ آبادیوں میں کمی بیشی صرف شمار کنندوں کی غلطی یا جعل سازی کی وجہ سے ہی نہیں ہوا کرتی بلکہ بسا اوقات طبعی طریق سے بھی ہوا کرتی ہے۔ جس کے ساتھ بعض اوقات الٰہی تقدیر بھی شامل ہوجاتی ہے کہ دنیا کے وسیع مفاد کے پیشِ نظر خدا کسی قوم کی نسل کو بڑھاتا اور کسی کو گھٹاتا ہے۔ پس صرف بحث کی خاطر بات کو لمبا کرنے کی غرض سے بناوٹی عذر نہ بنائو اور خدا سے ڈرو کہ یہ وقت ہندوستانیوں کی سیاست کے امتحان کا ہی وقت نہیں بلکہ ان کے اخلاق کے امتحان کا بھی وقت ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲ ؍مئی ۱۹۴۷ئ)






.6
.6
جماعت احمدیہ کی طرف سے وزیر اعظم برطانیہ کے نام ضروری تار
پنجاب کی تقسیم خلافِ عقل اور خلافِ انصاف ہے
.6
.6چیف سیکر ٹری(ناظر اعلیٰ) جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے مسٹر اٹیلی وزیر اعظم برطانیہ اور مسڑ چرچل لیڈر حزبِ مخالف کے نام مندرجہ ذیل تار بھجوائی گئی ہے۔ جس کی نقل مسٹر محمد علی جناح صدر آل انڈیا مسلم لیگ دہلی اور نیٹ پریس اور ایسو سی ایٹڈ پریس لاہور کو بھی ارسال کی جا رہی ہے۔ تار کے الفاظ یہ ہیں:.6-
.6’’احمدیہ جماعت پنجاب کی تقسیم کے سخت خلاف ہے کیونکہ وہ جغرافیائی اور اقتصادی لحاظ سے ایک قدرتی یونٹ ہے اور اسے ہندوستان کی تقسیم پر قیاس کرنا اوراس کاطبعی نتیجہ قرار دینا بالکل خلاف انصاف اور خلاف عقل ہے۔ اگرصوبوں یعنی قدرتی یونٹوں کو اس لئے تقسیم کیا جا رہا ہے کہ اقلیتوں کے لئے حفاظت کا سامان مہیا کیا جائے تو اس صورت میں یو پی کے .6۸۴.6 لاکھ اور بہار کے .6۴۷.6 لاکھ اور مدراس کے .6۳۹.6 لاکھ مسلمان زیادہ حفاظت کے مستحق ہیں۔ یہ دلیل کہ ان صوبوں کی مسلمان آبادیاں کسی حصہ میں بھی اکثریت نہیں رکھتیں۔ ایک بالکل غیر متعلق اور غیر موثر دلیل ہے۔ کیونکہ اگر تقسیم کو قدرتی یونٹوں کے اصول کی بجائے اقلیتوں کی حفاظت کے اصول پر مبنی قرار دینا ہے تو پھر اس وقت ان مسلمان آبادیوں کا منتشر صورت میں پایا جانا ہر گز انصاف کے رستہ میں روک نہیں ہونا چاہئے بلکہ اس وجہ سے ان کا حفاظت کا حق اور بھی زیادہ مضبوط ہو جاتا ہے۔ سکھوں کو بھی جیسا کہ ان کا اہل الرائے اور سنجیدہ طبقہ خیال کرتا ہے، پنجاب کی تقسیم سے قطعََا کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ بلکہ وہ اپنی آبادی کو دو حصوں میں بانٹ کر اور دو نوں حصوں میں اقلیت رہتے ہوئے اپنی طاقت کو اور بھی کمزور کر لیتے ہیں۔ یہ ادعا کہ پنجاب کی تقسیم آبادی کی بجائے جائیداد کی بناء پر ہونی چاہئے۔ نہ صرف جمہوریت کے تمام مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے۔ بلکہ اس سے مادی اموال کو انسانی جانوں پرفوقیت بھی حاصل ہو تی ہے ، جو ایک بالکل ظالمانہ نظریہ ہے۔‘‘
‎(مطبوعہ الفضل ۲۴ ؍مئی ۱۹۴۷ئ)
.6
پنجاب کی تقسیم قریباً نا گزیر ہے
مگر ہمارا فرض ہے کہ آخری وقت تک جدوجہد جاری رکھیں
بائونڈری کمیشن کے لئے وسیع تیاری کی ضرورت
.6
.6اس وقت ہیٹ سٹروک کی وجہ سے میری طبیعت علیل ہے مگر وقت ایسا نازک ہے اور ایسا تنگ کہ توقف کی گنجائش نہیں۔ اس لئے عبارت آرائی اور تفصیل میں جانے کے بغیر چند ضروری امور سپر د قلم کرتا ہوں۔ .6وما توفیقی الا باﷲ العظیم
.6 .6حکومت برطانیہ کے جدید اعلان مجریہ .6۳.6 جون .6۱۹۴۷.6 ء کے ذریعہ قارئین کو پتہ لگ چکا ہو گا کہ مسلم لیگ کے اس بنیادی مطالبہ کو تسلیم کر لیا گیا ہے کہ ہندوستان کے ان علاقوں میں جن میں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ مسلمانوں کو دوسرے علاقوں سے علیحدہ ہو کر اپنی مستقل حکومت قائم کرنے کا حق ہے مگر اس کے ساتھ ہی اس قسم کے دلائل کی بناء پر پنجاب اور بنگال کی تقسیم کے متعلق غیر مسلموں کا مطالبہ بھی اصولََا تسلیم کر لیا گیا ہے۔البتہ اس بارے میں آخری فیصلہ خود پنجاب اور بنگال کی اسمبلیوں کے ممبروں پر چھوڑا گیا ہے۔ جو .6۱۹۴۱.6ء کی مردم شماری کے مطابق مسلم اور غیر مسلم اکثریت والے ضلعوں کے نمائندوں کی صورت میں دو علیحدہ علیحدہ گروپوں میں بیٹھ کر کثرت رائے سے فیصلہ کریں گے کہ آیا وہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل رہنا چاہتے ہیں۔ یا کہ مجوزہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شریک ہونا چاہتے ہیں۔ اور اگر ان دو گروپوں میں سے ایک گروپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ اور دوسرے گروپ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی میںشریک رہنا چاہتے ہیں۔ تو پھر حکومت برطانیہ اس فیصلہ کو تسلیم کر کے ان صوبوں کو تقسیم کر دے گی۔
.6اس اصول کے مطابق پنچاب کے سترہ ضلعے (بشمول ضلع گورداسپور)، مسلم اکثریت والے ضلعے قرار دئیے گئے ہیں۔اور باقی .6۱۲.6 ضلعے ( بشمول ضلع امرتسر) غیر مسلم اکثریت والے ضلعے قرار پائے ہیں۔ سترہ ضلعوں کا فیصلہ تو ظاہر ہے کہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے حق میں ہو گا مگر بارہ ضلعوں کا فیصلہ ابھی تک یقینی نہیں ہے۔ لیکن غالب گمان یہ ہے کہ اس وقت تک ان کی کثرت رائے کا رجحان ہندوستان کے ساتھ رہنے اور پنجاب کی تقسیم کے حق میں ہے۔اور سوائے اس کے کہ آئندہ چند دن کے اندر اندر ان کی رائے میں کوئی تبدیلی پیدا ہو جائے،بظاہر یہ فیصلہ قائم رہے گا۔جو سترہ ضلعوں کے گروپ کے لئے واجب التسلیم ہو گا۔یہ بارہ ضلعے جن کے فیصلہ پر اس وقت پنجاب کی قسمت کا دارومدار ہے یہ ہیں۔
(۱) کمشنری لاہور میں سے ضلع امرتسر
(۲) کمشنری جالندہر سالم۔ یعنی ضلع کانگڑہ ۔ضلع ہوشیار پور۔ ضلع جالندھر۔ ضلع لدھیانہ اور ضلع فیروز پور
(۳) کمشنری انبالہ سالم یعنی ضلع شملہ ، ضلع انبالہ، ضلع رہتک، ضلع کرنال، ضلع حصار اور ضلع گوڑ گائوں۔
ان بارہ ضلعوں کے ممبرانِ اسمبلی کی تقسیم اس طرح ہے:-
ہندو ۲۳ ممبر(اکیس کانگرسی اور دو یو نی نسٹٖ)
اچھوت ۸ ممبر (پانچ کانگرسی اور تین یونی نسٹ)
سکھ ۱۹ ممبر ( آٹھ کانگرسی اور گیارہ پنتھک)
مسلمان ۲۲ ممبر ( سب مسلم لیگی)
دیگر x
کل تعدد ۷۲ ممبر
.6 پس یہ وہ .6۷۲.6 ممبر ہیں جو آئندہ چند دنوں کے اندر اندر پنجاب کی تقسیم یا بالفاظِ دیگر پنجاب کی قسمت کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ اس نقشے سے ظاہر ہے کہ اگر .6۲۲.6 مسلمان ممبروں کے ساتھ .6۱۵.6 غیر مسلم ممبر شامل ہو جائیں تو وہ پنجاب کی تقسیم کو روک سکتے ہیںاور سارا پنجاب پاکستان کے ساتھ شامل رہ سکتا ہے۔ ہندوئوںمیں سے تو بظاہر کسی ممبر کا ادھر سے ٹوٹ کر ادھر آنا قریباً قریباً ناممکن ہے ۔ کیونکہ .6پنجاب کی تقسیم کا سوال در اصل ہندوئوں کا ہی اٹھا یا ہوا ہے اور اس میں ان کا ( بلکہ حقیقتاً صرف انہی کا) .6بھاری فائدہ ہے ۔ پس ان سے اس معاملہ میںانصاف کی امید رکھنا فضول ہے۔ البتہ اگر سکھوں اور اچھوت اقوام کے ممبروں کو ہمدردی اور دلائل کے ساتھ سمجھایا جائے کہ پنجاب کی تقسیم ان کے لئے سراسر نقصان دہ ہے ۔ کیونکہ سکھ اس طرح اپنی تعداد کو دو حصوں میں بانٹ کر اور پھر دونوں حصوں میں ایک چھوٹی سی اقلیت رہتے ہوئے اپنی طاقت کو سخت کمزور کر لیتے ہیں اور اچھو ت بالکل ہندوئوں کے رحم پر جا پڑتے ہیں۔ جنہوں نے سینکڑوں ہزاروں سال سے ان کا گلا دبا رکھا ہے ۔ تو بعید نہیں کہ یہ دونوں قومیں یا ان کا ایک معقول حصہ مسلمانوں کے ساتھ آملے اور اس طرح اگر خدا کو منظور ہو تو آخری وقت میں پنجاب کی تقسیم رک جائے۔
.6یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ اس وقت سکھوں کا ایک بہت کافی حصہ پنجاب کی موجودہ مجوزہ تقسیم سے قطعی طور پر غیر مطمئن ہے۔ بلکہ اس معاملہ میں اپنے لیڈروں سے بھی بدظن ہو رہا ہے۔جنہوں نے سوچے سمجھے بغیر ہندئووں کی .6 انگیخت .6میں آکر خود اپنے ہاتھ سے اپنے پائوں پر کلہاڑا چلایا ہے۔ پس اگر پنجاب کے سکھ ممبران اسمبلی کو عمومًا اور مشرقی پنجاب کے سکھ ممبرانِ اسمبلی کو خصوصًا دلائل اور محبت کے ساتھ سمجھایا جائے تو عجب نہیں کہ یہ قوم آخری رائے دینے کے وقت جس کے لئے .6۲۳.6 جون کا دن مقرر ہے، اپنے نفع نقصان کو سمجھ لے اور مسلمانوں کے ساتھ ایک با عزت سمجھوتہ کے لئے تیار ہو جائے۔ سکھوں کو سمجھانے کے لئے خاکسار کے مضمون ’’خالصہ ہوشیار باش‘‘ کی اشاعت بھی مفید ہو سکتی ہے۔جو اردو ، انگریزی اور گورمکھی تینوں زبانوں میں شائع کیا گیا ہے اور اس میں مدلل طور پر اس سوال کے سارے پہلوئوں پر مفصّل بحث کی گئی ہے۔ مگر بہر حال یہ ضروری ہے کہ طعن یا دلآ زاری کے رنگ میں کوئی بات نہ کی جائے بلکہ محبت اور ہمدردی کے طریق پر دلائل کے ساتھ سمجھایا جائے۔ اور سمجھدار اور بااثر اور سنجیدہ مسلمانوں کے مختلف وفد مشرقی پنجاب کے .6۱۲.6 ضلعوں کے سکھ ممبروں سے مل کر دلی ہمدردی کے رنگ میں بات کریں۔’’خالصہ ہوشیار باش‘‘ کا مضمون دفتر نشر و اشاعت قادیان سے مل سکتا ہے اور انشاء اللہ مطالبہ ہونے پر مفت بھجوا دیا جائے گا۔
.6یہ بات بھی سکھ صاحبان کو سمجھائی جائے کہ سترہ اور بارہ ضلعوں کی موجودہ تقسیم محض عارضی ہے۔ اور حدود کا آخری فیصلہ باونڈری کمیشن نے کرنا ہے اور یہ بات قریبََا قریبََا یقینی ہے کہ اگر انصاف سے کام لیا گیا تو متعدد ایسی تحصیلیں جو اس وقت عارضی طور پر مشرقی پنجاب میں شمار کر لی گئی ہیں،آخری صورت میں لازماً مغربی پنجاب کا حصہ بنیںگی کیونکہ ان میں مسلمانوں کی کثرت ہے۔ مثلا ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ اور ضلع جالندھر کی تحصیل جالندھر اور تحصیل نکودر اور ضلع فیروزپور کی تحصیل فیروزپوراور تحصیل زیرہ جن میں مسلمانوں کو قطعی اکثریت حاصل ہے،مشرقی پنجاب سے نکل کر مغربی پنجاب میں شامل ہو جائیں گی۔ کیونکہ وہ اس حصہ کے ساتھ ملتی جلتی اور اسی کے تسلسل میں واقع ہیں اور گو اس کے مقابل پر ممکن ہے کہ مغربی پنجاب کی بھی ایک آدھ تحصیل مسلمانوں کے علاقے سے نکل جائے۔ مگر اس تبدیلی کا نتیجہ لازما ًاس کے سوا اورکچھ نہیں ہو سکتاکہ پنجاب کے دونوں حصوں میں سکھوں کی تقسیم ان .6کے لئے موجودہ تقسیم سے بھی زیادہ نقصان دہ صورت اختیار کر لے گی۔ اور وہ قریباً قریباً دو بالکل برابر .6حصوں میں تقسیم ہو کر اور آدھے آدھے دھڑ کے دو بت بن کر رہ جائیں گے اور ہندو اکثریت کا حصہ بننے کے جو خطرات آہستہ آہستہ میٹھی چھری کی صورت میں ظاہر ہوں گے وہ مزید بر آں ہیں۔ بہر حال .6سکھ صاحبان کو ہمدردی اور دلائل کے ساتھ سمجھانے کا کام نہایت ضروری ہے اور فورا شروع ہو جانا چاہئے۔
.6اس کے علاوہ اس نازک وقت میں مسلما نوں کو جو دوسرا ضروری کام کرنا چاہیئے،وہ باونڈری کمیشن یعنی سرحدی کمیشن کے لئے تیاری کے ساتھ تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک بھاری دفتری نوعیت کا کام ہے ۔ جو انتہائی محنت اور احتیاط چاہتا ہے اور موٹے طور پر مندرجہ ذیل اقسام میں منقسم ہے:.6-
.6(.6۱.6) اس تعلق میں سب سے مقدم کام یہ ہے کہ مردم شماری کا ریکارڈ دیکھ کر ( یاد رہے کہ عام مطبوعہ ریکارڈ کے علاوہ ضلعوں کے صدر مقاموں میںتفصیلی مردم شماری کا ریکارڈ بھی رکھا جاتا ہے) ایسے اعداد و شمار تیار کرائے جائیں کہ جن سے پنجاب کے مسلم اکثریت والے علاقے(خواہ یہ اکثریت کتنی ہی قلیل ہو ۔کیونکہ جمہوری اصول کے ماتحت ہر اکثریت لازماً اکثریت ہی سمجھی جاتی ہے۔ خواہ وہ کتنی ہی خفیف ہواور کسی صورت میں بھی اس کے اثر کو کالعدم قرار نہیں دیا جا سکتا) اور اس غرض کے لئے ضلعوں کی حدود کو نظر انداز کر کے تفصیلی ریکارڈ تیار کیا جائے۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ علاقہ مغربی پنجاب کے ساتھ شامل ہو سکے۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ اعداد و شمار کے نتیجہ کو نمایاں صورت میں ظاہر کر نے کے لئے مناسب نقشے بھی تیار کرائے جائیں۔ جن میں مسلم اور غیر مسلم اکثریت والے علاقوں کو علیحدہ علیحدہ رنگوں میںدکھایا جائے۔تا ان کے مطالعہ سے فوراً صحیح صورت ذہن میں آسکے ۔ ایسے نقشے ضلعوں کے جرنیلی نقشوں کی بناء پر محکمہ سروے یا محکمہ نہر کے پنشن یافتہ مسلمان یا قومی سکولوں کے جغرافیہ کے استاد صاحبان یا ہوشیار پٹواری اور گرد اور صاحبان آسانی سے بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح ایسے علاقے جن میں مسلمان کامل اکثریت میں تو نہیں مگر ہندوئوں اور سکھوں دونوں کے مجموعے سے زیادہ ہیں۔ انہیں بھی اعدادو شمار نکالنے کے بعد علیحدہ صورت میں نوٹ کر لینا چاہئے (مثلا ضلع ہوشیار پور کی تحصیل ہوشیار پور اور تحصیل دسوہہ جن میں مسلمانوں کی آبادی ہندوئوں اور سکھوں دونوں کے مجموعے سے زیادہ ہے) اور باونڈری کمیشن پر زور دینا چاہئے کہ ایسے علاقے بھی مغربی پنجاب کے ساتھ شامل رکھے جائیں ۔ کیونکہ مسلمانوں کے خلاف مو جودہ عارضی سمجھوتہ صرف ہندوئوں اور سکھوں تک محدود ہے ۔اور کوئی وجہ نہیں کہ دوسری قوموں مثلاً ہندوستانی عیسائیوں یا اچھوتوں کو سیاسی حقوق کے تصفیہ میں خواہ مخواہ مسلمانوں کے خلاف شمار کیا جائے۔ایسی صورت میں زیادہ سے زیادہ عیسائیوں اور اچھوتوں کے متعلق ریفرنڈم کا طریق اختیار کیا جا سکتا ہے ۔ اور اس امکانی صورت کے لئے بھی متعلقہ علاقوں کے مسلمانوں کو تیار رہنا چاہئے۔
.6(.6۲.6) باونڈری کمیشن کے لئے مسلمانوں کی طرف سے اس تیاری کی بھی ضرورت ہے کہ ایسے دلائل جمع کئے جائیں۔ جن سے ثابت ہو کہ بجلی کے جو پا ور سٹیشن یا نہروں کے جو ہیڈ مغربی پنجاب کے حصوں کو نفع پہنچا رہے ہیں ۔ اور دراصل انہی کی غرض سے بنے ہیں ،وہ لازماً مغربی پنجاب کے ساتھ رہنے چاہئیں۔ کیونکہ ان کی حیثیت کسی طرح بھی مقامی نہیں ہے ۔ بلکہ ان وسیع علاقوں کے ساتھ لازم و ملزوم ہے جن کو وہ فائدہ پہنچا رہے۔ ہیں پس کوئی وجہ نہیں کہ انہیں مغربی پنجاب سے جدا کیا جائے۔
.6(.6۳.6) اسی طرح جو دریا مغربی اور مشرقی پنجاب کے درمیان حدِ فاصل بنیں گے۔ یا ایک حکومت کے علاقے میںسے نکل کر دوسری حکومت کے علاقے میں داخل ہوں گے، ان کے متعلق بھی باونڈری کمیشن کے ذریعہ یہ فیصلہ کرانا ہو گاکہ ایسے دریائوں کا انتظام کس علاقے کے ساتھ وابستہ رہنا چاہئے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ دریائوں کاکنٹرول قوموں کی ترقی پر بھاری اثر رکھتا ہے۔
.6(.6۴.6) پھر بعض ریلوے لائنوں اور بڑی سڑکوں کا سوال بھی باونڈری کمیشن کے سامنے آئے گا کہ وہ مغربی اور مشرقی پنجاب میں سے کس کے حصہ میں ڈالی جائیں ۔ یا ان کے متعلق دونوں ملکوں میں کس قسم کا سمجھوتہ ہونا ضروی ہے
.6یہ سارے کام اور اسی قسم کے اور بہت سے کام جو باونڈری کمیشن کے سامنے آئیں گے اور جس کا معین علم کمیشن کے حلقہ کار کا اعلان ہونے پر حاصل ہو گا۔بہت بھاری تیاری چاہتے ہیں اور ضروری ہے کہ ابھی سے(کیونکہ اس کے لئے وقت بہت تنگ ہے) لیگ کی مرکزی کمیٹی کی امداد کے لئے ضلع امرتسرکی تحصیل اجنالہ اور کمشنری جالندہر کے ہر ضلع اور ہر تحصیل اور ضلع گوڑ گائوں کی تحصیل فیروز پور جھرکا ۔ اور تحصیل نوح میں سمجھدار مسلمانوں کی کمیٹیاں بن جائیں۔ جو مردم شماری کے ضروری اعداد و شمار تیار کرائیں۔ اور پھر بڑی احتیاط کے ساتھ ان اعداد و شمار کی وضاحت کے لئے مناسب نقشے بنائے جائیں۔ اور اس سارے ریکارڈ پر مسلمان اس طرح حاوی ہو جائیں کہ ہوشیار وکیلوں کی طرح باونڈری کمیشن کے سامنے مسکت صورت میں اپنا کیس پیش کر سکیں۔ اس بات کو بھی مد نظر رکھا جائے کہ اگر کسی طرح ضلع گوڑ گائوں کی تحصیل نوح اور تحصیل فیروز پور جھرکا کا تعلق دہلی سے قائم کر کے ایک مسلم اکثریت والا علاقہ بن سکے تو نہایت مفید ہو سکتا ہے اور اس کے لئے ضروری نہیں کہ تحصیلوں کی حدود کو قائم رکھا جائے۔اسی طرح ممکن ہے کہ اجنالہ تحصیل کی طرف سے ایک ملتا جلتا مسلم اکثریت کا علاقہ امرتسر تک پہنچایا جا سکے اور یہ بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ جو کم از کم باہمی سمجھوتہ کے لئے ایک عمدہ دروازہ کھول دے گی۔
.6اسی طرح بجلی کے پاور سٹیشنوں اور نہروں کے ہیڈوں کے متعلق بھی یہ اعداد و شمار مہیا کرنے ہوں گے کہ ان کا فائدہ مسلم اور غیر مسلم علاقے کو کس کس نسبت سے پہنچ رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ الغرض باؤنڈری کمیشن کے اختیارات بہت وسیع ہوں گے۔ اور اس کے مقابل پر تیاری کی بھی بہت ضرورت ہے اور یہ تیاری تفصیلی رنگ میں دفتری نوعیت کی ہونی چاہئے۔ جس کے لئے تمام تحصیلوں کے مسلمانوں کی فوری توجہ درکارہے اور بعض صورتوں میں بین الاقوامی قانون اور بعض مشہور باؤنڈری کمیشنوں کی رپورٹوں کا مطالعہ بھی ضروری ہو گا۔ ورنہ سستی اور غفلت سے ایسا نقصان پہنچ سکتا ہے جس کی تلافی بعد میں ناممکن ہو گی۔
.6حکومت برطانیہ کے اعلان مجریہ .6۲.6؍ جون .6۱۹۴۷.6 ء کے فقرہ نمبر .6۹.6 میں یہ الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں کہ علاقوں کی تقسیم میں آبادی کے علاوہ دوسرے حالات .6(other factors).6کو بھی دیکھا جائے گا۔ یہ الفاظ ایسے مبہم بلکہ ایسے غیر مصلحتانہ ہیں کہ معلوم نہیں کہ حکومت برطانیہ نے ان الفاظ کے استعمال میں کیا حکمت سوچی ہے۔ کیونکہ درحقیقت یہ الفاظ ہندوستان کی مختلف قوموں کی طر ف سے بھاری فتنہ کا ذریعہ بنائے جا سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اگر آبادی کی کثرت اور قلت کے علاوہ دوسرے حالات کو بھی زیرغور لانا ہے تو اس کے نتیجے میں ہر قوم کی طرف سے ایسے مطالبات کادروازہ کھل جائے گاکہ جسے بند کرنا یا جس کے متعلق تصفیہ کرنا نہ حکومت برطانیہ کے بس کی بات رہے گی۔ اور نہ وائسرائے کی اور نہ کسی اور کی۔ اور ممکن ہے کہ صرف اسی نقطہ پر آکر ہی سب کیا کرایا کھیل بگڑ جائے۔ بہت سے ہندو اور سکھ ’’دوسرے حالات‘‘ کے الفاظ سے یہ مراد لے رہے ہیں کہ ان الفاظ سے ایک طرف تو جائیدادوں اور اموال کی طرف اشارہ مقصود ہے ۔ اور دوسری طرف مقدس مقامات کی طرف اشارہ پایا جا تا ہے۔ ممکن ہے یہ قیاس درست ہو۔ مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بس صرف یہی مراد ہے اور اس کے سوا اور کوئی چیز مراد نہیں؟
.6بہر حال جہاں تک اموال اور جائیدادوں کا سوال ہے ۔ میں اپنے مضمون’’خالصہ ہوشیار باش‘‘ میں اصولی طور پر بیان کر چکا ہوں کہ کوئی مسلمان بلکہ کوئی انصاف پسند شخص ایک منٹ کے لئے بھی یہ بات منظور نہیں کر سکتاکہ انسانی مساوات کے اصول کو ترک کر کے قوموں کے حقوق کو مال و دولت کے ترازو میں تولا جائے ۔ اور جو چیز صدیوں کی سازش کے نتیجے میں ہندوستان کے مسلمانوں سے چھینی گئی ہے،اسی پر آئندہ حقوق کی بنیاد رکھی جائے۔ ہندوئوں نے ایک وسیع پروگرام کے ذریعہ جس کی تفصیل ایک تلخ کہانی ہے، مسلمانوں کو ہر قسم کی اقتصادی ترقی سے محروم کر رکھا تھا۔یہ عجیب کرشمۂ سیاست ہے کہ اب ان کی اسی محرومی اور اپنی اسی غاصبانہ برتری کو آئندہ حقوق کے تصفیہ کی بنیاد بنایا جا رہا ہے۔ یہ کوشش شرافت اور دیانت اور انسانیت کے لئے قابل شرم ہے اور مسلمان بھی اس پھندے میں دو بارہ پھنسنے کے لئے تیار نہیں۔
.6’’دوسرے حالات‘‘ کے الفاظ کی ایک تشریح مقدس مقامات سے تعلق رکھتی ہے۔ سو کیا ہندو اور سکھ اس بات کے لئے تیار ہو ں گے کہ جس ترازو سے تول کر وہ اپنے حقوق لینا چاہتے ہیں ۔ اسی ترازو سے وہ مسلمانوں کو بھی ان کے حقوق دینے کے لئے تیار ہوں۔ کیونکہ ظاہر ہے کہ مقدس مقامات صرف ہندوئوں سکھوں کے ساتھ ہی مخصوص نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ بھی تعلق رکھتے ہیں۔ گو یہ علیحدہ بات ہے کہ مسلمان اس معاملے میں زیادہ باوقار رہے ہیں۔ اورانہوں نے حقیقی مقدس مقامات کے علاوہ دوسرے مقامات کو یونہی فرضی تقدس عطاء نہیں کیا اور بہرحال کون انصاف پسند شخص اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ دلی اور آگرہ اور اجمیر وغیرہ کو جو چوٹی کے مسلمان تاجداروں کی بے مثل یادگاروں سے مزین ہیں، مسلمانوں کے نزدیک حقیقی تقدس حاصل ہے۔ پس اگر اس دروازے کو کھولو گے تو پھر ہر قوم اس میں داخل ہونے کا حق رکھے گی۔ سوائے اس کے کہ مسلمان اس بات میں ضرور دوسروں سے پیچھے رہیں گے کہ ان میں بمقابلہ بعض دوسری قوموں کے جو بعض اوقات رستے کے ایک درخت کو مقدس بنا لیتی ہیں ، صرف وہی مقدس مقامات سمجھے جاتے ہیں جو حقیقتاً مقدس ہیں۔ اسی طرح ’’دوسرے حالات ‘‘ کے الفاظ کی اور بھی بہت سی تشریحیں ہو سکتی ہیں۔بہر حال یہ الفاظ اپنے اندر فتنہ کا بیج رکھتے ہیںاور یا تو انہیں ترک کر دینا چاہئے اور یا ان کی بحث میں جانے سے پہلے ساری قوموں کے مشورے کے ساتھ ان الفاظ کی تشریح ہو جانی چاہئے۔ اور میرے خیال میںایسی تشریح میں چار امور کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:.6-
.6(اول) یہ کہ معین طور پر فیصلہ کر دیا جائے کہ دوسرے حالات( .6other factors.6)میں یہ یہ باتیں شامل سمجھی جائیں گی
.6(دوم) یہ کہ جو باتیں ’’دوسرے حالات‘‘ کی تشریح میں شامل سمجھی جائیں۔ ان کی بھی آگے تشریح کر دی جائے۔ مثلا ً اگر مقدس مقامات کو ’’ دوسرے حالات ‘‘ میں شامل کیا جائے۔تو پھر اس بات کی بھی تشریح ضروری ہو گی کہ مقدس مقامات سے مراد کیا ہے؟ آیا ہر وہ جگہ جسے کوئی قوم اپنے منہ سے مقدس کہتی ہو مقدس ہو جائے گی یا کہ صرف مسلمہ اور معروف مذہبی بانیوں یا ممتاز قومی بادشاہوں کی خاص یادگاریں مقدس قرار پائیں گی۔
.6(سوم) یہ کہ جو تشریح بھی’’دوسرے حالات‘‘ کی قرار پائے وہ سب قوموں پر ایک جیسی صورت میں چسپاں کی جاوے اور اس سے فائدہ اٹھانے کا بھی سب کے لئے یکساں دروازہ کھلا ہو۔
.6(چہارم) یہ کہ اس بات کا بھی فیصلہ کیا جائے کہ اگر ایک مقام یعنی ایک شہر کو دو قوموںکے نزدیک تقدس حاصل ہو تو اس صورت میں کس قوم کو کس اصول پر ترجیح دی جائے گی۔
.6مقدس مقامات کے تعلق میں اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ایسے مقامات کی حفاظت صرف اس طریق سے ہی ممکن نہیں ہے کہ انہیں اس قوم کی حکومت کا حصہ بنا دیا جائے جو انہیں مقدس خیال کرتی ہے۔ بلکہ دوسری حکومت کے اندر رہتے ہوئے بھی ایسے مقامات کی تولیت اور نگرانی کے لئے متعلقہ قوم کی ایک کمیٹی مقرر ہو سکتی ہے آخر انگریزوں کے زمانہ میں بھی ہندوستان میں ہندوئوں ، سکھوںاور مسلمانوں کے مقدس مقامات کی حفاظت کا انتظام موجود تھا۔ اسی قسم کا بلکہ اس سے بہترانتظام اب بھی ہو سکتا ہے۔ بہر حال ’’دوسرے حالات ‘‘ کے الفاظ کی تشریح اور تیاری کا کام بھی ایک نہایت اہم اور نازک کام ہے۔ جس کے لئے مسلمانوں کو ابھی سے تیاری کرنی چاہئے۔
.6خلاصہ کلام یہ کہ اس وقت تین قسم کے کاموں کے لئے فوری اور مکمل تیاری کی ضرورت ہے :.6-
.6(.6۱.6) بارہ مشرقی ضلعوں کے سکھوں اور اچھوت اقوام کے ممبروں کو ہمدردی اور دلیل کے ساتھ سمجھایا جائے کہ پنجاب کی تقسیم ان کے لئے ہر جہت سے نقصان دہ اور ضرر رساں ہے۔ اور ان کا فائدہ اسی میں ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ ایک باعزت سمجھوتہ کر لیں اور ان کے ساتھ مل کر رہیں۔
.6(.6۲.6) بائونڈری کمیشن کے لئے پوری پوری تیاری کی جائے۔ جس کے لئے مردم شماری کے تفصیلی اعداد و شمار تیار کرنے کے علاوہ بجلی کے پاور سٹیشنوں اور نہروں کے ہیڈوں اور دریائوں اور رستوں اور ریلوے لائنوں وغیرہ کی تقسیم یا انتظام کے اصول کا بھی گہرا مطالعہ کرنا ہو گا۔ اور یہ مطالعہ ایسا ہونا چاہئے کہ جس طرح عدالت میں ایک ہو شیار وکیل بحث کے لئے یا ایک ہوشیار گواہ فریق مخالف کی جرح کے لئے تیار ہو کر جاتا ہے۔ بعض صورتوں میںتشریح و توضیح کی غرض سے انٹر نیشنل لاء یعنی بین الاقوامی قانون کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہو گا جو مرکزی شہروںکے وکیل لوگ بہتر کر سکتے ہیں اسی طرح یورپ وغیرہ کے بعض مشہور باونڈری کمیشنوں کی رپورٹوں کا مطالعہ بھی بہت مفید ہو سکتا ہے
.6(.6۳.6) حکومت برطانیہ کے اعلان نے جو ’’دوسرے حالات‘‘ کے غور کا دروازہ کھول دیا ہے، اسے یا تو بند کرانے کی کوشش کی جائے اور یا اوپر کی تشریح کے مطابق اس کے متعلق بھی پوری پوری تیاری کی جائے۔ مؤخر الذکر صورت میں بجلی کے پاور سٹیشنوں اور نہرو ں کے ہیڈ وغیرہ کے سوال کو بھی اسی ضمن میں شامل کیا جاسکتا ہے گو ویسے وہ آبادی کے اصول کے ماتحت بھی آجاتا ہے۔
.6بالآخر میں یہ بات بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم مسلمان خدا کے فضل سے ایک روحانی جماعت ہیںاور ہم اس بات کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے کہ جہاںخدا نے کامیابی کے لئے دنیا میں مادی اور ظاہری اسباب پیدا کئے ہیں، وہاں اس نے بعض روحانی اسباب بھی پیدا کئے ہیں ،جو گو ظاہرمیں نظر نہیں آتے مگر دراصل مادی اور ظاہری اسباب سے بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ پس ان نازک ایام میں ہمیں خدائے علیم و قدیر سے دعا بھی کرنی چاہئے کہ وہ اپنے فضل و رحم سے ایسے اسباب مہیّافرما دے کہ جو نہ صرف مسلمانوںکے لئے بلکہ ہمارے ملک اور ہمارے صوبہ کے لئے بھی بہتری اور ترقی کا موجب ہوں اور کوئی ہرج نہیں کہ اس بارے میںسنجیدہ مزاج اور مذہبی میلان رکھنے والے سکھ ممبران کو بھی تحریک کی جائے کہ وہ بھی خالی الذہن ہو کر اور دل سے ہر قسم کے خیالات نکال کر اپنے طریق پر خدا سے دعا کریں کہ وہ انہیں ایسے رستے کی طرف ہدایت دے جس میں ان کی قوم اور ملک کا حقیقی فائدہ ہو۔ سکھوں کا قدم اس وقت پریشانی کے عالم میں ڈگمگا رہا ہے اور وہ حقیقۃً دو گورکھ دھندوں کے درمیان معلق کھڑے ہیں۔ پس ضرورت ہے کہ انہیں نہ صرف دلائل اور ہمدردی کے ذریعہ تقویت پہنچائی جائے بلکہ روحانی کارخانہ کی طرف توجہ دلا کر بھی ان کے قلوب کو اُس بالا ہستی کی طرف کھینچا جائے جو سارے علموں اور ساری طاقتوں اور ساری ترقیوں کا سرچشمہ ہے۔ .6واخر دعوٰناان الحمد ﷲ رب العٰلمین ولا حول و لا قوۃ الا باﷲ العظیم
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴؍ جون ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
’’شیر پنجاب‘‘ کی تنقیدکا مخلصانہ جواب
سکھ صاحبان آخر کب آنکھیں کھولیں گے؟
.6میرے مضمون’’خالصہ ہوشیار باش‘‘ کے جواب میں جو اردو اور انگریزی اور گورمکھی تینوںزبانوںمیں شائع ہو کر پنجاب کے طول و عرض میںوسیع طور پر پھیلایا جا چکا ہے۔ لاہور کے مشہور سکھ اخبار ’’شیر پنجاب‘‘ نے اپنی اشاعت مورخہ پندرہ جون .6۱۹۴۷.6ء کے صفحہ .6۷.6، صفحہ .6۸.6 پر ایک ایڈیٹوریل میں مفصل جرح کی ہے۔ معقول اور باوقار جرح ایک قابل قدر چیز ہے جس سے ملک میں صحیح خیالات کے قائم کرنے اور پھیلانے میں بھاری مدد ملتی ہے۔ اور مجھے خوشی ہے کہ ’’شیر پنجاب‘‘ کے ایڈیٹر صاحب نے اپنی جرح میں کوئی نازیبا طریق اختیار نہیں کیا۔ اور ملک کی موجودہ ناگوار فضا کے باوجود اپنی جرح کو معقولیت اور شائستگی کی حد کے اندر اندر رکھا ہے۔ جو یقینا ایک قابل تعریف کوشش اور آیندہ کے لئے ایک خوشکن علامت ہے۔ بہر حال ’’شیر پنجاب‘‘ کی جرح کے جواب میں اس جگہ چند اصولی باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔
.6میرا مضمون ’’خالصہ ہوشیار باش‘‘ موجودہ سکھ سیاست کے تمام پہلوئوں سے تعلق رکھتا تھا اور اس مضمون میں سکھ صاحبان سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ اپنی موجودہ پالیسی پر نظر ثانی کر کے ملک کی بلکہ خود اپنی قوم کی بہتری کے لئے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھائیں اور پنجاب کو تقسیم ہونے سے بچانے کی کوشش کریں۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان خود سکھوں کو ہی پہنچنے والا ہے۔جو دو حصوں میں بٹ کر اور دونوں حصوں میں ایک تیسرے درجہ کی کمزور اقلیت رہتے ہوئے اپنی موجودہ طاقت کو بہت بری طرح کھو دیں گے۔ اس وقت پنجاب کے سکھ ( اور سکھ عملًا پنجا ب ہی میں محدود ہیں) ساڑھے سینتیس لاکھ کی ایک مضبوط اور متحد طاقت ہیں۔ جس کا سارا زور ایک نقطہ پر جمع ہے۔ مگر پنجاب کی مجوزہ تقسیم کے بعد وہ قریباً دو برابر حصوں میں بٹ جائیں گے۔ اور دونوں میں تیسرے درجہ کی اقلیت رہیں گے۔ جس کے ایک حصہ میں مسلمانوں کا غلبہ ہو گا۔ اور نمبر .6۲.6 پر ہندو ہوں گے۔ اور دوسرے حصہ میں ہندوئوں کا غلبہ ہو گا۔ اور نمبر .6۲.6 پر مسلمان ہو ں گے۔کیا دنیا کی کوئی سمجھدار قوم سیاست کے کسی تسلیم شدہ اصول کے مطابق اس قسم کی حالت پر تسلی پاسکتی ہے۔ مانا کہ اس وقت عارضی طور پر ہندؤوں کے ساتھ سکھوں کا سمجھوتہ ہے۔مگر قطع نظر اس کے کہ اس سمجھوتہ کی تفصیل کیا ہے۔ اور وہ سکھوں کے لئے کہاں تک مفید ہے۔ کیا اس قسم کے وقتی اور عارضی سمجھوتہ کی بناء پر جو کل کو ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ جس طرح کہ آج سے پہلے کئی دفعہ ٹوٹ چکا ہے۔ سکھ قوم کے دوربین سیاست دان اپنی قوم کی متحد ہ طاقت کو دوحصوں میں بانٹ کر تباہ کرنے کے لئے تیار ہو سکتے ہیں؟ اور پھر اگر کسی دوسری قوم کے ساتھ سمجھوتہ ہی کرنا ہے تو کیوں نہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کیا جائے۔ جن کے ساتھ ہندوئوں کے مقابلہ پر سکھوں کا مذہبی عقائد اور تہذیب و تمدن اور اقتصادی وسائل اور فوجی روایات میں بھاری اشتراک پایا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ میں نے اپنے اس مضمون میں اور بھی بہت سی باتیں لکھی تھیں۔ جن کی اس جگہ اعادہ کی ضرورت نہیں۔
.6میرے اس ہمدردانہ مشورہ کے جواب میں ایڈیٹر صاحب ’’شیر پنجاب‘‘ نے اور باتوں کو نظر انداز کر کے دو باتوں پر خاص زور دیا ہے۔ اوّل یہ کہ موجودہ فسادات میں مسلمانوں نے جو ظلم سکھوں پر کئے ہیں وہ مسلمانوں کے ساتھ کسی قسم کے سمجھوتہ کے منافی ہیں اور سکھوں کے دلوں میں اعتماد پیدا نہیں ہونے دیتے۔ دوسرے یہ کہ بے شک پنجاب کی موجودہ تقسیم میں سکھوں کا بھاری نقصان ہے مگران کے لئے موجودہ حالات میں اس کے سوا چارہ نہیں کہ اس نقصان کو برداشت کر کے بھی اپنے آپ کو مسلمانوں کے مظالم کے خلاف وقتی طور پر محفوظ کر لیں۔ اور پھر بقول ایڈیٹر صاحب ’’شیرپنجاب‘‘ گویا زیادہ منظم ہو کر اور زیادہ طاقت پیدا کر کے اپنے کھوئے ہوئے حقو ق کو واپس حاصل کریں۔ ٹھیک جس طرح پیغمبر اسلام نے مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ میں پناہ لی تھی۔ اور پھر اپنی طاقت کو زیادہ مضبوط کر کے مکہ کو دوبارہ فتح کیا تھا۔ اسی ضمن میں شیر پنجاب نے احمدیہ جماعت کو وہ مظالم بھی یاد دلائے ہیں۔ جو مسلمانوں کی طرف سے ان پر کئے جاتے رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ لطیفہ کے طور پریہ طعنہ بھی دیا ہے کہ تم لوگ بے شک اپنے زخموں کو کسی قدر پرانا ہونے کی وجہ سے بھول چکے ہو ںگے مگر ہم لوگ اپنے تازہ اور گہرے زخم ایسی جلدی نہیں بھلا سکتے ۔
.6شیر پنجاب کے ان دو اعتراضوں کے اندر جو درد و الم کا عنصر جھلک رہا ہے، اس کے ساتھ ہر شریف انسان اصولا ًہمدردی محسوس کرے گا۔ مگر افسوس ہے کہ گہرے اور ٹھنڈے مطالعہ کے نتیجہ میں ان اعتراضوں کی منطق ہرگز قابلِ قبول نہیں سمجھی جا سکتی۔ اوراگر ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب میرے .6مضمون کا ذرا زیادہ غور سے مطالعہ فرماتے تو اس کے اندر ہی کم از کم ان کے پہلے اعتراض کا کافی و شافی .6جواب موجود تھا۔ مثلا ًاپنے مضمون میں مسلمانوں کے مظالم کے متعلق میں نے لکھا تھا کہ:
.6’’کہا جا سکتاہے کہ گذشتہ فسادات میں سکھوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے،اس لئے انہیں مسلمانوں پر اعتبار نہیں رہا۔ میں گذشتہ اڑھائی ماہ کی تلخ تاریخ میں نہیں جانا چاہتا۔ مگر اس حقیقت سے بھی آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں کہ سب جگہ مسلمانوں کی طرف سے پہل نہیں ہوئی اور زیادہ ذمہ داری لازماً پہل کرنے والے پر ہی ہوا کرتی ہے۔ اور اس قسم کے فسادات تو جنگل کی آگ کا رنگ رکھتے ہیں۔ جو ایک جگہ سے شروع ہو کر سب حصوں میں پھیل جاتی ہے اور خواہ اس آگ کا لگانے والا کوئی ہو،بعد کے شعلے بلا امتیار سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا کرتے ہیں۔ میں اس دعوٰی کی ذمہ داری نہیں لے سکتا کہ مسلمانوں نے کسی جگہ بھی زیادتی نہیں کی۔ لیکن کیا سکھ صاحبان یہ یقین رکھتے ہیں کہ سکھوں نے بھی کسی جگہ زیادتی نہیں کی۔ آخر امرتسر میں چوک پراگ داس وغیرہ کے واقعات لوگوں کے سامنے ہیں۔ اور پھر کئی جگہ بعض بے اصول ہندوئوں نے تیلی لگا کر سکھوں اور مسلمانوں کو آگے کر دیا ہے۔ اور بالآخر کیا سکھوں کے موجودہ حلیفوں نے بہار کے ہزارہا کمزور اور بے بس مسلمانوں پر وہ قیامت برپا نہیں کی تھی جس کی تباہی اور قتل و غارت کو نہ پنجاب پہنچ سکتا ہے اور نہ نواکھلی اور نہ کوئی اور علاقہ۔ پس اگر گلے شکوے کرنے لگو تو دونوں قوموں کی زبانیں کھل سکتی ہیں۔ اور اگر ملک کی بہتری کی خاطر ’’ معاف کر دو اور بھول جائو‘‘ کی پالیسی اختیار کرنا چاہو تو اس کے لئے بھی دونوں قوموں کے واسطے اچھے اخلاق کے مظاہرے کا رستہ کھلا ہے.6 .6۔۔۔۔۔۔انتقام کی کڑی ہمیشہ صرف جرأت کے ساتھ اور عفو اور درگذرکے عزم کے نتیجہ میں ہی توڑی جا سکتی ہے۔ ورنہ یہ ایک دلدل ہے۔ جس میں سے اگر ایک پائوں پر زور دے کر اسے باہر نکالا جائے۔ تودوسرا پائوں اور بھی گہرا دھس جاتا ہے۔ پس اگر ملک کی بہتری چاہتے ہو۔ تو مسلمان کوبہار اور گڑھ مکتیسر کو بھلانا ہو گا۔ اور ہندو اور سکھ کو نواکھلی اور پنجاب کو بھلانا ہو گا۔‘‘
.6مکرم ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب ! کیا میرے اس نوٹ میں آپ کے اعتراض کا اصولی جواب پہلے سے نہیں آچکا؟ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ اس سوال کو وقتی غصہ کے جذبات سے بالا ہو کر ملک و قوم کی مستقل بہتری کی روشنی میں مطالعہ کرنے کی کوشش کریں۔کسی نے پرانے زمانے میں کہا تھا کہ:
.6’’ میں مدہوش فلپس کے خلاف ہوش مند فلپس کے سامنے اپیل کرتا ہوں۔‘‘
.6پس افراد کی طرح قوموں پر بھی مختلف حالتیں آسکتی ہیں۔ ایک وہ جبکہ وہ کسی وقت غصہ اور انتقام کے جوش میں مدہوش ہو کر اپنے نفع اور نقصان کی طرف سے آنکھیں بند کئے ہوئے ہو۔ اور دوسرے وہ جبکہ وہ اپنے غصہ کو قابو میں لا کر ہرچیز کو اپنے اصلی رنگ میں دیکھ سکے۔اور اپنے نفع اور نقصان کا صحیح جائزہ لے سکنے کے قابل ہو۔ میں اپنے صوبہ کی نامور خالصہ قوم اور اپنے ملک کی مٹی سے پیدا شدہ سکھ جاتی سے درد بھری اپیل کرتا ہوںکہ وقت بہت نازک ہے اور بہت تنگ۔وہ اپنے وقتی جوشوں اورغصوں کو قابو میں لا کر اپنی قوم اور اپنے ملک کے مستقل فائدہ کی طرف نظر ڈالیں ۔ اور اس فطری جو ہر کو بیدار کر کے جو ہمارے آسمانی آقا نے ہر فرد اور ہر قوم میں پیدا کر رکھا ہے،ہوش اور دوربینی کی آنکھوں سے اپنے نفع نقصان کو دیکھیں۔ بہت سی مشترک باتوں کی وجہ سے جن کی تفصیل میں اپنے سابقہ مضمون میں بیان کر چکا ہوں۔ سکھوں اور مسلمانوں کا جوڑ ایک طبعی پیوند کا رنگ رکھتا ہے۔ جو کبھی بھی سکھوں اور ہندوئوں کو حاصل نہیں ہو سکتا۔ میں نے سکھوں اور مسلمانوں کے مشترک مفاد کی تشریح کرنے کے بعد لکھا تھا کہ:.6-
.6’’ دیکھو ہر زخم کے لئے خدا نے ایک مرہم پیدا کی ہے اور قومی زخم بھی بھلانے سے بھلائے جا سکتے ہیں مگر غیر فطری جوڑ کبھی بھی پائیدار ثابت نہیں ہوا کرتے۔ اگر ایک آم کے درخت کی شاخ نے دوسرے آم کے درخت کی شاخ کے ساتھ ٹکرا کر اسے توڑا ہے تو بے شک یہ ایک زخم ہے جسے مرہم کی ضرورت ہے مگریہ حقیقت پھر بھی قائم رہے گی کہ جہاں پیوند کا سوال ہو گا، آ م کاپیوند بہر حال آم کے ساتھ ہی ملے گا۔دو لڑنے والے بھائی لڑائی کے باوجود بھی بھائی رہتے ہیں۔ مگردو غیر آدمی جن کے اندر بہت کم چیزوں میں اشتراک ہو عارضی دوستی کے باوجود بھی ایک نہیں سمجھے جا سکتے۔‘‘
.6 .6پنجاب میں بے شمار ایسے گائوں موجود ہیں۔ ( اور اگر ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب قادیان تشریف لائیں تو میں انہیں خود اپنے علاقہ میں یہ نظارہ دکھا سکتا ہوں) کہ جہاں ایک ہی گائوں کی دو پتیوں میں سے ایک میں سکھ جاٹ آباد ہیں اور دوسری میں مسلمان جاٹ اور دونوں ایک ہی نسل اور ایک ہی قوم اور ایک ہی گوت سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے رہنے سہنے کا طریق بھی بالکل ایک ہے۔ گویا دورشتہ دار ہیں جو پہلو بہ پہلو بس رہے ہیں اور وہ سارے معاملات میں باہم مشورہ اور ملاپ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔اس قسم کے نظارے ایک خالی فلسفہ نہیں ہیں۔ بلکہ زندگی کی جیتی جاگتی تصویر کا حصہ ہیں۔ اور کوئی غیر متعصب سمجھدار شخص انہیں نظر انداز نہیں کر سکتا۔ بے شک رہتک وغیرہ میں ہندو جا ٹ بھی آباد ہیں۔ جو نسلاً تو ضرور جاٹ ہیں مگر مذہبا ًسکھ نہیں بلکہ ہندو ہیں لیکن جو ناطہ اور جو جوڑ وسطی پنجاب کے سکھ جاٹوں اور مسلمان جاٹوں کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اس کا عشر عشیر بھی وسطی پنجاب کے سکھ جاٹوں اور رہتک کے ہندو جاٹوں کے درمیان نہیں پایا جاتا ۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ جو فطری جوڑ وسطی پنجاب کے غیر جاٹ مسلمان زمینداروں اور سکھ جاٹوں کے درمیان نظر آتا ہے وہ بھی وسطی پنجاب کے سکھ جا ٹوں اور رہتک کے ہندو جاٹوں کے درمیان نظرنہیں آتا۔ یہ وہ ٹھوس حقائق ہیںجن کا کوئی عقلمند شخص انکار نہیں کر سکتا۔
.6اس کے علاوہ میں نے لکھا تھا کہ اپنی قوم کا جو حصہ سکھ لوگ مغربی اور وسطی پنجاب میں چھوڑ رہے ہیں۔ وہ ان کی قوم کا بہترین حصہ ہے جسے انگریزی میں کسی قوم کافلاور(.6Flower.6)یعنی پھول کہتے ہیں۔ قد و قامت میں ، جسمانی طاقت میں، دماغی طاقت میں، طبیعت کی فیاضی میں، تعلیم میں، زمیندارہ میں، تجارت میں یہ حصہ سکھ قوم کی چوٹی کا حصہ ہے۔ اسے پیچھے چھوڑ کر اور مشرقی پنجاب میں اپنے آدھے دھڑ کے لئے ہندو ئوں کا سہارا لے کر جن کے ساتھ ان کا کوئی طبعی جوڑ نہیں۔ سکھ لوگ کیا کریں گے؟ میں تکلف سے نہیں کہتابلکہ دل کی گہرائیوں سے کہتا ہوں کہ وقت نازک ہے اور بہت نازک ہے۔ اے خالصہ قوم آنکھیں کھول کہ تیرے سر پر سیاہ بادلوں کی ٹکڑیاںبدشگونی کے انداز میں منڈلا رہی ہیں۔باقی رہا شیر پنجاب کا یہ کہنا کہ پیغمبر اسلام نے بھی مکہ سے ہجرت کی تھی اوربالآخر مدینہ میں طاقت پکڑ کر مکہ کو دوبارہ فتح کیا تھا اور اب پنجاب کے سکھ لوگ بھی یہی کریں گے کہ مشرقی پنجاب میں طاقت پکڑ کر پھر مغربی پنجاب پر غلبہ پالیں گے ۔سو یہ ایک محض دل کوخوش کرنے والی بات ہے جس کے اندر کچھ حقیقت نہیں۔ کیونکہ اول تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ہجرت عوام الناس کے ایک طبقہ کے شور کی وجہ سے نہیں تھی۔ بلکہ مکہ کی ساری قوم ( مرد۔ عورت۔ بوڑھے۔جوان۔ لیڈر اور .6عوام) آپ کے خلاف ایک متحدہ سازش کے نتیجہ میں اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور ہر شخص اس باقاعدہ اعلان .6میں شامل تھاکہ ہم اسلام اور اس کے بانی کو مٹا کر چھوڑیں گے۔ مگر یہاں کے فسادات (قطع نظر اس کے کہ پہل کس کی طر ف سے ہوئی ہے)صرف عوام کے ایک قلیل طبقہ تک محدود رہے ہیں۔ جس کے خلاف مسلمان لیڈروں کا ہر حصہ کھلے اور واضح الفاظ میں نفرت اور بیزاری کا اظہار کر چکاہے۔بلکہ اس اظہار کے ساتھ ساتھ وہ سکھ قوم کو تعاون اور صلح کی دعوت بھی دے رہا ہے۔ ان حالات میں سکھوں کی موجودہ حالت کو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے حالات پر قیاس کرنا جبکہ خود مکہ کے لیڈر اسلام کی مخالفت میں آگے آگے تھے، ایک ایسا قیاس ہے جس کے ساتھ کوئی .6غیرمتعصب شخص جوٹھنڈے دل سے اس سوال پر نظرڈالنے کے لئے تیار ہو کبھی اتفاق نہیں کر سکتا۔ .6عوام الناس کے ایک محدود طبقہ کے وقتی اور محدود ابال کو جو وہ بھی دراصل ملک کے ایک اور حصہ کی صدائے بازگشت تھی اس منظم اور مسلسل اور وسیع اور ساری قوم پر پھیلی ہوئی مخالفت پر قیاس کرنا جس سے مقدس بانی ٔاسلام کو دوچارہونا پڑا ،میرے لئے انتہائی حیرت کا موجب ہے۔ مگر میں اسے بھی .6اُس عارضی اعصابی ہیجان کا ایک حصہ قرار دیتا ہوں۔ جس میں اس وقت سکھ قوم اپنے وقتی .6جوش و خروش کے عالم میں مبتلا ہے۔
.6اسی سوال کے دوران میں ’’شیر پنجاب‘‘ نے جو یہ بات لکھی ہے کہ بانی ٔاسلام کی طرح سکھ قوم بھی کسی دن اپنے وطن کو فتح کرے گی۔ سو ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب مجھے معاف کریں۔ یہ خیال بھی ایک ہوائی خواہش بلکہ ایک ناپاک خواہش سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا۔ کیونکہ جب دو قومیں ایک باقاعدہ سمجھوتہ کے نتیجہ میں ایک دوسرے سے الگ ہو رہی ہیں۔تو پھر ابھی سے ایک قوم کا دوسری قوم .6کے متعلق یہ اعلان کرنا کہ وہ اسے بعد میں فتح کر کے مغلوب کر لے گی۔ ہر گز دیانت داری اور شرافت .6کا اعلان نہیں سمجھا جا سکتا۔ آنحضرت ﷺ کفار کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کر کے الگ نہیں ہوئے تھے۔ بلکہ ان کے مظالم سے تنگ آکر اور ان کی وسیع سازشوں کا شکار ہو کر اپنے شہر سے خفیہ طور پر نکل جانے پر مجبور ہوئے تھے۔ بلکہ حقیقۃً اپنے شہر سے نکالے گئے تھے۔ اور اس کے بعد بھی دشمن قوم نے آپ کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ لیکن یہاں ایک قوم ایک تیسری قوم کے ذریعہ سے جو اس وقت ملک میںحاکم ہے۔ ایک دوسری قوم کے ساتھ ایک باقاعدہ سیاسی سمجھوتہ کے نتیجہ میں خو د اپنے آپ کو دو حصوں میں بانٹ کر علیحدہ کر رہی ہے۔ بے شک ایسی صورت میں بھی ان کے لئے اپنے عہدوپیمان کو توڑ کر ہر وقت مسلمان علاقہ پر حملہ آور ہونے کا دروازہ کھلا ہے مگر کیا ایسے ظالمانہ اور غدارانہ حملہ کو خداکی طرف سے وہ برکت حاصل ہو سکتی ہے۔ جو اسلام کے مقدس بانی کو ہر جہت سے مظلوم ہونے کی صورت میں حاصل ہوئی۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ پھر ایڈیٹر صاحب شیر پنجاب اس بات کو بھی بھولے ہوئے ہیں۔ کہ آنحضرت .6ﷺ.6خدا کے ایک نبی تھے۔ اور اپنے نبیوں کے متعلق خدا کا یہ ازلی قانون ہے کہ جب تک وہ اپنے وطن میں امن کی حالت میں رہتے ہیںوہ ایک بیج کا حکم رکھتے ہیںجو زمین سے پھوٹ کر آہستہ آہستہ ایک بڑا درخت بنتا جاتا ہے۔ لیکن اگر ان کی قوم ان کو اپنے ظلموں کی چکی میں پیس کر وطن سے بے وطن ہونے پر مجبور کر دے ۔ تو پھر یہی بیج ایک ایٹم بمب کی صورت اختیار کر کے ان کے دشمنوںپر گرتا اور انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے ۔ اور اس تباہی کے نتیجہ میں ان کے واسطے ایک نئی زمین اور نیا آسمان پیدا ہو جاتا ہے۔ سکھوں میں بھی اگر خدا کے ہاتھ کابنایا ہوا کوئی ایٹم بمب موجود ہے تو مجھے اس کا علم نہیں ورنہ سکھ صاحبان یاد رکھیں کہ وہ ہرگز نبیوں والے قانون کے نیچے نہیں آسکتے۔بلکہ اس صورت میں وہ ان عہد شکنوں کے قانون کے نیچے آئیں گے جو ایک باقاعدہ سمجھوتہ کے نتیجہ میں علیحدہ ہوتے ہیں۔اور پھر بھی دل میں بد عہدی کے خیالات رکھ کر حملہ کی سکیم سوچتے رہتے ہیں۔ علاوہ ازیں اگر سکھ لوگ علیحدہ ہو کر منظم اور مضبوط ہوں گے تو کیا مسلمان جو اس وقت بھی صرف مغربی پاکستان میں سکھوں سے قریبا ًآٹھ گنے زیادہ ہیں۔ اپنی موجودہ حالت میں ہی بیٹھے رہیں گے۔ اور تعداد اورتنظیم اور طاقت اور سامان وغیرہ میں کوئی ترقی نہیں کریں گے ۔ مکرمی ایڈیٹر صاحب ! اپنے اس خیالی بہشت سے نکل کرذرا حقیقت کے میدان میں تشریف لایئے۔ تو آپ کو معلوم ہوگاکہ قوموں کی خوابیں محض دل کی خواہش کے نتیجہ میں پوری نہیں ہوا کرتیں۔ بلکہ یا تو ان کے پیچھے زبردست روحانی اسباب کارگر ہوا کرتے ہیں اور یا انہیں ایسے ٹھوس مادی اسباب کا سہارا حاصل ہوتا ہے۔ جن کی حقیقت کو دنیا تسلیم کرتی ہے۔ آپ فرمائیں کہ آپ کے پاس ان دونوں قسم کے اسباب میں سے کونسی قسم کا سہارا موجود ہے؟ ہاں بے شک اس وقت ہندوئوں کا سہارا آپ کو ضرور حاصل ہے۔ مگر آپ خود سوچیں کہ یہ سہارا کب تک قائم رہ سکتا ہے۔ آخر آ پ کی اپنی قوم کی گزشتہ تاریخ آپ کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ میں یہ باتیں خالص ہمدردی کے خیال سے عرض کر رہا ہوں۔ انہیں بُرا نہ مانیں اور ٹھنڈے دل سے سوچ کر کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی کوشش کریں۔
.6ایڈیٹر صاحب ’’شیر پنجاب‘‘ نے احمدیہ جماعت کو بھی ہوشیار کیا ہے کہ وہ ان ظلموں کو یاد کریں جو گزشتہ زمانہ میں مسلمان ان پر کرتے رہے ہیں۔ میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ مسلمانوں کاایک حصہ احمدیوں کی مخالفت میں پیش پیش رہا ہے اور ہمیں اپنی تلخ آپ بیتی بھولی نہیںبلکہ وہ ہماری تاریخ .6کا ایک سنہری ورق ہے جس نے ہمیں قومی بیداری اور تنظیم کے بہت سے سچے سبق سکھائے ہیں مگر باوجود .6اس کے مجھے افسوس ہے کہ آپ کا یہ دائو ہم پر نہیں چل سکتا۔ کیونکہ ہماری گھٹی میں یہ تعلیم پڑی ہوئی ہے کہ مخالفت میں فرد کی طرف نہ دیکھو بلکہ اصول کی طرف دیکھو۔ اور دشمنی انسانوں کے ساتھ بھی نہ رکھو۔ بلکہ صرف برے خیالات کے ساتھ رکھو۔ کیونکہ کل کو یہی مخالف لوگ اچھے خیالات اختیار کر کے دوست بن سکتے ہیں۔ چنانچہ احمدیوں کا پچانوے فیصدی حصہ دوسرے مسلمانوں میں سے ہی نکل کر آیا ہے۔ پس اگر گزشتہ زمانہ میں کسی نے ہم پر ظلم کیا ہے تو اس وقت ہم اسکے ظلم کو حوالہ بخدا کر کے صرف یہ دیکھیں گے کہ انصاف کا تقاضا کیا ہے۔ اور افراد کے متعلق ہم بہر حال عفو اور رحم کے عنصر کو مقدم کریں گے۔ میرا یہ خیال آپ کے اعتراض کے جواب میں گھڑا نہیں گیا۔ بلکہ جب .6۱۹۳۹.6 ء میں میں نے سلسلہ احمدیہ کے حالات میں ایک کتاب لکھی تو اس وقت بھی بعض غیر احمدی مسلما نوں کے مظالم کا ذکر کر کے احمدیوں کو نصیحت کی تھی کہ جب خدا انہیں طاقت عطا کر ے تو وہ اپنے گزرے ہوئے مخالفوں کے ظلموں کو یاد کر کے اپنی طبیعت میں غصہ نہ پیدا ہونے دیں بلکہ عفو اور رحم سے کام لیں۔ چنانچہ میرے الفاظ یہ تھے: .6-
.6’’ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی یہی کہتے ہیں ۔ ہاں وہی نسلیں جن کے سروں پر بادشاہی کے تاج رکھے جائیں گے کہ جب تمہیں خدا دنیا میں طاقت دے۔ اور تم اپنے مخالفوںکاسر کچلنے کا موقع پائو۔اور تمارے ہاتھ کو کوئی انسانی طاقت روکنے والی نہ ہو۔ تو تم اپنے گزرے ہوئے دشمنوں کے ظلموں کو یاد کر کے اپنے خونوں میں جوش نہ پیدا ہونے دینااور ہمارے اس کمزوری کے زمانہ کی لاج رکھنا تا لوگ یہ نہ کہیں کہ جب یہ کمزور تھے تو اپنے مخالفوں کے سامنے دب کر رہے۔ اور جب طاقت پائی تو انتقام کے ہاتھ کو لمبا کر دیا۔بلکہ تم اس وقت بھی صبر سے کام لینا اور اپنے انتقام کو خدا پر چھوڑنا کیونکہ وہی اس بات کو بہتر سمجھتا ہے کہ کہاں انتقام ہونا چاہئے اور کہاں عفو اور درگزر بلکہ میں کہتا ہوں کہ تم اپنے ظالموں کی اولادوں کو معاف کرنا اور ان سے نرمی اور احسان کا سلوک کرنا کیونکہ تمہارے مقدس آقا نے یہی کہا ہے کہ
.6اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاہ دار
.6کا خر کنند دعوائے حبِ پیمبر
.6بلکہ مسلمانوں پر ہی حصر نہیں۔ تم ہر قوم کے ساتھ عفو اور نرمی اور احسان کا سلوک کرنا اور ان کو اپنے اخلاق اور محبت کا شکاربنانا۔ کیونکہ تم دنیا میںخدا کی آخری جماعت ہو۔ اور جس قوم کو تم نے ٹھکرا دیا۔ اس کے لئے کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہو گا۔ اے زمین اور اے آسمان گواہ رہو کہ ہم نے اپنی آنے والی نسلوں کو خدا کے سچے مسیح کی رحمت اور عفو کا پیغام پہنچا دیا۔‘‘
.6کیا اس تعلیم کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی شخص یا کسی قوم کی وقتی انگیخت مسلمانوں کے خلاف جن کے ساتھ ہمارا ایک شریعت اور ایک خاتم النبیین کا دائمی رشتہ قائم ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ کسی قوم کے خلاف جس نے ہم پر کبھی کوئی ظلم کیاہو۔ ہمارے دلوں کو مستقل طور پر میلا کر سکتی یا ہمیں انصاف کے رستہ سے ہٹا سکتی ہے؟ گذشتہ کو جانے دو۔ فرض کرو کہ آئندہ بھی کسی قوم کا ہاتھ ہمارے خلاف ظلم اور تعدی کے رنگ میں اٹھتا ہے تو بے شک خدا اور قانون ہمیں خود حفاظتی کا حق دیتے ہیں مگر ہم کبھی بھی کسی فرد یا قوم کو اپنا مستقل دشمن نہیں سمجھ سکتے۔ اور دوسرے کی ہر نیک تبدیلی ہمیں اس کے مخلصانہ خیر مقدم کے لئے ہر وقت تیار پائے گی۔ پس مکرم ایڈیٹر صاحب ہمارے ظلموں کا قصہ تو آپ رہنے دیں۔ ظلم قوموں کو بنا یا کرتے ہیں بگاڑتے نہیں۔ ہاں آپ میرے مخلصانہ مشورہ پر غور کر کے اس بات کو ضرور سوچیں کہ پنجاب کی تقسیم سکھوں کو کیا دے رہی ہے۔ اور ان سے کیا لے رہی ہے۔ خدا کی دی ہوئی عقل کا ترازو آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اپنے وقتی جوش و خروش کو ذرا ٹھنڈا کر کے اس خدائی ترازو میں اپنے لین دین کا حساب تول جائیے۔ اور پھر انصاف سے کہئے کہ کیا پنجاب کی تقسیم آپ کی قوم کے لئے کسی جہت سے بھی نفع کا سودا ہے؟ اگر ہندو کے سہارے کا خیال ہے تو میری یہ بات لکھ لیں کہ یہ سہارا زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا۔ اس کے نتیجہ میں یا تو آپ اپنی آزاد ہستی کو کھو بیٹھیں گے۔ اور یا کچھ عرصہ کے بعد تنگ آکر اس سے جدا ہو جائیں گے۔
.6آخر ایک تاجر قوم جس کا اوڑھنابچھونا سب کاروباری اصول کے تارو پود سے تیار شدہ ہے۔ کب تک آپ کے سمجھوتہ کو بیاج کے بغیر رہنے دے گی۔ گو یہ علیحدہ بات ہے کہ اس بیاج کابیلنس شیٹ آج سے چند سال بعد جا کر آپ کی آنکھوں کے سامنے آئے۔ ہم ہندوئوں کے خلاف نہیں۔ کیونکہ وہ بھی ہمارے وطنی بھائی ہیں۔ مگر جہاں طبعی اور فطری جو ڑ کا سوال ہو۔ وہاں سچی بات کہنی پڑتی ہے۔
.6بالآخر آپ نے اپنے مضمون میں بعض ان مظالم کی بھیانک تصویر کھینچ کر دکھائی ہے۔ جو آپ کے خیال کے مطابق بعض مسلمانوں نے بعض سکھوں پر کئے ہیں ۔ مثلا آپ لکھتے ہیںکہ بعض جگہ سکھ بچوں کو ننگا کر کے انہیں دیکھا گیاکہ آیا وہ لڑکا ہیں یا لڑکی اور اگر لڑکا ہے تو مار دیا گیا۔ اور لڑکی ہوئی تو اسے اغواء کر لیا گیا۔ اگر آپ نے اس بات میں کوئی ایسی تحقیق کی ہے ۔ جو ایک غیر جانبدارانہ عدالتی تحقیق کا رنگ رکھتی ہے۔تو میں اس کے جواب میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ آپ جانیں اور آپ کا ایمان۔ ہاں اصولی طور پر میں یہ بات ضرور کہوں گا کہ جو شخص بھی ظالم ہے خواہ وہ کوئی ہو۔ اس کا فعل انتہائی نفرت اور انتہائی بیزاری کے قابل ہے۔ اور جو شخص بھی مظلوم ہے خواہ وہ کوئی ہو۔ وہ ہماری دلی ہمدردی اورامداد کا مستحق ہے۔ ہمارے پیارے نبی فداہ نفسی نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ .6انصرا خاک ظالما او مظلوما۔۔ ۷.6 ’’یعنی اپنے بھائیوں کی امداد کرو۔ خواہ وہ ظالم ہوں یا مظلوم ہوں۔‘‘اور جب صحابہ ؓنے حیران ہو کر پوچھاکہ یا رسول اللہ ؐ مظلوم کی امداد تو ہم آپؐ سے ہمیشہ سنتے آتے ہیں مگر یہ ظالم کی امداد کے کیا معنی ہیں؟ تو آپؐ نے بے ساختہ فرمایا کہ ظالم کی امداد یہ ہے کہ اسے ظلم کرنے سے روکو۔ اللہ اللہ! کیا ہی پیاری تعلیم ہے۔ جو آج سے چودہ سو سال قبل عرب کے ریگستان سے بلند ہوئی مگر دنیا نے اس کی قدر کو نہ پہچانا ۔ اگر ہر قوم اس تعلیم پر کاربند ہوتو ساری دنیا ایک دن میں جنت کا نظارہ پیش کر سکتی ہے۔ پس مکرم ایڈیٹر صاحب! اگر کسی مسلمان نے ظلم کیا ہے تو ہمیں ایک منٹ کے لئے بھی اس بات میں تامل نہیں کہ اس کے ظلم سے نہ صرف دلی بیزاری کا اعلان کریںبلکہ جہا ں تک ہماری طاقت ہو اس کے ظلم کے ہاتھ کو روکیں۔ ہمارے امام نے موجودہ فسادات کے شروع میں ہی اپنی جماعت میں اعلان کر دیا تھاکہ اگر تم اپنے سامنے کوئی ظلم ہوتا دیکھو۔ تو قطع نظر اس کے کہ ظالم کون ہے اور مظلوم کون تم فورًا ایک طرف مظلوم کی امداد کو پہنچو۔ اور دوسری طرف ظالم کے ہاتھ کو روکو،خواہ اس کوشش میں تمہیں اپنی جان تک سے ہاتھ دھونا پڑیں۔بس اس اصولی بات کے سوا میں اس معاملہ میں اور کچھ نہیں کہہ سکتا۔ کیونکہ مجھے ان واقعات کا علم نہیں۔ لیکن اگر وہ درست ہیں تو ضرور انتہائی افسوس اور انتہائی نفرت کے قابل ہے۔
.6آخر میں میں پھر اپنے سکھ ہم وطنوں سے دردمندانہ اپیل کرتا ہوںکہ وہ وقتی غصہ کو دبا کر اور عارضی جوشوں کو ٹھنڈا کر کے اپنے مستقل مفاد کے لحاظ سے پنجاب کی مجوزہ تقسیم کے متعلق غور کریں اور دیکھیں کہ یہ سکیم ان کے لئے کہاں تک مفید اور کہاں تک نقصان دہ ہے۔ یہ ایک فرد یاایک خاندان یا ایک قبیلہ کا سوال نہیں بلکہ ایک پوری قوم کا سوال ہے۔ اور پھر یہ ایک دن یا ایک مہینہ یا ایک سال یا دس بیس سال کا سوال نہیں بلکہ ہمیشگی کا سوال ہے۔ پس سوچو اور سمجھو اور پھر سوچو اور سمجھو اور پھر اس طریق کو اختیار کرو جو ایک طرف حق و انصاف پر مبنی ہو ۔ اور دوسری طرف آپ کی قوم کے لئے دائمی مضبوطی اور ترقی کا رستہ کھول دے۔ اور پھر آپ لوگ ایک خدا کو ماننے والے ہیں۔ اور اسے علیم و قدیر جانتے ہیں۔ اس تاریکی کے زمانہ میںدلی کرب و درد کے ساتھ خدا سے دعائیں بھی کریں کہ قبل اس کہ آخری فیصلہ کا وقت آئے۔ وہ اپنے فضل و رحم سے آ پ کے دلوں اور دماغوں میں وہ روشنی بھر دے جو ایک سچے اور بابرکت فیصلہ کے لئے ضروری ہے۔ ورنہ ہم تو ہر حال میں خدا کے بندے ہیں اور اس کے ہر فیصلہ پر راضی۔ گو جب تک خدا کا فیصلہ جاری نہیں ہوتا۔ ہم اس خواہش کے اظہار سے رک نہیں سکتے کہ کاش ہندوستان ایک رہ سکتا اور کاش پنجاب اب بھی ایک رہ سکے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰ ؍جون ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
پنجاب باونڈری کمیشن کے غور کے لئے چند اصولی نوٹ
.6حکومت کی طرف سے پنجاب باونڈری کمیشن کے لئے تحقیقات کی بنیادی شرائط (ٹرمز آف ریفرنس) کا اعلان ذیل کے مختصر مگر جامع الفاظ میں کیاگیا ہے:.6-
.6کمیشن کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ پنجاب کے ہر دو حصوں کی سرحد کی .6تعیین.6 اس اصول پر کرے کہ مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقے ایک دوسرے سے ممتاز ہو کر اپنے اپنے حصہ کے ساتھ شامل ہو جائیں۔ اس عمل کے ضمن میں کمیشن دیگر حالات کا بھی خیال رکھے گا۔‘‘۔۔۔۸
.6ان الفاظ پر ایک سر سری نگاہ ڈالنے سے ہر پڑھنے والا بغیر کسی شک و شبہ کے اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ:(ا) کمیشن کے لئے لازمی قراردیا گیا ہے کہ وہ اپنی تحقیق کا دارومدار ان دو امورپر رکھے۔ اول مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی علیحدہ علیحدہ تعیین دوم دوسرے حالات (ب) یہ کہ’دوسرے حالات‘پر غور کا سوال کوئی مستقل اور بنیادی حیثیت نہیں رکھتا کہ اسے قوم وار آبادی کی قلت و کثرت کے اصول کے ساتھ ایک جیسا اہم اور متوازی اصل قرار دیا جائے۔ بلکہ اسے صرف ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ جیسا کہ کمیشن کی تحقیقات کی بنیادی شرائط کے اعلان کی عمومی عبارت اور ’’اس عمل کے ضمن میں‘‘کے میں اہم الفاظ سے ثابت ہے۔
.6(.6۳.6) پس صحیح طریق کار یہ ہے کہ پہلے آبادی کے لحاظ سے مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی علیحدہ علیحدہ تعیین کی جائے۔ اور اس کے بعد اگر ضرورت محسوس ہو تو اس تعیین کے نتیجہ میں ایسی خفیف سی تبدیلی کر کے جو قدرتی اور جغرافیائی پہلوئوں کے لحاظ سے لازمی سمجھی جائے مناسب ترمیم کر لی جائے۔
.6(.6۴.6) یہ بات کہ بہر صورت ’’دوسرے حالات‘‘ کے الفاظ دولت اور جائیداد وغیرہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال نہیں کئے گئے۔ وائسرائے کے اس واضح اور غیر مبہم اعلان سے بھی ثابت ہے جو ا نہوں نے .6۴.6 جون کی پریس کانفرنس میں کیاتھا۔ چنانچہ اس کانفرنس میں وائسرائے صاحب نے کہاتھا کہ:.6-
.6’’ ملک معظم کی حکومت سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ایسی تقسیم کی حمائت کرے گی جو جائداد اور مال و دولت کے اصول پر کی جائے۔ خصوصاً موجودہ لیبر برطانوی حکومت سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی۔‘۔۔ ۹
.6(.6۵.6) جمہوریت کے بنیادی اصول بھی جو دنیا بھر میں مسلّم ہیں اس خیال کی پُر زور تردید کرتے ہیں کہ مال و دولت کے اصول پر ملکی تقسیم کی بنیادرکھی جائے۔ کیونکہ اس کے یہ معنے بنتے ہیں کہ جائیدادوں کو انسانی جان پر فوقیت حاصل ہے، جو بالبداہت باطل ہے۔
.6(.6۶.6) انکم ٹیکس اور مال گزاری وغیرہ کا سوال بھی دراصل مال و دولت اورجائیداد کے سوال کی ایک فرع ہے۔ اور اس لئے وہ بھی انہی وجوہات کی بناء پر ناقابل توجہ سمجھا جانا چاہئے۔ جن کی بناء پر دولت اور جائیداد کا اصول قابل رد ّخیال سمجھا جا تاہے۔
.6(.6۷.6) اگر ’’دوسرے حالات‘‘ کے مفہوم میں مقدس مقامات اور قومی یادگاروں کا سوال شامل .6سمجھا جائے تو پھر ضروری ہے کہ اس پہلو کو مد نظر رکھنے سے پہلے اس بات کا فیصلہ کیا جائے کہ کس کس قسم کی قومی یادگاریں یا مقدس مقامات قابل لحاظ سمجھے جائیں گے اور یہ کہ کن کن قسم کے حالات میں ان کا لحاظ رکھنا ضروری ہو گا۔ اور پھر اس اصولی فیصلہ کے بعد اس فیصلہ کو ساری قوموں پر یکساں چسپاں کیا جائے۔
.6(.6۸.6) مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی تعیین کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسا یونٹ مقرر کیا جائے جس کی بناء پر مسلمان اور ہندو سکھ اور دیگر اقوام کی آبادی کے اعدادو شمار معلوم کرکے مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے علیحدہ علیحدہ علاقے معین کئے جا سکیں
.6(.6۹.6) یہ کہ بظاہر مندرجہ ذیل یونٹوں میں سے کسی ایک کو یونٹ مقرر کیا جا سکتا ہے:.6-
(۱) گائوں یعنی ریوینیو اسٹیٹ۔
(ب) ذیل۔
(ج) حلقہ قانون گو۔
(د) تھانہ۔
(ذ)تحصیل
(ر) اور ضلع۔
.6ان چھ یونٹوں میں سے غالباً ضلع کا یونٹ خارج از بحث ہے۔ کیونکہ .6۳.6 جون کی برطانوی تجویز اسے خود ردّ کرتی ہے۔ کیونکہ اسی تجویز میں اضلاع کی عارضی تقسیم کا خاکہ تیار کرنے کے بعد صراحت کی گئی ہے کہ اس عارضی تقسیم کو بعد میں مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے ملتے جلتے علاقوں کی تعیین کے نتیجہ میں بدل دیا جائے گا۔ پس کمیشن ضلع کے یونٹ کو چھوڑ کر باقی مذکورہ بالا پانچ یونٹوں میں سے کسی ایک کو اختیار کر کے علاقوں کی تقسیم کرنے پر مجبور ہو گا۔ اور ان پانچ یونٹوں میں سے بھی اغلبًا کمیشن گائوں کے .6یونٹ کو نظر انداز کر دے گا کیونکہ اس یونٹ کے اختیار کرنے میں دونوں علاقوں کی درمیانی سرحد بے حد .6بے ترتیب ۔ کٹی پھٹی اور آپس میں الجھی ہوئی ہونے کی وجہ سے ہمیشہ ایک دوسرے کے لئے مستقل خطرے اور فتنہ و فساد کا باعث بنی رہے گی۔ اس کے بعد باقی چار ( یعنی ذیل حلقہ قانونگو۔ تھانہ اور تحصیل) یونٹوں میں سے صحیح یونٹ کا انتخاب ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جس کے واسطے کمیشن کو کافی غور کی ضرورت ہو گی۔ بادی النظر میں تحصیل کے یونٹ کا انتخاب بہت زیادہ موزوں اور مناسب معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ ضلع سے چھوٹے یونٹوں میں سے تحصیل ہی ایک ایسایونٹ ہے۔ جس کی آبادی کے اعداد و شمارباقاعدہ طبع شدہ صورت میں موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے اعداد و شمار میں رد و بدل یا جعل سازی کے احتمال کی گنجائش نہیں سمجھی جاسکتی۔
.6(.6۱۰.6) برطانوی تجویز میں یہ امر بھی بالصراحت موجود ہے کہ مسلم اور غیر مسلم اکثریت کے علاقوں کی تعیین میں .6۱۹۴۱.6 ء کی مردم شماری کے اعدادو شمار ہر لحاظ سے آخری اور مستند تسلیم کئے جائیں گے ۔۱۰.6 .6پس ان اعداد و شمار کی صحت پر کسی فریق کو معترض ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ کیونکہ اس کا نتیجہ تضیع او قات کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ دعویٰ کہ .6۱۹۴۱.6 ء کی مردم شماری میں مسلما نوں نے اپنی تعداد کو ناجائز طور پر بڑھا کر دکھایا ہے۔ سراسر بے بنیاد اور خلاف عقل اور خلاف قیاس ہے۔ اگر اعدادو شمار میں کوئی ناجائز تصرف ہوا ہے تو ظاہر ہے کہ یہ تصرف تمام فرقوں کے اعدادو شمار میں ہوا ہو گا۔ خصوصا ہندو اور سکھوں کے اعدادو شمار میں ایسے ناجائز تصرف کا ہونا زیادہ قرین قیاس ہے۔ کیونکہ یہ لوگ خواندگی اور سیاسی بیداری میں مسلمانوں سے آگے ہیں۔ جس کی بناء پر یہ گمان کرنا بعید از قیاس نہیں کہ اگر کوئی نا واجب تصرف ہوا ہے تو ان قوموں نے دوسروں کے مقابلہ پر سیاسی برتری حاصل کرنے کے خیال سے یقینا زیادہ جدو جہد کی ہو گی۔
.6(.6۱۱.6) ظاہر ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے خلاف سیاسی سمجھوتہ صرف ہندوئوں اور سکھوں تک محدود ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ آبادی کے اعداد و شمار معلوم کرنے میں’’ مسلم بمقابلہ غیر مسلم ‘‘ کے اصول کی بجائے’’ مسلم بمقابلہ ہندو وسکھ‘‘ کے اصول کے مطابق نظر ڈالی جائے۔ پس ایسے علاقے جہاں مسلمانوں کی آبادی ہندوئوں اور سکھوں کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہو۔ (مثلا ضلع ہوشیارپور کی تحصیل ہائے ہوشیار پور اور دسوہہ۔وہاں باوجود اس کے کہ مسلمانوں کو تمام غیر مسلمانوں کے مقابل پر مجموعی اکثریت حاصل نہ ہو۔ فیصلہ کا صحیح طریق یہ ہونا چاہئے کہ اچھوت اور عیسائی اقوام میں ریفرنڈم یعنی حصول رائے عامہ کا طریق اختیار کر کے معلوم کیا جائے کہ یہ قومیںکس طرف شامل ہونا چاہتی ہیں۔
.6خدا کرے کہ کمیشن کو ایسے فیصلہ کی توفیق ملے جو ساری قوموں کے واسطے حق و انصاف کا فیصلہ ہو اور ملک میں امن و اتحاد کا موجب بنے۔ آمین ۔.6واﷲ خیر حافظا ًوناصراً.6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹ ؍جولائی ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
جان یا سامان
و عند الامتحان یُکرم المر ئُ اویُھانُ
.6ابتلا ء اور مصیبت کا زمانہ بھی ایک زلزلہ کا رنگ رکھتا ہے کیونکہ جس طرح بسااوقات ایک بھاری زلزلہ میں زمین کا اندرونہ پھٹ کر ننگا ہو جاتا ہے، اسی طرح شدید مصائب کے دھکے میں بھی انسانی فطرت کی مخفی گہرائیاں عریاں ہو کر دنیا کے سامنے آجاتی ہیں۔اسی لئے قرآن شریف فرماتا ہے کہ .6.6۔۔۱۱.6 یعنی جب آخری زمانہ میں دنیا پر شدید زلزلے آئیں گے جو گویا اس کی تاریخ میں یادگار بننے والے ہوں گے تو اس وقت زمین اپنے بوجھوں کو باہر نکال پھینکے گی۔ یعنی جو چیزیں اس کی گہرائیوں میں گویا چھپ کر بیٹھی ہوئی ہوں گی، وہ بھی اس وقت ابھر کر باہر آ جائیں گی اور اخفا کے پردے دور ہو جائیں گے۔ یہی حال مصائب اور امتحانوں کے وقت میں ہوتا ہے کہ انسانی قلوب کی مخفی حقیقتیں جن پر عام حالات میں سینکڑوں قسم کے پردے پڑے رہتے ہیں، مصائب کے وقت میں ننگی ہو کر باہر آ جاتی ہیں۔ تب انسانی آنکھ یہ نظارہ دیکھتی ہے کہ بعض لوگ جو بظاہر بہادر اور ثابت قدم نظر آتے تھے وہ دراصل بزدل اور لرزہ بر اندام نکلتے ہیں اور کئی لوگ جو بظاہر کمزور اور رعشہ بر پا دکھائی دیتے تھے، وہ دراصل قوی اور ایک مضبوط چٹان کی طرح قائم ثابت ہوتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ یہی حال ہمارے موجودہ امتحا ن کے وقت میں ہوا ہے۔ نام لینے اچھے نہیں ہوتے اور امام کے سوا اس کا کسی کو حق بھی نہیں ہے۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں اس بھاری ابتلا ء کے وقت میں بعض لوگ جو بظا ہر نہایت پختہ نظر آتے تھے ، وہ بعض لحاظ سے متزلزل ہوتے ہوئے دکھائی دیئے۔ وہاں کئی لوگ ایسے بھی نکلے جن کے متعلق کوئی خاص اعلیٰ خیال نہیں تھا مگر ابتلا ء کے وقت نے ان کو ایسا ظاہر کیا کہ گویا وہ ایک نہایت مضبوط چٹان ہیں۔ جنہیں کوئی آندھی اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتی اور الحمد للہ کہ اکثر دوستوں نے بہت اچھا نمونہ دکھا یا ہے اور کمزور لوگوںکی تعداد نسبتاً بہت کم ثابت ہوئی ہے۔ مگر مجھے اس جگہ ایک خاص پہلو کا ذکر کرنا مقصود ہے جس کے متعلق ایک حصہ جماعت میں ناواقفی کی وجہ سے زیادہ غلط فہمی نظر آتی ہے اور بعض فتنہ پرداز اس غلط فہمی کو ہوا دے رہے ہیں۔ میری مراد اس اعتراض سے ہے جو بعض لوگوں کے دل میں پیداہوا ہے اور دوسروں کے دل میں پیدا کیا جا رہا ہے کہ جہاں قادیان سے نکلتے ہوئے بعض لوگ زیادہ سامان لے آئے ہیں۔ وہاں بعض دوسرے لوگوں کا بہت کم سامان آیا ہے اور بعض کا سامان تو قریبا بالکل ہی ضائع ہو گیا ہے اور گویا اس طرح بے انصافی اور لحاظ داری برتی گئی ہے۔ اس اعتراض کا جواب میں ناواقف دوستوں کی اطلاع کے لئے ذیل میں درج کرتا ہوں۔
.6حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز قادیان سے .6۳۱.6 ؍اگست .6۱۹۴۷.6 کی دوپہر کو تشریف لائے تھے اور حضور نے اپنے پیچھے اس خاکسار کو امیر مقامی مقرر فرمایا اور میں نے .6۲۳.6؍ستمبر.6۱۹۴۷.6 ء تک ان فرائض کو جہاں تک اور جس رنگ میں بھی مجھ سے ممکن ہو سکا ادا کرنے کی .6کوشش کی۔ .6واستغفر اﷲ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ.6۔.6 .6میرے بعد یعنی جب میں حضرت صاحب .6کے حکم سے لاہور آ گیا تو مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔اے امیر مقامی مقرر ہوئے جو .6۱۴.6؍ اکتوبر .6۱۹۴۷.6 ء تک یہ فرائض انجام دیتے رہے اور پھر ان کے لاہور بلالئے جانے کے بعد مولوی جلال الدین صاحب شمس امیر مقرر ہوئے جو اب تک قادیان میں امیر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ چونکہ ہماری آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ قادیان اور اس کے ماحول میں فتنہ دن بدن بڑھ رہا ہے اور ضلع گورداسپور کے ایک ایک مسلمان گائوں کو خالی یا تباہ کر کے قادیان کے ارد گرد خطرہ کا دائرہ روز بروز تنگ کیا جا رہا ہے اور دوسری طرف قریباً پچاس ہزار بیرونی پناہ گزینوں نے قادیان میں جمع ہو کر .6ہماری مشکلات میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا اور ہم دیکھتے تھے کہ مفسدہ پردازوں کی سکیم صرف قتل و غارت .6یا لوٹ مار یا مسلمان آبادی سے ضلع کو خالی کرانے تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں مسلمان عورتوں کے ننگ و ناموس کو برباد کرنا بھی شامل ہے۔ ( چنانچہ میری موجودگی میں ہی ماحول قادیان کی اغواشدہ عورتوں کی تعداد سات سو تک .6پ.6ہنچ.6 چکی تھی اور بہت سی معصوم عورتوں کی عصمت دری کے نظارے گویا ہماری آنکھوں کے سامنے تھے) اس لئے ہم نے دوستوں کے مشورہ اور حضرت صاحب کی اصولی ہدایت کے ماتحت یہ فیصلہ کیا تھا کہ جہاں تک ممکن ہو عورتوں اور بچوں کو جلد از جلد قادیان سے باہر بھجوا دیا جائے اور اس کے لئے ہم قریباً مجنونانہ جدو جہد کے ساتھ دن رات لگے ہوئے تھے۔ حتّٰی کہ ایک دن میں نے انتہائی بے بسی کی حالت میں حضرت صاحب کو خط لکھا کہ ہمارے ارد گرد خطرہ کا دائرہ بڑی سرعت کے ساتھ تنگ ہوتا جا رہا ہے اور آپ کی ہدایت یہ ہے کہ کسی صورت میں بھی حکومت کا مقابلہ نہ کیا جائے( اور حکومت کا مقابلہ ہماری تعلیم کے بھی خلاف ہے اور ہماری طاقت سے بھی باہر۔ گو حق یہ ہے کہ اس وقت سکھ جتھے اور حکومت گویا ایک معجون مرکب بنے ہوئے ہیں اور ایک کو دوسرے سے جدا رکھنا مشکل ہے) اور آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ مومن کی جان کو حتی الوسع بچائو کیونکہ ضائع شدہ .6جائیدادیں اور سامان تو پھر بھی مل جائیں گے۔ مگر مومنوں کی ضائع شدہ جانیں جو گویا حضرت .6مسیح موعودعلیہ السلام کے ہاتھ کے لگائے ہوئے پودے ہیں پھر نہیں ملیں گے تو اب مجھے بتائیں کہ میں ان ہزاروں ننگ و ناموس رکھنے والی عورتوں کے متعلق جو قادیان میں موجود ہیں کروں تو کیا کروں؟ مال کے مقابل پر بے شک قیمتی جان بچائی جا سکتی ہے اور مومن کی جان واقعی بہت بڑی چیز ہے مگر کیامیں اپنی آنکھوں کے سامنے احمدی عورتوں کے ننگ و ناموس کو خطرہ میں ڈال دوں اور سامنے سے ہاتھ نہ اٹھائوں؟ حضرت صاحب نے مجھے تسلی کا خط لکھااور بعض ہدایتیں بھی دیں اور فرمایا کہ میں ان مشکلات کو سمجھتا ہوں مگر ادھر ہم زیادہ سے زیادہ ٹرک بھجوانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ ( گو پاکستان حکومت کے پاس ٹرک محدود ہیں اور اس نے سارے مشرقی پنجاب میں سے مسلمانوں کو نکالنا ہے) اور ادھر تم جس طرح بھی ہو ہر ٹرک میں زیادہ سے زیادہ عورتیں اور بچے لدوا کر انہیں جلد سے جلد باہر بھجوا دو اور جب عورتیں محفوظ ہو جائیںتو پھر باقی معاملہ جو ہماری طاقت سے باہر ہے۔ خدا پر چھوڑ دو۔ .6وَ لِلبَیتِ رَبٌّ سیَمْنَعُہُ۔۔۱۲
.6اب ٹرکوں کا حال یہ تھا کہ قادیان میں دو قسم کے ٹرک پہنچتے تھے۔ ایک وہ پرائیویٹ ٹرک جو بعض احمدی فوجی افسر اپنے اہل و عیال اور اپنے ذاتی سامان کو لے جانے کے لئے اپنے فوجی حق کی بنا پر حاصل کر کے قادیان لے جاتے تھے اور دوسرے وہ جماعتی ٹرک جو جماعتی کوشش سے جماعتی انتظام کے ماتحت حکومت کے حکم سے قادیان بھجوائے جاتے تھے۔ جہاں تک پہلی قسم کے ٹرکوں کا سوال ہے ظاہر ہے کہ یہ ایک پرائیویٹ چیز تھی اور مجھے یا کسی اور کو اس میں دخل دینے کا حق نہیں تھا۔ ان کے متعلق صدر صاحبان محلہ جات قادیان کو میری ہدایت صرف اس قدر تھی کہ اس بات کی نگرانی رکھیںکہ ان پرائیویٹ ٹرکوں کے اندر بیٹھ کر کوئی احمدی مرد بلا اجازت باہر نہ چلا جائے۔ نیز یہ کہ پرائیویٹ ٹرک والے فوجی افسر سے پوچھ لیا کریں کہ کیا اس کے ٹرک میں کسی زائد سواری کی گنجائش ہے اور اگر گنجائش ہوا کرے تو مجھے بتا دیا کریںتا میںایسے ٹرکوں میں بھی زائد احمدی عورتیں بھجوا سکوں اور اس طرح ہماری اسکیم کی جلد تر تکمیل میں مدد ملے۔ چنانچہ ایسا ہوتا رہا اور جہاں تک ممکن تھا میں حکمت عملی اور سمجھوتہ کے طریق پر پرائیویٹ ٹرکوں میں بھی زائد عورتیں بھجواتا رہا مگر ظاہر ہے کہ یہ ٹرک میرے کنٹرول میں نہیں تھے اور جہاں تک سامان کا تعلق ہے ان ٹرکوں کے مالک جتنا سامان چاہتے تھے اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور میں اس میں دخل نہیں دے سکتا تھا اور میں جانتا ہوں کہ بعض ایسے پرائیویٹ ٹرک والوں نے اپنا سارے کا سارا سامان یا قریبا ًسارا سامان باہر نکال لیا مگر یہ ان کا قانونی حق تھا جس میں میں دخل نہیں دے سکتا تھا۔ البتہ دوسرے ٹرک جو جماعتی انتظام کے ماتحت جاتے تھے وہ بے شک کلیۃً ہمارے انتظام میں تھے ( سوائے اس دخل اندازی کے جو ملٹری کی طرف سے ہوتی رہتی تھی اور دن بدن بڑھتی جاتی تھی ) اور میں نے ایسے جماعتی ٹرکوں کے لئے ایک مستعد عملہ اور کچھ اصولی ہدایتیں مقرر کر رکھی تھیں اور ہر باہر جانے والی پارٹی کو باقاعدہ ٹکٹ ملتا تھا جس میں باہر جانے والی عورتوں اور بچوں کی تعداد اور سامان کی مقدار درج ہوتی تھی جس کے مطابق مقررہ عملہ چیک کر کے سواریاں بٹھا تا تھا۔ سامان کا اصول سب پر یکساں چسپاں ہوتا تھا اور اس میں ضروریات زندگی کی چیزوں کو مقدم رکھا گیا تھا۔ مثلا ً بستر اور پہننے کے کپڑے یا بعض صورتوں میں اقل تعداد میںکھانے کے برتن وغیرہ اور پارٹی کی تعداد کے مطابق سامان میں کمی بیشی کا اصول بھی مقرر تھا۔ البتہ دو چیزوں کے متعلق میں نے استثناء رکھی تھی۔ ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تبرکات اور دوسرے نایاب تبلیغی یا علمی کتابیں اور بعد میں اس میں ایک تیسری چیز کا بھی اضافہ کر دیا گیا۔ یعنی ایسی اشیاء جو کسی شخص کی روزی کا ذریعہ ہوں۔ مثلاً درزی کے لئے سینے کی مشین یا بڑھئی کے لئے اس کے اوزار وغیرہ۔ یہ اصول امیر و غریب سب پر یکساں چسپاں ہوتا تھا۔ گو ظاہر ہے کہ نسبتی لحاظ سے اس اصول سے غرباء کو ہی زیادہ فائدہ پہنچتا تھا بلکہ غرباء کے متعلق تو میری یہاں تک ہدایت تھی کہ صرف صدر صاحبان کی سفارش پر ہی معاملہ نہ چھوڑا جائے بلکہ میرے دفتر کے مرکزی کا رکن خود جستجو کر کے یتامیٰ اور بیوگان اور ایسے مساکین کو تلاش کر کے میرے نوٹس میں لائیں، جن کا حق ان کی غربت اور بے بسی کے سوا اور کوئی نہ ہو۔ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میری اس ہدایت کی وجہ سے مجھے ملک غلام فرید صاحب نے رات کے دو بجے دارالفضل سے فون کیا کہ میں نے محلہ دارالبرکات میں ایک ایسی بے کس اور بے بس بیوہ عورت تلاش کی ہے جس کے ٹکٹ کے لئے ابھی تک کسی نے سفارش نہیں کی۔ میں نے فورًا ہدایت دی کہ اسے اس کے ضروری سامان کے ساتھ دوسرے دن کی کنوائے میں بھجوا دیا جائے۔ الغرض جب تک میں قادیان میں رہا۔ میں نے بلا امتیاز غریب و امیر سب کے واسطے ایک جیسا اصول رکھا۔ اور عمو مًا صدر صاحبان کی تصدیق پر فیصلہ کرتا تھا اور سامان کے متعلق بھی سب کے لئے ایک جیسا اصول تھا۔ گو یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض بے اصول لوگ چوری یا سینہ زوری کے ذریعہ زیادہ فائدہ اٹھا لیتے ہوں مگر یہ ناگوار رخنے جن کی تعداد بہر حال کم ہوتی ہے.6،.6 ہر انتظام میںہو جاتے ہیں اور ہنگامی حالات میں تو لازماًہوتے ہیں مگر ان زبردستی کی استثنائوں کی وجہ سے سارے نظام پر اعتراض کرنا درست نہیں ہوتا۔
.6حقیقت یہی ہے کہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت جو کچھ بھی کیا گیا وہ حالات اور موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے بالکل درست بلکہ ضروری تھا اور یہ سب کچھ نیک نیتی کے ساتھ اپنے آپ کو دن رات کی انتہائی کوفت میں مبتلا کر کے .6خالصۃ لوجہ اﷲ .6کیا گیا ۔ مجھے یاد ہے کہ جب لاہور سے کنوائے جاتا تھا تو اس کی تیاری کے لئے میں اور میرا عملہ بسا اوقات رات کے تین تین بجے تک مسلسل کام میں لگے رہتے تھے اور بعض راتیں تو ہم ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں سوئے۔ مگر یہ ہمارا کسی پر احسان نہیں ہے بلکہ خدا کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ان خطرہ کے ایام میں خدمت کا موقع دیا۔ ان ایام میں بعض دوست میرے پاس آتے تھے کہ ہمیں زیادہ سامان بھجوانے کی اجازت دی جائے۔ میں انہیں سمجھاتا تھا کہ دیکھو اس وقت سوال یہ ہے کہ خطرہ بالکل قریب آگیا ہے اور ٹرکوں کی تعداد تھوڑی ہے۔ اب چاہو تو احمدی عورتوں اور بچوں کی جان بچا لو اور چاہو تو اپنا سامان محفوظ کر لو ۔ اکثر دوست میرے اس اشارہ کو سمجھ جاتے تھے مگر بعض کوتاہ بین لوگ دل برداشتہ بھی نظر آتے تھے لیکن میں مجبور تھاکہ بہرحال مومنوں کی جانوں اور خصوصًا عورتوں کی جانوں کو ( جن کی جانوں کے ساتھ ان کے ناموس کا سوال بھی وابستہ تھا) سامان پر مقدم کروں۔ آخر ہر ٹرک کی گنجائش اور بوجھ اٹھانے کی طاقت محدود ہوتی ہے۔ اگر ہم ایک ٹرک پر سامان زیادہ لاد دیں گے تو لازماً سواریاں کم بیٹھیں گی اور اگر سامان کم ہوگا تو لازماً سواریوں کے لئے زیادہ گنجائش نکل آئے گی۔ ہماری اس تدبیر کا نتیجہ عملی صورت میں بھی ظاہر ہے کہ مشرقی پنجاب کی تمام دوسری جگہوں کی نسبت قادیان میں جانی نقصان نسبتی طور پر بہت کم ہوا ہے اور اغوا کے کیس تو خدا کے فضل سے بہت ہی کم ہوئے ہیں۔ بلکہ جہاں تک میرا علم ہے قادیان کے احمدی مہاجرین میں سے کوئی ایک عورت بھی اغواہ شدہ نہیں ہے۔ جو ظاہری لحاظ سے (کیونکہ اصل حفاظت تو خدا کی ہے ) اسی تدبیر کا نتیجہ تھاکہ اکثر عورتوں کو خطرہ سے پہلے نکال لیا گیا اور جو تعداد حملہ کے وقت قادیان میں موجودتھی وہ اتنی محدود تھی کہ خطرہ پیدا ہوتے ہی ہمارے آدمی انہیں فورًا سمیٹ کر محفوظ جگہوں میں لے آئے ورنہ اگر زیادہ تعداد ہوتی تو انہیں اتنے قلیل نوٹس پر سمیٹنا نا ممکن ہوتا اور ان کا اتنی محدود جگہ میں سمانا بھی ناممکن تھا۔
.6بہر حال جو کچھ کیا گیا جماعت کی بہتری اور افرادِ جماعت کی بہتری کے خیال سے کیا گیا مگر یہ انسانی فطرت کا خاصہ ہے کہ بڑے خطرے کے بخیریت گزر جانے پر وہ گزرے ہوئے خطرے کو تو بھول جاتا ہے۔ اور نسبتاً چھوٹے نقصان کو جو اس نے اس عرصہ میں برداشت کیا ہوزیادہ بڑھا چڑھا کر دیکھتا ہے۔ چونکہ اوپر کے بیان کردہ حالات کے ماتحت جانوں کو محفوظ کرتے کرتے کئی لوگوں کا مالی نقصان ہو گیا۔ کیونکہ ان کا سامان وقت پر باہر نہیں نکالا جا سکا۔( اور خود ہمارے خاندان کا سامان چھ سات لاکھ روپے کا ضائع ہوا ہے اور جائیداد کے نقصان کو شامل کر کے تو یہ نقصان قریباً ایک کروڑ کا بنتا ہے مگر خدا جانتا ہے کہ جماعتی نقصان کے مقابلہ پر کبھی اپنے نقصان کی طرف خیال نہیں گیا) مگر بعض لوگوں کا یہ حال ہے کہ اب جبکہ خدا کے فضل سے جانیں اور عزتیں محفوظ ہو چکی ہیں تو ان لوگوں کو اپنا مالی نقصان گویا ایک دیو بن کر نظر آنے لگا ہے اور اس کی وجہ سے بعض لوگوں کی طبیعت میں اعتراض بھی پیدا ہو رہا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ اگر جانوں پر سامان کو مقدم کیا جاتا اور اگر جیسا کہ لازمی ہے اس کے نتیجہ میں جانوں کا زیادہ نقصان ہو جاتا ( اور عورتوں کی جانوں کے نقصان کے ساتھ ان کے ناموس کا نقصان بھی لازم و ملزوم تھا۔) تو پھر یہی لوگ یہ اعتراض کرتے اور اس صورت میں یہ اعتراض یقینا جائز ہوتا کہ دیکھو منتظمین نے سامان کی خاطر عورتوں کی جانوں اور ناموس کو برباد کر ا دیا ہے۔ حق یہ ہے کہ سچا مومن بڑے نقصان سے بچ کر چھوٹے نقصان کے باوجود شکر گزار ہوتا ہے اور پھر وہ خدا کے اس وعدہ کو پاتا ہے کہ .6.6۔۔۱۳.6 .6مگر روحانی لحاظ سے بیمار لوگ یعنی .6 .6.6۔۔۱۴.6 .6وہ ہر حالت کو اعتراض اور ناشکری کا ذریعہ بنا لیتے ہیں۔ اگر وہ بڑے نقصان سے بچ جائیں تو کہتے ہیں کہ چھوٹا نقصان بھی کیوں ہوا؟ اور اگر چھوٹے نقصان سے بچ کر بڑے نقصان میں مبتلا ہو جائیں تو کہتے ہیں کہ دیکھو جماعت کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کا علاج صرف خدا کے ہاتھ میں ہے۔
.6بالآخر میں دوستوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت کے لئے یہ ایک بہت بھاری امتحان کا وقت .6ہے ۔ اور ضروری تھا کہ یہ امتحان آتا، کیونکہ اس کے بغیرحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کئی پیشگوئیاں غلط .6جاتیں مثلاًیہ کہ (.6۱.6) داغِ ہجرت۱۵ .6 .6یا مثلاً یہ کہ (.6۲.6) .6یَاتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسیٰ۔۱۶.6 .6یامثلاً یہ کہ ( .6۳.6) حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا رؤیا میں یہ دیکھنا کہ آپ ؑ کے باغ .6پر ایک کریہہ المنظر وحشی گروہ نے حملہ کیا ہے۔۱۷.6 یا .6مثلا ً یہ کہ (.6۴.6) آپ کا الہام .6مصالح العرب.6۔ .6 مسیر العرب ۱۸ .6جس کی تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ انبیاء ؑ کے ساتھ ہجرت بھی ہے لیکن بعض رؤیا نبی کے زمانہ میں پورا ہوتے ہیں اور بعض اولاد یا کسی متبع کے ذریعہ سے پورے ہوتے ہیں یا مثلاً (.6۵.6) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ.6 اَ حَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْآ اَنْ یَّقُوْلُوْآ اٰمَنَّا وَ ھُمْ لَا یُفْتَنُوْ.6نَ.6 ۱۹.6 .6وغیرہ وغیرہ ۔پس ہماری یہ تکالیف بھی دراصل احمدیت کی صداقت کی ایک بھاری نشانی ہیں مگر بد قسمت ہیں وہ لوگ جو اس وقت تک تو خوشی خوشی سلسلہ کے ساتھ چلے جب تک کہ جماعت گویا پھولوں کی سیج پر چل رہی تھی مگر جونہی کہ اسے کچھ وقت کے لئے خار دار رستہ پر چلنا پڑا تو وہ گھبرا کر اور بڑ بڑاتے ہوئے اِدھر اُدھر سرک جانے کی راہ دیکھنے لگے اور خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہوں نے خوشحالی میں بھی وفاداری دکھائی اور تنگی اور مصیبت کے وقت میں بھی وفادار .6رہے۔.6اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا مَا عَا ھَدُوْا اﷲَ وَاُوْلٰٓئِکَ ھُمْ الْمُفْلِحُوْن.6۔.6یہ وقت .6انشاء اللہ جلد گزر جائے گا۔ اور خدا اپنے وعدہ کے مطابق اس امتحان کے بعد پہلے سے بھی بہت بڑھ چڑھ کر ترقی کے دن لائے گا بلکہ دراصل یہی اصل ترقی کے دن ہوں گے جو امتحان کے بعد آئیں گے۔ مگر چند بے وفائوں کی بیوفائی اور بہت سے وفاداروں کی وفاداری احمدیت کی تاریخ میں یاد گار رہے گی۔
.6واخر دعوٰنا ان الحمد ﷲ رب العالمین۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲ ؍نومبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
نفع مند کاروبار میں روپیہ لگانے والے
دوستوں کو ضروری اطلاع
.6
.6بعض دوستوں نے میرے ذریعہ قادیان کے بعض کارخانہ داروں اور دوسرے دوستوں کو کاروباری اصول پر روپیہ دیا ہوا تھا اور وہ اس وقت تک اپنے روپے کا معقول نفع حاصل کرتے رہے ہیں۔ میں ہر ایسے سودے کے موقع پر فریقین پر یہ بات واضح کر دیتا رہا ہوں کہ ان سودوں میں مجھ پر کسی قسم کی قانونی یا شرعی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ میں صرف دوستوں کی امداد کے لئے اخلاقی بناء پر اپنے ذریعہ ایسے سمجھوتے کرا دیتا ہوں کہ کسی قسم کا ذاتی فائدہ اٹھانا تو درکنار اکثر اوقات خود اپنے پاس سے متفرق اخراجات وغیرہ برداشت کر کے دوستوں کی اخلاقی امداد کرتا رہا ہوں لیکن گزشتہ فسادات میں جو حقیقتہً ایک قیامت کا نمونہ تھے قادیان کے سب کارخانہ داروں کے کارخانے اور اکثر دوستوں کے املاک کلیۃً ضائع ہو چکے ہیں۔ جس میں ان کی کسی غفلت یا کوتاہی کا دخل نہیں ہے اور گو ہمیں خدا تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ انشاء اللہ قادیان ہمیں ضرور واپس ملے گا اور مرکز سلسلہ کے متعلق خدا کے وعدے ضرور پورے ہوں گے لیکن جب تک موجودہ عالمگیر تباہی کے آثار باقی ہیں.6،.6 اس وقت تک ایسے لوگ جو فی الحال اپنا سب کچھ کھو چکے ہیں ہر رنگ میں ہمدردی کے مستحق ہیں۔ .6پس میں امید کرتا ہوں کہ روپیہ لگانے والے دوست قرآنی حکم .6.6۔۔۲۰.6کے ماتحت کچھ عرصہ تک صبر سے کام لیں گے اور دوسری طرف میں امید کرتا ہوں کہ روپیہ لینے والے دوست بھی اس بوجھ کو اپنے ذمہ ایک مقدس بار خیال کرتے ہوئے حالات کے بہتر ہوتے ہی اسے اتارنے کی کوشش کریں گے۔ البتہ جن دوستوں کو اب بھی توفیق حاصل ہو ان کا فرض ہے کہ اس ذمہ داری کو ابھی ادا کریں۔.6 وکان اﷲ معھم اجمعین.6۔
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰ ؍نومبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
نقصان جائیداد کا رجسٹریشن
احمدی احباب کے لئے ضروری ہدایت
.6حکومت پاکستان نے اعلان کیا ہے کہ جن مسلمانوں کی جائیدادیں مشرقی پنجاب میں ضائع ہوئی ہیں، انہیں اپنے نقصان کی تفصیل درج کر کے مغربی پنجاب کے مقرر کردہ افسر کے دفتر میں اپنے نقصان کو رجسٹر کرا دینا چاہئے اور اس نقصان کی وجہ سے اگر کوئی مطالبہ پیش کرنا ہو تو وہ بھی پیش کر دینا چاہئے۔ اس افسر کے عہدہ کا نام اور پتہ یہ ہے:.6-
‏.6Registrar of Claims on Rehabilitation Department west Punjab Government, 3 Temple Road Lahore.6.
.6اس تعلق میں ان دوستوں کی ہدایت کے لئے جن کی.6 جائیدادوں ( غیر منقولہ و منقولہ) کا قادیان یا دوسرے مقامات میں نقصان ہوا ہے، اعلان کیا جاتا ہے کہ انہیں بھی دفتر مذکور میں درخواست دے کر اپنا نقصان رجسٹر کرا دینا چاہئے۔ درخواست میں جائیداد کی تفصیل( یعنی قسم اور رقبہ وغیرہ) اور مالیت اور جائے وقوع وغیرہ درج کرنا ضروری ہے مگر یہ بات یاد رکھی جائے کہ چونکہ قادیان ہمارا مقدس مقام ہے، اس لئے قادیان کی غیر منقولہ جائیداد کے بدلہ میں کسی جائیداد کا مطالبہ نہ کیا جائے اور نہ ہی قادیان کے ملحقہ دیہات ننگل باغباناں اور بھینی بھانگر اور کھارا کی ضائع شدہ غیر منقولہ جائیداد کے بدلہ میں کوئی مطالبہ کیا جائے کیونکہ وہ عملًا قادیان کا حصہ ہیں بلکہ ان کے متعلق صرف نقصان رجسٹر کرادیا جائے۔ البتہ قادیان اور مندرجہ بالا تین دیہات کے علاوہ دوسری غیر منقولہ جائیدادوں کے مقابلہ پر مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح قادیان اور ان تین دیہات کی منقولہ جائیداد کے مقابلہ پربھی مطالبہ کیاجا سکتا ہے۔ دوسرے علاقوں کے دوستوں( اضلاع جالندھر۔ ہوشیار پور۔ لدھیانہ۔ فیروز پور ۔ دہلی وغیرہ) کو بھی اپنا نقصان جائیداد ( منقولہ وغیر منقولہ ) رجسٹر کرانا چاہئے۔ تفصیلات اور درخواست کے فارم دفتر نظارت امور عامہ جود ہامل بلڈنگ لاہور سے حاصل کی جائیں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۵ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
کیا ہم پھر واپس قادیان جائیں گے؟
یہ سوال یقینا اہم ہے مگر اپنی توجہ کو مرکزی نقطہ پر جمانے کی کوشش کرو
.6
.6کئی دوست مجھ سے پوچھتے رہتے ہیںکہ کیا ہم پھر قادیان واپس جائیں گے؟ اس کا حقیقی جواب تو خدا تعالیٰ کے پاس ہے جو سب غیبوں کا مالک اور سب مخفی حقیقتوں کا محافظ ہے لیکن بعض باتوں کا علم اس نے خود اپنے بندوں کو دے رکھا ہوتا ہے اور بعض باتوں کے متعلق اس نے ایسے اصول مقرر کر رکھے ہیں جن سے سمجھ دار لوگ قیاس کر کے قریبا ًقریبا ًصحیح نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں۔
.6 .6سوال مندرجہ عنوان ایسے سوالوں میں سے ہے جن کے لئے قدرت نے دونوں قسم کے رستے کھولے ہوئے ہیں۔ یعنی اول تو اُن مکاشفات کے ذریعہ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے۔ ہمیں خدا کے فضل سے اس بات کا قطعی علم حاصل ہے کہ آیا موجودہ امتحان اور ابتلاء کے بعد جماعت احمدیہ کے لئے قادیان میں واپس جانے اور پہلے کی طرح اسے مرکز بنا کر آباد ہونے کا رستہ کھلا ہے یا نہیں اور دوسرے قیاس اور اجتہاد کے میدان میں بھی ہمارے لئے اس علم کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے کہ ہم اپنے مرکز میں پھر واپس جا سکیں گے یا نہیں۔
.6جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات اور کشوف کا تعلق ہے۔ میں اس کے متعلق انشاء اللہ ایک علیحدہ مضمون میں دوستوں کے سامنے حقیقت حال رکھنے کی کوشش کروں گا اور بتائوں گا کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی ازلی تقدیر نے جماعت احمدیہ کے قادیان سے آنے اور پھر دوبارہ قادیان میں واپس جا کر آباد ہونے کو ہمیشہ سے ایک قطعی تقدیر کی صورت میں مقدر کر رکھا ہے۔ یعنی ہمارا وہاں سے آنا بھی ایک خدائی تقدیرتھی اور وہاں واپس جانابھی اٹل خدائی تقدیر ہے۔ جسے دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی۔ کیونکہ
.6 .6قضائے آسمان علت ایں بہر حالت شود پیدا
.6اب رہا قیاس اور اجتہاد کا سوال۔ سو اس میدان میں قدم رکھنے سے پیشتر سب سے پہلے اس اصولی بات کا سمجھ لینا ضروری ہے کہ خدائی سلسلوں میں مرکز کا سوال ایک محض ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔ اصل چیز جو ہر الٰہی سلسلے کی بنیا د ہوتی ہے.6،.6 وہ اس پیغام سے تعلق رکھتی ہے جو ایک مامور من اللہ کے ذریعہ دنیا کو پہنچایا جاتا ہے۔ بے شک ہر جماعت کی ترقی اور تنظیم کے لئے کسی نہ کسی مرکز کا ہونا .6ضروری ہے مگر یہ سوال کہ یہ مرکز اس ملک میں ہو یا کہ اس ملک میں یا اس بستی میں ہو یا کہ اس بستی .6میں، ایک محض ثانوی سوال ہے جسے کسی الٰہی سلسلے کے بنیادی امور سے تعلق نہیں۔ جیسا کہ سب دوست جانتے ہیں.6،.6 احمدیت کا پیغام تجدید اسلام اور خدمت اسلام کے کام میں مرکوز ہے اور یہ بات خدا کی اٹل تقدیروں میں شامل ہے کہ وہ اس زمانے میں احمدیت کے ذریعے اسلام کو دوبارہ تروتازہ کرکے دنیا میں غالب کرے گااور ہر دوسرے مذہب پر اس کے غلبے کو ایسا نمایاں کر دے گا کہ کسی شخص کے لئے شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہے گی مگر یہ بات کہ اس غلبے کے حصول کے لئے کون سا مرکز مقدر ہے یا یہ کہ اس کے لئے ایک ہی مرکز مقدر ہے یا کہ یکے بعد دیگرے کئی مرکز مقدر ہیں۔ یہ ایک بالکل دوسری بات ہے، جسے سلسلے کے بنیادی اصول سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم خواہ قادیان کے مرکز میں رہ کر خدمت اسلام کا فرض بجا لاتے ہیں یا کہ مغربی پنجاب کے کسی مقام پر مرکز بنا کر اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں یا کہ ہندوستان سے بھی باہر مشرق وسطیٰ میں کسی جگہ اپنا مرکز بنا کر سلسلے کے بنیادی مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ ہم بہر حال ان سب صورتوں میں احمدیت کے قیام کی غرض و غائیت کو پورا کرنے والے ہیں اور خواہ قادیان سے باہر ہونا ہمارے لئے جذباتی لحاظ سے کتنا ہی دکھ کا موجب ہو اگر احمدیت اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتی ہے تو احمدیت بہر حال سچی ہے اور اسے لانے والا خدا کا برگزیدہ مامور و مرسل ہے۔
.6ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں خدا کی قائم کی ہوئی جماعتوں کے لئے ہجرت کوئی نئی چیز نہیں ہے۔اکثر انبیاء کو کسی نہ کسی جہت سے ہجرت پیش آئی ہے۔جن میں سے بعض کو تو عارضی ہجرت پیش آئی اور بعض کو دائمی ۔ لیکن چونکہ ان کا خدا داد مشن باوجود ہزاروں مشکلات کے کامیاب ہوا۔ ا س لئے کسی عقلمند شخص نے انبیاء یا ان کی جماعتوں کی ہجرت کو قابل اعتراض نہیں سمجھا۔ حضرت آدم نے اپنے وطن سے ہجرت کی اور لوگوں کے معروف عقیدے کے مطابق ’’ جنت‘‘ سے نکالے گئے مگر چونکہ سچی توبہ کے ساتھ خدا کی طرف جھکے ۔ اس لئے بالآخر اپنے مشن میں کامیاب ہوئے۔ اور خدا نے یہ تقدیر دنیا کے تقدیر نامے میں ہمیشہ کے لئے لکھ دی کہ .6.6۔۔۲۱.6 .6 یعنی خداتعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے فیصلہ کر دیا ہے کہ شیطانی طاقتوں کے مقابلے پر خدا اور اس کے رسولوں کی طاقتیں لازما ًغالب ہوا کریں گی۔ اسی طرح حضرت نوح کو بھی طوفان کے وقت میں ایک قسم کی ہجرت پیش آئی۔ اور حضرت ابراہیم کو بھی اپنامالوف وطن چھوڑ کر دوسرے وطن میں جانا پڑا۔ اور حضرت موسیٰ کے تو گویا مشن کا ہی یہ حصہ تھا کہ وہ اپنی قوم کو ہجرت کرا کے ارض مقدس کی طرف لے آئیں۔ اسی طرح ہمارے عقیدے کے مطابق حضرت مسیح ناصری کو بھی صلیب کے واقعہ کے بعد ہزاروں میل کا سفر اختیار کر کے کشمیر میں آنا پڑا اور بالآخر نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلے اللہ علیہ وسلم کی ہجرت تو ایک ایسا واقعہ ہے جسے مسلمانوں کا بچہ بچہ جانتا ہے حتیٰ کہ اسی پر اسلامی سنہ کی بنیاد قائم کی گئی ہے مگر کون ہے جو ان نبیوں کے مشنوں کو ناکام کہہ سکتا ہے یا ہجرت کی وجہ سے ان کے خلاف زبان طعن دراز کر سکتا ہے۔ حق یہی ہے کہ ہر الٰہی سلسلے کا مرکزی نقطہ اور بنیادی اینٹ اس کی وہ تعلیم ہے جسے لے کر وہ دنیا میں آتا ہے۔ اگر یہ تعلیم کامیاب اور غالب ہو جاتی ہے تو ایک ہی مرکز پر قائم رہنے یا کئی مر کزوں میں تبدیل ہونے کا سوال ایک محض ثانوی سوال ہے اور کسی عقلمند کو اس سوال میں الجھ کر حقیقت کی طرف سے غافل نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ میں تو اپنے دوستوں سے یہاں تک کہوں گاکہ اگر کسی احمدی کے دل میں قادیان کی جدائی کا خیال جذباتی رنگ میں اتنا غلبہ پائے ہوئے ہے کہ وہ اس کے لئے خدمت اسلام اور تحریک احمدیت کے کامیاب بنانے کے رستہ میں روک بن رہا ہے تو اسے چاہئے کہ قادیان کا خیال اپنے دل سے اس طرح نکال دے جس طرح ایک راہ گیر اپنے پائوں کا کانٹا نکال کر پھینک دیتا ہے۔ کیونکہ بہر حال قادیان ایک جسم ہے اور جسم کے لئے کسی صورت میں روح کو قربان نہیں کیا جا سکتا۔
.6نعوذباللہ میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ قادیان کی محبت اور اس کی کشش اور اس کے احترام کے جذبہ کو صدمہ پہنچائوں۔ یہ جذبہ ایک مقدس امانت ہے اور اسے قائم رکھنا ایک مقدس فرض لیکن اگر کسی شخص کے دل میں یہی جذبہ حد اعتدال سے گزر کر ایک مقدس تر امانت اور مقدس تر فریضہ کے ساتھ ٹکرانے لگتا ہے تو پھر عقلمند انسان کا رستہ صاف ہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی تا مّل کی گنجائش نہیں۔ ہمارے دین کا مرکزی نقطہ خدا کی ذا ت پر ایمان لانا ہے اور دوسرے نمبر پر خدا کے منشاء اور رضا کو معلوم کرنا اور اُسے پورا کرنا ہے اس کے بعد ہر چیز حقیقتہً ثانوی ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۷ ؍دسمبر۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
ضلع گورداسپور کی جماعتیں کہاں ہیں؟
.6 ضلع گورداسپور میںخدا کے فضل سے بہت سے دیہات میں جماعتیں قائم تھیں اور بعض گائوں تو سالم کے سالم احمدی تھے۔ گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں یہ سب جماعتیں مغربی پنجاب کی طرف چلی آنے پر مجبور ہوئی ہیں مگر ابھی تک ساری جماعتوں کے متعلق یہ پختہ علم نہیں ہو سکا کہ وہ کہاں کہاں جا کر آباد ہوئی ہیں۔ ایسی جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اپنے موجودہ پتہ سے مفصل اطلاع دیں اور اگر کوئی جماعت ایک سے زیادہ حصوں میں بٹ کر آباد ہوئی ہو تو اسے اپنی رپورٹ میں اس کی بھی صراحت کرنی چاہئے۔ مجھے خصوصا ًان جماعتوں کے نئے پتوں کی ضرورت ہے۔ جو قادیان کے ماحول میں آباد تھیں ۔ مثلاً ننگل باغباناں۔ بھینی بانگر۔ کھارا۔ بسراواں۔ چھینہ ریت والا ۔ ٹھیکر یوالہ۔تلونڈی جھنگلاں۔ فیض اللہ چک۔ بہل چک۔ بازید چک۔ تھ غلام نبی۔ سٹھیالی۔ ہر سیاں کھوکھر۔ ونجواں۔ سیکھواں۔ قلعہ درشن سنگھ ۔ گلا نوالی۔ خان فتا۔دھرم کوٹ بگہ۔ اٹھوال۔ شکار ماچھیاں۔.6چھیچھر.6یا.6ں چٹھہ۔ لودھی ننگل۔سارچور۔ لنگروال۔ مرزا جان۔ بہادر حسین ۔ چودہر ی والہ۔ مراد پور۔ موکل۔ کوہالی۔ ماڑی بچیاں۔مہیس ڈوگر۔ بہادر پور۔ رجو عے ہبیری۔پھیرو چیچی۔ بگول۔ بھامبڑی ۔ بھٹیاں وغیرہ وغیرہ
.6 .6 یہ جماعتیں اور ضلع گورداسپور کی دوسری جماعتیں مجھے اپنے جدید پتوں سے مفصل اطلاع دے کر ممنون کریں۔ جن جماعتوں یا افراد کو ابھی تک آباد ہونے کے لئے کوئی جگہ میسر نہ آئی ہو وہ بھی بواپسی اطلاع دیں تاکہ ان کے لئے انتظام کیا جا سکے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
داغ ہجرت کا الہام کہاں ہے؟
.6حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ’’ داغ ہجرت‘‘ جماعت میں شائع و متعارف ہے۔ مگر اس وقت تلاش سے تذکرہ میں نہیں ملا۔ اگر کسی دوست کو اس کاحوالہ یاد ہو تو مطلع فرمائیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
قادیان میں زمین خریدنے والوں کے لئے ضروری اعلان
امتحان کے وقت میں اچھا نمونہ دکھا نے کی کوشش کرو
.6بعض احباب جنہوں نے قادیان میں زمین خریدی ہوئی ہے۔ وہ موجودہ فسادات کے نتائج سے گھبرا کر مجھے لکھ رہے ہیںکہ آپ کے پاس ہمارا اتنا روپیہ امانت رکھا ہے وہ ہمیں واپس ادا کر دیا جائے۔ میں شروع میں تو ایسے مطالبات پر حیران ہوا کہ یہ امانت کیسی ہے مگر بعد میں پتہ لگا کہ یہ دیکھتے ہوئے کہ فی الحال قادیان کی زمینیں گویا ضائع شدہ ہیں۔ بعض لوگوں نے زمینوں کی ادا شدہ قیمتوں کو امانت کے طور پر ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایسے لوگ بے شک بہت کم ہیں۔ بلکہ شائد ایک فی صدی سے بھی کم ہوں گے لیکن چونکہ بعض دوسرے کمزور لوگوں کے دلوں میں بھی اس قسم کا شبہ پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لئے میں تمام خریداران اراضی کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ایسا مطالبہ نہ صرف کاروباری لحاظ سے غلط اور خلاف دیانت ہے بلکہ دینی اور روحانی لحاظ سے بھی ایک نہایت کمزور اور بودی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔
.6کاروباری لحاظ سے یہ مطالبہ اس لئے غلط ہے کہ جب ایک رقم قیمت اراضی کے طور پر ادا کی گئی ہے تو پھر اسے امانت ظاہر کر کے اس کی واپسی کا مطالبہ کرنا دنیا کے کسی کاروباری اصول کے لحاظ سے بھی درست نہیں بلکہ دراصل یہ ایک قسم کا جھوٹ ہے جو اپنی خریدی ہوئی زمین کو بظاہر ضائع ہوتا دیکھ کر بعض کمزور طبیعتوں نے اپنے آپ کو نقصان سے بچانے اور اپنے نقصان کو فروخت کنند گان اراضی کی طرف منتقل کرنے کے لئے گھڑ لیا ہے۔ ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ طریقے مال بچانے اور ترقی دینے والے نہیں ہیں بلکہ مال کو بددیانتی کے چکر میں ڈال کر تباہ کرنے والے ہیں۔
.6دینی اور روحانی لحاظ سے یہ مطالبہ اس لئے نہایت درجہ ناپسندیدہ اور قبیح ہے کہ اس مطالبہ کے پیچھے دراصل یہ خیال کام کر رہا ہے کہ گویا قادیان ہمارے ہاتھ سے ہمیشہ کے لئے چلا گیا ہے اور اب ہمیں کبھی واپس نہیں ملے گا۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ جس طرح بھی ہو اپنا نقصان بچانے کی کوشش کریں۔ حالانکہ ہر وہ سچا احمدی جس کے دل میں ذرہ بھر بھی ایمان اور اخلاص ہے، وہ اس یقین سے معمور ہونا چاہئے کہ قادیان انشاء اللہ ہمیں نہ صرف ضرور واپس ملے گابلکہ تمام وہ وعدے جو خدا تعالیٰ .6نے قادیان کی ترقی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے ہیں، وہ اپنی کامل شان .6کے ساتھ پورے ہوں گے۔ میرے دل کی تو یہ کیفیت ہے کہ اگر میرے پاس روپیہ ہوتا تو میں ایسا مطالبہ کرنے والے سب لوگوں کو ان کے مطالبہ کی رقوم ادا کر کے ان کی زمینیں واپس خرید لیتا۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ زمینیں ایک ایسی مبارک بستی کی زمینیں ہیں.6،.6 جس کے ساتھ ہمارے خداوند قدیر نے دائمی ترقی اور دائمی برکت مقدر کر رکھی ہے۔ کاش ہمارے یہ جلد باز دوست اس نکتہ کو یاد رکھتے مگر افسوس کہ انہوں نے قادیان کو بھی اپنی مادی آنکھوں سے دیکھنا چاہاکہ جب تک قادیان کو ظاہری ترقی حاصل تھی انہوں نے قادیان کی زمین کو ایک نفع مند سودا خیال کر کے اسے شوق کے ساتھ خریدا۔ مگر جونہی کہ اس رستہ میں ایک عارضی روک پیش آگئی انہوں نے اسے ایک خسارے کا سودا سمجھ کر ناجائز حیل و حجت سے منسوخ قرار دینے کی کوشش شروع کر دی اور یہ نہ سوچا کہ انشاء اللہ یہی خسارہ کا سودا آج سے کچھ عر صہ بعد پہلے سے بھی بہت بڑھ چڑھ کر نفع مند سودا بننے والا ہے لیکن شکر ہے کہ ایسے لوگ کم ہیں بہت کم اور خدا کے فضل سے جماعت کا ننانوے فی صدی حصہ اخلاص اور ایمان میں آگے سے زیادہ ترقی کر رہا ہے۔.6 اُولٰئِکَ ھُمُ الفَائِزون.6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
مخلصین اب بھی قادیان کی زمینوں کے خریدار ہیں
.6میں نے اپنے ایک الفضل میں شائع کردہ نوٹ میںیہ ذکر کیا تھاکہ بعض کمزور طبع لوگ موجودہ حالات کی وجہ سے گھبرا کر قادیان کی خرید کردہ زمینوں کو ضائع شدہ خیال کرنے لگ گئے ہیں اور اپنی ادا کردہ قیمت کو امانت قرار دے کر اس کی واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ میں نے اپنے نوٹ میں بتایا تھا کہ ایسا مطالبہ نہ صرف کاروباری اصول کے مطابق غلط اور ناجائز ہے بلکہ دینی لحاظ سے بھی ایمانی کمزوری کی علامت ہے کیونکہ اس مطالبہ میں در اصل یہ شبہ مخفی ہے کہ ایسے لوگوں کے نزدیک قادیان کی واپسی مشکوک ہے۔ حالانکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے ہمیں انشاء اللہ قادیان ضرور واپس ملے گا اور اس کے متعلق ترقی کے وعدے بھی ضرور پورے ہوں گے۔ میرے اس نوٹ کے جواب میں مجھے کئی دوستوں نے لکھا ہے اور بعض نے زبانی کہا ہے کہ ہمیں خدا کے فضل سے قادیان کے واپس ملنے اور اس کی ترقی کے وعدوں کے متعلق کامل یقین ہے اور ہم اس وقت بھی اس بات کے لئے بخوشی تیار ہیں کہ اگر کوئی شخص قادیان میں اپنا قطعہ زمین یا مکان فروخت کرتا ہو تو اسے خرید لیں۔ مجھے ان دوستوں کی اس پیش کش سے بہت خوشی ہوئی۔ یہ لوگ سچے مومن ہیں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص اور ایما ن اور اموال میں برکت عطا کرے اور وہ اور ان کی اولادیں قادیان کی ترقی سے پورا پورا فائدہ اٹھا نے والی ہوں۔ آمین یا رب العالمین ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
قادیان کے احمدی خیریت سے ہیں
.6
.6اس وقت قادیان میں تین سو احمدی مقیم ہیں جن میں سے بعض قادیان ہی کے رہنے والے ہیں اور بعض زائرین کے طور پر باہر سے گئے ہوئے ہیں۔ قادیان سے تازہ آمدہ اطلاع سے پتہ لگتا ہے کہ یہ سب دوست خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں ان کے اعزہ اور احباب تسلّی رکھیں اور اپنے ان بھائیوں کے لئے دعا کرتے رہیںکہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو اور ان کے قیام قادیان کو بابرکت فرمائے ۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۴ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
زنا بالجبر کے نتیجہ میں پیدا شدہ بچہ
اسلام اس کی بھی حفاظت کا حکم دیتا ہے
.6میرے نام ایک خط مغربی پنجاب کے ایک احمدی ڈاکٹر کی طرف سے موصول ہواتھا جس کا مضمون درج ذیل ہے:.6-
.6’’ میں ڈاکٹر ہوں اور یہاں پر سول ہسپتال کا انچارج ہوں۔ کل کے ایک واقعہ کا میرے دل پر بہت اثر ہے۔ جس کے لئے حضور کی مفید رائے کی ضرورت ہے۔ میرے پاس ایک بڑھیا عورت مع اپنی پندرہ سالہ کنواری لڑکی کے آئی۔ وہ بڑھیا بہت رو رہی تھی۔ میرے دریافت کرنے پر اس نے بتایا کہ وہ ریاست۔۔۔کی باشندہ ہے۔ اس کے تمام عزیز خاوند بھائی وغیرہ وہاں مارے گئے ہیں۔ اس کی لڑکی کو بھی سکھ لے گئے تھے۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد وہ واپس مل گئی۔ لڑکی کنواری تھی اب اسے تین ماہ کا حمل ہے اور وہ یہ چاہتی ہے کہ میں اسے کوئی ایسی دوائی دوں جس سے حمل ضائع ہو جائے۔ میں نے ہر طرح اس کی تسلی کرنی چاہی لیکن وہ اس پر اصرار کرتی رہی۔ ایسے حالات میں حضور کی کیا رائے ہے۔ مفصل تحریر فرمائیں۔ اس قسم کے اور بھی مریض آتے ہیں لیکن میں تو انکار ہی کر دیتا ہوں۔‘‘
.6اس خط کے موصول ہونے پر میں نے ضروری خیال کیا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی رائے دریافت کروں۔ سو میں نے حضرت امیر المومنین کی خدمت میں مندرجہ ذیل عریضہ لکھ کر ارسال کیا:.6-
.6’’ منسلکہ خط ارسال خدمت ہے۔ اس بارے میں حضور کا کیا ارشاد ہے ۔ میرے خیال میں تو اسلام ایسے بچوں کی بھی حفاظت فرماتا ہے کہ ماں تو زنا بالجبر کی صورت میں بہر حال بے گناہ ہی ہے۔ اگر وہ نیک نیتی کے ساتھ اس بچے کی ولادت کا انتظار کرے اور بچے کی ولادت کے بعد اس کی اچھی تربیت کرے۔ اور بچہ سچا مسلمان ہو جائے تو غالباً ماں ثواب ہی کمائے گی لیکن زیادہ مشکل دنیا کی ہے جو ماں اور بچہ دونوں پر طعن رکھے گی۔ اس لئے اگر مصلحتہً ماں کا نام اور پتہ بدل دیا جائے تو شائد وہ اس مصیبت سے بچ جائے۔ بہر حال جو بھی شرعی فتویٰ ہو اس سے مطلع فرمایا جائے۔ جیسا کہ حدیث سے ثابت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو رضا مندی کے ساتھ زنا کی مرتکب ہو کر تائب ہو نے والی عورت کے بچہ کو بھی بچایا تھا اور یہاں تو جبر کا معاملہ ہے۔‘‘
.6میرے اس عریضہ پر حضور نے فرمایا درست ہے۔ اس کے مطابق جواب بھجوا دیا جائے۔ سو دوستوںکی اطلاع کے لئے یہ فتویٰ اخبار میںبھی شائع کرایا جا رہا ہے ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍ دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
قادیان سے آئے ہوئے مندرجہ ذیل اصحاب جلسہ سالانہ کے موقع پر لاہور پہنچ جائیں
.6
.6مندرجہ ذیل اصحاب نے قادیا ن سے آتے ہوئے وعدہ کیا تھا کہ وہ اگلی ٹرم میں قادیان جانے کے لئے .6۲۵.6؍ دسمبر .6۱۹۴۷.6 ء کو لاہور پہنچ جائیں گے۔ سو اس اعلان کے ذریعہ ان احباب کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ حسب وعدہ ضرور جلسہ سالانہ کے موقع پرلاہور پہنچ جائیں۔ تاکہ انہیں درویشانہ خدمت کے لئے قادیان بھجوا یا جا سکے۔ اگر اس فہرست میں کوئی طالب علم ہوں۔ ( کالج یا سکول کے) تو وہ اپنے آپ کو اس اعلان سے مستثنیٰ سمجھیں۔ کوشش کی جا رہی ہے کہ ان اصحاب کو شروع جنوری میں قادیان بھجوا دیا جا ئے۔ و باللہ التوفیق
.6نمبر شمار
.6۱.6 .6عطا ء الرحمن صاحب ولد حکیم نظام جان صاحب۔
.6۲.6 .6 .6مرزا مہتاب بیگ صاحب۔
.6۳.6 .6چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی زود نویس۔
.6۴.6 .6عطاء اللہ صاحب ولد محمد بخش صاحب واقفِ زندگی۔
.6۵.6 .6غلام نبی صاحب ولد عبد العزیز صاحب ٹیلر ماسٹر ۔
.6۶.6 .6میاں غلام محمد صاحب زرگر۔
.6۷.6 .6خلیل احمد صاحب ولد محمد اسمعٰیل صا حب دوکاندار ۔
.6۸.6 .6مرزا الطاف الرحمن صاحب ولد مرزا نور محمد صاحب واقف زندگی۔
.6۹.6 .6ناصر الدین صاحب ولد چراغ الدین صاحب۔
.6۱۰.6 .6حسن دین صاحب ولد چوہدی رولدوصاحب۔
.6۱۱.6 .6برکت علی صاحب ولد جیماںصاحب۔
.6۱۲.6 .6ناصر احمد صاحب ولد عبد الصمد صاحب۔
.6۱۳.6 .6ضیاء الدین صاحب ولد حکیم نظام الدین صاحب۔
.6۱۴.6 .6شمس الدین صاحب محلہ دارالفتوح۔
.6۱۵.6 .6عبدالغنی صاحب ولدحکیم چراغ دین صاحب۔
.6۱۶.6 .6عبد العزیز صاحب ولد محمد دین صاحب۔
.6۱۷.6 .6عبد المجید صاحب ولد جیون صاحب۔
.6۱۸.6 .6سلطان احمد صاحب پیر کوٹی۔
.6۱۹.6 .6عزیز اللہ صاحب جسوال۔
.6۲۰.6 .6حمید اللہ صاحب گجراتی۔
.6۲۱.6 .6قریشی فضل الرحمن صاحب دارالبرکات شرقی۔
.6۲۲.6 .6محمود احمد صاحب ولد کریم الدین صاحب ۔
.6۲۳.6 .6نذیر احمد صاحب ٹیلر ککے زئی۔
.6۲۴.6 .6فیاض محمد صاحب فیضی ۔
.6۲۵.6 .6عبدالستار خان صاحب کا ٹھگڑی۔
.6۲۶.6 .6غلام احمد صاحب ظہور۔
.6۲۷.6 .6ممتاز احمد صاحب آسامی۔
.6۲۸.6 .6اللہ دتہ صاحب بٹ ولد حسن محمد صاحب۔
.6۲۹.6 .6 .6عبدالغفار صاحب ولد نور محمد صاحب ۔
.6۳۰.6 .6فضل حق صاحب سوداگر چوب۔
.6۳۱.6 .6فضل احمد صاحب ولد نور محمدصاحب۔
.6۳۲.6 .6قاضی غلام نبی صاحب ولد قاضی محمد رمضان صاحب۔
.6۳۳.6 .6بشارت احمد صاحب ولدخو شی محمد صاحب۔
.6۳۴.6 .6غلام حیدر صاحب دارالسعۃ ولد الہٰ دین صاحب۔
.6۳۵.6 .6محمدرمضان صاحب ولد غلام حسن صاحب۔
.6۳۶.6 .6مستری محمد الدین صاحب دارالرحمت۔
.6۳۷.6 .6سید عبد الباسط صاحب خدام الاحمدیہ۔
.6۳۸.6 .6سید انوار احمد صاحب شریفی دارالبرکات۔
.6۳۹.6 .6خوشی محمد صاحب ولد نبی بخش صاحب۔
.6۴۰.6 .6چوہدری غلام رسول صاحب ولد شیر محمد صاحب دارالسعۃ۔
.6۴۱.6 .6محمدابراہیم صاحب عابد واقفِ زندگی۔ خدام الاحمدیہ۔
.6۴۲.6 .6سیدمحمد محسن صاحب ولد سید محمد حسین صاحب۔
.6۴۳.6 .6کرامت اللہ صاحب کاٹھگڑی۔ دارالفضل۔
.6۴۴.6 .6محمد جیون صاحب ولد شادی۔
.6۴۵.6 .6عزیزالدین صاحب ولد بھاگ۔
.6۴۶.6 .6محمد دین صاحب ولد عبد الغفار صاحب دارالبرکات۔
.6۴۷.6 .6رشید احمد صاحب بٹ۔ دارالبرکات۔
.6۴۸.6 .6سعید احمد صاحب دارالبرکات۔
.6۴۹.6 .6جمال الدین صاحب جموں مہمانخانہ۔
.6۵۰.6 .6سید ظہور احمد صاحب۔ مسجد فضل۔
.6۵۱.6 .6حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی۔
.6۵۲.6 .6محمدصالح صاحب ولد مستری غلام نبی صاحب۔
.6۵۳.6 .6مرزا محمد شریف صاحب ولد مرزا غلام محمد صاحب۔
.6۵۴.6 .6عطا ء الرحمن صاحب ولد عبد اللہ خان صاحب وثیقہ نویس بٹالہ۔
.6۵۵.6 .6کرم الدین صاحب ولد اللہ دتہ صاحب۔
.6۵۶.6 .6عبد الحکیم صاحب ولد حکیم چراغ دین صاحب۔
.6۵۷.6 .6نواب دین صاحب ولد محمد عبد اللہ صاحب ارائیں۔ ٹرنک ساز۔
.6۵۸.6 .6مستری غلام حسین صاحب ولد مستری علم دین صاحب۔ دارالبرکات شرقی۔
.6۵۹.6 .6تاج دین صاحب ولد چراغ دین صاحب۔
.6۶۰.6 .6محمد اسماعیل صاحب ولد میاں محمد اکبر صاحب ۔ صحابی۔
.6۶۱.6 .6اللہ رکھا صاحب قادیان۔
.6۶۲.6 .6خیر دین صاحب ولد الہٰ دین صاحب دارالیسر۔
.6۶۳.6 .6قمر احمد صاحب ولد منشی رام صاحب۔
.6۶۴.6 .6عبد القادر صاحب ولد مولا بخش صاحب باورچی۔
.6۶۵.6 .6خواجہ سمیع الدین صاحب۔ گھڑی ساز۔
.6۶۶.6 .6محمد عبد اللہ صاحب ولد فضل دین صاحب۔
.6۶۷.6 .6عبد الکریم صاحب ولد حکیم چراغ دین صاحب دارالبرکات۔
.6۶۸.6 .6غلام رسول صاحب ولد اللہ لوک صاحب دارالبرکات شرقی۔
.6۶۹.6 .6نور داد صاحب ولد شرف دین صاحب۔
.6۷۰.6 .6ناصر احمد صاحب ولد مستری ناظر دین صاحب دارالبرکات۔
.6۷۱.6 .6میاں خدا بخش صاحب ولد حکیم سید محمد صاحب۔
.6۷۲.6 .6محمد حسین صاحب بنگالی ولد مولوی عبد الرحمن صاحب۔
.6۷۳.6 .6بشیر احمد صاحب ولد جلال الدین صاحب۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
بلا اجازت دوسرے کا مال لے لینا کسی صورت میں جائز نہیں
.6دنیا میں ہر اچھا اور برا تغیر نئے مسائل پیدا کر دیتا ہے جو سابقہ حالات میں نظروں سے اوجھل .6ہوتے ہیں۔ گزشتہ خطرناک فسادات نے بھی بعض ایسے مسائل پیدا کر دئے ہیں جن کی طرف اس .6سے پہلے اس رنگ میں توجہ نہیں تھی۔ اس قسم کے مسائل میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کیا کوئی ایسی صورت ممکن ہو سکتی ہے کہ جب انسان کے لئے کسی دوسرے کا مال اس کی اجازت کے بغیر لے لینا یا اس کی .6اجازت کے بغیر لے کردوسروں میں تقسیم کر دینا جائز سمجھا جائے۔ عام حالات میں ہر سچا مسلمان یہی سمجھتا .6ہے کہ دوسرے کا مال بہر حال ممنوع ہے لیکن گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں بعض ایسی خاص صورتیں پیش آئیںکہ جن میں بعض لوگ بظاہر دیانت داری کے ساتھ یہ سمجھنے لگ گئے کہ پیش آمدہ حالات کے ماتحت ہمارے لئے دوسروں کا مال لے لینا یا دوسروں کا مال لے کر مستحق لوگوں میں تقسیم کر دینا جائز ہو گیا ہے۔ ایسی صورتیں بہت سی ہیں مگر میں اپنے اس مختصر مضمون میں اس سوال کے صرف دو پہلو ئوں کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔
.6اوّل یہ کہ کیا خاص حالات میں اپنے دوستوں کا مال ان کی اجازت کے بغیر لے لینا یا لے کر دوسروں میں تقسیم کر دینا جائز ہے؟
.6دوم یہ کہ کیا خاص حالات میں غیر مسلموں کا مال لوٹ لینا جائز ہے؟
.6گزشتہ فسادات میں جب بعض مقامات میں سکھوں اور ہندوئوں کے فتنہ و فساد اور لوٹ مار کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے نہایت درجہ خطر ناک حالات پیدا ہو گئے اور انہوں نے دیکھا کہ ان کے .6بعض مسلمان بھائیوں کا مال و متاع ان کی آنکھوں کے سامنے لوٹا جا رہا یا برباد کیا جا رہا ہے اور .6انہوں نے خیال کیا کہ ان حالات میں اندیشہ ہے کہ کمزور اور بے بس مسلمانوں یا غیر حاضر مسلمانوں .6کامال و اسباب سب کا سب سکھوں کے ہاتھ میں نہ چلا جائے یا تباہی اور بربادی کا نشانہ نہ بن جائے .6تو بعض مسلمانوں نے یہ خیال کر کے کہ دشمن کے ہاتھ میں مسلمانوں کے مال کے چلے جانے یا دشمن کے ہاتھ سے مسلمانوں کے مال کے تباہ ہو جانے سے بہتر ہے کہ وہ کسی مسلمان بھا ئی کے کام آ جائے.6،.6ان کی اجازت کے بغیر یا تو خود اپنے غیر حاضر مسلمان بھائیوں کا مال اپنے تصرف میں لے لیا یا دوسرے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا اور اپنے خیال میں سمجھا کہ اس طرح ہم ایک قومی خدمت سر انجام دے رہے ہیں۔
.6مگر دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نظریہ بالکل غلط اور خلاف تعلیم اسلام ہے۔ اسلام کسی صورت میں بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ مالک کی اجازت کے بغیر کسی شخص کے مال کو اپنا بنا لیا جائے یا اس میں مالکانہ تصرف کیا جائے کیونکہ اول تو یہ فعل امانت اور دیانت کے خلاف ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں جبکہ آپ حج کے میدان میں مسلمانوں کو گویا آخری اجتماعی نصیحت فرما رہے تھے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اور خدا کو گواہ رکھ کر یہ زبردست نصیحت فرمائی تھی۔ کہ.6 ان دماء کم و اموالکم واعراضکم بینکم حرام کحرمۃ یومکم ھذا فی شھر کم ھذا فی بلد کم ھذا فلیبلغ الشاھد الغائب ۔۔۲۲.6یعنی.6 ’’ اے مسلمانو.6!.6 تمہاری جانیں اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ حج کا دن اور تمہارا یہ عزت کا مہینہ اور تمہارا یہ مقدس شہر خدا کی طرف سے حرمت والے قرار دیئے گئے ہیں۔ میری اس نصیحت کو سنو اور دوسروں تک پہنچائو۔‘‘ علاوہ ازیں اس قسم کی اجازت کے دینے سے ایک ایسا دروازہ کھلتا ہے کہ جن میں اکثر لوگوں کے لئے جائز و ناجائز صورت میں تمیز کرنا ناممکن ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ رستہ سخت خطر ناک ہے۔ پس کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ خواہ حالات کچھ ہوں۔ دوسرے مسلمان کے مال کو اس کی اجازت کے بغیر اپنے تصرف میں لائے یا مالک کی اجازت کے بغیر اسے دوسروں میں بانٹ دے۔ اگر ایسے لوگوں میں حقیقتاً ہمدردی کا خیال تھا تو ان کا فرض تھا کہ خطرہ کے وقت اپنے بھائیوں کے مال کی بھی اسی طرح حفا ظت کرتے جس طرح کہ وہ اپنے مال کی حفاظت کرنا چاہتے تھے اور اگر کوئی غریب مسلمان بھائی امداد کا مستحق تھا تو اسے یا تو اپنے ذاتی مال میں سے دیتے یا مالک سے پوچھ کر اس کی اجازت کے ساتھ اس کا مال تقسیم کرتے۔ ورنہ ظاہر ہے کہ اس قسم کے کمزور اور خود غرضانہ استدلالوں کی وجہ سے قوم میں بددیانتی کی روح پیدا ہوتی ہے اور وہ عظیم الشان خدمت جو ہمارا پیارا اسلام دوسرے مسلمانوں کی جان اور مال کی قائم کرنا چاہتا ہے قائم نہیں رہ سکتی۔بے شک خود مالک اپنے مال کے متعلق جو تصرف کرنا چاہے کرے، اس کے لئے کوئی روک نہیں اور اگر کوئی مسلمان اپنے مال کو غیر مسلموں کی طرف سے خطرہ میں دیکھ کر اسے غریب مسلمانوں میں تقسیم کر دیتا ہے تو یقینا وہ ایک نیک کام کرتا ہے اور اس کا یہ فعل ایک صدقہ کا رنگ رکھتا ہے جو خدا کے حضور میں مقبول ہو گا لیکن اگر کوئی شخص خطرہ کے وقت میں اپنے مال کو تو بچا کر رکھتا ہے اور اس کی حفاظت کرتا ہے مگر دوسرے مسلمانوں کے مالوں کو ان کی اجازت کے بغیر لے لیتا ہے یا دوسروں میں تقسیم کر دیتا ہے تو اس کا یہ فعل اس امانت اور دیانت کے خلاف ہے جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ یہ ایک قسم کی لوٹ ہے جس کی اسلام کسی صورت میں اجازت نہیں دیتا۔ پس جن لوگوںنے ایسی حرکت کی ہے۔ اور ان کے پاس اپنے کسی بھائی کا مال موجود ہے تو انہیں چاہئے کہ بلا توقف یہ مال اس کے مالک کو پہنچا دیں اور اگر یہ مال ان کے ہاتھ سے نکل چکا ہے لیکن انہیں اس کا بدل پیدا کرنے کی توفیق ہے تو اس کے بدلہ میں اسی مالیت کا دوسرا مال پیش کر دیں اور اگر ان کے لئے یہ دونوں صورتیں ممکن نہیں تو کم از کم سچی ندامت کے ساتھ مالک سے معذرت کے خواہاں ہوںکہ انہوں نے اس اس قسم کے حالات کے ماتحت غلط استدلال میں مبتلا ہو کر ان کا مال ضائع کر دیاہے۔
.6دوسرا پہلو اس سوال کا یہ ہے کہ بعض لوگ یہ خیال کر کے کہ سکھوں یا ہندوئوں نے ہمیں مشرقی پنجاب میں نقصان پہنچایا ہے۔ مغربی پنجاب میں غیر مسلموں کا مال لوٹنے لگ جاتے ہیں یا اگر کسی غیرمسلم کے چھوڑے ہوئے مکان میں قیام کرتے ہیں تو اس کے سامان کو اپنے لئے جائز سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ یہ صورت بھی اسلامی تعلیم کے سرا سر خلاف ہے۔ اگر الف نے ہمیں یا ہمارے کسی عزیز کو نقصان پہنچایا ہے تو ہمارے لئے جائز نہیں کہ ب کو نقصان پہنچا کر بدلہ لینے کی کوشش کریں۔ قرآن شریف صاف فرماتا ہے۔ کہ .6 .6.6۔۔۲۳.6 .6یعنی.6 ایک شخص کے گناہ کا بوجھ کسی صورت میں دوسرے شخص پر نہیں ڈالا جا سکتا۔ پس صرف اس وجہ سے کہ مثلاً ایک سکھ لکھن سنگھ نامی نے مشرقی پنجاب میں ہمارا یا ہمارے کسی بھائی کا سامان لوٹاتھا ،ہمارے لئے یہ جائز نہیں کہ ہم مغربی پنجاب میں کسی دوسرے سکھ مکھن سنگھ نامی کا سامان لوٹ لیں۔ یہ تمام باتیں اسلامی تعلیم اور اسلامی معیار دیانت کے خلاف ہیں اور ان باتوں میں غفلت برتنے سے آہستہ آہستہ قومی دیانت کا معیار گر جاتاہے۔ اسلام ہر حالت میں دیانت اور انصاف کے ترازو کو بلند رکھنا چاہتا ہے اور بے شک وہ شریر لوگوں کو ہوش میں لانے کے لئے انتقام کی اجازت دیتا ہے۔ مگر وہ اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتا کہ جرم تو کرے زید مگر انتقام لیاجائے بکر سے یا بعض افراد کے جرم کی وجہ سے ساری قوم کو مجرم قراردے دیا جائے اور کم از کم ہماری جماعت کے دوستوں کو اس قسم کے افعال سے پرہیز کرنا چاہئے۔.6و اخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین.6۔
.6نوٹ:اس مضمون میں صرف افراد کے سوال کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ حکومت یا جماعتی نظام کے معاملہ میں بعض مخصوص صورتیں پیش آ سکتی ہیں، جن کے متعلق انشاء اللہ کسی اور موقع پر عرض کروں گا۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
مسماۃ فضل بی بی سکنہ رجوعہ تھانہ سری گو بند پور کے ورثا ء کہاں ہیں
.6
.6ایک بوڑھی عورت مسماۃ فضل بی بی بیوہ رحیم بخش قوم لوہار ہے۔ اور وہ رجوعہ تھانہ سری گو بند پور کی رہنے والی ہے۔ اس کے چار بچے ہیں ۔ جن میں سے علی محمد ترکھان عمر .6۲۰.6 سال اپنے ماموں فضل دین لوہار ساکن بہاولپور کے پاس رہتا ہے۔ اور تاج الدین اور نور محمد لاہور میں ہی بتائے جاتے ہیں یہ عورت قادیان میں پہنچ گئی ہے۔ اس کے لڑکوں میں سے کوئی یا اور رشتہ دار رتن باغ لاہور میں آکر مجھ سے پتہ کر لیں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
مسماۃ زہرہ سکنہ کڑی افغا ناں ضلع گورداسپور کے ورثا ء توجہ فرمائیں
.6
.6ایک لڑکی مسماۃ زہرہ جس کے باپ کا نام محمد علی اور ماں کا نام راج بی بی قوم ارائیں ہے اور وہ کڑی افغاناں ضلع گورداسپور کی رہنے والی ہے اور اس کے ماموں محمد دین اور ابراہیم میانی کے رہنے والے ہیں قادیان میں پہنچ گئی ہے اور اس کے رشتہ دار جہاں بھی ہوں رتن باغ لاہور میں آکر پتہ کرلیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵ ؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
یعقوب خاں صاحب کہاں ہیں ؟
.6قادیان سے محمد یوسف صاحب دریافت کرتے ہیں کہ ان کے والد یعقوب خان صاحب قوم راجپوت سکنہ محلہ دارالفضل قادیان جب سے قادیان سے گئے ہیں ان کے متعلق کوئی اطلاع نہیں آئی اگر یعقوب خان صاحب اس اعلان کو پڑھیں یا کسی اور دوست کو ان کا علم ہو تو مجھے ان کی خیریت اور پتے سے بواپسی اطلاع دیں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱؍دسمبر ۱۹۴۷ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
فہرست حوالہ جات
۱۹۴۷ء
.6۱.6-.6 .6 صحیح البخاری کتاب الاذان باب ا.6لایجاب .6التکبیر و افتاح الصلوٰۃ.6۔
.6۲.6-.6 .6 بنی اسرائیل ۔.6۲.6۔
.6۳.6-.6 .6الانعام ۔.6۹۲.6۔
.6۴.6-.6 .6الحج :.6۷۸
.6۵.6-.6 .6 سنت سپاہی اگست .6۱۹۴۶.6ء
.6۶.6-.6 .6 اخبار پنجاب امر تسر ۔مورخہ .6۱۱.6جنوری .6۱۹۴۴.6ء
.6۷.6-.6 .6ص.6حیح.6 البخاری کتاب .6المظالم باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً.6۔
.6۸.6-.6 .6ٹر.6یبیون.6 یکم جولائی .6۱۹۴۷.6۔ سٹیٹسمین یکم جولائی .6۱۹۴۷.6ء
.6۹.6-.6 .6ڈان ٹ.6ریبیون .6مورخہ .6۵.6جون .6۱۹۴۷.6ء
.6۱۰.6-.6 .6سول اینڈ ملٹری گزٹ .6۴.6جون .6۱۹۴۷.6 ۔سٹیٹسمین .6۵.6جون .6۱۹۴۷.6ء
.6۱۱.6-.6 .6الزلزال: .6۲.6،.6۳
.6۱۲.6-.6 .6 .6سیرۃ ابن ہشام .6الجزاین الاول الثانی بعنوان ’’امر الفیل قصۃ النسائ.6‘‘
.6۱۳.6-.6 .6ابراہیم:.6۸
.6۱۴.6-.6 .6الاحزاب : .6۶۱
.6۱۵.6-.6 .6تذکرہ صفحہ .6۶۵۶.6۔طبع جدید۔
.6۱۶.6-.6 .6تذکرہ صفحہ .6۳۶۶.6۔طبع جدید۔
.6۱۷.6-.6 .6تذکرہ صفحہ .6۱۶۳.6۔طبع جدید۔
.6۱۸.6-.6 .6تذکرہ صفحہ .6۴۷۷.6۔طبع جدید۔
.6۱۹.6-.6 .6تذکرہ صفحہ .6۶۶.6۔ طبع جدید۔
.6۲۰.6-.6 .6البقرہ : .6۲۸۱.6۔
.6۲۱.6-.6 .6المجادلۃ: .6۲۲.6۔
.6۲۲.6-.6 .6الطبقات الکبرٰی باب حجۃ الوداع.6 صفحہ .6۳۴۲.6۔طبع بیروت۔
.6 .6۲۳.6- الانعام:.6۱۶۵
.6
۱۹۴۸ء
.6
گذشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں ٭
.6نمبر.6۲
.6
.6گذشتہ فسادات کے تعلق میں جو واقعات قادیان اور ا س کے ماحول میںرونما ہوئے ۔ان کا ریکارڈ ہمارے پاس محفوظ ہے اور انشاء اللہ اپنے وقت پر شائع کیا جائیگا ۔ فی الحال دوستوں کی اطلاع کے لئے بعض خاص خاص واقعات کاذکر مختصر روزنامچہ کی صورت میں در.6ج.6 ذیل کیاجاتا ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ
.6(۳۱) ۲۲ ستمبر ۱۹۴۷ء :۔ پولیس اور ملٹری نے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مکانات اور دفتر اور خاکسار مرزا بشیر احمد کے مکان کی تلاشی لی اور یہ تلاشی صبح ۶بجے سے لے کردن کے گیارہ بجے تک جاری رہی اور ہمارے مکانات کے تمام حصوں اور ملحقہ رستوں میںمسلح پولیس اور ملٹری کا پہرہ لگا د.6یا.6 گیا ۔ تلاشی میں ٹرنکوں اور پیٹیوں اور الماریوں وغیرہ کے قفل توڑ توڑ کر ہرچیز کو غور سے دیکھا گیا اور بعض کمروں کے فرشوں کو اکھیڑا کھیڑ کر بھی تسلی کی گئی کہ وہاں کوئی قابل اعتراض چیز تودبائی ہوئی نہیں ۔پولیس اورملٹری جیسا کہ قاعدہ ہے اپنی تلاشی دینے کے بغیر اور زنانہ مکانوں میں پردہ کرانے کے بغیر جس حصہ میں چاہتی تھی گھس جاتی تھی مگر کوئی قابل اعتراض چیز .6برآمد نہیں کرسکی ۔ البتہ لائسنس والا ہتھیار جو بھی نظر آیا اسے اکٹھا کر لے گئی ۔چنانچہ حضرت امیرالمومنین .6ایدہ اللہ کی ایک شاٹ گن ۔خان محمد احمد خان کی ایک بائیس بور رائیفل اور عزیز مرز احمید احمد کاایک پستول لائسنس دکھانے کے باوجود ابھی تک واپس نہیں کیاگیا۔
.6(۳۲) ۲۳ ستمبر ۱۹۴۷ء :۔حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کے حکم کے ماتحت خاکسار مرزا بشیر احمد عزیز میجر مرزا دائوداحمد کی اسکورٹ میں قادیان سے روانہ ہوکر لاہور آگیا۔ میرے پیچھے حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت مرز ا عزیز احمد صاحب ایم ۔اے مقامی امیر مقرر ہوئے۔
.6(.6۳.6۳) .6۲.6۴ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔ عزیزم مرزا ناصر احمدسلمہ ایم ۔اے پرنسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان
.6 اور حضرت امیر المومنین ایدہ اﷲ کے بڑے صاحبزادے کے مکان النصرۃ واقع محلہ دارالانوار قادیان کی تلاشی لی گئی مگر کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی ۔
.6(.6۳.6۴) ۲۴ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔پولیس نے محلہ دارالشکر قادیان کے متعدد مکانات کی تلاشی لی اور گو کوئی قابل اعتراض چیز برآمد نہیں ہوئی ۔مگر ہزاروں روپے کے زیورات اور نقدی اور دیگر اشیاء اٹھا کرلے گئی اور پناہ گزینوں کی پانچ لڑکیاں بھی پکڑ کر ساتھ لے گئی ۔جنہیںبعد میںواپس کر دیاگیا۔
.6(.6۳.6۵) .6۲.6۵ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔چار مسلمان پناہ گزینوں کو جو مکان آشیانہ مبارک متصل محلہ دارالانوار قادیان میں پناہ لے کر بیٹھے ہوئے تھے پولیس نے گولی کا نشانہ بنا کر ہلاک کردیا اور ان کی عورتوں کو پکڑ کرلے گئی ۔اس کے علاوہ دو مزید آدمی لاپتہ ہوگئے اور بعض زخمی ہوئے۔یہ واقعہ ۲۵ اور ۲۶ستمبر کی درمیانی شب ہوا ۔
.6(.6۳.6۶) .6۲.6۷ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔قادیان میں ٹھہرے ہوئے پناہ گزینوں کے قریباً پانچ ہزار مویشی مالیتی قریباً ۲۰ لاکھ روپیہ پولیس کی امداد کے ساتھ سکھوں نے لوٹ لئے اور ان کے گڈے اور چھکڑے بھی لے گئے جس کی وجہ سے وہ آئندہ چلنے والے پیدل قافلہ میں اپنا سامان ساتھ رکھنے کے ناقابل ہوگئے۔ پناہ گزینوں کے علاوہ مقامی احمدیوں کے متعدد مویشی بھی سکھ حملہ آور لوٹ کر لے گئے۔
.6(.6۳.6۷) ۲۷ ستمبر ۱۹۴۷ء تا یکم اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔ سر محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر واقع محلہ دارالانوار قادیان کا تمام سامان سوائے کچھ معمولی فرنیچر کے ملٹری نے لوٹ لیا اور یہ لوٹ برابر پانچ دن تک جاری رہی ۔ملٹری کے ٹرک رات کوآتے تھے اور کوٹھی کا سامان سمیٹ سمیٹ کر لے جاتے تھے۔ کوٹھی کے مویشی بھی لوٹ لئے گئے۔
.6(.6۳.6۸) .6۲.6۹ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔ مولوی احمد .6خا.6ں صاحب نسیم مولوی فاضل انچارج مقامی تبلیغ اور مولوی عبدالعزیز صاحب مولوی فاضل انچارج شعبہ خبر رساں جماعت احمدیہ کو پولیس نے دفعہ ۳۹۶،۳۹۷ تعزیرات ہند کے ماتحت گرفتار کرلیا۔اور معلوم ہوا ہے کہ انہیں پولیس کی حراست میں سخت تکلیف دی جاتی رہی ہے۔
.6(.6۳.6۹) ۲۹ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔محلہ دارالانوار قادیان کے متعدد مکانوں کو لوٹا گیا ،ان مکانوں میں کرنیل ڈاکٹرعطاء اللہ صاحب اسسٹنٹ ڈائرکٹر جنرل میڈیکل سروس پاکستان اور خان بہادر چوہدری ابو الہاشم خان صاحب ایم ۔ اے ریٹائرڈ انسپکٹر آف سکولز اور مولوی .6ع.6بدالرحیم .6صاحب درد ایم۔ اے سابق امام مسجد لنڈن کے مکانات بھی شامل تھے۔
.6(.6۴۰.6) .6۲.6۰ ستمبر ۱۹۴۷ئ:۔پولیس نے مقامی خاکروبوں کو حکم دے دیاکہ مسلمانوں کے گھروں میں صفائی کے لئے نہ جائیں جس کی وجہ سے احمدیوں کے گھر نجاست سے اٹ گئے اور احمدیوں کو خود اپنے ہاتھ سے صفائی کاکا.6م .6کرنا پڑا ۔
.6(.6۴.6۱) یکم اکتوبرتا .6۶ ۔ اکتوبر.6 ۱۹۴۷ئ:۔بٹالہ کی ملٹری نے پاکستان کی حکومت کے بھجوائے ہوئے ٹرکوں کو یہ بہانہ رکھ کر قادیان جانے سے روک دیاکہ قادیان کی سٹرک زیر مرمت ہے ۔اور جب ہمارے ٹرک بٹالہ میں رکے تو اس پر سکھ جتھوں اور غیر مسلم ملٹری نے مل کر فائر کئے جس کے نتیجہ میں کئی آ.6دمی.6 زخمی ہوئے اور بعض لا پتہ ہیں۔ اور ٹرک بھی جلادیاگیا ۔ اس کنوائے میں میرا .6لڑ.6کا مرزا منیر ا.6ح.6مد بھی شامل تھا ۔ جو بٹالہ میں دو دن تک قیامت کا نمونہ دیکھنے کے بعد لاہور واپس پہنچا۔ رستہ کے زیر تعمیر ہونے کا عذر محض بہانہ تھا اور غرض یہ تھی کہ ان ایام میں بیرونی دنیاسے قادیان کا تعلق بالکل کاٹ کر قادیان کے احمدیوں کو لوٹا اورختم کیا جاسکے ۔ چنانچہ جیسا کہ بعد کے واقعات بتائیں گے قادیان پر بڑا حملہ انہی تاریخوں میں ہوا۔
.6(۴۲) یکم اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا مکان بیت الحمد واقع محلہ دارالانوار .6قادیان جس میں حضور کے بعض بچے رہائش رکھتے تھے ملٹری نے زبردستی خالی کراکے اپنے قبضہ میں کرلیا۔
.6(۴۳) ۲۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔پولیس نے احمدیوں کی آٹا پیسنے کی چکیاں حکماً بند کرادیں ۔جس کے نتیجہ میں قادیان کے محصور شدہ ہزاروں احمدیوں کو جن میں بچے عورتیںاور بوڑھے شامل تھے کئی دن تک .6گندم کے دانے ابال ابال کر کھانے پڑے اور اس وجہ سے بے شمار لوگ پیچش کی مرض کا شکار ہوگئے۔
.6(.6۴.6۴) ۲۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔ تعلیم الاسلام ڈگری کالج قادیان اورفضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ قادیان کی عمارت اور سامان پر ملٹری نے جبراً قبضہ کر لیا اور احمدیوں کو زبردستی باہر نکال دیا۔
.6(۴۵) ۲۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔سکھ جتھوں نے پولیس کی امداد سے محلہ دارالرحمت (یہ محلہ دارالرحمت نہیں ہے بلکہ قادیان کی پرانی آبادی کے ساتھ جنوب مغربی جانب دارالصحت کے قریب ایک اور محلہ ہے ) حملہ کیا۔ اور حملہ آوروں کاایک جتھہ محلہ مسجد فضل قادیان میں بھی گھس آیا اور لوٹ مچائی۔
.6(.6۴.6۶) ۲۔ اکتوبر ۱۹۴۷ء :۔موضع بھینی بانگر متصل محلہ دارالبرکات و دارالانوار قادیان پر سکھ جتھوں نے حملہ کیا ۔ ہند وملٹری موقعہ پر موجود تھی ۔ مگر ہوا میں فائر کرنے کے سوا اس نے حملہ کے روکنے میں کوئی حصہ نہیں لیا ۔ اور ۲ ۔۳۔ اکتوبر کی درمیانی شب قریباً ساری رات گولیاں چلتی رہیں ۔بھینی کی کئی مسلمان عورتیں اغوا کرلی گئیں اور گائوں خالی کر الیا گیا ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۷؍جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
گزشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں
‎نمبر ۳
.6گزشتہ فسادات کے تعلق میں جو واقعات قادیان اور اس کے ماحول میں رونما ہوئے۔ ان کا ریکارڈ ہمارے پاس محفوظ ہے اور انشاء اللہ اپنے وقت پر شائع کیاجائے گا۔ فی الحال دوستوں کی اطلاع کے لئے بعض خاص خاص واقعات کا ذکر مختصر روزنامچہ کی صورت میں درج کیا جاتا ہے۔
.6(۴۷ ) ۲ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ء ۔.6۲ اور ۳؍ اکتوبر کی درمیانی شب کو قادیان کی مسجد اقصیٰ ( یعنی منارۃ المسیح والی جامعہ مسجد ) میں بم پھینکا گیا۔ جو ایک قریب کے ہندو مکان کی طرف سے آیا تھا۔ اس بم سے مؤذن مسجد کا لڑکا بری طرح زخمی ہوا اور دشمن نے بتا دیا کہ ہم مسلمانوں کے جان و مال اور عزت ہی کے پیاسے نہیں بلکہ ان کی مقدس جگہوں کی بے حرمتی کے واسطے بھی تیار ہیں۔
.6(۴۸) .6۳؍ اکتوبر ۱۹۴۷ئ۔.6 قادیان میں جمع شدہ پناہ گزینوں میں سے چالیس ہزار انسانوں کا پہلا پیدل قافلہ قادیان سے علی الصبح روانہ ہوا۔ ہندو ملٹری ساتھ تھی لیکن ابھی یہ قافلہ قادیان کی حد سے نکلا ہی تھا کہ سکھ جتھوں نے حملہ کر دیا اور چھ میل کے اندر اندر کئی سو مسلمان شہید کر دئے گئے اور بہت سی عورتیں اغوا کر لی گئیں اور جو رہا سہا سامان مسلمانوں کے پاس تھا وہ لوٹ لیا گیا ۔دیکھنے والے کہتے ہیں کہ کئی دن بعد تک نہر کے ساتھ ساتھ میل ہا میل تک لاشوں کے نشان نظر آتے تھے۔
.6(۴۹) .6۳ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ئ۔ .6 یہ دن قادیان کی تاریخ میں خصوصیت سے یادگار رہے گا۔ کیونکہ اس دن دشمنوں کے مظالم اپنی انتہا کو پہنچ گئے اور لوٹ مار اور قتل و غارت اور اغوا کے واقعات بھیانک ترین صورت میں ظاہر ہو ئے ۔سب سے پہلے آٹھ اور نو بجے صبح کے درمیان قادیان کی غربی جانب سے محلہ مسجد فضل پر ہزارہا سکھوں نے پولیس کی معیت میں حملہ کیا اور قتل و غارت کرتے ہوئے مسجد اقصیٰ کے عقب تک پہنچ گئے اور جو عورتیں مسجد کے پچھواڑے میں پناہ لینے کے لئے جمع تھیں.6،.6 ان میں سے کئی ایک کواغوا کر لیا گیا اور جب احمدی نوجوان عورتوں کی آہ و پکار سن کر اُن کی طرف بڑھے تو دو نوجوانوں کو خود پولیس نے گولیاں چلا کر مسجد کی دیوار کے ساتھ شہید کر دیا۔ عین اس وقت اطلاع ملی کہ قادیان کے محلہ دارالفتوح اور محلہ دارالرحمت پر بھی ہزارہا سکھوں نے حملہ کر دیا ہے اور ساتھ ہی ان کے حملہ کو کامیاب بنانے کے لئے کرفیو کا اعلان کر دیا ہے۔ چنانچہ اس حملہ میں دو سو کے قریب مسلمان (احمدی اورغیر احمدی .6،.6 مرد اور عورت.6،.6بچے اور بوڑھے) یا تو شہید ہو گئے اور یا لاپتہ ہو کر اب تک مفقود الخبر ہیں۔ شہید ہونے والوں میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ایک حرم محترم .6کے حقیقی ماموں مرزا احمد شفیع صاحب بی۔ اے بھی تھے.6،.6 جو اپنے مکان کی ڈیوڑھی میں پولیس کے ہاتھوں گولی کا نشانہ بنے۔ مگرظالم دشمنوں نے شہید احمدیوں کی لاشیں تک نہیں لینے دیں۔ تاکہ ان کی شناخت اور صحیح تعداد کو مخفی رکھا جا سکے۔ اس دن حملہ آوروں نے لاکھوں روپے کا سامان احمدیوں کے گھروں سے لوٹا۔ اس قسم کے نازک حالات میں بیرونی محلہ جات کے صدر صاحبان نے جماعت کی حفاظت ( اور خصوصاً عورتوں اور بچوں کی حفاظت) کے خیال سے یہ ضروری سمجھاکہ قادیان کی احمدی آبادی کو بعض مخصوص جگہوں میں سمیٹ کر محفوظ کر لیا جائے۔ چنانچہ ایک حصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں جمع ہو گیا اور دوسرا دارالمسیح اور مدرسہ احمدیہ اور اس کے ملحقہ مکانات میں بند ہو گیا۔ ہزارہا انسانوں کے تھوڑی سی جگہ میں محصور ہو جانے سے صفائی کی حالت نہایت درجہ ابتر ہو گئی اور بعض جگہ پر ایک ایک فٹ تک نجاست جمع ہو گئی۔ جسے احمدی خدام نے خود خاکروبوں کی طرح کام کر کے گڑھوں میں دفن کیا۔ دوسری طرف آٹے کی مشینوں کے بند ہونے کی وجہ سے جہاں اکثر حصہ آبادی کا گندم ابال ابال کر کھا رہا تھا.6،.6 وہاں بیماروں اور دودھ پلانے والی عورتوں اور چھوٹے بچوں کے واسطے آٹا مہیا کرنے کے لئے بہت سے معزز احمدی مردوں کو اپنے ہاتھ سے چکیاں چلانی پڑیں۔ یہ دن وہ تھے جب کہ دارالمسیح اور مدرسہ احمدیہ میں ٹھہرے ہوئے لوگ ان احمدیوں سے بالکل کٹے ہوئے تھے۔ جو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں محصور تھے۔ کیونکہ درمیانی راستہ بالکل بند اور خطرناک طور پر مخدوش تھا۔ انہی ایام میں نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی کوٹھی دارالسلام اور عزیزم مکرم میاں شریف احمد صاحب کی کوٹھی پر جبرًاقبضہ کر لیا گیا۔
.6(۵۰).6۴؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ء ۔.6کرفیو اٹھنے کے بعد جب بعض بیرونی محلوں میں رہنے والے احمدی .6اپنے مکانوں کی دیکھ بھال کے لئے باہر جانے لگے تو بڑے بازار کے اختتام پر جو ریتی چھلہ سے ملتا ہے، عین دن دہاڑے برسر بازار سات احمدیوں کو گولی کا نشانہ بنا کر شہید کر دیاگیا۔ ان لوگوں میں میاں سلطان شیر عالم صاحب بی۔ اے نائب ناظر ضیافت بھی تھے۔ اور جب بعض لوگ شہید ہونے والے احمدیوں کی لاشوں کو اٹھانے کے لئے آگے بڑھے تو وہ بھی گولی کا نشانہ بنا دئے گئے۔
.6(۵۱) .6۴؍ اکتوبر ۱۹۴۷ .6ئ۔ سٹار ہوزری قادیان کے مال کو لوٹ لیا گیا۔ جس میں بیش قیمت اون اور لاتعداد جرابیں اور سویٹر اور کمبل وغیرہ شامل تھے اور یہ لوٹ مارمقامی مجسٹریٹ کی آنکھوں کے سامنے ہوئی۔
.6(۵۲) .6۵؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ئ۔.6بیرونی پناہ گزینوں کا دوسرا پیدل قافلہ قادیان سے روانہ ہوا ۔ اس قافلہ میں قریباً دس ہزار مسلمان شامل تھے اور کچھ ۳ اکتوبر والے حملہ میں قادیان میں شہید ہو چکی.6تھے۔یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس قافلہ پر راستہ میں کیا گزری۔
.6(۵۳) .6۵ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ئ۔ .6تعلیم الاسلام ہائی سکول کے بورڈنگ میں محصور شدہ احمدیوں سے .6ہندو ملٹری نے جبرًا بیگار لی ۔ اور ان کے سر پر کھڑے ہو کر پناہ گزینوں کے چھوڑے ہوئے سامانوں کو اکٹھا کروا کر مختلف مقامات پرپہنچانے کے لئے مجبور کیا۔ اس قسم کی بیگار کئی دن لی جاتی رہی۔
.6(۵۴) .6۵؍ اکتوبر ۱۹۴۷ئ۔ .6تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عمارت پر معہ اس کے سامان کے قبضہ کر لیا گیا۔
.6(۵۵) .6۵ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ء .6۔ جماعت احمدیہ کا مردانہ اور زنانہ نور ہسپتال جبرًا خالی کر ا لیا گیا اور بیماروں اورزخمیوں کو بڑی بے دردی کے ساتھ باہر نکال کر ہسپتال کا قبضہ ایک ہندو ڈاکٹر کو دے دیا گیااور بعد میں ایک سکھ ڈاکٹر کو اس کا انچارج بنا دیا گیا۔
.6(۵۶) .6۷ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ئ.6۔ مسجد اقصیٰ پر پھر بمباری کی گئی۔ چار بموں میں سے دونے پھٹ کر مسجد کے فرش کو نقصان پہنچا یا۔ اور ایک بم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے والد بزرگوار کی عین قبر کے پاس گرا مگر خدا کا شکر ہے کہ پھٹا نہیں۔
.6(۵۷) .6۱۰ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ء .6۔عزیزم مرزا رشید احمد کی بیو.6ی.6 کی کار ضبط کر لی گئی۔ اس سے قبل ملک عمر علی صاحب بی ۔ اے کی پرائیویٹ کار بھی ضبط کر لی گئی تھی۔ اسی طرح جماعت کے دو بھاری ٹرک اور دو پندرہ ہنڈرڈ ویٹ والے ٹرک بھی ضبط کر لئے گئے۔اسی طرح بعض اور موٹر گاڑیاں بھی حکومت کی ضرورت کا بہانہ رکھ کر ضبط کر لی گئیں۔
.6(۵۸) .6۱۴ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ئ.6۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مرزا عزیز احمد صاحب ایم۔ اے، کرنل ڈاکڑ عطاء اللہ صاحب کی اسکورٹ میں لاہور آگئے۔ اور ان کی جگہ قادیان میں مولوی جلال الدین صاحب شمس سابق امام مسجد لنڈن کو امیرمقامی مقرر کیا گیا۔
.6(۵۹) .6۱۵ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ء.6 ۔ جماعت احمدیہ کا پریس جس میں جماعت کا مرکزی اخبار الفضل .6چھپتا تھا اور اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح اول کی لائبریری اور اس کے ساتھ شامل شدہ دیگر لائبریریوں پر قبضہ کر کے ان پر مہریں لگا دی گئیں۔ اس مرکزی لائبریری میں ۳۰ ہزار کے قریب علمی کتابیں تھیں۔ جو زیادہ تر عربی اور فارسی میں تھیں۔ اور کئی نایاب کتب اور بیش قیمت قلمی نسخے بھی لائبریری میں موجود تھے۔ جن سے احمدی علماء اپنی علمی تحقیقاتوں میں فائدہ اٹھاتے تھے۔
.6(۶۰) .6۳۰؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ء .6۔ اس دن معلوم ہوا کہ حملہ کے ایام میں اور اس کے بعد قادیان کی تین مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ یعنی مسجد محلہ دارالرحمت کے مینار مسمار کر دیئے گئے تاکہ مسجد.6کی علامت کو مٹا دیا جائے۔ مسجد خو جیاں ( جو قادیان کے دوسرے مسلمانوں کی مسجد تھی) پر یہ بورڈ لگا دیا گیا کہ یہ آریہ سماج کا مندر ہے اور محلہ دارالعلوم کی مسجد نور جو تعلیم الاسلام کا لج کے ساتھ ملحق تھی .6اسے غیر مسلموں نے اپنی جلسہ گاہ بنا لیا اور صحن مسجد کے نلکوں پر سکھوں نے کپڑے دھونے شروع کر دئے۔
.6(۶۱) ۱۶؍ نومبر ۱۹۴۷ ء .6۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مولوی جلال الدین صاحب شمس اور عزیزم مرزا ناصر احمد صاحب قادیان سے لاہور آگئے اور شمس صاحب کی جگہ قادیان میں مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل امیر مقامی اور عزیزم مرزا ظفر احمد صاحب ناظر اعلیٰ مقرر ہوئے۔
.6(۶۲) .6۲۱؍ نومبر ۱۹۴۷ ئ.6۔ ہمارے ایک مکان کی دیوار کو جبرًا گرا کر سکھوں نے اسے ساتھ کے گوردوارہ میں زبردستی شامل کر لیا۔ بار بار کے احتجاج کے حکومت نے ابھی تک اس معاملہ میں کوئی عملی داد رسی نہیں کی۔
.6(۶۳) .6۱۴ ؍دسمبر ۱۹۴۷ ئ.6۔ اس دن معلوم ہوا کہ قادیان کے ملحقہ احمدی گائوں ننگل باغباناں سے متصل بہشتی مقبرہ کی مسجد کے مینار گرا کرمسمار کر دیئے گئے ہیں اور اس پر کانگرس کا جھنڈا لہرایا گیا ہے اور اب اسے سکھ پناہ گزینوں کی رہائش کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
.6(۶۴) .6۲۳ ؍دسمبر ۱۹۴۷ ئ.6۔ اس دن ہمارے بعض دوستوں کو مسجد نور محلہ دارالعلوم میں جانے کا موقع میسر آیا تو انہوں نے وہاں قرآن کریم کے تین من اوراق پھٹے ہوئے پائے۔ جنہیں اکٹھا کر کے جلا دیا گیا۔ ہماری مقدس کتاب کے اوراق پھاڑنے میں اپنے خبثِ باطن کے اظہار اور دل آزاری کے سوا اور کوئی غرض نہیں سمجھی جا سکتی۔
.6مظالم قادیان کے اس خونی روزنامچہ کو درج کرنے کے بعد صرف یہ بات قابل ذکر رہ جاتی ہے کہ ہم ان مظالم پر خاموش نہیں بیٹھے اور ہر واقعہ پر مشرقی پنجاب اور انڈین یونین کے وزرا ء اور دیگر ذمہ دار افسروں کو خطوں اور تاروں اور بعض صورتوں میں زبانی گفتگو کے ذریعہ ساتھ ساتھ اطلاع بھجواتے رہے ہیں مگر سوائے آخری ایک دو واقعات کے رسمی جواب کے ہمارے کسی خط یا کسی تار وغیرہ کا جواب تو درکنار رسید تک نہیں آئی۔ ہم نے یہ بھی با ر بار کہا کہ جب ایک طرف انڈین یونین یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ جو مسلمان بھی پر امن اور وفا دار شہری کے طور پر انڈین یونین میں رہنا چاہے.6،.6 اس کی پوری پوری حفاظت کی جائے گی اور دوسری طرف ہم نے اپنے متعلق بار بار یہ اعلان کیا ہے کہ ہمارا یہ قدیمی اصول ہے کہ جس حکومت کے مات.6ح.6ت احمدی رہیں۔ اس کے وفادار ہو کر.6رہیں اور قادیان کے احمدی بہر حال انڈین یونین کے وفادار رہیں گے تو پھر کیوں ہم پر یہ مظالم ڈھا کر ہمیں اپنے مقدس مرکز سے جبرًا نکالا جا رہا ہے۔ مگر افسوس ہے کہ آج تک حکومت مشرقی پنجاب اور حکومت انڈین یونین نے ہمیں اس بارہ میں کوئی جواب نہیں دیا۔ اس لئے اب ہماری آنکھیں صرف خدا کی طرف ہیں۔ .6و نعم المولیٰ ونعم الوکیل.6۔
.6یہ سوال کیا جاتا ہے کہ قادیان میں سکھ حملہ آوروں کا مقابلہ کیا گیا یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کی ہدایت کے ماتحت قادیان میں ہمارا طریق یہ تھا کہ جب صرف سکھ عوام حملہ کرتے تھے تو ہماری جماعت کے لوگ اس حملہ کا مقابلہ کرتے تھے اور خدا کے فضل سے ہر مقابلہ میں کامیاب رہتے تھے۔ لیکن جب حملہ آوروں کے ساتھ پولیس اور ملٹری شامل ہوتی تھی ( اور آخر میں تو اکثر یہی ہوتا تھا ) تو ہمارے آدمی اپنے امام کی اس ہدایت کے ماتحت کہ حکومت کا مقابلہ کسی صورت میں نہ کیا جائے۔ اس مقابلہ سے ہاتھ کھینچ لیتے اور اپنی حفاظت کے معا ملہ کو خدا کے سپرد کر دیتے تھے۔
.6بالآخر یہ ذکرکر د.6ینا.6 بھی ضروری ہے کہ باوجود ان سب باتوں کے اس وقت بھی ۳۱۳ احمدی قادیان میں اپنے محبوب آقا کے قدموں میں دھونی رمائے بیٹھے ہیں۔ اور دشمن کے مظالم کا بڑے سے بڑا طوفان بھی خدا کے فضل سے ان کے قدموں کو متزلزل نہیں کر سکا۔ اور ہمارا یہ بھی ایمان ہے کہ جس .6طرح حضرت مسیح موعود ؑ بانی سلسلہ احمدیہ کی پیشگوئیوں ( مثلاً الہام داغ ہجرت) کے مطابق جماعت احمدیہ .6کے امام اور قادیان کے اکثر احمدی دوستوں کو قادیان سے ہجرت کرنی پڑی۔ اسی طرح انشاء اللہ تعالیٰ .6وہ وقت بھی ضرور آئے گا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے الہاموں کے مطابق جماعت احمدیہ اپنے مقدس مرکز کو پھر واپس حاصل کر ے گی۔ اور خدا کا یہ الہام پورا ہو کر رہے گا۔ کہ .6اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ۔ … ۱
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
مظالم قادیان کے روزنامچہ میں ضروری تصحیح
.6میرا جو مضمون زیر عنوان ’’گزشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں ‘‘الفضل میں چھپتا رہا ہے اس میں بعض غلطیاں رہ گئی ہیں جنہیں دوست درست کر لیں۔
.6(۱) زیر نمبر ۲ قادیان کی ریل پر جو حملہ ۲۵ جولائی کو ہونا درج ہے ۔ وہ ۲۴ جولائی سمجھا جائے۔ یہ حملہ دراصل ۲۴ اور ۲۵ جولائی کی درمیانی شب کو ہوا تھا۔
.6(۲) زیر نمبر ۱۸ الفاظ ’’ ہر باغ ‘‘ کے بعد الفاظ ’’ اور ہر میدان ‘‘ کاتب نے چھوڑ دیئے ہیں۔ انہیں درج کر لیا جائے۔
.6(۳) زیر نمبر ۲۴ میاں شریف احمد صاحب کی روانگی از قادیان ۱۹ ستمبر کے ماتحت درج ہے مگر صحیح تاریخ ۱۸ ستمبر ہے۔
.6(۴) نمبر ۲۵ پر زیر تاریخ ۱۹ ستمبر موضع کھارا متصل قادیان پر سکھوں کا حملہ درج ہونے سے رہ گیا ہے۔ وہ درج کر لیا جائے۔ اور موجودہ نمبر ۲۵ کو نمبر ۲۶ کر دیا جائے۔ .6و علٰی ھذا القیاس.6۔
.6(۵) زیر نمبر ۴۸ قادیان سے پہلے قافلہ کی روانگی جو ۳ ؍اکتوبر کو درج ہے اسے ۴ ؍اکتوبر سمجھا جائے اور نمبروں کی تر تیب درست کر لی جائے۔
.6(۶) زیر نمبر ۵۲ جو دوسرے قافلہ کی روانگی ۵؍ اکتوبر کو درج ہے ۔ وہ ۶؍ اکتوبر کو سمجھی جائے اور ترتیب درست کر لی جائے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳؍جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
فسادات قادیان کا پسِ منظر
.6
.6میرا جو مضمون زیر عنوان ’’ گزشتہ فسادات کے تعلق میں چند خاص تاریخیں‘‘ الفضل میں چھپتا رہا ہے۔ اس کے شروع میں قادیان کے متعلق فسادات کا پس منظر دکھانے کے لئے ایک نوٹ کی ضرورت تھی.6،.6جو غلطی سے رہ گیا ہے۔ اب یہ نوٹ ہدیہ ناظرین کیا جاتا ہے۔
.6ہندوستان کا ملک عرصہ دراز سے فرقہ وارانہ کشیدگی کی آماجگاہ رہا ہے جو گزشتہ سال اپنی انتہا کو پہنچ گئی اور جوں جوں ملک کے دو حصوں میں بٹنے کا وقت قریب آتا گیا، یہ کشیدگی بھی دن بدن زیادہ ہوتی چلی گئی۔ مارچ ۱۹۴۷ ء کے فسادات جو وسطی پنجاب میں رونما ہوئے اسی سلسلے کی ایک کڑی تھے۔ کیونکہ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ہندو سیاست سکھوں کی جنگجو قوم کو اپنے ساتھ ملا کر اور مسلمانوں کے دلوں میں دہشت پیدا کر کے انہیں ملک کی تقسیم کے خیال سے باز رکھنا چاہتی تھی۔ اور مسلمان اپنی جگہ یہ خیال کرتے تھے کہ ملک کی موجودہ فضا میں ان کے لئے پنپنا اور ترقی کرنا محال ہو گیا ہے۔ اگر ایک طرف خود حفاظتی کا جذبہ مسلمانوں کو علیحدگی کی طرف کھینچ رہا تھا تو دوسری طرف استبداد کا خمار ہندوئوں کو اس بات پر آمادہ کر رہا تھا کہ جس طرح بھی ہو ملک کی تقسیم اور مسلمانوں کی علیحدگی کو روکا جائے۔
.6جب اس قسم کی آتشی فضا میں ریڈ کلف کمیشن نے مشرقی اور مغربی پنجاب کی سرحدوں کا فیصلہ سنایا تو سارا پنجاب ایک خطرناک بارود کے ذخیرہ کی طرح فرقہ وارانہ جنگ کی آگ سے بھڑک اٹھا اور سر زمین پنجاب نے وہ انسانیت سوز نظارے دیکھے جو تاریخ عالم میں ہمیشہ کے لئے تلخ ترین یادگار رہیں گے۔ ایک کروڑ انسانی جانوں کا ایک حصہ ملک سے دوسرے حصہ ملک کی طرف منتقل ہونا خود اپنی ذات میں ایک عدیم المثال تاریخی واقعہ ہے۔ مگر جب ان حالات کو دیکھا جائے جن میں یہ انتقال آبادی عملاً وقوع میں آیا تو انسان کی آنکھیں شرم کی وجہ سے زمین میں گڑ جاتی ہیں اور وہ اس بات کی .6ہمت.6 نہیں پاتا کہ اپنا سر اونچا کر کے کسی شریف انسان کے ساتھ آنکھیں ملا سکے۔ ہندو قوم ہر سال ہولی کھیلنے کی عادی ہے۔ جس میں سرخ پانی کے چھینٹے ایک دوسرے پر پھینکے جاتے ہیں مگر گزشتہ سال کروڑوں انسانوں نے خون کی ہولی کھیلی۔ جس کے نتیجہ میں لاکھوں بے گناہ انسان قتل کئے گئے۔ ہزارہا معصوم عورتوں کو اغوا کر کے ان کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں بچے مائوں کے سا.6منے.6 تہ تیغ کئے گئے۔ ہزاروں مائیں بلکتے ہوئے بچوں کے سامنے ہمیشہ کی نیند سلا دی گئیں اور اربوںروپے کی جائیداد نذر آتش کر دی گئی یا لوٹ لی گئی۔
.6مگر مجھے اس جگہ صرف قادیان کے متعلق کچھ کہنا ہے جو جماعت احمدیہ کا مقدس مرکز ہے۔ اور جسے اپنی انتہائی پُر امن روایات اور وفادارانہ جذبات کے باوجود اس طوفان بے تمیزی کا شکار ہونا پڑا۔ قادیان کی بستی آج سے قریبا ساڑھے چار سو برس قبل ہمارے بزرگوں نے شہنشاہ بابر کے زمانہ میں .6ثمرقند .6 و بخار اکی طرف سے آکر لاہور سے ستر میل شمال مشرقی جانب آباد کی تھی۔ اور ہمارا خاندان سلطنت مغلیہ کے زمانہ میں ہمیشہ اعلیٰ مناصب پر فائز رہا ۔اسی لئے جب مغلوں کے تنزل پر وسط پنجاب میں سکھوں نے سر اٹھایا تو ان کا پہلا نشانہ قادیان کی ریاست بنی ۔چنانچہ انیسویں صدی کے شروع میں ہمارے خاندان کو پہلی دفعہ قادیان چھوڑنا پڑا اور ہمارے آباء نے کئی سال تک جلا وطنی میں دن گزارے۔ بالآخر جب مہاراجہ رنجیت سنگھ نے چھوٹی چھوٹی سکھ ریاستوں کو مغلوب کر کے پنجاب میں ایک مضبوط مرکزی حکومت قائم کر لی تو ہمارے دادا مرزا غلام مرتضیٰ خان صاحب مہاراجہ کی اجازت سے قادیان واپس آگئے ۔ اور باوجود زخم خوردہ ہونے کے ملک کے امن کی خاطر اور خاندانی روایات کی بنا پر ملک کی قائم شدہ حکومت کے ہمیشہ وفادار رہے۔
.6۱۸۸۹ء میں ہمارے والد بزرگوار حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے خدا سے حکم پا کر چودھویں صدی کے مجدد اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا اور جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت سے قادیان کا قصبہ جماعت احمدیہ کا مقدس مرکز ہے۔ مقدس سے میری یہ مراد نہیں کہ قادیان میں بہت سی مسجدیں ہیں۔ مسجدیں بے شک نہایت مقدس چیز ہیں لیکن جب ہم قادیان کو مقدس کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک مامور من اللہ کا مولد اور مسکن اور مدفن ہے۔ جہاں اس نے اپنی زندگی کے دن گزارے ۔ اپنے خدا کی یاد میں راتیں کاٹیں۔ خدا سے نشانات پائے خدا سے حکم .6پاکر.6 ایک مذہبی سلسلہ کی بنیاد رکھی اور خدا ہی کے حکم کے ماتحت قادیان کو اس مذہبی سلسلہ کا مرکز قرار دیا۔ جہاں وہ .6تما.6م مذہبی ادارے واقع ہیں۔ جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی شاخوں کی تعلیمی اور تربیتی اور تبلیغی نگرانی کرتے ہیں۔ اور جو خلافت کا سلسلہ خدائی منشاء کے ماتحت بانی ٔجماعت احمدیہ کی وفات ۱۹۰۸ ء پر قائم ہوا۔ اس کا صد ر مقام بھی ہمیشہ قادیان رہا ہے۔ پس قادیان صرف تاریخی لحاظ سے ہی ایک مقد.6س.6 مقام نہیںبلکہ ایک عالمگیر مذہبی جماعت کی ہدایت اور نگرانی کا زندہ مرکز ہے۔ اور پھر جماعت احمدیہ کوئی باغیوں یا لٹیروں کا گروہ نہیں بلکہ دینی اور علمی مشاغل کے لئے اپنی جانوں کو وقف رکھنے والے لوگوں کی پُر امن جماعت ہے۔ اس مرکز اور ایسی جماعت کو جس منظم اور ظالمانہ اور بے دردانہ رنگ میں نقصان پہنچایا گیا۔ اس کی مختصر روئیداد اوپر کے روزنامچہ میں درج کی گئی ہے۔
.6اس روزنامچہ کے درج شدہ واقعات کے متعلق یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ ایک یک طرفہ اور جا.6ن.6بد.6ارانہ بیان ہے۔ بلکہ حسن اتفاق سے ان واقعات کے بہت سے غیر جانبدار بلکہ غیر ملکی گواہ بھی موجود ہیں۔ چنانچہ ہمارے پاس چودہ کس ہندوئوں اور سکھوں اور ہندوستانی عیسائیوں کی تحریری شہادت موجودہے کہ قادیان پر سکھوں کا حملہ ہوا اور قتل و غارت اور لوٹ مار کا میدان گرم رہا ۔ یہ شہادت ہر باعزت متلاشی حق کو دکھائی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ اتفاق سے ان ایام میں انگلستان سے آئے ہوئے ایک معزز انگریز نو مسلم .6ل.6یفٹیننٹ .6آرچر ڈ قادیان میں موجود تھے اور انہوں نے بہت سے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے اور واپس جا کر ولائت کے اخباروں میں شائع کر ائے ۔( دیکھو .6سائوتھ ویسٹرن سٹار لنڈن مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ء اور ایوننگ پوسٹ برسٹل مورخہ ۱۱.6؍.6 اکتوبر ۱۹۴۷ئ۔) .6اسی طرح ان ایام میں ایک معزز عرب بیرسٹر سید.6منیر الحصنی.6ملک شام سے قادیان آئے ہوئے تھے۔ اور متعدد واقعات ان کی آنکھوں کے سامنے گزرے اور بالآخردوعیسائی غیر جانبدار انگریز جرنلسٹ مسڑ ڈگلس برائون اور مسٹر جاس لین ہنیلیسی خود حالات کا مطالعہ کرنے کے لئے قادیان گئے۔ اور پھر انہوں نے اپنی آزادانہ شہادت انگلستان کے اخباروں میں شائع کرائی۔ اور قادیان میں سکھوں اور ہندوئوں کے مظالم کی تصدیق کی ( دیکھو ڈیلی ٹیلی گراف لندن مورخہ ۱۳؍ اکتوبر، ۱۷؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ء اور ڈیلی گراف لندن مورخہ ۱۳؍ اکتوبر ۱۹۴۷ ء ) یہ اسی آزادانہ شہادت کا نتیجہ تھاکہ لاہور کے مشہور اینگلو انڈین اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے اپنے ایک لیڈنگ آرٹیکل میں صاف الفاظ میں لکھا تھا کہ قادیان کے مظالم آزاد غیر جانبدار اور شہادت سے پوری طرح ثابت ہیں۔ ( دیکھو سول اینڈ ملٹری گزٹ لاہور مورخہ ۲۳ ؍اکتوبر ۱۹۴۷ ء )
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳ ؍جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
کامیابی حاصل کرنے کے گُر
علم۔ محنت ۔دیانت۔ استقلال۔ دُعا
.6میں نے اوپر کے عنوان میں ’’گُر‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ جسے بعض لوگ راز کہہ کر بھی پکارا کرتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے نہ تو کوئی گُر ہے اور نہ کوئی راز بلکہ ہر معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کا ایک سیدھا سادھا رستہ مقرر کر رکھا ہے۔ مگر لوگ اپنی عجوبہ پسندی میں اس راستہ کو(بلکہ بعض اوقات اس راستہ کے فقدان کو ) راز کا نام دے کر لوگوں کے دل و دماغ کو مسحور کرنا چاہتے ہیں۔ قرآن شریف نے اس بحث کو اپنی ابتدائی سورت کی اس مختصر سی دعا میں حل کر دیا ہے کہ .6۲.6(یعنی اے خدا ہمیں ٹھیک راستہ دکھا) کیونکہ دراصل صراط مستقیم ہی کامیابی کا راز اور گُر ہے۔ مستقیم کے لفظ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ ٹھیک راستہ وہ ہے جوچھوٹا ہو اور منزل مقصود تک پہنچانے والا ہو۔ اگر ایک راستہ منزل مقصود تک تو پہنچاتا ہے لیکن چھوٹا نہیں ہے بلکہ چکر کاٹ کر اور وقت ضائع کر ا کے منزل تک پہنچاتا ہے تو وہ صراط مستقیم نہیں اسی طرح اگر ایک رستہ چھوٹا تو ہے مگر منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا تو وہ بھی صراط مستقیم نہیںاور قرآن شریف نے صراط مستقیم کی علامتیں یہ بتائی ہیں کہ.6 .6.6۳.6 .6یعنی .6.6کی نشانی یہ ہے کہ دوسرے لوگ اس رستہ کو اختیار کر کے عملََاکامیابی حاصل کر چکے ہوں۔ یا اس راستہ کو ترک کر کے ناکامی کا منہ دیکھ چکے ہوں۔ پس میں نے جو اوپر کے عنوان میں’’گُر‘‘ کا لفظ لکھا ہے۔ اس سے عرف عام والا گر مراد نہیں بلکہ قرآن شریف والا صراط مستقیم مراد ہے۔
.6مجھے آج کل اس مضمون کی ضرورت خصوصیت کے ساتھ اس واسطے محسوس ہوئی کہ گزشتہ فسادات کے قیامت خیز طوفان نے ملک کی اقتصادی اور تمدنی زندگی میں ایسا تلاطم برپا کر دیا ہے کہ لاکھوں انسان اپنی جگہ سے اکھڑ کر زندگی کے وسیع میدان میں اس قدر پریشان حال اور .6بکھر.6ے ہوئے پڑے ہیں کہ انہیں سنبھالنے کے لئے خاص انتظا م اور خاص جدوجہد کی ضرورت ہے تاکہ وہ اس نئے دور میں اپنے قدموں کو اس رستہ پر ڈال سکیں جو خدا تعالیٰ کی ازلی تقدیر نے کامیابی کے حصول کے لئے مقدر کر رکھا ہے۔ یہ درست ہے کہ صحیح وسائل کے حاصل ہو جانے اور صحیح طریق کار کے اختیار کر نے .6کے باوجود مختلف انسانوں کی جدو جہدکے نتائج مختلف ہو سکتے ہیں کیونکہ مختلف انسانوں کی قوت عملیہ اور .6قوت ذہنیہ مختلف ہوا کرتی ہے لیکن پھر بھی اگر صحیح طریق کار کو اختیار کیا جائے تو کم از کم ہر انسان جو .6مجنون یا مخبوط الحواس نہیں ہے، ٹھوکر سے بچ سکتا ہے اور کامیابی کے ایک معقول معیار کو حاصل کر سکتا ہے۔
علم
.6یہ وسائل اور یہ طریق کار جو ہر قسم کے کاروبار میں انسان کی کامیابی اور ترقی کے لئے ضروری ہیں پانچ قسم کے ہیںجن میں سے چار مادی ہیں۔ اور ایک روحانی ہے اور میں انہی کے متعلق اس مختصر سے مقالہ میں کچھ بیان کرناچاہتا ہوں۔ سب سے مقدم اور ہر جہت سے نمبر اول پر سمجھے جانے کے قابل چیز علم ہے۔ یعنی اس فن کی واقفیت پیدا کرنا۔ جو ایک انسان اپنے کاروبار مثلا ًتجارت یا صنعت و حرفت یا زراعت وغیرہ کے لئے اختیار کرنا چاہتا ہے۔ علم و ہ بنیادی چیز ہے جس کے بغیر کوئی عمارت تعمیر نہیں کی جا سکتی۔ پس ہرشخص جو کسی قسم کے کاروبار میں قدم رکھنا چاہتا ہے۔ اس کا سب سے پہلافرض یہ ہے کہ جس فن کو وہ اختیار کرناچاہتا ہے اس کی پوری پوری واقفیت حاصل کرے۔ مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ ایک کام میں ہاتھ تو ڈال دیتے ہیں۔ مگر اس کے اصول اور تفاصیل اور طریق کار کے سیکھنے کی طرف توجہ نہیں دیتے۔یہ ایسا ہی ہے جیسے ایک شخص جو تیرنا نہیں جانتا۔ وہ کسی گہرے سمندر میں جا کودے۔ ایسا شخص یقینا ڈوبے گا اور اس کے ڈوبنے کی ذمہ داری خود اس کے نفس پر ہو گی۔ میرا یہ منشاء نہیں کہ جب تک کسی فن میں کمال نہ پیدا کر لیا جا ئے اس وقت تک اس میں ہاتھ نہ ڈالا جائے۔ کیونکہ علوم کے بعض حصے علم کے میدان میں قدم رکھنے کے بعد حاصل ہوتے ہیں اور بعض لوگ اپنی کسی جسمانی کمزوری کی وجہ سے تکمیل کی اہلیت ہی نہیں رکھتے مگر بہر حال اتنا تو ضرو.6ری ہے کہ ہر وہ شخص جو زراعت کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے وہ زراعت کے مبادی سے واقف ہو اور ہر وہ شخص جو تجارت کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے۔ وہ تجارت کے مبادی سے واقف ہواور ہر وہ شخص جو صنعت وحرفت کے میدان میں قدم رکھنا چاہتا ہے۔ وہ صنعت و حرفت کے مبادی سے واقف ہو وغیرہ ۔دنیا میں بیشمارناکامیاںصرف اس وجہ سے ہوتی ہیں کہ لوگ محض دیکھا دیکھی یا صرف شوق کے طور پر یا کسی دوسرے کے کہنے کہانے سے فن سے واقفیت پیدا کرنے کے بغیر ایک کام میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں اور پھر نقصان اٹھاکر اپنی قسمت کو روتے ہیں ۔ پس کامیابی کے لئے سب سے مقدم چیزیہ ہے کہ انسان جو کام بھی اختیارکرنا چاہے اس کے اصول اور اس کے فن سے واقفیت پیدا کرے۔ اسلام نے تو علم کی ایسی ارفع شان قائم کی ہے کہ باوجود اس کے کہ ہمارے آقا و سردار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فداہ نفسی علم کے میدان میں کمال کو پہنچے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ ؐ .6کو.6 یہ دعا سکھاتا ہے کہ.6۴.6 یعنی اے خدا میرے علم میں ترقی دے۔ یعنی جوں جوں میرے کام کا دائرہ وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی نسبت سے مجھے علم میں وسعت عطا کر تا.6کہ.6 میں اپنے کام کو بہترین صورت.6 .6میں اور اعلیٰ ترین کامیابی کے ساتھ سر انجام دے سکوں۔ پس کامیابی کے لئے سب سے ضروری چیز علم اور فن کی واقفیت ہے۔ یہ واقفیت عام حالات میں یا تو دوسروں کو کام کرتا دیکھ کر پیدا کی جا سکتی ہے۔ یا دوسروں سے سن کر حاصل کی جا سکتی ہے اور یا متعلقہ کتب کے مطالعہ سے میسر آتی ہے۔ اس لئے کوئی شخص خواہ وہ خواندہ ہو یا نا خواندہ اس بنیادی چیز سے محروم نہیں رہنا چاہئے۔
محنت
.6دوسر.6ی.6 چیز جو کامیابی کے لئے ضروری ہے وہ محنت ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس کی قدرو قیمت کو نہیں پہچانتے اور اپنے اوقات کو نہایت بے دردی کے ساتھ ضائع کرتے ہیں۔ حالانکہ وقت ایک نہایت قیمتی چیز ہے اور چونکہ انسان کی زندگی بہت محدود ہے۔ اس لئے جو شخص اپنی زندگی کے لمحات کو فضول طور پر ضائع کرتا ہے۔ وہ اپنے نفس پر ایسا ظلم کرتا ہے۔ جس کا بعد میں کوئی ازالہ ممکن نہیں۔ انسانی اوقات کا ایک کافی حصہ تو خود قانون قدرت نے انسان سے چھین رکھا ہے۔ مثلاً کھانے پینے کے اوقات ۔رفع حاجت کے اوقات۔ سونے کے اوقات ورزش یا تفریح کے اوقات۔ اور کبھی کبھار بیماری کے ایام وغیرہ کام کے دائرہ سے عملاً خارج ہوتے ہیں۔ پھر اگر باقی ماندہ وقت میں سے بھی انسان کچھ حصہ ضائع کر دے تو اس سے بڑھ کر بد قسمت کو ن ہو گا۔ علاوہ ازیں جو شخص وقت کی قدر کو نہیں پہچانتا اور اپنے اوقات کو ضائع کرتا ہے وہ کبھی بھی اپنے کام میں توجہ اور انہماک پیدا نہیں کر سکتا اور توجہ اور انہماک کے بغیر ترقی ناممکن ہے۔ پس کامیابی کا دوسرا گُرمحنت ہے۔ محنت ایک ایسی نعمت ہے کہ بسا اوقات اس سے عقل اور ذہن کی کمی بھی پوری کی جا سکتی ہے۔ جب ہم بچے تھے تو سکول کی کتابوں میں خرگوش اور کچھوے کی دوڑ کی کہانی پڑھا کرتے تھے۔ جس میں بتایا گیا تھاکہ کس طرح ایک محنتی کچھوے نے ایک تیز رفتار مگر کاہل اور سست خرگوش سے دوڑ جیت لی۔ دنیا کے بڑے لوگوں میں سے زیادہ تعداد ان لوگوں کی گذری ہے.6 جنہوں نے باوجود ذہن کی کمی کے اپنی محنت اور جانفشانی سے کمال پیدا کر لیا مگر اس کے مقابل پر ایسے بہت کم لوگ گزرے ہیں۔ جنہوں نے محض ذہنی کمال کے نتیجہ میں محنت کے بغیر کمال پیدا کیا ہو.6 .6وَالشَّاذُ کَالْمَعْدُوْم.6۔ میرے علم کے مطابق وقت کی قدر کو کم کرنے والی عادتوں میں نشے کی چیزیں بھی شامل ہیں اور میں اپنے خیال کے مطابق تمبا کو نوشی کو بھی اس فہرست میں شا مل سمجھتا ہوں۔ بعض کرسی نشین فلسفی کہا کرتے ہیں کہ سگریٹ نوشی .6تخیل .6کو بڑھاتی اور سوچنے کے مادہ کو ترقی دیتی ہے۔ ممکن ہے کسی حد تک یہ درست ہو مگر یہ اسی قسم کی دلیل ہے۔ جیسا کہ قرآنِ شریف نے شراب اور جوئے کے حق میں بیان کیا ہے۔ مگر اس کے باوجود اس نے یہ فرماتے ہوئے شراب اور جوئے کو ممنوع قرار دیا ہے کہ.6 .6 ۵ .6۔ یعنی شراب اور جوئے کا نقصان ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔ بہر حال میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تمباکو ہوتا تو آپ ضرور اس کے استعمال کو منع فر مادیتے۔ میں ایک لمحہ کے لئے بھی صحابہ کی مقدس جماعت کو ایک سگریٹ نوشوں کی پارٹی کی صورت میں اپنے تصور میں نہیں لا سکتا۔ خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ اصل مطلب یہ ہے کہ ہر میدان میں کامیابی کے لئے محنت اور استغراق نہایت ضروری چیز .6ہے اور دنیا میں وہی لوگ ترقی کرتے ہیں جو اپنے کاموں میں محنت اور جانفشانی کے طریق کو اختیار کرتے ہیں .6مگر مجھے شرم کے ساتھ یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ آج کل مسلمانوں میں اس جوہر کی بہت کمی ہے۔ رات کو دیر دیر تک گپ بازی میں وقت گزارنا اور صبح کے قیمتی وقت کو سونے میںضائع کر دینا مسلمان نوجوانوں کا ایک خاصہ ہو رہا ہے حالانکہ یہ وہ چیز ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لے کر منع فرمایا ہے۔
دیانت
.6کامیابی کے حصول کے لئے تیسری بڑی چیز دیانت داری ہے۔ دیانت داری ایک ایسا جوہر ہے جو انسان کی قدر و قیمت کو بے انتہا بڑھا دیتا ہے اور اس کے اندر ایک ایسی شان پیدا کر دیتا ہے کہ جس کے مقا بل پر ہر دوسرے شخص کو جھکنا پڑتا ہے۔ سچ بولنا۔ امانت میں خیانت نہ کرنا۔ دھوکہ دینے کے طریق سے احتراز کرنا۔ اپنے نفع کے علاوہ دوسرے کے فائدہ کا بھی خیال رکھنا۔ یہ سب باتیںدیانت داری کے مختلف شعبے ہیں جو انسان کے کام کو چار چاند لگا دیتے ہیں۔ تاجروں کے لئے دیانت داری کا مخصوص پہلو یہ ہے کہ وہ نا قص چیز کو اچھا کہہ کر نہ بیچیں اور نفع میں اس اصول کو مدنظر رکھیں کہ ان کی ذات کے علاوہ ان کے گاہکوں کو بھی فائدہ پہنچے اور بڑے اور چھوٹے اور واقف کار اور ناواقف کے ساتھ ایک جیسا سلوک کریں۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے اور آپ نے دیکھا کہ وہ اوپر سے خشک تھا لیکن جب آپ نے ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر اندر کا غلہ نکالا تو وہ پانی سے تر بتر تھا۔ اس پر آپ سخت خفا ہوئے اور فرمایا کہ جوتاجر گاہک کو دھوکہ دیتا ہے وہ مسلمان نہیں۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم کو دیانت داری کا.6اتنا احساس تھا کہ آپ ؐ نے یہاں تک حکم دیا کہ پختگی سے پہلے درخت کے پھل کو مت بیچو۔ کیونکہ نہیں کہہ سکتے کہ پختہ ہونے تک اس پھل پر کیا گزرے۔ الغرض ہر کاروبار میں دیانت کے پہلو کو مد نظر رکھنا ضروری ہے۔ اور وہ لوگ جن کی دیانت داری مشکوک ہو کبھی بھی لوگوں میں عزت نہیں پاتے۔ اور اگر انہیں وقتی طور پر کچھ زائد نفع حا صل ہو بھی جائے تو بالآخر وہ ضرور تباہی کامنہ دیکھتے ہیں۔
استقلال
.6چوتھی چیزجو کامیابی کے لئے نہایت ضروری ہے وہ استقلال ہے۔ جسے قرآن شریف نے عربی اصطلاح کے مطابق صبر کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ استقلال سے یہ مراد ہے کہ جب ایک کام کو ہاتھ ڈالا جائے تو شروع کی ناکامیوں اور ٹھوکروں سے گھبرا کر یا ویسے ہی تلون مزاجی کے رنگ میں اکتا کر اس کام کو چھوڑ نہ دیا جائے۔ خدا تعالی نے دنیا میں تدریج کے اصول کوقائم کیا ہے۔ یعنی ہر چیز آہستہ آہستہ ترقی کر کے اپنے کمال کو پہنچتی ہے۔ درخت ہی کو دیکھو کہ شروع میں ایک چھوٹا سا بیج ہوتا ہے۔ پھر وہ ایک نرم اور کمزور کونپل کی طرح باہر نکلتا ہے اور کافی عرصہ تک ایسا نازک نظر آتا ہے کہ ذرا سی چوٹ اسے مٹا سکتی ہے۔ مگر بالآ خر ایک شاندار اور تناور درخت بن جاتاہے۔ جو سخت سے سخت طوفان میں بھی گرنے کا نام نہیں لیتا لیکن افسوس ہے کہ اکثر مسلمان نوجوان بے صبری کی مرض میں مبتلا ہو کر ہاتھ پر سرسوں جمانا چاہتے ہیں اور جب کچھ عرصہ تک انہیں ان کا خیالی اور موہوم نفع حاصل نہیں ہوتا تو اکتا کر کام کو چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ طریق انفرادی اور قومی ترقی کے لئے سخت مہلک ہے جو نوجوان یا جو قومیں صبر و استقلال کی صفت سے محروم ہوتی ہیںوہ کبھی بھی دنیا میں ترقی نہیں کر تیں۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محنت اور جدو جہد کرنے والا دنیا میں کون گزرا ہے۔ مگر پھر بھی آپ کو عرب جیسے ملک میں کامیابی کے لئے اکیس سال تک نہایت مایوس کن حالات میں صبر سے کام لینا پڑا اور اس عرصہ میں اسلام کی کشتی بعض اوقات .6بظاہر اس طرح ڈگمگائی کہ دیکھنے والوں نے سمجھا کہ بس اب یہ ڈوب جائے گی۔ لیکن آخر آنحضرت صلی اللہ .6علیہ وسلم نے اپنے صبر کا پھل پایا اور مکہ کی تاریک گلیوں میں سے رات کے وقت اکیلا نکلنے والا انسان بالآخر دس ہزار قدوسیوںکی سرداری میں فتح و ظفر کا پرچم لہراتا ہوامکہ میں داخل ہوا۔ بے شک یہ کامیابی ایک خاص خدائی انعام تھی۔ مگر اس میں بھی کیا شک ہے کہ بظاہر یہ انعام صبر و استقلال کے ہی ذریعہ حاصل ہوا ۔ پس استقلال بھی انسانی کامیابی کا ایک بھاری گُر ہے اور بے صبری ایک مہلک زہر ہے جو اچھے سے اچھے کام کو بھی تباہ کر دیتااور ناکام بنا دیتا ہے مگر افسوس ہے کہ آج کل اکثر مسلمان بے صبری کی مرض میں مبتلا ہیں۔ اور جب چار دن کے انتظا رکے بعد کسی کام میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوتی تو ایک دروازے کو چھوڑ کر دوسرے دروازے کی راہ لے لیتے ہیں۔
.6چاروں صفات کا ایک ہی وقت میں پایا جانا ضروری ہے۔یہ وہ چار موٹے موٹے مادی وسائل ہیں جن سے انسان دنیا میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ (اول) علم اور فن کی واقفیت (دوم) محنت اور جانفشانی(سوم) دیانت داری اور امانت(چہارم) صبر اور استقلال۔یہ گویا وہ چار دیواری ہے۔ جس سے انسانی کاموں کی عمارت تکمیل پاتی ہے۔ لیکن جس طرح اگر کسی کمرہ کی چار دیواروں میں سے ایک دیوار گری ہوئی ہوتو اس کمرہ کے اندر رہنے والا شخص سردی گرمی اور چور چکار کے خطرہ سے محفوظ نہیں ہوتا۔ اسی طرح جو شخص علم تو رکھتا ہے مگر محنت کے جوہر سے عاری ہے یا محنتی تو ہے مگر اس کے علم کا خانہ خالی ہے۔ یا وہ علم اور محنت دونوں خوبیوں سے مزین ہے مگر دیا نت .6دار نہیں یا دیانت دار بھی ہے۔ مگر اس کے صبر و استقلال .6کا دامن تہی ہے تو وہ اپنی بعض خوبیوں کے باوجود کبھی بھی پوری کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ جس کے لئے اس عمارت کی چاردیواری کی تکمیل ضروری ہے۔ اس کی مثال ایک ایسے برتن کی ہے۔ جس کی تین طرفیں تو ٹھیک ہوںمگر چوتھی طرف ٹوٹی ہوئی ہو ۔کیا ایسے برتن میں ڈالا ہوا دودھ سلامت رہ سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ اسی طرح ان چار صفات میں سے سب کا پایا جانا ضروری ہے۔ ورنہ کامیابی ایک خیالِ موہوم۔
دعا
.6لیکن چارد یواری کے لئے بھی ایک چھت کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ جو اوپر سے آنے والے خطرات کو روکتی ہے اور یہ چھت دُعا ہے جسے قرآن شریف نے صلوٰۃ کے لفظ سے تعبیر کیاہے۔ چنانچہ فرماتا ہے .6۶.6یع.6نی.6 تم اپنے کاموں میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایک طرف صبرواستقلال کا اور دوسری طرف دعا اور نماز کا طریق اختیار کرو۔ اس مختصر فقرہ میں علم اور محنت اور دیانت کے ذکر کو بظاہر ترک کر کے صبر کے لفظ میں مرکوزکر دیا گیا ہے کیونکہ صبر سے محض بے کاری میں انتظار کرنا یا ایک جگہ پردھرنا مار کر بیٹھے رہنا مراد نہیں بلکہ کسی صحیح طریق کار پر استقلال کے ساتھ قائم رہنا مراد ہے اور یہ طریق کار وہی ہے جسے دوسری جگہ قرآن شریف نے علم اور استغراق اور امانت کے لفظوں سے یاد کیا ہے مگر اس جگہ تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں ہے۔ بہر حال دعا ایک روحانی ذریعہ ہے جو دنیا کے مادی ذرائع کے لئے بطور چھت کے ہے اور سچے مسلمانوں کو روحانی ذریعہ کی طرف سے بھی غافل نہیں ہونا چاہئے۔ دراصل جب ایک انسان اپنی سمجھ اور طاقت کے مطابق علم اور محنت اور دیانت اور استقلال کے رستوں کو اختیار کر لیتا ہے تو پھر بھی بشری کمزوری کی وجہ سے اس کے کام میں بعض رخنے باقی رہ جاتے ہیںاوران رخنوں کو دعا پورا کرتی ہے۔ گویا کامیابی کے ظاہری اسباب کو اختیار کرنے والا انسان خدا سے یہ دعا کرتا ہے کہ اے خدا تیرے بنائے ہوئے قانون کے ما تحت جو ذرائع ضروری تھے وہ میں نے اختیار کر لئے، اب میری کوشش میں جو خامی رہ گئی ہے اسے تو اپنے فضل سے پورا فرما دے۔ اور قرآن شریف میں خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے وعدہ فرما تا ہے کہ جو لوگ خدا کے بنائے ہوئے اسباب کو اختیار کرنے کے بعد خدا سے دعا کرتے ہیں۔ ان کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے .6.6۷ .6یعنی.6 میں دعا کرنے والے کی دعا کو ضرور قبول کرتا ہوںمگر شرط یہ ہے کہ لوگ مجھ پر ایمان لائیں اور میرے بتائے ہوئے احکام پر عمل کریں۔
مکمل چار دیواری
.6مجھے یقین ہے کہ اگر اس نئے قومی دور میں مسلمان ان پانچ طریقوں کو اختیار کریں جو میں نے اوپر بیان کئے ہیں۔ یعنی(۱) علم(۲) محنت (۳) دیانت (۴) استقلال اور(۵) دعا تو وہ نہ صرف اپنے کاموں میں کامیاب ہو سکتے ہیںبلکہ انفرادی اور قومی لحاظ سے اتنی ترقی کر سکتے ہیںکہ ساری دنیا کے لئے ایک نمونہ بن جائیں۔ جیسا کہ اسلام کے پہلے دور میں وہ نمونہ بنے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ اکثر لوگ منہ کی پھونکوں سے یا دل میں پیدا ہو کر ٹھٹھر جانے والی خواہش سے کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان راستوں کی طرف سے غافل رہتے ہیں جو ہمارے علیم و قدیر خدا نے انسانی ترقی کے لئے پیدا کئے ہیں۔مجھے تو واقعی یوں نظر آتا ہے کہ گویا انسان کا وجود فرش اور زمین کے طور پر ہے۔ اور یہ چارمادی ذرائع چاردیواروں کے قائمقام ہیں جو اس فرش پر قائم ہونی چاہئیں ۔ اور پھر دعا کا روحانی ذریعہ اس چار دیواری کے لئے بطور چھت کے ہے۔ جس سے کہ گھر کی عمارت تکمیل کو پہنچتی ہے۔ اور اس کے بعد کوئی رخنہ باقی نہیں رہتا۔ کاش لوگ اس نکتہ کو سمجھیں اور انفرادی اور قومی جدوجہد میں حصہ لے کر اسلام کے جھنڈے کو ہر جہت سے بلند تر کرنے کی کوشش کریں۔ بے شک یہ ایک خدائی تقدیر ہے جو بہر حال پوری ہو کر ہے گی۔ کیونکہ خدا تعالیٰ خود اس زمانہ کے مرسل و مامور سے فرماتا ہے کہ:.6-
.6بخرام کہ وقتِ تو نزدیک رسید و پائے
.6محمدیاں بر منارِ بلند تر .6م.6حکم افتاد۸
.6مگر کیا ہی خوش قسمت ہوں گے وہ لوگ جن کے ہاتھ سے یہ بظاہر نگوں شدہ جھنڈا دوبارہ اونچا ہو گا۔ .6و ا خر دعوٰ نا ان الحمد ﷲ رب العالمین.6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۲؍ جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
جمع صلوٰتین کے متعلق ایک ضروری مسئلہ
کیا امام کی اتباع زیادہ ضروری ہے یا کہ نمازوں کی ترتیب
.6سفر یا بارش وغیرہ کے موقع پر جبکہ عموماً نمازوں کے جمع کرنے کی ضرورت پیدا ہو جاتی ہے۔ کئی لوگوںکو ایک خاص قسم کی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔ جس کے متعلق مفتیوں کے فتویٰ میں اختلاف ہے۔ یہ صورت اس وقت پیش آتی ہے کہ جب مثلاً امام ظہر اور عصر کی نماز جمع کراتے ہوئے عصر کی نماز پڑھا رہا ہوتا ہے۔ یا مغرب اور عشاء کی نماز جمع کراتے ہوئے عشاء کی نماز پڑھا رہا ہوتا ہے اور ایک ایسا شخص آکر نمازمیں شامل ہو تا ہے۔ جس نے ابھی تک ظہر یا مغرب کی نماز نہیں پڑھی ہوتی اس وقت یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسا شخص اپنی چھوڑی ہوئی نماز پہلے پڑھے۔ اور پھر امام کے ساتھ نماز باجماعت میں شامل ہو۔ یا کہ امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور اپنی چھوڑی ہوئی نماز بعد میں پڑھ لے۔ قدیم علماء میںتو اس مسئلہ کے متعلق اختلاف ہے ہی مگر جہاں تک سماعی فتویٰ کا تعلق ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کے فتویٰ میں بھی اختلاف سنا جاتا ہے۔ زبانی روایت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فتویٰ یہ تھا کہ ایسی صورت میں شامل ہونے والے شخص کو چاہئے کہ ترتیب کے خیال کو چھوڑ کر امام کے ساتھ شامل ہو جائے اور جو نماز امام پڑھا رہا ہے وہ پہلے پڑھ لے اور پھر بعد میں اپنی چھوڑی ہوئی نماز علیحدہ ادا کرے ۔اس کے مقابل پر ایک دوسری زبانی روایت حضرت خلیفۃ المسیح اول رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہ بتاتی ہے کہ چونکہ نمازوںکی مقررہ ترتیب ضروری ہے۔ اس لئے ایسی صورت میںاس شخص کو چاہئے کہ پہلے علیحدہ طور پر اپنی چھوٹی ہوئی نماز پڑھے اور اس کے بعد امام کے ساتھ شامل ہو۔
.6اس تعلق میں میرا سب سے پہلا سوال تو احبا ب سے یہ ہے کہ اگر کسی دوست کو اس بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت خلیفہ اوّل ؓ کا کوئی یقینی اور قطعی فتویٰ معلوم ہو تو اس سے اطلاع دیں۔ تاکہ صحیح صورت کا علم ہو سکے کہ آیا جو فتویٰ زبانی روایت سے ظاہر ہوتا ہے وہی درست ہے یا کہ اصل صورت کچھ اور ہے۔ ہر چند کہ اس قسم کے فقہی مسائل کا اختلاف زیادہ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ یہ مسائل اسلامی تعلیم کے اس حصہ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ .6اختلاف امتی رحمۃ…۹.6 .6یعنی میری امت کا اختلاف رحمت ہے۔مگر پھر بھی علمی تحقیق کی .6رو سے اصل فتویٰ کا پتہ لگانا ضروری ہے۔
.6دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوںوہ اصل مسئلہ سے تعلق رکھتی ہے۔جہاں تک میں نے اس سوال کے متعلق سوچا ہے۔ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ ا لصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والا فتویٰ زیادہ صحیح پختہ اور اصول اسلام کے زیادہ مطابق نظر آتا ہے۔ اور میرے اس خیال کے دلائل یہ ہیں:.6-
.6(۱) اسلام امام کی اتباع کے سوال کو اتنی اہمیت دیتا ہے اور اسے قومی اور انفرادی ترقی کے لئے ایسا ضروری قرار دیتا ہے کہ اس کے مقابل پر کسی دوسرے استدلالی مسئلہ کو جو امہات مسائل میں سے نہیں قطعا ًکوئی حیثیت حاصل نہیں۔ پس جہاں امام کی اتباع اور کسی دوسرے غیر اصولی یا جزوی مسئلہ کا .6ٹکرائو پیدا ہو گا۔ وہاں لازماً امام کی اتباع کو مقدم کیا جائے گا۔ اور اس اصول کے ماتحت حضرت .6مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والا فتویٰ ہی صحیح قرار پاتا ہے۔کیونکہ اس میں امام کی اتباع کے اصول کو نماز کی ظاہری اور وقتی ترتیب کے سوال پر مقدم رکھا گیا ہے۔
.6(۲)دوسری دلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کی طرف منسوب ہونے والے فتویٰ کے حق میں اس اصول سے نکلتی ہے کہ اگر اس بات کی اجازت دی جائے کہ امام تومسجد میں نماز باجماعت پڑھا رہاہے اور ایک دوسرا شخص پیچھے سے آکر جماعت سے الگ ہو کر اپنی علیحدہ نماز شروع کر دیتا ہے۔ اور مسجد میں یہ نظارہ نظر آنے لگتا ہے کہ مثلاً امام تو جماعت کے ساتھ سجدہ میں ہے۔ مگر یہ شخص کھڑے ہو کر ہاتھ باندھے ۔ قیام کر رہا ہے تو یہ صورت ملت کے ظاہر ی اتحاد میں سخت رخنہ پیدا کرنے والی اور دل کی گہرائیوں میں کجی کا راستہ کھولنے والی ہو گی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تو اتحاد ظاہری کا اس قدر خیال تھاکہ آپ صفوں کی ذرا سی بد نظمی کو بھی سخت ناپسند فرماتے تھے۔ اور فرمایا کرتے تھے کہ تم جب نماز با جماعت کے لئے کھڑ ے ہو تو صفوں کی درستی اور صحت کا خاص خیال رکھو ۔ اور چاہئے کہ تمہاری یک صورتی اور یک جہتی میں ذرا بھر بھی فرق نہ آوے ۔ کیونکہ اگر تم نے اس کا خیال نہ کیا تو خدا تمہارے دلوں میں کجی پیدا کر دے گا اتحاد ظاہری اور باطنی کا ایسا دلدادہ نبی اس بات کی کس طرح اجازت دے سکتا ہے کہ ادھر تو امام نماز کرا رہا ہے اور ادھر ایک شخص جماعت سے الگ ہو کر اپنی علیحدہ نماز پڑھ رہا ہے۔ بہر حال اس پہلو سے بھی یہی استدلال ہوتا ہے کہ صورت پیش آمدہ میں امام کی اتباع کا سوال نماز کی ظاہری ترتیب کے سوال پر مقدم ہے۔
.6(۳) تیسری دلیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے والے فتویٰ کے حق میںیہ ہے کہ جمع کی صورت کے علاوہ عام باجماعت نمازجس کے متعلق آنحضرت .6صلی.6 اللہ علیہ وسلم کا یہ صاف اور واضح فتویٰ موجود ہے کہ اگر تم ایسے وقت میں جماعت میں شامل ہو کہ مثلا ًامام دو.6رکعت نماز پڑھ کر تیسری رکعت میں داخل ہو چکا ہے۔ تو تم نماز میں شامل ہو جائو۔ اور پھر امام کی نماز کے بعد وہ حصہ نماز کا پور اکر لو۔ جو تم سے رہ گیا ہے۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ کہ .6صَلَّوْا مَا فَاتَکُمْ .6…۱۰.6۔ یعنی بعد میں اس حصہ کو پورا کر لو۔ جو تم سے رہ گیا ہے۔ اس حدیث کے الفا ظ .6مَا فَاتَکُمْ .6سے صاف ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام کی اتباع کو مقدم رکھ کر نماز کی ترتیب کو اس کے تابع کیا ہے۔ گویا جو شخص امام کے ساتھ تیسری رکعت میں شامل ہو گا۔ اس کی نماز یوں ہو گی کہ وہ پہلے تیسری اور چوتھی رکعت پڑھے گا اور پھر اس کے بعد پہلی اور دوسری رکعت ادا کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ جب امام کی اتباع کی وجہ سے ایک نماز کے اندر کی ترتیب بدل سکتی ہے تو جمع کی صورت میں دو نمازوں کی باہمی ترتیب کیوںنہیں بدل سکتی۔
.6(۴) چوتھی دلیل میرے خیال کی تائید میں یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی وقت کی نماز پڑھنی بھول جائے۔ مثلاً ایک شخص ہے جو ظہر کی نماز پڑھنی بھول گیا ہے اور عصر کی نماز پڑھ چکنے کے بعد اسے ظہر کی بھولی ہوئی نماز یاد آتی ہے تو اس کے متعلق متفقہ فتویٰ یہ ہے کہ وہ ترتیب کا خیال چھوڑ کر اپنی بھولی ہوئی ظہر کی نماز عصر کے بعد پڑھ لے.6،.6 ورنہ اگر نمازوں کی ترتیب بہر حال مقدم ہوتی تو فتویٰ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس صورت میں ایسا شخص بھولی ہوئی ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد پھر دوبارہ عصر کی نماز کی تکرار کرے تاکہ ترتیب قائم رہے مگر ایسا حکم نہیں دیا گیا۔
.6ان سب دلائل سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والا فتویٰ ہی زیادہ صحیح اور اصول اسلام کے زیادہ مطابق ہے۔ مگر چونکہ بہر حال یہ ایک فقہی مسئلہ ہے جس میں جائز اختلاف کی گنجائش تسلیم کی گئی ہے۔ اس لئے اگر کوئی صاحب اس بارے میں کچھ فرمانا چاہتے ہیں .6تو مجھے براہ راست خط لکھ کر یا الفضل کے ذریعہ مطلع فرمائیں .6 .6وَجَزَا ہُ اﷲُ خَیْرًا.6۔ اس کے بعد انشاء اللہ .6یہ حوالے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کر دئے جائیں گے۔
.6
‎(مطوعہ الفضل ۲۳؍ جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
احباب اپنی جائیدادوں کا نقصان فورا ًرجسٹر کرائیں
.6اس سے پہلے بھی کئی دفعہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ جن احمدی دوستوں کی جائیدادوں کا نقصان صوبہ مشرقی پنجاب یا صوبہ دہلی میں ہوا ہے۔ انہیں چاہئے کہ بہت جلد اپنے نقصان کی تفصیل درج کر کے اور پوری پوری قیمت لگا کر لاہور کے محکمہ متعلقہ میں رجسٹر کرادیںمگر ابھی تک بہت کم دوستوں نے اس طرف توجہ کی ہے۔ لہذا یہ اعلان دوبارہ کیا جاتا ہے کہ اپنے نقصان کو جلد سے جلد رجسٹر کرا دیا جائے۔ گورنمنٹ کی طرف سے اس غر ض کے لئے فارمیں چھپی ہوئی ہیں۔ جو دفتر نظارت امور عامہ جودہا مل بلڈنگ جودہا مل روڈ لاہور سے بھی مل سکتی ہیں۔ لیکن اگر مجبوری کی صورت میں فارم نہ ملے تو بغیر فارم کے ہی ایک درخواست میں الگ الگ پیرے بنا کر اپنی ضائع شدہ جائیداد کی نوعیت اور مالیت درج کر دی جائے۔ جائیداد میں جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ ہر دو علیحدہ علیحدہ دکھانی چاہئیں۔ اور جائیداد منقولہ و زمینیں مکان اور دوکان وغیرہ کا جائے وقوع بھی درج کرنا چاہئے۔ قادیان سے آئے ہوئے دوست بھی اس طرف فوری توجہ دیں۔ محکمہ متعلقہ کا پتہ یہ ہے:.6-
.6رجسٹرار آف کلیمز ۳ ٹمپل روڈ ۔ لاہور
.6ریکارڈ کی غرض سے نظارت امور عامہ جو د ھامل بلڈنگ لاہور کو بھی درخواست کی نقل بھجوا دی جائے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍جنوری ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
اے ابناء فارس!
اسلامی طریق لباس سے کیا مراد ہے؟
.6حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض تازہ خطبات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خاندان کے نوجوانوں کو خصوصاًاور جماعت کے دوسرے نوجوانوں کو عموماً اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انہیں دنیاداری کے طریق کو ترک کر کے اپنے کاموں میںللہیت اور خدمت دین کا رنگ پیدا کرنا چاہئے۔ اسی تعلق میں حضور نے ضمنی طور پر لباس کا بھی ذکر فرمایا تھا کہ جماعت کے نوجوانوں کو چاہیئے کہ اپنے لباس میں سادگی اختیار کریںاور اسلامی طریق زندگی کے کاربند ہوں۔ اس پر بعض اصحاب نے یہ سوال اٹھا یا ہے کہ لباس کے معاملہ میںاسلامی طریق کیا ہے یعنی کس قسم کے لباس کو اسلامی لباس سمجھا جائے اور کس قسم کے لباس کو اسلامی لباس نہ سمجھا جائے۔ چونکہ ممکن ہے کہ یہی سوال بعض دوسرے نوجوانوں کے دلوں میں بھی پیدا ہوتا ہو، اس لئے میں اخبار کے ذریعہ مختصر طور پر اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں۔ تاکہ سوال کرنے والے نوجوانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ .6وَرُبَّ مُبَلَّغٍ اَو عٰی مِن سَامِعٍ۔…۱۱
.6سب سے پہلی بات تو یہ ہے جو اس قسم کے تمام مسائل میں گویا ایک بنیادی اصول کا رنگ رکھتی ہے کہ اسلام کسی خاص قوم یا خاص ملک یا خاص زمانہ کے لئے نہیں آیا ۔ بلکہ دنیا کی ساری قوموں اور سارے ملکوں اور سارے زمانوں کے لئے آیا ہے۔ اس لئے اس قسم کے فروعی اور تمدنی امور میں اسلام کی طرف سے کوئی ایسی تفصیلی ہدایت نہیں دی گئی۔ اور نہ عقلاً دی جانی چاہئے تھی کہ تم اس قسم کا لباس پہنواور اس قسم کا لباس نہ پہنو۔ لباس کا معاملہ ہر قوم کے تمدن اور ہر ملک کی جغرافیائی حالت اور ہر زمانہ کے اقتصادی ماحول کا نتیجہ ہوا کرتا ہے۔ پس یہ ناممکن تھا کہ وہ مذہب جو خدا کی طرف سے عالمگیر پیغام لے کر آیا ہے ۔ اور ہر قوم اور ہر ملک اور ہر زمانہ کے واسطے شمع بردار ہونے کا مدعی ہے۔ وہ اس قسم کی تفصیلات میں دخل دے کر لوگوںکے واسطے رحمت بننے کی بجائے ناواجب تنگی کا باعث بن جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف فرماتا ہے۔.6۱۲.6 .6یعنی اے مسلمانوں ایسی باتوں کے متعلق سوال مت کیا کروکہ اگر ان کے متعلق ٹھوس شرعی احکام نازل کر دیئے جائیں تو وہ تمہارے لئے ناواجب تنگی پیدا کر کے تکلیف کا موجب بن جائیں۔ پس شریعت.6نے کمال دانشمندی کے ساتھ ایک حصہ میں خود خاموشی اختیار کی ہے۔ اور اصول بتا دینے کے بعد تفاصیل کا فیصلہ مختلف قوموں اور مختلف ملکوں اور مختلف ز.6ما.6نوں پر چھوڑ دیا ہے۔ چنانچہ حدیث میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ آتے ہیں ۔کہ.6 اختلاف امتی رحمۃ.6۔.6 .6اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اسلامی شریعت کا تمام زمانوں اور تمام قوموں اور تمام ملکوں کے لئے نازل ہونا خد اکی عالمگیر رحمت کا ثبوت ہے۔ اور اس وسعت کے نتیجہ میں بعض باتوں میں جو تفاصیل سے تعلق رکھتی ہیں اختلاف کا پایا جانا ضروری ہے۔ پس یہ اختلاف بھی خدا کی رحمت کا ایک طبعی نتیجہ ہے۔ لہذا اسے م.6حد.6ود کر کے اور تفصیلی امور میں یک رنگی کا رستہ تلاش کر کے خدا کی رحمت کی وسعت کو باطل مت کرو۔ پس اوپر کے سوال کا اصل جواب تو یہ ہے کہ اسلام لباس کے معاملہ میں ایسا دخل نہیں دیتا کہ سب قوموں اور سب ملکوں کو مجبورکر کے ایک ہی لباس میں ملبوس دیکھنا چاہے۔ بلکہ اس نے لباس کے معاملہ کو لوگوںکے حالات پر چھوڑ دیا ہے۔ لہذا کوئی لباس بھی اسلامی لباس نہیں۔ اس معنی میں کہ اسلام نے کسی مخصوس لباس کا حکم نہیں دیا اور ہر لباس اسلامی لباس ہے۔ اس معنی میں کہ اگر کسی ملک کا شریف طبقہ اسلام پر قائم رہتے ہوئے اپنے طبعی حالات کے نتیجہ میں اپنے لئے کوئی لباس اختیار کرتا ہے تو وہی لباس اس کے لئے اسلامی لباس ہے۔
.6لیکن جہاں اسلام نے اس قسم کے تفصیلی امور میں ہمیں آزاد رکھا ہے۔ وہاں اس نے ان تفصیلات کے دائرے میں بھی ہمیں بعض اصولی ہدایات دے کر ہمارے لئے سلامت روی کا رستہ کھول دیا ہے اور ہم تفاصیل میں اختلاف رکھتے ہوئے بھی اسلامی روح کے معاملہ میں ایک جان بن کررہ سکتے ہیں ۔ یہ اصولی ہدایات جہاں تک میں نے غور کیا ہے ذیل کی چار قسموں میں محدود ہیں۔
.6(اوّل) سب سے پہلی بات اور حقیقی طور پر بنیادی بات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مشہور اور متواتر حدیث میں مر کوز ہے کہ.6 اِنَّمَا الْاَ عْمَالُ بِا لنِّیَّاتِ…۱۳.6۔ ’’یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہوتا ہے‘‘ اس نہایت درجہ گہری اور ٹھوس صداقت کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ہاتھ میں نیک و بد عمل کو پہچاننے اور اچھے اوربرے طریق میں امتیاز کرنے کی ایک بہترین کسوٹی دے دی ہے۔ پس جو شخص کسی لباس کو اختیار کرتا ہے۔ اس کا سب سے پہلا فرض یہ ہے .6اِنَّمَا الْاَ عْمَالُ بِا لنِّیَّاتِ.6کی کسوٹی کے ذریعہ اپنے اس عمل کا امتحان کرے۔اگر اس کے عمل میں کسی قسم کے تکلف یا تصنع یانقالی یا نمائش یا فضول خرچی یا اسلامی اصولِ زندگی سے انحراف کی خواہش نہیں ہے۔ تو چشم ما روشن دل ما شاد۔ وہ جس لباس کو بھی نیک نیتی سے اسلام کی تعلیم پر قائم رہتے ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ مبارک کو اصولی رنگ میں عمل پیرا ہوتے ہوئے طبعی سادگی کے طریق پر اختیار کرتاہے۔ ہمیں اس سے کوئی جھگڑا نہیں۔
.6(دوم) دوسرا اصول جس میں کسی قدر زیادہ وضاحت سے کام لیا گیا ہے۔ قرآن شریف نے ان الفاظ میں بیان فرما یا ہے۔ کہ .6۱۴.6’’یعنی آخری زمانے کے مادہ پرست لوگوں کی ایک علامت یہ ہے کہ ان کی زندگی کی ساری جدوجہد دنیا کے کاموں میں خرچ ہو رہی ہو گی۔ اوریوں نظر آئے گا کہ ان کی ساری توجہ دنیا کے دھندوں میں ہی غرق ہے۔ یہ اصولی ہدایت بھی لباس کے معاملے میں بڑی روشنی پہنچاتی ہے۔ ہر شخص اپنے نفس میں غور کر سکتا ہے کہ اس کا کسی لباس کو اختیار کرنا انہماک کی حد تک تو نہیں پہنچا ہوا کہ گویا اس کی ساری جدوجہد اور اس کی زندگی کا سارا شوق اسی قسم کی مادی آسائشوں میں الجھ کر رہ گیا ہے۔ مطلقاً لباس کاسوال تو ایک طبعی سوال ہے۔ جس میں جسم کی حفاظت اور پردہ کے علاوہ کسی حد تک زینت کا پہلو بھی مقصود ہے لیکن جو شخص اس سوال میں گویا غرق ہو کر اسی کواپنی توجہ کا مرکز بنا لے وہ یقیناًاس آیت کی زد میں آتا ہے کہ .6.6.6آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی لباس پہنا اور آپؐ کے خلفاء نے بھی لباس.6 .6پہنے اور ہمارے زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی لباس پہنا اور آپ کے خلفاء نے بھی لباس پہنے۔ اور ان سب نے اپنے لباس میں ایک حد تک آرام اور زینت کو بھی مَدِّنظر رکھا مگر کون کہہ سکتا ہے کہ ان بزرگ ہستیوں کو لباس کے معاملہ میں کسی قسم کا انہماک تھا ان کی زندگی تو سرا سر ایسی تھی کہ جیسے کوئی راہگیر گھڑی بھر کے لئے کسی درخت کے سایہ کے نیچے کھڑاہو جائے اور پھر اپنا رستہ لے لے مگر آج کل کے نوجوان اپنے لباس اور اپنے جسم کی زیب و زینت میں اس .6طرح غرق نظر آتے ہیں کہ گویا ان کے لئے یہی زندگی کا مقصود و منتہیٰ ہے۔ پس گو اسلام لباس کی تفصیلات .6میں تو دخل نہیں دیتا۔ مگر وہ اس قسم کی فنا فی الدنیا ذہنیت کو بھی یقینا ایک *** زندگی قرار دیتا ہے۔
.6(سوم) تیسری اصولی ہدایت ہمیں قرآن شریف کے الفاظ سے ملتی ہے کہ .6.6۱۵.6 یعنی اے رسولؐ تو لوگوں سے یہ کہہ دے کہ.6 .6میرا طریق زندگی تکلف کے رنگ سے بالکل پاک ہے۔ پس لباس کے معاملہ میں تیسری ہدایت یہ سمجھی جائے گی کہ اس میں کسی قسم کے تکلف کا رنگ نہ پیدا کیا جائے۔ تکلف کی زندگی انسان کی روح اور اس کے ضمیر کے لئے ایک ایسا زنگ ہے جو اسے بالآخر تباہ کر کے چھوڑتا ہے اور فطرت کے طبعی بہائو کو مصنوعی رستہ پر ڈال کر انسان کو اس حقیقی خوشی سے محروم کر دیتاہے۔ جو خدا تعا لیٰ نے سادگی کی زندگی میں ودیعت کی ہے۔ مگر افسوس ہے کہ آج کل دوسری قوموں کی نقالی میں مسلمانوں کی زندگی بھی تکلف کے زہر سے مسموم نظر آتی ہے۔ حالانکہ تکلف در اصل نفاق کا ایک حصہ ہے اور نفاق دوسرے لفظوں میں ایک ذلیل قسم کا جھوٹ ہے جسے کوئی .6شریف آدمی اختیار نہیں کر سکتا۔ پس میں کہوں گاکہ اپنے ملک اور قوم اور زمانہ کے حالات کے مطابق .6اور اپنی مالی حیثیت کے پیش نظر اسلام کی تعلیم پر قائم رہتے ہوئے جس قسم کا لباس بھی چاہو اختیار کرو مگر بہر حال اسے تکلف کی *** سے بچائو۔ کیونکہ یہ *** تمہارے فطری حسن کو تباہ کر کے رکھ دے گی۔
.6(چہارم) چوتھی اصولی بات جو لباس کے معاملہ میں ہمیں اسلامی تعلیم سے معلوم ہوتی ہے۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ان پیارے الفاظ میں مرکوز ہے کہ.6 مَن تَشَبَّہَ بِقَومٍ فَھُوَ مِنہُم…۱۶.6۔.6 .6یعنی جو شخص اپنے طریق زندگی اور اپنے لباس اور اپنے طرز بودو باش کو ترک کر کے کسی دوسری قوم کے طریق زندگی اور ان کے لباس اور ان کے بودوباش کو اختیار کرتا ہے.6،.6وہ انہی میں سے ہے اور انہی میں سے سمجھا جانا چاہئے۔ کیونکہ جب وہ اپنے طریق کو ترک کر کے ایک دوسری قوم کے طریق کو اختیار کرتا ہے تو لازماً اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے طریق کو ادنیٰ قرار دے کر دوسرے کے طریق کی فوقیت کو تسلیم کرتا ہے۔ پس اس بات میں کیا شبہ ہے کہ ایسا شخص خواہ زبان سے کچھ دعویٰ کرے۔ اس کا دل اس قوم کے ساتھ ہوتا ہے جس کی مشابہت وہ اختیار کرتا ہے۔ دراصل یہ ایک بدترین قسم کی ذہنی غلامی ہے کہ انسان منہ سے تو یہ دعویٰ کرے کہ میں مسلمان ہوں مگر اپنے طریق زندگی اور اپنے لباس اور اپنے طرز بود و باش میں عیسائیوں کا نقال ہو۔ ایسا شخص یقینا اپنے زبانی دعویٰ کے باوجود مسیحیت کے بت کے سامنے سجدہ کرنے والا سمجھا جائے گا۔ کیونکہ وہ اپنے فعل سے اپنے تمدّن کو ادنیٰ اور مسیحیت کے تمدّن کو اعلیٰ قرار دیتا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ آجکل کے مسلمانوں نے اس قسم کی ذہنی غلامی سے پیٹ بھر کر حصہ لیا ہے۔ ان کی آزادی کا دعویٰ ایک زبانی دعویٰ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا ۔ کیونکہ ان کا دل غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یقینا ایک ظاہری غلام جس کے ہاتھ پائوں کی غلامی کے باوجود اس کا ضمیر آزاد ہے اس شخص کی نسبت بہت زیادہ .6حر.6یت کے مقام پر قائم سمجھا جائے گا، جس کے ہاتھ پائوں تو بظاہر آزادہیں مگر اس کا دل غلامی کی زنجیروں میں جکڑاہوا ہے۔ پس میں اپنے عزیزوں سے کہوں گا کہ کوئی لباس بھی اسلامی نہیں جس طرح کوئی لباس غیر اسلامی نہیں.6،.6مگر جو شخص ذہنی غلامی میں مبتلا ہو کر کسی دوسری قوم کے ساتھ تشبیہ اختیار کرتا ہے۔ اس کا طریق خواہ وہ لباس سے تعلق رکھتا ہے یا کسی اور امر سے یقینا غیر اسلامی ہے۔ ہمیں کوٹ پتلون سے دشمنی نہیں ہے مگر دجالی تہذیب کی نقالی سے ضرور دشمنی ہے اور اس اصول کے ماتحت ایسا شخص بھی اسی طرح زیر ملامت ہے جو انگریز ہو کر ہندوستانیوں کی نقالی میں چوڑی دار پاجامہ پہنتا ہے جس طرح کہ ایک ہندوستانی انگریزوں کی نقالی میں کوٹ پتلون پہنتا ہے۔ کیونکہ گو ظاہر ی حالت مختلف ہے مگر دونوں.6صورتوں میں دل کا زہر ایک ہے۔
.6بعض لوگ اس موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی تو فرماتے ہیں کہ .6کَلِمَۃُ الْحِکْمَۃِ ضَالَّۃُ الْمُؤمِنِ اَخَذَھَا حَیْثُ وَجَدَھَا…۱۷.6 .6’’یعنی حکمت کی ہر بات مومن کی اپنی ہی کھوئی ہوئی چیز ہوتی ہے۔وہ ایسی بات کو جہاںبھی پاتا ہے لے لیتا ہے۔ ‘‘ اس سے یہ لوگ یہ استدلال کرتے ہیں کہ دوسری قوموں اور دوسرے مذہبوں کی اچھی اچھی باتوں کو لے لے کر اپنا بناتے رہنا چاہئے۔ مگر اس حدیث کے یہ معنی بالکل غلط اور اسلام کی بلند شان کے منافی ہیں۔ کیونکہ اس معنی کو صحیح تسلیم کرنے کا یہ مطلب ہے کہ گویا اس حدیث نے ہمارے ہاتھ میں ایک کاسہ گدائی دے دیا ہے کہ اس سے اسلام کے نام پربھیک مانگتے پھرو اور اسلام کی تعلیم میں جو کمی رہ گئی ہے وہ دوسروں کے سامنے دستِ سوال دراز کر کے پوری کرتے جائو ۔ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ اسلام کے متعلق تو یہ ازلی تقدیر جاری ہو چکی ہے کہ .6اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْ وَلَا یُعْلٰی…۱۸.6 .6’’یعنی اسلام دوسرے دینوں کے مقابلہ پر بلند ہونے کے لئے آیا ہے اور ہرگز مغلوب نہیں ہو گا۔‘‘ دراصل اس حدیث کے صحیح معنوں کی کنجی .6ضَالَّۃٌ .6کے لفظ میں رکھی گئی ہے۔ جس کے معنی ہیں ’’کھوئی ہوئی چیز‘‘ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ اے مسلمانو! تم کسی دوسری قوم کی کوئی بظاہر نئی اور اچھی بات دیکھ کر مرعوب نہ ہوا کرو اور یہ خیال نہ کیا کرو کہ تمہیں دنیا میں گویا ایک نئی خوبی اور نئی حکمت کی بات نظر آ گئی ہے۔ جسے اسلام میں داخل کر کے اپنا لینا چاہئے بلکہ اگر یہ چیز واقعی اچھی ہے تو تم .6یقین رکھو کہ وہ تمہاری ہی .6ضَالَۃ.6ٌ.6ہے۔ یعنی وہ تمہاری ہی کھوئی ہوئی چیز ہے۔ جو موجود تو تھی مگر تمہاری .6نظروں سے اوجھل تھی اور اگر تم اسلام کی تعلیم میں غور کرو گے تو تمہیں وہ یقینا اسلام کے اندر ہی مل جائے گی۔ کیونکہ اسلام میں تمام سابقہ صداقتوں اور تمام آئندہ ضرورتوں کے علاج کو جمع کر دیا گیا ہے۔ پس افسوس ہے کہ ایک ایسی حدیث کو جس میں اسلام کا بے نظیر کمال ظاہر کرنا مقصود تھا۔ اسلام کو نعوذباللہ گدا گر اور بھک منگا بنانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
.6بہرحال لباس کے بارے میں اسلام نے کوئی خاص تفصیلی ہدایت نہیں دی کہ فلاں لباس پہنو اور فلاں نہ پہنو۔ اور ایک عالمگیر مذہب کے لئے یہی حکمت کا طریق تھا کہ اس معاملے میں تفصیلی ہدایت سے اجتناب کیا جاتا۔ مگر اس قسم کے معاملات میں اس .6نے.6 اصولی ہدائتیں ضروردی ہیں۔ اور یہ ہدائتیں وہی ہیں جو میں نے اختصار کے ساتھ اوپر بیان کر دی ہیں۔ یعنی (۱) نیت نیک اور صا ف ہو(۲) انہماک کا رنگ نہ پیدا کیا جائے(۳) تکلف کی آمیزش نہ ہو اور(۴) کسی دوسری قوم کی نقالی میں کوئی کام نہ کیا جائے اگر ان چار باتوں کو ملحوظ رکھو تو ہر لباس اسلامی لباس ہے اور اگر ان باتوں.6کو نظر انداز کر دو تو صرف کوٹ پتلون ہی کا سوال نہیں کوئی لباس بھی اسلامی لباس نہیں۔ حضرت صاحب کے خطبوں پر بعض نوجون شاید تلملاتے ہوں گے اور یہ سمجھتے ہوں گے کہ اسلام کو لباس کے معاملہ میں کیا تعلق ہے۔ میں کہتا ہوں اسلام کو واقعی لباس کے معاملہ سے تو کوئی تعلق نہیں مگر اسے مسلمانوں کی روح کی صفائی اور ضمیر کی آزادی اور کیریکٹر کی بلندی اور زندگی کی سادگی کے ساتھ ضرور تعلق ہے اور بہت بھاری تعلق ہے۔ لباس بے شک ایک فرع ہے مگر یہ چیزیں جڑ کا حکم رکھتی ہیں اور جو جڑ گندی ہو گی.6،.6 وہ کبھی بھی اچھی شاخ پیدا نہیں کرے گی۔
.6مگر افسوس ہے کہ ہمارے خاندان کے بعض نوجوانوں میں بھی ماحول کے مادی اثر کے ماتحت مغرب کی دجالی تہذیب کا کسی قدر رنگ پیدا ہوتا نظر آتا ہے اور جب حضرت صاحب نے اپنے خطبہ میں لباس کا ذکر کیا تو اس میں بھی اسی تلخ حقیقت کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا۔ اس قسم کی خرابیاں ابتداء میں بہت معمولی بلکہ کوتاہ بینوں کے نزدیک ناقابل التفات نظر آتی ہیں۔ مگر بعد میں آہستہ آہستہ خاندانوں اور قوموں کو تباہ کر کے چھوڑتی ہیں۔ بہر حال اس جد امجد کی نسل جسے قاتلِ دجال ہونے کا دعویٰ تھا اور جس کی اپنی نسل کے واسطے یہ دعا تھی کہ :.6-
.6 نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال
.6اس کے گھر کے بعض نونہالوں کے جسم پر دجالی تہذیب کا بپتسما خواہ وہ مرعوبیت کے رنگ میں نہ بھی ہو کوئی اچھی نشانی نہیں ہے۔ وقت بہت نازک ہے اور نازک تر آرہا ہے میں اپنے بیٹوں ۔ بھتیجوں۔ بھانجوں۔ دامادوں ۔ماموں زاد بھائیوں اور جملہ ابنائِ فارس سے کہتا ہوں کہ ہماری زندگی کا بہت سا وقت گزر گیا اور معلوم نہیں کتنا وقت باقی ہے ہم نے اس عرصہ میں ٹھوکریں بھی کھائیں۔ لغزشیں بھی دیکھیں اور نہ معلوم کن کن گناہوں کے داغوں سے ملوث ہوئے۔ مگر خدا جانتا ہے کہ نما ئش کے طور پر نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاک نام کی خاطر کم از کم اپنی زندگیوں کے ظاہر کو شریعت اسلامی کے مطابق رکھنے کی کوشش کی۔ ا ب آپ لوگو.6ں.6 کا دور آرہا ہے۔ اس کے لئے میں آپ کو اس سے بہتر الفاظ میں کیا نصیحت کر سکتا ہوں کہ :.6-
.6ہم تو جس طرح بنے کام کئے جاتے ہیں
.6آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍ فروری ۱۹۴۸ئ)
.6
ہمارا تعلیم الاسلام کالج
.6 .6آج مجھے اتفا قاً اپنے تعلیم الاسلام کالج آف قادیان حال لاہور کو چند منٹ کے لئے دیکھنے کا موقع ملا۔ ہمارا ڈگری کالج جو موجودہ فسادات سے قبل قادیان کی ایک وسیع اور عالیشان عمارت میں اپنے بھاری سازوسامان کے ساتھ قائم تھا۔ وہ اب لاہور شہر سے کچھ فاصلے پر نہر کے کنارے ایک نہایت ہی چھوٹی اور حقیر سی عمارت میں چل رہا ہے۔ اس عمارت کا نچلا حصہ قریباً قریباً ایک اصطبل کا سا رنگ رکھتا ہے۔ اور اوپر کی منزل چند چھوٹے چھوٹے کمروں پر جو نہایت سادہ طور پر بنے ہوئے ہیں ،مشتمل ہے۔ عمارت کی قلت اور کمروں کی کمی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی عمارت سے کالج اور بورڈنگ کا کام لیا جا رہا ہے۔ بلکہ حق یہ ہے کہ اس عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کے استعمال میں ہے۔اور باقی کمروں میں بورڈ ررہائش رکھتے ہیں ان میں سے بعض چارپائیاں نہ ہونے کی وجہ سے فرش پر سوتے ہیں اور بڑی تنگی کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں۔ لیکن بایں ہمہ میں نے سب بورڈروں کو ہشاش بشاش پایا ۔ جو اپنے موجودہ طریق زندگی پر ہر طرح تسلی یافتہ اور قانع تھے اور کالج میں پڑھتے ہوئے لاہور جیسے شہر میں جھونپڑوں کی زندگی میں خوش نظر آتے تھے۔ یہ اس اچھی روح کا ورثہ ہے جو خدا کے فضل سے احمدیت نے اپنے جوانوں میں پیدا کی ہے اور میں اس روح پر کالج کے طلباء اور کالج کے سٹاف کو قابل مبارک باد سمجھتا ہوں۔
.6مگر جس چیز نے میرے دل پر سب سے زیادہ اثرپیدا کیا وہ کالج کی کلاسوں کی حالت تھی۔ جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں موجودہ عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کی ضروریات کے لئے فارغ کیا جا سکا ہے۔ اس لئے باقی کلاسیں بر آمدوں میں یا کھلے میدان میں درختوں کے نیچے بیٹھتی ہیں۔ لیکن خواہ وہ کمرہ میں بیٹھتی ہیں یا کہ بر آمدہ .6میں.6 اورخواہ کھلے میدان میں، ان سب کا یہ حال ہے کہ چونکہ کوئی .6ڈیسک اور کوئی میز کرسی نہیں اس لئے پڑھانے والے اور پڑھنے والے ہر دو چٹا ئیاں بچھا کر زمین پر بیٹھتے .6ہیں۔مجھے اس نظارہ کو دیکھ کر وہ زمانہ یاد آیا کہ جب دینی اور دنیوی ہر دو قسم کے علوم کا منبع مسجدیں ہوا کرتی تھیں۔ جہاں اسلام کے علماء اور حکماء فرش پر بیٹھ کر اپنے ارد گردگھیرا ڈالے ہوئے طالب علموں .6کو درس دیا کرتے تھے۔ اور اس قسم کے درسوں کے نتیجہ میں بعض ایسے شاندار عالم پیدا ہوئے کہ صدیاں .6گزر جانے کے باوجود آج کی دنیا بھی ان کے علوم سے روشنی حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے۔
.6میں نے کالج کے بعض بچوں اور پروفیسروں کو بتا یا .6ک.6ہ انہوں نے پرانے زمانہ کی یادکو تازہ کیا .6ہے اور جس خوشی کے ساتھ انہوں نے حالات کی اس تبدیلی کو قبول کیا ہے وہ ان کے لئے اور ہم سب .6کے لئے باعث فخر ہے۔ میں نے انہیں یہ بھی بتا یا کہ موجودہ حالت سے انہیں یہ سبق سیکھنا چاہئے کہ حقیقی علم ظاہری ٹیپ ٹاپ اور ظاہری سازوسامان سے بے نیاز ہے اور جھونپڑوں کے اندر فرشوں پر بیٹھ کر بھی انسان اسی طرح علوم کے خزانوں کا مالک بن سکتا ہے۔ جس طرح شاندار سازوسامان استعمال کرنے والے علم حاصل کرتے ہیں۔ بلکہ یہ صورت روح کی درستی کے لحاظ سے زیادہ مفید ہے اور انسانی قلب کو علم کے مرکزی نقطہ پر زیادہ پختگی کے ساتھ قائم رکھ سکتی ہے۔ کیونکہ جب ماحول کی زیب و زینت نہیں ہو گی تو لازماً انسان کی آنکھیں اور انسان کے دل و دماغ علم کی طرف زیادہ متوجہ رہیں گے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ ضروری سازو سامان جو موجودہ علوم کے حصول کے لئے ضروری ہے اسے حا صل نہ کیا جائے ۔جو چیز حقیقتًا ضروری ہے وہ علم کا حصہ ہے ۔ اور ہم اس کی طرف سے غافل نہیں رہ سکتے۔ اور موجودہ صورت میں بھی ہم اس کے لئے کوشاں ہیں۔ مگر ظا ہری ٹیپ ٹاپ یا زیب و زینت کا سامان یا آرام و آسائش کے اسباب بہرحال زائد چیزیں ہیں جو علم کے رستہ میں ممد ہونے کی بجائے روک بننے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں۔ ہمارے آقا فداہ نفسی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ .6اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ…۱۹.6۔.6 .6یعنی فقر میرے لئے فخر کا موجب ہے۔ اس سے بھی یہی مراد ہے کہ مجھے آسائش کے سامانوں کی ضرورت نہیں اور میری روح ان چیزوں کے تصور سے بے نیاز ہے۔ جو محض .6جسم کے آرام کا پہلو رکھتی ہیں۔ اور روح انسانی کی ترقی میں ممد نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ .6علیہ وسلم فرماتے ہیں .6اُطْلُبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّیْنِ…۲۰.6۔.6 یعنی علم کی تلاش کرو۔ خواہ اس کے لئے تمہیں چین کے ملک تک جانا پڑے۔ چونکہ اس زمانہ میں چین کا ملک ایک دور افتادہ ملک تھا۔ اور اس میں رستہ کی صعوبتوں کے علاوہ دنیوی آسائشوں کے بھی کوئی سامان موجود نہیں تھے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکیمانہ الفاظ فرما کر یہ اشارہ کیا کہ حقیقی علم دنیوی آسائشوں اور سازو سامان کے ماحول سے آزاد ہے۔
.6بہر حال میں بہت خوش ہوں کہ ہمارے بچوں نے یا کم از کم ان میں سے اکثر نے ماحول کی موجودہ تبدیلی میں اچھا نمونہ دکھایا ہے اور اگر وہ خلوص نیت کے ساتھ اس روح پر قائم رہیں گے تو مجھے یقین ہے کہ وہ علم کے حصول کے علاوہ سادہ زندگی کی برکات سے بھی پوری طرح فائدہ اٹھانے والے ثابت ہوں گے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍مارچ ۱۹۴۸ئ)
.6
ہمارے قیدی بھائی خیریت سے ہیں
احباب اُن کی جلد واپسی کے لئے دعا فر مائیں
.6
.6جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے۔ اس وقت ہمارے بہت سے دوست قادیان اور اس کے ماحول کے رہنے والے جالندھر جیل میں قید ہیں۔ اس سے پہلے وہ گورداسپور جیل میں تھے۔ لیکن جب قیدیوں کے تبادلہ کی تجویز ہوئی تو تبادلہ کی سہولت کی غرض سے انہیں جالندھر جیل کی طرف منتقل کر دیا گیا۔ جہاں انہیں خدا کے فضل سے گورداسپور کی نسبت زیادہ آرام ہے۔ ان دوستوں میں مکرم چوہدری فتح محمد صاحب سیال ۔ ایم ۔ایل۔ اے اور مکرم سید ولی اللہ شاہ صاحب اور میجر چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ اور مولوی احمد خان صاحب نسیم اور مولوی عبدالعزیز صاحب آف بھا مبڑی اور ڈاکڑ سلطان علی صاحب آف ماڑی .6سیچیاں .6 اور چوہدری علی اکبر صاحب اور بہت سے دوسرے دوست اور عزیز شامل ہیں اور خدا کے فضل سے ڈاک کے ذریعے اُن کی خیریت کی خبر آتی رہتی ہے۔ مگر معلوم ہوا ہے کہ بعض دوستو ں کی صحت بہت گری ہوئی ہے اور قید خانہ کی زندگی نے ان کی جسمانی حالت پر کافی خراب اثر ڈالا ہے۔ احباب ان سب دوستوں کی خیریت اور ان کی جلد واپسی کے لئے خصوصیت سے دعا کرتے رہیں۔ کیونکہ یہ وہ دوست ہیں.6،.6جنہوں نے گزشتہ فسادات کے صدمہ سے دوہرا حصہ پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کا اور ان کے اہل و عیال کا حافظ و ناصر ہو۔
.6قیدیوں کے تبادلہ کا سوال دونوں حکومتوں کے زیر غور ہے اور امید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ جلدتبادلہ کا فیصلہ ہو جائے گا۔ ہم بھی اس بارہ میں حکومت کے ساتھ خط و کتابت کر رہے ہیں۔یہ امر خوشی کا موجب ہے کہ جیل خانہ کی دیواروں کے اندر بھی ہمارے دوستوں کی طرف سے مذہبی تبادلہ خیال کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور حضرت یوسف علیہ السلام کی سنت کو تازہ کرتے ہوئے ہمارے دوست پر امن طریق پر تبلیغ حق کا مقدس فریضہ بجا لاتے رہتے ہیں۔ فجزا ھم اللہ احسن الجزائ:.6-
.6ان کے علاوہ ہمارے بعض دوست دوسرے جیل خانوں میں بھی ہیں ۔ مثلا مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ جیل میں محبوس ہیں۔ ان دوستوں کے لئے بھی دعا فرمائی جائے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍ مارچ ۱۹۴۸ئ)
.6
کیا ابلیس کا مغویانہ وجود نظام رُوحانی کا حصہ ہے
یا کہ ایک محض بعد کا حادثہ؟
علما ء سلسلہ کو تحقیق کی دعوت
.6
.6میری عادت ہے کہ بعض خاص خاص مسائل پر سلسلہ کے علماء کو تحقیق کی دعوت دیتا رہتا ہوں۔ یہ مسائل ایسے ہوتے ہیںکہ جن میں میرے خیال میں عام لوگوں میں ایک غلط نظریہ قائم ہو چکا ہوتا ہے۔ یا کم از کم ان کے متعلق مزید تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ اس سے قبل میںمختلف اوقات میں مسئلہ رجم اور ایسے پوتے کے ورثہ کے متعلق جس کا باپ اس کے دادے کی زندگی میں فوت ہو چکا ہو۔ اورجمع بین الصلوٰ تین کی صورت میں نماز کی ترتیب وغیرہ کے مسائل پر الفضل میں مختصر نوٹ شائع کر ا کے علماء کرام کو تحقیق کی دعوت دے چکا ہوں۔ اور اس قسم کی دعوت میںمیری غرض یہ ہوتی ہے کہ ایک تو مسئلہ زیر بحث صاف ہو جائے.6 .6اور دوسرے ہمارے علماء میں تحقیق اجتہاد کا مادہ ترقی کرے۔ اور وہ محض مقلدبن کرنہ بیٹھے رہیں۔
.6اس وقت جس مسئلہ کی طرف میں اپنے اس مختصر مضمون میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ وہ ابلیس کے .6وجود.6سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ تو اکثر دوست جانتے ہیںاورکم از کم ہمارے سلسلہ کے لٹریچر میں یہ بات کافی واضح طورپر شائع اور متعارف ہے کہ ابلیس اور شیطان ایک دوسرے سے جدا گانہ مفہوم رکھتے ہیں۔ یعنی شیطان کا لفظ اپنے مفہوم میں بہت وسیع ہے۔ اور ہر گمراہ کرنے والی ہستی یا ضرر رساں وجود یا تکلیف پہنچانے والی چیز پر بولا جاتا ہے ،وہاں ابلیس کا لفظ ایک خاص معین ہستی کے لئے مخصوص ہے۔ جو خدا کی پیدا کی کی ہوئی مخفی ہستیوں میں سے ایک ہستی ہے یعنی وہی جس کا ذکر حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کے.6 .6ذکر کے ساتھ شامل کر کے قرآن شریف میں بیان ہوا ہے۔ اس سے ظاہر ہے کہ گو خود ابلیس بھی ایک شیطان ہے بلکہ وہ دوسرے شیطانوں کا سردار اور سرغنہ ہے مگر ہر شیطان ابلیس نہیں ہے۔ گویا منطق کی اصطلاح.6 .6میں ان دونوں ناموں میں عموم خصو.6ص.6مطلق کی نسبت ہے یعنی یہ کہ ابلیس ضرور شیطان ہے مگرہر شیطان ابلیس نہیں ہے۔
.6مگر اس جگہ جس مسئلہ کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور اپنے سلسلہ کے علماء کو اس بارہ میں.6تحقیق کی دعوت دیتا ہوں وہ مخصو.6ص.6 طور پر ابلیس سے تعلق رکھتا ہے۔ اور وہ یہ کہ کیا خدا تعالی نے ابلیس کو اسی غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا پھرے اور ان کے لئے دنیا میں ابتلائوںکا سامان مہیارکھے؟ یا یہ کہ وہ اس غرض کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ بلکہ بعد میں خود گمراہی اختیار کر کے ایک مُغوی وجود بن گیا ہے۔ عام عقیدہ یہ ہے جو بظاہر بعض بڑے بڑے بزرگوں اور محققوں کی طرف منسوب ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں ایک مختار ہستی کے طور پر پیدا کیا اور اس کو یہ اختیار دیا کہ چاہے تو ہدایت اور نیکی کا رستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی اور گمراہی کے رستہ پر پڑ جائے تو انسان کے اس فطری اختیار کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ نے یہ نظا م بھی دنیا میں قائم کیا کہ ایک طرف فرشتوں کا وجود پیدا کر دیا جو لوگوں کو ہدایت کی طرف کھینچنے والے ہیں اور ان کے دلوں میں نیکی کی تحریک کرتے رہتے ہیں۔ اور دوسری طرف اس نے ابلیس اور اس کے جنود کو مغویانہ طاقتوں کے ساتھ پیدا کر کے لوگوں کے لئے ابتلائوں کا سامان بھی مہیا کر دیا تاکہ ایک طرف نیکی کی کشش موجود رہے اور دوسری طرف بدی کی کشش بھی سامنے رہے۔ اور ان دونوں متضاد قسم کی کششوں کے اندر انسان خود اپنے اختیار سے نیکی اور بدی کا فیصلہ کر کے اپنا رستہ بنائے۔ تاکہ اگر وہ نیکی کا رستہ اختیار کرے تو خدا کے انعاموں کا مستحق ہو۔ اور اگر بدی کے رستہ پر پڑ جائے تو سزا کا مستوجب ٹھہرے ۔یہ وہ نظریہ ہے جو عام طور پر ابلیس کے متعلق پا یا جا تا ہے اور اسلام کے بعض بڑے بڑے بزرگ اس نظریہ کے قائل رہے ہیں اور اسے تقدیر خیر و شر کے نظام کا ایک ضروری حصہ سمجھتے رہے ہیں۔ اور بظاہر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ ایک معقول نظریہ ہے.6،.6 جس کے بغیر انسان کا مختار ہونا باطل ہو جا تا ہے۔
.6مگر مجھے یہ اعتراف کرنا چاہئے کہ ایک عرصہ سے میرے دل میں اس بظاہر معروف نظریہ کے متعلق شبہات پیدا ہو رہے تھے۔ اور خصوصا ًجن ایام میں ترجمہ و تفسیر قرآن کریم انگریزی کے صیغہ میں کام کرتا تھا تو مجھے بعض قرآنی آیات کے مطالعہ نے بڑے زور کے ساتھ اس خیال کی طرف مائل کیا کہ غالبا ًیہ نظریہ درست نہیں ہے۔ لیکن چونکہ اس قسم .6کے .6اہم مسائل میں معروف عقائد کے خلاف کوئی عقیدہ رکھنا یا اس کا اظہار کرنا سلامت روی کے خلاف ہے اور فتنہ کا موجب ہو سکتا ہے۔ اس لئے میں نے ا.6پنے.6 اس خیال کو کبھی ظاہر نہیں کیا۔ حتیٰ کی تفسیر نویسی کے وقت بھی میں نے اس مضمون پر ایک لمبا نوٹ لکھ کر اسے بعد میں پھاڑ دیا اور اس بات کا انتظار کیا کہ اس بارہ میں مزید غور کر کے اور علماء سلسلہ سے مشورہ کر کے پھر یہ مسئلہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ چنانچہ میرا یہ مختصر نوٹ اسی غرض سے ہے کہ تا میں اس سوال کو سلسلہ کے علماء کے سامنی.6لے آئوں اور پھر ان کی تحقیق اور اظہار رائے کے بعد اسے حضرت صاحب کے سامنے پیش کیا جائے۔
.6جو خیال میں نے اوپر ظاہر کیا ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ابلیس کا مغویانہ وجود بذاتِ خود مقصود نہیں ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے اسے اس غرض و غایت کے ماتحت پیدا نہیں کیا کہ وہ دُنیا میں لوگوں کی گمراہی کا سامان مہیا کرے بلکہ اس نے خود گمراہی اور بغاوت کے رستہ پر پڑ کر یہ وطیرہ اختیار کر لیا ہے۔ گویا میری موجودہ تحقیق میں ابلیس کا مغوی ہونا نظام روحانی اور تقدیر خیر و شر کا ایک حصہ نہیں ہے۔ بلکہ ایک بعد کا حادثہ ہے۔ جسے انگریزی محاورہ میں .6accident.6کہتے ہیں اور مختصر طور پر میرے اس خیال کے بعض دلائل یہ ہیں:.6-
.6(۱) اگر ابلیس کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ اس کے پیدا کرنے کی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے تو پھر میری ناقص رائے میں اس سے اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ اور ارفع صفات یعنی اسماء حسنیٰ پر یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ گویا اس نے خود لوگوں کی گمراہی کا سامان پیدا کیا۔ ا نسان کو اپنی ذات میں صاحب اختیار بنانا کہ وہ چاہے تو نیکی کا رستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی کا رستہ اختیار کر لے، ایک بالکل اَور بات ہے۔ لیکن ایک خارجی ہستی کو خالصۃً مغویانہ حیثیت میں اس غرض و غایت کے ساتھ پیدا کرنا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرے بالکل اور چیز ہے۔ اور کم از کم میری طبیعت اس بات پر تسلی نہیں پاتی کہ خدا جیسی رحیم اور کریم اور شفیق ہستی کی طرف اس خیال کو منسوب کیا جائے کہ اس نے ایک وجو د محض اس غرض سے پیدا کیا کہ وہ اس کی مخلوق کو گمراہ کرتا پھرے۔ پس قطع نظر اور دلیلوں کے خدا کی اعلیٰ اور ارفع صفات کی شان ہی اس خیال کو ردّ کرتی ہے کہ ابلیس کے مغویانہ وجو دکو اپنی ذات میں مقصود سمجھا جائے۔ بے شک انسانوں میں بھی بڑے بڑے مغوی لوگ گزرے ہیں۔ جس طرح کہ مثلا حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ میں فرعون وہامان تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابوجہل وغیرہ تھے۔ مگر یہ سب لوگ اپنی مغویانہ حیثیت میں ایک حادثہ یعنی( .6accident.6).6 تھے نہ کہ اسی حیثیت میں بذاتِ خود مقصود۔ تو کیوں نہ ابلیس کوبھی اسی رنگ کا ایک مغویانہ وجود خیال کیا جائے البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ یہ لوگ انسان تھے۔ اور اپنی محدود عمریں پاکر فنا ہو گئے۔ مگر ابلیس ایک مخفی قسم کا غیر انسانی وجود تھا۔ جس نے اپنی نوع کے مطابق لمبی مہلت پائی ۔بہر حال میرے ذوق کے مطابق خداتعالیٰ کی صفات کا مطالعہ ہی اس خیال کو رد ّکرتا ہے کہ گویا خدا نے ابلیس کو اس غرض و غایت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرتا پھرے۔ ہادی اعظم بلکہ ہدایت ِ مجسم کاوجود گمراہی کی مشینری کا خالق نہیں ہو سکتا۔ یہ دو نوں باتیں ایک دوسرے سے اتنی دور ہیں جتنے کہ آگ اور پانی ایک دوسرے سے دور ہیں۔
.6(۲)دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ .6.6۲۱.6یعنی.6 اور میں نے جن و انس کو صرف اس غرض سے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں اور میرے عبد بن کر رہیں‘‘گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام جن و انس کی پیدائش کی غرض و غایت واضح اورغیر مشکوک الفاظ میں .6عبو.6دیت اور صرف عبودیت بیان کی ہے اور دوسری طرف قرآن شریف ہی ابلیس کے متعلق یہ فرماتا ہے۔ کہ .6.6۲۲.6یعنی.6 ابلیس جنّوں میں سے خدا کی ایک مخلوق ہستی ہے جس نے خود خدا کی نافرمانی کر کے فسق کا طریق اختیار کیا۔ ‘‘ اب دیکھو کہ یہ کتنی واضح بات ہے کہ ایک طرف تو قرآن شریف یہ کہتا ہے کہ خُدا نے ہر جن و انس کو محض عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے اور دوسری طرف قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ ابلیس بھی خدا کے پیدا کئے ہوئے جنّوں ( یعنی مخفی مخلوق) میں سے ایک جن ہے ۔ جس نے خود فسق کا طریق اختیار کر کے خدا کے حکم سے رو گردانی کی ۔تو ان دونو ں آیتوں کے ہوتے ہوئے اس بات میں کیا شبہ رہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ابلیس کو مغویانہ غرض و غایت کے ماتحت پیدا نہیں پیدا کیا بلکہ اس کا مغوی بننا خود اس کے اپنے فسق کا نتیجہ ہے اور دراصل غور سے دیکھا جائے تو یہ دلیل دو دلیلوں کا مجموعہ ہے اول یہ کہ جب ابلیس جنّوں میں سے ایک جن ہے اور خدا فرماتا ہے کہ میں نے جنّوں کو بھی عبادت یعنی فرمانبرداری کے لئے پیدا کیا ہے تو پھر لازماً یہ ماننا پڑے گا کہ ابلیس بھی دراصل فرمانبرداری کے لئے پیدا کیا گیا تھا نہ کہ مغوی بننے کے لئے۔ دوم یہ کہ ابلیس کے متعلق خدا یہ الفاظ فرماتا ہے کہ.6.6’’یعنی اس نے بعد میں خود فسق کا رستہ اختیار کر کے خدا کی حکم عدولی کی‘‘ ۔ اُوپر کی دونو ںآیتوں سے یہ دونوں دلیلیں ایسے واضح طور پر مستنبط ہوتی ہیں کہ کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ واللہ اعلم ۔ یہ سوال کہ جن سے کیا مراد ہے ایک جداگانہ بحث ہے جس کے متعلق ا س جگہ کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
.6(۳) تیسری دلیل مجھے اپنے نظریہ کی تائید میں یہ نظر آتی ہے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ حضرت آدم والے واقعہ کے تعلق میںابلیس کو مخاطب کر کے فرما تا ہے کہ.6.6۲۳.6یعنی.6 اے ابلیس تجھے کس چیز نے اس بات سے روکا کہ تو آدم کے سامنے سجدہ کرے (یعنی آدم ؑ کی تائید میں اپنی طاقتو.6ں.6 کو لگائے) جبکہ میں نے خود تجھے اس کا حکم دیا تھا۔ ‘‘ اس سے ظاہر ہے کہ خدا نے خود ابلیس کو آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے ابلیس کو پیدا ہی اس غرض و غایت سے کیا تھا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا پھرے اور ان کے لئے ابتلائوں کا سامان مہیا کرے تو پھر اسے آدم کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دینے کے کیا معنی؟.6خدا جیسی حکیم ہستی کسی وجود کو وہ حکم نہیں دے سکتی جو اس کی پیدائش کی غرض و غایت کے خلاف ہے ۔ مگر قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا گیا جس سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ ابلیس کی پیدائش کی غرض و غایت یہ نہیں تھی کہ وہ لوگوں کے لئے گمراہی کے سامان مہیا کرے ورنہ اُسے ہرگز ایسا حکم نہ دیا جاتا۔
.6(۴) چوتھی دلیل جو مجھے اس مسئلہ میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے.6۲۴.6 .6 یعنی قرآن فرماتا ہے کہ جب ابلیس نے سجدہ کے حکم سے انکار کیا ( جیسا کہ ہر زمانہ میں ابلیس صفت لوگ خدا کے رسولوں کے سامنے جھکنے سے انکار کیا کرتے ہیں) اور غرور کے رنگ میں اس بات کا دعویٰ کیا کہ اب میں بھی تیرے بندوں کو گمراہ کر نے میں کمی نہیں کروں گا تو خدا تعالیٰ نے اسے فرمایا۔ ’’ تو پھر میری بھی ایک صاف صاف بات سُن لے کہ اس صورت میں میں تجھے اور تیرے پیچھے چلنے والی ہستیوں کو جہنم کی آگ میں بھروں گا۔ ‘‘۔ ان الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ ابلیس کا مغوی ہونا اس کی پیدائش کی غرض اور اُ.6س کی.6 فطرت کا حصہ نہیں۔بلکہ بعد کا اختیار کیا ہوا طریق ہے ورنہ اسے جہنم کی سزا نہ دی جاتی۔ ظاہر ہے کہ جب ایک ہستی کو پیدا ہی اس غرض سے کیا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتی پھرے تو پھر اس کا یہ کام سزا کا مستوجب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تو اپنی پیدائش کی اس غرض و غایت کو پورا کر رہی ہے جو خود خدا نے اس کے لئے مقدر کی ہے تو اس صورت میں سزا کے کیا معنی؟ بے شک اگر کسی چیز کو اس رنگ میں آگ کے اندر ڈالا جائے کہ وہ فطری طور پر آگ کا ایندھن ہے جیسا کہ کوئلہ یا لکڑی وغیرہ کو آگ میں ڈالا جاتا ہے تو یہ اور بات ہے مگر ایک ہستی کو سزا کے طریق پر آگ میں ڈالنا صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اس نے خود اختیاری کے طریق پر جرم کا ارتکاب کیا ہو۔
.6اس کے علاوہ میرے ذہن میں بعض اور متفرق دلائل بھی ہیں مگر میں اس جگہ اختصار کے خیال سے صرف انہیں چار دلیلوں پر اکتفا کرتا ہوں اور اپنے معزز علماء سے درخواست کرتا ہو ں کہ وہ اس بارہ میں مزید تحقیق کر کے اپنا خیال ظاہر فرمائیں تاکہ ہم ایک آخری نتیجہ پر پہنچنے کے لئے اس مسئلہ کو حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے سامنے پیش کر سکیں۔ خیال کیا جاسکتا ہے کہ یہ ایک محض علمی اور فلسفیانہ مسئلہ ہے۔ جس میں ہمیں بلا وجہ پڑنے کی ضرورت نہیں مگر حق یہ ہے .6کہ یہ ایک محض فلسفیانہ بحث نہیں ہے بلکہ ہماری زندگیوں اور ہمارے اعمال پر عملًا اثر ڈالنے والی چیز ہے ابھی چند دن ہی کی بات ہے کہ مجھے ایک نوجوان کے متعلق یہ رپور ٹ پہنچی کہ اُس نے ایک مجلس میں اس قسم کی بات کہی کہ خدا نے بے شک فرشتے بھی پیدا کئے جو کہا جاتا ہے کہ ہمیں نیکیوں کی تحریک کرتے ہیں۔ اور اس نے ہماری ہدایت کے لئے رسول بھی بھیجے اور اس نے شریعت بھی نازل کی مگر اس کے ساتھ یہ بھی تو ہے کہ اس نے ہمیں بہکانے اور گمراہ کرنے کے لئے ابلیس کا وجود بھی ہمارے ساتھ لگا رکھا ہے اور اس نوجوان نے یہ بات کہہ کر پھر اس خیال کا اضافہ کیا کہ اس کی مثال تو یوں ہے کہ ہمارا کوئی بزرگ ہماری بہتری کے لئے ہمیں کوئی نصیحت کرے اور پھر ہمارے پیچھے پیچھے ایک ایسا آدمی بھی اس انگیخت کے ساتھ بھجوا دے کہ تم اس کے پاس جا کر اسے میری نصیحت کے ماننے سے روکو اور کوشش کرو کہ وہ میرا حکم ٹال دے۔ یہ خیال اگر نوجوانوں میں پیدا ہونے لگے تو ظاہر ہے کہ ان کا خدا تعالیٰ کی صفات کے متعلق اور پھر اپنے اعمال کے متعلق کیا نظریہ ہو سکتا ہے۔ پس یہ ایک محض فلسفیانہ بحث نہیں بلکہ ہمارے اعمال پر براہ راست اثر ڈالنے والی چیز ہے۔
.6با لآخر میں یہ بات بھی ظاہر کر دینا چاہتا ہوںکہ اس مسئلہ میں سب سے بڑی روک میرے رستہ۔۔۔میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ نہایت درجہ دلکش اور لطیف مضمون رہا ہے۔ جو حضور نے غالباً آئینہ کمالات اسلام میں درج فرمایا ہے۔ جس میں حضور نے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنی حکیمانہ قدرت کے ماتحت انسان کے لئے دنیا میں ایک لمّہ خیر پیدا کیا ہے اور ایک لمہ شر اور ان دونوں بالمقابل طاقتوں کے سامنے رہتے ہوئے ہی انسان نیکی کا رستہ اختیار کر کے خدا کے انعامات کا وارث بن سکتا ہے۔ اس وقت حضور کا یہ مضمون میرے سامنے نہیں ہے مگر بہر حال حضور نے غالبا ًآئینہ کمالات اسلام میں لمہ خیر اور لمہ شر کی مفصل بحث درج کی ہے۔ اور یہ بحث مجھے ایک عرصہ تک اس مسئلہ میں مذبذب رکھتی رہی۔ لیکن بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ لمّہ خیر ( یعنی نیکی کی مَس یا نیکی کی کشش) اور لمّہ شر( یعنی بدی کی مس یا بدی کی کشش) سے انسان کا نیکی اور بدی کے معاملہ میں صاحب اختیار ہونا بھی مراد ہو سکتا ہے یعنی چونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کو نیکی اور بدی کا رستہ اختیار کرنے کے معاملہ میں مختار بنایا ہے یعنی چاہے تو وہ نیکی کا رستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی کا۔ سو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک انسان کا صاحب اختیار ہونا ہی اس کے لئے لمّہ خیر اور لمہ شرہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیاہے یہ مضمون اس وقت میرے سامنے نہیں ہے۔ علماء کرام کو چاہئے کہ اُسے بھی ضروردیکھ لیں۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا واقعی یہی منشاء ہے کہ لمہّ شر سے ابلیس مراد ہے اور یہ کہ ابلیس اسی غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا گیا تھا کہ انسانوں کے لئے ابتلائوں کے سامان مہیا کرے تو پھر جو کچھ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے بہر حال وہی درست اور ٹھیک ہے اور ہمارے دلائل اور استدلالات کا طومار حضور کے ایک قول کے سامنے اُسی طرح ہیچ ہے جس طرح ایک زندہ ہستی کے مقابل پر ایک مردہ کیڑاہیچ ہوا کرتا ہے کیونکہ ہماری دلیلیںمحض خیال آرائیاں ہیں مگر حضور خدا کے رستہ کے سالک ہیں اور
.6
.6 .6 ’’سالک بے خبر نہ بود زراہِ و رسمِ منزلہا‘‘
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍مارچ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
ہمارے قیدی دوستوں کا تبادلہ
.6 جیسا کہ احباب کو علم ہو چکا ہو گا۔ حکومت پاکستان اور حکومت ہندوستان کے درمیان مسلم اور غیر مسلم قیدیوں کے باہم تبادلہ کا فیصلہ ہو گیا ہے اور اعلان کیا گیا ہے کہ یہ تبادلہ ۵ اپریل ۴۸ ۱۹ ء سے عملاً شروع ہو جائے گا۔ اور غالباً آہستہ آہستہ تین چار ہفتہ تک جاری رہے گا۔ ہمارے بہت سے دوست اس وقت جالندہر جیل میں ہیں۔ جو مجوزہ تبادلہ کے پیش نظر گورداسپور سے جالندہر پہنچائے گئے ہیں۔ ان میں اخویم سید ولی اللہ شاہ صاحب اور مکرمی چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور میجر چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ اور کئی دوسرے دوست شامل ہیں۔ اور بعض دوست لدھیانہ یا دوسرے جیل خانوں میں بھی محصور ہیں ۔یہ سب دوست جماعت کو اپنی طرف سے سلام پہنچاکر د.6عاک.6ی درخواست کر تے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ وناصر ہو اور انہیں جلد تر خیریت کے ساتھ واپس لے آئے اور وہ واپسی کے بعد مزید توقف اور تکلیف کے بغیر رہائی پا جائیں۔ ان کے ساتھ بعض نومبائعین بھی ہیں۔ جنہیں خدا تعالیٰ نے جیل کی چارد یواری میں بیعت کی توفیق عطا کی ہے اور بعض بیمار ہیں ۔ ان سب کے واسطے دوست دعا کر کے عنداللہ ماجور ہوں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳؍ اپریل۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
اسلامی پردہ کے متعلق مضمون
.6آج کل پردہ کے سوال کے متعلق پاکستان کے اخباروں میں بہت چرچا ہے اور مختلف قسم کے خیالات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ بعض دوستوں کی تحریک پر میرا بھی ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس سوال کے متعلق ایک مضمون لکھ کر پردہ کے بارہ میں اسلامی تعلیم پر روشنی ڈالوں ۔سو اگر کسی دوست کو پردہ کے سوال کے متعلق کو ئی خاص بات کھٹکتی ہو یا کوئی پہلو خصوصیت سے قابل وضاحت نظر آتا ہو تو مجھے مطلع فرمائیں تاکہ میں اپنے مضمون میں اسے مد نظر رکھ سکوں ۔
.6 .6و باﷲ التوفیق و ہو المستعان
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۷؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
جالندھر کے قیدیوں کی متوقع آمد
.6 احباب کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر دو حکومتوں کے فیصلہ کے مطابق ۵ ؍اپریل سے قیدیوں کا تبادلہ شروع ہو گیا ہے۔ جالندہر جیل کے قیدیوں کے متعلق امید کی جاتی ہے کہ وہ انشاء اللہ .6مورخہ.6 ۱۰ ۔اپریل .6کو.6 لاہور لائے جائیںگے۔ احباب دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دوستوں کو خیریت کے ساتھ لائے اور ان کا آنا جماعت کے لئے اور خود ان کے لئے اور ان کے اہل و عیال کے لئے با برکت ہو۔ فی الحال یہ قیدی لاہور کے جیل خانہ میں رکھے جائیں گے۔ اور پھر ان کی مسلوں کے معائنہ کے بعد رہائی کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مگر اُمید کی جاتی ہے کہ انشاء اللہ ملنے ملانے میں روک نہیں ہو گی۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۷ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
ابلیس والے مضمون کے متعلق ایک غلط فہمی کا ازالہ
.6چند دن ہوئے میں نے ابلیس کے وجود کے متعلق ایک نوٹ الفضل میں شائع کرا کے سلسلہ کے علماء کو دعوت دی تھی کہ وہ اس کے متعلق روشنی ڈالیں۔ میرے اس مضمون کے متعلق بعض دوستوں کو غلط فہمی پید ا ہو رہی ہے اور وہ اس قسم کے سوالوں میں پڑ گئے ہیں کہ ابلیس کی نوع کیا تھی اور اس کے جن ہونے سے کیا مراد ہے اور اس کو کس غرض کے ماتحت مہلت دی گئی اور کتنی لمبی مہلت دی گئی اور اس کے گمراہ کرنے کا طریق کیا ہے وغیرہ وغیرہ ۔ میں دوستوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے تمام سوالات خواہ وہ اپنی ذات میں کیسے ہی دلچسپ اور اہم ہوں،میرے موجودہ مضمون کے لحاظ سے لاتعلق ہیں۔ کیونکہ میرا موجودہ مضمون صرف اس مرکزی نقطہ سے تعلق رکھتا ہے کہ آیا ابلیس کوخدا تعالیٰ نے اس غرض و غا.6یت.6 کے ماتحت پیدا کیا تھاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کر کے ان کے لئے ابتلائوں کا سامان پیدا کرے یا کہ وہ بعد میں خود فسق اختیار کر کے مغوی بن گیا۔ میں اُمید کرتا ہوں کہ دوست میری اس دعوت کے جواب میں اپنے آپ کو صرف اس مرکز ی نقطہ تک محدود رکھیں گے، سوائے اس کے کہ کسی ضمنی پہلو پر روشنی ڈالنے کے لئے کسی دوسرے سوال میں جانا پڑے ورنہ خلط بحث سے اصل سوال تشنہ تحقیق رہ جائے گا۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍ اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
جیل سے رہا ہو کر آنے والے دوستوں کے نام
اہل قادیان کا پیغام
.6قادیان سے بذریعہ فون امیر جماعت قادیان نے اُن دوستوں کی خدمت میں قادیان کے درویشوں کی طرف سے محبت بھرا سلام کہلا کر بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ قادیان کے جملہ ا.6ح.6مدی درویش ان سب احمدی بھائیوں کے لئے جو گزشتہ ایام میں قید تھے ،خصوصیت کے ساتھ دعائیں کرتے رہے ہیں۔ اور اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحم کے ساتھ انہیں رہائی عطا کی ہے۔ قادیان کے دوستوں کی درخواست ہے کہ اب رہا ہونے والے دوست اپنے مقدس مرکز کی رہائی کے لئے خصوصیت سے دُعا کریں۔ کیونکہ حقیقتا ًاس وقت ہمارا مرکز بھی ایک گو.6یا.6قید میں مبتلا ہے اور گو خدا کے وعدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے یقین ہے کہ اس کی رہائی کے دن ضرور آئیں گے لیکن مخلص احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی دعائوں کے ساتھ اس رہائی کے قریب تر لانے کی کوشش کریں۔
.6 ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العظیم .6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
حافظ نور الٰہی صاحب درویش قادیان کی تشویشناک علالت احباب سے دعا کی درخواست
.6
.6قادیان میں ایک صاحب حافظ نورا لٰہی صاحب خاص بہاولپور سے زیار ت اور خدمت مرکز کے لئے تشریف لائے ہوئے ہیں۔ یہ صاحب کچھ عرصہ سے بیمار ہیں اور آج فون پر اطلاع ملی ہے کہ اب ان کی حالت زیادہ تشویشناک ہے ۔ چونکہ قادیان کے دوست آج کل جماعت کی مخصوص دعائوں کے حقدا.6ر.6 ہیں اور حافظ نورالٰہی صاحب ذاتی طور پر بھی بہت مخلص اور نیک آدمی ہیں ۔ اس لئے دوستوں سے درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ان کے لئے خصوصیت سے دعا کریں۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق
پیسہ اخبار لاہور کا پچپن سالہ نوٹ
.6تاریخ اپنے ورق الٹتی رہتی ہے اور بعد کے اوراق دیکھنے والے عموماً پرانے ورقوں کو بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ گزرے ہوئے اوراق میں بسا اوقات قیمتی اور مفید معلومات کا .6ذ.6خیرہ مخفی ہوتا ہے۔ ذیل میں ایک اسی قسم کا پلٹا ہوا ورق پیش کیا جا تاہے۔ جو ہمارے موافقوں اور مخالفوں دونوں کے لئے مفید ہو سکتا ہے۔ جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے حکم پا کر سلسلہ بیعت ۱۸۸۹ء میں شروع فرمایا تھا۔ اور اس کے بعد ۱۸۹۱ ء کے آغاز میں آپ کی طرف سے مسیحیت کے دعویٰ کا اعلان ہوا۔ اس اعلان کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تبلیغ حق اور اتمام حجت کی غرض سے پنجاب اوریو ۔ پی کے کئی مقامات کا سفر اختیار فرمایا۔ انہی سفروں میںلاہور کا ۱۸۹۲ ء کا سفر بھی شامل تھا ،جس کا ذکر ذیل کے اقتباس میں آتا ہے ۔ جو ان ایام میںلاہور کے مشہورومعروف روزنامہ’ ’پیسہ اخبار‘‘ کے ایڈیٹوریل میں شائع ہوا۔ گوایڈیٹر صاحب پیسہ اخبار بعدمیں .6خود بھی عام مخالفت کی رو میں آگئے تھے۔ مگر ذیل کے نوٹ سے ظاہر ہے کہ وہ اوائل میں حضرت مسیح موعود .6علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی اسلامی خدمات کو کس قدر ومنزلت کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ ایڈیٹوریل کے الفاظ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
پیسہ اخبار
لاہور۔ یوم دو شنبہ ۲۲؍ فروری ۱۸۹۲ ء
جناب مرزا غلام احمد صاحب قادیانی لاہور میں
.6
.6مرزا صاحب دو ہفتہ سے لاہور میں تشریف رکھتے ہیں اورلاہور کی خاص و عام طبائع کو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے کہ کسی وجہ سے سیالکوٹ کو چلے گئے ہیں ۔ہر شخص گھر میں ،دوکان پر،بازار میں،دفتر میں، مرزا صاحب اور اُن کے دعویٰ مماثلتِ مسیح کا ذکر کرتا ہے ۔ آج تک اخبارات نے کالم کے کالم اور ورقوں کے ورقے مرزا صاحب کے حالات اور عقائد کی تردید یا تائید میں لکھ ڈالے ہیں مگر ہم نے عمدًا اس بحث کو نہیں چھیڑا جس کی بڑی وجہ یہ ہے۔ پیسہ اخبار کوئی مذہبی اخبارنہیں مگر اب چونکہ معاملہ عام انٹرسٹ کا ہو گیا ہے۔ کئی صاحبوں نے پیسہ اخبار کی رائے مرزا صاحب کے عقائد اور عام حالات کی نسبت دریافت کی ہے۔ اس لئے ہم مختصر طور پر ایک دو باتیں ظاہر کر تے ہیں۔ مرزا صاحب کے حق میں جو کفر کا فتویٰ دیا گیا ہے۔ ہم کو اس سے سخت افسوس ہوا ہے کوئی مسلمان زنا کرے، چوری کرے، الحاد کا قائل ہو، شراب پئے اور کوئی کبیرہ گناہ کرے،کبھی علمائے اسلام اُس کی تکفیر پر آمادہ نہیں سنے گئے۔ مگر ایک با خدا مولوی کو جو قال اللہ اور قال الرسول کی تابعد اری کرتا ہے۔ بعض جزوی اختلافات کی وجہ سے کافر گردانا جاتا ہے
.6گر مسلمانی ہمیں است کہ واعظ دارد
.6وائے گر از پس امروز بود فردائے
.6ہم یہ نہیں کہتے کہ ہر شخص مرزا صاحب کی ہر ایک بات کو تسلیم کرے ۔ لیکن یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے مولوی صاحبان اپنی اس لیاقت اور ہمت کو غیر مسلموں کے مقابلے میں صرف کریں۔ جواب مرزا صاحب کے مقابلے میں صرف ہو رہی ہے ؎
.6ہر کس از دستِ غیر نالہ کند
.6سعدی از دستِ خویشتن فریاد
.6اہل اسلام مطمئن رہیں کہ مرزا صاحب اسلام کو کبھی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور یہ بات.6ہمارے عقیدے کے مطابق ان کے اختیار سے بھی باہر ہے۔ اگر اہلِ ہنود خصوصا ًآریہ لوگ اور عیسائی لوگ مرزا صاحب کی مخالفت میں زور شور سے کھڑے ہو جاتے تو ایسا بے جا نہیں تھا۔ مرزا صاحب کی تمام کوششیں آریہ اور عیسائیوں کی مخالفت میں اور مسلمانوں کی تائید میں صرف ہوئی ہیں جیسا کہ ان کی مشہور تصنیفات براہین احمدیہ ، سرمہ چشم آریہ اور بعد کے رسائل سے واضح ہیں ۔ہم اس کے سوائے اور کیا کہہ سکتے ہیں .6 .6وَمَا عَلَیْنَا اِلَّا الْبَلَاغ.6ْ.6۔ اس قدر لکھ دینا بھی نا مناسب نہ ہو گاکہ ہم ہرگز مرزا صاحب کے معتقدوں میں سے نہیں۔‘‘
‎(مطبوعہ الفضل ۲۳ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
حافظ نور الٰہی صاحب کی وفات
قادیان میں پہلے درویش کا وصال
.6قادیان سے بذریعہ فون اطلاع ملی ہے کہ حافظ نور الٰہی صاحب سکنہ ریاست بہاولپور جو خدمت مرکز کے تعلق میں قادیان گئے ہوئے تھے۔اور جن کی بیماری کے ایام میں میری طرف سے الفضل میں دعا کی تحریک شائع ہوئی تھی، وہ بقضائے الٰہی وفات پا گئے ہیں۔ .6اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیہِ رَاجِعُونَ.6۔ .6حافظ صاحب مرحوم بہت مخلص اور سر گرم احمدی تھے۔ اور دعائوں اور نوافل کی ادائیگی میں خاص شغف رکھتے .6تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے پسماندگان کا حافظ و ناصر ہو آمین۔ .6میں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے درخواست کر رہا ہوں کہ وہ خاص حالات میں اس جمعہ کی نماز کے بعد حافظ صاحب مرحوم کا غائبانہ جنازہ پڑھائیں۔ یہ پہلا درویش ہے جو گزشتہ فسادات کے بعدقادیان میں خدمت مرکز کی غرض سے بیٹھا ہوا خدا کے حضور حاضر ہوا ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍اپریل ۱۹۴۸ئ)

.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
.6
انسانی زندگی کی چار اقسام
(ادنیٰ حیوانی۔ اعلیٰ حیوانی۔ ادنیٰ روحانی۔ اعلیٰ روحانی)
آپ کی زندگی کس قسم میں داخل ہے؟
.6
.6ذیل میں کوئی مضمون پیش نہیں کیا جا رہا بلکہ یہ ایک محض مختصر سا نوٹ ہے۔ تا ناظرین میں سے ہر سمجھدار شخص کے دل میں یہ نفسیاتی سوال پیدا کیا جاسکے کہ اس کی زندگی انسانی زندگی کی چار امکانی اقسام میں سے کس قسم میں داخل ہے۔ اور پھر جو لوگ زندگی کی نیچے کی سیڑھیوں میں رکے کھڑے ہیںوہ اوپر چڑھنے کی طرف متوجہ ہوں۔
.6قرآن و حدیث کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے ( گو اس جگہ تفصیلی حوالوں کی ضرورت نہیں) اور یہی نتیجہ بنی نوع انسان کے حالات کے عملی مطالعہ سے حاصل ہوتا ہے کہ انسانی زندگی امکانی طور پر چار قسم کی ہوتی ہے اور ہر انسان اپنی چار قسم کی زندگیوں میں سے کسی ایک زندگی کے ماحول میں محصور نظر آتا ہے:.6-
.6(اول) پہلی قسم کی زندگی ادنیٰ حیوانی زندگی ہے۔ جس میں انسان کی توجہ صرف اپنے نفس یا اپنے قریبی رشتہ داروںکی مادی ضرورتوں اور نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے میں منہمک رہتی ہے۔ ایسے لوگ دنیا میں آتے ہیں۔ کھاتے اور پیتے ہیں، شادی کرتے اور اولاد پیدا کرتے ہیں۔ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی مادی یا نفسانی ضرورتوں کو پورا کرنے یا بہتر بنانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور جب موت آتی ہے تو اپنے بچوں کو اس سٹیج پر ایکٹ کرنے کے لئے اپنے پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ دُنیا میں علوم اور تہذیب و تمدن کی ترقی ان کے لئے …ادنیٰ مادی غرض کو بہتر بنانے کے ذریعہ کے سوا کوئی اور حقیقت نہیں رکھتی ۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے کہ .6.6.6ُّ۲۵.6’’ یعنی یہ لوگ جانورو.6ں.6کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بد تر‘‘ کیونکہ جانورتو جانور ہی ہے مگر جب اشرف المخلوقات انسان اور احسن تقویم کا مالک بشر ادنیٰ جانوروں کی سی زندگی اختیار کرتا ہے تو اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ جانوروں سے بھی بد تر سمجھے جانے کا مستحق ہے۔
.6(دوم) دوسری قسم زندگی کی وہ ہے جسے اعلیٰ حیوانی زندگی کے الفاظ سے یاد کر سکتے ہیں۔ اس.6 ز.6ندگی میں انسان کی نظراپنے نفس یا اپنے قریبی رشتہ داروں سے آگے نکل کر اپنے قبیلہ یا اپنی قوم یا اپنے علاقہ یا اپنے ملک یا بین الاقوام بہبودی اور ترقی کی غرض و غایت کو اپنی توجہ کا مرکز بناتی ہے۔ مگر رہتی بہر حال دنیا کی مادی ضروریات کی تکمیل تک محدود ہے۔ ایسے لوگ دن رات اپنی اور دوسرے لوگوں کی خاطر جدوجہد کرنے اور قوموں اور ملکوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں منہمک نظر آتے ہیں۔ مگر ان کی نظر نسل انسانی کے مادی آرام و آسائش اور مادی ترقی سے آگے نہیں گزرتی۔ ان کی قوم یا ان کا ملک یا دنیا کی مختلف قومیں یا دنیا کے مختلف ملک اچھا کھائیں، اچھا پئیں، اچھے مکانوں میں رہیں، اچھے حالات میں سفر کریں، اچھی تفریحوں میں حصہ لے سکیں، بیماریوں میں اچھا علا ج حاصل کر سکیں، قومی اور ملکی ترقی کے لئے اچھی تجاویز سوچ سکیں، ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرنے میں اچھے ضابطہ کے پابند ہوں یا اگر یہ ضابطہ ناکام رہے تو ایک دوسرے کے مقابلہ پر اچھا لڑ سکیں وغیرہ وغیرہ۔ سینکڑوں قسم کے مادی شعبے ہیں جو اس قسم کے ترقی یافتہ انسانوں کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ مگر خواہ ان کا دائرۂ عمل کتنا ہی وسیع ہو.6،.6بہرحال یہ بھی ایک قسم کی حیوانی زندگی ہے۔ جو گو یقینا پہلی قسم کی زندگی سے تو بہت اعلیٰ ہے مگر ہے پھر بھی حیوانی اور سفلی زندگی اور اسی قسم کے لوگوں کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے۔ .6۲۶.6۔ ’’ یعنی ان لوگوں کی زندگی بھی دراصل مادی دنیا کی بھول بھلّیوں میں کھوئی ہوئی ہوتی ہے۔ گو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا میں بہت اچھے اچھے کام کرنے والے ہیں۔‘‘
.6(سوم) تیسری قسم کی زندگی وہ ہے جسے ادنیٰ روحانی زندگی کا نام دے سکتے ہیں اس قسم کی زندگی .6میں انسان کی نظر اس دنیا کے مادی ماحول سے آگے نکل کر خدا تعالیٰ تک پہنچتی ہے۔ اور وہ اپنے .6خالق ومالک کو پہچان کر اس پر ایمان لاتا ہے۔ اور اپنی سمجھ کے مطابق اس کے احکام پر عمل کرنے اور اس کا عبد بننے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی پر بھی یقین رکھتا ہے۔ مگر اس کا ایمان ایسا پختہ نہیں ہوتا۔ اور نہ اس کی روحانیت اتنی ترقی یافتہ ہوتی ہے کہ وہ خدا کی ہستی اور اس .6کے عبد بننے کے جذبہ کو دنیا کی نجات اور انسان کی ترقی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے دوسرے لوگوں کو بھی سمجھا سمجھا .6کر خدا کی طرف کھینچ لانے کی کوشش کرے۔ وہ اپنے دل میں روحانیت کا جذبہ رکھتا ہے اور اُخروی زندگی پر نظر رکھتے ہوئے نیک اعمال بجا لانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور بعض اوقات اپنے اہل و عیال کو بھی نیک بنانے میں کسی حد تک ساعی رہتا ہے۔ مگر اس کے ایمان کی موٹر اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں کو بھی اپنے ساتھ کھینچ سکے یا انہیں خدا کی طرف کھینچ لانے کی طرف متوجہ رہے ۔یہ لوگ وہ ہیں جو صرف اس قدر تیرنا جانتے ہیں کہ خود ڈوبنے سے بچ جائیں مگر دوسروں کو بچانے کی ہمت.6نہیں رکھتے اور نہ انہیں دوسروں کو بچانے کی قدر و قیمت کا چنداں احساس ہو تا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن .6شریف اپنی اصطلاح میں قاعد کے نام سے یاد کرتا ہے۔’’ یعنی یہ لوگ بے شک رو حانیت کے زندگی بخش .6میدان میں داخل تو ہو چکے ہیں مگر داخلہ کے بعد وہ گویا ایک ہی جگہ دھرنا مار کر بیٹھ گئے ہیں۔‘‘ اور دوسرے لوگوں کو اس میدان میں کھینچ لانے کے لئے جدو جہد نہیں کرتے۔
.6(چہارم) چوتھی قسم کی زندگی وہ ہے جسے گویا اعلیٰ روحانی زندگی کہنا چاہئے اس قسم کی زندگی میں انسان۔۔۔۔۔۔ خدا کو صرف خود ہی نہیں پاتا اور اخروی زندگی پر ایمان لا کر صرف اپنے ذاتی اعمال کو ہی درست کرنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔ بلکہ اس ایمان کی قدر و قیمت اور اس کے عظیم الشان نتائج کو پہچان کر گویا خدا کا سپاہی بن جاتاہے اور اپنے ساتھ اپنے ارد گرد کی دنیا کو بھی مادیّت کے میدان سے نکال کر خدا کا عبد بنانے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ وہ اس لوہے کی طرح ہو جاتا ہے جو مقناطیس کے ساتھ جوڑ اور ملاپ کی وجہ سے خود بھی گویا ایک چھوٹا سا مقناطیس بن جاتا اور لوہے کے دوسرے ٹکڑوں کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیتا ہے۔ اس کی دن رات یہی کوشش ہوتی ہے کہ نہ صرف خود نجات پائے بلکہ دوسروں کو بھی نجات حاصل کرنے میں مدد دے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو قرآنی اصطلاح میں مجاہد کہلاتا ہے۔ ’’یعنی وہ لوگ جو روحانیت کے میدان میں داخل ہو کر بیٹھ نہیں جاتے۔ بلکہ ان کی جدو جہد دوسرو.6ں.6 کو اس میدان میں کھینچ لانے میں صرف ہونی شروع ہو جاتی ہے۔‘‘ وہ نہ صرف خود تیرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی تیرنا سکھاتے اور ڈوبنے سے بچاتے ہیں۔ یہ لوگ بے شک انسانیت کی مادی ضرورتوں کی طرف بھی واجبی توجہ دیتے ہیں مگر صر ف انہی باتوں میں الجھ کر نہیں رہ جاتے بلکہ ان باتوں کو بھی دنیاکی روحانی زندگی کے بہتر بنانے میں خرچ کرتے ہیں۔ یہی لوگ خدا کے سچے بندے اور سچے خادم ہیں۔ اس لئے وہ عبد اور مجاہد کہلاتے ہیں۔.6
.6خلاصہ کلام یہ کہ انسانی زندگی امکانی طور پر چار قسم کی ہوتی ہے (۱) ادنیٰ حیوانی زندگی جس میں انسان اپنے نفس اور اپنے قریبی عزیزوں کی مادی ضروریات کے پور ا کرنے میں منہمک رہتا ہے۔ جیسا کہ ادنیٰ قسم کے جانوروں کا طریق ہے(۲) اعلیٰ حیوانی زندگی جس میں انسان کی نظر تو بے شک مادی میدان میں ہی محصور ہوتی ہے مگر وہ اس میدان میں نہایت وسیع ہو جاتی ہے، یعنی ایک طرف تو وہ اپنے نفس اور عزیزوں سے آگے نکل کر اپنی قوم یا ملک وغیرہ تک وسیع ہو جاتی ہے اور دوسری طرف وہ صرف ادنیٰ اور ابتدائی مادی اغراض تک محدود نہیں رہتی۔ بلکہ ہر قسم کی مادی ترقی کے حصول کو اپنے دائرہ عمل میں شامل کر لیتی ہے۔(۳) ادنیٰ روحانی زندگی جس میں انسان خدا کو پہچانتا اور اس پر ایمان لاتا ہے۔ اور اخروی زندگی پر بھی نگاہ رکھتا ہے۔ مگر ابتدائی حیوانی زندگی کی طرح اس کی.6نظر صرف اپنے نفس یا زیادہ سے زیادہ اپنے اہل و عیال کی روحانی بہبود تک محدود رہتی ہے ۔ اور (۴) اعلیٰ روحانی زندگی جس میں میدان بھی روحانی ہو تا ہے اور نظر بھی وسیع ترین ہو تی ہے اور انسان نہ صرف خود اعلیٰ روحانیت کا مقام حاصل کر لیتا ہے بلکہ دوسروں کو بھی اس میدان میں کھینچ لانے کی جدو جہد کرتا ہوا خدا کا مجاہد سپاہی بن جاتا ہے۔
.6اب اے ہمارے عزیزو اور دوستو! آپ میں سے ہر شخص اپنے نفس میں غور کرے کہ اس کی زندگی اوپر کی چار اقسام کی زندگیوں میں سے کس قسم میں داخل ہے۔ آیا وہ ابھی تک صرف ایک اچھی قسم کا حیوان ہے یا کہ مادیّت کے زہر آلود میدان میں سے نکل کر روحانیت کے میدان میں داخل ہو چکا ہے، اور اگر داخل ہو چکا ہے تو آیا وہ ایک محض ابتدائی قسم کی روحانی زندگی پر قانع ہے یا کہ روحانیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو کر عبدِ مجاہد بن چکا ہے؟ مگر اس نفسیاتی سوال کا جواب دینے سے پہلے اپنے دلوں کو اچھی طرح ٹٹول لیں کہ کہیں محض رسمی اور نمائشی باتو.6ں.6 میں الجھ کر آپ کا نفس دھوکا نہ دے دے۔ کیونکہ بعض اوقات ایک مادیّت کی دلدل .6میں.6 پھنسا ہوا انسان بھی اپنے آپ کو روحانیت کے سمندر کا تیراک خیال کرنے لگ جاتا ہے اور بعض اوقات ایک قاعد بھی کسی شخص کو کبھی کبھار کلمہ خیر کہہ دینے کی وجہ سے اپنے آپ کو مجاہد سمجھنے لگ جاتا ہے۔ لیکن حقیقی محاسبہ وہی ہے جو حالات کے صحیح اور گہرے اور غیر جانبدار انہ مطالعہ پر مبنی ہو اور .6لَوْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ .6کے سنہری حکم کے ماتحت انسان اپنے نفس کے خلاف بھی سچی شہادت دینے کی طاقت رکھتا ہو۔ پس ہمارے دوست حقیقی محاسبہ کے رنگ میں سو چیں اور اپنے دل سے ٹھیک ٹھیک جواب حاصل کریں تا وہ اپنا موجودہ مقام معلوم کر کے اگلا مقام حاصل کرنے کی کوشش کر سکیں ۔اللہ تعالیٰ میرا اور سب دوستوں کاحافظ و ناصر ہو اور ہمیں اپنا مجاہد عبد بننے کی توفیق عطا کرے۔ .6وَمَا تَوْفِیْقَنَا اِلَّا بِاﷲِ الْعَلِیَّ الْعَظِیْم.6۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
.6
.6
.6
علاقہ قادیان کی اغوا شدہ عورتیں لاہور پہنچ رہی ہیں
ان کے ورثاء لاہور پہنچ کر سرکاری کیمپ میں پتہ لیں
.6قادیان سے فون پر اطلاع ملی ہے کہ ارد گرد کے علاقہ کی بعض مسلمان عورتیں جن میں سے بعض جموں سے بھی آئی ہوئی تھیں قریباً چودہ پندرہ کی تعداد میں بحال ہو کر قادیان جمع ہو گئی تھیں۔ ان عورتوں کو گورداسپور کی پولیس قادیان سے گورداسپور لے گئی ہے تاکہ وہاں سے اپنے انتظام میں لاہور پہنچا دے۔ ان عورتوں میں مسماۃ غلام فاطمہ صاحبہ جموں والی اور مسماۃ شریفہ بی بی ننگل والی بھی شامل تھیں۔ ان کے ورثا.6کو.6 چاہئے کہ لاہور پہنچ کر سرکاری کیمپ میں پتہ لے لیں۔ تاکہ دیر ہو جانے کی وجہ سے مصیبت زدہ عورتو ںکو مزید تکلیف کا سامنا نہ ہو۔ افسوس ہے کہ پوری تفصیل فون پر معلوم نہیں کی جاسکی۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل ۳۰ ؍اپریل ۱۹۴۸ئ)
.6
.6
.6
قادیان جانے والے خط ابھی تک بیرنگ ہو رہے ہیں
دوست احتیاط رکھیں
.6 .6چند دن ہوئے میں نے الفضل میں اعلان کروایا تھاکہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ڈاک کے ٹکٹوں کی شرح تبدیل ہو چکی ہے۔ اس لئے دوست قادیان خط بھجواتے ہوئے جدید شرح کے مطابق ٹکٹ لگایا کریں۔ ورنہ خطوں کے بیرنگ ہو جانے کی وجہ سے قادیان کے غریب درویشوں کو زیر بار ہونا پڑتا ہے۔ مگر معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک دوستوں نے اس غلطی کی اصلاح نہیں کی۔ کیونکہ قادیان کے تازہ فون سے اطلاع ملی ہے کہ ا بھی تک قادیان میں کثرت کے ساتھ بیرنگ خط پہنچ رہے ہیں۔ میں دوستوں کی سہولت کے لئے پھر اس جگہ ٹکٹوں کی تازہ شرح درج کر دیتا ہوں۔ جو ہندوستان .6جانے والی.6 ڈاک کے لئے ضروری ہے۔ احباب اس کا خیال رکھیں۔
.6 .6(۱) پوسٹ کارڈ ۲ (دو آنے) (۲) لفافہ ( ساڑھے تین آنے) یہ شرح عام ڈاک کے لئے ہے۔ رجسٹری ڈاک یا ہوائی جہاز کی ڈاک کی شرح اس سے زیادہ ہے۔
.6
‎(مطبوعہ الفضل یکم مئی ۱۹۴۸ئ)
.6
.66
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
جمع بین الصلوٰتین کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام
کے زمانہ کی ایک شہادت
مولوی محمد دین صاحب بی ۔اے سابق ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان نے جمع بین الصلوٰ تین کے متعلق ایک شہادت لکھ کر بھیجی ہے جو دوستوں کے فائدہ کے لئے ذیل میں درج کی جارہی ہے ۔ مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سال ہا سال قادیان میں رہ چکے ہیں انہوں نے اپنی شہادت میںاس زمانہ کا ذکر کیاہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان میں ایک لمبے عرصہ تک مسلسل نمازیں جمع کرائیں مولوی صاحب موصوف کی شہادت میں ایک بات کسی قدر قابل وضاحت ہے، جس کے متعلق میں انہیں خط لکھ رہا ہوں ،اس کاجواب آنے پربعد میں شائع کردیا جائے گا۔والسلام ۔
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِط نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِط وَعَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحَ الْمُوْعُوْدِ
مکرمی ومحترمی مرزا بشیر احمد صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ ۔السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک مسلسل عرصہ تک روزانہ نمازیں جمع ہوتی رہیں ظہر اور عصر اور مغرب وعشائ۔ ان میں یہ عاجز باقاعدہ شامل ہوتا رہا اور چونکہ یہ مسئلہ اور تعامل لوگوں کے لئے نیا تھا اس لئے طبعی طور پر لوگ مسئلے کے طور پر اس کے متعلق جزئیات بطور مسئلہ کے دریافت کرتے رہتے تھے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی براہ راست اور حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ اور دیگر علماء سلسلہ سے بھی ۔ مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ اس وقت تعامل یہی تھا کہ اگر کوئی عصر میںشامل ہوا ہے تواس نے ظہر کی نماز بعد میں پوری کرلی اور جو عشاء میںشامل ہوا تو اس نے مغرب کے فرض بعد میں ادا کرلئے اور جس کسی کو سوال وشبہ پید اہوا ،اس نے جب بھی حضرت صاحب سے دریافت کیا یا حضرت مولوی صاحب سے تو اس کو بھی یہی جواب دیاگیا کہ جو فرض جماعت ہے اس میں شامل ہوجائو اورجو رہ گئی ہو اسے بعد میں پوری کرلو ۔چونکہ یہ تعامل اور مسئلہ نیاتھا اس لئے سوال و اعتراضات بھی ہوتے رہے اور یہی بطور تعامل اور مسئلہ کا حل رہا ۔
مجھے توتعجب آیا کہ مولوی شمس صاحب نے اپنی تحریر میں جو الفضل میں شائع ہوئی ہے یہ لکھا ہے کہ جماعت یا اکثر حصہ جماعت کا تعامل اس سے مختلف رہاہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دنوں میںتو میں حتمی طور پر عرض کر سکتا ہوںکہ تعامل بھی وہی تھا ۔جو میں اوپر عرض کرآیا ہوںاور جہاںتک مجھے یاد پڑتا ہے حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کے اوائل میں بھی یہی تھا ۔بعد میں مجھے حتمی طور پر اس لئے یاد نہیں کہ نہ تو اس کثرت و تکرار سے نمازیں جمع ہوئیں اور جب کبھی نمازوں کے جمع کرنے کاوقت آیا خاص کر جلسہ کے ایام میں توان دنوں میں چونکہ یہ خاکسار اکثر مہمانداری میں مصروف رہتا تھا ،اس لئے مجھے صحیح طورپریاد نہیں کہ تعامل کیاتھا۔ تاہم پچھلے چند سالوں میں مجھے معلوم ہوا کہ جماعت میں اس کے تعامل میں اختلاف ہے اور غالباً مسئلہ میں تو میں نے ایک دن حضرت مولوی شیر علی صاحب سے عرض کیاکہ آپ کو معلوم ہے اور اچھی طرح سے معلوم ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ کے ایام میں یہ مسئلہ اور اس کاتعامل بالکل واضح تھا ۔آپ کیوں یہ امر واضح طور اپنے ان نئے علماء کو نہیں بتلا دیتے؟ تو انہوں نے ہنس کر کہاکہ تم کیوں نہیں کہہ دیتے ۔میں نے عذر کیا تو فرمانے لگے میرا بھی قریباً ایسا ہی عذر ہے ۔ اصل میں ان کی طبیعت میں انتہا درجہ کی فروتنی تھی وہ خواہ نخواہ اپنے آپ کو آگے نہیں کرنا چاہتے تھے۔ میں بھی ان سطور کے لکھنے سے پرہیز کرتا ،مگر چونکہ آپ کی طرف سے اس سوال کو اٹھایا گیا ہے ۔اس لئے مجبوراً یہ چند سطور عرض کر رہا ہوں اور گو مکرمی مولوی شمس صاحب نے سوال کا جواب توصحیح دیا ہے مگر ایک واقعہ غلط لکھا ہے جس سے غلط فہمی کا احتمال ہوتا ہے اس لئے یہ عاجز آپ کے نوٹس میں یہ واقعہ لارہا ہے کہ اگر مولوی شمس صاحب کی تحریر سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ جماعت کے تعامل سے مراد حضرت مسیٰح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کا زمانہ ہے یا حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کا زمانہ تو یہ بات غلط ہے ۔ باقی میرا خیال ہے کہ الحکم کے فائل سے ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کا واضح فتویٰ چھپا ہوا بھی مل جائے کیونکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اکثر لوگ دریافت کرتے تھے اور حضور خود بھی اس کا جواب دے دیا کرتے تھے ۔
والسلام
خاکسار محمد دین (ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان)
(مطبوعہ الفضل ۲؍مئی ۱۹۴۸ئ)


اسلحہ کے لائسینس داروں کو ضروری مشورہ
کس قسم کے ہتھیار زیادہ کار آمد ہیں؟
اکثر دوستوں کو شکار یا خود حفاظتی کے خیال سے اسلحہ کا لائسنس لینے کی خواہش ہوتی ہے یا ان کے پاس پہلے سے لائسنس ہوتا ہے ۔مگر پوری واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اچھے ہتھیار کا انتخاب نہیں کر سکتے ایسے دوستوں کی اطلاع کے لئے ذیل میں مختصر مشورہ درج کیا جاتا ہے ۔جو انشاء اللہ ان کے لئے مفید ثابت ہوگا۔
آتشیں اسلحہ چار قسم کا ہوتا ہے :۔ (۱) ۔چھرہ والی بندوق یہ دو قسم کی ہوتی ہے ۔ایک نالی والی اور دو نالی والی اور بندوق کی بور یعنی نالی کی وسعت بھی مختلف ہوتی ہے ،یعنی بارہ بور یا سولہ بور یابتیس بور۔ان میں سب سے زیادہ معروف اور اچھی قسم دو نالی بارہ بور والی بندوق سمجھی جاتی ہے ۔ اور جو دوست چھرے والی بندوق لینا چاہیں ان کیلئے بارہ بوروالی دو نالی بندوق سب سے مناسب ہے اور اس کے کارتوس بھی آسانی سے مل جاتے ہیں یہ بندوق ایسی ہونی چاہئے جسمیں پیچھے کی طرف سے کارتو س بھرا جاتا ہے جسے انگریزی میں12.Bore D B B L shot gun کہتے ہیں ۔ اس میں بھی آگے کئی قسمیں ہیں۔یعنی نالی کتنی لمبی ہو ۳۲ انچ کی یا ۳۰انچ کی یا ۲۸ انچ کی پھر بندوق خود بخود کا رتوس باہر نکالنے والی (Ejector ) ہو یاکہ اس کے بغیر ۔پھر یہ کہ اس کی ایک نالی چوک (Choke ) ہو یعنی منہ کے قریب کچھ تنگ ہو یادونوں یکساں ( Cylinder ٰ) ہوں وغیرہ وغیرہ یہ سب باتیں ذاتی پسند پر مبنی ہیں میری رائے میں نالی کی لمبائی ۳۰انچ اچھی رہتی ہے اورایجیکٹر ہونا ضروری نہیں اور اگر ایک نالی چوک ہو تو بہتر ہوتا ہے ،کیونکہ ایک نالی کی مار کچھ زیادہ ہوتی ہے۔
(۲)۔ اسلحہ کی دوسری قسم رائفل ہے جس میں گولی چلتی ہے اور زیادہ فاصلہ سے مارتی ہے یہ دو قسم کی ہوتی ہے۔
الف: ۱۲بور کی رائفل جو چھوٹے جانوروں کے شکار کے لئے ہوتی ہے اور نشانہ سیکھنے اور بچوں میں نشانہ بازی کا شوق پیدا کرنے کے لئے بھی اچھی سمجھی جاتی ہے ۔اگر ممکن ہو تو دوسرے ہتھیاروں کے ساتھ اس کا لائسینس بھی ضرور لینا چاہئے ۔اچھی کام کی چیز ہے مگر رائفل ایسی خریدنی چاہئے جو میگزین قسم کی ہو یعنی اس میں ایک سے زیادہ کارتوس پڑتے ہوں اس کی عام اقسام ہنچڑ اور سیویچ اور بی ۔ایس ۔ اے اور مائو زر ہیں۔
(ب)بڑی بور کی زیادہ طاقت والی رائفل اس کی بیسیوں اقسام ہوتی ہیں مگر عام حالات کے لئے سب سے بہتر تیس بور کی سپرنگ فیلڈ میگزین رائفل ہے یہ طاقت میں بھی بہت اچھی ہوتی ہے اور نشانہ کی صحت کے لحاظ سے بھی بہت اچھی ہے اور اس کے کارتوس بھی عام ملتے ہیں۔ اگر سب دوست اس رائفل کا لائسنس لیں تو کارتوس اکٹھے خریدنے میں بھی سہولت ہوگی اور بعض اور سہولتیں بھی ہوسکتی ہیں۔یہ رائفل بھی عموماً چار کارخانوں میں بنتی ہے یعنی ونچسٹر اور سویچ اور ریمنگٹن اور بائو ذر۔ یہ چاروں اقسام نہایت اعلیٰ ہیں اور طاقت اور تیزی میں ہندو ستان کی فوجی رائفل ۳ ۳۰ بور سے بھی بہتر ہیں اور ہاتھی اور گینڈے اور شیر ببر کو چھوڑ کر ہرقسم کاشکار آسانی سے مارسکتی ہیں۔
(۳)۔ اسلحہ کی تیسری اور چوتھی قسم ریوالور اور پستو ل ہیں۔ اس کالائسنس سب سے مشکل ملتا ہے اور آج کل اس کی منظوری کمشنر کے اختیار میں ہے ۔ریوالور زیادہ قابل اعتماد اور زیادہ تسلی بخش ہوتا ہے اور وقت پر دھوکہ کم دیتا ہے، لیکن اگر بور برابر ہو تو پستول زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔ اور زیادہ تیز بھی میری رائے میں ریوالور میں ۳۸ بور اچھی ہوتی ہے اور پستول میں ۳۲ بور۔ دونوں میگزین ہونے چاہئیں اگر چھوٹی جیب میں رکھنا منظور ہو تو ۲۵بور کا پستول اچھا رہے گا مگر یہ زیادہ طاقت ور نہیں ہوتا۔اس کے بعد بعض ضمنی امور بھی قابل توجہ ہیں جو یہ ہیں۔
(اوّل ) لائسنس میں جہاں تک ممکن ہو کارتوسوں کی تعداد زیادہ سے زیادہ درج کرانی چاہئے بلکہ اگر ممکن ہو تو بلا حدیتہ کا اندراج کراناچاہئے۔
(دوم ) لائسنس حتی الوسع سارے پاکستان کے لئے منظور کرانا چاہئے نہ کہ صرف ایک ضلع یاکمشنری صوبہ کے لئے۔
(سوم ) زیادہ حیثیت لوگ اپنے ساتھ اپنے کسی نوجوان عزیز کو بطور رفیق یعنی ریٹینر( Retainer )درج کرواسکتے ہیں۔ اس میں یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک ہی لائسنس سے دو آدمی فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔
(چہارم) اگر ممکن ہو اور اس کی گنجائش ہو تو ایک سال کی بجائے دو یاتین سال کے لئے لائسنس جاری کر دیاجائے اور یہ میعاد پوری ہونے پر پھراسی قدر میعاد کے لئے تجدیدکرائی جائے پہلے سال کی فیس ریوالور اور پستول کی دس روپے ہوتی ہے اور رائفل اور بندوق کی پانچ روپے بعد میں تجدید کے وقت نصف فیس لگتی ہے۔
(پنجم) ایک ہی لائسنس میں بندوق اور رائفل اور ریوالور یاپستول کا لائسنس درج کرایا جاسکتا ہے بہتر صورت یہ ہے کہ ایک لائسنس میں ایک بارہ بور چھرہ والی بندوق۲ ۔ایک ۳۲ بور رائفل ۳۔ ایک ۳۰بور سپرنگ فیلڈ رائفل اور ۴۔ ایک ۳۸بور ریوالور یا ۳۲ بور پستول درج کرائے جائیں رائفل اور پستول میگزین قسم کے ہونے چاہئیں۔
(ششم) بندوق رائفل کے لائسنس کی منظوری ڈپٹی کمشنر ضلع کی طرف سے ملتی ہے مگر ریوالور اور پستول کی منظوری ڈپٹی کمشنر کی سفارش پر کمشنر دیتا ہے ہر دو صورتوں میں رپورٹ کے لئے پولیس کے پاس کا غذات جاتے ہیںلیکن اگر کوئی خاص اعتراض نہ ہو تو عام قاعدہ یہی ہے کہ باحیثیت لوگوں کا لائسنس نامنظور نہ کیا جائے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۵؍مئی ۱۹۴۸ء )
ابلیس کے مغویانہ وجود کے متعلق صحیح نظریہ کی تعیین
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فیصلہ بہر حال درست ہے
مگرسوال یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے حوالہ کی صحیح تشریح کیا ہے
۲۷ مارچ ۱۹۴۸ ء کے الفضل میں میرا ایک مختصر سا مضمون ابلیس کے مغویانہ وجود کے متعلق شائع ہوا تھا ۔اس مضمون میں میں نے بعض قرآنی آیات سے یہ استدلال کیا تھا کہ بے شک تقدیرخیر و شر کا مسئلہ حق ہے اور بے شک انسان اپنے اعمال میں صاحب اختیار ہے کہ چاہے تو نیکی کا راستہ اختیار کرے اور چاہے تو بدی کے راستہ پر پڑ جائے۔ اور بے شک یہ بات بھی درست ہے کہ ابلیس ایک نہایت درجہ مغوی وجود ہے جو حضرت آدم کے وقت سے لوگوں پر امتحان کا سامان مہیا کر تا چلا آرہا ہے وغیرہ۔ مگر یہ کہ قرآن شریف کی آیات سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے ابلیس کو ابتدا سے ہی اسی غرض و غایت کے ماتحت پیداکیا تھا کہ وہ لوگوں کو گمراہ کرتا پھرے بلکہ اس کا مغوی بننا ایک بعد کا حادثہ ہے جو اس کی پیدائش کی غرض و غایت کے ساتھ لازم و ملزوم کے طور پر نہیں ہے۔ البتہ انسان کا صاحبِ اختیار ہونا اس کی پیدائش کے ساتھ لازم و ملزوم ہے وغیرہ۔
اس نظریہ کو پیش کر کے میں نے علماء سلسلہ کو دعوت دی تھی کہ وہ اس اہم مضمون کے متعلق تحقیق کر کے اپنے مفید خیالات پیش کریں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آئینہ کمالات اسلام والے مضمون کو بھی دیکھ لیں ۔ جس میں ابلیس کے متعلق نہایت لطیف اور سیر کن بحث کی گئی ہے اور میں نے لکھا تھا کہ خواہ ہمارے ذاتی خیالات کچھ ہوں ، حق وہی ہے اور وہی رہے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے علم پا کر لکھا ہے۔
میری اس دعوت کے جواب میں بعض دوستوں نے خطوط کے ذریعہ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور تین مختصر سے مضمون اس مسئلہ کے متعلق الفضل میں بھی شائع ہو ئے ہیں۔ ایک مضمون عزیزم مرزا ظفر احمد سلمہ کے قلم سے ہے جس میں میرے نظریہ سے اختلاف کیا گیا ہے۔ دوسرا مضمون عزیز میاں عباس احمد خان کے قلم سے ہے￿ جس میں میرے نظریہ کی تائید کی گئی ہے۔ تیسرا مضمون مرزا محمد حیات صاحب تاثیر کے قلم سے ہے۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کاآئینہ کمالات اسلام والا حوالہ نقل کیا گیا ہے ۔ پہلے دو مضمون میری نظر میں چنداں وزن نہیں رکھتے۔ کیونکہ ان دونوں میں میرے مضمون کی صرف ایک عقلی دلیل کو لے کر فلسفیانہ رنگ میں بحث کرنے پر اکتفا کی گئی ہے اور اصل قرآنی آیت کو نہیں چھوا گیا۔ حالانکہ یہ مسئلہ ایسا نہیں کہ محض عقلی دلائل سے حل کیا جا سکے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر صرف عقلی دلائل تک ہی محدود رہناہوتاتو میرے نظریہ کی تائیدمیں زیادہ مضبوط اور زیادہ روشن دلائل موجود ہیں۔ لیکن حق یہ ہے کہ اس مسئلہ کا اصل اور صحیح حل صرف دو طرح سے ہو سکتا ہے۔ اور وہ دو طریق یہ ہیں۔
(۱) یہ دیکھا جائے کہ اس بارہ میں قرآن شریف کیا فرماتا ہے ۔ کیونکہ قرآنِ شریف خدا تعالیٰ کا اعلیٰ ترین اور محفوظ ترین کلام ہے۔ جس کی ہدایت ہر جہت سے مکمل اور ہر غلطی سے پاک ہے ۔
(۲) یہ دیکھا جائے کہ اس مسئلہ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلا م کیا فرماتے ہیں ۔ کیونکہ خدا کے راستہ میں سالکوں سے بڑھ کر اس راستہ کے خطرات اور ان خطرات کی نوعیت سے کوئی شخص واقف نہیں ہو سکتا۔ اور میں محمد حیات تاثیر کا ممنون ہوں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا معین حوالہ پیش کر کے اس بحث میں سہولت کا دروازہ کھولا ہے۔
اصل بحث میں پڑنے سے پہلے میں پھر اس بات کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ مجھے تقدیر خیر و شر کے مسئلہ میں کوئی کلام نہیں، یہ ایک مسلمہ مسئلہ ہے جو ہمارے ایمانیات کی بنیادوںمیں شامل ہے۔ اور دراصل اس مسئلہ پر ایمان لانے کے بغیر انسان کی پیدائش کی غرض و غایت پوری ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی سلسلہ رسل اور سلسلہ کتب کی غرض و غایت اس کے بغیر پوری ہو سکتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے دونوں عالمگیر قانونوں میں یعنی قانونِ شریعت اور قانون قضا و قدر میں خیر و شر کی تقدیر کو جاری کیا ہے۔ یعنی یہ کہ اگر یہ یہ کام کرو گے تو اس کا اس اس صورت میں اچھا نتیجہ نکلے گا۔ اور اگر وہ وہ کام کرو گے تو اس کا اس اس صورت میں بُرا نتیجہ نکلے گا۔ پس مسئلہ قدر خیر و شر یقینا حق ہے ۔ مگر میری موجودہ بحث کے ساتھ اس مسئلہ کو کوئی تعلق نہیں۔ دوسری بات میں یہ واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں۔ کہ مجھے اس بات میں بھی ہرگز کلام نہیں کہ انسان اپنے اعمال میں صاحب اختیارہے۔ یعنی خدا کے ازلی قانون نے انسان کو ایسی صورت میں پیدا کیا ہے کہ وہ چاہے تو نیکی اور فرمانبرداری کا طریق اختیار کر لے اور چاہے تو بدی اور نافرمانی کے راستہ پرپڑ جائے۔ اور انسان کا صاحب اختیار ہونا اس کی ترقی اور انعامات کا مستحق بننے کے لئے ضروری ہے۔ تیسرے مجھے اس بات میں بھی کوئی کلام نہیںکہ ابلیس ایک مغوی وجود ہے جو اپنے دامن غوایت میں ہزاروں اظلال چھپائے ہوئے ہے۔ چوتھے مجھے اس بات میں بھی کلام نہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے لے کر اس وقت تک ابلیس اور اس کے اظلال مغویانہ وجود کی حیثیت رکھتے آئے ہیں۔ اور جب تک خدا کو منظور ہو گا اپنی اسی مغویانہ حیثیت میں کام کرتے چلے جائیں گے۔ یہ ساری باتیں بالکل درست اور حق ہیں۔ اور مجھے ان میں نہ کبھی کلام ہوااور نہ ہو سکتا ہے۔ جس بات میں مجھے کلام ہے اور اس کے متعلق میں نے علماء کو دعوت دی ہے، وہ محض یہ ہے کہ آیا خدا تعالیٰ نے ابلیس کو ابتدا سے ہی اسی غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا تھا کہ وہ انسانوں کو گمراہ کرتا پھرے یا کہ وہ خود نافرمان اور گمراہ ہو کر مغوی بن گیا ہے۔
میرا نظریہ جو میرے خیال میں قرآن شریف سے ثابت ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا حوالہ بھی میری موجودہ تحقیق میں اس کے خلاف نہیں ،یہ ہے کہ نظام روحانی کا ازلی حصہ صرف اس قدر ہے کہ خدا نے تقدیر خیر و شر کا قانون جاری کر کے انسان کو صاحب اختیار بنا دیا کہ چاہے توخدا کا فرمانبر دار بن کر نیکی اختیار کر لے اور چاہے تو نافرمان بن کر بدی کے راستہ پر پڑ جائے۔ باقی رہا ابلیس کا مغویانہ وجود سو وہ ایک بعد کا حادثہ ہے۔ مگر بایں ہمہ وہ ایک بالکل ابتدائی زمانہ کا حادثہ ہے جو آدم علیہ السلام کی پیدائش کے ساتھ ہی وقوع میں آگیا تھا۔ اور اس حادثہ کے وقوع میں آنے کے نتیجہ میں بدی کا ایک خارجی محرک بھی پیدا ہو گیا۔ پس گو ابلیس کا مغویانہ وجود قریباً ابتداء سے ہی چلا آتا ہے۔ مگر حقیقتاً وہ ایک بعد کا حادثہ ہے۔ اور اس لئے اس کا مغوی ہونانظام روحانی کاحصہ نہیں۔ بلکہ نظام روحانی کا حصہ صرف خیر و شر کی تقدیر اور انسان کاصا حب اختیار ہونا ہے۔ اور اگر غور کیا جائے تو انسان کا صاحب اختیار ہونا ہی اس کے ترقی کرنے اور انعام کے مستحق بننے کے لئے کافی ہے۔ اور اس غرض کے لئے کسی خارجی مغوی وجود کی ضرورت نہیں۔
حق یہ ہے کہ نیکی اور بدی کے فلسفہ پر غور نہیں کیا گیا۔ قرآن شریف نے نیکی کو نور سے تشبیہہ دی ہے اور بدی کو ظلمت سے۔ جیسا کہ فرمایا کہ:
۲۷
’’یعنی خدا نے ہی نور اور ظلمت دونو ںکو بنایا ہے۔‘‘
اب ہر شخص جانتا ہے کہ ظلمت اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں بلکہ نور کے فقدان یعنی نور کے موجود نہ ہونے کا نام ظلمت ہے۔ گویا اصل چیز دنیا میں نیکی ہے۔ اور بدی صرف اس نیکی سے دوری کا نام ہے۔ آپ کسی کمرہ میں ظلمت اور تاریکی کو داخل نہیں کر سکتے۔ کیونکہ ظلمت اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں ہے۔ ہاں آپ روشنی کو باہر نکال کر کمرہ کے اندر تاریکی پیدا کر سکتے ہیں اور جتنا جتنا کسی روشنی کا فاصلہ کمرہ سے بڑھتا چلا جائے گا۔ اسی نسبت سے کمرہ کی تاریکی زیادہ گہری ہوتی چلی جائے گی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ۲۸۔ ’’یعنی خدا تعالیٰ ہی زمین و آسمان کا نور ہے۔‘‘ جس کا یہ مطلب ہے کہ جتنی جتنی کوئی چیز منبع نور یعنی خدا سے قریب ہو گی۔ اتنی ہی وہ زیادہ روشن اور نیک ہوتی چلی جائے گی اور جتنی کوئی چیز خدا سے دور ہو گی۔ اتنی ہی وہ زیادہ تاریک اور بد ہوتی چلی جائے گی۔ پس خدا کا نیکی اور بدی کو نوراور ظلمت سے تشبیہہ دینا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ حقیقتاً بدی کے لئے کسی خارجی محرک کی ضرورت نہیں،بلکہ انسان کا صاحب اختیار ہونا ہی بدی کے معرض وجود میں آنے کے لئے کافی ہے۔ جتنا جتنا کوئی شخص اپنے فطری اختیار کے ماتحت نیکی کے رستہ سے دور ہو گا اتنا ہی وہ بدی میں مبتلا سمجھا جائے گا۔
اس کی ایک واضح مثال مغوی انسانوں کے حالات میں ملتی ہے۔ جو ہر نبی کے زمانہ میں ہوتے رہے ہیں حضرت ابراہیم کے زمانہ میں نمرود ایک مغوی وجود تھا اور حضرت موسیٰ کے زمانہ میں فرعون ایک مغوی وجود تھا۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابو جہل ایک مغوی وجود تھا۔ بے شک ان مغوی انسانوں کے ذریعہ سے بہت سے لوگوں کوٹھوکر لگی۔ مگر کون کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ مغوی انسان نہ ہوتے تو ان نبیوں کے زمانہ میں کوئی شخص بھی گمراہی کا طریق اختیار نہ کرتا ۔ گمراہ ہونے والوں نے اپنے صاحب اختیار ہونے کے نتیجہ میں گمراہی اختیار کی۔ مگر یہ درست ہے کہ ان مغوی وجودوں سے لوگوں کی گمراہی کو مزید تقویت حاصل ہو گئی۔ اسی طرح اگر ابلیس نہ ہوتا تو پھر بھی گمراہ ہونے والے انسانوں نے گمراہ ہونا تھا۔ مگر ابلیس کا وجود گمراہی کو مزید تقویت دینے کا موجب بن گیا ۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ابلیسی تقویت دونوں طریق پر اثر انداز ہو رہی ہے یعنی شدت( Quality) کے لحاظ سے بھی اور وسعت (Quantity) کے لحاظ سے بھی۔ ابلیس کے وجود نے گمراہی کے دائرہ کو بھی وسیع کر دیا ہے اور اس کی شدت کو بھی بڑھا دیا ہے۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح حضرت موسیٰ کے زمانہ میں فرعون نے گمراہی کی شدت اور وسعت دونوں کو بڑھا دیا تھا۔ ہاں انسانی مغوی وجودوں اور ابلیس میں یہ فرق ضرور ہے کہ انسان کی طاقت اور زمانہ محدود ہے اور وہ اپنی چند سالہ عمر گزار کر ہلاک ہو جاتا ہے مگر ابلیس ایک غیر انسانی وجود ہے۔ جس کی میعاد اور جس کا دائرہ عمل انسانوں کی نسبت بہت زیادہ وسیع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابلیس کا مغویانہ وجود حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ میں پیدا ہوا اور اب تک چلا جا رہا ہے۔
اب سوال ہوتا ہے کہ ابلیس کون ہے۔ ہمارے پرانے مفسر تو لکھتے ہیں کہ وہ ایک فرشتہ تھا۔ جس کا نام عزازیل تھا جو نافرمانی کے نتیجہ میں شیطانی وجود کی صورت اختیار کر گیا ( ملاحظہ ہو کہ کم از کم پرانے مفسر بھی ابلیس کے مغویانہ وجود کو ایک حادثہ تسلیم کرتے ہیں مگر یاد رہے کہ حادثہ سے میری مراد موٹر وغیرہ والا حادثہ نہیں بلکہ ایسی صفت مراد ہے جو کسی چیز کے ساتھ فطری طور پر لازم و ملزوم نہیں ہوتی، بلکہ بعد میں پیدا ہوتی ہے) مگر یہ خیال درست نہیں کہ ابلیس ایک گمراہ شدہ فرشتہ ہے۔ کیونکہ فرشتوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں صاف فرماتا ہے کہ ۲۹ ۔ ’’یعنی فرشتے خدا کی نافرمانی نہیں کرتے اور انہیں جس بات کا حکم دیا جاتا ہے وہی بجا لاتے ہیں‘‘ پس یہ خیال کہ ابلیس ایک فرشتہ تھا جو نافرمانی کر کے شیطان بن گیا۔ قرآنی تعلیم کے صریح خلاف ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ ابلیس تھا کون؟ اس کا جواب خود قرآن شریف دیتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے:
۳۰
’’ یعنی ہم نے جنّوں کو انسان کی پیدائش سے پہلے لو والی آگ سے پیدا کیا تھا‘‘ اور دوسری جگہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ ۳۱ ’’ یعنی ابلیس جنوں میں سے ایک وجود تھا۔ جس نے خدا کی نافرمانی اختیار کی۔‘‘ اور ایک تیسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۳۲ ۳۳یعنی ہم نے جن و انس دونوں کو صرف اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے۔ ‘‘ اور چوتھی جگہ خدا تعالیٰ ابلیس کی زبانی یہ بیان فرماتا ہے کہ ’’ یعنی اے خدا میں نے آدم کو اس لئے سجدہ نہیں کیا کہ میں اس سے بہتر ہوں۔ کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے۔ اور آدم کو مٹی سے۔‘‘ اور پانچویں جگہ قرآن شریف فرماتا ہے۳۴ یعنی جب ابلیس خدا کی نافرمانی کر کے اس بات سے ڈرا کہ اب مجھے خدا فورا ہلاک کر دے گا۔ تو اس نے خدا سے کہا کہ ’’ اے رب مجھے انسانوں کے یوم بعث تک مہلت عطا کر۔ خدا نے کہا تجھے وقتِ معلوم تک مہلت دی جائے گی۔‘‘
اُوپر کے حوالوں سے ذیل کی پانچ باتوں کا ثبوت ملتا ہے:-
(۱) یہ کہ خدا نے جنّوں کو انسان سے پہلے پیدا کیا تھا۔
(۲) یہ کہ ابلیس بھی جنّوں کی قسم میں سے ایک مخفی قسم کی مخلوق ہے
(۳) یہ کہ ابلیس حقیقۃً خدا کی عبادت کے لئے پیدا کیا گیا تھا۔ کیونکہ سب جن و انس خدا کی عبادت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ مگر چونکہ وہ بخلاف ملائک صاحب اختیار تھا۔ اس لئے اس نے بُرے انسانوں کی طرح خود نافرمانی کے رستہ پر پڑ کر فسق اختیار کیا۔
(۴) یہ کہ بخلاف انسان کے جو طینی صفات کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے، ابلیس آتشی صفات کے ساتھ پیدا کیا گیا تھا۔
(۵) یہ کہ گو ابلیس آدم کے معاملہ میں خدا کی نافرمانی کا رستہ اختیار کر کے اس بات کے متعلق خائف ہوا کہ خدا تعالیٰ اسے اپنی ناراضگی میں ہلاک نہ کر دے مگر اس کی درخواست پر اسے خدا کی طرف سے مہلت دی گئی۔
یہ پانچ نتیجے جو اُوپر کے حوالوں سے یقینی طور پر ثابت ہیں۔ ابلیس کو انسان اور ملائکہ دونوں سے ممتاز اور متغائر ثابت کر تے ہیں۔
یہ سوال کہ جن سے کیا مراد ہے ایک لمبا جواب چاہتا ہے جس کی یہاں گنجائش نہیں۔ مختصر یہ ہے کہ قرآن شریف اور حدیث اور لغتِ عرب کے مطالعہ سے پتہ لگتا ہے کہ جن کے بنیادی معنی مخفی یا پوشیدہ مخلوق کے ہیں خواہ یہ چیز یا مخلوق طبعی طور پر پوشیدہ ہو یا کہ محض عادۃ ًپوشیدہ رہتی ہو۔ پس عربی زبان اور اسلامی محاورہ کے مطابق جن کے مندرجہ ذیل معنی سمجھے جائیں گے:-
(۱) ایسے بڑے لوگ جو اپنی بڑائی کے خیال سے عوام الناس کے ساتھ زیادہ اختلاط نہیں رکھتے اور گویا ان کی نظر سے پوشیدہ رہتے ہیں جیسا کہ گزشتہ زمانوں میں بادشاہوں اور رئیسوںکا طریق ہوتا تھا۔
(۲) بیماریوں کے جراثیم اور باریک کیڑے جو عموماً نظروںسے اوجھل ہوتے ہیں۔
(۳) ایسے جانور جو بلوں اور غار وں وغیرہ میں چھپ کر زندگی گزارتے ہیں ۔
(۴)خدا کی ایک ایسی مخفی مخلوق جو عموماًانسان کو نظر نہیں آتی۔ اس تشریح کے ماتحت جاننا چاہئے کہ جب ابلیس کو قرآن شریف نے جن کے لفظ سے یاد کیا ہے تو اس سے یہ چوتھی قسم کی مخفی مخلوق مراد ہے۔ اور گو ہم ابلیس کی باریک کنہہ سے واقف نہ ہوں مگر جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے قرآن شریف سے اس قدرضرور پتہ چلتا ہے کہ یہ مخفی قسم کی مخلوق انسان کی پیدائش سے پہلے ایک آتشی قسم کے مادہ سے پیدا کی گئی تھی اور اسی لئے جلدی بھڑک اٹھنا اور اپنے اندر آگ کی سی تیزی اور گرمی پیدا کر لینا اس کی فطرت کا حصہ ہے یہی وجہ ہے کہ آدم کے سامنے سجدہ کر نے کا لفظ آتے ہی ابلیس فورا سیخ پا گیا اور اس نے اپنی اس دشمنی کی آگ کو اس قدر بھڑکایا کہ آدم سے گزر کر اس کی نسل تک کو اپنی دائمی دشمنی کا عہد باندھ لیا ۔ اس جگہ یہ ضمنی ذکر کر دینا بھی ضروری ہے کہ جن کے لغوی معنوں کے لحاظ سے فرشتے بھی اس کے مفہوم میں شامل ہیں۔ کیونکہ وہ بھی ایک قسم کی مخفی مخلوق ہیں مگر اصطلاحی لحاظ سے ان کا دائرہ جدا گانہ ہے یہی وجہ ہے کہ بعض مفسرین کو یہ غلطی لگی ہے کہ انھوں نے ابلیس کو ایک گمراہ شدہ فرشتہ قرار دیا ہے۔ مگر میں اوپر بتا چکا ہوں یہ خیال درست نہیں۔
اب رہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ کا سوال۔ سو یہی در حقیقت اس ساری بحث میں اصل قابل غور چیز ہے مگر افسوس ہے کہ ابھی تک میں اس حوالہ سے وہ نتیجہ نکال نہیں سکا جو محمد حیات صاحب نے یا بعض دوسرے دوستوں نے نکالنا چاہا ہے میں نے جہاں تک اس حوالہ پر غور کیا ہے اس کا حقیقی خلاصہ یہی ظاہر ہوتا ہے کہ انسان اپنے اعمال میں صاحب اختیارہے کہ چاہے تو نیکی کے رستہ کو اختیار کر لے اور چاہے تو بدی کے رستہ پر پڑ جائے اور درحقیقت انسان کے صاحب اختیار ہونے کو ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام لمہ خیر یالمہ شر یا داعی الی الخیر اور داعی الی الشر کے نام سے یاد فرماتے ہیں۔بے شک حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے مضمون میں ابلیس کا بھی ذکر کیا ہے اور اسے داعی الی الشر کا نام دیا ہے مگر ظاہر ہے کہ اس پہلو سے ابلیس کی کوئی خصوصیت نہیں بلکہ جس طرح نمرود اپنے محدود زمانہ میں داعی الی الشر تھا اور فرعون اپنے محدود زمانہ میں داعی الی الشرتھا اور ابو جہل اپنے محدود زمانہ میں داعی الی الشر تھا۔ اسی طرح ابلیس اپنے وسیع زمانہ میں جو عملا گویا سارے زمانوں پر مشتمل ہے۔ داعی الی الشر ہے ۔پس جہاں تک میں سمجھتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ نظام روحانی کا ازلی حصہ انسان کا نیکی اور بدی میں صاحب اختیار ہونا ہے اور ابلیس کے وجود سے جواوائل میں ہی یعنی ہمارے جد امجد حضرت آدم کے زمانہ میں ہی مغویانہ حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ انسان کے اس فطری اختیارکے اس پہلو کو جو بدی کی طرف جھکنے سے تعلق رکھتا ہے ایک مزید خارجی سہارا مل گیا ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:-
’’ ہمارے مخالف آریہ اور برہمو اور عیسائی اپنی کو تاہ بینی کی وجہ سے قرآن کریم کی تعلیم پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ اس تعلیم کی رو سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دانستہ انسان کے پیچھے شیطان کو لگا رکھا ہے۔ گویا اس کو آپ ہی خلق اللہ کا گمراہ کرنا منظور ہے مگر یہ ہمارے شتاب باز مخالفوں کی غلطی ہے۔ ان کو معلوم کر نا چاہئے کہ قرآن کریم کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ شیطان گمراہ کرنے کے لئے جبر کر سکتا ہے اور نہ یہ تعلیم ہے کہ صرف بدی کی طر ف بلانے کے لئے شیطان کومقرر کر رکھا ہے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ آزمائش اور امتحان کی غرض سے لمہ ملک اور لمہ ابلیس برابر طور پر انسان کو دئیے گئے ہیں۔ یعنی ایک داعی خیر اور ایک داعی شر ۔ تا انسان اس ابتلاء میں پڑ کر مستحق ثواب یا عتاب کا ٹھہر سکے۔ کیونکہ اگر اس کے لئے ایک ہی طور کے اسباب پیدا کئے جاتے مثلاً اگر اس کے بیرونی اور اندرونی اسباب و جذبات فقط نیکی کی طرف ہی اس کو کھینچتے یا اس کی فطرت ہی ایسی واقع ہوتی کہ وہ بجز نیکی کے کاموں کے اور کچھ کر ہی نہ سکتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ نیک کاموں کے کرنے سے اس کو کوئی مرتبہ قرب کا مل سکے۔۔۔۔۔۔پس جاننا چاہئیے کہ سالک کو اپنی ابتدائی اور درمیانی حالت میں تمام امیدیں ثواب کی مخالفانہ جذبات سے پیدا ہوتی ہیں۔۔۔۔۔ اس تحقیق سے ظاہر ہوا کہ مخالفانہ جذبات جو انسان میں پیدا ہو کرانسان کو بدی کی طرف کھینچتے ہیں درحقیقت وہی انسان کے ثواب کا بھی موجب ہیں کیونکہ جب وہ خدا تعالیٰ سے ڈر کر ان مخالفانہ جذبات کو چھوڑ دیتا ہے توعند اللہ بلا شبہ تعریف کے لائق ٹھہر جاتا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیتا ہے لیکن جو شخص انتہائی مقام کو پہنچ گیا ہے اُس میں مخالفانہ جذبات نہیں رہتے گویا اس کا جن مسلمان ہو جاتا ہے۔‘‘…۔۳۵
اس عبارت سے اور خصوصاً اس عبارت کے آخری الفاظ سے جن میں بحث کا خلاصہ نکالا گیا ہے، ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نزدیک اصل چیز انسان کا صاحب اختیار ہونا ہے کہ چاہے تو نیکی کو اختیار کر لے اور چاہے تو بدی کو اور در اصل یہی وہ چیز ہے جس کا نام لمہ خیر یا لمہ شر رکھا گیا ہے گویا اصل لمہ شر انسان کے اندرونی مخالفانہ جذبات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اندرونی جذبات ٹھیک ہو جائیں تو بیرونی لمہ شر بیکار ہو جا تا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے ۔ جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان پر حکمت الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے کہ ’’ اس کا جن مسلمان ہو جاتا ہے‘‘۔ پس گو بے شک ابلیس بھی حضرت آدم کے زمانہ سے ایک مغوی وجود بن کر ایک خارجی لمہ شر کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ مگر اپنی اصل کے لحاظ سے اس کا مغویانہ وجود ایسا ہی ہے جیسا کہ مختلف زمانوں میں بعض انسان مغوی وجود ہوتے رہے ہیں۔ پس جس طرح مغوی انسان اپنی مغویانہ حیثیت میں ایک حادثہ تھے اسی طرح ابلیس کے وجود کا مغویانہ پہلو بھی ایک حادثہ ہے صرف فرق یہ ہے کہ ابلیس کا وجود شروع سے ہی یعنی حضرت آدم کے زمانہ سے ظاہر ہو کر انسان کے اندرونی لمہ شر کے ساتھ لاحق ہو چکا ہے۔ اور اس خارجی محرک نے انسان کے اندرونی لمہ شر کو تقویت دے دی ہے مگر اس کے مقابل پر جو خارجی وجود انسان کے اندرونی لمہ خیر کو تقویت دینے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ وہ ابلیس کی نسبت زیادہ طاقتور اور زیادہ وسیع ہیں۔ چنانچہ ملائکہ کا وجود، سلسلہ رُسل کا نظام اور کتب سماوی کا نزول سب ایسے خارجی وجود ہیںجو انسان کے اندرونی لمہ خیر کو مضبوط کرنے اور تقویت پہنچانے کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اور یہ خارجی لمہ خیر خدا کی ازلی مشیت کا حصہ ہے کیونکہ گو خدا نے انسان کو صاحب اختیار بنایا ہے مگر اس کی خواہش یہی ہے کہ سب لوگ نیک بنیں اور نجات پائیں۔
خلاصہ کلام یہ کہ اصل بنیادی چیز جو نظام رُوحانی کا ازلی حصہ ہے وہ انسان کا صاحب اختیار ہونا ہے۔ اس کی نیکی کی طرف جھکنے کی ظاقت لمہ خیر کہلاتی ہے۔ اور بدی کی طرف جھکنے کی طاقت لمہ شر ۔ جب انسان نیکی کی طرف جھکتا ہے تو وہ گویا ایک روشنی کی طرف بڑھتا ہے اور جب وہ اس روشنی سے دور ہوتا ہے تو یہی اس کا بدی کی طرف جھکنا قرار پاتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے ان دو اندرونی لموں کو تقویت پہنچانے کے لئے ایک طرف تو اپنی مشیت کے مطابق فرشتوںاور رسولوں اور آسمانی کتابوں کا سلسلہ جاری کر دیا۔ اور دوسری طرف ابلیس کا وجود حضرت آدم کی پیدائش کے ساتھ ہی اپنی مغویانہ صورت میں ظاہر ہو گیا۔ پس اس لحاظ سے کہ ابلیس گویا شروع سے ہی نسل انسانی کے ساتھ لگا ہوا ہے وہ ایک طرح نظام روحانی کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ مگر بہر حال یہ درست نہیں کہ اُسے خدا تعالیٰ نے گمراہ کرنے کی غرض وغایت سے پیدا کیا ہے۔ بلکہ وہ اپنی مغویانہ حیثیت میں ایک محض حادثہ ہے جو انسان کے اندرونی لمہ شر کے ساتھ لاحق ہو گیا ہے۔
اصل بحث پھر قرآن شریف پر آجاتی ہے۔ میں نے اس بارہ میں قرآن شریف کی متعلقہ آیات کو کافی غور کی نظر سے دیکھا ہے مجھے قرآنی بیان میں کوئی ایسی آیت نظر نہیں آئی جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ خدا تعالیٰ نے ابلیس کو اس غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا تھا کہ وہ انسان کو گمراہ کرے۔ قرآن شریف میں نو جگہ ابلیس کا ذکر آتا ہے ان میں سے سات آیتیں سوال زیر غور کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتی ہیں۔ اور میں ان ساتوں آیتوں کا ترجمہ ذیل میں درج کئے دیتا ہوں تاکہ ناظرین خود اندازہ کر سکیں کہ جو نتیجہ میں نے نکالا ہے وہ صحیح ہے یا غلط۔
(۱) سورۃ بقرۃ رکوع نمبر ۴ میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’ جب ہم نے فرشتوں سے یہ کہا کہ تم آدم کے سامنے سجدہ کرو یعنی اس کے لئے فرمانبردار ہو جائو تو سب نے فرمانبرداری اختیار کی مگر ابلیس نے نہ کی۔ اس نے انکار کیا اور اپنے آپ کو بڑا جانا اور کا فروں میں سے ہو گیا۔‘‘
(۲) سورۃ اعراف رکوع نمبر ۲ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-
’’ ہم نے تمہیں پیدا کیا اور تمہیں شکل و صورت عطا کی۔ پھر ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے لئے فرمانبردار ہو جائو۔ تو اس پر سب نے فرمانبر داری اختیار کی۔مگر ابلیس فرمانبرداروں میں سے نہ بنا ۔خدا نے اسے کہا تجھے کس بات نے فرمانبردار بننے سے روکا۔ جبکہ میں نے خود تجھے اس کا حکم دیا تھا۔ اس نے کہا میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور آدم کو مٹی سے۔ خدا نے کہا دور ہو جا تیرا یہ مقام نہیں کہ تو اس جگہ تکبر سے کام لے۔ پس دور ہو جا تو ذلیل ہستیوں میں سے ہے ۔ ابلیس نے کہا مجھے یوم بعث تک مہلت عطا کیجئے ۔ خدا نے فرمایا تجھے مہلت دی گئی۔ جس پر ابلیس نے کہا چونکہ اے خدا مجھے تو نے گمراہ گردانا ہے اس لئے اب میں نسل آدم کے تجھ تک پہنچے والے سیدھے رستہ پر گھات لگا کر بیٹھوں گا اور انہیں گمراہ کر نے کے لئے ان کے سامنے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے آئوں گا اور تو دیکھے گا کہ ان میں سے اکثر تیرے شکر گزار ثابت نہیں ہوں گے۔ خدا نے کہا اس جگہ سے دور ہو جا۔ راندہ ہوا دھتکارا ہوا۔ اور یا د رکھ کہ نسل آدم میں سے جو بھی تیری پیروی کرے گا میں تم سب کو جہنم کی آگ میں بھرو ں گا۔‘‘
(۳) سورۃ بنی اسرائیل رکوع نمبر ۷ میں فرماتا ہے:-
’’جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کے لئے فرمانبردار ہو جائو تو وہ سب فرمانبردار ہو گئے مگر ابلیس نہ ہوا۔ اس نے کہا۔ کیا میں ایسی ہستی کا فرمانبردار بنوں جسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔اور کہا دیکھ وہ جسے تو نے مجھ پر فضیلت دی ہے۔ اگر تو مجھے قیامت کے دن تک مہلت دے تو میں اس کی ذریت کو مغلوب کر کے ہلاک کروں گا۔ مگر ان میں سے تھوڑے جو بچ سکیں گے۔ خدا نے کہا دُور ہو ۔ ان میں سے جو بھی تیرے پیچھے لگے گا تو سن رکھو کہ تم سب کے لئے جہنم ہی پورا پورا بدلہ ہے ۔پس تو ان میں سے جسے چاہے اپنی آواز سے بہکا کر دیکھ لے اور اپنے سوار اور اپنے پیادے ان پر چڑھا لا۔ اور ان کے مالوں اور ان کی اولادوں میں ان کا شریک بن ۔ اور ان کو جس جس طرح بھی چاہے وعدے دے۔ اور شیطان کے وعدے جھوٹ کے سوا کیا ہوتے ہیں۔ وہ جو میرے بندے ہیں ان پر تو بہرحال تجھے غلبہ حاصل نہیں ہو گا۔ اور خدا کافی کارساز اور نگران ہے۔‘‘
(۴) سورۃ کہف رکوع نمبر ۷ میں فرماتا ہے
’’ جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کے لئے فرمانبردار بن جائو تو ان سب نے فرمانبرداری اختیار کی مگر ابلیس نے نہ کی۔ وہ جنوں میں سے تھا پھر اس نے خدا کے حکم سے نافرمانی کی۔ تو کیا اے لوگو تم مجھے چھوڑ کر اس ہستی اور اس کی نسل کو اپنا دوست بنائو گے؟ حالانکہ یہ ہستیاں تمہاری دشمن ہیں جو لوگ ایسا کریں گے۔ وہ خدا کے مقابلہ پر بہت بری رفاقت اختیار کرنے والے ہوں گے‘‘
(۵) سورۃ طٰہٰ رکوع نمبر ۷ میں فرماتا ہے:
’’ جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ تم آدم کے فرمانبر دار ہو جائو تو انہوں نے فرمانبرداری اختیار کی۔ مگر ابلیس نے ایسا کرنے سے انکار کیا ہم نے کہا۔ اے آدم یہ تیرا اور تیری زوج کا دشمن ہے۔ پس ہوشیار رہنا کہ وہ تمہیں تمہارے مقام جنت سے نکال نہ دے اور پھر تم تکلیف میں مبتلا ہو جائو۔‘‘
(۶) سورۃ حجر رکوع نمبر ۳ میں فرماتا ہے:
’’ ہم نے انسان کو بولنے والی تیار کی ہوئی مٹی سے بنایا۔ اور ہم اس سے پہلے جان ( یعنی جنوں) کو لو والی آگ سے بنا چکے تھے اور جب خدا نے فرشتوں سے یہ کہا۔ کہ میں ایک بولنے والی تیار کی ہوئی مٹی سے ایک بشر پیدا کرنے والا ہوں۔ جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کر لوں اور اس میں اپنی روح پھونکوں تو تم اس کے سامنے فرمانبردار ہوتے ہوئے جھک جانا۔ اس پر سب کے سب فرشتوں نے فرمانبرداری اختیار کی مگر ابلیس نے نہ کی۔ اُس نے فرمانبرداروں میں ہونے سے انکار کر دیا۔ خدا نے کہا اے ابلیس! تجھے کیا ہوا کہ تو نے آدم کی فرمانبرداری اختیار نہ کی ۔ ابلیس نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ میں اس بشر کا فرمانبردار ہوں ۔ جسے تو نے آواز دینے والی تیار کی ہوئی مٹی سے بنایا ہے خدا نے فرمایا یہاں سے نکل جاتو دھتکارا ہوا ہے اور تجھ پر جزا سزا کے دن تک *** ہے۔ ابلیس نے کہا میرے خدا مجھے یوم بعث تک مہلت دیجئے۔ خدا نے فرمایا تجھے وقت معلوم تک مہلت دی گئی۔ ابلیس نے کہا اے خدا جب تو نے مجھے گمراہ شدہ قرار دیا ہے تو اب میں انسانوں کے لئے دنیا میں مختلف قسم کی زیب و زینتوں کے سامان بنائوں گا اور ان سب کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ سوائے تیرے مخلص بندوں کے ۔ خدا نے فرمایا یہی اخلاص کا رستہ تو میری طرف آنے کا سیدھا رستہ ہے۔ رب رب فداک نفسی اجعلنی منہم …۔وہ جو میرے بندے ہیں ان پر تجھے غلبہ حاصل نہیں ہو گا۔ سوائے اس کے کہ گمراہ ہونے والوں میں سے کوئی شخص خود تیری پیروی اختیار کرے۔ اور ایسے سب لوگوں کے لئے جہنم وعدہ کا مقام ہے۔‘‘
(۷) اور بالآخر سورۃ صٓ رکو ع نمبر ۵ میں فرماتا ہے:
’’ جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہو ں پھر جب میں اسے ٹھیک ٹھاک کر لوں اور اس کے اندر اپنی روح پھونکوں تو تم اس کے سامنے فرمانبردار ہو کے جھک جائو۔ تو اس پر سب کے سب فرشتوں نے فرمانبرداری اختیار کی۔ مگر ابلیس نے نہ کی۔ اس نے اپنے آپ کو بڑا جانا اور کا فروں میں سے ہو گیا۔ خدا نے کہا اے ابلیس تجھے کس چیز نے روکا کہ تو اس وجود کا فرمانبردار بنے جسے میں نے اپنے دونو ںہاتھوں سے پیدا کیا( اللہ اللہ ’’ اپنے دونوں ہاتھوں‘‘ کے پیارے الفاظ میں انسان کے لئے کتنی عزت افزائی اور خدا کے لئے کیا شان دلربائی ہے!) کیا تو نے تکبر سے کام لیا یا کہ تو زیادہ عالی مرتبہ ہستیوں میں سے ہے؟ اس نے کہا میں آدم سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے پیدا کیاہے اور اسے مٹی سے ۔خدا نے فرمایا دور ہو جایہاں سے کہ تو دھتکارا ہوا ہے۔ اور تجھ پر جزا سزا کے دن تک میری *** ہے۔ ابلیس نے کہا اے میرے رب مجھ یوم بعث تک مہلت عطا کیجئے۔ خدا نے کہا تجھے وقت معلوم تک مہلت دی گئی۔ ابلیس نے کہا مجھے تیری عزت کی قسم ہے۔ کہ میںبھی اب ان سب کو گمراہ کرنے کی کوشش کروں گا۔ سوائے تیرے مخلص بندوں کے۔ خدا نے کہا کہ تو پھر میری بھی یہ سچی سچی بات سن لے کہ اس صورت میں تجھے اور تیرے پیچھے چلنے والوں کو جہنم کی آگ میں بھروں گا۔‘‘
میں اپنے ناظرین سے پوچھتا ہوں کہ کیا اوپر کی آیتوں میں سے کوئی ایک آیت یا ایک فقرہ یا ایک لفظ بھی ایسا ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہو کہ ابلیس کو خدا نے ابتدا ء سے ہی اس غرض و غایت کے ماتحت پیدا کیا تھا کہ وہ بنی نوع آدم کو گمراہ کرتا پھرے۔ بلکہ ان آیات سے تو یہاں تک پتہ لگتا ہے کہ ابلیس کی پیدائش آدم سے پہلے ہوئی تھی۔ مگر مغوی وہ آدم کے وقت آ کر بنا۔ بہر حال جو باتیں اوپر کی آیات سے ثابت ہوتی ہیں وہ یہ ہیں:-
(۱) یہ کہ ابلیس جنوں میں سے ایک مخفی قسم کی مخلوق تھا جو آدم سے پہلے آتشی مادہ سے پیدا کیا گیا اور اس کے بعد آدم کو طینی مادہ سے پیدا کیا گیا۔
(۲) یہ کہ خدا نے جن و انس سب کو اپنی عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے۔
(۳) یہ کہ جب آدم کی پیدا ئش پر فرشتوں کے ساتھ ابلیس کو بھی آدم کی فرمانبرداری کا حکم ہوا تو فرشتوں نے اپنی فطرت کے مطابق فوراً تعمیل کی۔ مگر ابلیس نے اپنے اختیار کو کام میں لاتے ہوئے تکبر کیا اور اپنے آپ کو آدم سے بڑا سمجھتے ہوئے آدم کے سامنے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا
(۴) یہ کہ اس انکار پر خدا تعالیٰ ابلیس پر ناراض ہو ااور اُسے رجیم اور ملعون قرار دیا۔
(۵) یہ کہ خدا تعالیٰ کی اس ناراضگی پر ابلیس کو ڈر پیدا ہوا کہ خدا اسے ہلاک کر دے گا۔ جس پر اس نے خدا سے زندگی کی مہلت مانگی۔
(۶) یہ کہ خدا نے اُسے وقت معلوم تک مہلت دی
(۷) یہ کہ اس پر ابلیس نے آدم کی دشمنی میں یہ اعلان کیا کہ آئندہ وہ آدم اور اس کی نسل کو گمراہ کر تا رہے گا۔
(۸)یہ کہ ابلیس کے اس اعلان پر خدا نے فرمایا کہ تو نے جتنا زور لگانا ہو لگا لے وہ جو میرے مخلص بندے ہیں وہ بہرحال تیرے حملوں سے محفوظ رہیں گے۔ ہاں جو لوگ تیری بد تحریکات کو خود قبول کریں گے وہ ضرور گمراہ ہوں گے۔
(۹) یہ کہ ابلیس کو کسی پر جبر کی طاقت حاصل نہیں ہے۔
(۱۰) یہ کہ ابلیس اور اس کے پیچھے لگنے والے لوگ سب بطور سزا کے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔
یہ سب نتائج بالکل واضح ہیں اور ان پر کسی تبصرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اور یہ فیصلہ قرآن کا فیصلہ ہے ۳۶ ۳۷
خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
(اوّل) خیر و شر کے روحانی نظام کی اصل بنیاد اس بات پر ہے کہ انسان کو اس کے اعمال میں صاحب اختیار بنایا گیا ہے کہ چاہے تو نیکی کا رستہ اختیار کرلے اور چاہے تو نیکی کو چھوڑ کر بدی کے رستہ پر پڑ جائے اور اس کے لئے ان دو رستوںکا کھلا ہونا لمہ خیر اور لمہ شر کہلا تاہے۔
(دوم) خدا چونکہ ہدایت کا سر چشمہ ہے۔ اور اس کا حقیقی منشاء یہ ہے کہ سب ہدایت پائیں اس لئے اس نے انسان کو صاحب اختیار بنانے کے ساتھ ساتھ اُس کی روحانی حفاظت اور ترقی کے لئے تین قسم کے خارجی نظام بھی جاری کئے ہیں
(الف) فرشتوں کا نظام جو انسانوں کو نیکی کی تحریک کرتے ہیں:-
(ب) رسولوں کا نظام جو خدا کی طرف سے ہدایت کا پیغام لے کر آتے ہیں۔ اور دنیا کے لئے نیکی کا عملی نمونہ بنتے ہیں۔اور
(ج) کتب سماوی کے نزول کا نظام جو خدا کی بھیجی ہوئی ہدایت اور تعلیم پر مشتمل ہوتی ہیں
یہ تینوں نظام انسان کے اندرونی لمہ خیر کے لئے سہارے اور تقویت کا باعث ہیں۔ اور گویا بطور خارجی لمہ خیر کے کام کرتے ہیںاور یہ تینوںنظام مشیت ایزدی کا حصہ ہیں۔
(سوم) آدم کی پیدائش کے ساتھ ہی ابلیس کا حادثہ وقوع میں آگیا یعنی اس نے خدا کے حکم کے باوجود آدم کے سامنے سجدہ کرنے اور فرمانبردار بننے سے انکار کر دیا۔ اس لئے وہ ایک حادثہ کی صورت میں نہ کہ خدائی مشیت اور اپنی پیدائش کی غرض و غایت کے ماتحت عملاً انسان کے لئے امتحان اور ابتلاء کا ذریعہ بن گیا۔ اور اب یہ خارجی لمہ شر انسان کے اندرونی لمہ شر کو تقویت دے رہا ہے
(چہارم) یہ دونوں قسم کے خارجی لمہ خیر اور لمہ شر صرف نیکی یا بدی کی طرف بلانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مگر کسی شخص پر جبرنہیں کر سکتے کیونکہ دین کے معاملہ میں جبر کرنا خدائی شریعت کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
اب ناظرین خود دیکھ سکتے ہیں کہ اوپر کے نظریہ کے ماتحت قرآن شریف اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں کوئی تضاد باقی نہیں رہتا اور نہ ہی خدا کی صفات پر کسی قسم کے اعتراض کا رستہ کھلتا ہے۔ اور یہی وہ نتیجہ ہے جس کی طرف میں نے اپنے سابقہ مضمون میں اختصار کے ساتھ اشارہ کیا تھا۔ و اٰ خرد عوٰنا ان الحمد ﷲ رب العالمین
نوٹ: ابلیس اور شیطان کی باہمی نسبت اور تشریح کے متعلق میں اپنے پہلے مضمون میں مختصراً بتا چکا ہوں۔ اس جگہ اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں اور نہ ہی میرے موجودہ مضمون سے اس سوال کا براہ راست کوئی تعلق ہے۔
نوٹ ثانی میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو کچھ اس مضمون کے متعلق میری موجودہ تحقیق تھی۔ وہ میں نے اس جگہ لکھ دی ہے اور میری طرف سے اس موضوع پر یہ آخری تحریر ہے کیونکہ مجھے بعض اور مضامین بھی لکھنے ہیں۔ جو وقتی لحاظ سے زیادہ اہم اور ضروری ہیں ۔ البتہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ میرا نظریہ درست نہیں تو میں بلا توقف اپنی رائے بدلنے کو تیار ہوں کیونکہ بہر حال یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور مومن کے دل میں حق کے داخلہ کے لئے ہر وقت رستہ کھلا رہنا چاہئیے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۶ ۱؍مئی ۱۹۴۸ئ)
گذشتہ فسادات کی ذمہ داری کس قوم پر ہے ؟
ذمہ داری کی تعیین کے لئے چند بنیادی اصول
قریباً پچیس سال کا عرصہ ہوا۔ جبکہ میں ابھی نوجوان تھاکہ مجھے ایک مناظرہ کے سننے کا اتفاق ہوا اس مناظرہ میں ہر دو فریق نے خوب زور وشور سے تقریریں کیں اور فریقین کے حامیوں نے بھی خوب دل کھول کر واہ واہ کی لیکن میری طبیعت پر اس مناظرہ کا ایسا خراب اثر ہوا کہ آج تک نہیں بھولتا۔ کیونکہ آخر تک ہر دو مناظر صرف اپنے اپنے حق کی دلیلیں دہراتے تھے ۔ اور دوسرے فریق کی پیش کر دہ دلیلوں کو توڑنے یا مطابقت دینے کی طرف بالکل توجہ نہیںتھی ۔ حالانکہ کامیاب مناظر وہی ہوتا ہے جس میں یا تو انسان اپنی دلیلوں کو سچا ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ فریق مخالف کی دلیلوں کو بھی غلط ثابت کر دے۔ یا ان کی کوئی ایسی معقول تشریح پیش کرے جس سے مخالف یا موافق دلیلوں میں تضاد کی صورت دور ہو جائے۔ اس وقت سے میں نے اس نکتہ کو سمجھا اور میری طبیعت پر اس کا گہرا اثر ہے کہ محض اپنی تائید میں کوئی دلیل پیش کردینا ہرگز کافی نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے موافق و مخالف ہر دو قسم کی دلیلوں پر یکجائی کی نظر ڈال کر ان کا موازنہ کرنا اور پھر غلط دلیل کو کاٹ کر صحیح دلیل کو قائم کرنا ۔ یا دونوں قسم کی دلیلوں میں مطابقت کی صورت پیدا کر کے آخری نتیجہ نکالنا ضروری ہوتا ہے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دنیا میں اکثر مناظرے یک طرفہ بات کو دہراتے چلے جانے کے سوا کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ اور جب دوسرا فریق بھی اپنی یک طرفہ بات کو دہرانے لگتا ہے تو پھر عوام الناس حیران و ششدر ہو کر پریشان ہونے لگتے ہیں کہ کس بات کو سچا سمجھیں اورکس کو جھوٹا ۔ کیونکہ دلیلیں دونوں طرف کی موجود ہوتی ہیں مگر کمزور دلیلوں کو کاٹنے یا مضبوط دلیلوں کے مطابق ثابت کرنے کا کوئی سامان موجود نہیںہوتا۔گزشتہ فسادات میں بظاہر دونو ںطرف قتل و غارت ہوا مگر پھر بھی ظالم کو پہچاننا مشکل نہیں۔
گزشتہ فسادات کے تعلق میں ذمہ داری کے سوال کے متعلق بھی یہی سطحی رنگ اختیار کیا جا رہا ہے یعنی ایک طرف مسلمان یہ شکایت کر رہے ہیں کہ سکھوں اور ہندوئوں نے مشرقی پنجاب میں مسلمانوںکو قتل کیا۔ ان کی عورتوں کو اغوا کیا ان کی جائیدادوں کو تباہ کیا اور ان کے مال و اسباب کو لوٹا اور دوسری طرف ہندو اور سکھ واویلا کر رہے ہیںکہ مغربی پنجاب میں یہی مظالم سکھوں اور ہندوئوں پر توڑے گئے اور آج نو مہینے ہو گئے کہ دونوں فریق کی طرف سے یہی شکایت دہرائی چلی جا رہی ہے مگر کوئی خدا کا بندہ اس بحث کو سلجھانے یا اس میں صحیح راستہ کی تعیین کرنیکی کوشش نہیں کرتا۔ مسلمان واویلا کر رہا ہے کہ مسلمانوں پر ظلم ہوا اور سکھ اور ہندو شور مچا رہے ہیںکہ سکھوں اور ہندوئوں پر ظلم ہوا اور اگر سطحی نظر سے دیکھا جائے تو بظاہر یہ دونوں باتیں درست معلوم ہوتی ہیں۔ کیونکہ اس بات میں کیا شبہ ہے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمان لوٹے اور مارے گئے اور مغربی پنجاب میں سکھوں اور ہندوئوں نے نقصان اٹھایا۔ مگر اس سطحی نظا رہ سے آگے گزر کر کوئی شخص اس بات کے سوچنے کے لئے تیار نظر نہیں آتاکہ اس ظلم کی اصل ذمہ داری کس فریق پر ہے اور یہ کہ اس ذمہ داری کی تعیین کا منصفانہ طریق کیا ہے بے شک بعض لوگوں نے اس سوال کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے مگر ان کی تقریروں اور تحریروں میں بھی وہ تفصیلی تجزیہ نہیں پایا جاتا جو اس بحث میں صحیح اور صاف صاف نتیجہ تک پہونچنے کے لئے ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ اس قسم کی بحثوں کا خاتمہ تو کبھی بھی نہیںہوا کرتا اور ہر فریق کا ضدی طبقہ ’’میںنہ مانوں‘‘ کے اصول کے ماتحت ہر حال میں اپنی بات دہراتا چلا جاتا ہے۔ مگر صحیح اصول اختیار کرنے سے قوم کا وہ حصہ جو منصفانہ جذبات رکھتا ہے،سمجھ جاتا ہے کہ حقیقت کیا ہے اور کم از کم غیر جانبدرار لوگوں کو صحیح رائے قائم کرنے کا مو قع میسر آجاتا ہے اور یہی ایسی بحثوں کا اصل فائدہ ہوا کرتاہے۔
اب جہاں تک میں نے اس معاملہ میں سوچا ہے گزشتہ فسادات کی اصل ذمہ داری معین کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم چند مسلمہ بنیادی اصولوں کی تعیین کرنے کے بعد اس بحث میں داخل ہوں۔ یعنی پہلے اصول قائم کریںاور پھر ان اصولوں کی روشنی میں ذمہ داری معین کرنے کی کوشش کریں اور یہ اصول میرے نزدیک اور ہر غیر متعصب شخص کے نزدیک مندرجہ ذیل ہونے چاہئیں:-
پہل کرنے والا زیادہ ظالم ہوتا ہے
(اول) سب سے پہلی بات جو اس قسم کی بحثوں میں صحیح نتیجہ پر پہنچنے کے لئے ضروری ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس بات کو دیکھا جائے کہ فسادات میں آغاز کس فریق کی طرف سے ہوا ہے۔ عربی میں ایک مشہور قول ہے کہ البادی الظلم ’’ یعنی پہل کرنے والا زیادہ ظالم ہوتا ہے‘‘ظاہر ہے کہ اگر مجھ پرکوئی شخص حملہ کرنے آجائے تو میں اگر بے غیرت اور بزدل نہیں ہوں تو اپنی جان یا مال یا عزت کی حفاظت کے لئے مقابلہ کروں گا اور بالکل ممکن ہے کہ اس مقابلہ میں حملہ کرنے والا شخص زیادہ چوٹ کھا جائے یا میرے ہاتھ سے قتل ہی ہو جائے لیکن ہر عقلمند کے نزدیک اور ہر متمدن ملک کے قانون کے مطابق ظالم وہی شخص قرار پائے گا جو ظلم میں پہل کر کے مجھ پر حملہ آور ہوا ہے۔ خواہ نقصان عملًا اسی نے زیادہ اٹھایا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ خود حفاظتی کے اصول کو جسے انگریزی میں Right of private defenceکہتے ہیں، ہر ملک اور ہر مذہب نے تسلیم کیا ہے۔ بے شک عیسائی مذہب کی بعض تعلیمات اس کے خلاف نظر آتی ہیں۔ مگر عیسائیت کی تعلیم کا یہ حصہ محض عارضی اور وقتی نوعیت رکھتا تھا اور مسیحی اقوام کا عملی رویہ ہمیشہ اس عارضی تعلیم کے خلاف اور مندرجہ بالا دائمی اصول کے مطابق رہا ہے۔ سو گز شتہ قیامت خیز فسادات میں سب سے پہلی بات یہ دیکھنی ضروری ہو گی کہ اس خون خرابہ اور قتل و غارت اور لوٹ مار اور آبرو ریزی کے کھیل میں ابتدا کس فریق کی طرف سے ہوئی ہے۔ جو قوم بادی ثابت ہو گی ،وہی یقینا اظلم قرار پائے گی اور مسلمانوں کا دعویٰ ہے۔ جس کی تائیدمیں وہ زبردست دلائل رکھتے ہیں ( مگر یہاں ان دلائل کی بحث میں جانا میرا مقصد نہیں بلکہ صرف اصول بتا نا اصل غرض ہے) کہ گذشتہ فسادات میں ابتدا یقینا سکھوں اور ہندوئوں کی طرف سے ہوئی ہے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ابتداء بھی دو قسم کی ہوتی ہے،یعنی ایک تو قومی ابتداء ہوتی ہے اور دوسری فعلی اور عملی ابتداء ہوتی ہے اور حالا ت کا مطالعہ بتا تا ہے کہ یہ دونوں قسم کی ابتدا سکھوں اور ہندوئوں کی طرف سے ہوئی ہے اور جوں جوں زمانہ کے گزرنے اور طبائع کے جو شوں کے ٹھنڈا ہونے کے ساتھ تاریخ کے نقوش زیادہ معین اور زیادہ واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ توں توں یہ حقیقت بھی زیادہ روشن ہوتی چلی جائے گی کہ اس خونی ہولی میں پہل ہندوئوں اور سکھوں کی طرف سے ہوئی تھی نہ کہ مسلمانوں کی طرف سے۔
جوابی کارروائی میں بھی معقول حد سے تجاوز کرنا جائز نہیں
(دوم) دوسری بات یہ دیکھنے والی ہے کہ خواہ ابتداء کسی کی طرف سے ہو، جب کوئی فریق اپنے جواب میں بھی اعتدال کی حد سے آگے نکل جاتا ہے ۔ یعنی جتنا خطرہ اسے دوسرے فریق کی طرف سے پیدا ہوتا ہے۔ یا جس قسم کا حملہ اس کے خلاف کیا جاتا ہے۔ وہ اس کے جواب میں خطرہ اور حملہ کے تناسب سے تجاوز کر کے اپنی جوابی کارروائی کو انتہائی درجہ ظالمانہ رنگ دے دیتا ہے تو اس صورت میں یہ بظاہر دفاع کرنے والا شخص بھی ظالم بن جاتا ہے۔ مثلا ًایک شخص ایک پتلی سی چھڑی لے کر آپ پر حملہ کرنے کے لئے بڑھتا ہے اور آپ اس کے اس خفیف سے حملہ کو جس سے آپ کی جان کو کوئی حقیقی خطرہ پیدا نہیں ہوتا،بہانہ بنا کر حملہ کرنے والے کو جواب میں قتل کر دیتے ہیں اور قتل بھی نہایت بے دردانہ رنگ میں ایذا اورعذاب کا طریق اختیار کر کے کرتے ہیں، تو ہر شخص یہی سمجھے گا اور یہی سمجھنے کا حق رکھتا ہے کہ ایسا شخص بظاہر جوابی رنگ رکھتے ہوئے بھیظالم اور سزا کا مستحق ہے ۔یہ وہ صورت ہے جسے قانون کی اصطلاح میںحفاظتِ خود اختیا ری کے حق سے تجاوز کرنا کہتے ہیں۔ یعنیExceeding the right of private defenceبے شک بعض اوقات ایسی ہنگامی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ افرا تفری کی حالت میں ایک شخص نیک نیت ہوتے ہوئے بھی خود حفاظتی کے حق سے خفیف سا تجاوز کر جاتا ہے اور اس قسم کے خفیف تجاوز کو حالات پیش آمدہ کے ماتحت قابل معافی سمجھا جا تا ہے ۔ لیکن جہاں حملہ اور دفاع میں کوئی نسبت ہی نہ ہو اور دفاع سے ناجائز فائدہ اٹھا کر انتہائی ظلم سے کام لیاجائے تو ایسا دفاع بھی یقینا قابل ملامت اور قابل سزا سمجھا جائے گا۔ چنانچہ گزشتہ فسادات میں کئی جگہ ایسا ہوا کہ بعض مقامات پر سکھوں اور ہندو ئو ں نے مسلمانوں کو کوئی دھمکی دی اور انہیں تنگ کیا اور چھیڑا اور اس کے جواب میں مسلمانوں نے دفاع اور خود حفاظتی کے خیال سے کوئی جائز تدبیر اختیار کی تو پھر اس دفاعی تدبیر کو بہانہ بنا کر مسلمانوں پر وہ وہ مظالم ڈھائے گئے کہ الامان والحفیظ۔ پس فسادات میں ذمہ داری کی صحیح تعیین کرنے کے لئے اس پہلو کو دیکھنا بھی ضروری ہو گا۔
سازش کا رنگ ذمہ داری کو بہت بڑھا دیتا ہے
(سوم) تیسری بات یہ دیکھنے والی ہے کہ سازش کا رنگ کس قوم کی کارروائیوں میں پایا جاتا ہے۔ دنیا میں اکثر فسادات ہوتے رہتے ہیں ۔ اور ان فسادات میں قتل و غارت اور لوٹ ماروغیرہ کی وارداتیں بھی ہو جاتی ہیں۔ مگر بالعموم ایسے فسادات افراد کے جوش کا ایک وقتی ابال سمجھے جاتے ہیں۔ یعنی یہ کہ کسی وجہ سے دو پارٹیوں کے لوگوں میں اختلاف پیدا ہوا اور یہ اختلاف بعض وجوہات سے چمک گیا اور پھر اس کے نتیجہ میں ٹکرائو کی صورت پیدا ہو گئی۔ بے شک ایسے ٹکرائو بھی قابل افسوس ہیں اور ان میں جو فریق بھی زیادہ ظالم ہے، وہ زیادہ قابل علامت ہے، لیکن اگر کسی پارٹی یا قوم کی طرف سے سازش کا رنگ پیدا ہو جائے اور پہلے سے تدبیریں سوچ کر اور سکیمیں بنا کر دوسری پارٹی کو اپنے حملہ کا نشانہ بنایا جائے تو یہ ایک بد ترین قسم کی فرقہ وارانہ ذہنیت ہو گی جو فساد کرنے والی قوم کی ذمہ داری کو یقینا بہت بڑھا دے گی ا ور یہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ ( گو یہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں) کہ مشرقی پنجاب میں ایک پہلے سے سوچی ہوئی سکیم کے ماتحت مسلمانوں کومظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس میں واقعات اور حالات اتنے واضح اور نمایاں ہیں کہ کسی غیر جانبدار شخص کے لئے شک و شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ ایک سکیم بنائی گئی۔ اس کے مطابق تیاری کی گئی۔ اور پھر اس سکیم اور اس تیاری کے ماتحت ایک منظم صورت میں مسلمانوں کی جانوں اور مالوں اور عزتوں پر حملہ کیا گیا۔ اور اس کے مقابل پر جو مظالم مغربی پنجاب میں سکھوں یا ہندوئوں پر ہوئے وہ بھی بے شک قابل افسوس ہیں مگر اکثر صورتوں میں وہ ایک وقتی اور مقامی جوش کا نتیجہ تھے۔ جس میں کسی قسم کی سازش یا پہلے سے سوچی ہوئی سکیم کا دخل نہیں تھا۔ اور یہ وہ بھاری فرق ہے جس کے ذریعہ دونوں قوموں کی نسبتی ذمہ داری آسانی کے ساتھ معین کی جا سکتی ۔
پبلک فسادوں میں حکام کی جانبدارانہ شرکت ایک بد ترین داغ ہے
(چہارم) چوتھی بات یہ دیکھنے والی ہے کہ ان فسادات میں دونوں طرف کے حکام اور خصوصاً پولیس اور ملٹری کا کہاں تک دخل رہا ہے۔ فسادات تو ہر ملک اور ہر زمانہ میں ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی ان فسادات کا باعث نسلی اختلاف بن جاتا ہے اور کبھی سیاسی اختلاف ان کا موجب ہو جاتاہے۔ اور کبھی مذہبی اختلاف کو فساد کا بہانہ بنالیا جاتاہے۔ مگر ہر متمدن ملک میں جہاں کم از کم انصاف کی نمائش کی جاتی ہو،حکومت کے افسر اس قسم کے پبلک فسادوں میں غیر جانبدار رہنے کی کوشش کرتے ہیں اور حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہر حال میںغیر جانبدار رہے۔ کیونکہ حکومت کی بنیادی غرض وغایت ملک میں امن قائم کرنا ہوتی ہے اور اس کا یہ اولین فرض ہے کہ رعایا کے مختلف طبقوں میں عدل و انصاف کے ترازو کو قائم رکھے دراصل حاکم باپ کے حکم میں ہوتا ہے اور پبلک اولاد کے حکم میں ہوتی ہے۔ اور کون باپ ہے جو اپنے ایک لڑکے کو غیر سمجھے اور ایک کو تو اپنی گود میں بٹھائے اور دوسرے کو لٹھ دکھائے۔ اور جو شخص حکومت کا نمائندہ ہو کر اور امن کا محافظ بن کر پھر فساد میں حصہ لیتا اور پبلک کے مختلف طبقوں میں جانبداری کا رویہ اختیار کرتا ہے، وہ انسانیت کا بد ترین دشمن ہے کیونکہ گو وہ بھیڑوں کا گڈریا مقرر کیا گیا تھا۔ لیکن اس نے بھیڑیا بن کر اپنے ہی گلہ کی بھیڑوں کو مارنا شروع کر دیا۔ مگر افسوس ہے کہ گزشتہ فسادات میں ہمارے بد قسمت ملک کو یہ سیاہ داغ دیکھنا بھی نصیب تھا۔ یقینا پاکستان اور ہندوستان میں سے جس ملک میں بھی یہ گندی کھیل کھیلی گئی ہے اور جس ملک کے افسروں نے خود شوریدہ سر پبلک کے ساتھ ہو کر دوسرے فریق کے بے بس افراد کو مظالم کا نشانہ بنایا ہے، وہ ان فسادات کے مجرموں میں سے مجرم نمبر ۱ ہے ،جس کی ذمہ داری سے وہ تا قیامت بری نہیں سمجھا جا سکتا۔ پس ذ مہ داری کی تعیین کے لئے حکام کے شرکت کے پہلو کو دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس پہلو کا مطالعہ ایک غیر متعصب انسان کے لئے اس بارے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں چھوڑتاکہ جس قسم کی برملا اور وسیع شرکت مشرقی پنجاب کی پولیس اور ملٹری نے گزشتہ فسادات میں کی ہے، اس کے ساتھ مغربی پنجاب کے حالات کو کوئی نسبت نہیں۔ میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ مشرقی پنجاب کے سب پولیس اور ملٹری افسر ایک جیسے تھے۔ یقینا ان میں سے بعض نیک دل بھی ہوں گے۔ اور میں یہ دعوے بھی ہرگز نہیں کرتا کہ مغربی پنجاب میں کوئی کالی بھیڑ نہیں ۔ یقینا بعض بے اصول افسروں نے یہاں بھی غیر جانبدارانہ رویہ اختیار کیا ہو گا مگر ہر میدان میں نسبت کو دیکھا جاتا ہے اور یہ نسبت مشرقی پنجاب میں اتنی زیادہ ہے کہ کسی عقلمند کے نزدیک شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ لیکن میں کہہ چکا ہوںکہ اس جگہ مجھے دلائل دینے مقصود نہیں بلکہ صرف اصول کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔
مظالم کی نوعیت اور درجہ کا سوال بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
(پنجم) پانچویں بات یہ دیکھنی ضروری ہوتی ہے کہ اس قسم کے فسادات میں مظالم کی نوعیت اور مظالم کا درجہ کس فریق کو زیادہ زیر الزام لاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ عموماً فسادات میںظلم ہر دو فریق کی طرف سے ہو جاتے ہیں۔ یعنی خواہ ابتداء کسی کی طرف سے ہواور خواہ حق کسی فریق کے ساتھ ہو۔ جب کوئی فساد ہوتا ہے تو عموماً ہر فریق کی طرف سے ایسے افعا ل سرزد ہوتے ہیں جنہیں ظاہری نظرمیں ظلم اور تشدد کا نام دیا جا سکتا ہے۔ لیکن بہر حال یہ بات دیکھنی ضروری ہوتی ہے اور اس کے بغیر ذمہ داری کی صحیح تعیین نہیں ہو سکتی کہ فریقین کی طرف سے جو مظالم روا رکھے گئے ہیں اور جن افعال کا ارتکاب کیا گیا ہے، ان میں درجہ اور نوعیت کے لحاظ سے کس فریق کے مظالم زیادہ سخت اور زیادہ بھیانک اور زیادہ بے رحمی کا رنگ رکھتے ہیں۔ مثلاً اگر دو فریق کے درمیان کوئی لڑائی ہو جاتی ہے تو خواہ حق کسی کے ساتھ ہو وہ لازماً ایک دوسرے کے خلاف ہاتھ اٹھائیں گے اور لازماً ان میں سے ہر فریق کے آدمیوں کو کم و بیش چوٹیں بھی آئیں گی یا بعض قتل بھی ہوں گے۔ لیکن اگر ان دو فریقوں میں سے ایک فریق زیادہ سختی اور زیادہ بے رحمی کا طریق اختیار کر تا ہے۔ مثلاً صرف قتل ہی نہیں کرتا بلکہ وحشیانہ غصہ میں آکر مقتول کے اعضاء کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ یا مثلاً تلوار چلاتے ہوئے دانستہ چہرہ پر وار کرتا ہے تاکہ دوسرے کی صورت کو مسخ کر دے۔ اور اس کی زندگی کو اس کے لئے مصیبت بنا دے۔ یا لڑائی میں دوسرے فریق کے جنگجو مردوں سے تجاوز کر کے عورتوں اور بچوں پر بھی وار کرتا ہے۔ یا بوڑھے اور ضعیف مردوں کوبھی موت کے گھا ٹ اتارتا ہے۔ یا چھوٹے بچوں کو ماں کے سامنے مار کریا ماں کو چھوٹے بچوں کے سامنے تہہ تیغ کر کے خوش ہوتا ہے تو وہ اپنی سیاہ باطنی اور درندگی پر خود اپنے ہاتھ سے مہر لگاتا ہے۔ اور فسادات میں اس کی ذمہ داری ( خواہ دوسرے حالات کچھ ہوں) انتہا کو پہنچ جاتی ہے مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اور ایک مشترک مادر وطن کی طر ف منسوب ہونے کی وجہ سے ہماری آنکھیں شرم سے زمین میں گڑ جاتی ہیںکہ مشرقی پنجاب میں ایسے واقعات ایک نہیں دس بیس نہیں سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں ہوئے۔ اور لاکھوں دیکھنے والوں نے ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ مگر اپنی قوم کے ان انتہائی وحشیانہ افعال کے باوجود کسی برادرِ وطن کو یہ ہمت نہیں ہوئی کہ وہ ان افعال سے برأت اور نفرت کا اظہار کرے۔گویا قومیت کا جذبہ انسانیت پر بھی غالب آ گیا اور شرافت پر درندگی نے فتح پا لی۔
ہمارے مقدس آقا کا مقدس ارشاد
ہمارے مقدس آقا صلے اللہ علیہ وسلم کا یہ کس قدر پاک اسوہ ہے کہ آپ ہر فوجی دستہ کو حملہ آوروں کے خلاف بھجواتے ہوئے تکرار اور اصرار کے ساتھ یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ :-
’’ دیکھو تمہیں جس قوم کے خلاف بھی لڑنے کا موقع پیش آئے۔ اس کے متعلق اس اصول کو ہرگز نہ بھولنا کہ عورتوں اور بچوں کے خلاف ہاتھ نہ اٹھایا جائے۔ بوڑھے اور بیمار مردوں پر وار نہ کیا جائے۔ وہ لوگ جو اپنی زندگیاں مذہب کی خدمت کے لئے وقف رکھتے ہیں خواہ یہ مذہب کوئی ہو،انہیں اپنے حملہ کا نشانہ نہ بنایا جائے اور جو شخص تم پر حملہ کرنے کے لئے بڑھتا ہے۔ اس کے متعلق بھی یہ احتیاط رکھو کہ تمہارے دفاعی وار سے اس کے چہرہ پر زخم نہ آئے۔ اور دیکھو مقتولوں کے اعضاء کو ہرگز نہ کاٹا کرو۔ اور غیر مسلموں کی عبادتگاہوں کو کسی صورت میں بھی نقصان نہ پہنچائو۔‘‘
یہ وہ پاک نصیحت ہے جو ہمارے مقدس آقا نے اپنے مغربی پنجاب کے غلاموں کو تیرہ سو سال پہلے سے دے رکھی ہے۔ اگر باوجود اس کے کسی مسلمان کہلانے والے نے اس حکم کو توڑا ہے تو اس کی ذات اس خلاف ورزی کی ذمہ دار ہے۔ اور دوسرے مسلمانوںکو اس کے فعل سے بیزاری کا اظہار کرنا چاہئے۔ لیکن جو کچھ مشرقی پنجاب میں ہوا ہے، وہ ہم سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ بچوں کو ان کی روتی چلاتی مائوں کے سامنے قتل کیا گیا۔ مائوں کو ان کے سہمے ہوئے بچوں کے سامنے موت کے گھاٹ اتا را گیا۔ بوڑھے اور بیمار مردوں کو انتہائی درندگی کے ساتھ ذبح کیا گیا۔ مذہب کی خدمت کے لئے اپنی زندگیاں وقف رکھنے والے لوگوں کو وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ مساجد کو مسمار کیا گیا۔ عورتوں کو اغواء کیا گیا اور قتل و غارت اور لوٹ مار میں وہ وہ ظالمانہ طریق اختیار کئے گئے کہ انسانیت ان کیتصور سے شرماتی ہے۔ وقت گزر گیا ہے۔ زخم بھی غالباً کچھ عرصہ کے بعد مند مل ہو جائیں گے مگر یہ تلخ یاد ہمیشہ زندہ رہے گی کہ ایک انسان دوسرے انسان کے خلاف درندگی کے کس ادنیٰ ترین گڑھے میں گر سکتا ہے۔
میں کہہ چکا ہوں کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوںجو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ مغربی پنجاب میں کوئی ظلم نہیں ہوا۔ میں جانتا ہوں اور دیکھنے والے مجھے بتاتے ہیں کہ مغربی پنجاب میں قتل و غارت بھی ہوا ،لوٹ مار بھی ہوئی، اغوا کی وارداتیں بھی وقوع میں آئیں اور بعض دوسرے مظالم بھی ہوئے۔ ان چیزوں کا انکار کرنا صداقت کی طرف سے آنکھیں بند کرنا ہے۔ یہ مظالم خواہ دوسرے فریق کے جواب میں تھے یا وقتی فرقہ وارانہ جوش کا ابال تھے ،بہر حال مغربی پنجاب میں مظالم کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مگر ان مظالم کو اُن مظالم سے کوئی نسبت نہیں جو مشرقی پنجاب میں مسلمانوںکے خلاف روا رکھے گئے۔ ابتداء کے لحاظ سے دیکھو،جو اب میں حد سے تجاوز کرنے کے لحاظ سے دیکھو ، سازش کے پہلو کے لحاظ سے دیکھو،حکام کی جانبدارانہ شرکت کو دیکھو۔ مظالم کی نوعیت اور درجہ کو دیکھو اور عبادتگاہوں کی بیحرمتی کو دیکھو۔ ان سب باتوں کا جواب ایک ہے اور صرف ایک۔ لیکن غالباً ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہمارے برادران وطن گزشتہ ایام کی کارروائیوں کو ٹھنڈے دل سے سوچ سکیںیا انصاف کی نظر سے دیکھ سکیں۔ مگر کم از کم ہمیں ان مسلمہ اصولوں کو تو نہیں بھولنا چائیے جو اس قسم کے فسادات میں ذمہ داری کی صحیح تعیین میں مدد دے سکتے ہیں۔ صداقت کی زمین ہر وقت تیار رہنی چاہئے۔ خواہ بیج بونے کا وقت بعد میں آئے۔
وآخر دعوانا ان الحمد ﷲ رب العالمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۶؍ مئی ۱۹۴۸ئ)





قادیان چھوڑنے کے متعلق میری ایک دس سال قبل کی تحریر
اور
اس پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا تفصیلی نوٹ
جب کبھی بھی لوگوں کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا کوئی پورا ہونے والا الہام پیش کیا جاتا ہے تو ان میں سے ضدی طبقہ عمو ماًیہ کہہ کر اپنا پیچھا چھڑانا چاہتا ہے کہ یہ الہام تم نے بعد میں بنا لیا ہے۔ یا کم از کم یہ کہ جو تشریح تم اس الہام کی اب کر رہے ہویہ بعد کا خیال ہے۔ حالانکہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات پہلے سے چھپے ہوئے ہیںتو بعد میں بنا لینے کا سوال پیدا نہیں ہو سکتا۔ اور تشریح خواہ بعد میں ہی کی جائے۔ اگر کوئی تشریح کسی الہام کے الفاظ پر واقعی چسپاں ہوتی ہو تو خواہ اس کا بعد میں ہی خیال آئے۔ وہ ہر عقل مند انسان کے نزدیک قابل قبول ہونی چاہئے۔ لیکن ذیل میں ایک ایسی تحریر پیش کی جاتی ہے جو آج سے دس سال پہلے کی لکھی ہوئی ہے اور اس تحریر میں یہ صاف طور پر مذکو ر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے پتہ لگتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو ایک زمانہ میں اپنے مرکز سے عارضی طور پر نکلنا پڑے گا۔ یہ تحریر میرے ایک خط کی صورت میں ہے۔ جو میں نے ۲۶ اپریل ۱۹۳۸ ء کو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھا ۔ اور حضور نے اس پر ایک تفصیلی نوٹ درج کر کے مجھے واپس بھجوا یا اور پھر میں نے اسے ۲۲ مئی ۱۹۳۸ ء کو ناظر اعلیٰ ( چیف سیکرٹری) جماعت احمدیہ کے دفتر میں بغرض تعمیل بھجوادیا۔ یہ تحریر بعدِزمانہ کی وجہ سے میرے ذہن سے بالکل اتر چکی تھی۔ حتی کہ آج اچانک صدر انجمن احمدیہ کے ایک کارکن نے اسے پرانے ریکارڈ سے نکال کر میرے سامنے پیش کیا۔
میری اس تحریر میں جو ۲۶ اپریل ۱۹۳۸ ء کی لکھی ہوئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مجموعہ الہامات تذکرہ پر مبنی ہے۔ یہ بات صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں سے پتہ لگتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو کسی وقت اپنا مقدس مرکز چھوڑنا ہو گا اور یہ صورت حال گورنمنٹ کی طرف سے پیدا کی جائے گی اور اس پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا یہ نوٹ درج ہے کہ مجھے تو بیس سال سے اس طرف خیال لگا ہوا ہے۔ ایک عجیب بات یہ ہے کہ میری تحریر میں یہ بات بھی درج ہے کہ مرکز سے جماعت کا نکلنا حکومت کے کسی فعل کا نتیجہ ہو گا۔ اور بعینہ اس کے مطابق وقوع میں آیاکہ پہلے حکومت برطانیہ نے سرا سر ظلم اور بے انصافی کے رنگ میںضلع گورداسپورکو جو ایک مسلم اکثریت کا ضلع تھا، مشرقی پنجاب میں ڈال دیا۔ اور پھر اس کے بعد مشرقی پنجاب کے افسروں نے جماعت احمدیہ کو قادیان سے نکلنے پر مجبور کیا۔ گویا سابقہ اور موجودہ دونوں حکومتیں اس ظلم کی ذمہ دار بن گئیں۔
بہر حال میرا آج سے دس سال پہلے کا خط اور اس پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا نوٹ ذیل میں شائع کیا جاتا ہے۔ تا احمدیوں کے لئے از دیادِ ایمان اور غیر احمدیوں کے لئے اتمام حجت کا موجب ہو۔ ہر دو تحریریں اپنی اصل صورت میں محفوظ ہیں۔ اور جو دوست چاہیں اسے دفتر صدر انجمن احمدیہ میں تشریف لا کر دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تحریریں جس لفافہ میں بند کر کے ناظر اعلیٰ کو بھجوائی گئیںوہ لفافہ بھی محفوظ ہے اور اس لفافہ پر بھی تاریخ اور دفتری نمبر باقاعدہ درج ہیں:-
میرے اس خط پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ کانوٹ
عزیزم مکرم
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
میںتو بیس سال سے یہ بات کہہ رہا ہوں ۔حق یہ ہے کہ جماعت اب تک اپنی پوزیشن کونہیں سمجھی ،ابھی ایک ماہ ہوا میں اس سوال پر غور کررہاتھا کہ مسجد اقصیٰ وغیرہ کے لئے گہرے زمین دوز نشان لگائے جائیںجن سے دوبارہ مسجد تعمیر ہوسکے ۔اسی طرح چاروں کو نوں پر دور دور مقامات پرمستقل زمین دوز نشانات رکھے جائیں جن کاراز مختلف ممالک میں محفوظ کردیاجائے تاکہ اگر ان مقامات پر دشمن حملہ کرے توان کوازسرنو اپنی اصل جگہ پرتعمیر کیاجاسکے۔ پاسپورٹوں کاسوال بھی اسی پرمبنی تھا۔
(دستخط ) مرزا محمود احمد (خلیفۃ المسیح )
نوٹ:۔ اس کے بعد یہ خط اور اس پر حضرت صاحب والا نوٹ ناظر صاحب اعلیٰ جماعت احمدیہ کے دفتر میں مورخہ ۲۲ مئی ۱۹۳۸ ء کو بھجوادیا گیا۔
نوٹ از حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ
اس میں جو یہ فقرہ ہے کہ پاسپورٹوں کا سوال بھی اسی پر مبنی تھا ، اس کا اشارہ اس طرف ہے کہ انہی پیشگوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے حکم دیا تھا کہ تمام خاندان کے اور سلسلہ کے بڑے بڑے کارکنوں کے غیر ممالک کے پاسپورٹ ہر وقت تیار رہنے چاہئیں تاکہ جب ہجرت کاوقت آئے پاسپورٹ بنوانے پر وقت نہ لگے ،اسی طرح اسی وقت سے میں نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ ایک ایک سٹ سلسلہ کی کتب کی سات ،آٹھ مختلف ملکوں میں بھجواکر سلسلہ کا لٹریچر محفوظ کرلیا جائے۔
مرزامحمود احمد (خلیفۃ المسیح)
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵ ؍مئی ۱۹۴۸ئ)








کیا قادیان کے قرضے صرف قادیان میں ہی
ادا ہو سکتے ہیں؟
وسعت رکھنے والے مقروض صاحبان کے امتحان کا وقت
کچھ عرصہ ہوا میں نے ان نقصانات کی وجہ سے جو گزشتہ فسادات کے نتیجہ میں قادیان کے احمدی کارخانہ داروں اور دیگر دوستوں کو برداشت کرنے پڑے ہیں۔ قرض خواہ صاحبان کو تحریک کی تھی کہ وہ قرآنی حکم ۳۸ ( یعنی مقروض بھائیوں کو تنگی کے ایام میں مہلت دینی چاہئے) کے ماتحت اپنی رقوم کے مطالبہ میں نرمی کا پہلو اختیار کر یں۔ اور اس وقت کا انتظار کریں کہ ان مقروض دوستوں کو کچھ سہولت کی صورت پیدا ہو جائے جو قادیان میں بھاری مالی نقصان اٹھا کر باہر آئے ہیں۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ میری اس اخلاقی سفارش سے ناجائز فائدہ اٹھا کر بعض لوگوں نے اپنے قرض خواہوںکو یہ کہہ کر ٹالنا شروع کردیا ہے کہ قادیان کا قرضہ قادیان واپس جا کر ہی ادا ہوگا۔ یہ ذہنیت نہایت درجہ قابل افسوس اور اسلامی تعلیم کے سرا سر خلاف ہے، اگر ایک طرف اسلام مقروض یعنی قرضہ لینے والے کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے اوراسے تنگی میں مناسب مہلت دیتا ہے تووہاں وہ اس سے بھی زیادہ تاکید کے ساتھ قارض یعنی قرضہ دینے والے کے حقوق کی بھی حفاظت فرماتا ہے۔ اور ایسے مقروض کو سخت درجہ زیر ملامت قرار دیتا ہے جو وسعت اور گنجائش کے ہوتے ہوئے جھوٹے یا کمزور بہانوں سے اپنے ذمہ کی رقوم کی ادائیگی سے پہلو تہی کرنا چاہتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس معاملہ میں اتنا سخت احساس تھاکہ آپ ؐ ایسے صحابی کا جنازہ نہیں پڑھتے تھے جو مقروض ہونے کی حالت میںفوت ہوتا تھا ۔میں اپنے جملہ مقروض دوستوں اور عزیزوں کو یہ نصیحت کروں گاکہ وہ اپنے فرض کو پہچانیں اور اپنے ذمہ کی رقوم کو جلد تر ادا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ ہرگز درست نہیں کہ قادیان کا قرضہ قادیان میں ہی ادا ہونا چاہئے،میں نے ایسی بات کبھی نہیں کہی اور نہ کوئی عقلمند اس قسم کی بات کہہ سکتا ہے۔ قرضہ بہر حال قرضہ ہے اور جب بھی اور جہاں بھی ادائیگی کی توفیق حاصل ہو فوراً بلا توقف ادا کرنا چاہئے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جب تک ساری رقم موجود نہ ہو قرضہ ادا نہ کیا جائے بلکہ جس قدر رقم کی توفیق ملے وہ بلا توقف ادا کر کے بقیہ کے لئے ساتھ ساتھ کوشش جاری رہنی چاہئے۔ اکثر دوستوں کے حالات اب آہستہ آہستہ سدھر رہے ہیں اور کوئی وجہ نہیںکہ وہ حالات کی اصلاح کے نتیجہ میں اپنے قرضوں کی ادائیگی کی طرف سے غافل رہیں۔ جو شخص وسعت اور توفیق رکھنے کے باوجود اپنے قرضہ کی رقم ادا نہیں کرتا۔ وہ خدا کا حق بھی مارتا ہے اور بندوں کا بھی۔ اور دنیا میں ایک ایسا نمونہ قائم کرتا ہے جس کا نتیجہ ظلم اور فتنہ و فساد کے سوا کچھ نہیں۔
میں یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ وسعت سے یہ مراد نہیں ہے کہ اپنے گھر یا اپنے کاروبار کو با فراغت چلانے یا ترقی دینے کے بعد اگر کوئی رقم بچے تو وہ قرضخواہ کو دے دی جائے۔ جوشخص ایسی حالت کا انتظار کر تا ہے وہ ظالم ہے اور اس کی نیت کبھی بھی بخیر نہیں سمجھی جاسکتی۔ پس وسعت سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی آمدن کی صورت پیدا ہو تو اس آمدن میں سے اپنے ضروری اور اقل اخراجات کو نکال کر باقی رقم قرض خواہ کودے دی جائے ۔میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت کئی بیوہ عورتیں اورکئی یتیم بچے اور کئی بے بس مسکین ایسے ہیں جن کا روپیہ دوسروں کے پاس پھنسا ہوا ہے۔ جب تک قرض دینے والوں کو مجبوری تھی۔اس وقت تک ان کا معاملہ خدا کے ساتھ تھا، مگراب جبکہ اکثر دوستوں کے لئے آہستہ آہستہ فراخی کا راستہ کھل رہا ہے تو اس فراخی میں سے لازماً ان یتیموں اور اُن بیوائوںاور ان مسکینوں کا روپیہ واپس ہونا چاہئے جن کے آمدنی کے ذرائع مفقود ہو چکے ہیں او ر قرض کی واپسی کے سوا بظاہر ان کا کوئی سہارا نہیں۔ ورنہ وسعت رکھنے والے مقروض لوگ یاد رکھیں کہ وہ لوگوں کو دھو کہ دے سکتے ہیں مگر خدا کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ اور یتیموں اور مسکینوں کا ہی سوال نہیں۔ حق بہر حال حق ہے اور ہر حقدار کو ملنا چاہئے خواہ وہ کوئی ہو۔ مجھے اپنی زندگی میں ہزاروں لو گوں کے ساتھ لین دین کا واسطہ پڑا ہے۔ مگر میں بڑے دکھ کے ساتھ اس احساس کا اظہار کرنے پر مجبور ہوں کہ میں نے بہت ہی کم لوگوں کو اس رنگ میں معاملہ کا صاف پایاہے جو اسلام ہم سے توقع رکھتا ہے۔ کاش جس شوق کے ساتھ لوگ روپیہ لیتے ہیں۔ اسی شوق کے ساتھ واپس کرنا بھی سیکھیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کے ساتھ ہو۔ اور اپنی رضا پر چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹۴۸ئ)


مسئلہ پیدائش شیطان کے متعلق حضرت مسیح موعو د علیہ السلام کا ایک نیا حوالہ
ذیل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک حوالہ درج کیا جاتاہے۔ جو شیخ عبدالقادر صاحب لائلپوری نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات سے تلاش کر کے نکالا ہے۔ اصل حوالہ نہیں دیکھا مگر بہرحال یہ حوالہ نہایت لطیف مضمون پر مشتمل ہے۔ اور بعض ایسی تفاصیل پر حاوی ہے جو آئینہ کمالات اسلام والے حوالے میں درج نہیں ہیں۔ والحق ما قال اھل الحق۔
خاکسار مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور ۱۹۴۸ ۔۶۔۱
۸ مئی ۱۸۸۵ ء کو رام چرن ممبر آریہ سماج اکبر آباد کے بعض سوالات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر سے گزرے ۔ جن کے جواب ۱۰ مئی ۱۸۸۵ ء کے اخبار عام لاہور میں حضرت اقدس علیہ السلام کی طرف سے شائع ہوئے۔ پہلا سوال پیدائش شیطان کے بارے میں تھا۔ یہ سوال اور اس کا لطیف جواب بغیر کسی تبصرہ کے درج ذیل کیا جاتا ہے۔ نتائج دوست خود اخذ کر سکتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ خدا نے شیطان کو پیدا کر کے کیوں آپ ہی لوگوں کو گناہ اور گمراہی میں ڈالا ؟کیا اس کا یہ ارادہ تھا کہ لوگ ہمیشہ بدی میں مبتلا رہ کر کبھی نجات نہ پاویں؟
جواب: ایسا سوال ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے۔ جنہوں نے کبھی غور اور فکر سے دینی معاملات میں نظر نہیں کی۔ یا جن کی نگاہیں خود ایسی پست ہیں کہ بجز بے جا نکتہ چینیوں کے اور کوئی حقیقت شناسی کی بات اور محققانہ صداقت ان کو نہیں سوجھتی
اب واضح ہوکہ سائل کے اس سوال سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اصول اسلام سے بالکل بے گانہ اور معارف ربانی سے سرا سر اجنبی ہے۔ کیونکہ وہ خیال کرتا ہے کہ شریعت اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ گویا شیطان صرف لوگوں کے بہکانے اور ورغلانے کے لئے خدا نے پیدا کیا ہے۔ اور اسی اپنے وسوسہ کو پختہ سمجھ کر تعلیم قرآنی پر اعتراض کرتا ہے۔ حالانکہ تعلیم قرآنی کا ہرگز یہ منشاء نہیں ہے اور نہ یہ بات کسی آیت کسی کلام الٰہی سے نکلتی ہے بلکہ عقیدہ حقہ اہل اسلام جس کو حضرت خدا وند کریم جلشانہ نے خود اپنے کلام پاک میں بیان کیا ہے،یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے دونوں اسباب نیکی اور بدی کے مہیا کر کے اور ایک وجہ کا اس کو اختیار دے کر قدرتی طور پر دو قسم کے محرک اس کے لئے مقرر کئے ہیں۔ ایک داعی خیر یعنی ملائکہ جو نیکی کی رغبت دل میں ڈالتا ہے دوسرا داعی شر یعنی شیطان جو بدی کی رغبت دل میں ڈالتا ہے۔ لیکن خدا نے داعی خیر کو غلبہ دیا کہ اس کی تائید میں عقل عطا کی اور اپنا کلام نازل کیا اور خوارق اور نشان ظاہر کئے اور ارتکاب جرائم پر سخت سخت سزائیں مقرر کیں۔ سوخدا تعالیٰ نے انسان کو ہدایت پانے کے لئے کئی قسم کی روشنی عطا کی اور خود اس کے دلی انصاف کو ہدایت کے قبول کرنے کے لئے مستعد پیدا کیا۔ اور داعی شر بدی کی طرف رغبت دینے والا ہے۔ تا انسان اس کے رغبت دینے سے احتراز کر کے اس ثواب کو حاصل کرے جو بجز اس قسم کے امتحان کے حاصل نہیں کر سکتا تھا اور ثبوت اس بات کا کہ ایسے دو داعی یعنی داعی شر اور داعی خیر انسان کے لئے پائے جاتے ہیں بہت صا ف اور روشن ہے۔ کیونکہ خود انسان بد یہی طور پر اپنے نفس میں احساس کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ دو قسم کے جذبات سے متاثر ہوتا رہتا ہے کبھی اس کے لئے ایسی حالت صاف اور نورانی میسر آجاتی ہے کہ نیک خیالات اور نیک ارادے اس کے دل میں اٹھتے ہیں اور کبھی اس کی حالت ایسی پُر ظلمت اور مکدّر ہوتی ہے کہ طبیعت اس کی بد خیالات کی طرف رجوع کرتی ہے اور بدی کی طرف اپنے دل میں رغبت پاتا ہے۔ سو یہی دونوں داعی ہیں جن کو ملائک اور شیطان سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور حکمائے فلسفہ نے انہی دونوں داعی خیر اور داعی شر کو دوسرے طور پر بیان کیا ہے۔ یعنی ان کے گمان میں خود انسان ہی کے وجود میں دو قسم کی قوتیں ہیں۔ ایک قوت ملکی جو داعی خیر ہے اور دوسری قوت شیطانی جو داعی شر ہے۔ قوت ملکی نیکی کی طرف رغبت دیتی ہے۔ اور چپکے سے انسان کے دل میں خود بخود پڑ جاتا ہے کہ میں نیک کام کروں۔ جس سے میرا خدا راضی ہو اور قوت شیطانی بدی کی طرف محرک ہوتی ہے۔ غرض اسلامی عقائد اور دنیا کے کل فلسفہ کے اعتقاد میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ اہل اسلام دونوں محرکوں کو خارجی طور پر اور وجود قرار دیتے ہیں۔ اور فلسفی لوگ انہیں دونوں وجودوں کو دو قسم کی قوتیں سمجھتے ہیں۔ جو خود انسان ہی کے نفس میں موجود ہیں۔ لیکن اس اصل بات میں کہ فی الحقیقت انسان کے لئے دو محرک پائے جاتے ہیں۔ خواہ محرک خارجی طور پر کچھ وجود رکھتے ہوں قوتوں کے نام سے ان کو موسوم کیا جائے۔ یہ ایک ایسا اجتماعی اعتقاد ہے جو تمام گروہ فلاسفہ اس پر اتفاق رکھتے ہیں۔ اور آج تک کسی عقلمند نے اس اجتماعی اعتقاد سے انحراف اور انکار نہیں کیا۔ وجہ یہ کہ یہ بدیہی صداقتوں میں سے ایک اعلیٰ درجہ کی بدیہی صداقت ہے جو اس شخص پر بکمال صفائی کھل سکتی ہے کہ جو اپنے نفس پر ایک منٹ کے لئے اپنی توجہ اور غور کرے اور دیکھے کہ کیونکر نفس اُس کا مختلف جذبات میں مبتلا ہوتا رہتا ہے۔ اور کیوں کر ایک دم میں کبھی زاہدانہ خیالات اس کے دل میں بھر جاتے ہیں۔ اور کبھی رندانہ وساوس اس کو پکڑ لیتے ہیں‘‘۔ ( اخبار عام لاہور ۱۰ مئی ۱۸۸۵ ء بحوالہ ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام موسومہ ’’ منظور الٰہی‘ صفحہ ۱۸، صفحہ ۱۹ (مطبوعہ الفضل ۳ ؍جون ۱۹۴۸ئ)
قادیان سے تشریف لاتے ہوئے حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ
کا
جماعت احمدیہ قادیان کے نام الوداعی ارشاد
جیسا کہ میں قادیان ڈائری میں شائع کر چکا ہوں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ۳۱؍ اگست ۱۹۴۷ ء کو قا دیان سے لاہور تشریف لائے تھے۔ آپ کیپٹن ملک عطاء اللہ صاحب آٖف دوالمیال کی اسکورٹ میں قریبا ایک بجے احمدیہ چوک قادیان میں موٹر میں سوار ہوئے اور پھر سوا ایک بجے کوٹھی دارالسلام قادیان سے بذریعہ موٹر لاہور کی طرف روانہ ہو کر 4.30بجے کے قریب شیخ بشیراحمد صاحب امیر مقامی جماعت احمدیہ لاہور کے مکان پر بخیر و عافیت پہنچ گئے۔ کوٹھی دارالسلام میں حضور کو الوداع کہنے کے لئے خاکسار مرزا بشیر احمد اور عزیزان مرزا مبارک احمد اور مرزا منور احمد اور میاں عباس احمد خان جو حضور کے ساتھ ہی شہر سے کوٹھی دار السلام میں آئے تھے اور ان کے علاوہ عزیز مرزا ناصر احمد اور شاید ایک دو اور عزیز جو کوٹھی دارالسلام میں شامل ہوئے تھے، موجود تھے اور ہمارے خاندان کی خواتین میں سے اس وقت حضرت سیّدہ ام المتین صاحبہ حر م ثالث اور عزیزہ منصورہ بیگم سلمہا حضور کے ہمراہ تھیں۔ باقی خواتین ۲۵ اگست والے کانوائے میں پہلے ہی لاہور پہنچ چکی تھیں۔قادیان سے روانہ ہونے سے قبل بلکہ ۳۰ ؍اگست کی رات کو ہی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جماعت قادیان و جماعت ضلع گورداسپور کے نام پیغام لکھ کر دیا تھا اور ہدایت فرمائی تھی کہ حضور کے روانہ ہونے کے بعد میں اسے جماعت تک پہنچا دوں۔ چنانچہ میں نے یہ پیغام نقل کروا کے مغرب اور عشاء کی نمازوں میں تمام احمدی مساجد میں پہنچا دیا ۔ یہ اعلان جو ایک تاریخی یاد گار کی حیثیت رکھتا ہے، دوستوں کی اطلاع کے لئے ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل نوٹ ہے کہ قادیان میں ٹھہرنے والوں کی تعداد کے متعلق حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ابتدائی تجویز بعد میں لاہور والی مجلس مشاورت کے مشورہ کے نتیجہ میں بدل گئی تھی۔ خاکسار۔ مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور
اعوذ باﷲ من الشیطٰن الرجیم
بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلی علٰی رسولہ الکریم
میں مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی تمام پریز یڈنٹان انجمن احمدیہ قادیان محلہ جات و دیہات ملحقہ قادیان و دیہات تحصیل بٹالہ وتحصیل گورداسپور کو اطلاع دیتا ہوں کہ متعدد دوستوں کے متواتر اصرار اور لمبے غو رکرنے کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ قیام امن کی اغراض کے لئے مجھے چند دن کے لئے لاہور ضرور جانا چاہئے۔ کیونکہ قادیان سے بیرونی دنیا کے تعلقات منقطع ہیں اور ہم ہندوستان کی حکومت سے کوئی بھی بات نہیں کر سکتے۔حالانکہ ہمارا معاملہ اس سے ہے لیکن لاہور اور دہلی کے تعلقات میں تار اور فون بھی جا سکتا ہے۔ ریل بھی جاتی ہے، ہوائی جہاز بھی جا سکتا ہے۔ میںمان نہیں سکتا کہ اگر ہندوستان کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال صاحب پر یہ امر کھولا جائے کہ ہماری جماعت مذہبا ًحکومت کی وفادار جماعت ہے تووہ ایسا انتظام نہ کریںکہ ہماری جماعت اور دوسرے لوگوں کی جو ہمارے ارد گرد رہتے ہیں، حفاظت نہ کی جائے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہوا ہے بعض لوگ حکام پر یہ اثر ڈال رہے ہیں کہ مسلمان جو ہندوستان میں آ ئے ہیں، ہندوستان سے دشمنی رکھتے ہیں۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ انہیں اپنے جذبات کے اظہار کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ ادھر اعلان ہوا اور ادھر فساد شروع ہو گیا۔ ورنہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ مسلمان مسٹر جناح کو اپنا سیاسی لیڈر تسلیم کرنے کے باوجود ان کے اس مشورے کے خلاف جاتے کہ اب جو مسلمان ہندوستان میں گئے ہیں، انہیں ہندوستان کا وفادار رہنا چاہئے۔ غرض ساری غلط فہمی اس وجہ سے پیدا ہوئی ہے کہ یک دم فسادات ہو گئے اور صوبائی حکام اور ہندوستان کے حکام پر حقیقت نہیں کھلی ۔ ان حالات میں، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ایسی جگہ جانا چاہئے جہاں سے دہلی و شملہ سے تعلقات آسانی سے قائم کئے جاسکیں اور ہندوستان کے وزراء اور مشرقی پنجاب کے وزراء پر اچھی طرح سب معاملہ کھولا جا سکے۔ اگر ایسا ہو گیا تو وہ زور سے ان فسادات کو دور کرنے کی کوشش کر یں گے۔
اسی طرح لاہور میں سکھ لیڈروں سے بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ جہاں وہ ضرورتاً آتے جاتے رہتے ہیں اور اس سے بھی فساد دور کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ان امور کو مدنظررکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں چند دن کے لئے لاہور جا کر کوشش کروں۔ شاید اللہ تعالیٰ میری کوششوں میں برکت ڈالے اور یہ شور و شر جو اس وقت پیدا ہو رہا ہے دور ہو جائے۔
میں نے اس امر کے مدنظر آپ لوگوں سے پوچھا تھا کہ ایسے وقت میں اگر میرا جانا عارضی طور پر زیادہ مفید ہو تو اس کا فیصلہ آپ لوگوںنے کرنا ہے یا میں نے۔ اگر آپ نے کرنا ہے تو پھر آپ لوگ حکم دیں۔ میں اسے مانوں گا۔ لیکن میں ذمہ داری سے سبکدوش ہوں گا اور اگر فیصلہ میرے اختیارمیں ہے تو پھر آپ کو حق نہ ہو گا کہ چون و چرا کریں ۔ اس پر آپ سب لوگوں نے لکھا کہ فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے۔ سو میں نے چند دن کے لئے اپنی سکیم کے مطابق کوشش کرنے کا فیصلہ کیاہے۔
آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں اور حوصلہ نہ ہاریں۔ دیکھو مسیح کے حواری کتنے کمزور تھے مگر مسیح انہیں چھوڑ کر کشمیر کی طرف چلا گیا اور مسیحیوں پر اس قدر مصائب آئے کہ تم پر ان دنوںبھی ان کا دسواں حصہ بھی نہیں آئے۔ لیکن انہوں نے ہمت اور بشاشت سے ان کو برداشت کیا۔ ان کی جدائی تو دائمی تھی مگر تمہاری جدائی تو عارضی ہے اور خود تمہارے اور سلسلہ کے کام کے لئے ہے۔ مبارک وہ جو بدظنی سے بچتا ہے اور ایمان پر سے اس کا قدم لڑکھڑاتا نہیں۔ وہی جو آخر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کا انعام پاتا ہے۔ پس صبر کرو اور اپنی عمر کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے وفا دار رہو۔ اور ثابت قدمی اور نرمی اور عقل اور سوجھ بوجھ اور اتحاد و اطاعت کا ایسا نمونہ دکھائو کہ دنیا عش عش کر اٹھے۔ جو تم میں سے مصائب سے بھاگے گا وہ یقینا دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہو گا اور خدا تعالیٰ کی *** کا مستحق۔ تم نے نشان پر نشان دیکھے ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا منوّر جلوہ دیکھا ہے۔ اور تمہارا دل دوسروں سے زیادہ بہادر ہونا چاہئے۔ میرے سب لڑکے اور داماد اور دونوں بھائی اور بھتیجے قادیان میں ہی رہیں گے اور میں اپنی غیر حاضری کے ایام میں عزیز مرزا بشیر احمد صاحب کو اپنا قائم مقام ضلع گورداسپور اور قادیان کے لئے مقرر کرتا ہوں۔ان کی فرمانبرداری اور اطاعت کرو۔ اور ان کے ہر حکم پر اسی طرح قربانی کرو جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ مَنْ اَطَاعَ اَمِیْرِیْ فَقَدْ اَطَاعَنِیْ وَمَنْ عَصٰی اَمِیْرِیْ فَقَدْ عَصَانِیْ…۔۳۹ یعنی جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی۔ اور جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی۔ اس نے میری نافرمانی کی۔ پس جو ان کی اطاعت کرے گا۔ وہ میری اطاعت کرے گا اور جو میری اطاعت کرے گا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت کرے گا۔ اور جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اطاعت کرے گا وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرے گا اور وہی مومن کہلا سکتا ہے دوسرا نہیں۔
اے عزیزو! احمدیت کی آزمائش کا وقت اب آئے گا اور اب معلوم ہو گا کہ سچا مومن کون سا ہے۔ پس اپنے ایمانوں کا ایسا نمونہ دکھائو کہ پہلی قوموں کی گردنیں تمہارے سامنے جھک جائیں اور آیندہ نسلیں تم پر فخر کریں ۔ شائد مجھے تنظیم کی غرض سے کچھ اور آدمی قادیان سے باہر بھجوانے پڑیں۔ مگر وہ میرے خاندان میں سے نہ ہوں گے بلکہ علماء سے ہونگے۔ اس سے پہلے بھی میں کچھ علماء باہر بھجواچکا ہوں۔ تم ان پر بدظنی نہ کرو۔ وہ بھی تمہاری طرح اپنی جان کو ٰخطرہ میں ڈالنے کے لئے تیار ہیں۔ لیکن خلیفہ وقت کا حکم انہیں مجبور کر کے لے گیا۔ پس وہ ثواب میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں۔ اور قربانی میں بھی تمہارے ساتھ شریک ہیں۔ ہاں وہ لوگ جو بوجہ بزدلی آنوں بہانوں سے اجازت لے کر بھاگنا چاہتے ہیں وہ یقینا کمزور ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کے گناہ بخشے اور سچے ایمان کی حالت میں جان دینے کی توفیق دے۔
اے عزیزو! اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہر وقت تمہارے ساتھ رہے اور مجھے جب تک زندہ ہوں سچے طور پر اور اخلاص سے تمہاری خدمت کی توفیق بخشے اور تم کو مومنوں والے اخلاص اور بہادری سے میری رفاقت کی توفیق بخشے۔
خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو۔ اور آسمان کی آنکھ تم میں سے ہر مرد ہر عورت اور ہر بچہ کو سچا مخلص دیکھے اور خدا تعالیٰ میری اولاد کو بھی اخلاص اور بہادری سے سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق بخشے۔
والسلام خاکسار ( دستخط مرزا محمود احمد ( خلیفۃ المسیح) ۱۹۴۷ ء ۔۸۔۳۰
‎ (مطبوعہ الفضل ۸؍ جون ۱۹۴۸ئ)






قادیان میں سب دوست خیریت سے ہیں
اور
نوافل کے پروگرام پر پوری طرح پابند
دوستوں کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ قادیان میں جملہ احمدی دوست جو موجودہ حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کی وجہ سے درویش کہلاتے ہیں، خدا کے فضل سے ہر طرح سے خیریت سے ہیں۔ ان کی طرف سے میرے پاس خطوط پہنچتے رہتے ہیں اور گو آج کل ڈاک کی خرابی کی وجہ سے خطوں میں بہت دیر ہو جاتی ہے مگر پھر بھی خدا کے فضل سے جلد جلدخیریت کی اطلاع ملتی رہتی ہے اور کبھی کبھی قادیان کے ساتھ ٹیلیفون پر بھی بات ہو جاتی ہے۔
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے مقرر کردہ پروگرا م کے مطابق قادیان کے درویش دو دن یعنی پیر اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھتے ہیں اور سوائے بیماری وغیرہ کے تہجد کی نماز بھی باقاعدگی کے ساتھ ادا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ درس و تدریس کا سلسلہ بھی جاری ہے اور مقبرہ بہشتی میں ہفتہ وار اجتماعی دعا کا التزام بھی کیا جاتا ہے اور تازہ اطلاع سے پتہ لگتا ہے کہ سب دوست نہایت درجہ خوشی اور صبر و رضا کے ساتھ باہم اخوت اور اتحاد کے مقام پر قائم رہتے ہوئے اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔
گزشتہ کانوائے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض پرانے صحابہ بھی مثلاً بھائی عبد الرحیم صاحب اور بھائی عبد الرحمن صاحب اور میاں محمد دین صاحب کھاریاں اور میاں محمد دین صاحب سکنہ تہال اور بعض دوسرے صحابہ قادیان پہنچ چکے ہیں اور خدا کے فضل سے ان کا وجود دوستوں کے لئے بڑی برکت کا موجب ہو رہا ہے۔
میں اس جگہ ان دوستو ں سے بھی معذرت کرنا چاہتا ہوں جن کے بعض عزیز دو تین ماہ کے ارادے سے قادیان گئے اور پھر کانوائے کا کافی انتظام نہ ہو سکنے کی وجہ سے ابھی تک واپس نہیں آسکے۔ ایسے دوستوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ گو جسمانی لحاظ سے انہیں اپنے عزیزوں کی جدائی کی تکلیف ہے لیکن اگر وہ سلسلہ کی موجودہ مشکلات کو دیکھتے ہوئے صبر و رضا ء کے مقام پر قائم رہیں گے تو روحانی لحاظ سے وہ ایسے انعامات کے وارث بن جائیں گے جس کا موقع شاید جماعت کی آئندہ تاریخ میں بہت کم مل سکے گا۔ تاہم اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ جن دوستوں کے قیام پر زیادہ عرصہ گزر گیا ہے اور ان کے پیچھے ان کے عزیزوں کا کوئی پرسان حال نہیں ،انہیں جہاں تک ممکن ہو جلد تر باہر بلانے کا انتظام کیا جائے۔
اللہ تعالیٰ سب دوستوں کے ساتھ ہو اور جماعت کو جلد تر اس کے مرکز میں پھر جمع کر دے۔ آمین یا ارحم الراحمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۸؍جون ۱۹۴۸ئ)









جمع بین الصلوٰتین کے مسئلہ میں مولوی محمد دین صاحب
کی تتمہ روایت
امام کی اتباع کا پہلو بہرحال مقدم ہے
اس سے قبل میرے ذریعہ مکرم مولوی محمددین صاحب بی ۔اے سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الا سلام ہائی سکول قادیان کی ایک روایت جمع بین الصلوٰ تین کے مسئلہ کے متعلق الفضل میں شائع ہوچکی ہے ۔مکرم مولوی صاحب کی اس روایت پر میں نے مولوی صاحب موصوف پر دو سوالات کئے تھے ۔جس کاجواب انہوں نے ذیل کے خط میں ارسال فرمایا ہے ۔میںسمجھتا ہوں کہ اب مولوی صاحب کی روایت پوری طرح مکمل ہے جس سے اس مسئلہ کے سارے پہلوئوں پر روشنی پڑجاتی ہے جیسا کہ میں اپنے سابقہ نوٹ میںلکھ چکا ہوں مولوی صاحب موصوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں اور کئی سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہ چکے ہیں۔
(خاکسار :۔مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور ۴۸/۶/۷)
مکرمی مخدومی حضرت صاحبزادہ مرز ابشیر احمد صاحب سلمکم اللہ تعالیٰ۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
گرامی نامہ ملا۔ مجھے افسوس ہے کہ میں آں مخدوم کے ارشاد کی تعمیل میں پوری وضاحت سے قاصررہاہوں ۔گذارش ہے کہ جو روایت میں نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں جمع بین الصلوٰتین کے مسئلہ میں فتویٰ اور تعامل کے متعلق بھجوائی تھی ۔اس کے متعلق آپ نے مجھ پر دو سوال کئے ہیں۔ایک تو یہ کہ کیامیں نے خود اپنے کانوں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فتویٰ سنا تھا کہ جمع بین الصلوٰتین کی صورت میں اگر کوئی شخص بعد کی نماز میں پہنچے تو پھر بھی امام کے ساتھ شامل ہوجائے اور اپنی چھوڑی ہوئی نماز بعد میں پڑھ لے ۔اور دوسرے یہ کہ کیا اس صورت میں بھی اس فتویٰ پر عمل ہوتا تھاکہ ایک بعد میں آنے والے شخص کو معلوم ہوجاتا تھا کہ مثلاً عصر کی نماز پڑھی جارہی ہے اور اس نے ابھی ظہر کی نماز نہیں پڑھی ہوئی تھی تو پھربھی وہ امام کے ساتھ شامل ہوجاتا تھا اور اپنی چھوڑی ہوئی ظہر کی نماز بعد میں پڑھتا تھا۔
سو سوال نمبر اول کے جواب میں تحریر ہے کہ میں نے خود یہ فتویٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے سنا تھا اور کئی دفعہ سنا تھا کہ نمازوں کے جمع کئے جانے کی صورت میں اگر کوئی شخص بعد والی نماز میں شامل ہو اوراس نے ابھی پہلی نماز نہ پڑھی ہو تو پھر بھی اسے چاہئے کہ امام کے ساتھ شامل ہوجائے اور اپنی چھوڑی ہوئی نماز بعدمیں پڑھ لے ۔ یہ فتویٰ مجھے اچھی طرح یاد ہے اور کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں دوسرے سوال کے متعلق مجھے کبھی ذاتی طور پر تو یہ موقع پیش نہیں آیا کیونکہ میں ہمیشہ شروع ہی میں شامل ہوجایا کرتا تھا مگر کئی دوست جو بعد میںدوسری نماز کے وقت آکر شامل ہوتے تھے ان کا اسی پر عمل تھا کہ باوجود اس کے کہ ان کو یہ علم ہوجاتا تھا کہ یہ دوسری نماز ہے۔ وہ امام کے ساتھ فوراً شامل ہو جاتے تھے اور باقی چھوٹی ہوئی نماز بعد میں علیحدہ پڑھ لیتے تھے۔ اور ایسا کبھی نہ ہوتا تھا کہ وہ اس علم کے بعد کہ مثلاً امام اس وقت عصر کی نماز پڑھا رہا ہے۔ وہ علیحدہ کھڑے ہوکر ظہر کی نماز شروع کردیںاور اس کے بعد عصر کی نماز پڑھیں اس معاملہ میں بھی میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منہ سے یہ فتویٰ سنا ہوا ہے کہ بہر حال امام کے ساتھ شامل ہونے کو مقدم کرو۔
(میں یہ امر مفہوماًعرض کر رہا ہوں۔ اصلی الفاظ مجھے یاد نہیں) اور اس پر جماعت قادیان کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں بھی عمل تھا ۔ سوائے ان خاص حالات کے کہ کسی کو اس فتویٰ کا علم ہی نہ ہواہو۔
میں یہ بات بھی بتا دینا چاہتاہوں کہ جب بعد میں بعض احمدیوں میں اس کے خلاف عمل شروع ہوا اور انہوں نے امام کے ساتھ شامل ہونے کی بجائے علیحدہ نماز پڑھنے کو ترجیح دی تو میں نے اس کے متعلق حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم سے ذکر کیاکہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فتویٰ اور حضور کے زمانہ کے تعامل کے خلاف ہے تو انہوں نے مجھ سے اتفاق کیا ۔اور میری روایت کی تصدیق کی مگر اپنی کسر نفسی کی وجہ سے اس بات کے لئے تیار نہ ہوئے کہ اسے اخبارمیں شائع کرائیں یا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے حضور پیش کریں۔ بہرحال جو فتویٰ اور جوتعامل مجھے یاد ہے وہ میں نے لکھ دیا ہے اورمجھے اس کے متعلق پورا پورا یقین ہے ۔ والسلام۔ خاکسار۔محمددین
(ریٹائرڈ ہیڈماسٹر تعلیم الا سلام ہائی سکول قادیان ) ۵جون ۱۹۴۸ ء حال چکوال
‎(مطبوعہ الفضل ۱۰؍جون ۱۹۴۸ئ)










خوف و ہراس کی کیفیت قومی اخلاق کے لئے تباہ کن ہے
مگر خطرہ کے وقت خطرہ کا احساس بھی قومی مضبوطی کے لئے
ضروری ہے
۱۵؍ جون والے مز عومہ خطرہ کے متعلق ایک مختصر نوٹ
مغربی پنجاب کے بعض حصوں سے یہ اطلاع آ رہی ہے کہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خوف و ہراس پیدا ہو رہا ہے کہ شائد ۱۵؍ جون کے بعد پھر فسادات کا سلسلہ شروع ہو جائے اور لوگوں کو اسی قسم کے خونی نظاروں کا سامنا کرنا پڑے جو گزشتہ فسادات میں دیکھنے میں آئے تھے۔ اس خوف وہراس کی مختلف وجوہات ہیں۔ مثلا یہ کہ جون میں لارڈ مونٹ بیٹن گورنر جنرل انڈیا واپس چلے جائیں گے۔ اور ان کی جگہ ایک ہندوستانی جنٹلمین گورنر جنرل مقررہوں گے یا کہ اب وہ وقت آرہا ہے کہ جب ہندوستان اورپاکستان دونوں اس بات کے لئے آزاد ہو ں گے کہ برٹش ایمپائر کے ساتھ اپنا تعلق قطع کر کے کامل خود مختاری کا اعلان کر دیں۔ یا یہ کہ کہیں کشمیر کی جنگ کی وجہ سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کوئی مزید پیچیدگی پیدا ہو کر فسادات کا موجب نہ بن جائے۔ وغیرہ وغیرہ
اس قسم کے خیالات نے مغربی پنجاب اور مشرقی پنجاب دونوں میں بعض لوگوں کے دلوںمیںتوہمات اور خوف و ہراس کی کیفیت پیداکر رکھی ہے۔ بلکہ اخبار سٹیٹسمین میں تو یہاں تک خبر تھی کہ اس قسم کا خوف و ہراس (جسے انگریزی میں panicکہتے ہیں ) مشرقی پنجاب سے گزر کر دہلی تک بھی پہنچ چکا ہے۔ سو یہ ایک عام قسم کی وباء ہے جو دونوں حکومتوں میں یکساں سرایت کئے ہوئے ہے۔ بلکہ سنا ہے کہ بعض لوگو ں نے اپنا کاروبار چھوڑ کر عارضی طور پر سرحدی ضلعوں سے نقل مکانی بھی شروع کر دی ہے۔ یہ ایک خطر ناک حالت ہے جس کا فوری طور پر انسداد ہونا چاہئے۔ یہ درست ہے کہ گزشتہ فسادات نے لوگوں کے اعصاب پر بھاری اثر ڈالا ہے۔ اور خطرہ کی ذراسی خبر سے گھبرا کر سرا سیمہ ہونے لگتے ہیں۔ لیکن ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ اعصابی اضطراب خطرہ کو کم نہیں کرتا۔ بلکہ بڑھاتا ہے اور قومی اخلاق اور قومی روح کی بنیاد کو کھوکھلا کر دیتا ہے۔
ظاہر ہے کہ اس قسم کے حالات میں امکانی طور پر دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔ یا تو یہ کہ کوئی حقیقی خطرہ موجود نہ ہواور محض وہم کے نتیجہ میں خطرہ کا تصور پیدا کر لیا جائے اور دوسرے یہ کہ واقعی خطرہ موجود ہو یا اس کے وجود میں آنے کا قوی امکان ہو۔ اب ظاہر ہے کہ ان دونوں صورتوں میں خوف و ہراس کی کیفیت قومی اخلاق کی بلندی اور قومی روح کی مضبوطی کے لئے تباہ کن ہے۔ اگر تو خطرہ کوئی نہیںتو کسی موہوم بناء پر خطرہ کا تصور پیدا کر لینا توہم پرستی کے سوا کچھ نہیں۔ جس کے نتیجہ میں انسان کا دل اسی طرح کانپنا شروع ہو جاتا ہے جس طرح کہ اندھیرے میں بعض لوگوں کا دل فرضی خطروں کے تصور سے کانپا کرتا ہے۔ اور جب وہم کا دروازہ ایک دفعہ کھل جائے تو پھر اس کے بند ہونے کا کوئی امکان نہیں ہو تا۔ اور ایک پتے کے کھڑکنے پر بھی دل دھڑکنے شروع ہو جاتے ہیں کہ معلوم نہیں کیا مصیبت آنے والی ہے اور اس طرح انسان کا عصبی نظام آہستہ آہستہ کمزور ہوکر مستقل مزاجی اور وقار اورشجاعت کے اوصاف کھو بیٹھتا ہے۔
اس کے مقابل پر اگر واقعی کوئی خطرہ موجود ہو تو پھر بھی خوف و ہراس کی کیفیت مہلک اور تباہ کن ثابت ہوتی ہے۔ کیونکہ خوف و ہراس کی وجہ سے گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے۔ اور گھبراہٹ کی وجہ سے انسان خطرہ کے مقابلہ کی تیاری کی طرف سے عملاً غافل ہو جاتا ہے۔ اور اکثر صورتوں میں دل چھوڑ کر گویا اپنی اٹل تقدیر کے انتظار میں گھلنا شروع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ ظاہر ہے اگرواقعی کوئی خطرہ ہو تو اس کا فطری اور صحیح رد عمل یہ ہونا چاہئے کہ انسان اس خطرہ کے مقابلہ کے لئے تیاری کرے تاکہ قبل اس کے کہ خطرہ کا موقع عملاً پیش آئے، وہ اپنی طاقت اور اپنے ذرائع کے مطابق اس کے مقابلہ کے لئے تیار ہو چکا ہو۔
پس جس جہت سے بھی دیکھاجائے موجودہ خوف و ہراس کی حالت جو ملک کے بعض حصوں میں پائی جاتی ہے، کسی طرح جائز نہیں سمجھی جا سکتی بلکہ یہ ایک ایسا کلہاڑا ہے جو خود اپنے ہاتھ سے اپنے پائوں پر چلا یا جا رہا ہے۔ خوب غور کرو کہ اگر خطرہ کوئی نہیں تو موجودہ خوف و ہراس محض وہم ہے اور وہم پرستی سے بڑھ کر قومی اخلاق کو بگاڑنے والی کوئی چیز نہیں ہوتی اور اگر خطرہ حقیقی ہے تو ظاہر ہے کہ گھبرانے اور سراسیمہ ہونے کی بجائے لوگوں کا فرض ہے کہ وہ اس خطرہ کے مقابلہ کے لئے جہاں تک ممکن ہو تیاری کریں۔ اور خطرہ کا وقت آنے سے پہلے اپنے آپ کو منظم اور مضبوط کر لیں۔
اب رہا یہ سوال کہ کوئی حقیقی خطرہ موجود ہے یا نہیں ۔سو جہاں تک لارڈ مونٹ بیٹن کے جانے یا رہنے کا سوال ہے۔ یہ ایک بالکل بے اثر سی بات ہے۔ ہندوستان اب آزاد ہو چکا ہے اور لارڈ مونٹ بیٹن اب ہندوستانی حکومت کے ماتحت ایک آئینی گورنر جنرل ہیں۔ پس خواہ وہ رہیں یا جائیں ہندوستان میں حکومت ہندوستانیوں کی ہے اور لارڈ مونٹ بیٹن کو کسی فتنہ کے دبانے یا اٹھانے میں ہرگز اتنا دخل حاصل نہیں کہ ان کے ہندوستان سے چلے جانے کو گھبراہٹ کی بنیاد بنا یا جائے بلکہ حق یہ ہے کہ جو ہندو جنٹلمین مسڑ راجا گوپال اچاریہ لارڈ مونٹ بیٹن کی جگہ گورنر جنرل کا چارج لینے والے ہیں۔ ان کے متعلق اس بات کی زیادہ توقع ہے کہ وہ بین الاقوام اور بین الدّول تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے زیادہ کوشش کر سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے تقرر پر خود قائد اعظم مسٹر محمد علی جناح نے اپنے مبارکباد کے پیغام میں ان کے متعلق بہت اچھی توقعات کا اظہار کیا تھا۔
دوسری امکانی وجہ یہ سمجھی جا سکتی ہے کہ اب وہ وقت آرہا ہے کہ پاکستان اور ہندوستان برٹش ایمپائر کے تعلق سے آزاد ہونے کا اختیار استعمال کر سکیں ۔ اور یہ کہ یہ اختیار استعمال کیا گیا تو جنگ کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ اول تو جہاں تک حقیقی آزادی کا تعلق ہے،برٹش ایمپائر کا ایک جزو ہونا یا نہ ہونا کوئی اثر نہیں رکھتا۔ ایک ڈومینین بھی عملاً اسی طرح آزاد ہے جس طرح ایک ایسا ملک جو برٹش ایمپائر سے ڈومینین ہونے کا تعلق نہیں رکھتا۔ اور اگر ہندوستان اور پاکستان ایک دوسرے کے ساتھ لڑنا چاہیں تو وہ ڈومینین ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے دست بگریبان ہو سکتے ہیں۔ اور برٹش حکومت کو اس معاملہ میں ایک رسمی سی ’’ ہوں ہوں‘‘ کرنے کے سوا کوئی طاقت حاصل نہیں۔ پس لڑائی کو ڈومینین ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہ ایک حقیقت ہے اور اکثر مبصرین کا یہی خیال ہے کہ خواہ منہ سے کچھ کہا جائے۔ لیکن غالبا ًابھی کچھ عرصہ تک اور شاید ایک لمبے عرصہ تک ہندوستان اور پاکستان دونوں برٹش ایمپائر کا حصہ رہنے کو ترجیح دیں گے۔ کیونکہ اس تعلق کو کاٹنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں اور تعلق کو قائم رکھنے کا کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہے۔ اور پھر یہ بھی ہے کہ جب ہر حکومت کو اختیار ہے کہ جب چاہے اس تعلق کو کاٹ دے تو بلا وجہ اس کے لئے جلدی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جا سکتی۔
تیسرا سوال کشمیر کا ہے۔ یہ سوال بے شک اہم اور قابل فکر ہے۔ پاکستان کے مسلمان سمجھتے ہیں کہ کشمیر اپنی آبادی کی اکثریت اور اپنی جغرافیائی پوزیشن کے لحاظ سے پاکستان کا حصہ بننے کا حق رکھتا ہے اور ہر پاکستانی مسلمان کو اس کے ساتھ طبعاً اور فطرتا ًہمدردی ہے۔ اور وہ اس بات کو کسی صورت میں پسند نہیں کرتاکہ پاکستان کے ساتھ ملنے کی بجائے کشمیر کی ریاست ہندوستان کے ساتھ مل جائے۔ اور وہ اس بات کا بھی یقین رکھتا ہے کہ کشمیر کے مسلمان طبعًا اور اپنے سابقہ تجربہ کے نتیجہ میں پاکستان کے ساتھ ملنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے مقابل پر ہندوستان کشمیر کی ہندو حکومت کی وجہ سے کشمیر کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا ہے مگر زیادہ تر اس وجہ سے اس ملاپ کا خواہاں ہے کہ یہی وہ سب سے بڑا ذریعہ ہے، جس سے وہ پاکستان کو کمزور کرکے اس کی ہستی کوخطرہ میں ڈال سکتا ہے اور گو لڑائی آزاد کشمیر اور ہندوستان کے درمیان ہے۔ مگر اس میںشبہ نہیںکہ اگر یہ جنگ زیادہ پھیلے تو پاکستان کی حدود پر اس کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔ اور اس قسم کے موقعوں پرجب کہ سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ شروع ہو جائے تو آگ بھڑک اٹھنے کا امکان ضرور ہو جاتا ہے۔ لیکن چونکہ اس وقت بظاہر دونوں حکومتیں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ کرنے کو تیار نہیں اور حتی الوسع اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہیں۔ اس لئے گمان غالب یہ ہے کہ اگر سرحدوں پر کوئی چھیڑ چھاڑ شروع بھی ہوئی تو دونوں حکومتیں اسے روکنے اور محدود رکھنے کی کوشش کریں گی۔
خلاصہ کلام یہ کہ اگر اس و قت کسی حد تک خطرہ ہے بھی تو اس کی روک تھام کا سامان بھی ایک حد تک موجود ہے۔ لہذا گھبرانے اور سراسیمہ ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ لیکن اصولاً اس میں شبہ نہیں کہ ہر آزاد ملک کو اپنی خود حفاظتی کا پختہ سامان مہیا رکھنا چاہئے۔ مگر یہ خیال کرنا کہ یہ سامان مہیا کرنا صرف حکومت کا کام ہے ہر گز درست نہیں۔ اصل چیز پبلک ذہنیت ہے اور اس کی درستی اور تنظیم زیادہ تر خود پبلک کے ہاتھ میں ہے۔ پس مسلمانوں کو چاہئے کہ گھبرانے کی بجائے اپنے دلوں کومضبوط کریں اور ایک وسیع پبلک تنظیم کے ذریعہ ہر قسم کے امکانی خطرہ کے لئے تیار رہیں۔ ایسی تیاری خصوصاً سرحدی اضلاع میں زیادہ ضروری ہے۔ اور مغربی پنجاب کے اضلاع میں سے راولپنڈی۔ جہلم ۔ گجرات۔ سیالکوٹ ۔ لاہوراور منٹگمری سرحدی اضلاع ہیں ان تمام ضلعوں کی پبلک کو ایک وسیع اور پختہ تنظیم کے ذریعہ مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اس لئے نہیں کہ اس وقت ان کے لئے کوئی خطرہ ہے بلکہ اس لئے کہ ان کے لئے اصولا ًہر وقت خطرہ ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاک قرآن نے بھی جو ایک مکمل ہدایت نامہ ہے سرحدوں کی مضبوطی کے لئے تاکیدی ہدایت دی ہے
چنانچہ فرماتا ہے:-
۴۰
’’یعنی اے مسلمانو! تم اپنے سب کاموں میں صبر و استقلال کو اپنا شعار بنائو۔ اور نہ صرف خود صبرو استقلال پر قائم رہو۔ بلکہ دوسرے مسلمانوں کو بھی صبر و استقلال کی تعلیم دو( تاکہ نہ صرف تم خود منظم ہو۔ بلکہ اپنے ماحول کو بھی منظم کر لو) اور دیکھو اپنی سرحدوں کو خوب مضبوط رکھو۔ مگر ان ظاہری سامانوں کے باوجود تمہیں چاہئے کہ اپنی حقیقی ڈھال صرف خدا کو بنائو تا کہ تم اپنے مقا صد میں کامیاب وبا مراد ہو سکو۔‘‘
بالآخر یہ ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ خطرہ کا احساس خود اپنی ذات میں برا نہیںبلکہ قومی بیداری اور ترقی کے لئے ضروری ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ اس احساس کی وجہ سے گھبراہٹ یا خوف و ہراس کی کیفیت پیدا ہو۔ ورنہ خود احساس تو دراصل ایک بھاری معنوی قوت ہے۔ جس کے ذریعے قوموں کو ہوشیار اور منظم کیا جا سکتا ہے۔ جس قوم کو اپنے ارد گرد کے امکانی خطرات کا احساس نہیں، وہ قوم مردہ ہے۔ اسی طرح وہ قوم بھی مردہ ہے جسے امکانی خطرات کا احساس تو ہے مگر اس احساس کے نتیجہ میں وہ خوف وہراس میں مبتلا ہو کر سراسیمہ ہونے لگتی ہے۔ یہ دونوں حالتیں یقینا موت کی حالتیں ہیں او ر زندگی کی حالت یہ ہے کہ احساس ہو۔ مگر احساس کا نتیجہ بیداری اور تنظیم اور تیاری کی صورت میں ظاہر ہو۔ پس ہمیں پاکستان کے مسلمانوں سے عرض کرناہوگا کہ جس جس جگہ بھی اس خوف و ہراس کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ وہ اس کیفیت کا پورے زور کے ساتھ مقابلہ کریں مگر اس مقابلہ کے نتیجہ میں لوگوں کو تھپک کر سلا نہ دیں بلکہ اگر اس احساس نے سوتے ہوئوں کو جگایا ہے تو وہ جاگتے ہوئوں کو زیادہ چوکس و ہوشیار کر کے منظم اور تیار کر دیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ ہو اور ان کا حافظ و ناصر رہے۔ آمین۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍جون ۱۹۴۸ئ)






نئی وزارت کو ایک مخلصانہ مشورہ
حکومت ایک مقدس امانت ہے اس امانت کی
ادائیگی میںعدل پر قائم رہو۔
عدل کے مثبت اور منفی پہلو
دنیا میں جس طرح ہرچیز کے ساتھ تغیر لگا ہوا ہے ۔اسی طرح حکومتیں اور وزارتیں بھی بنتی اور ٹوٹتی رہتی ہیں اور ہر ایسا تغیراپنے اندر ایک دوہرا سبق رکھتا ہے ۔وہ سبق ہوتا ہے جانے والی وزارت کے لئے اور ا س بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز ناپائیدار ہے جب تک کہ اس کے ساتھ خدا کے ازلی اور ابدی وجود کا سہارا نہ ہو ۔اور وہ سبق ہوتا ہے آنے والی وزارت کے لئے اور اپنے اندر یہ اشارہ رکھتاہے کہ اب تمہارے امتحان کاوقت آیا ہے ۔ پس اپنے اندر وہ اوصاف پیدا کرو جو تمہاری حکومت کے سایہ کو زیادہ سے زیادہ لمبا کرسکیں۔ چنانچہ قرآن شریف ایک جگہ نئی طاقت پانے والی قوم کو مخاطب کرکے فرماتا ہے ۔۴۱
’’یعنی اب ہم نے تمہیں تم سے پہلے گزرنے والی قوم کا قائمقام بنایا ہے تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کس قسم کے اعمال بجالاتے ہو ‘‘ اس لطیف قرآنی آیت میںبتایا گیا ہے کہ ہر حکومت اور ہرطاقت اپنے ساتھ دو پہلو رکھتی ہے ۔ایک انعام کاپہلو جسے انگریزی میں Privilige کہتے ہیں اور دوسرے ذمہ داری کا پہلو جسے انگریزی میں Responsibility کہتے ہیں کیونکہ میں (یعنی ہم نے تمہیںگزرنے والی قوم کا قائمقام بنایا) انعام (Privilige) کے پہلو کی طرف اشارہ ہے اور میں یعنی تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کس قسم کے اعمال بجالاتے ہو)ذمہ داری (Responsibility ) کے پہلو کی طرف اشارہ ہے مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ انعام والے پہلو کے خمار میں دوسرے پہلو کو بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ اصل چیز وہ ذمہ داری ہے جو ہر اس فرد اور ہراس قوم پر عائد ہوتی ہے جسے دنیا میں حکومت اور طاقت کا ورثہ ملتا ہے ۔
اس وقت مغربی پنجاب میں بھی ایک وزارتی تبدیلی ہوئی ہے اور میں اس جگہ صوبہ کی نئی وزارت کو ایک اصولی مشورہ دینا چاہتا ہوں ۔جو اس کی ذمہ داری کے پہلو سے تعلق رکھتاہے میں نہیں کہہ سکتا کہ میرا یہ مخلصانہ مشورہ ہمارے نئے وزیروں میں کیا رد عمل پیدا کر ے گا ۔یہ معاملہ ان کے ضمیر اور ان کے ا حساس ذمہ داری کے ساتھ تعلق رکھتاہے مگر بہرحال اس معاملہ میں جو مشورہ مجھے مفید نظرآتا ہے اور وہ میرے خیال میں ہماری مقدس کتاب یعنی قرآن کریم سے ثابت ہے وہ میں نہائت مختصر الفاظ میں اور اپنے آپ کو صرف اصول کی حد تک محدود رکھتے ہوئے پیش کر دینا چاہتا ہوں۔ آگے ماننا یا نہ ماننا ہمارے معزز وزراء کا کام ہے ۔ وماالتوفیق الاباﷲ العظیم ۔
قرآن شریف فرماتا ہے اور کن مقدس اور زوردار الفاظ میں فرماتا ہے کہ :۔
۴۲
’’یعنی اے مسلمانو اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ حکومت کے عہدوں کی امانتیں ان لوگوں کے سپرد کیا کرو جو اس کے اہل ہیں ۔اور پھر اے وہ لوگو جنہیں حکومت کی امانت سپرد ہو تمہیں ہمارا یہ حکم ہے کہ اپنے سب کاموں میں عدل پر قائم رہو۔اور عدل کے رستہ سے کبھی ادھر ادھر نہ ہونا۔ اس آیت کریمہ میں جو امانت کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ۔اس کی تشریح آنحضرتﷺ کی ایک حدیث میں یوں بیان ہوئی ہے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔
یا ابا ذر انک ضعیف و انھا امانۃ وانھا یوم القیامۃ خزی وندامۃ الامن اخذھا یحقھا وادی الذی علیہ فیھا ۔۴۳
’’یعنی جب ابو ذر صحابی نے آنحضرت ﷺ سے ایک عہد ہ کی درخواست کی تو آپ نے انکے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ ’’اے ابوذر تم ایک کمزور انسان ہو ۔اور یہ حکومت کا عہدہ ایک امانت ہے۔ اور وہ قیامت کے دن ہر شخص کے لئے ذلت اور ندامت کا موجب ہوگا۔ سوائے اس شخص کے جسے وہ اہمیت کی بناء پر سپرد کیاگیا ہو۔اور پھر وہ اس کا حق ادا کرے۔‘‘
بہرحال حکومت کے عہدوں کے متعلق یہ ایک نہایت زریں ہدایت ہے جو خدا کا کلام ہمیں اس معاملہ میں دیتا ہے۔ اور جیسا کہ قرآن شریف کا طریق ہے وہ الفاظ تو مختصر استعمال کرتا ہے مگران الفاظ کے پیچھے معانی کا ایک وسیع خزانہ مخفی ہوتا ہے ۔چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ اس قرآنی آیت میں’’امانت‘‘ اور ’’عدل ‘‘ کے مختصر سے الفاظ میں ایک ایسا وسیع مضمون بھردیا گیا ہے کہ اگر اس معاملہ میں ان کے سوا کوئی اور ہدایت نہ بھی ہو ۔تو یہی دو مختصر الفاظ کسی حاکم کی کامیابی اورا س کی سرخروئی کے لئے کافی و شافی ہیں۔
سب سے پہلا سبق’’امانت‘‘ کے لفظ میں ہے اورہرشخص جانتاہے کہ امانت اس چیز کو کہتے ہیں جو ہماری ملکیت نہیں ہوتی ،بلکہ کسی دوسرے شخص کی طرف سے ہمیں عارضی طور پر حفاظت کے لئے ملتی ہے۔ پس پہلی ہدایت قرآن شریف کی یہ ہے کہ جب کسی شخص کو حکومت کا کوئی عہدہ سپرد ہو تو وہ اسے ایک مقدس امانت سمجھ کر ادا کرے اور امانت کا مفہوم اپنے اندر دو پہلو رکھتا ہے ایک یہ کہ وہ امانت ہے خدا کی طرف سے جو دنیا کا آخری حکمران ہے اور دوسرے یہ کہ وہ امانت ہے لوگوں کی طرف سے جو ایک شخص کو اپنا نمائندہ بنا کر حکومت کے عہدہ پر فائز کرتے یاکرواتے ہیں ۔ پس ہر مسلمان حاکم کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ ہروقت اپنے دل میں اس احساس کو قائم رکھے کہ میرا عہدہ میرے پاس ایک دوہری امانت کے طور پر ہے یعنی اول وہ خدا کی امانت ہے کیونکہ میں نے بالآ خر خدا کے سامنے اپنے سارے کاموں کا جواب دینا ہے۔اور پھر وہ لوگوںکی امانت ہے جن کا میںنمائندہ ہوں ۔اور جن کے سامنے میں دنیا میں جواب دہ ہوں میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر ہر عہدہ داراس امانت والے احساس کو اپنے دل میں قائم کرلے اور پھر قائم کرنے کے بعد اسے زندہ رکھے تو ہمارے قومی کاموں میںاتنا بھاری تغیر پیدا ہوسکتاہے جو موجودہ حالت میںہم خیال میں بھی نہیں لاسکتے۔ دیکھو یہ کتنا چھوٹا سا لفظ ہے جو قرآن شریف نے استعمال کیاہے مگر حکمت و معرفت سے کتنا لبریزہے کہ گویا بجلی کا ایک بٹن دبانے سے سارا گھر آن واحدمیںروشن ہوجاتا ہے کاش لوگ اس نکتہ کو سمجھیں ۔
دوسری بات اس قرآنی آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس شخص کے سپر د حکومت کا کوئی عہدہ ہو اسے اپنے فر ائض کی ادائیگی میں کامل عدل سے کام لینا چاہئے۔ میں نے عدل کے ساتھ کامل کالفظ اس لئے زیادہ کیا ہے کہ عربی محاورہ کے مطابق جب العدل کالفظ بغیر کسی قید یا حد بندی کے آئے تواسکے معنے کامل اور وسیع عدل کے ہوتے ہیںاور ایسا لفظ عدل کے ان سارے پہلوئوں پر حاوی ہوتا ہے جو لغت اور زبان کے محاورہ کے مطابق امکانی طور پر سمجھے جاسکتے ہیں۔پس جب قرآن شریف یہ فرماتا ہے کہ ہرحاکم کا فرض ہے کہ وہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں عدل سے کام لے تو اس میں ہر قسم کاکامل عدل سمجھا جائے گا۔ اب ہر شخص جانتا ہے کہ عدل کئی قسم کا ہوسکتا ہے جن میں سے میں چار موٹی اور معروف قسمیں ذیل میںدرج کرتا ہوں۔
(اول) اپنے کام کے ساتھ عدل کرنا ،یعنی اپنے فرض منصبی کواس کے سارے حقوق کے ساتھ ادا کرنا اور مختصر طور پر یہ حقوق تین قسم کے ہیں ۔(الف) فن کی واقفیت یعنی جو کام کسی کے سپرد کیا گیا ہے ،اس کے ضروری اصولوں اور ضروری تفاصیل سے واقفیت پید کرنا (ب) محنت یعنی اپنے کام کو انتہائی محنت اور جانفشانی کے ساتھ ادا کرنا اور جو امانت یعنی اپنے فرائض منصبی کو دیانتدار انہ اصول کے ماتحت سرانجام دیں ،مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ عدل کے مفہوم کو صرف دو آدمیوں کے درمیان انصاف کر نے تک محدود سمجھتے ہیں حالانکہ یہ ایک بہت وسیع لفظ ہے اور ا س کا سب سے مقدم پہلو یہ ہے کہ اپنے کام کے ساتھ عدل کیاجائے یہ ایسا ہی محاورہ ہے جیسا کہ مثلاً ہم اردو میںکہتے ہیںکہ فلاں شخص نے کام کاحق ادا کردیا ۔ پس عدل کا سب سے ضروری پہلو یہ ہے کہ کام کے ساتھ عدل ہو جو شخص حکومت کا ایک عہدہ تو قبول کرلیتا ہے مگر اس کے فن سے واقفیت پیدا نہیں کرتا یا فن سے واقفیت تو پیدا کرتا ہے مگر محنت نہیں کرتا اور سستی میں اپنا وقت گذارتا ہے یا محنت بھی کرتا ہے مگر دیانتدارانہ رویہ نہیں رکھتا تو وہ قرآنی محاورہ کے مطابق ہرگز عدل پر قائم نہیں سمجھاجاسکتا ۔
(دوم) عدل کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حکومت اور پبلک کے درمیان عدل کیاجائے یعنی حکومت کے لئے پبلک کا کوئی حق نہ مارا جائے اور پبلک کے لئے حکومت کے کسی حق پر دست دراز ی نہ کی جائے۔ اسلام ہر طبقہ کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے جن میں حکومت بھی شامل ہے اور پبلک بھی۔ پس جو حاکم حکومت کو خوش کرنے کے لئے پبلک کا حق مارتا ہے یا پبلک کو خوش کرنے کے لئے حکومت کی غداری کرتا ہے ،وہ ہرگز ایک عادل حاکم نہیںسمجھاجاسکتا کیونکہ اس نے ترازو کے دو نو ںپلڑوں کو برابر نہیںرکھا اور کبھی اسے ایک طرف جھکا دیا اور کبھی دوسری طرف ۔پس کامل عدل میں حکومت اور پبلک کے درمیان عدل کرنابھی شامل ہے۔
(سوم ) عدل کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ مختلف قوموں کے درمیان عدل کیا جائے ۔ظاہر ہے کہ ہر حکومت میں مختلف قومیں اور مختلف پارٹیاں بستی اور شہریت کے حقوق رکھتی ہیں۔اور اگر مذہب سب کا ایک بھی ہوپھر بھی مذہب کی اندرونی تقسیم کے لحاظ سے اور اسی طرح سیاسی اور نسلی تفریق کی بناء پر مختلف قومیں اور مختلف پارٹیاں ہوسکتی ہیں ۔یہ سب پارٹیاں ملک میں شہریت کے حقوق رکھتی اور حکومت کی وفادار ہوتی ہیںمگر ہو سکتا ہے کہ کوئی حاکم اپنے ذاتی رجحانات یا تعلقات کی وجہ سے کسی ایک قوم یاایک پارٹی کی طرف زیادہ جھک جائے اور دوسروں کے حقوق کا خیال نہ کرے۔ اس لئے اسلام عدل کے لفظ میںقوموں اور پارٹیوں کے حقوق کی طرف بھی اشارہ فرماتا ہے اور مسلمان حاکموں کو ہوشیار کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایک قوم یاایک پارٹی کی طرف ناواجب طور پر جھک کر دوسری قوم یا دوسری پارٹی کے حقوق کو نقصان پہنچادو۔
(چہارم ) عدل کا چوتھا اور سب سے زیادہ معروف پہلو افراد کے درمیان عدل کرنے سے تعلق رکھتا ہے ۔سو اسلام حکم دیتا ہے کہ جہاں تک حقوق کا سوال ہے ۔سب شہریوں کیساتھ بلا لحاظ بڑے اور چھوٹے اور بلا لحاظ کمزور اور طاقتور کے یکساںانصاف کا معاملہ کیاجائے اور ایسا نہ ہوکہ ایک بڑے شخص کی وجہ سے چھوٹے شخص کا نقصان ہوجائے یاایک طاقتور شخص کا نقصان ہوجائے ۔یا ایک طاقتور شخص کی لحاظ داری میں مزدور شخص کے حقوق نظر انداز کر ردیے جائیں۔ہمارے مقدس آقا ﷺ نے ایک دفعہ فرمایا کہ :
ایھاا لناس انما اھلک الذین قبلکم انھم کانو اذا سرق فیھم الشریف ترکوہٗ واذاسرق فیھم الضیعف اَقَامُوا عَلَیْہِ الحد۔۴۴
’’یعنی اے مسلمانو!تم سے پہلے لوگوں کو اس بات نے ہلاک کر دیا کہ اگر ان میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو وہ اُسے چھوڑدیتے تھے اور اگر کوئی چھوٹا چوری کرتا تھا تو وہ اسے سزادیتے تھے۔ ‘‘ اور اس کے بعد آپ نے نہایت جلالی شان کے ساتھ فرمایا کہ خداکی قسم اگرمیری لڑکی فاطمہ بھی چوری کرے گی تواس پر بھی شریعت کی مقرر کردہ سزا جاری کی جائے گی۔
اسی طرح حضرت ابو بکر خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا یہ مشہور قول ہے ۔ جوخلیفہ بننے کے بعد انہوں نے اپنی پہلی تقریر میں فرمایا کہ :۔
الضعیف فیکم قوی عندی حتّٰی اُریح علیہ حقہ والقوی فیکم ضعیف عندہ حتی اخذالحق منہ۔۴۵
’’یعنی تم میں سے کمزور آدمی میری نظروں میں قوی ہوگا ،جب تک کہ میں اس کاوہ حق جو کسی اور نے اس سے چھینا ہوا ہو اسے واپس نہ دلادوں ،اور تم میں سے قوی شخص میرے نزدیک ضعیف ہوگا ۔ جب تک کہ میں اس سے وہ حق جو اس نے کسی اور سے چھینا ہوا ہوگا واپس نہ لے لوں‘‘ اللہ اللہ !! کیا مبارک تعلیم ہے ۔ مگر کتنے ہیں جواس پر عمل کرتے ہیں؟
یہ عدل کے وہ چار موٹے موٹے مثبت پہلو ہیں جن کی طرف قرآن شریف ہرحاکم کو توجہ دلاکر ہوشیار کرتا ہے ۔یعنی (۱) کام کے ساتھ عدل (۲) حکومت اور پبلک کے درمیان عدل (۳) قوموں اور پارٹیوں کے درمیان عدل اور (۴) بالآخر افراد کے درمیان عدل۔ اور اسلام مسلمانوں کوارشاد فرماتا ہے کہ وہ ان چاروں قسموں کے عدلوں پر قائم ہوتے ہوئے حکومت کے فرائض سرانجام دیں۔
مگر اسلام ایک کامل مذہب ہے اور صرف مثبت پہلو کی تعلیم دے کر خاموش نہیں ہو جاتا بلکہ منفی پہلو بھی بتاتا ہے جو اس رستہ کے خطرات کی صورت میں ایک حاکم کو پیش آسکتے ہیں۔چنانچہ اس تعلق میںسب سے پہلی تعلیم اسلام یہ دیتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ محبت کے بے جا غلبہ سے متاثر ہوکر انصاف کے رستہ سے ہٹ نہ جایا کریں۔ظاہر ہے کہ محبت ایک ایسی چیز ہے کہ جب وہ انسان کے دل و دماغ پر ناواجب طور پر غالب ہوجائے، خواہ یہ محبت اپنی جان کی ہو یا رشتہ داروں کی یادوستوںکی یاکسی اور کی تو وہ ایک ایسا ظلمت کا پردہ بن جاتی ہے جس کی وجہ سے انسان بسااوقات ٹھوکر کھاتا اور عدل کے رستہ سے ہٹ جاتا ہے۔ پس اسلام ہمیں ہوشیار کرتا ہے کہ بے جا محبت کے غلبہ سے بچو اوراس کی وجہ سے عدل کا رستہ کسی صورت میں بھی نہ چھوڑو ۔چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے کہ:
۴۶
’’یعنی اے مومنو ہمیشہ عدل و انصاف پر قائم رہو اور خدا کی طرف نگاہ رکھتے ہوئے سچی سچی بات کہو خواہ اس کااثر تمہاری جانوں کے خلاف پڑتا ہو یا تمہارے ماں باپ کے خلاف پڑتا ہو یا تمہارے دوسرے رشتہ داروں یادوستوں کے خلاف پڑتا ہو اور کسی صورت میں بھی اپنے نفس کی خواہش کے پیچھے چل کرعدل وانصاف کے رستہ کو نہ چھوڑو ورنہ یادرکھو کہ خدا تمہارے اعمال کو دیکھ رہا ہے۔
اسی طرح غضب اور غصہ کابے جاغلبہ بھی ایک ظلمت کاپردہ ہے جو انسان کی آنکھوں سے اس کے فرائض کو اوجھل کردیتا اور عدل کے رستہ سے ہٹادیتا ہے اس کے متعلق قرآن شریف فرماتاہے :۔
۴۷
’’یعنی اے مومنو تمہیں کسی قوم کی دشمنی ہرگز ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اس کے معاملہ میں عدل و انصاف کے رستہ سے ہٹ جائو بلکہ تمہیں ہرحال میںعدل پر قائم رہنا چاہئے کیونکہ عدل کرنا تقویٰ کے قریب تر ہے اور تقویٰ وہ جو ہر ہے جو تمام نیکیوں کی جڑ ہے کہ پس خدا کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ خدا تمہارے اعمال کو جانتا اور دیکھتا ہے ۔‘‘
مستقل دشمنی تو الگ رہی اسلام عارضی غصہ کی حالت کے خلاف بھی مسلمانوں کو ہوشیار کرتا ہے چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
لایحکم الحاکم بین اثنین وھو غضبان۔۴۸
’’یعنی کسی حاکم کے لئے جائز نہیںکہ وہ دو آدمیوں کے درمیان اس حالت میںکوئی فیصلہ کرے جبکہ وہ غصہ سے مغلوب ہو رہا ہو بلکہ اسے چاہئے کہ اس وقت تک انتظار کرے کہ اس کا غصہ دور ہو جائے خواہ غصہ کسی وجہ سے پید اہو ا ہو۔‘‘
عدل کے رستہ میں ایک بھاری روک رشوت بھی ہے جو آج کل بدقسمتی سے بہت سے بے اصول حاکموں کے کام پر ایک خطرناک دھبہ ثابت ہو رہی ہے ۔اس کے متعلق آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
اَلرَّاشِیْ وَ الْمُرْتَشِیْ کِلَاھُمَا فِی النَّارِ۔۴۹
’’یعنی رشوت دینے والا اور رشوت لینے والا دونوآگ میں ہیں۔’’آنحضرت ﷺ کے یہ ہیبت ناک الفاظ کسی تشریح کے محتاج نہیں۔ دراصل رشوت ایک ایسا گندہ خلق ہے کہ شریعت اسلامی پر ہی حصر نہیں بلکہ دنیاکے ہر مذہب اور ہر ملک اور ہر قانون نے اسے ناجائز قراردیا ہے۔ کیونکہ اس سے عدل و انصاف کے رستہ میں ایسا رخنہ پیدا ہوجاتا ہے جونہ صرف لوگوں کے حقوق کو بلکہ اس اعتماد کو بھی جو انہیں حکومت پر ہونا چاہئے، تباہ کرکے رکھ دیتا ہے اور یاد رکھنا چاہئے کہ رشوت صرف ناجائز نقدی قبول کرنے کوہی نہیں کہتے ،بلکہ ہر وہ چیز اور ہر وہ فائدہ جسے شرعاً یا قانوناً کسی کو حاصل کرنے کاحق نہیں اور جس کے نتیجہ میں حکومت کاکوئی حق مارکرافراد کو دے دیا جاتا ہے ،یا ایک قوم کا حق مارکر دوسری قوم کو دے دیا جاتا ہے ،یا ایک فرد کا حق مار کر دوسرے فرد کو دے دیا جاتا ہے وہ سب رشوت میںداخل ہے اور ہمارے آقا ﷺ اس قسم کی رشوت دینے والے اور لینے والے دونو کو فِی النَّارِ قرار دیتے ہیں ۔یہ ایک بہت بڑا انتباہ ہے بشرطیکہ کوئی خدا کا بندہ اس انتباہ سے ڈرنے کے لئے تیار ہو ۔
عدل کے قیام کے لئے اسلام ایک اور زریں ہدایت بھی دیتا ہے اور وہ یہ کہ اس کے حاکم کو ایک ایسے معاملہ میں جو ایک سے زیادہ فریق کے ساتھ تعلق رکھتاہے صرف ایک فریق کی بات سن کر رائے قائم نہیںکرنی چاہئے جب تک کہ سارے متعلقہ فریقین کی بات نہ سن لی جائے۔چنانچہ ہمارے مقدس آقا آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
اِذا تقاضیٰ اِلَیکَ رَجُلانِ فَلا تَقض لِلْاَوَّلِ حَتّٰی تَسْمَعَ کلَامَ الآخَرِ فَسَوفَ تَدری کیف تَقْضِی ۔۵۰
یعنی آپ نے حضرت علی کو مخاطب کرکے فرمایا کہ جب تمہارے پاس دو آدمی جھگڑا کرتے ہوئے پہنچیں تو ایک آدمی کی بات سُن کر رائے قائم کرنے اور فیصلہ کرنے کی طرف جلدی نہ کیا کرو جب تک کہ تم دوسرے شخص کی بھی بات نہ سن لو ۔اگر تم اس اصول پر عمل کرو گے تو تمہیں سچے فیصلوں کی طرف ہدایت حاصل ہوگی ‘‘ گویا عدل کے طریق سے ہٹنے کا یہ بھی ایک امکانی رخنہ تھا جو آنحضرت ﷺ کے مبارک ہاتھوں نے بند کردیا
اس کے علاوہ آنحضرت ﷺ ایک اور سنہری ہدایت جاری فرماتے ہیںاور یہ ہدایت جلد بازی کی عادت سے تعلق رکھتی ہے ۔ بسا اوقات اچھے اچھے سمجھدار آدمی جو اگر ذرا سوچ سمجھ کر کام کریں تو حق کو پالیں۔ جلد بازی کی وجہ سے ٹھوکر کھاتے اور عدل و انصاف کے رستہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ ہمارے پیارے آقانے بھٹکنے کے اس امکانی خطرہ کو بھی دیکھا او راس کے متعلق فوراً اپنے مبارک کلام سے ایک شمع ہدایت مہیا فرمادی ۔چنانچہ فرماتے ہیں:۔
التودۃ فی کل شئے خیراً لافی عمل الآخرۃ ۔۵۱
اس حدیث کا آزاد ترجمہ یہ ہے کہ دینی احکام کے پورا کرنے میںتو جلدی کیا کرو کیونکہ وہ خدا کی طرف سے فیصلہ شدہ ہدایتیں ہیں لیکن دینیباتوں میں جبکہ تم نے خود کوئی فیصلہ کرنا ہو تو خوب سوچ سمجھ کر آہستگی اور بردباری سے قدم اٹھایا کرو تاکہ جلد بازی کی ٹھوکر سے بچ جائو اور ٹھنڈے غور وخوض کے نتیجے میں صحیح فیصلہ کرسکو ۔
سب سے آخر میںسفارش کا سوال آتا ہے سفارش بھی ذرا سی غلطی سے بھاری ٹھوکر کا باعث بن جاتی ہے اور آج کل تو اس نے غلط استعمال کی وجہ سے گویا ایک *** کی صورت اختیار کرلی ہے مگر چونکہ یہ ایک لمبا سوال ہے اس لئے میں اس جگہ صرف ایک مختصر اشارہ پر اکتفا کروں گا اس تعلق میں سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ عدالتی اور قضائی امور میںاسلام نے سفارش کو ممنوع قرار دیا ہے یعنی جب کوئی معاملہ کسی قاضی یا جج یا مجسٹریٹ کے پاس سفارش کرنا جائز نہیںہے ۔چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:۔
مَنْ حالَتَ شَفَاعَتُہٗ دُونَ حَدٌّ مِن حُدُود اﷲِ فقد ضاد اﷲ ۔۵۲
’’یعنی جو شخص ایسی سفارش کرتا ہے کہ اس کی سفارش خدا کی مقررکردہ حدود میں روک ہوجاتی ہے تو وہ خدا کے منشاء کے خلاف چلنے والا ہے اور (پھر فرمایا کہ )مجھ تک پہنچنے سے پہلے آپس میں ایک دوسرے کو بیشک معاف کر دیا کرو مگر جب مجھ تک (یعنی قاضی یاجج تک ) معاملہ پہنچ جائے توپھر سفارش کا حلقہ ختم ہوکر فیصلہ واجب ہوجاتاہے۔‘‘
لیکن انتظامی معاملات میں جبکہ کسی دوسرے فریق کے حقوق پر اثر نہ پڑتا ہو اور نیک نتائج کی توقع ہو سفارش ہوسکتی ہے اور اس کے متعلق قرآن شریف یہ اصولی ارشاد فرماتا ہے:۔
۵۳
’’یعنی جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے تو وہ اس کے ثواب کا حصہ دار بنے گا مگر جو شخص بری سفارش کرتا ہے تو وہ اسی طرح اس کیگنا ہ میں سے بھی حصہپائے گا۔ ‘‘ یعنی جس سفارش کا اثر کسی دوسرے کے جائز حقوق پر نہ پڑتاہو اور وہ اچھے نتائج پید اکرنے والی ہو تو ایسی سفارش ایک نیکی کا کام ہے جس کے ثواب کا حصہ سفارش کرنے والے کو بھی پہنچے گا۔لیکن اگر سفارش کا اثر دوسروں کے جائز حقوق پر پڑتا ہو اور ا سکے نتائج ملک و قوم کے لئے خراب نکلنے والے ہوں تو ایسی سفارش کرنے والا یہ خیال نہ کرے کہ اس نے ایک سفارش کر دی اورمعاملہ ختم ہوگیا ۔بلکہ ایسا شخص یاد رکھے کہ اس کی سفارش کے جو جو بھی برے نتیجے نکلیں گے اور جہاں جہاں تک بھی ان خراب نتائج کا اثر وسیع ہوا سفارش کرنے والاان سب نتائج کے گناہ کا حصہ دار بنے گا ۔مگر افسوس ہے کہ آجکل پچانوے فیصد سفارشیں نیک نتائج پید اکرنے کی بجائے کمزور اور بیکس لوگو ں کے خلاف ظلم اور حق تلفی کا آلہ بنی ہوئی ہیں۔اور ظاہر ہے کہ ایسی سفارش کو قبول کرنے والا بھی عدل و انصاف کے رستہ سے ہٹ کر بھاری گناہ کا مرتکب ہوتا ہے کاش ہمارے ملک سے یہ روز افزوں *** دور کی جاسکے !
میرا یہ مختصر نوٹ میرے اندازہ سے لمبا ہوگیاہے اور آجکل میری طبیعت بھی علیل ہے اور میں زیادہ نہیں لکھ سکتا اس لئے اب صرف ایک آخری بات کہہ کر اپنے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ یہ آخری بات اس اصول سے تعلق رکھتی ہے کہ حکومتیں اور وزارتیں اپنی عمر کو کس طرح لمبا کر سکتی ہیں ۔دنیا میں مرتی تو ہرچیز ہے، مگر کیا یہ نظارہ ہمیںنظر نہیں آتا کوئی بچہ ماں کے پیٹ میں ہی مرجاتا ہے، کوئی دنیا میں آنکھیں کھولتے ہی دم توڑ دیتا ہے، کوئی چار سانس لیکر ختم ہوجاتا ہے ،کوئی دو چار سال یادس بیس سال کی زندگی گذارنے کے بعداگلے جہاںکا رستہ لے لیتا ہے ۔کوئی عین عالم شباب میں جبکہ جوانی اپنے پورے زور میں ہوتی ہے ہمیشہ کی نیند سوجاتا ہے، مگر کوئی ا یسا بھی ہوتا ہے جو اپنی طبعی عمر کو پہنچتا ہے اور نیک اعمال بجالاکر ددیا میں ایک عمدہ یادگار چھوڑجاتا ہے۔ یہی حال حکومتوںکا ہے وہ بھی کبھی تو پیدا ہوتے ہیمرجاتی ہیںاور کبھی اپنی جوانی کے زمانہ میں کاٹ دی جاتی ہیں مگر کبھی اپنی طبعی عمر پاکر اور اچھے کام کرکے جریدۂ عالم پر اپنا ہمیشگی کا نقش ثبت کرجاتی ہیں۔ہماراکامل و مکمل مذہب اس کیمیاوی گر کی طرف سے بھی غافل نہیںرہا ۔چنانچہ قرآن شریف فرماتا ہے :۔
۵۴
’’یعنی دریائی جھاگ کی طرح کی فضول چیزیں جھاگ کی طرح ہی پیدا ہوکر بے نفع صورت میںختم ہوجاتی ہیں مگر جو چیز لوگوں کو حقیقی نفع پہنچا نے والی ہوتی ہے وہ دنیا میںقائم رہتی ہے۔‘‘ یہ وہ لطیف کیمیاوی نسخہ ہے جس سے ہر حکومت اپنی عمر کو لمبا کرسکتی ہے۔ اگر کوئی حکومت یہ خیال کرے کہ اس نے اس نسخہ کو استعمال کیا مگر پھر بھی وہ جلد مٹ گئی اور جھاگ کی طرح بیٹھ گئی تو میںکہوں گا کہ اس نے اپنی حالت اور اپنے اعمال کاصحیح مطالعہ نہیںکیااور غلطی سے برے عمل کو اچھا عمل سمجھ لیاکیونکہ بہرحال خدا کاکلامکبھی بھی جھوٹا نہیں ہوسکتا او ریہ تو وہ صداقت ہے جس پر حضرت آدم ؑسے لے کر آج تک ہر ملک اور ہر زمانہ مہر تصدیق ثبت کرتا چلا آیا ہے پس چاہو تو ا س نسخہ کو بھی آزمادیکھو۔ پس اس سے زیادہ میں اس وقت کچھ عرض نہیںکروںگا ۔
وَآخِرُ دَعْوٰنا اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن‘‘
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍جون ۱۹۴۸ئ)





موجودہ فسادات کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک نہایت واضح رؤیا
خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود ؑ کا وسطِ باغ تباہی سے محفوظ رہے گا
اور
آخری فتح بہر حال حق و صداقت کی ہوگی
گزشتہ فسادات کے ایام میں جب میں قادیان میں تھا تو مجھے ایک دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس رؤیا کی طرف توجہ دلائی ۔ جو آئینہ کمالات اسلام میں شائع ہو چکا ہے اور جس میں گزشتہ فسادات اور قادیان میں جماعت احمدیہ پر حملہ کا نہایت مکمل اور تفصیلی نقشہ دکھایاگیا ہے اور حملہ آوروں کا گویا واضح فوٹو درج کر کے یہ بھی بتا یا ہے کہ وہ فلاں قوم کے لوگ ہوں گے۔ میں نے اس رؤیا اور اس کے ساتھ کی تعبیر کو الفضل قادیان کی اشاعت مورخہ ۳ ؍ستمبر ۱۹۴۷ ء و مورخہ ۱۰؍ستمبر ۱۹۴۷ ء میں شائع کرا دیا تھا اور اب دوستوں کی اطلاع کے لئے الفضل لاہور میں شائع کر وا رہا ہوں۔ دوست اس نہایت اہم رؤیا کو یاد رکھیں اور اس کے پورا ہونے کے لئے خدا تعالیٰ سے دست بدعا رہیں ۔ خاکسار ۔مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور۔ مورخہ ۱۱ ؍جون ۱۹۴۸ئ۔
میں نے الفضل قادیان میں لکھا تھا کہ:-
اس وقت قادیان اور اس کے ماحول کی جو حالت ہے۔ اسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ بس یوں سمجھنا چاہئے کہ گویا قادیا ن ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جس کے چاروں طرف خطرناک آگ بھڑک رہی ہے۔ اور یہ آگ ایک خاص انداز میں لحظہ بہ لحظہ قادیان کے قریب آتی جاتی ہے۔ اس وقت ہم لوگ بالکل بے بسی کی حالت میںخدا کے توکل پر قادیان میں بیٹھے ہیں مگر خدا کے فضل سے ہمارے دلوں میں کوئی گھبراہٹ نہیں۔ بلکہ ہمیں کامل اطمینان حاصل ہے کہ خواہ درمیانی تکالیف کوئی رنگ اختیار کریں۔ خدا کے فضل و کرم سے انجام کار حق و انصاف ہی کی فتح ہو گی۔ اس تعلق میں بعضدوستوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک رؤیا کی طرف توجہ دلائی ہے جو حضور نے غالبا ۱۸۹۱ ء یا ۱۸۹۳ ء میں دیکھا تھا اور یہ رؤیاء آئینہ کمالات اسلام کے ص ۷۸ ۵ تا ص ۵۸۱ پر شائع ہو چکا ہے ۔ اس رؤیا کو جو گویا موجودہ حالات کا ایک مکمل نقشہ ہے۔ حضور نے عربی میں درج فرمایا ہے اور حضور کی عبارت کا اردو ترجمہ ( جو مولوی ابو العطاء صاحب نے کیا ہے۔ اور میں نے اردو کے لحاظ سے اس میں معمولی لفظی تبدیلی کی ہے) درج ذیل ہے:
‎ خاکسار:مرزا بشیر احمد قادیان ۲ ؍ستمبر ۱۹۴۷ ء
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تحریر فرماتے ہیں:
’’ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نے اپنے کسی کام کے لئے اپنے گھوڑے پر زین کساہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ میری یہ تیاری کہاں کے لئے ہے اور میرا مقصود کیا ہے۔ ہاں میں اپنے دل میں محسوس کرتا تھا کہ اس وقت مجھے کسی خاص امر کے لئے شغف ہے۔ سو میں اپنے تیز رفتار گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو گیا اور میں نے اپنے ہمراہ بعض ہتھیار بھی لئے ہیں۔ میں اس وقت اہل تقویٰ و صلاح کی سنت کے مطابق اللہ تعالیٰ پر توکل رکھتا تھا۔ لیکن میں سست اور کاہل لوگوں کی طرح بھی نہ تھا۔
بعد ازاں میں نے محسوس کیا کہ مجھے کچھ گھوڑے سواروں کا پتہ لگا ہے جو ہتھیار بند ہو کر مجھے ہلاک و برباد کرنے کے لئے میرے گھر اور مکانات کا قصد کر رہے ہیں۔ وہ گویا مجھے نقصان پہنچانے کے لئے اکٹھے ہو کر آرہے ہیں اور میں تنہا ہوں۔ بایں ہمہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میں نے بجز اس تیاری کے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور تعویز مجھے ملی تھی کوئی خود وغیرہ نہیںپہنا ہوا تھا۔ البتہ مجھے اس امر سے نفرت تھی کہ میں خوفزدہ لوگوں کی طرح پیچھے رہنے والوں میں رہوں۔ پس میں تیزی کے ساتھ ایک جہت کی طرف گیا تا اپنے مقصد کو تلاش کروںجو میرے خیال میں دینی اور دنیوی لحاظ سے ایک نہایت اہم اور بڑے ثواب کا کام تھا۔ تب میں نے اچانک ہزارہا لوگ گھوڑوں پر سوار دیکھے جو جلد جلد میری طر ف بڑھ رہے تھے۔
میں انہیں دیکھ کر شیر کی طرح خوش ہوا۔ اور میں نے ان کے مقابلہ اور مزاحمت کے لئے اپنے دل میں طاقت محسوس کی اور میں شکاریوں کی طرح ان کا پیچھا کرنے لگ گیا ۔ پھر میں نے تیزی سے ان کے پیچھے اپنا گھوڑا ڈالا۔ تا ان کی حقیقت حال معلوم کر سکوں اور مجھے پختہ یقین تھا کہ میں ضرور کامیاب ہوں گا۔سومیں ان لوگوں کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ وہ میلے کچیلے (دیہاتی) کپڑوں والے اور کریہہ النظر لوگ ہیں اور ان کی شکل و ہئیت مشرک لوگوں کی طرح ہے اور ان کے لباس قانون شکنی کرنے والے فسادی لوگوں کی طرح ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ لوگ حملہ آوروں کی طرح گھوڑے دوڑا رہے ہیں اور مجھے ان کی شکلیں اسی طرح دکھائی دیں۔ جس طرح بیداری میں دیکھنے والے دیکھتے ہیں۔
میں مسلح اور بہادر سپاہیوں کی طرح جلد جلد ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ گویا میرے گھوڑے کو کوئی آسمانی قائد اس طرح چلا رہا تھا جس طرح حُدّی خوان اپنے اونٹوں کو چلاتے ہیں اور میں اپنے گھوڑے کے خوبصورتی اور چوکسی کے ساتھ آگے بڑھنے پر تعجب کر رہا تھا۔ بعد ازاں جلد ی ہی وہ لوگ سرعت سے ہجوم کرتے ہوئے میرے باغ کی طرف بڑھے۔ تا میری طاقت اور تدبیر کا مقابلہ کریں۔ اور میرے پھلوں کو تباہ اور میرے درختوں کو برباد کر دیں۔ اور مفسدوں کی طرح میرے باغ پر ڈاکہ ڈالیں۔ ان لوگو ں کا اس طرح میرے باغ میں داخل ہو جانا اور اس میں گھس جانا مجھے وحشتناک اور دہشت ناک معلوم ہوا اور میں سخت بے چین ہو گیا اور میرا دل مضطرب ہو گیا اور میرے قیاس نے اندازہ لگا یا کہ وہ لوگ میرے پھلوں کو برباد کرنے اور میری شاخوں کو توڑنے پھوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میں اس وقت خیال کرتا تھا کہ یہ وقت مصائب کے ہولناک وقتوں میں سے ایک وقت ہے اور یہ کہ میری زمین دشمنوں کا کیمپ بن رہی ہے۔
میں نے اپنے دل میں بے سروسامان لوگوں کی طرح ڈر محسوس کیا اور میں جلدی جلدی ان لوگوں کی طرف باغ میں گیا تا اصلیت کا پتہ لگائوں۔ جب میں اپنے باغ میں داخل ہوا۔ اور میں نے ادھر ادھر اپنی نگاہ دوڑا کر دیکھا اور ان لوگوں کی اصل حالت اور مقام کا پتہ لگانا چاہا۔ تومیں کیا دیکھتا ہوں کہ وہ مجھ سے فاصلہ پر میرے باغ کے وسطی (اور بہترین حصہ) میں مردہ لوگوں کی طرح گرے پڑے ہیں۔ تب میری بے چینی دور ہوئی اور مجھے اطمینان قلب حاصل ہواپھر میں جلد جلد اور خوش خوش ان کی طرف بڑھا۔ جب ان کے قریب پہنچ گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ گویا ایک دفعہ ہی موت کا شکار ہو کر ذلت اور مقہوریت کی موت مر چکے ہیں۔ ان کی کھالیں اتاری جا چکی تھیں اور ان کے سر زخمی کئے گئے تھے اور ان کے گلوں پر چھری پھر چکی تھی اور ان کے ہاتھ اور پائوں کاٹے گئے تھے۔ اور وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرے پڑے تھے۔ وہ لو گ اس طرح اچانک لقمہ اجل بن گئے کہ گویا ان پر بجلی گری ہے اور وہ بالکل بھسم ہو گئے ہیں۔
میں موقع پر پہنچ کر ان لوگوں کے گرنے کی جگہ پر کھڑا ہوا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اور میں کہہ رہا تھا کہ اے میرے رب تیری راہ میں میری جان قربان ہو۔ تو مجھ پر رجوع برحمت ہوا۔ اور تو نے اپنے بندے کی ایسی نصرت فرمائی ہے کہ اس کی نظیر کسی جگہ پائی نہیں جاتی۔ اے میرے رب تو نے خود اپنے ہاتھ سے ان لوگوں کو مار دیا۔ پیشتر اس کے کہ دو مقابلہ کرنے والے گروہ مقابلہ کرتے۔ یا دو فریق جنگ کرتے یا دو جانباز دستے نبر دآزما ہوتے۔ اے خدا تو جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور تیرے جیسا کوئی ناصر و مددگار نہیں ہے۔ تو نے مجھے خود بچایا اور مجھے نجات دی ہے۔ ارحم الراحمین خدا اگر تیری رحمت نہ ہوتی تو میں ان بلائوں سے ہرگز نجات نہ پا سکتا ۔اس کے بعد میں بیدار ہوا۔ اور میں شکر گزاری اور انابت الی اللہ کے جذبات سے لبریز تھا۔ فالحمد للّٰہ رب العالمین۔۵۵
میں نے اس رؤیا کی تعبیر یہ کی کہ بغیر انسانی ہاتھوں اور ظاہری اسباب کے اللہ تعالیٰ کی نصرت اور فتح مندی حاصل ہو گی۔ تا خدا تعالیٰ مجھ پر اپنی نعمتوں کو مکمل فرمائے اور مجھے اپنے خاص منعم علیہ گروہ میں شامل فرما دے۔ اب میں اس رؤیاکی تعبیر مفصل بیان کرتا ہوں۔ تا آپ لوگ علی وجہ البصیرت اسے سمجھ سکیں۔ سو یاد رہے کہ سروں کو توڑنے اور زخمی کرنے اور گلوں کو کاٹنے کی تعبیر یہ ہے کہ دشمنوں کے کبر کو توڑا جائے گا۔ اور ان کی بْڑائی خاک میں ملا دی جائے گی اور ان کی طاقت کو گویا توڑ دیا جائے گا اور ہاتھوں کے کاٹے جانے کی تعبیر یہ ہے کہ دشمن کی مقابلہ کرنے اور لڑائی کرنے کی طاقت کو زائل کر دیا جائے گا اور انہیں عاجز بنا دیا جائے گا۔ اور انہیں مومنوں پر ہاتھ ڈالنے اور ان کے خلاف لڑائی کی تدبیریں کرنے کے ناقابل کر دیا جائے گا۔ اور ان سے لڑائی کے ہتھیار چھین لئے جائیں گے اور انہیں مخزول اور مطرود ینا دیا جائے گا اور انہیں بے دست و پا کر دیا جائے گا اور رؤیا میں پائوں کا کاٹا جانا یہ معنی رکھتا ہے کہ ان پر حجت قائم ہو جائے گی اور ان پر فرار کا رستہ بند کر دیا جائے گا۔اور ان پر الزام پورے طور پر قائم ہو جائے گا اور وہ گویا قیدیوں کی طرح ہو جائیں گے۔
یہ سب کچھ اس خدا کے ہاتھوں ہو گا جسے تمام طاقتیں حاصل ہیں۔ وہ جس کو چاہتا ہے عذاب دیتا ہے اور جس پر چاہتا ہے رحم فرماتا ہے جسے چاہتا ہے شکست دیتاہے جسے چاہتا ہے فتح عطا کرتا ہے اور کوئی شخص اسے عاجز نہیں کر سکتا۔
وہ لوگ جنہوں نے خدا کے رسولوں کی تکذیب کی اور اس کے بندوں کو اذیت پہنچائی اور اس کی آیات اور جزا سزا کا انکار کیا وہی لوگ ہیں جو اس کی رحمت سے مایوس ہو ں گے۔ اور ان کے خیالات ان کی تباہی کا موجب بنیں گے اور ان کا تکبر انہیں ہلاک کر دے گا۔اور ان کے سارے اعمال اور کوششیں اہل حق و صداقت کے مقابلہ پر رائیگاں جائیں گی اور وہ ہلاک ہونے والوں میں سے ہوں گے۔
اے ایماندارو! تم خدا کا تقویٰ اختیار کرو اور خدا کی طرف بلانے والے کی آواز کو قبول کرو اور پیچھے رہو اور صادقوں کے ساتھ مل جائو۔ دیکھو میں نے آپ لوگوں تک اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا ہے اور میں تمہارا ادنیٰ خیر خواہ ہوں۔ مگر میں ان لوگوں کی حالت پر جو کہ اپنے خیر خواہوں سے دشمنی رکھتے ہیں کیونکر افسوس اور غم کر لوں۔‘‘ ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام صفحہ۱۱۸ (مطبوعہ الفضل ۱۳؍جون ۱۹۴۸ئ)
غیر مسلموں کو امداد دینے والے احمدی توجہ کریں
جن احمدی بھا ئیوں نے گزشتہ فسادات کے ایام میں یا ان کے قریب اپنے علاقہ کے بعض مظلوم غیر مسلموں کی امداد کی ہو اور ان کی جان اور مال کی حفاظت میں حصہ لیا ہو۔ وہ واقعہ کی مفصّل رپورٹ لکھ کر میرے نام بھجوا دیں تاکہ یہ ریکارڈ مکمل کیا جا سکے۔ دوستوں کو معلوم ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیزکی یہ ہدایت تھی کہ اسلامی تعلیم کے ماتحت جو شخص بھی مظلوم ہو خواہ وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم اس کی امداد کرنی چاہیئے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ بہت سے دوستوں نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈال کر بھی اس اسلامی تعلیم کو پورا کیا ہے۔ مگر ضرورت ہے کہ یہ ریکارڈ مکمل طور پر ضبط میں آجائے تاکہ ہم غیر اسلامی دنیا کو بتا سکیں کہ جہاں مشرقی پنجاب اور دہلی وغیرہ میں مسلمانوں پہ یہ یہ مظالم ڈھائے گئے ہیں وہاں اس کے مقابل پر مسلمان غیر مسلمو ں کی حفاظت کرتے رہے ہیں۔ اگر کسی دوست کو یہ خیال ہو کہ وہ اس سے پہلے اطلاع دے چکے ہیں تو پھر بھی وہ احتیاطاً دوبارہ لکھ دیں اور جہاں تک ممکن ہو واقعہ کی پوری پوری تفصیل درج کریں۔ یعنی اپنا نام اور پتہ، مظلوم وغیر مسلم کا نام اور پتہ، تاریخ جائے وقوع اور واقعہ کی تفصیل وغیرہ۔جملہ امراء ،پریذیڈنٹ صاحبان یہ ہدایت اپنے اپنے حلقہ میں پہنچا دیں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍جون ۱۹۴۸ئ)




خدا تعالیٰ کی بندہ نوازی کا ایک خاص منظر
قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذاتی یادگاریںسب محفوظ ہیں
آج جب میں مولوی عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ قادیان کو ایک خط لکھا رہا تھا تو اس ضمن میں میری توجہ ایک ایسے روحانی نکتہ کی طرف منتقل ہوئی۔ جس کی طرف اس سے پہلے اس رنگ میں اور اس شدت کے ساتھ خیال نہیں گیا تھا۔ سو میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے اس خط کی نقل دوستوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں بھی شائع کرادوں۔ لہذا یہ خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
‎ خاکسار: مرزا بشیر احمد رتن باغ لاہور۔۱۹۴۸۔۶۔۱۷
بسم اﷲ الرحمن الرحیم۔ نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
مکرمی محترمی مولوی عبد الرحمن صاحب
امیر مقامی قادیان
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ و برکاتہ
آج منشی محمد صادق صاحب کے بھجوائے ہوئے چار سو ستر روپے (۴۷۰) وصول ہوئے جن میں سے ۲۱۰ روپے حضرت اماں جان (ام المومنین) کے باغ کے حساب میں ہیں اور ۲۶۰ روپے میاں عزیز احمد صاحب اور میاں رشید احمد صاحب کے باغ کے حساب میں اور منشی صاحب نے لکھا ہے کہ یہ نصف رقم ہے اور بقیہ نصف جولائی میں وصول ہو گی۔ جزاکم اﷲ خیراً۔ مگر منشی صاحب کی رپورٹ سے معلوم ہوا کہ میری تاکید کے باوجود آپ نے قادیان کے درویشوں کے لئے پھل کی جنس بہت تھو ڑی رکھی ہے۔ اول تو میری خواہش تھی کہ سارا پھل ہی دوستوں کے استعمال میں آتا۔ لیکن ایک روحانی نکتہ کی وجہ سے جس کا میں آگے چل کر ذکر کرتا ہوں۔ میں اس خیال سے رک گیا مگر بہرحال میری یہ تاکید تھی کہ جنس کافی و شافی رکھی جائے۔ مگر آپ نے آموں کی جنس فی باغ ایک ایک من رکھی ہے۔ تین سو کی آبادی میں دومن کی جنس کیا حقیقت رکھتی ہے۔ مکرم مولوی صاحب آپ نے مجھ پر ظلم کیا ہے کہ دوستوں کی خدمت اور مہمانی کے موقع سے مجھے محروم کر دیا ہے۔ یہ درست ہے کہ مقبرہ بہشتی کا باغ اور ہر دو باغیچوں کا پھل جوفروخت نہیں کیا گیا۔ جنس کے علاوہ ہو گا مگر پھر بھی دو من کی جنس بہت تھوڑی ہے۔ آپ بلا توقف ایک ایک من کی جنس کو بڑھا کر تین تین من کی جنس کر دیں۔ یعنی ہر دو باغیچوں پر چھ من کی جنس ہو جائے اور اس کے مقابل پر بقیہ رقم میں سے اس زائد جنس کی قیمت کے مطابق منہائی کر دی جائے۔
(۲) روحانی نکتہ جو میرے مد نظر ہے، وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھوں سے جو جائداد حضرت اماں جان نے براہ راست پائی تھی۔ وہ یہی ثمر دار باغ تھا جو حضور نے ایک دینی غرض کے ماتحت حضرت امان جان کے پاس رہن رکھا تھا۔ اور یہ خدا کا کتنا فضل ہے کہ آج بھی جبکہ سارا مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو چکا ہے اور ان کی سب جائیدادیں غیر مسلموں کے ہاتھ میں جا چکی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ جائیدا دجو حضور کے ہاتھوں سے براہ راست حضرت ام المومنین کو پہنچی تھی، وہ اب بھی صحیح سلامت موجود ہے اور حضرت اماں جان کو اس کی آمد وصول ہو رہی ہے۔ غالباً بلکہ یقینا اس وقت سارے مشرقی پنجاب میں کوئی ایسی مثال موجود نہیںکہ ایک شخص فسادات کے نتیجہ میں مجبور ہو کر مغربی پنجاب آ گیا ہو اور پھر بھی اس کی مشرقی پنجاب والی جائیداد اُسے آمد دے رہی ہو۔ روپے کا تو کوئی سوال نہیں مگر ہمارے رحیم و کریم خد اکی یہ کتنی نکتہ نوازی اور ذرہ نوازی ہے کہ اس نے گزشتہ قیامت خیز طوفان میں بھی حضرت اماں جان کی اس جائیداد کو محفوظ رکھا ہے جو انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوںسے براہ راست پہنچی تھی۔ اور اس جائیداد کی آمد اب بھی حضرت اماں جان کو مغربی پنجاب میں پہنچ رہی ہے۔
۵۶
دوستوں کو یہ نکتہ بتا دیں اور سمجھا دیں ۔۵۷
(۳) اس تعلق میں میرا خیال اس روحانی نکتہ کی طرف بھی منتقل ہوا کہ باوجود اس کے کہ گزشتہ فسادات میں ہمارے پیارے مرکز پر بھی بھاری امتحان کا وقت آیا۔ یعنی قتل و غارت ہوا جائیدادیں لوٹی گئیں۔ بعض جانیں بھی ضائع ہوئیں اور جماعت کے بیشتر حصہ کو مجبور ہو کر قادیان سے نکلنا پڑا مگر باوجود اس بھاری امتحان کے اللہ تعالیٰ نے قادیان میں ان جگہوں کو اپنے خاص فضل سے محفوظ رکھا۔ جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنی زندگی اور وفات میں ذاتی تعلق قائم رہا ہے اور وہ ہمارے لئے خاص مقدس یادگاروں کا رنگ رکھتی ہیں۔ مثلا وہ مکان جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیدا ہوئے۔ وہ مکان جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی گزاری۔ وہ مسجد جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود خدائی بشارت کے ساتھ اپنے مکان کے متصل تعمیر کیا اور اس میں اپنی بے شمار نمازیں ادا کیں۔ وہ مسجد جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جمعہ کی نمازیں پڑھیں اور اسی میں ایک عید الاضحٰے کے موقع پر الہامی خطبہ دیا۔ وہ مینارہ جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدائی منشاء کے ماتحت ایک خاص علامت کو پورا کرنے کے لئے تعمیر کیا۔ وہ بیت الدعا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں خدا کے حضور اپنی خاص دعائیں پیش کرنے کے لئے اپنے مکان کے ایک حصہ میں بنائی۔ وہ باغ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زلزلہ کے ایام میں تین مہینے جا کر ٹھہرے اور اس میں کئی دفعہ اپنے دوستوں کو اپنے ساتھ لے جا کر پھل کی دعوت دی۔ اور اس میں ہماری بہت سی عیدیں اور جنازے ہوئے اور اسی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا جنازہ بھی پڑھا گیا۔ اور اسی میں حضرت خلیفۃ المسیح اول ؓ کی پہلی بیعت ہوئی۔ اور بالآخر وہ مقدس مقبرہ جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدائی بشارتوں کے ماتحت بنیاد رکھی اور اسی میں حضور کا جسد خاکی دفن ہے۔ یہ سب جگہیں وہ ہیں جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا براہ راست ذاتی واسطہ رہا ہے اور یہ خدا کا فضل ہے اور اس کی بندہ نوازی کہ اس نے اتنی بھاری تباہی کے باوجود ان ساری جگہوں کو اپنے خاص فضل سے محفوظ رکھا ہے اور اب بھی جبکہ سارا مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو چکا ہے، ہمارے یہ مقدس مقامات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خدام اور درویشوں سے آباد ہیں۔ میں پھر کہتا ہوں کہ:

مجھے تو یوں نظر آتا ہے کہ کسی خدا ئی تقدیر کے ماتحت ایک عمارت کو آگ لگی اور بظاہر سب کچھ جل کر خاک ہو گیا۔ مگر اس گھر کے اندر پڑی ہوئی بعض مقدس چیزوں کو خدا کے فرشتوں نے اپنے ہاتھوں میں محفوظ کر لیا۔ کل کو کیا ہو گا یہ خداجانتا ہے ہمیں اس بحث میں جانے کی ضرورت نہیں ۔ ہمارے لئے خدا نے اتنی میٹھی قاشیں مہیا کر رکھی ہیں کہ اگر ایک آدھ اور تلخ قاش بھی کھانی پڑے تو ہمارے دل یقینا پھر بھی اس کے شکر گزار رہیںگے اور ہم یہ بھی جانتے اور یقین رکھتے ہیںکہ اگر کسی دشمن نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس وسط باغ پر ہاتھ ڈالا تو خدا کے اس وعدہ کا وقت بھی جلد تر آ جائے گا۔ جس کی آئینہ کمالات اسلام والے رؤیامیں خبر دی گئی ہے ولا حول ولا قوۃ الا باﷲ العلی العظیم
(۴) میری طرف سے سب دوستوں کو سلام پہنچا دیں اور دعا کے لئے تحریک کریں۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کے ساتھ ہو اور حافظ و ناصر رہے اور اس روحانی مقصد کو پورا فرمائے ،جس کے لئے آپ لوگ گویا دنیا سے کٹ کر قادیان میں درویشانہ زندگی گزار رہے ہیں۔ آمین فقط۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۹؍جون ۱۹۴۸ئ)
حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم و مغفور کی وصیت
حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم کو جب ناک کے رستہ دماغ میں پانی جانے کی بیماری کا آغاز ہوا تو وہ اس کے علاج کے لئے لاہور تشریف لائے اور میاںغلام محمد صاحب اختر کے مکان پر قیام کیا۔ان دنوں میں حضرت میر صاحب مرحوم نے ایک وصیت لکھی تھی جو اتفاق سے اب قادیان کے کاغذات میں سے دستیاب ہوئی ہے۔ یہ وصیت میر صاحب مرحوم کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہے جسے میں پہچانتاہوں۔اورگو پنسل سے لکھی ہوئی ہے مگر اس وقت تک اس کے سب الفاظ اور حروف اچھی طرح پڑھے جاتے ہیں بالآخر حضرت میر صاحب نے چار سال بعد اسی بیماری سے قادیان میں وفات پائی اور اپنی خواہش کے مطابق مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے۔اَللّٰھُمَّ ارْحَمْہُ فِیْ اَعلٰی عِلِّیِیْن
خاکسار :۔ مرزا بشیراحمد رتن باغ لاہور
’’وصیت :الحمدللہ اس وقت میرے ہوش وحواس قائم ہیں
اشھد ان لاالہ الااﷲ واحدہ لاشریک لہ واشھد ان محمداً عبدہ ورسولہ
مجھے دلی یقین کے ساتھ زبان سے اس امر کا اقرار ہے کہ اس وقت صرف مذہب اسلام موجب نجات ہے میں چھ ارکان پر ایمان رکھتا ہوں۔پانچ بناء اسلام کا قائل ہوںمیں سنی ، شیعہ یا خوارج میں سے نہیں غیر مقلدہوں۔ آئمہ اربعہ میں سے کسی کا مقلد نہیں گو چاروں کا خاک پاہوں۔اول قرآن پھر تواترپھر حدیث کو حجت سمجھتا ہوں۔ حضرت مرزاغلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے تمام دعاوی پر ایمان رکھتا ہوںمبائع ہوں غیر مبائع نہیں۔ نورالدین کو ابوبکر کا اور موجودہ امام جماعت احمدی کو عمر کا مثیل سمجھتا ہوں۔مجھے یقین ہے کہ ہماری جماعت تبھی صحیح معنوں میں احمدی رہ سکتی ہے جبکہ وہ ایک واجب الاطاعت امام کے ہاتھ پر بیعت کرے۔ خلیفہ وقت کے ماتحت ایک انجمن ضرور انتظامی اور مالی معاملات کے لئے ہونی چاہئے۔ قادیان کو خدا کے رسول کا پایہ تخت اورا حمدیت کاابدی مرکز یقین کرتا ہوںبہشتی مقبرہ کو واقعہ میں بغیر کسی تاویل کے یقین بہشتیوں کامدفن سمجھتا ہوں میںموصی ہوںتمام حساب صاف ہے ۔میرے پچہتر روپے سپریٹنڈنٹ احمدیہ ہوسٹل کے پاس جمع ہیںاگر میں یہاں فوت ہوجائوں میری نعش ضرور اس خاکی مقام پر پہنچادی جائے جسے بہشتی مقبرہ کہتے ہیںاور یہ میری واحد خواہش ہے ۔اللہ تو میر اانجام بخیر فرما ۔
سید محمد اسحق مسافر لاہور
نوٹ:۔ اگر میں فوت ہوجائوں تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ اور حضرت ام المومنین سلمہا اللہ کو میرا سلام پہنچا دیں ‘‘۔
‎ (مطبوعہ الفضل ۲۰؍جون ۱۹۴۸ئ)




۳؍ جولائی والا کانوائے قا دیان نہیں جا سکا
بعض دوستوں کے خط آ رہے ہیں کہ جو کانوائے ۳ جولائی ۱۹۴۸ ء کو قادیان جانا تھا۔ کیا وہ قادیان سے ہو کر واپس نہیں آیا۔ سو تمام دوستوں کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ افسوس ہے کہ حکومت مشرقی پنجاب کی طرف سے ایک روک پیدا ہو جانے کی وجہ سے ۳؍ جولائی والا کانوائے ابھی تک قادیان نہیں جا سکا۔ اس کے نتیجہ میں جن دوستوں نے قادیان سے واپس آنا تھا وہ بھی واپس نہیں آ سکے۔ اس روک کے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور جونہی کہ خدا کے فضل سے یہ روک دور ہو جائے گی فوراً لاہور میں رکے ہوئے دوست قادیان روانہ ہو جائیں گے اور قادیان سے آنے والے دوست واپس آ جائیں گے ۔ دوست دعا کرتے رہیں۔ انشاء اللہ وقت آنے پر میرے قائم مقام عزیز مرزا ظفر احمد سلمہ کی طرف سے اطلاع کر دی جائے گی۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں دوستوں کی اطلاع کے لئے یہ ذکر بھی کر دینا چاہتا ہوں کہ میرا بخار خدا کے فضل سے ٹو ٹ گیا ہے۔ مگر ابھی تک کمزوری اتنی ہے کہ بستر میں لیٹے لیٹے چند سطریں لکھنے سے بھی طبیعت نڈھال ہو جاتی ہے۔ یہ بخار ڈینگیو قسم کا تھا۔ جس نے سات دن میں ہی بالکل مضمحل کر دیا ہے۔ میں دوستوں کی دعائوں کا متمنی ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے ایسی خدمت کی توفیق عطا فرمائے جو اس کی خاص رضا کی موجب ہو۔
زاں پیشتر کہ بانگ برآید فلاں نماند
‎(مطبوعہ الفضل ۱۳؍ جولائی ۱۹۴۸ئ)



رمضان کی برکات سے پورا فائدہ اٹھائیں
رمضان ایک نہایت ہی مبارک مہینہ ہے اور انسان نہیںکہہ سکتا کہ موجودہ رمضان کے بعد اسے اگلا رمضان میسر آئے گا یا نہیں۔ پس ذیل کے سات طریقوں پر رمضان کی برکات سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں
۱۔ بغیر شرعی عذر کے کوئی روزہ ترک نہ کریں اور روزہ میں محض خدا کی رضا کے حصول کو مد نظر رکھیں۔
۲۔ رمضان میں تہجد کی پابندی اختیار کریں اور فرض نمازوں پر زیادہ پختہ ہو جائیں
۳۔ قرآن شریف کی تلاوت کی کثرت کریں اور کوشش کریں کہ رمضان میں قرآن شریف کے دو دور مکمل ہو جائیں۔ تلاوت میں ساتھ ساتھ ہر امر اور ہر نہی پر غور کرتے جائیں۔
۴۔ رمضان میں دعائوں پر بہت زور دیں حتی کہ گویا مجسم دعا بن جائیں۔ اسلام اور احمدیت کی ترقی کے علاوہ اس رمضان میں قادیان کی بحالی کے لئے بھی بہت دعائیں کریں
۵۔ رمضان میں صدقہ و خیرات پر زور دیں اور اپنے مالوں میں غریبوں اور مسکینوں اور بیوائوں اور یتیموں کو حصہ دار بنائیں۔
۶۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تحریک کے مطابق اپنی کسی ایک کمزوری کو ترک کرنے کا عہد کریں اور پھر اس عہد پر پُختہ طور پر جم جائیں اور اُسے ہمیشہ کے لئے نبھائیں ۔ کمزور ی دور کرنے کے عہد میں کس خاص نیکی کے اختیار کرنے کا عہد بھی شامل ہو سکتا ہے۔
۷۔ جسے توفیق میسرہو اُس کے حالات اجازت دیں وہ رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف میںبیٹھے اور ان دس دنوں میں اپنے آپ کو نماز اور تلاوت قرآن کریم اور دعائوں کے لئے گویا وقف کر دے ۔فا ستبقوا الخیرات یا اولی الابصار۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍جولائی ۱۹۴۸ئ)

دوستو! قادیان کو اپنی دعائوں میں یاد رکھو
یہ رمضان کا مبارک مہینہ ہے اور دعائوں کی قبولیت کے خاص دن ہیں۔ دوستوں کو چاہئے کہ ان ایام میں قادیان کی بحالی کے لئے بھی خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریںکہ اللہ تعالیٰ ہمارا پیارا مرکز ہمیں جلد تر واپس دلا دے اور ایسی صورت میں واپس دلائے کہ ہم اپنے جماعتی پروگرام کو پوری پوری آزادی کے ساتھ بلا روک ٹوک جاری رکھ سکیںورنہ اس کے بغیر نام کی بحالی چنداں مفید نہیں ہو سکتی۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۹؍جولائی ۱۹۴۸ئ)








رمضان میں دائمی نیکی کا عہد کرنے والی خواتین
میں نے کسی گذشتہ رمضان میں جماعت کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریک پیش کی تھی کہ رمضان کا مہینہ چونکہ خصوصیت کے ساتھ نیکیوں اور ثواب کے حصول کا مہینہ ہے۔ اس لئے اگر کسی کو توفیق ملے تو اسے چاہئے کہ اس مبارک مہینہ میں اپنی کسی ایک کمزوری کے دور کرنے کا خدا سے عہد کرے یا اس کے مقابل پر کسی ایسی نیکی کے التزام کا عہد کرے جس کی طرف سے وہ آج تک غفلت برتتا رہا ہے اور پھر اپنے اس قلبی عہد کو جس کی تفصیل کا اظہار نہیں ہونا چاہئے، زندگی بھر نبھانے کی کوشش کرے تاکہ اس کا رمضان اس کے لئے اصلاح نفس کا ایک عملی ذریعہ بن جائے۔ اوروہ ان کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ حصہ پاسکے جو خدا تعالیٰ نے اس مبارک مہینہ کے ساتھ وابستہ فرمائی ہیں۔ میری اس سابقہ تحریک پر اس سال بعض مستورات نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریک کے ماتحت اس قسم کا عہد کیا ہے۔ ان خواتین کے اسماء گرامی ذیل میں درج کئے جاتے ہیں تا دوسروں کے لئے بھی شرکت اور دعا کی تحریک کا موجب ہوں۔ اللہ تعالیٰ انہیں اس نیک عہد کو پورا کرنے اور اس پر تازیست قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ساتھ ہی دوست اس موقع پر حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم کے واسطے بھی دعا فرمائیں۔ جن کے ذریعہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ مبارک تحریک پہنچی تھی۔ خواتین کی فہرست درج ذیل ہے ۔
(۱) امتہ الحفیظ اختر اہلیہ شیخ فضل الرحمن صاحب اختر
(۲) سیدہ آنسہ بیگم طالبہ تعلیم القرآن کلاس
(۳) سیدہ امۃ الہادی بیگم بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم
(۴) سیدہ امۃ القدوس بیگم بنت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم
(۵) سیدہ بشریٰ بیگم بنت حضرت میر محمد اسحق صاحب مرحوم
(۶) سراج بی بی صاحبہ کلرک دفتر لجنہ اماء اللہ
(۷) صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ
(۸) سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ
(۹) سیدہ تنویر الاسلام بیگم صاحبہ
(۱۰) صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ
(۱۱) صاحبزادی امتہ الباری بیگم صاحبہ
(۱۲) دولت بی بی زوجہ حبیب اللہ صاحب
(۱۳) امۃ الوہاب بیگم ضیاء اہلیہ محمد لطیف صاحب
(۱۴) عنایت بیگم زوجہ بشیر احمد صاحب
(۱۵) حمیدہ بیگم اہلیہ محمد امین صاحب
(۱۶) امۃ القیوم بیگم بنت مستری عبد العزیز صاحب
(۱۷) امۃ الرشید بیگم اہلیہ نسیم احمد صاحب
(۱۸) چراغ بی بی اہلیہ منشی محمد ابراہیم صاحب
(۱۹) سر ور سلطان بیگم اہلیہ دائود احمد صاحب
(۲۰) زینت بی بی اہلیہ مستری عبدالعزیز صاحب
(۲۱) خورشید بیگم بنت حبیب اللہ صاحب
(۲۲) مریم بیگم اہلیہ پیر مظہر الحق صاحب
(۲۳) بلقیس بیگم بنت عبد العزیز صاحب
(۲۴) امتہ الرشید بیگم اہلیہ قاضی محمد عبد اللہ صاحب
(۲۵) خدیجہ بیگم والدہ حمیدا حمد صاحب
(۲۶) دولت بی بی والدہ خدیجہ بیگم صاحبہ
(۲۷) عائشہ بی بی اہلیہ کرم دین صاحب
(۲۸) نواب بی بی اہلیہ احمد دین صاحب
(۲۹) نواب بی بی اہلیہ فتح محمد صاحب
(۳۰) حمید ہ بیگم بنت کرم دین صاحب
(۳۱) رشیدہ بیگم بنت کرم دین صاحب
(۳۲) رفیعہ بیگم اہلیہ عبد الغنی صاحب
(۳۳)حشمت بی بی اہلیہ مہر الدین صاحب
(۳۴) عالم بی بی اہلیہ چراغ الدین صاحب
(۳۵) رحمت بی بی اہلیہ فقیر محمد صاحب
(۳۶) دائی اما من صاحبہ
(۳۷) امتہ الحفیظ بیگم اہلیہ نذیر احمد صاحب ڈرائیور
(۳۸)سعیدہ بیگم اہلیہ سید احمد صاحب
(۳۹) استانی مریم بیگم صاحبہ اہلیہ حافظ روشن علی ؓ صاحب
(۴۰) استانی محمدی بیگم
(۴۱) لیلیٰ اہلیہ محمد اشرف صاحب شہید
(۴۲) ہاجرہ نرس صاحبہ
(۴۳) امتہ الحفیظ بنت ہاجرہ نرس
(۴۴) امتہ الوہاب بیگم بنت مومن جی
(۴۵) مومنہ بیگم بنت مومن جی
(۴۶) فضل بی بی اہلیہ مومن جی
(۴۷) امتہ اللطیف صاحبہ بنت میاں عبدا لرحیم صاحب درویش قادیان
(۴۸) امتہ الرحمن صاحبہ بنت مومن جی صاحب
(۴۹) آمنہ بیگم اہلیہ میاں عبد الرحیم صاحب درویش قادیان
(۵۰)والدہ سراج بی صاحبہ کلرک لجنہ
(۵۱)آمنہ اہلیہ گل نور صاحب مرحوم
(۵۲) زلیخا اہلیہ عنایت اللہ خان صاحب
(۵۳) مریم اہلیہ بازید خان صاحب مرحوم
(۵۴) مریم بنت عنایت اللہ خان صاحب
(۵۵) مائی راجو صاحبہ
(۵۶) رسول بیگم اہلیہ مفتی فضل الرحمن صا حب
(۵۷) مجیدہ بیگم اہلیہ مولوی جلال الدین قمر صاحب مبلغ
(۵۸) سکینہ بی بی اہلیہ ابراہیم صاحب
(۵۹) بیگم بی بی والدہ مولوی جلال الدین صاحب قمر مبلغ
(۶۰)دولت بی بی اہلیہ ابراہیم صاحب
(۶۱)سردار بیگم اہلیہ جلال الدین صاحب
(۶۲)جانو اہلیہ عبداللہ بوڑی مرحوم
(۶۳)ہاجرہ بیگم اہلیہ فتح محمد صاحب قادیان
(۶۴)حسین بی بی والدہ نذیر احمد
(۶۵)زینب اہلیہ فقیر محمد مرحوم
(۶۶)مختاراں اہلیہ منظور احمد صاحب
(۶۷)مائی عائشہ
(۶۸)زینت اہلیہ نور محمد صاحب
(۶۹)مہراں اہلیہ فضل احمد صاحب درویش قادیان
(۷۰)شریفہ بنت ٍ ٍ ٍ
(۷۱)بھابھی زینب صاحبہ
(۷۲)بیگم صاحبہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل ؓ صاحب مرحوم
(۷۳)امتہ الرحمن صاحب اہلیہ مرزا احمد شفیع صاحب شہید
(۷۴)سیدہ ام دائود صاحبہ بیگم حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم
قادیان حال چنیوٹ
(۷۵) امتہ المجید بیگم طالبہ تعلیم القرآن کلاس
(۷۶)زرینہ بیگم بنت سیٹھ محمد صدیق صاحب چنیوٹی
(۷۷)عابدہ خاتون بنت چوہدری ابو الہاشم خاں صاحب مرحوم تعلیم القرآن کلاس
قادیان حال گو بند گڑھ گوجرانوالہ
(۷۸)شمسہ بیگم اہلیہ سید سفیر الدین بشیر احمد
قادیان حال شیخوپورہ
(۷۹)امتہ الحیٔ بیگم مرغوب بنت ایچ ایم مرغوب اللہ تعلیم القرآن کلاس

قادیان حال راولپنڈی
(۸۰) امتہ الحفیظ بیگم بنت قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی تعلیم القرآن کلاس
قادیان حال ۴ میکلورڈ روڈ لاہور
(۸۱)سیدہ خیر النساء بیگم والدہ سید بشیر احمد صاحب
اندرون بھاٹی گیٹ ۔محلہ پٹرنگاں لاہور
(۸۲)محمودہ نزہت بنت محمد اقبال صاحب
(۸۳)ممتاز اختر صاحبہ
(۸۴)غلام جنت بیگم زوجہ جان محمد صاحب
(۸۵)رضیہ بیگم بنت مستری نذر محمد صاحب
(۸۶)بختاور بیگم زوجہ علی محمد صاحب
(۸۷)ممتاز بیگم زوجہ غلام نبی صاحب
(۸۸)خورشید بیگم زوجہ حکیم ظہور الدین صاحب
(۸۹)زوجہ غلام محمد صاحب
(۹۰) سلیمہ بیگم صاحبہ
(۹۱)برکت بی بی زوجہ حکیم سراجدین صاحب
(۹۲) ہاجرہ بیگم زوجہ عبد المجید صاحب
(۹۳)امتہ القیوم بیگم زوجہ عبد الرحمٰن صاحب
(۹۴)ممتاز بیگم زوجہ نذیر احمد صاحب
(۹۵)انوار سلطانہ زوجہ محمد اشرف صاحب
راوی روڈ۔ لاہور
(۹۶)زوجہ امیر الدین صاحب پہلوان
(۹۷)اصغری بیگم بنت مولوی سراج الحق صاحب
ضلع ہوشیار پور حال لائلپور
(۹۸)بشارت النساء بیگم بنت غلام جیلانی صاحب تعلیم القرآن کلاس
دہلی حال میکلوڈ روڈ لاہور
(۹۹)بیگم شفیع احمد صاحب دہلوی
(۱۰۰)تسنیم شفیع احمد صاحب
(۱۰۱)حمیدہ اہلیہ عبد الغفور صاحب مرحوم
(۱۰۲) سیدہ امتہ اللہ بیگم اہلیہ پیر صلاح الدین صاحب
چنیوٹ محلہ گڑھا
(۱۰۳) سارہ بیگم بنت شیخ دوست محمد صاحب چنیوٹی
(۱۰۴) صفیہ بیگم بنت شیخ دوست محمد صاحب چنیوٹی
(۱۰۵)قانتہ بیگم بنت خواجہ عبد الرحمن صاحب تعلیم القرآن کلاس
(۱۰۶) عنایت بیگم اہلیہ مستری نذر محمد صاحب بھاٹی گیٹ محلہ پٹر نگاں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۰؍ جولائی ۱۹۴۸ئ)




اپنے امام کی تحریک کو کامیاب بنائو
فارغ البال دوست قادیان جانے کے لئے اپنے نام پیش کریں
قادیان کی برکات سے فائدہ اٹھانے اورثواب کمانے کا بہترین موقع
گزشتہ مجلس مشاورت کے موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانی ایَّدہ اللہ بنصرہ العزیز نے تحریک فرمائی تھی کہ چونکہ موجودہ حالات میں قادیان کی احمدی آبادی کا بار بار تبادلہ مشکل ہے اور اس میں بعض قانونی پیچیدگیاں بھی ہیں۔ اس لئے جو دوست دنیا کے دھندوں سے فارغ البال ہو چکے ہوں، انہیں چاہئے کہ قادیان جانے کے لئے اپنے نام پیش کریں اور مقدس مرکز سلسلہ میں مستقل رہائش اختیار کر کے قادیان کی برکات سے فائدہ اٹھائیں۔ حضور کی اس تحریک پر بعض دوستوں نے اپنے نام پیش کئے جن میں سے بعض قادیان جا چکے ہیں اور بعض کانوائے کی انتظار میں ہیں۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک حضور کی یہ مبارک اور ضروری تحریک سب دوستوںتک نہیں پہنچی کیونکہ جس تعداد میں نام آنے چاہئیں تھے ابھی تک اس تعداد میں نہیں آئے۔ پس اس اعلان کے ذریعہ یہ تحریک دوبارہ جماعت تک پہنچائی جاتی ہے۔ پریزیڈنٹ اور امراء صاحبان کو چاہئے کہ حضور کی یہ ضروری تحریک سب دوستوں تک پہنچا دیں اور نا م پیش کرنے والے دوستوں کی فہرست جلد تر تیار کر کے دفترحفاظت قادیان جو دہامل بلڈنگ، جودھامل روڈ لاہور میں بھجوا دیں۔ یہ موقع دوہرے ثواب کا موقع ہے۔ یعنی ایک تو خدمت مرکز کا ثواب اور دوسرے قادیان کی برکات کا حصول۔ مکرمی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور دوسرے درویشان قادیان کے مضامین سے دوستوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ موجودہ حالات کے نتیجہ میں آج کل قادیان کی زندگی کتنے روحانی فیوض سے معمورہے۔ گویا کہ اس کے لیل و نہار مجسم روحانیت بن چکے ہیں۔ کیونکہ قادیان میں رہنے والے دوستوں کو دنیا کے دھندوں سے کوئی سروکار نہیں اور ان کی زندگی کا ہر لمحہ روحانی مشاغل کے لئے وقف ہے۔ قرآن و حدیث کا درس ۔ نوافل۔ نمازوں اور خصوصاً تہجد کا التزام۔ خشوع و خضوع میں ڈوبی ہوئی دعائوں کا پروگرام۔ نفلی روزوں کی برکات اور پھر دن رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بابرکت گھر اور بیت الدعا اور مسجد مبارک اور مسجد اقصیٰ اور بہشتی مقبرہ میں ذکر الہٰی کے موقعے۔ یہ وہ عظیم الشان نعمتیں ہیں، جن سے جماعت کا بیشتر حصہ آج کل محروم ہے۔ مگر آپ کے لئے تھوڑی سی قربانی کے نتیجہ میں ان نعمتوں کا دروازہ کھل سکتا ہے اور قادیان کا موجودہ ماحول ان نعمتوں سے بہترین صورت میں فائدہ اٹھانے کا موقع پیش کرتا ہے ۔پس جو دوست دنیا کے دھندوں سے فارغ ہو چکے ہوں یا اپنے آپ کو فارغ کر سکیں، ان کے لئے خدمت اور ثواب کا بہترین موقع ہے ۔ وہ اپنے امام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے آئیں۔ اور اس مبارک موقع سے جس سے زیادہ مبارک موقع غالبا ًاس رنگ میں پھر کبھی میسر نہیں آئے گا۔ اپنی زندگیوں کو روحانی برکات سے مزیّن کرلیں اور پھر جو لوگ موصی ہیں ان کے لئے اس نعمت کا رستہ بھی کھلا ہے کہ اگر اس عرصہ میں ان کی وفات مقدر ہو تو ادھر ادھر امانتاً دفن ہونے کی بجائے وہ براہ راست مقبرہ بہشتی میں پہنچ کر بلا توقف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جسمانی اور روحانی قرب حاصل کر سکتے ہیں اور بالآخر کیا معلوم کہ ہمارے قادیان کے درویشوں کی عاجزانہ دعائیں ہمارے پیارے مرکز کو جلد تر واپس دلانے میں بھی خدا کے حضور زیادہ مؤثر ثابت ہوں۔ فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرَات یَا اُولِی الْاَبْصَار۔
‎(مطبوعہ الفضل۲۱ ؍جولائی ۱۹۴۸ئ)






قادیان میں جماعت کی واپسی کس صورت میں ہو گی؟
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض مکاشفات پر ایک سرسری نظر
کچھ عرصہ ہوا میں نے لکھا تھا کہ میں انشاء اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ان الہاموں اور خوابوں کو ایک جگہ جمع کر کے جن میں جماعت کے قادیان سے نکلنے اور پھر قادیان میں واپس آجانے کے متعلق خدائی اطلاع ہے، ایک تبصرہ لکھوں گا۔ چنانچہ میں نے اس معاملہ میں کچھ تیاری بھی کی مگر پھر طبیعت کی خرابی کی وجہ سے اس ارادہ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکا۔ لیکن اب مجھے خیال آتاہے کہ فی الحال میں صرف قادیان کی واپسی کے متعلق ( نہ کہ قادیان سے نکلنے کے متعلق) ایک مختصر نوٹ میں یہ بتا دوں کہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں اور خوابوں سے واپسی کی کیا صورت ثابت ہوتی ہے۔ تا اگر کسی دوسرے دوست کو توفیق ملے تو وہ اس بارے میں مزید تحقیق کر کے اس مضمون کے سارے پہلوئوں کو مکمل کر سکے۔ اور اس میں قادیان پر حملہ ہونے اور قادیان سے نکلنے والے الہاموں کو بھی شامل کرلے۔ بہر حال میرا ذیل کا نوٹ ایک اشارہ سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتا اور میں نے اس میں لیا بھی صرف چند الہاموں کو ہے کیونکہ اس وقت میری طبیعت علیل ہے اور میں زیادہ نہیں لکھ سکتا۔
(۱) سب سے پہلی بات جو میں بتانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض مکاشفات سے پتہ لگتا ہے کہ جب خدائی تقدیر کے ماتحت جماعت احمدیہ ایک وقت کے لئے اپنے مرکز سے نکلنے پر مجبور ہو گی تو پھر اس کے بعد اسے فوراً ہی واپس جانے کا موقع نہیں ملے گاکیونکہ واپسی پر بعض ایسی روکیں ہوں گی کہ واپسی کی بعض ابتدائی کوششیں لازما ًناکام جائیں گی۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا ایک رؤیا ذیل کے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:-
’’ میں کسی اور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں۔ ایک دو آدمی ساتھ ہیں۔ کسی نے کہا راستہ بند ہے۔ ایک بڑابحرِ ذخّار چل رہا ہے۔ میں نے دیکھا کہ واقع میں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے اور پیچیدہ ہو ہو کر چل رہا ہے، جیسے سانپ چلا کرتا ہے۔ ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور یہ راہ بڑا خوفناک ہے۔‘‘ ۵۸
اس رویاء سے ظاہر ہے کہ قادیان میں جماعت کی واپسی کے راستہ میں بعض بھاری روکیں ہیں۔ اور واپسی کا راستہ غیر معمولی خطرات سے پُر ہے۔ جس کی وجہ سے کم از کم واپسی کی ایک ابتدائی کوشش خدائی تقدیر کے ماتحت ناکام ہونی مقدر ہے۔
(۲) لیکن دوسرے الہاموں سے پتہ لگتا ہے کہ ابتدائی ناکامی کے بعد خدا کے فضل سے یہ روکیں دور ہونی شروع ہو جائیں گی اور قادیان کی واپسی کا راستہ کھل جائے گا مگر بعض مکاشفات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واپسی تدریجی رنگ میں ہو گی اورواپسی کی پہلی قسط ایسے حالات میں ہوگی کہ قادیان میں گویا ابھی ظلمت اور تاریکی کا ماحول قائم ہو گا۔ اور جماعت اپنے تبلیغی اور تعلیمی اور تربیتی اور تنظیمی پروگرام کو پوری آزادی کے ساتھ نہیں چلا سکے گی اور اس کا راستہ تاریکی کی ٹھوکروں میں مبتلا ہو گا۔ چنانچہ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک غیر مطبوعہ رؤیا کا پتہ لگا ہے جو نہ معلوم کس غلطی کی وجہ سے چھپنے سے رہ گیا ہے مگر اس کا ثبوت خود حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی تحریری یادداشتوں میں ملتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:-
’’ میں نے دیکھا کہ میں کسی باہر کے مقام سے قادیان آیا ہوں مگر اس وقت قادیان کی گلیوں میں سخت اندھیرا ہے۔ حتیٰ کہ راستہ ٹٹول ٹٹول کر چلنا پڑتا ہے اور ہاتھ تک دکھائی نہیں دیتا۔ میں ان مکانوں کے پاس سے جو ہمارے مکان کے ساتھ سکھوں کے ہیں اس گلی میں سے ہوتا ہوا جس کے پاس وہ گوردوارہ واقع ہے جو کسی زمانہ میں مسجد ہوتا تھا کشمیریوں کی گلی کی طرف رستہ ٹٹولتا ہوا جاتا ہوں اور یہ دعا کرتا رہتا ہوں رَبِّ تجلّٰی رَبِّ تَجلّٰی (یہ الفاظ میں نے اپنی یادداشت سے لکھے ہیں ۔ اس وقت اصل حوالہ نہیں ملا مگر بہر حال اس مفہوم کا حوالہ ضرور موجود ہے اور انشاء اللہ اصل حوالہ ملنے پر معین الفاظ شائع کر دئے جائیں گے)٭
٭’’میں نے خواب میں دیکھا کہ میں قادیان کی طرف آتا ہوں اور نہایت اندھیری اور مشکل راہ ہے اور میں رجَمًا با لغیب قدم مارتا جاتا ہوں اور ایک غیبی ہاتھ مجھ کو مدد دیتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ میں قادیان پہنچ گیا اور جو مسجد سکھوں کے قبضہ میں ہے وہ مجھ کو نظر آئی۔ پھر میں سیدھی گلی میں جو کشمیریوں کی طرف سے آتی ہے، چلا۔ اس وقت میں نے اپنے تئیں ایک سخت گھبراہٹ میں پایا کہ گویا اِ س گھبراہٹ سے بے ہوش ہوتا جاتا ہوں اور اس وقت بار بار ان الفاظ سے دعا کرتا ہوں کہ رَبِّ تَجَلّٰی رَبِّ تَجَلّٰی اور ایک دیوانہ کے ہاتھ میں میرا ہاتھ ہے اور وہ بھی رَبِّ تَجَلّٰی کہتا ہے اوربڑے زور سے میںدعا کرتا ہوںاور اس سیپہلے مجھ کو یاد ہے کہ میں نے اپنے لئیاور اپنی بیوی کے لئے اور اپنیلڑکے محمود (بقیہ اگلے صفحہ پر )
یہ رؤیا غالبا ۱۸۹۲ ء یا اس کے قریب کا ہے اور اس میں جس گلی کا ذکر ہے، اس سے وہ گلی مراد ہے جو قادیان میں موجود ہ دفتر پرائیویٹ سیکر ٹری یعنی قصر خلافت سے منور بلڈنگ کے چوک میں سے ہوتی ہوئی شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے مکان کی طرف جاتی ہے۔ جس کے آگے کشمیری آبادی کے مکانات ہیں اور یہ وہ گلی ہے جو گویا مرکز احمدیت کو قادیان کی بیرونی آبادی کے ساتھ ملاتی ہے۔ اس رؤیا سے پتہ لگتا ہے کہ قادیان میں جماعت یا اس کے معتدبہ حصہ کا ابتدائی داخلہ ایسے حالات میںہو گا کہ ایک غیر ہمدرد حکومت کے پیدا کردہ حالات اور ارد گرد کی غیر مسلم آبادی کی اکثریت کی وجہ سے گویا قادیان کے اندر باہر تاریکی کا ماحول ہو گا۔ جس میں جماعت کے لئے اپنے راستہ پر گامزن رہنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
ا س وقت جماعت کی خشوع و خضوع کی دعائیں آسمان پر پہنچیں گی کہ اے ہمارے خدا ہم پر شفقت کی نظر فرما اور اپنے مقتدرانہ فضل و رحم کی تجلی سے ہمارے لئے اس تاریکی کے ماحول میں روشنی کا سامان پیدا کر دے اور ہماری رات کی ظلمت کو دن کے نور میں بدل دے۔
(۳) اس پر ہمارا مہربان آسمانی آقا ہماری دعائوں کو سنے گااور جماعت کے لئے کامل آزادی اور کامل روشنی کا سامان پیدا کر دے گا۔ چنانچہ اس تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کے الفاظ یہ ہیں:
نَرُدُّ اِلَیکَ الکَرَّۃَ الثَّا نِیَۃَ وَتُبَدِّلَنَّکَ مِن بَعدِ خَوفِکَ اَمنٰاً۔۶۰
’’ یعنی ہم تجھے پھر دوبارہ غالب کردیں گے اور تیری خوف کی حالت کو امن کی حالت سے بدلیں گے۔‘‘
(۴) اور پھر اس کی تشریح میں یہ شاندار الہام بھی نازل ہوئے کہ
اِنَّ الَّذِی فَرَضَ عَلَیکَ القُراٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ۔ اِنِّی مَعَ الاَفوَاجِ اٰتِیکَ بَغْتَۃً۔ یَا تِیْکَ نُصْرَتِی۔ اِنِّی اَنا الرّحْمٰنُ ذُوالْمَجْدِ وَالعُلیٰ۔۶۱
’’ یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر قرآن فرض کیا۔ یعنی جس نے تجھے اس زمانہ میں قرآنی علوم اور قرآنی تعلیم کی تجدید کے لئے مبعوث فرمایا وہ ضرور ضرور تجھے آخری لوٹنے والی جگہ کی طرف واپس
بقیہ حاشیہ سابقہ :۔ کے لئے میں نے بہت دعاکی ہے۔ پھر میں نے دو کتے خواب میں دیکھے۔ ایک سخت سیاہ اور ایک سفید؛ اور ایک شخص کہ وہ کتوں کے پنجے کاٹتا ہے۔ پھر الہام ہوا۔
کُنتُمْ خَیْرَ اُمّۃٍ اُخرِجَتْ لِلنَّاسِ۔۵۹
لے جائے گا اور میں جو تیرا قادر و رحیم خدا ہوں تیری مدد کے لئے اپنی فوجوں کے ساتھ اچانک آئوں گا اور میری نصرت تجھے ضرور پہنچے گی۔ میں اپنے بندوں پر وسیع رحمت کرنے والا خدا ہوں اور تمام بزرگی اور غلبہ میرے ہاتھ میں ہے
اس الہام میں جو اِنَّ َّ اور لَرَادُّکَ کے الفاظ ہیں وہ عربی محاورہ کے مطابق گویا قسم کے قائم مقام ہوتے ہیں۔ اور فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض وغایت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے گویا مطلب یہ ہے کہ ہمیں تیری بعثت کی قسم ہے کہ ہم تجھے ضرور ضرور تیرے معاد کی طرف واپس لے جائیں گے۔ یعنی جس طرح تیری بعثت ایک عظیم الشان خدائی تقدیر ہے اسی طرح تیرا قادیان واپس جانا بھی خدا کی ایک ایسی تقدیر ہے جو کبھی نہیں ٹلے گی اور یہ جو معاد کو نکرہ کی صورت میں رکھا گیا ہے، حالانکہ بظاہر قادیان کی طرف اشارہ کرنے کے لئے معرفہ کی صورت میں المعاد ہونا چاہئے تھا، اس میں یہ اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس کے بعد قادیان ایک دائمی اور عظیم الشان معاد یعنی بار بار لوٹنے والی جگہ یعنی بالفاظ دیگر مرکز کی صورت اختیار کر لے گا۔ جس کی طرف دنیا بھر کی قومیںتا قیامت رجوع کرتی رہیں گی۔ چنانچہ قرآن شریف میں بھی اسی مصلحت کے ماتحت اس لفظ کو نکرہ رکھا گیا ہے۔ واﷲ اعلم
(۵) یہ وہ واپسی ہے۔ جسے خدا تعالیٰ نے اپنے دوسرے الہاموںمیں کئی دفعہ فتح کے لفظ سے یاد کیا ہے۔ یعنی ایسی واپسی جس میں سب تاریکیاں دور ہو جائیں گی اور ساری سہولتوں کے دروازے کھل جائیں گے اور ایک کامل غلبہ کی صورت پیدا ہو جائے گی۔ فتح والے الہامات بہت کثرت کے ساتھ ہیں مگر اس جگہ صرف ایک حوالہ پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو خدا تعالیٰ مخاطب کر کے فرماتا ہے:
اِنَّا فَتَحْنَالَکَ فَتْحًا مُّبِیْنًا لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ۔۶۲
’’ یعنی ہم تیری مشکلات کے دور کے بعد تجھے کھلی کھلی فتح عطا فرمائیں گے ا ورجو مکروہات اور شدائددرمیان میں پیش آنے والے ہیں وہ اس لئے ہوں گے کہ تا خدا تیری یعنی تیری جماعت کی پہلی اور پچھلی غلطیوں کو معاف فر ما ئے یعنی یہ درمیانی تکالیف اس لئے آئیں گی کہ تا وہ موجب ترقی و مغفرتِ خطایا ہوں۔
(۶) اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پر آنے والے مختلف دوروںکو یکجائی طور پر بیان کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے:
اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗط۔۔۔۔۔قَولُ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَمْتَرُونَ۔۶۳
’’یعنی کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں۔ پس خدا اسے ان تمام اعتراضوں اور الزاموں سے بری کرے گاجو اس پر لگائے جائیں گے۔ اورخدا کے حضور اس کا یہ بندہ صاحب عزت و بزرگی ہے ۔کیاخدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں۔ پس جب خدا پہاڑ جیسی مشکلات اور پہاڑ جیسی معاند ہستیوں کے خلاف اپنی تجلّی کرے گا تو انہیں پاش پاش کر دے گا۔ اور کافروں کی تدبیروں کو کمزور بنا دے گا اور مشکلات کے اس دور کے بعد سہولت اور فر اخی کا دور آئے گا۔ اور ویسے تو اس سے پہلے اور اس کے پیچھے خدا ہی کی حکومت ہو گی( مگر خدا تعالیٰ اپنی کسی مصلحت سے ان مشکلات کے دور کو لائے گا) کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں اور اب ہم اسے بنی نوع انسان کے لئے ایک نشان بنائیں گے اور وہ ہماری طرف سے مومنوں کے لئے) رحمت کا علمبردار بنے گا۔ اور یہ خدا کی ایک ایسی تقدیر ہے جو ازل سے فیصلہ شدہ ہے اور یہی وہ اٹل صداقت ہے۔ جس میں اے لوگو تم شک و شبہ میں مبتلا ہو۔‘‘
اس جامع کلام میں خداتعالیٰ نے اَلَیسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبدَہٗکے الفاظ کو تین دفعہ دہراکر اور اُس کے بعدہر دفعہ ایک نیا مضمون بیان کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے تین دوروں کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ایک وہ جو ابتدائی دور ہے جس میں لوگوں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ اور ذات کے خلاف اعتراضات ہوں گے اور خدا کی طرف سے ان اعتراضوں کے مسکت جوابوں کا سامان مہیا کیا جائے گا۔ جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور بزرگی ثابت ہو گی۔ پھر اس کے بعد دوسرا دور پہاڑوں کی سی مشکلات کا آئے گا۔ اور کافروں کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے خلاف معاند انہ تدبیریں ہوں گی۔ مگر خدا ان پہاڑوں کو پاش پاش کر دے گا۔ اور کافروں کی تدبیروں کو کمزور کر کے خاک میں ملا دے گا۔ اور ان مشکلات کے بعد سہولتوں اور فراخی کا زمانہ آ جائے گا۔ پھر اس کے بعد تیسرا دور آئے گا۔ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وجود دنیا کے لئے ایک نشان بن جائے گا اور مومنوں کی جماعت خدا کی ان ابدی رحمتوں کی وارث بنے گی جو ان کے لئے ازل سے مقدر ہیں ۔یہ وہ وقت ہو گا کہ جب دنیا کے شکوک و شبہات دور ہو جائیں گے اور صداقت اپناسکہ جما لے گی۔
اس تشریح سے ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس وقت جماعت احمدیہ اس درمیانی دور میں سے گزر رہی ہے جس میں کہ مشکلات کے پہاڑ اس کے سامنے ہیں اور کافروںکی معاند انہ تدبیریں اس کے ارد گرد اپنا جال پھیلائے ہوئے ہیں۔ مگر جس طرح کہ آنے والی مشکلات کے متعلق یہ سب کچھ پورا ہوا۔ اسی طرح آئندہ ترقی اور فتوحات کے وعدے بھی انشاء اللہ ضرور پورے ہوں گے اور کوئی نہیں جو انہیں روک سکے۔
(۷) بالآخر قادیان کی ظاہری ترقی اور شان و شوکت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مندرجہ ذیل رویاء نے بھی بہر حال پورا ہونا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ روحانی ترقی کے ساتھ سا تھ ظاہری ترقی کے سامان بھی پیدا کر دیتاہے۔ فرماتے ہیں:-
’’ ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا۔ اور انتہائی نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے۔ اونچی اونچی دو منزلی یاچو منزلی یا اس سے بھی زیادہ اونچے اونچے چبوتروں والی دکانیں عمدہ عمارت کی بنی ہوئی ہیں اور موٹے موٹے (احمدی) سیٹھ بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے، بیٹھے ہیں اور ان کے آ گے جواہرات اور لعل اور موتیوں اور ہیروں،روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں اور قسما قِسم کی دوکانیں خوبصورت اسباب سے جگمگا رہی ہیں ۔ یکے، بگھیاں، ٹم ٹم فٹن، پالکیاں، گھوڑے شکر میں ، پیدل اس قدر بازار میں آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا بھڑ کر چلتا ہے اور راستہ بمشکل ملتا ہے۔۶۴ اور ایک دوسرے کشف میں فرماتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ قادیان کی آبادی بیاس دریا تک پھیل گئی ہے۔۶۵
یہ سب کچھ ہو گا اور ممکن نہیں کہ خدا کے وعدے غلط ہو جائیں مگر ضروری ہے کہ ہم اپنے اندر ایک پاک تبدیلی پیدا کریں، اپنے علموں کو ترقی دیں، اپنے اعمال کو درست کریں، اپنے ظاہر و باطن کو شریعت کے مطابق بنائیں اور خدمت دین کی وہ شان پیدا کریں جو دنیا میں صحابہ کی یاد کو تازہ کر دے تاکہ ہماری زندگیاں سچ مچ ہمارے اس عہد کی علمبردار ہو جائیں کہ :
’’ میں دین کو دنیا پر مقدّم کروں گا‘‘
یہ وہ عہد ہے جو ہر احمدی بیعت کرتے ہوئے خدا کے ساتھ باندھتا ہے۔ کاش یہ عہد ہمارے دلوں پر اور ہمارے دماغوں پر اور ہماری زبانوں پر اور ہمارے چہروں پر اور ہمارے سینوں پر اورہمارے ہاتھوں پر اور ہمارے پائوں پر اس طرح لکھا جائے کہ آسمان پر ہمارا خدا اسے دیکھے اور خوش ہو اور زمین پراس کی مخلوق اسے دیکھے اور حق کی طرف ہدایت پائے۔ اگر یہ بات میسر آجائے تو انشاء اللہ قادیان کی واپسی ہمارے لئے قریب تر ہو جائے گی اور یہ واپسی یقینا ہمارے لئے بیش از پیش رحمتوں کا موجب ہو گی اور اگر یہ نہیں تو پھر خدا ہی ہمارا حافظ ہو اور ہم ہر حال میں اس کی بخشش کے اُمیدوار ہیں۔
وَ اٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبّ الْعَالَمِیْن۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۵؍ جولائی ۱۹۴۸ ئ)
ہماری روزانہ دعائیں کیاہونی چاہئیں
دعائوں کے متعلق اسلام کا ایک جامع نظریہ
جیسا کہ ہر شخص جانتا ہے اسلام کا مرکزی نقطہ خدا تعالیٰ کی ذات والا صفات ہے مگر بعض دوسرے مذہبوں کی طرح اسلام خداتعالیٰ کے وجود کو محض فلسفیانہ رنگ میں پیش نہیں کرتا کہ ایک دُوردراز کی ہستی کی طرف اشارہ کرکے کہہ دے کہ ا س پر ایمان لائو اور بس ۔بلکہ وہ اس خالق ومالک ہستی کو ہمارے تعلقات اور ہماری توجّہات کا مرکز قراردیتا ہے اور ہم سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہم خدا کی ذات پر صرف ایمان ہی نہ لائیں بلکہ اس کے ساتھ ذاتی تعلق قائم کرلیں اور اسے اپنی تمام توجّہات کا مرکز بنائیں اور پھراسلام خالق و مخلوق کے اس عملی تعلق کو دونوں جہت سے قائم فرماتا ہے۔ یعنی خدا کی طرف سے بھی اور بندے کی طرف سے بھی۔ خدا کی طرف سے یہ تعلق تین صورتوں میں قائم کیاگیا ہے اوّل۔ بندوں کی بہبودی کے لئے خدا کی طرف سے احکام شریعت کا نازل ہونا تاکہ بندے ان احکام پرعمل کر کے اصلاح اور ترقی کے رستہ پرگامزن ہوں۔ دوم ۔بندوں کے نیک اعمال پر اچھے نتائج مترتب کرنا اور بد اعمالی پر تادیب اور سزا کا طریق اختیار کرنا تاکہ لوگوںکو اپنے اعمال کی اصلاح کے لئے صرف اخلاقی تحریک ہی نہ رہے بلکہ ایک باقاعدہ ضابطہ اور نظام قائم ہوجائے ۔سوم ۔بندوں کی دعائوں کو قبول کرکے انہیں تکالیف سے بچانا یا انعامات کا وارث بنانا۔ اس کے مقابل پر بندوں کی طرف سے بھی یہ تعلق تین صورتوں میں قائم ہوتا ہے ۔ اول ۔خدا کی طرف سے نازل شدہ احکام کی فرمانبرداری ۔دوم۔ ذکر الٰہی اور عبادات میں شغف۔ سوم۔ اپنی ذاتی یا خاندانی یا قومی ضرورتوں کے متعلق خد اکے حضور دعائیں۔اس دہرے نظام سے اسلام میںخدا کے وجود کو ایک زندہ حقیقت کے طور پرقائم کردیا ہے جو ہرآن ہماری زندگیوں پر اثر انداز ہو رہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری زندگیوں کا کوئی لمحہ بھی ایسا نہیں گزرتا جس میں ہمارا خدا ہمیں کچھ دے نہ رہا ہو۔یا ہم اپنے خد اسے کچھ لے نہ رہے ہوں۔
مگر اس جگہ میرا یہ نوٹ صرف دعائوں کے مضمون سے تعلق رکھتا ہے ۔اور دعائوں کے بھی صرف اس حصہ سے تعلق رکھتا ہے جو ہماری روزانہ دعائوں سے وابستہ ہے ۔یعنی اس جگہ مجھے دعاؤں کا فلسفہ بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ہمیں اپنی خاص ضرورتوں کی دعائوں کے علاوہ کون کون سی اصولی دعائیںکرنی چاہئے۔جن کا روزانہ التزام ہماری ذاتی اورخاندانی اوردینی تعلق کے لئے ضروری ہے مگر اسجگہ بھی میں ایک مختصر تمہید کے طور پر تین اصولی باتیں بیان کردیناضروری خیال کرتاہوں کیونکہ ان کے بغیر دعائوں کا مضمون سمجھنا مشکل ہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔
۔۶۶
یعنی اے رسولؐ لوگوںسے کہہ دے کہ اگر تمہاری دعائیں نہ ہوںتو خدا تعالیٰ تمہاری کیا پروا کرتا ہے۔اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ دعاہی وہ سب سے زیادہ ضروری اور پختہ زنجیر ہے جو انسان کو خدا کیساتھ ملاتی او ر اس کی رحمت کی جاذب بناتی ہے ۔چنانچہ اس آیت کی تشریح میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔ اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ۔۶۷
یعنی دعا تمام عبادتوں کی جان ہے جس طرح کہ ہڈی کی جان اس کے اندر کا گودا ہوتا ہے۔
دوسری اصولی بات یہ ہے کہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ سچے اور باعمل مومنوں کی دعائیںضرور قبول ہوتی ہیں۔چنانچہ فرماتا ہے۔
۔۶۸
یعنی میں جو دنیا کا خالق و مالک ہوںہر دعا کرنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں مگر ضروری ہے کہ لوگ بھی میرے احکام کو مانیںاور مجھ پر ایمان لائیںاور اس آیت کی تشریح میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں۔
مامن مسلم یدعو بدعوۃ لیس فیھا اثم ولا قطعیۃ رحم الاَعْطَاہُ اﷲ بھا احدیٰ ثلاث امایجعل لہ دعوۃ…وَاِمّا یَدْ خِدُ لَہٗ فِی ا لْاٰخِرَۃ وما انیصرف عنہ من السوء مثلھا۔۶۹
یعنی جب کوئی مومن مسلمان خدا سے کوئی دعا کرتا ہے تو اگراس کی یہ دعا کسی قسم کے گناہ یا قطع رحمی کے مضمون پر مشتمل نہ ہو تو خد اس کی دعا کو تین صورتوں میں سے کسی نہ کسی صورت میں ضرور قبول فرمالیتا ہے ۔یعنی اول یاتو وہ اسے اسی دنیا میں ظاہری صورت میں قبول کرکے بندہ کی حاجت پوری کردیتا ہے اور یا دوم اسے آخرت کے لئے دعا کرنے والے کے واسطے اپنے پاس ذخیرہ کرلیتا ہے اور یاسوم اگر اس دعاکو قبول کرناکسی صورت میں بھی قرین مصلحت نہ ہو تو اس کے مقابل پر دعا کرنے والے سے کسی ملتی جلتی تکلیف یانقص کو دور فرما دیتا ہے۔ گویا ہرمومن کی دعا لازما ًقبول ہوتی ہے ۔ گواس کی قبولیت کی صورتیں مختلف ہوسکتی ہیں۔
تیسری اصولی تعلیم دعا کے متعلق اسلام یہ دیتا ہے کہ ایک توا س میں جلد بازی سے کام نہ لیا جائے اور دوسرے کوئی دعا شک اور بدظنی کے الفاظ میںنہ کی جائے بلکہ یقین اور امید سے پُر دل کے ساتھ کی جائے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں:
ان یستجاب لاحد کم مالم یعجل فیقول قد دعوت ربی فلم یستجب لی۔۷۰
اذادعا اَحَدُکُم فلیعزمِ المسالَۃَ ولا یَقُولَنَّ اللّٰھُمَّ اِن شئت فاعِطنِی فإِنَّہُ لَامُسْتَکِرَہَ لَہُ۔۷۱
یعنی خدا تعالیٰ اپنے بندے کی دعا کو ضرور سنتا ہے بشرطیکہ وہ جلد بازی سے کام لے کر یہ نہ کہنے لگ جائے کہ میں نے اتنا عرصہ دعا کرکے دیکھ لیا مگر خدا نے میری دعا نہ سنی اور جب تم میںسے کوئی شخص دعا کرنے لگے تو اسے چاہئے کہ اپنے سوال پر پختگی اور یقین کے ساتھ قائم ہو اور دعا میں اس قسم کے الفاظ نہ کہے کہ خدا یا اگر تو پسند کرے تو میری اس دعا کو قبول کر کیونکہ خدا کسی کے ماتحت نہیں وہ بہرحال دعا کو اسی صورت میں قبول کرے گا جسے وہ پسند کرتا ہے کیونکہ اسے کوئی شخص کسی خاص طریق کے اختیار کرنے پرمجبور نہیں کرسکتا مگر تم خواہ نخواہ مشروط اور ڈھیلے ڈھالے الفاظ بول کر ا پنی دعا کے زور اور اپنے دل کی توجہ کو کمزور کیوںکرتے ہو ؟ اس مختصر سی تمہید کے بعد جو دعا کا اسلامی فلسفہ سمجھنے کے لئے ضروری ہے، میں یہ بتاناچاہتا ہوںکہ ہماری روزمرہ کی دعائیںکن مضامین پرمشتمل ہونی چاہئیںاور چاہتاہے کہ انسان کو دنیا میں ہرطرح کی ضرورتیں پیش آتی رہتی ہیں ۔یعنی دینی بھی یادنیاوی بھی، ذاتی بھی اور خاندانی بھی، ملکی بھی ،غیر ملکی بھی ،اور پھر حال سے تعلق رکھنے والی بھی اور مستقبل سے تعلق رکھنے والی بھی۔ اس نے انسان کی د عائوںکو کسی ایک خاص میدان کے ساتھ وابستہ نہیںکیابلکہ اسے اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ہر قسم کی ضرورت کے لئے خدا کے سامنے ہاتھ پھیلا ئے لیکن اکثر لوگوںمیں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ جو فوری اور وقتی ضرورت ان کے سامنے ہو وہ اسکے سوا باقی تمام باتوںکو بھول جاتے ہیں مثلا ًاگر کسی شخص پر کوئی سنگین مقدمہ دائر ہے توبسا اوقات وہ اپنے اضطراب میں اپنی ساری دعائیں اس مقدمہ کی کامیابی کے لئے وقف کردیتاہے اور اس بات کوبھول جاتا ہے کہ اس پر اس کیعلاوہ بھی بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، بے شک فوری اور وقتی ضرورت بعض اوقات مقد م ہوجاتی ہے ۔مگر اس کا یہ مطلب نہیںکہ ایسی حالت میں دوسری دعائوں کو بالکل ہی بھلا دیاجائے۔ اس لئے ہمارے علیم وحکیم خدا نے جو انسان کی کمزوریوںکو جانتاہے نمازمیںلازماً ایسی دعائیں شامل کردی ہیںجو ہر مومن کو ہرحال میںیاد رکھنی پڑتی ہیں مثلاًصرا ط مستقیم کی طرف ہدایت پانے کی طلب اور آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے کی دعا وغیرہ ذالک ،یا چونکہ نماز میں قرآن کی تلاوت ضروری رکھی گئی ہے اس لئیبعض ضروری دعائوں کو قرآن شریف میںشامل کردیاگیا ہے تاکہ اس ذریعہ سے وہ مومن کے سامنے آتی رہیںمگر پھر بھی کئی لوگ اپنی فوری اور قریب کی ضرورتوںمیں اتنے منہمک ہوجاتے ہیں کہ ان کے علاوہ انکی نظر کسی اور بات کی طرف نہیںاٹھتی۔ پس میںنے ضروری خیال کیا کہ اپنے دوستوںکو بعض ان دعائوںکی طرف توجہ دلادوںجوانہیںلازماً مانگنی چاہئیں او رجن کے بغیر جماعت کی ترقی محال ہے۔
۱۔ سو جاننا چاہئے کہ سب سے پہلی دعا سورۃ فاتحہ کی جامع دعا ہے جسے ام القرآن کا لقب عطاکیا گیاہے اس کے یہ الفاظ کہ:۔
۷۲
یعنی اے خدا ہمیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دے ہاںوہی مبارک رستہ جس پر چل کر تیرے خاص بندے دین ود نیا کے انعام حاصل کرتے رہے ہیںاور خدایاہم پر یہ بھی فضل فرما کہ ہم تیری ناراضگی کے موقعوں سے بچیں اور ایک دفعہ سیدھا رستہ پاکر پھر کبھی گمراہ نہ ہوں،یہ ایک نہایت ہی جامع دعا ہے جو دراصل ہر دینی اور دنیوی ضروریات کے موقعہ پر مانگی جاسکتی ہے اور اسی لئے اس دعا کو نماز کی ہررکعت میںضروری قرار دیا گیا ہے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سورۃ فاتحہ کوہر دوسری دعا کی تمہید کے طو رپر بھی لازما ً پڑھا کرتے تھے یعنی خواہ دعا کوئی کرنی ہو اس سے پہلے سورۃ فاتحہ ضرور پڑھتے تھے۔اور آنحضرت ﷺ کی یہ حدیث تو سب جانتے ہیںکہ لَاصَلٰوۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَاب۔۷۳یعنی سورہ فاتحہ کے بغیر کوئی نماز، نماز کہلانے کی حقدار نہیں۔
(۲)سورۃ فاتحہ سے اتر کر دوسری ضروری دعا درودہے ،یعنی، اللھم صَلِّ علی محمد وعلیٰ اٰل محمد ،والی مسنون دعا ۔
اس دعا کی اہمیت اس بات سے ظاہر ہے کہ خدا نے جس طرح ہر نماز کے شروع میں سورۃ فاتحہ کو رکھا ہے اسی طرح ہر نماز کے آخر میں درود کو لازمی قرار دیا ہے ۔گویا ہردو کونے کے پتھر ہیںجن سے نماز کی عمارت کو مکملکیاگیا ہے مگر یادرکھنا چاہئے کہ یہ درود کی دعا آنحضرت ﷺ کے لئے کوئی ذاتی دعا نہیں ہے (اور اگر ذاتی بھی ہوتو یہ دعا آپ کی شان کے بالکل شایان ہے ) بلکہ ایک عظیم الشان قومی اور دینی دعا ہے جس میں اسلام کی غیر معمولی ترقی کا راز مضمر ہے ۔اسی لئے جب ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ سے یہ پوچھا کہ یارسول اللہ میں درود کو اپنی دعائوں میں کتنا حصہ دیا کروں ؟ کیا میںاسے ایک چہارم حصہ دیدوں ؟ توآپ نے فرمایا ہاں اور اگر ممکن ہو تو اس سے زیادہ دو۔ اس نے کہا یا رسول اللہ کیامیںاسے نصف حصہ دے دوں ؟ آپؐ نے فرمایا ہاں اور اگر ممکن ہوتو اس سے زیادہ۔ اس نے کہاتو پھر یا رسول اللہ میں آئندہ اپنی دعائیں آپؐ پر درود بھیجنے کیلئے ہی وقف کردوں گا۔ آپؐ نے فرمایا ہاں یہ اچھا ہے بشرطیکہ تم ایسا کر سکو ۔اس ارشاد سے آپ کا منشاء یہ تھا کہ اگر انسان اپنی ساری دعائیں درود یعنی آنحضرت ﷺ کے مدارج کی بلندی اور اسلام کی ترقی کے لئے ہی وقف کرسکے تو یہ سب سے بہتر ہے ،کیونکہ پھر ایسے شخص کے کاموں میں خدا خود کفیل ہو جاتا ہے گویا درود ایک دہری قسم کی دعا ہے ۔بلا واسطہ وہ دعا ہے اسلام کی ترقی کی اوربا لواسطہ وہ دعاہے خود دعاکرنے والے کے حق میںمگر اس کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے ان الفاظ میں یہ اشارہ بھی فرمایا ہے کہ انسان اپنی فطرت کے ماتحت مجبور ہے کہ کچھ دعائیںبراہ راست اپنی ضرورتوںکے لئے بھی کرے یاکم از کم یہ کہ اکثر لوگ براہ راست ذاتی دعا کے بغیر تسلی نہیں پاسکتے اور یقینااسلام اس سے منع نہیں کرتا ۔اسی طرح تذکرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریک فرماتے ہیں کہ میںنے ایک رات درود پڑھنے کا التزام کیا اور بے شمار دفعہ درود پڑھا گیا جس کے بعد میںنے خواب میںدیکھا کہ خدا کے فرشتے بڑی بڑی مشکیں اٹھاکر میرے مکان میں لائے ہیں جو نور سے بھری ہوئی ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ وہی برکات ہیں جوتو نے محمد ﷺ کی طرف بھیجے تھے۔۷۴ اس سے پتہ لگتا ہے کہ جو شخص درود پڑھتا ہے خدا س کے اس فعل پر اتنا خوش ہوتاہے کہ درود کے اصل مقصد کے علاوہ اسے ذاتی طور پر بھی اپنے انعاموںسے مالامال کر دیتا ہے۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ درود صرف آنحضرت ﷺ ہی کے لئے دعانہیں بلکہ خود دعا کرنے والے کے لئے بھی دعا ہے۔
(۳) تیسری دعا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر درود بھیجنا ہے جس کے دوسرے الفاظ میں یہ معنی ہیں کہ احمدیت کی ترقی کے لئے دعامانگی جائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک فتویٰ کے مطابق اگر کوئی شخص پسند کرے توآنحضرت ﷺ کے درود میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درود کو شامل کرسکتا ہے اور اس کے لئے یہ الفاظ مناسب ہیںکہ:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ وَعَلٰی عَلَیْکَ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ۔
لیکن اگر الگ الگ درود بھیجا جائے تو وہ بھی بالکل درست اور مناسب ہے مگر بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ السلام پردرود بھیجنے کا التزام بھی نہایت ضروری ہے ۔
(۴) چوتھی دعا جس کے متعلق میرے خیال میں التزام ضروری ہے وہ اپنی زبان میں اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعا ہے۔ درود کی دعا عربی میں ہے اور بالواسطہ ہے ۔مگرانسانی فطرت اپنی زبان میں براہ راست دعا کا تقاضا بھی کرتی ہے جس کے بغیر عام لوگوںکے دل میں پوری توجہ پیدا نہیںہوسکتی ۔پس ضروری ہے کہ ہم اپنی روز مرہ کی دعائوں میںدرود کے علاوہ بھی اسلام اور احمدیت کی ترقی کی دعائوںکوشامل کریں تاکہ اسلام کے رستہ میں جو روکیں ہیں خدا انہیں دور فرمائے اور اپنے فضل وکرم سے اس کی ترقی کے سامان پید اکرے اور اس ترقی کی جدوجہد میں ہمیں بھی حصہ لینے کی توفیق دے۔ جہاںتک قومی دعائوں کا تعلق ہے عربی میںدرودکے علاوہ سورۃ بقرہ رکوع نمبر۵ اور بقرہ رکوع نمبر ۴۰ اور آل عمران رکوع نمبر ۱۵ اور آل عمران رکوع نمبر ۲۰ اور فرقان رکوع نمبر ۶ کی دعائیں بہت مبارک ہیںاور اپنی زبان میںتوجس طرح بھی کسی کو پسند ہودعائیں مانگے۔
(۵) پانچویں دعا جو ہماری روز مرہ کی دعائوں میںلازماً شامل ہونی چاہئے و ہخلیفہ وقت یعنی حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ کے متعلق دعا ہے۔ وہ بھی دراصل ایک قومی اور دینی دعا ہے اور اس میںان احسانوں کے شکرانہ کا پہلو بھی شامل ہے جو حضور کی ذات سے جماعت کوپہنچ چکے ہیںیا پہنچ رہے ہیں وقال اﷲ تعالٰی لَئِنْ شَکَرْ تُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ ۔حضور کی صحت کے لئے درازیٔ عمر کے لئے حضورکے کاموں میںخدا کی نصرت اور برکت کے لئے اور حضور کے ارادوں میں کامیابی کے لئے لازماًدعا ہونی چاہئے۔ یہ ایک بھاری جماعتی فرض ہے جو ہر احمدی پر عائد ہوتا ہے۔
(۶) چھٹی دعا حضرت امّ المؤمنین اطال اللہ ظلہا کے متعلق ہے جس کی اہمیت کے سمجھنے کے لئے یہی کافی ہے کہ جیسا کہ تذکرہ کے مطالعہ سے ثابت ہے ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی دعائوں میںحضرت امّ المؤمنین کو بہت بھاری حصہ عطا فرمایاہے اور ویسے بھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے قریب ترین پہلو ئوں کی واحد یادگار ہیںاور ان کے وجود کے ساتھ جماعت کے لئے بہت سی برکتیںوابستہ ہیں۔
(۷)ساتویں دعا جماعت کے ان کارکنوں کے لئے ہونی چاہئے جو قولاً یاعملاً اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کئے ہوئے ہیں۔مثلاً سلسلہ کے مبلغین اور دوسرے مرکزی یامقامی کارکن خواہ وہ صدرانجمن احمدیہ کے کارکن ہیںیاتحریک جدید کے ۔ایسی دعا بھی دراصل جماعتی دعا ہے اور اس میں شکرانہ کا پہلو بھی شامل ہے اور جو شخص اپنی دعائوں میں سلسلہ کے کارکنوں کو بھولتا ہے وہ ایک فرض شناس احمدی نہیں سمجھاجاسکتا ۔اسی طرح بیرونی مبلغوں اور دوسرے کارکنوںکے اہل وعیال کے لئے بھی دعا کرنی ضروری ہے۔
(۸) آجکل کے حالات کے لحاظ سے قادیان کی بحالی کی دعا بھی لازماً ہماری روز انہ دعائوں کا حصہ بننی چاہئے مگر اس دعا میں یہ پہلو ضرور مدنظررہے کہ خدا ہمیںایسے رنگ میںقادیان واپس دلائے کہ ہم اس میں اپنے جماعتی پروگرام کو کامل آزادی اور کامل حفاظت کے ساتھ چلا سکیں۔ اسی طرح جو دوست آجکل قادیان میں درویش بن کر بیٹھے ہوئے ہیںان کے لئے بھی دعا کرنا ہمارا جماعتی فرض ہے اوران کے واسطے دعاکرتے ہوئے ان کے اہل وعیال اور عزیزوں کو بھی اپنی دعائوں میںشامل کرنا چاہئے ۔ومن لم یشکر الناس لم یشکر اﷲ ۔۷۵
(۹) اسی طرح ہرمومن کا فرض ہے کہ اپنی دعائوں میں اپنے والدین اور ا پنی اولاد اور اپنی رفیقہ حیات بیوی کو بھی لازماً شامل کرے ۔قرآ ن شریف نے والدین اور اولاد کے متعلق ایک دعا سکھائی ہے جو بہت مبارک اور جامع ہے اور میں اسے اکثر یادرکھتاہوں اور وہ دعا یہ ہے:۔
۷۶
یعنی خدایا مجھے توفیق دے کہ میں اس نعمت کا شکرادا کرسکوں جو تو نے مجھ پر کی ہے او را سکی بھی جو تو نے میرے والدین پر کی ہے اور یہ کہ میں ایسے اعمال صالحہ بجالائوں جن سے تو راضی ہو اور اے میرے آقا تو میری اولاد کو بھی نیکی کے رستہ پر قائم کر۔ میں تیری طرف توجہ کے ساتھ رجوع کرتاہوںاور میںتیرے فرمانبردار بندوں میں سے ہوں۔
اس کے علاوہ والدین کے لئے یہ دعا بھی بہت خوب ہے کہ :
۔۷۷
’’یعنی میرے رب تو میرے والدین کو اسی طرح اپنی حفاظت اور رحمت کے سایہ میں لے لے جس طرح حفاظت اور شفقت سے انہوں نے مجھے بچپن میں پرورش کیا ۔ اسی طرح اولاد کے لئے دعا کرنا بھی نہایت ضروری اور اہم ہے اور دراصل یہ ایک بھاری قومی خدمت ہے اگر ہم اپنی اچھی تربیت اور اپنی متضرعانہ دعائوں سے اپنی اولاد کو نیکی کے رستہ پر ڈال سکیں اور اس دنیا کو چھوڑتے ہوئے ہمیں یہ تسلی ہو کہ ہم اپنے پیچھے عالم باعمل اولاد چھوڑ رہے ہیں تو اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت ہوگی اور قومی ترقی کا بھی اس سے بڑھ کر کوئی اور ذریعہ نہیںکہ ہر اگلی نسل کا قدم موجود ہ نسل سے آگے ہو۔ اگر ہمارے سارے بچے علم اور عمل میں ہم سے آگے ہوں یاکم از کم ہر احمدی کی اولاد کا ایک حصہ اس سے آگے ہو یاکم از کم بحیثیت مجموعی جماعت کے معتد بہ بچے موجودہ نسل سے آگے ہوں (علم میںبھی اور عمل میں بھی) تو خدا کے فضل سے جماعت کا مستقبل محفوظ ہوجاتا ہے۔ پس اولاد کے لئے دعا کرنا بھی نہایت ضروری ہے اور اس کی طرف سے ہرگز غافل نہیں رہنا چاہئے۔ اسی طرح بیوی کے واسطے دعا کرنا بھی ہمارا فرض ہے کیونکہ ایک تو وہ ہماری رفیقۂ حیات ہے اور دوسرے اس کی آغوش میں قوم کے نونہال پرورش پاتے ہیں ۔اس کے واسطے یہ قرآنی دعا بہتخوب ہے کہ:۔
۷۸
یعنی اے ہمارے رب ہمیںاپنی بیویوں اوراپنی اولاد کے معاملہ میںآنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمارے گھروں کو جنت کاماحول عنایت کر کے ہمیں متقیوں کا امام بنا دے ۔ چونکہ انسان اپنے اہل وعیال کانگران ہوتا ہے اس لئے لازما ً امام کا لفظ بیوی اور بچوں دونوں سے متعلق سمجھا جائے ۔لہٰذا یہ دعا بھی ایک بہت جامع دعا ہے اور ہر مومن کو اس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے ۔یہ ایک عجیب بات ہے کہ قرآ ن شریف نے ایک دعامیں والدین اور اولاد کو اکٹھا بیان کیا ہے اور دوسری دعا میں بیوی اور اولاد کو جمع کردیا ہے۔ گویا اولاد کو دونوں کا مرکزی نقطہ رکھا ہے اور مستقبل کے لحاظ سے یہی درست ہے
(۱۰) اس کے بعد ذاتی دعائیں ہیںخواہ یہ دعائیں ہماری ذات سے تعلق رکھتی ہوں یا ہمارے دوستوں اور عزیزوںسے یاہمارے ہمسایوںوغیرہ سے یہ دعائیںبھی ضروری ہیں اور درحقیقت یہ بات انسانی فطرت کاحصہ ہے کہ وہ اپنے آقا و مولا کے آگے اپنی تمام ضرورتوںکے لئے ہاتھ پھیلائے اور حق بات ہے کہ اگر ہم خدا کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائیںگے تو او رکس کے سامنے پھیلائیںگے۔ خود میرے آقا (فداہٗ نفسی )نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ:۔ لاملجاء و لا منجاء مِنْکَ اِلَّا الیک‘‘ ۔۷۹یعنی اے ہمارے خدا ہمارے لئے کوئی پناہ کی جگہ نہیں اور نہ کوئی مخلصی پانے کی راہ ہے، سوائے اس کے کہہم تیرے دروازے کا رخ کریں۔پس اپنی ہر ضرورت خدا سے مانگو اور ہرانعام خدا سے چاہو اور ہر تکلیف سے نجات کا رستہ خدا میںڈھونڈو۔کاش دنیا جانتی کہ ہمارے خدا کی قدرت کتنی زبردست اور اس کی رحمت کتنی وسیع ہے۔ میر ادل ایک عجیب قسم کی کیفیت محسوس کرتا ہے اورمیری زبان تسبیح وتحمید کے ذکر سے تر ہونے لگتی ہے جب میں حدیث میں خدا کا یہ قول پڑھتاہوںکہ اگر میرے سارے بندے ہی نیک اور دیندارہوجائیں تو پھر میں دنیا میںبعض گنہگار لوگ پیدا کروں۔ تاکہ میری رحمت اور میری مغفرت انہیںمعاف کرکے اپنی شان ترحم کااظہار کرسکے۔ اس حدیث کے خواہ کچھ معنے ہوںمگر اس میںشبہ نہیں کہ ہمارا خدا دولت کا ایک بے انتہا خزانہ ہے اور اس سے غافل رہنے سے بڑھ کر کوئی محرومی نہیں مگر ذاتی دعائوں میں بھی یہ بات ہرگز نہیںبھولنی چاہئے کہ بہر حال دین دنیا پر مقدم رہے اور ساری ذاتی دعائیں دنیاہی کے لئے وقف نہ ہوجائیں اگرچہ ہمارے خدا کی رحمت کا دامن تو یہاں تک وسیع ہے کہ ہمارے آقا ﷺ فرماتے ہیںکہ اگر تمہاری جوتی کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اپنے خد اسے مانگو اللہ اللہ، اللہ اللہ ۔یہ کتنی بھاری نعمت ہے جو ہروقت ہمارے سامنے موجود ہے مگر کوئی لینے والا بھی ہو۔یہ بھی یادرکھنا چاہئے کہ ذاتی دعائوںمیںسب سے مقدم یہ دودعائیں ہیںکہ (۱) ہم اپنی زندگی خدا کی رضا کے مطابق بسر کریںاور (۲) ہمارا انجام اس کی خوشنودی پر ہو۔ اور
’’ ایں است کام دل اگر آیدمیسرم‘‘
نیک انجام کی دعا میں عذاب قبر سے محفوظ رہنے کی دعا بھی شامل کرنی چاہئے کیونکہ جیساکہ میں انشاء اللہ ایک علیحدہ مضمون میںبتائوںگا عذاب قبرعذاب نار سے ایک جداگانہ چیز ہے اور عذاب قبر بعض جنت میںجانے والے مومنوں کوبھی ہوسکتاہے۔
(۱۱) بالآخر میں اپنے ذوق کے مطابق یہ بھی ضروری سمجھتا ہوںکہ حکومت وقت کیلئے بھی دعا کی جائے کیونکہ حکومت کے استحکام اور حکومت کی مضبوطی اور ترقی کے ساتھ پبلک کے بہت سے مفاد وابستہ ہوتے ہیںاور حکومت کی کمزوری یاحکومت کی غلط روش بھی بہت سی خرابیوںکا موجب بن جاتی ہے۔
یہ وہ دعائیںہیںجو ہماری روزانہ دعائوں کے پروگرام میںلازماً شامل ہونی چاہئیں ۔میرا یہ مطلب نہیںکہ اپنی ہرنماز میں یہ ساری دعائیں ضرور شامل کی جائیں مگر ان میںسے بعض دعائیں تو لازما ً ہرنماز میں ہونی چاہئیں اور باقی کو حسب حالات مختلف نمازوں میں پھیلایا جاسکتاہے، لیکن بہرحال یہ سب دعائیںایسی ہیں جن کے ذکر سے سچے مومن کی زبان ہر وقت تر رہنی چاہئے۔ کاش دنیا جانتی کہ دعا میںکتنی برکت ہے اور کتنی طاقت ہے،حتیٰ کہ یہی وہ چیز ہے جو خدا ئی قضا وقدر کارستہ بھی بدل سکتی ہے۔ یہ میر ااپنا قیاس نہیں بلکہ ہمارے مقدس آقا صلی اﷲ علیہ وسلم کے منہ کی باتیں ہیں۔ چنانچہ آپؐ فرماتے ہیں:
لایرد القضا ء الا الدعا ۔۸۰
’’یعنی دعاکو یہ طاقت حاصل ہے کہ وہ خد اکی قضا وقدر کو بھی بدل دیتی ہے اوراس کے سوا کسی اور چیز کو یہ طاقت حاصل نہیں۔‘‘ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں کیونکہ خدا خودفرماتا ہے کہ:۔
۔۸۱
یعنی خدا کواس کے قانون کا غلام نہ سمجھو بلکہ وہ اپنی قضا قدر پربھی غالب ہے ۔یعنی بسااوقات وہ اپنے نیک بندوں کی دعا سے اپنی جاری شدہ تقدیر کو بھی بدل دیتا ہے۔ خد اکرے کہ یہ رمضان ہم میں سے اکثر کے دلوںکو دعا کے ذوق سے شناساکردے اور قبل اس کے کہ یہ مبارک مہینہ ختم ہو ہم اپنی ہرحاجت کو خداسے مانگنا سیکھ لیںاور اپنے سرکا خدا کے در کی مٹی سے خاک آلود ہونا اپنے لئے سب فخروں سے بڑھکر فخر سمجھیں۔اے کاش ایسا ہی ہو اور خدا کے پاک مسیح کی جماعت قیامت کے دن خدا کے دربار میںسرخروئی حاصل کرے ۔آمین یاارحم الراحمین ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۷؍جولائی ۱۹۴۸ئ)





سندھ کے زیرِمقدمہ دوستوں کے لئے دعا کی جائے
نیز لدھیانہ کے دوستوں کے لئے بھی
اس وقت سندھ میں کئی دوست جیل خا نہ میں ہیںاور ان پر تعزیرات ہندکی مختلف دفعات کے ماتحت مقدمہ چل رہا ہے اور بعض پر قتل کا الزام ہے ۔ان دوستوں میں جو سب کے سب سلسلہ کی اسٹیٹوں کے کارکن ہیں ،بعض واقف زندگی بھی ہیں اور ایک لمبے عرصہ سے مصیبت میں مبتلا چلے آتے ہیں۔ احباب کو چاہئے کہ ان دوستوں کی با عزت رہائی کے لئے درد دل سے دعا فرمائیں۔ایک بھائی کی امداد ہر حال میں فرض ہے اور حدیث میں آتا ہے کہ ایک بھائی کے دکھ کو اسی طرح محسوس کرنا چاہئے جس طرح جسم کے ایک عضوکے درد کو دوسرے اعضا محسوس کرتے ہیں۔پس دوستوں کو چاہئے کہ رمضان کے ان مبارک ایام میں اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کو اپنی خاص دعائوں میں یاد رکھیں۔
اسی طرح ابھی تک لدھیانہ مشرقی پنجاب میں ما سٹر لائق علی صاحب سابق صدر جماعت لدھیانہ اور ان کے لڑکے محمد اقبال صاحب بھی جیل خانہ میں زیر حوالات ہیں۔ ان کی رہائی کے لئے بھی دوست خاص طور پر دعا فرمائیں …۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۸؍ جولائی ۱۹۴۸ئ)




درود میں حضرت ابراہیم ؑکا نام داخل کر نے کی حکمت
کَماَ صَلَّیْتَ عَلَٰی اِبْرَاھِیْمَ کے الفاظ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی شان کا اظہار مقصود ہے۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ اس کی وجہ کیاہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ مجھے بچپن سے ہی تمام گزشتہ نبیوں میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ سب سے زیادہ محبت رہی ہے۔ مگر چونکہ (فداہ نفسی) سرور کائنات حضرت محمد مصطفیٰ صلے اللہ علیہ وسلم کی محبت سب دوسری محبتوں پر غا لب ہے اور نہ صرف غالب ہے بلکہ اتنی غالب ہے کہ کسی دوسرے نبی کی محبت کو آپؐ کی محبت سے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اس لئے حضرت ابراہیم ؑکی خاص محبت کے باوجود مجھے بچپن سے درود کا یہ فقرہ کہ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ ( یعنی اے خدا تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اس طرح برکتیں نازل کر جس طرح تو نے حضرت ابرا ہیم ؑپر نازل کیں) کھٹکا کرتا تھا اور میں خیال کیا کرتا تھا کہ بظاہر ان الفاظ سے حضرت ابراہیم ؑکی افضلیت ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس دعا میں حضرت ابراہیم ؑکی مثال کا حوالہ دینایہی ظاہر کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑکو کوئی ایسی خاص برکت حاصل ہے جو ابھی تک ہمارے آنحضرت ﷺکو حاصل نہیں اور اس خیال کی وجہ سے میں اکثردرود پڑھتے ہوئے بے چین ہو جایا کرتا تھا کہ خدایا! یہ کیا بات ہے کہ ہمارا نبی افضل الرسل اور سید ولد آدم ہے اور پھر بھی درود میں یہ الفاظ داخل کئے گئے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پراسی طرح برکتیں نازل ہوں جس طرح حضرت ابراہیم ؑ پر نازل ہوئیں ۔
آخر میں نے سوچ کرتشریح کا یہ راستہ نکالا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی مثال دینے میں برکتوں کے درجہ کی طرف اشارہ کرنامقصود نہیں بلکہ صرف ان کی نوعیت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ اور چونکہ حضرت ابراہیم ؑ کو نسل کی کثرت کا غیر معمولی امتیاز حاصل ہوا ہے اور ان کی نسل کو یہ خصوصیت بھی حاصل ہوئی ہے کہ اس میں کثیر تعداد میں نبی پیدا ہوئے ۔اس لئے میں خیال کرتا تھا کہ شاید اسی وجہ سے حضرت ابراہیم ؑ کی مثال بیان کرکے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے درود والی دعا کی جاتی ہے مگر پھر بھی میرا دل پوری طرح تسلی نہیں پاتا تھا اور درود کے ان الفاظ پر پہنچ کر کہ کما صلیت علیٰ ابراھیممجھے ہمیشہ ایک اندرونی جھٹکا لگا کرتا تھا اور میری روح ایک قسم کی ٹھوکرمحسوس کرتی تھی۔ لیکن ساتھ ہی میرا دل اس یقین سے بھی پُرتھاکہ یہ خدا کی سکھائی ہوئی دعاہے اور ضروراس میں کوئی خاص حکمت مد نظر ہوگی جو ممکن ہے کئی لوگوں پر ظاہر بھی ہو اور انشاء اللہ مجھ پر بھی کسی دن ظاہر ہو جائے گی۔ آخر کچھ عرصہ ہوا خدا نے مجھے بھی اس کی حکمت پر آگاہ فرما دیا اور اب مجھے خدا کے فضل سے اس تشریح پر جو میرے ذہن میں آئی ہے پوری تسلی ہے۔ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ درود میں حضرت ابراہیم ؑ کا نام شامل کرنے میں صرف وہی حکمت مدنظر ہے جو میرے خیال میں آئی ہے۔ خدا بلکہ رسول کے کلام میں بھی بڑی وسعت ہوتی ہے اور بسا اوقات ایک ہی وقت میں کئی کئی معنے مدنظر ہوتے ہیں اور ممکن ہے کہ جو تشریح میرے ذہن میں آئی ہے، اس سے بھی بڑھ کرکوئی اور حکمت درود میں مخفی ہو۔ مگر اب کم از کم مجھے اپنی جگہ یہ تسلی ضرور ہے کہ جو معنے میرے خیال میں آئے ہیں وہ خدا کے فضل سے نہ صرف درست ہیں بلکہ میرے ذوق کے مطابق لطیف بھی ہیں۔ واﷲ اعلم بالصواب۔ میں یہ معنے دوستوں کی اطلاع کے لئے درج ذیل کرتا ہوں۔
دوستوں کو یہ تو علم ہی ہے اور دراصل یہ بات اسلامی تاریخ کا ایک مشہور و معروف واقعہ ہے جسے مسلمان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے ہیںجو حضرت اسمٰعیل ؑ کے ذریعہ عرب میں آباد ہوئی اور یہ کہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے مبارک ہاتھوں سے ہی ہوئی تھی۔ جس کا ایک ایک پتھر ان مقدس باپ بیٹوں کی ہزاروں دعائوں کے ساتھ رکھا گیا۔اور انہوں نے اس موقع پر یہ دعا بھی کی کہ ان کی نسل سے ہمیشہ خدا کے پاک بندے پیدا ہوتے رہیں جن کی توجہ خدا کے دین کے لئے وقف ہو۔ اس موقع پر حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑ نے وہ خاص الخاص دعا بھی کی،جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود ظہور میں آیا۔ چنانچہ قرآن شریف اس تاریخی دعا کو ان زوردار الفاظ میں بیان فرماتاہے۔
۸۲
یعنی اے ہمارے رب تو ہماری اس نسل میں جو اب اس ملک میں پھیلے گی۔ اور تیرے اس مقدس گھر کے ارد گرد آباد ہوگی۔ ایک عالی شان رسول انہی میں سے مبعوث فرما۔ جو انہیں تیری مبارک آیات پڑھ کر سنائے۔ اور انہیں تیری کتاب کی تعلیم دے اور پھر اس کتاب کے احکام کی حکمت بھی سکھادے اور انہیں اپنے پاک نمونہ کی برکت سے ایک ترقی یافتہ زندگی عطا کرے۔ یقینا تو بڑی شان والا اور بڑی حکمت والا خدا ہے۔
اس دعا کے الفاظ بڑے بھاری فضائل پر مشتمل ہیں۔ مگر مجھے اس جگہ اس دعا کی تفسیر اور تشریح میں جانا مدنظر نہیں بلکہ صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ حضرت ابراھیمؑ اور حضرت اسمٰعیل ؑنے کعبہ کی تعمیر کے وقت مکہ والوں میں ایک ایسے خاص نبی کی بعثت کی دعا کی تھی جو اپنے روحانی اور علمی اور تربیتی پروگرام کے ساتھ بے مثل امتیاز کا مالک بننے والا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حدیث میں فرماتے ہیں کہ میری بعثت اسی دعا کا نتیجہ ہے۔ چنانچہ آپؐ کے الفاظ یہ ہیں:۔
انا دعوۃ ابراھیم…۔۸۳
’’ـــــیعنی میں ابراھیم ؑکی دعا کا ثمرہ ہوں‘‘
اب گویا تین باتیں ہمارے ہاتھ میں ہیں۔
(اول) یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم ؑ کی نسل سے ہیں۔
(دوم) یہ کہ حضرت ابراھیمؑ نے کعبہ کی تعمیر کے وقت مکہ والوں میں ایک عظیم الشان رسول کی بعثت کی دعا کی تھی۔
(سوم) یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اسی دعا کا نتیجہ تھی۔
اب اگر ہم ان تین باتوں کو مدنظر رکھ کر درودکے الفاظ پر غور کریں تو بات بالکل صاف ہو جاتی ہے اور:۔ درود میں کما صلیت علٰی ابراھیم یا کما بارکت علٰی ابراھیمکے الفاظ نہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کسی قسم کی کمی کے مظہر ثابت نہیں ہوتے بلکہ حقیقتاََ اس بات کا ثبوت مہیا کرتے ہیںکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ارفع شان اور آپ کی امت کی غیر معمولی ترقیات کی طرف اشارہ کرنے کے لئے درود میں داخل کئے گئے ہیں۔ بات یہ ہے کہ یہ الفاظ کہ کما صلیت علیٰ ابراھیمؑ(محمد رسول اللہ ﷺ پر اسی طرح کی برکتیں نازل فرما جس طرح تو نے ابراہیم ؑپر نازل کیں) اس غرض کے لئے رکھے گئے ہیں کہ تا حضرت ابراھیمؑ کی اس خصو صیت کی طرف اشارہ کیا جائے جوان کی تعمیر کعبہ کے وقت کی دعا اور اس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تعلق رکھتی ہے۔ اور مقصد یہ ہے کہ اے خدا! جس طرح تو نے ابراہیم کی دعا سے ابراھیمؑ کی نسل میں ایک عظیم الشان نبی پیداکیا۔ اسی طرح اب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں بھی غیرمعمولی روحانی کمالات کا سلسلہ جاری رکھ ۔ اس طرح درود میں ایک نہایت ہی لطیف اور مقدس دور یعنی پائیس سرکل (Pious Circle) قائم کر دیا گیا ہے۔ اور خدا کے دامنِ رحمت کو اس دعا سے حرکت میں لایا گیا ہے کہ اے خدا تو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اسی طرح کی خاص برکات نازل فرما جس طرح تو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ذریعہ ابراھیمؑ پر اپنی خاص برکات نازل فرمائیں۔ گویا کما صلیت علٰی ابراھیممیں جو مثال دی گئی ہے وہ بھی دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات والا صفات سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ حضرت ابراھیمؑ سے اور حضرت ابراھیمؑ کا نام صرف اس مثال کو واضح کرنے اور اس کی حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے لایا گیاہے۔ پس درود کے صحیح معنے یہ ہوئے کہ اے خدا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی وہ خاص برکتیں نازل فرما جو تو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عالی شان نبی کی بعثت کے ذریعہ حضرت ابراہیم ؑ پر نازل کیں۔ گویا چکر کھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات روحانی کی مثال خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہی لوٹ آئی اور کما صلیت علیٰ ابراھیمؑ کے الفاظ میں حضرت ابراہیم ؑ کی برتری اور فوقیت کا کوئی سوال نہ رہا۔ کیونکہ جیسا کہ میں نے اوپر تشریح کی ہے۔ دراصل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکتوں کی دعا خود آپ کی اپنی ہی مثال دے کر مانگی گئی ہے اور حضرت ابراہیم ؑ کا نام صرف اس مثال کی تشریح کے لئے لایا گیا ہے۔اب دیکھو کہ یہ کیسا مبارک چکرہے جو درود میں قائم کیا گیا ہے گویا درود کی دعا کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ خدا یا !محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثل برکات آپ کی ذات تک ہی محدود ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ ان کا سلسلہ قیامت تک وسیع ہوتاچلاجائے اور آپ کے روحانی اظلال دنیا میں ظاہر ہو ہو کر ہمیشہ آپؐ کا نور اور روشنی پھیلاتے رہیں۔
اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ یہ درود کی دعا پوری ہوئی یا نہیں اور اگر پوری ہوئی تو کس رنگ میںپوری ہوئی۔ سواس کاسیدھا سادھا جواب یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ یہ دعا اپنی مکمل شان میں پوری ہوئی بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خدا کی طرف سے اس بات کا علم دیاگیاتھا کہ ہماری سکھائی ہوئی درود کی دعا اس اس رنگ میں پوری ہوگی۔ چنانچہ اس دعا کی عام تجلی تو یہ ہے کہ امت محمدیہ کو باکمال اولیا واور عدیم المثال علما ء کا غیر معمولی ورثہ عطا کیا گیا ہے۔ جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ:۔
علماء امتی کا نبیاء بنی اسرائیل…۔۸۴
’’یعنی میری امت کے روحانی علماء (جن میں ہر صدی کے مجدد بھی شامل ہیں) اپنی شان اور روحانی کمالات میں بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوںگے ‘‘ پس یہ جو امت محمدیہ میں ہزاروں باکمال اولیاء اور ہزاروں خدارسیدہ علماء گزرے ہیں جو اپنے اپنے زمانہ میں ظاہر ی علم کے ساتھ ساتھ خدائی کلام سے بھی مشرف ہوتے رہے ہیں اور جن سے سمائِ اسلام کا چپہّ چپہّ مزیّن نظر آتا ہے ،یہ سب اسی درود والی مبارک دعا کا کرشمہ ہیں‘‘
مگر اس عام روحانی ورثہ کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے ایک ظلِّ کامل اور بروزِا تم کا بھی وعدہ تھا۔ جس کی بعثت کو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ قرار دیا گیاتھا۔ جیسا کہ سورہ جمعہ کے الفاظ واٰخرین منھم(یعنی آخری زمانہ میں خدا تعالیٰ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بروز کے ذریعہ دوبارہ معبوث کرے گا) میں بتایا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یُدْ فَنُ مَعِیْ فِیْ قَبْرِیْ…۔۸۵(یعنی آنے والا مصلح اپنی وفات کے بعد اپنے روحانی مقام کے لحاظ سے میرے ساتھ ہی رکھا جائیگا۔) کے الفاظ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سو یہ وعدہ بھی حضرت مسیح موعود مہدی معہود علیہ السلام کے وجود میں پورا ہوگیا۔ گویا جس طرح حضرت ابراھیمؑ کی دعا کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اسی طرح کَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْراھِیْمَ کی دعا کی تکمیل کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ دنیا میںتشریف لے آئے۔ اور ابھی نہ معلوم قیامت تک آپ کے کن کن اور روحانی اظلال نے آسمانِ ہدایت پر طلوع کر کے درود والی دعا کو پورا کرنا ہے۔
اَللّٰھُمَّ صَلِّ علیٰ محمد و علیٰ اٰل محمدٍ وبارک وسلم۔
خلاصہ کلام یہ کہ درود میں حضرت ابراھیمؑ کی مثال بیان کرنے سے حضرت ابراھیمؑ کے کسی ذاتی کمال کی طرف اشارہ کرنا مقصود نہیں۔ بلکہ حضرت ابراھیم ؑ کی اس دعاکی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے۔ جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجودظہور میں آیا اور غرض یہ ہے کہ جس طرح حضرت ابراہیم ؑ کی دعا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت وجود پیدا ہوا۔ اسی طرح اب اے خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں آپؐ کے روحانی اظلال کا سلسلہ بھی تا قیامت جاری رہے۔ اوراس ذریعہ سے ایک ایسا مقدس دورقائم ہوجائے جو تیرے آخری نور کے ذریعہ دنیا میں ہمیشہ اجالا رکھے۔ اس نکتہ کے حل ہونے کے بعد میری روح کماصلیت علیٰ ابراھیم کے الفاظ پر رْکنے اور جھٹکا کھانے کی بجائے ایک خاص قسم کے روحانی سرور اور ایک خاص قسم کی روحانی لذت کی حالت میں تسبیح کرتی ہوئی آگے نکل جاتی ہے۔ اور ان چمکتے ہوئے آسمانی ستاروں اور اس درخشاں ظلی شمس وقمر کا نظارہ کرنے میں جن سے آج فضاء اسلام مزیّن ہے۔ ایک ایسا لطف محسوس کرتی ہے جو اس سے پہلے کبھی میسر نہیں آیاتھا۔
اللھم صل علیٰ محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وبارک وسلم۔ اللھم صل علیٰ محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وبارک وسلم
اللھم صل علٰی محمدِِ کما صلیت علیٰ ابراھیم وبارک وسلم۔واٰخردعوٰناان الحمد للہ رب العلمین۔(مطبوعہ الفضل ۳۰جولائی ۱۹۴۸ئ)
رمضان میں دائمی نیکی کا عہد باندھنے والی خواتین
میں نے جو حضرت مسیح مو عود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تجویز (مطابق روایت حضرت مولوی شیرعلی صاحب مرحوم) کی بنا پر ایک گزشتہ رمضان میں جماعت میں یہ تحریک کی تھی کہ جن دوستوں یا بہنوں کو خدا توفیق دے وہ رمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کے ترک کرنے کا عہد باندھیں اور پھر اس عہد پر زندگی بھر قائم رہیں تاکہ ان کا رمضان ان کے لئے عین عملی اصلاح کا ذریعہ بن جائے ۔سو اس تحریک کی بنا پر اس سال ایک سوچھ خواتین نے اس قسم کا عہد کیا تھا۔ جن کی فہرست الفضل میں شائع ہو چکی ہے۔ اب اس تعلق میںچوالیس مزید خواتین کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنا عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ان کے اس عہد کو مزید نیکیوں کا پیش خیمہ بنادے آمین۔
نام عہد کنندہ
نام محلہ یااصل وطن
نام موجودہ شہر
۱۰۷
شمشادخانم صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ
محمد نگر
لاہور
۱۰۸
مسعودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمود الحسن صاحب
محمد نگر
لاہور
۱۰۹
رقیہ خاتون صاحبہ
محمد نگر
لاہور
۱۱۰
اہلیہ صاحبہ مرزا محمد امین صاحب
محمد نگر
لاہور
۱۱۱
عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی رحمت علی صاحب مبلغ جاوا
قادیان
حال لاہور
۱۱۲
امیر بیگم صاحبہ اہلیہ حکیم سراجدین احمدصاحب
بھاٹی گیٹ
لاہور
۱۱۳
رضیہ نسرین بنت حکیم سراجدین صاحب
بھاٹی گیٹ
لاہور
۱۱۴
بلقیس سعیدبیگم بنت شیخ محمد سعید صاحب صوبیدار میجر
برکت علی روڈ
لاہور
۱۱۵
محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محمود احمد صاحب
نیلا گنبد
لاہور
۱۱۶
اختر النساء بیگم صاحبہ اہلیہ ناصر احمد صاحب
راجپوت سائیکل ورکس نیلا گنبد
لاہور
۱۱۷
ناصرہ بیگم بنت مرزا عطاء اللہ صاحب
محلہ چابکسواراں
لاہور
۱۱۸
سردار بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا عطاء اللہ صاحب
محلہ چابکسواراں
لاہور
۱۱۹
اہلیہ صاحبہ صوفی فضل الٰہی صاحب
قادیان
حال لاہور
۱۲۰
رضیہ سلطانہ بنت صوفی فضل الہٰی صاحب
قادیان
حال لاہور
۱۲۱
مبارکہ شوکت صاحبہ اہلیہ حافظ قدرت اللہ صاحب۔مبلغ ہالینڈ
قادیان
حا ل سرگودہا
۱۲۲
رضیہ سلطانہ بیگم بنت بابو محمد بخش صاحب
قادیان
حال ریاست بہاولپور
۱۲۳
منور سلطانہ بیگم بنت بابو محمد بخش صاحب
قادیان
حال ریاست بہاولپور
۱۲۴
صاحبزادی امتہ اللطیف سلّمہا عرف طیفی
قادیان
حال رتن باغ لاہور
۱۲۵
اہلیہ صاحبہ خان عبدالمجید خان صاحب( ان کے خاوند خان عبدالمجید خان صاحب نے بھی ایسا عہد کیا…)
کپور تھلہ
حال ریاست بہاولپور
۱۲۶
اہلیہ صاحبہ محمد ابراہیم خان صاحب
کپور تھلہ
خان پور ریاست بہاولپور
۱۲۷
امتہ اللہ بیگم صاحبہ اہلیہ میاں احمد دین جنرل صدر لجنہ لاہور
اندرون موچی گیٹ
لاہور
۱۲۸
کلثوم ناصر بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالرحمٰن صاحب
اندرون موچی گیٹ
لاہور
۱۲۹
ثریا بیگم صاحبہ بنت میاں احمد الدینصاحب
اندرون موچی گیٹ
لاہور
۱۳۰
بلقیس اختر صاحبہ بنت میاں احمد الدین صاحب
اندرون موچی گیٹ
لاہور
۱۳۱
اقبال عزیز صاحبہ اہلیہ عزیز احمد صاحب
اندرون موچی گیٹ
لاہور
۱۳۲
…………
قادیان
حال لاہور
۱۳۳
اہلیہ صاحبہ خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب مرحوم
قادیان
حال چنیوٹ
۱۳۴
مسعودہ بیگم بنت چوہدری ابو الہاشم خان صاحب مرحوم
قادیان
حال چنیوٹ
۱۳۵
امۃ الرحمٰن صاحبہ بنت شیخ محمد حسین صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۳۶
ہاجرہ بی بی صاحبہ اہلیہ منشی محمد طالب صاحب
چنیوٹ
حال چنیوٹ
۱۳۷
اہلیہ صاحبہ حافظ عزیز احمد صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۳۸
جنت بی بی صاحبہ اہلیہ عبدالکریم صاحب مرحوم
قادیان
حال چنیوٹ
۱۳۹
اہلیہ صاحبہ شیخ دوست محمدصاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۰
ناصرہ بیگم صاحبہ بنت سبحان علی صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۱
سعیدہ بیگم بنت سلطان علی صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۲
صفیہ بیگم ہمشیرہ عبدالقیوم صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۳
رشیدہ بیگم بنت سیٹھ محمد صدیق صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۴
اہلیہ صاحبہ ماسٹرعطااللہ صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۵
سیدہ ثانیہ اختر بانو صاحبہ
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۶
صدیقہ بیگم بنت چوہدری ابوالہاشم خان صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۷
امتہ المجید بیگم بنت صوفی غلام محمد صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۸
عطیہ بیگم بنت ماسٹر عطاء اللہ صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۴۹
ذکیہ بیگم بنت محمد صدیق صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
۱۵۰
اہلیہ صاحبہ سیٹھ محمد صدیق صاحب
قادیان
حال چنیوٹ
‎(مطبوعہ الفضل ۳۱؍جولائی ۱۹۴۸ئ)









رمضان میں کمزوری دور کرنے کے عہد کے متعلق ایک
غلط فہمی کا ازالہ
کمزوری کی نوعیت کا اظہار منع ہے نہ کہ کمزوری دور کرنے کے عہد کا اظہار
کئی سال ہوئے میں نے حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم کی ایک روایت کی بنا پر جماعت میں یہ تحریک کی تھی کہ جن دوستوں کو خدا توفیق دے ،وہ رمضان میں اپنی کسی ایک کمزوری کے ترک کرنے کا عہد کیا کریںاور پھر اس عہدکو عمر بھر نبھانے کی کوشش کریںتاکہ اصلاح نفس کے اس ذریعہ سے بھی فائدہ اٹھایاجاسکے۔یہ تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تجویز کے مطابق تھی۔جو حضرت مولوی شیر علی صاحب مرحوم نے حضور سے سن کرمجھ سے بیان کی تھی اور کئی سال ہوگئے ،میں نے ناظرتعلیم وتربیت کی حیثیت میں اسے جماعت کے سامنے پیش کر کے دوستوں کو اس تحریک سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ بھی دلائی تھی۔ چنانچہ بعض گزشتہ رمضانوں میں ایسے دوستوں کی فہرست دعاکی غرض سے حضرت امیرالمؤمنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کی جاتی رہی ہے اور حضورانہیں اپنی دعاسے مشرف فرماتے رہے ہیں اوربیسیوں دوستوں نے مجھ سے ذکرکیاہے کہ انہوں نے اس تحریک سے بہت فائدہ اٹھایاہے۔مگر مجھے معلوم ہواہے کہ بعض دوستوں کو اس تحریک کے متعلق یہ اعتراض ہے کہ چونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کا منشا دل میں عہد کرنے کا تھا۔ اس لئے اس کے متعلق کسی قسم کااظہار بھی نہیںہونا چاہئے۔بلکہ صرف دل میں خدا سے عہد باندھ کر اسے خاموشی کے ساتھ پورا کرنے کی کوشش کی جائے۔اور یہ بات بھی ظاہر نہ کی جائے کہ میںنے ایسا عہد باندھا ہے مگر جیسا کہ میں ذیل کی سطور میں بتائوں گا یہ خیال درست نہیںہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ منشا نہیںہے جو سمجھا گیا ہے۔
دراصل جس بات کا اظہار ناپسندیدہ ہے وہ صرف یہ ہے کہ کمزوری کی نوعیت ظاہر کی جائے مثلاً یہ بتایا جائے کہ مجھ میں جھوٹ بولنے کی عادت ہے ،یا یہ کہ میں نماز میں سست ہوں یا یہ کہ میرے اندر چغل خوری کا عیب ہے۔یایہ کہ میں چوری کے گناہ میں مبتلا ہوں وغیرہ وغیرہ ۔کیونکہ ایسا اظہار خداکی صفتِ ستّاری کے خلاف ہے اور اکثر صورتوں میں بدی کو مٹانے کی بجائے بدی کی اشاعت اور تحریک کا موجب بھی ہوسکتا ہے۔ مگر یہ بات ہرگزمنع نہیں کہ کمزوری کی نوعیت کو چھپاتے ہوئے صرف اس قدر اظہار کیا جائے کہ میں نے اپنی ایک کمزوری کے دورکرنے کا عہد کیا ہے اور اس معاملہ میں دوست بھی دعا سے میری مدد فرمائیں ۔اگر یہ اظہار بھی منع ہوتو نعوذ باللہ اسلام کی وہ سب دعائیں قابل اعتراض ٹھہرتی ہیںجن میں خدا کے حضور کمزوریوں اور لغزشوںکے دور ہونے کی التجا سکھائی گئی ہے اور ہر مسلمان ایسی دعائیں برملا مانگتاہے۔چنانچہ استغفار وغیرہ کی دعائیںاسی نوع میں داخل ہیںاور قرآن شریف اس قسم کی دعائوں سے بھراپڑاہے۔مثلاََ :
… … ۔۸۶
یا مثلاً :۔۸۷
یا مثلاً:۔۸۸
یامثلاً: ۸۹
یا مثلاََ نماز کی یہ دعا کہ:
اللھم اغفرلی وارحمنی واھدنی وعا فنی وارفعنی واجبرنی وارزقنی…۔۹۰
یا مثلاََ حدیث کی یہ دعا کہ:۔ اللھم اغفرلی ذنبی واجنبنی من الشیطان الرجیم…۔۹۱
یا مثلاََلیلتہ القدر کی یہ دعا کہ:۔ اللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَفَاعْف عَنِّی…۔۹۲ وغیرہ وغیرہ ۔
یہ سب دعائیں اور اسی قسم کی بے شماردوسری دعائیں جن میں اجتماعی طور پر بھی اورانفرادی طور پر بھی اپنی کمزوریوں اور خطائوں اور گناہوں کی بخشش کی التجا کا سبق سکھایا گیاہے،اسلامی نظام روحانیت کا اہم ترین حصہ ہیں اور یہ دعائیں قلوب کی صفائی کا ایک نہایت عمدہ نسخہ بھی ہیں اور نہ صرف یہ کہ اسلام نے اس قسم کی دعائوں کے اظہار سے روکا نہیںبلکہ ان کی تحریک فرمائی ہے۔ البتہ کمزوری کی نوعیت کے اظہار سے ضرور منع کیاہے کیونکہ ایسا کرنا خدا کی صفتِ ستّاری کے خلاف ہے اور یہی وہ اظہار ہے جس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منع فرمایا ہے۔
دراصل حضرت مولوی شیر علی صاحب کی یہ روایت سب سے پہلے مجھے ہی پہنچی تھی اور پھر میں نے ہی اسے لوگوں کے فائدہ کے لئے الفضل میں شائع کرایا تھا۔اور مجھے یاد ہے کہ میں نے یہ روایت سن کر حضرت مولوی صاحب سے پوچھا تھا کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ منشا تھا کہ مطلقاََ اس عہد کا ہی لوگوں میں اظہار نہ کیا جائے یاکہ صرف یہ منشا تھاکہ کمزوری کی نوعیت کا اظہار نہ کیا جائے۔ جس پر حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ کمزوری کی نوعیت کااظہار منع کیا گیا ہے نہ کہ عہد کا اظہار ۔چنانچہ اس کے بعد میں نے اس تحریک کو اخبار میں شائع کیا۔اور حق یہی ہے کہ جو چیز منع ہے وہ کمزوری کی نوعیت کا اظہار ہے نہ کہ کمزوری کے دور کرنے کے عہد کا اظہار ۔کیونکہ کمزوری کے دُور کرنے کا عہد تو اسلام کی اسّی(۸۰)فیصدی دعائوں میں پایاجاتاہے۔اور اسے مخفی رکھنے سے نہ صرف اسلامی دعائوں کا سارانظام کمزورپڑجاتاہے۔اور انسان اپنے نفس کی کمزوری کے اعتراف سے بھی گویا بالا ہوجاتاہے۔بلکہ مومنوں کی جماعت ایک دوسرے کی دعائوں کے سہارے سے بھی محروم ہوجاتی ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ کمزوری کی نوعیت کا اظہار تو یقینا منع ہے کیونکہ:۔
(۱)وہ ہمارے رحیم وکریم اور ستّار خدا کی ستّاری کے خلاف ہے۔ جس بات پر ہمارا خدا پردہ ڈالتا ہے اور اسے اپنی رحمت کے دامن میں چھپاتا ہے۔اسے ظاہر کرنا یقینا خدا کی رحمت کو رد کرنے کے مترادف ہے۔
(۲)اس سے کئی صورتوںمیں بدی کی اشاعت میں بھی مدد مل سکتی ہے اور بدظنی اور مفسدانہ خیال آرائی کا بھی رستہ کھلتاہے۔مگر کمزوری کی نوعیت کے اظہار کے بغیر صرف ترکِ کمزوری کے عہد کا اظہار منع نہیںبلکہ اس میں بعض فوائد بھی متوقع ہیں۔مثلاََ:۔
(۱)یہ اسلامی دعائوں کے نظام کے عین مطابق ہے۔اور اس سے اس نظام کو تقویت پہنچتی ہے۔
(۲)ایسے اظہار سے دوسرے مومنوں کو اس دعا کی تحریک ہوتی ہے کہ خدایا ہمارے اس بھائی کی نصرت فرمااور جس طرح ہماری کمزوریاں دُور ہوں،اسی طرح اس بھائی کی کمزوریوں کو بھی دُور کر اور یقینا بدی پر غلبہ پانے کے لئے یہ ایک عمدہ اجتماعی سہارا ہے جس سے مومنوں کو محروم نہیں کیا جاسکتا۔
بالآخر اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ کسی نہ کسی جہت سے کمزوری ہر انسان کی فطرت کا حصہ ہے کیونکہ کمزوری پیدا ہونے کی بہت سی وجوہات ہیںجو مجموعی طور پر سب بنی نوع انسان پرحاوی ہیں۔ کسی انسان میں نافرمانی اور بغاوت کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوتی ہے اور کسی میں غفلت اور سستی کی وجہ سے کمزوری پیداہوتی ہے اور کسی میں صحبت یا ماحول کے اثر کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوتی ہے اورکسی میں لاعلمی اورجہالت کی وجہ سے کمزوری پیدا ہوتی ہے اور بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں محض بشریت کے لوازمات کی وجہ سے کمزوری ہوتی ہے۔ ورنہ وہ دوسری کمزوریوں سے محفوظ ہوتے ہیں اور یہ آخرالذکر کمزوری ایسی ہے کہ اولیاء اور انبیاء بھی اس سے مستثنیٰ نہیںاور اسی لئے استغفار کے حکم میں سب کو شامل کیاگیاہے تو جب انسانی کمزوریوں کا جال اتنا وسیع ہے اور یہ کوئی پوشیدہ بات نہیں ہے تو پھر محض اس قسم کے اظہار میں کہ میں ایک کمزوری کے دُور کرنے کا عہد کرتا ہوں،کسی قسم کے اعتراض کا پہلو پیدا نہیں ہوسکتا اور نہ اس قسم کی دعا خدا کی صفتِ ستّاری کے خلاف سمجھی جاسکتی ہے کہ اے خدامیں اس وقت ایک کمزوری کے دُور کرنے کا عہد کرتا ہوں تو مجھے اس کے پوراکرنے کی توفیق دے۔تاہم میں یہ نہیں کہتا کہ ہر شخص ضرور ایسے عہد کا اظہار کرے۔اگر کوئی شخص اس عہد کو بھی مخفی رکھنا چاہتا ہے اور کسی وجہ سے اس اخفا کو اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے تو وہ بے شک اسے مخفی رکھے۔شریعت اسے اظہار کے لئے مجبور نہیں کرتی ۔ ہاں میں یہ ضرور کہتا ہوںکہ اگر کوئی شخص اس قسم کے عہد کا اظہار کرنا چاہے تو اس کے رستہ میں کوئی روک نہیں۔بلکہ اسلام کی اکثر دعائوں میں اظہار کا پہلو نمایاں نظرآتا ہے لیکن کمزوری کی نوعیت بہرحال مخفی رہنی چاہیے۔
فَھِّمْ وتَدَبِّرْ واﷲ اعلم بالصواب
‎(مطبوعہ الفضل ۵؍ اگست ۱۹۴۸ئ)






میرے دُعا والے مضمون کا تتمہ
صحابہ کو بھی اپنی دُعائوں میں ضرور یاد رکھیں
چند دن ہوئے ہیںمیں نے ’’ ہماری روزانہ دعائوں ‘‘ کے عنوان کے ماتحت ایک مضمون لکھ کر الفضل میں شائع کرایا تھا ۔ اور اس مضمون میں منجملہ دیگر امور کے وہ گیارہ عدد دعائیں بھی نوٹ کی تھیںجو میرے خیال میں آج کل ہر احمدی کی وردِ زبان ہونی چاہئیں ۔ مگر افسوس ہے کہ میں ان دعائوں میں ایک اہم دعا کا ذکر کرنا بھول گیا۔ یہ دعا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ کی درازیٔ عمر اور افاضۂ روحانی سے تعلق رکھتی ہے ۔ صحابہ کی مقدس جماعت دن بدن کم ہو رہی ہے۔ اور گذشتہ سال تو اس میں خصوصیت کے ساتھ زیادہ نمایاں کمی واقع ہوئی ہے ۔ چنانچہ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب ، حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ، حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت حافظ صوفی غلام محمد صاحب مبلغ ماریشس، حضرت حافظ محمد ابراہیم صاحب، محترمہ اہلیہ صاحبہ حافظ حامد علی صاحب ، محترمہ اہلیہ صاحبہ میاں عبداللہ صاحب سنوری وغیرہم بہت سے قیمتی وجود ہیں جو صحابہ کی مقدس جماعت میں سے ہمیں گزشتہ سال کے دوران میں یا اس زمانہ کے قریب قریب داغ جدائی دے گئے اور میں خیال کرتا ہوں کہ ان میں سے کئی ایک کی وفات میں قادیان کی جدائی کے صدمہ کا بھی دخل تھا۔
پس ایک طرف صحابہ کی غیر معمولی برکات اور دوسری طرف ان کی دن بدن گھٹتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی درازیٔ عمر اور ان کے افاضۂ روحانی کی توسیع کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعائیںکریںکہ اللہ تعالیٰ اس مبارک جماعت کو تادیر سلامت رکھے۔ ان کی صحت اور عمر میں برکت دے ۔ ہمیں ان کی برکات سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا کرے اور قادیان کی بحالی تک ان کے بیشتر حصہ کو زندہ رکھے۔ کیونکہ اس خوشی سے حصہ پانے کے سب سے زیادہ حقدار وہی ہیں۔ آمین۔ دراصل یہ وہ مقدس گروہ ہے جو اگر اپنے منہ سے کچھ بھی نہ بولے تو پھر بھی ایک زبردست مقناطیس کی طرح محض اپنے وجود میں ہی روحانی برکات کے انتشار کے لئے کافی ہے کیونکہ انہوں نے ایک ایسے عظیم الشان مقناطیس سے براہ راست اثرحاصل کیاہے جس کے روحانی افاضات عالمگیر اور دائمی رنگ رکھتے ہیںاور ناممکن ہے کہ کوئی شخص اس مقناطیس کے ساتھ چھوکر (بشرطیکہ نیت بخیر ہو) یا اسکے ساتھ چھونے والوں کے ساتھ چھو کر روحانی برکات سے محروم رہے:۔
وقال اﷲ۱ تعالیٰ اُوْلٰٓئِکَ لَا یَشْقیٰ جلیسُھُم مِن عِلْمِ وتعلم۔۹۳
یہ لوگ ان آسمانی ستاروں کا حکم رکھتے ہیں۔ جو ہر روحانی سورج کے اردگرد چکر کھانے کے لئے ازل سے مقدر ہیں۔اور مبارک ہے وہ جو ان کی قدر کو پہچانتااور ان کے نور سے نور حاصل کرنے اور ان کی روشنی سے روشنی پانے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تووہ ارفع شان ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اترے ہوئے کپڑوں کے متعلق فرماتا ہے کہ:۔
ـِـَِِِِِِِِِْْ’’بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈینگے ‘‘…۔۹۴
تو جب بے جان کپڑوں اور جلد یابدیر پھٹ کر ختم ہو جانے والے پارچات کی برکات کا یہ حال ہے توان جاندار اور ہمیشگی کی رُوح رکھنے والے انسانوں کی برکت کی کیاشان ہوگی جو خدا کے ایک مقدس رسول کی صحبت سے فائدہ اٹھاتے اور اس کے سرچشمہ سے براہ راست سیراب ہوتے اور اس کے روحانی تعلق کو اپنے قلوب میں ہمیشگی کی زندگی عطا کرتے ہیں۔پس ہمارا فرض ہے کہ اپنی روزانہ دعائوں میں صحابہ کے مقدس گروہ کو بھی یاد رکھیں۔اور ان کی عمر کی درازی اور ان کے برکات کی توسیع کے لئے خدا سے ہمیشہ دست بدعا ہیں۔سو سابقہ گیارہ دعائوں کے ساتھ مل کر یہ گویا کل بارہ دعائیں ہوجاتی ہیں جو ہمیں ہمیشہ یاد رہنی چاہئیں۔
یہ سوال کہ صحابی کسے سمجھا جائے ایک اختلافی مسئلہ ہے اور مختلف علماء نے صحابی کی الگ الگ تعریف کی ہے۔ میں کوئی عالم تو نہیں ہوں مگر میں اپنے ذوق کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی کی یہ تعریف کیا کرتا ہوں کہ:۔
’’صحابی وہ ہے جس نے احمدی ہونے کی حالت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہو یا آپ کا کلام سناہواور اسے آپ کو دیکھنایا آپ کا کلام سننا یاد ہو۔‘‘
بعض دوسرے لوگوں کی تجویز کردہ تعریف ،اس تعریف سے کمزور تر اور وسیع تر ہے۔لیکن اس کے مقابل پر بعض دوسرے علماء ایسے بھی گزرے ہیں۔جنہوں نے اس تعریف کی نسبت زیاد ہ سخت اورزیادہ تنگ دائرے والی تعریف کو ترجیح دی ہے۔مثلََا وسیع دائرے والی تعریف یہ کی گئی ہے کہ:۔
’’وہ جس نے رسول کو مومن ہونے کی حالت میں دیکھا ہو (یااس کا کلام سناہو)یا رسول نے اسے اس کے مومن ہونے کی حالت میں دیکھا ہو‘‘
اس تعریف میں گویا ایسے نابالغ بچے بھی آجاتے ہیں،جنہیں خود رسول کا دیکھنا یاد نہیں ہوتا ۔مگر رسول نے انہیں دیکھا ہوتا ہے۔
اس کے مقابل پر تنگ دائرہ والی تعریف یہ کی گئی ہے کہ:۔
’’وہ مومن جس نے رسول کو اپنے بلوغ یا شعور کی حالت میں دیکھا ہو۔یا رسول کا کلام سنا ہو اور رسول کی صحبت میں رہ کر اس سے فائدہ اٹھایا ہو‘‘
صحابی کی مؤخر الذکر تعریف واقعی نہایت لطیف ہے اور صحابی کا لفظ بھی اسی کی تصدیق کرتا ہے۔کیونکہ دراصل صحابی کے معنے ہی صحبت اٹھانے والے شخص کے ہیں۔اور قرآن شریف نے بھی ایک جگہ اسی تعریف کی طرف اشارہ کیاہے۔لیکن انسانی فطرت کی یہ کمزوری ہے (یا شاید یہ خوبی ہی ہو)کہ جب اس کے ہاتھ سے کوئی اعلیٰ چیز نکلنے لگتی ہے۔ یا نکل جاتی ہے تو پھر وہ نسبتاََادنیٰ چیز کو ہی اعلیٰ کہہ کر اس پر تسلی پانے کی کوشش کرتا ہے۔ پس جوں جوں حقیقی صحابہ کی تعداد کم ہوتی گئی ،علماء نے بھی صحابی کی تعریف میں وسعت پیدا کردی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے نابالغ بچوں کو بھی صحابیوں کے زمرہ میں شامل کرکے اس دائرہ کو وسیع کر دیا ۔اور اس میں شبہ نہیں کہ بسااوقات کم سنی یا خام عمری میں بھی ایک نیکی کی بات کان میںپڑی ہوئی دائمی فیض اور دائمی برکت کا رنگ اختیار کرلیتی ہے ۔اس لئے میں نے موجودہ حالات میں بین بین کی تعریف کو ترجیح دی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا اصل مقصد یہ ہے کہ ہمیں اپنی روزانہ دعائوں میں صحابہ کی بابرکت جماعت کو بھی لازماََ شامل کرنا چاہئے ۔ اب یہ مبارک جماعت بہت تھوڑی رہ گئی ہے اور میرے خیال میں اس وقت حقیقی صحابہ کی مجموعی تعداد ڈیڑھ دو ہزار سے زیادہ نہیں ہوگی ۔(کاش اب ہی ان کی فہرست مکمل کی جاسکے)اور پرانے صحابہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابتدائی زمانہ پایا ہے،وہ تو بہت ہی تھوڑے رہ گئے ہیں۔گویاچند سحری کے وقت کے ٹمٹماتے ہوئے چراغ ہیں۔ جنہیں دیکھ کر اگر ایک طرف دِل انتہائی خوشی سے بھر جاتا ہے تو دوسری طرف سینہ میں یہ ہوک بھی اُٹھتی ہے کہ نامعلوم ہواکا اگلا جھونکا ان میں سے کس کس کو بجھا کر رکھ دے گا ۔میرے دوستو ،بزرگواور عزیزو!یہ درد کی باتیں ہیں انہیں فلسفہ کی نظر سے نہ دیکھو بلکہ محبت کے ترازو سے تولواور جہاں اس مبارک گروہ کے واسطے دعائیں کرو وہاں ان سے کچھ عشق ووفا کا سبق بھی سیکھ لو۔آئندہ نسلوں کو علم سکھانے والے تو غالباََ بہت پیدا ہوجائیں گے۔مگر صحابہ کی سی والہانہ محبت کے حامل کسی ایک زمانہ میں اس کثرت کے ساتھ آئندہ جمع ہونے مشکل ہوںگے۔کیونکہ خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود ؑ کے حاشیہ نشینوں نے وہی خمیر پایا ہے جو آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آپ ؑکے صحابہ کو پہنچا تھا۔چنانچہ قرآن شریف فرماتاہے۔ ۹۵ یعنی آخری زمانہ میں صحابہ کی سی ایک اور جماعت پیدا ہوگی اور حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں :
مبارک وہ جو اب ایمان لایا
صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
وہی مے اُن کو ساقی نے پلادی
فسبحان الذی اخزی الاعادی ۹۶
نوٹ:-اگرخداتوفیق دے تو مقامی جماعتوں کے امراء اور پریزیڈنٹ صاحبان کو چاہئے کہ اپنے حلقہ کے موجودہ صحابہ کی فہرست تیار کرکے میرے نام بھجوادیں تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے چالیس سال بعد آپ کے کون کون سے صحابی بقید حیات ہیں۔اس فہرست میں جو میرے والی تعریف مدنظر رکھ کر تیار کی جائے ان کوائف کا اندراج کافی ہے۔نام ولدیت مکمل پتہ (موجودہ اور فسادات سے پہلے کا) تاریخ بیعت اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کسی کتاب یا اشتہار میں ان کا نام آیا ہو تو اس کا حوالہ ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۱؍اگست ۱۹۴۸ئ)







سعداللہ جان صاحب ایڈووکیٹ مردان توجہ فرمائیں
تمام محکمانہ چٹھیاں افسران متعلقہ کے عہدہ کے پتہ پر آنی چاہئیں
ایک صاحب محترمی سعد اللہ جان صاحب ایڈووکیٹ مردان صوبہ سرحد جو اتفاق سے میرے شاگردبھی واقع ہوئے ہیں۔اس لئے مجھے ان کی غلطی پردوہری حیرانی ہے۔اپنی ایک زمین کے تنازعہ کے تعلق میں جو ناظم صاحب جائیداد اور ان کے درمیان رونما ہے۔مجھے ناظر اعلیٰ جماعت احمدیہ خیال کرتے ہوئے میرے نام کے ساتھ ناظر اعلیٰ کا عہدہ لکھ کر چٹھیاں ارسال فرماتے رہتے ہیں اورچونکہ میں ناظر اعلیٰ نہیں ہوں اور اس معاملہ میں بالکل لاتعلق ہوں۔مجھے یہ چٹھیاں پوسٹ آفس کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے ناظم صاحب جائیداد کو بھجوانی پڑتی ہیں۔جس کی وجہ سے لامحالہ دیر واقعہ ہوتی اور پیچیدگی بھی پیدا ہوتی ہے ۔پس میں اس اخباری اعلان کے ذریعہ محترمی سعداللہ جان صاحب کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوںکہ میں ناظر اعلیٰ نہیں ہوں۔بلکہ قریباََ ڈیڑھ سال سے اس عہدہ سے الگ ہوںاوراگر بالفرض میں ناظر اعلیٰ ہوتا بھی تو پھر بھی اصولاً یہ درست نہیں کہ محکمانہ چٹھیاں کسی فرد کے نام پر بھجوائی جائیں۔بلکہ ہر چٹھی عہدہ کے پتہ پر جانی چاہئے اورپتہ میں نام کا اندراج نہیں ہونا چاہئے۔ورنہ وصول کنندہ کی بجائے فریسندہ کا زیادہ نقصان ہوگا ۔یہ غلطی بعض دوسرے لوگ بھی کرتے ہیں۔مگر اس کا سب سے زیادہ ارتکاب صوبہ سرحد کے دوستوں کی طرف سے ہوتا ہے اور مجھے اس صوبہ پر رحم آتا ہے کہ یہ صوبہ جو بعض لحاظ سے سب سے زیادہ توجہ کا مستحق ہے بلاوجہ میرانام درمیان میں لاکر سب سے زیادہ نقصان اٹھاتا ہے۔
صحیح طریق یہ ہے کہ جس صیغہ سے کسی معاملہ کا تعلق ہو۔ اس صیغہ کے افسر یا ناظر کو بحیثیت عہدہ چٹھی لکھی جائے (نہ کہ نام پر )پھر اگر وہ صیغہ توجہ نہ دے ۔تو ایک دو دفعہ یا د دہانی کے بعد ناظر اعلیٰ کو لکھا جائے اور اگر ناظراعلیٰ کی طرف سے بھی عدم توجہی رہے تو پھر حضرت صاحب کی خدمت میں لکھا جائے۔ اس کے علاوہ کوئی اور طریق اختیار کرنا اپنے کام کو خود نقصان پہنچانے کے مترادف ہے۔You have been warned.
‎(مطبوعہ الفضل ۱۲؍اگست ۱۹۴۸ئ)
قادیان کے بیمار دوستوں کے لئے دُعا کی جائے
قادیان کے دوست یعنی دیار مسیح کے درویش آج کل جن حالات میں قادیان میں ٹھہرے ہوئے ہیں وہ سب پر عیاں ہیں۔ان کی حالت عملََا قیدیوں کی سی ہے۔البتہ یہ فرق ضرور ہے کہ قیدیوں کو حکومت کھانا دیتی ہے۔مگر ہمارے دوستوں کو خود اپنا کھانا پڑتا ہے اور کھانا لازمََا بہت سادہ اور جسم میں طاقت پیدا کرنے والے اجزاء کے لحاظ سے ناقص ہوتا ہے اس کے علاوہ گو خدا کے فضل سے قادیان میں اپنا طبی انتظام موجود ہے مگر ظاہر ہے کہ یہ انتظام موجودہ حالات میں پوری طرح تسلی بخش نہیں ہوسکتا اور ادویہ کاسٹاک بھی مکمل نہیں ہوتا۔ان حالات میں قادیان کے جو دوست بیمار ہوجاتے ہیںان کے علاج اور طاقت بحال رکھنے کا انتظام لازمََا نامکمل رہتا ہے اور زیادہ تر خدا کے فضل ورحم پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ولیس وراء اللّٰہ للمرء مذھب
آج کل بھی قادیان میں تین دوست بیمار ہیں یعنی (۱) مکرمی بھائی عبدالرحیم صاحب جو نومسلم بھی ہیں اور پرانے صحابی بھی اور گزشتہ کا نوائے میں امیر قافلہ ہو کر قادیان گئے تھے (۲)مکرمی بھائی عبدالرحمٰن صاحب قادیانی وہ بھی نو مسلم ہیںاور پُرانے صحابی بھی اور ہمارے اکثر دوست ان کے ایمان افروز مضامین اور مکتوبات کی وجہ سے انہیں جانتے ہیں اور (۳)مکرمی دفعدارمحمد عبداللہ صاحب جو کافی عرصہ سے بیمار چلے آتے ہیں۔میں احباب جماعت سے درخواست کرتا ہوں کہ ان تینوں دوستوں کی شفایابی اور صحت کے لئے خصوصیت سے دعا فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍اگست ۱۹۴۸ئ)



قادیان سے عیدالفطر کا ایک گرانقدر عطیہ
روحانیت کے خاص ماحول میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی روحانی آنکھیں بھی تیز کردیتا ہے اور وہ چیزوں کی صحیح قدر و قیمت اور اپنے بھائیوں کے جذبات کا صحیح اندازہ کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اس عید الفطر پر جو چند دن ہوئے گزری ہے مجھے قادیان کے ایک دوست سید محمد شریف صاحب نے عید کا ایک ایسا تحفہ بھیجا ہے جس نے میرے دل وماغ کومعطر کردیا ۔سید صاحب موصوف نے ایک تو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک کا تازہ ترین فوٹو بھیجا ہے ۔جس میں حضور کے مزار مبارک کے کتبے کاایک ایک لفظ پڑھاجاتا ہے۔مزار کے قریب خود سید صاحب موصوف دعا میں ہاتھ اٹھائے کھڑے ہیںاور ساتھ ہی حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کا مزار بھی صاف نظر آرہا ہے۔
دوسر اتحفہ سید صاحب نے پانچ عدد پھولوں کی صورت میں بھجوایا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار کے قریب ترین موتیا کے پودے سے اتار کر بھیجے گئے ہیں۔ اتنے دن گزر جانے اور ان کے خشک ہوجانے کے باوجود ابھی تک ان پھولوں میں بھینی بھینی خوشبو موجود ہے ۔میں ان دونوں تحفوں پر سید صاحب موصوف کا دلی شکریہ ادا کرتاہوں ۔
فجزاہ اﷲ خیراً فی الدنیا والآخرہ
مگر جہاں قادیان کے ان تحفوں نے روحانی خوشی اور مسرت کی لہرپیدا کی وہاں ان کی وجہ سے قادیان کی مخصوص یاد بھی تیز تر ہوگئی اور موتیا کے خشک شدہ پھولوںکی بھینی بھینی خوشبو نے قادیان کے ارض و سما اور قادیان کے لیل ونہار کی زبردست مگردبی ہوئی مہک کو اس طرح اٹھایاکہ دل و دماغ میںتہلکہ برپا ہوگیا اور مزار مسیح کے پھولوں کی خوشی اس دعا پر ختم ہوئی کہ خدا یا جس طرح تو قادیان کایہ چھوٹا ساتازہ تحفہ ہمارے پاس لایا ہے اسی طرح یہ فضل بھی فرما کہ تیری بے حدو حساب قدر ت خودقادیان کو ایک مجسم تحفہ بناکر ہمارے سامنے پیش کردے۔
وما ذالک علی اﷲ بعزیز ولاحول ولاقوۃ الا باﷲ العظیم
‎(مطبوعہ الفضل ۱۷؍اگست ۱۹۴۸ ئ)

صحابی کی تعریف کے متعلق ایک دوست کے چار سوالات
چند دن ہوئے میں نے الفضل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کے متعلق دعا کی تحریک شائع کی تھی اور اپنے اس نوٹ میںضمناً صحابی کے لفظ کی تین تعریفیں بھی درج کی تھیں۔ایک وہ جس میںوسیع دائرے کو ملحوظ رکھا گیا ہے دوسرے وہ جو تنگ دائرے پرمشتمل ہے اور تیسرے ان دونوں کے بین بین کی تعریف اور میںنے لکھاتھاکہ موجودہ حالات میں ہمارے لئے بین بین کی تعریف زیادہ مناسب ہے۔ اپنے اس نوٹ میں، میں نے یہ بھی اشارہ کردیا تھا کہ ان تین تعریفوں پر ہی مصر نہیں بلکہ ان کے علاوہ صحابی کے لفظ کی اور بھی تعریفیں ہوسکتی ہیں اور عملاًکی گئی ہیں۔
میرے اس مضمون پر ایک دوست نے چار سوالات لکھ کر بھیجے ہیں اور مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ان سوالوں کا جواب دوں ،سو میں اپنے علم کے مطابق نہایت اختصار کے ساتھ اس دوست کے سوالوں کے جواب درج ذیل کرتا ہوں۔
(۱) پہلا سوال یہ ہے کہ صحابی کی تعریف میں جویہ الفاظ آتے ہیں کہ ’’رسول کودیکھا ہو یاآپ کاکلام سنا ہو‘‘ ان الفاظ میں’’یا ‘‘ سے کیا مراد ہے ؟ اس کے جواب میںیادرکھنا چاہئے کہ یاکا لفظ اس لئے لکھا گیا ہے تاکہ اس تعریف میں ایسے لوگ بھی شامل ہو سکیں جو مثلاًآنکھوں کی بینائی سے محروم ہوتے ہیںاور رسول کو دیکھ نہیںسکتے مگر اس کاکلام سنتے اور اسکی محبت سے فائدہ اٹھاتے رہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی بعض ایسے مسلمان موجود تھے جنہوں نے بوجہ نابینا ہونے کے آنحضرت ﷺ کو دیکھا نہیںمگر آپ کے کلام کو سنا اور آپ کی صحبت سے مستفید ہوئے۔ مثلا ًعبداللہ بن ام مکتوم ایک نابینا صحابی تھے جن کا ذکر کئی جگہ حدیث اور اسلامی تاریخ میں آتا ہے اورخود قرآن شریف نے بھی سورۃ عبس میں ان کی طرف اشارہ کیا ہے۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابیوں میں حافظ محمد ابراہیم صاحب یا حافظ احمدجان صاحب پشاوری معروف بزرگ گزرے ہیں۔جنہوں نے اپنی جسمانی کمزوری کی وجہ سے آپ کو دیکھا نہیںمگر آپ کا کلام سنا اور عرصہ دراز تک آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا ۔ سو اس وقت کے معنوں کو صحابی کی تعریف میں شامل کرنے کیلئے یا کالفظ لکھنا ضروری تھا۔ دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ایک شخص نابینا تو نہ ہو مگر کسی مجلس میں یاکسی پبلک جلسہ میں وہ ایسے طریق پر شامل ہوا ہو کہ اس نے رسول کاکلام تو سن لیا ہو مگر کسی اوٹ وغیرہ کی وجہ سے یا فاصلہ کی دوری کی وجہ سے رسول کو دیکھ نہ سکا ہو۔اس طبقہ کو شامل کرنے کے لئے بھی اس قسم کے الفاظ صحابی کی تعریف میں داخل کرنے ضروری ہیں کہ ’’ یا آپ کا کلام سنا ہو‘‘اسی طرح بعض اور امکانی صورتیں بھی ہوسکتی ہیں ۔جن کے ذکر کی ضرورت نہیں ۔گویابعض صحابی تو ایسے ہونگے کہ جنہوں نے رسول کو دیکھا بھی ہوگا اور اس کا کلام بھی سناہوگا اور بعض ایسے ہوںگے جنہوں نے رسول کودیکھا تو نہیں ہوگا مگر اس کا کلام سنا ہوگا اور امکانی طور پر بعض ایسے بھی ہوسکتے ہیںجنہوں نے رسول کو دیکھا تو ہوگا مگر اس کا کلام نہیںسنا ہوگا ۔
(۲)دوسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ کیا کلام سننے سے بالمشافہ کلا م سننا مراد ہے یاکہ غائبانہ طور پر رسول کے زمانہ میں اس کا کلام پڑھنا یا اس سے خط و کتابت کے ذریعہ فیض حاصل کرنا بھی کافی ہے۔ اس کے جواب میں یادرکھنا چاہئے کہ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ۔خود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں بھی ایک معروف بزرگ ایسے گزرے ہیںجو آنحضرت ﷺ کے زمانہ میںبھی مسلمان ہوئے مگر انہوں نے نہ تو آنحضرت ﷺ کو دیکھا اور نہ بالمشافہ آپ کا کلام سنا ان کانام اویس قرنی ؓ تھا ۔سو اکثر علماء نے ان کو صحابہ کی تعریف میںشامل کیاہے ۔کیونکہ وہ رسول کے وقت میںاسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے اور رسول کے ساتھ ان کو پیغام و سلام اور غائبانہ استفادہ کا بھی موقع میسر آیا اور مرا ذاتی میلان بھی اسی طرف ہے کہ ایسے لوگ صحابی کی تعریف میں شامل سمجھے جانے چاہئیں ۔کیونکہ وہ صحابی کی تعریف کی روح کو پورا کرتے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی ایسے کئی لوگ گزرے ہیں جو حضور کی تحریری بیعت سے مشرف ہوئے اور حضور کی تصانیف کا حضور کے زمانہ ہی میں مطالعہ کیا اور حضور کی خط و کتابت سے بھی مشرف ہوئے مگر حضور سے ملے نہیں میںا ن بزرگوں کو صحابہ کی تعریف سے خارج کرنے کی جرأت نہیں پاتا ۔گو میں یقینا اسے ایک بھاری محرومی خیال کرتاہوں کہ رسول کے زمانہ کو پاکر اور اس پر ایمان لاکر پھر بھی اس کی زیارت سے محروم رہا جائے۔
(۳) تیسرا سوال یہ کیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص رسول کے ہاتھ پر بیعت کرے لیکن بعد میں اپنی کوتہ بینی یا بد بختی سے مرتد ہوجائے تواس کے متعلق کیاحکم ہے ،سو ظاہر ہے کہ جو شخص ایک درخت کے ساتھ اپنا پیوند جوڑنے کے بعدپھر اس پیوند کو کاٹ دیتا ہے ۔وہ کسی صورت میں اس درخت کی شاخ نہیں سمجھا جاسکتا ۔کیونکہ ر سول کی روح کے ساتھ اس کی روح کا اتصال کٹ چکا ہے۔ گزشتہ علماء نے بھی ایسے لوگوں کو صحابی کی تعریف میں شامل نہیں کیا ۔ کیونکہ خود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ایسے بدبخت موجود تھے کہ جنہوں نے اسلام کے نور سے روشنی حاصل کی اور پھر خود اپنے ہاتھ سے اپنے دلوں کے چراغ کو بجھا کر اپنے لئے اندھیر اپید اکرلیااور ایسے تمام لوگوں کوعلماء اسلام نے صحابہ کی تعریف سے صحیح طور پر خارج کیاہے البتہ بعض اوقات وہ ایک تاریخی واقعہ کے اظہار کے طور پر یہ ضرور ذکر کردیتے ہیں کہ فلاں شخص نے اسلام قبول کیا تھا مگر پھر مرتد ہوکر اسلام سے کٹ گیا ۔یہ اصول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میںبھی چسپاں ہوگا ۔البتہ اگر عبداللہ بن ابی سرح کی طرح کوئی شخص ارتداد کی ٹھوکر کھا کر پھر اسلام کی سعادت حاصل کرلے تو ایسے شخص کو صحابہ کے گروہ میںشامل کرنے میںتامل نہیںہونا چاہئے۔
(۴)چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر کسی نے رسول کے ہاتھ پر بیعت کی اور ا سکی صحبت سے فائدہ اٹھا یا لیکن رسول کی وفات کے بعد وہ خلافت کی بیعت سے منحرف ہوگیا۔ تو اسکے متعلق کیا سمجھا جانا چاہئیے؟ اس کے جواب میں زیادہ محتاط الفاظ تو میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ لیکن ایک اصولی بات ذکر کردیناضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کوئی روحانی تغیر پیدا کرنا چاہتاہے تو اسکی یہ سنت ہے کہ وہ ایک لمبے نظام کی صورت میں اس تغیر کو آہستہ آہستہ وجود میں لاتا ہے،اور ایسا نہیں کرتا کہ ایک شخص کو اپنے پیغام سے مشرف کر کے دنیا میں پید اکرے اور پھر اس کے بعد اس پیغام کی خامیاںبھی کو بال کسی مزید نگرانی اور تنظیم کے کفر و الحاد کے تھپیڑ ے کھانے کے لئے چھوڑدے۔ اگر ایسا ہو تو اس کا یہ مطلب ہوگا کہ سمندر میں ایک پتھر پھینک کر لہر پید ا کی گئی ۔اور پھر اس لہر کے مرنے اورختم ہونے کے لئے یونہی چھوڑ دیا گیا ، یا یہ کہ ایک کسان نے ایک فصل پید ا کرنے کے لئے ایک بیج بویا ،اور پھر بیج بونے کے بعد اس نے اپنے کھیت کو بغیر کسی نگرانی کے چوروں اور ڈاکوئوں اور مویشیوں اور دیگر حادثات کا نشانہ بنادیا ۔ یہ صورت خدائے حکیم کی ازلی سنت اور عقل و خرد کے تمام اصولوں کے خلافہے۔ خد اکی سنت یہی ہے کہ جب وہ دنیا میں کوئی روحانی تغیر پیدا کرناچاہتا ہے تو پھر اس تغیر کے لئے ایک رسول پید اکرتا ہے اور پھر اس رسول کے ہاتھ پر ایک منظم جماعت جمع کرتا ہے اور پھر اس جماعت کو ایک نقطہ پر متحد رکھنے کے لئے اور جماعت سے رسول کی بعثت کی غرض و غایت کے مطابق کام لینے کے لئے خلفا ء کا سلسلہ جاری فرماتا ہے اور یہ سارا سلسلہ اس خدائی تنظیم کا لازمی حصہ ہوتا ہے جو ہر نئے الٰہی پیغام کے وقت قائم کیاجاتاہے۔ پس جو شخص رسول کو تو مان لیتا ہے مگر اس کے بعد الٰہی تنظیم کی باقی کڑیوں سے کٹ جاتا ہے بلکہ ان کی مخالفت کے درپے ہوجاتا ہے وہ ایسا ہی ہے کہ جسے ایک شخص کسی منزل پر پہنچنے کے لئے روانہ ہوا مگر کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد راستہ کو چھوڑکر علیحدہ ہوگیا ،لیکن میں اس اظہار سے بھی رک نہیں سکتا کہ اس قسم کے لوگ بھی دراصل مختلف نوع کے ہوسکتے ہیں بعض تو ایسے ہیں کہ وہ خلافت کے دامن سے صرف کٹتے ہی نہیں بلکہ اسے مٹادینے کے لئے بھی ایڑی چوٹی کا زور لگادیتے ہیں۔لیکن بعض ایسے بھی ہوسکتے ہیںکہ وہ کسی وجہ سے رک کر عملاً علیحدہ ہوجاتے ہیںمگر مخالفت سے اجتناب کرتے ہیں اور بالعموم حسن ظنی کے مقام پر قائم رہتے ہیں۔ غالبا ً خدا کا حق وانصاف کا ترازو ان دونوں قسم کے لوگوں میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور کرے گا۔ بایں ہمہ میں اس جواب کے آخر میں بھی ان الفاظ کے دوہرانے سے رک نہیں سکتا کہ
۹۷
‎(مطبوعہ الفضل ۱۸؍اگست ۱۹۴۸ئ)










ہم لاہور میں کس طرح رہ رہے ہیں؟
رتن باغ اور ملحقہ مکانوں کی آبادی
لاہور میں مشرقی پنجاب کے پناہ گزینوں کی آبادی کا سوال اکثر اُٹھتا رہتاہے۔ اور اس ضمن میں جو مکانات جماعت احمدیہ قادیان نے صدر انجمن احمدیہ کے ذریعہ سے لاہور میں الاٹ کرائے ہیں۔ اُن کا سوال بھی بعض اوقات اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور بعض لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید ہم نے اپنی ضرورت سے زیادہ مکانات الاٹ کروارکھے ہیں۔اس شبہ کے ازالے کے لئے میں نے چند دن ہوئے رتن باغ اور اس کے ملحقہ مکانات کی مردم شماری کرائی تھی ۔اس مردم شماری کا نتیجہ ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔اس وقت صدر انجمن کی وساطت سے چار مکانات جماعت کے نام الاٹ شدہ ہیں۔یعنی (۱)رتن باغ (۲)جودہامل بلڈنگ (۳)جسو نت بلڈنگ اور(۴)سیمنٹ بلڈنگ ۔ان عمارتوں میں حضرت خلیفتہ المسیح امام جماعت احمدیہ اور آپ کے خاندان کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے کارکن اور بہت سے دوسرے احمدی پناہ گزین آبادہیں۔اور صدر انجمن احمدیہ کے دفاتر بھی انہیں عمارتوں میں ہیں۔بہرحال مردم شماری کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
نمبر شمار
نام عمارت
تعداد خاندان
تعداد افراد
کیفیت
(۱)
رتن باغ
۸۲
۳۹۵
(۲)
جودہا مل
۲۲
۱۴۱
(۳)
جسونت بلڈنگ
۲۴
۱۳۹
(۴)
سیمنٹ بلڈنگ
۲۴
۱۲۶

میزان
۱۵۲
۸۰۱
اوپر کے نقشہ سے ظاہر ہے کہ اس وقت سے جو چار عمارتیں بشمول رتن باغ ہمارے قبضہ میں ہیںاُن میں ۱۵۲(ایک سو باون)خاندان آباد ہیں۔اور کل تعداد ۸۰۱(آٹھ سو ایک)ہے۔اور یہ خاندان فرضی نہیںبلکہ ایسے خاندان ہیں جو قادیان میں اپنے علیحدہ علیحدہ مکانات اور مستقل انتظام رہائش رکھتے تھے اور ابھی ان اعداد وشمار میں وہ احمدی مہمان شامل نہیں ہیں جو جماعت احمدیہ کے مرکز میںسے کثرت کے ساتھ آتے رہتے ہیںاور موجودہ حالات میں ان میں سے اکثر کو ٹھہر انے اور جگہ دینے کے لئے ہمارے پاس کوئی انتظام موجود نہیں ہے اور وہ ادھر اُدھر پرائیویٹ گھروں میں ٹھہرکر نہایت تنگی کے ساتھ گزارا کرتے ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جو خاندان ان عمارتوں میں آباد ہیں۔ان میں سے کئی ایسے ہیںجو قادیان میں پانچ پانچ یا دس دس یا بعض صورتوں میں پندرہ پندرہ یا اس سے بھی زیادہ کمروں کے مکانوں میں رہائش رکھتے تھے ۔مگر اب انہیں رتن باغ یا اس کی ملحقہ عمارتوں میں ایک ایک یا دو دوکمروں میں بڑی تنگی کے ساتھ گزارا کرنا پڑتاہے۔
یہ نوٹ اس لئے شائع کیا جارہا ہے کہ کم ازکم وہ لوگ جومحض حالات کی ناواقفیت کی وجہ سے شبہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور اُن کی نیت بخیر ہے،وہ صحیح حالات سے واقف ہو جائیں۔باقی تفصیلی حالات تو صرف خدا جانتا ہے اور وہی ہماری ضرورتوں کو پورا کرنے والا اور ہماری التجائوں کو سننے والا ہے۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱ ؍اگست ۱۹۴۸ئ)




ایک مخلص دوست کے لئے دعا کی تحریک
اس وقت قادیان میں مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل مقامی امیر ہیں۔مولوی صاحب موصوف نہ صرف ذاتی طور پر نہایت مخلص اور سلسلہ کے دیرینہ خادم ہیں بلکہ خاندانی لحاظ سے بھی ایک قدیم مخلص احمدی خاندان سے تعلق رکھتے ہیںاور ان کی زوجہ شیخ حامد علی صاحب مرحوم کی بیٹی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم ترین خدام میں سے تھے۔ مولوی صاحب موصوف کا ایک ہی بچہ (بشارت احمد بی ۔ ایس ۔ سی ) ہے جس نے سلسلہ کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کررکھی ہے لیکن اس وقت تک اس بچہ کے کوئی اولاد نہیں ۔ حالانکہ کئی سال ازدواجی زندگی پر گزر چکے ہیں ۔ میں دوستوں کی خدمت میں تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ وہ مولوی صاحب موصوف کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے بچہ کو صالح اولاد نرینہ عطا فرماوے ۔ اس وقت مولوی صاحب ہر لحاظ سے ہماری خاص دعائوں کے مستحق ہیں ۔ وَمَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اﷲ ۔
‎(مطبوعہ الفضل ۲۱؍ اگست ۱۹۴۸ء )



ڈاکٹر میجر محمود احمدکی شہادت
ایک مخلص اور بے نفس نو جوان ہم سے جدا ہوا
دوستوں کو اخبار الفضل کے ذریعہ ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب کی شہادت کی خبر مل چکی ہے۔چونکہ مرحوم میجر محمود میرے صیغہ کے انتظام کے ماتحت گزشتہ ایام میں قادیان بھی گئے تھے،اس لئے میںضروری سمجھتا ہوں کہ ان کے متعلق دعا کی تحریک کی غرض سے یہ مختصر نوٹ الفضل میں شائع کرائوں۔
مرحوم ڈاکٹر میجر محمود احمد صاحب امرتسر کی مشہور اور قدیم مخلص قاضی فیملی کے ایک بہت ہی ہونہار اور احمدیت کے فدائی نوجوان تھے۔ان کے دادا ڈاکٹر قاضی کرم الہٰی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت کی نعمت سے مشرف ہوئے ۔ اور پھر آج تک یہ خاندان اپنے اخلاص میں ممتاز چلا آیا ہے۔گزشتہ فسادات کے دنوں میں ڈاکٹر میجر محمود احمد نے اپنی ترقی کرتی ہوئی کوئٹہ کی پریکٹس کوخطرے میں ڈال کر قادیان کی خدمت کے لئے اپنا نام پیش کیا ۔اور جب اوائل اکتوبر ۴۷ء میں ایک کانوائے قادیان گیاتو اس میں میرے لڑکے عزیز مرزا منیر احمد کے ساتھ مرحوم میجر محمود بھی شامل تھے۔مگر ان ایام میں چونکہ قادیان کی احمدی آبادی پر بڑا حملہ ہونے والا تھا ۔اس لئے اس کانوائے کو غلط بہانہ رکھ کر بٹالہ میں روک لیا گیا ۔ اور نہ صرف روکا گیا بلکہ اسے بٹالہ میں بے پناہ گولیوںاور آتش زنی کا نشانہ بنایا گیااورمرحوم محمود احمد بٹالہ سے لاہور واپس آنے پر مجبور ہو گئے۔چنانچہ انہوںنے حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت دوسرے کانوائے کی انتظار میں رتن باغ کے کیمپ میں احمدی پناہ گزینوں کی خدمت اپنے ذمہ لی اور نہایت اخلاص اور محبت کے ساتھ اس فرض کو سرانجام دیا۔اس کے بعد جب اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں دوسرا کانوائے قادیان گیا تو مرحوم میجر محمود احمد کو بھی قادیان جانے کا موقع میسر آگیا ۔تو مرحوم نے اپنے والدین کو خطرات کے پیشِ نظر ان الفاظ میں اپنے سفر کی اطلاع دی کہ میںسلسلہ کی خدمت کی غرض سے قادیان جارہا ہوںاور اپنے پیچھے آپ کی تسلی کے لئے اپنے اکلوتے اور چھوٹے بچے کو چھوڑے جارہا ہوں۔ اگر میں زندہ نہ لو ٹوں توآپ صبر سے کام لیںاور خدا کے شکر گزار رہیں۔
چنانچہ ڈاکٹر میجر محمود احمد قادیان گئے اور کم وبیش تین ماہ تک قادیان میں رہ کر نہایت اخلاص اور محبت اور خاموشی کے ساتھ بیمار درویشوں کی خدمت سر انجام دی اور یہ ان کی مخلصانہ خدمات کا نتیجہ ت