• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 2

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
ملفوظات ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔ جلد 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہٗ و نصلِّی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود

ملفوظات
حضرت مسیح موعود علیہ السلام
۳ ؍ نومبر۱۹۰۱ء
فرمایاـ:’’ ایک ضروری اورغور طلب سوال ہے جس کو کل دنیا کی قوموں اور سب مذہبوں نے اپنی اپنی جگہ پر محسوس کیا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ انسان کیوںکر بچ سکتا ہے؟ یہ سوال حقیقت میں ہر انسان کے اندر سے پیدا ہوتا ہے جب کہ وہ دیکھتا ہے کہ کس طرح نفس بے قابو ہو جاتا ہے اور مختلف قسم کے خیالات فاسدہ بدکاری کے آ آ کر اس کو گھیر لیتے ہیں۔ ان گناہوں سے بچنے کے واسطے ہر قوم نے کوئی نہ کوئی ذریعہ قرار دیا ہے اور کوئی حیلہ نکالا ہے۔ عیسائیوں نے اس عام ضرورت اور سوال سے فائدہ اٹھا کر ایک حیلہ پیش کیا ہے کہ مسیح کا خون نجات ہے۔
سب سے اول یہ دیکھنا ضروری ہے کہ نجات ہے کیا چیز؟ نجات کی حقیقت تو یہی ہے کہ انسان گناہوں سے بچ جاوے اور فاسقانہ خیالات آ آ کر دل کو سیاہ کرتے ہیں۔ان کا سلسلہ بند ہو کر سچی پاکیزگی پیدا ہو۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائیوں نے گناہ سے بچنے کی ضرورت کو محسوس کیا اور اس سے فائدہ اٹھا کر نجات طلب لوگوں کے سامنے یہ پیش کر دیا کہ مسیح کا خون ہی ہے جو گناہوں سے بچا سکتا ہے۔
مگر ہم کہتے ہیں کہ اگر مسیح کا خون یا کفارہ انسان کو گناہوں سے بچا سکتا ہے تو سب سے پہلے ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کفارہ میں اور گناہوں سے بچنے میں کوئی رشتہ بھی ہے یا نہیں ؟ جب ہم غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں میں باہم کوئی رشتہ اور تعلق نہیں مثلاً اگر ایک مریض کسی طبیب کے پاس آوے تو طبیب اس کا علاج کرنے کے بجائے اسے یہ کہدے تو میری کتاب کا جز لکھ دے تیرا علاج یہی ہے تو کون عقلمند اس علاج کو قبول کرے گا۔ پس مسیح کے خون اور گناہ کے علاج میں اگر یہی رشتہ نہیں ہے تو اور کونسا رشتہ ہے، یا یوں کہو کہ ایک شخص کے سر میں درد ہوتا ہو اور دوسرا آدمی اس پر رحم کھا کر اپنے سر پر پتھر مار لے اور اس کے درد سر کا اسے علاج تجویز کر لے۔یہ کیسی ہنسی کی بات ہے پس ہمیں کوئی بتا دے کہ عیسائیوں نے ہمارے سامنے کیا پیش کیا کیا ہے ۔جو کچھ وہ پیش کرتے ہیں وہ تو ایک قابل شرم بناوٹ ہے گناہوں کا علاج کیا؟ یسوع کی خود کشی میں جس گناہوں سے پاک ہونے کے واسطے کوئی حقیقی رشتہ بھی نہیں۔ہم بارہا حیران ہوتے ہیں کہ حصرت مسیح کو یہ سوجھی کیا؟ جو دوسروں کو نجات دلانے کے لئے آپ صلیب اختیار کی اگر وہ اس صلیب کی موت سے ( جو *** تک لے جاتی ہے اور عیسائیوں کے قول اور اعتقاد کے موافق کفارے کے لئے *** ہوجانا ضروری ہے کیونکہ وہ گناہوں کی سزا ہے) اپنے آپ کو بچاتے اور کسی معقول طریق پر بنی نوع کو فائدہ پہنچاتے تو وہ اس خود کشی سے بدرجہا بہتر اور مفید ہ ہوتا۔
غرض کفارہ کے ابطال پر یہ زبردست دلیل ہے اور کفارہ میں باہم کوئی رشتہ نہیں۔پھر دوسری دلیل اس کے باطل ہونے پر یہ ہے کہ کفارہ نے اس فطری خواہش کہ گناہوں سے انسان بچ جاوے کہاں تک پورا کیا ہے اس کا جواب صاف ہے کہ کچھ بھی نہیں چونکہ تعلق کوئی نہ تھا اس لئے کفارہ گناہوں کے اس جوش او رسیلاب کو روک نہ سکا اگر کفارہ میں گناہوں سے بچانے کی کوئی تاثیر ہوتی تو ، تو یورپ کے مرد و عورت گناہوں سے ضرور بچے رہتے ہر قسم کے گناہ یورپ کے خواص و عوام میں پائے جاتے ہیں اگر کسی کو شک ہو تو وہ لندن کے پارکوں اور پیرس کے ہوٹلوں میں جا کر دیکھ لے کیا ہوتا ہے زنا کی کثرت خوف دلاتی ہے کہ کہیں زنا کے جواز کا ہی فتوی نہ ہو جاوے گو عملی طور پر تو نظر آتا ہے کہ ۔ شراب کا استعمال اس قدر کثرت سے بڑھتا جاتا ہے کہ کچھ روز ہوئے ایک عورت نے کسی ہوٹل میں پینے کو پانی مانگا تو انہوں نے کہا کہ پانی تو برتن دھونے یا نہانے وغیرہ کے کام آتا ہے پینے کے لئے تو شراب ہی ہوتی ہے پس اب غور کر کے دیکھو کہ گناہ کے سیلاب کو روکنے کے واسطے خون مسیح کا بندتو کافی نہیں ہوا بلکہ اپنی رو میں اس نے پہلے بندوں کو بھی توڑ دیا اور پوری آزادی اور اباحت کے قریب پہنچا دیا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کفارہ تو بیشک گناہوں سے بچا نہیں سکتا مگر کیا کوئی اور طریق ہے ہے بھی جس سے انسان گناہوں سے بچ جاوے ؟ میں کہتا ہوں کہ ہاںعلاج ہے اور ضرور ہے اور وہ علاج یقینی علاج ہے مگر جیسے سچی باتوں کے ساتھ مشکلات ہوتی ہیں ویسے ہی یہ علاج بھی مشکلات سے خالی نہیں۔ یہ یاد رکھو کہ جھوٹ کے ساتھ مشکلات نہیں ہوتی ہیں، مثلاً ایک کیمیا گر جو یہ کہتا ہے کہ میں ایک دم ایک ہزار کا دو ہزار بنا دیتا ہوں وہ مشکلات اس فعل کے لئے نہیں رکھتا لیکن ایک زمیندار کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوتا ہے یا ایک تاجر کو اپنے مال کو کس طرح خطرہ میں ڈالنا پڑتا ہے ایسا ہی ایک ملازم قسم قسم کی پابندیوں اور ماتحتیوں کے نیچے آ کر کن مشکلات میں ہے پس تم سہل باتوں سے ڈرو جو پھونک مار کر سب کچھ ہٹا دینا چاہتے ہیں وہ خطرنا ک عیار ہیں۔
میرا مطلب ہے کہ عیسائیوں کا گناہ کا علاج تو بجز اباحت کے کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا۔عیسائی باش ہر چہ خواہی کن۔ اور یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ کے اعتقاد کی وجہ سے دہریت کی رگ پیدا ہو جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ انسان گناہ پر دلیر ہو جاتا ہے اور جس قدر سم الفار کی مہلک تاثیر کی ہیبت اس کو کھانے سے باز رکھتی ہے اس کی قدر بھی خدا کی ہیبت اس کو نافرمانی سے نہیں روکتی۔اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ خدا کی عظمت ، اس کی ہیبت ، جلال اور اقتدار سے بے خبر ہے تب ہی تو نافرمانی اور سرکشی کو ایک معمولی بات سمجھتا ہے اور گناہ پر دلیر ہو جاتا ہیا ور نہیں ڈرتا ادنی درجہ کے حکام اور ان کی چپراسیوں تک کی نافرمانی سے اس کی جان گھٹ جاتی ہے، مگر خدا کی نافرمانی سے اس کے دل پر لرزہ نہیں پڑتا کیونکہ خدا شناسی کی معرفت اسے نہیں ملے گی۔
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ گناہ کا علاج جو ہم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔سوا اس کے دوسرا علاج نہیں ہے اور وہ یہی ہے کہ خدا کی معرفت لوگوں کو حاصل ہو ۔
تمام سعادت مندیوں کا مدار خدا شناسی پر ہے اور نفسانی جذبات اور شیطانی محرکات سے روکنے والی صرف ایک ہی چیز ہے جو خدا کی معرفت کاملہ کہلاتی ہے جس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا ہے۔ وہ بڑا قادر ہے وہ ذوالعذاب الشدید ہے یہی ایک نسخہ ہے جو انسان کی متمردانہ زندگی پر ایک بھسم کرنیو الی بجلی گراتا ہے پس جب تک انسان آمنت باللہ کی حدود سے نکل کر عرفت اللہ کی منزل پر قدم نہیں رکھتا اس کا گناہوں سے بچنا محال ہے اور یہ بات کہ ہم خدا کی معرفت اور اس کی صفات پریقین لانے سے گناہوں سے کیونکر بچ جائیں گے ایک ایسی صداقت ہے جس کو ہم جھٹلا نہیں سکتے۔ ہمارا روزانہ کا تجربہ اس امر کی دلیل ہے کہ جس سے انسان سے ڈرتا ہے اس کے نزدیک نہیں جاتا مثلاً جب یہ علم ہو کہ سانپ ڈس لیتا ہے اور اس کا ڈسا ہوا ہلاک ہو جاتا ہے تو کون دانش مند ہے جو اس کے منہ میں اپنا ہاتھ دینا تو درکنار کبھی ایسے سوٹے کے نزدیک جانا بھی پسندکرے جس سے کوئی زہریلا سانپ مارا گیا ہو ۔ اسے خیال ہوتا ہے کہ کہیں اس کے زہر کا اثر اس میں باقی نہ ہو اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ فلاں جنگل میں شیر ہے تو ممکن نہیں کہ وہ اس میں سفر کر سکے یا کم ازکم تنہا جا سکے بچوں تک میں یہ مادہ اور شعور موجود ہے کہ جس چیز کے خطرناک ہونے کا ان کو یقین دلایا گیا ہے وہ اس سے ڈرتے ہیں۔پس جب تک انسان میں خدا کی معرفت اور گناہوں کے زہر ہونے کا یقین پیدا نہ ہو،کوئی اور طریق خوا کسی کی خودکشی ہو یا قربانی کا خون نجات نہیں دے سکتا اور گناہ کی زندگی پر موت وارد نہیں کر سکتا یقینا یاد رکھو کہ گناہوں کا سیلاب اور نفسانی جذبا کا دریا بجز اس کے رک ہی نہیں سکتا کہ ایک چمکتا ہوا یقین اس کو حاصل ہو کہ خدا ہے اور اس کی تلوار ہے جو ہر ایک نافرمان پر بجلی کی طرح گرتی ہے۔ جب تک یہ پیدا نہ ہو گناہ سے بچ نہیں سکتا اگر کوئی کہے کہ ہم خدا پر ایمان لاتے ہیں اورا س بات پر بھی ایمان لاتے ہیںکہ و ہ نافرمانوں کو سزا دیتا ہے مگر گناہ ہم سے دور نہیں ہوتے۔ میں جواب میں یہی کہوں گا کہ یہ جھوٹ ہے نفس کا مغالطہ ہے سچے ایمان اور سچے یقین اور گناہ میں باہم عداوت سے جہاں سچی معرفت اور چمکتا ہوا یقین خدا پر ہو وہاں ممکن نہیں گناہ رہے۔
انسانی فطرت میں یہ خاصہ موجود ہے کہ سچی معرفت نقصان سے بچا لیتی ہے جیسا کہ سانپ یا شیر یا زہر کی مثال سے بتایا گیا ہے پھر یہ بات کیوں کر درست ہو سکتی ہے کہ ایمان بھی ہو اور گناہ بھی دور نہ ہو۔ میں دیکھتا ہوں کہ ان فری میسنوں میں محض رعب کا سلسلہ ان کے اسرار کے اظہار سے روکتا ہے اور کچھ نہیں۔پھر خدا کی عظمت و جبروت پر ایمان گناہ سے نہیں بچا سکتا ؟بجا سکتا ہے اور اور ضرور بچا سکتا ہے ۔
پس گناہ سے بچنے کے لئے حقیقی راہ خدا کی تجلیات ہیں اورا س آنکھ کو پیدا کرنا شرط ہے جو خدا کی عظمت کو دیکھ لے اورا س یقین کی ضرورت ہے جو گناہ کے زہر پر پیدا ہو۔زمین سے تاریکی پیدا ہوتی ہے اور آسمان اس تاریکی کو دور کرتا ہے اور ایک روشنی عطا کرتا ہے زمینی آنکھ بے نور ہوتی ہے جب تک آسمانی روشنی کا طلوع اور ظہور نہ ہو اس لئے جب تک آسمانی نور جو نشانات کے رنگ میں ملتا ہے کسی دل کو تاریکی سے نجات نہ دے انسان اس پاکیزگی کو کب پا سکتا ہے جو گناہ سے بچنے میں ملتی ہے پس گناہوں سے بچنے کے لئے اس نور کی تلاش کرنی چاہئے جو یقین کی روشنی کے ساتھ آسمان سے اترتا ہے اور ایک ہمت ، قوت عطا کرتا ہے اور تمام قسم کے گردو غبار سے دل کو پاک کرتا ہے اسا وقت انسان گناہ کے زہر ناک اثرکو شناخت کر لیتا اورا س سے دور بھاگتا ہے جب تک یہ حاصل نہیں گناہوں سے بچنا محال ہے یہ طریق ہے جو ہم پیش کرتے ہیں اس پر اگر کوئی اعتراض ہو سکتا ہے تو بے شک ہر شخص کو اجازت دیتے ہیںکہ وہ ہمارے سامنے اس اعتراض کو پیش کرے تا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ کسی عیسائی کے سامنے اس اصل کو بیان کرے اور پھر اس کا کوئی اعتراض سن کر شرمندہ ہو۔ جو اعتراض اس پر ہو سکتا ہوبے شک کیا جاوے۔‘‘
فرمایا:’’بے شک یہ بات ہے جو کو میں خود بھی بیان کرنا چاہتا تھا ۔ یہ بات کہ ایسا یقین کیونکر پیدا ہو؟ اس کے لئے اتنا ہی کہنا چاہتے ہیں کہ ایسے یقین کے خواہش مند کے لئے ضروری ہے کہ وہ’’
کونوا مع الصادقین(التوبۃ: ۱۱۹)
سے حصہ لے ۔ صادق سے صرف یہی مراد نہیںکہ انسان زبان سے جھوٹ نہ بولے یہ بات تو بہت سے ہندؤوں اور ردہریوں میں بھی ہو سکتی ہے بلکہ صادق سے مراد وہ شخص ہے جس کی ہر بات صداقت اور راستی ہونے کے علاوہ اس کے ہر حرکات وسکنات و قول سب صدق سے بھرے ہوئے ہوں گویا یہ کہو کہ اس کاوجود ہی صدق ہو گیا ہو اور اس کے اس صدق پر بہت سے تائیدی نشان اور آسمانی خوارق گواہ ہوں چونکہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے اس لئے جو شخص ایسے آدمی کے پاس جو حرکات و سکنات ، افعال و اقوال میں خدائی کا نمونہ اپنے اندر رکھتا ہے صحتِ نیت اور پاک ارادہ اور مستقیم جستجو سے ایک مدت تک رہے گا تو یقین کامل ہے کوہ اگر دہریہ بھی ہو تو آخر خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان لے آئے گا کیونکہ کہ صادق کا وجود خدانما وجود ہوتا ہے ۔
انسان اصل میں اُنْسَان سے ہے جو یعنی دو محبتوں کو مجموعہ ہے ایک انس وہ خدا سے کرتا ہے اور دوسرا انس انسان سے۔چونکہ انسان کو تو اپنے قریب پاتا ہے اور دیکھتا ہے اور اپنی بنی نوع کی وجہ سے اس سے جھٹ پٹ متاثر ہو جاتا ہے اس لئے کامل انسان کی صحبت اور صادق کی معیت اسے وہ نور عطا کرتی ہے جس سے وہ خدا کو دیکھ لیتا ہے اور گناہوں سے بچ جاتا ہے۔
انسان کے دراصل دو وجود ہوتے ہیں ایک وجود تو وہ ہے جو ماں کے پیٹ میں تیار ہوتا ہے اور جسے ہم تم سب دیکھتے ہیں، جسے لے کر وہ باہر آجاتا ہے اور یہ وجود بلاکسی فرق کے سب کوملتا ہے ،لیکن ایک اور وجود بھی انسان کو دیا جاتا ہے جو صادق کی صحبت میں تیار ہوتا ہے یہ وجود بظاہر ایسا نہیں ہوتا کہ ہم اسے چھو کر یا ٹٹول کر دیکھ لیں مگر وہ ایسا وجود ہوتا ہے کہ اس وجود پر ایک قسم کی موت وارد ہو جاتی ہے وہ خیالات ،وہ افعال اور حرکات جو اس سے پہلے صادر ہوتے تھے یا دل میں گزرتے تھے یہ ان سے بالکل الگ ہو جاتا ہے اور شبہات سے جو اس کے دل کو تاریک کئے رہتے تھے ان سے اس کو نجات مل جاتی ہے او ریہی وجود حقیقی نجات ہوتی ہے جو سچی پاکیزگی کے بعد ملتا ہے۔کیونکہ جب تک شبہات سے نجات نہیں اس کو تاریکی سے نجات نہیں اور سچی اس کو میسر نہیں ۔اور وہ خدا کو دیکھ نہیں سکتا اس کی عظمت و ہیبت کا اس کے دل پر اثر نہیں ہو سکتا اور سچ تو یہ ہے کہ وہ خدا کو دیکھ نہیں سکتا اور جو شخص اس دنیا میں خدا کے دیکھنے سے بے نصیب ہے وہ قیامت کو بھی محروم ہی ہو گا جیسے کہ خدا نے خود فرمایا ہے:
من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الآخرۃ اعمی( بنی اسرائیل:۷۳)
اس یہ یہ مراد تونہیں ہو سکتی کہ جواس دنیا میں اندھے ہیں وہ قیامت کو بھی اندھے ہوں گے بلکہ اس کا مفہوم یہی ہے کہ خدا کو ڈھونڈنے والوں کے دل نشانات سے ایسے منور کئے جاتے ہیں کہ وہ خدا کو دیکھ لیتے ہیں اور اس کی عظمت و جبروت کا مشاہدہ کر تے ہیں یہاں تک کہ دنیا کی ساری عظمتیں اور بزرگیاں ان کی نگاہ میں ہیچ ہو جاتی ہے او راگر خدا کو دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس سے اس دنیا میں اس کو حصہ نہیں ملا توا س دوسرے عالم میں بھی نہیں دیکھ سکے گا۔
پس اللہ تعالیٰ کو جیسا کہ وہ ہے کسی غلطی کے بدوں شناخت کرنا اوراسی دنیا میں سچے اور صحیح طور پر اس کی ذات وصفات کی معرفت حاصل کرنا ہی تمام روشنیوں اور تجلیات کی کلید ہے اسی سے وہ آگ پیدا ہوتی ہے جو پہلے انسان کی گنہ گار حالت پر موت وارد کر تی ہے اوراس کو جلا دیتی ہے اور پھر اس کو وہ نور عطا کرتی ہے جو جس سے وہ گناہ کو شناخت کرتا اور اس کی زہر پر اطلاع پاکر اس سے ڈرتا اور دور بھاگتا ہے پس یہی وہ دوقسم کی آگ ہے جو ایک طرف گناہ کو جلاتی ہے اور دوسری طرف نیکیوں کی قدرت عطا کرتی ہے اور کا نام جلال او ر جمال کی آگ ہے کیونکہ گناہ سے تو جلالی رنگ اورہیبت ہی سے بچ سکتا ہے جب یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ اس گناہ کی سزا میںہے اور مالک یوم الدین ہے تو انسان پر ایک ہیبت طاری ہو جائے گی جو اس کو گناہ سے بچا لے گی اور جمال نیکیوں کی طرف جذب کرتا ہے جب کہ یہ معلوم ہوجائے کہ خدا تعالیٰ رب العالمین ہے رحمن ہے رحیم ہے تو بے اختیار ہو کر دل اس کی طرف کھینچا جائے گا اور ایک سرور او رلذت کے ساتھ نیکیوں کا صدور ہونے لگے گا ۔جیسے چاندی یا سونے کے صاف کرنے کے واسطے ضروری ہے کہ اسے کٹھالی میں ڈال کر خوب آگ روشن کی جاوے۔اس سے کا وہ سارا میل کچیل جو ملا ہوا ہوتا ہے فی الفور الگ ہو جاتا ہے اور پھر اسکو عمدہ اور خوبصورت زیور کی شکل میں لانے کے واسطے جو کسی حسین کے لئے بنایا جائے اس بات کی ضرورت ہے پھر آگ دے کر اسے مفید مطلب بنایا جائے۔
جب تک وہ ان دونوں آگوں کے بیچ میں رکھا نہ جاوے وہ خوبصورت اور درخشاں زیور کی شکل اختیار نہیں کر سکتا ۔ اسی طرح انسان جب تک جلالی اور جمالی آگ میں نہ ڈالا جائے وہ گناہ سوز فطرت لے کر نیک بننے کے قابل نہیں ہوتا۔
اس لئے پہلے گناہ جلایا جاتا ہے اور پھر جمالی آگ سے نیکی کی قوت عطا ہوتی ہے اورپھر فطرت میں ایک روشنی اور چمک آتی ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز بنا کر نیکی کی طرف جذب کرتی ہے ۔ اس وقت نیک پیدائش ملتی ہے۔سورۃ الدہر میں اس پیدائش کی حالت کا بیان کافوری اور زنجبیلی شربت کی مثال سے دیا ہے چنانچہ پہلے فرمایا
ان الأبراریشربون من کأ س کان مزاجہا کافورا(الدہر:۶)
یعنی مومن جو خدا کے نیک بندے ہیں وہ کافوری پیالے پیتے ہیں کافور کا لفظ اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ کفرا ڈھانکنے کو کہتے ہیں ۔ اور کافور مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت ڈھانکنے والا ۔ایسے ہی طاعون بھی ہے ۔میں سمجھتا ہوں طاعون اس لئے نام رکھا ہے کہ یہ اہل حق پر طعن کرنے سے پیدا ہوتی ہے اور طاعون اور دیگر امراض وبائی ہیضہ میں کافور ایک عمدہ چیز ہے اور مفید ثابت ہوئی ہے غرض کافوری پیالے کا پہلے ذکر کیا ہے اور یہ اس لئے ہے کہ اول یہ بتایا جائے کہ کامل ہونے کے لئے کافوری پیالہ پہلے پینا چاہئے تاکہ دنیا کی محبت سرد ہو جائے اور وہ فسق و فجور کے خیالات جودل سے پیدا ہوتے تھے اور جن کی زہر روح کو ہلاک کرتی تھی دبائے جائیں اور اس طرح پر گناہ کی حالت سے انسان نکل آئے پس چونکہ پہلے میل کچیل کا دور ہونا ضروری تھا اس لئے کافوری پیالہ پلایا گیا۔ اس کے بعد دوسرا حصہ زنجبیلی ہے۔
زنجبیل اصل میں دو لفظوںسے مرکب ہے زنا اور جبل سے۔اور زنا لغت عرب میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو ۔اور مرکب لفظ کے معنی یہ ہو ئے کہ پہاڑ پر چڑھ گیا اور یہ صاف بات ہے کہ ایک زہریلے اور وبائی مرض کے بعد انسان کو اعلی درجہ کی صحت تک پہنچنے کے واسطے دو حالتوں میں سے گزرنا ہوتا ہے پہلی حالت وہ ہوتی ہے جب کہ زہریلے اور خطرناک مادے رک جاتے ہیں اور ان میں اصلاح کی صورت پیدا ہوتی ہے اور زہریلے حملوں سے نجات ملتی ہے اور وہ مواد دبائے جاتے ہیں مگر اعضاء بدستور کمزور ہوتے ہیں اور ان میں کوئی قوت اور سکت نہیں ہوتی جس سے وہ کام کرنے کے قابل ہو ایک ربودگی کی سی حالت ہوتی ہے یہ وہ حالت ہوتی ہے کو جس کو کافوری پیالے پینے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اس حالت میں گناہ کا زہر دبایا جاتا ہے اور اس جوش کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے جو نفس کی سرکشی اور جوش کی حالت میں ہوتا ہے مگر ابھی نیکی کرنے کی قوت نہیں آتی۔
پس دوسری حالت جو زنجبیلی حالت ہے وہ وہی ہے جب کہ صحت کامل کے بعد توانائی اور طاقت آ جائے یہاں تک کہ پہاڑوں پر بھی چڑھ سکے۔اورزنجبیل بجائے خود حرارت غریزی کو بڑھاتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس ذکر سے بتایا کہ پہلے مومنوں کے گناہوں کی حالت پر موت آتی ہے اور پھر انہیں نیکی کی توفیق اور قوت ملتی ہے ۔ لیکن جب گناہوں پر موت آتی ہے تو وہ اس پستی کے گڑھے میں ہی پڑا ہوا ہوتا ہے جب تک اوپر چڑھنے کے لئے اسے زنجبیلی شربت نہ ملے پس نیکیوں کی توفیق عطا ہونے پر وہ پھر اوپر چڑھنا شروع کرتا ہے کہ اور یہ پہاڑی گھاٹیاں وہی ہیں جو صراط الذین انعمت علیہم ( الفاتحہ:۷ ) میں بیان ہوئی ہیں۔خداتعالیٰ راست بازوں اور منعم علیہم کی راہہی وہ اصل مقصود ہے جوا نسان کے لئے خدا تعالیٰ نے رکھی ہے۔
چونکہ خدا تعالیٰ واحد ہے اور وحدت کو پیار کرتا اس لئے سب کام وحدت کے ذریعہ کرتا ہے ۔وہ اگر چاہتا تو سب کو نبی بنا دیاتا مگر یہ امر وحدت کے خلاف تھا اس لئیے ایسا نہیں کیا تام ہم اس میں بخل بھی نہیں ہے ہر ایک شخص جو اس راہ کو اختیار کرنے کے ل ئے سچا مجاہدہ کرتا ہے وہ اس کا لطف اور ذوق اٹھا لیتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ امت میں ابدال ہوتے ہیں جن فطرت کو بدلا دیا جاتا ہے اور یہ تبدیلی اتباع سنت نبوی اور دعائوں سے ملتی ہے ۔
فرمایا:’’ یہ ان لوگوں کی غلطی ہے ۔گناہ کی تعریف میں انہوں نے دھوکا کھایا ہے گناہ اصل میں جناح سے لیا گیا ہے اور ج کا تبادلہ گ سے کیا گیا ہے جیسے فارسی والے کر لیتے ہیں اور جناح عمدا کسی کی طرف میل کرنے کو کہتے ہیں پس گناہ ہے یہ مراد ہے کہ عمدا بدی کی طرف میل کی جاوے پس میں ہرگز نہیں مان سکتا کہ انبیاء علیہم السلام سے یہ حرکت سرزد ہو اور قرآن شریف میں اس کا ذکر بھی نہیں۔انبیاء علیہم السلام سے گناہ کا صدور اس لئے ناممکن ہے کہ عارفانہ حالت کے انتہائی مقام پر وہ ہوتے ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ عارف بدی کی طرف میل کرے۔‘‘
فرمایا:’’عصی سے تو عمد نہیں پایا جاتا کیونکہ دوسری جگہ خود خدا تعالیٰ فرماتا ہے
فنسی و لم یجد لہ عزما(طٰہٰٰ:۱۱۶)
عصی سے یاد آیا میرا ایک فقرہ ہے العصا علاج من عصی اس سے معلوم ہوتا کہ جلالی تجلیات سے انسان گناہ سے بچ سکتا ہے۔‘‘۱؎
۱۸؍نومبر ۱۹۰۱ء؁ بوقت سیر صبح ساڑھے آٹھ بجے
مسٹر ڈکسن سیاح کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
حضرت اقدس :’’ ہماری دلی آرزو یہی ہے کہ آپ چند روز ہمارے پاس ٹھہریں ، تاکہ میں اسلام کی وہ روحانی فلاسفی جو اس زمانہ میں مخفی تھی اور جو خدا نے مجھے عطا کی ہے آپ کو سمجھائوں۔‘‘
مسٹر ڈکسن:’’میں آپ کا از بس ممنوں ہوں، مگر مجھے آج جانا ہی چاہئے میں نے کچھ کچھ سن لیا ہے۔‘‘
حضرت اقدس:’’ چونکہ آپ کو چلے جانا ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ کچھ تو اپنے مقصد کو بیان کر دوں۔‘‘
انبیاء علیہم السلام کی دنیا میں آنیکی سب سے بڑی غرض اور ان کی تعلیم اور تبلیغ کا عظیم الشان مقصد یہ ہوتا ہے کہ کہ لوگ خدا تعالیٰ کو شناخت کریں اور اس زندگی سے جوانہیں جہنم اور ہلاکت کی طرف لے جاتی اور جس کو گناہ آلود زندگی کہتے ہیں، نجات پائیں، حقیقت میں یہی بڑا بھاری مقصد ان کے آگے ہوتا ہے پس اس وقت بھی جو خدا تعالیٰ نے ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور اس نے مجھے مبعوث فرمایا ہے تو میرے قریب آنے کی غرض بھی وہی مشترک غرض ہے جو سب نبیوں کی تھی یعنی میں بتاناچاہتاہوں کہ خدا کیا ہے؟ بلکہ دکھانا چاہتا ہوں ،اور گناہ سے بچنے کی راہ کی طرف رہ بری کرتا ہوں۔ دنیا میں لوگوں نے جسقدر طریقے اور حیلے گناہ سے بچنے کے لئے نکالے ہیں اور خدا کی شنا{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }{ XE "اللہ:" }خت کے جو اصول تجویز کئے ہیں۔وہ انسانی خیالات ہونے کی وجہ سے بالکل غلط ہیں اور محض خیالی باتیں ہیں جن میں سچائی کی کوئی روح نہیں ہے میں ابھی بتائوں گا اور دلائل سے واضح کروں گا کہ گناہوں سے بچنے کا صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ ہے کہ اس بات پر کامل یقین انسان کو ہو جاوے کہ خدا ہے اور وہ جزا سزا دیتا ہے جب تک اس اصول پر یقین کامل نہ ہو گناہ کی زندگی پر موت وارد نہیں ہو سکتی دراصل خدا ہے اور ہونا چاہئے یہ دو لفظ ہیں جن میں بڑے غور اور فکر کی ضرورت ہے۔
پہلی بات کہ خدا ہے ، یہ علم الیقین بلکہ حق الیقین کی تہہ سے نکلتی ہے اور دسری بات قیاسی اور ظنی ہے مثلاً ایک شخص جو فلاسفر اور حکیم ہو وہ صرف نظام شمسی اور دیگر اجرام اور مصنوعات پر نظر کر کے صرف اتنا ہی کہہ دے کہ اس ترتیب محکم سے اور ابلغ نظام کو دیکھ کر میں کہتا ہوں کہ ایک مدبر اور حکیم و علیم و صانع کی ضرورت ہے تو اس سے یقین کے اس درجہ پر ہرگز نہیں پہنچ سکتا جو ایک شخص خود اللہ تعالیٰ سے ہم کلام ہو کر اور اس کی تائیدات کے چمکتے ہوئے نشان اپنے ساتھ رکھ کر کہتا ہے کہ واقعی ایک قادر مطلق خدا ہے وہ معرفت اور بصیرت کی آنکھ سے اسے دیکھتا ہے اور ا ن دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایک حکیم یا فلاسفر جو صرف قیاسی طور پر خدا کے وجود کا قائل ہے سچی پاکیزگی اور خدا ترسی کے کمال کو حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ یہ ظاہر بات ہے کہ نری ضرورت کا علم کبھی بھی اپنے اندر وہ قوت اور طاقت نہیں رکھتا جو الہی رعب پیدا کر کے اسے گناہ کی طرف دوڑنے سے بچا لے اور تاریکی سے نجات دے جو گناہ سے پیدا ہوتی ہے مگر جو براہ راست خدا کا جلال آسمان سے مشاہدہ کرتا ہے وہ نیک کاموں اور وفاداری اور اخلاص کے لئے اس جلال کے ساتھ ہی اکی قوت اور روشنی پاتا ہے جو اسے بدیوں سے بچا لیتی اور تاریکی سے نجادیتی ہے اس کی بدی کی قوتیں اور نفسانی جذبات پر خداکے مکالمات اور پررعب مکاشفات سے ایک موت وارد ہوتی جاتی ہے اور وہ شیطانی زندگی سے نکل کر ملائکہ کی سی زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے ارادے اور اشارے پر چلنے لگتا ہے جیسے ایک شخص آتش سوزندہ کے نیچے بد کاری نہیں کر سکتا اسی طرح جو شخص خدا کی تجلیات کے نیچے آتا ہے اس کی شیطنت مر جاتی ہے اور اس کے سانپ کا سر کچلا جاتا ہے پس یہی وہ یقین اور معرفت ہوتی ہے جس کو انبیاء علیہم السلام آکر دنیا کو عطا کرتے ہیں جس کے ذریعہ وہ گناہ سے نجات پا کر پاک زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔
اسی طریق پر خدا نے مجھے مامور کیا ہے اور میرے آنے کی یہی غرض ہے کہ میں دنیا کو دکھا دوں کہ خدا ہے اور وہ جزا سزا دیتا ہے اور یہ بات کہ محض اس یقین ہی سے انسان پاک زندگی بسر کر سکتا ے اور گناہ کی موت سے بچ سکتا ہے ایسی صاف ہے جہ کے لئے ہم کو منطقی دلائل کی بھی ضرورت نہیں۔کیونکہ خود انسان کی فطرت اور روز مرہ کا تجربہ اور مشاہدہ اس کے لئے زبردست گواہ ہیں کہ جب تک یہ یقین کامل نہ ہو گا کہ خدا ہے اور وہ گناہ سے نفرت کرتا ہے اور سزا دیتا ہے کوئی اور حیلہ کسی صورت میں کارگر ہو ہی نہیں سکتا، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن اشیاء کی تاثیرات کی عمدگی کا ہم کو علم ہے ہم کیسے دوڑ دوڑ کر ان کی طرف جاتے ہیں اور جن چیزوں کو اپنے وجود کے لئے خطرناک زہریں سمجھتے ہیں ان سے کیسے بھاگتے ہیں مثال کے طورپر دیکھوا س جھاڑی میں اگر ہمیں یقین ہو کہ سانپ ہے تو کیا کوئی بھی ہم میں سے ہو گا جو اس مین اپنا ہاتھ ڈالے یا قدم رکھ دے۔ ہرگز نہیں بلکہ اگر کسی بل میں سانپ کے ہونے کا معمولی وہم بھی ہو تو اس طرف گزرنے میں ہر وقت مضائقہ ہو گا طبیعت خود بخود اس طرف جانے سے رکے گی ایسا ہی زہروں کی بابت جب ہمیں علم پڑتا ہے مثلاً اسٹرکنیا ہے کہ اس کے کھانے سے آدمی مر جاتا ہے تو کیسے اس سے بچتے اور ڈرتے ہیں ایک محلہ میں طاعون ہو تو اس سے بھاگتے ہیں اور وہاں قدم رکھنا آتشیں تنور میں گرنا سمجھتے ہیں۔اب وہ بات کیا ہے جس نے دل میں خوف اور ہراس پیدا کیا ہے کہ کسی صورت میں بھی دل اس طرف ارادہ نہیں کرتا وہ وہی یقین ہے جو اس کی مہلک اور مضر تاثیرات پر ہو چکا ہے اس قسم کی بے شمار نظیریں ہم دے سکتے ہیں او ریہ ہماری زندگی میں روزمرہ پیش آتی ہیں۔
اب یہ بحثیں کہ گناہ سے بچنے کا یہ ذریعہ ہے یا یہ فلاں حیلہ ہے بالکل بے سود اور بے مطلب ہیں کیونکہ ج تک الہی تجلیات کے رعب اور گناہ کی زہریں اور اس کے خطرناک نتائج کا پورا علم نہ ہوایسا علم جو یقین کامل تک پہنچ گیا ہو گناہ سے نجات نہیں ہو سکتی۔
یہ ایک خیالی اور بالکل بے معنی بات ہے کہ کسی خون گناہ سے پاک کر سکتا ہے ۔ خون یا خودکشی کو گناہ سے کیا تعلق ؟ وہ گناہ کے زائل کرنے کا طریق نہیں ہاں اس سے گناہ پیدا ہو سکتا ہے اور تجربہنے شہادت دی ہے کہ اس مسئلہ کو مان کر کہاں تک نوبت پہنچ گئی ہے۔
میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ گناہ سے بچنے کی سچی فلاسفی یہی ہے کہ گناہ کی ضرر دینے والی حقیقت کو پہچان لیں او ر اس بات پر یقین کر لیں کہ ایک زبردست ہستی ہے جو گناہوں سے نفرت کرتی ہے اور گناہ کرنے والے کو سزا دینے پر قادر ہے۔
دیکھو اگر کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس کا کچھ اسباب متفرق طور پر پڑا ہو تو یہ کبھی جرأت نہیں کرے گا کہ اسباب کا کوئی حصہ چرا لے خواہ چوری کے کیسے ہی قوی محرک ہوں اور وہ کیسا ہی بد عادت کا مبتلا ہو، مگر اس وقت اس کی ساری قوتوں اور طاقتوں پر ایک موت وارد ہو جائے گی اور اسے ہرگز جرأت نہ ہو سکے گی اور اس طرح پر وہ چوری سے ضرور بچ جائے گا اس طرح پر ہر قسم کے خطا کاروں اور شریروں کا حال ہے کہ جب انہيں ایسی قوت کا پورا علم ہو جاتا ہے جو ان کی شرارت پر سزا دینے کے لئے قادر ہے تو وہ جذبات ان کے دب جاتے ہیں یہی سچا طریق گناہ سے بچنے کا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ پر کامل یقین پیدا کرے اور اس کے جزا و سزا دینے کی قوت پر معرفت حاصل کرے ۔ یہ نمونہیہی سچا طریق گناہ سے بچنے کا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ پر کامل یقین پیدا کرے اورا سکے جزا و سزا دینے کی قوت پر معرفت حاصل کرے ۔ یہ نمونہ گناہ سے بچنے کے طریق کے متعلق خدا نے ہماری فطرت میں رکھا ہوا ہے اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس اصول کو آپ کے سامنے پیش کر دوں۔
کیا عجب آپ کو فائدہ پہنچے اور چونکہ آپ سفر کرتے رہتے ہیں اور مختلف آدمیوں سے ملنے کا آپ کو اتفاق ہوتا آپ ان سے اسے ذکر بھی کر سکتے ہیںاور اگر یہ طریق جو میں پیش کرتا ہوں آپ کے نزدیک صحیح نہیں ہے تو میں آپ کو اجازت دیتا ہوں کہ آپ جس قدر چاہیں جرح کریں یہ میری طرف سے آپ کو ایک تحفہ ہے۔ اور میں ایسے تحفے دے سکتا ہوں۔
ہر شخص جو دنیا میں آتا ہے اس کا فرض ہونا چاہئے کہ دھوکے اور خطرہ سے بچے پس گناہ کے نیچے ایک خطرناک اور تمام خطروں اور دھوکوںسے بڑھ کرایک دھوکاہے۔میں آگاہ کرتا ہوں کہ اس سے بچنا چاہئے اور یہ بھی بتاتا ہوں کہ کیونکر اور اگرچہ اس سے پہلے ایک اور مسئلہ بھی ہے جو خدا کی ہستی کے متعلق ہے مگر میں سردست اس کو چھوڑتا ہوںاور اس دوسرے مقصد کو لیتا ہوں جس کا ماحصل اور مدعا یہ ہے کہ ہر ایک آدمی بجائے خود نیک بننا چاہتا ہے اور نیکی کو اچھا سمجھتا ہے اختلاف اگر ہے تو ان طریقوں اور حیلوں میں ہے جو نیکی کے حصول کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں مگر مشترک طور پر نفس نیکی کو سب پسند کرتے ہیں اور چاہتے ہیں ۔جھوت بولنا کون پسند کرتا ہے جذبات نفسانی سے بچنے کو سب اچھا کہتے ہیں مگر ہم دیکھتے ہیں کہ باوجودبدیوں کو سمجھنے کے بھی ایک دنیا ان میں گرفتار ہے اور گناہ کے سیلاب میں بہتی ہوئی جا رہی ہے میں مثال کے طورپر کہتا ہوں کہ عیسائیوں نے انسان کو گنہ گار زندگی کو ہلاک کرکے نیکی اور پاکیزگی کے حصول کے لئے یہ راہ بتائی ہے کہ مسیح ہمارے لئے مر گیا اور ہمارے گناہوں کا بوجھ اس نے اٹھا لیا اور اس کے خون سے ہم پاک ہو گئے مگر میں دیکھتا ہوں کہ اور آپ کو بھی اقرار کرنا پڑے گا کہ مسیح کے خون نے یورپ کی حالت پر کوئی نمایاں اثر اور تبدیلی پیدا نہیں کی بلکہ ان کی اخلاقی اور روحانی حالتوں پر نظر کرکے سخت افسوس ہوتا ہے ان کی زندگی مرتاضانہ زندگی نہیں ہے بلکہ ایک آزادی اور اباحت کی زندگی ہے کتنے ہی جو سرے سے خدا ہی کے منکر ہیں اور بہت ہیں جو خدا کو مان کر اور مسیح ؑ کے خون پر پر ایمان رکھتے ہوئے بھی اپنی حالت میں گرے ہوئے ہیں شراب کی وہ کثرت ہے جو کئی کئی میل تک شراب کی دکانیں چلی جاتی ہیں اور نامحرم عورتوں کو شہوت کی نظر سے نہ دیکھنا تو کیا ان کے دوسرے اعضاء بھی نہ بچ سکے۔میں عیسائیوں تک ہی اس گناہ کے سیلاب کو محدود نہیں کرتا میں صاف کہتا ہوں کہ اس وقت دنیا کی ساری قومیں اس زہر کو کھا رہی ہیں اور ہلاک ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں نے باوجودیکہ ان کے پاس ایک روشن کتاب تھی اور اس میں کسی خون کے ذریعہ ان کو گناہ سے پاک کرنے کا وعدہ دے کر آزاد نہیں کیا گیا تھا لیکن وہ بھی خطرناک طور پر اس بلا میں مبتلا ہیں ہندؤوں کو دیکھو ان میں بھی یہی بلا موجود ہے یہاں تک کہ ان میں بعض قوموں نے جیسے آریہ ہیں نیوگ جیسے مسئلہ کو اپنے ایمانیات اور معتقدات میں داخل کر لیا جب کہ ایک مرد اولاد پیدا کرنے کے ناقابل ہو تو اپنی بیوی کو دوسرے سے اولاد پیدا کرنے کی اجازت دے دے۔
غرض اس قسم کی ناپاک زندگی جو حقیقت میں گناہ کی *** ہے وہ عام ہو رہی ہے اور وہ پاک زندگی جو گناہ سے بچ کر ملتی ہے وہ ایک لعل تاباں ہے جو کسی کے پاس نہیںہے ہاں خدا تعالیٰ نے وہ لعل تاباں مجھے دے دیا ہے او رمجھے اس نے مامور کیا ہے کہ میں دنیا کو اس لعل تاباں کے حصو ل کی راہ بتا دوں اس راہ پر چل کر میں دعوی سے کہتا ہوں کہ ایک شخص یقینا یقینا اس کو حاصل کر لے گا اور وہ ذریعہ اور وہ راہ جس سے یہ ملتا ہے ایک ہی ہے جس کو خدا کی سچی معرفت کہتے ہیں اور درحقیقت یہ مسئلہ بڑا مشکل اور نازک مسئلہ ہے کیونکہ ایک مشکل امر پر موقوف ہے فلاسفر جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے آسمان اور زمین کو دیکھ کر اور دوسرے مصنوعات کی ترتیب ابلغ و محکم پر نظر کر کے صرف اتنا بتاتا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہئے مگر میں اس سے بلند تر مقام پر لے جاتا ہوں اور اپنے ذاتی تجربوں سے کہتا ہوں کہ خدا ہے۔
اب اس میں صریح فرق ہے مگریہ فرق تب ہی نظر آ سکتا ہے جب آنکھ صاف ہو ایسی صاف آنکھ کے عطا ہونے پر پر انسان بنی نوع کے حقوق او رخدا کے حقوق میں تمیز کر کے انہیں محفوظ کر لیتا ہے اور یہ وہی آنکھ ہے جس کو دیکھنے کی آنکھ کہتے ہیں اس آنکھ کے ملنے پر وہ پاک زندگی شروع ہوتی ہے او ر گناہوں سے بچنے کا یہ ذریعہ تو کسی حالت میں درست نہیں ہو سکتا کہ کسی دوسرے کو سزا ملے اور ہمارے گناہ معاف ہو جائیں زید کو پھانسی ملے اور بکر بچ جاوے کیونکہ اس کے ابطال پر یہی دلیل کافی ہے کہ خارجی امور میں ہم اس کی کوئی نظیر نہیں پاتے اور اس طریق سے بچ نہیں سکتے بلکہ دلیر ہو تے ہیں مثلاً یہ کتا ہے یہ بھیڑیا نہیں ہے اصل میں اگر یہ بھیڑیا ہو اور ہم اس کو کتا سمجھیں تو بھی ممکن ہی نہیں کہ اس سے ڈریں اور وہ خوف کریں جو ایک خونخوار بھیڑیے سے کرتے ہیں۔کیوں؟ اس لئے کہ ہمیں علم نہیں ہے کہ بھیڑیا ہے ہمارے علم وہ ایک کتا ہے لیکن اگر یہ علم ہو کہ یہ بھیڑیا ہے توا س سے دور بھاگیں گے اور اسے بچنے کے لئے اچھی خاصی تیاری کریں گے لیکن اگر یہ علم اور بھی وسیع ہو جاوے کہ یہ شیر ہے تو بہت بڑا خطرہ پیدا ہو گا اور اس سے بچنے کے لئے اور بھی تیاری کریں گے غرض جمیع قوی پر ہیبت اور تاثیرکے علم سے ایک خاص اثر ہوتا ہے پس اب یہ کیسی صاف صداقت ہے کہ جس کو ہر شخص سوچ سکتا ہے کہ پھر گناہوں سے بچنے کے واسطے کیا راہ ہو سکتی ہے؟
میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ اور میں ایسی صداقت پر قائم کیا گیا ہوں اور یہی حق ہے کہ جب تک خدائے قہار کی معرفت تام نہ ہو اور اس کی قوتوں اور طاقتوں کی ایک شمشیر برہنہ نظر نہ آجاوے انسان بدی سے بچ نہیں سکتا ۔
بدی ایک ایسا ملکہ ہے جو انسان کو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے اور دل بے اختیار ہو ہو کر قابو سے نکل جاتا ہے خواہ کوئی یہ کہے کہ شیطان حملہ کرتا ہے کواہ کسی اور طرز پر اس کو بیان کیا جاوے یہ ماننا پڑے گا کہ آج کل بدی کا زور ہے شیطان اپنی حکومت اور سلطنت کو قائم کرنا چاہتا ہے بدکاری اور بے حیائی کے دریا کا بند ٹوٹ پڑا ہے اور وہ اطراف میں طوفانی رنگ میں جوش زن ہے پس کس قدر ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ جو ہر مصیبت او رمشکل کے وقت انسان کا دستگیر ہوتا ہے اس وقت اسے ہر بلا سے نجات دے چنانچہ اس نے اپنے فضل سے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے دنیا نے اس سیلاب سے بچنے کے واسطے مختلف حیلے نکالے ہیںاور جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے عیسائیوں نے جو کچھ پیش کیا ہے وہ ایک ایسی بات ہے کہ جس کے بیان کرنے سے بھی شرم آتی ہے پھر اس کا علاج وہی ہے جو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھا ہے یعنی یہ کہ وہ مفید اور نفع رساں چیزوں کی طرف رغبت کرتا ہے او رمضر اور نعقصاں رساں چیزوں سے دور بھاگتا ہے دیکھو سونے او رچاندی کو اپنے لئے مفید سمجھتا ہے توا س کی طرف کیسی رغبت کرتا ہے اور کن کن محنتوں اور مشکلات سے بہم پہنچاتا ہے اور پھر کن حفاظتوں سے اسے رکھتا ہے لیکن اگر کوئی شخص سونے چاندی کو تو پھینک دے اور اس کی بجائے مٹی کے بڑے بڑے ڈھیلے اٹھا کر اپنے صندوقوں میں بند کر کے ان کی حفاظت کرنے لگے تو کیا ڈاکٹر اس کی دیوانگی کا فتوی نہ دیں گے ضرور دیں گے اسی طرح جب ہمیں یہ محسوس ہو جاوے کہ خدا ہے اور بدی سے نفرت کرتا ہے او رنیکی کو پیار کرتا ہے اورنیکیوں کو عزیز رکھتا ہے تو ہم دیوانہ وارنیکیوں کی طرف دوڑیں گے اور گناہ کی زندگی سے دور بھاگیں گے یہی ایک اصول ہے جو نیکی کی قوت کو طاقت بخشتا او ر نیکی کے قوی کو تحریک دیتا اور بدی کی قوتوں کو ہلاک کرتااور شیطان کی ذریت کو شکست دیتا ہے۔
جب واقعی طور پر اس آفتا ب کی طرح جو اس وقت دنیا پر چمکتا ہے ہے خدا پر ہمیں یقین حاصل ہو جاوے او رہم گویاخدا کو دیکھ لیں تو یقینا ہماری سفلی زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے اور اس کے بجائے ایک آسمانی زندگی پیدا ہو جاتی ہے جیسے انبیاء علیہم السلام اور دوسرے راستبازوں کی زندگیاں تھیں۔
میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی رحمت فرماں برداروں اور راست بازوں پر ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے حضور نیکی اور پاکیزگی کا تحفہ لے کر جاتے ہیں اور شرارتوں اور بد کاریوں سے دور رہتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ سے بعد اور حرماں کا موجب ہیں ایسے لوگ ایک چشمہ سے دھوئے جاتے ہیں جس کا دھویا ہوا پھرکبھی میلا اور ناپاک نہیں ہوتا اور انہیں وہ شربت پلایا جاتا ہے جس کا پینے والا کبھی پیاسا نہیں ہوتا انہیں وہ زندگی عطا ہوتی ہے جس پر کبھی موت وارد نہیں ہوتی ، انہیں وہ جنت دیا جاتا ہے جس سے کبھی نکلنا نہیں ہوتا ۔برخلاف اس کے وہ لوگ جو اس چشمہ سے سیراب نہیں ہوتے اور خدا کے ہاتھوں سے جس کا مسح نہیں ہوتا وہ خدا سے دور جاتے ہیں اور شیطان کے قریب ہو جاتے ہیں انہں نے خدا کی طرف آنا چھوڑ دیا ہے اور یہی وجہ ہ نہ ان میں تسلی کی کوئی راہ باقی ہے نہ ان کے پاس دلائل ہیں اور نہ تاثیرات ۔
ایک عیسائی سے اگر پوچھا جائے کہ کہ تو جو دعویٰ کرتا ہے کہ مسیح کے خون سے میرے گناہ پاک ہو گئے ہیں تیرے پاس اس کا کیا ثبوت ہے ؟ وہ کون سے فوق العادت امور تجھ میں پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے ایک غیر معمولی خدا ترسی اور نکو کاری کی روح تجھ میں پھونک دی ہے تو کچھ جوا ب نہ دے سکے گا۔ برخلاف اس کے کوئی مجھ سے پوچھے تو میں اس کو ان خارق عادت امور کا زبر دست ثبوت دے سکتا ہوں اور اگر کوئی طالب صادق ہو اور ا س میں شتا کاری اور بدظنی کی قوت بڑھی ہوئی نہ ہو تو میں اسے مشاہدہ کرا سکتا ہوں۔
بعض ایسے امور ہو تے ہیں کہ اگر ان میں دلائل نہ بھی ملیں تو ان کی تاثیرات بجائے خود انسان کو قائل کر دیتی ہیں اور وہی تاثیرات دلائل کے قائم مقام ہو جاتی ہیں۔کفارہ کے حق ہونے کے اگر دلائل عیسائیوں کے پاس نہیں ہیں جیسا کہ وہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ بھی ایک راز ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ وہ ان تاثیرات کو ہی پیش کریں جو کفارہ کے اعتقاد نے پیدا کی ہیں۔ یورپ کی اباحتی زندگی دور سے ان تاثیرات کا نمونہ دکھا رہی ہے اس سے بڑھ کر وہ کیا پیش کریں گے اور یہ عقل مندکے سمجھ لینے کے واسطے کافی ہے کیا اثر ہوا۔
ایک اور بات جو یاد رکھنے کے قابل ہے جس پر غور نہ کرنے کی وجہ سے بعض آدمیوں کو بڑے بڑے دھوکے لگے ہیں اور وہ جادۂ مستقیم سے بھٹک گئے ہیں اور وہ یہ انسان کی پیدائش ایک قسم کی نہیں۔
جیسا بوٹیاں ہزاروں قسم کی ہوتی ہیں اور جمادات میں بھی مختلف قسمیں پائی جاتی ہیں ۔ کوئی چاندی کی کان ہے کوئی سونے اور تانبے اور لوہے کی اسی طرح پر انسانی فطرتیں مختلف قسم کی ہیں بعض انسان اس قسم کی فطرت رکھتے ہیں کہ وہ ایک گناہ سے نفرت کرتے ہیں اور بعض کسی اور قسم کے گناہ سے مثلاً ایک آدمی ہے کہ وہ چوری تو کبھی نہیں کرتا لیکن زنا کاری اور اور قسم کی بے حیائی اور بے باکی کرتا ہے یا ایک زنا سے تو بچتا ہے لیکن کسی کا مال مار لینے یا خون کردینے کو گناہ ہی نہیں سمجھتا اور بڑی دلیری کے ساتھ ایسی بے ہودہ بات اور افعال کا مرتکب ہوتا ہے غرض ہر ایک آدمی کو جو دیکھتے ہیں تو اسے کسی نہ کسی قسم کے گناہ میں مبتلا پاتے ہیں۔اور بعض حصوں اور بعض قسم کے گناہوں میں بالکل معصوم ہوتے ہیں پس جس قدر افراد انسانوں کے پائے جاتے ہیں ان کی بابت ہم کبھی بھی قطعی اور یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وہ سب کے سب ایک ہی قسم کے گناہ کرتے ہیں بلکہ کوء کسی میں مبتلا ہے کوئی دوسرے میں گرفتار ہے کسی قوم کی بابت وہ مغرب میں ہو مشرق میں ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ بالکل گناہ سے بچی ہوئی ہے صرف اس قدر تو مانیں گے کہ فلاں گناہ وہ نہیں کرتی مگر یہ کبھی نہیں کہہ سکتے بالکل نہیںکرتی ۔ یہ فطرت اگر یہ قوت کہ بالکل گناہوں سے بیزاری اور نفرت پیدا ہو جائے ۔سچی تبدیلی کے بغیر کسی کو مل نہیں سکتی اور اسی تبدیلی کو پید اکرنا ہمارا کام ہے۔
جو لوگ صدق دل اور اخلاص کے ساتھ صحت نیت اور پاک ارادہ اور سچي تلاش کے ساتھ ایک مدت تک ہماری صحبت میں رہیں تو ہم یقینا کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی تجلیات کی چمکار سے ان کی اندرونی تاریکیوں کو دور کر دے گااور انہیں ایک نئی معرفت اور نیا یقین خدا پر پیدا ہوگا اور یہی وہ ذریعے ہیں جو انسان کو گنا کے زہر کے اثر سے بچا لیتے ہیں اورا س کے لئے تریاقی قوت پیدا کر دیتے ہیں۔یہی وہ خدمت ہے جو ہمارے سپرد ہوئی ہے اور اسی ایک ضرورت کو میں پورا کرنا چاہتا ہوں جو انسا ن اس زنجیر اور قید سے نجات پانے کی ضرورت محسوس کرتا ہے جو گناہ کی زنجیریں ہیں اسے اسی طریق پر نجات ملے گی۔
پس اگر کوئی قصہ کہانیں کو ہاتھ سے پھینک کر اور ان وہمی حیلوں اور خیالی ذریعوں کو چھوڑ کر کسی کی خود کشی بھی گناہ سے بچا سکتی ہے صدق اور اخلاص سے یہاں رہے تو وہ خدا کو دیکھ لے گا اور خدا کو دیکھ لینا ہی گناہ پر موت وارد کرتا ہے او رنہ اتنی ہی بات پر خوش ہو جانا کہ فلاں گناہ مجھ میں نہیںیا فلاں عیب سے میں بچا ہوا ہوں، حقیقی نجات کا وارث نہیں بنا سکتا۔ یہ تو ایسا ہی ہے کہ کسی نے سڑکنیا کھا کر موت حاصل کی اور کسی سے سم الفار یا بادام کے زہر سے جان دے دی ۔ ہم کو اس سے کچھ غرض نہیں ہے کہ عیسائیوں کے طریق ِنجات پر یا کسی اور مذہب کے پیش کردہ دستور پر کوئی لمبی چوڑی بحث کریں۔ تجربہ اور مشاہدہ خود گوا ہے ہم تو صرف یہی طریق بتانا چاہتے ہیں جو خد ا نے ہمیں سمجھا یا ہے او رجس طریق پر ہمیں اطلاع دی ہے ۔
پس گناہوں سے بچنے کا سچا طریق جو مجھے بتایا گیا ہے او رجس کوکل انبیاء کی پاک جماعت اپنے اپنے وقت پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے وہ یہی کہ انسانی جذبات پر انسان کو اسی وقت کامل فتح مل سکتی ہے اور شیطان اور اس کی ذریت کی شکست کا یہی وقت ہو سکتاہے جب انسان کے دل پر ایک درخشاں یقین نازل ہو کہ خدا ہے اور اس کی پاک صفات کے صریح خلاف ہے کہ کوئی گناہ کرے اور گناہ گاروں پر اس کا غضب بھڑکتا ہے اور پاک بازوں کو اس کا فضل اور رحمت ہر بلا سے نجات دیتے ہیں اور یہ معرفت اور یہ یقین حاصل نہیں ہو سکتا جب تک ان لوگوں کے پاس ایک عرصہ تک نہ رہیں اور جو خدا تعالیٰ سے شدید تعلق رکھتے ہیں اور خدا سے لے کر مخلوق کو پہنچاتے ہیں۔ پس یہی ہماری غرض ہے جو لے کر ہم دنیا میں آئے ہیں اورا سی کو ہم نے آپ کو سنا دیا ہے اب آپ اس پر غور کریں اور جو سوال آپ کا اس پر ہو وہ آپ بے شک کریں۔٭
۱۸؍نومبر ۱۹۰۱ء؁
مسٹر ڈکسن:’’ کیا خدا اس جہان میں سزا دیتا ہے یا دوسرے جہان میں؟‘‘
حضرت اقدس :’’میں نے آپ کے سوال کو سمجھ لیا ہے جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نبیوںکی معرفت ہمیں بتایا ہے کہ اور واقعات صحیحہ نے جس کی شہادت دی ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سزا و جزا کا قانون خدا نے ایسا مقرر کیا ہے کہ اس کا سلسلہ اسی دنیا سے شروع ہو جاتا ہے اور جو شوخیاں اور شرارتیں انسان کرتا ہے وہ بجائے خود انہیں محسوس کرتا ہے یا نہیں کرتا۔ان کی سزا اور پاداش جو یہاں ملتی ہے اس کی غرض تنبیہ ہوتی ہے تاکہ توبہ اور رجوع سے شوخ انسان اپنی حالت میں نمایاں تبدیلی پیدا کرے اور خداتعالیٰ کے ساتھ عبودیت کا جو رشتہ ہے اس کو قائم کرنے میں جو غفلت اس نے کی ہے اس پر اطلاع پا کر اسے مستحکم کرنا چاہئے ۔ اس وقت یا تو انسان اس تنبیہہ سے فائدہ اٹھا کر اپنی کمزوری کا علاج اللہ تعالیٰ کی مدد سے چاہتا ہے اور یا اپنی شقاوت سے اس میں دلیر ہو جاتا اور اپنی سر کشی اور شرارت میں ترقی کر کے جہنم کا وارث ٹھہر جاتا ہے ۔اس دنیا میں جو سزائیں بطور تنبیہ دی جاتی ہیں ، ان کی مثال مکتب کی سی ہے۔ جیسے مکتب میں کچھ خفیف سی سزائیں بچوںکو ان کی غفلت اور سستی پر دی جاتی ہیں۔ اس سے یہ غرض نہیں ہوتی کہ علوم سے انہیں استاد محروم رکھناچاہتا ہے بلکہ اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ انہیں اپنی غرض پر اطلاع دے کر آئندہ کے لئے زیادہ محتاط اور ہوشیار بنا وے ۔اسی طرح پر اللہ تعالیٰ جو شرارتوں اور شوخیوں پر کچھ سزا دیتا ہے ، توا س کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ نادان انسان جو اپنی جان پر ظلم کر رہا ہے اپنی شرارت اور اس کے نتائج پر مطلع ہو کر اللہ تعالیٰ کی عظمت و جبروت سے ڈر جاویاور اس کی طرف رجوع کرے۔ میں نے اپنی جماعت کے سامنے بارہا اس امر کو بیان کیا ہے اور اب آپ کو بھی بتاتا ہوں کہ جب انسان ایک کام کرتا ہے ۔ خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ایک فعل اس کے نتیجے کے طور پر مرتب ہوتا ہے۔ مثلاً جب ہم کافی مقدار زہر کی کھا لیں گے توا س کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ ہم ہلاک ہو جائیں گے۔ اس میں زہر کھانا یہ ہمارا اپنا فعل تھا اور خدا کا فعل اس پر یہ ظاہر ہوا کہ اس نے ہلاک کر دیا یا مثلاً یہ کہ اگر ہم اپنے گھر کی کوٹھڑی کی کھڑکیاں بند کر لیں، تو یہ ہمارا فعل ہے ۔اوراس پر اللہ تعالیٰ کا یہ فعل ہو گا کہ کوٹھڑی میں اندھیرا ہو جائے گا اس طرح پر انسان کے افعال اور اس پر بطور نتائج اللہ تعالیٰ کے افعال کے صدور کا قانون دنیا میں جاری ہے جیسا کہ ظاہر سے متعلق ہے اور جسمانی نظام میں اس کی نظیریں ہم روز دیکھتے ہیں اسی طرح پر باطن کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے اور یہی ایک اصول ہے جو قانون سزا کے سمجھنے کے واسطے ضروری ہے اور وہ یہی ہے کہ ہماراہر ایک فعل نیک ہو یا بد اپنے فعل کے ساتھ ایک اثر رکھتا ہے جو ہمارے فعل کے بعد ظہور پذیر ہوتا ہے۔
اب عذاب اور راحت کو جو گناہوں کی پاداش میں یا نیکیوں کی جزا میں دی جاتی ہے ۔ہم بہت جلد سمجھ سکتے ہیں اور میں پوری بصیرت اور دعوی کے ساتھ کہتا ہوں کہ اس فلاسفی کے بیان کرنے سے دوسرے تمام مذہب عاری اور تہی ہیں ۔ اس بات کوہر شخص جو خدا کو مانتا ہے اقرار کرتا ہے کہ انسان خدا ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔اس لئے اس کی ساری خوشیوں کی انتہا ساری راحتوں کی غایت اسی میں ہو سکتی ہے کہ وہ سارے کا سارا خدا ہی کا ہو جاوے اور جو تعلق اُلُوہیّت اور عبودیّت میں ہو ناچاہئے یا یوں کہو کہ ہے جب تک انسان اس کو مستحکم نہیں کرتا اور ا سے حیّز فعل میں نہیں لاتا ۔وہ سچی خوشحالی کو پا نہیں سکتا۔انبیاء علیہم السلام کے آنے کی یہی غرض ہوتی ہے اور وہ اسی اہم مقصد کو لے کر آتے ہیں کہ وہ انسان کو یہ گم شدہ متاع واپس دینا چاہتے ہیں ۔جو عبودیت اور الوہیت کے درمیان رشتہ کی ہوتی ہے،مگر جب انسان خدا سے دور ہٹ جاتا ہے تو اپنے آپ کو اس محبت کی زنجیر سے الگ کر لیتا ہے جو خدا اور بندہ کے درمیان ہو نی چاہئے اور یہ فعل انسان کا ہوتا ہے اور اس پر خدا کا یہ فعل ہوتا ہے کہ وہ بھی اس سے دور ہٹتا ہے ۔ اور اسی بُعد کے لحاظ سے انسانی قلب پر تاریکی کا ظہور ہوتا ہے ۔ او رجس طرح آفتا ب کی طرف سے دروازہ بند کرنے پر ظلمت اور تاریکی سے کمرہ بھر جاتا ہے ۔ اسی طرح پر خدا سے منہ پھیرنے سے اندرونہ انسانی ظلمت سے بھرنے لگتا ہے اور جوں جوں وہ دور ہوتا جاتا ہے ظلمت بڑھتی جاتی ہے۔یہاں تک کہ دل بالکل سیاہ ہو جاتا ہے اور یہ ظلمت ہے جو جہنم کہلاتی ہے کیونکہ اسی سے ایک عذاب پیدا ہوتا ہے اب اس عذاب سے اگربچنے کے لئے وہ یہ سعی کرتا ہے کہ ان اسباب کو جو خدا تعالیٰ سے بعد اور دوری کا موجب ہوئے ہیں چھوڑ دیتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ رجوع کرتا ہے اور جیسے کھڑکیوں کے کھول دینے سے روشنی واپس آکر تاریکی کو دور کر دیتی ہے اسی طرح پر یہ سعادت کا نور جو جاتا رہا تھا وہ اسی انسان کو جو رجوع کرتا ہے پھر دیا جاتا ہے اور وہ اس سے پورا مستفید ہونے لگتا ہے۔
اور توبہ کی یہی حقیقت ہے جس کی نظیر ہم قانون قدرت میں صاف مشاہدہ کرتے ہیں ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ نبیوں کے زمانہ میں جو قوموں پر عذاب آتے ہیں جیسے لوطؑ کی قوم پر یا یہودیوں کو بخت نصر یا طیطس رومی کے ذریعہ تباہ کیا گیاتو ان عذابوں کا موجب محض اختلاف نہیں ہوتا بلکہ ان عذابوں اور دکھوں کا موجب وہ شرارتیں شوخیا ں اور تکلیفیں ہوتی ہیں جو وہ نبیوں سے کر تے اور انہیں پہنچاتے ہیں آخر ان کی شرارتیں ان پر ہی لوٹ کر پڑتی ہیں اور انہیں تباہ اور ہلاک کر دیتی ہیں جس طرح پر سیاست اور ملک داری کے اصولوں کی تہ میں یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ امن عامہ میں خلل انداز ہونے والوں کو وہ چور ہوں یا ڈاکو باغی ہوں یا کسی اور جرم کے مجرم محض اس لئے سزا دی جاتی ہے تاآئندہ کے لئے امن ہو اور دوسروں کو اس سے عبرت اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ قانون رکھا ہوا ہے کہ وہ شریروں اورسرکشوں کو جو ا س کے حدود اور اوامر کی پرواہ نہیں کرتے سزا دیتا ہے تا حد سے نہ بڑھ جائیں۔جنہوں نے حد سے بڑھنا چاہا خدا نے انہیں وہیں تنبیہ کی۔یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ سزا اور تنبیہہ اسی شخص کے لئے بھی جسے دی جاتی ہے اور دوسروں کے واسطے بھی عبرت کی نگاہ سے اسے دیکھتے ہیں بطور رحمت ہے کیونکہ اگر سزا نہ دی جائے تو امن اٹھ جاتا ہے اور انجام کار نتیجہ بہت برا ہوتا ہے قانون قدرت پر نظر کرو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ فطرت انسانی میں یہ بات رکھی ہوئی اور اسی فطرتی نقش ہی بناء پر قرآن نے یہ فرمایا ہے کہ
ولکم فی القصاص حیوۃ یا اولی الالباب(البقرہ:۱۸۰)
یعنی تمہارے تمدن کے قیام کے لئے قصاص کاہونا ضروری ہے اگر افعال کے کچھ نتائج ہی نہیں ہوتے تو وہ افعال کیا ہوتے اور ان سے غرض مقصود ہوتی؟غرض ضروری اور واقعی طور پر یہ سزائیں نہیں ہیں جو یہاں دی جاتی ہیں بلکہ یہ ایک ظل ہیں اصل سزائوں اور ان کی غرض ہے عبرت۔
دوسرے عالم کے مقاصداور ہیں اور وہ بالا تر ہیں اور بالا تر ہیںوہاں تو
من یعمل مثقال ذرۃ شرا یرہٗ( الزلزال:۹)
کا انعکاسی نمونہ لوگ دیکھ لیں گے اور انسان کو اپنے مخفی در مخفی گناہوں اور عزیمتوں کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ دنیا اور آخرت کی سزائوں میں ایک بڑا فرق یہی ہے کہ دنیا کی سزائیں امن قائم کرنے اور عبرت کے لئے ہیںاور آخرت کی سزائیں افعال انسانی کے آخری اور انتہائی نتائج ہیں وہان اسے ضرور سزا ملنی ٹھہری ہے کیونکہ اس نے زہر کھائی ہوئی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ بدوں تریاق وہ اس زہر کے اثر سے محفوظ رہ سکے۔عاقبت کی سزا اپنے اندر ایک فلسفیانہ حقیقت رکھتی ہے جس کو کوئی مذہب بجز اسلام کے کامل طور پر بیان نہیں کر سکا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے من کان فی ھذہ اعمی فھو فی الآخرۃ اعمی و اضل سبیلا(بنی اسرائیل:۷۳) یعنی جو شخص اس جہان میں اندھا ہو وہ اس دوسرے جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا بلکہ اندھوں سے بھی بدتر۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو دیکھنے کی آنکھیں اور اس کے دریافت کرنے کے حواس اسی جہان سے انسان اپنے ساتھ لے جاتا ہے جو یہاں ان حواس کو نہیں پاتاوہاں وہ ان حواس سے بہرہ ورنہیں ہوگا یہ ایک دقیق راز ہے جس کو عام لوگ سمجھ بھی نہیں اگراس کے یہ معنی نہیں تو یہ پھر بالکل غلط ہے کہ اندھے اس جہان میں بھی اندھے ہوں گے اصل بات یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کو بغیر کسی غلطی کے پہچاننا اور اسی دنیا میں صحیح طور پر اس کی صفات و اسماء کی معرفت حاصل کرنا آئندہ کی تمام راحتوں اور روشنیوں کی کلید ہے اور یہ آیت اس امر کی طرف صاف اشارہ کر رہی ہے کہ اسی دنیا سے ہم عذاب اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور اس دنیا کی کورانہ زیست اور ناپاک افعال ہی اس دوسرے عالم میں عذاب جہنم کی صورت میں نمودار ہو جائیں گے اور وہ کوئی نئی بات نہ ہوں گے۔
جیسے ایک شخص گھر کے دروازے بند کر لینے سے روشنی سے محروم ہو جا تا ہے اور تازہ اور زندگی بخش ہوا اسے نہیں مل سکتی یا کسی زہر کے کھالینے سے اس کی زندگی باقی نہیں رہ سکتی اسی طرح پر جب ایک آدمی خدا کی طرف سے ہٹتا ہے اور گناہ کرتا ہے تو ایک ظلمت کے نیچے آ کر عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔گناہ اصل میں جناح تھا جس کے معنے میل کرنے اور اصل مرکز سے ہٹ جانے کے ہیں پس جب انسان خدا سے اعراض کرتا ہے اور اس نور کے مقابل سے ہٹ جاتا ہے اور اس روشنی سے دور ہو جاتا ہے جو صرف خدا کی طرف سے اترتی اور دلوں پر نازل ہوتی ہے تو وہ ایک تاریکی میں مبتلا ہوتا ہے جو اس کے لئے عذاب کا موجب ہو جاتی ہے پھر جس قسم کا یہ اعراض ہو اسی قسم کا عذاب اسے دکھ دیتا ہے لیکن اگر انسان پھر اسی مرکز کی طرف آناچاہے اور اپنے آپ کو اسی مقام پر پہنچا دے جو ایسی روشنی پڑنے کا مقام ہے تو وہ پھر اس گمشدہ نور کو پا لیتا ہے کیونکہ جیسے دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے کمرہ میں روشنی کو ایسے وقت پا سکتے ہیں جب اس کی کھڑکیاں کھول دیں ویسے ہی روحانی نظام میں مرکز اصلی کی طرف بازگشت کرنا ہی راحت کا موجب ہو سکتا ہے اور اس دکھ درد سے بچاتا ہے جو اس مرکز کے چھوڑنے سے پیدا ہوا تھا اس کا نام توبہ ہے اور یہ ظلمت جو اسی طرح پر پیدا ہوتی ہے ضلالت اور جہنم کہلاتی ہے اور مرکز اصلی کی طرف رجوع کرنا جو راحت پیدا کرتا ہے جنت سے تعبیر ہوتا ہے اور گناہ سے ہٹ کر پھر نیکی کی طرف آنا جس سے اللہ تعالیٰ خوش ہو جاوے اس بدی کا کفارہ ہو کر اسے دور کر دیتا ہے اس کے نتائج کو بھی سلب کر دیتا ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان الحسنات یذھبن السیات (ہود:۱۱۵) یعنی نیکیاں بدیوں کو زائل کر دیتی ہیں چونکہ بدی میں ہلاکت کی زہر ہے اور نیکی میں زندگی کا تریاق اس لئے بدی کے زہر کو دور کرنے کا ذریعہ نیکی ہی ہے یا اسی کو ہم یوں کہہ سکتے ہیں ۔ عذاب راحت کی نفی کا نام ہے اور نجات راہت اور خوشحالی ہی کے حصول کا نام ہے اسی طرح پر جیسے بیماری اس حالت کا نام ہے جب حالت بدن مجری طبیعت پر نہ رہے۔اور صحت وہ حالت ہے امور طبیعیہ اپنی اصلی حالت پر قائم ہوں اور جیسے کسی ہاتھ پائوں یا کسی عضو کے اپنے مقام خاص سے ذرا ادھر ادھر کھسک جانے سے درد شروع ہو جاتا ہے اور و ہ عضو نکما ہو جاتا ہے اگرچندے اسی حالت پر رہے ، تو پھر نہ خود بالکل بیکار ہو جاتا ہے بلکہ دوسرے اعضاء پر بھی اپنا برا اثر ڈالنے لگتا ہے ۔ بعینہٖ یہی حالت روحانی ہے کہ جب انسان خدا تعالیٰ کے سامنے سے جو اس کی زندگی کا اصل موجب مایۂ حیات ہے ، ہٹ جاتا ہے اور فطرتی دین کو چھوڑ بیٹھتا ہے ، تو عذاب شروع ہو جات ہے اور اگر قلب مردہ نہ ہو گیا ہو ۔اور اس میں احساس کا مادہ باقی ہو۔ تو وہ اس عذاب کو خوب محسوس کرتا ہے اور اگر اس بگڑی ہوئی حالت کی اصلاح نہ کی جاوے ، تو اندیشہ ہوتا ہے کہ پھر ساری روحانی قوتیں رفتہ رفتہ نکمی اور بیکار ہو جائیں اور ایک شدید عذاب شروع ہو جاوے ۔ پس اب کیسی صفائی کے ساتھ یہ امر سمجھ میں آجاتا ہے کہ کوئی عذاب باہر سے نہیں آتا بلکہ خود انسان کے اندر ہی سے نکلتا ہے ۔ ہم کو اس سے انکار نہیں کہ عذاب خدا کا فعل ہے ۔ بے شک اس کا فعل ہے ۔ مگر اسی طرح جیسے کوئی زہر کھائے توخدا اسے ہلاک کر دے۔ پس خدا کا فعل انسان کے اپنے فعل کے بعد ہوتا ہے اسی کی طرف اللہ جلشانہٗ اشارہ فرماتا ہے
ناراللّہ الموقدۃ التی تطلع علی الأفئدۃ( الہمزہ:۷،۸)
یعنی خدا کا عذاب وہ آگ ہے جس کو خدا بھڑکاتا ہے اورا س کا شعلہ انسان کے دل ہی سے اٹھتا ہے ۔ اس کا مطلب صاف لفظوں میں یہی ہے کہ عذاب کا اصل بیج اپنے وجود ہی کی ناپاکی ہے ۔ جو عذاب کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
اسی طرح بہشت کی راحت کا اصل سرچشمہ بھی انسان کے اپنے ہی افعال ہیں ۔ اگر وہ فطرتی دین کا نہیں چھوڑتی اگر وہ مرکز اعتدال سے ادھر ادھر نہیں ہٹتا اور عبودیت الوہیت کے محاذ میں پڑی ہوئی اس کے انوار سے حصہ لے رہی ہے تو پھر یہ عضو صحیح کی طرح سے جو مقام سے ہٹ نہیں گیا اور برابر اس کام کو دے رہا ہے جس کے لئے خدا نے کو پیدا کیا ہے اور اسے کچھ بھی درد نہیں بلکہ راحت ہے۔
قرآن شریف میں فرماتا ہے
و بشر الذین آمنوا واعملوا الصالحات ان لہم جنت تجری من تحتہا الانہار( البقرہ:۲۶)
یعنی و ہ لوگ جو ایمان لئے اور اچھے عمل کرتے ہیں ان کو خوشخبری دے دو کہ وہ ان باغوں کے وارث ہیں جن کے نیچے ندیاں بہہ رہی ہیں اس آیت میں ایمان کو اللہ تعالیٰ نے باغ سے مثال دی ہے اور اعمال صالحہ کو نہروں سے جو رشتہ اور تعلق نہر جاوید اور درخت میں ہے وہی رشتہ اور تعلق اعمال صالحہ کو ایمان سے ہے پس جیسے کوئی باغ ممکن ہی نہیں کہ پانی کے بدوں سرسبز اور ثمر دار ہو سکے اس طرح پر کوئی ایمان جس کے ساتھ اعمال صالحہ نہے ہوں مفید اور کارگر نہیں ہو سکتا پس بہشت کیا ہے وہ ایمان اور اعمال ہی کے مجسم نظارے ہیں وہ بھی دوزخ کی طرح کوئی خارجی چیز نہیں ہے بلکہ انسان کا بہشت بھی اس کے اندر سے نکلتا ہے ۔یاد رکھو اس جگہ پر جو راحتیں ملتی ہیں وہ وہی پاک نفس ہوتا ہے جو دنیا میں بنا یا جاتا ہے ۔ پاک ایمان پودہ سے مماثلت رکھتا ہے اور اچھے اچھے اعمال ۔اخلاق فاضلہ یہ اس پودہ کی آبپاشی کے لئے بطور نہروں کے ہیں جو اس کی سرسبزی اور شادابی کو بحال رکھتے ہیں۔اس دنیا میں تو یہ ایسے ہیں جیسے خوا ب میں دیکھے جاتے ہیں ۔ مگر اس عالم میں محسوس اور مشاہدہ ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ لکھاہے کہ جب بہشتی ان انعاما ت سے بہر ہ ور ہوںگے تو کہیںگے
ھٰذا ا لذی رزقنا من قبل واتوا بہ متشا بھا (البقر ہ: ۲۶)
اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ دنیا میں جو دودھ یا شہد یا انگور یا انار وغیرہ چیزیں ہم کھاتے پیتے ہیں وہی وہاں ملیں گی نہیں وہ چیزیں اپنی نوعیت اور حالت کے لحاظ سے بالکل اور کی اور ہوں گی ہاں صرف نام کا اشتراک پایا جات ہے۔اور اگرچہ ان تمام چیزوں کا نقشہ جسمانی طور پر دکھایا گیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ بتا دیا گیا ہے کہ کہ وہ چیزیں روح کو روشن کرتی ہیں اور خدا کی معرفت پیدا کرنے والی ہیںان کا سرچشمہ روح اور راستی ہے رزقنا من قبل سے یہ مراد لینا کہ و ہ دنیا کی جسمانی نعمتیں ہیں بالکل غلط ہے بلکہ اللہ تعالٰیکا منشا اس آیت میں یہ ہے کہ جن مومنوں نے اعمال صالحہ کئے انہوں نے اپنے ہاتھ سے ایک بہشت بنایا جس کا پھل وہ اس دوسری زندگی میں بھی کھائیں گے اور وہ پھل چونکہ روحانی طور پر دنیا میں بھی کھا چکے ہوں گے اس لئے اس عالم میں اس کو پہچان لیں گے اور کہیں گے یہ تو وہی پھل معلوم ہوتے ہیں اور یہ وہی روحانی ترقیاں ہوتی ہیں جو دنیا میں کی ہوتی ہیں اس لئے وہ عابد و عارف ان کو پہچان لیں گے ۔
میں پھر صاف کر کے کہنا چاہتا ہوں کہ جہنم اور بہشت میں ایک فلسفہ ہے جس کا ربط باہم اس طرح پر قائم ہوتا ہے جو میں نے ابھی بتایا ہے مگر اس بات کو کبھی بھی بھولنا نہیں چاہئے کہ دنیا میں سزائیں تنبیہ اور عبرت کے لئے انتظامی رنگ کی حیثیت سے ہیں۔
سیاست اور رحمت دونوں باہم ایک رشتہ رکھتی ہیں اور اسی رشتہ کے اظلال یہ سزائیں اور جزائیں ہیں انسانی افعال اور اعمال اسی طرح پر محفوظ اور بند ہو جاتے ہیں جیسے فونو گراف میں آواز بند کی جاتی ہے جب تک انسان عارف نہ ہو اس سلسلہ پر غو رکر کے کوئی لذت اور فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔
معرفت کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ اول خدا شناس ہو اور خدا شناسی حاصل نہیں ہوتی جب تک کسی خدا نما انسان کی مجلس میں صدق نیت اور اخلاص کے ساتھ ایک کافی مدت تک نہ رہے۔اس کے بعد وہ اس سلسلہ کو جو جزا سزا کا اور دنیا اور عقبی کا ہے بری سہولت کے ساتھ سمجھ لے گا س بیان پر غور کرنے سے یہ بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ اور بہشت کی فلاسفی جوقرآن شریف نے بیان فرمائی ہے وہ کسی اور کتاب نے نہیں بتائی اور قرآن شریف کے مطالعہ سے یہ امر بھی کھل جاتا ہے اور خدا تعالیٰ نے اس کو تدریجاً بیان فرمایا ہے مگر یہ راز ان پر ہی کھلتا ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں اور پاک نفس لے کر سوچتے ہیں کیونکہ کوئی عمدہ بات بدوں تکلیف کہ نہیں ملتی ہے یہ کہنا کہ ہر شخص اس راز پر کیوں اطلاع نہیں پا سکتا میں کہتا ہوں کہ دیکھو ہمارے حواس کے کام الگ الگ ہیں مثلاً آنکھ دیکھ سکتی ہے زبان چکھ سکتی ہے اور بول سکتی ہے کان سن سکتے ہیں گویاہر ایک حواس میں سے اپنے اپنے فرائض اور قوت کے کے ذمہ دار ہیں ۔ یہ کبھی نہیںہو سکتا ہے کہ کان کے پاس مصری کی ڈلی رکھ دی جائے اور وہ اس کا ذائقہ بتا دے۔اور آنکھ خارجی آوازیں سن لے یا زبان دیکھ لے پس اسی طرح پر خدا تعالیٰ کی معرفت کے دقیق اسرار کو معلوم کرنے کے واسطے خاص قوی ہیں ۔ وہی ان پر اطلاع دے سکتے ہیں اور یہ قوی دئیے تو سب کو گئے ہیں لیکن ان سے کام ل ینے والے بہت تھوڑے ہیں ۔ظن کا کو ئی قوی اثر نہیں ہوسکتا۔یہی وجہ ہے کہ فلاسفروں کی ایمانی حالت بہت کمزور ہوتی ہے اور وہ ظنیات سے آگے نہیں بڑھتے افلاطون جو بڑا مدبر اور دانشمند سمجھا جاتا تھا جب مرنے لگا تو اس نے یہی کہا کہ فلاں بت پر اس کے لئے مرغا چڑھا دینا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کیسا کمزور ایمان تھا توحید پر قائم نہ ہوا۔
پس وہ عظیم ذریعہ جس سے ایک چمکتا ہوا یقین حاصل ہو اور خدا تعالیٰ کی بصیرت کے ساتھ ایمان قائم ہو ایک ہی ہے کہ انسان ان لوگوں کی صحبت اختیار کرے جو خدا تعالیٰ کے وجود پر زندہ شہادت دینے والے ہوں خود جنہوں نے اس سے سن لیا ہے کہ وہ ایک قادر مطلق اور عالم الغیب تمام صفات کاملہ سے موصوف خدا ہے۔
ابتداء میں جب انسان ایسے لوگوں کی صحبت میں جاتا ہے توا س کی باتیں بالکل انوکھی اور نرالی معلوم ہوتی ہیںوہ بہت کم دل میں جاتی ہیں گو دل ان کی طرف کھنچا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اندر کی گندگیوں اور ناپاکیوں سے ان کی معرفت کی باتوں کی ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے جو کچھ گردو غبار دل پر بیٹھا ہوتا ہے صادق کی باتیں ان کو دور کر کے اسے جلا دینا چاہتی ہے تا اس میں یقین کی قوت پیدا ہو جیسے جب کبھی کسی آدمی مسہل دیا جاتا ہے تو دست آور پیٹ میں جا کر ایک گڑگڑاہٹ پیدا کر دیتی ہے اور تمام مواد ردّیہ اور فاسدہ کو حرکت اور جوش دے کر باہر نکالتی ہے اسی طرح پر صادق ان ظنیات کو دور کرنا چاہتا ہے اور سچے علوم اور اعتقاد صحیحہ کی معرفت کرانی چاہتا ہے اور وہ باتیں اس کے دل کو جس نے بہت بڑا زمانہ ایک اور ہی دنیا میں بسر کیا ہوا ہتا ہے ناگوار اور ناقابل عمل معلوم ہوتی ہیں لیکن آخر سچائی غالب آجا تی ہے اور باطل پرستی کی قوتیں مر جاتی ہیں اور حق پرستی کی قوتیں نشوو نما پانے لگتی ہیںمیں اس نور کو لے کر آیا ہوں اور دنیا میں قوت یقین پیدا کرنا چاہتا ہوں اور اس قوت کا پیدا ہونا صرف الفاظ اور باتوں سے نہیں ہو سکتا ، بلکہ یہ ان نشانات سے نشوونما پاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مقتدرانہ طاقت سے صادقوں کے ہاتھ پر ظہور پاتے ہیں۔
میرا مدعا یہی ہے کہ کہ دوسری کلام نہ کروں جب تک ایک امر سننے والے کے ذہن نشین نہ کر لوں اور سننے والا فیصلہ نہ کر لے کہ اس بات کو اس نے سمجھ لیا ہے یا اس پر کوئی اعتراض کرے۔٭
’’ کیونکہ سوال کرنا بھی ایک قسم کا علم پیدا کرنا ہوتا ہے السؤال نصف العلم مشہو رہے پس میں اس کو غنیمت سمجھتا ہوں کہ کسی کے دل میں امر حق کے متعلق سوال کرنے کی تحریک پیدا ہو جاوے۔
یقینا یاد رکھو کہ سچی معرفت ہر ایک طالب حق کو جو مستقل مزاجی سے اس راہ میں قدم رکھتا ہے مل سکتی ہے۔ یہ کسی کے لئے خاص نہیں ہاں یہ سچ ہے کہ جو غفلت کرتا ہے اور صدق نیت سے اس کی جستجو نہیں کرتا یہ کسی کے لئے خاص نہیںہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ جوغفلت کرتا ہے اور صدق نیت سے اس کی جستجو نہیں کرتا اس کا کوئی حصہ نہیں ہے‘ ورنہ خدا تعالیٰ تو ہرایک انسان کو اپنی معرفت کے رنگ سے رنگین کرنا چاہتا ہے کیونکہ انسان کو خدا نے اپنی صورت پر پیدا کیا ہے اور اسی لئے فرمایا ہے
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا( العنکبوت:۷۰)
جن لوگوں نے ایک عورت یا بچے کو یا یوں کہو کہ انسان کو خدا بنایا ہے انہوں نے نہ خدا کو سمجھا ہے اور نہ انسان کی حقیقت پر غور کی ہے ۔ انسان کیا ہے ؟ وہ گویاکل مخلوقات الٰہیہ کی ایک مجموعی صورت ہے جس قدر مخلوق دنیا میں جیسی بھیڑ بکری وغیرہ موجود ہے سب انسانی قوی کی انفرادی صورتیں ہیں۔
جیسے ایک مصنف جب کوئی کتاب لکھنی چاہتا ہے ، تو پہلے متفرق نوٹ ہوتے ہیں پھر ان کو ترتیب دے کر ایک کتاب کی صورت لے کر آتا ہے اسی طرح پر کل مخلوقات انسانی قوی کے خاکے ہیں گویا یہ عملی صورت بتاتی ہے کہ انسان اعلی قوی لے کر آیا ہے پس عیسائی مذہب انسانی قوی کی توہین کرتا ہے اور انکی تکمیل اور نشوونما کے لئے ایک خطرناک روک پیدا کردیتا ہے جب کہ وہ انسان کو خدا بنا کر اس کے خون پر نجات کاانحصار رکھ دیتا ہے ۔
پس میں جو بات آپ کو پہنچانا چاہتا تھا وہ یہی ہے کہ میں انسان کو گناہ سے بچنے کا حقیقی ذریعہ بتاتا ہوں۔اور خدا تعالیٰ پر سچا ایمان پیدا کرنے کی راہ دکھاتا ہوں یہی میرا مقصد ہے جس کو لے کر میں دنیا میں آیا ہوں میری دلی خواہش ہے کہ آپ اس کو سمجھ لیں اور خوب غور سے سمجھ لیں تا کہ جہاں کہیں آپ جائیں اوراپنے دوستوں میں بیٹھ کر اپنے سفر کے عجائبات سنائیں وہاں ان کو یہ باتیں بھی بتائیں جو میں نے آپ کو سنائی ہیں۔
مسٹر ڈکسن:’’ میں نے آپ کا مدعا خوب سمجھ لیا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جہاں کہیں میں جائوں گا میں یورپین لوگوں میں اس کا تذکرہ کروں گا‘‘۔
حضرت اقدسؑ: ہم نے تو آپ کا چہرہ دیکھ کر ہی سمجھ لیا تھا کہ آپ میں انصاف ہے ہماری دلی آرزو یہی تھی کہ آپ کچھ دنوں ہمارے پاس رہ جاتے تا کہ ہمیں پورا موقع ملتا کہ اپنے اصول آپ کو سمجھائیں اور آپ کو بھی غور کرنے اور بار بار پوچھنے کا موقع ملتا مگر تا ہم ہم امید کرتے ہیں کہ آپ کی غور کرنے والی طبیعت ضرور کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھائے گی انسان کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا نمونہ یہی ہے کہ و ہ راستی کے قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہے بہت سے امورا یسے ہوتے ہیں کہ انسان محض ماں باپ کی تقلید کی وجہ سے باوجودیکہ اس صریح نقص دیکھتا ہے نہیں چھوڑتا۔ لیکن جو شخص سچے اخلاق اور اخلاقی جرأ ت سے حصہ رکھتا ہے وہ ان باتوں کی کچھ پروا نہیں کرتا وہ صرف راستی کا خواہش مند ہے۔
بچپن میں دو قوتیں بڑی تیز ہوتی ہیں اول ہر ایک چیز اندر چلی جاتی ہے دوم خوب یاد رہتی ہے بجہ کبھی دلائل نہیں پوچھتا کہ کیوں یہ بات ہے مگر اصل شجاعت یہی ہے کہ ان باتوں کو شیر مادر کی طرح پیتا ہے جب اسے معلوم ہو جاوے کہ ان حقیقت اور معرفت کا رنگ اور قوت نہیں ہے تو انہیں چھوڑنے کے لئے فی الفور تیار ہو جاوے تمام قوی کا بادشاہ انصاف ہے اگر یہ قوت ہی انسان میں مفقود ہے تو پھر سب سے محروم ہونا پڑتا ہے ۔انسان دنیا میں اس لئے نہیں آیا کہ وہ باطل کا ذخیرہ جمع کرے بلکہ اسے حقیقت شناس اور حق پرست ہونا چاہئیے۔دنیا میں چونکہ باطل ہے اور کچھ تعجب نہیں کہ باطل پرست اسے سچ سے بھی زیادہ چمکدار دکھانا چاہیں مگر دانشمند کو دھوکا نہیں کھانا چاہئیے اس کو لازم ہے کہ سچائی کو پورے طور پر پرکھے اور پھر قبول کرے۔
میرے نزدیک تمام مذاہب کا اس وقت یہ حال ہے کہ گویا کل مذاہب کا ایک میدان لگا ہوا ہے اور ہر ایک بجائے خود کوشش کرتا ہے کہ اپنے مذہب کو سچا دکھائے مگر میں کہتا ہوں کہ روحانیت کو دیکھو کہ کس میں ہے اور تائیدی نشان کون اپنے ساتھ رکھتا ہے اور کون سا مذہب ہے جو گناہ کے کیڑے کو ہلاک کرنے کی قوت رکھتا ہے میں آپ کو اپنے تجربہ کی بنا ء پر کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سچی معرفت جس کی گرمی سے گناہ سے کیڑا ہلاک ہوتاہ اسلام میں ملتی ہے اور کہ خدا تدعالی کی جس کی گرمی سے گناہ کاکیڑا ہلاک ہوتا ہے اسلام میں ملتی ہے اور یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کسی کے خون سے اس کیڑی کو موت آوے بلکہ خون پڑ کر تو اور بھی کیڑے پیدا کرے گا اس لئے خون گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہرگز نہیں ہے۔ نجات اور پاکیزگی کی سچی اصل وہی ہے جو میں نے آپ کو بتائی ہے اور ساری دنیا کو چاہئے کہ اسی کو تلاش کریں۔‘٭
۲۷؍نومبر۱۹۰۱ء؁
اس تقریر کو ختم کرتے کرتے نہر کا پل جو قادیان سے چار میل کے قریب ہے آ پہنچا۔ یہاں پہنچ کر مسٹر ڈکسن حضرت صاحب سے رخصت ہو کر بٹالہ کو چلے گئے اور حضرت اقدس واپس تشریف فرما ہوئے۔
فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ کاکلام جو اس کے برگزیدوں اور رسولوں پر نازل ہوتا ہے اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ عظیم الشان اعجاز اپنے اندر رکھتا ہے اور کوئی شخص تنہا یا دوسروں کی مدد سے مدد سے اس کی مثل لانے پر قادر نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی صرف ہمت کر دیتا ہے اور اس طرح پر اس کا معجزہ ہونا ثابت ہوتا ہے وہ بار بار مخالفوں کو اس کی مثال لانے کی دعوت اور تحدی کرتا ہے لیکن کوئی اس کے مقابلہ کے لئے نہیں اٹھ سکتا ۔ قرآن شریف جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے کامل معجزہ ہے وہ دوسری کتابوں کی نسبت ہم نہیں دیکھتے کہ ایسی تحدّی کی گئی ہو جیسی قرآن شریف نے کی ہے۔ اگرچہ ہم اپنے تجربہ اور قرآن شریف کے معجزہ کی بناء پر یہ ایمان لاتے ہیں کہ خدا کا کلام ہر حال میں معجزہ ہوتا ہے لیکن قرآن شریف کا اعجاز جس کاملیت اور جامعیت کے ساتھ معجزہ ہے دوسرے کو ہم اس کی جگہ پر نہیں رکھ سکتے کیونکہ بہت سی وجوہ اور صورتیں اس کے معجزہ ہونے کی ہیں اور کوئی شخص اس کی مثال بنانے پر قادر نہیں جو لوگ کہتے ہیں کہ کلام ایسا معجزہ نہیں ہو سکتا وہ بڑے ہی گستاخ اور دلیر ہیں کیا وہ نہیں جانتے اور دیکھتے کہ خدا تعالیٰ کی ساری مخلوق بے مثل اور لانظیر ہے پھر اس کے کلام کی نظیر کیسے ہو سکتی ہے ؟ ساری دنیا کے مدبر اور صناع مل کر اگر ایک تنکا بنانا چاہیں تو بنا نہیں سکتے پھر خدا کے کلام کا مقابلہ وہ کیسے کر سکتے ہیں۔
محض کلام کے اشتراک یا الفاظ کے اشتراک سے یہ کہہ دینا کوئی معجزہ نہیں نری حماقت اور اپنی موٹی عقل کا ثبوت دینا ہے کیونکہ ان اعلی مدارج اور کمالات پر ہر شخص اطلاع نہیں پا سکتا جو باریک بین نگاہ دیکھ سکتی ہے میرا یہ مذہب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خالص کلام لعل کی طرح چمکتی ہے لیکن بایں ہمہ قرآن شریف آپ کی خالص کلام سے بالکل الگ اور ممتاز نظر آتا ہے اس کی وجہ کیا ہے ۔
ہری چیز کے مراتب ہوتے ہیں مثلاً کپڑا ہے تو کھدر ، ململ ، اورخاصہ لٹّھا محض کپڑا ہونے کی حیثیت سے تو کپڑا ہی ہیں اور اس لحاظ سے وہ سفید ہیں بظاہر ایک مساوات رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور ریشم بھی سفید ہوتا ہے لیکن کیا ہر آدمی نہیں جانتا کہ ان سب میں جدا جدا مراتب ہیں اور ان میں ایک فرق پایا جاتا ہے ۔
؎گر حفظ مراتب نہ کنی زندیقی
پس جس طرح پر ہم سب اشیاء میں ایک اور فرق دیکھتے ہیں اسی طرح کلام میں بھی مدارج اور مراتب ہوتے ہیں ۔جبکہ آنحضرت کا کلام جو دوسرے انسانوں کے کلام سے بالا تر اور عظمت اپنے اندر رکھتا ہے اور ہر ایک پہلو سے اعجازی حدود تک پہنچتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کے برابر وہ بھی نہیں تو پھر اور کوئی کلام اس سے مقابلہ کر سکتا ہے ۔
یہ تو موٹا اور بدیہی بات ہے کہ جس سے سمجھ میں آسکتا ہے کہ قرآن شریف معجزہ ہے لیکن اسس کے اور بھی بہت سے وجوہ اعجاز ہیں خدا تعالیٰ کا کلام اس قدر خوبیوں کا مجموعہ ہے جو پہلی کسی کتاب میں نہیں پائی جاتی ہیں۔
خاتم النبییّن کا لفظ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بولا گیا ہے وہ بجائے خود یہ چاہتا ہے اور بالطبع اسی لفظ میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ کتاب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے وہ بھی خاتم الکتب ہے اور سارے کمالات اس میں موجود ہوں اور حقیقت میں وہ کمالات اس میں موجود ہیں۔
کیونکہ کلام الہٰی کے نزول کاعام قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ کہ جس قدر قوت قدسی اور کمال باطنی اس شخص کا ہوتا ہے اس قدر قوت و شوکت اس کلا م کی ہوتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور کمال باطنی چونکہ اعلی درجہ کا تھا جس سے بڑھ کر کسی انسان کا نہ کبھی ہوا اور نہ آئندہ ہو گا, اس لئے قرآن شریف بھی تمام پہلی کتابوں اور صحائف سے ا س اعلی مقام اور مرتبہ پر واقع ہوا ہے جہاں تک کوئی دوسرا کلام نہیں پہنچا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی استعداد اور قوت قدسی سب سے بڑھی ہوئی تھی اور تمام مقامات ِکمال آپؐ پر ختم ہوچکے تھے اؤر آپ انتہائی نقطہ پر پہنچے ہوئے تھے اس مقام پر قرآن شریف جو آپ پر نازل ہوا کمال کو پہنچا ہوا ہے اور جیسے نبوت کے کمالات آپ پر ختم ہو گئے اسی طرح پر اعجاز کلام کے کمالات قرآن شریف پر ختم ہوگئے آپ ؐ خاتم النبییّن ٹھہرے اور آپؐ کی کتاب خاتم الکتب ٹھہری جس قدر مراتب اور وجوہ اعجاز کلام کے ہو سکتے ہیں ان سب کے اعتبار سے آپؐ کی کتاب انتہائی نقطہ پر پہنچي ہوئی ہے۔
یعنی کیا باعتبار فصاحت و بلاغت ، کیا باعتبار مضامین، کیا باعتبار تعلیم، کیا باعتبار کمالات تعلیم، کیا باعتبار ثمرا ت تعلیم۔ غرض جس پہلو سے دیکھو قرآن شریف کا کمال نظر آتا ہے اور اس کا اعجاز ثابت ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے کسی خاص امر کی نظیر نہیں مانگی بلکہ عام طور پر نظیر طلب کی ہے یعنی جس سے چاہو مقابلہ کر و خواہ بلحاظ فصاحت وبلاغت ، خواہ بلحاط مطالب و مقاصد، خواہ بلحاظ تعلیم خواہ بلحاظ پیشگوئیوں اور غیب کے جو قرآن شریف میں موجود ہیں غرض کسی رنگ میں دیکھو یہ معجزہ ہے گو ملاں میری مخالفت کی وجہ سے اس امر کو قبول نہ کریں ، لیکن اس سے قرآن شریف کے اعجاز میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ یہ لوگ جوش تعصب میں بعض وقت یہاں تک اندھے ہو جاتے ہیں کہ ادب کے کل طریقوں کو پس پشت ڈال دیتے ہیں لودہانہ کے مباحثہ کے وقت میں لہ ظہر و بطن میں نے پیش کیا تو مولوی محمد حسین کو جوش آگیا اور راوی کی مخالفت شروع کر دی۔کیا خدا کے کلام سے محبت اور ارادت کا یہی تقاضا ہونا چاہئیتھا یاد رکھو الطریقۃ کلہا ادب اگر اس کو درست نہ سمجھتا تھا تو قرآن شریف کی محبت کی وجہ سے اس قدر مخالفت بھی تو جائز نہ تھی۔
الغرض قرآن شریف ایک کامل اور زندہ اعجاز ہے اور کلام کا معجزہ ایسا معجزہ ہوتا ہے کہ کبھی اور کسی زمانہ میں وہ پرانہ نہیں ہو سکتا اور نہ فنا کا ہاتھ اس پر چل سکتا ہے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا اگر آج نشان دیکھنا چاہیں تو کہاں ہیں؟ کیا یہودیوں کے پاس وہ عصا ہے اور اس میں کوئی قدرت اس وقت بھی سانپ بننے کی موجود ہے وغیرہ وغیرہ۔ غرض جس قدر معجزات کل نبیوں سے صادر ہوئے ان کے ساتھ ہی ان معجزات کا بھی خاتمہ ہو گیا مگر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات ایسے ہیں کہ وہ ہر زمانہ میں اور ہر وقت تازہ بتازہ اور زندہ موجود رہتے ہیں۔ ان معجزات کا زندہ ہونا اور ان پر موت کا ہاتھ نہ چلنا صاف طور پر اس امر کی شہادت دے رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی زندہ نبی ہیں اور حقیقی زندگی یہی ہے جو آپ کو عطا ہوئی ہے اور کسی دوسرے کو نہیں ملی آپؐ کی تعلیم اس لئے زندہ تعلیم ہے کہ اس کے ثمرات اور برکات اس وقت بھی ہی موجود ہیںجو آج سے تیرہ سو سال پیشتر موجود تھے دوسری کوئی تعلیم ہمارے سامنے اس وقت ایسی نہیں ہے جس پر عمل کرنیو الا یہ دعوی کر سکے کہ اس کے ثمرات اور برکات اور فیوض سے مجھے حصہ دیا گیا ہے اور میں ایک آیۃ اللہ ہو گیا ہوں لیکن ہم خدا تعالیٰ کے فضل و کرم ، قرآن شریف کی تعلیم کے ثمرات اور برکات کا نمونہ اب بھی موجود پاتے ہیں اور ان تمام آثار اور فیوض کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع سے ملتے ہیں اب بھی پاتے ہیں چنانچہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو اس لئے قائم کیا ہے تاوہ اسلام کی سچائی پر زندہ گواہ ہو اور ثابت کر دے کہ وہ برکات اور آثار اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کامل اتباع سے ظاہر ہوتے ہیں جو تیرہ سوبرس پہلے ظاہر ہوتے تھے چنانچہ صدہا نشان اس وقت تک ظاہر ہو چکے ہیں اور ہر قوم ہر مذہب کے سرگروہوں کو ہم نے دعو ت کی ہے کہ وہ ہمارے مقابلہ میں آکر اپنی صداقت کے نشان دکھائیں مگرایک بھی ایسا نہیں کہ جن سے اپنے مذہبکی سچائی کا کوئی نمونہ عملی طور پر دکھائے۔
ہم خدا تعالیٰ کے کلام کو کامل اعجاز مانتے ہیں اور ہمارا یقین اور دعوی ہے کہ کوئی دوسری کتاب اس کے مقابل نہیں ہے مثلاً میں علی وجہ البصیرۃ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کاکوئی امر پیش کریں وہ اپنی جگہ پر ایک نشان اور معجزہ ہے۔
مثلا تعلیم ہی کو دیکھیں تو وہ ایک عظیم معجزہ نظر آتی ہے او ر فی الواقع معجزہ ہے ایسے حکیمانہ نظام اور فطری تقاضوں کے موافق واقع ہوئی ہے کہ دوسری تعلیم اس کے ساتھ ہرگز ہرگز مقابلہ نہیں کر سکتی قرآن شریف کی تعلیم پہلی ساری تعلیموں کی متّمم اور مکمل ہے۔ اس وقت صرف ایک پہلو تعلیم کا دکھا کر میں ثابت کر تا ہوں کہ قرآن شریف کی تعلیم اعلی درجہ پر واقع ہوئی ہے اور معجزہ ہے مثلاً توریت کی تعلیم( حالات موجودہ کے لحاظ سے کہو یا ضروریات وقت کے موافق) کا سارا زور قصاص اور بدلہ پر ہے۔جیسے آنکھ کے بدلہ آنکھ اور دانت کے بدلہ دانت اور بالمقابل انجیل کی ساری تعلیم کا زور عفو و درگزر پر تھا اور یہاں تک اس کی تاکید کی کہ اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسری بھی اس کی طرف پھیر دو کوئی ایک کوس تک بیگار لے جائے تو دو کوس چلے جائو۔کرتہ مانگے تو چغہ بھی دے دو۔اس طرح پر ہر باب میں توریت اور انجیل کی تعلیم میں یہ بات نظر آئے گی کہ توریت افراط کا پہلولیتی ہے اور انجیل تفریط کا۔ مگر قرآن شریف ہر موقع او رمحل پرحکمت اور وسط کی تعلیم دیتا ہے جہاں دیکھو جس بارے میں قرآن کی تعلیم پر نگاہ کرو تو معلوم ہو گا کہ وہ محل اور موقعہ کا سبق دیتا ہے اگر ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نفس تعلیم سب کا ایک ہی ہے لیکن اس میں کسی کو انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ توریت اور انجیل میں سے ہر ایک کتاب نے ایک ایک پہلو پر زور دیا ہے مگر فطرت انسانی کے تقاضے کے موافق صرف قرآن شریف نے تعلیم دی ہے یہ کہنا کہ توریت کی تعلیم افراط کے مقام پر ہے اس لئے وہ خد اکی طرف سے نہیں یہ صحیح نہیں ہے اصل بات یہ ہے کہ اس وقت ضرورتوں کے لحاظ سے ایسی تعلیم بکار تھی اور چوںکہ توریت یا انجیل قانون مختص المقام کی طرح تھیں اس لئے ان تعلیموں میں دوسرے پہلوئوں کو ملحوظ نہیں رکھا گیا لیکن قرآن شریف چوں کہ تمام دنیا اور تمام نوع انسان کے واسطے تھا اس لئے اس تعلیم کو ایسے مقام پر رکھا جو فطرت انسانی کے صحیح تقاضوں کے موافق تھی اور یہی حکمت ہے کیونکہ حکمت کے معنی ہیں وضع الشیئ فی محلہ یعنی کسی چیز کو اس کے اپنے محل پر رکھا پس یہ حکمت قرآن شریف نے ہی سکھلائی ہے۔
توریت جیسا کہ بیان کیا ہے ایک بے جا سختی پر زور دے رہی تھی اور انتقامی قوت کو بڑھاتی تھی اور انجیل بالمقابل بے ہودہ عفو پر زور مارتی تھی قرآن شریف نے ان دونوں کو چھوڑ کر حقیقی تعلیم دی ۔
جزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا فمن عفا و اصلح فأجرہ علی اللہ( الشوریٰ:۴۱)
یعنی بدی کی جزا اسی قدر بدی ہے لیکن جو شخص معاف کر دے اور اس معاف کرنے میں اصلاح مقصود ہو اس کا اجر اس کے رب کے پاس ہے۔٭
’’ اب اس تعلیم پر نگاہ کرو کہ نہ یہ توریت کی طرح محض انتقام پر ہی زور دیتی ہے اور نہ انجیل کی طرح ایسے عفو پر جو بسا اوقات خطرناک نتائج کا موجب ہو سکتا ہے بلکہ قرآن شریف کی تعلیم حکیمانہ نظام اپنے اندر رکھتی ہے مثلاً ایک خدمتگار ہے جو بڑا شریف اور نیک چلن ہے کبھی اس نے خیانت نہیں کی او رکوئی نقصان نہیں کیا اگر اتفاقا وہ چاء پلانے کے لئے آئے اور اس کے ہاتھ سے چائے کی پیالیاں گر کر ٹوٹ جاویں تو اس وقت مقتضائے وقت کیا ہو گا کیا یہ کہ اس کو سزادیں یا معاف کر دیںایسی حالت میں ایسے شریف خدمت گار کو معاف کر دینا اس کے واسطے کافی سزا ہو گی۔لیکن ایک شریر خدمتگار جو ہر روز کوئی نہ کوئی نقصان کرتا ہے اس کو معاف کردینا اور بھی دلیر کر دینا ہے اس لئے اس کو سزا دینی ضروری ہوگی مگر انجیل یہ نہیں بتاتی انجیل پر عمل کر کے تو گورنمنٹ کو چاہئیے کہ اگر کوئی ہندوستان مانگے تو وہ انگلستان بھی اس کے حوالے کرے۔ کیا عملی طور پر انجیل مانی جاتی ہے ہرگز نہیں گورنمنٹ کے سیاست مدن کے اصولوں پر مختلف محکموں کا قائم کرنا اور عدالتوں کا کھولنا دشمن کی حفاظت کے لئے فوجوں کا رکھنا وغیرہ وغیرہ جس قدر بھی امور ہیں انجیل کی تعلیم کے موافق نہیں ہیں اس لئے انجیل کی تعلیم کے موافق کوئی انتظام ہو سکتا ہی نہیں۔
غرض قرآن شریف کی تعلیم جس پہلو اور جس باب میں دیکھو اپنے اندر حکیمانہ پہلو رکھتی ہے افراط یا تفریط اس میں نہیں ہے بلکہ وہ نقطۂ وسط پر قائم ہوئی ہے اور اسی لئے امت کا نام بھی
امۃ وسطا ( البقرۃ:۱۴۴)
رکھا گیا ہے ۔یہ بات کہ انجیل یا توریت کی تعلیم کیوں اعتدال اور وسط پر واقع نہیں ہوئی اس سے خدا تعالیٰ پر کوئی اعتراض نہیں آتا اور نہ ہی اس کی تعلیم کو ہم خلاف آئین و حکمت کہہ سکتے ہیں کیونکہ حکمت کے یہی معنی ہیں کہ وضع الشیئی فی محلہ۔ اس وقت کی حکمت کا تقاضا ایسی ہی تعلیم تھی ۔ جیسا کہ ہم نے بتایا ہے کہ سزا کے وقت سزا دینا بھی حکمت ہے اور عفو کے وقت عفو ہی حکمت ہے اسی طرح پر اس وقت طبائع کی حالت کچھ ایسی ہی واقع ہوئی تھی کہ تعلیم کو ایک پہلو پر رکھنا پڑا۔ بنی اسرائیل چار سو برس تک فرعون کی غلامی میں رہے تھے اس وجہ سے ان لوگوں کے عادات اور رسوم کا ان پر بہت اثر پڑا ہوا تھا اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ بادشاہ کے اطوار و عادات اور آئین ملک داری کا اثر رعایا پر پڑتا ہے بلکہ ان کے مذہب تک کا اثر جا پڑتا ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ الناس علی دین ملوکہم ۔ چنانچہ سکھوں کے زمانہ میں عام لوگوں پر بھی یہ اثر پڑا تھا کہ لوگ عموما ڈاکہ زن اور دھاڑوی ہو گئے تھے۔ ہری سنگھؔ و غیرہ براتیں ہی لوٹ لیا کرتے تھے اسی طرح پرفرعونیوں کی غلامی میں رہ کر بنی اسرائیل عدل کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے ان پر ہمیشہ ظلم ہوتا تھا وہ بھی اعتداء اور ظلم کر بیٹھے تھے پس ان کی اصلاح کے لئے تو پہلا مرحلہ یہی چاہئے تھا کہ ان کو عدل کی تعلیم سکھائی جاتی اس لئے یہ تعلیم ان کو دی گئی کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت ۔اس تعلیم پر وہ اس قدر پختہ ہو گئے کہ پھر انہوں نے انتقام لینا ہی شریعت کی جان سمجھ لیا او رمذہب یہ ہو گیا کہ بدلہ نہ لیں تو گنہ گار ٹھہریں گے۔ اس واسطے جب حضرت مسیح علیہ السلام آئے اور انہوں نے دیکھا کہ بنی اسرائیل کی حالت ایسی ہو گئی ہے تو انہوں نے حد درجہ عفو کی تعلیم دی کیونکہ جس قدر زور کے ساتھ وہ انتقام پر قائم ہو چکے تھے اگر اس سے بڑھ کر عفو کی تعلیم نہ دی جاتی تو وہ مؤثر ثابت نہ ہوتی اس لئے ان کی تعلیم کا سارا دارو مدار اسی پر بس رہا پس ان اسباب اور وجوہ کے لحاظ سے یہ دونوں تعلیمیں اگرچہ اپنی جگہ ہی حکمت ہیں لیکن ان کو قانون مختص المقام یا قانون مختص الوقت کی طرح سمجھنا چاہئے۔
ابدی اور دائمی قانون ……خدا تعالیٰ کی حکمتیں اور احکام دو قسم کے ہوتے ہیں بعض مستقل اور دائمی ہوتے ہیں بعضی آنی اور وقتی ضرورتوں کے لحاظ سے صادر ہوتے ہیں اگرچہ اپنی جگہ ان میں بھی ایک استقلال ہوتاہے مگر وہ آنی ہی ہوتے ہیں مثلاً سفر کے لئے نماز یا روزہ کے متعلق اور احکام ہوتے ہیں اور حالت قیام میں اور ۔ باہر جب عورت نکلتی ہے تو وہ برقع لے کر نکلتی ہے گھر میں ایسی ضرورت نہیں ہوتی کے برقع لے کر پھرتی رہے۔ اسی طرح پر توریت اور انجیل کے احکام آنی اور وقتی ضرورتوں کے موافق تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جو شریعت اور کتاب لے کر آئے تھے وہ کتاب مستقل اور ابدی شریعت ہے اس لئے اس میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ کامل اور مکمل ہے قرآن شریف قانون مستقل ہے اور توریت ، انجیل اگر قرآن شریف نہ آتا تب بھی منسوخ ہو جاتیں کیونکہ کہ وہ مستقل اور ابدی قانون نہ تھے۔
میں نے بعض احمقوں کو اعتراض کرتے سنا ہے کہ ایسا کیوںکیا گیا۔خدا تعالیٰ نے پہلی کتابوں کو کیوں منسوخ کیا ، کیا اس کو علم نہ تھا پہلے ہی مکمل اور مستقل ابدی شریعت بھیجنی تھی ۔ یہ اعتراض بالکل نادانی کا اعتراض ہے۔ کیونکہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ ہر نسخ کے لئے ضروری ہے کہ علم نہ ہو اگریہ صحیح ہے کہ ہر نسخ میں عدم علم ثابت ہوتا ہے تو پھر اس بات کا کیا جواب کہ جو کپڑے برس یا دو برس کے بچے کو پہنائے جاتے ہیں کیوں وہی کپڑے پانچ ، دس یا پچیس برس کے ایک جوان کو نہیںپہنائے جاتے؟ کیا ہو سکتا ہے کہ گز آدھ گز کا کرتہ ایک نوجوان کو پہنایا جاوے ؟ یقینا کوئی سلیم الطبع انسان اس بات کو پسند نہیں کرے گا بلکہ وہ ایسی حرکت پر ہنسی اڑائے گا ۔ اب اس مثال سے کیسی صفائی کے ساتھ ثابت ہو تا ہے کہ یہ ہرگز ضروری نہیں ہے کہ ہر نسخ کے لئے عدم علم ثابت ہو۔ جب ہم بجائے خود معرض تغیر میں ہیں تو ہماری ضرورتیں اس تغیر کے ساتھ ساتھ بدلتی جاتی ہیں پھر ان تبدیلیوں کے موافق جو نسخ ہو تا ہے وہ ایک علم اور حکمت کی بنا ء پر ہوا یا عدم علم پر ۔ یہ اعتراض سراسر جہالت اور حمق کا نشان ہے جیسے پیدا ہونے والے بچے کے منہ میں روٹی کا ٹکڑہ یا گوشت کی بوٹی نہیں دے سکتے اسی طرح پر ابتدائی حالت میں میں شریعت کے وہ اسرار نہیں مل سکتے جو اس کے کمال پر ظاہر ہوتے ہیں طبیب ایک وقت خود مسہل دیتا ہے اور دوسرے وقت جب کہ اسہال کا مرض ہو اس کو قابض دوا دیتا ہے۔ ہر حالت میں وہ ایک ہی نسخہ کس طرح لکھ سکتا ہے ۔
غرض قرآن شریف حکمت ہے اور مستقل شریعت ہے اور ساری تعلیموں کا مخزن ہے اور اس طرح پر قرآن شریف کا پہلا معجزہ اعلی درجہ کی تعلیم ہے اور پھر دوسر امعجزہ قرآن شریف کا اس کی عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں چنانچہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ تحریم اور سورۂ نور میں کتنی بڑی اور عظیم الشان پیشگوئیاں ہیں رسول اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی ساری پیشگوئیوں سے بھری ہوئی ہے ان پر اگر ایک دانشمند آدمی خدا سے خوف کھا کر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ کس قدر غیب کی خبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہیں کیا اسو قت جبکہ ساری قوم آپ کی مخالف تھی اور کوئی ہمدرد اور رفیق نہ تھا یہ کہنا کہ
سیھزم الجمع و یولون الدبر( القمر:۴۶)
چھوٹی بات ہو سکتی تھی ۔ اسباب کے لحاظ سے تو کوئی ایسا فتوی دیا جاتا تھا کہ ان کا خاتمہ ہو جاوے گا مگر آپ ایسی حالت میں اپنی کامیابی اور دشمنوں کی ذلت اور نامرادی کی پیشگوئیاں کر رہے ہیں اور آکر اسی طرح وقوع میں آتا ہے پھر تیرہ سو سال کے بعد قائم ہونے واے سلسلہ کی اور اس وقت کے آثار و علامات کی پیشگوئیاں کیسی عظیم الشان اور لا نظیر ہیں دنیا کی کسی کتاب کی پیشگوئیوں کو پیش کر دیا کیا یہ مسیح کی پیشگوئیاں ان کا مقابلہ کر سکتی ہیں جہاں صرف اتنا ہی کہ زلزلے آئیں گے قحط پڑیں گے آندھیاں آئیں گی مرغ بانگ دے گا وغیرہ وغیرہ۔
اس قسم کی معمولی باتیں تو ہر ایک شخص کہہ سکتا ہے اور یہ حوادثات ہمیشہ ہی ہوتے رہتے ہیں پھر اس میں غیب گوئی کی قوت کہاں سے ثابت ہوتی ہو۔ اس کے مقابلہ میں قرآن شریف کی پیشگوئی دیکھو۔
الم۔ غلبت الروم فی ادنی الأ رض و ھم من بعد غلبھم سیغلبون۔فی بضع سنین للہ الأمر من قبل و من بعد و یومئذ یفرح المؤمنون( الروم:۲تا۵)
میں اللہ بہت جاننے والا ہوں۔رومی اپنی سرحد میں اہل فارس سے مغلوب ہو گئے ہیں اور بہت ہی جلد چند سال میں یقینا غالب ہونے والے ہیں پہلے اور آئندہ آنے والے واقعات کا علم اور ان کے اسباب اللہ ہی کے ہاتھ ہیں جس دن رومی غالب ہوں گے وہی دن ہوگا جب مومن بھی خوشی کریں گے۔
اب غور کرکے دیکھو کہ یہ کیسی حیرت انگیز اور جلیل القدر پیشگوئی ہے ایسے وقت میں یہ پیش گوئی کی گئی جب مسلمانوں کی کمزوراور ضعیف حالت خود خطرے میں تھی نہ کوئی سامان تھا نہ طاقت تھی ایسی حالت میں مخالف کہتے تھے کہ یہ گروہ بہت جلد نیست و نابود ہو جائے گا مدت کی قید بھی اس میں لگا دی اور پھر یومئذ یفرح المؤمنون کہہ کر دوہری پیشگوئی بنادی یعنی جس روز رومی فارسیوں پر غالب آئیں گے اسی دن مسلمان بھی بامراد ہو کر خوش ہوں گے؛ چنانچہ جس طرح یہ پیشگوئی کی تھی اسی طرح بدرؔ کے روز یہ پوری ہو گئی ادھر رومی غالب آئے اور ادھر مسلمانوں کو فتح ہوئی ۔ اسی طرح سورۂ یوسف میں آیات للسائلین کہہ کر اس سارے قصہ کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور پیشگوئی بیان فرمایا ہے۔
غرض جہاں تک دیکھا جاوے قرآن شریف کی پیشگوئیاں بڑے اعلی درجہ پر واقع ہوئی ہیں اور کوئی کتاب اس رنگ میں ان پیشگوئیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ یہ پیشگوئیاں یہی نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں پوری ہو گئی تھیں بلکہ ان کاسلسلہ برابرجاری ہے؛چنانچہ بہت سے پیشگوئیاں تھیں جو اب پوری ہو رہی ہیں اوربہت اب بھی باقی ہیں جو آئندہ پوری ہوں گی۔
منجملہ ان پیشگوئیوں کے جوا س وقت پوری ہو رہی ہیں اس سلسلہ کی پیشگوئی ہے جو قرآن شریف کے اول سے شروع ہو کر آخر تک چلی گئی ہے ؛ چنانچہ سورۂ فاتحہ میں صراط الذین انعمت علیہم کہہ کر مسیح موعود کی پیشگوئی فرمائی اور پھر اس سورت میں مغضوب اور ضالین دو گروہوں کا ذکر کے یہ بھی بتا دیا کہ جب مسیح موعود آئے گا تو اس وقت ایک قوم مخالفت کرنے والی ہو گی جو مغضوب قوم یہودیوں کے نقش قدم پر چلے گی۔اور ضالین میںیہ اشارہ کیا کہ قتل دجّال اور کسرِصلیب کے لئے آئے گا،کیونکہ مغضوب سے یہود اور ضالین سے نصاریٰ بالاتفاق مراد ہیں اور آخر قرآن شریف میں بھی شیطان کا ذکر کیا , جو اصل دجّال ہے اور ایسا ہی سورۂ نور کی آیت استخلاف میں مسیح موعود خاتم الخلفاء کی پیشگوئی کی اور سی طرح سورۂ تحریم میں صراحت کے ساتھ ظاہر کیا کہ اس امت میں بھی ایک مسح آنے والا ہے کیونکہ جب مومنوں کی مثال مریم کی سی ہے تو اس امت میںکم ا ز کم ایک شخص تو ایسا ہو جو مریم صفت ہو اور مریم میں نفخ روح ہو کر مسیح پیدا ہو توا س مومن میں جب نفخ روح ہو گا تو خو د ہی مسیح ہو گا۔٭
ان پیشگوئیوں کا ظہور جو اس سلسلہ کی صورت میں ہوا ہے تو کیا یہ چھوٹی سی بات ہے ۔ یہ سلسلہ بہت بڑی پیش گوئی کا پورا ہونا ہے جو تیرہ سو سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لبوں پر جاری ہوء۔ اس قدرمدت دراز پہلے یہ خبر دینا قیافہ شناسی اوراٹکل بازی نہیں ہو سکتی اور پھر یہ پیشگوئی اکیلی نہیں ، بلکہ اس کے ساتھ ہزاروں وہ آیات و نشانات ہیں جو اس وقت کے لئے پہلے سے بتا دئیے گئے تھے اور ان سب کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے خود یہاں ہزاروں نشانوں کا سلسلہ جاری کر دیا چنانچہ کئی سو پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں ۔ جو قبل از وقت ملک میں شائع کی گئیں پھر وہ اپنے وقت پر پوری ہوئی ہیں ۔ جن کو ہمارے مخالف بھی جانتے ہیں ۔ اب کیا قرآن کریم کا معجزہ اس کی پاک تعلیم کا نتیجہ اور اثر ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی اور تاثیر انفاس کے ثمرات نہیں ۔ ماننا پڑے گاکہ یہ سب کچھ آپ ہی کے طفیل ہے کیونکہ یہ مسلم بات ہے۔
خارقے کز ولی مسموع است
معجزہ آن نبی متبوع است
اس لئے جس قدر یہ نشانات اور آیات یہاں ظاہر ہو رہی ہیں یہ درحقیقت رسول اللہ ا ہی کے خوارق اور معجزات اور پیشگوئیاں قرآن شریف ہی کی پیش گوئیاں ہیں کیونکہ آپ ہی کے اتباع اورقرآن شریف ہی کی تعلیم کے ثمرات ہیں ۔ اور اس وقت کوئی اور مذہب ایسا نہیںہے جس کا پیروا ور متبع یہ دعوی کر سکتا ہو کہ وہ پیشگوئیاں کر سکتا ہے یا اس سے خوارق کا ظہور ہوتا ہے اس لئے اس پہلو سے قرآن شریف کا معجزہ تمام کتابوں کے اعجاز سے بڑھا ہوا ہے۔
پھر ایک اور پہلو فصاحت بلاغت ایسی اعلی درجہ کی اورمسلم ہے کہ انصاف پسند دشمنوں کی بھی اسے ماننا پڑا ہے قرآن شریف نے فأ توا بسورۃ من مثلہٖ( البقرہ:۲۴) کا دعوی کیا۔ لیکن آج تک کسی سے ممکن نہیں ہوا کہ اس کی مثل لا سکے عرب جو برے فصیح و بلیغ بولنے والے تھے اور خاص موقعوں پر بڑے بڑے مجمع کرتے تھے اور ان میں اپنے قصائد سناتے تھے وہ بھی اس کے مقابلہ سے عاجز ہو گئے۔
اور پھر قرآن شریف کی فصاحت و بلاغت ایسی نہیں ہے کہ اس میں صرف الفاظ کا تتبع کیا جاوے اور معانی اور مطالب کی پرواہ نہ کی جاوے بلکہ جیسا اعلی درجہ کے الفاظ ایک عجیب ترتیب کے ساتھ رکھے گئے ہیں اسی طرح پر حقائق اور معارف کو ان میں بیان کیا گیا ہے اور یہ رعایت انسان کا کام نہیں کہ وہ حقائق اور معارف کو بیان کرے اور فصاحت و بلاغت کے مراتب کو بھی ملحوظ رکھے۔
ایک جگہ فرماتا ہے کہ یتلوا صحفا مطھرۃ فیہا کتب قیمہ( البینہ:۳،۴) یعنی ان پر ایسے صحائف پڑھتا ہے کہ جن میں حقائق و معارف ہیں انشاء والے جانتے ہیں کہ انشاء پردازی میںپاکیزہ تعلیم اور اخلاق فاضلہ کو ملحوظ رکھنا بہت ہی مشکل ہے اور پھر ایسی مؤثر اور جاذب تعلیم دینا جو صفات رذیلہ کو دور کرکے بھی دکھا دے اور ان کی جگہ اعلی درجہ کی خوبیاں پیدا کر دے عربوں کی جو حالت تھی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں وہ سارے عیبوں اور برائیوں کو مجموعہ بنے ہوئے تھے اور صدیوںسے ان کی یہ حالت بگڑی ہوئی تھی مگر کس قدر آپ کے فیوضات اور اور برکات میں قوت تھی کہ تئیس برس کے اندر کل ملک کی کایا پلٹ دی۔
ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی قرآن کی لے کر دیکھی جاوے تو معلوم ہو گا کہ اس میں فصاحت و بلاغت کے مراتب کے علاوہ تعلیم کی ذاتی خوبیوں اور کمالات کوا س میں بھر دیا ہے ۔ سورۂ اخلاص ہی کو دیکھو کہ توحید کے کل مراتب کو بیان فرمایا ہے اس میں ہر قسم کے شرکوں کا رد کر دیا ہے ۔ اسی طرح سورۂ فاتحہ کو دیکھو کہ کس قدر اعجاز ہے چھوٹی سی سورۃ جس کی سات آیتیں ہیں لیکن دراصل سارے قرآن شریف کا فن اور خلاصہ اور فہرست ہے۔اور پھر اس میں خدا تعالٰیکی ہستی ، اس کی صفات ,دعا کی ضرورت اس کی قبولیت کے اسبا ب اور ذرائع ، مفید سود مند دعائوں کا طریق ، نقصان رساں راہوں سے بچنے کی ہدایت سکھلائی ہے ، وہاں دنیا کے کل مذاہب باطلہ کا رد اس میں موجود ہے۔
اکثر کتابوں اور اہل مذہب کو دیکھو گے کہ وہ دوسرے مذہب کی برائیاں اور نقص بیان کرتے ہیں اور دوسری تعلیموں پر نکتہ چینی کرتے ہیں، مگر ان نکتہ چینیوں کو پیش کرتے ہوئے کوئی اہل مذہب نہیں کرتا کہ اس کے بالمقابل کوئی عمدہ تعلیم بھی پیش کرے اور دکھائے کہ اگر میں فلاں بری بات کرتا سے بچانا چاہتا ہوں تو اس کی بجائے یہ اچھی تعلیم دیتا ہوں یہ کسی مذہب میں نہیںیہ فخر قرآن شریف ہی کو ہے کہ جہاں وہ دوسرے مذاہب باطلہ کا رد کرتا ہے اور ان کی غلط تعلیموں کو کھولتا ہے وہاں اصلی اور حقیقی تعلیم بھی پیش کرتا ہے جس کا نمونہ اس سورۃ فاتحہ میں دکھایا ہے کہ ایک ایک لفظ مذاہب باطلہ کی تردید کر رہا ہے ۔
مثلاًفرمایا:الحمد للہ ساری تعریفیں خواہ و ہ کسی قسم کی ہوں وہ اللہ تعالٰیہی کے لئے سزا وار ہیں اب س لفظ کو کہہ کر ثابت کیا کہ قرآن شریف جس خدا کو منوانا چاہتا ہے وہ تمام نقائص سے منزہ اور تمام صفات کاملہ سے موصوف ہے کیونکہ اللہ کا لفظ اس ہستی پر بولا جاتا ہے جس میں کوئی نقص ہو ہی نہیں۔ اور کمال دو قسم کے ہوتے ہیں یا بلحاظ حسن کے یا بلحاظ احسان کے پس دونوں قسم کے کمال اس لفظ میں پائے جاتے ہیں ۔ دوسری قوموں نے جو لفظ خدا تعالیٰ کے لئے تجویز کئے ہیں وہ ایسے جامع نہیں ہیں او ریہ لفظ اللہ کا دوسرے باطل مذاہب کے معبودوں کی ہستی اور ان کی صفات کے مسئلہ کی پوری طرح تردید کرتا ہے مثلاً عیسائیوں کو لو ۔ وہ جس اللہ کو مانتے ہیں وہ ایک عاجز ضعیف عورت کا بچہ ہے جس کا نام یسوع ہے جو معمولی بچوں کی طرح دکھ درد کے ساتھ ماں کے پیٹ سے نکلا اور عوارض میں مبتلاء رہا ۔ بھوک پیاس کی تکلیف سے سخت بے چین رہا ار سخت تکلیفیں اور دکھ اسے اٹھانے پڑے جس قدر ضعف اور کمزوریوں کے عوارض ہوتے ہیں ان کا شکار رہا آخر یہودیوں کے ہاتھوں پیٹا گیا اور انہوں نے پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا۔
اب اس صورت کو جو یسوع کی ( عیسائیوں نے جس کو خدا بنا رکھا ہے ) انجیل سے ظاہر ہوتی ہے کسی دانشمند کے سامنے پیش کرو کیا وہ کہہ دے گا کہ بے شک اس میں تمام صفات کاملہ پائی جاتی ہیں اور کوئی نقص اس میں نہیں ہرگز نہیں بلکہ انسانی کمزوریوں اور نقصوں کا پہلا اور کامل نمونہ اسے ماننا پڑے گا، تو الحمد للہ کہنے والا کب ایسے کمزور اور مصلو ب اور ملعون خدا کو مان سکتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن عیسائیوں کے بالمقابل ایسے خدا کی طرف بلاتا ہے جس میں کوئی نقص ہو ہی نہیں سکتا۔
پھر آریہ مذہب کو دیکھو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا پرمیشر وہ ہے جس نے ذرات عالم اور ارواح ِعالم کو بنایا ہی نہیں بلکہ جیسا وہ ازلی ابدی ہے ، ویسے ہی ہمارے ذرات جسم وغیرہ بھی خدا کے بالمقابل اپنی ایک مستقل ہستی رکھنے والی چیزیں ہیں جو اپنے قیام اور بقاء کے لئے اس کی محتاج نہیں ہیں بلکہ ایک طرح وہ اپنی خدائی چلانے کے واسطے ان چیزوں کا محتاج ہے وہ کسی چیز کا خالق نہیںاور پھر اس بات کا سمجھ لینا بھی کچھ مشکل نہیں کہ جو خالق نہیں وہ مالک کیسے ہو سکتا ہے اور ایسا ہی ان کا اعتقاد ہے کہ وہ رازق کریم وغیرہ کچھ بھی نہیں کیونکہ انسان کو جو کچھ ملتا ہے اس سے زائد اسے کچھ مل سکتا ہی نہیں۔
اب بتائو اس قدر نقص جس خدا میں پیش کئے جاویں عقل سلیم ک اسے تسلیم کر نے کے لئے رضا مند ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پر جس قدر مذاہب باطلہ دنیا میں موجود ہیں الحمد للہ کا جملہ خدا تعالیٰ کے متعلق ان کے کل غلط اور بے ہودہ خیالات و معتقدات کی تردید کرتا ہے۔
پھراس کے بعد رب العالمین کا لفظ ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے اللہ وہ ذات جمیع صفات کاملہ ہے جو تمام نقائص سے منزہ ہو اور حسن و احسان کے اعلی نکتہ تک پہنچا ہو اہو تاکہ اس بے مثل و مانند ذات کی طرف لوگ کھینچے جائیں۔ اور روہ کے جوش اور کشش سے اس کی عبادت کریں۔اس لئے پہلی خوبی احسان کی صفت رب العالمین کے اظہار سے ظاہر فرمائی ہے جس کے ذریعہ کل مخلوق فیض ربوبیت سے فائدہ اٹھا رہی ہے مگر اس کے بالمقابل باقی سب مذہبوں نے جو اس وقت موجود ہیں اس کا بھی انکار کیا ہے مثلاً آریہ جیسا کہ ابھی بیان کیا ہے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان کو جو کچھ مل رہا ہے وہ سب اس کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے اور خدا کی ربوبیت سے وہ ہرگز ہرگز بہرہ ور نہیں ہے کیونکہ جب وہ اپنی روحوں کا خالق ہی خدا کو نہیں مانتے اور ان کو اپنے بقا ء و قیام میں بالکل غیر محتاج سمجھتے ہیں تو پھر اس صفت ربوبیت کا بھی انکار کرنا پڑا۔
ایسا ہی عیسائی بھی اس صفت کے منکر ہیں کیونکہ وہ مسیح کو اپنا رب سمجھتے ہیں اور ربنا المسیح ربنا المسیح کہتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو جمیع مافی العالم کا رب نہیں مانتے بلکہ مسیح کو اس فیض ربوبیت سے باہر قرار دیتے ہیں اور خو دہی اس کو رب مانتے ہیں اسی طرح پر عام ہندو بھی اس صداقت کے منکر ہیں کیونکہ وہ تو ہر ایک چیز اور دسری چیزوں کو رب مانتے ہیں۔
برہم سماج والے بھی ربوبیت تامہ کے منکر ہیں کیونکہ وہ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ خدا نے جو کچھ کرنا تھا وہ سب یک بار کر دیا اور یہ تمام عالم اور اس کی قوتیں جو ایک دفعہ پیدا ہو چکی ہیں مستقل طور پر اپنے کام میں لگی ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ ان میں کوئی تصرف نہیں کرسکتا اور نہ کوئی ان میں تغیر و تبدل واقع ہو سکتا ہے ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ اب معطل محض ہے غرض جہاں تک مختلف مذاہب کو دیکھا جاوے اوران کے اعتقادات وغیرہ کی پڑتال کی جاوے تو صاف طور پر معلوم ہو جاوے گا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رب العالمین ہونے قائل نہیں ہیں یہ خوبی جو اعلی درجہ کی خوبی ہے اور جس کا مشاہدہ ہر آن ہو رہا ہے صرف اسلام ہی بتاتا ہے کہ اور اس طرح پر اسی ایک لفظ کے ساتھ ان تمام غلط اور بے ہودہ اعتقادات کی بیخ کنی کرتا ہے جو اس صفت کے خلاف دوسرے مذاہب والوں نے خود بنا لئے ہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ کی صفت الرحمن بیان کی ہے اور اس صفت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ انسان کی فطری خواہشوں کو اس کی دعا یا التجا کے بغیر اور بدوں کسی عمل عامل کے عطا کرتا ہے مثلا جب انسان پیدا ہوتا ہے توا س کے قیام و بقاء کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ پہلے سے موجود ہوتی ہیں پیدا پیچھے ہوتا ہے لیکن ماں کی چھاتیوں میں دودھ پہلے آجاتا ہے۔ آسمان ، زمین،سورج،چاند ،ستارے،پانی،ہوا،وغیرہ وغیرہ یہ تمام اشیاء اس نے انسان کے لئے بنائی ہیں یہ اس صفت رحمانیت ہی کے تقاضے ہیں لیکن دوسرے مذاہب والے یہ نہیں مانتے کہ وہ بلا مبادلہ بھی فضل کر سکتا ہے آریہ تو سرے سے ہی اس مسئلہ کو مانتے ہی نہیں جب کہ رب العالمین کے معنی بیان کرتے وقت بتایا ہے۔ عیسائیوں نے بھی کفارہ کا مسئلہ درست کرنے کے لئے یہی اعتقاد رکھا ہے کہ وہ بلامبادلہ رحم نہیں کر سکتا ، مگر آریوں سے تو یہ پوچھنا چاہئیے کہ یہ زمین ، چاند ،سورج، ہوا ، پانی جو موجود ہے وہ کن گذشتہ کرموں کا پھل ہے۔٭
پھر اللہ تعالیٰ کی صفت رحیم بیان کی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفت ہے جس کا تقاضا ہے کہ محنت اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا بلکہ ان کے پرثمرات نتائج مترتب کرتا ہے اگر انسان کو یہ یقین ہی نہ ہو کہ اس کی محنت اور کوشش کوئی پھل لاوے گی تو پھر وہ سست اور نکما ہو جاوے گا۔ یہ صفت انسان کی امیدوں کو وسیع کرتی او رنیکیوں کے کرنے کی طرف جوش سے لے جاتی ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ رحیم قرآن شریف کی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ اس وقت کہلاتا ہے جب کہ لوگوں کی دعا، تضرع ، او ر اعمال صالحہ کو قبول فرما کر آفات اور بلائوں اور تضییع اعمال سے سے ان کو محفوظ رکھتا ہے رحمانیت تو بالکل عام تھی لیکن رحیمیت خاص انسانوں سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری مخلوق میں دعا تضرع اور اعمال صالحہ کا ملکہ اور قوت نہیں یہ انسان ہی کو ملا ہے۔
رحمانیت اور رحیمیت میں یہی فرق ہے کہ رحمانیت دعا کو نہیں چاہتی مگر رحیمیت دعا کو چاہتی ہے یہ انسان کے لئے ا یک خلعت خاصہ ہے اور اگر انسان انسان ہو کر اس صفت سے فائدہ نہ اٹھاوے تو گویا ایسا انسان حیوانات بلکہ جمادات کے برابر ہے یہ صفت بھی تمام مذاہب باطلہ کے رد کے لئے کافی ہے کیونکہ بعض مذاہب اباحت کی طرف مائل ہیں او ر وہ مانتے ہیں کہ دنیا میں ترقیات نہیں ہوتی ہیں آریہ جبکہ اس صفت کے فیضان سے منکر ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کاملہ کا کب قائل ہو سکتاہے سید احمد خان مرحوم نے بھی دعا کا انکار کیا ہے اور اس طرح پر وہ فیض جو دعا کے ذریعہ انسان کو ملتا ہے وہ اس سے محروم رکھا ہے۔
پھر اللہ تعالیٰ کی چوتھی صفت مالک یوم الدین بیان کی ہے ۔جو لوگ قیامت کے منکر ہیں اس میں ان کا رد موجود ہے اسکی تفصیل قرآن میں بہت جگہ آئی ہے ۔
اللہ تعالیٰ کی اس صفت اور رحیمیت میں فرق یہ ہے کہ رحیمیت میں دعا اور عبادت کے ذریعہ کامیابی کی راہ پیدا ہوتی ہے اور ایک حق ہوتا ہے مگر مالکیت یو م الدین وہ حق اور ثمرہ عطا کرتی ہے ۔
اور فقرہ ایاک نعبد تمام باطل معبودوں کی تردید کرتا ہے اور مشرکین کا رد اس میں موجودہے کیونکہ پہلے اللہ تعالے کی صفات کاملہ کو بیان فرمایا ہے اس سے مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ
ایاک نعبد( الفاتحہ:۵)
یعنی صفات کاملہ والے خدا جو رب العالمین، رحمن، رحیم ، مالک یوم الدین ہے ،تیری ہی عبادت ہم کرتے ہیں ۔ یہ ہر چہار صفات جوا م الصفات کہلاتی ہیں معبودان باطلہ میں کہاں پائی جاتی ہیں جو لوگ پتھروں یا درختوں یا حیوانات اور دوسری چیزوں کی پرستش کرتے ہیں ان میں ان صفات کو ثابت نہیں کر سکتے۔
اسی طرح ایاک نستعین میں ان لوگوں کا رد ہے جو دعا اور اس کی قبولیت منکر ہیں۔ اور
اہدنا الصراط المستقیم صرا ط الذین انعمت علیہم
میں آج کل کے مولویوں کا رد ہے جو یہ مانتے ہیں کہ سب روحانی فیوض اور برکات ختم ہو گئے ہیں اور کسی کی محنت اور مجاہدہ کوئی مفید نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا اور ان برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں ملتا جو پہلے منعم علیہ گروہ کو ملتا ہے۔
یہ لوگ قرآن شریف کے فیوض کو ا ب گو یا بے اثر مانتے ہیں اور حضر ت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات قدسی کے قائل نہیں کیونکہ اب ایک بھی آدمی اس قسم کا نہیںہو سکتا جو منعم علیہ گروہ کے رنگ میں رنگین ہو سکے تو پھر اس دعاکے مانگنے کا فائدہ کیا ہوا مگر نہیں یہ ان لوگوں کی غلطی اور سخت غلطی ہے جو ایسا یقین کر بیٹھے ہیں خدا تعالیٰ کے فیوض اور برکات کا دروازہ اب بھی اسی طرح کھلا ہے لیکن وہ سارے فیوض اور برکات محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے ملتے ہیں اور اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کے بغیر یہ دعویٰ کرے کہ وہ روحانی برکات اور سماوی انوار سے حصہ پاتا ہے توا یسا شخص جھوٹا اور کذاب ہے۔
سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی بعض عبارتیں ایسی تھیں جو قرآن کے رنگ کی تھیں مولوی عبدالحی جنہوں نے اتباع سنت کیا ہے اور مجھے ان سے بہت محبت ہے ان کا مذہب توحید کا تھا۔وہ بدعات اور محدثات سے جدا رہتے تھے۔
وہ ان عبارتوں کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر یہ قرآن کے موافق ہیں توا س کا کیا جواب دیں؟ تو فرماتے ہیں کہ ولیوںکے کرامات اور خوارق انبیاء کرام علیہم السلام کے معجزات کی ہی طرح ہوتے ہیں۔اس لئے یہ قرآن ہی کا معجزہ ہے اصل یہی ہے کہ کامل اتباع سنت کی بعد خوارق اور معجزات کا دروازہ بند ہو گیا ہے تو پھر معاذ اللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بھاری ہتک ہو گی ۔
یہ جو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو فرمایا انا اعطیناک الکوثر( الکوثر:۱) یہ اس وقت کی بات ہے کہ ایک کافر نے کہا کہ آپ کی اولاد نہیں ہے معلوم نہیں اس نے ابتر کا لفظ بولا تھا جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔ ان شانئک ھوالأبتر(الکوثر:۳) تیرا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔
روحانی طور پر لوگ آئیں گے وہ آپ ہی کی اولاد سمجھے جائیں گے اور آپ کے علوم و برکات کے وارث ہوں گے اور اس سے حصہ پائیں گے اس آیت کو ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسو ل اللہ و خاتم النببین(الاحزاب:۴۱) کے ساتھ ملا کر پڑھو تو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد بھی نہیں تھی تو پھر معاذ اللہ آپ ابتر ٹھہرتے ہیں جو آپ کے اعداء کے لئے ہے ۔ اور انا اعطیناک الکوثر سے معلو م ہوتا ہے کہ آپ کو روحانی اولاد کثیر دی گئی ہے پس اگر ہم یہ اعتقاد نہ رکھیں کہ کثرت کے ساتھ آپ کی روحانی اولاد ہوئی ہے تو ا س پیشگوئی کے بھی منکر ٹھہریں گے۔
اس لئے ہر حالت میں ایک سچے مسلمان کو ماننا پڑے گا اور ماننا چاہئیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیرات قدسی ابدالآباد کے لئے ویسی ہی ہیں جیسی تیرہ سو برس پہلے تھیں ؛چنانچہ ان تاثیرات کے ثبوت کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اب وہی آیات و برکات ظاہر ہو رہے ہیں۔
سچی بات یہی ہے کہ اگر اہدنا الصراط المستقیم نہ ہوتا تو سالک جو اپنے نفس کی تکمیل چاہتے ہیں مرہی جاتے۔ لاہور میں ایک مولوی عبدالحکیم صاحب سے مباحثہ ہوا تھا تو ہم نے اس کو یہی پیش کیا تھا کہ تم خدا تعالیٰ کے مکالمات سے کیوں ناراض ہوتے ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تو محدث تھے اس نے صاف طور پر انکار کیا اور کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرضی طور پر کہا تھا حضرت عمربھی محدث نہ تھے یہ محال ہے کہ آئندہ کسی کو الہام ہو ۔ان کو اس پر بالکل ایمان نہیں ہے وہ مکالمات کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کئے بیٹھے ہیں اور خدا تعالیٰ کو انہوں نے گونگا خدا مان لیا ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ قرآن شریف میںجو یہ آیا ہے لہم البشریٰ فی الحیوۃ الدنیا (یونس:۶۵) اس کا ان کے نزدیک کیا مطلب ہے اور جب ملائکہ ایسے مومنوں پر نازل ہوتے ہیں اور ان کو بشارتیں دیتے ہیں تو وہ بشارتیں کس طرف سے دیتے ہیں۔اس اعتقاد پر پھر قرآن شریف کا ان کو انکار کرنا پڑے گا کیونکہ سارا قرآن شریف اس بات سے بھرا پڑا ہے کہ مکالمہ کا شرف عطا ہوتا ہے اگر یہ شرف ہی کسی کو نہیں ملتا تو پھر قرآن شریف کی تاثیرات کا ثبوت کہاں سے ہو گا اگر آفتاب دھندلا اور تاریک ہے تو اس کی روشنی پر کوئی کیا فرق کر سکے گا۔او رکیا یہ کہہ کر فخر کرے گا کہ اس میں روشنی نہیں بلکہ تاریکی ہے۔٭
اس طرح پر قرآن شریف کی تاثیرات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسی کی برکات کے لئے یہ اعتقاد کرنا کہ وہ ایک وقت خاص پر ایک شخص خاص ہی کے لئے تھے آئندہ کے لئے ان کا سلسلہ بند ہو گیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سخت بے ادبی اور توہین ہے اور نہ صرف قرآن شریف اور آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی بلکہ اللہ تعالیٰ کی پاک ذات پر اعتراض کرنا ہے۔
یاد رکھو کہ نبیوں کا وجود اس لئے دنیا میں نہیں آتا کہ وہ محض ریا کاری اور نمود کے طور پر ہو اگر ان سے کوئی فیض جاری نہیں ہوتا اور مخلوق کو روحانی فائدہ نہیں پہنچتا۔ تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ وہ صرف نمائش کے لئے ہیں ۔اور ان کا عدم وجود معاذ اللہ برابر ہے۔مگر ایسا نہیں ہے وہ دنیا کے لئے بہت سے برکات اور فیوض کے باعث بنتے ہیں اور ان سے خیر جاری ہوتی ہے جس طرح آفتاب سے ساری دنیا فائدہ اٹھاتی ہے اور اس کا فائدہ کسی خاص حدتک جا کر بند نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے اسی طرح پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیوض وبرکات کا آفتا ب ہمیشہ چمکتا ہے اور سعادت مندوں کو فائدہ پہنچتا رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ( آل عمران:۳۲)یعنی ان کو کہہ دو کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ کے محبوب بن جائو تو میری اطاعت کرو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا آپ کی سچي اطاعت اور اتباع انسان کو اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے اور گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہوتی ہے۔
پس جب کہ آپ کی اتباع کامل اللہ تعالیٰ کا محبوب بنا دیتی ہے پھر کوئی وجہ نہیں ہو سکتی ہے کہ ایک محبوب اپنے محب سے کلام نہ کرے ۔ اگر یہ مانا جاوے کہ اللہ تعالیٰ ایک شخص کو باوجود محبوب بنانے کے پھر بھی اس سے کلام نہیں کرتا تو ، یہ محبوب معاذ اللہ ابکم ہے۔حالانکہ اللہ تعالیٰ باطل معبودوں کے لئے یہ نقص ٹھہراتا ہے کہ وہ کلام نہیں کرتے ، مگر ہم یہ ثابت کرنے کو تیار ہیں۔اور اسی غرض کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع کے آثار اور ثمرات ہر وقت پائے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی وہ خدا جو ہمیشہ سے ناطق خدا ہے اپنا لذیذ کلام دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجتا ہے۔اور قرآن شریف کے اعجاز کا ثبوت اس وقت بھی دے رہا ہے یہ قرآن شریف ہی کا معجزہ ہے کہ جو ہم تحدی کر رہے ہیں کہ ہمارے بالمقابل قرآن شریف کے حقائق و معارف عربی زبان میں لکھو اور ک سی کو یہ قدرت نہیں ہوتی کہ مقابلہ کے لئے نکل سکے۔ہمارا مقابلہ دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقابلہ ہے کیونکہ وآخرین منہم لما یلحقوا بہم( الجمعہ:۴) جو فرمایا گیا ہے ۔اس وقت جو تعلیم کتاب والحکمت ہو رہی ہے اس کی اصل غرض یہی ہے کہ قرآ ن شریف کا معجزہ ثابت ہو۔
ماحصل یہ ہے کہ قرآن شریف ایسا معجزہ ہے کہ نہ اول مثل ہوا اور نہ آخر کبھی ہو گا۔اس کے فیوض و برکات کا در ہمیش جاری ہے اور وہ ہر زمانہ میں اسی طرح نمایاں اور درخشاں ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تھا علاوہ اس کے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر شخص کا کلام اس کی ہمت کے موافق ہوتا ہے جس قدر اس کی ہمت او رعزم اور مقاصد عالی ہوں گے اسی پایہ کا وہ کلام ہو گااور وحی الہی میں بھی یہی رنگ ہوتا ہے جس شخص کی طرف اس کی وحی آتی ہے جس قدر ہمت بلند رکھنے والا ہو گا اسی پایہ کا کلام اسے ملے گا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمت و استعداد اور عزم کا دائرہ چونکہ بہت ہی وسیع تھا اس لئے آپ کو جو کلام ملا وہ بھی اس پایہ اور رتبہ کا ہے کہ دوسرا کوئی شخص اس ہمت اور حوصلہ کا کبھی پیدا نہ ہوگا۔
کیونکہ آپ کی دعوت کسی محدود وقت یا مخصوص قوم کے لئے نہ تھی۔جیسے آپ پہلے نبیوں کی ہوتی تھی بلکہ آپ کے لئے فرمایا گیا انی رسول اللہ الیکم جمیعا( الاعراف:۱۵۹)اور ما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین(الانبیاء:۱۰۸)جس شخص کی بعثت اور رسالت کا دائرہ اس قدر وسیع ہو اس کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔اس وقت اگر کسی کو قرآن شریف کی کوئی آیت بھی الہام ہو تو ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اس کے اس الہام میں اتنا دائرہ وسیع نہیںہوگا۔جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ہے اور یہی وجہ ہے کہ خواب کی تعبیر میں معبرین نے یہ اصول رکھا ہے کہ وہ ہر شخص کی حیثیت اور حالت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔اگر کوئی آدمی غریب ہے تو اسکی خواب اس کی ہمت اور مقاصد کے اندر ہو گی امیر کی اپنے رنگ کی اور بادشاہ کی اپنے رتبہ کی ۔ کوی غریب مثلا اگر یہ دیکھے کہ اس کے سر میں خارش ہوتی ہے تو اس سے یہ مراد ہونے سے رہی کہ کہ اس کے سر پر تاج شاہی رکھا جاوے گا بلکہ اس کے لئے تو یہی مراد ہوگی کہ وہ کسی کے جوتے کھائے گا۔جیسے استعدادوں کے دائرے مختلف ہیں اسی طرح پر کلام الہٰی کے دوائر بھی مختلف ہیں ۔
اسی طرح پر کرامات کا سلسلہ اللہ تعالیٰ نے جب کہ رکھا ہوا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ کلام کا اعجاز نہ کرھا جائے جیسے ہر زمانہ میں کرامات ہوتی رہی ہیں۔اسی طرح پر اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے اعجازی کلام کے ثبوت ک ے لئے کلام کا معجزہ بھی رکھا ہے جیسے حضرت عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی وہ چند سطریں معجزہ تھیں۔اس زمانہ میں بھی قرآن شریف کے کلام کے اعجاز کے لئے کلام کا معجزہ دیا گیا ہے اسی طرہ پر جیسے دووسرے خوارق اور نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات اور خوارق کے ثبوت کے لئے دئے گئے ہیں جس جس قسم کے نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے تھے اسی رنگ پر اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے نشانات کو رکھا ہے۔کیونکہ یہ سلسلہ اسی نقش قدم پر ہے اور دراصل وہی سلسلہ ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بروزی آمد کی پہلے ہی سے پیشگوئی ہو چکی تھی اور آخرین منھم ( الجمعہ:۴) میں یہ وعدہ کیا گیا تھا پس جیسے آپ کو اس وقت کلام کا معجزہ اور نشان دیا گیا تھا اور قران شریف جیسی لا نظیر کتاب آپ کو ملی ۔اسی طرح پراس رنگ میں آپ کی اس بروزی آمد میں بھی کلام کا نشان دیا گیا,دیکھ لو کس قدر تحدی کے ساتھ غیرت دلانے والے الفاظ میں مقابلہ کے واسطے بلایاگیا ہے مگر کسی کو ہمت اور حوصلہ بھی نہیں ہوتا ۔خدا تعالیٰ نے ان کی ہمتوں کو سلب کر لیا ہے اور ان کے علوم اور قابلیتوں کو چھین لیا ۔باوجودیکہ یہ لوگ بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور اپنے علوم کی لاف زنیاں کرتے تھے۔مگر اس مقابلے میں خداتعالی نے ان سب کو ذلیل اور شرمندہ کیا ۔
دوسرا بڑاعظیم الشّان معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شق القمر تھا اور شق القمر دراصل ایک قسم کا خسوف ہی تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارے سے ہوا ۔اسوقت بھی اللہ تعالیٰ ٰ نے کسوف وخسوف کا ایک نشان دکھایاگیاہے ۔یہ مسیح موعو داور مہدی کے لیے مخصوص تھا۔اور ابتدائے دُنیا میںسے کبھی اس رنگ میںیہ نشان نہیںدکھایاگیاتھا ۔یہ صرف مسیح موعود کے زمانے کے لیے رکھاگیاتھا اور احادیث میںآیات مہدی میںسے اُسے قرار دیاگیاہے جس کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ وہ میرے ہی نام پر آئے گا ۔ اس میں یہی نکتہ ہے جونشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کودئیے گئے تھے اس رنگ کے نشان یہاںبھی دئیے جانے ضروری تھے کیونکہ یہ آمد آپ ہی کی ہے ۔
غرض قرآن شریف بدوںغور خوض بدوںمحوداثبات اپنے اندر زندگی کی روح رکھتا ہے اور بُدوں کسی نسبتی لحاظ یامقابلہ کے مستقل اعجاز ہے اور اس وقت جو اعجازکلام دیاگیاہے ۔ یہ گویا اُس اعجاز کواس طرح پر دکھایاگیا ہے جیسے ایک عمارت کو ایک نقشہ کے رنگ میںدکھایاجاتا ہے اور ایک شیشے کو دوسرے شیشے میںدکھایاجاوے ۔مسلمانوںکے لیے یہ امر کس قدر رنج کا موجب ہوتاہے ۔اگر یہ مان لیاجاتاکے کوئی خوارق اور نشانات اُن کو نہیںدیئے گئے کیونکہ پچھلے نشانات آنے والے لوگوںکے لیے بطور کہانی کے ہوجاتے ہیں۔سو انسانی فطرت تو تازہ بتازہ نشانات دیکھنا چاہتی ہے ۔مجھے ان خشک موحدوںپر افسوس ہی آتاہے جویہ سمجھ بیٹھے ہیںکے خوارق کاکوئی نشان نہیںاور نہ ان کی ضرورت ہے خشک زندگی سے تو مرنابہتر ہے ۔اگر خداتعالیٰ نے اپنے فضل کوبند کردیاہے اور قفل لگا دیاہے تو پھر ھدناالصراط المستقیم کی دُعاتعلیم کرنے کی کیاضرورت تھی ۔یہ تووہی بات ہوئی کہ ایک شخص کی مشکیںباندھ دی جاویںاور پھر اس کو ماریںکے تُواب چل کر کیوںنہیںدکھاتا۔بھلا وہ کس طرح چل سکتا ہے فیوض وبرکات کے دروازے تو خود بند کر دیئے اور پھر یہ کہہ بھی دیا کہ اھدناالصراط المستقیمکی دعا ہر روزنماز میں کی مرتبہ مانگا کرو ۔ اگرقانون قدرت سے یہ رکھا تھا کہ آپ کے بعد معجزات اور برکات کا سلسلہ ختم کر دیا تھا اورکوئی فیض نہیں ملنا تھا تو پھر اس دعا سے کیا مطلب۔
اگر اس دعا کا کوئی نتیجہ نہیں تو پھر نصاریٰ کی تعلیم اور آثار اور نتائج اور اس کی تعلیم کے آثار اور نتائج میں کیا فرق ہوا لکھا تو انجیل میں یہی ہے کہ میری پیروی سے تم پہاڑ کو بھی ہلا سکو گے مگر اب وہ جوتی بھی سیدھی نہیں کر سکتے لکھا ہے میرے جیسے معجزات دکھا ؤ گے، مگر کوئی کچھ نہیں دکھا سکتا لکھا ہے کہ زہریں کھا لو گے تو اثر نہیں کریں گی۔ مگر اب سانپ ڈستے اور کتے کاٹتے ہیں اور وہ ان زہروں سے ہلاک ہوتے ہیں اور کوئی نمونہ وہ دعا کا نہیں دکھا سکتے۔ ان کا وہ نمونہ دعا کی قبولیت کا نہ دکھا سکنا ایک سخت حربہ اور حجت ہے۔
عیسائی مذہب کے ابطال پر کہ اس میں زندگی اور روح اور تاثیر نہیں اور یہ ثبوت ہے اس امر انہون نے نبی کا طریق چھوڑ دیا ہے۔
اب اگر ہم بھی اقرار کر لیں اب نشانات اور خوار ق نہیں ہوتے اور یہ دعا جو سکھائی گئی ہے اس کا کوئی اثر اور نتیجہ نہیں تو کیا اس کے معنے یہ نہیں ہوں گے کہ یہ اعمال معاذ اللہ بے فائدہ ہیں۔ نہیں خدا تعالیٰ جو دانا اور حکمت والا ہے وہ نبوت کی تاثیرات کو قائم رکھتا ہے۔ اور اب بھی اس نے اس سلسلہ کو اسی لئے قائم کیا ہے تا وہ اس امر کی سچائی پر گواہ ہو قرآن شریف کے جس قدر اعجاز معارف معجز کلامی کے میں نے نے جمع کئے ہیں اس وقت اللہ تعالیٰ ان کو ظاہر کر رہا ہے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور آپ کے خوارق کا ثبوت ہو یہی ایک ہتھیار اور حربہ ہے جو ہم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور جس کے ساتھ ہم مذاہب باطلہ کے سحر کو توڑنا چاہتے ہیں ہم قرآن شریف کو زندہ کلام ثابت کرنا چاہتے ہیں۔اسے منتر بنانا نہیں چاہتے۔٭
جاننا چاہئے کہ عالم آخرت درحقیقت دنیوی عالم کا ایک عکس ہے اور جو کچھ دنیا میں روحانی طور پر ایمان اور ایمان کے نتائج اور کفر اور کفر کے نتائج ظاہر ہوتے ہیں وہ عالم آخرت میں جسمانی طور پر ظاہر ہو جائیں گے اللہ جلشانہٗ فرماتا ہے من کان فی ھذہ أعمی فھو فی الآخرۃ أعمی(بنی اسرائیل :۷۳) یعنی جو اس جہان میں اندھا ہے وہ اس جہان میں بھی اندھا ہی ہو گا۔ ہمیں اس تمثیلی وجود سے کچھ تعجب نہیں کرنا چاہئے اور ذرا سوچنا چاہئے کہ کیونکر روحانی امور عالم رؤیاء میں متمثل ہو کر نظر آ جاتے ہیں اور عالم کشف تو اس سے بھی عجیب تر ہے کہ وجود عدم غیبت حس اور بیداری کے روحانی امور طرح طرح کے جسمانی اشکال میں انہیں آنکھوں سے دکھائی دیتے ہیں ۔ جیسا کہ بسا اوقات عین بیداری میں ان روحوں سے ملاقات ہوتی ہے جو اس دنیا سے گزر چکے ہیں اور وہ اس دنیوی زندگی کے طور پر اپنے اصل جس میں اسی دنیا کے کپڑوں میں سے ایک پوشاک پہنے ہوئے نظر آتے ہیں اور باتیں کرتے ہیں اور بسا اوقات ان میں سے مقدس لوگ باذنہ تعالیٰ آئندہ کی خبریں دیتے ہیں اور خبریں مطابق واقعہ نکلتی ہیں۔ بسا اوقات عین بیداری میں ایک شربت یا کسی قسم کا میوہ عالم کشف سے ہاتھ آتا ہے اوروہ کھانے میں نہایت لذیذ ہوتا ہے۔اور ان سب امور میں یہ عاجز خود صاحب تجربہ ہے کشف کی اعلی قسموں میں سے یہ ایک قسم ہے کہ بالکل بیداری کی حالت میں واقع ہوتی ہے اور یہاں تک اپنے ذاتی تجربہ سے دیکھا گیا ہے کہ ایک شیریں طعام یا کسی قسم کا میوہ یا شربت غیب سے نظر کے سامنے آگیا ہے اور وہ ایک غیبی ہاتھ سے منہ میں پڑ جاتا ہے اور زبان کی قوت ذائقہ اس کے لذیذ طعم سے لذت اٹھاتی جاتی ہے۔اورد وسرے لوگوں سے باتوں کا سلسلہ بھی جاری ہے اور حواسی ظاہری بخوبی اپنا کام دے رہے ہیں بلکہ لذت اس لذت نہایت الطف ہوتی ہے اور یہ ہرگز نہیں کہ وہ وہم ہوتا ہے یا صرف بے بنیاد تخیلات ہوتے ہیں بلکہ واقعی طور پر وہ خدا جس کی شان بکل خلق علیم (یٓس ٓ:۸۰)ہے ایک قسم کے خلق کا تماشہ دکھا دیتا ہے پس جب کہ اس قسم کے خلق اور پیدائش کا دنیا ہی میں نمونہ دکھائی دیتا ہے اور ہر ایک زمانہ کے عارف اس کے بارے میں گواہی دیتے چلے آئے ہیں تو پھر وہ تمثلی خلق اور پیدائش جو آخرت میں ہو گی اور میزان اعمال نظر آئیں گے اور پل صراط نظر آئے گا اور ایسا ہی بہت سے امور روحانی جسمانی شکل کے ساتھ نظر آئیں گے اس سے کیوں عقل مند تعجب کرے کیا جس نے یہ سلسلہ تمثلی خلق اور پیدائش کا دنیا ہی میں عارفوں کو دکھادیا ہے اس کی قدرت سے یہ بعید ہے کہ وہ آخرت میں بھی دکھا دے بلکہ ان تمثلات کو عالم آخرت سے نہایت مناسبت ہے کیونکہ جس حالت میں اس عالم میں جو کمال انقطاع کا تجلی گاہ نہیں یہ تمثلی پیدائش تزکیہ یافتہ لوگوں پر ظاہر ہو جاتی ہے تو پھر عالم آخرت میں جو اکمل اور اتم انقطاع کا مقام ہے کیوں نظر نہ آوے۔
یہ بات بخوبی یاد رکھنی چاہئے کہ انسان عارف پر اسی دنیا میں تمام عجائبات کشفی رنگوں میں کھل جاتے ہیں کہ جو ایک محجوب آدمی قصہ کی طور پر قرآن کریم کی ان آیات میں پڑھتا ہے جو معاد کے بارے میں خبر دیتی ہیں سو جس کی نظر کی حقیقت تک نہیں پہنچتی وہ ان بیانات سے تعجب میں پڑ جاتا ہے بلکہ بسا اوقات اس کے سلسلہ میں اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا عدالت کے دن تخت پر بیٹھنا اور ملائک کا صف باندھے کھڑے ہونا اور ترازو میں عملوں کا تلنا اور لوگوں کا پل صراط پر سے چلنا اور سزا جزا کے بعد موت کو بکرے کی طرح ذبح کر دینا اور ایساہی اعمال کو خوش شکل یا بدشکل انسانوں کی طرح لوگوں پرظاہر ہونا اور بہشت میں دودھ او ر شہد کی نہریں چلنا وغیرہ وغیرہ ، یہ سب باتیں صداقت اور معقولیت سے دور معلوم ہوتی ہیں۔‘‘٭
۳؍دسمبر۱۹۰۱ء؁
سب صاحبوں کو معلوم ہو ایک مدت سے خدا جانے قریباًچھ ماہ سے یا کم و بیش عرصہ سے ظہر اور عصر کی نماز جمع کی جاتی ہے ۔ میں اس کو مانتا ہوں کہ ایک عرصہ سے جو مسلسل نماز جمع کی جاتی ہے ایک نو وارد یا نو مرید کو جس کو ہمارے اغراض و مقاصد کی کوئی خبر نہیں ہے یہ شبہ گزرتا ہو گا کہ کاہلی کے سبب سے نماز جمع کر لیتے ہوں گے، جیسے بعض غیر مقلد ذرا ابر ہو یا کسی عدالت میں جانا ہوا تو نماز جمع کر لیتے ہیں اور بلا مطر اور بلا عذربھی نماز جمع کرنا جائز سمجھتے ہیں مگر میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم کو اس جھگڑے کی ضرورت اور حاجت نہیں نہ ہم اس میں پڑنا چاہتے ہیں کیونکہ میں طبعاً اور فطرتا ً اس کو پسند کرتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اور نماز موقوتہ کے مسئلے کو نہایت عزیز رکھتا ہوں بلکہ سخت مطر میں بھی یہی چاہتا ہوں کہ نماز اپنے وقت پر ادا کی جائے اگرچہ شیعوں اور غیر مقلدوں نے اس پربڑے بڑے مباحثے کئے ہیں مگر ہم کو ان سے کوئی غرض نہیں صرف نفس کی کاہلی سے کام لیتے ہیں سہل حدیثوں کو اپنے مفید مطلب پا کر ان سے کام لیتے ہیں او رمشکل کوموضوع اور مجروح ٹھہراتے ہیں ہمارا یہ مدعا نہیں بلکہ ہمارا مسلک ہمیشہ حدیث کے متعلق یہ رہا ہے کہ جو قرآن اور سنت کے مخالف نہ ہو وہ اگر ضعیف بھی ہو تو تب بھی اس پر عمل کر لینا چاہئیے۔
اس وقت جو ہم نمازیں جمع کرتے ہیں تو اصل بات یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی تفہیم القا اور الہام کے بدوں نہیں کرتا بعض امور ایسے ہوتے ہیں کہ میں ظاہر نہیں کرتا مگر اکثر ظاہر ہوتے ہیں جہاں تک خدا تعالیٰ مجھ پر اس جمع صلوٰتین کے متعلق ظاہر کیا ہے وہ یہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لئے یجمع لہ الصلوٰۃ کی بھی عظیم الشان پیشگوئی کی تھی جو اب پوری ہو رہی ہے میرا یہ بھی مذہب ہے کہ اگر کوئی امر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھ پر ظاہر کیا جاتا ہے مثلا کسی حدیث کی صحت یا عدم صحت کے متعلق تو گو علماء ظواہر اور محدثین اس کو موضوع یا مجروح ہی ٹھہراویں گے مگر میں اس کے مقابل اور معارض کی حدیث کو موضوع کہوں گا اگر خدا تعالیٰ نے اس کی صحت مجھ پر ظاہر کر دی ہے جیسے لامہدی الا عیسیٰ والی حدیث ہے محدثین اس پر کلام کرتے ہیں مگر مجھ پر خدا تعالیٰ نے یہی ظاہر کیا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور میرا یہ مذہب میرا ہی ایجاد کردہ مذہب نہیں بلکہ خود یہ مسلم مسئلہ ہے کہ اہل کشف یا ا ہل الہام لوگ محدثین تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے خود مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ میں اس مضمون پر بڑی بحث کی اور یہ تسلیم کیا ہے کہ مامور اور اہل کشف محدثین کی تنقید حدیث کے محتاج اور پابند نہیں ہوتے خود مولوی محمد حسین صاحب نے اپنے رسالہ میں اس مضمون پر بڑی بحث کی ہے اور یہ تسلیم کیا ہے کہ مامور اور اہل کشف محدثین کی تنقید کے پابند نہیں ہوتے تو جب یہ حالت ہے کہ پھر میں صاف صاف کہتا ہوں کہ میں جو کچھ کرتا ہوں خدا تعالے کے القاء اور اشارہ سے کرتا ہوںیہ پیشگوئی جو اس حدیث تجمع لہ الصلاۃ میں کی گئی ہے یہ مسیح موعود اور مہدی کی ایک علامت ہے یعنی وہ ایسی دینی خدمات اور کاموں میں مصروف ہو گا کہ اس کے لئے نماز جمع کی جاوے گی اب یہ علامت جب پوری ہو گئی اور ایسے واقعات پیش آگئے پھر اس کو بڑی عظمت کی نگا ہ سے دیکھنا چاہیے۔کہ استہزاء اور انکار کے رنگ میں۔
دیکھو انسان کے اپنے اختیار میں اس کی موت فوت نہیں ہے اب اس نشان کے پورا ہونے پر تویہ لوگ رکیک اور نامعقول عذر تراشتے ہیں اور اعتراض کے رنگ میں پیش کرتے اور حدیث کی صحت اور عدم صحت کو لے بیٹھے ہیں لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ اگر خدا نخواستہ اس نشان کے پورا ہونے سے پہلے ہی ہماری موت آجاتی تو یہی لوگ اس حدیث کو جس کو اب موضوع ٹھہراتے ہیں آسمان پر چڑھا دیتے اور اس سے زیادہ شور مچاتے جو اب مچا رہے ہیں دشمن اسی ہتھیار کو اپنے لئے تیز کر لیتے لیکن اب جب کہ وہ صداقت کا ایک نشان اور گواہ ٹھہرتا ہے توا س کو نکما اور لاشے قرار دیا جاتا ہے پس ایسے لوگوں کے لئے ہم کیا کہہ سکتے ہیں انہوں نے تو صد ہا نشانات دیکھے مگر انکار پر انکار کیا ور صادق کو کاذب ہی ٹھہرایااور کس نشان کو انہوں نے مانا جو اس کی امید ان سے رکھیںکیا کسوف و خسوف کا کوئی چھوٹا نشان تھا اس کے پور ا ہونے سے پہلے تو اس کو نشان قرار دیتے رہے مگر جب پورا ہو گیا تو اس کو بھی مشکوک کرنے کی کوشش کی بہرحال مخالفوں کی کور چشمی اور تعصب کا کیا علاج ہو سکتا ہے ؟ اب رہی اپنی جماعت خدا کا شکر ہے کہ اس کے لئے کوئی ابتلاء نہیں کیونکہ جس نے دمشق کے منارہ پر چڑھنے والے اور فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے زرد پوش مسیح کے اترنے کی حقیقت کو اللہ کے فضل سے سمجھ لیا ہے اور جس نے خدا کی صفات والے دجال کا انکار کر کے دجال کی حقیقت حال پر اطلاع پا لی ہے اور ایسا ہی دابۃ الارض اور دجال متعلق ان لوگوں نے خانہ ساز مجموعوں کو چھوڑا ہے اور اس قدر باتوں پر جب وہ مجھ پر نیک ظن کرنے کے باعث الگ ہوگئے ہیں تو یہ امر انکی راہ میں روک اور ابتلاء کا باعث کیون کر ہو سکتا ہے یہ بھی یاد رکھو کہ اب تک صرف حسن ظن تک نہیں رہی بلکہ خدا تعالیٰ نے ان کی معرفت اور بصیرت کے مقام تک پہنچایا دیا ہے اور وہ دیکھ چکے ہیں کہ میں وہی ہوں جس کا خدانے وعدہ کیا تھا ہاں میں وہی ہوں جس کا سارے نبیوں کی زبان پر وعدہ ہوا اور پھر خدا تعالیٰ نے ان کی معرفت بڑھانے کے لئے منہاج نبوت پر اس قدر نشانات ظاہر کئے کہ لاکھوں انسان ان کے گواہ ہیں دوست دشمن ، دورونزدیک،ہر مذہب و ملت کے لوگ ان کے گواہ ہیں زمین نے اپنے نشانات الگ ظاہر کئے آسمان نے الگ وہ علامت جو میرے لئے مقرر تھیں وہ سب پوری ہو گئیں پھر اس قدر نشانات کے بعد بھی اگر کوئی انکار کرتا ہے تو وہ ہلاک ہوتا ہے میں دعوی سے کہتا ہوں تم میں سے ہرایک پر خدا نے ایسا فضل کیا ہے ایک بھی تم میں سے ایسا نہیں جس نے اپنی آنکھوں سے کوئی نہ کوئی نشان نہ دیکھا ہو کیا کوئی ہے جو کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا ایک بھی نہیں پھر ایسی بصیرت اور معرفت بخشنے والے نشانوں کے بعد مجھ پر حسن ظن ہی نہیں رہا بلکہ میری سچائی اور خدا کی طرف سے مامور ہو کر آنے پر تم علی وجہ البصیرۃ گواہ ہو اور تم پر حجت پوری ہو چکی ہے۔
پھر وہ بڑا ہی بد قسمت اور ناد ان ۔جواتنے نشانوںکے بعد اس پیشگوئی کے پوراہونے پر ابتلاء میںپڑے جو اس کے ازد یاد ایمان کا موجب اور باعث ہونی چاہئیے جوکے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھاکے آنے والے موعو دکایہ بھی ایک نشان ہے کے اس کے لیے نمازجمع کی جائے ۔پس تمھیںخداکاشکر گزار ہونا چاہئے کے یہ نشان بھی پوراہوتاہواتم نے دیکھ لیا۔اگر کوئی یہ کہے کے یہ حدیث موضو ع تومیںنے پہلے اسکے بابت ایک جواب یہ دیا ہے کہ محدثین نے خود تسلیم کر لیاکہ اہل کشف اور مامور تنقید احادیث میںاُن کے اصولوںکا محتاج اور پابند نہیںہوتے ۔توپھرجبکہ خداتعالیٰ نے مجھ پراس حدیث کی صحت کوظاہر کر دیا ہے تواس پرزور دیناتقویٰ کے خلاف ہے پھر میںیہ بھی کہتاہوںکہ محدثین خود ہی مانتے ہیںاور حدیث میںسونے کے کنگن پہننے کی سخت ممانعت ہے مگر وہ کیا با ت تھی کہ حضرت عمر نے ایک صحابی کو سونے کے کنگن پہنادئیے۔چنانچہ ا س صحابی نے بھی انکار کیا ۔مگر وہ حضرت عمر نے اُسے پہناکر ہی چھوڑے ۔کیا وہ اُس حرمت پر آگاہ نہ تھے ؟تھے اور ضرور تھے مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے پورا ہونے پر ہزاروں حدیثوںکو قر بان کرنے کوتیار تھے ۔اب غور کا مقام ہے کے جب ایک پیشگوئی کے پوراہونے پر حرمت کا جو ازگرا دیا ۔توبلامطرولاعذروالی بات پر انکار کیوں؟
احادیث میںتو یہانتک آیا ہے کے اپنے خواب کو بھی سچاّکرنے کی کوشش کرو چہ جائیکہ نبی کریم کی پیشگوئی جس شخص کو ایسا مو قع ملے تو اوروہ عمل نہ کرے اور اس کوپورا کرنے کے لیے تیار نہ ہو ۔وہ دشمن اسلام ہے اور رسول اللہ صلی اللہ وسلم کو معاذاللہ جھوٹاٹھہراناچاہتا ہے اورآپکے مخالفوںکواعتراض کا موقع دینا چاہتا ہے۔
صحابہؓ کا مذہب یہ تھا کہ وہ آنحضرت ﷺکی پیشگوئیوںکے پوراہونے پر اپنی معرفت اور ایما ن میں ترقی د یکھتے تھے اور وہ اس قد ر عاشق تھے کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر کو جاتے ا ور پیشگوئی کے طور پر کہہ دیتے کہ فلاں منزل پر نماز جمع کریں گے اور ان کو موقعہ مل جاتا تو وہ خواہ کچھ ہی ہوتا ضرور جمع کر لیتے۔ اور خود آنحضرت کی طرف ہی دیکھو کہ آپ ؐ پیشگوئیوں کے پورا ہونے کے کس قدر مشتاق تھے۔ ہم کو کوئی بتائے کہ آپؑ حدیبیہ کی طرف کیوں گئے کیا کوئی وقت ان کو بتایا گیا تھا اور کسی میعاد کی اطلاع دی گئی تھی پھر کیا بات تھی؟ یہی وجہ تھی کہ آپؐ چاہتے تھے کہ وہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی پوری ہو جائے یہ ایک باریک بہتر اور دقیق معرفت کا نکتہ ہے جس کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا کہ انبیاء اور اہل اللہ کیوں پیشگوئیوں کے پورا ہونے کی ایک غیر معمولی رغبت اور تحریک اپنے دلوں میں رکھتے ہیں۔
جس قدر انبیاء علیہم السلام گذرے ہیں یا اہل اللہ ہوئے ہیں ان کو فطرۃً رغبت دی جاتی ہے کہ وہ خدا تعالی کے نشانوں کو پورا کرنے کے لئے ہمہ تن تیار ہوتے ہیں مسیح نے اپنی جگہ داؤدی تخت کی بحالی والی پیش گوئی کے لئے کس قدر سعی اور کوشش کی ۔کہ اپنے شاگردوں کو یہاں تک حکم دیا کہ جس کے پاس تلواریں اور ہتھیار نہ ہوں وہ اپنے کپڑے بیچ کر ہتھیار خریدے۔ اب اگر پیشگوئی کو پورا کرنے کی فطری خواہش اور آرزو نہ تھی جو انبیاء علیہم السلام میں ہوتی ہے تو کوئی ہم کو بتائے کہ ایسا کیوں کیا گیا ؟اور ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں اگر یہ طبعی جوش نہ تھا توآپ کیوں حدیبیہ کی طرف روانہ ہوئے جب کہ کوئی میعاد اور وقت بتایا نہیں گیا تھا ؟ بات یہی ہے کہ یہ گو وہ خدا تعالیٰ کے نشانوں کی حرمت اور عزت کرنا ہے اور چونکہ ان نشانات کے پورا ہونے پر معرفت اور یقین میں ترقی ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا اظہار ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ پورے ہوں۔ اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی نشان پورا ہوتا تو سجدہ کیا کرتے تھے۔جب تک دل دھوئے نہ جاویں اور ایمان حجاب اور زنگ کی تہوں سے صاف نہ کیا جاوے سچا اسلام اورسچی توحید جو مدار نجات ہے حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور دل کے دھونے اور حجب ظلمانیہ کے دور کرنے کا آلہ یہی خدا تعالیٰ کے نشانات ہیں جن سے خود خدا تعالیٰ کی ہستی اور نبوت پر ایمان پیدا ہوتا ہے اور جب تک سچا ایمان نہ ہو جو کچھ کرتا ہے وہ صرف رسوم اور ظاہرداری کے طور پر کرتا ہے۔
پس جب خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ بات تھی تو میرا نور قلب کب اس کے خلاف کرنے کی رائے دے سکتا تھا اس لئے میں نے چاہا کہ یہ ہونا چاہئیے تاکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش گوئی پوری ہو ممکن تھا کہ ایسے واقعات پیش نہ آتے لیکن جب ایسے امو رپیش آگئے کہ جن کی مصروفیت از بس ضروری تھی اور توجہ ٹھیک طور پر چاہئے تھی تو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا اور وہ پوری ہوئی اسی طرح پر جیسے خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا تھا والحمد للہ علی ذلک۔
میرا ان نمازوں کو جمع کرنا جیسا کہ میں کہہ چکاہوں اللہ تعالیٰ کے اشارہ اور ایماء القاء سے تھا؛حالانکہ مخالف تو خواہ مخواہ بھی جمع کر لیتے ہیں مسجد میں بھی نہیں جاتے۔ گھروں ہی میں جمع کر لیتے ہیں۔ مولوی محمد حسین ہی کو قسم دے کر پوچھا جاوے کہ کیا اس نے کبھی حاکم کے پاس جاتے وقات نماز جمع کی ہے یانہیں؟ پھرخدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشان نشان پر کیوں اعتراض کیا جاوے۔اگر تقوی اور خدا ترسی ہو تو اعتراض کرنے سے پہلے انسان اپنے گھر میں سوچ لے کہ کیا کہتا ہوں۔اور اس کا اثر اور نتیجہ کیا ہوگا اور کس پر پڑے گا۔
میںنے اس اجتہاد میں یہ بھی سوچا کہ ممکن تھا کہ ہم دس دن ہی میں کام کو ختم کر دیتے۔ جو اس پیشگوئی کا پورا ہونے کا موجب اور باعث ہوا ہے مگرا للہ تعالیٰ نے ایسا ہی پسند کیا کہ جب یہ لوگ اپنے نفس کی خاطر دو مہینے نکال لیتے ہیں تو پیشگوئی کی تکمیل کے لئے ایسی مدت چاہئے جس کی نظیر نہ ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا اور اگرچہ وہ مصالح ابھی تک نہیں کھلے۔ مگر اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور مجھے امید ہے کہ ضرور کھلیں گے۔
دیکھو ضعف دماغ کی بیماری بدستور لاحق ہے اور بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ موت قریب ہو جاتی ہے تم میں سے اکثر نے میری ایسی حالت کو معائنہ کیا اور پھر پیشاب کی بیماری عرصہ سے ہے گویا دو زرد چادریں مجھے یہ پہنائی گئی ہیں ایک اوپر کے حصہ بدن میں اور ایک نیچے کے حصہ بدن میں اس بیماریوں کی وجہ سے وقت صافی کم ملتا ہے مگر ان ایام میں خدا تعالیٰ نے خاص فضل فرمایا کہ صحت بھی اچھی رہی اور کام ہوتا رہا مجھے تو افسوس اور تعجب ہوتا ہے کہ لوگ جمع بین الصلوٰتین پر روتے ہیں حالانکہ مسیح کی قسمت میں بہت سے اجتماع رکھے ہیں کسوف وخسوف کا اجتماع ہوا یہ بھی میرا ہی نشان تھا اور واذالنفوس زوجت( التکویر:۸) بھی میرے ہی لئے ہیں۔اور وآخرین منہم لما یلحقوا بھم( الجمعہ:۴)بھی ایک جمع ہی کیونکہ اول اور آخر کو ملایا گیا ہے اور یہ عظیم الشان جمع ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوض کی زندگی پر دلیل اور گواہ ہے اور پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دئیے ہیں چنانچہ مطبع کے سامان کاغذ کی کثرت ڈاک خانوں ، تار ریل ، اور دخانی جہازوں کے ذریعہ کل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور پھر نت نئی ایجادیں اس جمع کو اور بھی بڑھا رہی ہیں کیونکہ اسباب تبلیغ جمع ہو رہے ہیں ا ب فونو گراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے اخباروں اور رسالوں کا اجراء غرض اس قدر سامان تبلیغ جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں ہم کو نہیں ملتی بلکہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے اغراض میں سے ایک تکمیل دین بھی تھی۔
جس کے فرمایا گیا تھا اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی (المائدہ:۴)
اب اس تکمیل میں دو خوبیاں تھی ایک تکمیل ہدایت اور دوسری تکمیل اشاعت ہدایت تکمیل ہدایت کا زمانہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپناپہلا زمانہ تھا اور تکمیل اشاعت ہدایت کا زمانہ آپؐ کا دوسرا زمانہ ہے جبکہ آخرین منہم لما یلحقوا بھم ( الجمعہ:۴)کا وقت آنے والا ہے اور وہ وقت اب ہے یعنی میرا زمانہ یعنی مسیح موعود کا زمانہ اس لئے اللہ تعالٰینے تکمیل ہدایت اور تکمیل اشاعت ہدایت کے زمانوں کو بھی اس طرح پر ملایا ہے اور یہ بھی عظیم الشان جمع ہے اور پھر یہ بھی وعدہ ہے کہ سارے ادیان کو جمع کیا جائے گا اور ایک دین کو غالب کیا جائے گا یہ بھی مسیح موعود کے وقت کی ایک جمع ہے کیونکہ لیظہرہ علی الدین کلہ (الصف:۱۰) مفسروں نے مان لیا ہے مسیح موعود ہی کے وقت ہو گا۔
پھر یہ بھی کہ وہ امن کا زمانہ ہو گا کہ بھیڑیا اور بھیڑ ایک ہی گھاٹ پر پانی پئیں گے جیسا کہ اس وقت نظر آتا ہے ہمارے مخالفوں نے ہمارے قتل کے کس قدر منصوبے کئے مگر وہ کیوں کامیاب نہ ہو سکے اسی گورنمنٹ کے حسن انتطام اور امن کی وجہ سے ۔ پھر خدا نے یہ بھی ارادہ فرمایا ہوا تھا کہ اس زمانہ میں حقائق و معارف جمع کر دے ۔
میں دیکھتا ہوں کہ جیسے ظہر و عصر جمع ہوئے ہیں کہ ظہر آسمان کے جلالی رنگ کا ظل ہے اور عصر جمالی رنگ کا اور خدا تعالیٰ دونوں کا اجتماع چاہتا ہے اور چونکہ میرا نام اس نے آدم بھی رکھا ہے اور آدم کے لئے یہ بھی فرمایا ہے کہ اس کو میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا ہے یعنی جلالی اور جمالی رنگ دونوں اس میں رکھے اس لئے اس جگہ بھی جلال اور جمال کا اجتماع کر کے دکھادیا۔
جلالی رنگ میں طاعون وغیرہ اللہ تعالیٰ کی گرفتیں ہیں اور انہیں سب دیکھتے ہیں اور جمالی رنگ ميں اس کے انعامات اور مبشرانہ وعدے ہیں اور پھر میری دانست میان اللہ تعالیٰ نے میرے سا تھ ایک اور جمع خبر بھی رکھی ہے جس کی خدا نے مجھے اطلاع دی اور وہ یہ ہے کہ میری پیدائش کے ساتھ ایک لڑکی بھی اس نے رکھی ہے اور پھر قومیت اور نسب میں بھی ایک جمع رکھی اور وہ یہ ہماری ایک دادی سیدہ تھی اور دادا صاحب اہل فارس تھے۔ اب بھی خدا نے اس قسم کی جمع ہمارے گھر میں رکھی کہ ایک صحیح النسب سیدہ میرے نکاح میں آئی اس طرح جیسے اب بھی خدا نے ایک عرصہ پہلے بشارت دی تھی اب غور تو کرو کہ خدا نے کس قدر اجتماع یہاں رکھے ہوئے ہیں ان تمام جمعوں کو خدا نے مصلحت عظیمہ کے لئے جمع کیا ہے ۔
ہماری جماعت کے لئے تو یہ امر دور از ادب ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں پیش کریں یا ان کے وہم میں بھی اس قسم کی باتیں آئیں اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میں جو کرتا ہوں وہ خدا تعالیٰ کی تفہیم اور اشارہ سے کرتا ہوں پھر کیوں اس کو مقدم نہیں کرتے اور پیش گوئی سمجھ کر عزت نہیں کرتے جیسے حضرت عمرؓ نے آنحضرت ؐ کی پیشگوئی سمجھ کر ایک صحابی کو سونے کے کڑے پہنا دئیے تھے۔اب تم بتائو کہ اور کیا چاہتے ہو۔خدا نے اس قدر نشان تمہارے لئے جمع کر دئے ہیں اگر خدا تعالیٰ پر ایمان ہو تو کوئی وہم اور خیال اس قسم کا پیدا نہیں ہو سکتا جس سے اعتراض کا رنگ پایا جائے اور اگر اس قدر نشان دیکھتے ہو ئے بھی کوئی اعتراض کرتا اور علیحدہ ہوتا ہو تو بے شک نکل جائے اور علیحدہ ہو جاوے اس کی خدا کو کیا پرواہ ہے۔ وہ کہیں جگہ نہیں پا سکتا، جبکہ خدا تعالیٰ نے مجھے حکم و عدل ٹھہرایا ہے اور تم نے مان لیا ہے پھر نشانہ اعتراض بنانا ضعف ایمان کا نشان ہے حکم مان کر تمام زبانیں بند ہوجانی چاہئیں اگر مخالفوں کا خیال ہو تو انہوں نے پہلے کیا کچھ نہیں کہادجال بے ایمان کافر کفر تک ٹھہرایا اور کوئی گالی تک باقی نہ رہنے دی جو انہوںنے نہیں دی اور کوئی منصوبہ شرارت تکلیف دہی کا نہيں رہا جوا نہوں نے نہیں سوچا اور پھر باقی کیا رہ گیاجو غیروں کی پروا کرتا اور اللہ تعالیٰ کو چھوڑتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتاجب تک خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ حکم کی بات کے سامنے اپنی زبانوں کو بند نہ کرو گے وہ ایمان پیدا نہیں ہوسکتا جو خدا چاہتا ہے اور جس غرض کے لئے اس نے مجھے بھیجا ہے ۔
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ میرایہ عمل اپنی تجویز اور خیال سے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی تفہیم سے ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے لئے ہے میں کسی اور حکم کی ضرورت نہیں سمجھتا جو چاہتا ہے اس کو قبول کرے اور جس کا دل مریض ہے وہ الگ ہو جائے میں ایسے لوگوں کو صلاح دیتا ہوں کہ وہ کثر ت سے استغفار کرے ر اور خدا سے ڈریں ایسانہ ہو کہ خدا انکی جگہ اور قوم لاوے۔
ایک بار مجھے الہام ہوا تھا کہ کوئی شخص میری طرف اشارہ کر کے کہتا ہے کہ ھذا الرجل یجیح الدین یہ شخص دین کی جڑھ اکھاڑتا ہے میں خوش ہوا کیونکہ آثار میں ایسا ہی لکھا ہے کہ مسیح اور مہدی کی نسبت ایسے فتوے دئے جائیں گے حجج الکرامہ میں ایسا ہی لکھا ہے ان عربی نے لکھا ہے جب مسیح نازل ہو گا تو ایک شخص کھڑا ہو کر کہے گا ان ھذ الرجل غیر دیننا۔
اور مجدد صاحب کے مکتوبات دوم میں صاف لکھا ہے کہ مسیح جو کچھ بیان کرے گا وہ اسرار غامضہ ہوں گے اور لوگوں کی سمجھ میں نہ آئیں گے حالانکہ وہ قرآن سے استنباط کرے گا پھر بھی لوگ ا س کی مخالفت کرین گے ۔اصل بات یہ ہے کہ جیسے مسیح موعود کے ساتھ جمع کا ایک نشان ہے عوام کے خیال کے موافق ایک تغیر بھی اس کے ساتھ ضروری ہے کیونکہ وہ بحیثیت حکم ہونے کے تمام بدعات اور خرابیوں کو جو فیج اعوج کے زمانہ میں پیدا ہو ئی ہیں دور کرے گااور لوگ ان کو تغیر دین کے نام سے یاد کریں گے۔میں پوچھتا ہوںکہ اگر تم مخالفوں سے ڈرتے ہو تو پھر مجھے قبول کرنے کا کیا فائدہ ہوا میری مخالفت میں کافر اور دجال ٹھہرائے گئے اور ااس سے بڑھ کر کیا ہوگا اور پھر اگر یہی بات ہے کہ اس کو تغیر دین کہتے ہیں تو بتائو کہ میں نے جہاد کی حرمت کا فتوی دیا ہے اور شائع کر دیا ہے کہ دین کے لئے تلوار اٹھانا حرام ہے پھر اس کی پرواہ کیوں کرتے ہو ہمارے مخالف تو یضع الجزیۃ کہتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ یضع الحرب درست ہے غرض اگر اب یہ چاہیں کہ ان لوگوں کے پنجوں سے بچ جائیں، یہ مشکل ہے بلکہ ناممکن ہے جب تک پورے برگشہ نہ ہو جائیں پس اب’’ یک در گیر محکم گیر ‘‘پر عمل کرو۔
جو شخص ایمان لاتا ہے ۔اسے اپنے ایمان سے یقین اور عرفان تک ترقی کرنی چاہئے نہ یہ کہ وہ پھر ظن میں گرفتار ہو۔ یاد رکھو۔ظن مفیدنہیں ہو سکتا ۔خداتعالیٰ خود فرماتا ہے ۔اِنَّ الظَّنَّ لَایُغْنِی مِنَ الْحَقِّ شَیئاً۔(یونس:۳۷)یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو با مراد کر سکتی ہے ۔یقین کے بغیرکچھ نہیںہو تا۔ ا گر انسان ہر بات پر بدزنی کر نے لگے تو شائد ایک دم بھی دنیا میں نہ گزار سکے ۔وہ پانی نہ پی سکے کہ شاید ا س میں زہر ملا دیا ہوبازار کی چیزیںنہ کھا سکے ۔کہ ان میںہلا ک کر نے والی کوئی شے ہو ۔پھر کس طرح وہ رہ سکتا ہے یہ ایک موٹی مثا ل ہے اسی طرح پر انسا ن رو حا نی میں ا س سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔ اب تم ہے خود سو چ لو او ر اپنے دلو ں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جوبیعت کی ہے او ر مجھے مسیح مو عو د حکم۔عد ل ماناہے تو اس ما ننے کے بعد میرے اسی فیصلہ یافعل پر اگر دل میںکوئی کد ور ت یا رنج آتا ہے ،تواپنے ایمان کی فکر کرو ۔وہ ایمان جو خدشات اور تو ہمات سے بھر ا ہو ا ہے ،کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا لیکن اگر تم سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح مو عو د وا قعی حکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سا منے اپنے ہتھیار ڈال دو ۔ اور اسکے فیصلوں کو عز ت کی نگا ہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی پاک باتوں کی عز ت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو ۔رسو ل اللہ علیہ وسلم کی شہاد ت کافی ہے وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمھارا امام ہو گا وہ حکم عدل ہو گا اگر اس پر تسلی نہیں ہو ئی توپھر کب ہو گی۔یہ طریق ہر گزاچھا اور مبارک نہیں ہو سکتا کہ ایمان بھی ہو اور دل کے بعض گوشوں میںزنیاںبھی ہوں ۔میںاگر صاد ق نہیں ہوںتوپھر جائو اور صادق تلا ش کر و اور یقینا سمجھوکہ اس و قت اور صاد ق نہیںمل سکتا ۔او ر پھر اگر کوئی دوسرا صاد ق نہ ملے اور نہیں ملے گا تو پھر میں اتنا حق مانگتا ہوں جو رسول اللہ صلی علیہ وسلمنے مجھ کو دیاہے۔
جن لوگوں نے میراانکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا اور جس نے مجھے تسلیم کیا اور پھر اعتراض رکھتا ہے ،وہ اور بھی بد قسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہو ۔
اصل بات یہ ہے کہ معاشرت بھی رتبہ کو گھٹادیتی ہے ،اس لیے حضرت مسیح ؑ کہتے ہیںکہ نبی بے عزت نہیں ہوتا ۔مگراپنے وطن میں۔اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ان کو اہل وطن سے کیا کیاتکلیفیں اور صدمے اٹھانے پڑے تھے۔ سو یہ انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ایک سنت چلی آئی ہے۔ہم اس سے الگ کیونکر ہو سکتے ہیں۔اس لیے ہم کو جو کچھ اپنے مخالفوں سے سننا پڑا۔یہ اسی سنت کے موافق ہے مایاتیہم من رسول الا کانو ابہ یستھزء ون(الحجر:۱۲)افسوس ا گر یہ لوگ صاف نیت سے میرے پاس آتے تو میں ان کو وہ دکھاتا جو خدا نے مجھے دیا ہے اور وہ خدا خود انپر اپنا فضل کرتا اور انہیںسمجھا دیتا ، مگر انہوں نے بخل اور حسد سے کام لیا ۔اب میں ان کو کس طرح سمجھائوں۔
جب انسان سچّے دل سے حق طلبی کے لیے آتا ہے ،تو سب سے فیصلے ہو جاتے ہیں۔لیکن جب بد گوئی اور شرارت مقصود ہو ،تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔میں کب تک ان کے فیصلے کرتا رہوں گا ۔
حجج الکرامہ میں ابن عربیؔکے حوالے سے لکھّا ہے کہ مسیح موعوؑدجب آئے گا،تو اسے مفتری اور جاہل ٹھہرایا جائے گا۔اور یہاںتک بھی کہا جاوے گا کہ وہ دین کو تغیر کرتا ہے ۔ اس وقت ایسا ہی ہو رہا ہے۔اس قسم کے الزام مجھے دیے گئے جاتے ہیں ۔ان شبہات سے انسان تب نجات پا سکتا ہے،جب وہ اپنے اجتہاد کی کتاب ڈھانپ لے اور اس کی بجائے وہ یہ فکر کرے کہ کیا یہ سچا ہے یا نہیں۔بعض امور بیشک سمجھ سے با تر ہوتے ہیں ،لیکن جو پیغمبر وں پر ایمان لاتے ہیں۔وہ حسنِ ظن اور صبر و استقلال سے ایک وقت کا انتظار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان پر اصل حقیقت کو کھول دیتا ہے رسول اللہ اکے وقت صحابہ سوال نہ کرتے تھے ،بلکہ منتظر رہتے تھے کہ کوئی آکر سوال کرے تو فائدہ اٹھا تے تھے،ورنہ خود خاموش سرتسلیم کئے بیٹھے رہتے تھے اور جرأت سوا ل کرنے کی نہ کرتے تھے۔میرے نزدیک اصل اور اسلم طریق یہی ہے کہ ادب کرے۔جوشخص آداب النبیؐ کونہیں سمجھتا اوراس کو اختیار نہیں کرتا۔اندیشہ ہوتا ہے کہ وہ ہلاک نہ کیا جائے۔
وہ لوگ بڑی غلطی پر ہیں،جو ایک ہی دن میں حق الیقین کے درجے پر پہنچنا چاہتے ہیں۔یاد رکھوکہ ایک ظن ہوتا ہے اور ایک یقین ۔ظن صرف خیالی بات ہوتی ہے اور اس کی صحت اور سچائی پر کوئی حُکم نہیں ہوتا۔بلکہ اس میں احتمال کذب کا ہوتا ہے لیکن یقین میں ایک سچائی کی روشنی ہوتی ہے یہ سچ ہے کہ یقین کے بھی مدارج ہیں۔ایک علم الیقین ہوتا ہے پھر عین الیقین اور تیسرا حق الیقین ۔جیسے دور سے کوئی آدمی دھواں دیکھتا ہے تو آگ کا یقین کرتا ہے اور یہ علم الیقین ہے اور جب جا کر دیکھتا ہے تو وہ عین الیقین ہے اور جب ہاتھ ڈال کر دیکھتا ہے کہ وہ جلاتی ہے تو وہ حق الیقین ہے ۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی ابھی ظن سے مخلصی نہیں ہوئی ؛ جبکہ سنت اللہ اسی طرح پر ہے کہ جو مامور آتے خدا کی طرف سے آتے ہیں ان کے ساتھ ابتلاء ضرور ہوتے ہیں پھر میں کیوں کر ابتلاء کے بغیر آ سکتا تھا۔اگرا بتلاء نہ ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بنی اسرائیل میں سے آ جاتے۔تا کہ ان کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملتاکہ آنے والے کے لئے لکھا ہے کہ وہ تیرے بھائیوں میں سے ہو گا۔اوراسی طرح حضرت مسیحؑ کے وقت ایلیا ہی آجاتا کہ ان کو ٹھوکر نہ لگتی ایک یہودی فاضل نے اس پر ایک بڑی کتاب لکھی ہے وہ کہتا ہے کہ ہمارے لئے یہی کافی ہے ایلیا نہیں آیا۔اور اگر خدا ہم سے پوچھے گا تو ہم ملاکی نبی کی کتاب پیش کردیں گے ۔
اس قدر معجزات جو حضرت مسیح سے صادر ہوئے بیان کئے جاتے ہیں کہ وہ مردوںکو زندہ کرتے تھے ایلیا کو بھی زندہ کر کے لے آتے ۔ایماناً بتائو کہ ایلیا کا ابتلا بڑا تھا یا نمازوں کو جمع کرنے کاابتلا ء،لوگ جس نے حضرت مسیح کو صلیب پر چڑھا دیا ۔ اب اس قدر لوگ جو گمراہ ہوئے اور مسیح اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منکر رہے تو اس کا باعث وہی ایلیا کا ابتلاء ہی ہے یا کچھ اور غرض ابتلا کا آنا ضروری ہے مگر سچا مومن کبھی ان سے ضائع نہیں کیا جاتا ۔اس قسم کے لوگوں نے کسی زمانہ سے بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔کیا حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں انہوں نے فائدہ اٹھایا یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں۔
میں نے عام طور پر شائع کیا کہ استجابت دعا کا نشان مجھے دیا گیا ہے جو چاہے میرے مقابلے پر آئے میں نے کہا کہ جو مجھے حق پر نہیں سمجھتا وہ میرے ساتھ مباہلہ کر لے میں نے یہ بھی شائع کیا کہ قرآن کریم کے حقائق و معارف کا ایک نشان مجھے عطا ہوا اس میں مقابلہ کر کے دیکھ لو مگر ایک بھی ایسا نہ ہوا جو میرے سامنے آتا اور میری دعوت کو قبول کر لیتا ۔پھر خدا نے مجھے بشارت دی کہ ینصرک اللہ فی مواطن اور اس کا ثبوت دیا کہ ہر میدان میں مجھے کامیاب کیا پس اگر ان نشانات سے کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا اور اس کی تسلی نہیں ہوتی پھر وہ کسی اور کے پاس جاوے یا کسی عیسائی کے پاس جاوے اور تسلی کر لے اگر کر سکتا ہے لیکن سچائی کو چھوڑ کر تسلی کہاں؟ فما ذا بعد الحق الا الضلال( یونس:۳۳)
ایسے لوگ لا من الاحیاء و لا من الاموات کے مصداق ہوتے ہیں غرض نمازوں کے جمع کرنے میں ایک راز اور سر تھا اور انما الاعمال بالنیات۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ آیا یہ سستی اور کسل کی وجہ تھا یا ایک مقبول اور مبارک طریق پر ۔
یاد رکھو کہ اس قدر نشانات دیکھ کر بھی جسے کوئی شک وشبہ گزر سکتا ہے تو اسے ڈرنا چاہئے کہ شیطان عدو مبین ساتھ ہے۔میں جس راہ کی طرف بلاتا ہوں یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر غوثیت اور قطبیت ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے بڑے بڑے انعام ہوتے ہیں جو لوگ مجھے قبول کرتے ہیں ان کی دین و دنیا بھی اچھی ہو گی کیونکہ اللہ تعالیٰ وعدہ فرما چکا ہے وجاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ( آل عمران:۵۶)
درحقیقت وہ زمانہ آتا ہے کہ ان کو امیت سے نکال کر خود قوت بیان عطا کرے گا اور وہ منکروں پر غالب ہوں گے،لیکن جو شخص دلائل اور نشانات کو دیکھتا ہے اور پھر دیانت ،امانت،انصاف کو ہاتھ سے چھوڑتا ہے اسے یاد رکھنا چاہئے کہ من اظلم ممن افتری علی اللہ کذبا او کذب بآیاتہ (الانعام:۲۲) تم بہت سے نشانات دیکھ چکے ہو اور حروف تہجی کے طور پر اگرایک نقشہ تیار کیا جاوے،تو کوئی حرف باقی نہ رہے گا کہ اس میں کئی کئی نشان نہ آئیں۔تریاقؔ القلوب میںبہت سے نشان جمع کئے گئے ہیں اور تم نے اپنی آنکھوں سے پُورے ہوتے دیکھے۔
اب وقت ہے کہ تمہارے ایمان مضبوط ہوں اور کوئی زلزلہ اور آندھی تمہیں ہلانہ سکے۔ بعض تم میں ایسے بھی صادق ہیں کہ اُنہوں نے کسی نشان کی اپنے لیے ضرورت نہیں سمجھی۔ گو خدا نے اپنے فضل سے ین کو سینکڑوں نشان دکھا دئیے۔ لیکن اگر ایک بھی نشان نہ ہوتا، تب بھی وہ مجھے صادق یقین کرتے اور میرے ساتھ تھے،چنانچہ مولوی نورالّدین صاحب کسی نشان کے طالب نہ ہوئے۔انہوں نے سنتے ہی آمنّا کہہ دیا اور فاروقی ہو کر صدّیقی عمل کر لیا۔ لکھّا ہے کہ حضرت ابو بکر شام کی طرف گئے ہوئے تھے۔ واپس آئے تو راستہ میں ہی آنحضرت ا کے دعویٰ نبوّت کی خبر پہنچی وہیں اْنہوںنے تسلیم کر لیا‘‘۔
حضرت اقدسؑ نے اس قدر تقریر فرمائی تھی کہ مولانا مولوی نُورالدین صاحب حکیم الامّت ایک جوش اور صدق کے نشہ سے سرشار ہو کر اُٹھے اور کہا کہ مَیں اس وقت حاضر ہوا ہوں کہ حضرت عمر ؓنے بھی رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضوررضیت باللہ ربّاوبمحمد نبیا کہہ کر اقرار کیا تھا۔ اب میں اس وقت صادق امام مسیح موعود اور مہدی معہود کے حضور وہی اقرار کرتا ہوں کہ مجھے کبھی ذرا بھی شک اور وہم حضور کے متعلّق نہیں گزرا اور یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ بہت سے اسباب ایسے ہیں جن کا ہمیں علم نہیں۔اور میں نے ہمیشہ اس کو آداب نبوّت کے خلاف سمجھا ہے کہ کبھی کوئی سوال اس قسم کا کروں۔ میں آپ کے حضور اقرار کرتا ہوں۔رضینا با للہ ربا وبک مَسِیحاومھدیا ٭
اس تقریر کے ساتھ ہی حضرت اقدسؑ نے بھی اپنی تقریر ختم کر دی
سیّدنا حضرت امام آخرالزمان مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والّسلام نے فرمایا:
ایک بہت ہی ضروری امر ہے جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں، اگر چہ میرے طبیعت بھی اچھی نہیںہے لیکن کل نواب صاحب جو جانیوالے ہیں۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ میں بیان کروں تاکہ وہ بھی سن لیں اورجماعت کے دوسرے لوگ بھی سن لیں اور وہ یہ ہے:
کہ تمام انبیاء علیہم السّلام جو دنیا میںآئے ہیں۔ اگر چہ انھوں نے جو احکام دنیا کو سنائے وہ مبسوط اور مُطَوَّل تھے اور بہت کچھ جزئیات بھی بیان کر دیں اور تمام امُور جو توحید ، تہذیب، معاملات اور معاد کے متعلق ہوتے ہیں۔ غرض جس قدر امُور انسان کو چاہئیں، ان سب کے متعلق وہ ہر قسم کی ہدائتیں اور تعلیمیں لوگوں کودیا کرتے تھے۔ باوجود ان ساری جزئی تعلیموں اور ہدایتوں کے ہر ایک نبی کی اصل غرض اور مقصد یہ رہا کے لوگ گناہوں سے نجات پاکر اور ہر قسم کی بدیوں اور بدکاریوں سے بکلّی نفرت کر کے خدا ہی کے لیے ہو جاویں۔انسانی پیدائش کی اصل غرض اور مقصد بھی ینی ہے کہ وہ خدا کے لیے ہو جائے۔ اس لیے انبیاء علیہم السّلام کی بعثت کی غرض اسی مقصد کی طرف انسان کو رہبری کرنا ہوتا ہے کہ وہ امنی گم گشتہ متاش اور مقصد کو پھر حاصل کرے۔ گناہ اگر چہ بہت ہیں اور ان کے بہت سے شعبے اور شاخیں ہیں۔ یہانتک کہ ہرادنیٰ قسم کی غفلت بھی گناہ میں داخل ہے۔ لیکن عظیم الشان گناہ جو اس مقصدِ عظیم کے بالمقابل انسان کو اصل مقصد سے ہٹانے کے لیے پڑا ہوا ہے، وہ شرک ہے۔انسان کی پیدائش کی اصل غرض اور مقصد یہ ہے کہ وہ خدا ہی کے لیے ہو جائے اور گناہ اور اس کے محرکات سے بہت دور رہے اِس لیے کہ جُوں جُوں بدقسمت انسان اس میں مبتلا ہوتا ہے ،اُسی قدر اپنے اصل مدّعا سے دور ہوتا جاتا ہے۔ یہانتک کہ آخر گرتے گرتے ایسی سفلی جگہ پر جا پڑتا ہے جو مصائب اور مشکلات اور ہر قسم کی تکلیفوں اور دکھوں کا گھر ہے جس کو جہنّم بھی کہتے ہیں۔
دیکھو انسان کا اگر کوئی عضو اپنی اصل جگہ سے ہٹا دیا جائے۔ مثلاً بازُو ہی اگر اُتر جاوے یا ایک انگلی یا انگوٹھا ہی اپنے اصل مقام سے ہٹ جاوے، تو کس قدر درد اور کرب پیدا ہوتا ہے۔ یہ جسمانی نظارہ رُوحانی اور اُخروی عالم کے لیے ایک زبردست دلیل ہے اور جہنّم کے وجُود پر ایک گواہ ہے۔ گناہ یہی ہوتا ہے کہ انسان اس مقصد سے جو اس کی پیدائش سے رکھا گیا ہے، دُور ہٹ جاوے۔ پس اپنے محل سے ہٹنے میں صاف درد کا ہونا ضروری ہے۔
شِرک ایسی چیز ہے کہ جو انسان کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا کر جہنّم کا وارث بنا دیتا ہے۔ شِرک کی کئی قِسم ہیں۔ ایک تو وہ موٹا اور صریح شِرک ہے جس میں ہندو، عیسائی ،یہودی اور دوسرے بُت پرست لوگ گرفتار ہیں۔ جس میں کسی انسان یا پتھّر یا اور بے جان چیزوں یا قوتوں یا خیالی دیویوںاور کیو تائوں کو خدا بنا لیا گیا ہے؛اگر چہ یہ شِرک ابھی تک دُنیا میں موجود ہے، لیکن یہ زمانہ روشنی اور تعلیم کا کچھ ایسا زمانہ ہے کہ عقلیں اس قسم کے شرک کو نفرت کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئی ہیں۔ یہ جُدا امر ہے کہ وہ قومی مذہب کی حیثیت سے بظاہر ان بے ہودگیوں کا اقرار کریں، لیکن دراصل بالطبع لوگ ان سے متنفّر ہوتے جاتے ہیں، مگر ایک اور قسم کا شرک ہے جو مخفی طور پر زہر کی طرح اثر کر رہا ہے اور وہ اس زمانہ میں بہت بڑھتا جاتا ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ پر بھروسہ اور اعتماد بالکل نہیں رہا۔
ہم یہ ہرگز نہیں کہتے اور نہ ہمارا یہ مذہب ہے کہ اسباب کی رعایت بالکل نہ کی جاوے کیونکہ خدا تعالیٰ نے رعایتِ اسباب کی ترغیب دی ہے اور اس حدتک جہاں تک یہ رعایت ضروری ہے۔ اگر رعایتِ اسباب نہ کی جاوے تو انسانی قوتون کی بیحُرمتی کرنا اور خدا تعالیٰ کے ایک عظیم الشّان فعل کی توہین کرنا ہے، کیونکہ ایسی حالت میں جبکہ بالکل رعایتِ اسباب کی نہ کی جاوے، ضروری ہوگاکہ تمام قوتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کی ہیں بالکل بے کار چھوڑ دیا جاوے اور ان سے کام نہ لیا جاوے۔ اور اُن سے کام نہ لینا اور ان کو بے کار چھوڑ دینا خدا تعالیٰ کے فعِل کو لغو اورعبث قرار دینا ہے۔جو بہت بڑا گناہ ہے۔ پس ہمارا یہ منشاء اور مذہب ہرگز نہیں کہ اسباب کی رعایت بالکل ہی نہ کی جاوے،بلکہ رعایتِ اسباب اپنی حدتک ضروری ہے۔آخرت کے لیے بھی اسباب ہی ہیں۔ خدا تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور بدیوں سے بچنا اور دوسری نیکیون کو اختیار کرنا اس لیے ہے کہ اس عالَم میں سکھ ملے، توگویا یہ نیکیاں اسباب کے قائم مقام ہیں۔
اسی طرح پر یہ بھی خدا تعالیٰ نے منع نہیں کیا کہ دنیوی ضرورتوںکے پورا کرنے کے لیے اسباب کو اختیار کیا جاوے۔ نوکری والا نوکری کرے۔ زمیینداری کے کاموں میں رہے۔ مزدور مزدوریاں کریں تا وُہ اپنے عیال واطفال اور دُوسرے متعلّقین اوراپنے نفس کے حقوق کو ادا کر سکیں۔ پس ایک جائز حد تک یہ سب دُرست ہے اور اس کو منع نہیں کیا جاتا، لیکن جب انسان حد سے تجاوز کرکے اسباب ہی پر پُورا بھروسہ کرے اور سارا دارومداراسباب ہی پر جا ٹھہرے تو یہ وہ شرک ہے جو انسان کو اُس کے اصل مقصد سے دُور پھینک دیتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر فلاں سبب نہ ہو تا، تو مَیںبھوکا مر جاتا ہے۔ یا اگر یہ جائد اد یافلاں کام نہ ہوتا، تو میرا بُرا حال ہو جاتا۔ فلان دوست نہ ہوتا تو تکلیف ہوتی۔ یہ امُور اس قسم کے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہرگز پسند نہیں کرتا کہ جائیداد یا اور اَور اسباب واحباب پر اس قدر بھروسہ کیا جاوے کہ خدا تعالیٰ سے بکلّی دُور جا پڑے۔یہ خطرناک شرک ہے، جو قرآن شریف کی تعلیم کے صریح خلاف ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وفی السماء رزقکم و ما تو عدون(الذار یات : ۲۳)
اور فرمایا
و من یتوکل علے اللہ فھو حسبہ (الطلاق: ۴)
اور فرمایا
من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب(الطلاق:۳،۴)
اور فرمایا۔
وھو یتولی الصا لحین (الاعراف: ۱۹۷)
قرآن شریف اس قسم کی آیتون سے بھرا پڑا ہے کہ وہ متقیون کا متوّلی اور متکفل ہوتا ہے توپھر جب انسان اسباب پر تکیہ ا ور توکل کرتا ہیتو گویا خدا تعالیٰ کی ان صفات کا انکار کرنے ہے اور ان اسباب کو حصہ دینا ہے اور ایک اور خدا اپنے لیے ان اسباب کاتجویز کرتا ہے؛ چونکہ وہ ایک پہلوکی طرف جھکتا ہے ۔اس سے شرک کی طرف گویا قدم اُٹھاتا ہے ۔ جو لوگ حکّام کی طرف جھکے ہوتے ہیں اور اُن سے انعام یا خطاب پاتے ہیں۔ اُن کے دل میں اُن کی عظمت خدا کی سی عظمت داخل ہو جاتی ہے۔ وہ اُن کے پرستار بن جاتے ہیں اور یہی ایک امر ہے جو توحید کا استیصال کرتا ہے اور انسان کو اُس کے اصل مقصد سے اُٹھا کر دُور پھینک دیتا ہے۔پس انبیاء علیہم السّلام یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اسباب اور توحید میںتناقض نہ ہونے پاوے، بلکہ ہر ایک اپنے اپنے مقام پر رہے اور مآل کار توحید پر جا ٹھہرے۔ وُہ انسان کو یہ سکھانا چاہتے ہیں۔ کہ ساری عزّتیں، سارے آرام اور حاجات براری کا متکفّل خدا ہی ہے۔ پس اگر اس کے مقابل میں کسی اور کو بھی قائم کیا جاوے تو صاف ظاہر ہے کہ دو ضدّوں کے تقابل سے ایک ہلاک ہو جاتی ہے۔ اس لیے مقدم ہیکہ خدا تعالیٰ کی توحید ہو۔ رعایت اسباب کی جاوے۔ اسباب کو خدا نہ بنایا جاوے۔ اسی توحید سے ایک محبت خدا تعالیٰ سے پیدا ہوتی ہے جب کے انسان یہ سمجھتا ہے کہ نفع و نقصان اسی کے ہاتھ میں ہے۔ محسن حقیقی وہی ہے۔ ذرّہ ذرّہ اُسی سے ہے۔کوئی دوسرا درمیان نہیں آتا۔ جب انسان اس پاک حالت کوحاصل کرے تو وُہ مُوحد کہلاتا ہے۔غرض ایک حالت توحید کی یہ ہے کہ انسان پتھرون یا انسانوں یا اور کسی چیز کو خدا نا بنائے، بلکہ ان کو خدا بنانے سے بیزاری اور نفرت ظاہرکرے اور دوسری حالت یہ ہے کہ رعایت اسباب سے نہ گذرے۔
تیسری قسم یہ ہے کہ اپنے نفس اور وجُود کے اغراض کو بھی درمیان سے اُٹھادیا جاوے اور اس کی نفی کی جاوے۔ بسا اوقات انسان کے زیرِنظر اپنی خوبی اور طاقت بھی ہوتی ہے کہ فلاں نیکی مَیںنے اپنی طاقت سے کی ہے ۔ انسان اپنی طاقت پر ایسا بھروسہ کرتا ہے کہ ہر کام کو اپنی، ہی قوّت سے منسُوب کرتا ہے۔ انسان موحِدّ تن ہوتا ہے کہ جب اپنی طاقتوں کی بھی نفی کردے۔
لیکن اب اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان جیسا کہ تجربہ دلالت کرتا ہے۔ عموماً کوئی نہ کوئی حصّہ گنہ کا اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ بعض موٹے گناہوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور بعض اوسط درجا کے گناہوں میں اور بعض باریک در باریک قسم کے گناہوں کا شکار ہوتے ہیں۔ جیسے بخل، ریاکاری یا اور اسی قسم کے گناہ کے حِصّوں میں گرفتار ہوتے ہیں۔ جب تک ان سے رہائی نہ ملے، انسان اپنے گمشدہ انوار کو حاصِل نہیں کر سکتا۔ اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے احکام دیئے ہیں۔ بعض اُن میں سے ایسی ہیں کہ ان کی بجاآوری ہر ایک کو میسّر نہیں ہے۔ مثلاً حج۔یہ اس آدمی پر فرض ہے جسے استطاعت ہو۔ پھر راستہ میں امن ہو۔ پیچھے جو متعلقین ہیں۔ اُن کے گذارہ کا بھی معقول انتظام ہو اور اسی قسم کی ضروری شرائط پوری ہوں تو حج کر سکتا ہے۔ ایسا ہی زکواۃ ہے۔یہ وُہی دے سکتا ہے جو صاحبِ نصاب ہو۔ ایسا ہی نماز میں بھی تغیرّات ہو جاتے ہیں۔
لیکن ایک بات ہے جس میں کوئی تغیّر نہیں۔ وہ ہے: لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔اصل یہی بات ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ سب اس کے مکمّلات ہیں۔ توحید کی تکمیل نہیں ہوتی جب تک عبادات کی بجا آوری نہ ہو۔ اس کے یہی معنے ہیں کہ لاالہ الا اللہ محمدرسول اللہ کہنے والا اس وقت اپنے اقرار میں سچّا ہوتا ہے کہ حقیقی طور پر عملی پہلو سے بھی وہ ثابت کر دکھائے کہ حقیقت میں اللہ کے سوا کوئی محبُوب و مطلوب اور مقصود نہیں ہے۔ جب اس کی یہ حالت ہو اور واقعی طور پر اس کا ایمانی اور عملی رنگ اس اقرار کو ظاہر کرہے والا ہو، تو وُہ خدا تعالیٰ کے حضور اس اقرار میں جھوٹا نہیں۔ ساری مادی چیزیں جل گئی ہیں اور ایک فنا اُن پر اس کے ایمان میں آگئی ہے۔ تب وہ لا الہ الا اللہ منہ سے نکالتا ہے اور محمد رسول اللہ جو اس کا دوسرا جُزو ہے وُہ نمونہ کے لیے ہے۔کیونکہ نمونہ اور نطیر سے ہر بات سہل ہو جاتی ہے۔ انبیاء علیہم السّلام نمونون کے لیے آتے نیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع کمالات کے نمونوں کے جامع تھے۔کیونکہ سارے نبیوں کے نمونے آپؐ میں جمع ہیں۔
آپؐ کا نام اسی لیے مُحمّدہے کہ اس کے معنی ہیں، نہایت تعریف کیا گیا۔ مُحمّد وُہ ہوتا ہے جس کی زمین و آسمان پر تعریف ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ دُنیا کے لوگوں نے ان کو نہایت حقارت کی نِگاہ سے دیکھا انہیں ذلیل سمجھا اور بخیلِ خویش ذلیل کیا، لیکن آسمان پر اُن کی عزّت اور تعریف کرتی ہے۔ ہر طرف سے واہ واہ ہوتی ہے۔وُہ خدا تعالیٰ کے حضور راستباز ہوتے ہیںاور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ دُنیا ان کی تعریف کرتی ہے۔ ہر طرف سے واہ واہ ہوتی ہے، مگر آسمان اُن پر *** کرتا ہے۔ خدا اور اس کے فرشتے اور مقرّب اس پر *** بھیجتے ہیں۔ تعریف نہیں کرتے۔ مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمین و آسمان دونوں جگہ میں تعریف کیے گئے اور یہ فخر اور فضل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو ملاہے۔ جس قدر پاک گروہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مِلا وہ کِسی اور نبی کو نصیب نہیں ہوا۔ یُوں تو حضرت موسیٰؑ کو بھی کئی لاکھ آدمیوں کی قوم مِل گئی، مگر وہ ایسے مستقل مزاج یا ایسی پاکباز اور عالی ہمّت قوم نہ تھی جیسی صحابہ کی تھی۔رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ قوم موسیٰ کا یہ حال تھا کہ رات کو مومن ہیں تو دن کو مُرتد ہیں۔ آنحضرتؐ اور آپ کے صحابہؓ کا حضرت موسیٰؑ اور اس کی قوم کے ساتھ مقابلا کرنے سے گویا کُل دُنیا کا مقابلا ہو گیا۔ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو جماعت ملی وہ ایسی پاکباز اور خدا پرست اور مخلص تھی کہ اس کی نظیر کسی دنیا کی قوم اور کسی نبی کی جماعت میں ہر گز پائی نہیں جاتی۔ احادیث میں اُن کی بڑی تعریفیں آئی ہیں۔ یہانتک فرمایا۔ اللہ اللہ فی اصحابی اور قرآن کریم میں بھی ان کی تعریف ہوئی۔ یبیتون لر بھم سجّداوقیاما۔ (الفرقان:۶۵)
موسیٰ کی جماعت جن مشکلات اور مصائب طاعون وغیرہ کے نیچے آئی ۔ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی تیار کردہ جماعت اس سے ممتازاور محفوظ رہی اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور انفاس طیّبہ اور جزب اِلی اللہ کی قوت کا پتہ لگتاہے کے کیسی زبردست قوتیں آپ کو عطاکی گئی تھیں ۔جو ایسا پاک اور جانثار گروہ اکٹھاکر لیا ۔ یہ خیال بالکل غلط ہے جو جاہل لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یوںہی لوگ ساتھ ہو جاتے ہیںجب تک ایک قوت جزبہ اورکشش کی نہ ہو۔ کبھی ممکن نہیں ہے کے لوگ جمع ہوسکیں ۔میرامذہب یہ ہے کے آپ کی قوت قدسی ایسی تھی کہ کسی دوسرے نبی کو دنیا میں نہیں ملی ۔ اسلام کی ترقی کا یہ رازہے کہ نبی کریم ﷺکی قوت جزب بہت زبر دست تھی اور پھر آپ کی باتوں میں وہ تاثیر تھی کہ جو سنتاتھاوہ گرویدہ ہو جاتاتھا ۔ جن لوگوںکوآپنے کھینچا۔ان کوپاک صاف کر دیا ۔ اور اس کے ساتھآپ کی تعلیم ایسی سادہ اور صاف تھی کے اس میں کسی قسم کے گورکھ دھندے اور معمے تثلیث کی طرح نہیں ہیں ۔چناچہ نیپولین کی بابت لکھا ہے کہ وہ مسلمان تھا اور کہا کرتا تھا کہ اسلام بہت ہی سیدھا سادہ جو خداکے سامنے یا انسان کے سامنے شرمندہ نہیں ہوسکتا ۔قانون قدرت اور فطرت کے ساتھ ایساوابستہ ہے کے ایک جنگلی بھی آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے تثلیث کی طرح کوئی لا یخل عُقدہ اس میں نہیں جس کو نہ خدا سمجھ سکے اور نہ ماننے والے جیساکے عیسائی کہتے ہیں ۔تثلیث قبول کرنے کے لیے ضروری ہے کے پہلے بت پرستی اور ادہام پرستی کرے اور عقل وفکر کی قوتوں کوبلکل بیکار اور معطل چھوڑدے حالانکہ اسلام کی توحید ایسی ہے کے ایک دنیا سے الگ تھلگ جزیرہ میںبھی وہ سمجھ آسکتی ہے ۔یہ دین جو عیسائی پیش کرتے ہیں عالم گیر اورمکمل نہیں ہو سکتا اور نہ انسان کوئی تسلی یا اطمینان پاسکتاہے ۔ مگر اسلام ایک ایسا دین ہے جو کیا بااعتبار توحید اور اعمال حسنہ اور کیا تکمیل مسائل ۔سب سے بڑھ کر ہے ۔ہزاروں قسم کی بد کا ریوں یہودیوں میں جو مو سیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے پائی جاتی ہیںاور مسیح کی حواریوں کا ذکربھی کر نا نہین چاہتے جن میں سے ایک نے چند کھوٹے درہم لے کر اپنے آقا کو پکڑا دیا اور ایک نے *** کی اور کسی نے بھی وفاداری کا نمونہ نہ دکھایا ۔لیکن صحاب کی حالت کو دیکھتے ہیں تو ان میں کوئی جھوٹ بولنے والا بھی نظر نہیںآتا ۔ ان کے تصور میں بھی بجُزروشنی کے کچھ نظر نہیںآتاحالانکہ جب عرب کی ابتدائی حالت پر نگاہ کرتے ہیں وہ تحت الثریٰ میںپڑے ہو ئے نظر آتے ہیں ۔بت پرستی میں منہک تھے یتیموںکا مال کھانے اور ہر قسم کی بدکاریوں میں دلیر اور بے باک تھے ۔ ڈاکوں کی طرح گذارہ کرتے تھے ۔ گویا سر سے پیرتک نجات میں غرق تھے ۔پھر میں وہ پوچھتاہوں وہ کونسااسم اعظم تھا جس نے اُن کوجھٹ پٹ کایا پلٹ دی اور ان کو ایسا نمونہ جس کی نظیر دُنیا کی قوموں ہر گزنہیں ملتی ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اگر کوئی بھی معجزہ پیش نہ کریں تو اس حیرت انگیز پاک تبدیلی کے مقابلہ میں کسی خودساختہ ایک آدمی کا دُرست کرنا مشکل ہو تاہے ۔ مگر یہاں تو ایک قوم تیار کی گئی جنھوںنے اپنے ایمان اور اخلاص کا وہ نمونہ دکھایا کہ بھیڑبکری کی طرح اس سچائی کیلیے ذبح ہوگئے جس کو انھوں اختیار کیا تھا ۔ حقیقت یہ ہے وہ زمینی نہ رہے تھے بلکہ رُسول اللہ ﷺکی تعلیم ہدایت اور مو ئثر نصیحت نے ان کو آسمانی بنادیا تھا ۔ قدسی صفات ان میں پیدا ہوگئی تھیں ۔دنیا کی خباثتوں اور ریاکاریوں سے وہ ایسے سبک اور ہلکے پھلکے کر دئیے گئے تھے کے ان میں پرواز کی قوت پیدا ہو گئی تھی ۔یہ وہ نمو نہ ہے جو ہم اسلام کا دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں اسی اصلاح اور ہدایت کا باعث تھا جو اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی کے طورپرآنحضرت ﷺکا نام محمد رکھاجس سے زمین پر بھی آپ کی ستائش ہوئی ۔کیو نکہ آپ نے زمین کو امن صلحکاری اور اخلاق فاضلہ اور نیکو کاری سے بھردیا تھا ۔
میںنے پہلے بھی کہا ہے کہ آنحضرت ﷺکے جس قدر اخلاق ثابت ہوے ہیں وہ کسی اور نبی کے نہیں ،کیونکہ اخلاق کے اظہار کے لیے جب تک موقع نہ ملے کوئی اخلاق ثابت نہیں ہو سکتا ۔مثلاًسخاوت ہے۔ لیکن اگر روپیہ نہ ہوتو اس کا ظہور کیونکر ہو ، ایسا ہی کسی کو لڑائی کا موقع نہ ملے تو شجاعت کیو نکرثابت ہو ۔ ایسا ہی عفو،اس صفت کووہ ظاہر کر سکتا ہے جسے اقتدارحاصل ہو ۔ غرض سب خلق موقع سے وابستہ ہیں ۔ اب یہ سمجھنا چاہئے یہ کس قدر خدا کے فضل کی بات ہے کہ آپ کو تمام اخلاق کے اظہار کے موقعے ملے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وہ موقعہ نہیںملے مثلاًآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سخاوت کا موقع ملا ۔آپ کے پاس ایک موقع پر بہت سی بھیڑبکریاں تھیں ۔ ایک کافر نے کہا کے آپؐکے پاس اس قدر بھیڑ بکری جمع ہیں قیصر وکسریٰ کے پاس بھی اس قدر نہیں ۔ آپؐنے سب کی سب اس کو بخش دیں ۔ وہ اسی وقت ایمان لے آیا ۔ کہ نبی کے سوااور کوئی اس قسم کی عظیم الشان سخاوت نہیں کر سکتا ۔ مکہ میں جن لوگوں نے دکھ دئیے تھے ۔ جب آپؐ نے مکہ کو فتح کیا تو آپؐ چاہتے تو سب کو ذبح کر دیتے ، مگر آپؐ نے رحم کیا اور لاتثریب علیکم الیوم کہدیا ۔ آپؐ کا بخشناتھا کہ سب مسلمان ہوگئے ۔ اب اس قسم کے عظیم الشان اخلاق فاضلہ کیاکسی نبی میں پائے جاتے ہیں ۔ ہر گزنہیں وہ لوگ جنھوں نے آپؐ کی ذات خاص اور عزیزوں اور صحابہ کو سخت تکلیفیں دی تھیں اور ناقابل عفو ایذائیں پہنچائی تھیں۔آپ نے سزا دینے کے قوت اور اقتدار کو پا کر فی الفور ان کو بخش دیا ؛حالانکہاگر ان کو سزا دی جاتی ،تو یہ بالکل انصاف اور عدل تھا ،مگر آپؐ نے اس وقت عفو اور کرم کا نمونہ دکھایا ۔یہ وہ امور تھے کے علاوہ معجزات کے صحابہ پر مؤثر ہوئے تھے ۔ اسلیے آپؐاِسمِ بامسمیٰ محمدؐ ہو گئے تھے ۔ﷺ۔اور زمین پرآپؐ کی حمد ہو تی تھی اور اسی طرح آسمان پر بھی آپؐ کی تعریف ہو تی تھی اور آسمان پر بھی آپؐ محمدؐ تھے یہ نام آپؐ کا اللہ تعالیٰ نے بطورِنمونہ کے دنیاکو دیا ہے ۔جب تک انسان اس قسم کے اخلاق اپنے اندر پید انہیں کرتا،کچھ فائدہ نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر نہیں کر سکتا ۔ جبتک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرز عمل کو اپنا رہبر اور ہادی نہ بنا دے؛چنانچہ خود اللہ تعالیٰ نے اس کی بابت فرمایا
قُل ْاِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللہ َفَاتَّبِعُوْنِيْیُحبِبْکُم ُاللہ ٍٰ(آل عمران ؛۳۲)
یعنی محبوبِ اِلہی بننے کے لیے ضروری ہے کے رسول اللہ ﷺکی اتباع کی جاوے ۔سچیّ اتباع آپؐکے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے ،مگر افسوس ہے کہ آج کل لوگوں نے اتباع سے مُراد صرف رفع یدین ۔ آمین بالجہراور رفع سبابہ ہی لیا ہے ۔ باقی امور کو جو اخلاق فاضلہ آپ ؐکے تھے۔اُن کو چھوڑدیا۔ یہ منافق کا کام ہے کہ آسان اور چھوٹے اُمور بجالاتاہے اور مشکل کو چھوڑتاہے ۔ سچّے مومن اور مخلص مسلمان کی ترقیوںاور ایمانی درجوں کا آخری نقطہ تو یہی ہے کہ وہ سچّامتبّع ہو اور آپؐ کے تمام اخلاص کو حاصل کرے جو سچائی کو قبول نہیں کرتا ۔ وہ اپنے آپ کو دھوکا دیتاہے ۔کروڑںمسلمان دنیا میںموجود ہیں اور مسجدیںبھی بھری ہوئی نظرآتی ہیں ۔مگر کوئی برکت اور ظہور ان مسجدوں کے بھرے ہونے سے نظر نہیںآتا ۔اس لیے کے جو سب کچھ جاتاہے محض رسوم اور عادات کے طور پرکیا جاتاہے ۔ وہ سچّااخلاص اور وفاجو ایمان کے حقیقی لوازم ہیں ۔ان کے ساتھ پائے نہیں جاتے ۔سب عمل ریاکاریاور نفاق کے پردوں کے اندر مخفی ہو گئے ہیں ۔ جُوں جُوں انسان ان کے حالات سے واقف ہو تاجاتاہے ۔ اندرسے گنداورخبثت نکلتاآتاہے مسجدسے نکل کر گھر کی تفتیش کرو تویہ ننگ ِاسلام نظر آئیں گئے ۔مثنوی میں ایک حکایت لکھی ّہے کے ایک کوٹھا ہزارمن گندم سے بھرا ہوا خالی ہوگیا ۔ اگر چُوہے اس کونہیں کھا گئے ،تووہ کہاںگیا پس اسی طرح پچاس برسوں کی نماز وں کی جب برکت نہیں ہوئی ۔اگر ریااور نفاق نے ان کو باطل اور حبط نہیںکیا تووہ کہاںگئیں ۔خداکے نیک بندوں کے آثار پائے نہیں جاتے ۔ایک طبیب جب کسی کا علاج کرتاہے ۔ اگر وہ نسخہ اس کے لیے مفید اورکارگر نہ ہوتو ،چند روزکے تجربے کے بعد اس کو بدل دیتاہے اورپھر اس کو تشخیص کرتاہے ، لیکن ان مریضوںپر تو وہ نسخہ استعمال کیا گیا ہے جو ہمشہ مفید اور زُود اثر ثابت ہو ا ہے تواس سے معلوم ہوتاہے کے انھوںنے نسخہ کے استعمال میں غلطی اور بد پرہیزی کی ہے۔ یہ تو ہم کہہ نہیں سکتے کے ارکان اسلام میں غلطی تھی اور نماز روزہ حج زکوۃ موئثر علاج نہ تھاکیو نکہ اس نسخہ نے ان مریضوں کو اچھا کیا جن کی نسبت لاعلاج کا فتویٰ دیاگیا تھا۔
میں جانتاہوںجن لوگوں نے ان ارکان کو چھو ڑ کر اور بدعتیں تراشی ہیں یہ اُن کی شامت ِاعمال ہے اور وہ قرآن شریف تو کہہ چکاتھا ۔ اَلْیَوْم َاَکْملْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ (المائدہ:۴)
اکمال دین ہو چکاتھااور اتمام ِ نعمت خداکے حضورپسندیدہ دین اسلام ٹھہرچکاتھا ۔ اب پیغمبر صلّی اللہ علیہ وسلم کے اعمال خیر کی راہ چھوڑ کر اپنے طریقے ایجادکرنا اور قرآن شریف کی بجائے اور وظائف کا خیال پڑھنایا اعمال صالحہ کی بجائے قسم قسم کے ذکر و اذکار نکال لینا یہ لذّتِ روح کے لیے نہیںہے ، بلکہ لذّتِ نفس کی خاطر ہے لوگوں نے لذّتِ نفس اور لذّتِ روح میں فرق نہیں کیا اور دونوں کو ایک ہی چیز قرار دیا ہے ؛حالانکہ وہ دو مختلف چیزیں ہیں ۔ اگر لذّتِ نفس اور لذّت روح ایک ہی چیز ہے تو میں پوچھتا ہوں کے ایک بد کا ر عورت کے گانے سے بدَمعاشوں کو زیادہ لذت آتی ہے۔کیا وہ اس لذت نفس کی وجہ سے عارف باللہ اور کامل انسان مانے جائیں گئے ۔ہر گز نہیں جن لوگوں نے خلاف شرع اور خلاف پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نکالی ہیں ان کو یہی دھوکا لگاہے کے وہ نفس اور رُوح کی لذّت میں کوئی فرق نہیں کرسکتے اور نہ وہ ان بیہودگیوں میں رُوح کی لذّت اور اطمینان نہ پائے ان میں نفس مطمئنہّ نہیں ہے جو بُلہّے شاہ کی کافیوں میں لذّت جو یاں ہیں روح کی لذت قرآن شریف سے آتی ہے ۔٭
اپنی شامت ِاعمال کو نہیں سوچا اُن اعمال خیرکو جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تھے ، ترک کردیا اور ان کی بجائے خودتراشیدہ دُرود وظائف داخل کر لیے اور چند کافیوں کو حفظ کر لینا کافی سمجھا بُلہّے شاہ کی کافیوں پر وجد میںآجاتے ہیں ۔اور یہی وجہ ہے کے قرآن شریف کا جہاں وعظ ہو رہا ہو ،وہا ں بہت ہی کم لوگ جمع ہوتے ہیں ،لیکن جہاںاس قسم کے مجمع ہوں وہاںایک گروہ کثیر جمع ہو جاتاہے ۔نیکیو ں کی طرف یہ کم رغبتی اور نفسانی او ر شہوانی اُمور کی طرف توجہ صاف ظاہر ہوتی ہے کہ لذّت روح اور لذّت نفس میں ان لوگوں نے کوئی فرق نہیں سمجھاہے ۔
دیکھاگیا ہے کہ بعض ان رقص و سرُود کی مجلسوں میں دانستہ پگڑیاںاُتار لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ میاں صاحب کی مجلس میں بیٹھے ہی وجدہوجاتاہے ۔اس قسم کی بدعتیں اور اختراعی مسائل پیداہو گئے ہیں اصل بات یہ کہ جنہوںنے نمازسے لذّت نہیں اُٹھائی اور اس ذوق سے محروم ہیں ۔وہ روح کی تسلّی اور اطمینان کی حالت ہی کو نہیں سمجھ سکتے اور نہیں جانتے کہ وہ سرور کیا ہو تا ہے ۔مجھے ہمیشہ تعجب ہوتا ہے کہ یہ لو گ جو اس قسم کی بد عتیں مسلمان کہلاکر نکالتے ہیں ۔ اگر خوشی اور لذّت سامان اسی میں تھا تو چائیے تھاکے پیغمبر خدا ﷺ جو عارف ترین اور اکمل ترین انسان دنیامیں تھے ، وہ بھی اس قسم کوئی تعلیم دیتے یااپنے اوراعمال سے ہی کچھ کر دکھاتے ۔ میں ان مخالفوں سے بڑے بڑے مشائخ اور گدّی نشین اور صاحبِ سلسلہ ہیں۔پوچھتا ہوںکہ کیاپیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے درودووظائف اور چلہ کشیاں،اُلٹے سیدھے لٹکنا بھول گئے اگر معرفت اور حق شناسی کا یہی ذریعۂ اصل تھے۔مجھے بہت ہی تعجب آتا ہے کہ ایک طرف قرآن شر یف میں یہ پڑھتے ہیں۔اَلیوَ ْمَ َاَکْمَلْتْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ(المائدہ:۴)
اوردوسری طرف اپنی ایجادوں اور بدعتوں سے اس تکمیل کو توڑ کر ناقص ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
ایک طرف توظالم طبع لوگ مجھ پرافتراکرتے کہ گویامیںایسی مستقل نبو ت کا دعویٰ کرتاہوںجو صاحب شریعت نبی ﷺکے سوا الگ نبوت ہے ، مگر دُوسری طرف یہ اپنے اعمال کی طرف ذرا بھی توجہ نہیںکرتے کہ جھوٹی نبوت کا دعویٰ تو خودکر رہے ہیں۔جب خلافِ رسول اور خلافِ قرآن ایک نئی شریعت قائم کرتے ہيں اب اگر کسی دل میں انصاف اور خداکا خوف ہے تو کوئی مجھے بتائے کہ کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک تعلیم اور عمل پر کچھ اضافہ یا کم کر تے ہیں جب کہ اسی قرآن شریف کے بموجب ہم تعلیم دیتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کو اپنا امام اور حکم مانتے ہیںکیا ارّہ کا ذکر میں نے بتایا ہے اور پاس انفاس اور نفی واثبات کے ذکر اور کیا کیا میں سکھاتا ہوں پھر جھوٹی اور مستقل نبوت کا دعوی تو یہ لوگ خود کرتے ہیں اور الزام مجھے دیتے ہیں۔
یقینا یاد رکھو کہ کوئی شخص سچا مسلمان نہیں ہو سکتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہیں بن سکتا جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین نہ کر لے۔جب تک ان محدثات سے الگ نہیں ہوتا اور اپنے قول اور فعل سے آپ کو خاتم النبیین نہیں مانتا کچھ نہیں۔ سعدی نے کی اچھا کہا ہے۔
بزہد و ورع کوش و صدق و صفا
و لیکن میفزائے بر مصطفی
ہمارا مدعا جس کے لئے خدا تعالی نے ہمارے دل میں جوش ڈالا ہے یہی ہے کہ صرف اور صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت قائم کی جائے جو ابدالآباد کے لئے خدا تعالیٰ نے قائم کی ہے اور تمام جھوٹی نبوتوں کو پاش پاش کر دیا جائے جوا ن لوگوں نے اپنے بدعتوں کے ذریعے قائم کی ہیں ان ساری گدیوں کو دیکھ لو اور عملی طور پر مشاہدہ کرو کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ہم ایمان لاتے ہیں۔
یہ ظلم اور شرارت کی بات ہے کہ ختم نبوت سے خدا تعالیٰ کا اتنا ہی منشاء قرار دیا جائے کہ منہ سے ہی خاتم النبیین مانو اور کرتوتیں وہی کرو جو تم خود پسند کرو اور اپنی الگ شریعت بنا لو۔بغدادی نماز ، معکوس نماز وغیرہ ایجاد کی ہوئی ہیں کیا قرآن شریف یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل میں بھی اس کا کہیں پتا لگتا ہے اور ایسا ہی یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئاً للہ کہنا اس کا ثبوت بھی کہیں قرآن شریف سے ملتا ہے آنحضرت کے وقت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کو وجود بھی نہ تھا۔پھر یہ کس نے بتایا تھا ۔شرم کرو۔یا شریعت اسلام کی پابندی اور التز ا م اسی کا نا م ہے ؟اب خو د ہی فیصلہ کرو کہ کیا ان باتوں کو ما ن کر ایسے عمل رکھ کر تم اس قابل ہوکہ مجھے الزام دو کہ میںنے خاتم النبین کی مہر کو توڑا ہے ۔اصل اور سچی با ت یہی ہے کہ اگر تم اپنی مساجد میںبدعا ت کو دخل نہ دیتے اور خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی نبو ت پر ایما ن لا کر آ پکے طر ز عمل اور نقش قدم کو اپنا ا ما م بنا کر چلتے تو پھر میر ے آ نے کی ہی کیا ضرو ر ت ہو تی ۔تمھار ی ان بد عتو ں اور نئے نبو تو ں نے ہی اللہ تعالیٰ کی غیر ت کو تحریک دی کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر میں ایک شخص کو مبعوث کرے جو ان جھوٹی نبّوتوں کے بُت کو توڑ کر نیست و نابُودکرے۔ پس اسی کام کے لیے خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجاہے۔ مَیں نے سنا ہے کہ غوث علی پانی پتی کے ہاں شاکت مت کا ایک منتر رکھا ہوا ہے، جس کا وظیفہ کیا جاتا ہے اور ان گدّی نشینوں کو سجدہ کرنا یااُن کے مکانات کا طواف کرنا، یہ تو بالکل معمولی اور عام باتیں ہیں۔
غرض اﷲ تعالی۱ نے اس جماعت کو اسی لیے قائم کیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت اور عزّت کو دوبارہ قائم کریں۔ایک شخص جو کسی کا عاشق کہلاتا ہے۔ اگر اس جیسے ہزاروں اور بھی ہوں تو اس کے عشق و محبّت کی خصُوصیّت کیا رہی۔ تو پھر اگر یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور عشق میں فنا نیں۔ جیسا کہ یہ دعویٰ کرتے ہیں۔ تو یہ کیا بات ہے کہ ہزاروں خانقا ہوں اور مزاروں کی پرستش کرتے ہیں۔ مدینہ طیبّہ تو جاتے نہیں مگر اجمیرؔ اور دوسری خانقا ہوں پر ننگے سر اور ننگے پائوں جاتے نیں۔ پاک پٹن کی کھڑ کی میں سے گذر جانا ہی نجات کے لیے کافی سمجھتے ہیں۔ کسی نے کوئی جھنڈا کھڑا کر رکھا ہے۔ کسی نے کوئی اور صورت اختیار کر رکھی ہے۔ ان لوگوں کے عُرسوں اور میلوں کو دیکھ کر ایک سچّے مسلمان کا دل کانپ جاتا ہے کہ یہ انھوں ہے کیا بنا رکھاہے۔ اگرخدا تعالیٰ کو اسلامؔ کی غیرت نہ ہوتی اور ان الدین عند اﷲالاسلام (آلِ عمران: ۲۰) خدا کا کلام نہ ہوتا اور اس نے نہ فرمایا ہوتا۔ انا نحن نزلنا الذکر و انا لہ لحافظون (الحجر : ۱۰) تو بیشک آج وہ حالت اسلام کی ہو گئی تھی کہ اس کے مٹنے میں کوئی بھی شبہ نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر اﷲ تعالیٰ کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی رحمت اور وعدہ حفاظت نے تقاضا کیا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز کو پھر نازل کرے اور اس زمانہ میں آپؐ کی نبوّت کو نئے سرے سے زندہ کر کے دکھا دے؛ چنانچہ اس نے اس سلسلہ کو قائم کیا اور مجھے مامُور اور مَہدی بنا کر بھیجا۔
آج دو قسم کے شرک پیدا ہو چکے ہیں۔ جنھوں نے اسلام کو نابود کرنے کی بیحد سعی کی ہے۔ اور اگر خدا تعالیٰ کا فضل شامل نہ ہوتا ، تو قریب تھا کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ اور پسندیدہ دین کا نام و نشان مِٹ جاتا، مگر چونکہ اُس نے وعدہ کیا ہوا تھا انا نحن نزلنا الذکر و انالہ لحافظون ( الحجر : ۱۰) یہ وعدہ حفاظت چاہتا تھا کہ جب غارت گری کا موقعہ ہو، تو وُہ خبر لے۔ چوکیدار کا کام ہے کہ وُہ نقب دینے والوں کو پُوچھتے ہیں۔ اور دُوسرے جرائم والوں کو دیکھ کر اپنے منصبی فرائض عمل میں لاتے نین۔ اسی طرآج چونکہ فتن جمع ہو گئے تھے اور اسلامؔ کے قلعہ پر ہر قسم کے مخالف ہتھیار باندھ کر حملہ کرنے کو نیار ہو گئے تھے۔ اس لیے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ منہاجِ نبوّت قائم کرے۔ یہ مواد اسلامؔ کی مخالفت کے دراصل ایک عرصہ دراز سے پک رہے تھے اور آخر اب پھوٹ نکلے۔ جیسے ابتدا میں نطفہ ہوتا ہے اور پھر ایک عرصہ مقررہ کے بعد بچہ بن کرنکلتا ہے۔ اسی طرح پر اسلامؔ کی مخالفت کے بچّہ کا خُروج ہو چکا ہے اور اب وہ بالغ ہو کر پُورے جوش اورقوّت میںہے، اس لیے اس کو تباہ کرنے کے لیے خدا تعالیٰ نے آسمان سے ایک حَربہ نازل کیا اور اس مکرُوہ شرک کو جو اندرونی اور بیرونی طور پر پیدا ہو گیا تھا، دُور کرنے کے لیے اور پھر خدا تعالیٰ کی توحید اور جلال قائم کرنے کے واسطے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے اور میں بڑے دعوے اور بصیرت سے کہتا ہوں کہ بے شک یہ خدا کی طرف سے ہے۔ اس نے اپنے ہاتھ سے اس کو قائم کیا ہے۔ جیسا کہ اس نے اپنی تائیدوں اور نصرتوں سے جو اس سلسلہ کے لیے اس نے ظاہر کی ہیں، دکھا دیا ہے۔
عادۃاﷲ اسی طرح پر جاری ہے کہ جب بگاڑ حد سے زیادہ بڑھ جاتا ہے، تو اﷲ تعالیٰ اصلاح کے لیے کسی کو پیدا کر دیتا ہے۔ ظاہر نشان تو اس کے صاف ہیں۔ کہ صدی سے انیس برس گذر گئے اور اب تو بیسواں سال بھی شروع ہو گیا۔اب دانشمند کے لیے غور کا مقام ہے کہ اندرونی اور بیرونی فساد حد سے بڑھ گیا ہے۔ اور اﷲ تعالیٰ کا ہر صدی کے سر پر مُجدّدکے مبعوث کرنے کا وعدہ الگ ہے۔ اور قرآن شریف اور اسلام کی حفاظت اور نصرت کا وعدہ الگ۔زمانہ بھی حضرت کے بعد مسیحؑ کی آمد کے زمانہ سے پوری مشبہت رکھتا ہے۔ جو نشانات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موعُود کے آنے کے مقرر کیے ہیں، وُہ پورے ہو چکے ہیں۔ تو پھر کیا اب تک بھی کوئی مصلح آسمان سے نہیں آیا؟آیا اور ضرور آیا ۔ اور خدا تعالیٰ کے وعدہ کے موافق عین وقت پر آیا۔ مگر اس کی شناخت کرنے کے لیے ایمان کی آنکھ کی ضرورت ہے ۔٭
جماعت کے قیام کی غر ض
پھرعقلمند کو ماننے میں کیا تأمّلہو سکتا ہے۔ جب وہ ان تمام اُمور کو جو بیان کیے جاتے ہیں، یکجائی نظر سے دیکھے گا۔ اب میرا مدّعا اور منشاء اس بیان سے یہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اس کی تائید میں صدہا نشان اس نے ظاہر کیے ہیں۔ اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ یہ جماعت صحابہؓ کی جماعت ہو اورپھر خیرالقُرون کا زمانہ آجاوے۔ جو لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں چونکہ وہ آخرین منہم میں داخل ہوتے ہیں، اس لیے وہ جھوٹے مشاغل کے کپڑے اُتار دیں۔ اور اپنی ساری توجّہ خدا تعالیٰ کی طرف کریں۔ فیج اعوج (ٹیڑھی فوج) کے دشمن ہوں۔ اسلام پار تین زمانے گذرے ہیں۔ ایک قُرون ثلاثہ اِس کے بعد فیج اعوج کا زمانہ جس کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ لیسوامنی ولست منھم۔ یعنی نہ وُہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوں اور تیسرا زمانہ مسیح موعود کا زمانہ ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے زمانہ سے ملحق ہے بلکہ حقیقت میں یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے۔ فیج اعوج کا ذکر اگر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھی فرماتے تو یہی قرآن شریف ہمارے ہاتھ میں ہے اور اخرین منہم لما یلحقو ابہم (الجمعۃ: ۴) صاف ظاہر کرتا ہے کہ کوئی زمانہ ایسا بھی ہے جو صحابہ کے مشرب کے خلاف ہے اور واقعات بتا رہے ہیں کہ اس ہزار سال کے درمیان اسلام بہت ہی مشکلات اور مصائب کا نشانہ رہا ہے۔ معدُودے چند کے سِوا سب نے اسلام کو چھوڑ دیا اور بہت سے فرقے معتزلہ اور اباحتی وغیرہ پیدا ہو گئے ہیں۔
ہم کو اس بات کا اعتراف ہے ۔ کہ کوئی زمانہ ایسا نہیں گذرا کہ اسلام کی برکات کا نمونہ موجود نہ ہو۔ مگر وہ ابدال اور اولیاء اﷲ جو اس درمیانی زمانہ میں گُذرے ان کی تعداد اس قدر قلیل تھی کہ ان کروڑوں انسانوں کے مقابلہ میں جو صراطِ مستقیم سے بھٹک کر اسلامؔ سے دُور جا پڑے تھے۔ کچھ بھی چیز نہ تھے۔ اس لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوُت کی آنکھ سے اس زمانہ کو دیکھا اور اس کا نام فیج اعوج رکھ دیا۔ مگر اب اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ایک اور گروہ کثیر کو پیدا کرے جو صحابہ کا گروہ کہلائے، مگر چونکہ خدا تعالیٰ کا قانُونِ قدرت یہی ہے کہ اس کے قائم کردہ سلسلہ میںتدریجی ترقی ہوا کرتی ہے اس لیے ہماری جماعت کی ترقی بھی تدریجی اور کزرع (کھیتی کی طرح) ہو گی۔ اور وہ مقاصد اور مطالب اس بیج کی طرح ہیں، جو زمین میں بویا جاتا ہے۔ وہ مراتب اور مقاصد عالیہ جن پر اﷲ تعالیٰ اس کو پہنچانا چاہتا ہے، ابھی بہت دُور ہیں۔ وُہ حاصل نہیں ہو سکتے ہیں، جبتک وہ خصوصیّت پیدا نہ ہو جو اس سلسلہ کے قیام سے خدا کا منشاء ہے۔ توحید کے اقرار میں بھی خاص رنگ ہو ۔ تبتّل اِلی اﷲ ایک خاص رنگ کا ہو۔ ذکرِ الٰہی میں خاص رنگ ہو۔ حقُوقِ اخوان میں خاص رنگ ہو۔
تما م انبیاء علیہم السلا م کی بعثت کی غر ض مشتر ک یہی ہو تی ہے ۔ کہ خدا تعالیٰ کی سچی اور حقیقی محبت قائم کی جاویاور بنی نو ع انسا ن اور اخو ا ن کے حقو ق اور مہبت میں ایک خا ص رنگ پیدا کے جاوے جب تک یہ باتیں نہ ہو ں تمام امور صر ف رسمی ہوں۔خدا تعا لیٰ کی محبت کی بابت تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن بعض اشیاء بعض سے پہچانی جاتی ہیں مثلاایک درخت کے نیچے پھل ہوں تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کے اوپر بھی ہوں گے لیکن اگر نیچے کچھ بھی نہیں تو اوپر کی بابت کب یقین ہوسکتاہے اسی طرح پر بنی نو ع انسان اور اپنے اخوا ن کے ساتھ جو یگانگت اور محبت کا رنگ ہو اور وہ اس اعتدال پر ہو جو خدا تعا لیٰ کی محبت کا رنگ بھی ضرور ہے
دیکھو دنیا چند روزہ ہے اور آگے پیچھے سب مر نے والے ہیں ۔قبر یں منہ کھولے ہو ئے آوازیں مار رہی ہیںاور ہر شخص اپنی اپنی نو بت پر جا داخل ہو تا ہے۔ عمر بے اعتبا ر او رز ندگی ایسی ناپائدار ہے کہ چھ ماہ اور تین ماہ تک زندہ رہنے کی امید کیسی ۔اتنی بھی امید اور یقین نہیں کہ ایک قدم کے بعد دوسرے قدم اٹھانے تک زندہ رہیںگے یا نہیں ۔پھر جب یہ حال یہ ہے کہ مو ت کی گھڑی کا علم نہیں اور یہ پکی با ت ہے کہ وہ یقینی ہے ٹلنے والی نہیں تو دانش مند انسان کا فرض ہے کہ ہر وقت اسکے لیے تیار رہے ۔اسی لیے قرآن شر یف میں فر مایاگیا ہے فلا تموتن الا و انتم مسلمون( البقرۃ:۱۳۳)
ہر وقت جب تک انسان خدا تعالی سے اپنا معاملہ صاف نہ رکھے اور ان پر دو حقوق کی پوری تکمیل نہ کرے بات نہیں بنتی جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ حقوق بھی دو قسم کے ہیں ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔
اور حقوق عباد بھی دو قسم کے ہیں ایک وہ جو دینی بھائی ہو گئے ہیں خواہ وہ بھائی ہے یا باپ یا بیٹامگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی۔
اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہی ہے کہ اس کی عبادت کی جاوے اور یہ عبادت کسی غرض ذاتی پر مبنی نہ ہو بلکہ اگر دوزخ اور بہشت نہ بھی ہوں تب بھی اس کی عبادت کی جاوے اور اس ذاتی محبت میں جو جو مخلوق کو اپنے خالق سے ہونی چاہئے کوئی فرق نہ آوے۔اس لئے ان حقوق میں دوزخ بہشت کا سوال نہیں ہونا چاہئے بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتاہے۔ادعونی استجب لکم( المومن:۶۱) میںاللہ تعالی نے کوئی قیدنہیں لگائی کہ دشمن کے حق میں دعا کرو تو قبول نہیں کروں گا بلکہ میرا تو یہ مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہئے اور حقیقۃً موذی نہیں ہونا چاہئے شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذا پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا یعنی بنی نوع کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے اس سے سینہ صاف اور اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے اسلئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیارنہیں کرتی اس میں اور اس کے غیر میں پھر کوئی امتیاز نہیں ہے میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اسکے عزیزوں سے کوئی ادنی درجہ کاہے تو اس کے ساتھ نہایت رفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہئیے اور ان سے محبت کرنی چاہئیے کیونکہ یہ خدا کی شان ہے۔
بداں را نیکاں بہ بخشد کریم
پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چاہئیے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے فأنھم قوم لا تشقی جلیسہم یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کے ہم جلیس بدبخت نہیں ہوتا۔
یہ خلاصہ ہے ایسی تعلیم کا جو تخلقو باخلاق اللہ میں پیش کی گئی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک عیسائی حق جو کی گفتگو
منشی عبدالحق صاحب قصوری طالب علم بی۔اے کلاس جو عرصہ تین سال سے عیسائی تھے الحکم اور حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں ایک عریضہ لکھا تھا کہ وہ اسلام کی حقانیت اور صداقت کو عملی رنگ میں دیکھنا چاہتے ہیں اس پرحضرت خلیفۃ اللہ نے ان کو لکھ بھیجا تھا کہ وہ کم از کم دو مہینہ تک یہاں قادیان میں آ کر رہیں چنانچہ انہوں نے دارالامان کا قصد کیا ۲۲؍دسمبر ۱۹۰۱ء؁ کو بعد دوپہر یہاں آ پہنچے پس اس عنوان کے نیچے ہم جو لکھیں گے سردست یہ انہی کے متعلق ہو گا ۔
پہلی ملاقات
حضرت جر ی اللہ فی حلل الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعداء کی طبیعت بوجہ کثرت کار جو آج کل حضور رات کے بہت بڑے حصہ تک اس میں مصروف رہتے تھے کیونکہ ایک طرف میگزین کے لئے مضمون ترجمہ کے واسطے دینا تھا دوسری طرف المناؔرکے لئے موجودہ رسالہ لکھ رہے تھے۔پھر قریبا دو سو سے زائد عظیم الشان نشانوں اور پیشگوئیں کی تریتب کہ لئے ان پیشگوئیوں اور نشانوں کو مرتب اور جمع کررہے تھے…… دو تین روز سے ناساز تھی۔مگر مہمانوں اور اس نووارد حق جو مہمان کے لئے آج آپ نے سیر کو تشریف لے جانے کا ارشاد فرمایا۔چنانچہ ۹؍بجے کے قریب آپ باہر تشریف لے چلے۔باہر نکلتے ہیں منشی عبدالحق صاحب عیسائی کو حضور کے سامنے پیش کر دیا گیا او رجو کچھ گفتگو ہوئی اسے ہم ذیل میں درج کرتے ہیں۔
حضر ت اقدس : آپ کو عیسائی ہوئے کتنا عرصہ گزرا اور کیا اسباب پیش آئے؟
منشی عبدالحق: مجھے عیسائی ہوئے اس دسمبر میں تین سال ہو جاتے ہیں چونکہ بعض عیسائی میرے دوست تھے اور ان سے میل ملاقات رہتی تھی اور فیروز پور میں پادری نیوٹن صاحب تھے وہ بھی بڑی مہربانی سے پیش آتے تھے یہی اسباب میرے عیسائی ہونے کے ابتداء میں پیدا ہوئے۔
حضر ت اقدس : یہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ آپ دو مہینے کے واسطے یہاں آگئے بظاہر یہ بات آپ کی حق جوئی کی نشانی ہے۔
منشی عبدالحق: جناب میں کالج سے نام کٹوا کر آیا ہوں رخصت نہیں ملتی تھی۔
حضر ت اقدس : یہ تو اور بھی ہمت کا کام ہے میرے نزدیک بہتر اور مناسب طریق جو آپ کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے اب یہ ہے کہ کہ آپ ان اعتراضات کو جو اسلام پر رکھتے ہیں اور اہم ہیں سلسلہ وار لکھ لیں اور ایک ایک کر کے پیش کریں ہم انشاء للہ ان کے جواب دیتے رہیں گے اور جس جواب سے آپ کی تسلی نہ ہو آپ اسے بار با پوچھ لیں اور صاف صاف کہدیں کہ اس سے مجھے اطمینان نہیں ہوا مگر ان اعتراضوں میں اس بات کا لحاظ رکھیںکہ وہ ایسے ہوں کہ کتب سابقہ میں اس قسم کے اعتراضوں نام و نشان نہ ہو ورنہ تضییع اوقات ہی ہو گا جب آپ اعتراض کر چکیں گے پھر آپ کو اسلام کی خوبیاں بتائیں گے کینکہ یہ دو ہی کام ہیں ایک آپ کردیں ۔ دوسرا ہم خود کریں گے۔
اسلام کی جنگیں دفاعی نوعیت کی تھیں
تبدیل مذہب کے دو باعث ہوتے ہیں سب سے بڑا باعث وہ جزئیات ہوتی ہیں جن کو غلط فہمی اور غلط بیانی سے کچھ کا کچھ بنا دیا جاتا ہے اور اصول مذہب کو اس کے مقابلہ میں بالکل چھوڑ دیا جاتا ہے جیسے مثلا اسلام کی بابت جب عیسائی لوگ کسی سے گفتگو کرتے ہیں تو اسلامی جنگوں پر کلام کرنے لگتے ہیں ؛حالانکہ خود انکے گھر میں یشوع او ر موسی کے جنگوں کی نظیریں موجود ہیں۔اور جب وہ اسلامی جنگوںسے کہیںبڑھ کر مورد ِاعتراض ٹھہر جاتے ہیں ، کیونکہ ہم یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ اسلامی جنگ بالکل دفاعی جنگ تھے ۔ اور ان میںوہ شدّتاواور سخت گیری ہر گزنہ تھی ، جو موسیٰ اور یسوع کے جنگوںمیں پائی جاتی ہے ۔ اگر وہ یہ کہیں کے موسیٰ اور یسوع کی لڑائیا ں عذاب الٰہی کے رنگ میں تھیں ۔تو ہم کہتے ہیں کہ اسلامی جنگوں کو کیوں عذاب ِالٰہی کی صورت میں تسلیم نہیںکرتے ۔ موسوی جنگوں کو کیا ترجیح ہے ۔ بلکہ ان اسلامی جنگوں میں تو موسوی لڑائیوں کے مقابلے میں تو بڑی بڑی رعایتیں دی گئی ہیں اصل بات تو یہی ہے کہ چونکہ وہ لوگ نوامیس الٰہیہ سے ناواقف تھے ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر موسیٰ علیہ السّلام کے مخالفو ں کہ مقابلہ میں بہت بڑا رحم فرمایا،کیونکہ وہ بڑاغفور رحیم ہے ۔ پھر اسلامی جنگوںمیں موسوی جنگوںکے مقابلہ میں یہ بڑی خصوصیّت ہے کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپؐکے خادموں نے مکّہ والوں نے برابر تیرہ سال تک خطرناک ایذائیں اور تکلیفیں دیں اور طرح طرح کے دکھ اُن ظالموںنے دئیے ۔ چناچہ ان میں سے کئی قتل کئے گئے اور بعض بڑے بڑے عذابوں سے مارے گئے :چنانچہ تاریخ پڑھنے والے پر یہ امر مخفی نہیں ہے کہ بیچاری عورتوں کو سخت شرمناک ایذائوں کے ساتھ مار دیا ۔ یہاں تک کے ایک عورت کو دو اُونٹوں سے باندھ دیا اور پھران کو مختلف جہات میں دوڑا دیا اور اس بیچاری عورت کو چیر ڈالا اس قسم کی ایذارسانیو ں اور تکلیفوں کو برابرتیرہ سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کی پاک جماعت نے بڑے صبر اور حوصلہ کہ ساتھ برداشت کیا ۔ اس پر بھی انھوں نے اپنے ظُلم کونہ روکا اور آخر کار خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کا منصوبہ کیا گیا ۔ اور جب آپ ؐ نے خداتعالیٰ سے اُن کی شرارت کی اطلاع پاکر مکّہ سے مدینہ کو ،ہجرت کی ۔ پھر بھی انھوں نے تعاقب اور آخرجب یہ لوگ پھر مدینہ پر چڑ ھائی کر کے گئے ،تو اللہ تعالیٰ نے اُن کے حملہ کو روکنے کا حکم دیا ، کیونکہ اب وہ وقت آگیا تھا اہل مکّہ اپنی شرارتوںاور شوخیوں کی پاداش میںعذابِ الٰہی کا مزہ چکھیں ،چناچہ خداتعالیٰ نے جو پہلے وعدہ کیا تھا ، کہ اگر یہ لوگ اپنی شرارتوں سے بازنہ آئیں گئے ، توعذابِ الٰہی سے ہلاک کئے جائیں گئے وہ پُوراہوا۔ خود قرآن شریف میں ان لڑائیوں کی یہ وجہ صاف لکھی گئی
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَاِنَّ اللہ عَلیٰ نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ۔ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْامِنْ دِیَارِہِمْ بِغَیْرِحَقِِّ (الحج۴۰،۴۱)
یعنی ان لوگوں کو مقابلہ کی اجازت دی گئی ۔ جن کے قتل کے لیے مخالفوں نے چڑھائی کی (اس لیے اجازت دی گئی ) کے اُن پر ظُلم ہوا ہے ۔ اور خداتعالیٰ مظلوم کی حمایت کرنے پرقادر ہے ۔ یہ وُہ مظلُوم ہیںجو ناحق اپنے وطنوں سے نکالے گئے ۔ ان کا گناہ بجزاس کے اور کوئی نہ تھا کہ اُنھوں نے کہا کہ ہماراربّ اللہ ہے یہ وہ آیت ہے جس سے اسلامی جنگوں کاسلسلہ شروع ہوتاہے پھر جس قدر رعائتیں اسلامی جنگوں میں دیکھوگے ۔ ممکن نہیںکہ مُوسوی لڑائیوں میں لاکھوں بیگناہ بچو ّں کا ماراجانابوڑھوں اور عورتوںکا قتل ، باغات اور درختوںکاجلاکر خاک سیاہ کردینا ، تورات سے ثابت ہے۔ مگر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوصفیکہ ان شریروںسے وہ سختیاںور تکلیفیں دیکھی تھیں جو پہلے کسی نے نہ دیکھی تھیں ، پھر ان دفاعی جنگوںمیں بھی بچوں کو قتل نہ کر نے ، عورتوں اور بوڑھوں کو نہ مارنے، راہبوں سے تعلق نہ رکھنے اور کھیتوں اور ثمر دار درختوں کو نہ جلانے اور عبادت گاہوں کے مسمار نہ کرنے کا حکم دیا جاتا تھا ۔ اب مقابلہ کر کے دیکھ لو کس کاپلہ بھاری ہے ۔ غرض یہ بیہودہ اعتراض ہیں ۔ اگر انسان فطرت سلیمہ رکھتاہو تو وہ مقابلہ کر کہ خود حق پاسکتاہے کیا موسیٰ کے زمانہ اور خدا تھا اور محُمّد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کوئی اور ۔ اسرئیلی نبیوں کے زمانہ جیسے شریر اپنی شرارتوں سے بازنہ آتے تھے ۔اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی میںحد سے نکل گئے۔ پس اس خدانے جو رؤوفُ و رحیم بھی ہے ۔ پھر شریرو ں کے لیے اس میں غضب بھی ہے ، اُن کواِن جنگوں کے ذریعے جوخود اُنھو ںنے ہی پیدا کی تھیں ۔سزادے دی ۔ لوط کی قوم سے کیا سلوک ہوا ،نوح کے مخالفوں کا کیا انجام ہوا ۔ پھر مکّہ والوںکو اگر اس رنگ میں سزا دی ، تو کیوںاعتراض کرتے ہو ۔کیا کوئی عذاب مخصُوص ہے کے طا عون ہی ہو یاپتھر برسائے جائیں ۔ خداجس طرح چاہے عذاب دے دے ۔
سُنّتِ قدیمہ اسی طرح پر جاری ہے ۔ اگر کوئی ناعاقبت اندیش اعتراض کرے۔ تواُسے موسیٰ کے زمانہ اور جنگوں پر اعتراض کا موقعہ مل سکتا ہے ۔جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں کوئی رعایت روانہیں رکھی گئی ۔ نبی کریم کے زمانہ پر اعتراض نہیں ہو سکتا ۔ آجکل عقل کا زمانہ ہے اور اب یہ اعتراض کوئی وقعت نہیں رکھ سکتے ، کیو نکہ جب کوئی مذہب سے الگ ہو کر دیکھے گا ، تو اُسے صاف نظر آجائے گاکہ اسلامی جنگوں میں اوّل سے آخر تک دفاعی رنگ مقصُود ہے اور ہر قسم کی رعائتیں روا رکھی ہیں ، جو موسیٰ ؑور یسُوع کی لڑائیوں میں نہیں ہیں ۔ایک آریہ کی کتاب میری نظر سے گذری ۔ اس نے موُسوی لڑائیوں پر بڑے اعتراض کیے ہیں ، مگر اسلامی جنگوں پر اسے کوئی موقعہ نہیں ملا ۔ مجھ سے جب کوئی آریہ یا ہندُو اسلامی جنگوں کی نسبت دریافت کرتا ہے ۔تواُسے میں نرمی اور ملاطفت سے یہی سمجھاتاہوں کہ جو مارے گئے وُہ اپنی ہی تلوارسے مارے گئے ۔جب اُن کے مظالم کی انتہاہوگئی توآخر اُن کو سزادی گئی اور ان کے حملوںکو روکاگیا ۔
مجھے پادریوںکے سمجھانے اور اُن سے سمجھنے والوںپر سخت افسوس ہے کہ وہ اپنے گھر میں موسیٰ ؑکی لڑائیوں پر توغور نہیںکرتے اور اسلامی جنگوں پر اعتراض شروع کر دیتے ہیں اور سمجھنے والے اپنی سادہ لوحی سے اُسے مان لیتے ہیں ۔ اگر غور کیا جاوے ، توموسوی جنگوں کااعتراض حضرت مسیح ؐپر بھی آتاہے ۔کیونکہ وہ توریت کو مانتے تھے اور حضرت موسیٰ کو خداکا نبی تسلیم کرتے تھے ۔ اگر وہ اِن جنگوں اور ان بچوّں اور عورتوں کے قتل پر راضی نہ تھے ، تو اُنھوں نے اُسے کیوں مانا۔گویا وہ لڑائیاںخود مسیح نے کیں اور اِن بچّون اور عورتوں کو خود مسیح نے ہی قتل کیا۔
اور اصل یہ ہے کے خود مسیح علیہ السلام کو لڑائیوں کا موقعہ ہی نہ ملا ، ورنہ وہ کم نہ تھے انہوںنے تو اپنے شاگردوں کوحکم تھا کہ کپڑے بیچ کر تلواریںخریدیں ۔ یہ بالکل سچّی بات ہے کہ قرآن شریف ہماری رہنمائی نہ کرتا،تو ان نبیوں پر سے ایما اُٹھ جاتا ۔ قرآن شریف کا احسان ہے تمام نبیوںپڑادرمحمدﷺ کا احسان ہے کہ اُنہوں نے آکر ان سب کو اس الزام سے بَری کر دکھایا ۔
قرآن شریف کو خوب غور سے پڑھو ،توصاف معلوم ہو جائے گا کے اس کی یہی تعلیم ہے کہ کسی سے تعرضن کرو ۔جنھوںنے سبقت نہیںکی اُن سے احسان کرو اور ابتداء کرنے والوںکرنے والوں اور ظالموں کے مقابلہ میں دفاع کا لحاظ رکھو ، حد سے نہ بڑھو۔ اسلام کی ابتداء میں ایسی مشکلات درپیش تھیں کہ اِن کی نظیر نہیں ملتی ۔ ایک کے مسلمان ہونے پر مرنے مارنے کو تیار ہو جاتے ہیں اور ہزاروں فتنے بپاہوتے تھے اورفتنہ توقتل سے بھی بڑھ کر ہے پس امن عامہّ کے قیام کے لیے مقابلہ کرنا پڑا ۔ اگر ہندواس پر اعتراض کرتے تو کچھ تعجّب اور افسوس کی جا نہ تھی ، مگر خودجن کے گھر میں اس سے بڑھ کر اعتراض آتا ہے ۔اُن کواعتراض کرتے ہوئے دیکھ کر تعّجب اور افسوس ہوتاہے ۔ عیسائیوں نے اس قسم کے اعتراض میں بڑا ظلم کیا ہے ۔کیا اِن میں ایسا ہی ایمان ہے ۔پھر منجلہ اور جزئیات کے غلامی کے مسئلہ پر اعتراض کرتے ہیں ۔ حالانکہ کے قرآن شریف نے غلاموں کے آذاد کرنے کی تعلیم دی ہے اور تاکید کی ہے اور جو اور جو کسی کتا ب میں نہیں ہے ۔ اس قسم کے جُزئیات کو یہ لوگ محل اعترا ض ٹھہر ا کر ناواقف لوگ اورآزاد طبع نو جوا نوں کے سامنے پیش کر تے ہیں ۔پس آپکو منا سب ہے کہ آپ اعتراض کرتے وقت اس امر کابڑا بھاری لحا ظ کریں کہ اسے گناہ اور محل اعترا ض ٹھہرائیں جو خد ا نے گنا ہ قرار د یا ہو، نہ وہ جو کہ پادری تجو یزکر یں ۔ میںسولہ سترہ سال کی عمر سے ان سے ملتا تھا ۔مگر اس نور کی وجہ سے جو خدا نے مجھے دیا تھا میں ہمیشہ سمجھ لیتا تھا کہ یہ دھو کا دیتے ہیں ۔،،
تعدّدِادوج
اسی طرح پر تعدّد ازدواج کے مسئلہ پر اعتراض کر دیتے ہیں ۔ مگر مجھے سخت افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ اِن نادانو ں نے یہ اعتراض کرتے وقت اس بات پر ذرا بھی خیال نہیں کہ اس کا اثر خود اُن کے خداوند پر کیا پڑتا ہے۔مجھے سخت رنج آتاہے جب میںدیکھتاہوں کہ پادریوں کے اس اعتراض نے حضرت عیسیٰ ؐ پر سخت حملہ کیا ہے۔کیوںکہ جس کہ گھر میںحضرت مریم گئی تھیں۔اس کے پہلے بیوی تھی ۔ پھر یہ اولاد کیسی قرار دی جائے گی۔علاوہ ازیں جبکہ مریم نے اور اس کی ماںنے یہ عہد خدا کہ حضور کیا ہوا تھا ۔کہ اس کا نکا ح نہ کروںگی پھر وہ کیا آفت اور مشکل پیش آئی تھی جو نکاح کر دیا ۔ بہتر ہوتاکہ روح القدس کابچہّ مقدس ہیکل میں ہی جنتی ۔ بڑے افسوس کہنا پڑتا ہے کے انھوںنے اپنے گھر میںنگاہ نہیںکی ۔ورنہ اس قوم کا فرض تھا کہ سب سے پہلے آنحضرت ﷺکے قبول کرنے والے یہی ہوتے ، کیونکہ ان کے ہاں نظائرموجود تھے ،مگر جیسے اس وقت کو انھوں
الحکم جلد ۶ نمبر ۲تا ۶ صفحہ ۴تا ۲ پرچہ ۱۷جنوری ۱۹۰۲؁ء
نے کھودیا ۔ آج بھی یہ مسیح موعود کوقبول نہیںکرتے ، حالانکہ ایلیاؔکا قصّہ اُن میں موجودہے اور اسی پر مسیح کی صداقت کا سارا معیار ہے ۔ اگر مسیح واقع مُردوں کو زندہ کرتے تھے ۔تو کیو ںپھونک مار کر ایلیاؔکو زندہ نہ کر دیا،یہود ابتلاسے بچ جاتے اور خود مسیح کو بھی ان تکالیف اور مشکلات کا سامنا نہ ہوتا ،جو ایلیاؔکی تاویل سے پیش آئیں۔ایک یہودی کی کتاب میرے پاس موجود ہے ۔وہ اس میں صاف لکھتا ہے کہ اگر خداتعالیٰ ہم سے مسیح کے انکارکا سوال کرے گا،تو ہم ملا کی نبی کی کتاب سامنے رکھ دیںگے۔کہ کیا اس میں نہیں لکھا کہ مسیح سے پہلے ایلیاؔ آئے گا ۔اس میں یہ کہاں ہے کہ یوحناؔ آئے گا۔اس پر اس قسم کی جزئیات کویہ لوگ بد نما صورت میںپیش کر کہ دھوکا دیتے ہیں ۔ آپ اپنے اعتراضوں کے انتخاب میں ان اُمور کو مدِنظر رکھیں جو میں نے آپ کو بتادئیے ہیں ۔
دین کا معاملہ بہت بڑا اہم اور نازک معاملہ ہے اس میں بہت بڑی فکر اور غور کی ضرورت ہے ۔اس میں وہ پہلو اختیار کرنا چاہئے، جو مشترک اُمّت کاہے ۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے کوئی ایسی بات قابل تسلیم نہیںہو سکتی جس کے نظائر موجود نہ ہو ں ۔ مثلاًایک شخص کہے کے ایک صندوق میں ایک ہزار روپیہ رکھاتھا اور وہ جادو کے ذریعہ ہوا ہو کر اُڑگیا ، تو اُسے کو ن مانے گا ۔ اسی طرح پر عیسائیوں کے معتقدات کا حال ہے ۔ آپ اپنے اعتراض مرتب کر کہ پیش کریں اور انشاء اللہ ہم جواب دیں گے ۔‘‘
تثلیث اور کفّارہ
منشی عبدالحق صاحب:’’اگرآپ تثلیث اور کفارہ کو توڑ کر دکھا دیں، تو میں شاید اور کچھ نہ پوچھوں گا ۔‘‘
حضرت مسیح موعوؑد:’’تثلیث اور کفارہ کی تردید کے دلائل تو ہم انشاء اللہ اتنے بیان کریںگے کہ جو ان کے ابطال کے لیے کافی سے بڑھ کر ہوں گے ، مگر میری رائے میں جو ترتیب میںنے آپ کو اشارہ کی ہے اس پر چلنے سے بہت بڑافائدہ ہوگا ۔ اس وقت میںخلط نہیں کرناچاہتا ، لیکن میں مختصر اور اشارے کے طور پر اتناکہناضروری سمجھتاہوںکہ اس وقت تین قومیںیہود ،مسلمان اور عیسائی موجودہیں ۔ ان میںسے یہود اور مسلمان بالاتفاق توحید پر ایمان لاتے ہیں ۔لیکن عیسائی تثلیث کے قائل ہیں ۔ اب ہم عیسائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر تثلیث تعلیم ِحق تھی اور نجات کایہی اصل ذریعہ تھاتو پھر کیا اندھیرا مچاہوا ہے کہ تورایت میں اس تعلیم کا کوئی نشان نہیںملتا۔ یہودیوںکے اظہار لے کر دیکھ لو ۔اس کے سواایک اور امر قابل ِغور ہے کے یہودیوں کے مختلف فرقے ہیں اور بہت سی باتوں میں ان میں باہم اختلاف ہے، لیکن توحید کے اقراس میں ذرا بھی اختلاف نہیں اگر تثلیث واقعی مدار نجات تھی تو کیا سارے کے سارے فرقے ہی اس کو فراموش کر دیتے اور ایک آدھ فرقہ بھی اس پر قائم نہ رہتا۔ کیا یہ تعجب خیز امر نہ ہو گا جکہ ایک عظیم الشان قوم جس میں ہزاروں فاضل ہر زمانہ میں موجود رہے اور برابر مسیح علیہ السلام کے وقت تک جن میں نبی آتے رہے ان کو ایسی تعلیم سے بالکل بے خبری ہو جاوے جو موسیٰ علیہ السلام کی معرفت انہیں ملی ہو اور مدار نجات بھی وہی ہو یہ بالکل خلاف قیاس اور بے ہودہ بات ہے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تثلیث کا عقیدہ خود تراشیدہ عقیدہ ہے نبیوں کے صحیفوں میں اس کا کوئی پتہ نہیں اور ہونا بھی نہیں چاہئے کیونکہ یہ حق کے خلاف ہے پس یہودیوں میں توحید پر اتفاق ہونا تثلیث پر کسی کا ایک بھی قائم نہ ہونا صریح دلیل اس امر کی ہے کہ یہ باطل ہے ؛ حالانکہ خود عیسائیوں کے مختلف فرقوں میں بھی تثلیث کے متعلق ہمیشہ سے اختلاف چلا آ رہا ہے اور یونی ٹیرین فرقہ اب تک موجود ہے میں نے ایک یہودی سے دریافت کیا تھا کہ توریت میں کہیں تثلیث کا بھی ذکر ہے اور یا تمہارے تعامل میں کہیں اس کا بھی پتہ لگتا ہے اس نے صاف اقرار کیا کہ ہرگز نہیں ہماری توحید وہی ہے جو قرآن مجید میں ہے اور کوئی فرقہ ہمارا تثلیث کا قائل نہیں اس نے یہ کہا کہ تثلیث پر مدار نجات ہوتا تو ہمیں جو توریت کے حکمو ں کو چوکھٹوں اور آستینوں پر لکھنے کا حکم تھا کہیں تثلیث کے لکھنے کا بھی ہوتا۔پھر دوسری دلیل اس کے ابطال پر یہ ہے کہ باطنی شریعت میں اس کے لئے کوئی نمونہ نہیں ہے باطنی شریعت بجائے خود توحید چاہتی ہے ۔ پادری فنڈر صاحب نے اپنی کتابوں میں اقرار کر لیا ہے کہ اگر کوئی شخص کیس ایسے جزیرہ میں رہتا ہو جہاں تثلیث نہیں پہنچی اس سے توحید کا ہی مطالبہ ہو گا۔نہ تثلیث کا پس اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ باطنی شریعت توحید کو چاہتی ہے نہ تثلیث کو ۔ کیونکہ تثلیث اگر فطرت میں ہوتی تو سوال اس کا ہونا چاہئے تھا۔
پھر تیسری دلیل اس کے ابطال پر یہ ہے کہ جس قدر عناصر خدا تعالی نے بنائے ہیں وہ سب کروی ہیں پانی کا قطرہ دیکھو اجرام سماوی کو دیکھو زمین کو دیکھو اس لئے کرویت میں ایک وحدت ہوتی ہے پس اگر خدا میں تثلیث تھی تو چاہئیے تھی کہ مثلث نما اشیاء ہوتیں۔
ان سب باتوں کے علاوہ بار ثبوت مدعی کے ذمہ ہے جو تثلیث کا قائل ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اس کے دلائل دے ہم کچھ توحید کے متعلق یہودیوں کا تعامل باوجود اختلاف فرقوں کے باطنی شریعت میں اس کا اثرہونا اور قانون قدرت میں اس کی نظیر ملنا بتاتے ہیں ان پر غور کرنے کے بعد اگر کوئی تقوی سے کام لے تو وہ سمجھ لے گا کہ تثلیث پر جس قدر زور دیا گیا ہے وہ صریح ظلم ہے ۔
انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ کبھی غیر تسلی کی راہ اختیار نہیں کرتا اس لئے پگڈنڈیوں کی بجائے شاہراہ پر چلنے والے سب سے زیادہ ہوتے ہیں اور ا س پر چلنے والوں کے لئے کسی قسم کا خوف و خطرہ نہیں ہوتا۔
کسر صلیب
عیسائی مذہب کے استیصال کے لئے ہمارے پاس تو ایک دریا ہے اب وقت آگیا ہے کہ وہ بت جو صلیب کا بنایا گیا ہے گر پڑے اور اصل بات تو یہ ہے کہ اللہ تعالی اگر مجھے مبعوث نہ بھی فرماتا تب بھی زمانہ نے ایسے حالات اور اسباب پیدا کر دئیے تھے کہ عیسائیت کا پول کھل جاتا۔ کیونکہ خدا تعالی کی غیرت اور جلال کے یہ صریح خلاف ہے کہ ایک عورت کا بچہ خدا بنایا جاتا جوا نسانی حوائج اور لوازم بشریہ سے کچھ بھی استثناء اپنے اندر نہیں رکھتا۔
میں نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں نے کامل تحقیقات کے ساتھ یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے کہ مسیح صلیب پر مر گیا ہے اصل بات یہ ہے کہ و ہ صلیب سے زندہ اتارا گیا اور ا ور وہاں سے بچ کر وہ کشمیر چلا آیا جہاں اس نے ۱۲۰ سال کی عمر میں وفات پائی ۔اور تک اس کی قبر خانیارؔ کے محلہ میں یوز آسفؔ یا شہزادہ نبی کے نام سے مشہور ہے ۔
اور یہ بات ایسی نہیں ہے جو محکم اور مستحکم دلائل کی بناء پرنہ ہو بلکہ صلیب کے جو واقعات انجیل میں لکھے ہیں خود انہیں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح صلیب پر نہیں مرا سب سے اول یہ کہ خود مسیح نے اپنی مثال یونس سے دی ہے کیا یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ داخل ہوئے تھے یا مر کر او رپھر یہ کہ پیلاطوس کی بیوی نے ایک ہولناک خواب دیکھا تھا جس کی اطلاع پیلاطوس کو بھی اس نے کر دی او ر وہ اس فکر میںہو گیا کہ اس کو بچایا جاوے اور اسی لیے پیلاطوس نے مختلف پیرایوں میں مسیح کو چھوڑ دینے کی کوشش کی اور آخر کار اپنے ہاتھدھوکر ثابت کیا کہ میں اس سے بری ہوں۔اورپھر جب یہودی کسی طرح ماننے والے نظر نہ آئے تو یہ کوشس کی گئی کہ جمعہ کے دن بعد عصر آپ کو صلیب دی گئی اور چونکہ صلیب پر بھوک پیاس اور دھوپ وغیرہ کی شدت سے کئی دن رہ کر مصلوب انسان مر جایا کرتا تھا وہ موقعہ مسیح کو پیش نہ آیا کیونکہ یہ کسی طرح نہیں ہو سکتا تھا کہ جمعہ کے دن غروب ہونے سے پہلے اسے صلیب پر سے نہ اتار لیا جاتا کیونکہ یہودیوں کی شریعت کی رو سے یہ سخت گناہ تھا کہ کوئی شخص سبت یا سبت سے پہل رات پر صلیب چڑھا دیا گیا تھا اس ل ئے بعض واقعات آندھی وغیرہ کے پیش آجانے سے فی الفور اتار لیا گیاپھر دو چور جو مسیح کے ساتھ صلیب پر لٹکائے گئے تھے ان کی ہڈیاں توڑی گئیں مگر مسیح کی ہڈیاں نہیں توڑی گئیں۔
پھر مسیح کی لا ش ایک ایسے آدمی کے سپرد کر دی گئی جو مسیح کا شا گر د تھا اور اصل تو یہ ہے کہ خود پیلاطوس اور اس کی بیوی بھی اس کی مرید تھی چنانچہ پلاطو س کو عیسائی شہدوںمیں لکھاہے اور اس کی بیوی کوولیہ قرار دیا گیا اور ان سب سے بڑھ کرمرہم عیسیٰ کا نسخہ ہے جس کو مسلما ن، یہود ی ،رومی اور مجوسی طبیبوں نے بلا اتفاق لکھا ہے کہ مسیح کے زخموں کے لیے تیار ہوا تھا اور اس نام مر ہم عیسیٰ مرہم حواریین اور مر ہم رسل اور مرہم شلیخہ وغیر ہ بھی رکھا ۔کم از کم ہزا ر کتاب میں یہ نسخہ مو جو د ہے اور یہ کوئی عیسائی ثا بت نہیں کر سکتا کہ صلیبی زخموں کے سوا اور بھی کوئی زخم مسیح کولگے تھے ۔اور اس وقت حواری بھی موجو د تھے ۔اب بتا ئو کہ کیا یہ تما ماسبا ب اگر ایک جا جمع کیے جاویں ، تو صا ف شہادت نہیں دیتے کہ صلیب پر زند ہ بچ کر اتر آیا تھا۔
اس پر اس وقت ہمیں کوئی لمبی بحث نہیں کرنی ہے یہودیوں کے جو فرقے متفرق ہو کر افغانستان یا کشمیر میں آگئے تھے وہ ان کی تلاش میں ادھر چلے آئے۔ اور پھر آخر کشمیر ہی میں انہوںنے وفات پائی۔اور یہ بات انگریز محققوں نے بھی مان لی ہے کہ کشمیری دراصل بنی اسرائیل ہیں چنانچہ برنئیر نے اپنے سفر نامے میں یہ یہی لکھا ہے اب جبکہ یہ ثابت ہوتا ہے اور واقعات صحیحہ کی بناء پر ثابت ہوتا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرے بلکہ زندہ اتر آئے ہیں تو کفارہ کا کیا باقی رہ جاتا ہے۔
پھر سب سے عجیب تر تو یہ بات ہے کہ عیسائی جس عورت کی شہادت سے مسیح کو آسمان پر چڑھاتے ہیں وہ خود ایک اچھے اور شریف چال چلن کی عورت نہ تھی۔
( الحکم جلد۶ نمبر ۳ صفحہ ۳۔۴ مورخہ۲۴؍جنوری۱۹۰۲ء؁)
تلاش حق کے آداب
’’ یاد رکھو کہ ایک فعل انسان کی طرف سے اولا سرزد ہوتا ہے پھراس میں جو اثر یا خاصیت مخفی ہو۔خدا تعالی کا ایک فعل اس پر مترتب ہو کر اسے ظاہر کر دیتا ہے مثلا جب ہم اپنے گھر کی کھڑکی کوبند کر لیتے ہیں تو یہ ہمارا فعل ہے اور اس پر خدا تعالی کا فعل یہ سرزد ہوتا ہے کہ اس کوٹھڑی میں روشنی اور ہوا کی آمدورفت بند ہو کر تاریکی ہو جائے گی پس یہ ایک عاد ت اللہ قدیم سے اسی طرح پر چلی آتی ہے۔اور اس میں کوئی تغیر و تبدل نہیں ہوسکتا ہے کہ انسانی فعل پر خدا کی طرف سے یہ سرزد ہوتا ہے اسی طرح پر جیسے یہ نظام ظاہری ہے اندرونی انتظام میں بھی یہی قانون ہے جو شخص صاف دل ہو کر تلاش حق کرتا ہے اور اگر کچھ نہیں تو کم از کم سلب عقائد ہی کی حالت میں آتا ہے تو وہ سچائی کو ضرور پا لیتا ہے لیکن اگر وہ اپنے دل میں پہلے سے ایک بات کا فیصلہ کر لیتا ہے اور ضد اور تعصب کے حلقوں میں گرفتار دل لے کر آتا ہے توا س کا نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ اس کا معاندانہ جوش بڑھ کر فطرت کے انوار کو دبا لیتا ہے اور دل سیاہ ہو جاتا ہے اور پھر وہ حق و باطل میں امتیاز کرنے کی توفیق نہیں پاتا۔پس خدا تعالی سے پاکیزگی اور ہدایت کے پانے کے لئے خود بھی اپنے اندر پاکیزگی کو پیدا کرنا چاہئے اور وہ یہی ہے کہ انسان بخل اور تعصب کو چھوڑ دے اور اپنے نفس کو ہر گز دھوکا نہ دے ۔یہ بالکل سچ ہے کہ جو شخض تلاش حق کا دعوی کر کے نکلتا ہے اور پھر اپنی جگہ پہلے ہی کسی مذہب کے اصول کو فیصلہ کر کے قطعی بھی قرار دے لیتا ہے ،و دنیا کا طالب ہوتا ہے جو دنیاکی فتح و شکست پر مرتا ہے میں اس بات کا قائل نہیں ہو سکتا کہ وہ خدا کو مانتا ہے ۔ نہیں میرے نزدیک وہ دہریہ ہے ۔پاک دل جو کسی زجر و توبیخ کی پرواہ نہیں کرتا اور جو اقرار کرلینے میں ندامت اور شرمساری نہیں پاتا وہی ہوتا ہے جو حق کو پالیتا ہے ۔ ایسے ہی دل پر خدا کے انوار نازل ہوتے ہیں۔ یاد رکھو خدا تعالی ہر گز ایسے شخص کو ضائع نہیں کرتا جو اس کی جستجو میں قدم رکھتا ہے ۔ وہ یقینا ہے او رجیسے ہمیشہ سے اس نے اناالموجود کہا ہے اب بھی کہتا ہے ۔
جس طرح پر حضرت مسیح پر وحی ہوتی تھی اس طرح اب بھی ہوتی ہے میں سچ کہتا ہوں کہ یہ نرادعوی نہیں اس کے ساتھ روشن دلائل ہیں کہ پہلے کیا تھا جو اب نہیں اب بھی وہی خدا ہے جو سدا کلام کرتا چلا آیا ہے اس نے اب بھی دنیا کو اپنے کلام سے منور کیا ہے ۔‘‘
کفارہ
ایک اور ضر ور ی با ت ہے جومیں کہنی چاہتا ہوں اور کفا رہ کے متعلق ہے کفارہ کی اصل غر ض تو یہی بتائی جاتی ہے کہ نجا ت حاصل ہو اور نجا ت دوسر ے الفا ظ میں گناہ کے زند گی اور اس کی موت سے بچ جانے کا نام ہے مگر میں اپ ہی سے پوچھتا ہوں کہ خداکے لیے انصا ف کر کے بتائو کہ گناہ کو کسی کی خود کشی سے فلسفیا نہ طور پر کیا تعلق ہے۔اگر مسیح نے نجات کامفہو م یہی سمجھا اور گناہوں سے بچنے کایہی طریق انہیں سوجھا ، اتو پھر نعو ذ باللہ ہم ایسے آدمی کو تورسو ل بھی نہیں ما ن سکتے کیونکہ اس سے گناہ رک نہیں سکتے ۔ آپکو یور پ کے حالا ت اور لنڈن اور پیر س کے واقعا ت اچھی طر ح معلوم ہو ں گے ۔بتاؤ کون سا پہلو گنا ہ کا ہے جو نہیں ہو تا ۔سب سے بڑھ کرزنا تورا ت میںلکھا ہے مگر دیکھو کہ سیلا ب کس زورسے ان قوموں میں آیا ہے جن کا یقین ہے کہ مسیح ہما رے لیے مرا ۔خو د کشی کے طریق سے بہتر یہی تھاکہ مسیح دعا کر تا کہ اور بھی عمرملے تا کہ وہ نصیحت اور وعظ ہی کے زریعے لوگوںکو فائدہ پہنچاتا۔مگر یہ سوجھی تو کیا سوجھی ؟۔
اسکے علا وہ ایک اور با ت بھی ہے جو میں نے پیش کی تھی اور اب تک کسی عیسائی نے اس کا جواب نہیں دیا اور وہ یہ ہے کہ مسیح ہما ر ے بدلے *** ہوا ۔اب *** کے معنوں کے لیے عبرا نی یا عربی کے لغا ت نکال کر دیکھ لو کہ ملعو ن وہ شخص ہوتا ہے جس کا خدا سے کوئی تعلق نہ ہو ۔اوروہ خداسے دور ہو اب عیسائیوںنے بلاتفا ق اپنے عقیدہ میں داخل کر لیا ہے کہ مسیح ہمارے بدلے *** ہوا چنا نچہ تین دن کے لیے اسے ہاویہ میں بھی رکھتے ہیں اب یہ *** قر بانی جو ان کے عقیدہ کے موافق ہوئی ۔نجا ت سے کیا تعلق ہے
غر ض جس قدر اس پر غور کر تے جائیں گے ۔اسی قدر اس حقیقت کھلتی جائے ہی ۔میںآپ کو بتا تا ہوں کہ اصل میں مسیح کے متعلق عیسائیوںاور یہودیوںدو نو ںنے افرا ط وتفر یط سے کا م لیا ہے عیسائیو ں نے تو یہاں تک افراط کی ایک عاجز انسا ن کو جو ایک ضعیفہ عورت کے پیٹ سے عام آدمیوں کی طرح پیدا ہوا خدا بنا لیا۔اور پھر گرایا بھی تو یہاں تک کہ اسے ملعون بنایا اور ہاویہ میں گرایا۔یہودیوں نے تفریط کی یہاں تک کہ معاذ اللہ اسے ولد الزنا قرار دیا او ربعض انگریزوں نے بھی اسے تسلیم کر لیا اور سارا الزام حضرت مریم پر لگایا مگر قرآن شریف نے آکر دونوں قوموں کی غلطیوں کی اصلاح کی عیسائیوں کو بھی بتایا کہ وہ خدا کا رسول تھا اور خدا نہ تھااور وہ ملعون نہ تھا مرفوع تھا اور یہودیوں کو بتایا کہ وہ ولدالزنا نہ تھا بلکہ مریم صدیقہ عورت تھی أ حصنت فرجھا کی وجہ سے اس میں نفخ روح ہوا تھا یہی افراط و تفریط اس زمانہ میں بھی ہوئی ہے اور خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ میں ان کی اصل عزت کو قائم کروں مسلمان ناواقفی سے انہیں انسانی صفات سے بڑھ کر قرار دینے میں غلطی کرتے ہیں اور ان کی موت کے راز کی حقیقت سے ناواقف ہیں عیسائی مصلوب قرار دے کر ملعون بناتے ہیں پس اب وقت آیا ہے کہ مسیح کے سر پر سے وہ الزام دور کئے جاویں جو ایک بار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دور کئے تھے پس اسلام کا کس قدر احسان مسیح پر ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ ان باتوں پر پورا غور کر لیں گے میں آپ کو بار بار یہی کہتا ہوں کہ جب تک آپ کی سمجھ میں کوئی بات نہ آوے اسے آپ بار بار پوچھیں؛ورنہ یہ اچھا طریق نہیںہے کہ ایک بات کو آپ سمجھیں نہیں اور کہہ دیںکہ ہاں سمجھ لیا ہے اس کا نتیجہ برا ہوتا ہے سراج الدین جو یہاں آیا تھا اس نے ایسا ہی کیا اور کچھ فائدہ نہ اٹھایا اس نے آپ کو کچھ کہا تھا؟
منشی عبدالحق صاحب:’’ہاں مجھے منع کرتے تھے کہ وہاں مت جائو کچھ ضرورت نہیں ہے جب ہم نے ایک سچائی کو پا لیاپھر کیا ضرورت ہے کہ اور تلاش کرتے پھریں اور یہ بھی انہوں نے کہا تھا کہ جب میں آیا تھا تو وہ مجھے تین میل تک چھوڑنے آئے تھے اور پسینہ آیا ہوا تھا۔‘‘
(ایدیٹر) سلیم الفطرت لوگ حضرت مسیح موعودؑ کی شفقت اور ہمدردی پر غور کریں اور اس جوش کا اندازہ کریں جو اس فطرت میں کسی کی روح کو بچا لینے کیلئے ہے کیا تین میل تک جانا محض ہمدردی ہی کے لئے نہ تھاورنہ میاں سراج الدین سے کیا غرض تھی اگر فطرت سلیم ہو تو آپ اس جوش ہمدردی ہی سے حق کا پتہ پا لے ہمارے لئے ایسا سچاجوش رکھنے والے تجھ پر خدا کا سلام بر تو اے مرد سلامت )
حضر ت مسیح موعو دؑ: اس پسینہ سے اس نے یہ مراد لی کہ گویا جواب نہیں آیاافسوس !آپ اس سے پوچھتے تو سہی کہ پھر وہ یہاں رہ کر نمازیں کیوںپڑھتا تھا اور کیا اس نے نہیں کہا تھا کہ میری تسلی ہو گئی میرے سامنے ہوتو میں اس حلف دے کر پوچھوں سامنے ہونے سے کچھ تو شرم آجاتی ہے۔
منشی عبدالحق :’’ میں نے نمازوں کا حال پوچھا تھا تو انہوں نے کہا تھا کہ ہاں میں پڑھا کرتا تھا اور آخر میں نے کہہ دیا تھا کہ میں کسی سرد مقام پر جا کر فیصلہ کروں گا اور یہ بھی مسٹر سراج الدین نے کہا تھا کہ مرزا صاحب شہرت پسند ہیں، میں نے چار سوال پوچھے تھے ان کا جواب چھاپ دیا۔‘‘
حضر ت اقدس :’’ اس میں شہرت پسندی کی کوئی بات نہیں ہم حق کو کیوں چھپاتے اگر چھپاتے تو گنہ گار ٹھہرتے اور معصیت ہوتی۔ خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے تو پھر میں حق کا اظہار کروں گااور جو کام میرے سپرد ہوا ہے اسے مخلوق کو پہنچائوں گا اور اس بات کی مجھے کچھ پروا نہیں کہ کوئی شہرت پسند کہے یا اور کچھ۔آپ ان کو پھر خط لکھیں کہ وہ یہاں کچھ دن اور رہ جاویں۔‘‘
الغرض ان باتوں میں آپ مکان کے قریب پہنچ گئے۔ اور اس وقت حضرت اقدس نے منشی عبدالحق صاحب کو مخاطب کر کے یہ فرمایا کہ آپ ہمارے مہمان ہیں اور مہمان وہی آرام پا سکتا ہے جو بے تکلف ہے پس آپ کو جس چیز کی ضرورت ہو مجھے بلا تکلف کہہ دیں پھر جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو یہ ہمارے مہمان ہیں اور تم میں سے ہر ایک کو مناسب ہے کہ پورے اخلاق سے پیش آوے اور کوشش کرتا رہے کہ ان کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو یہ کہہ کر آپ گھر میں تشریف لے گئے۔‘‘۱؎
۲۴؍دسمبر۱۹۰۱ء؁
مامور من اللہ کا نشان
حضرت مسیح موعود:’’ما مُور ان امُور کی جواس پر کھولے جاتے ہیں،اشاعت نہ کرے تو میں سچ کہتا ہوں کہ وہ مخلوق پر ظلم کرتا ہے اور خو د اللہ تعالی کے سپرد کردہ فرض کو انجام نہیں دیتا مامور کا ایک یہ بھی نشان ہے کہ وہ اشاعت حق سے نہیں رکتا۔اور ہمیںافسوس ہوتا ہی جب انجیل میں ایسے فقرا ت دیکھتے ہیں جن میںمسیح اپنے آپکوچھپانے اور کسی پر ظاہر نہ کرنے کی تعلیم اپنے شاگردوںکودیتا ہے مامور من اللہ میںایک شجاعت ہوتی ہے۔اس لیے وہ کبھی بھی اپنے پیغام پہنچانے اوراشا عت حق میںنہیںڈرتا ۔شہا د ت حقہ کا چھپانا سخت گناہ ہے پس میںکیو نکراس حقیقت کو چھپا سکتا ہوں ۔جو خدا نے مجھ پر کھولی ہے ۔میرے نزد یک یہ طریق بہت ہی مناسب ہے جو یہ اس طر ح پر مر تب ہو جا یا کر ے ۔آپ نے اب دوبا ر ہ سن لیا ہے ۔اس پر غور کریں اور جو کچھ آ پ کو شک با قی ہو بے شک پو چھ لیں ،،۔
مسٹر عبدالحق :میں اس پر مز ید غور کرو ں گا ،،۔
حضر ت مسیح مو عود :میںآپ کی اس با ت کو بہت پسند کرتا ہوں کہ جلد ی نہیں کی ۔آپ بے شک چار پا نچ روز تک اس پرکافی غو رکر لیں،،۔
مسٹر عبد الحق ,,۔میںنے آج ایک سوا ل قرآ ن شر یف کی ضرور ت پر سوچا تھا، مگر وہ اس تقریر میں آچکا ہے میںایک سوا ل یہ بھی پو چھنا چاہتا ہوںکہ یہ جوکہا جا تا ہے کہ انجیل میںتحریف ہو گئی ہے ۔ اگر کوئی یہ پوچھے کہ اصل کہا ں ہے تو اس کا کیا جوا ب ہے۔‘‘
حضر ت مسیح مو عو د :’’یہ سوال آپ کا ایک نیا سوا ل ہیاور پہلے سوا لو ں سے الگ ہے ۔ میںیہ چاہتا ہوں کہ تداخل نہ ہو ۔ میں اس سوا ل کا جواب بیا ن کرو ں گا ، مگر اول مناسب یہی ہے کہ آپ اپنے سوا لوںکے جوا ب پرغورکرکے اورجو کچھ ان کے متعلق پوچھنا ہوپوچھ لیں ۔ سو جب وہ طے ہو جائیں ، پھر میںآپ کے اس سوال کا جواب دوںگا ۔ مگر تداخل کو میںمناسب نہیں سمجھتا۔ جیسے تداخل طعام درست نہیں ہے ۔یعنی ایک کھانا کھایا پھر کچھ کھا لیا ۔ پھر کچھ اور ۔اس کا نتیجہ یہی ہو گا کہ سوُ ئہضم ہو کر ہیضہ یا قے یا کسی اور بیماری کی نوبت آئے ۔ اسی طرح تداخل کلام منع ہے ۔ تداخل کلام سے کوئی بات محفوظ نہیں رہ سکتی ۔ اور انسان اس سے کو ئی فائدہ نہیںاُٹھاسکتا ، بلکہ وہ وقت ضائع چلاجاتا ہے ۔ میری عین مراد یہی ہے کہ یہ سوالات آپ کے باترتیب ہوںاور ہر سوال کی ایک مدد رکھی جاوے اور اس کو دوسراقراردے لیا جاوے ۔اس وقت میرا مقصد یہ نہیںہے کہ میں خلط مبحث کر کے اپنا وقت ضائع کروں اور آکو فائدہ سے محروم رکھوں ، بلکہ میںچاہتا ہوںکہ آپ کو پور افائدہ پہنچائوںجو میرے امکان اور طاقت میں ہے اور اس کے لیے میری رائے میں یہی طریق مناسب ہے جو اختیار کیا گیا ہے ۔میں اس سوال کا جواب دیتے وقت آپکو بتائوں گا کہ تحریف کے خیالات شروع میں مسلمانو ںسے پیدانہیں ہوئے بلکہ انجیل کے ماننے والوں ہی کی طرف سے خیالات کی ابتداء ہوئی ہے اور میں اس کو جیسا میں نے کہا ہے اور دوسرے وقت پر رکھتا ہوں ۔جب آپ پہلے سوالوں کہ جوابات سمجھ لیں گے ۔ جو لوگ بحث ومباحثہ کرنے کے لیے بیٹھے ہیں اور تلاش حق اُن کا مقصد نہیں ہوتا ۔وہ ایک ہی جلسہ میںطے کر لینا چاہتے ہیں ۔ میں اس کو مذہبی قمار بازی کہتا ہوں ۔ جیسے قمار باز اپنی چابک دستی اور چالاکی سے ہاتھ مارنا چاہتے ہیں اور اسی طرح پر یہ لوگ کرتے ہیں۔اور ہم نے تجربے سے دیکھ لیا ہے کے اصل بات کو چھپاتے ہیں ۔اور فرضی اور خیالی باتیں پیش کرتے ہیں ۔ پس میں اس کو بہت ہی بُرا سمجھتاہو ں کے انسان مذہبی قمار بازی کے لیے دست درازاورخداکا ذرا بھی خوف اور حیانہ کرکے اپنی چالاکیوں سے کام لے ۔ یہ مذہبی قماربازی کب ہوتی ہے جب دنیا کی ہار جیت اور خیالی فتح وشکست مدِّنظر ہو اور احباب اور ہمعصروں کی نگاہ میں واہ واہ سننے اور فتحیاب کہلانے کا خیال دل میں ہو۔ یہ قمار بازی دنیا کی قماربازی سے بہت ہی بڑھ کر نقصان رساں ہے، کیونکہ اس میں تو صرف مال کا زیاں ہے، مگر اس قمار بازی میں دین اور دنیا دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔ اور تمام اخلاقی اور روحانی قوتیں جو انسان کو اعلیٰ درجہ کے کمالات کا وارچ بہا سکتی ہیں، ہاردی جاتی ہیں۔ اور اس متاع کے ہارنے سے جو رنج پیدا ہوتا ہے وہ ابدی ہوتا ہے۔ پس اس قمار بازی کے خیال کو کبھی پاس بھی آنے نہیں دینا ثاہیے۔ اگر مقصدِعظیم یہ ہو کہ راستبازوں کے نور سے حصّہ ملے۔ کبھی کوئی شخص اس نور کو نہیں پاسکتا اور اس متاع کو محفوظ نہیں رکھ سکتا۔ جو فطرت سلیم اس کے پاس ہے۔ جبتک حق گوئی اور حق جوئی اور پھر قبولِ حق کے لیے ساری دنیا کو اس کے سامنے مردہ قرار نہ دے لے ا ور ان امورکے لیے خدا تعالیٰ سے ایک عہد کرے۔ جو ایسا عہد خدا تعالیٰ سے نہیں کرتا وہ خدا کو مان کر بھی دہریہّ ہے۔ہماری جماعت کو یاد رکھنا چاہیے کہ جیسے امراض کا بُحران ہو تاہے۔اسی طرح مختلف ملتوں اور مذہبوں کے بحران کے یہ ایّام ہیں۔شیطان کی بھی یہ آخری جنگ ہے۔اس لیے وہ تمام آلات حرب و ضرب لے کر حق کے مقابلہ میں نکلا ہے۔اور وہ پُورے زور اور پوری طاقت سے کوشش کرتا ہے کہ حق پر غلبہ پاوے مگر خود یُسے بھی یقینِ کامل ہے کہ اُس کی ساری کوشش بے سود اور بے فائدہ ہوگی اور بہت جلد وہ وقت آتا ہے کہ شیطان مارا جاوے گا اور ملائک کی فتح ہو گی، مگر بایں ہمہ وہ اپنی پُوری طاقت سے اس وقت میدان میں آیا ہے اور اس کے بالمقابل حق بھی ہے اور اس کے سامان اور ہتھیار بھی آسمان سے نازل ہو رہے ہیں۔ چونکہ اس وقت دونوں میدان میں ہیں۔ پس تم کو واجب ہے کہ حق کا ساتھ دو۔
حق کی شناخت کے نشان
اور میں نے بارہا اس امر کو بیان کیا ہے اور اب پھر بتاتا ہوں کہ حق کی شناخت کے واسطے تین نشان ہیں۔ ان پر اگر تم اس کو جسے حق کہا جاتا ہے، پَرکھ لو گے تو تم کو شیطان دھوکا نہ دے سکے گا؛ ورنہ اس نے اپنی طرف سے التباس حق و باطل کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔
اور وہ نشان یہ ہیں۔ اوّل نُصُوصِ صریحہ یعنی جو معتقدات ہم رکھتے ہیں۔ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا ان کا نام و نشان خدا تعالیٰ کی کتاب میں بھی پایا جاتا ہے یا نہیں۔ اگر اس کے متعلق منقولی شہادت یعنی نصوص صریحہ قطعیّہ نہ ہوں، تو خود سوچنا ناہیئے کہ اس کو کہاں تک وقعت دی جاسکتی ہے۔ مثلاً جیسے کیمیا گر کہتا ہے کہ میں ایک ہزارکا دس ہزار کر دیتا ہوں تو کیا ضروری نہیں کہ ہمیں علم ہو کہ پہلے کتنے ایسے بزرگ گزرے ہیں۔ لیکن جب ہم اس پر غور کریں گے، تو معلوم ہو گا کہ ہزاروں نے ایسی باتوں میں آکر نُقصان اٹھایا ہے۔ ہمارے اسی علاقہ میں ایک کیمیا گر اسی طرح پر دو آدمیوں کو ایک ہی وقت میں ٹھگ کر لے گیا۔ غرض پہلا نشان نصوصِ صریحہ کا ہے۔ اس کے ذریعہ اگر ہم عیسائیوں کے عقا ئد کو پَرکھتے لگیں، تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ ترا ملمّع ہے۔ حق کی چمک اس میں نہیں ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کل بیان کیا تھا کہ تثلیث اور یسوع کی خدائی کی بابت اگر یہودیوں سے پُوچھا جاوے اور ان کی کتابوں کو ٹٹولا جاوے، تو صاف جواب ہے کہ وہ کبھی تثلیث کے قائل نہ تھے۔ اور نہ کبھی انہوں نے کسی جسمانی خدا کی بابت اپنی کتاب میں پڑھا تھا۔ جو کسی عورت کے پیٹ سے عام بچّوں کی طرح حیض کے خُون سے پرورش پاکر نو مہینے کے بعد پیدا ہونے والا ہو۔ اور انسانوں کے سارے دُکھ خسرہ چیچک وگیرہ جو انسانوں کو ہوتے ہیں اُٹھا کر آخر یہودیوں کے ہاتھ سے مارکھاتا ہوا صلیب پر چڑھایا جاوے گا اور پھر ملعُون ہو کر تین دن ہاویہ میں رہے گا۔ یا باپؔ بیٹاؔ رُوح اؔلقدس کے مجموعہ اور مرکّب خدا ہی کا ذکر اُن کی کتابوں میں کہیں ہوتا ۔ اگر ہے تو ہم عیسائیوں سے ایک عرصہ سے سوال کرتے رہے ہیں۔ وہ دکھائیں۔ بر خلاف اس کے ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہودیوں نے منجملہ اور اعتراضوں کے جو اُس پر کیے۔سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ یہ خدا کا بیٹا اور خدا بنتا ہے۔ اور یہ کُفر ہے۔ اگر یہودیوں نے توریت اور نبیوں کے صحیفوں میں یہ تعلیم پائی تھی کہ دنیا میں خود خدا اور اس کے بیٹے بھی ماریں کھاتے کے لیے آیا کرتے ہیں اور انھوں نے دس پانچ کو دیکھا تھا۔ تو پھر انکار کی وجہ کیا ہوسکتی تھی؟ اصل حقیقت یہی ہے کہ اس معیار پر یہ عقیدہ کبھی پُورا نہیں اُتر سکتا، اس لی کہ اس میں حقانیّت کی رُوح نہیں ہے۔
دوسرا طریق شناختِ حق اور اہلِ حق کا یہ ہے کہ عقلِ سلیم بھی ان کی مُمّک اور معاون ہو۔ عقل ایسی چیز ہے کہ اگر اسے چھوڑ دو۔ تو دین اور دُنیا دونوں کے کاموں میں فتور پیدا ہوتا ہے۔ اب عقل کے معیار پر اس کو کَسا جاوے تو وہ دُور سے ان عقائد کو ردّ کرتی ہے۔ کیا عقل کے نزدیک یہ بات قابلِ تسلیم ہوسکتی ہے کہ ایک عاجز مخلوق بھی جس میں انسانیّت کے سارے لوازم اور بشری کمزوریوں کے سارے نمونے موجود ہیں، خدا ہوسکتا ہے۔ کیا عقل اس بات کو ایک لمحہ کے لیے بھی رَوارکھ سکتی ہے کہ مخلُوق اپنے خالق کو کوڑے مارے اور خدا کے بندے اپنے قادر خدا کے مُنہ پر تھُوکیں اور اس کو پکڑیں اور سُولی پر کھینچیں اور وہ یہ ساری ذلّ دیکھ کر اور خدا ہو کر اپنی رُسوائی کا تماشہ دکھاتا رہے؟ کیا عقل مان لیتی ہے کہ ایک عورت کا بچّہ جو نَو مہینے تک پیٹ میں رہے اور خُونِ حیض کھاوے اور آخر عام بچّوں کی طرح چلّاتا ہواشرمگاہ سے پیدا ہو وہ خدا ہوتا ہے۔ کیا کسی دل کو اس پر اطمینان ہو سکتا ہے کہ ایک شخص خدا کہلا کر ساری رات موت سے بچنے کے لیے دُعا کرتا رہے۔ اور قبول نہ ہو۔ ایسا ہی کبھی عقل یہ تجویزنہیں کر سکتی کہ کسی کی خودکشی سے دوسرے کے گناہ بخشے جاتے ہیں۔ اگر مسیح کے روٹی کھانے سے حواریوں کے پیٹ بھر جاتے تھے اور عقل کے نزدیک یہ جائز ہے، تو شاید یہ بھی سچ ہو کہ کسی کے دردِ سر کا علاج اپنے سر میں پتھّر مارنا بھی ہے۔
تیسرا ذریعہ شناخت کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کبھی سچّے مذہب کو ضائع نہیں کرتا اور اہلِ حق کو ہر گز نہیں چھوڑتا۔ کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا باغ ہے اور کبھی کسی نے نہیں دیکھا ہوگا کہ ایک شخص باغ لگا کر اپنے باغ کی طرف سے بالکل لا پَروا ہو جاوے، نہیں بلکہ اس کی آبپاشی، شاخ تراشی اور حفاظت وغیرہ تمام امُور کا جو اس کی سرسبزی اور شادابی کے لیے ضروری ہیں، پُورا اہتمام کرتا ہے۔ اسی طرح پر اللہ تعالیٰ اپنے راستبازوں اور دی ہوئی صداقتوں کی تائید کے لیے ہمیشہ تازہ بتازہ تائیدات دیتا رہتا ہے جن کی توشنی میں صادق چلتا ہے اور شناخت کیا جاتا ہے۔
عیسائیت میں کوئی زندہ نشان نہیں
اب عیسائیوں کے عقائد اور مذہب کو اس معیار پر بھی آزما کر دیکھ لو کہ ان میں بُجز بوسیدہ ہڈیوں اور مُردہ باتوں کے اور کیا رکھا ہے۔ بالاتفاق وہ مانتے ہیں کہ اُن میں آت ایک بھی ایسا شخص نہیں جو اپنے مذہب کی صداقت اور خُون مسیح کی سچّائی پر اپنے نشانات کی مُہر لگا سکے۔ یہ تو بڑی بات ہے۔مَیں کہتا ہوں کہ انجیل کے قراردادہ نشانوں کے موافق تو شاید ایمان دار ہونا بھی ایک امر محال ہوگا۔
اچھا! زندہ نشانات کو تو جانے دو۔ عیسائی مذہب جو اپنے تائیدی نشانوں کے لیے مسیح کی قبر کا پتہ دیتا ہے کہ اس نے فُلاں قبر سے مُردہ اُٹھایا تھا۔ وہ بُجز قِصّوں کے اور کیا وقعت رکھ سکتے ہیں۔ اسی لیے میں نے بار ہا کہا ہے کہ یہ سلبِ امراض کے اعجوبے جو بعض ہندُو سنیا سی بھی کرتے ہیں اور اس ترقی کے زمانہ میں مسمریزم والے بھی دکھاتے ہیں۔آج کوئی معجزات کے رنگ میں نہیں مان سکتا اور پیشگوئی ہی ایک ایسا زبردست نشان ہے، جو ہر زمانہ میں قابلِ عزّت سمجھا جاتا ہے۔ مگر ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسیح کی جو پیشگوئیاں انجیل میں درج ہیں وہ ایسی ہیں کہ ان کو پڑھ کر ہنسی آتی ہے کہ قحط پڑیں گے، زلزلے آئیں گے۔ مُرغ بانگ دے گا۔ وغیرہ۔ اب ہر ایک گائوں میں جا کر دیکھو کہ ہر وقت مُرغ بانگ دیتے ہیں یا نہیں اور قحط اور زلزلے بالکل معمولی باتین ہیں، جو آجکل کے مدّبر تو اس سے بھی بڑھ کر بتا دیتے ہیں کہ فلاں وقت طوفان آئیگا۔ فلاں وقت بارش شروع ہو گی۔
رُسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو دیکھو کہ کس طرح پر چھ سو سال پہلے کہا کہ ایک آگ نکلے گی جو سبزہ کو چھوڑ ے گی۔ اور پتھّر کو گلائے گی اور وہ پُوری ہوئی۔ اس قسم کی درخشاں پیشگوئیاں تو پیش کریں۔ میں نے ایک ہزار روپیہ کا انعام کا اشتہار مسیح کی پیشگوئیوں کے لیے دیا تھا، مگر آج تک کسی عیسائی نے ثابت نہ کیا کہ مسیح کی پیشگوئیاں ثبوت کی قوت اور تعداد میں میری پیشگوئیوں سے بڑھ کر ہیں۔ جن کا گواہ سارا جہان ہے۔
مسیح کے مُعجزات جو قصص کے رنگ میں ہیں ان سے کوئی فوق العادت تائید الہٰی کا پتہ نہیں لگتا۔ جبکہ آج اس سے بڑھ کر طبّی کرشمے اور عجائبات دیکھے جاتے ہیں۔ خصوصاًایسی حالت میں کہ خود انجیل میں ہی لکھا ہے کہ ایک تالاب تھا ۔ جس میں ایک وقت پر غسل کرنے والے شفاپالیتے تھے۔ اور اب تک یورپ کے بعض ملکوں میں ایسے چشمے پائے جاتے ہیں۔ اور ہمارے ہندوستان میں بھی بعض چشموں یا کنوئوں کے پانی میں ایسی تاثیر ہوتی ہے۔ تھوڑے دن ہوئے اخبارات میں شائع ہوا تھا کہ ایک کنوئیںکے پانی سے جذامی اچھی ہو نے لگے ۔اب عیسائی مذہب کے کن تا ئیدی نشانوں کو ہم دیکھیں۔پچھلوںکا یہ حال ہے اور اب کوئی دکھا نہیں سکتا۔ اسی طرح پار ہی اگر مان لینا ہے تو ہندوئوں نے کیا قصور کیا ہے۔؎ٰ کہ اُن کے ۳۳ کروڑ دیوتائوں کو نہ مانا جائے اور پورانوں کے قصّوں کو تسلیم نا کیا جائے۔ دیانندؔ نے ایک جدید طریق نکال کر ہندوئوں کے مذہب پر تو ہاتھ صاف کیا کہ رامؔ کا نام وید میں نہیں ہے، مگر خود جو کچھ ویدوں کا خلاصہ پیش کیا وہ بھی ایک گند نکالا۔
مذہب کا خلا صہ
مذہب کا خلا صہ دو ہی با تیں ہیںاور اصل میں ہر مذہب کا خلاصہ ان دو ہی باتوں پرآ کر ٹہر تا ہے۔یعنی حق اللہ اور حق العباد ۔مگر ان دونو ں ہی کے متعلق اس نے گند پیش کیا اور اسے وید کی تعلم کا عطر بتا یا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ حق دو ہی ہیں ایک خدا کے حقو ق کہ اسے کس طرح پر ماننا چا ہیے اور کس طر ح پر اس کی عباد ت کر نی چاہیے ۔دوم بندوں کی حقوق یعنی اس کی مخلو ق کے سا تھ کیسی ہمدردی اور مواسا ت کرنی چاہیے ۔
دیانند نے اسکے متعلق جو کچھ بتایا ہے وہ میںپھر بتاؤںگا۔پہلے یہ ظاہر کر دوں کہ عیسائیوںنے بھی ان دونوںاصولوں میں سخت بیہودہ پن ظاہر کیا ہے ۔حق اللہ اور حق العباد مگر ان دونوں ہی کے متعلق اس نے گند پیش کیا او ر اسے وید کی تعلیم کا عطر بتایا ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ حق دو ہی ہیں۔ ایک خدا کے حقوق کہ اسے کس طرح پر ماننا چاہئے اور کس طرح اس کی عبادت کرنی چاہئے دوم بندوں کے حقوق یعنی اس کی مخلوق کے ساتھ کیسی ہمدردی اور مواسات کرنی چاہئے۔دیانند نے بھی اس کے متعلق جو کچھ بتایا ہے وہ میں پھر بتائوں گا پہلے یہ ظاہر کر دوں کہ کہ عیسائیوں نے بھی اس کے دونوں اصولوں میں سخت بے ہودہ پن ظاہر کیا ہے حق اللہ میں نے تو دیکھ لیا کہ انہوں نے اس خدا کو چھوڑ دیا جو موسی اور راستبازوں پر ظاہر ہواتھا اور ایک عاجز انسان کو خدا بنا لیا اور حقوق العباد کی وہمٹی پلید کی کہ کسی طرح پر وہ درست ہونے میں نہیں آتے۔انجیل کی ساری تعلیم ایک ہی طرف جھکی ہوئی ہے ااور انسان کی کل قوتوں کی مربی نہیں ہو سکتی اول تو کفارہ کا مسئلہ مان کر پھر حقوق العباد کے اتلاف سے بچنے کے لئے کوئی وجہ ہی نہیں مل سکتی ہے کیونکہ جب یہ مان لیا گیا ہے مسیح کے خون نے گناہوں کی نجاست کو دور کردیااور دھو دیا ہے ؛ حالانکہ عام طور پر خون سے کوئی نجاست دور نہیں ہو سکتی ہے تو پھر عیسائی بتائیں کہ وہ کونسی بات ہے جو حقیقت میں انہیں روک سکتی ہے کہ وہ دنیا میں فساد نہ کریں او رکیونکر یقین کریں، چوری کرنے بیگانہ مال لینے ڈاکہ زنی خون کرنے جھوٹی گواہی دینے پر کوئی سزا ملے گی اگر باوجود کفارہ پرایمان لانے کے بھی گناہ گنا ہ ہی ہیں تو میری سمجھ میںنہیں آتا کہ کفار ہ کے کیامعنی ہیں۔
غرض حقوق العباد کو پورے طور پر ادا کرنے اور بجا لانے کے لئے اللہ تعالی نے انسان کو مختلف قوتوں کا مالک بنا کر بھیجا تھا اور اس سے منشاء یہی تھا کہ اپنے محل پر ہم ان قوتوں سے کام لے کر بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائیں مگر انجیل کا سارا زور حلم اور نرمی ہی کی قوت پر ہے؛ حالانکہ یہ قوت بعض موقعوں پر زہر قاتل کی تاثیر رکھتی ہے۔
روحانی زندگی کی ترکیب
اس لئے ہماری یہ تمدنی زندگی جو مختلف طبائع اور اختلاط اور ترکیب سے بنی ہے اپنی ترکیب اور صورت میں بالطبع یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے تمام قوی کو محل اور موقعہ پر استعمال کریں لیکن انجیل محل اور موقعہ شناسی کو تو پس پشت ڈالتی ہے اور اندھا دھند ایک ہی امر کی تعلیم دیتی ہے کہ کیا ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری طرف پھیر دینا عملی صورت میں بھی آسکتا ہے اور کرتہ مانگنے والے کو چغہ دینے والے آپ نے بھی دیکھے ہیں اور کیا کوئی آدمی جو انجیل کی تعلیم کا عاشق زار ہو کبھی گوارا کر سکتا ہے کہ کوئی شریر اور نابکار انسان اس کی بیوی پر حملہ کرے تو وہ لڑکی بھی پیش کر دے۔
جس طرح پر ہم کو اپنے جسم کی صحت اور صلاحیت کے لئے ضرو رہے کہ مختلف غذائیں موسم اور فصل کے لحاظ سے کھائیں اور مختلف لباس پہنیں ویسے ہی روح کی صلاحیت اور اس کی قوتوں اور خواص کے نشوونما کے واسطے لازم ہے کہ اس قاعدہ کو مدنظر رکھیں جسمانی تمدن میں جس طرح پر گرم و سرد نرم سخت حرکت و سکون کی رعایت رکھنی ضروری ہے اسی طرح پر روحانی صحت کے لئے مختلف قوتوں کا عطا ہونا ایسی صاف دلیل اس امر کی ہے کہ روح کی بھلائی کے لئے ان سے کام لینا ضروری ہے اور اگر ان مختلف قوتوں سے ہم کام نہیں لیتے یا نہ لینے کی تعلیم دیتے ہیں تو ایک خدا ترس او ر غیور انسا ن کی نگاہ میں ایسا معلم خدا کی توہین کرنے والا ٹھہرے گا کیونکہ وہ اپنے اس طریق سے یہ ثابت کرتا ہے کہ خدانے یہ قوتیں لغو پیدا کی ہیں ۔
پس اگرا نجیل ایک ہی قوت پر زور دیتی ہے تو میں آپ سے انصافاً پوچھتا ہوں کہ خدا سے ڈر کر بتائیں کہ یہ خدا کے اس فعل کی ہتک نہیں ہے کہ اس نے مختلف قوتیں اور استعدادیں انسان کی روح میں رکھ دی ہیں ۔
انجیل ایک ہی قوت پر زور دیتی ہے
اگر کوئی عیسائی یہ کہے کہ صرف نرمی اور حلم ہی کی قوت سے ساری قوتوں کا نشوونما ہو سکتا ہے تو اس کی دانشمندی میں کوئی شک کرے گا بحالیکہ خود خدا کی صفات بھی مختلف ہیں او ر ا ن سے مختلف افعال کا صدور ہو تا ہے اور خود کوئی عیسائی پادری ہم نے ایسا نہیں دیکھا کہ مثلا سردی کے ایام میں بھی گرمی ہی کے لباس سے کام لے اور ویسی غذاؤں پر گزارہ کرے یا ساری عمر ماں ہی کا دودھ پیتا رہے یا بچپن ہی کے چھوٹے چھوٹے کرتے پاجامے پہنا کرے غرض اس قسم کی تعلیم پیش کرتے ہوئے شرم آجاتی ہے اگر ایمان اور خدا کا خوف ہو اگر نرمی اور حلم ہی کافی تھا تو پھرکیا یہ مصیبت پڑی کہ انجیل کے ماننے والوں کو دیوانی اور فوجداری جرائم کی سزائوں کے لئے قانون بنانے پڑے اور سیاست اور ملک داری کے آئین کی ضرورت ہوئی ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری طرف پھیرنے والوں کو فوجوں اور پولیس کی کیا ضرورت !! خدا کے لئے کوئی غور کرے ۔ پس اسی اصول نے تمام حقوق العباد پر پانی پھیر دیا ہے جب کہ ساری قوتوں ہی کاخون کر دیا۔
اسلام کل انسانی قوی کا متکفل ہے
اب اس کے مقابل میں دیکھو کہ اسلام نے کیسی تعلیم دی اور کس طرح پر ساری قوتوں اور طاقتوں کا تکفل فرمایا۔ اسلام نے سب سے اول یہ بتایا ہے کہ کوئی قوت اور طاقت جو انسان کو دی گئی ہے فی نفسہٖ وہ بری نہیں ہے بلکہ اس کی افراط یا تفریط اور برا استعمال اسے اخلاق ذمیمہ کی ذیل میں داخل کرتا ہے اور اس کا برمحل اور اعتدال پراستعمال ہی اخلاق ہے ۔یہی وہ اصول ہے جو دوسری قوموں نے نہیں سمجھا اور قرآن نے جس کو بیان کیا ہے اب اس اصول کو مدنظر وہ کہتا ہے جزاؤ سیئۃ سیئۃ مثلہا فمن عفا و اصلح(الشوری:۴۱) یعنی بدی کی سزا تو اسی قدر بدی ہے لیکن جس نے عفو کیا اور اس عفو میں اصلاح بھی ہو عفو تو ضرو ررکھا ہے مگر یہ نہیں کہ اس عفو پر شریر اپنی شرارت میں بڑھے یا تمدن اور سیاست کے اصولوں اور انتظام میں کوئی خلل واقع ہو بلکہ ایسے موقع پر سزا ضروری ہے عفو اصلاح ہی کی حالت میں روا رکھا گیا ہے ۔اب بتائو کہ کیا یہ تعلیم انسانی اخلاق کی متمم ہو سکتی ہے یا نرے طمانچے کھانے۔قانون قدرت بھی پکار کر اسی کی تائید کرتا ہے۔اور عملی طور پر بھی اس کی تائید ہوتی ہے انجیل پر عمل کرنا ہے تو پھر آج ساری عدالتیں بند کر دو اور دون کے لے پولیس اور پہرہ اٹھا دو تو دیکھو کہ انجیل کے ماننے سے کس قدر خون کے دریا بہتے ہیں اور انجیل کی تعلیم اگر ناقص او ر ادھوری نہ ہوتی تو سلاطین کو جدید قوانین کیوں بنانے پڑتے۔
آریوں کے عقائد
غرض یہ حقوق العباد پر انجیل کی تعلیم کا اثر ہے۔اب میں یہ بھی بتا دینا چا ہتاہوں کہ دیانندؔنے جووید کا خلاصہ ان دونوں اصولوں کی رو سے پیدا ہوا ہے وہ کیا ہے ۔ حق اللہ کے متعلق کے تو اُس نے یہ ظلم کیا ہے کے مان لیا ہے کے خدا کسی چیز کا بھی خالق نہیں ہے ۔بلکہ یہ ذرّات اور اَرواح خود بخود ہی اس کی طرح ہے ۔ وہ صرف اُن کا جوڑنے جاڑنے ہے ۔ جس کو عربی زبان میں مؤلّف کہتے ہیں ، اب اس سے بڑھ کر حق اللہ کا ائلاف اور کیاہو گا کہ اس کی ساری صفات ہی کو اُڑا دیا اور عظیم الشان صفت خالصیٔت کا زور سے انکار کیا گیا ۔ جبکہ وہ جوڑنے جاڑنے والاہی ہے ۔تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کیاگر یہ تسلیم کر لیا جاوے کے وہ ایک وقت مر بھی جاوے گا، تو اس سے مخلوق پر کیا اثر پرسکتا ہے ۔کیونکہ جب اس نے اُسے پیداہی نہیں کیا ، تووہ اپنے وجودکے بقااور قیام میں قائم بالذّات ہیں اُس کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ جوڑنے جاڑنے سے اس کا کوئی حق اور قدرت ثابت نہیں ہوتی ۔جبکہ کے اجسام اور روحوں میں مختلف قوتیں اتصال اور انفصال کی بھی موجود ہیں ۔ روح میںبڑی بڑی قوتیںہیں ۔ جیسے کشف کی قوت ۔ انسانی روح جیسی یہ قوت دکھاسکتے ہیں اور کسی کا روح نہیں دکھا سکتا ۔ مثلاًگائے یا بیل کا ۔اور افسوس ہے کہ آریہ ان ارواح کو بھی معہ اُن کی قوتوں اور خواص کے خدا کی مخلوق نہیں سمجھتا۔ اب سوال یہ ہوتاہے جب یہ اشیاء اجسام اورارواح خود بخود قائم بالذّات ہیں اور ان میں اتصال اور انفصال کی قوتیں بھی موجود ہیں تو وجود باری پر اُن کے وجود سے کیا دلیل لی جاسکتی ہے ۔ کیونکہ جب میںیہ کہتا ہوں کہ یہ سوٹا ایک قدم چل سکتا ہے ۔ دوسرے قدم پر اس کے نہ چلنے کی کیا وجہ ؟
وجود باری پر دو ہی قسم کے دلائل ہو سکتے ہیں ۔ اوّل تو مصنوع کو دیکھ کر صانع کے وجود کی طرف ہم انتقال ذہن کاکرتے ہیں۔وہ تو یہاںمفقود ہے ، کیونکہ اس نے کچھ پیداہی نہیں کیا ۔ کچھ پیداکیا ہو تو اس سے وجودخالق پر دلیل پیدا کریںاور یا دوسری صورت خوارق اور معجزات کی ہوتی ہے ۔اس سے وجود باری پر زبردست دلیل قائم ہوتی ہے مگر اس کے لیے دیانند ؔاور سب آریوںنے اعتراف کیا ہے کہ ویدؔمیںکسی پیش گوئی یا خارق عادت امر کاذکر نہیں اور معجزہ کوئی چیز نہیںہے اب بتاو کونسی صورت خدا کی ہستی پر دلیل قائم کرنے کی اُن عقیدہ کے رو سے رہی ۔ پھر اُن کا ایسا خدا ہے کہ کوئی ساری عمر کتنی ہی محنت ومشقت سے اُس کی عبادت کرے ،مگر اس کو ابدی نجات ملے گی ہی نہیں۔ ہمیشہ جوُنوںکے چکر میں اُسے چلنا ہو گا کبھی کیڑا مکوڑااور کبھی کچھ کبھی کچھ بنناہوگا ۔
حقوق العباد کے متعلق اتناہی کافی ہے اُن میں نیوگؔکا مسئلہ موجود ہے کہ اگر ایک عورت کے اپنے خاوند سے اولاد نہ ہوتی ہوتو وہ کسی دوسرے مرد سے ہمبسترہو کر اولاد پیدا اور کھانے پینے مقویات اور بستر وغیر ہ کے سارے اخراجات اُس بیرج داتا کے اس خاوند کے ذمہّ ہوںگے ، جو اپنی عورت کو اُس سے اولاد لینے کی اجازت دیتا ہے ۔اس سے بڑھ کر قابل ِشرم اور کیا بات ہوگی ۔ یہ تو مختصر سا مونہ ہے ۔یہاںقادیاں میں پنڈت سومراج ایک مدرس تھا جو آریہ ہے اُس کو میں نے ایک جماعت کے رو برو بلایا جس میں بعض ہندو بھی تھے اور اُس سے یہ مسئلہ پوچھا ۔تو اُس نے کہا ہاںجی کیا مضائقہ ہے ۔ اب ہمیںتواس کے ُمنہ سے یہ سُن کر تعجب ہی ہودوسرے ہندوؔرام رام کرنے لگے ۔میں نے سُن کر کہا بس آپ جائیے ۔غرض یہ ہے اُن میں حقوق العباد کالحاظ۔
مِسٹر عبداکحق صاحب: میں نے آپ کی کتاب ’’ آریہ دھرم ‘‘پڑھی ہے
حضرت مسیح موعود : ساری تقریر کا خلاصہ یہ ہے کے ہر سچّا مذہب اور سچّا عقید ہ ان تین نشانو ں یعنی نصوصؔ، عقل ؔاور تائید ِؔ سمادی سے شناخت کیا جاتا ہے اور عیسائی مذہب کی بابت میں مختلف پہلوؤں سے مختصر طور پر آپ کو دکھایا کہ اس معیار پر پورانہیں اترتا ۔ یہودیوں کی کتابو ںتثلیث اور کفّارہ کا کوئی پتہ نہیں اور کھی وہ بیٹے خداکے منتظرہی نہ تھے اور عقل دُور سے دکھے دیتی تھے نشانات کا یہ حال کہ ایمانداروںکے نشان کا پایا جانابھی مشکل ہے ایک بار فتح مسیح نام ایک عیسائی نے کہا تھا کہ مجھے الہام ہوتا ہے ۔میَں نے جب اُسے کہا کہ تو پیش گوئی کر تو گبھرایا اور مجھے کہا کہ ایک مضمون بند لفافہ میں رکھا جاوے اور آپ اس کا مضمو ن بتادیں ۔مجھے خدا تعالیٰ نے اطلاع دی کہ تو اسکو قبول کر لے ۔ جب مَیں نے اس کو بھی قبول کر لیا ،تو کئی سَو آدمیوں کے مجمع میں آخر پادری وائٹ بریخیت نے کہا کہ یہ فتح مسیح جھوٹا ہے ۔ غرض حق ایسی چیز ہے کے اپنے ساتھ نصوص اور عقل کی شہادت کے علاوہ نور کی شہادت بھی رکھتاہے اور یہ شہادت سب سے بڑھ کر ہوتی ہے اور یہی ایک نشان مذہب کی مذہب کی زندگی کا ہے ،کیو نکہ جو مذہب زندہ خدا کی طرف سے ہے اس میں ہمیشہ زندگی کی روح کا پایا جانا ضروری ہے تا اس کے زندہ خدا سے تعلق ہونے پر ایک روشن نشان ہو۔ مگر عیسائیوں میں یہ ہر گز نہیںہے۰‘حالانکہ اس زمانے جو سائنس اور ترقی کا زمانہ کہلاتاہے ایسے خارق عادت نشانوں کی بڑی بھاری ضرورت ہے جو خداتعالیٰ کی ہستی پر دلائل ہو ں ۔ اب اس وقت اگر کوئی مسیح کے گذشتہ معجزات جن کی ساری رونق تالاب کی تاثیر دُور کر دیتی ہے سُنا کر اُس خدائی کو منوانا چاہے تو اس کے لیے لازمی بات ہے کے جوہ خود کوئی کرشمہ دکھائے ، ورنہ آج کوئی منطق یا فلسفہ ایسا نہیںہے جو ایسے انسان کی خدائی ثابت کر دکھائے جو ساری رات روتارہے اور اُس کی دُعابھی قبول نہ ہو اور جس کی زندگی کے واقعات نے اُسے ایک ادنیٰ درجہ کا انسان ثابت کیا ہو ۔ پس میں دعویٰ سے کہتا ہوں اور خداتعالیٰ خوب جانتا ہے کے میں اس میں سچّا ہوں اور تجربہ اور نشانات کی ایک کثیر تعداد نے میری سچّائی کو روشن کر دیا ہے کہ اگر یسوع مسیح ہی زندہ خداہے اور وہ اپنے صلیب برادرو ںکی نجات کاباعث ہوا ہے اور ان کی دُعاؤںکو قبول کرتا ہے ، باوجود یکہ اس کی خود دُعا قبول نہیںہوئی توکسی پادری ؔ یا راہب ؔکو میرے مقابلہ پر پیش کرو کہ وہ یسوع مسیح مدد اور توفیق پا کر کوئی خارق عادت نشان دکھاے میں اب میدان میں کھڑا ہو ںاور میں سچّ سچّ کہتا ہوںکے میں اپنے خدا کو دیکھتا ہوںوہ ہر وقت میرے سامنے اورمیرے ساتھ ہے ، میں پکار کر کہتا ہوںمسیح کو مجھ پر زیادت نہیں ، کیونکہ میں نور محمدؐی کا قائم مقام ہوں ، جو ہمیشہ اپنی روشنی سے زندگی کے نشان قائم کرتاہے ۔ اس سے بڑھ کر اور کس چیز کی ضرورت ہو سکتی ہے ۔تسلی پانے کے لیے اور زندہ خدا کو دیکھنے کے لیے ہمیشہ روح میں کی تڑپ اور پیاس ہے اور اس کی تسلی آسمانی تائیدوں اورنشانو ںکے بغیر ممکن نہیںاور میں دعویٰ سے کہتاہوں کے عیسائیوں میں یہ نور اور زندگی نہیں ہے بلکہ یہ حق اور زندگی میرے پاس ہے ۔میں ۲۶برس سے یہ اشتہار دے رہاہوں اور تعجب کی بات ہے کوئی عیسائی پادری مقابلہ پرنہیںآتا ۔ اگر اِن کے پاس نشانات ہیں تو کیوں انجیل کے جلال کے لیے پیش نہیں کرتے ۔ ایک بر میں نے سولہ ۱۶ ہزار اشتہار انگریزی اُردو میں چھاپ کر تقسیم کیے ۔ جن میں اب بھی کچھ ہمارے دفتر میںہو گے ۔ مگر ایک بھی نہ اُٹھاجو یسوع کی خدائی کا کرشمہ دکھاتا اور اُس بت کی ہمایت کرتا ۔ اصل میں وہاں کچھ ہے ہی نہیں ۔ کوئی پیش کیا کرے ۔ مختصر یہ کے حق کی شناخت کے لیے یہ تین ہی ذریعے ہیں اور عیسائی مذہب میںتینوں مفقود ہیں ۔
خدا کا شکر ہے کے آپ کو اچھا موقع مل گیا ہے اور آپ یہاںآگئے ہیں ۔ ان تقریروںکی ترتیب سے بہت فائدہ ہوگا آپ ان کو خوب غور سے سُن لیا کریں اور پھر جب آپ کو اس میں کچھ کلام باقی نہ ہو تو اس پر دستخط کر دیاکریں تاکے ہمارایہ وقت رائیگاں نہ جاوے اور سُود مند ثابت ہو ۔ سراج ؔ الدین کے لیے جو وقت ہم نے دیاہے اگر اسی طرح پرتقریر لکھی جاتی توایک حجت رہتی اُس نے اپنے عمل سے دوسرے کو بھی بد ظنّی کا موقع دیا میری تو سمجھ میںنہیںآتا کہ ایک شخص جب ایک جگہ سچّائی کو چھوڑتاہے وہ دوسری جگہ سچّائی سے کیونکر پیارکرسکتاہے ۔
مسٹر عبدالحق : ہاں مجھے دستخط کرنے میںکیا عُذر ہو سکتاہے اور میرا اس میں کوئی حرج نہیں ہے
حضرت مسیح موعود ؑ: بات یہ ہے کے ساری جُرأت دل کی پاکیزگی سے پیدا ہو تی ہے ۔ اگر دل صاف ہے تو اُسے کوئی بات روک نہیں سکتی ۔
مسٹر عبدالحق : میںنے جب یہاںآنے کا ارادہ کیا توایک عیسائی ے ذکر کیا ، تواس نے آپ کو گالی دی ۔ اور مجھے یہ ناگوار معلوم ہوا ۔ میں نے کہا کہ یہ تو بُری بات ہے گالی دینے کے کیا معنے ۔ اس نے کہا وہ ہمارا دُشمن ہے ۔ میں نے کہا انجیل امیں تولکھاہے دُشمنوںسے پیار کرو ۔ یہ کہاںلکھاہے کہ دُشمنوںکو گالیا ںدو ۔ پھر میںنے مسٹر سراج دین سے اس کا ذکرکیا اُنھوںنے بھی اُس کو اچھّا نہ سمجھا ۔بعض آدمیوںکی حالت یہاںتک پہنچی ہوئی ہے ۔
حضرت مسیح موعود ؑ : گالیاں دیتے اس کی تو مجھے پرواہ نہیں ہے ۔ بہت سے خطوط گالیوں کے آتے ہیں جن کا مجھے محصول بھی دینا پڑتاہے اور کھولتاہوںتوگالیا ںہوتی ہیں ۔ اشتہاروں میں گالیاںدی جاتی ہیں ۔ اور اب تو کھلے لفافوں پر گالیاںلکھ کر بھیجتے ہیں۔ مگر ان باتوںسے کیا ہوتا ہے ۔اور خداکانورکہیںبجھ سکتاہے ؟ ہمیشہ نبیوں، راستبازوں کے ساتھ ناشکروںنے یہی سلوک کیاہے ہم جسکے نقش قدم پر آئے ہیں مسیح ناصری اس کے ساتھ کیا ہوا ۔اورہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیاہو ا ۔ اب تک ناپاک طبع لوگ گالیاںدیتے ہیں ۔ میںتو بنی نوح انسان کاحقیقی خیر خواہ ہوں ۔ جو مجھے دُشمن سمجھتاہے وہ خود اپنی جان کادُشمن ہے (اتنے میں مکان کے قریب پہنچ گئے اور حضرت ؑنے پھرفرمایاکہ ) آپ مہمان ہیں آپ کو جس چیز کی تکلیف ہو ، مجھے بے تکلف کہیں ۔ کیونکہ میں تواندر رہتا ہوںاور نہیںمعلوم ہوتاکہ کس کوکیاضرورت ہے ۔آجکل مہمانوںکی کثرت کی وجہ سے بعض اوقات خادم بھی غفلت کر سکتے ہیں ۔ آپ اگر زبانی کہناپسند نہ کریں، تو مجھے لکھ کر بھیج دیاکریں ۔ مہمان نوازی تومیرافرض ہے ۔‘‘
تیسری ملاقات
۲۴دِسمبر۱۹۰۱؁
مسٹر عبد الحق : کفاّرہ کامسئلہ تو میں نے سمجھ لیا ہے تثلیث کاردّکریں ۔‘‘
حضرت مسیح موعود ؑ: ‘‘میںنے سب سے پہلے اسی لیے آپ کو کہاتھاکہ آپ اپنے اعتراض پیش کریںجواسلام پر ہوتے ہیںاور خود اپنی تقریر کے ضمن میںجہادؔ ،غلامی ؔ تعدادؔازدواج پر کچھ باتیںکی تھیںتاکہ آپ کو اس پر اعتراض کرنے کاموقع ملے ۔
میری رائے میںطالب حق کافرض ہے کہ جوبات اس کے دل میںخلجان کرے اس کو فوراً پیش کردے ، ورنہ وہ ایمان کوکمزور کرے گی اور روحانی قوتوں پر بُرااثر ڈالے گی ۔ جیسے کوئی خراب غذا کھالے تو وہ اندر جاکر خرابی پیداکرتی ہے اور قے یادست کی صورت میںنکلتی ہے۔ اس طرح کوئی گندہ عقیدہ اندر رہ کر فسادکرنے سے نہیںرکتا ۔ اور اس کافسادیہی ہے کے انسان کے اخلاق چال چلن پر بُرااثر ہوجاتاہے اوروہ ایک مجذوم کی مانند بن جاتاہے ۔پس جوچیز آپ کے دل میںکھٹکے آپ اُسے پوچھیںاور تثلیث کے ردّمیں مختصر میںکہہ چکاہوں اوراب میںآپ سے اُس کے دلائل سُنناچاہتاہوں ، کیونکہ اُس کابار ِثبوت آپ پرہے جو اَسے مدارِنجات ٹھہراتے ہیں اور ایک گردہ کثیر سے اختلاف کرتے ہیں مثلاً ایک شخص ایک معمولی بات کے خلاف دُنیانے مانی ہے کے انسان آنکھ سے دیکھتاہے اورزبان سے چکھتاہے اور بولتاہے اور کانوںسے سُنتاہے یہ کہے کے انسان آنکھ سے بولتاہے اور کان سے دیکھتاہے توقانون کی رُو سے ثبوت اس کے ذمہ ّ ہے ۔
اس طرح پر تثلیث کاتوکوئی فائدہ نہیں ، یہودی جو ابراہیمی سلسلہ میں ہیں وہ اس سے انکار کرتے ہیںاور صاف کہتے ہیں کہ ہماری کتابوںمیںاس کاکوئی نام ونشان نہیںبر خلاف اس کی توحید کی تعلیم اور نہ آسمان پر نہ زمین پر نہ پانی پر میںغرض کہیںبھی دُوسراخداتجویز کرنے سے منع کیاگیاہے ۔
پھر میں نے قانون قدرت سے آپ کو ثابت کر دکھایاکہ توحیدہی سے ماننی چاہئیے ۔ پھر باطنی شریعت میں توحیدکے کے نقوش ہیں ۔ اب آپ جو نقل وعقل ، اور باطنی شریعت کے خلاف کہتے ہیں کہ خداایک نہیں بلکہ تین تویہ ثبوت آپ ہی کے ذمّہ ہے یہ مسئلہ ایساہے کہ ہمیںتو فقط اس کے سُننے ہی کاحق ہے ۔ کیونکہ نبیوںاور راستبازوںکی تعلیم کے صریح خلاف ہے ۔
میںخداکوحاضر ناظر جان کر کہتاہوںاور خدانے میرے دل کو اس سے پاک بنایا ہے کہ اس میںبے انصافی ہو ۔ اس کا بار ثبوتآپ کے ذمّہ ہے رکیک تاویلوںکام نہیںچلتااورنہ اُن سے تسّلی ہوسکتی ہی ۔ آپ خود دل میںانصاف کریںکہ راستباز کے بغیر کوئی کام نہ کرے گاجومیںکرتاہوں۔
پس اپ جس قدرمفصل اس پر لکھ سکیںوہ لکھ کر سُنادیں۔ مگر اتنایادرکھیںکہ وہ دعویٰ اپنے نفس میںابہام رکھتاہے ۔ بعض آدمیوںکو یہ دھوکالگ جاتاہے کہ وہ دعویٰ اوردلیل میںفرق نہیںکر سکتے ۔ دعوے کے لیے دلیل ایک روشن چراغ ہوتی ۔پس دعویٰ اور دلیل میںفرق کر لینا ضروری ہے ۔۱؎ ( اس پر مسٹر عبدالحق نے کہا کہ میںکل لکھ کر سُنادوںگا اور حضرت اقدس تشریف لے گئے ۔)
چوتھی مُلاقات
۲۶؍دسمبر ۱۹۰۱؁؁ء
آ ج احبا ب بہت کثر ت سے آ گئے تھے اور لا ہو ر ، وزیر آ باد ، راولپنڈی ،علا قہ کا بل ، جموں گو جرا نوالہ ، امر تسر ،کپور تھلہ ،لودھا نہ ، سا نبھر وغیرہ مقا ما ت سے اکثر دوست آچکے تھے ۔حضر ت اقد سؑ حسب معمو ل سیر کو نکلے اور خدّام کے زمر ہ میں یہ نو رخدا چلا ۔احبا ب کا پروا نوں کی طر ح ایک سودو سر ے پر گرنابھی بجا ئے خو د دیکھنے والے کے لیے ایک عجیب نظا رہ تھا ۔الغر ض مسٹرعبدالحق صا حب نے کل کے حضرت ا قد س کے ارشا د کے موا فق ایک مختصر سی تحر یر پڑھ کرسنا ئی جو انکے اپنے خیال میں تثلیث اور مسیح کی الوہیت کے دلائل پر مشتمل تھی ۔اس کو سن لینے کے بعدحضرت ا قد س نے اپنا سلسلہء کلا م یوںشروع فرما یا :۔
تثلیث والُوہیّت ِمسیح
اصل بات یہ ہے کے یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے اور اس سے کوئی دانشمند انکار نہیںکر سکتا ہر آدمی جس غلطی میںمبتلاہے یاجس خیال میںگرفتا ر ہے وہ اس کے لیے اپنے پاس کوئی نہ کوئی وجوتِ رکیکہ ضرور رکھ تا ہے ،مگر دانشمند اور سلیم الفطرت انسانکا خاصہ ہے کہ وہ ان کی توزین کر کے اصل نتیجہ کو جو سچائی ہو تی ہے تلاش کرنے لگتا ہے ۔اب اسی اصول کے موافق عیسا ئیوں نے بھی اپنے اس عقیدہ تثلیث کے موافق کچھ باتیں بنا رکھی ہیں ۔جن کو وہ دلائل قرار دیتے ہیںاور سمجھتے ہیں۔مگر ابھی آپکو معلوم ہوجائے گا کہ یہ دلائل کیا وقعت رکھ سکتے ہیںاور ان میںکہاںتک قوت اور زور ہے ۔جس حال میںعیسائیوںمیںایسے فرقے بھی موجود ہیںجو مسیح کی اُلوہیتّ اور خدائی کے قائل نہیںاور نہ تثلیث ہی کو مانتے ہیں ۔جیسے مثلاََیُونی ٹیرین تو کیا وہ اپنے دلائل اور وجوہات انجیل سے بیان نہیں کرتے وہ بھی تو انجیل ہی پیش کرتے ہیں ۔اب اگر صراحتََا بلا تاویل انجیل میں مسیح کی الُوہیّت یا تثلیث کا بیان ہو تا تو کیا وجہ ہے کہ یُونی ٹیرین فرقہ اس سے انکار کرتا ہے؛حالانکہ وہ انجیل کو اسی طرحمانتا ہے جس طر ح دوسرے عیسائی۔
پیش گوئیاںتوریت کی پیش کی جاتی ہیں۔ انکے متعلق بھی ان لوگوں نے کلام کی ہے اور ایک یونی ٹیر ین کی بعض تحریریں میرے پاس ابتک موجودہیں۔ کیااُنھوںنے اُنکو نہیں پڑھا اور نہیں سمجھا قرآن شریف نے کیاخوب کہاہے ۔
کُلُّ حِزْبِِ بِماَلَدَیْمْفَرِحَوْنَ (الروم: ۳۳)۔
میری مُراداس کے بیان کرنے سے صرف یہ ہے تاویلات رکیکہ اور ظنیّ باتیں توایک باطل پرست بھی پیش کرتاہے ۔ مگر کیا ہمارا یہ فرض نہیںہوناچاہئیے کہ ہم اس پر پورا غور کریںیونیٹرین لوگو ں نے تثلیث پرستوں کے بیانات ان پیشگوئیوں کے متعلق سُن کر کہاہے کے یہ قابل شرم باتیںہیں جو پیش کرنے کے قابل نہیںہیں ۔ اور تثلیث اوراُلوہیّت مسیح کاثبو ت اسی قسم ہو سکتا ہے تو پھر با ئبل سے کیا ثا بت نہیں ہو سکتا۔
لیکن ایک محقق کے لیے غور طلب بات یہ ہے کہ وہ ان کو پڑھ کر ایک تنقیح طلب قرار دے اور پھر اندرونی اور بیرونی نگاہ سے اس کو سوچے۔ اب ان پیسگوئیوں کے متعلق جھانتک میں کہہ سکتا ہوں یہ امر قابل غور ہیں۔
اوّلؔ۔ کیا ان پیشگوئیوں کی بابت یہودیوں نے بھی (جن کی کتابوں میں یہ درج ہیں) یہی سمجھا ہوا تھا کہ ان سے تثلیث پائی جاتی ہے یا مسیح کا خدا ہونا ثابت ہوتا ہے۔
دومؔ۔کیا مسیح نے خود بھی تسلیم کیا کہ یس پیشگوئیاں میرے ہی لیے ہیں اور پھر اپنے آپ کو اُن کا مصداق قرار دے کر مصداق ہوتے کا عملی ثبوت کیا دیا؟اب اگر چہ یہ ایک لمبی بحث بھی ہو سکتی ہے کہ کیا درحقیقت وہ پیشگوئیاں اصل کتاب میں اسی طرح درج ہیں یا نہیں، مگر اس کی کچھ چنداں ضرورت نہ سمجھ کر ان دو تنقیح طلب اُمور پر نظر کرتے ہیں۔
یہودیوں نے جو اصل وارثِ کتابِ توریت ہیں اور جن کی بابت خود مسیح نے کہا ہے کہ وہ موسیٰؑ کی گدّی پر بیٹھے ہیں۔ کبھی بھی ان پیشگوئیوں کے یہ معنے نہیں کئے جو آپ یا دُوسرے عیسائی کرتے ہیں اور وہ کبھی بھی مسیح کی بابت یہ خیال رکھ کر کہ وہ تثلیث کا ایک جُزو ہے منتظر نہیں؛ چنانچہ میں نے اس سے پہلے بہت واضح طور پر اس کے متعلق سُنایا ہے اور عیسائی لوگ محض زبردستی کی راہ سے ان پیشگوئیوں کو حضرت مسیح پر جماتے ہیں جو کسی طرح بھی نہیں جمتی ہیں ب ورنا علما ء یہودکی کوئی شہادت پیش کرنی چاہیے کہ کیا وہ اس سے یہی مراد لیتے ہیں جو تم لیتے ہو۔
پھر انجیل کو پڑھ کر دیکھ لو (وہ کوئی بہت بڑی کتاب نہیں) اُس میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوا کہ حضرت مسیح نے ان پیشگوئیوں کو پورا نقل کرکے کہا ہو کہ اس پیشگوئی کے رُو سے میں خدا ہوں اور یہ میری اُلوہیّت کے دلائل ہیں،کیونکہ نِرا دعویٰ تو کسی دانشمند کے نزدیک بھی قابلِ سماعت نہیں ہے اور یہ بجائے خود ایک دعویٰ ہے کہ ان پیشگوئیوں میں مسیح کو خدا بنایا گیا ہے۔ مسیح نے خود کبھی دعویٰ نہیں کیا تو کِسی دُوسرے کا خواہ مخواہ اُن کو خدا بنانا عجیب بات ہے۔
اور پھر اگر بفرض محال کیا بھی ہو تو اس قدر تناقض اُن کے دعویٰ اور افعال میں پایا جاتا ہے کہ کوئی عقلمند اور خدا ترس اُن کو پڑھ کر انہیں خدا نہیں کہہ سکتا، بلکہ کوئی بڑا عظیم الشان انسان کہنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ انجیل کے اس دعویٰ کو رد کرنے کے لیے تو خود انجیل ہی کافی ہے، کیونکہ کہیں مسیح کا ادّعاثابت نہیں۔ بلکہ جہاں اُن کو موقع ملا تھا کہ وُہ اپنی خدائی منوالیتے وہاں اُنھوں نے ایسا جواب دیا کہ ان ساری پیشگوئیوں کے مصداق ہوتے سے گویا انکار کر دیا اور ان کے افعال اور اقوال جو انجیل میں درج ہیں وہ بھی اسی کے مویّد ثابت ہوتے ہیں، کیونکہ خدا کے لیے تو یہ ضرور ہے کہ اُس کے افعال اور اقوال میں تناقض نہ ہو؛ حالانکہ انجیل میں صریح تناقض ہے۔ مثلاً مسیح کہتا ہے کہ باپ کے سوا کسی کو قیامت کا عِلم نہیں ہے۔ اب یہ کیسی تعجّب خیز بات ہے کہ اگر باپ اور بیٹے کی عینیّت ایک ہی ہے تو کیا مسیح کا یہ قول اس کا مصداق نہیں کہ دروغ گوارا حافظہ نباشد، کیونکہ ایک مقام پر تو دعویٰ خدائی اور دوسرے مقام پر الوہیّت کے صفات کا انکار اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ انجیل میں مسیح پر بیٹے کا لفظ آیا ہے۔ اس کے جواب میں ہمیں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ انجیل محّرف یا مبدّل ہے۔ بائبل کے پڑھنے والوں سے یہ ہر گز مخفی نہیں ہے کہ اس میں بیٹے کا لفظ کس قدر عام ہے۔ اسرائیل کی نسبت لکھّا ہے کہ اسرائیل فرزندِ من است بلکہ نخست زادۂ من است اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا۔ اور خدا کی بیٹیاں بھی بائبل سے تو ثابت ہوتی ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کا اطلاق بھی ہوا ہے کہ تم خدا ہو۔ اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو گا۔ اب ہر ایک مُنصف مزاج دانشمند غور کرسکتا ہے کہ اگر اِبن کا لفظ عام نہ ہوتا، تو تعجّب کا مقام ہوتا ۔ لیکن جنکہ یہ لفظ عام ہے اور آدمؑ کو بھی شجرۂ ابناء میں داخل کیاگیا ہے اور اسرائیل کو نخست زادہ بتایا گیا ہے اور کثرتِ استعمال نے ظاہر کر دیا ہے کہ مقدسوں اور راستبازوں پر یہ لفظ حُسنِ ظن کی بناء پر بولا جاتا ہے۔ اب جبتک مسیح پر اس لفظ کے اطلاق کی خصُوصیّت نہ بتائی جاوے کہ کیوں اس انبیّت میں وہ سارے راستبازوں کے ساتھ شامل نہ کیا جاوے اس وقت تک یہ لفظ کچھ بھی مفید اور مؤثر نہیں ہو سکتا، کیونکہ جب یہ لفظ عام اور قومی محاورہ ہے تو مسیح پر اُن سے کوئی نرالے معنے پیدا نہیں کرسکتا۔میں اس لفظ کو مسیحؑ کی خدائی یا انبیّت یا الُوہیت کی دلیل مان لیتا، اگر یہ کسی اور کے حق میں نہ آیا ہوتا۔
میں سچ سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کے خوف سے کہتا ہوں کہ ایک پاک دل رکھنے والے اور سچّے کانشنس والے کے لیے اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں ہوسکتی اور ان الفاظ کی کچھ بھی وقعت نہیں ہوسکتی، جبتک یہ ثابت کرکے نہ دکھایا جاوے کہ کسی اور شخص پر یہ لفظ کبھی نہیں آئے اور یا آئے تو ہیں مگر مسیح ان وجُوہاتِ قویّہ کی بنا پر اَوروں سے ممتاز اور خصُوصیّت رکھتا ہے۔ یہ تو دورنگی ہے کہ مسیح کے لیے یہی لفظ آئے تو وہ خدا بنایا جاوے اور دوسروں پر اطلاق ہوتو وہ بندے کے بندے۔
اگر یہ اعتقاد کیا جاوے کہ خُدا خود ہی آکر دُنیا کو نجات دیا کرتا ہے یا اس کے بیٹے ہی آتے ہیں، تو پھر دَور لازم آئے گا۔ اور ہر زمانہ میں نیا خدا یا اس کے بیٹوں کا آنا ماننا پڑے گا۔ جوصریح خلاف بات ہے۔ان ساری باتوں کے علاوہ ایک اور بات قابلِ غور ہے کہ وہ کیا نشانات تھے جن سے حقیقتاً مسیحؑ کی خدائی ثابت ہوتی ۔کیا معجزات؟اوّل تو سِرے سے ان معجزات کا کوئی ثبوت ہی نہیں کیونکہ انجیل نویسوں کی نبوّت ہی کا کوئی ثبوت نہیں۔ اگر ہم اس سوال کو درمیان میں نہ بھی لائیں اور اس بات کا لحاظ نہ کریں کہ اُنہوں نے ایک محقق اور چشم دید حالات لکھنے والے کی حیثیت سے نہیں لکھے۔ تب بھی ان معجزات میں کوئی رونق اور قوت نہیںپائی جاتی جبکہ ایک تالاب ہی کا قِصّہ مسیح کے سارے معجزات کی رونق کو دُور کر دیتا ہے اور مقابلتاً جب ہم انبیاء سابقین کے معجزات کو دیکھتے ہیں، تو وہ کسی حالت میں مسیح کے معجزات سے کم نہیں بلکہ بڑھ کر ہیں۔ کیونکہ بائبل کے مطالعہ کرنے والے خُوب جانتے ہیں کے پہلے نبیوں سے مُردوں کا زندہ ہوتا ثابت ہے، بلکہ بعض کی ہڈّیوں سے مُردوں کا لگ کر بھی زندہ ہونا ثابت ہے؛ حالانکہ مسیح کے خیالی معجزات میں ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔ مسیح کی لاش نے کوئی مُردہ زندہ نہیں کیا پھر بتاؤ کہ مسیح کو کون سی چیز خدا بنا سکتی ہے؟کیا پیشگو ئیاں؟ ان کی حقیقت میںنے پہلے بتادی ہے کہ مسیح کی پیشگوئیاں پیشگوئی کا رنگ ہی نہیںرکھتی ہیںجو باتیں پیشگوئی کے رنگ میںمندرجہ ہیںوہ ایسی ہیںکہ ایک معمولی آدمی بھی اُن سے بہتر باتیںکہ سکتا ہے اور قیافہ شناس مدبر ؔ کی پیشگوئیاں اُن سے بدرجہابڑھی ہوئی ہوتی ہیں میںعلی الاعلان کہتاہوں کہ اگر اس وقت مسیح ہوتے ، تو جس قدر عظیم الشان تائید ی نشان پیشگوئی کہ رنگ میںخدامیرے ہاتھ پر صادرکھیے ہیں ۔ وہ ان کو دیکھ کر شرمندہہوجاتے ہیں اور اپنی پیشگو ئیوں کا کہ زلزلے آئیںگے ۔ مری قحط پڑیںگے یامُرغ بانگ دیگا کبھی مارے ندامت کے نام نہ لیتے ۔
پھر آپ ہی ہمیںبتائیںکہ کس طرح پر ہم مسیح کو مانیں کہ وہ خدا تھا ۔ خدائی کا دعویٰ ان میںنہیں ۔ صحف سابقہ کی پیشگوئیوں کے اپنے متعلق ہونے کا انھوں نے کوئی دعویٰ نہیں کیا اور نہ اپنے متعلق ہونے کا کوئی ثبوت دیا۔ پھر سلب صفات ِخدائی کو ہم ان میںدیکھتے ہیں ۔قیامت کے بابت انہیں اقرار ہے کہ مجھے اس کاعلم نہیں ،باپ اوت بیٹے کے باوجود متحدنی الوجود ہونے کے ایک کا عالم دوسرے کاجاہل ہونا قابلِ لحاظ ہے ۔تقدّس کا یہ حال ہے کہ خود کہتا ہے کہ مجھے نیک نہ کہو ۔صرف باپ ہی کو نیک ٹھہراتا ہے۔ پھر یہ اختلاف بھی باپ بیٹے کی عینیّت کے خلاف ہے ۔صرف ابن کا لفظ ان کی خدائی کو ثابت نہیں کر سکتا ۔کیونکہ حقیقت اور مجازمیں باہم تفریق کرنے کے ہم مجاز نہیں ہو سکتے ۔کہ کہدیں کہ یہاں تو حقیقت مراد ہے اور فلاں جگہ مجاز ہے۔یہی لفظ یا اس سے بھی بڑھ کر جب دوسرے انبیاء اور راست بازوں اور قاضیوں پر بو لا جاوے ،تو وہ نرے آدمی ہیں اور مسیح پر بولا جاوے ،توہ خود خدا اور ابن بن جاویں ۔یہ تو انصاف اور راستی کے خلاف ہے ۔اور پھر گویا نئی شریعت اور نئی کتاب بناتا ہے۔اس سے کوئی فائدہ نہیں۔
پادریوںنے خیالی اورفرضی طور پر مسیح کی خدائی کے ثبوت کے لیے بڑے ہاتھ پائوںمارے ہیں , مگر آجتک ایک بھی رسالہ یا تحریر ان کی میری نظر سے نہیں گزری اور کوئی پادری میں نے نہیں دیکھا ۔جس نے مسیح کے معجزات کے چہرہ سے تالاب کے قصّہ کے داغ کو دور کیا ہو اور جب تک انجیل میں یہ قصّہ درج ہے ۔یہ داغ اٹھ نہیں سکتا ۔ میں بار بار آپ کو اس امر کی طرف توجّہ دلاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو دیکھو ۔رہاپو لوسؔجس کی باتوں سے خدائی نکا لی جاتی ہے۔وہ اپنے چال چلن کے لحاظ سے بجائے خود غیر معتبراور اس کے لیے مسیح کی کوئی پیش گوئی نہیں۔پھرآپ ہی بتائیں کہ ایک دانشمند اسے خدا کس طرح مان کہ ایسے خدا کی کوئی پرستش کر سکتا ہے ۔ہر گز نہیں ۔ مسیح کی زندگی اس کی پوری ناکا می اور نا مرادی کی تصویر ہے۔ آج وہ زندہ ہو تے تو ان کو وہ نشانات دیکھ کر جو اس مسیح کے ہاتھ پر صادر ہو رہے ہیں شرمندہ ہونا پڑتا ۔کیا یہی قبولیت دعا ہوتی ہے کہ ساری رات چلّاتا رہا اور کسی نے بھی نہ سنا اور آخری ساعت میں خدا کا شکوہ کرتا ہوا رخصت کہ
اِیلی اِیلی لِمَاسَبَقْتَنِیْ۔
خدا نے مجھے مامور کر کے بھیجااورتائیدی نشانات دکھائے اسوقت جو خد انے مجھے مامور کر کے بھیجا ہے کے اورجو نشانات میری تائیدیںمیںظاہر ہوتے ہیں ان کی نظیر تو پیش کرو ۔ مثلاًڈگلس کا مقدمہ جو دیندار پادریوں کی کوشس اور ایک گال پر طمانچہ کھا کر دُوسری پھیر دینے کی تعلیم دینے والوںکی طرف سے کیا گیا ۔کئی سو آدمی اس بات کے گواہ موجود ہیں کہ کس طرح پر قبل ازوقت کل واقعات سے اطلاع دی گئی اورخدانے کسطرح ہر قسم کی ذلت سے محفوظ رکھا ۔
پہلے امرت سَر میں جب یہ مقدمہ دائر کیاگیا ۔ تو ڈپٹی کمشنر نے چالیس ہزار کی ضمانت کے ساتھ وارنٹ جاری کر دیا ۔ مگر خداکی قدرت دیکھو کہ وہ اسے جاری نہ کر سکا۔ وہ اس کی کتاب میںرہ گیا ۔ پیحھے جب اُسے یہ معلوم کرایا گیا کہ ایسے وارنٹ کااجرانا جائز ہے تو اس نے گو رداسپور تار دی کہ وارنٹ روکا جاوے ، مگر وہاںپہنچا ہی نہ تھا ۔ آخر یہ مقدمہ چلا ۔ عیسائیوںنے ہر طرح سے میرے سزادلانے میںسعی کی ۔ مگر خدا نے اپنی قدرت کانشان دکھایا ۔ اور میری اہانت چاہنے والوںکی اہانت کی ۔ڈگلس صاحب نے نہایت ہی عزّت واحترام سے مجھے بُلایا اور کرسی دی حالانکہ مجھے ان باتوں کی ذرہ ھی پروانہیں ۔ آریہ اور بعض مسلمان بھی ان کے شریک تھے ۔ پنڈت رام بھجدت پلیڈجو آریہ ہے وہ بلا فیس آتاتھااور اس نے مجھے خود کہا کہ وہ اس لیے شریک ہواہے کہ لیکھرام کے قاتل کا پتہ چل جاوے ۔ محمد حسین گواہ ہو کر آیا اور کرسی مانگ کر بہت ذلیل ہو ا۔ آخر جب ساری کاروائی ہو چکی اور عبدالحمید نے صاف اقرار کر لیا کہ مجھے قتل کے لیے بھیجا ہے ۔ پوری مسل مرتب ہوجانے پر خدا نے اپنی قدرت کی چمکار دکھائی اور ڈگلس کے دل میںڈال میںدیا کہ یہ سب جھوٹ ہے ۔اُس نے کپتان لیمارچنڈکو کہا کہ میرا دل اطمینا ن نہیں پاتا پھر عبدالحمیدسے دریافت کرو ۔
آخر عبدالحمید نے اصل رازبتادیا کہ مجھے سکھایاگیا تھا ۔ پھر ڈپٹی کمشنر کو تا ر دیا گیا اور نتیجہ وہی ہوا جس کی خبر مقدمہ کے نشان سے پہلے تمام شہروںمیںشائع ہوچکی تھی ۔ ایسا ہی لیکھرام کا نشان اور صدہانشان ہیں ۔
جماعت کے لحاظ سے بھی گر دیکھا جاوے تو مسیح ناکام اُٹھا ۔ حواریوںنے سامنے قسمیں کھائیںاور *** کی ۔ ادھر یہ حال ہے کہ ہمارے ایک مخلص دوست عبدالرحمان نام کاجو نواح کابل میں رہتا تھا محض ہماری وجہ سے ایک سال قید رکھاگیا کہ وہ توبہ کرے ۔ مگر اُس نے موت کو انکا ر پر ترجیح دی ۔ آخر کہتے ہیں کہ اُسے گلاگھونٹ کر مار دیاگیا اور جیسااس نے کہا تھا مرنے کے بعد ایک نشان اس کاظاہر ہو ا۔مجھے افسوس ہے عیسائی اپنے ایمان کی متاع پولوس کی باتوں پر ہر دیتے ہیں ۔علاوہ برآں انجیل ؔ کا ایک بہت بڑاحصہ بھی یہی تعلیم دیتاہے کے خدا ایک ہے مثلاً جب مسیح کو یہودیوںنے اس کے اُس کفر کے بدلے میں یہ ابن اللہ ہونے کا دعویٰ کرتاہے ۔ پتھراؤ کرناچاہا، تو اس نے صاف کہا کہ کیا تمھاری شریعت میںیہ نہیں کے تم خدا ہو ۔ اب ایک دانشمند خوب سوچ سکتا ہے کہ اس الزام کے وقت توچائیے تھا ۔مسیح اپنی برتیت کرتے اور اپنی خدائی کے نشان دکھا کر ملزم کرتے اور اس حالت میں کے ان پر کفر کا الزام لگایاگیاتھا ۔ توان کافرض ہوناچاہئیے ۔ تھاکے وہ فی الحقیقت خُدایاخُداکے بیٹے ہی تھے تو یہ جواب دیتے کے یہ کفر نہیںہے بلکہ میںواقعی طور پر خداکا بیٹاہوں اور میرے پاس اس کے ثبوت کے لیے تمھاری ہی کتابوں میںفُلاں فُلاںموقع پر صاف لکھاہے کہ میںقادرِمطلق عالم الغیب خداہو ںاور لاؤ میںدکھادوں اور پھر اپنی قدرتوںاور طاقتوں سے ان کو نشانات ِخدائی بھی دکھادئیے اوروہ کام جو انھوںنے خدائی کے پہلے دکھائے تھے ان کی فہرست الگ دیدئیے ۔ پھر ایسے بیّن ثبوت کے بعد کسی یہودی فقیہہ یاایسی فریسی کی طاقت تھی کے انکار کرتا ۔ وہ توایسے خداکو دیکھ کر سجدہ کرتے ہیں۔ مگر بر خلاف اس کے آپ نے کیا تو یہ کیاکہہ دیا کہ تمھیں خدالکھا ۔ اب خداترس دل لے کر غور کرو کہ یہ اپنی خدائی کاثبوت دیایا ابطال کیا غرض یہ باتیں ایسی ہیںکے ان کوبیان کرنے سے بھی شرم آتی ہے ۔میںاس کو آپ ہی کے انصاف پر چھوڑتاہوں۔توراتؔ ،اسلامؔ,قانون قدرت ۔باطنی شریعت توحید کی شہادت دیتے ہیںاور عیسائی یسوع کی خدائی کے یہ دلائل دیتاہے کہ کتب ِسابقہ میںاس کی بشارتیں ہیں( جن کو یہودیوںنے کبھی تسلیم نہیںکیاکہ وہ خود خدایا اس کے بیٹے کے لیے ہیںبلکہ وہ مسیح کے آنے سے پہلے ہی پوری ہوچکی ہیں) اور پر انجیل ؔ کے بعض اقوال بتاتے ہیں کے اس کایہ حال ہے کہ اصل کاپتہ ہی نہیں ، کیونکہ اصل زبان مسیح کی عبرانی تھی اور خود مسیح اپنی الگ انجیل کا ذکر کرتے ہیں ۔ پھر مسیح نے کہیں اپنی خدائی کا دعوی ٰنہیںکیا یہودیو ںکے پتھراؤکرنے پر اور اس کے کفر کے الزام پر ان کا قومی اور کتابی محاورہ پیش کر کے نجات پائی ۔ اپنی خدائی کا کوئی ثبوت نہ دیا ۔ اور اپنے سے کبھی فوق العادت کام کو نہ دکھایا۔ معجزات کا وہ حال پیشگوئیوں کی وہ حالت ، علم کی یہ صورت کہ اتنا پتہ نہیں کہ انجیر کے درخت کو اس وقت پھل نہیںہوگا ، اختیار کایہ حال کہ اسے لگا نہیںسکا ۔ ساعت کاعلم دے سکتا، ضعف وتوانائی اتنی کہ طمانچے اور کوڑے کھاتاہو اصلیب پر چڑھتاہے یہودی کہتے ہیںکہ خداکابیٹاہے تو اترآ۔ اُترناتودرکنار انکو کچھ جواب بھی نہیںدے سکتا ۔ چال چلن کاوہ حال کہ اُستاد بھی عاق کر دیتا ہے اور یہودیوںکے اِلزامات کئی پشت تک اوپر ہوتے ہیںاور کوئی جواب نہیںدیاجاتا ۔٭
۲۶دسمبر ۱۹۰۱؁
مسیح کے حالات ازروئے بائبل
اور پھر مسیح کے حالات پڑھو توصاف معلوم ہوگا کہ یہ شخص کبھی بھی اس قابل نہیںہو سکتاکہ نبی بھی ہو ۔ چہ جائے کے خدایا خداکابیٹا ہے ۔ تدبیر عالم اورجزا سزا کے لیے عالم الغیب ہونا ضروری ہواور یہ خداکی عظیم الشان صفت ہے، مگر میںابھی دکھاآیاہو ںاُسے قیامت تک کاعلم نہیںاور اتنی بھی اسے خبر نہ تھی بے موسم انجیر کے درخت کے پاس شدّت بھوک سے بے قرار ہو کر پھل کھانے کو جاتاہے اور درخت کو جسے بذات خودکوئی اختیار نہیں ہے ۔ کے بغیر موسم کے پھل دے سکے ، بد دُعا دیتا ہے اوّل تو خداکو بھوک لگنا ہی تعجب خیز امرہے اور یہ خوبی صرف انجیل ؔ خداہی کوحاصل ہے کہ بھوک سے بے قرار ہوتا ہے پھر اس پر لطیفہ یہ بھی ہے ۔ آپ کو اتنا علم بھی نہیں ہے کے اس درخت کو پھل ہی نہیںہے اورپھر اگر یہ علم نہ تھا توکاش کوئی خدائی کرشمہ ہی وہاںدکھاتے اور پھر بے بہارے پھل اس درخت کو لگادیتے ۔ تادُنیاکے لیے ایک نشان ہوجاتا ، مگر اس کی بجائے بد دُعادیتے ہیں ۔ اب ان باتوںکے ہوتے یسوع کو خدابنایاجاتاہے ؟ میںآپ کو سچّی خیر خواہی سے کہتاہوں کہ تکلف سے کچھ نہیں ہوسکتا۔ایک شخص ایک ہی وقت میںاپنی دو حیثیتںبتاتاہے ۔باپ بھی اور بیٹابھی ۔خدابھی اور انسان بھی ۔کیاایساشخص دھوکا نہیںدیتا ہے ۔
انجیل کے جن مقامات کا آپ ذکر کرتے ہیں وہاں سیاق وسباق پر نظر کرنے سے صاف معلوم ہو تا ہے کہ وہ اسکی خدائی کے ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں ،کیونکہ وہ اس کی انسانیت ہی کو ثابت کرتے ہیںاور انسانیت کے لحاظ سے بھی اسے عظیم الشان انسانوں کی فہرست میں داخل نہیں کرت جب اسے نیک کہا گیا تو اس نے انکار کیا اگر اس کی روح میں بقول عیسائیاں کامل ِتطہّر اور پاکیزگی تھی ۔پھر وہ یہ بات کیوں کہتا ہے کہ مجھے نیک نہ کہو ۔علاوہ بریں یسُوع کی زندگی پر بہت سے اعتراض اور الزام لگائے گئے ہیں اور جس کا کوئی تسلّی بخش آج تک ہماری نظر سے نہیں گزرا ۔
ایک یہودی نے یسُوع کی سوانحعمری لکھی ہے اور وہ یہاں موجود ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ یسُوع ایک لڑکی پرعاشق ہو گیا تھااور اپنے استاد کے سامنے اس کے حسن وجمال کا تذکرہ کر بیٹھا تواستاد نے اُسے عاق کر دیا اور انجیل کے مطالعہ سے جو کچھ مسیح کی حالت کاپتہ لگتا ہے وہ آپ سے بھی پوشیدہ نہیںہے کے کس طرح پردہ نا محرم نوجوا ن عورتوں سے ملتا تھااور کس طرح پر ایک بازاری عورت سے عطر ملواتا تھااور یسوع کی بعض نانیوں اور دادیوں کی جو حالت بائبل سے ثابت ہوتی ہے وہ بھی کسی سے مخفی نہیں ۔ ان میں سے تین مشہور ومعروف ہیں ان کے نام یہ ہیں بنت سبع، ؔ راحاب ؔ ،تمر،ؔ اور پھر یہودیوںنے اس کی ماںپر جو الزام لگائے ہیں وہ بھی ان کتابو ںمیں درج ہیں۔ ان سب کو اکٹھاکر کے دیکھیں تو اس کا یہ قول کے مجھے نیکنہ کہو اپنے اندر حقیقت رکھتاہے اور فروتنی یا نکسار کے طور پر ہر گزنہ تھا جیسابعض عیسائی کہتے ہیںاب میں پوچھتاہوںکہ جس شخص کے اپنے ذاتی چال چلن کا یہ حال ہواور حسب نسب کایہ توکیا خداایساہی ہواکرتاہے یہ
با تیں اللہ تعا لیٰ کے تقد س کے صر یح خلا ف ہیں خدا اپنی قد رت سے کبھی الگ نہیں ہوا ۔ اور یسو ع کی نسبت صا ف معلو م ہے کہ پورا ناتواں اور بے علم تھا۔ پھر یسو ع کی راست بازی میں کلام ہے پہلے کہا کہ میںداؤدکا تخت قائم کر نے کے وا سطے آیا ہو ں اور حوار یوںکو کپڑے بیچ کرتلوا ریں خر ید نے کی بھی تعلیم دی ، لیکن جب دا ل گلتی نظرنہ آئی تو اسکو یہ کہ کر ٹا ل دیا کہ آسما نی با دشا ہت ہے کیا داؤد کا تخت آسما نی تھا ۔اصل یہ ہے کہ ابتداء میںاسے خیا ل نہ تھا کہ کو ئی مخبر ی کی جاوے گی،لیکن آخر جب مخبری ہوئی اور عدالتو ں میںطلبی ہوئی،آنکھ کھلی اورآسمانی سلطنت پراسے ٹا لا ۔
بھلااس قسم ضعفاور ب علمی اور ایسے چال چلن کے ہوتے ہوئے کہیںخدابننا ،کہیں بیٹا کہلانا اور انسا ن ہونا یہ سا ری باتیں ایک ہی و قت میں جمع ہو جائیں کس قدر حیرت کو بڑحا نے والی ہیں ۔
پولو س کا کردار با قی رہاپولو س کا اجتہاد یااُس کے اقوال۔ ٔن لوگوں نے پولوس کے چال چلن پر غور کی ہے اور جیسا کہ اس کے بعض خطوس کے فقرات سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وُہ ہر مذہب والے کہ رنگ میں ہو جاتا تھا۔تمہیں خوب معلوم ہے اور اس کے حالات میں آزاد خیال لوگوں نے لکھا ہے کہ اچھے چال چلن کا آدمی نہ تھا۔ بعض تاریخوں سے پایا جاتا ہے کہ وہ ایک کاہن کی لڑکی پر عاشق تھا اور ابتدا میں اُس نے بڑے بڑے دُکھ عیسائیوں کو دیئے اور بعد میں جب کوئی راہ اُسے نہ ملی اور اپنے مقصد میں کامیابی کا کوئی ذریعہ اُسے نظر نہ آیا تو اس نے ایک خواب بنا کر اپنے آپ کو حواریوں کا جمعدار بنالیا۔ خود عیسائیوں کو اِس کا اعتراف ہے کہ وہ بڑا سنگدل اور خراب آدمی تھا اور یُونانی بھی پڑھا ہوا تھا۔ میں نے ٔہانتک غور کی ہے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ وس ساری خرابی اس لڑکی ہے کے معاملہ کی تھی اور ایسائی مذہب کے ساتھ اپنی دشمنی کامِل کرنے کے لیے اس نے یہ طریق آخری سو چاکہ اپنا اعتبار جمانے کے لیے ایک خواب سُنادی اوار عیسائی ہو گیا اور پھر یُسوع کی تعلیم کو اپنے طرز پر ایک نئی تعلیم کے رنگ میں ڈال دیا۔مین کہتا ہوں کہ عیسائی مذہب کی خرابی اور اس کی بدعتوں کا اصل باتی یہی شخص ہے اور اس کے سوا میں کہتا ہوں کہ اگر یہ شخص ایسا ہی عظیم الشان تھا اور واقعی یُسوع کا رسول تھا اور اس قدر انقلابِ عظیم کا موجب ہونے والا تھا کہ خطرناک مخالفت کے بعد پھر یُسوع کا رُسول ہونے کو تھا تو ہمیں دکھائو کہ اس کی بابت کہاں پیشگوئی کی گئی ہے کہ ان صفات والا ایک شخص ہوگا اور اُس کا نام ونشان دیا ہو اور یہ بھی بتایا ہو کہ وُہ یُسوع کی خدائی ثابت کریگا؛ ورنہ یہ کیا اندھیر ہے کہ پطرس کے *** کرنے اور یہودا اسکریوطی کے گرفتار کرانے کی پیشگوئی تو یُسوع صاحب کر دیں اور اتنے بڑے عیسوی مذہب کے مجتہد کا کچھ بھی ذکر نہ ہو۔
اِس لیے اس شخص کی کوئی بات بھی قابلِ سند نہیں ہوسکتی ہے اور جو کچھ اس نے کہا ہے وہ کون سے دلائل ہیں۔ وہ بجائے خود نرے دعوے ہی دعوے ہیں۔ میں بار بار یہی کہتا ہوں اور اس لیا مکرّر سہ مکرر اس بات کو بیان کرتا ہوں کہ آپ سمجھ لیں کہ انجیل ہی کو یسُوع کی خدائی کے ردّ کرنے کے لیے آپ پڑھیں۔ وہ خود ہی کافی طور پر اس کی تردید کر رہی ہے۔ اگر وُہ خدا تھا تو کیوں اس نے بالکل نرالی طرز کے معجزات نہ دکھائے۔ میں نے تحقیق کر لیا ہے کہ اُن کے معجزات کی حقیقت سلبِ امراض سے کچھ بھی بڑھی ہوئی نہ تھی۔ جس میں آجکل یورپ کے مسمریزم کرنے والے اور ہندو اور دُوسرے لوگ بھی مشّاق ہیں اور خیالات ایسے بیہودہ اور سطحی تھے کہ صرع کے مریض کو کہتا ہے کہ اس میں جِنّ گھُسا ہوا ہے؛ حالانکہ اگر صرع کے مریض کو کونینؔ، کچلہؔ،فولادؔ دیں اور اندر دماغ میں رسولی نہ ہو تو وُہ اچھّا ہو جاتا ہے۔ بھلا جِنّ کو مرگی سے کیا تعلّق۔ چونکہ یہودیوں کے خیالات ایسے ہو گئے تھے۔ ان کی تقلید پر اِس نے بھی ایسا ہی کہہ دیا۔ اور یا یہ کہ جیسے آجکل جادُو ٹونے کر نیوالے کرتے ہیں کہ بعض ادویات کی سیاہی سے تعویذ لکھ کر علاج کرتے ہیں اور بیماری کو جِنّ بتاتے ہیں۔ ویسے ہی اس نے کہہ دیا ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ مسیح کے معجزات کو مُسلمانوں نے بھی غور سے نہیں دیکھا اور عیسائیوں کی دیکھا دیکھی اور اُن سے سُن سُن کر اُن کے معنے غلط کر لیے ہیں۔ مثلاً اکمہؔ وہ مرض ہے کہ جس کا علاج بکرے کی کلیجی کھانا بھی ہے اور اس سے بھی یہ اچھّے ہو جاتے ہیں۔
یُسوع کی عاجزی یسُوع ضُعفؔ، ناتوانیؔ، بیکسیؔ اور نامرادیؔ کی سچّی تصویر ہے اور عام کمزوریوں میں انسانوں کا شریک ہے ۔ کوئی امر خاص اس میں پایا نہیں جاتا۔ کُتب سابقہ کی پیشگوئیوں کا جو ذخیرہ پیش کیا جاتا ہے۔ ان میں صدہا اختلاف ہے۔ اوّل تو خود یہودیوں میں اُن کے وہ معنی ہی نہیں جو عیسائی کرتے ہیں۔ اور دوسرے ان تفسیروں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وُہ پوری ہو چکی ئی ہیں۔ ایک شخص عرصہ ہوا میرے پاس آیا تھا۔آخرخدا نے اس پراپنا فضل کیا اور وہ مُسلمان ہو گیا اور مُسلمان ہی مرا۔ اس کے واسطے یہودیوں کو لکھا تھا اور اُن سے دریافت کیا تھا اوراصل وارث تو یہودی ہی ہیں کہ جو ہمیشہ نبیوں سے تعلیم پاتے چلے آئے تھے۔ انہی کا حق تو ہے کہ وہ اس کی صحیح تفسیر کریں اور خود مسیح نے بھی فقیہوں اور فریسیوں کی بات ماننے کا حکم دیا ہے گو اُن کے عمل سے منع کیا ہو۔ عیسائیوں اور یہودیوں میں اختلاف یہ ہے۔ اوّل الذکر ان سے ابنیّت اور الُوہیّت نکالتے ہیں اور آخر الذکر کہتے ہیں پُوری ہو چکی ہیں۔ انصاف کی رُو سے وہی حق پر ہیں۔ جنھوں نے ہمیشہ نبیوں سے تعلیم پائی اور ان باتوں کی تجدید سے ایمان تازہ کیے اور برابر چودہ سو برس تک خدا کی باتیں سُنتے آئے تھے۔ حضرت مسیح موسیٰ علیہ السلام سے چودہ سو سال بعد یعنی چودھویں صدی میں آئے تھے اور جیسے اس زمانہ میں مسیح دیا گیاتھا۔ کہ تا موسوی جنگوں کے اعتراض کو اپنی تعلیم سے دُور کر دے اور خاتمہ جنگ و جدال پر نہ ہو۔ ویسے ہی اس اُمّت کے لیے مثیل موسیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاء میں سے چودھویں صدی پر مسیح موعود مبعوث کیا گیا تا اپنی پاک تعلیم کے ذریعہ جہاد کے غلط خیال کی اصلاح کر دے اور ثابت کر دے کہ اسلامؔ تلوار سے ہرگز نہیں پھیلایا گیا ،بلکہ اسلام اپنے حقائق اور معارف کی وجہ سے پھیلا ہے۔
غرض یہودی پیشگوئیوں کی بحث میں غالب آجائیں گے اور حق اُن کے ساتھ ہے۔ اور یہ دیکھا بھی گیا ہے کہ یہودی معقول بات کہتے ہیں۔ جیسے ایلیا کے بارے میں اُنھوں نے کہا ہے اور ایسا ہی اس بارے میں اُن کے ہاتھ میں سہادتوں کا ایک زرّیں سلسلہ ہے۔ اور اگر کوئی چاہے تو اُن کی کتابیں اب بھی منگوا کر دکھا سکتے ہیں۔ یہی میں نے سراجؔالدین کو بھی کہا تھا۔
دیکھو انسان ایک برتن کو لیتا ہے تو اسے بھی دیکھ بھال کر لیتا ہے۔ پھر ایمان کے معاملہ میں اتنی لا پراوائی کیوں کی جاتی ہے؟ پس یہ پیشگوئیاں تو یُوں رَدّ ہوئیں۔ اب باقی رہے انجیل کے اقوال تو سب سے پہلے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ جب اصل انجیل ہی اُن کے ہاتھ میں نہیں ہے تو کیوں یہ امر قرین قیاس نہ مانا جائے کہ اس میں تحریف کی گئی ہے، کیونکہ مسیح اور اس کی ماں کی زبان عبرانی تھی۔ جس مُلک میں رہتے تھے۔ وہاں عبرانی بولی جاتی تھی۔ صلیب کی آخری ساعت میں مسیح کے مُنہ جو کچھ نِکلا وہ عبرانی تھا۔ یعنی۔ایلی ایلی لما سبقتانی۔ اب بتائو کہ جب اصل انجیل ہی کا پتہ مذارد ہے، تو اس ترجمہ پر کیا دوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کہے اصل انجیل پیش کرو۔ اس صورت میںتو عیسائی یہودیوں سے بھی گِر گئے، کیونکہ انہوں نے اپنی اصل کتاب کو تو گم نہیں کیا۔
پھر انجیل میںمسیح نے کہا ہے کہ ’’میری انجیل‘‘ اب اسن لفظ پر غور کرنے سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل مسوّدہ انجیل کا کوئی مسیحؑ نے بھی لکھا ہو اور یہ تو نبی کا فرض ہوتا ہے کہ وہ خدا کی وحی کو محفوظ کرے اور اس کی حفاظت کا کام دُوسروں پر نہ ڈالے کہ وّہ جو چاہیں سو لکھ لیں۔
پولوسؔ کی بابت میں پہلے کہہ آیا ہوں کہ جس کی تحریروں یا تقریروں پر اپنی خدائی کا نحصار تھا۔ تعجّب کی بات ہے کہ خدا ہو کر اس کے واسطے مُنہ سے ایک لفظ بھی پیشگوئی کا نہ نکلا، بلکہ چاہیے تھا کہ وصیّت نامہ لِکھ دیتے کہ پولوس اس مذہب کا جمعدار کیا جاوے گا اور جب یہ نہیں تو پھر اس کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ خود بخود مجتہد بن بیٹھا۔ اس کو یہ سارڑیفیکیٹ ملا کہان سے تھا؟ یہی وجہ ہے کہ یہ یسوعی مذہب نہیں بلکہ پولُوسی ایجاد ہے، غرض صدق اور اخلاص بڑی نعمت ہے جس کو خدا دے۔ مختصر یہ کہ خُدا بہتر جانتا ہے اور مَیں حلفاً کہتا ہوں کہ میں تو اپنے دشمن کا بھی سب سے بڑح کر خیر خواہ ہوں۔ کوئی میری باتوں کو سُنے بھی۔ یہ جو کچھ میں نے کہا ہے۔ آپ اس پر غور کریں اور اس پر جو کچھ باقی رہ جاوے اُسے بیان کریں۔
[ حضرت اقدسؑ نے اپنی تقریر کو اس مقام پر ختم کر دیا تھا کہ خاکسار ایڈیٹر الحکم نے عرض کی کہ مِسٹر عبد الحق صاحب نے اپنی تقریر میں عماد الدین کے حوالہ سے ایک بات تثلیث کے ثبوت میں کہی ہے کہ وضُو کرتے وقت تین دفعہ ہاتھ دھوتے ہیں۔ یہ تثلیث کا نشان ہے۔ اس پر بھی کچھ فرمایا جاوے۔] فرمایا:
’’یہ تو بالکل بیہودہ اور کچی باتیں ہیں۔ اس طرح پر ثبوت دینا چاہو تو جتنے مرضی ہو خدا بنا لو۔ عمادؔالدین کی اِن باتوں پر پادری رجبؔ علی نے ایک ریویو لکھا تھا اور اس نے بڑا واویلا کیا تھا کہ ایسی باتوں سے عیسائیت کی توہین ہوتی ہے؛ چونکہ وُہ کچھ ظریف طبع تھا کہ عمادؔالدین سے تثلیث کے ثبوت میں یہ بات رہ گئی اور پھر ایسی مثال دی جو قابلِ ذکر نہیں۔
اس نے لکھا کہ عمادؔالدین بالکل ایک آدمی تھا۔ میں نے اُس کو اُردو کی عبارت کا مطلب بیان کرنے ہی کی دعوت کی تھی، جس کا جواب نہ دے سکا۔ اور ’’نورالحق‘‘ کا جواب آجتک نہ ہوا؛ حالانکہ پانچ ہزار روپیہ انعام بھی تھا۔ ایسی باتیں تو پیش کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ دیکھو آخر مرنا ہے۔ خدا سے ڈرنا چاہیے۔ دین کے معاملہ میں بڑی غوروفکردرکارہے اورپھرخداکافضل ‘‘۔؎ٰ
‎اس نے لکھا کہ عمادؔالدین بالکل ایک آدمی تھا۔ میں نے اُس کو اُردو کی عبارت کا مطلب بیان کرنے ہی کی دعوت کی تھی، جس کا جواب نہ دے سکا۔ اور ’’نورالحق‘‘ کا جواب آجتک نہ ہوا؛ حالانکہ پانچ ہزار روپیہ انعام بھی تھا۔ ایسی باتیں تو پیش کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ دیکھو آخر مرنا ہے۔ خدا سے ڈرنا چاہیے۔ دین کے معاملہ میں بڑی غوروفکردرکارہے اورپھرخداکافضل ‘‘۔؎ٰ
۲۷ ؍دسمبر۱۹۰۱؁ء بعد از نمازِعصر
تقریر
مامور من اللہ کی باتیں توجّہ سے سننی چاہئیں سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے اور پورے غوراور فکر کے ساتھ سنو ،کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا معاملہ ہے ۔اس میں غفلت اور سستی اور عدم توجہ بہت برے نتیجے پیدا کرتی ہے ۔جو لوگ ایمان میں غفلت سے کام لیتے ہیںا ورجب ان کو مخاطب کر کے کچھ بیان کیا جاوے ،تو غور سے اس کو نہیں سنتے ہیں۔ ان کو بو لنے والیکے بیان سے خواہ وہ کیسا ہی اعلیٰ درجہ کا مفید اور مؤثر کیوں نہ ہو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوتا۔ ایسے ہی لوگ ہوتے ہیں جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ کان رکھتے ہیں، مگر سُنتے نہیں۔ دل رکھتے ہیں پر سمجھتے نہیں۔ پس یاد رکھو کہ جو کچھ بیان کیا جاوے اُسے توجہ اور بڑی غور سے سُنو۔ کیونکہ جو توجہ سے نہیں سُنتا ہے وہ خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صُحبت میں رہے اُسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
جب خدا تعالیٰ انبیاء علیہم السلام کو دنیا میں مامُور کر کے بھیجتا ہے تو اس وقت دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وُہ جو اُن کی باتوں پر توجہ کرتے اور کان دھرتے ہیں اور جو کچھ وہ کہتے ہیں اُسے پُورے غور سے سنتے ہیں۔ یہ فریق وہ ہوتا ہے جو فائدہ اٹھاتا ہے اور سچّی نیکی اور اس کے برکات وثمرات کو پالیتا ہے۔ دُوسرا فریق وُہ ہوتا ہے جو اُن کی باتوں کو توجہ اور غور سے سُننا تو ایک طرف رہا۔ اُن پر ہنسی کرتے اور اُن کو دُکھ دینے کے لیے منصوبے سوچتے اور کوششیں کرتے ہیں۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو اس وقت بھی اسی قاعدہ کے موافق دو فریق تھے۔ ایک وُہ جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو سُنا اور پُورے غور سے سُنا اور پھر آپؐ کی باتوں سے ایسے متاثر ہوئے اور آپؐ پر ایسے فدا ہوئے کہ والدین اور اولاد۔احبّاء اور اعزّہ غرض دُنیا میں جوچیز انہیں عزیز ترین ہوسکتی تھی۔اس پر آپؐ کے وجود کو مقدم کر لیا۔ اچھّے بھلے آرام سے بیٹھے تھے۔ برادری کے تعلقات اور احباب کے تعلڈات سے اپنے خیال کے موافق لُطف اُٹھارہے تھے۔ مگر اس پاک وجود کے ساتھ تعلّق پیدا کرتے ہی وُہ سارے رشتے اور تعلّق اُن کو چھوڑ نے پڑے اور اُن سے الگ ہونے میں اُنہوں نے ذرا بھی تکلیف محسوس نہ کی، بلکہ راحت اور خوشی سمجھی۔ اب غور کرنا چاہیے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ کیا چیز تھی؟ جن سے ان لوگوں کو اپنا ایسا گرویدہ بنا لیا کہ وہ اپنی جانیں دینے کے لیے تیار ہو گئے۔ اپنے تمام دنیوی مفاد اور منافع اور تمام قومی اور ملکی تعلقات کو قطع کرنے کے لیے آمادہ ہوئے۔ نہ صرف آمادہ بلکہ انہوں نے قطع کر کے اور اپنی جانوں کو دے کر دکھا دیا کہ وہ آپؐ کے ساتھ کس خلوص اور ارادت سے ہوئے تھے۔ بظاہر آپ کے پاس کوئی مال ودولت نہ تھا جو ایک دُنیا دار انسان کے لیے تحریص اور ترغیب کا موجب ہو سکے۔ خود آپ نے ہی یتیمی میں پرورش پائی تھی تو وہ اوروں کو کیا دکھا سکتے تھے۔
انبیاء کو حقؔ اور کششؔ دی جاتی ہے میں کہتا ہوں کہ بیشک آپؐ کے پاس کوئی مال و دولت اور دنیوی تحریص وترغیب کا ذریعہ نہ تھا اور ہر گز نہ تھا، لیکن آپؐ کے پاس وہ زبردست چیزیں جو حقیقی اور اصلی، موثر اور جاذب ہیںتھیں۔ وہی اُنھوں نے پیش کیں اور انھون نے ہی دُنیا کو آپؐ کی طرف کھینچا۔ وہ تھیں حق اور کشش۔ یہ دو چیزیں ہی ہوتی ہیں۔ جن کو انبیاء علیہم السلام لے کر آتے ہیں۔ جبتک یہ دوتوں موجود نہ ہوں انسان کسی ایک سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا اور نہ پہنچا سکتا ہے۔ حق ہو کشش نہ ہو کیا حاصل؟کشش ہو لیکن حق نہ ہو۔ اس سے کیا فائدہ؟ بہت سے لوگ ایسے دیکھے گئے ہیں اور دنیا میں موجود ہیں کہ اُن کی زبان پرحق ہوتا ہے، مگر دیکھا گیا ہے کہ وہ حق مفید اور موثر ثابت نہیں ہوتا۔کیوں؟ وُہ حق صرف اُن کی زبان پر ہے اور دل اس سے آشنا نہیں اور وُہ کشش جو دل کی قبولیّت کے بعد پیدا ہوتی ہے اُس کے پاس نہیں ہے۔ اس لیے وُہ جو کچھ کہتا ہے جس اوپرے دل سے کہتا ہے اسی طرح پر اُس کا اثر ہوتا ہے۔
سچّی کشش، حقیقی جذب اور واقعی تاثیر اس وقت پیدا ہوتی ہے جب اس حق کو جسے وہ بیان کرتا ہے، نہ صرف آپ قبول کرے، بلکہ اس پر عمل کر کے اس کے چمکتے ہوئے نتائج اور خواص کو اپنے اندر رکھتا ہو۔ جبتک انسان خود سچّا ایمان ان اُمور پر جو وہ بیان کرتا ہے، نہیں رکھتا اور سچّے ایمان کے اثر یعنی اعمال سے نہیں دکھاتا۔ وہ ہر گز ہرگز سوثر اور مفید نہیں ہوتے۔ وُہ باتیں صرف بدبُودار ہونٹوں سے نکلتی ہیں جو دوسروں کے کان تک پہنچنے میں اور بھی بدبودار ہو جاتی ہیں، بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ ظالم وسفاک حق کا یُوں بھی خُون کرتے ہیں کہ چونکہ اس کے برکات اور درخشاں ثمرات اُن کے ساتھ نہیں ہوتے اس لئے سننے والے محض خیالی اور فرضی باتیں سمجھ کر ان کی پرواہ بھی نہیں کرتے اور یُوں دوسروں کو محروم کر دیتے ہیں۔
غرض یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ وہ شخص جو دُنیا کی اصلاح اور بہتری کا مدّعی ہے جبتک اپنے ساتھ حق اور کشش نہ رکھتا ہو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور وُہ لوگ جو توجہ اور غور سے اسکی بات کو نہیں سُنتے وہ اُن سے بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا۔ جو کشش اورحق بھی رکھتے ہوں۔
رُوحانی رات اور دن جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا قانونِ قدرت ہے کہ رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات آتی ہے اور اس قانونِ قدرت میں کوئی تبدیلی واقع نہیںہوتی۔ اسی طرح دُنیا پر اس قسم کے زمانے آتے رہتے ہیں کہ کبھی رُوحانی طور پر رات ہوئی ہے اور کبھی سلوعِآفتاب ہو کر نیا دن چڑھتا ہے؛ چنانچہ پچھلا ایک ہزار جو گذرا ہے، رُوحانی طور پرایک تاریک رات تھی جس کا نام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے۔ خدا تعالیٰ کا یہ ایک دن ہے جیسا کہ فرماتا ہے ۔ ان یو ما عندربک کالف سنۃمما تعدون (حج: ۴۸) اس ہزار سال میں دنیا پر ایک خطرناک ظُلمت کی چادر چھائی ہوئی تھی۔ جس مین ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت کو ایک باپاک کیچڑ میں ڈالنے کے لیے پوری تدبیروں اور مّاریوں اور حیلہ جوئیوں سے کام لیا گیا ہے اور خود ان لوگوں میں ہر قسم کے شِرک اور بدعات ہوگئے جو مُسلمان کہلاتے تھے، مگر اس گروہ کی تسبت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ لیسو امنی ولست منہم۔ یعنی نہ وہ مجھ سے ہیں اور نہ میں اُن سے ہوں۔ غرض جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا یہ ہزار سالہ رات تھی جو گذر گئی۔ اب خدا تعالیٰ نے تقا ضا فرمایا کہ دُنیاکو روشنی سے حصّہ دے اس شخص کو جو حصّہ لے سکے، کیونکہ ہر ایک اس قابل نہیں ہے کہ اس سے حصّہ لے چنانچہ اُس نے مجھے اس صدی پر مامُور کر کے بھیجا ہے، تا کہ میں اسلامؔ کو زندہ کروں۔
جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پُورے طور پر اور اصلی معنوں میں کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ وہ بہتوں کو مخلص نہ بنا سکے ۔ ذرا سی غیر حاضری میں قوم بگڑ گئی باوجودیکہ ہارُونؑ ابھی ان میں موجود تھے۔ اور قوم نے گو سالہ پرستی اختیار کی اور ساری عمر قسم قسم کے شکوک و شبہات پیش کرتے رہے۔ کبھی بھی انشراح قلب کے ساتھ ساری قوم باوجود بہت سے نشانوں کے دیکھنے کے مخلص نہ ہوسکی۔ اور ایسے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام ناکام رہے۔ یہانتک کہ حواری بھی جیسا کہ انجیلؔ میں لکھا ہے۔ بگڑ گئے اور بعض مرتد ہو کر لعنتیں کرنے لگے۔ فقیہ اور فریسی جو موسیٰ کی گدّی پر بیٹھنے والے تھے اُن کو نصیب نہ ہوا کہ اس آسمانی نُور سے حصّہ لیتے اور ان سچّائی کی باتوں کو جو حضرت مسیح علیہ السلام لے کر آئے تھے، قبول کرتے اور توجہ سے سُنتے۔ اگر چہ کہا جائے گا کہ ان کو بہت سی مشکلات پیش آئیں۔ جو مسیح کی علامتوں اور نشانات کے متعلق پیشگوئیوں کے رنگ میں تھیں۔ لیکن اگر توجہ کرتے اور رشید ہوتے اور ان کو قوتُ حاسّہ ملی ہوتی، تو ضرور فائدہ اِٹھالیتے اور زور دیکر مشکلات سے نکل جائے۔ ان اُمور اور واقعات پر نگاہ کرنے سے طبعاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا مختصر جواب یہی ہے کہ انسان اپنے ہی حربہ سے ہلاک ہوتا ہے۔ جو لوگ توجہ نہیں کرتے اور اس کے وجود کو بے سُود اور فضول قرار دیتے ہیں اور اس کی پاکیزہ باتوں پر کوئی غور نہیں کرتے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ وُہ محروم رہ جاتے ہیں۔جیسا میں نے شروع میں کہا تھا کہ توجہ اور غور سے سُننا چاہیے اور جو لوگ توجہ اور غور سے نہیں سُنتے وہ ایسے ہی لوگ ہو تے ہیں۔ جو کان رکھتے ہوئے نہیں سنتے۔اسی طرح پر میں اب یُوں کہتا ہوں کہ یہی وہ لوگ ہیں ۔ جن کے دلوں پر قفل لگے ہوئے ہوتے ہیں اور جن کے کانوں اور آنکھوں پر پردے ہوتے ہیں۔اس لیے وہ خدا تعالیٰ کے مامُوروں اور مرسلوں کی باتوں پر ہنسی کرتے ہیں اور اُن سے فائدہ نہ اٹھا کر محروم ہو جاتے ہیں اور آخری عذاب الہٰی میں گرفتار ہو جاتے ہیں‘‘۔
مامورین کی باتوں سے فائدہ اُٹھانے والے لوگ
لیکن جو حسن ِظن سے کا م لے کر صبرو استقلال کے ساتھ اس کی باتوں کو متو جّہ ہو کر سنتے ہیں وہ فائدہ اُٹھالیتے ہیں ، آخر سچائی کی چمک خود اُن کے دل کو روشن کر دیتی ہے ۔ اُن کی انکھیںکھل جاتی ہیں اور اُن کے کانوںمیںنئی قوت پیدا ہوتی ہے ۔ دل فکر کرتاہے اور عمل کا رنگ پیداکرتا ہے جس سے وہ سکھ پاتے ہیں۔
دنیامیںہی ہم دیکھتے ہیں کہ جب انسان کو نیکی اور بھلائی کاموقع ملے اور وہ اُسے کھو دے تو اس موقع کے ضائع کرنے سے اس کو ایک درد محسوس کرتاہے ۔اس طرح پر جنھوںنے انبیاء علیہ السّلام کازمانہ پایااور اس موقع کو کھو دیا ۔ وہ عذاب الٰہی میں گرفتار ہیں ۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اہل دنیا اس سے بے خبر ہیںاگر اہل دنیا کو مُردوں کے حالات پر اطلاع ہو سکتی اور مُرد ے دنیا میں دوبارہ آکر اپنے حالاے آکر سناسکتے توسب فرشتوں کی سی زندگی بسر کرنے والے ہوتے اور دنیا میں گناہ پر موت طاری ہوجاتی لیکن خداتعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا اور اس معاملے کو پردہ خفا میں رکھا ہے ، تاکہ نیکی اور ثواب کا اجر ضائع نہ ہو جاوے دیکھو اگر امتحان سے پہلے سوالات کو شائع کر دیا جاوے تو ان کے جوابات میں لیاقت کیا معلوم ہو سکتی ہے ؟اسی طرح پر خداتعالیٰ جو مواخذہ کا پریق رکھاہے ، اس کو افراق تفریط سے بچاکر رکھاہے ۔
ایمانیات میںا خفاء
اگر اللہ تعالیٰ سارے پردے کھول دیتااور کوئی امرمخفی اور پوشیدہ نہ ہوتا اور مُردے آآکر کہہ دیتے کہ جنّت ونار سب حق ہیں توبتائوکہ کوئی دہریہّ اور بت پرست رہ سکتاہے ؟
مثلاًاگر یہاں ہی کے دو چار مُردے آکرحقیقت بتادیں اور اپنے پوتوںعزیزوں کو بتائیںتوکوئی رُو گردان وہ سکتاہے ؟ہر گز نہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا۔ اب اگر کوئی آفتاب پر ایمان لاوے کہ یہ ہے اور روشنی دیتاہے توبتائو اس ایمان کا کوئی ثواب اسے مل سکتاہے ؟کچھ بھی نہیںاس طرح پر اللہ تعالے ٰنے ایمان کی قدرو قیمت اور نیکی کی جزاکے لیے یہ پسند فرمایا ہے کہ کچھ خفابھی ہو ۔ دانشمند آدمی سعادت مند پاتاہے ۔بیوقوف اس سے محروم رہ جاتاہے اور پھر کوئی ایمانی امرایسا نہیں ہے جس میں حقیقت اور فلسفہ نہ ہو ۔ اس خفامیںعظیم الشان فلسفہ ہے جیساکہ میں نے ابھی کہا ہے کہ اگر ایسا انکشاف ہو تاکہ کوئی چیز مخفی نہ رہ جاتی ۔ معادکا حال ۔اور خداکی رضاکاپتہ معلوم ہوجاتاہے ۔ تونیکی نیکی نہ رہتی اور نہ اس کی کوئی قدرہوتی ۔ مشہودمحسوس چیزوںپر ایمان لانے سے کوئی ثواب نہیں مل سکتا۔مسجد پر درخت یا آفتاب پر ایمان لانیوالااوران کے وجودکااعتراف کرنے والاکسی جزاکا مستحق نہیںہے ،لیکن جو مخفی کو معلوم کر کے ایمان لاتاہے ۔وہ بے شک قابل تعریف فِعل کا کرنے والاٹھہرتاہے اور مدح اور تعریف کامستحق ٹھہرتاہے ۔ جب بالکل انکشاف ہو گیا ,پھرکیا؟اسی طرح پر اگرکوئی ۲۹دن کے ہلال کو دیکھتاہے توبے شک اس کی نظر قابل تعریف ہو گی ۔ لیکن اگر کوئی چودہ دن کے بعد جبکہ بدر ہوگیا اور عالمتاب روشنی نظر آتی ہے لوگوں کو کہے کے آئومیںتمھیںچاند دکھائوں میںنے دیکھ لیاہے تووہ مسخرہ اور فضول گو ٹھہرایاجائے گا۔
غرض قابلیت فراست سے ظاہر ہوتی ہے ۔خدانے کچھ چھپایاہے اور کچھ ظاہر کیاہے ۔ اگر بالکل ظاہر کرتا تو ایمان کاثواب جاتارہتا اور بالکل چھپاتاتوسارے مذ اہب تاریکی میںدبے رہتے اور کوئی بات قابل اطمینان نہ ہوسکتی اور آج کوئی مذہب والادوسرے کو نہ کہہ سکتا کہ تو غلطی پر ہے اور نہ مواخذہ کااصول قائم رہ سکتا تھا کیونکہ یہ تکلیف ملایطاق تھی مگر خداتعالیٰ فرمایا ہے :
لاَیُکَلِّفُ اللَّہُ نَفْسًااِلَّاوُسْعَہَا(البقرہ:۲۸۷)
پس خداکافضل ہے کہ ہلکا سا امتحان رکھاہو اہے جس میں بہت مشکلات نہیں ، باوجود یکہ عالم ایسا اَدقّ ہے کہ جوجاتاہے پھر واپس نہیں آتا ہے ۔ پھر بھی خداتعالیٰ نے انواروبرکات کاایک سلسہ رکھاہے جس سے اس دنیاہی میں پتہ لگ جاتاہے اور وہ مخفی اُمور متحقق ہوجاتے ہیں ۔۱؎
آج کل کے فلاسفروںنے مُردوںکے واپس آنے لی بہت تحقیقات کی ہے ۔امریکہ میںایک شخص کومارکر دیکھاکے آیامرنے کے بعد شور باقی رہتاہے یانہیں ۔ اس شخص کو جس پر تجربہ کرناچاہا۔کہہ دیاگیاکہ تم نے آنکھ کے اشارے سے بتا دینا مگر جب وہ ہلاک کیا گیا تو کچھ بھی نہ کر سکا کیونکہ یہ ایک سر الہی ہے جس کی تہہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ۔ انسان جب حد سے گزر تا ہے تو سر کی تلاش اور فکر میں ہوتا ہے مغربی دنیا میں جو زمینی تحقیقات میں لگی ہوئی ہے وہ ہر فلسفہ میں ادب سے دورنکل جاتی ہے اور انسانی حدود کو چھوڑ کر آگے قدم رکھنا چاہتی ہے مگر بے فائدہ مختصر یہ کہ اللہ تعالی نے ان امور کو جو ایمانیات سے متعلق ہیں نہ تو اس قدر چھپایا ہے تکلف کی حدت تک پہنچ جائیں اور نہ اس قدر ظاہر کیا ہے کہ ایمان ایمان ہی نہ رہے اور اور کوئی فائدہ اس پر مترتب نہ ہو سکے۔باوجود ان ساری باتوں کے آج اسلام کے لئے خوشی کا دن ہے کہ معمورۂ عالم میں کوئی اس دن کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ اپنی روشن ہدایتوں اور عملی سچائیون کے ساتھ زندہ نشانات اور زندہ برکات کا ایک زبر دست معجزہ اپنے ساتھ رکھتا ہے جس کے مقابلہ کے کسی میں طاقت نہیں۔
یہ بات کہ اسلام اپنی پاک تعلیم اور اس کے زندہ نتائج کے ساتھ اس وقت معمورۂ عالم مین ممتاز ہے نرا دعویٰ ہی دعویٰ نہیں، بلکہ خداتعالیٰ نے اپنے بندے کے ذریعہ اس سچائی کو ثابت کر دیا ہے اور کل مذاہب و ملل کو دعوت حق کر کے اس نے بتادیاہے کہ فی الحقیقت اسلام ہی ایک زندہ ہے اور جسے ابھی تک شک ہو وہ میرے پاس آئے اور ان خوبیوںاور برکات کوخود مشاہدہ کرے مگر طالبِ صادق بن کر آئے نہ جلد باز معترض ہوکر ۔
آنحضرت صلّی اللہ علیہ وسلم کی بعثت۔آنحضرتﷺجس زمانہ میں دنیا میں ظاہر ہوئے اور خداتعالیٰ کے جلال اور گم گشتہ توحید کو زندہ کرنے کے لیے آپ مبعوث ہوئے ۔ اس زمانہ ہی کی حالت پر اگر کوئی سعادت مند سلیم الفطرت غور کن دل لیکر فکر کرے ، تو اس کو معلوم ہوگا کے آپ ؐکی سچائی پر ایک روشن دلیل ہے اور دانشمنداس وقت ہی کو دیکھ کر اقرار کرے اور معجزہ بھی طلب نہ کرے ۔
پادری فنڈ رصاحب نے اپنی کتاب ’’میزان الحق ‘‘میں سوال یہ کیاہے کہ کیاسبب ہے جو آنحضرت ﷺنے نبوت کادعویٰ کیا اور خداتعالیٰ نے ان کو نہ روکا ؟اس سوال کاپھر آپ جواب دیتاہے کہ اُس وقت چونکہ عیسائی بگڑگئے تھے اُن کے اخلاق اور اعمال بہت خراب تھے ۔ انھوں نے سچّی راست بازی کاطریق چھوڑدیاتھا۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے اُن کی تنبیہ کے لیے آنحضرت ﷺکو بھیجااور اس لیے آپؐنہ روکا۔اس سے یہ نادان عیسائی آنحضرت ﷺکی سچّائی کا تواعتراف نہیں کرتا، بلکہ معترض کی صورت میں اس کو پیش کرتاہے ۔
میں کہتا ہوں کہ کیا اس وقت کے حسبِ حال کسی مصلح کی ضرورت تھی یا یہ کہ ایک کا جو ایک ہاتھ کاٹا ہوا ہے تو دوسرا بھی کاٹا جاویجو بیمار ہے پتھر مار کر ماردیاجاوے ۔کیا یہ خداتعالیٰ کے رحم کے مناسب حال ہے ؟
اصل بات یہ کے اس وقت جیساکہ عیسائی تسلیم کرتے ہیں وہ تاریکی زمانہ تھا اور دیانندؔنے اپنی کتاب میں تسلیم کیاہے اورتاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ ہندوستا ن میں بت پر ستی ہو رہی تھی ۔ نہ صر ف ہندو ستا ن میں بلکہ کل معمورہ ٔ عا لم میں ایک خطر نا ک تا ریکی چھا ئی ہوئی تھی ،جس کا اعترا ف ہر قو م اور ملت کے موّرخو ں اور محققوںنے کیا ہے اب ایسی حا لت میں نبی کر یم ﷺکا و جو د با جو د بے ضرو رت نہ تھا۔بلکہ وہ کل دنیا کے لیے ایک رحمت کا نشا ن تھا :چنا چہ فر ما یا :۔
وَما َاَرْسَلْنٰک اِلَّارَحْمَتہ لِلْعٰلَمِیْنَ (الانبیاء:۱۰۸ )
یعنی اے نبی کر یم ہم نے تمھیں تما م عا لم پررحمت کے لیے بھیجاہے ۔آپکو تو کچھ معلو م نہ تھا کہ اس و قت آریاور ت کی کیا حا لت ہے اور کس خطر نا ک بت پر ستی کے غار میں گرا ہوا ہے ۔یہاں تک کہ انسا ن کی شر م گاہ کی پرستش بھی ان و ید ؔکے ماننے والو ں میںمرّو ج تھی اور نہ آ پ کو معلو م تھا کہ بلا د ِشا م کے عیسا ئیو ں کا کیا حا ل ہے وہ کس قسم کی انسا ن پر ستی میں مصروف ہوکر اخلاق اور اعمال صالحہ کے قیود سے نکل کر بالکل تاریک زندگی بسر کررہے تھے ۔اور نہ آپ کواس بات کاعلم تھا ۔ ایران،اور مصر میںکیا ہورہا؟غرض آپؐ توایک جنگل میں پیداہوئے تھے ۔ نہ اس وقت کوئی تاریخ مدون ہوئی تھی جو آپؐنے پڑھی ہوتی ۔ نہ کسی مدرسہ اور مکتب میںاپؐنے تعلیم پائی۔جو معلومات وسیع ہوتے اورنہ کوئی ذرائع لوگوںکے حالات معلوم کرنے کے تھے جیسے تار یا اخبار یا ڈاکخانے وغیرہ۔
آپؐ کو تو دنیاکے بگڑجانے کی اطلاع صرف خداتعالیٰ ہی کی طرف سے ملی۔جب یہ آیت اتری
ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ(الروم:۴۲)
یعنی دریا بھی بگڑ گئے اور جنگل بھی بگڑ گئے۔د ر یا ؤں سے مراد وہ لو گ ہیں جن کو پا نی دیا گیا یعنی شریعت اور کتا ب اللہ ملی اور جنگل سے مرا د وہ ہیں ،جن کو اس سے حصّہ نہیں ملا تھا۔ مطلب یہ ہے کہ اہلِ کتا ب بگڑ گئے اورمشرک بھی۔ الغر ض آپ کا زما نہ ایسا زمانہ تھا کہ دنیا میں تا ریکی پھیلی ہو ئی تھی۔
دلائل صدا قت اس و قت اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیدا کیا تاتاریکی کو دور کریں ۔ ایسے پر فتن زمانہ مین(کہ چاروں طر ف فسق و فجور کی ترقی تھی اور شر ک و دہر یت کا زور تھا کہ نہ اعتقاد ہی درست تھے اور نہ اعما ل ِصا لحہ اورنہ اخلا ق ہی با قی رہے تھے )آپؐ کا پیدا ہونا بجائے خود آپؐ کی سچا ئی اور منجا نب اللہ ہو نے کا ایک زبر دست ثبو ت ہے ۔ کا ش کوئی اس پتر غو ر کرے ۔عقلمند اور سلیم الفطر ت انسا ن ایسے وقت پر اآنے والے مصلح کی تکذیب کے لیے کبھی جلدی نہیںکر سکتا ۔ اور کم از کم اس کو اتنا تو اعتراف کرنا پڑتا ہے کہ یہ وقت پر آیا ہے ۔وباء طاعو ن اور ہیضہ کی شد ت کے وقت اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ میں ان کے علا ج کے لیے آیا ہوں ، کیا اس قدر تسلیم کر نا پڑے گا یہ شخص ضرو رت کے وقت پر آیا ہے؟ بیشک ماننا پڑے گا ۔اسی طر ح پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت کے لیے پہلی دلیل یہی ہے کہ آپ ؐ جس وقت تشریف لائے ، وہ وقت چاہتا تھا کہ مردے ازغیب بیرون آیدوکارے بکند۔اسی کی طر ف قرآن ِکر یم نے اس آیت میںاشا رہ کیا ہے :
بالحق انزلنا ہ و بالحق نزل( بنی اسرائیل:۱۰۶)
پس یاد رکھو کہ مامور من اللہ کی شناخت کی پہلی دلیل یہی ہوتی ہے کہ اس وقت اور موقع پر نگاہ کی جاوے کہ کیا اس وقت کسی مرد آسمانی کے آنے کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔
ایک شخص اگرنہروں کی موجودگی اور متعدد کنؤوں کے ہوتے ہوئے پھر ان میں ہی کنوا ں لگاتا ہے تو ماننا پڑے گا کہ اس نے خیر جاری کے لئے یہ کام کیا ہے ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جیسے جسمانی جنگل میں پیدا ہوئے ویسے ہی روحانی جنگل بھی تھا مکہ میں اگر جسمانی ا ور روحانی نہریں نہ تھیں تو دوسرے ملک روحانی نہر نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہو چکے تھے اور زمین مر چکی تھی جیسا کہ قرآن شریف فرماتا ہے
اعلموا ان اللہ یحی الارض بعد موتہا(الحدید:۱۸)
یعنی یہ بات تمہیںمعلوم ہے کہ زمین سب کی سب مر گئی تھی اب خدا تعالی نئے سرے سے زندہ کرتا ہے پس یہ زبر دست دلیل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کی کہ آپ ایسے وقت میں آئے کہ ساری دنیا عام طور پر بدکاریوں اور بداعتقادیوں میں مبتلا ہو چکی تھی اور حق و حقیقت اور توحید اور پاکیزگی سے خالی ہو گئی تھی۔پھر دوسری دلیل آپؐ کی سچائی کی یہ ہے کہ آپؐ ایسے وقت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف اُٹھا ئے گئے۔ جب وُہ اپنے فرضِ رسالت پورے طور پر ادا کر کے کامیاب اور بامُراد ہو چکے۔ حقیقت میں جیسے مامُور من اﷲ کے لیے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہوتا ہے کہ آیا وُہ وقت پر آیا ہے یا نہیں؟ یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ وہ کامیاب ہوا یا نہیں۔ اُس نے اُن بیماروں کو جن کے علاج کے لیے وُہ آیا، اچھّا بھی کیا یا نہیں ۱؎ ‘‘؟
عربوں کی اخلاقی اور روحانی حالت
زیادہ تفصیل کی اس مقام پر ضرورت نہیں،کیونکہ اس مجمع میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو بخوبی علم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب کا کیا حال تھا۔ کوئی بدی ایسی نہ تھی جو ان میں نہ پائی جاتی ہو۔ جیسے کوئی ہر صیغہ اور امتحان کو پاس کر کے کامل اُستاد ہر فن کا ہو جاتاہے۔ اسی طرح پر وہ بدیوں اور بدکاریوں میں ماہر اور پُورے تھے۔ شرابی،زانی،یتیموں کا مال کھانے والے، قمار باز۔ غرض ہر برائی میں سب سے بڑھے ہوئے تھے، بلکہ اپنی بدکاریوں پر فخر کرنیوالے تھے۔ اُن کا قول تھا۔
ماھی الا حیا تنا الدنیا نموت انحیا (الجاثیۃ: ۲۵)
ہماری زندگی اسی قدر ہے کہ یہاں ہی مرتے ہیں اور زندہ ہوتے ہیں۔حشر نشر کوئی چیز نہیں۔ قیامت کچھ نہیں۔ جنّت کیا ہے اور جہنّم کیا؟ قرآن شریف کے احکام جن بدیوں اور برائیوں سے روکتے ہیں وہ سب مجموعی طور پر ان میں موجود تھیں۔ان کی حالت کا یہ نقشہ ہے۔ جس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ وُہ کیا تھے۔ ایک موقع پر فرماتا ہے۔ یتمتعون ویاکلون (محمّد :۱۳) کھاتے ہیں اور تمتع اُٹھاتے ہیں یعنی اپنے پیٹ کی اور دوسری شہوات میں مبتلا اور اسیر ہیں۔ یاد رکھنا چاہیئے کہ جب انسان جذباتِ نفس اور دیگر شہوات میں اسیر اور مبتلا ہوجاتا ہے تو چونکہ وہ طبعی تقاضوںکو اخلاقی حالت میں نہیں لاتا اس لیے ان شہوات کی غلامی اور گرفتاری ہی اس کے لیے جہنّم ہو جتی ہے اور اُن ضرورتوںکے حصول میں مشکلات کا پیش آنا اس پر ایک خطرناک عذاب کی صورت ہو جاتی ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ جس حال میں ہیں گویا جہنّم میں مبتلا ہیں۔
قرآنِ مجید قصّوں کا مجموعہ نہیں
یہ بات ہر گز ہر گز بھُول جانے کے قابل نہیں ہے کہ قرآن شریف جو خاتم الکتب ہے۔در اصل قصّوں کا مجموعہ نہیں ہے۔ جن لوگوں نے اپنی غلط فہمی اور حق پوشی کی بناء پرقرآن شریف کو قصوں کا مجموعہ کہا ہے۔ اُنھوں نے حقائق شناس فطرت سے حصہ نہیں پایا؛ ورنہ اس پاک کتاب نے تو پہلے قصّوں کو بھی ایک فلسفہ بنا دیا ہے اور یہ اس کا احسانِ عظیم ہے، ساری کتابوں اور نبیوں پر؛ ورنہ آج ان باتوں پر ہنسی کی جاتی اور یہ بھی اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس علمی زمانہ میں جبکہ موجوداتِ عالم کے حقائق اور خواص الاشیاء کے علوم ترقی کر رہے ہیں۔ اس نے آسمانی علوم اور کشفِ حقائق کے لیے ایک سلسلہ کو قائم کیا۔ جس نے ان تمام باتوں کو جو فیج اعوج کے زمانہ میں ایک معمولی قصّوں سے بڑھ کر وقعت نہ رکھتی تھی اور اس سائنس کے زمانہ میں اُن پر ہنسی ہورہی تھی۔ علمی پیرایہ میں ایک فلسفہ کی صورت میں پیش کیا۔
بہشت ودوزخ کی حقیقت
پہلے زمانہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ بالکل خیالی اور سادہ طور پر بہشت و دوزخ کو رکھا گیا تھا۔ حضرت مسیحؑ نے پھانسی پانے والے چور کو یہ تو کہہ دیا کہ آج ہم بہشت میں جائیںگے،مگر بہشت کی حقیق پر کوئی نکتہ بیان نہ فرمایا۔ ہم اس وقت اس سوال کو سمنے لانے کی ضرورت نہیں سمجھتے کہ عیسائیوں کے انجیلی عقیدے اور بیان کے موافق وُہ بہشت میں گئے یا ہاویہ میں، بلکہ صرف یہ دکھانا ہے کہ بہشت کی حقیقت اُنھوں نے کچھ بیان نہیں کی۔ہاں یُوں تو عیسائیوں نے اپنے بہشت کی مساحت بھی کی ہوئی ہے۔ بر خلاف اس کے قرآن شریف کسی تعلیم کو قصّے کے رنگ میں پیش نہیں بلکہ وہ ہمیشہ ایک علمی صُورت میں اُسے پیش کرتا ہے۔ مثلاً اسی بہشت ودوزخ کے متعلق قرآن شریف فرماتا ہے۔ من کان می ھذہ اعمی فھوفی الاخرۃ اعمی (بنی اسرائیل : ۷۳) یعنی جو اس دُنیا میں اندھا ہے، وُہ آخرت میں بھی اندھا ہوگا۔ کیا مطلب کہ خدا تعالیٰ اور دُوسرے عالم کے لذّات کے دیکھنے کے لیے اسی جہان میں حواس اور آنکھیں ملتی ہیں۔ جس کو اس جہاں میں نہیں ملیں، اس کو وہاں بھی نہیں ملیں گے۔ اب یہ امر انسان کو اس طرف متّوجہ کرتا ہے کہ انسان کا فرض نے کہ وہ اِن حواس اور آنکھوں کے حاصل کرنے کے واسطے اسی عالم میں کوشش اور سعی کرے تاکہ دُوسرے عالم میں بینا اُٹھے۔ ایسا ہی عذاب کی حقیقت اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے قرآن شریف فرماتا ہے۔ ناراﷲالموقدۃ التی تطلع علی الافئدۃ (الھمزۃ : ۷،۸) یعنی اﷲ تعالیٰ کا عذاب ایک آگ ہے۔ جس کو وُہ بھڑکاتا ہے اور انسان کے دل ہی پر اس کا شعلہ بھڑکتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عذابِ الٰہی اور جہنّم کی اصل جڑ انسان کا اپنا ہی دل ہے اور دل کے ناپاک خیالات اور گندے ارادے اور عزم اس جہنّمکا ایندھن ہیں۔ اور پھر بہشت کے انعامات کے متعلق نیک لوگوں کی تعریف میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے : یفجرو نہا تفجیرا (الدّھر : ۷) یعنی اس جگہ نہریں نکال رہے ہیں ۔اور پھر دُوسری جگہ مومنوں اور اعمالِ صالحہ کرنیوالوں کی جزاء کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے : جنت تجری من تحتھا الانہار اب میں پُوچھتا ہوں کہ کیا کوئی ان باتوں کو قصّہ قرار دے سکتا ہے۔ یہ کیسی سچّی بات ہے۔ جو یہاں آبپاشی کرتے ہیں وہی پھَل کھائیں گے ۔ غرض قرآن شریف اپنی ساری تعلیموں کو علوم کی صورت ور فلسفہ کے رنگ میں پیش کرتا ہے اور یہ زمانہ جس میں خدا تعالیٰ نے ان علوم حقہ کی تبلیع کے لیے اِس سلسلہ کو خود قائم کیا ہے۔ کشفِ حقائق کا زمانہ ہے۔
پس یاد رکھنے چاہیے کہ قرآن شریف نے پہلی کتابوں اور نبیوں پر احسان کیا ہے۔ جو اِن کی تعلیموں کو جو قصّہ کے رنگ میں تھیں۔ علمی رنگ دیدیا ہے۔میں سچ سچ کہتا ہوں کہ کوئی شخص ان قصّوں اور کہانیوں سے نجات نہیں پاسکتا جبتک وہ قرآن شریف کو نہ پڑھے، کیونکہ قرآن شریف ہی کی یہ شان ہے کہ وُہ
انہ لقول فصل وما ھو بالھزل (الطارق : ۱۴،۱۵)
وُہ میزان ،مہیمن، نُور اور شفاء اور رحمت ہے۔ جو لوگ قرآن شریف کو پڑھتے اور اُسے قصّہ سمجھتے ہیں۔ اِنھوں نے قرآن شریف نہیں پڑھا، بلکہ اس کی بے حُرمتی کی ہے۔ ہمارے مخالف کیوں ہماری مخالفت میں اس قدر تیز ہوئے ہیں؟ صرف اسی لیے کہ ہم قرآن شریف کو جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ سراسر نور، حکمت اور معرفت ہے، دکھا نا چاہتے ہیں۔ اور وُہ کوشش کرتے ہیں کہ قرآن شریف کو ایک معمولی قصّے سے بڑھ کر وقعت نہ دیں۔ ہم اس کو گوارا نہیں کر سکتے۔ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہم پر کھول دیا ہے کہ قرآن شریف ایک زندہ اور روشن کتاب ہے۔ اس لیے ہم ان کی مخالفت کی کیوں پروا کریں۔ غرض میں بار باراس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ن یاس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لیے قائم کیا ہے کیونکہ بدُوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نُور پیدا نہیں ہوسکتا ۔ اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خُوبی دنیا پر ظاہر ہو۔ جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لیے مامُور کیا ہے۔ اس لیے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر۔
اب میں پھر اصل مطلب کی طرف رجُوع کر کے کہتا ہوں کہ قرآن شریف نے بہشت اور دوزخ کی جو حقیقت بیان کی ہے کسی دوسری کتاب نے بیان نہیں کی۔ اس نے صاف طور پر ظاہر کر دیا کہ اسی دُنیا سے یہ سلسلہ جاری ہوتا ہے؛ چنانچہ فرمایا ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمٰن : ۴۷) یعنی جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا۔ اس کے واسطے دو بہشت ہیں۔ یعنی ایک بہشت تو اسی دُنیا میں مل جاتا ہے، کیونکہ خدا تعالیٰ کا خوف اُس کو برائیوں سے روکتا ہے اور بدیوں کی طرف دوڑنا دل میں ایک اضطراب اور قلق پیدا کرتا ہے۔ جو بجائے خود ایک خطرباک جہنّم ہے، لیکن جو شخص خدا کا خوف کھاتا ہے تو وہ بدیوں سے پرہیز کرکے اس عذاب اور درد سے دم ِ نقد بچ جاتا ہے جو شہوات اور جذباتِ نفسانی کی غلامی اور اسیری سے پیدا ہوتا ہے اور و۲ہ وفاداری اور خدا کی طرف جھکنے میں ترقی کرتا ہے جس سے ایک لذّت اور سرور اُسے دیا جاتا ہے اور یُوں بہشتی زندگی اِسی دنیا سے اُس کے لیے شروع ہو جاتی ہے اور اسی طرح پر اس کے خلاف کرنے سے جہنّمی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بیان کر دیا ہے۔
اس وقت میرا صرف یہ مطلب ہے کہ میں اس دوسری دلیل کی طرف تمہیں متوّجہ کروں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوّت پر خدا تعالیٰ نے دی ہے یعنی یہ کہ آپؐ جس کام کے لیے آئے تھے، اس میں پُورے کامیاب ہو گئے۔میں نے بتایا ہے کہ جب آپؐ تشریف لائے تو آپؐ نے ہزار ہا مریضوں کو مرض کے آخری درجہ میں پایا۔ جو اُن کی موت تک پہنچ گیا تھا، بلکہ حقیقت میں وہ مر ہی چکے تھے جیسا کہ اس وقت کی تاریخ کے پتہ سے معلوم ہوتا ہے۔ پھر انصافاً کوئی سوچے کہ اپنے خدمت گار کے عیب دور نہیں کر سکتے تو جو شخص ایک بگڑی ہوئی قوم کی ایسی اصلاح کر دے کہ گویا وُہ عیب اُس میں تھے ہی نہیں تو اس سے بڑھ کر اس کی صداقت کی اور کیا دلیل ہو سکتی ہے؟
افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلماتوں نے اس طرف توجّہ نہیں کی؛ ورنہ یہ ایسے روشن دلائل ہیں کہ دوسرے نبیوں میں اُس کے نظائر بہت ہی کم ملیں گے۔ مثلاً جب ہم آپؐ کے بالمقابل حضرت مسیحؑ کو دیکھتے ہیں، تو کسقدر افسوس ہوتا ہے کہ وہ چند حواریوں کی بھی کامل اصلاح نہ کر سکے اور ہمیشہ اُن کو سُست اعتقاد کہتے رہے۔ یہانتک کہ بعض کو شیطان بھی کہا۔ وہ ایسے لالچی تھے کہ یہودا اسکریوطی جو مسیح کا خزانچی تھا۔ بسااوقات اس تھیلی میں سے جو اُس کے پاس رہا کرتی تھی۔ کبھی کبھی چُرا بھی لیا کرتا تھا۔ آخر اسی لالچ نے اُسے مجبور کیا کہ وہ تیس درہم لیکر اپنے اُستاد اور مُرشد کو گرفتار کرادے۔ اِدھر جب نبی کیم س کے صحابہؓ کی طرف دیکھتے ہیں تو اُنہوں نے اپنیجانیں دے دینی آسان سمجھیں، بجائے اس کے کہ اُن میں گدّاری کا باپاک حصّہ پایا جاتا۔ یُورپین موّرخوں تک کو اس امر کا اعتراف کرنا پڑا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں جو اُنس و فاداری اور اطاعت اپنے ہادی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھٰ اس کی نظیر کسی دوسرے نبیوں کے متبیعین میں نہیں ملتی ہے۔ خصوصاً مسیح علیہ السلام تو اس مقابل میں بالکل تہی دست ہیں ۔ اب جبکہ اس قدر غلو اُن کی شان میں کیا گیا ہے اور باوجود کمزوریوں کی ان مثالوں اور واقعات کے ہوتے ہوئے جو انجیلؔ میں موجود ہیں، اُن کو خدا بنایا گیا ہے۔ ان کی قوتِ قدسی اور جذب وکشش کا یہ نمونہ پیش کیاگیا ہے کہ وہ چند حواریوں کو بھٰ دُرست نہ کر سکے، تو اور اُن سے کیا اُمّید ہوسکتی ہے۔ عیسائی جب حواریوں کی اعتقادی اور عملی کمزوریوں کا کوئی جواب نہیں دے سکتے، تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ مسیحؑ کے بعد اُن میں قوت اور طاقت آگئی تھی اور وُہ کامل نمونہ ہوگئے تھے، مگر یہ جواب کیسا مضحکہ خیز اور عذرِ گناہ بد تر از گناہ کا مِصداق ہے۔ کہ چراغ کی موجودگی میں تو کوئی روشنی نہیں۔ چراغ کے بُجھ جانے کے بعد روشنی ہوگئی۔ کیا خُوب!!!
ایک نبی کے سامنے تو وہ پاک وصاف نہ ہو سکے۔ اس کے بعد ہو گئے؟ اس سے تو معلوم ہوا کہ مسیح اپنی قوتِ قُدسی کے لحاط سے اور بھی کمزور اور ناتواں تھا۔ معاذاﷲ یہ ایک نحوست تھی کہ جبتک حواریوں کے سامنے رہی وُہ پاک نہ ہو سکے اور جب اُٹھ گئی، تو پھر رُوح القدس سے معمور ہو گئے۔ تعجّب!!
بہت سے انگریزمصنّفوں نے بھی اِس مضمون پر قلم اُٹھایا ہے اور رائے ظاہر کی ہے کہ مسیح نے ایک گروہ پایا تھا جو پہلے سے توریت کے مقاصد پر اطلاع پاچکے تھے اور فقیہوں فریسیوں سے خدا کی باتیں سُنتے تھے۔ اگر وُہ راستبازی اور پاکباز ہوتے تو کوئی تعجّب کی بات نہ تھی اور چودہ سو برس تک لگاتار ان میں وقتاً فوقتاً نبی اور رسول آتے رہے، جو خدا کے احکام اور حدود سے انہیں اطلاع دیتے رہے۔ گویا اُن کے نُطفہ میں رکھا ہوا تھا کہ وُہ خدا کو مانیں اور خدا کے حدود کی عظمت کریں اور بدکاری سے بچیں۔ پھر کیونکر ممکن تھا کہ وہ اس تعلیم سے جو مسیح انہیں دینے چاہتا تھا۔ بے خبر ہوتے۔
مسیح اگر انہیں دُرست بھی کر دیتے تب بھی یہ کوئی بڑی قابل تعریف بات نہ تھی، کیونکہ ایک طبیب کے کامل علاج کے بعد اگر کوئی دوسرا اچھّا کردے، تو یہ خوبی کی بات نہیں۔ اس لیے بفرضِ محال اگر مسیح نے کوئی فائدہ پہنچایا بھی ہو تو بھی یہ کوئی قابل تعریف بات نہیںہے، لیکن افسوس ہے کہ یہاں کسی فائدہ کی نظیر بھی نظر نہیں آتی۔ یہودؔ نے تیس روپیہ لے کر اُستاد کو بیچ لیا اور پطرسؔ نے سامنے کھڑے ہو کر *** کی اور دوسری طرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے اُحد اور بدر میں آپؐ کے سامنے سَر دیدیئے۔ اب انصاف کا مقام ہے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ آئے ہوتے اور قرآنِ شریف نہ ہوتا تو ایسے نبی کی بابت کیا کہتے جس کی تعلیم اور قوتِ قُدسی کے نمونے یہودؔ ا اسکریوطی اور پطرسؔ ہیں۔
قوتِ قدسی کا یہ حال اور تعلیم ایسی اُدھوری اور ناقص کہ کوئی دانشمند اُسے کامل نہیں کہہ سکتا اور نہ صرف یہی بلکہ انسان کی تمدّنی، معاشرنی اور سیاسی زندگی کو اُس سے کوئی تعلّق ہی نہیں اور پھر لُطف یہ کہ اُس کے کوئی تاثیرات باقی نہیں ہیں۔
دعویٰ ایسا کیا کہ عقل، کانشنس، قانُونِ قدرت اور متقدمین کے عقائد اور مسلّمات کے صریح خلاف۔ ان انگریز مصنّفوں کو اقرار کرنا پڑا ہے کہ اگر قرآن نہ آتا، تو بہت بری حالت ہوتی۔ اُنہوں نے اِعتراف کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں، وحشیوں کو دُرست کیا اور پھر ایسے صادق اور وفادار لوگ تیار کیے کہ اُنہوں نے اس کی رفاقت میں کبھی اپنے جان ومال کی بھی پرواہ نہیں کی۔ اِس قسم کی وفاداری اوراطاعت، اِیثاراور جانثاری پیدا نہیں ہوسکتی جبتک مقتدا اور متبوع میں اعلیٰ درجہ کی قوتِ قدسی اور جذب نہ ہو۔ پھر لکھتا ہے کہ عربوں کو سچّی راستبازی ہی نہ سکھائی گئی تھی، بلکہ اُن کی دماغی قوتوں کی بھی تربیّت کی تھی۔ حواری تو ایک گائوں کا بھی انتظام نہ کرسکتے تھے، مگر صحانہؓ نے دُنیا کا انتظام کر کے دکھا دیا۔کون کہہ سکتا ہے کہ ابو بکر اور عمر رضی اﷲ عنہما کے والدین نے حکومت اور سلطنت کی تھی اور اس لیے وہ انتظامِ ملک داری اور قوانینِ سیاست سے آگاہ تھے۔ نہیں۔ہرگز نہیں۔ یہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیّت اور قرآن شریف کی کامل تعلیم کا نتیجہ تھا کہ ایک طرف اُس نے اُن کو فرشتے بنادیا اور دوسری طرف وہ عقلِ مجسّم ہوگئے ؎ٰ۔
یہ کیسی بدیہی اور صاف بات ہے کہ ایک طبیب اگر ناقابل علاج مریضوں کو اچھّا کر دے، تو اس کو طبیب حاذق ماننا پڑیگااور جو اس پر بھی اس کی حذاقت کا اقرارنہ کرے، اس کو بجز احمق اور نادان کے اور کیا کہیںگے۔ اسی طرح پر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاکھوں مریضانِ گناہ کو اچھّا کیا؛ حالانکہ ان مریضوں میں سے ہر ایک بجائے خود ہزار ہا قسم کی روحانی بیماریوں کا مجموعہ اور مریض تھا۔جیسے کوئی بیمار کہے سَر درد بھی ہے۔ نزول ہے۔ استسقاء ہے۔ وجع المفاصل ہے۔ طحال ہے۔ وغیرہ وغیرہ تو جو طبیب ایسے مریض کا علاج کرتا ہے اور اس کو تندرست بنا دیتا ہے۔ اس کی تشخیص اور علاج کو صحیح اور حکمی ماننے کے سواچارہ نہیں ہے۔ ایسا ہی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو اچھّا کیا اُن میں ہزاروں روحانی امراض تھے۔جس قدر اُن کی کمزوریوں اور گناھ کی حالتوں کا تصور کر کے پھر اُن کی اسلامی حالت میں تغیّر اور تبدیلی کو ہم دیکھتے ہیں۔ اسی قدر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزّت اور قوت قدسی کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ ضد اور تعصب ایک الگ امر ہے جو اپنی تاریکی کی وجہ سے سچائی کے نور کو دیکھنے کی قوت کو سلب کر دیتا ہے، لیکن اگر کوئی دل انصاف سے خالی نہیں اور کوئی سرعقلِ صحیح سے حصہ رکھنے والا ہے تو اس کو صاف اقرار کرنا پڑیگا کہ آپؐ سے بڑہ کر عظیم الشان پاکیزگی کی طرف تبدیلی کرا دینے والا انسان دنیا مین نہین گذرا۔ اللہم صل علی محمد وآلہ۔
اب بالمقابل ہم پُوچھتے ہیں کہ مسیح نے کس کا علاج کیا؟ اُنہوں نے اپنی روحانیت اور عقدِ ہمّت اور قوتِ قُدسی کا کیا کرشمہ دکھایا؟
زبانی باتیں بنانے سے تو کچھ فائدہ نہیں جبتک عملی رنگ میں اُن کا نمونہ نہ دکھایا جاوے جبکہ اس قدر مبالغہ اُن کی شان میں کیا گیا ہے کہ بایں ضُعف و ناتوانی اُن کو خدا کا منصب دیدیا گیا ہے۔ تو چاہیے تو یہ تھا کہ اُن کی عام رحمت اپنا اثر دکھاتی اور اقتداری قوت کوئی نیا نمونہ پیش کرتی کہ گناہ کی زندگی پر دنیا میں موت آجاتی اور فرشتوں کی زندگی بسر کرنے والوں سے دُنیا معمور ہو جاتی، مگر یہ کیا ہو گیا کہ چند خاص آدمی بھی جو آپ کی صحبت میں ہمیشہ رہتے تھے، دُرست نہ ہو سکے۔
عیسائی اپنے خدا یُسوع کا مقابلہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کرنے بیٹھ جاتے ہیں، مگر تعجّب ہے کہ انہیں شرم نہیں آتی کہ وُہ اس طرز پر کبھی ایک قدم بھی چلنا گوارا نہیں کرتے۔ اور اس طریق پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا مقابلہ کریں، تو اُنہیں معلوم ہو جاوے۔
یا درکھو کہ نبی تخلقوا باخلاق اللہ ثابت کرنے کے لئے آتے ہیں۔اوراپنی عملی حالت سے دکھا دیتے ہیں کہ وہ اخلاق اللہ کا پورا نمونہ ہیں ۔اور یہ تو ظاہر ہے کہ دنیا میں جس قدر اشیاء خدا تعالی نے پیدا کی ہیں وہ سب کی سب کسی نہ کسی پہلو سے انسان کے لئے مفید ہیں جیسے درخت بنایا ہے اس کے پتے اور اس کا سایہ اور اس کی چھال اس کی لکڑی اس کا پھل غرض اس کے سارے حصے کسی نہ کسی رنگ میں انسان کے لئے فائدہ بخش ہیں سورج کی روشنی سے انسان کو بہت سے فائدحاصل کرتا ہے اور اسی طرح پر تمام چیزیں ہیں جو انسان کے لئے مفید اور نفع رساں ہیں مگر ہم کو عیسائیوں کی حالت پر افسوس آتا ہے کہ انہوں نے ایک عاجز انسان کو خدا اور خدا کا بیٹا بھی قرار دیا ہے مگراس کا کوئی فائدہ دنیا پر ثابت نہیں کر سکتے اور کوئی اس کی مقتدرانہ تجلی کا نمونہ ان کے ہاتھ میں نظر نہیں آتا چاہئے تو یہ تھا کہ ان کا ابن اللہ اگر پدر نتواند پسر تمام کند کا مصداق ہوتا مگر جب اس کی سوانح عمری پر غور کرتے ہیں تو ہمیں افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ا س نے کچھ بھی نہیں کیا نری خود کشی اور دوسروں کی مصبیت دیکھ کر اپنی جان پر کھیل جانا یہ کیا دانشمندی اور مصلحت ہے اور اس سے ان مصیبت زدوں کو کیا فائدہ ؟
انصاف اور ایمان کا تقاضا تو یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں مسیح کو بالکل ناکامیاب ماننا پڑتا ہے کیونکہ اصل بات یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جس قسم کا موقعہ ملا ہے مسیح کو نہیں ملا اور یہ ان کی بدقسمتی ہے کہ یہی وجہ کہ مسیح کو کامل نمونہ ہم کہہ نہیں سکتے انسان کے ایمان کی تکمیل کے دو پہلو ہوتے ہیں اول یہ دیکھنا چاہئے کہ جب وہ مصائب کا تختۂ مشق ہو اس وقت خدا تعالی سے کیسا تعلق رکھتا ہے ؟کیا وہ صدق ،اخلاص ،استقلال ، اور سچی وفاداری کے ساتھ ان مصائب پر انشراح صدر سے اللہ تعالی کی رضا کو تسلیم کرتا ہے اورا س کی حمد و ستائش کرتا ہے یا شکوہ و شکایت کرتا ہے اور دوسرے جب اس کو عروج حاصل ہو اور اس کے اقبال کو فروغ ملے تو کیا اقتداراور اقبال کی حالت میں وہ خدا ئے تعالی کو بھول جاتا ہے اور اسکی حالت میں کوئی قابل اعتراض تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔یا اسی طرح خداتعالی سے تعلق رکھتا ا ورا س کی حمد وستائش کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو عفو کرتا اور ان پر احسان کر کے اپنی عالی ظرفی اور بلند ہوصلگی کا ثبوت دیتا ہے۔
مثلا ایک شخض کو کسی نے مارا ہے اگر وہ اس پر قادر ہی نہیں ہوا کہ کہ اس کو سزا دے سکے اور اپنا انتقام لے پھر بھی وہ یہ کہے کہ دیکھومیں نے اس کو کچھ بھی نہیں کہا تو یہ بات اخلاق میں داخل نہیں ہوسکتی اور اس کا نام بردباری اور تحمل نہیں رکھ سکتے کیونکہ اسے قدرت ہی حاصل نہیں ہوئی بلکہ ایسی حالت ہے کہ گالی کے صدمہ سے بھی رو پڑے تو یہ ستر بی بی از بے چادری کا معاملہ ہے اس کو اخلاق اور بردباری سے کیا تعلق ۔
مسیح کے اخلاق کا نمونہ بھی اسی قسم کا ہے اگر انہیں کوئی اقتداری قوت ملتی اور اپنے دشمنوں کا انتقام لینے کی توفیق انہیں ہوتی پھر اگر وہ اپنے دشمنو ں سے پیار کرتے اور ان کی خطائیں بخش دیتے تو بے شک ہم تسلیم کر لیتے کہ ہاں انہوں نے اپنے اخلاق فاضلہ کا نمونہ دکھایا ہے لیکن جب یہ موقعہ ہی ان کو نہیں ملا تو تو پھر انہیں اخلاق کا نمونہ ٹھہرانا صریح بے حیائی ہے ۔جب تک یہ دونوں پہلو نہ ہوں خلق کا ثبوت نہیں ہو سکتا۔اب مقابلے میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوکہ جب مکہ والوں نے آپؐ کو نکالا اور تیرہ برس تک ہر قسم کی تکلیفیں آپ ؐ کو پہنچاتے رہے آپ ؐکے صحابہ کو سخت سخت تکلیفیں دیں جن کے تصور سے بھی دل کانپ جاتا ہے۔ اس وقت جیسے صبر اور برداشت سے کام آپ نے لیا وہ ظاہر بات ہے ۔لیکن جب خدا تعالی کے حکم سے آپؐ نے ہجرت کی اور پھر فتح مکہ کا موقع ملا تو اس وقت ان تکالیف اور مصائب اور سختیوں کا خیال کر کے جو مکہ والوں نے آپؐ اور آپ ؐکی جماعت پر کی تھیںآپؐ کو حق پہنچتا تھا کہ قتل عام کر کے مکہ والوں کو تباہ کر دیتے اور اس قتل میں کوئی مخالف بھی آپؐ پر اعتراض نہیں کر سکتا تھا ، کیوں کہ ان تکالیف کے لئے وہ واجب القتل ہو چکے تھے اس لئے اگر آپ میں قوت غضبی ہوتی تو وہ بڑا عجیب موقع انتقام کا تھا کہ وہ سب گرفتار ہو چکے تھے مگر آپ نے کیا کیا ؟ آپ نے سب کو چھوڑ دیا اور کہا
لا تثریب علیکم الیوم۔
یہ چھوٹی سی بات نہیں ہے مکہ کے مصائب اور تکالیف کا نظارہ کو دیکھو کہ قوت و طاقت کے ہوتے ہوئے کس طرح اپنے جانستاں دشمنوں کو معاف کیا جاتا ہے یہ ہے نمونہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا جس کی نظیر دنیا میں پائی نہیں جاتی۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ مکہ والوں نے آپ کی نری تکذیب نہیں کی تھی ۔نری تکذیب سے جو محض سادگی کی بناء پر ہوتی ہے کہ اس دنیا میں اللہ تعالی سزائیں نہیں دیتا ہے لیکن جب مکذب شرافت اور انسانیت سے دور نکل کر بے حیائی اور دریدہ دہنی سے اعتراض کرتا ہے اور اعتراضوں ہی حد تک نہیں رہتا بلکہ ہر قسم کی ایذا دہی اور تکلیف رسانی کے منصوبے کرتا ہے اور پھر اس کو اس حدتک پہنچاتا ہے توا للہ تعالی کی غیرت جوش میں آتی ہے اور اپنے مامور اور مرسل کے لئے وہ ان ظالموں کو ہلاک کردیتا ہے ، جیسے نوح کی قوم کو ہلاک کیا یا لوط کی قوم کو اس قسم کے عذاب ہمیشہ ان شرارتوں اور مظالم کی وجہ سے آتے ہیں جو خدا کے ماموروں اور ان کی جماعت پر کئے جاتے ہیں ؛ورنہ نری تکذیب کی سزا اس عالم میں نہیں دی جاتی اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور اس نے ایک او ر عالم عذاب کے لئے رکھاہے ۔ عذاب جو آتے ہیں وہ تکذیب کو ایذا کے درجے تک پہنچانے سے آتے ہیں اور تکذیب کو استہزاء اور ٹھٹھے کے رنگ میں کر دینے سے آتے ہیں اگر نرمی اور شرافت سے یہ کہا جاوے کہ میں نے اس معاملہ کو سمجھا نہیں اس لئے مجھے اس کے ماننے میں تامل ہے تو یہ انکار عذاب کو کھینچ لانے والا نہیں ہے کیونکہ یہ تو صرف سادگی اور کمی علم کی وجہ سے ہے میں سچ کہتا ہوں کہا گر نوح کی قوم کا اعتراض شریفانہ رنگ میں ہوتا توا للہ تعالی نہ پکڑتا ساری قومیں اپنی کرتوتوں کی پاداش میں سزا پاتی ہیں۔خدا تعالیٰ نے تویہاں تک فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن سننے کے منکر ہوں اس کے لئے اسلام میں جبر و اکراہ نہیں جیسے فرمایا:
لا اکراہ فی الدین( البقرہ:۲۵۷)
لیکن اگر کوئی قتل کرے گا یا قتل کے منصوبے کرے گا اور شرارتیں اور ایذا رسانی کی سعی کرتا ہے تو ضرورہے کہ وہ سزا پاوے ۔ قاعدے کی بات ہے کہ مجرمانہ حرکات پر ہر ایک پکڑا جاتا ہے پس مکہ والے بھی اپنی شرارتوں اور مجرمانہ حرکات کے باعث اس قابل تھے کہ ان کو سخت سزائیں دی جاتیں اور ان کے وجود سے ارض مقدس اور اس کے گردونواح کو صاف کر دیا جاتا مگر یہ رحمۃ للعالمیں اور
انک لعلی خلق عظیم
کا مصداق اپنے واجب القتل دشمنو ں کو بھی پوری قوت اور مقدرت کے ہوتے ہوئے کہتا ہے
لا تثریب علیکم الیوم
اب پادری ہمیں بتائیں کہ مسیح کے اس خلق کو ہم کہاں ڈھونڈیں ؟ ان کی زندگی میں آپؐ کا نمونہ کہاں سے لائیں جب کہ وہ ان کے عقیدے کے موافق ماریں ہی کھاتا رہا۔اور جس کو سر رکھنے کی جگہ نہ ملی ۔( اگر ہمارا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ ہم خدا کے ایک نبی اور مامور کی نسبت یہ گمان کریں کہ وہ ایسا ذلیل اور مفلوک الحال تھا) انسان کا سب سے بڑا نشان اس کا خلق ہے لیکن ایک گال پر طمانچہ کھا کر دوسری پھیر دینے کی تعلیم دینے والے معلم کی عملی حالت میں اس خلق کا ہمیں کوئی پتہ نہیں لگتا ۔
دوسروں کو کہتا ہے کہ گالی نہ دو مگر یہودیوں کے مقدس فریسیوں اور فقیہوں کو حرامکار , سانپ کے بچے آپ ہی کہتا ہے ۔یہودیوں کے بالمقابل اخلاق پائے جاتے ہیں وہ اسے نیک استاد کہہ کر پکارتے ہیں۔ اور یہ ان کو حرام کار کہتے ہیں اور کتوں اور سؤروں سے تشبیہہ دیتے ہیں۔ باوجودیکہ وہ فقیہہ اور فریسی نرم نرم الفاظ میں کچھ پوچھتے ہیں۔اور وہ دنیوی وجاہت کے لحاظ سے بھی رومی حکومت میں کرسی نشین تھے۔ ان کے مقابلے کے سوالوں کا جواب تو بہت نرمی سے دینا چاہئیے تھا اور خوب ان کو سمجھانا چاہئے تھا؛ حالانکہ یہ بجائے سمجھانے کے گالی پر گالی دیتے چلے جاتے ہیں کیا اس کا نام اخلاق ہے میں بار بار کہتا ہوں کہ اگر قرآن شریف نہ ہوتا اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ آئے ہوتے تو مسیح کی خدائی اور نبوت تو ایک طرف شاید کوئی دانشمند ان کوکوئی عالی خیال اور وسیع الاخلاق انسان ماننے میں بھی تامل کرتا یہ قرآن شریف کا ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان عام ہے تمام نبیوں پر اور خصوصا مسیح پر کہ اس نے ان کی نبوت کا خود ثبوت دیا۔
پھر ایک اور پہلو سے بھی مسیح کی خدائی کی پڑتال کرنی چاہئے کہ اخلاقی حالت تو خیر یہ تھی ہی کہ یہود کے معزز بزرگوں کا آپ گالیاں دیتے تھے لیکن جب ایک وقت قابو آگئے تو اس قدر دعا کی کہ جس کی کوئی حد نہیں مگر افسوس سے دیکھا جاتا ہے کہ وہ ساری رات کی دعاجیسا کہ عیسائیوں کے عقیدے کے موافق بالکل رد ہو گئی اور اس کا کوئی بھی نتیجہ نہ ہوا؛اگرچہ خدا کی شان کے ہی یہ خلاف تھا کہ وہ دعا کرتے چاہئے تو یہ تھا اپنی اقتداری قوت کا کوئی کرشمہ اس وقت دکھا دیتے جس سے بیچارے یہود اقرار اور تسلیم کے سوا کوئی چارہ ہی نہ دیکھتے مگر یہاں الٹا اثر ہو رہا ہے اور
او خود گم است کرا رہبری کند
کا معاملہ نظر آتا ہے ۔ دعائیں کرتے ہیں چیختے چلاتے ہیں مگر افسوس وہ دعا سنی نہیں جاتی اور موت کا پیالہ جو صلیب کی *** کے زہر سے لبریز ہے ، نہیں ملتا اب کوئی اس خدا سے کیا پائے گا جو خود مانگتا ہے اور اسے دیانہیں جاتا۔ ایک طرف طرف تو تعلیم دیتا کہ جو مانگو سو ملے گا دوسری طرف خود اپنی ناکامی اور نامرادی کا نمونہ دکھاتا ہے اب انصاف سے ہمیں کوئی بتائے کہ کسی پادری کوکیا تسلی اور اطمینان خدائے ناکام میں مل سکتا ہے؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کامل نمونہ ہیں
غرض جس پہلو سے مسیح کا مقابلہ آنحضرت سے بایںدعویٰ خدائی کیا جاوے تو صاف نظر آتاہے کہ مسیح کو آپ ؐسے کوئی نسبت ہی نہیں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ایک عظیم الشان کامیاب زندگی ہے ۔
آپ کیابلحاظ اپنے اخلاق فاضلہ کہ اور کیابلحاظ اپنے کامل نمونہ اور دعائوںکی قبولیت کے غرض ہرطرح ہر پہلومیںچمکتے ہوئے شواہد اور آیات اپنے ساتھ رکھتے ہیں کہ جن کو دیکھ کرغبی سے غبی انسان بھی بشرطیکہ اُس کے دل میںبیجاضد اور عداوت نہ ہو ۔ صاف طور پر مان لیتاہے کہ آپؐ تَخَلَّمُّوْابِاَخْلَاقِ اللّٰہِ کاکامل نمونہ اور کامل انسا ن ہیں، لیکن جب کوئی مسیح کے حا لات پر نظر کرتاہے ۔تو ایک دانشمند اور منصف مزاج انسان کو تامل ہوتاہے کہ ایک ایسے انسان کو جو مہذّب اورشریفانہ باتوںکاجواب گالی سے دیتاہے ،نیک اُستاد کہنے والوںکوسانپ اور سانپ کے بچّے اور حرامکار کہتاہے ۔خداتوایک طرف نبی ہی تسلیم کرے۔
مسیح پر ایمان لانے میںیہودکی مشکلات
ان ساری باتوںکے علاوہ یہود کو ایک بڑی عجیب مشکل درپیش تھی ۔ جس میںبظاہر وہ حق پرہوسکتے ہیں ۔اور وہ یہ تھی کہ ملاکیؔنبی کی کتاب میںوہ پڑھ چکے تھے مسیحؑ کے آنے کے آنے سے پہلے ایلیاؔکاآسمان سے اُترناضروری ہے ۔جب تک وہ نہ آوے مسیح نہ آوے گا ۔اب اُن کے سامنے کسی کے دوبارہ آنے کی نظیر موجود نہیں اورایلیاؔکاآسمان سے اُترنا وہ اپنی کتابوںمیںپڑھتے آئے تھے ۔اُنھوںنے ایلیاؔکو آتے دیکھانہیں ۔مسیح نے آنے کادعویٰ۔اُسے تسلیم کریں ،تو کیونکر ۔مسیح نے جو فیصلہ ایلیاؔکے آنے کا کیاکہ وہ یوحنّاؔکے رنگ میںآگیا یہودیوںکے پاس بظاہر اس کے انکار کے لیے وجوہات تھیں، کیونکہ اُن کو ایلیاؔکا وعدہ دیاگیا تھا، نہ مثیل ایلیاؔکا۔اور اس سے پہلے کوئی واقعہ اس قسم کا نہ ہواتھا ۔اس لیے اُن کو مسیح کاانکار کرناپڑا ۔
ایک یہودی کی کتاب میرے پاس موجود ہے ۔اُس نے بڑے زور سے اس بات پربحث کی ہے اور پھر اپیل کرتاہے کے بتائو ایسی صورت میںہم کیا کریں ۔ بلکہ اُس نے یہاںتک لکھاہے کہ اگر خداتعالیٰ ہمیںاس کے متعلق بازپرس کرے گا ، ہم ملا کی نبی کی کتاب کھول کر اُسکے سامنے رکھ دیںگے۔
غرض ایک مشکل تو یہودیوں کو یہ پیش آئی کہ مسیح مصلوب ہوگیا اور صلیب کی *** نے ان کے کذب پر ایک اور رنگ چڑھادیا ۔کیونکہ وہ توریتؔمیںپڑھ چکے تھے کے جھوٹانبی صلیب پر لٹکایاجاتاہے اوروہ مُلعون ہوتاہے ۔پس اُنھوںنے یہ خیال کیا کہ ایک طرف تو ایلیاؔآیانہیں اور یہ مسیح ہونے کامدعی ہے اور ایلیاکے جو قصے پر جو فیصلہ دیتاہے ۔وہ بظاہر ملاکی نبی کی کتاب کے خلاف ہے ،اس لیے کاذب کی مخالفت اور خود مسیح کے طرزعمل اور سلوک نے یہودیو ں کو اور بھی برافروختہ کر دیا تھا۔ جب وہ اِن کو حرمکار ۔سانپ اور سانپ کے بچّے کہہ کر پکارتے تھے ۔پس اُنھوں نے صلیب کے لیے کوشش کی اور جب صلیب پر چڑھادیا تو ان کے پہلے خیال کو اوربھی مضبوطی ہو گئی ۔ کیو نکہ اُنھوں نے دیکھا کہ یہ صلیب پرلٹکایا جاکر *** ہو گیا ہے ۔اس لیے سچُانہیں ہے ۔
اب انھوں نے یقین کر لیا کہ جب یہ خود *** ہو گیا ،تو دوسروںکا شفیع کیسے ہو سکتاہے ۔صلیب نے اس کے کاذب ہو نے پر مہر لگا دی ۔دو،گواہوںکے ساتھ انسان پھانسی پسکتا ہے ۔اُنھوںنے اس وقت بھی کہا کہ تُو سچّاہے تو اُتر آ مگر وہ اُتر نہ سکا۔اس امر نے اُن کو بد ظن کر دیا۔٭
بقیہ ّ تقریر ۲۷ دسمبر ۱۹۰۱؁ء
*** کامفہوم
عیسائی چونکہ *** کے مفہوم اور منشاء سے ناواقف تھے ، اس لیے مسیح کو مُلعون قرار دیتے وقت اُنھوں نے کچھ نہیں سوچاکہ اُس کاانجام آخر کیا ہو گا ؟علاوہ بریں چونکہ عربی سے اُنہیں بغض تھا ،اس لیے عبرانی میں بھی پوری مہارت حاصل نہ کر سکے ۔یہ دونوںزبانیں ایک ہی در خت کی شاخیں ہیں اور عربی جاننے والے کے لیے عبرانی کاپڑھنا سہل تر ہے ، مگر عیسائی بوجہ بغض عبرانی لُغت سے بھی فائدہ نہ اُٹھاسکے ۔
*** کامفہوم یہ ہے کہ ۰۰۰۰کوئی خداتعالیٰ سے سخت بیزار ہو جاوے اور خداتعالیٰ اس سے بیزار ہو جاوے ۔ عیسائیوںکے اپنے مطبع کی چھپی ہوئی لغت کی کتابیں جو بیروت سے آتی ہیں ۔ان میں بھی *** کے یہی معنے لکھے ہو ئے ہیں ۔اور یعن شیطان کو کہتے ہیں ۔مجھے ان لوگوںکی سمجھ پر افسوس آتاہے کہ اُنھو ں نے اپنے مطلب کی خاطر ایک عظیم الشان نبی کی سخت بے حُرمتی کی ہے اور اس کو یعن ٹھہرایاہے اور انھوں نے اس پرکچھ بھی توجہ نہیں کی کہ *** کاتعلق دل سے ہوتاہے ۔جب تک خداسے بر گشتہ نہ ہولے۔ملعون نہیں ہو سکتا ۔اب کسی عیسائی سے پوچھو کہ کیا عربی اور عبرانی لُغت میں *** کے یہ معنی متفق علیہ ہیں یانہیں ؟پھر اگر دل میں شرارت یاہٹ دھرمی نہیں ہے اورمحض خداتعالی ٰ کی رضاکے لیے ایک مذہبکو اختیار کیاجاتاہے تو کیاایک *** ہی کامضمون عیسائی مذہب کے استیصال کے لیے کافی نہیں ہے؟ اوّل غور کرے جب یہ بات مسلّم تھی اور پہلے توریتؔمیں کہا گیا تھا کہ وہ جو کاٹھ پر لٹکایا وہ *** ہے اور ہ وہ کاذب ہے ۔ تو بتائو جو خودملعون اور کاذب ٹھہرایاگیاہے ۔وہ دوسروں کی شفاعت کیاکرے گا؟
اوخوشتن گمُ است کرارہبری کُند
میں سچ کہتاہو ں جب سے ان عیسائیوں نے خداکوچھوڑکر اُلوہیّت کاتاج ایک عاجز انسان کے سر پررکھ دیاہے اندھے ہو گئے ہیں اُن کو کچھ دکھائی نہیںدیتا ۔ایک طرف اُسے خدابناتے ہیں ۔دوسری طرف صلیب پر چڑھاکر اُسے *** ٹھہراتے ہیں اور تین دن کے لیے ہادیہ میں بھیجتے ہیں ۔کیا وہ دوزخ میں دوزخیوں کو نصیحت کرنے گئے تھے یااُن کے لیے وہاں جاکر کفّارہ ہو نا تھا ؟
حضرت مریم ؑکے یُوسف سے نکاح پر اعتراضات
مختصر یہ کہ اس قسم کے فساد موجود ہیں ۔اب اصل مطلب یہ ہے کہ یہی نہیں بلکہ کوئی بھی اخلاقی حالات مسیح کے ثابت نہیں ۔صرف رُسول اللہ ﷺکے سہارے سے ماناگیا ۔اگر انجیل کے بناپر ہی مانناپڑتاتو پھر ان مشکلات میں پڑکر کون تسلیم کر سکتاہے ۔عیسائیوںنے اور انجیل نے تو اور بھی داغ لگائے ہین۔یہودی جس قسم کے الزام لگاتے ہیں ان کو تو بیان کرنے سے بھی شرم معلوم ہو تی ہے ۔ یہ دلیر قوم اس کی ماں کو بھی مہتّم کرتی ہے ۔ ایک اور خطرناک معاملہ ہے جس کا جواب عیسائیوں کے پاس ہر گز نہیں ہے اور وہ یہ ہے کے مریم کی ماں نے عہد کیاتھا وہ بیت المقدس کی خدمت کرے گی اور تارکہ رہے گی نکاح نہ کرے گی ۔اور خود مریم نے بھی یہ عہد کیاتھا کہ میں ہیکل کی خدمت کروں گی ۔باوجود اس عہد کے پھروہ کیا بلایاآفت پڑی کہ یہ عہد توڑاگیا اور نکاح کیاگیا ۔اُن تاریخو ں میں جویہودی مصنّفین نے لکھی ہے اور باتوں کو چھوڑکر بھی اگر دیکھا جاوے یہ لکھاہے کہ یُوسف کو مجبور کیا گیاکہ وہ نکاح کر لے اور اسرائیلی بزرگوں نے اُسے کہا کہ ہر طرح تمھیں نکاح کرنا ہو گا ۔ اب اس واقعہ کو مدِّنظر رکھ کر دیکھو کہ کس قدر اعتراض واقع ہو تے ہیں ۔
اوّلؔ جب عہد باندھاگیاتھاتوپھر خداکی ماں اور نانی نے اپنے عہد کو کیوں توڑا ؟
دومؔجبکہ عیسائیوں کے نزدیک کثرت ازدواج زناکاری ہے تو وہ اس کاکیا جواب دیتے ہیں کہ یُوسف کی پہلی بیوی بھی تھی کیا وہ اپنے آپ یہ الزام اپنی مقّدس کنواری پر قائم نہیں کرتے ؟
سومؔجب کے حمل ہو چکاتھاتو پھر حمل میں نکاح کیوں کیا گیا؟
یہ تین زبر دست اعتراض ہیں جو اس پر ہو تے ہیں ۔اورباتوں کو اگر چھوڑدیاجائے ۔ مثلاًیہ کے جب فرشتہ نے اگر مریم کو بشارت دی تھی کہ تیرے پیٹ میں خداآتاہے تو اُسے چاہئیے تھاکہ شور مچادیتی اوردنیاکو آگاہ کر تی کے خداکااستقبال کرنے کے لیے تیار ہو جائو ، وہ میرے پیٹ سے پیداہو گا ۔پھر اس کو چھپایاکیو ں گیا ۔ہم اس قسم کی اعتراضوں کو سرِدست چھوڑدیتے ہیں لیکن جو تین بڑے اعتراض اوپر کیے گے ہیں اُن کاجواب عیسائیوں کہ پاس حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہے ۔
اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ مریم کو ہیکل میں پیٹ ہوگیاتھااور مریم نے یہ سمجھاتھاکہ لوگوںکو اگر بتایاگیاکہ مجھے فرشتہ نے آکر بیٹا پیداہونے کی ہونے کی بشارت دی ہے ،تو لوگ ٹھٹھا کریںگئے اورکہیں گئے کے اس کو بیاہ کے خواب آتے ہیں ۔کوئی بدکار ٹھہرائے گا۔لیکن جب پیٹ چھپ نہ سکا اورچرچاہونے لگا تو آخر سب کو فکر پڑی ۔اگر پہلے سے بتادیتی جب فرشتے نے آکر کہاتھا ،تو شاید اس قدر شور نہ ہو تا ۔لیکن اُنھوں نے یہی سمجھاکہ اس وقت اگر بتایاتویہی کہیں گئے کہ خاوندمانگتی ہے کیونکہ یہ قاعدہ ہے اگر کنواری لڑکی ذراسابھی کوئی ذکر کر بیٹھے تو لوگ اس کی نسبت یہی نتیجہ نکال لیتے ہے۔پس وہ ڈرتی ہی رہی اوریہی اس نے سوچاکے خاموش رہوں ،لیکن جب چار پانچ مہینے کے بعد جب پیٹ بڑھااورپردہ نہ رہ سکا ۔ تو پھر رہانہ گیا ۔تو ہیکل کے بزرگوں کو بخوبی معلوم ہو گیا کے مریم حاملہ ہے اور انہیں فکر پیداہوئی اور جیسا کے یہ دیکھاجاتاہے کہ شریف خاندان کی لڑکی حاملہ ہو جاوے ۔تو جھٹ پٹ اس کا نکاح کر دیتے ہیں تاکے ناک نہ کٹ جاوے ۔ان بزرگو ں کو بھی یہی فکر پیدا ہو ئی ۔کیو نکہ وہ اصل واقعہ سے بالکل بے خبر اور نہ آشناتھے ۔اس لیے اُنہوں نے ان باتوں کی ذرابھی پرواہ نہ کی کہ اس نکاح سے عہد شکنی کاارتکاب ہو گا یادوسری شادی کی وجہ سے بقول یُسوع مسیح یہ زناکاری ٹھہرے گی ،یاحاملہ کانکاح کرنا جائز نہیں ہے ۔عزیزوں نے بھی سمجھاکے اگر اب خاموشی کی گئی اور نکاح نہ کیا گیا ۔ تو ناک کٹ جائے گی ،اس لیے نکاح کردیاگی جس پر اس قدر اعتراض ہو تے ہیں ۔
اناجیل کی مبالغہ آرائی
مگر غو ر طلب سوال یہ ہے کے ان انجیل تویسوں نے اس واقعہ پ پرکیوںدیانت داری کے ساتھ روشنی نہیں ڈالی ۔ یہ دیانت داری کے خلاف ہے ۔ ایک جگہ ایک انجیل نویس لکھتاہے یسوع نے اس قدر کا م کیے کہ وہ اگر لکھے جاتے تو دنیا میں نہ سماسکتے ۔ مگر اس عقلمندی کی سمجھ پر افسوس آتاہے کی اس ایک ہی جملہ نے انجیل کی ساری حقیقت کھول دی کہ اس میں جو کچھ لکھاگیا ہے ایسی مبالغہ آمیز باتیں ہیں ، کیونکہ یہ کسی ہنسی کی بات ہے جو کام تین برس میں ہوسکتے ہیں وہ دنیامیں نہیں سماسکتے ۔جب محدود زمانے میں سماگئے توپھر مکائی طور پر کیوں محدود نہیں ہو سکتے ۔
اس قسم کے ردّی مواد سے بھراہواعیسائی مذہب کاپھوڑاہے ۔پھوڑوںکے پھوٹنے کا ایک وقت مقررہوتاہے ۔نصرانی مذہب بھی ایک پھوڑاہے جو اندر پیپ سے بڑاہواہے اس لیے باہر سے چمکتاہے ۔لیکن اب یہ وقت آگیاہے کے یہ ٹوٹ جاوے اور اس کی اندرونی غلاظت ظاہر ہو جاوے ۔
انگریزی گورنمٹ کے عہدمیں مذہبی آزادی
ابھی سکھوں کازمانہ گزرہ ہے جس میں شائستگی بالکل جاتی رہی ۔عالم باعمل نہ رہے تھے ۔اگر کسی کو شبہات پڑتے اور وہ کوئی سوال کرتا ۔تواس کو واجب القتل کاہونے کافتویٰ دیاگیا ۔یہ زمانہ ایساہی ہو گیا تھا ۔مگر اب خداتعالیٰ نے فضل کیا۔ایک مہذّب اورشائستہ علم دوست گورنمٹ کو ہم پر حکمران کیا جس نے عدل اور انصاف کے ساتھ حکومت کرنا چاہی ہے اور مذہبی آزادی کی برکت سے ساری قوموں کو مستفیدکیا ۔ اب وہ وقت آگیا ہے کے مذہب کے متعلق سوال کرنے والوں سے کوئی سختی نہیں کی جاتی اور ہر ایک سائل کو جواب دیاجاتاہے۔
مسیح موُعودؑکی بعثت کی غرض
جب زمانہ نے اس قسم کی ترقی کی اور اشاعت کے سارے سامان اور ذریعے پیدا ہوگئے ۔تو اللہ تعالیٰ نے اسلام ؔکو کل اُمتوں پرغالب کرنے کے لیے مجھے مامور کر کے بھیجا ۔
حقیقیی محی اموات صلی اللہ علیہ وسلم
رسول اللہ ﷺکو جب دنیا میں بھیجا تھا ، اس وقت کل تَری خشکی فساد سے بھر چکی تھی ۔آپؐ نے آکر بہت سے بگڑے ہوئوں کو بنادیا ۔ یہ بات سَر سَری نگاہ کے دیکھے جانے کے قابل نہیں ہے ۔ بلکہ اس میں بڑے بڑے حقائق ہیں ۔ او رنبی کریم ﷺکی عظمت اور بزرگی کا پتہ لگتاہے کیونکہ بجز اعلی درجہ کے مقدس راستباز کے کوئی دوسرے کو درست نہیں کر سکتا جس کی اپنی قوت قدسی کمال کے درجہ پر نہ پنہچی وہ ایسی قوت اس میںپیدانہ ہو چکی ہو ۔ جو ساری ناپاکیوں کے اثر کو زائل کر دے وہ دوسروں کو درست نہیں کر سکتا۔ یو ں تو ہر ایک نبی نے اپنے اپنے وقت میں اپنی قوم کی اصلاح کی اور اس کو درست کیا ۔مگر جس شان اور مرتبہ کی اصلاح ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے ۔اس کو کسی اور کی اصلاح نہیں پنہچ سکتی ۔بلکہ اس کے مقابل دوسری اصلاحیں ہیچ نظر آتی ہیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی ٹیڑھی قوم کو پورے طور سے درست نہ کر سکے اور حضرت مسیح چند حواریوں کی سچّی تبدیلی نہ کر سکے ۔ اس لیے جب اس مقابلہ میں نبی کریم ﷺکو تو صاف اقرار کرنا پڑتاہے کہ ایک ہی ہے جس نے لاکھوں کڑوڑوں مُردوں کو زندہ کیا ۔ محی اگر ہے تو وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہے ۔ جھوٹے ہیں وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ مسیح مردے زندہ کیا کرتا تھا ۔جس نے اپنے چند حواری بھی زندہ نہ کیے ان کے پاس ہمیشہ مردے ہی رہے ۔میں ہمیشہ حیران ہوا کرتا ہوں اور حقیقت میں یہ حیران ہونے کی بات ہے کہ وہ حیات کیسی ہے جس کے ساتھ فنا لگی ہوئی ہے ۔یہ مسئلہ ہی غلط ہے جو کہے کہ فلاں شخص زندہ کرتا ہے ۔اگر زندہ کرنے کا مفہوم اور مطلب نہ ہوتا تو خدا تعالیٰ کیوں فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضَیْ عَلَیْہَا الْمَوْ تَ(الزّمر: ۴۳ )فرماتا۔اس سے معلوم ہوا کہ یہ محاورہ ہی ہے ، ورنہ اس سے تو تنا قض لازم آتا ہے کہ ایک طرف کہے کہ زندہ نہیں ہوتا اور دوسری طرف کہہ دے کہ زندہ ہو جاتا ہے ۔
اگر مسیح سچ مچ مُردہ زندہ کرتاتھا تو قرآن شریف ضرور اس کی نسبت فرماتایحی المتوفی کیونکہ توفی کالفظ وہاں آتاہے جہاں روح ہو ۔ موت تو اس سے پہلے بھی آسکتی ہے ۔اور توفی کالفظ اس لیے بھی استعمال کیاجاتاہے تاکہ یہ ثابت کیاجاوے کے مرنے کے بعد بھی روح باقی رہتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں آجاتی ہے کس قدر حیرت اور افسوس کی جگہ ہے کہ معجزات مسیح پر بحث کرتے ہوئے لوگ پوری توجہ نہیں کرتے ۔قرآن کریم پڑھ لیتے اور سنت رسول اللہ پر نظر کرتے تو یہ مسئلہ سمجھ آجانا کچھ بھی مشکل نہ تھا ۔
انبیاء کے معجزات زمانہ مناسب حال ہوتے ہیں
صحیح تاریخ ایک عہدہ معلم ہے اس سے پتہ لگتاہے ہر نبی کے معجزات اس رنگ کے ہوتے ہیں ،جس کا چرچااور زور اُس کے وقت میں ہو ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت سحر کا بہت بڑازور تھا۔ اس لیے ان کو جو معجزادیاگیاوہ ایساتھاکے اس نے اُن کے سحر کو باطل کر دیااور ہمارے نبی کریم کے وقت میں فصاحت وبلاغت کازور تھا اس لیے آپؐکو قرآن کاکریم کاایک معجزہ اسی رنگ کا ملا ۔یہ رنگ اسی لئے اختیار کیا کہ شعر اء جادو بیان سمجھے جا تے تھے اور ان زبان میں اتنا اثر تھ ا کہ وہ جو چاہتے تھے چند شعر پڑھ کر کرا لیتے تھے ۔جیسے آج کل جو دلیری اور حوصلہ پیدا کر دیتی تھی ۔ہر حربہ میں وہ شعر سے کام لیتے تھے اور فی کل واد یہیمون( الشعراء:۲۲۶)کے مصداق تھے۔اس لیے اُس وقت ضروری تھا کہ خدا تعالیٰ اپنا کلام بھیجتا۔ پس خدا تعالیٰ نے اپنا کلام نازل فرمایا اور اسی کلام کے رنگ میں اپنا معجزہ پیش کر دیا۔ جبکہ اُن کو مخاطب کر کے کہہ دیا کہ
انکنتم فی ریب مما نزلنا علیٰ عبد نا فاتوابسورۃ من مثلہ…(البقرہ : ۲۴)
تم جو اپنی زباندانی کا دم مارتے اور لاف زنی کرتے ہو اگر کوئی قوت اور حوصلہ ہے تو اس کلام کے معجزہ کے مقابل کچھ پیش کر کے دکھائو، لیکن باوجود اس کے کہ وُہ جانتے تھے کہ اگر کچھ نہ بنایا (خصوصاً ایسی حالت میں کہ جب تحدّی کر دی گئی ہے کہ تم ہر گز ہر گز بنا نا سکوگے) تو مُلزم ہو کر ذلیل ہو جائیں گے۔ پھر بھی وہ کچھ پیش نہ کر سکے۔ اگر وہ کچھ بناتے اور پیش کرتے تو صحیح تاریخ ضرور شہادت دیتی، مگر کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ کسی نے کچھ بنایا ہو۔ پس خدا تعالیٰ نے اُس وقت اُسی رنگ کا معجزہ دکھایا تھا۔
سلبِ امراض کا معجزہ
ایسا ہی یہودیوں میں سلبِ امراض کا نسخہ چلا آتا تھا۔ ہندوئوں میں بھی ہے۔ مسلماتوں میں بھی ہے۔ عیسائیوں میں بھی ہے۔ بلکہ انگریزوں میں تو آجکل یہ علم بہت ترقی کر گیا ہے۔ اس سے نبوّت کا ثبوت نہیں ہوتا اور نہ نبوّت سے اس کا کوئی تعلّق ہے کیونکہ یہ صرف مشق پر موقوف ہے اور ہر شخص جو مشق کرے خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، عیسائی ہو یا دہریہ غرض کوئی بھی ہو وہ مشق کرنے سے اس میں مہارت پیدا کر سکتا ہے۔ اس لیا اس سلب امراض کو نبوت سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ یہ ایک عام بات ہے تو حضرت مسیح کے وقت میں چونکہ اس کا زور تھا۔ اﷲ تعالیٰ نے اسی رنگ کا معجزہ حضرت مسیح کو دے دیا۔ یہ خاصیّت ہر انسان میں موجود ہے کہ وہ توجہ کرتا ہے۔توجہ کرنے کے ساتھ ایک چیز اُس کے دل سے اُٹھ کر پڑتی ہے؛ چنانچہ مسیح نے کہا۔ کس نے مجھے چھوا ہے کہ میری قوت نکلی ہے۔ سلب امراض والے بھی یہی کہتے ہیں۔ مختصر یہ کہ مسیح کے معجزات اس رنگ میں آکر بہت ہی کمزور اور ضعیف ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسیح کے معجزات پر ایک اور بڑا اعتراض بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ انجیل میں لکھا ہے کہ ایک تالاب ایسا تھا کہ لوگ اس کے پانی کے ہلنے کاانتظار کیا کرتے تھے ؎ٰ۔
اور وہ مانتے تھے کہ اس کو فرشتہ ہلاتا ہے۔ پس جو سب سے پہلے اس میں اُتر پڑتا۔ وہ اچھا جو جاتا تھا اور یہ بھی پایا جاتا ہے کہ مسیح اس تالاب پر اکثر جایا کرتے تھے۔ پھر کیا تعجّب ہے کہ مسیح نے بیماروں کے علاج کا کوئی نسخہ اس تالاب کی مٹی وغیرہ سے ہی تیار کیا ہو۔ تالا ب کے اس قصہ نے جو اناجیل میں درج ہے۔ مسیحی معجزات کی حقیقت کو اور بھی مشتبہ کر دیا ہے اور ساری رونق کو دور کر دیا ہے۔ اسی لیے عمادالدینؔ جیسے عیسائیوں کو ماننا پڑا ہے کہ تالاب والا قصہ الحاقی ہے۔ لیکن انجیل کے ان نادان دوستوں نے اتنا خیال نہیں کیا کہ اس باب کو محض الحاقی کہہ دینے سے مسیحی معجزات کی گئی ہوئی رونق نہیں آسکتی۔ بلکہ انجیل کو اور بھی مشتبہ قرار دینا ہے۔ کیونکہ پھر اس بات کا کیا جواب ہے کہ جس انجیل میں ایک باب الحاقی ہو اور حصہ اُس کا الحاقی نہ ہو اور جبکہ نسب نامہ کو الحاقی کہنے والے بھی موجود ہیں۔ پھر اس تالاب جیسے چشمے اور ملکوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یورپ کے اکثر ممالک میں ایسے چشمے ہیں جہاں جا کر اکثر مریض شفا پاتے ہیں۔ کشمیر میں بھی بعض چشموں کا پانی ایسا ہی ہے جن میں گندھک کا پانی اور نمک اور اَور اس قسم کے اجزاء ملے ہوئے ہوتے ہیں۔ پس وہ معجزہ نما تالاب مسیح کے سارے معجزات پر پانی پھیرتا ہے۔ خصوصاً ایسی حالت میں جبکہ مسیح کا اس تالاب پر جانا اور اس کی مٹی کا آنکھوں پر لگانا اور اپنے پاس رکھنا بھی بیان کیا جاتا ہے اور پھر عمادالدین اُسے الحاقی مانتا ہے، لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک حصہ الحاقی مان کر پھر آسمانی کہتے ہوئے اُسے شرم نہیں آتی۔
مسیح کی لکھی ہوئی انجیل نہیں۔ حواریوں کی زبان عبرانی میں نہیں۔ تیسری مصیبت یہ ہے کہ الحاقی بھی ہے اور پھر آخر یہ کہ تعلیم اُدھوری اور باقص اور نا معقول ہے اور اُسے پیش کیا جاتا ہے کہ نجات کا اصلی ذریعہ یہی ہے۔
الوہیّت مسیح
معجزات کا تو یہ حال ہے، پیشگوئیوں کا یہ حال ہے کہ ایسی پیشگوئیاں ہر مدّبر شخص تو درکنار عام لوگ بھی کر سکتے ہیں کہ لڑائیاں ہوںگی۔قحط پڑیں گے۔ مرغ بانگ دے گا۔ ان پیشگوئیوں پر نظر کرو تو بے اختیار ہنسی آتی ہے۔ ان کو یہودی خدائی کا ثبوت کب تسلیم کرسکتے تھے۔ خدائی کے لیے تووہ جبروت اور جلال چاہیے جو خدا کے حسب حال ہے۔ لیکن یسوع اپنی عاجزی اور ناتوانی میں ضرب المثل ہے۔ یہنتک کہ ووائی پرندوں اور لومڑیوں سے بھی ادنیٰ درجہ پر اپنے آپ کو رکھتا ہے۔ اب کوئی بتائے کہ کس بناء پر اس کی خدائی تسلیم کی جاوے۔ کس کس بات کو پیش کیا جاوے۔ ایک صلیب ہی ایسی چیز ہے جو ساری خدائی اور نبوت پر پابی پھیردیتی ہے کہ جب مصلوب ہو کر ملعون ہو گیا تو کاذب ہونے میں کیا ماقی رہا۔ یہودی مجبور تھے۔ ان کی کتابوں میں کاذب کا یہ نشان تھا۔ اب وہ صادق کیونکر تسلیم کرتے؟ جو خود خدا سے دور ہو گیا وہ اوروں کے گناہ کیا اٹھائے گا۔ عیسائیوں کی اس خوش اعتقادی پر سخت افسوس آتا ہے کہ جب دل ہی ناپاک ہو گیا تو اور کیا باقی رہا۔ وہ دوسروں کو کیا بچائیگا ۔اگر کچھ بھی شرم ہوتی اور عقل و فکر سے کام لیتے تو مصلوب اور ملعون کے عقیدے کو پیش کرتے ہوئے یسوع کی خدائی کا اقرار کرنے سے اُن کو موت آجاتی۔ اب کسرِصلیب کے سامان کثرت سے پیدا ہو گئے ہیں اور عیسائی مذہب کا باطل ہونا ایک بدیہی مسئلہ ہو گیا ہے۔ جس طرح پر چور پکڑا جاتا ہے تو اوّل اوّل وہ کوئی اقرار نہیں کرتا اور پتہ نہیں دیتا مگر جب پولیس کی تفتیش کامل ہو جاتی ہے تو پھر ساتھی بھی نکل آتے ہیں اور عورتوں بچوھ کی شہادت بھی کافی ہو جاتی ہے۔ کچھ کچھ مال بھی بر آمد ہو جاتا ہے۔ تو پھر اس کو باحیائی سے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ ہاں میں نے چوری کی ہے۔ اسی طرح پر عیسائی مذہب کا حال ہوا ہے۔ صلیب پر مرنا یسوع کو کاذب ٹھہراتا ہے۔ *** دل کو گندہ کرتی اور خدا سے قطع تعلق کرتی ہے۔ اور اپنا قول کہ یونسؑ کے معجزہ کے سوا اور کوئی معجزہ نہ دیا جاوے گا۔ باقی معجزات کو رد کرتا اور صلیب پر مرنے سے بچنے کو معجزہ ٹھہراتا ہے۔ عیسائی تسلیم کرتے ہیں کہ انجیل میں کچھ حصہ الحاقی بھی ہے۔ یہ ساری باتیں مل ملا کر اس بات کا اچھا خاصہ ذخیرہ ہیں جو یسوع کی خدائی کی دیوار کو جو ریت پر بنائی گئے تھی بالکل خاک سے ملا دیںاور سرینگر میں اس کی قبر نے صلیب کو بالکل توڑ ڈالا۔ مرہم عیسیٰ اس کے لیے بطور شاہد ہو گئی۔ غرض یہ ساری باتیں جب ایک خوبصورت ترتیب کے ساتھ ایک دانشمند سلیم الفطرت انسان کے سامنے پیش کی جاویں، تو اُسے صاف اقرار کرنا پڑتا ہے کہ مسیحؑ صلیب پر نہیں مرا۔ اس لیا کفّارہ جو عیسائیت کا اصل الاصول ہے، مالکل ماطل ہے۔
مسیح موعود کی بعثت کی غرض
پس یاد رکھو کہ یہ وہ حقائق ہیں جو اس وقت خدا تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مسیح موعودؑ پر کھولے ہیں۔ میں پکار کر کہتا ہوں کہ اب خدا کا وقت آگیا ہے۔ جو کچھ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر جاری ہوا تھا۔ اُس کے پورا ہونے کا وقت آپہنچا کہ مسیح موعود صلیب کو توڑے گا۔ اس سے یہ مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ تھی کہ وہ صلیبیں توڑتا پھرے گا۔ کیونکہ اگر صلیب توڑنے ہی سے کوئی مسیح موعود ہو سکتا ہے تو پھر صلاحؔالدین اور حضرت عمر ؓ کے وقت میں بہت سی صلیبیں توڑی گئی تھیں۔ علاوہ بریں صلیب کے اس طرح پر توڑنے سے کچھ فائدہ نہیں۔ اگر ایک لکڑی کی صلیب توڑی جاوے تو دس اور بن سکتی ہیں۔ چاندی سونے کی بن جاتی ہیں۔ مگر نہیں اﷲ تعالیٰ نے مسیح موعود کے لیے جو کسر صلیب مقرر کیا، تو اس سے یہ ہر گز مراد نہیں تھی کہ ان صلیبوں کو توڑتا پھرے گا۔ کیونکہ اس سے ظالم ٹھہرایا جاسکتا ہے۔ پس جو لوگ یہ اعتقاد کرتے ہیں، وہ دین کو بدنام کرتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو اس جسمانی جنگ سے بَری رکھا ہے اور اس کے لیے یہ مقرر کیا کہ یضع الحرب تا کہ اس دودھ میں مکھی نہ پڑ جاوے۔
مسیح موعود دنیا میں آیا تاکہ دین کے نام سے تلوار اُٹھانے کے خیال کو دور کرے اور اپنی جج اور براہین سے ثابت کر دکھئے کہ اسلامؔ ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشاعت میں تلوار کی مدد کا ہر گز مہتاج نہیں۔بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اُس کے حقائق و معارف و جج و براہین اور خدا تعالیٰ کی زندہ تائیدات اور نشانات اور اس کا ذاتی جذب ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہوئی ہیں۔ اس لیے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلامؔ کے بزورِ شمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں۔ اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کے لیے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں۔ اگر کسی کوشک ہے تو وہ میرے پاس رہ کر دیکھ لے کہ اسلامؔ اپنی زندگی کا ثبوت براہین اور نشانات سے دیتا ہے۔
مسیح مودعو د دنیا میں آیا تا کہ دینکے نام سے تلوا ر اٹھا نے خیا ل کو دو ر کر ے اور اپنی حجج اور برا ہین سے ثابت کر د کھا ئے کہ اسلا م ایک ایسا مذہب ہے جو اپنی اشا عت میں تلوار کی مد د کا ہر گز محتا ج نہیں ۔
بلکہ اس کی تعلیم کی ذاتی خوبیاں اور اُس کے حقائق اور معارف و حجج و برا ہین اور خدا تعالیٰ کی زند ہ تائیدات اور نشانات اور اس کاذاتی جذب ایسی ہی چیزیں ہیں جو ہمیشہ اس کی ترقی اور اشاعت کا موجب ہو ئی ہیں اس لیے وہ تمام لوگ آگاہ رہیں جو اسلام ؔکے بزدر ِشمشیر پھیلائے جانے کا اعتراض کرتے ہیں وہ اپنے اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں ۔اسلام کی تاثیرات اپنی اشاعت کی لیے کسی جبر کی محتاج نہیں ہیں ۔اگر کسی کو شک ہے تو وہ میرے پاس رہ کردیکھ لے کہ اسلام ؔاپنی زندگی کا ثبوت براہین اور نشانات سے دیتاہے ۔
اب خداتعالیٰ چاہتاہے اور اس نے ارادہ فرمایاہے ان تمام اعتراضوں کو اسلام کے پاک وجود سے دور کردے جو خبیث آدمیوں نے اس پر کئے ہیں ۔تلوار کے ذریعے اسلام کی اشاعت کا اعتراض کرنے والے اب سخت شرمندہ ہوںگے ۔یہ کہنا کہ سرحدی غازی آئے دن فساد کرتے ہیں ۔جہاد کے خیال سے یہ ایک بیہودہ بات ہے اوران مفسدوںکو غازی کہناسراسرنادانی اور جہالت ہے ۔ اگر کوئی جاہل مسلمان اُن کے ساتھ ذرا بھی ہمدردی رکھتاہے اس خیال سے کہ وہ جہاد کرتے ہیں ۔میںسچّ کہتاہوں کہ وہ اسلام کا دشمن ہے جو مفسد کانام غازی رکھتا ہے اوراسلام کے بدنام کرنے والوں کی تعریف کرتاہے ۔
یہودیوںکے لیے خدانے جومسیح پیداکیا تھا اُس کی غرض بھی یہی تھی کہ یہودیوں کی اس آلائش کو دھوڈالاجائے جو جبر کے ساتھ اشاعت ِمذہب کو اُن سے منسوب کی گئی ۔اس طرح پر چودھویںصدی میں جو مسیح موعود خدااسلام کو دیا ہے، اس کی غرض اور مقصود بھی یہی ہے کہ اسلام کو اس عتراض سے صاف کرے کے اسلام کو جبر کے ساتھ پھیلایا گیا ہے ، اس لیے اس کا پہلا کام یہی ہے کہ وہ لڑائی نہ کرے گا ۔
انگلستان اور فرانس اور دیگر ممالک یورپ میں یہ الزام بڑی سختی سے اسلام پر لگایا جاتاہے کہ وہ جبر کے ساتھ پھیلایا گیا ہے ، مگر افسوس اور سخت افسوس ہے کہ وہ نہیںدیکھتے کے اسلام لااکراہ فی الدین کی تعلیم دیتا ہے اور انہیں نہیں معلوم کہ کیاوہ مذہب جو فت پاکر بھی گرجے نہ گرانے کاحکم دیتا ہے کیا وہ جبر کر سکتا ہے ،مگر اصل بات یہ ہے کہ ان ملاّنوںنے جواسلام کے نادان دوست ہیں یہ فساد ڈالا ہے ۔ اُنھوںنے خود اسلام کی حقیقت کو سمجھانہیں اور اپنے خیالی عقائد کی بناپر دوسروںکو اعتراض کاموقعہ دیا ۔جو کچھ عقائد ان احمقوںنے بنارکھے ہیں ۔ اُن سے نصاریٰ کو خوب مدد پہنچی ہے ۔اگر یہ لوگ جہاد کی صورت میںدھوکا نہ دیتے یا نہ کھاتے تو کسی کو اعتراض کا موقع ہی نہ مل سکتا تھا ، مگر اب خداتعالیٰ ارادہ کیا ہے کہ وہ اسلام کے پاک اور درخشاں چہرہ سے یہ سب گردو غبار دُور کرے اور اس کی خوبیوںاور حسن و جمال سے دنیاکو اطلاع بخشے،چناچہ اسی غرض اور مقصد کے لیے اس وقت جب کے اسلام دشمن کے نرغے میں پھنساہو اتھا بیکس اوریتیم بچہّ کی طرح ہو رہاتھا اُس نے اپنا یہ سلس قائم کیا ہے اور مجھے بھیجاہے ۔تامیں عملی سچاّئیوں اور زندہ نشانات کے ساتھ اسلام کو غالب کروں ۔؎ٰ
؎ٰالحکم جلد۶ نمبر ۱۶ صفحہ۵۔۶پرچہ۳۰اپریل ۱۹۰۲؁ء
۲۷دسمبر ۱۹۰۱؁ء (بقیہ تقریر)
دَابَّۃُ الْاَرْض
ان لوگوںنے اپنی رائوں اور خیالوں کو داخل کر کے اصل امر کو بد نما بنانے کی کو شش کی ہے ، ان کی وہی مثال ہے مَا دَلّٰہُمْ عَلیٰ مَوْتِہٖ اِلَّادَآبَّۃ الْاَرْضِ ۔(سبا:۱۵)یعنی سیلمان کی موت پر دلالت کرنے والا کو ئی امر نہ تھا ۔ یہ ساری شرارت گویا دابتہ الارض کی تھی کہ اس نے عصاکھالیا اور وہ گر پڑا ۔خداتعالیٰ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ سچّ ہے ۔یہ قصے ّاور داستانیں نہیں ہیں ۔بلکہ یہ حقائق اور معارف ہیں اسلا م راستی کاعصاتھا۔جو اپنے سہارے کھڑاتھا اور اس کے سامنے کوئی آریہ ہندوعیسائی دَم نہ مارسکتاتھا ،لیکن جب سے یہ دابتہ الارض پیداہوئے اور اُنھوںنے قرآن کو چھوڑکر موضوع روایتوں پر اپنا انحصار رکھا ۔اس کانتیجہ یہ ہوا کہ ہر طرف سے اسلام پر حملے ہونے شروع ہوگئے دابتہ الارض کے معنے اصل میں یہ ہیں کہ ایک دیمک ہوتی ہے جس میںکوئی خیر نہیں جو لکڑی اور مٹی وغیرہ کو کھاجاتی ہے ۔اس میںفنا کامادہ ہے اور اچھی چیز کو فناکرنا چاہتی ہے ۔اس میںآتشی مادہ ہے
اب اس کا مطلب یہ ہے کے دابۃ الارض اِس وقت کے علماء ہیں جو جھوٹے معنے کرتے ہیں اور اسلام پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں ۔جیساکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کو حد سے بڑھاتے ہیں اوراُنکو خداتعالیٰ کی صفات سے مُتّصف قرار دیتے ہیں ۔جبکہ اُن کو مُحی اور شافی ۔عالم الغیب ۔غیر متغیر وغیرہ مانتے ہیں اور ایساہی اسلام ؔپر یہ جھوٹاالزام لگاتے ہیں کہ وہ تلوار کہ بدوںنہیںپھیلا۔بھوپال کے ایک مُلّابشیر نے مجھے دّجال کہا ،حالانکہ یہ لوگ خود دّجال ہیںجو مجھے کہتے ہیں۔کیونکہ وہ حق کو چھپاتے ہیں اور اسلام کو بد نام کرتے ہیں ۔غرض عصائے اسلام جس کے ساتھ اسلام کی شوکت اور رعب تھا اورجس کے ساتھ اَمن اور سلامتی تھی اس دابتہ الارض نے گرادیا ۔ پس جیسے وہ دابتہ الا ر ض تھا ۔یہ اس سے بد تر ہیں۔۱؎ اس سے تو صرف ملک میں فتنہ پڑاتھا مگران سے دین میںفسا د پیدا ہوا اور ایک لا کھ سے زائد لو گ مر تد ہو گئے ۔ایک وہ وقت تھا کہ ایک مرتد ہو جا تا ، اتو گو یا قیا مت آجا تی تھی یا اب یہ حا ل ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ مرتدہوگیااور کسی کو خیال بھی نہیںکہ کئی کروڑ کتابیں اسلام کہ خلاف نبی کریم ﷺکی توہین اور ہجو میں لکھی گئی ہیں۔ لیکن کسی کو خبر تک بھی نہیں کہ کیا ہو رہاہے اپنے عیش وعشرت میں مشغول ہیں او ردین کو ایک ایسی چیز قراردے دیاہے جس کانام بھی مہذّب سو سائٹی میں لیاجاناگناہ سمجھا جاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام پرجو اعتراض طبعی فلسفہ کے رنگ میں کیے جاتے ہیں اُن کاجواب یہ لوگ نہیں دے سکتے اور کچھ بھی بتانہیں سکتے ،حالانکہ اسلام پر جو اعتراض عیسائی کرتے ہیں ۔وہ خود ان کے اپنے مذہب پر ہوتے ہوتے ہیں سب سے بڑااعتراض جہاد پر کیا جاتاہے ۔لیکن جب غور کیا جاوے تو صاف معلوم ہو جاتاہے کہ یہ اعتراض خودعیسائیوںکے مسلّمات پر پڑتے ہیں۔اسلام نے جہاد کو اُٹھایا اسلام پر اعتراض نہیں ۔ ہاںوہ اپنے گھر میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لڑائیو ں کاکوئی جواب نہیںدے سکتے اور خود عیسائیوںجو مذہبی لڑائیاں ہوتی ہیں ایک فرقہ نے دوسرے فرقہ کو قتل کیا ۔ آگ میںجلایا اوردوسری قوموں پر جوظلم وستم کیا ۔جیساکہ سپین میں ہو ا۔اس کا کوئی جواب ان عیسائیوںکہ پاس نہیںہے اور قیامت تک یہ اس کا جواب نہیںدے سکتے ۔
یہ بات بہت درست ہے کہ اسلام اپنی ذات میں کامل ہے ،بے عیب اورپاک مذہب ہے ۔لیکن نادان دوست اچھّانہیںہوتا ۔اس دابتہ الارض نے نادان دوست بن کر اسلام کو جو صدمہ اورنقصان پنہچایاہے ۔اس کی تلافی بہت ہی مشکل ہے ،لیکن اب خداتعالیٰ نے ارادہ فرمایاہے کے اسلام کا نور ظاہر ہوااور دنیاکو معلوم ہوجاوے کہ سچّااورکامل مذہب جو انسان کی نجات کامتکفّل ہے ۔ وہ صرف اسلام ہے اس لیے خداتعالیٰ نے فرمایا:
بخرام کہ وقت ِتونزدیک رسیدو پائے مُحمد یاں بَر منار بلند تر مُحکم اُفتاد
لیکن ان ناعاقبت اندیش نادان دوستوں نے خداتعالیٰ کے سلسلہ کی قدر نہیں کی ۔بلکہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ یہ نور نہ چمکے یہ اس کو چھپانے کی کوشش ہیں ۔مگر وہ یاد رکھیں کے خداتعالیٰ وعدہ کر چکاہے ۔
واللہ متم نورہ و لوکرہ الکافرون (الصّف :۹ )
گالیوںکاجواب گالیوں سے نہ دیں
یہ مجھے گالیاں دیتے ہیں ،لیکن میں ان کی گالیوںکی پروا نہیں کرتا اور نہ اُن پر افسوس کرتاہوں ،کیونکہ وہ اس مقابلہ سے عاجز آگئے ہیں اور اپنی عاجزی اور فرد مائیگی کو بجز اس کینہیںچھپاسکتے کہ گالیاںدیں ،کفر کے فتوے لگائیں ،جھوٹے مقدمے بنائیں اور قسم قسم کے اِفتراء اور بہتان لگائیں ۔وہ اپنی ساری طاقتوںکو کام لاکرمیرامقابلہ کر لیں اور دیکھ لیںکے آخری فیصلہ کس کے حق میں ہوتاہے۔میںاگر ان کی گالیو ںکی اگر پرواکروںتو وہ اصل کام جو خداتعالیٰ نے میرے سپرد کیاہے رہ جاتاہے ،اس لیے جہاںمیںان کی گالیوںکی پروا نہیںکرتا۔میںاپنی جماعت کو نصیحت کرتاہوں کے اُن کو مناسب ہے کے اُن کی گالیاںسُن کر برداشت کریں ۔اور ہر گزہر گز گالی کاجواب گالی سے نہ دو ، کیونکہ اسطرح پر برکت جاتی رہتی ہے وہ صبر اور بر دا شت کا نمو نہ ظا ہر کر یں اور اپنے اخلا ق دکھا یں ۔ یقینا یاد رکھو کہ عقل اور جو ش میں خطر نا ک د شمنی ہے جب جوش اور غصہ آ تا ہے ، تو عقل قا ئم نہیں رہ سکتی لیکن جو صبرکر تاہے اوربرد باری کا نمو نہ دکھا تا ہے اس کو ایک نور دیا جا تا ہے جس سے اس کی عقل وفکر کی قو تو ں میں ایک نئی رو شنی پیدا ہو جا تی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے غصہ اور جوش کی حا لت میں چو نکہ د ل و دما غ تاریک ہوتے ہیں ۔ اسلیے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہو تی ہے۔
اسلا م کی قدر کرو
میں پھر اصل مطلب کی طرف رجوع کرکے کہتا ہو ں کہ اسلا م کی جو حالت اس وقت ہو رہی ہے اور یہ مختلف فرقہ بند یاں جو آئے دن ہوتی رہتی ہیں اور مخالف اس پر دلیر ہو رہے ہیں اور بیبا کی سے حملے اور اعترا ض کرتے ہیں یہ سب اسی دابتہ الارض کا فسا د ہے ۔انھو ںنے ہی عیسائیوں کو مد د دی ہے مگر اب خداکا شکر کرو کہ اس نے عین وقت پر دستگیر ی فرمائی ہے ۔اوراس سلسلہ کو قائم کیا ہے ۔اس لیے تم کو منا سب ہے کہ اس فضلکو جو تم کو دیا گیا ہے ۔ضائع نہ کرو اور ادب کی نگاہ سے دیکھو اور اس مد د اور نصرت کی جو تمھیں دی گئی ہے قدر کرو ۔یقینا یاد رکھو کہ خدا کی مد د بدوں اور اس کے بلائے بغیر کوئی شخص راستی سے اور پو ری قو ت سے ایک امر کو بیا ن نہیںکر سکتا ۔بغیراس کے دلا ئل ملتے ہی نہیں اور طرز بیا ن نہیں دیا جا تا اوریہ بھی خداکاخاص فضل ہوتا ہے کہ اس طرز بیان سے نیکی کی قوت رکھنے والے اُس شخص کو جو خداکی قوت اور طاقت پاکر روح القدس سے بھر کر بولتا ہے شناخت کر لیتے ہیں ۔پس تم پر یہ خدا تعالیٰ کابہت بڑااحسان ہے اس نے تمہیں یہ قوت عطا کی اور شناخت کی آنکھ دی ۔اگر وہ یہ فضل نہ کرتا ،تو جیسے اور لوگ پردوں میں ہیں اورگالیاںدیتے ہیں ، تم بھی اُن میں ہوتے جس چیز نے تم کوکھینچاہے وہ محض خداکافضل ہے ، جیسے میاں عبدالحق ؔ ہی کو دیکھو کہ خداکافضل ہی ان کی دستگیری نہ کرتاتو یہ کیونکہ اس عیش کی جگہ سے نکل سکتے تھے خصوصاًا یسی حالت میںکہ ان کے پاس کئی ناصح بھی جمع ہوئے اور اُنھوں نے منع بھی کیا قادیان ؔ مت جائو ۔ بلکہ ایک نے گالی بھی دی ۔حلانکہ کہ گالی دینا ان کے مذہب میں منع ہے اور عام طور پر تہذیب اور شائستگی کے بھی خلاف ہے ،لیکن ان تمام باتوںپر خداکا فضل غالب آگیا اور اُن کو کھنیچ لایا ۔ اُن کو بدی کے اسباب ہی میسر نہ آئے،ورنہ اگر یہ بیوی کر لیتے تو پھر ابتلا پیش آجاتا ۔ مگرخدانے ہر طرح سے بچایاخد اتعالیٰ کا متحدث نہیں ہوتا ۔جس پر وہ اپنا کرم کرتاہے اُسے ہر طرح سے بچالیا ۔یہ خیال مت کرو کہ ہم مسلمان ہیں ۔اسلام بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو اور شکر کرو اور اس کے اند ر فلاسفی ہے جو زبان سے کہہ دینے سے نہیں حاصل ہوتی ۔
اسلام کی حقیقت ؔ
اسلام اللہ تعالیٰ کے تمام تصّرفات کے نیچے آجانے کا نام ہے اور اس کاخلاصہ خداکی سچّی اور کامل اطاعت ہے ۔مسلمان وہ ہے جو اپناسارا وجود خداتعالیٰ کے حضور رکھ دیتا ہے بُدوں کسی امید پاداش کے۔
من اسلم وجہہ للّٰہ وہومحسن ( ٰالبقرہ ۱۳)۱؎
یعنی مسلمان وہ ہے جو اپنے تمام وجود کو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے وقف کر دے اور سپرد کردے اور اعتقادی ؔ اور عملی طور پر اس کا مقصو داور غرض اللہ تعالیٰ کی ہی رضا اورخوشنودی ہو اورتمام نیکیاں اور اعمال ِحسنہ جو اس سے صادر ہوں وہ بمشقت اورمشکل کی راہ سے نہ ہوں بلکہ ان میں ایک لذّت اور حلاوت کی کشش ہو ۔جو ہر قسم کی تکلیف کو راحت اسے تبدیل کردے ۔
حقیقی مسلمان اللہ تعالی سے پیار کرتاہے یہ کہہ کر اور مان کر کہ وہ میرا محبوب ومولا پیداکرنے والا اورمحسن ہے ۔ اس لیے اُس کے آستانہ پرسر رکھ دیتاہے ۔سچّے مسلمان کو اگر کہا جاوے کہ ان اعمال کی پاداش میںکچھ بھی نہیں ملے گا اور نہ بہشت ہے اور نہ دوزخ اور نہ آرام ہیں اور نہ لذّات ہیں تو وہ اپنے اعمالِ صالحہ اور محبت ِالہٰی کو ہر گزہرگز چھوڑنہیں سکتا ،کیونکہ اس کی عبادات اور خداتعالیٰ سے تعلق اور اُس کی فرمابرداری اور اطاعت میں فناکسی پاداش یااجر کی بناء اورا میدپر نہیںہے ۔بلکہ وہ اپنے وجود کو ایسی چیز سمجھتاہے کے وہ حقیقت میں خداتعالیٰ ہی کی شناخت اُس کی محبت اور اطاعت کے لیے بنائی گئی ہے اور کوئی غرض اور مقصد اُس کا ہے ہی نہیں اس لیے وہ اپنی خداداد قوتوں کو جب ان اغراض اور مقاصد میںصرف کرتاہے تو اس کو اپنے محبوبِ حقیقی
؎ٰ : الحکم جلد ۶ نمبر ۱۷ صفحہ ۵۔۶مورخہ ۱۰ مِئی ۱۹۰۲؁ء
ہی کا چہرہ نظر آتا ہے بہشت و دوزخ پر اس کی اصلاًنظرنہیں ہوتی میں کہتاہو ں کہ اگر مجھے ا س امر کایقین دلایا جاوے کے خداتعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کی اطاعت میں سخت سے سخت سزا دی جائے گی تو میں قسم کھاکر کہتا ہو ں میری فطرت ایسی واقع ہوئی ہے وہ ان تکلیفوں اور بلائو ں کو ایک لذّت اور محبت کے جو ش اور شوق کے ساتھ برادشت کرنے کوتیار ہے باوجود ایسے یقین کے جو عذاب اوردکھ کی صورت میں دلایا جاوے کبھی خداکی اطاعت اورفرمانبرداری سے ایک قدم باہر نکلنے کو ہزار بلکہ لاانتہاموت سے بڑھ کر اور دکھوںاور مصائب کامجموعہ قراردیتی ہے ۔جیسے اگر کوئی بادشاہ عام علان کرائے کہ اگر کوئی ماںاپنے بچّے کو دودھ نہ دے گی ۔تو بادشا ہ اس سے خوش ہوکر انعام دیگا ۔توایک ماں کبھی گوارانہیں سکتی کہ وہ اس ا نعام کی خواہش اور لالچ میں اپنے بچّے کو ہلاک کرے ۔اسی طرح ایک سچّامسلمان خداکے حکم سے باہر ہونا اپنے لیے ہلاکت کا موجب سمجھتاہے ۔خود اس کو اس نافرمانی میں کتنی ہی آسائش اورآرا م کا وعدہ دیاجاوے۔
پس حقیقی مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس قسم کی فطرت حاصل کی جاوے کہ خداتعالیٰ کی محبت اوراطاعت کسی جزااورسزا کے خوف اور امید کی بناپر نہ ہو بلکہ فطرت کاطبی خاصہ اور جزو ہوکر ہو پھر وہ محبت بجائے خود اس کے لیے ایک بہشت پیداکردیتی ہے اور حقیقی بہشت یہی ہے ۔کوئی آدمی بہشت میں داخل نہیں ہو سکتا ۔جبتک وہ اس راہ کو اختیار نہیں کرتا ہے اس لیے میںتم کو جو میرے ساتھ تعلق ہو ۔اسی راہ سے داخل ہو نے کی تعلیم دیتا ہوں ۔ کیونکہ بہشت کی حقیقی راہ یہی ہے ۔
مہدی کا زمانہ ۔ ایک عظیم الشان جمعہ
خدا تعالیٰ نے جو اتمام نعمت کی ہے وہ یہی دین ہے ،جس کا نام اسلام ؔرکھا ہے ۔پھر نعمت میںجمعہ کا دن بھی ہے جس روز اتما مِ نعمت ہوا ۔یہ اس کی طرف اشارہ تھا کہ پھر اتمامِ نعمت جو
یظہرہ علے الدین کلہ(الصف:۱۰)
کی صورت میں ہو گا وہ بھی ایک عظیم الشان جمعہ ہو گا۔ وہ جمعہ اب آگیا ہے ۔کیو نکہ خدا تعا لیٰ نے وہ جمعہ مسیح موعو د کے سا تھ مخصو ص رکھا ہے اس لیے کہ اتما م ِ نعمت کی صو رتیں دراصل دو ہیں اول تکمیل ہدا یت ۔دوم تکمیل اشاعت ہدایت ۔اب تم غورکر کے دیکھو ۔تکمیل ہدایت تو آنحضرتﷺ کے زمانہ میںکامل طو ر پر ہو چکی ،لیکن اللہ تعا لیٰ نے مقدر کیا تھا کہ تکمیل اشاعت ہدا یت کا زمانہ دوسرا زمانہ ہو جبکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بروزی رنگ میں ظہو ر فرما دیںاور وہ زمانہ مسیح مو عو د اور مہدی کا زمانہ ہے ۔
‏Amira
یہی وجہ کہ لیظھرہ علی الدین کلہ (الصف : ۱۰) اس شان میں فرمایا گیا ہے۔تمام مفسرین نے بالا تفاق اس امر کو تسلیم کر لیا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے زمانہ سے متعلق ہے۔ در حقیقت اظہارُ دین اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ کُل مذاہب میدان میں نکل آویں اور اشاعتِ مذہب کے ہر قسم کے مفید ذریعے پیدا ہو جائیں اور وہ زمانہ خدا کے فضل سے آگیا ہے؛ چنانچہ اس وقت پریس کی طاقت سے کتابوں کی اشاعت اور طبع میں جو جو سہولتیں میسر آئی ہیں وہ سب کو معلوم ہیں۔ ڈاکخانوں کے ذریعہ سے کل دنیا میں تبلیغ ہو سکتی ہے۔ اخباروں کے ذریعہ سے تمام دنیا کے حالات پر اطلاع ملتی ہے۔ ریلوں کے ذریعہ سفر آسان کر دئیے گئے ہیں۔ غرض جس قدر آئے دن نئی ایجادیں ہوتی جاتی ہیں اسی قدر عظمت کے ساتھ مسیح موعود کے زمانہ کی تصدیق ہوتی جاتی ہے اور اظہارِ دین کی صورتیں نکلتی آتی ہیں۔ اس لیے یہ وقت وہی وقت ہے جس کی پیشگوئی اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ لیظھرہ علی الدین کلہ کہہ کر فرمائی تھی۔ یہ وہی زمانہ ہے جو
الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی(المائدہ : ۴)
کی شان کو بلند کرنے والا اور تکمیل اشاعتِ ہدائت کی صورت میں دوبارہ اتمامِ تعمت کا زمانہ ہے اور پھر یہ وہی وقت اور جمعہ ہے جس میں واخرین منہم لما یلحقو ابھم (الجمعۃ : ۴)کی پیشگوئی پوری ہوتی ہے۔ اس وقت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور بروزی رنگ میں ہوا ہے اور ایک جماعت صحابہ کی پھر قائم ہوئی ہے۔ اتمامِ نعمت کا وقت آپہنچا ہے۔ لیکن تھوڑے ہیں جو اس سے آگاہ ہیں اور بہت ہیں جو ہنسی کرتے اور ٹھٹھوں میں اڑاتے ہیں، مگر وہ وقت قریب ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق تجلی فرمائیگا اور اپنے زور آور حملوں سے دکھا دیگا کہ اس کا نزیر سچا ہے۔
ٔجماعت کو نصیحت
میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اﷲ تعالیٰ نے سعا دت مندوں کے لیے پییدا کردی ہے ۔ مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے۔ اس بات پر ہر گز ہر گز مغرور نہ ہو جائو کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے۔ یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تربہ سعادت ہو جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسنِ ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچا نے کی فکر کی۔ لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمہ کے قریب آپہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے۔ پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمھیں سیراب کرے، کیونکہ خدا تعالیٰ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ یہ میں یقینا جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پئے گا وہ ہلاک نہ ہوگا، کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے نچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے۔ اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کیے ہیں اُن کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو۔ ان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسرا مخلوق کا۔
توحید
اپنے خدا کو وحدہٗ لا سریک سمجھو جیسا کہ اس شہادت کے ذریعہ تم اقرار کرتے ہو اشھد ان لاالہ الا اﷲ یعنی میں شہادت دیتا ہوں کہ کوئی محبوب مطلوب اور مطاع اﷲ کے سوا نہیں ہے۔ یہ ایک ایسا پیارا جملہ ہے کہ اگر یہ یہودیوں عیسائیوں یا دوسرے مشرک بُت پرستوں کو سکھایا جاتا اور وہ اس کو سمجھ لیتے، تو ہر گز ہرگز تباہ اور ہلاک نہ ہوتے اسی ایک کلمہ کے نہ ہونے کی وجہ سے اُن پر تباہی اور مصیبت آئی اور اُن کی روح مجزوم ہو کر ہلاک ہو گئی ؎ٰ۔
ایسا ہی فرمایا
قل ھواﷲ احد۔اﷲالصمد۔لم یلدولم یولد ولم یکن لہ کفوااحد۔(اخلاص : ۲تا۵)
یعنی کہہ دو کہ وہ خدا ایک ہے۔ ھو خدا کا نام ہے۔ وہ ایک ہے۔ وہ بے نیاز ہے۔نہ کھانے پینے کی اس کو ضرورت نہ زمان یا مکان کی حاجت نہ کسی کا باپ نہ بیٹا اور نہ کوئی اس کا ہمسر۔اور بے تغیر ہے۔ یہ چھوٹی سی سورت قرآن شریف کی ہے جو ایک سطرمیں آجاتی ہے، لیکن دیکھو کس خوبی اور عمدگی کے ساتھ ہر قسم کے شرک سے اﷲ تعالیٰ کی تنزیہہ کی گئی ہے۔
حصر عقلی میں شرک کے جس قدر قسم ہو سکتے ہیں اُن سے اُس کو پاک بیان کیا ہے۔ جو چیز آسمان اور زمین کے اندر ہے۔وہ ایک تغیر کے نیچے ہے، مگر خدا تعالیٰ نہیں ہے۔ اب یہ کیسی صاف اور ثابت شدہ صداقت ہے۔ دماغ اسی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ نورِ قلب جس کی شریعت دل میں ہے۔ اس پر شہادت دیتا ہے۔ قانونِ قدرت اسی کا مویّد ومصدّق ہے۔ یہنتک کہ ایک ایک پتہ اس پر گواہی دیتا ہے۔ پس اس کو شناخت کرنا ہی عظیم الشان بات ہے ۔ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں یہ ثھوٹی سی سورت نازل کی یہ ایسی ہے کہ اگر توریت کے سارے دفتر کی بجائے اُس میں اسی قدر ہوتا تو یہود تباہ نہ ہوتے اور انجیل کے انتے بڑے مجموعہ کو چھوڑ کر اگر یہی تعلیم اُن کو دی جاتی تو آج دنیا کا ایک بڑا حصہ ایک مردہ پرست قوم نہ بن جاتا۔
مگر یہ خدا کا فضل ہے جو اسلام کے ذریعہ مسلمانوں کو ملا اور اس فضل کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے۔ جس پہلو سے دیکھو۔ مسلمانوں کو بہت بڑے فخر اور ناز کا موقع ہے۔ مسلمانوں کا خداپتھرؔ، درختؔ،حیوانؔ، ستارہؔ، یا کوئی مردہؔ انسان ہے، بلکہ وہ قادر مطلق خدا ہے جس نے زمین و آسمان کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے پیدا کیا اور حییّ وقیوم ہے۔
مسلمانوں کا رسول وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جس کی نبوت اور رسالت کا دامن قیامت تک دراز ہے۔ آپؐ کی رسالت مردہ رسالت نہیں، بلکہ اس کے ثمرات اور برکات تازہ بتازہ ہرزمانے میں پائے جاتے ہیں جو اس کی صداقت اور ثبوت کی ہر زمانہ میں دلیل ٹھہرتے ہیں۔
چنانچہ اس وقت بھی خدا نے ان ثبوتوں اور برکات اور فیوض کو جاری کیا ہے اور مسیح موعود کو بھیج کر نبوتِ محمدیہ کا ثبوت آج بھی دیا ہے اور پھر اُس کی دعوت ایسی عام ہے کہ کل دنیا کے لیے ہے۔
قل یا ایھا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعا (ال اعراف : ۱۵۹)
اور پھر فرمایا۔
وما ارسلنک الا رحمت للعالمین (الانبیاء : ۱۰۸)
کتاب دی تو ایسی کامل اور ایسی محکم اور یقینی کہ
لا ریب فیہ (البقرہ : ۳) اور فیھا کتب قیمۃ (البینۃ : ۴) اور ایات محکمت۔قول فصل۔میزان۔مھیمن۔
غرض ہر طرح سے کامل اور مکمل دین مسلمانوں کا ہے جس کے لیے
الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمت ورضیت لکم الاسلام دینا (المائدہ : ۴)
کی مہر لگ چکی ہے۔ پھر کس قدر افسوس ہے مسلمانوں پر کہ وہ ایسا کامل دین جو رضاء الٰہی کا موجب اور باعث ہے رکھ کر بھی بے نصیب ہیں اور اس دین کے برکات اور ثمرات سے حصہ نہیں لیتے بلکہ خدا تعالیٰ نے جو ایک سلسلہ ان برکات کو زندہ کرنے کے لیے قائم کیا تو اکثر انکار کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے اور لست مرسلا اور لست مؤ منا کی آوازیں بلند کرنے لگے۔
یاد رکھو خدا تعالیٰ کی توحید کا اقرار محض ان برکات کو جذب نہیں کر سکتا جو اس اقرار اور اُس کے دوسرے لوازمات یعنی اعمال صالحہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ توحید اعلیٰ درجہ کی جز ہے جو ایک سچے مسلمان اور ہر خدا ترس انسان کو اختیار کرنی چاہیے، مگر توحید کی تکمیل کے لیے ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ محبت الٰہی ہے یعنی خدا سے محبت کرنا۔
قراآن شریف کی تعلیم کا اصل مقصد اور مدّعایہی ہے کہ خدا تعالیٰ جیسا وحدہٗ لا شریک ہے، ایسا ہی محبت کی رُو سے بھی اس کو وحدہٗ لا شریک یقین کیا جاوے اور کل انبیاء علیہم السلام کی تعلیم کا اصل منشاء ہمیشہ یہی رہے ہے؛ چنانچہ لاالہ الا اﷲ جیسے ایک طرف توحید کی تعلیم دیتا ہے ساتھ ہی توحید کی تکمیل محبت کی ہدایت بھی کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے۔ یہ ایک ایسا پیارا اور پر معنی جملہ ہے کہ اسد کی مانند ساری توراتؔ اور انجیل میں نہیں اور دنیا کی کسی اور کتاب نے کامل تعلیم دی ہے۔
الٰہ کے معنی ہیں ایسا محبوب اور معشوق جس کی پرستش کی جاوے۔ گویا اسلام کی یہ اصل محبت کے مفہوم کو پورے اور کامل طور پر ادا کرتی ہے۔ یاد رکھو کہ جو توحید بِدُوں محبت کے ہو وہ ناقص اور ادُھوری ہے۔
محبتِ الٰہی اور اپنی جماعت کو نصائح
خدا کے ساتھ محبت کرنے سے کیا مراد ہے؟ یہی کہ اپنے والدین۔جودو۔اپنی اولاد۔اپنے نفس۔غرض ہر چیز پر اﷲ تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لیا جاوے؛ چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے۔
فاذکرواﷲکذکرکم ابا ء کم اواشد ذکرا (البقرہ : ۲۰۱)
یعنی اﷲ تعالیٰ کو ایسا یاد کرو کہ جیسا تم اپنے باپوں کو یاد کرتے ہو، بلکہ اس سی بھی زیادہ اور مسخت درجہ کی محبت کے ساتھ یاد کرو۔ اب یہاں یہ امر بھی غور طلب ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تعلیم نہیں دی کہ تم خدا کو باپ کہا کرو بلکہ اس لیے یہ سکھایا ہے کہ نصاریٰ کی طرح دھوکہ نہ لگے اور خدا کو باپ کر کے پکارا نہ جائے اور اگر کوئی کہے کہ پھر باپ سے کم درجہ کی مخبت ہوئی، تو اس اعتراض کے رفع کرنے کے لیے اواشد ذکرا رکھ دیا۔ اور اگر اواشدذکرا نہ ہوتا تو یہ اعتراض ہوسکتا تھا، مگر اب اس نے اُس کو حل کردیا۔ جو کہتے ہیں وہ کیسے گرے کہ ایک عاجز کو خدا کہہ اُٹھے۔
بعض الفاظ ابتلا کے لیے ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کو نصاریٰ کا انتلا منظور تھا۔اس لیے اُن کی کتابوں میں انبیاء کی یہ اصطلاح ٹھہر گئی، مگر چونکہ وہ حکیم اور علیم ہے اس لیے پہلے ہی سے لفظ اب کو کثیر الاستعمال کر دیا۔مگر نصاریٰ کی بدقسمتی کہ جب مسیح نے یہ لفظ بولا تو انہوں نے حقیقت پر حمل کر لیا اور دھوکا کھا لیاب حالانکہ مسیح نے یہ کہہ کہ تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ تم الٰہ ہو اس شرک کو مٹانا چاہا، مگر نادانوں نے پروا نہ کی۔ اور اُن کی اس تعلیم کے ہوتے ہوئے بھی اُن کو ابن اﷲ قرار دے ہی لیا۔
یہودیوں کو بھٰ اس قسم کا ابتلا آیا۔ چونکہ موذی قوم تھٰ۔ اُن کی درخواست پر منّ وسلویٰ نازل ہوا۔ کیونکہ یہ طاعون پیدا کرنے کا مقدّمہ تھا۔ اﷲ تعالیٰ چونکہ جانتا تھا کہ وہ حد سے نکل جائیں گے اور اُن کی سزا طاعون تھی۔ اس لیے پہلے سے وہ اسباب رکھ دیئے۔
میں پھر اصل مطلب کی طرف آتا ہوں کہ اصل توحید کو قائم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت سے پورا حصہ لو۔ اور یہ محبت ثابت نہیں ہوسکتی جبتک عملی حصہ میں کامل نہ ہو۔ نری زبان سے ثابت نہیں ہوتی۔ اگر کوئی مصری کا نام لیتا رہے، تو کبھی نہیں ہو سکتا کہ وہ شیریں کام ہو جاوے یا اگر زبان سے کسی کی دوستی کا اعتراف اور اقرار کرے۔ مگر مصیبت اور دقت پڑنے پر اس کی امداد اور دستگیری سے پہلو تہی کرے، تو وہ دوست صادق نہیں ٹھہرسکتا۔ اسی طرح پر اگر خدا تعالیٰ کی توحید کا نرا زبانی ہی اقرار ہو اور اُس کے ساتھ محبت کا بھی زبانی ہی اقار موجود ہو تو کچھ فائدہ نہیں، بلکہ یہ حصہ زبانی اقرار کی بجائے عملی حصہ کو زیادہ چاہتا ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ زبانی اقرار کوئی چیز نہیں ہے۔ نہیں۔ میرے غرض یہ ہے کہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی تصدیق لازمی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی وقف کرو۔ اور یہی اسلام ہے اور یہی وہ غرض ہے جس کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے۔ پس جو اس وقت اس ثشمہ کے نزدیک نہیں آتا۔ جو خدا تعالیٰ نے اس غرض کے لیے جاری کیا ہے وہ یقینا بے نصیب رہتا ہے۔اگر کچھ لینا ہے اور مقصد کو حاصل کرنا ہے تو طالب صادق کو چاہیے کہ وہ چشمہ کی طرف بڑھے اور آگے قدم رکھے اور اس چشمئہ جاری کے کنارے اپنا منہ رکھ دے اور یہ ہو نہیں سکتا جبتک خدا تعالیٰ کے سامنے غیرت کا چولہ اُتار کر آستانۂ ربوبیت پر نہ گر جاوے اور یہ عہد نہ کرلے کہ خواہ دنیا کی وجاگت جاتی رہے اور مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں، تو بھی خدا کو نہیں چھوڑے گا اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہے گا۔ ابراہیم علیہ السلام کا یہی عظیم الشان اخلاص تھا کہ بیٹے کی قربانی کے لیے تیار ہو گیا۔ اسلام کا منشاء یہ ہے کہ بہت سے ابراہیمؑ بنائے۔ پس تم میں سے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے کہ ابراہیم بنو۔ میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ:
ولی پرست نہ بنو۔ بلکہ ولی بنو
اور پیر پرست نہ بنو۔ بلکہ پیر بنو
تم اُن راہوں سے آئو۔ بیشک وہ تنگ راہیں ہیں۔ لیکن اُن سے داخل ہو کر راحت اور آرام ملتا ہے۔ مگر یہ ضروری ہے کہ اس دروازہ سے بالکل ہلکے ہو کر گزرنا پڑے گا۔ اگر بہت بڑی گٹھڑی سر پر ہو تو مشکل ہے۔ اگر گزرناچاہتے ہو تو اس گٹھڑی کو جو دنیا کے تعلقات اور دنیا کو دین پر مقدم کرنے کی گٹھڑی ہے، پھینک دو۔ ہماری جماعت خدا کو خوش کرنا چاہتی ہے تو اس کو چاہیے کہ اس کو پھینک دے۔تم یقینا یاد رکھو کہ اگر تم میں وفاداری اور اخلاص نہ ہو تو تم جھوٹے ٹھہرو گے۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور راستباز نہیں بن سکتے۔ ایسی صورت میں دشمن سے پہلے وہ ہلاک ہو گا جو وفاداری کو چھوڑ کر غداری کی راہ اختیار کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ فریب نہیں کھاسکتا اور نہ کوئی اُس ے فریب دے سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ تم سچا اخلاص اور صدق پیدا کرو۔
تم پر خدا تعالیٰ کی حجت سب سے بڑھ کر پوری ہوئی ہے۔ تم میں سے کوئی بھی نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کوئی نشان نہیں دیکھا ہے۔ پس تم خدا تعالیٰ کے الزام کے نیچے ہو، اس لیے ضروری ہے کہ تقویٰ اور خشیت تم میں سب سے زیادہ پیدا ہو۔
ذوالقرنین
خدا تعالیٰ نے قراآن شریف میں مختلف طریقوں اور پہلوئوں سے اس سلسلہ کی حقانیت کو ثابت کیا ہے اور بتایا ہے یہانتک کہ ہر ایک قصہ میں اسکی طرف اشارہ کیا ہے۔ مثلاً ذوالقرنین کا قصہ ہے اس میں اس کی پیشگوئی ہے۔ چنانچہ قرآن شریف کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنیں مغرب کی طرف گیا تو اُسے آفتاب غروب ہوتا نظر آیا۔ یعنی تاریکی پائی اور ایک گدلاچشمہ اس نے دیکھا۔ وہاں پر ایک قوم تھی۔ پھر مشرق کی طرف چلتا ہے تو دیکھا کہ اسیک ایسی قوم ہے جو کسی اوٹ میں نہیں اور وہ دھوپ میں جلتی ہے۔ تیسری قوم ملی جس نے یاجوج ماجوج سے بچائو کی درخواست کی۔ اب یہ بظاہر تو قصہ ہے، لیکن حقیقت میں ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے جو اس زمانہ سے متعلق ہے۔ خدا تعالیٰ نے بعض حقائق تو کھول دیئے ہیں اور بعض مخفی رکھے ہیں۔ اس لیے کہ انسان اپنے قویٰ سے کام لے۔ اگر انسان نرے منقولات سے کام لے تو وہ انسان نہیں ہو سکتا۔ ذوالقرنین اس لیا نام رکھا کہ وہ دو صدیوں کو پائے گا۔ اب جس زمانہ میں خدا نے مجھے بھیجا ہے سب صدیوں کو بھی جمع کر دیا ہے کیا یہ انسانی طاقت میں ہے کہ اس طرح پر دو صدیوں کا صاحب ہو جاوے۔
ہندوئوں کی صدی بھٰ پائی اور عیسائیوں کی بھٰ۔ مفتی صاحب نے تو کوئی ۱۶ یا ۱۷ صدیاں جمع کر کے دکھائی تھیں۔
غرض ذوالقرنین کے معنے ہیں دو صدیاں پانے والا۔ اب خدا تعالیٰ نے اس کے لیے نین قوموں کا ذکر کیا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ پہلی قوم جو مغرب میں ہے اور آفتاب وہاں غروب ہوتا ہے اور وہ تاریکی کا چشمہ ہے۔ یہ عیسائیوں کی قوم ہے۔ جس کا آفتابِ صداقت غروب ہو گیا اور آسمانی حق اور نور ان کے پاس نہیں رہا۔
دوسری قوم اس کے مقابل میں وہ ہے جو آفتاب کے پاس ہے، مگر آفتاب سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتی۔ یہ مسلمانوں کی قوم ہے، جن کے پاس آفتابِ صداقت قرآن شریف اس وقت موجود ہے۔ مگر دابتہ الارض نے اُن کو بے خبر بنادیا ہے ۔اور وہ اس سے اُن فوائد کو حاصل نہیں کر سکتے بجز جلنے اور دکھ اٹھانے کے جو ظاہر پرستی کی وجہ سے اُن پر آیا۔ پس یہ قوم اس طرح پر بے نصیب ہو گئی۔ اب ایک تیسری قوم ہے جس نو ذوالقرنین سے اِلتماس کی کہ یا جوج ماجوج کے درے بند کر دے تاکہ وہ اُن کے حملوں سے محفوظ ہو جاویں۔
وہ ہماری قوم ہے جس نے اخلاص اور صدق دل سے مجھے قبول کیا۔ خدا تعالیٰ کی تائیدات سے میں ان حملوں سے اپنی قوم کو محفو ظ کر رہا ہوں، جو یاجوج ماجوج کر رہے ہیں۔ پس اس وقت خدا تعالیٰ تم کو تیار کر رہا ہے۔ تمہارا فرض ہے کہ سچی توبہ کرو اور پنی سچائی اور وفاداری سے خدا کو راضی کرو۔ تاکہ تمہارا آفتاب غروب نہ ہو اور تاریکی کے چشمہ کے پاس جانے والے نہ ٹھہرو اور نہ تم اُن لوگوں سے بنو جنہوں نے آفتاب سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا۔ پس تم پورا فائدہ حاصل کرو اور پاک چشمہ سے پانی پیو تا خدا تم پر رحم کرے۔
بد قسمت انسا ن
وہ انسا ن بد قسمت ہو تا ہے جو خدا تعا لیٰ کے وعدو ں پر ایما ن لا کر وفا دا ر ی اور صبر کے سا تھ ان کا انتظا ر نہیں کر تا اور شیطا ن کے وعدو ں کو یقینی سمجھ بیٹھتا ہے، اس لیے کبھی بے دل نہ ہو جا ؤ اور تنگی اور عسر کی حا لت مین گھبراؤ نہیں خداتعالیٰ خود رزق کے معا ملہ میں فر ما تا ہے
و فی السماء رزقکم وماتو عدو ن(الذار یا ت:۲۳)
انسان جب خدا کو چھوڑتا ہے تو اپھر شیطا ن کا غلا م بن جاتا ہے ۔ وہ انسا ن بہت ہی بڑی ذمہ داری کے نیچے ہو تا ہے جو خدا تعالیٰ کی آیا ت اور نشانا ت کو دیکھ چکا ہو ۔پس کیا تم میں سے کو ئی ہے جو یہ کہے کہ میں نے کو ئی نشا ن نہیں دیکھا ۔ بعض نشان اس قسم کے ہیں کہ لاکھوںکروڑوں انسان انکے گواہ ہیں ۔جو ان نشانو ں کی قدر نہیں کر تااور ان کو حقارت کی نگاہ سے د یکھتا ہے ،وہ اپنی جا ن پر ظلم کرتا ہے ۔خدا تعالیٰ اسکو دشمن سے پہلے ہلا ک کرے گا ۔کیو نکہ وہ شد ید العقاب بھی ہے جو اپنے آپ کو درست نہیں کرتا وہ نہ صر ف اپنی جا ن پر ظلم کر تا ہے ۔ بلکہ اپنے بیوی بچو ں پر بھی ظلم کرتا ہے کیو نکہ جب وہ خو د تبا ہ ہو جا وے گا تو اس کے بیوی بچے بھی ہلا ک اور خوا ر ہوں گے ۔خداتعالیٰ اس کی طر ف اشا رہ کرکے فر ما تا ہے
ولایخاف عقبھا(الشمس:۱۶)
مرد چونکہ
الرجال قوامون علی النساء (النساء :۳۵)
کامصداق ہے ،اس لیے اگر وہ *** لیتاہے تو وہ *** بیوی بچّوںکو بھی دیتاہے اگر برکت پاتاہے تو ہمسائیوں اور شہروالوں تک بھی دیتاہے ۔اس وقت کل ملک میں طاعون کی آگ لگ رہی ہے ۔ وہ لوگ غلطی کررہے ہیں ، جو اس کو ملعون کہتے ہیں ،یہ خداتعالیٰ کاایک فرشتہ ہے جو اس وقت ایک خاص کام کے لیے مامور کیاگیا ہے۔اس کاعلاج خداتعالیٰ نے مجھے یہی بتایاہے ۔
ان اللہ لایغیر مابقوم حتی یغیر واما بانفسہم (الرعد : ۱۲)
یہ طاعون بدکاریوں اور فسق وفجور اور میرے انکار اورستہزاء کانتیجہ ہے اوریہ رک نہیںسکتا جب تک لوگ اپنے اعمال میں پاک تبدیلی نہ کریں اورسبّ شتم سے زبان کو نہ روکیں۔پھرفرماتاہے :
انہ ادی القریۃ۔
اس گائوںکو پریشانی اورنتشار سے حفاظت میںلے لیا ۔کیا اس گائوںمیں ہر قسم کے لوگ چوہڑے ،چمار ،دہریہ ّاور شراب پینے والے اور بیچنے والے اور اور قسم کے لوگ نہیںرہتے ۔مگر خدانے میرے وجود کے باعث سارے گائوںکو اپنی تباہی میںلے لیا اور اس افراتفری اور موت الکلاب سے اُسے محفوظ رکھا جو دوسرے شہروںاور قصبوںمیں ہوتی ہے ۔غرض یہ خداتعالیٰ کے نشان ہیں ، ان کو عزت اورعبرت کی نگاہ سے دیکھو اور اپنی ساری قوتوںکو خداتعالیٰ کی مرضی کے نیچے استعمال کرو ۔ توبہ اور استغفار کرتے رہو خداتعالیٰ اپنا تم پر فضل کرے۔
۲۸دسمبر ۱۹۰۱؁ء
مُرشد اور ُمرید کے تعلقات
مرشد اور مرید کے تعلقات استاد اور شاگرد کی مثال سے سمجھ لینے چاہئیں۔جیسے شاگرد استاد سے فائدہ اُٹھاتاہے ۔اسی طرح مرید اپنے مرشد سے لیکن اگر شاگرد اُستاد سے تعلق تو رکھے مگر اپنی تعلیم میں قدم آگے نہ بڑھائے تو فائدہ نہیں اُٹھاسکتا ۔ یہی حال مرید کاہے پس اس سلسہ میںتعلق پیداکر کے اپنی معرفت اور علم ک وبڑھاناچاہئیے ۔طالب ِحق کو ایک مقام پر پہنچ کر ہر گز ٹھہرنا نہیں چاہئیے ، ورنہ شیطان لعین او رطرف لگا دے گا اور جیسے بند پانی میں عفونت پیداہو جاتی ہے ۔اس طرح اگر مومن اپنی ترقیات کے لیے سعی نہ کر ے ،تو وہ گر جاتاہے ، پس سعادت مند کا فرض ہے وہ طلب دین میںلگارہے ۔ ہمارے نبی کریم ﷺسے بڑھ کر کو ئی
انسان کامل دنیا میںنہیںگزرا۔ لیکن آپ کو بھی
رب ذدنی علما(طہ: ۱۱۵)
کی دعا کی تعلیم ہوئی تھی ۔ اور پھر کون ہے جو اپنی معرفت اور علم پر کامل بھروسہ کر کہ ٹھہر جاوے اور آئندہ ترقی کی ضرورت نہ سمجھے ، جوںجوں انسان اپنے علم اور معرفت میں ترقی کرے گا اُسے معلو م ہوتاجاوے گا کے ابھی بہت سی باتیںحل طلب باقی ہیں بعض امور کو ابتدائی نگاہ میں (اس بچے کی طرح جو اقلید س کی اشکال کو محض بیہودہ سمجھتاہے )بالکل بیہودہ سمجھتے ہیں ، لیکن آخروہی امور صداقت کی صورت میں ان کو نظر آئے اس لیے کس قدر ضروری ہے کے اپنی حیثت کو بدلنے کے ساتھ علم کو بڑھانے کے لیے ہر بات کو تکمیل کی جاوے ،تم نے بہت ہی بیہودہ باتوں کو چھوڑکر اس سلسہ کو قبول کیا ۔اگر تم اسکی بابت پُورا علم اوربصیرت حاصل نہ کرو گے ، تو اس سے تمھیں کیا فائدہ ہو اتمہارے یقین اور معرفت میں قوت کیونکر پیدا ہو گی ۔ذراذراسی بات پر شکوک وشبہات پیداہوں گے اور آخر قدم کو ڈگمگاجانے کا خطرہ ہے ۔
دین کو ہر حال میں دُنیا پر مقدم کرنا چاہیے
دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ، ایک تو وہ جو اسلام ؔ قبول کرکے دنیا کے کاروبا ر اور تجارتوں میں مصروف ہو جاتے ہے۔شیطان ان کے سر پر سوار ہو جاتا ہے ۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے ۔ نہیں صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے ، مگر وہ دین کو دنیاپر مقدم رکھتے تھے ، انہوں نے اسلام ؔقبول کیاتو اسلام کے متعلق سچاعلم جو یقین سے اُن کے دلوں کو لبریز کر دے ۔ انھوں حاصل کیا ، یہی وجہ تھی کے وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے۔کوئی امر اُن کو سچائی کے اظہار سے نہیں روک سکا ۔
میر امطلب اس سے صرف یہ ہے کہ جو بالکل دنیا ہی کے بندے اور غلام ہ وجاتے ہیں ۔ گویا دنیا کے پر ستار ہوجاتے ہیں ۔ایسے لوگوں پر شیطان اپنا غلبہ او ر قابو پالیتا ہے ۔ دوسرے وہ لوگ ہوتے ہیں جودین کی ترقی کی فکر میں ہو جاتے ہیں ۔ یہ وہ گردوہوتا ہے جو حزب اللہ کہلاتا ہے ۔ اور جو شیطان اور اس کے لشکر پر فتح پاتا ہے ۔ مال چونکہ تجارت سے بڑھتاہے ، اس لیے خداتعالیٰ نے بھی طلب دین اور ترقی دین کی خواہش کو ایک تجارت ہی قرار دیا ۔چناچہ فرمایا ہے ۔
ہل ادلکم علے تجارۃتنجیکم من عذاب الیم (الصف:۱۱)
سب سے عمدہ تجارت دین کی ہے ، جو دردناک عذاب سے نجات دیتی ہے ،پس میں بھی خداتعالیٰ کے ان ہی الفاظمیںتمہیں یہ کہتاہو ں کہ ۔
ھل ادلکم علے تجارۃ تنجیکم من عذاب الیم ۔
میںزیادہ اُمید ان پر کرتاہوں جو دینی ترقی اور شوق کو کم نہیں کرتے ۔ جواس شوق کو کم کرتے ہیں مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ شیطان ان پر قابو پالے ۔ اس لیے کبھی سست نہیںہونا چاہیے ۔ہر امر کو جو سمجھ میںنہ آئے پوچھناچاہیے تاکہ معرفت میں زیادت ہو ۔ پوچھناحرام نہیں بہ حیثیت انکار کے بھی پوچھناچاہیے اور عملی ترقی کے لیے بھی جو علمی ترقی چاہتاہے ۔ اس کو چاہیے کے قرآن شریف کو غور سے پڑھیں۔ جہاں سمجھ میں نہ آئے دریافت کر لیں ۔ اگر بعض معارف سمجھ نہ سکے تو دوسروں سے دریافت کر کے فائدہ پہنچائے ۔۔
قرآن شریف ایک دینی سمندر ہے جس کی تہہ میں بڑے بڑے نایاب اور بے بہاگوہر موجود ہیں ۔ جب تم کسی عیسائی سے ملو گے ، تو دیکھوگے کہ اُن میںنقالوں اور ٹھٹھے والوںکی طرح دیانت اور مفقود نظر آئے گی ۔ یوںتو ان میںسے بعض ایسے ہیں جو یہ دعوے کرتے ہیں کہ ہم قرآن شریف کے ترجمہ سے واقف ہیں ۔ مگر انھوں نے تو مشق تو کی ہے ۔ لیکن ان میں روحانیت نہیں ہے اور اس کاہمیںبارہاتجربہ ہو ا ہے جب ان کو بلایا گیا،تواُنھوں نے گریزکی ہے ۔اگر واقعی ان کی معرفت اور علم یقین کے درجہ تک پہنچاہواہے تو پھر یاوجہ ہے کہ وہ گریز کرتے ہیں ۔
لاہور کے بشپ کافرار
دیکھو لاہور کے بشپ صاحب نے لاہور میں بڑے اہم مضامین پر لیکچر دئیے اور اپنی قرآن دانی اور حدیث دانی کے ثبوت کے لیے بڑ ی کوشش کی ،لیکن اُسے ہم نے دعوت کی تو باجود یکہ پاپونیر ؔنے بھی اس کو شرمندگی دلائی ، مگر وہ صرف یہ کہہ کر ہمارادشمن ہے مقابلہ سے بھاگ گیا ۔ ہم کو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بشب صاحب تو مسیح کی تعلیم کا کامل نمونہ ہو نا چاہیے تھا ۔ اور اپنے دشمنو ں کو پیار کرو پر ان کا پورا عمل ہو تا اگر میں ان کا دشمن بھی ہو تا : حا لانکہ میں سچ کہتا ہوں ۔حدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ نو ع انسان کا سب سے بڑھ کر خیر خوا ہ اور دو ست میں ہوں ۔ ہا ں یہ سچ ہے کہ میں ان تعلیمات کا دشمن ہو ں جو انسان کی رو حا نی دشمن ہیں اور اس کی نجا ت کی دشمن ہیں ۔غرض بشپ صا حب کو کئی بار اخباروں نے اس معا ملہ میںشرمندہ کیا ، مگر وہ سامنے نہ آئے ۔ عیسائیوں کی یہ حالت ہے کہ اگر کسی کو سادہ دیکھتے ہیں تو چھوٹا ہے تو بیٹا بنا کر اور بڑا ہے تو با پ بنا کر اندر دا خل ہو تے ہیں۔اور دیکھتے ہیںکہ وہ اگر حالات سے واقف ہے تو پھر اس سے بغض کرتے ہیں اس لیے کہ جب خدا سے تعلق توڑبیٹھتے ہیں تو مخلوق سے سچی ہمدردی کیونکر پیدا ہو ، مگر ہماری جماعت خاص ہے اس کو عام مسلمانوںکی طرح نہ سمجھیں ۔
دَ ا بۃالارض
یہ مسلمان دابۃالارض ہیں اور اس لیے اس کے مخالف ہیں جو آسمان سے آتاہے ۔ جو زمینی باتیں کرتاہے وہ دابۃالارض ہے خداتعالیٰ نے ایساہی فرمایا تھا ۔ رُوحانی اُمور کو وہی دریافت کرتے ہیں جن میںمناسبت ہو ۔چونکہ ان میں مناسبت نہ تھی اس لیے اُنھوں نے عصائے دین کو کھالیا ۔جیسے سیلمان ؑکے عصاکو کھالیا تھا ۔ اور اس سے آگے قرآن شریف میں لکھاہے کہ جب جنّوں کو یہ پتہ لگا اُنھوں نے سر کشی اختیار کی ہے ۔ اسی طرح پر جب عیسائی قوم نے جب اسلام کی یہ حالت دیکھی ۔یعنی اس دابۃالارض نے عصائے رَستی کو کمزور کردیاتو ان قوموںکو اس پر وار کرنے کاموقع دیدیا ،جن وہ ہیں جو چھپ کر وار کرے اور پیار کے رنگ میں دشمنی کرتے ہیں وہی پیار جو حوّاسے آکر نحاش نے کیا تھا اس پیا ر کاانجام وہی ہونا چاہیے جو ابتدامیں ہوا۔آدم پر اس سے مصیبت آئی ۔ اُس وقت گویا وہ خداسے بڑھ کر خیر خواہ ہوگیا ۔ اسی طرح پر یہ بھی وہی حیات ابدی پیش کرتے ہیں، جو شیطان نے کی تھی،اس لیے قرآن شریف نے اوّل او ر آخر کو اس پر ختم کیا اس میں یہ سرِّتھاکہ تابتا یا جاوے کہ ایک آدم آخر میں بھی آنے والاہے قرآن شریف کے اوّل یعنی سورۃ فاتحہ کو
ولاالضالین
پر ختم کیا ۔ یہ امر تما م مفسر بلا تفا ق ما نتے ہیں کہ ضا لین سے عیسا ئی مراد ہیں اور آخر جس پر ختم ہوا وہ یہ ہے قل اعوذ برب س ۔مالک النا س الہ النا س۔من شرالو سوا سالخنا س۔الذی یو سوس فی صدورالناس۔من الجنۃ والنا س ۔(الناس:۲تا۷)
سورۃالناّس سے پہلے قل ھواللہ میں خداتعالیٰ کی تو حید بیا ن فرمائی اور اس طرح پر گویا تثلیث کی تر دید کی اس کے بعد سورۃالناّس کا بیان کرنا صاف ظاہر کرتا ہے کہ عیسائیوں کی طرف اشارہے ۔ پس آخری وصیت یہ کہ شیطان سے بچتے رہو ، یہ شیطان وہی نحاش جس کو اس سورۃمیں خنّاس کہا ، جس سے بچنے کی ہدایت کی ،اور یہ جو فرمایاکہ ربّ کی پناہ میں آئو ۔اس سے معلوم ہو اکہ یہ جسمانی اُمور نہیں ہیں ۔بلکہ روحانی ہیں خداکی معرفت اور معارف اور حقائق پر پکّے ہو جائو تو اس سے بچ جائو گے ۔اس آخری زمانہ میں شیطان اور آدم کی آخری جنگ کا خاص ذکر ہے شیطان کی لڑائی خدااور اس کے فرشتوں سے آدم کے دساتھ ہو کر ہوتی ہے ۔ اور خداتعالیٰ اس کے ہلاک کرنے کا پورے سامان کے ساتھ اُترے گا اور خدا کامسیح اس کا مقابلہ کرے گا ۔ یہ لفظ مثیح ہے جس کے معنی خلیفہ کے ہیں عربی اور عبرانی حدیثوں میں مسیح لکھا ہے ، اور قرآن شریف میں خلیفہ لکھا ہے ۔ غرض اس کے لیے مقدّر تھا اس آخری جنگ میں خاتم الخلفاء جو چھٹے ہزار کے آخر میں پیداہو کامیاب ہو ا ۔
سورۃالعصر میں دنیا کی تاریخ
سورۃالعصر میں دنیاکی تاریخ موجود ہے ،جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے الہام سے مجھ کو اطلاع دی اور یہ اصلی اور سچّی تاریخ ہے جس سے پتہ لگتاہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک کس قدر زمانہ گذراہے ، پس اس حساب سے اب ساتویں ہزار سے کچھ سال گذر گئے ہیں اورخاتم الخلفاء پر چھٹے ہزار کے آخر میں پیداہو ا تاکہ اوّل رابآخر نسبتے داردکامصداق ہو ۔آدم بھی چھٹے دن پیداہوا تھااللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک دن ایک ہزار سال کا ہوتاہے اس چھ دن کے چھ ہزار ہوئے اور پھر آدم کی پیدائش چھٹے دن کے آخر میں ہوئی تھی اس لیے خاتم الخلفاء چھٹے ہزار کے آخر میں ہوااور ساتویں میں جنگ ہے ۔
حق اور باطل کی آخری جنگ
اس جنگ سے توپ وتفنگ کی لڑائی مراد نہیں بلکہ یہ عیسائیت اورالٰہی دین کی آخری جنگ ہے ۔ عیسائیت نیزمینی خدابنالیا ہے اور یہ وُہی خدا یا خیال خد اہے جیسے بہت سی عورتیں وہمی حمل رَجاَکر لیتی ہیں ۔یہاں تک کہ پیٹ میں وہمی طور پر حر کت معلوم ہوتی ہے اور پیٹ بڑھتابھی ہے ۔اس طرح پر فرضی مسیح بنالیا گیا ہے جسے خداسمجھاگیا ہے ۔غرض سچّے کے مقابل وہ کھڑاہے اب یہ لڑائی ان دونوں میں شروع ہے اور خدااس میں اپناچمکتاہوادکھلائے گا ۔
چالیس کروڑبھی سے بھی زائد انسان عیسائی ہوچکے ہیں جب اوّل ہی اوّل یہ لوگ آئے تومولوی ان کے حملوں اور اعتراضوںسے محض ناواقف تھے اُن کو پورا علم نہ اُن کے اعتراضو ں کا تھا اور نہ قرآن شریف کے حقائق سے ہی آگاہ تھے ، بر خلاف اس کے عیسائیوں کے پاس اقبال اور تالیف قلوب کے ذریعے تھے ،اس لیے اُن کی ترقی ہوتی گئی مگر اب اُن میں ایک بھی نہیں جو اس کے تنزل کو دیکھ سکے اب ان کا دور ختم ہونے والا ہے اور مختصر طور پر جعلی فرضی خد اکو سمجھ لیںگے اصل بات تو یہ ہے کہ عیسائیوں کا تاناباناآریہ سنائن سے بھی بودہ ہے ۔ کیونکہ اُنھوںنے ساری بنیاد حیات مسیح پر رکھی ہو ئی ہے اس کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ساری عمارت گر جاتی ہے ۔ یہ بات اس زمانہ میں کہ وہ زندہ
آسمان پر گیا ہے،کوئی مان نہیں سکتا جبکہ دلائل قطعیتہ الدلالت کے ساتۃ ثابت ہو گیا کہ وہ مر گیا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اب تو لاش کے دھا دینے تک توبت پہنچ گئی ہے۔ کیونکہ(سرینگر) کشمیر میں اس کی قبر واقعاتِ صحیحہ کی بناء پر ثابت ہو گئی ہے۔ ان ساری باتوں کے ہوتے ہوئے کون عقلمند یہ قبول کر سکتا ہے اور اِس کی موت دے ساتھ ہی صلیب۔ کفارہ۔ *** وغیرہ ساری باتیں علوم یقینیہ کی طرح غلط ثابت ہو جائیں گی۔ اِن ساری باتوں کے علاوہ یہ مذہب ایسا کمزور ہے کہ جو پہلو اس نے اختیار کیا ہے وہی بودا۔ایک *** ہی کے پہلو کو دیکھو۔ اگر اس پہلو کو اختیار نہ کرتے، تو بہتر تھا۔ کیونکہ جب یہ سچی بات ہے کہ *** کا تعلق دل سے ہے اور اس کا مھہوم یہ ہے کہ ملعون خدا کا اور خدا ملعون کا دشمن ہو جاوے اور خدا سے اس کا کوئی تعلق نہ رہے اور وہ خدا سے برگشتہ ہو جاوے تو پھر کیا باقی رہا۔ ایک کتاب میں لکھا ہے کہ مسیح کو شیطان لیے پھرا۔اگر جسمانی طور پر شیطان لیے پھرا ہوتا تو مسیح تماشہ دکھا سکتے تھے۔ اس کا کوئی معقول جواب تو نہیں دے سکے۔کسی یہودی کو شیطان کہہ دیا اور پھر تین مرتبہ شیطانی الہام ہوا۔ غرض اب عیسائی مذہب کے خاتمہ کا وقت آگیا ہے۔
پس تم اپنی ہمت اور سر گرمی میں سُست نہ ہو۔ بہت سے مسلمان کہلا کر دوسرے امور میں منہمک ہو جاتے ہیں۔ مگر تم خدا سے ڈرو اور سچی تبدیلی اور تقویٰ طہارت پیدا کرو۔ اس راہ میں سست ہوناشیطان کو نقب لگا کر ایمان کا مال لے جانے کا موقع دینا ہے۔
اس وقت وہی خدا جو آدم پر ظاہر ہوا تھا۔اور دوسرے نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے وہی مجھ پر ظاہر ہوا ہے۔ اس وقت خدا نے موقعہ دیا ہے کہ تم اپنے معلومات کو بڑھا سکو۔اس لیا جو ات سمجھ میں نہ آئے اُس کوفو راً پوچھ لینا چاہیے۔جو سمجھنے سے پہلے کہتا ہے کہ سمجھ لیا۔ اس کے دل پر ایک چھالا سا پڑ جاتا ہے۔ آخر وہ نا سور ہو کر بہہ نکلتا ہے۔ میں تھکتا نہیں ہوں، خواہ کوئی ایک سال تک پوچھتا رہے۔ پس اس موقع کی قدر کرو۔میری باتوں کو سنو اور سمجھو اور ان پر عمل کرو۔پھر خادم دین بنو۔ سچائی کو ظاہر کرو۔ خدا سے محبت کرنا اور مخلوق سے ہمدردی کرنا۔ یہ دونوں باتیں دین کی ہیں۔ ان پر عمل کرو؎ٰ۔
۸؍ جنوری ۱۹۰۲ء؁
ابتلاء اور ہم وغم کا فائدہ
فرمایا:
’’اﷲ تعالیٰ چاہتا تو انسان کو ایک حالت میں رکھ سکتا تھا۔ مگر بعض مصالح اور امور ایسے ہوتے ہیں کہ اس پر بعض عجیب وغریب اوقات اور حالتیں آتی رہتی ہیں۔ان میں سے ایک ہم و غم کی بھی حالت ہے۔ان اختلاف حالات اور تغیر وتبدیل اوقات سے اﷲ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتیں اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں۔ کیا اچھا کہا ہے:
اگر دنیا بیک دستور ماندے
بسا اسرار ہا مستور ماندے
جن لوگوں کو کوئی ہم وغم دنیا میں نہیں پہنچتا اور جو بجائے خود اپنے آپ کو بڑے ہی خوش قسمت اور خوشحال سمجھتے ہیں، وہ اﷲ تعالیٰ کے بہت سے اسرار اور حقائق سے ناواقف اور ناآشنا رہتے ہیں۔اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ مدرسوں میں سلسلہ تعلیم کے ساتھ یہ بھی لازم رکھا گیا ہے کہ ایک خاص وقت تک لڑکے ورزش بھی کریں۔اس ورزش اور قواعد وغیرہ سے جو سکھائی جاتی ہے۔ سررشتہ تعلیم کے افسروں کا یہ منشا تو ہو نہیں سکتا کہ ان کو کسی لڑائی کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور نہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ وقت ضائع کیا جاتا ہے اور لڑکوں کا وقت کھیل کود میں دیا جاتا ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اعضاء جو حرکت کو چاہتے ہیں۔ اگر ان کو بالکل بیکار چھوڑ دیا جائے تو پھر ان کی طاقتیں زائل اور ضائع ہو جاویں اور اس طرح پر اُس کو پورا کیا جاتا ہے۔ بظاہر ورزش کرنے سے اعضاء کو تکلیف اور کسی قدر تکان اُن کی پرورش اور صحت کا موجب ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح پر ہماری فطرت کثھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ تکلیھ کو بھی چاہتی ہے تا کہ تکمیل ہو جاوے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہوتا ہے۔ جو وہ انسان کو بعض اوقات ابتلائوں میں ڈال دیتا ہے۔ اس سے اس کی رضا بالقضا اور صبر کی قوتیں بڑھتی ہیں۔ جس شخص کو خدا پر یقین نہیں ہوتا ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ذرا سی تکلیف پہنچنے پر گھبرا جاتے ہیں اور وہ خود کشی میں آرام دیکھتا ہے، مگر انسان کی تکمیل اور تربیت چاہتی ہے کہ اس پر اس قسم کی ابتلاء آویں۔اور تاکہ اﷲ تعالیٰ پر اس کا یقین بڑھے۔
اﷲ تعلیٰ ہر چیز پر قادر ہے ، لیکن جن کو تفرقہ اور ابتلاء نہیں آتا ان کا حال دیکھوکہ کیسا ہوتا ہے۔وہ بالکل دنیا اور اس کی خواہشوں میں منہمک ہو گئے ہیں اُن کا سر اوپر کی طرف نہیں اٹھتا۔ خدا تعالیٰ کا ان کوبھول کر بھی خیال نہیں آتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے اعلیٰ درجہ کی خوبیوں کو ضائع کر دیا اور بجائے اس کے ادنیٰ درجہ کی باتیں حاصل کیں، کیونکہ ایمان اور عرفان کی ترقی ان کے لیے وہ راحت اور اطمینان کا سامان پیدا کرتے جو کسی مال و دولت اور دنیا کی لذت میں نہیں ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ ایک بچہ کی طرح آگ کے انگارہ پر خوش ہو جاتے ہیں اور اس کی سوزش اور نقصان رسانی سے آگاہ نہیں، لیکن جن پر اﷲ تعالیٰ کافضل ہوت اہے اور جن کو ایمان اور یقین کی دولت سے مالا مال کرتا ہے ان پر ابتلاء آتا ہے۔
جو کہتے ہیں کہ ہم پر کوئی ابتلاء نہیں آیا، وہ بدقسمت ہیں۔وہ نازوتعمت میں رہ کر بہائم کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ان کی زبان ہے، مگر وہ حق بول نہیں سکتی۔ خدا کی حمد وثنا اس پر جاری نہیں ہوتی، بلکہ وہ صرف فسق وفجور کی باتیں کرنے کے لیے اور مزہ چکھنے کے واسطے ہے۔ ان کی آنکھیں ہیں، مگر وہ قدرت کا نظارہ نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ وہ بدکاری کے لیے ہیں۔ پھر ان کی خوشی اور راحت کہاں سے میسر آتی ہے۔ یہ مت سمجھو کہ جس کو ہم وغم پہنچتا ہے۔ وہ بدقسمت ہے۔ نہیں۔ خدا اس کو پیار کرتا ہے۔ جیسے مرہم لگانے سے پہلے چیرنا اور جراحی کا عمل ضروری ہے۔ غرض یہ انسانی فطرت میں ایک امر واقع شدہ ہے جس سے اﷲ تعالیٰ یہ ثابت کرتے ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے اور اس میں کیا کیا بلائیں اور حوادث آتے ہیں۔ابتلائوں میں ہی دعائوں کے عجیب وغریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعائوں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔
مجیب اور بولنے والا خدا صرف اسلامؔ پیش کرتا ہے
دنیا میں جس قدر قومیں ہیں۔ کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعائوں کو سنتا ہو۔ کیا ایک ہندو ایک پتھر کے سامنے بیٹھ کر یا درخت کے آگے کھڑا ہو کر یا بیل کے روبرو ہاتھ جوڑ کر کہہ سکتا ہے کہ میرا خدا ایسا ہے کہ میں اس سے دعاکروں تو یہ مجھے جواب دیتاہے؟ ہر گز نہیں۔ کیاایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے۔ وہ میری دعا کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلامؔ کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے۔ جن سے کہا۔ ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱) تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا اور یہ بالکل سچی بات ہے۔ کوئی ہو جو یاک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو۔ وہ مجاہدہ کرے اور دعائوں میں لگا رہے۔ آخر اس کی دعائوں کا جواب اُسے ضرور دیا جاوے گا۔
قرآن شریف میں ایک مقام پر ان لوگوں کے لیے جو گو سالہ پرستی کرتے ہیں اور گو سالہ کو خدا بناتے ہیں آیا ہے۔ الایرجع الیھم قولا (طٰہٰ : ۹۰) کہ وہ اُن کی بات کا کوئی جواب اُن کو نہیں دیتا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو خدا بولتے نہیں ہیں وہ گوسالہ ہی ہیں۔ہم نے عیسائیوں سے بار ہا پچھا ہے کہ اگر تمہارا خدا ایسا ہی ہے جو دعائوں کو سنتا ہے اور ان کے جواب دیتا ہے، تو بتائو وہ کس سے بولتا ہے؟ تم جو یسوع کو خدا کہتے ہو۔ پھر اس کو بلا کر دکھائو۔میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ سارے عیسائی اکٹھے ہو کر بھی یسوع کو پکاریں۔وہ یقینا کوئی جواب نہ دے گا، کیونکہ وہ مر گیا۔
عیسائیوں کو ملزم کرنے والا سوال
عیسائیوں کو ملزم کرنے کے واسطے اس سے بڑھ کر کوئے تیز ہتھیار نہیں ہے۔ ان سے پہلا سوال یہی ہونا چاہیے کہ کیا وہ ناطق خدا ہے یا غیر ناطق؟اگر غیر ناطق ہے تو اس کا گونگا ہونا ہی اُس کے ابطال کی دلیل ہے۔ لیکن اگر وہ ناطق ہ تو پھر اس کو ہمارے مقابل پر بلا کر دکھائو اور اس سے وہ بولیاں بلوائو جن سے سمجھاجاتا ہے کہ وہ انسان کی مقدرت اور طاقت سے باہر ہیں یعنی عظیم الشان پیشگوئیں اور آئندہ کی خبریں۔
مگر وہ پیشگوئیاں اس قسم کی ہی نہیں ہونی چاہئیں جو یسوع نے خود اپنی زندگی میں کی تھیں کہ مرغ بانگ دے گا۔ یا لڑائیاں ہوں گی۔ قحط پڑیں گے بلکہ ایسی پیشگوئیں جن میں قیافہ اور فراست کو دخل نہ ہو بلکہ وہ انسانی طاقت اور ھراست سے بالاتر ہوں۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ کوئی پادری یہ کہنے کی طاقت نہیں رکھ سکتا کہ خدائے قادر کے مقابلہ میں ایک عاجز اور ضعیف انسان یسوع کی اقتداری پیشگوئیاں پیش کر سکے۔ غرض یہ مسلمانوں کی بڑی خوش قسمتی ہے کہ ان کا خدا دعائوں کا سننے والا ہے۔
دُعاؤں کے نتائج میں تاخیر اورتو قّف کی وجہ
کبھی ایسا اتفا ق ہوتا ہے جہ ایک طالب علم نہا یت رقت اور درد کے سا تھ دعائیں کرتا ہے مگر وہ دیکھتا ہے کہ ان دعاؤں کے نتائج میں ایک تاخیر اور توقف واقع ہوتا ہے ۔اس کا سِرّ کیا ہوتا ہے ؟اس میںیہ نکتہ یاد رکھنے کے قا بل ہے کہ اول تو جس قد ر امور دنیا میں ہو تے ہیں ان میں ایک قسم کی تد ریج پا ئی جا تی ہے۔ دیکھو ایک بچّہ کو انسان بننے کے لیے کس قدر مراحلے اور منازل طے کرنے پڑتے ہیں ۔ایک بیج کا درخت بننے کے لیے کس قدر توقّف ہوتاہے ۔ اسی طرح پر اللہ تعالیٰ کے اُمور کا نفاذبھی تدریجاًہوتاہے ۔دوسرے اس توقّف میں یہ مصلحت الٰہی ہوتی ہے کہ انسان اپنے عزم اور عقدِہمت میں پختہ ہوجاوے اورمعرفت میں استحکام اور رُسوخ ہو۔ یہ قائدہ کی بات ہے کہ جس قدر انسان اعلٰی مراتب اور مدراج کو احاصل کرناچاہتا ہے اُسی قدر اس کو زیادہ محنت اور دقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پس استقلال اور ہمت ایک ایسی عمدہ چیز ہے کہ اگر یہ نہ ہوتو انسان کامیابیوں کی منزلوں کو طے نہیں کر سکتا ۔اس لیے ضروری ہوتاہے کہ وہ پہلے مشکلات میں ڈالا جاوے ۔
ان مع العسریسرا (الم نشرح:۷)
اسی لیے فرمایاہے کے ۔
دنیا میں کوئی کامیابی ایسی او رراحت ایسی نہیں ہے جس کی ابتداء اوراوّل میں کوئی رنج نہیں اور مشکل نہ ہو ۔ہمت کو نہ ہارنے والا مستقل مزاج فائدہ اُٹھالیتے ہیں اور کچّے اور ناواقف راستہ میں ہی تھک کر رہ جاتے ہیں پنجابی میں کسی نے کہا ہے ۔
ایہو ہیگی کیمیاجے دن تھوڑے ہو
پس جب خدا پر سچّا ایمان ہو کر وہ میری دُعاؤں ک وسننے والا ہے تو یہ ایمان مشکلات میں بھی ایک لذیذایمان ہو جاتاہے اور غم میں ایک اعلیٰ یاقوتی کاکام دیتاہے ۔ہموم وغموم کے وقت انسان کوئی پناہ نہ ہو تو دل کمزور ہو جاتاہے او رآخر وہ مایوس ہوکر ہلاک ہو جاتاہے اور خود کشی کرنے پر آمادہ ہو جاتاہے ، بلکہ بہت سے ایسے بدقسمت یورپ کے ملکو ں میں خصوصاًپائے جاتے ہیں ۔جوذراسی نامرادی پر گوکی کھاکر مر جاتے ہیں ۔ ایسے کوگوں کاخود کشی کرنا خود اُن کے مذہب کی موت اورکمزوری کی دلیل ہے ۔ اگر اُس میں کوئی قوت اور طاقت ہوتی ہے اپنے ماننے والوں کو ایسی یاس اور نامرادی کی حالت میں نہ چھوڑتا۔ لیکن اگر خداتعالیٰ پر اُسے ایمان ہے او راس قادر کریم ہسی پر یقین رکھتاہے کہ وہ دُعائیں سُنتاہے ، تو اس کے دل میں ایک طاقت آتی ہے ۔
حقیقتِ دُعا
یہ دعائیں حقیقت میں بہت قابل قدر ہوتی ہیں اور دُعاؤں والا آخر کار کامیاب ہوجاتاہے ۔ہاں یہ نادانی اور سوء ادب ہے کہ انسان خداتعالیٰ کے ارادہ کے ساتھ لڑناچاہے۔مثلاًیہ دُعاکرے کہ رات کے پہلے حصّہ میں سورج نکل آوے ۔اس قسم کی دُعائیں گستاخی میں داخل ہوتی ہیں وہ شخص نقصان اُٹھاتاہے اور ناکام رہتاہے جو گبھر انے والااور قبل ازوقت چاہنے ولاہو ۔ گر بیاہ کے دس دن بعد مرد عورت یہ خواہش کریں کہ اب بچّہ پیداہوجاوے ، تو یہ کیسی حماقت ہوگی ،اس وقت تو اسقاط کے خون اور چھچھڑوں سے بھی بے نصیب رہے گی ۔ اسی طرح جو سبزہ کو نمونہیں دیتاوہ دانپڑنے کی نوبت ہی نہیں آنے دیتا۔
میںنے ارادہ یہ کیاہواہے کہ ایک بار اورشرح وبسط کے ساتھ دُعاکے مضمون پر ایک رسالہ لکھوں۔مسلمان دُعاسے بالکل ناواقف ہیں اور بعض ایسے ہیں کہ جن کو بد قسممتی سے ایسا موقعہ ملاکہ دعاکریں ، مگر انہوں نے صبر اور استقلال سے چونکہ کام نہ لیااس لیے نامراد رہ کر سیّداحمدخانی مذہب اختیارکر لیادُعاکوئی چیزنہیں ۔یہ دھوکااور غلطی اس لیے لگتی ہے کہ وہ حقیقت ِدُعاسے محض ناواقف ہوتے ہیں اور اس کے اثر سے بے خبر اور پنی خیالی امیدوں کوپورانہ ہوتے دیکھ کر کہہ اُٹھتے ہیں کے دُعاکوئی چیز نہیں اور اس سے بر گشتہ ہو جاتے ہیں ۔
دُعاربوبیت اورعبودیت کاایک کامل رشتہ ہے ۔ گر دُعاؤں کااثر نہ ہوتاتو اس کاہونانہ ہونابرابر ہے۔ ۱؎
؎ٰالحکم جلد نمبر ۴۵صفحہ۱تا۳پرچہ۱۷دِسمبر ۱۹۰۲؁ء
۸جنوری ۱۹۰۲؁ء(بقیہ تقریر )
قبُولیّت دُعاہستی باری تعالیٰ کی زبردست دلیل ہے
اللہ تعالیٰ کی شناخت کی یہ زبردست دلیل اور اُس کی ہستی پر بڑی بھاری شہادت ہے کے محوداثبات اُس کے ہاتھ میں ہے ۔
یمحواللہ مایشاء ویثبتت۔(الرعد:۴۰)
دیکھواجرام سمادی کتنے بڑے اور عظیم الشان نظر آتے ہیںاور ان کی عظمت کو دیکھ کر ہی بعض نادان اُن کی پرستش کی طرف جھک پڑتے ہیں او راُنھوں نے اُن میں صفات ِالٰہی کو مان لیا ہے ۔ جیسے ہندویا اور دوسرے بُت پرست یاآتش پرست وغیرہ جو سورج کی پوجاکرتے ہیں او راس کو اپنا معبود سمجھتے ہیں ۔کیا وہ یہ کہہ سکتے ہیںکہ سورج اپنے اختیار سے چڑھتاہے یاچُھپتاہے ؟ہر گز نہیں اگر وہ کہیں بھی تووہ کیاثبوت دے سکتے ہیں ۔ وہ ذراسُورج کے سامنے یہ دُعاتو کریں ایک دن وہ نہ چڑھے یا دوپہر کو مثلاچُھپ جاوے تاکہ معلوم ہو کہ وہ کوئی اختیار اور ارادہ بھی رکھتاہے ۔اس کا ٹھیک وقت پر طلو عاور غر وب تو صاف ظا ہر کرتا ہے کہ اس کااپناذاتی کوئی اختیار اور ارادہ نہیںہے ۔
ارادہ کا مالک تب ہی معلوم ہوتاہے کہ وہ دُعاقبول ہواور کرنیوالے امر کو کرے اور نہ کرنے والے نہ کرے ۔ غرض اگر قبولیت ِدُعانہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ کی ہستی پر بہت سے شکوک پیدا ہو سکتے تھے اور ہوئے او ر حقیقت میںجو لوگ قبولیت دُعاکے قائل نہیں ہیں اُن کے پاس اللہ تعالیٰ کی ہستی کی کوئی دلیل ہی نہیں ہے ۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ جو دُعااور اس کی قبولیت پر ایمان نہیں لاتا وہ جہنم میں جاوے گا ، وہ خداہی کاقائل نہیں
اللہ تعالیٰ کی شناخت کایہی طریق ہے اس وقت تک دُعا کرتارہے جبتک خدااس کے دل میں یہ یقین نہ بھر دے او ر اناالحق کی آوازاس کو نہ اجاوے ۔
قبولیّت دُعاکے لیے صبر شرط ہے
اس میںشک نہیںاس مرحلے کو طے کرنے اور اس مقام تک پہنچنے کے لیے بہت سے مشکلات ہیں اور تکلیفیں ہیں ۔مگر ان سب کا علاج صبر سے ہوتاہے ،حافظ ؔنے اچھاکہا ہے ۔شعر
؎گویندسنگ لعل شود در مقام صبر
آرے شوددلیک بخُونِ جگر شود
یادرکھوکوئی آدمی کبھی دُعاسے فیض نہیں اُٹھاسکتا ۔ جب تک وہ صبر میں حد نہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دُعاؤںمیں نہ لگارہے۔ اللہ تعالیٰ پرکبھی بد ظنی اور بد گمانی نہ کرے ۔ اُس کو تمام قدرتو ں اور ارادوں کا مالک تصور کرو یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دُعاؤں میں لگا رہے ۔ وہ وقت آجائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دُعاؤں کو سُن لے گا ا و ر اسے جوا ب دے گا ۔جو لو گ اس نسخہ کو استعما ل کر تے ہیں ‘ وہ کبھی بد نصیب اور مر ہو م نہیں ہو سکتے بلکہ یقیناََ وہ اپنے مقصد میں کامیا ب ہو تے ہیں ۔ خدا تعا لیٰ کی قد رتیں اور طا قتیں بے شما ر ہیں اس نے انسانی تکمیل کے لیے دیر تک صبر کا قا نو ن رکھا ہے پس اس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چا ہتا ہے کہ وہ اس قانو ن کو اس کے لیے بد ل دے ۔وہ گویا اللہ تعا لیٰ کی جنا ب میں گستا خی کر تا ہے اور بے ادبی کی جرأت کرتا ہے پھر یہ بھی یا د رکھنا چا ہیے کہ بعض لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور مدا ری کی طر ح چا ہتے ہیں ایک دم میں سب کا م ہو جایئں میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بے صبری کرے تو بھلا بے صبری سے خدا تعا لیٰ کا کیا بگا ڑے گا ۔ اپنا ہی نقصا ن کرے گا ۔ بے صبری کر کے دیکھ لے وہ کہا ں جائے گا
میں ان با تو ں کو نہیں مان سکتا اور درحقیقت یہ جھوٹے قصے اور فرضی کہا نیاں ہیںکہ فلا ں فقیر نے پھو نک ما ر کر یہ بنا دیا وہ کر دیا ۔ یہ اللہ تعا لیٰ کی سنتااور قرآن شریف کے خلا ف ہے اس لیے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ۔
ہر امر کے فیصلہ کے لیے معیا ر قرآن ہے ۔ دیکھو حضرت یعقو ب علیہ سلا م کا پیا را بیٹا یو سف علیہ السلام جب بھا ئیوں کی شرارت سے ان کو الگ ہو گیا، آپ ؑ چالیس برس تک اس کے لیے دعا ئیں کرتے رہے۔اگر وہ جلد باز نہ ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدانہ ہوتا۔ چالیس برس تک دُعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا ۔ آخر چالیس برس کے بعد وہ دُعائیںکھینچ کر یوسف علیہ السلام کو لے ہی آئیں اس عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ یوسف کو بے فائدہ یاد کرتاہے ۔ مگر اُنھوں نے یہی کہاکہ میں خداسے وہ جانتاہوں جو تم نہیں جانتے ، بیشک ان کو کچھ خبر نہ تھی مگر یہ کہا
انی لاجدریج یوسف (یوسف۹۵)
پہلے تو اتنا ہی معلوم تھاکہ دُعاؤں کاسلسلہ لمباہوگیاہے اگر اللہ تعالیٰ نے دُعاؤں میں محروم رکھناہوتاتو وہ جلد جواب دیتا،مگر اس سلسہ کو لمباہوناقبولیّت کی دلیل ہے کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھاکر کبھی محروم نہ کرتابلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسانہیں کرتا، وہ بھی سائل کو زیادہ دیر تک دروازے پر بٹھائے تو آخر اس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتاہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے دُعاؤں کے زمانہ کی درازی پر ۔
وابیضت عینہ (یوسف ۸۵)
قرآن میں خود دلالت کر رہی ہیں۔ غرض دُعاؤں کے سلسلہ کے دراز ہونے سے کبھی گھبرانا نہیں چائیے ۔
اللہ تعالی ٰہر نبی کی تکمیل بھی جدا جدا پیرایوں میں کرتاہے حضرت یقوب کی تکمیل اللہ تعالیٰ نے اسی غم میں رکھی تھی ۔
مختصر یہ کہ دُعاکایہ اُصول ہے جو اس کو نہیں جانتاوہ خطرناک حالت میں پڑتاہے اور جو اس اُصول کو سمجھ لیتاہے اس کا انجام اچھااور مبارک ہوتاہے ۔
متقی کے لیے مصائب ترقی کا باعث ہوتے ہیں
اور جو لوگ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرہیں ۔ اللہ تعالیٰ جب ان کو پکڑتاہے تو۔ مگر مومن کے حق میںاس کی یہ عادت نہیں ہے ۔ اُن تکالیف کا انجام اچھاہوتاہے اور انجام کار متقی کے لیے ہی ہے ۔جیسے فرمایا:
العاقبۃالمتقین (القصص: ۸۳)
اُن کو جو تکالیف اور مصائب آتے ہیں۔ وہ بھی ان کی ترقیوں کا باعث بنتی ہیں تاکہ ان کا تجربہ ہو جاوے اللہ تعالیٰ پھر ان کے دن پھیر دیتا ہے اور یہ قائدہ کی بات ہے کہ جس شخص کے شکنجہ کے دن آتے ہیں اس پر بہائمی زندگی کا اثر نہیںرہتا ۔ اس پر ایک موت ضرور آجاتی ہے اور خدا شناسی کے بعد وہ لذتیںاو رذوق بہائمی سیرت میں معلوم ہوتے تھے نہیں رہت ،بلکہ ان میں تلخی اور کدورت اور کراہت پیدا ہوتی ہے اور نیکیوں کی طرف توجہ کرنا ایک معمولی عادت ہوجاتی ہے پہلے جو نیکیوں کے کرنے میں طبیعت پر نگرانی اور سختی ہوتی تھی وہ نہیں رہتی ۔
پس یاد رکھو جب تک نفسانی جوشوں سے ملی ہوئی مُرادیں ہوتی ہیں اس وقت تک خداان کو مصلحتاًالگ رکھتاہے اور جب رجوع کرتاہے تو پھر وہ حالت نہیں رہتی ۔ اس بات کو کبھی مت بھولو کہ دنیا روزے چند آخر کار با خدا وند ۔اتنا ہی کام نہیں کہ کھا پی لیا اور ببائم کی طرح زندگی بسر کر لی ۔انسان بہت بڑی زمہ داریاں لے کر آتا ہے ۔اس لیے آخرت کی فکر کرنی چاہئے اور اس کی تیاری ضروری ہیے ۔اس تیاری میں جو تکالیف آتی ہیں وہ رنج و تکلیف کے رنگ میں نہ سمجھو ۔بلکہ اللہ تعالیٰ ان پر بھیجتا ہے جن کو دونوں بہشتوں کا مزہ چکھانا چاہتا ہے ۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتان (الرحمان:۴۷)
مصائب آتے ہیں تاکہ ان عارضی اُمور کو جو تکلف کے رنگ میں ہوتے ہیں نکال دے ۔ مولوی رومیؔنے کیا اچھا کہا ہے۔
عشق اوّل سر کش وخُونی بود
تا گریزو ہر کہ بیرونی بود
سید عبدالقادر جیلانی بھی ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ جب مومن بنناچاہتاہے تو ضرور ہے کہ اس پردکھ اور ابتلاء آویں اور وہ یہاں تک آئے ہیں کہ وہ اپنے آپ کوقریب موت سمجھتاہے اور پھر جب اس حالت تک پہنچ جاتاہے تو رحمت الٰہیہ کاجو ش ہوتاہے ۔ تو
قلنا یا نا رکو نی بردا و سلا ما (الانبیاء:۷۰)
کا حکم ہوتا ہے۔اصل اور آخری بات یہی ہے۔مگر نہ شنیدہ ای کہ چہ غم داری۔ ؎ٰ
۹ جنوری ۱۹۰۶؁ء
آیاتِ مُبین
میرے نزدیک آیات مبین وہ ہوتی ہیں ۔مخالف جن کے مقابلہ سے عاجز ہو جا وے ۔ خواہ وہ کچھ ہی ہو ۔جس کا مقابلہ نہ کر سکے وہ اعجا ز ٹھہر جا ئے گا جبکہ اس کی تحدّی کی گئی ہو ۔یاد رکھنا چا ہیے کہ اقتراح کے نشانوں کو اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ۔نبی کبھی جرأت کر کے یہ نہیں کہے گا کہ تم جو نشا ن مجھ سے مانگومیں وہی دکھا نے کو تیار ہوں اس کے منہ سے جب نکلے گا یہی نکلے گا
انماالایت عنداللہ (العنکبوت:۵۱)
اور یہی اس کی صداقت کا نشا ن ہو تا ہے کم نصیب مخالف اس قسم کی آیتوں سے نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ معجزات سے انکار کیا گیا مگر وہ آنکھو ں کے اندھے ہیں ان کو معجزات کی حقیقت ہی معلوم نہیں ہو تی ، اس کیے وہ ایسے اعترا ض کر تے ہیں اور نہ ذات باری کی عزت اور جبروت کا ادب ان کے دل پر ہو تا ہے ہمارا خدا تعالیٰ پر کیا حق ہے کہ ہم جو کہیںوہ وہی کر دے ۔سوئِ اَدب ہے اور ایسا خدا خداہی نہیں ہو سکتا ۔ ہا ں یہ اس کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو امید اور حو صلہ دلایا کہ
ادعونی استجب لکم (المو من: ۶۱)
نہیں کہا کہ تم جو مانگو گے وہی دیا جاوے گا ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسّلم سے جب بعض اقتراحی نشانات مانگے ، تو آپ ؐ نے یہی خدا کی تعلیم سے جواب دیا
قل سبحان ربی ھل کنت الا بشر ا رسولا( بنی اسرائیل:۹۴)
خدا کے رسو ل کبھی اپنی بشریت کی حد سے نہیں بڑھتے اور وہ آداب الہٰی کو مد نظر رکھتے ہیں ۔باتیں منحصر ہیں معرفت پر۔ جس قدر معرفت بڑھی ہو ئی ہو تی ہے اسی قدر خدا تعا لیٰ کا خوف اور خشیت دل پر مستولی اور سب سے بڑھ کر معرفت انبیاء علیہ سلام کی ہو تی ہے ۔اس لیے ان کی ہر بات اور ہر ادا میںبشریت کا رنگ جدا نظرآتا ہے اور تائید ات الہیہ الگ نظر آتی ہیں۔
ہما را ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ نشا ن دیکھا تا ہے جب چاہتا ہے ،وہ دنیا کو قیامت بنانا نہیں چاہتا اگر وہ ایسا کھلا ہوا ہو کہ جیسے سو رج تو پھر ایمان کیا رہا اور اس کا ثوا ب کیا ؟ایسی صورت میں کو ن بد بخت ہو گا ۔ جو انکا ر کرے گا ۔ نشا ن بیّن ہوتے ہیں لیکن ان کو با ریک بین دیکھ سکتے ہیں اور کو ئی نہین ۔اور یہ دقت نظر اور معرفت سعادت کی وجہ سے عطا ہوتی ہے اور تقویٰ سے ملتی ہے شقی اور فاسق اس کو نہیں دیکھ سکتا ۔ایمان اسوقت تک ایمان ہے جب تک اس میں کوئی پہلو اخفاکا بھی ہو لیکن جب بالکل پردہ بر اندا ز ہو تو وہ ایمان نہیں رہتا ۔ اگر مٹھی بند ہو اور کوئی بتا دے کہ اس میں یہ ہے تو اس کی فراست قابل تعریف ہو سکتی ہے لیکن جب مٹھی کھو ل کر دکھا دی اور پھر کسی نے کہا کہ میں بتا دیتا ہوں تو کیا ہوا۔یا پہلی رات کا چاند اگر کوئی دیکھ کر بتائے ، تو البتہ اسے تیز نظر کہیں گے ، لیکن اگر چودہویں کا چا ند ہو گیا اس وقت کوئی کہے کہ میں نے چاند دیکھ لیا ، وہ چڑھا ہوا ہے تو لوگ اسے پاگل کہیں گے ۔ غر ض معجزا ت وہی ہو تے ہیں جس کی نظیر لا نے پر دوسرے عا جز ہوں ۔انسا ن کا یہ کام نہیں کہ وہ انکی حد بند کرے کہ ایسا ہونا چاہیے ۔یا ویسا ہونا چاہیے ۔اس میں ضرور ہے کہ بعض پہلو اخفا کے ہوں کیو نکہ نشا نا ت کے ظا ہر کر نے سے اللہ تعالیٰ کی غر ض یہ ہو تی ہے کہ ایمان بڑھے اور اس میں عر فا نی رنگ پیدا ہو جس میں ذو ق ملا ہوا ہو ۔ لیکن جب ایسی کھلی با تیں ہوں گی تو اس میں ایما نی رنگ ہی نہیں آسکتا چہ جائیکہ عرفانی اور ذوقی رنگ ہو پس اقترحی نشانات سے اس لیے منع کیا جاتا ہے اور روکا جاتا ہے کہ اس میں پہلی رگ سوء ادبی کی پیدا ہو جاتی ہے جو ایما ن کی جڑ کاٹ ڈا لتی ہے ۔
ایک پرانا الہا م
ابتدائے جنوری ۱۹۰۲؁ء کو ایک عرب صا حب آئے ہوئے تھے ۔ بعض لوگ ان کے متعلق مختلف رائیں رکھتے تھے ۔حضرت اقدس امام علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۹ جنوری کی شب کو اس کے متعلق الہا م ہوا
قد جرت عا دۃ اللہ انہ لا ینفع الا موات الا الدعاء
اس وقت رات کے تین بجے ہوں گے ۔حضرت اقدس فرما تے ہیں کہ اس وقت پر میں نے دعا کی تو یہ الہام ہوا:
فکلمہ من کل باب ولن ینفعہ الا ھذا الدواء (ا ی الدعاء)
اور پھر ایک اور الہا م اسی عرب کے متعلق ہواکہ:
فیتبع القرآن کتا ب اللہ کتاب الصادق۔
چنانچہ ۹ جنوری۱۹۰۲؁ء کی صبح کو جب آپ ؑ سیر کو نکلے توحضرت اقدس ؑنے عربی زبان میں ایک تقر یر فرمائی ۔جس سلسلہ محمدیہ اور مو سویہ کی مشابہت کو بتایا اور پھر سورہ ٔنور کی آیت استخلاف اور سورۂ تحر یم سے اپنے دعاوی پر دلائل پیش کیے اور قرآن شریف اور احادیث کے مراتب بتائے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ عرب صاحب جو بڑے جوش سے بو لتے تھے بالکل صاف ہو گئے اور انہوںنے صدق دل سے بیعت کی اور ایک اشتہار بھی شائع کیا اور بڑے جوش کے ساتھ ا پنے ملک کی طرف بغرض تبلیغ چلے گئے ، چونکہ یہ خدا تعالیٰ کا کلا م تھا ۔ہم نے اس کی عزت وعظمت کے لحاظ سے ضروری سمجھا کہ گو پرانا الہام ہے ، لیکن چونکہ آجتک یہ سلسلہ اشاعت میں نہیں آیا ۔اس کو شا ئع کر دیا جاوے۔
نشانات کس سے صادر ہوتے ہیں ؟
اس سوال کاجواب حضرت حجۃاللہ علیہ السلام نے ایک بار اپنی ایک مختصر تقریر میں دیاہے ۔فرمایا:
’’نشانات کس سے صادر ہوتے ہیں ۔ جس کے اعمال بجائے خود خوارق کے درجہ تک پہنچ جائیں ۔مثلاًایک شخص خداتعالیٰ کے ساتھ وفاداری کرتاہے ۔ وہ ایسی وفاداری کرے کہ اُس کی وفاخارق ہوجاوے ۔اُس کی محبت اُس کی خارق عادت ہو ۔ہر شخص ایثار کرسکتاہے اور کرتابھی ہے ،لیکن اس ایثار کاخارق عادت ہو ۔غرض اس کے اخلاق ۔عبادات اور سب تعلقات جو خداتعالیٰ کے ساتھ رکھتاہے اپنے اندر ایک خارق عادت نمونہ پیداکریں ۔ تو چونکہ خارق عادت کاجواب خارق عادت ہوتاہے اس لیے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر نشانات ظاہر کرنے لگتاہے ۔ پس جوچاہتاہے کہ اس سے نشانات کاصدور ہو تو اس کو چاہئیے کے اپنے اعمال کو اس درجہ تک پہنچائے کے ان میں خارق عادت نتائج کے جذب کی قوت پیداہونے لگے ۔
انبیاء علیہ السلام میں یہی ایک نرالی بات ہوتی ہے ان کا تعلق اندرونی اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایساشدید ہوتاہے کہ دوسرے کسی کاہر گز نہیں ہوتا۔ ان کی عبودیت ایسارشتہ دکھاتی ہے کہ کسی اور کی عبودیت نہیں دکھاسکتی ۔ پس اس کے مقابلے میں ربُو بیّت اپنی تجلی اور اظہار بھی اسی حیثیت اور نگ کاکرتی ہے ۔عبودیت کی مثال عورت کی سی ہوتی ہے کہ جیسے وہ حیااور شرم کے ساتھ رہتی ہے اور جب مرد بیاہنے جاتاہے تو ،وہ علانیہ جاتاہے ۔ اسی طرح پرعبودیت پروہ خفاء میں ہوتی ہے ۔لیکن اُلوہیت جب اپنی تجلی کرتی ہے تووہ پھر ایک بینؔامر ہوجاتاہے۔ اور ان تعلقات کاجو ایک سچّے مومن اور عبد اور اس کے ربّ میں ہوتے ہیں خارق عادت نشانات کے ذریعہ ظہور ہوتاہے ۔ انبیاء علیہ السلام کے معجزات کا یہی راز ہے اور چونکہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلقات اللہ تعالیٰ کے ساتھ کل انبیا ء علیہم السلام سے بڑے ہوئے تھے ۔ اس لیے آپ کے معجزات ہی سب سے بڑے ہوئے ہیں۔۱؎
۱؎ الحکم جلد ۷ نمبر ۱۲صفحہ۳،۴ پرچہ ۳۱ مارچ۱۹۰۳؁ء
۱۵جنوری ۱۹۰۲؁ء (شب)
طاعُون اور لوگوں کی حالت
طاعون کی خبریں سن کر فرمایا :
’’یہ خداکی طرف کس قدر تنبیہہ ہے اگر اب بھی دل بیدار نہ ہوں اور اب بھی خداسے صلح کا عہد باندھنے کے لیے مستعد نہ ہوں تو کیسی بد قسممتی ہے ۔ افسو س ہے کہ لوگ اب بھی خداتعالیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ اور فسق و فجور اور شوخیوں سے با زنہیں آتے ۔ اگر کسی کی اولاد اور عزیزوں پر آفت آجاوے ۔ تو ساری باتیں رہ جائیں۔پھر کس شیخی اور بھروسہ پر انسان خداسے اس قدر سر کشی کرتاہے؟وہ اُس کی حکومت سے بھاگ کر نہیں جاسکتا۔ جب یہ حال ہے توسب سے بہتر اور محفوظ طریق عذاب ِالٰہی سے بچنے کا توخود اُس کی ہی پناہ میں آتاہے ۔وہ احمق ہے جو خدا کے حدود ک وتوڑکر نکلتاہے اس لیے کے ایمان پاوے وہ مصیبت کو بلاتاہے اور عذاب کو جذب کرتاہے ۔ اب وقت ہے کے مسلمان اپنے ایمان اور توبہ کی تجدید کریں۔یہ وقت آیاہے کے خدااپنا وجود دکھاناچاہتاہے اور اپنی ہستی کو منواناچاہتاہے ۔
ایمان باللہ کی تین ذرائع
اللہ تعالیٰ پرایمان لانے اور اس کو مستحکم اور مضبوط کرنے کی تین صورتیں ہیں اور خداتعالیٰ نے وہ تینوں ہی سُورۃافاتحہ میں بیان کردی ہیں :
اوّل۔ للہ تعالیٰنے اپنے حُسن کو دکھایا ہے جب کے جمیع محامد کے ساتھ اپنے آپ کو مُتّصِف کیاہے ۔ یہ قائدہ کی بات ہے کہ خوبی بجائے خود دل کو اپوی طرف کھینچ لیتی ہے ۔خوبی میں ایک مقناطیسی جذب ہے جو دلو ں کو کھینچتی ہے ؔجیسے موتی کی آب ۔گھوڑے کی خوبصورتی ،لباس کی چمک دمک ،غرض یہ حُسن پھولوں ۔پتوں ،پتھروں ،حیوانات ،نباتات ، جمادات کس چیز میں ہو اس کا خاصہ ہے کے بے اختیار دل کو کھینچتاہے ۔ پس خداتعالیٰ نے پہلہ مرحلہ اپنی خدائی منوانے کاحُسن رکھاہے جب
الحمداللہ
فرمایا کہ جمیع اقسام حمدوستائش اسی کے سزاوار ہیں ۔
پھر دوسرا درجہ احسان کا ہوتاہے انسان جیسے حُسن پرمائل ہوتاہے اس لیے پھراللہ تعالیٰ نے
رب العالمین۔الرحمن۔الرحیم۔ملک یوم الدین ۔
صفات کو بیان کر کے اپنے احسان جکی طر ف توجہ دلائی ۔لیکن انسان کا مادہ ایساہی خراب ہو اور وہ حُسن اور احسان سے بھی سمجھ نہ سکے تو پھر تیسراذریعہ سورۃفاتحہ میں
غیر المغضوب
کہہ کر تنبیہہ کیا ہے ۔ اعلیٰ درجہ کے کوگ ت وحُسن سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور جو اُن سے کم درجہ پر ہوں وہ احسان سے فائدہ اُٹھالیتے ہیں ۔ لیکن جو ایسے ہی پلید طبع ہوں اُن کو اپنے جلال اور غضب سے متوجہ کیا ہے ۔ یہودیوں کو مغضوب کہاہے او ران پر طاعون ہی پڑی تھی ۔ خداتعالیٰ نے سورۃفاتحہ میں یہودیوں کی راہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ۔ یا یوں کہوکہ طاعون کے عذاب شدید سے ڈرایا ہے ۔ شیطان بیباک انسان پرایساسوار ہو ہے کہ وہ سُن لیتے ہیں ،مگر عمل نہیںکرتے ۔اصل یہ ہے کہ جذبات اور شہوات پر ایک موت وارد ہو کر اُنہیں بالکل سرد نہ کردے ۔ خداتعالیٰ پر ایمان لانا مشکل ہے ۔اب تو غذب ال۶ہی کے نمونے خطرناک ہیں ابھی تین مہینے باقی ہیں خداجانے کیا ہونے والا ہے۔
مخالفین کے لیے لمحہ فِکریّہ
مخالفین کی خطرناک فحش وتحریروں پر فرمایا:
کہ ہمارے اور اُن کے دل اللہ تعالیٰ ہی کہ ہاتھ میں ہیں ۔ خداتعالیٰ نیّتوں کو خوب جانتا ہے او ران افعا ل کو جو ہم کر رہے ہیں دیکھتا ہے ۔ وہ خود فیصلہ کر دے گا او رسچائی پر اپنی مُہر کر دے گا ۔ ہم کو تویہ تعجب آتاہے اگر یہ لوگ تقویٰ اور خداترسی سے کا م لیتے تو خوف کے محل اور مقام سے ڈر جاتے اور مخالفت میں اس قدر زبان درازی نہ کرتے ج۔ وہ دیکھتے کیا وہ وقت نہیں آیا ۔ مسیح موعود نازل ہو ؟ کیا صلیب کا غلبہ نہیں ؟ کیا اسلامؔکی توہین اور تضحیک نہیں کی جاتی ؟وہ دیکھتے کہ صدی میں انیس سال گزر گئے اور کوئی مدعی کھڑانہ ہو ا۔جو درماندہ اسلام کی حمایت کے لیے میدان میں آتا ۔
؁ پھر ضرورت اور وقت ہی اپنی نگاہ محدود نہ کرتے اگر وہ غور کرتے تو اُن کو معلوم ہوتا کہ آسمان نے صاف شہادت دے دی اور کسوف و خسوف ظاہر ہوگیا جو عظیم الشان نشان مقرر ہو چکاتھا ۔ تائیدی نشانوںکی تعداددن بدن بڑھ رہی ہے وہ اُسے دیکھتے سلسلہ کی ترقیات پر غور کرتے اور سوچتے کیا مفتری اس طرح ترقی کیا کرتے ہیں ؟
ان سب اُمور پر یکجائی نظر کے بعد تقویٰ کا تقاضاتو یہ تھا کہ اس قدر بینؔ شواہد ہوتے ہوئے بھی اگر ان کی نگاہ تاریک تھی ۔تو ہو خاموش ہو جاتے او رصبر سے انتظار کرتے کے انجام کیا ہوتا ہے ۔ مگر یہاں تو شورِعظیم میری مخالفت میںبرپا کیاگیا او ر گندی گالیا ں دی گئیں جن کی نظیر پہلے مخالفو ں میں بھی پائی نہیں جاتی ۔
حجج الکرمہ میں نواب صدیق حسن خان نے لکھا ہے کہ آیا ت پوری ہوگئی ہیں اور پھر اپنی اولاد کو سلام کی وصیّت کرتاہے ۔ مگر کہتاہوں کہ اگر وہ زندہ ہوتے تو خود بھی ان مخالفت کرنے والوں ہی کے ہمراہ ہوتے۔یہ لوگ کب ماننے والے ہوتے جب تک وہی نظارہ آنکھوں سے نہ دیکھ لیں جو خیالی طور پر دل میں فرض کر رکھا ہے ۔ یہ لوگ جو کچھ ان سے بن پڑتاہے میری مخالفت میں کریں مجھے ذر ابھی پرواہ نہیں کیونکہ یہ میرامقابلہ نہیں ۔یہ توخداسے مقابلہ کیا جاتاہے اگر میری اپنی مرضی پر ہوتا ۔ تو میں تخلیہ کو بہت پسند کرتاتھا۔ مگر میں کیا کر سکتا تھا جب کہ خداتعالیٰ نے ہی ایسا پسند کیا ہے ۔ یہ مقابلہ کریں ۔ مگر دیکھ لیں گے کے خداتعالیٰ کے ساتھ کو ئی جنگ نہے ں کرسکتا۔ وہ ایک طرفہ العین میں سالہاسال کی کاراوئی کو ملیا میٹ کر دیتا ہے ۔ اس لیے ہمں یہ خوشی ہے کہ ان کی مخالفت سے ذرابھی رنج نہیں ہوتا ہے ۔ کیونکہ ہمارا خدا ایسا خدا ہے جو سار ی خوبیوںسے متصف ہے جیسے کہ
الحمد للہ
میں ہم کوپہلے ہی بتایا گیا ہے ۔ پھر خداداری چہ غم داری ہمیں ان کی مخالفت کا کیا فکر ؟ ہم کیوں بے حوصلہ ہوں ؟کیا معلوم ہے کہ اُس نے اُس مخالفت کے طوفان کے انجام کیا مقدر رکھاہے ؟یہ جو خداتعالیٰ نے فرمایا ہے
واستفتحودخاب کل جبار عنیہ (ابراہیم :۱۶)
اس سے معلو م ہوتا ہے جب انبیاء او ر رسُل آتے ہیں وہ ایک وقت تک صبر کرتے ہیں اور مخالفوں کی مخالفت جب انتہا تک پہنچ جاتی ہے تو ایک وقت توجہ تام سے اقبال اللہ کر کے فیصلہ چاہتے ہیں اور پھر نتیجہ یہ ہوتاہے ۔
دخاب کل جبار عنیہ۔ استفتحوا
سنت اللہ کو بیا ن کرتاہے کہ وہ اس وقت فیصلہ چاہتے ہیں اور اس فیصلہ چاہنے کی خواہش ان میں پیدا ہی ا س وقت ہوتی ہے جب گویا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے پس ہم اپنی مخالفوں کی مخالفت کی کیا پرواہ کریں یہ مخالف نوبت بہ نوبت اپنے فرضیِ منصبی کو سر انجام دیتے ہیں ۔ ابتداء ان کی ہوتی ہے اور انجام متقیوں کا ۔
والعاقبۃللمتقین (الاعراف : ۱۲۹ ) ۱؎
۱؎ الحکم جلد ۶ نمبر ۹ صفحہ ۶۔۶ پرچہ ۱۰ مارچ ۱۹۰۲؁ء
۱۵جنوری ۱۹۰۲؁ء

عصمت اور شفاعت
(ایڈیٹرکے اپنے الفاظ میں )
فرمایا :
تعجب ہے عیسائی لوگ شفاعت کے لیے عصمت کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں کیوں کہ ان کہ ہاں فری عصمت شفاعت کا موجب نہیں ہو سکتی بلکہ شفاعت تب ہو سکتی ہے جب کہ شفیع معصوم ہو اور پھر وہ ابن اللہ ہو اور پھر صلیب پر لٹکایا جاکر ملعون ہو ۔ جب تک یہ تثلیث عیسائی مذہب کے عقیدہ کے موافق قائم نہ ہو ۔ شفیع نہیں ہوسکتا ۔ پھر وہ عصمت عصمت ہی کیوں پکارتے ہیں ۔ کیا اگر کوئی معصوم اُن کے سامنے پیش کیا جاوے یا ثابت کردیا جاوے تو وہ مان لیں گے کہ وہ شفیع ہے ؟ہر گز نہیں ۔ بلکہ عیسائی عقیدہ کے موافق یہ ضروری ہے کہ وہ خدا بھی نہ ہو بلکہ ابن اللہ ہو اور وہ مصلوب ہو کر جب تک ملعون نہ ہولے ۔ ہر گز ہرگز وہ شفیع نہیں سکتا اور پھر ایک اور بات قابل ِغور ہے کہ جب یسوع خود خدا تھا اور اس لیے علّۃ العلل تھا اور اس نے کل جہان کے گناہ بھی اپنے ذمے لے لے پھر وہ معصوم کیونکر ہو اور گناہوں کا تذکرہ ہم چھوڑتے ہیں جو یہودی مورخوں اور فری تھنکروں (آزاد خیا ل )نے ان کی انجیل سے ثابت کیے ہیں ۔ لیکن جب اس نے خو دگناہ اُٹھالیے اور بوجہ علت العلل ہونے کے سارے گناہوں کا کرانے والا ہی وہی ٹھہرا ۔ تو پھر اسے معصوم قرار دینا عجیب دانشمندی ہے ۔ پھر خداکا نام معصوم نہیں ۔ کیونکہ معصوم وہ ہو جس کا کوئی دوسرا عاصم ہو ۔ خدا کا نام عاصم ہے ۔ اس لیے جب شفاعت کے لیے انبیت کی ضرورت ہے اور اُس کے لیے بھی مصلوبیت کی *** ضروری ہے تو یہ سارا تانابانا ہی بنائے فاسد بر فاسدکا مصداق ہے ۔
حقیقی اور سچّی بات یہ ہے جو میں نے پہلے بھی بیان کی تھی کہ شفیع کے لیے ضرورت ہے اوّل خدا تعالیٰ سے تعلق کامل ہو ۔ تاکہ وہ خدا سے فیض کو حاصل کر ے اور پھر مخلوق سے شدید تعلق ہوتاہے کہ وہ فیض اور خیر جو وہ خدا سے حاصل کرتاہے مخلوق کو پہنچاوے ۔جب تک یہ دونوں تعلق شدید نہ ہوں شفیع نہیں ہوسکتا پھر اسی مسئلہ پر تیسری بحث قابلِ غور یہ ہے کہ جب تک یہ دونوں نمونے نہ دیکھے جائیں کوئی مفید نتیجہ نہیں نکل سکتا اور ساری بحثیں فرضی ہیں ۔ مسیح کے نمونہ کودیکھ لو کہ چند حواریوں کو بھی درست نہ کر سکے ۔ ہمیشہ اُن کو سُست اعتقاد کہتے رہے بلکہ بعض کو شیطان بھی کہا اور انجیل کی رو سے کوئی نمونہ کامل ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ بالمقابل ہمارے نبی کریم ﷺکامل نمونہ ہیں کہ کیسے روحانی اور جسمانی طور پر انھوں نے عذاب الیم سے چھڑایااورگناہ کی زندگی سے اُن کو نکالاکہ عالم ہی پلٹ دیا ۔ایساہی حضرت موسیٰ کی شفاعت سے بھی فائدہ پہنچا عیسائی جو مسیح کو مثیل موسیٰ قراردیتے ہیں تو یہ ثابت نہیں کرسکتے کے موسیٰ کی طرح اُنھوں نے گناہ سے قوم کو بچایا ہو۔بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسیح کے بعد قوم کی حالت بہت بگڑ گئی اور اب بھی اگر کسی کو شک ہو تولنڈن یا یورپ کے دوسرے شہروں میں جا کردیکھ لے کہ آیا گناہ سے چھُڑالیا ہی یا پھنسادیا ہے اور یو ں کہنے توایک چوہڑابھی کہہ سکتا ہے کہ بالمیک نے چھڑایا مگر یہ ۔۔۔۔۔۔نرے دعوے ہی ہیں جن کے ساتھ کوئی واضح ثبوت نہیںہے ۔پس عیسائیوں کایہ کہنا کہ مسیح چھوڑنے کے لیے آیا تھا ۔ ایک خیا لی بات ہے جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ا۲ن کے بعد قوم کیی حالت بہت
بگڑگئی اور روحانیت سے بہت دور جاپڑی ۔


۰۵۔۳۔۲
ہاں سچّا شفیع اور کامل شفیع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنہوں نے قوم کو بت پرستی اورہر قسم کے فسق و فجور کی گندگیوں اور ناپاکیوںسے نکال کر اعلیٰ درجہ کی قوم بنادیا اور پھر ا س کاثبوت یہ ہے کہ ہر زمانہ میں آپ ؐکی پاکیزگی اور صداقت کے ثبوت کے لیے اللہ تعالیٰ نے نمونہ بھیج دیتاہے اس کے بعد استغفار کا مسئلہ بھی قابل غور ہے ۔عیسائیوں نے اپنی جہالت اور نادانی سے اس پاک اصول پر نکتہ چینی کی ہے ،حالانکہ یہ انسان کی طبعی منزلوں میں سے ایک منزل ہے ۔
جاننا چاہئیے کے اللہ تعالیٰ کے قرآن شریف نے دو نام پیش کیے ہیں۔اَلْحَیّ اور اَلْقَیّوم۔ الحیّ کے معنی ہیںخود زندہ اور دوسروں کو زندگی عطاکرنے والا ۔القیّوم ؔخود قائم اور دوسروں کے قیام کااصلی باعث ۔ہر ایک چیز کا ظاہری باطنی قیام اور زندگی انہیں دونوں کے طفیل سے ہے ۔پس حیّؔکا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی عبادت کی جائے جیسا کہ اس کا مظہر سورۃ فاتحہ میں
ایاک نعبد
ہے اور القیوم ؔچاہتا ہے کہ اس سے سہار اطلب کیاجاوے اس کو
ایاک نستعین
کے لفظ سے ادا کیا گیا ہے ۔
حیّ کا لفظ عبادت کو اس لیے چاہتا ہے کہ اس نے پیدا کیا ہے اور پھر پید اکر کہ چھوڑ نہیں دیاہے ۔ جیسے مثلاً معمار جس نے عمارت کو بنایا ہے اُس کا مر جانے سے عمارت کا کوئی حرج نہیں ہے ، مگر انسان کو خداکی ضرورت ہر حال میں رہتی ہے ۔اس لیے ضروری ہواکہ خداسے طاقت طلب کرتے رہیںاور یہی استغفار ہے ۔ اصل حقیقت تو استغفار کی یہ ہے ۔ پھر اس کو وسیع کر کے اُن لوگوں کے لیے کیاگیا کہ جو گناہ کرتے ہیں کے اُن کے بُرے نتائج سے محفو ظ رکھا جاوے ، لیکن اصل یہ ہے ک انسانی کمزوریوں سے بچایا جاوے ۔ پس جو شخص انسان ہو کر استغفار کی ضرورت نہیں سمجھتا وہ بے ادب اور دہریّہ ہے ۔ ۱؎
۱۵جنوری ۱۹۰۲؁ء
مخالفانہ تحریروں کاجواب
مخالف جو گالیاں دیتے ہیں گندے اور ناپاک اشتہار شائع کرتے ہیں ۔ ہم کو اُن کا جواب گالیوںسے کبھی دینا نہیں چاہئیے ۔ ہم کو سخت زبانی کی ضرورت نہیں ، کیونکہ سخت زبانی سے برکت جاتی رہتی ہے ،اس لیے ہم نہیں چاہتے کہ اپنی برکت کو کم کریں ۔اُن کو تو مخاطب کرنے کی بھی ضرورت نہیں ۔یہ لوگ بجائے خود واجب الرحم ہیں ۔ہاں فضول باتوں کو نکال کر اگر کسی معقول اعتراض کا جواب عوام کو دھوکہ سے بچانے کے لیے دیا جاوے تو نامناسب نہیں ۔اگر ہم ان کے مقابل پر سخت زبانی کا استعمال کریں ۔تو یہ تو اپنے مرتبے کا بھی تذلّل ہے ۔اگر کبھی کوئی سخت لفظ استعمال کیا گیا ہے تو وہ حق کی لازمی مرارت ہے جو دوا کے طور پر ہے جس کی نظیر انجیل اور نبیوں کے کلام میں پائی جاتی ہے ۔رِیس اور تقلید کرنا انبیاء کا کام نہیں۔نام تو وہی ہوتا ہے جو آسمان پر رکھا جاتا ہے ۔کسی کے ظالم ۔کافر کہنے سے کیا بنتا ہے ۔زمینی ناموںکا آخر خاتمہ ہو جاتا ہے اور آسمانی نام ہی رہ جاتے ہیں ۔ پس دنیا کے کیڑوں کے ناموں کی کیا پروا؟اُس نام کی قدر کرو جو آسمان پر نیک لکھاجاوے۔

مسیح کے دو زرد چادروں میں نزول
زرد چادروں سے مُراد اگر یہی ہے جوہمارے مخالف بیان کرتے ہیں توپھر عام ہندو جو گیوں اور مسیح میں مابہ الامتیاز کیا ہوگ ۔ اصل میں خداکی چادر اپنے الگ معنی رکھتی ہے اور وہ وہی ہیں جوخداتعالیٰ نے مجھ پر کھولے ہوئے ہیں کہ دوزرد چادروں سے مُراد دو بیماریا ں ہیں جو مجھے لاحق حال ہیں ۔

آداب ِتبلیغ
دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں عوامؔ۔ متوّط ؔدرجے کے ۔اُمرائًؔ ۔ عوام عموماً کم فہم ہوتے ہیں ۔ اُن کی سمجھ موٹی ہوتی ہے ۔ اس لیے اُن کو سمجھانہ بہت مشکل ہی ہوتاہے ۔ اُمراء کے لیے سمجھانہ بھی مشکل ہوتاہے ، کیونکہ وہ نازک مزاج ہوتے ہیں اور جلد گھبراجاتے ہیں اور اُن کا تکبر اور تعلیّ اور بھی سَدِّراہ ہوتی ہے ۔
اس لیے اُن کے ساتھ گفتگوکرنے والے کو چاہئیے کہ وہ اُن کے طرز کے موافق اُن سے کلام کرے یعنی مختصر مگر پورے مطلب کو ادا کرنے والی تقریر ہو۔ قَلَّ وَدَلَّ مگر عوام کو تبلیغ کرنے کے لیے تقریر بہت ہی صاف اور عام فہم ہونی چاہئیے ۔ رہے اوسط درجہ کے لوگ ۔ زیادہ تر گردہ اس قابل ہوتاہے کہ ان کی تبلیغ کی جاوے ۔ وہ بات کو سمجھ سکتے ہیں اور اُن کے مزاجمیں وہ تعلیّاور تکبّر اور نزاکت بھی نہیں ہوتی جو اُمراء کے مزاج میں ہوتی ہے ۔ ا س لیے ان کوسمجھانا بہت مشکل نہیں ہوتا ۔

بعثت انبیاء پر لوگ کس طرح ہدایت پاتے ہیں
جب انبیاء علیہم السّلام مامُور ہوکر دنیا میں آتے ہیں تو لوگ تین ذریعوںسے ہدایت پاتے ہیں ۔یہ اس کے لیے تین ہی قسم کے لوگ ہوتے ہیں ظالم ؔ ۔ مقتصد ؔؔ۔ سابق بالخیرات ۔
اوّل ؔدرجے کے لوگ سابق ؔ بالخیرات ہوتے ہیں جن کو دلائل اور معجزات کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔ وہ ایسے صاف دل اور سعید ہوتے ہیں کہ مامُور کے چہرہ ہی کو دیکھ کراسکی صداقت کے قائل ہوجاتے ہیںاور اُس کے دعویٰ کو ہی سُن کر اس ک وبرنگ دلیل سمجھ لیتے ہیں ۔ اُن کی عقل ایسی لطیف واقع ہوئی ہوتی ہے کہ وہ انبیاء کی ظاہری صُورت اور اُن کی باتوں کو سُن کر قبول کرلیتے ہیں ۔
دُوسرےؔ درجہ کے لوگ مقتصدین ؔ کہلاتے ہیںجو ہوتے تو سعید ہیں ۔ مگر اُن کے دلائل کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ شہادت سے مانتے ہیں ۔
تیسرے ؔ درجے کے لوگ جو ظالمین ہیں ان کی طبیعت اور فطرت کچھ ایسی واضع واقع ہوتی ہے وہ بجز مار کھانے اور سختی کے مانتے ہی نہیں ۔
جو لوگ بہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام جبرسے پھیلا ہے وہ تو بالکل جھوٹے ہیں ۔ کیونکہ اسلامی جنگیں دفاعی اصول پر تھیں ، مگر ہاں یہ سچّ ہے کہ خداتعالیٰ نے اپنے قانون پر یہ بات رکھی ہوئی ہے کہ تیسرے درجہ کے لوگ یعنے ظالمین کے لیے ایک طریق رکھا ہوا ہے جو بظاہر جبر کہلاتاہے اور ہرنبی کے وقت میں عوام کی ہدایت جبر کے کسی نہ کسی پیرایہ میں ہوتی ہے ، کیونکہ دُوربین سے دیکھنے والے کا مقابلہ مجرّد آنکھ سے دیکھنے والا نہیںکرسکتا ۔ جب کہ استعداد یں مختلف ہیں تو پھر سب کے لیے ایک ہی ذریعہ کیونکر مفید ہوسکتاہے ۔
بڑے مقبول اور مقرّب اور رسالت کی سچّی خلافت حاصل کرنے والے وہی ہوتے ۔ ج وسابق بالخیرات ہوتے ہیں اُن کی مثال حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سی ہے آپ نے کو ئی معجزاء اور نشان طلب نہیںکیا سُنتے ہی ایمان لے آئے ۔
او رحقیقت میں یہ ہے بھی سچّ اس لیے کہ جس شخص کو مامُور کی اخلاقی حالت کی واقفیت ہو اس کو معجزہ اور نشان کی ہر گز ضرورت نہیں ہوتی ۔اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد دلایا کہ
فقد لبثت فیکم عمرا من قبلہ (یونس : ۱۷ )
سابقین کوتویہ صورت پیش آتی ہے کہ وہ اپنی فراست صحیحہ ہے سے ہی تاڑ جاتے ہیں ۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب آپؐ مدینہ تشریف لے گئے تو بہت سے لوگ آپؐ کو دیکھنے آئے ۔ایک یہودی بھی آیا اور اس سے ج لوگوں نے پوچھا تو اُس یہی کہا کہ یہ منہ تو جھوٹوں کا نہیں ہے اور مقتصد لوگ وہ ہوتے ہیں جو دلائل اور معجزات کے محتاج ہوتے ہیں اور تیسری قسم ظالمین کی ہے جو سختی سے مانتے ہیں ۔جیسے موسیٰ علیہ السّلام کے زمانے میں کبھی طاعون سے اورکبھی زلزلہ سے ہلاک ہوئے اور دُوسروں کے لیے عبرت گاہ بنے ۔یہ ایک قسم کا جبر ہے جو اس تیسری قسم کے لیے خداتعالیٰ نے رکھا ہوا ہے اور سلسل نبوّت میں ی لازمی طور پر پایا جاتاہے ۔
مامُور من اللہ شفیع ہوتا ہے
مامُور اللہ کی دعاؤں کا کُل جہان پر اثر ہوتا ہے اور یہ خداتعالیٰ کاایک قانون ہے جس کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا ہے ۔ جن لوگوں نے شفیع کے مسئلہ سے انکار کیا انھوں نے سخت غلطی کھائی ہے ۔ شفیع کو قانون قدرت چاہتاہے ۔ اُس کو ایک تعلق شدید خداتعالیٰ سے ہوتا ہے اور دُوسرا مخلوق سے ۔ مخلوق کی ہمدردی اس میںاس قدر ہوتی ہے کہ یُوںکہناچاہئیے کہ اُس کے قلب کی بناوٹ ہی ایسی ہوتی ہے کہ وہ ہمدردی کے لیے جلد متاثرہوجاتاہے اس لیے وُہ خداسے لیتاہے اپنی عقدہمّت اور توجّہ سے مخلوق کو پہنچاتاہے اور اپنا اثر اُس پر ڈالتا ہے ۔اور یہی شفاعت ہے ۔
انسان کی دُعااور توجّہ کے ساتھ مصیبت کارفع ہونا یا مصیبت اور ذنوب کا کم ہونا یہ سب شفاعت کے نیچے ہے ۔ توجہ سب پر اثر کرتی ہے خواہ مامُور کو اپنے ساتھ تعلق رکھنے والوں کانام بھی یا د ہونہ ہو ۔ ۱؎
۱۵جنوری۱۹۰۲؁ء (بقیہ تقریر )
مامُور کی صُحبت
شریعت کی کتابیں حقائق اور معارف کا ذخیرہ اہوتی ہیں ۔ لیکن حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیںمل سکتی جب تک صادق کی صُحبت اخلاص او رصدق سے اختیار نہ کی جاوے ۔ اس لیے قران شریف فرماتا ہے ۔
یاایھاالزین امنو اتقوا اللہ راکونو مع الصادقین (التوبہ ۱۹ )
اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور اتقاء کے مدارج کامل طور پر کھبی حاصل نہیں ہوسکتے جب تک صادف کی معیّت او رصُحبت نہ ہو ، کیونکہ اس کی صُحبت میں رہ کر وہ اس کے انفاس ِطیّبہ عقد ہمت اور توجہ سے فائدہ اُٹھاتاہے ۔
قبول ہونے والی دُعاکا راز
دُعاجب قبول ہونے والی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے دل میں ایک جوش اور اضطراب پیدا کر دیتا ہے او ربسا اوقا ت اللہ تعالے ٰ خد ہی ایک دُعا سکھاتا ہے اور الہامی طور پر اُس کا پیرایہ بتادیتا ہے جیسا کے فرمادیتا ہے
فتلقی ادم من ربہ کلمات (البقرہ ۳۸ )
اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو قبول ہونے والی دُعا ئیں خود سکھادیتا ہے ۔
بعض اوقات ایسی دُعائیں ایسا حصّہ بھی ہوتا ہے جن ک ودُعا کرنے والا ناپسند کرتا ہے ، مگر وہ قبول ہو جاتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس آیات کے مصداق ہیں ۔
عسیٰ ان تکرھو شیئاوھوا خیرلکم ( البقرہ ۲۱۷)
مامُور من اللہ کی سچّی ہمدردی
مامُورمن اللہ جب آتا ہے تو اس کی فطرت میں سچُی ہمدردی رکھی جاتی ہے اور یہ ہمدردی عوام سے بھی ہوجاتی ہے اور جماعت سے بھی ۔ اس ہمدردی میں ہمارے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھے ہوئے تھے ۔ اس لیے کہ آپؐ کُل دنیا کے لیے مامُور ہو کر آئے تھے اور آپ ؐ سے پہلے جس قدر نبی آئے وہ مختص القوم اور مختص الزمان کے طور پرتھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کل دنیا اور ہمیشہ کے لیے نبی تھے ، اس لیے آپ ؐ کی ہمدردی بھی کامل ہمدردی تھی ، چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
لعلک باخع نفسک الایکونو مومنین ( الشعرا ء : ۴ )
‏Amira
اس کے لیے ایک تویہ معنے ہیں کہ کیا تو ان کے مومن نہ ہونے کی ھکر میں اپنی جان دے دیگا۔ اس آیت سے اس درد اور ھکر کا پتہ لگ سکتا ہے جو آپؐ کو دنیاکی تباہ حالت دیکھ کر ہوتا تھا کہ وہ مومن بن جاوے۔ یہ تو آپؐ کی عام ہمدردی کے لیے ہے اور یہ معنے بھی اس آیت کے ہیں کہ مومن کو مومن بنانے کی ھکر میں تو اپنی جان دے دیگا۔ یعنی ایمان کو کامل بنانے میں۔
اسی لیے دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
یا ایھا الذین امنوا امنواباﷲورسولہ (النساء : ۱۳۷)
بظاہر تو یہ تخصیل حاصل معلوم ہوتی ہوگی، لیکن جب حقیقت حال پر غور کی جاوے، تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ کئی مراتب ہوتے ہیں، اس لیے اﷲ تعالیٰ تکمیل چاہتا ہے۔
غرض مامور کی ہمدردی مخلوق کے ساتھ اس درجہ کی ہوتی ہے کہ وہ بہت جلد اُس سے متاثر ہو تے ہے۔
اﷲ تعالیٰ اور اُس کے ماموروں کے درمیان دو قسم کے تعلقات ہوتے ہیں۔مامور تو اﷲ تعالیٰ کا رسول ہوتا ہی ہے، لیکن بعض مقامات پر اﷲ تعالیٰ بھی مامور کا رسول ہو جاتا ہے۔ یہ ایک باریک بھید ہے جس کو ہر شخص جلدی نہیں سمجھ سکتا۔یہ صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب مامور اپنی جماعت کو اپنی منشاء کے موافق نہیں دیکھتا تو اس کے دل میں ایک درد پیدا ہوتا ہے اور اس پر ایک ٹھوکر لگتی ہے۔ اس وقت خدا تعالیٰ تمثیلی طور پر بعض افرادکو اُن کے عیوب اُن پر ظاہر کر دیتا ہے اور کبھی اس ھعل کا علم مامور اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے انسان دونوں کو ہوتا ہے اور کبھی ایک ہی کو۔
[ہم اس عقدہ کو حل کرنے کے لیے ذرا مثال کے طور پر سمجھا دیتے ہیں بہت سے لوگ ایسے ہوں گے بلکہ قریباً ہر ایک شخص پر اس قسم کے واقعات گزرے ہوں گے کہ جب کبھی وہ کسی گناہ کی حالت میں گرفتار ہونے کو ہوا ہے تو رویا میں حضرت اقدسؑ کی اُس نے زیارت کی اور اس گناہ کی حالت سے بچ گیا۔ اس قسم کے تمثیلات وہ ہوتے ہیں جن میں اﷲ تعالیٰ مامور کا رسول ہو کر اپنا فیض پہنچاتا ہے ؎ٰ]
بغیر تاریخ کے ۱۹۰۲ء؁
قضا اور دعا
قدر اور جبر پر بڑی بڑی بحثیں ہوئی ہیں، مگر تعجب کی بات ہے کہ لوگ اس پر کیوں بحث کرتے ہیں۔ میرا مذہب یہ ہے کہ قرونِ ثلاثہ کے بعد ہی اس قسم کی بحثوں کی بنیاد پڑی ہے؛ ورنہ انسانیت یہ چاہتی تھی کہ ان پر توجہ نہ کی جاوے ۔ جب روحانیت کم ہو گئی تو اس قسم کی بحثوں کا بھی آغاز ہو گیا۔
جس شخص کا یہ ایمان نہ ہو کہ
انما امرہ اذا ارادشبیئا ان یقول لہ کن فیکون (یٰسٓ : ۸۳)
میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اُس نے خدا تعالیٰ کو نہیں پہچانا اور ایسا ہی اس شخص نے بھی شناخت نہیں کیا جو اس کو علیم بذات الصّدور اور حیّ و قیوم کہ دوسروں کی حیات و قیام اسی سے ہے اور وہ مدبّر بالطّبع نہیں مانتا جو فلاسفروں کا عقیدہ ہے۔ غرض ہم اﷲ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ بات قریب بہ کفر ہو جاتی ہے۔ اگر یہ تسلیم کریں کہ کوئی حرکت یا سکون یا ظلمت یا نور بُدوں خدا کے ارادے کے ہو جاتا ہے اس پر ثبوت اوّل قانونِ قدرت ہے۔ انسان کو اﷲ تعالیٰ نے دو آنکھیں ، دو کان ایک ناک دیئے ہیں۔ اتنے ہی اعضاء لے کر بچہ پیدا ہوتا ہے۔ پھر اسی طرح عمر ہے اور بہت سے امور ہیں جو ایک دائرہ کے اندر محدود ہیں۔ بعض کے اولاد نہیں ہوتی۔ بعض کے لڑکے یا لڑکیاں ہی ہوتی ہیں۔ غرض یہ امور خدا تعالیٰ کے قدیر ہونے کو ثابت کرتے ہیں۔
پس ہمارا مذہب یہ ہے کہ خدا کی اُلوہیّت اور ربوبیّت ذرّہ ذرّہ پر محیط ہے؛ اگر چہ احادیث میں آیا ہے کہ بدی شیطان یا نفس کی طرف سے ہوتی ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ وہ بدی جس کو بدی سمجھا جاوے، مگر بعض بدیاں ایسی ہیں کہ اُن کے اسرار اور حکم اور مفہوم سے ہم آگاہ نہیں ہیں۔ جیسے آدم کا دانہ کھانا۔ غرض ہزار ہا اسرار ہیں جو مستحد ثات کا رنگ دکھانے کے لیے کر رکھے ہیں قرآن شریف میں ہے۔
ماکان لنفس ان تموت الا باذن اﷲ (آلِ عمران : ۱۴۶)
تموت میں روحانی اور جسمانی دونوں باتیں رکھی ہوئی ہیں۔ ایسے ہی ہدائت اور ضلالت خدا کے ہاتھ میں ہے۔ اس پر اعتراض یہ ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ لغو ہو جاتا ہے۔ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ کوئی ایسی فہرست پیش کرو جس میں لکھا ہو کہ فلاں شقی ہے۔
انبیاء علیہم السلام جب دعوت کرتے تو اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی اثر مترتب ہوتا ہے۔ اور ایسا ہی دعا کے ساتھ بھی۔اﷲ تععلیٰ قضا وقدر کو بدل دیتا ہے اور قبل ازوقت اس تبدیلی کی اطلاع بھی دیدیتا ہے۔ اس وقت ہی دیکھو کہ جو رجوع لوگوں کا اس سلسلہ کی طرف اب ہے۔ براہینؔ احمدیہ کے زمانہ میں کب تھا۔ اس وقت کوئی جانتا بھی نہ تھا۔
میں نے خود عیسائیوں کی کتابیں پڑھی ہیں ،لیکن اﷲ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ ایک طرفتہالعین کے لیے بھی عیسائی مذہب کی سچائی کا خیال میرے دل میں نہیں گزرا وہ قرآن شریف کی اس تعلیم پر کہ خدا کے ہاتھ میں ضلالت اور ہدایت ہے اعتراض کرتے ہیں، لیکن اپنی کتابوں کو نہیں پڑھتے۔ جن میں لکھا ہے کہ شریر جہنم کے لیے بنائے گئے ہیں۔ یا مثلاً یہ لکھا ہے کہ ھرعون کا دل سخت ہونے دیا۔ اگر لفظوں پر ہی اعتراض کرنا ہو تو عیسائی ہمیں بتائیں اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟
بد دیانت آدمی سے تو مرے ہوئے کتے سے بھی زیادہ بد بُو آتی ہے۔ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ ان پادریوں کا اسلام پر ایسا اعتراض نہیں ہے جو توریت اور انجیل کے ورق ورق پر صاف صاف نہ آتا ہو۔ ایسا ہی رگ وید اور فارسیوں اور سناتنیوں کی کتابوں سے پایا جاتا ہے۔
قرآن شریف نے ان امور کو جن سے احمق معترضوں نے جبر کی تعلیم نکالی ہے۔ محض اس عظیم الشان اصول کو قائم کرنے کے لیے بیان کیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایک ہے اور ہر ایک امر کا مبدء اور مرجع وہی ہے وہی علت العلل اور مسبّب الا سباب ہے۔ یہ غرض ہے جو اﷲ تعالیٰ نے قرآن شریف میں بعض درمیانی وسائط اٹھا کر اپنے علّت العلل ہونے کا ذکر فرمایا ہے: ورنہ قرآن شریف کو پڑھو اس میں بڑی صراحت کے ساتھ ان اسباب کو بھی بیان فرمایا جس کی وجہ سے انسان مکلّف ہو سکتا ہے۔
علاوہ بریں قرآن شریف جس حال میں اعال بَد کی سزا ٹھہراتا ہے اور حدود قائم کرتا ہے۔ اگر قضا وقدر میں کوئی تبدیلی ہونے والی نہ تھی اور انسان مجبور مطلق تھا، تو ان حدود شرائع کی ضرورت ہی کیا تھی۔
پس یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن شریھ دہریوں کی طرح تمام امور کو اسباب طبیعہ تک محدود رکھنا نہیں چاہتا بلکہ خالص توحید پہنچانا چاہتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ لوگوں نے دعا کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور نہ قضاوقدر کے تعلقات کو جو دعا کے ساتھ ہیں تدّبر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ جو لوگ دعا سے کام لیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان کے لیے راہ کھول دیتا ہے۔ وہ دعا کو رد نہیں کرتا ۔ایک طرف دعا ہے۔دوسری طرف قضاوقدر ۔ خدا نے ہر ایک کے لیے اپنے رنگ میں اوقات مقرر کر دیئے ہیں۔اور ربوبیت کے حصہ کو عبودیت میں دیا گیا ہے اور فرمایا ہے ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱) مجھے پکارو میں جواب دوں گا۔ میں اس لیے ہی کہا کرتا ہوں کہ ناطق خدا مسلمانوں کا ہے، لیکن جس خدا نے کوئی ذرہ پیدا نہیں کیا یا جو خود یہودیوں سے طمانچے کھا کر مر گیا وہ کیا جواب دیگا۔
تو کار زمین را نکو ساختی
کہ با آسمان نیز پر داختی
جبر اور قدر کے مسئلہ کو اپنی خیالی اور فرضی منطق کے معیار پر کسنا دانشمندی نہیں ہے۔ اس سر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کرنا بیہودہ ہے۔ الوہیت اور ربوبیت کا کچھ تو ادب بھی چاہیے اور یہ راہ تو ادب کے خلاف ہے کہ الوہیت کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کی جاوے۔ الطریقۃ کلھا ادب۔
قضاوقدر کا دعا کے ساتھ بہت بڑا تعلق ہے۔ دعا کے ستگ معلق تقدیر ٹل جاتی ہے۔ جب مشکلات پیدا ہوتے ہیں تو دعا ضرور اثر کرتی ہ۔ جو لوگ دعا سے منکر ہیں، ان کو ایک دھوکہ لگا ہوا ہے۔ قرآن شریف نے دعا کے دو پہلو بیان کئے ہیں۔ ایک پہلو میں اﷲ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور دوسرے پہلو میں بندے کی مان لیتا ہے۔
ولنبلو نکم بشیء من الخوف والجوع (البقرہ : ۱۵۶)
میں تو اپنا حق رکھ کر منوانا چاہتا ہے۔ نون ثقیلہ کے ذریعہ سے جو اظہار تاکید کیا ہے۔اس سے اﷲ تعالیٰ کا یہ منشا ہے کہ قضائے مبرم کو ظاہر کریں گے تو اس کا علاج اناللہ وانا الیہ راجعون (البقرہ : ۱۵۷) ہی ہے۔اور دوسرا وقت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم کی امواج کے جوش کا ہے وہ ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱) میں ظاہر کیا ہے۔
پس مومن کو ان دونوں مقامات کا پورا علم ہونا چاہیے۔ صوفی کہتے ہیں کہ فقر کامل نہیں ہوتا، جبتک کہ وقت کو شناخت نہ کرے۔
سید عبدالقادر جیلانی ؓ فرماتی ہیں کہ دعا کے ساتھ شقی سعید کیا جاتا ہے، بلکہ وہ تو یہانتک کہتے ہیں کہ شدیدالاختفا امور مشبہ بالمبرم بھی دور کیے جاتے ہیں۔
الغرض دعا کی اس تقسیم کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ کبھی اﷲ تعالیٰ اپنی منوانا چاہتا ہے اور کبھی وہ مان لیتا ہے۔یہ معاملہ گویا دوستانہ معاملہ ہے۔ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جیسی عظیم الشان قبولیت دعائوں کی ہے۔ اس کے مقابل رضا اور تسلیم کے بھی آپ اعلیٰ درجہ کے مقام پر ہیں۔
چنانچہ آپ کے گیارہ بچے مر گئے، مگر آپؐ نے کبھی سوال نا کیا کہ کیوں؟ جو لوگ فقراء اور اہل اﷲ کے پاس آتے ہیں۔ اکثر اُن میں سے محض آزمائش اور امتحان کے لیے آتے ہیں۔ وہ دعا کی حقیقت سے نا آشنا ہوتے ہیں، اس لیے پورا فائدہ نہیں ہوتا۔ عقلمند انسان اس سے ھائدہ اُٹھاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اگر دعا نہ ہوتی تو اہل اﷲ مرجاتے۔ جو لوگ دعا کے منافع سے محروم ہیں ان کو دھوکا ہی لگا ہوا ہے کہ وہ دعا کی تقسیم سے نا واقف ہیں۔
میرا جب سب سے پہلا لڑکا فوت ہوا تو اس کو ایک سخت غشی کی حالت تھی۔ گھر میں اس کی والدہ نے جب وہ نماز میں مصروف ہو گئے اور جب نماز سے فارغ ہو کر مجھ سے پوچھا تو اُس وقت چونکہ انتقال ہو چکا تھا۔ میں نے کہا کہ لڑکا مر گیا ہے انہوں نے پورے صبر اور رضا کے ساتھ اناﷲ وانا الیہ راجعون پڑھا۔
خدا جس امر میں نامراد کرتا ہے، اس نامرادی پر صبر کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ اسی صبر کا نتیجہ ہے کہ خدا نے ایک کی بجائے چار لڑکے عطا فرمائے۔
الغرض دعا بڑی دولت ہے۔ بے صبر ہو کر دعا نہ کرے، بلکہ دعائوںمیں لگا رہے۔ یہاں تک کہ وہ وقت آجائے‘‘۔
قرآن مجید میں فتنئہ دجال کا ذکر
اول بآخر نسبتے دارد
قرآنِ شریف کو سورۃ فاتحہ سے شروع کر کے
غیرالمغضوب علیہم ولا الضالین۔(الفاتحہ : ۷)
پر ختم کیا ہے، لیکن جب ہم مسلمانوں کے معتقدات پر نظر کرتے ہیں، تو دجال کا فتنہ اُن کے ہاں عظیم الشان فتنہ ہے اور یہ ہم کبھی تسلیم نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ دجال کا ذکر ہی بھول گیا ہو۔ نہیں ۔بات اصل یہ ہے کہ دجال کا مفہوم سمجھنے میں لوگوں نے دھوکا کھایا ہے۔ سورۃ فاتحہ میں جو دو فتنوں سے بچنے کی دعا سکھائی ہے۔ اول غیرالمغضوب علیہم غیر المغضوب سے مراد باتفاق جمیع اہل اسلام یہود ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت امّت پر آنے والا ہے جبکہ وہ یہود سے تشابہ پیدا کرے گی اور وہ زمانہ مسیح موعود ہی کا ہے۔ جنکہ اس کے انکار اور کفر پر اسی طرح زور دیا جائے گا جیسا کہ حضرت مسیح ابنِ مریم کے کفر پر یہودیوں نے دیا تھا۔ گرض اس دعا میں یہ سکھایا گیا کہ یہود کی طرح مسیح موعود کی توہین اور تکفیر سے ہم کو بچا اور دوسرا عظیم الشان فتنہ جس کا ذکر سورۃ فاتحہ میں کیا ہے اور جس پر سورۃ فاتحہ کو ختم کر دیا ہے وہ نصاریٰ کا فتنہ ہے جو ولاالضالین میں بیان فرمایا ہے اب جب قرآن شریف کے انجام پر نظر کی جاتی ہے تو وہ بھی ان دونوں فتنوں کے متعلق کھلی کھلی شہادت دیتا ہے۔ مثلاً غیر المغضوب کے مقابل میں سورۃ تبت یدا ہے۔ مجھے بھی فتویٰ کفر سے پہلے یہ الہام ہوا تھا۔اذیمکر بک الذی کفر۔اوقد لی یا ھا مان لعلی اطلع علیٰ الہ موسیٰ و انی لا ظنہ من الکاذبین۔تبت یداابی لھب ۔یعنی وہ زمانہ یاد کر جبکہ مکفر تجھ پر تکفیر کا فتویٰ لگائے گا۔ اور اپنے کسی حامی کو جس کا لوگوں پر اثر پڑ سکتا ہو۔کہے گا کہ میرے لیے اس فتنہ کی آگ بھڑکا۔ تا میں دیکھ لوں کہ یہ شخص جو موسیٰ کی طرح کلیم اﷲ ہونے کا مدعی ہے۔ خدا اس کا معاون ہے یا نہیں اور میں تو اسے جھوٹا خیال کرتا ہوں۔ابی لہب کے دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے اور آپ بھی ہلاک ہو گیا۔ اس کو نہیں چاہیے تھا کہ اس میں دخل دیتا، مگر ڈر ڈر کر اور جو رنج تجھے پہنچے گا وہ خدا کی طرف سے ہے۔
غرض سورۃ تبت میں غیر المغضوب علیہم کے فتنہ کی طرف اشارہ ہے اور ولاالضالین کے مقابل قرآن سریف کے آخر میں سورۃ اخلاص ہے اور اس کے بعد کی دونوں سورتیں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس ان دونوں کی تفسیر ہیں۔ ان دونوں سورتوں میں اس تیرہ وتار زمانہ سے پناہ مانگی گئی ہے جبکہ مسیح موعود پر کفر کا فتوی لگا کر… مغضوب علیہم کا فتنہ پیدا ہوگا اور عیسائیت کی ضلالت اور ظلمت دنیا پر محیط ہونے لگے گی۔ پس جیسے سورۃ فاتحہ میں جو ابتدائے قرآن ہے۔ ان دونوں بلائوں سے محفوظ رہے کی دعا سکھائی گئے ہے۔ اسی طرح قرآن شریف کے آخر میں بھی ان فتنوں سے محفوظ رہے کی دعا تعلیم کی۔ تا کہ یہ بات ثابت ہو جائے کہ اول بآخر نسبتے دارد۔
سورۃ فاتحہ میں جو اِن فتنوں کا ذکر ہے وہ کئی مرتبہ بیان کیا ہے مگر قرآن شریف کے آخر میں جو اِن فتنوں کا ذکر ہے وہ بھی مختصر طور پر سمجھ لو۔
الضالین کے مقابل آخر کی تین سورتیں ہیں۔ اصل تو قل ھواﷲ ہے اور باقی دونوں سورتیں اس کی شرح ہیں قل ھواللہ کا ترجمہ یہ ہے کہ نصاریٰ سے کہدو کہ اﷲ ایک ہے۔ اﷲ بے نیاز ہے۔ نہ اُس سے کوئی پیدا ہوا۔ اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا۔ اور نہ کوئی اس کے برابر ہے۔
پھر سورۃ الفلق میں اس فتنہ سے بچنے کے لیے یہ دعا سکھائی قل اعوذبرب الفلق۔ یعنی تمام مخلوق کے شرّ سے اس خدا کی پناہ مانگتا ہوں جو رب الفلق ہے یعنی صبح کا مالک ہے۔ یا روشنی ظاہر کرنا اسی کے قبض و اقتدار میں ہے۔ رب الفلق کا لفظ بتاتا ہے کہ اس وقت عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کی تکفیر اور توہین کے فتنہ کی اندھیری رات احاطہ کرے گی۔اور پھر کھول کر کہا کہ شر غاسق اذا وقب اور میں اس اندھیری رات کے سر سے جو عیسائیت کے فتنہ اور مسیح موعود کے انکار کے فتنہ کی شبِ تار ہے، پناہ مانگتا ہوں۔ پھر فرمایا
ومن شرالنفثت فی العقد (الفلق : ۵)
اور میں ان زنانہ سیرت لوگوں کی سرارت سے پناہ مانگتا ہوں جو گنڈوںپر پھونکیں مارتے ہیں۔
‏Lubna
گرہوں سے مراد وہ معضلات اور مشکلات شریعت ِ محمّدیہ ہیں ۔ جن پر جاہل مخالف اعتراض کرتے ہیں اور ان کو ایک پیچیدہ صورت میں پیش کر کے لوگو ں کو دھوکہ میں ڈالتے ہیں اور یہ دو قسم کے لوگ ۔ایک تو پادری اور ان کے دوسرے پس خوردہ کھانے والے اور دوسرے وہ نا واقف اور ضدّی مُلاں ہیں جو اپمی غلطی کو تو چھوڑتے نہیں اور اپنی نفسانی پھونکوں سے اس صاف دین میں اور بھی مشکلات پیدا کردیتے ہیںاور زنانہ خصلت رکھتے ہیںکہ خدا کے مامورو مرسل کے سامنے آتے نہیں۔پس ان لوگوںکی شرارتوںسے پناہ مانگتے ہیںاور ایسا ہی ان حاسدوں کے حسد سے پناہ مانگتے ہیںاور اس وقت سے پناہ مانگتے ہیں جب وہ حسدکرنے لگیں۔
اور پھر آخر ُسورۃ میںشیطانی وسوسوں سے محفوظ رہنے کی دُعا تعلیم فرمائی ہے ۔جیسے سُورۃ فاتحہ کو الضّالین پر ختم کیا تھا۔ویسے آخری سُورۃ میں بھی خنّاس کے ذکر پر ختم کیا تاکہ خنّاس اور الضالین کا تعلق معلوم ہو۔ اور آدم کے وقت میںبھی خناس جس کو عبرانی زبان میں نحاش کہتے ہیں۔جنگ کے لیے آیا تھا۔اس وقت بھی مسیح موعود کے زمانہ میں جو آدم کا مثیل بھی ہے ۔ضروری تھا کہ وہی نحاش ایک دوسرے لباس میں آتا اور اسی لیے عیسائیوں اور مسلما نو ں نے با تفاق یہ با ت تسلیم کی ہے کہ آ خری زما نہ میں آدم اور شیطا ن کی ایک عظیم الشان لڑائی ہو گی ، جس میں شیطا ن ہلا ک ہو جا و ے گا ۔ اب ان تما م امو ر کو دیکھ کر ایک خدا ترس آدمی ڈر جا تا ہے کیا یہ میرے اپنے بنا ئے ہوئے امور ہیں جو خدا نے جمع کر دیئے ہیں ۔
کس طرح پر ایک دائر ہ کی طر ح خد ا نے اس سلسلہ کو رکھا ہو اہے ولا الضّالین پر سو ر ۃ فاتحہ کو قرآن کا آغا ز ہے ختم کیا ور پھر قرآن شریف کے آخر میں وہ سو رتیں رکھیں جن کا تعلق سو رۃفا تحہ کے انجا م سے ہے ۔ ادھر مسیح اور آدم کی مماثلت ٹھہرا ئی اور مجھے مسیح مو عو د بنا یا ، تو ساتھ ہی آدم بھی میرا نا م رکھا ۔
یہ باتیں معمو لی باتیں نہیں ہیں ۔یہ ایک علمی سلسلہ ہے جس کو کوئی رد ّنہیں کر سکتا ، کیو نکہ خدا تعالیٰ نے اپنے ہا تھ سے بنیا د رکھی ہے۔
شفیع کون ہو سکتا
شفیع کا لفظ شفع سے نکلا ہے جس کے معنی جفت کے ہیں ۔اس لیے شفیع وہ ہو سکتا ہے جو دو مقا مات کا مظہر اتم ہویعنی مظہر کا مل لا ہو ت اور نا سو ت کا ہو ۔ لاہوتی مقا م کا مظہر کا مل ہو نے سے یہ مرا د ہے کہ اس کا خدا کی طر ف صعود ہو ۔ وہ خدا سے حا صل کرے اور نا سو تی مقام کے مظہر کا یہ مفہو م ہے کہ مخلو ق کی طرف اس کا نزول ہو جو خدا سے حا صل کرے وہ مخلو ق کو پہنچا دے اور مظہرکا مل ان مقا ما ت کا ہما رے نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ,اسی کی طر ف اشا رہ ہے ۔
دنا فتدلی فکا ن قاب قو سین او اد نی (النجم :۹۔۱۰)
ہم دعویٰ سے کہتے ہین کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بِدو ں کامل حصہ مقا م لا ہو ت کا کسی نبی میں نہیں آیا اور ناسوتی حصہ چا ہتا ہے بشری لوا زم کو ساتھ رکھے اور حضور علیہ الصلوۃ و السلا م میں یہ ساری با تیں پوری پا ئی جاتی ہیں۔آ پ نے شا دیا ں بھی کیں ۔بچے بھی ہوئے دوستوں کا زمرہ بھی تھا ۔فتوحات کر کے اختیاری قوتوں کے ہوتے ہوئے انتقام چھوڑ کر رحم کر کے بھی دکھایا ۔جبتک انسان کے پیرایہ پو رے نہ ہوں،وہ پوری ہمدردی نہیں کرسکتا۔اس حصّہ اخلاقِ فاضلہ ہیںوہ نامکمّل رہے گا۔
3-3 -05/
مثلاؔ جس نے شادی ہی نہیں کی وہ بیوی اور بچّوں کے حقوق کی کیا قدر کر سکتا ہے اور اُن پر اپنی شفقت اور ہمدردی کا کیا نمونہ دکھاسکتا ہے ۔ رہبانیّت ہمدردی کو دور کر دیتی ہے او ریہی وجہ ہے کہ اسلام میں رہبانیّت کو نہیں رکھا۔غرض کا مل شفیع وہی ہوسکتا ہے ، جس میں یہ دونوں حصّے کامل طور پر پائیں جائیں ، چونکہ یہ ایک ضروری امر تھا کہ شفیع ان دونوں مقامات کا مظہر ہو ۔ اللہ تعالیٰ نے ابتدائے آفرینش سے ہی اس سلسلہ کو ظلِ قائم رکھا ہے ، یعنی آدم علیہ السّلام کو پیدا کیا تو لا ہوتی حِصّہ تو اس میں یوں رکھ دیا ۔ جب کہا ۔
فاذا سریتہ ونفخت فیہ من روحی فقعو الہ ساجدین (الحجر :۳۰)
اور ناسوتی حصّہ یو ںرکھا کہ حوّا کو اس سے پید اکیا ۔
یعنی جب روح پھونکی تو ایک جو ڑ آدم کا خداتعالیٰ سے قائم ہو ا۔ اور جب حوّا نکالی تو دوسرا مخلوق کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ناسوتی ہوگیا ۔ پس جب یہ دونوںحصّے کامل طور پر کاملِ انسان میں نہ پائے جائیں وہ شفیع نہیں ہو سکتا ۔ جیسے آدم کی پسلی سے حوّا نکلی اسی طرح کامل انسان سے مخلوق نکلتی ہے ۔

تصویر او رنماز
ایک شخص نے دریافت کیا کہ تصویر کی وجہ سے نماز فاسد تو نہیں ہوتی ۔جواب میںحضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السّلام نے فرمایا :
’’کفار کے تبتعّ پر تو تصویر ہی جائز نہیں ۔ ہاں نفس تصویر میں حرمت نہیں بلکہ اُس کی حُرمت اضافی ہے ،اگر نفس تصویر مُفسد نماز تو مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا پھر روپیہ پیسہ نماز کے وقت پاس رکھنا مفسد نہیں ہوسکتا ۔ اس کا جوا ب اگر یہ دو کہ روپیہ پیسہ کا رکھنا اضطراری ہے۔ میں کہوں گا کیا اگر اضطرار سے پاخانہ آجاوے تو وہ مفسد نماز نہ ہو گا ۔ اور پھر وضو کرنا نہ پڑے گا ۔
اصل با ت یہ ہے کہ تصویر کے متعلق یہ دیکھنا ضرور ی ہے کہ آیااس سے کوئی دینی خدمت مقصود ہے یا نہیں ۔ اگر یوں ہی بے فائدہ تصویر رکھی ہوئی ہے اور اس سے کوئی دینی فائدہ مقصود نہیں تو یہ لغو ہے اور خدا تعالیٰ
‏Amira
فرماتا ہے۔ والذین ھم عن اللغو معرضون (المومنون : ۴) لغو سے اعراض کرنا مومن کی شان ہے، اس لیے اس سے بچنا چاہیے لیکن ہاں اگر کوئی دینی خدمت اس ذریعے سے بھی ہو سکتی ہو تو منع نہیں ہے کیونکہ خدا تعالیٰ علوم کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔
مثلاً ہم نے ایک موقعہ پر عیسائیوں کے مثلث خدا کی تصویر دی ہے جس میں روح القدس بشکل کبوتر دکھایا گیا ہے اور باپ اور بیٹے کی بھی جدا جدا تصویر دی ہے۔ اس سے ہماری یہ غرض تھی کہ تاتثلیث کی تردید کر کے دکھائیں کہ اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے وہی حقیقی خدا ہے۔ جو حیّ وقیوم ازلی و ابدی غیر متغیر اور تجسّم سے پاک ہے۔ اس طرح پر اگر خدمت اسلام کے لیے کوئی تصویر ہو، تو شرع کلام نہیں کرتی کیونکہ جو امور خادم شریعت ہیں ان پر اعتراض نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ حضرت موسیٰؑ کے پاس کل نبیوں کی تصویریں تھیں۔ قیصر روم کے پاس جب صحابہ گئے تھے، تو انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اسکے پاس دیکھی تھی۔ تو یاد رکھنا چاہیے کہ نفس تصویر کی حرمت نہیں بلکہ اس کی حرمت اضافی ہے جو لوگ لغو طور پر تصویریں رکھتے اور بناتے ہیں وہ حرام ہے۔ شریعت ایک پہلو سے حرام کرتے ہے اور ایک جائز طریق پر اسے حلال ٹھہراتی ہے۔ روزہ ہی کو دیکھو رمضان میں حلال ہے لیکن اگر عید کے دن روزہ رکھے تو حرام ہے۔ ؎
گر حفظ مراتب نہ کُنی زندیقی
حرمت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک بالنفس حرام ہوتی ہے، ایک با نسبت۔ جیسے خنزیر بالکل حرام ہے۔ خواہ وہ جنگل کا ہو یا کہیں کا۔ سفید ہو یا سیاہ، چھوٹا ہو یا بڑا۔ ہر ایک قسم کا حرام ہے۔ یہ حرام بالنفس ہے، لیکن حرام بالنسبت کی مثال یہ ہے کہ ایک شخص محنت کر کے کسبِ حلال سے روپیہ پیدا کرے، تو حلال ہے۔ لیکن اگر وہی روپیہ نقب زنی قمار بازی سے حاصل کرے تو حرام ہوگا۔ بخاری کی پہلی ہی حدیث ہے۔ اناما الا عمال بالنیات۔
ایک خونی ہے اگر اس کی تصویر اس غرض سے لے لیں کہ اس کے ذریعہ اس کو شناخت کر کے گرفتار کیا جاوے تو یہ نہ صرف جائز ہو گی، بلکہ اس سے کام لینا فرض ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر ایک شخص اسلام کی تونیہ کرنے والے کی تصویر بھیجتا ہے تو اس کو اگر کہا جاوے۔ حرام کام کیا ہے تو یہ کہنا موذی کا کام ہے۔
یاد رکھو اسلامؔ بُت نہیں بلکہ زندہ مذہب ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آجکل نا سمجھ موللیوں نے لوگوں کو اسلام پر اعتراض کرنے کا موقعہ دیا ہے۔
آنکھوں میں ہر شے کی تصویر بنتی ہے۔ بعض پتھر ایسے ہیں کہ جانور اُڑتے ہیں تو خود بخود اُن کی تصویر اتر آتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا نام مصور ہے۔ یصور کم فی الارحا م (اٰ لِ عمران : ۷) پھر بلا سوچے سمجھے کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔ اصل بات یہی ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ تصویر کی حرمت غیر حقیقی ہے کسی محل پر ہوتی ہے اور کسی پر نہیں۔ غیر حقیقی حرمت میں ہمیشہ نیت کو دیکھنا چاہیے۔ اگر نیت شرعی ہے تو حرام نہیں؛ ورنہ حرام۔
حدیثوں ہی پر تکیہ نہ کر لو۔ اگر قرآن شریف پر حدیث کو ژقدم کرتے ہو تو پھر گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگاتے ہو کہ کیوں انہوں نے احادیث کو خود جمع نہیں کرایا، کیونکہ آپؐ نے کوئی حکم احادیث کے جمع کرنے کو نہیں فرمایا؛ حالانکہ قرآن شریف کو آپؐ خود لکھواتے اور سناتے تھے۔ بعض صحابہ نے احادیث کو اپنے طور پر جمع کیا، لیکن آخر انہوں نے جلا دیا۔ جب سبب دریا فت کیا تو یہی بتایا کہ آخر راویوں سے سنی ہیں ممکن ہے اس میں کمی بیشی ہوئی ہو۔اپنے ذمے کیوں بوجھ لیں۔ پس قرآن کو مقدم کرو اور حدیث کو قرآن پر عرض کرو۔ حکم نہ بنائو‘‘۔؎ٰ
۲۱ ؍ فروری ۱۹۰۲ء؁
ضروری اعلان
حضرت مسیح موعود ادام اللہ فیوضہم نے ارشاد فرمایا ہے کہ الحکم کے ذریعہ اپنے تمام دوستوں کو اطلاع دی جاوے کہ چونکہ طاعون پنجاب کے اکتّر حصوں میں زور کے ساتھ پھیل گیا ہے اور پھیلتا جاتا ہے ایسی صورت میں یہ امر قرین مصلحت نہیں کہ ایسا مجمع ہو جس میں وبازدہ علاقون کے لوگ بھی شامل ہوں۔ اس لیے عیدالاضحیہ پر جو تجویز امتحان کی قرار پائی تھی وہ کسی دوسرے وقت کے لیے ملتوی کی جاتی ہے۔ وہ لوگ جن کے شہروں اور دیہات مین طاعون شدت کے ستھ پھیل گیا ہے؛ اپنے شہروں سے دوسری جگہ نہ جائیں۔اپنے مکانوں کی صفائی کریں اور انہیں گرم رکھیں اور ضروری تدابیر حفظ باتقدم کی عمل میں لائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سچی توبہ کریں اور پاک تبدیلی کر کے خدا تعالیٰ سے صلح کریں۔ راتوں کو اُٹھ اٹھ کر تحجدمیں دعائیں مانگیں۔ ہر ایک قسم کے فسق وخجور خیانت اور غلط کاری کی راہ سے اپنے آپ کو بچائیں۔ اپنی حالت کی سچی تبدیلی ہی خدا کے اس عذاب سے بچاسک گی۔ ونعم ماقیل۔
خور تابان سیہ گشت است از بدکاری مردم
زمین طاعون ہمی آرد پئے تخویف و انذارے
بہ تشویش قیامت ماندایں تشویش گر بینی
علاجے نیست بہر دفع آں جز حسن کر دارے ؎۲
۱۲ ؍ فروری ۱۹۰۲ء؁
معراج کے اسرار
معراج میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے انبیاء علیہم السلام کو مختلف آسمانوں پر دیکھا ہے۔ حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کے نبیوں کا سلسلہ زمانی طور پر بتایا ہے۔ سب سے اوپر حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو ابُوالانبیاء تھے۔ دکھا یا ہے اور دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو؛ چونکہ حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ کا زمانہ مشترک تھا، اس لیے ان کو اکٹھے بٹھایا۔ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسرے درجے پر تھے، اس لیے دوسرے آسمان پر ان کو دکھایا اور آدم کو پہلے آسمان پر دکھایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی آدم تھے۔ اس لیا آپؐ کو پہلے آسمان پر دکھایا گیا۔
مذہب ایک سائنس ہے
اس وقت خدا تعالیٰ نے مذہبی امور کو قصے اور کتھا کے رنگ میں نہیں رکھا ہے، بلکہ مذہب کو ایک سائنس (علم) بنادیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ زمانہ کشف حقائق کا زمانہ ہے۔ جبکہ ہر بات کو علمی رنگ میں ظاہر کیا جاتا ہے۔ میں اس لیے ہی بھیجا گیا ہوں کہ ہر اعتقاد کو اور قرآن کریم کے قصص کو علمی رنگ میں ظاہر کروں۔
ذُوالقرنین اور مسیح موعود
یہ زمانہ چونکہ کشف حقائق کا زمانہ ہے اور خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق اور معارف مجھ پر کھول رہا ہے۔ ذوالقرنین کے قصے کی طرف جو میری توجہ ہوئی تو مجے یہ سمجھایا گیا ہے کہ ذوالقرنین کے پیرایہ میں مسیح موعود ہی کا ذکر ہے اور اﷲ تعالیٰ نے اس کا نام ذوالقرنین اس لیے رکھا ہے کہ قرن چونکہ صدی کو کہتے ہیں اور مسیح موعود دو قرنوں کو پائے گا، اس لیے ذوالقرنین کہلائے گا۔ چونکہ میں نے تیرھویں اور چودھویں صدی دونوں پائی ہیں اور اسی طرح پر دوسری صدیاں ہندوئوں اور عیسائیوں کی بھی پائی ہیں۔ اس لحاظ سے تو ذوالقرنین ہے۔ اور پھر اسی قصہ میں اﷲ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ذوالقرنین نے تین قومیں پائیں۔ اول وہ جو غروبِ آفتاب کے پاس ہے اور کیچڑ میں ہے۔ اس سے مراد عیسائی قوم ہے جس کا آفتاب ڈوب گیا ہے۔ یعنی شریعتِ حقہ اُن کے پاس نہیں رہی۔ روحانیت مر گئے اور ایمان کی گرمی جاتی رہی۔ یہ ایک کیچڑ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
دوسری قوم وہ ہے جو آفتاب کے پاس ہے اور جھلسنے والی دھوپ ہے۔ یہ مسلمانوں کی موجودہ حالت ہے۔ آفتاب یعنی شریعت حقٰہ اُن کے پاس موجود ہے، مگر یہ لوگ اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے، کیونکہ فائدہ تو حکمت عملی سے اُٹھایا جاتا ہے۔ جیسے مثلاً روٹی پکانا۔ وہ گو آگ سے پکائی جاتی ہے، لیکن جبتک اس کے مناسب حال انتظام اور تدبیر نہ کی جاوے وہ روٹی تیار نہیں ہوسکتی۔ اسی طرح پر شریعت حقہ سے کام لینا بھی ایک حکمت عملی کو چاہتا ہے۔ پس مسلمانوں نے اس وقت باوجودیکہ اُن کے پاس آفتاب اور اس کی روشنی موجود تھی اور ہے لیکن کام نہیں لیا اور مفید صورت میں اس کو استعمال نہیں کیا اور خدا کے جلال اور عظمت سے حصہ نہیں لیا۔
اور تیسری وہ قوم ہے جس نے اس سے فریاد کی کہ ہم کو یاجوج ماجوج سے بچا۔ یہ ہماری قوم ہے جو مسیح موعود کے پاس آئی اور اس نے اس سے استفادہ کرنا چاہا۔ہے۔ غرض آج اِن قصوں کا علمی رنگ ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ یہ قصہ پہلے بھی کسی رنگ میں گزرا ہے، لیکن یہ سچی بات ہے کہ اس قصہ یں وقعہ آئندہ کا بیان بھی بطور پیشگوئی تھا جو آج اس زمانہ میں پورا ہو گیا۔
اَلھُدیٰ اور اَلحَق سے مراد
ھوالذی ارسل رسولہ بالھدی و دین الحق لیظھر ہ علی الدین کلہ (الصف : ۱۰)
پر سوچتے سوچتے مجھے معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ نے اس میں دو لفظ ھدی اور حق کے رکھے ہیں۔ ھدیٰ تو یہ ہے کہ اندر روشنی پیدا کرے۔ معما نہ رہے۔ یہ گویا ندرونی اصلاح کی طرف اشارہ ہے، جو مہدی کا کام ہے اور حق کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خارجی طور پر باطل کو شکست دیوے؛ چنانچہ دوسری جگہ آیا ہے۔ جاء الحق وز ھق الباطل۔ اور خود اس آیت میں بھی فرمایا ہے۔ لیظھرہ علی الدین کلہ۔ یعنی اس رسول کی آمد کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ حق کو غلبہ دے گا۔ یہ غلبہ تلوار او ر تفنگ سے نہیں ہوگا، بلکہ وجوہ ِ عقیلہ سے ہوگا۔
یاد رکھو کہ پاک صاف عقل کا خاصہ ہے کہ وہ قصوں پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ اسرار کو کھینچ لاتی ہے۔ اسی واسطے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن کو حکمت دی گئے۔ اُن کو خیر کثیر دی گئی ہے۔
اِنّہٗ اٰوَی القَریَۃَ کے معنے
آجکل ہمارے حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃوالسلام کی توجہ طاعون کی طرف زیادہ ہے اور چونکہ یہ لوگ عارف تر ہوتے ہیں۔ اس لیے خدا تعالیٰ کی غنائِ ذاتی سے خائف تر بھی ہوتے ہیں۔ عموماً سیر اور بعد شام طاعون پر کچھ نہ کچھ تقریر ہو جاتی ہے انہ اوی القریۃ۔کا جو الہام ایک عرصہ سے آنحضرتؐ کو ہو چکا ہے۔اس کے متعلق فرمایا کہ میں اس کے معنی یقیناً یہی سمجھتا ہوں کہ وہ افرالتفری اور قیامت خیز نظارہ جو طاعونکی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے اس سے اﷲ تعالیٰ قادیان کو ضرور محفوظ رکھے گا؛ اگر چہ یہ امر ممکن ہی ہو کہ کوئی کیس خدا نخواستہ یہاں ہوجائے ، مگر النّادر کا لمعدوم کے ضمن میں ہے؛ تا ہم اﷲ تعالیٰ کے فضل او ر وعدہ کے موافق یقین ہے کہ وہ ہمیں تشویش اور سخت اضطراب سے ضرور محفوظ رکھے گا۔؎ٰ
۲۳ ؍ مارچ ۱۹۰۲ء؁
مامور من اﷲ کے مکذبین سے خدا تعالیٰ کا معاملہ
مامور من اﷲ کی صحبت میں رہنے والے لوگ بہت کچھ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور ایک حد تک علم صحیح اس تعلق کے متعلق جو مامور من اﷲ اور خدا تعالیٰ میں ہوت اہے حاصل کرتے ہیں، مگر وہ کامل علم جو اس مامور کو دیا جاتا ہے کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا۔ اور خدا تعالیٰ کا علم تو پھر اور ہی رنگ رکھتا ہے۔ جب مامور کی تکذشیب اور انکار حدتک پہنچ جاتا ہے تو پھر ٹھیک اسی طرح جیسے زمیندار جب فصل پَک جاتی ہے تو اس کے کاٹنے کے واسطے درانتی کو درست کرتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ بھی مکذبوں کے لیے تیاری کرتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اب وہ وقت آگیا ہے۔ خدا تعالیٰ ہر پہلو سے حجت پوری کر چکا ہے۔ اس لیے اب ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ خاموشی سے آسمانی ہتھیار اور حربے کو دیکھے۔دنیا میں ہم یہ قانون دیکھتے ہیں کہ جب ایک حاکم کو معلوم ہو جاوے کہ فلاں مظلوم ہے تو وہ اس کی مدد کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ جس کا علم سب سے زیادہ صحیح اور یقینی ہے جو ہر حال کا بینا ہے، کیوں اس مظلوم صادق کی مدد نہ کرے گا۔ جو محض اس لیے ستایا گیا یہ کہ اس نے اﷲ تعالیٰ سے الہام پاکر یہ کہا کہ میں خدا کی طرف سے اصلاح خلق کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔اﷲ تعالیٰ اپنے راستباز بندوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ اُن کی مدد کرتا ہے، لیکن ہاں یہ سنت اﷲ ہے کہ وہ صبر سے کام لیتا ہے۔ یہ کہنا کہ خدا تعالیٰ کو اس تکذیب اور انکار کی خبر نہیں کفر ہے۔وہ تو ابتدا سے جانتا ہے کہ کیا کِیا جاتا ہے۔
اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے دو فریق ہو گئے ہیں۔ جس طرح ہماری جماعت شرح صدر سے اپنے آپ کو حق پر جانتی ہے۔ اسی طرح مخالف اپنے غلو میں ہر قسم کی با حیائی اور جھوٹ کو جائز سمجھتے ہیں۔شیطان نے اُن کے دلوں میں جما دیا ہے کہ ہماری نسبت ہر قسم کا افترا اور بہتان اُن کے لیے جائز ہے اور نہ صرف جائز بلکہ ثواب کا کام ہے۔ اس لیے اب ضروری ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو ان کے مقبلے میں بالکل چھوڑدیں اور خدا تعالیٰ کے فیصلہ پر نگاہ کریں۔ جس قدر وقت اُن کی بیہودگیوں اور گالیوں کی طرف توجہ کرنے میں ضائع کریں بہتر ہے کہ وہی وقت استغفار اور دعائوں کے لیے دیں۔
خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے
ہماری جماعت کو یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ وہ ا سامر کو مد نظر رکھیں جو میں بیان کرتا ہوں ۔مجھے ہمیشہ اگر کوئی خیال آتا ہے، تو یہی آتا ہے کہ دنیا میں تو رشتے ناطے ہوتے ہیں۔بعض ان میں سے خوبصورتی کے لحاظ سے ہوتے ہیں۔ بعض خاندان یا دولت کے لحاظ سے اور بعض طاقت کے لحاظ سے ۔ لیکن جناب الٰہی کو ان امور کی پرواہ نہیں۔ اُس نے تو صاف طور پر فرمادیا کہ
ان اکرمکم عند اﷲاتقکم۔(الحجرات : ۱۴)
یعنی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک وہی معزز و مکرم ہے جو متقی ہے۔ اب جو جماعت اتقیاء ہے خدا اس کو ہی رکھے گا اور دوسری کو ہلاک کرے گا۔ یہ نازک مقام ہے اور اس جگہ پر دو کھڑے نہیں ہوسکتے کہ متقی بہی وہیں رہے اور شریر اور باپاک بھی وہیں۔ ضرور ہے کہ متقی کھڑا ہو اور خبیث ہلاک کیا جاوے اور چوہکہ اس کا علم خدا کو ے کہ کون اُس کے نزدیک متقی ہے۔ پس یہ بڑے خوف کا مقام ہے۔ خوش قسمت ہے وہ انسان جو متقی ہے اور بدبخت ہے وہ جو *** کے نیچے آیا ہے۔
الٰہی اور شیطانی الہام میں فرق
اگر کوئی یہ خیال کرے کہ ان میں علماء بھی ہیں۔ ملہم بھی ہیں تو یہ ایک خیالی بات ہے اور اس سے کوئی ھائدہ اس مقصد کو نہیں پہنچ سکتا جو انسانی ہستی کا ہونا چاہیے۔یادرکھو وہ امر جس پر خدا راضی ہوتا ہے جبتک وہ نہ ہو نہ علم صحیح ہوتا ہے نہ الہام مفید۔ جو شخص پاخانہ کا پاس کھڑا ہے۔ پہلے تو اُسے بدبو ہی آئے گی۔پھر اگر عطر اس کے پاس کیا جاوے تو وہ اس سے کیا فائدہ اٹھائیگا۔ جبتک خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہ ہو کچھ نہیں ملتا۔ اور خدا سے قریب کرنے والی بات صرف تقویٰ ہے۔ سچی آواز سننے کے لیے متقی بننا چاہیے۔ میں نے بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو ہر آواز کو جو انہیں ئجاوے الہام ہی سمجھتے ہیں ؛ حالنکہ اضغاث احلام بھی ہوتے ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ جو آوازیں انہیں سنائی دیتی ہیں،وہ بناوٹی ہیں۔ نہیں اُن کو آوازیں آتی ہوں گی، مگر ہم ہر آواز کو خدا تعالیٰ کی آواز قرار نہیں دے سکتے، جبتک اس کے ساتھ وہ انوار اور برکات نہ ہوں جو اﷲ تعالیٰ کے پاک کلام کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اسلیے ہم کہتے ہیں کہ ان الہام کے دعویٰ کرنے والوں کو اپنے الہاموں کو اس کسوٹی پر پَرکھنا چاہیے اور اس بات کو بھی اُنہیں فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بعض آوازیں بری شیطانی ہوتی ہیں۔ اس لیے ان آوازوں پر ہی فریفتہ ہو جانادانشمند انسان کا کام نہیں، بلکہ جبتک اندرونی نجاست اور گند دور نہ ہو اور تقویٰ کی اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل نہ ہو اور اس درجہ اور مقام پر انسان نہ پہنچ جاوے۔ جو دنیا ایک مرے ہوئے کیڑے سے بھی حقیر اور ذلیل بظر آوے اور اﷲ تعالیٰ ہی ہر قول و فعل میں مقصود ہو اس مقام پر قدم نہیں پڑ سکتا جہاں پہنچ کر انسان اپنے اﷲ کی آواز کو سنتا ہے۔ اور وہ آواز حقیقت میں اسی کی ہوتی ہے، کیونکہ اس وقت یہ تمام نجاستوں سے پاک ہو گیا ہوتا ہے۔
غرض نری آوازیں اور چندرسمی کتابوں کے پڑھ لینے سے فیصلہ نہیں ہوتا، بلکہ فیصلہ کی اصل اور سچی راہ وہی ہے جس کو تائیداتِ الٰہیہ کہتے ہیں۔ اُن سے ہی فیصلہ ہوتا ہے اور خدا ہی کا حربہ فیصلہ کرتا ہے۔ جو شخص خدا تعالیٰ کے حضور ایسے مقام پر کھڑا ہے جو نجاست سے بالکل الگ ہے۔ وہ وہی پاک آوازیں سنتا ہے جو حضرت موسیٰ۔حضرت عیسیٰ۔حضرت نوح۔حضرت ابراہیم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام نے سنیں اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن کو سنا تھا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ان آوازوں کی صداقت اور عملی ظہور کے لیے انسانی ہاتھوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ خود خدا تعالیٰ ان کی چمکار دکھاتا ہے؛ اگر چہ یہ بہت ہی باریک باتیں ہیں جو معرفت کے اسرار میں داخل ہیں؛ تا ہم خوسبو اور بد بو اپنے مختلف نظاروں سے شناخت کی جاسکتی ہے۔ اچھے درخت کو کئی طرح پہچان لیتے ہیں۔پتوں سے بھی شناخت کر لیتے ہیں۔ میں نے ایک بار الائچی کا درخت انبالہ میں دیکھا اور ایک پتا اس کا لیکر سونگھا، تو اس میں الائچی کی خوشبو موجود تھی؛اگر چہ ابھی اس کے تین درجے باقی تھے، مگر خوشبو موجود تھی۔ دانشمند انسان بہت سے قرائن سے امر واقعی کو معلوم کر لیت اہے۔ خباثت بھی ہزاروں پردوں میں چھپی رہتی ہے اور تقویٰ بھی ہزاروں پردوں میں مخفی رہتا ہے، مگر اُن کے آثا ر اور قرائن سے بخوبی پتہ لگ سکتا ہے۔ صوفیوں نے لکھا ہے کہ جسے کوئی آدمی عین بدکاری کی حالت میں پکڑا جاوے تو اسے بہت ہی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ ایسے ہی ایک متقی جب اپنے تقویٰ کے سیر و عبادت میں مصروف ہو اور کوئی اجنبی اس پر گزرے توا س کو بھی شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ شرمندگی کے موجبات تو ایک ہی ہیں ۔بددار اپنی بدکاری کو امر مستور رکھنا چاہتا ہے اور متقی اپنے تقویٰ کو۔غرض تقویٰ کے امور بہت پوشیدہ ہوتے ہیں بلکہ اصل تو یہ ہے کہ اس سر کی ملائکہ کو بھی خبر نہیں ہوتی۔ پھر دوسرے کو کیسے مل سکتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جو تعلق تدلیٰ کا تھا اس کی کیفیت کو اﷲ تعالیٰ جس قدر سمجھتا تھا اس کو کسی دوسرے نے ہر گز نہیں سمجھا۔ نہ حضرت ابو بکرنے اُسے سمجھا نہ حضرت علی نے اور نہ کسی اور نے۔ آپ کا انقطاع تام اور اﷲ تعالیٰ پر توکل کرنا۔ اور مخلوق کو مرے ہوئے کیڑے سے ہیچ سمجھنا ایک ایساامر تھا جو دوسروں کو بظر نہ آسکتا تھا، مگر خدا تعالیٰ کی تائیدوں کو دیکھ کر لوگ یہ نتیجہ ضرور نکالتے تھے کہ جیسا خدا تعالیٰ سے سچا اور قوی تعلق اُس نے پیدا کیا ہوا ہے ۔خدا تعالیٰ نے بھی اس سے کوئی فرق نہیں کیاہے۔

قرآن کریم اور انجیل کی تعلیمات کا موازنہ
کیسی عظیم الشان بات ہے آپ کا کوئی ذلّت کا کبی نصیب نہیں ہو ا، بلک ہر میدان میں آپ ہر طرح معزّز ثابت ہوئے ہیں لیمن بالمقابل اگر مسیح کی حالت کو دیکھیں کہ معلوم ہوتا ہے ۔ کہ اُنہیں کیسی ذلّت پر ذلُت نصیب ہوئی ہے بسااوقات ایک عیسائی شرمند ہ ہوجاتا ہے م، جب وہ اپنے اس خداکی حالت پر غور کرتا ہوگا جو اُنھوںنے فرضی اور خیا لی طور پر بنایا ہواہے ۔ مجھے ہمیشہ تعجب اور حیرت ہوتی ہے کہ عیسائی اس تعلیم کو جو انجیل میں بیان ہوئی ہے کہ عیسائی اس تعلیم کو جو انجیل میں بیان ہوئی ہے اوراس خداکو جس کہ واقعات کس قدر انجیل سے ملتے ہیں ۔ رکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر اسے ترجیح کیونکردیتے ہیں مثلاؔیہی تعلیم ہے ایک گا ل پر طمانچہ کھا کر دوسری بھی پھیر دو اب اس کے تمام پہلوؤ ں پر غور کر و صاف نظر آجائے گا یہ کیسی بودی اور نکمی تعلیم ہے ۔ بعض ایسی باتیں ہوتی ہیں کہ اُن سے بچّے خوش ہوجاتے ہیں بعض سے متوسط درجے کے لوگ او ربعض سے اعلیٰ درجے کے لوگ ۔
انجیل کی تعلیم صرف بچّوں کا کھلونا ہے کہ جس کی حقیقت کچھ بھی نہیں ۔ کیا اللہ تعالیٰ نے جو انسان کو اس قدر قویٰ عطا فرماتے ہیں ۔ ان سب کا موضوع او ر مقصود یہی ہے کہ وہ طمانچہ کھایاکرے ؟ انسان انسان تب ہی بنتا ہے کہ وہ سارے قویٰ کو استعمال کرے ، مگر انجیل کہتی ہے کہ سارے قویٰ کو بیکار چھوڑ دواور ایک ہی قوت پر زور دیتے جائو بالمقابل قرآن شریف تمام قوتوں کامربّی ہے او ربرمحل قوت کے استعمال کی تعلیم دیتا ہے جیسا کے مسیح کی اس تعلیم کی بجائے قرآن شریف فرماتا ہے ۔
جزاواسیئۃ سیئۃ مثلھافمن عفی واصلح (الشوری: ۴۱)
یعنی بدی کی سزا تو اس قدر بدی ہے ، مگر عفو بھی کرو تو ایسا عفو کہ اس کے نتیجہ میں اصلاح ہو ، وہ عفو بہ محل نہ ہو ، مثلاً ایک فرما بردار خادم ہے اور کبھی کوئی خیانت اور غفلت اپنے فرض ادا کرنے میں نہیں کرتا ۔ مگر ایک دن اتفاقاً اس کے ہاتھ سے گرم چائے کی پیالی گر جاوے اور نہ صرف پیالی ہی ٹوٹ جاوے بلکہ کس قدر گرم چائے سر پر بھی پڑجاوے تو اس وقت یہ ضرو ری نہیں کہ آقا اس کو سزا دے بلکہ اس کی حسب حا ل سزا یہی ہے کہ اس کو معا ف کر دیا جا وے ۔ ایسے وقت پر مو قع شنا س آقا تو خود شرمندہ ہو جا تا ہے کہ اس بیچا رے نو کر کو شر مندہ جوہو نا پڑے گا ، لیکن کوئی شر یر نو کر اس قسم کا ہے کہ وہ ہر رو ز نقصا ن کر تا ہے اگر اس کو عفوکر دیا جائے تو وہ اور بھی بگڑے گا ۔ اس کو تنبیہ ضروری ہے ۔ غرض اسلا م انسانی قویٰ کو اپنے اپنے مو قع اور محل پر استعما ل کر نے کی تعلیم دیتا ہے اور انجیل اندھا دھند ایک ہی قوت پر زور دیتی چلی جا تی ہے گر حفظ مرا تب نہ کُنی زندیقی۔
غر ض حفظ مرا تب کا مقا م قر آن شریف نے رکھا ہے کہ عدل کی طر ف لے جا تا ہے ۔تمام احکا م میں اس کی یہی صورت ہے ۔ مال کی طرف دیکھو ۔نہ ممسک بنا تا ہے نہ مسرف ۔یہی وجہ ہے کہ اس امّت کا نا م ہی امَّتہ وَّسطاََرکھ دیا گیا ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح علیہ السّلام
پھر دوسری قابل غور بات یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تقرب کو دیکھنا چاہیے۔یہ قائدہ کی بات ہے کہ بادشاہ کے دل کی بات تو بادشاہ ہی جانتا ہے مگر جس پر وہ اسرار ظاہر کرتا ہے یا اپنی رضامندی کے آثار جس پر دکھاتا ہے ضروری ہے کہ ہم اس کو مقرب کہیں ۔اسی طرح پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو جب ہم دیکھتے ہیں تو آپ کے قرب کا مقاموہ نظر آتا ہے جو کسی دوسرے کو کبھی نصیب نہیں ہوا۔وہ عطایا اور نعماء جو آپؐ کو دیے گئے ہیں سب سے بڑھ کر ہیں اور جو اسرار آپؐ پر ظاہر ہوئے اور کوئی اس حد تک پہنچا ہی نہیں ۔قرآن شریف ہی کو دیکھ لو۔ کہ کس قدرعظیم الشا ن اپیشگوئیاں اس میں موجود ہیںحضرت مسیح کا مجھے بارہا خیال آتا ہے کہ یہ نادان کس شیخی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اُن کا مقابلہ کرنے بیٹھتے ہیں ۔ حضرت مسیح کا دعویٰ ہی تو بجائے خود محدود ہے ۔ وہ صاف کہتے ہے کہ میںبنی اسرائیل کی بھیڑوں کے لیے آیا ہوں ۔
ضربت علیہم الذلۃ (آل عمران : ۱۱۳)
کی مصداق آپ کی دعوت کو مخاطب قوم تھی ۔ یہ دعویٰ ایسا ہی ہے جیسے کوئی نمبر داری یا پتی دای کا دعویٰ کرے ۔ اب اُن کی ہمت استقلا ل اور توجہ اسی دعویٰ کی نسبت ہونی چاہئیے ۔ دوسری طرف ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔
قل یا ایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔ ( ا لا عراف ۱۵۹)
اب اس ہمت اور بلندی نظری اور توجہ کا مقابلہ کرو کیا یہی خدائی کی شان ہے یہودیوں کے چار گھروں کے سوا اور کسی کی اصلاح کے لیے بھی نہیں آئے ۔
خدا کے حسبِ حال توہونا چاہئیے تھا کہ آپ کی دعوت کا میدان بڑا وسیع ہوتا۔خیربنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوںکے لیے ہی دعوت سہی ۔ مگر اب یہ بھی تو دیکھنا ہے کہ اس میں کا میابی کیا ہوئی ۔ غور کیا جاوے اور انجیل واقعات پر نگاہ کی جاوے تویہ راز بھی کھل جاتا ہے کہآپ کو ہر میدان میں ذلیل ہوناپڑادوشمنوں پر کامیابی نہ ملی۔ انہوں نے صلیب پر چڑھادیا اور قصّہ پاک ہوا۔
اس خدا کا مقابلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا جاتا ہے آپ ہر میدان میں مظفر ومنصور ہوئے ۔ آپ کے دوشمن آپؐ پر کبھی قابوُ اور غلبہ نہ پاسکے اور آپؐ کے سامنے ہی ہلاک ہوئے ۔ آپؐ کو بھیجا ایسے وقت میں گیا جبکہ زمانہ آپ ؐ کی ضرورت کو خودثابت کرتا تھا ۔اور اُٹھائے ایسے وقت گئے جبکہ کامل اصلاح ہو چکی تھی اور آپؐ اپنے فرض منصبی کو پوری کامیابی کے ساتھ ادا کر چکے اور
الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ :۴)
کی آواز آپؐ نے سن لی ۔
پھر مسیح کی طرف دیکھو آپ صلیب پر چڑھے ہوئے ہیں اور ایلی ایلی ما سبقتنی کے فریاد کرتے ہیں ۔یہودااسکریوطی تیس روپیہ پر اپنے اُستاد کو پکڑوا چکا ہے اور پطرس صاحب *** بھیجرہے ہیںب ۔مسیح کے لیے وہ نظارہ کیسا مایوسی بخش ہے۔ دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو کہ آپؐ کے جاں نثار رفیق کس طرح پر اپنی جانیں آپؐ کے قدموں پر قربان کر رہے ہیں۔ایسے وفادار اور فرماںبردار اصحاب اور رفیق کس کو ملے اور یہ وفاداری اور اطاعت میں فنا کہ اپنی جانوں تک کے دے دینے میں دریغ نہ کیا ۔آپ ؐ کی ذاتی قوت ِ قدسی کا ثبوت ہے جو مقابلہ کرنے سے مسیح میں کچھ بھی نظر نہیں آتی۔
قرآن کریم اور بائیبل
پھر اَسرار کی طرف نگاہ کرو ۔جس قدر اسرار اور رموز قرآن شریف میں ہیں توراتؔ اور انجیلؔ میں وہ کہا ں ۔ پھر قر آ ن شریف تمام امور کو صرف دعویٰ ہی کے رنگ میں بیان نہیں کر تا جیسے تورات ؔیا انجیل ؔجو دعویٰ ہی دعویٰ کر تی ہیں بلکہ قرآن شر یف استدلالی رنگ رکھتا ہے کو ئی با ت وہ بیا ن نہیں کرتا جس کے سا تھ اس نے ایک قوی اوا مستحکم دلیل نہ دی ہو ۔ جیسی قرآن شریف کی فصا حت وبلا غت اپنے اندر جذب رکھتی ہے ۔جس طرح پر اس کی تعلیم میں معقولیت اور کشش ہے ویسے ہی اس کے دلائل مؤثر ہیں۔غرض میرا مطلب ان ساری باتوں سے یہ ہے کہ سب سے بڑھ کرکامل اور مؤثر نمونہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسّلم کاہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی وا رث جماعت
اسی طرح پر اب بھی وہی خدا ہے جس نے رسو ل اللہ صلی علیہ وسلم پر احسا ن اور انعا م کیے اور اسی طرح پر اب بھی اس کے فضل اور بر کا ت کے انعام ہو رہے ہیں ۔ پس یاد رکھو کہ جو فریق اس حق کی مخا لفت کرتا ہے اور اسے مفتری کہتا ہے وہ جس قدر مخا لفت چاہیں کریں ۔ مخالف الہا م سنا ئیں ان کو آخر معلو م ہو جائے گا کہ غالب وہی ہوتا ہے جس کو خدا نے اپنا نور اور فضل دے کر بھیجا ہے اور خدا تعا لیٰ اپنی قدیم سنّت اور عادت کے موافق اس قو م پر اپنا فضل کرے گا جس کو اُس نے منتخب کیا ہے ۔وہی دنیا پر پھیلے گی اور وہی قرآن شریف ،اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی وارث ہو گی۔
مومینین کے تین طبقے
دنیا میں ہمیشہ انسانوں کے تین طبقے ہو تے ہیں سابق بلخیرات ، مقتصداور ظالم ،سابقین کو نشانات اور معجزات کی ضرورت نہیں ہوتی ۔وہ تو قراِئن اور حا لا ت موجود ہ سے پہچا ن لیتے ہیں ۔ مقتصدین کوکچھ حصّہ روشن دما غی کا ملا ہوا ہوتا ہے اور کچھ تاریکی کا ، اس لیے وہ دلائل اور معجزات کے محتا ج ہوتے ہیں مگر تیسرا طبقہ جو ظا لمین کا ہوتا ہے وہ چونکہ بہت ہی غبی اور بلید ہو تے ہیں ۔ بجُز مار کھا نے وہ نہیں مانتے ۔یہ ایک قسم کا جبر ہو تا ہے جو ہر مذہب حق میں پایا جاتا ہے، کیو نکہ ظالمین بجز اس کے سمجھ نہیں سکتے ۔حضرت مسیح کے لیے طیطاؤس رُومی کا اتفاق ہو گیا ۔ موسیٰ کی قو م جو پہلے ہی سے مزدوریوں اور فر عو ن کی سختیوںنالاں تھی اس نے حضرت موسیٰ کی دعوت کو قبو ل کر لینا اپنی نجات کا مو جب سمجھا اور پھر بھی اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کے لیے وقتاََ فوقتاََ اُن پر عذاب بھیجتا رہا ۔کبھی طاعو ن کبھی زلزلے مختلف طریق پر انہیں منوا یااور اسی طر ح ہو تا رہا ہے ۔
غرض یہ ایک سنّت اللہ ہے کہ ظالمین کو اللہ تعالیٰ اس طر یق پر سمجھاتا ہے کیوں ۔ یہ فرقہ زیادہ بھی ہو تا ہے اور غبی بھی ۔اس وقت بھی یہ فر قہ زیا دہ ہے جو نشا نات خدا ے ظاہر کئے ان پر بھی جرح کر تے ہیں۔کسو ف و خسو ف کی حدیثکو مجرو ح قرار دیدیا ۔ لیکھرا م ؔ کی پیش گو ئی پر اعترا ض کر دیا ۔ہر نشا ن جو ظا ہر ہو تا ہے اعترض کر دیتے ہیں ، مگر خدا تو سب کا مر شد ہے اس نے تیسری صو رت اور آخری حجت اختیار کی ہے جو طا عو ن ہے ۔
طاعو ن کا علاج۔ تو بہ ۔ استغفا ر اور تہجّد
طاعون کا علا ج توبہ استغفا رہی ہے ۔یہ کوئی معمولی بلا نہیں بلکہ ارادہ الٰہی سے نازل ہو ئی ہے ۔یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہماری جماعت میں کسی کو نہ ہو ۔صحابہ میں سے بھی بعض کو طاعو ن ہو گئی تھی لیکن ہا ں ہم یہ کہتے ہیں کہ خد ا تعالیٰ کے حضور تضّرع اور زاری کرتا ہے اور اس کے حدود احکا م کو عظمت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس کے جلا ل سے ہیت زدہ ہو کر اپنی اصلاح کرتا ہے وہ خدا کے فضل سے ضرور حصّہ لے گا اس لیے ہما ری جماعت کوچا ہیے کہ تہجّد کی نماز کو لازم کر لیں۔جو زیا دہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لے ، کیو نکہ اس کو دُعا کرنے کا موقع بہر حال مل جائے گا اس وقت کی دعاؤں میں ایک خا ص تا ثیر ہو تی ہے ، کیو نکہ وہ سچے درد اور جوش سے نکلتی ہیں ۔جب تک ایک خا ص سو ز اور درد دل میں نہ ہو ۔ اس وقت تک ایک شخص خوابِ راحت سے بیدا ر کب ہو سکتا ؟ پس اس وقت کا اٹُھناہی ایک درد دل پیدا کر دیتا ہے جس سے د عا میں رقت اور اضطرا ب کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہی اضطراب اور اضطرار قبو لیت دعا کاموجب ہو جاتے ہین ، لیکن اگر اٹھنے میں سستی اور غفلت سے کام لیتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ درد اور سوز دل میں نہیں کیو نکہ نیند سے بڑھ کر جو بیدار کر رہا ہے پھر ایک اور با ت ضرو ری ہے جو ہما ری جماعت کو اختیار کرنی چاہیے اثر وہ یہ ہے کہ زبان کو پا ک کر نے سے گویا خدا تعا لیٰ وجود کی ڈیو ڑھی میں آجا تا ہے جب خدا تعالیٰ ڈیو ڑھی میں آگیا تو پھر اندرآنا کیا تعجب ہے ؟
پھر یا د رکھو کہ اللہ اور حقو ق عبا د میں دانستہ ہر گز غفلت نہ کی جاوے ۔جو ان اموار کو مّد نظر رکھ کر دعاؤں سے کام لے گا ۔یا یوں کہو کہ جسے دعا کی تو فیق دی جاوے گی ۔ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعا لیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اور وہ بچ جاوے گا ۔ظاہری تدا بیر صفا ئی وغیرہ کی منع نہیں ہیں ۔ بلکہ بر توکل زانوئے اشتربہ بند ۔ پر عمل کر نا چا ہیے جیسا کہ ایا ک نعبد و وایا ک نستعین
سے معلو م ہو تا ہے ،مگر یاد رکھو کہ اصل صفائی وہی ہے جو فر مایا ہے ۔
قد افللح من زکھا (الشمس:۱۰)
ہر شخص اپنا فر ض سمجھ لے کہ و ہ اپنی حالت میں تبدیلی کرے تمہیںیا د ہو گا کہ مجھے الہا م ہو ا تھا۔
ایام غضب اللہ غضبت غضباشدیدا
یہ طاعو ن کے متعلق ہے مگر وہی خدا کے فضل کا امید وار ہو سکتا ہے جو سلسلہ دعا ، توبہ اور استغفار کا نہ توڑے اور عمداََ گناہ نہ کرے ۔
گناہ ایک زہر ہے جو انسان کو ہلا ک کر دیتی ہے اور خدا کے غضب کو بھڑکاتی ہے گناہ سے صرف خدا تعا لیٰ کا خوف اور اس کی محبت ہٹاتی ہے طاعون بھی گناہوں سے بچانے کے لیے ہے صوفی کہتے ہیں کہ سعید کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں دیتے ۔
‏Amira
بعض کے حالات سنے ہیں کہ انہوں نے دعا کی کہ کوئی ہیبت باک نظارہ ہوتا کہ دل میں رقت اور درد پیدا ہو۔ اب اس سے بڑھ کر کیا ہیبت ناک نظارہ ہوگا کہ لاکھوں بچے یتیم کیے جاتے ہیں۔ بیوائوں سے گھر بھر جاتے ہیں۔ ہزاروں خاندان بے نام و نشان نو جاتے ہیں اور کوئی باقی نہیں رہتا۔ اﷲ تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو ایسے موقعوں پر ہمیشہ بچا لیتا ہے جبکہ بلائیں عذابِ الٰہی کی صورت میں نازل ہوں۔ پس اس وقت خدا کا غضب بڑھا ہوا ہے اور حقیقت میں یہ خدا کے غضب کے ایام ہیں، اس لیے کہ خدا کے حدود و احکام کی بے حرمتی کی جاتی ہے اور اس کی باتوں پر نہسی اور ٹھٹھا کیا جاتا ہے۔ پس اس سے بچنے کے لیے یہی علاج ہے کہ دعا کے سلسلہ کو نہ توڑو۔ اور توبہ و استغفار سے کام لو۔ وہی دعا مفید ہوتی ہے جبکہ دل خدا کے آگے پگھل جاوے اور خدا کے سوا کوئی مفر بظر نا آوے۔ جو خدا کی طرف بھاگتا ہے اور اضطرار کے ساتھ امن کا جویاں ہوتا ہے وہ آخر بچ جاتا ہے۔؎ٰ
۵ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
شام کو چند آدمی بیعت کیلئی آئے ہوئے تھے۔ آپ نے بعد بیعت بظاہر ان کو خطاب کر کے کل جماعت کو یوں ہدایت فرمائی:۔
استغفار کرتے رہو اور موت کو یاد رکھو۔ موت سے بڑھ کر اور کوئی بیدار کرنے والی چیز نہیں ہے۔ جب انسان سچے دل سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے، تو اﷲ تعالیٰ اپنا فضل کرتا ہے۔
جس وقت انسان اﷲ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ پہلے گناہ بخش دیتا ہے پھر بندے کا نیا حساب چلتا ہے۔ اگر انسان کا کوئی ذرا سا بھی گناہ کرے تو وہ ساری عمر اس کا کینہ اور دشمنی رکھتا ہے اور گو زبانی معاف کر دینے کا اقرار بھی کرے، لیکن پھر بھی جب اسے موقع ملتا ہے تو اپنے اس کینہ اور عداوت کا اس سے اظہار کرتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ ہی ہے کہ جب بندہ سچے دل سے اس کی طرف آتا ہے تو وہ اس کے گناہوں کی سزا کو معاف کر دیتا اور رجوع بہ رحمت فرماتا ہے۔ اپنا فضل اس پر نازل کرتا ہے اور اس گناہ کی سزا معاف کر دیتا ہے، اس لیے تم بھی اب ایسے ہو کر جائو کہ تم وہ ہو جائو جو پہلے نہ تھے۔ نماز سنوار کر پڑھو۔ خدا جو یہاں ہے وہاں بھی ہے۔ پس ایسا نہ ہو کہ جب تک تم یہاں ہو۔ تمہارے دلوں میں رقت اور خدا کا خوف ہو اور جب پھر اپنے گھروں میں جائو تو بے خوف اور نڈر ہو جائو۔ نہیں بلکہ خدا کا خوف ہر وقت تمہیں رہنا چاہیے۔ ہر ایک کام کرنے سے پہلے سوچ لو اور دیکھ لو کہ اس سے خدا تعالیٰ راضٰ ہو گا یاناراض۔ نماز بڑی ضروری چیز ہے اور مومن کا معراج ہے۔ خدا تعالیٰ سے دعا مانگنے کا بہترین ذریعہ نماز ہے۔ نماز اس لیے نہیں کہ ٹکریں ماری جاویں یا مرغ کی طرح کچھ ٹھونگیں مار لیں ۔ بہت لوگ ایسی ہی نمازیں پڑھتے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ کسی کے کہنے سننے سے نماز پڑھنے لگتے ہیں۔یہ کچھ نہیں۔
نماز خدا تعالیٰ کی حضوری ہے اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرکب صورت کا نام نماز ہے۔ اس کی نماز ہر گز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مد نظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتا۔پس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو۔ کھڑے ہو۔ تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت صاف بتادے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دست بستہ کھڑے ہو اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لیے دعا کرو‘‘۔
طاعون ایک غضبِ الٰہی ہے
طاعون جو دنیا میں آئی ہے اور اُس نے لاکھوں انسانوں کو زیرِ زمین کر دیا ہے، جس سے لاکھوں بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو گئے ہیں بلکہ کئی گھر بالکل تباہ ہو گئے اور خاندانوں کے خاندان بے نام ونشان ہو گئے ہیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک غضب ہے جو انسانوں کی غفلت اور حد سے بڑھی ہوئی شرارت اور انکار کی وجہ سے آیا ہے۔
خدا تعالیٰ کا قانون یہی ہے کہ جب انسان غافل ہو جاتا ہے اور طرح طرح کی بدکاریوں اور فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتا ہے، تو اس وقت خدا کا غضب ئجوش میں آتا ہے۔ اس وقت بھی دنیا کی ایسی ہی حالت ہو گئی تھی۔ کچھ تو خود گمراہ ہی تھے اور غفلت اور سستی ان میں آگئے تھی۔ سچے مذہب کے سچے عقائد کو چھوڑ بیٹھے تھے اور تمام اعمال صالحہ کی جگہ صرف چند رسوبات نے لے لی تھی۔ اس پر پادریوں نے اور بھی مٹی پلید کی۔ اُنہوں نے مختلف ذریعوں سے اس بیہودہ مذہب کو جس میں ایک عاجز انسان کو جو مر گیا ہے خدا بنایا گیا۔ لوگوں کے سامنے عجیب عجیب رنگ دے کر پیش کیا اور اس کے خون کو گناہوں کا کفارہ قرار دے کر بیباک زندگی بسر کرنے کی ترغیب دی۔ حیلہ جو کے اس فتنہ کے ستھ ہی یہ نقص پیدا ہوا کہ انگریزی تعلیم اور انگریزی وضع نے بھی ایک قسم کی نصرانیت پھیلادی جبکہ سروں میں آزادی ہی آزادی کا خیال بھر گیا۔
ادھر یورپ کے فلسفہ اور طبیعات نے اپنی جدید تحقیقاتیں جو پیش کیں تو علماء نے اپنی کمی معرفت اور علوم حقہ سے بیخبری کے باعث اور بھی نڈصان اسلام کو پہنچایا۔ان میں سے بعض نے تو قرآن کریم کی تعلیمات کی اس فلسفہ سے دب کر ایسی تاویلیں شروع کر دیں جو خدا تعالیٰ کے پاک کلام کے منشاء کیصریح خلاف تھیں اور بعض نے سرے سے ان علوم جدیدہ کے پڑھنے والوں کے اعتراضوں پر ان کوکفر کے فتوے دینے شروع کر دیئے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی تعلیم نے جو آزادی پھیلا دی تھی۔ اس نے مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہوئے ہوئے بچون کو بالکل بیباک کر دیا اور پھر ایک اور آفت یہ آئی کہ مسلمانوں میں سستی اور غفلت تو پیدا ہو ہی چکی تھی۔ سچے عقائد کو چھوڑ کر قسم قسم کی بدعتیں اور سلسلے خدا تعالیٰ کے سچے دین اور سلسلے کے خلاف پیدا کیے گئے اور مشرکا نا تعلیمات اور وظائف قائم کر لیے تھے۔
ان ساری آفتوں کے ہوتے ہوئے جب خدا تعالیٰ نے اپنے قدیم قانون کے موافق محض اپنے فضل سے ایک بندہ بھیج دیا جو ان ساری مصیبتوں کا چارہ گر اور مداوا تھا۔ ان لوگوں نے ناحق اسے تکلیف دی، اس کی مخالفت کے لیے اٹھے۔ جب ان کی مخالفت اور شرارت حد سے بڑھ گئے اور خدا تعالیٰ کے حضور ان کی شوخیاں اور گستاخیاں اور بے جا ضد اور عدادت سے ملا ہوا اندار قابل سزا ٹھر گیا، تو اس نے اپنے وعدہ کے موافق اس بندہ کی تائید کے لیے طاعون بھیجا۔ ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ اﷲ تعالیٰ اس مرض سے محفوظ رکھے اور اپنی پناہ میں لے۔ طاعون کوئی معمولی مریض نہیں ہے اور نہ اس کے دورہ کا کوئی خاص نظام ہے بلکہ بعض اوقات یہ سالہائے دراز تک اپنا سلسلہ جاری رکھتی ہے اور اس وقت تو طاعون خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص کام کے لیے مومور کی گئی ہے۔ وہ لوگ غلطی اور گناہ کرتے ہیں جو طاعون کو برا کہتے ہیں ۔یہ خدا کا فرشتہ ہے جو اس کے بندے کی سچائی پر ایک گواہی قائم کرنے کے لیے آیا ہے۔؎ٰ
طاعون کی شدت اور اس کے متعلق پیشگوئیاں
پس ہمیشہ دعا کرتے رہو کہ خدا اس سے محفوظ رکھے۔ بظاہر طاعون ہر ایک گائوں کا دورہ کرے گی۔ یہ نہ سمجھو کہ کوئی باقی رہ جاوے گا۔ وہی بچ سکتا ہے جو توبہ اور استغفار میں مصروف ہے۔ اس لیے اس وقت ضروری ہے کہ اپنی جان اور اپنی بیوی بثوں پر رحم کرو۔ یہ خدا تعالیٰ کے غضب کے دن ہیں۔ بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی بدکاریاں اور شوخیاں اس حدتک پہنچی ہوئی ہوتی ہیں کہ جب وہ خدا کے غضب سے ہلاک ہوتا ہے، تو اس *** اور غضب کا ثر اُس کی اولاد تک بھی پہنچتا ہے۔ اسی لیے قرآن شریف میں فرمایا گیا ہے ولا یخاف عقبھا (الشمس : ۱۶) عقبٰھا سے اولاد اور پسماندگان مراد ہیں۔ جہاں جہاں طاعون پھیلا ہے۔ لوگ کتوں کی طرح مرتے ہیں۔ بعض مردہ چوہوں کی طرح بد بُو دار ہو جاتے ہیں۔ کوئی اُن کو اُٹھا بھی نہیں سکتا اور ان کے جنازوں کو گھسیٹ گھسیٹ کر قبروں میں ڈالتے ہیں۔ بہت سے خطوط طاعون زدہ علاقوں اور گائوںسے آئے ہیں۔جس میں لکھا ہوا تھا کہ کوئی جنازہ نہیں پڑھتا۔ مرداروں کی طرح مردوں کو گڑھے کھود کر ڈال دیا جاتا ہے، مگر تعجب اور افسوس کی بات ہے کہ لوگوں نے اس بات کی طرف توجہ نہیں کی کہ خدا تعالیٰ کا یہ غضب کیوں آیا؟
میں یقینا کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو لوگ آتے ہیں ۔ جب اُن کی باتوں کو لوگ نہیں مانتے اور شرارت اور شوخی سے اُن کا انکار کر کے ایزارسانی کی حدتک پہنچ جاتے ہیں۔ تو پھر خدا تعالیٰ کا غضب کسی نا کسی رنگ میں جوش میں آتا ہے؛ چناچہ پہلے نبیوں کے وقت میں کسی قوم کو کسی عذاب سے ہلاک کیا۔ کسی کو کسی سے،مگر اس وقت جو مسیح موعود کا زمانہ ہے خدا تعالیٰ نے اس شرارت اور شوخی سے ملے ہوئے انکار کی سزا کے لیے ساعون کو مقرر کیا ہے: چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے زمانہ کا نشان طاعون قرار دیا اور انجیل میں بھی اسی کی صداقت موجود ہے۔ براہین ؔاحمدیہ میں بھی آج سے پچیس برس پیشتر خدا تعالیٰ نے طاعون کے پھیلنے کی خبر دی تھی۔چونکہ اندار حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے اور انکار کے ساتھ شرارت اور ایزار سانی بھی ہے اور قسم قسم کے طعن کیے جاتے ہیں، اس لیے خدا تعالیٰ نے طاعون ہی کو سزا کے لیے بھیجا۔ اور یہ بات کہ مامون من اﷲ کی تکذیب اور ایذارسانی پر عذاب کیوں آتا ہے ایسی صاف ہے کہ تم اس کی مثال ایسی سمجھ سکتے ہو جیسے سرکار کسی چپڑاسی کو معاملہ وصول کرنے کے لیے بھیجے؛ حالانکہ وہ چپڑاسی بانچ چھ روپیہ موہوار کا ملازم ہوتا ہے۔ لیکن اگر کوئی اس کو معاملہ نا دے یا شرارت کر کے اس کو دکھ کے۔ تو گورنمنٹ سارے گائوں کو سزا دینے کے لیے تیار ہو جاتی ہے خواہ اس میں کیسے ہی معزز اور دولتمند زمیندار بھی ہوں۔ اسی طرح پر خدا تعالیٰ کے ماموروں کی بے عزتی کی جاوے، تو خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور اس کا غضب پھڑک اُٹھتا ہے۔اس وقت وہ شریروں کو سزا دینے کے لیے اپنے بندے کی حمایت میں نشان ظاہر کرتا ہے۔
مسیح موعود کی بعثت کی غرض
پھر میں یہ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو آتے ہیں وہ کوئی بُری بات تو کہتے ہی نہیں۔ وہ تو یہی کہتے ہیں کہ خدا ہی کی عبادت کرو اور مخلوق سے نیکی کرو۔ نامزیں پڑھو اور جو غلطیانن مذہب میں پڑ گئے ہوئے ہیں، انہیں نکالتے ہیں؛ چنانچہ اس وقت جو میں آیا ہوں، تو میں بھی اُن غلطیوں کی اصلاح کے لیے بھیجا گیا ہوں جوفیج اعوج کے زمانہ میں پیدا ہو گئی ہیں۔ سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کو خاک میں ملا دیا گیا ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور اہم اور اعلیٰ تعلیم توحید کو مشکوک کیا گیا ہے۔ ایک طرف تو عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع زندہ ہے اور تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ نہیں ہیں اور وہ اس سے حضرت عیسیٰ کو خدا اور خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ دو ہزار برس سے زندہ چلے آتے ہیں۔ نہ زمانہ کا کوئی اثر اُن پر ہوا۔ دوسری طرف مسلمانوں نے یہ تسلیم کر لیا کہ بیشک مسیح زندہ آسمان پر چلا گیا ہے اور دو ہزار برس سے ابتک اسی طرح موجود ہے۔ کوئی تغیّر وتبّدل اس کی حالت اور صورت میں نہیں ہوا۔اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم مر گئے۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میرا دل کانپ جاتا ہے، جب میں ایک مسلمان مولوی کے منہ سے یہ لفظ سنتا ہوں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مر گئے۔ زندہ نبی کو مردہ رسول قرار دیا گیا۔ اس سے بڑھ کر بے حرمتی اور بے عزّتی اسلام کی کیا ہوگی، مگر یہ غلطی خود مسلمانوں کی ہے، جنھوں نے قرآن شریف کے صریح خلاف ایک نئے بات پیدا کر لی۔ قرآن شریف میں مسیح کی موت کا بڑی وضاحت سے ذکر کیا گیا ہے، لیکن اصل میں اس غلطی کا ازالہ میرے ہی لیے رکھا تھا، کیونکہ میرا نام خدا نے حکم رکھا ہے۔ اب جو اس فیصلہ کے لیے آوے وہی اس غلطی کو نکالے۔ دنیا نے اس کو قبول نہ کیا۔ پر خدا اُس کو قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں س یاُس کی سچائی ظاہر کر دے گا۔ اس قسم کی باتوں نے دنیا کو بڑا نقصان پہنچایا ہے۔
مگر اب وقت آگیا ہے کہ یہ سب جھوٹ ظاہر ہو جاوے ۔ خدا تعالیٰ نے جس کو حکم کر کے بھیجا اس سے یہ باتیں مخفی نہیں رہ سکتی ہیں۔بھلا دائی سے پیٹ چھپ سکتا ہے۔ قرآن نے صاف فیصلہ کر دیا ہے کہ آخری خلیفہ مسیح موعود ہوگا اور وہ آگیا ہے۔ اب بھی اگر کوئی اس پر لکیر کا فقیر رہے گا۔ جو فیج اعوج کے زمانہ کی ہے تو وہ نہ صرف خود نقصان اٹھائے گا بلکہ اسلام کو نقصان پہنچانے والا قرار دیا جاوے گا۔ اور حقیقت میں اس غلط اور ناپاک عقیدہ نے لاکھوں آدمیوں کو مرتد کر دیا ہے۔ اس اپول نے اسلام کی سخت ہتک کی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین۔ جب یہ مان لیا کہ مردوں کو زندہ کرنے والا، آسمان پر جانے والا۔ آخری انصاف کرنے والا یسوع مسیح ہی ہے تو پھر ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو معاذاﷲ کچھ بھی نہ ہوئے؛ حالانکہ اُن کو رحمتہ للعالمین کہا گیا اور وہ کافتہ الناس کے لیے رسول ہو کر آئے۔ خاتم النبیین وہی ہوئے۔ ان لوگوں کا جنھوں نے مسلمان کہلا کر ایسے۔ بیہودہ عقیدہ رکھتے ہیں، یہ بھی مذہب ہے کہ اس وقت جو پرندے موجود ہیں اُن میں کچھ مسیح کے ہیں اور کچھ خدا تعالیٰ کے ۔تعوذباﷲ من ذٰلک۔ میں نے ایک بار ایک موحد سے سوال کیا کہ اگر اس وقت دو جانور پیش کیے جاویں اور پوچھا جاوے کہ خدا کا کونسا ہے اور مسیح کا کونسا ہے۔ تو اُس نے جواب دیا کہ مل جل ہی گئے ہیں ۔؎ٰ
پھر وہ دین جو خدا تعالیٰ کی توحید کا سرچشمہ تھا اور جس کی حمایت اور آبیاری کے لیے زمین صحابہ کے پاک خون سے سرخ ہو گئے تھی۔ اسی کے ماننے کا دعویٰ کرنے والوں نے ایک عورت کے بچہ کو عیسائیوں کا تتبع کر کے خدا بنادیا اور خدا کی صفات کو اس میں قائم کر دیا۔ جب یہانتک نوبت پہنچ گئے تو خدا تعالیٰ نے اپنی غیرت اور جلال کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا اور اُس نے اس نبی ناصری کے نمونہ پر (جس کو نادان مسلمانوں نے خدائی صفات سے متصف کرنا چاہا ہے)مجھے بھیجا ہے، مگر ان لوگوں نے جو ضد اور تعصب سے خالی نہ تھے بلکہ اُن کے دل ان تاریک بخارات سے سیاہ ہو چکے تھے، میری مخالفت کی اور اس مخالفت کو شرارت اور ایزارسانی کی حدتک پہنچا یا۔ اس پر خدا تعالیٰ نے جو اپنے بندوں کے لیے غیرت رکھتا ہے، طاعون کو بھیجا۔ اور یہ اس وقت ہوا ہے جب ہر قسم کی حجت پوری ہو چکی۔ عقلی دلائل اُن کے سامنے پیش کیے گئے۔ نصوص قرآنیہ حدیثیہ سے اُن پر حجت پوری کی اور آخر خدا تعالیٰ کے تائیدی نشانات بھی کثرت کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ ہر قسم کے نشان اُن کو ملے، مگ انہوں نے اُنکو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور اُن پر ٹھٹھا کیا۔ اس لیے آخری علاج طاعون رکھا گیا۔ یہ وہ نشان ہے جس کا ذکر اﷲ تعالیٰ نے آج سے پچیس برس پہلے براھین میں بھی کیا ہے اور خدا تعالیٰ نے پہلی کتابوں میں بھی مسیح موعود کے زامانہ کا یہ ایک نشان رکھا ہے۔ اس سے وہی بچیں گے جو توحید اختیار کریں گے اور عاجزی انسان کو خدا نہ بنائیں گے۔ اور خدائی صفات سے اس کو متصف نہ ٹھہرائیں گے اور خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسول کی قدر کریں گے۔
‏Amira
مسئلہ ٔ وفات مسیح کی اہمیّت
سب سے پہلی بات جو یاد رکھنی چاہیے ،وُہ وفاتِ مسیح کا مسئلہ ہے ۔یہ لوگ بعض وقت دھوکہ دیتے ہیں کہ وفات مسیح کی بحث کی ضرورت ہی کچھ نہیں؛ حالانکہ اصل جڑ یہی ہے۔ اس مسئلہ سے عیسائیوں کی ساری کارروائی باطل ہوتی ہے اور حضرت مسیح کی خدائی کی ٹانگ ٹوٹتی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا میں قائم ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف نے وفاتِ مسیح کے مسئلہ پر بر خلاف اور نبیوں کی وفات کے بہت ہی بڑا زور دیا ہے۔ اور تیس سے بھی زیادہ آیتوں میں اس مضمون کو بیان کیا؛ چنانچہ یعیسی انی متوفیک اور فلما توفیتنی وغیرہ آیتوں میں بڑی صراحت کے ساتھ یہ ذکر موجود ہے۔ یہ بیوقوف کہتے ہیں کہ وفات نہیں ہوئی بلکہ خدا نے آسمان پر اُٹھا لیا۔ یہ غلطیاں ہیں جو کتاب اﷲ کے خلاف دین کی ہتک کے لیے لوگوں نے از خود پیدا کر لی ہیں۔ خدا تعالیٰ نہیں چاہتا ہے کہ اس کی صفات عاجزا انسان کو دی جاویں۔ پھر کس شیخی پر یہ اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیا اسلام اسی کا نام ہے کہ یہ اقرار کیا جاوے کہ کچھ مخلوق خدا کی ہے اور کچھ مسیح کی۔ میں سچ کہتا ہوں کہ ایسے عقائد بنا کر ان لوگوں نے اسلام کی ہتک کی ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہے اور خدا تعالیٰ کی مخالفت کی ہے۔
خالص توحید اسلام نے سکھائی
اسلام وہ مصفّا اور خالص توحید لے کر آیا تھا، جس کا نمونہ اور نام و نشان بھی دوسرے ملّتوں اور مذہبوں میں پایا نہیں جاتا۔ یہاں تک کہ میرا ایمان ہے کہ اگر چہ پہلی کتابوں میں بھی خدا کی توحید بیان کی گئی ہے اور کل انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی غرض اور منشاء بھی توحید ہی کی اشاعت تھی۔ لیکن جس اسلوب اور طرز پر خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم توحید لے کر آئے اور جس نہج پر قرآن نے توحید کے مراتب کو کھول کھول کر بیان کیا ہے کسی اور کتاب میں اس کا ہر گز پتہ نہیں ہے۔ پھر جب ایسے صاف چشمہ کو انہوں نے مکدّر کرنا چاہا ہے، تو بتائو۔ اسلام کی توہین میں کیا باقی رہا۔اس پر اُن کی بد قسمتی یہ ہے کہ جب اُن کو وہ اصل اسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے پیش کیا جاتا ہے اور قرآن شریف کے ستھ ثابت کر کے دکھایا جاتا ہے کہ تم غلطی پر ہو تو کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا اسی طرح مانتے آئے ہیں۔ مگر میں کہتا ہوں کہ کیا اتنی بات کہہ کر یہ اپنے آپ کو بری کر سکتے ہیں؟ نہیں! بلکہ قرآن شریف کے موافق اور خدا تعالیٰ کی سنت قدیم کے مطابق اس قول سے بھی ایک حجت اُن پر پوری ہوتی ہے۔ جب کبھی کوئی خدا کا مامور اور مرسل آیا ہے تو مخالفوں نے اس کی تعلیم کو سُن کر یہی کہا ہے۔
ما سمعنا مھذا فی ابا ئنا الاولین (مومنون : ۲۵)
مجددین کی ضرورت
تعجب کی بات ہے کہ تجدید کا قانون یہ روز مرہ دیکھتے ہیں۔ ایک ہفتہ کے بعد کپڑے بھی میلے ہو جاتے ہیں اور اُن کے دھلانے کی ضرورت پڑتی ہے، لیکن کیا پوری صدی گزر جانے کے بعد بھی مجدد کی ضرورت نہیں ہوتی؟ ہوتی ہے اور ضرور ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا۔ کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد اصلاح خلق کے لیے آتا ہے، کیونکہ صدی کے اس درمیانی حصہ مین بہت سی غلطیاں اور بدعتیں دین میں شامل کر لی جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کبھی پسند نہیں فرماتا کہ اس کے پاک دین میں خرابی رہ جاوے، اس لیے وہ ان کی اصلاح کی خاطر مجدد بھیج دیتا ہے؛ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے راشدین پھر تابعین پھر تبع تابعین کے زمانے کیسے مبارک زمانے تھے۔ ان تین زمانوں کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خیرالقرون فرمایا ہے۔ بعد اس کے نیکی اور خیر میں کمی آتی رہی اور غلطیاں پیدا ہونے لگیں۔ یہنتک کہ بہت ہی خطر باک غلطیاں پیدا ہو گئیں۔ یہ وہ زمانہ ہے جس کا نام رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیج اعوج رکھا ہے، جس میں جھوٹ کثرت سے پھیل گیا اور جس کی بابت آپؐ نے فرمایا۔ لیسو امنی ولست منہم۔
ظہور مہدی و مسیح موعود کی غرض
اب اس زمانہ کے بعد خدا نے چاہا ہے کہ ان غلطیوں کو دور کرے اور اسلام کا حقیقی چہرہ پۃر دنیا کو دکھائے اور شرک اور مردہ انسان کی پرستش کو دور کرے اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بروزی طور پر ظہور ہوا۔ اور آپؐ کی عظمت کو مسیح کے مقابلہ میں ظاہر کرنے کے لیے خدا کی غیرت نے چاہا کہ احمدؐ کے غلام کو مسیح سے افضل قرار دیا۔
اسی بات کے لیس سورج چاند کو رمضان میں مقررہ تاریخوں پر پیشگوئی کے موافق کرہن لگا۔ یہ مولوی جب تک یہ واقع نہ ہوا تھا۔ مہدی کی علامتوں میں بڑے زور شور سے منبروں پر چڑھ چڑھ کر اس کو بیان کرتے تھے۔لیکن اب جبکہ خدا تعالیٰ نے اپنے وقت پر اس نشان کو ظاہر کر دیا تو میری مخالفت کے لیے یہ خدا تعالیٰ کے اس جلیل الشان نشان کی بے حرمتی کرتے ہیں اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک پیشگوئی کی توہین کرتے ہوئے حدیثوں کو جھوٹا قرار دیتے ہیں!!! افسوس۔
اسی طرح پر یہود کے بڑے بڑے مولوی فقیہ اور فریسی کرتے تھے۔ جب حضرت مسیح آئے اُنہوں نے بھی اندار کیا۔ یاد رکھو حق میں ایک خوشبو ہوتی ہے او وہ خود بخود پھیل جاتی ہے اور خدا اس کی حمایت کرتا ہے۔ جب خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا تھا۔ اس وقت میں اکیلا تھا اور کوئی مجھے جانتا بھی نہ تھا، مگر اب پچاس ہزار سے بھی زیادہ انسان اس سلسلہ میں شامل ہیں اور اطراف عالم میں اس دعویٰ کا شور مچ گیا ہے۔ خدا تعالیٰ اگر ساتھ نہ ہوتا اور اُس کی طرف سے یہ سلسلہ نہ ہوتا، تو اس کی تائید کیونکر ہوسکتی تھی اور یہ سلسلہ قائم کیونکر رہ سکتا تھا؟
مخالفت کی وجہ
اور پھر یہ نہیں کہ اس طریق میں سب کو خوش کیا گیا تھا، نہیں بلکہ سب سے مخالفت اور سب کو ناراض کیا گیا۔ عیسائی الگ ناراض اور سب سے بڑھ کر ناراض ہیں، جبکہ اُن کو سنایا گیا یہ صلیبی اعتقاد کو پاش پاش کرنے آیا ہوں اور اُن کو دعوت کی گئے کہ تمہارا یسوع مسیۃ جس کو تم نے خدا بنایا ہے اور جس کی صلیبی موت پر جو تمہارے نزدیک *** موت ہے تمہاری نجات منحصر ہے۔ وہ تو ایک عاجز انسان تھا اور وہ کشمیر میں مرا پڑا ہے۔ عیسائی اگر ناراض تھے تو اور کسی قوم کے ستھ بھی صلح نہ رہی۔ آریوںؔکے ساتھ اگر مخالفت، جبکہ اُن کے بیوگ، تناسخ اور دوسرے معتقدات کی ایسی تردید کی گئی کہ جس کا جواب اُن سے کبھی نہ ہوسکے گا۔ اور آخر خدا تعالیٰ نے اپنے ایک بیّن نشان کے ساتھ اُن پر حجّت پوری کی اور اگر باہر والے باراض تھے۔ تو مسلمان ہی خوش ہوتے، مگر تم دیکھ لو کہ ان لوگوں کی جب غلطیاں نکالی گئیں۔ اُن کے مشائخ، پیر زادوں مولویوں اور دوسرے لوگوں کی بدعتوں او مشرکانہ رسومات کو ظاہر کیا گیا اور اُن کے خانہ ساز عقائد کو کھولا گیا تو یہ سب سے بڑھ کر دشمن ثابت ہوئے۔ اب ان سب لوگوں کی مخالفت کے ہوتے ہوئے اس سلسلہ کا ترقی کرنا۔ اور دن بدن بڑھنا بتائو خدا کی تائید کے بغیر ہو سکتا ہے؟ کیا انسانی منصوبوں سے یہ عظیم الشان سلسلہ چل سکتا ہے؟
انسان کی عادت میں داخل ہے کہ جب اسکی عادت اور عقیدہ کے خلاف کہا جاوے تو وہ مخالف ہو جاتا ہے اور ناراض ہو جاتا ہے۔ ایک ہندو کو جب گنگا کے خلاف ذرا سی بات بھی کہی جاوے تو وہ دشمن بن جاتا ہے۔ پھر کُل مذاہب کے خلاف کہا گیا۔ وہ کیوں ناراض نہ ہوتے اور اس پر اگر خدا کی طرف سے یہ کام نہ ہوتا تو تباہ ہو جاتا۔ اس قدر مخالفت کے ہوتے ہوئے اُس کا سر سبز ہونا ہی اس کے خدا کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے۔
پھر عام پیروں اور مشائخ کی طرح نہیں کہ نزر و نیاز س یہی کام ہے خواہ وہ چور ی ی ہی ہو۔ اور کچھ بھی خدا تعالیٰ کی سچی شریعت کے متعلق نہیں بتاتے، بلکہ بتاتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ وہ اس قدر جرأ ت نہیں کر سکتے کہ ایک چور مرید کو چوری کرنے سے منع کر سکیں یا سودخواریا بدکار کو اس کے عیبوں سے آگاہ کر سکیں ۔دنیا کے گدی نشینوں اور مہنتوں کا اس طرح پر گذارہ نہیں ہو سکتا۔
یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے
یہ خدا ہی کے سلسلہ میں برکت ہے کہ وہ دشمنوں کے درمیان پرورش پاتا اور بڑھتا ہے۔؎ٰ
اُنہوں نے بڑے بڑے منصوبے کئے۔ خون تک کے مقدّمے بنوائے، مگر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے جو بایں ہوتی ہیں، وہ ضائع نہیں ہو سکتیں۔ میں تمہیں سث سچ کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہے۔ اگر انسانی ہاتھوں اور انسانی منصوبوں کا نتیجہ ہوتا تو انسانی تدابیر اور انسانی مقابلے ابتک اُس کو تیست و نبود کر چکے ہوتے۔ انسانی منصوبوں کے سامنے اس کا بڑھنا اور ترقی کرنا ہی اس کے خدا کی طرف س یہونے کا ثبوت ہے۔ پس جس قدر تم اپنی قوتِ یقین کو بڑھائو گے، اسی قدر دل روشن ہوگا۔
دعا کے آداب
قرآن شریف کو پڑھو اور خدا سے کبھی نا اُمید نہ ہو۔ مومن خدا سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ یہ کافروں کی عادت میں داخل ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ ہمارا خدا علیٰ کل شیئی قدیر خدا ہے۔ قرآن شریف کا ترجمہ بھی پڑھو اور نمازوں کو سنوار سنوار کر پڑھو اور اس کا مطلب بھی سمجھو۔ اپنی زبان میں بھی دعائیں کر لو۔قرآن شریف کو ایک معمولی کتاب سمجھ کر نہ پڑھو، بلکہ اُس کو خدا تعالیٰ کا کلام سمجھ کر پڑھو۔ نماز کو اسی طرح پڑھو، جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے تھے۔البتہ اپنی حاجتوں اور مطالب کو مسنون اذکار کے بعد اپنی زبان میں بیشک ادا کرو اور خدا تعالیٰ سے مانگو۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سے نماز ہر گز ضائع نہیں ہوتی۔آجکل لوگوں نے نماز کو خراب کر رکھا ہے۔ نمازیں کیا پڑھتے ہیں ٹکریں مارتے ہیں۔نماز تو بہت جلدجلد مرغ کی طرح ٹھونگیں مر کر پڑھ لیتے ہیں اور پیچھے دعا کے لیے بیٹھے رہت یہیں۔ نماز کا اصل مغز اور ھوح تو دعا ہی ہے۔ نماز سے نکل کر دعا کرنے سے وہ اصل مطلب کہاں حاصل ہو سکتا ہے۔ ایک شخص بادشاہ کے دربار میں جاوے اور اس کو اپنا عرض حال کرنے کا موقع بھی ہو، کیکن وہ اس وقت تو کچھ نہ کہے لیکن جب دربار سے باہر جاوے تو اپنی درخوست پیش کرے۔ اسے کیا فائدہ۔ ایسا ہی حال ان لوگوں کا ہے جو نماز میں خشوع خضوع کے ساتھ دعائیں نہیں مانگتے۔ تم کو جو دعائیں کرنی ہوں، نماز میں کر لیا کرو۔ اور پورے آداب الدّعا کو ملحوظ رکھو۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع ہی میں دعا سکھائی ہے اور اس کے ساتھ ہی دعا کے آداب بھی بتا دئیے ہیں۔ سورۃ فاتحہ کا نماز میں پڑھنا لازمی ہے اور یہ دعا ہی ہے جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل دعا نماز ہی میں ہوتی ہے؛ چنانچہ اس دعا کو اﷲ تعالیٰ نے یوں سکھایا ہے۔
الحمد للہ رب العلمین۔الرحمن الرحیم۔ - الیٰ آخرہ۔
یعنی دعا سے پہلے ضروری ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی جاوے جس سے اﷲ تعالیٰ کے لیے روح میں ایک جوش اور محبت پیدا ہو، اس لیے فرمایا۔ الحمد للہ سب تعریفین اﷲ ہی کے لیے ہیں رب العلمین۔ سب کو پیدا کرنیوالا اور پالنے والا۔ الرحمٰن۔ جو بلا عمل اور بن مانگے دینے والا ہے۔ الرحیم۔ پھر عمل پر بھی بدلہ دیتا ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی دیتا ہے۔ مالک یوم الدین۔ ہر بدلہ اُسی کے ہاتھ میں ہے۔ نیکی بدی سب کچھ اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے۔ پورا اور کامل موحد تب ہی ہوتا ہے، جب اﷲ تعالیٰ کو مالک یوم الد ین تسلیم کرتا ہے۔ دیکھو حکام کے سامنے جا کر ان کو سب کچھ تسلیم کر لینا یہ گناہ ہے اور اس سے شرک لازم آتا ہے۔ اس لحاظ سے کہ اﷲ تعالیٰ نے اُن کو حاکم بنایا ہے۔اُن کی اطاعت ضروری ہے، مگر اُن کو خدا ہر گز نہ بہائو۔ انسان کا حق انسان کو اور خدا تعالیٰ کا حق خدا تعالیٰ کو دو۔ پھر یہ کہو۔ ایاک نعبد و ایاک نستعین۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور ہم تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں۔ اھد نا الصراط المستقیم ہم کو سیدھی راہ دکھا۔ یعنی ان لوگوں کی راہ جن پر تو نے انعام کیے اور وہ نبیوں۔صدیقون۔شہیدوں اور صالحین کا گروہ ہے۔ اس دعا میں ان تمام گروہوں کے فضل اور انعام کو مانگا گیا ہے۔ ان لوگوں کی راہ سے بچا، جن پر تیرا غضب ہوا اور جو گمراہ ہوئے۔ غرض یہ مختصر طور پر سورۃ فاتحہ کا ترجمہ ہے۔ اسی طرح پر سمجھ سمجھ کر ساری نماز کا ترجمہ پڑھ لو اور پھر اسی مطلب کو سمجھ کر نماز پڑھو۔ طرح طرح کے حرف رٹ لینے سے کچھ فائدہ نہیں۔ یہ یقینا سمجھو کہ آدمی میں سچی توحید آہی نہیں سکتی، جبتک وہ نماز کو طوطے کی طرح پڑھتا ہے۔ روح پر وہ اثر نہیں پڑتا اور ٹھوکر، نہیں لگتی جو اس کو کمال کے درجہ تک پہنچاتی ہے۔ عقیدہ بھی یہی رکھو کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ثانی اور نِدّ نہیں ہے اور اپنے عمل سے بھی یہی ثابت کرکے دکھائو۔
سلسلہ احمدیہ کے برحق ہونے کا ثبوت
خدا تعالیٰ کی دو زبر دست گوہیاں ہر بات میں ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہیں۔ اولؔ گواہی اس کی کتاب کی ہے تو قرآن شریف ہے۔ قرآن شریف میں جو کچھ لکھا ہے، وہ سب صحیح اور سچ ہے اور ہم ایمان لاتے اور یقین کرتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ پس اس کو مانو۔ اور دوسریؔ گواہی اس کا کام کی ہے۔ زمین و آسمان اپنی شہادتوں سے اس کی سچائی کو ثابت کرتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو جو قائم کیا ہے اور مجھے جو پیدا کیا ہے تو اس میں بھی ان دونوں گواہیوں کو ساتھ رکھا ہے۔
اولؔ ۔حضرت عیساٰ علیہ السلام کے فوت ہونے کا بڑی صفائی کے ستھ قرآن شریف میں ذکر کیااور تیس آیتوں میں کھول کھول کر اُس کی موت بیان کی
دومؔ۔ قرآن شریف نے یہ بھی تعلیم دی کہ حقیقی مردے کبھی واپس نہیں ئسکتے۔
سومؔ۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو مثیل موسیٰ ٹھہرا کر یہ تعلیم دی کہ جس طرح سلسلہ موسوی میں رسول آتے رہے محمدی سلسلہ میں بھی اس کا نمونہ اور نظیر ہو گی۔ گویا اس سلسلہ کا خاتم الخلفاء موسوی سلسلہ کے خاتم الخلفاء کے نام پر مسیح کے نام سے آئے گا۔
چنانچہ ان وعدوں کے موافق جب خدا نے مجھے مسیح موعود بنا کر بھیجا تو میری تائید میں زمیں اور آسمان نے بھی اپنی شہادت کو ادا کر دیا۔
یعنی زمین کی حالت بجائے خود ایسی ہو گئے کہ وہ پکار پکار کر کہہ رہی تہی کہ خدا کا مامور اور مصلح اس وقت آئے۔ وہ ہر قسم کے فساد سے لبریز ہو گئے تھی۔ اسلام پر خطرباک حملے شروع ہو چکے تھے۔ آسمان نے اپنے نشانوں سے میری شہادت دی؛ چنانچہ جس طرح پر پہلے کہا گیا تھا، اُسی طرح اپنے وقت پر کسوف و خسوف ہو گیا۔ زمین کے دوسرے نشانت میں سے طاعون بھی ایک بڑا نشان ہے۔ غرض جو کچھ تسلی کے لیے ضروری تھا۔ وہ خدا نے سب پورا کردیا۔ اگر کسی کو خبر نہیں تو اُسے چاہیے کہ ان کتابوں کو جو ہم نے لکھی ہیں پڑھے یا سنے کہ کیونکہ خدا تعالیٰ نے اپنے نشانات کو وقت پر پورا کیا ہے۔ بغیر علم کے انسان اندھا ہوتا ہے اور جہالت ایک موت ہے۔ پس اس نابینائی اور موت سے بچنا چاہیے۔ خدا کے نشانات سمندر کی طرح بہہ رہے ہیں۔ ایک زبر دست اور کھلا کھلا نشان طاعون کا ہے جو خدا تعالیٰ نے طعنہ کرنے والوں اور سفیہوں کے لیے رکھا ہوا تھا۔ وہ بھی پورا ہو گیا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس وقت غضب میں ہے۔ اُس کی باتوں پر ہنسی کی گئے۔ اس کے نشانوں کو ذلیل قرار دیا گیا، اس لیے خدا کے قہر کے دن آگئے۔ اب دیکھو گے کہ وہ کیا کرے گا۔ اب وہ وقت آیا ہے کہ یہ الہام پورا ہو رہا ہے۔
‘‘دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نا کیا لیکن خدا اُسے
قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘۔
اس لیے اب وہ وقت ہے کہ نیک بخت کو بھی ڈرنا چاہیے، کیونکہ خدا بے نیز ہے۔ موت کو یاد رکھو کہ یہ دن خدا کے غضب کے ہیں۔ نمازوں پر پکے ہو جائو۔ تہجد پڑھو اور عورتوں کو بھی نماز کی تاکید کرو۔
طاعون قہر الٰہی ہے
غرض یہ طاعون خدا کا قہر ہے۔ عقلمند وہی ہے جو ہوا پہچان لے اور خدا کی باتوں پر پدق دل س ے ایمان لے آئے۔ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ جو اس وقت عذاب دے رہا ہے۔ وہ ایک خاص کام کے لیے عذاب دے رہاہے۔ ہمارے سلسلہ کی بابت مولویوں صوفیوں یا سطادہ نشینوں سے بات کرو تو وہ پہلے ہی گالیاں دینی شروع کر دیتے ہیں۔ اب دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ کا صبر کتنا بڑا صبر ہے کہ ہزار برس سے اوپر ہونے کو آیا ہے کہ خدا کے پاک نبیوں اور راستبازوں اور برگزیدوں کو گالیاں دی جاتی ہیں اور اُن کی بیحرمتی اور ذلت کے لیے ہر قسم کے وسائل اختیار کئے جاتے ہیں آخر اُس نے ان سب نبیوں اور خصوصاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و عظمت کو قائم کرنے کے لیے یہ سلسلہ قائم کیا۔

اور جب سے یہ قائم ہو اہے ۔ اس کے ساتھ بھی وہی سلوک ہواہے جو پہلے راستبازوں کے ساتھ ہو اتھا،مگر آخر خداتعالیٰ نے ان حد سے بڑھے ہوئے بیباکوں اور شوخ چشموں کا علاج کرنا چاہا ۔
اس میں شک نہیں کہ وہ بہت حلیم ہے ، مگر اس میں کلام نہیں کہ جب پکڑتا ہے توسخت پکڑتا ہے ، کیا سچّ کہاہے ۔ شعر ؎
ہاں مثو مغرور بر حلمَِ خدا
دیر گیرد سخت گیردمرترا
میرے ہاتھ پر توبہ کرناایک موت کوچاہتاہے
آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں ۔ ایک توبہ سعید الفطرت ہوتے ہیں جو پہلے ہی مان لیتے ہیں ، یہ لوگ بڑے ہی دُور اندیش اور باریک بین ہوتے ہیں ۔ جیسے حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ تھے اور ایک بیوقوف ہوتے ہے اور جب سر پر آپڑتی ہے تب کچھ چونکتے ہیں ۔ اس لیے تم اس سے پہلے کہ خدا کا غذب آجاوے ، دُعاکرو اور اپنے آپ کوخد اکی پناہ اور حفاظت میں دیدو ، دُعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب دل میں درد اور رقّت پیدا ہو اور مصاء ب اور غضبِ الٰہی دُور ہو ، لیکن جب بلا سرپر آتی ہے بے شک اس وقت بھی ایک درد پیداہوتا ہے مگر وہ درد قبولیت دُعا کا جذب اپنے اندر رکھتا ہے ۔ یقیناسمجھوکہ اگر مصیبت سے پہلے دلوں کو گداز کروگے اور خدا کے حضور اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے گریہ وُبکا کرو گے توتمہارے خاندان اور تمہارے بچّے طاعون کے عذاب سے بچائے چائیں گئے ،اگر دنیا داروں کی طرح رہو گے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی ، میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کوچاہتا ہے تاکہ تم نئی زندگی میں ایک ا و ر
پیدائش حاصل کرو ۔
بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے پس جو سچّے دل سے مجھے قبول کرتا ہے اوراپنے گناہوںسے سچّی توبہ کرتاہے ، غفور رحیم خد ااُس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتاہے ۔ اور وہ ایساہوجاتاہے ،جیسے اس کے پیٹ سے نکلا ہے ۔ تب فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں ، ایک گائوں میں اگر ایک آدی نیک ہو ، تواللہ تعالیٰ اس نیک کی رعایت اور خاطر سے اس گاؤںکو تباہی سے محفوظ کرلیتاہے ، لیکن جب تباہی آتی ہے تو سب پر پڑتی ہے ، مگر پھر بھی وہ اپنے بندوں کو کسی نہ کسی نہج سے بچالیتا ہے سنت اللہ یہی ہے کے اگر ایک بھی نیک ہو تو اس کے لیے دوسرے بھی بچائے جاتے ہیں ۔
جیسے حضرت ابراہیم ؑ کا قصہ ہے کہ جب لُوط کی قوم تباہ ہونے لگی تو اُنھوںنے کہا کہاگر سَو میںسے ایک ہی نیک ہو تو کیا تباہ کردے گا ۔ کہا نہیں آخر ایک تک بھی نہیںکروں گا ۔فرمایاؔ ، لیکن جب حد ہی ہو جاتی ہے تو پھر ۔
لا یخاف عقبھا۔
خد اکی شان ہو تی ہے پلیدوں کے عذاب پر وہ پرواہ نہیںکرتا کہ اُن کی بیوی بچّوں کاکیا حال ہوگا اور صادقوں اور راستبازوں کے لیے ۔
کان ابو ھماصالحا
کی رعات کرتا ہے حضرت موسیٰ اور خضر کو حکم ہو تھا کے ان بچّوںکی دیوار بنادواس لیے اُن کا باپ نیک بخت تھا ۔ اور اس کی نیک بختی کی خدا نے ایسی قدر کی کہ پیغمبر راج مزدور ہوئے ، غرض ایسا تو رحیم کریم ہے ، لیکن اگر کوئی شرارت کرے اورزیادتی کرے تو پھر بہت بُری طرح پکڑتا ہے ۔ وہ ایسا غیّور ہے کہ اس کا غضب کو یکھ کر کلیجہ پھٹتاہے ۔ دیکھولُوط کی بستی کو کیسے تباہ کر ڈالا ۔
اس وقت بھی دنیا کی حالت ایسی ہورہی ہے کہ وہ خداتعالیٰکے غضب کو کھینچ لائی ہے تم بہت اچھّے وقت آگئے ہو اب بہتر اور مناسب یہی ہے کہ تم اپنے آپ کو بدلالو اپنے اعمال میں اگر کوئی انحراف دیکھو تو اُسے دُور کر و ۔ تم ایسے ہوجاؤکہ نہ مخلوق کا حق تم پر باقی رہے نہ خد اکا ۔ یاد رکھو جو مخلوق کا حق دباتاہے ۔ اس کی دُعاقبول نہیں ہوتی کیونکہ وہ ظالم ہے ۔ ۱؎
اپنی زندگی میں انقلاب پیدا کرو
اس سلسلہ میںداخل تمہارا وجود الگ ہو ااور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ ۔ جو کچھ م پہلے تھے وہ نہ رہو ۔یہ مت سمجھو کہ تم خد اتعالیٰ کی راہمیں تبدیلی کرنے سے محتاج ہوجاؤگے یا تمھارے بہت سے دشمن پیدا ہوجائیں گئے ۔نہیں ، خدا کا دامن پکڑنے والا ہر گز محتاج نہیں ہوتا اس پر کبھی بُرے دن نہیں آسکتے خداجس کا دوست اور مدد گار ہو ۔ اگر تمام دنیا اس کی دشمن ہوجاوے تو کچھ پرواہ نہیں ، مومن اگر مشکلات میں ھی پڑے تو وہ ہر گز مصیبت میںنہیں ہو تا لیکن وہ دن ا س کے لیے بہشت کے دن ہوتے ہیں خداکے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں۔
مختصر یہ کہ خدا خودان کا محافظ اور ناصر ہوتا ہے یہ خد اجو ایسا خدا ہے کہ وہ ۔
علی کلی شئیً قدیر
ہے وہ عالم الغیب ہے وہ حیّ القیوم ہے۔ اس خدا کا دامن پکڑنے سے کوئی تکلیف پا سکتا ہے ؟کبھی نہیں ۔ خدا تعالیٰ اپنے حقیقی بندے کو ایسے وقتو ں میں بچا لیتا ہے کہ دنیا حیرا ن رہ جاتی ے آگ میں پڑ کر حضرت ابرا ہیم علیہ السلامکا زندہ نکلنا کیا دنیا کے لیے حیرت انگیز امر نہ تھا ۔ کیا ایک خطرنا ک طو فا ن میں حضرت نوحؑ اور آپ کے رفقاء کا سلا مت بچ رہنا کو ئی چھو ٹی سی بات تھی اس قسم کی بے شمار نظیریں مو جود ہیں اور خو د اس زمانہ میںخدا تعالیٰ نے اپنے دست قدرت کے کر شمے دکھا ئے ہیں دیکھو مجھ پر خون اور اقدام ِ قتل کا مقد مہ بنا یا گے ۔ایک بڑا بھا ری ڈاکٹر جو پادری ہے وہ اس میں مدّعی ہوا اور آریہ اورابعض مسلما ن اس کے معاون ہو ئے لیکن آخر وہی ہوا جو خدا نے پہلے سے فر مایا تھا ۔ابراء ( بے قصور ٹھہرانا )
پس یہ وقت ہے کہ تم توبہ کرو اور اپنے دلوں کو پاک صاف کر و ابھی طا عون تمہا رے گاؤ ں میں نہیں ۔یہ خدا کا فضل و کرم ہے اس لیے توبہ کاوقت ہے اور اگر مصیبت سر پر آپڑی اس وقت تو بہ کیا فائدہ دے گی ۔جمّوں، سیالکوٹ اور لدھیانہ وغیرہ اضلا ع میں دیکھو کہ کیا ہو رہا ہے ۔ ایک طو فان برپا ہے اور قیامت کا ہنگا مہ ہو رہا ہے اس قدخوفناک موتیں ہوئی ہیں کہ ایک سنگدل انسا ن بھی اس نظا رہ کو دیکھ کر ضبط نہیں کر سکتا ۔چھو ٹا بچہ پا س پڑا ہوا تڑپ رہااور بلبلارہا ہے ما ں باپ سا منے مرتے ہیں ۔کوئی خبر گیر نہیں ہے بہت عرصہ کا ذکر ہے کہ میں نے رویاء دیکھی تھی کہ ایک بڑا میدان ہے اس میں ایک بڑی نالی کھدی ہوئی ہے جس پر بھیڑیں لٹا کر قصاب ہا تھ میں چھری لئے ہوئے بیٹھے ہیں اور آسمان کی طرف منہ کیے ہوئے حکم کا انتظا ر کرتے ہیں۔میں پاس ٹہل رہا ہوں ۔اتنے میں میں نے پڑھا ۔
قل ما یعبو بکم ربی لو لا دعا و کم(الفر قا ن : ۷۸)
یہ سنتے ہی انہو ں نے جھٹ چھری پھیر دی بھیڑیں تڑپتی ہیں اور وہ قصاب انہیں کہتے ہیں کہ تم ہو کیا ، گوہ کھا نے والی بھیڑیں ہی ہو وہ نظا رہ اس وقت تک میری آنکھو ں کے سامنے ہے ۔
غرض خدا بے نیاز ہے ،اُسے صا دق مومن کے سو ا اور کسی کی پرو اہ نہیں ہو تی ۔ اور بعدازوقت دعاقبول نہیںہو تی ہے۔
جب اللہ تعا لیٰ نے مہلت دی ہے اُس وقت اُسے راضی کر نا چا ہیے ،لیکن جب اپنی سیہ کاریوں اور گناہو ں سے اُسے ناراض کر لیا اور اس کا غضب اور غصہ بھڑک اُٹھا ۔ اُس وقت عذاب ِ الٰہی کو دیکھ کر تو بہ استغفا ر شرو ع کی اس سے کیا فا ئدہ ہو گا جب سزا کا فتویٰ لگ چکا ۔
یہ ایسی بار ہے کہ جیسے کوئی شہزادہ بھیس بدل کر نکلے اورکسی دولت مند کے گھر جاکر روٹی یا کپڑا پانی مانگے اور وہ باوجود مقدرت ہو نے کے اس مسخری کریں اور ٹھٹھے مار کر نکال دیں ۔ اور وہ اسی طرح سارے گھر پھرے ،لیکن ایک گھر والا چارپائی دے کر بٹھائے اور پانی شربت او خشک روٹی کی بجائے پلاؤ اور پھٹے ہوئے کپڑوں کی جائے اپنی خاص پو شاک اس کو دے تو اب تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ چونکہ دراصل تو بادشاہ تھا۔قاب ان لوگو ں سے کیا سلوک کرے گا۔صاف ظاہر ہے کہ انکمبختوں کو جنہوں نے باوجود مقدرت ہونے کے اس کو دھتکار دیا اور اس سے بد سلُوکی کی سخت سزا دے گا اور اس غریب کو جس نے اس کے ساتھ اپنی ہمّت اور طاقت سے بڑھ کر سلُوک کیا کیا وہ دے گا جو اسس کے وہمو گمان میں بھی نہیں آسکتا ۔
اسطرح حدیث میں آیا ہے کہ خدا کہے گا کہ میں بھوکا تھا ۔مجھے کھانا نہ دیا ۔میں ننگا تھا مجھے کپڑا نہ دیا۔ میں پیاسا تھا ،مگر مجھے پانی نہ دیا۔وہ کہیں گے کہ یا رب العلمین کب؟وہ فرمائے گا ۔فُلاں جو میرا حاجتمند بندہ تھا۔۔اس کو دینا ایسا ہی تھا،جیسے مجھ کو ۔اور ایسا ہی ایک شخص کو کہے گا کہ تونے روٹی دی کپڑا دیا۔وہ کہے گا کہ تُو تو رب العالمین ہے کہ کب گیا تھا کہ میں نے دیا۔تو پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں بندہ کو دیا تھا ۔
غرض نیکی وہی ہے جو قبل از وقت ہے ۔اگر بعد میں کچھ کرے تو کچھ فائدہ نہیں ۔خدا نیکی قبول نہیں کرتا جو صطرت کے جوش سے ہو ۔کشتی ڈوبتی ہے تو سب روتے ہیں،مگر وہ رونا اور چلّانا چونکہ تقاضائے فطرت کا نتیجہ ہے اس لیے اس وقت سود مند نہیں ہو سکتا اور وہ اس وقت مفید ہے جو اس سے پہلے ہو تا ہے جبکہ امن کی حالت ہو ۔یقیناََسکجھو کہ کہ خدا کوپانے کا یہی گرہے جو قبل از وقت چوکنّا اور بیدار ہو تا ہے ۔ایسا بیدار گویا اس پر بجلی گرنے والی ہے اس پر ہر گز نہیں گرتی ۔لیکن جو بجلی دیکھ چلّاتا ہے ۔اُس پر گرے گی اور ہلاک کرے گی ۔وہ بجلی سے ڈرتا ہے نہ خدا سے ۔
اسی طرح سے جب طاعون گھر میں آگئی اس وقت اگر تو بہ استغفار شروع کیا تو وہ طاعون کا خوف ہے نہ خدا کا۔اس کا بُت طاعون ہے خدا معبُود نہیںاگر خدا سے ڈرتا ہے تواللہ تعالیٰاس فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ اس کو نقصان نہ پہنچاؤ۔یہ مت سمجھوکہ طاعون گرمی میں ہٹ جاتی ۔سردی میںپھر یہ بلاآن موجود ہوتی ہے ۔بعض وقت اس کا دورہ ستّر ستّر برس تک ہو تا ہے ۔یہود پر بھی یہی بَلا پڑی تھی۔
غَیْرِ الْمَغْضُوْ بِمیںاللہ تعالیٰ نے یہی تعلیم دی ہے کہ ان یہو دیوں کے راہ سے بچائیو جن پر طاعون پڑی تھی ۔پس قبل از وقت عاجزی کرو گے ،تو ہماری دُعائیں بھی تمہارے لیے نیک نتیجے پیدا کریں گی ۔لیکن اگر تم غافِل ہو گئے تو کچھ فائدہ نہ ہو گا ۔خدا کو ہر وقت یاد رکھو اور موت کو سامنے موجو د سمجھو ۔زمیندار بڑے نادان ہو تے ہیں۔اگر ایک رات بھی امن سے گزر جاوے تو بے خوف ہو جاتے ہیں ۔
دیکھو تم لوگ کچھ محنت کرکے کھیت تیار کرتے ہو تو فائدہ کی امید ہو تی ہے ۔اسی طرح پر امن کے دن محنت کے لیے ہیں۔اگر اب خدا کو یاد کرو گے تو اس کا مزہ پاؤ گے ۔اگرچہ زمین داریاور دنیا کے کاموں کے مقابلہ میںنمازوں میں حاضر ہو نا مشکل معلوم ہو تا ہے اور بھی،مگر اب اگر اپنے آپ کواس کا عادی کر لوگے۔توپھر کوئی تکلیف نہ رہے گی۔ اپنی دعائوںمیں طاعون سے محفو ظ رہنے کی دعا ملا لو۔اگردعائیںکرو گے تو وہ کریم رحیم خدا احسان کرے گا۔
دعائیںکرنے کے لیے نصیحت
دیکھواب تم کام کرتے ہو ۔اپنی جانو ں اور اپنے کنبہ پر رحم…کرتے ہو ۔بچوں پر تمھیں رہم آتا ہے ۔جس طرح اب ان پر رحم کرتے ہو ۔یہ بھی ایک طر یق ہے کہ نمازوں میں ان کے لیے دعائیں کرو ۔رکوع میں بھی دعا کرو ۔پھر سجدہ میں دعاو ۔کہ اللہ تعالیٰ اس بلا کو پھیر دے اور عذاب سے محفوظ رکھے ۔جو دعا کرتا ہے ۔وہ محروم نہیں رہتا ۔یہ کبھی ممکن نہیںکہ دُعائیں کرنے والا غافل پلید کی طرح ما را جاوے ۔اگر ایسا نہ ہو تو خدا کبھی پہچانا ہی نہ جاوے ۔وہ اپنے صادق بندوں اور غیروں میں امتیاز کر لیتا ہے ۔ایک پکڑا جاتا ہے۔دوسرا بچایا جاتا ہے ۔غرض ایسا ہی کرو کہ پورے طور پر تم میں سچّا اخلاص پیدا ہو جاوے ۔؎ٰ
۱۰اپریل۱۹۰۲؁ء
دعا نہ کرنا سوء ادبی ہے
انبیا ء علیہم السّلام کے سلسلہ میں یہی رہا ہ کہ وہ پیشگو ئیو ں کے دئیے جانے پر بھی اور اللہ تعا لیٰ کے وعدوں پر سّچا ایمان رکھ کر بھی دعاؤں کے سلسلہ کو ہر گز نہ چھو ڑتے تھے ۔ اس لیے کہ وہ خدا تعالیٰ کے غنا ء ذاتی پر بھی ایمان لاتے ہیں اور مانتے ہیں کہ خدا کی شان لا یذرکہے اوریہ سوء ادب ہے کہ دعا نہ کی جاوے ۔ لکھا ہے کہ بدر کی لڑائی میں جب آنحضرتﷺ بڑے اضطرا ب سے دعا کر رہے تھے تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے عرض کی کہ حضور !اب دعا نہ کریں ۔خدا تعالیٰ نے آپ کو فتحکا وعدہ دیا ہے ،مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم دُعا میں مصروف رہے
بعض نے اس پر تحریر کیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم سے زیا دہ نہ
نہ تھا بلکہ آنحضرت ﷺکی معرفت بہت بڑھی ہو ئی تھی اور ہرکہ عارف تر باشد خائف تربا شد ۔وہمعرفت آپکو اللہ تعالیٰ کے غنا ء ذاتی سے ڈراتی تھی ۔ پس دعا کا سلسلہ ہر گز چھو ڑنا نہیں چا ہیے۔
مسیح مو عو د کی دعا ؤں کی عظمت
۱۰اپریل۱۹۰۲؁؁؁؁؁ء صبح کی سیر میں فر مایا کہ
,,میں آج کل طاعو ن سے قادیا ن کے محفو ظ رہنے کے لیے بہت دعائیں کرتا ہوں او باوجود اس کے کہ اللہ تعا لیٰ نے بڑے بڑے وعدے فرمائے ہیں لیکن یہ سوء ادب اور انبیاء کے طریق سے دور ہے کہ خدا کی لاید رکشان اور غِنا ء سے خوف نہ کیا جاوے ۔آج پہلے وقت ہی الہام ہوا ۔
دلم می بلرزد چو یاد آورم
منا جت شورید ہ اندرحرم
شوریدہ سے مراد دعا کرنے والا ہے حر م سے مراد جس پر خدا نے تباہی کو حرام کر دیا ہو اور دلم مے بلزدخدا کی طرف ہے یعنی یہ دعائیں قوی اثر ہیںمیں انھیں جلدی قبو ل کرتا ہوں۔یہ خدا تعا لیٰ کے فضل اور رحمت کا نشا ن ہے دلم مے بلرزد بظا ہر ایک غیر محل سا محاورہ ہو سکتا ہے مگر یہ اسی کے مشابہ ہے جو بخاری میں ہے کہ مومن کی جان نکا لنے میں مجھے تردد ہوتا ہے ۔
تو ریت میں جو پچتانا وغیرہ کے الفا ظ آئے ہیں ۔در اصل وہ اسی قسم کے محاور ہیں جو اس سلسلہ کی نا واقفی کی وجہ سے لوگوںنے نہیں سمجھے۔اس الہام میںخداتعالیٰ کی اعلیٰ درجہ کی محبت اور رحمت کا اظہار ہے اورحرم کے لفظ میں گویاحفاظت کی طرف اشارہ ہے ۔(حرم کے لفظ پر خاکسارایدیٹر نے عرض کیا تھا… من داخالہ کا ن امنا اور بھی اس لفظ حرم کی تصدیق کر تا ہے اور اب ہم کہتے ہیں کہ انی احا فظ کلمن فی دارکا الہا م بھی اسی کا مو ید ہے ۔یاد آورماسی طرح ہے جیسے اذکر و نی اذکر کم(البقرہ:۵۳)
وَاَقَرِ ضُواللہ َقَرضاََحَسَناََ
اللہ تعالی ٰجو قرض مانگتا ہے تو اس سے یہ مرا د نہیں ہوتی ہے کہ معا ذ اللہ اللہ تعا لیٰ کو حا جت ہے اور وہ محتاج ہے ایسا وہم کرنا بھی کفر ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جزا کے ساتھ وا پس کروں گا ۔یہ ایک طریق ہے اللہ تعا لیٰ جس سے فضل کر ناچاہتا ہے ۔
باپ کی شکل پر خدا تعا لیٰ کو دیکھنا
حضرت سید عبدالقا در جیلا نی رحمتہاللہ علیہ کا قول ہے رَایتُ رَبِیّ علیٰ صُو رَتہِ اَبِی یعنی میں نے اپنے ربّ کو اپنے با پ کی شکل پر دیکھا ۔ میں نے بھی اپنے والد صاحب کی شکل پر اللہ تعا لیٰ کو دیکھا ان کی شکل بڑی با رعب تھی انہوں نے ریاست کا زمانہ دیکھا ہوا تھا اس لیے بڑے بلند ہمت اور عالی حوصلہ تھے ۔غر ض میں نے
‏Amira
دیکھا کہ وہ ایک عظیم الشان تخت پر بیٹھے ہیں اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ خدا تعالیٰ ہے۔ اس میں سریّہ ہوتا ہے کہ باپ چونکہ شفقت اور رحمت میں بہت بڑا ہوتا ہے اور قرب اور تعلق شدید رکھتا ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ کا باپ کی شکل میں نظر آنا اس کی عنایت تعلق اور شدت محبت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس لئے قرآن شریف میں بھی آیا ہے۔کذکر کم ابا ء کم (البقرہ : ۲۰۱) اور میرے الہامات میں یہ بھی ہے۔ انت منی بمنزلۃ اولا دی۔ یہ قرآن شریف کی اسی آیت کے مفہوم اور مصداق پر ہے۔
الہام
۱۰ ؍ اپریل کو الہام ہوا : ’’ افسوس صدا افسوس‘‘۔
اور ۱۱ ؍ اپریل کو الہام ہوا : ’’رہگرائے عالم جادوانی شد‘‘۔
بعثت مسیح موعود کا اصل منشاء
’’ہمارا اصل منشاء اور مدّعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جلال ظاہر کرنا ہے اور آپ کی عظمت کو قائم کرنا۔ ہمارا ذکر تو ضمنی ہے۔ اس لیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں جذب اور افاضہ کی قوت ہے اور اسے افضہ میں ہمارا ذکر ہے۔؎ٰ
۱۷ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
طاعون سے متعلق ایک اعتراض کا جواب
بعد ازنماز مغرب فرمایا :
طاعون کے متعلق بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اکثر غریب مرتے ہیں اور اُمراء اور ہمارے بڑے بڑے مخالف ابھی تک بچے ہوئے ہیں، لیکن سنت اﷲ یہی ہے کہ ائمّتہ الکفر اخیر میں پکڑے جایا کرتے ہیں ؛ چنانچہ حضرت موسیٰ کے وقت جس قدر عذاب پہلے نازل ہوئے۔ اُن سب میں فرعون بچارہا؛ چنانچہ قرآن شریف میں بھی آیا کہ
انانا تی الارض ننقصھا من اطرا فھا (الرعد : ۴۲)
یعنی ابتدا عوام سے ہوتا ہے اور پھر خواص پکڑے جاتے ہیں اور بعض کے بچانے میں اﷲ تعالیٰ کی یہ حکمت بھی ہوتی ہے کہ انہوں نے آخر میں توبہ کرنی ہوتی ہے یا اُن کی اولاد میں سے کسی نے اسلام قبول کرنا ہوتا ہے۔
مسیح موعود کا مقام
فرمایا : کمالاتِ متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے تھے۔ وہ سب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ان سے بڑھ کر موجود تھے اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظلی طور پر ہم کو عطا کیے گئے۔ اور اسی لیے ہمارا نام آدم، ابراہیم، موسیٰ، نوح، دائود، یوسف، سلیمان، یحییٰ، عیسیٰ وغیرہ ہے؛ چنانچہ ابراہیم ہمارا نام اس واسطے ہے کہ حضرت ابراہیم ایسے مقام میں پیدا ہوئے تھے کہ وہ بُت خانہ تھا اور لوگ بُت پرست تھے۔ اور اب بھی لوگوں کا یہی حال ہے کہ قسم قسم کے خیالی اور وہمی بتّوں کی پرستش میں مصروف ہیں اور وحدانیّت کو چھوڑ بیٹھے ہیں۔ پہلے تمام انبیاء ظل تھے۔ نبی کریم کی خاص خاص صفات میں اور اب ہم ان تمام صفات میں نبی کریم کے ظل ہیں۔ مولانا روم نے جوب فرمایا ہے۔ ؎
نامِ احمدؐ نام جملہ انبیاء است
چوں بیامد صد نو دہم پیش ما است
نبی کریمؐ نے گویا سب لوگوں سے چندہ وصول کیا اور وہ لوگ تو اپنے اپنے مقامات اور حالات پر رہے پر نبی کریمؐ کے پاس کروڑوں روپے ہوگئے۔
ہندو اسلام کی طرف توجہ کریں گے
فرمایا : معلوم ہوتا ہے کہ اس عالمگیر طوفانِ وبا میں یہ ہندوئوں کی قوم بھی اسلام کی طرف توجہ کرے؛ چنانچہ جب ہم نے باہر مکان بنوانے کی تجویز کی تھی۔ تو ایک ہندو نے ہم کو آکر کہا تھا کہ ہم تو قوم سے علیحدہ ہو کر آپ ہی کے پاس باہر رہا کریں گے اور نیز دو دھعہ ہم نے رویاء میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں اور ایک دفعہ الہام ہوا ہے کرشن رودرگوپال تیری مہما ہو۔ تیری استتی گیتا میں موجود ہے۔ لفظ رودر کے معنے نذیر اور گو پال کے معنے بشیر کے ہیں۔
اُمّتِ محمدی کی شان
فرمایا : عیسائیوں نے جو شور مچایا تھا کہ عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتا تھا۔اور وہ خدا تھا۔ اس واسطے غیرت الٰہی نے جوش مارا کہ دنیا میں طاعون پھیلائے اور ہمارے مقام کو بچائے تاکہ لوگوں پر ثابت ہو جائے کہ اُمت محمدی کا کیا شان ہے کہ احمد کے ایک غلام کی اس قدر عزت ہے۔ اگر عیسیٰ مردوں کو زندہ کرتا تھا، تو اب عیسائیوں کے مقامات کو اِس بَلا سے بچائے۔ اس وقت غیرت الٰہی جوش میں ہے، تا کہ عیسیٰ کی کسر شان ہو۔ جس کو خدا بنایا گیا ہے۔ ؎
چہ خوش ترانہ زد ایں مطرب مقام شناس
کہ درمیان غزل قولَ آشنا آورد
قرآن میں مسیح کی معصومیّت کے ذکر کی وجہ
قرآن شریف اور احادیث میں جو حضرت عیسیٰ کے نیک اور معصوم ہونے کا ذکر ہے۔ اس سے یہ مطلب نہیں کہ دوسرا کوئی نیک یا معصوم نہیں بلکہ قرآن شریف اور حدیث نے ضرورتاً یہود کے منہ کو بند کرنے کیلئے یہ فقرے بولے ہیں کہ یہود تعوذباﷲ مریم کو زنا کا ر عورت اور حضرت عیسیٰ کو ولدالزنا کہتا تھے۔ اس لیے قرآن شریف نے اُن کا ذب کیا ہے کہ وہ ایسا کہنے سے باز آویں۔
آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم کے جسمانی برکات
فرمایا : حضرت رسول کریمؐ کے ہزاروں جسمانی برکات بھی تھے۔ آپؐ کے حُبّہ سے بعد وفات آپؐ کے لوگ برکات چاہتے تھے۔ بیماریوں میں لوگوں کو شفا دیتے تھے اور بارش نہ ہوتی تو دعا کرتے تھے اور بارش ہو جاتی تھی۔ ایک لاکھ سے زیادہ آپؐ کے اصحابی تھے۔بہتوں کی جسمانی تکلیفات آپؐ کی دعائوں سے دور ہو جاتی تھیں۔ عیسیٰ کو بنی کریمؐ کے ستھ کیا نسبت ہو سکتی ہے۔ جس کے ستھ چند آدمی تھے اور ان کا حال بھی انجیلوں سے ظاہر ہے کہ وہ کس مرتبہ روحانیت کے تھے۔
اِس اُمّت کا فرعون
فرمایا : ابو جہل اس امت کا فرعون تھا، کیونکہ اس نے بھی نبی کریم کی چند دن پر ورش کی تھی جیسا کہ فرعون مصری نے حضرت موسیٰ کی پرورش کی تھی۔ اور ایسا ہی مولوی محمد حسین صاحب نے ابتداء میں براہینؔ پر ریویو لکھ کر ہمارے سلسلہ کی چند یوم پرورش کی۔
ایک الہام کی تشریح
حضرت اقدس ؑ نے اپنا ایک پرانا الہام سنایا ۔ یا یحییٰ خذالکتاب بقوۃ والخیر کلہ فی القران۔ اور فرمایا کہ:
اس میں ہم کو حضرت یحییٰ کی نسبت دی گئے ہے کیونکہ حضرت یحییٰ ؑ کویہود کی ان اقوام سے مکابلہ کرنا پڑا تھا۔ جو کتاب اﷲ توریت کو چھوڑ بیٹھے تھے اور حدیثوں کے بہت گرویدہ ہو رہے تھے اور ہر بات میں احادیث کو پیش کرتے تھے۔ ایسا ہی اس زمانہ میں ہمارا مقابلہ اہل حدیث کے ساتھ ہوا کہ ہم قرآن پیش کرتے اور وہ حدیث پیش کرتے ہیں۔
اذان کے وقت کوئی اور نیکی کا کام کرنا
ایک شخص اپنا مضمون اشتہار دربارہ طاعون سنا رہا تھا۔ اذان ہونے لگی۔ وہ چُپ ہو گیا۔فرمایا :
’’پڑھتے جائو۔ اذان کے وقت پڑھنا جائز ہے‘‘۔
طاعون زدہ علاقہ میں جانے کی ممانعت
ایک شخص نے دریافت کیا کہ میرے اہل خانہ اور بچے ایک ایسے مقام میں ہیں جہاں طاعون کا زور ہے۔ میں گھبرایا ہوا ہوں اور وہاں جانا چاہتا ہوں۔ فرمایا :
’’مت جائو۔ولا تلقو ابا یدیکم الی التھلکۃ (البقرہ : ۱۹۶) پچھلی رات کو اٹھ کر اُن کے لیے دعا کرو۔ یہ بہتر ہوگا بہ نسبت اس کے کہ تم خود جائو۔ ایسے مقام پر جانا گناہ ہے‘‘۔
قرآنی الفاظ میں الہامات کی حکمت
حضرت اقدس کو الہام ہوا۔ انت معی وانا معک۔انی بایعتک با یعنی ربی۔ فرمایا کہ :
اﷲ تعالی کا منشاء ہے کہ قرآن شریف کو حل کیا جائے اس واسطے اکثر الہامات جو قرآن شریف کے الفاظ میں ہوتے ہیں۔ ان کی ایک عملی تفسیر ہو جاتی ہے۔ اس سے خدا تعالیٰ یہ دکھانا چاہتا ہے کہ یہی زندہ اور با برکت زبان ہے اور تا کہ ثابت ہو جائے کہ تیرہ سو سال اس سے قبل ہی اسی طرح یہ خدا کا کلام نازل ہوا۔
قرآن مجید میں اس زمانہ اور طاعون کے متعلق پیشگوئیاں
فرمایا کہ :
اس آیت قرآن کریم میں اس زمانہ اور طاعون کے متعلق پیشگوئی ہے۔
والمرسلت عرفا۔فالعصفت عصفا۔والنشرات نشرا۔فالفرقت فرقا۔فالملقیا ت ذکرا۔
عذرا او نذرا (المرسلات : ۲ تا ۷)
قسم ہے ان ہوائون کی جو آہستہ چلتی ہیں۔ یعنی پہلا وقت ایسا ہو گا کہ کوئی کوئی واقعہ طاعون کا ہو جایا کرے۔ پھر وہ زور پکڑے اور تیز ہو جاوے۔ پھر وہ ایسی ہو کہ لوگوں کو پراگندہ کر دے۔ اور پریشان خاطر کر دے۔ پھر ایسے واقعات ہوں کہ مومن اور کافر کے درمیان فرق اور تمیز کردیں۔ اس وقت لوگوں کو سمجھ آجائے گی کہ حق کس امر میں ہے۔ آیا اس امام کی اطاعت میں یا اس کی مخالفت میں۔ یہ سمجف میں آنا بعض کے لیے صرف حجت ہو گا۔ (عذراً) یعنی مرتے مرتے اُن کا دل اقرار کر جائے گا کہ ہم غلطی پر تھے اور بعض کے لیے (نذراً) یعنی ڈرانے کا موجب ہو گا کہ وہ توبہ کر کے بدیوں سے باز آویں۔؎ٰ
۱۸ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
الہامات
فرمایا کہ آج رات کو یہ الہام ہوا :
انی مع الرسول اقوم ومن یلومہ الوم افطر واصوم
یعنی میں اپنے رسول کے ساتھ کھڑا ہو نگا۔ اُن کی مدد کروں گا اور جو اس کو ملامت کرے گا۔ اُس کو ملامت کروں۔ روزہ افطار کروں گا اور روزہ رکھوں گا یعنی کبھی طاعون بند ہو جائے گی اور کبھی زور کرے گی۔
نماز جمعہ کے بعد انجمن حمایت اسلام کا اشتہار دربارہ دعا برائے دفعیہ طاعون آپ کو دکھایا گیا۔ جس کی تحریک پر آپ نے طاعون کا مختصر اردو اشتہار لکھا۔
بد گو بد باطن مخالف سے اعراض مناسب ہے
قادیان میں ایک بدگو بد باطن مخالف آیا ہوا تھا۔ اس نے احباب میں سے ایک کو بلایا۔ وہ اس کے ساتھ بات کرنے کو گیا۔ حضرت کو خبر ہوئی تو فرمایا کہ :
’’ایسے خبیث مفسد کو اتنی عزت نہیں دینی چاہیے۔ کہ اُس کے ساتھ تم میں سے کوئی بات کرے‘‘۔
خوابوں کو جمع کرنے کے لیے ارشاد
فرمایا : ’’مختلف لوگوں کو جو رویاء ہوئے ہیں۔ کہ قادیان میں طاعون نہیں ہو گی۔ ان خوابوں کو جمع کر کے شائع کر دینا چاہیے‘‘۔
اصل مقصد تقدیس رسول ہے
مولوی محمد احسن صاحب ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کرتے ہیں۔ ان کو فرمایا کہ :
’’اصل میں ہمارا منشاء یہ ہے کہ رسول کریمؐ کی تقدیس ہو اور آپؐ کی تعریف ہو۔ اور ہماری تعریف اگر ہو تو رسول اﷲ کے ضمن میں ہو‘‘۔
سلفِ لحین کے متعلق مسلک
فرمایا : ’’وفاتِ مسیح یا ایسے مسائل کے متعلق پہلے لوگ جو کچھ کہہ آئے ان کے متعلق ہم حضرت موسیٰ ؑ کی طرح یہی کہتے ہیں کہ,, علمہا عند ربی (الأعراف : ۱۸۸) ‘‘
یعنی گذشتہ لوگوں کے حالات سے اﷲ تعالیٰ بہتر واقف ہے۔ ہاں حال کے لوگوں کو ہم نے کافی طور پر سمجھا دیا ہے اور حجت قائم کر دی ہے‘‘۔
ایک الہام کی تشریح
فرمایا : ’’ خدا تو چور کا بھی دشمن ہے۔ اگر میں مفتری ہوتا، تو وہ مجھے اتنی مہلت کیوں دیتا۔ ہاں اﷲ تعالیٰ کی عادت میں سے ہے کہ موافق مخالف ہر طرح کے لوگ دنیا میں ہوں تا کہ ایک نظارہ قدرت ہو۔ جن دنوں لڑکی پیدا ہوئی تھی اور لوگوں غلط فہمی پیدا کرنے کے لیے شور مچایا کہ پیشگو ئی غلط نکلی ۔ان دنوں میں یہ الہام ہوا تھا :
دشمن کا بھی خوب وار نکلا
تِس پر بھی وہ وار پار نکلا
یعنی مخالفوں نے تو یہ شور مچایا ہے کہ پیشگوئی غلط نکلی ،لیکن جلدفہیم لوگ سمجھ جائیں گے اور نا واقف شرمندہ ہوں گے ۔
فرمایا:مکّہ والوں کو جب فتح کا وعدہ دیا گیا ۔تو ان کو ۱۳ سال اس کے انتظار میں گزر گئے ۔مگر آخر اللہ تعالیٰ کے وعدہ کا دن آگیا اور دشمن ہلاک ہو گئے ؛ ورنہ وہ کہا کرتے تھے مَتٰی ھٰذَ االْفَتْحُ(السجدہ:۲۹)
‏Amira
ابتلا تمحیص کے لیے آتے ہیں
فرمایا : ’’اﷲ تعالیٰ تمحیص کرنا چاہتا ہے تاکہ جیسا دوسرے پیروں کا حال ہے۔ ہمارے پاس بھی ہر طرح کے گندے اور ناپاک لوگ شامل نہ ہو جاویں۔ اس واسطے اس قسم کے ابتلا بھی درمیان میں آجاتے ہیں۔؎ٰ
۲۶ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
سوالات متعلقہ
بعض فقہی سوالات کے جوابات
ایک شخص نے عرض کی کہ زیور پر زکوٰۃ ہے یا نہیں؟ فرمایا کہ :
’’جو زیور استعمال میں آتا ہے اور مثلاً کوئی بیاہ شادی پر مانگ کرلے جاتا ہے تو دے دیا جاوے، وہ زکوٰۃ سے متثنیٰ ہے‘‘۔
سوال ہوا کہ جو آدمی اس سلسلہ میں داخل نہیں اُس کا جنازہ جائز ہے یا نہیں؟ فرمایا :
’’اگر اس سلسلہ کا مخالف تھا اور ہمیں بُرا کہتا اور سمجھتا تھا، تو اس کا جنازہ نہ پڑھو اور اگر خاموش تاھا اور درمیانی حالت میں تھا، تو اس کا جنازہ پڑھ لینا جائز ہے؛ بشرطیکہ نماز جنازہ کا امام تم میں سے کوئی ہو۔ ورنہ کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
سوال ہوا: کہ اگر کسی جگہ امام نمار حضور کے حالات سے واقف نہیں تو اس کے پیچھے نماز پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ فرمایا :
’’پہلے تمہارا فرض ہے کہ اُسے واقف کرو۔ پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ورنہ اس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو اور اگر کوئی خاموش رہے نہ تصدیق کرے نہ تکذیب کرے تو ون بھی منافق ہے۔ اُس کے پیچھے نماز نہ پڑھو‘‘۔
فرمایا :’’ اگر کوئی ایسا آدمی جو تم میں سے نہیں اور اُس کا جنازہ پڑھنے اور پڑھانے والے غیر لوگ موجود ہوں اور وہ پسند نہ کرتے ہوں کہ تم میں سے کوئی جنازہ کا پیش امام بنے اور جھگڑے کا خطرہ ہو تو ایسے مقام کو ترک کرو اور اپنے کسی نیک کام میں مصروف ہو جا ئو‘‘۔؎ٰ
۲۷ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
موجودہ عیسائیت درحقیقت پُولوسی مذہب ہے
فرمایا : ’’ جیسا کہ یہودی فاضل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ موجودہ مذہب نصاریٰ جس میں شریعت کا کوئی پاس نہیں۔ اور سؤر کھانا اور گیر مختون رہنا وغیرہ تمام باتیں شریعت موسوی کے مخالف ہیں۔ یہ باتیں اصل میں پولوسؔ کی ایجاد ہیں۔اور اس واسطے ہم اس مذہب کو عیسوی مذہب نہیں کہہ سکتے بلکہ دراصل یہ پولوسی مذہب ہے اور ہم تعجب کرتے ہیں کہ حواریوں کو چھوڑ کر اور اُن کی رائے کے برخلاف کیوں ایسے شخص کی باتوں پر اعتبار کر لیا گیا تھا، جس کی ساری عمر یسوع کی مخالفت میں گذری تھی۔ مذہب عیسوی میں پولوس کا ایسا ہی حال ہے جیسا کہ باوانانک صاحب کی اصل باتوں کو چھوڑ کر قوم سِکھ گوروگو بند سنگھ کی باتوں کو پکڑ بیٹھی ہے۔ کوئی سند ایسی مل نہیں سکتی جس کے مطابق عمل کر کے پولوس جیسے آدمی کے خطوط اناجیل اربعہ کے ساتھ شامل کیے جا سکتے تھے۔ پولوسؔ خواہ مخواہ معتبر بن بیٹھا تھا۔ ہم اسلام کی تاریخ میں کوئی ایسا آدمی نہیں پاتے۔ جو خواہ مخواہ صحابی بن بیٹھا ہو‘‘۔ ۲؎
۲۸ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
اشتہار دافع البلا کی اشاعت کے لیے شیخ یعقوب علی صاحب کی امداد
اشتہار دافع البلاء کے متعلق حضرتؑ بہت تاکید کر رہے تھے کہ اس کو بہت جلد شائع کیا جائے۔ مگر مطبع میں ہفتہ کے اندر آٹھ سو چھپ سکتا ہے۔ اس پر شیخ یعقوب علی صاحب نے عرض کی کہ اخبار الحکم کے ہر دو پریس ہم دو دن کے لیے خالی کروا دیتے ہیں۔ حضرتؑ نے بہت پسند فرمایا اور حکم دیا کہ ایسا کیا جاوے تا کہ یہ عشتہار وقت پر جلد شائع ہو جائے۔ اﷲ تعالیٰ شیخ صاحب موصوف کو جزائے خیر دے۔ اُن کے مطبع سے اس طرح وقتاً فوقتاً حضرت کے زیادہ ضروری کاموں میں نصرت ملتی رہتی ہے۔
الہام
حضرت اقدسؑ کو الہام ہوا :
انی احافظ کل من فی الدار۔
فرمایا :
دار کے معنے نہیں کھلے کہ اس سے مراد صرف یہ گھر ہے یا قادیان میں جتنے ہمارے سلسلہ کے متعلق گھر ہیں۔ مثلاً مدرسہ اور مولوی صاحب کا گھر وغیرہ۔
۲۹ ؍ اپرریل ۱۹۰۲ء؁
چراغ الدین جمونی کا توبہ نامہ
ظہر کے وقت فرمایا :
میاں چراغ الدین جمّوں والے نے اپنا توبہ نامہ بھیج دیا ہے۔ یہ اُن کی بڑی سعادت ہے اور ہم مانتے ہیں کہ انہوں نے دراصل کوئی افتراء نہیں کیا تھا بلکہ حدیث نفس اور اضغاث احلام سے ایک دھوکا لگ جاتا ہے۔ شیخ یعقوب علی الحکم میں شائع کر دیں کہ سب لوگ اُن کو اپنا بھائی سمجھیں اور خُلق کے ساتھ اُن سے پیش آویں۔
۲۸ ؍ اپریل کے الہام کا ذکر تھا۔ فرمایا کہ :
’’ہم تو چاہتے ہیں کہ ہمارا گھر اتنا بڑا ہو تا کہ سارے جماعت والے اس کے اندر آجاتے‘‘۔
عیسائیوں کے باہمی اختلافات
عیسائیوں کے باہمی اختلافات کاذکر تھا اور ایک کتاب پڑھی جارہی تھی۔ جس میں یہ ذکر ہے کہ موجودہ مذہب عیسوی اصل میں پولوسؔ نے فریب دہی سے بنایا ہے مسیح کا یہ مذہب نہ تھا۔ حضرت اقدسؑ نے فرمایا : کہ
’’دیکھو یہ لوگ آپ ہی عیسائیت کی جڑیں کاٹ رہے ہیں،کیونکہ لکھا ہے کہ اگر مسیح دجال کو نہ مارے گا۔ تب بھی وہ گل گل کر مر جائے گا‘‘۔؎ٰ
۳۰ ؍ اپریل ۱۹۰۲ء؁
الہام
فرمایا : آج رات کو الہام ہوا :
لو لا الا مر لھلک النمر
یعنی اگر سنت اﷲ اور امر الٰہی اس طرح پر نہ ہوتا کہ ائمتہ الکفر آخیر میں ہلاک ہوا کریں۔ تو اب بھی بڑے بڑے مخالف جلد تباہ ہو جاتے۔ لیکن چونکہ بڑے مخالف جو ہوتے ہیں۔ اُن میں ایک خوبی اور عزم اور ہمت اور لوگوں پر حکمرانی اور اثر ڈالنے کی ہوتی ہے۔ اس واسطے اُن کے متعلق یہ امید بھی ہوتی ہے کہ شاید لوگوں کے حالات سے عبرت پکڑ کر توبہ کریں اور دین کی خدمت میں اپنی قوتوں کو کام میں لاویں۔
فرمایا : اس بات میں بڑی لذت ہے کہ انسان خدا کے وجود کو سمجھے کہ وہ ہے اور رسول کو برحق جانے۔ انسان کو چاہیے کہ اپنے گزارے کے مطابق اپنی معیشت کو حاصل کرے اور دنیا کی بہت مراد یا بیوی کی خواہش کے پیچھے نہ پڑے‘‘۔۲؎
۵ ؍ مئی ۱۹۰۲ء؁
الہامات
رات کے تین بجے حضرت اقدسؑ کو الہام ہوا :
انی احافظ کل من فی الدار الا الذین علو ا با ستکبار
یعنی میں دار کے اندر رہنے والوں کی حفاظت کروں گا۔ سوائے ان لوگوں کے جنھون نے تکبر کے ساتھ علو کیا۔فرمایا : علو دو قسم کا ہوتا ہے۔ ایک جائز ہوتا ہے اور دوسرا نا جائز۔ جائز کی مثال وہ علو ہے جو حصرت موسیٰ علیہ السلام میں تھا اور ناجائز کی مثال وہ علو تھا جو فرعون میں تھا۔
اور فرمایا کہ صبح کی نماز کے بعد یہ الہام ہوا :
انی اری الملا ئکۃ الشداد
یعنی میں سخت فرشتوں کو دیکھتا ہوں جیسا کہ مثلاً ملک الموت وغیرہ ہیں۔
فرمایا کہ : خدا کے غضب شدید سے بغیر تقویٰ و طہارت کے کوئی نہیں بچ سکتا۔ پس سب کو چاہیے کہ تقویٰ و طہارت کو اختیار کریں اور اگر کوئی فاسق اور فاجر دار میں داخل ہو جائے، تو اُس کا بچ رہتا یقینی کیونکر ہو سکتا ہے۔ ہاں اس میں پھر بھی ایک قسم کی خصوصیت کی گئی ہے۔ کیونکہ جو لوگ علو استکبار نہ کریں۔ اُن کی حفاظت کا اﷲ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔ لیکن انہ اوی القریۃ میں یہ امر نہیں۔ وہاں انتشار اور ہلچل شدید سے بثنے کا وعدہ معلوم ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ ایسا امر نہیں کرتا۔ جس سے لوگوں کو جرأت پیدا ہو جائے اور گناہ کی طرف جھکنے لگیں۔ متکبر علو کرنے والوں کے استثناء کی مثال ایسی ہے جیساکہ ایک کافر نے حضرت رسول کریمؐ کے زمانہ میں بیت اﷲ کی پناہ لی تھی۔ تو آنحضرت علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا۔ کہ اس کو اسی جگہ قتل کر دو۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ کا گھر مفسد کو پناہ نہیں دیتا۔
اس گائوں میں دراصل اس قسم کے سخت دل اور مخالف دین اسلام لوگ موجود ہیں کہ اگر اس سلسلہ کا اکرام نہ ہوتا تو یہ سارا گائوں ہلاک ہو جاتا۔ اور اب بھی اگر ثہ ممکن ہے کہ بعض وارداتیں ہوں، مگر تا ہم اﷲ تعالیٰ ایک مابہ الامتیاز قائم رکھے گا۔
سیونگ بنک اور تجارتی کارخانوں کے سود کا حکم
ایک سخص نے ایک لمبا خط لکھا کہ سیونگ بنک کا سودا اور دیگر تجارتی کارخانوں کا سود جائز ہے یا نہیں۔ کیونکہ اس کے ناجائز ہونے سے اسلام کے لوگوں کو تجارتی معلملات میں بڑا نقصان ہو رہا ہے۔
حضرت اقدسؑ نے فرمایا کہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے اور جبتک کہ اس کے سارے پہلوئوں پر غور نہ کی جائے اور ہر قسم کے ہرج اور فوائد جو اس سے حاصل ہوتے ہیں وہ ہمارے سامنے پیش نہ کیے جاویں ہم اس کے متعلق اپنی رائے دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ یہ جائز ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہزاروں طریق روپیہ کمانے کے پیدا کیے ہیں۔ مسلمان کو چاہیے کہ اُن کو اختیار کرے اور اس سے پر ہیز رکھے۔ ایمان صراط مستقیم سے وبستہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو اس طرح سے ٹال دینا گناہ ہے۔ مثلاً اگر دنیا میں سؤر کی تجارت ہی سب سے زیادہ نفع مند ہو جاوے تو کی مسلمان اس کی تجارت شروع کر دیں گے۔ ہان اگر ہم یہ دیکھیں کہ اس کو چھوڑنا اسلام کے لیے ہلاکت کا موجب ہوتا ہے۔ تب ہم
فمن اضطر غیر باغ ولا عاد (الانعام : ۱۴۶)
کے نیچے لا کر اس کو جائز کہہ دیں گے مگر یہ کوئی ایسا امر نہیں اور یہ ایک خانگی امر اور خود غرضی کا مسئلہ ہے۔ ہم فیالحال بڑے بڑے عظیم الشان امور دینی کی طرف متوجہ ہیں۔ ہمیں تو لوگوں کے ایمان کا فکر پڑا ہوا ہے۔ ایسے ادنیٰ امور کی طرف ہم توجہ نہیں کر سکتے۔ اگر ہم بڑے عالیشان مہمات کو چھوڑ کر ابھی سے ایسے ادنیٰ کاموں میں لگ جائیں تو ہماری مثال اس بادشاہ کی ہوگی جو ایک مقام پر ایک محل بنانا چاہتا ہے، مگر اس جگہ بڑے شیر اور درندے اور سانپ ہیں اور نیز مکھیاں اور چیونٹیاں ہیں۔پس اگر وہ پہلے درندوں اور سانپوں کی طرف توجہ نہ کرے اور ان کو ہلاکت تک نہ پہنچائے اور سب سے پہلے مکھیوں کے فنا کرنے میں مصروف ہو تو اس کا کیا حال ہوگا۔ اس سائل کو لکھنا چاہیے کہ تم پہلے اپنے ایمان کا فکر کرو اور دو چار ماہ کے واسطے یہاں آکر ٹھہرو، تاکہ تمہارے دل و دماغ میں روشنی پیدا ہو اور ایسے خیالت میں نہ پڑو۔؎ٰ
۲۶ ؍ مئی ۱۹۰۲ء؁
جماعت کو مباحثوں اور مقابلوںکی ممانعت
۲۶ ؍ مئی ۱۹۰۲ء؁ کو ۹ بجے دن کے خدام حضرت اقدس ؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مختلف باتوں کے تذکرہ کے اثناء میں فرمایا :
’’میں بڑی تاکید سے اپنی جماعت کو جہاں کہیں وہ ہیں منع کرتا ہوں کہ وہ کسی قسم کا مباحثہ مقابلہ اور مجادلہ نہ کریں۔ اگر کہیں کسی کو کوئی درشت اور نا ملائم بات سننے کا تفاق ہو، تو اعراض کرے۔ میں بڑے و ثوق اور سچے ایمان سے کہتا ہوں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہماری تائد میں آسمان پر خاص تیاری ہو رہی ہے۔ ہماری طرف سے ہر پہلو کے لحاظ سے لوگوں پر حجت پوری ہو چکی ہے۔ اس لیے اب خدا تعالیٰ نے اپنی طرھ سے اس کارروائی کے کرنے کا رادہ فرمایا ہے جو وہ اپنی سنت قدیم کے موافق اتمام حجت کے بعد کیا کرا ہے۔ مجھے خوف ہے کہ اگر ہماری جماعت کے لوگ بدزبانیوں اور فضول بحثوں سے باز نہ آئیں گے، تو ایسا نہ ہو کہ آسمانی کر روائی میں کوئی تاخیر اور روک پیدا ہو جائے، کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی عادت ہے کہ ہمیشہ اس کا عتاب ان لوگوں پر ہوتا ہے جن پر اس کے فضل اور عطایات بے شمار ہوں اور جنہیں وہ اپنے نشانات دکھا چکا ہوتا ہے۔ وہ ان لوگوں کی طرھ کبھی متوجہ نہیں ہوتا کہ انہیں عتاب یا خطاب یا ملامت کرے جن کے خلاف اس کا آخری فیصلہ نافذ ہونا ہوتا ہے؛ چنانچہ ایک طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے۔
فاصبر کما صبر اولو االعزم من الرسل ولا تستعجل لھم (الاحقاف : ۳۶)
اور فرماتا ہے۔
ولا تکن کصا حب الحوت (القلم : ۴۹)
اور
ھان استطعت ان تبتغی نفقا فی الارض (الانعام : ۳۶)
یہ حجت آمیز عتاب ا س بات پر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت جلد فیصلہ کفار کے حق میں ثاہتے تھے، مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور سنن کے لحاظ سے بڑے توقف اور حلم کے ساتھ کام کرتا ہے، لیکن آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کو ایسا کچلا اور پیسا کہ اُن کا نام و نشان مٹا دیا۔اسی طرح پر ممکن ہے کہ ہماری جماعت کے بعض لوگ طرح طرح کی گالیں، افتراء پر دازیاں اور بدزبانیاں خدا تعالیٰ کے سچے سلسلے کی نسبت سنکر اضطراب اور استعجال میں پڑیں۔ مگر انہیں خدا تعالیٰ کی اس سنت کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ برتی گئی ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ اس لیے میں پھر اور بار بار بتاکید حکم کرتا ہوں کہ جنگ وجدال کی مجمعوں تحریکوں اور تقریبوں سے کنارہ کشی کرو۔ اس لیے کہ جو کام تم کرنا چاہتے ہو یعنی دشمنوں پر حجت پوری کرنا۔ وہ اب خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
تمہارا کام اب یہ ہونا ثاہیے کہ دعائوں اور استغفار اور عبادتِ الٰہی اور تزکیہ وتصفیہ تفس میں مشغول ہو جائو۔ اس طرح اپنے تیئںمستحق بنائو خدا تعالیٰ کی عنایات اور توجہات کا جن کا اس نے وعدہ فرمایا ہے؛ اگر چہ خدا تعالیٰ کے میرے ساتھ بڑے بڑے وعدے اور پیشگوئیاں ہیں جن کی نسبت یقین ہے کہ وہ پوری ہوں گی، مگر تم خواہ نمواہ اُن پر مغرور نہ ہو جائو۔ ہر قسم کے حسد۔ کینہ۔بغض۔غیبت اور کبر اور رعونت اور فسق وفجور کی ظاہری اور باطنی راہوں اور کسل اور غفات سے بچو اور خوب یاد رکھو کہ انجام کا ر ہمیشہ متقیوں کا ہوتا ہے۔ جیسے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔
والعا قبۃ للمتقین (الاعراف : ۱۲۹)
اس لیے متقی بننے کی فکر کرو۔
سلسلہ احمدیہ کی عزت و عظمت
حضرت مولانا عبدالکریم صاحب نے ذکر کیا کہ حصور کی بیماری کی شدت میں میرے دل میں بہت رقت پیدا ہوئی، تو میں نے بہت دعا کی کہ مولا کریم اسلام کی عزت، قرآن کی عزت۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور بالآ تیری اپنی عزت اور جلال کے اظہار کا بھی اس وقت یہی ذریعہ ہے۔ تو اس پر فرمایا :
بیماری کی شدت میں جبکہ یہ گمان ہوتا تھا کہ روح پر واز کر جائے گی۔ مجھے بھی الہام ہوا۔
الھم ان اھلکت ھذہ العصا بۃ فلن تعبد فی الارض ابدا۔
یعنی اے خدا اگر تو نے اس جماعت کو ہلاک کر دیا تو پھر اس کے بعد اس زمین میں تیری پرستش کبھی نہ ہوگی۔
فرمایا : یقینا یاد رکھو۔ یہ سلسلہ اس وقت اﷲ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے۔ اگر یہ سلسلہ قائم نہ ہوتا، تو دنیا میں تصرانیت پھیل جاتی اور خدائے وحدہٗ لا شریک کی توحید قائم نہ رہتی۔ یا یہ مسلمان ہوتے جو اپنے ناپاک اور جھوٹے عقیدوں کے ساتھ نصرانیت کو مدد دیتے ہیں اور اُن کے معبود اور خدا بنائے ہوئے مسیح کے لیے میدان خالی کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب کسی ہاتھ اور طاقت سے نابود نہ ہوگا۔ یہ ضرور بڑھے گا اور پھولے گا اور خدا کی بڑی بڑی برکتیں اور فضل اس پر ہوں گے۔ جب تمہیں خدا کے زندہ اور مبارک وعدہ ہر روز ملتے ہیں اور وہ تسلی دیتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں اور تمہاری دعوت زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا۔ پھر ہم کسی کی تحقیر اور گالی گلوچ پر کیوں مضطرب ہوں۔؎ٰ
۳۰ ؍ مئی ۱۹۰۲ء؁
مامورین کی تمجید اور مدح وثنا کی حقیقت
۳۰ ؍ مئی ۱۹۰۲ء؁ کی شام کو مختلف باتوں کے تذکرہ میں یہ ذکر شروع ہوا کہ لوگ جناب کے اس فقرہ پر کہ میں مسیحؑ اور حسینؑ سے بڑھ کر ہوں۔ بہت جھلّا رہے ہیں۔حضور ؑ نے فرمایا :
’’دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ خو خواہ مخواہ بلا کسی قسم کے استحقاق کے اپنے تیئن محامد۔ مناقب اور صفاتِ محمودہ سے موصوف کرنا چاہتے ہیں۔ گو وہ یہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کبریائی کی چادر آپ اورڑھ لیں۔ اسیسے لوگ *** ہوتے ہیں۔
دوسری قسم کے وہ لوگ ہوتے ہیں جو طبعاً ہرقسم کی مدح و ثنا اور منقبت سے نفرت اور کراہت کرتے ہیں۔ اور اگر وہ اپنے اختیار پر چھوڑ دیئے جاویں تو دل سے پسند کرتے ہیں کہ گوشئہ گمنامی میں زندگی گذار دیں۔ مگر خدا تعالیٰ اپنے مصالح اور باریک حکمتوں کی بناء پر اُن کی تعریف اور تمجید کرتا ہے اور درحقیقت ہونا بھی اسی طرح چاہے۔ کیونکہ جن لوگوں کو وہ مامور کر کے بھیجتا ہے۔ اُن کی ماموریت سے اس کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ اس کی حمدوثناء اور جلال دنیا میں ظاہر ہو۔ اگر ان ماموروں کی نسبت وہ یہ کہے کہ فلاں مامور جسے میں نے مبعوث کیا ہے ایسا نکمّہ بُزدل۔نالائق۔کمینہ۔سلفلہ اور ہر قسم کے فضائل سے عاری اور بیگانہ ہے تو کیا خدا تعالیٰ کی اس کے ذریعہ سے کوئی صفت قائم ہوسکے گی۔ حقیقت میں خدا کا ان کی تمجید اور مدارج اور فضائل بیان کرنا اپنے ہی جلال اور عظمت کی تمہید کے لیے ہوتا ہے۔
وہ تو اپنے نفس سے بالکل خالی ہوتے ہیں اور ہر قسم کے مدح وذم سے بے پروہ ہوتے ہیں؛ چنانچہ سالہاسال اس سے پہلے جبکہ نہ کوئی مقابلہ تھا نہ گرد و پیش میں کوئی مجمع تھا ۔نہ یہ مجلس اور اس کی کوئی تمہید تھی اور نہ دنیا میں کوئی شہرت تھی۔
7/3/05
خداتعالیٰ نے براہین ؔ احمدیہ میں میری نسبت یہ فرمایا کہ :
یحمدک اللہ من عرشہ ۔ نحمدک و نصلی ۔ کنتم خیر امۃ اخرجت للناس و افتخاراللمومنین۔ یااحمد ۔

فرمایا : میں اپنے قلب کو دیکھ کر یقین کرتا ہوں کہ کل انبیاء علیہمالسلام طبعا ً ہر قسم کی تعریف او ر مدح و ثناسے کراہت کرتے تھے ، مگر جو کچھ خدا تعالیٰ نے اُن کے حق میں بیان فر مایاہے اور میںخداتعالیٰ کی قسم کھا کر کہتاہوں یہ الفاظ میرے الفاظ نہیں خداتعالیٰ کے الفاظ ہیں اور یہ اس لیے کہ خداتعالیٰ کی عزّت اور جلال اور محُمّدرُسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور عظمت اور جلال کو خاک میں ملادیا گیا ہے اور حضرت عیسیٰؑ اور حضرت حسین کے حق میں ایسا غلو اور اطرا کیا گیا ہے کہ اس سے خد اکا عرش کانپتا ہے
اب جب کہ کرو ڑ ہا آدمی کی حضرت عیسیٰ کی مدح ثنا سے گمراہ ہو چکے ہیں اور ایسا ہی بے انتہا مخلو ق حضرت حسین کی نسبت غلو اور اطرا کر کے ہلا ک ہو چکی ہے تو خدا کی مصلحت اور غیرت اس وقت یہی چاہتی ہے کہ وہ تمام عزتو ں کے کپڑے جو بیجا طور پر ان کو پہنا ئے گئے تھے ۔ اُ ن سے اُتار کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا تعالیٰ کو پہنائے جاویں ۔ پس ہماری نسبت یہ کلمات در حقیقت خد اکی اپنی عزت کے اظہار اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے اظہار کے لیے ہیں ۔
میں حلفاً کہتا ہوں کے میرے دل میں اصلی اور حقیقی جوش یہی ہے کے تمام محامد اور مناقب اور تمام صفات جمیلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کروں۔ میری تمام تر خوشی اسی میں ہے اور میری بعثت کی اصل غرض یہی ہے کہ خداتعالیٰ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت دنیا میں قائم ہو ۔ میں یقینا جانتاہوں کے میری نسبت جس قدر تعریفی کلمات اور تمجیدی باتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں ۔ یہ بھی درحقیقیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف راجع ہیں ۔ اس لیے میں آپ ؐ کا ہی غلام ہوں اور آپؐ ہی کہ مشکوٰ اۃِ نبّوت سے نور حاصل کرنے ولا ہوں اور مستقل طور پر ہمارا کچھ بھی نہیں ۔ اسی سبب سے میرا یہ پختہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ دعویٰ کرے کے میں مستقل طور پر بلااستفاضہ آنحضرت ﷺسے مامور ہوں اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتاہو ں تو وہ مردود اور مخذول ہے ۔ خدا تعالیٰ کی ابدی مُحر لگ چکی ہے۔ اس بات پر کوئی شخص وصول اِلی اللہ کے دروازے سے آنہیں سکتا ہے ۔ بجُز اتّباع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ۔ ۱؎
۱؎ الحکم جلد ۶نمبر ۲۰ صفحہ ۷ ۔ ۸ پرچہ ۳۱ مئی ۱۹۰۲ ؁ء
۳۱ مئی ۱۹۰۲ء
شرک کی اقسام
شرک تین قسم کا ہے اول یہ کہ عام طور پر بت پرستی ,درخت پرستی وغیرہ کی جاوے یہ سب سے عام اور موٹی قسم کا شرک ہے دوسری قسم شرک کی یہ ہے کہ اسباب پر حد سے زیادہ بھروسہ کیا جاوے کہ فُلاں کام نہ ہوتا، تو میں ہلاک ہوجاتا یہ بھی شرک ہے ۔ تیسریؔ قسم شرک کی یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے وجود کہ سامنے اپنے وجود کو بھی شے سمجھا جاوے ۔ موٹے شرک میں توآج کل اس روشنی او ر عقل کہ زمانہ میں کوئی گرفتار نہیں ہوتا ، البتّہ اس مادی ترقی کے زمانہ میں شِرک فی الاسباب بہت بڑھ گیا ہے ۔ طاعون کے پھیلنے پر کوئی خیال نہیں کرتا کہ شامتِ اعمال سے پھیلی ہے اور اور اسباب کی طرف توجہ کرتے ہیں۔
‏ Amira
نماز عربی میں پڑھنی چاہئیے
نماز اپنی زبان میں نہیں پڑھنی چاہئیے ۔ خداتعالیٰ نے جس زبان میں قر آن شریف رکھا ہے۔ اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ ہاں اپنی حاجتوں کو اپنی زبان میں خدا تعالیٰ کے سامنے بعد مسنون طریق اور اذدار کے بیان کر سکتے ہیں، مگر اصل زبان کو ہر گز نہیں چھوڑنا چاہیے۔ عیسائیوں نے اصل زبان کو چھوڑ کر کیا پھل پایا۔ کچھ بھی باقی نہ رہا۔
قرآن مجید میں طاعون کے متعلق پیشگوئی
قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ طاعون سے کوئی جگہ باقی نہ رہے گی۔ جیسے فرمایا ہے
ان من قریۃ الا نحن مھلکو ھا قبل یوم القیا مۃ او معذبو ھا۔ آلایتہ (بنی اسرائیل : ۵۹)
اس سے لازم آتا ہے کہ کوئی قریہ مسّ طاعون سے باقی نا رہے۔ اس لیے قادیان کی نسبت یہ فرمایا۔ انہ اوی القریۃ ۔ یعنی اس کو انتشار اور افراتفری سے اپنی پناہ میں لے لیا۔ سزائیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک بالکلیتہ ہلاک کرنے والی۔ جس کے مقابلہ میں فرمایا۔لو لا الاکرام لھلک المقام۔یعنی یہ مقام اہلاک سے بچایا جائے گا۔ دوسری قسم کی سزا بطور تعذیب ہوتی ہے۔ غرض خدا تعالیٰ نے قادیان کو ہلاکت سے محفوظ رکھا ہے اور تعدّی سزا ممنوع نہیں بلکہ ضروری ہے۔
آیات اﷲ
دانے کا کیا وجود ہوتا ہے، لیکن جمع کیے جاویں تو سیری کا موجب ہو جاتا ہے۔ ایک سیر خام میں قریباً پندرہ ہزار کے دانہ ہوتے ہیں۔ جس سے ایک آدمی بخوبی سیر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پر آیات اﷲ کو اگر جمع کیا جاوے اور قدر کی جاوے تو وہ روحانی سیری کا موجب ہو جاتی ہیں۔ ہمارے نشانات کو اگر یکجائی طور پر دیکھا دانے کا کیا وجود ہوتا ہے، لیکن جمع کیے جاویں تو سیری کا موجب ہو جاتا ہے۔ ایک سیر خام میں قریباً پندرہ ہزار کے دانہ ہوتے ہیں۔ جس سے ایک آدمی بخوبی سیر ہو جاتا ہے۔ اسی طرح پر آیات اﷲ کو اگر جمع کیا جاوے اور قدر کی جاوے تو وہ روحانی سیری کا موجب ہو جاتی ہیں۔ ہمارے نشانات کو اگر یکجائی طور پر دیکھا جاوے توا ن کی قوت و شوکت معلوم ہوتی ہے



۱۴؍جون ۱۹۰۲؁ء
مردوں کا جی اُٹھنا
ہم خدا تعالیٰ کے اسی قانون قدرت کو مانتے ہیں جو قرآن شریف میں بیان ہوا ہے۔ جو مردہ ایسے ہیں کہقبر میں رکھے جاتے ہیں۔ اور اُن کے پاس ملائکہ آتے ہیں۔ اُن کی نسبت قرآن شریف کا یہی فتویٰ ہے
فیمسک التی قضی علیھا الموت (الزمر : ۴۳)
مگر برنگ دیگر غیر حقیقی موت میں احیا بھی ہوتا ہے؛ چنانچہ اس قسم کے واقعات خود ہمارے ساتھ بھی پیش آئے ہیں ؛ چنانچہ مبارک کے متعلق اس قسم کی مو تیں فیمسک التی قضی علیھا الموت سے نہیں۔ اور وہ یہ احیاء ہے جس پر ہم ایمان لاتے ہیں کہ مردہ جی اٹھتا ہے۔
غرض خدا تعالیٰ نے جو قانون باندھا ہے اُسے ہم مانتے ہیں۔ اگر اس پر اعتبار نہ کریں اور یقین نہ لائیں توامن اُٹھ جاتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کا قانونِ قدرت جو کتاب اﷲ میں درج ہے۔ اس پر ہامرا ایمان ہے اور ہم اس پر بھی ایمن لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اپنی صفات کے خلاف نہیں کرتا۔ مثلاً کوئی کہے کہ خدا تعالیٰ قادر ہے تو کیا خود کشی بھی کر لیتا ہے؟ ہم اس کے جواب میں کہیں گے۔ کہ کبھی نہیں کیونکہ ل
لہ الاسماء الحسنٰی (الحشر : ۲۵)
کوئی صفت اس سے منسوب نہیں کر سکتے ۔ وہ اپنی صفات قدیمہ کے خلاف نہیں کرتا۔ غرض احیائے موتیٰ اور قانون قدرت کے متعلق ہمارا یہی مذہب ہے کہ ہم اس احیاء کے قائل ہیں جو قرآن شریف نے بیان کیا ہے اور وہ قانون قدرت ہمارا امام ہے جو قرآن شریف سے ثابت ہوتا ہے۔ یورپ کا فلسفہ اور اس کی محدود تحقیقاتیں ہمارے لیے رہبر نہیں ہو سکتی ہیں۔
ہمارا خدا قادر خدا ہے
ہم اپنے خدا تعالیٰ پر یہ قوی ایمان رکھتے ہیں کہ وہ اپنے صادق بندہ کو کبھی ضائع نہیں کرتا۔ حضرت ابراہیمؑ کی طرح اگر وہ آگ میں ڈالا جائے تو وہ آگ اس کو جلا نہیں سکتی۔ ہمارا مذہب یہی ہے کہ ایک آگ نہیں اگر ہزار آگ بھی ہو تو وہ جلا نہیں سکتی۔ صادق اُس میں ڈالا جاوے تو ضرور بچ جاوے گا۔ ہم کو اگر اس کام کے مقابلہ میں جو خدا تعالیٰ نے ہمارے سپرد کیا ہے۔ آگ میں ڈالا جاوے، تو ہمارا یقین ہے کہ آگ جلا نہیں سکے گی اور اگر شیروں کے پنجرہ میں ڈالا جاوے تو وہ کھانہ سکیں گے۔ میں یقینا کہتا ہوں کہ ہمارا خدا وہ خدا نہیں جو اپنے صادق کی مدد نہ کر سکے، بلکہ ہمارا خدا قادر خدا ہے جو اپنے بندوں اور اس کے غیروں میں مابہ الامتیاز رکھ دیتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر دعا بھی ایک فضول شئے ہے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ میں خدا تعالیٰ کی نسبت بیان کرتا ہوں اس کی قوتیں اور طاقتیں اس سے بھی کروڑ در کروڑ درجے بڑھ کر ہیں۔ جن کو ہم بیان نہیں کر سکتے۔
ہمارا ایمان ہے کہ اگر قریؐ مکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر آ گ میں ڈال دیتے ، تو وہ آگ ہر گز ہرگز آپؐ کو جلا نہیں سکتی تھی۔ اگر کوئی محض اس بناء پر کہ آگ اپنی تاثیر نہیں چھوڑتی۔ انکار کرے تو وہ خبیث اور کافر ہے۔کیونکہ خدا تعالیٰ نے جب ان سب دشمنوں کو مخاطب کر کے یہ کہہ دیا۔
فکیدونی جمیعا (ھود : ۵۶)
تم سب مکر کر کے دیکھ لو میں اس کو ضرور بچا لوں گا۔پھر اگر کوئی یہ وہم بھی کرے کہ آگ میں ڈالتے تو معاذاﷲ جل جاتے یہ کفر ہے۔قرآن شریف سچا ہے۔ اور خدا تعالیٰ کے وعدے سچے ہیں وہ کوئی بھی حیلہ اور فریب آپ کی جان لینے کے لیے کرتے۔ ال تعالیٰ ضرور اُن کے گزند سے محفوظ رکھتا جیسا کہ محفوظ رکھ کر دکھا دیا۔ جواہ وہ صلیب کا مکر کرتے خواہ آگ میں ڈالنے کا۔ غرض کوئی بھی کرتے۔ آخر محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے وعدے کے موافق صادق ثابت ہوتے۔ جیسا کہ ہوئے۔ جس طرف ہم اپنی جماعت کو کھینچنا چاہتے ہیں وہ یہی عظیم الشان مرحلہ خدا شناسی کا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیںکہ انشاء اﷲ تعالیٰ آہستہ آہستہ سب کچھ ہو جاوے گا۔

تبلیغ کا جوش
ہمارے اختیار میں ہو تو ہم فقیروں کی طرح گھر نہ کھر پھر کر خدا تعالٰ کے سچے دین کی اشاعت کریں اور اس ہلاک کرنے والے شرک اور کفر سے جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ لوگوں کو بحیالیں۔ اگر خدا تعالیٰ ہمیں انگریزی زبان سکھا دے تو ہم خود پھر کر اور دورہ کر کے تبلیغ کریں اور اسی تبلیغ میں زندگی ختم کر دیں خواہ مارے ہی جاویں۔
مسیح کی قبر کی اشاعت یورپ میں
یُورپ اور دوسرے ملکوں میں ہم ایک اشتہار شائع کرنا چاہتے ہیں جو بہت ہی مختصر ایک چھوٹے سے صفخے کا ہوتا کہ سب اُسے پڑھ لیں۔ اس کا مضمون اتنا ہی ہو کہ مسیح کی قبر سرینگر کشمیر میں ہے۔ جو واقعاتِ صحیحہ کی بناء پر ثابت ہو گئے ہے۔ اس کے متعلق مزید حالات اور واقفیت اگر کوئی معلوم کرنا چاہے تو ہم سے کرلے۔اس قسم کا اشتہار ہوجو باہت کثرت سے چھپوا کر شائع کیا جاوے۔
مضرِصحت چیزیں مضرِایمان ہیں
حدیث میں آیا ہے ومن حسن الاسلام ترک مالا یعنیہ یعنی اسلام کا حسن یہ بھی ہے کہ جو چیز ضروری نہ ہو وہ چھوڑ دے جاوے۔
اسی طرح پر یہ پان۔حقّہ۔زردہ (تمباکو) افیون وغیرہ ایسی ہی چیزیں ہیں۔ بڑی سادگی یہ ہے کہ ان چیزوں سے پر ہیز کرے۔ کیونکہ اگر کوئی اور بھی نڈصان اُن کا بفرض محال نا ہو، تو بھی اس سے ابتلا آجاتے ہیں اور انسان مشکلات میں پھنس جاتا ہے۔ مثلاً قید ہو جاوے تو روٹی تو ملے گی لیکن بھنگ چرس یا اور منشی اشیاء نہیں دی جاوے گی۔ یا اگر قید نہ ہو کسی ایسی جگہ میں ہو جو قید کے قائم مقام ہو تو پھر بھی مشکلات پیدا ہو جاتے ہیں۔ عمدہ صحت کو کسی بے ہودہ سہارے سے کبھی ضائع کرنا نہیں چاہیے۔ شریعت نے خوب فیصلہ کیا ہے کہ ان مضر صحت چیزوں کو مُضر ایمان قرار دیا ہے اور ان سب کی سردار شراب ہے۔
یہ سچی بات ہے نشوں اورتقویٰ میں عداوت ہے۔ افیون کا نقصان بھی بہت بڑا ہوتا ہے۔ طبی سور پر یہ شراب سے بھی بڑھ کر ہے اور جس قدر قویٰ لے کر انسان آیا ہے اُن کو ضائع کر دیتی ہے۔
بیدمشک اور کیوڑہ کا استعمال
منشی الٰہی بخش اور اُس کے دوسرے رفیق اعتراض کرتے ہیں کہ میں بیدمشک اور کیوڑہ کا استعمال کرتا ہوں یا اور اس قسم کی دوائیاں کھاتا ہوں۔تعجب ہے کہ حلال او رطیب چیزوں کے کھانے پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ اگر وہ غور کر کے دیکھتے اور مولوی عبداﷲ غزنوی کی حالت پر نظر رکھتے تو میرا مقابلہ کرتے ہوئے اُن کو شرم آجاتی۔ مولوی عبد اﷲ کو بیویوں کا استغراق تھا، اس لیے انڈے اور مرغ کثرت سے کھاتے تھے۔ یہانتک کہآخیر عمر میں شادی کرنا چاہتے تھے۔ میری شہادت مل سکتی ہے کہ مجھے کیوڑہ وغیرہ کی ضرورت کس وقت پڑتی ہے۔ میں کیوڑہ وغیرہ کا استعمال کرتا ہوں جب دماغ میںاختلال معلوم ہوتا ہے یا جب دل میں تشنج ہوتا ہے۔ خدائے وحدہٗ لا شریک جانتا ہے کہ بجز اس کے مجھے ضرورت نہیں پڑتی۔ بیٹھے بیٹھے جب بہت محنت کرتا ہوں تو یکد فعہ ہی دورہ ہوتا ہے۔ بعض وقت ایسی حالت ہوتی ہے کہ قریب ہے کہ غش آجاوے اس وقت علاج کے طور پر استعمال کرنا پڑتا ہے اور اسی لیے ہر روز باہر سیر کو جاتا ہوں۔
مگر مولوی عبداﷲ جو کچھ کرتے تھے یعنی مرغ۔ انگور۔انڈے وغیرہ جو استعمال کرتے تھے اس کی وجہ کثرت ازدواج تھی اور کوئی سبب نہ تھا۔انبیاء علیہم السلام ان چیزوں کا استعمال کرتے تھے مگر وہ خدا کی راہ میں فداپتھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کبھی گھبراتے تھے، تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی ران پر ہاتھ مار کر کہت یکہ اے عائشہ ہم کو راحت پہنچا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تو سارا جہان دشمن تھا۔ پھر اگر اُن کے لیے کوئی راحت کا سامان نہ ہو، تو یہ خدا کی شان کے ہی خلاف ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی حکمت ہوتی ہے کہ جیسے کا فور کے ساتھ دو چار مرچیں رکھی جاتی ہیں کہ اُڑ نہ جائے۔
اسلام کا آئندہ غلبہ
اﷲ تعالیٰ جو کچھ کرتا ہے وہ تعلیم اور تربیت کے لیے کرتا ہے؛ چونکہ شوکت کا زمانہ دیر تک رہتا ہے اور اسلام کی قوت اور شوکت صدیوں تک رہی اور اُس کے فتوحات دور دراز تک پہنچے۔اس لیے بعض احمقوں نے سمجھ لیا کہ اسلام جبر سے پھیلایا گیا۔ حالانکہ اسلام کی تعلیم ہے
لا اکرا ہ فی الدین (البقرہ : ۲۵۷)
اس امر کی صداقت کو ظاہر کرنے کے لیے کہ اسلام جبر سے نہیں پھیلا۔ اﷲ تعالیٰ نے خاتم الخلفاء کو پیدا کیا اور اس کا اکام یضع الحرب رکھ کر دوسری طرف
لیظھرہ علے الدین کلہ (الصف : ۱۰)
قرار دیا۔ یعنی وہ اسلام کا غلبہ مل ہالکہ پر حجت اور براہین سے قائم کرے گا اور جنگ و جدال کو عُٹھا دے گا۔ وہ لوگ سخت غلطی کرتے ہیں جو کسی خوُنی مہدی اور خونی مسیح کا انتظار کرتے ہیں۔
اسلام کا عظیم الشان اعجاز
اسلام کا سب سے بڑا اور عظیم الشان معجزہ جس کی نظیر کہیں نہیں مل سکتی۔ وہ اس کی حقانیت اور روشنی ہے وہ کسی پہلو سے شرمندہ نہیں ہوتا۔تمام حقائق اور صداقتیں اسلام میں موجود ہیں۔ ہر ایک پہلو سے کامل۔سب کے حملوں کا جواب دیتا ہے اور دوسروں پر ایسا حملہ کرتا ہے کہ اس کا جواب نہیں ہو سکتا۔
درازیٔ عمر کا راز
ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ اس کی عمر دراز ہو، لیکن بہت ہی کم ہیں وہ لوگ جنہوں نے کبھی اس اصول اور طریق پر غور کی ہو جس سے انسان کی عمر دراز ہو۔ قرآن شریف نے ایک اصول بتایا ہے۔
واماماینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
یعنی جو نفع رساں وجود ہوتے ہیں۔اُن کی عمر دراز ہوتی ہے۔اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کو درازیٔ عمر کا وعدہ فرمایا ہے جو دوسرے لوگوں کے لیے مفید ہیں؛حالانکہ شریعت کے دو پہلو ہیں۔اوّل خدا تعالیٰ کی عبادت۔دوسرے بنی نوع سے ہمدردی۔ لیکن یہاں یہ پہلو اس لیے اختیار کیا ہے کہ کامل عبد وہی ہوتا ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے ۔پہلے پہلو میں اوّل مرتبہ خدا تعالیٰ کی محبت اور توحید کا ہے۔ اس میں انسان کا فرض ہے کہ دوسروں کو نفع پہنچائے۔ اور اس کی صورت یہ ہے۔ اُن کو خدا کی محبت پیدا کرنے اور اس کی توحید پر قائم ہونے کی ہدایت کرے جیسا کہ
وتواصوابالحق (العصر : ۴)
سے پایا جاتا ہے۔ انسان بعض وقت خود ایک امر کو سمجھ لیتا ہے،لیکن دوسرے کو سمجھانے پر قادر نہیں ہوتا۔ اس لیے اُس کو چاہیے کہ محنت اور کوشش کر کے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاوے۔ ہمدردیٔ خلائق یہی ہے کہ محنت کر کے دماغ خرچ کر کے ایسی راہ نکالے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچا سکے تا کہ عمر دراز ہو۔
اماماینفع الناس (الرعد : ۱۸)
کے مقابل پر ایک دوسری آیت ہے جو دراصل اس وسوسہ کا جواب ہے کہ عابد کے مقابل نفع رساں کی عمر زیادہ ہوتی ہے اور عابد کی کیوں نہیں ہوتی؟ اگر چہ میں نے بتا یا ہے کہ کامل عابد وہی ہو سکتا ہے، جو دوسروں کو فائدہ پہنچائے، لیکن اس آیت میں اور بھی صراحت ہے اور وہ آیت یہ ہے۔
قل مایعبؤا ابکم ربی لو لا دعاؤ کم (الفرقان : ۷۸)
یعنی ان لوگوں کو کہہ دو۔ کہ اگر تم لوگ رب کو نہ پکارو تو میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ وہ عابد کی پرواہ کرتا ہے۔ وہ عابد زاہد جن کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ بنوں اور جنگلوں میں رہتے اور تارک الدنیا تھے۔ ہمارے نزدیک وہ بودے اور کمزور تھے۔ کیونکہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ جو شخص اس حدتک پہنچ جاوے کہ اﷲ اور اس کے رسول کی کامل معرفت ہو جاوے وہ کبھی خاموش رہ سکتا ہی نہیں۔ وہ اس ذوق اور لذت سے سرشار ہو کر دوسروں کو اس سے آگاہ کرنا چاہتا ہے۔
حکمت ایمانیاں راہم بخواں
یقین ایک ایسی شے ہے جو انسان کو ایک قوت اور شجاعت عطا کرتا ہے۔یقین معلومات سے بڑھتا












صفحہ نمبر ۲۲۸
انبیاء کی بعثت کی اصل غرض
انبیاء کی بعثت کی اصل غرض یہ ہو تی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایسا ایمان پیدا کریں جو اعمال صالحہ کی قوت عطا کرتا ہے اور گناہ سوز فطرت پیدا کرتاہے، کیونکہ اعمال صالہہ کبھی نہیں ہوسکتے جب تک اللہ تعالیٰ پر سچا ایمان اور معرفت پیدانہ ہو ، ہر ایک عمل معرفت صحیح اور عرفان کامل کے بعد اعمال صالحہ کی مدّ میں آتا ہے ۔لوگ جوکچھ اعمال صالحہ کرتے ہیں یا صدقات و خیرات کرتے ہیںیہ رسم اور عادت کے طور پر کرتے ہیں ، اُس معرفت کا نتیجہ نہیں ہوتے جو ایمان علی اللہ کے بعد پیدا ہوتی ہے ؛چونکہ دنیا کی نیکیا ں اور بظاہر اعمال صالحہ رسم اور عادت کے طور پرہوتے ہیں ۔ اور دُنیاخداشناسی اور خدارسی کے مقاموں سے دور ہوتی ہے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ انبیاء علیہم السّلام کو مبعوث فرماتاہے جو آکر دنیا کو خداتعالیٰ پر ایمان لانے کی حقیقت سے آگاہ کرتے ہیں ۔ باقی تمام اُمور اسی ایمان کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔ اس لیے اصل غرض انبیاء کے بعثت کے یہی ہوتی ہے ۔ کہ وہ انسان کو اس کی زندگی کے اصل منشاء عبودیت تامّہ سے آگاہ کریں اور خد اتعالیٰ پر عرفان بخش ایمان لانے کی تعلیم دیں۔
کُوْ نُوْ ا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ
انبیاء علیہم السّلام تھوڑے ہوتے ہیں اور اپنے اپنے وقت پر آیا کرتے ہیں ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے تمام دُنیا کو رسم اور عادت سے نجات دینے اور سچّا اخلاص ار ایمان حاصل کرنے کی یہ راہ بتائی ہے کہ
کُوْ نُوْ مَعَ الصّٰادِ قِیْنَ۔(التوبہ ۱۱۹)
یہ سچّی بات ہے کہ اس کو کبھی بھولنا نہیں چاہئیے کہ جس نے نبی کی اطاعت کی اس نے اللہ تعا لیٰ کی عبادت کا حق ادا کردیا رسم اورعادت کی غلامی سے انسان اسی وقت نکل سکتا ہے ۔ جب وہ عرصہ دراز تک صادقوں کی صُحبت اختیار کرے اور اُن کے نقش قدم پر چلے ۔
مَایَنْفَع النَّاسَ فَیَمْکُتُ فِی ا لْاَرْض( الرعد : ۱۸ )ِ
یہ جو خداتعالیٰ نے فرمایاہے
ماینفع الناس فیمکت فی الارض ( الرعد : ۱۸ )
حقیقت یہی ہے کہ جو شخص دُنیا کے نفع رساں ہو۔ اس کی عمر دراز کی جاتی ہے ۔ اس پر جو یہ اعتراض کیا جاتاہے کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر چھوٹی تھی ۔ یہ اعتراض صحیح نہیںہے ۔ اوّل اس لیے کہ انسانی زندگی کا اصل منشاء اور مقصدآنحضرت ﷺنے حاصل کیا ۔ آپؐ دنیا میں اس وقت آئے جب کہ دنیا کی حالت بالطّبع مصلح کو چاہتی تھی اور پھر آپ ؐ اُس وقت اُٹھے جب پوری کامیابی اپنی رسالت میں حاصل کر لی ۔
الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ :۴)
کی صدا کسی دوسرے آدمی کو نہیں آئی اور
اذا جا ء نصر اللہ والفتح۔ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا(النصر :۲،۳)
پوری کامیابی کا نظّارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اب جس حال میں کہ رسُول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پورے طور پر کامیاب ہو کر اُٹھے،پھر یہ کہنا کہ آپؐ عمر تھوڑی تھی سخت غلطی ہے ۔اس کے علاوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے برکات اور فیوض اَبدی ہیں اور ہر زمانہ میں آپؐ کے فیوض کا در وازہ کُھلا ہوا ہے ۔ اس لئے آپ ؐ کو زندہ نبی کہا جا تا ہے اور حقیقی حیات آپؐ کو حاصل ہے طُول ِعمر کا جو مقصدتھا وہ حاصل ہو گیا ۔اور آیت کاے موافق آپ ؐ ا بدا لآباد کے لئے زندہ رہے ۔
مسیح علیہ السّلام کی وفات کے دو گواہ
مسیح علیہ السّلام کی وفات پر دو زبر دست گواہیاں علاوہ اور گو اہو ں کی شہادت کے موجو د ہیں ۔جن کا انکار ہرگز نہیںہوسکتااوّل خدا تعالیٰ کی شہادت جیسے
یا عیسی انی متوفیک ورافعک الی (آل عمران :۵۶)
فرمایا ہے اور پھر دوسری شہادت رسُول اللہ علیہ وسلّم کی رؤیت کی ہے ۔ آپ ؐ نے یحیٰ علیہ السّلام کے ساتھ حضرت مسیحؑ کو دیکھا ۔ اب ان دو گواہوں کے خلاف یہ کہنا ہے کہ وہ زندہ ہے کہاں تک صحیح ہوسکتاہے ؟
رجُوع کا لفظ صعُود کے بعدہوتا ہے پھر جو لوگ مسیح کے معہ وجود عنصری آسمان پر چڑھنے ک وثابت کرتے ہیں ، ان کا فرض ہے کہ وہ مسیح کا رجُوع ثابت کریں ، کیونکہ نزول کے لیے صعُود الازم نہیں ہے ۔
صدق و وفا
حدیث میںآیا ہے کہ صوم وصلوٰ ۃسے درجہ نہین ملتا ، بلکہ اس بات سے جو انسان کہ دل میں ہے یعنی صدق ووفا ۔ خدا یہی چاہتاہے کے عمل صالح ہو اور اس کا اخفا ء ہو یا ریا کاری نہ وہو ۔
صدق بڑی چیز ہے اس کے بغیرعمل صالحہ کی تکمیل نہیںہوتی ۔ خداتعالیٰ اپنی سنّت نہیںچھوڑنا چاہتا ۔اس لیے فرمایا ہے ۔
والذین جاھدو افینالنہدینہم سبلنا ( العنکبوت :۷۰ )
خداتعالیٰ میںہوکر جومجاہد کرتا ہے ۔ اس پر اللہ تعالیٰ اپنی راہیں کھول دیتا ہے ۔
وحد ت الوجود
بُت پرست بھی وجُودیوںکی طرح اپنے بُتوں کی مظاہر ہی مانتے ہیں۔ قرآن شریف اس مذہب کو ترویدکرتا ہے ۔ وہ شروع ہی میںیہ کہتا ہے الحمد للہ رب العلمین اگر مخلوق اور خالق میں کوئی امتیاز نہیں ، بلکہ دونوں برابر اور ایک ہیں تو ربّ العالمین نہ کہتا اب عالم توخداتعالیٰ میں داخل نہیں کیونکہ عالم کے معنے ہیں مایعلم بہ اور خداتعالیٰ کے لیے
لا تدرکہ الابصار (الانعام : ۴۔۱)
موجودات کو جو وہ عین اللہ کہتے ہیں یہ بالکل غلط ہے ۔ قرآن شریف نے عین ؔ اور غیر کی کوئی بحث نہیں کی محی الدین ابن عربی سے جو مندوب کرتے ہیں کہ اس نے لکھا ہے کہ الحمد للہ الذی خلق الاشیاء وھوعینھا یہ بات صحیح ہے ۔ خداتعالیٰ فرمتاہے
لا تقف مالیس لک بہ علم ۔ ( بنی اسرائیل : ۳۷ )
جب انسان کوکچھ خبر نہیں ۔ پھر بتاؤ غیب کہ کہاں رہی ۔ یہ تو پکی بات ہے کہ صفات کِسی چیز کے الگ نہیںہوتے خواہ وہ کہیں چلی جاوے ۔ پانی کو خواہ لندن لے جاؤآخر وہ پانی رہے گا ۔ جب انسان خداہو تو اس کی صفات اس سے الگ ہونے لگیں خواہ کسی حالت میں ہو۔
استحالہ کے ساتھ اس کے صفات معدوم ہوجاتے ہیں ۔ ہر ایک چیز کابقا تو اس کے صفات ہی اس کے ساتھ ہے ۔ اگر ایک پھول کے صفات اُس کے ساتھ نہیں تو وہ پھول کیونکر ہوسکتا ہے ۔پس اگر انسان خداہے تو پھر ا س کی خدائی کے صفات کسی چیز کے اس کے ساتھ ہونے ضروری ہیں۔اگر صفات نہیں تو پھر نادانی سے اُسے خدا بنایا جاتاہے ۔ انسان ایسی ایسی مصیبتوں اور مشکلات میںگرفتار ہوتا ہے کہ ٹکریںمارتا پھرتاہے اور ایسا سرگرداں ہوتا ہے کہ کچھ پتہ نہیں لگتا ہزاروں آرزوئیںاور تمنائیں ایسای ہوتی ہیں کہ پوری ہونے میں نہیں آتیں ۔ کیا خداتعالیٰ کے ایسے ارادے بھی اس قسم کے ہوتے ہیں کے پورے نہ ہوں ۔ اس کی شان تو یہ ہے ۔
اذا ارا شیئا ان یقول لہ کن فیکون ( یٰس : ۸۳)
اس سے صا ف معلوم ہوتا ہے کہ وہ جو انسان کواپنے ارادوں میںنامراد کرتا ہے ۔ وہ کوئی الگ اور طاقتور ہستی ہے اگر دونوں ایک ہوتے تویہ نامرادی نہ ہونے پاتی ۔یہ باتیں قرآن شریف کی تعکیم صریح خلاف ہیں اور خداتعالیٰ کے حضور خطرناک گستاخی کی باتیں ہیں ۔اس قسم کے اعتراض کرنا کہ پھر دنیا کیوں اس سے بنائی۔ بے ادبی ہے ۔ جب خداتعالیٰ کو قادر مان لیا، پھر ایسے اعتراضات کیوں کیے جاویں۔آریہؔ بھی اس قسم کے اعتراض کیا کرتے ہیںوہ خداتعالیٰ کو اپنی قوت اور طاقت کے پیمانہ سے ناپنا چاہتے ہیں ۔
پھر دیکھو۔وجودیوں کے بڑے بڑے صُوفی مرے ہیں اور مرتے ہیں۔اگر وہ خدا تھے تو ان کوتو اس وقت خدائی کرشمہ دکھانا چاہئیے تھا۔نہ یہ کہ عاجز انسان کی طرح تڑپ کر جان دے دی ۔یاد رکھو انسان کی سعادت یہی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے کاموں میں اپنا دخل نہ دے ،بلکہ اپنی عبودیت کا اعتراف کرے ۔ ہمارا تو یہ ایمان ہے اور مذہب ہے کہ ایک فوق الفوق قادر ہستی ہے جو ہم پر کام کرتی ہے ۔جدھر چاہتی ہے لے جاتی ہے ۔ وہ خالق ہے ہم مخلوق ہیں وہ حیّ قیوم ہے اور ہم ایک عاجز مخلوق ۔قرآن شریف میں جو حضرت سلیمان اور بلقیس کا ذکر ہے کہ اس نے پانی کو دیکھ کر اپنی پنڈلی سے کپڑا اُٹھایا ، اس میں بھی یہی تعلیم ہے جو حضرت سلیمان نے اس عورت کو دی تھی وہ دراصل آفتاب پرستی کرتی تھی ، اس کو اس طریق سے اُنھوں نے سمجھایا کہ جیسے یہ پانی شیشہ کے اندر چل رہا ہے ۔ دراصل اوپر شیشہ ہی ہے ۔اسی طرح پرآفتاب کو راشنی اور صنیاء بخشنے والی ایک زبر دست طاقت ہے ۔
اور یہ اعتراض جو پیدا کیا جاتاہے کہ قرآن شریف غیریّت اُٹھانے آیا تھا ۔ اس کو وجُودیوںنے سمجھا نہیں۔ ۔قرآن شریف یک اتّحاد عام مُسلمان میں قائم کرتا ہے نہ یہ کہ خالق اور مخلوق کو متحدفی الذات کر دے ۔ طائر کے بغیر تو کچھ سمجھ میں نہیںآتا۔ پس ایسی کوئی مثال وجودیوں کو پیش کرنی چاہئیے جس سے معلوم ہوجاوے کہ خالق اور مخلوق ایک ہی ہیں ۔ انسان گناہ سے محبت کرتاہے ۔ پھر وہ عین خدا کیونکر ہوسکتاہے ۔ وجودی کہتے ہیں کہ تم نے غیریّت سے شریک بنالیا ہے ہم کہتے ہیں۔ یہ غلط ہے ہمتو مخلوق مانتے ہیں ۔ جس پر ساراتصرّف خداتعالیٰ کا ہے ، کیونکہ وہ حیّ وقیّوم خدا ہے ۔ جس کے سہارے سے زندگی قائم ہے ۔ خداتعالیٰ اس قسم کا حیّ وقیّوم نہیں ہے کہ جیسے معمار کی عمارت کو ضرورت نہیںہوتی کہ معمار اس کے ساتھ زندہ رہے یعنی اگر معمار مر جاوے توعمارت کو اس کے مرنے سے کوئی نقصان نہیںہوتا ، بلکہ مخلوق کسی صورت میں اس کے سہارے سے الگ ہو ہی نہیںسکتی ۔ بلکہ اور مخلوق کی زندگی اور قیام کا اصلی ذریعہ وہی ہوتا ہے ۔ ہم عین غیر کی بحث میں ہر گز نہیںپڑتے۔ قرآن شریف نے اصطلاحوں کو کبھی بیان نہیںکیا ۔ جو تعلقات خالق اور مخلوقات لے اُس نے بیان کیے ہیں۔ ان سے باہر جانا گستاخی اور بے ادبی ہے ۔
شیخ محی الدین سے پہلے اس وحدت وجود کا نام و نشان نہ تھا ہان وحدت شہودی تھی یعنی خداتعالیٰ کے مشاہدہ میں اپنے آپ کو فانی سمجھنا ۔ وحدت شہودی میں ’’من شُدی ‘‘استیلائے محبت کا تقاضا تھا۔ وجُودیوں نے اس سے تجاوز کرکہ وہ کام کیا جو ڈاکٹراور فلاسفر کرتے ہیں وہ خدائی کے حصّے دار بنتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ یہ وحدت وجود الے عموماً اباحتی ہوتے ہیں ۔ اور نماز و روزہ کی ہر گز پرواہ نہیںکرتے۔ یہاں تک کہ کنجروں (کنچنیوں ) کے ساتھ بھی تعلقات رکھتے ہیں ۔ ان کو کوئی پرہیز اور کوئی عُذر نہیںہوتا ۔ شہود کی حقیقت تویہی ہے ۔ کہ جیسے لوہے کو آگ میں ڈالا جاوے اور وہ اس قدر گرم ہوجاوے کہ سُرخ آگ کی طرح ہوجاوے ۔ اس اگر چہ آگ کہ خواص پائے جاتے ہیں ؛ تاہم وہ آگ نہیںکہلا سکتا ۔ اس طرح جس شخص کو خداتعالیٰ سے تعلقات قومی اور شدید ہوتے ہیں اور فنافی اللہ کہ درجہ پر ہوتاہے ، تواس سے بسااوقات خارق اور عادت معجزات صادر ہوتے ہیں جو اپنے اندر ایک قسم کی اقتداری قوت کانمونہ رکھتے ہیں ، لوگ اپنی غلط فہمی اور کمزوری سے یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ شاید یہ خداہو ۔ شہودی حالت میں اکثر امور ان کی مرضی کے موافق ہو جاتے ہیں ۔جیسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فعلوں کو خدا تعالیٰ نے اپنا فعل قرار دیا ہے اور
الیوم اکملت لکم دینکم (المائدہ :۴) اور اذا جا ء نصر اللہ (النصر :۲)
کی صدا آپ ؐ کو آگئی ۔؎ٰ
۴؍اگست ۱۹۰۲ ؁ء
۴؍اگست کی شام کو بعد نماز مغرب حجۃاللہ حسب معمول تشریف فرما ہوئے ۔خدام پروانہ وار ارد گرد تھے ۔ایک نوجوان نے عرض کی کہ مَیں اپنا خواب بیان کرنا چاہتا ہوں ۔فرمایا:
’’کل صبح کو بیان کرو ۔مسنون طریق یہی ہے ۔رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی صبح ہی کو خواب سنا کرتے تھے ‘‘۔
ایک زبردست نشان
اثنائے کلام میں اس امر پر تذکرہ ہو اکہ فیضی ساکن بھیں نے اعجاز المسیح کا جواب لکھنا چاہا تھا،جو خدائے تعالیٰ کے وعدے کے موافق جو اعجاز المسیح کے ٹائیٹل پیجپر درج ہے ۔ بامراد نہ ہوسکا، بلکہ اس دنیا سے اُٹھ گیا ۔ حضرت حُجۃ اللہ نے فرمایا کہ :
یہ کس قدر زبر دست نشان ہے خداکی طرف سے ہماری تصدیق اور تائید میںکیونکہ قرآن شریف میں آیا ہے ۔واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض ( الرعد: ۱۸ ) اب سوال یہ ہوتا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جیسا کہ ہمارے مخالف مشہور کرتے ہیں ۔ خداتعالیٰ کی طرف سے نہیں تھا تو چاہئیے تھا کہ فیضی نے جولوگوں کی نفع رسانی کا کام شروع کردیا تھا ۔ اس میں اس کی تائید کی جاتی ، لیکن اس طرح پر اسکا جوانامرگ ہوجاناصاف ثابت کرتا ہے اس سلسلہ کی مخالفت کے لیے قلم اُٹھانا لوگوںکی نفع رسانی کاکام نہ تھا کم از کم ہمارے مخالفوں کوبھی اتناتو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کی نیّت نیک نہ تھی ؛ ورنہ کیا وجہ ہے کہ خداتعالیٰ نے اس کی تائید نہ کی اور اس کو مہلت نہ ملی کہ اس کو تمام کرلیتا ۔
میرے اپنے الہام میں بھی یہی ہے
واماماینفع الناس فیمکث فی الارض
تیس برس سے زیادہ عرصہ ہو اجب میں تپ سے سخت بیمار ہوا ۔ اس قدر شدید تپ مجھے چڑھی ہوئی تھی گویا بہت سے انگارے سینے پر رکھے ہوئے معلوم ہوتے تھے ۔ اسی اثنائے میں مجھے الہام ہو ا۔
واما ماینفع الناس فیمکث فی الارض ،
یہ جو اعتراض کیا جاتاہے بعض مخا لف ِ اسلام میں بھی لمبی عمر حاصل کرتے ہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟ میرے نزدیک اس کا سبب یہ ہے اُن کا وجود بھی بعض رنگ میں مفید ہی ہوتا ہے ۔ دیکھو ابو جہل بدر کی جنگ تک زندہ رہا ۔ اصل بات یہ ہے کہ مخالف اعتراض نہ کر تے تو قرآن شریف کے تیس سپارے کہاں سے آتے ۔ جس کے وجود کو اللہ تعالیٰ مفید سمجھتا ہے اسے مہلت دیتا ہے ۔ ہمارے مخالف بھی جو زندہ ہیں۔ وہ مخالفت کر تے ہیں ۔ ان کے وجود سے بھی یہ فائدہ پہنچتا ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن شریف کے حقائق و معارف عطا کرتا ہے۔ اب اگر مہر علیشاہ اتنا شو رنہ مچاتا تو نزول مسیح کیسے لکھاجاتا۔
اس طرح پرجو دوسرے مذاہب باقی ہیں ان کے بقاء کا بھی یہی باعث ہے تاکہ اسلام کے اصو لوں کی خو بی اور حسن ظاہر ہو ۔اب دیکھ لو کہ نیو گ اور کفارہ کے اعتقاد والے مذہب موجود نہ ہوتے تو اسلام کی خوبیوں کا امتیا ز کیسے ہوتا ۔ غرض مخالف کا وجود اگر مفید ہو تو اللہ تعالیٰ اسے مہلت دیتا ہے ۔ ۱؎
چھ اگست ۱۹۰۲
چھ اگست کی شام کومسیح مو عود ؑت تشریف لائے ۔پیر گو لڑی کی اس پرفن کاروائی کاذکر تھا جو اس نے اپنی کتاب سیف چشتیائی کی تالیف میں کی اور جس کا راز اگلی اشاعت میں بالکل کھول دیا جاوے گا اور دنیا کو دیکھایا جاوے گا کہ کفن کھسوٹ مصنّف بھی دنیا میں ہیں ۔ اس کے بعد امریکہ کے مشہور مفتری مدعی الیاس دُوئی کا اخبار پڑھا گیا جو مفتی محمد صادق صاحب ایک عرصہ سے سنایا کرتے ہیں دُوئی نے اپنے مخالف قوموں بادشاہوں اور سلطنتوںکی نسبت پیگوئی کی ہے کہ وہ تباہ ہوجائیں گئے ۔ اس پر حضرت اقدس ؑ کے رگ ِ غیرت و حمیّت دینی جوش میں آئی اور فرمایا کہ :
’’مفتری کذاب اسلام کا خطرناک دشمنہے ۔ بہتر ہے اُس کے نام ایک کھلا خط چھاپ کر بھیجا جاوے اور اس کو مقابلہ کے لیے بلایاجاوے ۔ اسلام کے سوا دنیامیں کوئی سچّا مذہب نہیں ہے اور اسلام ہی کی تائید میں برکات اور نشان ظاہر ہوتے
۱؎ الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ صفحہ ۱۱ پرچہ ۱۰ اگست ۱۹۰۲؁ء
ہیں میرا یقین ہے کہ اگر یہ مفتری میرا مقابلہ کرے گا‘تو سخت شکست کھائے گا اور اب وقت آگیا ہے کہ خداتعالیٰ اس کی افتراء کو اس کی سزادے گا ۔‘‘
غرض یہ قرارپایا کہ ۱۷ اگست کو حضرت اقدس ؑ ایک خط اس مفتری کو لکھیں اور اسے نشان نمائی کے میدان میں آنے کی دعوت کریں۔ یہ خط انگریزی زبان میں ترجمہ ہوکر مختلف اخبارات میں بھی شائع ہوگا اور بھیجا جاوے گا ۔‘‘
الہام
نزول المسیح جو آج کل لکھ رہے ہیں ۔ اور پیر گولڑی کی کتاب سیف چشتیائی بھی زیر نظر ہے ۔ اس پر کسی قدر توجہ کرنے سے یہ الہام ہوا ہے :
انی انا ربک القدیر ۔ لا مبدل لکلماتی
۷ ؍ اگست ۱۹۰۲؁ء
۷؍اگست کی صبح کو حسب معمول سیر کو نکلے ۔ ایڈیٹر الحکم نے عرض کی کہ حضور امسال شگا گو کی طرز پر ایک مذہبی کانفرنس جاپان میں ہونے والی ہے ۔ جس پر مشرقی دنیا کے مذاہب کے سر کردہ ممبروں کا اجتماع ہو گا اور اپنے اپنے مذہب کی خوبیوں پر لیکچر دئیے جائیں گئے ۔کیا اچّھاہواگر حضور لی طرف سے تقریب پر کوئی مضمون لکھا جائے اور اسلام کی خوبیاں اس جلسہ میں پیش کی جاویں ۔ہماری جماعت کی طرف سے کوئی صاحب جیسے مولوی محمد علی صاحب ہیں ، چلے جائیں ۔ جاپان کے مصارف بھی بہت نہیں ہیں اور جاپان والوں نے ہندوستانیوں کو دعوت کی ہے کے وہ ہندستان سے جانے والوںکے لیے اپناالگ جہاز بھیجنے کا ارادہ ظاہر کرتے ہیں ۔ اس پر فرمایا کہ :
بیشک ہم تو ہر وقت تیار ہیں اگر یہ معلوم ہوجاوے کہ وہ کب ہوگی اور اس کہ قواعد کیا ہیں ۔ تو ہم اسلام کی خوبیوں اور دُوسرے مذہب کے ساتھ اس کا مقابلہ کر کہ دکھاسکتے ہیں اور اسلام ہی ایسا مذہب ہے جوکہ ہر میدان میں کامیاب ہوسکتا ہے کیونکہ مذہب کہ تین جُزوہیں۔اوّل خداشناسی ۔مخلوق کہ ساتھ تعلق اور اس کے حقوق اور اپنے نفس کے حقوق۔جس قدرمذاہب اس وقت موجود ہیں بجُز اسلام کے جو ہم پیش کرتے ہیں سب نے بے اعتدالی کی ہوئی ہے ۔ پس اسلام ہی کامیاب ہوگا ۔
ذکر کیا گیا کہ وہ بُدھ مذہب ہے اس کا ذکر بھی اس مضمون میں آجانا چاہئیے ۔فرمایا:
بُدھ مت
بُدھ مذہب دراصل سنائن دھرم ہی کی شاخ ہے ۔ بُدھنے جو اوائل میں اپنے بیوی بچّوں کوچھوڑ دیا اور قطعی تعلق کر لیا ، شریعت ِ اسلام نے اس کو جائز نہیں رکھا ۔ اسلام نے خداتعالیٰ کی طرف توجہ کرنے اور مخلوق سے تعلق رکھنے میں کوئی تناقض بیان نہیں کیا ۔ بُدھ نے اوّل ہی قدم پر غلطی کھائی ہے اور اس میں ہی دہریّت پائی جاتی ہے ۔مجھے اس بات پہ کبھی تعجب نہیں ہوتاکہ ایک کُتّا مُردار کیوں کھاتا ہے جس قدر تعجب اس بات پہ ہوتا ہے کہ انسان انسان ہو کر اپنی جیسی مخلوق کی پرستش کیوں کرتا ہے اس لیے ا س وقت جب خدا نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے تو سب سے اوّل میرا فرض ہے کہ خدا کی توحید قائم کرنے کے لیے تبلیغ او راشاعت میں کوشش کروں ۔ پس مضمون تیار ہوسکتا ہے ا ر و وہاںبھیجا جاسکتا ہے ۔ پہلے قواعد آنے چاہئیں ۔
پھر فرمایا کہ :
اس مضمون کے پڑھنے کے لیے اگر مولوی عبدالکریم صاحب جائیں تو خوب ہے ۔ کاُن کی آواز بڑی بارُعب اور زبردست ہے اور وہ انگریزی لکھا ہو اہو ۔ تو اُسے خوب پرھ تے ہیں اور ساتھ مولوی محمد علی صاحب بھی ہوں اور ایک شخص اور بھی چاہئیے ۔
الرفیق ثم الطریق
پھر اس سلسلہ کلام میں فرمایا :
زمانہ میں باوجود استغراق دُنیا کے مذہب کی طرف بھی توجہ ہو گئی ہے اورمذہبی چھیڑچھاڑکاایسا سلسلہ جاری ہوگیا ہے کہ پہلے کبھی ایسا موقع نہیں ملا ۔
پھر اس ذکر پرانجمن حمایت اسلام کوبعض اخباروں نے توجہ دلائی ہے کہ وہ کوئی آدمی بھیجیں ۔ فرمایا :
ہمارے مخالف اسلام کو کیا پیش کریں گئے جب کے اسلام کی خوبیوں کاخود ان کو اعتراف نہیں ہے ۔اوّل خداتعالیٰ کی توحید اسلام نے بڑے زور سے قائم کی مگر جب یہ مسیح میں خدائی صفات کو قائم کرتے اور مانتے ہیں تو توحید کہاں رہی پھر برکا ت اسلام کا فخر ہے ۔مگر یہ لوگ اس سے بھی منکر ہیں ۔ اگر پہلے قصّے پیش کریں تو سنائن والے بھی کرسکتے ہیں ۔ اسلام تو اس پھل کی طرح جو تازہ بتازہ ہو ۔ جس کہ کھانے سے لذّت اور خوشی محسوس ہو تی ہے ، مگر اب ان لوگوں نے وہ حالت کر دینی چاہی ہے جیسے ایک سڑا ہو پھل ہو۔ جس کی عفونت دماغ کو خراب کر دے ۔ خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کہ موافق اسلام کو تازہ ہی رکھا ہے اور اس لیے بجُزہمارے کوئی دوسرا اس کو پیش نہیں کرسکتا آج اسلام کو وہی کامیاب کر سکتا ہے جو بیان کرتے کرتے مسیح قبرتک پہنچادے ۔
پھر اسی سلسلہ میں فرمایاکہ :
خدا تعالیٰنے جو براہین میں وعدہ کیا تھا
ینصرک اللہ فی مواطن ۔
یعنی اللہ بہت سے میدانوں میں تیری مددکرے گا ۔اب تک جس قدر میدان ہمارے سامنے آئے خداتعالیٰ نے فتح دی ۔ ۱؎
۱؎ الحکم جلد ۶ نمبر ۲۸ صفحہ ۴ پرچہ ۱۰ ؍اگست ۱۹۰۲؁ء
۸ ؍اگست۱۹۰۲؁ء کی شام
امریکہ کے ڈاکٹر ڈوئی کے نام حضرت مسیح موعود ؑ کی چٹھی کا خلاصہ
حضرت اقدس علیہ السّلام نے مولوی مُحمد علی صاحب کووہ چٹھی دی جو ڈاکٹرڈوئی امریکہ کہ مشہور عیسائی مفتری کے نام لکھی ہے ؛چناچہ وہ چٹھی پڑھ کر سنائی گئی ۔ اس چٹھی کو ہم انشاء اللہ خیر ستمبر۱۹۰۲ ؁ء تک الحکم میں شائع کرنے کے قابل ہو سکیں گئے تاہم حاصل بالمطلب کے طور پر اتنا اب بھی لکھ دیتے ہیں کہ حضرت اقدس ؑ نے اس چٹھی میں ایک عظیم الشان فیصلہ کی بنیاد رکھ دی ے ۔ ہمارے ناظرین اخبار کو غالباًمعلوم ہوگا کہ ڈاکٹر ڈوئی کایہ دعوی ہے کہ وہ عہد نامہ کا رسول ہے ۔وہ الیاس پیغمبر ہے جس کا آنا مسیح سے پہلے ضرو ری تھا اس نے اپنے اخبار میں یہ پیش گوئی کی ہے کہ وہ سلطنت وہ انسان وہ قوم ہلاک ہو جائے گی جو اس کو رسو ل نہیں مانتے اور مسلمانوں کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے اور اس پیشگو ئی میں ہماری گورنمنٹ کو بھی داخل کر لیا ہے اور تمام دنیا کی سلطنتو ں کو شامل کیا ہے ۔
حضرت اقدّسؑ نے اس چٹھی کے ذریعہ ڈاکٹر ڈوئی کو دعوت کی ہے کہ ؛
اب فیصلہ کا طریق آسان ہے۔ اس قدر مسلمان کے ہلاک کرنے کی ضرورت نہیں ،کیو نکہ مسیح موعو د ؑ جس کاڈاکٹر ڈو ئی انتظار کرتا ہے آگیا ہے وہ میں ہوں۔پس میرے ساتھ مقابلہ کرکے یہ فیصلہ ہو سکتا ہے کہ کون کاذب اور مفتری ہے ۔ڈاکٹر ڈوئی اپنے مریدوں میںسے ایک ہزار آدمی کے دستخط دیگرایک قسم اس طرح شائع کر دے کہ ہم دونوں میں سے جو کاذب اور مفتری ہے وہ راست باز اور صادق سے پہلے ہلاک ہو جاوے۔پس پھر کاذب کی موت خود ایک نشان ہو جاوے گا ۔
یہ خلاصہ اس چٹھی کا جس میں اور بھی بہت سے حقائق ہیں ۔حضرت اقدسؑ نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہمیشہ کے لئے ثابت کر دیا جاوے کہ یہ غلط خیال ہے کہ تلوار کبھی مذہب کا فیصلہ نہیں کر سکتی ہے یعنی مسئلہ جہاد پر روشنی ڈالی ہے اور اس کے ضمن میں حضرت مسیح کی موت اور آپ کی قبر پر بحث کی ہے ۔اور ان واقعات کی بناء پر جو انجیل میں درج ہوئے ہیں ثابت کیا ہے کہ وہ صلیب پر نہیں مرے،بلکہ وہاں سے بچ کر نکل کھڑے ہوئے اور کشمیر میں آکر فوت ہوئے ۔
اس چٹھی کے ختم کرنے کے بعد مولوی عبد اللہ صاحب کشمیری نے ایک فارسی نظم غازیؔدگولڑیؔکے جواب میں پڑھی جو دوسری جگہ درج ہے ۔پھر مولوی جمال الدینصاحب سیکھواں والے نے ایک پنجابی نظم تصدیق المسیح میں جو سوہل کے خیاطوں کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہے ۔پڑھ کر سنائی جس میں حضرت حجۃاللہ کی صداقت کا معیار آپ کی عظیم الشان کامیابیاں اور دشمنوں کی نامرادیاں مذکور تھیں ۔ان نظموں کے پڑھے جانے کے بعد نماز عشاء ادا کی گئی ۔
۹؍اگست ۱۹۰۲ ؁
قیصر کی تاج پوشی
سیر میں مختلف تذکروں کے بعد قیصرِ ہند کے تاجپوشی کا ذکر آیا۔فرما یا کہ :
رعیّت کے بڑی خوش قسمتی ہے کہ شاہ ایڈ ورڈ ہفتم ہندو ستان کے سر پرست ہوئے ۔میری رائے تو یہ ہے کہ نوجوان بادشاہ کی نسبت بوڑھا بادشاہ رعایا کے لئے بہت ہی مفید ہو تا ہے ۔کیو نکہ نو جو ان اپنے جذبات اور جو ش کے نیچے کبھی کبھی رعایا کے حقوق اور نگہداشت کے طریقوں میں فرد گذاشت کر بیٹھتا ہے ،مگر عمر رسیدہ بادشاہ اپنی عمر کے مختلف حصّوں میں گذر جانے کے باعث تجربہ کار ہو تا ہے ۔اس کے جذبات دبے ہوئے ہو تے ہیں ۔خدا کا خوف اس کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے ۔اس لئے وہ رعایا کے لئے بہت ہی مفید اور خیر خواہ ہو تا ہے ۔
۹؍اگست ۱۹۰۲ ؁ ء کی شام
حضرت اقدس نمازمغرب سے فارغ ہو کر حسب معمول بیٹھ گئے ۔تھو ڑی دیر کے بعد کپور تھلہ سے آئے ہوئے دو تین احباب نے بیعت کی بیعت کے بعد ایک صاحب کی نسبت عرض کیا گیا یہ قاری ہیں آپ نے فرمایا کچھ سناؤ ۔چناچہ انہو ں نے حضرت اقدس کے ارشاد کے موافق سورۃ مریم کا ایک رکوع نہایت ہی عمدہ طور پر پڑھ کر سنایا۔اس کے بعد قاری صاحب سے حضرت اقدس معمو لی ر دریافت فر ماتے ہیں ۔زاں بعد قاری صاحب نے عرض کی کہ حضور بہت عرصہ سے مجھے اس امر کا اشتیاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت مجھے ہو جاوئے ۔اس لئے آپ کوئی وظیفہ مجھے بتا دیجئے کہ ایک جھلک ہو جاوے اس پر حضر اقدس نے فرمایا ؛
زیارت ِرسُول صلی اللہ علیہ وسلّم
دیکھو آپ نے میری بیعت کی ۔جو شخص بیعت میں داخل ہو تا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان مقاصد کو مدّنظر رکھے جو بیعت سے ہیں ۔یہ امُور کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہوجاوے ۔ اصل منشاء اور مدّعات دُور ہیں ۔انسان کا اصل منشاء یہ ہر گز نہیں ہونا چاہئیے قرآن شریف میں بھی یہ اصل مقصد نہیں رکھا گیا ، فرمایا ہے
‏Aamira 12-03-05
ان کنتم تحبون اﷲ فا تبعونی یحببکم اﷲ (آلِ عمران : ۳۲)
اصل غرض رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سچی اتباع ہے۔ جب انسان آپ کی اتباع میں کھویا جاتا ہے، تو ایسا بھی ہو جاتا ہے۔ ضمناً زیارت بھی ہو جاوے۔جیسے کوئی میزبان کسی کی دعوت کرتا ہے، تو وہ اس کے لیے عمدہ کھانے لاتا ہے، لیکن ان کھانوں کے ساتھ وہ ایک دسترخوان بھی لے آتا ہے۔ ہاتھ بھی دھلائے جاتے ہیں، حالانکہ اصل مقصد تو کھانا ہوتا ہے۔اسی طرح پر جو شخص رسول اﷲﷺ کی سچی اتباع کرتا ہے۔ وہ اس کو اپنا مقصد ٹھہراا ہے۔اس کے ساتھ آپ کی زیارت کا ہو جانا بھی کسی وقت ممکن ہے۔ دیکھو بہت سے لوگ یہاں جو بیعت کرنے کے لیے آتے ہیں وہ مجھے دیکھتے ہیں۔لیکن اگر ان میں وہ تبدیلی جو میری اصل غرض ہے اور جس کے لیے میں بھیجا گیا ہوں،نہیں ہوتی تو میرے دیکھنے سے اُن کو کیا فائدہ ہوا۔
اس طرح خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ شخص بڑا ہی بدبجت ہے اور اس کی کچھ بھی قدر اﷲ تعالیٰ کے حضور نہیں جس نے گو سارے انبیاء علیہم السلام کی زیارت کی ہو، مگر وہ سچا اخلاص وفاداری اور خدا تعالیٰ پر سچا ایمان خشیت اﷲ اور تقویٰ اس کے دل میں نہ ہو۔ پس یاد رکھو بری زیارتوں سے کچھ نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ نے جو پہلی دعا سکھلائی ہے
اھد نا الصراط المستقیم صرا ط الذین انعمت علیہم (الفاتحہ : ۶،۷)
اگر اﷲ تعالیٰ کا اصل مقصود زیارت ہوتا تو وہ اھدنا کی جگہ ارناصور الذین انعمت علیہم کی دعا تعلیم فرماتا۔ جو نہہیں کیا گیا۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی میں دیکھ لو کہ آپ نے کبھی یہ خواہش نہیں کی کہ مجھے ابراہیم علیہ السلام کی زیارت ہو جاوے۔گو آپ کو معراج میں سب کی زیارت بھی ہو گئے۔ پس یہ امر مقصود بالذات ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔اصل مقصد سچی اتباع ہے۔
سورۃ فاتحہ کی دعا
چونکہ سورہ فاتحہ کا ذکر تھا۔ آپ نے فرمایا کہ :
اس میں تین گروہوں کا ذکر ہے۔ اوّل متعم علیہم۔دوم مغضوب، سوم ضالین۔مغضوب سے مراد بالاتفاق یہود ہیں اور ضالین سے نصاریٰ۔اب تو سیدھی بات ہے کہ کوئی دانشمند باپ بھی اپنی اولاد کو وہ تعلیم نہیں دیتا جو اس کے لیے کام آنے والی نا ہو۔ پھر خدا تعالیٰ کی نسبت یہ کیونکر روارکھ سکتے ہیں کہ اس نے ایسی دعا تعلیم کی ہے کہ جو پیش آنے والے امور نے تھے؟ نہیں بلکہ یہ امور سب واقعہ ہونے والے تھے۔ مغضوب سے مراد یہود ہیں اور دوسری طرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اُمّت کے بعض لوگ یہودی صفت ہو جائیں گے۔یہانتک کہ ان سے تشبہ اختیار کریں گے کہ اگر یہودی نے ماں سے زنا کیا ہو تو وہ بھی کریں گے۔ اب وہ یہودی جو خدا تعالیٰ کے عذاب کے نیچے آئے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے اُن پر *** پڑی تھی۔ اس سے صاف پایا جاتا ہے کہ مسیح موعود کے زمانہ میں یہ سب واقعات پیش آئیں گے۔ وہ وقت اب آگیا ہے۔ میری مخالفت میں یہ لوگ ان سے یک قدم بھی پیچھے نہیں رہے۔
رشوت کی تعریف
اس کے بعد حضرت مولانا نورالدین صاحب نے عرض کی کہ حضور ایک سوال اکثر آدمی دریافت کرتے ہیں کہ اُن کو بعض وقت ایسے واقعات پیش آتے ہیں کہ جبتک وہ کسی اہلکار وغیرہ کو کچھ نہ دین۔اُن کا کام نہیں ہوتا اور وہ تباہ کر دئیے جاتے ہیں۔فرمایا :
میرے نزدیک رشوت کی یہ تعریف ہے کہ کسی کے حقوق کو زائل کرنے کے واسطے یا نا جائز طور پر گورنمنٹ کے حقوق کو دبانے یا لینے کے لیے کوئی مابہ الا حتظاظ کسی کو دیا جائے، لیکن اگر ایسی صورت ہو کہ کسی دوسرے کا اس سے کوئی نقصان نہ ہو اور نہ کسی دوسرے کا کوئی حق ہو صرف اس لحاظ سے کہ اپنے حقوق کی حفاظت میں کچھ دے دیا جاوے تو کوئی حرج نہیں اور یہ رشوت نہیں،بلکہ اس کی مثال ایسی ہے کہ ہم راستہ پر چلے جاویں اور سامنے کوئی کتا آجاوے تو اس کو ایک ٹکڑا روٹی کا ڈال کر اپنے طور پر جاویں اور اس کے ظر سے محفوظ رہیں۔
استفتاء قلب
اس پر حضرت حکیم الامت نے عرض کی کہ بعض معاملات اس قسم کے ہوتے ہیں کہ پتہ ہی نہیں لگتا کہ اصل میں حق پر کون ہے۔ فرمایا :
ایسی صورتوں میں استفتاء قلب کافی ہے۔ اس میں شریعت کا حصہ رکھا گیا ہے۔میں نے جو کچھ کہا ہے اس پر اگر زیادہ غور کی جاوے تو امید ہے قرآن شریف سے بھی کوئی نص مول جاوے۔
بعد نماز عشاء حضور تشریف لے گئے۔
۱۰ ؍اگست ۱۹۰۲ء؁
۱۰؍اگست کی سیر میں شیعوں کے لاہوری مجتہد سید علی حائری کے دوسرے اشتہار یا رسالہ کا تذکرہ تھا۔جس میں علی حائری نے لغو اور بے معنی طریق پر حضرت امام حسین کی فضیلت کو کل انبیاء ؑ پر ثابت کرنے کی بالکل کوشش بیہودہ کی ہے۔اور ضمناً اس امر پر بھی ذکر ہوا کہ ہمارے مخالفین مکذبین کا جو انجام ہوا ہے۔وہ ایک زبردست نشان ہے۔مثلاً غلام دستگیر کا اپنی کتاب میں مباہلہ کرنا اور پھر اس کے چند روز بعد مرجاتا۔یا مولوی اسماعیل علیگڑھی کا مباہلہ کرنا اور ہلاک ہونا۔ایسا ہی لدھیانہ کے اول المکذبین مولوی عبدالعزیز کا تباہ ہونا یا دوسرے مخالفوں کا مختلف اذیتوں اور تکلیفوں میں مبتلا اور اس سلسلہ کا کامیاب اور با مراد ہونا یہ عظیم الشان نشان ہے۔
سچا سُکھ
پھر باتوں ہی باتوں میں جناب نواب صاحب نے ذکر کیا کہ ایک شخص سے میں نے کہا کہ مومن ہی دنیا و آخرت میں سچا س۲کھ پاتا ہے۔ جس پر وہ شخص کہنے لگا۔ کہ پھر سب سے بڑے مومن تو انگریز ہیں۔اس پر حضرت حجۃاﷲ نے جو کچھ فرمایا۔اس کا خلاصہ وہ عنوان ہے جو ہم نے ا س نوٹ کے حاشیہ میں لکھ دیا ہے۔حضرت اقدسؑ نے فرمایا۔کہ
یہ بات غلط ہے کہ سچا سکھ یا راحت کفار کو حاصل ہے۔ان لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ یہ لوگ شراب جیسی چیزوں کے ایسے غلام ہیں اور اُن کے حوصلے کیسے پست ہیں۔اگر اطمینان اور سکینت ہو تو پھر خود کشیاں کیوں کرتے ہیں۔ایک مومن کبھی خودکشی نہیں کر سکتا۔جیسے شراب اور دوسرے نشہ بظاہر غم غلط کرنے والے مشہور ہیں۔اسی طرح سب سے بہتر غم غلط کرنے والا اور راحت بخشنے والا سچا ایمان ہے۔یہ مومن ہی کے لیے ہے۔
ولمن خاف مقام ربہ جنتن۔(الرحمان :۴۷)
مخلوق پ رست دانشمند کہاں !
حضرت امام حسین کی فضیلت کے دلائل یا دعادی جو سید علی حائری نے بیان کیے ہیں۔اُن کے تذکرے پر حضرت اقدس نے ایک موقعہ پر فرمایا۔کہ :
مخلوق پرست کبھی دانشمند نہیں ہو سکتے۔اور اب تو زمانہ بھی ایسا آگیا ہے۔علمی تحقیقات اور ایجادوں نے خود دلوں پر ایک اثر کیا ہے اور لوگ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ یہ خیالی امور ہیں۔؎ٰ
۱۰،۱۱؍اگست ۱۹۰۲ء؁
ایک قریشی صاحب کئی روز سے بیمار ہو کر دار الامان میں حضرت حکیم الامت کے علاج کے لیے آئے ہوئے ہیں۔اُنہوں نے متعدد مرتبہ حضرت حجۃاﷲ کے حضور دعا کے لیے التجاء کی۔آپ نے فرمایا :
’’ہم دعا کریں گے‘‘
تیمارداری
۱۰؍اگست کی شام کو اس نے بذریعہ حضرت حکیم الامت التماس کی کہ میں حضور مسیح موعود کی زیارت کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں، مگر پائوں کے متورّم ہونے کی وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتا۔حضرت نے خود اا؍اگست کو اُن کے مکان پر جا کر دیکھنے کا وعدہ فرمایا؛ چنانچہ وعدہ کے ایفاء کے لیا آپ سیر کو نکلتے ہی خدام کے حلقہ میں اس مکان پر پہنچے جہاں وہ فروکش تھے۔آپ کچھ دیر تک مرض کے عام حالات دریافت فرماتے رہے۔زاں بعد بطور تبلیغ فرمایا : کہ
قبولیتِ دعا کی شرط
میں نے دعا کی ہے، مگر اصل بات یہ ہے کہ نری دعائیں کچھ نہیں کر سکتی ہیں۔جبتک اﷲ تعالیٰ کی مرضی اور امر نہ ہو۔دیکھو اہل حاجت لوگوں کو کس قدر تکالیف ہوتی ہیں۔مگر حاکم کے ذرا کہہ دینے اور توجہ کرنے سے وہ دور ہو جاتی ہیں۔اسی طرح پر اﷲ تعالیٰ کے امر سے سب کچھ ہوتا ہے۔ میں دعا کی قبولیت کو اس وقت محسوس کرتا ہوں۔جب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے امر اور اذن ہو،کیونکہ اس ادعونی تو کہا ہے مگر استجب لکم بھی ہے۔
یہ ضروری بات ہے کہ بندہ اپنی حالت میں ایک پاک تبدیلی کرے اور اندر ہی اندر خدا تعالیٰ سے صلح کر لے اور یہ معلوم کرے کہ وہ دنیا میں کس غرض کے لیے آیا ہے۔اور کہاں تک اس غرض کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔جبتک انسان اﷲ تعالیٰ کو سخت ناراض نہیں کرتا۔اس وقت تک کسی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتا۔لیکن اگر انسان تبدیلی کرے۔تو خدا تعالیٰ پھر رجوع برحمت کرتا ہے۔اس وقت طبیب کو بھی سوجھ جاتی ہے۔خدا تعالیٰ پر کوئی امر مشکل نہیں،بلکہ اس کی تو شان ہے۔
انما امرہ اذا ارا دا شیئا ان یقول لہ کن فیکون (یٰس : ۸۳)
ایک بار میں نے اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک ڈپٹی انسپکٹر پنسل سے ناخن کا میل نکال رہا تھا۔ جس سے اس کا ہاتھ ورم کر گیا۔آخر ڈاکٹر نے ہاتھ کاٹنے کا مشورہ دیا۔اس نے معمولی بات سمجھی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ہلاک ہو گیا۔اسی طرح ایک دفعہ میں نے پنسل کو ناخن سے بنایا۔دوسرے دن جب میں سیر کو گیا،تو مجھے اس ڈپٹی انسبکٹر کا خیال آیا اور ساتھ ہی میرا ہاتھ ورم کر گیا۔میں نے اسی وقت دعا کی اور الہام ہوا۔اور پھر دیکھا تو ہاتھ بالکل درست تھا۔اور کوئی ورم یا تکلیف نہ تھی۔غرض بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جب اپنا فضل کرتا ہے،تو کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی ،مگر اس کے لیے ضروری شرط ہے کہ انسان اپنے اندر تبدیلی کرے۔پھر جس کو وہ دیکھتا ہے کہ یہ نافع وجود ہے،تو اس کی زندگی میں ترقی دے دیتا ہے۔ہماری کتاب میں اس کی بابت صاف لکھا ہے
واما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (الرعد : ۱۸)
ایسا ہی پہلی کتابوں سے پایا جاتا ہے۔ حزقئیل نبی کی کتاب میں درج ہے۔
انسان بہت بڑے کام کے لیے بھیجا گیا ہے، لیکن جب وقت آتا ہے اور وہ اس کام کو پورا نہیں کرتا۔تو خدا اس کا تمام کام کر دیتا ہے۔خادم کو ہی دیکھ لو کہ جب وہ ٹھیک کام نہیں کرتا،تو آقا اس کو الگ کر دیتا ہے۔پھر خدا تعالیٰ اس وجود کو کیونکر قائم رکھے،جو اپنے فرض کو ادا نہیں کرتا۔
ہمارے مرزا صاحب پچاس برس تک علاج کرتے رہے۔اُن کا قول تھا کہ اُن کو کوئی حکمی نسخہ نہیں ملا۔سچ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے اذن کے بغیر ہر ایک ذرہ جو انسان کے اندر جاتا ہے کبھی مفید نہیں ہو سکتا۔توبہ واستغفار بہت کرنی چاہیے۔تا خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے۔ جب خدا تعالیٰ کا فضل آتا ہے،تو دعا بھی قبول ہوتی ہے۔خدا نے یہی فرمایا ہے کہ دعا قبول کروں گا۔اور کبھی کہا کہ میری قضاء و قدر مانو۔اس لیے میں تو جب تک اذن نہ ہو لے کم امید قبولیت کی کرتا ہوں۔بندہ نہایت ہی ناتواں اور بے بس ہے۔پس خدا کے فضل پر نگاہ رکھنی چاہیے۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
حکام اور برادری سے سلوک
چوہدری عبد اﷲ خاں صاحب نمبردار بہلول پور نے سسوال کیا کہ حکام اور برادری سے کیا سلوک کرنا چاہیے۔
ہماری تعلیم تو یہ ہے کہ سب سے نیک سلوک کرو۔حکام کی سچی اطاعت کرنی چاہیے کیونکہ وہ حفاظت کرتے ہیں۔جان اور مال اُن کے ذریعہ امن میں ہیں اور برادری کے ساتھ بھی نیک سلوک اور برتائو کرنا چاہیے کیونکہ برادری کے بھی حقوق ہیں؛البتہ جو متقی نہیں اور بدعات و شرک میں گرفتار ہیں اور ہمارے مخالف ہیں ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے؛تا ہم اُن سے نیک سلوک کرنا ضرور چاہیے۔ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو۔جو دنیا میں کسی سے نیکی نہیں کر سکتا،وہ آخرت میں کیا اجرلے گا۔اس لیے سب کے لیے نیک اندیش ہونا چاہیے۔ہاں مذہبی امور میں اپنے آپ کو بچانا چاہیے۔جس طرح پر طبیب ہر مریض کی خواہ ہندو ہو یا عیسائی یا کوئی ہو سب کی تشخیص اور علاج کرتا ہے۔اسی طرح پر نیکی کرنے میں عام اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں کفار کو قتل کیا گیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی شرارتوں اور ایذارسانیوں سے بہ سبب بلاوجہ قتل کرنے مسلمانوں کے مجرم ہو چکے تھے۔اُن کو جو سزا مجرم ہونے کی حیثیت سے تھی۔محص انکار اگر سادگی سے ہو اور اس کے ساتھ شرارت اور ایذارسانی نہ ہو ،تو وہ اس دنیا مین عذاب کا موجب نہیں ہوتا۔
رشوت
رشوت ہر گز نہیں دینی چاہیے۔یہ سخت گناہ ہے،مگر میں رشوت کی یہ تعریف کرتا ہوں کہ جس سے گورنمنٹ یا دوسرے لوگوں کے حقوق تلف کیے جاویں۔میں اس سے سخت منع کرنا ہوں۔لیکن ایسے طور پر بطور نذرانہ یا ڈالی اگر کسی کو دی جاوے۔جس سے کسی کے حقوق کے اتلاف مدنظر نہ ہو،بلکہ اپنی حق تلفی اور شر سے بچنا مقصود ہو۔تو یہ میرے نزدیک منع نہیں ہے۔اور میں اس کا نام رشوت نہیں رکھتا۔کسی کے ظلم سے بچنے کو شریعت منع نہیں کرتی،بلکہ۔
لا تلقو ابایدیکم الی التھلکۃ۔(البقرہ : ۱۹۶)
فرمایا ہے۔
خدا تعالیٰ کی آزمائش نہ کرو
خان صاحب نواب خاں صاحب جاگیردار مالیر کوٹلہ نے ایک شخص کا ذکر کیا کہ وہ ارادت کا اظہار کرتا ہے۔مگر چاہتا ہے کہ اس کی توجہ نماز کی طرف ہو جائے۔فرمایا :
یہ لوگ خدا تعالیٰ سے ایسی شرطیں کیوں کرتے ہیں۔پہلے خود کوشش کرنی چاہیے۔قرآن میں ایاک نعبد مقدم ہے۔خدا تعالیٰ پر کسی کا حق واجب نہیں۔اگر وہ خود کوشش کرنا چاہتے ہیں،تو مہینے تک یہاں آکر رہیں۔خدا نے فرمایا ہے۔
کونو امع الصادقین (التوبہ : ۱۱۹)
یہاں وہ نماز پڑھنے والوں کو دیکھیں گے۔باتیں سنیں گے۔
خدا تعالیٰ تو غنی ہے۔ اگر ساری دنیا اُس کی عبادت نہ کرے تو اس کو کیا پروا ہے۔ہزاروں موتیں انسان قبول کرے تو خدا کو خوش کرسکتا ہے۔خدا تعالیٰ کی آزمائش نہ کرو یہ اچھا طریق نہیں۔
حدیث
حدیثیں دو قسم کی ہیں۔اوُل وہ جوصراحتاً بلا تاویل ہماری ممد اور معاون ہیں۔جیسے اما مکم منکم۔فامکم منکم۔لامھدی الا عیسیٰ وغیرہ۔اور دوم کچھ اس قسم کی ہیں۔جو ہمارے مخالف پیش کرتے ہیں۔ان میں سے بعض تو ایسی ہیں کہ ذرا سی توجہ سے ان کا مضمون اور مفہوم ہمارے مطابق ہو جاتا ہے اور بعض بالکل محرف و مبدل قرآن شریف کے خلاف اقوالِ مر دودَہ ہیں۔ہم اُن کو رد کر دیں گے۔
خدا تعالیٰ کی آواز تو ہمیشہ آتی ہے،مگر مردوں کی نہیں آتی۔اگر کہیں کسی مردے کی آواز آتی ہے تو خا کی معرفت۔یعنی خدا تعالیٰ کوئی خبر اُن کے متعلق دے دیتا ہے۔اصل یہ ہے کہ کوئی ہو خواہ نبی ہو یا صدیق یہ حال ہے۔ کہ آنراکہ خبر شد خبرش بازنیامد۔اﷲ تعالیٰ ان کے درمیان اور اہل و عیال کے درمیان ایک حجاب رکھ دیتا ہے۔وہ سب تعلق قطع ہو جاتے ہیں۔اسی لیے فرمایا ہے :
فلا انساب بینہم (المومنون : ۱۰۲)
کہف والا قصہ ہماری راہ میں نہیں۔اگر خدا تعالیٰ نے اُن کو سلایا ہو اور پھر جگایا ہو،تو ہمارا کوئی حرج نہیں۔مسیح کی وفات سے اس کو کیا تعلق؟ مسیح کے لیے کہاں رقود آیا ہے۔
فضیلت کا مسئلہ
امام حسین ؑ پر میری فضیلت کا ذکر سنکر یونہی غصہ میں آتے ہیں۔قرآن نے کہاں امام حسین کا نام لیا ہے۔زیدؓکا ہی نام لیا ہے۔اگر ایسی ہی بات تھی تو چاہیے تھا کہ حسین کا نام بھی لے دیا جاتا۔اور پھر ماکان محمد ابا احدمنرجالکم کہہ کر اور بھی ابوت کا خاتمہ کر دیا۔اگر الاحسین کہہ دیا ہوتا تو شیعہ کا ہاتھ پڑسکتا تھا۔اصل یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام ان باتوں سے لا پروا ہوتے ہیں۔اُن کی تمنّا بھی یہ نہ تھی؛ ورنہ اﷲ تعالیٰ نبیوں کی تمنّا بھی پوری کر دیتا ہے۔
مخالفین سے معانقہ
قبل از نماز ظہر حضرت اقدس ؑ سے دریافت کیا گیا کہ عیسائیوں کے ساتھ کھانا اور معانقہ کرنا جائز ہے؟ فرمایا :
میرے نزدیک ہر گز جائز نہیں یہ غیرت ایمانی کے خلاف ہے۔وہ لوگ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور ہم اُن سے معانقہ کریں۔قرآن شریف ایسی مجلسوں میں بیٹھنے سے بھی منع فرماتا ہے جہاں اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر ہنسی اُڑائی جاتی ہے اور پھر یہ لوگ خنزیر خور ہیں۔اُن کے ساتھ کھانا کھانا کیسے جائز ہو سکتا ہے۔اگر کوئی شخص کسی کی ماں بہن کو گالیاں دے،تو کیا وہ روارکھے گا کہ اس کے ساتھ مل کر بیٹھے اور معانقہ کرے۔پھر جب یہ بات نہیں اﷲ اور اس کے رسولؐ کے دشمنوں اور گالیاں دینے والوں سے کیوں اس کو جائز رکھا ہے۔
۱۱؍اگست ۱۹۰۲ء؁
آنحضرتؐاور آپ کے صحابہؓکی فضیلت مسیحؑ اور اُن کے حواریوں پر
بعد ادائے نماز مغرب حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام معمول کے موافق خدام کے حلقہ میں بیٹھ گئے اور فرمایا کہ :
قرآن شریف کے ایک مقام پر غور کرتے کرتے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی عظمت اور کامیابی معلوم ہوئے۔جس کے مقابل میں حضرت مسیحؑ بہت ہی کمزور ثابت ہوتے ہیں۔سورئہ مائدہ میں ہے کہ نزولِ مائدہ کی درخواست جب حواریوں نے کی تو وہاں صاف لکھا ہے کہ
قالو انزید ان ناکل منھا و تطمئن کلو بنا ونعلم ان قد صد قتنا ونکون علیھا من الشاھدین
(المائدہ : ۱۱۴)
اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے جس قدر معجزات مسیح کے بیان کئے جاتے ہیں اور جو حواریوں نے دیکھے تھے۔ان سب کے بعد اُن کا یہ درخواست کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اُن کے قوب پہلے مطمئن نہ ہوئے تھے۔ورنہ یہ الفاظ کہنے کی اُن کو کیا ضرورج تھی۔و تطمئن کلو بنا ونعلم ان قد صد قتنا۔مسیح کی صداقت میں بھی اس سے پہلے کچھ شک ہی ساتھا۔اور وہ اس جھاڑ پھونک کو معجزہ کی حد تک نہیں سمجھتے تھے۔اُن کے مقابلہ میں صحابہ کرامؓ ایسے مطمئن اور قوی الایمان تھے کہ قرآن شریف نے ان کی نسبت
رضی اللہ عنہم ورضواعنہ (البینۃ :۹)
فرمایا۔اور یہ بھی بیان کیا کہ اُن پر سکینت نازل فرمائی۔یہ آیت مسیح علیہ السلام کے معجزات کی حقیقت کھولتی ہے۔اور رسولاﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت قائم کرتی ہے۔صحابہ کا کہیں ذکر نہیں کہ اُنہوں نے کہا کہ ہم اطمینانِ قلب ثاہتے ہیں،بلکہ صحابہ کا یہ حال کہ اُن پر سکینت نازل ہوئے۔اور یہود کا یہ حال
یعرفونہ کما یعرفون ابنائھم (البقرہ :۱۴۷)
ان کی حالت بتائی۔یعنی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت یہانتک کھل گئے تھی کہ وہ اپنے بیٹوں کی طرح شناخت کرتے تھے اور نصاریٰ کا یہ حال کہ ان کی آنکھوں سے آپ کو دیکھیں تو آنسو جاری ہو جاتے تھے۔یہ مراتب مسیح کو کہاں نصیب!
اس پر عرض کیا گیا کہ حضور! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی احیائے موتی کی کیفیت کے متعلق اطمینان چاہا تھا۔کیا اُن کو بھی پہلے اطمینان نہ تھا؟ فرمایا :
انبیاء تلامیذالرحمٰن ہوتے ہیں،اُن کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے
اصل بات یہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اﷲ تعالیٰ کے مکتب میں تعلیم پانے والے ہوتے ہیں اور تلامیذالرحمٰن کہلاتے ہیں۔اُن کی ترقی بھی تدریجی ہوتی ہے۔اس لیے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے قرآن شریف میں آیا ہے۔
کذلک لنثبت بہ فئوادک ور تلنہ ترتیلا۔ (الفرقان : ۳۳)
پس میں اس بات کو خوب جانتا ہوں کہ انبیاء علیہم السلام کی حالت کیسی ہوتی ہے۔جس دن نبی مامور ہوتا ہے اُس دن اور اُس کی نبوّت کے آخری دن میں ہزاروں کوس کا فرق ہو جاتا ہے۔پس یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسا کہا۔ابراہیم ؑ تو وہ شخص ہے۔جس کی نسبت قرآن شریف نے خود فیصلہ کر دیا ہے۔
ابراھیم الذی وفی (النجم : ۳۸)
واذابتلیٰ ابراھیم ربہ بکلمت فاتمھن۔ (البقرہ : ۱۲۵)
پھر یہ اعتراض کس طرح پر ہو سکتا ہے۔
کیا ایک بچہ مثلاً مبارک(سلمہٗ ربہٗ) جو آج مکتب میں بٹھایا وہ ایم اے۔بی اے کا مقابلہ کر سکتا ہے۔اسی طرح انبیاء کی بھی حالت ہوتی ہے کہ ان کی ترقی تدریجی ہوتی ہے۔دیکھو براہینؔ احمدیہ میں باوجودیکہ خدا تعالیٰ نے وہ تمام آیات جو حضرت مسیحؑ سے متعلق ہیں میرے لیے نازل کی ہیں اور میرا ہام مسیح رکھا اور آدم۔دائود۔سلیمان غرض تمام انبیاء کے نام رکھے،مگر مجھے معلوم نہ تھا کہ میں ہی مسیح موعود ہوں جبتک خود اﷲ تعالیٰ نے اپنے وقت پر یہ راز نہ کھول دیا۔حواریوں نے جو اطمینانِ قلب چاہا ہے وہ ان سب نشانات کے بعد ہے جو وہ دیکھ چکے تھے،اس لیے وہ اعتراض کے تیچے ہیں کہ ان کو ضرور شک تھا۔
آیت فلما توفیتنی نصّ ہے مسیحؑ کے عدم نزول پر
اس کے بعد امریکہ کے مشہور کاذب اور مفتری ڈاکٹر ڈوئی کے اخبار کا خلاصہ برادر مفتی محمد صادق صاحب نے پڑھ کر سنا یا۔اُس کے سننے کے بعد حضرت حجۃاﷲ نے پھر ذکر کیا کہ :
فلما توفیتنی (المائدہ : ۱۱۸)
سورئہ مائدہ کی آیت پر آج پھر غور کرتے ہوئے ایک بئے بات معلوم ہوئے۔اور وہ یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ حضرت مسیح سے یہ سوال ہوا کہ کیا تو نے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو الہٰ بنالو تو وہ اپنی پریت کے لیے جواب دیتے ہیں کہ میں نے تو وہی تعلیم دی تھی جو تو نے مجھے دی تھی اور جبتک میں اُن میں رہا،اُن کا نگران تھا اور جب تو نے مجھے وفات دے دی۔تو تُو اُن پر نگران تھا۔اب صاف ظاہر ہے کہ اگر حضرت مسیحؑ دوبارہ دنیا میں آئے تھے۔اور یہ سوال ہوا تھا قیامت میں تو اس کا یہ جواب نہیں ہونا چاہیے تھا۔بلکہ اُن کو تو یہ جواب دینا چاہیے تھا کہ ہاں بیشک میرے آسمان پراٹھائے جانے کے بعد اُن میں شرک پھیل گیا تھا،لیکن پھر دوبارہ جا کر تو میں نے صلیبوں کو توڑا۔فلاں کافر کو مارا۔اُسے ہلاک کیا،اُسے تباہ کیا۔نہ یہ کہ وہ یہ جواب دیتے۔
وکنت علیہم شھید اما دمت فیھم۔ (المائدہ :۱۱۸)
اس جواب سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کو ہر گز ہر گز خود دنیا میں نہیں آنا ہے اور یہ نصّ ہے اُن کے عدم نزول پر۔
۱۲؍اگست ۱۹۰۲ء؁
(بوقت شام)
حضرت جریاﷲ فی حلل الانبیاء علیہ الصوٰۃ والسلام ادائے نماز کے بعد جلوس فرما ہوئے۔فرمایا کہ :
چونکہ یہ کتاب نزول المسیح تمام مسائل کی جامع کتاب بنانی چاہتا ہوں۔ اس لیے میرا ارادہ ہے کہ ہمارے چند احباب میری کتابوں کے مضامین کی ایک ایک فہرست بنادیں ،تا کہ مجھے معلوم ہو جاوے کہ کون کون سے مضامین اس میں آچکے ہیں۔
اس کے بعد ایڈیٹر الحکم نے الحکم کا وہ نمبر پیش کیا جو ۲۴؍ جولائی ۱۹۰۱ء؁ کا چھپا ہوا ہے اور جس میں حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے ایک خط مولوی عبدالرحمٰن صاحب لکھو کے والے کے نام حضرت حجۃاﷲ المسیح الموعود کے ایماء سے لکھا تھا اور جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر تو حضرت اقدس کے بر خلاف نام لیکر کوئی مخالف الہام پیش کریگا، تو ہلاک ہو جاوے گا۔غرض وہ مضمون ناظرین الحکم پڑھ چکے ہیں۔ اعادہ کی ضرورت نہیں۔
مولوی عبداﷲ چکڑالوی کے خلاف وجوہ کفر
اس کے بعد حضرت مولانا مولوی عبدالکریم صاحب نے عرض کی کہ مولوی محمد حسین صاحب کا ایک رسالہ آیا ہے۔جس میں چینیاں والی مسجد میں قیامت کے عنوان سے آپ نے ایک مضمون لکھا ہے۔جو مولوی عبداﷲ چکڑالوی کے خلاف ہے۔لکھتے لکھتے ایک مقام پر لکھتا ہے کہ ہم اس کو پرافٹ آف قادیان کے ساتھ ملاتے ہیں۔یعنی کفر کا فتویٰ دیتے ہیں؛چنانچہ اس کے نیچے پھر کفر کا فتویٰ مرتب کیا ہے۔
اس پر حضرت اقدس نے دریافت فرمایا کہ : وجوہ کفر کیا ہیں؟
‏Amira
13-03-05
مولوی چکڑالوی کہتا ہے کہ حدیث کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ حدیث کا پڑھنا ایسا ہے ، جیسے کُتّے کاہڈی کا چسکا ہوسکتاہے اور رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا درجہ قرآن لانے میں اس سے بڑھ کر نہیں جیساکہ ایک چپڑاسی یا مذکو ری کا درجہ پروانہ سرکاری لانے میں ہو تا ہے ۔
حضرت اقدس مسیح مو عو دؑ نے فرمایا :
ایسا کہنا کفر ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بے ادبی کرتاہے ۔احادیث ایسی ہقارت سے نہیں دیکھنا چاہئیے۔کفّار تو اپنے جنتر منتر کو یاد رکھتے ہیں ۔تو کیا مسلمانوں نے اپنے رسولؐ کی باتوںکو یاد نہ رکھا ۔ قرآن شریف کے پہلے سمجھنے والے رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور اس پر آپؐ عمل کرتے تھے اور دوسروںسے عمل کراتے تھے ۔ یہی سنّت ہے کہ اور اسی کو تعامل کہتے ہیں ۔ اور بعد میںاتمہ نے نہایت ہی محنت اور جانفشانی سے اس سنّت کو الفاظ میں لکھااور جمع کیا اور اس کے متعلق تحقیقات اور چھان بین کی ۔ پس وہ حدیث ہوئی دیکھوبخاری اور مسلم کو کیسی محنت کی ہے ۔آخر انھوں نے اپنے باپ دادوں کے احوال تو نہیں لکھے ۔ بلکہ جہاں تک بس چلا صحت وصفائی کے ساتھ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال یعنی سنّت کو جمع کیا اور کثر حدیثوںمثلاً بخا کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس میں برکت اور نورہے ۔ جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں رسُول اللہ کے منہ سے نکلی ہیں۔
امامکم منکم
کی حدیث کیسے صاف ظاہر کتی ہے کہمسیح تم میںسے ہو گا ۔اور یہ عیسائیوں کا ردّہے ۔کیونکہ عیسائی فخر کرتے تھے ۔عیسیٰ پھر آئے گا اور دین عیسوی کو بڑھائے گا ،لیکن آنحضرت ؐ نے سنایا کہ ہم نے اس کو آسمان پر دیگر فوت شدولوگوں میں دیکھا اور پھر فرمایا کہ جوآنے والامسیح ہے وہ
امامکم منکم
ہوگا غرض احادیث کے متعلق ایسا کلمہ نہیں بولنا چاہئیے۔ہاں اس معاملہ میں غلو بھی نہیں کرناچاہئیے کہ اس کو قرآن اور تعامل سے بڑھ کر سمجھاجائے ، بلکہ جو کچھ قرآن اور سنّت کے مطابق حدیث میں ذکر ہو اہے اس کو ماننا چاہئیے ۔کیونکہ جب حدیث کی کتابیں نہ تھیں تب لوگ نمازیں پڑھتے تھے اورتمام شعائر اسلام بجالاتے تھے ۔
پس قرآن شریف کے بعد تعامل یعنی سنّت ہے ۔اور پھر حدیث ہے ۔جو اُن کے مطابق ہو ۔
مولوی محمد حسین نے پہلے اپنے رسالہ اشاعت السنّہ میں ایسا ظاہر کیاتھا کہ جو لوگ خدا سے وہی اور الہام پاتے ہیں وہ اپنے طور پر براہ راست احادیث کی صحّت کر لیتے ہیں بعض وقت قواعد علم حدیث کی روح سے ایک حدیث موضع ہوتی ہے اور ان کے نزدیک صحیح قراردی ہوئی اُن کے نزدیک موضع ۔غرضبات یہ ہے کہ قرآن اور سنّت اور حدیث تین مختلف چیزیںہیں ۔
مولوی محمد حسین صاحب کے متعلق حضرت اقدس کا ایک پرانا خواب
اسکے بعد حضرت اقدس نے اپنا پراناخواب مولوی محمد حسین صاحب کے متعلق بیان فرمایا ۔جو کہ کتاب سراج منیر کے آخر میں درج ہے فرمایا کہ :
یہ بات ۹۴ء ؁ یا ۹۵ء؁ کی ہے جب ہم نے یہ رؤیاء دیکھا تھا کہ ہم نے جماعت کرائی ہے اور نماز عصر کا وقت ہے اور ہم نے قرأت پہلے بلند آواز سے کی ہے پھر ہم کو یاد آیا اور اس کے بعد ہم نے محمد حسین سے کہا کہ ہم خدا کے سامنے جائیں گے ہم چاہتے ہیں ہر بات میں صفائی ہو اگر ہم نے آپ کے متعلق کچھ سخت الفاظ کہے ہوں تو آپ معا ف کردیں ۔ا س نے کہا کہ میں کرتاہوں ۔پھر ہم نے کہا کہ ہم بھی معاف کرتے ہیں ۔ پھر ہم نے دعوت کی اور اسنے عذر ِخفیف کے ساتھ اس دعوت کو قبول کرلیا ۔اور ایک شخص سلطان بیگ نام چبوترہ پر قریب الموت تھا ج۔اور ہم نے کہا کہ ایسا ہی مقدر تھا ۔کہ اس مرنے کے وقت یہ واقعہ ہوا اور ایسا ہی مقدر تھا ۔کہ بہائوالدین کے مرنیکے وقت یہ بات ہو ۔

اس خواب کے بعد فرمایا :
واللہ اعلم بالصواب
خواب میںتعنیات شخصیہ ضروری نہیں ۔
پھر حضرت اقدس ؑ نے مولوی حسین صاحب کے ان دنوں کی حالت کا ذکر کیا ۔جب و ہ بات بات میںخاکساری دکھلاتے تھے اور قدم قدم پر اخلاص ر کھتے تھے اور جوتے اُٹھاکر جھاڑکر رکھتے تھے اور وضوکراتے تھے ۔اور کہتے تھے کہ میں مولویت کو نہیں چاہتا ج۔مجھے اجازت دو ت ومیں قادیان میں آرہاہوں اور فرمایا:کہ
کسی وقت کا خلاص اور خدمت انسان کے کام آجاتاہے ۔ شاید ان وقتوں کاا خلاص ہی ہو جو بالاآخرمولو ی محمد حسین صاحب کو اس سلسلہ کی طرف رجوع کرنے کی توفیقدے ،کیونکہ وہ بہت ٹھوکریں کھاچکے ہیں ۔اورآخر دیکھ چکے ہیں کہ خد ا کے کاموں میں کوئی حارج نہیںہوسکتا ۔فرمایا:کہ
ایساہی اجتہادی طور پر ہمیں بعض لوگوں پر بھی حُسن ظن ہے کہ وہ کسی وقت رجوع کریں ج۔کیونکہ ایک دفعہ الہام ہو اتھا کہ ۔
’’لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں ۔وسوسہ پڑگیا ہے ۔پر مٹی
نظیف ہے ۔ وسوسہ نہیں رہے گا ۔ مٹی رہے گی ۔‘‘
اس کے بعد چند مختلف باتیں ہو کر نماز عشاء ادا کی گئی ۔
۱۳؍ اگست ۱۹۰۲ء؁
نماز مغرب کے بعد حضرت اقدس نے کل تجویز کی تکمیل کے لیے فرمایا :
مخالفین کے لیے اہم اعتراضات جمع کر لینے کا ارشاد
بہت بہتر ہو کہ اگر مخالفین کی کل کتابیں جمع کر کہ اُن کہ اہم اعتراضات کو یکجا کر لیا جاوے ۔
اس کے بعد مولوی عبدالکریم صاحب نے اس چٹھی ے مضمون کا تتمہ پڑھ کر سنایا جو امریکہ کے مشہور کاذب مفتری الیاس ڈاکٹر ڈوئی کے نام کامقابلہ کے لیے لکھی گئی ہے ۔
خلاصہ تتمہ چٹھی بنام الیاس ڈاکٹر ڈوئی
اس تتمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ ۔حضرت اقدس ؑ نے اس میںلکھا ہے ؛کہ
صادق اور کاذب کی شناخت کامعیاروہ امر کبھی نہیںہوسکتا ۔جو مختلف قوموںمیں بطور امر مشترک ہو، مثلاًسلب امراض کا طریق ہے۔جس پرڈاکٹرڈوئی لاف زنی کیا کرتا ہے کہ فلاں شخص اچھاہوگیا کہ۔اور فلاں نے صحت پائی ۔یہ طریق اس قسم کا ہے کہ اس کے لیے راستبازاور متقی ہونے کی بھی ضرورت نہیں ۔ چہ جائیکہ یہ کسی کے مامور ہونے پر گواہ ہوسکے ،کیونکہ سلب امراض کا طریق ہندوؤںیہودیوں عیسائیوں میںیکساں پایا جاتا ہے اورمسلمانوں میں بھی بعض لوگ اس قسم کے پائے جاتے ہیں ۔حضرت مسیحؑ جب امراض سلب کے معجزات دکھاتے تھے ۔ اس وقت بعض یہودی بھی اسقسم کے کام کرتے تھے اور ایک تالاب بھی ایساتھا جس میں غسل کرنے سے بعض مریض اچھّے ہوجاتے تھے ۔
غرض حضرت حجۃاللہ نے پہلے اس میںظاہر کیا کہ جو امر مختلف قوموں میں مشترک ہے اور جس کے لیے نیک و بد کی کوئی تمیز نہیں ۔صادق اور کاذب کی شناخت کامعیار نہیںہوسکتا ۔پھر اس امر پر بحث کی ہے کہ ؛
اس کی ایک صورت ہے کہ کچھ بیمار لے کر بطور قرعہ اندازی صادق اور کاذب کو تقسیم کردئیے جائیں ایسی صورت میں صادق کے حصّہ بلمقابلہ کاذب زیادہ اچھّے ہوں۔ اس امرکی بیان میں یہ بھی ظاہرہے کہ اس طریق کو اپنے ملک میں اپنے مخالفوںکے سامنے میں نے پیش کیا ہے ، مگر کوئی مقابلہ کے لیے نہ آیا ۔
پھر حضرت اقدس نے ڈوئی کی تمدی پر بحث کی جو اس نے اپنے مخالفوں کے لیے کی ہے کہ میرے مخالف ہلاک ہو جائیں گے خصوصاً مسلمان حضرت حجۃ اللہ نے بڑے پُر زور اور پُر شوکت الفاظ میںلکھاہے کہ ؛
کُل مسلمانوں کو ہلاک کرنے کی ضرورت نہیں اور علاوہ ازیں یہ امر مشکوک ہوسکتاہے ۔اس کو یہ کہمے کی گنجائش ہے کہ مسلمان ہلاک تو ہوہی جائیں گے مگر پچاس یا ساٹھ کے اندر ۔ اور وہ خود اس عرصہ میں ہلاک ہوجائے گا۔پھر اس سے کون پوچھنے والاہوگا۔اس لیے بہترہے کہ سارے مسلمانوں کو چھو ڑکر میرے مقابلے میں آئے اور میںعیسائیوں کو خود ساختہ خداکی نسبت تمام مسلمانوں سے زیادہ کراہت اور نفرت رکھتا ہوں ۔ یہاں تک کہ اگر کل مسلمانوں نفرت عیسائیوں کے خداکی نسبت ترازو کا ایک پلہ میں رکھدی جاوے اور میری نفرت ایک طرف تو میرا پلہ اس سے بھاری ہوگا ۔ اور میں ایسے شخص کو جو عورت کے پیٹ سے نکل کر خدا ہونے کا دعویٰ کرے بہت ہی بڑاگناہ گار اور ناپاک انسان سمجھتاہوں ۔ مگر ہاں میرا یہ مذہب کہ مسیح ابن مریم رسُول اس الزام سے پاک ہے ۔ اس نے کبھی یہ دعویٰ نہیںکیا ۔ میں اسے اپنا ایک بھی سمجھتا ہوں ؛ اگر چہ خداتعالیٰ کافضل مجھ پر اس سے بہت زیادہ ہے ۔ اور وہ کام جو میرے سپرد کیا گیا ہے اس کے کام سے بہت ہی بڑھ کر ہے۔ تاہم میں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوںاور میں نے اسے بارہادیکھاہے ۔ ایک بار میں نے اور مسیح ؑ نے ایک ہی پیالہ میں گائے کاگوشت کھایا تھا ، اس لیے میں اور وہ ایک ہی جوہڑ کے دو ٹکڑے ہیں ۔
غرض اس طرح پر حضرت حجۃاللہ نے بلحاظ اپنے کام اور ماموریت کے اور خداتعالیٰ کے ان فضلوں اور احسانوں کہ جو حضرت مسیح موعود کے شامل مال ہیں تحدیث بالنعمت اور تبلیغ کے طور پر ذکر فرمایا اور یہاں تک کہا؛ کہ
’’میں خدا سے ہوں اور مسیح مجھ سے ہے ۔‘‘
ان امور کے پیش کرنے کے بعد آپ نے جو پُر شوکت اور تحدّی کے ساتھ اس کو مقابلہ کے لیے دعوت کی ہے ۔کہ
اگر وہ سچّا ہے تو اسے چاہئیے مقابلہ کے لیے نکلے اور یہ دُعاکرے کہ
ہم دونوں میںسے جو کاذب ہے وہ صادق کے سامنے ہلاک ہو
یہ خلاصہ ہے کہ اس تتمہ کا جو ہم نے اپنے طور پر لکھا ہے ۔ اصل چٹھی ستمبر کے آخیر تک انشاء اللہ شائع ہوسکے گی ۔
آج کی ڈائری میں ایک اور ہم نے فرد گذاشت کیا تھا ۔ اسے یہاں درج کرنے دینا قرین مصلحت معلوم ہوتاہے ۔ حضرت صاحبزادہ مبارک احمد سلمہ اللہ الاحد کے ایک کبوتر بلی نے پکڑلیا جو ذبح کر لیاگیا ۔فرمایا :
اس وقت میرے دل میں تحریک جوئی ہے کہ گویا عیسائیوںکہ خداکو ہم نے ذبح کر کے کھالیا ہے ۔پھر فرمایا :
انگریزبھی کبوترکاشکار کرتے ہیں ۔ اور بنی اسرائیل کی قربانیوں میں بھی شاید اس کا تذکرہ ہے وہر حال کبوتر ہمیشہ کھائے جاتے ہیں ۔ یادوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ عیسائیوں کے خداذبح ہوتے ہیں ۔ کیا یہ بھی کفارہ تو نہیں ہے ۔ ۱؎
۱۶؍اگست ۱۹۰۲ء؁ بوقت شام
رزق میں قبض و بسط
حضرت جری اللہ فی حلل الانبیا ء علیہ الصلوٰۃ والسّلام بعد ادائے نماز مغرب حسب معمول حلقہ خدام میں بیٹھ گئے کسی شخص نے ایک رقعہ دیا ۔ جو دفترمیگزین میں محرر کی اسامی کے لیے سفارش و خواہشپر مشتمل تھا ۔ حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
قبض و بسط رزق کا سرّ ایسا ہے کہ انسان کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ ایک طرف مو منوں سے اللہ تعا لیٰ نے قرآن شریف میں وعدے کئے ہیں ۔
من یتو کل علی اللہ فھو حسبہ(الطلاق:۴)
یعنے جو اللہ تعالیٰ پر توکل کر تا ہے اس کے لیے اللہ کافی ہے
من یتق اللہ یجعل لہ مخرجا و یر زقہ من حیث لایحتسب (الطلاق(۳،۴)
جو اللہ تعا لیٰ کے تقو یٰ اختیار کر تا ہے اللہ تعا لیٰ اس کو ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے کہ اس کو معلو م بھی نہیں ہو تا ۔اور پھر فر ماتا ہے ۔
وفی السماء رزقکم وما تو عدون(الذ اریات:۲۳)
اور پھر اللہ تعا لیٰ اپنی ذات کی قسم کھا تا ہے کہ
فو رب السما ء والارض انہ لحق(الذاریت :۲۴)
آسمان اور زمین کے رب کی قسم ہیکہ یہ وعدہ سچ ہے ۔جیسا کہ تم اپنی زبان سے بو ل کر انکار نہیں کر سکتے ۔جب کہ اس قسم کے وعد ے اللہ تعا لیٰ نے فر مائے ہیں ۔پھر باوجود وعدو ں کے دیکھا جاتا ہے کہ کئی
‏Amira 13-3-05
آدمی ایسے دیکھے جاتے ہیں جو صالح اور متقی اور نیک بخت ہوتے ہیں اور ان کا شعائرِ اسلام صحیح ہوتا ہے، مگر وہ رزق سے تنگ ہیں۔رات کو ہے تو دن کو نہیں۔اور دن کو ہے تورات کو نہیں۔
جملہ معترضہ
یہاں حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب نے عرض کی کہ جب میں پہلے یہاں آیا۔تو حضور علامات المقربین ایک رسالہ لکھ رہے تھے۔واپسی پر گجرات ٹھہرا،تو ایک شخص نے مجھ سے دریافت کیا کہ آج کل مرزا صاحب کیا لکھ رہے ہیں۔میں نے کہا کہ
انا الا برار لفی نعیم (الانفطار : ۱۴)
کی تفسیر لکھ رہے ہیں۔اس نے کہا کہ یہ کفار آرام میں نہیں؟ سارا دن بگھیاں چلتی رہتی ہیں۔حضرت اقدس نے فرمایا کہ :
آپ کے اس آیت کے پڑھنے سے ایک اور آیت یاد آگئی۔
و لمن خاف مقام ربہ جنتان۔(الرحمان : ۴۷)
غرض یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس قسم کے واقعات ہوتے ہیں،مگر تجربہ دلالت کرتا ہے کہ یہ امور خدا کی طرف منسوب نہیں ہو سکتے۔ہمارا یہ مذہب کہ وہ وعدے جو خدا تعالیٰ نے کئے ہیں کہ متقیوں کو خود اﷲ تعالیٰ رزق دیتا ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے ان آیتوں میں بیان کیا ہے۔یہ سب سچے ہیں۔اور سلسلہ اہل اﷲ کی طرف دیکھا جاوے تو کوئی ابرار میں سے ایسا نہیں ہے۔کہ بھوکا مرا ہو۔مومنوں نے جن پر شہادت دی اور جن کو اتقیامان لیا گیا۔یہی نہیں کہ وہ فقروفاقہ سے بچے ہوئے تھے۔گو اعلیٰ درجہ کی خوشحالیاں نہ ہوں،مگر اس قسم کا اضطراری فقروفاقہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ عذاب محسوس کریں۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقراختیار کیا ہوا تھا۔مگر آپ کی سخاوت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خود آپؐ نے اختیار کیا ہوا تھا، نہ کہ بطور سزا تھا۔غرض اس راہ میں بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔بعض ایسے لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ بظاہر متقی اور صالح ہوتے ہیں مگر رزق سے تنگ ہوتے ہیں۔ان سب حالات کو دیکھ کر آخر یہی کہنا پڑتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے وعدے تو سب سچے ہیں،لیکن انسانی کمزوری ہی کا اعتراف کرنا پڑتا ہے۔
یورپ کی پُرآسائش زندگی جنت نہیں
حضرت مولانا مولوی حکیم نورالدین صاحب نے پھر ذکر کیا کہ لندن سے ایک شخص نے مجھے خط لکھا ہے کہ لندن آکر دیکھو کہ جنت عیسائیوں کو حاصل ہے یا مسلمانوں کو۔میں نے اس کا جواب لکھا کہ سچی عیسائیت مسیح اور اس کے حواریوں میں تھی اورسچا اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ میں تھا۔پس ان دونوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو۔اس پر حضرت حجۃ اﷲ نے بہ تسلسل کلام سابق پھرارشاد فرمایا :
اِن روحانی امور میں ہر شخص کا کام نہیں ہے کہ نتیجہ نکال لے۔یہ لوگ جو لندن جاتے ہیں۔وہ وہاں جا کر دیکھتے ہیں کہ بڑی آزادی ہے۔شراب خوری کی اس قدر کثرت ہے کہ ساٹھ میل تک شراب کی دکاتیں چلی جاتی ہیں۔زنا اور غیر زنا میں کوئی فرق ہی نہیں۔کیا یہ بہشت ہے؟ بہشت سے یہ مراد نہیں ہے۔دیکھو۔انسان کی بھی بیوی ہے اور وہ تعلقات زوجیت رکھتا ہے اور پرندوں اور حیوانوں میں بھی یہ تعلقات ہوتے ہیں،مگر انسان کو اﷲ تعالیٰ نے ایک نظافت اور ادراک بخشا ہے۔انسان جن حواس اور قویٰ کے ساتھ آیا ہے۔اُن کے ساتھ وہ ان تعلقات زوجیت میں زیادہ لطف اور سرور حاصل کرتا ہے۔بمقابلہ حیوابات کے جو ایسے حواس اور ادراک نہیں رکھتے ہیں۔اور اسی لیے وہ اپنے جوڑے کی کوئی رعایت نہیں رکھتے جیسے کتے۔
پس اگر انسان حواس کے ساتھ سرور حاصل نہیں کر سکتے بلکہ حیوانات کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں پھر اُن میں اور حیوانوں میں کیا فرق ہوا۔یہ جو فرمایا ہے۔کہ مومن کے لیے ہی جنت ہے۔یہ اس لیے فرمایا ہے۔کہ سچی راحت دنیا کی لذات سے تب پیدا ہوتی ہے جب تقویٰ ساتھ ہو۔جو تقویٰ کو چھوڑ دیتا ہے اور حلال و حرام کی قید کو اُٹھا دیتا ہے وہ تو اپنے مقام سے نیچے گر جاتا ہے اور حیوانی درجہ میں آجاتا ہے۔
لندن میں جب ہائیڈ پارک میں حیوانوں کی طرح بدکاریاں ہوتی ہیں اور کوئی شرم و حیا ایک دوسرے سے نہیں کیا جاتا۔تو پھر ایک شخص انسانیت کو ضبط رکھ کر دیکھے تو ایسی بہشت اور راحت سے ہزار توبہ کرے گا کہ ایسی دیُّوث اور بے غیرت جماعت سے خدا بچائے۔ایسی جماعت کو جو ایسی زندگی بسر کرتی ہے بہشت میں سمجھنا حماقت ہے۔اصل یہی ہے کہ بہشت کی کلید تقویٰ ہے۔جس کو خدا تعالیٰ پر بھروسہ نہیں اُسے سچی راحت کیونکر مل سکتی ہے۔بعض آدمی ایسے دیکھے گئے ہیں کہ جن کو خدا پر بھروسہ نہیں اور ان کے پاس روپیہ تھا وہ چوری چلا گیا۔اس کے ساتھ ہی زبان بند ہو گئے۔اور اُن (کفار) کو جو بہشت میں کہا جاتا ہے۔اُن کی خود کشیوں کو دیکھو کہ کس قدر کثرت سے ہوتی ہیں۔تھوڑی تھوڑی باتوں پر خود کشی کر لیتے ہیں۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایسے ضعیف القلب اور پست ہمت ہوتے ہیں کہ غم کی برداشت ان میں نہیں ہے۔جس کو غم کی برداشت اور مصیبت کے مقابلہ کی طاقت نہیں۔اس کے پاس راحت کا سامن بھی نہیں ہے۔خواہ ہم ا سکو سمجھا سکیں یا نہ سمجھا سکیں اور کوئی سمجھ سکے یا نہ سمجھ سکے۔حقیقت الامر یہی ہے کہ لذائذ کا مزہ صرف تقویٰ ہی سے آتا ہے۔جو متقی ہوتا ہے اس کے دل میں راحت ہوتی ہے اور ابدی سرور ہوتا ہے۔دیکھو ایک دوست کے ساتھ تعلق ہو۔توکس قدر خوشی اور راحت ہوتی ہے،لیکن جس کا خدا سے تعلق ہو اُسے کس قدر خوشی ہو گی۔جس کا تعلق خدا سے نہیں ہے۔اُسے کیا امید ہو سکتی ہے۔اور امید ہی تو ایک چیز ہے جس سے بہشتی زندگی شروع ہوتی ہے۔
ان مہذّب ممالک میں اس قدر خود کشیاں ہوتی ہیں کہ جن سے پایا جاتا ہے کہ کوئی راحت نہیں۔ذرا راحت کا میدان گم ہوا اور جھٹ خود کشی کر لی، لیکن جو تقویٰ رکھتا ہے اور خدا سے تعلق رکھتا ہے اُسے وہ جا ودانی خوشی حاصل ہے جو ایمان سے آتی ہے۔
دنیا کی تمام چیزیں معرض تغیر وتبدل میں ہیں۔مختلف آفات آتی رہتی ہیں۔بیماریاں حملے کرتی ہیں۔کبھی بثے مر جاتے ہیں۔غرض کوئی نہ کوئی دکھ یا تکلیف رہتی ہے۔اور دنیا جائے آفات ہے۔اور یہ امرو سکھ کی نیند انسان کو سونے نہیں دیتے۔جس قدر تعلقات وسیع ہوتے ہیں،اسی قدر آفتوں اور مصیبتوں کا میدان وسیع ہوتا ہے اور یہ آفتیں اور بلائیں انسان کے منزلی تعلقات میں ایک غم کو پچاس بنا دیتی ہیں۔کیونکہ اگر اکیلا ہو تو غم کم ہو۔مگر جب بچے،بیوی،ماں باپ،بہن بھائی اور دوسرے رشتہ دار رکھتا ہے۔تو پھر ذرا سی تکلیف ہوئی اور یہ آفت میں پڑا۔اس قدر مجموعہ کے ساتھ تو اُس وقت راحت ہو سکتی ہے۔جب کسی کو کوئی بیماری اور آفت نہ ہو اور کوئی تکلیف میں نہ ہو۔
صرف مال موجبِ راحت نہیں ہے
یہ بات بھی غلط ہے کہ مال سے راحت ہو۔نرے مال سے راحت نہیں ہے۔اگر مال ہے صحت اچھی نہیں۔مثلاًمعدہ خراب ہے۔تو وہ کیا بہشتی زندگی ہوگی۔اس سے معلوم ہوا کہ مال بھی راحت کا باعث نہیں۔سچی بات یہی ہے کہ جو خدا سے تعلق رکھتا ہے۔وہی ہر پہلو سے بہشتی زندگی رکھتا ہے۔کیونکہ اﷲ قادر ہے کہ وہ بلائیں اور آفتیں نہ آئیں اور مالی اضطرار بھی نہ ہو۔یا آئیں تو دل میں ایسی قوت اور ہمت بخش د یکہ وہ اُن کا پورا مقابلہ کر سکے۔
جس قدر پہلو انسان کی عافیت کے لیے ضروری ہے وہ کسی بادشاہ کیلئے بھی باتھ میں نہین ہیں بلکہ وہ سب ایک ہی کے ہاتھ میں ہے جو بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔جسے چاہے دیدے۔
بعض لوگ اس قسم کے دیکھے گئے ہیں کہ روپیہ پیسہ سب کچھ موجود ہیں۔مگر مسلُول مدقُوق ہو جاتے ہیں۔اور زندگی انہیں تلخ معلوم ہوتی ہے۔پس ان کروڑوں آفات کا جو انسان کو لگی ہوئی ہیں۔کون بندوبست کر سکتا ہے۔اور اگر رنج بھی ہو تو صبر جمیل کون دے سکتا ہے؟ اﷲ ہی ہے جو عطا کرے۔
صبر بھی بڑی چیز ہے۔ جو بڑی بڑی آفتوں اور مصیبتوں کے وقت بھی غم کو پاس نہیں آنے دیتا۔بعض امیر ایسے ہوتے ہیں کہ عافیت اور راحت کے زمانہ میں بڑے مغرور اور متکبر ہوتے ہیں اور ذرا رنج آگیا۔تو بچوں کی طرح چلا اٹھے۔اب ہم کس کا نام لے سکتے ہیں کہ اس پر حوادث نہ آئیں اور متعلقین کو رنج نہ پہنچے؟ کسی کا نام نہیں لے سکتے۔یہ بہشتی زندگی کس کی ہو سکتی ہے۔پرف اُس شخص کی جس پر خدا کا فضل ہو۔
بہشتی زندگی
اس لیے یہ بڑی غلطی ہے جو یونہی کسی کے سفید کپڑے دیکھ کر کہہ دیتے ہیں کہ وہ بہشتی زندگی رکھتے ہیں۔اُن سے جا کر پوچھو تو معلوم ہو کہ کتنی بلائیں سناتے ہیں۔صرف کپڑے دیکھ کر یا بگھیوں پر سوار ہوتے دیکھ کر شراب پیتے دیکھ کر ایسا خیال کر لینا گلط ہے۔ماسوا اس کے اباحتی زندگی بجائے خود جہنم ہے۔کوئی ادب اور تعلق خدا سے نہیں۔اس سے بڑھ کر جہنمی زندگی کیا ہوگی۔کتا خواہ مردار کھالے خواہ بدکاری کرے۔کیا وہ بہشتی زندگی ہوگی؟اسی طرح پر جو شخص مردار کھاتا ہے اور بدکاریوں میں مبتلا ہے۔حرام و حلال کے مال کو نہیں سمجھتا۔یہ *** زندگی ہے۔اس کو بہشتی زندگی سے کیا تعلق۔
یہ سچ ہے ۔کہ بہشتی زندگی یہی ہوتی ہے،مگر اُن کی جن کو خدا پر پورا بھروسہ ہوتا ہے۔اس لیے وہ
ھو یتولی الصالحین (الاعراف :۱۹۷)
کے وعدہ کے موافق خدا تعالیٰ کی حفاظت اور تولّی کے نیچے ہوتے ہیں۔اور جو خدا تعالیٰ سے دور ہے۔اس کا ہر دن ترسال ولرزاں،ہی گذرتا ہے۔وہ خوش نہیں ہو سکتا۔سیالکوٹ میں ایک شخص رشوت لیا کرتا تھا۔وہ کہا کرتا تھا کہ میں ہر وقت زنجیر ہی دیکھتا ہوں۔بات یہ ہے کہ برے کام کا انجام بد ہی ہونا چاہیے۔اس لیے بدی ایسی چیز ہے کہ روح اس پر راضی ہو ہی نہیں سکتی۔پھر بدی میں لذت کہاں۔ہر برے کام پر آخر دل پر ٹھوکر لگتی ہے اور ایک کثافت انسان محسوس کرتا ہے کہ یہ کیا حماقت کی اور اپنے اوپر *** کرتا ہے۔ایک شخص نے تو بارہ آنے کے عوض میں ایک بچہ مار دیا تھا۔
غرض زندگی بجز اس کے کوئی نہیں کہ بدی سے بچے اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ کرے۔کیونکہ مصیبت سے پہلے جو خدا پر بھروسہ کرتا ہے۔مصیبت کے وقت خدا اس کی مدد کرتا ہے۔جو پہلے سویا ہوا ہے وہ مصیبت کے وقت ہلاک ہو جاتا ہے۔حافظ نے کیا اچھا کہا ہے۔شعر
خیال زلف تو جستن نہ کار خاماں است
کہ زیرِ سلسلہ رفتن طریق عیاری است
خدا تعالیٰ غنی ہے۔بیکار نیز و غیرہ میں جو قحط پڑے،تو لوگ بچوں تک کو کھا گئے۔یہ اسی لیے ہوا کہ وہ کسی کے ہو کر نہیں رہے۔خدا کے ہو کر رہتے تو بچوں پر یہ بلا نہ آتی۔حدیچ شریف اور قرآن مجید سے ثابت ہے اور ایسا ہی پہلی کتابوں سے بھی پایا جاتا ہے کہ والدین کی بدکاریاں بچوں پر بھی بعض وقت آفت لاتی ہیں۔اسی کی طرف اشارہ ہے
ولا یخاف عقبہا (الشمس : ۱۶)
جو لوگ لا اُبالی زندگی بسر کرتے ہیں اﷲ تعالیٰ ان کی طرف سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔دیکھو دنیا میں جو اپنے آقا کو چند روز سلام نا کرے تو اس کی نظر بگڑ جاتی ہے۔تو جو خدا سے قطع کرے پھر خدا اس کی پرواہ کیوں کرے گا۔اسی پر وہ فرماتا ہے کہ وہ اُن کو ہلاک کر کے اُن کی اولاد کی بھی پروا نہیں کرتا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو متقی صالح مر جاوے اس کی اولد کی پروا کرتا ہے۔جیسا کہ ا س آیت سے بھی پتہ لگتا ہے۔
وکان ابو ھما صالحا۔ (الکہف : ۸۳)
اس باپ کی نیکی اور صلاحیت کے لیے خضر اور موسیٰ جیسے الوالعزم پیغمبر کو مزدور بنا دیا کہ وہ ان کی دیواردرست کردیں۔اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس شخص کا کیا درجہ ہوگا۔خدا تعالیٰ نے لڑکوں کا ذکر نہیں کیا چونکہ ستّار ہے۔اس لیے پر دہ پوشی کے لحاظ سے اور باپ کے محل مدح میں ذکر ہونے کی وجہ سے کوئی ذکر نہیں کیا۔
پہلی کتابوں میں بھی اس قسم کا مضمون آیا ہے۔کہ سات پشت تک رعایت رکھتا ہوں۔حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی متقی کی اولاد کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا۔غرض نشاط خدا رزق ہے جو غیر کو نہیں ملتا۔؎ٰ
۱۸؍اگست ۱۹۰۲ء؁
(کی شام)
بیعت کی حقیقت
مرزا اعظم بیگ کے پوتے مرزا احسن بیگ نے بیعت کی درخواست کی۔اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا :
بیعت اگلے جمعہ کو کر لینا،مگر یہ یاد رکھو کہ بیعت کے بعد تبدیلی کرنی ضروری ہوتی ہے۔اگر بیعت کے بعد اپنی حالت میں تبدیلی نہ کی جاوے۔تو پھر یہ استخفاف ہے۔بیعت بازیچئہ اطفال نہیں ہے۔درحقیقت وہی بیعت کرتا ہے،جس کی پہلی زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ہر ایک امر میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔پہلے تعلقات معدوم ہو کر نئے تعلقات پیدا ہوتے ہیں۔جب صحابہؓ مسلمان ہوتے تو بعض کو ایسے امور پیش آتے تھے کہ احباب رشتہ دار سب سے الگ ہونا پڑتا تھا۔حضرت عمر رضیاﷲ عنہ ابو جہل کے ساتھ اسلام سے پہلے ملتے تھے۔بلکہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ ابو جہل نے منصوبہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا خاتمہ کر دیا جاوے اور کچھ روپیہ بھی بطور انعام مقرر کیا۔حضرت عمر اس کام کے لیے منتخب ہوئے؛چنانچہ انہوں نے اپنی تلوار کو تیز کیا اور موقع کی تلاش میں رہے۔آخر حضرت عمر کو پتہ ملا کہ آدھی رات کو آپ کعبہ میں آکر نماز پڑھتے ہیں۔چنانچہ یہ کعبہ میں آکر چھپ رہے۔اور اُنہوں نے سنا کہ جنگل کی طرف سے لاالہ الا اللہ کی آواز آتی ہے اور وہ آواز قریب آتی گئے۔یہاں تک کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں آ داخل ہوئے اور آپؐ نے نماز پڑھی۔حضرت عمر کہتے ہیں کہ آپؐ نے سجدہ میں اس قدر منا جات کی کہ مجھے تلوار چلانے کی جرأت نہ رہی؛چنانچہ جب آپؐ نماز سے فارغ ہوئے تو آپؐ آگے آگے چلے۔پیچھے پیچھے میں تھا۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے پائوں کی آہٹ معلوم ہوئے اور آپؐ نے پوچھا کون ہے۔میں نے کہا کہ عمر۔اس پر آپؐ نے فرمایا۔اے عمر! نہ تو دن کو میرا پیچھا چھوڑتا ہے اور نہ رات کو۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول سے حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے محسوس کیا کہ آپؐ بددعا کریں گے۔اس لیے میں نے کہا کہ حضرت آج کے بعد میں آپؐ کو ایذانہ دوں گا۔عربوں میں چونکہ وعدہ کا لحاظ بہت بڑا ہوتا تھا۔اس لیے آنحضرتؐ نے یقین کر لیا،مگر دراصل حضرت عمر کا وقت آپہنچا تھا۔آنحضرتؐ کے دل میں گذرا کہ اس کو خدا ضائع نہیں کرے گا؛چنانچہ حضرت عمر مسلمان ہوئے اور پھر وہ دوستیاں وہ تعلقات جو ابو جہل اور دوسرے مخالفوں سے تھے یکلخت ٹوٹ گئے اور ان کی جگہ ایک تہی اخوت قائم ہوئی۔حضرت ابو بکرؓ اور دوسرے صحابہ ملے اور پھر ان پہلے تعلقات کی طرف کبھی خیال تک نہ آیا۔
غرض اس سلسلہ میں جو ابتلائوں کا سلسلہ ہوتا ہے۔بہت سی ٹھو کریں کھانی پڑتی ہیں اور بہت سی موتوں کو قبول کرنا پڑتا ہے۔ہم قبول کرتے ہیں کہ ان انسانوں میں جو اس سلسلہ میں داخل ہوتے ہیں۔ان میں بعض بزدل بھی ہوتے ہیں۔شجاع بھی ہوتے ہیں۔بعض ایسے بزدل ہوتے ہیں کہ صرف قوم کی کثرت کو دیکھ کر ہی الگ ہو جاتے ہیں۔انسان بات کو تو پُورا کر لیتا ہے۔مگر ابتلاء کے سامنے ٹھہرنا مشکل ہے۔خدا وند تعالیٰ فرماتا ہے۔
احسب الناس ان یتر کو اانیقولو اامنا وھم لا یفتنون (العنکبوت : ۳)
یعنی کیا لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ایمان لائیں اور امتحان نہ ہو۔غرض امتحان نہ ہو۔غرض امتحان ضروری شے ہے۔اس سلسلہ میں جو داخل ہوتا ہے وہ ابتلا سے خالی نہیں رہ سکتا۔ہمارے بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ وہ ایک طرف ہیں اور باپ الگ۔؎ٰ
‏Amira 14-3-05
۱۹؍اگست ۱۹۰۲ء؁
(کی شام)
دلائل صداقت
متقی کا منہ تو ایسے بند ہوتا ہے جیسے منہ میں روڑے ڈالے ہوئے ہوں۔متقی کبھی کفر کا دائرہ وسیع کرنا نہیں چاہتا بلکہ وہ ایمان کا دائرہ وسیع کرنا چاہتا ہے۔ان مخالف مولویوں کی نسبت میرا یہ عقیدہ تھا کہ ان میں صفائی نہیں ہے۔اور ملونی سے ضرور بھرے ہوئے ہیں۔مگر یہ میرے وہم و خیال میں بھی نہیں تھا کہ ان سے یہ کمینہ پن ظاہر ہوگا۔جو انہوں نے اب میری مخالفت میں ظاہر کیا ہے۔
چونکہ عمر گذرتی جاتی ہے جیسے برف ڈھلتی ہے اس لیے ہر روز یہ خیال آتا ہے کہ کوئی آدمی ایسا ہو جو اُن کے پاس جاوے اور اُن کو فیصلہ کی راہ پر لاوے اور بتائے کہ ایک وہ وقت تھا کہ اﷲ تعالیٰ میری دعا کی نقل فرماتا ہے۔
تب لا تذرنی فر دا (الانبیاء : ۹۰)
اور
رب ارنی کیف تحی الموتی (البقرہ : ۲۶۱)
وہ زمانہ کہاں کہ دو آدمی ثابت کرنے مشکل ہیں۔اور یا اب یہ زمانہ ہے کہ فوجوں کی فوجیں آرہی ہیں۔ڈبل ازوقت کہ جیسا کہا تھا وہ کر دیا اور کر رہا ہے اور لوگوں کی نظر میں عجیب۔اگر کوئی سمجھنے والا ہو تو اُسے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا نے اپنی سنت قدیمہ کے موافق کیا اور جس طرح رسل آتے ہیں وہ اسی طرح پہچانے جاتے ہیں۔مجھے ان ہی آثار اور نشانات کے ساتھ شناخت کرو جو خدا کی طرف سے آتے ہیں۔وہ خدا کی محکم ہدایات کے خلاف نہیں کرتے۔ایسا نہیں کہ حرام کو حلال یا حلال کو حرام کر دیں۔دوسرے وہ ایسے وقت میں آتے ہیں۔کہ وہ ضرورت کا وقت ہوتا ہے۔تیسرے یہ کہ تائیدِ الٰہی کے بدوں نہیں ہوتے۔صریح نظر آتا ہے کہ خدا تائید کرتا ہے۔
سچائی معلوم کرنے کی تین راہیں
جہانتک میں خیال کرتا ہوں۔سچائی کے تین ہی راہ ہیں۔اوّل نصوص قرآنیہ و حدیثیہ۔دوسرے عقل اور تیسرے خدا تعالیٰ کے تائیدات۔ان تینوں ذریعوں سے جو چاہے ہم سے ثبوت لے،مگر انسان بن کر نہ سفلہ پن کی طرح ۔ہم سب کو دعوت دیتے ہیں خواہ سو روپیہ روز خرچ ہو جاوے۔آکر آدمیت سے پوچھ لیں۔اب دور بیٹھے ہیں۔نہ کتاب ہے۔نہ غور ہے۔نہ فکر ہے۔سفلہ لوگوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بد تر کام کرتے ہیں۔یہ طریق تو تقویٰ کے خلاف ہے۔اگر کوئی انسان ایسا ہو جو اُن پر رعب داب رکھتا ہو وہ انہیں جا کر سمجھائے۔دنیا دار لوگ اگر اُن کو کہیں تو اُن سے ڈرتے ہیں۔خدا کرے کہ کوئی ایسا دنیا دار ہو جس کو اس طرف توجہ ہو اور ان کو سمجھئے اور یہی خیال کرے۔کہ اسلام میں پھوٹ پڑ رہی ہے۔اس کو ہی دور کیا ہاوے۔غرض ہم تو چاہتے ہیں کہ کسی طرح یہ لوگ راہ پر آویں۔اور ہماری مخالفت کر کے تو کچھ بگاڑ نہیں سکتے،کیونکہ اﷲ تعالیٰ خود اپنی تائید کر رہا ہے۔پر نالہ کا پانی تو ایک اینٹ سے بند کر سکتے ہیں،مگر آسمان کا کون بند کر سکتا ہے۔یہ خدا کے کام ہیں۔چراغ کو تو پھونک مار کر بجھادیتے ہیں۔مگر چاند سورج کو تو کوئی پھونک مار کر بجھاوے۔خدا کے کام اونچے ہیں۔انسان کی وہاں پیش رفت نہیں جاتی۔وہاں نہ غبارہ جاوے اور نہ ریل۔یہ بھی عظمتِ الٰہی ہے۔تعالیٰ سانہٗ کا مصداق ہے۔آسمانی امور اونچے ہیں۔وہ تو آگے ہی آگے جاتے ہیں۔
عذاب سے متعلق خدا تعالیٰ کی سنت
ایک شخص نے عرض کی کہ حضور میرے گائوں سے آٹھ آدمیوں نے خط بھیجا ہے کہ اگر سچے ہو تو ہم پرعذاب نازل ہو جاوے۔فرمایا :
خدا تعالیٰ کے کام میں جلدی نہیں ہوتی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیسے دکھ دئیے گئے اور بعض ایسے بیباک اور شریر تھے جو کہتے تھے کہ اگر تو سچا ہے تو ہم پر پتھر برسیں۔مگر اسی وقت تو اُن پر پتھر نہ برسے۔خدا تعالیٰ کی سنت یہ نہیں کہ اسی وقت عذاب نازل کرے۔اگر کوئی خدا تعالیٰ کو گالیاں دے توکیا اسی وقت اس پر عذاب آجاوے گا۔عذات اپنے وقت پر آتا ہے جبکہ جرم ثابت ہو جاتا ہے۔لیکھرام ایک آریہ تھا جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت گالیاں دیا کرتا تھا۔آخر خدا تعالیٰ نے اس کی شرارتوں اور شوخیوں کے بدلے اس کو سزادی۔ارو وہی زبان چھری ہو کر اس کی ہلاکت کا باعث ہوئی جس سے وہ ٹکڑے کیا گیا۔پس خدا تعالیٰ کی یہ سنت نہیں ہے کہ وہ اُسی وقت عذاب دے ۔یہ لوگ کیسے بیوقوف اور بدقسمت ہوتے ہیں۔عذاب مانگتے ہیں۔ہدایت نہیں مانگتے۔
خدا کے نزدیک قومیت کا لحاظ نہیں
اسی شخص نے کہا کہ یہ بھی اعتراض کرتے ہیں کہ سید ہو کر امتی کی بیعت کرتے ہو؟ فرمایا :
خدا تعالیٰ نا محض جسم سے راضی ہوتا ہے نہ قوم سے۔اس کی نظر ہمیشہ تقویٰ پر ہے۔
انا اکر مکم عند اللہ اتقکم (الحجرات : ۱۴)
یعنی اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے زیادہ بزرگی رکھنے والا وہی ہے جو تم میں سے زیادہ متقی ہو۔یہ بالکل جھوٹی باتیں ہیں۔کہ میں سید ہوں یا مغل ہوں یا پٹھان اور شیخ ہوں۔اگر بڑی قومیت پر فخر کرتا ہے تو یہ فخر فضول ہے۔مرنے کے بعد سب قومیں جاتی رہتی ہیں۔خدا تعالیٰ کے حضور قومیت پر کوئی نظر نہیں اور کوئی شخص محض اعلیٰ خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے نجات نہیں پاسکتا۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو کہا ہے کہ اے فاطمہؓ تُو اس بات پر ناز نہ کر کہ تو پیغمبر زادی ہے۔خدا کے نزدیک قومیت کا لحاظ نہیں۔وہاں جو مدارج ملتے ہیں وہ تقویٰ کے لحاظ سے ملتے ہیں۔یہ قومیں اور قبائل دنیا کا عرف اور انتظام ہیں۔خدا تعالیٰ سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہے۔خدا تعالیٰ کی محبت تقویٰ سے پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ ہی مدارجِ عالیہ کا باعث ہوتا ہے۔اگر کوئی سید ہو اور وہ عیسائی ہو کر رسول اﷲ ﷺکو گالیاں دے اور خدا کے احکام کی بیحرمتی کرے۔کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کو آلِ رسولؐ ہونے کی وجہ سے نجات دے گا اور وہ بہشت میں داخل ہو جاوے گا۔
ان الدین عند اللہ الاسلام (آلِ عمران : ۲۰)
اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تو سچا دین جو نجات کا باعث ہوتا ہے۔اسلام ہے۔اگر کوئی عیسائی ہو جاوے یا یہودی ہو۔یا آریہ ہو وہ خدا کے نزدیک عزت پانے کے لائق نہیں۔خدا تعالیٰ نے ذاتوں اور قوموں کو اڑادیا ہے۔یہ دنیا کے انتظام اور عرف کے لئے قبائل ہیں۔مگر ہم نے خوب غور کر لیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور جو مدارج ملتے ہیں ان کا اصل باعث تقویٰ ہی ہے جو متقی ہے وہ جبت میں جائے گا۔خدا تعالیٰ اس کے لیے فیصلہ کر چکا ہے۔خدا تعالیٰ کے نزدیک معزز متقی ہی ہے۔پھر یہ جو فرمایا
انما یتقبل اللہ من المتقین (المائدہ : ۲۸)
کہ اعمال اور دعائیں متقیوں کی قبول ہوتی ہیں۔یہ نہیں کہا کہ من اسیدین۔پھر متقی کے لیے تو فرمایا
من یتق اﷲ یجعل لہ مخرجا ویر زقہ من حیث لا یحتسب (الطلاق : ۳-۴)
یعنی متقی کو ہر تنگی سے نجات ملتی ہے۔اس کو ایسی جگہ سے رزق دیا جاتا ہے کہ اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔اب بتائو کہ یہ وعدہ سیدوں سے ہوا ہے یا متقیوں سے۔اور پھر یہ فرمایا کہ متقی ہی اﷲ تعالیٰ کے ولی ہوتے ہیں۔یہ وعدہ بھی سیدوں سے نہیں ہوا۔ولایت سے بڑھ کر اور کیا رتبہ ہوگا۔یہ بھی متقی ہی کو ملا ہے۔بعض نے ولایت کو نبوت سے فضیلت دی ہے اور کہا ہے کہ نبی کی ولایت اس کی نبوت سے بڑھ کر ہے۔نبی کا وجود دراصل دو چیزوں سے مرکّب ہوتا ہے۔نبوّت اور ولایت۔نبوت کے ذریعہ وہ احکام اور شائع مخلوق کو دیتا ہے۔اور ولایت اس کے تعلقات کو خدا سے قائم کرتے ہے۔
پھر فرمایا ہے
ذلک الکتاب لا ریب فیہ ھدی للمتقین (البقرہ : ۳)
ھدی للسیدین نہیں کہا۔غرض خدا تعالیٰ تقویٰ چاہتا ہے۔ہاں سید زیادہ محتاج ہیں۔کہ وہ اس طرف آئیں کیونکہ وہ متقی کی اولاد ہیں۔اس لیے ان کا فرض ہے کہ وہ سب سے پہلے آئیں نہ کہ خدا تعالیٰ سے لڑیں کہ یہ سادات کا حق تھا۔وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے۔
ذلک فضل اﷲ یئو تیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم (الجمعۃ :۵)
یہ ایسی بات ہے کہ جیسے یہودی کہتے ہیں کہ بنی اسمٰعیل کو نبوت کیوں ملی۔وہ نہیں جانتے ۔
تلک الایا م ندا ولھا بین الناس (آل عمران : ۱۴۱)
خدا تعالیٰ سے اگر کوئی مقابلہ کرتا ہے ۔تو وہ مردودہے۔وہ ہر ایک سے پوچھ سکتا ہے۔اُس سے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔؎ٰ
اگست ۱۹۰۲ء؁ ۲؎
اخلاق الٰہیہ
سورۃ فاتحہ اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے پیس کی ہے اور اس میں سب سے پہلی صفت رب العالمین بیان کی ہے۔جس میں تمام مخلوقات شامل ہے۔اسی طرح پر ایک مومن کی ہمدردی کا میدان سب سے پہلے اتنا وسیع ہونا چاہیے کہ تمام چرند پرند اور کل مخلوق اس میں آجاوے۔پھر دوسری صفت رحمٰن کی بیان کی ہے۔جس سے یہ سبق ملتا ہے کہ تمام جاندار مخلوق سے ہمدردی خصوصاً کرنی چاہیے۔اور پھر رحیم میں اپنی نوع سے ہمدردی کا سبق ہے۔غرض اس سورۃ فاتحہ میں جو اﷲ تعالیٰ کی صفات بیان کی گئے ہیں۔یہ گویا خدا تعالیٰ کے اخلاق ہیں جن سے بندہ کو حصہ لینا چاہیے۔اور وہ یہی ہے کہ اگر ایک شخص عمدہ حالت میں ہے تو اس کو اپنی نوع کے ساتھ ہر قسم کی ممکن ہمدردی سے پیش آنا چاہیے۔اگر دوسرا شخص جو اس کا رشتہ دار ہے یا عزیز ہے۔خواہ کوئی ہے اس سے بیزاری نہ ظاہر کی جاوے اور اجنبی کی طرح اس سے پیش نہ آئیں بلکہ ان حقوق کی پروا کریں جو اس کے تم پر ہیں۔اس کو ایک شخص کے ساتھ قرابت ہے۔اور اس کا کوئی حق ہے تو اس کو پورا کرنا چاہیے۔
اخلاقِ عالیہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک اپنے اخلاق دکھائے ہیں کہ بعض وقت ایک بیٹے کے لحاظ سے جو سچا مسلمان ہے منافق کا جنازہ پڑھ دیا ہے بلکہ اپنا مبارک کرتہ بھی دے دیا ہے۔اخلاق کا درست کرنا بڑا مشکل کام ہے۔جبتک انسان اپنا مطالعہ نہ کرتا رہے۔یہ اصلاح نہیں ہوتی۔زبان کی بداخلاقیاں دشمنی ڈال دیتی ہیں۔اس لیے اپنی زبان کو ہمیشہ قابو میں رکھنا چاہیے۔دیکھو کوئی شخص ایسے شخص کے ساتھ دشمنی نہیں کر سکتا جس کو وہ اپنا خیر خواہ سمجھتا ہے۔پھر وہ شخص کیسا بیوقوف ہے جو اپنے نفس پر بھی رحم نہیں کرتا اور اپنی جان کو خطرہ میں ڈال دیتا ہے جبکہ وہ اپنے قویٰ سے عمدہ کام نہیں لیتا اور اخلاقی قوتوں کی تر بیت نہیں کرتا۔ہر شخص کے ساتھ نرمی اور خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے؛ البتہ وہ شخص جو سلسلہ عالیہ یعنی دین اسلام سے علابیہ باہر ہو گیا ہے اور وہ گالیاں نکالتا اور خطرباک دشمنی کرتا ہے۔اس کا معاملہ اور ہے۔جیسے صحابہ کو مشکلات پیش آئے اور اسلام کی توہین انہوں نے اپنے بعض رشتہ داروں سے سنی۔تو پھر باوجود تعلقات شدیدہ کے ا۲ن کو اسلام مقدم کرنا پڑا۔اور ایسے واقعات پیش آئے۔جن میں باپ نے بیٹے کو یا بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا۔اس لیے ضروری ہے کہ مراتب کا لحاظ رکھا جاوے۔
گر حفظِ مراتب نکنی زندیقی
ایک شخص ہے جو اسلام کا سخت دشمن ہے۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے وہ اس قابل ہے کہ اُس سے بیزاری اور نفرت ظاہر کی جاوے۔لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کا ہو کہ وہ اپنے اعمال میں سست ہے تو وہ اس قابل ہے کہ اس کے قصور سے درگذر کیا جاوے اور اس سے ان تعلقات پر زَد نہ پڑے جو وہ رکھتا ہے۔
جو لوگ بالجبر دشمن ہو گئے ہیں اُن سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوستی نہیں کی بلکہ ابو جہل کا سر کٹنے پر سجدہ کیا۔لیکن جو دوسرے عزیز تھے۔جیسے امیر حمزہ جن پر ایک وحشی نے حربہ چلایا تھا۔تو باوجودیکہ وہ مسلمان تھا۔آپؐ نے فرمایا کہ میری نظر سے الگ چلا جا،کیونکہ وہ قصہ آپؐ کو یاد آگیا۔اس طرح پر دوست دشمن میں پوری تمیز کر لینی چاہیے اور پھر اُن سے علیٰ قدر مراتب نیکی کرنی چاہیے۔
کمزور بھائیوں کا بار اٹھائو
اصل بات یہ ہے کہ اندرونی طور پر ساری جماعت ایک درجہ پر نہیں ہوئی۔کیا ساری گندم تخمریزی سے ایک ہی طرح نکل آتی ہے۔بہت سے دانے ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ضائع ہو جاتے ہیں اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو چڑیاں کھا جاتی ہیں۔بعض کسی اور طرح قابلِ ثمر نہیں رہتے۔غرض اُن میں سے جو ہو نہار ہوتے ہیں اُن کو کوئی ضائع نہیں کر سکتا ۔خدا تعالیٰ کے لیے جو جماعت تیار ہوتی ہے وہ بھی کزرع ہوتی ہے۔اسی لیے اس اصول پر ا۲س کی ترقی ضروری ہے۔پس یہ دستور ہونا چاہیے کہ کمزور بھائیوں کی مدد کی جاوے اور ان کو طاقت دی جاوے۔یہ کس قدر نامناسب بات ہے کہ دو بھائی ہیں ۔ایک تیرنا جانتا ہے اور دوسرا نہیں۔تو کیا پہیل کا یہ فرض ہونا چاہیے کہ وہ دوسرے کو ڈوبنے سے بچاوے یا اس کو ڈوبنے دے۔ا۲س کا فرض ہے کہ اس کو غرق ہونے سے بچائے۔اسی لیے قرآن شریف میں آیا ہے۔
تعاونو ا علی البر و التقوٰی (المائدہ :۳)
کمزور بھائیوں کا بار اُٹھائو۔عملی ایمانی اور مالی کمزوریوں میں بھی شریک ہو جائو۔بدنی کمزوریوں کا بھی علاج کرو۔کوئی جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جبتک کمزوروں کو طاقت والے سہارا نہیں دیتے اور اس کی یہی صورت ہے کہ اُن کی پردہ پوشی کی جاوے۔صحابہ کو یہی تعلیم ہوئے کہ نئے مسلموں کی کمزوریاں دیکھ کر نہ چڑو،کیونکہ تم بھی ایسے ہی کمزور تھے۔اسی طرح یہ ضروری ہے کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے اور محبت ملائمت کے ساتھ برتائو کرے۔دیکھو وہ جماعت جماعت نہیں ہو سکتی جو ایک دوسرے کو کھائے اور جب چار مل کر بیٹھیں۔تو ایک اپنے غریب بھائی کا گلہ کریں اور نکتہ چینیاں کرتے رہیں اور کمزوروں اور غریبوں کی حقارت کریں اور اُن کو حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھیں۔ایسا ہر گز نہیں چاہیے۔بلکہ اجماع میں چاہیے کہ قوت آجاوے اور وحدت پیدا ہو جاوے جس سے محبت آتی ہیاور برکات پیدا ہوتے ہیں۔میں دیکھتا ہوں کہ ذرا ذرا سی بات پر اختلاف پیدا ہو جاتا ہے۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مخالف لوگ جو ہماری ذرا ذرا سی بات پر نظر رکھتے ہیں۔معمولی باتوں کو اخباروں میں بہت بڑی بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور خلق کو گمراہ کرتے ہیں۔لیکن اگر اندرونی کمزوریاں نہ ہوں تو کیوں کسی کو جرأت ہو کہ اس قسم کے مضامین شائع کرے اور ایسی خبروں کی اشاعت سے لوگوں کو دھوکا دے۔کیوں نہیں کیا جاتا کہ اخلاقی قوتوں کو وسیع کیا جاوے۔اور یہ تب ہوتا ہے کہ جب ہمدردی۔محبت اور عفو اور کرم کو عام کیا جاوے۔اور تمام عادتوں پر رحم۔ہمدردی اور پردہ پوشی کو مقدم کر لیا جاوے۔ذرا ذرا سی بات پر ایسی سخت گرفتیں نہیں ہونی چاہئیں جو دل شکنی اور رنج کا موجب ہوتی ہیں۔یہان مدرسہ ہے۔مطبع ہے مگر کیا اصل اغراض ہمارے یہی ہیں۔یا اصل امور اور مقاصد کے لیے بطور خادم ہیں؟ کیا ہماری غرض اتنی ہی ہے کہ یہ لڑکے پڑھ کر نوکر یاں کریں یا کتابیں بیچتے رہیں۔یہ تو سفلی امور ہیں ان سے ہمیں کیا تعلق۔یہ بالکل ابتدائی امور ہیں۔اگر مدرسہ چلتا رہے تب بھی بنظرظاہر بیس برس تک بھی یہ اس حالت تک نہیں پہنچ سکتا ۔جو اس وقت علیگڈھ کالج کی ہے۔یہ امر دیگر ہے کہ اگر خدا چاہے تو ایک دم میں اسے علیگڈھ کالج سے بھی بڑا بنادے۔مگر ہماری ساری طاقتیں اور قوتیں اسی ایک امر میں خرچ ہونی ضروری نہیں ہیں۔
اخوت و ہمدردی کی نصیحت
ہماری جماعت کو سرسبزی نہیں آئے گی جبتک وہ آپس میں سثی ہمدردی نہ کریں۔جو پوری طاقت دی گئی ہے۔وہ کمزور سے محبت کرے۔میں جو یہ سنتا ہوں کہ کوئی کسی کی لغزش دیکھتا ہے،تو وہ اس سے اخلاق سے پیش نہیں آتا ،بلکہ نفرت اور کراہت سے پیش آتا ہے؛حالانکہ چاہیے تو یہ کہ اس کے لیے دعا کرے۔محبت کرے اور اُسے نرمی اور اخلاق سے سمجھائے۔مگر بجائے اس کے کینہ میں زیادہ ہوتا ہے۔اگر عفو نہ کیا جائے۔ہمادردی نہ کی اجوے۔اس طرح پر بگڑتے بگڑتے انجام بد ہو جاتا ہے۔خدا تعالیٰ کو یہ منظور نہیں۔جماعت تب بنتی ہے کہ بعض بعض کی ہمدردی کرے۔پردہ پوشی کی جاوے۔جب یہ حالت پیدا ہو ت ایک وجود ہو کر ایک دوسرے کے جوارح ہو جاتے ہیں اور اپنے تئیں حقیقی بھائی سے بڑھ کر سمجھتے ہین۔ایک شخص کا بیٹا ہو اور اس سے کوئی قصور سرزد ہو تو اس کی پردہ پوشی کی جاتی ہے اور اس کو الگ سمجھا یا جاتا ہے۔بھائی کی پردہ پوشی۔کبھی نہیں چاہتا کہ اس کے لئے اشتہار دے۔پھر جب خدا تعالیٰ بھائی بناتا ہے تو کیا بھائیوں کے حقوق یہی ہیں؟ دنیا کے بھائی اخوت کا طریق نہیں چھوڑ تے میں مرزا نظام الدین وغیرہ کو دیکھتا ہوں کہ ان کی اباحت کی زندگی ہے۔مگر جب کوئی معاملہ ہو تو تینوں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔فقیری بھی الگ رہ جاتی ہے۔بعض وقت انسان جانور۔بندر یا کتے سے بھی سیکھ لیتا ہے۔یہ طریق نامبارک ہے کہ اندرونی پھوٹ ہو۔خدا تعالیٰ نے صحابہ کو بھی یہی طریق و تعمت اخوت یاد دلائی ہے ۔اگر وہ سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرتے تو وہ اخوت ان کو نہ ملتی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کو ملی۔اسی طرح پر خدا تعالیٰ نے یہ سلسلہ قائم کیا ہے اور اسی قسم کی اخوت وہ یہاں قائم کریگا۔خدا تعالیٰ پر مجھے بہت بڑی اُمّیدیں ہیں۔اُس نے وعدہ کیا ہے۔
جاعل الذین اتبعوک فوقالذین کفرو االی یوم القیا مۃ (آل عمران : ۵۶)
میں یقینا جانتا ہوں کہ وہ ایک جماعت قائم کرے گا۔جو قیامت تک منکروں پر غالب رہے گی۔مگر یہ دن جو ابتلا کے دن ہیں اور کمزوری کے ایام ہیں۔ہر ایک شخص کو موقع دیتے ہیں کہ وہ اپنی اصلاح کرے اور اپنی حالت میں تبدیلی کرے۔دیکھو ایک دوسروں کا شکوہ کرنا،دل آزاری کرنا اور سخت زبانی کر کے دوسرے کے دل کو صدمہ پہنچانا اور کمزوروں اور عاجزوں کو حقیر سمجھنا سخت گناہ ہے۔اب تم میں ایک نئی برادری اور نئی اخوت قائم ہوئے ہے۔پچھلے سلسلے منقطع ہو گئے ہیں۔خدا تعالیٰ نے یہ نہی قوم بنائے ہے جس میں امیر غریب بچے جوان بوڑھے ہر قسم کے لوگ شامل ہیں۔پس غریبوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے معزز بھائیوں کی قدر کریں اور عزت کریں اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ غریبوں کی مدد کریں ان کو فقیر اور ذلیل نہ سمجھیں،کیونکہ وہ بھی بھائی ہیں گو باپ جدا جدا ہوں مگر آخر تم سب کا روحانی باپ ایک ہی ہے اور وہ ایک ہی درخت کی ساخیں ہیں۔
جھوٹ کی مذمّت
بدکاری فسق و فجو سب گناہ ہیں۔مگر یہ ضروری دیکھا جاتا ہے کہ شیطان نے جو یہ جال پھینکا ہے اُس سے بجز خدا کے فضل کے کوئی نہیں بچ سکتا۔بعض وقت یونہی جھوٹ بول دیتا ہے مثلا باز یگر نے دس ہاتھ چھلانگ ماری ہو تو محض دوسروں کو خوش کرنے کے لیے یہ بیان کر دیتا ہے کہ چالیس ہاتھ کی ماری ہے۔اس قسم کی شرارتیں شیطان نے پھیلا رکھی ہیں اس لیے چاہیے کہ تمہاری زبانیں تمہارے قابو میں ہوں۔ہر قسم کے لغو اور فضول باتوں سے پر ہیز کر نیوالی ہوں۔جھوٹ اس قدر عام ہو رہا ہے کہ جس کی کوئی حد نہیں۔ درویش ؔ۔ مولویؔ۔قصہ گوؔ۔واعظؔ اپنے بیانات کو سجانے کے لیے خدا سے نہ ڈر کر جھوٹ بول دیتے ہیں۔اور اس قسم کے اور بہت سے گناہ ہیں جو ملک میں کثرت کے ساتھ پھیلے ہوئے ہیں۔؎ٰ
قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے۔جیسا کہ فرمایا ہے
فاجتنبو االرجس من الاوثان واجتنبو اقول الزور (الحج : ۳۱)
دیکھو یہاں جھوٹ کو بت کے مقابل رکھا ہے۔اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بت ہی ہے؛ ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیںہوتا۔جھوٹ بولنے والوں کا اعتبار یہانتک کم ہو جات اہے کہ اگر وہ سچ کہیں تب بھی یہی خیال ہوتا ہے کہ اس میں بھی کچھ جھوٹ کی ملاوٹ نہ ہو۔اگر جھوٹ بولنے والے چاہیں کہ ہمارا جھوٹ کم ہو جائے،تو جلدی سے دور نہیں ہوتا۔مدت تک ریاضت کریں۔تب جاکر سچ بولنے کی عادت اُن کو ہوگی۔
کثرتِ گناہ اور اس کا علاج
اسی طرح پر اور قسم قسم کی بدکاریاں اور شرارتیں ہو رہی ہیں۔غرض دنیا میں گناہ کے سیلاب کا طوفان آیا ہوا ہے اور اس دریا کا گویا بند ٹوٹ گیا ہے۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ گناہ جو کیڑوں کی طرح چل رہے ہیں۔کوئی ایسی صورت بھی ہے کہ جس سے یہ بلا دور ہو جائے اور دنیا جو خباثت اور گناہ کے زہر اور *** سے بھر گئے ہے۔کسی طرح پر صاف ہو سکتی ہے یا نہیں؟ اس سوال کو قریباً تمام مذہبوں اور ملتوں نے محسوس کیا اور اپنی اپنی جگہ پروہ کوئی نہ کوئی علاج بھی گناہ کا بتاتے ہیں۔مگر تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس زہر کا تریاق کسی کے پاس نہیں۔اُن کے علاج استعمال کرکے مرض بڑھا ہے گھٹا نہیں۔
مثال کے طور پر ہم عیسائی مذہب کا نام لیتے ہیں۔اس مذہب نے گناہ کا علاج مسیح کے خون پر ایمان لانا رکھا ہے کہ مسیح ہمارے بدلے یہودیوں کے ہاتھوں صلیب لٹکایا جا کر جو ملعون ہو چکا ہے۔اس کی *** نے ہم کو برکت دی۔یہ عجیب فلاسفی ہے کہ جو کسی زمانہ اور عمر میں سمجھی نہیں جا سکتی۔*** برکت کا موجب کیونکر ہو سکتی ہے اور ایک کی موت دوسرے کی زندگی کا ذریعہ کیونکر ٹھہرتی ہے؟ ہم عیسائیوں کے اس طریق علاج کو عقلی دلائل کے معیار پر بھی پرکھنے کی ضرورت نہ سمجھتے ۔اگر کم از کم عیسائی دنیا میں یہ نظر آتا کہ وہاں گناہ نہیں ہے،لیکن جب یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہاں حیوانوں سے بھی بڑھ کر ذلیل زندگی بسر کی جاتی ہے۔تو ہم کو اس طریق انسداد گناہ پر اور بھی حیرت ہوتی ہے اور کہنا پڑتا ہے کہ اس سے بہتر تھا کہ یہ کفارہ نہ ہوا ہوتا ۔جس نے اباحت کا دریا چلا دیا۔
اور پھر اس کو معافی گناہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔اسی طرح پر دوسرے لوگوں نے جو طریقے نجات کے ایجاد کئے ہیں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ اُن سے گناہ کی زندگی پر کبھی موت وارد ہوئے ہو۔پھر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شریر اور خطا کار قومیں معجزات دیکھ کر پیشگوئیان دیکھ کر باز نہیں آئیں۔حضرت موسیٰ کے معجزات کیا کم تھے۔؟ کیا بنی اسرائیل نے کھلے کھلے نشان نہ دیکھے تھے،مگر بتائو کہ اُن میں وہ تقویٰ اور خدا ترسی اور نیکی جو حضرت موسیٰؑ چاہتے تھے کامل طور پر پیدا ہوئے۔آخر
ضر بت علیہم الذلۃ والمسکنۃ (البقرہ : ۶۲)
کے مصداق وہ قوم ہو گی۔ پھر حصرت مسیح کے معجزات دیکھنے والے لوگوں کو دیکھو کہ اُن میں کہان تک نیکی اور پرہیز گاری اور وفاداری کے اصولوں کی رعایت تھی۔اُن میں سے ہی ایک اٹھا اور اے ربی تجھ پر سلام کہتے ہوئے پکڑوادیا ۔اور دوسرے نے سامنے *** کی۔ان ساری باتوں کو دیکھ کر پھر سوال ہوتا ہے کہ وہ کیا شئے ہے۔ جو انسان کو واقعی گناہ سے روک سکتی ہے؟۔
میرے نزدیک خدا تعالیٰ کا خوف اور خشیت ایسی چیز ہے جو انسان کی گناہ کی زندگی پر موگ وارد کرتے ہے۔جب سچا خوف دل میںپیدا ہوتا ہے تو پھر دعا کے لیے تحریک ہوتی ہے اور دعا وہ چیز ہے جو انسان کی کمزوریوں کا جبر نقصان کرتی ہے۔اس لیے دعا کرنی چاہیے۔خدا تعالیٰ کا وعدہ بھی ہے۔
ادعونی استجب لکم (المومن : ۶۱)
بعض وقت انسان کو ایک دھوکا لگتا ہے کہ وہ عرصہ دراز تک ایک مطلب کے لیے دعا کرتا ہے اور وہ مطلب پورا نہیں ہوتا تب وہ کھبرا جاتا ہے؛ حالانکہ گھبرانا نہ چاہیے۔بلکہ طلبگار باید صبور و حمول۔دعا تو قبول ہو جاتی ہے،لیکن انسان کو بعض دفعہ پتہ نہیں لگتا۔کیونکہ وہ اپنی دعا کے انجام اور نتائج سے آگاہ نہیں ہوتا اور اﷲ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اس کے لیے وہ کرتا ہے جو مفید ہوتا ہے۔اس لیے نادان انسان یہ خیال کر لیتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئے؛ حالانکہ اس کے لیے اﷲ تعالیٰ کے علم میں یہی مفید تھا۔کہ وہ دعا اس طرح پر قبول نہ ہو بلکہ کسی اور رنگ میں ہو۔اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک بچہ اپنی ماں سے آگ کا سرخ انگارہ دیکھ کر مانگے تو کیا دانشمند ماں اُسے دیدے گی؟ کبھی نہیں۔اسی طرح پر دعا کے متعلق کبھی ہوتا ہے۔غرض دائیں کرنے سے کبھی تھکنا نہیں چاہیے۔دعا ہی ایسی چیز ہے جو خدا کی طرف سے ایک قوت اور نور عطا کرتی ہے۔جس سے انسان بدی پر غالب آجاتاہے۔
/ 15/3/05
صداقت کے دلائل اور نشانات
مجھے با ر ہا اس امر کا خیال آیا کہ ہماری جماعت یہ افسو س نہیں کر سکتی کہ ہمیں خدا تعا لیٰ نے کچھ نہیں دکھایا ہے ۔بلکہ یہاں تو اس قدر ثبوت اور نشانات جمع کر دئیے ہیں کہ سلسلہ نبوت میں اس کی نظیریں بہت تھوڑی ملیں گی ۔ اللہ تعا لیٰ نے کوئی پہلو ثبوت کا خا لی نہیں رکھا ۔ نصو ص قرآنیہ و حدیثیہ ہماری تائد کرتے ہیں اور عقل اور قانو نِ قدرت ہماری مؤیدّ و معاون ہیں ۔ آسمانی تائیدات اور شواہد ہمارے ساتھ ہیں ۔ پھر کسی پہلو میں کمی نہں ۔ میں نے ارادہ کیا ہوا ہے کہ اپنی جماعت کی سہو لت اور آسانی کے لیے تین قسم کی تر تیبیں اپنے دعاومی دلائل کے متعلق دوں اور پھر وہ تر تیب شدہ نقشہ چھپ دیا جائے ۔ایک نقشہ تو حرو ف تہجی کی تر تیب پر ان نصوصِ قرآنیہ اورحدیثیہ کاہو جو ہمارے مؤیدّ ہیں ۔دوسرا نقشہ عقلی دلائل اور قانو ن قد رت کے شواہد کا ہو ۔ یہ بھی حرو ف تہجی کی ترتیب سے ہو ۔ ایسا ہی تیسرا نقشہ نشانات اورتائیدات ِسمادیہ کا ہو جو ہمارے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیے تھے ۔ یا خدا تعالیٰ نے ہمارے ہاتھ پر ظاہر کئے ۔مثلاًان کی ترتیب یوں سمجھئے:
(الف)
۱۔اِبْراء
اس سے ابراء کا نشان لو ۔یہ وہ نشان ہے جو مسٹر ڈگلس ۔ڈپٹی کمشنر گورد اسپور کے سامنے پورا ہو ا۔امر تسر کے ایک پادری ڈاکٹر کلارک نے مجھ پر اقدام ِ قتل کا مقدمہ بنایا تھا کہ عبدالمجید نام ایک شخص کو گویا میں نے قتل کے لیے بھیجا ہے یہ مقدمہ مسٹر ڈگلس کے سامنے پیش ہو ا ۔ او رخداتعالیٰ کے وعدہ اورپیش گوئی کے موافق مجھے بری کیا ۔جیساکے پہلے الہام ابراء ( بت قصورٹھہرانا ) ہو چکا تھا ۔جو لوگ اس وقت یہا ں ہمارے پاس موجود تھے ۔ اور دوسرے مقامات کے لوگ بھی اس امر کے گواہ ہیں ،کیونکہ مولوی عبدالکریم صاحب کی عادت ہے کہ جب وہ کوئی الہام وہ سنتے ہیں تو اُسے فوراً بذریعہ خطوط پھیلا دیتے ہیں ۔ اس طرح پر یہ الہامات جو اس مقدمہ کے نام و نشان سے بھی پہلے ہوئے تھے ہماری اپنی جماعت میں پورے طور پر اشاعت پاچکے تھے وہ اور سب لوگ جانتے ہیں کہ مقدمہ سے پہلے
ان ھذاالا تھدیدالحکام
اور صادق آں با شد کہ ایّام بلا (الخ) وغیرہ الہام ہوئے تھے ۔اور ان سب کے بعد اللہ تعالیٰ نے خبر دیدی تھی کے ابراء ( بے قصور ٹھہرانا )
ایک دانشمند اور سلیم فطرت اس عظیم الشان نشان سے بہت فائدہ اُٹھا سکتا ہے ۔اگراللہ تعالیٰ کی عظمت دل میں نہ ہو تو اوربات ہے ، مگر خداترس اور متقی آدمی سمجھ لیتا ہے کہ یہ پیشگوئی اس طرز کی نہیں ہے جیسے راول ہاتھ دیکھ کر اناپ شناپ بتا دیتے تھے ۔ یہ خد اکی باتیں ہیںجو قبل از وقت ہزارہا انسانوں میں مشتہر ہوئیں اور آخر اسی طرح ہو ؛ ورنہ کیا کسی کے خیال اور وہم میں یہ بات آسکتی تھی کے مِسَل پورے طور پر مرتّب ہو جاوے اور عبدالحمید اپنا اظہار بھی دے کہ ہاں مجھے بھیجا ہے ۔آخری وقت پر جو فیصلہ لکھنے کا وقت سمجھا جاتا ہے ۔ خداتعالیٰ نے مسٹر ڈگلس کہ دل میں القاء کیا کہ یہ مقدمہ بناوٹی ہے اور اس کے دل کو غیر مطمئن کردیا؛ چناچہ اس نے کپتان لیمارچنڈ کو ( جوڈسٹرکٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا ) کہا کہ میرا دل اس سے تسلی نہیں پاتا ۔ بہتر ہے ک وتم اس مقدمہ کی تفتیش کرو اور اور عبدالحمید سے اصل حالات معلوم کرو ؛ چناچہ جو کپتان لیمارچنڈ نے اس سے پوچھا ، تو اس نے پھر وہی پہلا بیان دیا ، مگر جب کپتان صاحب نے اسے کہاکہ تو سچ سچ بتا عبدالحمید رو پڑا اور اقرار کیا کہ جمجھے تو سکھایاگیا تھا اب بتاؤ کہ کیا یہ انسان کا کام ہے ۔ کیا ہرروز یہ لوگ مقدمات میں اسی طرح کیا کرتے ہیں ۔ واقعات پر فیصلہ دیتے ہیں ۔ یا دل کی تسلّیوں کو دیکھتے ہیں۔ یہ خداتعالیٰ کی قدرت کا کرشمہ تھا ۔ جو وہ وعدہ کرچکا تھا وہی

ہونا تھا ۔ پس ابراطء کا نشان عظیم الشان نشان ہے جو الف کی مد میں ہے ۔
۲۔ اٰوٰی
اور پھر اسی طرح اس مد میں اٰوٰی کانشان ہے جو خداتعالیٰ نے قادیان کوطاعون کی افراتفری سے محفوظرکھنے کے متعلق دیا ہے ۔
انہ اوی القریۃ۔
ملک میں طاعون کثرت سے پڑاہو اہے اورخداتعالیٰ قادیان کے انتشار اور موت الکلاب سے محفوظ رہنے کی بشارت دیتا ہے ۔ کہ اس گاؤ ں کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے ۔یعنی اس گاؤ ں پر خصوصیّت سے فضل رہے گا ۔ اوٰی کے اصل معنی یہ ہیں کہ اُسے منتشر نہ کیا جاوے اور جبکہ عام طور پر قانوناً یہ امر روارکھاگیا ہے کہ کسی گاؤں کو جبراً باہر نہ نکالا جاوے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ افراتفری موت الکلاب جو دوسرے شہروں میں پڑی ہے اس سے خداتعالیٰ قادیان کو محفوظ رکھے گا ۔ ینعنی یہاں طاعون ِ جارف نہ ہوگی ۔
۳۔ اَبْناَء
پھر اسی طرح الف کی مد میں ابناء کا نشان ہے ۔ کتابوں اور اشتہاروں کو پڑھو تو صاف معلوم ہوگا کہ ہر ایک کی پیدائش سے پہلے ایک اشتہار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ لڑکا پیداہوگا ؛ چناچہ ان اشتہاروں کے موافق یہ لڑکے پیداہوئے ہیں اور پھر یہاں تک کہ تعداد بھی بتادی کہ چارلڑکے ہوں گے اور چوتھے لڑکے کی بابت یہ بھی اعلان کردیا کہ عبدالحق نہ مریگا جب تک چوتھالڑکا پیداہونے کی خبر نہ سُن لے ۔ ایسے ہی مولوی صاحب ( مولوی نور الدین صاحب کے بیٹے کی بابت جب سعداللہ نے اعتراض کیا تو خداتعالیٰ نے میری دعاؤں کے بعد مجھے بشارت دی کہ مولوی صاحب کہ ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا ۔ یہاں تک کے اس کے بدن پر پھوڑوں کے نشان کا بھی پتہ دیا گیا اور اس کا علاج بھی بتایا گیا ۔ اب کیا اشتہار پہلے سے نہیں دیاگیا تھا؟ اب دیکھ لو اس اشتہار لے موافقوہ بچّہ عبدالحی نام مولوی صاحب کے گھر میں پیدا ہوگیا ۔ اور اس کے پھوڑوں کے نشانات بھی ہیں۔ یہ وہی خصوصیتیں ہیں جو انبیاء بنی اسرائیل کے وقت ہواکرتی ہیں ۔
۴۔ اَلَیْسَ اللہ بِکَاف ِ عَبْدَہٗ
پھر اسکے ساتھ اَلَیْسَ بِکَافِ عَبْدَہٗ ۔ کانشان ہے ۔ یہ بہت پرانا الہام ہے اوراس وقت کا جب میرے والد صاحب کا انتقال ہو ا۔میں لاہور گیا ہو ا۔ مرزاصاحب کی بیماری کی خبر جو مجھے لاہور پہنچی میں جمعے کو یہاں آگیا تو دردِ گردہ کی شکا یت تھی ۔ پہلے بھی ہو اکرتا تھا ۔ اس وقت تخفیف تھی ۔ ہفتہ کے دن دوپہر کو حُقہ پی رہے تھے اور ایک خدمت گار پنکھاکررہا تھا ۔ مجھے کہا کہ اب آرام کا وقت ہے تم جا کر آرا م کرو مَیں چوبارہ میں چلا گیا ۔ایک خدمت گا ر جمال ؔ نام میرے پاؤ ں دبارہا تھا ۔ تھوڑی سی غنودگی کہ ساتھ الہام ہو ا۔
والسماء والطارق ۔
اور معاً اس جے ساتھ یہ تفہیم ہوئی ۔ اب میں نہیںکہ سکتا کے لفظ پہلے آئے یا تفہیم ۔ قسم ہے آسمان کی اس حادثہ کو ج وغروب آفتاب کے بعد ہونے والا ہے ۔ گویا خداتعالیٰ عزا پرسی کرتا ہے ۔ یہ ایک عجیب بات ہے جس کو ہر ایک نہیں سمجھ سکتا ۔ ایک مصیبت بھی آتی ہے اور خدا اس کی عزاپرسی بھی کرتا ہے؛ چونکہ ایک نیا عالم شروع ہونے ولا تھا ۔ اس لیے خداتعالیٰ نے قسم کھائی مجھے دیکھ کر خداتعالیٰ کا عجیب احساس محسوس ہو ا کہ میرے والدصاحب کہ حادثہ انتقال کی وہ قسم کھاتا ہے اس الہا م کے ساتھ پھر معاً میرے دل میں بشریّت کہ تقاضے کہ موافق یہ خیال گزر ۔ اور میں اس کو بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے سمجھتا ہوں چونکہ معاش کے بہت سے اسباب ان کی زندگی سے وابستہ تھے ۔ کچھ انعام انہیں ملتا تھا ۔ اورکچھ مختلف صورتیں آمدنی کی تھیں ۔ جس سے کوئی دو ہزار کے قریب آمدنی ہوتی تھی ۔ میں نے سمجھاکے اب وہ چونکہ ضبط ہوجائیں گے ، اس لیے ہمیں ابتلاء آئے گا یہ خیال تکلف کے پر نہیں بلکہ خداہی کی طرف سے میرے دل میں گزرا ۔ اور اس کے گزرنے کے ساتھہی پھر یہ الہام ہو ا۔
الیس اللہ بکاف عبدہ
یعنی کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے ؛چناچہ یہ الہام میں نے ملاؔ دامل اور شرمپت کی معرفت ایک انگشتری میں کھداہو االہام موجود ہے۔
اب دیکھ لو کہ اس وقت سے لے کر آج تک کیسا تکفّل کیا ۔ اگر کسی کو شک ہو تو ملادامل ؔ اورشرمپت ؔ سے پو چھ لے ۔ محمدشریف کی اولاد موجودہے ۔ شاید وہ مہر کن بھی ہو ۔ تکفّل بڑھتا گیا ہے یا نہیں جس جس قدر ضروتیں پیش آتی گئی ہیں ۔ خو داس نے وعدہ کے موا فق تکفل کیا ہے اور کر تا ہے اب یہ بتاؤ کہ کیا یہ کوئی چھو ٹاسا نشان ہے ۔ اس طرح پر الف میں اور بہت سے نشان آسکتے ہیں ۔
(ب)
پھر اب (ب)کی مدمیں سے دیکھو ۔ نمبر (۱) بشیرے ۔یہ لڑکا بشیر جو اب مو جو د ہے اس کی بابت پہلے اشتہا ر ہوا تھا اور اس اشتہا ر کے موا فق یہ پیدا ہو ا پھر اس کی آنکھو ں سے اس قدر پانی جاری تکہ آنکھیںبو ٹی کی طرح سر خ ہو گئی تھیں ۔ اور مجھے اند یشہ تھا کہ آنکھو ں کو خطرناک نقصان نہ پہنچے ۔ اس وقت میں نے دعا کی تب یہ الہام ہوا بَرقَ طفلی َبشیر۔بہت سے لو گ اس الہام کے بھی گواہ موجود ہیں،کیو نکہ میں الہام پو شیدہ تو رکھتا ہی نہیں ہوں ۔تبریق کے معنے ہیں آنکھو ں کا اچھا ہو نا ؛چنانچہ ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ یہ با لکل اچھا ہو گیا ۔ ۱ ؎
۲۔بشمبر داس
اسی طرح ب کی مد میں بشمبر داس کو داخل کر تی ہیں ۔ بشمبر داس قادیا ن کا رہنے ایک ہندو تھا اور ایک خشحا ل بر ہمن جو اس وقت پٹواری تھا ۔یہ دو نوں ایک مقدمہ میں ماخو ذ ہو ئے ۔ جس میں خو شحا ل کو دو سال اور بشمبر داس کو ایک سال کی قید کی سزاہوئی ۔ شرمپت رائے نے آکر مجھے دعا کے واسطے کہا اور میں نے دعا کی تو میں نے کشف میں دیکھا کہ میں نے اپنے ہا تھ سے نصف قید کاٹدی ہے پھر میں نے دیکھا کہ مسل واپس آکر نصف قید رہ جاوے گی اور وہ خو شحا ل اپنی پوری سزا بھگتے گا ۔ یہ خبر میںنے پہلے شرمپت کو دے دی ۔ وہ اب تک زندہ موجود ہے اور اگراس کو قسم دے کر پو چھا جاوے ،تو وہ انکار نہ کریگا۔غرض آخر جس طرح پر میں نے خبر دی تھی اور مجھے دکھایا گیا تھا ۔ وہی ظہور میں آیا یعنی مسل واپس آئی۔ اور اس میں بشمبرکی نصف سزا رہ گئی ۔ وہ نصف قید بھگت کر رہا ہو ا ۔ اس پر شرمپت نے کہا کہ تم چونکہ متقی ہو،اس لیے دعا قبو ل ہو گئی ۔چو نکہ اسلام کے ساتھ لوگوں کو بغض اور عداوت ہے ۔ اس لیے شرارت سے اسلام کی تعریف نہ کی ۔ اس مقدمہ میں جب اپیل کیا گیا ، تو رات کو علی محمد نام ایک شخص آیا اور اس نے آکر مجھے خبر دی کے وہ بری ہوگئے ہیں ۔ مجھے یہ خبر سن کر تعجب ہو اکیونکہ میں نے مذکورہ بالا پیشگوئی کی تھی ۔اس تردّد میں جب میں نے نماز پڑھی تو نماز ہی میں الہام ہو ا
انک انت ا لا علی ۔
وہ رات تو گزر گئی اور میں نے مذید تحقیقایت نہ کی لیکن صبح کو اصل حال معلوم ہو گیا کہ اپیل لے گئے تھے جس سے یہ ڑلط نتیجہ نکال لیا گیا کہ وہ بَری ہو گئے ہیں ۔آخرجیسا کہ میں نے کہا ہے اسی طرح پیشگوئی کے موافق مثل واپس آئی اور اس میں بشمبر کی قید نصف رہ گئی اور خوشحال کو پوری سزا بھگتنی پڑی ۔
اب بتاؤ یہ خدا تعالیٰ کی طرف کیسے زبر دست نشان ہیں ۔ ابتک ان واقعات کے زندہ گواہ مو جو د ہیں۔ ان سے قسم دے کر پوچھاجائے کے کیا قبل از وقت بتایا گیا تھا یا نہیں ؟ اور پھرٹھیک پیشگوئی کے مطابق ان کا ظہور ہو ا ہے یا نہیں ؟ پھر اسی طرح جھنڈاسنگھ نامی ایک زمیندار کے ساتھ درخت کاٹنے کامقدمہ تحصیل میں دائرتھا,۔ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے معلوم ہواکے ڈگری ہواجائے گی ۔ جب کوئی دس بارہدن ہوئے ، تو لوگوں نے نٹالہ سے آتے کہا کہ وہ مقدمہ خارج ہوگیا ہے اور خود اس نے بھی آکر بطور تمسخر کہا کہ مقدمہ خارج ہو اگیا ہے ۔ مجھے اس خبر کے سننے سے اتنا غم ہواکبھی کسی ماتم سے بھی نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ڈگری کی خبر دی تھی ؛ یہ کیا کہتے ہیں ۔ وہ اسامی تھے اور ہم مالک اورمالک کی اجازت کی بغیر وہ درخت کاٹنے کے مجاز نہ تھے ؛ مختلف قسم کے پندرہ یا سولہ آدمی اس مقدمہ میں تھے ۔ مجھے بہت ہی غم محسوس ہو ا ۔ اور میں جیسے کوئی مبہوست ہوجاتا ہے ۔ سراسیمہ ہو کر سجدہ میںگر پڑا ۔ اور دعاکی تب ایک بلند آواز سے الہام ہو ا؛ ڈگری ہوئی ہے مسلمان ہے ۔‘‘یعنی آیا باور نمے کنی ۔صبح کو جب تحصیل گیا تو وہاں جاکر ایک شخص سے جو حاکم کا سررشتہ تھا ۔ میں نے دریافت کیا کہ فلاں مقدمہ خارج ہوگیا ہے ۔اس نے کہا نہیںا س میں تو ڈگری ہوئی ہے ۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ انہوں نے گاؤں میں مشہور کیا ہے کہ وہ مقدمہ خارج ہو گیاہے ۔ یہ کیا بات ہے ؟ اس نے کہا۔ کہ اصل بات یہ ہے کہ اس خبر میں وہ بھی سچّے ہیں ۔ جب حافظ ہدایت علی صاحب فیصلہ لکھنے لگے تو میں کہیں باہر چلاگیا تھا ۔ جب باہر سے آیا ،تو انھوں نے روبکارمجھے دی کے یہ مقدمہ خارج کر دیا ہے ۔ کہ سر رشتہ دار کہتا ہے کہ تب میں ان کو کہا کہ نے غلطی کی ہے ۔اس نے کہانہیں میں نے کمشنرکا فیصلہ جوا نھوں نے پیش کیا تھادیکھ لیا ہے ۔ میں نے ان کو کہا کہ فنانشل کمشنر کا فیصلہ بھی تو دیکھناتھا ۔ پھر اسے معلوم ہو اکہ وہ فیصلہ جو اس نے کیا تھا وہ غلط ہے ۔ اس نے رو بکار لے کر پھاڑ کر پھینک دی اور دوسری روبکارلکھی جس میںڈگری کافیصلہ دیا اور اس طرح پر پیشگوئی جوخداتعالیٰ نے قبل ازوقت مجھے بتلائی تھی ‘پوری ہوئی اس پیشگوئی کے بھی بہت سے لوگ گواہ ہیں اور ابتک موجودہیں ۔
(ث)
ثمانین حولا۔
پھر ث میں ثمانین حولا کی پیشگوئی ہے ۔ اس پیشگوئی پر ایک زمانہ گزر گیا۔ کوئی شخص ایک دم کے لیے بھی نہیں کہہ سکتاکہ میں زندہ رہوں گا۔ لیکن ایک خاص تعداد سالوں تک کی خبر دے دینا کیا یہ انسانی طاقت کاکام ہے ۔ اور پھر میرے جیسے آدمی کے لیے تو یہ قیافہ سے بھی ممکن نہیں ۔ جس کو دوبیماریاں لگی ہوئی ہیں ۔ باوجود ان بیماریوں اور ضعفوں کہ خداتعالیٰ کا یہ وعدہ دینا کہ تیری اسیّ برس کہ قریب عمر ہوگی ۔ کیسا عجیب ہے ۔ اور حقیقت میں خداہی کی طرف سے اس قسم کی خبر ہوسکتی ہے ؛ ورنہ عاجز انسان کچھ نہیںکہہ سکتا ۔ یہ پیشگوئی بھی پوری شدہ ہی سمجھ لیجیے، کیونکہ بہت عرصہ اس پر گزر گیا ہے میری عمر اب ساٹھ سے متجاوز ہو چکی ہے ۔
۲۔ثُلَۃٗ مِنَّ الْاَوَّلِیْنَ
پھر ثؔہی کی تدمین ایک اور پیشگوئی ہے ۔جو اس سے بھی عجیب تر اور عظیم الشان ہے۔ کہ خداتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
ثلۃ من الاولین وثلۃ من الا خرین ۔
اس سے ایک عظیم االشّان جماعت کے قائم کرنے کی خبر دیتا ہے ۔جس وقت یہ پیشگوئی کی گئی تھی ،اس وقت ایک آدمی بھی ہم کو نہیں جانتا تھا اور کو ئی یہا ں آتا جاتا نہ تھا۔براہینؔاحمدیہ میں یہ الہام درج ہے۔ لیکن اب دیکھ لو کہ ستّر ہزار سے زیادہ آدمی اس سلسلہ میں داخل ہو چکے ہیںاور دن بدن ترقی ہو رہی ہے ۔خاص قادیان میں ایک کثیر جماعت مو جو د رہتی ہے ۔پھر کیا یہ کوئی جھوٹ بات ہے ۔یہ خدا کے کام ہیں اور لوگوں کی نظروں میں عجیب ۔اور بھی ثؔکی مدمیں پیشگو ئیاں ہیں مگر میں اس وقت صرف مثال کے طور پر ایک دو بیان کرتا ہوں ۔
ج
۱۔جنازہ اسی طرح جؔ کی مد میں جنازہ کاالہام ہے ۔ جب ہمارے بڑے بھائی صاحب مرزاغلام قادر مرحوم فوت ہوئے ، توان کے مرنے سے پہلے جنازہ کا الہام ہو ا۔
۲۔ جمال الدین
اوراسی طرح جمال الدین کے متعلق بھی الہام ہو اتھا ۔ خواجہ جمال الدین صاحب جب اپنے امتحان منصفی میں فیل ہوئے ، تو میں نے دعاکی ۔ استغفار لہ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سے بہتر ان کو جگہ دے دی ۔
۳۔جمع بین الصلوٰتین
پھر ج ؔ کی مد میں
جمع بین الصلوٰتین
کی پیشگوئی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسیح موعود کے لیے ایک نشان ٹھہرایا ہے ۔ اس پیشگوئی کو پوراکرنا اختیاری امر نہیںہے ۔ موت سر پر ہے ۔ خدا جو چاہتاہے کرتاہے ۔ وہ خود اس کی تکمیل کررہاہے ۔
‏Amira 15-3-05
جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا ۔وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت بھی نہیں کرتا ہے۔ اس پیشگوئی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔کیونکہ لکھا ہے کہ تجمع لہ الصلوٰۃ۔یعنی اس کے لیے نماز جمع کی جائے گی۔ایسے امور جمع ہو جائیں گے کہ اس کے لیے نمازیں جمع کرنی پڑیں گی۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت جو میں اپنا اعتقاد رکھتا ہوں۔اس کومین کسی کے دل میں نہیں دال سکتا۔میں ایک سچے مسلمان کے لیے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ان امور کے ساتھ جو آپؐ کی نبوت کے لیے بطور شہادت ہوں۔محبت کی جاوے۔ان میں سے یہ پیشگوئیاں بھی ہیں۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کشفی کیسی تیز ہے۔اور آپؐ کی نگاہ کیسی دور تک پہنچنے والی تھی کہ آپؐ نے سارا نقشہ اس زمانہ کا کھینچ کر دکھایا ۔ہم اس پیشگوئی کو جوتجمع لہ الصلوٰۃ ہے۔بہت ہی بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔اس کے پورا ہونے پر ہمیں ایک راحت اور لذت آتی ہے جو دوسرے کے آگے بیان نہیں کر سکتے،کیونکہ لذت خواہ جسمانی ہو،خواہ روحانی۔ایک ایسی کیفیت اور اثر ہے جو الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتا۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سے کمال درجہ کی عزت اور صداقت ثابت ہوتی ہے کہ آپؐ نے جو کچھ فرمایا۔وہ پورا ہوا۔اب بتائو کہ کیا یہ امور جو جمع نماز کے موجب ہوئے ہیں۔خود ہم نے پیدا کر لیے ہیں یا خدا تعالیٰ نے یہ تقریب پیدا کر دی ہے؟ صحابہ نے اس پیشگوئی کو سنا مگر پوری ہوتے نہیں دیکھا اور اب جو پیشگوئی پوری ہوئی اور انہیں اس کی خبر ملتی ہے تو انہیں کیسی لذت آتی ہے۔میں سچ کہتا ہوں کہ جیسا اس پیشگوئی کے پورا ہونے سے ہم ایک لطف اور لذت اٹھارہے ہیں۔آسمان پر بھی ایک لذت ہے۔اس لیے کہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور عظمت کا اظہار ہوتا ہے۔صوفیوں نے لکھا ہے کہ بعض زمینی امور ایسے ہوتے ہیں کہ آسمان پر اُن کی خبر دی جاتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں جو کچھ ہوتا ہے،اس کی خبر دی جاتی ہے اور اس کا انتشار ہوتا ہے۔غرض یہ بڑی عظیم الشان پیشگوئی ہے۔جس سے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق ہوتی ہے۔اُن کو حقیر سمجھنا کفر ہے۔یہ دوہرا نشان ہے۔ایک طرف ہماری صداقت کیلئے کیونکہ ہمارے لئے یہ نشان رکھا گیا تھا۔دوسری طرف خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہ آپؐ کی فرمائی ہوئی پیشگوئی پوری ہوئی۔لوگ نالاقفی اور جہالت سے اعتراض کرتے ہیں ؛حالانکہ یہ امر بہت ہی قابل غور ہے۔کیا ہم نے خود ایسے امر پیدا کر لیے ہیں کہ نمازیں جمع کی جائیں؟پھر جب یہ امر سب خدا کی طرف سے ہیں تو پھر اعتراض کرنا ہی نری حماقت اور خبث ہے جو لوگ اس پیشگوئی پر اعتراض کرتے ہیں وہ مجھ پر نہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بلکہ خدا تعالیٰ پر اعتراض کرتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک آدھ مرتبہ نماز جمع نہ ہوگی،بلکہ ایک اچھی میعاد تک نماز جمع ہوتی رہے گی،کیونکہ ایک آدھ مرتبہ جمع کرنے کا اتفاق تو دوسرے مسلمانوں کو بھی ہو جاتا ہے۔پس یہ خدا کا زبردست نشان ہے جو ہماری اور ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر ایک زبردست گواہ ہے۔
(ح)
۱۔حیات خاں
ایسا ہی پھر ح ؔ کی مد میں حیات خاں کا مقدمہ ہے ۔بہت سے لوگ اس امر کے گواہ ہیں۔یہانتک کہ اکثر ہندوئوں کو بھی معلوم ہے اور میرے لڑکے فضل احمد اور سلطان احمد بھی اس میں گواہ ہیں۔سردار حیات خاں ایک دفعہ کسی مقدمہ میں معطل ہو گیا تھا۔میرے بڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم نے مجھے کہا کہ ان کے لیے دعا کرو۔میں نے دعا کی تو مجھے دکھایا گیا یہ کہ کرسی پر بیٹھا عدالت کر رہا ہے۔میں نے کہا یہ تو معطّل ہو گیا ہے۔کسی نے کہا کہ اس جہاں میں معطّل نہیں ہوا۔تب مجھے معلوم ہوا کہ یہ بحال ہو جائے گا؛چنانچہ اس کی اطلاع دی گئے اور تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ پھر بحال ہو گیا۔
۲۔حَانَ اَن تُعَانَ
ایسا ہی فحان ان تعان وتعرف بین الناس یہ پیشگوئی بھی وہیں موجود ہے۔کوئی ثابت کرے کہ اس الہام کے وقت کتنی جماعت تھی۔یا میں ہوتا تھا یا میاں شمس الدین جو براہینؔاحمدیہ کے مسودے لکھا کرتا تھا،مگر اب خدا تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق لاکھوں کروڑوں انسانوں میں اس کو پورا کیا اور کر رہا ہے۔ہر نیا دن اس پیشگوئی کی شان اور عظمت کو بڑھا رہا ہے جوں جوں یہ سلسلہ ترقی کرتا جاتے ہے۔
(خ)
خسوف وکسوف
پھر خ ؔہے۔اس میں خسوف کسوف کی عظیم الشان پیشگوئی ہے۔اس کو دیکھو کہ تیرہ سو برس کے بعد یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہدی کا نشان مقرر کیا تھا کہ اس کے وقت میں رمضان کے مہینہ خسوف اور کسوف ہوگا اور پھر یہ بھی فرمایا ہے کہ یہ نشان ابتدائے آفرینش سے لے کر کبھی نہیں ہوا۔کس قدر عظیم الشان نشان ہے جس کی نظیر آدمؑ سے لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت تک اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر مہدی کے وقت تک پائی نہیں جاتی۔اب تجھے جو دجال اور کذاب کہا جاتا ہے۔کیا کاذب اور دجال کے لیے ہی اﷲ تعالیٰ نے یہ نشان مقرر کیا تھا۔کیا خدا تعالیٰ کو بھی دھوکا لگ گیا۔کہ ایک تو مجھے صدی کے سر پر بھیجا۔اور پھر وہ تمام نشانت اور علامات بھی قائم کر دیئے۔جو مسیح موعود اور مہدی موعود کے وقت کے مقرر تھے۔صلیب کا غلبہ بھی میرے وقت میں ہی ہو گیا۔اور پھر خسوف و کسوف کا نشان بھی پورا کر دیا۔اس قدر لمبا سلسلہ خدا نے دھوکے کا رکھا۔خدا تعالیٰ کی شان اس سے منزہ ہے۔کہ وہ کسی کو دھوکا دے۔مسلمانوں کی موجودہ حالت تو چاہتی تھی کہ کسی راستباز اور صادق کے ساتھ ان کی تائید کی جاتی نہ کہ کاذب اور مفتری کو بھیجا جاتا۔اور پھر یہ کہ کاذب کے وقت میں نشان وہ پورے کئے جو صادق کے لیے مق