• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 20

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 20


بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
پیش لفظ
اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود (اللہ آپ سے راضی ہو) کی حقائق و معارف سے پُرسلسلۂ تصانیف بنام ’’انوارالعلوم‘‘ کی بیسویںجلد احبابِ جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ وَمَا تَوْفِیْقَنَا اِلاَّ بِاللّٰہِ الْعَزِیْزِ
’’انوارالعلوم‘‘ کی بیسویںجلد حضرت مصلح موعود کی ۱۹۴۸ء کی چھ تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے جس میں معرکۃ الآرا تصنیف دیباچہ تفسیر القرآن بھی شامل ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہوشیارپور میں چلّہ کشی کے دوران آپ کی تضرعات کو پایۂ قبولیت بخشتے ہوئے ایک عظیم الشان پیشگوئی سے نوازا جو اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء میں شائع ہوئی۔ اس پیشگوئی میں ۵۲ علامات کے حامل پسر موعود کا وعدہ دیا گیا۔ جس کے بارہ میں فرمایا گیا کہ ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا، وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا، کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوگا، قومیں اُس سے برکت پائیں گی، اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا۔‘‘ اِس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو ایک فرزندِ دلبند، گرامی ارجمند عطا فرمایا جس کے وجود میں ۵۲ علامات کا شاندار ظہور ہوا اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے خود اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر ۱۹۴۴ء میں اپنے مصلح موعودہونے کا اعلان فرمایا۔
حضرت فضل عمر اپنی تمام عمر علومِ ظاہری و باطنی اور اپنی ذہانت و فطانت کے ذریعہ اقوامِ عالم کی راہنمائی کرتے رہے۔ اپنوں نے بھی فیض پایا اور غیروں نے بھی برکت حاصل کی۔ کلام اللہ کا مرتبہ اِس شان سے ظاہر ہوا کہ اغیار نے بھی کہا کہ مرزا محمود کے پاس قرآن ہے تم اُس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہو۔ اَلْفَضْلُ مَا شَھِدَتْ بِہِ الْاَعْدَائُ
قوموں کی رستگاری کا عظیم کارنامہ عمر بھر سرانجام دیتے رہے۔ کشمیر کے حقوق اور آزادی کی بات ہو یا مسلمانانِ ہند کی آزادی کا مسئلہ، فلسطینیوں کے حقوق و مسائل کی بات ہو یا عربوں کے حقوق و مسائل کی آپ نے بابانگِ دہل ان کے حق میں آواز اُٹھائی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس سعی جمیلہ کو قبول فرمایا۔
’’انوارالعلوم‘‘ کی بیسویں جلد ۱۹۴۸ء کی چھ تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔ یہ وہ دَور ہے جب کہ ہجرتِ پاکستان کا واقعہ ابھی بالکل تازہ تھا اور حضور عارضی طور پر رتن باغ لاہور میں فروکش تھے۔ اسی سال اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم خلیفہ کی برکت سے جماعت کو دوسرا مرکز ’’ربوہ‘‘ عطا فرمایا۔ جلسہ سالانہ لاہور کا انعقاد ہوا۔ سیاسی منظر نامے میںحیدر آباد دکن پر قبضہ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات ہوئی۔ اِن مواقع پر حضور کی تحریرات احمدیو ں اور اہل پاکستان کی راہنمائی کا موجب بنیں۔
حضور کی معرکۃ الآراء تصنیف ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘ بھی ستمبر ۱۹۴۸ء میں منظر عام پر آئی۔ جس میں ضرورتِ قرآن اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح اور صداقت کا بیّن اظہار فرمایا۔ اور اس سلسلہ میں یورپ کے اعتراضات کے دندان شکن جوابات سپردِ قلم فرمائے۔
احمدیت کیا ہے اور کس غرض کے لیے اس کو قائم کیا گیا؟ اِس بنیادی سوال کا خوبصورت اور مدلل جواب ’’احمدیت کا پیغام‘‘ کتابچہ میں تحریر فرمایا۔ یہ کتابچہ بھی اِس جلد کی زینت ہے۔
۱۹۴۸ء میں ہندوستان کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور نے جو رُوح پرور اور زندگی بخش پیغام شرکائے جلسہ کے نام ارسال فرمایا اُس کو بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے۔ غرضیکہ جلد ھٰذا جہاں حضور کے تبحر علمی کی آئینہ دار ہے وہاں ۱۹۴۸ء کے معروضی حالات پر بھی روشنی ڈالنے والی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس مواد کو نافع الناس بنائے۔ آمین
اِس موقع پر خاکساراپنے قارئین کرام سے ایک نہایت اہم اور ضروری گزارش کرنا چاہتا ہے۔ ’’انوارالعلوم‘‘ کی اشاعت کا جب منصوبہ شروع کیا گیا تو اُس وقت یہی خیال تھا کہ ۲۰ جلدوں میں جملہ تحریرات و خطابات مدوّن ہو جائیں گے۔ چنانچہ ۱۹۹۵ء میں تین ہزار روپے ایڈوانس بکنگ کی صورت میں سیٹ کی قیمت مقرر ہوئی۔ جسے طباعت اور کاغذ کی گرانی کے پیش نظر ۲۰۰۸ء میں چار ہزار روپے کر دیا گیا۔ خداتعالیٰ کے فضل سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو ’’انوارالعلوم‘‘ کی ۲۰ جلدیںشائع کرنے کی توفیق مل چکی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ
اِن کتب کی اشاعت کے دوران اخبارات و رسائل میں سے کافی تعداد میں مزید مواد ملا ہے جو ابتدائی فہرست میں شامل نہ تھا۔ اِسی طرح حضور کا غیر مطبوعہ مواد بھی مل رہا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں نئی صورتِ حال تحریر کی گئی تو حضورانور نے فرمایا:
’’جو مواد میسر ہے سب شائع ہونا چاہیے‘‘۔
چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیر کے اِس ارشاد کے مطابق حضرت مصلح موعود کا جو بھی مواد میسر ہوگا وہ سب انوارالعلوم کی مزید جلدوں میں مدوّن کر کے طبع کیا جائے گا۔ انشاء اللہ
انوارالعلوم کی ۲۰ جلدوں میں ۲۰؍دسمبر ۱۹۴۸ء تک کا مواد شامل کیا گیا ہے۔ ۲۵؍دسمبر ۱۹۴۸ء سے دسمبر ۱۹۶۵ء تک تقریباً پانچ جلدوں کا مواد موجود ہے جس کی ابتدائی ترتیب دے دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ مربیان کرام کی آمدو روانگی کے موقع پر حضور کے خطابات نیز طلبہ مدرسہ احمدیہ و ہائی سکول سے خطابات کا مواد علیحدہ سے تقریباً دو جلدوں کا موجود ہے۔ اسی طرح قبل از خلافت تشحیذالاذہان، ریویو آف ریلیجنز اور الفضل کے مضامین اور غیر مطبوعہ مواد کی تین جلدیں بن سکتی ہیں۔ خلافت کے بعد تشحیذ، ریویو اور الفضل کے مضامین و غیر مطبوعہ مواد کی ایک جلد تیار ہو جائے گی۔ انشاء اللہ
قبل ازیں ۲۰ جلدوں کے لیے ایڈوانس بکنگ کی سہولت دی گئی تھی۔ اب مزید ۱۱/۱۰ جلدوں کے لیے بھی یہی سہولت میسر ہوگی لیکن اِس کی حتمی قیمت بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں طے کر لی جائے گی۔
خاکسار اُن تمام احباب جماعت کا شکر گزار ہے جنہوں نے کتب کی خریداری میں ادارہ ھذا سے ہر ممکن تعاون فرمایا۔ خاکسار امید کرتا ہے کہ آئندہ جلدوں کی خریداری کے سلسلہ میں بھی احباب کا تعاون ہمیں حاصل رہے گا تا کہ ہم سیدنا حضرت فضل عمر کے علمی فیضان کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں اور حضرت مصلح موعود کے روح پرور اور ولولہ انگیز خطابات کے ذریعہ ہماری علمی اور روحانی آبیاری ہوتی رہے۔ آپ سب کے تعاون پر خاکسار از حد ممنون ہے۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ۔
اس جِلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں حسبِ سابق بہت سے بزرگان اور مربیان کرام نے اِس اہم اور تاریخی کام کی تدوین و اشاعت میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے۔ مکرم مولانا فضل الٰہی صاحب بشیر اور مکرم چوہدری رشید الدین صاحب نے مسودات کی ترتیب و اصلاح اور ابتدائی پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں بہت محنت و اخلاص سے خدمات سرانجام دی ہیں۔
مکرم عبدالرشید صاحب اٹھوال، مکرم حبیب اللہ صاحب باجوہ اور مکرم فضل احمد صاحب شاہد مربیان سلسلہ نے پروف ریڈنگ، حوالہ جات کی تلاش، مسودات کی نظر ثانی، اعراب کی درستگی، Re-Checking اور متفرق امور کے سلسلہ میں دلی بشاشت اور لگن سے اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے۔ تعارف کتب مکرم مبشر احمد صاحب خالد مربی سلسلہ کا تحریرکردہ ہے۔ فَجَزَاہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ۔
خاکسار ان سب احباب کا ممنونِ احسان اور شکرگزار ہے۔ نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن سب دوستوں کے علم و معرفت میں برکت عطا فرمائے، اپنی بے انتہا رحمتوں اور فضلوں سے نوازے اور ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے اور حضرت مصلح موعود کے علمی فیضان کو احباب جماعت تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
والسلام
خاکسار
ناصر احمد شمس
سیکرٹری فضل عمر فائونڈیشن
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تعارف کتب
یہ انوار العلوم کی بیسویں جلد ہے جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی ۱۹۴۸ء کی چھ مختلف تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے۔
(۱)اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو
سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی جب ۱۹۴۸ء میں پہلی دفعہ کوئٹہ تشریف لے گئے تو مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ نے حضور کے اعزاز میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا۔ اِس موقع پر حضور نے یہ انتہائی ایمان افروز تقریر فرمائی جو پہلی دفعہ مؤرخہ ۱۱؍ اکتوبر ۱۹۶۱ء کو افادۂ عام کے لیے روزنامہ الفضل میں شائع کی گئی۔ اِس پُر معارف تقریر میں حضور نے متعدد امور کی طرف توجہ دلائی جن میں سے خاص طور پر قرآن کریم کی صحت تلفظ کے ساتھ تلاوت کرنا ہے۔ اسی طرح حضور نے عیسائیوں کے اسلامی تعلیم پر متعدد اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اب عیسائیوں کی نئی نسل آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات کی حکمتوں کو سمجھنے اور ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تمام دنیا صداقت اسلام کی قائل ہو جائے گی مگر اس کے ساتھ آپ نے احبابِ جماعت کو یہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’دنیا میں آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس نے صرف میٹھی میٹھی باتوں سے دنیاکوفتح کر لیا ہو۔ قومیں ہمیشہ مصیبتوں او ر ابتلائوں کی تلواروں کے سایہ تلے بڑھتی او ر ترقی کرتی ہیں اور اُنہیں لوگوں کے اعتراضات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔پس اپنے آپ کو اِس فتح کااہل بنائو۔ جب تک آپ لو گ خدااور اس کے رسول ؐ کے دیوانے نہیں بن جاتے ،جب تک موجودہ فیشن اور رسم و رواج کو کچلنے کے لئے تیار نہیں ہوجاتے اُس وقت تک اسلامی احکام کو ایک غیر مسلم کبھی بھی قبول کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہوگا ۔‘‘
(۲) دیباچہ تفسیر القرآن
اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی مصلح موعود میں پسر موعود کی علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ ’’وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا… کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہوگا‘‘۔ حضرت مصلح موعود کے متعلق بیان فرمودہ اِس علامت سے ظاہر ہے کہ خداتعالیٰ نے خود آپ کا معلّم بننا تھا اور خود آپ کو ظاہری و باطنی علوم سے بہرہ ور کرنا تھا۔چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ کسی علم میں بھی دنیا کا کوئی عالم آپ کا مقابلہ نہ کر سکا اور جس کو بھی آپ سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا وہ اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا کہ واقعی مذکورہ بالا پیشگوئی کا حرف حرف آپ کے وجود میں پورا ہوا۔ بِالخصوص قرآن کریم کے علوم و معارف پر آپ کو ایسی دسترس عطا فرمائی گئی کہ غیر بھی اس کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ پاک و ہند کے ایک مایہ ناز اِنشا پرداز اور اُردو ادب کے مسلّم نقاد علامہ نیاز فتح پوری صاحب نے آپکی شہرۂ آفاق ’’تفسیر کبیر‘‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کی خدمت میں تحریر فرمایا کہ:۔
’’اِس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویۂ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحر علمی، آپ کی وسعت نظر، آپ کی غیرمعمولی فکروفراست، آپ کا حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے‘‘۔
( الفضل ۱۷؍ نومبر ۱۹۶۳ء)
حضرت مصلح موعود کے انتقال پر مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے لکھا کہ:۔
’’علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح، تبیین و ترجمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی بلند و ممتاز مرتبہ ہے‘‘۔(صدقِ جدید لکھنو ۱۸؍ اپریل ۱۹۶۵ء)
حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ خود فرمایا کہ:
’’میں وہ شخص تھا جسے علومِ ظاہری و باطنی میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لیے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آ سکتے تھے‘‘۔(الموعود صفحہ۲۱۰)
ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا کہ:
’’میں نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا۔ ہر دفعہ فیل ہی ہوتا رہا ہوں مگر اب میں خدا کے فضل سے کہتا ہوں کہ کسی علم کا مدعی آ جائے اور ایسے علم کا مدعی آ جائے جس کا میں نے نام بھی نہ سنا ہو اور اپنی باتیں میرے سامنے مقابلہ کے طور پر پیش کرے اور میں اُسے لاجواب نہ کر دوں تو جو اُس کا جی چاہے کہے‘‘۔(ملائکۃ اللہ صفحہ۵۳)
پس زیر نظر کتاب ’’دیباچہ تفسیر القرآن‘‘ حضرت مصلح موعود کے مذکورہ بالا دعاوی کا منہ بولتا ثبوت ہے جسے حضور نے ایک قلیل وقت میں تصنیف فرمایا۔ اِس میں یورپ کے نقادین اسلام کے مشہور اعتراضات کے دندان شکن جوابات دیئے گئے ہیں اور ضرورتِ قرآن پر نہایت لطیف رنگ میں بحث کی گئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس سیرت کے واقعات از ولادت تا وفات ایسے عمدہ اور دلکش پیرایہ میں بیان کیے گئے ہیں جو اپنی نظیر آپ ہیں نیز آپ کے بارہ میں بائبل میں مندرج پیشگوئیاں بھی تفصیل سے بیان کی گئی ہیں۔ اس کے مضامین عالیہ اوربراہین نیرہ مندرجہ ذیل شعر کے مصداق ہیں۔
اَحَادِیْثُ قَدْ صِیْغَتْ فَتُلْھِیْ بِحُسْنِھَا
عَنِ الْوَشْیِ اَوْ شُمَّتْ لَاَغْنَتْ عَنِ الْمِسْکِ
یعنی اس کے مضامین اور عبارتیں ایسے رنگ میں ڈھالی گئی ہیں کہ جو اپنی ذاتی زیبائش اور حسن کی وجہ سے بناؤ سنگھار اور نقش و نگار سے مستغنی کر دیتی ہیں اور اگر اُنہیں سونگھی جانے والی چیز سے تشبیہہ دی جائے تو اس کی خوشبو کستوری سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ یہ کتاب کلام اللہ قرآن کریم کے عالی مرتبت ہونے کو ثابت کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اِس معرکۃ الآراء کتاب کو ہمیں پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(۳) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں ہمارے
ہاتھ سے قائم ہوگی
سیدنا حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور تقریر مؤرخہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۴۸ء بروز دوشنبہ ربوہ کے افتتاح کے موقع پر ارشاد فرمائی تھی۔ یہ تقریر شروع کرنے سے پیشتر حضور نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعائیں پڑھیں جو آپ نے مکہ مکرمہ کی بنیاد رکھتے وقت پڑھی تھیں۔ ان دعاؤں کے بعد سب سے پہلے حضور نے ان دعاؤں کے اس موقع پر پڑھنے اور مانگنے کی حکمت اور فلسفہ بیان فرمایا۔ اِس کے بعد آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور مقام و مرتبہ کو دنیا میں ایک دفعہ پھر قائم کر کے دکھانے کا عزم ظاہر فرمایا کیونکہ آپؐ محسن انسانیت ہیں اور فرمایا اگر اِس کام میں ہماری جانیں اور ہمارے بیوی بچوں کی جانیں بھی چلی جائیں تو یہ ہمارے لیے عزت کا موجب ہوگا۔ نیز آپ نے فرمایا کہ اِس وقت جس قدر تحریکیں دنیا میں جاری ہیں وہ ساری کی ساری دُنیوی مقاصد پر مبنی ہیں صرف ایک ہی اہل دین حق کی مذہبی تحریک ہے اور وہ احمدیت ہے۔ یہ وہ تحریک ہے جس میں دنیا کے ہر مذہب، ہر قوم، ہر زبان اور ہر مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والا شامل ہو سکتا ہے۔ پس یہی ایک جماعت ہے جس نے دین حق کے جھنڈے کو بلند رکھنے کا عزم کر رکھا ہے۔ جس کے لیے شہروں کو چھوڑ کر اس بے آب و گیاہ میدان کا انتخاب کیا ہے۔ اِس کے بعد حضور نے ربوہ کی زمین کے انتخاب کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اِس تعلق میں اپنی ایک ۶ سالہ پُرانی رؤیا بیان فرمائی۔ نیز اس کے حصول کے سلسلہ میں ہونیوالی کوششوں کا بھی ذکر فرمایا۔ یہ تقریر الفضل کے سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔
(۴) مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب
حضرت مصلح موعود نے یہ مضمون بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے موقع پر تحریر فرمایا جو مؤرخہ ۲۱؍ ستمبر ۱۹۴۸ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوا۔
اِس مضمون کا آغار حضور نے اپنی ایک رؤیا سے کیا ہے جس میں آپ کو ابوالہول جیسی ایک چیز دکھائی گئی جس کے دو سَر تھے۔ یہ رؤیا حضور کو ۱۱ اور ۱۲ ستمبر کی درمیانی رات کو دکھائی گئی جبکہ قائد اعظم کی وفات مؤرخہ ۱۱ ؍ستمبر کو رات ۱۰ بجے ہوئی تھی۔ حضور کا سونے کا معمول عموماً رات تقریباً گیارہ بجے کے بعد ہوتا تھا اس لیے یہ یقینی بات ہے کہ یہ رؤیا حضور کو قائد اعظم کی وفات کے بعد رات کو دکھائی گئی۔ مگر سونے سے قبل تک حضور کو قائد اعظم کی وفات کی ابھی اطلاع نہیں ملی تھی۔ پس حضور نے اس رؤیا کی تعبیر یہ فرمائی کہ اِس رؤیا میں جس چیز کی شکل دکھائی گئی اس کے دو سَر تھے جس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں پر دو مصیبتیں آنے والی ہیں مگر مسلمان ان دونوں مصیبتوں کو برداشت کر جائیں گے۔ ان میں سے ایک مصیبت تو قائد اعظم جیسے ایک عظیم لیڈر کی وفات اور دوسری مصیبت حیدر آباد دکن پر ہندوستانی فوج کا قبضہ تھا۔
اِس مضمون کے آخر پر حضور نے حیدر آباد دکن کی سلطنت کی کچھ تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حق تو یہ ہے کہ حیدر آباد دکن اپنے حالات کے لحاظ سے انڈین یونین میں ہی شامل ہونا چاہیے تھا جس طرح کہ کشمیر اپنے حالات کے لحاظ سے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے لیکن ان واقعات پر کوئی جزع فزع کرنے کی بجائے مسلمانانِ پاکستان اگر مضبوط ارادے ، بلند حوصلہ اور پختہ عزم سے کام لیں تو یقینا پاکستان روز بروز ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا کی مضبوط ترین طاقتوں میں سے ہو جائے گا۔
(۵) احمدیت کا پیغام
حضرت مصلح موعود نے یہ کتابچہ اکتوبر ۱۹۴۸ء میں تحریر فرمایا۔ اس کتابچہ میں احمدیت سے متعلق اِس بنیادی سوال کہ’’احمدیت کیا ہے اور کس غرض سے اس کو قائم کیا گیا ہے؟‘‘ کا جواب تحریر فرمایا ہے جس میں نہایت ہی آسان پیرایہ میں جماعت احمدیہ کا عقائد کے لحاظ سے تعارف کروایا گیا ہے۔ اِس تعلق میں سب سے پہلے آپ نے مذکورہ بالا سوال کرنیوالوں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں ہے اور نہ ہی احمدیوں کا کوئی الگ کلمہ ہے۔ آپ نے تحریر فرمایا کہ دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف اسلام کو یہ فخر اور اعزاز حاصل ہے کہ اس کا ایک کلمہ ہے۔ اور احمدیت چونکہ حقیقی دین ہونے کی دعویدار ہے اس لیے جماعت احمدیہ کا کلمہ بھی وہی ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
اِس کے بعد حضور نے جماعت احمدیہ کے متعلق عقائد کے لحاظ سے بعض شکوک کا ازالہ فرمایا جس میں ختم نبوت، ملائکہ اللہ، نجات، احادیث، تقدیر، جہاد جیسے مسائل کے متعلق جماعت احمدیہ کا نقطۂ نظر بیان فرمایا۔
اِسی طرح اِس کتابچہ میں ایک نئی جماعت بنانے کی وجہ اور غرض و غایت بیان فرمائی۔ نیزجماعت احمدیہ کے پروگرام پر روشنی ڈالی اور آخر پر احمدیوں کو دوسری جماعتوں سے علیحدہ رکھنے کی وجہ بیان فرمائی۔
پس یہ کتابچہ جماعت احمدیہ کے تعارف کے لحاظ سے انتہائی لاجواب ہے جسے ہمیں کثرت سے دوسروں کو پڑھانا چاہیے۔
(۶) ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام
حضرت مصلح موعود نے ۱۹۴۸ء کے جلسہ سالانہ ہندوستان کے موقع پر ہندوستان کے احمدیوں کے نام جو پیغام ۲۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو تحریر کر کے ارسال فرمایا اِس پیغام کو اب انوارالعلوم کی اِس جلد نمبر۲۰ میں شامل اشاعت کیا جا رہا ہے۔
اِس پیغام کے آغاز میں حضور نے اس جلسہ سالانہ کے منعقد کرنے پر جماعت احمدیہ بھارت کو ھدیۂ تبریک پیش کیا۔ اس کے بعد فرمایا کہ جماعتیں صدمات میں سے گذرے بغیر کبھی بڑی جماعتیں نہیں بن سکتیں۔ (حضور کا اس میں دراصل پارٹیشن کی طرف اشارہ تھا) پارٹیشن کے نتیجہ میں جو جماعتی نقصان ہوا اُس کے ذکر کے بعد حضور نے ہندوستان کے احمدیوں کو اُس وقت کے حالات کے پیش نظر اُن کی دمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ:۔
’’پس آپ لوگ اب اپنی نئی ذمہ داریوں کوسمجھتے ہوئے نئے سرے سے اپنے دفاتر کی تنظیم کریں اورہندوستان کی باقی جماعتوں کودوبارہ زندہ کرنے اورزندہ رکھنے کی کوشش کریں ۔صرف یہی نہیں بلکہ ان کو بڑھانے اورپھیلانے کی کوشش کریں۔ وہ تمام اغراض جن کے لئے احمدیہ جماعت قائم کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہیں ۔ان اغراض کو سامنے رکھ کر صدر انجمن احمدیہ کی تنظیم کریں اور تمام ہندوستان کی جماعتوں کے ساتھ خط و کتابت کرکے ان کو منظم کریں اورپھیلنے پھولنے میں مدد دیں۔ ‘‘



اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو
(فرمودہ ۷؍اگست ۱۹۴۸ء بمقام کوئٹہ )
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
اچھاکام تعریف کے قابل ہوتاہے اور بُراکام مذمت کے قابل ہوتاہے لیکن کبھی کبھی استاد اپنے شاگردوں کادل بڑھانے کیلئے ان کے تھوڑے اور نامکمل کام کو بھی قابلِ تعریف ظاہر کرتاہے اور کبھی و ہ ان کے اندرنیا عز م پیداکر نے کیلئے ان کے اچھے کاموں کو بھی قابلِ اعتراض اورقابلِ تنقید قرار دیتاہے ۔جس کی وجہ سے شاگرداپنے کاموں کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ۔
عرفی یاانوری ان دونوں میں سے کسی ایک کے متعلق مجھے ایک واقعہ یاد ہے۔وہ ذکر کرتاہے کہ میں شعر کہاکرتاتھا اور اصلاح کے لئے استاد کے پاس لے جایا کرتا تھامگر وہ بڑی سختی کے ساتھ ان پر تنقید کیاکرتاتھا ۔اتنی سخت تنقید کہ وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی۔ وہ کہتاہے کہ مجھے اپنے متعلق احساس پیداہوگیاتھاکہ میں بڑااچھاادیب بن گیاہوں لیکن میں نے متواتر دیکھا کہ میرااستاد برابرجرح کرتاچلاجاتاتھا۔میںنے یہ خیال کرکے کہ یہ جرح نامناسب ہے اورتعصب پر مبنی ہے ایک دفعہ شرارت کر کے پرانی کاپیوں سے کچھ کاغذ اُکھیڑے اور ان کی جِلد بنالی اور خط بدل کرکسی سے چند نظمیں ان پر نقل کرالیں اوراپنے استاد کے پاس لے گیا۔ میں نے کہا مجھے اپنے والد صاحب کی لائبریری میں سے پُرانے شاعروں کے کلام کے یہ اجزاء ملے ہیں ۔انہوں نے وہ نظمیں پڑھنی شروع کی ہی تھیں کہ بے تحاشہ تعریف کرنی شروع کردی کہ یہ بڑااعلیٰ درجہ کاکلام ہے اس نے بہت ہی عمدہ کہا ہے ۔وہ کہتاہے جب میں نے یہ تعریفیں سنیں توکہا استاد جی! بس رہنے دیجئے ۔میں نے دیکھ لیا ہے کہ آپ بِلاوجہ مجھ پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ یہ میرے ہی شعر تھے جو میں پُرانے کاغذوں پر لکھ کر لے آیاہوں اورمیں نے یونہی آزمانے کے لئے یہ کہہ دیاتھا کہ یہ پُرانی نظمیں ہیں ۔ وہ لکھتاہے کہ جب میں نے یہ بات کہی تو میرے استاد کا چہر ہ افسرد ہ ہوگیا اور اس نے کہا میں تو سمجھتاتھا کہ میں اپنے پیچھے ایک ایسا شاگردچھوڑ جائوں گا جس کافارسی زبان میں کو ئی مقابلہ نہیں کرسکے گامگرآج تم نے یہ جرأت کی ہے تواس کی وجہ سے اب تمہاری تمام ترقی ختم ہوگئی ہے ۔میں دشمنی کی وجہ سے تم پر تنقید نہیں کیا کرتا تھا بلکہ اس لئے تنقید کرتاتھاکہ تاتم زیادہ سے زیادہ کو شش کرو اور تمہارے مخفی جوہر زیادہ سے زیادہ ظاہرہوں ۔اگر میں کہہ دیتاکہ تم اچھے شاعر بن گئے ہو توتم مزید محنت نہ کرتے یہ جرح ہی کانتیجہ ہے کہ تم نے خوب زور لگایا اورمحنت سے کام لیا اور اب تم صاحب کمال بن گئے ہو لیکن اب تمہار ی ترقی ختم ہوگئی ہے۔وہ لکھتا ہے کہ واقعہ یہی ہے کہ میں نے پھر اس سے زیا دہ ترقی نہیں کی۔
پس تنقید کئی وجوہ سے ہوتی ہے ۔کبھی کام کرنے والے کی تعریف کی جاتی ہے کہ کم حوصلہ انسان سست نہ ہوجائے اور ہمت نہ ہار بیٹھے اورکبھی سخت تنقید کی جاتی ہے تاباحوصلہ آدمی زیادہ سے زیاد ہ اپنے دماغ پر زور ڈال کراپنے مخفی جوہر کو باہر نکالنے کی کوشش کرے۔یہ کام بہت ہی مشکل ہے۔فطرت کاسمجھنا بہت مشکل ہوتاہے ۔جیسے اس استاد نے غلطی کی اور اتنی سخت تنقید کی کہ جس سے شاگرد مایوس ہوگیا اور آخر اس نے دھوکادیا جس کی وجہ سے وہ آئندہ ترقی حاصل نہ کرسکا ۔پس کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلط اندازہ لگاتاہے او رسمجھتا ہے کہ فلاں آدمی بہت بلندحوصلہ ہے ۔اس پر جتنی بھی تنقید کی جائے اتنی ہی وہ محنت کرے گا اوراس کے مخفی جوہر ظاہر ہوں گے لیکن اس کانتیجہ اُلٹ نکلتاہے وہ کم حوصلہ اور کم ہمت ہوتاہے اوراس تنقید کی وجہ سے وہ مایوس ہوجاتاہے اورآئندہ ترقیوںسے محروم ہوجاتاہے ۔ پھر بعض دفعہ ایساہوتاہے کہ انسان سمجھتاہے کہ یہ کم حوصلہ اور کم ہمت ہے اس کی ہمت و حوصلہ بڑھانے کے لئے وہ اس کی تعریف شروع کردیتاہے لیکن وہ کم حوصلہ نہیں ہوتا اگروہ اس پر تنقیدکرتا تواس کے مخفی جوہر ظاہر ہوتے لیکن استاد نے اس کا اندازہ غلط لگایا اورکم حوصلہ سمجھ کر تعریف کردی ۔اس تعریف کی وجہ سے وہ محنت اور مزید جدوجہد نہیں کرتا ۔اس لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتااوران اعلیٰ ترقیات سے محروم ہوجاتاہے جن کا حصول اس کے لئے ممکن تھا۔مگر ان خطرات کے درمیان بہرحال ایک تیسراراستہ بھی ہے اوروہ یہ کہ انسان اچھے کام کی تعریف کرے اوربُرے کی مذمت کرے۔ بعض غلطیاںایسی ہوتی ہیں کہ وہ تھوڑی سی کوشش سے درست ہوجاتی ہیں اوراگرانہیں نظر انداز کیاجائے توقومی ترقی رُک جاتی ہے۔
کوئٹہ میں مَیں پہلی دفعہ آیا ہوں۔ اگرچہ یہاں کے خدام میں سے بعض نے قادیان میں تعلیم پائی ہے اوربعض کے ماں باپ بھی وہاں رہتے تھے مگر پھر بھی ان کے کاموںپر مجھے تنقید کااس طرح موقع نہیں ملا جیسے آج ملا ہے۔میں جب سے یہاں آیاہوں میں محسوس کرتاہوںکہ یہاں کے خدام علمی حصے کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں ۔مثلاً جس خادم نے تلاوت کی ہے اُس نے اِس امر کو ملحو ظ نہیں رکھا کہ قرآن مجید صحیح طور پر پڑھاجائے ۔اگروہ تھوڑی سی اس امر کی کوشش کرتے توبڑی آسانی کے ساتھ صحیح طور پر تلاوت کرسکتے تھے ۔میں نے دیکھا کہ انہوں نے بِالعموم الف کو فتح کے ساتھ اداکیا ہے ۔ان کی تلاوت میں ۵۰یا۶۰فیصدی الف تھے جو انہوں نے فتح کے ساتھ اداکئے ہیں۔ حالانکہ الف اورفتح الگ الگ چیز یں ہیں اوران دونوں میں بہت فرق ہے ۔ اسی طرح انہوں نے مدات کو بِالعموم گرادیا ہے ۔یعنی جہاں دوالف تھے وہاں انہوںنے ایک ہی الف پڑھا ہے اسی طرح اور باتیں بھی تھیں جنکی وجہ سے تلاوت ناقص ہوگئی ۔
میں اس بات کاقائل نہیں کہ کوئی شخص اس بات میں لگارہے کہ قاری کی طرح وہ قراء ت کرسکے لیکن جو کام آسانی کے ساتھ کیاجاسکتاہے اسے کیوں چھوڑاجائے۔ یہ کو شش کر نا کہ ہم قاری کی طرح ہی اداکریں درست نہیں کیونکہ اس کی طاقت ہمیں خدانے نہیں بخشی۔ میری مرحومہ بیوی اُمِّ طاہر بیان کیاکرتی تھیں کہ ان کے والد صاحب کو قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے کابڑاشوق تھا ۔انہوں نے اپنے لڑکوں کو قرآن پڑھانے کے لئے استاد رکھے ہوئے تھے اورلڑکی کو بھی قرآن پڑھنے کے لئے ان کے سپرد کیا ہوا تھا۔ اُمِّ طاہر بتایاکرتی تھیں کہ وہ استاد بہت ماراکرتے تھے اورہماری انگلیوں میں شاخیں ڈال ڈال کر ان کو دباتے تھے مارتے تھے پیٹتے تھے اس لئے کہ ہم ٹھیک طورپر تلفّظ کیوں ادانہیں کرتے ۔ہم پنجابی لوگوں کالہجہ ہی ایساہے کہ ہم عربوں کی طرح عربی کے الفاظ ادانہیں کرسکتے۔
لاہورمیں ایک میاں چٹّو رہاکرتے تھے و ہ بعد میں چکڑالوی ہوگئے ان کے پاس ایک عرب آیااور وہ اُس کو لے کر قادیان پہنچے ان دنوں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جوعلاقہ خوست کے ایک بہت بڑے بزرگ تھے یہاں تک کہ امیر امان اللہ خاں کے داداحبیب اللہ خاںکی رسم تاجپوشی بھی انہی سے کروائی گئی تھی ،وہ بھی قادیان میں آئے ہوئے تھے ۔وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اورباتیں ہورہی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دوتین دفعہ ض کااستعمال کیا۔ آپ کالہجہ اگرچہ درست تھا لیکن لکھنو کے آدمی جیسے اسے اداکرتے ہیں آپ ویسے ادانہیں کرسکتے تھے دوچار دفعہ آپ نے یہ لفظ استعمال کیا تووہ عرب جو کئی سال سے لکھنؤ میں رہتاتھا اوراردوبولتاتھا اس نے کہا آپ کو کس نے مسیح موعود بنایاہے؟آپ کوتو ض بھی صحیح طور پر اداکرنا نہیں آتا ۔صاحبزادہ صاحب بڑ ے عالم تھے اورآپ کو معلوم تھا کہ اس کی کیاحقیقت ہے ۔وہ غصہ میں آگئے اورا سے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھایا ۔مولوی عبدالکریم صاحب نے دیکھ لیا ۔ آپ نے اسے چھڑانے کی کو شش کی۔ آپ چو نکہ پٹھان اور طاقتور تھے اور مولوی عبدالکریم صاحب اکیلے اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کادوسراہاتھ پکڑ لیا کیونکہ آپ کا خیال تھا کہ آپ اسے مار بیٹھیں گے۔ اب دیکھو اس عرب نے یہ کیسی لغوحرکت کی۔ ہر ملک کاالگ الگ لہجہ ہوتاہے ۔
عر ب خودکہتے ہیں کہ ہم ناطقین بِالضاد ۱؎ ہیں،ہندوستانی اسے ادانہیں کرسکتے ۔ ہندوستان میں ض کو قریب ترین اداکرنے والوں میں سے ایک میں ہوںلیکن میں بھی یہ نہیں کہتا کہ میں اسے بالکل صحیح اداکرتاہوں ۔قریب ترین ہی اداکرتاہوں ۔ہندوستانی لوگ اسے دواد یا ضاد پڑھتے ہیں لیکن اس کے مخارج اورہیں پس جب عرب خود کہتاہے کہ ہم ناطقین بِالضاد ہیں اور کوئی اسے صحیح طورپر ادانہیں کرسکتا توپھر اعتراض کی بات ہی کیاہوئی ۔جرمن لوگوں کو لے لو وہ گڈ اور گاڈ کے لفظوں کو ادانہیں کرسکتے ۔وہ یاگڈ کہیں گے یا گوٹھ کہیں گے۔ پس میں یہ تونہیں کہتا کہ ہم ان الفاظ کواداکرنے کااہتمام کریں جن کے اداکرنے کے ہم قابل نہیں یہ تو محض وقت کاضیاع ہے لیکن الف اداکرناہماری طاقت سے باہر نہیں ۔ مد کواداکرنا ہمار ی طاقت سے باہر نہیں۔اگر صحیح طور پر کوشش کی جائے توقرآن کو ہم اپنے لہجہ کے لحاظ سے اچھی طر ح ادا کر سکتے ہیں خصوصاً جبکہ گلا اچھا ہو۔
پھر تلاوت کے بعد جو نظم پڑھی گئی ہے وہ بھی اس دستور کے مطابق کہ عموماً پہلے چند اشعار ٹھیک پڑھے جاتے ہیں اورپھر غلطیاں شروع ہوجاتی ہیں ۔اسی طرح انہوں نے بھی سات آٹھ اشعار توٹھیک پڑھے اوراس کے بعد غلطیاں شروع کردیں جب جلسہ میں کوئی شخص تلاوت کرتا ہے یانظم کے لئے کھڑاہوتاہے تواس چھوٹی سی عبارت کا مجلس میں پڑھ لیناکوئی مشکل امر نہیں ہوتا اوراگروہ خود اسے صحیح طور پر ادانہیں کرسکتا توکسی واقف زبان سے درست کروالینا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتا ۔یہ قدرتی بات ہے کہ ایسی صورت میں سننے والے بجائے فائدہ اُٹھانے کے لفظی غلطیوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں اوراس طرح فائدہ سے محروم ہوجاتے ہیںاس لئے میں نصیحت کرتاہوں کہ خدام صحیح طورپر قرآن کریم پڑھنا سیکھیں اوراُردوکی عبارتوں کو بھی صحیح اداکرنے کی کوشش کیاکریں ۔
ایڈریس میں جن کاموںکی طرف اشارہ کیا گیا ہے میں ان سے خوش ہوں کہ انہوں نے ان کاموں کے کرنے کی کو شش کی ہے لیکن میں ان کی توجہ اس طرف پھراناچاہتاہوںکہ جس کام کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کے لئے یہ کوششیں کافی نہیں ہوسکتیں۔ مخالف ہمارے مقصد کونہیں سمجھتاتووہ معذور ہے ۔ اگروہ ضد یاناواقفیت کی وجہ سے ہماری مخالفت کرتاہے تو کوئی اعتراض کی بات نہیں وہ تواس پر غور ہی نہیں کرناچاہتایااگر غور کرتاہے تو تعصب کی وجہ سے وہ صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتالیکن اگرہم بھی اپنے مقصد کونہ سمجھیں اورہمارابھی رویہ ایساہی ہو کہ ہم اپنے مقصد کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں توہم پر یقیناً افسوس ہوگا۔ ہمارا دعویٰ ہے او رہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارادعویٰ سچا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نازک حالت کو دیکھ کر حضر ت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجااوراس کامقصد یہ ہے کہ آپ کی جماعت کے ذریعہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو پھر سے دنیا میں قائم کردے ۔ یہ مقصد ہے جس کے لئے ہمیں کھڑاکیاگیا ہے اورجس کی خداتعالیٰ ہم سے امیدکرتاہے اوریہ معمولی چیز نہیں۔ ایک انسان کے لئے ایک انسان کی اصلاح بھی ناممکن ہے مگرہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ اسلام کے ماننے والوں میں سے کتنے ہیں جوخوشی سے ان احکام کو مانتے ہیں اوران پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں۔پھر جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو واقعہ میں عمل کرنے کے لئے تیار ہیں اورپھر جو عمل کرنے کی کو شش بھی کرتے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو ان پر عمل کرکے صحیح طور پر کامیاب ہوئے ہیں۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ اسلام کے معنی ہی نہیں سمجھتے ۔ہرآدمی ایسی چیزوں اورعقائد کو جو رسم و رواج میں داخل ہیں الگ کرلیتا ہے اور کہتاہے ان کو الگ کرلو باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے۔کچھ عورتیں پردہ کی قائل نہیں ہیں وہ اس کو الگ کرلیتی ہیں اورکہتی ہیں بھلا اللہ تعالیٰ کو چھوٹے چھوٹے امور میں دخل دینے کی کیاضرورت ہے ۔پردہ کو الگ کردوباقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے ۔ہمارے نوجوان جن کے لئے ڈاڑھی رکھنا مشکل ہے وہ کہہ دیتے ہیں یہ توکوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی، باقی جوکچھ ہے وہ اسلام ہے۔ سُود لینے والا کہہ دیتاہے کہ بینکنگ تو نہایت ضروری چیز ہے اس لئے سُود کو چھو ڑو،باقی جو کچھ ہے اسلام ہے ۔غرض جس حکم کو وہ نہیں مانتا اس کے نزدیک وہ اسلام نہیں،باقی اموراسلام میں داخل ہیں توپھر باقی کیارہ جاتا ہے۔ سُود بھی اسلام میں داخل نہیں، نمازیں بھی اسلام میں داخل نہیں ،ڈاڑھیاں بھی اسلام میں داخل نہیں توپھر کچھ بھی اسلام میں داخل نہیں ۔
مثل مشہور ہے کہ کو ئی بُزدل آدمی تھااسے وہم ہوگیا تھا کہ و ہ بہت بہادر ہے ۔و ہ گو دنے والے کے پاس گیا۔پرانے زمانہ میں یہ رواج تھا کہ پہلوان اور بہادر لوگ اپنے بازوپر اپنے کیریکٹر اوراخلاق کے مطابق نشان کھدوالیتے تھے۔یہ بھی گودنے والے کے پاس گیا۔گودنے والے نے پوچھا تم کیا گُدواناچاہتے ہو؟اس نے کہا میں شیر گدوانا چاہتا ہوں۔ جب وہ شیر گودنے لگا تواس نے سوئی چبھوئی ۔سوئی چبھونے سے درد توہوناہی تھاوہ دلیر توتھا نہیںاس نے کہا یہ کیا کرنے لگے ہو؟ گودنے والے نے کہاشیر گودنے لگاہوں ۔اس نے پوچھا شیر کا کونسا حصہ گودنے لگے ہو؟ اس نے کہا دُم گودنے لگاہوں ۔اس آدمی نے کہا شیر کی دُم اگر کٹ جائے توکیا وہ شیر نہیں رہتا ؟گودنے والے نے کہا شیر تو رہتا ہے ۔کہنے لگا اچھا دُم چھوڑ دو اور دوسرا کام کرو۔اس نے پھر سوئی ماری توو ہ بول اُٹھا۔اب کیا کرنے لگے ہو؟اس نے کہا اب دایاں بازو گودنے لگاہوں ۔اس آدمی نے کہا اگرشیر کالڑائی یامقابلہ کرتے ہوئے دایاں ہاتھ کٹ جائے تو کیاوہ شیر نہیں رہتا؟اس نے کہا شیر تو رہتاہے ۔کہنے لگا پھر اس کو چھوڑو اورآگے چلو۔ اسی طرح وہ بایاں بازو گو دنے لگا توکہا اسے بھی رہنے دو کیا اس کے بغیر شیر نہیں رہتا؟ پھر ٹانگ گودنی چاہی تب بھی اس نے یہی کہا ۔آخر وہ بیٹھ گیا ۔اس آدمی نے پوچھا کام کیوں نہیں کرتے۔ گودنے والے نے کہا اب کچھ نہیں رہ گیا ۔یہی آجکل اسلام کے ساتھ سلوک کیا جاتاہے۔ لوگ اپنی مطلب کی چیزیں الگ کرلیتے ہیں اورکہہ دیتے ہیں کہ باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے۔
ہمارے ناناجان فرمایاکرتے تھے کہ چھوٹی عمر میں میری طبیعت بہت چلبلی تھی ۔آپ میردرد کے نواسے تھے اوردہلی کے رہنے والے تھے ۔وہاں آم بھی ہوتے ہیں۔آپ فرمایا کرتے تھے جب والدہ والد صاحب اور بہن بھائی صبح کے وقت آم چوسنے لگتے تومیں جو آم میٹھاہوتا اس کو کھٹاکھٹاکہہ کر الگ رکھ لیتااورباقی آم ان کے ساتھ مل کرکھالیتا۔جب آم ختم ہوجاتے تو میں کہتا میراتو پیٹ نہیں بھرا۔ اچھا میں یہ کھٹے آم ہی کھالیتاہوںاور سارے آم کھاجاتا۔ایک دن میرے بڑے بھائی جو بعد میں میر درد کے گدی نشین ہوئے انہوں نے کہا میرا بھی پیٹ نہیں بھرامیں بھی آج کھٹے آم چوس لیتاہوں ۔فرماتے تھے میں نے بہتیرا زور لگایا مگر وہ باز نہ آئے۔ آخرانہوںنے آم چوسے اور کہایہ آم تو بڑے میٹھے ہیں تم یو نہی کہتے تھے کہ کھٹے ہیں ۔جس طرح وہ آم چوستے وقت میٹھے آم الگ کرلیتے تھے اور باقی دوسروں کے ساتھ مل کر چو س لیتے تھے اور بعد میں کھٹے کھٹے کہہ کر وہ بھی چوس لیتے تھے یہی حال آجکل کے مسلمانوں کا ہے ۔و ہ لوگ جو کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کو نافذ کیاجائے ان کا اگر یہ حال ہوتو ان لوگوںکاکیاحال ہوگا جو اسلام کو جانتے ہی نہیں۔وہ تو پھر ہڈیاں اور بوٹی کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے ۔
یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں نے یہ لکھ لکھ کر کتابیں سیاہ کرڈالی ہیں کہ اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جاسکتا ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ کیامصیبت ہے کہ انسان پوراایک مہینہ روزے رکھتا جائے ۔اگر معدہ خراب ہوجائے تب تو ہو کہ ایک آدھ دن کاروزہ رکھ لیامگرمتواتر ایک مہینہ روزہ رکھتے جانا کونسی عقل کی بات ہے ۔پھر یہ کام کازمانہ ہے ،رات اور دن کام کرناہوتاہے اور دن میں کئی شفٹیں ہوتی ہیں اور روزانہ پانچ پانچ نمازوں کا پڑھنا اورپھر امام کے انتظار میں بیٹھے رہنا کونسی عقل کی بات ہے ۔بھلا اس طرح انڈسٹری کیسے چل سکتی ہے ۔یہ زمانہ تجارت کاہے۔ بینکنگ کے علاوہ دوسرے مُلکوں سے ہم ضروری اشیاء کیسے حاصل کرسکتے ہیں۔تم کہتے ہو بینکنگ اُڑادو۔ اس طرح تومُلک تباہ ہوجائے گا۔پھر تجارت کیسے کی جائے گی ۔اِسی طرح تم کہتے ہو انشورنس کواُڑادو۔انسان جتنا کماتاہے،کھاجاتاہے۔اگراس کواڑادیاجائے تومرنے والا تو مر گیا، یتیم بچوں کے لئے کچھ نہیں رہے گااور اس طرح قو م پر ایک غیر معمولی بار پڑ جائے گا پھرعورتوں کی مددکے بغیر مرد کام نہیں کرسکتا ۔عورتیں مردوں کے دوش بدوش چلتی ہیں اوروہ ان کی عزت کاخیال کرکے ان کے اِکرام کے طور پر بڑی سے بڑی قربانی کرلیتاہے۔ اگر عورتوں کو پردہ میں بٹھادیاجائے توپھر دنیا کاکام کیسے چلے گا۔یہ صفائی کازمانہ ہے صحت ٹھیک ہونی چاہئے ۔ تم کہتے ہو ڈاڑھیاں رکھو اِس سے تو جوئیں پڑ جائیں گی اور میل بڑھ جائے گی، یہ بھی کوئی انسانیت ہے ۔جرمن والے توٹنڈ ہی کروالیتے ہیں۔ خوش قسمتی سے ہم پر انگریز حاکم تھے جس کے نتیجہ میں سروں کے بال محفوظ رہ گئے بلکہ بودے نکل آئے ۔ اگرجرمن حاکم ہوتے تو وہ سر کے بال بھی اُڑادیتے ۔
غرض تمام اسلامی احکام جو اسلام پیش کرتاہے ۔ان پر وہ اعتراض کرتے ہیں مثلاً ایک سے زیادہ شادیاں کرناہے۔وہ کہتے ہیں یہ بھی کوئی انصاف کی بات ہے، مرد کو اگرزیادہ شادیاںکرنے کاحق ہے توعورت کوکیوں نہیں ۔اسی طرح پہلے تو طلاق بھی بُری سمجھی جاتی تھی لیکن آجکل اسے بُرانہیں سمجھاجاتابلکہ ٹائمز آف لندن میں ایک دفعہ میں نے ایک واقعہ پڑھا کہ امریکہ میں ایک عورت تھی جب وہ فوت ہوئی تو وہ ۱۷خاوند کرچکی تھی ۔جن میں سے بارہ خاوند اس کے جنازے پر موجود تھے ۔پھرطلاق کی وجوہات بھی وہاں بہت معمولی ہوتی ہیں۔ ایک عورت نے لکھا کہ میں نے اپنے خاوند سے اس لئے طلاق لی کہ میں نے ایک ناول لکھا اور خاوند سے کہا کہ اس کو شائع کرنے کی اجازت دو۔اس نے کہا میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا۔ میں نے جج سے کہا میں ادبی عورت ہوں اورمیرے کام میں میراخاوند روک بنتاہے اس لئے میں طلاق لیناچاہتی ہوں۔جج نے کہاٹھیک ہے ،اس طرح تو ملک کا ادب خراب ہوجائے گا۔ غرض ساری باتیں ایسی ہی مضحکہ خیز نہیں مگرایک زمانہ ایساگذراہے کہ طلاق پربڑااعتراض کیاجاتاتھا اور طلاق کے بعد شادی کوفحش خیال کیاجاتاتھا۔مگراب وہی مسئلہ ہے جس پر دوسری قومیں بھی عمل کررہی ہیںبلکہ اس میں حدسے زیادہ گذر گئی ہیں ۔پھر قریب کی شادیاں ہیں۔ عیسائی اورہندوبھی اس پر اعتراض کرتے تھے۔ مگراب مسودے تیار ہورہے ہیں کہ اس کی اجازت ہونی چاہئے۔ غرض اب غیر قومیں بھی اسلامی احکام کی فضیلت کو تسلیم کررہی ہیں لیکن اسلام میںکوئی ایک حکم نہیں بلکہ ہزاروں احکام ہیں جن پر عمل کرناضروری ہے ۔بھلاوہ لوگ جو ہروقت سوٹ پہننے کے دِلدادہ ہیں ،آجکل حج کیسے کرسکتے ہیں وہاں اَنْ سلے کپڑے پہننے پڑتے ہیں ان کو یہ لو گ کیسے برداشت کرسکتے ہیںیہ توکہیں گے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ یہ کیا بدتمیزی کی بات ہے۔
غرض یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ ان کو مسلمانوں میں بھی رائج کرنامشکل ہے کجا یہ کہ ان کو یورپین ممالک میں رائج کیاجائے ۔و ہ تو چھوٹی سے چھوٹی باتوںپر بھی اعتراض کردیتے ہیں ۔ ہمارے مبلّغ جب امریکہ میں گئے تو وہ وہاں دیسی لباس پہناکرتے تھے۔ ایک دن دو عورتیں آئیں اور انہوں نے کہا ہم اسلام کے متعلق باتیں سننے آئی ہیں۔ ہمارے مبلّغ شلوار پہنے باہر آگئے ۔وہ کمرے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ وہ عورتیں شور مچا کر بھاگیں کہ ہمارے سامنے یہ شخص ننگا آگیاہے،ہماری ہتک ہے ۔مبلّغ نے کہا میں کیسے ننگا ہوں، میں نے تو شلوار پہنی ہوئی ہے لیکن ان کے نزدیک یہ نائٹ ڈریس تھا اوررات کوہی پہناجاتاتھااور ا ن کے نزدیک نائٹ ڈریس میں آدمی ننگاہوتاہے ۔غرض بہت شور ہوا،محلہ والے انہیں مارنے کودَوڑے ۔ اتنے میں کوئی پادری آگئے اورانہوں نے کہا یہ توان کے ملک کا لباس ہے ان کے نزدیک ایسے شخص کو ننگا نہیں کہتے ۔
میں جب انگلینڈ گیا تو میں نے چند گرم پاجامے سلوائے تھے مگروہاں جاکر میں نے فیصلہ کیا کہ میں شلوار ہی پہنوں گا، میں ان کالباس کیوں پہنوں۔ ہمارے جو وہاں مبلّغ تھے وہ باربار کہتے تھے کہ لو گ ہمارے متعلق کیاکہتے ہوں گے ۔ مگر میں نے کہا جب ہمارے ملک میں انگریز جاتاہے تو کیاوہ شلوار پہنتاہے؟ اگروہ شلوار نہیں پہنتا تو میں پتلون کیوں پہنوں ۔وہ کہتے تھے عورتیں آتی ہیں تو بُرامناتی ہیں کیونکہ اس لباس میں وہ آدمی کو ننگا سمجھتی ہیں ۔میں نے کہامیں تو کپڑے پہنے ہوئے ہوں اورمجھے کپڑے نظر آرہے ہیں۔ ایک دن سرڈینی سن راس آئے جولنڈن میں ایک کالج کے پرنسپل تھے ۔ان کے ساتھ دواوربھی پروفیسر تھے۔میں نے کہا۔ سرڈینی سن راس! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں اگرآپ بے تکلفی سے بتائیں۔ انہوں نے کہا پوچھ لیجئے۔میں نے کہا جولباس میں پہنے ہوئے ہوں ،کیا آپ او رآپ کے دوست اسے بُرا تو نہیں مناتے؟ انہوں نے کہا سچ پوچھیں توہم بُرامناتے ہیں۔ میں نے کہا آپ جب ہندوستا ن گئے تھے تو کیاآپ نے شلوارپہنی تھی اور اگرنہیں پہنی تھی تو کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ انگریز خود تودوسروں کالباس نہیں پہنتے مگریہ حق رکھتے ہیں کہ دوسروں کو اپنا لباس پہننے پرمجبور کردیں۔ کہنے لگے یہ بات اَنْ لاجیکل تو ہے لیکن ہم بُرا ضرور مناتے ہیں۔ پھر میں نے کہا میں ایک اورسوال پوچھناچاہتاہوں کہ آپ بُرا تو مناتے ہیں مگرآپ کس کے کیریکٹر کو مضبوط سمجھتے ہیں؟ آیااس کے کیریکٹر کوجوآپ کی رَومیں بہہ جائے یاجواپنے طریق پر قائم رہے کیونکہ جو اپنے طریق پر قائم رہے وہی بہادر ہے۔کہنے لگے جو اپنے طریق پر قائم رہے وہی بہادر ہے۔میں نے کہا بس مجھے اس تعریف کی ضرورت ہے دوسری کسی بات کی میں پرواہ نہیں کرتا ۔
غرض ہم اسلام کی باتوںکو دوسروں سے نہیں منواسکتے جب تک ہم ان پر عمل کرنے میں رات دن ایک نہ کردیں اور دعائیںکرکے ہمارے ناک نہ رگڑے جائیں اوراپنی کوششوں کو بڑھانہ دیں۔ جب تک ہم دوسروں کی باتوں کو برداشت نہیں کرسکتے اوراپنے اندرایک قسم کی دیوانگی پیدانہیںکرلیتے اُس وقت تک ہم کو ئی عظیم الشان تغیر پیدانہیں کرسکتے ۔آج تک کوئی بھی بڑاکام نہیں ہواجس کے کرنے والے کولوگوںنے پاگل نہ کہاہو۔ جب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا اورایک بڑے مقصد کو لے کر دنیا کے سامنے کھڑے ہوگئے تو کیا کوئی یہ خیال بھی کرسکتاتھا کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائیں گے ۔دنیا کے سب لوگ کہتے تھے کہ یہ کام نہیں ہوسکتا یہ توعقل کے خلاف ہے ، بھلااتنا بڑاتغیر دنیا میں کیسے پیدا ہو سکتا ہے۔ ان کے نزدیک آپ نے قوم کی تمام رسوم کو چھوڑ کر ایک نیا طریق اختیار کرلیا تھا ۔ان کے اندر یہ احساس تھا کہ یہ کام نہیں ہوسکتا،اس لئے وہ آپ کو پاگل کہتے تھے لیکن آپ صرف منہ سے ہی نہیں کہتے تھے بلکہ جو کہتے تھے اس کے لئے پوری جدوجہد بھی کرتے تھے ۔جب ان کے کہنے کے بعد بھی آپ رات اور دن جدوجہد میں لگے رہے تو و ہ کہتے یہ شخص پکا پاگل ہے مگرآپ برابر اس کے لئے اپنی زندگی کو لگاتے چلے گئے کیونکہ آپ کو یہ یقین تھا کہ یہ کام آپ کر کے چھوڑیں گے اوراس میںضرور کامیاب ہوں گے۔
توحید کے مسئلہ کو لے لو جس کو آجکل بڑے فخر کے ساتھ تم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہو اور تمہاری گردنیں ان کے سامنے بلندرہتی ہیں۔تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ فطرتی مسئلہ ہے حالانکہ اس مسئلہ کو بھی وہ مجنونانہ خیال سمجھتے تھے۔قرآن میں آتا ہے کہ ۲؎ وہ لوگ یہ خیال بھی نہیںکرسکتے تھے کہ ایک خداہوسکتاہے ،ان کے نزدیک توکئی خداتھے۔ ان کا یہ خیال تھا کہ آپؐ نے سارے خدائوں کو کوٹ کرایک خدابنالیاہے۔ان کے ذہنوں میں ایک خدا کا مسئلہ آتاہی نہیں تھا۔
بھیرہ کے ایک طبیب تھے جن کانام الٰہ دین تھا۔انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پہلی کتب کو پڑھاہواتھا۔وہ آپ کے بہت معتقدتھے لیکن احمدی نہیں ہوئے تھے۔ ان کے پاس ان کا ایک مریض احمدی چلا گیا اور اس نے تبلیغ شروع کردی۔ آپ کے دعویٰ کا انہیں علم تھا وہ اپنے آپ کو بہت بڑاعالم سمجھتے تھے اورحضرت خلیفہ اول جن کے علم و فضل کا ہر ایک اقرار کرتا ہے وہ ان کے متعلق کہاکرتے تھے کہ نورالدین کیاجانتاہے، وہ تو صرف ابتدائی باتیں جانتا ہے۔ جب اس دوست نے انہیں تبلیغ کی توکہنے لگے میاں جانے بھی دو کیا مرزا صاحب کی کتابوں کو تم مجھ سے زیادہ سمجھتے ہو ۔میں آپ کی کتابوں کو جتنا سمجھتاہوں تم نہیں سمجھتے۔ میں نے آپ کی کتابوں کا گہرامطالعہ کیاہواہے۔آپ بڑے عالم ہیں کیاوہ اتنی بڑی بیوقوفی کی بات کہہ سکتے ہیںکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوگئے ہیں۔قرآن میں صاف لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔بھلا آپ جیساعالم یہ کہہ سکتاہے کہ وہ زندہ نہیں۔ اصل میں تم نے کتابوں کو غور سے پڑھا نہیں۔مجھے اصل بات کا پتہ ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جب آپ نے براہین احمدیہ لکھی تواس میں اسلام کی صداقت کو اتنے زبردست دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ آپ سے قبل ۱۳۰۰سا ل تک کسی عالم سے ایسانہیں ہو سکا تھا اوروہ ایسے دلائل تھے کہ ان کے سامنے عیسائی اورہندو ٹھہر نہیں سکتے تھے ۔مگرمولویوں کی عقل ماری گئی اوربجا ئے خوش ہونے کے انہوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگانے شرو ع کر دیئے۔ مرزاصاحب نے کہا اچھا اب میں تم سے اس کابدلہ لیتاہوں۔ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کاآسمان پر جانا سیدھی سادھی بات ہے لیکن اب میں اس کاانکار کرتاہوں ۔اگر تم میں ہمت ہے توتم اس سیدھی سادھی بات کو ثابت کرکے دکھادو۔پس یہ تو محض ان کی عقل کاامتحان لینے کے لئے مرزاصاحب نے کیا تھا ۔اگریہ سب مولوی آپ سے جاکر معافی مانگ لیں تو آپ اسی قرآن سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ ثابت کردیں ۔غرض جس طرح ان کے خیال میں حیاتِ مسیح کامسئلہ ایک ثابت شُدہ مسئلہ تھا اسی طرح مکہ والوں کے نزدیک کئی خدائوں کا ہونا ایک ثابت شُدہ مسئلہ تھا ۔و ہ سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ نے سب خدائوں کا قیمہ کرکے ایک بنالیا ہے۔ مگرپھر دیکھو آپ نے ان سے یہ مسئلہ منوالیایانہیں۔وہ جو سمجھتے تھے کہ کئی خداہیں ان کا یہ حال ہوگیا۔
جب مکہ فتح ہواتوچند ایسے آدمی تھے جن کو معاف کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب نہ سمجھا ، اوران کے قتل کا حکم صادر کردیا ۔ان میں سے ایک ہندہ ابوسفیا ن کی بیوی بھی تھی۔ یہ وہی عورت ہے جس نے حضرت حمزہؓ کا مثلہ کروایاتھا ۔آپؐ نے مناسب سمجھا کہ اسے اس ظالمانہ فعل اورخلافِ انسانیت حرکت کی سزادی جائے ۔اُس وقت پردہ کاحکم نازل ہوچکا تھا۔جب عورتیںبیعت کے لئے آئیں توہندہ بھی چادر اوڑھ کر ساتھ آگئی اور اُس نے بیعت کرلی۔ جب وہ اس فقرہ پر پہنچی کہ ہم شرک نہیں کریں گی توچونکہ وہ بڑی تیز طبیعت تھی اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! ہم اب بھی شرک کریں گی؟آپؐ اکیلے تھے اور ہم نے پوری طاقت اور قوت کے ساتھ آپ کامقابلہ کیا۔اگرہمارے خداسچے ہوتے توآپ کیوں کامیاب ہوتے۔ وہ بالکل بیکارثابت ہوئے اور ہم ہار گئے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہندہ ہے؟ آپؐ اس کی آواز کوپہچانتے تھے ،آخر رشتہ دار ہی تھی ۔ہندہ نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! اب میں مسلمان ہو چکی ہوں اب آ پ کو مجھے قتل کرنے کا اختیار نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا ہاں اب تم پر کوئی گرفت نہیں ہوسکتی۔۳؎
غرض وہ قوم جو سمجھتی تھی کہ آپ نے سب خدائوں کو کوٹ کر ایک خدابنالیاہے ان میں اتنا تغیر پیداہوگیاکہ ہندہ جیسی عورت نے کہا کہ کیاکوئی کہہ سکتاہے کہ خداایک نہیں۔اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایساآئے گا جب تمام دنیا صداقت اسلام کی قائل ہوجا ئے گی ۔اب تو یہ حالت ہے کہ ایک مسلمان اپنی عملی کمزوریوں کی وجہ سے دوسروں کے سامنے شرمندہ ہوجاتاہے لیکن ایک دن آئے گا جبکہ یورپین اقوام بھی ان احکام کوتسلیم کریں گی اَلنَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ لوگ بادشاہوں کے مذہب کے تابع ہوتے ہیں بے شک کچھ لوگ وہ بھی ہوتے ہیں جو نقال ہواکرتے ہیں ۔جیسے شروع شروع میں مسلمان آئے توہندو بھی فارسی بولنے میں فخر محسوس کرتے تھے ۔اسی طرح جیساکوئی فیشن ہوجائے لوگ بھی وہی اختیار کرلیتے ہیں ۔اُس وقت ہندوئو ں نے بھی داڑھیاں رکھ لی تھیںمگر جب انگریزوں کازمانہ آیا تو داڑھی منڈوانا شروع کردی۔ چھوٹے کو ٹ پہننے شروع کردیئے ۔
جب اسلام غالب آئے گا توہرانسان ا س بات میں فخر محسوس کرے گاکہ وہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرے لیکن جب تک اسلام غالب نہیں آتا ہمیں بڑی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں گی اور اپنے نفسوں کومارناہوگا ۔ جب تک ہم اپنے نفسوں کو مار کر موجودہ رسم و رواج کے خلاف اپنے آپ کو نہیں اُبھاریں گے، دریا کی دھار کے خلاف تیرنے کی کوشش نہیں کریں گے، ملامت کی تلوار کے نیچے، ہنسی اورمذاق کی تلوار کے نیچے، سیاسی لوگوں کے سیاسی اعتراضات کی تلوار کے نیچے ، مذہبی اور فلسفی لوگوں کے اعتراضات کی تلوار کے نیچے اپناسر رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اُس وقت تک اس عظیم الشان مقصد کے پوراکرنے کی ہمیں امید نہیں رکھنی چاہئے۔ دنیا میں آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس نے صرف میٹھی میٹھی باتوں سے دنیاکوفتح کر لیا ہو۔ قومیں ہمیشہ مصیبتوں او ر ابتلائوں کی تلواروں کے سایہ تلے بڑھتی او ر ترقی کرتی ہیں اور انہیں لوگوں کے اعتراضات برداشت کرنے پڑتے ہیں۔پس اپنے آپ کو اِس فتح کااہل بنائو۔ جب تک آپ لوگ خدا اور اس کے رسول ؐ کے دیوانے نہیں بن جاتے ،جب تک موجودہ فیشن اور رسم و رواج کو کچلنے کے لئے تیار نہیں ہوجاتے اُس وقت تک اسلامی احکام کو ایک غیر مسلم کبھی بھی قبول کرنے کے لئے تیا ر نہیں ہوگا ۔
انگلینڈ سے مجھے ایک غیر مسلمہ کاخط آیا۔وہ احمدی تو ہوچکی ہے مگر تعلیم ابھی کم ہے۔ وہ ہمارے مبلّغ کے متعلق لکھتی ہے کہ جب میں ان کے لیکچر میں جاتی ہوں تو جو کچھ وہ کہتے ہیں میں سمجھتی ہوں کہ یہ ناممکن ہے، اسے کیسے قبول کیاجاسکتاہے مگر جب میں ان کے جوش اور ان کے چہرہ کی حالت دیکھتی ہو ں تو مجھے یقین ہوجاتاہے اور میرادل تسلی پاجاتاہے کہ آخر یہ ہو کر رہے گا۔ غرض جب لو گ ہمارے عزم کو دیکھ کر ہمارے اندر سنجیدگی اور جو ش دیکھیں گے تو وہ انہیں خود بخود ماننے پر مجبور ہوجائیں گے ۔
پس پہلے اپنے اندر جوش اور سنجیدگی پیداکرنی چاہئے پھر ہم دوسروں کی توجہ کو بھی پھیر سکیں گے اوروہ سمجھ لیں گے کہ اسلام کی باتیں سچی ہیں اوروہ ان پر سچے دل سے غور کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے اورپھر اسلام اُس مقام پر پہنچ جائے گا جس پر آج سے تیرہ سَو سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچایاتھا۔
(الفضل ۱۱؍اکتوبر۱۹۶۱ ء)
۱؎ ناطقین بِالضاد: ض بولنے والے
۲؎ ص: ۶
۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۹۴ تا۹۶ مطبوعہ بیروت ۱۳۲۰ھ


دیباچہ تفسیر القرآن




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بَاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ۔ھُوَ النَّاصِرُ
دیباچہ
تفسیر القرآن (انگریزی)
اس نئے ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کو پیش کرتے ہوئے ہم یہ بتا دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ اس کی غرض تجارتی نہیں ہے اورنہ صرف ایک جدید چیز کا پیش کرنا اصل مقصود ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت تک وہ اقوام جو عربی سے ناواقف ہیں ایک نئے ترجمہ کی محتاج ہیں اور ساری دنیا عربی دانوں کو بھی شامل کرتے ہوئے ایک نئے انداز کے تفسیری نوٹوں کی محتاج ہے اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں۔
انگریزی نئے ترجمہ اور نئی تفسیر کے لکھنے کی وجوہ
(۱) اِس وقت تک قرآن کریم کے جس قدر انگریزی تراجم غیر مسلموں نے کئے ہیں وہ سب کے سب ایسے
لوگوں نے کئے ہیں جو عربی زبان سے یا تو بالکل
ناواقف تھے یا بہت ہی کم علم عربی زبان کا رکھتے تھے۔ اس وجہ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنا تو الگ رہا وہ اِس کا مفہوم بھی اچھی طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے اور بعض نے تو کسی اور زبان کے ترجمہ سے اپنی زبان میں ترجمہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے مفہوم اور بھی حقیقت سے دُور جا پڑا تھا۔
(۲) مزید خرابی اُن تراجم میں یہ تھی کہ اُن کی بنیاد عربی لغت پر نہیں تھی بلکہ تفسیروں پر تھی اور تفسیر ایک شخص کی رائے ہوتی ہے جس کا کوئی حصہ کسی کے نزدیک قابلِ قبول ہوتا ہے اورکوئی حصہ کسی کے نزدیک۔ اور کوئی حصہ مصنف کے سوا کسی کے نزدیک بھی قابلِ قبول نہیں ہوتا۔ اِس قسم کا ترجمہ ایک رائے کا اظہار تو کہلا سکتا ہے حقیقت کا آئینہ دار نہیں کہلا سکتا۔
اِن نقائص کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضرورت شدید طور پر محسوس ہوتی تھی کہ ایک ایسا ترجمہ قرآن کریم کا غیر عربی دان لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے جو:
(الف) عربی دان افراد کی کوشش اور محنت کا نتیجہ ہو اور:
(ب) جو لغتِ عربی پر مبنی ہو۔ چنانچہ یہ انگریزی ترجمہ جس کے بعد دوسری زبانوں کے تراجم اِنْشَائَ اللّٰہُ جلد شائع کئے جائیں گے انہی دو اصول کے ماتحت شائع کیا جا رہا ہے۔
عربی زبان سے دوسری زبانوں میں ترجمہ کرنے میں ایک دِقّت
اِس میں کوئی شک نہیں کہ چونکہ عربی زبان ایک فلسفیانہ زبان ہے اور اِس کے تمام الفاظ معیّن حکمتوں کے ماتحت وضع کئے گئے
ہیں اور اس وجہ سے کہ ان کے مادے ابتدائی جذبات و مشاہداتِ انسانی کے اظہار کے لئے بنائے گئے ہیں اس لئے استعمال میںا ن کے معنی بعض دفعہ نہایت وسیع ہی نہیں ہوجاتے بلکہ نہایت گہرے بھی ہو جاتے ہیں۔ دوسری زبانوں میںا ن کا پورا ترجمہ کرنا قریباًنا ممکن ہے اور جب تک کہ تفسیری نوٹوں میںا ن معانی کی وسعت بیان نہ کی جائے صرف ترجمہ پورے مضمون کو ظاہر نہیں کر سکتا۔ اس لئے جو ترجمہ ہم پیش کر رہے ہیں اِن معنوں میں مکمل ترجمہ نہیں کہلا سکتا کہ انگریزی ترجمہ نے عربی عبارت کا پورا مفہوم یا قریباً پورا مفہوم بیان کر دیا ہے بلکہ وہ ترجمہ عربی عبارت کے مختلف مفہوموں سے صرف ایک مفہوم کو ظاہر کرنے والا قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس کمی کو پورا کر نے کے لئے ہم نے:
(۱) مختصر نوٹ ترجمہ کے نیچے دئیے ہیں یہ نوٹ اِس وجہ سے کہ ایک مکمل تفسیر نہیں ہیں ان مختلف معانی کو جو ہمارے نزدیک کسی آیت کے ہیں مکمل طور پر تو نہیں ظاہر کرتے مگر کم سے کم ترجمہ کی محدودیت کا کسی قدر ازالہ کر دیتے ہیں۔
(۲) دوسرے پڑھنے والے کوترجمہ میں بصیرت بخشنے کے لئے اور اس کے دل کو اِس بات پر مطمئن کرنے کے لئے کہ جو ترجمہ ہم نے کیا ہے وہ آزاد نہیں ہے بلکہ لغت اور وضع کلام کے مطابق ہے ہم نے ضروری الفاظ کے معانی ایسی کتب لغت سے جو نہ صرف مسلمانوں کے نزدیک بلکہ عربی بولنے والے غیرمذاہب کے لوگوں کے نزدیک بھی مسلّمہ ہیں حاشیہ میں دئیے ہیں تاکہ ایک عربی سے ناواقف آدمی بھی یہ معلوم کر سکے کہ جو ترجمہ ہم نے کیا ہے وہ خواہ کسی دوسرے کے نزدیک قابل قبول نہ ہو، مگر ہے عربی لغت کے عین مطابق۔ اور بغیر کسی قرآنی دلیل کے جس سے معلوم ہو کہ اس جگہ اس لفظ کو ان معنوں میں قرآن کریم نے استعمال نہیں کیا یا بغیر شواہد لغت عربیہ کے اسے ردّ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔
تفسیری نوٹ لکھنے کی وجوہ
ترجمہ کے متعلق اس قدر تشریح کے بعد اب ہم تشریحی نوٹوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی
شک نہیںکہ درجنوںتفسیریں قرآن کریم کی اِس وقت تک لکھی جا چکی ہیں اور شاید ان کی موجودگی میں کسی نئی تفسیر کی ضرورت نہ سمجھی جائے لیکن ان تفسیروںکی موجودگی کے باوجود ہم نے یہ تفسیری نوٹ لکھے ہیں اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
(۱) جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے عربی زبان کے الفاظ وسیع معانی رکھتے ہیں لیکن ترجمہ میں صرف ایک ہی معنی کا خیال رکھا جاسکتا ہے اس لئے ضروری تھا کہ نیچے نوٹ دیئے جاتے تاکہ بعض اور اہم معانی پر بھی روشنی پڑجاتی۔
(۲) قرآن کریم کی تمام اہم اور مفصل تفسیریں جو اِس وقت تک لکھی گئی ہیں عربی زبان میں ہیں اور ظاہر ہے کہ جو لوگ قرآن کریم کی عبارت کو نہیں سمجھ سکتے وہ اس کی تفاسیر سے بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔
(۳) جو نوٹ تفسیری رنگ میں قرآن کریم کے تراجم کے حواشی میں غیر مسلم مترجموں نے لکھے ہیں وہ:
(الف) مخالفین اسلام کی کتب سے متأثر ہو کر لکھے گئے ہیں۔
(ب) ان لوگوں کوعربی زبان کا یا تو بالکل علم نہ تھا یا بہت ہی کم علم تھا اس وجہ سے معتبر اور مفصل تفسیروں سے وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکے۔ چنانچہ مغربی زبانوں میں جس قدر تراجم ہیں ان میں سے کسی ایک کے حواشی میں بھی قرآن کریم کی معتبر اور مفصل تفاسیر میں سے کسی کا بھی حوالہ نہیں آتا، صرف ادنیٰ اور عوام الناس کی دلچسپی کے لئے لکھی ہوئی تفاسیر کا حوالہ آتا ہے اور اگر کسی بڑی تفسیر کا حوالہ ہوتا ہے تو کسی دوسری تفسیر سے نقل کیا ہوا ہوتا ہے خود اس کتاب کو پڑھ کر استفادہ کیا ہوا نہیں ہوتا۔
(۴) کسی علمی کتاب کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ نہ صرف اُس زبان کا علم ہو جس میں وہ کتاب لکھی ہوئی ہے، نہ صرف اُن تفاسیر پر عبور ہو جو اُس زبان یا علم کے ماہروں نے لکھی ہیں بلکہ خود اُس کتاب کا بھی اِس قدر گہرا مطالعہ ہو کہ اس کی اپنی اصطلاحات اور محاورات اور ان اصول کا علم حاصل ہو جائے جن کے گرد اُس کی تعلیم کی فروع چکر کھاتی ہیں۔ اگر یہ علم نہ ہو تو تفسیروں کی مدد سے بھی کوئی شخص صحیح ترجمانی نہیں کر سکتا۔ چونکہ یہ درجہ کسی مغربی مترجم یا شارح قرآن کو حاصل نہ تھا اس لئے ان کے نوٹ بعض دفعہ مضحکہ خیز حدتک جا پہنچتے ہیں۔
(۵) ہر زمانہ اپنے ساتھ نئے علوم لاتا ہے۔ ان علوم کی ہر علمی کتاب کی تعلیم ایک نئی تنقید کا شکار ہوتی ہے اور اس کے مطالب یا زیادہ واضح ہو جاتے ہیں یا زیادہ مشکوک ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں ہو سکتا۔ پس موجودہ زمانہ کے علوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تفسیر ضروری تھی تا معلوم ہو سکے کہ وہ موجودہ علوم کی روشنی میں اپنی ہادیانہ شان کس حد تک قائم رکھ سکا ہے یا اس کی شان کس حد تک آگے سے بھی زیادہ روشن ہوگئی ہے۔
جب قرآن کریم کی پہلی تفاسیرلکھی گئیں اُس وقت عربی زبان میں مکمل بائبل موجود نہ تھی بلکہ اُس کے جن ٹکڑوں کے تراجم عربی زبان میں ہوئے تھے وہ بھی مفسرین کی دسترس سے باہر تھے اس وجہ سے پرانے مفسرین نے قرآن کریم کے ان مضامین کی طرف جن میں موسوی سلسلہ کی تاریخ کی طرف اشارہ ہے صرف اپنے علم کے مطابق روشنی ڈالی ہے، جو بعض دفعہ نہایت مایوس کن اور بعض دفعہ مضحکہ خیز ہو جاتی ہے۔ مغربی مصنفین ان کی غلطیوں کو قرآن کریم کی طرف منسوب کر کے ہنسی اُڑاتے ہیں حالانکہ ان مفسروں نے جو کچھ لکھا بائبل کو پڑھ کر نہیں لکھابلکہ یہودی اورمسیحی علماء سے پوچھ کر لکھا تھا۔ بعض دفعہ اُن علماء نے بائبل کی بجائے اپنی روایات کی کتب سے انہیں مضمون بتا دئیے اور بعض دفعہ ان کی ناواقفیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان سے تمسخر کیا۔ بیشک ان پر اعتبار کر کے ان مفسرین نے سادگی اور بے احتیاطی کا اظہار کیا لیکن اُس بات سے اُس زمانہ کے یہودی اور مسیحی علماء کی دیانت اور اُن کے تقویٰ پر جو زَد پڑتی ہے وہ بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔ پس موجودہ مغربی مصنفین کو قرآن کریم کے مفسرین پر ہنسی اُڑانے کی بجائے خود اپنے آباء کی دیانت پر ماتم کرنا چاہئے۔ اب جبکہ بائبل کے علوم ہر کس و ناکس کے لئے ظاہر ہو گئے ہیں اور عبرانی،لاطینی اوریونانی کتب بھی مسلم علماء کی دسترس میں ہیں اس لیے موقع پیدا ہو گیا ہے کہ نئے رنگ میں ان مضامین پر روشنی ڈالی جائے جو قرآن کریم میں موسوی سلسلہ اور بائبل کے متعلق بیان ہوئے ہیں۔
(۶) پرانے زمانہ میں مختلف مذاہب کے درمیان اعمال کے متعلق تعلیمی برتری کا مقابلہ بہت کم تھا، بلکہ رسم ورواج اور عقائد کی بحث تک علماء کی گفتگو محدود رہتی تھی۔ اس وجہ سے قرآن کریم کی وہ تعلیم جو اخلاقی، تعلیمی، اقتصادی، سیاسی اور تعامل باہمی کے امور کے متعلق تھی زیربحث نہ آتی تھی۔ آج دنیا کی توجہ ان امور کی طرف زیادہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کی ایسی تفسیر پیش کی جائے جس میں ان اُمور کے متعلق جو اس کی تعلیم ہے اس پر زیادہ روشنی ڈالی جائے۔
(۷) قرآن کریم چونکہ الہامی کتاب ہے اس میں آئندہ زمانہ کی پیشگوئیاں بھی ہیں۔ جن کے متعلق صحیح روشنی اُسی وقت ڈالی جا سکتی ہے جبکہ وہ پوری ہو چکی ہوں۔ اس لئے بھی ضروری تھا کہ اِس زمانہ میں نئی تفسیر پیش کی جائے جو اِس وقت پوری ہوچکنے والی پیشگوئیوں کو ظاہر کرے۔
(۸) قرآن کریم کی تعلیم سب مذاہب اور فلسفوں پرحاوی ہے اور وہ سب مذاہب کی اچھی تعلیموں پر مشتمل ہونے کے علاوہ ناقص کا نقص بھی ظاہر کرتی ہے اور نا مکمل کو مکمل بھی کرتی ہے۔ ابتدائی زمانۂ اسلام کے مفسرین کو چونکہ ان مذاہب اور ان فلسفوں کا علم نہ تھا وہ ان کے متعلق قرآنی تعلیم کو صحیح طور پر اخذ نہیں کر سکے۔ اب وہ سب پوشیدہ علوم ظاہر ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کے وہ حصے جو ان کے متعلق ہیں اس کے عارفوں پر روشن ہو گئے ہیں پس اِس زمانہ میں پرانی تفسیروں کی اِس کمی کو پورا کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ وجوہاتِ مندرجہ بالا کی موجودگی میںیہ ترجمہ اور تفسیر جو ہم پیش کر رہے ہیں صرف نا قابل اعتراض ہی نہیںبلکہ ایک اہم ضرورت کو پورا کر رہا ہے، ہم اسے پورا کرکے اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔
ہم اُمیدکرتے ہیں کہ جو لوگ ہمارے پیش کردہ ترجمہ اور تفسیر کو غور سے پڑھیں گے اور تعصب سے آزاد ہو کر اِس کا مطالعہ کریں گے وہ اسلام کو ایک نئے زاویہ سے دیکھنے پر مجبور ہوں گے اور اُن پر ثابت ہو جائے گا کہ اسلام نقائص سے پرُ مذہب نہیں جیسا کہ مغربی مصنفوں نے پیش کیا ہے بلکہ وہ روحانی علم کا ایک خوبصورت باغ ہے جس میں سیر کرنے والا ہر قسم کی خوشبو اور ہر قسم کے حسن کے نظارہ سے مستفیض ہوتا ہے اور وہ اُس آسمانی جنت کا ایک مکمل ارضی نقشہ ہے جس کا وعدہ سب مذاہب کے بانی دیتے چلے آئے ہیں۔
قرآن کریم کی ضرورت
آج سے قریباً سَوا تیرہ سَو سال پہلے جب قرآن کریم نازل ہوا دنیا میں اور بھی بہت سے مذاہب اور بہت سی کتابیں
موجود تھیں۔ عرب کے اردگرد عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید دونوں کے ماننے والے پائے جاتے تھے۔ خود بعض عرب بھی عیسائی ہو چکے تھے یا عیسائیت کی طرف رغبت رکھتے تھے۔ اسی طرح بعض عرب یہودیوں کے مذہب میں بھی شامل ہوتے رہتے تھے، چنانچہ مدینہ کا کعب بن اشرف یہودِ مدینہ کا سردار مشہور دشمن اسلام اور اس کا باپ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے۔ کعب کا باپ طی قبیلہ سے تھا۔ یہود سے اسے ایسی عقیدت ہوئی کہ ابورافع بن ابی حقیق یہودی نے اس سے اپنی لڑکی کی شادی کر دی اوراس یہودی لڑکی کے بطن سے کعب پیدا ہوا۔ ۱؎
مکہ مکرمہ میں علاوہ عیسائی غلاموں کے خود مکہ کے بعض باشندے بھی عیسائیت کی طرف رغبت رکھتے تھے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی حضرت خدیجہؓ کے بھائی ورقہ بن نوفل نہ صرف یہ کہ عیسائی عقائد رکھتے تھے بلکہ انہوں نے کچھ عبرانی بھی سیکھی تھی اور وہ عبرانی اناجیل سے عربی میں ترجمہ کرتے تھے۔ بخاری میں لکھا ہیکَانَ إمْرَأً قَدْ تَنَصَّرَفِی الْجَاھِلِیَّۃِ وَکَانَ یَکْتُبُ کِتَابَ الْعِبْرَانِیِّ فَیَکْتُبُ مِنَ الْاِنْجِیْلِ باِ لْعِبْرَانِیَّۃِ مَاشَائَ اللّٰہُ اَنْ یَکْتُبَ ۲؎ یعنی ورقہ بن نوفل نے جاہلیت میں عیسائیت اختیار کرلی تھی اوروہ عبرانی سے عربی میں اناجیل کا ترجمہ کیا کرتے تھے۔
عرب کے دوسرے کنارے پر ایرانی آ باد تھے اور وہ بھی ایک نبی اور ایک کتاب کے ماننے والے تھے۔ زرتشت نبی کی کتاب ژند اَوِستاگوانسانی دستبرد کا شکار ہو چکی تھی لیکن تاہم لاکھوں انسانوں کا مرجع عقیدت بنی ہوئی تھی اور ایک زبردست حکومت اس کے قانون کی اتباع کی مدعی تھی۔ ہندوستان میں ویدہزاروں سالوں سے لوگوں کی عقیدت کا مرجع بنے ہوئے تھے اور کرشن جی کی گیتا اور بدھ کی تعلیم مزید برآں تھیں۔ چین میں کنفیوشس ازم کا زور تھا اور بدھ مذہب بھی اپنے پائوں پھیلا رہا تھا ان کتابوں اور ان تعلیموں کے ہوتے ہوئے کیا کسی نئی کتاب کی ضرورت تھی؟ یہ ایک سوال ہے جو قرآن کریم کے دیکھتے ہی ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے یا پیدا ہونا چاہئے۔ اس سوال کا جواب کئی رنگ سے دیا جا سکتا ہے۔
اوّل: کیا یہ اختلافِ مذاہب خود اِس بات کی دلیل نہ تھا کہ ان سب مذاہب کو متحد کرنے کے لئے کوئی اور مذہب آنا چاہئے؟
دوم: کیا انسانی دماغ اسی طرح ارتقاء کی منزلوں کو طے کرتا ہوا نہیں جا رہا تھا جس طرح انسانی جسم نے کسی زمانہ میں ارتقاء کی منزلیں طے کی تھیں۔ پھر کیا جس طرح جسم کی ارتقائی منزلیں ایک مقام پر پہنچ کر ایک مستقل صورت اختیار کر گئیں اسی طرح کیا روح اور دماغ کے لئے بھی ضروری نہ تھا کہ وہ ارتقائی منزلیں طے کرتے ہوئے ایک ایسی منزل پر پہنچے جو انسانی پیدائش کا مقصود تھی؟
سوم: کیا پہلی کتب میں کوئی ایسا نقص تو نہیں آگیا تھا جس کی وجہ سے دنیا کو شدید طور پر ایک نئی کتاب کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی اور قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرنے والا تھا؟
چہارم: کیا سابق مذاہب اپنی تعلیم کو حتمی اور آخری قرار دے رہے تھے یا وہ خود بھی ایک ارتقاء کے قائل تھے اور روحانیت کی ترقی کے لئے ایک ایسے نقطہ کی خبر دے رہے تھے جس پر جمع ہو کر بنی نوع انسان کو انسانی پیدائش کا مقصد حاصل کرنا تھا؟
میرے نزدیک ان چاروں سوالوں کا جواب ہی اس سوال کو حل کر دے گا کہ قرآن کریم سے پہلے مختلف کتب اور مختلف مذاہب کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت پیش آئی تھی۔ پس میںان چاروں سوالوں کو باری باری لے کر جواب دیتا ہوں۔
پہلا سوال اور اس کا جواب
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ اختلافِ مذاہب خود اس بات کی دلیل نہ تھا کہ ان سب مذاہب کو متحد کرنے
کے لئے کوئی اور مذہب آنا چاہئے؟ ا س کاجواب یہ ہے کہ مذہب اوّل انسان کو خدا تعالیٰ سے ملانے کے لئے آتا ہے اور دوسری غرض ا س کی شفقت علیٰ خلق اللہ کی تکمیل ہوتی ہے۔
اسلام کے سِوا باقی سب مذاہب قومی مذہب تھے یونیورسل نہ تھے
اسلام سے پہلے جتنے بھی مذاہب دنیا میں موجود تھے وہ سب ایک دوسرے سے مختلف بلکہ ایک دوسرے کو ردّ کرنے
والے تھے۔ بائبل دنیا کے خدا کو نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے خدا کو پیش کرتی تھی، چنانچہ اس میں بار بار یہ ذکر آتا ہے کہ:
’’خد اوند بنی اسرائیل کا خد امبارک ہے جس نے تجھے بھیجا ہے کہ تُو آج کے دن میرا استقبال کرے۔‘‘ ۳؎
’’ خداوند بنی اسرائیل کا خد امبارک ہے جس نے آج کے دن ایک آدمی ٹھہرایا کہ میری ہی آنکھوں کے دیکھتے ہوئے تخت پر بیٹھے۔‘‘۴؎
’’ خداوند اسرائیل کا خداوندا بدالا باد مبارک ہو۔‘‘۵؎
’’ خدا وند اسرائیل کا خدا مبارک ہو جس نے اپنے ہاتھ سے وہ کلام کہ جس کو اپنے منہ سے میرے باپ دائود سے کہا تھا پورا کیا۔‘‘ ۶؎
’’ خداوند خدا اسرائیل کا خدا جو اکیلا ہے عجائب کام کرتا ہے۔‘‘ ۷؎
حضرت مسیح ؑبھی اپنے آپ کو صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث قرار دیتے تھے اور دوسری قوموں کے افراد کو دھتکار دیتے تھے۔ چنانچہ انجیل میں لکھا ہے:۔
’’ تب یسوع وہاں سے روانہ ہو کے صوراورصیدا کی اطراف میں گیا اور دیکھو ایک کنعانی عورت وہاں کی سرزمین سے نکل کر اسے پکارتی ہوئی چلی آئی کہ اے خداوند دائود کے بیٹے! مجھ پر رحم کر کہ میری بیٹی ایک دیو کے غلبہ سے بے حال ہے۔ اس نے کچھ جواب نہ دیا۔ تب اس کے شاگردوں نے پا س آکر اس کی منت کی کہ اسے رخصت کر، کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چلاتی ہے۔ اس نے جواب میں کہا میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سِوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا۔ پھر وہ آئی اور سجدہ کر کے کہا۔اے خدا وند! میری مدد کر۔ اس نے جواب دیا کہ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو پھینک دیویں۔‘‘ ۸؎
اِسی طرح حضرت مسیح نے اپنے حواریوں کو یہ تعلیم دی کہ:۔
’’ وہ چیز جو پاک ہے کتوں کو مت دو اور اپنے موتی سؤروں کے آگے مت پھینکو۔ ایسا نہ ہو کہ وے انہیں پامال کریں اور پھر کر تمہیں پھاڑیں۔‘‘۹؎
ویدوں کے ماننے والوں میں وید اس حد تک ہندوستان کی اونچی ذاتوں کے ساتھ مخصوص کر دیے گئے تھے کہ گوتم جو تمام ہندو قوم اور سناتن دھرم کا تسلیم شدہ شارح قانون ہے لکھتاہے کہ :
’’ شودر اگر وید کو سن لے تو راجہ سیسے اور لاکھ سے اس کے کان بھردے۔ وید منتروں کا اچارن (تلاوت) کرنے پر اُس کی زبان کٹوا دے۔ اور اگر وید کوپڑھ لے تو اس کا جسم ہی کا ٹ دے۔‘‘ ۱۰؎
اسی طرح خود وید میں غیر قوموں کے لئے جو تعلیم موجود ہے وہ نہایت ہی شدید اور سخت ہے۔ رگوید میں ویدک دھرم کے مخالفین کو کتا قرار دیتے ہوئے یہ بددعا کی گئی ہے کہ:
’’ اے آگ دیوتا! تُو ان بُرے کتوں ( مخالفین) کو دُور لے جا کر باندھ دے‘‘۔ ۱۱؎
اتھرو وید میں بھی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غیر ویدک دھرمی لوگوں کوجکڑ کر اُن کے گھروں کو لُوٹ لینا چاہئے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ:۔
’’ اے ویدک دھرمی لوگو تم چیتے جیسے بن کر اپنے مخالفین کو باندھ لو اور پھر ان کے کھانے تک کی چیزیں زبردستی اُٹھا لائو۔ ۱۲؎
اسی طرح ویدوں میں چاند، سورج، آگ، پانی اوراِندر سے یہاں تک کہ گھاس سے بھی یہ دعائیں کی گئی ہیں کہ غیر ویدک دھرمی لوگوں کو تباہ و برباد کردیا جائے۔ چنانچہ لکھا ہے کہ :
’’ اے آگ! تُو ہمارے مخالفوں کو جلا کر راکھ کر دے۔‘‘ ۱۳؎
’’ اے اِندر! تُو ہمارے مخالفوں کو چیر پھاڑ ڈال اور جو ہم سے نفرت رکھتے ہیں انہیں تتر بتر کر دے۔‘‘۱۴؎
’’ اے مخالفو! تم سر کٹے ہوئے سانپوں کی طرح بے سر اور اندھے ہو جائو اس کے بعد پھر اِندر دیوتا تمہارے چیدہ چیدہ لوگوں کو تباہ کر دے۔‘‘۱۵؎
’’ اے وبھ گھاس! تُو ہمارے مخالفوں کو جلادے اور تباہ کر اور جس طرح تُو پیدا ہوتے وقت زمین کو چیر کر باہر نکل آتا ہے ویسے ہی تُو ہمارے مخالفوں کے سروں کو چیرتا ہوا اوپر کو نکل کر اُن کو تباہ کر کے زمین پر گرا دے۔‘‘ ۱۶؎
پھر ہندو دھرم میں یہ بھی تعلیم موجود ہے کہ غیرویدک دھرمی لوگوں کے ساتھ بات چیت بھی نہ کرو ۔۱۷؎
اگر کوئی ویدوں پر اعتراض کرے تو اُسے ملک سے باہر نکال د ویعنی حبس دوام کی سزا دو۔۱۸؎
کنفیوشس ازم اور زردشت مذہب بھی قومی مذہب تھے۔ اُنہوں نے کبھی بھی دنیا کو اپنا مخاطب نہ سمجھا نہ دنیا کو تبلیغ کرنے کی کوشش کی۔ جس طرح ہندو مذہب کے مطابق ہندوستان خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کا ملک تھا اسی طرح کنفیوشس ازم کے مطابق چین آسمانی بادشاہت کا مظہر تھا اور زرتشتیوں کے نزدیک ایران آسمانی بادشاہت کا مظہر تھا۔ اس اختلاف کے ہوتے ہوئے یا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا کے پیدا کرنے والے کئی خدا ہیں اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ خداتعالیٰ کی وحدانیت کے لئے اس اختلاف کو مٹا دینا ضروری تھا۔
خدا ایک ہے
اب زمانہ اس قدر ترقی کرچکا ہے کہ شاید مجھے اس بات کے متعلق کچھ زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ اس دنیا کو پیدا کرنے والا اگر کوئی ہے تو وہ
ایک ہی ہے۔اسرائیلیوں، ہندوئوں، چینیوں اور ایرانیوں کا خدا عربوں، افغانوں، یورپینوں، منگولیوں اور سامی نسل کے لوگوں کے خدا سے کوئی مختلف خدا نہیں۔ اس دنیا میں ایک قانون جاری ہے۔ آسمان سے پاتال تک ایک ہی نظام کی کڑیاں ہمیں نظر آتی ہیں۔ درحقیقت سائنس کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ تمام طبیعاتی اور میکینکل تغیرات ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں اور یاتو بقول مادی علماء کے یہ ساری کائنات ایک قسم کی حرکت کا نتیجہ ہے اور یا پھر اس ساری کائنات کو بنانے والا ایک ہی ہاتھ ہے۔ اس حقیقت کو مدنظر رکھنے کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسرائیلیوں کا خدا کون ہے اور عربوں کا خدا کون ہے اور ہندوئوں کا خدا کون ہے؟
اور اگر خدا ایک ہے تو پھر یہ مختلف مذاہب کیوں پیدا ہوئے؟ کیا وہ مذاہب صرف بنی نوع انسان کی دماغی اختراع سے تھے اس لئے ہر قوم نے اپنا اپنا خدا تجویز کر لیا؟ اگر نہیں تو پھر اس اختلاف کی وجہ کیا تھی؟ اور کیا پھر اس اختلاف کا ہمیشہ کے لئے جاری رہنا دنیا کے لئے مفید ہو سکتا تھا؟
مختلف ادیان کے انسانی دماغ کی اختراع نہ ہونے کی وجوہ
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا یہ مذاہب بنی نوع انسان کی دماغی اختراع کا نتیجہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں اور
ہرگزنہیں اور اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
جو مذاہب دنیا میں قائم ہوگئے ہیں جب ہم ان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو مندرجہ ذیل امور ہمیں نظر آتے ہیں۔
۱۔ تمام مذاہب کے بانی دُنیوی طور پر کمزور اور نادار قسم کے آدمی تھے اور کوئی طاقت ان کو حاصل نہ تھی مگر باوجود اس کے انہوں نے دنیا کے چھوٹے بڑوں کو مخاطب کیا اور وہ اور ان کے اتباع نہایت ادنیٰ حالت سے نکل کر اعلیٰ حالت تک پہنچ گئے۔ یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ کوئی طاقتور ہستی ان کے پیچھے کام کر رہی تھی۔
پاکیزہ زندگی
۲۔ تمام کے تمام بانیانِ مذاہب ایسے ہیں کہ ان کی دعویٰ سے پہلے کی زندگی ان کے دشمنوں کے نزدیک بھی پاک تھی اب یہ کیونکر خیال کیا جا
سکتاہے کہ ایسے پاکیزہ لوگوں نے جو انسان تک پر جھوٹ نہیں بولتے تھے خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔
یقینا ان کے دعویٰ سے پہلے کی پاکیزہ زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے تھے۔ قرآن کریم نے خاص طور پرا س دلیل کو لیا ہے اور فرماتا ہے۔۱۹؎ یعنی میں نے اپنی عمر تمہارے اندر گزاری ہے اور تم نے میری زندگی کو دیکھا ہے اور گواہی دی ہے کہ میں جھوٹ بولنے والا نہیں ہوں۔ پھر تم کس طرح سمجھتے ہو کہ آج میں خدا تعالیٰ کی ذات پر افتراء کرنے لگ گیا ہوں۔
اسی طرح فرماتا ہے۔
۲۰؎
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ بہت بڑا فضل اور انعام اور احسان کیا ہے کہ اس نے انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا ہے یہی مضمون ذیل کی آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ ۲۱؎ یعنی تمہاری طرف تمہیں میں سے ایک رسول آیا ہے یعنی کوئی ایسا شخص تمہارے سامنے رسالت کا دعویٰ نہیں کر رہا جس کے حالاتِ زندگی سے تم ناآشنا ہو بلکہ ایسا شخص مدعی ٔ مأموریت ہے جس کے حالات کو تم خوب جانتے ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ اس کی زندگی کیسی پاکیزہ گزری ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اور انبیاء کے متعلق بھی یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ وہ اپنی قوم ہی میں سے مبعوث کئے گئے تھے۔ اور اُس قوم کے لوگ یہ عذر نہیں کر سکتے کہ ہم ان کے حالات سے واقف نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب دوزخی دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو اُن سے کہا جائے گا
۲۲؎ یعنی کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہیں آئے جو تم پر ہماری آیات پڑھا کرتے تھے اور تمہیں اِس دن کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے؟
اسی طرح فرماتا ہے۔

۲۳؎ یعنی اے جنوں اورانسانوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے ایسے رسول نہیں آئے جو تمہیں ہمارے نشانات سے آگاہ کیا کرتے تھے اور اِس دن کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے؟
ایک اور جگہ فرماتا ہے۔
۲۴؎ ہم نے ان لوگوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جس کی تعلیم یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرو۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
پھر فرماتا ہے۲۵؎ یعنی قیامت کے دن ہم ہر قوم کے خلاف خود اُنہی میں سے ایک رسول کھڑا کریں گے اس جگہ شہید سے مراد ہر وہ نبی ہے جو کسی قوم کی طرف مبعوث ہوا۔ یعنی قیامت کے دن وہ انبیاء اپنے نمونہ کو پیش کریں گے کہ کلامِ الٰہی نے اُن پر کیا اثر کیا۔ اِس طرح خدا تعالیٰ کفّار کو شرمندہ کر ے گا کہ ہمارا یہ نبی تو اِس کمال کو پہنچ گیا اور تم انکار کر کے تمام ترقیات سے محروم رہ گئے۔ اس جگہ تمام انبیاء کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ وہ تھے یعنی ہر وہ قوم جس کی طرف وہ مبعوث کئے گئے ان میں سے ہر ایک کو جانتی تھی اور وہ ان لوگوں کی پاکیزگی اور طہارت کی شاہد تھی۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ ۲۶؎ ۲۷؎ ۲۸؎ یعنی عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ھود کومبعوث کیا اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو مبعوث کیا اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو مبعوث کیا۔ گویا ھود، صالح اور شعیب سب کے سب اپنی قوم کی نظروں میں ایسا مقام رکھتے تھے کہ وہ ان کے حالاتِ زندگی سے پوری طرح واقف تھے۔
اسی طرح حضرت صالح کے متعلق آتا ہے کہ جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے احکام بیان فرمائے تو ان کی قوم نے کہا ۲۹؎ اے صالح! تُو تو اِس دعویٰ سے پہلے ہماری اُمیدوں کا مرکز تھا تُو نے یہ کیا کیا کہ تُو نے ہمیں اُس عبادت سے روک دیا جو ہمارے باپ دادا ایک مدت سے کرتے چلے آرہے تھے۔
اِسی طرح حضرت شعیبؑ کے متعلق اُن کی قوم نے کہا۔
۳۰؎ اے شعیب! کیا تیری نماز تجھے یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے آبائو اجداد کے طریقوں کو ترک کر دیں یا ہم اپنے اموال کی تقسیم میں تیری ہدایات کی تقلید کریں اور اپنی مرضی چھوڑ دیں۔ تُو تو بڑا حلیم اور رشید تھا تجھے کیا ہوا ہے کہ تُو ایسی غلط تعلیم دینے لگا۔
اِن آیات سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت صالحؑ، حضرت شعیبؑ اور اسی طرح باقی تمام انبیاء کے متعلق قرآن کریم میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ کوئی گمنام آدمی نہ تھے۔ ان کی اقوام ان کی زندگیوں پر شاہد تھیں اور ان کی نیکی، تقویٰ اور عبادت پر گواہ تھیں اور یہ نہیں کہہ سکتی تھیں کہ کسی پوشیدہ حالات والے یا بدکار شخص نے قوم کو لُوٹنے کی تجویز کی ہے۔
بانیانِ مذاہب اور دُنیوی تعلیم
۳۔ تمام کے تمام بانیانِ مذاہب دُنیوی تعلیم کے لحاظ سے قریباً کورے تھے لیکن جو تعلیم اُنہوں
نے لوگوں کی راہنمائی اور ہدایت کیلئے دی ہے وہ نہایت ہی اعلیٰ، مناسب حال اور مناسب زمانہ ہے اور اُس پر چل کر ان کی قوم نے صدیوں تک تہذیب اور شائستگی میں دنیا کی راہنمائی کی ہے۔ یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ جو شخص دُنیوی علوم سے بے بہرہ ہے وہ خداتعالیٰ پر افتراء کر کے یکدم ایسی قدرت حاصل کر لیتا ہے کہ اس کی بتائی ہوئی تعلیم اُس زمانہ کی تعلیمات پر فائق ہو اور ان پر غالب آ جائے، یہ کام تو صرف ایک بالا ہستی کی تائید ہی سے ہو سکتا ہے۔
بانیانِ مذاہب زمانہ کی رَو کے خلاف تعلیم دیتے تھے
۴۔ جس قدر بانیانِ مذاہب گزرے ہیں ان کی تعلیم پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ ہی وہ زمانہ کی رَو کے خلاف رہی ہے۔ اگر ان کی تعلیمیں
زمانہ کی رَو کے مطابق ہوتیں تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ اپنی جماعت کے ذہنی ارتقاء کے نمائندے تھے لیکن وہ لوگ تو اپنے زمانہ کی تعلیم کو نہ صرف ردّ کرتے تھے بلکہ اس کے خلاف ایک اور تعلیم بھی پیش کرتے تھے جس کی وجہ سے ملک میں ایک آگ لگ جاتی تھی لیکن باوجود اس کے ان کے مخاطب ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ یہ چیز بھی بتاتی ہے کہ وہ نمائندۂ انسان نہیں تھے بلکہ حقیقی مصلح اور خد اتعالیٰ کے نبی تھے۔
موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک خدا کی تعلیم کتنی عجیب چیز تھی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں جبکہ مادیت کچھ یہود کی دنیا پرستی کی وجہ سے اور کچھ رومی حکومت کے غلبہ کی وجہ سے فلسطین پرغالب آرہی تھی روحانیت پر زور دینا اور دنیا طلبی کے خلاف وعظ کرنا اور اُس وقت جبکہ یہود رومی کوڑوں کے نیچے تلملا رہے تھے اور انتقام کے جذبات ان کے دل میں پیدا ہو رہے تھے، انہیں عفواورر حم کی تعلیم دینا کتنی عجیب بات تھی۔ہندوستان میں ایک طرف کرشن ؑ کا لڑائی کی تعلیم دینااور دوسری طرف مادیت سے دل ہٹا کر خداتعالیٰ کے ساتھ لَو لگانے کی تعلیم دینا اُس زمانہ کے حالات کے کیسا خلاف تھا۔ زرتشتی تعلیم بھی جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی تھی ایران جیسے آزاد خیال لوگوں کیلئے کتنی ناقابل قبول تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عرب میں پیدا ہو کر یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دینا جبکہ مسیحیوں اور یہودیوں کے نزدیک ان کے مذہب کے سوا کہیں اور ہدایت نہیں پائی جاتی تھی اور مکہ والوں کو جوکہ شرک میں ڈوبے ہوئے تھے تو حید کی تعلیم دینا اورجو اپنی نسلی برتری کے خیالات میں مگن تھے انہیں تمام بنی نوع انسان کے برابر ہونے کا پیغام پہنچانا، شراب میں مست اور جوئے میں غرق رہنے والوں کو شراب کی حرمت اور جوئے کی شناعت کی تعلیم دینا بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے متعلق رائج الوقت خیالات اور اعمال کی مخالفت کرنا اور اس کی جگہ ایک نئی تعلیم پیش کرنا اور پھر اس میں کامیاب ہو جانا بتاتا ہے کہ آپ پہاڑ کی چوٹی سے پوری شدت کے ساتھ گرنے والے دریا کی مخالف سمت میں تیر کر منزلِ مقصود تک پہنچ گئے اور یہ کام انسانی طاقت سے باہر ہے۔
بانیانِ مذاہب کے ذریعہ نشانات و معجزات کا ظہور
۵۔ جس قدر بانیانِ مذاہب گزرے ہیں سب کے ہاتھوں سے ایسے نشانات اور معجزات ظاہر ہوئے ہیں جن کا ظہور کسی انسان کے ہاتھو ںسے نہیںہو سکتا۔
سب سے پہلے توان میں سے ہر ایک نے اپنے دعویٰ کے ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی ہے کہ میری تعلیم پھیل کر رہے گی اور اس کے ساتھ ٹکرانے والا خود پاش پاش ہو جائے گا اور باوجود اس کے کہ دُنیوی لحاظ سے وہ بہت کمزور تھے، دُنیوی علوم کے لحاظ سے صفر تھے اور زمانہ کی رَو کے خلاف تعلیم دینے والے تھے اور باوجود اِس کے کہ ان کی شدید ترین مخالفت کی گئی پھر بھی وہ غالب آئے اوران کی بتائی ہوئی خبر پوری ہوئی۔ کون انسان قبل ازوقت ایسی خبر دے سکتا ہے اور پھر کون سی انسانی طاقت اسے پورا کروا سکتی ہے۔
انبیاء کی ترقی اور دنیاوی لیڈروں کی ترقی میں فرق
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دوسرے انسانوں نے بھی غیر معمولی ترقیاں کی ہیں مگر یہاں سوال غیرمعمولی ترقی کا نہیں بلکہ سوال اس بات کا ہے کہ
ان لوگوںنے خد اتعالیٰ کی طرف منسوب کر کے اپنی ترقی کا اعلان کیا اوراپنی اخلاقی زندگی اور موت کو اس پیشگوئی کے ساتھ وابستہ کر دیا اور پھر زمانہ کی رَو کے خلاف چلے۔ بیشک نپولین،۳۱؎ ہٹلر،۳۲؎ اور چنگیز خان۳۳؎ نے بھی ادنیٰ حالت سے ترقی کی لیکن وہ زمانہ کی رَو کے خلاف نہ چلے تھے۔ انہوں نے کبھی یہ اعلان نہیں کیا کہ خد اتعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ باوجود مخالفت کے تم جیت جائو گے۔ پھر ان کی کبھی شدید مخالفت نہیں ہوئی کیونکہ جس بات کا وہ اعلان کر رہے تھے ملک کے اکثر افراد خود اس کے خواہشمند تھے۔ ذرائع میں اختلاف ہوتو ہو مگر مقصود میںاختلاف نہیں تھا۔ اگر وہ ہار جاتے یا ہار گئے تو ان کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ باوجود اس کے وہ قوم کے لیڈر بنے رہے اور یہی امید کرتے تھے کہ ہم ہی بنے رہیں مگر ذرا خیال تو کرو کہ اگر موسٰیؑ اور عیسٰیؑ اور کرشن ؑاور زرتشت ؑاور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ناکام رہتے تو کیا وہ آئندہ نسلوں میں قوم کے ہیرو کے طور پر یاد کئے جا سکتے تھے ؟ ان کی اپنی قومیں انہیں دھوکاباز اور دغا باز کہتیں، تاریخیں ان کے ذکر کو نظر انداز کر دیتیں اور وہ ہمیشہ کیلئے بدنامی کے گڑھے میں گر جاتے۔ پس ان کے دعویٰ میںاور نپولین اور ہٹلر وغیرہ کے دعویٰ میں زمین و آسمان کا فرق ہے اوراُن کی کامیابیوں اور ا ِن کی کامیابیوں میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے۔
پھر ذرا ان لوگوں کے انجام کو بھی دیکھو۔ نپولین،ہٹلراورچنگیز خان کو کتنے لوگ عقیدت اور محبت سے یاد کرتے ہیں۔ ہیرو تو وہ ہوتے ہیں جن کا قبضہ قوم کے ایک حصہ کے دماغوں پر بھی ہو لیکن کیا ان کے ہاتھوں اور پائوں اور دلوں پر بھی ان لوگوں کا قبضہ ہے؟ مگر اِن دُنیوی لیڈروں کے مقابلہ پر دینی راہبر ایسے تھے کہ لاکھوں آدمی ہر زمانہ میں ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اُسی طرف آنکھ اُٹھائی ہے جس طرف اُٹھانے کے لئے ان لوگوں نے کہا تھا اور اُسی بات کو سنا ہے جس کے سننے کی ان لوگوں نے اجازت دی تھی اور وہی فقرات اپنی زبان پر لائے ہیںجن فقرات کے بولنے کی ان کی طرف سے ہدایت تھی اور ان کے ہاتھ اور پائوں ان ہی کامو ں کے لئے چلے ہیں جن کاموںمیں حصہ لینے کی اُنہوں نے ترغیب دی تھی۔ کیا دوسرے قومی لیڈروں کے متعلق اِس مثال کا لاکھواں یاکروڑواں حصہ بھی ثابت کیا جا سکتا ہے؟ پس یہ لوگ یقینا خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے اور ان کے لائے ہوئے مذہب یقینا خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے۔
بانیانِ مذاہب کی تعلیم میں اختلاف کی وجہ
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے تو ان کی تعلیمات میں اختلاف کیوں تھا؟ کیا خدا تعالیٰ مختلف تعلیمیں دے سکتا ہے جبکہ کوئی عقلمند انسان بھی
مختلف تعلیمیں نہیں دیا کرتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہی قسم کے حالات میں مختلف قسم کی تعلیمیں نہیں دی جاتیں بلکہ مختلف حالات میں مختلف تعلیمیں دینا ہی حکیم،ہستیوں کا کام ہوتا ہے۔ آدم کے زمانہ میں تمام بنی نوع ایک ہی جگہ رہتے تھے اس لئے ان کے لئے ایک ہی قسم کی تعلیم کافی تھی۔ شاید نوح ؑتک بھی یہی حالت تھی مگر میں اس کے متعلق قطعی رائے نہیں رکھتا۔ بائبل کہتی ہے کہ بابل کے زمانہ تک تمام قومیں ایک ہی جگہ پر رہتی تھیں۔ گو بائبل تاریخ کی کتاب نہیں لیکن ایک بات جو اس دعویٰ کی تائید میں مجھے تاریخ سے نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ دنیا کی تمام اقوام میں یہاں تک کہ بعض جزائر کے وحشی قبائل میں بھی طوفا نِ نوح ؑکی خبر ملتی ہے۔ چونکہ ایسا طوفان جو ساری دنیا میں آیا ہو اور پھر ساری دنیا کو اس کے عالمگیر ہونے کا علم بھی ہو، یہ ایک غیر طبعی سادعویٰ ہو گا اس لئے یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کے کسی ایک مقام پر یہ طوفان آیا تھا جب کہ دنیا کی آبادی ایک جگہ پر تھی اور اس کے بعد لوگ اِدھراُدھر پھیل گئے۔ پس گو بابل کے زمانہ تک دنیا کا ایک ہونا ثابت نہ ہو مگر نوح ؑکے زمانہ تک تو دنیا کا ایک ہونا ثابت ہوتا ہے ۔
نوح ؑکے زمانہ کے بعد کسی وقت جب بنی نوع انسان متفرق ملکوں میں پھیل گئے اور وہ تعلیم جو نوح ؑنے دی تھی آہستہ آہستہ خراب ہونے لگی تو اِس وجہ سے کہ آمدورفت کے ذرائع محدود تھے اور ایک ملک کے نبی کی آواز دوسری جگہ نہیں پہنچتی تھی خدا تعالیٰ نے مختلف ملکوں میں اپنے نبی بھیجے تاکہ کوئی قوم اُس کی ہدایت سے محروم نہ رہ جائے اور اس سے اختلافِ مذاہب کی بنیاد پڑی۔ چونکہ بنی نوع انسان کی دماغی حالت ابھی تکمیل کو اور علم و عقل اپنے نقطۂ مرکزی کو نہ پہنچے تھے اس لئے ہر ملک اور اُس ملک کی دماغی حالت کے مطابق تعلیمات نازل ہوئیں۔ لیکن جب نسلیں ترقی کرتی گئیں اور غیر ممالک آباد ہونے شروع ہوئے اور آبادیوں کے فاصلے کم ہوتے چلے گئے اور ذرائع آمدورفت میں ترقی ہوتی چلی گئی۔ کشتیوں نے جہازوں کی صورت اور جہازوں نے بادبانی جہازوں کی صورت اختیار کر لی۔ پائوں پر چلنے والوں نے بیلوں پر، پھر اونٹوں، گدھوں، گھوڑوں پر چڑھنا شروع کیا پھر ہاتھیوں پر چڑھنا شروع کیا اور پھر آرام اور سہولت سے سفر کرنے کیلئے بیلوں، گھوڑوں اور گدھوں کو گاڑیوں میں جوتنا شروع کیا اور پھر ان گاڑیوں اور جہازوں نے سڑکوں اور سمندروں کے ذریعہ سے دُور دور تک آمد و رفت کے سلسلہ کو جاری کیا۔
تمام بنی نوع کیلئے ایک کامل دین کا ظہور اور توحید پر زور
الغرض جب انسانی دماغ اِس حد تک پہنچ گیا کہ مختلف حالات کے متوازی تعلیمات کو سمجھ سکے اور موقع مناسب پر ان کااستعمال کر سکے۔ جب
انسان باہمی میل جول کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنے کے قابل ہوا کہ سب بنی نوع انسان ایک ہی ہیں اور سب کا پید اکرنے والا ایک خدا ہے اور سب کو ہدایت دینے والا ایک ہادی ہے تب اللہ تعالیٰ نے ریگستانِ عرب کی بستی مکہ میں اپنا وہ آخری پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا جس کی پہلی آیت یہ ہے ۳۴؎ یعنی وہ خدا تعالیٰ تمام تعریفوں کامستحق ہے جو ہر قوم اور ہر ملک کی یکساں ربوبیت کرنے والا ہے اور اس کی ربوبیت کا پہلو کسی ایک قوم یا ا یک ملک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور جس پیغام کا خاتمہ اِن آیات پر ہوتا ہے ۳۵؎ یعنی توکہہ میں اُس خدا کی پناہ طلب کرتا ہوں جو تمام بنی نوع انسان کا ربّ ہے، جو تمام بنی نوع انسان کا بادشاہ ہے، جو تمام بنی نوع انسان کا معبود ہے، وہ شخص جس پر یہ کلام نازل ہوا وہ شخص یقینا آدمِ ؑثانی تھا جس طرح آدمِ اوّل کے زمانہ میں ایک ہی کلام اور ایک ہی اُمت تھی اِسی طرح اِس کے زمانہ میںبھی ایک ہی کلام اور ایک ہی اُمت ہو گئی۔ پس اگر اِس دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہی ہے اور اگر وہ تمام اقوام اور تمام ممالک کے ساتھ یکساں تعلق رکھتا ہے تو ضروری تھا کہ کسی وقت تمام قومیں اور تمام افراد ایک نقطۂ مرکزی کی طرف جھکتے یا ایک نقطہ پر جمع ہونے کا سامان ان کے لئے پید اکیا جاتا اور اِس ضرورت کو صرف قرآن کریم پورا کرتا ہے۔ قرآن کریم کے بغیر دنیا کی روحانی پیدائش بالکل بیکار ہو جاتی ہے کیونکہ دنیا اگر روحانی طور پر ایک نقطہ پر جمع نہیں ہوتی تو خدا ئے واحدکی واحدا نیت کس طرح ثابت ہو سکتی ہے۔ شروع شروع میں دریائوں کے کئی نالے ہوتے ہیں مگر دریا آخر ایک بڑے وسیع رستہ میں اکٹھا ہو کر بہہ چلتا ہے تب اس کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ موسٰیؑ عیسٰیؑ ، زرتشتؑ، کرشن ؑاور دوسرے انبیاء کی تعلیمات پہاڑی نالے تھے۔ اپنی اپنی جگہ وہ بھی مفید کام کرتے رہے تھے مگر ان نالوں کا ایک دریا میں مل جانا خد اتعالیٰ کی وحدانیت اور بنی نوع انسان کی انتہائی ترقی پر پہنچنے کے لئے نہایت ضروری تھا۔
قرآن مجید کے سواکسی نبی کی تعلیم سب قوموں کیلئے نہ تھی
اگر قرآن اِس غرض کو پورا نہیں کرتا تو کس نبی کی کتاب اِس غرض کو پورا کرتی ہے؟ کیا بائبل اِس غرض کو پورا کرتی ہے جو خدا کو بنی اسرائیل کے ساتھ
مخصوص کر دیتی ہے؟ کیا زرتشت کی کتاب اِس ضرورت کو پورا کرتی ہے جو خدا کے نور کو ایرانیوں کے ساتھ وابستہ کر دیتی ہے؟ کیا وید اُس ضرورت کو پورا کرتے ہیں جو ویدوں کے سننے والے شُودر کے کانوں میں سیسہ پِگھلا کر ڈالنے کا ارشاد کرتے ہیں؟ کیا بدھ اِس ضرورت کو پورا کرتے ہیں جن کا ذہن ہندوستان کی چار دیواری سے باہر کبھی گیا ہی نہیں؟ ہاں! کیا مسیحؑ کی تعلیم اِس غرض کو پورا کرنے والی ہے جو خو دکہتا ہے کہ:
’’ یہ مت خیال کرو کہ میں توراۃ یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے آیا ہوں۔ میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوری کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو‘‘۔ ۳۶؎
اور موسٰی ؑ اور گزشتہ نبیوں نے عالمگیرمذہب کے متعلق جو کچھ خیالات ظاہر کئے ہیں وہ میں اوپر لکھ ہی چکا ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیت نے ساری دنیا کو تبلیغ کی ہے مگر یہ تبلیغ مسیحؑ کے ذہن میں تو نہ تھی۔ سوال اِس کا نہیں کہ دنیا کیا کرتی ہے۔ سوال اس بات کا ہے کہ بھیجنے والے خدا کا منشاء کیا تھااور اس منشاء کو مسیح کے سوا کون ظاہر کر سکتا ہے۔ مسیح خود کہتا ہے کہ:۔
’’ میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا‘‘ ۔۳۷؎
اور کہ:
’’ ابن آدم آیا ہے کہ کھوئے ہوئے کو ڈھونڈ کے بچاوے‘‘۔ ۳۸؎
پس مسیحؑ کی تعلیم سوائے بنی اسرائیل کے اور کسی کے لئے نہ تھی۔ کہا جاتا ہے کہ مسیحؑ نے دوسری اقوام کی طرف جانے کی بھی ہدایت کی تھی جیسے کہ اُس نے کہا :۔
’’تم جا کر سب قوموں کو شاگرد کرو اور انہیں باپ ، بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو‘‘۔۳۹؎
مگر اس حوالہ سے یہ نتیجہ نکالنا کہ مسیحؑ نے بنی اسرائیل کے سوا اور قوموں کی طرف بھی جانے کی ہدایت کی تھی درست نہیں۔ کیونکہ مسیح خود کہتا ہے کہ:۔
’’ تم جو میرے پیچھے ہو لئے جب نئی خلقت میں ابن آدم جلال کے تخت پر بیٹھے گا تم بھی بارہ تختوں پر بیٹھو گے اور اسرائیل کے بارہ گروہوں کی عدالت ہوگی‘‘۔۴۰؎
اس آیت سے ظاہر ہے کہ مسیحؑ کی حکومت تا ابد بنی اسرائیل کے بارہ گروہوں پر ہے نہ کہ دوسری قوموں پر۔ اسی طرح مسیحؑ کہتا ہے:۔
’’میں بنی اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا‘‘۔ ۴۱؎
پھر اس نے ہدایت کی طالب عورت کو جو کہ اسرائیلی نہ تھی بلکہ کنعان کی رہنے والی تھی۔ کہا کہ:
’’ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کے آگے پھینک دیویں‘‘۔ ۴۲؎
پھر وہ کہتا ہے ۔
’’ غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔ بلکہ پہلے بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جائو‘‘۔۴۳؎
یہ خیال نہ کیا جائے کہ اس جگہ ’’ پہلے ‘‘ کا لفظ ہے اور مطلب یہ ہے کہ پہلے اسرائیلی شہروں میں جائو اور پھر غیر اسرائیلی شہروں میں جانا کیونکہ اس جگہ خالی اسرائیلیوں کے شہروں میں پھرنا مراد نہیں بلکہ اسرائیلیوں کو مسیحی بنانا مراد ہے اورمطلب یہ ہے کہ جب تک اسرائیلی مسیحی نہ ہو جائیں کسی اور قوم کی طرف توجہ نہ کرنا اور خود مسیحؑ نے واضح کر دیا ہے کہ یہ کام مسیح ثانی کی آمد تک پورا نہ ہوگا۔ چنانچہ اس باب کی آیت ۲۳ میں لکھا ہے: ۔
’’ جب وے تمہیں ایک شہر میں ستاویں تو دوسرے میں بھاگ جائو۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم اسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھر چکو گے جب تک کہ ابن آدم نہ آئے گا‘‘۔۴۴؎
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں بنی اسرائیل کے شہروں میں پھر جانا مراد نہیں کیونکہ یہ کام تو چند مہینوں میں ہو سکتا تھا بلکہ اس سے مراد بنی اسرائیل کا مسیحیت میں داخل ہونا ہے اور مسیحؑ فرماتے ہیں کہ اُن کی آمدِ ثانی تک یہ کام پورا نہیں ہوگا۔ پس مسیحؑ کی آمدِ ثانی تک غیر قوموں کو مخاطب کرنے میں مسیحی لوگ حق بجانب نہیں بلکہ مسیح کی تعلیم کے خلاف چلنے والے ہیں۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری بھی غیر اقوام میں اناجیل کی منادی کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ چند رسولوں کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ وے جو اس جو روجفا سے جو کہ استیفن کے سبب برپا ہوئی تتر بتر ہو گئے تھے۔ پھرتے پھرتے فینیکے وکپرس اور انطاکیہ میں پہنچے مگر یہودیوں کے سوا کسی کو کلام نہ سناتے تھے‘‘۔ ۴۵؎
اسی طرح جب حواریوں نے سنا کہ پطرس نے ایک جگہ غیر قوموں میں انجیل کی منادی کی ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے اور جب پطرس یروشلم میں آیا تو مختون اُس سے یہ کہہ کر بحث کرنے لگے کہ تو نا مختونوں کے پاس گیا اور اُن کے ساتھ کھایا ۔۴۶؎
پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی شخص بھی نہیں تھا جس نے ساری دنیا کو خطاب کیا ہو اور قرآن سے پہلے کوئی کتاب نہ تھی جس نے ساری دنیا کو مخاطب کرنے کا دعویٰ کیا ہو۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو مخاطب کر کے کہا کہ۴۷؎
یعنی اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ پس قرآن کریم کا آنا ان اختلافات کے مٹانے کے لئے جو وقتی اور قومی تعلیموں کی وجہ سے پید ا ہوگئے تھے ضروری تھا۔ اگر قرآن نہ آتا تو دنیا پر یہ بھی ثابت نہ ہوتا کہ دنیا کا پیدا کرنے والاایک خداہے اور نہ یہ ثابت ہوتا کہ دنیا ایک خاص مقصود کو مدنظر رکھ کر پیدا کی گئی ہے۔ پس گزشتہ مذاہب کا اختلاف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ دنیا کو متحد کرنے والی آخری تعلیم کے رستہ میں روک نہیں بلکہ ان کا وجود ہی ایک ایسی تعلیم کا متقاضی ہے۔
دوسرا سوال اور اُس کا جواب
دوسرا سوال یہ ہے کہ انسانی دماغ اسی طرح
ارتقاء کی منزلوں کوطے کرتے ہوئے نہیں جا رہا
تھا جس طرح انسانی جسم نے کسی زمانہ میںا رتقاء کی منزلیں طے کی تھیں؟ پھر کیا جس طرح جسم کی ارتقائی منزلیں ایک مقام پر پہنچ کر ایک مستقل صورت اختیار کر گئیں اسی طرح کیا روح اور دماغ کیلئے بھی یہ ضروری نہ تھا کہ وہ ارتقائی منزلوں کو طے کرتے ہوئے ایک ایسی منزل پر پہنچتے جو انسانی پیدائش کا مقصود تھی؟
تمدن وتہذیب اور کلچر سے کیا مراد ہے؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ مختلف ممالک کی تہذیب اور
تمدن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پر تہذیب اور تمدن کے کئی دَور آئے ہیں اور بعض اُن میں سے اتنے شاندارگزرے ہیں کہ بادی النظر میں وہ دَور ہمارے موجودہ دَور کے بالکل مشابہہ معلوم ہوتے ہیں۔ اگر مکینیکل ترقی کو الگ کر دیا جائے تو پُرانا دَورِ تمدن موجودہ دَورِ تمدن کے بالکل مشابہہ معلوم ہوتا ہے ۔ اسی طرح پرانا دَورِ تہذیب بھی موجودہ زمانہ کے دَورِ تہذیب کے بہت حد تک مشابہہ نظر آتا ہے۔ مگر زیادہ غور سے دیکھا جائے تو دو فرق ہمیں نمایاں نظر آتے ہیں لیکن پیشتر اِس کے کہ میں ان ا متیازوں کا ذکر کروں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ تمدن یعنی سویلیزیشن اور تہذیب یعنی کلچر سے میری کیا مراد ہے۔ میرے نزدیک تمدن ایک خالص مادی نقطۂ نگاہ ہے۔ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی اعمال میں جو یکسانیت اور سہولت پیدا ہو جاتی ہے وہ میرے نزدیک تمدن کہلاتی ہے۔ انسانی اعمال کے نتیجہ میںجس قسم کی اور جس قدر پیداوار دنیا میںہو اُس کو ایک دوسری جگہ پہنچانے کے لئے نقل و حرکت کے جتنے ذرائع موجود ہوں، مال کو سہولت کے ساتھ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف منتقل کرنے کے لئے جتنی تدبیریں کی گئی ہوں، تعلیم جتنی رائج ہو، صنعت وحرفت جتنی منظم کرلی گئی ہو، سائنس کی طرف قوم میں جتنا میلان پایا جاتا ہو اور مُلک میں امن کے قیام کے لئے جس حد تک فوجی تنظیم کی گئی ہو، یہ چیزیں لازمی طور پر انسان کے اعمال پر اثر ڈالتی ہیں اور ان میں جو ملک ترقی یافتہ ہو اُس کے افراد کی زندگی دوسری اقوام کے افراد کی زندگی سے نمایاں طور پر الگ نظر آتی ہے اورمیرے نزدیک اِسی کو تمدن یا سویلیزیشن کہتے ہیں۔ ایک زراعتی طور پر غیرتعلیم یافتہ ملک کے لوگوں کی غذا یقینا زراعتی طور پر زیادہ ترقی یافتہ ملک کی نسبت مختلف ہوگی۔ زراعتی طور پر ترقی یافتہ ملک طبی طور پر تجویز کردہ اور زبان کے ذائقہ کے مطابق خوراک استعمال کرے گا اور اس کی خوراک میں بہتات ہو گی۔ مگر زراعت میں غیر ترقی یافتہ ملک کے لوگوں کی خوراک میں نہ طبی اصول مدنظر رکھے جا سکیں گے نہ ذائقہ کا سوال مدنظر ہوگا۔ قدرت نے جو غذا ان کے ملک میں پیدا کردی ہے وہ اسی کے کھانے پر مجبور ہوں گے اور اس سے آگے ان کی نگاہ جا ہی نہیں سکے گی۔ اسی طرح ایک صنعت و حرفت میں پیچھے رہ جانے والا ملک صنعت و حرفت میں ترقی کر جانے والے ملک کامقابلہ لباس اور مکان اور مکان کے فرنیچر میں بھی نہیں کر سکتا۔ مکانوں کی حفاظت اور نگہداشت میں بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اُس ملک کے پا س اتنے کپڑے نہیں ہوں گے کہ اُس کے ماہر اِس فکر میں لگ جائیں کہ وہ کپڑے کس کس شکل میں استعمال کئے جائیں۔ مختلف کوٹوں کی ساخت اور ان کے استعمال کے مواقع تو الگ رہے ان لوگوں کو تو کپڑے کی کمی کی وجہ سے خود کوٹ کا بھی خیال نہیں آسکتا۔ بلکہ وہ لوگ تو کرتے کو بھی ایک عیاشی سمجھیں گے۔ بکروٹے کے چمڑے کے بوٹ تو الگ رہے اُن لوگوں کے لئے تو بھینس کے صاف شدہ چمڑے کے بوٹوں پر اصرار کرنا بھی ناممکن ہو گا۔ بلکہ ان کے لئے تو جوتی بھی ایک عیاشی کاخیال ہو گی اور وہ یا توننگے پائوں پھرنے کو زندگی کا ایک معمول سمجھیں گے یا بالوں والے چمڑے تسموں کے ساتھ پیر میں باندھ کر یہ خیال کریں گے کہ ہم ایک نعمتِ عظمیٰ کے مالک ہو گئے ہیں۔ چونکہ میں یہ مضمون ضمناً لکھ رہا ہوں اِس کی تفصیلات بیان نہیں کرتا لیکن ایک ادنیٰ تدبر سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ زندگیوں کا یہ فرق محض زراعت، صنعت وحرفت، سائنس اور تعلیم کے فرق کا نتیجہ ہے۔ مگر فرق اتنا بڑا ہے کہ ایک قسم کی زندگی کے عادی لوگ دوسری قسم کی زندگی کے عادی لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا بھی برداشت نہیں کر سکیں گے۔ یہی چیز میرے نزدیک تمدن یعنی سویلیزیشن کہلاتی ہے اور اس کے اختلافات پر دنیا کی صلح اور دنیا کی جنگ کا بہت کچھ انحصار ہے۔ یہی تمدن آخر امپیریل ازم اور خواہش عالمگیری انسان کے دل میں پید ا کرتا ہے۔
دوسری چیز تہذیب یعنی کلچر ہے اِس کو تمدن سے وہی نسبت ہے جو روح کو جسم سے ہے۔ تمدن مادی ترقی کا نتیجہ ہے اور تہذیب دماغی ترقی کا نتیجہ ہے۔ تہذیب یعنی کلچر اُن افکار اور اُن خیالات کا نتیجہ ہے جو کسی قوم میں مذہب یا اخلاق کے اثر کے نیچے پیدا ہوتے ہیں۔ مذہب ایک بنیاد قائم کرتا ہے اور مذہب کے پیرو اُس بنیاد پر ایک عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ خواہ وہ بنیاد رکھنے والے کے خیالات سے کتنے بھی دُور چلے جائیں وہ بنیاد کو چھوڑ نہیں سکتے۔ جس شخص نے عمارت کی بنیاد رکھی ہو اُس کے نقشہ سے عمارت بنوانے والے کے نقشہ کو کتنا بھی اختلاف ہو پھر بھی وہ بنیاد کے کونوں اور زاویوں سے آزاد نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح دنیا میں مختلف مذاہب اور مختلف فلسفوں نے انسانی دماغ کو خاص خاص راستوں پر چلایا ہے اور اس کے نتیجہ میں افکار نے جو صورت اختیار کی ہے وہ اخلاق اور آرٹ کی نقل میں ایسی مخصوص نو عیتیں اختیار کر گئی ہے کہ دیکھنے والا مختلف مذاہب کے سچے پیروئوں کے اصولِ اخلاق اور آرٹ کے ظہور کو جدا جدا صورتوں میں دیکھتا ہے اور یہی چیز کلچر ہے۔
مختلف کلچر بھی قوموں میں اختلاف کاموجب ہیں
کلچر بھی قوموں میں اختلاف کرنے کا موجب ہوتی ہے۔آج دنیا میںدہریت غالب ہے۔ آج دنیا میں وُسعت خیالی کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ مگر باوجود اس کے
ایک عیسائی کہلانے والے دہریہ اور ایک متعصب عیسائی میں جس سہولت کے ساتھ جوڑ اور اتفاق ہو جاتا ہے اس سہولت کے ساتھ اس عیسائی کہلانے والے دہریہ کامسلمان کہلانے والے دہریہ سییا ایک متعصب عیسائی کا ایک متعصب مسلمان سے اتفاق نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ زمانہ کے اختلاف میں پولیٹیکل خیالات کا بھی جو کہ تمدن یعنی سویلیزیشن کا نتیجہ ہیں بہت کچھ دخل ہے مگر کلچر کے اختلاف کا بھی اس سے کم دخل نہیں۔ مسلمان خواہ یورپ کا رہنے والا ہو جب اُسے ایشیائی مسلمان ملتا ہے تو جس طرح اس کے دل کی کلی کھل جاتی ہے اس طرح یورپ کے عیسائی کے ساتھ ملنے سے نہیں کھلتی۔ جس طرح یورپ کے ایک متعصب عیسائی کے دل کی کلی امریکہ کے ایک دہریہ عیسائی کے ساتھ مل کر کھل جاتی ہے اس طرح یورپ کے ایک مسلمان کے ساتھ مل کر نہیں کھلتی۔
کیا اس کی وجہ تعصب مذہب ہے؟ یقینا نہیں۔ کیونکہ اگر تعصب مذہب اس کا باعث ہوتا تو چاہئے تھا کہ یہ تعصب ایک عیسائی کو مسلمان کی نسبت ایک دہریہ کا زیادہ مخالف بناتا لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ پس اصل وجہ یہی ہے کہ ایک عیسائی خواہ وہ دہریہ ہو گیا ہو مگر اُس کی تہذیب یا کلچر عیسائی ہے۔ اس کا فکر تو عیسائیت سے آزاد ہو گیا ہے مگر اُس کی طبیعت اور افعال عیسائیت کی تہذیب سے آزاد نہیں ہوئے۔ کیونکہ نسلوں کا اثر ایک دم مٹایا نہیں جا سکتا۔ ایک آرٹسٹ خواہ دہریہ ہو اس کی تصویریں، اس کی میوزک اور اس کی تعمیر عیسائی کلچر سے جدا نہیں ہو سکتی اور اگر وہ جدا ہو گی تو ایک بھونڈی سی چیز نظر آئے گی جیسے گلاب کے باغ میں کیکر کا درخت لگا دیا جائے۔
اس تشریح کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمدن اور تہذیب کے دَور کبھی تو الگ الگ آتے ہیں اور کبھی ایک ہی وقت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ یعنی کبھی کسی ملک میں تمدنی دَور آیا ہے لیکن تہذیبی دَور نہیں آیااور کبھی تہذیبی دَور آیا ہے اور تمدنی دَور نہیں آیا۔اس کی مثال ایسی ہے جیسے روم اپنے اقتدار کی حالت میں ایک اچھے تمدن کا نمونہ پیش کرنے والا تھا لیکن اس کی کوئی تہذیب یا کلچر نہیں تھا۔ اُس کا آرٹ اور اُس کا فلسفہ مقررہ ابتدائی اصول کے تابع نہ تھا بلکہ ہر شخص کا ذہن آزاد انہ طور پر کام کر رہا تھا۔ مسیحؑ کے زمانہ میں پہلی چند صدیوں میں عیسائیت نے کوئی تمدن تو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا لیکن ایک اعلیٰ درجہ کی تہذیب اور کلچر پیش کیا۔ وہ بھی ایک اصول اور ایک خاص دائرہ کے اندر کام کرنے والے لوگ تھے مگر ان کے اصول اور ان کے دائرے مذہب کے تعیّن کردہ تھے۔ لیکن روم کے اصول اور دائرے مادیات کے مقرر کردہ تھے۔ پس ابتدائی روم تمدن کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا اور ابتدائی عیسائیت کلچر کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی۔ روم کے دوسرے دَورِ ترقی میںتمدن اور کلچر مل گئے۔ روم نے جب عیسائیت قبول کی تو اس میں تمدن بھی تھااور تہذیب بھی تھی لیکن اس کا تمدن تہذیب کے تابع تھا جیسا کہ آجکل یورپ میں تمدن بھی ہے اور تہذیب بھی ہے مگر بوجہ مادیت کے غلبہ کے اُس کی تہذیب اُس کے تمدن کے تابع ہے۔
تہذیب و تمدن کے مختلف اَدوار
ہم تاریخ عالَم کے ابتدائی دَوروں میں دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں مذہب نے اچھا فلسفہ،
اخلاق اور اچھی تہذیب پیدا کی ہے وہ ہمارے زمانہ کے بہت قریب آگئی ہے اور جہاں جہاں مادیت نے عمدہ تمدن پیدا کیا ہے وہ تمدن ہمارے تمدن کے بہت قریب آگیا ہے، لیکن دو فرق نمایاں نظر آتے ہیں۔ اسلام سے پہلے کا تمدن اور ایک ہی جڑ کی شاخیں نظر نہیں آتیں یا اگر نظر آتی ہیں تو نامکمل صورت میں ۔یہودی مذہب میں بیشک تمدن کو تہذیب کے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ہے اور تورات نے بہت حد تک سوسائٹی کے نظم و نسق کو اور اس کی مادی ترقی کوبھی مذہب کے دائرہ میں لانے کی کوشش کی ہے مگر بائبل کی یہ کوشش ابتدائی کوشش تو کہلا سکتی ہے کامیاب اور آخری کوشش نہیں کہلا سکتی۔ یہی حال ہندو مذہب اور زرتشتی مذہب کا ہے۔
ایک لچکدار تعلیم کی ضرورت
زندگی کی ہزاروں ضرورتوں کے متعلق قانونِ اخلاق کا وہ لچکدار فلسفہ جو ہر موقع اور ضرورت پر کام آسکے
اِن مذاہب میں مفقود ہے۔ ایک ٹھوس غیر لچکدار تعلیم نا مکمل صورت میں تمدن کے متعلق پائی جاتی ہے لیکن وسیع انسانی دنیا کی غیر لچکدار تعلیم رہنمائی نہیں کر سکتی۔ انسان کو دوسرے حیوانات سے یہی تو امتیاز حاصل ہے کہ سب کے سب انسان بظاہر ایک بھی ہیں اور سب کے سب ایک دوسرے سے جدا بھی ہیں۔ دنیا کی تمام بھینسیں اور تمام شیر اور تمام چیتے اور تمام باز اور تمام مچھلیاں غرض نباتات خواہ از قسم حیوانات ہوں یا جمادات، خواہ حیواناتِ سمندری ہوں یا ہوائی ہوں یا خشکی کے ہوں اُ ن کی شکلیں بھی ایک ہیں اوراُن کے دماغ بھی ایک ہیں۔ اُن کی شکلیں بھی ایک قسم کا قانون چاہتی ہیں اوراُن کے دماغ بھی ایک قسم کا قانون چاہتے ہیں لیکن انسان اس بات میں منفرد ہے۔ تمام انسان ایک قسم کی شکل اور ایک قسم کے اعضاء لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن اُن کے دماغی افکار ایک دوسرے سے اتنے جدا ہوتے ہیں کہ بسااوقات بیوی مشرق میں ہوتی ہے تو خاوند مغرب میں یا باپ مغرب میںہوتا ہے تو بیٹا مشرق میں۔ ایسی ہستیوں کو جمع کرنے کے لئے یقینا ایک لچکدار تعلیم کی ضرورت ہے جو اپنی لچک کے ساتھ اپنے قانون کی شدت کا ازالہ کر دے اور ہر نوعیت کے خیالات کوا یک رسّی میں باندھ دے۔
یہودی اور عیسائی کلچروں کے بعد ایک نئے کلچر کی ضرورت
دنیا میں جوں جوں ترقی ہوتی چلی گئی ہے ہمیں معلوم ہے کہ دنیا اس طرف آنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ موسٰی ؑنے بنی اسرائیل کو ایک مذہب
بھی دیا اور ایک تمدن بھی دیا مگر غیر لچکدار تمدن انسانی فطرت کو تسلی نہ دے سکا۔ جونہی بنی اسرائیل کے دماغوں میں نئے افکار اور نئے خیالات اور نئی اُمنگیں پیدا ہوئیں اور انہوں نے ایک نئے آسمان میں اُڑنا شروع کر دیا، موسٰی ؑ کا تمدن ان سے بہت پیچھے رہ گیا۔ اس تمدن نے نئے زمانہ کے اسرائیلیوں کو اچھا شہری نہیں بنایا بلکہ یا تو باغی بنا دیا یا منافق شہری بنا دیا۔ مسیحؑ نے اس حالت کو دیکھا تو پکار اُٹھا کہ شریعت *** ہے کیونکہ اُس نے دیکھ لیا کہ موسوی شریعت نے غیرلچکدار ہونے کی وجہ سے انسانوں کو یا تو باغی بنا دیا یا منافق بنا دیا۔ مگر یہ اُس وقت نہیں ہوا جب موسٰی ؑدنیا میں آئے تھے بلکہ اُس کے صدیوں بعد ایسا ہوا۔ موسوی تعلیم ایک بچے کا کوٹ تھا جو جوان ہو جانے کی صورت میں بنی اسرائیل کے جسم پر درست نہیں آسکتا تھا۔ مسیحؑ نے ان مضحکہ خیز شکلوں کود یکھا جو تنو مند جوانوں کی شکل میں بچوں کے چھوٹے چھوٹے فراک پہنے پھر رہے تھے اور مسیحؑ کی فطرت نے اس سے بغاوت کی! نہیں بلکہ مسیح کے دل میں خدا کی آواز گونجی کہ۔ دیکھو یہ لوگ اُس حالت سے آگے نکل چکے ہیں جس حالت میںموسوی تعلیم کا وہ نقشہ ان کے لئے کافی ہو سکتا تھا جوبنی اسرائیل کے علماء نے موسٰی ؑ کے زمانہ میں کھینچا تھا۔ اب ان کے لئے ایک نئے کوٹ کی ضرورت ہے مگر اس نے جو علاج ان کے لئے تجویز کیا یا زیادہ درست یہ ہے کہ جو علاج صدیوں بعد کے عیسائیوں نے مسیح کے منہ سے بیان کیا یہ تھا کہ شریعت *** ہے۔ وہ کھانا جو انسان معدہ کی طاقت کو نظر انداز کرکے کھاتا ہے یقینا ایک *** ہوتا ہے۔ مگر اس قول سے بھی زیادہ اور کوئی احمقانہ قول نہیں کہ کھانا *** ہے۔ بچے کا کوٹ بڑے آدمی کے جسم پر یقینا مضحکہ انگیز ہوتا ہے مگر بڑے کا کوٹ بچے کے جسم پر بھی تو مضحکہ انگیز ہوتا ہے۔ ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بچے کا کوٹ بڑے انسان کے جسم پر مضحکہ انگیز ہے۔ ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیںکہ بڑے آدمی کا کوٹ بچے کے جسم پر مضحکہ انگیز ہے مگر کوٹ کو مضحکہ انگیز تو کوئی بیوقوف ہی کہے گا۔پس میرے نزدیک تو مسیحؑ کی طرف اِس قول کو منسوب کرنا ظلم ہے۔ یقینا مسیحؑ نے یوں کہا ہو گا کہ موسوی تعلیم کی موجودہ تشریح آجکل کے زمانہ کے لوگوں کے لئے *** ہے۔ اگر اس نے ایسا کہا تو بالکل سچ کہا۔مگر مسیحؑ کے اَتباع نے اس فاضلانہ قول کو ایک احمقانہ شکل دے دی۔ مگر بہرحال خواہ مسیح نے وہ کہا جو میں سمجھتا ہوں کہ اُس نے کہا تھا اور خواہ وہ کہا جو عیسائیوں کے علمائے سابق نے غلطی سے سمجھا کہ اُس نے یہ کہا تھا۔ بہرحال یہ تو ثابت ہے کہ انسانی دماغ موسٰی ؑ کے زمانہ سے ترقی کر کے آگے نکل چکاتھا اس کے لئے ایک نئی تعلیم کی ضرورت تھی ایک نئے اصولِ اخلاق کی ضرورت تھی۔ ایک نئے تمدن کی ضرورت تھی اور ایک نئی تہذیب کی ضرورت تھی لیکن جہاں موسوی علماء نے انسان کی گردن میں رسّہ لپیٹ کر اُس کو درخت کے ساتھ باندھ دیا تھا وہاں عیسوی تعلیم نے انسان کو تمام اخلاقی اور مذہبی قیود اور پابندیوں سے آزاد کر کے حیوان بنا دیا۔ موسوی قانون نے یہودی دماغ کو اپنے زمانہ سے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ سوائے اس کے کہ وہ باغی ہو یا منافق ہو اور عیسائی قانون نے انسان کو تمام اخلاقی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا اور اس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ خدا کا قانون تیری اصلاح نہیںکر سکتا۔تب انسان نے خدا کے کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انسان نے اپنی نجات کے لئے اپنا رستہ آپ تلاش کرنا شروع کر دیا اور دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ وہی مذہب جو نجات کے لئے خدا کی راہنمائی کو ضروری قرار دیتا تھا اس نے اپنی ترقی کے لئے خدا کی راہنمائی کو غیر ضروری قرار دے دیا۔ چونکہ ہمارے سامنے مختلف مذاہب میں سے مکمل کڑی صرف بنی اسرائیل کے مذہب کی ہے اس لئے میں نے اس کی مثال پیش کی ہے کیونکہ مسلسل کڑیوں سے ہی ارتقاء کا مسئلہ نکالا جا سکتا ہے اور اسرائیلی مذہب کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسانی دماغ پرانے زمانہ میں ارتقاء کی منزلیں طے کرتا چلاجارہا تھا۔ اِسی طرح دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسانی دماغ تمدن کے مختلف اَدوار میں سے گزرتا چلا آیا ہے، مگر پھر بھی اخوتِ انسانی کے نقطۂ مرکزی تک وہ کبھی نہیں پہنچ سکا۔ پس یہ دونوں شہادتیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ جس طرح انسانی جسم نے پیدائش عالم کے ابتدائی دَور میں ارتقاء کی منزلیں طے کی تھیں اسی طرح انسانی دماغ بھی انسانی تاریخ کے ابتدائی اَدوار میں ارتقاء کی منزلیں طے کرتا چلا آیا تھا لیکن اسلام سے پہلے وہ کبھی بھی ارتقاء کی آخری منزل تک نہیں پہنچا۔ اپنی تمدنی ترقیوں کے اَدوار میں وہ کبھی بھی قومی اور نسلی امتیازوں سے بالا نہیں ہوا اورانسانی اخوت کا مسئلہ اُس کے ذہن میں نہیں آیا نہ اپنی تہذیبی ترقی کے اَدوار میں اُس نے شریعت اور قانون کے آخری نقطہ کو پایا۔ موسوی تعلیم نے تمدن اور تہذیب کو جمع کرنے کی کوشش کی مگر ایک عرصہ کے بعد وہ ناکام ہو گئی کیونکہ اس کا فیصلہ اس بارہ میں آخری فیصلہ نہ تھا۔ مسیحؑ نے تبدیلی کرنی چاہی مگر وہ تبدیلی اس بغاوت کے طوفان کے آگے خس و خاشاک کی طرح اُڑ گئی جو اُس وقت انسانوں کے دماغ میں پیدا ہو رہا تھا۔ مسیحؑ کی تعلیم کا صرف یہی حصہ باقی رہ گیا جو انجیل نے اس صورت میں پیش کیا ہے کہ شریعت ایک *** ہے۔ حالانکہ ہر سمجھ دار انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ فقرہ اپنی موجودہ شکل میں خود ایک بہت بڑی *** ہے جس نے انسان کو خد اتعالیٰ سے برگشتہ اور اس کی راہنمائی سے آزاد کر دیاہے۔ پس ابھی مقامِ ارتقاء باقی تھا۔ انسانی تہذیب اور تمدن کے سابق تغیرات اس بات کی طرف اشارہ کررہے تھے کہ تہذیب و تمدن بھی اُسی طرح مسئلہ ارتقاء کے ماتحت ہیں جس طرح انسانی جسم۔ اور ضرور ہے کہ دنیا ایک دن اسی طرح تمدن اور تہذیب کا آخری ارتقائی مقام دیکھے جس طرح انسانی جسم کی پیدائش نے ارتقاء کا آخری مقام دیکھا۔ اور یہ حقیقت اسلام سے پہلے مذاہب کی موجودگی میں بھی ایک اور مذہب کی ضرورت کو تسلیم کرواتی ہے اور اِسی ضرورت کو پورا کرنے کا قرآن کریم مدعی ہے۔
تیسرے سوال کا جواب
تیسرا سوال جس کا مثبت میں جواب ملنے سے قرآن کریم کی ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ ہے کہ کیا پہلی
کتب میں کوئی ایسا نقص تو نہیں آگیا تھا جس کی وجہ سے ایک نئی کتاب کی ضرورت شدید طور پر دنیا کو محسوس ہورہی تھی اور قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرنے والا تھا؟
سب سے پہلی چیز جو کسی کتاب کو صحیح معنوں میں مفید بنا سکتی ہے اور جس کی بناء پر اُس سے اچھے نتائج کی امید کی جا سکتی ہے وہ اُس کا بیرونی دست برد سے محفوظ ہونا ہے۔ الٰہی کتابوں کو انسانی کتابوں پر یہی فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ اگر ہم کسی کتاب کو الٰہی کتاب تسلیم کر لیتے ہیں تو ہمیں اِس بات کی بھی تسلی ہو جاتی ہے کہ اِس کتاب کے ذریعہ سے ہم کسی قسم کی غلطی میں نہیں پڑیں گے کیونکہ خداتعالیٰ کے وجود پرایمان اسی بات پر مشتمل ہے کہ وہ ایسی ہستی ہے جو نور ہی نور ہے اور اس میںظلمت بالکل نہیں، ہدایت ہی ہدایت ہے اور اس میں گمراہی بالکل نہیں۔ اگراللہ تعالیٰ پر ایمان اس یقین پر مشتمل نہ ہو توپھر اس کی کوئی قیمت ہی باقی نہیں رہتی۔ اگر الٰہی کلام بھی غلطیوں سے پرُ ہو سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ انسان اپنی راہنمائی کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کو قبول کرے۔ پس الٰہی کتاب پر ایمان کی بنیاد اس یقین پر ہے کہ وہ غلطیوں سے پاک ہے۔ لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک کتاب الٰہی تو ہو لیکن بعد میں انسانی دست بُرد نے اُس کوخراب کر دیا ہو۔ اگر کسی الٰہی کتاب کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ اس کے اندر انسانوں نے بھی کچھ اپنی طرف سے ملا دیا ہے تو پھر وہ کتاب انسانی ہدایت کے لئے بیکار ہو جائے گی اور اس کو پڑھنے والوں کے دلوں میں اس پر عمل کرنے کے لئے کبھی بھی وہ جوش پیدا نہ ہوگا جو جوش ایسے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جواس کتاب کو کُلّی طور پر شروع سے آخر تک خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
بائبل انسانی دست بُرد سے محفوظ نہیں ہے
جب اس نقطۂ نگاہ سے ہم پہلی کتب کو دیکھتے ہیں تو وہ قطعی
طور پر ہمارے لئے تسلی کا موجب ثابت نہیں ہوتیں۔ عہد نامہ قدیم کے ماننے والے اس کو خداتعالیٰ کی کتاب کہتے ہیں ، مسیحی بھی اسے خدا ئی کتاب قرار دیتے ہیں اور مسلمان بھی اسے خدا ہی کی طرف سے نازل شدہ کتاب قرار دیتے ہیں لیکن خدا کی طرف سے نازل ہونا اور بات ہے اور اُسی صورت میں آج تک موجود ہونا اور بات۔ اور ان دونوں باتوں میں بڑ ابھاری فرق ہے۔ بیشک مذکورہ بالا تینوں قومیں اس بات پر متفق ہیں کہ عہد قدیم کے انبیاء سے خدا بولتا تھا لیکن عقیدۃً یہ تینوں قومیں اس بات پر متفق نہیں کہ موجوہ عہد نامۂ قدیم وہی کلام ہے جوان انبیاء پر نازل ہوا تھا اور نہ بیرونی اور نہ اندرونی شہادت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ موجودہ عہد نامۂ قدیم وہی کلام ہے جو بنی اسرائیل کے انبیاء پر نازل ہوا تھا۔ اسرائیلی تاریخ اس بات پر متفق ہے کہ نبو کدنضر کے زمانہ میں اسرائیلی صحف جلا دئیے گئے تھے اور برباد کر دئیے گئے تھے اور دوبارہ انہیں عزرا نبی نے لکھا۔ چنانچہ عزرا کی نسبت یہودی کتب میں لکھا ہے:۔
’’ شریعت بھلا دی گئی تھی مگر عزرا نے پھر اسے دوبارہ قائم کیا‘‘۔
‏۴۸؎ ``It was forgotten but Ezra restored it``.
پھر لکھا ہے۔ عزرا نے تورات کو دوبارہ زندہ کیا اور اس میں اشورین حروف داخل کئے۔
‏ ``Ezra established the text of pentateuch, introducing ۴۹؎therein the Assyian of square characters``.
اسی طرح لکھا ہے:۔
’’ اس نے تورات کے دوبارہ لکھنے کے وقت مسودے کے بعض لفظوں کی صحت کے متعلق شبہ ظاہر کیا اور ان پر نشان لگا دیئے اور کہا کہ اگر ایلیا نبی اِس عبارت کی تصدیق کر ے تو یہ نشان غلط قرار دئیے جائیں اور اگر ان مشکوک سمجھی ہوئی عبارتوں کو مشکوک قرار دے تو جن الفاظ پر نشان لگا دئیے گئے ہیں اُنہیں آئندہ بائبل سے نکال دیا جائے۔
‏ ``He showed his doubts concerning the correctness of some words of the text by placing points over them. Should Elijah, Said he, approve the text, the points will be disregarded, should he disapprove, the doubtful
‏۵۰؎ words will be removed from the text.``
ا ن عبارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ توریت جس شکل میں بھی اُس وقت موجود تھی خواہ وہ عزرا کی لکھی ہوئی تھی خواہ پہلے سے کوئی نسخے موجود تھے وہ مشکوک تھی اور اس کی عبارتوں اور الفاظ کی نسبت قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ خد اتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اُسی طرح محفوظ ہیں جس طرح نازل ہوئے تھے۔ عزرا کی لکھی ہوئی کتاب جو موجودہ بائبلوں میں سے خارج کر دی گئی ہے اور جو درحقیقت موجودہ بائبلوں سے کم قابل اعتبار نہیں ہے اور جسے یونانی کی کتاب عزرا کہا جاتا ہے پہلے زمانے میں عزرا اور نحمیاہ کی کتابوں سے بھی پہلے بائبل میں درج کی جاتی تھی۔ لیکن بعد کو جب اُس وقت کے پوپ نے جیروم سے جو عیسائیوں کا بہت بڑا پادری تھا بائبل کی تدوین کرائی تو اس نے عزرا کو اس بناء پر بائبل میں سے نکال دینے کا فیصلہ کر دیا کہ اس کا عبرانی نسخہ محفوظ نہیں۔ اس کتاب کو بعض مصنف عزرا کی کتاب ثالث قرار دیتے ہیں اور بعض ثانی قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ یہ کتاب بائبل سے نکال دی گئی ہے لیکن پھر بھی اکثر حصہ یہودیوں اور مسیحیوں کا اس کو عزرا کی کتاب قرار دیتا ہے اور اس کتاب کے چودھویں باب میں لکھا ہے:
’’ دیکھو اے خدا میں جائوں گا جیسا کہ تُو نے مجھے حکم دیا تھا اور جو لوگ موجود ہیں میں اُن کو فہمائش کروں گا، لیکن جو لوگ بعد کو پیدا ہوں گے اُن کو کون فہمائش کرے گا۔ اس طرح دنیا تاریکی میں ہے اور جو لوگ اِس میں رہتے ہیں بغیر روشنی کے ہیں کیونکہ تیرا قانون جل گیا۔ پس کوئی نہیں جانتا اُن چیزوں کو جو تُوکرتاہے اور ان کاموں کو جو شروع ہونے والے ہیں لیکن اگر مجھ پر تیری مہربانی ہے تو تُوروح القدس کو مجھ میں بھیج اور میں لکھوں جو کچھ کہ دنیا میں ابتداء سے ہوا ہے اور جو کچھ تیرے قانون میں لکھا تھا تاکہ تیری راہ کو پاویں اور وہ لوگ جو اخیر زمانہ میں ہوں گے زندہ رہیں۔اُس نے مجھ کو یہ جواب دیا کہ جا اپنے راستہ سے لوگوں کو اکٹھا کر اور اُن سے کہہ وہ چالیس دن
تک تجھ کو نہ ڈھونڈیں۔ لیکن دیکھ تُو بہت سے صندوق کے تختے تیار کر اور زاریا، ڈبریا، سلیمیا، ایکانس اور عازیل پانچوں کو جو بہت تیزی سے لکھنے والے ہیں اپنے ساتھ لے اور یہاں آ اور میں تیرے دل میں سمجھ کی شمع روشن کروں گا جو نہ بجھے گی تاوقتیکہ وہ
چیزیں پوری نہ ہوں جو تو لکھنی شروع کرے گا‘‘۔
اِس باب کی آیت ۲۰ تا ۲۵ کے اصل الفاظ انگریزی زبان میں مندرجہ ذیل ہیں:۔
‏20. Behold, Lord, I will go, as Thou hast commanded me, and reprove the people which are present but they that shall be born afterward, who shall admonish Them? Thus the world is set in darkness, and they That dwell therein
‏ are without light.
‏21. For Thy Iaw is burnt, therefore no man knoweth the things that are done of the works that shall begin.
‏22. But if I have found grace before thee. Send the Holy Ghost into me. And I shall write all that hath been done in the world since the beginning, which were written in thy law that men may find Thy Path, and that they
‏ which will live in the latter days may live.
‏23. And He answered me, saying, Go thy way, gather the people tohether, and say unto them, that they seek thee
‏ not for forty days.
‏24. But look thou prepare thee many box trees and take with thee, sarea, Dabria, Selemia, Ecanus, and Asiel
‏these five which are ready to wrirte swiftly.
‏25. And come hither, and I shall light a candle of understanding in Thine heart which shall not be put out, till the things be performed which thou shalt begin to
‏ ۵۱؎write.``
غرض حضرت عزرا اور پانچ زود نویس چالیس روز تک دوسروں سے الگ تھلگ جا بیٹھے اور الہامی تائید سے انہوں نے چالیس دن میں دوسَو چار کتابیں لکھیں۔ چنانچہ اس باب کی چوالیسویں آیت میں لکھا ہے:۔
‏ ``44. In forty days they wrote two hundred and four
‏۵۲؎ books.``.
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ:۔
(الف) عزرا نبی کے وقت میں جو قریباً چارسَو سال قبل مسیح تھا تورات اور دیگر انبیاء کی کتابیں جل گئی تھیں۔
(ب) ان کا نسخہ اُس وقت موجود نہ تھا۔
(ج) عزرا نے دوبارہ وہ کتابیں لکھیں۔
گویا یہ بتایا گیا ہے کہ وہ الہامی تھیں مگر مراد الہامی تائید ہے۔ یہ مراد نہیں کہ ان کا ایک ایک نقطہ الہام تھا۔ کیونکہ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ خود عزرا نے بعض حصوں کے مشکوک ہونے کا اعتراف کیا تھا اور ان کا فیصلہ ایلیا پر اُٹھا رکھا تھا۔ پس موجودہ تورات وہ تورات نہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی بلکہ وہ تورات ہے جو عزرا نے اپنے حافظہ سے لکھی تھی اور جس کے بعض حصوں کے متعلق خود عزرا کو بھی شبہ تھا بلکہ میں توکہتا ہوں کہ یوںسمجھنا چاہئے کہ وہ یہ تورات بھی نہیں ہے جوعزرا نے لکھی تھی کیونکہ عزرا نے ۲۰۴ کتابیں لکھی تھیں مگر ۲۰۴ کتابیں موجودہ بائبل میں ہمیں نہیں ملتیں۔
عزرا کے حافظہ کے متعلق خود مسیحی مصنفوں کو بھی شبہات ہیں۔ چنانچہ ریورنڈ آدم کلارک بائبل کے مشہور مسیحی مفسر اپنی تفسیر مطبوعہ ۱۸۹۱ء کے صفحہ ۱۶۸۱ پر ا۔تواریخ باب ۴ آیت ۷ کے ماتحت لکھتے ہیں:
’’ اِس جگہ غلطی سے عزرا نے بیٹے کی جگہ پوتا لکھ دیا ہے۔ ایسے اختلافوں میں تطبیق بے فائدہ ہے‘‘۔
علمائے یہود کہتے ہیں کہ عزرا کو معلوم نہ تھا کہ بعض بعض کے بیٹے ہیں یا پوتے۔ جب یہودی اور عیسائی علماء کا عزرا کے حافظہ کے متعلق یہ خیال تھا تو یہودی اور عیسائیوں کے عوام الناس اور دوسری اقوام کے لوگ اس پر کیا تسلی پا سکتے ہیں اور جس کتاب کی سند ایسی ہو وہ روحانی معاملات میں کیونکر لوگوں کی تشفی کا موجب ہو سکتی ہے۔
اندرونی شہادت کہ موجودہ تورات اصلی تورات نہیں
اب میں بائبل کی اندورنی شہادت کو لیتا ہوں کہ وہ بھی اِس بات پر دلالت کرتی ہے موجودہ تورات حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل شد ہ کتاب نہیں۔ اس بارہ
میںسب سے اہم اور واضح وہ دلیل ہے جو استثناء باب ۳۴ میں حضرت موسٰیؑ کی وفات کو بیان کرتی ہے۔ اس آیت میں لکھا ہے:
’’ سو خدا وند کا بندہ موسیٰ خدا وند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا اور اُس نے اُسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا، پر آج کے دن تک کوئی اُس کی قبر کو نہیں جانتا‘‘ ۔۵۳؎
یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ اس کا مضمون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سینکڑوں سال بعد استثناء میں بڑھایا گیا ہے بھلا کون عقلمند یہ تسلیم کر سکتاہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسٰی ؑ کو الہام میں فرمایا ہو کہ آج تک تمہاری قبر کوئی نہیں جانتا۔ کیا کسی زندہ انسان سے ایسا کلام کیا جا سکتا ہے؟ اور پھر کیا ’’ آج تک ‘‘ کا لفظ اس بارہ میں خود سے کو مخاطب کر کے کہا جا سکتا ہے؟ پھر آیت ۸ میں لکھا ہے:
’’ سو بنی اسرائیل موسٰی کے لئے موآب کے میدانوں میں تیس دن تک رویا کئے
اورا ن کے رونے پیٹنے کے دن موسیٰ کے لئے آخر ہوئے‘‘۔۵۴؎
یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ یہ موسیٰ کا کلام نہیں۔ موسیٰ کی کتاب میں بعد میں داخل کیا گیا ہے۔ پھر آیت ۱۰ میں لکھا ہے:
’’ اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں آیا جس سے خدا وند آمنے سامنے آشنائی کرتا‘‘۔
یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ یہ حضرت موسیٰ کا الہام نہیں بلکہ ان کی وفات کے کئی سَو سال بعد کسی نے یہ آیت حضرت موسیٰ کی کتاب میںد اخل کی ہے ممکن ہے وہ عزرا ہی ہوںاور ممکن ہے کوئی اور ہی شخص ہوں۔
دوسری اندرونی دلیل اس بات کی کہ موجودہ تورات حضرت موسیٰ کے بعد لکھی گئی اور اُس میںد وسرے لوگو ں کی تحریریں بھی شامل ہیں یہ ہے کہ پیدائش باب ۱۴ آیت ۱۴ میں لکھا ہے:۔
’’ جب ابرام نے سنا کہ میرا بھائی گرفتار ہوا تو اُس نے اپنے ساتھ سیکھے ہوئے تین سَو اٹھارہ خانہ زادوں کو لے کر دان تک ان کا تعاقب کیا‘‘۔
لیکن قاضیوں باب ۱۸ آیت ۲۷تا۲۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر جس کا نام پیدائش میں ’’دان‘‘ آیا ہے پہلے لیس کہلاتا تھا لیکن موسیٰ کے کوئی ۸۰ سال بعد اس شہر کو فتح کرکے اس کا نام ’’دان‘‘ رکھاگیا۔ چنانچہ لکھا ہے:
’’ وہ میکاہ کی بنوائی ہوئی چیزوں کو اور اس کا ہن کو جو اس کے ہاں تھا لے کر لیس میںا یسے لوگوں کے پاس پہنچے جو امن اور چین سے رہتے تھے اور ان کو تہہ تیغ کیا اور شہر جلا دیا اور بچانے والا کوئی نہ تھا۔ کیونکہ وہ صیدا سے دور تھا اور یہ لوگ کسی سے سروکار نہیں رکھتے تھے اور وہ شہر بیتِ رحوب کے پاس کی وادی میں تھا۔ پھر انہوں نے وہ شہر بنایا اور اس میں رہنے لگے اور اس شہر کا نام اپنے باپ’’ دان‘‘ کے نام پر جو اسرائیل کی اولاد تھادان رکھا۔ لیکن پہلے اس شہر کا نام لیس تھا‘‘۔
پس جو نام حضرت موسٰی ؑکے ۸۰ سال بعد رکھا گیا تھا وہ موسیٰ کی کتاب میں کس طرح آسکتا تھا؟ اس حوالہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ کی کتاب میں ان کی وفات کے بعد دخل اندازی ہوتی رہی اور بعض لوگوں نے اپنے زمانہ کے خیالات اور افکار اس میں داخل کر دیئے۔ یہ تغیرو تبدل صرف موسیٰ کی کتابوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دوسری کتابوں کا بھی یہی حال ہے۔ چنانچہ یشوع کی کتاب کے باب ۲۴ آیت ۲۹ میں لکھاہے:۔
اور ایسا ہو اکہ بعد ان باتوں کے نون کا بیٹا یشوع خداوند کا بندہ جو ایک سَو دس برس کا بوڑھا تھا رحلت کر گیا۔
اسی طرح ایوب کی کتاب باب ۴۲ آیت ۱۷ میں لکھا ہے۔
’’اورایوب بوڑھا اور عمردراز ہو کے مر گیا‘‘۔
ان حوالوں سے صاف ظاہر ہے کہ یشوع کی کتاب کو یشوع نے نہیںلکھا اور ایوب کی کتاب کو ایوب نے نہیں لکھا بلکہ بعد کے لوگوں نے سنی سنائی باتوں کی بناء پر لکھ دی تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبل کے انبیاء نے توالٰہی کلام ایک جگہ جمع کر دیا تھا مگر بعد میں مٹ گیا اور لوگوں نے اپنی یاد سے وہ کلام دوبارہ لکھا اور بہت سی باتیں اپنی طرف سے اس میں داخل کردیں۔
کیا اِس قسم کی کتابیں جو نہ صرف تاریخی شواہد کی بناء پر بلکہ اپنی اندرونی شہادت کی بناء پر بھی مجروح اور غیر یقینی ہیں اور ان میں غلط واقعات بھی بیان ہو گئے ہیں، یہ ثابت نہیں کرتیں کہ دنیا کو موسٰی ؑاور ان کے بعد آنے والے نبیوں کی کتابیں تسلی نہیں دے سکتی تھیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت سے ہاتھ کھینچ لیا اور ایک ایسی کتاب کی امید دنیا کو لگا دی جوہر قسم کی انسانی دستبرد سے پاک اور محفوظ ہو؟ اگر موسٰی ؑاور اس کے بعد آنے والے نبیوں کی کتابوں کے بگاڑ کے بعد بھی خدا تعالیٰ کسی ایسے کلام کی بنیاد نہ رکھتا جو یقینی اور محفوظ ہوتا تو ہمیں ماننا پڑتا کہ خداتعالیٰ کو اپنے بندوں کی ہدایت اور راہنمائی کا کوئی فکر نہیں اوروہ ایمان کے بیج کو یقین اور اطمینان کی زمین میں بونے کی بجائے شک و شبہ اور بے اطمینانی کی زمین میں بونا چاہتا ہے اور اسے اتنا اعتبار بھی بخشنا نہیں چاہتا جتنا کفر کو حاصل ہے لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ امر خدا تعالیٰ کی شان کے شایاں ہے؟ اگر نہیں تو ہمیں یقینا اُس کتاب کی تلاش کرنی پڑے گی جس نے منسوخ، محرف اور مبدل بائبل کی جگہ لی۔
بائبل کی متضاد باتیں
بائبل سے اور بھی ایسی اندورنی شہادتوں کا پتہ لگتا ہے جو اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ بائبل اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں
ہے ۔مثلاً :
۱۔ تورات کی پہلی کتاب پیدائش میں لکھا ہے۔
’’تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اوراپنی مانند بنا ویں‘‘۔۵۵؎
آگے چل کر لکھا ہے:۔
’’ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا‘‘۔۵۶؎
ا ب اِن دونوں حوالوں میںتطابق کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ نیک و بد کی پہچان خد اکو بھی نہیں کیونکہ آدم خدا کی مانند تھا اور خدا تعالیٰ کی صفات آدم میں پائی جاتی تھیں اور سب سے بڑی صفت نیک وبد کی پہچان ہی ہے کیونکہ سب صفتیں اس کے ماتحت ہی آتی ہیں۔ اگر آدم کو نیک و بدکی پہچان نہ تھی تو کوئی اچھی صفت بھی بطور خلق کے اس کے اندر نہیں پائی جاتی تھی کیونکہ نیک کام وہی ہوتا ہے جو ارادے اور علم کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کام کے ساتھ ارادہ اور علم نہ ہو وہ نیک نہیں کہلا سکتا۔ جب آدم کو نیک و بد کی پہچان ہی نہ تھی تو آدم اصولِ اخلاق کے ماتحت نہ کسی بدی سے بچنے والا تھا اور نہ کسی نیکی کو بجالانے والا تھا۔ اسی طرح عملی طور پر اسے اچھی اور بُری باتوں کی کوئی تمیز نہ تھی۔ کیا خد اتعالیٰ کا وجود بھی یہودی اور مسیحی مذہب کے مطابق ایسا ہی ہے؟ کیا خداکو اِس بات کا کوئی علم نہیں کہ نیکی کیا چیز ہے اور بدی کیا چیز ہے؟ اگر بدی اور نیکی کا اُس کو علم نہیں تو وہ نبیوں کو کیوں بھیجتا ہے؟ اور کیا خدا کی صفات نیکیوں کو قائم کرنے والی اور بدیوں کو مٹانے والی نہیں ہیں؟اگر اس سوال کو ہم نظر انداز بھی کردیں کہ انسان کی پیدائش کی غرض ہی نیک وبد کی پہچان ہے اور اگر یہ پہچان اسے حاصل نہ ہوتو اس کے وجود کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ بغیر نیک وبد کی پہچان کے آدم خدا کی مانند ہو کس طرح گیا۔ اِس پہچان کے بغیر وہ خدا کی مانند ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ اگر وہ خدا کی مانند تھا تو یہ غلط ہے کہ اسے کہا گیا کہ تونیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا۔ اور اگر یہ درست ہے کہ اسے کہا گیا تھا کہ نیک و بدکی پہچان کے درخت سے نہ کھاناتو یہ غلط ہے کہ خد انے اسے اپنی مانند بنایا۔
۲۔ پیدائش باب ۲، آیت ۱۷ میں لکھا ہے:۔
’’ جس دن تو اس نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کھا ئے گا توضرور مرے گا‘‘۔
اسی طرح پیدائش باب ۲ آیت ۹میں لکھا ہے:۔
’’ اور باغ کے بیچوں بیچ حیات کے درخت اور نیک و بد کی پہچان کے درخت کو زمین سے لگایا‘‘۔
اس آیت کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ ایک ہی درخت میں دائمی حیات بخشنے اور نیک وبد کی پہچان دینے کی خاصیت تھی اور یا یہ کہ یہ دو درخت تھے۔ ایک میں حیات بخشنے کی طاقت تھی اور دوسرے میں نیک و بدکی پہچان دینے کی طاقت تھی۔ا گر اِس کے معنی یہ لئے جائیں کہ یہ دو درخت نہیں تھے بلکہ ایک ہی درخت تھا تو پیدائش باب ۲ آیت۱۷ کا حوالہ جو اوپر لکھا جا چکا ہے کہ:
’’ جس دن تو اس سے کھائے گا مر جائے گا‘‘۔
غلط ہو جاتا ہے۔ کیونکہ آیت ۹ تو اُسے حیات کا درخت قرار دیتی ہے موت کا نہیں۔ اور اگر یہ دو الگ الگ درخت تھے تو پھر یہ دونوں آیتیں متضاد ہیں۔ کیونکہ نیک وبد کی پہچان کے درخت سے کھانے سے موت کا آنا لازمی نہ تھا اس لیے کہ اگر آدمؑ حیات کے درخت سے کھا لیتے جیسا کہ بائبل سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوںنے کھایا تو نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کھانے کے باوجود اُن پر موت کیونکر آئی؟ اگر ایک درخت کے کھانے سے موت لازماً آنی تھی تو دوسرے درخت کا پھل کھانے سے حیاتِ جاودانی مل جانی تھی۔ ایسے شخص کا معاملہ تو کوئی عقل حل ہی نہیں کر سکتی کہ ایک درخت اسے ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنا چاہتا ہے اور دوسرا درخت اُسے مار دینا چاہتا ہے۔
بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدمؑ اور ان کی بیوی نے حیات کے درخت کا پھل کھایا ہے کیونکہ پیدائش باب ۳ آیت ۲،۳ میں لکھا ہے:۔
’’ عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل ہم توکھاتے ہیں مگر اُس درخت کے پھل کو جو باغ کے بیچوں بیچ ہے خدا نے کہا کہ تم اُسے نہ کھانا اور نہ اُسے چھونا ایسا نہ ہو کہ مر جائو‘‘۔
اِن آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوائے نیک وبد پہچان کے درخت کے باقی سب درختوں کا پھل آدمؑ اور اس کی بیوی کھاتے تھے۔ اگر بائبل کی یہ بات درست ہے تو آدمؑ اور اس کی بیوی حیات کے درخت کا پھل بھی کھاتے تھے اور جب وہ حیات کے درخت کا پھل بھی کھاتے تھے تواُن پر موت کس طرح آئی۔ لیکن عجیب بات ہے کہ باب ۳ کی آیت ۲۲ میں لکھا ہے کہ خدا نے فرشتوں سے کہا:۔
’’ ایسا نہ ہو کہ آدم اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتا رہے‘‘۔
یہ آیت بتاتی ہے کہ آدمؑ نے حیات کے درخت سے کچھ نہ کھایا تھا۔ اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ اِس آیت کا مضمون درست ہے جو بتاتی ہے کہ آدمؑ نے حیات کے درخت سے کچھ نہ کھایا تھا یا اس باب کی آیت ۲ درست ہے جس میں آدم کی بیوی کا قول درج ہے کہ سوائے نیک وبد کی پہچان کے درخت کے باقی سب درختوں کا پھل آدم اور حوا کھاتے تھے۔ اور آیا یہ بات درست ہے کہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے سے انسان ضرور مرتا ہے یا یہ بات درست ہے کہ حیات کے درخت کا پھل کھانے سے انسان کبھی نہیں مرتا۔
یہ سب متضاد باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کلام میںایسی باتیں نہیں آسکتیں۔ یقینا یہ باتیں مختلف مصنّفین نے اپنے اپنے خیالات کے مطابق تورات میں درج کر دیں اور چونکہ اُن مصنّفین کے خیالات متضاد تھے اس لئے اُن کے پیش کردہ نظریے بھی متضاد تھے۔ اور جس کتاب میں متضاد باتیںآجائیں جو ایک ہی وقت میں اورا یک ہی انسان میں کسی صورت میں جمع نہ ہو سکیں اور وہ کتاب ان کو ایک ہی وقت اور ایک ہی انسان میں جمع کرتی ہو تو یقینا وہ خدا کی کتاب تو الگ رہی ایک عقلمند انسان کی کتاب بھی کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی۔ مگر موسیٰ علیہ السلام یقینا خدا کے نبی تھے اور تورات یقینا خد اکی نازل کردہ کتاب تھی پس یہ اختلاف بعد میں پیدا ہوا۔ نہ اس اختلاف سے خدا تعالیٰ پر کوئی الزام آتا ہے اور نہ موسیٰ پر۔ ہاں یہ ہم ضرور کہیں گے کہ خدا نے جب بائبل کی جگہ ایک اورکتاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو بائبل کی حفاظت سے اُس نے ہاتھ کھینچ لیا اور وہ ایک محفوظ کتاب نہ رہی۔
۳۔ پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۴ میں لکھاہے:۔
’’اور ابراہام نے اُس مقام کا نام ’’ یہوواہ یزی‘‘ رکھا۔‘‘ چنانچہ یہ آج تک کہا جاتا ہے کہ خداوند کے پہاڑ پر دیکھا جائے گا‘‘۔
لیکن خروج باب۲ آیت ۲،۳ میں لکھا ہے۔
’’ پھر خدا نے موسیٰ کو فرمایا اور کہا میں خداوند ہوں ’’ یہوواہ‘‘۔ اور میں نے ابراہام اور اضحاق اور یعقوب پر خدا کے نام سے اپنے تئیںظاہر کیا اور یہوواہ کے نام سے اُن پر ظاہر نہ ہوا۔‘‘
اِن دونوں آیتوں کا تضاد ظاہر ہے۔ کتاب خروج کہتی ہے کہ یہوواہ کے نام سے پہلی بار موسیٰ کو روشناس کیا گیا۔ اس سے پہلے کسی نبی کو خصوصاً ابراہیم ؑ۔ اسحاق ؑاوریعقوبؑ پر خدا تعالیٰ کا یہواہ نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن کتاب پیدائش کہتی ہے کہ ابراہیم ؑپر بھی اس نام کو ظاہر کیا گیا تھا اور اُس نے ایک پہاڑی کا نام ’’ یہوواہ یری‘‘ رکھ دیا تھا۔
۴۔ گنتی باب ۳۳ آیت ۳۸ میںحضرت ہارون کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ہارون کاہن خدا وند کے حکم کے مطابق کوہِ طور پر گیا اور اس نے بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے پیچھے چالیسویں برس کے پانچویں مہینے کی پہلی تاریخ وفات پائی‘‘۔
لیکن استثناء باب ۱۰ آیت ۶ میں لکھا ہے:۔
’’ تب بنی اسرائیل نے بیراث بنی یقعان سے موسیرہ کو کوچ کیا۔ وہاں ہارون کا انتقال ہوا اور وہیں گاڑا گیا‘‘۔
ایک ہی شخص دو جگہ وفات نہیں پا سکتا۔ یقینا یہ دو الگ الگ مؤرخوں کا کام ہے کہ اُنہوں نے بائبل میں اپنی اپنی تحقیق کو خدا تعالیٰ کا الہام قرار دے کر شامل کر دیاہے۔
۵۔ نمبر ۱ سموئیل باب ۱۶ آیت ۱۰ تا ۱۳ سے ظاہر ہے کہ دائود یسی کا آٹھواں بیٹا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے :۔
’’یسی نے اپنے سات بیٹوں کو سموئیل کے سامنے نکالا اور سموئیل نے یسی سے کہا کہ خدا نے ان کو نہیں چنا ہے۔ پھر سموئیل نے یسی سے پوچھا کہ تیرے سب لڑکے یہی ہیں؟ اس نے کہا سب سے چھوٹا ابھی رہ گیا ہے وہ بھیڑ بکریاں چراتا ہے۔ سموئیل نے یسی سے کہا کہ اُسے بُلا بھیج کیونکہ جب تک وہ یہاں نہ آجائے ہم نہیں بیٹھیں گے۔ سو وہ اُسے بُلوا کر اندر لایا۔ وہ سرخ رنگ اور خوبصورت اور حسین تھا اور خداوند نے فرمایا اُٹھ اور اُسے مسح کر کیونکہ وہ یہی ہے۔ تب سموئیل نے تیل کا سینگ لیا اور اسے اس کے بھائیوں کے درمیان مسح کیا اور خداوند کی روح اُس دن سے آگے دائود پر زور سے نازل ہوتی رہی۔ پھر سموئیل اُٹھ کر رامہ کو چلا گیا‘‘۔
مگر نمبر ۱ تواریخ باب ۲ آیت ۱۳ تا ۱۵ میں لکھا ہے کہ دائود یسی کا ساتواں بیٹا تھا۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’ اور یسی سے اُس کا پلوٹھا الیاب پیدا ہوا اور ابینداب دوسرا اور سمع تیسرا، نینیتل چوتھا، ردی پانچواں، عوضم چھٹا ،دائود ساتواں ‘‘۔
یہ اختلاف بتاتا ہے کہ بائبل میں مختلف مؤرخوں نے اپنے اپنے خیالات داخل کر دئیے ہیں اور یہ موجودہ حالت میں محفوظ آسمانی کتاب نہیں کہلا سکتی۔
۶۔ نمبر ۲ سموئیل باب ۶ آیت ۲۳ میں لکھا ہے:۔
’’ سو سائول کی بیٹی میکل مرتے دم تک بے اولاد رہی۔‘‘
مگر نمبر ۲ سموئیل باب ۲۱ آیت ۸ میں لکھا ہے:۔
’’ اور سائول کی بیٹی میکل کے پانچوں بیٹوں کو جو برزلی محولاتی کے بیٹے عدری ایل سے ہوئے تھے لے کر ان کو جبعونیوں کے حوالے کیا‘‘۔
ایک ہی کتاب میں ایک ہی جگہ اُسے بانجھ قرار دیا گیا ہے اور اُسی کتاب میںد وسری جگہ اس کے پانچ بیٹے قرار دئیے گئے ہیں۔
۷۔ نمبر ۲ تواریخ باب ۲۱ آیت ۱۹،۲۰ میں لکھا ہے کہ یہورام بادشاہ ۳۲ سال کی عمر میں بادشاہ ہوا اور آٹھ برس اُس نے بادشاہت کی اور پھر دو سال بادشاہت سے معزول ہو کرایک سخت بیماری کے اثر سے وفات پا گیا۔
گویا اس کی عمر ۴۲ سال کی تھی۔ لیکن اِسی کتاب کے باب ۲۲ آیت ۱،۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کے باشندوں نے یہورام کے چھوٹے بیٹے اخزیاہ کو اُس کی جگہ بادشاہ بنایاکیونکہ اُس انبوہ نے جو عربوں کے ساتھ چھائونی میں آیا تھا سب بڑے بیٹوں کو قتل کیا تھا سو اخزیاہ بن یہورام یہوواہ کا بادشاہ ہوا۔ اخزیاہ بیالیس برس کی عمر میں بادشاہ ہوا۔
چونکہ اوپر کے حوالہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہورام کی عمر اُس کی وفات کے وقت ۴۲ سال کی تھی اس لئے اس دوسرے حوالے کی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہورام بادشاہ کا سب سے چھوٹا بیٹا اخزیاہ جب اپنے باپ کی وفات پر تخت پر بیٹھا تو اُس کی عمر بھی ۴۲ سال کی تھی۔ گویا وہ اپنے باپ کا ہم عمر تھا اور اس کے بڑے بھائی جن کو عربوں نے یہورام کے خلاف لڑائی میں مار دیا تھا وہ سب اپنے باپ سے بڑے تھے۔ کیا کوئی معقول انسان اس قسم کی لغو باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ بیالیس سال کی عمر میں باپ مارا جاتا ہے اور اُس کا سب سے چھوٹا بیٹا اُسی عمر کا اس کے بعد بادشاہ بن جاتا ہے!! یہ باتیں تو ایسی ہیں کہ کسی کمزور سے کمزور عقل والے انسان کی کتاب میں بھی نہیں پائی جاتیں کجا یہ کہ خدا کی نازل کردہ کتاب میں پائی جائیں۔ صاف ظاہر ہے کہ خدا کے الہام میں یہ باتیں نہ تھیں۔ نبیوں کے کلام میں یہ باتیں نہ تھیں۔ کسی ایک آدمی نے بھی یہ باتیں نہیں لکھیں۔ بلکہ کئی آدمیوں نے اپنے اپنے خیالات لکھ دئیے ہیں۔ کسی یہودی مؤرخ کا یہ خیال تھا کہ یہورام بیالیس سال کی عمر میں فوت ہوا اور اُس نے یہ بات لکھ دی۔ کسی دوسرے یہودی مؤرخ کا یہ خیال تھا کہ یہورام جب مرا اُس کی عمر سَو سال تھی اور اُس وقت سب سے چھوٹا بیٹا بیالیس سال کا تھا اُس نے یہ بات درج کردی کہ جب یہورام کا بیٹا تخت پر بیٹھا تو بیالیس سا ل کا تھا۔ اب یہ باتیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ جس نے یہورام کو ۴۲ سا ل میں مارا ہے اُس کے خیال میں اخزیاہ کی عمر تخت نشینی کے وقت بیالیس نہیں تھی بلکہ شاید ۱۴،۱۵ سال ہو ۔اور جس شخص نے یہ لکھ دیا کہ اخزیاہ کی عمر تخت نشینی کے وقت ۴۲ سال تھی اُس کی تحقیق میں یہورام کی عمر اُس کی وفات کے وقت ۴۲ سال یقینا نہیں تھی لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایسی کتاب انسان کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے اور وہ کس طرح یقین اور ایمان کے ساتھ اس کے مطالب پر غور کر سکتا ہے۔ اگر تو یہ کہا جاتا کہ تورات مجموعہ ہے لاکھوں یہودیوں کی تحقیقاتوں کا تو پھر بھی اِس کتاب کی کچھ قیمت باقی رہ جاتی۔ لیکن ایک طرف تو اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والاکلام کہا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ ہزاروں ہزار افراد کی تحقیقاتوں کا مجموعہ نظر آتا ہے اور اس طرح ایک غلط نام دے دینے کی وجہ سے تھوڑی بہت عظمت جو اِسے حاصل ہو سکتی تھی وہ بھی جاتی رہی ہے۔ بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی کتاب دنیا کی راہنمائی کا موجب ہو سکتی ہے اورکون کہہ سکتا ہے کہ اس کتاب کے بعد کسی اور کتاب کے آنے کی ضرورت نہیں تھی۔
بائبل کے ظالمانہ احکام
پھر صرف متضاد باتیں ہی نہیں ہمیں بائبل میں ظالمانہ احکام بھی نظر آتے ہیںجو ہر گز خدائے رحیم و کریم کی طرف منسوب
نہیں کئے جاسکتے۔ مثلاً:
۱۔ خروج باب۲۱آیت ۲۰،۲۱ میں لکھا ہے:۔
’’اگر کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو لاٹھیاں مارے اوروہ مارکھاتی ہوئی مرجائے تو اسے سزا دی جائے۔ لیکن اگر وہ ایک دن یادودن جئے تو اسے سزا نہ دی جائے اس لئے کہ وہ اس کا مال ہے۔‘‘
اس تعلیم میں غلاموں کے لئے کتنی سختی ہے ۔ ایک ظالم اپنے غلام اور اپنی لونڈی کو لاٹھیوں سے مارتا ہے اور اتنا مارتا ہے کہ وہ غلام یا لونڈی ایک دو دن کے بعد مرجائے لیکن بائبل کہتی ہے اب وہ سزا کا مستحق نہیں کیونکہ غلام اور لونڈی اس کا مال ہیں ۔کیا یہ تعلیم اس قابل تھی کہ ہمیشہ کے لئے اسے قائم رکھا جاتا؟ کیا یہ تعلیم ایسی نہ تھی کہ اس کی جگہ پر وہ تعلیم لائی جاتی جو غلام اور لونڈیوں کے دستور مٹانے والی اور مالک کے ہاتھوں کو روکنے والی ہوتی۔ یہ تعلیم اسلام ہی کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوئی چنانچہ اسلام نے جہاں غلامی کو مٹانے کے لئے قانون پاس کئے وہاں یہ اصول بھی مقرر کردیا کہ جو غلام یا لونڈی لوگوں کے ہاتھ میں کسی وجہ سے باقی رہ گئے ہوں ان کو ہرگز مارا پیٹا نہ جائے ۔ احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ ابو مسعود انصاریؓ اپنے غلام کو ماررہے تھے کہ اُنہیں پیچھے سے آواز آئی ۔اے مسعود! جس قدر تجھ کو غلام پر مقدرت حاصل ہے اس کے کہیں زیادہ خدا کو تجھ پر مقدرت حاصل ہے ۔ وہ کہتے ہیں میں نے مڑکر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لارہے تھے اس پر ڈر کے مارے میرے ہاتھ سے کوڑا گر پڑا اور میں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! یہ غلام خدا کے لئے آزاد ہے۔ آپ نے فرمایا اگر تُو اسے آزاد نہ کرتا تو آگ تیرا منہ جھلستی۔ ۵۷؎
اسی طرح ایک اور صحابی فرماتے ہیں ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس ایک لونڈی تھی۔ ہم میں سے چھوٹے بھائی نے اُس کے منہ پر تھپڑ مارا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس لونڈی کو فوراً آزاد کر دیا جائے کیونکہ جو شخص اپنے غلام یا لونڈی کو مارتا ہے وہ اس کو رکھنے کے قابل نہیں سمجھا جاتا۔۵۸؎
خودرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا یہ حال تھا کہ جب آپ کی شادی کے موقع پر آپ کی بیوی نے اپنا مال اور غلام آپ کی خدمت میں پیش کر دئیے۔ تو آپ نے فرمایا میں کسی انسان کو اپنا غلام رکھنے کے لئے تیار نہیںہوں۔ یہ کہہ کر آپ نے سب غلام آزاد کر دئیے اور ساری عمر آپ نے کوئی غلام نہیں رکھا۔
۲۔ احبار باب ۲۰ آیت ۲۷ میں لکھا ہے کہ:۔
’’مرد یا عورت جس کا یار دیو ہے یا جادوگر ہے تو دونوں قتل کئے جاویں، چاہئے کہ تم اُن پر پتھرائو کرو اور اُن کا خون اُنہی پر ہووے‘‘۔
اِسی طرح خروج باب ۲۲ آیت ۱۸ میں لکھا ہے کہ:۔
’’ تُو جادوگروں کو جینے مت دے‘‘۔
یہ کیسی خلافِ عقل تعلیم ہے اور پھر ظالمانہ بھی۔ اگر جادوگر سے مراد یہاں ہتھکنڈے دکھانے والے لوگ ہیں تو وہ ایک معصوم پیشہ لوگ ہیں۔ انسان کی مشوش زندگی میں کبھی کبھی ہنسی اور مذاق کا وقت بھی آجاتا ہے۔ اُس وقت یہ لوگ اپنی دیرینہ مشقوں کے ذریعہ سے لوگوں کی توجہات کو زیادہ سنجیدہ مسائل سے اپنے ہتھکنڈوں کی طرف کھینچ لیتے ہیں۔ اس بے ضرر پیشہ کو قتل کا موجب قرار دینا انصاف کی تعلیم نہیں کہہ سکتے۔ اور اگر جادوگر سے مراد وہ روایتی جادوگر ہیں جو مرد کو بیل اور عورت کو چڑیا بنا دیتے ہیں تو یہ تعلیم نہ صرف احمقانہ ہے بلکہ ظالمانہ بھی۔ کیونکہ ایسے جادوگر نہ کبھی ہوئے اور نہ کبھی ہوں گے اور کسی کی طرف ایسے جادو منسوب کر کے قتل کر دینا ظالمانہ فعل ہے۔
استثناء باب ۷ آیت ۲ میں لکھا ہے:۔
’’ جبکہ خدا وند تیرا خداا نہیں تیرے حوالہ کرے تو تُو اُنہیں ماریو اور حرم کیجیئو نہ تو ان سے کوئی عہدکریو اور نہ ان پر رحم کریو ‘‘۔
ایک مغلوب دشمن کے متعلق یہ کیسی ظالمانہ تعلیم ہے۔ تمام دشمنوں کو قتل کر دینا، ان کے ساتھ کسی قسم کا عہد نہ کرنا اور ہر قسم کے رحم سے انہیں محروم کرد ینا یہ ظلم بادشاہوں کا فعل تو ہو سکتا ہے خدائے رحیم و کریم کی تعلیم نہیں ہوسکتی۔ یقینا یہ تعلیم موسٰی ؑکے بعد آنے والے سفاک یہودیوں کے دماغوں کا اختراع ہے اور موسٰی ؑکی کتاب میں داخل کر کے اُس کو بھی گندہ کر دیا ہے۔
بائبل کی خلاف عقل باتیں
بائبل میں بعض ایسی باتیں ہیں جو بالکل خلافِ عقل ہیں۔ مثلاً :
۱۔ احبار باب ۱۱ آیت۳ میں لکھا ہے ’’خرگوش جگالی کرتا ہے۔‘‘
۲۔ اِسی طرح گنتی باب ۲۲ آیت ۲۸ میں بلعام کی گدھی کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے بلعام سے باتیں کیں۔
۳۔ پیدائش باب ۴۶ آیت ۲۷ ،۲۸ میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر میں آئے تھے تو ۷۰ تھے، لیکن ۲۱۵ سال کے بعد یعنی موسٰی ؑکے زمانہ میں ان کی تعداد اِس قدر بڑھ گئی کہ عورتوں اور بچوں کو نکال کر چھ لاکھ کے قریب پہنچ گئے۔ چنانچہ خروج باب ۱۲ آیت ۳۷ میں لکھا ہے:۔
’’ اور بنی اسرائیل نے رعمیس سے ’’سکات‘‘ تک پیادے سفر کیا۔ ان کے مرد سِوا لڑکوں کے چھ لاکھ کے قریب تھے‘‘۔
اگر مردوں کی تعداد کوملحوظ رکھ کر عورتوں اور بچوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو کل تعداد ۲۵ لاکھ کے قریب پہنچ جاتی ہے مگر یہ سخت مبالغہ اور عقل کے خلاف بات ہے۔ ۲۱۵ سال میں ۷۰ آدمیوںکا ۲۵ لاکھ ہوجانا بالکل عقل کے خلاف بات ہے اور واقعہ کے بھی خلاف ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب مصر سے کنعان کی طرف ہجرت کی اور چالیس سال تک وہ جنگلوں میں پھرے تو کیا ۲۵ لاکھ آدمیوں کا روٹی کا انتظام چالیس پچاس سال تک ان جنگلوں میں ہو سکتا تھا؟ بیشک بعض زمانوں کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ خد اتعالیٰ نے ان کے لئے آسمان سے بٹیر اُتارے اور زمین میں ترنجبین پیدا کر دی لیکن بائبل کے بیان کے مطابق یہ خوراک سارے عرصے کے لئے مہیا نہیں ہوئی تھی۔ پھر دوسرے عرصہ میں اتنے آدمیوں کے لئے خوراک کہاں سے لاتے تھے؟ پھر بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایک چشمہ سے پانی پی لیتے تھے۔ کیا کوئی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ ایک ایک چشمہ سے ۲۵ لاکھ آدمی پانی سے سیراب ہو سکتا ہے۔ جن علاقوں سے وہ گزرے ان میں ندیاں نہیں ہیں۔ کسی کسی جگہ پر چشمے ملتے ہیں اور چشمہ میں عام طور پر چند محدود فٹ پانی ہوتا ہے کیا اس سے ۲۵ لاکھ آدمی سیراب ہو سکتے ہیں؟ ایسی خلافِ عقل بیان والی بائبل کس طرح بنی نوع انسان کے لئے تسلی کا موجب ہو سکتی ہے۔ بیشک وہ خدا کی طرف سے تھی، بیشک خدا کے نبیوں نے اسے لکھا تھا لیکن وہ مٹ چکی تھی۔ وہ مسخ ہو چکی تھی، وہ انسانی دست بُرد کا شکار ہو چکی تھی، ایسی کتاب کو اُس کے بگڑ جانے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کا کلام کہنا دشمنوں کو خدا تعالیٰ پر اعتراض کرنے کا موقع دینا ہے۔ ضروری تھا کہ اس کے بعد ایک اور کتاب آتی جو انسانی دست بُرد سے پاک ہوتی اور ایسی خلافِ عقل باتوں سے محفوظ ہوتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں قرآن نے اِس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے ۵۹؎ بنی اسرائیل جو فرعون کے ظلم سے ڈر کر بھاگے تھے اُن کی تعداد صرف چند ہزار تھی اور یہی بات صحیح اور درست ہے ورنہ ۲۵ لاکھ یہودی فلسطین کے چھوٹے چھوٹے قبائل سے ڈر کس طرح سکتے تھے۔ فلسطین کی آبادی تو اپنی شان و شوکت کے زمانہ میں بھی ۲۵۔ ۳۰ لاکھ سے نہیں بڑھی۔ آجکل بھی اس کی آبادی ۱۳۔۱۴ لاکھ ہے اور اس میں اور زیادتی کرنے کے خلاف عرب سختی سے احتجاج کر رہے ہیں۔ پرانے زمانہ میں جبکہ خوراک اِدھر اُدھر پہنچانے کے سامان مفقود تھے غیر زرعی علاقوں میں بڑی آبادی ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ موسٰی ؑکے وقت میں یقینا سارے فلسطین کی آبادی چند ہزار افراد پر مشتمل ہوگی۔ چنانچہ بنی اسرائیل اور ان کے دشمنوں کی لڑائیوں میں ہمیشہ سینکڑوں اور ہزاروںافراد کا ہی پتہ لگتا ہے۔ اگر موسٰی ؑکے ساتھ ۲۵ لاکھ آدمی فلسطین میں سے آئے تھے تو سفر کا زمانہ تو الگ رہا حکومت کے زمانہ میں بھی خوراک کا انتظام نہ ہو سکتا تھا اور لڑائی کا تو ذکر ہی کیا ہے۔ یہ لوگ تو اپنے کندھوں کے دھکوں سے ہی ان چند ہزار افراد سے فلسطین کو خالی کر سکتے تھے جو اُن سے پہلے وہاں بس رہے تھے۔
۴۔ اسی طرح تورات میں لکھا ہے:۔
’’ جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ پہاڑ سے اُترنے میں دیری کرتا ہے تو وہ ہارون کے پاس جمع ہوئے اور اسے کہا کہ اُٹھ ہمارے لئے معبود بنا جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ یہ مرد موسیٰ جو ہمیں مصر کے ملک سے نکال لایا ہے ہم نہیں جانتے کہ اسے کیا ہوا۔ ہارون نے انہیں کہا کہ زیور سونے کے جو تمہاری جورئووں اور تمہارے بیٹوں اور تمہاری بیٹیوں کے کانوں میں ہیں توڑ توڑ کے مجھ پاس لائو۔ چنانچہ سب لوگ زیور جو اُن کے پاس تھے توڑ توڑ کرہارون کے پاس لائے اور اس نے ان کے ہاتھوں سے لیا اورایک بچھڑا ڈھال کراس کی صورت چھینی سے درست کی اور انہوں نے کہا کہ اے اسرائیل! یہ تمہارا معبود ہے جو تمہیں مصر کے ملک سے نکال لایا اورجب ہارون نے یہ دیکھا تو اس کے آگے ایک قربا نگاہ بنائی اور ہاورن نے یہ کہہ کر منادی کی کہ کل خداوند کے لئے عید ہے اور وَے صبح کو اُٹھے اور سو ختنی قربانیاں چڑھائیں اور سلامتی کی قربانیاں گزاریں اور لوگ کھانے پینے کو بیٹھے اور کھیلنے کو اُٹھے‘‘۔۶۰؎
لیکن یہ بات کسی انسان کی عقل میں نہیں آسکتی۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جس سے خدا کلام کرے وہ شرک کرنے لگ جائے۔ ایک ہاتھی کودیکھنے والا اسے چوہا نہیں قرار دے سکتا۔ایک سورج کو دیکھنے والا اسے موم کی شمع نہیں قرار دے سکتا۔ایک انسان کو دیکھنے والا اسے مچھر نہیں قرار دے سکتا۔پھریہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خد اکو دیکھنے والا اوراس سے باتیں کرنے والا نبی ایک سونے کے بنے ہوئے بت کو خدا قرار دیدے۔ ہم ایک پاگل سے بھی تو اس قسم کی امید نہیں کر سکتے۔ پھر خدا کے ایک نبی سے اس قسم کی امید کس طرح کر سکتے ہیں۔
دوسرے یہودی تو معذور تھے۔ نہ اُنہوں نے خدا کو دیکھا تھا نہ اس سے باتیں کی تھیں۔ انہوں نے موسیٰ اور ہارون کی باتیں سنی تھیں اوراس پر ایمان لے آئے۔ اِسی طرح ان سے سامری نے جو کچھ کہا اُنہوں نے مان لیا۔ مگر ہارون کو کیا ہو گیا تھا؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ جس نے خدا کو دیکھا ہو اور اس سے باتیں کی ہوں وہ سامری کے دھوکے میں آجائے اور خود اپنے ہاتھ سے ایک سونے کا بچھڑا بنا کر اسے خدا قرار دینے لگے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دلوں کے بھید جاننے والے خدا نے اس شخص کو بنی اسرائیل کی اصلاح کیلئے چنا ہو جو موقع پر اتنا بزدل اور کمزور ثابت ہوا ہو؟ ایک عام بادشاہ کی تعریف کرنے والے مؤرخین لکھا کرتے ہیں کہ اس نے اچھے جرنیل چنے اور یہ اس کے کمال کی علامت ہے۔ حالانکہ کوئی بادشاہ اپنے جرنیلوں کے دلوں کو نہیں پڑھ سکتا۔ لیکن بائبل کہتی ہے کہ خدا خدا بھی ہے اور غیب دان بھی ہے اور سب انسانوں سے خواہ وہ بادشاہ ہوں یا غیربادشاہ زیادہ عالم اور زیادہ جاننے والا بھی ہے مگر ساتھ ہی وہ ہم سے یہ منوانا چاہتی ہے کہ ہارون کو خدا نے ایک نبی کے مقام پر کھڑا کیا اور دنیا کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا اور اُس سے باتیں کیں اور اپنا وجود اُس پر ظاہر کیا مگر جب سامری نے اس کے آگے شرک کی تعلیم پیش کی تو اس کے ساتھیوں کے کہنے پر اس نے ایک سونے کا بچھڑا بنایا اور لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور کہا یہ تمہارا خدا ہے۔ وہ قوم کے ڈر کے مارے خدا کو بھول گیا، اپنے دین کو بھول گیا، اپنی ذمہ داری کو بھول گیا، اپنے علم کو بھول گیا اور جاہلوں اور نادانوں کی طرح ایک بے جان کھلونے کے سامنے اپنے ماتھے کو رگڑنے لگا۔ بائبل میں دست اندازی کرنے والے مصنّف خود بیوقوف ہوں گے لیکن یہ ان کی انتہائی جسارت تھی کہ وہ بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی اپنے جیسا بے وقوف سمجھتے تھے۔ یقینا اُن کی دست بُرد کے بعد ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جو تورات کی ان لغویات کا پول کھول دے اور دنیا کو بتا دے کہ ہارونؑ شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا۔ چنانچہ وہ کتاب قرآن کریم کی صورت میں نازل ہوئی اور اس نے یہ اعلان کیا کہ ہارونؑ نے ہرگز شرک نہ کیا تھا بلکہ اس نے اپنی قوم کو شرک سے روکا تھا۔ چنانچہ فرماتاتا ہے۔
۶۱؎ یقینا ہارون نے موسیٰ کے پہاڑ سے واپس آنے سے بھی پہلے بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ اس بچھڑے کے ذریعہ سے تم گمراہی میں مبتلا کر دیئے گئے ہو اور تمہارا ربّ وہ ہے جس نے تمہاری پیدائش سے بھی پہلے تمہاری زندگی کی راحت کے سامان مہیا کر دئیے ہیں (اور یہ بچھڑا تمہاری آنکھوں کے سامنے بنایا گیا ہے) پس میری اتباع کرو اور میرا حکم مانو(اور شرک میں مبتلا نہ ہو) کیا کوئی عقلمند دنیا میں یہ کہہ سکتا ہے کہ موسٰی ؑپر نازل ہونے والی کتاب جب صداقتوں اور سچائیوں کو جھٹلانے لگے اور خلافِ عقل باتیں بیان کرنے لگے تو اُس وقت کسی ایسی کامل کتاب کی ضرورت نہ تھی جو آئے تو موسٰی ؑکے دوہزار سال بعد لیکن سچائیاں اس طرح بیان کرے کہ گویا موسٰی ؑکے وقت میں اور اس کے ساتھ موجود تھی۔
۵۔ پیدائش باب ۱۹ آیت ۲۶ میں لکھا ہے کہ لوط کی بیوی نے لوط کے ساتھ شہر سے بھاگتے ہوئے پیچھے پھر کر دیکھا اور وہ نمک کا کھمبا بن گئی۔ تورات کی یہ بات جنوں اور پریوں کے کسی افسانہ میں مذکورہوتی تو یہ اس کا ٹھیک مقالہ ہوتا۔ مگر خدا کے کلام میں ایسی باتوں کا کیا دخل۔ قرآن کریم نے کس صفائی کے ساتھ حقیقت کو بیان کر دیا ہے فرماتا ہے کَانَتْ مِنَ الْغٰبِریْنَ۔۶۲؎ لوط کی بیوی کھمبا ومبا کوئی نہیں بنی بلکہ اس نے لوط کے ساتھ جانا پسند نہ کیا کیونکہ وہ خدا کی محبت پر اپنے رشتہ داروں کی محبت کو ترجیح دیتی تھی۔ غرض ایسی بیسیوں باتیں ہیں جو ہیں تو موسٰی ؑکے زمانہ کی لیکن تورات اِن کو غلط بیان کرتی ہے۔ مگر قرآن کریم نے دو ہزارسال کے بعد آکر اُن کی اصلاح کی ہے اور ایسی اصلاح کی ہے کہ عقل سلیم اُن کی سچائی تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔
بائبل کی خلافِ اخلاق باتیں
پھر بائبل میں بعض ایسی خلافِ اخلاق باتیں بھی درج ہیں جن کی نسبت کوئی یہ یقین نہیں کر سکتا کہ وہ
خدا تعالیٰ کی طرف سے کہی گئی ہوں یا خدا کے نبیوں نے ایسا کام کیا ہو گا۔
۱۔ پیدائش باب ۹ میں لکھا ہے کہ نوح ؑنے انگور کا ایک باغ لگایا اُس کی مے پی کر نشہ میں آیا اور اپنے ڈیرے کے اندر اپنے آپ کو ننگا کیا اور اس کے بیٹے حام نے اُس کی عریانی کا تماشہ دیکھا اور پھر جا کے اپنے بھائیوںکو خبر دی۔۶۳؎ کیا کوئی عقل مند آدمی اس بات کو باور کر سکتا ہے کہ وہ نوح جس کی نسبت آتا ہے:۔
’’ نوح اپنے قرنوں میںصادق اور کامل تھا اورنوح خدا کے ساتھ چلتا تھا‘‘۔۶۴؎
وہ ننگا ہو کر اپنے بچوں کے سامنے آجائے گا؟ اور کیا یہ بات کوئی عقلمند انسان مان سکتا ہے کہ نوح ننگا ہو اوربُرا بھلاحام کو کہا جائے؟ ایک ننگے پر نظر ڈالنے والا انسان آخر اُس کو ننگا نہیں تو اور کیا دیکھے گا۔ پس حام کا اس میں کیا قصور تھا کہ اُس نے نشہ سے چور اپنے باپ کو دیکھ لیا۔ مگر بائبل کہتی ہے کہ نوح نے کہا:۔
’’ کنعان ملعون ہو‘‘ ۶۵؎
حالانکہ کنعان کا کوئی بھی قصور نہ تھا۔ دیکھنے والا کنعان کا باپ حام تھا۔ حام کے خلاف تو نوح نے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر کنعان پر *** کر دی جس کا کوئی قصور نہ تھا۔ کیا اس لئے کہ حام اُس کا بیٹا تھا اور کنعان اُس کا پوتا تھا؟ پس اِس قسم کے اعمال نہایت ہی اخلاق سوز ہیں اور خداتعالیٰ کے ایک نبی کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنا نہایت ہی شرمناک امر ہے۔ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ یہ باتیں یقینا موسٰی ؑ سے خدا تعالیٰ نے نہیں کہیں نہ موسٰی ؑ نے اپنی کتاب میں لکھی ہیں۔ نبیوں کو چور اور بٹ مار کہنے والے یہودی علماء نے یہ باتیں اپنے گناہوں کو چھپانے کے لئے موسٰی ؑکے کلام میں داخل کردیں اور اس بات کو ضروری بنا دیا کہ پھر خدا تعالیٰ ایک کامل کتاب دنیا میں اُتارے جو اِس قسم کی بیہودہ اور لغو اورمفتریانہ باتوں سے پاک ہو اور وہ قرآن کریم ہے۔
۲۔ پیدائش باب ۱۹ آیت۰ ۳ تا ۳۵ میں لکھا ہے کہ:
’’ لوط اپنی دونوں بیٹیوں سمیت اپنے شہر سے نکل کر ایک غار میں رہنے لگا۔ تب پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں ہے جو تمام جہان کے دستور کے موافق ہمارے پاس اندر آوے۔ آئو ہم اپنے باپ کومے پلاویں اور اس سے ہم بستر ہوویں تاکہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں سو اُنہوں نے اُسی رات اپنے باپ کو مے پلائی اور پلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی۔ پر اُس نے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا اور دوسرے روز ایسا ہو اکہ پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ دیکھ کل رات میں اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی آئو آج رات بھی اس کو مے پلاویں اور تُو بھی جا کر اُس سے ہم بستر ہو کہ ہم اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں۔ سو اُس رات بھی اُنہوں نے اپنے باپ کو مے پلائی اور چھوٹی اُٹھ کے اُس سے ہم بستر ہوئی اور اس نے اُٹھتے اور بیٹھے وقت اُسے نہ پہچانا‘‘۔
کیا یہ تعلیم واقعہ کے لحاظ سے ممکن اور اخلاق کے لحاظ سے قابل برداشت ہے؟ مگر تورات خدا تعالیٰ کے ایک نبی کی نسبت ایسی کہانی بیان کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔ لیکن تورات سے مراد اِس جگہ وہ تورات نہیں جو خدا نے موسٰی ؑپر نازل کی تھی بلکہ یہ وہ تورات ہے جو بنی اسرائیل کے علماء نے اُس وقت لکھی جب اُنہیں حضرت لوط کی حقیقی یا نام نہاد اولاد مو آب یا بنی عمون سے اختلاف پیدا ہو گیا تھا اور بنی اسرائیل کا ایمان اتنا کمزور ہو چکا تھا اور دل اتنے سخت ہو چکے تھے کہ اُنہوں نے موآب اور بنی عمون کو ملعون کرنے کے لئے خد ا کے نبی حضرت لوطؑ پر حملہ کیا اور خد اکی کتاب میں ایسی گندی باتیں لکھیں جن کو خدا تعالیٰ کے نبیوں کی نسبت کوئی شخص سننے کے لئے بھی تیار نہیں ہوسکتا۔ کیا عیسائی اور یہودی دنیا خدا کے نبیوں کی نسبت ایسی باتیں سن سکتی ہے؟ اگر سن سکتی ہے تو یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ ایک ایسی پاک اور منزہ کتاب خد اتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی جو اِس قسم کے ذہنوں کا علاج کرتی۔
۳۔ تورات میں لکھا ہے اگر کئی بھائی ایک جا رہتے ہوں اور ایک ان میں سے بے اولاد مر جائے، تو اُس مرحوم کی جورو کا بیاہ کسی اجنبی سے نہ کیا جائے بلکہ اس کے شوہر کا بھائی اس سے خلوت کرے اور اُسے اپنی جورو کرلے اور بھاوج کا حق اُسے ادا کرے اور یوں ہو گا کہ اُس کا پلوٹھا جو اس سے پیدا ہو تو اس کے مرحوم بھائی کے نام پر قائم ہو گا تاکہ اس کا نام اسرائیل میں سے مٹ نہ جائے۔ ۶۶؎
اگر کسی اور شخص کی اولاد کے ذریعہ سے کسی شخص کا نام قائم رہ سکتا ہے تو بھائیوں کی اولاد کے ہونے کی صورت میں کیا ضرورت ہے کہ اس کے بھائیوں کے نطفہ سے اس کی بیوی کے ہاں بھی کوئی بیٹا پیدا ہو۔ اگر بھائیوں کابیٹا اس کا بیٹا ہو سکتا ہے تو پھر اس کی بیوی سے بد کاری کروانے کا فائدہ ہی کیا ہے۔ بائبل یہی کہہ دیتی کہ بھائیوں کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا مرنے والے کی طرف منسوب کر دیا جائے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ چونکہ یہودی علماء نے حضرت لوط پر ایک گندہ الزام لگایا تھا خدا نے ایسی تعلیم ان کے ہاتھوں سے تورات میں لکھوادی تاکہ لوط پر جھوٹا الزام لگانے والے یہودی سارے کے سارے خود اُس گند میں مبتلا ہو جائیں جو کام اُنہوں نے حضرت لوط کی طرف منسوب کیا تھا۔ یقینا عہد نامہ قدیم کی یہ خرابیاں اِس بات کی بیّن دلیل تھیں کہ دنیا کو اِس قسم کی کامل کتاب کی ضرورت تھی جو عیبوں اور نقصوں سے پاک ہو اور وہ کتاب قرآن کریم ہے۔
موجودہ اناجیل کی حالت
میں اوپر بتا چکا ہوں کہ عہد نامہ قدیم ظاہری اور باطنی دونوں طور پر محرف و مبدل ہو چکا ہے اوراس کی تعلیم اور
اس کی روشنی سے کسی انسان کا ہدایت پانا ناممکن ہے۔ اب میں عہد نامہ جدید کو لیتا ہوں۔
(۱) عہد نامہ جدید کا کوئی وجود نہیں ہیجو کتابیں عہد نامہ جدید کے نام سے ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں، وہ ہرگز نہ مسیح کے اقوال پر مشتمل ہیں اور نہ ان کے حواریوں کے اصل اقوال پر۔ مسیح یہودی النسل انسان تھے اور ان کے حواری بھی یہودی النسل تھے۔ اس لئے اگر مسیح کا کوئی قول اپنی اصل شکل میں محفوظ ہو سکتاہے تو عبرا نی زبان میں۔ اور اگر ان کے حواریوں کا کوئی قول اپنی شکل میں محفوظ ہو سکتا ہے تو وہ بھی عبرانی زبان میں ہی محفوظ ہو سکتا ہے۔ لیکن انجیل کا کوئی نسخہ پرانی عبرانی زبان میں محفوظ نہیں ہے بلکہ اناجیل تمام کی تمام یونانی زبان میں ہیں۔ عیسائی پادری اس عظیم الشان نقص کو چھپانے کے لئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ اُس زمانہ میں لوگوں کی زبان یونانی ہوگئی تھی لیکن کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ قومیں اپنی زبان آسانی سے نہیں چھوڑا کرتیںبلکہ وہ اپنی زبان کو ایسا ہی قیمتی ورثہ سمجھتی ہیں جیسا کہ جائیداد و املاک کو مشرقی یورپ کی درجنوں قومیں روس کے ماتحت تین تین چار چار سَو سال سے چلی آئیں ہیں لیکن اب تک ان کی زبانیں موجود ہیں۔ الجزائر اور مراکش پر فرانس اور سپین کا قبضہ ایک لمبے عرصے سے چلا آیا ہے، مگر باوجود اس کے وہاں کے لوگوں کی زبان عربی ہے۔ ان قوموں کو بھی نظر انداز کر دو خود یہودیوں کو ہی لے لو۔ حضرت مسیحؑ کے زمانہ پر ساڑھے اُنیس سَوسال گزر جانے کے بعد بھی انہوں نے اپنی زبان پوری طرح نہیں چھوڑی۔ا ب بھی یورپ اور امریکہ کے مختلف ممالک کے رہنے والے یہودی یِدِّش (YIDDISH ) زبان بولتے ہیں جو مختلف ممالک کی بگڑی ہوئی یہودی زبان ہے۔ اگر اُنیس سَو سال کی رہائش جو کلی طور پر دوسری اقوام کے ماحول میں گزری ہے وہ بھی یہودیوں کی زبان نہیں مٹا سکی تو ایک قلیل عرصہ کی اطالوی صحبت یہود کی زبان کو کس طرح بدل سکتی ہے؟ یاد رکھنا چاہئے کہ اطالوی حکومت فلسطین میں حضرت مسیحؑ سے صرف چالیس سال پیشتر شروع ہوئی تھی اور یہ اتنا لمبا عرصہ نہیں جس میں کوئی قوم اپنی زبان کو چھوڑ دے۔ لیکن اس کے علاوہ یہ باتیں بھی یاد رکھنے کے قابل ہیں کہ :۔
ا۔ تاریخی قومیں اپنی زبان کو کبھی نہیں چھوڑا کرتیںاور یہودی ایک تاریخی قوم ہے۔
ب۔یہودیوں کا مذہب عبرانی زبان میں تھا اِس لئے اس زبان کو چھوڑنا ان کے لئے بالکل ناممکن تھا۔
ج۔ یہودی لوگ تہذیب و شائستگی کے لحاظ سے اپنے آپ کو اطالوی قوم سے کم نہیں سمجھتے تھے بلکہ بالا سمجھتے تھے اس لئے بھی یہودی اپنی زبان کے چھوڑنے پر تیار نہیں ہو سکتے تھے۔
د۔ یہودی قوم آئندہ کی حکومت کی امیدوار تھی، جو قومیں آئندہ کے متعلق امیدیں کھو بیٹھتی ہیں اُن کادل بھی کمزور ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ وہ اپنی زبان کی حفاظت سے بے پروا ہوجاتی ہیں۔ لیکن حضرت مسیحؑ کے زمانہ میں تو یہودی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ جلد یہودیوں کا بادشاہ ظاہر ہو گا اور وہ پھر دوبارہ یہودی حکومت قائم کرے گا۔ پس یہ کس طرح ممکن ہو سکتاتھا کہ اُس زمانہ میں وہ اپنی زبان کو ترک کر دیتے۔
ہ۔ اُس زمانہ کے یہودی مصنّفوں کی کتابیں اصل یا بگڑی ہوئی یہودی زبان میں ہیں۔ اگر ان لوگوں کی زبان بدل چکی تھی تو چاہئے تھا کہ اُس صدی یا اُس کے قریب کی لکھی ہوئی کتابیں اصل عبرانی یا بگڑی ہوئی عبرانی زبان کی بجائے کسی اور زبان میں ہوتیں۔
و۔ پرانی اناجیل کے نسخے یونانی زبان میں ملتے ہیں لیکن حضرت مسیحؑ کے وقت میں ابھی تک اطالوی شہنشاہیت دو ٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوئی تھی۔ اس کا مرکز ابھی روم میں ہی تھا اور رومی زبان اور یونانی زبان میں بہت کچھ فرق ہے اگر اطالوی حکومت کا کوئی اثر یہودیوں کی قوم پر پڑا بھی تھا تو اس کے نتیجہ میں اطالوی الفاظ عبرانی میں داخل ہونے چاہئیں تھے نہ کہ یونانی۔ لیکن اناجیل کے پرانے نسخے یونانی زبان میں پائے جاتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اناجیل اُس وقت لکھی گئیں جبکہ رومی ایمپائر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی تھی اور اس کے مشرقی مقبوضات یونانی ایمپائر کے حصہ میں آگئے تھے اور یونانی زبان نے بھی عیسائیت اور اس کے لٹریچر پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا تھا۔
ز۔ جتنے فقرے اناجیل میں اپنی اصل شکل میں محفوظ ہیں وہ سب کے سب عبرانی زبان میں ہیں مثلاً ہوشعنا ۶۷؎ ایلی ایلی لما سبقتانی۶۸؎ رِبّی ۶۹؎ تلیشا قومی۷۰؎
ح۔ اعمال باب ۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے صلیب پر لٹکائے جانے کے بعد تک یہودی لوگ عبرانی زبان میں باتیں کرتے تھے۔ چنانچہ لکھا ہے:ـ۔
’’ تب وے سب روح مقدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں جیسے روح نے انہیں بولنے کی قدرت بخشی بولنے لگے اور خد اترس یہودی ہر ایک قوم میں سے جو آسمان کے تلے ہے یروشلم میں آرہے ہیں۔ سو جب یہ آواز آئی تو بھیڑ لگ گئی اور سب دَنگ ہو گئے کیونکہ ہر ایک نے انہیں اپنی اپنی بولی بولتے سنا اور سب حیران ہوئے اور تعجب کرکے آپس میں کہنے لگے دیکھو کیا یہ سب جو بولتے ہیں جلیلی نہیں! پس کیونکر ہم میں سے اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے۔ ہم پار تھی اور میدی اور عیلامی اور رہنے والے مسوپوتا میہ، یہودیہ اور کپدکیہ۔ نپطس اور آسیہ کے فروگیہ اور پمفولیہ۔ مصر اور لیبیاکے اس حصہ کے جو قرینی کے علاقہ میں ہے اور رومی مسافر یہودی اور یہودی مرید۔ کریتی اور عرب کے ہوکے ہم اپنی اپنی زبانوں میںانہیں خدا کی بڑی باتیں بولتے سنتے ہیں اور سب حیران ہوئے اور گھبرا کے ایک دوسرے سے کہنے لگا کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے اَوروں نے ٹھٹھے سے کہا کہ یہ نئی مَے کے نشے میں ہیں ‘‘۔۷۱؎
اِس حوالہ سے ثابت ہے کہ اُس وقت تک فلسطین کے لوگوں کی زبان عبرا نی تھی اور غیرزبانوں کی بولیاں بولنا اُن کے لئے ایک غیر معمولی بات تھی۔ جو نام اوپر گنائے گئے ہیں اِن میں صاف طو پر رومیوں کا ذکر آتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اُس زمانہ میں رومی زبان فلسطین کی زبان نہیں تھی اور اس میں باتیں کرنا لوگوں کے لئے ایک اچنبھے کی بات تھی۔ اس بات سے قطع نظر کر کے کہ یہ واقعہ کس حد تک صحیح ہے اس حوالہ سے اس بات کاتو یقینی طور پر ثبوت مل جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب کے واقعہ کے بعد بھی یہودیوں کی زبان عبرانی ہی تھی۔ غیر زبانیں جاننے والے اُن میں بہت ہی کم پائے جاتے تھے۔ حتیٰ کہ جب مسیح کے حواریوں نے بعض غیر زبانوں میںباتیں کیں جن میں رومی زبان بھی شامل تھی تو لوگوں نے اُن پر یہ الزام لگا دیا کہ وہ مَے کے نشہ میں بکواس کر رہے ہیں۔ اگر سارے ملک کی زبان رومی یا یونانی ہوتی تو کس طرح ہو سکتا تھا کہ عوام الناس اِن زبانوں کو نہ سمجھ سکتے اور ان کی تقریروں کو بے معنی قرار دے کر انہیں شراب کے نشہ میں مخمور سمجھ لیتے۔
مندرجہ بالا تمام دلائل سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورآپ کے حواریوں کی زبان عبرانی تھی لاطینی یا یونانی نہیں تھی۔ پس جو اناجیل یونانی یا لاطینی میں ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں وہ یقینا حضرت مسیحؑ کے بہت عرصہ بعد لکھی گئی ہیں اور اُس زمانہ میں لکھی گئی ہیں جبکہ عیسائیت رومیوں میں پھیل گئی تھی بلکہ رومن شہنشاہیت دو ٹکڑے ہو کر اٹلی اور یونان کی حکومتوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔
اِس قسم کی کتابیں جو سو یا دو سَو سال بعد غیر معلوم مصنفوں نے لکھی تھیں اور زبردستی حضرت مسیح اور ان کے حواریوں کی طرف منسوب کردی گئی تھیں اُن سے انسان کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ ضرور تھا کہ ان کے ہوتے بھی نیا آسمانی صحیفہ نازل ہو جو اِس قسم کی خرابیوں سے پاک ہو اور انسان اِس یقین سے اس پر غور کر سکے کہ یہ پاک اور صاف کلام میرے پیدا کرنے والے کا تھا۔
دوسری دلیل:انجیل میں حضرت مسیح ناصری صاف طور پر بیان فرماتے ہیں کہ میں پُرانی کتابوں کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ قائم کرنے آیا ہوں۔ چنانچہ متی میں لکھا ہے:۔
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں تورات یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ، میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں۔ کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہو ں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیںا یک نقطہ یا ایک شوشہ تورات کا ہر گز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پور انہ ہو‘‘۔۷۲؎
اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ناصری کا اصل کام یہودیوں کو دوبارہ موسوی مذہب پر قائم کرنا تھا،مگر انجیل کی موجودہ شکل ہمیں بتاتی ہے کہ موسوی شریعت اس کے ذریعہ سے بالکل منسوخ کر دی گئی ہے یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اناجیل درحقیقت وہ نہیں جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیش کی تھیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم یقینا وہی ہو گی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں لائے تھے۔ صرف ایسے امور جو فقیہوں اور فریسیوں نے موسوی شریعت میں اپنی طرف سے داخل کر کے اسے بگاڑ دیا تھا، مٹا دیئے گئے ہوں گے ۔ لیکن انجیل فقیہوں اور فریسیوں کے احکام کو نہیں مٹاتی بلکہ موسٰی ؑعلیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے نبیوں کے احکام کو بھی مٹاتی ہے۔ اس طرح اس کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصہ کو باطل قرار دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کتاب کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو باطل قرار دے، وہ کتاب کسی ایک مصنف کی لکھی ہوئی نہیں ہو سکتی یا کسی معقول مصنف کی لکھی ہوئی نہیں ہو سکتی۔ چونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ کتابیں حضرت مسیح کے حواریوں کی لکھوائی ہوئی ہیں اس لئے یہ توکہنا مشکل ہے کہ ان کتابوں کے مصنف معقول آدمی نہیں تھے۔ خدا تعالیٰ کے نبیوں کے خاص حواری معقول ہوا کرتے ہیں۔ پس ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ حواریوں نے اصل میں کوئی انجیل نہیں لکھوائی تھی۔ وہ زبانی باتیں کہتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کے شاگردوں کے شاگردوں نے اُن کی زبانی باتوں میں اپنے خیالات مِلا دئیے اور اس طرح وہ اناجیل متضاد باتوں کا مجموعہ بن کر رہ گئیں۔
اناجیل کی تحریف و تبدل کے متعلق عیسائی علماء کے خیالات
اندورنی شہادت پیش کرنے کے بعد اب ہم انجیل کے متعلق بعض عیسائی علماء کے خیالات درج کرتے ہیں۔
(الف) تفسیر ہارن جلد ۴ حصہ دوم باب ۴ مطبوعہ ۱۸۸۲ء میں لکھاہے:۔
’’ کلیسیا کے قد ماء مؤرخین سے اناجیل کی تالیف کے زمانہ کے متعلق جو حالات ہم تک پہنچے ہیں ایسے غیر معیّن اور ابتر ہیں کہ کسی ایک امر معیّن کی طرف نہیں پہنچاتے اور پُرانے قدماء نے اپنے وقت کی گپوں کو سچ سمجھ کر لکھ دیا اور اُن لوگوں نے جو اُن کے بعد ہوئے ادب کر کے ان لوگوں کے لکھے ہوئے کو قبول کر لیا اور یہ روایات سچی اور جھوٹی ایک لکھنے والے سے دوسرے لکھنے والے کو پہنچیں اور مدتِ درازکے گزر جانے کے بعد اُن کی تنقید مُتَعَزَّرْ ہو گئی‘‘۔
(ب) پھر اس جلد میں لکھا ہے کہ :۔
’’ پہلی انجیل ۳۷ یا ۳۸ یا ۴۱ یا ۴۳ یا ۴۸ یا ۶۱،۶۲ یا ۶۴ عیسوی میں اور دوسری انجیل ۵۶ سے ۶۵ تک اور غالباً ۶۰ یا ۶۳ میں اور تیسری انجیل ۵۳ یا ۶۳ میں یا۶۴ میں اور چوتھی انجیل ۶۸ یا ۶۹ یا ۷۰ یا ۹۷ یا ۹۸ عیسوی میں تألیف ہوئیں اور نامۂ عبرانیہ اور نامۂ روم پطرس اور نامۂ دوم سوم یوحنا اور نامۂ یعقوب اور نامۂ یہودا اور مشاہداتِ یوحنا اور نامۂ اوّل یوحنا کے بعض ورس ( یعنی آیات)کا حال تو ایسا ابتر ہے کہ کہنے کے لائق نہیں ان کو تو محض زبردستی سے بِلاسند حواریوں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور بہت علماء فرقہ پروٹسٹنٹ نے اِن کتب کا انکار کیا تھا‘‘۔۷۳؎
(ج) کاتھلک ہیرلڈ جلد ۷ مطبوعہ ۱۸۴۴ء صفحہ ۲۰۵ پر لکھاہے:۔
’’ اسٹاڈسن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ یوحنا کی انجیل یقینا بِلاریب مدرسہ اسکندریہ کے کسی طالب علم نے لکھی ہے اور ہارن اپنی تفسیر میں لکھتاہے کہ فرقہ ایلوجین جو دوسری صدی میں تھا اس انجیل ( یوحنا) اور اسی طرح یوحنا کی سب تصنیفات سے انکار کرتاہے‘‘۔
(د) یوسیبس اپنی تاریخ کلیسیاء کی کتاب نمبر ۳ کے باب ۳ میں لکھتا ہے کہ:۔
’’پطرس کا پہلا خط سچا ہے مگر دوسرا خط پطرس کا کبھی پاک کتاب میں شامل نہیں کیا گیا لیکن پڑھا جاتا تھا‘‘۔
(ہ) پھر اِسی کتاب کے پچیسویں باب میں لکھتا ہے کہ:۔
’’ نامۂ یعقوب اور نامۂ یہودا اور نامۂ روم پطرس اور نامۂ دوم سوم یوحنا پر کلام کیا گیا ہے کہ آیا یہ سب انجیل نویسوں نے لکھے ہیں یا دوسرے لوگوں نے جن کے یہی نام تھے‘‘۔۷۴؎
(و) تفسیر بائبل ہارن صاحب جلد ۴ میں لکھا ہے کہ:۔
پہلے اناجیل عبرانی میں تھیںپھر کسی غیر معلوم شخص نے یونانی میں ترجمہ کیا۔
(ز) انسائیکلو پیڈیا ببلیکا میں لکھا ہے:۔
‏ ``The NT was written by Christians for Christians: it was moreover written in Greek for Greek speaking Communities, and the style of writting ( with the exeption, possibly, of the Apocalypce) was that of current literary composition. There has been no real break in the continuity of the Greek-speaking church and we find accordingly that few real blunders of writing are met with in the leading types of the extent texts. This state of things has not prevented Variations, but they are not for the most part accidental. And over whelming majority of the various readings of the MSS of the NT were from the very first intentional alterations. The NT in very early times had no canonical authority, and alterations, and additions ۷۵؎were actually made where they seemed improvements.``
یعنی عہد نامہ قدیم عیسائیوں نے عیسائیوں کی خاطر لکھا تھا۔ علاوہ ازیں یہ یونانی میں یونانی بولنے والوں کے لئے لکھا گیا تھا اور طرزِ تحریر اُس وقت کے رائج طرزِ تحریر کے مطابق تھا۔ یونانی بولنے والے گرجا کے تاریخی تسلسل میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ اس لئے ہمیں تحریر کی کوئی حقیقی غلطی موجودہ نسخوں میں نہیں ملتی۔ گو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اختلافات پائے نہیں جاتے۔ لیکن وہ اختلافات اتفاقی نہیں ہیں بلکہ دیدہ دانستہ پیدا کئے گئے ہیں اور شروع سے ہی بعض مصنفوں نے بِالا رادہ وہ تغیرات عہد نامہ میں پیدا کئے۔ حقیقت یہ ہے کہ عہد نامہ قدیم اپنے ابتدائی زمانہ میں کوئی مذہبی تقدس نہیں رکھتا تھا( یعنی اُسے خدائی کتاب نہیں کہا جاتا تھا) اس لئے جہاں کہیں تبدیلیوں اور زیادتیوں سے مضمون میں اصلاح کی امید کی جاتی تھی وہاں تبدیلیاں اور زیادتیاں دلیری سے کرد ی جاتی تھیں۔
(ح) پھر لکھا ہے:۔
‏ What is certain is that by the middle of fourth century. Latin biblical MSS exhibited a most confusing variety of text caused at least in part by revision from later Greek MSS as well as by modifications of the Latin phraseology. This confusion lasted until all the old latin (or-ante-hieronymain) texts were supplanted by the revised version of jerome (383-400 A.D) which was undertaken at the request of pope Damasus ultimately
‏ ۷۶؎became the vulgate of the western Church.
یعنی جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ چوتھی صدی کے درمیان میں بائبل کا لاطینی نسخہ نہایت ہی پراگندہ حالت میں تھا اور یہ مضامین کی پراگندگی یونانی نسخہ سے مقابلہ کی وجہ سے اور لاطینی اصطلاحوں میں تبدیلی کی وجہ سے پید ا ہوگئی تھی اور یہ اختلافات قائم رہے یہاں تک کہ پُرانے لاطینی نسخہ کی جگہ جیروم کا اصلاح شدہ نسخہ جو ۳۸۳ء سے ۴۰۰ء تک کے درمیان زمانہ کے پوپ ڈیمیس کے حکم سے تیار کیا گیا تھا، عیسائیوں میں رائج کیا گیا۔
(ط) اِسی طرح لکھا ہے:۔
‏ `` More important than these external matters are the variations which in course of time crept in the text itself. Many of these variations are mere slips of the eye, ear, memory, or judgment on the part of a copyist, who had no intention to do otherwise than follow what lay before him. But transcribers, and especilally early transcribers, by no means aimed at that minute accuracy which is expected of modern critical editor. Corrections were made in the interests of Grammar or on style. Slight changes were adopted in order to remove difficclties. Additions came in especially from parallel narratives in the gospels, citations from the Old Testament were made more exact or more complete. That all this was done in perfect good Faith and simply because no strict conception of the duty of a copyist existed, is especially clear from the almost entire absence of deliberate falsification of the text in the interest of doctrinal controversy. It may suffice to mention, in addition to what has been already said that glosses or notes originally written on the margin very often ended by being taken into the text, and that the custom of reading thus Scriptured in public worship naturally brought in liturgical additions, such as the doxology of the Lord's prayer while the Commencement of an ecclesiastical lesson torn from its proper context had often to be supplemented by a few explanatory words, which soon
‏۷۷؎ came to be regarded as part of the original.
اِن بیرونی باتوں کی نسبت زیادہ اہم وہ تبدیلیاں اور وہ اختلافات ہیں جو کہ مرورِ زمانہ کی وجہ سے متن میں شامل ہوگئیں۔ اِن تبدیلیوں میں سے بہت سی نقل نویسوں کی آنکھ، کان اور یادداشت یا فہم کی غلطیوں کی وجہ سے ہوئیں جن کی اپنی نیت سوائے اس کے اور کوئی نہ تھی کہ جو کچھ اُن کے سامنے ہے وہ اُسے من و عن نقل کر دیں۔ لیکن مزید نسخے تیارکرنے والوں اور ان میںسے خاص طور پر ابتدائی لوگوں کا اصلی مقصد یہ نہیں تھا کہ بہت باریک بینی کے ساتھ صحت کا خیال رکھیں جیسا کہ موجودہ زمانہ کے نقادوںسے توقع کی جاتی ہے۔ گرامر اور سلاست عبارت کے پیش نظر بھی ان میں اصلاحات کی گئیں۔ مشکلات کو دُور کرنے کے لیے بعض معمولی تبدیلیاں بھی کی گئیں۔ عہد نامہ قدیم کے اقتباسات لینے میں یہ کوشش کی گئی کہ وہ زیادہ معیّن اور زیادہ اصل صورت اختیار کر لیں۔ یہ کام پوری نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا کیونکہ اُس وقت ایک نقل نویس کے فرائض کے متعلق کوئی سخت نظریہ موجود نہیں تھا۔ یہ بات اس سے ظاہر ہے کہ متن میں کوئی دیدہ دانستہ جھوٹ کی آمیزش جو مذہبی عقائد کی بنا پر کی گئی ہے قریباً مفقود نظر آتی ہے۔ مندرجہ بالا امور کے علاوہ اس بات کا ذکر کرنا کافی ہوگا کہ حاشیہ پر درج شدہ نوٹوں کو اکثر متن میں شامل کر دیا جاتا تھا۔ اور اس طرح پبلک دینی اجتماعوں میں مذہبی صحیفوں کو پڑھنے کے رواج نے ایسی زیادتیاں کر دیں جیسا کہ دعائے ربّانی کے نعتیہ اشعار میں۔ اسی طرح بعض دینی اسباق کو اپنے اصل متن سے علیحدہ کیا جاتا تو اس کی ابتداء میں بعض تشریحی الفاظ کا اضافہ کیا جاتا۔ اور یہ تشریحات کچھ عرصہ کے بعد اصل عبارت کا حصہ سمجھی جانے لگیں۔
(ی) اور پھر لکھا ہے:۔
‏ It appears from what we have already seen that a considerable portion of the NT is made up of writing not
‏۷۸؎ directly apostolic.
جن امور کاہم اِس سے پہلے جائزہ لے چکے ہیں اُن سے ظاہر ہے کہ عہد نامہ جدید کے معتدبہ حصے ایسی تحریروں پر مشتمل ہیں جو براہِ راست رسولوں کی طرف سے نہیں ہیں۔
(ک)
‏ Yest, as a matter of fact,evrey book in the NT with the exception of the four great epistles of St. paul is at present more or less the subject of controversy, and
‏۷۹؎ interpolations are assented even in these.
پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ عہد نامہ جدید کی ہر کتاب سوائے پولوس رسول کے چار عظیم الشان خطوط کے کم و بیش مابہ النزاع ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ ان میں بھی دخل اندازی کی گئی ہے اور زیادتیاں ہوئی ہیں۔
پھر پُرانے زمانہ کی تحریف و تبدل کو تو جانے دو لطف یہ ہے کہ انجیل میں آج تک بھی تبدیلیاں کی جا رہی ہیں۔ چنانچہ:۔
۱۔ یوحنا باب ۵ آیت ۲ تا ۵ لکھا تھا :۔
(۱) یروشلم میں بھیڑدروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیت حسدا کہلاتاہے۔ اُس کے پانچ اُسارے ہیں۔ ان میں ناتوانوں اور اندھوں اور لنگڑوں اور پژ مردوں کی ایک بڑی بھیڑ پڑی تھی جو پانی کے ہلنے کے منتظر تھے۔ کیونکہ ایک فرشتہ بعضے وقت اُس حوض میں اُترکے پانی کوہلاتا تھا اور پانی کے ہلنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اُترتا کیسی ہی بیماری میں گرفتار ہو اُس سے چنگا ہو جاتا تھا۔
یہ واقعہ سینکڑوں سال سے انجیل میں لکھا جارہا تھا اور کسی مسیحی کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہوا تھا کہ یہ واقعہ کسی اَور نے انجیل میں داخل کردیا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے جب عیسائیت پر یہ اعتراض کیا کہ اگر فلسطین میں ایک ایساحوض موجود تھا جس میں گرنے سے لوگوں کو شفاء ہو جاتی تھی تو گو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اس میں کسی خاص تاریخ میں گرنے سے شفاء ہوتی ہے مگرمسیحؑ نے سمجھ لیا کہ یہ وہم ہے۔ اور اصل بات یہ ہے کہ اس پانی میں نہانے سے شفاء ہوتی ہے۔ پس مسیحؑ نے اس کا پانی مریضوں کو استعمال کرانا شروع کر دیاجس سے اُن کو شفاء ہو نی شروع ہو گئی اور لوگ ان کے معجزات کے قائل ہو گئے۔چنانچہ یوحنا باب ۹ آیت ۱ تا ۷ میں لکھا ہے:۔
’’ پھر اس نے جاتے ہوئے ایک شخص کو جو جنم سے اندھا تھا دیکھا اور اس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا کہ اے ربی! گناہ کس نے کیا؟ اس شخص نے یا اس کے ماں باپ نے کہ یہ اندھا پیدا ہوا۔ یسوع نے جواب دیا نہ تو اس شخص نے گناہ کیا نہ اس کے ماں باپ نے لیکن یوں ہوا کہ خدا کے کام اس میں ظاہر ہوویں۔ ضرور ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے میں اُس کے کامو ں کو جب تک کہ دن ہے کروں۔ رات آتی ہے اور کوئی اُس وقت کام نہیں کر سکتا۔ جب تک میں جہان میں ہوں جہان کا نور ہوں۔ یہ کہہ کے اس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مٹی گوندھی اور وہ مٹی اُس اندھے کی آنکھ پر لیپ کی اور اُس سے کہا جااور سلوام کے حوض میں نہا۔ تب وہ جا کے نہایا اور بینا ہو کے آیا‘‘۔
چونکہ اس سے مسیح کے معجزات پر زد پڑتی تھی اس لئے تازہ اُردو بائبل میں سے یہ تالاب کا واقعہ اُڑا دیا گیا ہیجس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے بچنے کے لئے انجیل بدل دی گئی ہے۔ اگر یہ واقعہ انجیل میں نہیں تھا تو انیس سَو سال سے کس طرح اس میں شامل ہوتا چلا آیا اوراگر یہ واقعہ انجیل میں تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے ڈر کر عیسائی دنیا نے اِس کو انجیل میں سے کیوں نکال دیا؟
۲۔ متی باب ۱۹ آیت ۱۶۔۱۷ میں لکھا تھا:۔
’’ اور دیکھو ایک نے آکے اس سے کہا اے نیک استاد میں کونسا نیک کام کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پائوں؟ اُس نے اسے کہا۔ تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے۔ نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا‘‘۔
یہ حوالہ اس بات کا ایک بیّن ثبوت تھا کہ حضرت مسیحؑ کے متعلق عیسائیوں کایہ اِدعا کہ وہ معصوم عن الخطاء اور ہر قسم کے گناہوں اور عیوب سے منزہ تھے بالکل باطل اور بے بنیاد ہے۔ا گر وہ گناہوں سے منزہ ہوتے تو محض ایک کے نیک اُستاد کہنے پر وہ جواب میں یہ کیوں کہتے کہ’’ تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا‘‘۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائیوں کے سامنے اِس حوالہ کو پیش کیا اور انہیں بتایا کہ تم مسیحؑ کی معصومیت کا دعویٰ کس طرح کر سکتے ہو جبکہ مسیح خودا پنی معصومیت کا اعتراف نہیں کرتا بلکہ صرف اتنی سی بات پر کہ ایک شخص نے اسے نیک استاد کہہ کر پکارا وہ کہہ اُٹھا کہ تُو مجھے نیک کیوں کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا۔ یہ اعتراض ایسا زبردست تھا کہ عیسائیوں سے اِس کا جواب بن نہ پڑا اور وہ اِس بات پر مجبور ہوئے کہ اِس آیت کے الفاظ اور اس کے مفہوم کو بالکل بدل ڈالیں ۔ چنانچہ موجودہ اناجیل میں مذکورہ بالا الفاظ کو بدل کر یہ الفاظ درج کر دئیے گئے ہیں:۔
’’اور دیکھو ایک شخص نے پاس آکر کہا اے استاد! میں کونسی نیکی کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی پائوں۔ اُس نے اُس سے کہا تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے‘‘۔
’’ تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے‘‘ اور’’ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے‘‘۔ اِن دونوں فقرات میں موجود جو فرق ہے وہ ظاہر ہے۔ ایک حوالہ میں اپنے نیک ہونے سے انکار کیا گیا ہے اور دوسرے حوالہ میںصرف اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں سوال کرتا ہے۔ حالانکہ حضرت مسیح دنیا میںآئے ہی اس لئے تھے کہ وہ لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی راہ بتائیں۔ا گر وہ نیکی اور ہدایت کی راہ بتانے کیلئے نہیں آئے تھے تو ان کی بعثت کی غرض کیا تھی۔ اُن کو ہمارے عقیدہ کے مطابق خدا تعالیٰ کا نبی کہو یا عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کا بیٹا سمجھودونوں صورتوں میں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ دنیا کو ہدایت اور نیکی کی راہ بتانے کے لئے آئے تھے۔ پس جب وہ آئے ہی اِسی غرض کے لئے تھے کہ لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی راہ بتائیں تو وہ یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے پھر اگر ان سے نیکی کی بابت کچھ پوچھنا جرم تھا یا وہ دوسروں کو بتا نہیں سکتے تھے کہ نیکی کی راہ کون سی ہے تو انجیل کے مختلف مقامات پر انہوں نے نیکی کی تعلیم کیوں دی ہے؟ ایک طرف اُن کا لوگوں کو نیکی کی راہ بتانا اور دوسری طرف ان کا اس منصب پر کھڑا ہونا کہ لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کا موجب بنیں، بتا رہا ہے کہ اُن سے یہ سوال نہیں کیا گیا تھا اے استاد! میں کونسی نیکی کروں؟ اور نہ انہوں نے یہ جواب دیا کہ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے بلکہ درحقیقت ان سے وہی سوال کیا گیا تھا جس کا پہلی اناجیل میں ذکر کیاگیا تھا اور جس کا جواب انہو ں نے یہ دیا کہ ’’تُو کیوں مجھے نیک کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا‘‘۔ مگر عیسائیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراضات سے ڈر کر اِس آیت کوبدل ڈالا جو ثبوت ہے اس بات کا کہ موجودہ اناجیل میں اب بھی تحریف و تبدیل ہوتی رہتی ہے۔
۳۔ نمبر۱ یوحنا باب ۵ آیت ۷ میں لکھا تھا:۔
’’ اور گواہی دینے والے تین ہیں۔ روح اور پانی اور خون۔ اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں‘‘۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اِس حوالہ کی بناء پر عیسائیوں پر اعتراض کیا کہ تم تو مسیح کو خدا کہتے ہو مگر انجیل یہ بتاتی ہے کہ وہ رحمِ مادر میں نو ماہ تک خون کھاتا رہا اور یوحنا حواری کے قول کے مطابق وہ خود خون تھا۔ جو شخص نوماہ تک رحمِ مادر میں خون کھاتا رہا اور جسے خود خون قرار دیا گیا ہے اُس کو خدا قرار دینا کتنی غیر معقول اور عقل و فہم سے بعید بات ہے۔ یہ حملہ بھی ایسا زبردست تھا کہ عیسائی اِس کی تاب نہ لا سکے اور اُنہوں نے اِس آیت کی بجائے موجودہ اناجیل میں یہ الفاظ لکھ دئیے کہ:۔
’’ تین ہیں جو آسمان پر گواہی دیتے ہیں۔ باپ اور کلام اور روح قدس اور یہ تینوں ایک ہیں‘‘۔
۴۔ مرقس باب ۹ آیت ۱۴تا ۲۹ میں لکھا ہے:۔
’’ اور جب وہ اپنے شاگردوں کے پاس آیا تو دیکھا کہ ان کے چاروں طرف بڑی بھیڑ اور فقیہوں کو ان سے بحث کرتے دیکھا اور فی الفور ساری بھیڑ اُسے دیکھ کر نہایت حیران ہوئی۔ اُس کے پاس دوڑ کے اُسے سلام کیا۔ تب اس نے فقیہوں سے پوچھا تم ان سے کیا بحث کرتے ہو؟ ایک نے اُس بھیڑ میں سے جواب دیا اور کہا اے استاد! میں اپنے بیٹے کو جس میں گونگی روح ہے تیرے پاس لایا ہوں وہ جہاں کہیں اسے پکڑتی ہے پٹک دیتی ہے اور وہ کف بھر لاتا ہے اور اپنے دانت پیستا ہے اور وہ سُوکھ جاتا ہے۔ میں نے شاگردوں سے کہا تھا کہ وہ اسے باہر کر دیں، پر وہ نہ کر سکے۔ اس نے اس کے جواب میں کہا اے بے ایمان قوم! میں کب تک تمہارے ساتھ رہوں میں کب تک تمہاری برداشت کروں اُسے میرے پاس لائو۔ وہ اُسے اس کے پاس لائے اور جب اُس نے اُسے دیکھا فی الفور روح نے اسے اینٹھایا اور وہ زمین پر گرا اور کف بھرکے لَوٹنے لگا۔ تب اُس نے اس کے باپ سے پوچھا کتنی مدت سے یہ اس کو ہوا؟ وہ بولا بچپن سے۔ اور وہ بہت بار اسے آگ میں اور پانی میں ڈالتی تھی تاکہ اسے جان سے مار دے۔ پر اگرتُو کچھ کر سکتا ہے تو ہم پر رحم کر کے ہماری مد د کر۔ یسوع نے اسے کہا اگر تو ایمان لا سکے تو ایماندار کے لئے سب کچھ ہو سکتا ہے۔ تب فی الفور اُس لڑکے کا باپ چلایا اور آنسو بہا کے کہا۔اے خدا وند! میں ایمان لاتا ہوں۔ تومیری بے ایمانی کا چارہ کر۔ جب یسوع نے دیکھا کہ لوگ دور سے جمع ہوتے ہیںتو اس ناپاک روح کو ملامت کر کے اُسے کہا اے گونگی بہری روح! میں تجھے حکم کرتا ہوں اس سے باہر نکل اور اس میں پھر کبھی مت داخل ہو۔ وہ چلا کر اور اُسے بہت اینٹھا کر اُس سے نکل گئی اور وہ مردہ سا ہو گیا ایسا کہ بہتوں نے کہا کہ وہ مر گیا۔ تب یسوع نے اُس کا ہاتھ پکڑ کے اُسے اُٹھایا اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور جب وہ گھر میں آیا اُس کے شاگردوں نے خلوت میں اُس سے پوچھا کہ ہم اُسے کیوں نہ نکال سکے؟ اُس نے انہیں کہا کہ یہ جنس سِوا دعا اور روزہ کے کسی اور طرح سے نکل نہیں سکتی‘‘۔
عیسائی اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت مسیحؑ پر ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کے حصول کے لئے کسی عمل صالح کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن اوپر کے حوالہ کی یہ آیت کہ ’’یہ جنس سِوا دُعا اور روزہ کے کسی اور طرح سے نکل نہیں سکتی‘‘ بتاتی تھی کہ دعا اور روزہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ ہیں۔ چونکہ حضرت مسیحؑ کے حواریوں نے اِن ذرائع سے کام نہ لیا اس لئے باوجود اس با ت کے کہ وہ حضرت مسیحؑ پر ایمان لا چکے تھے انجیل کے بیان کے مطابق وہ ایک بد روح کو نہ نکال سکے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اِس آیت کو پیش کرتے ہوئے عیسائیوں پر اعتراض کیا کہ تمہارا محض اِسی بات پر انحصار رکھنا کہ تم حضر ت مسیحؑ پر ایمان لے آئے ہو اور ہر قسم کے عمل صالح کو باطل قرار دینا درست نہیں۔ حضر ت مسیح تو خود تسلیم کرتے ہیں کہ دعا اور روزہ بھی ضروری چیزیں ہیں اور یہ بھی کہ وہ دعا اور روزہ سے کام لیتے تھے۔ تو جب دعا اور روزہ کی ضرورت ہے تو معلوم ہو اکہ محض حضر ت مسیحؑ پر ایمان انسان کو ہر قسم کی نیکی سے مستفیض اور نجات کا مستحق نہیں بنا سکتا۔ یہ اعتراض ایسا زبردست تھا کہ عیسائی اِس کا کوئی جواب نہ دے سکے اور انہوں نے اپنی خیر اِسی میں سمجھی کہ اِس آیت کو اناجیل میں سے نکال دیں۔ چنانچہ موجودہ اناجیل میں ہمیں یہ آیت کہیں نظر نہیں آتی۔ گویا ایک آیت کو کتاب میںسے خارج کر دیا گیا اور اس طرح ثابت کر دیا گیا کہ انجیل اب تک انسانی دست بُرد کا شکار ہور ہی ہے۔
۵۔متی باب ۱۲ آیت ۳۹،۴۰ میں لکھا تھا کہ ایک موقع پر جب بعض فقیہوں اور فریسوں نے حضرت مسیح سے کہا کہ:۔
’’ اے استاد! ہم تجھ سے ایک نشان چاہتے ہیں‘‘۔
تو حضر ت مسیح نے ان کو جواب دیا کہ :۔
’’ اِس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ نشان ڈھوندتے ہیں پر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان انہیں دکھایا نہ جائے گا کیونکہ جیسا کہ یونس تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ ویسا ہی انسان کا بیٹا تین دن اور تین رات زمین کے دل میں ہوگا‘‘۔
مذکورہ بالا آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح کی اصل پیشگوئی یہ تھی کہ جس طرح یونس نبی تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہے، اسی طرح میں بھی تین دن اور تین رات قبر کے اندر رہوں گا اور یونس نبی سے میری مماثلت ثابت ہو جائے گی۔ مگر اناجیل بتا تی ہیں کہ حضرت مسیح جمعہ کی شام کو قبر میں رکھے گئے۸۰؎ اور جب اتوار کی صبح کو انہیں قبر میں دیکھا گیا تو وہ اس جگہ سے غائب تھے۔۸۱؎ اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ صرف ایک دن اور دو رات قبر میں رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے عیسائی دنیا سے مطالبہ کیا کہ جب حضرت مسیح کی پیشگوئی یہ تھی کہ لوگوںکو ویساہی نشان دکھایا جائے گا جیسے یونس نبی کے ذریعہ نشان ظاہر ہوا۔ یعنی جیسے یونس نبی تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میںرہا ویسے ہی ابن آد م تین دن اور تین رات قبر میں رہے گا تو وہ تین دن اور تین رات زمین کے اندر کس طرح رہے؟ وہ واقعات جو اناجیل میں بیان کئے گئے ہیں وہ تو اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ جب عیسائیوں نے دیکھا کہ ا ُن کیلئے اِس اعتراض سے بچائو کی کوئی صورت نہیں تو انہوں نے اِس آیت میں تحریف سے کام لیا اور موجود اناجیل میں بجائے تین دن اور تین رات کے ’’ تین رات دن‘‘ کر دیا ۔اِس طرح انہوں نے گو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے بچانے کی کوشش کی ہے لیکن درحقیقت انہوں نے اپنے عمل سے ایک دفعہ پھر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اناجیل میں تحریف و تبدیل ہوتی چلی آئی ہے اور اب بھی عیسائی ضرورت محسوس ہونے پر اِس میں تحریف و تبدیل کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ جب حالات یہ ہیں تو ایسی کتاب کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی رہنمائی کا فرض سر انجام دے سکتی ہے۔ یا کوئی شخص کس طرح اس کی آیات کے متعلق یہ یقینسے کہہ سکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ جب عیسائی آج بھی اِس کی آیات میں تبدیلی کرنے سے احتراز نہیں کرتے تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پہلے جو کچھ انہوں نے لکھا تھا وہ خدا تعالیٰ کا کلام تھا۔ پس اناجیل میں تحریف و تبدیل کا متواتر ہوتے چلے آنا ثبوت ہے اِس بات کا کہ موجودہ اناجیل خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور وہ روحانی نقطئہ نگاہ سے بنی نوع انسان کے لئے کسی صحیح راہنمائی کا باعث نہیںہو سکتیں۔
اناجیل میں اختلافات
اناجیل کے اندر جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ خد اتعالیٰ کی کتاب نہیں۔ یا یہ کہ بعد میں انسانی دست بُرد نے اس کو بالکل بدل ڈالا کیونکہ ایک معقول انسان اپنی لکھی ہوئی کتاب میں اختلافات کو روا نہیں رکھتا تو پھر خدا کی کتاب میں اختلافات کیونکر پائے جا سکتے ہیں۔ ہم ذیل میں مثال کے طور پر نئے عہد نامہ کے چند اختلافات بیان کرتے ہیں۔
۱۔ مسیح کی پیدائش کی نسبت متی باب ۱ آیت ۲۱، ۲۲ اور لوقا باب ۱ آیت ۳۲ ، ۳۳ میں لکھا ہے کہ مسیح عام انسانوں میں سے ہوگا۔ہاں وہ خدا کا بیٹا کہلائے گا۔ لیکن یوحنا کی انجیل میںلکھا ہے کہ مسیح کلمہ ہے جو ہمیشہ سے خدا کے ساتھ تھا اور خود خد اتھا۔ سب چیزیں اسی سے پیدا ہوئیں۔ ۸۲؎
۲۔ متی باب ۳ آیت ۱۳تا ۱۷ مرقس باب۱ آیت ۹ تا ۱۲ لوقا باب ۳ آیت ۲۱۔ ۲۲ اور باب ۴ آیت ۱ میں بتایا گیا ہے کہ مسیح نے یوحنا سے بپتسمہ پایا اور بتپسمہ پاتے ہی وہ اُسی وقت یا اُسی دن اُس کے پاس سے چلا گیا۔ لیکن انجیل یوحنا میں بپتسمہ پانے کا ذکر نہیں اور مسیح کی ملاقات یوحنا سے دو دن تک بتائی گئی ہے۔ ۸۳؎
۳۔ یوحنا باب ۱ آیت ۱۹ تا ۴۴ سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح یوحنا اور اُ ن کے ساتھیوں سے کچھ دن ملاقات کرنے کے بعد سیدھا جلیل چلا گیا۔ لیکن متی باب ۴ آیت ۱ مرقس باب ۱ آیت ۱۲ اور لوقا باب ۴ آیت ۱ میں لکھا ہے کہ مسیح یوحنا سے بتپسمہ پانے کے فوراً بعد شیطان کے ساتھ امتحان دینے کی خاطر جنگل کو گیا اور چالیس دن وہاں رہا۔
۴۔ یوحنا باب ۱ آیت ۳۵ تا ۵۱ میں لکھا ہو اہے کہ یوحنا کی ملاقات کے معاً بعد یوحنا کے شاگرد اندر یاس اور ایک غیر معلوم شاگرد مسیح نے اپنے حواری بنائے اور جلیل کو جاتے ہوئے شمعون، پطرس، نتنائیل کو اُس نے اپنا مرید بنایا۔ لیکن متی بات ۴ آیت ۱۲ تا ۲۲۔ مرقس باب ۱ آیت ۱۲ تا ۲۰۔ لوقاباب ۴ آیت ۱۴، ۱۵ اور لوقا باب ۵ آیت ۱ تا ۱۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوحنا کی ملاقات کے بعد چالیس دن جنگل میںرہ کر مسیح نے روزہ رکھا۔ پھر یوحنا کے قید ہونے کی خبر سن کر جلیل گیا۔ وہاں کئی جگہ اور کئی دن اس نے وعظ کئے۔ پھر جلیل کی جھیل کے کنارہ پر جا کر اُس نے شمعون اور پطرس اوراِندریاس اور یوحنا اور یعقوب کو اپنا شاگرد بنایا۔ گویا یوحنا نے اِن لوگوں کے ایمان لانے کی جو جگہ بتائی ہے دوسری اناجیل اُس کے خلاف بتاتی ہیں اور یوحنا نے جو وقت بتایا ہے دوسری اناجیل اُس وقت کے قریباًدو ماہ بعد کا وقت بتاتی ہیں۔
۵۔ یوحنا باب ۴ آیت۳ و آیت ۴۳ تا ۴۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کا وطن یہودیہ تھا اور مسیح اِس خیال سے کہ پیغمبر کی عزت اپنے وطن میں نہیں ہوتی اُسے چھوڑ کر جلیل چلے گئے جہاں کے لوگوں نے اُ ن کی بہت قدر کی۔
لیکن اس کے خلاف متی باب ۱۳ آیت ۵۴ تا ۵۸ ،لوقا باب ۴ آیت ۲۴ اور مرقس باب۶ آیت ۴ میں لکھاہے کہ مسیح کا وطن یہودیہ نہیں تھا بلکہ جلیل تھا۔ جب جلیل میں اِن کی قدر نہ ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ کسی نبی کی قدر اُس کے وطن میں نہیں ہوتی۔
۶۔ یوحنا باب ۳ آیت ۲۲ تا ۲۶ اور یوحنا باب ۴ آیت ا تا۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے یوحنا کی قید سے پہلے ہی اپنی تعلیم بیان کرنی شروع کردی تھی اوربپتسمہ دینا بھی شروع کر دیا تھا۔ لیکن متی باب ۴ آیت ۱۲ تا ۱۷،مرقس باب ۱ آیت ۱۴۔ ۱۵، متی باب ۲۸ آیت ۱۹ اور مرقس باب ۱۶ آیت ۱۵۔۱۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اپنی تعلیم کی تبلیغ تو یوحنا کے قید ہونے کے بعد شروع کی اور بپتسمہ کاحکم اپنے مرنے سے جی اُٹھنے کے بعد دیا۔ جیسا کہ لکھا ہے:۔
’’پھر وَے گیارہ شاگرد جلیل کے اُس پہاڑ کو جہاں یسوع نے اُنہیں فرمایا تھا گئے اور اُسے دیکھ کر اُنہوں نے اُس کو سجدہ کیا۔ پھر بعضے دبدہ ۸۴؎ میںرہے اور یسوع نے پاس آکر اُن سے کہا کہ آسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا اس لئے تم جا کر سب قوموں کو شاگرد کرو اور انہیں باپ اور بیٹے اور روح قدس کے نام سے بپتسمہ دو‘‘۔
۷۔ یوحنا باب ۱۳ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح نے آخری کھانا عید سے ایک روز پہلے کھایا اور عید کے روز وفات پائی۔ لیکن متی باب ۲۶ آیت ۱۷۔ مرقس باب ۱۴ آیت ۱۲ تا ۱۶ ۔ لوقا باب ۲۲ آیت ۷ تا ۱۳۔ متی باب ۲۷ آیت ۵ ۱ تا ۳۱۔مرقس باب ۱۲؍۱۴ اور باب ۱۵ آیت ۶ تا ۲۰ لوقا باب ۲۳ آیت ۱۳ تا ۲۵ اور باب ۲۲ آیت ۱۳ تا۲۷سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے آخری کھانا عید کی شام کوکھایا تھا اور عید سے دوسرے دن صلیب پائی۔
۸۔ یوحنا باب ۱۴آیت ۱۵ تا ۳۱ اور باب ۱۶ آیت ۱ تا ۱۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے بعد فارقلیط یا روح القدس آئیں گے۔ اِس کے دوبارہ زندہ ہو کر واپس آنے کا کہیں صاف طور پر ذکر نہیں۔ لیکن متی باب ۱۷ آیت ۲۳ اور مرقس باب ۹ آیت ۳۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح تو دوبارہ زندہ ہو کر آئے گا لیکن فارقلیط کے دوبارہ آنے کا کوئی ذکر نہیں۔
۹۔ یوحنا کی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے حواریوں میںسے یوحنا اُس کاسب سے بڑا اور پیارا حواری تھا اِس لئے اُس کا نام مسیح کاپیارا ہو گیا تھا۔ دیکھو یوحنا باب ۱۳ آیت ۲۳۔ اور باب ۱۸ آیت ۱۵۔ اور باب ۱۹ آیت ۲۶،۲۷۔ لیکن دوسری انجیلوں سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح کاسب سے پیارا حواری پطرس تھا اور تین شاگرد خاص تھے۔ پطرس۔ یوحنا۔ یعقوب۔ تعجب ہے کہ یوحنا کی انجیل میں یعقوب کا توذکر ہی نہیں کیا گیا اور پطرس اور یوحنا میں سے یوحنا کو زیادہ مقرب قرار دیا گیا ہے حالانکہ دوسری اناجیل پطرس کو زیادہ مقرب قرار دیتی ہیں۔ دیکھو متی باب ۱۷ آیت ۱۔ باب ۲۶ آیت ۳۷۔ مرقس باب ۵ آیت ۳۷۔ باب ۹ آیت ۲۔ باب ۱۳آیت ۳۔ باب ۱۴ آیت ۳۳۔ لوقا باب ۹ آیت ۲۸۔ باب ۲۲ آیت ۳۲۔
۱۰۔ لوقا (باب ۳ آیت۳۳)نے یوسف کو ہیلی کا بیٹا بتایاہے اور متی (باب ۱ آیت ۱۶)نے یوسف کو یعقوب کا بیٹا بتا یا ہے۔
۱۱۔ لوقا (باب ۲ آیت۴)نے مسیح کو دائود کی اولاد ناتھن سے لکھا ہے اور متی نے ناتھن کے بھائی سلیمان بادشاہ کی نسل سے اُسے قراردیا ہے۔۸۵؎
۱۲۔ متی کے نسب نامہ میں یوسف سے ابراہیم تک ۴۱ اشخاص کے نام ہیں اور لوقا کے نسب نامہ میں ۵۶ ۔اور پھر ہر دو شجرہ نسب کے ناموں میں کئی جگہ اختلاف پایا جاتا ہے۔
۱۳۔ لوقا کا خود اپنا کلام بھی مختلف معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ وہ اپنی انجیل کے باب ۲۴ آیت ۵۰۔۵۱ میں لکھتے ہیں کہ:۔
’’ مسیح اپنے شاگردوں کے سامنے بیت عنیا میں آسمان پر چلے گئے‘‘۔ لیکن یہی لوقا اپنی تصنیف اعمال میں لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ زیتون کے پہاڑپر ہوا تھا۔
۱۴۔ لوقا اپنی انجیل کے باب ۲۴ آیت ۲۱،۲۹،۳۶ اور ۵۱ میں لکھتے ہیں کہ جس روز مسیح جی اُٹھے تھے اُسی دن یا پہلی رات جو آئی تھی اُس میں آسمان پر چلے گئے۔ لیکن یہی لوقا اعمال باب ۱ آیت ۳ میں لکھتے ہیں کہ وہ جی اٹھنے کے چالیس دن بعد آسمان پر چلے گئے تھے۔
۱۵۔ متی باب ۱۰ آیت ۱۰ میں لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے حواریوں سے کہا کہ راستہ کے لئے نہ جھولی دو نہ کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی لو۔ لیکن مرقس باب ۶ آیت ۸،۹ میں لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے حواریوں کو حکم دیا کہ سفر کے لئے سوائے لاٹھی کے کچھ نہ لو۔ پھر لکھا ہے کہ جوتیاں پہنو۔ گویا متی کی روایت کے مطابق تو جوتی سے بھی منع کیا گیا تھا اور لاٹھی سے بھی۔ لیکن مرقس کی روایت کے مطابق لاٹھیاں لینے اور جوتیاں پہننے کاحکم تھا۔
انجیل میں بعض توہمات کا ذکر
انجیل کی تعلیم کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ توہمات سے بھی خالی نہیں۔چنانچہ :۔
ا۔ مرقس باب ۱ آیت ۱۲،۱۳ میں لکھا ہے:
’’ اور روح اسے فی الفور بیابان میں لے گئی اور وہ وہاں بیابان میں چالیس دن تک رہ کے شیطان سے آزمایا گیا اور جنگل کے جانوروں کے ساتھ رہتا تھا اور فرشتے اُس کی خدمت کرتے تھے‘‘۔
یہ واقعات بالکل وہم ہیں اور الٰہی سنت اِن امور کے بالکل خلاف ہے۔ اِس دنیا میں انسان انسانوں کے ساتھ ہی رہتا ہے نہ کہ جانوروں اور شیطانوں یا فرشتوں کے ساتھ۔ کیا کوئی عقلمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قانون پہلے اس دنیا کے لئے کچھ اور تھا اورا ب کچھ اور ہو گیا ہے۔ نہ تو اس دنیا میں شیطان کسی کے ساتھ ظاہری طور پر رہتے ہیں نہ فرشتے ظاہری طورپر خدمت کرتے ہیں۔ کشفی طور پر اِن نظاروں کا نظر آنا اور بات ہے۔ ایسے کشفی نظارے نہ صرف پہلے ہوتے تھے بلکہ اب بھی ہوتے ہیں اور میں خود اس معاملہ میں تجربہ رکھتا ہوں۔ لیکن یہ بات نہ پہلے ہوتی تھی نہ اب ہوتی ہے کہ انسان جانوروںمیںرہ رہا ہو بھیڑئیے اور شیر اُس کے اِردگرد بیٹھے ہوئے ہیں شیطان آتا ہے اور اُس کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور خدا کا وہ بندہ اُس کے پیچھے پیچھے پھرتا اور بلاوجہ اُس کے احکام کو مانتا چلا جاتا ہے اور کبھی کبھی اُس سے بغاوت بھی کر دیتا ہے۔اِسی طرح فرشتے آتے ہیں اُس کے لئے روٹی پکاتے ہیں، اس کے لئے ہنڈیا تیار کرتے ہیں، اس کے لئے پانی مہیا کرتے ہیں۔ کہانیوں کی کتابوں میں تو ایسی باتیں آسکتی ہیں لیکن مذہبی کتابوںکا ایسی باتوںسے کیا تعلق۔ اگر نیا عہد نامہ کپلنگ کی’’جنگل بک‘‘ کی طرح ہوتا یا الف لیلیٰ کی مانند ہوتا تو اس قسم کی باتیں قابل اعتراض نہ ہوتیں لیکن نیا عہد نامہ تو لوگوں کی مذہبی اور روحانی رہنمائی کیلئے ہے اِس میں اِس قسم کی کہانیوںکا کیا مطلب؟ ہم مسیح ناصری جیسے نیک اور پاک آدمی کی نسبت کسی صورت میں بھی یہ نہیں مان سکتے کہ اُس نے ایسی باتیں کہی ہوں۔ وہ خدا تعالیٰ کاایک برگزیدہ رسول تھا اور دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آیا تھا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایسا پاکیزہ انسان دنیا کو ایسی باتیں بتاتا جو اُس کو جادۂ اعتدال سے پھرا دیں اوروہم میں مبتلا کردیں۔ پس یہ باتیں یقینا بعد میں داخل کی گئی ہیں اور ان کی ذمہ داری مسیح پر نہیں اور نہ اُس کے حواریوں پر ہے بلکہ بعد میں آنے والے ایسے عیسائیوں پر ہے جن کی روحانیت مر چکی تھی اور جو لوگوں کی واہ وا کو صداقت اور راستی پر ترجیح دیتے تھے۔
(ب) مرقس باب ۵ آیت ۱ تا ۱۴ میں لکھا ہے۔
’’ اور وے دریا کے پار گدرینیو ں کے ملک میں پہنچے اور جونہی وہ کشتی سے اُترے وہیں ایک آدمی جس میں ایک ناپاک روح تھی قبروں سے نکلتے ہوئے اُسے ملا اور وہ قبروں کے درمیان رہا کرتا تھا اور کوئی اُسے زنجیروں سے بھی جکڑ نہ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ بار بار بیڑیوں اور زنجیروں سے جکڑ اگیا تھا۔ لیکن اُس نے زنجیروں کو توڑا اور بیڑیوں کے ٹکڑے ٹکڑے کئے اور کوئی اُسے قابو میں نہ لا سکا۔ وہ ہمیشہ رات دن پہاڑوں اور قبروں کے بیچ چلایا کرتااور اپنے تئیں پتھروں سے کاٹتا تھا۔ پر جونہی اُس نے یسوع کو دو رسے دیکھا دَوڑا اور اُسے سجدہ کیا اور بُری آواز سے چلا کے کہا۔ اے خدا تعالیٰ کے بیٹے یسوع! مجھے تجھ سے کیا کام ! تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں مجھے نہ ستا۔ کیونکہ اُس نے کہا تھا کہ اے ناپاک روح اِس آدمی سے نکل آ۔پھر اُس سے پوچھا تیرا کیا نام ہے؟ تب اُس نے جواب دیا کہ میرا نام تمن ہے اِس لئے کہ ہم بہت ہیں۔ پھر اُس نے اُس کی بہت منت کی کہ ہمیں اِس سرزمین سے مت نکال اور وہاں پہاڑوں کے نزدیک ایک سؤروں کا غول چرتا تھا۔ سو سب دیووں نے اُس کی منت کر کے کہا کہ ہم کو اِن سؤروں کے درمیان بھیج تاکہ ہم اُن میں بیٹھیں۔ یسوع نے انہیں فی الفور اجازت دی اور وے ناپاک روحیں نکل کر سؤروں میں بیٹھ گئیں اور وہ غول کڑاڑے پر سے دریا میں کودا اور وے قریب دو ہزار کے تھے جو دریا میں ڈوب کر مر گئے اور وے جو سؤروں کوچراتے تھے بھاگے اور شہر اور دیہات میں خبر پہنچائی۔ تب وے اِس ماجرے کو دیکھنے نکلے‘‘۔
اِن آیات میں اِس قدر وہم کی باتیں جمع کر دی گئی ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے۔ اوّل یہ کہ ایک شخص اتنا پاگل اور مضبوط تھا کہ کسی قسم کی زنجیریں اُس کو جکڑ نہیں سکتی تھیں۔ وہ ہر قسم کی زنجیریں توڑدیتا تھا۔ کیاکوئی انسان اِس قسم کا ہو سکتا ہے جو ہر قسم کی زنجیریں توڑ دے؟ ہاں یہ ممکن ہے کہ اُس زمانہ میں لوگوں کو زنجیریں بنانی نہ آتی ہوں اور وہ گھڑیوں کی زنجیروں جیسی کمزور زنجیروں سے لوگوں کو باندھتے ہوں۔
پھر لکھا ہے۔ وہ دیوانہ اپنے تئیں پتھروںسے کاٹتا تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص متواتر سالہا سال سے اپنے آپ کو پتھروں سے کاٹتا تھا اور پھر بھی وہ مرتا نہیں تھا۔
پھر لکھاہے۔ مسیح نے اُس شخص کو کہا کہ اے ناپاک روح! اِس آدمی میںسے نکل آ۔ یہ تو پہاڑی اور جاہل علاقوں کے خیالات ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ رسول کے خیالات۔ اگر اِس قسم کی بدروحیں لوگوں میں آیا کرتی تھیں تو اب کیوں نہیں آتیں؟ اور کون سے ایسے ذرائع ہیں جن سے ایسی بدروحوں کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ جس چیز کو آج ڈاکٹروں نے ’’ نیورس تھی نیا‘‘ یا ہسٹیریا یاجنون قرار دیا ہے اس کو پرانے زمانے کے نااقف لوگ بدروحیں قرارد یتے تھے۔ مگر انجیل یہ بتاتی ہے کہ حضرت مسیح ؑجیسا سنجیدہ اور استباز اور عقلمند انسان بھی ان جاہلوں کی طرح یہ کہتا تھا کہ مجنونوں کے اندر کوئی بدروح داخل ہو جاتی ہے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ۔ خدا تعالیٰ کے ایک راستباز پر یہ کتنا بڑا الزام ہے۔ اپنی تو ہم پرستی کو دنیا کے ایک عظیم الشان رہنما کی طرف منسوب کر دینا یقینا ایک بہت بڑا ظلم ہے مسیح خود ایسی بات نہیں کر سکتا تھا اور نہ اُس کے حواری ایسی بات کر سکتے تھے۔ یقینا یہ بعد کے جہال کی داخل کی ہوئی بات ہے جنہوں نے انجیل کو اُس کے حقیقی معیار سے نیچے گرادیا۔
پھر آگے چل کر اس وہم کو اور بھی پکا کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسیح نے بدروح سے اُس کا نام پوچھا تو اُس نے کہا ’’ میرا نام تمن ہے اِس لئے کہ ہم بہت ہیں‘‘۔ گویا ایک روح اتفاقی طور پر پیدا نہیں ہوگئی تھی بلکہ ایک بڑا جتھا روحوں کا اُس وقت پایا جاتا تھا۔
پھر یہ کہا گیا ہے کہ روح نے مسیح کی منتیں کیں کہ اِس سرزمین سے اُس کو نہ نکالیں لیکن جب مسیح نے نہ مانا تو سب دیووں نے اُس کی منت کر کے کہا کہ ہم کو اِن سؤروں کے درمیان بھیج تاکہ ہم اُن پر بیٹھیں۔ اِس پر یسوع نے فی الفور انہیں اجازت دی اور وے ناپاک روحیں نکل کے سؤروں میں بیٹھ گئیں اور وہ غول (یعنی سؤروں کا غول ) کڑاڑے پر سے دریا میں کودا اور وے قریب دو ہزار کے تھے جود ریا میں ڈوب کر مر گئے۔
اِن چند فقروں میں کتنا بڑا وہم اور کتنا ظلم موجود ہے۔ وہم تو یہ ہے کہ بدروحوں نے انسان میںسے نکل کر سؤروں میں جانے کی اجازت مانگی۔ اور ظلم یہ کہ مسیح نے دوسرے لوگوں کے سؤروں پر بد روحوں کو مسلط ہونے کی اجازت دی اور اس طرح ہزاروں روپیہ کا مال لوگوں کا ضائع کر دیا۔
سوال یہ ہے کہ جب وہ روحیں مسیح سے پوچھے بغیر آدمی کے جسم میں داخل ہو گئی تھیں تو سؤروں میںد اخل ہونے کے لئے انہیں کسی اجازت کی کیا ضرورت تھی؟ دوسرے یہ کہ سؤروں کا گلہ کسی کی ملکیت تھا۔ جنگلی سؤر تو اِس طرح دوہزار کے گلے کی صورت میں شہر کے پاس آکر نہیں پھرا کرتے۔ اتنی تعداد میں شہر کے قریب پھرنے والے سؤر تو کسی کی ملکیت ہوا کرتے ہیں۔ اِس پر سوال ہوتا ہے کہ کسی کی ملکیت کو تباہ کرنے کا مسیح کو کیا حق پہنچتا تھا؟ اگر کوئی کہے کہ خد اکے بیٹے کو سب چیزوں پر ملکیت کا حق حاصل ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خد ا تعالیٰ کو محبت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ا گر خد امحض اپنی ملکیت اعلیٰ سے حق کے طور پر انسان کی ملکیت کو تباہ اور بربادکر سکتا ہے تو پھر کونسا روحانی نظام دنیا میں کام کر رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا ثبوت کیا ہے؟ علاوہ ازیں اِس میں ایک اور عظیم الشان وہم کا بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ سؤروں میں جب یہ روحیں چلی گئیں تو وہ دریا میں کود کر مر گئے یہ عجیب بات ہے کہ وہ بد روحیں ایک انسان میں گئیں تو وہ دریا میں نہ کودا لیکن دو ہزار سؤروں میں گئیں تو وہ دریا میں کود کر مرگئے۔ پس یہ آیات وہم پر دلالت کرتی ہیں اور ظالمانہ مضامین ان کے اندر پائے جاتے ہیں اور کوئی عقلمند انسان جو مسیح کی عظمت کا قائل ہو وہ اِن آیات کو مسیح یا اُن کے حواریوں کی طرف منسوب نہیں کر سکتا۔ لازماً ماننا پڑتا ہے کہ یہ آیات بعد میں بنا کر انجیل میں داخل کی گئی ہیں۔
ج۔ انجیل میں لکھا ہے مسیح مردے زندہ کیا کرتے تھے اورمردے واپس شہر میں آکر داخل ہو جایا کرتے تھے۔ چنانچہ یوحنا باب ۱۱ آیت ۴۳۔۴۴ میں لکھا ہے اور وہ یہ کہہ کر بلند آواز سے چلایا کہ اے لعزر باہر نکل! تب وہ جو مر گیا تھا کفن سے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے نکل آیا اور اُس کا چہرہ گردا گرد رومال سے لپٹا ہوا تھا۔
اسی طرح لکھا ہے۔
’’ دیکھو ہیکل کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ گیا اور زمین کانپی اور پتھر تڑک گئے اور قبریں کھل گئیں اور بہت لاشیں پاک لوگوں کی جو آرام میں تھے اُٹھیں اور اُٹھنے کے بعد قبروں سے نکل کر اور مقدس شہر میں جا کر بہتوں کو نظر آئیں‘‘۔۸۶؎
کیا کوئی عقلمند اِن باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ اگر مردے پہلے زندہ ہوتے تھے تو اب کیوں نہیں ہوتے؟ اگر کہو کہ یہ مسیح کی علامت تھی تو یہ غلط ہے۔ مسیح کہتے ہیں اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو تو جو نشانات میں نے دکھائے ہیں اُن سے بہتر نشانات تم دکھا سکتے ہو۔ چنانچہ یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۲۔۱۳ میں لکھاہے:۔
’’میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا اور اُن سے بھی بڑے کام کرے گا۔ کیونکہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور جو کچھ تم میرے نام سے مانگو گے وہی کر وںگا تاکہ باپ بیٹے میں جلال پاوے۔ اگر تم میرے نام سے کچھ مانگو گے تو میں وہی کروں گا‘‘۔
مگر کیا اِس پیشگوئی کے مطابق اب بھی عیسائی مردوں کو زندہ کرتے ہیں؟
د۔ متی باب ۱۴ آیت ۲۵ تا ۲۷ میں لکھا:۔
’’ اور رات کے پچھلے پہر یسوع دریا پر چلتاہوا اُن کے پاس آیا۔ جب شاگردوں نے اسے دریا پر چلتے دیکھا وے گھبرا کے کہنے لگے یہ بھوت ہے اور ڈر سے چلائے۔ وہیں یسوع نے انہیں کہا کہ خاطر جمع رکھو میں ہوں۔ مت ڈرو‘‘۔
یہ بھی ایک وہم ہے جس کا انجیل میں ذکر کیا گیا، ورنہ پانی پر کون چل سکتا ہے۔
ہ۔ لوقا باب ۱۱ آیت ۲۴ تا ۲۶ میں لکھا ہے:۔
’’ جب ناپاک روح آد می سے باہر نکلتی ہے تو سوکھی جگہوں میں آرام ڈھونڈتی ہے اور جب نہیں پاتی تو کہتی ہے کہ میں اپنے گھر کو جس سے نکلی ہوں پھر جائوںگی اور یہ کہ اسے جھاڑا ہوا اور آراستہ پاتی ہے تب جاکے اَور سات روحیں جو اُس سے بدتر ہیں اپنے ساتھ لاتی ہے اور وے اس میں داخل ہوکے وہاں بستی ہیں اور اُس آدمی کا پچھلا حال پہلے سے بُرا ہوتا ہے‘‘۔
یہ کیسے وہمی خیالات ہیں۔ اوّل یہ بیان کر نا کہ ناپاک روح آدمی میں سے نکل کر سُوکھی جگہ میں آرام ڈھونڈتی پھرتی ہے اور پھر سات اَور گندی روحیں لے کر واپس آجاتی ہے۔ کیا کوئی عقلمند انسان اِن باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ اور کیا اِن باتوں کو حضرت مسیح اور خدا کے کلام کی طرف منسوب کرنا جائز ہو سکتا ہے؟ جھوٹ بہت ہی بُری چیز ہے اوروہم بھی ایک نہایت گندی مرض ہے۔ لیکن جھوٹ اور وہم کو خدا تعالیٰ کے نبیوں اور خدا تعالیٰ کے کلام کی طرف منسوب کرنا تو اور بھی ظالمانہ فعل ہے اور انجیل کے نادان دوستوں نے اِس جرم کا ارتکاب کر کے اُسے دنیا کی ہدایت دینے والی کتابوں سے ہمیشہ کے لئے نکال دیا ہے۔
انجیل کی خلافِ اخلاق باتیں
ا۔ مرقس باب ۱۱ آیت ۱۲ تا ۱۴ میں لکھا ہے:
’’ صبح کو جب وہ بیت عنیاہ سے باہر آئے تو اُس کو بھوک لگی اور دور سے انجیر کا ایک درخت پتوں سے لدا ہوا دیکھ کے وہ گیا کہ شاید اس میں کچھ پاوے۔ جب وہ اُس پاس آیا تو پتوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا۔ تب یسوع نے اُس سے خطاب کر کے کہا کہ کوئی تجھ سے پھل نہ کھاوے‘‘۔
اِس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ:۔
(الف) مسیح باوجود یکہ ایک ایسے ملک کے رہنے والے تھے جہاں انجیر کثرت سے ہوتی ہے مگر وہ ایسے ناواقف تھے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ انجیر کے درخت کو کب پھل لگتا ہے۔
(ب) وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ ایسے بد اخلاق تھے کہ بجائے اپنی غلطی پر شر مندہ ہونے کے انہوں نے ایک بے جان درخت کو بد دعا دی اور کہا کہ آئندہ کوئی تجھ سے کبھی پھل نہ کھاوے۔ ہم مسلمان جو مسیح کی خدائی کے قائل نہیں انہیں خد اکا ایک نبی مانتے ہیں ہم بھی تو ان سے ایسی بد تہذیبی کے ارتکاب کو تسلیم نہیں کرسکتے۔ پھر تعجب ہے ان لوگوں پر جو اُن کو خدا کا بیٹا بناتے ہیں اور اخلاق کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں اور پھر بھی انجیل میں ایسی باتیں ان کے متعلق پڑھتے ہیںاور انہیں برداشت کر لیتے ہیں اور اُن کے دل میں یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ یہ باتیں مسیح نے کبھی نہیں کہی ہو ںگی بلکہ دوسرے لوگوں نے اُن کی طرف منسوب کر دی ہوںگی۔
آجکل کے بعض پادری اس حوالہ کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہودی قوم اب پھل دینے کے ناقابل ہو گی اس لئے آئندہ یہودیوں میں سے کوئی نیک پھل پیدا نہیں ہو گا۔ لیکن کیا کوئی شخص جو علمِ ادب سے ذرا بھی حصہ رکھتا ہو اِس عبارت کے ایسے معنی کر سکتا ہے؟ کیا انجیر کے درخت سے یہودیوں کو تمثیل دینے کیلئے اِس بات کی بھی ضرورت تھی کہ مسیح اُس وقت انجیر کے درخت کے پاس جائے جب اُسے بھوک لگی ہو۔ پھر اُس درخت کے پاس جائے جس میں پتے موجود تھے اور پھر راوی اُس کے متعلق یہ الفاظ بھی کہے کہ مسیح اِس لئے اُس درخت کے پاس گیا تھا کہ شاید اُس میں کچھ پاوے۔مگر جب وہ اس کے پاس پہنچا تو پتوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا۔ مسیح کا بھوک لگنے پر درخت کے پاس جانا اورایسے درخت کے پاس جانا جس میں پتے لگے ہوئے تھے اور اس امید کے ساتھ جانا کہ اس سے پھل ملے گا جیسا کہ فقرہ’’ شاید اُس میںکچھ پاوے‘‘ سے ظاہر ہے اور پھر راوی کا یہ کہنا ’’ کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا‘‘ صاف بتاتا ہے کہ کسی تمثیل کے لئے مسیح اُس درخت کے پاس نہیں گیا تھا بلکہ اپنی بھوک کو دُور کرنے کیلئے گیا اور ایسے موسم میں گیا جبکہ ممکن تھا کہ درخت میں پھل لگا ہوا ہوتا۔ مگر ابھی پورا وقت نہیں آیا تھا یا شاید اس درخت میں پھل عام موسم سے ذرا دیر میں لگتا تھا یا شاید اُس کی بیماری کی وجہ سے اس درخت میں پھل ہی نہیں لگتا تھا۔ اس پر مسیح ناراض ہو گیا اور اس درخت پر *** کی۔
کیا درختوں، دریائوں، پہاڑوں اور پتھروں کو *** کرنے والے انسان معقول اور بااخلاق انسان سمجھے جاتے ہیں؟ کیا انجیل میں تبدیلی کرنے والا انسان یہ خیال کرتا تھا کہ مسیح جیسے شریف انسان کو آنے والی دنیا ایسے بُرے اخلاق سے متصف سمجھ لے گی؟ عیسائی تو بیشک اُس کے دھوکا میں آگئے مگر ہم مسلمان یہ باتیں کبھی مسیح کی طرف منسوب نہیں کر سکتے۔ اس لئے نہیں کہ مسیح کی شخصیت دوسرے نبیوں سے نرالی تھی بلکہ اس لئے کہ کسی شریف انسان سے بھی ہم ایسی اُمید نہیں کر سکتے خواہ وہ نبی نہ بھی ہو۔
۲۔ متی باب ۷ آیت ۶ میں لکھا ہے:۔
’’ وہ چیز جو پاک ہے کتوں کو مت دو اور اپنے موتی سؤروں کے آگے نہ پھینکو۔ ایسا نہ ہو کہ وے انہیں پامال کردیں اور پھر کر تمہیں پھاڑیں‘‘۔
یہ چیز جسے پاک اور موتی قرار دیا گیا ہے خدا تعالیٰ کی وحی اور اس کے نشانات ہیں اور کتے اور سؤر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اُس وقت تک حضرت مسیح پر ایمان نہ لائے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کے نشانات پاکیزہ چیزوں سے بھی پاک ہیں اور موتیوں سے بھی زیادہ قیمتی ہیں۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک چیزیں اور موتی ایسے ہی لوگوں کے لئے آتے ہیں جن کو ایمان نصیب نہیں ہوتا۔ کیا خدا تعالیٰ کے نبی اِن لوگوں کو ایمان دینے کے لئے آتے ہیں جو پہلے سے مؤمن ہوتے ہیں؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ کبھی بھی خدا تعالیٰ کے نبی ایسے زمانہ میں نہیں آئے جب دنیا مؤمن تھی ہمیشہ تاریکی اور ظلمت کے زمانہ میں خدا کے نبی آیا کرتے ہیں اور اُ ن کا کام یہی ہوتا ہے کہ دنیا کے بھولے بھٹکوں کو راہِ ہدایت کی طرف لائیں۔ دنیا کی بھولی ہوئی روحیں اُن کا مقصود ہوتی ہیں اور دنیا کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو ہدایت دینا ہی اُن کا مدعا ہوتا ہے۔ کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ خدا کا پیارا اُن کو کتا اور سؤر قرار دے، محض اس جرم پر کہ ابھی تک ہدایت اُن پر ظاہر نہیں ہوئی؟ اور کیا خدا کا نبی یہ کہہ سکتا ہے کہ اُن کے آگے خدا کی تعلیمیں پیش نہ کرو کیونکہ وہ اُن کو پائوں تلے روندیں گے؟ا گر خدا تعالیٰ کے نشانات نہ ماننے والے کے سامنے پیش نہ کئے جائیں تو وہ اُن کو قبول کس طرح کریں گے اور دنیا ہدایت کی طرف آئے گی کیونکر؟ پس یہ مسیح پر بہت بڑا الزام ہے کہ جن لوگوں کی ہدایت کے لئے اُسے بھیجا گیا تھا اُنہی کو اُس نے کتے اور سؤر قرار دیا۔کسی شرارت کی وجہ سے نہیں، کسی خاص معاندانہ فعل کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اِس لئے کہ اب تک اُن پر صداقت ظاہر نہ ہوئی تھی۔
اِس کے مقابلہ میں ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلاَّیَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۸۷؎ اے ہمارے رسول! تُو اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے اِس لئے کہ کافر لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے۔ کیا ہی زمین و آسمان کا فرق ہے اِن دونوں مدعیانِ ہدایت و ارشاد میں کہ ایک تو ایمان نہ لانے والوںکے غم میں اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے اور دوسرا اپنے حواریوں کو حکم دے رہا ہے کہ اِن کتوں اور سؤروں کی پرواہ نہ کرو اور اِن کو خدا تعالیٰ کا کلام مت پہنچائو۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عالی اخلاق کی وجہ سے تمام انبیاء سے بڑھ کر تھے مگر میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ حضرت مسیح اخلاق سے اتنا گرے ہوئے تھے۔ بیشک وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو نہیں پہنچے تھے مگر وہ خدا کے نبی تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے اخلاق اور روحانیت سکھانے کے لئے لوگوں کی طرف آئے تھے اور یقینا اُن کا نمونہ لاکھوں کروڑوں لوگوں سے اچھا تھا۔ افسوس ہے اُس شخص پر جس نے ایسی بُری بات مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کی۔ اِس سلسلہ میں اُس کنعانی عورت کا واقعہ بھی نہیں بھلایا جاسکتا جس کاذکر متی باب ۱۵ آیت ۲۱ تا ۲۶ اور مرقس باب ۷ آیت ۲۴ تا ۲۷ میں آتا ہے۔ اُس عورت نے نہایت عاجزی سے مسیح سے عرض کی اور اپنے قومی رواج کے مطابق اُسے سجدہ بھی کیا اور اُس سے صرف اتنا چاہا کہ وہ اُس کو بھی اپنی لائی ہوئی ہدایت سے روشناس کرے۔ مگر مسیح نے بقول انجیل یہ جواب دیا کہ:۔
’’ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو پھینک دیں‘‘۔
وہ مسکین عورت کس اشتیاق اور تمنا کے ساتھ مسیح کے پاس آئی ہوگی۔ اس لئے نہیں کہ وہ اُس سے روٹی مانگے، اِس لئے نہیں کہ وہ اُس سے کپڑا مانگے، اس لئے نہیں کہ وہ اُس سے پانی مانگے، وہ صرف اتنا چاہتی تھی کہ اُس کو کوئی ایسا رستہ بتا دیا جائے جس سے وہ اپنے خدا سے مل سکے۔ وہ اُسی چیز کو طلب کرنے آئی تھی جس کے دینے کا مسیح مدعی تھا۔ مگر موجودہ اناجیل کہتی ہیں مسیح نے اُسے دُھتکار دیا۔ ایک طاقتور اور قوی مرد نے ایک کمزور اور مسکین عورت کو منہ در منہ کہہ کر اُس کی تذلیل کی۔ کیا اِس حوالہ سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح نے اُس کنعانی عورت کی تذلیل نہیں کی بلکہ جنس نسوانی کی تذلیل کر کے اپنی نسبت یہ ثابت کر دیا کہ وہ مسکین عورتوں کا رہنما نہیں ہے اور یہودی نسل کااِس قدر دلدادہ ہے کہ یہودی کنچنیوں سے اپنے پائوں پر عطر ملوانا پسند کرتا ہے لیکن غیر یہودی عورت کو ہدایت دینا پسند نہیں کرتا۔۸۸؎
اگر عیسائی دنیا اِس حوالہ کو تسلیم کرتی ہو تو بیشک کرے مگر میں کبھی مان نہیں سکتا کہ حواریوں نے اُس کی نسبت ایسا کہا ہو۔ میرے نزدیک یہ باتیں بعد کے لوگوں نے اپنے پاس سے بنائی ہیں اور ایسے وقت میں بنائی ہیں جبکہ مسیح کی حقیقی حیثیت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو چکی تھی۔ اصلی مسیح دنیا سے غائب ہو چکا تھا اور ایک خیالی مسیح اُس زمانہ کے نادان اور دین سے ناواقف لوگ بنا رہے تھے۔
۳۔ یوحنا باب ۲ آیت ۱ تا ۴ میں لکھا ہے:۔
’’ اور تیسرے دن قانائے جلیل میں کسی کا بیاہ ہوا اور یسوع کی ماں وہاںتھی اور یسوع اور اُس کے شاگردوں کی بھی اُس بیاہ میں دعوت تھی اور میَ گھٹ گئی۔ یسوع کی ماں نے اُس سے کہا کہ اُن کے پاس میَ نہ رہی۔ یسوع نے اُس سے کہا ’’ اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام‘‘!
اِسی طرح متی باب ۱۲ آیت ۴۷۔ ۴۸ میں لکھا ہے:۔
’’ کسی نے اس سے کہا کہ دیکھ تیری ماں او ر تیرے بھائی باہر کھڑے تجھ سے بات کیا چاہتے ہیں۔ پر اُس نے جواب میں خبر دینے والے سے کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی‘‘۔
یوحنا اور متی کے یہ دونوں حوالے بتاتے ہیں کہ مسیح اس سب سے قوی رشتہ کی بھی پرواہ نہیں کرتا تھا جس کی عزت و احترام ہر شریف انسان کا کام ہے۔ کیا آج مسیحی دنیا میں کوئی شریف انسان ماں سے کہہ سکتا ہے کہ ’’ اے عورت! مجھے تجھ سے کیا کام‘‘ اور کیا آج مسیحی دنیا میں یہ کہہ کر کہ ’’ کون ہے میری ماں اور کون ہیںمیرے بھائی‘‘ شریفوں میں گنا جا سکتا ہے؟ پھر کیا مسیح کی ہی مقدس ذات اِس تمسخر کے لئے باقی رہ گئی تھی کہ انجیل اس کی طرف ایسی بات منسوب کرتی ہے؟ ماں کا ادب تو ادنیٰ قوموں میں بھی پایا جاتا ہے یہ اُن اخلاق میںسے ہے جن کی ذلیل ترین انسانوں سے بھی امید کی جاتی ہے۔ مگر بنی اسرائیل کا وہ آخری تاجدار، موسوی سلسلہ کا وہ آخری ہیرو جو اپنی قوم کو تاریکی اور ظلمت سے نکالنے اور اسے بااخلاق بنانے کے لئے آیا تھا اُس کی نسبت موجودہ اناجیل ہم سے منوانا چاہتی ہیں کہ اُس نے اپنی ماں کے ساتھترش روئی کی اور اُس کے متعلق گستاخانہ رویہ اختیار کیا۔ عیسائی کہتے ہیں وہ خد اکابیٹا تھا، وہ انسان تھاہی نہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ اگر مسیح کی اصل شان خدا کا بیٹا ہوناہی تھی تو وہ مریم کے گھر میں کیوں پیدا ہوا تھا، اگر مریم کے گھر میںپیدا ہونے کی حالت اُس نے اپنے لئے پسند کر لی اور نو مہینہ تک مریم کو اُن تکالیف میں مبتلا رکھا جن تکالیف کو مائیں حمل کے ایام میں برداشت کیا کرتی ہیں، اگر خدا کے بیٹے نے دو سال تک مریم کی چھاتیوں سے دودھ پینے کی تکلیف گوارا کر لی، اگر اُس نے کئی سال اپنی تربیت اور خبر گیری کا بوجھ اُس پر ڈالا تو کیا وہ یہ بھی ذمہ داری اپنے اوپر نہیںلے سکتا تھا کہ اُس عورت کو جسے اُس نے اپنی ماں بننے کا موقع دیا ادب و احترام کے ساتھ یاد کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف مسیحی دنیا کے عذرات ہیں۔ اُن کے دلوں میں مسیح کی اتنی محبت نہیں ہے جتنی کہ انہیں محرف و مبدل انجیلوں کی پچ ۸۹؎ہے کیونکہ وہ انجیلیںاُن کی بنائی ہوئی ہیں اور مسیح خداتعالیٰ کی مقدس مخلوق تھا۔ پس وہ سیدھا رستہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں کہ انجیلوں کی غلطی کا اقرار کریں مگر اس بات پر آمادہ ہوجاتے ہیںکہ مسیح کو بدنام ہونے دیں۔ لیکن دنیا کے تمام معقول انسان جنہوں نے مسیح کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور اس کی قوتِ قدسیہ کو پہنچاننے کی کوشش کی ہے وہ اِس امر کا اقرار کئے بغیر نہیںرہ سکتے کہ موجودہ اناجیل بگڑی ہوئی ہیں، غلط ہیں اور ایسے امور پر مشتمل ہیں جو روحانیت کے قریب نہیں کرتے بلکہ روحانیت سے دور پھینک دیتے ہیں اور یقینا ان کی اِس حالت کے بعد خدا کی طرف سے ایک نئے الہام کی ضرورت تھی جواِس قسم کی غلطیوں سے پاک ہو اور بنی نوع انسان کو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ روحانیت کی طرف لے جائے اور وہ کتاب قرآن کریم ہے۔

ویدوں میں تحریف و تبدیل کا ثبوت
تیسرا مذہب جو اپنے ماننے والوں کی تعداد کے لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے، ہندو مذہب ہے۔ قرآنی تعلیم کے مطابق ہمارا یقین ہے کہ ہندو مذہب کی بنیاد بھی الٰہی الہام کے ذریعہ پڑی ہے اور چونکہ اِس مذہب والوں کے نزدیک وید ہی شرعی کتاب ہے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہی الہام اُس کے نبیوں پر نازل ہوا تھا لیکن اِس کتاب کی موجودہ حالت یہ ہے کہ جن لوگوں پر یہ کتاب نازل ہوئی تھی اُن کے نام تک معلوم نہیں، وید منتروں کے شروع میں بعض لوگوں کے نام درج ہیں لیکن اُن کے متعلق خود ہندو علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ وہ نہیں جن پر الہام ہوا تھا بلکہ ویدوں کے جمع کرنے والے تھے۔ ایسی صورت میں ویدوں کی تاریخی حیثیت کچھ باقی نہیں رہتی۔ ویدوں کے علماء کی ویدوں کے متعلق مندرجہ ذیل رائیں ہیں:
۱۔ پنڈت ویدک منی صاحب اپنی کتاب ’’ وید سروسو‘‘ کے صفحہ ۹۷ پر لکھتے ہیں:۔
’’ حقیقت میں جس قدر بُری حالت اِس اتھرووید کی ہوئی ہے اتنی اور کسی وید کی نہیں ہوئی۔ سائن آچاریہ کے بعد بھی کئی سُو کت اِس میں ملا دئیے گئے ہیں۔ ملانے کا ڈھنگ بہت اچھا سوچا گیا ہے۔ وہ یہ کہ پہلے اُس کے شروع اور آخر میں ’’ اتھ‘‘ (شروع) اور ’’اِتی‘‘ (ختم) لکھ دیا جاتا ہے۔ جب دیکھا کسی نے پوچھا تک نہیں تب شروع آخر میں اتھ اِتی لکھنا بند کر دیا جاتا ہے بس صرف اتنے سے وہ ( یعنی اضافہ) سنہتا(ویدک مجموعہ) میں مل جاتا ہے، جیسے رگوید سنہتا میں بالکھلیتہ سُوکت ملائے جارہے ہیں ویسے ہی اتھرووید کے آخر میں آجکل کنتاپ سُوکت ملائے جار ہے ہیں۔ اگر پوچھا جائے کہ پانچویں انوواک سے لے کر کنتاپ سُوکتوں سمیت جتنے سُوکت اتھروید میں ملائے جار ہے ہیں وہ کہاں سے آئے تو کوئی جواب نہیں ملتا۔ جہالت کا اتنا دور دورہ ہے کہ آخر میں اتھرووید سنہتا سماپتا لکھا ہوا دیکھ کر ہی یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ بس جو کچھ اِس خاتمہ تک چھپا ہو ایا لکھا ہوا ہے وہ سب اتھرو وید سنہتا ہے یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ چھاپنے والا یا لکھنے والا کون اور کتنی قابلیت رکھتا ہے۔‘‘
۲۔ پنڈت مہیش چندر پرشادبی۔ اے سنسکرت ساہتیہ کا اتہاس جلد دوم کے صفحہ ۱۶۰ پر لکھتے ہیں:ـ
’’ واجنئی شکل یجر وید سمہتا بالکل نئی طرز پر ہے۔ اِس میں وید اور برہمن بھاگ (حصے) الگ الگ پائے جاتے ہیں۔ اس میں چالیس ادھیائے ہیں۔ مگر لوگوں کا وشواش ہے کہ اِن میں ۱۸۔ اصل ہیں اور باقی بعد میں ملائے گئے ہیں۔ ادھیائے اسے ۱۸ تک کا بھاگ تیئستری سنہتاو کرشن یجر روید کے نظم و نثر سے مطابقت رکھتا ہے۔ اِن ۱۸ ادھیائوں کے ہر ایک لفظ کی تشریح اُس کے براہمن میں ملتی ہے۔ مگر باقی ۱۷ ادھیائوں کے صرف تھوڑے تھوڑے منتروں پر ہی اس میں ٹپنی ( حواشی ) پائی جاتی ہے۔ کاتیائن نے ادھیائے ۲۶ سے ۳۵ تک کو کھل ( ملاوٹ )کے نام سے لکھاہے۔ ادھیائے ۱۹ سے ۲۵ میں بھی یگیہ کے طریقوں کا ذکر ہے۔ یہ تیئستری سنہتا سے نہیں ملتے۔ ۲۶ سے لے کر ۲۹۔ ادھیائوں تک کچھ خاص طور پر انہی یگیوں کے متعلق منتروں کا ذکر ہے جس کے بارہ میں پہلے ادھیائوں میں بیان ہے اور اِس سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ضرور بعد میں دئیے گئے ہیں‘‘۔
۳۔ پنڈت شانتی دیو شاستری رسالہ گنگا فروری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۳۲ پر لکھتے ہیں:۔
’ـ’ پہلے تو آج تک یہ بھی فیصلہ نہیں ہو اکہ وید چار ہیں یا تین۔ منوسمرتی اور شت پتھ براہمن کی رو سے رگوید، یجروید اور سام وید۔ یہ تین وید ہیں اور واجنئی اپنشد براہمنو اپنشد اور منڈک اپنشد کی روسے چار وید ہیں‘‘۔
۴۔ پنڈت ہردے نر ائن ایم۔ ایس ۔ سی رسالہ گنگا بابت ماہ جنوری ۱۹۳۱ء میںلکھتے ہیں:۔
’’ شونک رشی کے چرن دیوہ وغیرہ تصانیف میں وید منتروں اور اُن کے لفظوں اور حرفوں تک کی جو گنتی دی ہوئی ہے وہ موجودہ ویدوں میں نہیں ملتی۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ویدوں میں کئی منتر ملائے گئے ہیں اور کئی نکالے گئے ہیں‘‘۔
۵۔ پنڈت شانتی ویوشاستری رسالہ گنگا بابت ماہ فروری ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۳۱ پر لکھتے ہیں:۔
’’ جس وقت شونک رشی کاچرن دیوہ تصنیف ہوااُ س وقت شاکل سنہتا (رگوید) کے ایک لاکھ ۵۳ ہزار آٹھ سَو چھبیس لفظ، چار لاکھ ۳۲ ہزار حروف اور دس ہزار چھ سَو بائیس منتر تھے مگر آجکل گنتی کرنے پر یہ تعداد نہیں ملتی‘‘۔
۶۔ ڈاکٹر تارا پدچودہری ایم اے۔ پی ۔ا یچ۔ ڈی پروفیسر پٹنہ کالج رسالہ گنگا کے وید نمبر بابت ماہ جنوری ۱۹۳۲ء کے صفحہ ۷۴ پر لکھتے ہیں:۔
’’ ان کے علاوہ (ویدوں میں) ایسے الفاظ بھی ہیں جن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشدھ پاٹھ ( غلط متن) معلوم ہوتا ہے کہ بولنے والوں اور لکھنے والوں کی خامیوں کے باعث کئی قسم کی غلطیاں واقع ہو گئی ہیں‘‘۔
۷۔ پنڈت ویدک منی جی اپنی کتاب وید سروسو کے صفحہ ۱۰۵و۱۰۶ پر لکھتے ہیں:۔
’’ گوپتھ براہمن کا زمانۂ تصنیف عین وہ زمانہ ہے جبکہ یگوں کا عروج تھا۔ اُس زمانہ رگویدی ، یجر ویدی، سام ویدی اور اتھروویدی ایک دوسرے سے اینٹھے ہوئے تھے اور مختلف قسم کے فرائض اور من گھڑت طریقوں سے یگ وغیرہ کرنے میں محو تھے اور ان میں سے جس جس کو رگوید کے جس قدر منتر مطلوب تھے وہ اُس اُس نے اپنے اپنے وید میں شامل کر لئے تھے اور ہر ایک اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا تھا اور دوسروں سے نفرت کرتا تھا۔ یہی نہیں بلکہ شاکھا بھید ( نسخوں) کے اختلاف کے باعث رگویدی رگویدی سے یجر ویدی یجر ویدی سے۔ سام ویدی سام ویدی سے اور اتھروویدی اتھروویدی سے بھی الگ ہوگیا۔ واشکل سنہتا والا شاکل سنہتا ( یہ رگ وید کے د ومختلف نسخوں کے نام ہیں) مادھنیدن سنہتا والا کانو سنہتا( یہ یجرویدی کے دو مختلف نسخوں کے نام ہیں) کؤتھم سنہتا والا رانائنی سنہتا( یہ سام وید کے دو مختلف نسخوں کے نام ہیں) اور شونک سنہتا والا پیلاد سنہتا ( یہ اتھرو وید کے د ومختلف نسخوں کے نام ہیں) کے پاٹھ ( متن) کو سب سے اعلیٰ اور خالص اور دوسری شاکھا (نسخے) کے متن کو قطعی بُرا اور غلط کہتا تھا۔ آج جو وید کے مختلف نسخوں میں طرح طرح کے اختلافات نظر آتے ہیں یہ اکثر اُسی بُرے زمانہ میں جنم پائے ہوئے ہیں‘‘۔
۸۔ اسی کتاب کے صفحہ ۱۰۸ پر لکھا ہے:۔
’’اِن کے علاوہ براہمن گرنتھوں کا بھی بہت سا حصہ ان ( ویدوں) میں شامل ہے،جو پڑھنے سے فوراً معلوم ہو جاتا ہے۔ اتھر ووید کی بھی یہی حالت ہے۔ ودوانوں (علماء) کو اِس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ دینی کتاب کی ایسی حالت افسوسناک ہے‘‘۔
۹۔ پھر اس کتاب کے صفحہ ۱۰۹ پر لکھا ہے:۔
’’ یہ پہلے کہا جاچکا ہے کہ اِس وقت اتھرووید کی صرف دو شاکھا سنہتا (مختلف نسخے) ملتے ہیں۔ ایک پیلا د سنہتا اور دوسری شونک سنہتا ۔ دونوں میں پپلاد زیادہ لائق تسلیم ہے، لیکن وہ چھپی نہیں اور نہ ہی اُس پر سائن آچاریہ نے تفسیر کی ہے۔ دوسری شونک سنہتا چھپی ہوئی ملتی ہے جس کے تین ایڈیشن مختلف پریسوں میں چھپے ہوئے ملتے ہیں۔ جن میں دو مول ( صرف متن) اور ایک سائن اچاریہ کی تفسیر کے ساتھ چھپی ہے۔د ونوں مول میںسے ایک ویدک پریس اجمیر کی اور دوسری بمبئی پریس کی چھپی ہوئی ہے۔ اس کا چھاپنے والا سیوک لال ہے۔ تینوں میں سُوکتوں (بابوں) اور منتروں کا اختلاف ہے‘‘۔
بعض آریہ سماجی عالموں نے اِس اختلاف کو مٹانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اپنی کوششوں میں ناکام رہے ہیں۔ چنانچہ آریہ سماجی عالم پنڈت رگھونندن شرما ساہتیہ بھوشن ویدک سمپتی صفحہ ۵۷۰ و ۵۷۱ پر ا س اختلاف کی اہمیت کو کمزور کرنے کے لئے لکھتے ہیں:۔
’’ جہاں تک ہمیں علم ہے اب تک اِس قسم کا کوئی ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے معلوم ہو کہ ویدوں میں فلاں جگہ ملاوٹ ہے جس کو آج تک کوئی نہیںجانتا تھا۔ جن مقامات میں ملاوٹ بتائی جاتی ہے وہ بہت دنوں سے ( براہمن گرنتھوں کی تصنیف کے زمانہ سے) سب کو معلوم ہے ۔ وہ ملاوٹیں نہیں بلکہ ایک قسم کے ضمیمے ہیں جو کاتبوں اور پریس والوںکی غفلت کی وجہ سے اصل متن میں گھس کر متن جیسے ہی معلوم ہوتے ہیں۔ بال کھلیہ سُوکت رگوید میں ( یہ ۱۱ سُوکت یعنی باب ہیں جن میں ۸۰ منتر ہیں) کھل یعنی براہمن بھاگ یجروید میں (یہ بھی کئی باب ہیں آرنیک اور سہانا منی سوکت سام وید میں )( یہ دو باب۶۵ منتر ہیں) اور گنتاپ سُوکت اتھرووید میں ملے ہوئے ہیں ( یہ اکھٹے دس سُوکت یعنی باب ہیں جن میں ۱۵۰ منتر ہیں) اور ان کو سبھی جانتے ہیں اور ان سب کے متعلق مفصل ثبوت بھی موجود ہیں۔ اِن کے علاوہ کچھ مقامات یجروید اور اتھرووید میں اور بھی ہیں جن کا علم ان فقروں اور منتروں کے پڑھنے سے ہو جاتا ہے کہ وہ ملاوٹی ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شاکھائوں ( وید کے مختلف نسخوں) کی گڑبڑ کا سب کو علم ہے…اور شدھ ویدک شاکھائیں موجود ہیں اِس طرح ملاوٹی حصہ کا بھی سب کو علم ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ واجنی ٔ (یجروید کے مروّج نسخہ) کے منتروں کی تعدا د ۱۹۰۰ ہے جن میں شکری کے منتر ملے ہوئے ہیں۔ کیونکہ لکھا ہے …یعنی سَوکم دوہزار منتر واجنی ٔ کے ہیں اور انہی میں شکری کے بھی شامل ہیں۔ جب یہ واجنی ٔ سنہتا ہے تب اِس میں منتر واجنی ٔ کے ہونے چاہئیں شکری کے نہیں۔ لیکن ہم دیکھتے ہیںکہ موجودہ واجنی ٔسنہتا کے منتروں کی تعداد ۱۹۷۵ء ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوجاتاہے کہ شکری کے منتر ۱۹۰۰ میں ہی گھسے ہیں اور باقی ۷۵ منتر کہیں باہر سے لا کر جوڑے گئے ہیں‘‘۔
ظاہر ہے کہ یہ بیان ویدوں کو تحریف سے بَری نہیں کرتا بلکہ انہیں تحریف کا اقرار کراتا ہے۔ اِن حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ ویدوں کے پُرانے اور جدید علماء سب اِس بات پر متفق ہیں کہ ویدوں میں دوسرے لوگوں کے منتر بھی شامل ہو گئے ہیں۔ یہ کہنا کہ براہمنوں نے دریافت کر لیا تھا کہ فلاں منتر بناوٹی ہے اور فلاں اصلی ، یہ ایک بے معنی چیز ہے۔ اگر وید کے علماء کو یقین ہو گیا ہے کہ فلاںفلاں منتر بناوٹی ہے تو اُن کو نکال کیوں نہیں دیا۔ ان کا ویدوں کے اندر رکھنا بتاتا ہے کہ ویدوں کے علماء کو یقین نہ تھا۔ چنانچہ آریہ سماج کے مصنف نے آخر میں یہی لکھ دیا ہے کہ یجروید کے ۱۹۰۰ منتر اصلی ہیں باقی ۷۵ منتر کہیں باہر سے لا کر جوڑے گئے ہیں۔ اور ان ۱۹۰۰ کے متعلق بھی لکھ دیا ہے کہ ان میں بھی کچھ شکری کے منتر ہیں’’ باقی‘‘ اور’’کچھ‘‘ کے الفاظ بتاتے ہیںکہ حقیقت کسی کو بھی معلوم نہیں۔ ساری بنیادو ہم و قیاس پر رکھی جاتی ہے۔ مگر کیا واہمہ پر رکھی ہوئی بنیاد روحانیت کو کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ سے اتھرووید کی اصلیت کے متعلق شبہ پیدا ہوتا چلا آیا ہے اور یجروید اور رگ وید بھی اِسی طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ اِدھر کے منتر اُڑا کر کسی نے اُدھر رکھ دئیے ہیں جہاں اِس قدر گڑ بڑ ہو وہاں کوئی شخص قطعی طور پر یہ فیصلہ کس طرحکر سکتا ہے کہ فلاں منتر خد اکی طرف سے ہے اور فلاں منتر لوگوں کا داخل کردہ ہے۔ اور جس کتاب کے متعلق ایسے شک و شبہات پیدا ہو چکے ہوں اُس پر دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کی بنیاد رکھی ہی کب جا سکتی ہے۔ یقینا جب کسی کتاب کی یہ حالت ہو جائے تو اس کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت ہوگی جو انسانی دست بُرد سے پاک اور محفوظ ہو اور جس پر انسان یقین اور قطعیت کے ساتھ اپنے عقیدوں کی بنیاد رکھ سکے اور جس کے متعلق وہ ویسا ہی یقین رکھے جیسے اُسے سورج اور چاند بلکہ اپنے نفس کے وجود پر یقین ہے اور وہ کہہ سکے کہ اس کا لفظ لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں اُس کی رہنمائی میں یقینا خدا تعالیٰ کو پا سکتا ہوں اور ا س ضرورت کو پورا کرنے والی کتاب قرآن کریم ہے۔
ویدوں میں ظالمانہ احکام
۱۔ اتھرووید کانڈ نمبر ۴ سُوکت ۲۲ منتر میں لکھا ہے:۔
’’اے ویدک دھرمی راجائو اور دوسرے ویدک دھرمیو! تم شیرجیسے بن کر رعیتوں کو کھا جائو اور چیتے جیسے بن کر اپنے دشمنوں کو با ندھ کر جکڑ لو۔ اس کے بعد اپنی مخالفت کرنے والوں کے کھانے تک اُٹھا لو۔‘‘
۲۔ سام وید اُتر آرچک پرپھاٹک گیارہ منتر میں لکھا ہے:۔
’’اے مخالف تم سرکٹے ہوئے سانپوں کی طرح بے سر اور اندھے ہوجائو۔ اس کے بعد پھر جو تم میں چیدہ چیدہ ہوں اُن کو اِندر اور آگ دیوتا تباہ کریں‘‘۔
۳۔ سام وید اُتر آرچک ادھیائے اا منتر ۱میں لکھا ہے:۔
’’ اے اِندر دیوتا! ہمارا دیا ہوا سوم رس تجھے خوش اورمتوالا کرے تُو ہمیں دھن و دولت دے اور وید کے دشمنوں کو تباہ اور ہلاک کر‘‘۔
۴۔ سام وید اُتر آرچک ادھیائے ۱۰ منتر۳ میں لکھا ہے:۔
’’ اے اِندر دیوتا تو غیر ویدک دھرمیوں کو کب یوں کچل کر تباہ کرے گا جیسے چھتری دار پھول کو پائوں سے کچل کر تباہ کر دیا جاتا ہے۔ا ے اِندر! تُو کب تک ہماری اِن دعائوں کو سنے گا‘‘۔
۵۔ اتھرووید کانڈ نمبر ۱۹ سُوکت ۲۸ منتر ۴ تا ۱۰ میں لکھا ہے:۔
’’ اے دبھ! تُو ہمارے دشمنوں کے دلوں کو توڑ دے جیسے تُو اُگتے وقت میں زمین کی کھال کو چیرتی ہوئی اُوپر کو نکل آتی ہے ویسے ہی اِن ہمارے دشمنوں کے سروں کو چیر کر اُوپر کو نکل کر اِن کو گرا کر تباہ کر دے‘‘۔
۶۔ اتھرووید کانڈ نمبر ۱۹ سُوکت ۲۹ منتر ۱ تا ۹ میں لکھا ہے:۔
’’ اے دبھ! تو میرے دشمنوں اور مقابلہ کرنے والوں کو چبھ اور میرے دوسرے ہر قسم کے مخالفین کو بھی چبھ جا۔ اے دبھ! میرے دشمنوں اور مقابلہ کرنے والوں کو تباہ کر اور ہمارے مخالفین کو بھی تباہ و برباد کر وغیرہ وغیرہ‘‘۔
۷۔ یجر وید ادھیائے ۲۷ منتر ۲ میں لکھا ہے:۔
’’ا ے آگ ہم براہمن لوگ جو تیرے پجاری ہیں تُو ہمیں عزت و دولت دے مگر ہمارے مخالفوں کو سمجھ نہ دے‘‘۔
۸۔ یجر وید ادھیائے ۱۱ منتر ۸۰ میں لکھا ہے۔
’’ اے آگ دیوتا جو لوگ ہم کو دھن و دولت نہیں دیتے بلکہ ہماری مخالفت کرتے ہیں، تُواُن کو جلا کر راکھ کر دے‘‘۔
ویدوں کے علاوہ دوسری مذہبی کتب میں بھی اِسی قسم کی تعلیم ہے۔ چنانچہ منوسمرتی جو تمام ہندوئوں کے نزدیک ویدوں کی حقیقی تفسیر ہے اُس میں لکھا ہے کہ:۔
’’ویدوں پر اعتراض کرنے والوں کو ملک سے باہر نکال دو۔‘‘۹۰؎
۹۔ ’’جو شودربراہمن کے برابر بیٹھنا چاہے راجہ یا تو اُس کی کمر پر گرم لوہے کے داغ دے، اُسے ملک سے نکال دے یا سرین کٹوا دے‘‘۔
۱۰۔ پھر ادھیائے نمبر ۸ شلوک ۴۱ میں بھی لکھا ہے کہ:۔
’’ براہمن بغیر کسی شک و شبہ کے شودر کا مال ودولت لے لے کیونکہ شودر کا تو اپنا کچھ بھی نہیں بلکہ اُس کا سب کچھ اُس کے مالک براہمن کا ہی ہے‘‘۔
۱۱۔ ادھیائے نمبر ۸شلوک ۴۱۳ میں لکھا ہے:۔
’’ شودر چاہے براہمن کا خریدا ہو اہو یا نہ خریدا ہوا ہو براہمن اُس سے ضرور غلامی کرائے کیونکہ برہما جی نے شودر کو پیدا ہی غلامی کے لئے کیا ہے‘‘۔
۱۲۔ پھرادھیائے نمبر ۸ شلوک ۴۱۴ میں لکھا ہے:۔
’’ شودر آزاد کرنے پر بھی آزاد نہیں ہو سکتا بلکہ غلام ہی رہتا ہے کیونکہ غلامی شودر کی فطرتی چیز ہے وہ بھلا اُس سے علیحدہ ہو سکتی ہے‘‘۔
۱۳۔ پھر ادھیائے نمبر ۸ شلوک ۲۷۲ میں لکھا ہے:۔
’’ اگر شودر فخر کے ساتھ مذہبی مسائل بتانے شروع کر دے تو تیل کو خوب گرم کر کے اُس کے کانوں میں بھر دو‘‘۔
اس تعلیم سے ظاہر ہے کہ ہندو دھرم کے نزدیک سوائے چند مخصوص ذاتوں کے باقی سب لوگ خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم سے محروم ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں جن کے لئے ویدوں کا پڑھنایا سنایا جانا گناہ ہے اور اگر وہ ایسی عبادت سے کام لیں کہ ویدوں کو پڑھیں یا سنیں یا یاد کریں تو اُن کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے حتیٰ کہ اُنہیں قتل تک کر دینا چاہئے۔ یہ تعلیم بتاتی ہے کہ ویدک دھرم صرف چند اقوام کے لئے تھا اور عالمگیر مذہب نہیں تھا۔ برہمنوں، کھتریوں اور ویشوں کے سِوا خدا تعالیٰ کی بہت سی مخلوق دنیا میں اور بھی پائی جاتی ہے۔ یہ قومیں تو صرف ہندوستان کی آبادی کا ایک حصہ ہیں مگر اُن سے کئی گناآبادی اور ہندوستان سے باہر ملتی ہے۔ اِس تعلیم کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ کسی صورت میں بھی ہدایت پا سکتے ہیں۔ مگر کیا خدائے رحیم و کریم کا یہ قانون ہو سکتا ہے؟ کیا ممکن ہے کہ وہ دنیا کے ایک حصہ کو ہدایت کے لئے پیدا کر دے اور دوسرے حصہ کو اپنی تقدیر کے ساتھ دوزخی بنادے؟ یقینا یہ تعلیم نہ صرف ظالمانہ ہے بلکہ خدا تعالیٰ پر بھی نہایت گندہ الزام لگانے والی ہے۔ ہمارا خدا وہ مہربان آقا ہے جس کے احسانوں سے دنیا کا کوئی بھی گوشہ خالی نہیں ہے۔ زمین کے اوپر بسنے والی مخلوق اور زمین کے نیچے بسنے والی مخلوق اور ہوائوں میں اُڑنے والی مخلوق ساری کی ساری اپنی قابلیت اور اپنی طاقتوں کے مطابق اُس کے فضلوںاور اُس کے احسانوں کے نیچے پرورش پا رہی ہے۔ا س نے تمام بنی نوع انسان کو ایک قسم کے دماغ اور ایک قسم کے افکار اور ایک قسم کی قوتیں عطا کی ہیں۔ وہ پاکیزہ جذبات جو انسان کو روحانیت کی اعلیٰ فضا میں اُڑا کر لے جاتے ہیںاُن سے ہمیں نہ یورپ کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ امریکہ کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ ایشیا کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ ہندوئوں کے دل اُن سے زیادہ پاک ہیں نہ اُن کی فکریں اُن سے زیادہ بلند ہیں۔ پھر کیسے ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی اکثر مخلوق کو ہدایت سے محروم کرد یتا اور صرف ۶/۱ مخلوق کو ہدایت کا اہل قرار دیتا ۔ یہ تعلیم خود چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ ویدوں کے بعد ایک اور ایسی کتاب کی دنیا کو ضرورت تھی جو ساری دنیا کو خد اتعالیٰ کی ہدایت کے لئے بلائے اور عجمی او ر عربی کوایک صف میں لا کر کھڑا کر دے اور وہ تمام بنی نوع انسان کی ہمددری اور محبت کی تعلیم دینے والی ہو اور ذلیل اور ادنیٰ اقوام اُس کے نزدیک حقیر نہ ہوں بلکہ دوسروں سے زیادہ قابل امداد اور دوسروں سے زیادہ قابل رحم اور دوسروں سے زیادہ قابل ہمدردی ہوں اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم نازل ہوا تھا۔
ویدوں میں توہمات
وید ایسی تعلیموں سے بھی بھرے ہوئے ہیں جو محض توہمات پر مبنی ہیں۔ مثلاً ویدوں میں عناصر کو دیوتائوں کی صورت میں پیش کیا
گیا ہے۔ آجکل بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف صفاتِ الٰہیہ کے نام ہیں مگر ہم ویدوں میں دیکھتے ہیں کہ آگ جلا کر اُس پر تیل اور دوسری قیمتی چیزیں چھڑکنے کا حکم ہے جیسا کہ رگوید کی دوسری کتاب کے دسویں منتر کے چوتھے شلوک سے ثابت ہوتا ہے اور اِن چیزوں کے چھڑکنے کے متعلق یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ گویا اگنی کی خوراک ہیں۔ا گراگنی وغیرہ صفاتِ الٰہیہ ہیں تو پھر آگ جلا کر اُن پر تیل اور دوسری چیزیں چھڑکنے کے معنی کیا ہوئے؟ اور ان چیزوں کو آگ کی خوراک قرار دینے کے کیا معنی ہوئے؟ اگر یہ صفاتِ الٰہیہ ہیں تو پھر ظاہر میں آگ جلا کر اُن پر تیل وغیرہ چھڑکنامحض ایک وہم ہے اور اگر یہ چیزیں دیوتا تسلیم کی گئی ہیںتو اُن کا دیوتا تسلیم کرنا خود ایک وہم ہے۔ بہرحال کوئی معنی لے لئے جائیں وہم ہی کی تعلیم اس سے نکلتی ہے۔
اِ سی طرح رگوید کی دوسری کتاب کے گیارہویں ادھیائے کے گیارہویں شلوک میں لکھا ہے:
’’ او اِندر! تُو سوم پی اور یہ خوشی دینے والا رس تجھے خوشی پہنچائے‘‘۔
اب اِندریا تو فرشتوں کا نام قرار دیا جا سکتا ہے یاخداتعالیٰ کا۔ اگر یہ خدا تعالیٰ کا نام ہے تب بھی سوم کا رس خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا ایک نہایت ہی ادنیٰ قسم کا وہم ہے۔ اور اگر اِندر کسی فرشتے یا اور کسی روح کا نام ہے تب بھی اُس کے آگے سوم کارس پیش کرنا ایک نہایت ہی ادنیٰ وہم ہے کیونکہ خد اتعالیٰ کی ہستی وراء الورا ہے اور اُس کے فرشتے روحانی وجود ہیںاُن کے لئے کسی شربت کے پینے یا پلانے کا خیال کرنا بھی ایک نہایت ہی مضحکہ خیز خیال ہے۔
پھر اِسی ادھیائے کے پندرھویں منتر میںلکھا ہے۔
’’ او اِندر ! تو سوم کا رس پی تاکہ تجھے طاقت اور خوشی آئے‘‘۔
خدا تعالیٰ یا اُس کے فرشتوں کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ سوم کا رس اُن کو طاقت بخشتا ہے یہ بھی کتنا مضحکہ انگیز خیال ہے۔
یہ ایک دومنتر نہیں بلکہ سینکڑوں منترویدں میں ایسے پائے جاتے ہیں جو اس قسم کی وہم والی تعلیمیں پیش کرتے ہیں۔ دیوتائوں کا آسمانوں پر کبھی بادلوں پر سواری کر نا اور کبھی رتھوں پر چڑھنا یہ اور اِسی قسم کے بہت سے خیالات ویدوں میں بھرے ہوئے ہیں۔
ویدوں کی خلافِ اخلاق تعلیم
ویدوں میں بہت سی خلافِ اخلاق تعلیم بھی ہے، لیکن وہ اتنی عریاں ہے کہ تفصیل کے ساتھ بیان
نہیں کی جا سکتی۔ اس میں شہوانی قوتوں اور شہوانی اعضاء کے متعلق ایسی ایسی باتیں بیان کی گئی ہیں کہ جو اس عریانی کے ساتھ طب کی کتابوں میں بھی لکھنی جائز نہیں۔
اِن تمام وجوہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وید جس کے بہت سے حصے اِس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہوں گے ا ِن میں انسانوں نے ایسی تعلیمیں ملا دی ہیں کہ جن کی بناء پر اب وہ قابل عمل نہیں رہے اور یقینا اِس خرابی کے بعد جو ویدوں میں آج سے سینکڑوں سال پہلے واقعہ ہو چکی ہے ایک ایسے کلام کی ضرورت تھی جو اِن تمام نقائص سے پاک ہو اوروہ کلام قرآن کریم ہے۔
ویدوں میں تناقض
چونکہ ویدوں میںمختلف زمانوں میں مختلف لوگوں نے دست اندازی کی ہے اِس لئے اُن کے مضامین میں بہت کچھ
تناقض بھی پیدا ہو گیا ہے۔ چنانچہ ہم ذیل میں اس تناقض کی چند مثالیں بیان کرتے ہیں:۔
۱۔ ویدوں میں یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ سورج کو کس نے پیدا کیا ہے؟ اور اِس کا جواب مختلف ویدوں میں دیا گیا ہے۔ چنانچہ رگوید منڈل نمبر ۹ سُوکت ۹۶ منتر نمبر ۵ میں لکھا ہے:
ــ’’سورج کواکیلے سوم دیوتا نے پید ا کیا تھا‘‘۔
لیکن رگوید منڈل نمبر ۸ سُوکت ۳۶ منتر نمبر ۴ میںلکھا ہے:۔
’’سورج کو اکیلے اِندر دیوتا نے پید اکیا تھا‘‘۔
یہ عجیب بات ہے کہ وہی کتاب ایک باب میں تو کہتی ہے کہ سورج کو اکیلے سوم دیوتا نے پید اکیا تھا اور دوسرے باب میں یہ کہتی ہے کہ سورج کو اکیلے اِندر دیوتا نے پید ا کیا تھا، لیکن دوسرے وید تو اور بھی کمال کر دیتے ہیں ۔یجر وید ادھیائے ۱۳ منتر ۱۲ میں لکھاہے :۔
’’ سورج کو اکیلے برہما نے اپنی آنکھ سے پیدا کیا تھا‘‘۔
گویا رگویدتو اکیلے سوم دیوتا اور اکیلے اِندر دیوتا سے سورج کو پید اشدہ قرار دیتا ہے لیکن یجر وید نہ اُسے سوم دیوتا کا پیدا کیا ہوا قرار دیتا ہے نہ اِندر دیوتا کا بلکہ اُسے برہما دیوتا کا پیدا کیا ہو ابتاتا ہے اور بتاتا ہے کہ اُسے برہما نے پیدا بھی اپنی آنکھ سے کیا تھا۔ اتھرو وید اس کے بالکل خلاف ایک اور ہی حقیقت بیان کرتا ہے۔ اِس میں لکھا ہے:۔
’’ سب دیوتائوں نے مل کر سورج کو پیدا کیا تھا‘‘۔۹۱؎
اتھر ووید کی اِس روایت نے حقیقت بالکل ہی بدل دی۔ وہ سورج کو نہ اکیلے سوم دیوتا کا پیدا کیا ہوا قرار دیتا ہے نہ اِندر دیوتا کا نہ بر ہما کا بلکہ وہ سب دیوتائوں کو اُس کی پیدائش میں شریک قرار دیتا ہے۔
۲۔ ویدوںسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج پہلے ز مین پر تھا پھر اُس کو اُٹھا کر آسمان پر لے گئے۔ علمِ ہیئت کے لحاظ سے یہ بات کیسی ہی عجیب کیوں نہ ہو میں اِس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اِس حکایت کی تفصیلات کے متعلق بھی ویدوں میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے۔کرشن یجر وید تیتری سنگتا میں لکھا ہے:۔
’’ سورج پہلے زمین پر تھا۔ دیوتا اپنی پیٹھوں پر اُسے رکھ کر اُوپر جنت میں لے گئے اور وہیں رکھ دیا‘‘۔
کرشن یجر وید میں لکھا ہے:۔
’’ سورج کو صرف ورن دیوتا ہی زمین سے اُٹھا کر اوپر جنت میں لے گیا تھا‘‘۔
لیکن رگوید منڈل نمبر ۱۰ سُوکت ۱۵۶ منتر ۴ میں لکھا ہے:۔
’’ اکیلے آگ دیوتا نے سورج کو اوپر جنت میں لے جا کررکھا تھا‘‘
اور رگو ید منڈل نمبر ۱۰ منتر ۳ میں لکھا ہے:۔
’’ سورج کو انگرارشی کی اولاد نے اوپر لے جا کر جنت میں رکھا تھا‘‘۔
اتھرو وید کانڈ نمبر ۱۳ سُوکت نمبر۲ منتر نمبر ۲ ۱ میں لکھا ہے:۔
’’ اے سورج! تجھے اوپر جنت میں لے جا کر صرف اکیلے اتری رشی نے اِس لئے رکھا تھا تاکہ تو مہینوں کو بنایا کرے‘‘۔
شکل یجر وید ادھیائے نمبر ۴ منتر ۳۱ میں لکھا ہے:۔
’’ سورج کو اوپر لے جا کر اکیلے ورن دیوتا نے ہی رکھا تھا‘‘۔
قطع نظر اِس کے کہ سورج کو زمین سے اُٹھا کر آسمان پر رکھنے کا عقیدہ کیسا مضحکہ خیز ہے اور بتاتا ہے کہ پرانے زمانہ کے ہندوئوں میں یہ خیال تھا کہ سورج ایک بہت چھوٹی سی چیز ہے اور زمین کے کسی گوشہ میں رکھی جا سکتی ہے۔ یہ بات غور طلب ہے کہ اس مضحکہ انگیز خیال کے مطابق بھی اتنی متضاد روایتیں ہیں کہ وہ تضاد خود اپنی ذات میں مضحکہ انگیز ہو جاتا ہے۔ صرف رگوید کی مختلف فصلوں میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ ایک فصل میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ آگ دیوتا نے سورج کو اُٹھا کر آسمان پر رکھا لیکن اس کتاب کی دوسری فصل میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نہیںبلکہ اِندر دیوتا نے ایسا کیا۔ اور پھر اسی کتاب کے ایک اور منتر میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ کام اِن دونوں ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ انگرارشی کی اولاد نے یہ کام کیا تھا۔ اسی طرح یجر وید میں ایک جگہ تو یہ کہا ہے کہ سورج کوتمام دیوتا اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر لے گئے لیکن دوسری جگہ یہ لکھا ہے کہ سورج کو اکیلے ورن دیوتا نے زمین سے اُٹھا کر آسمان پر رکھا۔ اتھرو وید اِن سب سے نرالی حکایت بیان کرتا ہے اور اتری رشی کو اس غیرمعمولی شان کے کام کے لئے مخصوص کرتا ہے۔
۳۔ زمین و آسمان کی پیدائش کے متعلق بھی ویدوں نے بعض حقائق بیان کئے ہیں۔ لیکن وہ حقائق بھی ایک دوسرے سے ایسے ہی مختلف ہیں جیسا کہ جنوں اور پریوں کی کہانیاں آپس میں مختلف ہوتی ہیں۔
سام وید پورد آرچک میں لکھا ہے:۔
’’ زمین وآسمان کو اکیلے سوم دیوتا نے پیدا کیا تھا‘‘۔
لیکن رگوید منڈل نمبر۸ سُوکت ۲۶ منتر ۴ میں لکھا ہے:۔
’’ زمین و آسمان کو سوم رس پینے والے اکیلے اِندر دیوتا نے ہی پیدا کیا تھا‘‘۔
مگر اسی رگوید کے منڈل نمبر ۲ سُوکت ۴۰ منتر ۱ میں لکھا ہے:۔
’’ زمین وآسمان کو پوشا دیوتا اور سوم دیوتا دونوں نے مل کر پید اکیا تھا‘‘۔
مگریجر وید کہتا ہے کہ:۔
’’ زمین و آسمان کو اکیلے برہما نے پیدا کیاتھا‘‘۔
منو سمرتی دشت پتھ برہمن میں لکھا ہے:۔
’’ زمین و آسمان کو اکیلے پرجا پتی نے ہی پیدا کیا تھا‘‘۔
اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ منو سمرتی وید نہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہندو قوم اِس کو ویدوں کی صحیح تفسیر قرار دیتی ہے اصل ویدوں میں بھی زمین وآسمان کی پیدائش کے متعلق کچھ کم اختلاف نہیں تھا کہ منوجی نے اِس اختلاف کو اَور بھی اُبھار دیا۔سام وید سوم دیوتا کو زمین و آسمان کی پیدائش کا موجب قرار دیتا ہے لیکن رگوید ایک جگہ اِندر دیوتا کو اور دوسری جگہ پوشا دیوتا اور سوم دیوتا کو زمین وآسمان کی پیدائش کا موجب قرار دیتا ہے۔ مگر منوجی نے اِن تمام ویدوں کی تشریح کرتے ہوئے سوم اور اِندر اور پوشا اور برہما سب کو پیدائش کائنات سے جواب دے دیا اور پرجا پتی کو ان کا پیدا کرنے والا قرار دے دیا۔
دیوتائوں کی تعداد کے متعلق اختلاف
۴۔ گو ہم مانتے ہیں کہ وید جب بھی نازل ہوئے تھے خدا تعالیٰ کی
طرف سے نازل ہوئے تھے اور یقینا وہ توحید کی تعلیم پر مشتمل تھے مگر موجودہ وید وہ نہیں جو کہ شروع میں رشیوں پر نازل ہوئے تھے۔ ان میںکثرت کے ساتھ شرک کی تعلیم پائی جاتی ہے بلکہ اس کثرت کے ساتھ کہ اس نے توحید کی تعلیم کو دبا لیا ہے۔ چنانچہ اِس بارہ میں بھی جو تعلیم ویدوں میں بیان ہوئی ہے اُس کی ہم چند مثالیں دیتے ہیں:۔
یجروید میں لکھا ہے کہ:۔
’’دیوتا کل ۳۳ ہیں۔ ۱۱زمین میں ۱۱ آسمان اور ۱۱ اُوپر جنت میں‘‘۔
رگوید منڈل نمبر ۳ سُوکت۹ منتر ۹ میں لکھا ہے کل دیوتا ۳۳۴۰ ہیں۔۳۳۴۰ کی تعداد اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ رگوید کے بیان کے مطابق ۳۳۳۹ دیوتائوں نے مل کر آگ دیوتا کو گھی سے سینچا اور اُس کے پاس گئے۔ پس ۳۳۳۹ میں ایک جمع ہوا تو ۳۳۴۰ ہو گئے۔ چنانچہ رگوید منڈل نمبر ۱۰ سُوکت نمبر ۵۲ منتر ۶ میں صاف الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کل دیوتا ۳۳۴۰ہیں۔
ویدوں میں دیوتائوں کے متعلق اتنا اختلاف حیرت انگیز ہے کہیجر وید میں تو دیوتا ۳۳ قرار دیئے گئے ہیں اور رگوید میں ۳۳۴۰۔ توحید کو چھوڑنا ہی ایک نہایت خطرناک بات تھی مگر جو خیالی دیوتا تجویز کئے گئے ان کی تعداد میں بھی اتنا اختلاف کہ وہ کبھی ۳۳ ہو جاتے ہیں اور کبھی۳۳۴۰۔ یہ اختلاف یقینا انسان کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ بے شک جب وید نازل ہوئے ہوں گے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں گے مگر موجودہ وید ہرگز انسان کی روحانیت کو تسلی نہیں دے سکتے اور اِن کے بعد اور ان کے باوجود بھی ایک ایسی کتاب کی دنیا کو ضرورت تھی جو ہر قسم کی خلافِ اخلاق، متناقض، ظالمانہ اور وہموں سے پُر تعلیموں سے پاک ہو اور یہی کتاب قرآن کریم ہے۔
چوتھا سوال اور اُس کا جواب
چوتھا سوال جو پہلی کتب کی موجودگی میں قرآن کریم کے نزول کی ضرورت کے متعلق روشنی ڈال سکتا ہے یہ ہے کہ کیا سابق مذاہب اپنی تعلیم کو حتمی اور آخری قرار دے رہے تھے؟ یا وہ خود بھی ایک ارتقاء کے قائل تھے؟ اور روحانیت کی ترقی کے لئے ایک ایسے نقطہ کی خبر دے رہے تھے جس پر جمع ہو کر بنی نوع کو انسانی پیدائش کے مقصد کوحاصل کرنا تھا؟
بائبل میں قرآن مجید کے نزول اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے متعلق پیشگوئیاں
اس سوال کے متعلق یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ انبیاء کی ایک مسلسل کڑی جو ہمیں
الٰہی منشاء سے آگاہ کر سکے درحقیقت ہمیں بائبل میں ہی ملتی ہے۔ انبیاء کے حالات کو محفوظ رکھنے میں بائبل نے جو کام کیا وہ قرآن کریم سے پہلے اور کسی کتاب نے نہیں کیا اِس لئے ہم اس سوال کا جواب دینے کیلئے کہ آیا پہلی کتابیں اپنے بعد کسی اور کتاب کی اور پہلے نبی اپنے بعد کسی اور نبی کی خبر دیتے ہیں یا نہیں جو دنیا میں ہدایت اور راستی کی تعلیم کو مکمل کرنے والا اوربنی نوع انسان کی روحانی ترقی کا آخری نقطہ بننے والا تھا، بائبل پر نظر ڈالتے ہیں۔
پہلی پیشگوئی۔ حضرت ابراہیم
کی اولاد سے وعدہ
بائبل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام سے خدا تعالیٰ کے بہت سے وعدے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کسدیوں کے اُور
میںپیدا ہوئے اور وہاں سے اپنے باپ کے ساتھ ہجرت کر کے کنعان کی طرف روانہ ہوئے لیکن اُن کے والد حاران میں آکر ٹھہر گئے۔ اُن کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ حاران سے نکل کر کنعان کوروانہ ہوں اور فرمایا:۔
’’ اور میں تجھے ایک بڑی قوم بنائوں گا اور تجھ کو مبارک اور تیرا نام بڑا کروں گا اور تُو ایک برکت ہو گا اور اُن کو جو تجھے برکت دیتے ہیں برکت دوں گا اور اُس کو جوتجھ پر *** کرتا ہے *** کروں گا اور دنیا کے سب گھرانے تجھ سے برکت پاویں گے‘‘۔ ۹۲؎
اسی طرح لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا:۔
’’ کہ یہ تمام ملک جو تُو اب دیکھتا ہے میں تجھ کو اور تیری نسل کو ہمیشہ کے لئے دوںگا‘‘۔۹۳؎
پھر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰ تا ۱۲ میں لکھا ہے:۔
’’ پھر خدا وند کے فرشتے نے اُسے ( یعنی ہاجرہ سے) کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھائوںگاکہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے اور خداوند کے فرشتے نے اُسے کہا کہ تُو حاملہ ہے اور ایک بیٹا جنے گی اُس کا نام اسماعیل رکھنا کہ خداو ند نے تیرا دُکھ سن لیا۔ وہ گورخر سا ہو گا اُس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اُس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بودوباش کرے گا‘‘۔
پھر اسی بائبل میں لکھا ہے:۔
’’ پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تُو اور تیرے بعد تیری نسل پشت درپشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میر اعہد جومیرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یاد رکھو سو یہ ہے کہ تم میںسے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیاجائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اُس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے‘‘۔۹۴؎
پھر لکھا ہے:۔
’’ اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا وہی شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اُس نے میرا عہد توڑا‘‘۔۹۵؎
پھر لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کو بھی ایک بیٹے کی بشارت دی تھی اور فرمایا کہ:۔
’’ میں اُسے برکت دوں گا اور اُس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا یقینا میںاُسے برکت بخشوں گا یقینا میں اُسے برکت دوں گا اوروہ قوموں کی ماں ہو گی اورملکوں کے بادشاہ اُس سے پیدا ہوں گے‘‘۔۹۶؎
پھر سارہ کی اولاد کے متعلق لکھا ہے کہ:۔
’’ میں اُس سے اور بعد اُس کے اُس کی اولاد سے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے قائم کروںگا‘‘۔۹۷؎
پھر اسماعیل کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ اور اسماعیل کے حق میں میَں نے تیری سنی۔ ۹۸؎
اسماعیل کے حق میں حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی تھی کہ:۔
’’کاش! کہ اسماعیل تیرے حضور جیتا رہے‘‘۔۹۹؎
’’دیکھ! میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برو مند کروں گا اور اُسے بہت بڑھائوںگا اور اُس سے ۱۲ سردار پیدا ہوںگے اور میں اُسے بڑی قوم بنائوں گالیکن میں اضحاق کو جس کو سرہ دوسرے سال اُسی وقت معین میں جنے گی اپنا عہد قائم کروںگا‘‘۔۱۰۰؎
پھر لکھا ہے:۔
’’ اور اُس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کروںگا ا س لئے کہ وہ بھی تیری نسل ہے‘‘۔۱۰۱؎
پھر حضرت اسماعیل کے متعلق لکھا ہے۔ خدا نے حضرت ہاجرہ کو الہام کیا کہ:۔
’’ اس لڑکے کی آواز جہاں وہ پڑا ہے خدا نے سنی۔ اُٹھ اور لڑکے کواُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اُس کو ایک بڑی قوم بنائوں گا‘‘۔۱۰۲؎
پھر لکھا ہے :۔
’’ خد ا ا س لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا اور تیر اَنداز ہو گیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اُس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت اُس سے بیاہنے کو لی‘‘۔۱۰۳؎
اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے اسمٰعیل اور اسحاق تھے۔ اسمٰعیل بڑے بیٹے تھے اور اسحاق دوسرے بیٹے تھے خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے عہد تھا کہ وہ اُن کی نسل کو بڑھائے گا اور بابرکت کرے گا۔ یہ بابرکت کرنے کے الفاظ حضرت اسحاق ؑ کے متعلق بھی ہیں اور حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق بھی ہیں۔ اِسی طرح نسل کے بڑھانے کے الفاظ بھی حضرت اسحاقؑ کے متعلق بھی ہیں اور حضرت اسماعیل ؑ کے متعلق بھی ہیں اوریہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسمٰعیل فاران کے بیابان میں رہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنعان کی زمین حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کو دے دی گئی تھی اور پھر یہ بھی کہ خدا تعالیٰ کے اس عہد کی علامت یہ ہوگی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نرینہ نسل کا ختنہ کیا جائے گا۔ اِن پیشگوئیوں کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اسحاقؑ کی نسل کو بڑی ترقی نصیب ہوئی اور خد اتعالیٰ نے جو عہد حضرت اسحاقؑ سے باندھا تھا وہ بڑی شان سے پورا ہوا۔ حضرت موسیٰ اور حضرت دائود اور حضرت حزقیل اور حضرت دانی ایل اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام اُن کی نسل سے ظاہر ہوئے اوردنیا کے لئے بڑی رحمت کا موجب ثابت ہوئے۔ کنعان کا ملک دو ہزار سال تک اُن کے قبضہ میں رہا سوائے ایک خفیف وقفہ کے کہ اس وقفہ میں بھی وہ ملک کلی طور پر اُن کے ہاتھ سے نہیں نکلا۔ صرف وہ اس میں کمزور ہو گئے تھے۔ لیکن ساتویں صدی بعد مسیح میں اسحاق کی اولاد اور موسیٰ کی تعلیم پر ظاہری طور پر چلنے والے لوگوں کو کلی طور پر کنعان کے ملک سے دست بردار ہونا پڑا اور اس ملک میں اسمٰعیل کی اولاد سیاسی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی غالب آگئی۔ بنی اسرائیل کا اُس زمانہ میں کنعان سے نکالا جانا صاف بتاتا ہے کہ حضر ت ابراہیم علیہ السلام کی معرفت جو وعدہ کیا گیا تھا اب اُس کے مستحق بنی اسرائیل یا اُن کے متعلق خاندان نہیں رہے تھے مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں قیامت تک یہ ملک بنی اسرائیل کے قبضہ میں رکھوں گا اور خدا کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی۔ پس صاف ظاہر ہے کہ قیامت کے معنی ظاہری قیامت کے نہیں بلکہ ایک نئی شریعت کے ظہور کے ہیں جو الہامی اصطلاح میں نیا آسمان اور نئی زمین بنانا کہلاتا ہے اور لازماً قیامت کے برپا ہوئے بغیر نیا آسمان اور نئی زمین نہیں بنائے جا سکتے۔ پس قیامت تک بنواسحاق کے قبضہ کے یہی معنی تھے کہ جب ایک نیا شرعی نبی آئے گا تو اُس وقت یہ ملک بنو اسحاق کے قبضہ میں نہ رہے گا۔ چنانچہ اِس طرف حضرت دائودؑ کے ایک کلام سے اشارہ بھی نکلتا ہے جہاں تورات میں لکھا ہے کہ قیامت تک بنو اسحاق ا س ملک پر قابض رہیں گے وہاں حضرت دائودؑ نے اِس پیشگوئی کو دوسرے الفاظ میں پیش کیا ہے وہ فرماتے ہیں:۔
’’ صادق زمین کے وارث ہوںگے اور ابد تک اُس میں بسیں گے‘‘۔۱۰۴؎
اِن الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنواسحاق کی تباہی کا وقت قریب آرہا تھا۔ا ب نبیوں کا کلام دنیا کی توجہ اِس طرف پھر ارہا تھا کہ اب وہ نسلی وعدہ بدل کر روحانی شکل اختیار کرنے والا ہے اور بنو اسمٰعیل راستباز بن کر ابراہیمی پیشگوئیوں کے وارث بننے والے ہیں اور ایک نیا عہداُن کے ذریعہ سے شروع ہونے والا ہے۔ا گر یہ بات نہیں تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ماننے والے بنواسمٰعیل کو فلسطین کی زمین میں کیوں غالب کر دیا۔ اُس نے تو صاف طور پر عہد کیا تھا کہ فلسطین کی زمین بنو اسحاق کو دی جائے گی۔ اگر وہ عہد ایک اور قوم کے ذریعہ سے پورا نہیں ہونا تھا تو یہ تبدیلی خدا تعالیٰ نے کس طرح گوارا کی۔ا گر یہ تبدیلی چند سال کے لئے عارضی طور پر ہوتی تو کوئی بات نہ تھی کیونکہ قومی زندگیوں میںاُتار چڑھائو ہو ہی جایا کرتے ہیں لیکن یہ تبدیلی تو اتنی لمبی چلی کہ آج تیرہ سَو سال کے بعد بھی فلسطین کے اکثر حصہ پر مسلمان اور اسمٰعیل کی اولاد قابض ہیں۔ یورپ اور امریکہ زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح اِن حالات کو بدل دیں لیکن اب تک وہ کامیاب نہیں ہوئے اور اگر کوئی کامیابی اُن کو حاصل بھی ہوئی تو وہ عارضی ہو گی یا بنو اسرائیل مسلمان ہو کر نئے عہد کے ذریعہ سے ایک نئی زندگی فلسطین میں پائیں گے اور یا پھر وہ دوبارہ فلسطین میں سے نکال دئیے جائیں گے کیونکہ فلسطین اُن لوگوں کے ہاتھ میں رہے گاجو ابراہیمی عہد کو پورا کرنے والے ہوں گے۔ مسیحی لوگ بھی اپنے آپ کو ابراہیمی عہد کا پورا کرنے والا قرار دیتے ہیں لیکن تعجب ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اِس عہد کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ قوم ختنہ کروائے گی لیکن عیسائی تو ختنہ سے آزاد ہو چکے ہیں۔ ہاں بنو اسمٰعیل جو تیرہ سَو سال سے فلسطین پر قابض ہیں وہ قرآن کریم کے نازل ہونے سے پہلے بھی ختنہ کرواتیتھے اور اب بھی ختنہ کرواتے ہیں۔ غرض جیساکہ اِن پیشگویوں میں بتایا گیا تھا کہ اسمٰعیل اور اسحاق دونوں کو برکت دی جائے گی وہ پیشگوئیاں پوری ہونی ضروری تھیں۔ بنو اسحاق کو اُن کے وعدہ کے مطابق کنعان کی حکومت دی گئی اور بنو اسمٰعیل کواُن کے وعدہ کے مطابق عرب کی حکومت دی گئی۔ آخر جب بنو اسحاق کی قیامت آگئی تو دائود کی پیشگوئی کے مطابق نسلی لحاظ سے نہیں بلکہ راستباز ہونے کے لحاظ سے کنعان پر غلبہ بنو اسمٰعیل کو دے دیا گیا۔ گویا نسلی وعدہ ابراہیم کے مطابق مسلمانوں کو مکہ اور اس کے اِرد گرد کا علاقہ ملا۔ جس کا دعویٰ قرآن کریم نے سورۃ بقرہ رکوع ۱۵/۱۵ میں کیا ہے اور راستباز ہونے کے لحاظ سے بنو اسحاق کی مذہبی تباہی کے بعد وہ کنعان کے بھی وارث قرار پائے۔
دوسری پیشگوئی۔ حضرت موسیٰ کے بعد ایک شرعی نبی کا ظہور
حضرت موسیٰ علیہ السلام جب خدا تعالیٰ کے حکم سے طور پر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ:۔
’’خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا‘‘۔۱۰۵؎
پھر لکھا ہے۔
’’ میں اُن کے لئے اُن کے بھائیوں میںسے تجھ سا ایک بنی برپا کروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب اُن سے کہے گا اور ایسا ہو گا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کاحساب اُس سے لوںگا۔ لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘۔۱۰۶؎
اِن آیتوں سے ظاہر ہے کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک نئے صاحبِ شریعت نبی کی پیشگوئی کی گئی تھی جو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہو گا۔ صاحبِ شریعت ہونے کی پیشگوئی اِن الفاظ سے نکلتی ہے کہ وہ موسیٰ کی مانند ہو گا اور موسیٰ صاحبِ شریعت نبی تھے۔ دوسری خبر اِس پیشگوئی میںیہ دی گئی ہے کہ سب باتیں جو اُسے کہی جائیں گی وہ لوگوں سے بیان کر دے گا۔ یہ علامت بھی بتاتی ہے وہ صاحبِ شریعت ہو گا کیونکہ صاحبِ شریعت نبی قوم کی بنیاد رکھنے والا ہوتا ہے محض ایک مصلح نہیں ہوتااس لئے اُسے حکم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ساری تعلیم لوگوں کے سامنے بیان کرے کیونکہ شریعت کے بغیر قوم کی تکمیل نہیں ہو سکتی۔ مگر جو غیر تشریعی نبی ہوتا ہے وہ چونکہ صرف پہلی کتاب کا شارح ہوتا ہے اُس کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ساری وحی لوگوں کو سنائے۔ ہو سکتا ہے کہ بعض باتیں اُس کے ذاتی علم کے طور پر اُسے کہی گئی ہوں لیکن ضروری نہ ہو کہ وہ اپنی قوم سے اُن کا ذکر کرے۔ یہ بھی اِن آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ اِس پیشگوئی کا موعود نبی اپنی تعلیم کو خد اتعالیٰ کا نام لے کر دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور جو لوگ اُس کی تعلیم کونہ سنیں گے اُن کو سزا دی جائے گی اور وہ خدا کے عذاب کے نیچے آئیں گے۔یہ بھی اِس پیشگوئی میںبتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اِس پیشگوئی سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر اس پیشگوئی کا مستحق ہونے کا جھوٹا دعویٰ کرے گا تو ایسا شخص قتل کر دیا جائے گا۔ا ب پیشگوئی کے اِن تمام اجزاء کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک اِس پیشگوئی کو پورا کرنے والا نبی دنیا میں کوئی پید ا ہی نہیں ہوا۔ درمیانی انبیاء کا تو ذکر جانے دو، اُن کی تونہ کوئی اُمت موجود ہے نہ کوئی قوم پائی جاتی ہے۔ ایک عیسیٰ علیہ السلام ہی ہیں جن کے ماننے والے دنیا میں پائے جاتے ہیں اور جو اُنہیں آخری مصلح قرار دے کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر اِس پیشگوئی کو سامنے رکھ کر دیکھو کیا اِس پیشگوئی کی شرائط حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر پوری اُترتی ہیں؟
اوّل: اِس پیشگوئی سے پتہ لگتا ہے کہ وہ صاحبِ شریعت نبی ہو گا۔ کیا عیسیٰ علیہ السلام کوئی شریعت لائے؟ عیسیٰ علیہ السلام نے تو یہ کہا ہے کہ:
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے آیا۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو‘‘۔۱۰۷؎
پھر اُن کے حواریوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ:۔
’’ شریعت کو ایمان سے کچھ نسبت نہیں۔ مسیح نے ہمیں مول لے کر شریعت کی *** سے چھڑایا‘‘۔۱۰۸؎
گویا مسیح خود کسی شریعت کے لانے کے مدعی نہیں اور اُن کے حواری شریعت کو ہی *** قرار دیتے ہیں۔ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضر ت مسیح اور اُن کی قوم اِس پیشگوئی کی مستحق ہو؟
(۲) اِس پیشگوئی میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ آنے والا بنی اسرائیل کے بھائیوں میںسے ہوگا لیکن مسیح تو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے نہیں تھا بلکہ خود بنی اسرائیل میںسے تھا۔ بعض عیسائی صاحبان ایسے موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ چونکہ اس کا کوئی با پ نہیںتھا اِس لئے وہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے کہلا سکتا ہے۔ لیکن یہ دلیل ہرگزمعقول نہیںکیونکہ بائبل کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ بھائی بہت ہوں گے اور اُن بہت سے بھائیوں کی نسل میںسے وہ موعود نے ظاہر ہونا تھا۔ کیا عیسیٰ علیہ السلام کی قسم کے لوگ بھی بہت سے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر عیسیٰ علیہ السلام پر یہ پیشگوئی کیونکر چسپاں ہو سکتی ہے؟
علاوہ ازیں بائبل میں تو مسیح کی نسبت لکھا ہے کہ وہ دائود کی نسل میں سے ہوگا۱۰۹؎ اگر بن باپ ہونے کی وجہ سے حضر ت مسیح کو بنی اسرائیل میں سے خارج کر دیا جائے تو پھر وہ دائود کی نسل میں بھی نہیں رہ سکتے اور اس پیشگوئی سے اُنہیں جواب مل جاتا ہے۔
(۳) اِس پیشگوئی میں لکھا ہے کہ میں اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا۔ لیکن انجیل میں تو خدا کا کلام ہمیں کہیں نظر ہی نہیں آتا۔ یا تو اس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سوانح ہیں یا اُن کے بعض لیکچر اور یا پھر حواریوں کی باتیں۔
(۴) اِس پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ موعود ایک نبی ہو گا۔ مگر مسیح کے متعلق تو مسیحی قوم یہ کہتی ہے کہ وہ خد اکا بیٹا تھا نبی نہیں تھا۔ پس جب مسیح نبی ہی نہ تھے تو وہ اس پیشگوئی کے پورا کرنے والے کس طرح ہو سکتے ہیں؟
(۵) اِ س پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ خدا کا نام لے کر اپنا الہام لوگوں کو سنائے گا مگر اناجیل میں تو کوئی ایک فقرہ بھی ہمیں نہیں ملتا جس میںمسیح نے یہ کہا ہو کہ خدا نے مجھے یہ بات لوگوں کو پہنچانے کا حکم دیا ہے۔
(۶) اِس پیشگوئی میں یہ ذکر ہے۔ ’’ جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب اُن سے کہے گا اور ساری سچائی کی راہیں اُس کے ذریعہ دنیا پر ظاہر ہوں گی‘‘۔
لیکن مسیح خود کہتا ہے کہ وہ سچائیاں دنیا کو نہیں بتاتے۔ وہ کہتے ہیں:۔
’’ میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے، لیکن جب وہ روحِ حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی، لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی‘‘۔۱۱۰؎
اِن حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام پر یہ پیشگوئی تو پوری نہیں ہوئی اور جب حضرت مسیحؑ پر یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تھی تو اِس کے صاف معنی یہ ہیںکہ مسیح علیہ السلام کے بعد آنے والے ایک ایسے نبی کی پیشگوئی عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید میں موجود تھی جو ساری سچائیوں کو ظاہر کرے گا اور دنیا میں خد اتعالیٰ کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم کرے گا۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن کریم اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہے ۔چنانچہ:۔
(۱) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جو بنو اسمٰعیل میں پیدا ہوئے جو بنو اسحاق کے بھائی تھے۔
(۲) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جنہوں نے موسیٰ کے مانند ہونے کا دعویٰ کیا چنانچہ قرآن میں آتا ہے۔ ۱۱۱؎ ہم نے تمہاری طرف تم میں سے ایک رسول بھیجا جس طرح فرعون کی طرف ہم نے رسول بھیجا تھا۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی موسٰی ؑکی طرح نبی ہیں۔
(۳) اِس پیشگوئی میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ آنے والا موعود نبی ہونے کا دعویٰ کرے گا نہ کہ کوئی اور دعویٰ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا مگر اس کے برخلاف کہا جاتا ہے کہ مسیح نے نبی ہونے کادعویٰ نہیں کیا۔چنانچہ انجیل مرقس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ
’’ لوگ کیا کہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ اُنہوں نے کہا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا اور بعضے الیاس اوربعضے نبیوں میں سے ایک۔ پھر اُس نے اُنہیں کہا تم کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں؟ پطرس نے جواب میں اُس سے کہا کہ تُو تو مسیح ہے تب اُس نے انہیں تاکید کی کہ میری بابت کسی سے یہ مت کہو‘‘۔۱۱۲؎
اِس آیت میں مسیح نے اپنے متعلق یوحنا یا الیاس یا نبیوں میں سے کوئی نبی ہونے سے انکار کیا ہے۔ لیکن موسیٰ کی پیشگوئی بتاتی ہے کہ وہ جو موسیٰ کے نقشِ قدم پر آنے والا ہے نبی ہو گا۔ پس یقینا یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتی ہے نہ کہ مسیح پر۔
(۴) اِس پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ میں اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا۔ لیکن ساری انجیلوں میں ہمیں خدا کا کلام کہیں نظر نہیں آتا۔ اِس کے برخلاف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو پیش کیا۔ جو شروع سے لے کر آخر تک خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا نام بھی قرآن کریم میں کلام اللہ رکھا گیا ہے۔۱۱۳؎
(۵) اِس پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ جو کچھ میںاُسے فرمائوں گا وہ سب اُن سے کہے گا۔ اوپر بتایا جا چکا ہے کہ مسیح نے خود اقرار کیا ہے کہ جو کچھ اُسے کہا گیا تھا وہ سب کا سب لوگوں کو نہیں سناتا تھا لیکن اُس نے یہ پیشگوئی ضرور کی تھی کہ میرے بعد ایک ایسا شخص آئے گا جو سب سچائی کی راہیں لوگوں کو بتائے گا۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا سارا کلام لوگوں کو پہنچاتے ہیں اور کوئی بات جس کی دین کے لئے ضرورت ہے انہوں نے چھوڑی نہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے ۱۱۴؎ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تیرے متعلق یہ پیشگوئی ہے کہ جب تو دنیا میں آئے گا تو ساری سچائیاں دنیا کو سنائے گا۔ اس لئے دنیا خواہ بُرا منائے یا اچھا تو کسی کی پرواہ نہ کر اور جو وحی تجھے کی جاتی ہے وہ ساری کی ساری لوگوں کو سُنا دے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے ۱۱۵؎ میں نے آج اِس کلام کے ذریعہ سے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور ہدایت کی نعمت تمہارے لئے کمال تک پہنچا دی ہے اور امن اور سلامتی کو تمہارا مذہب قرار دے دیا ہے۔ پس محمد رسول اللہ ہی تھے جن کو ساری سچائیاں بتائی گئیں اور جنہوں نے دنیا کو ساری سچائیاں بتادیں اور کوئی ایک سچائی بھی نہیں چھپائی۔ کیونکہ مسیح کے زمانہ کے لوگ ابھی تک ساری سچائیوں کو سننے اور قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسان روحانی ارتقاء کی سب منزلوں کو طے کر چکا تھا اور وقت آگیاتھا کہ ساری سچائیاں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو جائیں اور خد ا تعالیٰ کا رسول وہ ساری سچائیاں لوگوں کو سُنا دے۔
(۶) اِس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا تھاکہ خد اتعالیٰ کا کلام جو اُس پر نازل ہو گا وہ خدا کا نام لے کر دنیا کو سنائے گا۔ یہ بات بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہی پوری ہوئی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسے نبی ہیں جن کی الہامی کتاب کا ہر باب اِس آیت سے شروع ہوتا ہے’’ میں اللہ کا نام لے کر یہ باتیں تمہیں سناتا ہوں‘‘۔ پس یہ علامت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روحانی ارتقاء کی وہ آخری کڑی جس کی موسیٰ نے خبر دی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی۔
(۷) کہا گیا تھا کہ ’’ وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے‘‘۔۱۱۶؎
اِس آیت میں موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کو یہ بتایا گیا تھا کہ جس نبی کی اِس آیت میں خبر دی گئی ہے چو نکہ اُس کے لئے انسان کی روحانی ترقی کی آخری کڑی ہونا مقدر ہے اور اگر کوئی جھوٹا شخص اس عہدے کو اپنی طرف سے فریب سے منسوب کر ے تو اِس سے بڑے خطرات پید اہو سکتے ہیں اس لئے خد ا تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ جو شخص بھی جھوٹے طور پر اس پیشگوئی کو اپنی طرف منسوب کرے گا وہ قتل کیا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہو گا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں اِس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے۔ جب آپ نے دعویٰ کیا آپ اکیلے تھے، آپ نہایت ہی کمزور تھے، دشمن بڑے جتھے والا اور بڑا طاقتور تھا مگر باوجود اِس کے کہ دشمنوں نے اپنا سارا زور لگایا وہ آپ کو قتل نہیں کر سکے۔ باوجود اس کے کہ اُس وقت کی زبردست حکومتیں آپ کے مقابلہ پر آئیں سب پاش پاش ہو گئیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامیاب اور با مراد انسان کی حیثیت میں فوت ہوئے۔ آپ کی ساری قوم آپ کی وفات سے پہلے آپ پر ایمان لے آئی اور آپ کی وفات کے چند سال بعد ہی آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے ساری دنیا میں اسلام پھیل گیا۔ اگر موسیٰ خدا کا راستباز نبی تھا اور اگر استثناء کی یہ پیشگوئی واقعہ میں خدا کی طرف سے تھی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کے مدعی تھے کیا اِس طرح کامیاب و کامران ہو سکتے تھے جیساکہ وہ ہوئے؟ اور کیا آپ کے دشمن آپ کو قتل کرنے میں اس طرح ناکام ہو سکتے تھے جیسا کہ ہوئے؟ یہی نہیں کہ اتفاقی طور پر آپ دشمن کے حملوں سے بچ گئے ہوں بلکہ موسیٰ کی اس پیشگوئی کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن کریم نے بڑے زور شور سے عربوں کے سامنے یہ اعلان کر دیا تھا کہ۱۱۷؎ یعنی اللہ تعالیٰ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کے حملوں سے بچائے گا اور آپ کی جان کی حفاظت کرے گا۔ اسی طرح آپ کے مخالفوں کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن کریم نے یہ فرمادیا تھا کہ۱۱۸؎ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے برگزیدہ رسولوں کے۔ پھر جب وہ کسی کو اپنا رسول بنا کر بھیجتا ہے تو وہ اُس کے آگے اور پیچھے اس کی حفاظت کے سامان کرتا رہتا ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اُس نے ایک خاص کام کے لئے بھیجا ہے تو وہ اُنہیں بغیر حفاظت کے نہیں چھوڑے گا اور دشمن کو آپ کے مارنے پر قادر نہیں کرے گا۔
اِ ن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام اتفاقی انجام نہیں تھا بلکہ آپ نے شروع سے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کو خدا تعالیٰ دشمن کے حملوں سے بچائے گا اور دشمن آپ کے قتل کر نے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ اس طرح آپ نے دنیا کو ہوشیار کر دیا تھا کہ میں استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰ کی پیشگوئی کے مطابق قتل نہیں کیا جائوں گا کیونکہ میں جھوٹا نہیں بلکہ حقیقی طور پر موسیٰ کی پیشگوئی کا مصداق ہوں۔
خلاصہ یہ کہ موسیٰ علیہ السلام نے بعثت محمدیہ سے قریباً ۱۹ سَو سال پہلے یہ خبر دی تھی کہ موسوی شریعت الٰہی کلام کا آخری نقطہ نہیں ابھی انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مزید ہدایتوں کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ آخری زمانہ میں ایک اور مأمور بھیجے گا وہ مأمور دنیا کے سامنے سب سچائیوں کو پیش کرے گا اوروہی انسان کی روحانی ترقی کا آخری نقطہ ہوگا اس پیشگوئی کے مطابق دنیا میں ابھی ایک اور کتاب اور ایک اور نبی کی ضرورت تھی۔ پس قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائبل اور موسیٰ اور عیسیٰ کی بعثت کے بعداگر دنیا کی ہدایت کا دعویٰ کیا تو وہ بالکل حق بجانب اور خدا تعالیٰ کے کلام کو پورا کرنے والے تھے۔ قرآن کریم غیرضروری نہ تھا بلکہ اگر قرآن کریم نہ آتا تو خد اتعالیٰ کی بتائی ہوئی بہت سی باتیں ظہور میں نہ آتیں اور دنیا بد اعتقادی اور شک کے مرض میں مبتلا ہوجاتی۔
تیسری پیشگوئی۔ جبلِ فاران سے دس ہزار قدوسیوں کیساتھ ایک عظیم الشان نبی کا ظہور
استثناء باب ۳۳ میں لکھا ہے۔ ’’ اور اُس نے کہا کہ خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر
طلوع ہوا۔ فاران ہی کے پہاڑسے وہ جلوہ گر ہوا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا او ر اُس کے دہنے ہاتھ میںایک آتشی شریعت اُن کے لئے تھی‘‘۔۱۱۹؎
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اِس کلام میں اپنے تین جلوے بتائے ہیں۔ ان میں سے پہلا جلوہ سینا سے ظاہر ہوا۔ اِس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تورات میں لکھا ہے:۔
’’ اور خداوند کو ہِ سینا پہاڑ کی چوٹی پر نازل ہوا اور خدا وند نے پہاڑ کی چوٹی پر موسٰی ؑکو بلایا اور موسٰی ؑچڑھ گیا‘‘۱۲۰؎
یہ خدائی جلوہ ظاہر ہوا اور جو جو برکتیں اِس میں پوشیدہ تھیں وہ دنیا پر ظاہر کر کے چلاگیا۔ اس کے بعد دوسرے جلوے کا ذکر کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ وہ شعیر سے طلوع ہو گا۔ شعیر وہ مقام ہے جس کے آس پاس حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات ظاہر ہوئے۔ پس شعیر سے طلوع ہونے کے معنی حضرت مسیح علیہ السلام کے ظہور کے ہیں۔ مسیحی علمائے اناجیل نے نہ معلوم کیوں شعیر کو سینا کا مترادف قرار دیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شعیر فلسطین کا حصہ ہے۔ یہ نام مختلف شکلوں میں بگڑ کر آیا ہے اور یہ نام ایک قوم کا بھی ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھی اور بنو آشر کہلاتی تھی اور یہ شمال مغربی فلسطین کے علاقے کا بھی نام ہے۔ پس شعیر سے مراد وہی جلوہ ہے جو خصوصیت کے ساتھ فلسطین میں ظاہر ہونے والا تھا۔ موسیٰ علیہ السلام تو کنعان پہنچے ہی نہیں اُسی جگہ پر فوت ہو گئے جہاں کنعان کی سرحدیںنظر آتی تھیں اور موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی ایسا جلوہ ظاہر نہیں ہوا جو اِس قسم کی عظمت والا ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جلوہ تھا۔ پس شعیر سے طلوع ہونے سے مراد حضرت مسیح کا ظہور ہے جو عین کنعان میں ظاہر ہوئے اور جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے پھر ایک دفعہ دنیا کو اپنی شکل دکھلائی۔
تیسرا جلوہ فاران سے ظاہر ہونا تھا۔ فاران سے مراد وہ پہاڑ ہیں جو مدینہ اور مکہ کے درمیان ہیں۔ چنانچہ عربی جغرافیہ نویس ہمیشہ سے ہی مدینہ اور مکہ کے درمیانی علاقہ کا نام فاران رکھتے چلے آئے ہیں۔ مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک پڑائو ہے جس کا نام وادیٔ فاطمہ ہے جب قافلے وہاں سے گزرتے ہیں تو وہاں کے بچے قافلہ والوں کے پاس پھول بیچتے ہیں اور جب اُن سے قافلہ والے پوچھیں کہ یہ پھول تم کہاںسے لائے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں مِنْ بَرِیَّۃِ فَارَانَ۔ فاران کے جنگل سے لائے ہیں۔ پس فاران یقینی طور پر عرب اور حجاز کا ہی علاقہ ہے تو رات سے ثابت ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اِسی فاران کے میدان میں رہے تھے۔لکھا ہے:۔
’’ اور خداوند اس لڑکے ( یعنی اسمٰعیل) کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا او ر تیراندازہوگیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت اُس سے بیاہنے کو لی‘‘۔ ۱۲۱؎
بائبل فاران کے مقام کوعربوں کے بیان کی نسبت کسی قدر مختلف جگہ پر قرار دیتی ہے اور کنعان کے کناروں پر ہی بتاتی ہے۔ لیکن جنگل اور پہاڑ شہروں کی طرح کسی چھوٹے سے علاقہ میں محدود نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ سینکڑوں اور ہزاروں میل تک پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ پس اگر بائبل کا بیان صحیح تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس کے یہی معنی ہوں گے کہ فاران کے پہاڑ اور اس کا بیابان کنعان کے پاس سے شروع ہوتا ہے۔ اس سے یہ تو ثابت نہ ہو گا کہ وہ ختم بھی وہیں ہو جاتا ہے۔ بائبل تسلیم کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک بیٹا اسمٰعیل نامی تھا اور بائبل بتاتی ہے کہ وہ فاران میں رہا۔ اب فاران کے جغرافیہ کے متعلق تو اسمٰعیل کی اولاد کی گواہی ہی تسلیم کی جائے گی کیونکہ وہی فاران کی رہنے والی ہے۔ بنو اسرائیل تو تاریخ اور جغرافیہ میں اتنے کمزور تھے کہ وہ اس رستہ کو بھی صحیح طور پر بیان نہیں کر سکے جس رستہ پر چل کر وہ مصر سے کنعان آئے تھے دوسرے ملکوں کے متعلق اُن کی گواہی کی قیمت ہی کیا ہے۔ دنیا میںایک ہی قوم ہے جو اپنے آپ کو اسمٰعیل کی اولاد کہتی ہے اور وہ قریش ہیںاور وہ عرب میں بستے ہیں اورمکہ مکرمہ اُن کا مرکز ہے۔ اگر عربوں کا یہ دعویٰ غلط ہے تو سوال یہ ہے کہ اِس غلط دعویٰ کے بنانے کی انہیں غرض کیا تھی۔ بنو اسحاق تو اُن کو کوئی عزت دیتے ہی نہیں تھے۔ پھر ایک جنگل میں رہنے والی قوم کو اِس بات کی کیا ضرروت پیش آئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو اسمٰعیل کی اولاد قرار دے اور اگر اُس نے جھوٹ بنایا ہی تھا تو اسمٰعیل کی اصل اولاد کہاں گئی؟ بائبل کہتی ہے کہ اسمٰعیل کے ۱۲ بیٹے تھے۔ بائبل کہتی ہے کہ اُن ۱۲ بیٹوں کی نسل آگے بہت پھیلے گی۔ لکھا ہے:۔
’’ اور اس لونڈی کے بیٹے (اسماعیل) سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا اِس لئے کہ وہ بھی تیری نسل ہے‘‘۔۱۲۲؎
پھر لکھا ہے:۔
’’اُٹھ اور لڑکے (اسماعیل) کو اُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اُس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا۔‘‘ ۱۲۲؎
پھر لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا:۔
’’ اور اسمٰعیل کے حق میں میں نے تیری سنی، دیکھ میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برومند کروںگا اور اُسے بہت بڑھائوں گا اور اس سے ۱۲ سردار پید اہوں گے اور میں اُسے بڑی قوم بنائوں گا‘‘۔ ۱۲۴؎
اِن پیشگویئوں میں بتایا گیا ہے کہ اسمٰعیل کی نسل بہت پھیلے گی اور بڑی بابرکت ہو گی۔ اگر عرب کے لوگوں کا دعویٰ جھوٹا ہے تو پھر بائبل بھی جھوٹی ہے کیونکہ دنیا میں اور کوئی قوم اپنے آپ کو بنو اسمٰعیل نہیں کہتی جس کو پیش کر کے بائبل کی اِن پیشگوئیوں کو سچا ثابت کیا جا سکے اور اگر قریش بنو اسمٰعیل ہیں تو پھر ابراہیم بھی سچا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قریش کو برکت دی اور ابراہیم ؑ کی وہ پیشگوئیاں اُن کے ذریعہ پوری ہوئیں جو بنو اسمٰعیل کے متعلق تھیں۔
تاریخ کا سب سے بڑا ثبوت قومی روایات ہی ہوتی ہیں اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ ایک قوم سینکڑوں سال سے اپنے آپ کو بنو اسمٰعیل کہتی چلی آئی ہے اور اُس کے بیان کو مزید تقویت اِس بات سے یہ حاصل ہوتی ہے کہ دنیا کی اور کوئی قوم اپنے آپ کو بنو اسمٰعیل نہیں کہتی۔ پھر جہاں بائبل مانتی ہے کہ بنو اسمٰعیل فاران میں رہے وہاں عرب کے لوگ بھی مکہ سے لے کر شمالی عرب کی سرحد تک کے علاقہ کو فاران کہتے چلے آرہے ہیں۔ پس یقینا یہی علاقہ فاران تھا جیسا کہ یقینا قریش ہی بنو اسمٰعیل تھے اور فاران سے ظاہر ہونے والا جلوہ عربوں سے ہی ظاہر ہونے والا تھا۔
بنو اسمٰعیل کے عرب میں رہنے کا یہ بھی ثبوت ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ۱۲ بیٹوں کے نام جو بائبل میں آتے ہیں یہ ہیں۔ نبیت۔ قیدار۔ اوبئیل۔ مبسام۔ مشماع۔ دُومہ۔ مسا۔ حدد۔ تیما۔ یطور۔ نفیس۔ قدمہ۔۱۲۵؎
قدیم رواج کے مطابق اِن کی اولادوں کے نام بھی اپنے باپوں پر ہوں گے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد اپنے باپوں کے نام سے کہلاتی ہے اِسی طرح ملکوں کے نام بھی پُرانے دستور کے مطابق بِالعموم قوموں کے نام پر رکھے جاتے ہیں۔ اِس رواج کو مدنظر رکھتے ہوئے جب ہم دیکھتے ہیںتو سارے عرب میں اِن بیٹوں کی اولاد پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔
پہلا بیٹا نبیت تھا جس کی اولاد جغرافیہ نویسوں کے بیان کے مطابق ۳۰۔ ۳۸ ڈگری عرضِ شمالی اور ۳۶۔ ۳۸ ڈگری طول مشرقی کے درمیان رہی تھی۔ چنانچہ ریورنڈ کاتری بی کاری ایم اے نے اِس کو تسلیم کیا ہے کہ اُن کے نزدیک فلسطین سے لے کر بندر ینبوع تک جو مدینہ منورہ کا بندر ہے یہ قوم پھیلی ہوئی تھی۔
دوسرا بیٹا قیدار تھا۔ اِس کی قوم بھی عربوں میں پائی جاتی ہے۔ قیدار کے معنی ہیں ’’اونٹوں والا‘‘ یہ قبیلہ حجاز اور مدینہ کے درمیان آباد ہے۔ بطلیموس اور پلینی دونوں نے اپنے جغرافیوں میں حجاز کی قوموں کا ذکر کرتے ہوئے کیڈری اور گڈرونائینی قوموں کا ذکر کیا ہے جو صاف طور پر قیدار ہی کا بگڑا ہو اہے تلفظ ہے اور اب تک بعض عرب اپنے آپ کو قیدار کی نسل سے بتاتے ہیں۔
تیسرا بیٹا اوبئیل تھا جو زیفس کے بیان کے مطابق اوبئیل نامی قوم بھی اسی عرب علاقہ میں بستی تھی۔
چوتھا بیٹا مبسام تھا اس کا ثبوت عام جغرافیوں میں کہیں نہیں ملتا لیکن ممکن ہے کہ یہ نام بگڑ گیا ہو اور کسی اَور شکل میں پایا جاتا ہو۔
پانچواں بیٹا مشماع تھا۔ عرب میںاب تک بنو مسماع پائے جاتے ہیں۔
چھٹا بیٹا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا دومہ تھا اور دومہ کا مقام اب تک عرب میں پایاجاتا ہے جس کا ذکر عرب جغرافیہ نویس ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں کہ دومہ اسمٰعیل کا بیٹا تھا جس کے نام پر یہ نام پڑا۔ چنانچہ عرب میں یہ ایک مشہور مقام ہے۔
ساتواں بیٹا مسا تھا۔ اس کے نام پر بھی ایک قوم یمن میں پائی جاتی ہے اور اس کی جائے رہائش کے کھنڈرات وہاں موجود ہیں۔ ریورنڈ کاتری بی کاری نے اپنی کتاب میں اُن کاذکر کیا ہے۔
آٹھواں بیٹا حدد تھا اس کے نام پر یمن کا مشہور شہر حدیدہ بنا ہوا ہے۔
نواں بیٹا تیما تھا۔ نجد سے حجاز تک کا علاقہ تیما کہلاتا ہے اور یہاں یہ قوم بستی ہے بلکہ خلیج فارس تک پھیل گئی ہے۔
دسواں بیٹا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا یطور تھا۔ اِن کا مقام بھی عرب میں معلوم ہوتا ہے اور جدور کے نام سے مشہور ہے جو یطور کا بگڑا ہوا ہے ۔یا عام طور پر ج سے بدل جاتی ہے اور ط اور ت ،د سے بدل جاتے ہیں یس جدور اصل میں یطور ہی ہے۔
گیارہواں بیٹا نفیس تھا اور مسٹر فاسٹر کا بیان ہے جو زیفس اور تورات کی سند کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم بھی بیابانِ عرب میں رہتی تھی۔
بارہواں بیٹا قدمہ تھا۔ اِن کی جائے رہائش بھی یمن میں ثابت ہے۔ مشہور جغرافیہ نویس مسعودی لکھتا ہے کہ مشہور قبیلہ اصحابُ الرس جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی آتا ہے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا اور وہ دو قبیلے تھے ایک کا نام قدمان تھا اور ا یک کا نام یامین تھا۔ بعض جغرافیہ نویس کہتے ہیں کہ دوسرے قبیلے کا نام یامین نہیں بلکہ رعویل تھا۔
ان جغرافیائی اور تاریخی شواہد سے صاف ثابت ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی تمام اولاد عرب میںبستی تھی۔ یہ تمام اولاد چونکہ خانہ کعبہ اور مکہ کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرتی چلی آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام مکہ میں ہی آکر بسے تھے اور اس وجہ سے یہی علاقہ عربوں اور تورات کے بیان کے مطابق فاران کا علاقہ ہے۔
یسعیاہ نبی کی پیشگوئی عرب کے متعلق
یسعیاہ نبی کے الہامی کلام کی شہادت بھی اِس بات کی تائید میں ہے کہ بنو اسمٰعیل
عرب میں رہے۔ چنانچہ یسعیاہ باب ۲۱ میں لکھا ہے:
’’ عرب کی بابت الہامی کلام۔ عرب کے صحرا میں تم رات کاٹو گے۔ا ے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کر پیاسے کا استقبال کرنے آئو۔ا ے تیما کی سرزمین کے باشندو! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو۔ کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا۔ ہنوز ایک برس مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا‘‘۔۱۲۶؎
اِس پیشگوئی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے ایک سال بعد جو جنگ بدر ہوئی تھی اُس کا ذکر کیا گیا ہے۔ اِس سے بنو قیدار یعنی مکہ اور مکہ کے اِردگرد رہنے والے لوگ بہت بُری طرح مسلمانوں سے ہارے اور اُن کی تلواروں اور کمانوں کی تاب نہ لاکر نہایت ذلت سے پسپا ہوئے۔ اِس پیشگوئی کے اوپر صاف لکھا ہے ’’ عرب کی بابت الہامی کلام‘‘ اور اِس میں تیما اور قیدار کو عرب کا علاقہ قرار دیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے الہام کے مطابق ۷۱۴ برس قبل مسیح جو یسعیاہ کا زمانہ تھا اُس وقت حجاز میں اسمٰعیل کی اولاد بس رہی تھی۔
غرض جس نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھیں یہ ثابت ہے کہ قریش بنو اسمٰعیل تھے اور فاران بائبل کے مطابق وہی علاقہ ہے جس میں بنو اسمٰعیل رہے۔
حبقوق نبی کی پیشگوئی
پس فاران سے ظاہر ہونے والا جلوہ یقینا جلوۂ محمدی ہی تھا جس کی خبر موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ دی گئی اور اس کی خبر حبقوق نبی
نے مسیح سے ۶۲۶ برس پہلے دی اور کہا:
’’ خدا تیما سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا۔ سلاہ۔ اُس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اُس کی حمد سے معمور ہوئی اور اُس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی۔ اُس کے ہاتھ سے کرنیں نکلیں پر وہاں بھی اُس کی قدرت درپردہ تھی۔ مری اُس کے آگے آگے چلی اور اُس کے قدموں پرآتشی وبا روانہ ہوئی۔ وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کو لرزہ دیا۔ اُس نے نگاہ کی اورقوموں کو پراگندہ کر دیا اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے دھنس گئیں۔ اُس کی قدیم راہیں یہی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بپت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے‘‘۔۱۲۷؎
اِس پیشگوئی میں بھی تیما او ر کوہِ فاران سے ایک قدوس کے ظاہر ہونے کا ذکر آتا ہے۔ پس موسیٰ کی پیشگوئی اور حبقوق کی پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ حضر ت مسیحؑ تک انسان اپنے ارتقاء کے آخری نقطہ کو پہنچنے والا نہ تھا بلکہ حضر ت مسیح کے بعد ایک اور جلوۂ الٰہی ظاہر ہونے والا تھا جس کو صرف جمالی جلوہ نہیں ہونا تھا بلکہ اُس کے ساتھ ایک آتشی شریعت کا ہونا بھی لازمی تھا اور جیساکہ ہم اُوپر ثابت کر چکے ہیں کہ تیما کی سرزمین اور کوہِ فاران سے ظاہر ہونے والے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور اُن کی آتشی شریعت قرآن کریم تھی جس نے گناہوں او ر شیطانی کاروبار کو جلا کر رکھ دیا۔ موسیٰ نے کہا جب وہ کوہِ فاران سے ظاہر ہو گا تو اُس کے ساتھ دس ہزار قدوسی آئیں گے۔ وہ کون تھا جو کوہِ فاران سے ظاہر ہوا اور اُس کے ساتھ دس ہزار قدوسی تھے؟ وہ صرف محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جو فاران کی پہاڑیوں پر سے ہوتے ہوئے جب مکہ پر حملہ آور ہوئے تو آپ کے ساتھ دس ہزار آدمی تھا جس پر ساری تاریخیں متفق ہیں۔ کیا مسیح پر یہ پیشگوئی چسپاں ہو سکتی ہے؟ کیا دائود پر یہ پیشگوئیاں چسپاں ہو سکتی ہیں؟ وہ کب فاران سے ظاہر ہوئے اور کب اُن کے ساتھ دس ہزار قدوسی تھے؟ مسیح کے ساتھ توکل ۱۲ حواری تھے جن میں سے ایک نے مسیح کو چند روپے لے کر بیچ دیا اور دوسرے نے اُس پر *** کی۔ باقی رہ گئے دس۔ سو بائبل کہتی ہے کہ وہ دس بھی بھاگ گئے اگر وہ قائم بھی رہتے اور نہ بھاگتے تب بھی دس اور دس ہزار میں بڑا بھاری فرق ہے اور تورات تو کہتی ہے کہ وہ اُس کے ساتھ ہوںگے اور مسیح کے دس آدمیوں کی نسبت انجیل کہتی ہے کہ وہ اُس کا ساتھ چھوڑ گئے۔
اِسی طرح حبقوق میں لکھا ہے’’ زمین اُس کی حمد سے معمور ہوئی‘‘۔ وہ کون ہے جس کا نام محمد تھا اور جس کے دشمن اُسے گالیاں دیتے تو اُس کا نام لے کر اُنہیں گالیاں دینے کی جرأت نہیں ہوتی تھی کیونکہ محمد یعنی تعریف والا کہہ کر وہ اُسے کیا گالی دے سکتے تھے اِس لئے وہ اس کو مذمم کہہ کر گالی دیتے تھے اور جب کبھی آپ کے صحابہ کو گالیاں سن کر جوش آتا تو آپ فرماتے تمہارے لئے جوش کی کوئی وجہ نہیں۔ وہ مجھے تو گالیاں نہیں دیتے وہ تو کسی مذمم کو گالیاں دیتے ہیں۔ پس وہ جس کے نام میں ہی حمد آتی ہے اور جس کی اُمت کی شاعری کا ایک جز و ہی نعت ِمحمد (یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ) ہو گیا ہے کیا اُس کے سوا کوئی اور شخص بھی اس پیشگوئی کا مستحق ہو سکتا ہے؟
پھر لکھا ہے۔’’ مری اُس کے آگے چلی اور اُس کے قدموں پر آتشی وباروانہ ہوئی‘‘۔ یہ پیشگوئی بھی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے کیونکہ آپ کے ذریعہ خد اتعالیٰ نے آپ کے دشمن کو تباہ کیا۔ گو اِس جگہ مری کے الفاظ ہیں جو بیماری پر دلالت کرتے ہیں مگر مراد تباہی اور ہلاکت ہی ہے کیونکہ جس ذریعہ سے بھی موت عام ہو جائے وہ مری اور وبا کہلائے گا۔پھر لکھا ہے۔ ’’ وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کو لرزہ دیا۔ اُس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا‘‘۔
یہ پیشگوئی بھی نہ تو موسٰی ؑعلیہ السلام پر صادق آسکتی ہے نہ مسیح علیہ السلام پر۔ موسیٰ علیہ السلام تو اپنے دشمن سے لڑتے ہوئے فوت ہو گئے اور مسیح علیہ السلام کو تو بقول عیسائیوں کے اُن کے دشمنوں نے پھانسی دے دیا۔ جس نے ز مین کو لرزہ دیا اور جس کی نگاہ نے قوموں کو پراگندہ کر دیا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے۔ خود آپ نے دعویٰ فرمایا ہے نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِیْرَۃَ شَھْرٍ۱۲۸؎ خدا تعالیٰ نے مجھے رعب عطا فرما کر میری مدد کی ہے میںجہاں جائوں ایک مہینہ کے فاصلہ تک دشمن مجھ سے ڈر جاتا ہے۔
پھر لکھا ہے ’’ قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے دھنس گئیں‘‘۔
یہ پیشگوئی بھی رسول کریم ﷺکے ذریعہ ہی ثابت ہوئی، کیونکہ آپ کے دشمن آپ کے مقابلہ میں ہلاک و تباہ ہو گئے اور پہاڑ اور پہاڑیوں سے مراد طاقتور دشمن ہی ہوا کرتے ہیں۔
پھر لکھا ہے ’’ میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بپت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے‘‘۔
اِس پیشگوئی سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آنے والا موعود شام سے کسی باہر کے علاقے کا ہو گا اور جب اُس کی فوجیں کیش یا کوشان اور مدائن کے علاقوں کی طرف بڑھیں گی تو اُن علاقوں کی فوجیں اس کی فوجوں کے آگے لرز جائیں گی۔ اس پیشگوئی کے موعود بھی موسیٰ علیہ السلام نہیں ہو سکتے نہ مسیح علیہ السلام ہو سکتے ہیں یہ پیشگوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ کی مٹھی بھر فوج آپ کے خلیفہ اوّل حضر ت ابوبکر ؓ کے زمانہ میں فلسطین کی طرف بڑھی تو باوجود اس کے کہ کنعان اُس وقت قیصر روما کے ماتحت تھا اور وہ آدھی دنیا کا بادشاہ تھا مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج کے آگے قیصر کی فوجیں اس طرح بھاگیں کہ کیش کے خیموں پر آفت آگئی اور زمین مدیان کے پردے کانپ گئے اور ان علاقوں نے اپنی نجات اس بات میں پائی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں کے قدموں میں اپنے ہتھیار ڈال دیں۔
چوتھی پیشگوئی۔ ایک محبوب نبی کا دس ہزار آدمیوں کے ساتھ ظہور
حضرت سلیمانؑ فرماتے ہیں:۔
(الف) ’’ میرا محبوب سرخ و سفید ہے۔ دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے اُس کا سر ایسا ہے جیسا چھو کا سونا۔ اُس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوّے کی سی کالی ہیں۔ اُس کی آنکھیں اُن کبوتریوں کی مانند ہیں جولب دریا دودھ میں نہا کے تمکنت سے بیٹھتی ہیں۔ اُس کے رخسارے پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاری کی مانند ہیں۔ اُس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مُرٹپکتا ہے۔ اُس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میںترسیس کے جواہر جڑے گئے۔ اُس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم سے گل بنے ہوں۔ اُس کے پیر ایسے جیسے سنگِ مر مر کے ستون جو سونے کے پایوں پر کھڑے کئے جاویں۔ اُس کی قامت لبنان کی سی۔ وہ خوبی میں رشک سرو ہے۔ اُس کا منہ شیرینی ہے ہاں وہ سراپا عشق انگیز ہے۔ اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا ہے یہ میرا جانی ہے‘‘۔۱۲۹؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ ایک نبی پیدا ہونے والا ہے جو دوسرے نبیوں سے افضل ہوگا۔ کیونکہ لکھا ہے:
’’ تیرے محبوب کو دوسرے محبوب کی نسبت سے کیا فضیلت ہے‘‘۔۱۳۰؎
پھر اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ محبوب دس ہزار آدمیوں کے درمیان جھنڈے کی مانند کھڑا ہو گا۔ چونکہ جھنڈا فوج کی علامت ہے اِس لئے اِس کے معنی یہ ہیں کہ ایک عظیم الشان موقع پر وہ دس ہزار سپاہیوں کی افسری کرے گا۔
پھر لکھا ہے۔ ’’ اُس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مُر ٹپکتا ہے‘‘۔
مُر ایک گوند ہے جس کا مزہ تلخ لیکن تأثیر نہایت اعلیٰ اور خوشبو نہایت عمدہ ہوتی ہے۔ کیڑوں کے مارنے کے لئے نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور زخموں کے اند مال میں نہایت ہی مفید ہے۔ کرم کش اَدْوِیہ میں پڑتی ہے اور زخموں کی مرہموں میں ڈالی جاتی ہے۔ اسی طرح خوشبوئوں کے مصالحوں میں بھی اُس کو استعمال کیا جاتا ہے اور عطروں کے بنانے میں بھی کام میں لائی جاتی ہے۔
پھر لکھا ہے:۔
’’ وہ محمدیم ہے‘‘۔ اِس کا ترجمہ انگریزی بائبل میں ALL TOGATHER LOVELY کیا گیا ہے اور اُردو بائبل میں سراپا عشق انگیز کیاگیا ہے۔ یعنی اُسے دیکھ کر انسان اُس سے محبت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ یہ پیشگوئی واضح طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتی ہے۔ آپ ہی موسیٰ کی پیشگوئی کے مطابق دس ہزار قدوسیوں کے سردار ہونے کی حیثیت میں فاران کی چوٹیوں پر سے گزر تے ہوئے مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے۔ آپ ہی وہ شخص تھے جن کا کلام صحیح معنوں میں دنیا کے لئے مُر ثابت ہوا ہے اور اس میں انسانی اصلاح کے لئے تمام قواعد بیان کر دئیے گئے ہیں جو بعض قومو ں کے منہ میں کڑوے معلوم ہوتے ہیں گو ہیں وہ کرم کش اور خوشبو دار۔ اور آپ ہی ہیں جن کا نام محمد تھا۔
عیسائی مصنف اِس پیشگوئی سے گھبرا کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس موعود کا نام محمدنہیں بلکہ محمدیم لکھاہے۔ لیکن یہ اعتراض ایک بے معنی اعتراض ہے۔ تورات نے تو خدا کو بھی ’’ الوہیم‘‘ لکھا ہے۔ عبرانی زبان کا قاعدہ ہے کہ وہ اعزاز اور اکرام کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کر دیتی ہے۔ اُردو زبان میں بھی ہم دیکھتے ہیںکہ اعزاز کے موقع پر جمع کے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ اگر ایک اُردولیکچرار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کوئی لیکچر دے گا تو آخر میں کہے گا یہ ہیں ہمارے محمد۔ حالانکہ اس کی مراد یہ ہو گی کہ گو ہمارا آقا محمد تو ایک ہی شخص ہے لیکن میں آپ کے اعزاز کے طور پر جمع کا لفظ بولتا ہوں۔
(ب) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک اور پیشگوئی غزل الغزلات باب ۴ میں بیان ہوئی ہے۔ اس میں حضرت سلیمان اپنی محبوبہ کو بہن بھی کہتے ہیں اور ساتھ ہی زوجہ بھی کہتے ہیں چنانچہ غزل الغزلات باب ۴ آیت ۹ میں اپنی محبوبہ کی نسبت کہتے ہیں:۔
’’ اے میری بوا میری زوجہ‘‘
پھر آیت ۱۰ میںلکھا ہے:۔
’’ اے میری بہن میری زوجہ‘‘۔
پھر آیت ۱۲ میں لکھا ہے۔
’’ میری بوا میری زوجہ‘‘۔
اِن دونوں الفاظ کا جوڑ بتاتا ہے کہ آنے والا محبوب بنو اسمٰعیل میں سے ہوگا۔ جیسے حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ وہ تیرے بھائیوں میں سے ہوگا۔ چونکہ حضرت سلیمان اس کو ایک معشوق کی صورت میں پیش کر رہے ہیں اِس لئے انہوں نے بجائے بھائی کے بہن کا لفظ استعمال کیا ہے اور ا س میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس کی تعلیم بنو اسحاق کے نبیوں کی طرح صرف اپنی قوم کے لئے نہیں ہوگی بلکہ دوسری اقوام کے لئے بھی اُس کے گھر کا دروازہ کھلا ہو گا جس کی طرف زوجہ کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے۔اس پیشگوئی میں مؤنث کے صیغوںسے دھوکا نہیں کھانا چاہئے کیونکہ یہ ایک شاعرانہ رنگ کا کلا م ہے چنانچہ اِسی باب کے آخر میں جا کر کہا ہے۔
’’ میرا محبوب اپنے باغیچے میں آوے اور اُس کے لذیذ میوے کھاوے‘‘۔۱۳۱؎
یہاں بجائے مؤنث کے مذکر کا صیغہ استعمال کر دیا گیا ہے۔ یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا کسی اور پر پوری نہیں ہوتی۔ حضرت مسیح بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے نہیں تھے نہ اُن کی تعلیم غیر قوموں کے لئے تھی جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے۔
(ج) اِسی طرح غزل الغزلات میں لکھا ہے:۔
’’ میں سیاہ فام جمیلہ ہو ں۔ اے یروشلم کی بیٹیو! قیدار کے خیموں کی مانند، سلیمان کے پردوں کی مانند مجھے مت تاکو کہ میں سیاہ فام ہوں‘‘۔۱۳۲؎
اِس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک ایسے نبی کی خبر دی ہے جو جنوب کا رہنے والا ہو گا اور بنو اسحق کی نسبت جو شمال کے رہنے والے تھے اُس کا رنگ کم اُجلا ہو گا یا یوں کہو کہ اُس کی قوم کا رنگ کم اُجلا ہو گا۔ چنانچہ شامیوں اور فلسطینیوں کے رنگ بوجہ شمال میں رہنے کے عربوں کی نسبت زیادہ سفید ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں پیدا ہوئے تھے۔
(د) اِسی باب میں پھر آنے والے موعود کی یہ علامت بتائی گئی ہے کہ :۔
’’ میری ماں کے بیٹے ناخوش تھے۔ انہوں نے مجھ سے تاکستانوں کی نگہبانی کرائی، پر میں نے اپنے تاکستانوں کی جو خاص میرا ہے نگہبانی نہیں کی‘‘۔۱۳۳؎
یہ درحقیقت موعود کی قوم کی طرف اشارہ ہے۔ عرب لوگ کہیں قیصر کی نوکری کرتے تھے اور کہیں ایرانیوں کی نوکریاں کرتے تھے مگر خود اپنے ملک کی ترقی کا اُ ن کو کوئی خیال نہ تھا۔ یہاں تک کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور انہوں نے اُن کے اندر بیداری پیدا کی اور اُن کی روحانی اور علمی اور سیاسی اصلاح کی جس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ عرب اپنے تاکستانوں کے محافظ ہو گئے بلکہ وہ دنیا بھر کے تاکستانوں کے آزاد محافظ بن گئے۔
(ہ)اسی طرح غزل الغز لات میں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ اسرائیلی سلسلہ کے لوگوں کو چاہئے کہ آنے والے موعود کو خواہ مخواہ اپنی طرف متوجہ نہ کریں ورنہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’ اے یروشلم کی بیٹیو! میں غزالوں اور میدان کی ہرنیوں کی قسم تمہیں دیتا ہوں کہ تم میری پیاری کو نہ جگائو اور نہ اُٹھائو جب تک وہ اُٹھنے نہ چاہے‘‘۔۱۳۴؎
یہی مضمون پھر باب ۳ آیت ۵ میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضمون پھر سہ بارہ باب ۸ آیت۴ میں بیان کیا گیا ہے۔ا ِن عبارتوں کا مطلب یہی ہے کہ جب وہ نبی ہو گاتو یہود اور عیسائی بنی اسرائیل کی دو شاخیں اُسے دِق کریں گی اور وہ اُس کو مجبور کریں گی کہ وہ اُن پر حملہ کرے لیکن چونکہ وہ خد تعالیٰ کی طرف سے ہو گا یہود اور عیسائی اُس کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہو سکیں گے بلکہ خطرناک شکست کھائیں گے۔ حضرت سلیمانؑ اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہیں کہ دیکھ! اُس کو جگانا نہیں یعنی اُس کو چھیڑ کر اپنی طرف متوجہ نہ کرنا۔ ہاں جب وہ آپ جاگے یعنی جب خداتعالیٰ کی مشیت چاہے کہ وہ تمہارے ملکوں کی طر ف توجہ کرے تو پھر بے شک کرے مگر خود اُس کو نہ چھیڑنا اس لئے کہ جو قوم خود کسی نبی کو چھیڑتی ہے وہ اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنا لیتی ہے جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑ کر اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنالیا۔ لیکن اگر کوئی قوم نہ چھیڑے تو نبی اُس کی طرف جارحانہ طور پر توجہ نہیں کرتا۔ صرف وعظ و نصیحت سے اُس کو مخاطب کرتا ہے۔ نبی تلوار اُس کے خلاف اُٹھاتے ہیں جو پہلے اُن کے خلاف تلوار اُٹھاتے ہیں اور اُنہی کے خلاف جنگ کرتے ہیں جو خد اکے سچے دین کو مٹانے کے لئے جبرا ور تعدی سے کام لیتے ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس پر شاہد ہے اور حضرت سلیمان نے اپنی قوم کو اِسی خطرہ سے آگاہ کیا ہے۔
یہ پیشگوئیاں کسی صورت میں بھی حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہو سکتیں۔ نہ تو مسیح فلسطین کے جنوب میںپیدا ہوئے نہ وہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے تھے نہ اُن کو کوئی ایسی طاقت حاصل تھی کہ اُن کو چھیڑنے کی وجہ سے بنو اسرائیل تباہ ہوتے۔ یہ ساری کی ساری پیشگوئیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں ہو سکتی ہیں اور اُنہی کی خبر غزل الغزلات میں دی گئی ہے۔ غزل الغزلات درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے اظہار میں لکھی گئی ہے۔
پانچویں پیشگوئی۔ یسعیاہ نبی نے بھی ایک عظیم الشان نبی کے ظہور کی خبر دی
یسعیاہ کی کتاب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے بھری پڑی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ
ایک عظیم الشان نبی اَورآنے والا ہے جو دنیا کیلئے سلامتی اور امن لائے گا لیکن جیسا کہ سنتِ الٰہی ہے پیشگوئیوں میں ایک رنگ اخفاء کا بھی پایا جاتا ہے۔ چنانچہ یسعیاہ کی پیشگوئیوں میں بھی یروشلم اور صیہوں وغیرہ کے نام آئے ہیں جس کی وجہ سے مسیحی مصنفوں نے دھوکا کھایا ہے کہ یہ پیشگوئیاں مسیح کے متعلق ہیں۔ حالانکہ یروشلم یا بنو اسرائیل یا صیہوں کے الفاظ اپنی ذات میں تو پیشگوئی کا کوئی حصہ نہیں۔ ا گر پیشگوئی کی تفصیلات مسیح پر چسپاں نہیں ہوتیں تو صرف یروشلم اورصیہو ں کے الفاظ سے کیا دھوکا لگ سکتا ہے۔اس صورت میں ہمیں یہی ماننا پڑے گا کہ یروشلم اور صیہوں اور بنی اسرائیل سے مراد صرف یہ ہے کہ میرے مقدس مقامات اور میری پیاری قوم نہ کہ حقیقی طور پر یروشلم اور صیہوں اور بنی اسرائیل۔
(الف) اس سلسلہ میں سب سے پہلی پیشگوئی میں یسعیاہ باب ۴ سے نقل کرتا ہوں۔ لکھا ہے:۔
’’ اُس دن سات عورتیں ایک مرد کو پکڑکر کہیں گی کہ ہم اپنی روٹی کھائیں گی اور اپنے کپڑے پہنیں گی تُو ہم سب سے صرف اتنا کرکہ ہم تیرے نام کی کہلاویں تاکہ ہماری شرمندگی مٹے۔ اُس دن خداوند کی شان شوکت اور حشمت ہوگی اور زمین کاپھل اُن کے لئے جو بنی اسرائیل میں سے بچ نکلے لذیذ اور خوشنما ہو گا اور ایسا ہوگا کہ ہر ایک جو صیہوں میں چھوٹا ہوا ہو گااور یروشلم میں باقی رہے گا۔ بلکہ ہر ایک جس کا نام یروشلم کے زندوں میں لکھا ہو گا مقدس کہلائے گا‘‘۔۱۳۵؎
اِس پیشگوئی میں اگر صیہوں اور یروشلم کو استعارہ قرار دیا جائے تو جو مفہوم اِس پیشگوئی کا نکلتا ہے وہ سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی پر صادق نہیں آتا۔اِن آیتوں میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنے والے موعود کے ساتھ شوکت اور حشمت ہو گی اور اُس کو دنیا کی غنیمتیں ملیں گی اور اُس کی قوم کے لوگ مقدس کہلائیں گے اور اُس کے زمانہ میں کثرتِ ازدواج کی ضرورت ہوگی۔ کیا یہ باتیں مسیح اور اُس کے حواریوں پر چسپاں ہوتی ہیں؟ کیا مسیح کا زمانہ شوکت اور حشمت والا تھایا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ شوکت اور حشمت والا تھا؟ کیا دنیا کی غنیمتیں مسیح اور اُس کے حواریوں کو ملیں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے صحابہ کو؟ کیا مسیح کے زمانہ میں کثرتِ ازدواج کی ضرورت پیش آئی یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں؟ مسیح نے تو کثرتِ ازدواج کو ناپسند کیا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرتِ ازدواج کو مناسب حالات میں جائز بلکہ پسندیدہ کہا ہے۔ آپ ہی کے زمانہ میں لڑائیاں ہوئیں اور لڑائیوں میں جوان آدمی مارے گئے اور عورتیں یا بیوہ ہو گئیں یا جوان عورتوں کے لئے رشتے میسر نہ آئے۔ پس آپ نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ ایسی صورت میں مردوں کا فرض ہے کہ ایک سے زیادہ عورتوںسے شادیاں کریں تاکہ قوم میں بدکاری اور آوارہ گردی پیدا نہ ہو۔
(ب) یسعیاہ نبی اپنی کتاب کے باب ۵ میں پیشگوئی فرماتے ہیں:۔
’’ وہ قوموں کے لئے دُور سے ایک جھنڈا کھڑا کرتا ہے اور اُنہیں زمین کی اشیاء سے سیٹی بجا کے بلاتا ہے اور دیکھ وے دَوڑ کے جلد آتے ہیں۔ کوئی اُن میں نہ تھک جاتا اور نہ پھسل پڑتا ہے۔ وے نہیں اُونگھتے اور نہیںسوتے۔ اُن کا کمر بند کھلتا نہیں ہے اور نہ اُن کی جوتیوں کا تسمہ ٹوٹتا ہے۔اُن کے تیر تیز ہیں اور اُن کی ساری کمانیں کشیدہ ہیں۔ اُن کے گھوڑوں کے سم چقماق کے پتھر کی مانند ٹھہرتے اور اُن کے پہیے گرد باد کی مانند وے شیرنی کی مانند گرجتے ہیں۔ ہاں وے جوان شیروں کی مانند گرجتے ہیں وے غراتے اور شکار پکڑتے اور اُسے بے روک ٹوک لے جاتے ہیں اور کوئی بچانے والا نہیں اور اُس دن اُن پر ایسا شور مچائیں گے جیسا سمندر کا شور ہوتا ہے اور یہ زمین کی طرف تاکیں گے اور کیا دیکھتے ہیں کہ اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اُس کی بدیو ں سے تاریک ہو جاتی ہے‘‘۔۱۳۶؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک زمانہ میں تمام قوموں کے لئے فلسطین سے دُور کسی جگہ پر ایک جھنڈا کھڑا کرے گا اور اس جھنڈے والا دنیا کی مختلف قوموں کو بلائے گا اور وہ جلدی سے دَوڑ کر اُس کے پا س جمع ہو جائیںگی۔ وہ لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے ہوںگے اور غفلت اور سستی سے محفوظ ہوںگے۔اُنہیں لڑائیاں کرنی پڑیں گی۔ اُن کے گھوڑوں کے سموں سے آگ نکلے گی اور جب وہ حملہ کرنے کے لئے چلیں گے تو ہوا میں گرداُڑے گی۔ وہ اپنے شکار پر غالب آجائیں گے اور اُن کے شکار کو کوئی بچانے والا نہیں ہو گا۔ وہ ایسا کیوں کریں گے؟ اس لئے کہ وہ دیکھیں گے کہ ز مین میں تاریکی اور ظلمت پھیلی ہوئی ہے اور لوگ ایک عظیم الشان انقلاب کے محتاج ہیں۔
یہ پیشگوئی کُلّی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ صرف چسپاں ہوتی ہے بلکہ قرآن کریم میں اِس پیشگوئی کے مطابق فلسطین سے دُور یعنی مکہ میں آپ ظاہر ہوئے اور آپ کا جھنڈا مدینہ میں کھڑا کیا گیا۔ آپ ہی تھے جنہوں نے قرآنی الفاظ میں یہ اعلان کیا۱۳۷؎ اے انسانو! میں تما م لوگوں کی طرف خدا کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ آپ ہی کی آواز پر چاروں طرف سے لوگ دَوڑنے لگ گئے اور جلد جلد آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ مسیح کی زندگی میں تو ایک شخص بھی غیرقوموں میں سے اُس پر ایمان نہیں لایا تھا۔ اُس کے سارے کے سارے حواری چالیس پچاس میل کے حلقہ کے اندر رہنے والے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر یمن کے رہنے والے اور نجد کے رہنے والے یہودیوں میں سے بھی اور ایرانیوں میں سے بھی اور عیسائیوں میں سے بھی ایمان لائے اور آپ کے گرد جمع ہو گئے اور اِس پیشگوئی کے مطابق اُنہوں نے ایسی قربانیاں اور اَن تھک کو ششیں کیں کہ دشمن سے دشمن بھی اُن کی قربانیوں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتا اور خدا تعالیٰ نے بھی اپنے کلام میں اُن کی نسبت فرمایا ہے ۱۳۸؎ اُنہوںنے ایسی قربانیاں کیں کہ خد اُن سے راضی ہو گیا اور وہ خدا سے راضی ہو گئے۔ اور پھر قرآن کریم میں اُن کا یوں ذکر بھی آتا ہے کہ ۱۳۹؎ کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے عہد پورے کر دئیے ہیں اورکچھ وہ ہیں جو اپنے عہد کے پورا کرنے کے انتظار میں ہیں۔ پھر اُن کو جنگیں بھی پیش آئیں اور تیروں اور کمانوں سے اُنہوں نے کام لیا۔اُن کے گھوڑے چقماق کی طرح ہو گئے اور اُن کے پہییٔ گرد باد۱۴۰؎ کی مانند جس کی طرف خود قرآن کریم میں اشارہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۴۱؎ یعنی ہم قسم کھاتے ہیں اُن اسپ سواروں کی جو تیزی سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ایسی تیزی سے کہ اُن کے گھوڑوں کے ٹاپوں سے آگ نکلنے لگتی ہے اور اُن کے حملہ سے گردو غبار کا ایک طوفان اُٹھ پڑتا ہے اور وہ ایسی شان اور طاقت کے ساتھ اپنے دشمن کی صفوں میں گھس کر اُسے مغلوب کر لیتے ہیں۔ کس طرح لفظ بلفظ اس پیشگوئی کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے۔
پھر یہ جو اِس پیشگوئی میں کہا ہے کہ ’’ وہ زمین کی طرف تاکیں گے اور کیا دیکھتے ہیںکہ اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اس کی بدلیوں سے تاریک ہو جاتی ہے‘‘۔
اِسی کی طرف قرآن کریم میں اِن الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ۱۴۲؎ تمام دنیا میں خشکی اور تری میں فساد اور خرابی پیدا ہو گئی ہے اور خدا تعالیٰ کے ایک مامور کے ظاہر ہونے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح فرماتا ہے۔
۱۴۳؎ یہ خدا کا رسول اس لئے آیا ہے کہ دنیا سب کی سب تاریکی میں پڑی ہے اور وہ اس کو تاریکی سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے۔
(ج) یسعیاہ باب ۸ میں لکھا ہے:۔
’’ ربُّ الافواج جو کہے تم اُس کی تقدیس کرو اور اُس سے ڈرتے رہو اور اس کی ہی دہشت رکھو۔ وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہو گا۔ پر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹکر کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان اور یروشلم کے باشندو ں کے لئے پھندا اور دام ہووے گا۔ بہت لوگ اُن سے ٹھوکر کھائیں گے اور گریں گے اورٹوٹ جائیں گے اور دام میں پھنسیں گے اور پکڑے جائیں گے۔ شہادت نامہ بند کر لو اور میرے شاگردوں کے لئے شریعت پر مہر کرو۔ میں بھی خداوند کی راہ دیکھوں گا جو اَب یعقوب کے گھرانے سے اپنا منہ چھپاتا ہے میں اُس کا انتظار کروںگا‘‘۔۱۴۴؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ خداتعالیٰ کا ایک مقدس ظاہر ہوگا لیکن وہ بنی اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگا اور یروشلم کے باشندوں کے لئے پھندا اور دام بنے گا۔ا گر وہ اس کا مقابلہ کریں گے تو وہ شکست کھائیں گے اور پکڑے جائیں گے۔ اُس کے زمانہ میں یہودی شریعت ختم کردی جائے گی اور یعقوب کے گھرانے سے خدا تعالیٰ منہ پھیر لے گا۔
انجیل نویس اس پیشگوئی کے متعلق خاموش ہیں اور شاید وہ اسرائیل کے دونوں گھرانوں سے وہ دو گھرانے مراد لیتے ہیں جن میں سے ایک نے سلیمان کے بیٹے کا ساتھ دیا تھااور دوسرے نے اُن سے بغاوت کر کے الگ حکومت قائم کر لی تھی۔ لیکن یہ درست نہیں ہوسکتا۔ اِس پیشگوئی میں تو یہ بتایاگیا ہے کہ خدا کا ایک مقدس کھڑا ہو گا اور اُس کے زمانہ میں یہ باتیں ہوں گی۔ یا تو اس مقدس سے مراد مسیح ہے اور یا پھر مسیح کے بعد کوئی اور آنے والا شخص ہے۔ کیونکہ یسعیاہ اور مسیح کے درمیان کوئی ایسا باعظمت انسان نہیں گزرا جس کے ساتھ بنو اسرائیل نے ٹکر کھائی ہو۔ صرف حضرت مسیحؑ ہی ایسے تھے جن سے بنوا سرائیل نے ٹکر کھائی۔ مگر کیا مسیح سے ٹکر کھا کر بنو اسرائیل پکڑے گئے یا اُن کے شاگردوں کے لئے شریعت پر مہر کر دی گئی؟ مسیح تو صاف کہتا ہے کہ :۔
’’ یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ہوں۔ میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو‘‘۔۱۴۵؎
بلکہ مسیح اپنے بعد کے زمانہ کے لئے بھی کہتا ہے کہ:۔
’’ کیا براتی جب تک کہ دولہا اُن کے ساتھ ہے روزہ رکھ سکتے ہیں۔ وے جب تک کہ دولہا اُن کے ساتھ ہے روزہ نہیں رکھ سکتے۔ لیکن وے دن آویں گے جب دولہا اُن سے جدا کیا جائے گا، تب اُنہی دنوں میں وے روزے رکھیںگے‘‘۔۱۴۶؎
اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے فیصلہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد بھی آپ کے حواریوں کے لیے موسوی تعلیم پر عمل کرنا لازم ہوگا۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مسیح یہ کہتا کہ میں نے تو ہمیشہ کے لئے روزے منسوخ کر دئیے ہیںمگر وہ خود روز ے رکھتا ہے اور اپنے حواریوں کے متعلق خبر دیتا ہے کہ گو آجکل اِن میں کمزوری پائی جاتی ہے لیکن آئندہ زمانہ میں وہ روزے رکھنے لگ جائیں گے۔
پس شریعت پر مہر کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شریعت کو بالکل اُڑا دیا گیا بلکہ اس پیشگوئی کے یہی معنی ہیں کہ اُس مقدس کے زمانہ میں موسوی شریعت منسوخ کر دی جائے گی اور ایک نئی شریعت قائم کر دی جائے گی۔ اگر یہ نہ ہوتا تو یہ کیوںکہا جاتا کہ یعقوب کے گھرانے سے خدا اپنا منہ پھیر لے گا۔ کیا مسیح یعقوب کے گھرانے سے نہیں تھا؟ اگر مسیح یعقوب کے گھرانے میں سے نہیں تھا تو وہ دائود کی نسل میں سے نہیں تھا؟ اور اگر وہ دائود کی نسل میں سے نہیں تھا تو پھر مسیح کے متعلق جوپیشگوئیاں ہیں اُن کا بھی وہ مستحق نہیں تھا۔
(د) یسعیاہ باب ۹ میں لکھا ہے:۔
’’ ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا ور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کاندھے پر ہو گی اور وہ اِس نام سے کہلاتا ہے۔ عجیب۔ مشیر۔ خدائے قادر۔ ابدیت کا باپ۔ سلامتی کاشہزادہ۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی۔ وہ دائود کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بندوبست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔ رَبُّ الافواج کی غیوری یہ کرے گی‘‘۔۱۴۷؎
اِس پیشگوئی میں ایک موعود کی خبر دی گئی ہے جو بادشاہ ہو گا اور جس کے پانچ نام ہوں گے (۱) عجیب (۲) مشیر (۳) خدائے قادر (۴) ابدیت کا باپ (۵) سلامتی کا شہزادہ۔ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی اور وہ دائود کے تخت پر ہمیشہ کے لئے بیٹھے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا۔ اناجیل کے حاشیہنویسوں نے اِس باب کے شروع میں لکھا ہے کہ اِس میں مسیح کی پیدائش کی خبر ہے۔ لیکن اُن علامتوں میں سے جو اِس پیشگوئی میں بیان کی گئی ہیں کوئی ایک بھی تو حضرت مسیحؑ پر صادق نہیں آتی۔ وہ کب بادشاہ ہوئے؟ کب اُن کو عجیب۔ مشیر۔ خدائے قادر۔ ابدیت کا باپ اور سلامتی کا شہزادہ کہا گیا؟ ’’عجیب‘‘ تو شاید اُن کی پیدائش کے لحاظ سے اُن کو کہا بھی جا سکے گو ایسا کہا نہیں گیا کیونکہ جو اُ ن کو نہیں مانتے تھے وہ تو اُن کی پیدائش کو ناجائز قرار دیتے تھے۔ پس وہ اُنہیں’’ عجیب‘‘ نہیں قرار دے سکتے تھے اور جو مانتے تھے وہ اُن کی پیدائش کے متعلق مختلف شبہات میں تھے۔ کوئی انہیں دائود کی اولاد قرارد یتا تھا اور کوئی روح القدس کی۔ دوسرا نام مشیر بتایا گیا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مشیر ہونے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ ساری انجیل میں دیکھ لو کسی ایک جگہ بھی انہوں نے اپنی قوم سے مشورہ نہیں لیاا ورنہ انہوں نے اپنی قوم کو کوئی مشورہ دیا۔ پھر وہ مشیر کس طرح کہلائے؟ تیسرا نام خدائے قادر بتلایا گیا ہے۔ مسیح تو ساری عمر ابن اللہ کہلاتے رہے۔ وہ خدائے قادر کس طرح کہلا سکتے تھے؟ اور پھر مسیح تو اناجیل کے بیان کے مطابق پھانسی دے کر مار دیا گیا تھا، ایسا انسان قادر کس طرح کہلا سکتا ہے۔ اناجیل میںصاف آتا ہے کہ جب حضرت مسیح صلیب پر لٹکائے گئے تو یہودیوں نے اُن کو طعنہ دیا کہ اگر تُو خد اکا بیٹا ہے تو صلیب پر سے اُتر آ۔ چنانچہ لکھا ہے:۔
’’ یوں ہی سردار کا ہنوں نے بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ ٹھٹھا مار کے کہا۔ اِس نے اَوروں کو بچا یا مگر آپ کو نہیں بچا سکتا۔ اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اب صلیب پرسے اُتر آوے تو ہم اِس پر ایمان لاویں گے‘‘۔۱۴۸؎
حتی کہ وہ چوربھی حضرت مسیح کے ساتھ صلیب دئیے گئے تھے اُن کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بھی اُسے طعنے مارتے تھے۔۱۴۹؎
پس حضرت مسیحؑ پر یہ حوالہ چسپاں نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس کی قدرت نہ کبھی ظاہر ہوئی نہ لوگوں نے اُس کی قدرت کا کبھی اقرار کیا۔ اُس کے دشمن بھی اُس کی قدرتوں کا انکار کیاکرتے تھے اور اُس کے دوست بھی اُس کی قدرتوں کے منکر تھے۔ا گر ایسا نہ ہوتا تو مسیح کے حواری اُس کو چھوڑ کر بھاگ کیوںجاتے؟ جیسا کہ لکھا ہے:۔
’’ تب سب شاگرد اُسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔‘‘۱۵۰ ؎
کیا کبھی کوئی شخض قادر کو بھی چھوڑا کرتا ہے؟
چوتھا نام ابدیت کا باپ ہے۔ یہ نام بھی حضر ت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ جیسا کہ اوپر ثابت کیا جا چکا ہے وہ خود اپنے بعد ایک مامور کے آنے کی خبر دیتے ہیں۔
پانچواں نام سلامتی کا شہزادہ ہے۔ یہ نام بھی حضر ت مسیحؑ پر چسپاں نہیں ہو سکتا کیونکہ اُنہیں کبھی بادشاہت نصیب ہی نہیں ہوئی کہ اُن کے ذریعہ سے دنیا کو سلامتی ملی ہو وہ تو خود یہود سے دُکھ پاتے رہے، آخر پکڑے گئے اور صلیب پر لٹکائے گئے۔ پس اُنہیں سلامتی کا شہزادہ کسی صورت میں بھی نہیں کہا جا سکتا۔
پھر لکھا ہے ’’اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی۔‘‘ یہ بات بھی حضرت مسیحؑ میں نہیں پائی جاتی۔ نہ اُن کو سلطنت ملی نہ اُس کا اقبال اور سلامتی انہوں نے دیکھی۔ اِسی طرح لکھا ہے ’’ وہ دائود کے تخت پر اور اُس کی مملکت میں آج سے لے کر ابد تک بندوبست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا‘‘۔ یہ بات بھی حضرت مسیحؑ کو نصیب نہیں ہوئی۔ یہ سب کی سب علامتیں رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی پائی جاتی ہیں۔ آپ کے کندھے پر سلطنت رکھی گئی اور گو آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ بادشاہ ہوں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ آپ بادشاہ بننے پر مجبور ہو گئے۔ کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حضرت مسیحؑ تو باوجود اِس کے کہ اُن کے پاس نہ کوئی حکومت تھی نہ طاقت پھر بھی بادشاہ کہلانے کے شوقین تھے جیسا کہ متی باب ۲۱ میں لکھا ہے:۔
’’ مسیح گدھے پر سوار ہو کر یروشلم میں داخل ہو ا تاکہ جونبی نے کہا تھا پورا ہو کہ صیہوں کی بیٹی سے کہو کہ دیکھ تیرا بادشاہ فروتنی سے گدھی پر بلکہ گدھی کے بچہپر سوار ہو کر تجھ پاس آتا ہے‘‘۔۱۵۱؎
اِسی طرح متی باب ۲۷ آیت ۱۱ میں لکھا ہے:۔
’’ یسوع حاکم کے روبرو کھڑا تھا اور حاکم نے اُس سے پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ یسوع نے اُس سے کہا ہاں تُو ٹھیک کہتا ہے‘‘۔
لوقا باب ۲۳ میں لکھاہے:۔
’’ اور ساری جماعت اُٹھ کے اُسے پیلا طوس کے پاس لے گئی اور اس پر نالش کرنی شروع کی کہ اُسے ہم نے قوم کو بہکاتے اور قیصر کو محصول دینے سے منع کرتے اور اپنے تئیں مسیح بادشاہ کہتے پایا۔ تب پیلا طوس نے اُس سے پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ اُس نے اُس کے جواب میں کہا وہی ہے جو تُو کہتا ہے‘‘۔۱۵۲؎
یوحنا باب ۱۸ آیت ۳۷ میں لکھا ہے:۔
’’ تب پیلا طوس نے اُسے کہا سو کیا تو بادشاہ ہے؟ یسوع نے جواب دیا کہ جیسا آپ فرماتے ہیں میں بادشاہ ہو ں‘‘۔
لیکن رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود حکومت اور طاقت حاصل ہونے کے بادشاہ کہلانے سے سخت نفرت رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ قیصرو کسریٰ والا رنگ ہم میں نہیں ہونا چاہئے۔ اُن کو جب خدا تعالیٰ اقتدار بخشتا ہے تو وہ بنی نوع انسان کو غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے خدمت خلق کے لئے پیدا کیا ہے۔
پھر لکھاتھا کہ اُس کا نام’’ عجیب ‘‘ہو گا۔ حضر ت مسیح خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ عجیب نام پانے والا وہ موعود ہے جواُن کے بعد آئے گا۔ چنانچہ انگور ستان کی مثال میں حضرت مسیح کہتے ہیں:۔
’’ ایک مالک نے انگور ستان لگایا اور باغبا نوں کے حوالے کر دیا۔ پھر مالک نے نوکروں کو اُس کا پھل لانے کے لئے باغبانوں کے پاس بھیجا مگر باغبانوں نے باری باری تمام نوکروں کو مارا پیٹا یا پتھرائو کیا۔ اِس کے بعد اور بڑے بڑے نوکر بھیجے گئے مگر اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا۔ پھر اُس نے اپنے بیٹے کو بھیجا مگر بیٹے کو بھی انہوں نے مار ڈالا‘‘۔ ۱۵۳؎
اِس کے بعد مسیح نے لوگوں سے سوال کیا کہ وہ باغبان جنہوں نے یہ معاملہ کیا بتائو ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟ لوگوں نے کہا :۔
’’ اِن بدوں کو بُری طرح مار ڈالے گا اور انگور ستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جو اُسے موسم میں میوہ پہنچا ویں۔ یسوع نے انہیں کہا کہ کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سِرا ہوا۔ یہ خدا کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب۔ اِس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اُس کو میوہ لادے دی جائے گی۔ جو اُس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا‘‘۔۱۵۴؎
اِس تمثیل کے بیان کرتے وقت حضرت مسیحؑ نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بیٹے کو صلیب دینے کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور مأمور ظاہر ہو گا جو کونے کا پتھر کہلائے گا اور وہ مسیح اور تمام باقی لوگوں کی نظروں میں عجیب ہوگا۔ پس جب مسیح خود کہتا ہے کہ عجیب وہ شخص کہلائے گا جو بیٹے کو صلیب دئیے جانے کے بعد آئے گا تو یقینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی عجیب ہیں جو مسیح کے صلیب پانے کے بعد ظاہر ہوئے۔
دوسرا نام آنے والے کامشیر رکھا گیا ہے۔ یہ نام بھی صرف رسول کریمﷺپر ہی چسپاں ہوتا ہے کیونکہ آپ ہی تھے جن سے ساری قوم مشورہ لیا کرتی تھی اور جنہوں نے اپنی قوم میں مشورے کا رواج ڈالا اور حکومت کے لئے یہ لازمی قرار دیا کہ وہ باشند گانِ ملک کے مشورہ سے ہر ایک کام کیا کرے۔ رسول کریم ﷺکے مشوروں کا ذکر قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۔۱۵۵؎ اے مؤمنو! جب کبھی تم رسول سے مشورہ لیا کرو تو مشورہ لینے سے پہلے غرباء اور مساکین میں تقسیم کرنے کے لئے کچھ صدقہ پیش کیا کرو۔ یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہو گا لیکن اگر تمہارے پاس کچھ نہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔ اِس صورت میں تم بغیر صدقہ پیش کرنے کے بھی مشورہ لے سکتے ہو۔
اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل وقت تو تمام بنی نوع انسان کا ہے بعض لوگ اپنی خاص ضرورتوں کے لئے آپ کے وقت کو نسبتاً زیادہ استعمال نہ کرنے لگ جائیں یہ قانون مقرر کر دیا گیا کہ جو شخص آپ سے مشورہ لے وہ غریبوں اور مسکینوں کے لئے کچھ صدقہ کی رقم بھی بیت المال میں ادا کرے تاکہ آپ کا وقت جو افراد کے کاموں میں لگے اُس کا کچھ نہ کچھ ازالہ اِس صدقہ کے ذریعہ سے ہو جائے۔ جس شخص سے لوگ اِس کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے کہ اُس کے مشورہ کو ایک مستقل ادارہ قرار دے دیا گیا وہی شخص مشیر کہلانے کا مستحق ہو سکتا ہے۔ پھر اِس لئے بھی آپ مشیر کہلانے کے مستحق ہیںکہ آپ نے حکومت کی بنیاد قومی مشوروں پر رکھی۔ چنانچہ قرآن کریم میں جو آپ پر نازل ہونے والی وحی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۵۶؎ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کوئی حکومتی کام نہ کریں جب تک کہ وہ ملک کے نمائندوں سے مشورہ نہ لے لیا کریں۔ اِس کی تشریح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَاخِلَافَۃَ اِلاَّبِالْمَشْوَرَۃِ۱۵۷؎ اسلامی حکومت مشورہ کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ جو حکومت بھی باشندگانِ ملک کے مشورہ کے بغیر چلائی جائے گی وہ اسلامی نہیں کہلائے گی۔ مگر اس کے مقابلہ میں نہ مسیح نے کوئی مشورہ دنیا کو دیا نہ مشورہ کی اہمیت پر زور دیا۔ پس یقینا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جو مشیر کہلاتے تھے اور مشیر کہلاتے ہیں۔
تیسرا نام اُس کا’’خدائے قادر ‘‘ہے۔ تورات کی رو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ سے مشابہت حاصل تھی چنانچہ خروج باب ۷ آیت ۱ میں لکھا ہے:۔
’’ پھر خدا وند نے موسیٰ سے کہا دیکھ میں نے تجھے فرعون کے لئے خدا سا بنایا‘‘۔
اِسی طرح خروج باب ۴ آیت ۱۶ میں اللہ تعالیٰ حضرت موسٰی ؑکو فرماتا ہے:۔
’’ تُو اُس ( یعنی ہارون) کے لئے خداکی جگہ ہو گا‘‘۔
جس طرح مسیحؑ بائبل کے محاورہ کے مطابق ابن اللہ کہلانے کے مستحق ہیں اِسی طرح بائبل کے لحاظ سے حضرت موسیٰ مظہر خدا تھے۔ پس جب کبھی خدا کے لفظ سے کسی انسان کی طرف اشارہ کیا جائے گا تو اِس سے مراد یا موسیٰ علیہ السلام ہوں گے یا کوئی مثیل موسٰی ؑہو گا۔ اور یہ میں اُوپر بتا آیا ہوں کہ حضر ت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد ایک ایسے نبی کے آنے کی خبر دی تھی جو اُن جیسا ہو گا۔۱۵۸؎ اور یہ بھی میں بتا چکا ہوں کہ اس پیشگوئی کی تمام علامتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہیں۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خدا یا صحیح لفظوں میں یوں کہو کہ خدا کے مظہر کہلانے کے مستحق تھے۔ چنانچہ آپ کے متعلق قرآن کریم میں بھی آتا ہے ۔۱۵۹؎ جب بدر کے موقع پر تُو نے کنکر اُٹھا کر دشمن کی طرف پھینکے تھے تو اِن کنکروں کو پھینکنے والا تیرا ہاتھ نہیں تھا بلکہ خدا کا ہاتھ تھا۔
اِسی طرح آپ کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے۱۶۰؎ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں۔ یعنی توا للہ تعالیٰ کا مظہر ہے۔ پس اِس پیشگوئی کے مطابق اگر کوئی شخص ہو سکتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہو سکتی ہے۔ پھر لفظ قادر بھی آپ ہی کی ذات پر دلالت کرتا ہے کیونکہ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں ا پنے سارے دشمنوں کو زیر کر لیا اور تمام مخالفتوں اور عداوتوں کا سر کچل دیا۔
چوتھا نام ’’ ابدیت کا باپ‘‘ بتایا گیا ہے۔ یہ علامت بھی آپ پر ہی چسپاں ہوتی ہے کیونکہ آپ ہی ہیں جنہو ں نے یہ دعویٰ کیا کہ آپ کی تعلیم قیامت تک کے لئے ہے اور یہ کہ جس آنے والے مسیح کی خبر دی گئی ہے وہ بھی آپ کی اُمت کا ایک فرد ہو گا کوئی نیا شخص نہیں ہو گا جس کی وجہ سے آپ کی بادشاہت میں کوئی فرق یا اختلال واقعہ ہو جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔۱۶۱؎ یعنی ہم نے تجھے صرف اِس لئے بھیجا ہے تاکہ تمام بنی نوع انسان کو تُو اس طرح جمع کرے کہ اُن میں سے کوئی طبقہ اور کوئی زمانہ تیری تبلیغ سے باہر نہ رہے اور تُو تمام انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر کے طور پر کام دے۔ لیکن اکثر انسان تیری اِس حیثیت سے واقف نہیں ہیں۔ پھر فرماتا ہے دشمن اعتراض کرتے ہیںکہ یہ وعدہ کہ تُو سب دنیا کی طرف اور ہمیشہ کیلئے ہے کس طرح پورا ہو گا۔ اگر تم سچے ہو تو اس کی دلیل دو۔ اس کا جواب دیتا ہے کہ تُو اُن سے کہہ دے کہ تمہارے لئے ہم ایک مدت مقرر کر چکے ہیں تم نہ اس مدت سے ایک ساعت پیچھے رہ سکتے ہو اور نہ آگے بڑھو گے۔ یعنی وہ وعدہ عین وقت پر پورا ہو جائے گا۔ یہ مدت وہی ہے جس کا ذکر سورہ سجدہ میں کیا گیا ہے۔ سورہ سجدہ میں اللہ فرماتا ہے ۱۶۲؎ اللہ تعالیٰ اسلام کو دنیا میں قائم کرے گا۔ پھر اسلام کا زور رفتہ رفتہ کم ہونا شروع ہو گا اور ایک دن میں جس کی لمبائی ایک ہزار سال کے برابر ہوگی وہ خدا تعالیٰ کی طرف چڑھنا شروع ہو گا اور اس میں کمزوری اور اضمحلال کے آثار پیدا ہو جائیںگے۔ اسلام کی ترقی کا زمانہ قرآن کریم سے بھی اور احادیث سے بھی تین سَوسال کا معلوم ہوتا ہے اِس میں ہزار سال شامل کیا جائے تو یہ زمانہ تیرہ سَو سال کا ہو جاتا ہے۔ پس سورہ سجدہ کی آیت کو ملا کر اِس آیت کے یہ معنی بنتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ کیلئے بشیرو نذیر ہونا اور تمام دنیا کی طرف ہونا تیرہ سَو سال کے بعد کُلّی طور پر ثابت ہو گا۔ اِن آیات میں اِس بات کی خبر دی گئی ہے کہ تیرہ سَو سال پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کا نزول ہو گا اور مسیح موعود آپ کی اُمت میں سے ہو گا اور چونکہ تمام انبیاء کا وہی آخری موعود ہے جب وہ آپ کی اُمت میں سے ہوگا تو اِس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ قیامت تک آپ کی شریعت قائم رہنے والی ہے اور آپ کی شریعت کو منسوخ کرنے والا کوئی اور شخص نہیں آئے گا۔ اور چونکہ اُس کے زمانہ میں تبلیغ اِسلام پر خاس طور پر زور دیا جائے گا اور اسلام دنیا میں پھیل جائے گا اِس لئے یہ امر اور بھی مستحکم ہو جائے گا کہ اسلام کو مٹانے والی کوئی طاقت دنیا میں نہیں اور ہر قوم اور ہر علاقہ کے لوگ اُس کے مخاطب ہیں جو آہستہ آہستہ اُس میں شامل ہو جائیں گے۔ پس ’’ابدیت کا باپ‘‘ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا اور کوئی نہیں۔
پانچواں نام آپ کا ’’ سلامتی کا شہزادہ‘‘ رکھا گیا ہے۔ چونکہ شہزادہ بمعنی بادشاہ بھی آتا ہے اِس لئے ہم اس کے یہ معنی کر سکتے ہیں کہ وہ سلامتی کابادشاہ ہو گا۔ یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں ہوتی ہے۔ آپ جس مذہب کے بانی تھے اس کا نام خدا تعالیٰ نے اسلام رکھا تھا یعنی سلامتی۔ پس سلامتی کے شہزادے کے معنی ہوں گے اسلام کا بادشاہ۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ اسلام کے بادشاہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اسلام آپ ہی کی لائی ہوئی تعلیم کا نام ہے۔ اِسلام کے تمام مسائل آپ ہی کی طرف لَوٹتے ہیںا ور آپ ہی کے فیصلہ کے مطابق تمام اِسلامی عالم میں عمل کیاجاتا ہے۔ پس آپ تو سلامتی کے شہزادے ہیں لیکن مسیح سلامتی کا شہزادہ کیونکر کہلا سکتا ہے؟ پھر کسی شخص کو اگر کسی چیز کا شہزادہ کہا جائے تو اِس کے ایک یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ وہ چیز اُس میں کثرت سے پائی جاتی ہے۔ اُس کو نہ حکومت ملی نہ اُس نے عفو اور رأفت سے کام لیا۔ محض منہ سے کہہ دینا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو، اِس میں تو کوئی خاص فضیلت نہیں عمل اصل چیز ہے اور یہ عمل صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات سے ظاہر ہوا۔ کیسے کیسے مظالم تھے جو مکہ والوں نے آپ پر اور آپ کی جماعت پر کئے۔ کتنے خون تھے جو آپ کے رشتہ داروں اور آپ کے اتباع کے اِن لوگوں نے بہائے۔ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم سر سے لے کر پیر تک گواہ تھا اُن مظالم کا جو آپ کے دشمنوں نے آپ کے خلاف روا رکھے کیونکہ کبھی آپ پر سنگباری کی گئی، کبھی آپ پر تیر اندازی کی گئی، کبھی آپ کے جسم کو اَور ذرائع سے تکلیف پہنچانے کی کوشش کی گئی، وطن سے آپ کو بے وطن ہونا پڑا اور آپ کے صحابہ کو بھی۔ پھر مائوں نے بچوں کو چھوڑ دیا، خاوندوں نے بیویوں کو چھوڑ دیا، بھائیوں نے بھائیوں کو چھوڑ دیاا ور مسلمان ایک مقہور اور متروک جماعت ہو کر رہ گئے۔ غریب اور کمزور مردو ں کو دو اُونٹوں سے باندھ کر اور متضاد جہتوں کی طرف چلا کر چیر دیا گیا۔ عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے ما رکر اُنہیں مار دیا۔ غلاموں کو ننگا کر کے سخت پتھروں پر سے گھسیٹا۔ جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر اُن کے سینوں پر ظالم کودے اور اصرار کیا کہ تم کہو خدا ایک نہیں بلکہ بت بھی خدا کے شریک ہیں۔ جنگ میں مسلمان شہداء کی لاشیں چیر کر اُن کے جگر اور دل نکال کر باہر پھینک دئیے گئے۔ اُن کے ناک اور کان کاٹ دئیے گئے۔ غرض زندوں اورمُردوں، مردوں اور عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں ہر ایک کو دُکھ دیا گیا۔ ہر ایک کی تذلیل کی گئی، ہر ایک کے ساتھ خلافِ انسانیت مظالم کا ارتکاب کیا گیا۔ یہ سب کچھ ہوا مگر جب خدا تعالیٰ کی نصرت نے آخر مسلمانوں کو فتح دی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے دشمنوں کے سامنے صرف یہ اعلان کیا کہ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ ۱۶۳؎ جب ہمیں خدا نے قوت اور طاقت دی ہے ہم اعلان کرتے ہیں کہ مکہ کے تمام لوگوں کو معاف کیا جاتا ہے اور اُن کے مظالم کی اُنہیں کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ یہی نہیں کہ اُن کو سزا نہیں دی گئی بلکہ اُن کے جذبات کا اتنا احترام کیا گیا کہ جب اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہونے کے لئے بڑھ رہا تھا تو ایک اِسلامی جرنیل نے یہ کہہ دیا کہ آج ہم زور سے مکہ میں داخل ہوں گے اوراُن مظالم کا بدلہ لیں گے جو مکہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہؓ پر کئے تھے۔ اِس پر آپؐ نے اُس جرنیل کو معزول کر دیا او رفرمایا اِن باتوں سے مکہ والوں کی دل شکنی ہوتی ہے۔ کیا مسیح کی زندگی میں کوئی بھی ایسا واقعہ ہے؟ کیا مسیح کے حواریوں کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ ہے؟ کیا ساری مسیحی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ ہے؟ عیسائی بھی شروع میں مظلوم تھے۔ عیسائی بھی شروع میں مغلوب تھے۔ مگر جب اُنہیں حکومت ملی کیا اُنہوں نے اپنے دشمنوں اور اپنے مخالفوں کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتائو کیا؟ روما کی تاریخ نکال کر دیکھو اُس کے اَوراق اُن مظالم کی یاد سے سرخ ہو رہے ہیں جو عیسائیوں نے فتح اور غلبہ کے وقت اپنے دشمنوں پر ڈھائے۔ پھر مسیح سلامتی کا شہزادہ کس طرح ہوا؟ اُسے تو کسی کو سلامتی دینے کی توفیق ہی نہیں ملی۔ جب اُس کے اتباع کو توفیق ملی تو اُنہوں نے سلامتی نہیں دی انہوں نے ہلاکت دی۔ اُنہوں نے تباہی دی، اُنہوں نے بربادی دی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ نے فتح اور غلبہ بخشا اور آپ نے اُن وسیع مظالم کے باوجود جن کے مقابلہ میں وہ مظالم جو یہود نے مسیح پر کئے تھے بالکل زرد اور بے حقیقت ہو جاتے ہیں رحم و عفو اور چشم پوشی سے کام لیا۔ پس آپ ہی سلامتی کے شہزادے تھے اور آپ ہی یسعیاہ کی پیشگوئی کے مصداق تھے۔
ساتویں علامت اُس موعود کی یہ لکھی ہے کہ:۔
’’ اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی‘‘۔
میں بتا چکا ہوں کہ مسیح کو تو حکومت ملی ہی نہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جن کو حکومت ملی اور جن کے صحابہؓ کی زندگیوں میں ہی ساری دنیا پر اسلام قابض ہو گیا اور اس انصاف کے ساتھ انہوں نے حکومت کی کہ نہیں کہہ سکتے اُن کا اقبال بڑا تھا یا اُن کی سلامتی بڑی تھی۔
آٹھویں علامت یہ لکھی ہے کہ:
’’ وہ دائود کے تخت پر اور اُس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بندوبست کر ے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا‘‘۔
مسیح، دائود کے تخت پر کب بیٹھے تھے؟ شاید کہا جائے کہ اُن کی بعثت کے تین سَو سال کے بعد جب رومن حکومت عیسائیت میں داخل ہو گئی تو مسیح کو دائود کے تخت پر حکومت مل گئی۔ لیکن یہ معنی درست نہیں ہو سکتے کیونکہ وہاں تو لکھا ہے کہ اُسے وہ حکومت اَبد تک ملے گی لیکن مسیح کی حکومت تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ختم ہو گئی اور مسلمانوں کا قبضہ اُس ملک پر ہو گیا۔ چنانچہ تیرہ سَو سال سے مسلمان اس ملک پر قابض ہیں۔ کیا تین سَو سال کی حکومت اَبد کہلائے گی یا تیرہ سَو سال والی حکومت اَبد کہلائے گی؟ یہ صاف بات ہے کہ تیرہ سَو سال والی حکومت ہی اَبد کہلائے گی۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اِس وقت انگریزی حکومت جو عیسائی حکومت ہے اِس ملک پر قابض ہے۔ لیکن خدا کی قدرت ہے کہ انگریزوں کو اس ملک پر بادشاہ ہونے کے لحاظ سے حکومت حاصل نہیں بلکہ مندیٹری پاور (MANDATORY POWER) ہونے کے لحاظ سے تصرف حاصل ہے اور عارضی طور پر تھوڑی مدت کے لئے کسی کا درمیان میں آجانا یہ پیشگوئی کے خلاف ہوتا بھی نہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت کیسی عدالت اور انصاف والی تھی ،اِس کا ثبوت اِس بات سے ملتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عارضی طور پر اسلامی لشکر رومی لشکر کی کثرت اور اس کے دبائو کی وجہ سے پیچھے ہٹا اور مسلمانوں نے بیت المقدس اور اُس کے ار د گرد کے علاقوں والوں کو بُلا کر اُن کے ٹیکس یہ کہتے ہوئے واپس کئے کہ ٹیکس امن اور حفاظت کی غرض سے ہوتے ہیں چونکہ ہم لوگ اس ملک کو اب چھوڑ رہے ہیں اور ہم آپ کو نہ امن د ے سکتے ہیں نہ آپ کی حفاظت کر سکتے ہیں اِس لئے آپ کا روپیہ آپ کو واپس کیا جاتا ہے ہمارا اِس روپیہ پر کوئی حق نہیں تو تاریخیں بتاتی ہیں کہ اِس بات کو سن کر یروشلم کے باشندے ایسے متأثر ہوئے کہ باوجود اِس کے کہ اُن کے ہم مذہبوں کی فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں اور اُن کے مذہب کے مخالف لوگ اُن کے ملک کو خالی کر رہے تھے یروشلم کے باشندے روتے ہوئے شہر سے باہر اسلامی لشکر کو چھوڑنے کے لئے آئے اور ساتھ دعائیں کرتے جا تے تھے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو جلد واپس لائے کہ ہم نے آپ جیسا انصاف اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو گا اِس بات کا کہ’’ وہ دائود کے تخت پر اور اُس کی مملکت پر آج سے لے کر اَبد تک بندوبست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا‘‘۔
(ھ) اِسی طرح لکھا ہے:۔
’’ اور خد اوند اپنے تئیں مصریوں پر ظاہر کرے گاا ورا ُس دن مصری خدا وند کو پہچانیں گے اور ذبیحے اور ہدیے گزاریں گے۔ ہاں وے خدا وندکے لئے منتیں مانیں گے اور ادا کریں گے خدا وند تو مصریوں کوبہت دن تک مارا کرے گا، لیکن وہ انہیں چنگا بھی کرے گا اوروے خدا وند کی طر ف رجوع ہوں گے اور وہ اُن کی دعا سنے گا اور انہیں صحت بخشے گا۔ اُس روز سے مصر سے اسور تک ایک شاہراہ ہوگی اور اسوری مصر میں آویں گے اور مصری اسور کو جائیں گے اورمصری اسوریوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے اُس روز اسرائیل مصر اور اسور کا میراث ہو گا اور زمین کے درمیان برکت کا باعث ٹھہرے گا کہ رَبُّ الافواج اُسے برکت بخشے گا اور فرماوے گا۔ مبارک ہو مصر میری اُمت۔ اسور میرے ہاتھ کی صنعت اور اسرائیل میری میراث‘‘۔۱۶۴؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے آپ کو مصریوں پر ظاہر کرے گا اور مصری خدا تعالیٰ کو پہچانیں گے اور وہ ذبیحے اور ہدیے گزاریں گے اورمصر اور شام آپس میں ملا دیئے جائیں گے۔ شامی مصر میں آجائیں گے اور مصری شام میں جائیں گے اورمصری شامیوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے۔ یہ پیشگوئی بھی بانی اسلام حضر ت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ عرصہ کے لئے مصری عیسائی ہو گئے تھے لیکن وہ نہایت ہی قلیل عرصہ تھا۔ اِس کے بعد تیرہ سَو سال سے مصر مسلمان چلا آتا ہے۔ یسعیاہ کی زبان سے خدا کہتا ہے ’’ مبارک ہو مصرمیری اُمت‘‘۔ مصریوں سے پوچھو کہ وہ کس کی اُمت ہیں؟ آیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یا مسیح کی؟
پھر لکھا ہے ’’ مبارک ہو اسور میرے ہاتھ کی صنعت‘‘۔ اسوریوں سے بھی پوچھ کر دیکھ لو کہ وہ آیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہیں یا مسیح کی اُ مت؟
پھر لکھا ہے ’’ مبارک ہوا سرائیل میری میراث‘‘۔
اِن علاقوں میں جا کر دیکھ لو اسرائیل کا علاقہ فلسطین کس کی میراث ہے؟ اِس وقت زور دے کر وہاں یہود کو داخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر یہودی تو مسیح کی اُمت نہیں۔ اِ س پیشگوئی کو تو مسیح پر چسپاں کیا جا رہا ہے اورمسیحی اب بھی وہاں قلیل ہیں اور مسلمان اب بھی زیادہ ہیں۔ اگر یہودی اِس ملک پر قابض بھی ہو گئے تو یہ کہا جائے گا کہ عارضی طور پر مسلمانوں کے غلبہ میں اختلال واقع ہو گیا، مسیح کو تو پھر بھی کچھ فائدہ نہیں ہونے کا۔ خواہ مسلمان فلسطین پر حاکم رہیں خواہ یہودی، مسیح کا دامن تو خالی ہی رہتا ہے اور وہ اِس پیشگوئی کا مستحق کسی صورت میں بھی نہیں ٹھہرتا۔
پھر اس پیشگوئی میں لکھا تھا کہ اسور اور مصر تک ایک شاہراہ ہو گی یعنی یہ ملک آپس میں مل جائیں گے۔ اسوری مصر میں آئیں گے اور مصری اسور کو جائیں گے اور مصری اسوریوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے۔ کیا یہ مسیح کے ذریعہ سے ہوا؟ عیسائی بے شک مصر پر قابض ہوئے اور اسور پر بھی قابض ہوئے اور ان ملکوں کی کثرت ایک وقت میں عیسائی بھی ہو گئی۔ لیکن کیا کبھی بھی وہ زمانہ آیا ہے جب مذکورہ بالا آیتوں کا مضمون مصر اور اسور کی حالت پر صادق آیا ہو؟ اِن آیتوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اِن دونوں ملکوں کی قومیت ایک ہو جائے گی اوراُن کی زبان ایک ہو جائے گی۔ مل کر عبادت کرنے کے بھی یہی معنی ہیں اور ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کا بھی یہی مطلب ہے۔ ورنہ ہر ملک کے لوگ دوسرے ملک میں آیا جا یا ہی کرتے ہیں۔ پیشگوئی کا مفہوم یہی ہے کہ وہ اتنے متحد ہو جائیں گے کہ اُن کی ایک قوم ہو جائے گی۔ مگر دنیا جانتی ہے کہ عیسائی حکومت کے زمانہ میں کبھی بھی مصر اور اسور ایک نہیں ہوئے۔ روم کے ماتحت بے شک یہ دونوں ملک تھے لیکن ہمیشہ مصر کا انتظام اَور رنگ کا رہا اور اسور کا انتظام اَور رنگ کا رہا۔ مصر میں ایک نیم آزاد بادشاہ حکومت کرتا تھا اور اسور میں ایک گورنر رہتا تھا۔ بلکہ مصر کا کلیسیا اسور کے کلیسیا سے بالکل مختلف تھا۔ مصر میں عیسائیت نے اسکندریہ کے گرجا کے ماتحت ایک نئی شکل اختیار کر لی تھی اور وہ فلسطین اور شامی گرجا کی شکل سے بالکل مختلف تھی۔ پھر مصریوں کی عبادت قبطی زبان میں ہوتی تھی اور شامیوں کی عبادت بگڑی ہوئی مخلوط عبرانی اوریونانی زبان میں۔ ہاں اسلامی زمانہ میں یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی۔ صدیوں تک شام اور مصر ایک حکومت رہے دونوں ملکوں کی زبان ایک ہو گئی اوراب تک ایک ہے۔ جس کی وجہ سے دونوں کی عبادت اکٹھی ہوتی تھی اور اکٹھی ہوتی ہے۔ دونوں ملکوں میں ایک قوم ہونے کا احساس پید اہو گیا۔ شامی علماء مصر میں جاتے تھے اور وہ مصری علماء کی طرح ہی معزز گنے جاتے تھے اور مصری علماء شام میں آتے تھے اور وہ شامی علماء کی طرح ہی معزز گنے جاتے تھے۔ اِس زمانہ میں بھی کہ یورپین سیاست نے اسلامی ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے عرب لیگ میں مصر، شام اور فلسطین دوش بدوش مل کر کام کر رہے ہیں۔ پس یہ پیشگوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی اور یہ پیشگوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کی قوم کے متعلق ہی تھی۔ مسیح اور کلیسیا کی طرف اِس کو منسوب کرنا صریح ظلم ہے۔
(و) پھر یسعیاہ میں لکھا ہے:۔
’’ تُو ایک نئے نام سے کہلایا جائے گا جو خداوند کا منہ تجھے رکھ دے گا‘‘۔۱۶۵؎
اِسی طرح یسعیاہ باب ۶۵ میں لکھا ہے:۔
’’ اور تم اپنا نام اپنے پیچھے چھوڑو گے جو میرے برگزیدوں پر *** کا باعث ہو گا کیونکہ خد اوند یہوواہ تم کو قتل کرے گا اور اپنے بندوں کو دوسرے نام سے بُلائے گا‘‘۔۱۶۶؎
اِس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ ایک نیا سلسلہ ایک نئے نام سے جاری کیا جائے گا اور اُس نئے نام کو یہ خصوصیت حاصل ہو گی کہ وہ نیا نام اس سلسلہ کے لوگ خود نہیں رکھیں گے بلکہ خد اتعالیٰ اپنے منہ سے اُن کا وہ نام تجویز کرے گا۔ اِس پیشگوئی کو بھی بائبل نویسوں نے کلیسیا پر لگایا ہے حالانکہ مسیحیوں کو کوئی نام خد اتعالیٰ کی طرف سے نہیں ملا۔ ہاں اپنے طور پر مختلف مسیحی فرقوں نے اپنے اپنے نام رکھ لئے ہیں۔ ساری دنیا میں صرف ایک ہی قوم ہے جس کو خد تعالیٰ کی طر ف سے نام ملا ہے اور وہ مسلمان ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۱۶۷؎ خدا تعالیٰ نے ہی تم لوگوں کا نام رکھا ہے پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی اور اب اس قرآن کریم کے ذریعہ سے بھی۔ دیکھو کس طرح یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کی طرف صاف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ ہم تمہارا نام خود رکھیں گے۔ چنانچہ اب ہم نے خود سلامتی کے شہزادہ کی پیشگوئی کے مطابق تمہارا نام مسلم رکھا ہے۔ یہ پیشگوئی نہایت ہی عجیب اور لطیف ہے۔ تمام دنیا کی تاریخ اِس بات پر شاہد ہے کہ کسی نبی نے اِس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ اُس کی جماعت کا نام الہامی طور پر خدا تعالیٰ نے رکھا ہے۔ لیکن یسعیاہ کہتا ہے کہ پہلے دستوروں کے خلاف ایک نبی آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کا نام خاص الہام سے رکھے گا۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ خد اتعالیٰ نے میری اُمت کا نام مسلم اور میرے مذہب کا نام اِسلام رکھا ہے۔
چھٹی پیشگوئی
دانیال نبی کی کتاب کے دوسرے باب میں ایک خواب لکھی ہے جو نبو کدنضر بادشاہ نے دیکھی تھی۔ لیکن وہ اُسے دیکھنے کے بعد بھول گیا۔ تب اُس
نے اپنے وقت کے حکیموں سے خواب اور اُس کی تعبیر دریافت کی۔ باقی لوگ تو نہ بتا سکے دانیال نے خدا تعالیٰ سے دعا کر کے وہ خواب معلوم کر لی اور بادشاہ کے سامنے بیان کی وہ خواب یہ تھی۔
’’ تُو نے اے بادشاہ! نظر کی تھی اور دیکھ ایک بڑی مورت تھی۔ وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اُس کی صورت ہیبت ناک تھی۔ اُس مورت کا سرخالص سونے کا تھا۔ اُس کا سینہ اور اُس کے بازو چاندی کے۔ اُس کا شکم اور رانیں تابنے کی تھیں۔ اُس کی ٹانگیں لوہے کی اور اُس کے پائوں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے اور تُو اُسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پتھر بغیر اس کے کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے آپ نکلا جو اس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگا اور اُنہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کی مانند ہوئے اور ہوا اُنہیں اُڑالے گئی یہاں تک کہ اُن کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اُس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا‘‘۔۱۶۸؎
اِس کی تعبیر دانیال نبی نے جو کی وہ یہ ہے:۔
’’ تُو اے بادشاہ! بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس لئے کہ آسمان کے خدا نے تجھے ایک بادشاہت اور توانائی اور قوت اور شوکت بخشی ہے اور جہاں کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اُس نے میدان کے چوپائے اور ہوا کے پرندے تیرے قابو میں کر دئیے اور تجھے اُن سبھوں کا حاکم کیا۔ تُو ہی وہ سونے کا سرہے اورتیرے بعد ایک اور سلطنت برپا ہوگی جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اُس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو تمام زمین پر حکومت کرے گی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہوگی اورجس طرح کہ لوہا توڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب ہوتا ہے ہاں لوہے کی طرح سے جو سب چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اُس ہی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی اور کچل ڈالے گی اور جو کہ تو نے دیکھا کہ اُس کے پائوں اور اُنگلیاں کچھ تو کمہار کی ماٹی کی اور کچھ لوہے کی تھیں تو اس سلطنت میں تفرقہ ہو گا۔ مگر جیسا کہ تُو نے دیکھا کہ اس میں لوہا گلادے۱۶۹؎ سے ملا ہو ا تھا۔ سو لوہے کی توانائی اُس میں ہوگی اور جیساکہ پائوں کی اُنگلیاں کچھ لوہے کی اور کچھ ماٹی کی تھیں سو وہ سلطنت کچھ قوی کچھ ضعیف ہو گی اور جیسا تُو نے دیکھا کہ لوہا گلاوے سے ملا ہوا ہے وے اپنے انسان کی نسل سے ملاویں گے لیکن جیسا لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیسا وے باہم میل نہ کھاویں گے اور اُن بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خد ا ایک سلطنت برپا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہووے گی اور وہ سلطنت دوسری قوم کے قبضہ میں نہ پڑے گی وہ اُن سب مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تااَبد قائم رہے گی جیسا کہ تُو نے دیکھا کہ وہ پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے اُس کو پہاڑ سے کاٹ نکالے آپ سے آپ نکلا اور اُس نے لوہے اور تانبے اور مٹی اور چاندی اور سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا۔ خد اتعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ خواب یقینی ہے اور اُس کی تعبیر یقینی‘‘۔۱۷۰؎
اِس تعبیر میں خود حضرت دانیال نے سونے کے سر سے بابل کا بادشاہ مراد لیا ہے۔ چاندی کے سینہ اور چاندی کے بازو سے مراد فارس اور مادہ کی حکومت تھی جو بابل کی بادشاہت کے بعد آئی۔ تانبے کی رانوں سے مراد سکندر کی حکومت تھی جو اُس کے بعد دنیا پر غالب ہوا۔ اور لوہے کی ٹانگوں سے مراد روما کی حکومت تھی جو ایرانی حکومت کے تنزل کے وقت دنیا میں طاقتور ہوئی۔ اِس آخری حکومت کے متعلق لکھا ہے ’’ اُس کے پائوں کچھ لوہے اور کچھ مٹی کے تھے‘‘۔ جس کی تعبیر یہ تھی کہ یہ حکومت ایشیا سے یورپ میں پھیل جائے گی۔ لوہے کی ٹانگوں سے مراد یوروپین حکومت ہے کہ وہ بوجہ ایک قوم اور ایک مذہب ہونے کے زیادہ مضبوط تھی لیکن پائوں مٹی اور لوہے کے مشترک بنے ہوئے تھے۔ لیکن وہ یورپین قوم بعض مشرقی اقوام کو فتح کر کے ایک شہنشاہیت کی صورت اختیار کر لے گی اور جیسا کہ شہنشاہیتوں کا قاعدہ ہے وہ اپنی وسعت اور سامانوں کی فراہمی کے لحاظ سے قوی ہوتی ہیں لیکن غیر قوموں کے اشتراک کی وجہ سے اُن میں ضعف بھی پیدا ہو جاتا ہے وہ حکومت اپنے آخری زمانہ میں بوجہ غیر قوموں کی شمولیت کے کمزوری کی طرف مائل ہو جائے گی۔ اِس کے بعد لکھا ہے:۔
’’ ایک پتھر بغیر اس کے کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے آپ نکلا جو اُس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگااور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کے مانند ہوئے اور ہوا انہیں اڑا لے گئی یہاں تک کہ اُن کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اُس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا‘‘ـ۔
اِن الفاظ میں محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کی خبر دی گئی ہے۔ آپ کی جماعت کا ٹکرائو پہلے قیصر روما سے اور پھر ایران کی حکومت سے ہوا۔ اور جب قیصر روما سے آپ کی جماعت کا ٹکرائو ہوا اُس وقت وہ سکندر کی وراثت پر بھی قابض تھا اورروما کی وراثت کا بھی وارث تھا اورجب آپ کا ٹکر ائو ایرانی حکومت سے ہوا تو وہ بابل اور فارس اور میدیا دونوں حکومتوں کی قائمقام تھی۔ جب آپ کے صحابہؓ سے ٹکر انے کی وجہ سے یہ دونوں حکومتیں تباہ ہوئیں تو دانیال کے قول کے مطابق لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کی مانند ہو گئے۔ خواب کی ترتیب اور دانیال کی کی ہوئی تعبیر دونوں ہی اِس مضمون کی تائید کرتی ہیں۔ اِس میں کیا شبہ ہے کہ بابل کی جگہ فارس اور میدیا نے لی اور فارس اور میدیا کا زور سکندر نے توڑا اور سکندر کی حکومت کو رومی حکومت کھا گئی جس نے اپنے مشرقی مرکز میں بیٹھ کر ایک زبردست یورپین ایشیائی شہنشاہیت قائم کی۔ اس شہنشاہیت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ہی توڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک لشکر لے کر قیصر کی سرحدوں کی طرف تشریف لے گئے تھے لیکن یہ معلوم کرکے کہ قیصر کی فوجوں کی عرب پر حملہ آور ہونے کی خبر قبل از وقت تھی واپس تشریف لے آئے۔ مگر اس کے بعد رومی حکومت کی سرحدوں سے برابر چھیڑ چھاڑ جاری رہی جس کے نتیجہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر تیار کر کے اس طرف بھجوایا اور آخر حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میںرومیوں اور مسلمانوں میں باقاعدہ لڑائی چھڑ گئی اور حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایران اس لڑائی میں شامل ہو گیا اور آپ کی زندگی میں ہی دونوں حکومتیں تباہ اور برباد ہو گئیں اور دُور سرحدوں پر چھوٹی چھوٹی ریاستیں بن کر رہ گئیں۔ اِس پتھر کے متعلق یسعیاہ اور متی میں بھی خبریں دی گئی ہیں۔ چنانچہ یسعیاہ باب ۸ آیت ۱۴ میں ایک آنے والے موعود کے متعلق لکھا ہے:۔
’’ وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہو گاپر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹکر کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان ۔‘‘
پھر آیت ۱۵ میں لکھا ہے:۔
’’ بہت سے لوگ اُن سے ٹھوکر کھائیں گے اور گریں گے اور ٹوٹ جائیں گے۔‘‘
اور متی باب ۲۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ موعود جسے پتھر کہا گیا ہے مسیح نہیں بلکہ مسیح کے بعد آنے والا دوسراشخص ہے:۔
اور آیت ۴۴ میں اس کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ:۔
’’ جو اِس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا‘‘۔
اِسی طرح زبور باب ۱۱۸ آیت ۴۲ میں لکھا ہے:
’’ وہ پتھر جسے معماروں نے ردّ کیا کونے کا سِرا ہو گیا‘‘۔
متی باب ۲۱ میں بھی اِس پیشگوئی کی طر ف اشارہ کیا گیا ہے اور لکھا ہے:
’’یسوع نے اُنہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سِرا ہوا‘‘۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اِس پیشگوئی کے متعلق خود حضرت مسیح کا فیصلہ ہے کہ یہ پیشگوئی اُن پر صادق نہیں آتی بلکہ اُس وجود پر صادق آتی ہے جو بیٹے کے صلیب پر لٹکا دینے کے بعد ظاہر ہو گا۔ عیسائی لوگ اپنی خوش فہمی سے اِس سے مراد کلیسیا لیتے ہیں حالانکہ کلیسیا اِس پیشگوئی سے مراد ہو ہی نہیں سکتا۔ کیونکہ دانیال نبی کی خواب میں رومی حکومت جو کلیسیاکی نمائندہ تھی تانبے کی رانیں اور لوہے کے پائوں قرار دی گئی ہے اور یہ بتایاگیا ہے کہ یہ پتھر بت کے پائوں پر گرے گا یعنی مشرقی رومی حکومت کے آخری حصہ سے اِس کا ٹکرائو ہو گا اور وہ رومی حکومت یعنی کلیسیا کی نمائندہ حکومت کو توڑ دے گا۔ پس اس پیشگوئی سے مراد کلیسیا کسی صورت میں نہیں ہوسکتا۔ مسیح تو مشرقی رومی حکومت سے پہلے آیا تھا اور کلیسیا کا رومی حکومت کو توڑنا کیا معنی! رومی حکومت تو اس کی نمائندہ تھی جس نے رومی حکومت کو توڑا وہی اس پتھر والی پیشگوئی کا موعود تھا۔ پس یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کے سوا اور کسی کے ذریعہ سے پوری نہیں ہوئی۔ پھر جیسا کہ پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ وہ پتھر تمام دنیا میں پھیل جائے گا اور پہاڑ کی طرح بن جائے گا ویسا ہی ہوا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ نے قیصر وکسرٰی کو شکست دی تو تمام دنیا پر اسلامی حکومت پھیل گئی اور وہ چھوٹا سا پتھر ایک پہاڑ بن کر دنیا پر چھا گیا اور ایک ہزار سال تک دنیا کی قسمت کا فیصلہ مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا۔

انجیل کی پیشگوئیاں
انگورستان کی تمثیل کی پیشگوئی
(الف) متی باب ۲۱ میں حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں:۔
’’ یہ ایک اور تمثیل سنو۔ ایک گھر کامالک تھا جس نے انگورستان لگایا اور اس کے چاروں طرف رَوندھا اور اُس کے بیچ میں کھود کے کولہو گاڑا اور بُرج بنایااور باغبانوں کو سونپ کے آپ پردیس گیا اور جب میوہ کا موسم قریب آیا اُس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس بھیجا کہ اُس کا پھل لائیں۔ پر اُن باغبانوں نے اُس کے نوکروں کو پکڑکے ایک کو پیٹا اور ایک کو مارڈالا اور ایک کو پتھرائو کیا۔ پھر اُس نے اَور نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کر تھے بھیجا۔ اُنہوں نے اُن کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا آخر اُس نے اپنے بیٹے کو یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دبیں گے لیکن باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ وارث یہی ہے آئو اِسے مار ڈالیں کہ اس کی میراث ہماری ہو جائے اوراُسے پکڑ کے اور انگورستان کے باہر لے جا کر قتل کیا۔ جب انگورستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا؟ وے اسے بولے اِن بدوں کو بُری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اَور باغبانوں کو سونپے گا جو اُسے موسم پر میوہ پہنچادیں۔ یسوع نے اُنہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سِرا ہوا۔ یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب۔ اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خد اکی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کا میوہ لاوے دی جائے گی۔ جو اُس پتھر پر گرے گا چور ہوجائے گا۔ جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا۔ جب سردار کاہنوں اور فریسیوں نے اُس کی یہ تمثیلیں سنیں تو سمجھ گئے کہ ہمارے ہی حق میں کہتا ہے اور اُنہوں نے چاہا کہ اُسے پکڑ لیں پر عوام سے ڈرے کیونکہ وے اُسے نبی جانتے تھے۔۱۷۱؎
اِس پیشگوئی کا پہلے بھی اشارۃًذکر آتا رہا ہے۔ یہ تمثیل جو حضرت مسیحؑ نے بیان فرمائی ہے اس میں آپ نے انبیاء کی تاریخ شروع سے لے کر آخر تک تمثیلاً دُہر ادی ہے۔ جیسا کہ خود انجیل کی عبارت سے ظاہر ہے۔ تاکستان سے مراد دنیا ہے۔ باغبانوں سے مراد بنی نوع انسان ہیں اور مالک کے ٹیکس سے مراد نیکی اور تقویٰ اور خدا کی عبادت کرنا ہے۔ ملازموں سے مراد اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہیں جو یکے بعد دیگرے دنیا میں آتے رہے۔ خدا کے بیٹے سے مراد خود مسیحؑ ہیں جو انبیاء کے ایک لمبے سلسلہ کے بعد دنیا میں ظاہر ہوئے مگر باغبانوں نے اُن کو صلیب پر لٹکا دیا اور اُن کے پیغام کی طرف توجہ نہ کی۔
اِس کے بعد لکھا ہے کہ وہ کونے کا پتھر ظاہر ہو گا جسے راجگیروں نے ناپسند کیا۔ یعنی اسمٰعیل کی اولاد جن کو بنو اسحاق حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے تھے اُن میں ایک نبی ظاہر ہو گا اور اُسی کو خاتم النبیین ہونے کا فخر حاصل ہوگا۔ اُس کے ذریعہ سے تمام شریعتیں ختم کر دی جائیں گی اور وہ آخری شریعت لانے والا ہو گا۔ بنو اسرائیل کو یہ بات عجیب معلوم ہو گی مگر جیسا کہ حضرت مسیحؑ کہتے ہیں باوجود بنو اسرائیل کے ناپسند کرنے کے خدا اُس اسماعیلی نبی کو بادشاہت دے گا اور خدا کی بادشاہت بنو اسرائیل سے لے لی جائے گی اور اُس کی جگہ یہ باغ اِس دوسری قوم کے سپرد کر دیا جائے گا یعنی اُمتِ محمدیہ کے جو اُس کے میوے لاتی رہے گی یعنی خدا تعالیٰ کی عبادت کو دنیا میں قائم رکھے گی۔ ہر شخص جو انصاف کے ساتھ غور کرنے کا عادی ہو وہ معلوم کر سکتا ہے کہ حضرت مسیحؑ کے بعد ظاہر ہونے والے مدعیوں میں سے کوئی بھی سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس پیشگوئی کا مستحق نہیں ہو سکتا۔ آخر وہ کون تھا جس سے عیسائیت اور یہودیت ٹکر ائی اور پاش پاش ہو گئی؟ وہ کون تھا جو اِس قوم کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جسے بنو اسحاق حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے تھے؟ وہ کون تھا جس پر وہ گرا اُسے اُس نے چور چور کر دیا اور جو اُس پر گرا وہ بھی چور چور ہو گیا۔ یقینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا اس پیشگوئی کا مصداق اور کوئی نہیں۔
(ب) متی باب ۲۳ آیت ۳۸، ۳۹ میں لکھا ہے:۔
’’ دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے۔ جب تک کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے ‘‘۔
اِن آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیحؑ اپنی قوم سے عنقریب جدا ہونے والے ہیں اور ان کی قوم پھر اُنہیں نہ دیکھ سکے گی جب تک وہ یہ نہ کہے گی کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے۔
اِس عبارت سے ظاہر ہے کہ مسیح کے چلے جانے کے بعد دو الٰہی مظہر ظاہر ہونے والے ہیں۔ ایک الٰہی ظہور، مسیح کے غائب ہوجانے کے بعد ہو گا اور وہ خدا تعالیٰ کا ظہور کہلائے گا۔ اِس ظہور کے بعد دوبارہ مسیح ظاہر ہوگا۔ لیکن جب تک خد اتعالیٰ کے نام پر ظاہر ہونے والا مظہر پیدا نہ ہو جائے اُس وقت تک مسیح د وبارہ دنیا میں نہیں آسکتا اور لوگ اُسے نہیں دیکھ سکتے۔
میں پہلے یہ ثابت کر چکا ہوں کہ خد اتعالیٰ کے نام پر ظاہر ہونے والے مظہر سے مراد مثیل موسیٰ ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ تھے۔ واقعاتی شہادت کی رو سے بھی اور خود مسیح کی شہادت کی رو سے بھی۔ پس ’’ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے‘‘ سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہے اور اس پیشگوئی میں خبر دی گئی ہے کہ مسیح روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ نہیں بلکہ آخری نقطہ وہ ہے جو خدا وند کے نام پر آئے گا۔ اگر یہ کہا جائے کہ خداوند کے نام پر آنے والے مظہر کے بعد پھر مسیح کو دوبارہ آنا ہے اِس لئے مسیح ہی روحانیت کا آخری نقطہ قرار پائے گا۔ تو اِس کا جواب خود حضرت مسیحؑ نے ہی دے دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔’’ اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے جب تک کہ کہو گے مبارک ہے وہ جو خدا وند کے نام پر آتا ہے‘‘۔ یعنی مسیح کو دوبارہ دیکھنا اُسی کے لئے ممکن ہوگا جو مثیل موسیٰ پر ایمان لاچکا ہوگا۔ مثیل موسیٰ کا منکر مسیح کو نہیں دیکھ سکے گایعنی اس کو پہچان نہیں سکے گا۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح اپنی دوبارہ آمد کے وقت مثیل موسیٰ کے اتباع میں سے ہوگا۔ پس وہی شخص مسیح پر ایمان لائے گاجو پہلے اُس کے متبوع پر ایمان لاچکا ہوگا۔ پس آنے والا مسیح کوئی علیحدہ وجود نہیں بلکہ مثیل موسیٰ کا ہی ظل اور اس کا بروز ہے اس لئے روحانی منازل کا آخری ارتقائی نقطہ مثیل موسیٰ ہی ہے اور کوئی نہیں۔
(ج) انجیل میں لکھا ہے کہ:۔
’’ یوحنا کے پاس لوگ آئے اور اُس سے پوچھا کہ کیا وہ مسیح ہے؟ تو اس نے کہا میں مسیح نہیں ہوں۔ تب انہوں نے اُس سے پوچھا تو اور کون ؟ کیا تُو الیاس ہے؟ اُس نے کہا میں نہیں ہوں ۔ پھر انہوں نے اُس سے پوچھا آیا تُو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں۔‘‘۱۷۲؎
پھر آگے چل کر لکھا ہے:۔
’’ انہوں نے اُس سے سوال کیا اور کہا کہ اگر تو نہمسیحؑ ہے نہ الیاس اور نہ وہ نبی۔ پس کیوں بپتسمہ دیتا ہے‘‘۔۱۷۳؎
اِن آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کے وقت یہود میں تین بشارتیں مشہور تھیں۔
اوّل: الیاس دوبارہ دنیا میں آنے والا ہے۔
دوم: مسیح پید ا ہونے والا ہے۔
سوم: وہ نبی یعنی موسیٰ کا موعود نبی آنے والا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین وجود الگ الگ سمجھے جاتے تھے۔ الیاس الگ وجود تھا۔ مسیح الگ وجود تھا اور ’’ وہ نبی‘‘ الگ وجود تھا۔ حضرت مسیح فرما چکے ہیں کہ یوحنا الیاس ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
’’ الیاس جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو‘‘۔۱۷۴؎
اور لوقاباب ا آیت ۱۷ سے بھی پتہ لگتا ہے کہ حضرت یوحنا کی پیدائش سے پہلے اُن کے والد حضرت زکریا سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا’’ وہ اس سے آگے الیاس کی طبیعت اور قوت کے ساتھ چلے گا‘‘۔
پھر مرقس باب ۹ آیت ۱۳ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایا:۔
’’ میں تم سے کہتا ہوں الیاس تو آچکا‘‘۔
پھر متی باب ۱۷ آیت ۱۲ میں لکھا ہے:۔
’’ پر میں تم سے کہتا ہوں کہ الیاس تو آچکا۔ لیکن اُنہوں نے اُس کو نہیں پہچانا۔ بلکہ جو چاہا اُس کے ساتھ کیا‘‘۔
اِن تمام حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ الیاس سے مراد اناجیل کی تعلیم کے مطابق یوحنا تھے۔ مسیح کے متعلق تو فیصلہ ہی ہے کہ عہد نامہ جدید والا نبی یسوع ابن مریم ہی مسیح کے نام سے خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں ظاہر ہوا۔اب رہ گیا ’’ وہ نبی‘‘ نہ یوحنا وہ نبی ہو سکتا ہے نہ مسیح وہ نبی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ وہ نبی ایک علیحدہ وجود ہے۔ پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وہ نبی مسیح کے زمانہ تک نہیں آیا تھا۔ پس معلوم ہوا کہ وہ موعود جسے بائبل ’’وہ نبی‘‘ کے نام سے یاد کرتی تھی اناجیل کی گواہی کے مطابق مسیح ناصری کے بعد نازل ہونے والا تھا اور مسیح ناصری کے بعد سوائے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی شخص نہیں جس نے ’’ وہ نبی‘‘ ہونے کا دعویٰ کیاہو اور جس پر وہ تمام علامتیں صادق آتی ہوں جو ’’ وہ نبی‘‘ میں پائی جانے والی تھیں جیسا کہ اُوپر ثابت کیا جاچکا ہے۔
(د) اِسی طرح لوقا میں لکھا ہے:۔
’’ اور دیکھو میں اپنے باپ کے اُس موعود کو تم پر بھیجتا ہوں لیکن جب تک عالم بالا کی قوت سے ملبس نہ ہوں یروشلم میں ٹھہرو‘‘۔۱۷۵؎
اِس پیشگوئی سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے بعد ایک اَور موعود ظاہر ہونے والا تھا مگر وہ کون موعود ہے؟ سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آج تک کوئی شخص بھی تو اس پیشگوئی کے پورا کرنے کا مدعی نہیں ہوا۔
(ھ) یوحنا میں لکھا ہے: ۔
’’ لیکن وہ تسلی دینے والا جو روحِ قدس ہے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھلاوے گا اور سب باتیں جو کچھ کہ میں نے تمہیں کہی ہیں تمہیں یاد دلا دے گا‘‘۔ ۱۷۶؎
یہ پیشگوئی بھی سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی پر صادق نہیں آتی۔ بیشک اِس میں یہ لکھا ہے کہ باپ میرے نام سے اُسے بھیجے گا۔ لیکن نام سے بھیجنے کے یہی معنی ہیں کہ وہ میری تصدیق کرے گا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی تصدیق کی اور آپ کو راست باز قرار دیا اور اعلان فرمایا کہ جو لوگ آپ کو *** کہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ مسیح خدا کا برگزیدہ اور اس کا رسول ہے۔ اِس جگہ پر یہ صاف لکھا گیا ہے کہ ’’ وہی تمہیں سب چیزیں سکھلا وے گا‘‘ اور استثناء باب ۱۸ کی پیشگوئی میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ’’ جو کچھ میں اُسے فرمائوں گا وہ سب ان سے کہے گا‘‘۱۷۷؎ پس اس پیشگوئی میں استثناء باب۱۸ والے نبی ہی کی خبر دی گئی ہے اور یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے جیسا کہ اُوپر لکھا جاچکا ہے اور آپ ہی کا وجود دنیا کو تسلی دینے والا تھا۔
(و) یوحنا باب ۱۶ میں لکھا ہے:۔
’’ میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جائوں تو تسلی دینے والا تم پاس نہ آئے گا۔ پر اگر میں جائوں تو میں اُسے تم پاس بھیج دوں گا اور وہ آن کر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا۔ گناہ سے اِس لئے کہ وے مجھ پر ایمان نہیں لائے۔ راستی سے اِس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے۔ عدالت سے اِس لئے کہ اِس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے۔ میری اَور بہت سی باتیں ہیںکہ میں تمہیں کہوں پر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روحِ حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتاوے گی اِ س لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی۔ لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی۔ وہ میری بزرگی کرے گی اِ س لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اورتمہیں دکھا وے گی‘‘۔۱۷۸؎
اِن آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح کے اُٹھ جانے یعنی مسیح کی وفات کے بعد وہ تسلی دینے والا موعود ظاہر ہو گا۔ وہ دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا۔ گناہ سے اِس طرح کہ وہ یہود کو ملامت کرے گا کہ وہ کیوں مسیح پر ایمان نہیں لائے۔ راستی سے اِ س طرح کہ وہ مسیح کی زندگی کا عقیدہ جو غلط طور پر عیسائیوں میں رائج ہو گیا تھا اِس کو دور کرے گا اور دنیا پر ثابت کرے گا کہ دنیا پھر اِس مسیح کو دوبارہ نہیں دیکھے گی جو بنی اسرائیل میں نازل ہوا تھا۔ عدالت سے اِس طرح کہ اُس کے ذریعہ شیطان کو کچل دیا جائے گا۔
پھر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ روحِ حق جب آئے گی تو وہ ساری سچائی کی راہیں بتائے گی۔ اور یہ بتایا گیا تھا کہ اُس کی الہامی کتاب میں کوئی انسانی کلام نہیں ہو گابلکہ شروع سے لے کر آخر تک خدائی کلام ہی اُس میں ہو گا۔ پھر یہ بتایا گیا تھا کہ وہ آئندہ کی خبریں دے گا اور یہ بھی کہ وہ مسیح کی بزرگی بیان کرے گا اور جو عیب اُس پرلگائے گئے ہیں اُن کو دور کرے گا۔یہ پیشگوئی واضح طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہے۔ اِس میں کہا گیا ہے کہ جب تک مسیح آسمان پر نہ جائے، وہ تسلی دلانے والا نہیں آسکتا۔ اعمال باب ۳ آیت ۲۱،۲۲ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے آسمان پر جانے کے اور اس کے دوبارہ نازل ہونے کے درمیان استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کے موعود کو پیدا ہونا ہے پس تسلی دلانے والے سے مراد استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والا موعود ہی ہے۔
پھر لکھا ہے کہ وہ موعود مسیح کے منکروں کو ملامت کرے گا۔ اِس سے مراد عیسائی تو ہو نہیں سکتے۔کسی شخص کے متبع تو اُس کے دشمنوں کو ملامت کیا ہی کرتے ہیں ۔ یہ علامت بتارہی ہے کہ وہ موعود کسی غیر قوم کا ہوگا اور بظاہر اُس کو مسیح کے ساتھ کوئی نسلی یا مِلّی تعلق نہیں ہوگا مگر اِس وجہ سے کہ وہ راستبازہوگا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا غیر قوم میں سے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو راستبازوں کی عزت کا نگران سمجھے گا اور اُن کی عزّت کی حفاظت کرے گا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسماعیلی نبی تھے۔ عیسائی یا یہودی نہیں تھے۔ مگر باوجود اس کے دیکھو کس طرح اُنہوں نے مسیح کی عزّت کی حفاظت کی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہود کی نسبت فرماتا ہے۔ ۔ ۱۷۹؎ یعنی یہود کے کفرکی وجہ سے اور اُن کے حضرت مریم پر نہایت گندہ الزام لگانے کی وجہ سے اور اُن کے اِس قول کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح ابن مریم کو قتل کردیا ہے جواللہ کا رسول تھا حالانکہ انہوں نے نہ تو اُس کو تلوار سے مارا اور نہ صلیب پر لٹکاکر مارا ۔ صرف اُن کو ایک شبہ پیدا ہوگیا کہ وہ صلیب پر مرگیا ہے مگر یہ صرف شبہ تھا اُنہیں ایسا یقین نہ تھا۔چنانچہ خود اُن کی قوم میں یہ اختلاف چلا آیا ہے اور وہ اس کے بارے میں کسی یقینی بات پر قائم نہیں ۔اُن کو اِس بات کا علم حاصل نہیں بلکہ صرف تخمینی طور پر یہ بات کہتے ہیں اور یہ قطعی بات ہے کہ وہ اُسے مارنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو صلیب کی *** موت سے بچا کر اپنے مقربوں میں جگہ دی۔ اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔ ہراہل کتاب اپنی موت سے پہلے پہلے اس کے متعلق ایمان ظاہر کرتا رہے گاکہ وہ صلیب پر مرگیا ہے ۔ لیکن قیامت کے دن مسیح اُن کے اوپر گواہی دے گا کہ انہوں نے اس پر یہ الزام لگا کر کہ وہ صلیب پر مرگیا ہے افتراء کیا ہے۔ پس یہودیوں کے ان ظلموں کی وجہ سے ہم نے اُن آسمانی نعمتوں سے ان کو محروم کردیا جو پہلے اُن کا حق سمجھی جاتی تھیں۔اِن آیات میں کس طرح حضرت مسیح کے منکروں پر حجت تمام کی گئی ہے۔
دوسری بات یہ فرمائی گئی تھی کہ وہ مسیح کی وفات ثابت کرے گا اور دنیا کو بتا دے گا کہ دنیا پھر اسرائیلی مسیح کو نہیں دیکھے گی۔ یہ کام بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور اس غلط عقیدہ کو باطل کرکے رکھ دیا جو عیسائیوں میں پھیلا ہوا تھا کہ مسیح آسمان پر بیٹھا ہوا ہے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۱۸۰؎ ان آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت مسیح سے سوال کرے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو معبود بناؤ؟ حضرت مسیح فرمائیں گے اے ربّ! تیری ذات پاک ہے بھلا میں ایسا کرسکتا تھا کہ وہ بات کہوں جس کا تونے مجھے حق نہیں دیا۔ اگر میں نے ایسا کہا ہوتا تو تیرے علم سے یہ بات چھپ تو نہیں سکتی تھی۔ جوکچھ میرے جی میں ہے تُو جانتا ہے اورجس غرض سے تُو نے یہ سوال کیا ہے میں اُسے نہیں جانتا تُو سب غیبوں کو جاننے والا ہے میں نے تو انہیں وہی بات کہی تھی جس کا تُو نے مجھے حکم دیا تھا ۔ کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی ربّ ہے اور تمہارا بھی ربّ ہے اور جب تک میں اُن میں رہا اُن کا نگران رہا ۔ پھر جب تونے مجھے وفات دے دی تو تُو اُن کا خود نگران تھا اور تو ہرچیز دیکھنے بھالنے والا ہے۔ اگر تُو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تُو انہیں معاف کردے تو تُو بڑا غالب حکمت والا ہے۔
اِن آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور مسیح کی قوم نے اُس وقت اُن کو خدائی کا درجہ دے دیا جب وہ فوت ہوکر اس دنیا سے جاچکے تھے۔ اورجیسا کہ پہلی آیت میں بیان کیا جاچکا ہے دنیا کو یہ بتادیا کہ مسیح کے آسمان پر جانے کے معنے محض یہ ہیں کہ وہ اپنے کام میں کامیاب ہو کر اور باعزت ہوکر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئے ۔
تیسری خبر یہ دی گئی تھی کہ شیطان اُس کے ذریعہ سے کچل دیا جائے گا۔ تمام نبیوں میں سے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہی ایک ایسے نبی ہیں جنہوں نے شیطان کے کچلنے کے ذرائع کو اختیار کیا اور بنی نوع انسان کی پاکیزگی کے لئے صحیح سامان بہم پہنچائے ۔ مگر اس کی تفصیل کا ابھی وقت نہیں ۔ اس کی تفصیل قرآن شریف کی تفسیر سے ملے گی یا کسی قدر آئندہ اسی دیباچے میں بیان کروں گا۔ مگرا یک موٹی بات تو ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ کسی نبی نے بھی شیطان سے پناہ مانگنے کی دُعا اپنی اُمت کو نہیں سکھائی سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔ مسلمان اپنے کاموں میں اُٹھتے بیٹھتے شیطان اور اس کے حملوں سے پناہ مانگتے ہیں ۔ یہ تعلیم گذشتہ انبیاء میں سے کسی کے ہاں نہیں پائی جاتی۔ پس جس قوم کو شیطان کا سرکچلنے کی ہدایت دن اور رات ملتی رہی ہو اور جس کے دل شیطانی حکومت کے توڑنے کا احساس ہر وقت زندہ رکھا جاتا ہو ظاہر ہے کہ وہی شیطان کو مارنے کی اہل سمجھی جائے گی اور اسی قوم کا نبی شیطان کو مارنے والا کہلائے گا۔ یہ تو نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ آئندہ ہوگا کہ شیطانی وسائل اِس دنیا سے بالکل مٹ جائیں کیونکہ اس کے بغیر تو ایمان کی قدر ہی کوئی باقی نہیں رہتی۔ شیطان کے مارنے کے معنے یہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نیکی دنیا میں قائم کی جائے ۔ کلیسیا تو بہر حال اِس کا مستحق نہیں ہوسکتا کیونکہ اُس نے تو شریعت کو *** قرار دے کر نیکی کا وجود ہی مشتبہ کر دیا ہے۔ اورجو یہ کہا گیا تھا کہ وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گی۔ اِس کی تشریح میں استثناء باب۱۸ کی پیشگوئی کے ماتحت کر آیا ہوں۔ آئندہ کی خبروں کے متعلق جو کہا گیاہے اِس کیلئے صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جتنی آئندہ کی خبریں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہیں اور کسی نبی نے نہیںدیں۔ اِس پر کچھ روشنی آگے چل کر ڈالی جائے گی یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور یہ جو کہا گیا تھا کہ اُس کا کلام سارے کا سارا کلام اللہ ہو گا یہ بھی ایک ایسی پیشگوئی ہے جس کا اور کوئی مصداق نہیں ہو سکتا۔ عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید کی کوئی بھی تو کتاب نہیں جو انسانی کلام سے خالی ہو، لیکن قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں شروع سے لے کر آخر تک وہی بیان کیا گیا ہے جو خد اتعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اَور وں کا تو ذکر کیا خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا بھی ایک لفظ اِس کتاب میں نہیں۔ آخر میں یہ جو کہا گیا تھا کہ ’’ وہ میری بزرگی کر ے گی‘‘ سو یہ بزرگی کرنے والے نبی بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ آپ ہی ہیں جنہوں نے مسیح کو اس الزام سے بچایا کہ وہ صلیبی موت سے مرکر نَعُوْذُ بِاللّٰہ *** ہوا۔ آپ ہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو اِس الزام سے بچایا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ خدائی کا دعویٰ کر کے وہ خدا تعالیٰ سے بیوفائی اور غداری کرتے تھے۔ آپ ہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیحؑ کو یہودیوں کے اعتراضات سے نجات دلائی۔ پس اِس پیشگوئی کا مصداق آپؐ کے سوا کوئی نہیں۔
(ز) کتاب اعمال میں لکھا ہے:۔
’’ ضرور ہے کہ آسمان اُسے (یعنی مسیح کو) لئے رہے اُس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خد انے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا اپنی حالت پر آویں۔ کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اُٹھاوے گا۔ جو کچھ وہ تمہیں کہے اُس کی سب سنو اور ایسا ہی ہو گا کہ ہر نفس جو اُس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا۔ بلکہ سب نبیوں نے سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا اِن دنوں کی خبر دی‘‘۔۱۸۱؎
اِن آیات میں حضرت موسیٰ کی کتاب استثناء والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ آنے والا موعود جب تک ظاہر نہ ہو جائے اُس وقت تک مسیح کی دوبارہ آمد نہیں ہو گی۔ استثناء کی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ موعود نئی شریعت لائے گا۔ پس اِس پیشگوئی کو اعمال میں دُہر اکر اِس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ آنے والے موعود کے ذریعہ سے مسیح کی تعلیم منسوخ کر دی جائے گی ورنہ نئی شریعت کے تو کوئی معنی ہی نہیںہو سکتے۔ ایک ہی وقت میں ایک قوم میں دو شریعتیں تو چل نہیں سکتیں۔ پس یہ آنے والا موعود یقینا ارتقاء کا آخری نقطہ ہے۔ جو موسیٰ اور مسیح کی تعلیموں کو منسوخ کرنے والا تھا اور جس کو ایک نئی شریعت دنیا کے سامنے ظاہر کرنی تھی۔ اعمال نے ایک اَور روشنی بھی اِس موعود کے متعلق ڈالی ہے اور وہ یہ کہ سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبی گزرے ہیں اُنہوں نے اِس موعود کی خبر دی ہے۔ موسیٰ کی خبر کا تو پہلے ذکر آچکا ہے اوردائود نبی سموئیل کے بعد ہوئے ہیں۔ اِس لیے اعمال کی آیت ۲۴ کا مطلب یہ ہے کہ موسیٰ سے لے کر تمام انبیاء نے اس آنے والے کی خبر دی ہے۔ پس جب تک یہ نبی دنیا میں ظاہر نہ ہو اُس وقت تک دنیا کی روحانی تعمیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ اور میں پہلے ثابت کر آیا ہوں کہ یہ نبی بائبل کی بتائی ہوئی علامتوں کے مطابق سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی شخص نہیں۔ حاصل یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تمام انبیاء کا موعود تھا اور آپ کی شریعت ہی تمام انبیاء کی موعود تھی۔ پس یہ اعتراض کسی صورت میں درست نہیں ہو سکتا کہ تورات اور انجیل کی موجودگی یا اَور کتابوں کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت ہے۔ جب سابق نبیوں نے قرآن کریم کی ضرورت تسلیم کی ہے اور اس کی پیشگوئی کی ہے تو اُن کی اُمتوں کو کیا حق ہے کہ وہ اِس کی ضرورت سے انکار کریںبلکہ اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ قرآن کریم کی ضرورت سے انکار کریں گی تو اُن کے نبیوں کی صداقت بھی مشتبہ ہوجائے گی اور اِن نبیوں کی پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہو کر وہ موسیٰ کے اس قول کی زد میں آجائیں گی ’’ جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اُس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند نے نہیں کہی اور اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے تو اس سے مت ڈر‘‘۔۱۸۲؎
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
یہ مضمون بیان کرنے کے بعد کہ باوجود بہت سی الہامی کتب کے موجود ہونے کے آج سے تیرہ سَو سال پہلے دنیا ایک اَور شریعت اور ایک اَور کتاب کی محتاج تھی میں اِس مضمون کو اختصاراً لیتا ہوں کہ قرآن کریم کس شخص پر نازل ہوا اور کن حالات میں نازل ہوا۔ کیونکہ یہ مضمون بھی قرآن کریم کی اہمیت سمجھنے کے لئے نہایت ممد ہے۔ گو فلسفی مزاج لوگوں کے لئے تو اتنا دیکھنا ہی کافی ہوتا ہے کہ جو مضمون اِن کے سامنے پیش کیا گیا ہے وہ کیا قیمت رکھتا ہے۔ چنانچہ عربی میں مثل ہے اُنْظُرْ اِلٰی مَاقِیْلَ وَلَا تَنْظُرْ اِلٰی مَنْ قَالَ۔ تُو یہ دیکھ کہ جو بات کہی گئی وہ کیا ہے اور اِس بات کی طرف نہ دیکھ کہ اس کا کہنے والا کون ہے۔ مگر دنیا کی اکثریت یہ بھی دیکھنا چاہتی ہے کہ کہنے والا کون ہے۔ اور خصوصاً الہامی کتابوں کے متعلق تو یہ نہایت ضروری ہوتا ہے کہ اِن کتابوں کو پیش کرنے والوں کے یعنی اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے متعلق بھی دنیا کو یہ معلوم ہو کہ اُن کی زندگی کیسی تھی کیونکہ مذہبی قانون صرف حکم سے منوایا نہیں جاتا ہے۔ حکومت نظام کے لئے قائم ہوتی ہے اور اس کا تعلق صرف ظاہر سے ہوتا ہے اِس لئے کسی ملک کی آئینی تنظیم کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اُس میں ایک آئین پایا جائے۔ کیونکہ قانون کا منشاء صرف اِس قدر ہوتا ہے کہ لوگوں کا ظاہر قانون کا پابند ہو جائے۔ چنانچہ عدالتوں میں کسی کی نیت بُری ثابت کرنا اُس کو مجرم نہیں بنا دیتا جب تک اُس نیت کے مطابق اُس کے فعل کا صدور بھی اُس سے ثابت نہ ہو مگر مذہبی دنیا میں ظاہر سے بھی زیادہ باطن پر زور دیا جاتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ظاہر کو ترک نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ظاہر ،باطن کی علامت ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ظاہری اصلاح کے ساتھ باطنی اصلاح بھی ہو جائے مگر باطنی اصلاح کے ساتھ ظاہری اصلاح کا ہو جانا لازمی ہے۔ جس طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ آگ ہو لیکن اس سے گرمی پیدا نہ ہو، اِسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ دل میں صفائی ہو اور ظاہری اعمال اُس کے مطابق نہ ہوں۔ عارضی کوتاہی یا غفلت اور بات ہے لیکن عام طور پر دل کی صفائی کے مطابق انسان کے اعمال صادر ہوتے ہیں اور دل کی صفائی کا بہترین ذریعہ اچھا نمونہ ہوتا ہے۔ قانون انسان کے دماغ پر اثر ڈالتا ہے لیکن اچھا نمونہ انسا ن کے دل پر اثر ڈالتا ہے۔ قانون کی حکومت فکر پر ہوتی ہے لیکن اچھے نمونہ کی حکومت جذبات پر ہوتی ہے۔ ہم صرف فکر کی اصلاح سے انسان کی روحانی اور جسمانی اصلاح نہیں کر سکتے۔ فکر کا نتیجہ غیر متواتر اعمال کے ذریعہ سے ظاہر ہوتاہے لیکن جذبات کا نتیجہ متواتر اور مسلسل اعمال کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ ایک عام خیر خواہ انسان جس رنگ میں اپنے گردو پیش کے لوگوں کی خیر خواہی کرتا ہے اُس کی خیر خواہی کا نمونہ اُس خیر خواہی کے نمونہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو ماں اپنے بچہ کے متعلق دکھاتی ہے۔ اِس لئے کہ جس کا دماغ اخلاقی تعلیم سے متأثر ہو اہے وہ اُس شخص کا مقابلہ نہیں کر سکتا جس کے جذبات اخلاقی تعلیم سے متأتر ہوں۔ ماں کی محبت اپنے بچہ سے اُس کے جذبات کی وجہ سے ہوتی ہے اور ایک فلاسفر کی محبت اپنے ہمسایوں سے دلائلِ عقلیہ کی بناء پر ہوتی ہے۔
انبیاء کے اعمال فکری جذباتی ہوتے ہیں اور لوگوں کے لئے نمونہ
جو اعمال دلائل کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں وہ متواتر اور مسلسل نہیں ہو سکتے کیونکہ بعض دفعہ انسان کی توجہ حقیقت کی
طرف نہیں پھرتی۔ بعض دفعہ اُس کے ارادہ اور عمل کے درمیان ایک لمبی سوچ اور فکر حائل ہو جاتی ہے مگر جو جذبات کے ماتحت لوگوں سے کوئی کام کرتا ہے اُس کے کام فوری ہوتے ہیں اور مسلسل ہوتے ہیں۔ ماں کو اگر کوئی لاکھ دلیل دے کہ تُو اپنے بچہ کے لئے قربانی نہ کر جو کر رہی ہے تو وہ کبھی اُس کی بات نہیں مانے گی اوربچے کی تکلیف کے متعلق وہ سوچنے نہیں بیٹھے گی۔ وہ اندھا دھند اور فوری طور پر اپنے بچہ کی خیر خواہی کے لئے وہ تدابیر اختیار کر نے کو آمادہ ہو جائے گی جو تدابیر اُس کے نزدیک اُس کے بچہ کے فائدہ کے لئے ضروری ہوں گی اور رات اور دن میں کوئی وقت بھی ایسا نہیں ہو گا جب اُس کا دماغ اپنے بچہ کی خیر خواہی سے خالی ہو۔ پس حقیقی اصلاح جبھی ہو سکتی ہے کہ اخلاقِ فاضلہ بنی نوع انسان کے جذبات کا حصہ بنا دئیے جائیں۔ وہ اخلاق کے مطالبات کو فکر کے بعد پورا نہ کریں بلکہ اخلاقی مطالبات کو اپنی ذات میں محسوس کرنے لگیں۔ جذبات کو بعض لوگ بُرا کہتے ہیں لیکن جذبات بُرے ہی نہیں اچھے بھی ہوتے ہیں۔ جذبہ کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ ارادہ اور عمل کے درمیان جو فکر کی لمبی دیوار کھڑی ہوتی ہے وہ چھوٹی کر دی جائے یا بالکل اُڑا دی جائے تاکہ انسانی اعمال محدودہوکر نہ رہ جائیں بلکہ جذبات کی وجہ سے وہ سینکڑوں گنے زیادہ ترقی کر جائیں۔ جو شخص خالی فکر سے کام لیتا ہے وہ بہت سا وقت سوچنے اور غور کرنے میں گزار دیتا ہے۔ لیکن جو شخص ایک دفعہ سوچ کر اور غور کر کے ایک سچائی کو معلوم کر لیتا ہے اور ایک نیکی کو پا لیتا ہے پھر وہ اُس سچائی اور نیکی کو اپنے دل کی طرف منتقل کر دیتا ہے اور اسے اپنے جذبات کا حصہ بنا دیتاہے تو وہ اُس نیکی اور سچائی پر عمل کرنے میں اتنا تیز اور پھرتیلا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو صرف فکر سے کام لینے کا عادی ہے اُس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ فکر سے کام لینے والا جتنی دیر میں ایک کام کرے گا جذبات سے کام لینے والا اُتنی دیر میں بیسیوں کام کر جائے گا اور ہم اس جذبات سے کام لینے والے شخص کو وحشی نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ جذبات کا غلام نہیں ہے بلکہ پہلے اُس نے فکر اور غور سے سچائیوں اور نیکیوں کو دریافت کیا اس کے بعد اُس نے اُن سچائیوں اور نیکیوں کو اپنے جذبات کا حصہ بنا لیا۔ پس ایسے شخص کا جذباتی عمل غیرارادی نہیں ہوتا بلکہ ارادہ کے تابع ہوتا ہے۔ صرف اتنی بات ہے کہ یہ اُس کام کو جو ایک دفعہ فکر سے لے چکا ہے بار بار دُہرانا نہیں چاہتا اور ایک ایسا کا م جو پہلے کیا جا چکا ہو اُس کو بغیر ضرورت دُہرانا عقلمندی تو نہیں بیوقوفی کی بات ہے۔ پس یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی اصلاح اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک سچائیاں اور نیکیاں انسان کے جذبات کا جزو نہ بن جائیں۔ جب تک انسان صرف فکر کی اتباع کرے گا وہ دُبْدَھا۱۸۳؎ اور شک اور دیر کا شکار رہے گا۔ جب وہ سچائیوں اور نیکیوں کے اصول کو فکر اور غور سے معلوم کرکے اپنے جذبات کا حصہ بنا لے گا تو دُبْدَھا اور شک اور دیر سے وہ محفوظ ہو جائے گا۔ وہ سچائیوں پر عمل کرے گا اور نیکیاں ظاہر کر ے گا مگر بغیر تردّد کے، بغیر شبہ کے، بغیر دُبْدَھا کے۔ اوریہ چیز جیساکہ میں نے بتایا ہے بغیر اچھے نمونہ کے پیدا نہیں ہو سکتی۔ ہم عقلی دلیل سے اپنے دماغ کو تسلی دیتے ہیں۔ عقلی دلیل محبت کے جذبات کو نہیں اُبھارا کرتی۔ محبت کے جذبات کو قربانی اور ایثار کا نمونہ ہی اُبھارا کرتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی عبادت کے الفاظ کتنے ہی شاندار ہوں اُن سے وہ سوزو گداز پیدا نہیں ہو سکتا جو ایک انسان کو سوزو گداز سے عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر پید اہوتا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ خالی نمونہ بھی ٹھوکر کا موجب ہو جاتا ہے کیونکہ جب تک فکر پاکیزہ نہ ہو جذبات رسم و رواج کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور رسم ورواج عقل اور دانائی کو قتل کر دینے والی چیز یں ہیں۔ پس ایک ہی وقت میں مدلل تعلیم کی بھی ضرورت ہے اور پاک نمونہ کی بھی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آسمانی کتابیں ہمیشہ نبیوں پر نازل ہوتی رہی ہیں۔ خالی کتاب کبھی آسمان سے نہیں پھینکی گئی۔ کتاب انسان کے دماغ کو نور بخشتی ہے اورنمونہ اُس کتاب کے مضمون کو انسان کے دل میں داخل کر دیتا ہے اور اُس کے جذبات کا حصہ بنا دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن میدانوں میں خدا تعالیٰ کے انبیاء کامیاب ہوئے ہیں فلاسفراُن میدانوں میں ہمیشہ ناکام ہوئے ہیں کیونکہ فلاسفر اپنے فلسفوں سے ہمیشہ لوگوں کے دماغوں کی اصلاح کی فکر کرتے ہیں مگر اپنے اچھے نمونہ سے اُن کے دلوں کی اصلاح نہیں کرتے۔ جبکہ انبیاء آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے دماغوں کو بھی نور بخشتے ہیں اور اپنے نمونہ کے ذریعہ سے اُ ن کے دلوں کو بھی پاک کرتے ہیں اوراُن کی ذات میں جو خدا تعالیٰ کے معجزات اور نشانات ظاہر ہوتے ہیں وہ لوگوں کے ایمان اور یقین کو بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں۔ اِس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں یہ ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے کچھ حالات بھی اِس موقع پر بیان کر دئیے جائیں۔
آنحضرت ﷺ کے حالاتِ زندگی
خدا تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا نشان اور اِسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان
ثبوت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات جتنے ظاہر ہیں اور کسی نبی کی زندگی کے حالات اتنے ظاہر نہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تفصیل کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنے اعتراض ہوئے ہیں اتنے اعتراض اور کسی نبی کے وجود پر نہیں ہوئے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان اعتراضوں کے حل ہوجانے کے بعد جس طرح شرح صدر اور جس اخلاص سے ایک انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے محبت کر سکتا ہے اور کسی انسان کی ذات سے اتنی محبت ہرگز نہیں کر سکتا۔ کیونکہ جن کی زندگیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اُن کی محبت میں رخنہ پڑجانے کا احتمال ہمیشہ رہتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو ایک کھلی کتاب تھی۔ دشمن کے اعتراضات حل ہونے کے بعد کوئی ایسا کونہ نہیں رہتا جس پر سے مڑنے کے بعد آپ کی زندگی کے متعلق ایک نیا زاویہ نگاہ ہمارے سامنے آسکتا ہو۔ نہ کوئی تہہ ایسی باقی رہتی ہے جس کے کھولنے کے بعد کسی اور قسم کی حقیقت ہم پر ظاہر ہوتی ہو۔ یہ امر ظاہر ہے کہ ایسے انسان کی زندگی کے حالات قرآن کریم کے دیباچہ میں ضمنی طور پر مختصراً بھی نہیں بیان کئے جا سکتے۔ صرف اُن کی طر ف ایک خفیف سا اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ خفیف اشارہ بھی اِس سے بہتر رہے گا کہ میں اس مضمون کو ہی ترک کردوں کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے آسمانی کتب کو صحیح معنوں میں لوگوں کے دماغوں میں راسخ کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ اعلیٰ نمونہ بھی ہو اور سب سے اعلیٰ نمونہ وہی ہو سکتا ہے جس پر وہ کتاب نازل ہوئی ہو۔ یہ نقطہ باریک اور فلسفیانہ ہے اور بہت سے مذاہب نے تو اِس کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں۔ چنانچہ ہندو مذہب ویدوں کو پیش کرتا ہے مگر ویدوں کے لانے والے رشیوں اور منیوں کی تاریخ کے متعلق بالکل خاموش ہے۔ ہندو مذہب کے علماء اِس کی ضرورت کو آج تک بھی نہیں سمجھ سکے۔ اِسی طرح عیسائی اور یہودی علماء اورپادری بڑی بیباکی سے کہہ دیتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے فلاں نبی میں فلاں نقص تھا اور فلاں نبی میں فلاں نقص تھا۔ وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ جس شخص کو خد اتعالیٰ نے اپنے کلام کے لئے چنا جب وہ کلام اُس کی اصلاح نہیں کر سکا تو کسی دوسرے کی اصلاح کیا کرے گا اور اگر وہ شخص ایسا ہی ناقابل اصلاح تھا تو خد اتعالیٰ نے اُسے چنا کیوں؟ کیا وجہ ہے کہ کسی اور کو نہیں چن لیا؟ آخر خدا تعالیٰ کے لئے کیا مجبوری تھی کہ وہ زبور کے لئے دائود کو چنتا۔ وہ بنی اسرائیل میں سے کسی اور انسان کا انتخاب کر سکتا تھا۔ پس یہ دونوں باتیں غیر معقول ہیں۔ یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ نے جس پر کلام نازل کیا وہ کلام اُس کی اصلاح نہیں کر سکا یا یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو چن لیا جو ناقابل اصلاح تھا یہ دونوں باتیں عقل کے بالکل خلاف ہیں۔ مگر بہرحال مختلف مذاہب میں اپنے منبع سے دوری کی وجہ سے اِس قسم کے غلط خیالات پیدا ہو گئے ہیں۔ یا یوں کہو کہ انسانی دماغ کی ترقی کے کامل نہ ہونے کے سبب سے پرانے زمانہ میں اِن چیزوں کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں گیا۔ مگر اِسلام میں شروع سے ہی اس امر کی اہمیت سمجھی گئی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہؓ تیرہ چودہ سال کی عمر میں آپ سے بیاہی گئیں اور کوئی سات سال کا عرصہ آپ کی صحبت میں رہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو اُن کی عمر۲۱ سال تھی اور وہ پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں لیکن باوجود اِس کے اُن پر یہ فلسفہ روشن تھا۔ ایک دفعہ آپ سے کسی نے سوال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق تو کچھ فرمائیے تو آپ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہٗ کُلُّہُ الْقُرْاٰنُ ۱۸۴؎ یعنی آپ کے اخلاق کا پوچھتے ہو جو کچھ آپ کہا کرتے تھے اُنہی باتوں کا قرآن کریم میں حکم ہے اور قرآن کریم کی لفظی تعلیم آپ کے عمل سے جداگانہ نہیںہے۔ ہر خلق جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اُس پر آپ کا عمل تھا اور ہر عمل جو آپ کرتے تھے اُسی کی قرآن کریم میں تعلیم ہے۔ یہ کیسی لطیف بات ہے ۔ معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اتنے وسیع اور اتنے اعلیٰ تھے کہ ایک نوجوان لڑکی جو تعلیم یافتہ بھی نہیں تھی اُس کی توجہ کو بھی اِس حد تک پھر انے میں کامیاب ہوگئے کہ ہندو، یہودی اور مسیحی فلسفی جس امر کی حقیقت کو نہ سمجھ سکے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس امر کی حقیقت کو پاگئیں اور ایک چھوٹے سے فقرہ میں آپ نے یہ لطیف فلسفہ بیان کردیا کہ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک راستباز اور مخلص انسان دنیا کو ایک تعلیم دے اور پھر اُس پر عمل نہ کرے یا خود ایک نیکی پر عمل کرے اور دنیا سے اُسے چھپائے اس لئے تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق معلوم کرنے کے لئے کسی تاریخ کی ضرورت نہیں ۔ وہ ایک راستباز اور مخلص انسان تھے جو کہتے تھے وہ کرتے تھے اور جوکرتے تھے وہ کہتے تھے۔ ہم نے اُن کو دیکھا اور قرآن کریم کو سمجھ لیا۔ تم جوبعد میں آئے ہو قرآن پڑھو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لو۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
محمد ﷺکے ظہور کے وقت عرب کی حالت
بت پرستی
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں پیدا ہوئے اُس زمانہ کے حالات کو بھی آپ کے حالات کا ایک حصہ ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ اِسی پس پردہ کو مدنظر
رکھ کر آپ کی زندگی کے حالات کی حقیقت کو انسان اچھی طرح سمجھ سکتا ہے ۔ آپ مکہ مکرمہ میں پیداہوئے اورآپ کی پیدائش شمسی حساب سے اگست ۵۷۰ء میں بنتی ہے۔ آپ کی پیدائش پر آپ کا نام محمد رکھا گیا جس کے معنے تعریف کئے گئے کے ہیں۔ جب آپ پیدا ہوئے اُس وقت تمام کا تمام عرب سوائے چند مستثنیات کے مشرک تھا ۔ یہ لوگ اپنے آپ کو ابراہیم ؑ کی نسل میں سے قرار دیتے تھے اور یہ بھی مانتے تھے کہ ابراہیم ؑ مشرک نہیں تھے لیکن اِس کے باوجود وہ شرک کرتے تھے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ بعض انسان ترقی کرتے کرتے خداتعالیٰ کے ایسے قریب ہوگئے ہیں کہ اُن کی شفاعت خدا تعالیٰ کی درگاہ میں ضرور قبول کی جاتی ہے اور چونکہ خداتعالیٰ کا وجود بہت بلند شان والا ہے اُس تک پہنچنا ہر ایک انسان کا کام نہیں کامل انسان ہی اُس تک پہنچ سکتے ہیں اس لئے عام انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی وسیلہ بنائیں اور اس وسیلہ کے ذریعے سے خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور مدد حاصل کریں ۔ اس عجیب و غریب عقیدہ کی رو سے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو موحّد مانتے ہوئے اپنے لئے شرک کا جواز بھی پیدا کرلیتے تھے۔ ابراہیم ؑبڑا پاکباز تھا۔ وہ خدا کے پاس براہ راست پہنچ سکتا تھا مگر مکہ کے لوگ اس درجہ کے نہیں تھے اس لئے انہیں بعض بڑی ہستیوں کو وسیلہ بنانے کی ضرورت تھی۔ جس غرض کے حصول کے لئے وہ ان ہستیوں کے بُتوں کی عبادت کرتے تھے اور اس طرح بخیالِ خود اُن کو خوش کرکے خداتعالیٰ کے دربار میں اپنا وسیلہ بنالیتے تھے ۔اس عقیدہ میں جو تقائص اور بے جوڑ حصے ہیں اُن کے حل کرنے کی طرف اُن کا ذہن کبھی گیا ہی نہیں تھا کیونکہ کوئی موحّد معلم ان کو نہیں ملا تھا۔ جب شرک کسی قوم میں شروع جاتا ہے تو پھر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ایک سے دوبنتے ہیں اور دوسے تین۔ چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت خانہ کعبہ میں (جو اب مسلمانوں کی مقدس مسجد ہے اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیھما السلام کا بنایا ہوا عبادت خانہ ہے) مؤرخین کے قول کے مطابق تین سَو ساٹھ بُت تھے گویا قمری مہینوں کے لحاظ سے ہردن کے لئے ایک علیحدہ بُت تھا۔ اِن بُتوں کے علاوہ اِرد گرد کے علاقوں کے بڑے بڑے قصبات میں اور بڑی بڑی اقوام کے مراکز میں علیحدہ بُت تھے گویا عرب کا چپہ چپہ شرک میں مبتلا ہورہا تھا۔ عرب لوگوں میں زبان کی تہذیب اور اصلاح کا خیال بہت زیادہ تھا انہوں نے اپنی زبان کو زیادہ سے زیادہ علمی بنانے کی کوشش کی مگر اس کے سوا اُن کے نزدیک علم کے کوئی معنی نہ تھے۔ تاریخ ، جغرافیہ، حساب وغیرہ علوم میں سے کوئی ایک علم بھی وہ نہ جانتے تھے۔ ہاں بوجہ صحراء کی رہائش اور اس میں سفر کرنے کے علم ہیئت کے ماہر تھے۔ سارے عرب میں ایک مدرسہ بھی نہ تھا۔ مکہ مکرمہ میں کہاجاتا ہے کہ صرف چند گنتی کے آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے۔ اخلاقی لحاظ سے عرب ایک عجیب متضاد قوم تھی ۔ اُن میں بعض نہایت ہی خطرناک گناہ پائے جاتے تھے اور بعض ایسی نیکیاں بھی پائی جاتی تھیں کہ جواُن کی قوم کے معیار کو بہت بلند کردیتی تھیں۔
شراب نوشی اور قمار بازی
عرب شراب کے سخت عادی تھے اور شراب کے نشہ میں بے ہوش ہوجانا یا بکواس کرنے لگنا اُن کے
نزدیک عیب نہیں بلکہ خوبی تھا۔ ایک شریف آدمی کی شرافت کی علامتوں میں سے یہ بھی تھا کہ وہ اپنے دوستوں اور ہمسائیوں کو خوب شراب پلائے ۔امراء کے لئے دن کے پانچ وقتوں میں شراب کی مجلسیں لگانا ضروری تھا ۔جوا اُن کی قومی کھیل تھی مگر اُس کو انہوں نے ایک فن بنالیا تھا۔ وہ جو ا اس لئے نہیں کھیلتے تھے کہ اپنے اموال بڑھائیں بلکہ جوئے کو انہوں نے سخاوت اور بڑائی کا ذریعہ بنایا ہوا تھا۔ مثلاً جوا کھیلنے والوں میں یہ معاہدہ ہوتا تھا کہ جو جیتے وہ جیتے ہوئے مال سے اپنے دوستوں اور اپنی قوم کی دعوتیں کرے۔ جنگوں کے موقع پر جوئے کو ہی روپیہ جمع کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا تھا ۔ جنگ کے ایام میں آجکل بھی لاٹری کا رواج بڑھ رہا ہے مگر یورپ اور امریکہ کے لاٹری بازوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس ایجاد کا سہرا عربوں کے سر ہے ۔ جب کبھی جنگ ہوتی تھی تو عرب قبائل آپس میں جوا کھیلتے تھے اور جو جیتتا تھا وہ جنگ کے اکثر اخراجات اُٹھاتا تھا ۔ غرض دنیاکی دوسری آسائشوں اور سہولتوں سے محروم ہونے کا بدلہ عربوں نے شراب اور جوئے سے لیا تھا۔
تجارت
عرب لوگ تاجر تھے اوراُن کے تجارت کے قافلے دور دور تک جاتے تھے ۔ ایبے سینیا سے بھی وہ تجارت کرتے تھے اور شام اور فلسطین سے بھی وہ تجارت
کرتے تھے ہندوستان، سے بھی ان کے تجارتی تعلقات تھے ۔ ان کے امراء ہندوستان کی بنی ہوئی تلواروں کی خاص قدر کرتے تھے ۔ کپڑا زیادہ تریمن اورشام سے آتا تھا۔ یہ تجارتیں عرب کے شہروں کے ہاتھ میں تھیں بقیہ عرب سوائے یمن اور بعض شمالی علاقوں کے بدوی زندگی بسر کرتے تھے۔ نہ اُن کے کوئی شہر تھے نہ اُن کی کوئی بستیاں تھیں۔ صرف قبائل نے ملک کے علاقے تقسیم کر لیے تھے۔ اِن علاقوں میں وہ چکر کھاتے پھرتے تھے۔ جہاں کا پانی ختم ہو جاتا تھا وہاں سے چل پڑتے تھے اور جہاں پانی مل جاتا تھا وہاں ڈیرے ڈال دیتے تھے۔ بھیڑ، بکریاں، اُونٹ اُن کی پونجی ہوتے تھے اُن کی صوف اور اُون سے کپڑے بناتے۔ اُن کی کھالوں سے خیمے تیار کرتے اور جو حصہ بچ جاتا اُسے منڈیوں میں لے جا کر بیچ ڈالتے۔
عرب کے دیگر حالات و عادات و خصائل
سونے چاندی سے وہ نا آشناتو تھے مگر سونا اور چاندی ان
کے لئے ایک نہایت ہی کمیاب جنس تھی۔ حتی کہ اُن کے عوام اور غرباء میں زیورات کوڑیوں اور خوشبودار مصالحوں سے بنائے جاتے تھے۔ لونگوں اور خربوزوں اور ککڑیوں وغیرہ کے بیجوں اور اِسی قسم کی اَور چیزوں سے وہ ہار تیار کر تے اوراُن کی عورتیں یہ ہار پہن کر زیوروں سے مستغنی ہو جاتی تھیں۔ فسق و فجور کثرت سے تھا۔ چوری کم تھی مگر ڈاکہ بے انتہاء تھا۔ ایک دوسرے کو لُوٹ لینا وہ ایک قومی حق سمجھتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی قول کی پاسداری جتنی عربوں میں ملتی ہے اتنی اور کسی قوم میں نہیں ملتی۔ اگر کوئی شخص کسی طاقتور آدمی یا قوم کے پاس آکر کہہ دیتا کہ میں تمہاری پناہ میں آگیا ہوں تو اُس شخص یا اُس قوم کے لئے ضروری ہوتا تھا کہ وہ اُس کو پناہ دے۔ اگر وہ قوم اُسے پناہ نہ دے تو سارے عرب میں وہ ذلیل ہو جاتی تھی۔ شاعروں کو بہت بڑا اقتدار حاصل تھا وہ گویا قومی لیڈر سمجھے جاتے تھے۔ لیڈروں کے لئے زبان کی فصاحت اور اگر ہوسکے تو شاعر ہونا نہایت ضروری تھا۔ مہمان نوازی انتہاء درجہ تک پہنچی ہوئی تھی۔ جنگل میں بھولا بھٹکا مسافر اگر کسی قبیلہ میں پہنچ جاتا اور کہتاکہ میں تمہارا مہمان آیا ہوں تو وہ بے دریغ بکرے اور دنبے اور اُونٹ ذبح کر دیتے تھے۔ اُن کے لئے مہمان کی شخصیت میں کوئی دلچسپی نہ تھی، مہمان کا آجانا ہی اُن کے نزدیک قوم کی عزت اور احترام کو بڑھانے والا تھا اور قوم پر فرض ہو جاتا تھا کہ اُس کی عزت کر کے اپنی عزت کو بڑھائے۔ عورتوں کو کوئی حقوق اُس قوم میں حاصل نہیں تھے۔ بعض قبائل میں یہ عزت کی بات سمجھی جاتی تھی کہ باپ اپنی لڑکی کو مار ڈالے۔ مؤرخین یہ بات غلط لکھتے ہیں کہ سارے عرب میں لڑکیوں کو مارنے کا رواج تھا۔ یہ رواج تو طبعی طور پر سارے ملک میں نہیں ہو سکتا کیونکہ اگر سارے ملک میں یہ رواج جاری ہو جائے تو پھر اُ س ملک کی نسل کس طرح باقی رہ سکتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ عرب اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں جہاں جہاں بھی یہ رواج پایا جاتا ہے اِس کی صورت یہ ہوا کرتی ہے کہ بعض خاندان اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر یا بعض خاندان اپنے آپ کو ایسی مجبوریوں میں مبتلا دیکھ کر اُن کی لڑکیوں کے لئے اُن کی شان کے مطابق رشتے نہیں ملیں گے لڑکیوں کو مار دیا کرتے ہیں۔ اِس رواج کی بُرائی اُس کے ظلم میں ہے نہ اِس امر میں کہ ساری قوم میں سے لڑکیاں مٹا دی جاتی ہیں۔ عربوں کی بعض قوموں میں تو لڑکیاں مارنے کا طریقہ یوں رائج تھا کہ وہ لڑکی زندہ دفن کر دیتے تھے اور بعض میں اس طرح کہ وہ اُس کا گلا گھونٹ دیتے تھے اور بعض اَور طریقوں سے ہلاک کر دیتے تھے۔ اصلی ماں کے سوا دوسری مائوں کو عرب لوگ ماں نہیں سمجھتے تھے اور اُن سے شادیاں کرنے میں حرج نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ باپ کے مرنے کے بعد کئی لڑکے اپنی سوتیلی مائوں سے بیاہ کر لیتے تھے۔ کثرتِ ازدواج عام تھی۔ کوئی حد بندی نکاحوں کی نہیں ہوتی تھی۔ ایک سے زیادہ بہنوں سے بھی ایک شخص شادی کر لیتا تھا۔ لڑائی میں سخت ظلم کرتے تھے جہاں بغض بہت زیادہ ہوتا تھا زخمیوں کے پیٹ چاک کر کے اُن کے کلیجے چبا جاتے تھے۔ ناک کان کاٹ دیتے تھے۔ آنکھیں نکال دیتے تھے۔ غلامی کا رواج عام تھا۔ اِردگرد کے کمزور قبائل کے آدمیوں کو پکڑ کے لے آتے تھے اور اُن کو غلام بنا لیتے تھے۔ غلام کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے۔ ہر مالک اپنے غلام سے جو چاہتا سلوک کرتا اُس کے خلاف کوئی گرفت نہ تھی۔ اگر وہ قتل بھی کر دیتا تو اس پر کوئی الزام نہ آتا تھا۔ اگر کسی دوسرے آدمی کے غلام کو مار دیتا تب بھی وہ موت کی سزا سے محفوظ سمجھا جاتا تھا اور مالک کو کچھ معاوضہ دے کر آزادی کر حاصل لیتا تھا۔ لونڈیوں کو اپنی شہوانی ضرورتوں کے پورا کرنے کا ذریعہ بنانا ایک قانونی حق تسلیم کیا جاتا تھا۔ لونڈیوں کی اولادیں بھی آگے غلام ہوتی تھیں اور صاحبِ اولاد لونڈیاں بھی لونڈیاں ہی رہتی تھیں۔ غرض جہاں تک علم و ترقی کا سوال ہے عرب لوگ بہت پیچھے تھے، جہاں تک بین الاقوامی رحم اور حسن سلوک کا سوال ہے عرب کے لوگ بہت پیچھے تھے، جہاں تک صنف نازک کے تعلق کا سوال ہے عرب لوگ دوسری اقوام سے بہت پیچھے تھے۔ مگر بعض شخصی اور بہادرانہ اخلاق اُن میں ضرور پائے جاتے تھے اور اس حد تک پائے جاتے تھے کہ شاید اُس زمانہ کی دوسری قوموں میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت
اِس ماحول میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے۔ آپ کی پیدائش سے
پہلے ہی آپ کے والد جن کا نام عبداللہ تھا فوت ہو گئے تھے اور آپ کو اور آپ کی والدہ حضرت آمنہ کو اُن کے دادا عبدالمطلب نے اپنی کفایت میں لے لیا تھا۔ عرب کے رواج کے مطابق آپ دودھ پلانے کے لئے طائف کے پاس رہنے والی ایک عورت کے سپرد کئے گئے۔ عرب لوگ اپنے بچوں کو دیہاتی عورتوں کے سپرد کر دیا کرتے تھے تا اُن کی زبان صاف ہوجائے اور اُن کی صحت درست ہو۔ آپ کی عمر کے چھٹے سال میں آپ کی والدہ بھی مدینہ سے آتے ہوئے جہاں وہ اپنے ننھیال سے ملنے گئی تھیں مدینہ اور مکہ کے درمیان فوت ہو گئیں اور وہیں دفن ہوئیں اور آپ کو ایک خادمہ اپنے ساتھ مکہ لائی اور دادا کے سپرد کر دیا۔ آپ آٹھویں سال میں تھے کہ آپ کے دادا جو آپ کے نگران تھے وہ بھی فوت ہو گئے اور آپ کے چچا ابو طالب اپنے والد کی وصیت کے مطابق آپ کے نگران ہوئے۔ عرب سے باہر آپ کو دو تین دفعہ جانے کا موقع ملا۔ جن میں سے ایک سفر آپ نے بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا ابو طالب کے ساتھ کیا جو کہ تجارت کے لئے شام کی طر ف گئے تھے۔ یہ سفر آپ کا غالباً شام کے جنوب مشرقی تجارتی شہروں تک ہی محدود تھا کیونکہ اس سفر میں بیت المقدس وغیرہ جگہوں میں سے کسی کا ذکر نہیں آتا۔ اس کے بعد آپ جوانی تک مکہ میں ہی مقیم رہے۔
مجلس حلف الفضول میں آپ کی شمولیت
آپ کی طبیعت بچپن سے ہی سوچنے اور فکر کرنے کی طرف
مائل تھی اور لوگوں کی لڑائیوں جھگڑوں میںآپ دخل نہیں دیا کرتے تھے بلکہ لڑائیوں اور فسادوں کے دُور کرانے میں حصہ لیتے تھے چنانچہمکہ اور اِس کے گردو نواح کے قبائل کی لڑائیوں سے تنگ آکر جب مکہ کے کچھ نوجوانوں نے ایک انجمن بنائی جس کی غرض یہ تھی کہ وہ مظلوموں کی مدد کیا کرے گی، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے شوق سے اُس مجلس میں شامل ہوگئے۔ اس مجلس کے ممبروں نے اِن الفاظ میں قسمیں کھائی تھیں کہ:
’’ وہ مظلوموں کی مدد کریں گے اور اُن کے حق اُن کو لے کر دیں گے جب تک کہ سمندر میں ایک قطرہ پانی کا موجود ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے تو وہ خود اپنے پاس سے مظلوم کا حق ادا کر دیں گے‘‘۔۱۸۵؎
شاید اس قسم پر عمل کرنے کا موقع آپ کے سوا اور کسی کو نہیں ملا۔ جب آپ نے دعویٔ نبوت کیا اور سب سے زیادہ مکہ کے سردار ابوجہل نے آپ کی مخالفت میں حصہ لیا اور لوگوں سے یہ کہنا شروع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کوئی بات نہ کرے۔ اُن کی کوئی بات نہ مانے۔ ہر ممکن طریق سے اُن کو ذلیل کرے۔ اُس وقت ایک شخص جس نے ابوجہل سے کچھ قرضہ وصول کرنا تھا مکہ میںآیا اور اُس نے ابوجہل سے اپنے قرضہ کا مطالبہ کیا۔ ابوجہل نے اُس کا قرض ادا کر نے سے انکا رکردیا۔ اُس نے مکہ کے بعض لوگوں سے اس امر کی شکایت کی اور بعض نوجوانوں نے شرارت سے اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ بتایا کہ اُن کے پاس جائو وہ تمہاری اِس بارہ میں مدد کریں گے۔ اُن کی غرض یہ تھی کہ یا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس مخالفت کے مدنظر جو مکہ والوں کی طرف سے عموماً اور ابوجہل کی طرف سے خصوصاً ہو رہی تھی اُس کی امداد کرنے سے انکار کردیں گے اور اس طرح عربوں میں ذلیل ہو جائیں گے اور قسم توڑنے والے کہلائیں گے یا پھر آپ اس کی مدد کے لئے ابوجہل کے پاس جائیں گے اور وہ آپ کو ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دے گا۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ شخص گیا اور اُس نے ابوجہل کی شکایت کی تو آپ بِلا تأمل اُٹھ کر اس کے ساتھ چل دئیے اور ابوجہل کے دروازہ پر جا کر دستک دی۔ ابوجہل گھر سے باہر نکلا اور دیکھا کہ اُس کا قرض خواہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُس کے دروازہ پر کھڑا ہے۔ آپ نے فوراً اُسے توجہ دلائی کہ اِس شخص کا تم نے فلاں فلاں حق دینا ہے اِس کو ادا کرو اور ابوجہل نے بِلا چون و چرا اُس کا حق اُسے ادا کر دیا۔ جب شہر کے رئوساء نے ابوجہل کو ملامت کی کہ تم ہم سے تو یہ کہا کرتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو ذلیل کرو اور اس سے کوئی تعلق نہ رکھو لیکن تم نے خود اُس کی بات مانی اور اُس کی عزت قائم کی۔ تو ابوجہل نے کہا خد اکی قسم! اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی یہی کرتے۔ میں نے دیکھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دائیں اور بائیں مست اُونٹ کھڑے ہیں جو میری گردن مروڑ کر مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہیں۔۱۸۶؎ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کی روایت میں کوئی صداقت ہے یا نہیں۔ آیا اُسے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے کوئی نشان دکھایا تھا یا صرف اُس پر حق کا رُعب چھا گیا اور اُس نے یہ دیکھ کر کہ سارے مکہ کا مطعون اور مقہور انسان ایک مظلوم کی حمایت کے جوش میں اکیلا بغیر کسی ظاہری مدد کے مکہ کے سردار کے دروازہ پر کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ اِس شخص کا جو حق تم نے دینا ہے وہ ادا کردو تو حق کے رُعب نے اُس کی شرارت کی روح کو کچل دیا اور اُسے سچائی کے آگے سر جھکانا پڑا۔
حضرت خدیجہؓ سے آنحضرت ﷺکی شادی
جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۵ سال کے ہوئے
تو آپ کی نیکی اور آپ کے تقویٰ کی شہرت عام طور پر پھیل چکی تھی لوگ آپ کی طرف انگلیاں اُٹھاتے اور کہتے یہ سچا انسان جا رہا ہے۔ یہ امانت والا انسان جا رہا ہے۔ یہ خبریں مکہ کی ایک مالدار بیوہ کو بھی پہنچیں اور اُس نے آپ کے چچا ابو طالب سے خواہش کی کہ وہ اپنے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہیں کہ اُس کا تجارتی مال جو شام کے تجارتی قافلہ کے ساتھ جا رہا ہے وہ اُس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے۔ ابو طالب نے آپ سے ذکر کیا اور آپ نے اسے منظور کر لیا۔ اس سفر میں آپ کو بڑی کامیابی ہوئی اور اُمید سے زیادہ نفع کے ساتھ آپ لَوٹے۔ خدیجہؓ نے محسوس کیا کہ یہ نفع صرف منڈیوں کے حالات کی وجہ سے نہیں بلکہ امیر قافلہ کی نیکی اور دیانت کی وجہ سے ہے۔ اُس نے اپنے غلام میسرہ سے جو آپ کے ساتھ تھا آپ کے حالات دریافت کئے اور اُس نے بھی اُس کے خیال کی تائید کی اور بتایا کہ سفر میں جس دیانتداری اور خیر خواہی سے آپ نے کام کیا ہے وہ صرف آپؐ ہی کا حصہ تھا۔ اِس بات کا حضرت خدیجہؓ کی طبیعت پر خاص اثر ہوا۔ باوجود اِس کے کہ وہ اُس وقت چالیس سا ل کی تھیں اور دو دفعہ بیوہ ہو چکی تھیں اُنہوں نے اپنی ایک سہیلی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بجھوایا تا معلوم کرے کہ کیا آپ اُن سے شادی کر نے پر رضا مند ہوں گے؟ وہ سہیلی آپ کے پاس آئی اور اُس نے آپ سے پوچھا کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے؟ آپ نے کہا میرے پاس کوئی مال نہیں ہے جس سے میں شادی کروں۔ اُس سہیلی نے کہا اگر یہ مشکل دور ہو جائے اور ایک شریف امیر عورت سے آپ کی شادی ہو جائے تو پھر؟ آپ نے فرمایا وہ کون عورت ہے؟ اُس نے کہا خدیجہؓ۔ آپ نے فرمایا میں اُس تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں؟ اِس پر اُس سہیلی نے کہا کہ یہ میرے ذمہ رہا۔ آپ نے فرمایا مجھے منظور ہے۔ تب خدیجہؓ نے آپ کے چچا کی معرفت شادی کا فیصلہ پختہ کیا اور آپ کی شادی حضرت خدیجہؓ سے ہوئی۔ ایک غریب و یتیم نوجوان کے لئے دولت کا یہ پہلا دروازہ کھلا، مگر اُس نے اِس دولت کو جس طرح استعمال کیا وہ ساری دنیا کیلئے ایک سبق آموز واقعہ ہے۔
غلاموں کی آزادی اور زیدؓ کا ذکر
آپ کی شادی کے بعد جب حضرت خدیجہؓ نے یہ محسوس کیا کہ آپ کا حساس دل
ایسی زندگی میں کوئی لطف نہیں پائے گا کہ آپ کی بیوی مالدار ہو اور آپ اُس کے محتاج ہوں تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں اپنا مال اور اپنے غلام آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں۔ آپ نے کہا خدیجہ! کیا سچ مچ؟ جب اُنہوں نے پھردوبارہ اقرار کیا تو آپ نے فرمایا میرا پہلا کام یہ ہو گا کہ میں غلاموں کو آزاد کردوں۔ چنانچہ آپ نے اُسی وقت حضرت خدیجہ کے غلاموں کو بُلایا اور فرمایا تم سب لوگ آج سے آزاد ہو اور مال کا اکثر حصہ غرباء ہیں تقسیم کر دیا۔ جو غلام آپ نے آزاد کئے اُ ن میں ایک زید نامی غلام بھی تھا۔ وہ دوسرے غلاموں سے زیادہ زیرک اور زیادہ ہوشیار تھا کیونکہ وہ ایک شریف اور معزز خاندان کا لڑکا تھا جسے بچپن میں ڈاکو چرا کر لے گئے تھے اور وہ بکتا بکاتا مکہ میں پہنچا تھا۔ اُس نوجوان نے اپنی زیرکی اور ہوشیاری سے اس بات کو سمجھ لیا کہ آزادی کی نسبت اِس شخص کی غلامی بہت بہتر ہے۔ جب آپ نے غلاموں کو آزاد کیا جن میں زید بھی تھا تو زید نے کہا آپ تو مجھے آزاد کرتے ہیں پر میں آزاد نہیں ہوتا، میں آپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہوں۔ چنانچہ وہ آپ کے ساتھ رہا اور روز بروز آپ کی محبت میں بڑھتا چلا گیا۔ چونکہ وہ ایک مالدار خاندان کا لڑکا تھا اُس کے باپ اور چچا ڈاکوئوں کے پیچھے پیچھے اپنے بچہ کو تلاش کرتے ہوئے نکلے۔ آخراُ نہیں معلوم ہو اکہ اُن کا لڑکا مکہ میں ہے۔ چنانچہ وہ مکہ میں آئے اور پتہ لیتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے اور آپ سے عرض کیا کہ آپ ہمارے بچہ کو آزاد کر دیں اور جتنا روپیہ چاہیں لے لیں۔ آپ نے فرمایا زید کو تو میں آزاد کر چکا ہو ں وہ بڑی خوشی سے آپ لوگوں کے ساتھ جاسکتا ہے۔ پھر آپ نے زید کو بُلوا کر اُس کے باپ اور چچا سے ملوا دیا۔ جب دونوں فریق مل چکے اور آنسوئوں سے اپنے دل کی بھڑاس نکال چکے تو زید کے باپ نے اُس سے کہا کہ اِس شریف آدمی نے تم کو آزاد کر دیا ہے تمہاری ماں تمہاری یاد میں تڑپ رہی ہے اب تم جلدی چلو اور اُس کے لئے راحت اور تسکین کا موجب بنو۔ زیدنے کہا ماں اور باپ کس کو پیارے نہیں ہوتے میرا دل بھی اِس محبت سے خالی نہیں ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اِس قدر میرے دل میں داخل ہو چکی ہے کہ اس کے بعد میں آپؐ سے جدا نہیں ہو سکتا۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے آپ لوگوں سے مل لیا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونا میری طاقت سے باہر ہے۔ زید کے باپ اور چچا نے بہت زور دیا مگر زید نے اُن کے ساتھ جانا منظور نہ کیا۔ زید کی اِس محبت کو دیکھ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ زید آزاد تو پہلے ہی تھا مگر آج سے یہ میرا بیٹا ہے۔۱۸۷؎ اِس نئی صورتِ حالات کو دیکھ کر زید کے باپ اور چچا واپس وطن چلے گئے اور زید ہمیشہ کے لئے مکہ کے ہو گئے۔
غارِ حرا میں خدا کی عبادت کرنا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب تیس سال سے زیادہ ہوئی تو آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی
عبادت کی رغبت پہلے سے زیادہ جوش مارنے لگی۔ آخر آپ شہر کے لوگوں کی شرارتوں، بدکاریوں اور خرابیوں سے متنفر ہو کر مکہ سے دو تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک پتھروں سے بنی ہوئی چھوٹی سی غار میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگ گئے۔ حضرت خدیجہؓ چند دن کی غذا آپ کے لئے تیار کر دیتیں۔۱۸۸ ؎ آپ وہ لے کر حرا میں چلے جاتے تھے اوراُن دو تین پتھروں کے اندر بیٹھ کر خد اتعالیٰ کی عبادت میں رات اور دن مصروف رہتے تھے۔
پہلی قرآنی وحی
جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو ایک دن آپ نے اِسی غار میں ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ ایک شخص آپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ’’پڑھیئے‘‘۔
آپ نے فرمایا میں تو پڑھنا نہیں جانتا۔ اِس پر اُس نے دوبارہ اورسہ بارہ کہا اور آخر پانچ فقرے اُس نے آپ سے کہلوانے
۔۱۸۹؎ یہ قرآنی ابتدائی وحی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام دنیا کو اپنے رب کے نام پر جس نے تجھ کو اور کل مخلوق کو پید اکیا ہے پڑھ کر آسمانی پیغام سنا دے۔ وہ خدا جس نے انسان کو ایسے طور پر پیدا کیا ہے کہ اُس کے دل میں خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی محبت کا بیج پایا جاتا ہے۔ ہاں سب دنیا کو یہ پیغام سنا دے کہ تیرا ربّ جو سب سے زیادہ عزت والا ہے تیرے ساتھ ہوگا۔ وہ جس نے دنیا کو علوم سکھانے کے لئے قلم بنایا ہے اور انسان کو وہ کچھ سکھانے کے لئے آمادہ ہوا ہے جو اِس سے پہلے انسان نہیں جانتا تھا۔
یہ چند الفاظ قرآن کریم کی اُن سب تعلیموں پر حاوی ہیں جو آئندہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی تھی اور دنیا کی اصلاح کا ایک اہم بیج اُن کے اندر پایا جاتا تھا۔ اِن کی تفسیر تو قرآن شریف میں اپنے موقع پر آئے گی اِس موقع پر ان آیتوں کا اِس لئے ذکر کر دیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہ ایک اہم واقعہ ہے اور قرآن کریم کے لئے یہ آیات ایک بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ کلام نازل ہوا تو آپ کے دل میں یہ خوف پیدا ہو گیا کہ کیا میں خدا تعالیٰ کی اتنی بڑی ذمہ داری ادا کر سکوں گا؟ کوئی اور ہوتا تو کِبر اور غرور سے اُس کا دماغ پھر جاتا کہ خدائے قادر نے ایک کام میرے سپرد کیا ہے۔ مگر محمدرسول صلی اللہ علیہ وسلم کام جانتے تھے کام پر اِترانا نہیں جانتے تھے۔ آپ اس الہام کے بعد حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے۔ آپ کا چہرہ اُترا ہوا تھا اور گھبراہٹ کے آثار ظاہر تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے پوچھا آخر ہوا کیا؟ آپ نے سارا واقعہ سنایا اور فرمایا میرے جیسا کمزور انسان اِس بوجھ کو کس طرح اُٹھا سکے گا۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا کَلاَّ وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ ۱۹۰؎ خدا کی قسم! یہ کلام خدا تعالیٰ نے اِس لئے آپ پر نازل نہیں کیا کہ آپ ناکام اور نامراد ہوں اور خد اآپ کا ساتھ چھوڑ دے۔ خد ا تعالیٰ ایسا کب کر سکتا ہے۔ آپ تو وہ ہیں کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور بیکس اور بے مددگار لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں۔ وہ اخلاق جو ملک سے مٹ چکے تھے وہ آپ کی ذات کے ذریعہ سے دوبارہ قائم ہورہے ہیں۔ مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ کیاایسے انسان کو خد اتعالیٰ ابتلاء میں ڈال سکتا ہے؟ پھر وہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عیسائی ہو چکے تھے۔ اُنہوں نے جب یہ واقعہ سنا تو بے اختیار بول اُٹھے آپ پر وہی فرشتہ نازل ہوا ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا۱۹۱؎ گویا اشتناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا۔ جب اِس بات کی خبر زید آپ کے آزاد کردہ غلام کو جو اُس وقت کوئی پچیس تیس سال کے تھے اور علیؓ آپ کے چچا کے بیٹے کو جن کی عمر اُس وقت گیارہ سال کی تھی پہنچی تو دونوں آپ پر فوراً ایمان لائے۔
حضرت ابوبکرؓ کا آنحضرت ﷺپر ایمان لانا
ابوبکرؓ آپ کے بچپن کے دوست جو شہر سے باہر گئے
ہوئے تھے، جب شہر میں داخل ہوئے تو معاً اُن کے کانوں میں یہ آوازیں پڑنی شروع ہوئیں کہ تمہارا دوست دیوانہ ہوگیا ہے، وہ کہتا ہے آسمان سے فرشتے اُتر کر مجھ سے باتیں کرتے ہیں۔ ابوبکرؓ سیدھے آپ کے دروازہ پر آئے اور دستک دی۔ جب آپ نے دروازہ کھولا تو اُنہوں نے آپ سے حقیقت حال کے متعلق سوال کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچپن کے دوست کو ٹھوکر سے بچانے کے لئے کچھ تشریح کرنی چاہی۔ ابوبکرؓ نے روکا اور کہا کہ مجھے صرف اتنا جواب دیجئے کہ کیا آپ نے یہ اعلان کیا ہے کہ خدا کے فرشتے آپ کے پاس آئے اور اُنہوں نے آپ سے باتیں کیں؟ آپ نے پھر تشریح کرنی چاہی مگر ابوبکرؓ نے قسم دے کر کہا کہ صرف اِس سوال کا جواب دیجئے اور کچھ نہ کہئے۔ جب آپ نے اثبات میں جواب دیا تو ابوبکرؓ نے کہا گواہ رہئے میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ !آپ تو دلائل دے کر میرے ایمان کو کمزور کرنے لگے تھے۔ جس نے آپ کی زندگی کو دیکھا ہو کیا اُسے آپ کی سچائی کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت ہو سکتی ہے؟۱۹۲؎
مؤمنوں کی چھوٹی سی جماعت
یہ ایک چھوٹی سی جماعت تھی جس سے اسلام کی بنیاد پڑی۔ ایک عورت کہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ رہی
تھی، ایک گیارہ سالہ بچہ، ایک جوان آزاد کردہ غلام،بے وطن اور غیروں میں رہنے والا جس کی پشت پر کوئی نہ تھا۔ایک نوجوان دوست اورایک مدعی الہام۔ یہ وہ چھوٹا سا قافلہ تھا جو دنیا میں نور پھیلانے کے لئے کفر و ضلالت کے میدان کی طرف نکلا۔ لوگوں نے جب یہ باتیں سنیں اُنہوں نے قہقہے لگائے۔ باہم دگر چشمکیں کیں اور نظروں ہی نظرو ں میں ایک دوسرے کو جتایا کہ یہ لوگ مجنون ہو گئے ہیں اِن کی باتوں سے متعجب نہ ہو، بلکہ سنو اور مزہ اُٹھائو۔ مگر حق اپنی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا ور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مطابق ’’حکم پر حکم۔ حکم پر حکم۔ قانون پر قانون۔ قانون پر قانون‘‘۔۱۹۳؎ ہوتا گیا۔ ’’تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں‘‘۱۹۴؎ اور ’’اجنبی زبا ن‘‘۱۹۵؎ سے جس سے عرب پہلے نا آشنا تھے، خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ عربوں سے باتیں کرنی شروع کیں۔ نوجوانوں کے دل لرزنے لگے، صداقت کے متلاشیوں کے جسموں پر کپکپی پید اہوئی۔ اُن کی ہنسی، ٹھٹھے اور استہزاء کی آوازوں میں پسندیدگی اور تحسین کے کلمات بھی آہستہ آہستہ بلند ہونے شروع ہوئے۔ غلاموں ، نوجوانوں اور مظلوم عورتوں کا ایک جتھا آپ کے گر دجمع ہونے لگ گیا۔ کیونکہ آپ کی آواز میں عورتیں اپنے حقوق کی حفاظت دیکھ رہی تھیں۔ غلام اپنی آزادی کا اعلان سن رہے تھے اور نوجوان بڑی بڑی اُمیدوں اور ترقیوں کے راستے کھلتے ہوئے محسوس کر رہے تھے۔
رؤسائیمکہ کی مخالفت
جب ہنسی اور ٹھٹھے کی آوازوں میں سے تحسین اور تعریف کی آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہوگئیں، تو مکہ کے رئوساء
گھبرا گئے، حکام کے دل میں خوف پیدا ہونے لگا۔ وہ جمع ہوئے ، اُنہوں نے مشورے کئے، منصوبے باندھے اور ہنسی اور ٹھٹھے کی جگہ ظلم و تعدی اور سختی اور قطع تعلق کی تجاویز کا فیصلہ کیا گیا اور اُن پر عمل ہونا شروع ہوا۔ اب مکہ سنجیدگی سے اسلام کے ساتھ ٹکرانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔اب وہ ’’پاگلانہ‘‘ دعویٰ ایک ترقی کرنے والی حقیقت نظر آرہا تھا ۔مکہ کی سیاست کے لئے خطرہ، مکہ کے مذہب کے لئے خطرہ، مکہ کے تمدن کے لئے خطرہ اور مکہ کے رسم ور واج کے لئے خطرہ دکھائی دے رہا تھا۔ اسلام ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بناتا ہوا نظر آتا تھا۔ جس نئے آسمان اور زمین کے ہوتے ہوئے عرب کا پُرانا آسمان اور پُرانی زمین قائم نہیں رہ سکتے تھے۔ اب یہ سوال مکہ والوں کے لئے ہنسی کا سوال نہیں رہا تھا اب یہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔ اُنہوں نے اسلام کے چیلنج کو قبول کیا اور اُسی روح کے ساتھ قبول کیا جس روح کے ساتھ نبیوں کے دشمن نبیوں کے چیلنج کو قبول کرتے چلے آئے تھے اور وہ دلیل کا جواب دلیل سے نہیں بلکہ تلوار اور تیرکے ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے۔ اسلا م کی خیر خواہی کا جواب ویسے ہی بلند اخلاق کے ذریعہ سے نہیں بلکہ گالی گلوچ اور بد کلامی سے دینے کا اُنہو ں نے فیصلہ کر لیا۔ ایک دفعہ پھر دنیا میں کفر اور اسلام کی لڑائی شروع ہوگئی۔ ایک دفعہ پھر شیطان کے لشکروں نے فرشتوں پر ہلّہ بول دیا۔ بھلا اُن مٹھی بھر آدمیوں کی طاقت ہی کیا تھی کہ مکہ والوں کے سامنے ٹھہر سکیں۔ عورتیں بے شرمانہ طریقوں سے قتل کی گئیں۔مرد ٹانگیں چیر چیر کر مار ڈالے گئے، غلام تپتی ہوئی ریت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹے گئے۔ اِس حد تک کہ اُن کے چمڑے انسانی چمڑوں کی شکلیں بدل کر حیوانی چمڑے بن گئے۔ ایک مدت بعد اسلام کی فتح کے زمانہ میں جب اسلام کا جھنڈا مشرق و مغرب میں لہرا رہا تھا ایک دفعہ ایک ابتدائی نو مسلم غلام خبابؓ کی پیٹھ ننگی ہوئی تو اُن کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اُن کی پیٹھ کا چمڑا انسانوں جیسا نہیں جانوروں جیسا ہے وہ گھبرا گئے اور اُن سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ کیا بیماری ہے؟ وہ ہنسے اور کہا بیماری نہیں یہ یاد گار ہے اُس وقت کی جب ہم نو مسلم غلاموں کو عرب کے لوگ مکہ کی گلیوں میں سخت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے اور متواتر یہ ظلم ہم پر روا رکھے جاتے تھے اُسی کے نتیجہ میں میری پیٹھ کا چمڑہ یہ شکل اختیار کر گیا ہے۔
مؤمن غلاموں پر کفّارِ مکہ کا ظلم و ستم
یہ غلام جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے مختلف اقوام کے تھے اِن
میں حبشی بھی تھے جیسے بلالؓ ، رومی بھی تھے جیسے صہیبؓ۔ پھر اُن میں عیسائی بھی تھے جیسے جبیرؓ اور صہیبؓ۔ اور مشرکین بھی تھے جیسے بلالؓ اور عمارؓ ۔ بلالؓ کو اُس کے مالک تپتی ریت پر لٹا کر اوپر یا تو پتھر رکھ دیتے یا نوجوانوں کو سینہ پر کودنے کے لئے مقرر کر دیتے۔ حبشی النسل بلالؓ اُمیہ بن خلف نامی ایک مکی رئیس کے غلام تھے۔ اُمیہ اُنہیں دوپہر کے وقت گرمی کے موسم میں مکہ سے باہر لے جا کر تپتی ہوئی ریت پر ننگا کر کے لٹا دیتا تھا اور بڑے بڑے گرم پتھر اُن کے سینہ پر رکھ کر کہتا تھا کہ لات اور عزیٰ کی الوہیت کو تسلیم کر اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے علیحدگی کا اظہار کر۔ بلالؓ اُس کے جواب میں کہتے اَحَدٌ اَحَدٌ ۱۹۶؎ یعنی ا للہ ایک ہی ہے اللہ ایک ہی ہے۔بار بار آپ کا یہ جواب سن کر اُمیہ کو اَور غصہ آجاتا اور وہ آپ کے گلے میں رسہ ڈال کر شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور کہتا کہ ان کو مکہ کی گلیوں میں پتھروں کے اُوپر سے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں۔ جس کی وجہ سے اُن کا بدن خون سے تربتر ہوجاتا مگر وہ پھر بھی اَحَدٌ اَحَدٌ کہتے چلے جاتے ، یعنی خدا ایک خدایک۔ عرصہ کے بعد جب خد اتعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ میں امن دیا جب وہ آزادی سے عبادت کرنے کے قابل ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کو اذان دینے کے لئے مقرر کیا۔ یہ حبشی غلام جب اذان میں اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہ کی بجائے اَسْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہتا تو مدینہ کے لوگ جو اُس کے حالات سے ناواقف تھے ہنسنے لگ جاتے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہوئے پایا تو آپ لوگوں کی طرف مڑے اور کہا تم بلالؓ کی اذان پر ہنستے ہو مگر خد اتعالیٰ عرش پر اُس کی اذان سن کر خوش ہوتا ہے۔ آپ کا اشارہ اِسی طرف تھا کہ تمہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ یہ ’’ش‘‘ نہیں بول سکتا۔ مگر ’’ش‘‘ اور ’’س‘‘ میں کیا رکھا ہے خد اتعالیٰ جانتا ہے کہ جب تپتی ریت پر ننگی پیٹھ کے ساتھ اِس کو لٹا دیا جاتا تھا اور اس کے سینہ پر ظالم اپنی جوتیوں سمیت کودا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ کیا اب بھی سبق آیا ہے یا نہیں؟ تو یہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں اَحَدٌ اَحَدٌ کہہ کر خد اتعالیٰ کی توحید کا اعلان کرتا رہتا تھا اور اپنی وفاداری ، اپنے توحید کے عقیدہ اور اپنے دل کی مضبوطی کا ثبوت دیتا تھا۔ پس اُس کا اَسْھَدُ بہت سے لوگوں کے اَشْھَدُ سے زیادہ قیمتی تھا۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اُن پر یہ ظلم دیکھے تو اُن کے مالک کو اُن کی قیمت ادا کر کے اُنہیں آزاد کروا دیا۔ اسی طرح اور بہت سے غلاموں کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال سے آزاد کرایا۔ اِ ن غلاموں میں سے صہیبؓ ایک مالدار آدمی تھے۔ یہ تجارت کرتے تھے اور مکہ کے باحیثیت آدمیوں میں سمجھے جاتے تھے مگر باوجود اس کے کہ وہ مالدار بھی تھے اور آزاد بھی ہو چکے تھے قریش اُن کو مار مار کر بیہوش کر دیتے تھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تو آپ کے بعد صہیبؓ نے بھی چاہا کہ وہ بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں مگر مکہ کے لوگوں نے اُن کو روکا اور کہا کہ جو دولت تم نے مکہ میں کمائی ہے تم اُسے مکہ سے باہر کس طرح لے جا سکتے ہو ہم تمہیں مکہ سے جانے نہیں دیں گے۔ صہیبؓ نے کہا اگر میں یہ سب کی سب دولت چھوڑ دوں تو کیا پھر تم مجھے جانے دو گے؟ وہ اِس بات پر رضا مند ہو گئے اور آپ اپنی ساری دولت مکہ والوں کے سپرد کر کے خالی ہاتھ مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔آپ نے فرمایا ۔ صہیبؓ! تمہارا یہ سَودا سب پہلے سَودوں سے نفع مند رہا۔ یعنی پہلے اسباب کے مقابلہ میں تم روپیہ حاصل کیا کرتے تھے مگر اب روپیہ کے مقابلہ میں تم نے ایمان حاصل کیا ہے۔
اِن غلاموں میں اکثر تو ظاہر و باطن میں مستقل رہے، لیکن بعض سے ظاہر میں کمزوریاں بھی ظاہر ہوئیں۔ چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمارؓ نامی غلام کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ سسکیاں لے رہے تھے اور آنکھیں پونچھ رہے تھے۔ آپ نے پوچھا عمار! کیا معاملہ ہے؟ عمار نے کہا اے اللہ کے رسول! بہت ہی بُرا۔ وہ مجھے مارتے گئے اور دکھ دیتے گئے اور اُس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میرے منہ سے آپ کے خلاف اور دیوتائوں کی تائید میں کلمات نہیں نکلوا لئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لیکن تم اپنے دل میں کیا محسوس کر تے تھے؟ عمار نے کہا دل میں تو ایک غیر متزلزل ایمان محسوس کرتا تھا۔ آپ نے فرمایا اگر دل ایمان پر مطمئن تھا تو خدا تعالیٰ تمہاری کمزوری کو معاف کر دے گا۔۱۹۷؎
آپ کے والد یاسرؓ اور آپ کی والدہ سمیہؓ کو بھی کفّار بہت دکھ دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ جبکہ اُن دونوں کو دکھ دیا جا رہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس سے گزرے۔ آپ نے اُن دونوں کی تکلیفوں کو دیکھا اور آپ کا دل درد سے بھر آیا۔ آپ اُن سے مخاطب ہو کر بولے صَبْراً اٰلَ یَاسِر فَاِنَّ مَوْعِدَ کُمُ الْجَنَّۃَ۔۱۹۸؎ اے یاسر کے خاندان! صبر سے کام لو۔ خدا نے تمہارے لئے جنت تیار کر چھوڑی ہے ۔ اور یہ پیشگوئی تھوڑے ہی دنوںمیں پوری ہو گئی کیونکہ یاسرؓ مار کھاتے کھاتے مر گئے مگر اِس پر بھی کفّار کو صبر نہ آیا اور اُنہوں نے اُن کی بڑھیا بیوی سمیہؓ پر ظلم جاری رکھے۔ چنانچہ ابوجہل نے ایک دن غصہ میں اُن کی ران پر زور سے نیزہ مارا جو ران کو چیرتا ہوا اُن کے پیٹ میں گھس گیا اور تڑپتے ہوئے اُنہوں نے جان دے دی۔۱۹۹؎
زنبیرہؓ بھی ایک لونڈی تھیں اُن کو ابوجہل نے اتنا مارا کہ اُن کی آنکھیں ضائع ہوگئیں۔۲۰۰؎
ابو فکیہہؓ صفوان بن اُمیہ کے غلام تھے ۔ اُن کو اُن کا مالک اور اُس کا خاندان گرم تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے گر م پتھر اُن کے سینہ پر رکھ دیتا یہاں تک کہ اُن کی زبان باہر نکل آتی۔ یہی حال باقی غلاموں کا بھی تھا۔۲۰۱؎
بیشک یہ ظلم انسانی طاقت سے بالا تھے، مگر جن لوگوں پر یہ ظلم کئے جار ہے تھے وہ ظاہر میں انسان تھے اور باطن میں فرشتے۔ قرآن صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل اور کانوں پر نازل نہیں ہو رہا تھا خد ااُن لوگوں کے دلوں میں بھی بول رہا تھا اور کبھی کوئی مذہب قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ابتدائی ماننے والوں کے دلوں میں سے خد ا کی آواز بلند نہ ہو۔ جب انسانوں نے اُن کو چھوڑ دیا، جب رشتہ داروں نے اُن سے منہ پھیر لیا تو خد اتعالیٰ اُن کے دلوں میں کہتا تھا میں تمہارے ساتھ ہوں، میں تمہارے ساتھ ہوں اور یہ سب ظلم اُن کے لئے راحت ہو جاتے تھے۔ گالیاں دعائیں بن کر لگتی تھیں۔ پتھر مرہم کے قائمقام ہو جاتے تھے مخالفتیں بڑھتی گئیں مگر ایمان بھی ساتھ ہی ترقی کر تا گیا۔ ظلم اپنی انتہاء کو پہنچ گیا مگر اخلاص بھی تمام گزشتہ حدبندیوں سے اُوپر نکل گیا۔
آزاد مسلمانوں پر ظلم
آزاد مسلمانوں پر بھی کچھ کم ظلم نہیں ہوتے تھے۔ اُن کے بزرگ اور خاندانوں کے بڑے لوگ اُنہیں بھی قسم قسم کی تکلیفیں دیتے
تھے۔ حضرت عثمانؓ چالیس سال کی عمر کے قریب کے تھے اور مالدار آدمی تھے مگر باوجود اس کے جب قریش نے مسلمانوں پر ظلم کرنے کا فیصلہ کیا تواُن کے چچا حکم نے اُن کو رسیوں سے باندھ کر خوب پیٹا۔ زبیرؓ بن العوام ایک بہت بڑے بہادر نوجوان تھے۔ اسلام کی فتوحات کے زمانہ میں وہ ایک زبردست جرنیل ثابت ہوئے۔ ان کا چچا بھی اُن کو خوب تکلیفیں دیتا تھا۔ چٹائی میں لپیٹ دیتا تھا اور نیچے سے دُھواں دیتا تھا تاکہ اُن کا سانس رُک جائے اورپھر کہتا تھا کہ کیا اب بھی اسلام سے باز آئو گے یا نہیں؟ مگر وہ اِن تکالیف کو برداشت کرتے اور جواب میں یہی کہتے کہ میں صداقت کو پہچان کر اُس سے انکار نہیں کر سکتا۔
حضرت ابوذرؓ، غفار قبیلہ کے ایک آدمی تھے وہاں اُنہوں نے سنا کہ مکہ میں کسی شخص نے خداتعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ تحقیقات کے لئے مکہ آئے تو مکہ والوں نے اُنہیں ورغلایا اور کہا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) تو ہمارا رشتہ دا رہے۔ ہم جانتے ہیںکہ اُس نے ایک دکان کھولی ہے۔ مگر ابوذرؓ اپنے ارادہ سے باز نہ آئے اور کئی تدابیر اختیار کر کے آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم بتائی اور آپ اسلام لے آئے۔ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی کہ اگر میں کچھ عرصہ تک اپنی قوم کو اپنے اسلام کی خبر نہ دوں توکچھ حرج تو نہیں؟ آپ نے فرمایا اگر چند دن خاموش رہیں تو کوئی حرج نہیں۔ اِس اجازت کے ساتھ وہ اپنے قبیلہ کی طرف واپس چلے اور دل میں فیصلہ کر لیا کہ کچھ عرصہ تک میں اپنے حالات کو درست کر لوں گا تو اپنے اسلام کو ظاہر کروں گا۔ جب وہ مکہ کی گلیوں میں سے گزررہے تھے تو اُنہوں نے دیکھا کہ رئوسائے مکہ اسلام کے خلاف گالی گلوچ کر رہے ہیں۔ کچھ دنوں کے لئے اپنے عقیدہ کو چھپائے رکھنے کا خیال اُن کے دل سے اُسی وقت محو ہوگیا۔ اور بے اختیار ہو کر اُنہوں نے اِس مجلس کے سامنے یہ اعلان کیا اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰـہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اورمیں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں۔ دشمنوں کی اِس مجلس میں اِس آواز کا اُٹھنا تھا کہ سب لوگ ان کو مارنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہو کر جاپڑے لیکن پھر بھی ظالموں نے اپنے ہاتھ نہ کھینچے اور مارتے ہی چلے گئے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباسؓ جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے وہاں آگئے اور اُنہوں نے اِن لوگوں کو سمجھایا کہ ابوذر کے قبیلہ میںسے ہو کر تمہارے غلے کے قافلے آتے ہیں اگر اُس کی قوم کو غصہ آگیا تو مکہ بھوکا مر جائے گا۔ اِس پر اُن لوگوں نے اُن کو چھوڑ دیا۔ا بوذرؓ نے ایک دن آرام کیا اور دوسرے دن پھر اُسی مجلس میں پہنچے۔ وہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کرنا روزانہ کا شغل تھا۔ جب یہ خانہ کعبہ میں گئے تو پھر وہی ذکر ہو رہا تھا۔ اُنہوں نے پھر کھڑے ہو کر اپنے عقیدۂ توحید کا اعلان کیا اور پھر اُن لوگوں نے اُن کو مارنا پیٹنا شروع کیا۔ اِسی طرح تین دن ہوتا رہا۔۲۰۲؎ اس کے بعد یہ اپنے قبیلہ کی طرف چلے گئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مظالم
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی محفوظ نہ تھی۔ طرح طرح سے
آپ کو دکھ دیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ آپ عبادت کر رہے تھے کہ آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر لوگوں نے کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔ اتنے میں حضرت ابوبکرؓ وہاں آگئے اور اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے چھڑایا کہ اے لوگو! کیا تم ایک آدمی کو اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا آقا ہے۔ ۲۰۳؎
ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کی پیٹھ پر اُونٹ کی اوجھری لا کر رکھ دی گئی اور اس کے بوجھ سے اُس وقت تک آپ سر نہ اُٹھا سکے جب تک بعض لوگوں نے پہنچ کر اُس اوجھری کو آپ کی پیٹھ سے ہٹایا نہیں۔۲۰۴؎
ایک دفعہ آپ بازار سے گزر رہے تھے تو مکہ کے اوباشوں کی ایک جماعت آپ کے گرد ہو گئی اور رستہ بھر آپ کی گردن پر یہ کہہ کر تھپڑ مارتی چلی گئی کہ لوگو! یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے میں نبی ہوں۔
آپ کے گھرمیں اِردگرد کے گھروں سے متواتر پتھر پھینکے جاتے تھے۔ باورچی خانہ میں گندی چیزیں پھینکی جاتی تھیں۔ جن میں بکروں اور اونٹوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتی تھیں۔ جب آپ نماز پڑھتے تو آپ پر خاک دھول ڈالی جاتی حتی کہ مجبور ہو کر آپ کو چٹان میں سے نکلے ہوئے ایک پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی تھی۔ مگر یہ مظالم بیکار نہ جار ہے تھے۔ شریف الطبع لوگ اِن کو دیکھتے اور اسلام کی طرف اُن کے دل کھنچے چلے جاتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خانہ کعبہ کے قریب صفا پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو جہل آپ کا سب سے بڑا دشمن اور مکہ کا سردار وہاں سے گزرا اور اُس نے آپ کو گالیاں دینی شروع کیں۔ آپ اُس کی گالیاں سنتے رہے اور کوئی جواب نہ دیااو ر خاموشی سے اُٹھ کر اپنے گھر چلے گئے ۔ آپ کے خاندان کی ایک لونڈی اِس واقعہ کو دیکھ رہی تھی۔ شام کے وقت آپ کے چچا حمزؓہ جو ایک نہایت دلیر اور بہادر آدمی تھے اور جن کی بہادری کی وجہ سے شہر کے لوگ اُن سے خائف تھے شکار کھیل کر جنگل سے واپس آئے اور کندھے کے ساتھ کمان لٹکائے ہوئے نہایت ہی تبختر۲۰۵؎ کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوئے۔ لونڈی کا دل صبح کے نظارہ سے بے حد متأثر تھا۔ وہ حمزؓہ کو اِس شکل میں دیکھ کر برداشت نہ کرسکی اور انہیں طعنہ دے کر کہا۔ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو، ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو۔ مگر کیا تمہیں معلوم ہے کہ صبح ابوجہل نے تمہارے بھتیجے سے کیاکیا؟ حمزؓہ نے پوچھا کیاکیا؟ اُس نے وہ سب واقعہ حمزؓہ کے سامنے بیان کیا۔ حمزہ گو مسلمان نہ تھے مگر دل کے شریف تھے۔ اسلام کی باتیں تو سنی ہوئی تھیں اور یقینا اُن کے دل پر ان کا اثر ہو چکا تھا مگر اپنی آزاد زندگی کی وجہ سے سنجیدگی کے ساتھ اُن پر غور کرنے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن اِس واقعہ کو سن کر اُن کی رگِ حمیت جوش میں آگئی ۔آنکھوں پر سے غفلت کا پردہ دُور ہوگیا اورانہیں یوں معلوم ہوا کہ ایک قیمتی چیز ہاتھوں سے نکلی جارہی ہے۔ اُسی وقت گھر سے باہر آئے اور خانہ کعبہ کی طرف گئے جو رؤساء کے مشورے کا مخصوس مقام تھا۔ اپنی کمان کندھے سے اُتاری اور زور سے ابوجہل کو ماری اور کہا سنو ! میں بھی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب کو اختیار کرتا ہوں۔ تم نے صبح اُسے بِلاوجہ گالیاں دیں اِس لئے کہ وہ آگے سے جواب نہیں دیتا ۔ اگر بہادر ہو تو اَب میری مار کا جواب دو۔ یہ واقعہ ایسا اچانک ہوا کہ ابوجہل بھی گھبراگیا۔ اُس کے ساتھی حمزؓہ سے لڑنے کو اُٹھے لیکن حمزؓہ کی بہادری کا خیال کرکے اور اُن کے قومی جتھا پر نظر کرکے ابو جہل نے خیال کیا کہ اگر لڑائی شروع ہوگئی تو اِس کا نتیجہ نہایت خطرناک نکلے گااِس لئے مصلحت سے کام لے کر اُس نے اپنے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ چلو جانے دو میں نے واقعہ میں اِس کے بھتیجے کو بہت بُری طرح گالیاں دی تھیں۔۲۰۶؎
پیغامِ اسلام
جب مخالفت تیز ہوگئی اور اِدھر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓ نے اصرارسے مکہ والوں کو خداتعالیٰ کا یہ پیغام پہنچانا شروع کیاکہ اس
دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہے،اُس کے سِوا کوئی اور معبود نہیں۔ جس قدر نبی گذرے ہیں سب ہی اُس کی توحید کا اقرار کیا کرتے تھے اور اپنے ہم قوموں کو بھی اِسی تعلیم کی طرف بلایا کرتے تھے۔ تم خدا ئے واحد پر ایمان لاؤ، اِن پتھرکے بتوں کو چھوڑ دو کہ یہ بالکل بے کار ہیں اور ان میں کوئی طاقت نہیں ۔ اے مکہ والو! کیا تم دیکھتے نہیں کہ ان کے سامنے جو نذرو نیاز رکھی جاتی ہے اگر اس پر مکھیوں کا جھرمٹ آ بیٹھے تو وہ ان مکھیوں کو اُڑانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے، اگر کوئی اُن پر حملہ کرے تو وہ اپنی حفاظت نہیں کرسکتے، اگر کوئی اُن سے سوال کرے تو وہ جواب نہیں دے سکتے، اگر کوئی ان سے مدد مانگے تو وہ اس کی مدد نہیں کرسکتے ۔ مگر خدائے واحد تو مانگنے والوں کی ضرورت پوری کرتا ہے ۔ سوال کرنے والوں کو جواب دیتا ہے ۔ مدد مانگنے والوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو زیر کرتا ہے اور اپنے عبادت گذار بندوں کو اعلیٰ ترقیات بخشتا ہے ۔ اُس سے روشنی آتی ہے جو اس کے پرستاروں کے دلوں کو منور کردیتی ہے۔ پھر تم کیوں ایسے خدا کو چھوڑ کر بے جان بتوں کے آگے جھکتے ہو اور اپنی عمر ضائع کررہے ہو۔ تم دیکھتے نہیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو چھوڑ کر تمہارے خیالات بھی گندے اور دل بھی تاریک ہوگئے ہیں۔ تم قسم قسم کی وہمی تعلیموں میں مبتلا ہو۔ حلال وحرام کی تم میں تمیز نہیں رہی۔ اچھے اور بُرے میں تم امتیاز نہیں کرسکتے۔ اپنی ماؤں کی بے حرمتی کرتے ہو، اپنی بہنوں اور بیٹیوں پر ظلم کرتے ہو اور ان کے حق اُنہیں نہیں دیتے۔ اپنی بیویوں سے تمہارا سلوک اچھا نہیں۔ یتامیٰ کے حق مارتے ہو اور بیواؤں سے بُرا سلوک کرتے ہو۔ غریبوں اور کمزوروں پر ظلم کرتے ہو اور دوسروں کے حق مار کر اپنی بڑائی قائم کرنا چاہتے ہو۔ جھوٹ اور فریب سے تم کو عار نہیں۔ چوری اور ڈاکہ سے تم کو نفرت نہیں۔ جوا اور شراب تمہارا شغل ہے ۔ حصولِ علم اور قومی خدمت کی طرف تمہاری توجہ نہیں۔ خدائے واحد کی طرف سے کب تک غافل رہوگے۔ آؤ اور اپنی اصلاح کرو اور ظلم چھوڑ دو۔ ہر حق دار کو اُس کا حق دو۔ خدا نے اگر مال دیا ہے تو ملک و قوم کی خدمت اور کمزوروں اور غریبوں کی ترقی کے لئے اُسے خرچ کرو۔ عورتوںکی عزت کرو اور ان کے حق ادا کرو۔ یتیموں کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھو اور اُن کی خبر گیری کو اعلیٰ درجہ کی نیکی سمجھو۔ بیواؤں کا سہارا بنو ۔ نیکیوں اور تقویٰ کو قائم کرو۔ انصاف اور عدل ہی نہیں بلکہ رحم اور احسان کو اپنا شعار بناؤ ۔ اس دنیا میں تمہارا آنا بیکار نہ جانا چاہئے۔ اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑو، تا دائمی نیکی کا بیج بویا جائے۔ حق لینے میں نہیں بلکہ قربانی اور ایثار میں اصل عزت ہے ۔ پس تم قربانی کرو، خدا کے قریب ہو۔ خدا کے بندوں کے مقابل پر ایثار کا نمونہ دکھاؤ تاخدا تعالیٰ کے ہاں تمہارا حق قائم ہو۔بے شک ہم کمزور ہیں مگر ہماری کمزوری کو نہ دیکھو۔ آسمان پر سچائی کی حکومت کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ اب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے عدل کا ترازو رکھا جائے گا اور انصاف اور رحم کی حکومت قائم کی جائے گی جس میں کسی پر ظلم نہ ہوگا۔ مذہب کے معاملہ میں دخل اندازی نہ کی جائے گی۔ عورتوں اور غلاموں پر جو ظلم ہوتے رہے ہیں وہ مٹا دیئے جائیں گے اور شیطان کی حکومت کی جگہ خدائے واحد کی حکومت قائم کردی جائے گی۔
کفّارِ مکہ کی ابو طالب کے پاس شکایت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استقلال
جب یہ تعلیمیں بار بار مکہ والوں کو سنائی جانے لگیں اور شریف الطبع لوگوں کی رغبت اسلام کی طرف
بڑھنے لگی تو ایک دن مکہ کے سردار جمع ہو کر آپ کے چچا ابو طالب کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ آپ ہمارے رئیس ہیں اور آپ کی خاطر ہم نے آپ کے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کچھ نہیں کہا۔ اب وقت آگیا ہے کہ آپ کے ساتھ ہم آخری فیصلہ کریں یا تو آپ اُسے سمجھائیں اور اس سے پوچھیں کہ آخر وہ ہم سے چاہتا کیا ہے۔ اگر اُس کی خواہش عزت حاصل کرنے کی ہے تو ہم اسے اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں۔ اگر وہ دولت کا خواہش مند ہے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے مال کا کچھ حصہ اُس کو دینے کے لئے تیار ہے۔ اگر اُسے شادی کی خواہش ہے تو مکہ کی ہرلڑکی جو اُسے پسند ہو اُس کا نام لے ہم اُس سے اُس کا بیاہ کرانے کے لئے تیا ر ہیں۔ ہم اِس کے بدلہ میں اُس سے کچھ نہیں چاہتے اور کسی بات سے نہیں روکتے۔ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو بُرا کہنا چھوڑ دے۔ وہ بیشک کہے خدا ایک ہے مگر یہ نہ کہے کہ ہمارے بت بُرے ہیں۔ اگرو ہ اتنی بات مان لے تو ہماری اس سے صلح ہو جائے گی۔ آپ اُسے سمجھائیں اور ہماری تجویز کے قبول کرنے پر آمادہ کریں۔ ورنہ پھر دو باتوں میں سے ایک ہو گی یا آپ کو اپنا بھتیجا چھوڑنا پڑے گا یا آپ کی قوم آپ کی ریاست سے انکار کر کے آپ کو چھوڑ دے گی۔ ابوطالب کے لئے یہ بات نہایت ہی شاق تھی۔ عربوں کے پاس روپیہ پیسہ تو تھوڑا ہی ہوتا تھا ان کی ساری خوشی اُن کی ریاست میں ہوتی تھی۔ رؤساء قوم کے لئے زندہ رہتے تھے اور قوم رئوساء کے لئے زندہ رہتی تھی۔ یہ بات سن کر ابو طالب بیتاب ہو گئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلوایا اور کہا کہ اے میرے بھتیجے! میری قوم میرے پاس آئی ہے اور اس نے مجھے یہ پیغام دیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر تمہارا بھتیجا ان باتوں میں سے کسی ایک بات پر بھی راضی نہ ہوتو پھر ہماری طرف سے ہر ایک قسم کی پیشکش ہو چکی ہے اگر وہ اس پر بھی اپنے طریقہ سے باز نہیں آتا تو آپ کا کام ہے کہ اسے چھوڑ دیں اوراگر آپ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر ہم لوگ آپ کی ریاست سے انکار کر کے آپ کو چھوڑ دیں گے۔ جب ابو طالب نے یہ بات کی تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اُن کے آنسوئوں کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور آپ نے فرمایا اے میرے چچا! میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنی قوم کو چھوڑ دیں اور میرا ساتھ دیں۔ آپ بیشک میرا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم کے ساتھ مل جائیں۔ لیکن مجھے خدائے وحدہ لاشریک کی قسم ہے کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر کھڑا کر دیںتب بھی میں خد ا تعالیٰ کی توحید کا وعظ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا۔ میں اپنے کام میں لگا رہوں گا جب تک خد ا مجھے موت دے۔ آپ اپنی مصلحت کو خود سوچ لیں۔ یہ ایمان سے پُر اور یہ اخلاص سے بھر ا ہوا جواب ابو طالب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھا۔ اُنہوں نے سمجھ لیا کہ گو مجھے ایمان لانے کی توفیق نہیں ملی لیکن اِس ایمان کا نظارہ دیکھنے کی توفیق ملنا ہی سب دولتوں سے بڑی دولت ہے اور آپ نے کہا اے میرے بھتیجے! جا اور اپنا فرض ادا کرتا رہ۔ قوم اگر مجھے چھوڑنا چاہتی ہے تو بیشک چھوڑ دے میں تجھے نہیں چھوڑ سکتا۔۲۰۷؎
حبشہ کی طرف ہجرت
جب مکہ والوں کا ظلم انتہاء کو پہنچ گیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے ساتھیوں کو بُلوایا اور فرمایا مغرب کی طرف
سمندر پار ایک زمین ہے جہاں خد اکی عبادت کی وجہ سے ظلم نہیں کیا جاتا۔ مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے لوگوں کو قتل نہیں کیا جاتا وہاں ایک منصف بادشاہ ہے، تم لوگ ہجرت کر کے وہاں چلے جائو شاید تمہارے لئے آسانی کی راہ پید اہو جائے۔ کچھ مسلمان مرد اور عورتیں اور بچے آپ کے اس ارشاد پر ایبے سینیا کی طرف چلے گئے۔ ان لوگوں کا مکہ سے نکلنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ مکہ کے لوگ اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا متولّی سمجھتے تھے اور مکہ سے باہر چلے جانا ان کے لئے ایک ناقابل برداشت صدمہ تھا۔ وہی شخص یہ بات کہہ سکتا تھا جس کے لئے دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ باقی نہ رہے۔ پس ان لوگوں کا نکلنا ایک نہایت ہی دردناک واقعہ تھا۔ پھر نکلنابھی اُن لوگوں کو چوری ہی پڑا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مکہ والوںکو معلوم ہوگیا تو وہ ہمیں نکلنے نہیں دیں گے اور اس وجہ سے وہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی آخری ملاقات سے بھی محروم جا رہے تھے۔ اُن کے دلوں کی جو حالت تھی سو تھی، اُن کے دیکھنے والے بھی ان کی تکلیف سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ چنانچہ جس وقت یہ قافلہ نکل رہا تھا حضرت عمرؓ جو اُس وقت تک کافر اور اسلام کے شدید دشمن تھے اور مسلمانوں کو تکلیف دینے والوں میں سے چوٹی کے آدمی تھے اتفاقاً اُس قافلہ کے بعض افراد کو مل گئے۔ اُن میں ایک صحابیہ اُمِّ عبداللہ نامی بھی تھیں۔ بندھے ہوئے سامان اور تیار سواریوں کو جب آپ نے دیکھا تو آپ سمجھ گئے کہ یہ لوگ مکہ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ آپ نے کہا اُمِّ عبداللہ یہ تو ہجرت کے سامان نظر آرہے ہیں۔ اُمِّ عبداللہ کہتی ہیں میںنے جواب میں کہا ہا ں خدا کی قسم! ہم کسی اور ملک میں چلے جائیں گے کیونکہ تم نے ہم کو بہت دکھ دئیے ہیں اور ہم پر بہت ظلم کئے ہیں ہم اُس وقت تک اپنے ملک میں نہیں لوٹیں گے جب تک خد ا تعالیٰ ہمارے لئے کوئی آسانی اور آرام کی صورت نہ پیدا کر دے۔ اُمِّ عبداللہ بیان کرتی ہیں کہ عمر نے جواب میں کہا اچھا خدا تمہارے ساتھ ہو اور میں نے اُن کی آواز میں رقت محسوس کی جو اِس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ پھر وہ جلدی سے منہ پھیر کر چلے گئے اور میں نے محسوس کیا کہ اِس واقعہ سے ان کی طبیعت نہایت ہی غمگین ہوگئی ہے۔۲۰۸؎
جب اُن لوگوں کے ہجرت کرنے کی مکہ والوں کو خبر ہوئی تو اُنہوں نے ان کا تعاقب کیا اور سمندر تک ان کے پیچھے گئے مگر یہ قافلہ اِن لوگوں کے سمندر تک پہنچنے سے پہلے ہی حبشہ کی طرف روانہ ہو چکا تھا۔ جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک وفد بادشاہ ِحبشہ کے پاس بھیجا جائے جو اُسے مسلمانوں کے خلاف بھڑکائے اور اُسے تحریک کرے کہ وہ مسلمانوں کو مکہ والوں کے سپرد کردے تاکہ وہ اُنہیں ان کی اِس شوخی کی سزا دیں کہ رئوسائے شہر کے ظلموں کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہ مکہ سے کیوں بھاگے تھے۔ اِس وفد میں عمرو بن العاص بھی تھے جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے اور مصر اُنہی کے ہاتھوں فتح ہوا۔ یہ وفد حبشہ گیا اور بادشاہ سے ملا اورامرائے دربار کو اُنہو ں نے خوب اُکسایا ، لیکن اللہ تعالیٰ نے بادشاہِ حبشہ کے دل کو مضبوط کر دیا اور اُس نے باوجود اِن لوگوں کے اصرار کے اور باوجود درباریوں کے اصرار کے مسلمانوں کو کفّار کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا۔ جب یہ وفد ناکام واپس آیا تو مکہ والوں نے ان مسلمانوں کو بُلانے کے لئے ایک اور تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ حبشہ جانے والے بعض قافلوں میں یہ خبر مشہور کر دی کہ مکہ کے سب لوگ مسلمان ہو گئے ہیں۔ جب یہ خبر حبشہ پہنچی تو اکثر مسلمان خوشی سے مکہ کی طرف واپس لوٹے مگر مکہ پہنچ کر اُن کو معلوم ہو اکہ یہ خبر محض شرارتاً مشہور کی گئی تھی اور اس میں کوئی حقیقت نہیں۔ اس پر کچھ لوگ تو واپس حبشہ چلے گئے اور کچھ مکہ میں ہی ٹھہر گئے۔ اِن مکہ میں ٹھہرنے والوں میں سے عثمان بن مظعونؓ بھی تھے جو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس کے بیٹے تھے۔ اِس دفعہ ان کے باپ کے ایک دوست ولید بن مغیرہ نے ان کو پناہ دی اور وہ امن سے مکہ میں رہنے لگے۔ مگر اس عرصہ میں انہو ں نے دیکھا کہ بعض دوسرے مسلمانوں کو دکھ دئیے جاتے ہیں اور اُنہیں سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں۔ چونکہ وہ غیر تمند نوجوان تھے ولید کے پاس گئے اور اُسے کہدیا کہ میں آپ کی پناہ کو واپس کرتا ہوں کیونکہ مجھ سے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ دوسرے مسلمان دکھ اُٹھائیں اور میں آرام میں رہوں۔ چنانچہ ولید نے اعلان کر دیا کہ عثمان اب میری پنا ہ میں نہیں۔ اس کے بعد ایک دن لبید عرب کا مشہور شاعر مکہ کے رئوساء میں بیٹھا اپنے شعر سنا رہا تھا کہ اُس نے ایک مصرع پڑھا
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَامَحَا لَۃَ زَائِلٌ
جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر نعمت آخر مٹ جانے والی ہے۔ عثمان نے کہا یہ غلط ہے جنت کی نعمتیں ہمیشہ قائم رہیںگی۔ لبید ایک بہت بڑا آدمی تھا یہ جواب سن کر جوش میں آگیا اور اُس نے کہا اے قریش کے لوگو! تمہارے مہمان کو تو پہلے اس طرح ذلیل نہیں کیا جا سکتا تھا اب یہ نیا رواج کب سے شروع ہوا ہے؟ اِس پر ایک شخص نے کہا یہ ایک بیوقوف آدمی ہے اِس کی بات کی پرواہ نہ کریں۔ حضرت عثمانؓ نے اپنی بات پر اصرار کیا اور کہا بیوقوفی کی کیا بات ہے جو بات میں نے کہی ہے وہ سچ ہے۔ اس پر ایک شخص نے اُٹھ کر زور سے آپ کے منہ پر گھونسا مارا جس سے آپ کی ایک آنکھ نکل گئی۔ ولید اُس وقت اُس مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ عثمانؓ کے باپ کے ساتھ اُس کی بڑی گہری دوستی تھی۔ اپنے مردہ دوست کے بیٹے کی یہ حالت اُس سے دیکھی نہ گئی۔ مگر مکہ کے رواج کے مطابق جب عثمانؓ اس کی پناہ میں نہیں تھے تو وہ ان کی حمایت بھی نہیں کر سکتا تھا، اس لئے اَور تو کچھ نہ کر سکا نہایت ہی دکھ کے ساتھ عثمانؓ ہی کو مخاطب کر کے بولا! اے میرے بھائی کے بیٹے! خد اکی قسم تیری یہ آنکھ اس صدمہ سے بچ سکتی تھی جبکہ تو ایک زبردست حفاظت میں تھا (یعنی میری پناہ میں تھا) لیکن تو نے خود ہی اس پناہ کو چھوڑ دیا اور یہ دن دیکھا۔ عثمانؓ نے جواب میں کہا جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے میں خود اس کا خواہشمند تھا تم میری پھوٹی ہوئی آنکھ پر ماتم کر رہے ہو حالانکہ میری تندرست آنکھ اس بات کیلئے تڑپ رہی ہے کہ جو میری بہن کے ساتھ ہوا ہے وہی میرے ساتھ کیوں نہیں ہوتا۔ ۲۰۹؎ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ میرے لئے بس ہے۔ اگر وہ تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں تو میں کیوں نہ اُٹھاؤں۔ میرے لئے خدا کی حمایت کافی ہے۔
حضرت عمرؓ کا قبولِ اسلام
اِسی زمانہ میں مکہ میں ایک اور واقعہ ظاہر ہوا جس نے مکہ میں آگ لگا دی اور یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ عمرؓ جو بعد
میں اسلام کے دوسرے خلیفہ ہوئے اور جو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں شدید ترین دشمنوں میں سے تھے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے اُن کے دل میں خیال آیا کہ اِس وقت تک اسلام کے مٹانے کے لئے بہت کچھ کوششیں کی گئی ہیں مگر کامیابی نہیںہوئی کیوں نہ اسلام کے بانی کو قتل کردیا جائے اور اِس فتنہ کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے۔ یہ خیال آتے ہی اُنہوں نے تلوار اُٹھائی اور گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں چل کھڑے ہوئے ۔ راستہ میں اُن کا کوئی دوست ملا اور اِس حالت میں دیکھ کر کچھ حیران ہوا اور آپ سے سوال کیا کہ عمرؓ ! کہاں جارہے ہو؟ عمرؓ نے کہا میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرنے کے لئے جارہا ہوں۔ اُس نے کہا کیا تم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرکے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے قبیلہ سے محفوظ رہ سکو گے؟ اور ذرا اپنے گھر کی تو خبر لو تمہاری بہن اور تمہارا بہنوئی بھی مسلمان ہوچکے ہیں۔ یہ خبر حضرت عمرؓ کے سر پر بجلی کی طرح گری انہوں نے سوچا میں جو اسلام کا بدترین دشمن ہوں میں جو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کو مارنے کے لئے جارہا ہوں میری ہی بہن اور میراہی بہنوئی اسلام قبول کرچکے ہیں اگر ایسا ہے تو پہلے مجھے اپنی بہن اور بہنوئی سے نپٹنا چاہئے۔ یہ سوچتے ہوئے وہ اپنی بہن کے گھر کی طرف چلے جب دروازہ پر پہنچے تو انہیں اندر سے خوش الحانی سے کسی کلام کے پڑھنے کی آوازیں آئیں۔ یہ پڑھنے والے خبابؓ جو اُن کی بہن اور اُن کے بہنوئی کو قرآن شریف سکھلا رہے تھے۔ عمرؓ تیزی سے گھر میں داخل ہوئے۔ اُن کے پائوں کی آہٹ سن کر خبابؓ تو کسی کونہ میں چھپ گئے اور اُن کی بہن نے جن کا نام فاطمہؓ تھا قرآن شریف کے وہ اَوراق جو اُس وقت پڑھے جار ہے تھے، چھپا دئیے۔ حضرت عمرؓ کمرہ میں داخل ہوئے تو غصہ سے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم اپنے دین سے پھر گئے ہو؟ اور یہ کہہ کر اپنے بہنوئی پر جو اُن کے چچا زاد بھائی بھی تھے حملہ آور ہوئے۔ فاطمہؓ نے جب دیکھا کہ ان کے بھائی عمرؓ ان کے خاوند پر حملہ کرنے لگے تو وہ دوڑ کر اپنے خاوند کے آگے کھڑی ہو گئیں۔ عمرؓ ہاتھ اُٹھا چکے تھے اُن کا ہاتھ زور سے اُن کے بہنوئی کے منہ کی طرف آرہا تھا اور اب اس ہاتھ کو روکنا اُن کی طاقت سے باہر تھا مگر اب ان کے ہاتھ کے سامنے ان کے بہنوئی کی بجائے ان کی بہن کا چہرہ تھا۔ عمرؓ کا ہاتھ زور سے فاطمہؓکے چہرہ پر گرا اور فاطمہؓ کے ناک سے خون کے تراڑے ۲۱۰؎ بہنے لگے۔ فاطمہؓ نے مار تو کھا لی مگر دلیری سے کہا عمر! یہ بات سچ ہے کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور یاد رکھیئے کہ ہم اِس دین کو نہیں چھوڑ سکتے آپ سے جو کچھ ہو سکتا ہو کر لیں۔ عمرؓ ایک بہادر آدمی تھے ظلم نے اُن کی بہادری کو مٹا نہیں دیا تھا۔ ایک عورت اور پھر اپنی بہن کو اپنے ہی ہاتھ سے زخمی دیکھا تو شرمندگی اور ندامت سے گھڑوں پانی پڑ گیا۔ بہن کے چہرہ سے خون بہہ رہا تھااور عمرؓ کے دل سے اب ان کا غصہ دور ہو چکا تھا۔ اپنی بہن سے معافی مانگنے کی خواہش زور پکڑ رہی تھی اور تو کوئی بہانہ نہ سُوجھا بہن سے بولے اچھا! لائو مجھے وہ کلام تو سنائو جو تم لوگ ابھی پڑھ رہے تھے۔ فاطمہؓ نے کہا میں نہیں دکھائوں گی۔ کیونکہ آپ ان اَوراق کو ضائع کر دو گے۔ عمر نے کہا نہیں بہن میں ایسا نہیں کروں گا۔ فاطمہ نے کہا تم تو نجس ہو پہلے غسل کرو پھر دکھائوں گی عمرؓ ندامت کی شدت کی وجہ سے سب کچھ کرنے کے لیے تیار تھے۔ وہ غسل پر بھی راضی ہو گئے۔ جب غسل کر کے واپس آئے تو فاطمہؓ نے اُن کے ہاتھ میں قرآن کریم کے اَوراق دے دئیے۔ یہ قرآن کریم کے اَوراق سورہ طٰہٰ کی کچھ آیات تھیں۔ جب وہ اسے پڑھتے ہوئے اِس آیت پر پہنچے
۲۱۱؎ یقینا میں ہی اللہ ہوں اور کوئی معبود نہیں صرف میں ہی معبود ہوں۔ پس اے مخاطب! میری عبادت کر اور نماز پڑھ اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر میری عبادت کو قائم کر۔ رسمی عبادت نہیں بلکہ میری بزرگی کو دنیا میں قائم کرنے والی عبادت۔ یاد رکھ کہ اِس کلام کو قائم کرنے والی گھڑی آرہی ہے میں اس کے ظاہر کرنے کے سامان پیدا کر رہا ہوں جن کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر ایک جان کو جیسے جیسے وہ کام کرتی ہے اس کے مطابق بدلہ مل جائے گا۔ حضرت عمرؓ جب اس آیت پر پہنچے تو بے اختیار ان کے منہ سے نکل گیا یہ کیساعجیب اور پاک کلام ہے۔ خبابؓ نے جب یہ الفاظ سنے تو وہ اس جگہ سے جہاں چھپے ہوئے تھے باہر نکل آئے اور کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دعا کا نتیجہ ہے۔ مجھے خد اکی قسم! میں نے کل ہی آپ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا تھا کہ الٰہی! عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کو اسلام کی طرف ضرور ہدایت بخش۔ عمرؓ کھڑے ہوگئے اورکہا مجھے بتائو کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہیں؟ جب آپ کو بتایا گیا کہ آپ دار ارقم میں رہتے ہیں تو آپ اُسی طرح ننگی تلوارلیے ہوئے وہاں پہنچے اور دروازہ پر دستک دی۔ صحابہؓ نے دروازہ کی دراڑوں میںسے دیکھا تو انہیں عمرؓ ننگی تلوار لئے کھڑے نظر آئے۔ وہ ڈرے کہ ایسا نہ ہو دروازہ کھول دیں تو عمرؓ اندر آکر کوئی فساد کریں۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوا کیا ؟دروازہ کھول دو۔ عمرؓ اِسی طرح تلوار لیے اندر داخل ہوئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور فرمایا عمر! کس ارادہ سے آئے ہو؟ عمرؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ !میں مسلمان ہونے آیا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر بلند آواز سے اللّٰہُ اَکْبَرُ کہا یعنی اللہ سب سے بڑا ہے اور آپ کے سب ساتھیوں نے بھی یہی الفاظ زور سے دُہرائے یہاں تک کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اُٹھیں۲۱۲؎ اور تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر مکہ میں آگ کی طرح پھیل گئی اور عمرؓ سے بھی وہی سختی کا برتائو ہونا شروع ہو گیا جو پہلے دوسرے صحابہؓ سے ہوتا تھا۔ مگر وہی عمرؓ جو پہلے مارنے اور قتل کرنے میں مزہ اُٹھایا کرتے تھے اب مار کھانے اور پیٹے جانے میں لذت حاصل کرنے لگے۔ چنانچہ خود عمرؓ کا بیان ہے کہ ایمان لانے کے بعد میں مکہ کی گلیوں میں ماریں ہی کھاتا رہتا تھا۔
مسلمانوں سے مقاطعہ
غرض ظلم اب حد سے باہر ہوتے جار ہے تھے۔ کچھ لوگ مکہ چھوڑ کر چلے گئے تھے اور جو باقی تھے وہ پہلے سے بھی
زیادہ ظلموں کا شکار ہونے لگے تھے مگر ظالموں کے دل ابھی ٹھنڈے نہ ہوئے تھے، جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے گزشتہ ظلموں سے مسلمانوں کے دل نہیں ٹوٹے۔ ان کے ایمانوں میں تزلزل واقعہ نہیں ہوا بلکہ وہ خدائے واحد کی پرستش میں اور بھی بڑھ گئے اور بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بتوں سے ان کی نفرت ترقی ہی کرتی چلی جاتی ہے تو انہو ںنے پھر ایک مجلس شوریٰ قائم کی اور فیصلہ کر دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ کلی طور پر مقاطعہ کر دیا جائے۔ کوئی شخص سَودا اُن کے پاس فروخت نہ کرے۔ کوئی شخص ان کے ساتھ لین دین نہ کرے۔ اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند متبعین اورا ن کے بیوی بچوں سمیت اور اپنے چند ایسے رشتہ داروں کے ساتھ جو باوجود اسلام نہ لانے کے آپ کا ساتھ چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے ایک الگ مقام میں جو ابوطالب کی ملکیت تھا پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ ان لوگوں کے پاس نہ روپیہ تھا نہ سامان نہ ذخائر جن کی مدد سے وہ جیتے۔ وہ اس تنگی کے زمانہ میں جن حالات میں سے گزرے ہو ں گے ان کا اندازہ لگانا دوسرے انسان کے لئے ممکن نہیں۔ قریباً تین سال تک یہ حالات اسی طرح قائم رہے اور مکہ کے مقاطعہ کے فیصلہ میں کوئی کمزوری پید انہ ہوئی۔ قریباً تین سال کے بعد مکہ کے پانچ شریف آدمیوں کے دل میں اِس ظلم کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی۔ وہ شعب ابی طالب کے دروازہ پر گئے اور محصورین کو آواز دے کر کہا کہ وہ باہر نکلیں اور کہ وہ اس مقاطعہ کے معاہدہ کو توڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ ابو طالب جو اس لمبے محاصرہ اور فاقوں کی وجہ سے کمزور ہو رہے تھے باہر آئے اور اپنی قوم کو مخاطب کر کے اُنہیں ملامت کی کہ ان کا یہ لمبا ظلم کس طرح جائز ہو سکتا ہے۔ ان پانچ شریف انسانوں کی بغاوت فوراً بجلی کی طرح شہر میں پھیل گئی۔ فطرتِ انسانی نے پھر سر اُٹھانا شروع کیا۔ نیکی کی روح نے پھر ایک دفعہ سانس لیا اور مکہ کے لوگ اس شیطانی معاہدہ کو توڑنے پر مجبور ہوئے۔۲۱۳؎ معاہدہ تو ختم ہو گیا مگر تین سالہ فاقوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا۔ تھوڑے ہی دنوںمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا شعار بیوی حضرت خدیجہؓ اس مقاطعہ کے دنوں کی تکلیفوں کے نتیجہ میں فوت ہو گئیں اور اس کے ایک مہینہ بعد ابوطالب بھی اِس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
حضرت خدیجہؓ اور ابو طالب کی وفات کے بعدتبلیغ میں رُکاوٹیں اور آنحضرت ﷺ کا سفر طائف
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحا بہ اب ابوطالب کے
مصالحانہ اثر سے محروم ہوگئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی کی ساتھی حضرت خدیجہؓ بھی آپ سے جد ا ہو گئیں۔ اِن دونوں کی وفات سے طبعی طور پر اُن لوگوں کی ہمدردیاں بھی آپ سے اور آپ کے صحابہؓ سے کم ہوگئیں جو ان کے تعلقات کی وجہ سے ظالموں کو ظلم سے روکتے رہتے تھے۔ ابو طالب کی وفات کے تازہ صدمہ کی وجہ سے اور ابو طالب کی وصیت کی وجہ سے چند دن آپ کے شدید دشمن اور ابو طالب کے چھوٹے بھائی ابو لہب نے آپ کا ساتھ دیا۔لیکن جب مکہ والوں نے اس کے جذبات کو یہ کہہ کر اُبھارا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تو تمام اُن لوگوں کو جو توحید الٰہی کے قائل نہیں مجرم اور قابل سزا سمجھتا ہے تو اپنے آباء کی غیرت کے جوش میں ابولہب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور عہد کیا کہ وہ آئندہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کی مخالفت کرے گا۔ محصوری کی زندگی کی وجہ سے چونکہ تین سال تک لوگ اپنے رشتہ داروں سے جدا رہے تھے اس لئے تعلقات میں ایک سردی پیدا ہو گئی تھی۔ مکہ والے مسلمانوں سے قطع کلا می کے عادی ہو چکے تھے اِس لئے تبلیغ کا میدان محدود ہو گیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ وہ مکہ کی بجائے طائف کے لوگوں کو جا کر اسلام کی دعوت دیں۔ آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ مکہ والوں کی مخالفت نے اِس ارادہ کو اَور بھی مضبوط کر دیا۔ اوّل تو مکہ والے بات سنتے ہی نہیں تھے دوسرے اب انہوں نے یہ طریقہ اختیار کر لیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گلیوں میں چلنے ہی نہ دیتے۔ جب آپ باہر نکلتے آپ کے سر پر مٹی پھینکی جاتی تاکہ آپ لوگوں سے مل ہی نہ سکیں۔ ایک دفعہ اسی حالت میں واپس لوٹے تو آپ کی ایک بیٹی آپ کے سر پر مٹی ہٹاتے ہوئے رونے لگی۔ آپ نے فرمایا او میری بچی! رو نہیں کیونکہ یقینا خدا تمہارے باپ کے ساتھ ہے۔ ۲۱۴؎
آپ تکالیف سے گھبراتے نہ تھے، لیکن مشکل یہ تھی کہ لوگ بات سننے کو تیار نہ تھے۔ جہاں تک تکالیف کا سوال ہے آپ اُن کو ضروری سمجھتے تھے بلکہ آپ کے لئے سب سے زیادہ تکلیف کا دن تو وہ ہوتا تھا جب کو ئی شخص آپ کو تکلیف نہیں دیتا تھا۔ لکھا ہے کہ ایک دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی گلیوں میں تبلیغ کے لئے نکلے مگر اُس دن کسی منصوبہ کے تحت کسی شخص نے آپ سے کلام نہ کیا اور نہ آپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف دی نہ کسی غلام نے نہ کسی آزاد نے۔ تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدمہ اور غم سے خاموش لیٹ گئے۔ یہاں تک کہ خد اتعالیٰ نے آپ کو تسلی دی اور فرمایا جائو اور اپنی قوم کو پھر اور پھر اور پھر ہوشیار کرو اور ان کی عدمِ توجہی کی پرواہ نہ کرو۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات گراں نہ گزرتی تھی کہ لوگ آپ کو دکھ دیتے تھے لیکن خدا کا نبی جو دنیا کو ہدایت دینے کے لئے مبعوث ہوا تھا وہ اس بات کو کب برداشت کر سکتا تھا کہ لوگ اُس سے بات ہی نہ کریں اور اس کی بات سننے کے لئے تیار ہی نہ ہوں۔ ایسی بیکار زندگی اس کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ پس آپ نے پختہ فیصلہ کر لیا کہ اب آپ طائف کی طرف جائیں گے اور طائف کے لوگوں کو خد اتعالیٰ کا پیغام پہنچائیں گے اور خداتعالیٰ کے نبیوں کے لیے یہی مقدر ہوتا ہے کہ وہ اِدھر سے اُدھر مختلف قوموں کو مخاطب کرتے پھریں۔ حضرت موسٰی ؑکے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، کبھی وہ آلِ فرعون سے مخاطب ہوا تو کبھی آلِ اسحاق سے اور کبھی مدین کے لوگوں سے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی تبلیغ کے شوق میں کبھی جلیل کے لوگوں، کبھی یردن پار کے لوگوں، کبھی یروشلم کے لوگوں، اور کبھی اور دوسرے لوگوں کو مخاطب کرنا پڑا۔ جب مکہ کے لوگوں نے باتیں سننے سے ہی انکار کر دیا اور یہ فیصلہ کر لیا کہ مارو اور پیٹو مگر بات بالکل نہ سنو، تو آپ نے طائف کی طرف رُخ کیا۔ طائف مکہ سے کوئی ساٹھ میل کے قریب جنوب مشرق کی طرف ایک شہر ہے جو اپنے پھلوں اور اپنی زراعت کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ شہر بت پرستی میں مکہ والوں سے کم نہ تھا۔ خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کے سِوا لاتؔ نامی ایک مشہور بت طائف کی اہمیت کا موجب تھا جس کی زیارت کیلئے عرب کے لوگ دُور دُور سے آتے تھے۔ طائف کے لوگوں کی مکہ سے بہت رشتہ داریاں بھی تھیں اور طائف اور مکہ کے درمیان کی سرسبز مقامات میں مکہ والوں کی جائدادیں بھی تھیں۔ جب آپ طائف پہنچے تو وہاں کے رئوساء آپ سے ملنے کے لئے آنے شروع ہوئے لیکن کوئی شخص حق کو قبول کر نے کے لئے تیار نہ ہوا۔ عوام الناس نے بھی اپنے رئوساء کی اتباع کی اور خدا کے پیغام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا۔ دنیا داروں کی نگاہ میں بے سامان او ربے مدد گار نبی حقیر ہی ہوا کرتا ہے وہ تو اسلحہ اور فوجوں کی آواز سننا جانتے ہیں آپ کی نسبت باتیں تو پہنچ ہی چکی تھیں جب آپ طائف پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ آپ کے ساتھ کوئی فوج اور جتھا ہوتا آپ صرف زید ہی کی ہمراہی میں طائف کے مشہور حصوں میں تبلیغ کرتے پھرتے ہیں تو دل کے اندھوں نے اپنے سامنے خد اکا نبی نہیں بلکہ ایک حقیر اور دھتکارا ہوا انسان پایا اور سمجھے کہ شاید اِس کو دکھ دینا اور تکلیف پہنچانا قوم کے رئوساء کی نظروں میں ہم کو معزز کر دے گا۔ وہ ایک دن جمع ہوئے، کتے انہوں نے اپنے ساتھ لئے، لڑکوں کو اُکسایا اور پتھروں سے اپنی جھولیاں بھر لیںاور بیدردی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھرائو کرنا شروع کیا۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہر سے دھکیلتے ہوئے باہر لے گئے۔ آپ کے پائوں لہولہان ہوگئے اور زیدؓ آپ کو بچاتے ہوئے سخت زخمی ہوئے مگر ظالموں کا د ل ٹھنڈا نہ ہوا وہ آپ کے پیچھے چلتے گئے اور چلتے گئے جب تک شہر سے کئی میل دُور کی پہاڑیوں تک آپ نہ پہنچ گئے اُنہوں نے آپ کا پیچھا نہ چھوڑا۔جب یہ لوگ آپ کا پیچھا کر رہے تھے تو آپ اِس ڈر سے کہ خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نہ بھڑک اُٹھے آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھتے اور نہایت الحاح سے دعا کرتے۔ الٰہی! ا ِن لوگوں کو معاف کرکہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔۲۱۵؎
زخمی، تھکے ہوئے اور دنیا کے لوگوں کی طرف سے دھتکارے ہوئے آپ ایک انگورستان کے سایہ میں پناہ گزیں ہوئے۔ یہ انگورستان مکہ کے دو سرداروں کا تھا۔ یہ سردار اُس وقت اِس انگورستان میں تھے پُرانے اور شدید دشمن جنہوںنے دس سال تک آپ کی مخالفت میں اپنی زندگی گزاری تھی شاید اُس وقت اِس بات سے متأثر ہو گئے کہ ایک مکہ کے آدمی کو طائف کے لوگوں نے زخمی کیا ہے یا شاید وہ گھڑی ایسی گھڑی تھی جب نیکی کا بیج اُن کے دلوں میں سر اُٹھا رہا تھااُنہوں نے ایک تھال انگوروں کا بھرا اور اپنے غلام عداس کو کہا کہ جائو اور اِن مسافرو ں کو اسے دو۔ عداس نینوا کا رہنے والا ایک عیسائی تھا۔ جب اُس نے یہ انگور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے اور آپ نے یہ کہتے ہوئے اُن انگوروں کو لیا کہ خد اکے نام پر جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے میں یہ لیتا ہوں تو عیسائیت کی یاد اُس کے دل میں پھر تازہ ہو گئی۔ اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے سامنے خدا کا ایک نبی بیٹھا ہے جو اسرائیلی نبیوں کی سی زبان میں باتیں کرتا ہے۔ اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کہا ں کے رہنے والے ہو؟ جب اُس نے کہا نینوا کا۔ تو آپ نے فرمایا وہ نیک انسان یونس جو متی کا بیٹا تھا اور نینوا کا باشندہ وہ میری طرح خد اکا ایک نبی تھا۔ پھر آپ نے اُس کو اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کی۔ عداس کی حیرانی چند ہی لمحوں میںتعجب سے بدل گئی۔ تعجب ایمان میں تبدیل ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اجنبی غلام آنسوئوں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گیا اور آپ کے سر اور ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگا۔۲۱۶؎ عداس کی باتوں سے فارغ ہو کر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف مخاطب ہوئے اور آپ نے خدا سے یوں دعا مانگی۔
اَللّٰھُمََّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّتِیْ وَقِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَ ھَوَ انِیْ عَلَی النَّاسِ یَااَرحَمَ الرَّاحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَاَنْتَ رَبِّیْ اِلٰی مَنْ تَکِلُنِیْ اِلٰی بَعِیْدٍ یَتَجَھَّمُنِیْ اَمْ اِلٰی عَدُوٍّمَلَکْتَہٗ اَمْرِیْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ بِکَ عَلَیَّ غَضَبٌفَلاَ اُبَالِیْ وَلٰـکِنْ عَافِیَتُکَ ھِیَ اَوْسَعُ لِیْ۔ اَعُوْذُ بِنُوْرِ وَجْھِکَ الَّذِیْ اَشْرَقَتْ لَہُ الظُّلُمٰتُ وَصَلُحَ عَلَیْہِ اَمْرُالدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ مِنْ اَنْ تُنَزِّلَ بِیْ غَضَبَکَ اَوْیَحِلَّ عَلَیَّ سَخَطُکَ لَکَ الْعُقْبٰی حَتّٰی تَرْضٰی وَلَاحَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلاَّبِکَ ۲۱۷؎
یعنی اے میرے ربّ! میں تیرے ہی پاس اپنی کمزوریوں اور اپنے سامانوں کی کمی اور لوگوں کی نظروں میں اپنے حقیر ہونے کی شکایت کرتا ہوں۔ لیکن تو غریبوں اور کمزوروں کا خدا ہے اور تو میرا بھی خد اہے تو مجھے کس کے ہاتھوں میں چھوڑے گا۔ کیا اجنبیوں کے ہاتھوں میں جو مجھے اِدھر اُدھر دھکیلتے پھریں گے یا اُس دشمن کے ہاتھ میں جو میرے وطن میں مجھ پر غالب ہے۔ اگر تیرا غضب مجھ پر نہیں تو مجھے اِن دشمنوں کی کوئی پرواہ نہیں۔ تیرا رحم میرے ساتھ ہے اور تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے۔ میں تیرے چہرہ کی روشنی میں پناہ چاہتا ہوں۔ یہ تیرا ہی کام ہے کہ تو تاریکی کو دنیا سے بھگا دے اور اِس دنیا اور اگلی دنیا میں امن بخشے۔ تیرا غصہ اور تیری غیرت مجھ پر نہ بھڑکیں۔ تو اگر ناراض بھی ہوتا ہے تو اس لئے کہ پھر خوشی کا اظہار کرے اور تیرے سوا کوئی حقیقی طاقت اور کوئی حقیقی پناہ کی جگہ نہیں۔
یہ دعا مانگ کر آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن درمیان میں نخلہ نامی مقام پر ٹھہر گئے۔ چند دن وہاں سستا کر پھر آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ لیکن عرب کے دستور کے مطابق لڑائی کی وجہ سے مکہ چھوڑدینے کے بعد آپ مکہ کے باشندے نہیں رہے تھے اب مکہ والوں کا اختیار تھا کہ وہ آپ کومکہ میں آنے دیتے یا نہ آتے دیتے اس لئے آپ نے مکہ کے ایک رئیس مطعم بن عدی کو کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں کیا تم عرب کے دستور کے مطابق مجھے داخلہ کی اجازت دیتے ہو؟ مطعم باوجود شدید دشمن ہونے کے ایک شریف الطبع انسان تھا اُس نے اُسی وقت اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو ساتھ لیا اور مسلح ہو کر کعبہ کے صحن میں جا کھڑا ہوا اور آپ کو پیغام بھیجا کہ وہ مکہ میں آپ کو آنے کی اجازت دیتا ہے۔ آپ مکہ میں داخل ہوئے کعبہ کا طواف کیا اور مطعم اپنی اولاد اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تلواریں کھینچے ہوئے آپ کو آپ کے گھر تک پہنچانے کے لئے آیا۔۲۱۸؎ یہ پناہ نہیں تھی کیو نکہ اس کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ہوتے رہے اور مطعم نے کوئی حفاظت آپ کی نہیں کی بلکہ یہ صرف مکہ میں داخلہ کی قانونی اجازت تھی۔
آپ کے اِس سفر کے متعلق دشمنوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ اِس سفر میں آپ نے بے نظیر قربانی اور استقلال کا نمونہ دکھایا ہے۔ سرولیم میور اپنی کتاب ’’لائف آفمحمد‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے طائف کے سفر میں ایک شاندار اور شجاعانہ رنگ پایا جاتا ہے۔ اکیلا آدمی جس کی اپنی قوم نے اُس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھااور اُسے دھتکار دیا خد اکے نام پر بہادری کے ساتھ نینوا کے یوناہ نبی کی طرح ایک بت پرست شہر کو توبہ کی اورخدائی مشن کی دعوت دینے کے لئے نکلا۔ یہ امر اُس کے اِ س ایمان پر کہ وہ اپنے آپ کو کلی طور پر خد اکی طرف سے سمجھتا تھا ایک بہت تیز روشنی ڈالتا ہے‘‘۔۲۱۹؎
مکہ نے پھر ایذاء دہی اور استہزاء کے دروازے کھول دئیے۔ پھر خد اکے نبی کے لئے اُس کا وطن جہنم کا نمونہ بننے لگا۔ مگر اِس پر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلیری سے لوگوں کو خدا کی تعلیم پہنچاتے رہے۔ مکہ کے گلی کوچوں میں ’’ خد ا ایک ہے خدا ایک ہے‘‘کی آوازیں بلند ہوتی رہیں۔ محبت سے، پیار سے، خیر خواہی سے، آپ مکہ والوں کو بت پرستی کے خلاف وعظ کرتے رہے۔ لوگ بھاگتے تھے تو آپ اُن کے پیچھے جاتے تھے۔ لوگ منہ پھیرتے تھے تو آپ پھر بھی باتیں سنائے چلے جاتے تھے۔ صداقت آہستہ آہستہ گھر کر رہی تھی۔ وہ تھوڑے سے مسلمان جو ہجرتِ حبشہ سے بچے ہوئے مکہ میں رہ گئے تھے وہ اندر ہی اندر اپنے رشتہ داروں، دوستوں، ساتھیوں اور ہمسائیوں میں تبلیغ کر رہے تھے۔ بعض کے دل ایمان سے منور ہو جاتے تھے تو عَلَی الْاعْلَان اپنے مذہب کا اظہار کر دیتے تھے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ ماریں کھانے اور تکلیفیں اُٹھانے میں شریک ہو جاتے تھے۔ مگر بہت تھے جنہوں نے روشنی کو دیکھ تو لیاتھا مگر اُس کے قبول کر نے کی توفیق نہیں ملی تھی۔ وہ اُس دن کا انتظار کر رہے تھے جب خداکی بادشاہت زمین پر آئے اور وہ اُس میں داخل ہوں۔
باشند گانِ مدینہ کا قبولِ اسلام
اِسی عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بار بار خبر دی جا رہی تھی کہ تمہارے
لئے ہجرت کا وقت آرہا ہے اور آپ پر یہ بھی کھل چکا تھا کہ آپ کی ہجرت کا مقام ایک ایسا شہر ہے جس میں کنویں بھی ہیں اور کھجوروں کے باغ بھی پائے جاتے ہیں۔ پہلے آپ نے یمامہ کی نسبت خیال کیا کہ شاید وہ ہجرت کا مقام ہو گا۲۲۰؎ مگر جلد ہی یہ خیال آپ کے دل سے نکال دیا گیا اور آپ اِس انتطار میں لگ گئے کہ خد اتعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق جو شہر بھی مقدر ہے وہ اپنے آپ کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے لئے پیش کر ے گا۔ اِسی دوران میں حج کا زمانہ آگیا عرب کے چاروں طرف سے لوگ مکہ میں حج کے لئے جمع ہونے شروع ہوئے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عادت کے مطابق جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے تھے اُن کے پاس جا کر اُنہیں توحید کا وعظ سنانے لگ جاتے تھے اور خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دیتے تھے اور ظلم اور بدکاری اور فساد اور شرارت سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے۔ بعض لوگ آپ کی بات سنتے اور حیرت کا اظہار کر کے جد ا ہو جاتے۔ بعض باتیں سن رہے ہوتے تو مکہ والے آ کر اُن کو وہاں سے ہٹا دیتے تھے۔ بعض جو پہلے سے مکہ والوں کی باتیں سن چکے ہوتے وہ ہنسی اُڑا کر آپ سے جد ا ہو جاتے۔ اسی حالت میں آپ منٰی کی وادی میں پھر رہے تھے کہ چھ سات آدمی جو مدینہ کے باشندے تھے آپ کی نظر پڑے۔ آپ نے اُن سے کہا کہ آپ لوگ کس قبیلہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا خزرج قبیلہ کے ساتھ۔ آپ نے کہا وہی قبیلہ جو یہودیوں کا حلیف ہے؟ اُنہوں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا کیا آپ لوگ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری باتیں سنیں گے؟ اُن لوگوں نے چونکہ آپ کا ذکر سنا ہوا تھا اور دل میں آپ کے دعویٰ سے کچھ دلچسپی تھی اُنہوں نے آپ کی بات مان لی اور آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی باتیں سننے لگ گئے۔ آپ نے اُنہیں بتایا کہ خدا کی بادشاہت قریب آرہی ہے، بت اب دنیا سے مٹا دیئے جائیں گے، توحید کو دنیا میں قائم کر دیا جائے گا۔ نیکی اور تقویٰ پھر ایک دفعہ دنیا میں قائم ہو جائیں گے۔ کیا مدینہ کے لوگ اِس عظیم الشان نعمت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ انہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور متأثر ہوئے اور کہا آپ کی تعلیم کو تو ہم قبول کرتے ہیں۔ باقی رہا یہ کہ مدینہ اسلام کو پناہ دینے کے لئے تیار ہے یا نہیں اس کے لئے ہم اپنے وطن جا کر اپنی قوم سے بات کریں گے پھر ہم دوسرے سال اپنی قوم کا فیصلہ آپ کو بتائیں گے۔۲۲۱؎ یہ لوگ واپس گئے اور اُنہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں میں آپ کی تعلیم کا ذکر کرنا شروع کیا ۔ اُس وقت مدینہ میں دو عرب قبائل اوس اور خزرج بستے تھے اور تین یہودی قبائل یعنی بنو قریظہ اور بنو نضیر اور بنو قینقاع۔اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی تھی۔ بنو قریظہ اور بنو نضیر اوس کے ساتھ اور بنو قینقاع خزرج کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔ مدتوں کی لڑائی کے بعد اُن میں یہ احساس پیدا ہو رہا تھا کہ ہمیں آپس میں صلح کر لینی چاہئے۔ آخر باہمی مشورہ سے یہ قرار پایا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول جو خزرج کا سردار تھا اُسے سارا مدینہ اپنا بادشاہ تسلیم کر لے۔ یہودیوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اوس اور خزرج بائبل کی پیشگوئیاں سنتے رہتے تھے۔ جب یہودی اپنی مصیبتوں اور تکلیفوں کا حال بیان کرتے تواُس کے آخر میں یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ ایک نبی جو موسیٰ کا مثیل ہو گا ظاہر ہونے والا ہے اُس کا وقت قریب آرہا ہے جب وہ آئے گا ہم پھر ایک دفعہ دنیا پر غالب ہو جائیں گے ،یہود کے دشمن تباہ کر دئیے جائیں گے۔ جب اُن حاجیوں سے مدینہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کو سنا آپ کی سچائی اُن کے دلوں میں گھر کر گئی اور اُنہو ںنے کہا یہ تو وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کی یہودی ہمیں خبر دیا کرتے تھے۔ پس بہت سے نوجوان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی سچائی سے متأثر ہوئے اور یہودیوں سے سنی ہوئی پیشگوئیاں اُن کے ایمان لانے میں مؤید ہوئیں۔ چنانچہ اگلے سال حج کے موقع پر پھر مدینہ کے لوگ آئے۔ بارہ آدمی اِس دفعہ مدینہ سے یہ ارادہ کرکے چلے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو جائیں گے۔ اِن میں سے دس خزرج قبیلہ کے تھے اور دو اوس کے۔ منٰی میں وہ آپ سے ملے اوراُنہوں نے آپ کے ہاتھ پر اِس بات کا اقرار کیا کہ وہ سوائے خدا کے اور کسی کی پرستش نہیں کریں گے، وہ چوری نہیں کر یں گے، وہ بدکاری نہیں کر یں گے، وہ اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کر یں گے، وہ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام نہیں لگائیں گے، نہ وہ خدا کے نبی کی دوسری نیک تعلیمات میں نافرمانی کریں گے۔۲۲۲؎ یہ لوگ واپس آگئے تو اُنہو ں نے اپنی قوم میں اور بھی زیادہ زور سے تبلیغ شروع کر دی۔ مدینہ کے گھروں میں سے بت نکال کر باہر پھینکے جانے لگے۔ بتوں کے آگے سر جھکانے والے لوگ اب گردنیں اُٹھا کر چلنے لگے۔ خد اکے سوا اب لوگوں کے ماتھے کسی کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہ تھے۔ یہودی حیران تھے کہ صدیوں کی دوستی اور صدیوں کی تبلیغ سے جو تبدیلی وہ نہ پیدا کر سکے اسلام نے وہ تبدیلی چند دنوں میں پید اکر دی۔ توحید کا وعظ مدینہ والوں کے دلوں میں گھر کرتا جاتا تھا۔ یکے بعد دیگرے لوگ آتے اور مسلمانوں سے کہتے ہمیں اپنا دین سکھائو۔ لیکن مدینہ کے نو مسلم نہ تو خود اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف تھے اور نہ اُن کی تعداد اتنی تھی کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کو اسلام کے متعلق تفصیل سے بتا سکیں اس لئے اُنہو ںنے مکہ میں ایک آدمی بجھوایا اور مبلغ کی درخواست کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعبؓ نامی ایک صحابی کو جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے مدینہ میں تبلیغ اسلام کے لئے بھجوا یا۔ مصعبؓ مکہ سے باہر پہلا اسلامی مبلغ تھا۔
اسراء
اُنہی ایام میں خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آئندہ کے لئے پھر ایک زبردست بشارت دی۔ آپ کو ایک کشف میں بتایا گیا کہ آپ یروشلم گئے ہیں اور نبیوں نے
آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی۔۲۲۳؎ یروشلم کی تعبیر مدینہ تھا، جو آئندہ کے لئے خد ائے واحد کی عبادت کا مرکز بننے والا تھا اور آپ کے پیچھے نبیوں کے نماز پڑھنے کی تعبیر یہ تھی کہ مختلف مذاہب کے لوگ آپ کے مذہب میں داخل ہوں گے اورآپ کا مذہب عالمگیر ہو جائے گا۔ یہ وقت مکہ میں مسلمانوں کے لئے نہایت ہی سخت تھا اور تکالیف انتہاء کو پہنچ چکی تھیں۔ اس کشف کا سنانا مکہ والوں کے لئے ہنسی اور استہزاء کا ایک نیا موجب ہو گیا اور اُنہوں نے ہر مجلس میں آپ کے اِس کشف پر ہنسی اُڑانی شروع کی۔ مگر کون جانتا تھا کہ نئے یروشلم کی تعمیر شروع تھی۔ مشرق و مغرب کی قومیں کان دھرے خد اکے آخری نبی کی آواز سننے کے لئے متوجہ کھڑی تھیں۔
رومیوں کے غلبہ کی پیشگوئی
اِنہی ایام میں قیصر اور کسریٰ کے درمیان ایک خطرناک جنگ ہوئی اور کسریٰ کو فتح حاصل ہوئی۔ شام میں ایرانی
فوجیں پھیل گئیں۔ یروشلم تباہ کر دیا گیا۔ حتی کہ ایرانی فوجیں یونان اور ایشائے کوچک تک پہنچ گئیں اور باسفورس کے دہانہ پر ایرانی جرنیلوں نے قسطنطنیہ سے صرف دس میل کے فاصلہ پر اپنے خیمے گاڑ دئیے۔ اِس واقعہ پر مکہ کے لوگوں نے خوشیاں منانی شروع کیں اور کہا خد اکا فیصلہ ظاہر ہو گیا ہے۔ بت پرست ایرانیوں نے اہل کتاب عیسائیوں کو شکست دے دی۔ اُس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خبر دی گئی کہ۲۲۴؎ یعنی رومی فوجیں عرب کے قریب ممالک میں شکست کھا گئی ہیں لیکن اپنی شکست کے بعد پھر اُن کو فتح حاصل ہو گی چند سال کے اندر اندر۔ خدا ہی کا اختیار دنیا میں پہلے بھی رائج تھا اور آئندہ بھی رائج رہے گا۔ جب وہ فتح کا دن آئے گا اُس وقت مؤمنوں کو بھی خد اکی مدد سے خوشی نصیب ہوگی۔ خدا جن کو چن لیتا ہے اُن کی مدد کرتا ہے وہ بڑی شان والا اور بڑا مہربان ہے۔ یہ اُس خد اکا وعدہ ہے جو اپنے وعدوں کو تبدیل نہیں کرتا۔ لیکن اکثر لوگ خد اکی قدرتوں سے ناواقف ہیں۔ چند ہی سال بعد خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری کر دی۔ ایک طرف رومیوں نے ایرانیوں کو شکست دے کر اپنے ملک کو آزاد کرا لیا اور دوسری طرف جیسا کہ کہا گیا تھا اُنہی ایام میں مسلمانوں کو مکہ کے لوگوں کے خلاف فتوحات حاصل ہونی شروع ہوئیں۔ جبکہ مکہ کے لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اُنہوں نے لوگوں کو مسلمانوں کی باتیں سننے سے روک کر اور مسلمانوں پر ظلم کرنے پر آمادہ کر کے اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ خد اکا کلام متواتر اسلام کی فتوحات کی خبریں دے رہا تھا اور بتا رہاتھا کہ مکہ والوں کی تباہی کی گھڑی قریب سے قریب تر آرہی ہے۔ چنانچہ انہی ایام میں محمد رسول اللہ ﷺ نے بڑے زور سے خدا تعالیٰ کی اس وحی کا اعلان کیا کہ ۲۲۵؎ یعنی مکہ والے کہتے ہیں کہ کیوں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ربّ کے پاس سے کوئی نشان ہمارے لئے نہیں لاتا۔ کیا پہلے نبیوں کی پیشگوئیاں جو اس کے حق میں ہیں وہ اُن کے لئے کافی نشان نہیں ہے۔ ہم اگر پوری تبلیغ سے پہلے ہی مکہ والوں کو ہلاک کر دیتے تو مکہ والے کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے ربّ! کیوں تو نے ہماری طرف کوئی رسول نہ بھیجا کہ ہم ذلیل اور رُسوا ہونے سے پہلے تیری تعلیموں کے پیچھے چلتے۔ تو کہہ دے ہر شخص کو اپنے وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے پس تم بھی اُس گھڑی کا انتظا رکرو جب حجت تمام ہو جائے گی تب تم یقینا جان لو گے کہ سیدھے راستہ پر اور خدا تعالیٰ کی ہدایت پر کون چل رہا ہے۔
ہر روز خد اکی نئی وحی نازل ہو رہی تھی اور ہرروز وہ اسلام کی ترقی اور کفّار کی تباہی کی خبریں دے رہی تھی۔ مکہ والے ایک طرف اپنی طاقت اور شوکت کو دیکھتے تھے اور دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی کمزوری کو دیکھتے تھے اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی میں خدا تعالیٰ کی نصرتوں اور مسلمانوں کی کامیابیوں کی خبریں پڑھتے تھے تو حیران ہو کر سوچتے تھے کہ آیا وہ پاگل ہو گئے ہیں یا محمد ’’ رسول اللہ ‘‘ پاگل ہو گیا ہے۔ مکہ والے تو یہ امیدیں کر رہے تھے کہ ہمارے ظلموں اور ہماری تعدّی کی وجہ سے اب مسلمانوں کو مایوس ہو کر ہماری طرف آ جانا چاہئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود بھی اور اُن کے ساتھیوں کو بھی اُن کے دعویٰ میں شبہات پیدا ہو جانے چاہئیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعلان کر رہے تھے کہ ۲۲۶؎ اے مکہ والو! جن خیالات میں تم پڑے ہوئے ہو وہ درست نہیں۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں اُن چیزوں کی جو تمہیں نظر آرہی ہیں اور اُن کی بھی جو تمہاری نظروں سے ابھی پوشیدہ ہیں کہ یہ قرآن ایک معزز رسول کی زبان سے تم کو سنایا جا رہا ہے یہ کسی شاعر کا کلام نہیں مگر تمہارے دل میں ایمان کم ہی پید ا ہوتا ہے۔ یہ کسی کاہن کی تک بندی نہیں ہے مگر افسوس تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو۔ یہ سب جہانوں کے پیدا کرنے والے خدا کی طرف سے اُتارا گیا ہے اور ہم جو سب جہانوں کے رب ہیں تم سے کہتے ہیں کہ اگر یہ ایک آیت بھی جھوٹی بنا کر ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اُس کی رگِ جان کو کاٹ دیتے اور اگر تم سب لوگ مل کر بھی اُس کو بچانا چاہتے تو تم اُس کو نہ بچا سکتے۔ مگر یہ قرآن تو خدا سے ڈرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں اِس قرآن کو جھٹلانے والے بھی موجود ہیں مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی تعلیم اس منکروں کے دلوں میں حسرتیں پیدا کر رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ کاش! یہ تعلیم ہمارے پاس ہوتی۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جو باتیں اِس قرآن میں بتائی گئی ہیں وہ لفظاً لفظاً پوری ہو کر رہیں گی۔ پس اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اِن لوگوں کی مخالفتوں کی پرواہ نہ کر اور اپنے عظیم الشان رب کے نام کی بزرگی بیان کرتا چلا جا۔
آخر تیسرا حج بھی آپہنچا اورمدینہ کے حاجیوں کا قافلہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل مکہ میں وار د ہوا۔ مکہ والوں کی مخالفت کی وجہ سے مدینہ کے لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ ملنے کی خواہش کی۔ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن اِدھر منتقل ہو چکا تھا کہ شاید ہجرت مدینہ ہی کی طرف مقدر ہے ۔ آپ نے اپنے معتبر رشتہ داروں سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انہوں نے آپ کو سمجھانا شروع کیا کہ آپ ایسا نہ کریں۔ مکہ والے دشمن ہی سہی پھر بھی اس میں بڑے بڑے با اثر لوگ آپ کے رشتہ داروں میں سے موجود ہیں نہ معلوم مدینہ میں کیا ہو اور وہاں آپ کے رشتہ دار آپ کی مدد کر سکیں یا نہ کر سکیں۔ مگر چونکہ آپ سمجھ چکے تھے کہ خد ائی فیصلہ یہی ہے آپ نے اپنے رشتہ داروں کی باتیں ردّ کر دیں اور مدینہ جانے کا فیصلہ کر دیا۔
آدھی رات کے بعد پھر وادیٔ عقبہ میںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے مسلمان جمع ہوئے۔ اب آپ کے ساتھ آپ کے چچا عباسؓ بھی تھے۔ اِس دفعہ مدینہ کے مسلمانوں کی تعداد ۷۳ تھی۔ اُن میں ۶۲ خزرج قبیلہ کے تھے اور گیارہ اوس کے تھے۲۲۷؎ اور اس قافلہ میں دو عورتیں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک بنی نجار قبیلہ کی اُمِّ عمارہؓ بھی تھیں۔ چونکہ مصعبؓ کے ذریعہ سے اِن لوگوں تک اسلام کی تفصیلات پہنچ چکی تھیں یہ لوگ ایمان اور یقین سے پُر تھے، بعد کے واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ لوگ آئندہ اسلام کا ستون ثابت ہونے والے تھے۔ اُمِّ عمارہؓ جو اُس دن شامل ہوئیں اُنہوں نے اپنی اولاد میں اسلام کی محبت اتنی داخل کردی کہ اُن کا بیٹا خبیبؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب کے لشکر کے ہاتھ میں قید ہو گیا تو مسیلمہ نے اُسے بُلا کر پوچھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہاں ہاں۔ پھر مسیلمہ نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں۔اس پر مسیلمہ نے حکم دیا کہ ان کا عضو کاٹ لیا جائے۔ تب مسیلمہ نے پھر اُن سے پوچھا۔ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ خبیبؓ نے کہا ہاں۔ پھر اُس نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ خبیبؓ نے کہا نہیں۔ پھر اُس نے آپ کا ایک دوسرا عضو کاٹنے کا حکم دیا۔ ہر عضو کاٹنے کے بعد وہ سوال کرتا جاتا تھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور خبیب ؓ کہتاتھا کہ نہیں۔ اِسی طرح اس کے سارے اعضاء کاٹے گئے اور آخر میں اِسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہوئے وہ خدا سے جاملا۔۲۲۸؎
خوداُمِّ عمارہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شامل ہوئیں۔ غرض یہ ایک مخلص اور ایمان والا قافلہ تھا جس کے افراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دولت اور مال مانگنے نہیں آئے تھے بلکہ صرف ایمان طلب کرنے آئے تھے۔ عباسؓ نے اُن کو مخاطب کر کے کہا اے خزرج قبیلہ کے لوگو! یہ میرا عزیز اپنی قوم میں معزز ہے اِس کی قوم کے لوگ خواہ وہ مسلمان ہیں یا نہیں اس کی حفاظت کرتے ہیں لیکن اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمہارے پاس جائے۔ اے خزرج کے لوگو! اگر یہ تمہارے پاس گیا تو سارا عرب تمہارا مخالف ہو جائے گا۔ا گر تم اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور اُن خطرات کو پہچانتے ہوئے جو تمہیں اِس کے دین کی حفاظت میں پیش آنے والے ہیں اِس کو لے جانا چاہتے ہو تو خوشی سے لے جائو ورنہ اِس ارادہ سے باز آجائو۔ اِس قافلہ کے سردار البراء تھے اُنہوں نے کہا ہم نے آپ کی باتیں سن لیں۔ ہم اپنے ارادہ میں پختہ ہیں ہماری جانیں خدا کے نبی کے قدموں پر نثار ہیں۔ اب فیصلہ اُس کے اختیار میں ہے۔ ہم اُس کا ہر فیصلہ قبول کریں گے۔ اِس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی تعلیم سمجھانی شروع کی اور خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کا وعظ کیا اور اُنہیں کہا کہ اگر وہ اسلام کی حفاظت اپنی بیویوں اور اپنے بچوں کی طرح کرنے کا وعدہ کرتے ہیں تو وہ آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں۔۲۲۹؎ آپ اپنی بات ختم کرنے نہ پائے تھے کہ مدینہ کے ۷۲ جاں نثار یک زبان ہوکر چلائے ہاں! ہاں!! اُس وقت جوش میں اُنہیںمکہ والوں کی شرارتوں کا خیال نہ رہا اور اُن کی آوازیں فضاء میں گونج گئیں۔ عباسؓ نے اُنہیں ہوشیا ر کیا اور کہا خاموش ! خاموش! ایسانہ ہو کہ مکہ کے لوگوں کو اِس واقعہ کا علم ہو جائے۔ مگر اب وہ ایمان حاصل کر چکے تھے، اب موت اُن کی نظروں میں حقیر ہو چکی تھی۔ عباسؓ کی بات سن کر اُن کا ایک رئیس بولا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! ہم ڈرتے نہیں، آپ اجازت دیجئے ابھی مکہ والوں سے لڑ کر اُنہوں نے جو ظلم آپ پر کئے ہیں اُ س کا بدلہ لینے کو تیا رہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ابھی خداتعالیٰ نے مجھے اُن کے مقابل پر کھڑا ہونے کا حکم نہیں دیا۔ اِس کے بعد مدینہ کے لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور یہ مجلس برخاست ہوئی۔۲۳۰؎
مکہ کے لوگوں کو اِس واقعہ کی بھنک پہنچ گئی اور وہ مدینہ کے سرداروں کے پاس شکایت لے کر گئے۔ لیکن چونکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول مدینہ کے قافلہ کا سردار تھا اور اُسے خود اس واقعہ کا علم نہیں تھا اُس نے اُنہیں تسلی دلائی اور کہا کہ اُنہوں نے یونہی کوئی جھوٹی افواہ سن لی ہے ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا کیونکہ مدینہ کے لوگ میرے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے۔ مگر وہ کیا سمجھتا تھا کہ اب مدینہ کے لوگوں کے دلوں میں شیطان کی جگہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو چکی تھی۔ اِس کے بعد مدینہ کا قافلہ واپس چلا گیا۔
مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت
اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے ہجرت کی تیاری شروع کی۔ ایک کے
بعد ایک خاندان مکہ سے غائب ہونا شروع ہوا۔ اب وہ لوگ بھی جو خد اتعالیٰ کی بادشاہت کا انتظار کر رہے تھے دلیر ہو گئے۔ بعض دفعہ ایک ہی رات میں مکہ کی ایک پوری گلی کے مکانوں کو تالے لگ جاتے تھے اور صبح کے وقت جب شہر کے لوگ گلی کو خاموش پاتے تو دریافت کرنے پر اُنہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس گلی کے تمام رہنے والے مدینہ کو ہجرت کر گئے ہیں اور اسلام کے اِس گہرے اثر کو دیکھ کر جو اندر ہی اندر مکہ کے لوگوں میں پھیل رہا تھا وہ حیران رہ جاتے تھے۔
آخر مکہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا ، صرف چند غلام، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت علیؓ مکہ میں رہ گئے۔ جب مکہ کے لوگوں نے دیکھا کہ اب شکار ہمارے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے تو رئوساء پھر جمع ہوئے اور مشورے کے بعد اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینا ہی مناسب ہے۔ خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے آپ کے قتل کی تاریخ آپ کی ہجرت کی تاریخ سے موافق پڑی۔ جب مکہ کے لوگ آپ کے گھر کے سامنے آپ کے قتل کے لئے جمع ہورہے تھے آپ رات کی تاریکی میں ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر سے باہر نکل رہے تھے۔ مکہ کے لوگ ضرور شبہ کرتے ہوں گے کہ اُن کے ارادہ کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مل چکی ہو گی۔ مگر پھر بھی جب آپ اُن کے سامنے سے گزرے تو اُنہوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی اور شخص ہے اور بجائے آپ پر حملہ کرنے کے سمٹ سمٹ کر آپ سے چھپنے لگ گئے، تاکہ اُن کے ارادوں کی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو خبر نہ ہو جائے۔ اِس رات سے پہلے دن ہی آپ کے ساتھ ہجرت کرنے کے لئے ابوبکرؓ کو بھی اطلاع دے دی گئی تھی پس وہ بھی آپ کو مل گئے اور دونوں مل کر تھوڑی دیر میں مکہ سے روانہ ہو گئے اور مکہ سے تین چار میل پر ثور نامی پہاڑی کے سرے پر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے۔۲۳۱؎ جب مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چلے گئے ہیں تواُنہوں نے ایک فوج جمع کی اورآپ کا تعاقب کیا۔ ایک کھوجی اُنہوں نے اپنے ساتھ لیا جو آپ کا کھوج لگاتے ہوئے ثور پہاڑ پر پہنچا۔ وہاں اُس نے اُس غار کے پاس پہنچ کر جہاں آپ ابوبکرؓ کے ساتھ چھپے ہوئے تھے یقین کے ساتھ کہا کہ یا تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اِس غار میں ہے یا آسمان پر چڑھ گیا ہے۔ اُس کے اِس اعلان کو سن کر ابوبکرؓ کا دل بیٹھنے لگا اور اُنہوں نے آہستہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا دشمن سر پر آپہنچا ہے اور اب کوئی دم میں غار میں داخل ہونے والا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَناَ۔۲۳۲؎ ابو بکر! ڈرو نہیں خدا ہم دونوں کے ساتھ ہے۔ا بوبکرؓ نے جواب میں کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں اپنی جان کے لئے نہیں ڈرتا کیونکہ میں تو ایک معمولی انسان ہوں مارا گیا تو ایک آدمی ہی مارا جائے گا یَارَ سُوْلَ اللّٰہ! مجھے تو صرف یہ خوف تھا کہ اگر آپ کی جان کو کوئی گزند پہنچا تو دنیا میں سے روحانیت اور دین کا نام مٹ جائے گا۔ آپ نے فرمایا کوئی پرواہ نہیں یہاں ہم دو ہی نہیں ہیں تیسرا خدا تعالیٰ بھی ہمارے پاس ہے۔ چونکہ اب وقت آپہنچا تھا کہ خداتعالیٰ اسلام کو بڑھائے اور ترقی دے اور مکہ والوں کے لئے مہلت کا وقت ختم ہو چکا تھا خداتعالیٰ نے مکہ والوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور اُ نہوں نے کھوجی سے استہزاء شروع کر دیا اور کہا کیا اُنہوں نے اِس کھلی جگہ پر پناہ لینی تھی؟ یہ کوئی پناہ کی جگہ نہیںہے اور پھر اِس جگہ کثرت سے سانپ بچھو رہتے ہیں یہاں کوئی عقلمند پناہ لے سکتا ہے اور بغیر اس کے کہ غار میں جھانک کر دیکھتے کھوجی سے ہنسی کرتے ہوئے وہ واپس لوٹ گئے۔
دو دن اِسی غار میں انتظار کر نے کے بعد پہلے سے طے کی ہوئی تجویز کے مطابق رات کے وقت غار کے پاس سواریاں پہنچائی گئیں اور دو تیز رفتار اُونٹنیوں پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی روانہ ہوئے۔ ایک اونٹنی پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور رستہ دکھانے والا آدمی سوار ہوا اور دوسری اُونٹنی پر حضرت ابوبکرؓ اور ان کا ملازم عامر بن فہیرہ سوار ہوئے۔ مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا۔ اُس مقدس شہر پر جس میں آپ پیدا ہوئے، جس میں آپ مبعوث ہوئے اور جس میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے زمانہ سے آپ کے آبائواجداد رہتے چلے آئے تھے آپ نے آخری نظرڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے مکہ کی بستی! تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا اِن لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے۔۲۳۳؎
سراقہ کا تعاقب اور اُس کے متعلق آنحضرت ﷺکی ایک پیشگوئی
جب مکہ والے آپ کی تلاش میں ناکا م رہے تو اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ جو کوئی محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) یا ابوبکرؓ
کو زندہ یا مُردہ واپس لے آئے گا اُس کو سَو(۱۰۰) اُونٹنی انعام دی جائے گی اوراس اعلان کی خبر مکہ کے اِردگرد کے قبائل کو بجھوا دی گئی۔ چنانچہ سراقہ بن مالک ایک بدوی رئیس اس انعام کے لالچ میں آپ کے پیچھے روانہ ہوا۔ تلاش کرتے کرتے اُس نے مدینہ کی سڑک پر آپ کو جالیا۔ جب اُس نے دو اُونٹنیوں اور ان کے سواروں کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے ساتھی ہیں تو اُس نے اپنا گھوڑا اُن کے پیچھے دَوڑا دیا۔ مگر راستہ میں گھوڑے نے زور سے ٹھوکر کھائی اور سراقہ گر گیا۔ سراقہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنا واقعہ خود اس طرح بیان کرتا ہے کہ جب میں گھوڑے سے گرا تو میں نے عربوں کے دستور کے مطابق اپنے تیروں سے فال نکالی اور فال بُری نکلی۔ مگرانعام کے لالچ کی وجہ سے میں پھر گھوڑے پر سوار ہو کر پیچھے دوڑا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وقار کے ساتھ اپنی اُونٹنی پر سوار چلے جا رہے تھے۔ اُنہوں نے مڑ کر مجھے نہیں دیکھا ، لیکن ابوبکرؓ (اِس ڈر سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گزند نہ پہنچے) بار بار منہ پھیر کر مجھے دیکھتے تھے۔ جب دوسری دفعہ میں اُن کے قریب پہنچا تو پھر میرے گھوڑے نے زور سے ٹھوکر کھائی اور میں گر گیا۔ اِس پر پھر میں نے اپنے تیروں سے فال لی اور فال خراب نکلی۔ میں نے دیکھا کہ ریت میں گھوڑے کے پائوں اتنے دھنس گئے تھے کہ اُن کا نکالنا مشکل ہو رہا تھا۔ تب میں نے سمجھا کہ یہ لوگ خد اکی حفاظت میں ہیں اور میں نے اُنہیں آواز دی کہ ٹھہرو اور میری بات سنو! جب وہ لوگ میرے پاس آئے تومیں نے اُنہیں بتایا کہ میں اِس ارادہ سے یہاں آیا تھا مگر اب میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے اور میں واپس جا رہا ہوں، کیونکہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا جائو، مگر دیکھو کسی کو ہمارے متعلق خبر نہ دینا۔ اُس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ چونکہ یہ شخص سچا معلوم ہوتا ہے اِس لئے ضرور ہے کہ ایک دن کامیاب ہو۔ اِس خیال کے آنے پر میں نے درخواست کی کہ جب آپ کو غلبہ حاصل ہو گا اُس زمانہ کے لئے مجھے کوئی امن کا پروانہ لکھ دیں۔ آپ نے عامر بن فہیرہ حضرت ابوبکر کے خادم کو ارشاد فرمایا کہ اِسے امن کا پروانہ لکھ دیا جائے۔ ۲۳۴؎ چنانچہ اُنہوں نے امن کا پروانہ لکھ دیا۔ جب سراقہ لوٹنے لگا تو معاً اللہ تعالیٰ نے سراقہ کے آئندہ حالات آپؐ پر غیب سے ظاہر فرمادئیے اور اُن کے مطابق آپ نے اُسے فرمایا۔ سراقہ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا، کسریٰ بن ہرمز شہنشاہِ ایران کے؟ آپ نے فرمایا ہاں! ۲۳۵؎ آپ کی یہ پیشگوئی کوئی سولہ سترہ سال کے بعد جا کر لفظ بلفظ پوری ہوئی۔
سراقہ مسلمان ہو کر مدینہ آگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے حضرت ابوبکرؓ پھر حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے۔ اسلام کی بڑھتی ہوئی شان کو دیکھ کر ایرانیوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دئیے اور بجائے اسلام کو کچلنے کے خود اسلام کے مقابلہ میں کچلے گئے۔ کسریٰ کا دارالامارۃ اسلامی فوجوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوا اور ایران کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے۔ جو مال اُس ایرانی حکومت کا اسلامی فوجوں کے قبضہ میں آیا اُس میں وہ کڑے بھی تھے جو کسریٰ ایرانی دستور کے مطابق تخت پر بیٹھتے وقت پہنا کرتا تھا۔ سراقہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے اِس واقعہ کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت اُسے پیش آیا تھا مسلمانوں کو نہایت فخر کے ساتھ سنایا کرتا تھا اور مسلمان اِس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسے مخاطب کر کے فرمایا تھا، سراقہ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھ میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ حضرت عمرؓ کے سامنے جب اموالِ غنیمت لا کر رکھے گئے اور اُن میں اُنہو ں نے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو سب نقشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ وہ کمزوری اور ضعف کا وقت جب خد اکے رسول کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا پڑا تھا، وہ سراقہ اور دوسرے آدمیوں کا آپ کے پیچھے اِس لئے گھوڑے دوڑانا کہ آپ کو مار کر یا زندہ کسی صورت میں بھی مکہ والوں تک پہنچا دیں تو وہ سَو اُونٹوں کے مالک ہو جائیں گے اور اُس وقت آپ کا سراقہ سے کہنا سراقہ اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے۔ کتنی بڑی پیشگوئی تھی کتنا مصفّٰی غیب تھا۔ حضرت عمرؓ نے اپنے سامنے کسریٰ کے کنگن دیکھے تو خدا کی قدرت اُن کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی۔ اُنہوں نے کہا سراقہ کو بلائو۔ سراقہ بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے اُنہیں حکم دیا کہ وہ کسریٰ کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں۔ سراقہ نے کہا۔ اے خدا کے رسول کے خلیفہ! سونا پہننا تو مسلمانوں کے لئے منع ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا ہاں منع ہے مگر ان موقعوں کے لئے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دکھائے تھے یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا میں تمہیں سزا دوں گا۔ سراقہ کا اعتراض تو محض شریعت کے مسئلہ کی وجہ سے تھا ورنہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھنے کا خواہش مند تھا۔ سراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لئے اور مسلمانوں نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
آنحضرت ﷺ کا مدینہ منورہ میں ورود
مکہ سے بھاگ کر نکلنے والا رسول اب دنیا کا بادشاہ تھا، وہ خود اِس
دنیا میں موجود نہیں تھا مگر اُس کے غلام اُس کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ سراقہ کو رخصت کرنے کے بعد چند منزلیں طے کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچ گئے مدینہ کے لوگ بے صبری سے آپ کا انتظار کر رہے تھے اور اِس سے زیادہ اُن کی خوش قسمتی اور کیا ہو سکتی تھی کہ وہ سورج جو مکہ کے لئے نکلا تھا مدینہ کے لوگوں پر جا طلوع ہوا۔
جب انہیںیہ خبرپہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے غائب ہیں تو وہ اُسی دن سے آپ کی انتظار کر رہے تھے۔ اُن کے وفد روزانہ مدینہ سے باہر کئی میل تک آپ کی تلاش کے لئے نکلتے تھے اور شام کو مایوس ہو کر واپس آجاتے تھے۔ جب آپ مدینہ کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا کہ پہلے آپ قبا میں جو مدینہ کے پاس ایک گائوں تھا ٹھہریں۔ ایک یہودی نے آپ کی اُونٹنیوں کو آتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ قافلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور اُس نے آواز دی اے قیلہ کی اولاد! (قیلہ مدینہ والوں کی ایک دادی تھی) تم جس کی انتظار میں تھے آگیا ہے۔ اِس آواز کے پہنچتے ہی مدینہ کا ہر شخص قبا کی طرف دَوڑ پڑا۔ قبا کے باشندے اِس خیال سے کہ خد اکا نبی اُن میں ٹھہرنے کے لئے آیا ہے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔
اِس موقع پر ایک ایسی بات ہوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کے کمال پر دلالت کرتی تھی۔ مدینہ کے اکثر لوگ آپ کی شکل سے واقف نہ تھے۔ جب قبا سے باہر آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بھاگتے ہوئے مدینہ سے آپ کی طرف آرہے تھے تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سادگی سے بیٹھے ہوئے تھے اُن میں سے نا واقف لوگ حضرت ابوبکرؓ کو دیکھ کر جو عمر میں گو چھوٹے تھے مگر اُن کی ڈاڑھی میں کچھ سفید بال آئے ہوئے تھے اور اسی طرح اُن کا لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بہتر تھا یہی سمجھتے تھے کہ ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور بڑے ادب سے آپ کی طر ف منہ کر کے بیٹھ جاتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ بات دیکھی تو سمجھ لیا کہ لوگوں کو غلطی لگ رہی ہے۔ وہ جھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہوگئے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ !آپ پر دھوپ پڑ رہی ہے میں آپ پر سایہ کرتا ہوں۲۳۶؎ اور اِس لطیف طریق سے اُنہوں نے لوگوں پر اُن کی غلطی کو ظاہر کر دیا۔ قبا میں دس دن رہنے کے بعد مدینہ کے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ لے گئے۔ جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے مدینہ کے تمام مسلمان کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے سب گلیوں میں نکلے ہوئے آپ کو خوش آمدید کہہ رہے تھے۔ بچے اور عورتیں یہ شعر گا رہے تھے
طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَیْنَا
مِنْ ثَنِیَّاتِ الْوِدَاعِ
وَجَبَ الشُّکْرُ عَلَیْنَا
مَادَعَا لِلّٰہِ دَاعِ
اَیُّھَا الْمَبْعُوْثُ فِیْنَا
جِئْتَ بِالْاَ مْرِ الْمُطَاعِ۲۳۷؎
یعنی چودھویں رات کا چاند ہم پر وداع کے موڑ سے چڑھا ہے اور جب تک خد اکی طرف بلانے والا دنیا میں کوئی موجود رہے ہم پر اس احسان کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے اور اے وہ جس کو خدا نے ہم میں مبعوث کیا ہے تیرے حکم کی پوری طرح اطاعت کی جائے گی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے تھے وہ مشرقی جہت نہیں تھی۔ مگر چودھویں رات کا چاند تو مشرق سے چڑھا کرتا ہے۔ پس مدینہ کے لوگوں کا اشارہ اِس بات کی طرف تھا کہ اصل چاند تو روحانی چاند ہے۔ ہم اِس وقت تک اندھیرے میں تھے اب ہمارے لئے چاند چڑھا ہے اور چاند بھی اُس جہت سے چڑھا ہے جدھر سے وہ چڑھا نہیں کرتا۔ یہ پیر کا دن تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے اور پیر ہی کے دن آپ غارِ ثور سے نکلے تھے اور یہ عجیب بات ہے کہ پیر ہی کے دن مکہ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا۔
جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپ اُس کے گھر میں ٹھہریں۔ جس جس گلی میں سے آپ کی اُونٹنی گزرتی تھی اُس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ!یہ ہمارا گھر ہے اور یہ ہمارا مال ہے اور یہ ہماری جانیںہیں جو آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں یَارَسُوْلَ اللّٰہ! اور ہم آپ کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں آپ ہمارے ہی پاس ٹھہریں۔ بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اُونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تاکہ آپ کو اپنے گھر میں اُتروا لیں۔ مگر آپ ہر ایک شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اُونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خد اتعالیٰ کی طرف سے مأمور ہے یہ وہیں کھڑی ہو گی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہو گا۔ آخر مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جا کر اُونٹنی ٹھہر گئی۔ آپ نے فرمایا خد اتعالیٰ کا یہی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہریں۔۲۳۸؎ پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے؟ زمین کچھ یتیموں کی تھی اُن کا ولی آگے بڑھا اور اُس نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ فلاں فلاں یتیم کی زمین ہے اور آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے آپ نے فرمایا ہم کسی کا مال مفت نہیں لے سکتے۔ آخر اُس کی قیمت مقرر کی گئی اور آپ نے اس جگہ پر مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا۔۲۳۹؎
حضرت ابو ایوبؓ انصاری کے مکان پر قیام
اِس کے بعد آپ نے فرمایا سب سے قریب گھر کس کا
ہے؟ ابو ایوبؓ انصاری آگے بڑھے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے۔ آپ نے فرمایا گھر جائو اور ہمارے لئے کوئی کمرہ تیار کرو۔ ابوایوبؓ کا مکان دو منزلہ تھا اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُوپر کی منزل تجویز کی مگر آپ نے اِس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہو گی نچلی منزل پسند فرمائی۔
انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے جو شدید محبت پیدا ہو گئی تھی، اُس کا مظاہرہ اِس موقع پر بھی ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر حضر ت ابوایوبؓ مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں، لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے نیچے سو رہے ہیں پھر وہ کس طرح اِس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں۔ رات کو ایک برتن پانی کا گر گیا تو اِس خیال سے کہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے حضرت ایوبؓ نے دَوڑ کر اپنا لحاف اُس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا۔ صبح کے وقت پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کئے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر جانا منظور فرما لیا۔ حضرت ابوایوبؓ روزانہ کھانا تیار کرتے اور آپ کے پاس بجھواتے پھر جو آپ کا بچا ہو اکھانا آتا وہ سارا گھر کھاتا۔ کچھ دنوں کے بعد اصرار کے ساتھ باقی انصار نے بھی مہمان نوازی میں اپنا حصہ طلب کیا اور جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر کا انتظام نہ ہو گیا باری باری مدینہ کے مسلمان آپ کے گھر میں کھانا پہنچاتے رہے۔۲۴۰؎
حضرت اَنسؓ خادم آنحضرت ﷺکی شہادت
مدینہ کی ایک بیوہ عورت کا ایک ہی لڑکا اَنسؓ نامی
تھا۔ اُس کی عمر آٹھ سال تھی وہ اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائیں اور کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میرے اِس لڑکے کو اپنی خدمت کے لئے قبول فرمائیں۔ وہ عورت اپنی محبت کی وجہ سے اپنے لڑکے کو قربانی کے لئے پیش کر رہی تھی لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ اُس کا لڑکا قربانی کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کی زندگی کے لئے قبول کیا گیا۔
اَنسؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اِسلام کے بہت بڑے عالم ہوئے اور آہستہ آہستہ بہت بڑے مالدار ہو گئے۔ اُنہوں نے ایک سَوسال سے زیادہ عمر پائی اور اِسلامی بادشاہت میں بہت عزت کی نگاہ کے ساتھ دیکھے جاتے تھے۔ اَنسؓ کا بیان ہے کہ میں نے چھوٹی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا اور آپ کی زندگی تک آپ کے ساتھ رہا کبھی آپ نے مجھ سے سختی کے ساتھ بات نہیں کی، کبھی جھڑکی نہیں دی، کبھی کسی ایسے کام کیلئے نہیں کہا جو میری طاقت سے باہر ہو۔۲۴۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامِ مدینہ کے ایام میں صرف اَنسؓ سے خدمت لینے کا موقع ملا اور اَنسؓ کی شہادت اِس بارہ میں آپ کے اخلاق پر نہایت تیز روشنی ڈالنے والی ہے۔
مکہ سے اہل وعیال کو بُلوانا مسجد نبوی کی بنیاد رکھنا
کچھ عرصہ کے بعد آپ نے اپنے آزاد کردہ
غلام زیدؓ کو مکہ میںبھجوایا کہ وہ آپ کے اہل وعیال کو لے آئے۔ چونکہ مکہ والے اِس اچانک ہجرت کی وجہ سے کچھ گھبراگئے تھے اِس لئے کچھ عرصہ تک مظالم کا سلسلہ بند رہا اور اسی گھبراہٹ کی وجہ سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکرؓ کے خاندان کے مکہ چھوڑنے میں مزاحم نہیں ہوئے اور یہ لوگ خیریت سے مدینہ پہنچ گئے۔ اِس عرصہ میں جو زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدی تھی سب سے پہلے وہاں آپ نے مسجد کی بنیاد رکھی۲۴۲؎ اور اس کے بعد اپنے لئے اور اپنے ساتھیوں کے لئے مکان بنوائے جس پر کوئی سات مہینے کا عرصہ لگا۔
مدینہ کے مشرک قبائل کا اِسلام میں داخل ہونا
مدینہ میں آپ کے داخلہ کے بعد چندہی دن میں
مدینہ کے مشرک قبائل میں سے اکثر لوگ مسلمان ہو گئے، جو دل سے مسلمان نہ ہوئے تھے وہ ظاہری طور پر مسلمانوں میں شامل ہوگئے اور اس طرح پہلی دفعہ مسلمانوں میں منافقوں کی ایک جماعت قائم ہوئی جو بعد کے زمانہ میں کچھ تو سچے طور پر ایمان لے آئی اور کچھ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف منصوبے اور سازشیں کرتی رہی۔ کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ظاہر میں بھی اِسلام نہ لائے مگر یہ لوگ مدینہ میں اِسلام کی شوکت کو برداشت نہ کر سکے اور مدینہ سے ہجرت کر کے مکہ چلے گئے۔ اس طرح مدینہ دنیا کا پہلا شہرتھا جس میں خالصتہً خدائے واحد کی عبادت قائم کی گئی۔ یقینا اُس وقت دنیا کے پردہ پر اس شہر کے سوا اور کوئی شہریا گائوں خالصتہً خدائے واحد کی عبادت کرنے والا نہیں تھا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ کتنی بڑی خوشی اور اُن کے ساتھیوں کی نگاہوں میں یہ کتنی عظیم الشان کامیابی تھی کہ مکہ سے ہجرت کرنے کے چند دنوں بعد ہی خد اتعالیٰ نے اُن کے ذریعہ سے ایک شہر کو پورے طور پر خدائے قادر کا پرستار بنا دیا جس میں اور کسی بت کی پوجا نہیں کی جاتی تھی، نہ ظاہری بت کی نہ باطنی بت کی لیکن اس تبدیلی سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مسلمانوں کے لئے اب امن آگیا تھا۔ مدینہ میں عربوں میںسے بھی ایک جماعت منافقوں کی ایسی موجود تھی جو آپ کی جان کی دشمن تھی اور یہود بھی ریشہ دوانیاں کر رہے تھے۔ چنانچہ اِس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے آپ خود بھی چوکس رہتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو بھی چوکس رہنے کی تاکید کرتے تھے۔ شروع میں بعض دن ایسے بھی آئے کہ آ پ کو رات بھر جاگنا پڑا۔ ایک دفعہ ایسی ہی حالت میں جب آپ کو جاگتے رہنے سے تھکان محسوس ہوئی تو آپ نے فرمایا اِس وقت کوئی مخلص آدمی پہرہ دیتا تو میں سو جاتا۔ تھوڑی ہی دیر میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی آپ نے پوچھا کون ہے؟ تو آواز آئی یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں سعد بن وقاص ہوں جو آپ کا پہرہ دینے کے لئے آیا ہوں۔۲۴۳؎ اِس پر آپ نے آرام فرمایا۔ انصار کو خود بھی یہ محسوس ہو رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کی رہائش ہم پر بہت بڑی ذمہ واری ڈالتی ہے اور یہ کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ نہیں چنانچہ انہوںنے باہمی فیصلہ کر کے مختلف قبائل کی باریاں مقرر کر دیں۔ ہر قبیلہ کے کچھ لوگ باری باری آپ کے گھر کا پہرہ دیتے تھے۔
غرض مکی زندگی اور مدنی زندگی میں اگر کوئی فرق تھا تو صرف یہ کہ اب مسلمان خدا کے نام پر قائم کی ہوئی مسجد میں بغیر دوسرے لوگوں کی دخل اندازی کے پانچوں وقت نمازیں پڑھ سکتے تھے۔
مکہ والوں کی مسلمانوں کو دوبارہ دُکھ دینے کی تدبیریں
دو تین مہینے گزرنے کے بعد مکہ کے لوگوں کی پریشانی دُور ہوئی اور اُنہوں نے نئے سرے سے مسلمانوں کو دکھ دینے کی تدابیر سوچنی شروع
کیں۔ مگر مشورہ کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ صرف مکہ اور گرد و نواح میں مسلمانوں کو تکلیف دینا اُنہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں کر سکتا۔ وہ اِسلام کو تبھی مٹا سکتے ہیں جب مدینہ سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکلوا دیں۔چنانچہ یہ مشورہ کرکے مکہ کے لوگوں نے عبداللہ ابن ابی بن سلول کے نام جس کی نسبت پہلے بتایا جا چکا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینہ والوں نے اُسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا خط لکھا اور اسے توجہ دلائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ جانے کی وجہ سے مکہ کے لوگوں کو بہت صدمہ ہوا ہے۔ مدینہ کے لوگوں کو چاہئے نہیں تھا کہ وہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو پناہ دیتے۔ اِس کے آخر میں یہ الفاظ تھے’’ اِنَّکُمْ اٰوَیْتُمْ صَاحِبَنَا وَاِنَّا نُقْسِمُ بِاللّٰہِ لَتُقَاتِلَنَّہٗ اَوْتُخْرِجَنَّہٗ اَوْلَنُسَیِّرَنَّ اِلَیْکُمْ بِاَجْمَعِنَا حَتّٰی نَقْتُلَ مُقَاتِلَتَکُمْ وَنَسْتَبِیْحَ نِسَائَ کُمْ۔‘‘ ۲۴۴؎ یعنی اب جبکہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنے گھروں میں پناہ دی ہے ہم خد اتعالیٰ کی قسم کھا کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ یاتو تم مدینہ کے لوگ اس کے ساتھ لڑائی کر و یا اُسے اپنے شہر سے نکال دو نہیں تو ہم سب کے سب مل کر مدینہ پر حملہ کریں گے اور مدینہ کے تمام قابل جنگ آدمیوں کو قتل کر دیںگے اورعورتوں کو لونڈیاں بنا لیں گے۔ اِس خط کے ملنے پر عبداللہ ابن ابی بن سلول کی نیت کچھ خراب ہو ئی اور اُس نے دوسرے منافقوں سے مشورہ کیا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے یہاںر ہنے دیا تو ہمارے لئے خطرات کا دروازہ کھل جائے گا اِس لئے چاہئے کہ ہم آپ کے ساتھ لڑائی کریں اور مکہ والوں کو خوش کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع مل گئی اور آپ عبداللہ ابن ابی بن سلول کے پاس گئے اور اُسے سمجھایا کہ تمہارا یہ فعل خود تمہارے لئے ہی مضر ہو گا۔ کیونکہ تم جانتے ہو کہ مدینہ کے بہت سے لوگ مسلمان ہو چکے ہیں اور اِسلام کے لئے جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اگر تم ایساکرو گے تو وہ لوگ یقینا مہاجرین کے ساتھ ہوں گے اور تم لوگ اِس لڑائی کو شروع کر کے بالکل تباہ ہو جائو گے۔ عبداللہ ابن ابی بن سلول پر اپنی غلطی کھل گئی اور وہ اِس ارادہ سے باز آگیا۔
انصار و مہاجرین میں مؤاخات
اِنہی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور تدبیر اِسلام کی مضبوطی کے لئے اختیار
کی اور وہ یہ کہ آپ نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور دو دو آدمیوں کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا۔اِس مؤاخات یعنی بھائی چارے کا انصار نے ایسی خوشدلی سے استقبال کیا کہ ہر انصاری اپنے بھائی کو اپنے گھر پر لے گیا اور اپنی جائیداد اُس کے سامنے پیش کردی کہ اُسے نصف نصف بانٹ لیا جائے۔ ایک انصاری نے تو یہاں تک حد کر دی کہ اپنے مہاجر بھائی سے اصرار کیا کہ میں اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں تم اُس سے شادی کر لو۔۲۴۵؎ مگر مہاجرین نے اُ ن کے اِس اخلاص کا شکریہ ادا کر کے اُن کی جائیدادوں میں سے حصہ لینے سے انکار کر دیا۔ مگر پھر بھی انصار مصر رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب یہ مہاجرین ہمارے بھائی ہو گئے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے مال میں حصہ دار نہ ہوں۔ ہاں چونکہ یہ زمیندارہ سے واقف نہیں اور تاجر پیشہ لوگ ہیں اگر یہ ہماری زمینوں سے حصہ نہیں لیتے تو پھر ہماری زمینوں کی جو آمدنیاں ہوں اِس میں ضرور ان کو حصہ دار بنایا جائے۔ مہاجرین نے اِس پر بھی اُن کے ساتھ حصہ دار بننا پسند نہ کیا اور اپنے آبائی پیشہ تجارت میں لگ گئے اور تھوڑے ہی دنوں میں اُ ن میں سے کئی مالدار ہو گئے۔ مگر انصار اِس حصہ بٹانے پر اتنے مصر تھے کہ بعض انصار جو فوت ہوئے اُن کی اولادوں نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے مہاجر بھائیوں کو مرنے والے کی جائیداد میں سے حصہ دیا اور کئی سال تک اس پر عمل ہوتا رہا۔ یہاں تک کہ قرآن کریم میں اِس عمل کی منسوخی کا ارشاد نازل ہوا۔
مہاجرین و انصار اور یہود کے مابین معاہدہ
علاوہ مسلمانوں کو بھائی بھائی بنانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اہل مدینہ کے درمیان ایک معاہدہ کرایا۔ آپ نے یہودیوں اور عربوں کے سرداروں کو جمع کیا اور فرمایا۔
پہلے یہاں صرف دو گروہ تھے مگر اب تین گروہ ہو گئے ہیں۔ یعنی پہلے تو صرف یہود اور مدینہ کے عرب یہاں بستے تھے مگر اب یہود، مدینہ کے عرب اور مکہ کے مہاجر تین گروہ ہو گئے ہیں۔ اِس لئے چاہئے کہ آپس میںایک صلح نامہ قائم ہوجائے۔ چنانچہ آپس کے سمجھوتے کے ساتھ ایک معاہدہ لکھا گیا اس معاہدہ کے الفاظ یہ ہیں:۔
’’ معاہدہ مابین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،مؤمنوں اور اُن تمام لوگوں کے جو اُن سے بخوشی مل جائیں۔
مہاجرین سے اگر کوئی قتل ہو جائے تو وہ اُس کے خون کا ذمہ دار خود ہوں گے اور اپنے قیدیوں کو خود چھڑائیں گے اورمدینہ کے مختلف مسلمان قبائل بھی اسی طرح اِن امور میں اپنے قبائل کے ذمہ دار ہوں گے۔ جو شخص بغاوت پھیلائے یا دشمنی پیدا کرے اور نظام میں تفرقہ ڈالے تمام معاہدین اُس کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے۔ خواہ وہ اُن کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اگر کوئی کافر مسلمان کے ہاتھ سے لڑائی میں مارا جائے تو اُس کے مسلمان رشتہ دار مسلمان سے بدلہ نہیں لیں گے اور نہ کسی مسلمان کے مقابلہ میں ایسے کافر کی مدد کریں گے۔ جو کوئی یہودی ہمارے ساتھ مل جائے اس کی ہم سب مدد کریں گے۔ یہودیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دی جائے گی نہ کسی دشمن کی اُن کے خلاف مدد کی جائے گی۔ کوئی غیر مؤمن مکہ کے لوگوں کو اپنے گھر میں پناہ نہیں دے گا نہ اُن کی جائداد اپنے پاس امانت رکھے گا اورنہ کافروں اور مؤمنوں کی لڑائی میں کسی قسم کی دخل اندازی کرے گا۔ اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو ناجائز طور پر مار دے تو تمام مسلمان اُس کے خلاف متحدہ کوشش کریں گے۔ اگر ایک مشرک دشمن مدینہ پر حملہ کرے تو یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور بحصۂ رسدی خرچ برداشت کریں گے۔ یہودی قبائل جو مدینہ کے مختلف قبائل کے ساتھ معاہدہ کر چکے ہیں اُن کے حقوق مسلمانوں کے سے حقوق ہوں گے۔ یہودی اپنے مذہب پر قائم رہیں گے اور مسلمان اپنے مذہب پر قائم رہیںگے۔ جو حقوق یہودیوں کو ملیں گے وہی ان کے اتباع کو بھی ملیں گے۔ مدینہ کے لوگوں میں سے کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی لڑائی شروع نہیں کرسکے گا لیکن اِس شرط کے ماتحت کوئی شخص اُس کے جائز انتقام سے محروم نہیں کیا جائے گا۔ یہودی اپنی تنظیم میں سے اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے اور مسلمان اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے لیکن لڑائی کی صورت میں وہ دونوں مل کر کام کریںگے۔ مدینہ اُن تمام لوگوں کے لئے جو اس معاہدہ میں شامل ہوتے ہیں ایک محترم جگہ ہوگی۔ جو اجنبی کہ شہر کے لوگوں کی حمایت میں آجائیں اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک ہو گا جو اصل باشد گانِ شہر کے ساتھ ہوگا۔ لیکن مدینہ کے لوگو ںکو یہ اجازت نہ ہو گی کہ کسی عورت کو اُس کے رشتہ داروں کی مرضی کے بغیر اپنے گھروں میں رکھیں۔ جھگڑے اور فساد خدا اور اُس کے رسول کے پاس فیصلہ کے لئے پیش کئے جائیں گے۔ مکہ والوں اور اُن کے حلیف قبائل کے ساتھ اِس معاہدہ میں شامل ہونے والے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے، کیونکہ اِس معاہدہ میں شامل ہونے والے مدینہ کے دشمنوں کے خلاف اِس معاہدہ کے ذریعہ سے اتفاق کر چکے ہیں۔ جس طرح جنگ علیحدہ نہیں کی جاسکے گی اِسی طرح صلح بھی علیحدہ نہیں کی جا سکے گی۔ لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ لڑائی میں شامل ہو۔ ہاں اگر کوئی شخص ظلم کا کوئی فعل کرے گا تو وہ سزا کا مستحق ہو گا۔ یقینا خدا نیکوں اور دینداروں کا محافظ ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) خد ا کے رسول ہیں‘‘۔۲۴۶؎
یہ معاہدہ کا خلاصہ ہے۔ اِس معاہدہ میں بار بار اِس بات پر زور دیا گیا تھا کہ دیانتداری اور صفائی کوہاتھ سے نہیں چھوڑا جائے گا اور ظالم اپنے ظلم کا خود ذمہ دار ہو گا۔ اِس معاہدہ سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ یہودیوں کے ساتھ اور مدینہ کے اُن باشندوں کے ساتھ جو اِسلام میں شامل نہ ہوں محبت، پیار اور ہمدردی کا سلوک کیا جائے گا اور انہیں بھائیوں کی طرح رکھا جائے گا۔ پس بعد میں یہود کے ساتھ جس قدر جھگڑے پید اہوئے اُن کی ذمہ داری خالصۃً یہود پر تھی۔
اہل مکہ کی طرف سے از سر نو شرارتوں کا آغاز
جیساکہ بتایا جاچکا ہے کہ دو تین مہینہ کے بعد
مکہ والوں کی پریشانی جب دور ہوئی تو اُنہوںنے پھر سے اِسلام کے خلاف ایک نیا محاذ قائم کیا۔ چنانچہ انہی ایام میں مدینہ کے ایک رئیس سعد بن معاذ جو اوس قبیلہ کے سردار تھے بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے مکہ گئے تو ابوجہل نے اُن کو دیکھ کر بڑے غصہ سے کہا کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ اُس مرتد ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کو پناہ دینے کے بعد تم لوگ امن کے ساتھ کعبہ کا طواف کر سکو گے اور تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم اُس کی حفاظت اور امداد کی طاقت رکھتے ہو۔ خدا کی قسم! اگر اِس وقت تیرے ساتھ ابوصفوان نہ ہوتا تو تُو اپنے گھر والوں کے پاس بچ کر نہ جا سکتا۔سعد بن معاذ نے کہا۔ وَاللّٰہِ! اگر تم نے ہمیں کعبہ سے روکا تو یاد رکھو پھر تمہیں بھی تمہارے شامی راستہ پرامن نہیں مل سکے گا۔ اُنہی دنوں میں ولید بن مغیرہ مکہ کا ایک بہت بڑا رئیس بیمار ہوا اور اُس نے محسوس کیا کہ اُس کی موت قریب ہے۔ ایک دن مکہ کے بڑے بڑے رئیس اُس کے پاس بیٹھے تھے تو وہ بے اختیار ہو کر رونے لگ گیا۔ مکہ کے رئوساء حیران ہوئے اور اُس سے پوچھا کہ آخر آپ روتے کیوں ہیں؟ ولید نے کہا کیا تم سمجھتے ہو کہ میں موت کے ڈر سے روتا ہوں وَاللّٰہِ! ایسا ہر گز نہیں، مجھے تو یہ غم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا دین پھیل جائے اور مکہ بھی اِس کے قبضہ میں چلا جائے۔ ابوسفیان نے جواب میں کہا۔ اِس بات کا غم نہ کرو جب تک ہم زندہ ہیں ایسا نہیں ہوگا ہم اِس بات کے ضامن ہیں ۔
اِن تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ مکہ کے لوگوں کے مظالم میں جو وقفہ ہوا تھا وہ عارضی تھا۔ دوبارہ قوم کو اُکسایا جا ررہا تھا۔ مرنے والے رئوساء موت کے بستر پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی قسمیں لے رہے تھے۔ مدینہ کے لوگوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑائی پر آمادہ کیا جار ہا تھا اوراُن کے انکار پر دھمکیاں دی جار ہی تھیں کہ مکہ والے اور اُن کے حلیف قبائل لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کریں گے او رمدینہ کے مردوں کو ماردیں گے اورعورتوں کو غلام بنا لیں گے۔
آنحضرت ﷺ کی مدافعانہ تدابیر
پس اِن حالات میں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں خاموش بیٹھے رہتے
اور مدینہکی حفاظت کا کوئی سامان نہ کرتے تو یقینا آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عاید ہوتی۔ پس آپ نے چھوٹے چھوٹے وفدوں کی صورت میں اپنے صحابہ کو مکہ کے اِردگرد بجھوانا شروع کیا تاکہ مکہ والوں کی کارروائیوں کا آپ کو علم ہوتا رہے۔بعض دفعہ اِن لوگوں کی مکہ کے قافلوں یا مکہ کی بعض جماعتوں سے مٹھ بھیڑ بھی ہوجاتی اور ایک دوسرے کو دیکھ لینے کے بعد لڑائی تک بھی نوبت پہنچ جاتی۔ مسیحی مصنف لکھتے ہیں کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چھیڑ چھاڑ تھی۔ کیا مکہ میں تیرہ سال تک جو مسلمانوں پر ظلم کیا گیا اور مدینہ کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنے کی جو کوشش کی گئی اور پھر مدینہ پر حملہ کرنے کی جو دھمکیاں دی گئیں، اِن واقعات کی موجودگی میں آپ کا خبردار رہنے کے لئے وفود بھجوانا کیا چھیڑ چھاڑ کہلا سکتا ہے؟ کونسا دنیا کا قانون ہے جو مکہ کے تیرہ سال کے مظالم کے بعد بھی مسلمانوں اور اہل مکہ میں لڑائی چھیڑنے کے لئے کسی مزید وجہ کی ضرورت سمجھتا ہو۔ آج مغربی ممالک اپنے آپ کو بہت ہی مہذب سمجھتے ہیں۔ جو کچھ مکہ میں ہوا کیا اُن سے نصف واقعات پر بھی کوئی قوم لڑے تو کوئی شخص اُسے مجرم قرار دے سکتا ہے؟ کیا اگر کوئی حکومت کسی دوسرے ملک کے لوگوں کو ایک جماعت کے قتل کرنے یا اپنے ملک سے نکال دینے پر مجبور کرے تو اُس جماعت کو حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اُس سے لڑائی کا اعلان کرے؟ پس مدینہ میں اِسلامی حکومت کے قیام کے بعد کسی نئی وجہ کے پیدا ہونے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ مکی زندگی کے واقعات مسلمانوں کو پورا حق دیتے تھے کہ وہ مکہ والوں سے جنگ کا اعلان کر دیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔ اُنہوں نے صبر کیا اور صرف دشمنوں کی شرارتوں کا پتہ لگاتے رہنے کی حد تک اپنی کوششیں محدود رکھیں۔ مگر جب مکہ والوں نے خود مدینہ کے عربوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکایا، مسلمانوں کو حج کرنے سے روک دیا اور اُن کے ان قافلے نے جو شام میں تجارت کے لئے جاتے تھے انہوں نے اپنے اصل راستے کو چھوڑ کر مدینہ کے اِردگرد کے قبائل میں سے ہو کر گزرنا اور ان کو مدینہ والوں کے خلاف اُکسانا شروع کیا تو مدینہ کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کا بھی فرض تھا کہ وہ اس لڑائی کے چیلنج کو جو مکہ والے متواتر چودہ سال سے انہیں دے رہے تھے قبول لیتے اور دنیا کے کسی شخص کو حق حاصل نہیں کہ وہ چیلنج کے قبول کرنے پر اعتراض کرے۔
مدینہ میں اِسلامی حکومت کی بنیاد
جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیرونی حالات کی خبرگیری کر رہے تھے وہاں آپ مدینہ
کی اصلاح سے بھی غافل نہیں تھے۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ مدینہ کے مشرک اکثر اخلاص کے ساتھ اور بعض منافقت کے ساتھ مسلمان ہو چکے تھے اِس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسلامی طریق حکومت کو اُن میں قائم کرنا شروع کیا۔ پہلے عرب کے دستور کے مطابق لوگ لڑ بھڑ کر اپنے حقوق کا فیصلہ کرلیا کرتے تھے۔ اب باقاعدہ قاضی مقرر کئے گئے جن کے فیصلہ کے بغیر کوئی شخص اپنا حق دوسرے سے حاصل نہیں کر سکتا تھا۔ پہلے مدینہ کے لوگوں کو علم کی طرف توجہ نہیں تھی اب اِس بات کا انتظام کیا گیا کہ پڑھے لکھے لوگ اَن پڑھوں کو پڑھانا شروع کریں۔ ظلم، تعدی اور بے انصافی روک دی گئی۔ عورتوں کے حقوق کو قائم کیا گیا۔ شریعت کے مطابق تمام مالداروں پر ٹیکس مقرر کئے گئے جو غرباء پر خرچ کئے جاتے تھے اور شہر کی عام حالت کی ترقی کے لئے بھی استعمال کئے جاتے تھے۔ مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کی گئی۔ لاوارثوں کے لئے باقاعدہ تعلیموں کا انتظام کیا گیا۔ لین دین میں تحریر اور معاہدہ کی پابندیاں مقرر کی گئیں۔ غلاموں پر سختی کو سختی سے روکا جانے لگا۔ صفائی اور حفظانِ صحت کے اصول پر زور دیا جانے لگا۔ مردم شماری کی ابتدا کی گئی۔ گلیوں اور سڑکوں کے چوڑا کرنے کے احکام جاری کئے گئے۔ سڑکوں کی صفائی کے متعلق احکام جاری کئے گئے۔ غرض عائلی اور شہری زندگی کے تمام اصول مدوّن کئے گئے اوراُن کو باقاعدگی سے جاری کرنے کے لئے تدابیر اختیار کی گئیں اور عرب پہلی دفعہ منظم اور مہذب سوسائٹی کے اصول سے روشناس ہوئے۔
اِدھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے لئے ایک ایسا قانون پیش کر رہے تھے جو نہ صرف اُس زمانہ کے لئے بلکہ ہمیشہ کیلئے اور نہ صرف اُن کے لئے بلکہ دنیا کی دوسری اقوام کیلئے بھی عزت، شرف، امن اور ترقی کا موجب تھا۔ اُدھر مکہ کے لوگ اِسلام کے خلاف باقاعدہ جنگ کی تیاریاں کرنے میں مشغول تھے جس کا نتیجہ بدر کی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوا۔
قریش کے تجارتی قافلہ کی آمد اور غزوہ بدر
ہجرت کے تیرھویں مہینے میںشام سے ایک تجارتی قافلہ ابو سفیان کی سرگردگی میں آ رہا تھا کہ اُس کی حفاظت کے بہانہ سے مکہ والوں نے ایک زبردست لشکر مدینہ کی طرف
لے جانے کا فیصلہ کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اِس کی اطلاع مل گئی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر وحی ہوئی۔ اب وقت آگیا ہے کہ دشمن کے ظلم کا اُس کے اپنے ہتھیار کے ساتھ جواب دیا جائے۔ چنانچہ آپ مدینہ کے چند ساتھیوں کو لے کر نکلے۔ جب آپ مدینہ سے نکلے ہیں اُس وقت تک یہ ظاہر نہ تھا کہ آیا مقابلہ قافلہ والوں سے ہو گا یا اصل لشکر سے، اِس لئے تین سَو آدمی آپؐ کے ساتھ مدینہ سے نکلے۔
یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قافلہ سے مراد مال سے لدے ہوئے اُونٹ تھے بلکہ مکہ والے اِن قافلوں کے ساتھ ایک مضبوط فوجی جتھہ بھجوایا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ اِن قافلوں کے ذریعہ سے مسلمانوں کو مرعوب بھی کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ اِس قافلہ سے پہلے دو قافلوں کا ذکر تاریخ میں آتا ہے کہ اُن میں سے ایک کی حفاظت پر دو سَو سپاہی مقرر تھا اور دوسرے کی حفاظت پر تین سَو سپاہی مقررتھا۔ پس اِن حالات میں مسیحی مصنفوں کا یہ لکھنا کہ تین سَو سپاہی لے کر آپ مکہ کے ایک نہتے قافلہ کو لوٹنے کے لئے نکلے تھے محض دھوکا دہی کے لئے ہے۔ یہ قافلہ چونکہ بہت بڑا تھا اِس لئے پہلے قافلوں کے حفاظتی دستوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا چاہئے کہ اُس کے ساتھ چار پانچ سَو سوار ضرور موجود ہو گا۔ اتنے بڑے حفاظتی دستہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے اگر اِسلامی لشکر جو صرف تین سَو آدمیوں پر مشتمل تھا اور جن کے پاس پورا سازو سامان بھی نہ تھا نکلا تو اُسے لوٹ کا نام دینا محض تعصب، ضد اور بے انصافی ہی کہلا سکتا ہے۔ اگر صرف اس قافلہ کا سوال ہوتاتب بھی اُس سے لڑائی جنگ ہی کہلاتی اور جنگ بھی مدافعانہ جنگ کیونکہ مدینہ کا لشکر کمزور تھا اور صرف اِسی فتنہ کو دور کرنے کے لئے نکلا تھا جس کی اِردگرد کے قبائل کو شرارت پر اُکسا کر مکہ کے قافلے بنیاد رکھ رہے تھے۔ مگر جیساکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ الٰہی منشاء بھی تھا کہ قافلہ سے نہیں بلکہ اصل مکی لشکر سے مقابلہ ہو اور صرف مسلمانوں کے اخلاص اور اُن کے ایمان کو ظاہر کرنے کے لئے پہلے سے اِس امر کا اظہار نہ کیا گیا۔ جب مسلمان بغیر پوری تیاری کے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے تو کچھ دور جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ پر ظاہر کیا کہ الٰہی منشاء یہی ہے کہ مکہ کے اصل لشکر سے مقابلہ ہو۔ لشکر کے متعلق مکہ سے جو خبریں آچکی تھیں اُن سے معلوم ہوتا تھا کہ لشکر کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے اور پھر وہ سب کے سب تجربہ کار سپاہی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آنے والے لوگ صرف ۳۱۳ تھے اور اُن میں سے بھی بہت سے ایسے تھے جو لڑائی کے فن سے ناواقف تھے۔ پھر سامانِ جنگ بھی اُن کے پاس پورا نہ تھا۔ اکثر یا توپیدل تھے یا اُونٹوں پرسوار تھے۔ گھوڑا صرف ایک تھا۔ اِس چھوٹے سے لشکر کے ساتھ جو بے سروسامان بھی تھا ایک تجربہ کار دشمن کا مقابلہ جو تعداد میں اُن سے تگنے سے بھی زیادہ تھا نہایت ہی خطرناک بات تھی اس لئے آپ نے نہ چاہا کہ کوئی شخص اُس کی مرضی کے خلاف جنگ پر مجبور کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ اب قافلہ کا کوئی سوال نہیں صرف فوج ہی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ وہ اِس بارہ میں آپ کو مشورہ دیں۔ ایک کے بعد دوسرامہاجر کھڑا ہوا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ کر آیا ہے تو ہم اُس سے ڈرتے نہیں ہم اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ہر ایک کا جواب سن کر آپ یہی فرماتے چلے جاتے مجھے اور مشورہ دو مجھے اور مشورہ دو۔ مدینہ کے لوگ اُس وقت تک خاموش تھے اِس لئے کہ حملہ آورفوج مہاجرین کی رشتہ دار تھی۔ وہ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ اُن کی بات سے مہاجرین کا دل دُکھے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ!مشورہ توآپ کومل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم باشندگانِ مدینہ سے ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں! اُس سردار نے جواب میں کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب کر رہے ہیں کہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اب اِس وقت آپ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں اور شاید وہ معاہدہ اِن حالات کے ماتحت قائم نہیں رہتا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت تک ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب جبکہ ہم پر آپ کا مرتبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال نہیں۔ ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے اِذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلاَاِنَّا ھٰھُنَاقَا عِدُوْنَتو اور تیرا ربّ جائو اور دشمن سے جنگ کرتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں، بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اوربائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اوریَا رَسُوْلَ اللّٰہ! دشمن جو آپ کو نقصان پہنچانے کیلئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے۔۲۴۷؎ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!جنگ تو ایک معمولی بات ہے، یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے آپ ہمیں حکم دیجئے کہ سمند رمیں اپنے گھوڑے ڈال دو اورہم بِلا دریغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔ ۲۴۸؎
یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کوئی سابق نبی پیش نہیں کر سکتا۔ موسیٰ کے ساتھیوں کا حوالہ تو اُن لوگوں نے خود ہی دے دیا تھا حضرت مسیح کے حواریوں نے دشمن کے مقابلہ میں جو نمونہ دکھایا انجیل اِس پر گواہ ہے۔ ایک نے تو چند روپوں پر اپنے اُستاد کو بیچ دیا۔ دوسرے نے اُس پر *** کی اور باقی دس اُ س کو چھوڑ کر اِدھر سے اُدھر بھاگ گئے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھی صرف ڈیڑھ سال کی صحبت کے بعد ایمان میں اتنے پختہ ہو گئے کہ وہ اُن کے کہنے پر سمندر میں کودنے کے لئے بھی تیار تھے۔
یہ مشورہ محض اِس غرض سے تھا تاکہ جو لوگ ایمان کے کمزور ہوں اُن کو واپس جانے کی اجازت دے دی جائے لیکن جب مہاجرین و انصار نے ایک دوسرے سے بڑھ کر اخلاص اور ایمان کا نمونہ دکھایا اور دونوں فریق نے اِ س بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ خد اکے وعدوں کے باوجود تعداد میں دشمن سے ایک تہائی ہونے کے اور باوجود سامانوں کے لحاظ سے دشمنوں سے کئی گنا کم ہونے کے بے غیرتی دکھاتے ہوئے جنگ سے پیٹھ نہیں دکھائیں گے بلکہ خد اتعالیٰ کے دین کی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں خوشی سے جان دے دیں گے۔ تو آپ آگے بڑھے۔ جب آپ بدر کے مقام پر پہنچے تو ایک صحابی کے مشورہ سے دشمن کے قریب جا کر بدر کے چشمہ پر اِسلامی لشکر اُتار دیا گیا۔ لیکن اِس طرح گو پانی پر تو قبضہ ہو گیا مگر وہ میدان جو مسلمانوں کے حصہ میں آیا بوجہ ریتلا ہونے کے جنگی حرکات کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوا اور صحابہ گھبرا گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات دعا کرتے رہے اور بار بار خدا تعالیٰ سے یہ عرض کرتے تھے کہ اے میرے ربّ!ساری دنیا کے پردہ پر صرف یہی لوگ تیری عبادت کرنے والے ہیں۔ اے میرے رب! اگر یہ لوگ آج اِس لڑائی میں مارے گئے تو تیرا نام لینے والا اس دنیا میں کون باقی رہے گا۔۲۴۹؎
اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعائوں کو سنا اور رات کو بارش ہو گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس میدان میں وہ مسلمان تھے بوجہ ریتلا ہونے کے بارش کی وجہ سے جم گیا اور وہ میدان جو کفّار کے قبضہ میں تھا بوجہ چکنی مٹی کا ہونے کے بارش کی وجہ سے نہایت پھسلواں ہو گیا۔ شاید کفّارِ مکہ نے باوجود اُس میدان میں مسلمانوں سے پہلے پہنچ جانے کے اِس لئے اُس میدان کو چنا تھا کہ پختہ مٹی کی وجہ سے اُس میں جنگی حرکات بڑی آسانی کے ساتھ ہو سکتی تھیں اور سامنے کا ریتلا میدان اِس لئے چھوڑ دیا تھا کہ مسلمان وہاں ڈیرہ لگائیں گے اورجنگی حرکات کرتے وقت اُن کے پائوں ریت میں دھنس دھنس جائیں گے مگر خدا تعالیٰ نے راتوں رات پانسہ پلٹ دیا۔ ریتلا میدان ایک جما ہوا پختہ میدان ہو گیا اور پختہ میدان پھسلویں زمین بن گیا۔ رات کو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی اور بتایا کہ تمہارے فلاں فلاں دشمن مارے جائیں گے اور فلاں فلاں جگہ پر مارے جائیں گے۔ چنانچہ جنگ میں ایسا ہی ہوا اور وہ دشمن اُن ہی جگہوں پر جو آپ نے بتائی تھیں مارے گئے۔ جب فوج ایک دوسرے کے مقابلہ میں صف آراء ہوئی اُس وقت جو اخلاص کا نمونہ صحابہؓ نے دکھایا اُس پر مندرجہ ذیل مثال سے خوب روشنی پڑتی ہے۔
اِسلامی لشکر میں جو چند تجربہ کار جرنیل تھے، اُن میں سے ایک حضرت عبدالرحمن بن عوف بھی تھے جو مکہ کے سرداروں میں سے تھے۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ آج مجھ پر بہت سی ذمہ داری عاید ہوتی ہے اور اس خیال سے میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے دائیں بائیں مدینہ کے دو نوجوان لڑکے ہیں تب میرا دل سینہ میں بیٹھ گیا اور میں نے کہا بہادر جرنیل لڑنے کے لئے اِس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اُس کا دایاں اور بایاں پہلو مضبوط ہو، تاکہ وہ دشمن کی صفوں میں دلیری سے گھس سکے، لیکن میرے گرد مدینہ کے ناتجربہ کار لڑکے ہیں میں آج اپنے فن کا مظاہرہ کس طرح کر سکوں گا۔ ابھی یہ خیال میرے دل میں گزرا ہی تھا کہ میرے ایک پہلو میں کھڑے ہوئے لڑکے نے میری پسلی میں کہنی ماری۔ جب میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے میرے کان میں کہا چچا! ہم نے سنا ہے کہ ابوجہل، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبہت دُکھ دیا کرتا تھا، چچا! میرا دل چاہتا ہے کہ میں آج اُس کے ساتھ مقابلہ کروں آپ مجھے بتائیں وہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ابھی میں جواب دینے نہیں پایا تھا کہ میرے دوسرے پہلو میں دوسرے ساتھی نے کہنی ماری اور جب میں اُس کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے بھی آہستہ سے وہی سوال مجھ سے کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اُن کی اِس دلیری پر حیران رہ گیاکیونکہ باوجود تجربہ کار سپاہی ہونے کے میںبھی یہ خیال نہیں کرتا تھا کہ لشکر کے کمانڈر پر اکیلا جا کر حملہ کر سکتا ہوں۔ وہ کہتے ہیں میں نے اُن کے اِس سوال پر اُنگلی اُٹھائی اور کہا وہ شخص جو سر سے پیر تک مسلح ہے اور دشمن کی صفوں کے پیچھے کھڑا ہے اور جس کے آگے دو تجربہ کار جرنیل ننگی تلواریں لئے کھڑے ہیں وہی ابوجہل ہے۔وہ کہتے ہیں ابھی میری اُنگلی نیچے نہیں گری تھی کہ وہ دونوں لڑکے جس طرح عقاب چڑیا پر حملہ کرتا ہے اس طرح چیختے ہوئے کفّار کی صفوں میں گھس گئے۔ اُن کا یہ حملہ ایسا اچانک اور ایسا خلافِ توقع تھا کہ کسی شخص کی تلوار اُن کے خلاف نہ اُٹھ سکی اور وہ تیر کی سی تیزی کے ساتھ ابوجہل تک جا پہنچے۔ اُس کے پہرہ داروں نے اُن پر وار کئے، ایک کا وار خالی گیا اور دوسرے کے وار سے ایک نوجوان کا ہاتھ کٹ گیا۔ لیکن دونوں میں سے کسی نے کوئی پرواہ نہ کی اورصرف ابوجہل کی طرف متوجہ ہوئے اور اُس پر اِس زور سے جا کر حملہ کیا کہ وہ زمین پر گر گیا اور پھر اُنہوںنے اُسے نہایت شدید زخمی کر دیا۔۲۵۰؎ مگر بوجہ تلوار چلانے کا فن نہ جاننے کے اُسے قتل نہ کر سکے۔
اِس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ مظالم جو مکہ کے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے رہے تھے وہ قریب سے دیکھنے والوں کو کتنے بھیانک نظر آتے تھے۔ اب بھی اِن مظالم کو تاریخ میں پڑھ کر ایک شریف آدمی کا دل دھڑکنے لگتا ہے اوررونگٹے کھڑے ہو جا تے ہیں۔ مگر مدینہ کے لوگ تو اُن لوگوں کے منہ سے ان مظالم کی داستانیں سنتے تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے وہ مظالم ہوتے دیکھے۔ ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس اور صلح جو یا نہ زندگی کو دیکھتے تھے دوسری طرف مکہ والوں کے انسانیت سوز مظالم کے واقعات سنتے تھے تو اُن کے دل اِس حسرت سے بھر جاتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی صلح جوئی اور پُرعافیت مزاج کی وجہ سے ان لوگوں کا جواب نہیں دیا کاش! وہ ہمارے سامنے آجائیں تو ہم انہیں بتائیں کہ اگر اُن کے ظلموںکا جواب نہیں دیا گیا تو اِس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلمان کمزور تھے بلکہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو خد اتعالیٰ کی طرف سے اُن کا جواب دینے کی اجازت نہیں تھی۔ مسلمانوں کے دلوں کی کیفیت کا اندازہ اِس سے بھی ہو سکتا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ابوجہل نے ایک بدوی سردار کو اِس بات کے لئے بھیجا کہ وہ اندازہ کرے کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے۔ جب وہ واپس لوٹا تو اُس نے بتایا کہ مسلمان تین سَوا تین سَو کے قریب ہوں گے۔ اِس پر ابوجہل اور اس کے ساتھیوں نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا اب مسلمان ہم سے بچ کر کہاں جاتے ہیں۔ مگر اُس شخص نے کہا۔ا ے مکہ والو! میری نصیحت تم کو یہی ہے کہ تم اِن لوگوں سے نہ لڑو کیونکہ میں نے جتنے آدمی مسلمانوں کے دیکھے ہیں اُن کو دیکھ کر مجھ پر یہی اثر ہوا ہے کہ اُونٹوں پر آدمی سوار نہیں موتیں سوار ہیں۲۵۱؎ یعنی اُن میں سے ہر شخص مرنے کیلئے اِس میدان میں آیا ہے زندہ واپس جانے کے لئے نہیں آیا۔ اور جو شخص موت کو اپنے لئے آسان کر لیتا ہے اور موت سے ملنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اُس کا مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوا کرتی۔
ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا
جب جنگ شروع ہونے کا وقت آیا۔ رسول کریم ﷺاُس جگہ سے جہاں آپ
بیٹھ کر دعا کر رہے تھے باہر تشریف لائے اور فرمایاسَیُھْزَمُ الْجَمْعُ وَیُوَلُّوْنَ الدُّبُرَ۔۲۵۲؎ دشمنوں کا لشکر شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر میدان چھوڑ جائے گا۔ یہ الفاظ جو آپ نے فرمائے یہ قرآن کریم کی ایک پیشگوئی تھی جو مکہ میں ہی اس جنگ کے متعلق قرآن کریم میں نازل ہوئی تھی۔ مکہ میں جب مسلمان کفّار کے ظلموں کا تختۂ مشق ہو رہے تھے اور اِدھر اُدھر ہجرت کر کے جا رہے تھے خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی یہ آیات نازل فرمائیں۲۵۳؎ یعنی اے مکہ والو! فرعون کی طرف بھی اِنذار کی باتیں آئی تھیں، لیکن اُنہوں نے ہماری تمام آیتوں کا انکار کیا پس ہم نے اُن کو اس طرح پکڑ لیا جیسے ایک طاقتور غالب ہستی پکڑا کرتی ہے۔ ( اے مکہ والو!) بتائو کیا تمہارے کفّار اُن (کفّار) سے اچھے ہیں یا تمہارے لئے پہلی کتابوں میں حفاظت کا کوئی وعدہ آچکا ہے؟ وہ کہتے ہیں ہم تو ایک بڑی طاقت ہیں جو دشمنوں سے ہارتی نہیں بلکہ دشمنوں سے بدلے لیا کرتی ہے ( وہ یہ باتیں کرتے رہیں) اُن کے جتھے عنقریب اکٹھے ہوں گے اور پھر اُنہیں شکست ملے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے، بلکہ اُن کی تباہی کی گھڑی کا خدا تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے اور یہ تباہی کی گھڑی بڑی ہلاکت والی اور بڑی کڑوی ہو گی اُس دن مجرم پریشانی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے اور اپنے مونہوں کے بل گھسیٹ کر اُن کو آگ کے گڑھوں میں ڈال دیا جائے گا اور کہا جائے گا اب پڑے عذاب چکھو۔
یہ آیتیں سورہ قمر کی ہیں اور سورہ قمر تمام اِسلامی رواتیوں کے مطابق مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ مسلمان علماء بھی اس سورۃ کو پانچویں سے دسویں سال بعد دعویٰ نبوت قرار دیتے ہیں۔ یعنی ہجرت سے کم سے کم تین سال پہلے یہ نازل ہوئی تھی بلکہ غالباً آٹھ سال پہلے۔ یورپین محقق بھی اِس کی تصدیق کرتے ہیں۔ چنانچہ نولڈ کے اس سورۃ کو دعویٰ نبوت کے پانچ سال بعد کی قرار دیتا ہے۔ ریورنڈ ویری لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک نولڈ کے نے اِس سورۃ کے نزول کا وقت کسی قدر پہلے قرار دے دیا ہے۔ وہ اپنا اندازہ یہ بتاتے ہیں کہ چھٹے یا ساتویں سال ہجرت سے پہلے یہ نازل ہوئی۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ اُن کے نزدیک یہ سورۃ چھٹے یا ساتویں سال بعد دعویٔ نبوت کی ہے۔ بہرحال مسلمانوں کے دشمنوں نے بھی اِس سورۃ کو ہجرت سے کئی سال پہلے کا قرار دیا ہے۔ اُس زمانہ میں کس صفائی کے ساتھ اس جنگ کی خبر دی گئی تھی اور کفّار کا انجام بتا دیا گیا تھا اور پھر کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی جنگ شروع ہونے سے پہلے اِن آیات کو پڑھ کر مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ خدا کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے۔
غرض چونکہ وہ وقت آگیا تھا جس کی خبر یسعیاہ نبی نے قبل از وقت دے چھوڑی تھی ۲۵۴؎ اور جس کی خبر قرآن کریم نے دوبارہ جنگ شروع ہونے سے چھ یا آٹھ سال پہلے دی تھی اِس لئے باوجود اِس کے کہ مسلمان اِس جنگ کے لئے تیار نہ تھے اور باوجود اِس کے کہ کفّار کو بھی اُن کے بعض ساتھیوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ لڑائی نہیں کرنی چاہئے۔ لڑائی ہو گئی اور ۳۱۳ آدمی جن میں سے اکثر ناتجربہ کار اور سب ہی بے سامان تھے کفّار کے تجربہ کار لشکر کے مقابلہ میں جس کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی کھڑے ہو گئے۔ جنگ ہوئی اور چند ہی گھنٹوں کے اندر عرب کے بڑے بڑے سردار مارے گئے۔ یسعیاہ کی پیشگوئی کے مطابق قیدار کی حشمت جاتی رہی اور مکہ کی فوج کچھ لاشیں اور کچھ قیدی پیچھے چھوڑ کر سر پر پائوں رکھ کر مکہ کی طرف بھاگ پڑی۔ جو قیدی پکڑے گئے اُن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباسؓ بھی تھے جو ہمیشہ آپ کا ساتھ دیا کرتے تھے، اُنہیں مجبور کر کے مکہ والے اپنے ساتھ لڑائی کے لئے لے آئے تھے۔ اِسی طرح قیدیوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بیٹی کے خاوند ابوالعاص بھی تھے۔ مارے جانے والوں میں ابوجہل مکہ کی فوج کا کمانڈر اور اِسلام کا سب سے بڑا دشمن بھی شامل تھا۔
بدر کے قیدی
اِس فتح پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش بھی تھے کہ وہ پیشگوئیاں جو متواتر چودہ سال سے آپ کے ذریعہ سے شائع کی جا رہی تھیں اور وہ پیشگوئیاں جو
پہلے انبیاء اِس دن کے متعلق کر چکے تھے پوری ہو گئیں، لیکن مکہ کے مخالفوں کاعبرتناک انجام بھی آپ کی نظروں کے سامنے تھا۔ آپ کی جگہ پر کوئی اور شخص ہوتا تو خوشی سے اُچھلتا اور کودتا لیکن جب آپ کے سامنے سے مکہ کے قیدی رسیوں میں بندھے ہوئے گزرے تو آپ اور آپ کے باوفا ساتھی ابوبکرؓ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے۔ اُس وقت حضرت عمرؓ جو بعد میں آپ کے دوسرے خلیفہ ہوئے سامنے سے آئے تو اُنہیں حیرت ہوئی کہ اِس فتح اور خوشی کے وقت میں آپ کیوں رو رہے ہیں اورانہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے بھی بتائیے کہ اِس وقت رونے کا کیا باعث ہے؟ اگر وہ بات میرے لئے بھی رونے کاموجب ہے تو میں بھی روئوں گا، نہیں تو کم سے کم میں آپ کے غم میں شریک ہونے کے لئے رونی صورت ہی بنا لوں گا۔ آپ نے فرمایا دیکھتے نہیں خد ا تعالیٰ کی نافرمانی سے آج مکہ والوں کی کیا حالت ہو رہی ہے۔۲۵۵؎
آپ کے انصاف اور آپ کی عدالت کا جس کی خبر یسعیاہ نے بار بار اپنی پیشگوئیوں میں دی ہے اِس موقع پر ایک لطیف ثبوت ملا۔ مدینہ کی طرف واپس آتے ہوئے رات کو جب آپ سونے کے لئے لیٹے تو صحابہؓ نے دیکھا کہ آپ کو نیند نہیں آتی۔ آخر اُنہوں نے سوچ کر یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کے چچا عباس ؓ چونکہ رسیوں میں جکڑ ے ہونے کی وجہ سے سو نہیں سکتے اور اُ ن کے کراہنے کی آوازیں آتی ہیں اِس لئے اُن کی تکلیف کا خیال کر کے آپ کو نیند نہیں آتی۔ اُنہوں نے آپس میں مشورہ کر کے حضرت عباسؓ کے بندھنوں کو ڈھیلا کر دیا۔حضرت عباسؓ سو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نیند آگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد یکدم گھبرا کے آپ کی آنکھ کھلی اور آپ نے پوچھا عباسؓ خاموش کیوں ہیں؟ اُن کے کراہنے کی آوازاب کیو ں نہیں آتی؟ آپ کے دل میں یہ وہم پید اہو ا کہ شاید تکلیف کی وجہ سے بیہوش ہو گئے۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہم نے آپ کی تکلیف کو دیکھ کر اُن کے بندھن ڈھیلے کر دئیے ہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں!نہیں!! یہ بے انصافی نہیں ہو نی چاہئے۔ جس طرح عباسؓ میرا رشتہ دار ہے دوسرے قیدی بھی تو دوسروں کے رشتہ دار ہیں یا تو سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دو تاکہ وہ آرام سے سو جائیں اور یا پھر عباسؓ کے بندھن بھی کس دو۔ صحابہؓ نے آپ کی بات سن کر سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دئیے اور حفاظت کی ساری ذمہ داری اپنے سر پر لے لی۔۲۵۶؎ جو لوگ قید ہوئے تھے اُن میں سے جو پڑھنا جانتے تھے آپ نے اُن کا صرف یہی فدیہ مقرر کیا کہ وہ مدینہ کے دس دس لڑکوں کو پڑھنا سکھا دیں۔ بعض جن کا فدیہ دینے والا کوئی نہیں تھا اُن کو یونہی آزاد کر دیا۔ وہ امراء جو فدیہ دے سکتے تھے اُن سے مناسب فدیہ لے کر اُن کو چھوڑ دیا اور اس طرح اِس پرانی رسم کو کہ قیدیوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا تھا آپ نے ختم کر دیا۔
جنگ اُحد
کفّار کے لشکر نے میدان سے بھاگتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اگلے سال ہم دوبارہ مدینہ پر حملہ کریں گے اوراپنی شکست کا مسلمانوں سے بدلہ لیں گے
چنانچہ ایک سال کے بعد وہ پھر پوری تیاری کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے۔مکہ والوں کے غصہ کا یہ حال تھا کہ بدر کی جنگ کے بعد اُنہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ کسی شخص کو اپنے مردوں پر رونے کی اجازت نہیں اور جو تجارتی قافلے آئیںگے اُن کی آمد آئندہ جنگ کے لئے محفوظ رکھی جائے گی۔ چنانچہ بڑی تیاری کے بعد تین ہزار سپاہیوں سے زیادہ تعداد اس کا ایک لشکر ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ آور ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے مشورہ لیا کہ آیا ہم کو شہر میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے یا باہر نکل کر۔ آپ کا اپنا خیال یہی تھا کہ دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے تاکہ جنگ کی ابتداء کا بھی وہی ذمہ دار ہو اور مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ کر اُس کا مقابلہ آسانی سے کر سکیں، لیکن وہ نوجوان مسلمان جن کو بدر کی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا اور جن کے دلوں میں حسرت رہی تھی کہ کاش! ہم کو بھی خدا کی راہ میں شہید ہونے کا موقع ملتا اُنہوں نے اصرار کیا کہ ہمیں شہادت سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے۔ چنانچہ آپ نے اُن کی بات مان لی۔
مشورہ لیتے وقت آپ نے اپنی ایک خواب بھی سنائی۔ فرمایا خواب میں مَیں نے چند گائیں دیکھی ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ میری تلوار کا سرا ٹوٹ گیا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ گائیں ذبح کی جارہی ہیں اور پھر یہ کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط اور محفوظ زِرہ کے اندر ڈالا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ میں ایک مینڈھے کی پیٹھ پر سوار ہوں۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے اِن خوابوں کی کیا تعبیر فرمائی؟ آپ نے فرمایا گائے کے ذبح ہونے کی تعبیر یہ ہے کہ میرے بعض صحابہؓ شہید ہوں گے اور تلوار کا سرا ٹوٹنے سے مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی اہم وجود شہید ہو گا یا شاید مجھے ہی اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اور زرّہ کے اندر ہاتھ ڈالنے کی تعبیر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارا مدینہ میں ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پر سوار ہونے والے خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ کفّار کے لشکر کے سردار پر ہم غالب آئیںگے یعنی وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مار ا جائے گا۔۲۵۷؎
گو اس خواب میںمسلمانوں پر یہ واضح کردیا گیا تھا کہ اُن کا مدینہ میں رہنا زیادہ اچھا ہے مگر چونکہ خواب کی تعبیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تھی، الہامی نہیں تھی آپ نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کر لیا اور لڑائی کے لئے باہر جانے کا فیصلہ کر دیا۔ جب آپ باہر نکلے تو نوجوانوں کو اپنے دلوںمیں ندامت محسوس ہوئی اوراُنہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جو آپ کا مشورہ ہے وہی صحیح ہے ہمیں مدینہ میں ٹھہر کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ آپ نے فرمایا خد اکا نبی جب زرہ پہن لیتا ہے تو اُتارا نہیں کرتا اب خواہ کچھ ہو ہم آگے ہی جائیں گے۔ اگر تم نے صبر سے کام لیا تو خدا کی نصرت تم کو مل جائے گی۔ ۲۵۸؎ یہ کہہ کر آپ ایک ہزار لشکر کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور تھوڑے فاصلہ پر جا کر رات بسر کرنے کے لئے ڈیرہ لگا دیا۔ آپ کا ہمیشہ طریق تھا کہ آپ دشمن کے پاس پہنچ کر اپنے لشکر کو کچھ دیر آرام کرنے کاموقع دیا کرتے تھے تاکہ وہ اپنا سامان وغیرہ تیار کر لیں۔ صبح کی نماز کے وقت جب آپ نکلے تو آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ یہودی بھی اپنے معاہد قبیلوں کی مدد کے بہانہ سے آئے ہیں۔ چونکہ یہود کی ریشہ دوانیوں کا آپ کو علم ہو چکا تھا آپ نے فرمایا کہ اِن لوگوں کو واپس کر دیا جائے۔ اِس پر عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقوں کا رئیس تھا وہ بھی اپنے تین سَو ساتھیوںکو لے کر یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ اب یہ لڑائی نہیں رہی۔۲۵۹؎ یہ تو ہلاکت کے منہ میں جانا ہے کیونکہ خود اپنے مدد گاروں کو لڑائی سے روکا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہو ا کہ مسلمان صرف سات سَو رہ گئے جو تعداد میں کفّار کی تعداد سے چوتھے حصہ سے بھی کم تھے اور سامانوں کے لحاظ سے اور بھی کمزور۔ کیونکہ کفّار میں سات سَو زِرہ پوش تھا اور مسلمانوں میں صر ف ایک زِرہ پوش ۔اور کفّار میں دو سَو گھوڑ سوا رتھا مگر مسلمانوں کے پا س دو گھوڑے تھے۔ آخر آپ اُحد پر پہنچے۔ وہاں پہنچ کر آپ نے ایک پہاڑی درہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقررکئے اور سپاہیوں کے افسر کو تاکید کی کہ وہ درہ اتنا ضروری ہے کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم اِس جگہ سے نہ ہلنا۔۲۶۰؎ اِس کے بعد آپ بقیہ ساڑھے چھ سَو آدمی لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے جو اَب دشمن کی تعداد سے قریباً پانچواں حصہ تھے۔ لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے تھوڑی ہی دیر میں ساڑھے چھ سَو مسلمانوں کے مقابلہ میں تین ہزار مکہ کا تجربہ کار سپاہی سر پر پائوں رکھ کر بھاگا۔
فتح مبدَّل بہ شکست
مسلمانوں نے اُن کا تعاقب شروع کیا، تو ان لوگوں نے جو پشت کے درّہ کی حفاظت کے لئے کھڑے تھے اُنہوں نے اپنے افسر
سے کہا اب تو دشمن کو شکست ہو چکی ہے اب ہمیں بھی جہاد کاثواب لینے دیا جائے۔ افسر نے اُن کواِس بات سے روکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد دلائی مگر اُنہوں نے کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا صرف تاکید کے لئے فرمایاتھا ورنہ آپ کی مراد یہ تو نہیں ہو سکتی تھی کہ دشمن بھاگ بھی جائے تو یہاں کھڑے رہو۔ یہ کہہ کر اُنہوں نے درہ چھوڑ دیا اور میدانِ جنگ میں کود پڑے۔ بھاگتے ہوئے لشکر میں سے خالد بن ولید کی جو بعد میں اِسلام کے بڑے بھاری جرنیل ثابت ہوئے نظر خالی درّہ پر پڑی جہاں صرف چند آدمی اپنے افسر کے ساتھ کھڑے تھے۔ خالدؓ نے کفّار کے لشکر کے دوسرے جرنیل عمرو ابن العاص کو آواز دی اور کہا۔ ذرا پیچھے پہاڑی درّہ پر نگاہ ڈالو۔ عمرو بن العاص نے جب درہ پر نگاہ ڈالی تو سمجھا کہ عمر کا بہترین موقع مجھے حاصل ہو رہا ہے دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دوستوں کوسنبھالا اور اِسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے۔ چند مسلمان جو وہاں درّہ کی حفاظت کے لئے کھڑے رہ گئے تھے، اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے پشت پر سے اِسلامی لشکر پر آ پڑے۔ اُن کے فاتحانہ نعروں کو سن کر سامنے کا بھاگتا ہوا بقیہ لشکر بھی میدان جنگ کی طرف لوٹ پڑا۔ یہ حملہ ایسا اچانک ہوا اور کافروں کا تعاقب کرنے کی وجہ سے مسلمان اتنے پھیل چکے تھے کہ کوئی باقاعدہ اِسلامی لشکر اُن لوگوں کے مقابلہ میں نہیں تھا۔ اکیلا اکیلا سپاہی میدان میں نظر آر ہا تھا، جن میں سے بعض کو اُن لوگوں نے مار دیا۔ باقی اِس حیرت میں کہ یہ ہو کیا گیا ہے پیچھے کی طرف دوڑے۔ چند صحابہؓ دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے، جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ تیس تھی۔۲۶۱؎ کفّار نے شدت کے ساتھ اُس مقام پر حملہ کیا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے۔ یکے بعد دیگرے صحابہؓ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے۔ علاوہ شمشیر زنوں کے تیر انداز اُونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے تحاشہ تیر مارتے تھے۔ اُس وقت طلحہؓ جو قریش میں سے تھے اور مکہ کے مہاجرین میں شامل تھے یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف پھینک رہا ہے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا۔ تیر کے بعد تیر جو نشانہ پر گرتا تھا وہ طلحہؓ کے ہاتھ پر گرتا تھا، مگر جانباز اور وفادار صحابیؓ اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتا تھا۔ اِس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہؓ کا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بیکار ہو گیا اور صرف ایک ہی ہاتھ اُن کا باقی رہ گیا۔ سالہا سال بعد اِسلام کی چوتھی خلافت کے زمانہ میں جب مسلمانوں میں خانہ جنگی واقع ہوئی تو کسی دشمن نے طعنہ کے طور پر طلحہؓکو کہا۔ ٹنڈا۔ اِس پر ایک دوسرے صحابیؓ نے کہا ہاں ٹنڈا ہی ہے مگر کیسا مبارک ٹنڈا ہے۔ تمہیں معلوم ہے طلحہؓ کا یہ ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی حفاظت میں ٹنڈا ہوا تھا۔ اُحد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہؓ سے پوچھا کہ جب تیر آپ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپ کو درد نہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی؟ طلحہؓ نے جواب دیا۔ درد بھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی تھی، لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہاتھ ہل جائے اور تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر آگرے۔
مگر یہ چند لوگ کب تک اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کر سکتے تھے۔ لشکر کفّار کا ایک گروہ آگے بڑھا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد کے سپاہیوں کو دھکیل کر پیچھے کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا پہاڑ کی طرح وہاں کھڑے تھے کہ زور سے ایک پتھر آپ کے خود پر لگا اور خود کے کیل آپ کے سر پر گھس گئے اور آپ بیہوش ہو کر اُن صحابہؓ کی لاشوں پر جاپڑے جو آپ کے اِردگرد لڑتے ہوئے شہید ہو چکے تھے۲۶۲؎ اس کے بعد کچھ اور صحابہؓ آپ کے جسم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے اوراُن کی لاشیں آپ کے جسم پر جا گریں۔ کفّار نے آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے دبا ہوا دیکھ کر سمجھا کہ آپ مارے جا چکے ہیں۔ چنانچہ مکہ کا لشکر اپنی صفوں کو درست کرنے کے لئے پیچھے ہٹ گیا۔ جو صحابہؓ آپ کے گرد کھڑے تھے اور جن کو کفّار کے لشکر کا ریلا دھکیل کر پیچھے لے گیاتھا اُن میں حضرت عمرؓ بھی تھے۔ جب آپ نے دیکھا کہ میدان سب لڑنے والوں سے صاف ہو چکا ہے تو آپ کو یقین ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور وہ شخص جس نے بعد میں ایک ہی وقت میں قیصر اور کسریٰ کا مقابلہ بڑی دلیری سے کیا اور اُس کا دل کبھی نہ گھبرایا اور کبھی نہ ڈرا وہ ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگ گیا۔ اِتنے میں مالکؓ نامی ایک صحابی جو اِسلامی لشکر کی فتح کے وقت پیچھے ہٹ گئے تھے کیونکہ اُنہیں فاقہ تھا اور را ت سے اُنہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا جب فتح ہو گئی تو وہ چند کھجوریں لے کر پیچھے کی طرف چلے گئے تاکہ اُنہیں کھا کر اپنی بھوک کا علاج کریں۔ وہ فتح کی خوشی میں ٹہل رہے تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے حضرت عمرؓ تک جا پہنچے اور عمرؓ کو روتے ہوئے دیکھ کر نہایت ہی حیران ہوئے اور حیرت سے پوچھا۔ عمر! آ پ کو کیا ہوا؟ اِسلام کی فتح پر آپ کو خوش ہونا چاہئے یا رونا چاہئے؟ عمرؓ نے جواب میں کہا مالک ! شاید تم فتح کے معاً بعد پیچھے ہٹ آئے تھے تمہیں معلوم نہیں کہ لشکر کفّار پہاڑی کے دامن سے چکر کاٹ کر اِسلامی لشکر پر حملہ آوار ہوا اور چونکہ مسلما ن پر اگندہ ہو چکے تھے اُن کا مقابلہ کوئی نہ کر سکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ سمیت اُن کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مقابلہ کرتے کرتے شہید ہو گئے۔ مالکؓ نے کہا عمرؓ!! اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو آپ یہاں بیٹھے کیوں رو رہے ہیں؟ جس دنیا میں ہمارا محبوب گیا ہے ہمیں بھی تو وہاں جانا چاہئے۔ یہ کہا اور وہ آخری کجھور جو آپ کے ہاتھ میں تھی جسے آپ منہ میں ڈالنے ہی والے تھے اُسے یہ کہتے ہوئے زمین پر پھینک دیا کہ اے کجھور! مالک اور جنت کے درمیان تیرے سِوا اور کونسی چیز روک ہے۔ یہ کہا اور تلوار لے کر دشمن کے لشکر میں گھس گئے۔ تین ہزار آدمی کے مقابلہ میں ایک آدمی کر ہی کیا سکتا تھا مگر خد ائے واحد کی پرستا رروح ایک بھی بہتوں پر بھاری ہوتی ہے۔ مالکؓ اِس بے جگری سے لڑے کہ دشمن حیران ہو گیا۔ مگر آخر زخمی ہوئے پھر گرے اور گر کر بھی دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرتے رہے جس کے نتیجہ میں کفّارِ مکہ نے اِس وحشت سے آپ پر حملہ کیا کہ جنگ کے بعد آپ کی لاش کے ۷۰ ٹکڑے ملے حتی کہ آپ کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی۔ آخر ایک اُنگلی سے آپ کی بہن نے پہچان کر بتایا کہ یہ میرے بھائی مالک کی لاش ہے۔۲۶۳؎
وہ صحابہؓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد تھے اور جو کفّار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دئیے گئے تھے کفّار کے پیچھے ہٹتے ہی وہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے۔ آپ کے جسم مبارک کو اُنہوں نے اُٹھایا اور ایک صحابی عبیدہ بن الجراحؓ نے اپنے دانتوں سے آپ کے سر میں گھسی ہوئی کیل کو زور سے نکالا جس سے اُن کے دو دانت ٹوٹ گئے۔ تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آگیااور صحابہؓ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں۔ بھاگا ہو الشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے۔ جب دامنِ کوہ میں بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی بات کا جواب نہ دیاتا ایسا نہ ہو دشمن حقیقت حال سے واقف ہوکر حملہ کرد ے اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں۔ جب اِسلامی لشکر سے اِس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابو سفیان کو یقین ہو گیا کہ اُس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابو بکرؓ کو بھی مار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرؓ کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں۔ پھر ابو سفیان نے آواز دی ہم نے عمرؓ کو بھی مار دیا۔ تب عمرؓ جو بہت جوشیلے آدمی تھے اُنہوں نے اُس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لئے تیار ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو۔ اب کفّار کو یقین ہو گیا کہ اِسلام کے بانی کو بھی اور اُن کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے۔ اِس پر ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اُعْلُ ھُبَل۔ اُعْلُ ھُبَل۔ ہمارے معزز بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اُس نے آج اِسلام کا خاتمہ کر دیا ہے۔ وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی موت کے اعلان پر، ابوبکرؓ کی موت کے اعلان پر اور عمرؓ کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرما رہے تھے تا ایسا نہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفّار کا لشکرلوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اُس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں۔ اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں ماراگیا تو آپ کی روح بے تاب ہوگئی اور آپ نے نہایت جوش سے صحابہؓ کی طر ف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے؟ صحابہ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!ہم کیا کہیں؟ فرمایا کہو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔ اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۔۲۶۴؎ تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہبل کی شان بلند ہوئی۔ اللّٰہ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْک ہی معزز ہے اوراُس کی شان بالا ہے۔ اوراس طرح آپ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچا دی۔ اِس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفّار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑ اکہ باوجود اِس کے کہ اُن کی اُمیدیں اس جواب سے خاک میں مل گئیں اور باوجود اس کے کہ اُن کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے اُن کو مار دینا مادی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرأت نہ کر سکے اور جس قدر فتح اُن کو نصیب ہوئی تھی اُسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ کو واپس چلے گئے۔
اُحد کی جنگ میں بظاہر فتح کے بعد ایک شکست کا پہلو پیدا ہوا مگر یہ جنگ درحقیقت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان تھا۔ اِس جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسلمانوں کو پہلے کامیابی نصیب ہوئی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے عزیز چچا حمزہؓ لڑائی میں مارے گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق شروع حملہ میں کفّار کے لشکر کا علمبردار مارا گیا۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خود آپ بھی زخمی ہوئے اور بہت سے صحابہ شہید ہوئے۔ اِس کے علاوہ مسلمانوں کو ایسے اخلاص اور ایمان کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا جس کی مثال تاریخ میں اور کہیںنہیںملتی۔
چند واقعات تو اِس اخلاص اور ایمان کے مظاہرہ کے پہلے بیان ہو چکے ہیں ایک اور واقعہ بھی بیان کر نے کے قابل ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے صحابہؓ کے دلوں میں کتنا پختہ ایمان پیدا کر دیا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کی معیت میں پہاڑ کے دامن کی طرف چلے گئے اور دشمن پیچھے ہٹ گیا تو آپ نے بعض صحابہ کو اِس بات پر مأمور فرمایاکہ وہ میدان میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں۔ ایک صحابی میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے۔ دیکھا تو اُن کی حالت خطرناک تھی اور وہ جان توڑ رہے تھے۔ یہ صحابی اُن کے پاس پہنچے اور اُنہیں اَلسَّلاَمُ عَلَیْکُمْ کہا اُنہوں نے کانپتا ہوا ہاتھ مصافحہ کے لئے اُٹھایا اوراُن کا ہاتھ پکڑ کر کہا میں انتظارکر رہا تھا کہ کوئی ساتھی مجھے مل جائے۔ اُنہوں نے اِس صحابی سے پوچھا کہ آپ کی حالت توخطرناک معلوم ہوتی ہے کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ دار کو دینا چاہتے ہیں؟ اُس مرنے والے صحابیؓ نے کہا ہاں! ہاں! میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اوراُنہیں کہناکہ میں تومر رہا ہوں مگر اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تم میںچھوڑے جا رہا ہوں۔ اے میرے بھائیو اور رشتہ دارو! وہ خدا کاسچا رسول ہے میں اُمید کرتا ہوں کہ تم اس کی حفاظت میں اپنی جانیں دینے سے دریغ نہیں کرو گے اور میری اس وصیت کو یا د رکھو گے۔۲۶۵؎
مرنے والے انسان کے دل میں ہزاروں پیغام اپنے رشتہ داروں کو پہنچانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اتنے بے نفس ہو چکے تھے کہ نہ اُنہیں اپنے بیٹے یاد تھے، نہ بیویاں یا د تھیں، نہ مال یا د تھا، نہ جائدادیں یاد تھیں اُنہیں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی یا درہتا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ دنیا کی نجات اِس شخص کے ساتھ ہے۔ ہمارے مرنے کے بعدا گر ساری اولادیں زندہ رہیں تو وہ کوئی بڑا کام نہیں کر سکتیں، لیکن اگر اِس نجات دہندہ کی حفاظت میں اُنہوں نے اپنی جانیں دے دیں تو گو ہمارے اپنے خاندان مٹ جائیں گے مگر دنیا زندہ ہوجائے گی۔ شیطان کے پنجہ میں پھنسا ہوا ا نسان پھر نجات پا جائے گا اورہمارے خاندانوں کی زندگی سے ہزاروں گنے زیادہ قیمتی بنو آدم کی زندگی اور نجات ہے۔
بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمیوں اور شہدا ء کو جمع کیا، زخمیوں کی مرہم پٹی کی گئی اور شہداء کے دفنانے کا انتظام کیا گیا۔ اُس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ ظالم کفّارِ مکہ نے بعض مسلمان شہداء کے ناک کان بھی کاٹ دئیے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ جن کے ناک کان کاٹے گئے ہیں اُن میں خود آپ کے چچا حمزہؓ بھی تھے۔ آپ کو یہ نظارہ دیکھ کر افسوس ہوا اور آپ نے فرمایا کفّار نے خود اپنے عمل سے اپنے لئے اُس بدلہ کو جائز بنا دیا ہے جس کو ہم ناجائز سمجھتے تھے۔ مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس وقت آپ کو وحی ہوئی کہ کفّار جو کچھ کرتے ہیں اُن کوکرنے دو تم رحم اور انصاف کادامن ہمیشہ تھامے رکھو۔۲۶۶؎
جنگ اُحد سے واپسی اور
اہل مدینہ کے جذباتِ فدائیت
جب اِسلامی لشکر واپس مدینہ کی طرف لوٹا تو اُس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت اور اِسلامی لشکر کی پراگندگی کی
خبر مدینہ پہنچ چکی تھی۔ مدینہ کی عورتیں اور بچے دیوانہ وار اُحدکی طرف دَوڑے جا رہے تھے۔ اکثر کو تو راستہ میں خبر مل گئی اور وہ رُک گئے، مگر بنو دینار قبیلہ کی ایک عورت دیوانہ وار آگے بڑھتے ہوئے اُحد تک جا پہنچی۔ جب وہ دیوانہ وار اُحد کے میدان کی طرف جار ہی تھی اُس عورت کا خاوند اور بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا۔ جب اُسے اُس کے باپ کے مارے جانے کی خبر دی گئی تو اُس نے کہا مجھے بتائو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ چونکہ خبر دینے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھے وہ باری باری اُسے اس کے بھائی اور خاوند اور بیٹے کی موت کی خبر دیتے چلے گئے مگر وہ یہی کہتی چلی جاتی تھی ’’مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم‘‘۔ ارے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا؟ بظاہر یہ فقرہ غلط معلوم ہوتا ہے اور اسی وجہ سے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اُس کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فقرہ غلط نہیں بلکہ عورتوں کے محاورہ کے مطابق بالکل درست ہے۔ عورت کے جذبات بہت تیز ہوتے ہیں اور وہ بسااوقات مُردوں کو زندہ سمجھ کر کلام کرتی ہے۔ جیسے بعض عورتوں کے خاوند یا بیٹے مر جاتے ہیں تو اُ ن کی موت پر اُن سے مخاطب ہو کر وہ اِس قسم کی باتیں کرتی رہتی ہیں کہ مجھے کس پر چھوڑ چلے ہو؟ یا بیٹا! اس بڑھاپے میں مجھ سے کیوں منہ موڑ لیا؟ یہ شدتِ غم میں فطرتِ انسا نی کا ایک نہایت لطیف مظاہرہ ہوتا ہے۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبرسن کر اُس عورت کا حال ہوا۔ وہ آپ کو فوت شدہ ماننے کے لئے تیار نہ تھی اور دوسری طر ف اِس خبر کی تردید بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لئے شدت ِغم میں یہ کہتی جاتی تھی ارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کیا۔ یعنی ایسا وفادار انسان ہم کو یہ صدمہ پہنچانے پر کیونکر راضی ہو گیا۔
جب لوگوں نے دیکھا کہ اُسے اپنے باپ، بھائی اور خاوند کی کوئی پرواہ نہیں تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور اُنہوں نے کہا۔ فلانے کی اماں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جس طرح تو چاہتی ہے خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں۔ اس پر اُس نے کہامجھے دکھائو وہ کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا۔ آگے چلی جائو وہ آگے کھڑے ہیں۔ وہ عورت دوڑ کر آپ تک پہنچی اور آپ کے دامن کو پکڑ کر بولی یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب آپ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کوئی پرواہ نہیں۔۲۶۷؎
مردوں نے جنگ میں وہ نمونہ ایمان کا دکھایا اور عورتوں نے یہ نمونہ اخلاص کا دکھایا، جس کی مثال میں نے ابھی بیان کی ہے۔ عیسائی دنیا مریم مگد لینی اور اس کی ساتھی عورتوں کی اِس بہادری پر خوش ہے کہ وہ مسیح کی قبر پر صبح کے وقت دشمنو ں سے چھپ کر پہنچی تھیں۔ میں اُن سے کہتا ہوںآئو اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو کہ کن حالتوں میں اُنہوں نے اُس کا ساتھ دیا اور کن حالتوں میں اُنہوں نے توحید کے جھنڈے کو بلند کیا۔
اِس قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخوں میں ملتی ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہدا ء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے تو پھر عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کیلئے نکل آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُونٹنی کی باگ سعد بن معاذؓ مدینہ کے رئیس نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے دوڑے جاتے تھے شاید دنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے۔ شہر کے پاس اُنہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی۔ اُحد میں اُس کا ایک بیٹا عمرو بن معاذؓ بھی مارا گیا۔ اُسے دیکھ کر سعد بن معاذؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ااُمّی۔ اے اللہ کے رسول! میری ماں آرہی ہے۔ آپ نے فرمایا خد ا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے۔ بڑھیا آگے بڑھی اور اپنی کمزور پھٹی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل نظر آجائے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہو گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مائی! مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے۔ اِس پر نیک عورت نے کہا۔ حضور! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔ ’’ مصیبت کو بھون کر کھا لیا۔‘‘۲۶۸؎ کیا عجیب محاورہ ہے۔ محبت کے کتنے گہرے جذبات پر دلالت کرتاہے غم انسان کو کھا جاتا ہے۔ وہ عورت جس کے بڑھاپے میں اُس کا عصائے پیری ٹوٹ گیا کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیںتو میں اس غم کو کھا جائو ں گی۔ میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ یہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُس نے جان دی میری قوت کے بڑھانے کا موجب ہو گا۔ اے انصار! میری جان تم پر فدا ہو تم کتنا ثواب لے گئے۔
بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے مدینہ پہنچے۔ گو اِس لڑائی میں بہت سے مسلمان مار ے بھی گئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے لیکن پھر بھی اُحد کی جنگ شکست نہیں کہلا سکتی۔ جو واقعات میں نے اُوپر بیان کئے ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ایک بہت بڑی فتح تھی ایسی فتح کہ قیامت تک مسلمان اس کو یاد کر کے اپنے ایمان کو بڑھا سکتے ہیں اور بڑھاتے رہیں گے۔ مدینہ پہنچ کر آپ نے پھر اپنا اصل کام یعنی تربیت اور تعلیم اور اصلاحِ نفس کاشروع کر دیا۔ مگر آپ یہ کام سہولت اور آسانی سے نہیں کر سکے۔ اُحد کے واقعہ کے بعد یہود میںاور بھی دلیری پیدا ہو گئی اور منافقوں نے اور بھی سر اُٹھانا شروع کر دیا اور وہ سمجھے کہ شاید اِسلام کو مٹا دینا انسانی طاقت کے اند رکی بات ہے۔ چنانچہ یہودیوں نے طرح طرح سے آپ کوتکلیفیں دینی شروع کر دیں ۔گندے شعر بنا کر اُن میں آپ کی اور آپ کے خاندان کی ہتک کی جاتی تھی۔ ایک دفعہ آپ کو کسی جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے یہودیوں کے قلعہ میں جانا پڑا تو اُنہوں نے ایک تجویز کی کہ جہاں آپ بیٹھے تھے اُس کے اُوپر سے ایک بڑی سِل گرا کر آپ شہید کر دیئے جائیں مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو وقت پر بتا دیا اور آپ وہا ں سے بغیر کچھ کہنے کے چلے آئے۲۶۹؎۔ بعد میں یہودں نے اپنے قصور کو تسلیم کر لیا ۔
مسلمان عورتوں کی بازاروں میں بیحرمتی کی جاتی تھی۔ایک دفعہ اس جھگڑے میں ایک مسلمان بھی مارا گیا۔ایک دفعہ ایک مسلمان لڑکی کا سر یہود نے پتھر وں سے مار مار کر کچل دیا اور وہ تڑپ تڑپ کر مرگئی۔اِن اسباب کی وجہ سے یہودیوں کے ساتھ بھی مسلمانوں کو جنگ کرنا پڑی۔ مگر عرب اور یہود کے دستور کے مطابق مسلمانوں نے اُن کو مارا نہیں،بلکہ صرف مدینہ سے چلے جانے کی شرط پر اُنہیں چھوڑ دیا ۔چنانچہ اُن دونوں قبیلوں میں سے ایک تو شام کی طرف ہجرت کر گیا اور دوسرے کا کچھ حصہ شام کو چلا گیا اور کچھ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف ۔ یہ شہر عرب میں یہود کا مرکز تھا اور زبر دستقلعوں پر مشتمل تھا۔
شراب نوشی کی ممانعت کاحکم اوراُس کابے نظیر اثر
جنگ اُحد اور اس کے بعد کی جنگ کے وقفہ کے درمیان دنیا نے اِسلام کے اس اثر کی جو اس کا اپنے پیروؤں پر تھا ایک بیّن مثال دیکھی ۔ ہماری مراد
امتناعِ شراب سے ہے۔اِسلام سے پہلے اہلِ عرب کی حالت کو بیان کرتے ہوئے ہم نے بتلایا تھاکہ اہلِ عرب عادی شراب خور تھے۔ ہر معزز عرب خاندان میں دن میں پانچ دفعہ شراب پی جاتی تھی اور شراب کے نشہ میں مدہوش ہو جانا اُن کے لئے معمولی بات تھی اور اس میں وہ ذرا بھی شرم محسوس نہ کرتے تھے بلکہ وہ اس کو ایک اچھا کام سمجھتے تھے۔جب کوئی مہمان آتا تو گھر کی مالکہ کا فرض ہوتا کہ وہ شراب کا دَور جاری کرتی۔اِس قسم کے لوگوں سے ایسی تباہ کن عادت کو چھڑانا کوئی آسان بات نہ تھی۔مگر ہجرت کے چوتھے سال آنحضرت ﷺپر حکم نازل ہوا ہے کہ شراب حرام کی جاتی ہے ۔ اس حکم کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں نے شراب پینا بالکل ترک کردیا۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے۔کہ جب شراب کی حرمت کا الہام نازل ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو بلایا اور حکم دیا کے اس نئے حکم کا اعلان مدینہ کی گلیوں میں کر دو۔ایک انصاری کے گھر میں جو مدینہ کا مسلمان تھا اُس وقت شراب کی مجلس ہو رہی تھی بہت سے لوگ مدعو تھے اور شراب کا دَور چل رہا تھا۔ایک بڑا مٹکا خالی ہو چکا تھااور ایک دوسرا مٹکا شروع کیا جانے والا تھا۔لوگ مدہوش ہو چکے تھے اور بہت سے اور مدہوش ہونے کے قریب تھے۔ اس حالت میں اُنہوں نے سنا کہ کوئی شخص اعلان کر رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت شراب پینا منع فرمادیا ہے۔ اُن میں سے ایک شخص اُٹھا اور بولا یہ تو شراب کے امتناع کا حکم معلوم ہوتا ہے۔ ٹھہرو معلو م کر لیں۔اتنے میں ایک اور شخص اُٹھا اور اُس نے مٹکے کو جو شراب سے بھرا ہوا تھااپنی لاٹھی مار کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہا پہلے حکم کی تعمیل کرو اور پھر دریافت کرو ۔یہ کافی ہے کہ ہم نے ایسا اعلان سن لیا اور یہ مناسب نہیں کہ ہم شراب پیتے جائیں اور تحقیقات کریں بلکہ ہمارا فرض یہ ہے کہ شراب کو گلیوں میں بہہ جانے دیںاور پھر اعلان کے متعلق تحقیقات کریں۔۲۷۰؎
اس مسلمان کا خیال درست تھا ، کیونکہ اگر شراب کا پیا جانا ممنوع قرار دیا جا چکا تھاتو اس کے بعد اگر وہ شراب پینا جاری رکھتے تو ایک جرم کے مرتکب ہوتے اور اگر شراب پینا ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھاتو شراب کا بہا دینا اِتنا بڑا نقصان نہ تھا کہ اُسے برداشت نہ کیا جا سکتا۔اس اعلان کے بعد شراب نوشی مسلمانوں سے بالکل دور ہو گئی۔اس انقلابِ عظیم کو برپا کرنے کے لئے کوئی خاص کوشش اور مجاہدہ کی ضرورت نہیں پڑی ۔ایسے مسلمان جنہوں نے اِس حکم کو سُنا اور جو فوری تعمیل اِس کی ہوئی اُس کو دیکھا،ستّر اسّی سال تک زندہ رہے مگر اُن میں سے ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس نے اس حکم کے بعد اس کی خلاف ورزی کی ہو ،اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو وہ ایسے شخص کے متعلق ہے جس نے براہِ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ نہ کیا تھا۔
جب ہم اس کا مقابلہ امریکہ کی تحریک امتناعِ شراب سے کرتے ہیں اور ان کو ششوں کو دیکھتے ہیں جو اس حکم کو نافذ کر نے کے لئے کی گئیںیا جو سالہا سال تک یورپ میں کی گئیں،تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ ایک صورت میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محض ایک اعلان کافی تھا کہ اس تمدّنی عیب کو عرب کے لوگوں سے معدوم کردے۔مگر دوسری صورت میں امتناعِ شراب کے لئے قوانین بنائے گئے۔پولیس، فوج اور ٹیکس کے محکموں کے کارکنوں نے مل کر شراب نوشی کی *** کو دور کرنے کے لئے متحدہ طور پر کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے اور انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑا۔ شراب نوشی کی جیت رہی اور شراب نوشی کو دُور نہ کی جا سکی ۔ ہمارے اِس زمانہ کو ایک ترقی کا زمانہ کہتے ہیں مگر جب اس کا مقابلہ ابتدائے اِسلام کے زمانہ سے کرتے ہیں تو ہم حیران ہو جاتے ہیںکہ ان دونوں میں سے ترقی کا زمانہ کونسا ہے ۔ہمارا یہ زمانہ یا اِسلام کا وہ زمانہ جس نے اس قدر بڑا تمدّنی انقلاب پیدا کر دیا؟
غزوہ اُحد کے بعد کفّار قبائل کے ناپاک منصوبے
اُحد کا واقعہ ایسی بات نہ تھی کہ آسانی سے
بھولا جا سکتا ۔ مکّہ والوں نے خیال کیا تھا کہ یہ اُن کی اسلام کے خلاف پہلی فتح ہے اُنہوں نے اس کی خبر تمام عرب میں شائع کی اور عرب کے قبائل کو اِسلام کے خلاف بھڑکانے اور یہ یقین دلانے کا ذریعہ بنایا کہ مسلمان نا قابلِ تسخیر نہیں ہیں۔ اور اگر وہ ترقی کرتے رہے ہیں تو اس کی وجہ اُن کی طاقت نہیںتھی بلکہ عرب قبائل کی بے توجہی تھی ۔عرب متحدہ کوشش کریں تو مسلمانوں پر غالب آ جانا کوئی مشکل امر نہیں ۔ اِس پروپیگنڈا کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف مخالفت زور پکڑتی گئی اور دیگر قبائل نے مسلمانوں کو تکلیف دینے میں مکہ والوں سے بھی بڑھ چڑھ کر حصّہ لینا شروع کیا۔بعض نے کھلم کھلا حملے شروع کر دئیے اور بعض نے خفیہ طور پر اُن کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا۔
ہجرت کے چوتھے سال عرب کے دو قبائل عضل اور قارۃ نے اپنے نمائندے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج کر عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اِسلام کی طرف مائل ہیں اور درخواست کی کہ کچھ آدمی جو تعلیم اِسلام سے پوری طرح سے واقف ہوں،بھیج دئیے جائیں تاکہ وہ اُن کے درمیان رہ کر اُن کو اِس نئے مذہب کی تعلیم دیں۔دراصل یہ ایک سازش تھی جو اِسلام کے پکے دشمن بنولحیان نے کی تھی اور ان کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ نمائندے مسلمانوں کو لے کر آئیں گے تو وہ اُن کو قتل کر کے اپنے رئیس سفیان بن خالد کا بدلہ لیں گے۔چنانچہ اُنہوں نے عضل اور قارۃ کے نمائندوں کو اِس غرض سے کہ وہ چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے آئیں، انعام کے بڑے بڑے وعدے دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا تھا۔ جب عضل اور قارۃ کے لوگوں نے آنحضرتصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر درخواست کی تو آپ نے اُن کی بات پر اعتبار کر کے دس مسلمانوں کو اُن کے ساتھ کر دیا کہ ان کو اِسلام کے عقائد اور اصولوں کی تعلیم دیں ۔ جب یہ جماعت بنولحیان کے علاقہ میں پہنچی تو عضل اور قارۃ کے لوگوں نے بنولحیان کو اطلاع بھجوادی ور اُن کو کہلا بھیجا کہ مسلمانوں کو یاتوگرفتار کر لیں یا موت کے گھاٹ اُتار دیں۔ اِس ناپاک منصوبے کے ماتحت بنولحیان کے دو سَو مسلح آدمی مسلمانو ں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور آخر مقامِ رجیع میں اُن کو آگھیرا۔دس مسلمانوں اور دو سَو دشمنوں کے درمیان لڑائی ہوئی۔ مسلمانوں کے دل نورِ ایمان سے پُر تھے اور دشمن اِس سے تہی تھے۔دس مسلمان ایک ٹیلہ پر چڑھ گئے اور دو سَو آدمیوں کو دعوتِ مبارزت دی۔دشمن نے ایک فریب کر کے اُن کو گرفتار کرنا چاہااور اُن سے کہا کہ اگر تم نیچے اُتر آئو توتمہیں کچھ نہ کہا جائے گا،مگر مسلمانوں کے امیر نے کہا کہ ہم کافروں کے عہدوپیمان کو خوب دیکھ چکے ہیں۔اس کے بعد اُنہوں نے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر کہا اے خدا! تو ہماری حالت کو دیکھ رہا ہے اپنے رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے۔جب کفّار نے دیکھا کہ مسلمانوں کی اِس چھوٹی سی جماعت پر اُن کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو انہوں نے اُن پر حملہ کر دیا اور مسلمان بغیر خوفِ شکست کے لڑتے چلے گئے،یہاں تک کہ دس میں سے سات شہید ہو گئے۔باقی تین جو بچ رہے تھے اُن کو کفّار نے پھروعدہ دیاکہ ہم تمہاری جانیں بچا لیں گے بشرطیکہ تم ٹیلے سے نیچے اُتر آئو۔ لیکن جب وہ کفّار کے وعدہ پر اعتبار کرکے نیچے اُتر آئے تو کفار نے اُنہیں اپنی کمانوں کی تانتوں سے جکڑ کر باندھ لیا۔اِس پر اُن میں سے ایک نے کہا کہ یہ پہلی خلاف ورزی ہے جو تم اپنے عہد کی کر رہے ہواللہ ہی جانتا ہے کہ تم اِس کے بعد کیا کرو گے۔یہ کہہ کر اُس نے اُن کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا۔کفّارنے اُس کو مارنا اور گھسیٹنا شروع کر دیا۔مگر آخر اُس کے مقابلے اور استقلال سے اِس قدر مایوس ہو گئے کہ اُنہوں نے اُس کو وہیں قتل کر دیا۔باقی دو کو وہ ساتھ لے گئے اور بطور غلاموں کے قریش مکہ کے پاس فروخت کر دیا۲۷۱؎ ان میں سے ایک کا نام خبیبؓ تھااور دوسرے کا زید۔خبیبؓ کا خریدار اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لئے جسے خبیبؓ نے جنگِ بدر میں قتل کیا تھاخبیب کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ایک دن خبیب ؓ نے اپنی ضرورت کے لئے اُسترا مانگا۔اُسترا خبیبؓ کے ہاتھ میں تھا کہ گھر والوں کا ایک بچہ کھیلتے ہوئے اُس کے پاس چلا گیا۔خبیب ؓ نے اِس کو اُٹھا کر اپنی ران پر بیٹھا لیا۔بچے کی ماں نے جب یہ دیکھا تو دہشت زدہ ہو گئی اور اُسے یقین ہوگیا کہ اب خبیبؓ بچے کو قتل کر دے گاکیونکہ وہ خبیبؓ کو چند دنوں میں قتل کرنے والے تھے۔ اُس وقت اُسترا اُس کے ہاتھ میں تھا اوربچہ اُس کے اتنا قریب تھاکہ وہ اُسے نقصان پہنچا سکتا تھا۔ خبیبؓ نے اُس کے چہرے سے پریشانی کو بھانپ لیا اور کہا کہ کیا تم خیال کرتی ہو کہ میں تمہارے بچے کو قتل کردونگا؟ یہ خیال کبھی دل میں نہ لائو میں ایسا بُرا فعل نہیں کر سکتا۔ مسلمان دھوکا باز نہیں ہوتے۔ وہ عورت خبیبؓ کے اِس دیانتدارانہ اور صحیح طریق عمل سے بہت متأثر ہوئی۔ اِس بات کو اُس نے ہمیشہ یاد رکھا اور ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ میں نے خبیبؓ سا قیدی کوئی نہیں دیکھا۔ آخر کار مکّہ والے خبیبؓ کو ایک کھلے میدان میں لے گئے تا اُس کو قتل کر کے جشن منائیں۔ جب اُن کے قتل کا وقت آن پہنچاتو خبیبؓ نے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو۔ قریش نے اُن کی یہ بات مان لی اور خبیبؓ نے سب کے سامنے اِس دنیا میں آخری بار اپنے اللہ کی عبادت کی۔ جب وہ نماز ختم کر چکے تو اُنہوں نے کہا کہ میں اپنی نماز جاری رکھنا چاہتا تھامگر اس خیال سے ختم کر دی ہے کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں۔پھر آرام سے اپنا سر قاتل کے سامنے رکھ دیااور ایسا کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے:
وَلَسْتُ اُبَالِیْ حِیْنَ اُقْتَلُ مُسْلِمًا
عَلٰی اَیِّ جَنْبٍ کَانَ لِلّٰہِ مَصْرَعِیْ
وَذٰلِکَ فِیْ ذَاتِ الْاِلٰہِ وَاِنْ یَّشَأْ
یُبَارِکُ عَلٰی اَوصَالِ شِلْوٍ مُمَزَّعٖ۲۷۲؎
یعنی جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے پرواہ نہیں ہے کہ میں کس پہلو پر قتل ہو کر گروں۔یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے۔اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا۔
خبیبؓ نے ابھی یہ شعر ختم نہ کیے تھے کہ جلاد کی تلوار اُن کی گردن پر پڑی اور اُن کا سر خاک پر آگرا۔ جو لوگ یہ جشن منانے کے لئے جمع ہوئے تھے اُن میں ایک شخص سعید بن عامر بھی تھاجو بعد میں مسلمان ہو گیا۔ کہتے ہیں کہ جب کبھی خبیبؓ کے قتل کا ذکر سعید کے سامنے ہوتا تو اس کو غش آجایا کرتا۔۲۷۳؎
دوسرا قیدی زید بھی قتل کرنے کے لئے باہر لے جایا گیا۔اِس تماشہ کو دیکھنے والوں میں ابوسفیان رئیس مکہ بھی تھا۔وہ زید کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمدؐ تمہاری جگہ پر ہواور تم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہو؟زیدؓ نے بڑے غصہ سے جواب دیا کہ ابوسفیان!تم کیا کہتے ہو؟ خدا کی قسم! میرے لئے مرنا اِس سے بہتر ہے کہ آنحضرتﷺ کے پائوں کو مدینہ کی گلیوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے۔اِس فدائیت سے ابوسفیان متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکااور اُس نے حیرت سے زید کی طرف دیکھااور فوراً ہی دبی زبان میں کہاکہ خدا گواہ ہے کہ جس طرح محمدؐکے ساتھ محمدؐ کے ساتھی محبت کرتے ہیں میں نے نہیں دیکھاکہ کوئی اور شخص کسی سے محبت کرتا ہو۔۲۷۴؎
۷۰ حفاظِ قرآن کے قتل کا حادثہ
انہی ایام کے قریب قریب نجد کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے
تااُن کے ساتھ چند مسلمانوں کو بھیج دیا جائے تاکہ وہ اُن کو اِسلام سکھلائیں۔آنحضرتﷺ نے اُن کا اعتبارنہ کیا۔مگر ابوبراء نے جو اُس وقت مدینہ میں تھے کہاکہ میں اس قبیلہ کی طرف سے ضمانتی بنتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین دلایا کہ وہ کوئی شرارت نہیں کریں گے۔ اِس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷۰ مسلمانوں کو جو حافظ قرآن تھے اِس کام کے لئے انتخاب کیا۔جب یہ جماعت بئر معونہ پرپہنچی تو اُن میں سے ایک شخص حرام بن ملحان قبیلہ عامر کے رئیس کے پاس گیا جو ابوبراء کا بھتیجا تھاتاکہ اُس کو اِسلام کا پیغام دے۔بظاہر قبیلہ والوں نے حرام کا اچھی طرح استقبال کیا مگر جس وقت وہ رئیس کے سامنے تقریر کر رہے تھے تو ایک آدمی چھپ کر پیچھے سے آیااوراُن پر نیزہ سے حملہ کیا۔حرامؓ وہیں مارے گئے۔جب نیزہ اُن کے گلے سے پار ہوا تو وہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ۔ یعنی اللہ اکبر۔کعبہ کے ربّ کی قسم !میں اپنی مراد کو پہنچ گیا۔۲۷۵؎
اِس دھوکا بازی سے حرامؓ کے قتل کرنے کے بعد قبیلہ کے سرداروں نے اہلِ قبیلہ کو جوش دلایاکہ باقی جماعت معلّمین پر بھی حملہ کریں۔مگر قبیلہ والوں نے کہا کہ ہمارے رئیس ابوبراء نے ضامن بننا منظور کیا ہے ہم اِس جماعت پر حملہ نہیں کر سکتے۔اس پر قبیلہ کے سرداروں نے اُن دو قبیلوںکی مددکے ساتھ جو مسلمان معلّمین کو لانے کے لئے گئے تھے،جماعت معلّمین پر حملہ کر دیا۔ اُن کا یہ کہنا کہ ہم وعظ کرنے اور اِسلام سکھانے آئے ہیں لڑنے نہیں آئے بالکل کارگر نہ ہوا اور کفار نے مسلمانوں کوقتل کرنا شروع کردیا۔آخر تین آدمیوں کے سِوا باقی سب شہید ہوگئے۔ اس جماعت میں سے ایک آدمی لنگڑا تھااور لڑائی ہونے سے پہلے پہاڑی پر چڑھ گیا تھااور دو اُونٹ چرانے جنگل کو گئے ہوئے تھے۔ واپسی پر اُنہوں نے دیکھا کہ اُن کے چھیاسٹھ ساتھی میدان میں مرے پڑے ہیں۔ دونوںنے آپس میں مشورہ کیا۔ ایک نے کہاکہ ہمیں چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اِس حادثہ کی اطلاع دیں۔ دسرے نے کہا جہاں ہماری جماعت کا سردار جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امیر مقرر کیا تھاقتل کیا گیاہے میں اُس جگہ کو چھوڑ نہیں سکتا۔یہ کہتے ہوئے وہ تن تنہا کفّار پر حملہ آور ہوااور لڑتا ہوا مارا گیا۔دوسرے کو گرفتار کر لیا گیامگر بعد میں ایک قسم کی بناء پر جو قبیلہ کے ایک سردار نے کھائی تھی وہ چھوڑدیا گیا۔ قتل ہونے والوں میں عامربن فہیرہ بھی تھے جو حضرت ابوبکرؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔اُن کا قاتل ایک شخص جبار بن سلمٰی تھاجو بعد میں مسلمان ہو گیا۔جبار کہا کرتا تھا کہ عامر کا قتل ہی میرے مسلمان ہونے کا موجب ہواتھا۔جبار کہتا ہے کہ جب میں جبار کو قتل کرنے لگاتو میں نے عامر کو یہ کہتے سنا فُزْتُ وَاللّٰہِخدا کی قسم! میں نے اپنی مراد کو پالیا۔اس کے بعد میں نے ایک شخص سے پوچھا۔جب مسلمان کو موت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ایسی باتیں کیوں کرتا ہے؟ اُس شخص نے جواب دیا کہ مسلمان اللہ کی راہ میں موت کو نعمت اور فتح سمجھتا ہے۔جبار پر اِس جواب کا ایسا اثر ہواکہ اُس نے اِسلام کا باقاعدہ مطالعہ شروع کر دیا اور بِالآخر مسلمان ہو گیا۔۲۷۶؎
ان دو اندوہناک واقعات کی خبر جس میں قریباً ۸۰ مسلمان ایک شرارت آمیز سازش کے نتیجے میں شہید ہو گئے تھے فوراً مدینہ پہنچ گئی۔ مقتولین کوئی معمولی آدمی نہ تھے بلکہ حفّاظِ قرآن تھے۔ وہ کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تھے، نہ اُنہوں نے کسی کو دُکھ دیا تھا۔ وہ کسی جنگ میں بھی شریک نہیں تھے بلکہ اللہ اور مذہب کا جھوٹا واسطہ دیکر وہ دھوکے سے دشمن کے تصرف میں دے دیئے گئے تھے۔اِن واقعات سے بِلا شک و شبہ ثابت ہوتا ہے کہ کفّار کو اِسلام سے سخت دشمنی تھی۔اس کے بِالمقابل اِسلام کے حق میں مسلمانوں کا جوش بھی نہایت گہرا اور پائدار تھا۔
غزوہ بنی مصطلق
جنگِ اُحد کے بعد مکّہ میں سخت قحط پڑا۔مکّہ والوں کو جو دشمنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اور جو تدابیر وہ آپ کے برخلاف لوگوں کے
درمیان نفرت پھیلانے کی ملک بھر میں کر رہے تھے،بالکل نظر انداز کر کے آنحضرت ﷺنے اِس سخت مصیبت کے وقت میں مکّہ کے غرباء کی امداد کے لئے ایک رقم جمع کی،مگر اِس خیرخواہی کا بھی اہلِ مکہ پر کچھ اثر نہ ہوااور اُن کی دشمنی میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ وہ دشمنی میں اَور بھی بڑھ گئے۔ ایسے قبائل بھی جو پہلے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کرتے تھے دشمن بن گئے۔ اِن قبائل میں سے ایک قبیلہ بنی مصطلق تھا۔ اُن کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ اچھے تھے مگراب اُنہوں نے مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی تیاری کا علم ہوا تو آپ نے حقیقت حال دریافت کرنے کے لئے کچھ آدمی بھیجے۔ جنہوں نے واپس آکر اُن اطلاعات کی تصدیق کی۔ اِس پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ خود جا کر اس نئے حملہ کا مقابلہ کریں۔ چنانچہ آپ نے ایک فوج تیار کی اور اُسے لے کر بنو مصطلق کی طرف گئے۔ جب مسلمانوں کی فوج کا دشمن سے مقابلہ ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوشش کی کہ دشمن بغیر لڑائی کے پیچھے ہٹ جانے پر آمادہ ہوجائے مگر اُنہوں نے انکار کیا۔ اِس پر جنگ ہوئی اور چند گھنٹوں کے اندر دشمن کو شکست ہو گئی۔
چونکہ کفّارِ مکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے تھے اور جو قبائل دوست تھے وہ بھی دشمن بن رہے تھے، اس لئے اُن منافقین نے بھی جو مسلمانوں کے درمیان موجود تھے اِس موقع پر یہ جرأت کی کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو کر جنگ میں حصہ لیں۔ غالباً اُن کا خیال تھا کہ اس طرح اُنہیں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا موقع مل سکے گا مگر بنو مصطلق کے ساتھ جو لڑائی ہوئی وہ چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی اِس لئے اِس لڑائی کے دوران میں منافقین کو کوئی شرارت کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ بنو مصطلق کے قصبہ میں کچھ دن قیام فرمائیں۔ آپ کے قیام کے دوران میں ایک مکہ کے رہنے والے مسلمان کا ایک مدینہ کے رہنے والے مسلمان سے کنویں سے پانی نکالنے کے متعلق جھگڑا ہو گیا۔ اتفاق سے یہ مکہ والا آدمی ایک آزاد شدہ غلام تھا اُس نے مدینہ والے شخص کو مارا۔ جس پر اُس نے اہل مدینہ کو جنہیں انصار کہتے تھے پکارا اور مکہ والے نے مہاجرین کو پکارا۔ اِس طرح جوش پھیل گیا۔ کسی نے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہ کی کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ دونوں طرف کے جوان آدمیوں نے تلواریں نکال لیں۔ عبداللہ بن ابی بن سلول سمجھا کہ ایسا موقع خدا نے مہیا کر دیاہے۔ اُس نے چاہا کہ آگ پر تیل ڈالے اور اہل مدینہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اِن مہاجرین پر تمہاری مہربانی حد سے بڑھ گئی ہے اور تمہارے نیک سلوک سے اُن کے سر پھر گئے ہیں اور یہ دن بدن تمہارے سرپر چڑھتے جاتے ہیں۔ قریب تھا کہ اِس تقریر کا وہی اثر ہو ا ہوتاجو عبداللہ چاہتا تھا اور جھگڑا شدت پکڑ جاتا مگر ایسا نہ ہوا۔ عبداللہ نے اپنی شر انگیز تقریر کا اندازہ لگانے میں غلطی کی تھی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ انصار پر اس کا اثر ہو گیا ہے، اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم مدینہ میں واپس پہنچ لیں پھر جو معزز ترین انسان ہے وہ ذلیل ترین انسان کو باہر نکال دے گا۔ معزز ترین انسان سے اُس کی مراد وہ خود تھا اور ارذل ترین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ)۔ جو نہی یہ بات اُس کے منہ سے نکلی مؤمنوں پر اُس کی حقیقت کھل گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ معمولی بات نہیں بلکہ یہ شیطان کا قول ہے جو ہمیں گمراہ کرنے آیا ہے۔ ایک جوان آدمی اُٹھا اور اپنے چچا کے ذریعے اُس نے یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دی۔ آپ نے عبداللہ بن ابی بن سلول اور اُس کے دوستوں کو بلایا اور پوچھا کیا بات ہوئی ہے؟ عبداللہ نے اور اس کے دوستوں نے بالکل انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ واقعہ جو ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے ہوا ہی نہیں۔ آپ نے کچھ نہ کہا۔ لیکن سچی بات پھیلنی شروع ہو گئی۔ کچھ عرصہ کے بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے عبداللہ نے بھی یہ بات سنی۔ وہ فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا ۔ اے اللہ کے نبی! میرے باپ نے آپ کی ہتک کی ہے اُس کی سزا موت ہے اگر آپ یہی فیصلہ کریں تو میں پسند کرتا ہوںکہ آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کروں۔ اگر آپ کسی اور کو حکم دیں گے اور میرا باپ اُس کے ہاتھوں مارا جائے گا تو ہو سکتا ہے کہ میں اُس آدمی کو قتل کر کے اپنے باپ کا بدلہ لوں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے لوں۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میرا ہر گز ارادہ نہیں میں تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا سلوک کروں گا۔ جب عبداللہ نے اپنے باپ کی بیوفائی اور درشت کلامی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی اور مہربانی سے مقابلہ کیا تو اس کا ایمان اور بڑھ گیا اور اپنے باپ کے خلاف اُس کا غصہ بھی اُسی نسبت سے ترقی کر گیا۔ جب لشکرمدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے آگے بڑھ کر اپنے باپ کا راستہ روک لیا اور کہا میں تم کو مدینہ کے اندر داخل نہیں ہونے دوں گاتا وقتیکہ تم وہ الفاظ واپس نہ لے لوجو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف استعمال کئے ہیں۔ جس منہ سے یہ بات نکلی ہے کہ خد اکا نبی ذلیل ہے اور تم معزز ہو اُسی منہ سے تم کو یہ بات کہنی ہو گی کہ خد اکا نبی معزز ہے اور تم ذلیل ہو۔ جب تک تم یہ نہ کہو میں تمہیں ہرگز آگے نہ جانے دوں گا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول حیران اور خوفزدہ ہو گیا اور کہنے لگا اے میرے بیٹے! میں تمہارے ساتھ اتفاق کرتا ہوں، محمد معزز ہے اور میں ذلیل ہوں۔ نوجوان عبداللہ نے اس پر اپنے باپ کو چھوڑ دیا۔ ۲۷۷؎
مدینہ پر سارے عرب کی چڑھائی
غزوہ خندق
اس سے پہلے یہود کے دو قبیلوں کا ذکر کیا جا چکا ہے جو لڑائی، فساد،قتل اور قتل کرنے کے منصوبوں کی وجہ سے مدینہ سے جلاوطن کر دیئے گئے تھے۔ ان
میں سے بنو نضیر کا کچھ حصہ تو شام کی طرف ہجرت کر گیا تھا اور کچھ حصہ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف ہجرت کر گیا تھا۔ خیبر عرب میں یہود کا ایک بہت بڑا مرکز تھا اورایک قلعہ بند شہر تھا۔ یہاں جا کر بنو نضیر نے مسلمانوں کے خلاف عربوں میں جوش پھیلانا شروع کیا۔ مکہ والے تو پہلے ہی مخالف تھے، کسی مزید انگیخت کے محتاج نہ تھے۔ اسی طرح غطفان نامی نجد کا قبیلہ جو عرب کے قبیلوں میں بہت بڑی حیثیت رکھتا تھا وہ بھی مکہ والوں کی دوستی میں اِسلام کی دشمنی پر آمادہ رہتا تھا۔ اب یہود نے قریش اور غطفان کو جوش دلانے کے علاوہ بنو سلیم اور بنواسد دو اَور زبردست قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف اُکسانا شروع کیا اور اسی طرح بنوسعد نامی قبیلہ جو یہود کا حلیف تھا اُس کو بھی کفّارِ مکہ کاساتھ دینے کے لئے تیا رکیا۔ ایک لمبی تیاری کے بعد عرب کے تمام زبردست قبائل کے ایک اتحادِ عام کی بنیاد رکھ دی گئی جس میں مکہ کے لوگ بھی شامل تھے۔ مکہ کے اِردگرد کے قبائل بھی تھے اور نجد اور مدینہ سے شمال کی طرف کے علاقوں کے قبائل بھی شامل تھے اور یہود بھی شامل تھے۔ اِن سب قبائل نے مل کر مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے ایک زبردست لشکر تیار کیا۔ یہ ماہ شوال ۵ہجری آخر فروری و مارچ ۶۲۷ء کا واقعہ ہے۔۲۷۸؎ مختلف مؤرخوں نے اس لشکر کا اندازہ دس ہزار سے چوبیس ہزار تک لگایا ہے۔لیکن ظاہر ہے کہ تمام عرب کے اجتماع کا نتیجہ صرف دس ہزار سپاہی نہیں ہو سکتا یقینا چوبیس ہزار والا اندازہ زیادہ صحیح ہے اور اگر اور کچھ نہیں تو یہ لشکر اٹھارہ بیس ہزار کا تو ضرور ہوگا۔ مدینہ ایک معمولی قصبہ تھا اِس قصبہ کے خلاف سارے عرب کی چڑھائی کوئی معمولی نہیں تھی۔ مدینہ کے مرد جمع کر کے (جن میں بوڑھے، جوان اور بچے بھی شامل ہوں) صرف تین ہزار آدمی نکل سکتے تھے اس کے برخلاف دشمن کی فوج بیس اور چوبیس ہزار کے درمیان تھی اور پھر وہ سب کے سب فوجی آدمی تھے۔ جوان اور لڑنے کے قابل تھے۔ کیونکہ جب شہر میں رہ کر حفاظت کا سوال پیدا ہوتاہے تو اس میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ مگر جب دُور دراز مقام پر لشکر چڑھائی کر کے جاتا ہے تو اُس میں صرف جوان اور مضبوط آدمی ہوتے ہیں۔ پس یہ بات یقینی ہے کہ کفّار کے لشکر میں بیس ہزار یا پچیس ہزار جتنے بھی آدمی تھے وہ سب کے سب مضبوط ، جوان اور تجربہ کار سپاہی تھے۔ لیکن مدینہ کے کل مردوں کی تعداد بچوں اور اپاہچوں کو ملا کر بمشکل تین ہزار ہوتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مدینہ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سمجھی جائے تو دشمن کی تعداد چالیس ہزار سمجھنی چاہئے اور اگر دشمن کے لشکر کی تعداد بیس ہزار سمجھی جائے تو مدینہ کے سپاہیوں کی تعداد صرف ڈیڑھ ہزار فرض کرنی چاہئے۔ جب اِس لشکر کے جمع ہونے اور حملہ کی تیاریوں کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے صحابہ کو جمع کر کے مشورہ کیا کہ اس موقع پر کیا کرنا چاہئے۔ صحابہ میں سلمانؓ فارسی سے جو سب سے پہلے فارسی مسلمان تھے دریافت فرمایا کہ تمہارے ملک میں ایسے موقع پر کیا کیا کرتے ہیں؟ تو اُنہوںنے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جب شہر بے حفاظت ہو اور سپاہی تھوڑے ہوں تو ہمارے ملک کے لوگ خندق کھود کر اُس کے اندر محصور ہوجایا کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ تجویز پسند فرمائی۔ مدینہ کے ایک طرف ٹیلے تھے دوسری طرف ایسے محلے تھے جن کے مکانات ایک دوسرے سے پیوستہ تھے اور دشمن صرف چند گلیوں میں سے ہو کر آسکتا تھا۔ تیسری طرف کچھ مکانات تھے اور کچھ باغات اور کچھ فاصلہ پر یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے قلعے تھے۔ یہ قبیلہ چونکہ مسلمانوں سے اتحاد کا معاہدہ کر چکاتھا اِس لیے یہ سمت بھی محفوظ سمجھ لی گئی تھی۔ چوتھی طرف کھلا میدان تھا اور اس طرف سے زیادہ خطرہ ہو سکتا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ اِس کھلے میدان کی طرف خندق بنا دی جائے تاکہ دشمن اچانک شہر میں داخل نہ ہو سکے۔ چنانچہ آپ نے دس دس گز کا حصہ کھولنے کیلئے دس دس آدمیوں کے سپرد کر دیا اور اس طرح قریباً ایک میل لمبی خندق کھدوائی۔ جب خندق کھودی جارہی تھی تو زمین میں سے ایک ایسا پتھر نکلا جو کسی طرح لوگوں سے ٹوٹتا نہیں تھا۔ صحابہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس بات کی خبر دی تو آپ وہاں خود تشریف لے گئے۔ اپنے ہاتھ میں کدال پکڑا اور زور سے اُس پتھر پر مارا۔ کدال کے پڑنے سے اس پتھر میں سے روشنی نکلی اور آپ نے فرمایا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ پھر دوبارہ آپ نے کدال مارا تو پھر روشنی نکلی پھر آپ نے فرمایا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ پھر آپ نے تیسری دفعہ کدال مارا اور پھر پتھر سے روشنی نکلی اور ساتھ ہی پتھر ٹوٹ گیا۔اس موقع پر پھر آپ نے فرمایا۔ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔ صحابہؓ نے آپ سے پوچھا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے تین دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُکیوں فرمایا؟ آپ نے فرمایا پتھر پر کدال پڑنے سے تین دفعہ جو روشنی نکلی تو تینوں دفعہ خدا نے مجھے اسلا م کی آئندہ ترقیات کا نقشہ دکھایا۔ پہلی دفعہ کی روشنی میں مملکت قیصر کے شام کے محلات دکھائے گئے اور اُس کی کنجیاں مجھے دی گئیں، دوسری دفعہ کی روشنی میں مدائن کے سفید محلات مجھے دکھائے گئے اورمملکت فارس کی کنجیاں مجھے دی گئیں، تیسری دفعہ کی روشنی میں صنعاء کے دروازے مجھے دکھائے گئے اور مملکت یمن کی کنجیاں مجھے دی گئیں۔۲۷۹؎ پس تم خد اکے وعدوں پر یقین رکھو دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔
یہ تھوڑے سے آدمی اتنی لمبی خندق فوجی اصول کے مطابق تو نہیں کھود سکتے تھے۔ پس یہ خندق اتنا ہی فائدہ دے سکتی تھی کہ دشمن اچانک اندر نہ گھس آئے ورنہ اس خندق سے پار ہونا دشمن کیلئے نا ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ آئندہ جو واقعات بیان ہوں گے اُن سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے کہ دشمن نے بھی مدینہ کے حالات کو مدنظر رکھ کر اُسی طرف سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا۔ چنانچہ دشمن کا لشکر جرار اسی طرف سے مدینہ میں داخل ہونے کیلئے آگے بڑھا۔ رسول کریم ﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے بھی کچھ لوگوں کو شہر کے دوسرے حصوں کی حفاظت کیلئے مقرر کر دیا اور بقیہ آدمیوں کو ساتھ لے کر جو بارہ سَو کے قریب تھے خندق کی حفاظت کیلئے تشریف لے گئے۔
غزوہ خندق کے وقت اِسلامی لشکر کی اصل تعداد کیا تھی؟
اِس موقع پر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد کے بارہ میں مؤرخین میں سخت اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے اس لشکر کی تعداد تین ہزار لکھی ہے بعض نے
بارہ تیرہ سَو اور بعض نے سات سَو۔ یہ اتنا بڑا اختلاف ہے کہ اس کی تأویل بظاہر مشکل معلوم ہوتی ہے اور مؤرخین اسے حل نہیں کر سکے۔ لیکن میں نے اس کی حقیقت کو پالیا ہے اور وہ یہ کہ تینوں قسم کی روایتیں درست ہیں۔ یہ بتایا جا چکاہے کہ جنگ اُحد میں منافقین کے واپس آجانے کے بعد مسلمانوں کا لشکر صرف سات سَو افراد پر مشتمل تھا۔ جنگ احزاب اس کے صرف دو سال کے بعد ہوئی ہے اور اس عرصہ میں کوئی بڑا قبیلہ اِسلام لا کر مدینہ میں آکر نہیں بسا۔ پس سات سَو آدمیوں کا یکدم تین ہزار ہو جانا قرین قیاس نہیں۔ دوسری طرف یہ امر بھی قرین قیاس نہیں کہ اُحد کے دو سال بعد تک باوجود اِسلام کی ترقی کے قابلِ جنگ مسلمان اتنے ہی رہے جتنے اُحد کے وقت تھے۔ پس اِن دونوں تنقیدوں کے بعد وہ روایت ہی درست معلوم ہوتی ہے کہ لڑنے کے قابل مسلمان جنگ احزاب کے وقت کوئی بارہ سَو تھے۔ اب رہا یہ سوال کہ پھر کسی نے تین ہزار اور کسی نے سات سَو کیوں لکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دو روایتیں الگ الگ حالتوں اور نظریوں کے ماتحت بیان کی گئی ہیں۔ جنگ احزاب کے تین حصے تھے ایک حصہ اس کا وہ تھا جب ابھی دشمن مدینہ کے سامنے نہ آیا تھا اور خندق کھودی جار ہی تھی۔ اس کام میں کم سے کم مٹی ڈھونے کی خدمت بچے بھی کر سکتے تھے اور بعض عورتیں بھی اس کام میں مدد دے سکتی تھیں۔ پس جب تک خندق کھودنے کاکام رہا مسلمان لشکر کی تعداد تین ہزار تھی مگر اِس میںبچے بھی شامل تھے اورصحابیہ عورتوں کے جوش کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِس تعداد میں کچھ عورتیں بھی شامل ہوں گی جو خندق کھودنے کا کام تو نہیں کرتی ہوں گی مگر اوپر کے کاموں میں حصہ لیتی ہوں گی۔ یہ میرا خیال ہی نہیں تاریخ سے بھی میرے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے۔ چنانچہ لکھا ہے جب خندق کھودنے کا وقت آیا سب لڑکے بھی جمع کر لئے گئے اور تمام مرد خواہ بڑے تھے خواہ بچے، خندق کھودنے یا اُس میں مدد دینے کا کام کرتے تھے، پھر جب دشمن آگیا اور لڑائی شروع ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن تمام لڑکو ں کو جو پندرہ سال سے چھوٹی عمر کے تھے چلے جانے کا حکم دیا اور جو پندرہ سال کے ہو چکے تھے، اُنہیں اجازت دی کہ خواہ ٹھہریں خواہ چلے جائیں۔ ۲۸۰؎
اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خندق کھودنے کے وقت مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور جنگ کے وقت کم ہو گئی کیونکہ نابالغوں کو واپس چلے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا۔ پس جن روایتوں میں تین ہزار کا ذکر آیا ہے وہ خندق کھودنے کے وقت کی تعداد بتاتی ہیں جس میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ اور جیسا کہ میں نے دوسری جنگوں پر قیاس کر کے نتیجہ نکالا ہے کچھ عورتیں بھی تھیں۔ لیکن بارہ سَو کی تعداد اُس وقت کی ہے جب جنگ شروع ہوگئی اور صرف بالغ مرد رہ گئے۔
اب رہا یہ سوال کہ تیسری روایت جو سات سَو سپاہی بتاتی ہے کیا وہ بھی درست ہے؟ تو اِس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ابن اسحق مؤرخ نے بیان کی ہے جو بہت معتبر مؤرخ ہے اور ابن حزم جیسے زبردست عالم نے اِس کی بڑے زور سے تصدیق کی ہے۔ پس اس کے بارہ میں بھی شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ تاریخ کی مزید چھان بین سے معلوم ہوتا ہے کہ جب جنگ کے دوران میں بنو قریظہ کفّار کے لشکر سے مل گئے اور اُنہوں نے یہ ارادہ کیا کہ مدینہ پر اچانک حملہ کر دیں اور اُن کی نیتوں کا راز فاش ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی اس جہت کی حفاظت بھی ضروری سمجھی جس سمت بنو قریظہ تھے اور جو سمت پہلے اس خیال سے بے حفاظت چھوڑ دی گئی تھی کہ بنو قریظہ ہمارے اتحادی ہیں یہ دشمن کو اِس طرف سے نہ آنے دیں گے۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بنو قریظہ کے غدر کا حال معلوم ہوا تو چونکہ مستورات بنو قریظہ کے اعتبار پر اس علاقہ میں رکھی گئی تھیں جدھر بنو قریظہ کے قلعے تھے اور وہ بغیر حفاظت تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اب اُن کی حفاظت ضروری سمجھی اور دو لشکر مسلمانوں کے تیار کر کے عورتوں کے ٹھہرنے کے دونوں حصوں پر مقرر فرمائے۔ مسلمہ ابن اسلمؓ کو دو سَو صحابہ دے کر ایک جگہ مقرر کیا اور زید بن حارثہؓ کو تین سَو صحابہ دے کر دوسری جگہ مقرر کیا اور حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بلند آواز سے تکبیر کہتے رہا کریں تا معلوم ہوتا رہے کہ عورتیں محفوظ ہیں۔ اِس روایت سے ہماری یہ مشکل کہ سات سَو سپاہی جنگ خندق میں ابن اسحاق نے کیوں بتائے ہیں حل ہو جاتی ہے۔کیونکہ بارہ سَو سپاہیوں میں سے جب پانچ سَو سپاہی عورتوں کی حفاظت کے لئے بھجوا دیئے گئے تو بارہ سَو کا لشکر صرف سات سَو رہ گیا اور اس طرح جنگ خندق کے سپاہیوں کی تعداد کے متعلق جو شدید اختلاف تاریخوں میں پایا جاتا ہے وہ حل ہو گیا۔
خلاصہ یہ کہ اس خطرناک مصیبت کے وقت خندق کی حفاظت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف سات سَو آدمی تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے خندق کھودی تھی لیکن پھر بھی اتنے بڑے لشکر کو خندق کے پار سے روکنا بھی اتنے تھوڑے آدمیوں کے لئے ناممکن تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مدد کے بھروسہ پر یہ قلیل لشکر ایمان اور یقین کے ساتھ خندق کے پیچھے دشمن کے جرار لشکر کا انتظار کرنے لگا اور عورتیں اور بچے دو الگ الگ جگہوں پر اکٹھے کر دیئے گئے۔ دشمن جب خندق تک پہنچا تو چونکہ یہ عرب کے لئے ایک بالکل نئی بات تھی اور اس قسم کی لڑائی کے لئے وہ تیار نہ تھے اُنہوں نے خندق کے سامنے اپنے خیمے لگا دئیے اور مدینہ میں داخل ہونے کی تدبیریں سوچنے لگے۔
بنو قریظہ کی غداری
چونکہ مدینہ کا ایک کافی حصہ خندق سے محفوظ تھا اور دوسری طرف کچھ پہاڑی ٹیلے، کچھ پختہ مکانات اور کچھ باغات وغیرہ تھے، اس
لئیفوج یکدم حملہ نہیں کر سکتی تھی۔ پس اُنہوں نے مشورہ کر کے یہ تجویز کی کہ کسی طرح یہود کا تیسرا قبیلہ جو ابھی مدینہ میں باقی تھا اور جس کا نام بنو قریظہ تھا اپنے ساتھ ملا لیا جائے اور اس ذریعہ سے مدینہ تک پہنچنے کا راستہ کھولا جائے۔ چنانچہ مشورہ کے بعد حیی ابن اخطب جو جلاو طن کردہ بنو نضیر کا سردار تھا اور جس کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے سارا عرب اکٹھا ہوکرمدینہ پر حملہ آور ہوا تھا اُسے کفّار کی فوج کے کمانڈر ابوسفیان نے ا س بات پر مقرر کیا کہ جس طرح بھی ہو بنوقریظہ کو اپنے ساتھ شامل کرو، چنانچہ حیی ابن اخطب یہودیوں کے قلعوں کی طرف گیا اور اُس نے بنوقریظہ کے سرداروں سے ملنا چاہا۔ پہلے تو اُنہوں نے ملنے سے انکار کیا لیکن جب اُس نے اُن کو سمجھایا کہ اِس وقت سارا عرب مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے آیا ہے اور یہ بستی سارے عرب کا مقابلہ کسی صورت میں نہیں کر سکتی اِس وقت جو لشکر مسلمانوں کے مقابل پر کھڑا ہے اُس کو لشکر نہیں کہنا چاہئے بلکہ ایک ٹھاٹھیں مارنے والا سمندر کہنا چاہئے تو اِن باتوں سے اُس نے بنو قریظہ کو آخر غداری اور معاہدہ شکنی پر آمادہ کردیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ کفّار کا لشکر سامنے کی طرف سے خندق پار ہونے کی کوشش کرے اور جب وہ خندق پار ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے تو بنوقریظہ مدینہ کی دوسری طرف سے مدینہ کے اُس حصہ پر حملہ کردیں گے جہاں عورتیں اور بچے ہیں جو بنو قریظہ پر اعتبار کر کے بغیر حفاظت کے چھوڑ دیئے گئے تھے اور اس طرح مسلمانوں کی مقابلہ کی طاقت بالکل کچلی جائے گی اور ایک ہی دم میں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب مار دئیے جائیں گے۔ یہ یقینی بات ہے کہ اگر اِس تدبیر میں تھوڑی بہت کامیابی بھی کفّار کو ہو جاتی تو مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ حفاظت کی باقی نہیں رہتی تھی۔ بنو قریظہ مسلمانوں کے حلیف تھے اور اگر وہ کھلی جنگ میں شامل نہ بھی ہوتے تب بھی مسلمان یہ امید کرتے تھے کہ اُن کی طرف سے ہو کر مدینہ پر کوئی حملہ نہیں کر سکے گا۔ اسی وجہ سے اُن کی طرف کا حصہ بالکل غیر محفوظ چھوڑ دیا گیا تھا۔ بنو قریظہ اور کفّار نے بھی اس صورت حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ جب بنو قریظہ کفّار کے ساتھ مل گئے تو وہ کھلے بندوںکفّار کی مدد نہ کریں تا ایسا نہ ہو کہ مسلمان مدینہ کی اُس طرف کی حفاظت کا بھی کوئی سامان کر لیں جو بنو قویظہ کے علاقہ کے ساتھ ملتی تھی۔ یہ تدبیر نہایت ہی خطرناک تھی۔ مسلمانو ں کو غافل رکھتے ہوئے کسی ایسے وقت میں بنو قریظہ کا دشمن کے ساتھ جا ملنا جبکہ اسلامی فوج پر کفّار کی فوج کا زبردست دھاوا ہو رہاہو مدینہ کی اس طرف کی حفاظت کو جس طرف بنو قریظہ کے قلعے واقعہ تھے بالکل ناممکن بنا دیتا تھا۔ دو طرف سے مسلمانوں پر حملہ کر سکنے کا امکان پیدا ہو جانے کے بعد مکہ کے لشکر نے خندق پر حملہ شروع کیا۔ پہلے چند دن تو اُن کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ خندق سے کس طرح گزریں، لیکن دو چار دن کے بعد اُنہوں نے یہ تدبیر نکالی کہ تیرانداز اونچی جگہوں پر کھڑے ہو کر اُن مسلمان دستوں پر تیر اندازی شروع کر دیتے تھے جو خندق کی حفاظت کے لئے خندق کے ساتھ ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر بٹھائے گئے تھے۔ جب تیروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے مسلمان پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جاتے تو اعلیٰ درجہ کے گھوڑ سوار خندق کو پھاندنے کی کوشش کرتے۔ خیال کیا گیا تھا کہ اِس قسم کے متواتر حملوں کے نتیجہ میں کوئی نہ کوئی جگہ ایسی نکل آئے گی کہ جہاں سے پیدل فوج زیادہ تعداد میں خندق پار ہو سکے گی۔یہ حملے اتنی کثرت کے ساتھ کئے جاتے تھے اور اِس طرح متواتر کئے جاتے تھے کہ بعض دفعہ مسلمانوں کو سانس لینے کا بھی موقع نہیں ملتا تھا۔ چنانچہ ایک دن حملہ اتنا شدید ہو گیا کہ مسلمانوں کی بعض نمازیں وقت پر ادا نہ ہو سکیں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ ہو اکہ آپ نے فرمایا خد اکفّار کو سزا دے اُنہو ںنے ہماری نمازیں ضائع کیں۔۲۸۱؎
گو میں نے یہ واقعہ دشمنوں کے حملوں کی شدت ظاہر کرنے کیلئے بیان کیا ہے، لیکن اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر ایک بہت بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ترین چیز آپ کے لئے خداتعالیٰ کی عبادت تھی جبکہ دشمن چاروں طرف سے مدینہ کو گھیرے ہوئے تھا۔ جبکہ مدینہ کے مرد تو الگ رہے اُن عورتوں اور بچوں کی جانیں بھی خطرہ میں تھیں۔ جب ہر وقت مدینہ کے لوگوں کا دل دھڑک رہا تھا کہ دشمن کسی طرف سے مدینہ کے اندر داخل نہ ہو جائے اُس وقت بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یہی تھی کہ خدا تعالیٰ کی عبادت اپنے وقت پر عمدگی کے ساتھ ادا ہو جائے۔ مسلمانوں کی عبادت یہودیوں اور عیسائیوں اور ہندوئوں کی طرح ہفتہ میں کسی ایک دن نہیں ہوا کرتی بلکہ مسلمانوں کی عبادت دن رات میں پانچ دفعہ ہوتی ہے۔ ایسے خطرناک وقت میں تو دن میں ایک دفعہ بھی نماز ادا کرنا انسان کے لئے مشکل ہے چہ جائیکہ پانچ وقت اور پھر عمدگی کے ساتھ باجماعت نماز ادا کی جائے۔ مگر ان خطرناک ایام میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پانچوں نمازیں اپنے وقت پر ادا کرتے تھے اور اگر ایک دن دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے آپ اپنے ربّ کا نام اطمینان اور آرام سے اپنے وقت پر نہ لے سکے تو آپ کو شدید تکلیف پہنچی۔
اُس وقت سامنے سے دشمن حملہ کر رہا تھا اورپیچھے سے بنو قریظہ اس بات کی تاک میں تھے کہ کوئی موقع مل جائے تو بغیر مسلمانوں کے شبہات کو اُبھارنے کے وہ مدینہ کے اندر گھس کر عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیں۔ چنانچہ ایک دن بنو قریظہ نے ایک جاسوس بھیجا تاکہ وہ معلوم کرے کہ عورتیں اور بچے اکیلے ہی ہیں یا کافی تعداد سپاہیوں کی اُن کی حفاظت کے لئے مقرر ہے۔ جس خاص احاطہ میں وہ خاص خاص خاندان جن کو دشمن سے زیادہ خطرہ تھا جمع کر دیئے گئے تھے اُس کے پاس اُس جاسوس نے آکر منڈلانہ اور چاروں طرف دیکھنا شروع کیا کہ مسلمان سپاہی کہیں اِردگرد میں پوشیدہ تو نہیں ہیں۔ وہ ابھی اسی ٹوہ میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہؓ نے اُسے دیکھ لیا۔ اتفاقاً اُس وقت صرف ایک ہی مسلمان مرد وہاں موجود تھا اور وہ بھی بیمار تھا۔ حضرت صفیہؓ نے اُسے کہا کہ یہ آدمی دیر سے عورتوں کے علاقہ میں پھر رہا ہے اور جانے کا نام نہیں لیتا اور چاورں طرف دیکھتا پھر تاہے پس یہ یقینا جاسوس ہے تم اس کا مقابلہ کرو ایسا نہ ہو کہ دشمن پورے حالات معلوم کرکے اِدھر حملہ کر دے۔ اُس بیمار صحابی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ تب حضرت صفیہؓ نے خود ایک بڑا بانس لے کر اُس شخص کا مقابلہ کیا اور دوسری عورتوں کی مدد سے اُس کو مارنے میں کا میاب ہو گئیں۔۲۸۲؎ آخر تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ یہودی تھا اور بنو قریظہ کا جاسوس تھا۔ تب تو مسلمان اور بھی زیادہ گھبرا گئے اور سمجھے کہ اب مدینہ کی یہ طرف بھی محفوظ نہیں۔ مگر سامنے کی طرف سے دشمن کا اتنا زور تھا کہ اب وہ اس طرف کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں کر سکتے تھے لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی حفاظت کو مقدم سمجھا اور جیساکہ اُوپر لکھا جا چکا ہے بارہ سَو سپاہیوں میں سے پانچ سَو کو عورتوں کی حفاظت کے لئے شہر میں مقرر کر دیا اور خندق کی حفاظت اور اٹھارہ بیس ہزار لشکر کے مقابلہ کے لئے صرف سات سَو سپاہی رہ گئے۔ اِس حالت میں بعض مسلمان گھبرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! حالات نہایت خطرناک ہو گئے ہیں۔ اب بظاہر مدینہ کے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی، آپ اِس وقت خدا تعالیٰ سے خاص طور پر دعا کریں اور ہمیں بھی کوئی دعا سکھلائیں جس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر نازل ہو۔ آپ نے فرمایا تم لوگ گھبرائو نہیں تم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ تمہاری کمزوریوں پر وہ پردہ ڈالے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور گھبراہٹ کو دور فرمائے۔ اور پھر آپ نے خود بھی اس طرح دعا فرمائی۔
اَللّٰھُمَّ مُنْزِلَ الْکِتٰبِ سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِھْزِمِ الْاَحْزَابَ اَللّٰھُمَّ اھْزِمْھُمْ وَزَلْزِلْھُمْ۲۸۳؎ اور اسی طرح یہ دعا فرمائی۔ یَا صَرِیْخَ الْمَکْرُوْبِیْنَ یَاَمُجِیْبَ الْمُضْطَرِّیْنَ اکْشِفَْ ھَمِّیْ وَ غَمِّیْ وَکَرْبِیْ فَاِنَّکَ تَرٰی مَانَزَلَ بِیْ وَ بِاَصْحَابِیْ۲۸۴؎ اے اللہ! جس نے قرآن کریم مجھ پر نازل کیا ہے جو بہت جلدی اپنے بندوں سے حساب لے سکتا ہے یہ گروہ جو جمع ہوکر آئے ہیں اِن کو شکست دے۔ اے اللہ! میں پھر عرض کرتا ہوں کہ تو انہیں شکست دے اور ہمیں اِن پر غلبہ دے اور اُن کے ارادوںکو متزلزل کر دے۔ اے درد مندوں کی دعا سننے والے! اے گھبراہٹ میں مبتلا لوگوں کی پکار کا جواب دینے والے! میرے غم اور میری فکر اور میری گھبراہٹ کو دُور کر کیونکہ تو اِن مصائب کوجانتا ہے جو مجھے اور میرے ساتھیوں کو درپیش ہیں۔
منافقوں اور مؤمنوں کی حالت کا بیان
اِس موقع پر منافق تو اتنے گھبرا گئے کہ قومی حمیت اور اپنے شہر اور اپنی
عورتوں اور بچوں کی حفاظت کا خیال بھی اُن کے دلوں سے نکل گیا۔ مگر چونکہ اپنی قوم کے سامنے وہ ذلیل بھی نہیں ہونا چاہتے تھے اس لئے اُنہو ں نے بہانے بہانے سے لشکر سے فرار کی صورت سوچی۔ چنانچہ قرآن کریم میںآتا ہے۔ ۲۸۵؎ یعنی ایک گروہ اُن میں سے رسول کریم ﷺ کے پا س آیا اور آپ سے اجازت طلب کی کہ اُنہیں محاذِ جنگ سے پیچھے لوٹ آنے کی اجازت دی جائے۔ کیونکہ اُنہوں نے کہا ( اب یہودی بھی مخالف ہو گئے ہیں اور اُس طرف سے مدینہ کے بچائو کا کوئی ذریعہ نہیں) اور ہمارے گھر اُس علاقہ کی طرف سے بے حفاظت کھڑے ہیں( پس ہمیں اجازت دیجئے کہ جا کر اپنے گھروں کی حفاظت کریں) لیکن اُن کا یہ کہنا کہ اُن کے گھر بے حفاظت کھڑے ہیں بالکل غلط ہے۔ وہ بے حفاظت نہیں ہیں (کیونکہ خدا تعالیٰ مدینہ کی حفاظت کیلئے کھڑا ہے) وہ تو صرف ڈر کے مارے میدانِ جنگ سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ اُس وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی اُس کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے۔ ۔۲۸۶؎ یعنی یاد تو کرو جب تم پر لشکر چڑھ کے آگیا تمہارے اوپر کی طر ف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی۔ یعنی نیچے کی طرف سے کفّار اور اُوپر کی طرف سے یہود۔ جب کہ نظریں کج ہونے لگ گئیں اور دل اُچھل اُچھل کر گلے تک آنے لگے اور تم میں سے کئی خد اکی نسبت بدظنیاں کرنے لگ گئے۔ اُس وقت مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا اور مؤمنوں کو سر سے پیر تک ہلادیا گیا اور یاد کرو جبکہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض تھا اُنہوں نے کہنا شروع کیا ’’ اللہ اور اُس کے رسول نے ہم سے جھوٹے وعدے کئے تھے‘‘ اور یاد کرو جب اُن میں سے ایک گروہ اس حد تک پہنچ گیا کہ اُنہوں نے مؤمنوں سے بھی جا جا کر کہنا شروع کر دیا کہ اب کوئی چوکی یا قلعہ تمہیں بچا نہیں سکتا پس یہاں سے بھاگ جائو۔ اور مؤمنوں کی نسبت فرماتا ہے۔۲۸۷؎
یعنی منافقوں اور کمزور ایمان والوں کے مقابلہ میں مؤمنوں کا یہ حال تھا کہ جب اُنہوں نے دشمن کا یہ لشکر جرار دیکھا تو اُنہوںنے کہا کہ اس لشکر کے متعلق توا للہ اور اس کے رسول نے پہلے سے ہی ہم کو خبر دے چھوڑی تھی۔ اس لشکر کا حملہ تو اللہ اوراس کے رسول کی صداقت کا ثبوت ہے اور یہ لشکر جرار اُن کے ایمان کو ہلا نہ سکا۔ بلکہ ایمان اور طاقت میں مسلمان اور بھی زیادہ ہو گئے۔ مؤمنوں کا تو یہ حال ہے کہ اُنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اُس کو وہ پورے طور پر نبھا رہے ہیں چنانچہ کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جانیں دے کر اپنے مقصد کو حاصل کر لیا اور بعض ایسے ہیں کہ گو اُن کو جانیں دینے کا موقع تو نہیں ملا مگر وہ ہر وقت اس بات کی انتظار میں رہتے ہیں کہ اُن کو خدا کے رستہ میں جان دینے کا موقع ملے تو وہ جان دے دیں اور شروع دن سے اُنہوں نے خدا تعالیٰ سے جو عہد باندھا تھا اُس کو نبھا رہے ہیں۔
اِسلام میں مردہ لاش کا احترام
دشمن جو خندق پر حملہ کر رہا تھا بعض وقت وہ اُس کے پھاندنے میں کامیاب بھی ہو جاتا تھا، چنانچہ
ایک دن کفّار کے بعض بڑے بڑے جرنیل خندق پھاند کر دوسری طرف آنے میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن مسلمانوں نے ایسا جان توڑحملہ کیا کہ سوائے واپس جانے کے اُن کے لئے کوئی چارہ نہ رہا۔ چنانچہ اُس وقت خندق پھاندتے ہوئے کفّار کا ایک بہت بڑا رئیس نوفل نامی مارا گیا۔ یہ اتنا بڑا رئیس تھا کہ کفّار نے یہ خیال کیا کہ اگر اس کی لاش کی ہتک ہوئی تو عرب میں ہمارے لئے منہ دکھانے کی کوئی جگہ نہیں رہے گی۔ چنانچہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر آپ اِس کی لاش واپس کر دیں تو وہ دس ہزار درہم آپ کو دینے کے لئے تیار ہیں۔ اُن لوگوں کا تو خیال یہ تھا کہ شاید جس طرح ہم نے مسلمان رئوساء بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ناک اور کان اُحد کی جنگ میں کاٹ دئیے تھے اِسی طرح شاید آج مسلمان ہمارے اس رئیس کے ناک، کان کاٹ کر ہماری قوم کی بے عزتی کریں گے۔ مگر اسلام کے احکام تو بالکل اَور قسم کے ہیں۔ اسلام لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔ چنانچہ کفّار کا پیغام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا۔ اِس لاش کو ہم نے کیا کرنا ہے یہ لاش ہمارے کس کام کی ہے کہ اس کے بدلہ ہم تم سے کوئی قیمت لیں۔ اپنی لاش بڑے شوق سے اُٹھا کر لے جائو۔ ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں۔۲۸۸؎
اتحادی فوجوں کے مسلمانوں پر حملے
اُن دنوں جس جوش کے ساتھ کفار حملہ کرتے تھے میوؔر اُس کا اِن الفاظ میں ذکر کرتا ہے۔
’’ دوسرے دن محمد( صلی اللہ علیہ وسلم) نے دیکھا کہ اتحادی فوجیں متفقہ طور پر اُن پر حملے کرنے کے لئے تیار کھڑی ہیں، اُن کے حملوں کو روکنے کے لئے بہت زیادہ ہوشیار اور ہر وقت چوکس رہنا ضروری تھا۔ کبھی وہ متفقہ حملہ کرتے، کبھی دستوں میں تقسیم ہو کرمختلف چوکیوں پر حملہ کرتے اور جب کسی چوکی کو کمزور پاتے تو اپنی ساری فوج اُس جگہ پر جمع کر لیتے اور بے پناہ تیر ا ندازی کے پردہ میں وہ خندق پار کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یکے بعد دیگرے خالد اور عمرو جیسے مشہور لیڈروں کی ماتحتی میں فوج بہادرانہ حملہ شہر میں داخل ہونے کے لئے کرتی۔ ایک دفعہ تو خود محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کا خیمہ دشمن کی زد میں آگیا لیکن مسلمانوں کے فدائیانہ مقابلہ اور تیروں کی بوچھاڑ نے حملہ آوروں کو پیچھے دھکیل دیا۔ یہ حملہ سارا دن جاری رہا اور چونکہ مسلمانوں کی فوج ساری مل کر بمشکل خندق کی حفاظت کر سکتی تھی کوئی آرام کا وقفہ مسلمانوں کو نہ ملا۔ رات پڑ گئی مگر رات کو بھی خالد کے ماتحت دستوں نے لڑائی کو جاری رکھا اور مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ رات کو بھی اپنی چوکیوں کی حفاظت پورے طور پر کریں۔ لیکن دشمن کی یہ تمام کوششیں بیکار گئیں۔ خندق کو کبھی بھی دشمن کے کافی سپاہی پار نہ کر سکے‘‘۔۲۸۹؎
لیکن باوجود اس کے کہ جنگ دو روز سے ہو رہی تھی سپاہی ایک دوسرے کے ساتھ گتھ جانے کا موقع نہیں پاتے تھے اس لئے چوبیس گھنٹہ کی جنگ میں اتحادیوں کے صرف تین آدمی مارے گئے اور مسلمانوں کے پانچ۔ اس حملہ میں سعد بن معاذؓ اوس قبیلہ کے رئیس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی صحابی مُہلک طور پر زخمی ہوئے۔اِن حملوں کا نتیجہ یہ ہو اکہ ایک جگہ خندق کے کنارے ٹوٹ گئے اور اُس طرف سے حملہ کرنا بہت ممکن ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جرأت اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا یہ حال تھا کہ آپ سردی میں رات کو اُٹھ اُٹھ کر اُس جگہ جاتے اور اُس کا پہرہ دیتے۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ پہرہ دیتے ہوئے تھک جاتے اور سردی سے نڈھال ہو جاتے تو واپس آکر تھوڑی دیر میرے ساتھ لحاف میں لیٹ جاتے، مگر جسم کے گرم ہوتے ہی پھر اُس شگاف کی حفاظت کے لئے چلے جاتے۔ اِس طرح متواتر جاگنے سے آپ ایک دن بالکل نڈھال ہوگئے اوررات کے وقت فرمایا کاش! اِس وقت کوئی مخلص مسلمان ہوتا تو میں آرام سے سو جاتا۔ اتنے میں باہر سے سعد بن وقاص کی آواز آئی۔ آپ نے پوچھا کہ کیوں آئے ہو؟ اُنہوں نے کہا آپ کا پہرہ دینے کو۔ آپ نے فرمایا مجھے پہرہ کی ضرورت نہیں تم فلاں جگہ جہاں خندق کا کنارہ ٹوٹ گیا ہے جائو اور اُس کا پہرہ دو تا مسلمان محفوظ رہیں۔ چنانچہ سعدؓ اُس جگہ کا پہرہ دینے چلے گئے اور آپ سو گئے۔۲۹۰؎
(عجیب بات ہے کہ جب آپ شروع شروع میں مدینہ تشریف لائے تھے اور خطرہ بہت بڑھا ہو اتھا تب بھی سعدؓ پہرہ دینے کے لئے تشریف لائے تھے) اِنہی ایام میں آپ نے ایک دن کچھ لوگوں کے اسلحہ کی آواز سُنی اور پوچھا کون ہے؟ تو عباد بن بشیر نے کہا میں ہوں۔ آپ نے فرمایا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ اُنہوں نے کہا ایک جماعت صحابہ کی ہے جو آپ کے خیمہ کا پہرہ دینے کے لئے آئے ہیں۔ آپ نے فرمایا اِس وقت مشرکین خندق پھاندنے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں جائو اور اُن کا مقابلہ کر و میرے خیمہ کو رہنے دو۔۲۹۱؎
بنو قریظہ کی مشرکوں سے مل کر حملہ کے لئے تیاری اور اُس میں ناکامی
جیسا کہ اُوپر لکھا جا چکاہے یہود نے مدینہ میں چوری چھپے داخل ہونے کی کوشش کی اور اس میں اُن کا جاسوس مارا گیا۔ جب
یہود کو یہ معلوم ہوا کہ اُن کی سازش ظاہر ہوگئی ہے تو اُنہوں نے زیادہ دلیری سے عربوں کی مدد شروع کر دی۔ گو اجتماعی حملہ مدینہ کے پچھواڑے کی طرف سے نہیں کیا کیونکہ اُدھر میدان چھوٹا تھا اور مسلمانوں کی فوجوں کی موجودگی میں بڑا حملہ اُس طرف سے نہیں ہو سکتا تھا لیکن کچھ دن بعد دونوں فریق نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک وقت مقررہ پر یہودیوں اور مشرکوں کے لشکر یکدم مسلمانوں پر حملہ کردیں۔ مگر اُس وقت اللہ تعالیٰ کی تائید ایک عجیب طرح ظاہر ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے۔
نعیم نامی ایک شخص غطفان کے قبیلہ کا دل میں مسلمان تھا۔ یہ شخص بھی کفّار کے ساتھ آیا ہوا تھا لیکن اس بات کی انتظار میں تھا کہ اگر مجھے کوئی موقع ملے تو میں مسلمانوں کی مدد کروں۔ اکیلا انسان کر ہی کیا سکتا ہے۔ مگر جب اُس نے دیکھا کہ یہود بھی کفّار سے مل گئے ہیں اور اب بظاہر مسلمانوں کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو اِن حالات سے وہ اتنا متاثر ہو اکہ اُس نے فیصلہ کر لیا کہ بہرحال مجھے اس فتنہ کے دور کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ چنانچہ جب یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں فریق مل کر ایک دن حملہ کریں تو وہ بنو قریظہ کے پاس گیا اور اُن کے رئوساء سے کہا کہ اگر عربوں کا لشکر بھاگ جائے تو بتائو مسلمان تمہارے ساتھ کیا کریں گے؟ تم مسلمانوں کے معاہدہو اور معاہدہ کر کے اس کے توڑنے کے نتیجہ میں جو سزا تم کو ملے گی اُس کا قیاس کر لو۔ اُن کے دل کچھ ڈرے اور اُنہوں نے پوچھا پھر ہم کیا کریں؟ نعیم نے کہا جب عرب مشترکہ حملہ کے لئے تم سے خواہش کریں تو تم مشرکین سے مطالبہ کرو کہ اپنے ۷۰ آدمی ہمارے پاس یرغمال کے طور پر بھیج دو وہ ہمارے قلعوں کی حفاظت کریںگے اور ہم مدینہ کے پچھواڑے سے اُس پر حملہ کر دیں گے۔ پھر وہ وہاں سے ہٹ کر مشرکین کے سردارو ں کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ یہ یہود تو مدینہ کے رہنے والے ہیں اگر عین موقع پر یہ تم سے غداری کریں تو پھر کیا کرو گے؟ اگر یہ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اور اپنے جرم کو معاف کروانے کے لئے تم سے تمہارے آدمی بطور یرغمال مانگیں اور اُن کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں تو پھر تم کیا کرو گے؟ تمہیں چاہئے کہ اُن کا امتحان لے لو کہ آیا وہ پکے رہتے ہیں یا نہیں اور جلد ہی اُن کو اپنے ساتھ باقاعدہ حملہ کرنے کی دعوت دو۔ کفّار کے سرداروں نے اس مشورہ کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسرے دن یہود کو پیغام بھیجا کہ ہم ایک اجتماعی حملہ کرنا چاہتے ہیں تم بھی اپنی فوجوں سمیت کل حملہ کردو۔ بنوقریظہ نے کہا کہ اوّل تو کل ہمارا سبت کا دن ہے اس لئے ہم اس دن لڑائی نہیں کر سکتے۔ دوسرے ہم مدینہ کے رہنے والے ہیں اور تم باہر کے۔ اگر تم لوگ لڑائی چھوڑ کر چلے جائو تو ہمارا کیا بنے گا۔ اس لئے آپ لوگ ہمیں ۷۰ آدمی یرغمال کے طور پر دیں گے تب ہم لڑائی میں شامل ہوں گے۔ کفّار کے دل میں چونکہ پہلے سے شبہ پیدا ہو چکا تھا اُنہوں نے اُن کے اِس مطالبہ کوپورا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر تمہارا ہمارے ساتھ اتحاد سچا تھا تو اس قسم کے مطالبہ کے کوئی معنی نہیں۔ اِس واقعہ سے اُدھر یہود کے دلوں میں شبہات پیدا ہونے لگے اِدھر کفّار کے دلوںمیں شبہات پیدا ہونے لگے اور جیساکہ قاعدہ ہے جب شبہات دل میں پید اہو جاتے ہیں تو بہادری کی روح بھی ختم ہوجاتی ہے۔ اِنہی شکوک و شبہات کو ساتھ لئے ہوئے کفّار کا لشکر رات کو آرام کرنے کے لئے اپنے خیموں میں گیا، تو خد اتعالیٰ نے آسمانی نصرت کا ایک اور راستہ کھول دیا۔ رات کو ایک سخت آندھی چلی جس نے قناتوں کے پردے توڑ دئیے۔ چولہوں پر سے ہنڈیاں گرادیں اور بعض قبائل کی آگیں بجھ گئیں۔ مشرکینِ عرب میں ایک رواج تھا کہ وہ ساری رات آگ جلائے رکھتے تھے اور اِس کو وہ نیک شگون سمجھتے تھے۔ جس کی آگ بجھ جاتی تھی وہ خیال کرتاتھا کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے اور وہ اپنے خیمے اُٹھا کر لڑائی کے میدان سے پیچھے ہٹ جاتا تھا۔ جن قبائل کی آگ بجھی اُنہوں نے اِس رواج کے مطابق اپنے خیمے اُٹھائے اور پیچھے کو چل پڑے تاکہ ایک دن پیچھے انتظار کر کے پھر لشکر میں آشامل ہوں۔ لیکن چونکہ دن کے جھگڑوں کی وجہ سے سردارانِ لشکر کے دل میں شبہات پیدا ہو رہے تھے، جو قبائل پیچھے ہٹے اُن کے اِردگرد کے قبائل نے سمجھا کہ شاید یہود نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر شبخون مار دیا ہے اور ہمارے آس پاس کے قبائل بھاگے جار ہے ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے بھی جلدی جلدی اپنے ڈیرے سمیٹنے شروع کر دئیے اور میدان سے بھاگنا شروع کیا۔ ابوسفیان اپنے خیمہ میں آرام سے لیٹا تھا کہ اِس واقعہ کی خبر اُسے بھی پہنچی۔ وہ گھبرا کے اپنے بندھے ہوئے اُونٹ پر جا چڑھا اور اُس کو ایڑیاں مارنی شروع کر دی۔ آخر اُس کے دوستوں نے اس کو توجہ دلائی کہ وہ یہ کیا حماقت کر رہا ہے۔ اِس پر اُس کے اُونٹ کی رسّیاں کھولی گئیں اور وہ بھی اپنے ساتھیوںسمیت میدان سے بھاگ گیا۔۲۹۲؎
رات کے آخری ثلث میں وہ میدان جس میں پچیس ہزار کے قریب کفّار کے سپاہی خیمہ زن تھے وہ ایک جنگل کی طرح ویران ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ بتایا کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے۔ آپ نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے کسی شخص کو بھیجنا چاہا اور اپنے اِردگرد بیٹھے ہوئے صحابہؓ کو آواز دی۔ وہ سردی کے ایام تھے اور مسلمانوں کے پاس کپڑے بھی کافی نہ ہوتے تھے۔ سردی کے مارے زبانیں تک جمی جارہی تھیں۔ بعض صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی اور ہم جواب بھی دینا چاہتے تھے مگر ہم سے بولا نہیں گیا۔ صرف ایک حذیفہؓ تھے جنہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ!کیا کام ہے؟ آپ نے فرمایا تم نہیں مجھے کوئی اَور آدمی چاہئے۔ پھر آپ نے فرمایا کوئی ہے؟ مگر پھر سردی کی شدت کی وجہ سے جو جاگ بھی رہے تھے وہ جواب نہ دے سکے۔ حذیفہؓ نے پھر کہا میں یَارَسُوْلَ اللّٰہ!موجود ہوں۔ آخرآپ نے حذیفہؓ کو یہ کہتے ہوئے بجھوایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے، جائو اور دیکھو کہ دشمن کا کیا حال ہے حذیفہؓ خندق کے پاس گئے اور دیکھا کہ میدان کُلّی طور پر دشمن کے سپاہیوں سے خالی تھا۔ واپس آئے اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی اور بتایا کہ دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ صبح مسلمان اپنے خیمے اُکھیڑ کر اپنے اپنے گھروں کی طرف آنے شروع ہوئے۔۲۹۳؎
بنو قریظہ کو اُن کی غداری کی سزا
بیس دنوں کے بعد مسلمانوں نے اطمینان کا سانس لیا۔ مگر اب بنو قریظہ کامعاملہ طے ہونے
والا تھا۔ اُن کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظرا نداز کی جاتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آتے ہی اپنے صحابہؓ سے فرمایا گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ جائو اور پھر آپ نے حضرت علیؓ کو بنو قریظہ کے پاس بجھوایا کہ وہ اُن سے پوچھیں کہ اُنہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی؟ بجائے اِس کے کہ بنو قریظہ شرمندہ ہوتے یا معافی مانگتے یاکوئی معذرت کرتے اُنہوں نے حضرت علیؓ اور اُن کے ساتھیوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہاہم نہیں جانتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا چیز ہیں ہمارا اُن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں۔ حضرت علیؓ اُن کا یہ جواب لے کر واپس لوٹے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جار ہے تھے چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق بھی ناپاک کلمات بول رہے تھے حضرت علیؓ نے اِس خیال سے کہ آپ کو اُن کلمات کے سننے سے تکلیف ہوگی، عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم لوگ اس لڑائی کے لئے کافی ہیں، آپ واپس تشریف لے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا ہاں یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! بات تو یہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں، موسیٰ نبی تو اِن کا اپنا تھا اُس کواِس سے بھی زیادہ اِنہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں۔ یہ کہتے ہوئے آپ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے۔ مگر یہود دروازے بند کر کے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی۔ حتی کہ اُن کی عورتیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں۔ چانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اُوپرسے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کو مار دیا لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہود نے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تب اُن کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ وہ ابو لبابہ انصاری کو جو اُن کے دوست اور اوس قبیلہ کے سردار تھے اُن کے پاس بھجوائیں تاکہ وہ اُن سے مشورہ کر سکیں۔ آپ نے ابولبابہ کو بجھوا دیا۔ ان سے یہود نے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار پھینک دو، ہم یہ مان لیں؟ ابو لبابہ نے منہ سے تو کہا ہاں! لیکن اپنے گلے پر اِس طرح ہاتھ پھیرا جس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابو لبابہ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ اُ ن کے اِس جرم کی سزا سوائے قتل کے اور کیا ہوگی بغیر سوچے سمجھے اشارہ کے ساتھ اُن سے ایک بات کہہ دی جو آخر اُن کی تباہی کا موجب ہوئی۔ چنانچہ یہود نے کہہ دیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح اُن کو زیادہ سے زیادہ یہی سزا دی جاتی کہ اُن کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا جاتا، مگر اُن کی بد قسمتی تھی اُنہوںنے کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے کے لئے تیار نہیں، بلکہ ہم اپنے حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذؓ کا فیصلہ مانیں گے۔ جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا۔ لیکن اُس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا۔ یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اُن کا مذہب سچا ہے وہ لوگ اپنا مذہب ترک کر کے اِسلام میں داخل ہو گئے۔ ایک شخص عمرو بن سعدی نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ توڑا ہے۔ اب یا مسلمان ہوجائو یا جزیہ پرراضی ہو جائو۔ یہودنے کہا نہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے۔ پھر اُن سے اُس نے کہا میں تم سے بُری ہوں۔ اور یہ کہہ کر قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا۔ جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مسلمہؓ تھے اُسے دیکھ لیا اور اُس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اُس نے بتایا کہ میں فلاں ہوں۔ اِس پر محمد بن مسلمہؓ نے فرمایا اَللّٰھُمَّ لَا تَحْرِمْنِیْ اِقَا لََۃَ عَثَرَاتِ الْکِرَامِ۔ ۲۹۴؎ یعنی آپ سلامتی سے چلے جائیے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الٰہی! مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیئو۔ یعنی یہ شخص چونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے توہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اُسے معاف کر دیں اِس لئے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا ہے۔ خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشتا رہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہؓ کو سرزنش نہیں کی کہ کیوں اُس یہودی کو چھوڑ دیا بلکہ اُس کے فعل کو سراہا۔
بنو قریظہ کے اپنے مقرر کردہ حَکم سعدؓ کا فیصلہ تورات کے مطابق تھا
یہ اُوپر کے واقعات انفرادی تھے۔ بنو قریظہ بحیثیت قوم اپنی ضد پر قائم رہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حَکم ماننے
سے انکارکرتے ہوئے سعدؓ کے فیصلہ پر اصرار کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن کے اِس مطالبہ کو مان لیا۔ سعدؓ کو جو جنگ میں زخمی ہو چکے تھے اطلاع دی کہ تمہارا فیصلہ بنو قریظہ تسلیم کرتے ہیں آکر فیصلہ کرو۔ اِس تجویز کا اعلان ہوتے ہی اوس قبیلہ کے لوگ جو بنو قریظہ کے دیر سے حلیف چلے آئے تھے وہ سعدؓ کے پاس دَوڑ کر گئے اور اُنہوں نے اصرار کرنا شروع کیا کہ چونکہ خزرج نے اپنے حلیف یہودیوں کو ہمیشہ سزا سے بچایا ہے آج تم بھی اپنے حلیف قبیلہ کے حق میں فیصلہ دینا۔
سعدؓ زخموں کی وجہ سے سواری پر سوار ہو کر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی قوم کے افراد اُن کے دائیں بائیں دوڑتے جاتے تھے اور سعدؓ سے اصرار کرتے جاتے تھے کہ دیکھنا بنو قریظہ کے خلاف فیصلہ نہ دینا۔ مگر سعدؓ نے صرف یہی جواب دیا کہ جس کے سپرد فیصلہ کیا جاتا ہے وہ امانتدار ہوتا ہے اُسے دیانت سے فیصلہ کرنا چاہئے میں دیانت سے فیصلہ کروں گا۔ جب سعدؓ یہود کے قلعہ کے پاس پہنچے جہاں ایک طرف بنو قریظہ قلعہ کی دیوار سے کھڑے سعدؓ کا انتظار کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمان بیٹھے تھے، تو سعدؓ نے پہلے اپنی قوم سے پوچھا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو میں فیصلہ کروں گا وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ انہوں نے کہاں ہاں۔ پھر سعدؓنے بنو قریظہ کو مخاطب کر کے کہا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو فیصلہ میں کروں وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ اُنہوں نے کہا ہاں۔ پھر شرم سے دوسری طر ف دیکھتے ہوئے نیچی نگاہوں سے اُس طرف اشارہ کیا جدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے اور کہا اِدھر بیٹھے ہوئے لوگ بھی یہ وعدہ کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں۔ اس کے بعد سعدؓ نے بائبل کے حکم کے مطابق فیصلہ سنایا۔۲۹۵؎ بائبل میں لکھا ہے:
’’ اور جب تو کسی شہر کے پاس اُس سے لڑنے کے لئے آپہنچے تو پہلے اُس سے صلح کا پیغام کر۔ تب یوں ہو گا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لئے کھول دے تو ساری خلق جو اُس شہرمیں پائی جائے تیری خراج گزار ہو گی اور تیری خدمت کرے گی۔ اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو تو اس کا محاصرہ کر اور جب خد اوند تیرا خدا اُسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر۔ مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اُس شہر میں ہو اُس کا سارا لوٹ اپنے لئے لے۔ اور تو اپنے دشمنوں کی اُس لوٹ کو جو خد اوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھائیو۔ اسی طرح سے تواُن سب شہروں سے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں یہی حال کیجیؤ۔ لیکن اِن قوموں کے شہروں میں جنہیں خدا وند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو۔ بلکہ تو اُن کو حرم کیجیؤ۔ حتی اور اموری اور کنعانی اور فزری اور جوی اور یبوسی کو جیساکہ خد اوند تیرے خدا نے تجھے حکم کیا ہے تا کہ وے اپنے سارے کریہہ کاموں کے مطابق جو اُنہوں نے اپنے معبودوں سے کئے تم کو عمل کرنا نہ سکھائیں اور کہ تم خداوند اپنے خدا کے گنہگار ہو جائو‘‘۔۲۹۶؎
بائبل کے اس فیصلہ سے ظاہر ہے کہ اگر یہودی جیت جاتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار جاتے تو بائبل کے اس فیصلہ کے مطابق اوّل تو تماممسلمان قتل کر دیئے جاتے۔ مرد بھی اور عورت بھی اور بچے بھی۔ اور جیساکہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کا یہی ارادہ تھا کہ مردوں ، عورتوں اور بچوں سب کو یکدم قتل کر دیا جائے لیکن اگر وہ اُن سے بڑی سے بڑی رعایت کرتے تب بھی کتاب استثناء کے مذکورہ بالا فیصلہ کے مطابق وہ اُن سے دُور کے ملکوں والی قوموں کا سا سلوک کرتے اور تمام مردوں کو قتل کر دیتے اور عورتوں اور لڑکوں اور سامانوں کو لوٹ لیتے۔ سعدؓ نے جو بنو قریظہ کے حلیف تھے اوراُن کے دوستوں میں سے تھے جب دیکھا کہ یہود نے اسلامی شریعت کے مطابق جو یقینا اُن کی جان کی حفاظت کرتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا تو انہوں نے وہی فیصلہ یہود کے متعلق کیا جو موسیٰ نے استثناء میں پہلے سے ایسے مواقع کے لئے کر چھوڑا تھا اور اس فیصلہ کی ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یامسلمانوں پر نہیں، بلکہ موسیٰ پر اور تورات پراور اُن یہودیوں پر ہے جنہوں نے غیرقوموں کے ساتھ ہزاروں سال اس طرح معاملہ کیا تھا اور جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم کے لئے بلایا گیاتو انہوں نے انکار کر دیااور کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں، ہم سعدؓ کی بات مانیں گے۔ جب سعدؓ نے موسٰی ؑ کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ دیا تو آج عیسائی دنیا شور مچاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کیا۔ کیا عیسائی مصنف اِس بات کو نہیں دیکھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے موقع پر کیوں ظلم نہ کیا؟ سینکڑوں دفعہ دشمن نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم پر اپنے آپ کو چھوڑا ا ور ہر دفعہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو معاف کر دیا۔ یہ ایک ہی موقع ہے کہ دشمن نے اصرار کیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو نہیں مانیں گے بلکہ فلاں دوسرے شخص کے فیصلہ کو مانیں گے اور اُس شخص نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اقرار لے لیا کہ جو میں فیصلہ کروں گا اُسے آپ مانیں گے۔ اس کے بعد اُس نے فیصلہ کیا بلکہ اُس نے فیصلہ نہیں کیا اُس نے موسٰی ؑکا فیصلہ دُہرا دیا جس کی اُمت میں سے ہونے کے یہود مدعی تھے۔ پس اگر کسی نے ظلم کیا تو یہود نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ا گر کسی نے ظلم کیا تو موسٰی ؑنے ظلم کیا جنہوں نے محصور دشمن کے متعلق تورات میں خدا سے حکم پا کر یہی تعلیم دی تھی۔ اگر یہ ظلم تھا تو اِن عیسائی مصنفوں کو چاہئے کہ موسٰی ؑکو ظالم قرار دیں بلکہ موسٰی ؑکے خدا کو ظالم قرار دیں جس نے یہ تعلیم تورات میں دی ہے۔
احزاب کی جنگ کے خاتمہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آج سے مشرک ہم پر حملہ نہیں کریں گے اب اسلام خود جواب دے گا اور ان اقوام پر جنہوں نے ہم پر حملے کئے تھے اب ہم چڑھائی کریں گے۔۲۹۷؎ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ احزاب کی جنگ میں بھلا کفّار کا نقصان ہی کیا ہوا تھا چند آدمی مارے گئے تھے وہ دوسرے سال پھر دوبارہ تیاری کر کے آسکتے تھے۔ بیس ہزار کی جگہ وہ چالیس یا پچاس ہزار کا لشکر بھی لا سکتے تھے۔ بلکہ اگر وہ اور زیادہ انتظام کرتے تو لاکھ ڈیڑھ کا لشکر لانا بھی اُن کے لئے کوئی مشکل نہیں تھا۔ مگر اکیس سال کی متواتر کوشش کے بعد کفّار کے دلوں کو محسوس ہو گیا تھاکہ خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے۔ اُن کے بت جھوٹے ہیں اور دنیا کا پیدا کرنے والا ایک ہی خد ا ہے۔ اُن کے جسم صحیح سلامت تھے مگر اُن کے دل ٹوٹ چکے تھے۔ بظاہر وہ اپنے بتوں کے آگے سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے مگر اُن کے دلوں میں سے لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کی آوازیں اُٹھ رہی تھیں۔

مسلمانوں کے غلبہ کا آغاز
اِس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ آج سے کفّارِ عرب ہم پر حملہ نہیں کریں گے،یعنی مسلمانوں کا ابتلاء اپنی آخری انتہاء کو پہنچ گیا ہے اور اب اُن کے غلبہ کا زمانہ شروع ہونے والا ہے۔ اِس وقت تک جتنی جنگیں ہوئی تھیں وہ ساری کی ساری ایسی تھیں کہ یا تو کفّار مدینہ پر چڑھ کے آئے تھے یا اُن کے حملوں کی تیاریوں کے روکنے کے لئے مسلمان مدینہ سے باہر نکلے تھے لیکن کبھی بھی مسلمانوں نے خود جنگ کو جاری رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ جنگی قوانین کے لحاظ سے جب ایک لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو اُس کا اختتام دو ہی طرح ہوتا ہے یا صلح ہو جاتی ہے یا ایک فریق ہتھیار ڈال دیتا ہے لیکن اِس وقت تک ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا جبکہ صلح ہوئی ہو یا کسی فریق نے ہتھیار ڈالے ہوں۔ پس گو پرانے زمانہ کے دستور کے مطابق لڑائیوں میں وقفہ پڑ جاتا تھا لیکن جہاں تک جنگ کے جاری رہنے کا سوال تھا وہ متواتر جاری تھی اور ختم نہ ہوئی تھی اس لئے مسلمانوں کا حق تھا کہ وہ جب بھی چاہتے دشمن پر حملہ کر کے اُن کو مجبور کرتے کہ وہ ہتھیار ڈالیں۔ لیکن مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ جب وقفہ پڑتا تھا تو مسلمان بھی خاموش ہو جاتے تھے۔ شاید اس لئے کہ ممکن ہے کفّار درمیان میں صلح کی طرح ڈالیں اور لڑائی بند ہو جائے۔ لیکن جب ایک لمبے عرصہ تک کفّار کی طرف سے صلح کی تحریک نہ ہوئی اور نہ انہوں نے مسلمانوں کے سامنے ہتھیار ڈالے بلکہ اپنی مخالفت اور جوش میں بڑھتے ہی چلے گئے تو اب وقت آگیا کہ لڑائی کا دو ٹوک فیصلہ کیا جائے یا تو فریقین میں صلح ہو جائے یا دونوں میں سے ایک فریق ہتھیار ڈال دے تاکہ ملک میں امن قائم ہو جائے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کی جنگ کے بعد فیصلہ کر لیا کہ اب ہم دونوں فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کر کے چھوڑیں گے یا تو ہماری اور کفّار کی صلح ہو جائے گی یاہم میںسے کوئی فریق ہتھیار ڈال دے گا۔ یہ تو ظاہر ہے کہ ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں کفّار ہی ہتھیار ڈال سکتے تھے کیونکہ اسلام کے غلبہ کے متعلق تو خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر مل چکی تھی اور مکی زندگی میں ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے غلبہ کا اعلان کر چکے تھے۔ باقی رہی صلح تو صلح کے بارے میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ صلح کی تحریک یا غالب کی طرف سے ہوا کرتی ہے یا مغلوب کی طرف سے۔ مغلوب فریق جب صلح کی درخواست کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیںکہ وہ ملک کا کچھ حصہ یا اپنی آمدن کا کچھ حصہ مستقل طور پر یا عارضی طور پر غالب فریق کو دیا کرے گا یا بعض اَور صورتوں میں اس کی لگائی ہوئی قیود تسلیم کرے گا۔ اور غالب فریق کی طرف سے جب صلح کی تجویز پیش ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم تمہیں بالکل کچلنا نہیں چاہتے۔ اگر تم بعض صورتوں میں ہماری اطاعت یا ہماری ماتحتی قبول کر لو تو ہم تمہاری آزادانہ حیثیت یا نیم آزادانہ حیثیت کو قائم رہنے دیں گے۔ کفّارِ مکہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقابلہ تھا اس میں بار بار کفار کو شکست ہوئی تھی لیکن اس شکست کے محض اتنے معنی تھے کہ اُن کے حملے ناکام رہے تھے۔ حقیقی شکست وہ کہلاتی ہے جبکہ دفاع کی طاقت ٹوٹ جائے۔ حملہ ناکام ہونے کے معنی حقیقی شکست کے نہیں سمجھے جاتے۔ اِس کے معنی صرف اتنے ہوتے ہیںکہ گو حملہ آور قوم کا حملہ ناکام رہا مگر پھر دوبارہ حملہ کر کے وہ اپنے مقصد کو پورا کرلے گی۔ پس جنگی قانون کے لحاظ سے مکہ والے مغلوب نہیں ہوئے تھے بلکہ اُن کی پوزیشن صرف یہ تھی کہ اب تک اُن کی جارحانہ کارروائیاں اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکی تھیں۔ اس کے مقابلہ میں مسلمان جنگی لحاظ سے گو اُن کا دفاع نہیں ٹوٹا تھا مغلوب کہلانے کے مستحق تھے اِس لئے کہ:
اوّل تو وہ بہت چھوٹی اقلیت میںتھے۔ دوم اُنہوں نے اس وقت تک کوئی جارحانہ کارروائی نہیں کی تھی، یعنی کسی حملہ میں خود ابتداء نہیں کی تھی جس سے یہ سمجھا جائے کہ اب وہ اپنے آپ کو کفّار کے اثر سے آزاد سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے صلح کی پیشکش کے صرف یہ معنی ہو سکتے تھے کہ وہ اب دفاع سے تنگ آگئے ہیں اور کچھ دے دلا کر اپنا پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ان حالات میںاگر مسلمان صلح کی پیشکش کرتے تو اِس کا نتیجہ نہایت ہی خطرناک ہوتا اور یہ امر اُن کی ہستی کے مٹا دینے کے مترادف ہوتا۔ اپنی جارحانہ کارروائیوں میں ناکامی کی وجہ سے کفّارِ عرب میں جو بے دلی پیدا ہو گئی تھی اس صلح کی پیشکش سے وہ فوراً ہی نئی اُمنگوں اور نئی آرزوئوں میں بدل جاتی اور یہ سمجھا جاتا کہ مسلمان باوجود مدینہ کو تباہی سے بچا لینے کے آخری کامیابی سے مایوس ہوچکے تھے۔ پس صلح کی تحریک مسلمانوں کی طرف سے کسی صورت میں بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ا گر کوئی صلح کی تحریک کر سکتا تھا تو یا مکہ والے کر سکتے تھے یا کوئی تیسری ثالث قوم کر سکتی تھی۔ مگر عرب میں کوئی ثالث قوم باقی نہیں رہی تھی۔ ایک طرف مدینہ تھا اور ایک طرف سارا عرب تھا۔ پس عملی طور پر کفّار ہی تھے جو اس تجویز کو پیش کر سکتے تھے۔ مگر اُن کی طرف سے صلح کی کوئی تحریک نہیں ہو رہی تھی۔ یہ حالات اگر سَو سال تک بھی جاری رہتے تو قوانین جنگ کے ماتحت عرب کی خانہ جنگی جاری رہتی۔ پس جبکہ مکہ کے لوگوں کی طرف صلح کی تجویز پیش نہیں ہوئی تھی اور مدینہ کے کفار عرب کی ماتحتی ماننے کے لئے کسی صورت میں تیار نہ تھے تو اب ایک ہی راستہ کھلا رہ جاتا تھا کہ جب مدینہ نے عرب کے متحدہ حملہ کو بیکار کر دیا تو خود مدینہ کے لوگ باہر نکلیں اور کفّارِ عرب کو مجبور کر دیں کہ یا وہ اُن کی ماتحتی قبول کرلیں یا اُن سے صلح کر لیں۔ اور اِسی راستہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا۔ پس گو یہ راستہ بظاہر جنگ کا نظر آتا ہے لیکن درحقیقت صلح کے قیام کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ کھلا نہ تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کرتے تو ممکن ہے جنگ سَو سال تک لمبی چلی جاتی جیسا کہ ایسے ہی حالات میں پرانے زمانہ میں جنگیں سَو سَو سال تک جاری رہی ہیں۔ خود عرب کی کئی جنگیں تیس تیس، چالیس چالیس سال تک جاری رہی ہیں۔ اِن جنگوں کی طوالت کی یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے ختم کرنے کے لئے کوئی ذریعہ اختیار نہیں کیا جاتا تھا اور جیساکہ میں بتا چکا ہوں جنگ کے ختم کرنے کے دو ہی ذرائع ہوا کرتے ہیں یا ایسی جنگ لڑی جائے جو دو ٹوک فیصلہ کر دے اور دونوں فریق میں سے کسی ایک کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دے اور یا باہمی صلح ہو جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیشک ایسا کر سکتے تھے کہ مدینہ میں بیٹھے رہتے اور خود حملہ نہ کرتے۔ لیکن چونکہ کفّارِ عرب جنگ کی طرح ڈال چکے تھے آپ کے خاموش بیٹھنے کے یہ معنی نہ ہوتے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہوتے کہ جنگ کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا رکھا گیا ہے۔ کفّارِ عرب جب چاہتے بغیر کسی اور محرک کے پیدا ہونے کے مدینہ پر حملہ کر دیتے اور اُس وقت تک کے دستور کے مطابق وہ حق پر سمجھے جاتے کیونکہ جنگ میں وقفہ پڑ جانا اُس زمانہ میں جنگ کے ختم ہوجانے کے مترادف نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ وقفہ بھی جنگ ہی میں شمار کیا جاتا تھا۔
بعض لوگوں کے دلو ں میں اِس موقع پر یہ سوال پید اہو سکتا ہے کہ کیا ایک سچے مذہب کے لئے لڑائی کرنا جائز ہے؟
یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم دربارہ جنگ
میں اِس جگہ اس سوال کا جواب بھی دے دینا ضروری
سمجھتا ہوں جہاں تک مذاہب کا سوال ہے لڑائی کے بارہ میں مختلف تعلیمیں ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم لڑائی کے بارہ میں اُوپر درج کر آیا ہوں۔ تورات کہتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ بزور کنعان میں گھس جائیں اور اُس جگہ کی قوموں کو شکست دے کر اس علاقہ میں اپنی قوم آباد کریں ۲۹۸؎ مگر باوجود اس کے کہ موسیٰ نے یہ تعلیم دی اور باوجود اس کے کہ یوشع ، دائود اور دوسرے انبیاء نے اِس تعلیم پر متواتر عمل کیا یہودی اورعیسائی اُن کو خدا کا نبی اور تورات کو خدا کی کتاب سمجھتے ہیں۔ موسوی سلسلہ کے آخر میں حضرت مسیحؑ ظاہر ہوئے اُن کی جنگ کے متعلق یہ تعلیم ہے کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۲۹۹؎ اس سے استنباط کرتے ہوئے عیسائی قوم یہ دعویٰ کرتی ہے کہ مسیح نے لڑائی سے قوموں کو منع کیا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انجیل میں اس تعلیم کے خلاف اور تعلیمیں بھی آئی ہیں۔ مثلاً انجیل میں لکھا ہے:۔
’’ یہ مت سمجھو کہ میں ز مین پر صلح کروانے آیا ہوں، صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ہوں‘‘۳۰۰؎
اسی طرح لکھا ہے:۔
’’اُس نے اُنہیں کہا پر اَب جس کے پاس بٹوا ہو لیوے اور اسی طرح جھولی بھی۔ اور جس کے پاس تلوار نہیں اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خریدے‘‘۔۳۰۱؎
یہ آخری دو تعلیمیں پہلی تعلیم کے بالکل متضاد ہیں۔ اگر مسیح جنگ کرانے کے لئے آیا تھا تو پھر ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کے کیا معنی تھے؟ پس یا تو یہ دونوں قسم کی تعلیمیں متضاد ہیں
یا اِن دونوںتعلیموں میں سے کسی ایک کو اس کے ظاہر سے پھرا کر اس کی کوئی تأویل کرنی پڑے گی۔ میں اِس بحث میں نہیں پڑتا کہ ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کی تعلیم قابلِ عمل ہے یا نہیں۔ میں اس جگہ پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اوّل عیسائی دنیا نے اپنی ساری تاریخ میں جنگ سے دریغ نہیں کیا۔ جب عیسائیت شروع شروع میں روما میں غالب تھی تب بھی اُس نے غیرقوموں سے جنگیں کیں۔ دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحا نہ بھی۔ اور اب جبکہ عیسائیت دنیا میں غالب آگئی ہے اب بھی وہ جنگیں کرتی ہے۔ دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحانہ بھی۔ صرف فرق یہ ہے کہ جنگ کرنے والوں میں سے جو فریق جیت جاتا ہے اُس کے متعلق کہہ دیا جاتا تھا کہ وہ کرسچن سویلزیشن کا پابند تھا۔ کرسچن سویلزیشن اِس زمانہ میں صرف غالب اور فاتح کے طریق کا نام ہے اور اس لفظ کے حقیقی معنی اب کوئی بھی باقی نہیں رہے۔ جب دوقو میں آپس میں لڑتی ہیں تو ہر قوم اِس بات کی مدعی ہوتی ہے کہ وہ کرسچن سویلزیشن کی تائید کر رہی ہے اور جب کوئی قوم جیت جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس جیتی ہوئی قوم کا طریق کار ہی کرسچن سویلزیشن ہے۔ مگر بہرحال مسیحؑ کے زمانہ سے آج تک عیسائی دنیا جنگ کرتی چلی آرہی ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ جنگ کرتی چلی جائے گی۔ پس جہاں تک مسیحی دنیا کے فیصلہ کا تعلق ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ’’ تم اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خریدو‘‘۔’’اورمیں صلح کرانے کے لئے نہیں بلکہ تلوار چلانے کے لئے آیا ہوں‘‘۔ یہ اصل قانون ہے اور ’’ تو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا بھی پھیر دے‘‘ ۔ یہ قانون یا تو ابتدائی عیسائی دنیا کی کمزوری کے وقت مصلحتاً اختیار کیا گیا تھا یا پھر عیسائی افراد کے باہمی تعلقات کی حد تک یہ قانون محدود ہے۔ حکومتوں اور قوموں پر یہ قانون چسپاں نہیں ہوتا۔ دوسرے اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ مسیحؑ کی اصل تعلیم جنگ کی نہیں تھی بلکہ صلح ہی کی تھی تب بھی اس تعلیم سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص اس تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے وہ خدا کا برگزیدہ نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ عیسائی دنیا آج تک موسٰی ؑ اور یوشعؑ اور دائودؑ کو خدا کا برگزیدہ قرار دیتی ہے بلکہ خود عیسائیت کے زمانہ کے بعض قومی ہیرو جنہوں نے اپنی قوم کے لئے جان کو خطرہ میں ڈال کر دشمنوں سے جنگیں کی ہیں مختلف زمانہ کے پوپوں کے فتویٰ کے مطابق آج سینٹ کہلاتے ہیں۔
جنگ کے متعلق اِسلام کی تعلیم
اِسلام اِن دونوں قسم کی تعلیموں کے درمیان درمیان تعلیم دیتا ہے یعنی نہ تو وہ موسٰی ؑ کی طرح کہتا ہے کہ تو
جارحانہ طور پر کسی ملک میں گھس جا اور اُس قوم کو تہہ تبلیغ کر دے اور نہ وہ اِس زمانہ کی بگڑی ہوئی مسیحیت کی طرح ببانگِ بلندیہ کہتا ہے ’’ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے‘‘۔ مگر اپنے ساتھیوں کے کان میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ تم اپنے کپڑے بیچ کر بھی تلواریں خریدلو۔ بلکہ اسلام وہ تعلیم پیش کرتا ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے او ر جو امن اور صلح کے قیام کے لئے ایک ہی ذریعہ ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تو کسی چیز پر حملہ نہ کر لیکن اگر کوئی شخص تجھ پر حملہ کرے اور اس کا مقابلہ نہ کرنا فتنہ کے بڑھانے کا موجب نظر آئے اور راستی اور امن اُس سے مٹتا ہو تب توا ُس کے حملہ کا جواب دے۔ یہی وہ تعلیم ہے جس سے دنیا میں امن اور صلح قائم ہو سکتی ہے۔ اِس تعلیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا۔ آپ مکہ میں برابر تکلیفیں اُٹھاتے رہے، لیکن آپ نے لڑائی کی طرح نہ ڈالی۔ مگر جب مدینہ میں آپ ہجرت کر کے تشریف لے گئے اور دشمن نے وہاں بھی آپ کا پیچھا کیا تب خد اتعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ چونکہ دشمن جارحانہ کارروائی کر رہا ہے اور اسلام کو مٹانا چاہتا ہے اس لئے راستی اور صداقت کے قیام کے لئے آپ اس کا مقابلہ کریں۔ قرآن کریم میں جو متفرق احکام اس بارہ میں آئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۳۰۲؎ یعنی اس لئے کہ اِن (مسلمانوں) پر ظلم کیا گیا اور ان مسلمانوں کو جن سے دشمن نے لڑائی جاری کر رکھی ہے، آج جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اللہ یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے۔ ہاں ان مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی جاتی ہے جن کواُن کے گھروں سے بغیر کسی جرم کے نکال دیا گیا۔ اُن کا صرف اتناہی جرم تھا (اگر یہ کوئی جرم ہے) کہ وہ یہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا ربّ ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالم لوگوں کو دوسرے عادل لوگوں کے ذریعہ سے ظلم روکتا نہ رہے تو گرجے اور مناسڑیاں ۳۰۳؎ اور عبادت گاہیں اور مسجدیں جن میں خدا تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ظالموں کے ہاتھ سے تباہ ہو جائیں (پس دنیا میں مذہب کی آزادی قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالیٰ مظلوموں کو اور ایسی قوموں کو جن کے خلاف دشمن پہلے جنگ کا اعلان کر دیتا ہے جنگ کی اجازت دیتا ہے) اور یقینا اللہ تعالیٰ اُن کی مدد کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یقینا بڑی طاقت والا اور غالب ہے۔ ہاں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اگر دنیا میں طاقت پکڑ جائیں تو خدا تعالیٰ کی عبادتوں کو قائم کریں گے اور غریبوں کی خبر گیری کریں گے اور نیک اور اعلیٰ اخلاق کی دنیا کو تعلیم دیں گے اور بُری باتوں سے دنیا کو روکیں گے اور ہر جھگڑے کا انجام وہی ہوتا ہے جو خد اچاہتا ہے۔
اِن آیات میںجو مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دینے کے لئے نازل ہوئی ہیں بتایا گیا ہے کہ جنگ کی اجازت اسلامی تعلیم کی رو سے اُسی صورت میں ہوتی ہے، جب کوئی قوم دیر تک کسی قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے اور ظالم قوم اس کے خلاف بِلاوجہ جنگ کا اعلان کر دے اور اس کے دین میں دخل اندازی کرے اور ایسی مظلوم قوم کا فرض ہوتا ہے کہ جب اُسے طاقت ملے تو وہ مذہبی آزادی دے اور اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھے کہ خدا تعالیٰ اُس کو غلبہ بخشے تو وہ تمام مذاہب کی حفاظت کرے اور اُن کی مقدس جگہوں کے ادب اور احترام کا خیال رکھے اور اس غلبہ کو اپنی طاقت اور شوکت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ غریبوں کی خبر گیری، ملک کی حالت کی درستی اور فساد اور شرارت کے مٹانے میں اپنی قوتیں صرف کرے۔ یہ کیسی مختصر اور جامع تعلیم ہے۔ اس میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے اور اگر اب وہ جنگ کریں گے تو وہ مجبوری کی وجہ سے ہو گی ورنہ جارحانہ جنگ اسلام میں منع ہے اور پھر کس طرح شروع میں بھی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو غلبہ ضرور ملے گا۔ مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اُن کو اپنے غلبہ کے ایام میں بجائے حکومت سے اپنی جیبیں بھرنے کے اور اپنی حالت سدھارنے کے غرباء کی خبر گیری اور امن کے قیام اور فساد کے دور کرنے اور قوم اور ملک کو ترقی دینے کی کوشش کرنے کو اپنا مقصد بنانا چاہئے۔
(۲) پھر فرماتا ہے ۔۳۰۴؎ یعنی اُن لوگوں سے جو تم سے جنگ کر رہے ہیں تم بھی محض اللہ کی خاطر جس میں تمہارے اپنے نفس کا غصہ اور نفس کی ملونی شامل نہ ہو جنگ کرو اور یاد رکھو کہ جنگ میں بھی کوئی ظالمانہ فعل اختیار مت کرنا کیو نکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو بہر حال پسند نہیں کرتا۔ اور جہاں کہیں بھی تمہاری اور اُن کی جنگ کے ذریعہ سے مٹھ بھیڑ ہوجائے وہاں تم اُن سے جنگ کرو اور یونہی اِکاّدُ کاّ ملنے والے پر حملہ مت کرو۔ اور چونکہ انہوں نے تمہیں لڑائی کے لئے نکلنے پر مجبور کیا ہے تم بھی اُنہیں اُن کے جواب میں لڑائی کا چیلنج دو اور یاد رکھو کہ قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو دُکھ میں ڈالنا زیادہ خطرناک گناہ ہے۔ پس تم ایسا طریق نہ اختیار کرو کیونکہ یہ بے دین لوگوں کا کام ہے۔ اور چاہئے کہ تم مسجد حرام کے پاس اُن سے اُس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک وہ جنگ کی ابتدا نہ کریں کیونکہ اس سے حج اور عمرہ کے راستہ میں روک پید ا ہوتی ہے۔ ہاں اگر وہ خود ایسی جنگ کی ابتدا کریں تو پھر تم مجبور ہو اور تمہیں جواب دینے کی اجازت ہے ۔جو لوگ عقل اور انصاف کے احکام کو ردّ کر دیتے ہیں اُن کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اگر اُنہیں ہوش آجائے اور وہ اس بات سے رُک جائیں تو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا مہربان ہے۔ اِس لئے تم کو بھی چاہئے کہ ایسی صورت میں اپنے ہاتھوں کو روک لو اور اس خیال سے کہ یہ حملہ میں ابتدا کر چکے ہیں جوابی حملہ نہ کرو۔ اور چونکہ وہ لڑائی شروع کر چکے ہیں تم بھی اُس وقت تک لڑائی کو جاری رکھو جب تک کہ دین میں دخل اندازی کرنے کے طریق کو وہ نہ چھوڑیں اور وہ تسلیم نہ کرلیں کہ دین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس میں جبر کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں۔ اگر وہ یہ طریق اختیار کر لیں اور دین میں دخل اندازی سے باز آجائیں تو فوراً لڑائی بند کر دو کیونکہ سزا صرف ظالموں کو دی جاتی ہے۔ اور اگر وہ اس قسم کے ظلم سے باز آجائیں تو پھر اُن سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہو سکتا۔
اِن آیات میں بتایا گیا ہے کہ:۔
اوّل: لڑائی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہئے یعنی ذاتی لالچوں، ذاتی حرصوں، ملک کے فتح کرنے کی نیت یا اپنے رسوخ کو بڑھانے کی نیت سے لڑائی نہیں ہونی چاہئے۔
دوم : لڑائی صرف اُسی سے جائز ہے جو پہلے حملہ کرتا ہے۔
سوم: انہی سے تم کو جنگ کرنی جائز ہے جو تم سے لڑتے ہیں یعنی جو لوگ باقاعدہ سپاہی نہیں اور لڑائی میں عملاً حصہ نہیں لیتے اُن کو مارنا یا اُن سے لڑائی کرنا جائز نہیں۔
چہارم: باوجود دشمن کے حملہ میں ابتدا کرنے کے لڑائی کو اُس حد تک محدود رکھنا چاہئے جس حد تک دشمن نے محدود رکھا ہے اور اُسے وسیع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے نہ علاقہ کے لحاظ سے اور نہ ذرائع جنگ کے لحاظ سے۔
پنجم: جنگ صرف جنگی فوج کے ساتھ ہونی چاہئے یہ نہیں کہ دشمن قوم کے اِکے دُکے افراد کے ساتھ مقابلہ کیا جائے۔
ششم: جنگ میں اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ مذہبی عبادتوں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں روکیں پیدا نہ ہوں۔ اگر دشمن کسی ایسی جگہ پر جنگ کی طرح نہ ڈالے جہاں جنگ کرنے سے اُس کی مذہبی عبادتوں میں رخنہ ہوتا ہو تو مسلمانوں کو بھی اُس جگہ جنگ نہیں کرنی چاہئے۔
ہفتم: اگر دشمن خود مذہبی عبادت گاہوں کو لڑائی کا ذریعہ بنائے تو پھر مجبوری ہے ورنہ تم کو ایسا نہ کرنا چاہیے۔ اِس آیت میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ عبادت گاہوں کے اِردگرد بھی لڑائی نہیں ہونی چاہئے کجایہ کہ عبادت گاہوںپر حملہ کیا جائے یا وہ مسمار کی جائیں یا توڑی جائیں۔ ہاں اگر دشمن خود عبادت گاہوں کو لڑائی کا قلعہ بنا لے تو پھر اُن کے نقصان کی ذمہ داری اُس پر ہے اِس نقصان کی ذمہ داری مسلمانوں پر نہیں۔
ہشتم: اگر دشمن مذہبی مقاموں میں لڑائی شروع کرنے کے بعد اُس کے خطرناک نتائج کو سمجھ جائے اور مذہبی مقام سے نکل کر دوسری جگہ کو میدانِ جنگ بنا لے تو مسلمانوں کو اس بہانہ سے اُن کے مذہبی مقاموں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے کہ اس جگہ پر پہلے اُن کے دشمنوں نے لڑائی شروع کی تھی بلکہ فوراً اُن مقامات کے ادب اور احترام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے حملہ کا رُخ بھی بدل دینا چاہئے۔
نہم: لڑائی اُس وقت تک جاری رکھنی چاہئے جب تک کہ مذہبی دست اندازی ختم ہو جائے اور دین کے معاملہ کو صرف ضمیر کا معاملہ قرار دیا جائے۔ سیاسی معاملوں کی طرح اس میں دخل اندازی نہ کی جائے۔ اگر دشمن اس بات کا اعلان کر دے اور اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو خواہ وہ حملہ میں ابتدا کر چکا ہو اُس کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی چاہئے۔
(۳) فرماتا ہے ۔۳۰۵؎ یعنی اے محمد رسول اللہ! دشمن نے جنگیں شروع کیں اور تمہیں خداتعالیٰ کے حکم سے اُن کا جواب دینا پڑا۔ مگر تو اُن میں اعلان کر دے کہ اگر اب بھی وہ لڑائی سے باز آجائیں تو جو کچھ وہ پہلے کر چکے ہیں انہیں معاف کر دیا جائے۔ لیکن اگر وہ لڑائی سے باز نہ آئیں اور بار بار حملے کریں تو پہلے انبیاء کے دشمنوں کے انجام اُن کے سامنے ہیں انجام ان کا بھی وہی ہو گا۔ اور اے مسلمانو! تم اُس وقت جنگ کو جاری رکھو کہ مذہب کی خاطر دُکھ دینا مٹ جائے اور دین کو کلّی طور پر خداتعالیٰ کے سپرد کردیا جائے اور دین کے معاملہ میں دخل اندازی کرنا لوگ چھوڑ دیں۔ پھر اگر یہ لوگ اِن باتوں سے باز آجائیں تو محض اِس وجہ سے اُن سے جنگ نہ کرو کہ وہ ایک غلط دین کے پیرو ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے عمل کو جانتا ہے وہ خود جیسا چاہے گا ان سے معاملہ کرے گا تمہیں اُن کے غلط دین کی وجہ سے ان کے کاموں میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ اگر ہمارے اس صلح کے اعلان کے بعد بھی جو لوگ جنگ سے باز نہ آئیں اور لڑائی جاری رکھیں تو خوب سمجھ لو کہ باوجود اِس کے کہ تم تھوڑے ہو تم ہی جیتو گے کیونکہ اللہ تمہارا ساتھی ہے اور خداتعالیٰ سے بہتر ساتھی اور بہتر مدد گار اور کون ہوسکتا ہے۔
یہ آیات قرآن مجید میں جنگ بدر کے ذکر کے بعد آئی ہیں جو کفّارِ عرب اور مسلمانوں کے درمیان سب سے پہلی باقاعدہ جنگ تھی۔ باوجود اس کے کہ کفّارِ عرب نے بِلاوجہ مسلمانوں پر حملہ کیا اور مدینہ کے اِرد گرد فساد مچایا اور باوجود اس کے کہ مسلمان کامیاب ہوئے اور دشمن کے بڑے بڑے سردار مارے گئے قرآن کریم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہی اعلان کروایا ہے کہ اگر اب بھی تم لوگ باز آجاؤ تو ہم لڑائی کو جاری نہیں رکھیں گے۔ ہم تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ جبراً مذہب نہ بدلوائے جائیں اور دین کے معاملہ میں دخل نہ دیا جائے۔
(۴) فرماتا ہے ۳۰۶؎ یعنی اگر کسی وقت بھی کفّار صلح کی طرف جھکیں تو تُو فوراً ان کی بات مان لیجیو اور صلح کر لیجیو اور یہ وہم مت کیجیو کہ شاید وہ دھوکا کررہے ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیو۔ خداتعالیٰ دعاؤں کو سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اور اگر تیرا یہ خیال صحیح ہو کہ وہ دھوکا کرنا چاہتے ہیں اور وہ واقعہ میں تجھے دھوکا دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں تو بھی یاد رکھ کہ ان کے دھوکا دینے سے بنتا کیا ہے۔ تجھے تو صرف اللہ کی مدد سے ہی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ اُس کی مدد تیرے لئے کافی ہے۔ گزشتہ زمانہ میں وہی اپنی براہِ راست مدد کے ذریعہ اور مؤمنوں کی مدد کے ذریعہ تیرا ساتھ دیتا رہا ہے۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب دشمن صلح کرنے پر آمادہ ہو تو مسلمانوں کو بہر حال اس سے صلح کر لینی چاہئے۔ اگر صلح کے اُصول کو وہ ظاہر میں تسلیم کرتا ہو تو صرف اِس بہا نہ سے صلح کو ردّ نہیں کرنا چاہئے کہ شاید دشمن کی نیت بَد ہو اور بعد میں طاقت پکڑ کے دوبارہ حملہ کرنا چاہتا ہو۔
اِن آیتوں میں درحقیقت صلح حدیبیہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب دشمن صلح کرنا چاہے گا اُس وقت تم اِس عذر سے کہ دشمن نے زیادتی کی ہے یا یہ کہ وہ بعد میں اس معاہدہ کو توڑ دینا چاہتا ہے صلح سے انکار نہ کرنا کیونکہ نیکی کا تقاضا بھی یہی ہے اور تمہارا فائدہ بھی اس میں ہے کہ تم صلح کی پیشکش کو تسلیم کر لو۔
(۵) فرماتا ہے ۳۰۷؎ یعنی اے مومنو! جب تم خد اکی خاطر لڑائی کے لئے باہر نکلو تو اِس بات کی اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو کہ تمہارے دشمن پر حجت تمام ہو چکی ہے اور وہ بہر حال لڑائی پر آمادہ ہے اور اگر کوئی شخص یا جماعت تمہیں کہے کہ میں تو صلح کرتا ہوں تو یہ مت کہو کہ تو دھوکا دیتا ہے اور ہمیں اُمید نہیں کہ ہم تجھ سے امن میں رہیں گے۔ اگر تم ایسا کرو گے تو پھر تم خدا کی راہ میں لڑنے والے نہیں ہو گے بلکہ تم دنیا طلب قرار پائو گے۔ پس ایسا مت کرو کیونکہ جس طرح خدا کے پاس دین ہے اسی طرح خداکے پاس دنیا کا بھی بہت سا سامان ہے۔ تمہیں یادر کھنا چاہئے کہ کسی شخص کا مار دینا اصل مقصود نہیں۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ کل کو وہ ہدایت پا جائے۔ تم بھی تو پہلے دین اسلام سے باہر تھے پھر اللہ تعالیٰ نے احسان کر کے تمہیں اِس دین کے اختیار کرنے کی توفیق دی۔ پس مارنے میں جلدی مت کیا کرو بلکہ حقیقتِ حال کی تحقیق کیا کرو۔ یاد رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔
اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب لڑائی شروع ہو جائے تب بھی اس بات کی اچھی طرح تحقیق کرنی چاہئے کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ لڑائی کا ہے؟ کیونکہ ممکن ہے کہ دشمن جارحانہ لڑائی کا ارادہ نہ کرتا ہو بلکہ وہ خود کسی خوف کے ماتحت فوجی تیاری کر رہا ہو۔ پس پہلے اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ جنگ کا تھا تب اُس کے سامنے مقابلہ کے لئے آئو۔ اور اگر وہ یہ کہے کہ میرا ارادہ تو جنگ کرنے کا نہیں تھا میں تو صرف خوف کی وجہ سے تیاری کر رہا تھا تو تمہیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ نہیں تمہاری جنگی تیاری بتاتی ہے کہ تم ہم پر حملہ کرنا چاہتے تھے ہم کس طرح سمجھیں کہ ہم تم سے مأمون اور محفوظ ہیں بلکہ اُس کی بات کو قبول کر لو اور یہ سمجھو کہ اگر پہلے اُس کا ارادہ بھی تھا تو ممکن ہے بعد میں اس میں تبدیلی پیدا ہو گئی ہو۔ تم خود اس بات کے زندہ گواہ ہو کہ دلوں میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے تم پہلے اسلام کے دشمن تھے مگر اب تم اسلام کے سپاہی ہو۔
(۶) پھر دشمنوں سے عہد کے متعلق فرماتا ہے ۳۰۸؎ یعنی مشرکوں میں سے وہ جنہوں نے تم سے کوئی عہد کیا تھا اور پھر اُنہوں نے اُس عہد کو توڑا نہیں اور تمہارے خلاف تمہارے دشمنوں کی مدد نہیں کی، عہد کی مدت تک تم بھی پابند ہو کہ معاہدہ کو قائم رکھو۔ یہی تقویٰ کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ متقیوں کو پسند کرتا ہے۔
(۷) ایسے دشمنوں کے متعلق جو برسر جنگ ہوں لیکن اُن میں سے کوئی شخص اسلام کی حقیقت معلوم کرنا چاہے فرماتا ہے ۳۰۹؎ یعنی اگر برسر جنگ مشرکو ں میں سے کوئی شخص اِس لئے پناہ مانگے کہ وہ تمہارے ملک میں آکر اسلام کی تحقیقات کرنا چاہتا ہے تو اُس کو ضرور پناہ دو اتنے عرصہ تک کہ وہ اچھی طرح اسلام کی تحقیقات کر لے اور قرآن کریم کے مضامین سے واقف ہو جائے۔ پھر اس کو اپنی حفاظت میں اُس مقام تک پہنچا دو جہاں وہ جانا چاہتا ہے اور جسے اپنے لئے امن کا مقام سمجھتا ہے۔
(۸) جنگی قیدیوں کے متعلق فرماتاہے ۔۳۱۰؎ یعنی کسی نبی کی شان کے مطابق یہ بات نہیں کہ وہ اپنے دشمن کے قیدی بنا لے۔ سوائے اس کے کہ باقاعدہ جنگ میںقیدی پکڑے جائیں۔ یعنی یہ رواج جواُس زمانہ تک بلکہ اس کے بعد بھی صدیوں تک دنیا میں قائم رہا ہے کہ اپنے دشمن کے آدمیوں کو بغیر جنگ کے ہی پکڑ کر قید کر لینا جائز سمجھا جاتا تھا اُسے اسلام پسند نہیںکرتا۔ وہی لوگ جنگی قیدی کہلا سکتے ہیں جو میدانِ جنگ میں شامل ہوں اور لڑائی کے بعد قید کئے جائیں۔
(۹) پھر اُن قیدیوں کے متعلق فرماتا ہے ۔۳۱۱؎ یعنی جب جنگی قیدی پکڑے جائیں تو یا تو احسان کر کے اُنہیں چھوڑ دو یااُن کا بدلہ لے کے اُن کو آزاد کر دو۔
(۱۰) اگر کوئی قیدی ایسے ہوں جن کا بدلہ دینے والا کوئی نہ ہو یا اُن کے رشتہ دار اُن کے اموال پر قابض ہونے کیلئے یہ چاہتے ہوں کہ وہ قید ہی رہیں تو اچھاہے تو اُن کے متعلق فرماتا ہے۔۔۳۱۲؎ یعنی تمہارے جنگی قیدیوں میں سے ایسے لوگ جن کو نہ تم احسان کر کے چھوڑ سکتے ہو اور نہ اُن کی قوم نے اُن کا فدیہ دے کر اُنہیں آزاد کروایا ہے ا گر وہ تم سے یہ مطالبہ کریںکہ ہمیں آزاد کر دیا جائے ہم اپنے پیشہ اور ہنر کے ذریعہ سے روپیہ کما کر اپنے حصہکا جرمانہ ادا کر دیں گے تو اگر وہ اس قابل ہیں کہ آزدانہ روزی کما سکیں تو تم ضرور اُنہیں آزاد کر دو بلکہ اُن کی کوشش میں خود بھی حصہ دار بنو اور خدا نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اُس میں سے کچھ روپیہ اُن کے آزاد کرنے میں صرف کر دو یعنی اُن کے حصہ کا جو جنگی خرچ بنتا ہے یا اُس میں سے کچھ مالک چھوڑ دے یا دوسرے مسلمان مل کر اُس قیدی کی مالی امداد کریں اور اُسے آزاد کرائیں۔
یہ وہ حالات ہیں جن میں اسلام جنگ کی اجازت دیتا ہے اور یہ وہ قواعد ہیں جن کے ماتحت اسلام جنگ کی اجازت دیتا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم کی اِن آیات کی روشنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مزید تعلیمات مسلمانوں کو دیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
۱۔ کسی صورت میں مسلمانوں کو مثلہ کرنے کی اجازت نہیں، یعنی مسلمانوں کو مقتولین جنگ کی ہتک کرنے یا اُن کے اعضاء کاٹنے کی اجازت نہیں ہے۔ ۳۱۳؎
۲۔ مسلمانوں کو کبھی جنگ میں دھوکا بازی نہیں کرنی چاہئے۔ ۳۱۴؎
۳۔ کسی بچے کو نہیں مارنا چاہئے اور نہ کسی عورت کو۔۳۱۵؎
۴۔ پادریوں،پنڈتوں اور دوسرے مذہبی رہنمائوں کو قتل نہیں کرنا چاہئے۔۳۱۶؎
۵۔ بڈھے کو نہیں مارنا چاہئے، بچے کو نہیں مارنا چاہئے، عورت کو نہیں مارنا چاہئے اور ہمیشہ صلح اور احسان کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ ۳۱۷؎
۶۔ جب لڑائی کے لئے مسلمان جائیں تو اپنے دشمنوں کے ملک میں ڈر اور خوف پید انہ کریں اور عوام الناس پر سختی نہ کریں۔۳۱۸؎
۷۔ جب لڑائی کے لئے نکلیں تو ایسی جگہ پر پڑائو نہ ڈالیں کہ لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب ہو اور کوچ کے وقت ایسی طرز پر نہ چلیں کہ لوگوں کیلئے رستہ چلنا مشکل ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا سختی سے حکم دیا ہے کہ فرمایا جو شخص اِن احکام کے خلاف کرے گا اُس کی لڑائی اُس کے نفس کے لئے ہو گی خدا کے لئے نہیںہو گی۔۳۱۹؎
۸۔ لڑائی میں دشمن کے منہ پر زخم نہ لگائیں۔
۹۔ لڑائی کے وقت کوشش کرنی چاہئے کہ دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچے۔
۱۰۔ جو قیدی پکڑے جائیں اُن میں سے جو قریبی رشتہ دار ہوں اُن کو ایک دوسرے سے جدا نہ کیا جائے۔ ۳۲۰؎
۱۱۔ قیدیوں کے آرا م کا اپنے آرام سے زیادہ خیال رکھا جائے۔۳۲۱؎
۱۲۔ غیر ملکی سفیروں کا ادب اور احترام کیا جائے۔ وہ غلطی بھی کریں تو اُن سے چشم پوشی کی جائے۔۳۲۲؎
۱۳۔ اگر کوئی شخص جنگی قیدی کے ساتھ سختی کر بیٹھے تو اس قیدی کو بِلا معاوضہ آزاد کر دیا جائے۔
۱۴۔ جس شخص کے پاس کوئی جنگی قیدی رکھا جائے وہ اُسے وہی کھلائے جو خود کھائے اور اُسے وہی پہنائے جو خود پہنے۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہی احکام کی روشنی میں مزید یہ حکم جاری فرمایا کہ عمارتوں کو گرائو مت اور پھلدار درختوں کو کاٹو مت۔ ۳۲۳؎
اِن احکام سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اسلام نے جنگ کے روکنے کے لئے کیسی تدابیر اختیار کی ہیں اورر سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس عمدگی کے ساتھ اِن تعلیمات کو جامہ پہنایا اور مسلمانوں کو اِن پر عمل کرنے کی تلقین کی۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ نہ موسٰی ؑ کی تعلیم اِس زمانہ میں عدل کی تعلیم کہلا سکتی ہے نہ وہ اِس زمانہ میں قابل عمل ہے اور نہ مسیحؑ کی تعلیم اِس زمانہ میں قابلِ عمل کہلا سکتی ہے اور نہ کبھی عیسائی دنیا نے اِس پر عمل کیا ہے۔ اسلام ہی کی تعلیم ہے جو قابل عمل ہے اور جس پر عمل کر کے دنیا میں امن قائم رکھا جا سکتا ہے۔
بیشک اس زمانہ میں مسٹر گاندھی نے دنیا کے سامنے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ جنگ کے وقت بھی جنگ نہیں کرنی چاہئے۔ لیکن جس تعلیم کو مسٹر گاندھی پیش کر رہے ہیں اُس پر دنیا میں کبھی عمل نہیں ہوا کہ ہم اُس کی بُرائی اور خوبی کا اندازہ کر سکیں۔ مسٹر گاندھی کی زندگی میں ہی کانگرس کو حکومت مل گئی ہے اورکانگرسی حکومت نے فوجوں کو ہٹایا نہیں بلکہ وہ یہ تجویزیں کر رہی ہے کہ آئی۔ این۔ اے کے وہ افسر جو برطانوی گورنمنٹ نے ہٹا دئیے تھے اُن کو دوبارہ فوج میں ملازم رکھا جائے۔ بلکہ کانگرسی حکومت کے ہندوستان میں قائم ہونے کے سات دن کے اندر وزیرستان کے علاقہ میں نہتے آدمیوں پر ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے بم گرائے گئے ہیں۔ خود گاندھی جی تشدد کرنے والوں کی تائید اور اُن کے چھوڑ دینے کے حق میں گورنمنٹ پر ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ گاندھی جی نہ اُن کے پیرو اِس تعلیم پر عمل کر سکتے ہیں اور نہ کوئی ایسی معقول صورت دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں جس سے معلوم ہو کہ قوموں اور ملکوں کی جنگ میں اس تعلیم پر کس طرح کامیاب طور پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ منہ سے اِس تعلیم کا وعظ کرتے ہوئے اُس کے خلاف عمل کرنا بتاتا ہے کہ اِس تعلیم پر عمل نہیں کیا سکتا۔ پس اِس وقت تک دنیا کا تجربہ ہے اور عقل جس حد تک انسان کی راہنمائی کرتی ہے ا س سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی طریقہ صحیح تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
کفار کی طرف سے جنگ خندق کے بعد مسلمانوں پر حملے
احزاب سے واپس لوٹنے کے بعد گوکفار کی ہمتیں ٹوٹ چکی تھیں اور اُن کے حوصلے پست ہو گئے تھے، لیکن اُن کا یہ احساس باقی تھا کہ ہم
اکثریت میں ہیں اور مسلمان تھوڑے ہیں اور وہ سمجھتے تھے کہ جہاں جہاں بھی ہو گا ہم مسلمانوں کو اِکّا دُکّا پکڑ کر مار سکیں گے اور اِس طرح اپنی ذلّت کا بدلہ لے سکیں گے۔ چنانچہ احزاب کی شکست کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مدینہ کے اِردگرد کے قبائل نے مسلمانوں پر چھاپے مارنے شروع کر دئیے۔ چنانچہ فزارہ قوم کے کچھ سواروں نے مدینہ کے قریب چھاپہ مارا اور مسلمانوں کے اُونٹ جو وہاں چر رہے تھے اُن کے چرواہے کو قتل کیا، اُس کی بیوی کو قید کر لیا اور اُونٹوں سمیت بھاگ گئے۔ قیدی عورت تو کسی نہ کسی طرح بھاگ آئی لیکن اُونٹوں کا ایک حصہ لے کر بھاگ جانے میں دشمن کامیاب ہو گیا۔ اس کے ایک مہینہ بعد شمال کی طرف غطفان قبیلہ کے لوگوں نے مسلمانوں کے اُونٹوں کے گلوں کو لوٹنے کی کوشش کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہؓ کو دس سواروں سمیت حالات کے معلوم کرنے اور گلوں کی حفاظت کرنے کے لئے بجھوایا مگر دشمن نے موقع پا کر اُنہیں قتل کر دیا۔ محمد بن مسلمہ کو بھی وہ اپنی طرف سے قتل کر کے پھینک گئے تھے لیکن اصل میں وہ بیہوش تھے دشمن کے چلے جانے کے بعد وہ ہوش میں آئے اور مدینہ پہنچ کر ان حالات کی اطلاع دی اور بتایا کہ میرے سب ساتھی مارے گئے اور صرف میں بچا ہوں۔
کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سفیر جو رومی حکومت کی طرف سے بھجوایا گیا تھا اُس پر جرہم قوم نے حملہ کیا اور اُسے لوٹ لیا۔ اس کے ایک مہینہ بعد بنوفزارہ نے مسلمانوں کے ایک قافلہ پر حملہ کیا اور اسے لوٹ لیا۔ غالباً یہ حملہ کسی مذہبی عداوت کی وجہ سے نہیں تھا کیونکہ بنو فزارہ ڈاکوئوں کا ایک قبیلہ تھا جو ہر قوم کے آدمیوں کو لوٹتے اور قتل کرتے رہتے تھے۔ اُس زمانہ میں خیبر کے یہودی بھی جو جنگ احزاب کا موجب ہوئے تھے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے اِدھر اُدھر کے قبائل کو بھڑکاتے رہے اور رومی حکومت کے سرحدی علاقوں کے افسروں اور قبائل کو بھی مسلمانوں کے خلاف جوش دلاتے رہے۔ غرض کفارِ عرب کو مدینہ پر حملہ کرنے کی تو ہمت نہ رہی تھی تاہم وہ یہود کے ساتھ مل کر سارے عرب میں مسلمانوں کے لئے مصیبتوں اور لوٹ مار کے سامان پید اکر رہے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی تک کفار کے ساتھ آخری لڑائی لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا اور آپ اس انتظار میں تھے کہ اگر صلح کے ساتھ یہ خانہ جنگی ختم ہو جائے تو اچھا ہے۔
پندرہ سَو صحابہؓ کے ساتھ آنحضرتﷺکی مکہ کو روانگی
اِس عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رئویا دیکھی جس کا قرآن کریم میں ان الفاظ میں ذکر آتا ہے۔
۳۲۴؎ یعنی ضرور تم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہوگے۔ تم میںسے بعضوں کے سر منڈے ہوئے ہوں گے اور بعضوں کے بال کٹے ہوئے ہوں گے (حج کے وقت سر منڈانا اور بال کٹانا ضروری ہوتا ہے) تم کسی سے نہ ڈر رہے ہو گے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے۔ اِس وجہ سے اُس نے اِس خواب کے پورا ہونے سے پہلے ایک اور فتح مقرر کر دی ہے جو خواب والی فتح کا پیش خیمہ ہو گی۔
اِس رئویا میں درحقیقت صلح اور امن کے ساتھ مکہ کو فتح کرنے کی خبر دی گئی تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعبیر یہی سمجھی کہ شاید ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور چونکہ اِس غلط فہمی سے اس قسم کی بنیاد پڑنے والی تھی اللہ تعالیٰ نے اِس غلطی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ نہ کیا۔ چنانچہ آپؐ نے اپنے صحابہ میں اِس بات کا اعلان کیا اور اُنہیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی تلقین کی۔ مگر فرمایا ہم صرف طواف کی نیت سے جارہے ہیں کسی قسم کا مظاہرہ یا کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو دشمن کی ناراضگی کا موجب ہو۔ چنانچہ آخر فروری۶۲۸ء میں پندرہ سَو زائرین کے ساتھ آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے( ایک سال بعدکل پندرہ سَو آدمیوں کا آپ کے ساتھ جانا بتاتاہے کہ اس سے ایک سال پہلے جنگ احزاب کے موقع پر اس تعداد سے کم ہی سپاہی ہوں گے۔ کیو نکہ ایک سال میں مسلمان بڑھے تھے گھٹے نہ تھے۔ پس جنگ احزاب میں لڑنے والوں کی تعداد جن مؤرخوں نے تین ہزار لکھی ہے یہ غلطی کی ہے۔ درست یہی ہے کہ اُس وقت بارہ سَو سپاہی تھے)حج کے قافلہ کے آگے بیس سوار کچھ فاصلہ پر اس لئے چلتے تھے تاکہ اگر دشمن مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہے تو اُن کو وقت پر اطلاع مل جائے۔ جب مکہ والوں کو آپ کے اِس ارادہ کی اطلاع ہوئی تو باوجود اس کے کہ اُن کا اپنا مذہب بھی یہی تھا کہ طوافِ کعبہ میں کسی کے لئے روک نہیں ڈالنی چاہئے اور باوجود اس کے کہ مسلمانوں نے وضاحت سے اعلان کر دیا تھا کہ وہ صرف اور صرف طوافِ کعبہ کے لئے جار ہے ہیں کسی قسم کی مخالفت یا جھگڑے کے لئے نہیں جار ہے مکہ والوں نے مکہ کو ایک قلعہ کی صورت میں تبدیل کر دیااور اِردگرد کے قبائل کو بھی اپنی مدد کے لئے بلوایا۔ جب آپ مکہ کے قریب پہنچے تو آپ کو یہ اطلاع ملی کہ قریش نے چیتوں کی کھالیں پہن لی ہیں اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے لیا ہے اور یہ قسمیں کھا لی ہیں کہ وہ آپ کو گزرنے نہیں دیں گے۔ یہ عرب کا رواج تھا کہ جب قوم موت کا فیصلہ کر لیتی تھی تو اس کے سردار چیتے کی کھالیں پہن لیتے تھے جس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ اب عقل کا وقت نہیں رہا، اب دلیری اور جرأت سے ہم جان دے دیں گے۔ اس اطلاع کے ملنے کے تھوڑی دیر بعد ہی مکہ کی فوج کا ہرا ول دستہ مسلمانوں کے سامنے آکھڑا ہوا اب اس مقام سے صرف اسی صورت میں آگے بڑھا جا سکتا تھا کہ تلوار کے زور سے دشمن کو زیر کیا جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ فیصلہ کر کے آئے تھے کہ بہر حال ہم نہیں لڑیں گے، آپ نے ایک ہوشیار راہبر کو جو جنگل کے راستوں سے واقف تھا اُسے اِس بات پر مقرر کیا کہ وہ جنگل کے اندر سے مسلمان زائرین کو لے کر مکہ تک پہنچا دے۔ یہ راہبر آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو لے کر حدیبیہ کے مقام پر جو مکہ کے قریب تھا جا پہنچا۔ یہاں آپ کی اُونٹنی کھڑی ہو گئی اور اُس نے آگے چلنے سے انکار کر دیا۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ کی اُونٹنی تھک گئی ہے آپ اس کی جگہ دوسری اُونٹنی پر بیٹھ جائیں۔ مگر آپ نے فرمایا۔ نہیں نہیں یہ تھکی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہر جائیں اور میں یہیں ٹھہر کر مکہ والوں سے ہر طریقہ سے درخواست کروں گا کہ وہ ہمیں حج کی اجازت دے دیں اور خواہ کوئی شرط بھی وہ کریں میں اُسے منظور کر لوں گا۔ اُس وقت تک مکہ کی فوج مکہ سے دور فاصلہ پر کھڑی تھی اور مسلمانوں کا انتظار کر رہی تھی۔ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو بغیر مقابلہ کے مکہ میں داخل ہو سکتے تھے۔ لیکن چونکہ آپ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ پہلے آپ یہی کوشش کریں گے کہ مکہ والوں کی اجازت کے ساتھ طواف کریں اور اُسی صورت میں مقابلہ کریں گے کہ مکہ والے خود لڑائی شروع کرکے لڑنے پر مجبور کریں۔ اس لئے باوجود مکہ کی سڑک کے کھلا ہونے کے آپ نے حدیبیہ پر ڈیرہ ڈال دیا۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر کہ آپ حدیبیہ پر ڈیرے ڈالے پڑے ہیں مکہ کے لشکرکو بھی جا پہنچی اور اُس نے جلدی سے پیچھے ہٹ کر مکہ کے قریب صفیں بنا لیں۔ سب سے پہلے بدیل نامی ایک سردار آپ سے بات کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا۔ میں تو صرف طواف کرنے کے لئے آیا ہوں۔ ہاں مکہ والے اگر ہمیں مجبور کریں تو ہمیں لڑنا پڑے گا۔ اِس کے بعد مکہ کے کمانڈر ابوسفیان کا داماد عروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے نہایت گستاخا نہ طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہا کہ یہ اُوباشوں کا گروہ آپ اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں مکہ والے اِنہیں کسی صورت میں بھی اپنے شہر میں داخل ہونے نہیں دیں گے۔ اِسی طرح یکے بعد دیگرے پیغامبر آتے رہے۔ آخر مکہ والوں نے کہلا بھیجا کہ خواہ کچھ ہو جائے اِس سال تو ہم آپ کو طواف نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اس میں ہماری ہتک ہے۔ ہاں اگر آپ اگلے سال آئیں تو ہم آپ کو اجازت دے دیں گے۔ بعض اِ ردگرد کے لوگوں نے مکہ والوں سے اصرار کیا کہ یہ لوگ صرف طواف کے لئے آئے ہیں آپ ان کو کیوں روکتے ہیں مگر مکہ کے لوگ اپنی ضد پر قائم رہے۔ اس پر بیرونی قبائل کے لوگوں نے مکہ والوں سے کہا کہ آپ لوگوں کا یہ طریق بتاتا ہے کہ آپ کو شرارت مدنظر ہے صلح مدنظر نہیں اِس لئے ہم لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس پر مکہ کے لوگ ڈر گئے اور اُنہوں نے اِس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کی کوشش کریں گے۔
جب اس امر کی اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے حضرت عثمانؓ کو جو بعد میں آپ کے تیسرے خلیفہ ہوئے مکہ والوں سے بات چیت کرنے کے لئے بھیجا۔ جب حضرت عثمانؓ مکہ پہنچے تو چونکہ مکہ میں اُن کی بڑی وسیع رشتہ داری تھی اُن کے رشتہ دار اُن کے گرد اکٹھے ہوگئے اور اُن سے کہا کہ آپ طواف کر لیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے سال آکر طواف کریں۔ مگر عثمانؓ نے کہا کہ میں اپنے آقا کے بغیر طواف نہیں کر سکتا۔ چونکہ رئوسائے مکہ سے آپ کی گفتگو لمبی ہو گئی، مکہ میں بعض لوگوں نے شرارت سے یہ خبر پھیلادی کہ عثمانؓ کوقتل کر دیا گیا ہے اور یہ خبر پھیلتے پھیلتے رسول اللہ صلی علیہ وسلم تک بھی جا پہنچی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا سفیر کی جان ہر قوم میں محفوظ ہوتی ہے۔ تم نے سنا ہے کہ عثمانؓ کو مکہ والوں نے مار دیا ہے اگر یہ خبر درست نکلی تو ہم بزور مکہ میں داخل ہوں گے (یعنی ہمارا پہلا ارادہ کہ صلح کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے جن حالات کے ماتحت تھا وہ چونکہ تبدیل ہو جائیں گے اِس لئے ہم اِس ارادہ کے پابند نہ رہیں گے) جو لوگ یہ عہد کرنے کے لئے تیار ہوں کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا پڑا تو یا ہم فتح کر کے لوٹیں گے یا ایک ایک کر کے میدان میں مارے جائیں گے وہ اس عہد پر میری بیعت کریں۔ آپ کا یہ اعلان کرنا تھا کہ پندرہ سَو زائر جو آپ کے ساتھ آیا تھا یکدم پندرہ سَو سپاہی کی شکل میں بدل گیا اور دیوانہ وار ایک دوسرے پر پھاندتے ہوئے اُنہو ں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر دوسروں سے پہلے بیعت کرنے کی کوشش کی۔ یہ بیعت تمام اسلامی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور درخت کا عہد نامہ کہلاتی ہے کیونکہ جس وقت یہ بیعت لی گئی اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے۔ جب تک اس بیعت میں شامل ہونے والا آخری آدمی بھی دنیا میں زندہ رہا وہ فخر سے اِس بیعت کا ذکر کیا کرتا تھا۔ کیونکہ پندرہ سَو آدمیوں میں سے ایک شخص نے بھی یہ عہد کرنے سے دریغ نہ کیا تھا کہ اگردشمن نے اسلامی سفیر کو مار دیا ہے تو آج دو صورتوں میں سے ایک ضرور پیدا کر کے چھوڑیں گے۔ یا وہ شام سے پہلے پہلے مکہ کو فتح کر کے چھوڑ یں گے یا شام سے پہلے پہلے میدانِ جنگ میں مارے جائیںگے۔ لیکن ابھی بیعت سے مسلمان فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت عثمانؓ واپس آگئے اور اُنہوں نے بتایا کہ مکہ والے اِس سال تو عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے مگر آئندہ سال اجازت دینے کے لئے تیار ہیں۔ چنانچہ اِس بارہ میں معاہدہ کرنے کے لئے اُنہوں نے اپنے نمائندے مقرر کر دئیے ہیں۔ حضرت عثمانؓ کے آنے کے تھوڑی دیر بعد مکہ کا ایک رئیس سہیل نامی معاہدہ کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ معاہدہ لکھا گیا۔
شرائط صلح حدیبیہ
’’ خدا کے نام پر یہ شرائط صلح محمد ابن عبداللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور سہیل ابن عمرو ( قائمقام حکومت مکہ کے درمیان
طے پائی ہیں۔ جنگ دس سال کے لئے بند کی جاتی ہے۔ جو شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ ملنا چاہے یا اُن کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے وہ ایسا کر سکتا ہے۔ اورجو شخص قریش کے ساتھ ملنا چاہے یا معاہدہ کرنا چاہے وہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ اگر کوئی لڑکا جس کا باپ زندہ ہو یا ابھی چھوٹی عمر کا ہو وہ اپنے باپ یا متولی کی مرضی کے بغیر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جائے توا ُس کے باپ یا متولی کے پاس واپس کر دیا جائے گا لیکن اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھیوں میں سے کوئی قریش کی طرف جائے تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا۔ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں گے لیکن اگلے سال محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اور ا ن کے ساتھی مکہ میں آ سکتے ہیں اور تین دن تک وہاں ٹھہر کر کعبہ کا طواف کر سکتے ہیں اس عرصہ میں قریش شہر سے باہر پہاڑی پر چلے جائیں گے۔ لیکن یہ شرط ہو گی کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُن کے ساتھی مکہ میں داخل ہوں تو اُن کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو سوائے اُس ہتھیار کے جوہر مسافر اپنے پاس رکھتا ہے یعنی نیام میں ڈالی ہوئی تلوار‘‘۔۳۲۵؎
اِس معاہدہ کے وقت دو عجیب باتیں ہوئیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرائط طے کرنے کے بعد معاہدہ لکھوانا شروع کیا تو آپ نے فرمایا ’’ خدا کے نام سے جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے‘‘۔ سہیل نے اس پر اعتراض کیا اور کہا خدا کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ ’’ بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ‘‘ ہم نہیں جانتے کون ہے۔ یہ معاہدہ ہمارے اور آپ کے درمیان ہے اور اس میں دونوں کے مذاہب کا احترام ضروری ہے۔ اس پر آپ نے اُس کی بات قبول کر لی اور صرف اتنا ہی لکھوایا کہ ’’ خد اکے نام پر ہم یہ معاہدہ کرتے ہیں‘‘۔ پھر آپ نے یہ لکھوایا کہ یہ شرائط صلح مکہ والوں اور محمد رسول اللہ کے درمیان ہیں۔ اس پر پھر سہیل نے اعتراض کیا اور کہا کہ اگر ہم آپ کو خدا کا رسول مانتے تو آپ کے ساتھ لڑتے کیوں؟ آپ نے اُس کے اس اعتراض کو بھی قبول کر لیا اور بجائے محمد رسول اللہ کے ’’ محمد بن عبداللہ‘‘ لکھوایا۔ چونکہ آپ مکہ والوں کی ہر بات مانتے چلے جاتے تھے، صحابہؓ کے دل میں بے انتہاء رنج اور افسوس پیدا ہوا اور غصہ سے اُن کا خون کھولنے لگا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا ہم سچے نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں ! پھر اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ کو خدا نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ہم خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں! اس پر حضرت عمرؓ نے کہا پھر آپ نے یہ معاہدہ آج کیوں کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عمر! خدا تعالیٰ نے مجھے یہ تو فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف امن سے کریں گے مگر یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ ہم اسی سال کریں گے یہ تو میرا اپنا اجتہاد تھا۔ اِسی طرح بعض دوسرے صحابہؓ نے یہ اعتراض کیا کہ یہ اقرار کیوںکر لیا گیا ہے کہ اگر مکہ کے لوگوں میں سے کوئی نوجوان مسلمان ہواتو اس کے باپ یا ولی کی طرف واپس کر دیا جائے گا لیکن جو مسلمان مکہ والوں کی طرف جائے گا اُسے مکہ والے واپس کرنے پر مجبور نہ ہوں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِس میں کون سے حرج کی بات ہے ہر شخص جو مسلمان ہوتا ہے وہ اسلام کو سچا سمجھ کر مسلمان ہوتا ہے رسمی اور رواجی طور پر مسلمان نہیں ہوتا۔ ایسا شخص جہاں بھی رہے گا وہ اسلام کی تبلیغ کرے گا اور اسلام کی اشاعت کا موجب ہو گا لیکن جو شخص اسلام سے مرتد ہو تا ہے ہم نے اُسے اپنے اندر رکھ کر کرنا کیا ہے۔ جو شخص ہمارے مذہب کو جھوٹا سمجھ بیٹھا ہے وہ ہمارے لئے کس فائدہ کا موجب ہو سکتا ہے۔ آپ کا یہ جواب ان غلطی خوردہ مسلمانوں کا بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے۔ اگر اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر اصرار کرتے کہ ہر مرتد واپس کیا جائے تاکہ اُس کو اُس کے جرم کی سزا دی جائے۔ جس وقت یہ معاہدہ لکھ کر ختم ہو ا اور اس پر دستخط کر دئیے گئے۔ اُسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس معاہدہ کی صحت کے پرکھنے کا سامان پیدا کر دیا۔ سہیل جو مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ کر رہا تھا اس کا اپنا بیٹا رسیوں سے جکڑا ہوا اور زخموں سے چور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر گرا اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں دل سے مسلمان ہوں اور اسلام کی وجہ سے میرا باپ مجھے یہ تکلیفیں دے رہا ہے۔ میرا باپ یہاں آیا تو میں موقع پا کر آپ کے پاس پہنچا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی جواب نہ دیاتھا کہ اس کے باپ نے کہا معاہدہ ہو چکا ہے اور اِس نوجوان کو واپس میرے ساتھ جانا ہوگا۔ ابوجندل کی حالت اُس وقت مسلمانوں کے سامنے تھی وہ اپنے ایک بھائی کو جو اپنے باپ کے ہاتھوں سے اِس قدر ظلم برداشت کر رہا تھا واپس جانا دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اُنہوں نے تلواریں میانوں سے نکال لیں اور اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ وہ مر جائیں گے مگر اپنے بھائی کو اس تکلیف کے مقام پر پھر جانے نہیں دیں گے۔ خود ابوجندل نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یَارَسُوْل اللّٰہ !آپ میری حالت کو دیکھتے ہیں کیا آپ اس بات کو گوارا کریں گے کہ پھر مجھے اِ ن ظالموں کے سپرد کر دیں تاکہ پہلے سے بھی زیادہ مجھ پر ظلم توڑیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے رسول معاہدے نہیں توڑا کرتے۔ ابوجندل! ہم معاہدہ کرچکے ہیں تم اب صبر سے کام لو اور خدا پر توکل کرو وہ تمہارے لیے اور تمہارے جیسے اور نوجوانوں کے لئے خو دہی بچنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا۔۳۲۶؎
اس معاہدے کے بعدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے گئے۔ جب آپ مدینہ پہنچے تو مکہ کا ایک اور نوجوان ابوبصیرؓ آپ کے پیچھے پیچھے دَوڑتا ہوا مدینہ پہنچا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بھی معاہدہ کے مطابق واپس جانے پر مجبور کیا مگر راستہ میں اُس کی اپنے پکڑنے والوں سے لڑائی ہو گئی اور اپنے ایک محافظ کو قتل کر کے وہ بھاگ گیا۔ مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر شکایت کی تو آپ نے فرمایا ہم نے تمہارا آدمی تمہارے حوالے کر دیا تھا ہم اس بات کے ذمہ دار نہیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو ہم اُس کو پکڑ کر دوبارہ تمہارے سپرد کریں۔۳۲۷؎
اس کے تھوڑے دنوں بعد ایک عورت بھاگ کر مدینہ پہنچی۔ اس کے رشتہ داروں نے مدینہ پہنچ کر اُسے واپس بھجوانے کا مطالبہ کیا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا معاہدہ میں مردوں کی شرط ہے عورتوں کی شرط نہیں اس لئے ہم عورت کو واپس نہیں کریں گے۔۳۲۸؎
بادشاہوں کے نام خطوط
مدینہ تشریف لے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ کیا کہ آپ اپنی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں
جب آپ نے اپنے اِس ارادہ کا صحابہؓ سے ذکر کیا تو بعض صحابہ نے جو بادشاہی درباروں سے واقف تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! بادشاہ بغیر مہر کے خط نہیں لیتے۔ اِس پر آپ نے ایک مہر بنوائی جس پر’’ محمد رسول اللہ‘‘ کے الفاظ کھدوائے اور اللہ تعالیٰ کے ادب کے طور پر آپ نے سب سے اوپر ’’ اللہ‘‘ کا لفظ لکھوا دیا۔ نیچے ’’ رسول‘‘ کا اور پھر نیچے ’’محمد ‘‘ کا۔۳۲۹؎
محرم ۶۲۸ء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خط لے کر مختلف صحابہ مختلف ممالک کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان میں سے ایک خط قیصر روما کے نام تھا اور ایک خط ایران کے بادشاہ کی طرف تھا۔ ایک خط مصر کے بادشاہ کی طرف تھا جو قیصر کے ماتحت تھا۔ ایک نجاشی کی طرف تھا جو حبشہ کا بادشاہ تھا۔ اِسی طرح بعض اور بادشاہوں کی طرف آپ نے خطوط لکھے۔
قیصر روم ہرقل کے نام خط
قیصر روما کا خط دحیہ کلبیؓ صحابی کے ہاتھ بھیجا گیا اور آپ نے اُسے ہدایت کی تھی کہ پہلے وہ بصرہ کے گورنر کے
پاس جائے جو نسلاً عرب تھا اور اس کی معرفت قیصر کو خط پہنچائے۔ جب دحیہ کلبیؓ گورنر بصرہ کے پاس خط لے کر پہنچے تو اتفاقاً اُنہی دنوں قیصر شام کے دورہ پر آیا ہوا تھا۔ چنانچہ گورنر بصرہ نے دحیہؓ کو اس کے پاس بجھوا دیا۔ جب دحیہؓ ،گورنر بصرہ کی معرفت قیصر کے پاس پہنچے تو دربار کے افسروں نے اُن سے کہا کہ قیصر کی خدمت میں حاضر ہونے والے ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ قیصر کو سجدہ کرے۔ دحیہؓ نے انکار کیا اور کہا کہ ہم مسلمان کسی انسان کو سجدہ نہیں کرتے چنانچہ بغیر سجدہ کرنے کے آپ اُس کے سامنے گئے اور خط پیش کیا۔ بادشاہ نے ترجمان سے خط پڑھوایا اور پھر حکم دیا کہ کوئی عرب کا قافلہ آیا ہو تو اُن لوگوں کو پیش کرو تاکہ میں ا س شخص کے حالات اُن سے دریافت کروں۔ اتفاقاً ابوسفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ اُس وقت وہاں آیا ہوا تھا۔د ربار کے افسر ابوسفیان کو بادشاہ کی خدمت میں لے گئے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ ابوسفیان کو سب سے آگے کھڑا کیا جائے اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے کھڑا کیا جائے اور ہدایت کی کہ اگر ابوسفیان کسی بات میں جھوٹ بولے تو اس کے ساتھی اس کی فوراً تردید کریں۔ پھر اس نے ابو سفیان سے سوال کیا کہ :۔
سوال: یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور جس کا خط میرے پاس آیا ہے کیا تم اس کو جانتے ہو اس کا خاندان کیسا ہے؟
جواب: ابوسفیان نے کہا۔ وہ اچھے خاندان کا ہے اور میرے رشتہ داروں میں سے ہے۔
سوال: پھر اُس نے پوچھا کیا ایسا دعویٰ عرب میں پہلے بھی کسی شخص نے کیا ہے؟
جواب: تو ابوسفیان نے جواب دیا نہیں۔
سوال: پھر اُس نے پوچھا کیا تم دعویٰ سے پہلے اُس پر جھوٹ کا الزام لگایا کرتے تھے؟
جواب: ابوسفیان نے کہا۔ نہیں۔
سوال: پھر اس نے پوچھا۔ کیا اس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟
جواب: ابوسفیان نے کہا۔ نہیں۔
سوال: پھر بادشاہ نے پوچھا۔ اس کی عقل اور اس کی رائے کیسی ہوتی ہے؟
جواب: ابوسفیان نے جواب دیا۔ ہم نے اس کی عقل اور رائے میں کبھی کوئی عیب نہیں دیکھا۔
سوال: پھر قیصر نے پوچھا۔ کیا بڑے بڑے جابر اور قوت والے لوگ اس کی جماعت میں داخل ہوتے ہیں یا غریب اور مسکین لوگ؟
جواب: ابوسفیان نے جواب دیا۔ غریب اور مسکین اور نوجوان لوگ۔
سوال: پھر اس نے پوچھا۔ وہ بڑھتے ہیں یا گھٹتے ہیں؟
جواب: ابو سفیان نے جواب دیا۔ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔
سوال: پھر قیصر نے پوچھا۔ کیا اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اُس کے دین کو بُرا سمجھ کے مرتد ہوئے ہیں۔
جواب: ابوسفیان نے کہا۔ نہیں۔
سوال: پھر اس نے پوچھا۔ کیا اس نے کبھی اپنے عہد کو بھی توڑا ہے؟
جواب: ابوسفیان نے جواب دیا۔ آج تک تو نہیں۔ مگر اب ہم نے ایک نیا عہد باندھا ہے دیکھیں اب وہ اس کے متعلق کیا کرتا ہے۔
سوال: پھر اس نے پوچھا۔ کیا تمہارے اور اس کے درمیان کبھی جنگ بھی ہوئی ہے؟
جواب: ابوسفیان نے جواب دیا۔ ہاں۔
سوال: اِس پر بادشاہ نے پوچھا۔ پھر اُن لڑائیوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
جواب: ابوسفیان نے جواب دیا۔ گھاٹ کے ڈولوں والا حال ہے۔ کبھی ہمارے ہاتھ میں ڈول ہوتا ہے کبھی اس کے ہاتھ ڈول ہوتا ہے۔ چنانچہ ایک دفعہ بدر کی لڑائی ہوئی اور مَیں اس میں شامل نہیں تھا اس لئے وہ غالب آگیا تھا اور دوسری دفعہ اُحد میں لڑائی ہوئی اُس وقت میں کمانڈر تھا۔ ہم نے ان کے پیٹ کاٹے اور اُن کے کان کاٹے، ان کے ناک کاٹے۔
سوال: پھر قیصر نے پوچھا۔ وہ تمہیں کیا حکم دیتا ہے؟
جواب: ابوسفیان نے کہا وہ کہتا ہے کہ ایک خدا کی پرستش کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو اور ہمارے باپ دادا جن بتوں کی پوجا کرتے تھے وہ ان کی پوجا سے روکتا ہے اور ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم خدا کی عبادتیں کریں اور سچ بولا کریں اور بُرے اور گندے کاموں سے بچا کریں اور ہمیں کہتا ہے کہ کہ مروت اور وفائے عہد سے کام لیا کریں اور امانتوں کو ادا کیا کریں۔۳۳۰؎
قیصر روم کا نتیجہ کہ آنحضرتﷺ صادق نبی ہیں
اِس پر قیصر نے کہا۔ سنو میں نے تم سے
یہ سوال کیا تھا کہ اس کا نسب کیسا ہے تو تم نے کہا وہ خاندانی لحاظ سے اچھا ہے اور انبیاء ہمیشہ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا اس سے پہلے کسی شخص نے ایسا دعویٰ کیا ہے تو تم نے کہا نہیں۔ یہ سوال میں نے اس لئے کیا تھا کہ اگر قریب زمانہ میں اس سے پہلے کسی شخص نے ایسادعویٰ کیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ بھی اُس کی نقل کر رہا ہے۔ اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا اس دعویٰ سے پہلے اس پر جھوٹ کا بھی الزام لگایا گیا ہے اور تم نے کہا نہیں تو میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص انسانوں کے متعلق جھوٹ نہیں بولتا وہ خداتعالیٰ کے متعلق بھی جھوٹ نہیں بول سکتا۔ پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیااس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا۔ تو تم نے کہا نہیں۔ تو میں نے سمجھ لیا کہ اس کے دعویٰ کی یہ وجہ نہیں کہ اس بہانہ سے اپنے باپ دادا کا ملک واپس لینا چاہتا ہے۔ پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا جابر اور زبردست لوگ اس کی جماعت میں داخل ہوتے ہیں یا کمزور اور مسکین طبع لوگ۔ تو تم نے جواب دیا کہ کمزور اور مسکین طبع لوگ۔ تومیں نے سوچا کہ تمام انبیاء کی جماعت میں اکثر مسکین طبع اور غریب ہی داخل ہوا کرتے ہیں نہ کہ جابر او رمتکبر لوگ۔ پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا وہ بڑھتے ہیں یا گھٹتے ہیں۔ تو تم نے کہا وہ بڑھتے ہیں اور یہی حالت نبیوں کی جماعت کی ہوا کرتی ہے جب تک وہ کمال کو نہیں پہنچ جاتی اُس وقت تک وہ بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اُس کے دین کو ناپسند کر کے مرتد بھی ہوتا ہے تو تم نے کہا نہیں اور ایسا ہی انبیاء کی جماعت کا حال ہوتا ہے کسی اور وجہ سے کوئی شخص نکلے تو نکلے دین کو بُرا سمجھ کر نہیں نکلتا ۔ پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا تمہارے درمیان کبھی لڑائی بھی ہوئی ہے اور اس کا انجام کیا ہوتا ہے۔ تو تم نے کہا لڑائی ہمارے درمیان گھاٹ کے ڈول کی طرح ہے اور نبیوں کا یہی حال ہے۔ شروع شروع میں اُن کی جماعتوں پر مصیبتیں آتی ہیں لیکن آخری وہی جیتتے ہیں۔ پھر میں نے تجھ سے پوچھا۔ وہ تمہیں کیا تعلیم دیتا ہے۔ تو تم نے جواب دیا کہ وہ نماز کی اور سچائی کی اور پاکدامنی کی اور وفائے عہد کی اور امانت دار ہونے کی تعلیم دیتا ہے اور اسی طرح میں نے تجھ سے پوچھا کہ کیا وہ دھوکا بازی بھی کرتا ہے؟ تو تم نے کہا نہیں اور یہ طور و طریق تو ہمیشہ نیک لوگوں کے ہی ہوا کرتے ہیں۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ وہ نبوت کے دعویٰ میں سچا ہے اور میرا خود یہ خیال تھا کہ اِس زمانہ میں ’’ وہ نبی‘‘ آنے والا ہے، مگر میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ عربوں میں پیدا ہونے والا ہے اور جو جواب تو نے مجھے دئیے ہیں اگر وہ سچے ہیں تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ وہ ان ممالک پر ضرور قابض ہو جائے گا۔ اس کی اِن باتوں پر اس کے درباریوں میں جوش پیداہو گیا اور اُنہوں نے کہا آپ مسیحی ہوتے ہوئے ایک غیر قوم کے آدمی کی صداقت کا اقرار کر رہے ہیںاور دربار میں احتجاج کی آوازیں بلند ہونے لگیں۔ اِس پردربار کے افسروں نے جلدی سے ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں کو دربار سے باہر نکال دیا۔۳۳۱؎
آنحضرتﷺ کے خط بنام ہرقل کا مضمون
یہ خط جو رسولﷺنے قیصر کے نام لکھا تھا اسکی عبارت یہ تھی:۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ۔مِنْ مُّحَمَّدٍعَبْدِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ اِلٰی ھِرَقْلَ عَظِیْمِ الرُّوْمِ۔ سَلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔ اَمَّا بَعْدُ فَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ بِدِعَایَۃِ الْاِسْلاَ مِ اَسْلِمْ تَسْلَمْ یُؤْتِکَ اللّٰہُ اَ جْرَکَ مَرَّتَیْنِ فَاِنْ تَوَلَّیْتَ فَاِنَّ عَلَیْکَ اِثْمَ الْأَرِیْسِیِّیْنَ وَ یَااَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَائٍ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اَلَّانَعْبُدَ اِلاَّاللّٰہَ وَلَانُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَلَایَتِّخَذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ۳۳۲؎
یعنی یہ خط محمدا للہ کے بندے اور اُس کے رسول کی طر ف سے رُوم کے بادشاہ ہرقل کی طرف لکھا جاتا ہے۔ جو شخص بھی خدا کی ہدایت کے پیچھے چلے اُس پر خد اکی سلامتیاں نازل ہوں۔ اس کے بعد اے بادشاہ! میں تجھے اسلام کی دعوت پیش کرتا ہوں (یعنی خدائے واحد اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی) اے بادشاہ! تو مسلمان ہو جا۔ تو خدا تجھے تمام فتنوں سے بچا لے گا۔ اور تجھے دُہرا اجر دے گا۔ ( یعنی عیسٰی ؑ پر ایمان لانے کا بھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا بھی) لیکن اگر تو نے اس بات کے ماننے سے انکار کر دیا تو صرف تیری ہی جان کا گناہ تجھ پر نہیں ہو گا بلکہ تیری رعایا کے ایمان نہ لانے کا گناہ بھی تجھ پر ہو گا۔ (آخر میں قرآن شریف کی آیت درج تھی جس کے معنی یہ ہیں کہ) اے اہل کتاب! آئو اس بات پر تو اکٹھے ہو جائیں جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے یعنی ہم خداتعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اُس کا شریک نہ بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہم کسی بندے کو بھی اتنی عزت نہ دیں کہ وہ خدائی صفات سے متصف کیا جانے لگے۔ اگر اہل کتاب اِس دعوتِ اتحاد کو قبول نہ کریں تو اے محمد رسول اللہ اور ان کے ساتھیو! ان سے کہہ دو کہ ہم تو خدا تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں۔
بعض تاریخوںمیں لکھا ہے کہ جب یہ خط بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو دربایوں میں سے بعض نے کہا کہ اس خط کو پھاڑ کر پھینک دینا چاہئے کیونکہ اس میں بادشاہ کی ہتک کی گئی ہے اور خط کے اوپر بادشاہ روم نہیں لکھا گیا بلکہ صاحب الروم یعنی روم کا والی لکھا ہے مگر بادشاہ نے کہا یہ عقل کے خلاف ہے کہ خط پڑھنے سے پہلے پھاڑ دیا جائے اور یہ جو اُس نے مجھے روم کا والی لکھا ہے یہ درست ہے آخر مالک تو خدا ہی ہے میں والی ہی ہوں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا روم کے بادشاہ نے جو طریق اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے اس کی حکومت بچا لی جائے گی اور اس کی اولاد دیر تک حکومت کرتی رہے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ بعد کی جنگوں میں گو بہت سا ملک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دوسری پیشگوئی کے ماتحت روم کے بادشاہ کے ہاتھ سے چھینا گیا مگر اس واقعہ کے چھ سَو سال بعد تک اس کے خاندان کی حکومت قسطنطنیہ میں قائم رہی۔ روم کی حکومت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط بہت دیر تک محفوظ رہا۔ چنانچہ بادشاہ منصور قلادون کے بعض سفیر ایک دفعہ بادشاہِ روم کے پاس گئے تو بادشاہ نے ان کو دکھانے کے لئے ایک صندوقچہ منگوایا اور کہا کہ میرے ایک داداکے نام تمہارے رسول کا ایک خط آیا تھا جو آج تک ہمارے پاس محفوظ ہے۔
فارس کے بادشاہ کے نام خط
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط فارس کے بادشاہ کی طرف لکھا تھا وہ عبداللہ بن حذافہ کی معرفت
بجھوایا گیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے:۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مِنْ مُّحَمّدٍ رَسُوْلِ اللّٰہِ اِلٰی کِسْریٰ عَظِیْمِ الْفَارِس۔ سَلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ اَلْھُدٰی۔ وَاٰمَنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَشَھِدَ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لَاشَرِیْکَ لَہٗ۔ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ وَ اَدْعُوْکَ بِدِعَایَۃِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ فَاِنِّیْ اَنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِلَی النَّاسِ کَافَّۃً، لِاُ نْذِرَمَنْ کَانَ حَیًّا وَیَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَی الْکَافِرِیْنَ اَسْلِمْ تَسْلَمْ فَاِنْ اَبَیْتَ فَعَلَیْکَ اِثْمُ الْمَجُوْسِ۔۳۳۳؎
یعنی اللہ کا نام لے کر جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے یہ خط محمد رسول اللہ نے کسریٰ فارس کے سردار کی طرف لکھا ہے۔ جو شخص کامل ہدایت کی اتباع کرے اور اللہ پر اور اُس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اُس پر خد اکی سلامتی ہو۔ اے بادشاہ! میں تجھے خدا کے حکم کے ماتحت اسلام کی طرف بُلاتا ہوں کیونکہ میں تمام انسانوں کی طرف خد اکی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں تاکہ ہرزندہ شخص کو میں ہوشیار کردوں اور کافروں پر حجت تمام کردوں۔ تو اسلام قبول کر تا تو ہر ایک فتنہ سے محفوظ رہے اگر تو اس دعوت سے انکار کرے گا تو سب مجوس کا گناہ تیرے ہی سر پر ہو گا۔
عبداللہ بن حذافہؓ کہتے ہیں کہ جب میںکسریٰ کے دربار میں پہنچا تو میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی جو دی گئی۔ جب میں نے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط کسریٰ کے ہاتھ میں دیا تو اُس نے ترجمان کو پڑھ کر سنانے کا حکم دیا۔ جب ترجمان نے اس کا ترجمہ پڑھ کر سنایا تو کسریٰ نے غصہ سے خط پھاڑ دیا۔ جب عبداللہ بن حذافہ نے یہ خبر آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی تو آپ نے فرمایا۔ کسریٰ نے جو کچھ ہمارے خط کے ساتھ کیا خدا تعالیٰ اس کی بادشاہت کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا۔ کسریٰ کی اس حرکت کا باعث یہ تھا کہ عرب کے یہودیوں نے اُن یہودیوں کے ذریعہ سے جو روم کی حکومت سے بھاگ کرایران کی حکومت میں چلے گئے تھے اور بوجہ رومی حکومت کے خلاف سازشوں میں کسریٰ کا ساتھ دینے کے کسریٰ کے بہت منہ چڑھے ہوئے تھے کسریٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت بھڑکا رکھا تھا۔ جو شکایتیں وہ کر رہے تھے اس خط نے کسریٰ کے خیال میں اُن کی تصدیق کر دی اور اس نے خیال کیا کہ یہ شخص میری حکومت پر نظر رکھتا ہے۔ چنانچہ اس خط کے معاً بعد کسریٰ نے اپنے یمن کے گورنر کو ایک چٹھی لکھی جس کا مضمون یہ تھا کہ قریش میں سے ایک شخص نبوت کا دعویٰ کر رہا ہے اور اپنے دعوؤں میں بہت بڑھتا چلا جاتا ہے تو فوراً اس کی طرف دو آدمی بھیج جو اُس کو پکڑ کر میری خدمت میں حاضر کریں۔ اِس پر باذان نے جو اُس وقت کسریٰ کی طرف سے یمن کا گورنر تھا ایک فوجی افسر اور ایک سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بجھوائے اور ایک خط بھی آپ کی طرف لکھا کہ آپ اس خط کے ملتے ہی فوراً اِن لوگوں کے ساتھ کسریٰ کے دربار میں حاضر ہو جائیں۔ وہ افسر پہلے مکہ کی طرف گیا۔ طائف کے قریب پہنچ کر اُسے معلوم ہوا کہ آپ مدینہ میں رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ وہاں سے مدینہ گیا۔ مدینہ پہنچ کر اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ کسریٰ نے باذان گورنر یمن کو حکم دیا ہے کہ آپ کو پکڑ کر اُس کی خدمت میں حاضر کیا جائے۔ اگر آپ اس حکم کا انکار کریں گے تو وہ آپ کو بھی ہلاک کرد ے گا اور آپ کی قوم کو بھی ہلاک کر دے گا اور آپ کے ملک کو برباد کر دے گا اس لئے آپ ضرور ہمارے ساتھ چلیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی بات سن کر فرمایا۔اچھا کل پھر تم مجھ سے ملنا۔ رات کو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور خدائے ذوالجلال نے آپ کو خبر دی کہ کسریٰ کی گستاخی کی سزا میں ہم نے اس کے بیٹے کو اُس پر مسلط کر دیا ہے چنانچہ وہ اُسی سال جمادی الاولیٰ کی دسویں تاریخ پیر کے دن اس کو قتل کر دے گا اور بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا آج کی رات اس نے اُسے قتل کر دیا ہے ممکن ہے وہ رات وہی دس جمادی الاولیٰ کی رات ہو۔ جب صبح ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کو بلایا اور اُن کو اس پیشگوئی کی خبر دی۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باذان کی طرف خط لکھا کہ خد اتعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ کسریٰ فلاں تاریخ فلاں مہینے قتل کر دیا جائے گا۔ جب یہ خط یمن کے گورنر کو پہنچا تو اس نے کہا اگر یہ سچا نبی ہے تو ایسا ہی ہو جائے گا۔ ورنہ اس کی اور اس کے ملک کی خیر نہیں۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایران کا ایک جہاز یمن کی بندر گاہ پر آکر ٹھہرا اور گورنر کو ایران کے بادشاہ کا ایک خط دیا جس کی مہر کو دیکھتے ہوئے یمن کے گورنر نے کہا۔ مدینہ کے نبی نے سچ کہا تھا۔ ایران کی بادشاہت بدل گئی اور اس خط پر ایک اور بادشاہ کی مہر ہے۔ جب اس نے خط کھولا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ باذان گورنر یمن کی طرف ایران کے کسریٰ شیرویہ کی طرف سے یہ خط لکھا جاتا ہے۔ میں نے اپنے باپ سابق کسریٰ کو قتل کر دیا ہے اس لئے کہ اس نے ملک میں خونریزی کا دروازہ کھول دیا تھا اور ملک کے شرفاء کو قتل کرتا تھا اور رعایا پر ظلم کرتا تھا۔ جب میرا یہ خط تم تک پہنچے تو فوراً تمام افسروں سے میری اطاعت کا اقرار لو اور اس سے پہلے میرے باپ نے جو عرب کے ایک نبی کی گرفتاری کا حکم تم کو بجھوایا تھا اُس کو منسوخ سمجھو۔ ۳۳۴؎ یہ خط پڑھ کر باذان اتنا متأثر ہوا کہ اُسی وقت وہ اور اس کے کئی ساتھی اسلام لے آئے اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام کی اطلاع دے دی۔
نجاشی شاہ حبشہ کے نام خط
تیسرا خط آپ نے نجاشی کے نام لکھا جو عمرو بن اُمیہ ضمری ؓکے ہاتھ بجھوایا تھا اس کی عبارت یہ تھی۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مِنْ مُّحَمَّدٍ رَسُولِ اللّٰہِ اِلیَ النَّجَاشِیْ مَلِکِ الْحَبْشَۃَ سَلْمٌ اَنْتَ اَمَّا بَعْدُ فَاِنِّیْ اَحْمَدُ اِلَیْکَ اللّٰہَ الَّذِیْ لَااِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ الْمَلِکُ الْقُدُّوْسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُھَیْمِنُ۔ وَاَشْھَدُاَنَّ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رُوْحُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُۃٗ اَلْقَاھَا اِلٰی مَرْیَمَ الْبَتُوْلَ وَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ اِلیَ اللّٰہِ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَالْمَوَالَاۃ عَلٰی طَاعَتِہٖ وَاِنْ تَتَّبِعَنِیْ وَتُؤْمِنَ بِالَّذِیْ جَائَ نِیْ فَاِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ وَ جُنُوْدَکَ اِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ وَقَدْ بَلَّغْتُ وَ نَصَحَتُ فَاقْبِلُوْا نَصِیْحَتِیْ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی ۳۳۵؎
یعنی اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ محمد رسول اللہ نجاشی حبشہ کے بادشاہ کی طرف یہ خط لکھتے ہیں۔ اے بادشاہ! تجھ پر خدا کی سلامتی نازل ہو رہی ہے (چونکہ اس بادشاہ نے مسلمانوں کو پناہ دی تھی اس لئے آپ نے اُس کو خبر دی کہ تیرا یہ فعل خد اکے نزدیک مقبول ہوا ہے اور تو خدا کی حفاظت میں ہے) میں اس خدا کی حمدتیرے سامنے بیان کرتا ہوں جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو حقیقی بادشا ہ ہے، جو تمام پاکیزگیوں کا جامع ہے جو ہر عیب سے پاک ہے اور ہر نقص سے پاک کرنے والا ہے، جو اپنے بندوں کے لئے امن کے سامان پیدا کرتا ہے اور اپنی مخلوق کی حفاظت کرتا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسیٰ بن مریم اللہ تعالیٰ کے کلام کو دنیا میں پھیلانے والے تھے اور خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کو پورا کرنے والے تھے جو خدا تعالیٰ نے مریم سے جس نے اپنی زندگی خد اکے لئے وقف کر دی تھی پہلے سے کئے ہوئے تھے اور میں تجھے خدائے وحدہٗ لاشریک سے تعلق پیدا کرنے اور اُس کی اطاعت پر باہمی معاہدہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور تجھے اس بات کی میں دعوت دیتا ہوں کہ تو میری اتباع کرے اور اُس خدا پر ایمان لائے جس نے مجھے ظاہر کیا ہے کیونکہ میںاُس کا رسول ہوں اور میں تجھے دعوت دیتا ہوں اور تیرے لشکروں کو بھی خدائے عزوجل کے دین میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ میں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا ہے اور خدا کا پیغام تجھ تک پہنچا دیا ہے اور اخلاص سے تم پر حقیقت کھول دی ہے پس میرے اخلاص کی قدر کرو اور ہر شخص جو خد اتعالیٰ کی ہدایت کی اتباع کرتا ہے اس پر خداتعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوتی ہے۔
جب یہ خط نجاشی کو پہنچا تو اُس نے بڑے ادب سے اس خط کو اپنی آنکھوں سے لگایا اور تخت سے نیچے اُتر کر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ ہاتھی دانت کا ایک ڈبہ لائو۔ چنانچہ ایک ڈبہ لایا گیا اُس نے وہ خط ادب کے ساتھ اُس ڈبہ میں رکھ دیا اور کہا کہ جب تک یہ خط محفوظ رہے گا حبشہ کی حکومت بھی محفوظ رہے گی۔ چنانچہ نجاشی کا یہ خیال درست ثابت ہوا ایک ہزار سال تک اسلام ساری دنیا پر سمندر کی لہروں کی طرح اُٹھتا ہوا پھیلتا چلتا گیا لیکن حبشہ کے دائیں سے بھی اسلامی لشکر نکل گئے اور حبشہ کے بائیں سے بھی اسلامی لشکر نکل گئے۔ مگر اس احسان کی وجہ سے جو حبشہ کے بادشاہ نے ابتدائی اسلامی مہاجرین کے ساتھ کیا تھا اور اس احترام کی وجہ سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا نجاشی نے کیا تھا اُنہوں نے حبشہ کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ قیصر جیسے بادشاہ کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے۔ کسریٰ جیسے بادشاہ کی حکومت کا نام ونشان مٹ گیا۔ چین اور ہندوستان کی شہنشاہیاں تہہ و بالا کر دی گئیں مگر حبشہ کی ایک چھوٹی سے حکومت محفوظ رکھی گئی اس لئے کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی ساتھیوں کے ساتھ ایک احسان اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا ادب اور احترام کیا تھا۔ یہ تو وہ سلوک تھا جو ایک ادنیٰ سے احسان کے بدلہ میں حبشہ والوں سے مسلمانوں نے کیا۔ مگر عیسائی اقوام نے جو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا بھی پھیر دینے کی مدعی ہیں اپنے ہم مذہب اور ہم طریقہ بادشاہ حبشہ اور اس کی قوم کے ساتھ جو سلوک اِن دنوں کیا ہے وہ بھی دنیا کے سامنے ظاہر ہے۔ کس طرح حبشہ کے شہروں کو بمباری سے اُڑا دیا گیا اور بادشاہ اور اُس کی محترم ملکہ اور اُس کے بچوں کو اپنا ملک چھوڑ کر غیر ملکوں میں سالہا سال پناہ لینی پڑی۔ کیا حبشہ سے یہ دو قسم کا سلوک ایک مسلمانوں کا ایک عیسائیوں کا اُس قوت قدسیہ کو ثابت نہیں کرتا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی اور جو آج تک بھی کہ مسلمان بہت کچھ دین سے دور جا چکے ہیں اُن کے خیالات کو نیکی اور احسان مندی کی طرف مائل رکھتی ہے۔
مقوقس شاہِ مصر کے نام خط
چوتھا خط آپ نے مقوقس بادشاہ مصر کی طرف لکھا تھا اور یہ خط حاطب بن ابی بلتعہؓ کی معرفت آپ نے بھجوایا۔
اِس کا مضمون یہ تھا:۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مِنْ مُّحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللّٰہِ اِلیَ الْمَقَوْقَسِ عَظِیْمِ الْقِبْطِ سَلَامٌ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی۔ اَمَّا بَعْدُ فَاِنِّیْ اَدْعُوْکَ بِدِعَایَۃِ الْاِسْلاَمِ اَسْلِمْ تَسْلَمْ یُؤْتِکَ اللّٰہُ اَجْرَکَ مَرَّتَیْنِ فَاِنْ تَوَلَّیْتَ فَاِنَّمَا عَلَیْکَ اِثْمُ الْقِبْطِ۔ وَیَااَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍ بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَنْ لاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّٰہَ وَلَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَلَایَتّخِذَبَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُونَ۳۳۶؎
یہ خط بعینہٖ وہی ہے جو روم کے بادشاہ کو لکھا گیا تھا، صرف یہ فرق ہے کہ اُس میں یہ لکھا تھا کہ اگر تم نہ مانے تو رو می رعایا کے گناہوں کا بوجھ بھی تم پر ہو گا اور اس میں یہ تھا کہ قبطیوں کے گناہوں کا بوجھ تم پر ہو گا۔ جب حاطبؓ مصر پہنچے تو اُس وقت مقوقس اپنے دارالحکومت میں نہیں تھا بلکہ اسکندر یہ میں تھا۔ حاطبؓ اسکندریہ گئے جہاں بادشاہ نے سمندر کے کنارے ایک مجلس لگائی ہوئی تھی۔ حاطبؓ ایک کشتی میں سوار ہو کر اُس مقام تک گئے اور چونکہ اِردگرد پہرہ تھا اُنہوں نے دور سے خط کو بلند کر کے آوازیں دینی شروع کیں۔بادشاہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو لایا جائے اور اس کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ بادشاہ نے خط پڑھا اور حاطبؓ سے کہا اگر یہ سچا نبی ہے تو اپنے دشمنوں کے خلاف دعا کیوں نہیں کرتا؟ حاطبؓ نے کہا کہ تم عیسیٰ بن مریم پر تو ایمان لاتے ہو۔ یہ کیا بات ہے کہ عیسیٰ کو اُن کی قوم نے دُکھ دیا لیکن عیسیٰ نے یہ دعا نہ کی کہ وہ ہلاک ہو جائیں۔ بادشاہ نے سن کر کہا کہ تم ایک عقلمند کی طرف سے ایک عقلمند سفیر ہو اور تم نے خوب جواب دیا ہے۔ اس پر حاطبؓ نے کہا اے بادشاہ! تجھ سے پہلے ایک بادشاہ تھا جو کہا کرتا تھا کہ میں بڑا ربّ ہوں یعنی فرعون۔ آخر خدا نے اُس پر عذاب نازل کیا۔ پس تو تکبر نہ کر اور خداکے اِس نبی پر ایمان لے آ اور خدا کی قسم! موسیٰ نے عیسیٰ کے متعلق ایسی خبریں نہیں دیں جیسی عیسیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دی ہیںاور ہم تمہیں اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلاتے ہیں جس طرح تم لوگ یہودیوں کو عیسیٰ کی طرف بلاتے ہو اور ہر نبی کی ایک اُمت ہوتی ہے اور اُس کا فرض ہوتا ہے کہ اُس کی اطاعت کرے۔ پس جبکہ تم نے اِس نبی کا زمانہ پایا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اِس کو قبول کرو اور ہمارا دین تم کو مسیح کی اتباع سے روکتا نہیں بلکہ ہم تو دوسروں کو بھی حکم دیتے ہیں کہ وہ مسیح پر ایمان لائیں۔ اِس پر مقوقس نے کہا میں نے اِس نبی کے حالات سنے ہیں اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ وہ کسی بُری بات کا حکم نہیں دیتا اور کسی اچھی بات سے روکتا نہیں اور میں نے معلو م کیا ہے کہ وہ شخص ساحروں اور کاہنوں کی طرح نہیں ہے اور میں نے بعض اس کی پیشگوئیاں سنی ہیں جو پوری ہوئی ہیں۔ پھر اُس نے ایک ڈبیہ ہاتھی دانت کی منگوائی اور اُس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط رکھ دیا اور اُس پر مہر لگا دی اور اپنی ایک لونڈی کے سپرد کر دیا اور پھر اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام یہ خط لکھا:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
محمد بن عبداللہ کی طرف مقوقس قبط کا بادشاہ خط لکھتا ہے کہ آپ پر سلامتی ہو۔ اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے آپ کا خط پڑھا ہے اور جو کچھ اس میں آپ نے ذکر کیا ہے اور جن باتوں کی طرف بلایا ہے اُن پر غور کیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیلی پیشگوئیوں کے مطابق ایک نبی کا آنا ابھی باقی ہے۔ لیکن میرا خیال تھا کہ وہ شام سے ظاہر ہو گا میں نے آپ کے سفیر کو بڑی عزت سے ٹھہرایا ہے اور ایک ہزار پونڈ اور پانچ جوڑے خلعت کے طور پر اُسے دئیے ہیں اور میں دو مصری لڑکیاں آپ کے لئے تحفہ کے طور پر بجھوا رہا ہوں۔ قطبی قوم کے نزدیک اِن لڑکیوں کی بڑی عزت ہے اور ان میں سے ایک کا نام ماریہ ہے اور ایک کا نام سیرین ہے اور مصری کپڑے کے اعلیٰ درجہ کے بیس جوڑے بھی آپ کی خدمت میں بجھوا رہا ہوں اور اسی طرح ایک خچر آپ کی سواری کے لئے بجھوا رہا ہوں اور آخر میں پھر دعا کرتا ہوں کہ خدا کی آپ پر سلامتی ہو ۳۳۷؎ اِس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ گو مقوقس نے آپ کے خط سے ادب اور احترام کا معاملہ کیا مگر وہ اسلام نہیں لایا۔
رئیس بحرین کے نام خط
پانچواں خط آپ نے منذرتیمی کی طرف جو بحرین کا رئیس تھا بجھوایا تھا۔ یہ خط علاء ابن حضرمیؓ کے ہاتھ بجھوایا گیا تھا۔
اس خط کی عبارت محفوظ نہیں۔ یہ خط جب اس کے پاس پہنچا تو وہ ایمان لے آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا کہ میں اور میرے بہت سے ساتھی آپ پر ایمان لے آئے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو اسلام میں داخل نہیں ہوئے اور میرے ملک میں کچھ یہودی اور مجوسی بھی رہتے ہیں آپ اُن کے بارہ میں مجھے حکم دیں کہ میں ان سے کیا سلوک کروں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو خط لکھا جس کی عبارت یہ تھی کہ ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ تم نے اسلام قبول کر لیا ہے جو پیغامبر میری طرف سے آئیں تم اُن کے احکام کی اتباع کیا کرو۔ کیونکہ جو ان کی ابتاع کرے گا وہ میری اتباع کرے گا۔ جو میرا سفیر تمہاری طرف گیا تھا اُس نے تمہاری بہت تعریف کی ہے اور ظاہر کیا ہے کہ تم نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میں نے خدا تعالیٰ سے تمہاری قوم کے بارہ میں دعا کی ہے۔پس مسلمانوں میں اسلامی طور و طریق جاری کرو اور ان کے اموال کی حفاظت کرو اور چار بیویوں سے زیادہ کسی کو اپنے گھر میں رکھنے کی اجازت نہ دو اور مسلمان ہونے والوں سے جو گناہ پہلے ہو چکے ہیں وہ انہیں معاف کئے جائیں اور جب تک نیکی پر قائم رہو گے تمہیں اپنی حکو مت سے معزول نہیں کیا جائے گا اور جو یہودی یا مجوس ہیں ان پر صرف ایک ٹیکس مقرر ہے اور کوئی مطالبہ ان سے نہ کرنا ۔۳۳۸؎
اس کے علاوہ آپ نے عمان کے بادشاہ اور یمامہ کے سردار اور غسان کے بادشاہ اور یمن کے قبیلہ بنی نہد کے سردار اور یمن کے قبیلہ ہمدان کے سردار اور بنی علیم کے سردار اور حضرمی قبیلہ کے سردار کی طرف بھی خطوط لکھے۔ جن میں سے اکثر لوگ مسلمان ہو گئے۔ اِن خطوط کا لکھنا بتاتا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ پر کیسا کامل یقین رکھتے تھے اور کس طرح شروع سے ہی آپ کو یہ یقین تھا کہ آپ کسی ایک قوم کی طرف نبی بنا کر نہیں بھیجے گئے بلکہ آپ ساری اقوام کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جن بادشاہوں اور رئیسوں کو خط لکھے گئے تھے اِن میں سے بعض اسلام لے آئے۔ بعضوں نے ادب اور احترام کے ساتھ خط تو قبول کر لئے لیکن اسلام نہ لائے۔ بعضوں نے معمولی شرافت دکھائی اور بعضوں نے خود پسندی اور کبر کا نمونہ دکھایا لیکن اِس میں بھی کوئی شبہ نہیں اور دنیا کی تاریخ اس پرشاہد ہے کہ اُن میں سے ہر بادشاہ اور قوم کے ساتھ ویساہی معا ملہ کیا گیا جیساکہ اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوں کے ساتھ معاملہ کیا تھا۔
قلعہ خیبر کی تسخیر
جیساکہ اُوپر بیان کیاجا چکا ہے یہودی اور کفارِ عرب مسلمانوں کے خلاف اِردگرد کے قبائل کواُبھار رہے تھے اور اب یہ دیکھ کر کہ عرب میں اتنی سکت
باقی نہیں رہی کہ وہ مسلمانوں کو تباہ کر سکیں یا مدینہ پر جا کر حملہ کر سکیں۔ یہودیوں نے ایک طرف تو رومی حکومت کی جنوبی سرحد پر رہنے والے عرب قبائل کو جو مذہباً عیسائی تھے، اُکسانا شروع کیا اور دوسری طرف اپنے ان ہم مذہبوں کو جو عراق میں رہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف چٹھیاں لکھنی شروع کیں تاکہ وہ کسریٰ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکائیں۔ میں یہ بھی اُوپر لکھ چکا ہوں کہ اِس شرارت کے نتیجہ میں کسریٰ مسلمانوں کے خلاف سخت بھڑک گیا تھا اور اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے یمن کے گورنر کو حکم بھی دے دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو محفوظ رکھا اور کسریٰ اور یہودیوں کی تدبیر کو ناکام کر دیا۔ ظاہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہوتا تو جہاں تک مادی سامانوں کا تعلق ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف کسریٰ اور دوسری طرف قیصر کے لشکروں کا کیا مقابلہ کر سکتے تھے۔ خدا ہی تھا جس نے کسریٰ کو مار دیا اور اس کے بیٹے سے یہ حکم جاری کروا دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں کوئی کارروائی نہ کی جائے اور اس نشان کو دیکھ کر یمن کے حکام اسلام لے آئے اور یمن کا صوبہ بغیر لشکر کشی کے اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا۔ یہ صورت حالات جو یہود نے پیدا کر دی تھی اس بات کی متقاضی تھی کہ یہود کو مدینہ سے اور بھی پرے دھکیل دیا جائے کیونکہ اگرو ہ مدینہ کے قریب رہتے تو یقینا اور بھی زیادہ خونریزیوں اور شرارتوں اور سازشوں کے مرتکب ہوتے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ سے واپس آنے کے قریباً پانچ ماہ بعد یہ فیصلہ کیا کہ یہودی خیبر سے جو مدینہ سے صرف چند منزل کے فاصلہ پر تھا اور جہاں سے مدینہ کے خلاف آسانی سے سازش کی جا سکتی تھی نکال دیئے جائیں۔ چنانچہ آپ نے سولہ سَو صحابہؓ کے ساتھ اگست ۶۲۸ء میں خیبر کی طرف کوچ فرمایا۔ خیبر ایک قلعہ بند شہر تھا اور اس کے چاروں طرف چٹانوں کے اوپر قلعے بنے ہوئے تھے۔ ایسے مضبوط شہر کو اتنے تھوڑے سے سپاہیوں کے ساتھ فتح کر لینا کوئی آسان بات نہ تھی اِردگرد کی چھوٹی چھوٹی چوکیاں تو چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے بعد فتح ہو گئیں۔ لیکن جب یہودی سمٹ سمٹا کر شہر کے مرکزی قلعہ میں آگئے توا س کے فتح کرنے کی تمام تدابیر بیکار جانے لگیں۔ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ نے بتایا کہ اس شہر کی فتح حضر ت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مقدر ہے آپ نے صبح کے وقت یہ اعلان کیا کہ میں اسلام کا سیاہ جھنڈا آج اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کو خدا اور اس کا رسول او ر مسلمان پیار کرتے ہیں خدا تعالیٰ نے اِس قلعہ کی فتح اس کے ہاتھ پر مقدر کی ہے۔ اس کے بعد دوسری صبح آپ نے حضرت علیؓ کو بلایا اور جھنڈا اُن کے سپر د کیا۔ جنہوں نے صحابہؓ کی فوج کو ساتھ لے کر قلعہ پر حملہ کیا۔ باوجود اس کے کہ یہودی قلعہ بند تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت علیؓ اور دوسرے صحابہؓ کو اُس دن ایسی قوت بخشی کہ شام سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو گیا۳۳۹؎ اور اس بات پر صلح ہوئی کہ تمام یہودی اور ان کے بیوی بچے خیبر چھوڑ کر مدینہ سے دور چلے جائیں گے اور ان کے تمام اموال مسلمانوں کے حق میں ضبط ہوں گے اور یہ کہ جو شخص اس معاملہ میں جھوٹ سے کام لے گا اورکوئی مال یا جنس چھپا کر رکھے گا وہ اس معاہدہ کی حفاظت میں نہیں آئے گا اور غداری کی سزا کا مستحق ہو گا۔
تین عجیب واقعات
اس جنگ میں تین عجیب واقعات پیش آئے کہ اُن میں سے ایک تو خدا تعالیٰ کے ایک نشان پر دلالت کرتا ہے اور دو رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے اخلاقِ عالیہ پر۔ نشان تو یہ ہے کہ اس جنگ کے بعد جب خیبر کے رئیس کنانہ کی بیوی صفیہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں تو آپ نے دیکھا کہ ان کے چہرہ پر کچھ لمبے لمبے نشان ہیں۔ آپ نے فرمایا صفیہؓ! تمہارے یہ نشان کیسے ہیں؟ اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ایک دن میں نے ایک خواب دیکھی کہ چاند گر کر میری جھولی میں آ پڑ اہے۔ میں نے دوسرے دن یہ خواب اپنے خاوند کوسنائی میرے خاوند نے کہا یہ عجیب خواب ہے تمہارا باپ بڑا عالم آدمی ہے اُس کو چل کر یہ خواب سنانی چاہئے۔ چنانچہ میں نے اپنے باپ سے اس کا ذکر کیا تو خواب سنتے ہی اُس نے زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا نالائق! کیا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے! ۳۴۰؎ یہ اس نے اس لئے کہا کہ عرب کا قومی نشان چاند تھا۔ اگر کوئی خواب میں یہ دیکھتا کہ چاند اس کی جھولی میں آپڑا ہے تو اس کی تعبیر یہ کی جاتی تھی کہ عرب کے بادشاہ کے ساتھ اس کا تعلق ہو گیا ہے اور اگر کوئی خواب دیکھتا کہ چاند پھٹ گیا ہے یا گر گیا ہے تو اس کی تعبیر یہ کی جاتی تھی کہ عرب کی حکومت میں تفرقہ پڑ گیا ہے یا وہ تباہ ہو گئی ہے۔
یہ خواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا ایک نشان ہے اور اس بات کا بھی نشان ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو غیب کی خبریں دیتا رہتا ہے۔ گو مؤمنوں کو زیادہ اور غیر مؤمنوں کو کم۔ حضرت صفیہؓ ابھی یہودی ہی تھیں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے یہ مصفی غیب عطا فرمایا جس کے مطابق ان کا خاوند معاہدہ کی خلاف ورزی کی سزا میں مارا گیا اور وہ باوجود اس کے کہ ایک اور صحابی کی قید میں گئی تھیں بعض لوگوں کے اصرار پر بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور اس طرح وہ غیب پورا ہوا جو خدا تعالیٰ نے اُنہیں بتایا تھا۔
دوسرا قابلِ ذکر واقعہ یہ ہے کہ خیبر کے محاصرہ کے دنوں میں ایک یہودی رئیس کا گلہ بان جو اس کی بکریاں چرایا کرتا تھا مسلمان ہو گیا۔ مسلمان ہونے کے بعد اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں اب ان لوگوں میں تو جا نہیں سکتا اور یہ بکریاں اُس یہودی کی میرے پاس امانت ہیں اب میں ان کو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا بکریوں کا منہ قلعہ کی طرف کر دو اورا ن کو دھکیل دو۔ خدا تعالیٰ ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچا دے گا۔ چنانچہ اس نے اسی طرح کیا اور بکریاں قلعہ کے پاس چلی گئیں جہاں سے قلعہ والوں نے ان کو اندر داخل کرلیا۔۳۴۱؎
اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس شدت سے امانت کے اصول پر عمل کرتے تھے اور کرواتے تھے۔ لڑنے والوں کے اموال آج بھی جنگ میں حلال سمجھتے جاتے ہیں کیا ایسا واقعہ آجکل کے زمانہ میں جو مہذب زمانہ کہلاتا ہے کبھی ہوا ہے کہ دشمن فوج کے جانور ہاتھ آگئے ہوں تو ان کو دشمن فوج کی طرف واپس کر دیا گیا ہو؟ باوجود اس کے کہ وہ بکریاں ایک لڑنے والے دشمن کا مال تھیں اور باوجود اس کے کہ ان کے قلعے میں واپس چلے جانے کے نتیجہ میں دشمن کے لئے مہینوں کی غذا کا سامان ہو جاتا تھا جس کے بھروسہ پر وہ ایک لمبے عرصہ تک محاصرہ کو جاری رکھ سکتا تھا۔ آپ نے ان بکریوں کو قلعہ میں واپس کروا دیا تا ایسا نہ ہو کہ اس مسلمان کی امانت میں فرق آئے جس کے سپرد بکریاں تھیں۔
تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ ایک یہودی عورت نے صحابہؓ سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جانور کے کس حصہ کا گوشت زیادہ پسند ہے؟ صحابہؓ نے بتایا کہ آپ کو دست کا گوشت زیادہ پسند ہے۔ اس پر اس نے بکرا ذبح کیا اور پتھروں پر اس کے کباب بنائے اور پھر اس گوشت میں زہر ملا دیا۔ خصوصاً بازوئوں میں جس کے متعلق اسے بتایا گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کا گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں۔
سورج ڈوبنے کے بعدجب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شام کی نماز پڑھ کر اپنے ڈیرے کی طرف واپس آرہے تھے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے خیمے کے پاس ایک عورت بیٹھی ہے۔ آپ نے اس سے پوچھا۔ بی بی تمہارا کیا کام ہے؟ اس نے کہا اے ابوالقاسم !میں آپ کے لئے ایک تحفہ لائی ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ساتھی صحابیؓ سے فرمایا جو چیز یہ دیتی ہے اس سے لے لو۔ اس کے بعد آپ کھانے کے لئے بیٹھے تو کھانے پر وہ بھنا ہوا گوشت بھی رکھا گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک لقمہ کھایا اور آپ کے ایک صحابی بشیربن البراء بن المعرور نے بھی ایک لقمہ کھایا۔ اتنے میں باقی صحابہؓ نے بھی گوشت کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو آپ نے فرمایا مت کھائو کیونکہ اس ہاتھ نے مجھے خبر دی ہے کہ گوشت میں زہر ملا ہوا ہے ( اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ کو اس بارہ میں کوئی الہام ہوا تھا بلکہ یہ عرب کا محاورہ ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا گوشت چکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک دیوار کے متعلق آتا ہے کہ وہ گرنا چاہتی تھی۔۳۴۲؎ جس کے محض یہ معنی ہیں کہ اس میں گرنے کے آثار پیدا ہو چکے تھے۔ پس اس جگہ پر بھی یہ مراد نہیں کہ آپ نے فرمایا وہ دست بولا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کا گوشت چکھنے پر مجھے معلوم ہوا ہے۔ چنانچہ اگلا فقرہ اِ ن معنوں کی وضاحت کر دیتا ہے) اس پر بشیرؓ نے کہا کہ جس خد انے آپ کو عزت دی ہے اُس کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں کہ مجھے بھی اس لقمہ میں زہر معلوم ہوا ہے۔ میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس کو پھینک دوں لیکن میں نے سمجھا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو شاید آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے اور آپ کا کھانا خراب نہ ہو جائے اور جب آپ نے وہ لقمہ نگلا تو میں نے بھی آپ کے تتبع میں وہ نگل لیا۔ گو میرا دل یہ کہہ رہا تھا کہ چونکہ مجھے شبہ ہے کہ اس میں زہر ہے اس لئے کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لقمہ نہ نگلیں۔ اس کے تھوڑی دیر بعد بشیرؓ کی طبیعت خراب ہوگئی اور بعض روایتوں میں تو یہ ہے کہ وہ وہیں خیبر میں فوت ہو گئے اور بعض میں یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ عرصہ بیمار رہے اور اس کے بعد فوت ہوگئے۔ اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ گوشت اس کا ایک کتے کے آگے ڈلوایا جس کے کھانے سے وہ مر گیا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایا اور فرمایا تم نے اس بکری میں زہر ملایا ہے؟ اس نے کہا آپ کو یہ کس نے بتایا ہے؟ آپ کے ہاتھ میں اُس وقت بکری کا دست تھا آپ نے فرمایا اس ہاتھ نے مجھے بتایا ہے۔ اس پر اس عورت نے سمجھ لیا کہ آپ پر یہ راز کھل گیا ہے اور اس نے اقرار کیا کہ اس نے زہر ملایا ہے؟ اس پر آپ نے اس سے پوچھا کہ اس ناپسندیدہ فعل پر تم کو کس بات نے آمادہ کیا؟ اُس نے جواب دیا کہ میری قوم سے آپ کی لڑائی ہوئی تھی اور میرے رشتہ دار اس لڑائی میں مارے گئیتھے میرے دل میں یہ خیال آیا کہ میں ان کو زہر دے دوں۔ اگر ان کا کاروبار انسانی کا روبار ہو گا تو ہمیں ان سے نجات حاصل ہو جائے گی اور اگر یہ واقعہ میں نبی ہوں گے تو خدا تعالیٰ ان کو خود بچا لے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سن کر اُسے معاف فرمادیا ۳۴۳؎ اور اُس کی سزا جو یقینا قتل تھی نہ دی۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے مارنے والوں اور اپنے دوستوں کے مارنے والوں کو بخش دیا کر تے تھے اور درحقیقت اُسی وقت آپ سزا دیا کرتے تھے جب کسی شخص کا زندہ رہنا آئندہ بہت سے فتنوں کا موجب ہو سکتا تھا۔
طوافِ کعبہ
ہجرت کے ساتویں سال فروری ۶۲۹ ء میں معاہدہ کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کے لئے جانا تھا ۔چنانچہ جب وہ وقت آیا تو رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم قریباً دو ہزار آدمیوں سمیت طوافِ کعبہ کے لئے روانہ ہوئے۔ جب آپ مرّالظہران تک پہنچے جو مکہ سے ایک پڑائو پر ہے تو معاہدہ کے مطابق آپ نے تمام بھاری ہتھیار اور زِرہیں وہاں جمع کر دیں اور خود اپنے صحابہؓ سمیت معاہدہ کے مطابق صرف نیام بند تلواروں کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے۔ سات سالہ جلا وطنی کے بعد مہاجرین کا مکہ میں داخل ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اُن کے دل ایک طرف ان لمبے مظالم کی یاد کر کے خون بہا رہے تھے جو مکہ میں ان پر کئے جاتے تھے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کے اس فضل کو دیکھ کر کہ پھر خدا تعالیٰ نے اُنہیں کعبہ کے طواف کا موقع نصیب کیا ہے وہ خوش بھی ہو رہے تھے۔ مکہ کے لوگ مکہ سے نکل کر پہاڑ کی چوٹیوں پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے۔ مسلمانوں کا دل چاہتا تھا کہ آج وہ ان پر ظاہر کر دیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں پھر مکہ میں داخل ہونے کی توفیق بخشی یا نہیں۔ چنانچہ عبداللہ بن رواحہؓ نے اس موقع پر جنگی گیت گانے شروع کئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا اور فرمایا۔ ایسے شعر نہ پڑھو بلکہ یوں کہو کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں، وہ خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کی مدد کی اور مؤمنوں کو ذلت کے گڑھے سے نکال کر اُونچا کیا۔ صرف خدا ہی ہے جس نے دشمنوں کو ان کے سامنے سے بھگا دیا۔ طوافِ کعبہ اور سعی بین الصفاء وَالْمروہ سے فراغت کے بعد آپ صحابہؓ سمیت تین دن تک مکہ میں ٹھہرے۔ حضرت عباسؓ کی سالی میمونہ جو دیر سے بیوہ ہو چکی تھیں مکہ میں تھیں حضرت عباسؓ نے خواہش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس سے شادی کر لیں اور آپ نے اسے منظور فرما لیا۔ چوتھے دن مکہ والوں نے مطالبہ کیا کہ آپ حسب معاہدہ مکہ سے نکل جائیں اور آپ نے فوراً تمام صحابہؓ کو حکم دیا کہ فوراً مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہو جائیں۔ مکہ والوں کے احساسات کا خیال کر کے نئی بیاہی ہوئی میمونہؓ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ بعد میں اسباب کی سواریوں کے ساتھ آجائیں اور خود اپنی سواری دَوڑا کر حرم کی حدود سے باہر نکل گئے اور وہیں شام کے وقت آپ کی بیوی میمونہؓ کو پہنچایا گیا اور پہلی رات وہیں جنگل میں میمونہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئیں۔۳۴۴؎
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلمکے تعددِ ازواج پر اعتراض کا جواب
یہ واقعہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو ایسی مختصر سیرت میں بیان کیا جاتا، جس قسم کی سیرت میں اِس وقت لکھ رہا ہوں لیکن
اس واقعہ کا ایک ایسا پہلو ہے جو مجھے مجبور کرتا ہے کہ اس معمولی سے واقعہ کو اِس جگہ لکھ دوں اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اُن کی کئی بیویاں تھیں اور یہ کہ آپ کا یہ فعل نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ عیاشی پر مبنی تھا مگر جب ہم اس تعلق کو دیکھتے ہیں جو آپ کی بیویوں کو آپ کے ساتھ تھا تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ آپ کا تعلق ایسا پاکیزہ، ایسا بے لوث اور ایسا روحانی تھا کہ کسی ایک بیوی والے مرد کا تعلق بھی اپنی بیوی سے ایسا نہیں ہوتا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق اپنی بیویوں سے عیاشی کا ہوتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے تھا کہ آپ کی بیویوں کے دل کسی روحانی جذبہ سے متأثر نہ ہوتے۔ مگر آپ کی بیویوں کے دل میں آپ کی جو محبت تھی اور آپ سے جو نیک اثر انہوں نے لیا تھا وہ بہت سے ایسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویوں کے متعلق تاریخ سے ثابت ہے۔ مثلاً یہی واقعہ کتنا چھوٹا سا تھا کہ میمونہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی دفعہ حرم سے باہر ایک خیمہ میں ملیں۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُن سے تعلق کوئی جسمانی تعلق ہوتا، اور اگر آپ بعض بیویوں کو بعض پر ترجیح دینے والے ہوتے تو میمونہؓ اِس واقعہ کو اپنی زندگی کا کوئی اچھا واقعہ نہ سمجھتیں بلکہ کوشش کرتیں کہ یہ واقعہ اُن کی یاد سے بھول جائے۔ لیکن میمونہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پچاس سال زندہ رہیں اور ۸۰سال کی ہو کر فوت ہوئیں۔ مگر اس برکت والے تعلق کو وہ ساری عمر بھلا نہ سکیں۔ ۷۰ سال کی عمر میں جب جوانی کے جذبات سب سرد ہو چکے ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچاس سال بعد جو عرصہ ایک مستقل عمر کہلانے کا مستحق ہے میمونہؓ فوت ہوئیں اور اُس وقت اُنہوں نے اپنے اِردگرد کے لوگوں سے درخواست کی کہ جب میں مر جائوں تو مکہ کے باہر ایک منزل کے فاصلہ پر اس جگہ جس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ تھا اور جس جگہ پہلی دفعہ میں آپ کی خدمت میں پیش کی گئی تھیمیری قبر بنائی جائے اور اُس میں مجھے دفن کیا جائے۔۳۴۵؎ دنیا میں سُچے نو ادر بھی ہوتے ہیں اور قصے کہانیاں بھی مگر سُچے نو ادر میں سے بھی اور قصے کہانیوں میں سے بھی کیا کوئی واقعہ اس گہری محبت سے زیادہ پُر تأثیر پیش کیا جا سکتا ہے؟
خالد بن ولید اور عمرو بن العاص کا قبولِ اسلام
زیارتِ کعبہ سے واپسی کے بعد جلد ہی دو ایسے آدمی اسلام میں داخل ہوئے جو اسلامی جنگوں کے شروع سے لے کر اِس وقت تک کفار کے زبردست جرنیلوں میں شامل
تھے اور جو اسلام لانے کے بعد اسلام کے ایسے مشہور جرنیل ثابت ہوئے کہ تاریخ اسلام میں سے ان لوگوں کا نام مٹایا نہیں جا سکتا۔ یعنی خالد بن ولیدؓ جس نے بعد میں روما کی حکومت کی بنیادیں ہلا دیں اور علاقہ کے بعد علاقہ فتح کر کے اسلامی حکومت میں داخل کیا اور عمرو بن العاص جنہوں نے مصر کو فتح کر کے اسلامی حکومت میں شامل کیا۔
جنگ موتہ
جب آپ زیارت کعبہ سے واپس آئے تو آپ کو اطلاعات ملنی شروع ہوئیں کہ شام کی سرحد پر عیسائی عرب قبائل یہودیوں اور کفار کے اُکسانے پر مدینہ پر
حملہ کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ چنانچہ آپ نے پندرہ آدمیوں کی ایک پارٹی اس غرض کے لئے شام کی سرحد پر بجھوائی کہ وہ تحقیقات کریں کہ یہ افواہیں کہاں تک صحیح ہیں۔ جب یہ لوگ شامی سرحد پر پہنچے تو وہاں دیکھا کہ ایک لشکر جمع ہو رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ یہ لوگ واپس آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتے تبلیغ کا جوش جو اُس زمانہ میں مؤمن کی سچی علامت ہوا کرتا تھا اُن پر غالب آگیا اور دلیری سے آگے بڑھ کر انہوں نے اُن لوگوں کو اسلام کی دعوت دینی شروع کر دی۔ جو لوگ دشمنوں کے اُکسائے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وطن پر حملہ کر کے اُسے فتح کرنا چاہتے تھے وہ اِن لوگوں کی توحید کی تعلیم سے بھلا کہاں متأثر ہو سکتے تھے۔ جونہی اِن لوگوں نے اُن کو اسلام کی تعلیم سنانی شروع کی چاروں طرف سے سپاہیوں نے کمانیں سنبھال لیں اور اُن پر تیر برسانے شروع کر دئیے۔ جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ہماری تبلیغ کا جواب بجائے دلائل اور براہین پیش کرنے کے یہ لوگ تیر پھینک رہے ہیں تو وہ بھاگے نہیں اور اس سینکڑوں اور ہزاروں کے مجمع سے انہوں نے اپنی جانیں نہیں بچائیں بلکہ سچے مسلمانوں کے طور پر وہ پندرہ آدمی ان سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کے مقابلہ پر ڈٹ گئے اور سارے کے سارے وہیں مر کر ڈھیر ہو گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ ایک اَور لشکر بھیج کر ان لوگوں کو سزا دیں جنہوں نے ایسا ظالمانہ فعل کیا تھا۔ا تنے میں آپ کو اطلاع ملی کہ وہ لشکر جو وہاں جمع ہو رہے تھے پراگندہ ہو گئے ہیں اور آپ نے کچھ مدت کیلئے اس ارادہ کو ملتوی کر دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی دَوران میں غسان قبیلہ کے رئیس کو جو رومی حکومت کی طرف سے بصرہ کا حاکم تھا یا خود قیصر روما کو ایک خط لکھا۔ غالباً اس خط میں مذکورہ بالا واقعہ کی شکایت ہو گی کہ بعض شامی قبائل اسلامی علاقہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور یہ کہ انہوں نے بِلاوجہ پندرہ مسلمانوں کو قتل کر دیا ہے۔ یہ خط الحرث نامی ایک صحابی کے ہاتھ بجھوایا گیا تھا۔ وہ شام کی طرف جاتے ہوئے موتہ نامی ایک مقام پر ٹھہرے جہاں غسان قبیلہ کا ایک رئیس سرجیل نامی جو قیصر کے مقرر کردہ حکام میں سے تھا اُنہیں ملا اور اُس نے ان سے پوچھا کہ تم کہاں جارہے ہو؟ شاید تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامبر ہو؟ انہوں نے کہا ہاں۔ اس پر اُس نے ان کو گرفتار کر لیا اوررسیوں سے باندھ کر مار مار کر انہیں مار دیا۔ گو تاریخ میں اس کی تشریح نہیں آئی لیکن یہ واقعہ بتاتا ہے کہ جس لشکر نے پہلے پندرہ صحابیوں کو مارا تھا یہ شخص اس کے لیڈروں میں سے ہو گا۔ چنانچہ اس کا یہ سوال کرنا کہ شاید تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامبروںمیں سے ہو بتاتا ہے کہ اُس کو خوف تھا کہ محمد رسول اللہ قیصر کے پاس شکایت کریں گے کہ تمہارے علاقہ کے لوگ ہمارے علاقہ کے لوگوں پر حملہ کرتے ہیں اور وہ ڈرتا ہو گا کہ شاید بادشاہ اس کی وجہ سے ہم سے باز پُرس نہ کرے۔ پس اُس نے اپنی خیر اِسی میں سمجھی کہ پیغامبر کو مار دے تاکہ نہ پیغام پہنچے اور نہ کوئی تحقیقات ہو۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کے ان بدارادوں کو پورا نہ ہونے دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حرثؓ کے مارے جانے کی خبر کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی گئی اور آپ نے اس پہلے واقعہ اور اس واقعہ کی سزا دینے کے لئے تین ہزار کا لشکر تیار کر کے زید بن حارثہؓ ( جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے اور جن کا آپ کی مکی زندگی میں ذکر آچکا ہے) کی ماتحتی میں شام کی طرف بھجوایا اور حکم دیا کہ زید بن حارثہؓ فوج کے کمانڈر ہوں گے اور اگر وہ مارے گئے تو جعفر بن ابی طالب کمانڈر ہوں گے اور اگر وہ مارے گئے تو عبداللہ بن رواحہؓ کمانڈر ہوں گے اور اگر وہ بھی مارے جائیں تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو منتخب کر کے اپنا افسر بنا لیں۔ اُس وقت ایک یہودی آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اُس نے کہا اے ابو القاسم! اگر آپ سچے ہیں تو یہ تینوں آدمی ضرور مارے جائیں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کو پورا کر دیا کرتا ہے۔ پھر وہ زیدؓ کی طرف مخاطب ہوا اور کہا میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خد اکے سچے نبی ہیں تو تم کبھی زندہ واپس نہیں آئو گے۔ زیدؓ نے جواب میں کہا میں واپس آئوں یا نہ آئوں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خد ا کے سچے نبی ہیں۔ دوسرے دن صبح کے وقت یہ لشکر روانہ ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اس کو چھوڑنے کے لئے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی افسری کے بغیر اتنا بڑا لشکر کسی مسلمان جرنیل کے ماتحت کسی اہم کام کیلئے نہیں گیا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس لشکر کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے تھے اور انہیں نصیحتیں کرتے جاتے تھے۔ آخر مدینہ کے باہر اُس مقام پر جا کر جہاں سے آپ مدینہ میں داخل ہوئے تھے اور جس جگہ پر عام طور پر مدینہ والے اپنے مسافروں کور خصت کیا کرتے تھے، آپ کھڑے ہو گئے اور کہا میں تم کو اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں اور تمہارے ساتھ جتنے مسلمان ہیں اُن سے نیک سلوک کرنے کی۔ تم اللہ کا نام لے کر جنگ پر جائو اور تمہارے اور خدا کے دشمن جو شام میں ہیں اُن سے جا کر لڑائی کرو۔ جب تم شام میں پہنچو گے تو وہاںتمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو عبادت گاہوں میں بیٹھ کر خدا کا نام لیتے ہیں تم اُن سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنا اور نہ اُنہیں تکلیف پہنچانا اور نہ دشمن کے ملک میں کسی عورت کو مارنا اور نہ کسی بچے کو مارنا اور نہ کسی اندھے کو مارنا اور نہ کسی بڈھے کو مارنا۔ نہ کوئی درخت کا ٹنا نہ عمارت گرانا۔ یہ نصیحت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس لوٹے اور اسلامی لشکر شام کی طرف روانہ ہوا۔ یہ پہلا لشکر تھا جو اسلام کی طرف سے عیسائیت کے مقابلہ کے لئے نکلا۔ جب یہ لشکر شام کی سرحد پر پہنچا توا سے معلوم ہوا کہ قیصر بھی اِس طرف آیا ہوا ہے اور ایک لاکھ رومی سپاہی اس کے ساتھ ہیں اور ایک لاکھ کے قریب عرب کے عیسائی قبائل کے سپاہی بھی اس کے ساتھ ہیں۔ اس پر مسلمانوں نے چاہا کہ وہ راستہ میں ڈیرہ ڈال دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیں تاکہ اگر آپ نے کوئی اور مدد بھیجنی ہو تو بھیج دیں اور اگر کوئی حکم دینا ہو تو اس سے اطلاع دیں۔ جب یہ مشورہ ہو رہا تھا عبداللہ بن رواحہؓ جوش سے کھڑے ہو گئے اور کہا اے قوم! تم اپنے گھروں سے خدا کے راستہ میں شہید ہونے کیلئے نکلے تھے اور جس چیز کے لئے تم نکلے تھے اب اُس سے گھبرا رہے ہو اور ہم لوگوں سے اپنی تعداد اور اپنی قوت اور اپنی کثرت کی وجہ سے تو لڑائیاں نہیں کرتے رہے۔ ہم تو اس دین کی مدد کیلئے دشمنوں سے لڑتے رہے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے لئے نازل کیا ہے۔ اگر دشمن زیادہ ہے تو ہوا کرے۔ آخر دو نیکیوں میں سے ہم کو ایک ضرور ملے گی یا ہم غالب آ جائیں گے یا ہم خدا کی راہ میں شہید ہو جائیںگے۔ لوگوں نے اُن کی یہ بات سن کے کہا ابن رواحہؓ بالکل سچ کہتے ہیں اور فوراً کوچ کا حکم دے دیا گیا۔ جب وہ آگے بڑھے تو رومی لشکر انہیں اپنی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا تو مسلمانوں نے موتہ کے مقام پر اپنی فوج کی صف بندی کر لی اور لڑائی شروع ہو گئی۔ تھوڑی ہی دیر میں زید بن حارثہؓ جو مسلمانوں کے کمانڈر تھے مار ے گئے تب اسلامی فوج کا جھنڈا جعفر بن ابی طالبؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی نے اپنے ہاتھ میں لے لیا اور فوج کی کمان سنبھال لی۔ جب اُنہوں نے دیکھا کہ دشمن کی فوج کا ریلا بڑھتا چلا جاتا ہے اور مسلمان اپنی تعداد کی قلت کی وجہ سے ان کے دبائو کو برداشت نہیں کر سکتے تو آپ جوش سے گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ دیں۔ جس کے معنی یہ تھے کہ کم سے کم میں تو اِس میدان سے بھاگنے کے لئے تیار نہیں ہوں میں موت کو پسند کروں گا مگر بھاگنے کو پسند نہیں کروںگا۔ یہ ایک عربی رواج تھا۔ وہ گھوڑے کی ٹانگیں اِس لئے کاٹ دیتے تھے تاکہ وہ بغیر سوار کے اِدھر اُدھر بھاگ کر لشکر میں تباہی نہ مچائے۔ تھوڑی دیر کی لڑائی میں آپ کا دایاں بازو کاٹا گیا۔ تب آپ نے بائیں ہاتھ سے جھنڈا پکڑ لیا۔ پھر آپ کا بایاں ہاتھ بھی کاٹا گیا تو آپ نے دونوں ہاتھ کے ٹنڈوں سے جھنڈے کو اپنے سینہ سے لگا لیا اور میدان میں کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے۔ تب عبداللہ بن رواحہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت جھنڈے کوپکڑ لیااور وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے مارے گئے۔ اُس وقت مسلمانوں کے لئے کوئی موقع نہ تھا کہ وہ مشورہ کر کے کسی کو اپنا سردار مقرر کرتے اور قریب تھا کہ دشمن کے لشکر کی کثرت کی وجہ سے مسلمان میدان چھوڑ جاتے کہ خالد بن ولید نے ایک دوست کی تحریک پر جھنڈا پکڑ لیا اور شام تک دشمن کا مقابلہ کرتے رہے۔
دوسرے دن پھر خالد اپنے تھکے ہوئے اور زخم خوردہ لشکر کو لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے اور انہوں نے یہ ہوشیاری کی کہ لشکر کے اگلے حصہ کو پیچھے کر دیا اور پچھلے حصہ کو آگے کر دیا اور دائیں کو بائیں اور بائیں کو دائیں اور اس طرح نعرے لگائے کہ دشمن سمجھا کہ مسلمانوں کو اَور مدد پہنچ گئی ہے۔ اس پر دشمن پیچھے ہٹ گیا اور خالدؓ اسلامی لشکر کو بچا کر واپس لے آئے۔۳۴۶؎
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی خبر اُسی دن وحی کے ذریعہ سے دے دی اور آپ نے اعلان کر کے سب مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا۔ جب آپ ممبر پر چڑھے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ آپ نے فرمایا اے لوگو! میں تم کو اس جنگ میں جانے والے لشکر کے متعلق خبر دیتا ہوں۔ وہ لشکر یہاں سے جا کر دشمن سے مقابل کھڑا ہوا اور لڑائی شروع ہونے پر پہلے زیدؓ مارے گئے پس تم لوگ زیدؓ کے لئے دعا کرو۔ پھر جھنڈا جعفرؓ نے لے لیا اور دشمن پر حملہ کیا یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوگئے پس تم اُن کے لئے بھی دعا کرو۔ پھر جھنڈا عبداللہ بن رواحہؓ نے لیا اور خوب دلیری سے لشکر کو لڑایا مگر آخر وہ بھی شہید ہو گئے پس تم اُن کے لئے بھی دعا کرو ۔پھر جھنڈا خالد بن ولیدؓ نے لیا۔ اُس کو میں نے کمانڈر مقرر نہیں کیا تھا مگر اُس نے خود ہی اپنے آپ کو کمانڈر مقرر کر لیا۔ لیکن وہ خدا تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ پس وہ خدا تعالیٰ کی مدد سے اسلامی لشکر کو بحفاظت واپس لے آئے۔آپ کی اِس تقریر کی وجہ سے خالدؓ کا نام مسلمانوں میں سیف اللہ یعنی خدا کی تلوار مشہور ہو گیا۔۳۴۷؎ چونکہ خالد آخر میں ایمان لائے تھے بعض صحابہ اُن کو مذاقاً یا کسی جھگڑے کے موقع پر طعنہ دے دیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی ایسی ہی بات پر حضرت عبدالرحمن بن عوفؓسے ان کی تکرار ہو گئی۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالد کی شکایت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خالد! تم اِس شخص کو جو کہ بدر کے وقت سے اسلام کی خدمت کر رہا ہے کیوں دُکھ دیتے ہو؟ اگر تم اُحد کے برابر بھی سونا خرچ کرو تو اِس کے برابر خدا تعالیٰ سے انعام حاصل نہیں کر سکتے۔ اِس پر خالدؓ نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! یہ مجھے طعنہ دیتے ہیں تو پھر میں بھی جواب دیتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تم لوگ خالدکو تکلیف نہ دیا کرو۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جو خدا تعالیٰ نے کفار کی ہلاکت کے لئے کھینچی ہے۔۳۴۸؎ یہ پیشگوئی چندسالوں بعد حرف بحرف پوری ہوئی۔ جب خالد اپنے لشکر کو واپس لائے تو مدینہ کے صحابہؓ جو ساتھ نہ گئے تھے اُنہوں نے اس کے لشکر کو بھگوڑے کہنا شروع کیا۔ مطلب یہ تھا کہ تم کو وہیں لڑ کر مرجانا چاہئے تھا واپس نہیں آنا چاہئے تھامگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بھگوڑے نہیں بار بارلَوٹ کر دشمن پر حملہ کرنے والے سپاہی ہیں۔ اِس طرح آپ نے اُن آئندہ جنگوں کی پیشگوئی فرمائی جو مسلمانوں کو شام کے ساتھ پیش آنے والی تھیں۔
فتح مکہ
آٹھویں سنہ ہجری کے رمضان کے مہینہ مطابق دسمبر ۶۲۹ء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس آخری جنگ کے لئے روانہ ہوئے جس نے عرب میں اسلام کو قائم کر دیا۔ یہ
واقعہیوں ہو اکہ صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ عرب قبائل میں سے جو چاہیں مکہ والوں سے مل جائیں اور جو چاہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جائیں اور یہ کہ دس سال تک دونوں فریق کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ کی اجازت نہیں ہو گی۔ سوائے اس کے کہ ایک دوسرے پر حملہ کر کے معاہدہ کو توڑ دے۔ اس معاہدہ کے ماتحت عرب کا قبیلہ بنو بکرمکہ والوں کے ساتھ ملا تھا اور خزاعہ قبیلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ کفارِ عرب معاہدہ کی پابندی کا خیال کم ہی رکھتے تھے خصوصاً مسلمانوں کے مقابلہ میں۔ چنانچہ بنو بکر کو چونکہ قبیلہ خزاعہکے ساتھ پُرانا اختلاف تھا، صلح حدیبیہ پر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے مکہ والوں سے مشورہ کیا کہ خزاعہ تو معاہدہ کی وجہ سے بالکل مطمئن ہیں اب موقع ہے کہ ہم لوگ ان سے بدلہ لیں۔ چنانچہ مکہ کے قریش اور بنو بکر نے مل کر رات کو بنی خزاعہ پر چھاپا مارا اور ان کے بہت سے آدمی مار دیئے۔ خزاعہ کو جب معلوم ہواکہ قریش نے بنوبکر سے مل کریہ حملہ کیا ہے توا نہوں نے اس عہد شکنی کی اطلاع دینے کے لیے چالیس آدمی تیز اُونٹوں پر فوراً مدینہ کو روانہ کئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ باہمی معاہدہ کی رو سے اب آپ کا فرض ہے کہ ہمارا بدلہ لیں اور مکہ پر چڑھائی کریں۔ جب یہ قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا تمہارا دُکھ میرا دُکھ ہے میں اپنے معاہدہ پر قائم ہوں۔ یہ بادل جو سامنے برس رہا ہے (اُس وقت بارش ہو رہی تھی) جس طرح اِس میں سے بارش ہو رہی ہے اسی طرح جلدی ہی تمہاری مدد کے لئے اسلامی فوجیں پہنچ جائیں گی۔ جب مکہ والوں کو اِس وفد کا علم ہوا تو وہ بہت گھبرائے اور انہوں نے ابوسفیان کو مدینہ روانہ کیا، تاکہ وہ کسی طرح مسلمانوں کو حملہ سے باز رکھے۔ ابوسفیان نے مدینہ پہنچ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر زور دینا شروع کیا کہ چونکہ صلح حدیبیہ کے وقت میں موجود نہ تھا اس لئے نئے سرے سے معاہدہ کیا جائے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ کیونکہ جواب دینے سے راز ظاہر ہو جاتا تھا۔ ابوسفیان نے مایوسی کی حالت میں گھبرا کر مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کیا اے لوگو! میں مکہ والوں کی طرف سے نئے سرے سے آپ لوگوں کے لئے امن کا اعلان کرتا ہوں۔ ۳۴۹؎ یہ بات سن کر مسلمان اُس کی بیوقوفی پر ہنس پڑے اورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوسفیان! یہ بات تم یکطرفہ کہہ رہے ہو ہم نے کوئی ایسا معاہدہ تم سے نہیں کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی دوران میں چاروں طرف مسلمان قبائل کی طرف پیغامبر بجھوا دئیے اور جب یہ اطلاعیں آچکیں کہ مسلمان قبائل تیار ہو چکے ہیں اور مکہ کی طرف کوچ کرتے ہوئے راستہ میں ملتے جائیں گے تو آپ نے مدینہ کے لوگوں کو مسلح ہونے کا حکم دیا۔ جنوری ۶۳۰ء کی پہلی تاریخ کو یہ لشکر مدینہ سے روانہ ہوا اور راستہ میں چاروں طرف مسلمان قبائل آآ کر لشکر میں شامل ہوتے گئے۔ چند ہی منزلیں طے کرنے کے بعد جب یہ لشکر فاران کے جنگل میں داخل ہوا توا ِس کی تعداد سلیمان نبی کی پیشگوئی کے مطابق دس ہزار تک پہنچ چکی تھی۔ اِدھر تو یہ لشکر مکہ کی طرف مارچ کرتا چلا جا رہا تھا اور اُدھر مکہ والے اِس خاموشی کی وجہ سے جو فضا پر طاری تھی زیادہ سے زیادہ خوف زدہ ہوتے جاتے تھے۔ آخر اُنہوں نے مشورہ کر کے ابوسفیان کو پھر اِس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مکہ سے باہر نکل کر پتہ تو لے کہ مسلمان کیا کرنا چاہتے ہیں۔ مکہ سے ایک منزل باہر نکلنے پر ہی ابوسفیان نے رات کے وقت جنگل کو آگ سے روشن پایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا تھا کہ تمام خیموں کے آگے آگ جلائی جائے۔ جنگل میں دس ہزار اشخاص کے لئے خیموں کے آگے بھڑکتی ہوئی آگ ایک ہیبت ناک نظارہ پیش کر رہی تھی۔ ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا ہے؟ کیا آسمان سے کوئی لشکر اُترا ہے؟ کیونکہ عرب کی کسی قوم کا لشکر اتنا بڑا نہیں ہے۔ اس کے ساتھیوں نے مختلف قبائل کے نام لئے لیکن اس نے کہا نہیں نہیں، عرب کے قبائل میں سے کسی قوم کا لشکر بھی اتنا بڑا کہاں ہو سکتا ہے۔ وہ یہ بات کرہی رہا تھا کہ اندھیرے میں سے آواز آئی ابوحنظلہ! (یہ ابوسفیان کی کنیت تھی) ابوسفیان نے کہا عباس! تم یہاں کہاں؟ اُنہوں نے جواب دیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر سامنے ہے اور اگر تم لوگوں نے جلد جلد کوئی تدبیر نہ کرلی تو شکست اور ذلّت تمہارے لئے بالکل تیار ہے۔ چونکہ عباسؓ ابوسفیان کے پُرانے دوست تھے اس لیے یہ بات کرنے کے بعد انہوں نے ابوسفیان سے اصرار کیا کہ وہ ان کے ساتھ سواری پر بیٹھ جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو۔ چنانچہ انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُونٹ پر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور اُونٹ کو ایڑی لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے۔ حضرت عباس ڈرتے تھے کہ حضرت عمرؓ جو اُن کے ساتھ پہرہ پر مقرر تھے کہیں اس کو قتل نہ کردیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی فرما چکے تھے کہ اگر ابوسفیان تم میں سے کسی کوملے تو اُسے قتل نہ کرنا۔ یہ سارا نظارہ ابوسفیان کے دل میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر چکا تھا۔ ابوسفیان نے دیکھا کہ چند ہی سال پہلے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک ساتھی کے ساتھ مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن ابھی سات ہی سال گزرے ہیں کہ وہ دس ہزار قدوسیوں سمیت مکہ پر بِلا ظلم اور بِلا تعدی کے جائز طور پر حملہ آور ہوا ہے اور مکہ والوں میں طاقت نہیں کہ اِس کو روک سکیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس تک پہنچتے پہنچتے کچھ ان خیالات کی وجہ سے اور کچھ دہشت اور خوف کی وجہ سے ابوسفیان مبہوت سا ہو چکا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو حضرت عباسؓ سے فرمایا کہ ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے جائو اور رات اپنے پاس رکھو صبح اِسے میرے پاس لانا۔ ۳۵۰؎ چنانچہ رات ابوسفیا ن حضرت عباسؓ کے ساتھ رہا۔ جب صبح اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے توفجر کی نماز کا وقت تھا۔مکہ کے لوگ صبح اُٹھ کر نماز پڑھنے کو کیا جانتے تھے اُس نے اِدھر اُدھر مسلمانوں کو پانی کے بھرے ہوئے لوٹے لے کر آتے جاتے دیکھا اور اسے نظر آیا کہ کوئی وضو کر رہا ہے کوئی صف بندی کر رہا ہے تو ابوسفیان نے سمجھا کہ شاید میرے لئے کوئی نئی قسم کا عذاب تجویز ہوا ہے۔ چنانچہ اُس نے گھبرا کر حضرت عباسؓ سے پوچھا کہ یہ لوگ صبح صبح یہ کیا کر رہے ہیں؟ حضرت عباسؓ نے کہا تمہارے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں یہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں۔ اس کے بعد ابوسفیان نے دیکھا کہ ہزاروں ہزار مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے ہیں اور جب آپ رکوع کرتے ہیں تو سب کے سب رکوع کرتے ہیں اور جب آپ سجدہ کرتے ہیں تو سب کے سب سجدہ کرتے ہیں۔ حضرت عباسؓ چونکہ پہرہ پر ہونے کی وجہ سے نماز میں شامل نہیں ہوئے تھے ابوسفیان نے اُن سے پوچھا اب یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں دیکھتا ہوں کہ جو کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں وہی یہ لوگ کرنے لگ جاتے ہیں۔ عباس نے کہا تم کن خیالات میں پڑے ہو یہ تو نماز ادا ہو رہی ہے، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ان کو حکم دیں کہ کھانا پینا چھوڑ دو تو یہ لوگ کھانا اور پینا بھی چھوڑ دیں۔ ابوسفیان نے کہا۔ میں نے کسریٰ کا دربار بھی دیکھا ہے اور قیصر کا دربار بھی دیکھا ہے لیکن اُن کی قوموں کو اُن کا اتنا فدائی نہیں دیکھا جتنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت اس کی فدائی ہے۔ ۳۵۱؎ پھر عباسؓ نے کہا کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آج یہ درخواست کرو کہ آپ اپنی قوم سے عفو کا معاملہ کریں۔ جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباسؓ ابوسفیان کو لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپؐ نے فر مایا۔ا بوسفیان! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تجھ پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ اللہ کے سِوا کوئی معبود نہیں؟ ابوسفیان نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آپ نہایت ہی حلیم، نہایت ہی شریف اور نہایت ہی صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں۔ میں اب یہ بات تو سمجھ چکا ہوں کہ اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتا تو کچھ تو ہماری مدد کرتا۔ا س کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوسفیان! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم سمجھ لو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابوسفیان نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اِس بارہ میں ابھی میرے دل میں کچھ شبہات ہیں۔ مگر ابوسفیان کے تردّد کے باوجود اُس کے دونوں ساتھی جو اُس کے ساتھ ہی مکہ سے باہر مسلمانوں کے لشکر کی خبر لینے کے لئے آئے تھے اور جن میں سے ایک حکیم بن حزام تھے وہ مسلمان ہو گئے۔ اس کے بعد ابوسفیان بھی اسلام لے آیا، مگر اُس کا دل غالباً فتح مکہ کے بعد پوری طرح کھلا۔ ایمان لانے کے بعد حکیم بن حزام نے کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا یہ لشکر آپ اپنی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے اُٹھا لائے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ان لوگوں نے ظلم کیا، اِن لوگوں نے گناہ کیا اور تم لوگوں نے حدیبیہ میں باندھے ہوئے عہد کو توڑ دیا اور خزاعہ کے خلاف ظالمانہ جنگ کی۔ اُس مقدس مقام پر جنگ کی جس کو خدا نے امن عطا فرمایا ہوا تھا۔ حکیم نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ٹھیک ہے آپ کی قوم نے بیشک ایسا ہی کیا ہے لیکن آپ کو تو چاہئے تھا کہ بجائے مکہ پر حملہ کرنے کے ہوازن قوم پر حملہ کرتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قوم بھی ظالم ہے لیکن میں خدا تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ وہ مکہ کی فتح اور اسلام کا غلبہ اور ہوازن کی شکست یہ ساری باتیں میرے ہی ہاتھ پر پوری کرے گا۔ اس کے بعد ابوسفیان نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اگر مکہ کے لوگ تلوار نہ اُٹھائیں تو کیا وہ امن میں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں! ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اُسے امن دیا جائے گا۔ حضرت عباسؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ابوسفیان فخر پسند آدمی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ میری عزت کا بھی کوئی سامان کیا جائے۔ آپ نے فرمایا بہت اچھا جو شخص ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے اُس کو بھی امن دیا جائے گا۔ ۳۵۲؎ جو مسجد کعبہ میں گھس جائے اُس کو بھی امن دیا جائے گا، جو اپنے ہتھیار پھینک دے اُس کو بھی امن دیا جائے گا، جو اپنا دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے گا اُس کو بھی امن دیا جائے گا، جو حکیم بن حزام کے گھر میں چلا جائے اُس کو بھی امن دیا جائے گا۔ اِس کے بعد ابی رویحہؓ جن کو آپ نے بلال ؓ حبشی غلام کا بھائی بنایا ہو اتھا اُن کے متعلق آپ نے فرمایا۔ ہم اِس وقت ابی رویحہؓ کو اپنا جھنڈا دیتے ہیںجو شخص ابی رویحہؓ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا ہم اُس کو بھی کچھ نہ کہیں گے۔ اور بلالؓ سیکہا تم ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے جائو کہ جو شخص ابی رویحہؓ کے جھنڈے کے نیچے آجائے گا اُس کو امن دیا جائے گا۔۳۵۳؎
اِس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی۔ مکہ کے لوگ بلالؓ کے پیروں میں رسّی ڈال کر اُس کو گلیوں میں کھینچا کرتے تھے، مکہ کی گلیاں، مکہ کے میدان بلالؓ کے لئے امن کی جگہ نہیںتھے بلکہ عذاب اور تذلیل اور تضحیک کی جگہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ بلالؓ کا دل آج انتقام کی طرف بار بار مائل ہوتا ہو گا اِس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی نہایت ضروری ہے۔ مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا انتقام اسلام کی شان کے مطابق ہو۔ پس آپ نے بلالؓ کا انتقام اِس طرح نہ لیا کہ تلوار کے ساتھ اُس کے دشمنوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں بلکہ اس کے بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑا جھنڈا دے کر کھڑا کر دیا اور بلالؓ کو اِس غرض کے لئے مقرر کر دیا کہ وہ اعلان کر دے کہ جو کوئی میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے آکر کھڑا ہو گا اُسے امن دیا جائے گا۔ کیسا شاندار یہ انتقام تھا، کیساحسین یہ انتقام تھا۔ جب بلالؓ بلند آواز سے یہ اعلان کرتا ہو گا کہ اے مکہ والو! آئو میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو جائو تمہیں امن دیا جائے گا تو اُس کا دل خود ہی انتقام کے جذبات سے خالی ہوتا جاتا ہو گا اور اُس نے محسوس کر لیا ہوگا کہ جو انتقام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے تجویز کیا ہے اس سے زیادہ شاندار اور اس سے زیادہ حسین انتقام میرے لئے اور کوئی نہیں ہو سکتا۔
جب لشکر مکہ کی طرف بڑھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباسؓ کو حکم دیا کہ کسی سڑک کے کونے پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو لے کر کھڑے ہو جائو تاکہ وہ اسلامی لشکر او ر اس کی فدائیت کو دیکھ سکیں۔ حضرت عباسؓ نے ایسا ہی کیا۔ ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سے یکے بعد دیگرے عرب کے وہ قبائل گزرنے شروع ہوئے جن کی امداد پر مکہ بھروسہ کر رہا تھا، مگر آج وہ کفر کا جھنڈا نہیں لہرا رہے تھے آج وہ اسلام کا جھنڈا لہرا رہے تھے اورا ن کی زبان پرخدائے قادر کی توحید کا اعلان تھا۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینیکیلئے آگے نہیں بڑھ رہے تھے جیساکہ مکہ والے امید کرتے تھے بلکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لئے تیار تھے اور ان کی انتہائی خواہش یہی تھی کہ خدائے واحد کی توحید اوراس کی تبلیغ کو دنیا میں قائم کر دیں۔ لشکر کے بعد لشکر گزر رہا تھا کہ اتنے میں اشجع قبیلے کا لشکر گزرا۔ اسلام کی محبت اوراس کے لئے قربان ہونے کا جوش ان کے چہروں سے عیاں اور ان کے نعروں سے ظاہر تھا۔ ابوسفیان نے کہا۔ عباس! یہ کون ہیں؟ عباسؓ نے کہا یہ اشجع قبیلہ ہے۔ ابوسفیان نے حیرت سے عباسؓ کا منہ دیکھا اور کہا سارے عرب میں اِن سے زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دشمن نہیں تھا۔ عباسؓ نے کہا یہ خدا کا فضل ہے جب اُس نے چاہا ان کے دلوں میں اسلام کی محبت داخل ہو گئی۔ سب سے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار کا لشکر لئے ہوئے گزرے۔ یہ لوگ دو ہزار کی تعداد میں تھے اور سر سے پائوں تک زِرہ بکتروں میں چھپے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ اُن کی صفوں کو درست کرتے چلے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے قدموں کو سنبھال کر چلو تاکہ صفوں کا فاصلہ ٹھیک رہے۔ اِن پرانے فدا کارانِ اسلام کا جوش اور ان کا عزم اور ان کا ولولہ ان کے چہروں سے ٹپکا پڑتا تھا۔ ابوسفیان نے ان کو دیکھا تو اس کادل دہل گیا۔ اس نے پوچھا عباس! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار و مہاجرین کے لشکر میں جارہے ہیں۔ ابوسفیان نے جواب دیا اس لشکر کا مقابلہ کرنے کی دنیا میں کس کو طاقت ہے۔ پھر وہ حضرت عباسؓ سے مخاطب ہوااور کہا عباس! تمہارے بھائی کا بیٹا آج دنیا میںسب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے۔ عباسؓ نے کہا اب بھی تیرے دل کی آنکھیں نہیں کھلیں یہ بادشاہت نہیں یہ تو نبوت ہے۔ ابوسفیان نے کہا ہاں ہاں اچھا پھر نبوت ہی سہی۔۳۵۴؎
جس وقت یہ لشکر ابوسفیان کے سامنے سے گزر رہا تھا انصار کے کمانڈر سعد بن عبادہؓ نے ابوسفیان کو دیکھ کر کہا آج خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مکہ میں داخل ہونا تلوار کے زور سے حلال کر دیا ہے۔ آج قریشی قوم ذلیل کر دی جائے گی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے بلند آواز سے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ نے اپنی قوم کے قتل کی اجازت دے دی ہے؟ ابھی ابھی انصار کے سردار سعدؓ اور ان کے ساتھی ایسا ایسا کہہ رہے تھے۔ انہوں نے بلند آواز یہ کہا ہے آج لڑائی ہو گی اور مکہ کی حرمت آج ہم کو لڑائی سے باز نہیں رکھ سکے گی اور قریش کو ہم ذلیل کر کے چھوڑیں گے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!آپ تو دنیا میں سب سے زیادہ نیک، سب سے زیادہ رحیم اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں۔ کیا آج اپنی قوم کے ظلموں کو بھول نہ جائیں گے؟ ابوسفیان کی یہ شکایت و التجاء سن کر وہ مہاجرین بھی جن کو مکہ کی گلیوں میں پیٹا اور مارا جاتا تھا، جن کو گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کیا جاتا تھا تڑپ گئے اور ان کے دلوں میں بھی مکہ کے لوگوں کی نسبت رحم پیدا ہو گیا تھا اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! انصار نے مکہ والوں کے مظالم کے جو واقعات سنے ہوئے ہیں آج ان کی وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ وہ قریش کے ساتھ کیا معاملہ کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوسفیان! سعدؓ نے غلط کہا ہے آج رحم کا دن ہے۔ آج اللہ تعالیٰ قریش اور خانہ کعبہ کو عزت بخشنے والا ہے۔ پھر آپ نے ایک آدمی کو سعدؓ کی طرف بجھوایا اور فرمایا اپنا جھنڈا اپنے بیٹے قیس کو دے دو کہ وہ تمہاری جگہ انصار کے لشکر کا کمانڈر ہو گا۔۳۵۵؎ اس طرح آپ نے مکہ والوں کا دل بھی رکھ لیا اور انصار کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنے سے محفوظ رکھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیسؓ پر پورا اعتبار بھی تھا کیونکہ قیسؓ نہایت ہی شریف طبیعت کے نوجوان تھے۔ ایسے شریف کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ان کی وفات کے قریب جب بعض لوگ ان کی عیادت کے لئے آئے اور بعض نہ آئے تو انہوں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ بعض جو میرے واقف ہیںمیری عیادت کے لیے نہیں آئے۔ ان کے دوستوں نے کہا آپ بڑے مخیر آدمی ہیں آپ ہر شخص کو اُس کی تکلیف کے وقت قرضہ دے دیتے ہیں۔ شہر کے بہت سے لوگ آپ کے مقروض ہیں اور وہ اس لئے آپ کی عیادت کے لئے نہیں آئے کہ شاید آپ کو ضرورت ہو اور آپ اُن سے روپیہ مانگ بیٹھیں۔ آپ نے فرمایا اوہو! میرے دوستوں کو بِلاوجہ تکلیف ہوئی میری طرف سے تمام شہر میں منادی کر دو کہ ہر شخص جس پر قیس کا قرضہ ہے وہ اُسے معاف ہے۔ اِس پر اِس قدر لوگ ان کی عیادت کے لئے آئے کہ ان کے مکان کی سیڑھیاں ٹوٹ گئیں۔ ۳۵۶؎
جب لشکر گزر چکا تو عباسؓ نے ابوسفیان سے کہا۔ اب اپنی سواری دَوڑا کر مکہ پہنچو اور اُن لوگوں کو اطلاع دے دو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ہیں اور انہوںنے اِس اِس شکل میں مکہ کے لوگوں کو امان دی ہے۔ جب کہ ابوسفیان اپنے دل میں خوش تھا کہ میں نے مکہ کے لوگوں کی نجات کا رستہ نکال لیا ہے اُس کی بیوی ہندہ نے جو ابتدائے اسلام سے مسلمانوں سے بغض اور کینہ رکھنے کی لوگوں کو تعلیم دیتی چلی آئی تھی اور باوجود کافر ہونے کے فی الحقیقت ایک بہادر عورت تھی آگے بڑھ کر اپنے خاوند کی ڈاڑھی پکڑ لی اور مکہ والوں کو آوازیں دینی شروع کیں کہ آئو اور اِس بڈھے احمق کو قتل کر دو کہ بجائے اِس کے کہ تم کو یہ نصیحت کرتا کہ جائو اور اپنی جانوں اور اپنے شہر کی عزت کے لئے لڑتے ہوئے مارے جائو یہ تم میں امن کا اعلان کر رہا ہے۔ ابوسفیان نے اُس کی حرکت کو دیکھ کر کہا۔ بے وقوف! یہ اِن باتوں کا وقت نہیں جا اور اپنے گھر میں چھپ جا۔ میں اُس لشکر کو دیکھ کر آیا ہوں جس لشکر کے مقابلہ کی طاقت سارے عرب میں نہیں ہے۔ پھر ابوسفیان نے بلند آواز سے امان کی شرائط بیان کرنا شروع کیں اور لوگ بے تحاشا اُن گھروں اور اُن جگہوں کی طرف دَوڑ پڑے، جن کے متعلق امان کا اعلان کیا گیا تھا۔۳۵۷؎ صرف گیارہ مرد اور چار عورتیں ایسی تھیں جن کی نسبت شدید ظالمانہ قتل اور فساد ثابت تھے، وہ گویا جنگی مجرم تھے اور ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ قتل کر دیئے جائیں کیونکہ وہ صرف کفر یا لڑائی کے مجرم نہیں بلکہ جنگی مجرم ہیں۔
اِس موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولیدؓ کو بڑی سختی سے حکم دے دیا تھا کہ جب تک کوئی شخص لڑے نہیں تم نے لڑنانہیں۔ لیکن جس طرف سے خالدؓ شہر میں داخل ہوئے اُس طرف امن کا اعلان ابھی نہیں پہنچا تھا اُس علاقہ کی فوج نے خالد کا مقابلہ کیا اور ۲۴ آدمی مارے گئے۔ چونکہ خالدؓ کی طبیعت بڑی جوشیلی تھی کسی نے دَوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبرپہنچا دی اور عرض کیا کہ خالدؓ کو روکا جائے ورنہ وہ سارے مکہ والوں کو قتل کر دے گا۔ آپ نے فوراً خالد کو بلوایا اور فرمایا کیا میں نے تم کو لڑائی سے منع نہیں کیا تھا؟ خالدؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!آپ نے منع تو فرمایا تھا لیکن اِن لوگوں نے پہلے ہم پر حملہ کیا اور تیر اندازی شروع کر دی میں کچھ دیر تک رُکا اور میں نے کہا کہ ہم تم پر حملہ نہیں کرنا چاہتے تم ایسا مت کرو۔ مگر جب میں نے دیکھا کہ یہ کسی طرح باز نہیں آتے تو پھر میں اُن سے لڑا اور خدا نے اُن کو چاروں طرف پراگندہ کر دیا۔ ۳۵۸؎
بہرحال اس خفیف سے واقعہ کے سوا او ر کوئی واقعہ نہ ہوا اور مکہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبضہ ہو گیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے آپ سے لوگوں نے پوچھا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ اپنے گھر میں ٹھہریں گے؟ آپ نے فرمایا کیا عقیل نے (یہ آپ کے چچا زاد بھائی تھے) ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا بھی ہے؟ یعنی میری ہجرت کے بعد میرے رشتہ داروں نے میری ساری جائیداد بیچ باچ کر کھالی ہے اب مکہ میں میرے لیے کوئی ٹھکانا نہیں۔ پھر آپ نے فرمایا ہم حیف بنی کنانہ میں ٹھہریں گے۔ یہ مکہ کا ایک میدان تھا جہاں قریش اور کنانہ قبیلہ نے مل کر قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر ہمارے حوالہ نہ کر دیں اور ان کا ساتھ نہ چھوڑ دیں ہم ان سے نہ شادی بیاہ کریں گے نہ خرید و فروخت کریں گے۔ اس عہد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چچا ابوطالب اور آپ کی جماعت کے تمام افراد وادیٔ ابوطالب میں پناہ گزین ہوئے تھے اور تین سال کی شدید تکلیفوں کے بعد خد اتعالیٰ نے انہیں نجات دلائی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انتخاب کیسا لطیف تھا۔ مکہ والوں نے اِسی مقام پر قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سپرد نہ کر دئیے جائیں ہم آپ کے قبیلہ سے صلح نہیں کریں گے۔ آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسی میدان میں جا کر اُترے اور گویا مکہ والوں سے کہا کہ جہاں تم چاہتے تھے میں وہاں آگیا ہوں مگر بتائو تو سہی کیا تم میں طاقت ہے کہ آج مجھے اپنے ظلوں کا نشانہ بنا سکو!! وہی مقام جہاں تم مجھے ذلیل اور مقہور شکل دیکھنا چاہتے تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ میری قوم مجھے پکڑ کر اِس جگہ تمہارے سپرد کر دے وہاں میں ایسی شکل میں آیا ہوں کہ میری قوم ہی نہیں سارا عرب بھی میرے ساتھ ہے اور میری قوم نے مجھے تمہارے سپر دنہیں کیا بلکہ میری قوم نے تمہیں میرے سپر دکر دیا ہے۔ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ یہ دن بھی پیر کا دن تھا۔ وہی دن جس دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور سے نکل کر صرف ابوبکرؓ کی معیت میں مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے۔ وہی دن جس میں آپ نے حسرت کے ساتھ ثور کی پہاڑی پر سے مکہ کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔ اے مکہ! تو مجھے دنیا کی ساری بستیوں سے زیادہ پیارا ہے لیکن تیرے باشندے مجھے اس جگہ پر رہنے نہیں دیتے۔ ۳۵۹؎
مکہ میں داخل ہوتے وقت حضرت ابوبکرؓ آپ کی اُونٹنی کی رکاب پکڑے ہوئے آپ کے ساتھ باتیں بھی کرتے جا رہے تھے اور سورۂ فتح جس میں فتح مکہ کی خبر دی گئی تھی وہ بھی پڑھتے جاتے تھے۔ آپ سیدھے خانہ کعبہ کی طرف آئے اور اُونٹنی پر چڑھے چڑھے سات دفعہ خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ اُس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی۔ آپ خانہ کعبہ کے گرد جو حضرت ابراہیم ؑ اور اُن کے بیٹے اسمٰعیل ؑ نے خدائے واحد کی پرستش کے لئے بنایا تھا جسے بعد کو اُن کی گمراہ اولاد نے بتوں کا مخزن بنا کر رکھ دیا تھا گھومے اور وہ تین سَو ساٹھ بت جو اس جگہ پر رکھے ہوئے تھے اُن میں سے ایک ایک بت پر آپ چھڑی مارتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے ۔ ۳۶۰؎
یہ وہ آیت ہے جو ہجرت سے پہلے سورۂ بنی اسرائیل میں آپ پر نازل ہوئی تھی اور جس میں ہجرت اور پھر فتح مکہ کی خبر دی گئی تھی۔ یوروپین مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ہجرت سے پہلے کی سورۃ ہے اس سورۃ میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ۳۶۱؎ یعنی تو کہہ دے میرے ربّ! مجھے اس شہر یعنی مکہ میں نیک طور پر داخل کیجیؤیعنی ہجرت کے بعد فتح اور غلبہ دے کر۔ اور اِس شہر سے خیریت سے ہی نکالیو یعنی ہجرت کے وقت۔ اور خود اپنے پاس سے مجھے غلبہ اور مدد کے سامان بھجوائیو۔ اور یہ بھی کہو کہ حق آگیا ہے اور باطل یعنی شرک شکست کھا کے بھاگ گیا ہے اور باطل یعنی شرک کے لئے شکست کھا کر بھاگنا تو ہمیشہ کے لئے مقدر تھا۔ اس پیشگوئی کے لفظاً لفظاً پورا ہونے اور حضرت ابوبکرؓ کے اِس کو تلاوت کرتے وقت مسلمانوں اور کفار کے دلوں میں جو جذبات پید ا ہوئے ہوں گے وہ لفظوں میں ادا نہیں ہو سکتے۔ غرض اُس دن ابراہیم ؑ کا مقام پھر خدائے واحد کی عبادت کے لئے مخصوص کر دیا گیا اور بت ہمیشہ کے لئے توڑے گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبل نامی بت کے اُوپر اپنی چھڑی ماری اور وہ اپنے مقام سے گر کر ٹوٹ گیا تو حضرت زبیرؓ نے ابوسفیان کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا ابوسفیان! یاد ہے اُحد کے دن جب مسلمان زخموں سے چور ایک طرف کھڑے ہوئے تھے تم نے اپنے غرور میں یہ اعلان کیا تھا اُعْلُ ھُبَلْ۔ اُعْلَ ھُبَل۔ ھُبَلْ کی شان بلند ہو، ھُبَل کی شان بلند ہو۔ اور یہ کہ ھُبَل نے ہی تم کو اُحد کے دن مسلمانوںپر فتح دی تھی۔ آج دیکھتے ہو وہ سامنے ھُبَلْ کے ٹکڑے پڑے ہیں۔ ابوسفیان نے کہا زبیرؓ! یہ باتیں جانے بھی دو۔ آج ہم کو اچھی طرح نظر آ رہا ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے سوا کوئی اور خدا بھی ہوتا تو آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس طرح کبھی نہ ہوتا۔۳۶۲؎
پھر آپ نے خانہ کعبہ کے اندر جو تصویریں حضرت ابراہیم ؑ وغیرہ کی بنی ہوئی تھیں ان کے مٹانے کا حکم دیا اور خانہ کعبہ میں خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کے شکریہ میں دو رکعت نماز پڑھی پھر باہر تشریف لائے اور باہر آکربھی دو رکعت نماز پڑھی۔ خانہ کعبہ کی تصویروں کو مٹانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو مقرر فرمایا تھا؟ انہوں نے اس خیال سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو ہم بھی نبی مانتے ہیں حضرت ابراہیم ؑ کی تصویر کو نہ مٹایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اُس تصویر کو قائم دیکھا تو فرمایا عمر! تم نے یہ کیا کیا؟ کیا خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ ۳۶۳؎ یعنی ابراہیم نہ یہودی تھانہ نصرانی بلکہ وہ خداتعالیٰ کا کامل فرمانبردار اور خدا تعالیٰ کی ساری صداقتوں کو ماننے والا اور خدا کا موحد بندہ تھا۔ چنانچہ آپ کے حکم سے یہ تصویر بھی مٹا دی گئی۔ خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھ کر مسلمانوں کے دل اُس دن ایمان سے اتنے پُر ہو رہے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر ان کا یقین اِس طرح بڑھ رہا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب زمزم کے چشمہ سے ( جو اسمٰعیل بن ابراہیم کے لئے خدا تعالیٰ نے بطور نشان پھاڑا تھا) پانی پینے کے لئے منگوایا اور اُس میں سے کچھ پانی پی کے باقی پانی سے آپ نے وضو فرمایا تو آپ کے جسم میں سے کوئی قطرہ زمین پر نہیں گر سکا۔ مسلمان فوراً اُس کو اُچک لے جاتے اور تبرک کے طور پر اپنے جسم پر مل لیتے تھے اور مشرک کہہ رہے تھے ہم نے کوئی بادشاہ دنیامیں ایسا نہیں دیکھا جس کے ساتھ اس کے لوگوں کو اتنی محبت ہو۔۳۶۴؎
جب آپ ان باتوں سے فارغ ہوئے اور مکہ والے آپ کی خدمت میں حاضر کئے گئے تو آپ نے فرمایا اے مکہ کے لوگو! تم نے دیکھ لیا کہ خد اتعالیٰ کے نشانات کس طرح لفظ بلفظ پورے ہوئے ہیں اب بتائو کہ تمہارے ان ظلموں اور ان شرارتوں کا کیا بدلہ دیا جائے جو تم نے خدائے واحد کی عبادت کرنے والے غریب بندوں پر کئے تھے؟ مکہ کے لوگوں نے کہا ہم آپ سے اُسی سلوک کی اُمید رکھتے ہیں جو یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا۔ یہ خدا کی قدرت تھی کہ مکہ والوں کے منہ سے وہی الفاظ نکلے جن کی پیشگوئی خدا تعالیٰ نے سورۂ یوسف میں پہلے سے کر رکھی تھی اور فتح مکہ سے دس سال پہلے بتا دیا تھا کہ تو مکہ والوں سے ویسا ہی سلوک کرے گا جیسا یوسف ؑ نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا۔ پس جب مکہ والوں کے منہ سے اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوسف ؑ کے مثیل تھے اور یوسف ؑ کی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے بھائیوں پر فتح دی تھی تو آپ نے بھی اعلان فرما دیا کہ تَاللّٰہِ لاَ تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ۔ خدا کی قسم! آج تمہیں کسی قسم کا عذاب نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی کسی قسم کی سرزنش کی جائے گی۔۳۶۵؎
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیارتِ کعبہ کی متعلقہ عبادتوں میں مصروف تھے اور اپنی قوم کے ساتھ بخشش اور رحمت کا معاملہ کر رہے تھے تو انصار کے دل اندر ہی اندر بیٹھے جا رہے تھے اور وہ ایک دوسرے سے اشاروں میں کہہ رہے تھے شاید آج ہم خدا کے رسول کو اپنے سے جدا کر رہے ہیں کیونکہ ان کا شہر خدا تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر فتح کر دیا ہے اور ان کا قبیلہ ان پر ایمان لے آیا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ سے انصار کے ان شبہات کی خبر دے دی۔ آپ نے سر اُٹھایا، انصار کی طرف دیکھا اور فرمایا اے انصار! تم سمجھتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر کی محبت ستاتی ہو گی اور اپنی قوم کی محبت اس کے دل میں گدگدیاں لیتی ہو گی۔ انصار نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ درست ہے ہمارے دل میں ایسا خیال گزرا تھا۔ آپ نے فرمایا تمہیں پتہ ہے میرا نام کیا ہے؟ مطلب یہ کہ میں اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول کہلاتا ہوں پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ تم لوگوں کو جنہوں نے دین اسلام کی کمزوری کے وقت میں اپنی جانیںقربان کیں چھوڑ کر کسی اور جگہ چلا جائوں۔ پھر فرمایا اے انصار! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا میں اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول ہوں۔ میں نے خداکی خاطر اپنے وطن کو چھوڑا تھا اور اس کے بعد اب میں اپنے وطن میں واپس نہیں آسکتا۔ میری زندگی تمہاری زندگی سے ہے اور میری موت تمہاری موت سے وابستہ ہے۔ مدینہ کے لوگ آپ کی یہ باتیں سن کر اور آپ کی محبت اور آپ کی وفا کو دیکھ کر روتے ہوئے آگے بڑھے اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! خدا کی قسم! ہم نے خدا اور اس کے رسول پر بد ظنی کی۔۳۶۶؎ بات یہ ہے کہ ہمارے دل اس خیال کو برداشت نہیں کر سکتے کہ خدا کا رسول ہمیں اور ہمارے شہر کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے۔ آپ نے فرمایا اللہ اور اس کا رسول تم لوگوں کو بری سمجھتے ہیں اور تمہارے اخلاص کی تصدیق کرتے ہیں۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے لوگوں میںیہ پیار اور محبت کی باتیں ہو رہی ہوں گی اگر مکہ کے لوگوں کی آنکھوں نے آنسو نہیں بہائے ہوں گے تو ان کے دل یقینا آنسو بہا رہے ہوں گے کہ وہ قیمتی ہیرا جس سے بڑھ کر کوئی قیمتی چیز اِس دنیا میں پیدا نہیں ہوئی خدا نے اُن کو دیا تھا مگر اُنہوں نے اُس کو اپنے گھروں سے نکال کر پھینک دیا اور اب کے وہ خدا کے فضل اور اُس کی مدد کے ساتھ دوبارہ مکہ میں آیاتھا وہ اپنے وفائے عہد کی وجہ سے اپنی مرضی اور اپنی خوشی سے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ واپس جا رہا ہے۔
جن لوگوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا کہ ان کے بعض ظالمانہ قتلوں اور ظلموں کی وجہ سے ان کو قتل کیا جائے ان میں سے اکثر کو مسلمانوں کی سفارش پر آپ نے چھوڑ دیا۔ا نہی لوگوںمیں سے ابوجہل کا بیٹا عکرمہ بھی تھا۔ عکرمہ کی بیوی دل سے مسلمان تھی اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! عکرمہ کو بھی آپ معاف فرما دیں۔ آپ نے فرمایا ہاں ہا ں! ہم اُسے معاف کرتے ہیں۔ عکرمہ بھاگ کر یمن کی طرف جارہے تھے کہ بیوی اپنے خاوند کی محبت میں پیچھے پیچھے اُس کی تلاش میں گئی۔ جب وہ ساحل سمندر پر کشتی میں بیٹھے ہوئے عرب کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنے پر تیار تھے کہ پراگندہ سر اور پریشان حال بیوی گھبرائی ہوئی پہنچی اور کہا اے میرے چچا کے بیٹے! (عرب عورتیں اپنے خاندوں کو چچا کا بیٹا کہاکرتی تھیں) اتنے شریف اور اتنے رحمدل انسان کو چھوڑ کر کہا ں جا رہے ہو؟ عکرمہ نے حیرت سے اپنی بیوی سے پوچھا کیا میری ان ساری دشمنیوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے معاف کر دیںگے؟ عکرمہ کی بیوی نے کہا ہاں ہاں! میں نے اُن سے عہد لے لیا ہے اور انہوں نے تم کو معاف کر دیا ہے۔ جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے میرے جیسے انسان کو بھی معاف کر دیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے ہم نے تم کو معاف کر دیاہے۔ عکرمہ نے کہا جو شخص اتنے شدید دشمنوں کو معاف کر سکتا ہے وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ میں گواہی دیتا ہوںکہ اللہ ایک ہے اور اُ س کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اے محمدصلی اللہ علیہ وسلم! تم اس کے بندے اور اُس کے رسول ہو اور پھر شرم سے اپنا سر جھکا لیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حیا کی حالت کو دیکھ کر اس کے دل کی تسلی کے لئے فرمایا۔ عکرمہ! ہم نے تمہیں صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس سے زائد یہ بات بھی ہے کہ اگر آج کوئی ایسی چیز مجھ سے مانگو جس کے دینے کی مجھ میں طاقت ہو تو میں وہ بھی تمہیں دے دوں گا۔ عکرمہ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اور اس سے زیادہ میری خواہش کیا ہو سکتی ہے کہ آپ خد ا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ میں نے جو آپ کی دشمنیاں کی ہیں وہ مجھے معاف کر دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ا ے میرے اللہ! وہ تمام دشمنیاں جو عکرمہ نے مجھ سے کی ہیں اسے معاف کر دے اور وہ تمام گالیاں جو اس کے منہ سے نکلی ہیں وہ اسے بخش دے۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اور اپنی چادر اُتار کر اس کے اُوپر ڈال دی اور فرمایا جو اللہ پر ایمان لاتے ہوئے ہمارے پاس آتا ہے ہمارا گھر اُس کا گھر ہے اور ہماری جگہ اُس کی جگہ ہے۔۳۶۷؎
عکرمہ کے ایمان لانے سے وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو سالہا سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے بیان فرمائی تھی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا میں جنت میں ہوں، وہاں میں نے انگور کا ایک خوشہ دیکھا اور لوگوں سے پوچھا کہ یہ کس کے لئے ہے؟ تو کسی جواب دینے والے نے کہا ابوجہل کے لئے۔ یہ بات مجھے عجیب معلوم ہوئی اور میں نے کہا جنت میں تو سوائے مؤمن کے اور کوئی داخل نہیں ہوتا پھر جنت میں ابوجہل کے لئے انگور کیسے مہیا کئے گئے ہیں؟ جب عکرمہ ایمان لایا تو آپ نے فرمایا وہ خوشہ عکرمہ کا تھا خدا نے بیٹے کی جگہ باپ کا نام ظاہر کیا ۳۶۸؎ جیسا کہ خوابوں میں اکثر ہو جایا کرتا ہے۔
وہ لوگ جن کے قتل کا حکم دیاگیا تھا اُن میں وہ شخص بھی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینبؓ کی ہلاکت کا موجب ہوا تھا۔ اس شخص کا نام ہبارؔ تھا۔اس نے حضرت زینبؓ کے اُونٹ کا تنگ کاٹ دیا تھا اور حضرت زینبؓ اُونٹ سے نیچے جا پڑی تھیں جس کی وجہ سے اُن کا حمل ضائع ہو گیا اور کچھ عرصہ کے بعد وہ فوت ہو گئیں۔ علاوہ اَور جرائم کے یہ جرم بھی اس کو قتل کا مستحق بناتا تھا۔ یہ شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا اے اللہ کے نبی! میں آپ سے بھاگ کر ایران کی طرف چلا گیا تھا پھر میں نے خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعہ سے ہمارے شرک کے خیالات کو دور کیا ہے اورہمیں روحانی ہلاکت سے بچایا ہے میں غیر لوگوں میں جانے کی بجائے کیوں نہ اس کے پاس جائوں اور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اُس سے معافی مانگوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا۔ ہبار! جب خدا نے تمہارے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی ہے تو میں تمہارے گناہوں کو کیوں نہ معاف کروں۔ جائو میں نے تمہیں معاف کیا اسلام نے تمہارے سب پہلے قصور مٹا دئیے ہیں۔۳۶۹؎
اِس جگہ اتنی گنجائش نہیں کہ میں اِس مضمون کو لمبا کروں ورنہ ان خطرناک مجرموں میں سے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی معذرت پر معاف فرما دیا اکثر کے واقعات ایسے دردناک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم کو اتنا ظاہر کرنے والے ہیں کہ ایک سنگدل انسان بھی ان سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
غزوۂ حنین
چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں داخلہ اچانک ہوا اس لئے مکہ سے ذرا فاصلے پر جو قبائل رہتے تھے خصوصاً وہ جو جنوب کی طرف رہتے تھے انہیں مکہ
پر حملہ کی خبر اُسی وقت ہوئی جب آپ مکہ میں داخل ہو چکے تھے۔اس خبر کے سنتے ہی انہوں نے اپنی فوجیں جمع کرنی شروع کر دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کی تیاری کرنے لگے۔ ہوازن اور ثقیف دو عرب قبیلے اپنے آپ کو خاص طور پر بہادر خیال کرتے تھے انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کر کے اپنے لئے ایک سردار چن لیا اور مالک بن عوف نامی ایک شخص کو اپنا رئیس مقرر کر لیا۔ اس کے بعد اُنہوں نے اِردگرد کے قبائل کو دعوت دی کہ وہ بھی ان کے ساتھ آکر شامل ہو جائیں۔ا نہی قبائل میں بنوسعد بن بکر بھی تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دائی حلیمہ اِسی قبیلہ میں سے تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن کی عمر اِسی قبیلہ میں گزاری تھی۔ یہ لوگ جمع ہو کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور انہوں نے اپنے ساتھ اپنے مال اورا پنی بیویوں اور اپنی اولادوں کو بھی لے لیا۔ جب ان کے سرداروں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا ہے؟ توا نہوں نے کہا اس لئے تا سپاہیوں کو یہ خیال رہے کہ اگر ہم بھاگے تو ہماری بیویاں اور ہماری اولادیں قیدہو جائیں گی اورہمارے مال لوٹے جائیں گے اس سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کتنے پختہ ارادہ کے ساتھ مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے نکلے تھے۔ آخر یہ لشکر وادی اوطاس میں آکر اُترا جو جنگ کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی وادی تھی کیونکہ اس میں پناہ کی جگہیں بھی تھیں اور جانوروں کے لئے چارہ اور انسانوں کے لئے پانی بھی موجود تھا اور گھوڑے دَوڑانے کیلئے زمین بھی بہت ہی مناسب تھی۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے عبداللہ بن اُبی حدردؓ نامی ایک صحابی کو حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے بھیجا۔ عبداللہ نے آکر اطلاع دی کہ واقعہ میں ان کا لشکر جمع ہے اور وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہیں۔ چونکہ یہ قوم بڑی تیر انداز تھی اور جس جگہ پر اُنہوں نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ مقام ایسا تھا کہ صرف ایک محدود جگہ پر لڑائی کی جا سکتی تھی اور اس جگہ پر بھی حملہ آور بڑی صفائی کے ساتھ تیروں کا نشانہ بنتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے سردار صفوان سے جو بہت بڑے مالدار اور تاجر تھے اس جنگ کے لئے ہتھیار اور کچھ روپیہ مانگا۔ صفوان نے کہا اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا اپنی حکومت کے زور پر آپ میرا مال چھیننا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں ہم چھیننا نہیںچاہتے بلکہ تم سے عاریتہ مانگتے ہیں اور اس کی ضمانت دینے کو تیار ہیں۔ اِس پر اُس نے کہا تب کوئی حرج نہیں آپ مجھ سے یہ چیزیں لے لیں اور اُس نے سَو زِرہیں اور ان کے ساتھ مناسب ہتھیار عاریتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے اور اس کے علاوہ تین ہزار روپیہ قرض دیا۔ اسی طرح آپ نے اپنے چچا زاد بھائی نوفل بن حارث سے تین ہزار نیزہ عاریتہ لیا۔ جب یہ لشکر ہوازؔن کی طرف چلا تو مکہ والوں نے خواہش کی کہ گوہم مسلمان نہیں ہیں لیکن اب چونکہ ہم اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے ہیں ہم کو بھی لڑائی میں شامل ہونے کا موقع دیا جائے چنانچہ دو ہزار آدمی مکہ سے آپ کے ساتھ روانہ ہوا۔ راستہ میں عرب کی ایک مشہور زیارت گاہ پڑتی تھی جس کو ذات انواط کہتے تھے۔ یہ ایک پُرانا بیری کا درخت تھا جس کو عرب کے لوگ متبرک سمجھتے تھے اور جب عرب کے بہادر لوگ کوئی ہتھیار خریدتے تو پہلے ذاتِ انواط میں جا کر لٹکاتے تھے تاکہ اس کو برکت حاصل ہو جائے۔ جب صحابہؓ اس کے پاس سے گزرے تو بعض نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! ہمارے لئے بھی آپ ایک ذاتِ انواط مقرر فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا۔ا للہ بڑا ہے یہ تو وہی موسٰی ؑ کی قوم والی بات ہوئی کہ جب وہ کنعان کی طرف روانہ ہوئے اور کنعان کے قبائل کو اُنہوں نے بت پوجتے دیکھا تو موسیٰ سے مخاطب ہو کر کہا ۳۷۰؎ اے موسٰی! جس طرح ان کے معبود ہیں ہمارے لئے بھی کوئی معبود تجویز کر دیجئے۔ فرمایا یہ تو جہالت کی باتیں ہیں میں ڈرتا ہوں کہ اِس قسم کے وہموں کی وجہ سے کہیں تم میں سے بھی ایک گروہ ایسی ہی حرکتیں نہ کرنے لگ جائے۔۳۷۱؎
ہوازؔن اور ان کے مدد گار قبائل نے ایک کمین گاہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بنا چھوڑی تھی جیسے آجکل لڑائی کے میدان میں مخفی خندقیں ہوتی ہیں جب اسلامی لشکر حنین مقام پر پہنچاتو وہ ان کے سامنے چھوٹی چھوٹی منڈیریں بنا کر ان کے پیچھے بیٹھ گئے اور بیچ میں سے ایک تنگ راستہ مسلمانوں کے لئے چھوڑ دیا۔ اکثر سپاہی تو ان ٹیلوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے اور کچھ سپاہی اُونٹوں وغیرہ کے سامنے صف بند ہو کر کھڑے ہو گئے۔ مسلمانوں نے یہ سمجھ کر کہ لشکر وہی ہے جو سامنے کھڑا ہے آگے بڑھ کر اُس پر حملہ کر دیا۔ جب مسلمان کافی آگے بڑھ چکے اور کمین گاہ کے سپاہیوں نے دیکھا کہ اب ہم اچھی طرح حملہ کر سکتے ہیں تو اگلی کھڑی فوج نے سامنے سے حملہ کر دیا اور پہلوئوں سے تیر اندازوں نے بے تحاشا تیر برسانے شروع کر دئیے۔ مکہ کے لوگ جو یہ سمجھ کر ساتھ شامل ہوئے تھے کہ آج ہم کو بھی بہادری دکھانے کا موقع ملے گا اِس دو طرفہ حملہ کی برداشت نہ کر سکے اور واپس مکہ کی طرف بھاگے۔ مسلمان گو اس قسم کی تکالیف اُٹھانے کے عادی تھے مگر جب دوہزار گھوڑے اور اُونٹ اُن کی صفوں میں سے بے تحاشا بھاگتے ہوئے نکلے توا ن کے گھوڑے اور اُونٹ بھی ڈر گئے اور سارے کا سارا لشکر بے تحاشا پیچھے کی طرف دَوڑ پڑا۔ تین طرف کے حملہ میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ ۱۲صحابی کھڑے رہے۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ سارے صحابہؓ بھاگ گئے تھے بلکہ ۱۰۰ کے قریب اَور آدمی بھی میدان میں کھڑے رہے تھے مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فاصلہ پر تھے۔ آپ کے گرد صرف ایک درجن قریب آدمی رہ گئے۔ ایک صحابی کہتے ہیں میں اور میرے ساتھی بے تحاشا زور لگاتے تھے کہ کسی طرح ہماری سواری کے جانور میدانِ جنگ کی طر ف آئیں لیکن دو ہزار اُونٹوں کے بھاگنے کی وجہ سے وہ ایسے بِدک گئے تھے کہ ہمارے ہاتھ باگیں کھینچتے کھینچتے زخمی ہو ہو جاتے تھے مگر اُونٹ اور گھوڑے واپس لوٹنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ بعض دفعہ ہم باگیں اِس زور سے کھینچتے تھے کہ مرکب کا سر اُس کی پیٹھ سے لگ جاتا تھا۔ مگر پھر جب ایڑی دے کر ہم اُس کو پیچھے میدانِ جنگ کی طرف موڑتے تو وہ بجائے پیچھے لَوٹنے کے اور بھی تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بھاگتا۔ ہمارا دل دھڑک رہا تھا کہ پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہو گا مگر ہم بالکل بے بس تھے۔ اِدھر تو صحابہ کی یہ حالت تھی اور اُدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف چند آدمیوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں کھڑے تھے۔ دائیں اور بائیں اور سامنے تینوں طرف سے تیر پڑ رہے تھے اور پیچھے کی طرف صرف ایک تنگ راستہ تھا جس میں سے ایک وقت میں صرف چند آدمی ہی گزر سکتے تھے مگر پھر بھی سوائے اُس راستہ کے اور کوئی نجات کی راہ نہیں تھی۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ نے اپنی سواری سے اُتر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کی باگ پکڑ لی اور عرض کی یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! تھوڑی دیر کے لئے پیچھے ہٹ آئیں یہاں تک کہ اسلامی لشکر جمع ہوجائے۔ آپ نے فرمایا ابوبکر! میری خچر کی باگ چھوڑ دو اور پھر خچر کو ایڑی لگاتے ہوئے آپ نے اُس تنگ راستہ پر آگے بڑھنا شروع کیا جس کے دائیں بائیں کمین گاہوں میں بیٹھے ہوئے سپاہی تیر اندازی کر رہے تھے اور فرمایا ۔
اَنَا النَّبِیُّ لاَ کَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِب۳۷۲؎
میں خدا کا نبی ہوں میں جھوٹا نہیں ہوں۔ مگر یہ بھی یاد رکھو کہ اِس وقت خطرہ کے مقام پر کھڑے ہوئے بھی جو میں دشمن کے حملہ سے محفوظ ہوں تو اس کے یہ معنی نہیں کہ میرے اندر خدائی کا کوئی مادہ پایا جاتا ہے بلکہ میں انسان ہی ہوں اور عبدالمطلب کا پوتا ہوں۔ پھر آپ نے حضرت عباسؓ کو جن کی آواز بہت بلند تھی آگے بُلایا اور فرمایا۔ عباسؓ! بلند آواز سے پکار کر کہو کہ اے وہ صحابہ! جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور اے وہ لوگو جو سورۂ بقرہ کے زمانہ سے مسلمان ہو! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے۔ حضرت عباسؓ نے نہایت ہی بلند آواز سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام سنایا، تو اُس وقت صحابہؓ کی جو حالت ہوئی اُس کا اندازہ صرف اُنہی کی زبان سے حالات سن کر لگایا جاسکتا ہے۔ وہی صحابی جن کا میں نے اُوپر ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اُونٹوں اور گھوڑوں کو واپس لانے کی کشمکش میں تھے کہ عباس کی آواز ہمارے کانوں میں پڑی۔ اُس وقت ہمیں یوں معلوم ہوا کہ ہم اِس دنیا میں نہیں بلکہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہیں اور اُس کے فرشتے ہم کو حساب دینے کے لئے بُلا رہے ہیں۔ تب ہم میں سے بعض نے اپنی تلواریں اور ڈھالیں اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور اُونٹوں سے کود پڑے اور ڈرے ہوئے اُونٹوں کو انہوں نے خالی چھوڑ دیا کہ وہ جدھر چاہیں چلے جائیں اور بعض نے اپنی تلواروں سے اپنے اُونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں اور خود پیدل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دَوڑے۔۳۷۳؎
وہ صحابی کہتے ہیں اُس دن انصار اِس طرح دَوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جار ہے تھے کہ جس طرح اُونٹنیاں اور گائیں اپنے بچے کے چیخنے کی آواز کو سُن کر اس کی طرف دَوڑ پڑتی ہیں اور تھوڑی دیر میں صحابہ اور خصوصاً انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور دشمن کو شکست ہو گئی۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ کا یہ نشان ہے کہ وہ شخص جو چند ہی دن پہلے آپ کی جان کا دشمن تھا اور آپ کے مقابلہ پر کفار کے لشکروں کی کمان کیا کرتا تھا یعنی ابوسفیان وہ آج حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ جب کفار کے اُونٹ پیچھے کی طرف دَوڑے تو ابوسفیان جو نہایت ہی زیرک اور ہوشیار آدمی تھا اُس نے یہ سمجھ کر کہ میرا گھوڑا بھی بِدک جائے گا فوراً اپنے گھوڑے سے کودا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کی رکاب پکڑے ہوئے پیدل آپ کے ساتھ چل پڑا۔ ابوسفیان کا بیان ہے کہ اُس وقت کچھی ہوئی تلوار میرے ہاتھ میں تھی اور مجھے اللہ ہی کی قسم ہے جو دلوں کے راز جانتا ہے کہ میں اُس وقت عزمِ صمیم کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کے ساتھ پہلو میں کھڑا تھا کہ کوئی شخص مجھے مارے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حیرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے (شاید آپ سوچ رہے تھے کہ آج سے صرف دس پندرہ دن پہلے یہ شخص میرے قتل کے لئے اپنی فوج کو لے کر مکہ سے نکلنے والا تھا لیکن چند ہی دنوں میں خدا تعالیٰ نے اِس کے اندر ایسی تبدیلی کر دی ہے کہ یہ مکہ کا کمانڈر ایک عام سپاہی کی حیثیت میں میری خچر کی رکاب پکڑے کھڑا ہے اور اِس کا چہرہ بتا رہا ہے کہ یہ آج اپنی موت سے اپنے گناہوں کا ازالہ کرے گا) عباسؓ نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حیرت سے ابوسفیان کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ ابوسفیان آپ کے چچا کا بیٹا اور آپ کا بھائی ہے آج تو آپ اِس سے خوش ہو جائیں۔ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اِس کی وہ تمام دشمنیاں معاف کرے جو کہ اِس نے مجھ سے کی ہیں۔ ابوسفیان کہتے ہیں کہ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا اے بھائی! تب میں نے جوشِ محبت سے آپ کے اُس پیر کو جو خچر کی رکاب میں تھا چوم لیا۔
فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ ﷺ نے وہ جنگی سامان جو آپ نے عاریتہ لیا تھا اُس کے مالکوں کو واپس کیا اور ساتھ اُس کے بہت سا انعام واکرام بھی دیا توا ن لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ شخص اِس زمانہ کے عام انسانوں جیسا نہیں۔ چنانچہ صفوان اُسی وقت اسلام لے آئے۔
اِس جنگ کا ایک اور عجیب واقعہ بھی تاریخوں میں آتا ہے۔ شیبہ نامی ایک شخص جو مکہ کے رہنے والے تھے اور جو خانہ کعبہ کی خدمت کے لئے مقرر تھے وہ کہتے ہیں میں بھی اِس لڑائی میں شامل ہوا مگر میر ی نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقع پا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں گا اور میں نے دل میں کہا عرب اور غیر عرب لوگ تو الگ رہے اگر ساری دنیا بھی محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے مذہب میں داخل ہو گئی تو میں نہیں ہوں گا۔ جب لڑائی تیزی پر ہوئی اور اِدھر کے آدمی اُدھر کے آدمیوں میں مل گئے تو میں نے تلوار کھینچی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونا شروع کیا۔ اُس وقت مجھے یوں معلوم ہوا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ اُٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھ بھسم کر دے۔ اُس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دی کہ شیبہ! میرے قریب ہو جائو۔ میں جب آپ کے قریب گیا تو آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کہا اے خدا! شیبہ کو شیطانی خیالوں سے نجات دے۔ شیبہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ہی میرے دل سے ساری دشمنیاں اور عداوتیں اُڑ گئیں اور اُس وقت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو اپنی آنکھوں سے اور اپنے کانوں سے اور اپنے دل سے زیادہ عزیز ہوگئے۔ پھر آپ نے فرمایا شیبہ! آگے بڑھو اور لڑو۔ تب میں آگے بڑھا اور اُس وقت میرے دل میں سوائے اِس کے کوئی خواہش نہیں تھی کہ میں اپنی جان قربان کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچائوں۔ اگر اُس وقت میرا باپ زندہ ہوتا اور میرے سامنے آجاتا تو میں اپنی تلوار اُس کے سینہ میں بھونک۳۷۴؎ دینے سے ایک ذرہ دریغ نہ کرتا۔۳۷۵؎
اس کے بعد آپ طائف کی طرف روانہ ہوئے۔ وہی شہر جن کے باشندوں نے پتھرائو کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر سے نکال دیا تھا۔ اُس شہر کا آپ نے کچھ عرصہ تک محاصرہ کیا لیکن پھر بعض لوگوں کے مشورہ دینے پر کہ ان کا محاصرہ کر کے وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں سارے عرب میں اب صرف یہ شہر کر ہی کیا سکتا ہے آپ محاصرہ چھوڑ کر چلے آئے اور کچھ عرصہ کے بعد طائف کے لوگ بھی مسلمان ہو گئے۔
فتح مکہ اور حنین کے بعد
اِن جنگوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ اموال جو مغلوب دشمنوں کے جرمانوں اور میدانِ جنگ میں چھوڑی ہوئی چیزوں
سے جمع ہوئے تھے حسب دستور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلامی لشکر میں تقسیم کرنے تھے۔ لیکن اس موقع پر آپ نے بجائے ان اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے مکہ اور اِردگرد کے لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ ان لوگوں کے اندر ابھی ایمان تو پیدا نہیں ہوا تھا بہت سے توا بھی کافر ہی تھے اور جو مسلمان تھے وہ بھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے یہ ان کے لئے بالکل نئی چیز تھی کہ ایک قوم اپنا مال دوسرے لوگوں میں بانٹ رہی ہے۔ اِس مال کی تقسیم سے بجائے ان کے دل میں نیکی اور تقویٰ پیدا ہونے کے حرص اور بھی بڑھ گئی۔ انہوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمگھٹا ڈال لیا اور مزید مطالبات کے ساتھ آپ کو تنگ کرنا شروع کیا یہاں تک کہ دھکیلتے ہوئے وہ آپ کو ایک درخت تک لے گئے اورر ایک شخص نے تو آپ کی چادر جو آپ کے کندھوں پر رکھی ہوئی تھی پکڑ کر اِس طرح مروڑنی شروع کی کہ آپ کا سانس رُکنے لگا۔ آپ نے فرمایا اے لوگو! اگر میرے پاس کچھ اور ہوتا تو میں وہ بھی تمہیں دے دیتا تم مجھے کبھی بخیل یا بزدل نہیں پائو گے۔ ۳۷۶؎ پھر آپ اپنی اُونٹنی کے پاس گئے اور اس کا ایک بال توڑا اور اسے اونچا کیا اور فرمایا اے لوگو! مجھے تمہارے مالوں میں سے اِس بال کے برابر بھی ضرورت نہیں سوائے اُس پانچویں حصہ کے جو عرب کے قانون کے مطابق حکومت کا حصہ ہے اور وہ پانچواں حصہ بھی میں اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتا بلکہ وہ بھی تمہیں لوگوں کے کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے۔ اور یاد رکھو کہ خیانت کرنے والا انسان قیامت کے دن خدا کے حضور اس خیانت کی وجہ سے ذلیل ہو گا۔
لوگ کہتے ہیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہت کے خواہشمند تھے۔ کیا بادشاہوں اور عوام کا ایسا ہی تعلق ہوا کرتا ہے؟ کیا کسی کی طاقت ہوتی ہے کہ بادشاہ کو اِس طرح دھکیلتا ہوا لے جائے اورا س کے گلے میں پٹکہ ڈال کر اُس کو گھونٹے؟ اللہ کے رسولوں کے سوایہ نمونہ کون دکھا سکتا ہے۔ مگر باوجود اِس طرح تمام اموال غرباء میں تقسیم کرنے کے پھر بھی ایسے سنگدل لوگ موجود تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم کو انصاف کی تقسیم نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ ذوالخویصرہ نامی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا ۔ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) جو کچھ آپ نے آج کیا ہے وہ میں نے دیکھا ہے۔ آپ نے فرمایا تم نے کیا دیکھا؟ اس نے کہا میں نے یہ دیکھا ہے کہ آپ نے آج ظلم کیا ہے اور انصاف سے کام نہیں لیا۔ آپ نے فرمایا تم پر افسوس! اگر میں نے عدل نہیں کیا تو پھر اور کون انسان دنیا میں عدل کرے گا۔ اُس وقت صحابہؓ جوش میں کھڑے ہوگئے اور جب یہ شخص مسجد سے اُٹھ کر گیا تو ان میں سے بعض نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ شخص واجب القتل ہے کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم اسے مار دیں؟ آپ نے فرمایا اگر یہ شخص قانون کی پابندی کرتا ہے تو ہم اس کو کس طرح مار سکتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ایک شخص ظاہر کچھ اور کرتا ہے اورا س کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے کیا ایسا شخص سزا کامستحق نہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا نے یہ حکم نہیں دیا کہ میں لوگوں سے ان کے دلوں کے خیالات کے مطابق معاملہ کروں۔ مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اُن کے ظاہر کے مطابق معاملہ کروں۔ پھر آپ نے فرمایا یہ اور اس کے ساتھی ایک دن اسلام سے بغاوت کریںگے۔۳۷۷؎ چنانچہ حضرت علیؓ کے زمانہ میں یہ شخص اور اس کے قبیلہ کے لوگ اُن باغیوں کے سردار تھے جنہوں نے حضرت علیؓ سے بغاوت کی اور خوارج کے نام سے آج تک مشہور ہیں۔
ہوازؔن سے فارغ ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لے گئے۔ یہ مدینہ والوں کے لئے پھر ایک نیا خوشی کا دن تھا۔ ایک دفعہ خدا کا رسول مکہ کے لوگوں کے ظلم سے تنگ آکر مدینہ کی طرف روانہ ہوا تھا اورآج خدا کا رسول مکہ فتح کرنے کے بعد اپنی خوشی سے اور اپنے عہد کو نبھانے کے لئے دوبارہ مدینہ میں داخل ہو رہا تھا۔
غزوۂ تبوک
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو ابو عامر مدنی جو خزرج قبیلہ میں سے تھا اور یہودیوں اور عیسائیوں سے میل ملاقات کی وجہ سے
ذکرو وظائف کرنے کا عادی تھا اور اِس کی وجہ سے لوگ اس کو راہب کہتے تھے مگر مذہباً عیسائی نہیں تھا۔ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں پہنچ جانے کے بعد مکہ کی طرف بھا گ گیا تھا۔ جب مکہ بھی فتح ہو گیا تو یہ سوچنے لگا کہ اب مجھے اسلام کے خلاف شورش پیدا کرنے کے لئے کوئی اور تدبیر کرنی چاہئے۔ آخر اس نے اپنا نام اور طرز بدلی اور مدینہ کے پاس قبا نامی گائوں میں جا کر رہنا شروع کیا۔ سالہا سال باہر رہنے کی وجہ سے اور کچھ شکل اور لباس میں تبدیلی کر لینے کی وجہ سے مدینہ کے لوگوں نے عام طور پر اس کو نہ پہچانا۔ صرف وہی منافق اِس کو جانتے تھے جن کے ساتھ اِس نے اپنا تعلق پیدا کر لیا تھا۔ اس نے مدینہ کے منافقوں کے ساتھ مل کر یہ تجویز کی کہ میں شام میں جا کر عیسائی حکومت اور عرب عیسائی قبائل کو بھڑکاتا ہوں اور اُن کو مدینہ پر حملہ کرنے کی تحریک کرتا ہوں۔ اِدھر تم یہ مشہور کرنا شروع کر دو کہ شامی فوجیں مدینہ پر حملہ کر رہی ہیں۔ اگر میری سکیم کامیاب ہو گئی تو پھر بھی ان دونوں کی مٹھ بھیڑ ہو جائے گی اور اگر میری سکیم کامیاب نہ ہوئی توان افواہوں کی وجہ سے مسلمان شاید شام پر جا کر خود حملہ کر دیں اور اس طرح قیصر کی حکومت اور ان میں لڑائی شروع ہو جائے گی اور ہمارا کام بن جائے گا۔ چنانچہ یہ تحریک کر کے یہ شخص شام کی طرف گیا اور مدینہ کے منافقوں نے روزانہ مدینہ میں یہ خبریں مشہور کرنی شروع کر دیں کہ فلاں قافلہ ہمیں ملا تھا اور اُس نے بتایا تھا کہ شامی لشکر مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ دوسرے دن پھر کہدیتے تھے کہ فلاں قافلہ کے لوگ ہمیں ملے تھے اور اُنہوں نے کہا تھا کہ مدینہ پر شامی لشکر چڑھائی کرنے والا ہے۔ یہ خبریں اتنی شدت سے پھیلنی شروع ہوئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ آپ اسلامی لشکر لے کر خود شامی لشکروں کے مقابلہ کے لئے جائیں۔ یہ وقت مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف کا تھا۔ قحط کا سال تھا پچھلے موسم میں غلّہ اور پھل کم پیدا ہو اتھا اور اس موسم کی اجناس ابھی پیدا نہیں ہوئی تھیں۔ ستمبر کا آخر یا اکتوبر کا شروع تھا، جب آپ اِس مہم کے لئے روانہ ہوئے۔ منافق تو جانتے تھے کہ یہ سب شرارت ہے اور یہ کہ انہوں نے یہ سب چالاکی اس لئے کی ہے کہ اگر شامی لشکر حملہ آور نہ ہوا تو مسلمان خود شامیوں سے جا لڑیں اور اس طرح تباہ ہو جائیں۔ موتہ کی جنگ کے حالات ان کے سامنے تھے اُس وقت مسلمانوں کو اتنے بڑے لشکر کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ وہ بہت کچھ نقصان اُٹھا کر بمشکل بچے تھے۔ اب وہ ایک دوسری موتہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے جس میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نَعُوْذُ بِاللّٰہ شہید ہو جائیں اس لئے ایک طرف تو منافق روزانہ یہ خبریں پھیلاتے تھے کہ فلاں ذریعہ سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ دشمن حملہ کرنے والا ہے فلاں ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ شامی فوجیں آرہی ہیں اور دوسری طرف لوگوں کو ڈرا رہے تھے کہ اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ آسان نہیں تمہیں جنگ کے لئے نہیں جانا چاہئے۔ا ن کارروائیوں سے ان کی غرض یہ تھی کہ مسلمان شام پر حملہ کرنے کے لئے جائیں تو سہی، لیکن جہاں تک ہو سکے کم سے کم تعداد میں جائیں تاکہ ان کی شکست زیادہ سے زیادہ یقینی ہو جائے۔ مگر مسلمان رسول اللہ ﷺ کے اِس اعلان پر کہ ہم شام کی طرف جانے والے ہیں اخلاص اور جوش سے بڑھ بڑھ کر قربانیاں کر رہے تھے۔ غریب مسلمانوں کے پاس جنگ کے سامان تھے کہاں؟ حکومت کا خزانہ بھی خالی تھا۔ ان کے آسودہ حال بھائی ہی ان کی مدد کیلئے آسکتے تھے۔ چنانچہ ہر شخص قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ حضرت عثمانؓ نے اُس دن اپنے روپے کا اکثر حصہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا جو ایک ہزار سونے کا دینار تھا یعنی قریباً ۲۵ ہزار روپیہ۔ اِسی طرح اَور صحابہؓ نے اپنی اپنی توفیق کے مطابق چندے دئیے اور غریب مسلمانوں کے لئے سواریاں یا تلواریں یا نیزے مہیا کئے گئے۔ صحابہؓ میں قربانی کا اِس قدر جوش تھا کہ یمن کے کچھ لوگ جو اسلام لا کر مدینہ میں ہجرت کر آئے تھے اور بہت ہی غربت کی حالت میں تھے ان کے کچھ افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا، یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلیے ہم کچھ اور نہیں چاہتے ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں وہاں تک پہنچنے کا سامان مل جائے۔ قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے۳۷۸؎ یعنی اِس جنگ میں شریک نہ ہو نے کا ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں جو تیرے پاس اس لئے آتے ہیں کہ توا ن کے لئے ایسا سامان مہیا کر دے جس کے ذریعہ سے وہ وہاں پہنچ سکیں مگر تو نے انہیں کہا کہ میرے پاس تو تمہیں وہاں پہنچانے کا کوئی سامان نہیں۔ تب وہ تیری مجلس سے اُٹھ کر چلے گئے اور اُن کی آنکھوں سے اس غم میں آنسو بہتے تھے کہ افسوس ان کے پاس کوئی مال نہیں جس کو خرچ کرکے وہ آج اسلامی خدمت کر سکیں۔ا بوموسیٰ ان لوگوں کے سردار تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مانگا تھا؟ توا نہوں نے کہا خد اکی قسم! ہم نے اُونٹ نہیں مانگے، ہم نے گھوڑے نہیں مانگے، ہم نے صرف یہ کہا تھا کہ ہم ننگے پائوں ہیں اور اتنا لمبا سفر پیدل نہیں چل سکتے اگر ہم کو صرف جوتیوں کے جوڑے مل جائیں تو ہم جوتیاں پہن کر ہی بھاگتے ہوئے اپنے بھائیوں کے ساتھ اِس جنگ میں شریک ہونے کے لئے پہنچ جائیں گے۔۳۷۹؎
چونکہ لشکر کو شام کی طرف جانا تھا اور موتہ کی جنگ کا نظارہ مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے تھا اس لئے ہر مسلمان کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کا خیال سب خیالوں پر مقدم تھا۔ عورتیں تک بھی اس خطرہ کو محسوس کر رہی تھیں اور اپنے خاوندوں اور اپنے بیٹوں کو جنگ پر جانے کی تلقین کر رہی تھیں۔ اس اخلاص اور اس جوش کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک صحابی جو کسی کام کے لئے باہر گئے ہوئے تھے اُس وقت واپس لَوٹے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سمیت مدینہ سے روانہ ہو چکے تھے۔ ایک عرصہ کی جدائی کے بعد جب وہ اِس خیال سے اپنے گھر میں داخل ہوئے کہ اپنی محبوبہ بیوی کو جا کر دیکھیں گے اور خوش ہو ںگے تو انہوں نے اپنی بیوی کو صحن میں بیٹھے ہوئے دیکھا اور محبت سے بغل گیر ہوئے اور پیار کرنے کے لئے تیزی سے اس کی طرف آگے بڑھے۔ جب وہ بیوی کے قریب گئے تو اُن کی بیوی نے ددنوں ہاتھوںسے اُن کو دھکا دے کر پیچھے ہٹا دیا۔ اُس صحابی نے حیرت سے اپنی بیوی کا منہ دیکھا اور پوچھا اتنی مدت کے بعد ملنے پر آخر یہ سلوک کیوں؟ بیوی نے کہا کیا تم کو شرم نہیں آتی خدا کا رسول اُس خطرہ کی جگہ پر جار ہا ہے اور تم اپنی بیوی سے پیار کرنے کی جرأت کرتے ہو! پہلے جائو اور اپنا فرض ادا کرو اس کے بعد یہ باتیں دیکھی جائیں گی وہ صحابی فوراً گھر سے باہر نکل گئے۔ اپنی سواری پر زین کسی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین منزل پر جا کر مل گئے۔
کفار تو یہ سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِن افواہوں کی بناء پر بے سوچے سمجھے شامی لشکروں پر جا پڑیں گے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اسلامی اخلاق کے تابع تھے۔ جب آپ شام کے قریب تبوک مقام پر پہنچے تو آپ نے اِدھر اُدھر آدمی بھیجے تاکہ وہ معلوم کریں کہ حقیقت کیا ہے اور یہ سفراء متفقہ طور پر یہ خبریں لائے کہ کوئی شامی لشکر اِس وقت جمع نہیں ہو رہا۔ اِس پر کچھ دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ٹھہرے اور اِردگرد کے بعض قبائل سے معاہدات کر کے بغیر لڑائی کے واپس آگئے۔یہ کل سفر آپ کا دو اڑھائی مہینے کا تھا۔
جب مدینہ کے منافقوں کو معلوم ہوا کہ لڑائی بھڑائی تو کچھ نہیں ہوئی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے واپس آرہے ہیں تو انہوں نے سمجھ لیا کہ ہماری منافقانہ چالوں کا راز اَب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہو گیا ہے اور غالباً اب ہم سزا سے نہیں بچیں گے۔ تب انہوں نے مدینہ سے کچھ فاصلہ پر چند آدمی ایک ایسے رستہ پر بٹھا دئیے جو نہایت تنگ تھا اور جس پر صرف ایک ایک سوار گزر سکتا تھا۔ جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے وحی سے بتا دیا کہ آگے دشمن راستہ کے دونوں طرف چھپا بیٹھا ہے۔ آپ نے ایک صحابی کو حکم دیا کہ جائو اور وہاں جا کر دیکھو۔ وہ سواری کو تیز کر کے وہاں پہنچے تو انہوں نے وہاں چند آدمی چھپے ہوئے دیکھے جو اِس طرح چھپے بیٹھے تھے جیسا کہ حملہ کرنے والے بیٹھا کرتے ہیں۔ ان کے پہنچنے پر وہ وہاں سے بھاگ گئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا تعاقب کرنا مناسب نہ معلوم ہوا۔
جب آپ مدینہ پہنچے تو منافقوں نے جو اِس جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے قسم قسم کی معذرتیں کرنی شروع کر دیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو قبول کر لیا۔ لیکن اب وقت آگیا تھا کہ منافقوں کی حقیقت مسلمانوں پر آشکارا کر دی جائے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وحی سے حکم دیا کہ قبا کی وہ مسجد جو منافقوں نے اِ س لئے بنائی تھی کہ نماز کے بہانہ سے وہاں جمع ہوا کر یں گے اور منافقانہ مشورے کیا کریں گے، وہ گرا دی جائے اور اُن کو مجبور کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کی دوسری مسجدوں میں نماز پڑھا کریں، مگر باوجود اتنی بڑی شرارت کے ان کو کوئی بدنی یا مالی سزا نہ دی گئی۔
تبوک سے واپسی کے بعد طائف کے لوگوں نے بھی آکر اطاعت قبول کر لی اورا س کے بعد عرب کے متفرق قبائل نے باری باری آکر اسلامی حکومت میں داخلہ کی اجازت چاہی اور تھوڑے ہی عرصہ میں سارے عرب پر اسلامی جھنڈا لہرانے لگا۔
حجۃ الوداع اور آنحضرت ﷺکا ایک خطبہ
نویں سال ہجری میں آپ نے مکہ کا حج فرمایا اور اُس دن
آپ پر قرآن شریف کی یہ مشہور آیت نازل ہوئی کہ۳۸۰؎ یعنی آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور جتنے روحانی انعامات خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر نازل ہو سکتے ہیں وہ سب میں نے تمہاری اُمت کو بخش دئیے ہیں اور اِس بات کا فیصلہ کر دیا ہے کہ تمہارا دین خالص اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مبنی ہو۔
یہ آیت آپ نے مزدلفہ کے میدان میں جبکہ حج کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں سب لوگوں کے سامنے بہ آوازِ بلند پڑھ کر سنائی۔ مزدلفہ سے لَوٹنے پر حج کے قواعد کے مطابق آپ منیٰ میں ٹھہرے اور گیارھویں ذوالحجہ کو آپ نے تمام مسلمانوں کے سامنے کھڑے ہو کر ایک تقریر کی جس کا مضمون یہ تھا۔
’’ اے لوگو! میری بات کو اچھی طرح سنو کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اِس سال کے بعد کبھی بھی میں تم لوگوں کے درمیان اِس میدان میں کھڑے ہو کر کوئی تقریر کروں گا۔ تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں کو خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے کے حملہ سے قیامت تک کے لئے محفوظ قرار دیا ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے وراثت میں اُس کا حصہ مقرر کر دیا ہے۔ کوئی وصیت ایسی جائز نہیں جو دوسرے وارث کے حق کو نقصان پہنچائے۔ جو بچہ جس کے گھر میں پیدا ہو وہ اُس کا سمجھا جائے گا اور اگر کوئی بدکاری کی بناء پر اُس بچے کا دعویٰ کرے گا تو وہ خود شرعی سزا کا مستحق ہوگا۔ جو شخص کسی کے باپ کی طر ف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے یا کسی کو جھوٹے طور پر اپنا آقا قرار دیتا ہے خدا اور اُس کے فرشتوں اور بنی نوع انسان کی *** اُس پر ہے۔ا ے لوگو! تمہارے کچھ حق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حق تم پر ہیں۔ا ن پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ عفت کی زندگی بسر کریں اور ایسی کمینگی کا طریق اختیار نہ کریں جس سے خاوندوں کی قوم میں بے عزتی ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو تم ( جیسا کہ قرآن کریم کی ہدایت ہے کہ باقاعدہ تحقیق اور عدالتی فیصلہ کے بعد ایسا کیا جا سکتا ہے) انہیں سزا دے سکتے ہو مگر اس میں بھی سختی نہ کرنا۔ لیکن اگر وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرتیں جو خاندان اور خاوند کی عزت کو بٹہ لگانے والی ہو تو تمہارا کام ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق ان کی خوراک اور لباس وغیرہ کا انتظام کر و۔ اور یادرکھو کہ ہمیشہ اپنی بیویوں سے اچھا سلوک کرنا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی نگہداشت تمہارے سپرد کی ہے۔ عورت کمزور وجود ہوتی ہے اور وہ اپنے حقوق کی خود حفاظت نہیں کر سکتی۔ تم نے جب ان کے ساتھ شادی کی تو خدا تعالیٰ کو ان کے حقوق کا ضامن بنایا تھا اور خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت تم ان کو اپنے گھروں میں لائے تھے (پس خد اتعالیٰ کی ضمانت کی تحقیر نہ کرنا اور عورتوں کے حقوق کے ادا کرنے کا ہمیشہ خیال رکھنا) اے لوگو! تمہارے ہاتھوں میں ابھی کچھ جنگی قیدی بھی باقی ہیں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو وہی کچھ کھلانا جو تم خود کھاتے ہو اور ان کو وہی پہنانا جو تم خود پہنتے ہو۔ا گر ان سے کوئی ایسا قصور ہو جائے جو تم معاف نہیں کر سکتے توا ن کو کسی اَور کے پاس فروخت کر دو کیونکہ وہ خدا کے بندے ہیں اور ان کو تکلیف دینا کسی صورت میں بھی جائز نہیں۔ اے لوگو! جو کچھ میں تم سے کہتا ہوں سنو اور اچھی طرح اس کو یاد رکھو۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے تم سب ایک ہی درجہ کے ہو۔ تم تمام انسان خواہ کسی قوم اور کسی حیثیت کے ہو انسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ رکھتے ہو۔ یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں ملاد یں اور کہا جس طرح ان دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں آپس میں برابر ہیں اِسی طرح تم بنی نوع انسان آپس میں برابر ہو۔ تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت اور درجہ ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں۔ تم آپس میں بھائیوں کی طرح ہو۔ پھر فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے آج کونسا مہینہ ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے یہ علاقہ کونسا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے یہ دن کونسا ہے؟ لوگوںنے کہا ہاں!یہ مقدس مہینہ ہے ، یہ مقدس علاقہ ہے اور یہ حج کا دن ہے۔ ہر جواب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جس طرح یہ مہینہ مقدس ہے، جس طرح یہ علاقہ مقدس ہے، جس طرح یہ دن مقدس ہے اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی جان اور اُس کے مال کو مقدس قرار دیا ہے اور کسی کی جان اور کسی کے مال پر حملہ کرنا ایسا ہی ناجائز ہے جیسے کہ اس مہینے اور اِس علاقہ اور اِس دن کی ہتک کرنا۔ یہ حکم آج کیلئے نہیں، کل کیلئے نہیں بلکہ اُس دن تک کیلئیہے کہ تم خدا سے جا کر ملو۔ پھر فرمایا۔ یہ باتیں جو میں تم سے آج کہتا ہوں اِن کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دو کیونکہ ممکن ہے کہ جو لوگ آج مجھ سے سن رہے ہیں اُن کی نسبت وہ لوگ اِن پر زیادہ عمل کریں جو مجھ سے نہیں سن رہے‘‘۔۳۸۱؎
یہ مختصر خطبہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسان کی بہتری اور ان کا امن کیسا مدنظر تھا اور عورتوں اور کمزوروں کے حقوق کا آپ کو کیسا خیال تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محسوس کر رہے تھے کہ اب موت قریب آرہی ہے شاید اللہ تعالیٰ آپ کو بتا چکا تھا کہ اب آپ کی زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں۔ آپ نے نہ چاہا کہ وہ عورتیں جو انسانی پیدائش کے شروع سے مردوں کی غلام قرار دی جاتی تھیں ان کے حقوق کو محفوظ کرنے کا حکم دینے سے پہلے آپ اِس دنیا سے گزر جائیں۔ وہ جنگی قیدی جن کو لوگ غلام کا نام دیا کرتے تھے اور جن پر طرح طرح کے مظالم کیا کرتے تھے آپ نے نہ چاہا کہ ان کے حقوق کو محفوظ کر دینے سے پہلے آپ اِس دنیا سے گزر جائیں۔ وہ بنی نوع انسان کا باہمی فرق اور امتیاز جو انسانوں میں سے بعض کو تو آسمان پر چڑھا دیتا تھا اور بعض کو تحت الثریٰ میں گرا دیتا تھا۔ جو قوموں قوموں اور مُلکوں مُلکوں کے درمیان تفرقہ اور لڑائی پیدا کرنے اور اس کو جاری رکھنے کا موجب ہوتا تھا آپ نے نہ چاہا کہ جب تک اِس تفرقہ اور امتیاز کو مٹا نہ دیں اِس دنیا سے گزر جائیں۔ وہ ایک دوسرے کے حقوق پر چھاپے مارنا اور ایک دوسرے کی جان اور مال کو اپنے لئے جائز سمجھنا جو ہمیشہ ہی بد اخلاقی کے زمانہ میں انسان کی سب سے بڑی *** ہوتاہے آپ نے نہ چاہا کہ جب تک اِس روح کو کچل نہ دیں اور جب تک بنی نوع انسان کی جانوں اور ان کے مالوں کو وہی تقدس اور وہی حرمت نہ بخش دیں جو خدا تعالیٰ کے مقدس مہینوں اور خدا تعالیٰ کے مقدس اور بابرکت مقاموں کو حاصل ہے آپ اس دنیا سے گزر جائیں۔ کیا عورتوں کی ہمدردی، ماتحت لوگوں کی ہمدردی، بنی نوع انسان میں امن اور آرام کے قیام کی خواہش اور بنی نوع انسان میں مساوات کے قیام کی خواہش اتنی شدید دنیا کے کسی اور انسان میں پائی جاتی ہے؟ کیا آدم سے لے کر آج تک کسی انسان نے بھی بنی نوع انسان کی ہمدردی کا ایسا جذبہ اور ایسا جوش دکھایا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں آج تک عورت اپنی جائیداد کی مالک ہے۔ جبکہ یورپ نے اس درجہ کو اسلام کے تیرہ سَو سال بعد حاصل کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے والا ہر شخص دوسرے کے برابر ہو جاتا ہے خواہ وہ کیسی ہی ادنیٰ اور ذلیل سمجھی جانے والی قوم سے تعلق رکھتا ہو۔ حریت اور مساوات کا جذبہ صرف اور صرف اسلام نے ہی دنیا میں قائم کیا ہے اور ایسے رنگ میں قائم کیا ہے کہ آج تک بھی دنیا کی دوسری قومیں اس کی مثال پیش نہیں کر سکتیں۔ ہماری مسجد میں ایک بادشاہ اور ایک معزز ترین مذہبی پیشوا اور ایک عامی برابر ہیں ان میں کوئی فرق اور امتیاز قائم نہیں کرسکتا۔ جبکہ دوسرے مذاہب کے معبد بڑوں اور چھوٹوں کے امتیاز کو اب تک ظاہر کرتے چلے آئے ہیں۔ گو وہ قومیں شاید حریت اور مساوات کا دعویٰ مسلمانوں سے بھی زیادہ بلند آواز سے کر رہی ہیں۔
آنحضرت ﷺکی وفات
جب اس سفر سے آپ واپس آرہے تھے، تو راستہ میں پھر آپ نے اپنے صحابہ کو اپنی وفات کی خبر دی۔
آپ نے فرمایااے لوگو! میں تمہاری طرح کا ایک آدمی ہوں قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغامبر میری طرف آئے اور مجھے اُس کاجواب دینا پڑے۔ پھر فرمایا ا ے لوگو! مجھے میرے مہربان اور خبردار آقا نے خبر دی ہے کہ نبی اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر پاتا ہے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر ۱۲۰ سال کے قریب تھی اور اس سے آپ نے استدال کیا کہ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہو گی۔۳۸۲؎ چونکہ اُس وقت آپ کی عمر باسٹھ تریسٹھ سال کی تھی آپ نے اِس طرف اشارہ فرمایا کہ میری عمر اب ختم ہونے والی معلوم ہوتی ہے۔ اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ ہر نبی اپنے سے پہلے آنے والے نبی سے آدھی عمر پاتا ہے بلکہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی عمر اور اپنی عمر کا مقابلہ کیا ہے) اور مجھے خیال ہے کہ اب جلدی مجھے بلایا جائے گا اور میں فوت ہو جائوں گا۔ اے میرے صحابہ ؓ ! مجھ سے بھی خدا کے سامنے سوال کیا جائے گا اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا تم اُس وقت کیا کہو گے؟ اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہم کہیںگے کہ آپ نے خوب اچھی طرح اسلام کی تبلیغ کی اور آپ نے اپنی زندگی کو کُلّی طور پر خدا کے دین کی خدمت کے لئے لگا دیا اور آپ نے بنی نوع انسان کی خیر خواہی کو کمال تک پہنچا دیا۔ اللہ آپ کو ہماری طرف سے بہتر سے بہتر بدلہ دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ کیا تم اِس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ ایک ہی ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اُس کے بندے اور رسول ہیں اور جنت بھی حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے اور یہ کہ موت بھی ہر انسان کو ضرور آنی ہے اور موت کے بعد زندگی بھی ہر انسان کو ضرور ملے گی اورقیامت بھی ضرور آنی ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام بنی نوع انسان کو قبروں میں سے دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کرے گا۔ انہوں نے کہا ہاں یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں۔ اِس پر آپ نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے اللہ! تو بھی گواہ رہ کہ میںنے انہیں اصولِ اسلام پہنچا دئیے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِس حج سے واپس آنے کے بعد برابر مسلمانوں کے اخلاق اور ان کے اعمال کی اصلاح میں مشغول رہے اور مسلمانوں کو اپنی وفات کے دن کی امید کے لئے تیار کرتے رہے۔ ایک دن آپ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا۔ آج مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ اُس دن کو یاد کرو جب خدا تعالیٰ کی نصرتیں اور اُس کی طرف سے فتوحات گزشتہ زمانہ سے بھی زیادہ زور سے آئیںگی اور ہر قوم و ملت کے لوگ اسلام میں فوج درفوج داخل ہونے شروع ہوں گے۔ پس اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اب تم خداتعالیٰ کی تعریف میں لگ جائو اور اُس سے دعا کرو کہ دین کی بنیاد جو تم نے قائم کی ہے وہ اِس میں سے ہر قسم کے رخنوں کو دُور کرے۔ اگر تم یہ دعائیں کرو گے تو خدا تعالیٰ ضرور تمہاری دعائوں کو سنے گا۔ اِسی طرح آپ نے فرمایا خداتعالیٰ نے اپنے بندے سے کہا کہ خواہ تم ہمارے پاس آجائو اور خواہ تم دنیا کی اصلاح کا کام بھی کچھ اَور مدت کرو۔ خداکے اس بندے نے جواب میں کہا کہ مجھے آپ کے پاس آنا زیادہ پسند ہے۔ جب آپ نے یہ بات مجلس میں سنائی تو حضرت ابوبکرؓ رو پڑے۔ صحابہؓ کو تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اسلام کی فتوحات کی خبر سنا رہے اور ابوبکرؓ رو رہے ہیں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے کہا اِس بڈھے کو کیا ہو گیا کہ یہ خوشی کی خبر پر روتا ہے! مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ ابوبکرؓ ہی آپ کی بات کو صحیح سمجھتا ہے اور اُس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سورۃ میں میری وفات کی خبر ہے۔ آپ نے فرمایا ابوبکرؓ مجھ کو بہت ہی پیارا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے سِوا کسی سے غیر محدود پیار کرنا جائز ہوتا تو میں ابوبکرؓ سے ایسا ہی پیار کرتا۔ا ے لوگو! مسجد میں جتنے لوگوں کے دروازے کھلتے ہیں آج سے سب دروازے بند کر دئیے جائیںصرف ابوبکرؓ کا دروازہ کھلا رہے۔۳۸۳؎
اِس میں یہ پیشگوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوں گے اور نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں اس راستہ سے آناپڑے گا۔ اس واقعہ کے مدتوں بعد جب حضرت عمرؓ خلیفہ تھے ایک دفعہ آپ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا بتا ئو والی سورۃ میں سے کیا مطلب نکلتا ہے؟ گویا اس مضمون کے متعلق آپ نے اپنے ہم مجلسوں کا امتحان لیا جس کے سمجھنے سے وہ اس سورۃ کے نزول کے وقت قاصر رہے تھے۔ ابن عباسؓ جو اِس واقعہ کے وقت دس گیارہ برس کے تھے اُس وقت کوئی ۱۷۔۱۸ سال کے نوجوان تھے۔ باقی صحابہ تو نہ بتا سکے ا بن عباسؓ نے کہا اے امیر المؤمنین! اس سورۃ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر دی گئی ہے کیونکہ نبی جب اپنا کام کر لیتا ہے تو پھر دنیا میں رہنا پسند نہیں کرتا۔ حضرت عمرؓ نے کہا سچ ہے میں تمہاری ذہانت کی داد دیتا ہوں۔ ۳۸۴؎ جب یہ سورۃ نازل ہوئی ابوبکر اس کامفہوم سمجھے مگر ہم نہ سمجھ سکے۔
آخر وہ دن آگیا جو ہر انسان پر آتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کام دنیا میں ختم کر چکے، خدا کی وحی تمام و کمال نازل ہو چکی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوتِ قدسیہ سے ایک نئی قوم اور ایک نئے آسمان اور ایک نئی زمین کی بنیاد ڈال دی گئی۔ بونے والے نے زمین میں ہل چلایا، پانی دیا اور بیج بو دیا اور فصل تیار کی۔ اب فصل کے کانٹے کا کام اس کے ذمہ نہ تھا۔ وہ ایک مزدور کی حیثیت سے آیا اور ایک مزدور ہی کی حیثیت سے اسے اس دنیا سے جانا تھا کیونکہ اُس کا انعام اِس دنیا کی چیزیں نہیں تھیں بلکہ اُس کا انعام اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے بھیجنے والے کی رضا تھی۔ جب فصل کٹنے پر آئی تو اُس نے اپنے ربّ سے یہی خواہش کی کہ وہ اب اُسے دنیا سے اُٹھا لے اور یہ فصل بعد میں دوسرے لوگ کاٹیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمارہوئے کچھ دن تو تکلیف اُٹھا کر بھی مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے آتے رہے۔ آخر یہ طاقت بھی نہ رہی کہ آپ مسجد میں آسکتے۔ صحابہؓ کبھی خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ آپ فوت ہو جائیں گے۔ مگر آپ بار بار انہیں اپنی وفات کے قرب کی خبردیتے۔ ایک دن صحابہ کی مجلس لگی ہوئی تھی کہ آپ نے فرمایا اگر کسی شخص سے غلطی ہو جائے تو بہتر یہی ہوتاہے کہ اِس دنیا میں اس کاازالہ کر دے تاکہ خدا کے سامنے شرمندہ نہ ہو۔ اگر میرے ہاتھ سے نادانستہ طور پر کسی کا حق مارا گیا ہو تو وہ مجھ سے اپنا حق مانگ لے۔ اگر بے جانے بوجھے مجھ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو آج وہ مجھ سے بدلہ لے لے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ خد ا تعالیٰ کے سامنے شرمند ہ ہوں۔ دوسرے صحابہ پر تو یہ بات سن کر رقت طاری ہو گئی اورا ن کے دل میں یہی خیال گزرنے لگے کہ کس طرح تکلیف اُٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے آرام کی صورت پیدا کرتے رہے ہیں۔ کس طرح آپ بھوکا رہ کر ان کو کھلاتے رہے ہیں۔ اپنے کپڑوں کو پیوند لگا کر اُن کو کپڑے پہناتے رہے ہیں پھر بھی دوسروں کے حقوق کا آپ کو اتنا خیال ہے کہ آپ اُن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر بے جانے بوجھے مجھ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو آج مجھ سے بدلہ لے لے۔ مگر ایک صحابی آگے بڑھے اور اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے آپ سے ایک دفعہ تکلیف پہنچی تھی۔ جنگ کی صفیں تیار ہورہی تھیں کہ آپ صف میں سے ہو کر آگے بڑھے اُس وقت آپ کی کہنی میرے جسم کو لگ گئی تھی۔ چونکہ آپ نے فرمایا کہ بے جانے بوجھے بھی اگر کسی کو نقصان پہنچا ہو تو مجھ سے بدلہ لے لے تو میں چاہتا ہوں کہ اِس وقت آپ سے اُس تکلیف کا بدلہ لے لوں۔ وہ صحابہؓ جو غم کے سمندر میں ڈوب رہے تھے یکدم اُن کی حالت میں تغیر پیدا ہوا۔ا ُن کی آنکھوں میں سے خون ٹپکنے لگا اور ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا کہ یہ شخص جس نے ایسے موقع پر بجائے نصیحت حاصل کرنے کے اس قسم کی بات چھیڑ دی ہے سخت سے سخت سزا کا مستحق ہے مگر اُس صحابی نے پرواہ نہ کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ٹھیک کہتے ہو تمہارا حق ہے کہ بدلہ لو اور آپ نے کروٹ بدلی اور اپنی پیٹھ اُس کی طرف کر دی اور فرمایا لو میرے کہنی مار لو۔ اُس صحابیؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب میرے کہنی لگی تھی اُس وقت میرا جسم ننگا تھا کیونکہ میرے پاس کرتہ نہ تھا کہ میں اُسے پہنتا۔ آپ نے فرمایا میرا کرتہ اُٹھا دو اور ننگے جسم پر کہنی مار کر اپنا بدلہ لے لو۔ اُس صحابیؓ نے آپ کا کرتہ اُٹھایا اور کانپتے ہوئے ہونٹوں اور آنسو بہاتی آنکھوں سے جھک کر آپ کی کمر کو بوسہ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا؟ اس نے جواب میں کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب آپ فرماتے ہیںکہ آپ کی موت قریب ہے تو آپ کو چھونے اور پیار کرنے کے مواقع ہمیں کب تک ملیں گے۔ بیشک جنگ کے موقع پر مجھے آپ کی کہنی لگی تھی، لیکن کس کے دل میں اُس کہنی لگنے کا بدلہ لینے کا خیال بھی آسکتا ہے۔ میرے دل میں خیال آیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیںکہ آج مجھ سے بدلہ لے لو تو چلو اِس بہانہ سے میں آپ کو پیار ہی کر لوں۔ ۳۸۵؎ وہی صحابہؓ جن کے دل غصہ سے خون ہو رہے تھے اِس بات کو سن کر اُنہی کے دل میں اس حسرت سے بھر گئے کہ کاش! یہ موقع ہم کو نصیب ہوتا!
مرض بڑھتا گیا، موت قریب آتی گئی۔ مدینہ کا سورج باوجود پہلے کی سی آب و تاب سے چمکنے کے صحابہ کی نظروں میں زرد رہنے لگا۔ دن چڑھتے تھے مگر اُن کی آنکھوں پر تاریکی کے پردے پڑتے چلے جاتے تھے آخر وہ وقت آ گیا جب کہ خدا کے رسول کی روح دنیا کو چھوڑ کر اپنے پیدا کرنے والے کے حضور میں حاضر ہونے والی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سانس تیز ہونے لگا اور سانس لینے میں تکلیف محسوس ہونے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا میرا سر اُٹھا کر اپنے سینہ کے ساتھ رکھ لو کیونکہ لیٹے لیٹے سانس نہیں لیا جاتا۔ حضرت عائشہؓ نے آپ کا سر اُٹھا کر اپنے سینہ کے ساتھ لگا لیا اور آپ کو سہارا دے کر بیٹھ گئیں۔ موت کی تکلیف آپ پر طاری تھی۔ آپ گھبراہٹ سے بیٹھے بیٹھے کبھی اِس پہلو پر جھکتے تھے اور کبھی اُس پہلو پر اور فرماتے تھے خدا بُرا کرے یہود اور نصاریٰ کا کہ اُنہوں نے اپنے نبیوں کے مرنے کے بعد اُن کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔ ۳۸۶؎
یہ آپ کی آخری نصیحت تھی اپنی اُمت کیلئے کہ گو تم مجھے تمام نبیوں سے زیادہ شاندار دیکھو گے اور سب سے زیادہ کامیاب پاؤ گے مگر دیکھنا! میرے بندے ہونے کو کبھی نہ بھول جانا۔ خدا کا مقام خدا ہی کیلئے سمجھتے رہنا اور میری قبر کو ایک قبر سے زیادہ کبھی کچھ نہ سمجھنا۔ باقی اُمتیں اپنے نبیوں کی قبروں کو بیشک مسجدیں بنا لیں، وہاں بیٹھ کر چلّے کیا کریں اور اُن پر چڑھاوے چڑھائیں یا نذریں دیں مگر تمہارا یہ کام نہیں ہونا چاہئے۔ تم خدائے واحد کی پرستش کو قائم کرنے کیلئے کھڑے کئے گئے ہو۔ یہ کہتے کہتے آپ کی آنکھیں چڑھ گئیں اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے اِلَی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی۔ اِلَی الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی۳۸۷؎ میں عرش معلّٰی پر بیٹھنے والے اپنے مہربان دوست کی طرف جاتا ہوں۔ میں عرش معلّٰی پر بیٹھنے والے اپنے مہربان دوست کی طرف جاتا ہوں۔ یہ کہتے کہتے آپ کی روح اِس جسم سے جُدا ہوگئی۔
آنحضرت ﷺ کی وفات پر صحابہؓ کی حالت
جب یہ خبر مسجد میں صحابہ کو ملی جن میں سے اکثر اپنے
کام کاجچھوڑ کر مسجد میں آپ کی صحت کی خوشخبری سننے کے انتظار میں تھے تو اُن پر ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ حضرت ابوبکرؓ اُس وقت تھوڑی دیر کیلئے کسی کام کے لئے باہر گئے ہوئے تھے۔ حضرت عمرؓ مسجد میں تھے جب اُنہوں نے لوگوں کو یہ بات کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں تو اُنہوں نے نیام سے تلوار نکال لی اور کہا خدا کی قسم! جو شخص یہ کہے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں مَیں اُس کا سَر اُڑا دوں گا۔ ابھی تک منافق دنیا میں باقی ہیں اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہو سکتے۔ اگر اُن کی روح جسم سے جدا ہوگئی ہے تو وہ صرف موسٰی ؑ کی طرح خدا کی ملاقات کے لئے گئی ہے اور پھر واپس آئے گی اور دنیا سے منافقوں کا قلع قمع کرے گی۔ ۳۸۸؎ یہ کہا اور ننگی تلوار لے کر اس روح فرسا خبر کے صدمہ سے مجنونوں کی طرح اِدھر اُدھر ٹہلنے لگے اور ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے تھے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں تو میں اُسے قتل کر دوں گا۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ جب ہم نے حضرت عمرؓ کو اس طرح ٹہلتے ہوئے دیکھا تو ہمارے دلوں کو بھی ڈھارس بندھی اور ہم نے کہا عمرؓ سچ کہتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ فوت نہیں ہوئے ضرور اس بارہ میں لوگوں کو غلطی لگی ہے اور عمرؓ کے قول کے ساتھ ہم نے اپنے دلوں کو تسلی دینی شروع کی۔ اتنے میں بعض لوگوں نے دَوڑ کر حضرت ابوبکرؓ کو صورتِ حالات سے اطلاع دی۔ اُن سے اطلاع پا کر حضرت ابوبکرؓ بھی مسجد میں پہنچ گئے مگر کسی سے بات نہ کی سیدھے گھر میں چلے گئے اور جا کر حضرت عائشہؓ سے پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ فوت ہوگئے ہیں؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا ہاں۔ آپ رسول اللہ ﷺ کے پاس گئے آپ کے منہ پر سے کپڑا اُٹھایا آپ کے ماتھے کو بوسہ دیا اور محبت کے چمکتے ہوئے آنسو آپ کی آنکھوں سے گرے اور آپ نے فرمایا خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا۔ ۳۸۹؎ یعنی یہ نہیں ہوگا کہ ایک تو آپ جسمانی طور پر فوت ہو جائیں اور دوسری موت آپ پر یہ وارد ہو کہ آپ کی جماعت غلط عقائد اور غلط خیالوں میں مبتلا ہو جائے۔ یہ کہہ کر آپ باہر آئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ منبر کی طرف بڑھے۔ جب آپ منبر پر کھڑے ہوئے تو حضرت عمرؓ بھی تلوار کھینچ کر آپ کے پاس کھڑے ہوگئے اِس نیت سے کہ اگر ابوبکرؓ نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ ﷺفوت ہوگئے ہیں تو میں اُن کو قتل کر دوں گا۔ جب آپ بولنے لگے تو حضرت عمرؓ نے آپ کا کپڑا کھینچا اور آپ کو خاموش کرنا چاہا مگر آپ نے کپڑے کو جھٹک کر اُن کے ہاتھ سے چھڑا لیا اور پھر قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی ۳۹۰؎ یعنی اے لوگو! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کے ایک رسول تھے اُن سے پہلے اور بہت سے رسول گزرے ہیں اور سب کے سب فوت ہوچکے ہیں کیا اگر وہ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم لوگ اپنے دین کو چھوڑ کر پھر جاؤ گے؟ دین خدا کا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو نہیں۔ یہ آیت اُحد کے وقت نازل ہوئی تھی جب کہ بعض لوگ یہ سن کر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں دل چھوڑ کر بیٹھ گئے تھے۔ اِس آیت کے پڑھنے کے بعد آپ نے فرمایا اے لوگو! مَنْ کَانَ یَعْبُدُاللّٰہَ فَاِنَّ اللّٰہَ حیٌّ لَایَمُوْتُ جو تم میں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اُس پر کبھی موت وارد نہیں ہوسکتی۔ وَ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَاِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَاور جو کوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اُس کو مَیں بتائے دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوچکے ہیں۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جس وقت ابوبکرؓ نے والی آیت پڑھنی شروع کی تو میرے ہوش درست ہونے شروع ہوئے۔ اِس آیت کے ختم کرنے تک میری روحانی آنکھیں کھل گئیں اور میں نے سمجھ لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میں فوت ہوگئے ہیں تب میرے گھٹنے کانپ گئے اور میں نڈھال ہو کر زمین پر گر گیا۔ ۳۹۱؎
وہ شخص جو تلوار سے ابوبکرؓ کو مارنا چاہتا تھا وہ اب ابوبکرؓ کے صداقت بھرے لفظوں کے ساتھ خود قتل ہوگیا۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ اُس وقت ہمیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صدمہ میں یہ آیت ہمیں بھول ہی گئی تھی۔ اُس وقت حسان بن ثابتؓ نے جو مدینہ کے ایک بہت بڑے شاعر تھے یہ شعر کہا۔
کُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِیْ
فَعَمِیَ عَلَیَّ النَّاظِرٗ
مَنْ شَائَ بَعْدَکَ فَلْیَمُتْ
فَعَلَیْکَ کُنْتُ اُحَاذِرٗ۳۹۲؎
اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تو تو میری آنکھوں کی پُتلی تھا آج تیرے مرنے سے میری آنکھیں اندھی ہوگئیں۔ اب تیرے مرنے کے بعد کوئی مرے، میرا باپ مرے، میرا بھائی مرے، میرا بیٹامرے، میری بیوی مرے مجھے اِن میں سے کسی کی موت کی پرواہ نہیں۔ میں تو تیری ہی موت سے ڈرا کرتا تھا۔
یہ شعر ہر مسلمان کے دل کی آواز تھا۔ اس کے بعد کئی دنوں تک مدینہ کی گلیوں میں مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مسلمان بچے یہی شعر پڑھتے پھرتے تھے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! تو تو ہماری آنکھوں کی پتلی تھا تیرے مرنے سے ہم تو اندھے ہوگئے۔ اب ہمارا کوئی عزیز اور قریبی رشتہ دار مرے ہمیں پرواہ نہیں۔ ہمیں تو تیری ہی موت کا خوف تھا۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات بیان کرنے کے بعد اب میں آپ کے اخلاق کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ آپ کے اخلاقِ حسنہ کے متعلق مجموعی شہادت وہ ہے جو آپ کی قوم نے دی کہ آپ کی نبوت کے دعویٰ سے پہلے آپ کی قوم نے آپ کا نام امین اور صدیق رکھا۔۳۹۳؎
دنیا میں ایسے لوگ بہت ہوتے ہیں جن کی نسبت بددیانتی کا ثبوت نہیں ملتا۔ ایسے لوگ بھی بہت ہوتے ہیں جن کو کسی کڑی آزمائش میں سے گزرنے کا موقع نہیں ملتا۔ ہاں وہ معمولی آزمائشوں سے گزرتے ہیں اور ان کی امانت قائم رہتی ہے لیکن اِس کے باوجود ان کی قوم ان کو کوئی خاص نام نہیں دیتی۔ اس لئے کہ خاص نام اُسی وقت دئیے جاتے ہیں جب کوئی شخص کسی خاص صفت میں دوسرے تمام لوگوںپر فوقیت لے جاتا ہے۔ لڑائی میں شامل ہونے والا ہر سپاہی اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتا ہے لیکن نہ انگریزی قوم ہر سپاہی کو وکٹوریہ کراس دیتی ہے نہ جرمن قوم ہر سپاہی کو آئرن کراس دیتی ہے۔ فرانس میں علمی مشغلہ رکھنے والے لوگ لاکھوں ہیں لیکن ہر شخص کو لیجنآف آنر (LEGION OF HONOUR) کا فیتہ نہیں ملتا۔ پس محض کسی شخص کا امانت دار اور صادق ہونا اُس کی عظمت پر خاص روشنی نہیں ڈالتا۔ لیکن کسی شخص کو ساری قوم کا امین اور صدیق کا خطاب دے دینا یہ ایک غیر معمولی بات ہے۔ اگر مکہ کے لوگ ہر نسل کے لوگوں میں سے کسی کو امین اور صدیق کا خطاب دیا کرتے تب بھی امین اور صدیق کا خطاب پانے والا بہت بڑا آدمی سمجھا جاتا، لیکن عرب کی تاریخ بتاتی ہے کہ عرب لوگ ہر نسل میں کبھی کسی آدمی کو یہ خطاب نہیں دیا کرتے تھے بلکہ عرب کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں صرف ایک ہی مثال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملتی ہے کہ آپ کو اہل عرب نے امین اور صدیق کا خطاب دیا۔ پس عرب کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں قوم کاایک ہی شخص کو امین اور صدیق کا خطاب دینا بتاتا ہے کہ اُس کی امانت اور اُس کا صدق دونوں اتنے اعلیٰ درجہ کے تھے کہ ان کی مثال عربوں کے علم میں کسی اور شخص میں نہیں پائی جاتی تھی۔ عرب اپنی باریک بینی کی وجہ سے دنیا میں ممتاز تھے پس جس چیز کو وہ نادر قرار دیں وہ یقینا دنیا میں نادر ہی سمجھے جانے کے قابل تھی۔
پھر ایک اجماعی شہادت آپ کے اخلاق پر حضرت خدیجہؓ نے آپ کی بعثت کے وقت دی جس کا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح میں ذکر کر چکا ہوں۔ا ب میں چند مثالیں آپ کے اخلاق کی تشریح کے لئے اِس جگہ بیان کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ کے اخلاق کے مخفی گوشوں پر بھی اس کتاب کے قارئین کی نظر پڑ سکے۔
آنحضرت ﷺکی ظاہری و باطنی صفائی
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ نہ آپ کبھی
بدکلامی کرتے تھے اور نہ فضول قسمیں کھایا کرتے تھے ۔۳۹۴؎ عرب میں رہتے ہوئے اس قسم کے اخلاق ایک غیر معمولی چیز تھے۔ یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ عرب لوگ عادتاً فحش کلامی کرتے تھے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عرب لوگ عادتاً قسمیں کھایا کرتے تھے اور آج تک بھی عرب میں قسم کا رواج کثرت سے پایا جاتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا اتنا ادب کرتے تھے کہ اس کابے موقع نام لینا کبھی پسند نہ کرتے تھے۔ صفائی کا آپ کو خاص طور پر خیال رہتا تھا آپ ہمیشہ مسواک کرتے تھے اور اس بارہ میں اتنا زور دیتے تھے کہ بعض دفعہ فرماتے اگر میں اس بات سے نہ ڈروں کہ مسلمان تکلیف میں پڑ جائیں گے تو میں ہر نماز پڑھنے سے پہلے مسواک کرنے کا حکم دے دوں۔۳۹۵؎
کھانا کھانے سے پہلے بھی آپ ہاتھ دھوتے تھے اور کھاناکھانے کے بعد بھی ہاتھ دھوتے اور کُلیکرتے تھے بلکہ ہر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد کُلیکرتے اور آپ پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد بغیر کُلی کئے نماز پڑھنے کو ناپسند فرماتے تھے۔۳۹۶؎
مساجد جومسلمانوں کے جمع ہونے کی واحد جگہ ہیں ان کی صفائی کا آپ خاص طور پر خیال رکھتے تھے اور مسلمانوں کو اس بات کی تحریک کرتے رہتے تھے کہ خاص اجتماع کے دنوں میںمسجدوں کی صفائی کا خیال رکھا کریں اور ان میں خوشبو جلایاکریں تاکہ ہوا صاف ہو جائے۔ ۳۹۷؎
اسی طرح آپ ہمیشہ صحابہ کو نصیحت کرتے رہتے تھے کہ اجتماع کے موقع پر بد بو دار چیزیں کھا کر مسجد میں نہ آیا کریں۔ ۳۹۸؎
سڑکوں کی صفائی کا آپ خاص طو رپر وعظ فرماتے تھے۔ اگر سڑک پر جھاڑیاں یا پتھر یا اور کوئی گندی چیز پڑی ہوتی تو آپ خود اُس کو اُٹھا کر سڑک سے ایک طرف کر دیتے اور فرماتے کہ جو شخص سڑکوں کی صفائی کا خیال رکھتا ہے، خدا اُس پر خوش ہوتا ہے اور اسے ثواب عطا فرماتا ہے ۔۳۹۹؎
اسی طرح آپ فرماتے تھے رستہ کوروکنا نہیں چاہئے۔ رستوں پر بیٹھنا یا ان میں کوئی ایسی چیز ڈال دینا جس سے مسافروں کو تکلیف ہو یا رستہ میں قضائے حاجت وغیرہ کرنا یہ خدا تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔۴۰۰؎
پانی کی صفائی کا بھی آپ کو خاص خیال تھا آپ ہمیشہ اپنے صحابہ کو یہ نصیحت فرماتے تھے کہ کھڑے پانی میں کسی قسم کا گند نہیں ڈالنا چاہئے۔ اسی طرح کھڑے پانی میں بول وبراز کرنے سے بھی آپ سختی سے روکتے تھے۔۴۰۱؎
کھانے پینے میںسادگی اور تقویٰ
کھانے پینے میں آپ سادگی کوہمیشہ ملحوظ رکھتے تھے۔ کھانے میں کبھی نمک زیادہ ہو
جائے یا نمک نہ ہو یاکھانا خراب پکاہو، تو آپ کبھی اظہارِ ناراضگی نہیں فرماتے تھے۔ جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا آپ ایسا کھانا کھا کر پکانے والے کو دلشکنی سے بچانے کی کوشش کرتے تھے لیکن اگر بالکل ہی ناقابل برداشت ہوتا تو آپ صرف ہاتھ کھینچ لیتے تھے اور یہ ظاہر نہیں کرتے تھے کہ مجھے اِس کھانے سے تکلیف پہنچتی ہے۔۴۰۲؎
جب آپ کھاناکھانے لگتے تو کھانے کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھتے اور فرماتے مجھے یہ تکبرانہ رویہ پسند نہیں کہ بعض لوگ ٹیک لگا کر کھانا کھاتے ہیں گویا وہ کھانے سے مستغنی ہیں۔۴۰۳؎
جب آپ کے پاس کوئی چیز آتی توا پنے صحابہؓ میں بانٹ کر کھاتے۔ چنانچہ آپ کے پاس ایک دفعہ کچھ کھجوریں آئیں آپ نے صحابہ کااندازہ لگایا تو سات سات کھجوریں فی کس آتی تھیں۔ اس پر آپ نے سات سات کھجوریں صحابہ میں بانٹ دیں۔۴۰۴؎
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہیں کھائی۔ ۴۰۵؎
ایک دفعہ آپ رستہ میں سے گزر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک بکری بھون کر لوگوں نے رکھی ہوئی ہے اور دعوت منارہے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر اُن لوگوں نے آپ کو بھی دعوت دی مگر آپ نے انکار کر دیا ۴۰۶؎ اس کی یہ وجہ نہیں تھی کہ آپ بھونا ہوا گوشت کھانا پسند نہیںکرتے تھے بلکہ آپ کو اِس قسم کا تکلف پسند نہیں تھا کہ پاس ہی غرباء تو بھوکے پھر رہے ہوں اور اُن کی آنکھوں کے سامنے لوگ بکرے بھون بھون کر کھا رہے ہوں۔ ورنہ دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ آپ بھونا ہوا گوشت بھی کھا لیا کرتے تھے۔
حضرت عائشہؓ سے بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تین دن متواتر پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور یہی حالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک رہی۔۴۰۷؎
کھانے کے متعلق آپ اِس بات کا خاص طورپر خیال رکھتے تھے کہ کوئی بغیر بُلائے کسی دعوت کے موقع پر دوسرے کے گھر کھانا کھانے کے لئے نہ چلا جائے۔ ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کی دعوت کی اوریہ بھی درخواست کی کہ آپ چار آدمی اپنے ساتھ اَور بھی لیتے آئیں۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے گھر کے دروازہ پر پہنچے تو آپ کو معلوم ہوا کہ ایک پانچواں شخص بھی آپ کے ساتھ ہے۔ جب گھر والا باہر نکلا تو آپ نے اُس سے کہا کہ آپ نے ہمیں پانچ آدمیوں کو دعوت کیلئے بلایا تھا آپ چاہیں توا ِس کو بھی اجازت دے دیں اور چاہیں تو اِس کو رخصت کر دیں۔ گھر والے نے کہا نہیں میں اِن کی بھی دعوت کرتا ہوں یہ بھی اندر آجائیں۔ ۴۰۸؎
جب آپ کھاناکھاتے توہمیشہ بِسْمِ اللّٰہِ کہہ کر شروع کیا کرتے تھے اور جب کھانا کھا کر فارغ ہوتے توا ن الفاظ میں خدا کی تعریف فرماتے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُبَارَکاًفِیْہِ غَیْرَ مُکْفِیئٍ وَلَا مُوَدَّعٍ وَلاَ مُسْتَغْنٍی عَنْہُ رَبَّنَا۔ ۴۰۹؎ یعنی سب تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے ہمیں کھانا عطا کیا۔بہت بہت تعریف ،ہر قسم کی ملونی سے خالی تعریف، بڑھتی رہنے والی تعریف۔ ایسی تعریف نہیں جس کے بعد انسان سمجھے کہ بس میں تعریف کافی کر چکا بلکہ یہ سمجھے کہ میں نے تعریف کرنے کا حق ادا نہیں کیا اور کبھی تعریف بس نہ کرے۔ اور کبھی میرے دل میںیہ خیال نہ گزرے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ایسا کام بھی ہے جس کی تعریف کی ضرورت نہیںیا جو تعریف کا مستحق نہیں۔ اے ہمارے ربّ! ہمیں ایسا ہی بنا دے۔ بعض روایتوں میں آتا ہے کہ آپ کبھی ان الفاظ میں دعا کرتے تھے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَفَانَا وَاَرْوَانَا غَیْرَمُکْفٍی وَلاَ مَکْفُوْرٍ۴۱۰؎ یعنی سب تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے ہماری بھوک اور پیاس دور کی۔ ہمارا دل اُس کی تعریف سے کبھی نہ بھرے اور ہم اُس کی کبھی ناشکر ی نہ کریں۔
آپ ہمیشہ اپنے صحابہ کونصیحت فرمایا کرتے تھے کہ پیٹ بھرنے سے پہلے کھانا چھوڑ دو اور فرماتے تھے ایک انسان کا کھانا دو انسانوں کے لئے کافی ہوناچاہئے۔ ۴۱۱؎
جب کبھی آپ کے گھر میں کوئی اچھی چیز پکتی تو آپ ہمیشہ اپنے گھر والوں کو نصیحت کرتے تھے کہ اپنے ہمسایوں کا بھی خیال رکھو۔۴۱۲؎
اسی طرح اپنے ہمسایوں کے گھروں میں آپ اکثر ہدیہ بجھواتے رہتے تھے۔ ۴۱۳؎
آپ اپنے مسکین صحابہؓ کی شکلوں سے ہمیشہ یہ معلوم کرتے رہتے تھے کہ ان میں سے کوئی بھوکا تو نہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ کئی دن فاقہ سے رہے۔ا یک دن جب سات وقت فاقہ سے گزر گئے تو وہ بے تاب ہو کر مسجد کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اتفاقاً حضرت ابوبکرؓ وہاں سے گزرے تو اُنہوں نے ان سے ایک ایسی آیت کا مطلب پوچھا جس میں غریبو ں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے ان کی بات سے سمجھا کہ شاید اس آیت کے معنی ان کومعلوم نہیں اور وہ اس آیت کے معنی بیان کر کے آگے چل دئیے۔ حضرت ابوہریرہؓ جب لوگوں کے سامنے یہ روایت بیا ن کرتے تو غصہ سے کہا کرتے کہ کیا ابوبکر مجھ سے زیادہ قرآن جانتا تھا!! میں نے تو اِس لئے آیت پوچھی تھی کہ ان کو اس آیت کے مضمون کا خیال آجائے اور مجھے کھانا کھلاد یں۔ اتنے میں حضرت عمرؓ وہاں سے گزرے۔ا بوہریرہؓ کہتے ہیں میں نے ان سے بھی اس آیت کا مفہوم پوچھا۔ حضرت عمرؓ نے بھی اس آیت کا مطلب بیان کر دیا اور آگے چل دئیے۔ صحابہؓ سوال کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ جب ابوہریرہؓ نے دیکھا کہ بے مانگے کھانا ملنے کی کوئی صورت نہیں تو وہ کہتے ہیں میں بالکل نڈھال ہو کر گرنے لگا کیونکہ اب زیادہ صبر کی مجھ میں طاقت نہیں تھی مگر میں نے ابھی دروازہ سے منہ نہیں موڑا تھا کہ میرے کان میں ایک نہایت ہی محبت بھری آواز آئی اور کوئی مجھے بلا رہا تھا۔ ابوہریرہ! ابوہریرہ!! میںنے منہ موڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کی کھڑکی کھولے کھڑے تھے اور مسکرا رہے تھے اور مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا۔ابوہریرہ! بھوکے ہو؟ میں نے کہا ہاں یَارَسُوْلَ اللّٰہ! بھوکا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہمارے گھر میں بھی کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ ابھی ایک شخص نے دودھ کا پیالہ بجھوایا ہے۔ تم مسجد میں جائو اور دیکھو کہ شاید ہماری تمہاری طرح کے کوئی اور بھی مسلمان ہوں جن کو کھانے کی احتیاج ہو۔ ابوہریرہؓ کہتے ہیں میں نے دل میں کہا میں تو اتنا بھوکا ہوں کہ اکیلا ہی اس پیالے کو پی جائوںگا۔ اب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اَور آدمی بھی بُلانے کو کہا ہے تو پھر میرا حصہ تو بہت تھوڑا رہ جائے گا۔ مگر بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا مسجد کے اندر گئے تو دیکھا کہ چھ آدمی اور بیٹھے ہیں۔ انہوں نے اُن کو بھی ساتھ لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ کے پا س آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دودھ کا پیالہ اُن نئے آنے والے چھ آدمیوں میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیا اورکہا اِس کو پی جائو۔ جب اس نے دودھ پی کر پیالہ منہ سے الگ کیا تو آپ نے اصرار کیا کہ پھر پیو۔ تیسری دفعہ اصرار کر کے اس کو دودھ پلایا۔ اس طرح چھیوں آدمیوں کو آپ نے باری باری دودھ پلایا۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ہر بار میںکہتا تھا کہ اب میں مرا۔ میرا حصہ کیا بچے گا لیکن جب وہ چھیؤں پی چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ میرے ہاتھ میں دیا۔ میں نے دیکھا کہ ابھی پیالہ میں بہت دودھ موجود تھا جب میں نے دودھ پیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی اصرار کر کے تین دفعہ دودھ پلایا۔ پھر میرا بچا ہوا دودھ خود پیا اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے دروازہ بند کر لیا ۔ ۴۱۴؎
شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوہریرہؓ کوسب کے آخر میں دودھ یہی سبق دینے کے لئے دیا تھا کہ انہیں خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے فاقہ سے بیٹھ رہنا چاہئے تھا اور اشارۃً بھی سوال نہیں کرنا چاہئے تھا۔
آپ ہمیشہ دائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے تھے اور پانی بھی دائیں ہاتھ سے پیتے تھے۔ پانی پیتے وقت درمیان میں تین دفعہ سانس لیتے تھے۔ اس میں ایک طبی حکمت ہے۔ پانی اگر یکدم پیا جائے تو زیادہ پیا جاتا ہے اور اس سے معدہ خراب ہو جاتا ہے۔ کھانے کے متعلق آپ کا اصول یہ تھا کہ جو چیزیں پاکیزہ اور طیب ہوں وہ کھائیں۔ مگرا یسی طرز پر نہیں کہ غریبوں کا حق مارا جائے یا انسان کو تعیش کی عادت پڑ جائے۔ چنانچہ عام طور پر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے آپ کی خوراک نہایت سادہ تھی۔ لیکن اگر کوئی شخص کوئی اچھی چیز بطور تحفہ لے آتا تھا تو آپ اس کے کھانے سے انکار نہ کرتے۔ مگریوں اپنے کھانے پینے کے لئے اچھے کھانے کی تلاش آپ کبھی نہیں کرتے تھے۔
شہد آپ کو پسند تھا اسی طرح کھجور بھی۔ آپ فرماتے تھے کھجور اور مؤمن کے درمیان ایک رشتہ ہے کھجور کے پتے بھی اور اُس کا چھلکا بھی اور اُس کا کچا پھل بھی اور اس کا پکا پھل بھی اور اس کی گٹھلی بھی سب کے سب کار آمد ہیں اس کی کوئی چیز بھی بیکار نہیں۔ مؤمن کامل بھی ایسا ہی ہوتا ہے اس کا کوئی کام بھی لغو نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر کام بنی نوع انسان کے نفع کے لئے ہوتا ہے۔۴۱۵؎
لباس اور زیور میں سادگی اور تقویٰ
لباس کے متعلق بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سادگی کوپسند فرماتے تھے
آپ کا عام لباس کرتہ اور تہہ بند یا کرتہ اور پاجامہ ہوتا تھا۔ آپ اپنا تہہ بند یا پاجامہ ٹخنوں سے اُوپر اور گھٹنوں سے نیچے رکھتے تھے۔ گھٹنوں یا گھٹنوں سے اُوپر جسم کے ننگے ہو جانے کو آپ پسند نہیںفرماتے تھے سوائے مجبوری کے۔ ایسا کپڑا جس پر تصویریں ہوں آپ پسند نہیں فرماتے تھے۔ نہ انسانی لباس میں اور نہ پردوں وغیرہ کی صورت میں۔ خصوصاً بڑی تصویریں جو کہ شرک کے آثار میں سے ہیںاُن کی آپ کبھی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کے گھر میں ایسا کپڑا لٹکا ہوا تھا آپ نے دیکھا تو اُسے اُتروا دیا۔۴۱۶؎ ہاں چھوٹی چھوٹی تصویر جس کپڑے پر بنی ہوئی ہوں اُس کپڑے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کیونکہ ان سے شرک کے خیالات کی طرف اشارہ نہیں ہوتا۔ آپ ریشمی کپڑاکبھی نہیں پہنتے تھے نہ دوسرے مردوں کو ریشمی کپڑا پہننے کی اجازت دیتے تھے۔ بادشاہوں کو خط لکھنے کے وقت آپ نے ایک مہر والی انگوٹھی اپنے لئے بنوائی تھی مگر آپ نے ارشاد فرمایا تھا کہ سونے کی انگوٹھی نہ ہو بلکہ چاندی کی ہو کیونکہ سونا خدا تعالیٰ نے میری اُ مت کے مردوں کے لئے پہننا منع فرمایا ہے۔ عورتوں کو بیشک ریشمی کپڑے اور زیور پہننے کی اجازت تھی اس بارہ میں آپ نصیحت کرتے رہتے تھے کہ غلو نہ کیا جائے۔
ایک دفعہ غرباء کے لئے آپ نے چند ہ کیا۔ ایک عورت نے ایک کڑا اُتار کر آپ کے آگے رکھ دیا۔ آپ نے فرمایا کیا دوسرا ہاتھ دوزخ سے بچنے کا مستحق نہیں؟ اُس عورت نے دوسرا کڑا اُتار کر بھی غرباء کے لئے دے دیا۔ آپ کی بیویوں کے زیورات نہ ہونے کے برابر تھے صحابیات بھی آپ کی تعلیم پر عمل کرکے زیور بنانے سے احتراز کرتی تھیں۔ آپ قرآنی تعلیم کے مطابق فرماتے تھے کہ مال کا جمع رکھنا غریبوں کے حقوق تلف کر دیتا ہے اس لئے سونے چاندی کو کسی صورت میں گھروں میں جمع کر لینا قوم کی اقتصادی حالت کو تباہ کر نے والا ہے اور گناہ ہے۔
ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے آپ کوتحریک کی کہ اب بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف سے سفیر آنے لگے ہیں آپ ایک قیمتی جُبّہ لے لیں اور ایسے موقعوں پر استعمال فرمایا کریں۔ آپ حضرت عمرؓ کی اِس بات کو سن کر بہت خفاہوئے اور فرمایا خداتعالیٰ نے مجھے ان باتوں کے لئے پیدا نہیں کیا۔ یہ مداہنت کی باتیں ہیں۔ ۴۱۷؎ ہمار اجیسا لباس ہے ہم اس کے ساتھ دنیا سے ملیں گے۔
ایک دفعہ آپ کے پاس ایک ریشمی جُبّہ لایا گیا۔ تو آپ نے حضرت عمرؓ کو تحفہ کے طور پر دے دیا۔ دوسرے دن آپ نے دیکھا کہ حضرت عمرؓ اُس کو پہنے پھر رہے تھے۔ آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ جب حضرت عمرؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ ہی نے تو تحفہ دیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا ہر چیز اپنے ہی استعمال کے لئے تو نہیں ہوتی۔ یعنی یہ جُبہّ چونکہ ریشم کا تھا آپ کو چاہئے تھا کہ یہ اپنی بیوی کودے دیتے یا اپنی بیٹی کو دے دیتے یا کسی اَور استعمال میں لے آتے۔ اس کو اپنے لباس کے طو رپر استعمال کرنا درست نہیں تھا۔۴۱۸؎
بستر میں سادگی
آپ کابستر بھی نہایت سادہ ہوتا تھا۔ بِالعموم ایک چمڑا یا اُونٹ کے بالوں کا ایک کپڑا ہوتا تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ہمارا بستر اتنا چھوٹا
تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو عبادت کے لئے اُٹھتے تو میں ایک طرف ہو کر لیٹ جاتی تھی اور بوجہ اس کے کہ بستر چھوٹا ہوتا تھا ، جب آپ عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے تو میں ٹانگیں لمبی کر لیا کرتی اور جب آپ سجدہ کرتے تو میں ٹانگیں سمیٹ لیا کرتی۔۴۱۹؎
مکان اور رہائش میں سادگی
رہائشی مکان کے متعلق بھی آپ سادگی کو پسند کرتے تھے۔ بِالعموم آپ کے گھروں میں ایک ایک کمرہ ہوتا تھا
اور چھوٹا سا صحن۔ اس کمرہ میں ایک رسّی بندھی ہوئی ہوتی تھی جس پر کپڑا ڈال کر ملاقات کے وقت میں آپ اپنے ملنے والوں سے علیحدہ بیٹھ کر گفتگو کر لیا کرتے تھے۔ چارپائی آپ استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ زمین پر ہی بستر بچھا کر سوتے تھے۔ آپ کی رہائش کی سادگی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ حضرت عائشہؓ نے آپ کی وفات کے بعد فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں کئی دفعہ صرف پانی اور کھجور پر ہی گزارہ کرنا پڑتا تھا یہاںتک کہ جس دن آپ کی وفات ہوئی اُس دن بھی ہمارے گھر میں سوائے کھجور اور پانی کے کھانے کیلئے اور کچھ نہیں تھا۔۴۲۰؎
خدا تعالیٰ سے محبت اور اُس کی عبادت
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری
زندگی عشق الٰہی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی
ہے باوجود بہت بڑی جماعتی ذمہ داری کے دن اور رات آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے۔نصف رات گزرنے پر آپ خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور صبح تک عبادت کرتے رہتے۔ یہاں تک کہ بعض دفعہ آپ کے پائوں سوج جاتے تھے اور آپ کے دیکھنے والوں کو آپ کی حالت پر رحم آتا تھا۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے ایسے ہی موقع پر کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ تو خد ا تعالیٰ کے پہلے ہی مقرب ہیں آپ اپنے نفس کو اتنی تکلیف کیوں دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ! اَفَلاَ اَکُوْنُ عَبْدًا شَکُوْرًا۔۴۲۱؎ جب یہ بات سچی ہے کہ خدا تعالیٰ کا میں مقرب ہوں اور خد اتعالیٰ نے اپنا فضل کر کے مجھے اپنا قرب عطا فرمایا ہے تو کیا میرا یہ فرض نہیں کہ جتنا ہو سکے میں اُس کا شکریہ ادا کروں، کیونکہ آخر شکر احسان کے مقابل پر ہی ہواکرتا ہے۔۴۲۲؎
آپ کوئی بڑ ا کام بغیر اذنِ الٰہی کے نہیں کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کے حالات میں لکھا جاچکا ہے کہ باوجود مکہ کے لوگوں کے شدید ظلموں کے آپ نے مکہ اُس وقت تک نہ چھوڑا جب تک کہ خدا تعالیٰ کی طر ف سے آپ پر وحی نازل نہ ہوئی اور وحی کے ذریعہ سے آپ کو مکہ چھوڑنے کا حکم نہ دیا گیا۔ اہل مکہ کے ظلموں کی شدت کو دیکھ کر آپ نے جب صحابہؓ کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دی اور انہوں نے آپ سے خواہش ظاہر کی کہ آپ بھی ان کے ساتھ چلیں، تو آپ نے فرمایا مجھے ابھی خدا تعالیٰ کی طرف سے اِذن نہیں ملا۔ ظلم اور تکلیف کے وقت جب لوگ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنے اِردگرد اکٹھا کر لیتے ہیں آپ نے اپنی جماعت کو حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے جانے کی ہدایت کی اور خود اکیلے مکہ میں رہ گئے، اس لئے کہ آپ کے خدا نے آپ کوابھی ہجرت کرنے کا حکم نہیںدیاتھا۔
خدا کا کلام آپ سنتے تو بے اختیار ہو کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ خصوصاً وہ آیات جن میں آپ کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ چنانچہ عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا قرآن شریف کی کچھ آیات پڑھ کر مجھے سنائو۔ میں نے اس کے جواب میں کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے میں آپ کو کیا سنائوں؟ آپ نے فرمایا میں پسند کرتاہوں کہ دوسرے لوگوں سے بھی قرآن پڑھوا کر سنوں۔ اِس پر میں نے سورۂ نساء پڑھ کی سنانی شروع کی۔ جب پڑھتے پڑھتے میں اِس آیت پر پہنچا کہ۴۲۳؎ یعنی اُس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر قوم میں سے اس کے نبی کو اس کی قوم کے سامنے کھڑا کر کے اس قوم کا حساب لیں گے اور تجھ کو بھی تیری قوم کے سامنے کھڑا کر کے اس کا حساب لیںگے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا’’ بس کرو۔ بس کرو‘‘میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گررہے تھے۔۴۲۴؎
نماز کی پابندی کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ سخت بیماری کی حالت میں بھی جبکہ خد اتعالیٰ کی طرف سے گھر میں نماز پڑھ لینے اورلیٹ کر پڑھ لینے تک کی اجازت بھی ہوتی ہے آپ سہارا لے کر مسجد میں نماز پڑھانے کیلئے آتے۔ ایک دن آپ نماز کے لئے نہ آسکے تو حضرت ابوبکرؓ کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا۔ لیکن اتنے میں طبیعت میں کچھ سہولت معلوم ہوئی تو فوراً دو آدمیوں کا سہارا لے کر مسجد کی طرف چل دیئے مگر کمزوری کا یہ حال تھا کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ چلنے میں آپ کے دونوں پائوں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے۔۴۲۵؎
دنیا میں خوشنودی اور توجہ دلانے کے لئے تالیاں پیٹی جاتی ہیں عربوں میں بھی یہی رواج تھا مگر آپ کو خدا تعالیٰ کی یاد اور اُس کا ذکر اتنا پسند تھاکہ اس غرض کے لئے بھی ذکر الٰہی ہی استعمال کر نے کا حکم دیا۔ چنانچہ لکھاہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول تھے کہ نماز کا وقت آگیا۔ آپ نے فرمایا ابوبکر! نماز پڑھا دیں۔پھر کام سے فارغ ہوکر آپ بھی فورا ً مسجد کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب نمازپڑھنے والوں کو معلوم ہوا کہ آپ مسجد میں تشریف لے آئے ہیں تو انہوں نے بیتاب ہو کر تالیاں بجانی شروع کر دیں جس سے ایک طرف تو یہ بتانا مقصود تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے ان کے دل بے انتہاء خوش ہو گئے ہیں اور دوسری طرف ابوبکرؓ کو توجہ دلانا مطلوب تھا کہ اب آپ کی امامت ختم ہوئی ا ب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے امام کی جگہ چھوڑ دی۔ نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ابوبکر! جب میںنے تم کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا تو تم میرے آنے پر پیچھے کیوں ہٹ گئے؟ ابوبکرؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اللہ کے رسول کی موجودگی میں ابوقحافہ کا بیٹا کیا حیثیت رکھتا تھا کہ نماز پڑھائے۔ پھر آپ صحابہؓ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا۔ تالیاں پیٹنے سے تمہاری کیا غرض تھی۔ خدا کے ذکر کے وقت تالیوں کا بجانا تو مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے۔ جب نماز کے وقت کوئی ایسی بات ہو کہ اُس کی طرف توجہ دلانی ضروری ہو تو بجائے تالیاں بجانے کے خدا کا نام بلند آواز سے لیا کرو۔ جب تم ایسا کرو گے تو دوسروں کو اس واقعہ کی طرف خود بخود توجہ ہو جائے گی۔ ۴۲۶؎ مگر اس کے ساتھ ہی آپ تکلف کی عبادت بھی پسند نہیں فرماتے تھے۔ ایک دفعہ آپ گھر میں گئے تو آپ نے دیکھا کہ دو ستونوں کے درمیان ایک رسّی لٹکی ہوئی ہے۔ آپ نے پوچھا یہ رسّی کیوں بندھی ہوئی ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت زینبؓ کی رسّی ہے جب وہ عبادت کرتے کرتے تھک جاتی ہیں تو اِس رسّی کو پکڑ کر سہارا لے لیتی ہیں۔ آپ نے فرمایا۔ ایسانہیں کرنا چاہئے یہ رسّی کھول دو۔ ہر شخص کو چاہئے کہ اتنی دیر عبادت کیا کرے جب تک اُس کے دل میں بشاشت رہے جب وہ تھک جائے تو بیٹھ جائے اس قسم کی تکلف والی عبادت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔۴۲۷؎
شرک سے آپ کو اس قدر نفرت تھی کہ وفات کے وقت جبکہ آپ جان کندن کی تکلیف میں کبھی دائیں کروٹ لیٹتے اور کبھی بائیں کروٹ لیٹتے اور یہ فرماتے جاتے تھے خدا ان یہود اور نصاریٰ پر *** کرے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنا لیاہے۔ ۴۲۸؎ یعنی وہ نبیوں کی قبروں پر سجدے کرتے ہیں اور اُن سے دعائیں کرتے ہیں۔ آپ کا مطلب یہ تھا کہ میری قوم اگر میرے بعد ایسا ہی فعل کرے گی تو وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ میری دعائوں کی مستحق ہو گی بلکہ میں اس سے کلی طورپر بیزار ہوں گا۔
خد اتعالیٰ کے لئے آپ کی غیرت کا ذکر آپ کی زندگی کے تاریخی واقعات میں آچکا ہے۔ مکہ کے لوگوں نے آپ کے سامنے ہر قسم کی رشوتیں پیش کیں تا آپ بتوں کی تردید کرنا چھوڑ دیں اور آپ کے چچا ابوطالب نے بھی آپ سے اس امر کی سفارش کی اور کہا کہ اگر تم نے یہ بات نہ مانی اور میں نے تمہارا ساتھ بھی نہ چھوڑا تو پھر میری قوم مجھے چھوڑ دے گی تو اس پر آپ نے فرمایا اے چچا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدائے واحد کی توحید کوپھیلانے سے نہیں رُک سکتا۔ ۴۲۹؎
اسی طرح اُحد کے موقع پر جب مسلمان زخمی اور پراگندہ حالت میں ایک پہاڑی کے نیچے کھڑے تھے اور دشمن اپنے سارے سازوسامان کے ساتھ اس خوشی میں نعرے لگا رہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں کی طاقت توڑ دی ہے۔ اور ابوسفیان نے نعرہ لگایا اُعْلُ ھَُبَل۔اُعْلُ ھُبَل ۔ یعنی ہبل کی شان بلند ہو، ہبل کی شان بلند ہو۔ تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو جو دشمن کی نظروں سے چھپے کھڑے تھے اور اِس چھپنے میں ہی اُن کی خیر تھی حکم دیاکہ جواب دو اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلَُّّ ۔ اَللّٰہُ اَعْلٰی وَاَجَلُّ۴۳۰؎ اللہ ہی سب سے بلند اور جلال والا ہے۔ اللہ ہی غلبہ اور جلال رکھتاہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کے لئے جو غیرت تھی اُس کی ایک اور عظیم الشان مثال بھی آپ کی زندگی میں ملتی ہے۔ اسلام سے پہلے عام طور پر مختلف مذاہب میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ انبیاء کی خوشی اور غم پر زمین اور آسمان میں تغیر ظاہر ہوتے ہیں اور اجرامِ فلکی ان کے قبضے میں ہوتے ہیں چنانچہ کسی نبی کے متعلق یہ آتا تھا کہ اُس نے سورج کو کہا ٹھہر جا اور وہ ٹھہر گیا۔ کسی کے متعلق آتا تھاکہ اُس نے چاند کی گردش روک دی اور کسی کے متعلق آتا تھا کہ اُس نے پانی کے بہائو کو بند کر دیا۔ مگر اسلام نے اس قسم کے خیالات کی غلطی ظاہر کی اور یہ بتایا کہ درحقیقت یہ استعارے ہیں جن سے لوگ بجائے فائدہ اُٹھانے کے اُلٹے غلطیوں اور وہموںمیں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن باوجود ان تشریحات کے کچھ لوگوں کے دلوں میں اِس قسم کے خیالات کا اثر باقی رہ گیا تھا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں آپ کے اکلوتے صاحبزادے ابراہیم اڑھائی سال کی عمر میں فوت ہوئے تو اتفاقاً اُس دن سورج کو بھی گرہن لگ گیا اُس وقت چند ایسے ہی لوگوں نے مدینہ میں یہ مشہور کر دیا کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کی وفات پر سورج تاریک ہو گیا ہے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ خوش نہ ہوئے آپ خاموش بھی نہ رہے بلکہ بڑی سختی سے آپ نے اِس کی تردید کی اور فرمایا۔ چاند اور سورج تو خدا تعالیٰ کے مقرر کر دہ قانون کو ظاہر کرنے والی ہستیاں ہیںان کاکسی بڑے یا چھوٹے انسان کی موت یا زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے ۔۴۳۱؎
جب کوئی شخص عرب کے محاورہ کے مطابق یہ کہہ دیتا کہ فلاں ستارہ کے فلاں بُرج میں ہونے کی وجہ سے ہم پر بارش نازل ہوئی ہے تو آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا اور آپ فرماتے اے لوگو! خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو دوسروں کی طرف کیوں منسوب کرتے ہو۔ بارشیں وغیرہ سب خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے مطابق ہوتی ہیں کسی دیوی دیوتا کی یاکسی اور روحانی طاقت کی مہربانی اور بخشش کے ساتھ نازل نہیں ہوا کرتیں۔ ۴۳۲؎
اللہ تعالیٰ پر توکل
اللہ تعالیٰپر توکل کا یہ حال تھا کہ جب ایک شخص نے اکیلاپا کر آپ پر تلوار اُٹھائی اور آپ سے پوچھا اب کون تم کو مجھ سے بچا سکتاہے؟ اُس
وقت باوجود اس کیکہ آپ بے ہتھیار تھے اور بوجہ لیٹے ہوئے ہونے کے حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ آپ نے نہایت اطمینان اور سکون سے جواب دیا ’’ اللہ‘‘ یہ لفظ اس یقین اور وثوق سے آپ کے منہ سے نکلا کہ اُس کافر کا دل بھی آپ کے ایمان کی بلندی اور آپ کے یقین کے کامل ہونے کو تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکا اورا ُس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اور وہ جو آپ کو قتل کرنے کے لئے آیا تھا آپ کے سامنے مجرموں کی طرح کھڑا ہو گیا۔۴۳۳؎
اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں انکساری کی یہ حد تھی کہ جب آپ سے لوگوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ تو اپنے عمل کے زور سے خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر لیں گے تو آ پ نے فرمایا نہیں! نہیں!! میں بھی خدا کے احسان سے ہی بخشا جائوں گا۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ بیان فرماتے ہیں میں نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ فرما رہے تھے کوئی شخص اپنے عملوں سے جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ میں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ بھی اپنے اعمال سے جنت میں داخل نہیں ہوں گے؟ آپ نے فرمایامیں بھی اپنے اعمال کے زور سے جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔ ہاں خدا کا فضل اور اُس کی رحمت مجھے ڈھانک لے تو یہی ایک صورت ہے ۴۳۴؎ پھر آپ نے فرمایا اپنے کاموں میں نیکی اختیار کرو اور خد ا تعالیٰ کے قرب کی راہیں تلاش کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنی موت کی خواہش نہ کیا کرے۔ کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو زندہ رہ کر اپنی نیکیوں میں اَور بھی بڑھ جائے گا اور اگر بدہے تو زندہ رہ کر اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی توفیق مل جائے گی۔ ۴۳۵؎
خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ حالت تھی کہ جب ایک وقفہ کے بعد بادل آتے تو آپ اپنی زبان پر بارش کا قطرہ لے لیتے اور فرماتے۔ دیکھو! میرے میرے ربّ کی تازہ نعمت!۴۳۶؎
جب مجلس میں بیٹھتے تو استغفار کرتے رہتے اور یوں بھی اکثر استغفار کرتے تاکہ آپ کی اُمت اور آپ کے ساتھ تعلق رکھنے والے خدا تعالیٰ کے غضب سے بچے رہیں اور اُس کی بخشش کے مستحق ہوجائیں ۴۳۷؎ ہر وقت خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کی یاد کو تازہ رکھتے۔ چنانچہ جب آپ سوتے تو یہ کہتے ہوئے سوتے بِاسْمِکَ اَللّٰھُمَّ اَمُوْتُ وَاَحْیٰ۔ا ے خدا تیرا ہی نام لیتے ہوئے میں مروںاور تیرا ہی نام لیتے ہوئے میں اُٹھوں۔ اور جب آپ صبح اُٹھتے تو فرماتے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ اَحْیاَناَ بَعْدَ مَا اَماَ تَنَا وَاِلَیْہِ النُّشُوْرُ۔ ۴۳۸؎ اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں جس نے مرنے کے بعد ہم کو زندہ کیا اور پھر ہم اپنے ربّ کے سامنے جانے والے ہیں۔
خدا تعالیٰ کے قرب کی اتنی خواہش تھی کہ ہمیشہ آپ دعا کرتے تھے اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوْرًا وَّ فِیْ بَصَرِیْ نُوْرًا وَّ فِیْ سَمْعِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَمِیْنِیْ نُوْرًا وَّعَنْ یَسَارِیْ نُوْرًا وَّفَوْقِیْ نُوْرًا وَّتَحْتِیْ نُوْرًا وَّ اَمَامِیْ نُوْرًا وَّخَلْفِیْ نُوْرًا وَّاجْعَلْ لِّیْ نُوْرًا ۴۳۹؎ یعنی اے میرے ربّ! میرے دل میں بھی اپنانور بھر دے اور میری آنکھوں میں بھی اپنا نور بھر دے اور میرے کانوں میں بھی اپنا نور بھر دے اور میرے دائیں بھی تیرا نور ہو اور میرے بائیں بھی تیرا نور ہو اور میرے اُوپر بھی تیرا نور ہو اور میرے نیچے بھی تیرا نور ہو اور میرے آگے بھی تیرا نور ہو اور میرے پیچھے بھی تیرا نور ہو اور اے میرے ربّ! میرے سارے وجود کو نور ہی نور بنا دے۔
ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ کی وفات کے قریب مسیلمہ کذاب آیا اور اس نے کہا اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد مجھے حاکم مقرر کر دیں تو میں ان کا متبع ہوجائوں گا۔ اُس وقت اُس کے ساتھ ایک بہت بڑی جمعیت تھی اور جس قوم سے وہ تعلق رکھتا تھا وہ قوم سارے عرب کی قوموں سے تعداد میں زیادہ تھی۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے مدینہ میں آنے کی خبر ملی تو آپ اُس کی طرف گئے۔ ثابت بن قیس بن شماس آپ کے ساتھ تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میںکھجور کی ایک شاخ تھی۔ آپ اُس قافلہ تک آئے اور مسیلمہ کذاب کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ اتنے میں اَور صحابی بھی جمع ہو گئے اور آپ کے اِردگرد کھڑے ہو گئے۔ آپ نے مسیلمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا۔ تم یہ کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ مقرر کر دیں تو میں اس کی اتباع کرنے کے لئے تیار ہوں، لیکن میں تو خدا کے حکم کے خلاف یہ کھجور کی شاخ بھی تم کو دینے کے لئے تیار نہیں۔ تمہارا وہی انجام ہوگا جو خدا نے تمہارے لیے مقرر کیا ہے۔ اگر تم پیٹھ پھیر کر چلے جائو گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے پائوں کاٹ دے گا اورمیں تو دیکھ رہا ہوں کہ خد انے جو کچھ مجھے دکھایا تھا وہی تمہارے ساتھ ہونے والا ہے۔ پھر فرمایا میں جاتا ہوں جو باتیں کرنی ہیں میری طرف سے ثابت بن قیس بن شماس کے ساتھ کرو۔ یہ کہہ کر آپ واپس تشریف لے آئے۔ حضرت ابوہریرہؓ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ راستہ میں کسی نے آپ سے پوچھا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے یہ کیا فرمایاہے کہ جو مجھے خدا نے دکھایا تھا میں تجھے ویسا ہی پاتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے ہاتھ میں دو کڑے ہیں۔ میں نے اُن کڑوں کو دیکھ کر ناپسند کیا۔ اُس وقت مجھے خواب میں ہی وحی نازل ہوئی کہ میں ان پر پھونکوں۔ جب میں نے پھونکا تو وہ دونوںاُڑ گئے۔ میں نے اِس کی یہ تعبیر کی کہ دو جھوٹے مدعی میرے بعد ظاہر ہوں گے۔ ۴۴۰؎
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا یہ آخری زمانہ تھا۔عرب کی سب سے بڑی اور آخری قوم آپ کی فرمانبرداری کرنے کے لئے تیارتھی اور صرف اتنی شرط کرتی تھی کہ اس کے سردار کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیں۔اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ذاتی بڑائی کا کوئی بھی خیال ہوتا تو ایسی حالت میںکہ آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی آپ کے لئے کچھ بھی مشکل نہ تھا کہ آپ عرب کی سب سے بڑی قوم کے سب سے بڑے سردار کو اپنی جانشینی کی امید دلاتے اور سارے عرب کے اتحاد کا راستہ کھول دیتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی اپنا نہیں سمجھتے تھے وہ اسلامی امارت کو اپنی ملکیت کب قرار دے سکتے تھے۔ آپ کے نزدیک اسلامی امارت خداکی امانت تھی اور وہ امانت جوں کی توں خداتعالیٰ ہی کے سپرد ہونی چاہئے تھی۔ پھر وہ جس کو چاہے دوبارہ سونپ دے۔ پس آپ نے یہ تجویز حقارت سے ٹھکرا دی اور فرمایا بادشاہت تو الگ رہی خدا کے حکم کے بغیر میں کھجور کی ایک شاخ بھی تم کو دینے کیلئے تیار نہیں۔
جب بھی اللہ تعالیٰ کا آپ ذکر فرماتے آپ کی طبیعت میں جوش پیدا ہو جاتا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے جسم کے اندر کی طرف سے بھی اور باہر کی طرف سے بھی کُلّی طور پر خدا تعالیٰ کی محبت نے قابو پا لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں آپ کو سادگی اس قدر پسند تھی کہ مسجد میں جس پر کوئی فرش نہیں تھا جس پر کوئی کپڑا نہیں تھا آپ نماز پڑھتے اور دوسروں کو پڑھواتے۔ کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ بارش کی وجہ سے چھت ٹپک پڑتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم گارے اور پانی سے لت پت ہو جاتا مگر آپ برابر عبادت میں مشغول رہتے اور آپ کے دل میں ذرا بھی احساس پیدا نہ ہوتا کہ اپنے جسم اور کپڑوں کی حفاظت کی خاطر آپ اُس وقت کی نماز ملتوی کر دیں یا کسی دوسری جگہ پر جا کر نماز پڑھ لیں۔۴۴۱؎
اپنے صحابہ کی عبادتوں کا بھی آپ خیال رکھتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے متعلق جو نہایت ہی نیک او رپاکیزہ خصائل کے آدمی تھے آپ نے فرمایا عبداللہ بن عمرؓ کیسا اچھا آدمی ہوتا اگر تہجد بھی باقاعدہ پڑھتا۴۴۲؎ جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے اُس دن سے تہجد کی نماز باقاعدہ شروع کر دی۔
اسی طرح لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ رات اپنے داماد حضرت علیؓ اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے گھر گئے اور فرمایا کیا تہجد پڑھا کرتے ہو؟ (یعنی وہ نماز جو آدھی رات کے قریب اُٹھ کر پڑھی جاتی ہے) حضرت علیؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! پڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر جب خداتعالیٰ کی منشاء کے ماتحت کسی وقت ہماری آنکھ بند رہتی ہے تو پھر تہجد رہ جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا تہجد پڑھا کرو۔ اور اُٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور راستہ میں بار بار کہتے جاتے تھے وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلاً ۴۴۳؎ یہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اکثر اپنی غلطی تسلیم کرنے سے گھبراتا ہے اور مختلف قسم کی دلیلیں دے کر اپنے قصور پر پردہ ڈالتا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ بجائے اِس کے کہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ یہ کہتے کہ ہم سے کبھی کبھی غلطی بھی ہو جاتی ہے اُنہوں نے یہ کیوں کہا کہ جب خداتعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے کہ ہم نہ جاگیں تو ہم سوئے رہتے ہیں اور اپنی غلطی کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں منسوب کیا۔ لیکن باوجود اللہ تعالیٰ کی اِس قدر محبت رکھنے کے آپ تصنع کی عبادت اور کہانت سے سخت نفرت کرتے تھے۔ آپ کا اصول یہ تھا کہ خداتعالیٰ نے جو طاقتیں انسان کے اندر پیدا کی ہیں اُن کا صحیح طور پر استعمال کرنا ہی اصل عبادت ہے۔ آنکھوں کی موجودگی میں آنکھوں کو بند کر دینا یا اُن کو نکلوا دینا عبادت نہیں بلکہ گستاخی ہے ہاں اُن کا بداستعمال کرنا گناہ ہے۔ کانوں کو کسی آپریشن کے ذریعے سے شنوائی سے محروم کر دیناخداتعالیٰ کی گستاخی ہے۔ ہاں لوگوں کی غیبتیں اور چغلیاں سننا گناہ ہے۔ کھانے کو ترک کر دینا خودکشی اور خداتعالیٰ کی گستاخی ہے ہاں کھانے پینے میں مشغول رہنا اور ناجائز اور ناپسندیدہ چیزوں کو کھانا گناہ ہے۔ یہ ایک عظیم الشان نکتہ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا اور جسے آپ سے پہلے اور کسی نبی نے پیش نہیں کیا۔ اخلاقِ فاضلہ نام ہے طبعی قویٰ کے صحیح استعمال کا۔ طبعی قویٰ کو مار دینا حماقت ہے، ان کو ناجائز کاموں میں لگا دینا بدکاری ہے، ان کا صحیح استعمال اصل نیکی ہے یہ خلاصہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا اور یہ خلاصہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اور آپ کے اعمال کا۔ حضرت عائشہؓ آپ کی نسبت فرماتی ہیں مَاخُیِّرُ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ بَیْنَ اَمْرَیْنِ الِاَّ اَخَذَاَیْسَرَ ھُمَا مَالَمْ یَکُنْ اِثْمًا فَاِنْ کَان اِثْمًا کَانَ اَبْعَدَ النَّاِس مِنْہُ ۴۴۴؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کبھی ایسا موقع پیش نہیں آیا کہ آپ کے سامنے دو راستے کھلے ہوں تو آپ نے ان دونوں راستوں میں سے جو آسان رستہ ہو اُسے اختیار نہ کیا ہو بشرطیکہ اُس آسان راستہ کے اختیار کرنے میں کوئی گناہ کا شائبہ نہ پایا جائے۔ اگر گناہ کا کوئی شائبہ پایا جاتا تو آپ اس راستہ سے تمام انسانوں سے زیادہ دور بھاگتے تھے۔
یہ کیسا لطیف اور کیسا اعلیٰ درجہ کا چلن ہے دنیا کو دھوکا دینے کے لئے لوگ کس طرح بِلاوجہ اپنے آپ کو دُکھوں اور تکلیفوں میں ڈالتے ہیں۔ ان کا اپنے آپ کو دُکھوں اور تکلیفوں میں ڈالنا خداتعالیٰ کے لئے نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کے لئے کوئی بے فائدہ کام نہیں کیا جاتا۔ اُن کا اپنے آپ کو دکھوں اور تکلیفوں میں ڈالنا لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ہوتا ہے۔ اُن کی اصل نیکی چونکہ بہت کم ہوتی ہے وہ جھوٹی نیکیوں سے لوگوں کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں اور اپنے عیبوں کو چھپانے کے لئے لوگوں کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود تو خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور حقیقی نیکی کا حصول تھا۔ آپ کو ایسی تصنع اور بناوٹی نیکیوں کی کیا ضرورت تھی۔ اگر دنیا آپ کو نیک سمجھتی تو بھی اور اگر آپ کو نیک نہ سمجھتی تو بھی آپ کے لئے ایک سی بات تھی۔ آپ تو صرف یہ دیکھتے تھے کہ میرا خدا مجھے کیا سمجھتا ہے اور میرا اپنا نفس مجھے کیسا پاتا ہے۔ خدا اور اپنے نفس کی شہادت کے بعد اگر بنی نوع انسان بھی سچی شہادت دیتے تو آپ اُن کے شکر گزار ہوتے تھے اور اگر وہ کج آنکھوں سے دیکھتے تو آپ اُن کی بینائی کی کمی پر افسوس کرتے مگر اُن کی رائے کو کوئی وقعت نہ دیتے تھے۔
رسول کریم ﷺکا بنی نوع انسان سے معاملہ
بیویوں کے حق میں آپ کا معاملہ نہایت ہی
مشفقانہ اور عادلانہ تھا۔ بعض دفعہ آپ کی بیویاں آپ سے سختی بھی کر لیتی تھیں مگر آپ خاموشی سے بات کو ہنس کر ٹال دیتے تھے۔ ایک دن آپ نے حضرت عائشہؓ سے کہا اے عائشہ! جب تم مجھ سے خفا ہوتی ہو تو مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ تم مجھ سے خفا ہو۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا آپ کو کس طرح پتہ لگ جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کوئی قسم کھانے کا معاملہ آ جائے تو تم ہمیشہ یوں کہتی ہو ’’محمد کے ربّ کی قسم! بات یوں ہے‘‘ اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو اور تمہیں قسم کھانے کی ضرورت پیش آ جائے تو تم کہا کرتی ہو ’’ابراہیم کے ربّ کی قسم! بات یوں ہے‘‘۔ حضرت عائشہؓ یہ بات سن کو ہنس پڑیں اور آپ کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آپ بات کو ٹھیک سمجھے ہیں۔۴۴۵؎
حضرت خدیجہؓ جو آپ کی بڑی بیوی تھیں اور جنہوں نے آپ کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کی تھیں اُن کی وفات کے بعد آپ کی شادی میں جوان بیویاں آئیں لیکن اس کے باوجود آپ نے حضرت خدیجہؓ کے تعلق کو نہ بھلایا۔
حضرت خدیجہؓ کی سہیلیاں جب بھی آتیں آپ اُن کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے۔ ۴۴۶؎ حضرت خدیجہؓ کی بنی ہوئی کوئی چیز اگر آپ کے سامنے آجاتی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ بدر کی جنگ میں جب آپ کے ایک داماد بھی قید ہو کر آئے تو آزادی کا فدیہ ادا کرنے کے لئے کوئی مال اُن کے پاس نہیں تھا۔ اُن کی بیوی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے جب دیکھا کہ میرے خاوند کے بچانے کے لئے اور کوئی مال نہیں تو اپنی والدہ کی آخری یادگار ایک ہار اُن کے پاس تھا وہ اُنہوںنے اپنے خاوند کے فدیہ کے طور پر مدینہ بھجوا دیا۔ جب وہ ہار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے اُسے پہچان لیا۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے صحابہؓ سے فرمایا۔ میں آپ لوگوں کو حکم تو نہیں دیتا کیونکہ مجھے ایسا حکم دینے کا کوئی حق نہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ ہار زینب کے پاس اُس کی ماں کی آخری یادگار ہے اگر آپ خوشی سے ایسا کرسکتے ہوں تو میں سفارش کرتا ہوں کہ بیٹی اُس کی ماں کی آخری یادگار سے محروم نہ کی جائے۔ صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہمارے لئے اِس سے زیادہ خوشی کا کیا موجب ہو سکتا ہے اور اُنہوں نے وہ ہار حضرت زینبؓ کو واپس کر دیا۔۴۴۷؎
حضرت خدیجہؓ کی قربانی کا آپ کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ آپ دوسری بیویوں کے سامنے اکثر اُن کی نیکی کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ ایک دن اِسی طرح آپ حضرت عائشہؓ کے سامنے حضرت خدیجہؓ کی کوئی نیکی بیان کر رہے تھے کہ حضرت عائشہؓ نے چڑ کر کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اب اُس بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں۔ اللہ تعالیٰ نے اُس سے بہتر جوان اور خوبصورت عورتیں آپ کو دی ہیں۔ یہ بات سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہوگئی اور آپ نے فرمایا۔ عائشہ! تمہیں معلوم نہیں خدیجہ نے میری کس قدر خدمت کی ہے۔۴۴۸؎
اخلاقِ فاضلہ
آپ کی طبیعت نہایت ہی سادہ تھی کسی دُکھ پر گھبراتے نہیں تھے اور کبھی کسی خواہش سے حد سے زیادہ متأثر نہیں ہوتے تھے۔ سوانح میں بتایا جا چکا ہے
کہ آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد اور بچپن میں ہی آپ کی والدہ فوت ہوگئی تھیں۔ ابتدائی آٹھ سال آپ نے اپنے دادا کی نگرانی میں گزارے۔ اس کے بعد آپ نے اپنے چچا ابوطالب کی ولایت میں پرورش پائی۔ چچا کا خونی رشتہ بھی تھا اور اُن کے والد نے مرتے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں خاص طور پر وصیت بھی فرمائی تھی اس لئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص طور پر محبت بھی رکھتے تھے اور آپ کا خیال بھی رکھتے تھے لیکن چچی میں نہ وہ شفقت کا مادہ تھا نہ خاندانی ذمہ داریوں کا احساس۔ جب گھر میں کوئی چیز آتی تو بسا اوقات وہ اپنے بچوں کو پہلے دیتیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال نہ رکھتیں۔ ابوطالب گھر میں آتے تو بجائے اِس کے کہ اپنے چھوٹے بھتیجے کو روتا ہوا یا گلہ کرتا ہوا پاتے وہ دیکھتے کہ اُن کے بچے تو کوئی چیز کھا رہے ہیں لیکن اُن کا چھوٹا سا بھتیجا کوہِ وقار بنا ایک طرف بیٹھا ہے۔ چچا کی محبت اور خاندانی ذمہ داریاں اُن کے سامنے آ جاتیں وہ دَوڑ کر اپنے بھتیجے کو بغل میں لے لیتے اور کہتے میرے بچے کا بھی تو خیال کرو، میرے بچے کا بھی تو خیال کرو۔ ایسا اکثر ہوتا رہتا تھا۔ مگر دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی شکوہ کیا نہ آپ کے چہرہ پر کبھی ملال ظاہر ہوا نہ کبھی اپنے چچیرے بھائیوں سے رقابت پیدا ہوئی۔۴۴۹؎
چنانچہ آپ کی زندگی بتاتی ہے کہ کس طرح آپ نے بعد کے بدلے ہوئے حالات میں حضرت علیؓ اور حضرت جعفرؓ کو اپنی تربیت میں لے لیا اور ہر طرح سے ان کی بہتری کی تدابیر کیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دُنیوی لحاظ سے نہایت ہی تلخ طور پر گزری ہے۔ پیدائش سے پہلے ہی اپنے والد کی وفات پھر والدہ اور دادا کی یکے بعد دیگرے وفات، پھر شادی ہوئی تو آپ کے بچے متواتر فوت ہوتے چلے گئے اس کے بعد پے در پے آپ کی کئی بیویاں فوت ہوئیں جن میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی باوفا اور خدمت گزار بیوی بھی تھیں۔ مگر آپ نے یہ سب مصائب خوشی سے برداشت کئے اور ان غموں نے نہ آپ کی کمر توڑی نہ آپ کی خوش مزاجی پر کوئی اثر ڈالا۔ دل کے زخم کبھی آنکھوں سے نہیں رِسے۔ چہرہ ہر ایک کے لئے بشاش ہی رہا اور شاذ و نادر ہی کسی موقع پر آپ نے اس درد کا اظہار کیا۔
ایک دفعہ ایک عورت جس کا لڑکا فوت ہوگیا تھا اپنے لڑکے کی قبر پر ماتم کر رہی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے تو آپ نے فرمایا۔ اے عورت! صبر کر۔ خدا کی مشیّت ہر ایک پر غالب ہے۔ وہ عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتی نہ تھی اس نے جواب دیا جس طرح میرا بچہ مرا ہے تمہارا بچہ بھی مرتا تو تمہیں معلوم ہوتا کہ صبر کیا چیز ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف یہ کہہ کر وہاں سے آگے چل دیئے۔ ایک نہیں میرے تو سات بچے فوت ہو چکے ہیں۔۴۵۰؎
پس اس قسم کے موقع پر اتنا اظہار تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گزشتہ مصائب پر کبھی کر دیتے تھے ورنہ بنی نوع انسان کی خدمت میں کوئی کوتاہی ہوئی نہ آپ کی بشاشت میں کوئی فرق آیا۔
تحمل
تحمل آپ میں اِس قدر تھا کہ اُس زمانہ میں بھی کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے بادشاہت عطا فرما دی تھی آپ ہر ایک کی بات سنتے۔ ا گر وہ سختی بھی کرتا تو آپ خاموش ہو جاتے اور
کبھی سختی کرنے والے کا جواب سختی سے نہ دیتے۔ مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے نام کی بجائے آپ کے روحانی درجہ سے پکارتے تھے یعنی یَارَسُوْلَ اللّٰہِ!کہہ کر بُلاتے تھے اور غیرمذاہب کے لوگ ایشیائی دستور کے مطابق آپ کا ادب اور احترام اس طرح کر تے تھے کہ بجائے آپ کو محمد کہہ کر بلانے کے ابوالقاسم کہہ کر بلاتے تھے جو آپ کی کنیت تھی ( ابو القاسم کے معنی ہیں قاسم کا باپ۔ قاسم آپ کے ایک بیٹے کا نام تھا) ایک دفعہ ایک یہودی مدینہ میں آیا اور اس نے آپ سے آکر بحث شروع کر دی۔ بحث کے دوران میں وہ بار بار کہتا تھا۔ اے محمد! بات یو ں ہے، اے محمد! بات یوں ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی انقباض کے اس کی باتوں کا جواب دیتے تھے۔ مگر صحابہؓ اُس کی یہ گستاخی دیکھ کر بیتاب ہورہے تھے۔ آخر ایک صحابیؓ سے نہ رہا گیا اور اُس نے یہودی سے کہا کہ خبردار! آپ کا نام لے کر بات نہ کرو تم رسول اللہ نہیں کہہ سکتے تو کم سے کم ابوالقاسم کہو۔ یہودی نے کہا میں تو وہی نام لوں گا جو اِن کے ماں باپ نے اِن کا رکھا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنے صحابہؓ سے کہا دیکھو! یہ ٹھیک کہتا ہے۔ میرے ماں باپ نے میرا نام محمد ہی رکھا تھا جو نام یہ لینا چاہتا ہے اسے لینے دو اور اس پر غصہ کا اظہار نہ کرو۔
آپ جب باہر کام کے لئے نکلتے تو بعض لوگ آپ کا رستہ روک کر کھڑے ہو جاتے اور اپنی ضرورتیں بیان کرنی شروع کر دیتے۔ جب تک وہ لوگ اپنی ضرورتیں بیان نہ کر لیتے آپ کھڑے رہتے جب وہ بات ختم کر لیتے تو آپ آگے چل پڑتے۔ اسی طرح بعض لوگ مصافحہ کرتے وقت دیر تک آپ کا ہاتھ پکڑے رکھتے۔ گو یہ طریق ناپسندیدہ ہے اور کام میں روک پیدا کرنے کا موجب ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ چھڑاتے بلکہ جب تک وہ مصافحہ کرنے والا آپ کے ہاتھ کو پکڑے رکھتا آپ بھی اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رہنے دیتے۔ ہر قسم کے حاجت مند آپ کے پاس آتے اور اپنی حاجتیں پیش کرتے۔ بعض دفعہ آپ مانگنے والے کو اُس کی ضرورت کے مطابق کچھ دے دیتے تو وہ اپنی حرص سے مجبورہو کر اَور زیادہ کا مطالبہ کرتا اور آپ پھر بھی اُس کی خواہش پورا کر دیتے۔ بعض دفعہ لوگ کئی بار مانگتے چلے جاتے اور آپ اُن کو ہر دفعہ کچھ نہ کچھ دیتے چلے جاتے۔ جو شخص خاص طور پر مخلص نظر آتا اُسے اُس کے مانگنے کے مطابق دے دینے کے بعد صرف اتنا فرما دیتے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم خدا پر توکل کرتے۔ چنانچہ ایک دفعہ ایک مخلص صحابیؓ نے متواتر اصرار کر کے آپ سے کئی دفعہ اپنی ضرورتوں کے لئے روپیہ مانگا۔ آپ نے اُس کی خواہش کو پورا تو کر دیا، مگر آخر میں فرمایا سب سے اچھا مقام تو یہی ہے کہ انسان خدا پر توکل کرے۔ اس صحابی کے اندر اخلاص تھا اور ادب بھی تھا جو کچھ وہ لے چکا ادب سے اُس نے واپس نہ کیا لیکن آئندہ کے متعلق اُس نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! یہ میری آخری بات ہے اب میں آئندہ کسی سے کسی صورت میں بھی سوا ل نہیں کروں گا۔
ایک دفعہ جنگ ہو رہی تھی غضب کا معرکہ پڑ رہا تھا، نیزے پھینکے جا رہے تھے، تلواریں کھٹاکھٹ گر رہی تھیں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ سپاہی پر سپاہی ٹوٹا پڑ رہا تھا کہ اُس صحابی کے ہاتھ سے عین اُس وقت جبکہ وہ دشمن کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے کوڑا گر گیا۔ ایک ہمراہی پیدل سپاہی نے اِس خیال سے کہ اگر افسر نیچے اُترا تو ایسا نہ ہو کہ کوئی نقصان پہنچ جائے جھک کر کوڑا اُٹھانا چاہا تا کہ اُن کے ہاتھ میں دیدے۔ اِس صحابی کی نظر اُس سپاہی پر پڑگئی اور انہو ں نے کہا اے میرے بھائی! تجھے خدا ہی کی قسم تو کوڑے کو ہاتھ نہ لگا یہ کہتے ہوئے وہ گھوڑے سے کود پڑے اور کوڑا اُٹھا لیا پھر اپنے ساتھی سے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اقرار کیا تھا کہ میں کسی سے کوئی سوال نہیں کروںگا اگر میں کوڑا تمہیں اُٹھانے دیتا تو گو میں نے اس کے متعلق تم سے سوال نہیں کیا تھا لیکن اس میں کیا شبہ تھا کہ زبانِ حال سے یہ سوال ہی بن جاتا اور ایسا کرنا مجھے وعدہ خلاف بنا دیتا گو یہ جنگ کا میدان ہے مگر میں اپنا کام خو دہی کروں گا۔۴۵۱؎
انصاف
انصاف اور عدل آپ کے اندر اتنا پایا جاتا تھا کہ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی۔ عربوں میں لحاظ داری اور سفارشوں کا قبول کرنا ایک عام مرض تھا۔ عرب
کا کیا ذکر ہے اِس زمانہ کے متمدن ممالک میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بڑے آدمیوں کو سزا دیتے وقت جھجکتے ہیں اور غریبوں کو سزا دیتے وقت نہیں گھبراتے۔ ایک دفعہ ایک مقدمہ آپ کے پاس آیا، ایک بہت بڑے خاندان کی کسی عورت نے کسی دوسرے کا مال ہتھیا لیا تھا۔ جب حقیقت کھل گئی تو عربوں میں بڑا ہیجان پیدا ہو گیا کیونکہ ایک بہت بڑے معزز خاندان کی ہتک ہوتی اُنہیں نظر آئی۔ انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ درخواست پیش کریں کہ اس عورت کو معاف کر دیا جائے۔ اور تو کسی شخص نے جرأت نہ کی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز اسامہؓ بن زید کو لوگوں نے چنا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کی سفارش کریں۔ اسامہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات شروع ہی کی تھی کہ آپ کے چہرہ پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا! اسامہ! یہ کیا کہہ رہے ہو، پہلی قومیں اِسی طرح تباہ ہوئیں کہ وہ بڑوں کا لحاظ کرتی تھیں اور چھوٹوں پر ظلم کرتی تھیں۔ اِسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتااور میں ایسا ہر گز نہیں کر سکتا۔ خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اِس قسم کا جرم کرتی تو میں اُسے سزادئیے بغیر نہ رہتا۔۴۵۲؎
یہ واقعہ پہلے سوانح میں آچکا ہے کہ بدر کی جنگ میں جب حضرت عباسؓ قید ہوئے توا ُن کے کراہنے سے آپ کو تکلیف محسوس ہوئی لیکن جب صحابہؓ نے آپ کی تکلیف دیکھ کر حضرت عباسؓ کے ہاتھوں کی رسیاں کھول دیں اور رسول اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہو گئی تو آپ نے فرمایا جیسے میرے رشتہ دار ویسے ہی دوسروں کے رشتہ دار۔ یا تو میرے چچا عباسؓ کو بھی پھر رسیوں سے باندھ دو یا سارے قیدیوں کی رسیاں کھول دو۔ صحابہ کو چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کا احساس تھا اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہم پہرہ سختی سے دے لیں گے لیکن سب قیدیوں کی رسیاں ہم کھول دیتے ہیں، چنانچہ سب قیدیوں کی رسیاں اُنہوں نے کھول دیں۔
آپ انصاف کا خیال جنگ کے موقع پر بھی رکھتے تھے۔ایک دفعہ آپ نے کچھ صحابہؓ کو باہر خبر رسانی کے لئے بجھوایا۔ دشمن کے کچھ آدمی اُن کو حرم کی حد میں مل گئے صحابہ نے اِس خیال سے کہ اگر ہم نے ان کو زندہ چھوڑ دیا تو یہ جا کر مکہ والوں کو خبر دیں گے اور ہم مارے جائیں گے اُن پر حملہ کر دیا اور ان میں سے ایک لڑائی میں مارا گیا۔ جب یہ خبریںدریافت کرنے والا قافلہ مدینہ واپس آیا، تو پیچھے پیچھے مکہ والوں کی طرف سے بھی ایک وفد شکایت لے کر آیا کہ اُنہوں نے حرم کے اندر ہمارے دو آدمی مار دیئے ہیں۔ جو لوگ حرم کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کرتے رہتے تھے اُن کو جواب تو یہ ملنا چاہئے تھا کہ تم نے کب حرم کا احترام کیا کہ تم ہم سے حرم کے احترام کی امید رکھتے ہو مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب نہ دیا بلکہ فرمایا۔ ہاں بے انصافی ہوئی ہے کیو نکہ ممکن ہے کہ اس خیال سے کہ حرم میں وہ محفوظ ہیں اُنہوں نے اپنے بچائو کی پوری کوشش نہ کی ہو اس لئے آپ لوگوںکو خون بہاد یا جائے گا۔ چنانچہ آپ نے قتل کا وہ فدیہ جس کا عربوں میں دستور تھا اُن کے ورثا ء کو ادا کیا۔
جذبات کا احترام
اپنے تو اپنے غیروں کے جذبات کا احترام بھی آپ بہت زیادہ کرتے تھے۔ ایک دفعہ ایک یہودی آپ کے پاس آیا اور اُس نے
آکے شکایت کی کہ دیکھئے! حضرت ابوبکرؓ نے میرا دل دُکھایا ہے اور کہا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کو خدا نے موسیٰ سے افضل بنایا ہے۔ اِس بات کو سن کر میرے دل کو تکلیف پہنچی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکرؓ کو بلا کر اُن سے پوچھا کہ یہ کیا با ت ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے کہا، یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اِس شخص نے ابتداء کی تھی اور کہا تھا کہ میں موسیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کو خدا نے ساری دنیا پر فضلیت عطا فرمائی ہے اس پر میں نے کہا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہو ں جس کو خدا نے موسیٰ سے افضل بنایا ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے مجھے موسیٰ پر فضلیت نہ دیا کرو۔ ۴۵۳؎ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ اپنے آپ کو موسیٰ سے افضل نہ سمجھتے تھے بلکہ مطلب یہ تھا کہ یہ فقرہ کہنے سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خد انے موسیٰ پر فضلیت عطا فرمائی ہے یہودیوں کے دلوں کو تکلیف پہنچتی ہے۔
غرباء کا خیال اور اُن کے جذبات کا احترام
آپ ہمیشہ غرباء کے حالات کو درست رکھنے کی کوشش
رکھتے اور اُن کو سوسائٹی میں مناسب مقام دینے کی سعی فرماتے۔ ایک دفعہ آپ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک امیر آپ کے سامنے سے گزرا آپ نے ایک ساتھی سے دریافت کیا کہ اس شخص کے بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اُس نے کہا یہ معزز اور امیر لوگوں میں سے ہے اگر یہ کسی لڑکی سے نکاح کی خواہش کرے تو اِس کی درخواست قبول کی جائے گی اور اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش مانی جائے گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سن کر خاموش رہے۔ اس کے بعد ایک اور شخص گزرا جوغریب اور نادار معلوم ہوتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ساتھی سے پوچھا اِس کے بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ غریب آدمی ہے اور اس لائق ہے کہ اگر یہ کسی کی لڑکی سے نکاح کی درخواست کرے تو اس کی درخواست قبول نہ کی جائے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ مانی جائے اور اگر یہ باتیں سنانا چاہے تو اِس کی باتوں کی طرف توجہ نہ کی جائے۔ یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِس غریب آدمی کی قیمت اِس سے بھی زیادہ ہے کہ ساری دنیا سونے سے بھر دی جائے۔ ۴۵۴؎
ایک غریب عورت مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دن اُس کو نہ دیکھا تو آپ نے پوچھا وہ عورت نظر نہیں آتی۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ فوت ہو گئی ہے۔ آپ نے فرمایا جب وہ فوت ہو گئی تھی تو تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی کہ میں بھی اُس کے جنازہ میں شامل ہوتا پھر فرمایا شاید تم نے اس کو غریب سمجھ کر حقیر جانا۔ ایسا کرنا درست نہیں تھا مجھے بتائو اس کی قبر کہاں ہے پھر آپ اُس کی قبر پر گئے اور اُس کے لئے دعا کی۔۴۵۵؎
آپ فرمایا کرتے تھے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے سر کے بال پراگندہ ہوتے ہیں اور اُن کے جسموں پر مٹی پڑی ہوتی ہے اگر وہ لوگوں سے ملنے جائیں تو لوگ اپنے دروازے بند کر لیتے ہیں لیکن ایسے لوگ اگر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا بیٹھیں تو خدا تعالیٰ کو اُن کا اِتنا احترام ہوتا ہے کہ وہ ان کی قسم پوری کر کے چھوڑتا ہے۔۴۵۶؎
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ غریب صحابہؓ جو کسی وقت غلام ہوتے تھے بیٹھے ہوئے تھے۔ ابوسفیان اُن کے سامنے سے گزرے تو اُنہوں نے اس کے سامنے اسلام کی جیت کا کچھ ذکر کیا۔ حضرت ابوبکرؓ سن رہے تھے اُنہیں یہ بات بُری معلوم ہوئی کہ قریش کے سردار کی ہتک کی گئی ہے اور اُنہوں نے اُن لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کیا تم قریش کے سردار اور اُن کے افسر کی ہتک کرتے ہو!! پھر حضرت ابوبکرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہی بات شکایتاً بیان کی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوبکرؓ !شاید تم نے اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کو ناراض کر دیا ہے اگر ایسا ہو ا تو یاد رکھو کہ تمہارا رب بھی تم سے ناراض ہو جائے گا۔ حضرت ابوبکرؓ اُسی وقت اُٹھے اور اُٹھ کر اُن لوگوں کے پاس واپس آئے اور کہا اے میرے بھائیو!کیا میری بات سے تم ناراض ہو گئے ہو؟ اِس پر اُن غلاموں نے جواب دیا اے ہمارے بھائی!ہم ناراض نہیں ہوئے خد اآپ کا قصور معاف کرے۔۴۵۷؎
مگرجہاں آپ غرباء کی عزت اور ان کے احترام کوقائم کرتے اور اُن کی ضرورتیں پوری فرماتے تھے وہاں آپ اُن کو عزتِ نفس کا بھی سبق دیتے تھے اور سوال کرنے سے منع فرماتے تھے۔ چنانچہ آپ ہمیشہ فرماتے تھے کہ مسکین وہ نہیں جس کو ایک کھجور یا دو کھجوریں یا ایک لقمہ یاد و لقمے تسلی دے دیں۔ مسکین وہ ہے کہ خواہ کتنی ہی تکلیفوں سے گزرے سوال نہ کرے۔۴۵۸؎ آپ اپنی جماعت کو یہ بھی نصیحت کرتے رہتے تھے کہ ہر وہ دعوت جس میں غرباء کو نہ بلائیں جائیں وہ بدترین دعوت ہے۔۴۵۹؎
حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ ایک غریب عورت میرے پاس آئی اور اس کے ساتھ اُس کی دو بیٹیاں بھی تھیں اُس وقت ہمارے گھر میںسوائے ایک کھجور کے کچھ نہ تھا میں نے وہی کھجور اُس کو دے دی۔ اُس نے وہ کھجور آدھی آدھی کر کے دونوں لڑکیوں کو کھلا دی اور پھر اُٹھ کر چلی گئی۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو میں نے آپ کو یہ واقعہ سنایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس غریب کے گھر میں بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ خدا تعالیٰ اُسے قیامت کے دن عذابِ دوزخ سے بچائے گا۔ پھر فرمایا۔ اللہ تعالیٰ اُس عورت کو اِس فعل کی وجہ سے جنت کا مستحق بنائے گا۔ ۴۶۰؎
اسی طرح ایک دفعہ آپ کو معلوم ہو اکہ آپ کے ایک صحابی سعدؓ جو مالدار تھے وہ بعض دوسرے لوگوں پر اپنی فضلیت ظاہر کر رہے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو فرمایا کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہاری یہ قوت اور طاقت اور تمہارا یہ مال تمہیں اپنے زور ِبازو سے ملے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں تمہاری قومی طاقت اور تمہارے مال سب غرباء ہی کے ذریعہ سے آتے ہیں۔۴۶۱؎
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے اَللّٰھُمَّ اَحْیِنِیْ مِسْکِیْنًا وَاَمِتْنِیْ مِسْکِیْنًا وَاحْشُرْ ِنیْ فِیْ زُمْرَۃِ الْمَسَاکِیْنِ یَومَ الْقِیَامَۃِ ۴۶۲؎ یعنی اے اللہ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھ، مسکین ہونے کی حالت میں وفات دے اور مساکین کے زُمرہ میں ہی قیامت کے دن مجھے اُٹھا۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تشریف لے جارہے تھے تو آپ کے ایک غریب صحابی جو اتفاقی طور پر نہایت بد صورت بھی تھے گرمی کے موسم میں بوجھ اُٹھا اُٹھا کر ایک طرف سے دوسری طرف منتقل کر رہے تھے۔ ایک طرف اُ ن کا چہرہ بد صورت تھا تو دوسری طرف گرد و غبار اور پسینہ کی وجہ سے وہ اور بھی بد نما نظر آرہا تھا۔ عین اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں سے گزرے اور آپ نے اُن کے چہرہ پر افسردگی کی علامتیں دیکھیں۔ آپ خاموشی سے اُن کے پیچھے چلے گئے اور جیسے بچے آپس میں کھیلتے وقت چوری چھپے پیچھے سے جا کر کسی دوست کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتے اور پھر یہ امید کرتے ہیں کہ وہ اندازہ لگا کر بتائے کہ کس شخص نے اُس کی آنکھیں بند کی ہیں اِسی طرح آپ نے اُن کی آنکھوں پرجا کر ہاتھ رکھ دیا۔ اس نے اپنے ہاتھ سے آپ کے بازو اور جسم کو ٹٹولنا شروع کیا اور سمجھ لیا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یوں بھی وہ سمجھتا تھا کہ اتنے غریب، اتنے بدصورت اور اتنے بدحال آدمی کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سِوا اپنی محبت کا اظہار اور کون کر سکتا ہے۔ یہ معلوم کر کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے ساتھ اظہارِ محبت کر رہے ہیں اس نے اپنا مٹی آلود اور پسینہ سے بھرا ہوا جسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے ساتھ ملنا شروع کیا۔ شاید وہ یہ دیکھتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کا حوصلہ کتنا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے اور اُس کو اِس حرکت سے منع نہ کیاجب وہ پیٹ بھر کر آپ کے کپڑوں کو خراب کر چکا تو آپ نے مذاقاً فرمایا میرے پاس ایک غلام ہے کوئی اس کا خریدار ہے؟ آپ کے اِس فقرہ نے اُس کو عرش سے فرش پر لا کر پھینک دیا اور اِس بات کی طرف اس کی توجہ پھرا دی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کون مجھ کو قدر کی نگاہوں سے دیکھ سکتا ہے اورمیں کس قابل ہوںکہ غلام کر کے ہی کوئی مجھے خریدے۔ اس نے افسردگی سے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میرا خریدار دنیا میں کوئی نہیں۔ آپ نے فرمایا نہیں! نہیں! ایسا مت کہو تمہاری قیمت خد اکی نظر میں بہت زیادہ ہے۔۴۶۳؎
آپ نہ صرف غرباء کا خیال رکھتے تھے بلکہ اپنی جماعت کو بھی غرباء کا خیال رکھنے کی ہمیشہ نصیحت فر ماتے رہتے تھے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ اشعریؓ کی روایت ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی حاجتمند آتاتو آپ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے فرماتے کہ آپ بھی اس کی سفارش کریں تاکہ نیک کام کی سفارش کے ثواب میں شامل ہو جائیں۔۴۶۴؎ اس طرح آپ ایک طرف تو اپنی جماعت کے لوگوں کے دلوں میں غرباء کی امداد کا احساس پیدا کرتے تھے اور دوسری طرف خود سوالی کے دل میں دوسرے مسلمانوں کی نسبت محبت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔
غرباء کے مالوں کی حفاظت
اسلام کی فتح کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سے اموال آتے جنہیں آپ
مستحقین میں تقسیم کر دیتے۔ ایک دفعہ بہت سا مال آیا تو آپ کی بیٹی فاطمہ ؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ دیکھئے میرے ہاتھ چکی پیس پیس کر زخمی ہو گئے ہیں اگر آپ مجھے ان اموال میں سے کوئی لونڈی یا غلام دے دیں تو وہ میرا ہاتھ بٹا دیا کریں۔ آپ نے فرمایا فاطمہ! میری بیٹی! میںتم کو لونڈی یا غلام رکھنے سے زیادہ قیمتی چیز بتاتا ہوں جب تم سونے لگو تو تم تینتیس دفعہ اَلْحَمْدُ لِلَّٰہِ تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللّٰہِ اور چونتیس دفعہ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ لیا کرو۔ یہ تمہارے لئے لونڈی اور غلام سے زیادہ بہتر ہو گا۔ ۴۶۵؎
ایک دفعہ کچھ اموال آئے اور آپ نے اُن کو تقسیم کر دیا۔ تقسیم کرتے وقت ایک دینار آپ کے ہاتھ سے گر گیا اور کسی چیز کی اوٹ میں آگیا۔ مال تقسیم کرتے کرتے آپ کے ذہن سے وہ بات اُترگئی سب مال تقسیم کرنے کے بعد آپ مسجد میں آئے اور نماز پڑھائی۔ نماز پڑھانے کے بعد بجائے اس کے کہ ذکرِ الٰہی میں مشغول ہو جاتے جیسا کہ آپ کی عادت تھی یا لوگوں کو اپنی ضروریات کے پیش کرنے یا مسائل پوچھنے کا موقع دیتے آپ تیزی کے ساتھ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ ایسی تیزی کے ساتھ کہ بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہماری گردنوں پر کودتے ہوئے آپ اندر کی طرف چلے گئے اور دینار تلاش کیا پھر واپس تشریف لائے اور باہر آکر وہ دینار کسی مستحق کو دیتے ہوئے فرمایا یہ دینار گر گیا تھا اور مجھے بھول گیا تھا مجھے نماز پڑھاتے ہوئے یاد آیا اور میرا دل اِس خیال سے بے چین ہو گیا کہ اگر میری موت آگئی اور لوگوں کا یہ مال میرے گھر میں ہی پڑا رہا تو میں خدا کو کیا جواب دوں گا اس لئے میں فوراً اندر گیا اور جا کر یہ مال نکال لایا۔ ۴۶۶؎
اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ نے صدقہ کو اپنی اولاد کے لئے حرام کر دیا تا ایسا نہ ہو کہ آپ کے اعزاز اور احترام کی وجہ سے صدقہ کے اموال لوگ آپؐ کی اولاد میں ہی تقسیم کر دیا کریں اور دوسرے غریب محروم رہ جائیں۔ ایک دفعہ آپ کے سامنے صدقہ کی کچھ کھجوریں لائی گئیں۔ حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آپ کے نواسے تھے اور جن کی عمر اُس وقت دو اڑھائی سال کی تھی اُس وقت آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اُنہوں نے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً انگلی ڈال کر اُن کے منہ سے کھجور نکالی اور فرمایا یہ ہمارا حق نہیں۔ یہ خدا کے غریب بندوں کا حق ہے۔ ۴۶۷؎
غلاموں سے حسنِ سلوک
غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کا آپ ہمیشہ وعظ فرماتے رہتے۔ آپ کا یہ ارشاد تھا کہ اگر کسی شخص کے پاس
غلام ہو اور وہ اس کو آزاد کرنے کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اگر وہ کسی وقت غصہ میں اُس کو مار بیٹھے یا گالی دے تو اُس کا کفارہ یہی ہے کہ اُس کو آزاد کر دے۔ ۴۶۸؎
اِسی طرح آپ غلاموں کو آزاد کرنے کے متعلق اتنا زور دیتے تھے کہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے جو شخص کسی غلام کو آزاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس غلام کے ہر عضو کے بدلہ میں اس کے ہر عضو پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا۔۴۶۹؎ پھر آپ فرمایا کرتے تھے غلام سے اتنا ہی کام لو جتنا وہ کر سکتا ہے اور جب اس سے کوئی کام لو تو اس کے ساتھ مل کر کام کیا کرو تاکہ ذلت محسوس نہ کرے۔۴۷۰؎ اور جب سفر کر و تو یا اس کو سواری پر اپنے ساتھ بٹھائو یا اس کے ساتھ باری مقرر کر کے سواری پر چڑھو۔ اس بارہ میں آپ اتنی تاکید فرماتے تھے کہ حضرت ابوہریرہؓ جو اسلام لانے کے بعد ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور آپ کی اس تعلیم کو اکثر سنتے رہتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ اُس خد اکی قسم جس کے ہاتھ میں ابوہریرہؓ کی جان ہے اگر اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جہاد کا موقع مجھے نہ مل رہا ہوتا اور حج کی توفیق نہ مل رہی ہوتی اور میری بڑھیا ماں زندہ نہ ہوتی جس کی خدمت مجھ پر فرض ہے تو میں خواہش کرتا کہ میں غلامی کی حالت میں مروں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلام کے حق میںنہایت ہی نیک باتیں فرمایا کرتے تھے۔ ۴۷۱؎
معروربن سویدؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابوذر غفاریؓ کو دیکھا کہ جیسے اُن کے کپڑے تھے ویسے ہی اُن کے غلام کے تھے۔ اِس کی وجہ پوچھی کہ آپ کے کپڑے اور آپ کے غلام کے کپڑے ایک جیسے کیوں ہیں؟ تواُنہوں نے بتایا کہ میں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کو اُس کی ماں کا طعنہ دیا جو لونڈی تھی اِس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک کفر کی باتیں پائی جاتی ہیں۔ غلام کیا ہیں؟ تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری طاقت کا ذریعہ ہیں خدا تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت وہ کچھ عرصہ کے لئے تمہارے قبضہ میں آجاتے ہیں پس چاہئے کہ جس کا بھائی اُس کی خدمت تلے آجائے وہ جو کچھ خود کھاتا ہے اُسے کھلائے اور جو کچھ خود پہنتا ہے اُسے پہنائے اور تم میں سے کوئی شخص کسی غلام سے ایسا کام نہ لے جس کی اُسے طاقت نہ ہو اور جب تم انہیں کوئی کام بتائو تو خود بھی ان کے ساتھ مل کر کام کیاکرو۔۴۷۲؎
اِسی طرح آپ فرمایا کرتے تھے جب تمہارا نوکر تمہارے لئے کھانا لائے تو اُس کو اپنے ساتھ بٹھا کر کم سے کم تھوڑا سا کھا نا ضرور کھلائو کیونکہ اُس نے کھانا پکا کر اپنا حق قائم کر لیا ہے۔۴۷۳؎
بنی نوع اِنسان کی خدمت کرنے والوں کا احترام
آپ اُن لوگوں کا خاص خیال رکھتے تھے جو بنی نوع انسان کی خدمت میں اپنا وقت خرچ کرتے تھے۔ جب طَی قبیلہ کے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے
لڑائی کی اور ان میں سے کچھ لوگ گرفتار ہو کر آئے تو اُن میں حاتم کی جو عرب کا مشہور سخی گزرا ہے بیٹی بھی تھی، جب اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ذکر کیا کہ وہ حاتم کی بیٹی ہے تو آپ نے نہایت ہی ادب اور احترام کا معاملہ اُس سے کیا اور اُس کی سفارش پر اُس کی قوم کی سزائیں معاف کر دیں۔۴۷۴؎
عورتوں سے حسنِ سلوک
عورتوں سے حسن سلوک کا آپ خاص خیال رکھتے تھے آپ نے سب سے پہلے دنیا میں عورت کے ورثہ کا حق
قائم کیا۔ چنانچہ قرآن کریم میں لڑکے اور لڑکیاں باپ اور ماں کے ورثہ کی حقدار قرار دی گئی ہیں۔ اِسی طرح مائیں اور بیویاںبیٹیوں اور خاوندوں کے ورثہ میں اور بعض صورتوں میں بہنیں بھی بھائیوں کے ورثہ کی حقدار قرار دی گئی ہیں۔ اِسلام سے پہلے دنیا کے کسی مذہب نے بھی اس طرح حقوق قائم نہیں کئے۔ اِسی طرح آپ نے عورت کو اس کے مال کا مستقل مالک قرار دیا ہے خاوند کوحق نہیں کہ خاوند ہونے کی وجہ سے عورت کے مال میں دست اندازی کر سکے۔ عورت اپنے مال کے خرچ کرنے میں پوری مختار ہے۔ عورتوںسے حسن سلوک میں آپ ایسے بڑھے ہوئے تھے کہ عرب لوگ جو اِس بات کے عادی نہ تھے ان کو یہ بات دیکھ کر ٹھوکر لگتی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری بیوی بعض دفعہ میری باتوں میں دخل دیتی تو میں اُس کو ڈانٹا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ عرب کے لوگوں نے کبھی عورتوں کا یہ حق تسلیم نہیں کیا کہ وہ مردوں کو اُن کے کاموں میں مشورہ دیں۔ اِس پر میری بیوی کہا کرتی کہ جائو جائو، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اُن کو مشورہ دیتی ہیں اور آپ اُن کو کبھی نہیں روکتے تو تم ایسا کیوں کہتے ہو؟ اس پر میں اُسے کہا کرتا تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت لاڈلی ہے اُس کا ذکر نہ کرو، باقی رہی تمہاری بیٹی سو اگر وہ ایسا کرتی ہے تواپنی گستاخی کی سزا کسی دن پائے گی۔
ایک دفعہ جب کسی بات سے ناراض ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کر لیا کہ کچھ دن آپ گھر سے باہر رہیں گے اور بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے اورمجھے اِس کی خبر ملی، تو میں نے کہا دیکھو جو میں کہتا تھا وہی ہو گیا۔ میں اپنی بیٹی حفصہؓ کے گھر میں گیا تو وہ رو رہی تھیں۔ میں نے کہا حفصہ! کیا ہوا؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ اُنہوں نے کہایہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات کی وجہ سے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کچھ عرصہ کے لئے گھر میں نہیں آئیں گے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا حفصہ! میں تجھے پہلے نہیں سمجھا یا کرتا تھا کہ تو عائشہؓ کی نقلیں کرتی ہے حالانکہ عائشہؓ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص طور پر پیاری ہے۔ دیکھ آخر تو نے وہی مصیبت سہیڑ لی جس کا مجھے خوف تھا۔ یہ کہہ کر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ آپ کے جسم پر کرتہ نہ تھا اور آپ کے سینہ اور کمر پر چٹائی کے نشان بنے ہوئے تھے میں آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ قیصر و کسریٰ کہا ں مستحق ہیںاس بات کے کہ ان کو خد اتعالیٰ کی نعمتیں ملیں مگر وہ تو کس آرا م سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور خدا کے رسول کو یہ تکلیف ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عمر!یہ درست نہیں اِس قسم کی زندگیاں خد اکے رسولوں کی نہیں ہوتیں یہ دنیا دار بادشاہوں کا شغل ہے۔ پھر میں نے آپ کو سارا واقعہ سنایا جو میری بیوی اور بیٹی کے ساتھ گزرا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری باتیں سن کر ہنس پڑے اور فرمایا عمر! یہ بات درست نہیں کہ میں نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے۔ میں نے تو صرف ایک مصلحت کی خاطر کچھ دنوں کے لئے اپنے گھر سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ۴۷۵؎
عورتوں کے جذبات کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ نماز میں آپ کو ایک بچہ کے رونے کی آواز آئی تو آپ نے نماز جلدی جلدی پڑھا کر ختم کر دی پھر فرمایا ایک بچہ کے رونے کی آواز آئی تھی میں نے کہا اِس کی ماں کو کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی چنانچہ میں نے نماز جلدی ختم کر دی تاکہ ماں اپنے بچہ کی خبر گیری کر سکے۔۴۷۶؎
جب آپ ایسے سفر پر جاتے جس میں عورتیں بھی ساتھ ہوتیں تو ہمیشہ آہستگی سے چلنے کا حکم دیتے۔ ایک دفعہ ایسے ہی موقع پر جبکہ سپاہیوں نے اپنے گھوڑوں کی باگیں اور اُونٹوں کی نکیلیں اُٹھا لیں آپ نے فرمایا۔ رِفْقًا بِالْقَوَ ارِیْرَ ارے کیا کر تے ہو؟ عورتیں بھی ساتھ ہیں اگر تم اس طرح اُونٹ دَوڑائو گے تو شیشے چکنا چور ہو جائیں گے۔ ۴۷۷؎
ایک دفعہ جنگ کے میدان میںکسی گڑ بڑ کی وجہ سے سواریاں بدک گئیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھوڑے سے گر گئے اور بعض مستورات بھی گر گئیں۔ ایک صحابی جن کا اُونٹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرتے ہوئے دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور کود کر یہ کہتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دَوڑے ’’ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میںمر جائوں آپ بچے رہیں‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پائوں رِکاب میں اُلجھے ہوئے تھے آپ نے جلدی جلدی اپنے آپ کو آزاد کیا اور اُس صحابی کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا’’ مجھے چھوڑو اور عورتوں کی طرف جائو‘‘۔ ۴۷۸؎
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے اُس وقت سب مسلمانوں کو جمع کر کے جو وصیتیں کیں اُن میں ایک بات یہ بھی تھی کہ میں تم کو اپنی آخری وصیت یہ کرتا ہوں کہ عورتوں سے ہمیشہ حسنِ سلوک کرتے رہنا۔ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے جس کے گھر میں لڑکیاں ہوں اور وہ اُن کو تعلیم دلائے اور اُن کی اچھی تربیت کرے خد اتعالیٰ قیامت کے دن اُس پر دوزخ کو حرام کر دے گا۔ ۴۷۹؎
عربوں میں رواج تھا کہ اگر عورتوں سے کوئی غلطی ہو جاتی تو اُنہیں مار پیٹ لیا کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا۔ عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں تمہاری لونڈیاں نہیں ان کو مت مارا کرو۔ مگر عورتوں کی چونکہ ابھی تک پوری تربیت نہیں ہوئی تھی اُنہوں نے دلیری میں آکر مردوں کا مقابلہ شروع کر دیا اور گھروں میں فساد ہونے لگے۔ آخر حضرت عمرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ نے ہمیں عورتوں کو مارنے سے روک دیا اور وہ بڑی بڑی دلیریاں کرتی ہیں۔ ایسی صورت میں تو ہمیں اجازت ملنی چاہئے کہ ہم اُنہیں مار پیٹ لیا کریں۔ چونکہ ابھی تک عورتوں کے متعلق تفصیل سے احکام نازل نہیں ہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اگر کوئی عورت حد سے بڑھتی ہے تو تم اپنے رواج کے مطابق اُسے مار لیا کرو۔ اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ بجائے اس کے کہ کسی اشد استثنائی صورت میں مرد اپنی عورتوں کو سزا دیتے، اُنہوں نے وہی پرانا عربی طریق جاری کر لیا۔ عورتوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس آکر شکایت کی تو آپ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا، جو لوگ اپنی عورتوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے یا اُنہیں مارتے ہیں میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ وہ خد اکی نظر میں اچھے نہیں سمجھے جاتے۔ ۴۸۰؎ اِس کے بعد عورتوں کے حق قائم ہوئے اور عورت نے محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہربانی سے پہلی دفعہ آزادی کا سانس لیا۔
معاویہ بن ھندہ القشیری فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! بیوی کا حق ہم پر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جو خدا تمہیں کھانے کے لئے دے وہ اُسے کھلائو اور جو خدا تمہیں پہننے کے لئے دے وہ اُسے پہنائو اور اُس کو تھپڑ نہ مارو اور گالیاں نہ دو اور اُسے گھر سے نہ نکالو۔۴۸۱؎
آپ کو عورتوں کے جذبات کا اس قدر احساس تھا کہ آپ ہمیشہ نصیحت فرماتے تھے کہ جو لوگ باہر سفر کے لئے جاتے ہیں اُنہیں جلدی گھر واپس آنا چاہئے تاکہ ان کے بال بچوں کو تکلیف نہ ہو۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص اپنی اُن ضرورتوں کو پورا کر لے جن کے لئے اسے سفر کرنا پڑا تھا تو اُسے چاہئے اپنے رشتہ داروں کا خیال کر کے جلدی واپس آئے۔ ۴۸۲؎
آپ کا اپنا طریق یہ تھا کہ جب سفر سے واپس آتے تھے تو دن کے وقت شہرمیں داخل ہوتے تھے۔ اگر رات آجاتی تھی تو شہر کے باہر ہی ڈیرہ ڈال دیتے تھے اور صبح کے وقت شہر میں داخل ہوتے تھے اور ہمیشہ اپنے اصحابؓ کو منع فرماتے تھے کہ اس طرح اچانک گھر میں آکر اپنے اہل و عیال کو تنگ نہیں کرنا چاہئے۔۴۸۳؎
اس میں آپ کے مدِنظر یہ حکمت تھی کہ عورت اور مرد کے تعلقات جذباتی ہوتے ہیں مرد کی غیر حاضری میںاگر عورت نے اپنے لباس اور جسم کی صفائی کا پورا خیال نہ رکھا ہو اور خاوند اچانک گھر میں آداخل ہو تو ڈر ہوتا ہے کہ وہ محبت کے جذبات جو مرد عورت کے درمیان ہوتے ہیں اُن کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ پس آپ نے ہدایت فرمادی کہ انسان جب بھی سفر سے واپس آئے دن کے وقت گھر میں داخل ہو اور بیوی بچوں کو پہلے خبر دے کر داخل ہو تاکہ وہ اس کے استقبال کے لئے پوری طرح تیاری کر لیں۔
وفات یافتوں کے متعلق آپ کا عمل
آپ ہمیشہ یہ بھی نصیحت فرماتے رہتے تھے کہ مرنے والے کو وصیت کر دینی
چاہئے تاکہ اس کے رشتہ داروں کو بعد میںتکلیف نہ پہنچے۔
مرنے والوں کے متعلق آپ کی یہ بھی ہدایت تھی کہ جب کوئی شخص شہر میں مرجائے تو لوگوں کو اس کی بُرائیاں کبھی بیان نہیں کرنی چاہئیں بلکہ اُس کی خیر کی باتیں کرنی چاہئیں کیونکہ اس کی بُرائی بیان کرنے میں کوئی فائدہ نہیں لیکن اس کی نیکی بیان کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے دعا کی تحریک پیدا ہو گی۔۴۸۴؎
آپ اِس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ جولوگ مر جائیں اُن کے قرض جلدسے جلد ادا کئے جاویں۔ چنانچہ جب کوئی شخص مر جاتا اور اُس پر قرض ہوتا تو آپ یا تو خود اُس کا قرض ادا کردیتے ۴۸۵؎ اورا گر آپ میں اس کی توفیق نہ ہوتی تو اس کے رشتہ داروں میں تحریک کرتے اور اس کا جنازہ اُس وقت تک نہیں پڑھتے تھے جب تک اُس کا قرض ادا نہ کر دیا جاتا۔
ہمسایوں سے حسنِ سلوک
ہمسایوں کے ساتھ آپ کا سلوک نہایت ہی اچھا ہوتا تھا آپ فرمایا کرتے تھے جبریل مجھے بار بار ہمسایوں کے
ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال آتا ہے کہ ہمسائے کو شاید وارث ہی قرار دیا جائے گا۔۴۸۶؎
حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اے ابوذر! جب کبھی شوربا پکائو تو پانی زیادہ ڈال لیا کرو اور اپنے ہمسایوں کا بھی خیال رکھا کرو۔ ۴۸۷؎ یہ مطلب نہیں کہ دوسری چیزیں دینے کی ضرورت نہیں، بلکہ عرب بدوی تھے اور اُن کا بہترین کھانا شوربا ہوتا تھا آپ نے ہمسایہ کی امداد کے خیال سے اسی کھانے کی نسبت فرمایا کہ اپنے مزے کا خیال نہ کرو اس کا خیال کرو کہ تمہارا ہمسایہ تمہارے کھانے میں شریک ہوسکے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا۔ خد اکی قسم! وہ ہر گز مؤمن نہیں، خد اکی قسم! وہ ہر گز مؤمن نہیں، خدا کی قسم !وہ ہر گز مؤمن نہیں، صحابہؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کون مؤمن نہیں؟ آپ نے فرمایا وہ جس کے ہمسایہ اُس کے ضرر اور اُس کی بد سلوکی سے محفوظ نہیں ۔۴۸۸؎
عورتوں کو بھی آپ نصیحت فرمایا کرتے کہ اپنی ہمسایوں کا خیال رکھا کرو۔ایک دفعہ آپ عورتوں میں وعظ میں فرما رہے تھے کہ آپ نے فرمایا اگر بکری کا ایک پایہ بھی کسی کو ملے تو اس میں وہ اپنے ہمسایہ کا حق رکھے۔ ۴۸۹؎
آپ ہمیشہ صحابہؓ کو نصیحت کرتے تھے کہ اگر تمہارا ہمسایہ تمہاری دیوار میں میخ وغیرہ گاڑتا ہے یا تمہاری دیوار سے کوئی ایسا کام لیتا ہے جس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں تو اُسے روکا نہ کرو۔۴۹۰؎
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے، جو کوئی اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو دُکھ نہ دے۔ جو کوئی اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کو دکھ نہ دے اور جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ یا تو نیک بات کہے یا خاموش رہے۔۴۹۱؎
ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں سے حسنِ سلوک
دنیا میں اکثر لوگ جب بالغ ہو جاتے ہیں اور بیوی بچوں کے فکر اُنہیں لگ جاتے ہیں تو ماں باپ سے حسن سلوک میں کمزوری دکھانے لگ جاتے ہیں۔ رسول کریمﷺ
اِس نقص کو دور کرنے کیلئے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کو بار بار واضح فرماتے رہتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے؟ آپ نے فرمایا۔ تیری ماں۔ اس نے کہا پھر؟ آپ نے فرمایا۔ پھر بھی تیری ماں۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اِس کے بعد؟ آپ نے فرمایا۔ اس کے بعد بھی تیری ماں۔ اُس نے چوتھی دفعہ کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اس کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا۔ پھر تیرا باپ ۔پھر جو اس کے بعد رشتہ دار ہوں پھر جو ان کے بعد رشتہ دار ہوں؟۴۹۲؎
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بزرگ تو آپ کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے، بیویوں کے بزرگ موجود تھے اور آپ ہمیشہ اُن کا ادب کرتے تھے۔ جب فتح مکہ کے موقع پر آپ ایک فاتح جرنیل کے طور پر مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ اپنے باپ کو آپ کی ملاقات کے لئے لائے۔ اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا۔ آپ نے ان کو کیوں تکلیف دی میں خود اِن کے پاس حاضر ہوتا۔ ۴۹۳؎
آپ ہمیشہ اپنے صحابہؓ سے فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اپنے بوڑھے ماں باپ کا زمانہ پائے اور پھر بھی جنت کا مستحق نہ ہو سکے، تو وہ بڑا ہی بدبخت ہے۔۴۹۴؎ مطلب یہ کہ بوڑھے ماں باپ کی خدمت انسان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اتنا وارث بنا دیتی ہے کہ جس کو اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کا موقع مل جائے وہ ضرور نیکی میں مستحکم اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مستحق ہو جاتا ہے۔
ایک شخص نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میرے رشتہ دار ایسے ہیںکہ میں اُن سے نیک سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بد سلوکی کرتے ہیں۔ میں ان سے احسان کرتا ہوں اور وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں۔ میں اُن کے ساتھ محبت سے پیش آتا ہوں اور وہ مجھ سے ترش روئی سے پیش آتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو پھر تو تمہاری خوش قسمتی ہے کیونکہ خدا کی مدد تمہیں ہمیشہ حاصل رہے گی۔۴۹۵؎
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ و خیرات کی نصیحت فرما رہے تھے تو آپ کے ایک صحابی ابو طلحہؓ انصاری آئے اور اُنہوں نے اپنا ایک باغ صدقہ کے طور پر وقف کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِس پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا بہت عمدہ صدقہ ہے بہت اچھا صدقہ ہے۔ بہت اچھا صدقہ ہے۔ پھر فرمایا۔ لو اب تو تم اسے وقف کر چکے۔ اب میرا دل چاہتا ہے کہ تم اس کواپنے رشتہ داروں میں بانٹ دو۔ ۴۹۶؎
ایک دفعہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اُس نے کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں آپ سے ہجرت کی بیعت کرتا ہوں اور آپ سے خد اکے رستہ میں جہاد کرنے کی بیعت کرتا ہوں۔ کیونکہ میں چاہتا ہوںمیرا خدا مجھ سے خوش ہو جائے۔ آپ نے فرمایا کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟ اُس نے کہا دونوں زندہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ خد اتم سے راضی ہوجائے۔ اس نے کہا ہاں یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے فرمایا پھر بہتر یہ ہے کہ واپس جائو اور اپنے والدین کی خدمت کرو اور خوب خدمت کرو۔۴۹۷؎
آپ ہمیشہ اس بات کی نصیحت کیا کرتے تھے کہ حسن سلوک میں مذہب کی کوئی شرط نہیں۔ غریب رشتہ دار خواہ کسی مذہب کے ہوں اُن سے حسن سلوک کرنا نیکی ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کی ایک بیوی مشرکہ تھیں۔ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی اسماءؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا میں اُس سے حسن سلوک کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرمایا ضرور وہ تیری ماں ہے تو اُس سے حسن سلوک کر۔ ۴۹۸؎
رشتہ دار تو الگ رہے آپ اپنے رشتہ داروں کے رشتہ داروں اور اُن کے دوستوں تک کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ جب کبھی آپ قربانی کرتے تو آپ حضرت خدیجہؓ کی سہیلیوں کی طرف ضرور گوشت بھجواتے اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ خدیجہؓ کی سہیلیوں کو نہ بھولنا اُن کی طرف گوشت ضرور بھجوانا۔۴۹۹؎
ایک دفعہ حضرت خدیجہ کی وفات کے کئی سال بعد آپ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خدیجہؓ کی بہن ہالہؓ آپ سے ملنے آئیں اور دروازہ پر کھڑے ہو کر کہا’’ کیا میں اندر آ سکتی ہوں‘‘؟ ہالہؓ کی آوازمیں اُس وقت اپنی مرحومہ بہن حضرت خدیجہؓ سے بے انتہاء مشابہت پیدا ہو گئی۔ اس آواز کے کان میں پڑتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر کپکپی آگئی پھر آپ سنبھل گئے اور فرمایا آہ میرے خدا! یہ تو خدیجہ کی بہن ہالہؓ ہیں۵۰۰؎ درحقیقت سچی محبت کا اصول ہی یہی ہے کہ جس سے پیار ہو اور جس کا ادب ہو اُس کے قریبیوں اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں سے بھی محبت اور پیار پیدا ہو جاتا ہے۔
انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ سفر پر تھا جریرؓ بن عبداللہؓ ایک دوسرے صحابی بھی اس سفر میں ساتھ تھے وہ سفر میں نوکروں کی طرح میرے کام کیا کرتے تھے۔ جریرؓ بڑے تھے اور اُن کا ادب حضرت انسؓ اپنے لئے ضروری سمجھتے تھے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ میں اُنہیں منع کرتا تھا کہ ایسا نہ کریں۔ میرے ایسا کہنے پر جریرؓ جواب میں کہتے تھے میں نے انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے انتہاء خدمت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے اُن کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ محبت دیکھ کر اپنے دل سے عہد کیا تھا کہ جب کبھی مجھے کسی انصاری کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملے گایا اس کے ساتھ رہنے کا موقع ملے گا تو میں اُس کی خدمت کروں گا اس لئے آپ مجھے نہ روکیں میں اپنی قسم پوری کر رہا ہوں۔ ۵۰۱؎ اس واقعہ سے بِالوضاحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اپنے محبوب کی خدمت کرنے والا بھی انسان کا محبوب ہو جاتا ہے پس جن لوگوں کے دلوں میں اپنے ماں باپ کا سچا ادب اور احترام ہوتا ہے وہ اپنے ماں باپ کے علاوہ اُن کے رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی ادب کرتے ہیں۔
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اقارب کی خدمت کا ذکر تھا تو آپ نے فرمایا بہترین نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے باپ کی دوستیوں کا بھی خیال رکھے۔ یہ بات آپ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے کہی تھی اور اس پر اُنہوں نے ایسا عمل کیا کہ ایک دفعہ وہ حج کے لئے جار ہے تھے کہ رستہ میں ایک شخص اُن کو نظر آیا۔ آپ نے اپنی سواری کا گدھا اُس کو دے دیا اور اپنے سر کا خوبصورت عمامہ بھی اُس کوعطا کر دیا۔ اُن کے ساتھیوں نے اُنہیں کہا کہ آپ نے یہ کیا کام کیا ہے؟ یہ تو اعرابی لوگ ہیں بہت تھوڑی سی چیز اِن کو دے دی جائے تو خوش ہوجاتے ہیں۔ عبداللہ بن عمرؓ نے کہا۔ اِس شخص کا باپ حضرت عمرؓ کا دوست تھا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے نیکی کا اعلیٰ درجے کا مظاہرہ یہ ہے کہ انسان اپنے باپ کے دوستوں کا بھی خیال رکھے۔۵۰۲؎
نیک صحبت
آپ ہمیشہ اپنے اِردگرد نیک لوگوں کے رہنے کو پسند کرتے تھے اور اگر کسی میں کمزوری ہوتی تھی تو اُسے عمدگی کے ساتھ اور پردہ پوشی کے ساتھ نصیحت
فرماتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے، نیک دوست اور نیک مجلسی اور بد دوست اور بد مجلسی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص مشک لئے پھر رہا ہو، مشک اُٹھانے والا اُس کو کھائے گا تب بھی فائدہ اُٹھائے گا اور رکھ چھوڑے گا تب بھی خوشبو حاصل کرے گا۔ اور جس کے ہم مجلس بد ہوں اُن کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بھٹی کی آگ میں پھونکیں مارتا ہے۔ وہ اتنی ہی اُمید رکھ سکتا ہے کہ کوئی چنگاری اُڑ کر اُس کے کپڑوں کو جلا دے یا کوئلوں کی بدبو سے اُس کا دماغ خراب ہوجائے۔۵۰۳؎
آپ اپنے صحابہؓ کو بار بار فرمایا کرتے تھے کہ انسان کے اخلاق ویسے ہی ہو جاتے ہیں جیسی مجلس میں وہ بیٹھتا ہے اس لئے نیک صحبت اختیار کیا کرو۔
لوگوں کے ایمان کی حفاظت کا خیال
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے کہ کسی شخص کو ٹھوکر نہ
لگے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے کہ آپ کی ایک بیوی صفیہؓ بنت حیی آپ سے ملنے آئیں۔ باتیں کرتے کرتے دیر ہو گئی تو آپ نے مناسب سمجھا کہ اُن کو گھر تک پہنچا آئیں۔ جب آپ اُن کو گھر چھوڑنے کے لئے جار ہے تھے تو راستہ میں دو شخص ملے، جن کے متعلق آپ کو شبہ تھا کہ شاید اُن کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی عورت کے ساتھ رات کے وقت کہاں جا رہے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو ٹھہرا لیا اور فرمایا۔ دیکھو! یہ میری بیوی صفیہؓ ہیں۔ اُنہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! ہمیں آپ پر بدظنی کا خیال پیدا ہی کس طرح ہو سکتا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ شیطان انسان کے خون میں پھرتا ہے میں ڈرا کہ تمہارے ایمان کو ضعف نہ پہنچ جائے۔۵۰۴؎
دوسروں کے عیوب چھپانا
آپ کی نظر میں اگر کسی کا عیب آجاتا تو آپ اُسے چھپاتے تھے اور اگر کوئی اپنا عیب ظاہر کرتا تھا تو اُس کو بھی
عیبظاہر کرنے سے منع فرماتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو بندہ کسی دوسرے بندے کا گناہ دنیا میں چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ قیامت کے دن چھپائے گا۔۵۰۵؎
آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ میری اُمت میں سے ہر شخص کا گناہ مٹ سکتاہے (یعنی توبہ سے) مگر جو اپنے گناہوں کا آپ اظہار کرتے پھریں اُن کا کوئی علاج نہیں۔ پھر فرماتے کہ آپ اظہار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص رات کے وقت گناہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس پر پردہ ڈال دیتا ہے مگر صبح کے وقت وہ اپنے دوستوں سے ملتا ہے تو کہتا ہے کہ اے فلانے! میں نے رات کو یہ کام کیا تھا، اے فلانے! میں نے رات کو یہ کام کیا تھا۔ رات کو خدا اُس کے گناہ پر پردہ ڈال رہا تھا صبح یہ اپنے گناہ کو آپ ننگا کرتا ہے۔۵۰۶؎
بعض لوگ نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کا اظہار تو بہ پید اکرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گناہ کا اظہار توبہ پیدا نہیں کرتا، گناہ کا اظہار بے حیائی پیدا کرتا ہے۔ گناہ بہرحال بُرا ہے مگر جو لوگ گناہ کرتے ہیں اور اُن کے دل میں شرم اور ندامت محسوس ہوتی ہے اُن کے لئے توبہ کا راستہ کھلا رہتا ہے اور تقویٰ اُن کے پیچھے پیچھے چلا آرہا ہوتا ہے۔ کوئی نہ کوئی نیک موقع ایسا آجاتا ہے کہ تقویٰ غالب آجاتا ہے اور گناہ بھاگ جاتا ہے۔ مگر جو لوگ اپنے گناہوں کو پھیلاتے اور ان پر فخر کرتے ہیں ان کے دل سے احساسِ گناہ بھی مٹ جاتا ہے اور جب احساسِ گناہ بھی مٹ جائے تو پھر توبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اُس نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میں نے زنا کیا ہے۔ زنا اسلام میں تعزیری جرائم میں سے ہے یعنی اسلامی شریعت جہاں جاری ہو وہاں ایسے شخص کو جس کا زنا اسلامی اصول کے مطابق ثابت ہو جائے جسمانی سزا دی جاتی ہے۔ جب اُس نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میں نے زنا کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور دوسری طرف باتوں میں مشغول ہو گئے۔ درحقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کو یہ بتا رہے تھے کہ جس گناہ پر خد انے پردہ ڈال دیا ہے اس کا علاج توبہ ہے اس کا علاج اعلان نہیں۔ مگر وہ اِس بات کو نہ سمجھا اور یہ خیال کیا کہ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات کو سنا نہیں اور جس طرف آپ کا منہ تھا اُدھر کھڑا ہو گیا اور پھر اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں نے زنا کیا ہے۔ پھر آپ نے دوسری طرف منہ کر لیا۔ پھر بھی وہ نہ سمجھا اور دوسری طرف آکر اُس نے پھر اپنی بات دُہرائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اُس کی طرف توجہ نہ کی اور دوسری طرف منہ پھیر لیا۔ پھر وہ شخص اُس طرف آکھڑا ہوا جس طرف آپ کا منہ تھا اور پھر اُس نے چوتھی دفعہ وہی بات کہی۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں توچاہتا تھا کہ یہ اپنے گناہ کی آپ تشہیر نہ کرے جب تک خدا اِس کی گرفت کا فیصلہ نہیں کرتا مگر اِس نے چار دفعہ اپنے نفس پر خود ہی گواہی دی ہے اس لئے اب میں مجبور ہوں ۵۰۷؎ پھر فرمایا اس شخص نے اپنے آپ پر الزام لگایا ہے۔ اُس عورت نے الزام نہیں لگایا جس کے متعلق یہ زنا کا دعویٰ کرتا ہے اُس عورت سے پوچھو۔ اگر وہ انکار کرے تو اُسے کچھ مت کہو اور صرف اِس کو اس کے اپنے اقرار کے مطابق سزا دو۔ لیکن اگر وہ عورت بھی اقرار کرے تو پھر اُسے بھی سزا دو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ جن امورکے متعلق قرآنی تعلیم نازل نہ ہو چکی ہوتی تھی اُن میں آپ تورات کی تعلیم پر عمل کر لیتے تھے۔ تورات کے حکم کے مطابق زانی کے لئے سنگساری کا حکم ہے۔ چنانچہ آپ نے بھی اُس شخص کے سنگسار کئے جانے کا حکم دیا۔ جب لوگ اُس پر پتھر پھینکنے لگے تو اُس نے بھاگنا چاہا، لیکن لوگوں نے دَوڑ کر اُس کا تعاقب کیا اور تورات کی تعلیم کے مطابق اُسے قتل کر دیا۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کا علم ہوا تو آپ نے اس کو ناپسند فرمایا۔ آپ نے فرمایا اُس کو سزا اُس کے اقرار کے مطابق دی گئی۔ جب وہ بھاگا تھا تو اُس نے اپنا اقرار واپس لے لیا تھا اس لئے تمہارا کوئی حق نہ تھا کہ اُس کے بعد اُس کو سنگسار کرتے اُس کو چھوڑ دینا چاہیے تھا۔۵۰۸؎
آپ ہمیشہ حکم دیتے تھے کہ شریعت کا نفاذ ظاہر پر ہونا چاہئے۔ ایک دفعہ ایک جنگ پر کچھ صحابہؓ گئے ہوئے تھے راستہ میں ایک مشرک اُنہیں ایسا ملا جو اِدھر اُدھر جنگل میں چھپا پھرتا تھا اور جب کبھی اُسے کوئی اکیلا مسلمان مل جاتا تو اُس پر حملہ کر کے وہ اُسے مار ڈالتا۔ اُسامہ بن زیدؓ نے اس کا تعاقب کیا اور ایک موقع پر جا کر اُسے پکڑ لیا اور اسے مارنے کے لئے تلوار اُٹھائی۔ جب اُس نے دیکھا کہ اب میں قابو آگیا ہوں تو اُس نے کہا لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ جس سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں مگر اُسامہؓ نے اُس کے اِس قول کی پرواہ نہ کی اور اُسے مار ڈالا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس لڑائی کی خبر دینے کے لئے ایک شخص مدینہ پہنچا تو اُس نے لڑائی کے سب احوال بیان کرتے کرتے یہ واقعہ بھی بیان کیا۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسامہؓ کو بُلوایا اور اُن سے پوچھا کہ کیا تم نے اُس آدمی کو مار دیا تھا؟ اُنہوں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا قیامت کے دن کیا کرو گے جب لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ تمہارے خلاف گواہی دے گا۔ یعنی خداتعالیٰ کی طرف سے یہ سوال کیا جائے گا کہ جب اُس شخص نے لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کہا تھا تو پھر تم نے کیوں مارا؟ گو وہ قاتل تھا مگر توبہ کر چکا تھا۔ حضرت اُسامہؓ نے کئی دفعہ جواب میں کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! وہ تو ڈر کے مارے ایمان ظاہر کر رہا تھا ۔اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اُس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے؟ اور پھر بار بار یہی کہتے چلے گئے کہ تم قیامت کے دن کیا جواب دو گے جب اُس کا لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُتمہارے سامنے پیش کیا جائے گا۔ اُسامہؓ کہتے ہیں اُس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش! میں آج ہی اسلام لایا ہوتا اور یہ حرکت مجھ سے سرزد نہ ہوئی ہوتی۔۵۰۹؎
گناہوں کی معافی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا احساس تھا کہ جب کچھ لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہؓ پر اتہام لگایا اور ان اتہام لگانے والوں میں ایک ایسا شخص بھی تھا جس کو حضرت ابوبکرؓ پال رہے تھے۔ جب یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا تو حضرت ابوبکرؓ نے غصہ میں اُس شخص کی پرورش بند کردی جس شخص نے آپ کی بیٹی پر الزام لگایا تھا تو دنیا کا کونسا شخص اِس کے سوا کوئی اور فیصلہ کر سکتاتھا بہت سے لوگ تو ایسے آدمی کو قتل کر دیتے ہیں مگر حضرت ابوبکرؓ نے صرف اتنا کیا کہ اُس شخص کی آئندہ پرورش بند کردی۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے حضرت ابوبکرؓ کو سمجھایا اور فرمایاکہ اس شخص سے غلطی ہوئی اور اس نے گناہ کیا مگر آپ کی شان اِس سے بالا ہے کہ ایک بندے کے گناہ کی وجہ سے اُس کو اس کے رزق سے محروم کردیں۔ چنانچہ حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِرشاد کے ماتحت پھر اُس کی پرورش کرنے لگے۔۵۱۰؎
صبر
آپ فرمایا کرتے تھے کہ مؤمن کے لئے تو دنیا میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور سوائے مؤمن کے یہ مقام اور کسی کو حاصل نہیں ہوتا۔ اگر اُسے کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو وہ
خدا کا شکر اداکرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انعام کا مستحق ہو جاتا ہے اور اگر اُسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اس طرح بھی خدا تعالیٰ کے انعام کا مستحق ہو جاتا ہے۔۵۱۱؎
جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا اور آپ بیماری کی تکلیف کی وجہ سے آپ کراہ رہے تھے تو آپ کی بیٹی فاطمہؓ نے ایک دفعہ بیتاب ہو کر کہا۔ آہ! مجھ سے اپنے باپ کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا صبر کرو آج کے بعد تمہارے باپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی۔۵۱۲؎ یعنی میری تکالیف اس دنیا کی زندگی تک محدود ہیں۔ آج میں اپنے ربّ کے پاس چلا جائوں گا جس کے بعد میرے لئے تکلیف کی کوئی گھڑی نہیں آئے گی۔
اِسی سلسلہ میں یہ واقعہ بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ آپ ہمیشہ وبائی بیماریوں میں ایک شہر سے دوسرے شہر کو بھاگ جانا نا پسند فرماتے تھے کیونکہ اِس طرح ایک علاقہ کی بیماری دوسرے علاقہ میں پھیل جاتی ہے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایسی بیماری کے علاقہ میں کوئی شخص صبر سے بیٹھا رہے اور دوسرے علاقوں میں وبا پھیلانے کا موجب نہ بنے تو اگر اُسے موت آئے گی تو وہ شہید ہو گا۔۵۱۳؎
تعاونِ باہمی
آپ ہمیشہ اپنے صحابہؓ کو اِس بات کی نصیحت فرماتے تھے کہ آپس میں تعاون کے ساتھ کام کیا کرو۔ چنانچہ اپنی جماعت کے لوگوں کے لئے آپ
نے یہ اُصول مقرر کر دیا تھا کہ اگر کسی شخص سے کوئی ایسا جرم سرزد ہو جائے جس کے بدلہ میں اُسے کوئی رقم ادا کرنی پڑے اور وہ اُس کی طاقت سے باہر ہو تو اُس کے محلہ والے یا شہر والے یا قوم والے مل کر اُس کا بدلہ ادا کریں۔
بعض لوگ جو دین کی خدمت کے لئے آپ کے پاس آیا جاتا کرتے تھے، آپ اُن کے رشتہ داروں کو نصیحت کرتے تھے کہ اُن کا بوجھ برداشت کریں اور اُن کی ضروریات کا خیال رکھیں۔ حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو بھائی مسلمان ہوئے ایک بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے لگا اور دوسرا اپنے کام کاج میں مشغول رہا۔ کام کرنے والے بھائی نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بھائی کی شکایت کی کہ یہ نکمّا بیٹھا رہتا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا ایسامت کہو۔ خد اتعالیٰ اِسی کے ذریعہ سے تمہیں رزق دیتا ہے اس لئے اس کی خدمت کرو اور اس کو دین کے لئے آزاد چھوڑ دو۔۵۱۴؎
ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر جارہے تھے کہ رستہ میں ایک منزل پر پہنچ کر ڈیرے لگائے گئے اور صحابہؓ میدان میں پھیل گئے تاکہ خیمے لگائیں اور دوسرے کام جو کیمپ لگانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں بجا لائیں۔ اُنہوں نے سب کام آپس میں تقسیم کر لئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کوئی کام نہ لگایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے میرے ذمہ کوئی کام نہیں لگایا میں لکڑیاں چنوں گا تاکہ اُن سے کھانا پکایا جاسکے۔ صحابہؓ نے کہا، یَارَسُوْلَ اللّٰہ! ہم جو کام کرنے والے موجود ہیں آپ کو کیا ضرورت ہے۔ آپ نے فرمایا نہیں! نہیں! میرا بھی فرض ہے کہ کام میں حصہ لوں۔ چنانچہ آپ نے جنگل سے لکڑیاں جمع کیں تاکہ صحابہؓ ان سے کھانا پکا سکیں۔۵۱۵؎
چشم پوشی
آپ ہمیشہ اِس بات کی نصیحت کرتے رہتے تھیکہ خواہ مخواہ دوسروں کے کاموں پر اعتراض نہ کیا کرو اور ایسے معاملات میں دخل نہ دیا کرو جو تمہارے ساتھ تعلق نہیں
رکھتے کیونکہ اس طرح فتنہ پیدا ہو تا ہے۔ آپ فر مایا کرتے تھے کہ انسان کے اِسلام کا بہترین نمونہ یہ ہے کہ جس معاملہ کا اُس سے براہ راست کوئی تعلق نہ ہو اُس میں خواہ مخواہ دخل اندازی نہ کیا کرے۔ آپ کا یہ خلق ایسا ہے کہ جس کی نگہداشت کر کے دنیا میں امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ ہزاروں ہزار خرابیاں دنیا میں اِس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ مصیبت زدہ کی مدد کرنے کیلئے تو تیار نہیں ہوتے مگر خواہ مخواہ لوگوں کے معاملات پر اعتراض کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں۔
سچ
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی مقام تو سچ کے متعلق اتنا بالا تھا کہ آپ کی قوم نے آپ کا نام ہی صدیق رکھ دیا تھا۔۵۱۶؎ آپ اپنی جماعت کو بھی سچ پر قائم رہنے کی ہمیشہ نصیحت
فرماتے تھے اورایسے اعلیٰ درجہ کے سچ کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش فرماتے تھے جو ہر قسم کے جھوٹ کے شائبوں سے پاک ہو۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ سچ ہی نیکی کی طرف توجہ دلاتا ہے اور نیکی ہی انسان کو جنت دلاتی ہے اور سچ کا اصل مقام یہ ہے کہ انسان سچ بولتا چلا جائے یہاں تک کہ خدا کے حضور بھی وہ سچا سمجھا جائے۔۵۱۷؎
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص قید ہو کر آیا جو بہت سے مسلمانوں کے قتل کا موجب ہو چکا تھا۔ حضرت عمرؓ سمجھتے تھے کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور وہ باربار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف دیکھتے تھے کہ اگر آپ اشارہ کریں تو اُسے قتل کر دیں۔ جب وہ شخص اُٹھ کر چلا گیا تو حضرت عمرؓ نے کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ شخص تو واجب القتل تھا۔ آپ نے فرمایا۔ واجب القتل تھا تو تم نے اُسے قتل کیوں نہ کیا۔ اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ اگر آنکھ سے اشارہ کر دیتے تو میں ایسا کر دیتا۔ آپ نے فرمایا نبی دھوکے باز نہیںہوتا۔ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ میں منہ سے تو اُس سے پیار کی باتیں کر رہا ہوتا اور آنکھ سے اُسے قتل کرنے کا اشارہ کرتا۔۵۱۸؎
ایک دفعہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مجھ میں تین عیب ہیں۔ جھوٹ، شراب خوری اور زنا۔ میں نے بہت کوشش کی ہے کہ یہ عیب کسی طرح مجھ سے دور ہو جائیں مگر میں اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ آپ کوئی علاج بتائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ایک گناہ چھوڑنے کا تم مجھ سے وعدہ کرو۔ دو میں چھڑا دوں گا۔ اُس نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں فرمائیے کون سا گناہ چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا جھوٹ چھوڑ دو۔ کچھ دنوں کے بعد وہ آیا اور اُس نے کہا آپ کی ہدایت پر میں نے عمل کیا اور میرے سارے ہی گناہ چھٹ گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا بتائو کیا گزری؟ اُس نے کہا میرے دل میں ایک دن شراب کا خیال آیا میں شراب پینے کے لیے اُٹھا تو مجھے خیال آیا کہ اگر میرے دوست مجھ سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے شراب پی ہے تو پہلے میں جھوٹ بول دیا کرتا تھا اور کہہ دیا کرتا تھا کہ نہیں پی۔ مگر اب میں نے سچ بولنے کا اقرار کیا ہے اگر میں نے کہا کہ شراب پی ہے تو میرے دوست مجھ سے چھٹ جائیں گے اور اگر کہوں گا کہ نہیں پی تو جھوٹ کا ارتکاب کروں گا جس سے بچنے کا میں نے اقرار کیا ہے۔ چنانچہ میں نے دل میں کہا کہ اِس وقت نہیں پیتے پھر پیئں گے۔ اِسی طرح میرے دل میں زنا کا خیال پید اہو ا اور اس کے متعلق بھی میری اپنے دل سے یہی باتیں ہوئیں کہ اگر میرے دوست مجھ سے پوچھیں گے تو میں کیا کہوں گا۔ا گر یہ کہوں گا کہ میں نے زنا کیا ہے تو میرے دوست مجھ سے چھٹ جائیں گے اور اگر یہ کہوں گا کہ نہیں کیا تو جھوٹ بولوں گا۔ اور جھوٹ سے بچنے کا میں اقرار کرچکا ہوں۔ اسی طرح میرے اور میرے دل کے درمیان کئی دن تک یہ بحث و مباحثہ جاری رہا۔ آخر کچھ مدت تک اِن دونوں عیبوں سے بچنے کی وجہ سے میرے دل سے ان کی رغبت بھی مٹ گئی اور سچ کے قبول کرنے کی وجہ سے باقی عیبوں سے بھی محفوظ ہوگیا۔
تجسس کی ممانعت اور نیک ظنی کا حکم
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تجسس سے منع فرماتے تھے اور ایک دوسرے پر نیک ظنی کا
حکم دیتے رہتے تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں آپ فرمایا کرتے تھے بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سب سے بڑا جھوٹ ہے اور تجسس نہ کرو اور لوگوں کے حقارت سے اَور نام نہ رکھا کرو اور حسد نہ کیا کرو اور آپس میں بغض نہ رکھا کرو اور سب کے سب اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے بند ے سمجھو اور اپنے آپ کو بھائی بھائی سمجھو جس طرح خداتعالیٰ کا حکم ہے۔ ۵۱۹؎
پھر فرماتے یاد رکھو کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتاہے نہ مصیبت کے وقت اُس کا ساتھ چھوڑتا ہے نہ مال یا علم یاکسی اور چیز کی کمی کی وجہ سے اُس کو حقیر سمجھتا ہے۔ تقویٰ انسان کے دل سے پیدا ہوتا ہے اور انسان کو گندہ کردینے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے۔ اور ہر مسلمان پر اس کے دوسرے مسلمان بھائی کے خون اور اس کی عزت اور اس کے مال پر حملہ کرنا حرام ہے اللہ تعالیٰ جسموں کو نہیں دیکھا کرتا نہ صورتوں کو دیکھتا ہے نہ تمہارے اعمال کی ظاہری حالت کو دیکھتا ہے بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے ۔۵۲۰؎
سَودا سلف کے متعلق دھوکا بازی اور فریب سے نفرت
آپ اِس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ مسلمانوں میں دھوکا اور فریب کی کوئی بات نہ پائی جائے۔ ایک دفعہ آپ بازار میں سے گذر
رہے تھے کہ آپ نے غلہ کا ایک ڈھیر دیکھا جو نیلام ہورہا تھا۔ آپ نے اپنا ہاتھ غلّہ کے ڈھیر میں ڈالا تو معلوم ہوا کہ باہر کی طرف سے تو غلّہ سُوکھا ہوا ہے مگر اندر کی طرف سے گیلا ہے ۔ آپ نے اپنا ہاتھ نکال کر غلّہ والے سے کہا کہ یہ کیابات ہے۔ اس نے کہا۔ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! بارش کا چھینٹا آگیا تھا جس سے غلّہ گیلا ہوگیا۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے مگر تم نے گیلا حصہ باہر کیوں نہ رکھا تاکہ لوگوں کو معلوم ہوجاتا۔ پھر فرمایا جو شخص دوسرے لوگوں کو دھوکا دیتا ہے وہ جماعت کا مفید وجود نہیں ہوسکتا۔۵۲۱؎
آپ بڑی تاکید سے فرماتے تھے کہ تجارت میں بالکل دھوکا نہیں ہونا چاہئے اور بغیر دیکھے کے کوئی چیز نہیں لینی چاہئے اور سَودے پر سَودا نہیں کرناچاہئے اور سامان کو اس لئے روک نہیں رکھنا چاہئے کہ جب اِس کی قیمت بڑھ جائے گی تو اِس کو فروخت کریں گے۔ بلکہ حاجتمندوں کو ساتھ کے ساتھ چیزیں دیتے رہنا چاہئے۔
مایوسی
آپ مایوسی کی روح کے سخت خلاف تھے ۔فرماتے تھے جوشخص قوم میں مایوسی کی باتیں کرتا ہے وہ قوم کی ہلاکت کا ذمہ دار ہوتا ہے۵۲۲؎ کیونکہ بعض ایسی باتوں کے پھیلنے
سے قوم کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے اور پستی کی طرف مائل ہونا شروع ہوجاتی ہے جس طرح فخر اور کبر سے آپ روکتے تھے کہ یہ چیزیں بھی درحقیقت قوم کو پستی کی طرف لے جاتی ہیں آپ کا حکم تھا کہ ان دونوں کے درمیان راستہ ہونا چاہئے۔ نہ انسان فخر اور کبر کا راستہ اختیار کرے اور نہ مایوسی اور ناامیدی کا راستہ اختیار کرے بلکہ کام کرے مگر نتیجہ کی امید خدا تعالیٰ پر ہی رکھے۔ اپنی جماعت کی ترقی کی خواہش اس کے دل میں ہو مگر فخر اور کبر پیدا نہ ہو۔
جانوروں سے حسنِ سلوک
آپ جانوروں تک پر ظلم کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے بنی اسرائیل میں ایک عورت کو اِس
لئے عذاب ملا کہ اس نے اپنی بلی کو بھوکا مار دیا تھا۔
اِسی طرح فرماتے تھے پہلی اُمتوں میں سے ایک شخص اِس لئے بخشا گیا کہ اُس نے ایک پیاسا کتا دیکھا پاس ایک گہرا گڑھا تھا جس میں سے کتا پانی نہیں پی سکتا تھا۔ اُس آدمی نے اپنا بوٹ پائوں سے کھولا اور گڑھے میں اُس بوٹ کو لٹکا کر اس کے ذریعہ پانی نکالا اور کتے کو پلا دیا۔ اِس نیکی کی وجہ سے خد اتعالیٰ نے اُس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دیئے۔۵۲۳؎
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آپ کے ساتھ سفر پر جار ہے تھے کہ ہم نے ایک فاختہ کے دو بچے دیکھے بچے ابھی چھوٹے تھے ہم نے وہ بچے پکڑ لئے جب فاختہ واپس آئی تو وہ چاروں طرف گھبرا کر اُڑنے لگی اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُس مجلس میں تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا۔ اِس جانور کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تکلیف دی؟ فوراً اس کے بچوں کو چھوڑ دو تاکہ اِس کی دلجوئی ہو جائے۔ ۵۲۴؎
اِسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے چیونٹیوں کا ایک غار دیکھا اور ہم نے پھونس ڈال کر اُسے جلا دیا۔ اِس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ایسا کیوں کیا؟ ایسا کرنا مناسب نہیں ۔۵۲۵؎
ایک دفعہ آپ نے دیکھا کہ ایک گدھے کے منہ پر نشان لگایا جارہا ہے۔ آپ نے فرمایا ایسا نشان کیوں لگا رہے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ رومی لوگوں میں اعلیٰ گدھوں کی پہچان کے لئے نشان لگایا جاتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ایسا مت کیا کرو۔ منہ جسم کا نازک حصہ ہے۔ اگر نشان لگانا ہی پڑے تو جانور کی پیٹھ پر نشان لگا دیا کرو۔چنانچہ اُسی وقت سے مسلمان جانور کی پیٹھ پر نشان لگاتے ہیں اور اب اُن کی دیکھا دیکھی یورپ والے بھی پیٹھ پر ہی نشان لگاتے ہیں۔
مذہبی رواداری
آپ مذہبی رواداری پر نہایت زور دیتے تھے اور خود بھی اعلیٰ درجہ کا نمونہ اِس بارہ میں دکھاتے تھے۔ یمن کاایک عیسائی قبیلہ آپ سے مذہبی
تبادلہ خیال کرنے کے لئے آیا۔ جس میں اُن کے بڑے بڑے پادری بھی تھے۔ مسجد میں بیٹھ کر گفتگو شروع ہوئی اور گفتگو لمبی ہو گئی۔ اِس پر اِس قافلہ کے پادری نے کہا اب ہماری نماز کا وقت ہے ہم باہر جا کر اپنی نماز ادا کر آئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا باہر جانے کی کیا ضرورت ہے ہماری مسجد میں ہی اپنی نماز ادا کر لیں۔ آخر ہماری مسجد خدا کے ذکر ہی کے لئے بنائی گئی ہے۔۵۲۶؎
بہادری
آپ کی بہادری کے کئی واقعات آپ کی سوانح میں بیان ہو چکے ہیں۔ ایک واقعہ اِس جگہ بھی لکھ دیتا ہوں۔ جب مدینہ میں یہ خبریں مشہور ہونی شروع ہوئیں کہ روما کی
حکومت ایک بڑا لشکر مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے بجھوا رہی ہے تو مسلمان خاص طور پر راتوں کو احتیاط کرتے اور جاگتے رہتے۔ ایک دفعہ باہر جنگل کی طرف سے شور کی آواز آئی۔ صحابہ جلدی جلدی اپنے گھروں سے نکلے کچھ اِدھر اُدھر دوڑنے لگے اور کچھ مسجد میں آکر جمع ہو گئے اور اِس انتظار میں بیٹھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلیں تو آپ کے حکم پر عمل کریں اور اگر خطرہ ہو تو اُس کو دور کریں۔ جب وہ لوگ اِس انتظا رمیں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلیں تو اُنہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے گھوڑے پر سوار باہر سے تشریف لا رہے ہیں معلوم ہوا کہ شور کی پہلی آواز پر ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل میں اِس بات کے دیکھنے کے لئے چلے گئے تھے کہ کوئی خطرہ کی بات تو نہیں۔ اور آپ نے اس بات کا انتظار نہ کیا کہ صحابہؓ جمع ہو جائیں تو ان کے ساتھ مل کر باہر جائیں بلکہ اکیلے ہی باہر گئے اور حقیقت حال سے آگاہ ہو کر واپس آئے اور صحابہؓ کو تسلی دی کہ خطرہ کی کوئی بات نہیں تم آرام سے اپنے گھروں میں جا کر سو رہو۔ ۵۲۷؎
کم عقلوں کے ساتھ محبت کا سلوک
کم عقلوں کے ساتھ آپ نہایت ہی محبت اور شفقت کا سلوک کرتے تھے۔ ایک دفعہ
ایک اعرابی نیا نیا اِسلام لایا اور آپ کی مسجد میں بیٹھے بیٹھے اُسے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی وہ اُٹھ کر مسجد کے ایک کونہ میں ہی پیشاب کرنے لگا۔ صحابہؓ اُس کو منع کرنے لگے تو آپ نے اُنہیں روک دیا اور فرمایا کہ اِس سے اُس کو ضرر پہنچ جائے گا تم ایسا نہ کرو جب یہ پیشاب کر چکے تو یہاں پانی ڈال کر اِس جگہ کو دھو دینا۔۵۲۸؎
وفائے عہد
وفائے عہد کا آپ کو اِس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ ایک حکومت کا ایک ایلچی آپ کے پاس کوئی پیغام لے کر آیا اور آپ کی صحبت میں کچھ دن رہ کر اِسلام کی
سچائی کا قائل ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں تو دل سے مسلمان ہو چکا ہوں میں اپنے اِسلام کا اظہار کرنا چاہتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مناسب نہیں تم اپنی حکومت کی طرف سے ایک امتیازی عہدہ پر مقرر ہو کر آئے ہو اِسی حالت میں واپس جائو اور وہاں جا کر اگر تمہارے دل میں اِسلام کی محبت پھر بھی قائم رہے تو دوبارہ آکر اِسلام قبول کرو۔۵۲۹؎
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مضمون کوئی ایسا مضمون نہیں جس کو صرف چند صفحوں میں ختم کیا جا سکے یا جس کا صرف چند پہلوئوں سے اندازہ لگایا جائے مگر چونکہ نہ یہ سیرت کی ایک مستقل کتاب ہے اور نہ اِس دیباچہ میں لمبی بات کی گنجائش ہو سکتی ہے اِس لئے میں اتنے پر ہی اکتفاء کرتا ہوں۔

جمع القرآن
میں تمہید کے شروع میں بیان کر چکا ہوں کہ قرآن کریم سے پہلے کی کوئی الہامی کتاب اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں بلکہ پہلی تما م کتب میں اتنا تصرف ہو چکاہے کہ یقین کے ساتھ اُن پر عمل کرنا ایک سچے طلب گار کے لئے ناممکن ہو گیا ہے۔ اِس کے برخلاف قرآن کریم جوں کا توں لفظاً لفظاً اُسی طرح محفوظ ہے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔
قرآن کریم رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت کے ابتداء سے نازل ہونا شروع ہوا۔ پہلا الہام قرآن کریم کی چندآیات کا غارِ حرا میں ہوا اِس کے بعد رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک قرآن کریم نازل ہوتا چلا گیا۔ گویا کل عرصہ نزول 23سال ہے۔ تاریخوں سے ثابت ہے کہ شروع میں وحی تھوڑی تھوڑی کر کے نازل ہوتی تھی پھر نزول کی رفتار بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں پے درپے اور کثرت سے وحی نازل ہوئی۔ اِس کے علاوہ اَور حکمتوں کے یہ حکمت بھی تھی کہ اِسلام جو مسائل دنیا میں پیش کر رہا تھا وہ بالکل نئے تھے۔ ابتداء میں اُن کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل تھا اِس لئے قرآن کریم ابتداء میں تھوڑا تھوڑا نازل ہوا۔جب لوگوں کے ذہن میں اِسلام کے اُصول رچ گئے اور قرآنی مضامین کا سمجھنا اُن کے لئے آسان ہو گیا تو پھر قرآن کریم کا نزول بھی تیز ہو گیا اور وحی جلدی جلدی نازل ہونے لگی اور یہ اِس لئے کیا گیا تا سب کے سب مسلمان قرآن کریم کے مضامین کے پوری طرح حافظ ہو جائیں۔ دوسری وجہ اِس کی یہ تھی کہ جب رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ کیا اُس وقت آپ کے ماننے والے بہت تھوڑے تھے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ قرآن کریم محفوظ رہے اور اِس کے متعلق کسی قسم کا شبہ پید انہ ہو اِس لئے شروع میں قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا۔ ایسی آہستگی کے ساتھ کہ بعض دفعہ چند آیات نازل ہونے کے بعد کئی مہینے گزر جاتے تھے اور پھر جا کر چند اور نئی آیات نازل ہوتی تھیں۔ اِسی طرح اِن تھوڑے سے آدمیوں کو پورے طور پر قرآن کریم یاد کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔ چند سال میں مسلمانوں کی جماعت بڑھنی شروع ہوئی اور قرآن کریم کی حفاظت زیادہ آسان ہوگئی۔ تب قرآن کریم کا نزول بھی پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے ہونے لگا۔ آخری زمانہ اِسلام میں تو مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی اُوپر نکل گئی۔ اُس وقت قرآن کریم کا یاد کرنا بہت زیادہ آسان ہو گیا۔ تب قرآن کریم اور بھی زیادہ جلدی سے اُترنے لگا۔ اِس الٰہی تدبیر سے قرآن کریم کی حفاظت اور یقینی ہو گئی۔
یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے بد ترین دشمنوں میں سے بھی کوئی ایسا نہیں جو حضرت عثمانؓ کے زمانہ سے لے کر آج تک ساڑھے تیرہ سَو سال کے متعلق شبہ رکھتا ہو کہ اِس عرصہ میں قرآن کریم میں کوئی تبدیلی ہو گئی ہوگی۔کیونکہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں قرآن کریم کی سات کاپیاں کر کے سات ملکوں میں بھیج دی گئی تھیں اور ہر ملک کے لوگ اُن کاپیوں سے نقل کر کے اپنے لئے قرآن کریم کے نسخے تیار کرتے تھے اور لاکھوں آد می قرآن کریم کو حفظ کرتے تھے۔ پس جو لوگ قرآن کریم کے محفوظ ہونے کے متعلق کسی قسم کا شبہ پیدا کرتے ہیں وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر حضرت عثمانؓ کے زمانہ تک کے متعلق اعتراض کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو حصہ قرآن کا نازل ہوتا تھا آپ اُس کو حفظ کر لیتے تھے اور ہمیشہ قرآن کریم کو دُہراتے رہتے تھے اِس طرح آپ ساری وحی کے کامل حافظ تھے مگر اِس کے علاوہ حفاظت قرآن کے مندرجہ ذیل ذرائع اختیار کئے گئے تھے۔
حفاظت قرآن کے ذرائع
(۱) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو وحی نازل ہوتی تھی وہ اُسی وقت لکھوا دی جاتی تھی۔ چنانچہ رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم جن کاتبوں کو قرآن کریم لکھواتے تھے اُن میں سے مندرجہ ذیل پندرہ نام تاریخ سے ثابت ہیں:۔
زید بن ثابتؓ۔ ابی بن کعبؓ۔ عبداللہ بن سعد بن ابی سرحؓ۔ زبیر بن العوامؓ۔ خالد بن سعید بن العاصؓ۔ ابا ن بن سعید العاصؓ۔ حنظلہ بن الربیع الاسدیؓ۔ معیقیب بن ابی فاطمہؓ۔ عبداللہ بن ارقم الزہری۔ شرجیل بن حسنہ۔ عبداللہ بن رواحہؓ۔ حضرت ابوبکرؓ۔ حضرت عمرؓ۔ حضرت عثمانؓ۔ حضرت علیؓ۔ ۵۳۰؎ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف نازل ہوتا تو آپ اِن لوگوں میں سے کسی کو بلا کر وحی لکھوا دیتے تھے۔
(۲) کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ پانچ وقت نماز ادا نہ کرے۔ پانچ وقت کی نمازوں میں یہ فرض ہے کہ قرآن شریف کا کچھ حصہ پڑھا جائے اِس لئے ہر مسلمان کو قرآن شریف کے کچھ ٹکڑے یادکرنے پڑتے ہیں اگر صحابہؓ میں سے سَو سَو کو مل کر بھی ایک قرآن یاد ہوتا تب بھی سارے قرآن کے کئی ہزار حفاظ اُن میں موجود تھے۔
(۳) اِسلام کا سارا قانون قرآن میں ہے اِس کی فقہ بھی قرآن میںہے، اِس کا علم الاخلاق بھی قرآن میں ہے، اِس کا علم العقائد بھی قرآن میں ہے اور اِس کا فلسفۂ تعلیم بھی قرآن میں ہے۔ قوم کی ترقی اور قوم بنانے کے لئے اِن سب چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِن سارے اُمور کے لئے آدمی تیار کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کے زمانہ میں ہی قاضی بھی مقرر تھے، علم الاحکام کے بیان کرنے والے لوگ بھی موجود تھے، مسائل اعتقادیہ کے بیان کرنے والے لوگ بھی موجود تھے، مفتیانِ شریعت بھی موجود تھے اور یہ لوگ اپنا کام نہیں کر سکتے تھے جب تک اِن کو قرآن حفظ نہ ہو اِ س لئے ایسے سب لوگوں کو قرآن کریم حفظ کرنا پڑتا تھا۔
(۴) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفظ قرآن کی فضیلت پر بڑا زور دیتے تھے، یہاں تک کہ آپ فرماتے تھے جو شخص قرآن کریم کو حفظ کرلے گا قیامت کے دن قرآن اُس کو دوزخ میں جانے سے بچائے گا۵۳۱؎ اور اِس میں تو کوئی بھی شبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ نے وہ صحابی دیئے تھے جو ہر ثواب کے لئے جان توڑ کوشش کرتے تھے اِس لئے جب آپ نے یہ اعلان فرمایا تو کثرت کے ساتھ صحابہؓ نے قرآن شریف کو یاد کرنا شروع کیا حتیٰ کہ ایسے ایسے لوگ بھی قرآن شریف کو حفظ کرنے کی کوشش کرتے تھے جن کی زبانیں صاف نہیں تھیں اور جن کے علم بہت کمزور تھے۔ چنانچہ امام احمدؓ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے کہا اِنِّیْ اَقْرَأُ الْقُرْاٰنَ فَـلَا اَجِدُ قَلْبِیْ یَعْقِلُ عَلَیْہِ۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں قرآن تو پڑھتا ہوں مگر میرا دل اِس کو سمجھتا نہیں۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف علمی طبقہ ہی قرآن شریف کو یاد کرنے کی کوششیں نہیں کرتا تھا بلکہ عوام الناس بھی قرآن کو حفظ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔
اِسی طرح مسند احمد بن حنبل میں ایک اور حدیث اِنہی راویوں کی روایت سے درج ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بیٹے کو لے کر آیا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میرا بیٹا دن کو قرآن پڑھتا رہتا ہے اور رات کو سو جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تمہارے لئے ناراضگی کی کونسی وجہ ہے تیرا بیٹا دن کو خد اکا ذکر کرتا ہے اور رات کو بجائے گناہوں میں مشغول ہونے کے آرام سے سو رہتا ہے۔ اِن احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ حفظ قرآن کا دستور اتنا عام ہو چکا تھا کہ عامی اور دور دور کے علاقوں کے لوگ بھی قرآن شریف کو حفظ کرتے تھے۔
(۵) چونکہ لوگوں میں حفظ قرآن کریم کا اشتیاق بہت تیز ہو گیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھانے والے اُستادوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی تھی جو سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ کر کے آگے لوگوں کو پڑھاتے تھے۔ یہ چار چوٹی کے اُستاد تھے جن کا کام یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف پڑھیں اور لوگوں کو قرآن پڑھائیں۔ پھر اُن کے ماتحت اور بہت سے صحابہؓ ایسے تھے جو لوگوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے اِن چار بڑے اُستادوں کے نام یہ ہیں:۔
(۱) عبداللہ بن مسعودؓ۔ (۲) سالم مولیٰ ابی حذیفہؓ۔ (۳) معاذ بن جبلؓ۔ (۴) ابی بن کعبؓ۔ اِن میں سے پہلے دو مہاجر ہیں اور دوسرے دو انصاری۔ کاموں کے لحاظ سے عبداللہ بن مسعودؓ ایک مزدور تھے۔ سالم ایک آزاد شدہ غلام تھے۔ معاذ بن جبلؓ اور ابی بن کعبؓ مدینہ کے رئوساء میں سے تھے۔ گویا ہر گروہ میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام گروہوں کو مدنظر رکھتے ہوئے قاری مقرر کر دئیے تھے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خُذُوا الْقُراٰنَ مِنْ اَرْبَعَۃ (مِنْ) عَبْدِاللّٰہِ بِنْ مَسْعُوْد وَ سَالِمؓ وَ مُعَاذِ بِنْ جَبَلؓ وَاَبَیِّ بِنْ کَعْبؓ۔ ۵۳۲؎ جن لوگوں نے قرآن پڑھنا ہو وہ اِن چار سے قرآن پڑھیں۔ عبداللہ بن مسعودؓ، سالمؓ ، معاذ بن جبلؓ اور ابی ابن کعبؓ۔ یہ چار تو وہ تھے جنہوں نے سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا یا آپ کو سنا کر اس کی تصحیح کرالی لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے صحابہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست بھی کچھ نہ کچھ قرآن سیکھتے رہتے تھے چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک لفظ کو اَور طرح پڑھا تو حضرت عمرؓ نے اُن کو روکا اور کہا کہ اِس طرح نہیں اِس طرح پڑھنا چاہئے۔ اِس پر عبداللہ بن مسعودؓ نے کہا نہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی طرح سکھایا ہے۔ حضرت عمرؓ اُن کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ قرآن غلط پڑھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبداللہ بن مسعودؓ پڑھ کر سنائو۔ جب اُنہوں نے پڑھ کر سنایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے تو آپ نے یہ لفظ اَور رنگ میں سکھایا ہے۔ آپ نے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی چار صحابہؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن نہیں پڑھتے تھے بلکہ دوسرے لوگ بھی پڑھتے تھے چنانچہ حضرت عمرؓ کا یہ سوال کہ مجھے آپ نے اِس طرح پڑھایا ہے بتا تا ہے کہ حضرت عمرؓ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے تھے۔
قرآن مجید کی مختلف قراء توں سے کیا مراد ہے
یہ جواو پر ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ پر اعتراض کیا کہ اُنہوں نے اَور طرح قرآن پڑھا ہے اِس سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ قرآن کئی طرح پڑھاجا سکتا ہے۔ اِس حقیقت کو صرف عربی دان سمجھ سکتا ہے کیونکہ یہ بات صرف عربی میں ہی پائی جاتی ہے کسی اور زبان میں نہیں پائی جاتی۔ عربی زبان میں ماضی اور مضارع کے جو صیغے ہیں اُن کے زیر اور زبر کئی طرح جائز ہوتے ہیں لیکن معنی نہیں بدلتے۔ کسی حرف کے نیچے زیر لگا لیں تب بھی جائز ہوتا ہے اور اگر اُس پر زبر پڑھیں تب بھی جائز ہوتا ہے اور معنی ایک ہی رہتے ہیں۔ کبھی تو یہ عام قاعدہ کے طور پر فرق ہوتا ہے یعنی علمی زبان میں اس لفظ کو کئی طرح بولنا جائز ہوتا ہے اور بعض موقعوں میں یہ فرق قبائل کے لحاظ سے ہوتا ہے یعنی بعض قبائل یا بعض خاندان ایک لفظ زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں۔بعض لوگوں کے منہ پر زبر چڑھی ہوئی ہوتی ہے اور بعض لوگوں کے منہ پر زیر چڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی اجازت سے زیر یا زبر سے پڑھنے کی اجازت دے دیتے تھے لیکن اِس سے معنوں پر کوئی اثر بھی نہیں پڑتا تھا نہ لفظ میں کوئی تبدیلی ہوتی تھی۔ یہ فرق اور زبانوں میں نہیں پایا جاتا اِس لئے دوسری زبانوں کے آدمی جب یہ بات سنتے ہیں تو وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید کسی شخص کو کوئی آیت پڑھائی ہوتی تھی اور کسی کو کوئی آیت پڑھائی ہوئی ہوتی تھی حالانکہ آیت کا کوئی سوال ہی نہیں نہ لفظ کا کوئی سوال ہے سوال صرف لفظوں کے بعض حروف کی حرکت کا ہے اِن حرکات کے تغیر سے معنوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ صرف اتنا فرق پڑتا ہے کہ جس قوم کو جس حرکت سے پڑھنے میں آسانی ہو سکتی ہے وہ اُس حرکت سے پڑھ لیتی ہے۔
مہاجرین و انصار سے حفاظ قرآن
اِن چار کے سوا مسلمانوں میں اور بھی بعض بڑے بڑے قراء تھے مثلاً زید بن ثابتؓ جن
کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری زمانہ میں اپنی وحی لکھوایا کرتے تھے۔ابو زید تھے جن کا نام قیس ابن السکن تھا۔ ۵۳۳؎ یہ انصاری تھے اور بنونجار قبیلہ میں سے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننہال میں سے تھے۔ اِسی طرح ابو درداء انصاری بھی قراء میں سے تھے۔ ۵۳۴؎ پھر حضرت ابوبکرؓ بھی قاری تھے۔ چنانچہ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شروع زمانہ سے ہی قرآن شریف حفظ کرتے چلے آرہے تھے۔ حضرت علیؓ کی نسبت بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ قرآن شریف کے حافظ تھے بلکہ اُنہوں نے قرآن شریف کے نزول کی ترتیب کے لحاظ سے قرآن لکھنے کا کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معاً بعد شروع کر دیا تھا۔ نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ (حضرت عمرؓ کے لڑکے) بھی قرآن شریف کے حافظ تھے اور وہ قرآن کریم کے اتنے مشتاق تھے کہ ساری رات میں ایک دفعہ قرآن کریم ختم کر لیتے تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع پہنچی تو آپ نے فرمایا اِقْرَأْ ہُ فِیْ شَھْرٍ مہینہ میں ایک دفعہ ختم کر لیا کرو۔ رات میں ایک دفعہ ختم نہ کیا کرو اِس سے طبیعت پر بوجھ پڑ جاتا ہے۔
ابوعبیدہؓ کہتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہؓ میں سے مندرجہ ذیل کا حفظ ثابت ہے۔ ابوبکرؓ۔ عمرؓ۔ عثمانؓ، علیؓ۔ طلحہؓ۔ سعدؓ۔ ابن مسعودؓ۔ حذیفہؓ۔ سالمؓ۔ ابوہریرہؓ۔ عبداللہ بن سائبؓ۔ عبداللہ بن عمرؓ۔ عبداللہ بن عباسؓ۔ اور عورتوں میں سے عائشہؓ۔ حضرت حفصہؓ اور حضرت اُم سلمہؓ۔ اِن میںسے اکثر نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قرآن شریف حفظ کر لیا تھا اور بعض نے آپ کی وفات کے بعد حفظ کیا۔ اور ابن ابی دائود کتابُ الشریعت میں لکھتے ہیں کہ مہاجرین میں سے تمیم بن اوس الداریؓ اور عقبتہ بن عامرؓ کا حافظ ہونا بھی ثابت ہے۔ اسی طرح بعض مصنفوں نے ثابت کیا ہے کہ مہاجرین میں سے عمرو بن العاصؓ اور موسیٰ اشعری ؓ بھی حافظِ قرآن تھے۔
انصار میں سے جو مشہور حفاظ تھے اُن کے نام یہ ہیں:۔
عبادہ بن صامتؓ۔ معاذؓ۔ مجمع بن حارثہؓ۔ فضالہ بن عبیدؓ۔ مسلمہ بن مخلدؓ۔ ابوالدرداءؓ۔ ابوزیدؓ۔ زید بن ثابتؓ۔ ابی بن کعبؓ۔ سعد بن عبادہؓ۔ اُمّ ورقہؓ۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ صحابہؓ میں سے بہت سے قرآن کریم کے حافظ تھے۔ جیسا کہ سوانح میں واقعہ بئر معونہ کے ماتحت ذکر آچکا ہے کہ سنہ۴ھ ہجری میں بعض قبائل کی درخواست پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷۰ آدمی لوگوں کو دین سکھانے کے لئے بھیجے تھے جو سب کے سب قرآن کریم کے حافظ تھے۔
جیسا کہ بتایا جا چکا ہے یہ لوگ اپنی اپنی مجالس میں رات دن قرآن سناتے تھے۔ چنانچہ حافظ ابویعلی لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ابوموسٰیؓ اپنے گھر میں بیٹھے ہیں اور بہت سے لوگ اِن کے اِردگرد جمع ہیں اور وہ اُن کو قرآن یاد کر ا رہے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم مجھے وہاں کسی ایسی جگہ پر بٹھا سکتے ہو جہاں سے وہ لوگ مجھے نہ دیکھ سکیں۔ اُس نے کہا ہاں۔ اس پر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے گیا اور گھر کے کسی ایسے کونہ میں جا کر بٹھا دیا جہاں لوگوں کو آپ نظر نہیں آتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوموسیٰ کی قراء ت کو سنا تو وہ بالکل درست تھی اور بہت اچھی طرح وہ قرآن پڑھ رہے تھے اس پر آپ نے فرمایا اِنَّہُ لَیَقْرَأُ عَلٰی مِزْمَارِمِنْ مَزَامِیْرِ دَاوٗدَ عَلَیْہِ السَّلَامُ وہ تو دائود علیہ السلام کے خوبصورت طریق پر قرآن پڑھ رہا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علاوہ ان چار حافظوں کے جن کو آپ نے اُستاذ الاساتذہ مقرر کیا تھا باقی لوگوںکی قرأت کا بھی امتحان لیتے رہتے تھے اور ان کی نگرانی رکھتے تھے تاکہ وہ کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں۔
صرف ایک ہی جگہ پر نہیں صحابہ کی مختلف مجالس میں قرآن پڑھایا جاتا تھا۔ حضرت امام احمدؒ اپنی کتاب میں جابر بن عبداللہؓ سے روایت نقل کرتے ہیںکہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو لوگ بیٹھے ہوئے قرآن شریف پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا ہاں قرآن پڑھو اور خوب پڑھو اور اللہ کی رضا حاصل کرو۔ پیشتر اس کے کہ وہ قوم آئے جو قرآن کے لفظوں کو تو صحیح پڑھے گی لیکن مزدوری اور دُنیوی فائدہ کے لئے پڑھے گی۔اپنے نفس کی اصلاح کے لئے نہیں۔ جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ہماری اِس مجلس میں نہ صرف مہاجر اور انصار تھے بلکہ عجمی اور اعرابی بھی اس میں شامل تھے یعنی جنگلوں کے رہنے والے اور غیر عربی لوگ بھی۔
قراء کی تعداد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اتنی بڑھ چکی تھی کہ وہ ہزاروں کی تعداد تک پہنچ گئے تھے۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معاً بعد جب مسیلمہ نے بغاوت کر کے ایک لاکھ سپاہیوں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کر دیا اور ان کے مقابلہ کے لئے حضرت ابوبکرؓ نے خالدؓ بن ولید کو تیرہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ بھیجا تو اُس وقت بعض نئے نئے مسلمان ہونے والے لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے متواتر مسلمانوں کو ضمنی طور پر شکست پر شکست ہونے لگی یعنی یہ تو نہیں تھا کہ لشکر اِسلامی بھاگ گیا ہو لیکن اِس کو کئی مقام چھوڑنے پڑے تھے۔ اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں سے جو لوگ قرآن کریم کے حافظ تھے اُنہوں نے کہا کہ آپ اس سارے لشکر سے مسیلمہ کا مقابلہ نہ کریں صرف ہم لوگ جو قرآن شریف کے جاننے والے ہیں ہمیں ایک الگ لشکر کی صورت میں ترتیب دے کر اُس کے مقابلہ کے لئے آگے کریں کیونکہ ہم اسلام کی قیمت جانتے ہیں اور اس کے بچانے کے لئے اپنی جانیں دینے کی قدر ہمیں معلوم ہے۔ اُن کی اِس بات کو خالدؓ بن ولید نے مان لیا اور قرآن شریف کے حفاظ صحابہؓ کو الگ کر دیا اور وہ تین ہزار نکلے۔ اِن تین ہزار آدمیوں نے اِس شدت سے مسیلمہ کے لشکر پر حملہ کیا کہ اُس کو پیچھے ہٹ کر ایک محدود مقام میں محصور ہونا پڑا اور آخر اس کا لشکر تباہ ہوگیا۔ اُس وقت اِن حفاظِ صحابہؓ نے شعارِ جنگ کے الفاظ یہ مقرر کئے تھے ۔
’’ اے سورۃ بقرہ کے حافظو‘‘۔
یہ شعار انہوں نے اس لئے مقرر کیا کہ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سورتوں میں سے سب سے لمبی ہے۔ اِس لڑائی میں پانچ سَو قاری صحابی شہید ہوئے۔ اِن واقعات سے پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی قرآن کریم لکھا بھی جاتا تھا، حفظ بھی کیا جاتا تھا اور ہزاروں آدمی قرآن شریف کو شروع سے لے کر آخر تک یاد رکھتے تھے۔
ایک جلد میں قرآن مجید کا جمع کرنا
جو بات اس وقت تک نہ ہوئی تھی، وہ صرف یہ تھی کہ ایک جلد میں قرآن شریف جمع نہیں ہوا
تھا۔ جب یہ پانچ سَو قرآن کا حافظ اس لڑائی میں مارا گیا۔ تو حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور اُنہیں جا کے کہا کہ ایک لڑائی میں پانچ سَو حافظ قرآن شہید ہوا ہے اور ابھی تو بہت سی لڑائیاں ہمارے سامنے ہیں۔ اگر اور حفاظ بھی شہید ہو گئے تو لوگوں کو قرآن کریم کے متعلق شبہ پیدا ہو جائے گا اس لئے قرآن کو ایک جلد میں جمع کر دینا چاہئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے پہلے تو اس بات سے انکار کیا لیکن آخر آپ کی بات مان لی۔ حضرت ابوبکرؓ نے زید بن ثابتؓ کو اِس کام کے لئے مقرر کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن کریم لکھا کرتے تھے اور کبار صحابہؓ ان کی مدد کے لیے مقرر کیے۔ گو ہزاروں صحابہؓ قرآن شریف کے حافظ تھے لیکن قرآن شریف کے لکھتے وقت ہزاروں صحابہؓ کو جمع کرنا تو ناممکن تھا اِس لئے حضرت ابوبکرؓ نے حکم دے دیا کہ قرآن کریم کو تحریری نسخوں سے نقل کیا جائے اور ساتھ ہی یہ احتیاط کی جائے کہ کم سے کم دو حافظ قرآن کے اور بھی اس کی تصدیق کرنے والے ہوں۔ چنانچہ متفرق چمڑوں اور ہڈیوں پر جو قرآن شریف لکھا ہوا تھا وہ ایک جگہ پر جمع کر دیا گیا اور قرآن شریف کے حافظوں نے اس کی تصدیق کی۔ اگر قرآن شریف کے متعلق کوئی شبہ ہو سکتا ہے تو محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور اس وقت کے درمیانی عرصہ کے متعلق ہو سکتا ہے مگر کیا کوئی عقلمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ جو کتاب روازنہ پڑھی جاتی تھی اور جو کتاب ہر رمضان میں اُونچی آواز سے پڑھ کر دوسرے مسلمانوں کو حفاظ سناتے تھے اور جس ساری کی ساری کتاب کو ہزاروں آدمیوں نے شروع سے لے کرآخر تک حفظ کیا ہوا تھا اور جو کتاب گو ایک جلد میں اکٹھی نہیں کی گئی تھی، لیکن بیسیوں صحابہؓ اس کو لکھا کرتے تھے اور ٹکڑوں کی صورت میں لکھی ہوئی وہ ساری کی ساری موجود تھی اُسے ایک جلد میں جمع کرنے میں کسی کو دِقت محسوس ہو سکتی تھی۔ اور پھر کیاایسے شخص کو دقت ہو سکتی تھی جو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کی کتابت پر مقرر تھا اور اُس کا حافظ تھا اور جبکہ قرآن روزانہ پڑھا جاتا تھا۔ کیا یہ ہو سکتا تھا کہ اِس جلد میں کوئی غلطی ہو جاتی اور باقی حافظ اس کو پکڑ نہ لیتے۔ اگر اس قسم کی شہادت پر شبہ کیا جائے تو پھر تو دنیا میں کوئی دلیل باقی نہیں رہتی۔ حق یہ ہے کہ دنیا کی کوئی تحریر ایسے تواتر سے دنیا میں قائم نہیں جس تواتر سے قرآن شریف قائم ہے۔ حضرت ابوبکرؓ کے بعد حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں یہ شکایت آئی کہ مختلف قبائل کے لوگ مختلف قراء توں کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھتے ہیں اور غیر مسلموں پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی نسخے ہیں۔ اس قراء ت کے متعلق میں اُوپر لکھ چکا ہوں کہ اس قراء ت سے مراد یہ ہے کہ کوئی قبیلہ کسی حرف کو زبر سے پڑھتا ہے دوسرا زیر سے پڑھتا ہے تیسرا پیش سے پڑھتا ہے اور یہ بات سوائے عربی کے اور کسی زبان میں نہیں پائی جاتی۔ اِس لئے عربی نہ جاننے والا آدمی جب یہ سنے گا تو وہ سمجھے گا کہ یہ کچھ کہہ رہا ہے اور وہ کچھ کہہ رہا ہے حالانکہ کہہ وہ ایک ہی بات رہے ہوں گے۔ پس اس فتنہ سے بچانے کے لئے حضرت عثمانؓ نے یہ تجویز فرمائی کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں جو نسخہ لکھا گیا تھا اس کی کاپیاں کروالی جائیں اور مختلف ملکوں میں بھیج دی جائیں اور حکم دے دیا جائے کہ بس اِسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھنا ہے اور کوئی قراء ت نہیں پڑھنی۔ یہ بات جو حضرت عثمانؓ نے کی بالکل معیوب نہ تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب لوگ قبائلی زندگی بسر کرتے تھے یعنی ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے الگ رہتا تھا اس لئے وہ اپنی اپنی بولی کے عادی تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر جمع ہو کر عرب لوگ متمدن ہو گئے اور ایک عامی زبان کی بجائے عربی زبان ایک علمی زبان بن گئی۔ کثرت سے عرب کے لوگ پڑھنے اور لکھنے کے علم سے واقف ہو گئے جس کی وجہ سے ہر آدمی خواہ کسی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اُسی سہولت سے وہ لفظ ادا کر سکتا تھا جس طرح علمی زبان میں وہ لفظ بولا جاتا تھا جو درحقیقت ملک کی زبان تھی۔ پس کوئی وجہ نہ تھی کہ جب سارے لوگ ایک علمی زبان کے عادی ہو چکے تھے اُنہیں پھر بھی اجازت دی جاتی کہ وہ اپنے قبائلی تلفظ کے ساتھ ہی قرآن شریف کو پڑھتے چلے جائیں اور غیر قوموں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنیں۔ اِس لئے حضرت عثمانؓ نے اِن حرکات کے ساتھ قرآن شریف کو لکھ کر جو مکہ کی زبان کے مطابق تھیں سب ملکوں میں کاپیاں تقسیم کر دیں اور آئندہ کے متعلق حکم دے دیا کہ سوائے مکی لہجہ کے اور کسی قبائلی لہجہ میں قرآن شریف نہ پڑھا جائے۔ اِس امر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یورپ کے مصنف اور دوسری قوموں کے مصنف ہمیشہ یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے کوئی نیا قرآن بنا دیا تھا یا عثمانؓ نے کوئی نئی تبدیلی قرآن کریم میں کر دی تھی لیکن حقیقت وہ ہے جو میں نے اُوپر بیان کی۔ وہ مصنف اپنے خیال میں قرآن شریف پر بڑا بھاری اعتراض کرتے ہیں اور وہ لوگ جو عربی زبان سے واقف ہیں اور قرآن کریم کی تاریخ سے آگاہ ہیں وہ اُن کے اعتراض کو پڑھ کر اُن کی جہالت پر ہنستے ہیں۔
یہ بات ثابت کر چکنے کے بعد کہ حضرت عثمانؓ کے زمانہ تک قرآن کریم اُسی شکل میں موجود تھا جس شکل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ا ب میں یہ بتاتا ہوں کہ حضرت عثمانؓ کے بعد یہ تواتر اَور بھی زیادہ مضبوط ہو گیا۔ حضرت عثمانؓ نے قرآن کریم کے نسخے مختلف ممالک میں پھیلا دیئے تو اُن سے اتنی نقلیں کی گئیں اور اِس کثرت سے قرآن کریم پھیلا کہ قریباً ہر تعلیم یافتہ آدمی کے پاس قرآن کریم موجود ہوتا تھا۔ چنانچہ جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان لڑائی ہوئی تو اس کے متعلق تاریخوں میں آتا ہے کہ حضرت معاویہؓ کے تمام سپاہیوں نے قرآن شریف اپنے نیزوں پر لٹکا کر یہ نعرے لگائے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان قرآن فیصلہ کرے گا۔ اِس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں قریباً ہر فردِ بشر کے پاس قرآن شریف کا نسخہ ہوتا تھا۔
قرآن شریف کو مسلمان حفظ کرتے رہے اور اِس کے نسخے لکھتے رہے
چونکہ قرآن شریف کے پڑھنے اور لکھنے اور پھیلانے کو بہت بڑا ثواب قرار دیا گیا تھا اِس لئے اِسلامی حکومت میں بڑے
بڑے علماء اور بادشاہ تک قرآن کریم کی کاپیاں لکھا کرتے تھے۔ عرب اور اس کے اِردگرد کے بادشاہوں اور علماء کا تو ذکر چھوڑو ہندوستان جیسے ملک میں جو عرب سے بہت دُور واقع ہوا تھا اور جہاں ہندو رسم ورواج غالب آچکا تھا مغل بادشاہ اورنگ زیب اپنی فرصت کے اوقات میں قرآن شریف لکھا کرتا تھا۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے اپنی عمر میں سات نسخے قرآن کریم کے لکھے۔ پھر مسلمانوں میں حفظِ قرآن کی شروع سے اتنی کثرت پائی جاتی ہے کہ ہر زمانہ میں ایک لاکھ سے دو لاکھ تک حافظ دنیا میں موجود رہا ہے بلکہ اِس سے بھی بہت زیادہ حافظ دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ حافظ اُس کو کہتے ہیں جو شروع سے لے کر آخر تک اس کے تمام حصوں کو یاد رکھتا ہے۔ عام طور پر یورپین مصنف اپنی ناواقفی کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جبکہ دنیا میں بائبل کا کوئی حافظ نہیں ملتا تو قرآن شریف کا کوئی حافظ کہاں ہو سکتا ہے حالانکہ قرآن کریم کا یہ معجزہ ہے کہ وہ ایسی سریلی زبان میں نازل ہوا ہے کہ اِس کا حفظ کرنا نہایت ہی آسان ہے۔
میرا بڑا لڑکا ناصر احمد جو آکسفورڈ کا بی۔ا ے آنرز اور ایم اے ہے میں نے اُسے دُنیوی تعلیم سے پہلے قرآن کریم کے حفظ پر لگایا اور وہ سارے قرآن کا حافظ ہے۔ قادیان میں دو ڈاکٹر حافظ ہیں۔ اِسی طرح اور بہت سے گریجوایٹ اور دوسرے لوگ حافظ ہیں۔جن ڈاکٹروں کا میں نے ذکر کیا ہے اُن میں سے ایک نے صرف چار پانچ مہینے میں قرآن شریف حفظ کیا تھا چوہدری سر ظفرا للہ صاحب جج فیڈرل کورٹ آف انڈیا (حال وزیر خارجہ پاکستان) کے والد صاحب نے اپنی آخری عمر میں جبکہ وہ قریباً ساٹھ سال کے تھے، چند مہینوں میں سارا قرآن حفظ کر لیا تھا۔ حافظ غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشس نے تین مہینہ میں قرآن شریف حفظ کیا تھا۔ نواب جمال الدین خاں صاحب جو ایک سابق والیۂ ریاست بھوپال کے خاوند تھے اُن کے ایک نواسے مجھے حج میں ملے تھے جنہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ اُنہوں نے ایک مہینہ میں سارا قرآن شریف حفظ کیا تھا۔ اِس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ قرآن کریم کی عبارت اِس قسم کی ہے کہ اس کا حفظ کرنا دوبھر معلوم نہیں ہوتا۔ میں نے بڑے بڑے بوڑھے لوگوں سے سنا ہے کہ میرے جد امجد مرزا گل محمد صاحب جو عالمگیر ثانی کے وقت میں تھے باوجود ا ِس کے کہ کوئی بہت بڑے رئیس نہیں تھے اُن کی ریاست صرف اڑھائی سَو مربع میل کے علاقہ پر حاوی تھی، اِن کے دربار میں پانچ سَو حافظ موجود رہتا تھا۔ ہندوستان جیسے ملک میں جو عربی زبان سے بہت ہی ناواقف ہے، بعض حصے ایسے پائے جاتے ہیں جن میں صدیوں سے اکثر لوگ حافظ چلے آتے ہیں۔
ایک ترکیب مسلمانوں نے قرآن کریم کی حفاظت کی یہ بھی اختیار کر رکھی ہے اور جس ترکیب پر صدیوں سے عمل ہوتا چلا آ رہا ہے کہ جو پیدائشی نابینا ہوتے ہیں اِن کو قرآن شریف حفظ کرا دیتے ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نابینا کوئی دُنیوی کام تو کر نہیں سکتا کم سے کم وہ قرآن کی خدمت ہی کرے گا۔ یہ رواج اتنا غالب ہے کہ لاکھوں مسلمان نابینوں کو بغیر پوچھے اور بغیر دریافت کئے ایک ہندوستانی ملتے ہی حافظ صاحب کے نام سے یاد کرے گا یعنی وہ جس نے سارا قرآن یاد کیا ہوا ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ نابینوں میں سے اتنے حافظ قرآن ہوتے ہیں کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں ہو سکتا کہ کوئی نابینا ہو اور قرآن کا حافظ نہ ہو۔ ہررمضان میں ساری دنیا کی ہر بڑی مسجد میں سارا قرآن کریم حافظ لوگ حفظ سے بلند آواز کے ساتھ ختم کرتے ہیں۔ ایک حافظ امامت کراتا ہے اور دوسرا حافظ اُس کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے تا اگر کسی جگہ پر وہ بھول جائے تو اُس کو یاد کرائے۔ اِس طرح ساری ہی دنیا میں لاکھوں جگہ پر قرآن کریم صرف حافظ سے دُہرایا جاتا ہے۔ یہی وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے یورپ کے دشمنوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا ہے کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک بالکل محفوظ چلا آتا ہے اور یہ کہ یقینی طور پر یہ کہاجا سکتا ہے کہ جس شکل میںقرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا تھا اُسی شکل میں آج موجود ہے۔ چنانچہ ذیل میں ہم بعض یورپین مصنفین کی گواہی پیش کرتے ہیں:۔
(۱) سرولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمد صفحہ ۲۸میں بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
‏``What we now have, though Possibly Corrected and
‏۵۳۵؎modified himself, is still his own``.
ترجمہ: گو یہ ممکن ہے کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)نے قرآن خود ہی بنایا تھا مگر جو قرآن ہمارے پاس آج موجود ہے یہ وہی ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔
(۲) پھر لکھتے ہیں:
‏ ``We may upon the Strongest presumption affirm that every verse in the Quran is genuine and unaltered ۵۳۶؎composition of Mohammad himself``.
ترجمہ: ہم نہایت مضبوط قیاسات کی بناء پر کہہ سکتے ہیں کہ ہر ایک آیت جو قرآن میں ہے وہ اصلی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی غیر محرف تصنیف ہے۔
(۳) پھر یہ بحث کرنے کے بعد کہ قرآن کی ترتیب ہماری سمجھ نہیں آتی لکھتے ہیں کہ:۔
‏ ``There is otherwise every security internal and external that we possess a text the Same as that which ۵۳۷؎ Mohammad himself gave forth and used.``
ترجمہ: اس کے علاوہ ہمارے پاس ہر ایک قسم کی ضمانت موجود ہے اندرونی شہادت کی بھی اور بیرونی کی بھی کہ یہ کتاب جو ہمارے پاس ہے وہی ہے جو خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی اور اسے استعمال کیا کرتے تھے۔
(۴) پھر لکھتے ہیں:
‏ ``And we conclude with at least a close approximation to the verdict of VON Hammer that we hold the Quran to be as suerly Mohammad,s word as the ۵۳۸؎ Mohammadns held it to be the word of God``.
ترجمہ: ہم وان ہیمر کے مندرجہ ذیل فیصلہ کے بالکل مطابق نہ سہی کم سے کم اُس کے خیال کے بہت موافق فیصلہ تک پہنچتے ہیں وہ وان ہیمر کا فیصلہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں جو قرآن موجود ہے اس کے متعلق ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کا غیر محرف کلام ہے جس یقین سے مسلمان کہتے ہیں کہ وہ خدا کا غیر مبدل کلام ہے۔
(۵) ’’نولڈ کے‘‘ کا قول ہے:
‏ ``Slight clerical errors there may have been but the Quran of Othman contains none but genuine elements, though sometimes in very strange order Efforts of European scholars to prove the existence of later
‏۵۳۹؎ interpation in the Quran have failed``.
ترجمہ: ممکن ہے کہ تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں (طرزِ تحریرکی) ہوں تو ہوں، لیکن جو قرآن عثمانؓ نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اُس کا مضمون وہی ہے جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پیش کیا تھا۔ گو اس کی ترتیب عجیب ہے۔ یورپین علماء کی یہ کوششیں کہ وہ ثابت کریں کہ قرآن میں بعد کے زمانہ میں بھی کوئی تبدیلی ہوئی ہے بالکل ناکام ثابت ہوئی ہیں۔
ترتیب سُوَر و آیات
قرآن کریم کی سورتوں کے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ حضرت عثمانؓ کی قائم کردہ ہے لیکن یہ بالکل غلط بات ہے۔
حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں سارا قرآن شریف نماز میں پڑھتے تھے اور بعض دفعہ دوسرے صحابہؓ بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جاتے تھے۔ اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رمضان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سارا قرآن جبریل کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے ۵۴۰؎ اب ایک غیر مسلم چاہے یہ نہ مانے کہ آپ جبریل کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے مگر اتنا اُسے ماننا پڑے گا کہ آپ اُسے کسی ترتیب سے پڑھتے تھے اگر کوئی ترتیب نہیں تھی تو آپ پڑھتے کس طرح تھے؟
اِسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت علیؓ ایک عرصہ تک حضرت ابوبکرؓ سے ملنے نہ گئے حضرت ابوبکرؓ نے اُن کو بُلوایا اور پوچھا کہ علیؓ! کیا آپ میری خلافت پر ناراض ہیں؟ حضرت علیؓ نے فرمایا نہیں میں ناراض نہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ قسم کھائی تھی کہ میں قرآن کریم کو اُس ترتیب سے لکھ دوں گا جس ترتیب کے ساتھ وہ نازل ہو اتھا ۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن شریف کسی ترتیب سے پڑھا جاتا تھا مگر وہ ترتیب نزول والی ترتیب نہیں تھی۔ اِس لیے حضرت علیؓ نے خیال کیا کہ وہ قرآن کریم اُس کے نزول کی ترتیب کے لحاظ سے بھی لکھ دیں تاکہ تاریخی طور پر یہ حقیقت بھی لوگوں کے لئے محفوظ ہو جائے۔ اِسی طرح حدیثوں میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئی آیت نازل ہوتی تھی تو آپ لکھنے والے کو بُلا کر فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں داخل کردو۔ ۵۴۱؎ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترتیب کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الہامی طور پر بتایا جاتا تھا کہ فلاںآیت کوفلاں جگہ رکھا جائے اور فلاں آیت کو فلاں جگہ۔ مگر سب سے بڑی شہادت واقعاتی شہادت ہے قرآن شریف ہمارے پاس موجود ہے اِس کی سورتوں پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تمام سورتوں کے مضامین آپس میں ترتیب رکھتے ہیں۔ اگر قرآن کی سورتیں بغیر ترتیب کے نازل ہوئی تھیں اور حضرت عثمانؓ نے اُن کو صرف اِن کی لمبائی چھوٹائی کے لحاظ سے انہیں آگے پیچھے رکھ دیا تو سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان سورتوں کے مضامین بھی آپس میں ملنے لگ جاتے۔ سورۃ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی تھی موجودہ قرآن میں وہ سب سے پہلے رکھی ہوئی ہے۔ سورۃ بقرہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی درمیان میں نازل ہونے والی بہت سی سورتوں کو چھوڑ کر سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرہ رکھ دی گئی ہے۔ یورپین مصنف کہتے ہیں کہ سورۃ بقرہ چونکہ سب سے لمبی سورۃ ہے اِس لئے وہ قرآن میں او ر سورتوں سے پہلے رکھ دی گئی ہے۔ اوّل تو اس پر یہ اعتراض ہے کہ سورۃ بقرہ پہلی سورۃ نہیں پہلی سورۃ سورۃ فاتحہ ہے۔ اور وہ تو صرف سات آیتوں پر مشتمل ہے اس کو پہلے کیوں رکھا گیا ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر اتفاقی طور پر صرف لمبا ہونے کی وجہ سے سورۃ بقرہ کو سورۃ فاتحہ کے بعد رکھا گیا ہے تو اِس کا کیا جواب ہے کہ سورۃ فاتحہ میں یہ دعا آتی ہے کہ ۵۴۲؎َْ الٰہی تو مجھے سچا راستہ دکھا اور سورہ بقرہ اِن الفاظ سے شروع ہوتی ہے کہ ۵۴۳؎ یہی وہ کامل کتاب ہے اِس میں کوئی شبہ نہیں جو متقیوں کے لئے ہدایت کے طور پر بھیجی گئی ہے۔ آخر یہ کس طرح ہوا کہ اِس اتفاقی حادثہ کے ساتھ دونوں کے مضامین بھی آپس میں مل گئے۔ ایک کے آخر میں ہدایت کے لئے دعا ہے اور دوسری کے شروع میں اُس دعا کی قبولیت میںہدایت دینے کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ صرف ایک مثال نہیں سورۃ فاتحہ سے لے کر قرآن کریم کے آخر تک تمام سورتوں کے مضامین آپس میں ملتے چلے جاتے ہیں حالانکہ کبھی پہلی سورۃ مدنی ہوتی ہے اور دوسری مکی اور کبھی دوسری مدنی ہوتی ہے اور پہلی مکی۔ پس قرآن شریف کے مضامین کی ترتیب صاف بتا رہی ہے کہ قرآن کریم کی موجودہ ترتیب الٰہی منشاء کے ماتحت ہے۔
رہا یہ سوال کہ نزول کی ترتیب بدل کر ایک دوسری ترتیب کیوں دی گئی، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن شریف نازل ہوا اُس وقت لوگ اسلامی مسائل سے بالکل ناواقف تھے۔ چھوٹی سے چھوٹی چیز اُن کو بتانی ضروری تھی تاکہ اِسلامی تعلیم پس پردہ اُن کے دماغوں میں قائم ہو جائے۔ اس کے بعد پھر اسلامی شریعت کی تفصیلات بیان ہو سکتی تھیں۔ پس پہلے چھوٹی چھوٹی سورتیں ایسے مضامین کے متعلق نازل کی گئیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں جن میں اوّل تو چند اُصولی باتیں بیان کی گئی تھیں کہ خدا ایک ہے، غریبوں سے رحم کا سلوک کرنا چاہئے، خد اتعالیٰ کی عبادت میں اپنی زندگی بسر کرنی چاہئے، خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہئے اور ساتھ ہی یہ باتیں بھی بتائی گئی تھیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کس کس رنگ میں مخالفت ہوگی، مخالفوں کا کیا انجام ہو گا، مؤمنوں کے ساتھ کیا سلوک ہو گا اور کس طرح اِسلام ترقی کرے گا۔ مگر جوں جوں اِسلام بڑھتا چلا گیا اور مسلمانوں کو ترقیات حاصل ہونی شروع ہوئیں تفصیلاتِ شریعت بھی نازل ہونے لگیں۔ پس یہ نزول کی ترتیب اُس زمانہ کے لحاظ سے نہایت ضروری تھی۔ مگر جب قرآن شریف سارا نازل ہوگیا۔ لاکھوں آدمی دنیا میں مسلمان ہوگیا اور غیر قومیں بھی اِسلام کے پس پردہ سے ایک حد تک واقف ہوگئیں توا ب اُن کے سامنے مسائل کوا یک نئے رنگ اور نئے زاویہ سے پیش کرنا ضروری تھا۔ پس اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئی ترتیب سے قرآن شریف کو آئندہ زمانہ کیلئے مرتب کر دیا۔ یہ قرآن کریم کا عظیم الشان معجزہ ہے کہ نزول کے زمانہ کے لحاظ سے نزولِ قرآن والی ترتیب بالکل مناسب حال تھی اور اِسلام کے پھیل جانے او ر قرآن کریم کے مکمل ہوجانے کے بعد آئندہ زمانہ کیلئے اُس کی وہی ترتیب مناسب حال تھی جو اِس وقت پائی جاتی ہے۔ ایک کتاب جو مختلف ٹکڑوں میں نازل ہوئی، مختلف زمانوں میں نازل ہوئی اِس کو دو ترتیبوں سے دنیا کے سامنے پیش کرنا اور ایسی صورت میں پیش کرنا کہ دونوں کی دونوں کامیاب اور اعلیٰ درجہ کی ہوں، یہ سوائے خد اتعالیٰ کے اور کسی کا کام نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب اِس تفسیر کے پڑھنے والے ہر سورۃ کے ابتدائی نوٹوں سے خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
قرآن شریف میں پیشگوئیاں
میں دیباچہ کے شروع میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ قرآن شریف کے متعلق پہلے انبیاء نے پیشگوئیاں کی
ہیں۔ اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خود قرآن کریم میں بھی پیشگوئیاں موجود ہیں اور یورپین مصنفین کا یہ خیال کہ قرآن کریم میں پیشگوئیاں نہیں، بالکل غلط ہے۔ قرآن کریم تو شروع ہی پیشگوئی سے ہوا ہے۔ چنانچہ اس کی پہلی چند آیتوں ہی میں جو غارِ حراء میں نازل ہوئی تھیں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ قرآن کریم کے ذریعہ وہ علوم بیان کئے جائیں گے جو اِس سے پہلے انسان کو معلوم نہیں تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے وہ باتیں بیان کی ہیں جو پہلی کتابوں نے بیان نہیں کی تھیں۔ اور اُن کی غلطیاں نکالی ہیں اور اِس زمانہ میں اُن کی تصدیق ہو رہی ہے مثلاً
(۱)قرآن کریم نے یہ بتایا تھا کہ فرعون کی لاش اُس کے ڈوبنے کے وقت ہی بچا لی گئی اور محفوظ کر دی گئی تھی تاکہ وہ آئندہ زمانہ کے لوگوں کیلئے نشان کے طور پر کام آئے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔۵۴۴؎ ترجمہ: ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پار سلامتی سے اُتاردیا اور اُن کے بعد فرعون اور اُس کا لشکر سرکشی اور دشمنی سے ان کے پیچھے آیا اور پیچھا کرتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ اِس کے غرق کرنے کے ہم نے سامان کر دئیے۔ اُس وقت فرعون نے کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ بنو اسرائیل جس خد اپر ایمان لائے ہیں اُس کے سوا اور کوئی خد انہیں۔ تب ہم نے کہا تو اب ایمان لاتا ہے اور اِس سے پہلے تو نے خوب فساد مچا رکھا تھا۔ پس اب تیرے اِس ناقص ایمان کے بدلہ میں تیرے جسم کو نجات دیں گے تا (تیرا جسم) ہمیشہ ہمیش کے بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے عبرت کا موجب ثابت ہو اور لوگوں میں سے اکثر ہمارے نشانوں سے غافل رہتے ہیں۔
یہ مضمون نہ بائبل میں مذکور ہے نہ یہودیوں کی تاریخ میں مذکور ہے نہ کسی اور معروف تاریخ میں مذکور ہے۔ تیرہ سَو سال پہلے قرآن نے یہ خبر دی اور اِس خبر دینے کے تیرہ سَو سال کے بعد فرعونِ موسیٰ کی ممی مل گئی۔ جس سے معلوم ہوا کہ ڈوبنے کے بعد اِس کی لاش ضائع نہیں ہو گئی تھی بلکہ بچا لی گئی تھی اُسے حنوط کیا گیا تھا اور وہ محفوظ کر دی گئی تھی۔ ہو سکتا تھا کہ حنوط کرنے کے باوجود اُن بہت سے تغیرات کی وجہ سے جو مصر میں ہوئے فرعونِ موسیٰ کی لاش ضائع ہو جاتی۔ مگر اُس کی لاش محفوظ رہی اور اِس وقت دنیا کے سامنے عبرت کا نمونہ پیش کر رہی ہے اور قرآن کریم کی سچائی پر گواہی دے رہی ہے۔
(۲) پھر قرآن کریم کے شروع نزول میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا۵۴۵؎ ہم رات کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو ڈھانپ لے گی یعنی اِسلام پر نہایت ہی شدید مصائب نازل ہوں گے۔ یہ پیشگوئی ایسے وقت میں کی گئی تھی جبکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ اُمید نہیں تھی کہ میری قوم مجھ سے دشمنی کرے گی کیو نکہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی بیوی کے رشتہ دار ورقہ بن نوفل نے کہا کہ تم پر وہی فرشتہ الہام لے کر نازل ہوا ہے جو موسیٰ کی طرف نازل ہو ا تھا اور یہ کہ تمہاری قوم تمہیں دکھ دے گی اور تمہیں اپنے وطن سے نکال دے گی۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت حیرت سے اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میری قوم مجھے کس طرح نکال دے گی۵۴۶؎ یعنی جو اچھے تعلقات میرے اپنی قوم سے ہیں اِن کے نتیجہ یں وہ میری مخالف نہیں ہوسکتی۔ مگر اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا دیا کہ اِسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک سخت تاریک رات آنے والی ہے۔ چنانچہ وہ رات آئی اور قریباً دس سال تک رہی۔ اِن دس سالوں کی خبر بھی قرآن کریم نے دوسری جگہ بتا دی تھی۔
(۳) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۵۴۷؎ ہم صبح کے طلوع کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اُن دس راتوں کوشہادت کے طورپر پیش کرتے ہیں جو اس طلوع فجر سے پہلے آئیں گی۔ میوراور دوسرے یورپین مصنف تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سورۃ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کے تیسرے سال کے قریباً آخر میں نازل ہوئی ہے اُس وقت تک ابھی مکہ کے لوگوں کی مخالفتیں تیز نہیں ہوئی تھیں اُس وقت قرآن کریم نے یہ خبر دے دی تھی کہ تم پر تاریکی کی دس راتیں آئیں گی اور جیسا کہ الہامی کلام کے محاورہ سے ثابت ہے دس راتوں سے مراد دس سال ہوتے ہیں اور بائبل میں یہ محاورہ بڑی کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ بائبل میں بِالعموم دن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے لیکن قرآن کریم میں مصیبت کی گھڑیوں کو رات کے لفظ سے تعبیر کیاجاتا ہے اِس لئے کہ تاریکی کے زمانہ پر رات ہی اچھی طرح دلالت کرتی ہے بہرحال اِس جگہ یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ دس سال متواتر سخت ظلموں کے گزریں گے چنانچہ دیکھ لو اِس پیشگوئی کے بعد متواتر دس سال مسلمانوں پر ظلم ہوتے رہے۔ مکہ والوں کی بدلی ہوئی نگاہوں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو معلوم کر سکتے تھے کہ مکہ والے مجھ پر ظلم کریں گے مگر کیا کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ آپ اُن کی شکلوں سے یہ بھی معلوم کر سکتے تھے کہ ظلموں کا زمانہ دس سال تک لمبا چلا جائے گا؟
کیوں نہ آپ نے پانچ سال کہا، کیوں نہ آپ نے آٹھ سال کہا، کیو ںنہ آپ نے بارہ سال کہا، کیوں نہ آپ نے تیرہ سال کہا؟ آپ کے الہام میں دس سال کے الفاظ آئے اور اِس الہام کے بعد آپ دس سال ہی مکہ میں رہے اور تکلیفیں اُٹھاتے رہے۔ دس سال کے بعد طلوعِ آفتاب ہوا اور اس مصیبت کے علاقہ سے آپ کو ہجرت کرنی پڑی اور مدینہ میں خد انے آپ کی ترقی کے سامان پیدا کر دیئے اور خد اکی مدد کا سورج چڑھ آیا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ دس سال کی میعاد بھی یونہی اپنے طور پر پیش کر دی گئی تھی۔ مگر کیا یہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں تھا کہ دس سال کے بعد ایک شہر کے لوگوں کو مسلمان بنا لیں اور پھر ہجرت کرکے اُس میں چلے جائیں؟ کیا مدینہ کے لوگوں کو مسلمان بنانا آپ کے اختیار میں تھا؟ پھر کیا یہ بات آپ کے اختیار میںتھی کہ آپ مکہ سے نکل کر سلامتی سے مدینہ پہنچ جائیں؟ مگر یہ سورۃ یہی نہیں بتاتی بلکہ اِس میںآگے چل کر یہ بھی بتایا گیا ہے ۵۴۸؎ دس سال کی تکلیف کے بعد ایک طلوعِ فجر ہو گا، مگر اِس کے بعد بھی ظلمت پوری طرح دور نہ ہوگی بلکہ اس کے بعد بھی ایک رات آئے گی۔ مگر وہ ایک ہی رات آکر گزر جائے گی۔ پھر اِس کے بعد کوئی رات نہیں آئے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ہجرت کے ایک سال بعد بدر کی جنگ ہوئی اور بدر کی جنگ نے جیسا کہ خود بائبل نے بھی تسلیم کیا ہے اور جیسا کہ میں اُوپر لکھ آیا ہوں قیدار کی ساری شوکت تباہ کر کے رکھ دی۔ اگرچہ بعد میں بھی لڑائیاں ہوئیں اور بڑی بڑی ہوئیں مگر بدر کی جنگ نے مسلمانوں کی ایک آزاد اور با اختیار حکومت قائم کر دی اور دشمن کے چوٹی کے آدمی تباہی کے گڑھے میں دھکیل دئیے گئے۔
(۴) پھر مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی تھی کہ۵۴۹؎ یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر قرآن نازل کیا اور اِس کی اطاعت فرض کی ہے وہ تجھے اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر بتاتا ہے کہ وہ تجھ کو دوبارہ مکہ میں لَوٹا کر لائے گا۔ اِس خبر میں نہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑے گی بلکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ہجرت کے بعد آپ فاتح کی صورت میں مکہ میں داخل ہوں گے کیا اِن حالات میں جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آرہے تھے آپ اپنے پاس سے ایسی خبر بنا سکتے تھے؟
(۵) اِس مفہوم کی قرآن کریم میں ایک اور پیشگوئی بھی ہے اور وہ بھی مکی سورتوں میں نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۵۵۰؎ یعنی کہہ اے میرے ربّ! مجھے اِس شہر میں جہاں تو بھیج رہا ہے کامیابی کے ساتھ داخل کر اور پھر مجھے کچھ عرصہ کے بعد اِس شہر سے کامیابی کے ساتھ حملہ آور ہونے کا موقع عطا فرما اور اِس حملہ میں میرا مددگار اور ناصر بن۔ اِس میں بتایا گیا ہے کہ آپ ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے جائیں گے اور پھر مدینہ سے مکہ پر حملہ کریں گے اور خدا کی مدد سے مکہ فتح کریں گے۔
(۶) اِسی طرح آپ مکہ میں ہی تھے کہ آپ کو الہام ہوا۔ ۵۵۱؎ اِسلام کی ترقی کا وقت آگیا ہے اور عرب کی حکومت تباہ کر دی گئی۔ چاند عرب کا نشان تھا۔ چنانچہ جب کوئی شخص خواب میں چاند دیکھے تو اِس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اُسے عرب کی حکومت کے حالات بتائے گئے ہیں۔ پس چاند کے پھٹنے کے یہ معنی تھے کہ عرب کی حکومت تباہ ہو جائے گی۔ اُس وقت جب آپ کے صحابہؓ دنیا میں چاروں طرف جان بچائے بھاگے پھرتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھونٹا جاتا تھا اور آپ کی گردن میں پٹکے ڈالے جاتے تھے۔ جب خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کی بھی آپ کواجازت نہیں تھی اور جب سارا مکہ آپ کی مخالفت کی آوازوں سے گونج رہا تھا اُس وقت محمد رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو یہ خبر دی کہ عرب کی حکومت کی تباہی کا خدا نے فیصلہ کر دیا ہے اور اسلام کے غلبہ کا وقت آگیا ہے۔ پھر کس طرح چند سال کے بعد ہی یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ قیدار کی ساری حشمت توڑ دی گئی۔ اِسلام کا جھنڈا بلند کر دیا گیا۔ چاند پھٹ گیا۔ قیامت آگئی اور ایک نیا آسمان اورایک نئی زمین بنا دی گئی۔
(۷) آپ ابھی مکہ میں ہی تھے کہ عرب میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دے دی ہے اِس پر مکہ والے بہت خوش ہوئے کہ ہم بھی مشرک ہیں اور ایرانی بھی مشرک۔ ایرانیوں کا رومیوں کو شکست دے دینا ایک نیک شگون ہے اور اُس کے معنی یہ ہیں کہ مکہ والے بھی محمد رسول اللہ ﷺپر غالب آجائیں گے مگر محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا نے بتایا کہ ۵۵۲؎ رومی حکومت کو شام کے علاقہ میں بے شک شکست ہوئی ہے لیکن اِس شکست کو تم قطعی نہ سمجھو مغلوب ہونے کے بعد رومی پھر ۹ سال کے اندر غالب آجائیں گے۔ اِس پیشگوئی کے شائع ہونے پر مکہ والوں نے بڑے بڑے قہقہے لگائے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بعض کفار نے سَو سَو اُونٹ کی شرط باندھی کہ اگر اتنی شکست کھانے کے بعد بھی روم ترقی کر جائے تو ہم تمہیں سَو اُونٹ دیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم ہمیں سَو اُونٹ دینا۔ بظاہر اِس پیشگوئی کے پورا ہونے کا امکان دور سے دور تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ شام کی شکست کے بعد رومی لشکر متواتر کئی شکستیں کھاکر پیچھے ہٹتا گیا یہاںتک کہ ایرانی فوجیں بحیرہ مار مورا (MARMARA SEA) کے کناروں تک پہنچ گئیں۔ قسطنطنیہ اپنی ایشیائی حکومتوں سے بالکل منقطع ہو گیا اور روم کی زبردست حکومت ایک ریاست بن کر رہ گئی، مگر خد اکا کلام پورا ہونا تھا اور پورا ہوا۔ انتہائی مایوسی کی حالت میں روم کے بادشاہ نے اپنے سپاہیوں سمیت آخری حملہ کے لئے قسطنطنیہ سے خروج کیا اور ایشیائی ساحل پر اُتر کر ایرانیوں سے ایک فیصلہ کن جنگ کی طرح ڈالی۔ رومی سپاہی باوجود تعداد اور سامان میں کم ہونے کے قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق ایرانیوں پر غالب آئے ایرانی لشکر ایسا بھاگا کہ ایران کی سرحدوں سے ورے اُس کا قدم کہیں بھی نہ ٹھہرا اور پھر دوبارہ رومی حکومت کے افریقی اور ایشیائی مفتوحہ ممالک اس کے قبضہ میں آگئے۔
(۸) یہ تو پرانی باتیں ہیں۔ اِسلام نے اس زمانہ کے متعلق بھی بہت سی خبریں دی ہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں نہر سویز اور نہر ناپامہ کے متعلق خبر دی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۵۵۳؎ اِن آیات میں یہ خبر دی گئی ہے کہ دنیا میں دو سمندر ہیں جوا یک دوسرے سے جدا جدا ہیں، لیکن ایک دن آئے گا جب وہ آپس میں ملا دئیے جائیں گے اِن میں بڑے بڑے اُونچے جہاز سفر کریں گے اور اِن سمندروں کی علامت یہ ہے کہ موتی اور مونگا اُن میں سے نکالا جاتا ہے۔ یہ پیشگوئی بعینہٖ نہر سویز اور نہر پانامہ پر پوری ہوئی۔ موتی اور مونگا بھی وہاں ہوتا ہے بڑے بڑے جہاز بھی اُن میں چلتے ہیں اور دو دو سمندر اِن نہروں کے ذریعہ سے ملا دئیے گئے ہیں۔
اِسی طرح اور بیسیوں پیشگوئیاں ہیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں جو اِس زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جیسا کہ سورۃ کہف کے پڑھنے سے ناظرین کو معلوم ہو گا کہ قرآن کریم میں آخری زمانہ میں عیسائیوں کے غلبہ کی بھی خبر دی گئی ہے۔ دنیا میں اُن کے پھیل جانے کی بھی خبر دی گئی ہے۔ اُن کی سمندری طاقت کی بھی خبر دی گئی ہے۔ اُن کی باہمی لڑائیوں کی بھی خبر دی گئی ہے اور آخر میں اِسلام کی فتح اور کامیابی کی بھی خبر دی گئی ہے۔ اور سب پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں اب اِسلا م کی فتح کی پیشگوئی پوری ہونی باقی ہے۔ یورپ کا عیسائی یا یورپ کا دہریہ اگراِسلام کی کمزور حالت دیکھ کر ہنستا ہے تو ہنسا کرے مگر جس خدا نے وہ پیشگوئیاں پوری کی ہیں وہی خد ایہ آخری پیشگوئی بھی ضرور پوری کرے گا۔ اِسلام کی فتح کے دن آرہے ہیں تمام تاریکیوں اور تمام ظلمتوں میں سے میں اِسلام کے سورج کو جھانکتے ہوئے دیکھتا ہوں۔ خداتعالیٰ کی فوجیں آسمان سے اُتر رہی ہیں۔ بیشک شیطانی فوجوں کا اِس وقت دنیا پر غلبہ ہے لیکن وہ دن قریب سے قریب تر آرہے ہیں جب خد اکی فوجیں شیطان کی فوجوں کو شکست دے دیںگی۔ جب خد اکی توحید دنیا میں پھر قائم ہوگی۔ جب پھر دنیا یہ تسلیم کرلے گی کہ قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو خدا اور بندے میں صلح کراتی ہے اور خدا کی بادشاہت کو اِس دنیا میں قائم کرتی ہے اور بنی نوع انسان میں انصاف اور عدل کو قائم کرتی ہے۔
معجزات
عیسائی مؤرخ بِالعموم اِس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ قرآن کریم اپنی نسبت معجزات کا مدعی نہیں۔ سوائے اِس کے کہ قرآن کریم کی نسبت یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ
وہ ایک بے مثل کلام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس سوال پر بھی تمہید میں روشنی ڈالنی ضروری ہے۔
یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم دنیا کے سامنے دواصل پیش کرتا ہے۔ ایک یہ کہ خد اتعالیٰ کی بعض سنتیں ایسی ہیں جن کو وہ کبھی تبدیل نہیں کرتا۔ مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مردے زندہ ہو کر دوبارہ اِس دنیا میں نہیں آتے۔ یا اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ کوئی انسان خدا تعالیٰ کے سوا حقیقی مخلوق پیدا کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔ دنیا میں صناع بھی ہو سکتے ہیں، موجد بھی ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں لیکن حقیقی خالقیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔ اِن دونوں دعوؤں میں سے دعویٰ اوّل یعنی مردوں کے زندہ نہ ہونے کا ذکر سورۃ مؤمنوں میں کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۵۵۴؎ یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوتے وقت بعض روحیں یہ استدعا کریں گی کہ وہ واپس جائیں تاکہ وہ دوبارہ نیک اعمال کریں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ دعا ایسی نہیں جس کو قبول کیا جائے کیونکہ قیامت تک روحوں اور اُس د نیا کے درمیان ایک حد فاصل مقرر کر دی گئی ہے اور کوئی روح اِس دنیاکی طرف واپس نہیں لَوٹ سکتی۔
اِسی طرح سورۃ انبیاء میں آتا ہے کہ ۵۵۵؎ یعنی وہ تمام قومیں جو ہلاک ہو چکی ہیں، اُن کے متعلق ہم یہ قطعی طور پر فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ دوبارہ اِس دنیا میں واپس نہیں آئیں گی یہاں تک کہ یا جوج و ماجوج کیلئے دروازہ کھول دیا جائے گا اور وہ ہر پہاڑی اور ہر سمندری لہر پر سے دَوڑتے ہوئے دنیا میں پھیل جائیں گے۔
اِس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے دوبارہ دنیا میںزندہ نہیں ہوا کرتے۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ یاجوج و ماجو ج کے زمانہ تک ایسا نہیں ہوگا اِس کا یہ مطلب نہیں کہ بعد میں مردے زندہ ہونے لگ جائیں گے بلکہ اِس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ قیامت کے قرب کا ز مانہ ہے اور اِس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ قیامت کے زمانہ تک ایسا کام نہیں ہوگا۔ بعض نحویوں نے اِس کے یہ بھی معنی کئے ہیں کہ یاجوج وماجوج کے زمانہ میں مردوں کو زندہ کرنے کی کوشش کی جائے گی (لیکن اِس زمانہ میں بھی باوجود سائنس کی پوری ترقی کے) اِس بات میں کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ بہرحال قرآن کریم اِس بات کا بھی منکر ہے کہ مردے دوبارہ اِسی دنیا میں زندہ ہو کر آئیں۔ اِسی طرح وہ اِس بات کا بھی منکر ہے کہ کوئی ہستی خدا تعالیٰ کے سوا حقیقی مخلوق پیدا کر سکے۔ چنانچہ اِس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۵۵۶؎ یعنی وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا لوگ امداد کے لئے پکارتے ہیں۔ وہ ذرا سی چیز بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں، وہ مردے ہیں زندہ نہیں اور اُن کو تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ کب اُٹھا کر خد اتعالیٰ کے سامنے پیش کئے جائیںگے۔
اِسی طرح قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی احمقانہ بات خد اتعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی کیونکہ خد اتعالیٰ حکیم ہے یعنی اُس کے سارے کام حکمت کے ساتھ ہوتے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں علاوہ اِس کے کہ خد اتعالیٰ کا نام حکیم رکھا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۵۵۷؎ اے اِسلام کے دشمنو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے متعلق تو یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ تمہارے کام حکمت کے مطابق ہیں مگر خد اتعالیٰ کے متعلق یہ بات تسلیم نہیں کرتے اور اِس کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہو جو حکمت کے خلاف ہوتی ہیں۔یہ تین باتیں یا اِسی قسم کی اور باتیں اگر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی جائیں تو خواہ اُن کا نام معجزہ رکھا جائے، خواہ اِن کا نام کرامت رکھا جائے خواہ اِن کا نام جادو رکھا جائے قرآن کریم اِس کا مخالف ہے اور اِس قسم کے معجزات نہ پہلے انبیاء کی طرف منسوب کرنا جائز سمجھتا ہے اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسے معجزات منسوب کرتا ہے۔ اِس سے زیادہ احمقانہ بات کیا ہو گی کہ خد اتعالیٰ ایک قانون دنیا میں جاری کرے اور پھر خود ہی اُس قانون کو توڑ بھی دے کوئی معقول انسان بھی تو ایسے افعال نہیں کرتا۔ اِس قسم کی باتیں خدا تعالیٰ کے نبیوں کی طرف منسوب کرنا اُن کی عزت کو نہیں بڑھاتا بلکہ اُن کو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلک بیوقوفوں کے زمرہ کی طرف منسوب کرتا ہے اور ہر عقلمند انسان کا کام ہے کہ اِس بات کا مقابلہ کرے اور اِس چیز کو خوبی نہیں بلکہ الزام سمجھے اور اس کا ردّ کرے۔
باقی رہا یہ کہ خداتعالیٰ بعض ایسے افعال اپنے انبیاء کے ذریعہ سے صادر کرا دیتا ہے جو خداتعالیٰ کے قانون قدرت میں کوئی رخنہ نہیں ڈالتے اور عقل کے خلاف نہیں ہوتے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور قرآن کریم اِس بات کا مدعی ہے کیا غیب کا علم معجزہ نہیں۔ کیا غیر معمولی حالات میں کسی کمزور انسان کو دنیا پر غالب کر دینا یہ معجزہ نہیں۔ پھر جبکہ علاوہ قرآن کریم کے معجزہ کے قرآن کریم اِس بات کا بھی مدعی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر علم غیب ظاہر کیا جاتا تھا اور اِس بات کا بھی مدعی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خد اتعالیٰ اپنی قدرتیں اور اپنی تائیدیں ظاہر کیا کرتا تھا تو کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت معجزات کا انکار کرتا ہے۔ قرآن کریم تو بار بار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف معجزات منسوب کرتا ہے۔ کیا جب ایسے حالات میں مکہ والوں کی مخالفت کی خبر دی گئی تھی جبکہ اُن کی مخالفت کا کوئی امکان نہیں تھا، یا جب ہجرت کی خبر دی گئی اور اِس کا سن تک بتا دیا گیا یا جب قرآن کریم میں بدر کی جنگ کے واقعہ ہونے سے سالہا سال پہلے بدر کی جنگ کی خبر دی گئی اور اُس کے سال تک کی بھی خبر دی گئی اور اِس میں مسلمانوں کے جیتنے اور کفار کے ہارنے کی خبر دی گئی۔ یا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کرنے کی خبر دی گئی اور پھر ایک غالب اور فاتح شخص کی حیثیت میں مکہ میں واپس لوٹنے کی خبر دی گئی یا جب قرآن کریم میں رومیوں کی خطرناک شکست کے بعد اُن کے دوبارہ کامیاب ہو جانے اور ایرانیوں کے شکست کھانے کی خبردی گئی یا جب قرآن کریم نے اِسلام کے تمام عرب میں پھیل جانے کی خبر دی اور پھر دنیا کے دوسرے تمام ادیان پر غالب آجانے کی خبر دی اور آئندہ واقعات نے اِن تمام باتوں کی تصدیق کر دی تو کیا یہ معجزہ نہ تھا؟ اور کیا اِن باتوں کے بیان کرنے کے بعد قرآن کریم یہ دعویٰ کر سکتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا؟
قرآن کریم کی جن آیتوں سے معترضین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا درحقیقت اِس کا باعث اِن کی عربی سے ناواقفیت اور قرآن کریم کے اسلوب سے لاعلمی ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں جہاں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ہمیں معجزہ کے بھیجنے سے کسی بات نے نہیں روکا سوائے اِس کے کہ پہلے لوگ معجزات کا انکار کرتے چلے آئے ہیں وہاں آیت کے یہ معنی نہیں جیسا کہ عیسائی مصنفین سمجھے ہیں کہ اِس وجہ سے ہم معجزہ دکھانے سے رُک گئے ہیں بلکہ اِس کا مطلب تو یہ ہے کہ معجزہ دکھانے میں روک ہی کونسی ہے۔ صرف اتنی ہی روک ہو سکتی ہے کہ پہلے لوگوں نے معجزہ کا انکار کیا تو یہ کوئی روک نہیں، باوجود اس کے کہ ابتدائی انبیاء کے دشمنوں نے اِن کے معجزوں کو ردّ کیا، اِن کے بعد آنے والے انبیاء کو بھی معجزات ملتے رہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معجزات نہ ملیں۔
یا جب کفار کے مطالبہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ کہا جاتا ہے کہ میں تو تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں۔ تو اِس میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر معجزات ظاہر نہیں ہوتے بلکہ اِس جگہ صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ معجزہ دکھانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام نہیں خد اتعالیٰ کا کام ہے۔ کیا اِس زبردست حقیقت کا اظہار قرآن کریم کی شان بڑھاتا ہے یا گھٹاتا ہے؟ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے خدائی کے اختیار بندوں کو دے دئیے ہیں وہ سچائی کے پیرو کہلا سکتے ہیں یا وہ جو اپنی بشریت کا اظہار کرتے ہوئے اِس حقیقت کو پیش کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنے پیارے بندوں کے واسطہ سے معجزہ دکھاتا ہے۔
علاوہ پیشگوئیوں کے قرآن کریم میں دوسری قسم کے معجزات کا بھی ذکر آتا ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس معجزہ کا ذکر آتا ہے کہ غارِ ثور میں جب آپ پناہ گزیں تھے، تو مکہ والے کھوجیوں کو لے کر آپ کا کھوج نکالتے ہوئے غار ثور تک پہنچ گئے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر گھبرائے مگر آپ نے فرمایا ۵۵۸؎ گھبرائو نہیں خدا ہمارے ساتھ ہے۔ دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کیا یہ معجزہ نہیں جس کو قرآن کریم بیان کرتا ہے کیا دنیا اِس کی مثال پیش کر سکتی ہے!! دو آدمی بے سرو سامان ایک غار میں بیٹھے ہیں۔ دشمن اُن کا تعاقب کرتا ہوا وہاں پہنچ گیا ہے اور یونہی رسمی طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کے بھاگنے کو اپنی شکست تصور کرتا ہے اور اسے اتنا اہم معاملہ سمجھتا ہے کہ وہ آپ کے پکڑے جانے پر سَو اُونٹ کا انعام مقرر کرتا ہے، لیکن باوجود اس کے کہ کھوجی کہتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھوج یہاں تک آتا ہے، آگے نہیں جاتا۔ مکہ کے لوگوں کی آنکھوں اور اُن کے دلوں پر خد اتعالیٰ ایسا قبضہ کر لیتا ہے کہ تین میل کے تعاقب کرنے کے بعد اور اتنا انعام شائع کر دینے کے بعد اُن میں سے کسی شخص کو توفیق نہیں ملتی کہ وہ غار کے اندر جھانک سکے اور وہیں سے سب مکہ والے لوٹ جاتے ہیں۔ اِس سے بڑا معجزہ دنیا میں اور کیا ہوگا۔
پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جنگ بدر کے متعلق فرماتا ہے کہ اِس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریوں کی ایک مٹھی پھینکی اور اُس کے ساتھ دشمن تہہ وبالا ہو گیا۵۵۹؎ حدیثوں سے اِس واقعہ کی تفصیل یوں معلوم ہوتی ہے کہ جب بدر کی جنگ شدت اختیار کر رہی تھی اور کفار کا زور بڑھ رہا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکروں کی ایک مٹھی اُٹھا کر دشمنوں کی طرف پھینکی اور فرمایا شَاہَتِ الْوُجُوْہُ دشمنوں کے منہ بگڑ جائیں۔ تب خداتعالیٰ نے آپ کے اس فعل کے ساتھ ہی ایک تیز آندھی چلادی جسکی وجہ سے اُس میدان سے جس میں مسلمان کھڑے تھے ریت کے تودے اُڑ اُڑ کر کفار کی آنکھوں میں پڑنے شروع ہوئے اور وہ دیکھنے سے معذور ہوگئے اور اُن کے تیر مخالف ہوا کی شدت کی وجہ سے آدھے راستے میں ہی گرنے لگ گئے اور مسلمانوں کو ایک غیر معمولی طاقت اور قوت حاصل ہوگئی۔ کیا یہ معجزہ نہیں؟ اور کیا اس واقعہ کو بیان کرکے قرآن کریم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف معجزہ منسوب نہیں کیا ہاں قرآن کریم اِس قسم کی جاہلانہ باتیں نہیں کہتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقی مردے زندہ کیا کرتے تھے۔ یا سورج اور چاند کی رفتار کو ٹھہرا دیا کرتے تھے۔ یا دریائوں کو کھڑا کر دیتے تھے یا پہاڑوں کو چلایا کرتے تھے۔ یہ تو پنگھوڑے میں کھیلنے والے بچوں کی کہانیاں ہیں۔ اِن باتوں کو قرآن کریم نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے نہ کسی اور نبی کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ اگر پہلی کتب میں اِس قسم کی باتیں بیان بھی ہوئی ہیں تو قرآن کریم اِن کی تشریح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ باتیں محض استعارۃً ہیں لوگوں نے اِن کو حقیقی رنگ دینے میں غلطی کی ہے۔
قرآنی تعلیم کے اُصول
قرآن کریم کو دوسری تمام کتب پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ مذہب کے متعلق سب کے سب سوالات کو حل کرتا ہے اور
مذہب کے اُصول کو نمایاں طور پر پیش کرکے لوگوں کی توجہ اِس طرف پھراتا ہے کہ مذہب کا کیا دائرہ ہے اور اِس کا کیافائدہ ہے۔ تورات کو پڑھ جائو، انجیل کو پڑھ جائو، ویدوں کو پڑھ جائو، ژند اَوِستا کو پڑھ جائو یا اور کسی کتاب کو پڑھ جائو، یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک لمبے مظاہرۂ قدرت کے درمیان کسی وقت کوئی شخص آپہنچا ہے اور اُس نے اِس مظاہرہ کو اُس وقت سے بیان کرنا شروع کر دیا ہے جب سے اُس کی نظر اُس پر پڑی ہے، لیکن قرآن کریم مذہب کو اس رنگ میں پیش نہیں کرتا وہ خلق کی حکمت اور اِس کی پیدائش کے ساتھ تعلق رکھنے والے سب اُمور کو بیان کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو کیوں پیدا کیا ہے، انسان کے پیدا کرنے سے اس کی غرض کیا ہے، اِس غرض کے پورا کرنے کے لئے کونسے ذرائع اختیار کرنا ضروری ہیں خود اللہ تعالیٰ کا وجود کیا ہے اور کیسا ہے؟ اِس کی کیا کیا صفات ہیں اور وہ صفات کس طرح دنیا میں جاری ہوتی ہیں؟ بنی نوع انسان کی پیدائش کا مقصد بتاتے ہوئے اُس نے اِس نظام کی تشریح کی ہے جوا س دنیا کو چلانے کے لئے جاری کیا گیا ہے۔ وہ ایک طرف تو یہ بتاتا ہے کہ جسمِ انسانی کے ارتقاء اور نشوونما کے لئے خدا تعالیٰ نے دنیا میں ایک قانونِ قدرت جاری کیا ہے جو انسان کے جسم اور اِس کے دماغ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ تمام قانونِ قدرت خداتعالیٰ کے ملائکہ میں سے ایک قسم کے ملائکہ کے سپرد ہے۔ دوسری طرف انسانی روح کی ترقی اور اِس کی بصیرت کو جلا بخشنے کیلئے اُس نے قانونِ شریعت کو قائم کیا ہے۔ یہ قانونِ شریعت ملائکہ کی ایک دوسری قسم کے ذریعہ سے دنیا میں نازل ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے انبیاء پر نازل ہوتا ہے۔ کبھی تو یہ شریعت ایک مکمل قانون کی صورت میں نازل ہوتی ہے۔ کبھی ایک جزوی اصلاح کی صورت میں نازل ہوتی ہے اور کبھی انسانی تشریحات سے بگاڑی ہوئی شکل کو دوبارہ بحال کرنے کی صورت میں نازل ہوتی ہے۔ یعنی کبھی اللہ تعالیٰ کے نبی اِس لئے آتے ہیں کہ اُن کے ذریعہ سے ایک نئی شریعت قائم کی جائے۔ کبھی اِس لئے آتے ہیں کہ پرانی شرائع کی بعض غلطیوں کی اصلاح کی جائے۔ کبھی اِس لئے آتے ہیں کہ شریعت کے معنی کرنے میں جو لوگ غلطی کرنے لگ جاتے ہیں اُن کی اصلاح کریں۔ پھر وہ شریعت کی حکمتیں بیان کرتا ہے کہ کیوں خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت کا آناضروری ہے۔ اِس کے فوائد کیا ہیں اور شریعت انسان کی ترقی میں کیا مدد دیتی ہے۔ وہ صفات اور ذات کا فرق بیان کرتا ہے اور اِس سے ہمیں معلو م ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہا کہ :
’’ ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھاا ور کلام خدا تھا‘‘۔۵۶۰؎
وہ سخت غلطی خوردہ ہیں۔ صفت ذات کی قائم مقام نہیں ہوسکتی۔ صفت صفت ہی ہے اور ذات ذات ہی ہے۔
قرآن کریم انسان کے مختار اور مجبور ہونے کے متعلق بھی روشنی ڈالتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس حد تک انسان مجبور ہے اور کس حد تک مختار ہے اور پھر وہ اس پرروشنی ڈالتا ہے کہ انسان اِس حد تک مجبور نہیں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہی سے بری ہو جائے یا اس کی اصلاح نہ ہو سکے۔ ہاں وہ اِس حد تک مجبور ضرور ہے کہ اس دائرہ عمل سے باہر نہیں جا سکتا جو خداتعالیٰ نے اس کے لئے تجویز کیا ہے۔ انسان اپنی ساری کوششوں کے بعد انسان ہی رہے گا نہ اُسے جمادات کی طرح بنایا جا سکتا ہے نہ وہفرشتوں کی طرح بنایا جا سکتا ہے لیکن اپنے دائرہ کے اندر اندر اُسے بہت کچھ طاقتیں حاصل ہیں اور بحیثیت انسان وہ کسی صورت میں بھی اصلاح اور نصیحت کے دائرہ سے باہر نہیں۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان کیسا لانا چاہئے۔ اس کی ہستی کے ثبوت کیا ہیں۔ اور وہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی تاریکی کے وقتوں میں اپنا کلام نازل کر کے اور اپنی غیر معمولی قدرتوں کو ظاہر کر کے اپنی ہستی کو ثابت کرتا رہتا ہے اور یہی اُس کے وجود کا حقیقی ثبوت ہے۔ پس انبیاء اور اُن کے کامل اتباع کا وجود خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثابت کرنے کے لئے دنیا میں نہایت ضروری ہے۔ اگر خدا تعالیٰ انبیاء اور اُن کے ابتاع کے آئینہ میں اپنی شکل نہ دکھاتا رہے تو دنیا شکوک و شبہاب کے گڑھے میںگر جائے اور خدا تعالیٰ کا وجود دنیا سے مٹ جائے۔ پس جب تک دنیا قائم ہے خدا تعالیٰ سے کلام پانے والے اور اس کے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہونے والے آدمی دنیا میں آتے رہیں گے اور یہ سلسلہ کبھی بھی ختم نہ ہوگا کیونکہ ایمان کا قیام اس ذریعہ سے ہے کہ خدا تعالیٰ ابتدائے عالم سے لے کر مسیح تک اور مسیح سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کلام کرتا چلا آیا ہے اُسی طرح جس طرح کہ وہ پیدا کرتا چلا آیا ہے، جس طرح وہ سنتا چلا آیا ہے، جس طرح وہ دیکھتا چلا آیا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی مخلوق کی انتہاء تک اپنے خاص خاص بندوں سے کلام کرتا چلا جائے گا اور اپنی ذات کو دنیا پر ظاہر کرتا رہے گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ مسیح یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تووہ گویا رہا ہو اور پھر وہ گونگا ہو گیا ہو۔جس طرح یہ نہیں ہو سکتا کہ مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تو وہ بینا تھا مگر بعد کو اندھا ہو گیا۔ یا مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تو وہ خالق تھا مگر اس کے بعد اس سے صفت خلق جاتی رہی۔ یا مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تو وہ طاقتور تھا مگر اس کے بعد اُس کی طاقت سلب ہوگئی۔ کون عقلمند اِس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا پہلے طاقتور تھا اب کمزور ہو گیا ہے یا خدا پہلے بینا تھا اب اندھا ہو گیا ہے۔ یا مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک وہ خالق تھا اس کے بعد پیدائش کی طاقت اُس کے ہاتھوں سے نکل گئی۔ یا مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تو وہ علیم تھا اس کے بعد اس کا علم جاتا رہا۔ تعجب کی بات ہے کہ باوجود اس کے کہ حقیقت اتنی واضح ہے پھر بھی زرتشتی، یہودی، عیسائی اور آجکل کے غلطی خوردہ مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام زرتشت، پرانے اسرائیلی نبیوں ، مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر ختم ہو گیا ہے۔ قرآن اِس کو ردّ کرتا ہے۔ قرآن خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت ہی اس بات کو قرار دیتا ہے کہ خدا اپنے نیک بندوں سے ہمیشہ کلام کرتا رہے گا جس طرح وہ پہلے کلام کیا کرتا تھا اور اِس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور نے ایک دفعہ پھر اس قرآنی صداقت پر مہر لگا دی ایک دفعہ پھر خدا تعالیٰ کا کلام آپ پر اور آپ کے سچے اتباع پر نازل ہو کر دنیا کے اُن لوگوں کو چیلنج دے رہا ہے جو لفظاً نہیں تو عقیدۃً ضرور خدا تعالیٰ کو گونگا بنارہے تھے۔
قرآن اِس بحث کو بھی اُٹھاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام کسی ایک قوم سے مخصوص نہیں بلکہ تمام اقوام میں خدا تعالیٰ کے نبی آتے رہے ہیں اور وہ اس سوال کو بھی اُٹھاتا ہے کہ یکے بعد دیگرے خدا تعالیٰ کے نبی کیوں آتے رہے اور کیوں نہ ایک کامل کتاب ابتدائی زمانہ میں ہی نازل ہو گئی۔ پھر قرآن کریم توحید کے مسئلہ پر ایک سیر کن بحث کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ایک ہونے کے کیا ثبوت ہیں۔ کیوں کہ ایک سے زیادہ خدا تسلیم کرنا عقل کے خلاف ہے اور واقعہ کے بھی خلاف ہے اور دنیا کو توحید کے عقیدہ سے کیا کچھ روحانی فائدہ پہنچتا ہے۔
خدا تعالیٰ کی ذات کے بعد نبوت کا مقام ایک ایسا مقام ہے جو دنیا کے لئے ہمیشہ زیر بحث چلا آیا ہے۔ نبی یا اس کے ہم معنی الفاظ کا استعمال تو تمام کتابوں میں پایا جاتا ہے، لیکن قرآن کے سوا کوئی ایک کتاب بھی نہیں جو یہ بتاتی ہو کہ اس لفظ کی تشریح کیا ہے؟ ہم کس شخص کو نبی کہہ سکتے ہیں اور کس شخص کو نبی نہیں کہہ سکتے اور نبوت کی کیا کیا اقسام ہیں، قرآن ہی ہے جو بتاتا ہے کہ نبی کی تعریف کیا ہے، نبیوں کی کتنی قسمیں ہیں،نبی اور غیر نبی میں کیا فرق ہے، نبی کے فرائض کیا ہیں، نبی اور خدا میں کیا فرق ہے، نبی کی بعثت کی غرض کیا ہے، نبی اور اس کی اُمت کے درمیان کیسا تعلق ہونا چاہیے، نبی کے حقوق کیا ہیں،نبی اور اس کے منکروں کے تعلقات کی بنیاد کیا ہونی چاہئے، کیا نبی خدا اور بندوں کے درمیان ایک دیوار حائل کی حیثیت رکھتا ہے یا وہ محض ایک ممد اور مدد گار کی حیثیت رکھتا ہے۔
اسی طرح قرآن کریم ملائکہ کے متعلق تفصیلی بحث کرتاہے۔ ملائکہ کے کیا کام ہیں، خداتعالیٰ نے ملائکہ کو کیوں بنایا ہے، اسی طرح وہ یہ بھی بحث کرتا ہے کہ شیطان کیا ہے، اس کا وجود بنی نوع انسان کے لئے کیوں ضروری ہے، شیطان کے وساوس سے انسان کس طرح بچ سکتا ہے، شیطان اور انسان کا کیا تعلق ہے، کیا شیطان انسان کو مجبور کر سکتا ہے یا نہیں کر سکتا۔اور وہ بتاتا ہے کہ جس طرح ملائکہ انسان کے دل میں نیک تحریکیں پیدا کرتے ہیں اسی طرح شیاطین بدتحریکیں پیدا کرتے ہیں لیکن انسان کے اندر دونوں طاقتیں موجود ہیں۔ وہ ملائکہ کی نیک تحریکوں کو قبول بھی کرسکتا ہے اور اُن کا مقابلہ بھی کر سکتا ہے۔ وہ شیطان کی بد تحریکوں کو قبول بھی کر سکتا ہے اور اُن کا مقابلہ بھی کر سکتا ہے یہ دونوں وجود انسان کو کامل کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور اُس کے وجود کوا یک حقیقت عطا کرنے کا ذریعہ ہیں۔ ملکی اور شیطانی تحریکوں کے بغیر انسان کسی انعام کا مستحق نہیں بن سکتا اور نہ وہ کسی سزا کا مستوجب بن سکتا ہے۔ اگر شیطان انسان پر اثر ڈالنے والا نہ ہو توانسان کسی انعام کا بھی مستحق نہیں اور اگر ملکی تحریکیں دنیا میں موجود نہ ہوں تو انسان کسی سزا کا بھی مستوجب نہیں۔ بدی ہی کا مقابلہ انسان کو انعام کا مستحق بناتا ہے اور نیکی سے منہ موڑنا ہی انسان کو سزا کا مستوجببناتا ہے۔ قرآن کریم اِس سوال پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ دعا کیا ہے، دعا کرنے کے طریق کیا ہیں، دعائیں کن حالات میں قبول ہوتی ہیں اور کن حالات میں قبول نہیں ہوتیں۔ دعائوں کی قبولیت کا دائرہ کیا ہے۔ وہ نیکی اور بدی پر بھی بحث کرتا ہے کہ نیکی کیا چیز ہے اور بدی کیا چیز ہے، ان کی حدیں کہاں ملتی ہیں ،حقیقی نیکیاں کیا ہیں اور حقیقی بدیاں کیا ہیں، نسبتی نیکیاں کیا ہیں اور نسبتی بدیاں کیا ہیں، وہ نیکی اور اخلاق فاضلہ پیدا کرنے کے طریق بتاتا ہے، وہ بدیوں سے بچنے کے طریق بتاتا ہے، وہ نیکیوں اور بدیوں کے منبع پرروشنی ڈالتا ہے اور بدیوں کے منبع کو بند کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ توبہ پر بھی روشنی ڈالتا ہے، توبہ کی حقیقت بتاتاہے، توبہ کے فوائد بتاتا ہے، توبہ کے مواقع بتاتا ہے اور توبہ کی شرائط بیان کرتا ہے۔ اسی طرح وہ جزاء سزا کے متعلق بھی پوری روشنی ڈالتا ہے جزاء کن حالات میں دی جاتی ہے، سزا کن حالات میں دی جاتی ہے جرم اور سزا کی نسبت کیا ہونی چاہئے۔
پھر وہ اسی سلسلہ میں نجات کی تفاصیل بیان کرتا ہے۔ نجات کیا ہے اور کس طرح حاصل ہوتی ہے اور کیا ہر ایک بدی انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ نجات تین قسم کی ہے، کامل، ناقص اورملتوی۔ کامل نجات انسان اسی دنیا سے حاصل کرتا ہے۔ ناقص نجات والا انسان مرنے کے بعد تدریجی طور پر اپنی نجات کے سامانوں کو مکمل کرتا ہے اور ملتوی نجات وہ ہے جو سزائے جہنم لے لینے کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ اس آخری قسم کی نجات کے بارہ میں اسلام اور عیسائیت میں ایک رنگ میں تشابہہ بھی ہے اور ایک رنگ میں تخالف بھی ہے۔ عیسائیت صرف کمزور عیسائیوں کو جو اپنے عقیدہ میں پکے ہوں اس دوزخ کا سزاوار قرار دیتی ہے کہ جس میں سے نکل کر انسان جنت میں پہنچ جاتا ہے لیکن اسلام اِس بات پر زور دیتا ہے کہ ہر انسان نجات ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور خواہ کوئی کیسا ہی کا فر ہو مختلف قسم کے علاجوں کے بعد جن میں سے ایک علاج جہنم بھی ہے وہ آخر جنت کو پالے گا۔ قرآن نجات کے بارہ میں وزنِ اعمال پر زور دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ نیک اعمال کا بڑھ جانا انسان کی نجات کے لئے اس کی سچی کوشش پر دلالت کرتا ہے اور جو شخص سچی کوشش کرتا ہوا مر جاتا ہے وہ اس سپاہی کی طرح ہے جو فتح سے پہلے مارا جاتا ہے۔ موت جس طرح سپاہی کے اختیار میں نہیں اسی طرح نیکی کی راہ اختیار کرنے والے کے بھی اختیار میں نہیں۔ موت خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اگر ایک شخص نیکی کے لئے جدوجہد کرتے ہوئے مر جاتا ہے تو یقینا وہ خد اکے فضل کا مستحق ہے سزا کا مستوجب نہیں۔ کوئی قوم اپنے سپاہیوں کو اِس بات پر ملامت نہیں کیا کرتی کہ وہ فتح پانے سے پہلے کیوں مارے گئے بلکہ فتح کے لئے بھی سچی کوشش کرنے والا سپاہی عزت پاتا ہے اِسی طرح وہ شخص جو شیطان کو زیر کرنے کے لئے پورا زور لگا رہا ہے کبھی شیطان اُس پر غالب آجاتا ہے اور کبھی وہ شیطان پر غالب آجاتا ہے مگر وہ دل نہیں ہارتا، وہ ہمت نہیں ہارتا، وہ ہتھیار نہیں ڈالتا، وہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے قیام کے لئے شیطان سے لڑتا چلا جاتا ہے ایسا انسان قرآن کے نزدیک یقینا نجات کا مستحق ہے۔ اُس کی کمزوری اُس کے لئے ایک زیور ہے کیونکہ وہ باوجود کمزور ہونے کے خدا کے سپاہیوں میں شامل ہونے سے ڈرا نہیں اور اپنی قربانی پیش کرنے سے ہچکچایا نہیں۔
قرآن کریم روحانی ارتقاء کی منازل بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ روحانی مدارج کیا ہیں، کتنے ہیں اور مختلف اخلاق کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ روحانی مدراج کی تفصیل بیان کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ عفت کتنی اقسام کی ہے، وہ بتاتا ہے کہ سخاوت کتنی اقسام کی ہے، وہ سچائی کی اقسام بیان کرتا ہے، وہ رحم اور حسن سلوک کے مدراج بیان کرتا ہے تاکہ ہر طاقت و قوت کا انسان اپنے لئے ایک قریب کی منزل مقرر کر سکے اور اس طرح جہاں اُس کی حوصلہ افزائی ہو وہاں چھوٹی ترقی پر خوش ہونے کی غلطی میں وہ مبتلا نہ ہو جائے۔ وہ ہر شخص کے قریب کی منزل اُسے بتاتا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ اس سے اُوپر ایک اور منزل بھی ہے۔ جب تم پہلی منزل طے کر لو تو تمہیں اُوپر کی منزل کی طرف اپنا قدم بڑھانا چاہئے اس طرح وہ قدم بقدم اور درجہ بدرجہ انسان کو اُوپر لئے چلا جاتا ہے۔ قرآن انسان کے دماغی ارتقاء پر بھی روشنی ڈالتا ہے وہ بتاتا ہے کہ انسان کا دماغی نشوونما کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کے دماغی نشوونما کا بھی اس کے متعلق فیصلہ کرنے کے وقت لحاظ رکھا جاتا ہے وہ شخص جو ایک اچھے ماحول میں پلا ہے اور جس کے لئے نیکی کا رستہ آسان ہو گیا ہے وہ محض اپنے اعمال کی وجہ سے دوسرے پر فضیلت نہیں پائے گا، بلکہ دوسرا شخص جس کا دماغی نشوونما اس پہلے شخص کے برابر نہیں اور جس کا ماحول اس جیسا اچھا نہیں اُس کے رستہ کی روکوں کو بھی نظرا نداز نہیں کیا جائے گا اور فیصلہ کے وقت اُنہیں بھی مدنظر رکھا جائے گا۔ قرآن ایمان پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایمان کیا چیز ہے، ایمان کی علامتیں کیا ہیں، ایمان کے حصول کے ذرائع کیا ہیں وہ قانونِ شریعت اور اُس کی ضرورت کے متعلق بھی روشنی ڈالتا ہے اور بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قانون بھی بغیر حکمت کے نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ اپنے بندے کو کوئی حکم اس لئے نہیں دیتا کہ وہ اسے سزا دے اور اس پر بوجھ ڈالے بلکہ وہ ہر حکم اس لئے دیتا ہے کہ وہ انسان کی ترقی کی منزل میں ممد اور معاون اور اس کی تمدنی حالت کو سدھارنے والا ہوتا ہے قرآن جبری حکموں کا قائل نہیں وہ اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ خدا بھی جس شخص کو سزا دے اس شخص کو اپنی ذات سے الزام کو دور کرنے کا پورا موقع ملنا چاہئے اور اس کے اُوپر پوری طرح حجت تمام ہونی چاہئے خواہ کوئی کتنا ہی بڑا مجرم ہو مگر اُس پر حجت تمام ہوئے بغیر قرآن اُس کی سزا کا قائل نہیں۔
عبادت کی چار اُصولی قسمیں
قرآن عبادتِ الٰہی کے متعلق بھی تفصیلی روشنی ڈالتا ہے وہ عبادت کو چار اُصولی حصوں میں تقسیم کرتا ہے
(۱) وہ عبادت جس کی غرض خد اتعالیٰ کے ساتھ محبت اور اس کے ساتھ تعلق بڑھانا ہے۔
(۲) وہ عبادت جو انسان کے جسم کی اصلاح کے لئے قربانیاں کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے ہوتی ہے۔
(۳) وہ عبادت جو انسانوں کے اندر مرکز یت پیدا کرنے کے لئے اور اتحاد و یگانگت کا احساس پیدا کرنے کے لئے مقرر کی جاتی ہے۔
(۴) وہ عبادت جو بنی نوع انسان کی اقتصادی حالتوں میں یکسوئی اور یکرنگی پیدا کرنے کے لئے مقرر کی جاتی ہے۔ یہ چار اصول عبادت کے اِسلام مقرر کرتاہے اور اِن چار اُصول کے مطابق اس نے مختلف قسم کی عبادتیں مقرر کی ہیں۔ اِن اُصول کو تجویز کر کے اِسلام نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ عبادت صرف اِسی بات کا نام نہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کی طرف دھیان دے بلکہ بنی نوع انسان کی طرف توجہ کرنے سے بھی خدا تعالیٰ کی عبادت کا فرض ادا ہوتاہے۔ اسی طرح اسلام نے یہ نکتہ بھی پیش کیا ہے کہ عبادات صرف انفرادی نہیں بلکہ وہ اجتماعی بھی ہوتی ہیں۔ انسان کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ خود خدا کے سامنے پیش ہو جائے، بلکہ انسان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کو بھی خدا کے سامنے پیش ہونے کے لئے تیار کرے اس لئے قرآن کے جتنے احکام عبادات کے متعلق ہیں وہ انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی ہیں۔
اِسلامی نماز اور مسجدیں
خد تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے اور براہ راست خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اسلام میں نماز مقرر کی گئی
ہے یہ نماز دنیا کے اور تمام مذاہب کی عبادتوں سے مختلف ہے۔ اس نماز میں انفرادیت اور اجتماعیت دونوں کا لحاظ رکھا گیا ہے اور رسم و نمائش کو بالکل نظرا نداز کر دیا گیا ہے۔ عبادتوں کے لئے جس قسم کے گرجے اور مندر پہلے زمانہ میںبنا کرتے تھے اور جو جو تکلفات ان کے متعلق کئے جاتے تھے قرآن نے اُن سب کو منسوخ کر دیا ہے۔ قرآن خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے زمین کے ہر ٹکڑہ کو مستحق عبادت سمجھتا ہے۔ کوئی ٹکڑہ اس بارہ میں دوسرے سے فضیلت نہیں رکھتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قرآنی حکم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِداً۔۵۶۱؎ خدا تعالیٰ نے ساری زمین کو ہی میرے لئے مسجد بنادیا ہے۔ آپ کے اِس فقرہ کے کئی معنی ہیں۔ مگر ایک معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا کے ہر حصہ میں اور ہر جگہ پر مسلمان نماز پڑھ سکتا ہے اس کے لئے ضروری نہیں کہ جس طرح ایک عیسائی یا ہندو گرجا یا مندر کے سِوا کسی جگہ عبادت نہیں کر سکتا۔ وہ بھی عید کے سِوا کسی اور جگہ عبادت نہ کر سکے۔ اور اس کے لئے ضروری نہیں کہ جس طرح کسی عیسائی یا ہندو کو ضرور کوئی پادری اور پنڈت ہی عبادت کرا سکتا ہے اُس کو بھی کوئی مولوی یا مُلاّ ہی نماز پڑھائے۔ اسلام پادریوں اور پنڈتوں کا قائل نہیں۔ وہ ہر نیک انسان کو خدا تعالیٰ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور ہر نیک انسان کونماز میں راہنمائی کرنے کاحق دیتا ہے۔ بیشک اسلام میں مساجد بھی ہیں لیکن وہ مساجد اس لئے نہیں کہ وہ جگہیں نماز کے لئے زیادہ مناسب تھیں بلکہ مساجد صرف اس لئے ہیں کہ کسی نہ کسی جگہ پر لوگوں کو جمع ہو کر اجتماعی نماز بھی ادا کرنی چاہئے۔ مساجد اجتماع کی سہولت کا ذریعہ ہیں کوئی خاص رسوم اختیار نہیں کی جاتیں جن سے یہ جگہیں متبرک کی جاتی ہوں جیسا مندر اور گرجے ہیں۔ ہر چاردیواری جس میں مسلمان جمع ہو کر اجتماعی طور پر خدا تعالیٰ کی عبادت کریں وہ مسجد کہلاتی ہے اس کے لئے کسی شکل کی ضرورت نہیں نہ وہا ں کوئی آلٹر ہے نہ مقدسوں کی کوئی نشانیاں ہیں سادگی سے مسلمان ایک جگہ پر جمع ہوتے ہیں ان کی عبادت تمام دنیوی آلائشوں سے منزہ اور پاک ہوتی ہے۔ کوئی باجا نہیں ہوتا کوئی گانا نہیں ہوتا۔ کوئی ناچ نہیں ہوتا۔ بڑے بڑے جبے پہن کر پادری نہیں آتے۔ شمعیں جلائی نہیں جاتیں۔ سریلے ارغنونوںاور خوشبودار دھونیوں سے لوگوں کے دماغوں کو مسحور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ کھڑکیوں کے آگے لٹکے ہوئے پردے انسان کو ایک تاریک ماحول پیش کرکے ڈرانے کی کوشش نہیں کرتے۔ بزرگوں کی تصویریں انہیں خداتعالیٰ کی جگہ اپنی طرف بلا نہیں رہی ہوتیں۔ سب مسلمان وقت مقررہ پر ایک جگہ پر جمع ہوتے ہیں اور صفیں باندھ کر یہ بتانے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ جہاں ہم اپنے گھروں میں انفرادی نمازیں پڑھ کر آئے ہیں وہاں ہم قومی طور پر بھی خدا تعالیٰ کی عبادت قائم کرنے کیلئے حاضر ہیں بغیر کسی باجے گاجے کے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اُس کی ثنا کرتے ہیں اورا س کے حضور میں دعائیں کرتے ہیں اور اپنی اصلاح اور روحانی اور جسمانی ترقی اور اپنے دوستوں اور عزیزوں اور باقی سب دنیا کی جسمانی اور روحانی ترقی کے لئے اس کے سامنے درخواستیں پیش کرتے ہیں۔ ان کی اس سادہ نماز کی شان یہ ہوتی ہے کہ نماز کے وقت میں کوئی مؤمن اِدھر اُدھر نہیں دیکھ سکتا نہ نماز میںکسی اور سے بات کر سکتا ہے۔ غریب اور امیر ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں۔ بادشاہ کے ساتھ اس کا خادم کھڑا ہونے کا حق رکھتا ہے اُس کا کناس بھی اس کے ساتھ کھڑا ہونے کا حق رکھتا ہے۔ نماز کے وقت ایک جج اور ایک مجرم، ایک جرنیل اور ایک سپاہی پہلو بہ پہلو کھڑے ہوتے ہیں کوئی کسی کی طرف انگلی نہیں اُٹھا سکتا، کوئی کسی کو اس کی جگہ سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا۔ تمام کے تمام خاموشی سے خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور امام کے اشارے پر رکوع اور سجود اور قیام کے احکام بجا لاتے ہیں بعض وقت امام قرآن شریف کی آیتیں بلند آواز سے پڑھتا ہے تاکہ ساری جماعت ایک خاص نصیحت کو اپنے سامنے لے آئے اور نماز کے بعض حصوں میں ہر شخص اپنے اپنے طور پر مقررہ دعائیں یا وہ دعائیں بھی جن کو وہ چاہتا ہے پڑھتا ہے۔ مساجد مسلمانوں کے اجتماع کی جگہ بھی ہیں اور مساجد مسلمانوں کے تمام قسم کے مذہبی اور علمی کاموں کو سر انجام دینے کی جگہ بھی ہیں۔ مساجد اُن کے مدارس بھی ہیں اور مساجد اُن کے نکاح خانے بھی ہیں اور مساجد اُن کی قضا اور فیصلہ کے مقام بھی ہیں جہاں اُن کے مقدمات کے فیصلے کئے جاتے ہیں اور مساجد جنگی اور اقتصادی تدابیر کے فیصلہ کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہیں۔ نماز کے علاوہ ایک اِس قسم کی عبادت جس میں ذکر الٰہی کیا جاتا ہے وہ بھی ہے جبکہ انسان خاموشی سے بیٹھ کر اُس کو یادکرتا ہے اورا س کی صفات کو اپنے دل میں جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
اِسلامی روزہ
دوسری قسم کی عبادت جس میں نفس کی اصلاح مدنظر ہوتی ہے، روزہ ہے۔ اسلامی روزہ بھی دوسرے لوگوں کے روزوں سے مختلف ہے۔ ہندو اپنے
روزوں میں کئی چیزیں کھا بھی لیتے ہیں، پھر بھی اُن کا روزہ قائم رہتا ہے۔ عیسائیوں کے روزے بھی اس قسم کے ہیں کہ کسی روزے میں گوشت نہیں کھانا، کسی میں خمیری روٹی نہیں کھائی جاتی۔ اسلامی روزہ بھی نماز کی طرح انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔ چنانچہ تمام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ وہ سال کے مختلف اوقات میں نفلی روزے رکھا کریں مگر رمضان کے مہینہ میں دنیا کے تمام مسلمانوں کو خواہ وہ کسی گوشہ میں رہتے ہوں ایک ہی وقت میں روزے رکھنے کا حکم ہے۔ وہ صبح کو پَو پھٹنے سے پہلے کھانا کھاتے ہیں اور پھر سارا دن سورج کے ڈوبنے تک نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں۔ سورج کے ڈوبنے کے بعد صبح تک ان کو کھانے پینے کی اجازت ہوتی ہے اُن سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ان دنوں میں جہاں کھانے وغیرہ سے پرہیز کریں وہاں اپنے نفس کو زیادہ سے زیادہ نیکی پر قائم کرنے کی کوشش کریں کیو نکہ روزہ اُنہیں یہ سبق دیتا ہے کہ جب تم خدا کے لئے حلال چیزوں کو چھوڑ دیتے ہو تو حرام چیزوں کو چھوڑنا تمہارے لئے بدرجہ اَولیٰ ضروری ہے یہ روزے تمام ایسے ممالک میں جہاں دن چوبیس گھنٹے سے کم ہے اور جہاں رات اور دن چوبیس گھنٹے کے اندر الگ الگ وقتوں میں ظاہر ہوتے ہیں اس شکل میں ہیں جو اُوپر بیان کی گئی ہے لیکن جن ملکوں میں رات اور دن چوبیس گھنٹوں سے لمبے ہو جاتے ہیں ان علاقوں میں رہنے والوں کے لئے صرف وقت کا اندازہ کرنے کا حکم ہے۔
حج بیت اللہ
تیسری قسم کی عبادت کی مثال حج ہے۔ حج مسلمانوں میں ایک مرکزیت کی روح پیدا کرنے کیلئے مقرر کیا گیا ہے دنیا کے تمام صاحب استطاعت
مسلمان ایک خاص وقت میں مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور اس طرح ہر سال عالم اسلام کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع مل جاتا ہے اور اپنی اور باقی دنیا کی ضرورتوں کے متعلق غور کرنے کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ مگر حج کے علاوہ ایک عمرہ کی عبادت بھی ہے جس میں کسی وقت کی شرط نہیں وہ انفرادی عبادت ہے۔ مختلف وقتوں میں جب بھی کسی کو توفیق حاصل ہوتی ہے وہ مکہ میں جاتا اور اس فریضہ کو ادا کرتا ہے۔ اس حکم سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مرکز کے قیام کے لئے مسلمانوں کو اجتماعی اور انفرادی دونوں قسم کی قربانیاں کرنی چاہئیں۔
زکوٰۃ و صدقہ خیرات
چوتھی قسم کی عبادت کی مثال صدقہ و خیرات ہے۔ اس عبادت کی بھی اسلام نے انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتیں مقرر کی
ہیں اور فرضی اور نفلی مقرر کی ہیں۔ ہر عید کے موقع پر رمضان کے بعد عید کی نماز سے پہلے ہر مؤمن کے لئے فرض ہے کہ وہ کم سے کم ڈیڑھ سیر گندم یا اور مناسب غلہ خدا کے لئے غرباء کی امداد کی خاطر دے خواہ غریب ہو یا امیر۔ غریب اس میں سے دے جو اُس کو اُس دن ملا ہو اور امیر اس میں سے دے جو اس نے پہلے سے کما چھوڑا ہو۔ اِس حکم کے سلسلہ میں ایک زکوٰۃ کا بھی حکم ہے جو ہر امیر پر واجب ہے۔ ہر شخص جو کوئی روپیہ اپنے پاس جمع کرتا ہے یا جانور تجارت کے لئے پالتا ہے اُس پر ایک رقم مقرر ہے۔ اسی طرح ہر کھیتی کی پیداوار پر ایک رقم مقرر ہے کھیتی کی پیداوار پر دسواں حصہ اور تجارتی اموال پر اندازاً اڑھائی فیصدی۔ ( اس کے احکام تفصیلی مقرر ہیں مگر اس مضمون میں تفصیلات کی گنجائس نہیں) یہ اڑھائی فیصدی صرف نفع پر نہیں دیا جاتا بلکہ رأس المال اور نفع سب پر دیا جاتا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ اسلام اس ذریعہ سے روپیہ جمع کرنے کو روکنا چاہتا ہے۔ زمین کے لئے دسواں حصہ اور تجارتی مال کے اُوپر اڑھائی فیصدی میں جو فرق ہے یہ بظاہر غیر معقول نظر آتا ہے مگر درحقیقت اِس میں بڑی بھاری حکمت ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ زمین کی پیداوار پر ٹیکس دیا جاتا ہے اور تجارتی مال میں رأس المال پر بھی ٹیکس ہوتا ہے چونکہ زمین کے رأس المال پر ٹیکس نہیں لگا اس لئے پیداوار پر دسواں حصہ لیا گیا اور تجارتی مال میں چونکہ رأس المال پر بھی ٹیکس لگ گیا اس لئے صرف اڑھائی فیصدی نسبت رکھی گئی۔
دیگر اُمورِ ضروریہ کا ذکر قرآن مجید میں
قرآن شریف بنی نوع انسان کے باہمی معاملات پر بھی تفصیلی روشنی ڈالتا
ہے وہ تعاونِ باہمی کی ضرورت کو پیش کرتا ہے ا نفرادیت اور اجتماعیت کی حدود کو قائم کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ انفرادیت کے کیا حقوق ہیں اور اجتماعیت کے کیا حقوق ہیں، وہ حکومت کی حقیقت اور اُس کے فرائض بیان کرتا ہے، وہ حکومت کی ذمہ داریاں بیان کرتا ہے، وہ رعایا اور حکومت کے تعلق پر روشنی ڈالتا ہے، وہ مالک اور مزدور کے تعلقات پر روشنی ڈالتا ہے اور بین الاقوامی تعلقات کے اُصول بیان کرتا ہے۔ قرآن صراحتاً اور وضاحتاً حکم دیتا ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہونی چاہئے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسی حکمت کے ماتحت وہ ایک طرف تو سُود کو منع کرتا ہے جس کے ذریعہ سے بعض ہوشیار لوگ دنیا کی دولت اپنے پاس جمع کر لیتے ہیں اور دوسری طرف وہ ورثہ کے تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس بات کو جائز نہیںر کھتا کہ کوئی باپ یا ماں اپنی جائیداد صرف ایک بیٹے کو دے دے۔ تیسرے وہ زکوٰۃ کے ذریعہ اور صدقہ و خیرات کے ذریعہ مال ودولت امراء کے ہاتھ سے لے کر غریبوں تک پہنچاتا ہے۔ چوتھے وہ گورنمنٹ کے روپیہ میں غرباء کا حق مقدم قرار دیتا ہے ان چار ستونوں پر وہ دنیا کی اقتصادی حالت کو ایک سطح پر لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ قرآن تعلیم پر اور دماغی نشوونما پر خاص زور دیتا ہے۔ وہ فکر اور غور کرنے کو مذہبی فرائض میں سے قرار دیتا ہے وہ لڑائیوں اور جھگڑوں سے روکتا ہے اور کسی حالت میں بھی حملہ میں ابتداء کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ قرآن کریم بین المذاہب تعلقات کے اُوپر بھی بڑی تفصیلی روشنی ڈالتا ہے مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے بزرگوں کی ہتک کرنے سے روکتا ہے اور ایسے اعتراضوں سے منع کرتا ہے جو اعتراض خود معترض کے مذہب پر بھی پڑتے ہوں۔ وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ سب مذاہب کا منبع خدا تعالیٰ ہی ہے صرف بعد کی تبدیلیوں کی وجہ سے مذاہب خراب ہوئے ہیںپس اُن کے نیک منبع کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی مذہب کو کُلّی طور پر خراب نہیں کہنا چاہئے۔ قرآن کریم میں عورتوں کے حقوق کی پوری طرح حفاظت کی گئی ہے قرآن کریم دنیا میں وہ پہلی کتاب ہے جس نے علی الاعلان اس بات کو صاف الفاظ میں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ جس طرح مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے مردوں پر حقوق ہیں، وہ ماں باپ کے حقوق بھی بیان کرتاہے، وہ بھائی بہنوں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ بیوی اور خاوند کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ بیٹوں اور بیٹیوں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ ہمسائیوں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ غربا ء کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ یتامیٰ کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ بیواؤں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے وہ دوستوں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ اجنبیوں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، اُس اجنبی کے حقوق بھی جو میرا ہم ملک اور میرا ہم وطن ہے اور اُس اجنبی کے حقوق بھی جو کسی غیر ملک سے میرے پاس پناہ لینے کے لیے آتا ہے یا میرے ملک کی سیر کرنے کے لئے آتا ہے۔ قرآن دنیا سے ایک علیحدہ سیاست بھی پیش کرتا ہے۔ قرآن ہی وہ کتا ب ہے جس نے سب سے پہلے اس بات کا حکم دیا ہے کہ کسی شخص کو نسلی طور پر بادشاہت کرنے کا حق نہیں بلکہ حکومت ملک کی امانت ہے جو ملک کے تجویز کردہ حکام کے ہاتھوں میں جانی چاہئے ڈیمو کریسی جس پر آج یورپ فخر کرتا ہے اِس کی بنیاد سب سے پہلے قرآن ہی نے رکھی ہے۔ قرآن ایک طرف تو تنظیم اور اطاعت پر زور دیتا ہے اور دوسری طرف حکام کو دیانت داری سے اپنے فرائض ادا کرنے کی ہدایت کرتا ہے۔ قرآن سب سے پہلی کتا ب ہے جو حکام کے اقتدار پر تبر رکھتی ہے۔ قرآن اسے تسلیم نہیں کرتا کہ کوئی ایک انسان بنی نوع انسان کی قسمتوں کا مالک بنے اور اگر وہ اِن سے اچھا سلوک کرے تو اس کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ احسان کرتا ہے۔ قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ حقوق عامۃ الناس کے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ امانتاً حکام کے سپرد کئے گئے ہیں اور جب وہ یہ امانت صحیح موقعوں پر اور صحیح طریق پر امانت رکھنے والوں کے سپرد کرتے ہیں تو وہ کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ صرف امانت والے کی امانت واپس کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ حکام کے انتخاب کے وقت جنبہ داری یا رعایت کا خیال بالکل نہ رکھا جائے بلکہ جس طرح حاکم کا فرض ہے کہ وہ عامۃ الناس کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے اسی طرح عامۃ الناس کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے شخص کو منتخب کریں جو ان کے حقوق کو ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو جو شخص پارٹی بازی یا جنبہ داری کی روح کے ماتحت ایک غیر مستحق شخص کو آگے لاتا ہے وہ اس کے افعال کی خرابیوں میں شریک ہے وہ یہ عذر پیش نہیں کرسکتا کہ ظلم حاکم نے کیا ہے کیونکہ اس حاکم کے مقرر کرنے میں ضرور اس کا ہاتھ بھی تھا۔پس یہ بھی اس کے ظلم میں شریک ہے۔
قرآن ہر حال میں اخلاقِ فاضلہ کے اظہار پر زور دیتا ہے
قرآن سیاست میں اخلاقِ فاضلہ پر زور دیتا ہے وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ اخلاقِ فاضلہ افراد کیلئے ہوتے ہیں حکومتوں
کیلئے نہیں ہوتے بلکہ وہ اس بات پر زور دیتا کہ جس طرح افراد پر اخلاق فاضلہ کی ذمہ داریاںہیں اسی طرح حکومتوں پر بھی اخلاق فاضلہ کی ذمہ داریاں ہیں۔ سچ صر ف ایک عام شہری ہی کے لئے قیمتی چیز نہیں بلکہ ایک سیاست دان کے لئے بھی ضروری ہے ۔ ظلم صرف ایک عام آدمی کے لئے ہی بُرا نہیں بلکہ ایک حکومت کے لئے بھی بُرا ہے۔ حکومت کا یہی فرض نہیں کہ وہ اپنے افراد کے ساتھ انصاف کا سلوک کرے بلکہ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ جس طرح ہمسایہ ہمسائے سے عمدہ سلوک کرتا ہے وہ بھی اپنی ہمسایہ حکومتوں سے عمدہ سلوک کرے۔ اسلام مؤمن کو ہوشیار اور چوکس رہنے کا حکم دیتا ہے وہ جفاکشی کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ بزدلی سے منع کرتا ہے مگر تہور اور جاہلانہ جوش سے روکتا ہے ۔ وہ عقل اور تدبیر سے کام لینے کا حکم دیتا ہے وہ خود کشی کو ناجائز قرار دیتا ہے اور ایسے تمام افعال جو خود کشی کے مترادف ہوں اُن سے منع کرتا ہے۔ وہ مسلمان حکومتوں کو سرحدوں کی حفاظت ملحوظ رکھنے کاخاص طور پر حکم دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ جنگ میں کبھی ابتداء نہ کی جائے لیکن اگر دشمن جنگ شروع کردے تو پھر پیچھے کبھی نہ ہٹا جائے۔ وہ شب خون مارنے سے منع کرتا ہے۔ وہ معاہدے کی پابندی کا سختی سے حکم دیتا ہے اور صلح کے تمام مواقع کو ہاتھ سے نہ جانے دینے کی تاکید کرتا ہے۔ قرآن کریم اپنے ملک کے یا غیر ملک کے افراد کو آزادی سے محروم کرنے کی اجازت نہیں دیتا، وہ صرف جنگی قیدیوں کے پکڑنے کی اجازت دیتا ہے مگر اس کے لئے بھی وہ یہ شرط مقرر کرتا ہے کہ ہر قیدی اپنے حصے کا حرجانہ اداکرکے آزاد ہونے کا حق رکھتا ہے کسی شخص کو اجازت نہیں کہ وہ باوجود اس کے کہ کوئی قیدی اپنے حرجانہ کی رقم ادا کردے اُس کو قید رکھ سکے، لیکن اگر کوئی شخص جو ایک ظالمانہ جنگ میں شریک ہوجائے، اپنے حصہ کا حرجانہ ادا کرنے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو پھر قرآن کریم اُس کے لئے یہ حکم دیتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اُس کو اجازت دی جائے کہ وہ کمائی کرکے اپنا حرجانہ ادا کردے۔ اور جو ایسا کرنے کی بھی قابلیت نہیں رکھتا اس کیلئے اسلام مؤمنوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کی مدد کریں اور اس کو قید سے جلد آزاد کرانے کی صورت پیدا کریں لیکن اگر کوئی ایسا قیدی اپنے لئے آزادی کو پسند نہیں کرتا اور ایک مسلمان کے گھر میں رہنے کو اپنے وطن میں واپس جانے پر ترجیح دے تو قرآن کریم حکم دیتا ہے کہ اس کے ساتھ انصاف کا سلوک کیا جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی یہ تشریح فرماتے ہیں کہ جیسا کھانا تم خود کھاتے ہو ویسا ہی کھانا اسے کھلاؤ اور جیسے کپڑے تم خود پہنتے ہو ویسے ہی کپڑے اسے پہناؤ اور جس سواری پر تم خود چڑھتے ہو اُس سواری پر اُسے چڑھاؤ۔ قرآن کریم قوموں میں مساوات پر خاص زور دیتا ہے قرآن پہلی کتاب ہے جس نے بنی نوع انسان کو بحیثیت بنی نوع انسان کے ایک گروہ قرار دیا ہے۔ قرآن کہتا ہے جوکہ انسانوں کی مختلف قومیں ہیں اور مختلف ملک ہیں یہ صرف پہچاننے کے لئے ہیں حقیقتاً تمام انسان ایک درجہ کے ہیں اور ان کو ایک درجہ دینا چاہیے اور فرماتا ہے کہ کوئی قوم اپنے نسلی امتیاز کی وجہ سے دوسری قوم پر اپنے آپ کو فوقیت نہ دے۔ کوئی گروہ اپنی اقتصادی ترقی یا کسی اوروجہ سے دوسرے سے اپنے آپ کو ممتاز نہ سمجھے ورنہ ایسے لوگ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کا قانون ایک دن ان کو ضرور نیچا کردے گااور جن کووہ ادنیٰ سمجھتے ہیں اُن کو وہ ان پر فوقیت عطا کردے گا۔ کیسی اعلیٰ درجہ کی یہ تعلیم ہے اور دنیا میں امن کے قیام کا کیسا بہترین ذریعہ ہے ۔ قرآن کریم اُن تمام لہو و لعب کی چیزوں سے روکتا ہے جو انسان کے سنجیدگی سے کام کرنے کے راستہ میں حائل ہوتی ہیں وہ جوا اور شراب اور ہرقسم کی لہوو لعب کی باتوں سے منع کرتا ہے وہ مردوں کو زیورات اور ریشم پہننے سے روکتا ہے اور عورتوں کو نہایت ہی محدودطور پر اس کی اجازت دیتا ہے۔
پیدائش روح کے متعلق قرآنی تعلیم
قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جو انسان کی روح اور اس کی پیدائش کے متعلق مکمل بحث
فرماتی ہے اس بارہ میں دوسری کتب یا تو خاموش ہیں یا قیاس آرائیوں پر اکتفا کرتی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق ایک مکمل بحث فرمائی ہے چنانچہ فرماتا ہے۵۶۲؎ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں تُو انہیں جواب میں کہہ کہ روح اللہ تعالیٰ کے حکم سے پیدا کی گئی ہے اورروح کے متعلق تمہارا علم بہت تھوڑا ہے۔ اِس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ارواح ایک ازلی ابدی چیز ہیں اور کسی علیحدہ دنیا میں رکھی گئی ہیں پھر وہاں سے وقتاً فوقتاً وہ انسانی اجسام میں آکر داخل ہوتی رہتی ہیں صحیح بات یہ ہے کہ جیسے اَور چیزیں خدا تعالیٰ کے حکم سے پیدا ہوتی اور اُس کے حکم کے ماتحت ترقی کرتی ہیں اسی طرح روح بھی خدا تعالیٰ کے حکم سے پیدا ہوتی اور اُس کے حکم سے ترقی کرتی ہے روح کی پیدائش جسمانی پیدائش سے کوئی علیحدہ قسم کی چیز نہیں بلکہ جس قسم کا تغیر اور تبدل جو جسمانیات کے ارتقاء کیلئے ہوتا ہے وہی روحانی پیدائش کا بھی موجب ہو جاتا ہے اور پھر روح کی ترقی اور بلندی کا باعث بھی۔ اس مسئلہ کو تشریح کے ساتھ قرآن کریم نے دوسری جگہ سورہ مؤمنون میں بیان فرمایا ہے وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۵۶۳؎ ہم نے انسان کو مٹی سے نکلے ہوئے خلاصہ سے بنایا ہے پھر گیلی مٹی میں سے نکلے ہوئے ایک خلاصہ سے بنایا ہے پھر ہم نے اُسے نطفہ کی شکل میں تبدیل کر دیا جو نطفہ ایک مقررہ جگہ پر رہتا ہے تو ہم اس نطفہ کو ایک گاڑھی چیز بنا دیتے ہیں جو چمٹ جاتی ہے پھر وہی چمٹی ہوئی چیز ایک لچکدار چیز بن جاتی ہے پھر اس لچکدار چیز میں ہڈیاں پیدا ہونے لگ جاتی ہیں پھر ان ہڈیوں پر تازہ گوشت چڑھنے لگ جاتا ہے پھر اسی چیز میں سے ایک بالکل ہی غیر نظر آنے والی چیز (یعنی روح) بن جاتی ہے پس کیا ہی برکت والا وہ خدا ہے جس نے ایسے اعلیٰ رنگ میں انسان کو پید اکیا ہے۔ اس جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ انسانی پیدائش درحقیقت انہیں چیزوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے جو کہ انسان کھاتا اور پیتا ہے۔ اِنہی چیزوں سے انسان کے جسم میں کچھ ایسا مادہ تیار ہوتا ہے جو انسان اور دوسرے حیوانات کے پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے جب یہ مادہ رحمِ مادر میں جاتا ہے تو جس مادہ میں تکمیل کی طاقت پائی جاتی ہے وہ ماں کے رحم کے ایک حصہ سے چمٹ جاتا ہے اور وہاں سے اس کے اندر غذا آنی شروع ہو جاتی ہے۔ کچھ دنوں میں اس کے اندر غلظت اور گاڑھا پن پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور وہ ایک لچکدار چیز بن جاتی ہے پھر اس کے اندر ہڈی کا مادہ نشوونما پانے لگتا ہے جس کے بعد گوشت پورے طورپر جسم پر نشوونما پا کے ظاہری تخلیق مکمل ہو جاتی ہے۔ اس سلسلہ کے ساتھ ساتھ جسم میں سے ایسے مواد پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں جو اس نباتی قسم کے نشوونما کو حیوانیت میں تبدیل کر دیتے ہیں اور آخر ایک سوچنے اور سمجھنے والا انسان پیدا ہو جاتا ہے۔ اِس آیت میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ روحیں کہیں باہر سے نہیں آتیں بلکہ اسی جسم میں سے جو رحمِ مادر میں نشوونما پاتا ہے ایک نیا مادہ پیدا ہوتا ہے جو دوسری نباتی چیزوں سے انسان کو علیحدہ کر کے اسے حیوان کا نام دیتا ہے اور حیوانی حالت سے ترقی کر کے ایک اعلیٰ انسان پیداہوتا ہے جس میں عقل اور سمجھ ہوتی ہے اور جس میں ترقی کا مادہ پایا جاتا ہے۔ ہم دنیا کی چیزوں میں سے موٹی مثال کے طور پر ان کیمیاوی تغیرات کو پیش کر سکتے ہیں جو باہم اختلاط کے بعد ایک بالکل نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں جیسے چقندر یا گند م یا مکی یا گڑ سے شراب تیار ہو جاتی ہے۔ شراب ایک ایسی چیز بن جاتی ہے جو اپنی پہلی شکل سے بالکل مختلف ہوتی ہے جبکہ اس کے منبع میں سڑنے کی طاقت ہے اس میں قائم رہنے اور قائم رکھنے کی طاقت ہوتی ہے اور جبکہ اس کے منبع کا اثر دماغ پر کسی قسم کا بھی نہیں پڑتا، یہ دماغ کے اُوپر خصوصیت کے ساتھ اثر کرنے والی چیز ہوتی ہے۔ غرض اس مضمون میں قرآن کریم پہلی تمام کتب سے جداگانہ تعلیم پیش کرتا ہے قرآن کریم سے پہلے مختلف مذاہب میں روحوں کے متعلق دو خیال تھے ایک خیال تو یہ تھا کہ روحیں خدا تعالیٰ کی پیدا کی ہوئیں نہیں، بلکہ خدا تعالیٰ کی طرح انادی ہیں۔ خدا تعالیٰ ان انادی روحوں کو مناسب موقع پر مختلف جسموں میں داخل کرتا رہتا ہے۔ مذاہب میں سے ایک دوسرے حصہ کا یہ خیال تھا کہ روحیں انادی تو نہیں ،ہیں تو خدا تعالیٰ کی مخلوق لیکن جب اُس نے دنیا پیدا کی تو اُسی وقت آئندہ پیدا ہونے والی روحیں بھی پیدا کر دیں اور اسی پیدا کئے ہوئے خزانہ میں سے وقتاً فوقتاً وہ کچھ ارواح انسانی جسم میں ڈال کر بھیجتا رہتا ہے ۔ بعض مذاہب ایسے بھی تھے جو روح کے متعلق بالکل خاموش تھے۔ وہ موجودہ انسان کے ظاہر کے متعلق بحث کو کافی سمجھتے تھے اور اس کی پیدائش یا اُس کی روح کے متعلق کسی قسم کا خیال ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے۔ اسلام وہ پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے اِس مسئلہ کو صحیح طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ روح درحقیقت انسانی جسم کے ارتقاء کا ایک انتہائی نقطہ ہے اور وہ کہیں باہر سے نہیں آئی بلکہ انسانی جسم کے تغیرات کے نتیجہ میں ہی وہ پیدا ہوئی ہے ہاں اس نے ایک علیحدہ وجود اختیار کر لیا ہے۔ انسانی جسم کے محض عمل کا نام روح نہیں بلکہ روح انسانی مادہ ہی سے نکلی ہوئی ایک چیز ہے جس نے ایک مستقل وجود اختیار کر لیا ہے۔ جس طرح شراب اور سرکہ دانوں اور پھلوں ہی میں سے نکلتے ہیں لیکن وہ ایک علیحدہ وجود اختیار کر لیتے ہیں بظاہر تو یہ ایک معمولی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اگر ہم غور کرکے دیکھیںتوا س حقیقت کے اظہار سے اسلام نے مذہب کا نقطۂ نگاہ بالکل بدل دیا ہے روحوں کو انادی ماننے یا خدا تعالیٰ کے کسی قدیم زمانہ میں ان کو پید ا کرکے اِس دنیا میں بھیجتے رہنے کے عقیدہ نے مختلف مذاہب کے پیروئوں میں یہ احساس پیدا کر دیا تھا کہ جسم کی صفائی اور جسم کے ارتقاء کا روح کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن اسلام نے اس حقیقت کو بیان کرکے اس طرف توجہ دلا دی کہ جسم کی صفائی اور جسم کے ارتقاء کا تعلق روح کے ساتھ بہت گہر اہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیںکہ جسم انسانی کے نشوونما سے کوئی نہ کوئی روح تو ضرور پیدا ہو جائے گی لیکن اگر جسمِ ا نسانی کا خیال اچھی طرح رکھا جائے گا اگر حفظانِ صحت کے اُصول کو مدنظر رکھا جائے گا تو یقینا ایک زیادہ فعال اور سمجھدار انسان پید اہو گا۔ پس اس حقیقت کو بیان کر کے اسلام نے انسان کی روحانی اور دماغی ترقی کے لئے ایک نیا رستہ کھول دیا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ روح تو اپنی ذات میں کوئی طاقت نہیں رکھتی اس لئے جسم کے تغیرات کا روح پر کیا اثر پڑ سکتا ہے یہ درحقیقت ایک غلط خیال ہے روح کا طاقت نہ رکھنا ایک بے معنی بات ہے اگر روح کوئی طاقت نہیں رکھتی تو وہ ایک بے حقیقت چیز ہے اصل بات یہ ہے کہ روح کے اندر طاقتیں تو ہیں لیکن روح بغیر جسم کے اپنی طاقتوں کو استعمال نہیں کر سکتی اور بہت سی مادی چیزیں دنیا میں ایسی ہیں جو بغیر کسی کے واسطہ کے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کر سکتیں جیسے بجلی ہے کہ وہ اپنا ظہور دوسری چیزوں کے ذریعہ سے کرتی ہے پس یہ درست نہیں کہ روح کے اندر طاقتیں نہیں ہوتیں۔ روح کے اندر طاقتیں اور صفات ضرور ہوتی ہیں مگر اُن کا ظہور کسی نہ کسی جسم کے ذریعے سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تمام مضامین اور ایسے ہی بہت سے مضامین قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان تمام باتوں کو دیباچہ میں بیان نہیں کیا جا سکتا صرف اِن کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ اُوپر میں نے ان اُمور کی طر ف اشارہ کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اس بات کا مدعی ہے کہ تمام وہ باتیں جن کی دین اور اخلاقی ترقی اور جسم اور روح کی پاکیزگی کے لئے ضرورت ہے وہ قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور اس دعویٰ کو ہم نے ہر زمانہ میں سچا پایا ہے۔ اس بیسویں صدی میں بھی کہ اس زمانہ کے لوگ اپنے آپ کو علوم میں سب سے بڑھ کر سمجھتے ہیں ہم قرآن کریم کو انسان کی تمام سچی ضرورتوں کو پورا کرنے والا پاتے ہیں اور کوئی ایسی ضرورت جو دین یا اخلاق یا روحانی یا دماغی صفائی اور پاکیزگی کے متعلق ہو ہمیں ایسی نہیں ملتی جس کے متعلق قرآن کریم میں مکمل تعلیم نہ دی گئی ہو، لیکن ایک دیباچہ ان کی تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ پس مختصر اشاروں پر ہی میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ ہاں تشریحی نوٹوں میں مختلف آیات کی تشریح میں ان اُمور پر مزید روشنی ڈالی جائے گی۔ گو جس قسم کے مختصر نوٹ اِس قرآن کریم میں دئیے گئے ہیں اُن کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ پورا علم قرآن کے مطالب کا ان نوٹوں سے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے لئے میری اُردو کی تفسیر ایک حد تک ممد ہو سکتی ہے وہ ان انگریزی تشریحی نوٹوں سے بہت زیادہ مفصل ہے۔
روحانی دنیا کا نقشہ
قرآن کریم کی تعلیم کے اُصول کا ایک مختصر خلاصہ بیان کرنے کے بعد میں روحانی دنیا کا وہ نقشہ پیش کرتا ہوں جو قرآن کریم نے
کھینچا ہے مختصراً پیش کرتا ہوں۔جس طرح یہ مادی دنیا ہمیں ایک خاص نظام کے ماتحت چلتی ہوئی نظر آتی ہے ہم جس زمین پررہتے ہیں وہ ایک نظامِ شمسی کے تابع ہے، ایک سورج اپنے ماتحت کچھ ستارے رکھتا ہے۔ اور وہ ستارے اس سورج کے گرد گھومتے ہیں اور سورج آگے ایک غیرمعلوم منزل کی طرف جاتا ہے جس کی نسبت آجکل کے حساب دان کہتے ہیں کہ وہ ایک بڑا مرکز ہے جو تمام نظام ہائے شمسی کو ایک بڑے نظام کے ماتحت جکڑ رہا ہے ان کی تفصیلات ٹھیک ہوں یا نہ ہوں بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ یہ ساری دنیا کسی ایک نظام کے ماتحت ہے ورنہ یہ اس طرح قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ پھر اس ظاہری نظام کے ماتحت کچھ قوانین قدرت ہیں جن کے مطابق مادہ دنیا میں کام کر رہا ہے اور مختلف قسم کے تغیرات میں سے گزرتے ہوئے مادی دنیا کو انواع و اقسام کی اشیاء سے بھر رہا ہے جن اشیاء کے استعمال سے ہی اس دنیا کی ترقی اور اس کی کامیابی کا راز وابستہ ہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہی ایک روحانی نظام بھی ہے اور جس طرح اس مادی عالم کے تمام نظام ہائے شمسی کا ایک مرکز فرض کیا جاتا ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح روحانی دنیا کابھی درحقیقت ایک مرکز محیط ہے یعنی کوئی ایسی چیز نہیں جو اُس مرکز کے تصرف اور اس کے اختیار اور اس کے قبضہ سے باہر ہو۔ وہ ہستی آپ ہی آپ موجود ہے کوئی اس کا پیدا کرنے والا نہیں وہ اپنے کاموں میں کسی اور کا محتاج نہیں نہ اس کا کوئی باپ ہے، نہ اُس کا کوئی بیٹا ہے نہ اُس کی طاقتوں میں کوئی اور شریک ہے چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے ۵۶۴؎ اے محمد رسول اللہ! تُو دنیا کو سناد ے کہ حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام طاقتوں میں منفرد ہے گو دوسری چیزوں کی صفات اور اُس کی بعض صفات میں ظاہری تشابہہ نظر آتا ہے لیکن وہ تشابہہ صرف لفظی اور ظاہری ہے حقیقتاً خد اتعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو مشابہت نہیں۔ مثلاً ظاہر میں خدا تعالیٰ بھی موجود ہے اور انسان بھی موجود ہے مگر انسان اور حیوان اور دوسری چیزوں کا وجود باوجود اس کے کہ لفظاً خد اتعالیٰ کے وجود کے ساتھ اشتراک رکھتا ہے حقیقتاًدونوں ایک چیز نہیں۔ خدا تعالیٰ کے متعلق جب ہم کہتے ہیں کہ وہ موجود ہے تو اس کے معنی یہ ہوا کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں کامل وجود ہے اور جب ہم انسان یا حیوان یا دوسری چیزوں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ موجود ہیں تو ہمارا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ جب تک وہ اسباب اور وہ علتیں موجود ہیں جن کے تغیرات کے نتیجہ میں انسان یا حیوان یادوسری اشیاء پیدا ہوئی ہیں اُس وقت تک اُس انسان یا حیوان یا موجودات کا وجودقائم رہے گا۔ اگر وہ اسباب اور وہ علتیں پیچھے ہٹالی جائیں تو اس کا وجود بھی فنا ہوجائے یا وہ اسباب اور علل جتنے جتنے ہٹا لئے جائیں گے اتنا اتنا ہی وہ فنا ہوتا جائے گا۔ مثلاً ایک زندہ انسان کی زندگی کا موجب اُس کی روح کا جسم سے تعلق ہے انسان کا زندہ ہونا ایک عارضی تعلق کی وجہ سے ہے جب وہ عارضی تعلق قطع ہوجاتا ہے تو انسان تو رہتا ہے مگر زندہ نہیں رہتا ۔ انسانی جسم موجود تو ہوتا ہے مگر انسانی جسم نام ہے چند عارضی اسباب کی وجہ سے چند ذرات کے ایک خاص شکل میں جمع ہوجانے کا ۔ اُن ذرات کو جب الگ کردیا جائے تو انسانی جسم باقی نہیں رہتا ۔ جب انسان مرجاتا ہے اور اس کو مٹی میںدفن کرتے ہیں تو مٹی کی رطوبت اور دوسرے کیمیاوی اثرات اُس کے جسم کو خاک بناکر رکھ دیتے ہیںوہ ذرے جن سے انسانی جسم بنا تھا وہ تو اب بھی موجود ہوتے ہیں مگر علت کے بدل جانے کی وجہ سے انسانی جسم موجود نہیں رہتا۔ جب اسی انسانی جسم کو آگ میں جلا دیا جاتا ہے یا پانی میں گلا دیا جاتا ہے یا بجلی سے راکھ کر دیا جاتا ہے تو جن چیزوں سے انسان بنا تھا وہ تو پھر بھی موجود رہتی ہیں مگر آگ یا بجلی یا پانی کے اثرات سے اُن کی شکل بدل جاتی ہے اور انسانی جسم کو اس کی موجودہ شکل میں قائم رکھنے کی جو علت تھی اُس کے مٹتے ہی انسانی جسم بھی مٹ جاتا ہے مگر خدا کیلئے یہ بات نہیں ،اُسے کوئی خارجی سبب وجود نہیں دے رہا ہے۔ یا اُس کے وجود کو قائم نہیں رکھ رہا بلکہ وہ خود کامل ہستی ہونے کی وجہ سے موجود ہے اور وقت کی قید سے آزاد ہے گو انسانی دماغ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ کیونکر وقت کی قید سے آزاد ہے جب کہ سب مادہ وقت کی قید میں مبتلا ہے۔ اس کا جواب درحقیقت یہی ہے کہ خدا کا وجود اَور طرح کا ہے اور انسان کا وجود اَور طرح کا ہے انسان کے وجود یا مادی وجود پر خداتعالیٰ کا قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وہ ہر چیزمیں منفرد ہے۔ اسی مضمون کو قرآن کریم ایک دوسری جگہ اِن الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ۵۶۵؎ وہ آسمان اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے اس نے ہر چیز کی جنس میں سے اُ س کا جوڑا بنایا ہے ۔ چار پایوں کی جنس میں سے بھی اُن کا جوڑا بنایا ہے اور وہ ان جوڑوں کے ذریعہ سے مادی دنیا کو ترقی دیتا چلا جاتا ہے یعنی تمام دنیا میں خواہ وہ حیوان ہوں یا نباتات یا جمادات جوڑوں کا سلسلہ چل رہا ہے خواہ اس کو نرو مادہ کہہ لو خواہ اسے مثبت و منفی کہہ لو۔ خواہ اس کا کوئی اور نام رکھ لو۔ بہرحال یہ ساری دنیا جوڑوں کے اصول پر چل رہی ہے۔ ایک اور جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۵۶۶؎ اور ہم نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے بنایا ہے تاکہ تم نصیحت حاصل کرو۔ یعنی تا یہ تم سمجھ سکو کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ کے سوا خدا نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ ایک جوڑے کی محتاج ہے اور اس کا قیام اور اس کی زندگی دوسری چیزوں کے ساتھ وابستہ ہے۔ غرض قرآن کریم ایک ایسی ہستی کو تمام موجودات کا مرکز قرار دیتا ہے جو اپنی ذات میں منفرد ہے اور جس کے ساتھ کسی اور چیز کو مشابہت نہیں دی جاسکتی۔ اس کے سوا جتنی موجودات ہیں وہ سب اپنی ذات کے قیام کے لئے دوسروں کی محتاج ہیں مگر وہ ہستی جو تمام کائنات کا نقطۂ مرکزی ہے وہ اپنے کاموں کے لئے کسی کی محتاج نہیں۔
پھر فرماتا ہے نہ اُس ہستی سے آگے کوئی اولاد پیدا ہوتی ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد میں سے ہے۔ اس آیت کے ذریعہ سے قرآن کریم نے اپنے عقیدہ کو عیسائیت سے بالکل مختلف ثابت کیا ہے عیسائیت اور بھی بہت سے دیگر آرین مذاہب بھی خداتعالیٰ کی کسی نہ کسی شکل میں اولاد تسلیم کرتے ہیں۔ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اولاد کی ضرورت ایسی ہستیوں کو ہوتی ہے جو محتاج ہوتی ہیں یا جن پر فنا آنے والی ہوتی ہے مگر خدا میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں۔ پس اُس کو کسی اولاد کی ضرروت نہیں اور جس طرح اُسے اولاد کی ضرورت نہیں اِ سی طرح وہ اس بات کا بھی محتاج نہیں کہ اس کا کوئی اور سبب اور پیدا کرنے والا ہو۔ اور جس طرح وہ باپ اور بیٹے سے آزاد ہے اسی طرح وہ اس بات میں بھی منفرد ہے کہ کوئی اور ہستی اس جیسی طاقتوں والی موجود نہیں۔ یعنی نہ تو خدا تعالیٰ کے پیدا کرنے کا کوئی سبب ہے نہ خد اتعالیٰ اولاد کا محتاج ہے اور نہ خدا تعالیٰ کی قسم کا کوئی اور وجود موجود ہے۔ اس آخری اعلان کے ساتھ قرآن کریم نے اُن مذاہب کا ردّ کیا ہے جو تعددِ اُلوہیت کے قائل ہیں جیسے زرتشی مذہب ہے غرض ان مختصر الفاظ میں یہ عقیدہ پیش کیا گیا ہے کہ تمام عالم کا مرکز ایک خدا ہے جو منفرد حیثیت رکھتا ہے تمام دیگر ہستیوں سے۔ اور وہ واحد منبع ہے تمام موجودات کا۔ اور وہ اپنے کاموں کے کرنے میں کسی کی مدد کا محتاج نہیں نہ اس کا کوئی بیٹا ہے نہ اس کا کوئی باپ تھا اور نہ کوئی متوازی طاقت اُس کے ساتھ موجود ہے اور نہ اس کے بِالمقابل کوئی اور طاقت موجود ہے۔ دیکھو! ان چند الفاظ میں سارے کے سارے مذاہب کو ردّ کر کے ایک خالص توحید کو قائم کر دیا گیا ہے۔
دنیا کے جتنے مذاہب ہیں وہ سارے کے سارے مندرجہ ذیل غلطیوں میں مبتلا ہیں۔ بعض لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خداتعالیٰ کسی خاص قوم کا خدا ہے یعنی خواہ اس نے پیدا تو ساری دنیا کو کیا مگر وہ مخصوص ہو گیا ہے بنی اسرائیل سے یا مخصوص ہو گیا ہے ہنود سے یا مخصوص ہو گیا ہے ایرانیوں سے۔ قرآن مجید اس عقیدہ کو ردّ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف اپنی ذات میں منفرد ہے بلکہ وہ منبع ہے تمام کائنات کا ۔ ( اَحَد کا لفظ جو سورۃ اخلاص کی مندرجہ بالا آیت میں استعمال کیا گیا ہے اس کے معنی منفرد کے بھی ہوتے ہیں اور اکائی کے بھی ہوتے ہیں یعنی وہ منبع جو خود تعدد سے باہر ہوتا ہے لیکن تعدد اس کے اثر سے پیدا ہوتا ہے) اِس آیت کے ذریعہ سے قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کا خدا ہی ہادی اور راہنما ہے اُسے کسی قوم کے ساتھ خاص لگائو نہیں تمام بنی نوع انسان جو اُس کے قرب کی راہیں تلاش کریں خدا اُن کے لئے اپنے قرب کی راہیں کھولتا ہے۔ عرب، بنی اسرائیل، ایرانی، ہندی، چینی، یونانی، افریقی یہ سارے اس کی نظر میں ایک ہیں کیو نکہ وہ ان سب کو وجود دینے کا باعث ہے۔ تمام دنیا کے تعدد کی وہ اکیلی اکائی ہے۔ پھر یہ کہہ کر کہ وہ کسی کا بیٹا نہیں اس نے عیسائیت کے مرکزی عقیدہ کور دّ کیا ہے۔ اسی طرح مختلف ہندو فرقوں کے مرکزی عقیدہ کو اُس نے ردّ کیا ہے۔ اور یہ کہہ کر وہ کسی کا بیٹا نہیں اس نے اس عقیدہ کو ردّ کیا ہے کہ کوئی بیٹا خدا ہو سکتا ہو کیونکہ جو اپنے وجود کے لئے دوسرے کا محتاج ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا۔ اور یہ کہہ کر کہ اس کے بالمقابل کوئی اور طاقتیں نہیں، اس نے اُن مذاہب کے عقائد کو ردّ کر دیا ہے جو نور اور تاریکی کو علیحدہ علیحدہ وجود قرار دے کر دنیا کے دو متوازی خدا منوانا چاہتے ہیں۔
پھر قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ خدا تمام اشیاء کی علت العلل بھی ہے یعنی تمام کی تمام مفردات اس سے نکلی ہیں اور سب کی سب مخلوق اُسی کی طرف لوٹتی ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے ۵۶۷؎ خدا ہی اوّل ہے اور خدا ہی آخر ہے۔ اس کے یہی معنی ہیں کہ ہر چیز کاوجود خدا سے آتا ہے اور ہر چیز کی فنا بھی خدا کے قانون کے ماتحت چلتی ہے اگر خداتعالیٰ دنیا کی موجودات کو وجود نہ بخشتا تو وہ کبھی وجود نہ پاسکتی تھیں اور اگر خدا تعالیٰ نے ہی اُن کی فنا کے سامان پیدا نہ کئے ہوتے تو وہ فنا نہیں ہو سکتی تھیں مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کی پیدائش اور فنا خاص قوانین کے ماتحت چلتی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک بِالارادہ ہستی نے اس دنیا کے نظام کو قائم کیا ہے چنانچہ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ سب اسی کا پید اکیا ہوا ہے فرماتا ہے۵۶۸؎ آسمان اور زمین کو پیدا کرنے والا خدا ہی ہے اس کے بیٹا ہو کس طرح سکتا ہے جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہرچیز کو جانتا ہے۔ ۵۶۹؎ یہ ہے اللہ تمہیں ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف لے جانے والا۔ اس کے سوا کوئی اور معبود نہیںوہ ہرچیز کو پیدا کرنے والا ہے پس اُس کی عبادت کرو اور ہر چیز کا انتظام اسی کے قبضہ میں ہے۔
ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان کی پیدائش کا موجب اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر اُسے کسی بیٹے کی ضرورت کیا تھی کیونکہ بیٹے کا وجود یا تو اتفاقی حادثہ کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے یا ضرورت کیلئے۔ اتفاقی حادثہ اس طرح ہوتا ہے کہ نر مادہ سے ملتے ہیں اور طبعی طور پر اس کے نتیجہ میں اولاد پیدا ہو جاتی ہے اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تو کوئی بیوی نہیں بیٹا کہاں سے آجائے گا اور اگر کہو کہ خدا تعالیٰ نے ایک نیا وجود بنایا اور اس کو بیٹے کا مقام دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیٹے کی غرض تو یہی ہوا کرتی ہے کہ انسان کے کاموں میں مدد دے اور اس کے بعد اس کے نام کو قائم رکھے مگر وہ خدا جو ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے کیا وہ بھی اسی قسم کی احتیاج رکھتا ہے پھر وہ بیٹا بناتا ہی کیوں۔ پھر فرماتا ہے وہ ہر چیز کو جانتا ہے یعنی بعض دفعہ انسان احتیاطاً ایک سامان پیدا کر لیتا ہے کہ نہ معلوم آئندہ کیا ہو جائے لیکن خداتعالیٰ کیلئے تو یہ خوف بھی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا علم ہر چیز پر محیط ہے۔ وہ ان تمام باتوں کو جانتا ہے جو گزشتہ زمانہ میں ہو چکیں اور ان تمام باتوں کو جانتا ہے جو آئندہ زمانوں میںہونے والی ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کو کسی احتیاط کی ضرورت نہیں۔ پھر فرماتا ہے یہ وہ خدا ہے جس نے تم کو ادنیٰ حالت سے پیدا کرکے اعلیٰ درجہ کی ترقی تک پہنچایا اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں تمام موجودات کو پیدا کرنے والا وہی ہے۔ ایرانی اور اسرائیلی اور عرب اور ہندو ہونا خدا تعالیٰ کی نظر میںکوئی امتیازی چیز نہیں اُس کے لیے یہ سب برابر ہیں۔ اُسی نے ان سب کو پیدا کیا اور اُسی نے ان سب کو آہستہ آہستہ ترقی بخشی۔ پس ان سب کیلئے ضروری ہے کہ اس واحد خدا کی پرستش کریں اور یاد رکھیںکہ تمام کی تمام مخلوقات کی نگرانی اور ذمہ واری اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی ہے اُس کے ساتھ تعلق قائم رکھ کر ہی انسان تباہیوں اور بربادیوں سے بچ سکتا ہے اور اُس سے دور رہ کر اُسے کبھی امن حاصل نہیں ہو سکتا۔ اس ہستی کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ تمام موجودات کا تفصیلی علم رکھتا ہے۔ کوئی چیز ایسی نہیں جو اِس کے علم سے باہر ہو۔ فرماتا ہے۵۷۰؎ اُس کا علم آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے۵۷۱؎ یعنی تُو کسی حالت میں نہیں ہوتا اور تُو کچھ نہیں پڑھ رہا ہوتا کوئی عمل نہیں کر رہا ہوتا مگر ہم تمام حالتوں میں تجھ پر نگران ہوتے ہیں جبکہ تو اُن کاموں میں مشغول ہوتا ہے اور تیرے ربّ سے ایک چھوٹے سے چھوٹے ذرّہ کے برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی۔ مگر خدا تعالیٰ کی کتاب میں جو ان اعمال پر روشنی ڈالتی رہتی ہے لکھی ہوئی ہوتی ہے۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دل کی حالتیں، زبان کی کہی ہوئی باتیں اور اعضاء کے کئے ہوئے عمل تمام کے تمام خدا تعالیٰ پر روشن ہیں اور بے جان چیزیں بھی خواہ وہ ایک ایٹم ہوں یا ایٹم کا بھی چھوٹا سا حصہ خدا تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اس کی نظر باریک سے باریک چیز پر پڑتی ہے اور بڑی سے بڑی چیز کا بھی احاطہ کر رہی ہے اور اس کو ان چیزوں کا صرف علم ہی نہیں بلکہ وہ ہر چیز کے اعمال کو ایسے طور پر محفوظ رکھ رہا ہے کہ بعد میں اس کا نتیجہ نکلے گا۔ اِس کے لئے قرآن کریم نے کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی دنیا کے ریکارڈ تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نگاہ سے مخفی رہتے ہیں اور بعض دفعہ خود ریکارڈ کیپرز کی آنکھوں سے بھی مخفی ہو جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا طریق رکھا ہوا ہے کہ وہ ریکارڈ آپ ہی آپ بولتا چلا جاتا ہے یعنی ہر فعل کا نتیجہ خدا تعالیٰ کے قانون اور اس کے منشاء کے مطابق نکل آتا ہے پھر فرماتا ہے ۵۷۲؎ خدا تعالیٰ کی ذات ایسی وراء الوراء ہے کہ اس کی حقیقت کو کوئی پا نہیں سکتا۔ یعنی وہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے تمام دنیا کی اشیاء سے جدا ہے اس لئے مادی ذرائع سے اُسے دیکھنے کی کوشش کرنا بالکل عبث ہے۔ پھر قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ہستی اپنے تمام ارادوں کے پورا کرنے پر قادر ہے فرماتا ہے۵۷۳؎ اللہ تعالیٰ ہر ایک چاہی ہوئی بات پر قادر ہے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ ہر چیز پر قادر ہے کیونکہ ایسے الفاظ کے استعمال سے بہت سے لوگ نادانی سے غلط اعتراض شروع کر دیتے ہیں مثلاً یہ کہ کیا خدا مرنے پر قادر ہے؟ یا کیا اپنی مانند ایک اور خدا بنانے پر قادر ہے؟ حالانکہ یہ چیزیں تو گھنائونی اور ناپسندیدہ ہیں۔ اعلیٰ اور کامل ہستی گھنائونے اور ناپسندیدہ کام نہیں کیا کرتی۔ بہر حال ایسے لوگوں کے اعتراضوں کو حل کرنے کے لئے قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر فعل پر قادر ہے بلکہ فرماتا ہے ہر اس بات پر خداتعالیٰ قادر ہے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے کیونکہ خدا بوجہ کامل ہونے کے کامل باتوں ہی کا ارادہ کرتا ہے اس قسم کا بیوقوفانہ ارادہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اپنے آپ کو فنا کر دے یا اپنے جیسا کوئی خدا بنا لے۔
خدا تعالیٰ کی چار صفات
قرآن کریم کی پہلی سورۃ سورۃ فاتحہ ہے۔ اس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کس طرح عمل
کرتی ہیں۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں چار صفات کے اِردگرد گھومتی ہیں اور وہ چار صفات یہ ہیں۔
(۱) وہ رَبِّ الْعٰلَمِیْن ہے یعنی ہر ایک چیز کو پیدا کرتا ہے اور پیدا کر کے ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اُسے اعلیٰ حالت تک پہنچاتا ہے۔
(۲) وہ رَحْمٰن ہے یعنی تمام ایسے ذرائع بغیر مخلوق کی کسی کوشش اور بغیر اُس کے استحقاق کے مہیا فرماتاہے جن کے بغیر مخلوق کی ترقی ناممکن ہوتی ہے ۔
(۳) وہ رَحِیْم ہے یعنی وہ تمام مخلوق جو عقل اور ارادہ رکھتی ہے جب اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے ایک نیک رستہ کو پسند کر لیتی ہے اور بُرائی کا مقابلہ کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے فعل کا نہایت اعلیٰ بدلہ دیتا ہے اور نیکیوں کا بدلہ متواتر دیتا چلا جاتا ہے۔
(۴) وہ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّ یْن ہے یعنی ہر چیز کا آخری فیصلہ اُس نے اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے جس طرح ابتداء اس نے کی تھی اسی طرح انتہاء بھی اُس نے اپنے قبضہ میں رکھی ہوئی ہے۔
بنی نوع انسان اور دوسری مخلوق ہر چیز میں عارضی اور وقتی تبدیلیاں پیدا کر سکتے ہیں لیکن حقیقی اور مستقل تغیر پیدا نہیں کر سکتے۔ مثلاً جس طرح انسان مادہ اور روح کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے ۔ان کے فنا کرنے پر بھی انسان قادر نہیں۔ وہ اس کے اندر عارضی تبدیلیاں پیدا کر سکتا ہے، وہ شکلیں بدل سکتا ہے لیکن وہ ان چیزوں کو فنا نہیں کر سکتا۔ جس طرح خلق کی صفت اپنی تمام صفات کے ساتھ اللہ تعالیٰ میں ہی پائی جاتی ہے اِسی طرح اِفناء کی صفت بھی اپنی تمام صفات کے ساتھ کُلّی طور پر اُسی میں پائی جاتی ہے کوئی چیز کُلّی طور پر فنا نہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ اس کے فنا کرنے کا فیصلہ نہ کرے اور یہ دونوں حقیقتیں ایسی ظاہروباہر ہیں کہ کسی انسان کواس سے انکار نہیں ہو سکتا۔ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کے وقت کامالک ہے یعنی تمام تغیرات کا آخری فیصلہ اس کے اختیار میں ہے اور وہ یہ فیصلہ اپنے مالک ہونے کی حیثیت سے کرتا ہے یعنی جس طرح ایک جج اس لئے اپنے فیصلہ میں مجبور ہوتا ہے کہ وہ زید اور بکر کے حقوق کا فیصلہ کرنے والا ہوتا ہے۔ اس طرح خدا تعالیٰ مجبور نہیں ہوتا کیونکہ جہاں تک انسان کے حقوق کا سوال ہے وہ اس کے سارے حق پور ے کرنے کے لئے تیار ہے لیکن دوسری طرف جہاں تک خدا تعالیٰ کے حقوق کا سوال ہے اللہ تعالیٰ مشہور روایتی ’’ بونڈ آف فلیش‘‘ پر اصرار نہیں کرتا بلکہ جیسے مالک رعایت اور حسن سلوک اور رحم سے کام لیتا ہے اور لے سکتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے قصور پر عفو اور درگزر سے کام لیتا ہے۔ اس صفت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائیت میں کفارے جیسا غلط عقیدہ پید اہو گیا۔ عیسائی مذہب اس بات پر زور دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کا گناہ معاف نہیں کرسکتا اور اس کا قیاس وہ انسانی ججوں پر کرتے ہیں۔ حالانکہ جج دو جھگڑنے والوں کے درمیان فیصلہ کیا کرتا ہے اور خود اُن کی چیزوں میں سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ اور بندے کا معاملہ ایسا ہے کہ ایک طرف تو خدا کا حق ہے اور ایک طرف بندے کا حق ہے۔ خداتعالیٰ کو خالی جج کی حیثیت حاصل نہیں بلکہ اس کو مطالبہ کرنے والے اور حق مانگنے والے کی حیثیت حاصل ہے جو جج کو حاصل نہیں ہوتی کیونکہ وہ خود مطالبہ کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ مطالبہ کرنے والے اور مدعا علیہ کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہوتا ہے لیکن بندے اور خدا تعالیٰ کے معاملہ میںخدا جج کے علاوہ مدعی بھی ہوتا ہے اور بندہ مدعا علیہ ہوتا ہے اور بوجہ مدعی ہونے کے خداتعالیٰ حق رکھتا ہے کہ اپنے حق میں سے جتنا چاہے چھوڑ دے۔ اُس کا حق چھوڑنا رحم کہلائے گا بے انصافی نہیں کہلائے گا، کیونکہ وہ اپنا حق چھوڑتا ہے کسی کا حق مارتا نہیں۔ کفارہ کا عقیدہ ایسا عقل کے خلاف ہے کہ غور کرنے کے بعد کوئی شخص اسے تسلیم نہیں کر سکتا ۔ اگر مسیح کی صلیبی موت پر ایمان لانے کی وجہ سے لوگوں کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں تو مسیح سے پہلے آنے والے انبیاء کے گناہ کس طرح معاف ہوئے۔ اس صورت میں تو چاہئے تھا کہ مسیح کو ابتدائے عالم میں ہی صلیب پر لٹکا دیا جاتا تاکہ تمام بنی نوع انسان کو نجات حاصل ہو جاتی۔ نیز اگر مسیح کی صلیبی موت پر ایمان لانے سے انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو پھر توبہ سے کیوں معاف نہیں ہوتے جو ایک طبعی ذریعہ ہے دل کی پاکیزگی کا۔ ایک زائد چیز کو مان لینا تو دل کی پاکیزگی کا طبعی ذریعہ نہیں لیکن گناہ پر دل میں ندامت اور شرمندگی کا پیدا ہونا اور انسان کا حسرت کے ساتھ اپنے دل پر ایک موت وارد کر لینا یہ تو دل کی صفائی کا ایک طبعی اور یقینی ذریعہ ہے۔ تعجب ہے کہ عیسائی دنیا یہ تو مانتی ہے کہ مسیح کی صلیبی موت پر ایمان لانے سے ایک شخص کا دل صاف ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے لیکن وہ یہ نہیں مانتی کہ ایک شخص جب اپنی غلطی پر اظہارِ افسوس اور ندامت کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کو معاف کر سکتا ہے۔ دنیا کے معاملات میں ہم روزانہ دیکھتے ہیں خود عیسائی بھی اس طریق پر عامل ہیں کہ بسااوقات ایک غلطی کرنے والا جب اپنے قصور کا اعتراف کرتا ہے اور سچی ندامت اس کے دل میں پید اہوتی ہے تو اُسے معاف کر دیا جاتا ہے۔ مغربی تعلیم نے اسکولوں کے متعلق اس قانون کو بڑے زور شور سے جاری کر رکھا ہے حالانکہ اگر کفارے کا عقیدہ درست ہوتا تو یوں چاہئے تھا کہ بجائے اس کے کہ سبق نہ یاد کرنے پر اگر لڑکے کے دل میں ندامت پیدا ہو تو اُسے معاف کر دیا جائے لڑکا کھڑا ہو کریہ کہہ دیتا کہ صاحب! میں نے سبق یاد نہیں کیا لیکن ہاںمیں مسیح کے کفارہ پر ایمان لے آیا ہوںا س لئے میرا یہ قصور نظر انداز کر دیا جائے لیکن کوئی عیسائی اس پر عمل نہیں کرتا۔ استاد اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ سبق نہ یاد کرنے پراگر تم اپنے دل میں ندامت محسوس کرو اور آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کا وعدہ کرو تو میں تمہیں معاف کرنے کے لئے تیار ہوں۔ وہ اس بات کا کبھی مطالبہ نہیں کرتا کہ تم مسیح کے کفارہ پر ایمان لائو تو میں تمہیں معاف کر دوں گا۔ لیکن اگر مسیح کی صلیبی موت پر ایمان لانے سے دل کی پاکیزگی مراد ہے تو عیسائی دنیا کا عمل اس امر کی تردید کر رہا ہے کہ کفارہ پر ایمان لانے سے دل کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے۔ جتنی خرابی اور جتنا فسق و فجور اس ز مانہ میں عیسائی دنیا میں ہورہا ہے باقی دنیا میں اس کی کہیں مثال نہیں ملتی۔ آخر وہ کیا چیز ہے جو مسیح کے کفارہ نے عیسائیوں کو دی۔ اگر نجات دی ہے تو میں بتا چکا ہوں کہ نجات کا صحیح طریق تو سچی توبہ ہے اور اسی ذریعہ سے مسیح سے پہلے انبیاء کی اُمتوں نے نجات پائی اور اگر اس سے مراد دل کی پاکیزگی ہے تو دل کی پاکیزگی باوجود کفارہ کے عیسائیوں کو حاصل نہیں ہوئی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ کسی عیسائی کے دل میں صفائی نہیں مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ کسی عیسائی کے دل کی پاکیزگی کفارہ پر ایمان لانے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا دل بھی اسی طرح صاف ہوا ہے جس طرح باقی دنیا کا توبہ اور ندامت سے صاف ہوا کرتا ہے یا عبادات سے ہوا کرتا ہے جیسے خود حضرت مسیح نے کہا کہ :
’’ یہ قسم دعا کے سوا کسی اور طرح نہیں نکل سکتی‘‘۔ ۵۷۴؎
صفاتِ الٰہیہ جو قرآن مجید میں مذکور ہیں
مذکورہ بالا چاروں صفات کی تشریح میں خدا تعالیٰ کی مختلف
صفتیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں ہم ان کی تفصیل اس جگہ بیان نہیں کر سکتے۔ صرف اختصار کے ساتھ ان صفات کا ذکر کر دیتے ہیں جو یہ ہیں۔
اَلْمَلِکَ
وہ بادشاہ ہے
اَلْقُدُّوْسُ
نہایت پاک ذات ہے
اَلْسَّلَامُ
سلامتی والا
اَلْمُؤمِنُ
امن دینے والا
اَلْمُھَیْمِنُ
پناہ دینے والا
اَلْعَزِیْزُ
غالب ہے
اَلْجَبَّارُ
صاحب جبروت ہے
الْمُتَکَبِّرُ
کبریائی والا ہے
اَلْخَالِقُ
پیدا کرنے والا
اَلْبَارِیُٔ
بنانے والا
اَلْمُصَوِّرُ
صورت گر ہے
اَلْغَفَّارُ
بخشنے والا ہے
اَلْقَھَّارُ
دبدبہ والا
اَلْوَھَّابُ
بہت عطا کرنے والا ہے
اَلرَّزَّاقُ
رزق دینے والا ہے
اَلْفَتَّاحُ
کھولنے والا ہے
اَلْعَلِیْمُ
نہایت درجہ علم رکھنے والا ہے
اَلْقَابِضُ
ہر چیز کو حد و بسط کے اندر رکھنے والا
اَلْبَاسِطُ
کشائش پیدا کرنے والا ہے
اَلْخَافِضُ
پست کرنے والا ہے
اَلرَّافِعُ
بلند کرنے والا ہے
اَلْمُعِزُّ
عزت دینے والا ہے
المُذِلُّ
ذلت دینے والا ہے
اَلْسَّمِیْعُ
ہر آواز سننے والا ہے
اَلْبصِیْرُ
ہر چیز دیکھنے والا ہے
اَلْحَکَمُ
صحیح فیصلہ کرنے والا ہے
اَلْعَدَلُ
انصاف کرنے والا
اَلْلَّطِیْفُ
نہایت باریک بین ہے
اَلْخَبِیْرُ
خبررکھنے والا ہے
اَلْحَلِیْمُ
تحمل والا ہے
اَلْعَظِیْمُ
بہتعظمت والا ہے
اَلْغَفُوْرُ
گناہ بخشنے والا
اَلشَّکُوْرُ
نہایت قدر دان ہے
اَلْعَلِیُّ
صاحب مرتبت ہے
اَلْکَبِیْرُ
بڑائی والا ہے
اَلْحَفِیْظُ
حفاظت کرنے والا ہے
اَلْمَقِیْتُ
ہر چیز کی قوتوں کو بحال رکھنے والا ہے
اَلْحَسِیْبُ
حساب کرنے والا
اَلْجَلِیْلُ
بزرگی والا ہے
اَلْکَرِیْمُ
عزت والاہے
الرَّقِیْبُ
نگہبان ہے
اَلْمُجِیْبُ
دعاقبول کرنے والاہے
اَلْوَاسِعُ
فراخی دینے والا ہے
اَلْحَکِیْمُ
ہر کامحکمت سے کرنے والاہے
اَلْوَدُوْدُ
محبت کرنے والاہے
اَلْمَجِیْدُ
عالی شان رکھنے والاہے
اَلْبَاعِثُ
مردوں کواُٹھانے والاہے
اَلشَّھِیْدُ
ہر جگہحاضرہے
اَلْحَقُّ
اس کا وجود خود اسکی ذات پر شاہد ہے اور سب سچائیوں کا منبع ہے
اَلْوَکِیْلُ
حقیقی کارساز ہے
اَلْقَوِیُّ
نہایت زور آورہے
اَلمَتِیْنُ
بہت بڑی قوت رکھنے والا ہے
اَلْوَلِیُّ
حمایت کرنے والا ہے
اَلْحَمِیْدُ
سب تعریفوں کا مالک ہے
اَلْمُحْصِیُ
ہر چیز کو گننے والا ہے
اَلْمُبْدِیُٔ
پہلی بار پیدا کرنے والا ہے
اَلْمُعِیْدُ
پیدائش دینے والاہے
اَلْمُحْیِی
جلانے والا ہے
اَلْمُمِیْتُ
مارنے والا ہے
اَلْحَیُّ
زندہ ہے
اَلْقَیُّوْمُ
سب کا سہارا ہے
اَلْوَاجِدُ
ہر چیز کو پانے والا ہے
اَلْمَاجِدُ
نہایت بزرگ ہستی ہے
اَلْقَادِرُ
قدرت و اختیار رکھنے والا ہے
اَلْمُقْتَدِرُ
سب قدرتیں اس کے قبضہ میں ہیں
اَلْمُقَدِّمُ
آگے بڑھانے والا ہے
اَلْمُؤَخِّرُ
پیچھے ہٹانے والا ہے
اَلْاَوَّلُ
سب سے پہلا ہے
اَلْاٰخِرُ
سب سے پچھلا ہے
اَلظَّاھِرُ
ہر چیز اپنی انتہاء میں اُس کے وجود کو ظاہر کرتی ہے
اَلْبَاطِنُ
ہر چیز کی کنہہ اس کے ذریعے سے ظاہر ہوتی ہے
اَلْوَالِیْ
حکمران ہے
اَلْمُتَعَالِیْ
پاک صفات والا ہے
اَلْبَرُّ
اعلیٰ درجہ کا نیک سلوک کرنے والا ہے
اَلتَّوَّابُ
توبہ قبول کرنے والا ہے
اَلْمُنْعِمُ
انعام دینے والا ہے
اَلْمُنْتَقِمُ
ہر عمل کی مناسب سزا دینے والا ہے
اَلْعَفُوُّ
درگزر کرنے والا ہے
اَلرَّؤُوْفُ
نرمی کرنے والا ہے
مٰلِکُ الْمُلْکِ
سلطنت کا مالک ہے
ذُوالْجَلَالِ وَ أَ لْاِکْرَامِ
صاحب عزت و بخشش ہے
أَلْمُقْسِطُ
صحیح فیصلہ کرنے والا ہے
اَلْجَامِعُ
اکٹھا کرنے والا ہے
اَلْغَنِیُّ
تمام حوائج سے مستغنی ہے
اَلْمُغْنِیْ
غنی کرنے والا ہے
اَلْمَانِعُ
روکنے والا ہے
اَلضَّارُّ
شریر کو اُسکے کام کی سزا دیتا ہے
اَلنَّافِعُ
فائدہ پہنچانے والا ہے
اَلنُّوْرُ
روشنی بخشنے والا ہے
اَلْھَادِیْ
ہدایت دینے والاہے
اَلْبَدِیْعُ
ایجاد کرنے والا ہے
اَلْبَاقِیْ
باقی رہنے والاہے
اَلْوَارِثُ
سب کا وارث ہے
اَلرَّشِیْدُ
نیک راہ بتانے والاہے
اَلصَّبُوْرُ
بہت صبر کرنے والا
ذُوْ الْعَرْشِ
ذُو الْوَقَارِ
ہر بات دلیل اور غرض کے مطابق کرنیوالا
اَلْمُتَکَلِّمُ
کلام کرنے والا
اَلشَّافِیْ
شفا دینے والا
اَلْکَافِیْ
سب حاجتوں کو پورا کرنے والا

یہ ایک سَو چار موٹے موٹے نام ہیں جو قرآن شریف سے اخذ کئے گئے ہیں، ان میں سے اکثر تو انہی الفاظ میں قرآن کریم میں بیان ہیں لیکن بعض ایسے ہیں جو قرآن کریم کی آیتوں سے اخذ کر کے لکھے گئے ہیں ان ناموں پر غور کر کے اس روحانی نظام کا ڈھانچہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جسے قرآن کریم پیش کرتا ہے۔ یہ صفات موٹے طور پر تین حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں۔
اوّل وہ صفات جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مخلوق کا اُن کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں۔ مثلاً الحيّ زندہ رہنے والا ہے۔ القادر قدرت اور اختیار رکھنے والا ہے۔ الماجد بزرگی رکھنے والا وغیرہ وغیرہ۔
دوسری قسم کی صفات وہ ہیں جو مخلوق کی پیدائش کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے سلوک اور اس کے نسبتی تعلق پر دلالت کرتی ہیں مثلا الخالق۔ المالک وغیرہ وغیرہ۔
تیسری قسم کی صفات وہ ہیں جو بالا رادہ ہستیوں کے اچھے اور بُرے اعمال کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوتی ہیں۔ مثلاً رحیم ہے مٰلِکِ یَوْمِ الدِّ یْن ہے عفو ہے رؤوف ہے وغیرہ وغیرہ۔
بعض صفات بظاہر مکرر نظر آتی ہیں لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک لطیف فرق ہے مثلاً پیدائش کے متعلق اللہ تعالیٰ کی کئی صفات بیان ہوئی ہیں۔ جیسے خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ۔ البدیع۔ الفاطر۔ الخالق۔ اَلْباَ رِیْ۔ المعید۔ المصوّرُ۔الربّ۔ یہ صفات بظاہر ملتی جلتی نظر آتی ہیں لیکن درحقیقت یہ مختلف ممتاز معنوں پر دلالت کرتی ہیں۔ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ سے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ روح اور مادہ کا بھی پیدا کرنے والا ہے کیونکہ بعض قومیں خداتعالیٰ کو صرف جوڑنے جاڑنے کا موجب سمجھتی ہیں۔ بسیط مادے کا خالق نہیں سمجھتیں۔ ان کا خیال ہے کہ مادہ اور روح بھی خد اتعالیٰ کی طرح ازلی اور انادی ہیں۔ اگر خالی لفظ خالق ہوتا تو لوگ یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم بھی خدا تعالیٰ کو خالق مانتے ہیں مگر ہمارے نزدیک خالق کے یہ معنی ہیں کہ وہ ان چیزوں کو جوڑ جاڑ کر ایک نئی شکل دے دیتا ہے۔ ان لوگوں کو اس تاویل کی وجہ سے قرآن کریم کا حقیقی منشاء واضح اور روشن طور پر ثابت نہ ہو سکتا۔ پس خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ کی صفت نے محض خلق کی صفت سے ایک زائد مضمون بیان کیا ہے۔ بدیع کا مفہوم یہ ہے کہ نظام عالم کا ڈیزائن اور نقشہ خدا تعالیٰ نے بنایا ہے۔ گویا یہ اتفاقی نہیں یا موجودات میں سے کسی کی نقل نہیں۔فَطَر کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کو پھاڑ کر اس میں سے مادہ کو نکالنا۔ پس فاطر کی صفت سے اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مادہ پیدا کیا اس کے اندر اس نے مخفی ارتقاء کی طاقتیں رکھیں اورا پنے وقت پر وہ پردے جو اُن طاقتوں کو دبائے ہوئے تھے اُن کو اس نے پھاڑ دیا۔ جیسے بیج کے اندر درخت یا پودا بننے کی خاصیت ہوتی ہے مگر وہ ایک خاص حالات کا منتظر رہتا ہے، اس وقت اور اس موسم میں وہ اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے غرض فاطرکے لفظ نے بتا دیا کہ خدا تعالیٰ نے سب کچھ یکدم نہیں کر دیا بلکہ دنیا کو ایک قانون کے مطابق پیدا کیا ہے۔ ہر ایک درجہ کے متعلق ایک قانون کام کر رہا ہے ایک اندرونی تیاری دنیا میں ہوتی رہتی ہے اور ایک خاص وقت پر جا کر بعض مخفی طاقتیں اپنے آپ کو ظاہر کر دیتی ہیں اور ایک نئی چیز بننے لگ جاتی ہے۔ خالق کے معنی وہ بھی ہیں جو خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ میں بیان ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ ایک اور معنی بھی خالق کے ہیں،اور وہ تجویز کرنے والے کے ہیں۔ پس خالق کے معنی یہ ہیں کہ مختلف چیزوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھنا۔یہ بھی خدا تعالیٰ کا ہی کام ہے ۔ اس دنیا کو ایک خاص نظام کے ماتحت خداتعالیٰ نے رکھا ہے اور اس پر خالق کا لفظ دلالت کرتا ہے۔ باری کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے مختلف ظہور شروع کرتا ہے اور پھر وہ ایک ایسا قانون مقرر کردیتا ہے کہ وہ چیز اپنی نسل کی تکرار کرتی چلی جاتی ہے اور اس پر خداتعالیٰ کا نام المعید دلالت کرتا ہے۔ المصور کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص شکل دی ہے جو اس کے مناسب حال ہے۔ صرف کسی چیز کے اندر کسی خاصیت کا پیدا کردینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اسے مناسب حال شکل دینا بھی ضروری ہوتا ہے اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔ اسی طرح کسی چیز کا محض پیدا ہوجانا کافی نہیں بلکہ اس کا ایسی شکل میں پیدا ہونا بھی کہ وہ اپنے کام کو سرانجام دے سکے ضروری ہوتا ہے پس اس صفت کے اظہار کے لئے خداتعالیٰ کا ایک نام المصور ہے ۔ الرَّبّ کی صفت ان معنوں پر دلالت کرتی ہے کہ پیدا کرنے کے بعد اس کی طاقتوں کو تدریجی طور پر بڑھاتے چلے جانا اور کمال تک پہنچانا۔ ظاہر ہے کہ پہلی صفات اس مضمون کو ادا نہیں کرتیں۔ اسی طرح اور کئی صفات ہیں جو بظاہر مکرر نظر آتی ہیں مگر درحقیقت ان کے اندر باریک فرق ہے اور اس فرق کے سمجھ لینے کے بعد وہ روحانی نظام جس کو قرآن کریم پیش کرتا ہے نہایت ہی شاندار اور خوبصورت طور پر انسان کی آنکھوں کے آگے آجاتا ہے۔ یہ صفات جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں اور جن کا ایک حصہ میں نے اوپر درج کیا ہے انجیل میں تو ان کا بہت ہی کم ذکر ہے۔ تورات اور دوسرے انبیاء کے صحف میں بھی فرداً فرداً یہ ساری صفات بیان نہیں ہوئیں ہاں بنی اسرائیل کے تمام انبیاء کی کتابوں کو جمع کیا جائے تو پھر ان میں سے بہت سی صفات کا ذکر ان میں آجاتا ہے مگر ساری صفات کا ذکر پھر بھی نہیں آتا ۔ درحقیقت مسلمانوں میں جو عام طور پر یہ مشہور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یہ عقیدہ ان یہودی روایات سے ہی وابستہ ہے جو انہوں نے تورات سے صفات الٰہیہ اخذ کرکے بنائی ہیں ورنہ قرآن کریم میں ننانوے سے بہت زیادہ نام مذکور ہیں جن میں سے ایک سَو چار نام تو میں نے اوپر بیان کردیئے ہیں اور ابھی بہت سے باقی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جن کا ا نسان کے ساتھ تعلق نہیں ان کے قرآن کریم میں بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا اور یقینا وہ قرآن کریم میں بیان نہیں ہوئیں پس کسی خاص تعداد میں خداتعالیٰ کے ناموں کو محددو کرنا درست نہیں اور اگر اسلامی لٹریچر میں اِس قسم کا کوئی ذکر پایا جاتا ہے تو وہ صرف یہودی دعوے کے تقابل کے لئے ہے حقیقت محض کے اظہارکے لئے نہیں ۔ ویدوں کو بھی میں نے دیکھا ہے ان میں بھی بہت کم صفات خدا تعالیٰ کی بیان ہوئی ہیں اور یہی حال ژند ا َوِستا کا ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ چونکہ قرآن کریم کامل کتاب ہے اور روحانیت کی تکمیل کے لئے آخری زینہ ہے اس لئے اس میں وہ صفات بھی آگئی ہیں جو پہلی کتابوں نے بیان کیں اور ان کے علاوہ کئی زائد صفات بھی اس میں بیان کی گئی ہیں۔
بعض لوگوں کو ان صفات کے دیکھنے سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض متضاد صفات بھی ہیں۔ مثلاً خدا تعالیٰ رحم کرنے والا بھی ہے اور خدا تعالیٰ سزا دینے والا بھی ہے۔ خدا تعالیٰ غنی بھی ہے اور پھر وہ پیدا بھی کرتا ہے اور بنی نوع انسان کی طرف ہدایت بھی بھیجتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اسے ان چیزوں کے وجود میں آنے کی خواہش ہے۔ عام طور پر ایسے دماغو ں میں یہ سوالات پید اہوا کرتے ہیں جنہوں نے فلسفہ پر ادھورا غو رکیا ہوتا ہے وہ اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ دنیا کا سارا حسن تو اس کے بظاہر نظر آنے والے اختلاف میں ہی پایا جاتا ہے یہ لوگ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ مختلف چیزیں اپنا الگ الگ دائرہ رکھتی ہیں یا زنجیر کی کڑیوں کی طرح ایک کڑی کے ختم ہونے پر دوسری کڑی شروع ہوتی ہے۔ یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ سزا بھی دیتا ہے لیکن سزا دینے کے لئے اس نے کچھ قوانین مقرر کئے ہیں۔ جب وہ قوانین چاہتے ہیں تو وہ سزا دیتا ہے اور جب عفو کے متعلق اُس کے مقرر کئے ہوئے قوانین کا تقاضا بڑھ جاتا ہے تو وہ عفو کرتا ہے اور ایک ہی وقت میں کسی انسان کے لئے اس کی سزا کی صفت جاری ہو رہی ہوتی ہے اور کسی انسان کے لئے اس کی بخشش کی صفت ظہور میں آ رہی ہوتی ہے۔ کسی انسان کے لئے اس کے پیدا کرنے کی صفت اور کسی انسان کے لئے اس کے مارنے کی صفت جاری ہو رہی ہوتی ہے۔
میں ابھی چھوٹا تھا کہ آریہ سماج کے ایک لیڈر نے مجھ سے سوال کیا کہ خد اتعالیٰ کو قرآن کریم میں رَبُّ الْعٰلمین کہا گیا ہے پھر وہ مارتا کیوں ہے حالانکہ رَبُّ الْعٰلمین کے تو معنی ہیں پیدا کر کے تکمیل تک پہنچانا۔ یہ اعتراض محض سطحی تھا رَبُّ الْعٰلمین کے یہ تو معنی نہیں کہ اس کو مارے نہیں۔ قرآن کریم میں ربُ العالَم نہیں کہا گیا بلکہ ربُّ العٰلمین کہا گیا ہے اور جب ایک چیز ایک طرف سے دوسری طرف کو منتقل ہو جاتی ہے تو ربوبیت کی صفت بھی ایک دوسری شکل میں ظاہر ہونے لگتی ہے غرض جو چیز موجود ہے وہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت سے فائدہ اُٹھا رہی ہے اور جو چیز موجود نہیں وہ عالم ہے ہی نہیں۔ اس کے متعلق سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
صفاتِ الٰہیہ دو قانونوں کے ماتحت کام کرتی ہیں
اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات دو قانونوں کے ماتحت چلتی ہیں۔ وہ صفات جو بنی نوع انسان سے تعلق رکھتی ہیں ان کے باہمی تعاون کیلئے خدا تعالیٰ نے دو قانون
قرآن شریف میں پیش کئے ہیں ایک قانون کا ذکر ۵۷۵؎ کی آیت میں آتا ہے یعنی میری رحمت ہر چیز پر غالب ہے۔ دوسری صفت قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے۵۷۶؎ تمہیں کیا ہو گیا کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ اپنے کاموں میں حکمت کو مدنظر رکھتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں ایک نام حکیم بھی ہے جو اس مفہوم کے ساتھ ملتے جلتے مفہوم پر دلالت کرتا ہے ان دو صفات سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہر صفت جو ظاہر ہو گی وہ کسی غرض اور غایت کو پورا کرنے کے لئے ہو گی بِلاوجہ نہیں ہو گی۔ دوسرے یہ کہ جہاں بھی سزا اور رحم کے مطالبے ٹکرا جائیں گے رحم کے پہلو کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی اور سزا کے پہلو کو ہمیشہ اس کے ماتحت رکھا جائے گا۔ درحقیقت قرآن کریم کی یہی وہ خوبی ہے جو ایک مؤمن کے دل کو اللہ تعالیٰ کی محبت سے بھر دیتی ہے اور یہی وہ اصول ہے جو بندے اور خدا میں محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہو جاتا ہے۔
ایک مسلمان کو خدا تعالیٰ کی محبت پید اکرنے کیلئے کسی عقل میں نہ آنے والے کفارہ کے مسئلہ کی ضرورت نہیں نہ اس کو کسی شخص کے صلیب پر لٹک کر مر جانے کے مسئلہ پر ایمان لانے کی حاجت ہے۔ جب وہ قرآن کریم کے بتائے ہوئے اِس گر کو دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت کے ماتحت ہوتا ہے۔ ہر کام کسی غرض و غایت کے لئے ہوتا ہے اور ہر کام کسی جائز اور معقول سبب کے لئے ہوتا ہے اور یہ کہ باوجود اس کے جب ایک کمزور انسان کمزوری دکھا جاتا ہے اور اس کے دل میں ندامت اور شرم پید اہوتی ہے تو خدا تعالیٰ کی محبت اور خدا تعالیٰ کا غفران اس کو ڈھانک لیتا ہے تو اس کا دل بیتاب ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف جھک جاتا ہے اور جب ایک مسلمان اس بات کو دیکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ باوجود خالق اور مالک ہونے کے بندے کے قصوروں کو معاف کرتا اور اُس کی غلطیوں سے درگزر کرتا اور اُس کی ترقی کے سامان پید اکرتا چلا جاتا ہے اور اُس کی سزا دکھ دینے اور ذلیل کرنے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ وہ بندے کی اصلاح اور ترقی کے لئے ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کا خدا اُس کی توبہ کے قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور وہ اس کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے اور توبہ اور ندامت کے بعد گناہوں کو جڑ سے اُکھیڑ دیتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ باوجود عظیم الشان اور نہایت ہی بالا ہستی ہونے کے وہ اپنے بندوں کی دعائوں کو سنتا ہے اور انسان کے دل میں اس سے ملنے کا جتنا شوق ہے اس سے کہیں بڑھ کر خد اتعالیٰ کو اُس سے ملنے کا شوق ہے تو انسان کا دل محبت اور پیار سے بھر جاتا ہے اور وہ بے اختیار ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اُس سے بھی زیادہ شوق سے جس شوق سے ایک بچہ اپنی ماں کی طرف جھکتا ہے اور خد اتعالیٰ بھی ایسے انسان کی طرف محبت سے جھکتا ہے اس ماں کی محبت کی نسبت سے بھی زیادہ شدید محبت سے جو اپنے روتے ہوئے بچے کی طرف بھاگتی ہے۔
پیدائش عالم اور انسان کا نقطۂ مرکزی ہونا
قرآن کریم بتاتا ہے کہ اس نقطۂ مرکزی، یعنی خد اتعالیٰ نے چاہا
کہ ایک نیا عالَم پید اکرے جو اس کے نور اور اس کے جلال کا مظہر ہو۔ تب اس نے یہ مادی عالَم پیدا کیا۔ اس عالَم کی پیدائش کے متعلق قرآن کریم نے جو روشنی ڈالی ہے وہ مختصراً یہ ہے فرماتا ہے ۵۷۷؎ خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوںکو چھ وقتوں میں پیدا کیا ہے (یعنی چھ اہم تبدیلیوں والے زمانوں میں) اور اس سے پہلے خدا تعالیٰ کا حکم پانی پر چلتا تھا۔ اس پانی کی حالت سے زمین و آسمان کے پیدا کرنے کی غرض یہ تھی کہ وہ ایک انسان پیدا کرے جو نیکی اور بدی پر اختیار رکھتا ہو اور ہر قسم کے امتحانوں میں سے گزرتے ہوئے یہ ثابت کر ے کہ ان میں سے کون دوسروں سے فائق ہو گیا اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کا نمونہ بن گیا ہے۔ اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ آسمان اور زمین کی پیدائش سے پہلے یعنی مادہ کی موجودہ شکل سے پہلے دنیا میں ایک پانی کی خاصیت کا مادہ پیدا کیا گیا تھا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ ہائیڈروجن کا بسیط ترین ذرہ پیدا کیا گیا تھا پھر اس کو ترقی دیتے دیتے یہ عالَم پیدا ہوا۔ زمین اور آسمان کی موجودہ شکل کے اختیار کرنے سے پہلے کی حالت کے متعلق بھی قرآن شریف روشنی ڈالتا ہے اور فرماتا ہے۵۷۸؎ کیا اسلام کے منکر اس بات کو سمجھتے نہیں کہ آسمان اور زمین شروع میں ایک گولہ کی طرح تھے پھر ہم نے اُن کو پھاڑ کر ایک نظامِ شمسی قائم کردیا اور شروع سے ہی ہمارا یہ طریق چلا آرہا ہے کہ ہم پانی سے ہر چیز زندہ کیا کرتے ہیں کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے ؟یعنی مادی عالَم نے جس طرح ترقی کی ہے اسی طرح روحانی عالَم بھی ترقی کرے گا۔جس طرح دنیا میں پھیلا ہوا ایک گول سا مادہ تھا جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے مقررہ قانون کے ماتحت پھاڑا اور دُور دُور اس کے ٹکڑے جا کر گرے اور نظام شمسی بن گیا اسی طرح روحانی دنیا میں بھی ایک تغیر عظیم پیدا ہوتا ہے دنیا کی روحانی حالت خراب ہو جاتی ہے اور فضا گھٹی گھٹی سی معلوم ہوتی ہے تب اللہ تعالیٰ اسی تاریکی سے ایک نور ظاہر کرتا ہے اور جس طرح زمین کی تاریکی سے پودا پھوٹتا ہے اسی طرح اس تاریکی میں جنبش پیدا ہو کر ایک زلزلہ سا آتا ہے اور اس مردہ مادہ میں ایک دائمی حرکت کرنے والا روحانی نظام شمسی پیدا ہو جاتا ہے جوا پنے مرکزی نقطہ سے پھیل کر ملک یا دنیا کو اپنی وسعت کے مطابق گھیر لیتا ہے اور جس طرح مادی عالَم کی پیدائش کی ابتداء پانی سے ہوئی ہے اسی طرح یہ تغیر جو دنیا میں ہوتا ہے یہ بھی آسمانی پانی یعنی الہام سے ہوتا ہے۔ بغیر آسمانی پانی کے ایسا تغیر نہیں ہوتا۔ الغرض قرآنی تعلیم کے رو سے دنیا مختلف تغیرات میں سے گزرتی چلی گئی اور آخر وہ وقت آیا جب زمین کے پردہ پر انسان پیدا کیا جا سکتا تھا اور وہی انسان کم سے کم اس نظامِ شمسی کا مقصود تھا۔ جب وہ وقت آگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس مادی عالَم میں انسان کو پیدا کیا تاکہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرے اور اللہ تعالیٰ کے حسین چہرہ کے لئے ایک آئینہ کی طرح ثابت ہو اور اس طرح ایک روحانی بادشاہت کی بنیاد رکھی جائے۔ بے شک خدا کی مخلوق لاکھوں اور کروڑوں قسم کی ہے قرآن کریم فرماتا ہے ۵۷۹؎ اللہ تعالیٰ کے لشکروں سے خدا ہی واقف ہے دوسرا کوئی واقف نہیں لیکن انسان کو ایک عزت اور رُتبہ کا مقام حاصل ہے اس لئے کہ انسان خدا تعالیٰ کے لئے بمنزلہ آئینہ ہے اسی لئے مسلمان صوفیاء اس کو عالَم صغیر کہتے ہیں یعنی تمام مخلوقات کی صفات انسان کے اندر جمع ہو گئی ہیں اور انسان کو ہم ساری دنیا کا قائمقام کہہ سکتے ہیں۔ جس طرح ایک نقشہ چھوٹے سے کاغذ پر ہوتا ہے لیکن وہ ملک کی تمام کیفیات کو ظاہر کر دیتا ہے اسی طرح انسان گو ایک چھوٹا سا جسم رکھتا ہے مگر وہ تمام عالَم کی مختلف حقیقتیں اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے۔ پس خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ دنیا کا محور اور مرکز انسان ہے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جو کچھ پیدا کیا ہے انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ انسان دنیا کی ہر مخلوق پر حکومت کر رہا ہے اور کوئی مخلوق اس پر حکومت نہیں کر رہی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آب وہوا کی تبدیلیاں، ستاروں کی روشنیاں، بجلیاںاور بیماریاں اسی طرح طوفان اور بارشیں انسان پر ضرور اثر کرتی ہیں مگر اثر اور حکومت میں فرق ہوتا ہے۔ حاکم بھی اپنے محکوم سے متأثر ہوتے ہیں۔ دنیا میںکوئی ایسا حاکم ہمیں نظر نہیں آتا جو اپنے محکوم سے متأثر نہ ہو، مگر باوجود اس کے حاکم اور محکوم کے پہچاننے میںکوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ اسی طرح گو انسان دوسری چیزوں سے متأثر ہوتا ہے، لیکن ان چیزوں پر حکومت اور قبضہ انسان ہی کا ہوتا ہے۔ دریائوں، سمندروں، پہاڑوں، ہوائوں، دوائوں، بارشوں اور بجلیوں وغیرہ پر حاکمانہ اقتدار انسان کا ہی ہے اور اس طرح وہ تمام مخلوق کا نقطہ مرکزی ہے ، یا یوں کہہ لو کہ اس تمام مخلوق کا جو ہماری دنیا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے کیونکہ عالَم کی وسعت اتنی بڑی ہے کہ ہم اس کے متعلق کوئی عام فتویٰ لگانے کا حق نہیں رکھتے۔
انسان کی پیدائش اور اس کی دماغی ترقی تدریجی طور پر ہوئی
انسان کی پیدائش کے متعلق قرآن کریم سے ظاہر ہوتا ہے کہ تورات و انجیل کے دعوئوں کے برخلاف انسان کی پیدائش تدریجی طور پر ہوئی ہے۔
ایک آیت تو میں پہلے’’ قرآنی تعلیم کے اصول‘‘ کے زیر عنوان لکھ چکا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم انسا ن کی پیدائش کو تدریجی قرار دیتا ہے۔ اس جگہ ایک اور آیت بیان کرتا ہوں جس سے پتہ لگتا ہے کہ انسان کی پیدائش اس طرح نہیں ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے مٹی سے ایک صورت بنائی اور پھر اس میں روح پھونک دی بلکہ جیساکہ خدا تعالیٰ کی اور سنتیں ظاہر ہوئی ہیں وہ بھی تدریجی تغیرات کے بعد ظاہر ہوا ہے۔ چنانچہ سورۃ نوح میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۵۸۰؎ تمہیں خدا تعالیٰ نے ایک درجہ کے بعد دوسرے درجہ اور ایک کیفیت کے بعد دوسری کیفیت میں تبدیل کرتے ہوئے آہستہ آہستہ پیدا کیا ہے۔ پس انسان کی پیدائش قرآنی تعلیم کے مطابق یکدم نہیں ہوئی بلکہ آہستہ آہستہ ہوئی ہے اور انسان کا دماغی ارتقاء بھی یکدم نہیں ہوا، بلکہ وہ بھی آہستہ آہستہ ہو اہے۔ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم سے پہلے انسانی مخلوق موجود تھی، مگر ظاہری شکل میں ابھی وہ خدا تعالیٰ کی شریعت کی حامل نہ ہو سکتی تھی، وہ مخلوق غاروں اور پہاڑوں کی کھوہوں میں رہتی تھی۔ اس لئے قرآن کریم نے ان کا نام جن رکھا ہے۔ جن کے معنی عربی زبان میں پوشیدہ رہنے والے کے ہیں بعض لوگوں نے اس لفظ کو روایتی جن پر محمول کیا ہے، حالانکہ قرآن کریم کی تشریح ان روایتی جنوں پر صادق نہیں آتی۔ قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ بنو آدم کے جنت سے نکلنے پر (جنت بھی ارضی تھی وہ جنت نہ تھی جس میں مرنے کے بعد انسان جائے گا) اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ابلیس ( جو جنوں میں سے تھا) اور اس کے ساتھیوں سے ہوشیار رہنا اور ان کے دھوکوں میں نہ آنا، کیونکہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا ہو گا۔ اسی دنیا میں تم دونوں گروہ رہو گے اور اسی میں مرو گے۔ پس ان سے ہوشیار رہنا ۵۸۱؎ اور پھر آدم کے ساتھیوں اور ابلیس کے ساتھیوں کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ جب تم میں نبی آئیں تو تم اُن پر ایمان لانا۔۵۸۲؎ ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ آدم کے وقت جن اور ان کا سردار ابلیس درحقیقت بشری نسل میں سے تھے۔ ورنہ جن نہ تو انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور نہ بنی نوع انسان سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ پس قصوں والے جن اور ہیں اور ان کا ذمہ وار قصہ نویس ہے۔ قرآن کریم نے جن کو جن کہا ہے، وہ بشری نسل سے ہی ہیں اور یہ ان لوگوں کا نام ہے جو شروع زمانہ میں اِس دنیا پر پائے جاتے تھے جن کے دماغ پورے طور پر نشوونما کو نہ پہنچے تھے۔ جب دماغ کے پورے نشوونما کا وقت آیا تو سب سے کامل انسان آدم پر اللہ تعالیٰ کا الہام نازل ہوا اور بعض تمدنی قواعد مثلاً مل جل کر رہنے اورایک دوسرے کی غذا کی ذمہ داری لینے کی قسم کے موٹے موٹے احکام حضرت آدم ؑ پر نازل ہوئے۔ وہ لوگ جن کی تمدنی روح ابھی کامل نہ تھی انہوں نے ان قیود کا انکار کیا اور آدم کا مقابلہ کیا۔ اِ س پر اللہ تعالیٰ نے اُنہیں سزا دی اور آدم کو غالب کر دیا اور آئندہ کیلئے حکم دیا کہ جب کوئی دوسرا نبی آئے تو نبوت کا سلسلہ اسی شکل میں ظاہر ہوتا رہے گا۔ یعنی کچھ لوگ مؤمن ہوں گے اور کچھ کافر۔ مؤمن انسانوں کے قائمقام ہوں گے اور کفار اُن جنوں کے قائمقام ہوں گے کیونکہ ہر نبی ارتقائے دماغی یا روحانی کے لئے آتا ہے اور جو لوگ اِس منزلِ ارتقاء کے مخالف ہوتے ہیں اور اس زمانہ کی قیود کی پابندی نہیں کر سکتے جو نبی کے ذریعہ سے سوسائٹی کی اصلاح کیلئے تجویز کی جاتی ہیں وہ اس کے منکر ہو جاتے ہیں۔
غرض قرآنی تعلیم کی رو سے انسان کی پیدائش ارتقاء سے ہوئی ہے بلکہ اس کے دماغ کی ترقی بھی درجہ بدرجہ ارتقاء سے ہوئی ہے۔ آدم پہلا بشر نہ تھا بلکہ وہ بشروں میں سے پہلا مکمل بشر تھا۔ جس کا دماغ الٰہی کلام کا حامل ہونے کے قابل ہوا اس لئے قرآن کریم نے آدم کے ذکر میں کہیں یہ نہیں کہا کہ آئو ہم پہلا انسان پید اکریں بلکہ قرآن کریم میں جہاں آدم کا ذکر آتا ہے یوں آتا ہے کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کروں۔ جس سے ظاہر ہے کہ بشر تو پہلے موجود تھے مگر وہ الہامِ الٰہی سے ابھی تک مشرف نہ ہوئے تھے کیونکہ ان کے دماغوں نے پوری نشوونما نہ کی تھی۔ جب آہستہ آہستہ بشری دماغ نے نشوونما حاصل کی اور وہ ایک نظام اور تمدن کو قبول کرنے کے قابل ہو گیا تو اُس وقت کے سب سے مکمل دماغ والے بشر آدم پر اللہ تعالیٰ نے الہام نازل کیا اور وہ پہلا نبی ہوا۔ پس وہ پہلا انسان نہ تھا پہلا نبی تھا اور اسے اس زمانہ کی دماغی ترقی کے مطابق ایک بسیط اور سادہ تعلیم دی گئی جو صرف چند موٹے موٹے قوانین تمدن پر مشتمل تھی اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق بھی ایک سادہ سی تفصیل تھی۔ اس امر کے متعلق قرآن کریم کی یہ آیت بھی شاہد ہے۔ ۵۸۳؎ یعنی ہم نے تم انسانوں کو پید اکیا پھر ہم نے تم کو ایک اچھی صورت بخشی پھرہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کی اطاعت کرو۔ اس آیت سے ظاہر ہے کہ آدم سے پہلے کئی انسان پید ا ہو چکے تھے اور سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک لمبی ارتقائی منزل میں سے بھی گزر چکے تھے کیونکہ پیدائش کے بعد صورت دینے سے جسمانی صورت تو مراد نہیں ہو سکتی، اس سے مراد ذہنی ارتقاء ہی ہو سکتا ہے پس اس آیت کا مفہوم یہی ہے کہ پہلے انسان پیدا کیا گیا پھر آہستہ آہستہ ترقی دیتے ہوئے اس کے قویٰ کو ایک نئی شکل دے دی گئی اور وہ دوسرے حیوانوںسے ممتاز نظر آنے لگا یعنی اس کی سمجھ اور عقل مکمل ہو گئی تب آدم پیدا کیا گیا اور خد اتعالیٰ نے اس پر الہام نازل کیا۔
انسانی پیدائش کا مقصد
انسانی پیدائش کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے تا وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو
ظاہر کرے اور اس کا نمونہ بنے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۵۸۴؎ میں نے جن واِنس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے تا وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا نقش اپنے دل پر پیدا کریں ( جن سے اس جگہ انسان ہی کی بعض اقسام مراد ہیں نہ کہ غیر مرئی جن) اسی طرح قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۵۸۵؎ اے انسانو! اللہ ہی ہے جس نے تم کو اس دنیا میں اپنا نمائندہ بنا کر کھڑا کیا ہے۔ پس اگر کوئی شخص تم میں سے اِس مقام کا انکار کرتا ہے تواس کے انکار کا نتیجہ اُسی کو پہنچے گا یعنی اس عزت کے مقام کو چھوڑ کر انسان خود اپنا ہی نقصان کرے گا۔ خدا تعالیٰ کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ ان آیات سے ظاہر ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی صفاتِ حسنہ کو دنیا میں ظاہر کرنے کے لئے پید اہوا ہے اور وہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کا قائمقام ہے۔ پس انسان نقطہ مرکزی ہے تمام عالمِ مادی کے لئے۔ اور چونکہ انبیاء انسانوں کی اصلاح کے لئے اور اُن کو اپنا فرض یاد دلانے کے لئے اور اسی میں کامیابی کیلئے صحیح طریق کار بتانے کیلئے آتے ہیں اس لئے وہ نقطہ مرکزی ہیں تمام انسانوں کیلئے یا یوں کہو کہ انسان ایک سورج کی طرح ہے جس کے گرد تمام مادی دنیا گھومتی ہے اور پھر اپنے اپنے دائرہ میں انبیاء ایک سورج ہیں جن کے گرد اُن کے حلقہ کے انسان گھومتے ہیں۔
قانونِ قدرت اور قانونِ شریعت
قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلانے
اور ترقی کے راستہ پر اسے گامزن کر نے کے لئے خدا تعالیٰ نے دو قسم کے قانون جاری کئے ہیں۔ ایک قانونِ قدرت۔ اس کا تعلق انسان کی مادی ترقی کے ساتھ ہے چونکہ اس کا تعلق روح کے ساتھ براہِ راست نہیں اِس لئے اس قانون کے توڑنے پر اس کا ــطبعی نتیجہ نقصان کی صورت میں تو نکلتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور خفگی اس پر نہیں ہوتی۔ یہ قانون خدا تعالیٰ نے خود مادہ کے اندر ودیعت کر دیا ہے اس لئے کوئی بیرونی علم اس بارہ میں خدا تعالیٰ کی طر ف سے نہیں آتا۔ دوسرا قانون ، قانونِ شریعت ہے اس کا تعلق روحانی اصلاح کے ساتھ ہے اس قانون کے توڑنے پر خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہوتی ہے کیونکہ اس قانون کے پورا کرنے سے ہی انسان اُس مقصد کو پورا کر سکتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے اور اس قانون کو توڑنے کی وجہ سے وہ اس مقصد سے محروم رہ جاتا ہے جس کے لئے خدا نے اُسے پیدا کیا ہے۔ پس جب کوئی شخص اس قانون کو توڑتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کو ناراض کر دیتا ہے لیکن ہر قانونِ شریعت کے توڑنے کا یہ نتیجہ نہیں ہوتا کہ انسان کُلّی طور پرا پنے مقصد میں ناکام ہو جائے بلکہ اسلام ہمیں بتاتا ہے کہ یہ تمام قانون مجموعی طور پر انسان کی روح کی پاکیزگی اور بلندی کے لئے بھیجا جاتا ہے۔ لیکن جس طرح قانونِ قدرت کے توڑنے سے ضروری نہیں کہ ہر قانون شکنی کی وجہ سے تباہی اور بربادی آجائے یا ہر بد پرہیزی کی وجہ سے ضرور بیماری پیدا ہو اسی طرح ضروری نہیں کہ قانون شریعت کا ہر حکم ٹوٹ جانے کی وجہ سے انسان اپنے مقصد سے بالکل محروم رہ جائے یا خدا تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہو جائے کیونکہ شریعت کے تمام احکام اصولی طور پر انسان کی درستی کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں اور شریعت کا تمام نظام اسی مقصد کے لئے ہے۔ ایک وسیع نظام جو مختلف طریقوں سے ایک ہی غرض کے لئے اپنا اثر ڈال رہا ہے اگر اُس کا کوئی حصہ اپنا کام کرنے سے عاری رہ جائے تو ضروری نہیں ہوتا کہ نتیجہ مطلوبہ پیدا نہ ہو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جس حصہ نے اپنے کام میں کوتاہی کی ہے دوسرے حصوں کا اثر اس کی کمزوری پر غالب آجائے اور نتیجہ مطلوبہ پھر بھی پیدا ہو جائے۔ انسان کا وجود ہی ایک مرکب وجود ہے۔ انسان کی زندگی ہوا، پانی، غذا اور مختلف چیزوں پر انحصار رکھتی ہے بعض دفعہ ان ذرائع میں سے کسی میں کچھ نقص بھی ہو جاتا ہے۔ مگر دوسری چیزوں کے اثر کی وجہ سے وہ بیمار نہیں ہوتا۔ اسی طرح شریعت ہے کہ وہ ان احکام پر مشتمل ہے جو انسانی روح کی ترقی کے لئے ضروری ہیں اور ان کا مجموعی اثر انسان کی روحانی ترقی پر پڑتا ہے۔ پس جب تک خدا تعالیٰ کی حکومت یا اُس کے انبیاء کی حکومت کے انکار کی روح نہ پیدا ہو جائے صرف غلطی یا کمزوری کی وجہ سے انسانی عمل میں اگر کوئی خامی رہ جائے تو ضروری نہیں کہ ایسی خامی انسان کو اپنے مقصد کے حاصل کرنے میں ناکام کر دے۔ اگر خامی بہت زیادہ بھی ہو تو سچی توبہ اور دعا بھی اس کا ازالہ کر سکتے ہیں۔ اُوپر کے دو قانونوں کے علاوہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دو اَور قانون بھی ہیں ایک قانونِ تمدن اور دوسرا قانونِ اخلاق یہ دونوں قانون درحقیقت قانونِ قدرت اورقانونِ شریعت کی سرحدیں ہیں۔ قانونِ اخلاق قانونِ شریعت کی طرف کی سرحد ہے اور قانونِ تمدن قانونِ قدرت کی طرف کی سرحد ہے اِس لئے یہ دونوں قانون بہت کچھ آپس میں ملتے جلتے ہیں۔ بہت سے تمدنی قانونوں کی بنیاد قانونِ اخلاق پر ہوتی ہے اور بہت سے اخلاقی قانونوں کی بنیاد قانونِ تمدن پر ہوتی ہے۔ انسان چونکہ مدنی الطبع پیدا ہوا ہے، اِس لئے وہ اِن دو قانونوں کا محتاج تھا۔ چونکہ قانونِ تمدن قانونِ قدرت سے ملتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا اختیار زیادہ تر بنی نوع انسان کو دیا ہے اور چونکہ قانون اخلاقِ قانونِ شریعت سے ملتا ہے اس لئے قانونِ اخلاق کو قانونِ شریعت کے اندر داخل کیا گیا ہے گوا س کی بعض شقوں کو بنی نوع انسان کے سپرد بھی کر دیا گیا ہے۔ تمام دنیا کا نظام اِن چاروں قانونوں سے چل رہا ہے۔ قانونِ قدرت میں بھی کسی کا دخل نہیں وہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے اور قانونِ شریعت میں بھی کسی انسان کا دخل نہیں وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے لیکن قانونِ تمدن اور قانونِ اخلاق میں خد اتعالیٰ اور انسانی نظام شریک ہو جاتے ہیں کچھ راہنمائی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور کچھ اختیار انسان کو دیا جاتا ہے اور اس طرح خدا اور بندے کے تعاون سے اِس دنیا کا نظام بہتر سے بہتر بنایا جاتا ہے۔ جب تک یہ دو دریا متوازی چلتے رہتے ہیں اُس وقت تک دنیا میں امن قائم رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے ساتھ مل کر انسان بھی دنیا میں ایک مفید اور بابرکت حکومت قائم کر لیتا ہے اور جب یہ دو دریا مختلف جہات میں بہنا شروع کر دیتے ہیں یا دوسرے لفظو ں میں یہ کہو کہ انسانی عقل کی ندی اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنا رستہ بدل دیتی ہے اور خدائی راہنمائی کی ندی کے ساتھ ساتھ چلنے کی برکت سے محروم ہو جاتی ہے تو دنیا میں فساد اور جھگڑا اور لڑائی پید اہو جاتی ہے اور دنیا پر نہ خدا کی بادشاہت رہتی ہے نہ انسان کی بلکہ شیطان کی بادشاہت قائم ہو جاتی ہے کیونکہ انسان خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ساتھ ہی انسان بنتا ہے ورنہ وہ وحشی جانوروں میں سے ایک جانور کی طرح ہوتا ہے۔
انسان کو خدا تعالیٰ کا مقرب بنانے کے لئے ضروری تھا کہ وہ صاحبِ اختیار بنایا جاتا۔ اِس وجہ سے قرآن کریم بتاتا ہے کہ انسان اِس دنیا کے ایک حصہ میں مختار ہے اور ایک حصہ میں مقید ہے۔ وہ مقید ہے قانونِ قدرت کے معاملہ میں اور مختار ہے قانونِ شریعت کے معاملہ میں۔ قانونِ قدرت کے معاملہ میں وہ مقید ہے اس لئے کہ قانونِ قدرت پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ کوئی روحانی ترقی حاصل نہیں کرتا اور قانونِ شریعت میں اُسے عمل کی آزادی دی گئی ہے اس لئے کہ قانونِ شریعت پر عمل کرنے سے وہ انعام کا مستحق ہوتا ہے اور انعام اسی صورت میں ملا کرتا ہے جبکہ آزادیٔ عمل حاصل ہو، جبری طور پر کرائے ہوئے کام کے بدلہ میں انعام نہیں ملا کرتا۔
قرآن شریف اِس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ انسان کی روحانی ترقی بھی اس کے جسمانی حالات سے متأثر ہوتی ہے اور جس حد تک وہ اِس سے متأثر ہوتی ہے اُس کے اعمال یقینا محدود ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم اس کا جواب یہ بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ انسانی اعمال کی قیمت اُس کے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے لگائے گا۔ مثلاً اگر ایک شخص لاکھوں روپے کا مالک ہو کر دنیا کی بہتری اور بھلائی کے لئے سَو روپیہ خرچ کرتا ہے اور ایک دوسرا شخص صرف چند روپوں کا مالک ہو کر دنیا کی بھلائی کے لئے اپنا سارا مال خرچ کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے دونوں کو ایک سا ثواب نہیں ملے گا۔ جس نے چند روپے خرچ کئے تھے گو اس کے روپے تھوڑے تھے مگر اُسے ثواب زیادہ ملے گا کیونکہ اس کے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جائے گا کہ اس نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ لیکن جس نے لاکھوں اور کروڑوں روپیہ کے ہوتے ہوئے ایک سَو روپیہ کی مدد کی اس کے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اُس نے اپنی طاقت کا ہزارواں یا لاکھواں حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا۔ پس خد ا تعالیٰ عمل کی مقدار کو نہیں دیکھتا بلکہ اُس ماحول کو دیکھ کر عمل کی قیمت لگاتا ہے جس ماحول میں کوئی انسان کام کرتا ہے اور وہ اُن مجبوریوں یا اُن سہولتوں کو نظر انداز نہیں کرتا جن کے ماتحت کام کرنے والے کے عمل میں کوئی کمزوری پیدا ہوئی یا جن کی مدد سے کام کرنے والے کو کام میں سہولت حاصل ہوئی۔
قرآن کریم سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح جسمانی دنیا نے آہستہ آہستہ ترقی کی ہے اسی طرح روحانی دنیا کے لئے بھی آہستہ آہستہ ترقی مقدر تھی اسی لئے خدا تعالیٰ کا کامل کلام دنیا کے شروع میں نہیں آیا۔ جوں جوں انسان ترقی کرتا چلا گیا اُسے اس کی ترقی کے درجہ کے مطابق شریعت دی گئی آخر ہوتے ہوتے انسان اس مقام پر پہنچ گیا جبکہ وہ کامل ترین شریعت کا حامل ہو سکتا تھا اُس وقت خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت دنیا کا کا مل ترین وجود ظاہر ہوا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے پس آپ پر خدا تعالیٰ کی طر ف سے آنے والی شریعتوں میں سے کامل ترین شریعت اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی کتابوں میں سے کامل ترین کتاب نازل کی گئی۔ وہ کامل کتاب قرآن کریم ہے اور کامل شریعت اسلام ہے۔ آپ کے وجود سے روحانی نظام کی تکمیل ہوئی، جس طرح مادی عالَم کا نقطۂ مرکزی انسان ہے، جس طرح مختلف زمانوں اور قوموں کیلئے اُن کا نقطہ مرکزی اُن کے انبیاء ہیں اِسی طرح تمام بنی نوع انسان کیلئے نقطۂ مرکزی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ پس قرآنی نقشہ ٔعالَم اس طرح ہے کہ تمام مادی عالَم کا پہلا نقطہ مرکزی انسان ہے یہ انسان مختلف دائروں میں اپنے اپنے زمانہ کے نبیوں کے گرد گھومتے ہیں۔ تمام نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھومتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے گرد گھومتے ہیںاور اس طرح روحانی دنیا مکمل ہو جاتی ہے۔
قانونِ شریعت، قانونِ اخلاق، قانونِ تمدن
میں اوپر بتا چکا ہوں کہ انبیاء کے ذریعہ سے دنیا میں جو تکمیل ہوئی ہے وہ کم و بیش تین طرح ظاہر ہوتی ہے۔ ایک قانونِ شریعت کے ذریعہ سے دوسرے قانونِ اخلاق کے
ذریعہ سے تیسرے قانونِ تمدن کے ذریعہ سے۔ قرآن کریم چونکہ اعلیٰ اور اکمل کتاب ہے اُس نے ان تینوں شقوں کو بیان کیا ہے۔ قانونِ شریعت اور قانونِ اخلاق کو مکمل طور پر اور قانونِ تمدن کو اصولی طو رپر کیونکہ قانونِ تمدن میں انسان کو بہت سے اختیارات دیئے گئے ہیں۔ قانونِ اخلاق کے متعلق قرآن شریف نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ اخلاقِ فاضلہ درحقیقت نام ہے طبعی جذبات کو صحیح طور پرا ستعمال کرنے کا۔ پس طبعی جذبات کو مار دینا یا حد سے زیادہ اُن میں منہمک ہو جانا یہ اخلاقی گناہ ہوتا ہے جو طبعی جذبات کو مارنا چاہتا ہے وہ قانونِ قدرت کا مقابلہ کرتا ہے۔ جو اُن کے پورا کرنے میں منہمک ہو جاتا ہے وہ اپنی روح کو بھول جاتا ہے اور مذہب کو نظر انداز کر دیتا ہے اور یہ دونوں باتیں خطرناک ہیں۔ تم قانونِ قدرت کو بھی نہیں کچل سکتے اور تم قانونِ شریعت کو بھی نہیں کچل سکتے۔ اسی اصل کے ماتحت قرآن کریم فرماتا ہے کہ دنیا میں تمام چیزیں حلال ہیں کیونکہ وہ انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہیں۔ ہاں صرف اُس صورت اور اُس شکل میں اُن کے استعمال پر حد بندی لگائی جاتی ہے جس صورت اور جس شکل میں وہ انسان کے لئے مضر ہو جاتی ہیں۔ اِس قانون کے ماتحت اسلام کے رو سے شادی نہ کرنا نیکی نہیں گناہ ہے کھانے پینے اور پہننے کے متعلق طیب چیزوں کااستعمال نہ کرنا نیکی نہیں گناہ ہے، کیونکہ اِس میں قانونِ قدرت کی ہتک اور اس کا مقابلہ ہے اور خد ا تعالیٰ کے فضلوں کی ناشکری ہے۔ لیکن انہی چیزوں میں پڑ جانا اور ان کے استعمال میں غلو اور اسراف سے کام لینا یہ بھی گناہ ہے کیونکہ اس طرح انسان اپنی روح کو بھول جاتا ہے اور اصل مقصد انسانی زندگی کا روح کو کامل کرنا ہی ہے۔ جس طرح وہ شخص گنہگار ہے جو کام ہی کرتا رہتا ہے اور کھانا نہیں کھاتا کیونکہ وہ مر جائے گا اور اس کا کام مکمل نہیں ہو گا۔ اسی طرح وہ شخص بھی گنہگار ہے جو کھانا ہی کھاتا رہتا ہے اور کام نہیں کرتا۔ کیونکہ وہ شخص ذرائع کے پیچھے پڑجاتا ہے اور مقصود کو بھول جاتا ہے۔ بغیر ذرائع کے مہیا کرنے کے مقصد حاصل نہیں ہوتا اور بغیر صحیح مقصد کو پیش نظر رکھنے کے صحیح ذرائع مہیا نہیں کئے جا سکتے۔
قانونِ تمدن میں تنظیم اور یکجہتی پیدا کرنے کے لئے اُصول
قانونِ تمدن میں تنظیم اور یک جہتی پیدا کرنے کے لئے قرآن کریم نے مندرجہ ذیل اصول بیان کئے
ہیں۔(اوّل) اصل مالک خدا تعالیٰ ہے اور سب
چیزیں اس کی ہیں۔
(۲) اس نے یہ سب چیزیں بحیثیت مجموعی بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے انسان کے اختیار میں دی ہیں۔
(۳) انسان چونکہ روحانی ترقی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے ایک حد تک اُس کو اپنے عمل میں ایک حد تک آزادی بھی ملنی چاہئے اور اسے ترقی کے لئے کچھ نہ کچھ میدان ملنا چاہئے۔
(۴)چونکہ انسان جن ذرائع سے کام لے کر ترقی کرے گا وہ ذرائع درحقیقت کل بنی نوع انسان کی مشترک ملکیت ہیں اس لئے انسانی عمل کے محاصل کو ایسے اصول پر تقیسم کرنا چاہئے کہ فرد کو بھی اُس کا حق مل جائے اور قوم کو بھی اس کا حق مل جائے۔
(۵) انسانی نظا مِ تمدن کے چلانے کے لئے ایک حاکم ہونا ضروری ہے اور اس حاکم کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ بنی نوع انسان کے مشورہ سے منتخب کیا جائے اس حاکم کا کام قانون بنانا نہیں بلکہ الٰہی قانون کو نافذ کرنا ہے۔
(۶) لیکن چونکہ ضروری نہیں کہ ایک وقت میں ساری دنیا میں ایک ہی نظام ہو اس لئے قرآن کریم نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ :۔
(الف) اگر ایک وقت میں دنیا میں کئی حکومتیں ہوں اور اُن میں سے بعض میں اختلاف پیدا ہو جائے تو دوسری حکومتیں مل کر اُن دونوں کے اندر صلح کرائیں۔
(ب)اگر صلح ہو جائے تو فَبِہَا اور اگر صلح نہ ہو سکے تو دنیا کی باقی حکومتیں مل کر ایک عادلانہ فیصلہ دیں جس کو ماننے کے لئے دونوں حکومتوں کو مجبو رکیا جائے۔
(ج) اگر ایسے فیصلہ کو کوئی فریق نہ مانے یا ماننے کے بعد اس پر عمل کرنے سے انکار کر دے تو ساری طاقتیں مل کر اس سے لڑیں اور اُسے مجبور کریں کہ وہ دنیا کے امن کی خاطر حکومتوں کی پنچائت کے فیصلہ کو تسلیم کرے۔
(د) جب اس پنچائتی دبائو یا لڑائی سے وہ حکومت صلح کی طرف مائل ہو جائے تو یہ حکومتوں کی پنچائت بغیر کوئی ذاتی فائدہ اُٹھانے کے صرف اس امر کے متعلق فیصلہ نافذ کر دے جس سے جھگڑے کی ابتداء ہوئی تھی اور مغلوب ہونے والی حکومت سے کوئی زائد فائدے اپنے لئے حاصل نہ کرے کیونکہ اس سے نئے فسادات کی بنیادیں قائم ہوتی ہیں۔ یہ وہ تعلیم ہے جو قرآن کریم نے آج سے پونے چودہ سَو سال پہلے دی تھی آج یو نائٹیڈ نیشنز آرگنائزیشن United Nation Organisation) ( انہی اصول کی نقل کر رہی ہے لیکن پوری طرح نقل نہ کر سکنے کی وجہ سے ناکامیاب ہو رہی ہے۔ پہلی لیگ آف نیشنز اس لئے ناکام ہوئی کہ وہ قرآنی اصول میں سے اس اصل کی خلاف ورزی کر رہی تھی کہ متخاصمین میں سے جو حکومت پنچائتی فیصلہ کو تسلیم نہ کر ے اُسے زور اور طاقت کے ساتھ منوایا جائے اور اب نئی لیگ اس اصول کی خلاف ورزی کررہی ہے کہ مغلوبین سے پنچائتی حکومتیں زائد فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ ابتدائی جھگڑے تک ہی اپنے فیصلوں کو محدود رکھیں پس یہ لیگ بھی اسی نتیجہ کو دیکھے گی جو پہلی لیگ نے دیکھا تھا۔ کیونکہ امن کے قیام کا صرف وہی ذریعہ ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔
حیات مَابَعْدَ الْمَوْت
قرآنی تعلیم کے رو سے دنیا کا یہ نظام جس کا میںپہلے نقشہ کھینچ چکا ہوں، آخر انسان کی موت کے ذریعہ سے ایک نئی شکل بدل
لیتا ہے۔ انسانی ارواح ایک نئے عالم میں جاتی ہیں اور روح ایک نیا جسم اختیار کرتی ہے، مگر وہ اِس قسم کا جسم نہیں ہوگا جس قسم کا جسم ہمیں اِس دنیا میں حاصل ہے۔ وہ ایک نئی قسم کا روحانی جسم ہو گا جو انسان کی روح کو خدا تعالیٰ کا حسن کو دیکھنے کے لئے نئی طاقتیں بخشے گا۔ کامل روحیں معاً اُس مقام پر رکھ دی جائیں گی جسے جنت کہتے ہیں اور ناقص روحیں اُس جگہ ڈال دی جائیں گی جسے دوزخ کہتے ہیں اور جو درحقیقت روحانی بیماریوں کا شفاخانہ ہے۔ جوں جوں ارواح کی اصلاح ہوتی چلی جائے گی اُنہیں جنت میں بھیجا جاتا رہے گا یہاں تک کہ دوزخ بالکل خالی ہوجائے گا اور تمام کے تمام انسان جنت میں داخل ہوجائیںگے۔ جس طرح وہ خدا کی طرف سے آئے تھے وہ سب کے سب خدا ہی کی طرف چلے جائیں گے۔ اُن کی خوشیاں اور اُن کی لذتیں اور اُن کی راحتیں سب روحانی ہو ں گی اور اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی محبت اُن کی سب سے بڑی غذا ہوگی اور اُس کی رُؤیت اُن کا سب سے بڑا انعام ہو گا۔ قرآن کریم اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ۵۸۶؎ اِس عالم کے دونوں سرے خدا ہی کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کی پیدائش کا سرا بھی خد اتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس کے خاتمہ کا سرا بھی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ جو خدا سے آیا وہ خدا ہی کی طرف جائے گا۔ جیسے مسیحؑ بھی کہتا ہے کہ آسمان پر کوئی نہیں جاتا مگر وہی جو آسمان سے آتا ہے۔
روحانی نظام کی تکمیل کے لئے قرآنی اصول
روحانی نظام کی تکمیل کے لئے قرآن کریم نے یہ اصول
مقرر فرمایا ہے کہ چونکہ شریعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے اس لئے آئندہ کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں آئے گا۔ قرآن کریم آخری کتاب ہے اس کو جُزْوًا یا کلُاًّ کوئی اور کتاب منسوخ نہیں کر سکتی۔ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت روحانی عالم میں رہتی دنیا تک رہے گی، لیکن انسان بھول بھی جاتا ہے، غلطی بھی کرتا ہے اور بغاوت بھی کرتا ہے ان تینوں مرضوں کا علاج کئے بغیر قرآنی حکومت قیامت تک صحیح طور پر نہیں چل سکتی۔
پیشگوئی دربارہ ظہور مسیح موعود
بھولنے والے کو یاد کرانے والا، غلطی کرنے والے کی اصلاح کرنے والا اور باغی کو زیر نگین لانے والا
آدمی ضرور چاہئے۔ قرآن کریم اس کا یہ علاج بتاتا ہے کہ جس طرح سورج کی عدمِ موجودگی میں چاند دنیا کو روشن کرتا ہے، اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خداتعالیٰ کی طرف سے ایسے انسان کھڑے کئے جائیں گے جو چاند کی طرح محمد رسول اللہ ﷺسے نور کا اکتساب کر کے دنیا کو روشن کرتے رہیں گے۔ یہ لوگ زمانہ کی ضرورت کے مطابق عام حالتوں میں تو مجدد کی صورت میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کی وسیع خرابی اور تباہی کے وقت میں تابع نبی یا اُمتی نبی کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ چنانچہ ایک ایسے ہی وجود کے متعلق قرآن شریف میں متعدد مقامات پر خبر دی گئی ہے۔ ( دیکھو سورۃ جمعہ ع۔ سورہ صف ع۔ سورہ آل عمران)۵۸۷؎ اور اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ثانی قرار دیا گیا ہے حدیثوں میں اس بروز ثانی کا نام مسیح بھی رکھا گیا ہے اور قرآن کریم میں بھی مسیح کے نام کی طرف ضمناً اشارہ کیا گیا ہے (دیکھو سورۃ زخرف رکوع۶)۵۸۸؎ دوسرا نام حدیثوں میں اس کا مہدی رکھا گیا ہے مگر یہ وجود ایک ہی ہے مختلف جہات سے اس کے مختلف نام ہیں۔ انجیل میں بھی محمد رسول اللہ ﷺکی اس بعثتِ ثانیہ کا ذکر مسیح کے دوبارہ نزول کے وعدہ میں کیا گیا ہے۔ موجودہ زمانہ کے حالات بتا رہے ہیں کہ یہ وہی زمانہ ہے جس کی پیشگوئی پرانی کتب میں اور قرآن کریم میں کی گئی ہے۔
ظہور مسیح موعود علیہ السلام
قرآن کریم کی صداقت کا یہ ایک زبردست ثبوت ہے کہ اُس کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اِس زمانہ میں ایکشخص نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ قرآن شریف اور دوسری کتب سماوی کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہے اور رسول کریم ﷺکا کامل بروز ہے اور آپ کے دین کو قائم کرنے اور قرآن شریف کی تعلیم کو روشن کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے اُسے مبعوث فرمایا ہے (ان پیشگوئیوں کا ذکر قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں اپنے اپنے مقام پر کیا گیا ہے ۔ خصوصاً قرآن کریم کی آخری سورتوں میں) یہ مدعی حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ ہیں۔ آج سے قریباً ساٹھ سال پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر وحی نازل ہوئی اور خدا تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ تجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی خدمت کیلئے اور خدا تعالیٰ کے نام کو دوبارہ اس دنیا میں روشن کرنے کیلئے مقرر کیا گیا ہے اور تجھے وہی رُتبہ دیا گیا ہے جو پہلے انبیاء کو دیا گیا تھا، سوائے اِس فرق کے کہ تو قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل متبع ہے اور کوئی نئی شریعت تجھے نہیں دی گئی۔ چنانچہ آپ کو الہام ہوا کہ کُلُّ بَرَکَۃٍ مِنْ مُّحَمَّدٍ ﷺ فَتَبَارَکَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ ۵۸۹؎ تمام برکتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوتی ہیں۔ پس بہت برکت والا ہے وہ بھی جس نے سکھایا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت برکت والا ہے وہ بھی جس نے سیکھا، یعنی احمد قادیانی علیہ السلام۔
پھر آپ کو کہا گیا:
’’ دنیا میں ایک نذیر آیا، پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا، لیکن خدا اسے قبول کرے گا، اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا‘‘۔۵۹۰؎
قرآن کریم میں نذیر نبیوں کا نام آتا ہے اور بانی سلسلہ احمدیہ کے ایک الہام میں نذیر کی بجائے نبی کا لفظ بھی آتا ہے ( ایک غلطی کا ازالہ)۵۹۱؎ آپ کا کام یہ تھا کہ آپ اس تاریکی کے زمانہ میں پھر دنیا کو خدا تعالیٰ سے روشناس کرائیں اور تازہ الہاموں اور معجزات سے اِس مادی دنیا کے دل میں روحانیت کا بیج دوبارہ بو دیں۔ جس وقت آپ نے دعویٰ کیا اُس وقت آپ اکیلے تھے، دنیا میں آپ کا کوئی ساتھی نہیں تھا۔ آپ ریل سے دور، تار گھر سے محروم، ڈاک کی تمام سہولتوں سے محروم ایک چھوٹے سے گائوں میں جس کی آ بادی چودہ پندرہ سَو تھی ظاہر ہوئے اور اُس وقت آپ نے دنیا میں یہ اعلان فرمایا کہ خدا تعالیٰ میری سچائی کو دنیا پر ثابت کرے گا اور دنیا کے دور دراز کناروں تک میری تبلیغ پہنچے گی اور آپ نے یہ اعلان کیا کہ نہ صرف یہ کہ خدا مجھے دنیا کے کناروں تک شہرت دے گا بلکہ میرے سلسلہ کو قائم رکھے گا اورمجھ پر ایمان لانے والے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کریں گے۔
اور ۹ سال کے اندر میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا، جو خصوصیت سے میری پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہو گا اور دنیا کے کناروں تک اُس کا نام پہنچے گا۔ وہ جلد جلد ترقی کرے گا اور روح القدس سے برکت دیا جائے گا۔ اِن الہامات کے شائع ہونے کے بعد آپ کی مخالفت بڑے زور شور سے ہوئی اور کیا ہندو اور کیا مسلمان اور کیا عیسائی اور کیا سکھ سب کے سب آپ کے پیچھے پڑ گئے اور ہر ایک نے آپ کے تباہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ مخالفت ہی اپنی ذات میں اس بات کی علامت تھی کہ بانی سلسلہ احمدیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں کیونکہ اس قسم کی عالمگیر مخالفت بِالعموم سچے نبیوں کی ہی ہو اکرتی ہے، مگر باوجود اس کے کہ آپ اکیلے تھے اور آپ کے مقابلہ میں ساری دنیا جمع تھی پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی آواز کو بلند کرنا شروع کیا اور ایک ایک دو دو کر کے لوگ آپ پر ایمان لانے شروع ہوئے اور بڑھتے بڑھتے یہ جماعت پنجاب اور ہندوستان میں پھیلتی ہوئی دوسرے ممالک کی طرف نکل گئی۔
جب بانی سلسلہ احمدیہ سن ۱۹۰۸ء میں فوت ہوئے تو اُس وقت آپ کے مخالفوں نے یہ شور مچایا کہ اب یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا، لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی جماعت کو حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر جمع ہونے کا موقع دے دیا اور وہ اس جماعت کے اسلامی اصول کے مطابق پہلے خلیفہ منتخب ہوئے۔ آپ کی خلافت کے دوران میں مغربی تعلیم سے متأثر لوگوں نے اصولِ خلافت پر اعتراضات کرنے شروع کئے اور فتنہ یہ بڑھنا شروع ہوا۔ حتی کہ جب ۱۹۱۴ء میں آپ فوت ہوئے تو اِن لوگوں نے جو کہ خلافت کے مسئلہ کے خلاف تھے نظامِ سلسلہ کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی۔ راقم الحروف جو بانی سلسلہ احمدیہ حضرت احمد علیہ السلام کا بیٹا ہے اُس وقت صرف پچیس سال کی عمر کا تھا اور تمام مادی ذرائع سے محروم تھا۔ جماعت کی باگ ڈورکلی طور پر ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جنہوں نے خلافت کے اصول کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا، لیکن قادیان کی موجودہ جماعت کی کثرت جنہیں یہ باغی لوگ جاہلوں کی کثرت کہتے تھے اِس بات پر مصر تھی کہ ہم خلافت کے طریق کو قرآنیِ احکام کے مطابق جاری رکھیںگے۔ چنانچہ ان لوگوں کے اصرار پر میں نے جماعت احمدیہ سے بیعت لے لی اور خلیفہ ثانی کے طور پر جماعت کی، اسلام کی اور دنیا کی خدمت کا کام کرنا شروع کیا۔ چونکہ جماعت کے سربرآوردہ اور بڑے لوگ مخالف ہوگئے تھے اس لئے جماعت کی حالت اُس وقت بہت خطرناک نظر آتی تھی اور بیرونی دنیا کی نظریں بھی اب اس امید سے اُٹھ رہی تھیں کہ چند دن میں اِس سلسلہ کی عمارت پاش پاش ہو جائے گی مگر اُس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ وہ میری مدد کرے گا اور مجھے غلبہ دے گا اور میرے مخالفو ں کو جو طاقتور ہیں کمزور کرے گا اور اُن میں تفرقہ پید ا کر کے اُنہیں پاش پاش کر دے گا۔ احمدیہ جماعت میں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ تجربہ کار آدمی نکل گئے۔ احمدیہ جماعت میں سے زیادہ مالدار اور زیادہ رسوخ والے آد می الگ ہوگئے۔ وہ لوگ جو سلسلہ کا دماغ سمجھے جاتے تھے وہ اس سے کٹ گئے۔ میری عمر کے لحاظ سے خلافت سے بغاوت کرنے والا گروہ یہ آوازیں بلند کرتا تھا کہ سلسلہ کی باگ ڈور ایک بچہ کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اب یہ سلسلہ تباہ ہو کر رہے گا۔
حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی کے مطابق مصلح موعود کا ظہور
لیکن وہ خدا کہ جس نے قرآن شریف نازل کیا ہے، وہ خدا کہ جس نے اِس دنیا کے لئے ایک روحانی نظام بنایا ہے جس کے ماتحت یہ دنیا ترقی کر
رہی ہے۔وہ خدا جس نے احمد علیہ السلام مسیح موعود مہدی معہود کو بتایا تھا کہ وہ ان کی ذریت سے ۱۸۸۶ء سے لے کر ۹ سال کے اندر ایک لڑکا پیدا کرے گا جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے جلد جلد ترقی کرے گا اور دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اسلام کو دنیا میں پھیلا کر اسیروں کی رستگاری اور مردوں کے احیاء کا موجب ہوگا۔ اس کی بات پوری ہوئی اور اُس کا کلمہ اُونچا رہا۔ ہر روز جو طلوع ہوتا تھا وہ میری کامیابی کے سامانوں کو ساتھ لاتا تھا، ہر روز جو غروب ہوتا تھا وہ میرے دشمنوں کے تنزل کے اسباب چھوڑ جاتا تھا، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو میرے ذریعہ سے دنیا بھر میں پھیلا دیا اور قدم قدم پر میری خدا تعالیٰ نے راہنمائی کی اور بیسیوں موقعوں پر اپنے تازہ کلام سے مجھے مشرف فرمایا۔ یہاں تک ایک دن اُس نے مجھ پر یہ ظاہر کر دیا کہ میں ہی وہ موعود فرزند ہوں جس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ۱۸۸۶ء میں میری پیدائش سے پانچ سال پہلے دی تھی۔ اُس وقت سے خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد اور بھی زیادہ زور پکڑ گئی اور آج دنیا کے ہر براعظم پر احمدی مشنری اسلام کی لڑائیاں لڑ رہے ہیں۔ قرآن جو ایک بند کتاب کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اور مسیح موعود علیہ السلام کے فیض سے ہمارے لئے یہ کتاب کھول دی ہے اور اس میں سے نئے سے نئے علوم ہم پر ظاہر کیے جاتے ہیں۔ دنیا کا کوئی علم نہیں جو اسلام کے خلاف آواز اُٹھاتا ہو اور اس کا جواب خدا تعالیٰ مجھے قرآن کریم سے ہی نہ سمجھا دیتا ہو۔ ہمارے ذریعہ سے پھر قرآنی حکومت کا جھنڈا اُونچا کیا جا رہا ہے اور خد اتعالیٰ کے کلاموں اورا لہاموں سے یقین اور ایمان حاصل کرتے ہوئے ہم دنیا کے سامنے پھر قرآنی فضیلت کو پیش کر رہے ہیں لیکن دنیا خواہ کتناہی زور لگائے، مخالفت میں کتنی ہی بڑھ جائے، گو دنیا کے ذرائع ہماری نسبت کروڑوں کروڑ گنے زیادہ ہیں یہ ایک قطعی اور یقینی بات ہے کہ سورج ٹل سکتا ہے ستارے اپنی جگہ چھوڑ سکتے ہیں، زمین اپنی حرکت سے رُک سکتی ہے، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی فتح میں اب کوئی شخص روک نہیں بن سکتا۔ قرآن کی حکومت دوبارہ قائم کی جائے گی اور دنیا اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں یا انسانوں کی پوجا کو چھوڑ کر خدائے واحد کی عبادت کرنے لگے گی اور باوجود اس کے کہ دنیا کی حالت اس وقت قرآنی تعلیم کو قبول کرنے کے خلاف ہے اسلام کی حکومت پھر قائم کر دی جائے گی اس طرح کہ پھر اُس کی جڑوں کا ہلانا انسان کے لئے ناممکن ہو جائے گا۔ اس شیطان کی برباد کردہ دنیا کے جنگل میں خدا نے پھر ایک بیج بویا ہے میں ایک ہوشیار کرنے والے کی صورت میں دنیا کو ہوشیار کرتا ہوں کہ یہ بیج بڑھے گا، ترقی کر ے گا، پھیلے گا اور پھلے گا اور وہ روحیں جو بلند پروازی کا اشتیاق رکھتی ہیں، جن کے دلوں کے مخفی گوشوں میں خد اتعالیٰ کے ساتھ ملنے کی تڑپ ہے وہ ایک دن اپنی مادی خوابوں سے بیدار ہوں گی اور بیتاب ہو کر اس درخت کی ٹہنیوں پر بیٹھنے کے لئے دَوڑیں گی تب اس دنیا کے فساد دور ہو جائیں گے۔ اس کی تکلیفیں مٹا دی جائیں گی۔ خدا تعالیٰ کی بادشاہت پھر اس دنیا میں قائم کر دی جائے گی اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت انسان کے لئے سب سے قیمتی متاع قرار پائے گی اور دنیا کی یہ تبدیلی ہی فساد اور بدا منی کے دور کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی اور صرف یہی ایک ذریعہ ہے جس سے دنیا کا فساد اور بدامنی دور کی جا سکتی ہے اس کے سوا سب کو ششیںبیکار جائیں گی۔
قرآن مجید کے مختلف زبانوں میں تراجم
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۵۹۲؎ اے محمد رسول اللہ تیری سب سے بڑی تلوار قرآن کریم ہے تو اسے لے کر دنیا
سے سب سے بڑا جہاد کر۔ اس حکم کے ماتحت انگریزی ترجمہ کی پہلی جلد شائع کی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ اور زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ تیار ہے (۱) فرانسیسی(۲) جرمن (۳)سپینش (۴) اطالین (۵) روسی اور (۶) ڈچ۔ یہ تراجم جنگ کے اثرات ختم ہونے پر چھپوائے جائیں گے اور ان ملکوں میں شائع کئے جائیں گے اورا ن کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا تو یکے بعد دیگرے اَور زبانوں میں بھی تراجم شائع ہوتے رہیں گے چنانچہ فی الحال افریقہ کی سواحیلی زبان میں بھی ترجمہ ہورہا ہے۔
اسلام کی تبلیغ اور قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کے لئے ہمارے مبلغ بھی مختلف ملکوں میں کام کر رہے ہیں۔ اِس وقت یورپ میں انگلستان کے علاوہ فرانس، سپین، اطالیہ اور سوئٹزر لینڈ میں مشن قائم ہیں اور امریکہ میں یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ اورا رجنٹائن میں مشن کھل چکے ہیں۔ برازیل اور کینیڈا زیر تجویز ہیں۔ وسط افریقہ کے قریباً تمام ممالک میںہمارے مشن ہیں اور ایسٹ افریقہ میں بھی دس مشنری جا چکے ہیں۔ علاوہ ازیں فلسطین، شام، ایران میں بھی مشن ہیں اور ملایا۔ جاوا۔ سماٹرا۔ بورنیو میں بھی مشن قائم ہو چکے ہیں۔ ہم اُمید کرتے ہیں کہ یہ روحانی جہاد ان تراجم اور ان مبلغوں اورا ن کے بعد آنے والے تراجم اور مبلغوں کے ذریعہ سے اسلام کی فتح کا راستہ کھولنے کے لئے نہایت کامیاب رہے گا کیونکہ ہماری کوششیں نہ صرف خدا تعالیٰ کے فیصلہ سے مل گئی ہیں بلکہ ہم یہ کام خدا تعالیٰ کے براہِ راست حکم کے ماتحت کر رہے ہیں۔
اِس علمی تحفہ کے پیش کرنے کے علاوہ میںدنیا کے تمام مذاہب کے راستی پسند لوگوں سے کہتا ہوں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ قرآن کریم بھی ہر زمانہ میں پھل دیتا ہے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں پر اللہ تعالیٰ اپنا تازہ الہام نازل کرتا اوران کے ہاتھ پر اپنی قدرتوں کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ پس کیوںنہ علمی غور اور فکر کے علاوہ اس مشاہدہ کے ذریعہ سے صداقت معلوم کر لی جائے۔ اگر مسیحی پوپ یا اپنے آرچ بشپوں کو اِس بات پر آمادہ کریںکہ وہ میرے مقابل پر اپنے پر نازل ہونے والا تازہ کلام پیش کریں،جو خدا تعالیٰ کی قدرت اور علم غیب پر مشتمل ہو تو دنیا کو سچائی کے معلوم کرنے میں کس قدر سہولت ہو جائے گی۔ وہ پوپ اور پادری جو مسیح کی صلح کل پالیسی کو ترک کر کے عیسائی فضا کو صلیبی جنگوں پر اُکساتے رہے ہیں کیا وہ آج اس روحانی جنگ کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتے۔ کاش! وہ اس کے لئے تیار ہوںیا اُن کے اتباع اُنہیں اس کے لئے آمادہ کریں تو دنیا ایک لمبے روحانی مرض سے جلد نجات حاصل کرسکے اور خدا تعالیٰ کا جلال اور اس کی قدرت خارق عادت طور پر ظاہر ہو کر لوگوں کے ایمان اور روحانیت کی اصلاح کا موجب ہوں۔
شکریہ و اِعتراف
میں اِس دیباچہ کے آخر میںمولوی شیرعلی صاحب کی اُن بے نظیر خدمات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے باوجود صحت کی خرابی
کے قرآن کریم کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کے متعلق کی ہیں۔ اسی طرح مولوی شیر علی صاحب اورملک غلام فرید صاحب، خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خاں صاحب مرحوم اور مرزا بشیر احمد صاحب بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے ترجمہ پر تفسیری نوٹ میری مختلف تقریروں اور کتابوں اور درسوں کا خلاصہ نکال کر درج کئے ہیں۔ مجھے ان انگریزی نوٹوں کے دیکھنے کا موقع نہیںملا، مگر ان لوگوں کے تجربہ اور اخلاص پر یقین کرتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ اُنہوں نے صحیح طور پر ان مضامین کی ترجمانی کی ہوگی جو میں نے براہِ راست خدا تعالیٰ کے افضال کے ماتحت قرآن کریم سے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ کے افاضات سے حاصل کئے ہیں۔
میں اس موقع پر قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور اور سرمحمد ظفرا للہ خاں صاحب جج فیڈرل کورٹ آف انڈیا (حال وزیر خارجہ پاکستان) کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں، جن دونوں نے اِس دیباچہ کو انگریزی زبان کا جامہ پہنایا ہے اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کو اپنی برکات کے عطر سے ممسوح کرے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر رہے۔
میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوںکہ حضرت خلیفہ اوّل (اللہ آپ سے راضی ہو) کا شاگرد ہونے کی وجہ سے کئی مضامین میری تفسیر میں لازماً ایسے آئے ہیں جو میں نے اُن سے سیکھے اِس لئے اِس تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تفسیر بھی، حضرت خلیفہ اوّل کی تفسیر بھی اور میری تفسیر بھی آجائے گی اور چونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنی روح سے ممسوح کر کے اُن علوم سے سرفراز فرمایا تھا جو اِس زمانہ کے لئے ضروری ہیں اس لئے میں اُ مید کرتا ہوںکہ یہ تفسیر بہت سے بیماروں کو شفا دینے کا موجب ہو گی، بہت سے اندھے اس کے ذریعہ سے آنکھیں پائیںگے، بہرے سننے لگ جائیں گے، گونگے بولنے لگ جائیں گے، لنگڑے اور اپاہج چلنے لگ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے مضامین کو برکت دیں گے اور یہ اس غرض کو پورا کرے گی، جس غرض کے لئے یہ شائع کی جا رہی ہے۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
۱؎ تاریخ الخمیس جلد۱ صفحہ ۴۱۲ مطبوعہ بیروت ۱۲۳۸ھ
۲؎ بخاری کتاب الوحی باب کیف کان بدء الوحی … الخ
۳؎ سموئیل نمبر۱ باب ۲۵ آیت ۳۲ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴؎ سلاطین نمبر۱ باب۱ آیت۴۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور۱۸۷۰ء
۵؎ تواریخ نمبر۱ باب ۱۶ آیت ۳۶ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور۱۸۷۰ء
۶؎ تواریخ نمبر۲ باب۶ آیت۴نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور۱۸۷۰ء
۷؎ زبور باب ۷۲ آیت۱۸نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور۱۸۷۰ء
۸؎ متی باب ۱۵ آیت ۲۱ تا ۲۶نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور۱۸۷۰ء
۹؎ متی باب ۷ آیت۶ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور۱۸۷۰ء
۱۰؎ گوتم سمرتی ادھیائے صفحہ ۱۲
۱۱؎ رگوید
۱۲؎ اتھرووید۔ کانڈ نمبر۴ سوکت ۲۲ منتر نمبر۷
۱۳؎ یجروید
۱۴؎ سام وید پارٹ دوم کانڈ۹ سوکت ۳ منتر۹
۱۵؎ سام وید پارٹ دوم کانڈ۹ سوکت ۳ منتر۸
۱۶؎ اتھرووید۔ کانڈ۱۹ سوکت ۲۸ منتر ۴
۱۷؎ گوتم دھرم سوتر ادھیائے ۵
۱۸؎ منودھرم شاستر
۱۹؎ یونس: ۱۷ ۲۰؎ اٰل عمران: ۱۶۵ ۲۱؎ التوبۃ: ۱۲۸
۲۲؎ الزمر: ۷۲ ۲۳؎ الانعام: ۱۳۱ ۲۴؎ المؤمنون: ۳۳
۲۵؎ النحل: ۹۰ ۲۶؎ ھود: ۵۱ ۲۷؎ ھود: ۶۲
۲۸؎ ھود: ۸۶ ۲۹؎ ھود: ۶۳ ۳۰؎ ھود: ۸۸
۳۱؎ نپولین (۱۷۶۹ء۔۱۸۲۱ء) وینڈیمیئر (Vendemiaire) کی بغاوت (۱۷۹۵ء) میں اس کے زبردست اقدام نے اِسے وقت کی اہم ترین شخصیت بنا دیا۔ اطالوی مہم کے قائد کی حیثیت سے اس نے پست ہمت، فاقہ زدہ سپاہیوں کو ایک ناقابل تسخیر فوج بنا دیا۔ مسلسل بروقت اقدامات سے نپولین نے افراطِ زر کا تدارک کیا۔ کلیسیا سے صلح کی۔ ایک نیا آئینی ضابطہ وضع کیا۔ ۱۸۰۴ء میں اِس نے شاہِ فرانس اور ۱۸۰۵ء میں اِس نے شاہِ اٹلی ہونے کا اعلان کیا۔ ۱۲۔اپریل ۱۸۱۴ء کو تخت سے دستبردار ہوا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۷۰۸ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۳۲؎ ہٹلر (Hitler Adolf) ۱۸۸۹ء۔۱۹۴۵ء جرمنی کا آمر مطلق۔ نازی پارٹی کا بانی۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد چند شورش پسندوں نے مل کر میونخ میں نازی مزدور پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ۱۹۳۳ء میں اِسے آمریت کے اختیارات سونپ دیئے گئے۔ ہٹلر جرمنی کے تمام شعبوں کا مختار بن گیا۔ نازی پارٹی کو کچل دیا گیا۔ اِس کی پالیسیاں بالآخر دوسری عالمی جنگ پر منتج ہوئیں۔ ۱۹۴۱ء میں روس کے محاذ پر ہٹلر نے جنگ کی خود کمان کی۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۸۴۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء)
۳۳؎ چنگیز خان (۱۱۶۷ء۔۱۲۲۷ء)۔ تاتاری فاتح۔ اصل نام تموجن۔ باپ یکوسائی ریاستہائے متحدہ منگولیا کا رئیس تھا۔ چنگیز تیرہ سال کی عمر میں باپ کا جانشین ہوا۔ اِس کی ابتدائی عمر پریشانیوں اور تکلیفوں میں گزری اور رفتہ رفتہ طاقت حاصل کی۔ ۱۲۰۶ء میں منگولیا کی فتح مکمل کی اور قراقرم کو دارالحکومت بنایا۔ ۱۲۱۳ء میں شمالی چین کی تسخیر کا آغاز کیا۔ ۱۲۱۵ء تک اِس نے چن خاندان کی سلطنت کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا۔ اِس نے چند سالوں میں ہی ترکستان، افغانستان، اور ایران کو فتح کر لیا۔ اس کے لشکر کا ایک حصہ جنوب مشرقی یورپ میں داخل ہو گیا۔ (۱۲۱۸ء۔۱۲۲۴ء) کہتے ہیں کہ وہ ۸۴ لاکھ انسانوں کے قتل کا ذمہ دار تھا۔ اعلیٰ درجہ کے متمدن شہر بُری طرح برباد کیے۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۱ صفحہ۵۲۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء)
۳۴؎ الفاتحۃ: ۲ ۳۵؎ الناس: ۲ تا۴
۳۶؎ متی باب۵ آیت۱۷،۱۸۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۳۷؎ متی باب۱۵ آیت ۲۴ ۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۳۸؎ متی باب ۱۸ آیت ۱۱ ۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۳۹؎ متی باب ۲۸ آیت ۱۹۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴۰؎ متی باب ۱۹ آیت ۲۸۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴۱؎ متی باب ۱۵ آیت ۲۴۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴۲؎ متی باب ۱۵ آیت ۲۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴۳؎ متی باب ۱۰ آیت ۵،۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴۴؎ متی باب ۱۰ آیت ۲۳۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴۵؎ اعمال باب۱۱ آیت ۱۹۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴۶؎ اعمال باب ۱۱ آیت ۲،۳۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۴۷؎ الاعراف: ۱۵۹
‏۴۸؎ SUK 20
‏۴۹؎ SANK 21B
‏۵۰؎ Ab. PN. xxiv
‏۵۱؎ Apocrypha11- Esdras. 14
‏۵۲؎ Apocrypha 11- Esdras. 14
۵۳؎ استثناء باب۳۴۔ آیت ۵،۶۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۷۸۰ء
۵۴؎ استثناء باب ۳۴ آیت۸۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۵۵؎ پیدائش باب۱ آیت ۲۷۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۵۶؎ پیدائش باب۲ آیت ۱۷۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۵۷؎ مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک
۵۸؎ مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک
۵۹؎ البقرۃ: ۲۴۴
۶۰؎ خروج باب۳۲ آیت ۱ تا ۶۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء (چند الفاظ کے فرق کے ساتھ)
۶۱؎ طٰہٰ: ۹۱ ۶۲؎ الاعراف: ۸۴
۶۳؎ پیدائش باب ۹ آیت۱۸ تا ۲۲ (مفہوماً)
۶۴؎ پیدائش باب۶ آیت۹۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۶۵؎ پیدائش باب۹ آیت ۲۵۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۶۶؎ استثناء باب ۲۵ آیت ۵،۶ (مفہوماً)
۶۷؎ متی باب ۲۱آیت۹۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۶۸؎ متی باب ۲۷ آیت ۴۶۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۶۹؎ یوحنا باب ۳ آیت ۲ باب۴ آیت ۳۱۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۷۰؎ مرقس باب۵ آیت ۴۱۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۷۱؎ اعمال باب۲ آیت ۴ تا ۱۳۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۷۲؎ متی باب۵ آیت ۱۷،۱۸۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۷۳؎ تفسیر ہارنجلد ۴ حصہ دوم مطبوعہ ۱۸۸۲ء
۷۴؎ تاریخ کلیسیا کتاب نمبر۳ باب۲۵
‏۷۵؎ Encyclopaedia Biblica Page 4980 Vol. IV
‏۷۶؎ Encyclopaedia Biblica Page 4993 Vol. IV
‏۷۷؎ Encyclopaedia Brit. Page 646 Vol. 11, ED. 12th
‏۷۸؎ Encyclopaedia Brit. Page 643 Vol. 111, ED. 12th
‏۷۹؎ Encyclopaedia Brit. Page 643 Vol. 111, ED. 12th
۸۰؎ مرقس باب۱۵۔ آیت ۴۲ تا ۴۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۸۱؎ مرقس باب ۱۶ آیت ۱ تا ۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۸۲؎ یوحنا باب۱ آیت ۱ تا۳۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۸۳؎ یوحنا باب۱ آیت ۱ تا ۳۴ (مفہوماً)
۸۴؎ دبدہ: شک و شبہ، تذبذب، وہم، پریشانی، گھبراہٹ
۸۵؎ متی باب۱ آیت ۱ تا ۱۶۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۸۶؎ متی باب۳۷ آیت ۵۱ تا۵۳۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۸۷؎ الشعراء: ۴
۸۸؎ لوقا باب۷ آیت ۳۶ تا۳۸۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء (مفہوماً)
۸۹؎ پچ: طرف داری، حمایت
۹۰؎ ادھیائے ۱ شلوک ۱۱
۹۱؎ اتھرووید کانڈ نمبر۱۹ سوکت ۲۷ منتر۷
۹۲؎ پیدائش باب۱۲ آیت۲،۳۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء (مفہوماً)
۹۳؎ پیدائش باب۱۳ آیت۱۵ ۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۹۴؎ پیدائش باب۱۷ آیت ۹ تا ۱۱۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۹۵؎ پیدائش باب۱۷ آیت ۱۴۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۹۶؎ پیدائش باب۱۷ آیت ۱۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۹۷؎ پیدائش باب۱۷ آیت ۱۹۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۹۸؎ پیدائش باب۱۷ آیت ۲۰۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۹۹؎ پیدائش باب۱۷ آیت ۱۸۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۰۰؎ پیدائش باب۱۷ آیت ۲۰،۲۱۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۰۱؎ پیدائش باب ۲۱ آیت۱۳۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۰۲؎ پیدائش باب۲۱ آیت ۱۷،۱۸ ۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۰۳؎ پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۰،۲۱۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۰۴؎ زبور باب۳۷ آیت۲۹۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۰۵؎ استثناء باب۱۸۔ آیت۱۵۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۰۶؎ استثناء باب۱۸ آیت۱۸ تا ۲۰۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۰۷؎ متی باب ۵ آیت ۱۷،۱۸۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۰۸؎ گلتیوں باب۳ آیت ۱۲،۱۳۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۰۹؎ زبور باب ۱۳۲ آیت۱۱ یرمیاہ باب۲۳ آیت۵۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۱۰؎ یوحنا باب۱۶ آیت ۱۲،۱۳۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۱۱؎ المزمل: ۱۶
۱۱۲؎ مرقس باب۸ آیت۲۷ تا ۳۰۔۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۱۳؎ وقدکان فریق منھم یسمعون کلام اللّٰہ (البقرۃ: ۷۶)
۱۱۴؎ المائدۃ: ۶۸ ۱۱۵؎ المائدۃ: ۴
۱۱۶؎ استثناء باب۱۸ آیت ۱۸ تا ۲۰۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۱۷؎ المائدۃ: ۶۸ ۱۱۸؎ الجن: ۲۷،۲۸
۱۱۹؎ استثناء باب۱۸ آیت۲۰۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۲۰؎ استثناء باب ۳۳ آیت ۲۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۲۱؎ خروج باب ۱۹ آیت ۲۰۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۸۰ء
۱۲۲؎ پیدائش باب۲۱ آیت ۲۰،۲۱۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۲۳؎ پیدائش باب۲۱ آیت۱۳۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۲۴؎ پیدائش باب۱۷ آیت ۲۰۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۲۵؎ پیدائش باب۲۵ آیت ۱۳ تا ۱۶ ۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء (مفہوماً)
۱۲۶؎ یسعیاہ باب۲۱ آیت ۱۳ تا ۱۷۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۲۷؎ حبقوق باب۳ آیت ۳ تا۷۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۲۸؎ بخاری کتاب الصلٰوۃ باب قول النبی ﷺجعلت فی الارض … (الخ)
۱۲۹؎ غزل الغزلات باب۵ آیت ۱۰ تا ۱۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۳۰؎ غزل الغزلات باب۵ آیت۹۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۳۱؎ غزل الغزلات باب۴ آیت ۱۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۳۲؎ غزل الغزلات باب۱ آیت ۵،۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۳۳؎ غزل الغزلات باب۱ آیت ۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۳۴؎ غزل الغزلات باب۲ آیت ۷۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۳۵؎ یسعیاہ باب۴ آیت ۱ تا۴۔۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۳۶؎ یسعیاہ باب۵ آیت ۲۶ تا ۳۰۔۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۳۷؎ الاعراف: ۱۵۹ ۱۳۸؎ التوبۃ: ۱۰۰ ۱۳۹؎ الاحزاب: ۲۴
۱۴۰؎ گردباد: پھرنے والی ہوا۔ ہوا جس میںغبار ملا ہوا ہو۔ بگولا
۱۴۱؎ العٰدیٰت: ۲تا۶ ۱۴۲؎ الروم: ۴۲ ۱۴۳؎ الطلاق: ۱۱،۱۲
۱۴۴؎ یسعیاہ باب۸ آیت ۱۳ تا۱۷۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۴۵؎ متی باب۵ آیت ۱۷،۱۸۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۴۶؎ مرقس باب۲ آیت ۱۹،۲۰۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۴۷؎ یسعیاہ باب ۹ آیت ۶،۷۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۴۸؎ متی باب۲۷ آیت ۴۱،۴۲۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۴۹؎ متی باب۲۷ آیت ۴۴۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۵۰؎ متی باب ۲۶ آیت ۵۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۵۱؎ متی باب۲۱ آیت ۴،۵۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۵۲؎ لوقا باب ۲۳ آیت ۱ تا۳۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۵۳،۱۵۴؎ متی باب۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۳ ۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء(مفہوماً)
۱۵۵؎ المجادلۃ: ۱۳ ۱۵۶؎ الشوری: ۳۹
۱۵۷؎ کنز العمال جلد۵ صفحہ۶۴۸ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء+ ازالۃ الخلفاء عن خلافۃ الخلفاء
۱۵۸؎ استثناء باب۱۸ آیت ۱۸۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۵۹؎ الانفال: ۱۸ ۱۶۰؎ فتح: ۱۱ ۱۶۱؎ سبا: ۲۹ تا۳۱
۱۶۲؎ السجدۃ: ۶
۱۶۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۸۹۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء+ یوسف: ۹۳
۱۶۴؎ یسعیاہ باب۱۹ آیت ۲۱ تا ۲۵۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۶۵؎ یسعیاہ باب۶۲۔ آیت۲۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۶۶؎ یسعیاہ باب۶۵ آیت۱۵۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۶۷؎ الحج: ۷۹
۱۶۸؎ دانی ایل باب۲ آیت۳۱ تا۳۵۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۶۹؎ گلادے: کیچڑ، مٹی، گارا
۱۷۰؎ دانی ایل باب۲ آیت ۳۷ تا ۴۵۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۷۱؎ متی باب۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۲ ۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء(مفہوماً)
۱۷۲؎ یوحنا باب۱ آیت ۲۰،۲۱ ۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء(مفہوماً)
۱۷۳؎ یوحنا باب۱ آیت ۲۵۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۷۴؎ متی باب ۱۱ آیت۱۴۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۷۵؎ لوقا باب ۲۴ آیت ۴۹۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۷۶؎ یوحنا باب ۱۴ آیت ۲۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۷۷؎ استثناء باب۱۸ آیت ۱۸۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۷۸؎ یوحنا باب۱۶ آیت ۷ تا ۱۴۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۷۹؎ النساء: ۱۵۸ تا ۱۶۱ ۱۸۰؎ المائدہ: ۱۱۷ تا ۱۱۹
۱۸۱؎ اعمال باب۳ آیت ۲۱ تا ۲۴۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور۱۸۷۰ء
۱۸۲؎ استثناء باب۱۸ آیت ۲۲۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۱۸۳؎ دُبْدَھا: تذبذب، شکر، شُبہ، پس و پیش، وہم، وسوسہ
۱۸۴؎ مسند احمد بن حنبل جلد۶ صفحہ۹۱ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۳ھ
۱۸۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۱۵۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۱۸۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۹،۳۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۸۷؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۲۲۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۱۸۸؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی …(الخ)
۱۸۹؎ العلق: ۲ تا۶
۱۹۰،۱۹۱؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی (الخ)
۱۹۲؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۳۰۸ تا۳۱۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۱۹۳تا۱۹۵؎ یسعیاہ باب۲۸ آیت۱۲،۱۳۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۱۹۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۳۳۹،۳۴۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۹۷؎ اسد الغابۃ جلد۴ صفحہ۴۴ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۱۹۸؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۳۴۲۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۱۹۹،۲۰۰؎ اسد الغابۃجلد۵ صفحہ۴۸۱مطبوعہ ریاض ۱۲۸۰ھ
۲۰۱؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۳۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۲۰۲؎ بخاری کتاب مناقب الانصار باب اسلام ابی ذر الغفاری
۲۰۳؎ بخاری کتاب المناقب باب قول النبیﷺ لوکنت متخذًا خلیلا
۲۰۴؎ بخاری کتاب الصلٰوۃ باب المراؑ ۃُ تطرح عن المصلی (الخ)
۲۰۵؎ تَبَخْتُرْ: ناز سے چلنا، غرور سے چلنا، غرور، تکبر، فخر، اِترانا
۲۰۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ ۳۱۱،۳۱۲ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ء
۲۰۷؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ ۲۸۴،۲۸۵۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۰۸؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۳۶۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۲۰۹؎ اسد الغابۃ جلد۳ صفحہ۳۸۵،۳۸۶۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۲۱۰؎ (خون کے) تراڑے:فوارے (خون کا تیزی سے بہنا)
۲۱۱؎ طٰہٰ: ۱۵،۱۶
۲۱۲؎ اسد الغابۃ جلد۴ صفحہ۵۵۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۲۱۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۴ تا ۱۷۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۱۴؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۳۹۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۲۱۵؎ بخاری کتاب بدء الخلق باب حدیث الغار
۲۱۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۶۲،۶۳۔ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ء
۲۱۷؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۶۱،۶۲۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۱۸؎ طبقات ابن سعد جلد۱ صفحہ۲۱۲۔ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء
‏۲۱۹؎ Life of Mohammad by Willium Muir P. 112,113 Printed Edinburgh 1923.
۲۲۰؎ بخاری باب ہجرۃ النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم
۲۲۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۷۰ تا ۷۵۔ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ء
۲۲۲؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۷۶۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۲۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۳۶ تا ۳۸۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۲۴؎ الروم: ۳ تا ۷ ۲۲۵؎ طٰہٰ: ۱۲۴ تا۱۲۶ ۲۲۶؎ الحاقۃ: ۳۹ تا ۵۳
۲۲۷؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۹۷۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۲۸؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۰۹،۱۱۰۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۲۹؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۸۴،۸۵۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶
۲۳۰؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۹۰۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۳۱؎ بخاری باب ہجرۃ النبی ﷺ
۲۳۲؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۴۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء+ بخاری باب مناقب المہاجرین
۲۳۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۳۴؎،۲۳۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۴۸۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء+ بخاری باب ھجرۃ النبیؐ
۲۳۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۳۷۔ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ء
۲۳۷؎ شرح مواہب اللدنیہ جلد۱ صفحہ۳۵۹۔ مطبوعہ مصر ۱۳۲۵ھ
۲۳۸؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۴۰،۱۴۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۳۹؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۸۶،۸۷۔ مطبوعہ مصر۱۹۳۵ء
۲۴۰؎ بخاری باب ہجرۃ النبیﷺ+ زرقانی جلد۱ واقعۃ ہجرۃ
۲۴۱؎ مسلم کتاب فضائل الصحابۃ
۲۴۲؎ بخاری باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم + زرقانی جلد۱
۲۴۳؎ مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فی فضل سعد بن ابی وقاص
۲۴۴؎ ابوداؤد کتاب الخراج والفئی باب فی خبر النفیر
۲۴۵؎ ترمذی کتاب البروالصلۃ باب ماجاء فی مؤاساۃ… الخ
۲۴۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۴۷ تا۱۵۰۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۴۷؎ بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بدر
۲۴۸؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۶۷۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۴۹؎ بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بدر
۲۵۰؎ بخاری کتاب المغازی باب فضل من شھد بدر
۲۵۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۶۔ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ+سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۷۴۔ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ھ
۲۵۲؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ افتربت الساعۃ۔ باب قولہ سیھزم الجمع… الخ
۲۵۳؎ القمر: ۴۲تا۴۹
۲۵۴؎ یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۳ تا ۱۷۔ بائبل سوسائٹی انارکلی لاہور
۲۵۵؎ مسلم کتاب الجھاد باب الامراد بالملائکۃ فی غزوہ بدر (الخ)
۲۵۶؎ اسد الغابۃ جلد۳ صفحہ۱۰۹۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۲۵۷؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۲۳۰،۲۳۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۵۸؎ بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ باب قول اللّٰہ تعالٰی وامرھم شوری بینھم
۲۵۹؎ سیرت ابن ہشام جلد۳صفحہ۶۸۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۶۰؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۶۹،۷۰۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۶۱؎ زرقانی جلد۲ صفحہ۳۵
۲۶۲؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۸۴۔ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ
۲۶۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۸۸۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۶۴؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ اُحد+ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۲۷۰
۲۶۵؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۰۰،۱۰۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۶۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۹۶۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۶۷؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۲۶۵۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۶۸؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ ۲۶۷،۲۶۸۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۶۹؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۹۹،۲۰۰۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۷۰؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ المائدۃ باب قولہ انما الخمرُ … الخ
۲۷۱،۲۷۲؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الرجیع… (الخ)
۲۷۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۸۲،۱۸۳۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۷۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۸۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۷۵؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۹۳تا ۱۹۶+بخاری کتاب الجہاد باب من ینکب اویطنن فی سبیل اللّٰہ
۲۷۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۹۶۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۷۷؎ ترمذی کتاب التفسیر تفسیر سورۃ المنافقین+ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۳۸
۲۷۸؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۳۴۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۷۹؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۳۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۸۰؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۳۸۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۸۱،۲۸۲؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۴۵۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۸۳،۲۸۴؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خندق
۲۸۵؎ الاحزاب: ۱۴ ۲۸۶؎ الاحزاب: ۱۱ تا ۱۴ ۲۸۷؎ الاحزاب: ۲۳،۲۴
۲۸۸؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۳۶۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
‏۲۸۹؎ The Life of Mohammad by Willum Muir P.311
۲۹۰،۲۹۱؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۴۶۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۹۲؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۴۹،۳۵۰۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۹۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۵۴۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۹۴؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۶۳۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۹۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۶۵،۳۶۶۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۹۶؎ استثناء باب ۲۰ آیت ۱۰ تا ۱۸۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۲۹۷؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ الخندوق۔ (الخ)
۲۹۸؎ استثناء باب۲۰ آیت ۱۰ تا ۱۸۔نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۲۹۹؎ متی باب ۵ آیت ۳۹۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۳۰۰؎ متی باب۱۰ آیت ۳۴۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۳۰۱؎ لوقا باب ۲۲۔ آیت ۳۶۔ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷۰ء
۳۰۲؎ الحج: ۴۰ تا ۴۲
۳۰۳؎ مناسٹریاں :(MONASTERIES)یہودیوں کے عبادت خانے
۳۰۴؎ البقرۃ:۱۹۱تا۱۹۴ ۳۰۵؎ الانفال: ۳۹ تا ۴۱ ۳۰۶؎ الانفال: ۶۲،۶۳
۳۰۷؎ النساء: ۹۵ ۳۰۸؎ التوبۃ: ۴ ۳۰۹؎ التوبۃ: ۶
۳۱۰؎ الانفال: ۶۸ ۳۱۱؎ محمدؐ: ۵ ۳۱۲؎ النور: ۳۴
۳۱۳،۳۱۴؎ مسلم کتاب الجھاد والسیر باب تامیرالامام الامراء علی البعوث (الخ)
۳۱۵؎ مسلم کتاب الجھاد باب تحریم قتل النساء والصبیان فی الحرب (الخ)
۳۱۶؎ طحاوی کتاب الجھاد باب فی قتل النساء والصغار
۳۱۷؎ ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی دعاء المشرکین
۳۱۸؎ مسلم کتاب الجہاد باب فی امرالجیوش بالتیسر و ترک التنفیر
۳۱۹؎ ابوداؤد کتاب الجہاد باب مایؤمرمن انضمام العسکر
۳۲۰؎ ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی التفریق بین الصبی
۳۲۱؎ ترمذی ابواب السیر
۳۲۲؎ ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الرسل
۳۲۳؎ مؤطا امام مالک کتاب الجہاد باب النھی عن قتل النساء والوالدان فی الغزو
۳۲۴؎ الفتح: ۲۸
۳۲۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۲۰۔۲۱ مطبوعہ بیروت ۱۳۲۰ھ+ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۱۸
۳۲۶؎ سیرۃ ابن ہشام جلد۳ صفحہ۳۳۲۔۳۳۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۲۷؎ سیرۃ ابن ہشام جلد۳ صفحہ۳۳۷۔۳۳۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۲۸؎ سیرۃ ابن ہشام جلد۳ صفحہ۳۴۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۲۹؎ بخاری کتاب العلم باب مایذکر فی المناولۃ
۳۳۰؎ ،۳۳۱؎ بخاری کتاب الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم (الخ)
۳۳۲؎ بخاری کتاب الوحی باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللّٰہ ﷺ + زرقانی جزء ۵ صفحہ۱۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء
۳۳۳؎ تاریخ طبری جز ثالث صفحہ۲۴۷۔ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء
۳۳۴؎ تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ۲۴۷ تا ۲۴۹ دارالفکر بیروت ۱۹۸۷ء
۳۳۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۲۷۹۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۳۶؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۲۸۰۔۲۸۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۳۷؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۲۸۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۳۸؎ زرقانی جلد۵ صفحہ۳۴ تا ۳۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء
۳۳۹؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ خیبر
۳۴۰؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۳۵۰،۳۵۱۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۴۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۳۵۶،۳۵۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۴۲؎ فوجدا فیھا جدارا یرید ان ینقض (الکہف:۷۸)
۳۴۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۳۵۲،۳۵۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۴۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۱۳،۱۴۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۴۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۷۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۴۶؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۷۵۔مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۴۷؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوہ مؤتۃ (الخ)
۳۴۸؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۹۴ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۳۴۹؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۳۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۵۰؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۴۴،۴۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۵۱؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۹۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۵۲؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۴۵،۴۶مطبوعہ مصر ۱۹۳۶
۳۵۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۹۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۵۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۴۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۵۵،؎ ۳۵۶؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۹۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۵۷؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۴۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۵۸؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۹۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۵۹؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۱ مطبوعہ مصر۱۹۳۵ء
۳۶۰؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۵۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء+ بنی اسرائیل: ۸۲
۳۶۱؎ بنی اسرائیل: ۸۱،۸۲
۳۶۲؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۹۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۶۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۱۰۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء+ اٰل عمران: ۶۸
۳۶۴؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۱۰۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۶۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۸۹مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۶۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۵۹ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ء
۳۶۷؎ السیرۃ الحلبیۃجلد۳ صفحہ۱۰۶،۱۰۷ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ء
۳۶۸؎ السیرۃ الحلبیۃجلد۳ صفحہ۱۰۶،۱۰۷ مطبوعہ مصر۱۹۳۵ء
۳۶۹؎ السیرۃ الحلبیۃجلد۳ صفحہ۱۰۶ مطبوعہ مصر۱۹۳۵ء
۳۷۰؎ الاعراف: ۱۳۹
۳۷۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۸۴،۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۷۲؎ مسلم کتاب الجہاد والسیر باب غزوۃ حنین
۳۷۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۸۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳۷۴؎ بھونک: بھونک دینا، گھونپ دینا، چھیدنا
۳۷۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۱۲۷،۱۲۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۳۷۶؎ بخاری کتاب الجہاد باب الشجاعۃ فی الحرب والجبن
۳۷۷؎ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
۳۷۸؎ التوبۃ: ۹۲
۳۷۹؎ تفسیر فتح البیان جز خامس صفحہ۳۷۱ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۲ء
۳۸۰؎ المائدۃ: ۴
۳۸۱؎ بخاری کتاب المغازی باب حجۃ الوداع
۳۸۲؎ کنزالعمال جلد۱۱ صفحہ۴۷۹ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء
۳۸۳؎ بخاری کتاب المناقب باب قول النبی ﷺ سدوا الابواب (الخ)
۳۸۴؎ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (الخ)
۳۸۵؎ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (الخ)
۳۸۶؎ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (الخ)
۳۸۷؎ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (الخ)
۳۸۸؎ مسند ابی حنیفہ کتاب الفضائل
۳۸۹؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺباب قول النبی ﷺ لو کنت متخذا خلیلا
۳۹۰؎ اٰل عمران: ۱۴۵
۳۹۱؎ تاریخ کامل ابن اثیر جلد۲ صفحہ۳۲۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۳۹۲؎ دیوان حسان بن ثابت صفحہ۸۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ء
۳۹۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۰۹،۲۱۰+ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ تبت…
۳۹۴؎ بخاری کتاب الادب باب ماینھی من السباب واللّعن+ بخاری کتاب الادب باب لم یکن النبی ﷺ فاحشا و متفاحشاً
۳۹۵؎ بخاری کتاب الجمعۃ باب السواک یوم الجمعۃ
۳۹۶؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب المضمضۃ بعد الطعام
۳۹۷؎ مشکوٰۃ کتاب الصلوٰۃ باب المساجد
۳۹۸؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب مایکرہ من الثوم والبقول (الخ)
۳۹۹؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب فضل ازالۃ الاذی
۴۰۰؎ مشکوٰۃ کتاب الطہارۃ باب اٰداب الخلاء
۴۰۱؎ بخاری کتاب الوضوء باب البول فی الماء الدائم
۴۰۲؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب ماعاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم طعاماً
۴۰۳؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب الاکل متکئا
۴۰۴؎ تا ۴۰۷؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب ماکان النبی ﷺ واصحابہٗ یاکلون
۴۰۸؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب الرجل یدعی الی طعام (الخ)
۴۰۹؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب مایقول اذا فرغ من طعامہ
۴۱۰؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب مایقول اذا فرغ من طعامہ
۴۱۱؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب طعام الواحد یکفی الاثین
۴۱۲؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب الوصیۃ بالجار والاحسان الیہ
۴۱۳؎ بخاری کتاب الادب باب لاتحقرن جارۃ بجارتھا
۴۱۴؎ بخاری کتاب الرقاق باب کیف کان عیش النبی ﷺ واصحابہ (الخ)
۴۱۵؎ بخاری کتاب العلم باب طرح الامام المسألۃ (الخ) + بخاری کتاب الاطعمۃ باب برکۃ النخلۃ۔
۴۱۶؎ بخاری کتاب اللباس باب ماوطئی من التصاویر
۴۱۷؎ ، ۴۱۸؎ بخاری کتاب اللباس باب الحریر للنساء
۴۱۹؎ بخاری باب الصلٰوۃ علی الفراش
۴۲۰؎ بخاری کتاب الاطعمۃ باب الرطب والتمر
۴۲۱؎ بخاری کتاب التہجد باب قیام النبی ﷺ الیل حتی ترما قدماہ
۴۲۲؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ الفتح باب قولہ لیغفرلک اللّٰہ ماتقدم من ذنبک (الخ)
۴۲۳؎ النساء: ۴۲
۴۲۴؎ بخاری کتاب فضائل القرآن باب البکاء عند قراء ۃ القرآن
۴۲۵؎ بخاری کتاب الاذان باب حد المریض (الخ)
۴۲۶؎ بخاری کتاب الاذان باب من دخل لیوم الناس (الخ)
۴۲۷؎ بخاری کتاب التہجد باب مایکرہ من التشدید فی العبادہ
۴۲۸؎ بخاری کتاب الجنائز باب ماجاء فی قبر النبی ﷺ (الخ)
۴۲۹؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ ۲۸۴۔۲۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۴۳۰؎ بخاری کتاب الجہاد باب مایکرہ من التنازع والاختلاف فی الحرب (الخ)
۴۳۱؎ بخاری کتاب الکسوف باب الصلوٰۃ فی کسوف الشمس
۴۳۲؎ مسلم کتاب الایمان باب بیان کفر من قال مطرنا بنوء
۴۳۳؎ مسلم کتاب الفضائل باب توکلہ علی اللّٰہ تعالٰی (الخ)
۴۳۴؎ بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومۃ علی العمل
۴۳۵؎ بخاری کتاب التمنی باب مایکرہ من التمنی (الخ)
۴۳۶؎ ابوداؤد ابواب النوم باب فی المطر
۴۳۷؎ بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (الخ)
۴۳۸؎ بخاری کتاب الدعوات باب وضع الید الیمنٰی (الخ)
۴۳۹؎ بخاری کتاب الدعوات باب الدعاء اذا انتبہ باللیل
۴۴۰؎ بخاری کتاب المغازی باب قصۃ الاسود العنسی
۴۴۱؎ بخاری کتاب الاذان باب ھل یصلی الامام بمن حفر (الخ)
۴۴۲؎ بخاری کتاب المناقب باب مناقب عبداللّٰہ بن عمر ؓ
۴۴۳؎ بخاری کتاب التہجد باب تحریض النبی ﷺ علی قیام اللیل (الخ)
۴۴۴؎ مسلم کتاب الفضائل باب ترک الانتقام… (الخ)
۴۴۵؎ مسلم کتاب الفضائل باب فضائل عائشۃ… (الخ)
۴۴۶؎ مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خدیجہ
۴۴۷؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۲۰۵۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۴۴۸؎ بخاری کتاب المناقب باب تزویج النبی ﷺ… (الخ)
۴۴۹؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۱۳۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۴۵۰؎ بخاری کتاب الاحکام باب ذکر ان النبی ﷺ لم یکن لہ بواب+ ابو داؤد کتاب الجنائز باب الصبر عند الصدمۃ
۴۵۱؎ مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ ۲۷۷۔ المکتب الاسلامی بیروت (مفہوماً)
۴۵۲؎ مسلم کتاب الحدود باب قطع السارق الشریف (الخ) بخاری کتاب الحدود باب اقامۃ الحدود والانتقام لحرمات اللّٰہ
۴۵۳؎ بخاری کتاب الخصومات باب مایذکر فی الاشخاص (الخ)
۴۵۴؎ بخاری کتاب الرقاق باب فضل الفقر
۴۵۵؎ بخاری کتاب الصلوٰۃ باب کنس المسجد (الخ)
۴۵۶؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب فضل الضعفاء
۴۵۷؎ مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل سلمان و بلال (الخ)
۴۵۸؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ و کتاب الکروب باب قول اللّٰہ تعالٰی عزو جل لایسئلون الناس الحافا
۴۵۹؎ بخاری کتاب النکاح باب من ترک الدعوۃ (الخ)
۴۶۰؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب فضل الاحسان الی البنات
۴۶۱؎ بخاری کتاب الجہاد باب من استعان بالضعفاء (الخ)
۴۶۲؎ ترمذی ابواب الزھد باب ماجاء ان فقراء المہاجرین یدخلون الجنۃ (الخ)
۴۶۳؎ شمائل ترمذی باب ماجاء فی صفۃ مزاح رسول اللّٰہ ﷺ
۴۶۴؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ باب التحریض علی الصدقۃ (الخ)
۴۶۵؎ بخاری کتاب الدعوات باب التکبیر والتسبیح عندالمنام
۴۶۶؎ بخاری کتاب الاذان باب من صلی بالناس فذکر حاجۃ (الخ)
۴۶۷؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اخذ صدقۃ التمر عند صرام النخل
۴۶۸؎ مسلم کتاب الایمان باب اطعام المملوک مما یأکل (الخ)
۴۶۹؎ بخاری کتاب کفارات الایمان باب قول اللّٰہ تعالٰی او تحریر رقبۃ
۴۷۰؎ مسلم کتاب الایمان باب صحبۃ الممالیک
۴۷۱؎ مسلم کتاب الایمان باب ثواب العبد و اجرہ (الخ)
۴۷۲؎ ،۴۷۳؎ مسلم کتاب الایمان باب اطعام المملوک ممایاکل (الخ)
۴۷۴؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۲۲۷ سریۃ علی ابن ابی طالب کرم اللّٰہ وجہ
۴۷۵؎ بخاری کتاب النکاح باب موعظۃ الرجل ابنتہٗ (الخ)
۴۷۶؎ بخاری کتاب الاذان باب من اخف الصلوٰۃ (الخ)
۴۷۷؎ بخاری کتاب الادب باب المعاریض مندوحۃ عن الکذب
۴۷۸؎ بخاری کتاب الجہاد والسیر باب مایقول اذا رجع من الغزو
۴۷۹؎ ترمذی ابواب البروالصلۃ باب ماجاء فی النفقۃ علی البنات (الخ)
۴۸۰؎ ابوداؤد کتاب النکاح باب فی ضرب النساء
۴۸۱؎ ابوداؤد کتاب النکاح باب فی حق المرأۃ علی زوجھا
۴۸۲؎ بخاری ، مسلم کتاب الامارۃ باب السفر قطعۃ من العذاب
۴۸۳؎ ابو داؤد کتاب الجہاد باب فی الطروق
۴۸۴؎ بخاری کتاب الجنائز باب ماینھی من سب الاموات+ ابوداؤد کتاب الادب باب فی النھی عن سبّ الموتٰی
۴۸۵؎ بخاری کتاب الاستقراض باب الصلوٰۃ علی من ترک دیناً
۴۸۶؎ بخاری کتاب الادب باب الوصاء ۃ بالجار
۴۸۷؎ مسلم کتاب البرو الصلۃ باب الوصیۃ بالجارو الاحسان الیہ
۴۸۸؎ بخاری کتاب الادب باب اثم من لایأمن جارہ بوائقہ
۴۸۹؎ بخاری کتاب الادب باب لاتحقرن جارۃ لجارتھا
۴۹۰؎ بخاری کتاب المظالم باب لایمنع جار جارہ (الخ)
۴۹۱؎ بخاری کتاب الادب باب من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الاخر
۴۹۲؎ بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبۃ
۴۹۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۴ صفحہ۴۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۴۹۴؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب رغم من ادرک ابویہ (الخ)
۴۹۵؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا
۴۹۶؎ بخاری کتاب التفسیر باب لن تنالوا البر (الخ)
۴۹۷؎ بخاری کتاب الادب باب لایجاھد الا باذن الابوین
۴۹۸؎ بخاری کتاب الادب باب صلۃ الوالد المشرک
۴۹۹؎ مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب من فضائل خدیجہ
۵۰۰؎ بخاری کتاب المناقب الانصار باب تزویج النبی ﷺ خدیجۃ (الخ)
۵۰۱؎ مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب فی حُسن صحبۃ الانصار (الخ)
۵۰۲؎ مسلم کتاب البروالصلۃ والادب باب فضل صلۃ اصدقاء الاب (الخ)
۵۰۳؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب استحباب مجالسۃ الصالحین (الخ)
۵۰۴؎ بخاری کتاب الاعتکاف باب ھل یخرج المعتکف لحوائجہٖ (الخ)
۵۰۵؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب بشارۃ من سر اللّٰہ تعالٰی علیہ فی الدنیا بان یستر علیہ فی الاخرۃ
۵۰۶؎ بخاری کتاب الادب باب سترالمومن علی نفسہ
۵۰۷؎ ،۵۰۸؎ ترمذی ابواب الحدود باب ماجاء فی درء الحد عن المعترف (الخ)
۵۰۹؎ مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الکافر (الخ)
۵۱۰؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورۃ النور باب ان الذین یحبون ان تشیع الفاحشۃ (الخ)
۵۱۱؎ مسلم کتاب الزھد باب المومن امرہ کلہ خیر
۵۱۲؎ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی ﷺ و وفاتہ
۵۱۳؎ بخاری کتاب الطب باب اجر الصابر فی الطاعون
۵۱۴؎ ترمذی کتاب الزھد باب فی التوکل علی اللّٰہ
۵۱۵؎ زرقانی جلد۴ صفحہ۲۶۵
۵۱۶؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الشعراء باب قولہٖ وانذر عشیرتک الاقربین
۵۱۷؎ بخاری کتاب الادب باب قول اللّٰہ یایھا الذین اتقوا اللّٰہ وکونوا مع الصادقین
۵۱۸؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۱۷
۵۱۹؎ بخاری کتاب الادب۔ باب یایھا الذین امنوا اجتنبوا کثیر من الظن
۵۲۰؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ (الخ)
۵۲۱؎ ترمذی ابواب البیوع باب ماجاء فی کراھیۃ الغش فی البیوع
۵۲۲؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب النھی عن قول ھلک الناس
۵۲۳؎ بخاری کتاب المظالم باب الابار علی الطرق+ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس والبھائم
۵۲۴؎ ،۵۲۵؎ ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی کراھیۃ حرق العدو + ابوداؤد کتاب الادب باب فی قتل الزر
۵۲۶؎ زرقانی جلد۴ صفحہ۴۱
۵۲۷؎ بخاری باب الشجاعۃ فی الحرب
۵۲۸؎ بخاری کتاب الوضوء باب ترک النبی ﷺ والناس (الخ)+ بخاری کتاب الادب باب قول النبی ﷺ یسروا………
۵۲۹؎ ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی الامام لیستجن بہ فی العھود
۵۳۰؎ فتح الباری جلد۹ صفحہ۱۹ باب کاتب وحی رسول اللّٰہ ﷺ
۵۳۱؎ مقدمہ ابن ماجہ باب فضل من تعلّم القرآن
۵۳۲؎ بخاری کتاب فضائل القرآن باب القراء من اصحاب النبی ﷺ
۵۳۳؎ فتح الباری جلد۹ صفحہ۴۹
۵۳۴؎ بخاری کتاب فضائل القرآن باب القراء من اصحاب النبی ﷺ
۵۳۵ تا۵۳۸؎ Life of Mahomet by Sir William Muir P. 561,562,563
‏ London 1877
۵۳۹؎ انسا ئیکلوپیڈیا برٹینیکا زیر لفظ قرآن
۵۴۰؎ بخاری کتاب فضائل القرآن باب کان جبریل یعرض القرآن (الخ)
۵۴۱؎ ابوداؤد کتاب الصلوٰۃ باب من جھربھا
۵۴۲؎ الفاتحہ: ۶ ۵۴۳؎ البقرۃ: ۳ ۵۴۴؎ یونس: ۹۱ تا ۹۳
۵۴۵؎ الیل: ۲
۵۴۶؎ بخاری باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللّٰہ ﷺ
۵۴۷؎ الفجر: ۲،۳ ۵۴۸؎ الفجر: ۵ ۵۴۹؎ قصص: ۸۶
۵۵۰؎ بنی اسرائیل: ۸۱ ۵۵۱؎ القمر: ۲ ۵۵۲؎ الروم: ۳ تا۵
۵۵۳؎ الرحمٰن: ۲۰ تا ۲۶ ۵۵۴؎ المؤمنون: ۱۰۰،۱۰۱ ۵۵۵؎ الانبیاء: ۹۶، ۹۷
۵۵۶؎ النحل: ۲۱،۲۲ ۵۵۷؎ نوح: ۱۴ ۵۵۸؎ التوبۃ: ۴۰
۵۵۹؎ وَمَا رَمَیْتَ اِذْرَمَیْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہ رَمٰی (الانفال: ۱۸)
۵۶۰؎ یوحنا باب۱ آیت۱۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء
۵۶۱؎ بخاری کتاب الصلوٰۃ باب قول النبیﷺ جعلت لی الارض مسجدا و طھورا
۵۶۲؎ بنی اسرائیل: ۸۶ ۵۶۳؎ المؤمنون: ۱۳تا۱۵ ۵۶۴؎ الاخلاص: ۲تا ۵
۵۶۵؎ الشوریٰ: ۱۲ ۵۶۶؎ الذریٰت: ۵۰ ۵۶۷؎ الحدید: ۴
۵۶۸؎ الانعام: ۱۰۲ ۵۶۹؎ الانعام: ۱۰۳ ۵۷۰؎ البقرۃ: ۲۵۶
۵۷۱؎ یونس:۶۲ ۵۷۲؎ الانعام: ۱۰۴ ۵۷۳؎ البقرۃ: ۱۱۰
۵۷۴؎ مرقس باب۹ آیت ۲۹ بائبل سوسائٹی۔ لاہور ۱۹۹۴ء
۵۷۵؎ الاعراف: ۱۵۷ ۵۷۶؎ نوح: ۱۴ ۵۷۷؎ ھود: ۸
۵۷۸؎ الانبیاء: ۳۱ ۵۷۹؎ المدثر: ۳۲ ۵۸۰؎ نوح: ۱۵
۵۸۱؎ الاعراف: ۲۶ تا۲۸ ۵۸۲؎ البقرۃ: ۲۹ ۵۸۳؎ الاعراف: ۱۲
۵۸۴؎ الذریت: ۵۷ ۵۸۵؎ فاطر: ۴۰ ۵۸۶؎ النازعت: ۴۵
۵۸۷؎ الجمعۃ: ۳،۴ ۔ الصف: ۷ تا ۱۰
۵۸۸؎ الزخرف: ۵۷ تا ۶۴
۵۸۹؎ تذکرہ صفحہ۴۵۔ ایڈیشن چہارم
۵۹۰؎ ،۵۹۱؎ تذکرہ صفحہ ۱۰۴۔ ایڈیشن چہارم
۵۹۲؎ الفرقان: ۵۳



محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیامیں
ہمارے ہاتھ سے قائم ہوگی




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں
ہمارے ہاتھ سے قائم ہوگی
(فرمودہ ۲۰؍ ستمبر ۱۹۴۸ء برموقع افتتاح ربوہ)
تشہّد، تعوذاورسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’میں اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعائیںجومکہ مکرمہ کو بساتے وقت آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور کی تھیں قرآن کریم سے پڑھوں گا مگر تلاوتِ قرآن کریم کے طور پر نہیں بلکہ دعاکے طور پران الفاظ کودُہرائوں گا اور چونکہ یہ دعائیں ہم سب مل کرکریں گے، اس لئے میں ان الفاظ میں کسی قدر تبدیلی کر دوں گا مثلاً وہ دعائیں جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے مانگی تھیں و ہ تثنیہ کے صیغہ میں آتی ہیں۔کیونکہ اُس وقت صرف حضرت ابراہیم اورحضرت اسماعیل ہی دعاکررہے تھے مگر ہم یہاں بہت سے ہیں اس لئے میں تثنیہ کی بجائے جمع کاصیغہ استعمال کروں گا ۔بہرحال وہ دعائیں میں اب پڑھوں گا ،دوست میرے ساتھ ان دعائوں میں شامل ہوکر آمین کہتے جائیں یاجن کو قرآن کریم کی یہ دعائیں آتی ہوں وہ میرے ساتھ ان دعائوں کو پڑھتے جائیں ۔
(اس کے بعد حضورنے مندرجہ ذیل الفاظ میں دعائیں مانگیں۔یہ امر خصوصیت سے قابلِ ذکر ہے کہ ہردعاحضور نے تین دفعہ دُہرائی)
اے ہمارے ربّ! تو اس جگہ کو ایک امن والا شہر بنادے اورجواس میں رہنے والے ہوں ان کو اپنے پاس سے پاکیزہ رزق عطافرما۔
۱؎ اے ہمارے ربّ! ہم اس جگہ پر اس لئے بسنا چاہتے ہیں کہ ہم مل کر تیرے دین کی خدمت کریں۔ اے ہمارے ربّ! تو ہماری اس قربانی اوراس ارادے کو قبول فرما۔اے ہمارے رب تو بہت ہی دعائیں سننے والا اوردلوں کے بھید جاننے والا ہے۔
۲؎ اے ہمارے ربّ! تو ہم سب کو اپنا فرمانبردار اور سچا مسلمان بنا دے اور ہماری اولادوں کو بھی نہ صرف مسلمان بنا بلکہ ایک مضبوط اور اُمت مسلمہ بنادے۔جو اس دنیا میں تیرے دین کی خادم کہلاتی رہے۔ اے ہمارے ربّ! جو ہمارے کرنے کے کام ہیں وہ ہم کو خود بتلاتا رہ اور جو ہم سے غلطیاں ہو جائیں ان سے عفو کرتا رہ۔ تو بہت ہی فضل کرنے والا اور مہربان ہے ۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھِمْ رِجَالاً مِّنْھُمْ یَتْلُوْنَ عَلَیْھِمْ اٰیَـٰاتِکَ وَیُعَلِّمُوْنَھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکُّونَھُم اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیُزْ الْحَکِیْمُ اے ہمارے ربّ! تو ان میں ایسے آدمی پیداکرتے رہیو جو تیری آیتیں ان کو پڑھ پڑھ کر سناتے رہیںاور جو ان کو تیری کتاب سکھائیں اورتیرے پاک کلام کے اغراض و مقاصد بتاتے رہیںاور ا ن کے نفوس میں پاکیزگی اور طہارت پیداکرتے رہیں۔تُو ہی غالب حکمت والاخداہے۔
یہ وہ دعائیں ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے بساتے وقت کیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دعائوں کو قبول فرماکر ایک ایسی بنیاد رکھ دی جو ہمیشہ کے لئے نیکی اورتقویٰ کو قائم رکھنے والی ثابت ہوئی۔ مکہ مکرمہ مکہ مکرمہ ہی ہے اور ابراہیمؑ ابراہیمؑ ہی ہے،مگر وہ شخص بیوقوف ہے جو اس بات کا خیال کرکے کہ مجھے وہ درجہ حاصل نہیں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل تھا یامیری جگہ کو وہ درجہ حاصل نہیں جو مکہ مکرمہ کو حاصل تھااس لئے وہ خداتعالیٰ سے بھیک مانگنے سے دریغ کرے ۔جب خداکسی عظیم الشان نعمت کا دروازہ کھولتاہے تواس کی رحمت اور بخشش جوش میں آرہی ہوتی ہے اورداناانسان وہی ہوتاہے جو اپنا برتن بھی آگے کردے کیونکہ پھر اس کابرتن خالی نہیں رہتا ۔فقیروں کو دیکھ لو جب لوگ شادی کررہے ہوتے ہیں تو اُس وقت ان پر اخراجات کا بوجھ اوردنوں سے زیادہ ہوتاہے مگر اس کے باوجود وہ نہیں کہتے کہ ہم کیوں سوال کریں۔ اس وقت تو خود ان پر شادی کے اخراجات کا بوجھ پڑا ہوا ہوتا ہے بلکہ جب کسی گھر میں شادی ہورہی ہوتی ہے وہ بھی اپنا برتن لے کر پہنچ جاتے ہیں اورگھر والا اور دنوں کی نسبت ان کے برتن میں زیادہ ڈالتاہے کیونکہ اُس وقت اُس کی اپنی طبیعت خرچ کرنے پر آئی ہوئی ہوتی ہے ۔اسی طرح جب کو ئی شخص کسی بزرگ کی نقل کرتاہے توچاہے وہ اس کے درجہ تک نہ پہنچا ہو اہو۔جب بھی وہ اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتاہے خداتعالیٰ اس کی کمزوری کو دیکھ کر اس سے زیادہ بخشش کاسلوک کرتاہے ۔ماں باپ اپنے بچہ سے اُس وقت زیادہ پیارکرتے ہیں جب وہ چھو ٹا ہوتاہے اورجب وہ کھڑا ہونے کی کوشش کرتاہے توگرجاتاہے لیکن ایک بالغ بچہ جب چل پھر رہاہوتاہے توماں باپ کے دل میں محبت کاوہ جوش پیدا نہیں ہوتا جو ایک چھوٹے بچے کے متعلق پیداہوتاہے ۔پس کسی کو یہ نہ سمجھناچاہئے کہ خانہ کعبہ کے ذریعہ توخداتعالیٰ کی طرف سے دین کی ایک آخری بنیاد قائم کی گئی تھی اس سے ہمارے گھروں کو کیاواسطہ ہے اسی کاواسطہ دے کر مانگناہی تو خداتعالیٰ کی رحمت کو بڑھاتاہے اورانہی کی نقل کرنا ہی تو اصل چیز ہے ۔ جو شخص کمزور ہے اور کمزور ہوکرچاہتاہے کہ میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح چلوں اللہ تعالیٰ اُس کی اِس بات کو دیکھ کر ناراض نہیں ہوتا بلکہ وہ اَورزیادہ خوش ہوتاہے اورکہتاہے دیکھو! میرایہ کمزور بندہ کتنااچھاہے ۔اس میں ہمت اور طاقت نہیں مگر پھر بھی یہ میری طرف سے بھیجے ہوئے ایک نمونہ او رمثال کی نقل کرنے کی کو شش کر تاہے ۔سوہمیں بھی اس کام کی یاد کے طور پر اوراُس بستی کی یاد کے طور پر جس جگہ خداکے ایک نبی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے انتظار میں دعائیں کی گئیں اپنے نئے مرکز کو بساتے وقت جواسی طرح ایک وادیٔ غیر ذی زرع میں بسایاجارہاہے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں کہ شاید ان لوگوں کے طفیل جو مکہ مکرمہ کے قائم کرنے والے اور مکہ مکرمہ کی پیشگوئیوں کے حامل تھے اللہ تعالیٰ ہم پر بھی اپنا فضل نازل کرے اور ہمیں بھی ان نعمتوں سے حصہ دے جو اس نے پہلوں کو دیں۔ آخرنیت توہماری بھی وہی ہے جو ان کی تھی۔ ہمارے ہاتھ میں وہ طاقت نہیں جومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی اورہمارے دل میں وہ قوت نہیں جومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں تھی۔اگرہم باوجود اس کمزوری کے وہی ارادہ کرلیں جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیاتوخداتعالیٰ ہم سے ناراض نہیں ہوگا۔ وہ یہ نہیں کہے گاکہ کون ہیں جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کرنا چاہتے ہیںبلکہ وہ کہے گا دیکھو! میرے یہ کمزور بندے اِس بوجھ کو اُٹھانے کے لئے آگے آگئے ہیں جس بوجھ کے اُٹھانے کی ان میں طاقت نہیں ۔دنیا اس وقت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بھول گئی ہے بلکہ اورلوگوں کاتوکیاذکرہے خود مسلمان آپ کی تعلیم کو بھول چکے ہیں۔آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔جوبھی اُٹھتا ہے مصنف کیا اورفلسفی کیا اورمؤرخ کیا وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی کوشش کرتاہے ۔دنیا کاسب سے بڑامحسن انسان آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان ہے اور دنیا کاسب سے زیادہ معزز انسان آج دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل سمجھا جاتا ہے۔ اگر ہمارے دلوں میں اسلام کی کوئی بھی غیرت باقی ہے، اگر ہمارے دلوں میں محمدرسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بھی محبت باقی ہے توہمارافرض ہے کہ ہم اپنے آقاکی کھوئی ہوئی عز ت کوپھر دوبارہ قائم کریں۔اس میں ہماری جانیں ،ہماری بیویوں کی جانیں ،ہمارے بچوں کی جانیں بلکہ ہماری ہزار ہاپشتیں بھی اگر قربان ہوجائیں تو یہ ہمارے لئے عزت کاموجب ہوگا۔
ہم نے یہ کام قادیان میں شروع کیاتھا مگرخدائی خبروں اور اس کی بتائی ہوئی پیشگوئیوں کے مطابق ہمیں قادیان کو چھو ڑنا پڑا۔ اب انہی خبروں اور پیشگوئیوں کے ماتحت ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے اس وادیٔ غیر ذی زرع میں بسارہے ہیں ۔ہم چیونٹی کی طرح کمزوراورناطاقت ہی سہی مگرچیونٹی بھی جب دانہ اٹھاکر دیوار پر چڑھتے ہوئے گرتی ہے تووہ اس دانے کو چھوڑتی نہیں بلکہ دوبارہ اسے اُٹھاکرمنزل مقصود پر لے جاتی ہے اسی طرح گو ہمارا وہ مرکز جو حقیقی اوردائمی مرکز ہے دشمن نے ہم سے چھیناہواہے لیکن ہمارے ارادہ اورعزم میں کوئی تزلزل واقعہ نہیں ہوا۔دنیا ہم کو ہزاروں جگہ پھینکتی چلی جائے و ہ فٹ بال کی طرح ہمیں لڑکھاتی چلی جائے ہم کو ئی نہ کوئی جگہ ایسی ضرور نکال لیں گے جہاں کھڑے ہوکر ہم پھر دوبار ہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کردیںاور بغیر ہمارے یہ حکومت دنیا میںقائم ہی نہیں ہوسکتی کیونکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی محبت سے لوگوں کے دل خالی ہوچکے ہیں اورقرآن کریم کی حقیقی تفسیر سے وہ ناواقف ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بظاہر لوگوں کے دلوں میں محمد رسول اللہ ﷺکی محبت پائی جاتی ہے۔ لاکھوں غیراحمدی ایسے ہیں جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہیں لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تومعلوم ہوگاکہ وہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ آپؐ کی نئی بنائی ہوئی شکل سے محبت کرتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے بعض احمدی بھی غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جب یہ لوگ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں تو ہمارایہ کہنا کس طرح صحیح ہوسکتاہے کہ ان کے دلوں میں محمدرسول اللہ ﷺ کی حقیقی محبت نہیں حالانکہ ہم جوکچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ محبت تو کرتے ہیں مگر محمدرسول اللہ ﷺ سے نہیں بلکہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک غلط تصویر سے۔
اسی طرح ہم مانتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی فرمانبرداری کی خواہش رکھتے ہیں مگروہ اس غلط تاویل کی فرمانبرداری کی خواہش رکھتے ہیںجوان کے دلوں میں راسخ ہوچکی ہے اس لئے جب تک احمدیت دنیا میں غالب نہیں آجاتی اسلام غلبہ نہیں پاسکتااور یہ اتنی موٹی بات ہے کہ مَیں حیران ہوںمسلمان اسے کیوں نہیں سمجھتے اورکیوں وہ اس بات پرغور نہیں کرتے کہ باوجود اُلفتِ رسولؐ کے وہ کیوں دنیا میں ذلیل ہورہے ہیں ۔سیدھی بات ہے مسلمان اس وقت پچاس کروڑ ہیں اوراحمدی پانچ لاکھ مگر پانچ لاکھ احمدی جتنی اسلام کی خدمت کررہاہے، جس قدر اسلام کی تبلیغ کررہاہے اورجس قدر اشاعت اسلام کے لئے قربانیاں پیش کررہاہے اتنی پچاس کروڑ مسلمان نہیں کررہا۔ اِس وقت دنیا کے گوشہ گوشہ میں احمدی مبلّغ پھیلے ہوئے ہیں اور وہ عیسائیت کامقابلہ کررہے ہیں اورمقابلہ بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی بڑی عیسائی طاقتوں نے تسلیم کرلیا ہے کہ ان کا مقابلہ مؤثرہے۔ پندرہ بیس سال ہوئے لکھنؤمیں عیسائیوں کی ایک بہت بڑی کانفرنس ہوئی جس میں یورپ سے بھی عیسائی پادری شامل ہوئے۔ اس میں یہ سوال اُٹھایا گیا کہ شمالی ہندوستان میں اب کوئی اچھا شریف اورتعلیم یافتہ آدمی عیسائی نہیں ہوتااس کی کیا وجہ ہے۔ تمام پادری جو اس فن کے ماہر تھے انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ جب سے مرزاغلام احمد صاحب قادیانی نے دعویٰ کیاہے اس وقت سے عیسائیت کی ترقی رُک گئی ہے انہوں نے عیسائیت کی اس قدر مخالفت کی ہے کہ جہاں جہاں ان کالٹریچر پھیل جاتاہے عیسائیت ترقی نہیں کرسکتی۔ پھر افریقہ کے متعلق ایک بڑی بھاری کمیٹی مقرر کی گئی تھی جسے چرچ آف انگلینڈ نے مقرر کیا تھا جس کی سالانہ آمد ہمارے بہت سے صوبوں سے بھی زیادہ ہے وہ چالیس پچاس کروڑ روپیہ سالانہ عیسائیت کی اشاعت کے لئے خرچ کرتے ہیں۔اس کمیٹی کی طرف سے جو رپورٹ تیار کی گئی اس میں ۳۶ جگہ یہ ذکر آتا تھا کہ افریقہ میں عیسائیت کی ترقی محض احمدیت کی وجہ سے رُکی ہے ۔ابھی بارہ مہینے ہوئے ایک پادری جسے افریقہ کے دورہ کے لئے بھیجا گیا تھا اس نے افریقہ کے دورہ کے بعد یہ رپورٹ کی کہ افریقہ میں عیسائیت کیوں بے کا ر جدوجہد کررہی ہے۔ اس نے کئی جگہوں کے نام لئے اورکہا کہ وہاں عیسائیت کے راستہ میں احمدیوں نے روکیں ڈال دی ہیں اورساتھ ہی اس نے اپنے اس خیال کااظہار کیا کہ عیسائیت کی تبلیغ اب افریقی لوگوں میں اچھا اثر نہیں کرسکتی ہاں اسلام کی تبلیغ ان میں اچھا اثر پیداکررہی ہے ۔اس نے کہا جب سے افریقہ میں احمدی آگئے ہیں عیسائیت ان کے مقابلہ میں شکست کھاتی جارہی ہے چنانچہ عیسائیوں کا فلاں سکول جوبڑابھاری سکول تھا اب ٹوٹنے لگا ہے اور لوگ اس میں اپنے لڑکوںکو تعلیم کے لئے نہیں بھجواتے۔ پھراس نے کہا ان حالات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ ہم اپنے روپیہ اور اپنی طاقتوں کا اس ملک میں ضیاع کرنے کی بجائے اس میدان کو احمدیوں کے لئے چھوڑ دیں کہ وہ ان لوگوں کو مسلمان بنالیں۔
یہ دشمنوں کااقرا ر ہے جوانہوں نے ہماری تبلیغی جدوجہد کے متعلق کیا۔
یہ طاقت ہم میں کہاںسے آئی ہے اوریہ جوش ہم میں کیوں پیدا ہوا؟ اسی لئے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہم میں ایک آگ پیدا کر دی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پھر اسلام کو دنیا میں غالب کردیں ۔پس مسلمان احمدیت کا جتنا بھی مقابلہ کرتے ہیں وہ اسلام کے غلبہ میں اتنی ہی روکیں پیداکرتے ہیں اورجتنی جلدی وہ احمدیت میں شامل ہوجائیں گے اتنی جلدی ہی اسلام دنیا میں غالب آجائے گا ۔
حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت جس قدر تحریکیں دنیا میں جاری ہیں وہ ساری کی ساری دُنیوی ہیں۔ صرف ایک تحریک مسلمانوں کی مذہبی تحریک ہے اوروہ احمدیت ہے ۔ پاکستان خواہ کتنا بھی مضبوط ہوجائے کیا عراقی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں؟ کیا شامی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں؟ کیا لبنانی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں؟ کیا حجازی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں؟شامی تو اس بات کے لئے بھی تیار نہیں کہ وہ لبنانی یاحجازی کہلائیں حالانکہ وہ ان کے ہم قوم ہیں،پھر لبنانی اورحجازی اورعراقی اورشامی پاکستانی کہلاناکب برداشت کرسکتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ قولاًتو اتحاد کرسکتے ہیں مگروہ ایک پارٹی اورایک جماعت نہیں کہلاسکتے۔ صرف ایک تحریک احمدیت ہی ایسی ہے جس میں سارے کے سارے شامل ہوسکتے ہیں۔عراقی بھی اس میں شامل ہوکرکہہ سکتاہے کہ مَیں احمدی ہوں، عربی بھی اس میں شامل ہوکرکہہ سکتاہے کہ میں احمدی ہوں، حجازی بھی اس میں شامل ہوکرکہہ سکتاہے کہ میں احمدی ہوںاورعملاً ایسا ہو رہا ہے۔ وہ عربی ہونے کے باوجود اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم احمدیت میں شامل ہیں جس کامرکز پاکستان میں ہے اور اس طرح وہ ایک رنگ میں پاکستان کی ماتحتی قبول کرتے ہیں۔ مگریہ ماتحتی احمدیت میں شامل ہوکرہی کی جاسکتی ہے اس کے بغیر نہیں۔ چنانچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ عربی جو اس غرور میں رہتاہے کہ مَیں اس ملک کارہنے والاہوں جس میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیداہوئے میرامقابلہ کوئی اور شخص کہاںکر سکتا ہے وہ احمدیت میں شامل ہوکر براعظم ہندوپاکستان کابھی ادب واحترام کرتا ہے اور یہاں مقدس مقامات کی زیارتوں کے لئے بھی آتاہے ۔غرض ایک ہی چیز ہے جس کے ذریعہ دنیائے اسلام پھر متحدہوسکتی ہے اورجس کے ذریعہ دوسری دنیا پرکامیابی اورفتح حاصل ہوسکتی ہے اور وہ احمدیت ہے۔آخر کیاوجہ ہے کہ مسلمان دنیا میں ہرجگہ ذلیل ہورہے ہیں اور ہر جگہ تباہی اور بربادی کا شکار ہو رہے ہیں اس سے زیادہ تباہی اورکیا ہوگی کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی پچاس ہزار عورتیں اب تک سکھوں اورہندوئوں کے قبضہ میں ہیں۔ کیایہ معمولی ذلّت ہے کہ مسلمانوں کی پچاس ہزار عورتوںکو وہ پکڑ کرلے گئے اوران سے بدکاریاں کر رہے ہیں ۔کیا یہ معمولی عذاب ہے کہ پانچ چھ لاکھ مسلمان دنوں میں مارا گیا اور پھر فلسطین میں جوکچھ ہورہاہے کیاوہ مسلمانوں کو نظر نہیں آرہا؟ ابھی حیدرآباد میں جوکچھ ہواہے اس سے کس طرح مسلمانوں کوصدمہ ہواہے اوروہ اپنے دلوں میں کیسی ذلت اور شرمندگی محسوس کررہے ہیں مگریہ ساری مصیبتیں اور بلائیں ایک لمبی زنجیرکی مختلف کڑیوں کے سوا اَور ہیں کیا؟ آخر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کوجومحبت ہے اس کے ظاہر ہونے کا وقت کب آئے گا اور کون ساوہ دن ہو گاجب خداتعالیٰ کی غیرت بھڑکے گی اور مسلمانوں کو اس تنزل اور ادبارسے نجات دلائے گی۔ خداتعالیٰ کی غیرت کبھی دنیا میں بھڑکتی ہے یا نہیں؟ اور اگر بھڑکتی ہے تومسلمانوںکو سوچنا چاہئے کہ اس کے غیر ت کے بھڑکنے کاکونساذریعہ ہوا کرتا ہے۔ اگر وہ سوچتے توانہیں معلوم ہوجاتاکہ ہمیشہ خداتعالیٰ پہلے اپنا مأموردنیا میں بھیجتا ہے اورپھر اس مأمور کے ذریعہ ہی اس کی غیرت بھڑکاکرتی ہے ۔اس کے سواخداتعالیٰ نے کبھی کوئی طریق اختیار نہیں کیااوریہی ایک طریق ہے جس پر چل کر وہ اب بھی خداتعالیٰ کی غیرت کانمونہ دیکھ سکتے ہیں ۔یہ بات مسلمانوں کے سامنے پیش کرو اورانہیں سمجھا ئو کہ تمہارا فائدہ، اسلام کافائدہ اورپھر ساری دنیا کافائدہ اسی میںہے کہ تم جلد سے جلد احمدیت میں شامل ہو جائو۔ آخر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے وہ ہم سے رُکتے ہیں۔ ہمار ی تو ساری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے ہرموقع پر مسلمانوں کی خدمت کی ہے گواس کے بعد ہمیشہ ان کی طرف سے مخالفت ہی ہوئی ہے مگرپھر بھی ہماراکیانقصان ہوا۔ ابھی کوئٹہ میں غیر احمدیوں کی طرف سے ایک جلسہ کیا گیا جس میں لوگوں کو ہمارے خلاف اُکسایاگیا۔ایک احمدی ڈاکٹر میجر محمود احمد رات کے وقت کسی مریض کودیکھ کر کار میں واپس آرہے تھے کہ وہ تقریر کی آواز سن کر وہاں ٹھہر گئے۔ انہوں نے اپنی موٹر باہر کھڑی کی اورخود تھوڑی دیر کے لئے اندرچلے گئے بعض غیراحمدیوں نے انہیں دیکھ کر دوسروں کو اُکسادیا اور انہوں نے ان پر پتھرائو شروع کردیا وہ پتھرائو کی بوچھاڑ سے بچنے کے لئے ایک طرف اندھیرے میں چلے گئے۔ اِس پرکسی شخص نے وہیں اندھیرے میں خنجر مار کر انہیں شہید کردیا۔ اس واقعہ کے تیسرے چوتھے دن بعد میرے پاس ایک وفد آیا جس میں بلوچستان مسلم لیگ کے وائس پریذیڈنٹ بھی شامل تھے اورپٹھانوں کی قوم کے ایک سردار بھی شامل تھے ان سب نے آکر کہا کہ میجر محمود احمد کے قتل کا جوواقعہ ہواہے اس میں صرف پنجابیوں کا قصور ہے ہماراکوئی قصور نہیں آپ ہم پر گلہ نہ کریں ۔پنجابی مولویوں نے یہاں آکر مخالفانہ تقریریں کیں جس سے لوگ مشتعل ہوگئے ۔پھر اُس سردار نے جو اپنی قوم کے رئیس اورمیونسپل کمیٹی کے ممبر بھی تھے کہا کہ میں نے پنجابیوں کو بُلوایا اور اُن سے کہا کہ تم جو احمدیت کے خلاف شورش کررہے ہو تم یہ بتائو کہ قادیان پنجاب میں ہے یا بلوچستان میں؟ انہوں نے کہا پنجاب میں۔میں نے کہا جب قادیان پنجاب میں تھا اورتم کو ایک لمبا عرصہ احمدیوں کی مخالفت کے لئے مل چکا ہے تو جب تم وہاں ان لوگوں کوتباہ نہیں کرسکے تو یہاں کیا مقابلہ کروگے ۔اگرتم میں ہمت اورطاقت تھی توتم نے ان لوگوںکویہاں آ نے ہی کیوں دیا وہیں کیوں نہ مار ڈالا۔ پھر میں نے پوچھا کہ پنجاب کی آبادی کتنی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اب ۲کروڑ ہے پہلے ۳کروڑ ہواکرتی تھی ۔میں نے کہا بلوچستان کی آبادی کتنی ہے انہوں نے کہا ۱۲لاکھ۔ میں نے کہا تم دوتین کروڑ ہو کر ان لوگوں کو مار نہیں سکتے توہم بارہ لاکھ کو کیوں ذلیل کرتے ہو اورکیوں ہمیں ان کی مخالفت کے لئے اُکساتے ہو؟
حقیقت یہ ہے کہ دنیا نے اپنا سارازورہماری مخالفت میں لگالیا اور ابھی اَورلگائے گی لیکن یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ احمدیت دنیا میں غالب آکررہے گی کیونکہ احمدیت کے بغیر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غالب نہیں آسکتے ۔اس کے ساتھ ہی میں اپنی ذات کے متعلق بھی یہ بات جانتاہوں کہ میری زندگی کے ساتھ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی زندگی وابستہ ہے اس لئے خدا مجھے بھی دشمن کے ہاتھوں سے نہیں مرنے دے گا اور وہ میرے بچائو کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرو رنکال لے گا۔بہرحال اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے ساتھ اسلام کی ترقی کو وابستہ کردیا ہے جو شخص احمدیت پر ہاتھ اُٹھاتاہے وہ اسلام پرہاتھ اُٹھاتاہے ۔جوشخص احمدیت کو برباد کرناچاہتاہے وہ اسلام کو برباد کرناچاہتاہے لیکن ہمارابھی فرض ہے کہ جب خدانے ہم پر اتنا بڑا احسان کیاہے اورہم کمزوروں اور ناتوانوں کے ساتھ اسلام کی آئندہ ترقی کو وابستہ کر دیاہے توہم اس کے لئے اپناسب کچھ قربان کردیں ۔اسی لئے باوجود اس کے کہ شہروں میں ہمیں مکان مل سکتے تھے مگرہم نے نہیں لئے کیونکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں بیداری پیداکرتے رہیں۔ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان میں تنظیم پیدا کریں، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کی تعلیم اورتربیت کاخیال رکھیں اوریہ چیز بڑے شہروں میں حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ وہاں جماعت بکھری ہوئی ہوتی ہے ۔پس باوجود اس کے کہ ہمیں شہروں میں جگہیں مل سکتی تھیں ہم نے ان کی پرواہ نہیں کی اوراس وادیٔ غیر ذی زرع کو اس ارادہ اور نیت کے ساتھ چنا ہے کہ جب تک یہ عارضی مقام ہمارے پاس رہے گا ہم اسلام کا جھنڈا اس مقام پر بلند رکھیں گے اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور جب خداہماراقادیان ہمیں واپس دے دے گا یہ مرکز صرف اس علاقہ کے لوگوں کے لئے رہ جائے گا ۔یہ مقام اُجڑے گا نہیں کیونکہ جہاں خداکانام ایک دفعہ لے لیاجائے وہ مقام برباد نہیں ہواکرتا۔پھر یہ صرف اس علاقہ کے لوگوں کا مرکز بن جائے گا اورساری دنیا کامرکز پھر قادیان بن جائے گاجوحقیقی اوردائمی مرکز ہے۔ پس ہم یہاں آئے ہیں اس لئے کہ خداکانام اونچا کریں۔ ہم اس لئے نہیں آئے کہ اپنے نام کو بلند کریں۔ ہمارا نام شہروں میں زیادہ اونچا ہو سکتا تھا اورہم اگراپنے نام کو بلند کرنے کی خواہش رکھتے تواس کے لئے بڑے شہر زیاد ہ موزوں تھے بلکہ خو د اُن شہروں کے رہنے والوں نے بھی خواہش کی تھی کہ وہیں جماعت کے لئے زمینیں خریدلی جائیں ۔چنانچہ لاہور، کوئٹہ اور کراچی میں چوٹی کے آدمی مجھ سے ملنے کے لئے آتے اور خواہش کرتے تھے کہ انہی کے شہروں میں ہم رہائش اختیار کریں۔ کراچی میں بھی لو گوں نے یہی خواہش کی اورکوئٹہ میں بھی لوگوں نے یہی خواہش کی۔ غرض اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں ظاہری عزت شہروں میں زیادہ ملتی تھی مگر ہمارا کام اپنے لئے ظاہری عزت حاصل کرنانہیں بلکہ ہماراکام یہ ہے کہ ہم اس جگہ کی تلاش کریں جہاں اسلام کی عزت کابیج بوسکیں اورہم نے اسی نیت اورارادہ کے ساتھ اس وادیٔ غیر ذی زرع کو چنا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو یہاں کو ئی فصلیں نہیں، کہیں سبزی کانشان نہیں گویا چن کر ہم نے وہ مقام لیا ہے جو قطعی طور پر آبادی اور زراعت کے ناقابل سمجھا جاتا تھا تاکہ کو ئی شخص یہ نہ کہہ دے کہ پاکستان نے احمدیوں پراحسان کیاہے مگرکہنے والوں نے پھر بھی کہہ دیا ہے کہ کروڑوں کروڑ کی جائداد پاکستان نے احمدیوں کو دے دی ہے۔ یہ زمین ہم نے دس روپیہ ایکڑ پر خریدی ہے اوریہ زمین ایسی ہے جو بالکل بنجر اور غیر آبادہے اور صدیوں سے بنجر اور غیرآباد چلی آتی ہے ۔یہاںکوئی کھیتی نہیں ہوسکتی ، کوئی سبزہ دکھائی نہیں دیتا،کوئی نہر اِس زمین کو نہیں لگتی ۔اس کے مقابلہ میں مَیں نے خود مظفر گڑھ میں نہر والی زمین آٹھ روپیہ ایکڑ پر خریدی تھی بلکہ اس مظفر گڑھ میں ایک لاکھ ایکڑ زمین میاں شاہ نواز صاحب نے آٹھ آنے ایکڑ پرخریدی تھی جس سے بعد میں انہوں نے بہت نفع کمایا۔ یہ زمین ہم نے پہاڑی ٹیلوں کے درمیان اس لئے خریدی ہے کہ میری ایک رؤیا اِس زمین کے متعلق تھی۔
یہ رؤیادسمبر ۱۹۴۱ء میں مَیں نے دیکھی تھی اور۲۱؍دسمبر۱۹۴۱ء کے الفضل میں شائع ہو چکی ہے۔ اب تک دس ہزار آدمی یہ رؤیا پڑھ چکے ہیں اورگورنمنٹ کے ریکارڈ میں بھی یہ رؤیا موجود ہے۔ میں نے اُس رؤیا میں دیکھاکہ قادیان پر حملہ ہواہے اورہرقسم کے ہتھیار استعمال کئے جارہے ہیںمگرمقابلہ کے بعد دشمن غالب آگیااورہمیں وہ مقام چھوڑنا پڑا۔ باہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کس جگہ جائیں اور کہاں جاکراپنی حفاظت کاسامان کریں۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ مَیں ایک جگہ بتاتاہوں۔ آپ پہاڑوں پر چلیں وہاں اٹلی کے ایک پادری نے گرجا بنایا ہوا ہے اورساتھ ہی اس نے بعض عمارتیں بھی بنائی ہوئی ہیں جنہیں وہ کرایہ پر مسافروں کودیتا ہے وہ مقام سب سے بہتر رہے گا ۔مَیں ابھی متردّد ہی تھا کہ اس جگہ رہائش اختیار کی جائے یانہ کی جائے کہ ایک شخص نے کہا آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ یہاںمسجد بھی ہے۔ اس نے سمجھا کہ کہیں میں رہائش سے اس لئے انکار نہ کردوںکہ یہاں مسجد نہیں۔چنانچہ میں نے کہا اچھا مجھے مسجد دکھائو۔ اس نے مجھے مسجد دکھائی جونہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی، چٹائیاں اور دریاں وغیرہ بھی بچھی ہوئی تھیں اورامام کی جگہ ایک صاف قالینی مصلّٰی بچھا ہوا تھااس پر مَیں خوش ہوااورمیں نے کہا لو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسجد بھی دے دی اب ہم اسی جگہ رہیں گے ۔اس کے بعد مَیں نے دیکھا کہ کچھ لوگ باہر سے آئے ہیں اوروہ کہتے ہیں کہ بڑی تباہی ہے بڑی تباہی ہے اور جالندھر کا خاص طور پر نام لیا کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے ۔پھر انہوں نے کہا ہم نیلے گنبد میں داخل ہونے لگے تھے مگرہمیں وہاں بھی داخل نہیں ہونے دیا ۔اُس وقت تک توہم صرف لاہور کاہی نیلا گنبد سمجھتے تھے مگر بعد میں غور کرنے پر معلوم ہواکہ نیلے گنبد سے مراد آسمان تھااور مطلب یہ تھا کہ کھلے آسمان کے نیچے بھی مسلمانوں کو امن نہیں ملے گا۔ چنانچہ لوگ جب اپنے مکانوںاورشہروں سے نکل کر ریفیوجی کیمپوں میں جمع ہوتے تھے تووہاں بھی سکھ ان پرحملہ کردیتے اوران میں سے بہت سے لوگوں کو مار ڈالتے ۔اس رؤیا کے مطابق یہ جگہ مرکز کے لئے تجویز کی گئی ہے ۔
جب مَیں قادیان سے آیا تو اُس وقت یہاں اتفاقاً چوہدری عزیز احمد صاحب احمدی سَب جج لگے ہوئے تھے ۔میں شیخوپورہ کے متعلق مشورہ کر رہاتھاکہ چوہدری عزیز احمد صاحب میرے پاس آئے اورانہوں نے کہا کہ مَیں نے اخبار میں آپ کی ایک اِس اِس رنگ کی خواب پڑھی ہے میں سمجھتاہوں کہ چنیوٹ، ضلع جھنگ کے قریب دریائے چناب کے پار ایک ایساٹکڑئہ زمین ہے جو اس خواب کے مطابق معلوم ہوتاہے ۔چنانچہ مَیں یہاں آیااورمیں نے کہا ٹھیک ہے خواب میں جو مَیں نے مقام دیکھاتھااس کے اِرد گرد بھی اسی قسم کے پہاڑی ٹیلے تھے۔ صرف ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ مَیں نے اُس میدان میں گھاس دیکھاتھامگریہ چٹیل میدان ہے۔ اب بارشوں کے بعد کچھ کچھ سبزہ نکلاہے ممکن ہے ہمارے آنے کے بعد اللہ تعالیٰ یہاں گھاس بھی پیداکردے اوراس رقبہ کو سبزہ زاربنادے۔ بہرحال اس رؤیا کے مطابق ہم نے اس جگہ کو چنا ہے اوریہ رؤیا وہ ہے جس کے ذریعہ چھ سال پہلے اللہ تعالی نے ہمیں آئندہ آنے والے واقعات سے خبر دے دی تھی ۔دنیا میں کون ایساانسان ہے جس کی طاقت میں یہ بات ہو کہ وہ چھ سال پہلے آئندہ آنے والے واقعات بیان کردے ۔انگریزوں کی حکومت کے زمانہ میں بھلا قادیان پر حملہ کاسوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔ پھر قادیان کو چھوڑنا کس کے خیال میں آسکتاتھا۔کون خیال کرسکتاتھاکہ مسلمانوں پر ایک بہت بڑی تباہی آنے والی ہے اتنی بڑی کہ وہ اپنے شہروںاورگھروں سے نکل کر آسمان کے نیچے ڈیرے ڈالیں گے تو وہاں بھی وہ دشمن کے حملہ سے محفوظ نہیں ہوں گے مگریہ تمام واقعات رونما ہوئے اورپھر اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کے مطابق ہمیں ایک نیا مرکز بھی دیدیا۔ یہاں جس قسم کی مخالفت تھی اس کے لحاظ سے اس مرکز کاملنا بھی اللہ تعالیٰ کی تائید اوراس کی نصرت کاایک کھلا ثبوت ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ایساتصرف کیا کہ مخالفین کے اخباروں نے پیچھے شور مچایا اور ہمارا سَودا پہلے طے ہو چکا تھا۔ پھر اِس قدر جھوٹ سے کام لیاگیا کہ اس زمین کے متعلق انہوں نے لکھا کہ حکومت کو پندرہ سَو روپیہ فی ایکڑ مل رہا تھا اور کئی مسلمان انجمنیں اُسے یہ روپیہ پیش کررہی تھیں مگرحکومت نے یہ ٹکڑہ برائے نام قیمت پر احمدیوں کو دے دیا۔ گویا ان کے حساب سے پندرہ لاکھ روپیہ اس ٹکڑے کاحکومت کومل رہاتھا مگرحکومت نے اس کی پرواہ نہ کی۔ جب مجھے اس کاعلم ہواتومیں نے فوراً اعلان کرادیا کہ پاکستان کا اتنا نقصان ہم برداشت نہیں کرسکتے اگر اتنا روپیہ دے کر کوئی شخص یہ زمین خرید سکتاہے تووہ اب بھی ہم سے یہ زمین اتنی قیمت پر لے لے تویہ سارے کا سارا روپیہ حکومت پاکستان کو دے دیں گے ۔مگر حقیقت یہ ہے کہ پندرہ سَوروپیہ فی ایکڑ تو کجا پندرہ روپیہ فی ایکڑ بھی کوئی شخص دینے کے لئے تیار نہیں تھا ۔گورنمنٹ نے خود اپنے گزٹ میں اس کے متعلق متواتر اعلان کرایا مگر اسے پانچ روپیہ فی ایکڑ کی بھی کسی نے پیشکش نہ کی۔
غرض اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہم قادیان سے باہر آئے ہیں اوراسی کے منشاء کے ماتحت ہم یہاں ایک نیامرکز بساناچاہتے ہیں۔ ہرچیز میں روکیں حائل ہوسکتی ہیں اس لحاظ سے ممکن ہے ہمارے اس ارادہ میں بھی کوئی روک حائل ہوجائے لیکن ہمارا ارادہ اور ہماری نیت یہی ہے کہ ہم پھر ایک مرکز بناکراسلام کے غلبہ اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کریں اوراللہ تعالیٰ سے دعاہے کہ وہ اس کام میں ہماراحامی و مددگار ہو۔ ہم نے اِس وادیٔ غیر ذی زرع کوجس میں فصل اور سبزیاں نہیں ہوتیں اس لئے چنا ہے کہ ہم یہاں بسیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کریں مگرہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ساری فصلیں اورسبزیاں اورثمرات خداتعالیٰ کے اختیار میں ہیں ۔پس اوّل توہم دعاکرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیتوں کو صاف کرے اورہمارے ارادوں کوپاک کرے اورپھر ہم اُسی سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ مکہ مکرمہ کے ظل کے طور پر اورمکہ مکرمہ کے موعود کے طفیل ہم کو بھی اس وادی میں ہرقسم کے ثمرات پہنچاوے گا۔ ہماری روزیاں کسی بندے کے سپرد نہیں اللہ تعالیٰ کاہاتھ اپنے پاس سے ہم کو کھلائے گا اور ہم اس سے دعاکرتے ہیں کہ وہ یہاں کے رہنے والوں میں دین کااتنا جوش پیدا کر دے، دین کی اتنی محبت پیدا کر دے، محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتناعشق پیدا کر دے کہ وہ پاگلوں کی طرح دنیا میں نکل جائیں اور اُس وقت تک گھر نہ لوٹیں جب تک دنیا کے کونے کونے میں محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم نہ کردیں۔
بے شک دنیا کہے گی کہ یہ لوگ پاگل ہیں مگرایک دن آئے گا اوریقینا آئے گااور یقینا آئے گا یہ آسمان ٹل سکتا ہے یہ زمین ٹل سکتی ہے مگر یہ وعدہ نہیں ٹل سکتا کہ خدا ہمارے ہاتھ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کردے گااوروہ لوگ جو آج ہمیں پاگل کہتے ہیں شرمندہ ہوکرکہیں گے کہ اس چیز نے تو ہوکر ہی رہناتھا ۔ آثار ہی ایسے نظر آرہے تھے جن سے ثابت ہوتاتھا کہ یہ چیز ضرور وقوع میں آکررہے گی ۔ جیسے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب لوگ پاگل کہتے تھے مگر اب عیسائی یہ کہتے ہیں کہ اُس وقت دنیا کے حالات ہی اِس قسم کے تھے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوتی اورباقی مذاہب شکست کھاجاتے۔ جس طرح پہلے عقلمند کہلانے والے لوگ پاگل ثابت ہوئے اسی طرح اب بھی عقلمند کہلانے والے لوگ ہی پاگل ثابت ہوں گے اور دنیا پر اسلام غالب آکررہے گا ۔آئو اب ہم ہاتھ اُٹھا کر آہستگی سے بھی اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ ہمارے ارادوں میں برکت ڈالے اورہمیں ا س مقدس کام کو دیانتداری کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق بخشے۔
اِس کے بعد اس رقبہ کے چاروں کو نوں پر قربانیاں کی جائیں گی اورایک قربانی اس رقبہ کے وسط میں کی جائے گی ۔یہ قربانیاں اس علامت کے طور پر ہوں گی کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہوگئے تھے اور خداتعالیٰ نے ان کی قربانی کو قبول فرماکر بکرے کی قربانی کاحکم دیاتھااسی طرح ہم بھی اس زمین کے چاروں گوشوں پر اورایک اس زمین کے سنٹر میں اس نیت اورارادہ کے ساتھ خداتعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں کہ خداہمیں اورہماری اولادوںکوہمیشہ اس راہ میں قربان ہونے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
(الفضل سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء)
۱؎ البقرۃ: ۱۲۸ ۲؎ البقرۃ: ۱۲۹


مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب
گیارہ اوربارہ ستمبر کی درمیانی رات میں نے رؤیامیں دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں جو نہ قادیان معلوم ہوتی ہے اورنہ لاہور کاموجودہ مکان بلکہ کوئی نئی جگہ معلوم ہوتی ہے۔ ایک کھلا مکان ہے جس کے آگے وسیع صحن معلوم ہوتاہے ۔میں اُس کے صحن میں کھڑاکچھ لوگوں سے باتیں کررہاہوں ۔باتوں کامفہوم کچھ اس قسم کاہے کہ قریب زمانہ میں مسلمانوں پر ایک بڑی آفت آنی ہے اورعنقریب کچھ اورحوادث ظاہرہونے والے ہیں جوپہلی مصیبت سے بھی زیادہ سخت ہوں گے اورمسلمانوں کی آنکھوں کے آگے قیامت کانظارہ آجائے گا۔یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دُوراُفق میں مجھے ایک چیز اُڑتی ہوئی نظرآئی ۔یہ چیز ابو الہول کی شکل کی تھی اور اسی کی طرح عظیم الجثہ معلوم ہوتی تھی۔ ابو الہول کی طرح اس کی بنیاد بہت چوڑی تھی اوراوپر آکے اس کاجسم نسبتاً چھوٹا ہوجاتاتھا۔میں نے دیکھا کہ اوپر کے حصہ میں بجائے ایک سر کے اُس کے دو سَر لگے ہوئے ہیں ۔ایک سر ایک کونہ پر ہے اور دوسراسر دوسرے کونہ پراور درمیان میں کچھ جگہ خالی تھی۔اس کی جسامت اورہیبت کو دیکھ کرمیں نے قیاس کیا کہ یہی وہ بلاہے جس کے متعلق خبر پائی جاتی ہے اور میں نے ان لوگوں سے جن سے میں باتیں کررہاتھا کہا وہ دیکھو وہ چیز آگئی ہے۔ میرے دیکھتے دیکھتے وہ بلائے عظیم اُڑتی ہوئی ہمارے پاس سے آگے کی طرف گزر گئی اورتما م علاقہ کے لوگوں میں شور پڑ گیا کہ اب کیا ہوگا؟ وہ قیامت خیز تو آگئی۔ اُس وقت میں نے دیکھا کہ مستورات جلدی جلدی کمروں کے اندر گھس گئیں لیکن میں صحن میں ٹہلتا رہا۔ میں ٹہل ہی رہا تھا کہ کسی نے باہر سے آواز دی۔ میں دروازہ پر گیا تومیں نے دیکھا کہ دوکشتیاںدروازہ کے سامنے کھڑی تھیں لیکن وہاں پانی کوئی نہیں اور کشتیوں کے نیچے چھوٹے چھوٹے پہیے ہیں۔ ایسے چھوٹے جیسے بعض ٹرائیسکلوں کے اگلے چھوٹے پہیے ہوتے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ چھوٹے۔ مجھے دیکھ کر جوکشتی میں بیٹھے ہوئے آدمیوں کا افسر تھا اُس نے کہا کہ آپ اور آپ کے ساتھی کشتیوں میں بیٹھ جائیں، یہ آپ کے لئے بھجوائی گئی ہیںتاکہ آپ ان میں بیٹھ کر محفوظ جگہ پر چلے جائیں۔اور اُس جگہ کانام اس نے سٹیشن لیاگویاپاس کوئی سٹیشن ہے جس پر جانے سے اس کے نزدیک نسبتی طور پر حفاظت حاصل ہوجاتی ہے۔ مجھے یہ یاد نہیں رہاکہ اس نے کس شخص کی طرف منسوب کیا کہ اس نے کشتیاں بھیجی ہیں۔ ہاں یہ یقینی یاد ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف اس نے منسوب نہیں کیا بلکہ کسی انسان کی طرف منسوب کیا ہے۔ میں نے اُس شخص سے کہا کہ یہاں پانی تو کوئی نہیںیہ کشتیاں کس طرح چلیں گی؟ اس نے جواب میں کہا یہ کشتیاں بغیر پانی کے چلتی ہیں۔ ان کشتیوں میں بادبان بھی لگے ہوئے تھے اوران کے نیچے پہیے بھی لگے ہوئے تھے۔ پہلے میں نے چاہاکہ گھرکے لوگوں اورباقی ساتھیوں کو لے کر ہم کشتیوں میں بیٹھ جائیں اور اسٹیشن پر چلے جائیں جسے نسبتاً محفوظ کہاجاتاہے لیکن پھر میرے دل میں خیال آیا کہ اسٹیشن پر جانے کاکیافائدہ ہے اللہ تعالیٰ میں طاقت ہے وہ چاہے تو بَلاء کو ٹلادے۔ تب میں نے اس شخص سے کہا کہ میں تووہاں نہیں جاناچاہتا، میں تو یہیں رہوں گا۔ اس کے تھوڑی دیر بعد گومجھے وہ بَلاء نظر تونہیں آتی جو اُڑتی ہوئی نظر آئی تھی اور جس کے دو سَر تھے لیکن میں نے یو ں محسوس کیا کہ گویا وہ بَلاء آ پ ہی آپ سکڑنے لگ گئی اورچھوٹی ہونی شروع ہوگئی ۔اُس وقت کسی شخص نے آکرمجھے مبارکباد دی اورکہا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ پر توکّل کیا تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس بَلاء کااثر مٹا دیا ہے۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔
وقت کے لحاظ سے میں سمجھتاہوں کہ یہ رؤیا قائداعظم کی وفات کے بعد آئی ہے کیونکہ اُن کی وفات کے متعلق کہاجاتاہے کہ وہ ساڑھے دس بجے ہوئی ہے اور میں بالعموم سوتاہی گیارہ بجے کے بعد ہوں ۔غالباً صبح کے قریب یہ رؤیاہوئی ہے لیکن مجھے صبح ۹ بجے قائداعظم کی وفات کاعلم ہوا اس لئے جہاں تک اِس رؤیاکاتعلق ہے یہ اس علم کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اس علم سے پہلے کی ہے ۔اس رؤیامیں یہ بتایاگیاتھاکہ مسلمانوں پر قریب زمانہ میں اورایک دوسرے سے پیوستہ دومصیبتیں آنے والی ہیں اور بظاہریوں نظر آئیں گی کہ گویا مسلمانوں کوتباہ کردیں گی لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اور اُن لوگوں کے طفیل جواللہ تعالیٰ پرتوکّل کرنے کے عادی ہیں ان مصیبتوں کے بدنتائج کو مٹادے گااور اس خطرئہ عظیمہ سے مسلمان محفوظ ہوجائیں گے۔
جب مجھے قائداعظم کی وفات کاعلم ہواتومیں نے سمجھاکہ ایک مصیبت توان کی وفات ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ مصیبت مسلمانوں کے لئے درحقیقت ۱۹۴۷ء کے واقعات سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ گو۱۹۴۷ء میںلاکھوں مسلمان ماراگیا لیکن اُس وقت ان کے حوصلے توڑنے والی کوئی چیز نہیں تھی لیکن ایک ایسے لیڈرکاجس سے قوم کی امیدیں وابستہ ہوں ایسے وقت میں جداہوجاناجبکہ خطرات ابھی بڑھ رہے ہوں اورامید کے پہلو بھی منکشف ہورہے ہوں نہایت سخت تکلیف دِہ ہوتاہے ۔پس یہ دھکاایساتھاکہ جس نے ۱۹۴۷ء کے واقعات سے بھی زیادہ مسلمانوں کے دلوں کو دِہلا دیا۔
مجھے اللہ تعالیٰ نے اس رؤیاکے ذریعہ سے یہ علم بخشا کہ مسلمان اس صدمہ کی برداشت کی طاقت پاجائیں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان کردے گا کہ اس نقصان سے پاکستان کی بنیاد ہلے گی نہیں بلکہ الٰہی تدبیر سے محفوظ ہوجائے گی۔مگر مجھے اُس وقت یہ خیال آتاتھا کہ یہ جو خواب میں مَیں نے بَلاء دیکھی ہے اس کے دوسرتھے ۔ایک سرسے تواُس ابتلاء کی طرف اشارہ ہوا جو قائداعظم کی وفات کی وجہ سے مسلمانوں کو پہنچا لیکن دوسراسرجودکھایاگیاہے اس سے کیا مراد ہے۔دوسرے دن یہ خبر شائع ہوئی کہ ہندوستانی فوجوں نے حیدرآباد پرحملہ کردیا ہے۔ تب میں نے قیاس کیا کہ دوسرے سر سے مراد حیدرآباد پر حملہ ہے اور چونکہ خواب میں کسی مصیبت کے واقعہ کی طر ف اشارہ کیاگیاتھا اس لئے میرے دل میں خیال گزراکہ کہیں یہ حیدرآبادکاحملہ بھی ایک مصیبت نہ بن جائے۔آخر کل کی خبروں سے معلوم ہواکہ حیدرآباد نے ہتھیار ڈال دیئے ہیںیادوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ نظام نے ہتھیار ڈال دیئے ہیںاور یہ واقعہ تمام باشندگانِ پاکستان کے لئے نہایت ہی غم و اندوہ کاموجب ثابت ہواہے بلکہ اس تھوڑے سے وقت میں مَیں نے توبعضوں سے یہاں تک سنا ہے کہ اب جبکہ ہندوستان حیدرآباد سے فار غ ہوگیاہے وہ پاکستان کی طرف رُخ کرے گا ۔
یہ رؤیاجس دن مجھے آئی تھی، اُسی دن صبح کو ایک معززغیر احمدی آفیسر محمد یعقوب صاحب فریدی جو کھیوڑہ کی نمک کی کانوں کے سپرنٹنڈنٹ ہیں مجھے ملنے کے لئے مولوی عبدالودود صاحب کی معیت میں تشریف لائے تھے ۔فریدی صاحب حضرت سلیم صاحب چشتی کی اولاد میں سے ہیںجوکہ اکبر بادشاہ کے پیر تھے اورفتح پور سیکری میں جن کا مزار ہے ۔دورانِ گفتگو میں قائداعظم کی وفات کا ذکر آیا تو میں نے اُن کویہ رؤیاسنائی۔ وہ ایک تعلیم یافتہ اور معزز عہدہ دار ہیں اوراحمدیت سے ان کو کوئی تعلق نہیں ۔وہ حلفیہ گواہی اِس پر دے سکتے ہیں کہ میں نے یہ رؤیا ۱۲؍ تاریخ کی صبح کو ان کو سنادی تھی اور رؤیا میں جو میں نے ابوالہول کا دوسرا سر دیکھا ہے اس پر میں نے حیرت کا بھی اظہارکیاتھا کہ میں نے ایک سر کی بجائے دوسر دیکھے ہیں۔
میں اِس رؤیاکی بناء پر سمجھتاہوں کہ گویہ دونوں واقعات مسلمانوں کیلئینہایت تکلیف دِہ ہیںلیکن اللہ تعالیٰ ان صدمات کو چھوٹاکردے گا اورمسلمانوںکو ان کے بداثر سے محفوظ رکھے گا اگر مسلمان خداتعالیٰ پر توکل کااظہار کریںاورکسی لیڈر کی وفات کاجو سچاردّ عمل ہوتاہے وہ اپنے اندر پیداکر یں۔یعنی اس کی نیک خواہشات کو پوراکرنے کی کوشش کریں تو یقینا مسٹر جناح کی وفات مسلمانوں کی تباہی کاموجب نہیں بلکہ مسلمانوں کی مضبوطی کا موجب ہوگی ۔
بانی سلسلہ احمدیہ جب فوت ہوئے ہیںاُس وقت میری عمر اُنیس سال کی تھی ان کی وفات اسی لاہور میں ہوئی تھی اوران کی وفات کی خبرسنتے ہی شہر کے بہت سے اوباشوں نے اس گھر کے سامنے شور وغوغا شروع کردیاتھا جس میں ان کی لاش پڑی ہوئی تھی اورناقابل برداشت گالیاں دیتے تھے اور ناپسندیدہ نعرے لگاتے تھے۔ مجھے اُس وقت کچھ احمدی بھی اُکھڑے اُکھڑے سے نظر آتے تھے۔ تب میں بانیٔ سلسلہ کے سرہانے جاکرکھڑاہوگیا او رمیں نے خداتعالیٰ کو مخاطب کرکے یہ عر ض کی کہ اگر ساری جماعت بھی مرتد ہوجائے تو میں اس مشن کو پھیلانے کے لئے جس کے لئے تونے اِن کو مبعوث فرمایاتھا کوشش کروں گا اور اس کام کے پورا کرنے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرو ںگا ۔خداتعالیٰ نے میرے عہد میں ایسی برکت دی کہ احمدیت کے مخالف ہمارے عقیدوں کے متعلق خواہ کچھ کہیں یہ توان میں سے کو ئی ایک فرد بھی نہیں کہہ سکتا کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی وفات پر جماعت کو جوطاقت حاصل تھی اتنی طاقت آج جماعت کو حاصل نہیں۔ہر شخص اقرار کرے گاکہ اس سے درجنوں گنے زیادہ طاقت اِس وقت جماعت کو حاصل ہے ۔میں سمجھتاہوں کہ مسٹر جناح کی وفات کے بعد اگروہ مسلمان جو واقعہ میں ان سے محبت رکھتے تھے اوران کے کام کی قدر کو پہچانتے تھے سچے دل سے یہ عہد کرلیں کہ جو منزل پاکستان کی انہوں نے تجویز کی تھی ،وہ اس سے بھی آگے اسے لے جانے کی کوشش کریں گے اور اس عہد کے ساتھ ساتھ وہ پوری تن دہی سے اس کو نباہنے کی کوشش بھی کریں تویقینا پاکستان روز بروزترقی کرتاچلاجائے گااوردنیا کی مضبوط ترین طاقتوں میںسے ہوجائے گا ۔
حیدرآباد کے معاملہ کے متعلق بھی میں یہ سمجھتاہوں کہ اگرمسلمان حوصلہ سے کام لیں توحیدرآباد کامسئلہ کوئی ناقابل تلافی مصیبت نہیں۔حق تویہ ہے کہ حیدرآباد اپنے حالات کے لحاظ سے انڈین یونین میں ہی شامل ہوناچاہئے تھا جس طرح کہ کشمیر اپنے حالات کے لحاظ سے پاکستان میں ہی شامل ہوناچاہئے ۔میں توشروع دن سے مسلمانوں کواس امر کی طرف توجہ دلاتارہاہوں اورمیرے نزدیک اگرحیدرآباد اورکشمیر کے مسئلہ کو اکٹھارکھ کرحل کیاجاتاتو شاید اُلجھنیں پیداہی نہ ہوتیں لیکن بعض دفعہ لیڈر عوام الناس کے شدیدجذبات سے اتنے مرعوب ہوتے ہیں کہ وہ وقت پر صحیح رستہ اختیار ہی نہیں کرسکتے ۔حیدرآباد کی پُرانی تاریخ بتارہی ہے کہ حیدرآباد کے نظام کبھی بھی لڑائی میں اچھے ثابت نہیں ہوئے۔ چونکہ میرے پردادا اور نظام الملک کو ایک ہی سال میں خطاب اور عہدہ ملاتھا، اِس لئے مجھے اس خاندان کی تاریخ کے ساتھ کچھ دلچسپی رہی ہے۔ ۱۷۰۷ء میں ہی ان کو خطاب ملا ہے اور۱۷۰۷ء میں ہی میرے پردادا مرزا فیض محمد خاں صاحب کو خطاب ملاتھا ۔ان کو نظام الملک اورہمارے پردادا کو عضدالدولہ۔ اِس وقت میرے پاس کاغذات نہیں ہیں ۔جہاں تک عہدے کاسوال ہے، غالباً نظام الملک کو پہلے پانچ ہزاری کاعہدہ ملا تھا لیکن مرزافیض محمد صاحب کو ہفت ہزاری کاعہدہ ملا تھا۔ اُس وقت نظام الملک باوجود حیدرآباد دکن میں شورش کے دلّی میں بیٹھے رہے اورتب دکن گئے تھے جب دکن کے فسادات مٹ گئے تھے ۔سلطان حیدر الدین کی جنگوں میں بھی حیدرآبادنے کو ئی اچھا نمونہ نہیں دکھایاتھا۔ مرہٹوں کی جنگوں میں بھی اس کارویہ اچھا نہیں تھا ۔انگریزوں کے ہندوستان میں قدم جمنے میں بھی حیدرآباد کی حکومت کا بہت کچھ دخل تھا مگرجہاں بہادری کے معاملے میں نظام کبھی اچھے ثابت نہیں ہوئے وہاں عام دُور اندیشی اورانصاف اورعلم پروری میں یقینا یہ خاندان نہایت اعلیٰ نمونہ دکھاتارہاہے اوراسی وجہ سے کسی اورریاست کے باشندوں میں اپنے رئیس سے اتنی محبت نہیں پائی جاتی جتنی کہ نظام کی رعایامیں نظام کی پائی جاتی ہے۔ انصاف کے معاملہ میں میرااثر یہی رہاہے کہ حیدرآباد کاانصاف برطانوی راج سے بھی زیادہ اچھا تھا۔ ہندومسلمان کاسوال کبھی نظاموں نے اُٹھنے نہیںدیا اور ان خوبیوں کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہی ہندوستان کے مسلمانوں میں مقبول رہے۔ لیکن جہاں یہ صحیح ہے کہ حیدرآباد کا نظام خاندان کبھی بھی جنگی خاندان ثابت نہیں ہوا،وہاں یہ بھی درست ہے کہ حیدرآبادکی رعایا بھی جنگی رعایانہیں۔کوئی نئی روح ان کو جنگی بناسکتی تھی مگر نواب بہادر یار جنگ کی وفات کے بعد وہ نئی روح حیدر آباد میں نہیں رہی ۔سید قاسم رضوی کے جاننے والے جانتے ہیں کہ بہادر یار جنگ والی روح ان میں نہیں ۔بہادریار جنگ علاوہ اعلیٰ درجہ کے مقررہونے کے عملی آدمی تھے ۔ قاسم رضوی صاحب مقر ر ضرور ہیں مگراعلیٰ درجہ کے عملی آدمی نہیںہیں۔شہزادہ برار کے اندر بھی کوئی ایسی روح نہیں ۔شہزادہ برار نے آج سے اکیس سال پہلے بعض مہاسبھائی ذہنیت کے لوگوں سے ایک خفیہ معاہدہ کیاتھا جس میں یہ اقرار کیا تھاکہ جب بھی میں برسرحکومت آئوں گامیں فلاں فلاں رعائتیں ہندوقوم کو دوں گا ۔یہ معاہدہ ان کے ایک مخلص مصاحب کے علم میں آگیا اوراس نے ان کے کاغذات میں سے وہ معاہدہ نکال کر مجھے پہنچا دیا۔ اُس وقت معلوم ہوا کہ شہزادہ برار کو کوئی جیب خرچ نہیں ملتاتھا اوربعض ہندوئو ں نے اُن کو روپیہ دیناشرو ع کردیاتھا۔ جس کی بناء پر انہوں نے یہ معاہدہ کیاتھا ۔میں نے اس معاہدہ کی اطلاع گو رنمنٹ آف انڈیاکو دی اوراس کو توجہ دلائی کہ اتنی بڑی سلطنت کے ولی عہد کو کوئی جیب خرچ نہ ملنا نہایت خطرناک بات ہے اور اس کانتیجہ یہ نکلا کہ گورنمنٹ آف انڈیا نے اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے حکماً شہزادے کاجیب خرچ مقررکروایا جوغالباً دس ہزاریابیس ہزار روپیہ ماہوارتھا۔ ایسے انسان سے کیا امید کی جاسکتی تھی کہ وہ اس نازک وقت میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر قوم کی راہنمائی کرے گا۔
پس حیدرآباد کاواقعہ گومسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ ہے لیکن جو کچھ اس وقت ہواہے تاریخی واقعات کی ایک لمبی زنجیر کی آخری کڑی ہے ۔بیشک آج مسلمان اس بات کا خیال کرکے بہت ہی شرم محسوس کرتے ہیں کہ تین دن پہلے مسلمانوں کے لیڈر حیدرآباد سے یہ براڈ کاسٹ کررہے تھے کہ ہم دلّی کے لال قلعہ کی طرف آرہے ہیںاورتین دنوں کے اندر اندر انہوں نے ہتھیاربھی ڈال دیئے اوران ساری امیدوں کو چھوڑ دیا جورُبع صدی سے اپنے دلوں میں لئے بیٹھے تھے ۔مگرمیں سمجھتاہوں کہ یہ ابتلاء بھی اگر پاکستا ن کے مسلمانوں کے عزم کو اور بلند کرنے کاموجب ہوجائے توبلائِ زحمت نہیں بلکہ بلائِ رحمت ثابت ہوگا ۔
خداتعالیٰ تمام دُنیوی دروازے بند کرکے مسلمانوں کو بلارہاہے کہ میری طرف آئو۔ خداکی رحمت کادروازہ اب بھی کھلا ہے کاش! مسلمان اپنی آنکھیں کھولیں اوراس کی آواز پر لبیک کہیں۔ اسلام کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہو سکتا۔ خدا کے فرشتے جَوّ میں اس کو اونچا رکھیں گے۔ ہمیں تو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ خداکے فرشتوں کے ہاتھوں کے ساتھ ہمارے ہاتھ بھی اس جھنڈے کو سہارا دے رہے ہو ں۔ اے خدا! تو مسلمانوں کی آنکھیں کھول تاکہ وہ اپنے فرض کو پہچانیں، تیری آواز کو سنیں اور اسلام پھر دنیا میں معزز اور مؤقّرہو جائے ۔
(الفضل لاہور ۲۱؍ستمبر ۱۹۴۸ء)



احمدیت کا پیغام





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
احمدیت کاپیغام
احمدیت کیا ہے اور کس غرض سے اس کوقائم کیاگیاہے ؟ یہ ایک سوال ہے جو بہت سے واقفوں اور ناواقفوں کے دلوں میں پیداہوتاہے۔ واقفوں کامطالعہ زیادہ گہرا ہوتاہے اور ناواقفوں کے سوالات بہت سطحی ہوتے ہیں ۔بوجہ عدمِ علم کے بہت سی باتیں وہ اپنے خیال سے ایجاد کرلیتے ہیں اوربہت سی باتوں پرلوگوں سے سن سنا کریقین کرلیتے ہیں ۔میں پہلے انہی لوگوں کی واقفیت کے لئے کچھ باتیں کہنی چاہتاہوں جوعدمِ علم اورناواقفیت کی وجہ سے احمدیت کے متعلق مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلاہیں۔
احمدیت کوئی نیامذہب نہیں
ان ناواقفوں میں سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ احمدی لوگ کلمہ لَااِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے قائل نہیں
اوراحمدیت ایک نیامذہب ہے۔ یہ لوگ یاتو بعض دوسرے لوگوں کے بہکانے سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں یاان کے دماغ یہ خیال کرکے کہ احمدیت ایک مذہب ہے اورہرمذہب کے لئے کسی کلمہ کی ضرورت ہے سمجھ لیتے ہیں کہ احمدیوںکابھی کوئی نیاکلمہ ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ احمدیت کوئی نیامذہب ہے اورنہ مذہب کے لئے کسی کلمہ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر میں یہ کہتاہوں کہ کلمہ اسلام کے سِواکسی مذہب کی علامت نہیں۔ جس طرح اسلام دوسرے مذاہب سے اپنی کتاب کے لحاظ سے ممتاز ہے، اپنے نبی کے لحاظ سے ممتاز ہے، اپنی عالمگیری کے لحاظ سے ممتاز ہے، اسی طرح اسلام دوسرے مذاہب سے کلمہ کے لحاظ سے بھی ممتاز ہے، دوسرے مذاہب کے پاس کتابیں ہیں مگر کلام اللہ سوائے مسلمانوں کے کسی کونہیں ملا ۔کتاب کے معنی صرف مضمون کے ہیں، فرائض کے ہیں،احکام کے ہیںلیکن کتاب کے مفہوم میں ہرگز یہ بات شامل نہیں کہ اس کے اندر بیان شدہ مضمون کا ایک ایک لفظ خداتعالیٰ کی طرف سے ہو۔ مگراسلامی کتاب کانام کلام اللہ رکھاگیایعنی اس کاایک ایک لفظ بھی خداتعالیٰ کابیان کردہ ہے جس طرح اس کا مضمون خداتعالیٰ کابیان کردہ ہے۔ حضرت موسٰی ؑ علیہ السلام کی کتاب کامضمون وہی تھا جوخداتعالیٰ نے بیان فرمایاتھا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وہ تعلیم جو دنیا کے سامنے وہ پیش کرتے تھے وہی تھی جو خداتعالیٰ نے ان کو دی تھی لیکن ان لفظوں میں نہ تھی جوخداتعالیٰ نے استعمال فرمائے تھے ۔ تورات،انجیل اور قرآن کو پڑھنے والا اگر اس مضمون کی طرف اس کی توجہ کو پھیر دیاجائے تودس منٹ کے مطالعہ کے بعد ہی یہ فیصلہ کرلے گا کہ تورات اور انجیل کے مضامین خواہ خداتعالیٰ کی طرف سے ہوں ان کے الفاظ خداتعالیٰ کی طرف سے نہیںاور اسی طرح وہ یہ بھی فیصلہ کرلے گا کہ قرآن کریم کے مضامین بھی خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں اوراس کے الفاظ بھی خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں۔یایوں کہہ لو کہ ایک ایساشخص جو قرآن کریم، تورات اور انجیل پرایمان نہیں رکھتا، ان تینوں کتابوں کاچند منٹ مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا اقرار کر نے پر مجبور ہوگا کہ تورات او رانجیل کو پیش کرنے والے گواس بات کے مدعی ہیں کہ یہ دونوں کتب خداتعالیٰ کی طرف سے ہیں لیکن اس بات کے ہرگز مدعی نہیں کہ ان دونوں کتب کا ایک ایک لفظ خداتعالیٰ کابولاہواہے مگر قرآن کریم کے متعلق وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ اس کاپیش کرنے والا نہ صرف اس بات کادعویدار ہے کہ قرآن کریم کا مضمون خداتعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بلکہ اس بات کابھی دعویدار ہے کہ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ خداتعالیٰ کی طرف سے ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اپنانام علاوہ کتاب اللہ کے کلام اللہ بھی رکھا ہے لیکن تورات و انجیل نے اپنا نام کلام اللہ نہیںرکھا نہ قرآن کریم نے ان کو کلام اللہ کہا ہے ۔پس مسلمان ممتاز ہے دوسرے مذاہب سے اس بات میں کہ دوسرے مذاہب کی مذہبی کتابیں کتاب اللہ توہیں لیکن کلام اللہ نہیں لیکن مسلمانوں کی کتا ب نہ صرف یہ کہ کتاب اللہ بلکہ کلام اللہ بھی ہے۔
اسی طرح سب ہی مذاہب کی ابتداء انبیاء کی ذات سے ہوئی ہے لیکن کوئی مذہب بھی ایسانہیں جس نے ایسے نبی کو پیش کیاہو جوتمام امو رِدینیہ کی حکمتوں کو بیان کرنے کامدعی ہو اور جسے بنی نوع انسان کے لئے اُسوئہ حسنہ کے طور پر پیش کیا گیاہو۔ عیسائیت جو سب سے قریب کامذہب ہے وہ تومسیح کو ابن اللہ قرار دے کر اس قابل ہی نہیں چھوڑتی کہ اس کے نقش قدم پر کوئی انسان چلے کیونکہ انسان خداجیسانہیں ہوسکتا۔ تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بطور اُسوئہ حسنہ پیش نہیں کرتی ۔نہ تورات او رانجیل حضرت موسیٰ اورحضرت عیسٰی علیہماالسلام کو مذہبی حکمتوں کے بیان کرنے کاذمہ وارقراردیتی ہیں لیکن قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتاہے ۱؎ یہ نبی تمہیں احکامِ الٰہیہ اوران کی حکمتیں بتاتاہے پس اسلام ممتاز ہے اس بات میں کہ اس کانبی دنیا کے لئے اسوئہ حسنہ بھی ہے اورجبر سے اپنے احکام نہیں منواتابلکہ جب کو ئی حکم دیتاہے تواپنے اتباع کے ایمانوں کو مضبوط کرنے اور ان کے جو ش کو زیادہ کرنے کے لئے یہ بھی بتاتاہے کہ اس نے جو احکام دیئے ہیں ان کے اندر ملت افرادِ اُمت اور باقی بنی نوع انسان کے لئے کیا کیا فوائد مخفی ہیں۔اسی طرح اسلام ممتاز ہے دوسرے مذاہب سے اپنی تعلیم کے لحاظ سے ۔اسلام کی تعلیم چھوٹے او ربڑے غریب اور امیر، عورت اور مرد، مشرقی اورمغربی، کمزو راورطاقتور، حاکم اوررعایا، آقا اور مزدور، خاوند اور بیوی، ماں باپ اوراولاد،بائع و مشتری ،ہمسائے اور مسافر سب کے لئے راحت، امن اور ترقی کا پیغام ہے۔ وہ بنی نوع انسان میں سے کسی گرو ہ کو اپنے خطاب سے محروم نہیں کرتی۔ وہ اگلی اور پچھلی تمام اقوام کیلئے ایک ہدایت نامہ ہے۔ جس طرح عالم الغیب خداکی نظر پتھروں کے نیچے پڑے ہوئے ذروں پر بھی پڑتی ہے اورآسمان میں چمکنے والے ستاروں پر بھی، اسی طرح مسلمانوں کی مذہبی تعلیم غریب سے غریب اورکمزور سے کمزور انسانوں کی ضرورتوں کو بھی پوراکرتی ہے اورامیرسے امیر اور قوی سے قوی انسانوں کی احتیاجوں کو بھی دور کرتی ہے۔غرض اسلام صرف گزشہ مذاہب کی ایک نقل نہیں بلکہ وہ مذہب کی زنجیر کی آخر ی کڑی اور نظامِ روحانی کاسورج ہے اوراس کی کسی بات سے دوسرے مذاہب کاقیاس کرنادرست نہیں۔ مذہب کے نام میں بیشک سب شریک ہیں اسی طرح جس طرح ہیرااورکوئلہ کاربن کے نام میں شریک ہیں لیکن ہیراہیراہی ہے اورکوئلہ کوئلہ ہی ہے۔ جس طرح پتھر کانام کنکریلے پتھر اورسنگ مرمردونوں پربولاجاسکتاہے لیکن کنکریلاپتھر کنکریلا پتھر ہی ہے اور سنگ مرمر، سنگ مرمرہی ہے پس یہ خیال کرلینا کہ چونکہ اسلام میں کلمہ پایاجاتاہے اس لئے باقی مذاہب کابھی کلمہ ہوتاہوگا ،یہ محض ناواقفیت ہے اورقرآن کریم پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے ۔ اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ بعض لوگوں نے تو لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ اِبْرَاھِیْمُ خَلِیْلُ اللّٰہِ۔ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ مُوْسٰی کَلِیْمُ اللّٰہِ اور لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ عِیْسٰی رُوْحُ اللّٰہِ کے کلمات بھی پیش کردیئے ہیں اورکہا ہے کہ یہ پہلے مذاہب کے کلمے ہیں۔حالانکہ تورات اورانجیل اور عیسائی لٹریچر میں ان کلموں کاکہیں نام و نشان بھی نہیں۔مسلمانوں میں آج ہزاروں خرابیاں پیداہوچکی ہیںلیکن کیا وہ اپنا کلمہ بھول گئے ہیں؟ پھر یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ عیسائی اور یہودی اپناکلمہ بھول گئے ہیں ۔اگروہ اپناکلمہ بھول گئے ہیں اوران کی کتابوں سے بھی یہ کلمے غائب ہوگئے ہیں تو مسلمانوںکو یہ کلمے کس نے بتائے ہیں حق یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواکسی اور نبی کاکلمہ نہیں تھا۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ سارے نبیوں میں سے صرف آپ کوکلمہ ملاہے اورکسی نبی کو کلمہ نہیں ملا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ میں اقرارِ رسالت کو اقرارِ توحید کے ساتھ ملادیاگیا ہے اور اقرارِ توحید ایک دائمی صداقت ہے وہ کبھی مٹ نہیں سکتی ۔چونکہ پہلے نبیوں کی نبوت کے زمانہ نے کسی نہ کسی وقت ختم ہوجاناتھا اس لئے خداتعالیٰ نے ان میں سے کسی نبی کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کرنہیں بیان کیا لیکن محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت نے چونکہ قیامت تک چلتے چلے جاناتھا اورآپؐ کا زمانہ کبھی ختم نہیں ہوناتھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی رسالت اورآپ کے نام کو کلمۂ توحید کے ساتھ ملاکر بیان کیاتا دنیا کو یہ بتادے کہ جس طرح لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ کبھی نہیں مٹے گااسی طرح مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ بھی کبھی نہیں مٹے گا۔ تعجب ہے کہ یہودی نہیں کہتاکہ موسیٰ علیہ السلام کاکوئی کلمہ تھا۔عیسائی نہیں کہتا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی کلمہ تھا۔ صابی نہیں کہتاکہ ابراہیم علیہ السلام کاکوئی کلمہ تھا ۔لیکن مسلمان جس کے نبی کی کلمہ خصوصیت تھا، جس کے نبی کو اللہ تعالیٰ نے کلمہ سے ممتاز کیا تھا، جس کو کلمہ کے ذریعہ سے دوسری قوموں پر فضیلت دی گئی وہ بڑی فراخدلی سے اپنے نبی کی اس فضیلت کو دوسرے نبیوں میں بانٹنے کے لئے تیار ہوجاتاہے اورجبکہ اَورنبیوں کی اپنی اُمتیں کسی کلمہ کی دعویدار نہیں یہ ان کی طرف سے کلمے بناکر آپ پیش کردیتاہے کہ یہودیوں کایہ کلمہ تھا اور ابراہیمیوں کایہ کلمہ تھا اورعیسائیوں کایہ کلمہ تھا ۔
خلاصہ کلام یہ کہ ہرمذہب کے لئے کلمہ کاہوناضروری نہیں ۔اگرضروری ہوتا تب بھی احمدیت کاکوئی نیاکلمہ نہیں ہوسکتاتھاکیونکہ احمدیت کو ئی نیا مذہب نہیں۔ احمدیت صرف اسلام کا نام ہے ۔احمدیت اُسی کلمہ پر ایما ن رکھتی ہے جس کومحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیاتھا یعنی لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌرَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ احمدیوں کے نزد یک اس مادی جہان کاپیداکرنے والا ایک خداہے جو وحدہٗ لاشریک ہے جس کی قوتوں اورطاقتوں کی کوئی انتہاء نہیں۔ جو ربّ ہے،رحمن ہے،رحیم ہے، مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۲؎ہے۔ ا س کے اندر وہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جوقرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اوروہ ان تمام باتوں سے منزہ ہے جن باتوں سے قرآن کریم نے اسے منزہ قرار دیاہے اوراحمدیوں کے نزدیک محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب قرشی مکی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول تھے اورسب سے آخری شریعت آپ پر نازل ہوئی۔ آپ عجمی اورعربی گورے اورکالے، تمام اقوام اور تمام نسلوں کی طرف مبعوث ہوئے ۔ آپ کازمانۂ نبوت ادعائے نبوت سے لے کر اُس وقت تک ممتد ہے جب تک کہ دنیا کے پردہ پر کوئی متنفس زندہ ہے۔ آپ کی تعلیم ہرانسان کے لئے واجب العمل ہے اورکوئی انسان ایسا نہیں جس پر حجت تمام ہوگئی ہو اور وہ آپ پر ایمان نہ لایاہو اوروہ خدائی عذاب کامستحق نہ ہو۔ ہر ایک شخص جس تک آپؐ کانام پہنچااورجس کے سامنے آپ کی صداقت کے دلائل بیان کئے گئے وہ مکلّف ہے آپ پر ایما ن لانے کے لئے اور بغیر آپ پر ایمان لائے وہ نجات کاحق دار نہیں اورسچی پاکیزگی محض آپؐ ہی کے نقش قدم پر چل کی حاصل ہوسکتی ہے۔
احمدیوں کے متعلق بعض شکوک کاازالہ
ختم نبوت کے متعلق احمدیوں کاعقیدہ
مذکورہ بالا ناواقف گروہ میں سے بعض لوگ یہ خیال بھی کرتے ہیں کہ احمدی ختم نبوت کے
قائل نہیںاوررسول کریم ﷺ کو خاتم النّبِیّٖن نہیں مانتے یہ محض دھوکے اورناواقفیت کانتیجہ ہے۔جب احمدی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اورکلمہ شہادت پر یقین رکھتے ہیں تویہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ وہ ختم نبوت کے منکرہوں اوررسول کریم ﷺکوخاتم النّبیّٖن نہ مانیں۔ قرآن کریم میں صاف طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
۳؎ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی جوان مرد کے باپ نہ ہیں نہ آئندہ ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول اورخاتم النّبیّٖن ہیں۔قرآن کریم پر ایما ن رکھنے والا آدمی اس آیت کا انکار کس طرح کر سکتاہے ۔پس احمدیوں کاہرگز یہ عقیدہ نہیںکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نَعُوْذُ بِاللّٰہ خاتم النّبیّٖن نہیں تھے۔ جو کچھ احمدی کہتے ہیں وہ صرف یہ ہے کہ خاتم النّبیّٖن کے وہ معنی جو اِس وقت مسلمانوں میں رائج ہیں نہ توقرآن کریم کی مذکورہ بالاآیت پر چسپاں ہوتے ہیں اورنہ ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور شان اس طرح ظاہر ہوتی ہے جس عزت اورشان کی طرف اس آیت میں اشارہ کیاگیا ہے اور احمدی جماعت خاتم النّبیّٖن کے و ہ معنی کرتی ہے جوعربی لغت میں عام طور پرمتداول۴؎ ہیں اور جن معنوں کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اورحضرت علی رضی اللہ عنہ اوربعض دوسرے صحابہ تائید کرتے ہیں اورجن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپ کی منزلت بہت بڑھ جاتی ہے اورتمام بنی نوع انسان پر آپ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے پس احمدی ختم نبوت کے منکر نہیں بلکہ ختم نبوت کے ان معنوں کے منکر ہیں جو عام مسلمانوں میں موجودہ زمانہ میں غلطی سے رائج ہوگئے ہیں ورنہ ختم نبوت کاانکار تو کفر ہے اوراحمدی خداکے فضل سے مسلمان ہیں اوراسلام پر چلنا ہی نجات کاواحد ذریعہ سمجھتے ہیں۔
اِن ہی ناواقف لوگوں میں سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ احمدی قرآن شریف پر پورا ایمان نہیں رکھتے بلکہ صرف چندسیپاروں کومانتے ہیں ۔چنانچہ مجھے حال ہی میں کوئٹہ میں درجنوں آدمیوں نے مل کر بتایاکہ ہمیں علماء نے بتایاہے کہ احمدی سارے قرآن کونہیں مانتے یہ بھی ایک اتہام ہے جواحمدیت کے دشمنوں نے احمدیت پر لگایاہے۔احمدیت قرآن کریم کو ایک نہ تبدیل ہونے والی اور نہ منسوخ ہونے والی کتاب قرار دیتی ہے ۔احمدیت بِسْمِ اللّٰہِ کی ب سے لے کر وَالنَّاسِ کی س تک ہرایک حرف اور ہر ایک لفظ کوخداتعالیٰ کی طرف سے سمجھتی اور قابل عمل تسلیم کرتی ہے ۔
احمدیوں کا فرشتوں کے متعلق عقیدہ
انہی ناواقف لوگوں میں سے بعض لو گ یہ الزام لگاتے ہیں کہ احمدی فرشتوں اور شیطان کے قائل
نہیں یہ الزام بھی محض اتہام ہے۔ فرشتوں کاذکر بھی قرآن کریم میں موجود ہے اورشیطان کاذکربھی قرآن کریم میں موجود ہے جن چیزوں کا ذکرقرآن کریم میں موجود ہے قرآن کریم پرایمان کادعویٰ کرتے ہوئے ان چیزوں کاانکار احمدیت کرہی کس طرح سکتی ہے ۔ہم خداتعالیٰ کے فضل سے فرشتوں پر پوراایمان رکھتے ہیں بلکہ احمدیت سے جوبرکات ہمیں حاصل ہوئی ہیں ان کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ہم فرشتوں پر ایمان لاتے ہیں بلکہ ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ فرشتوں کے ساتھ قرآن کریم کی مدد سے تعلق بھی پیداکیاجاسکتاہے اوران سے علومِ روحانیہ بھی سیکھے جاسکتے ہیں۔
خود راقم الحروف نے کئی علوم فرشتوں سے سیکھے ۔مجھے ایک دفعہ ایک فرشتہ نے سور ہ فاتحہ کی تفسیر پڑھائی اور اُس وقت سے لے کر اِس وقت تک سورئہ فاتحہ کے اس قدر مطالب مجھ پر کھلے ہیں کہ ان کی حد ہی کوئی نہیںاورمیرادعویٰ ہے کہ کسی مذہب و ملت کاآدمی روحانی علوم میں سے کسی مضمون کے متعلق بھی جوکچھ اپنی ساری کتاب میں سے نکال سکتاہے اُس سے بڑھ کر مضامین خداتعالیٰ کے فضل سے میں صرف سورئہ فاتحہ میں سے نکال سکتاہوں۔ مدتوں سے میں دنیاکویہ چیلنج دے رہاہوں مگرآج تک کسی نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا ۔ ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت، توحیدِ الٰہی کاثبوت، رسالت او راس کی ضرورت ،شریعت کاملہ کی علامات اوربنی نوع انسان کے لئے اس کی ضرورت، دعا،تقدیر ،حشرونشر، جنت و دوزخ، ان تما م مضامین پر سورئہ فاتحہ سے ایسی روشنی پڑتی ہے کہ دوسری کتب کے سینکڑوں صفحات بھی اتنی روشنی انسان کو نہیں پہنچاتے۔ پس فرشتوں کے انکار کاتو کوئی سوال ہی نہیں احمدی تو فرشتوں سے فائدہ اُٹھانے کابھی مدعی ہے۔ باقی رہا شیطان، سو شیطان توایک گندی چیز ہے اس پر ایمان لانے کاسوال ہی کوئی نہیں۔ ہاں اس کے وجود کاعلم ہمیں قرآن کریم سے حاصل ہوتاہے اورہم اس کے وجود کوتسلیم کرتے ہیں اورنہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ہمارے ذمہ یہ کام لگایاہے کہ ہم شیطان کی طاقت کو توڑیں اوراس کی حکومت کو مٹائیں۔ شیطان کو بھی میں نے خواب میں دیکھا ہے اورایک دفعہ تومیں نے اس سے کشتی بھی کی ہے اورخداتعالیٰ کی مدد سے اورکلماتِ تعوّذ کی برکت سے اس کو شکست بھی دی ہے اورایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایاکہ جس کام کے لئے تم مقرر کئے جائو گے اس کے رستہ میں شیطان اور اس کی اولاد بہت سی روکیں ڈالے گی تم اس کی روکوں کی پرواہ نہ کرنا اور یہ فقرہ کہتے ہوئے بڑھتے چلے جاناکہ ’’خداکے فضل اوررحم کے ساتھ‘‘ تب میں اُس جہت کو چلا جس جہت کی طرف جانے کا خداتعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایاتھااورمیں نے دیکھا کہ شیطان اور اُس کی اولاد مختلف طریق سے مجھے دھمکانے اور ڈرانے کی کوشش کرنے لگی ۔ بعض جگہ پر صرف سر ہی سر سامنے آجاتے تھے اورمجھے ڈرانے کی کوشش کرتے تھے۔ بعض جگہ خالی دھڑ آجاتے تھے۔ بعض جگہ شیطان شیروں اور چیتوں کی شکل بدل کر یا ہاتھیوں کی شکل بدل کر آتا تھامگرالٰہی حکم کے ماتحت میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی ارر یہی کہتے ہوئے بڑھتا چلا گیا کہ
’’خدا کے فضل اوررحم کے ساتھ۔خداکے فضل اوررحم کے ساتھ‘‘
جب کبھی میں یہ فقرہ پڑھتاتھا شیطان اور اس کی اولاد بھاگ جاتی تھی اورمیدان صاف ہو جاتا تھا مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر ایک نئی شکل اورنئی صورت میں میرے سامنے آتا تھا مگر اس دفعہ بھی یہی حربہ اس کے مٹانے میں کامیاب ہوجاتاتھا۔حتٰی کہ منزلِ مقصود آگئی اورشیطان کلّی طور پر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا۔ اِسی رؤیا کی بناء پر میں اپنی تمام اہم تحریروں پرسرِنامہ سے اوپر ’’خداکے فضل اور رحم کے ساتھ‘‘کافقرہ لکھاکرتاہوں ۔پس ہم ملائکہ پرایمان رکھتے ہیں اور شیطان کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ احمدی لوگ معجزات کے منکر ہیں یہ بھی واقعات کے خلاف ہے ۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات توالگ رہے ،ہم تو اس بات کے بھی قائل ہیں کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے اتباع کو بھی اللہ تعالیٰ معجزات عطا فرماتا ہے۔ قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات سے بھراہواہے اوران کاانکار صرف ایک ازلی اورابدی اندھا ہی کرسکتاہے ۔
نجات کے متعلق احمدیوں کاعقیدہ
بعض لوگ احمدیت کے متعلق اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ احمدیہ عقیدہ کی روسے
احمدیوںکے سِواباقی تمام لوگ جہنمی ہیں۔یہ بھی محض ناواقفیت یا دشمنی کانتیجہ ہے ۔ہماراہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ احمدیوں کے سواباقی تمام لوگ جہنمی ہیں ۔ہمارے نزدیک یہ ہوسکتاہے کہ کو ئی احمدی ہو لیکن وہ جہنمی ہوجائے جس طرح یہ بھی ہوسکتاہے کہ کوئی احمدی نہ ہواوروہ جنت میں چلاجائے کیونکہ جنت صر ف منہ کے اقرارکانتیجہ نہیں جنت بہت سی ذمہ واریوں کوپوراکرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے۔ اسی طرح دوزخ صرف منہ کے انکار کانتیجہ نہیں بلکہ دوزخ کاشکار بننے کے لئے بہت سی شرطیں ہیں۔ کوئی انسان دوزخ میں نہیں جاسکتا جب تک اس پر حجت تمام نہ ہو۔ خواہ وہ بڑی سے بڑی صداقت ہی کامنکر کیوں نہ ہو ۔خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بچپن میں مرجانے والے یابلند پہاڑوں میں رہنے والے یاجنگلوں میں رہنے والے یا اتنے بڈھے جن کی سمجھ ماری گئی ہو یاپاگل جوعقل سے کورے ہوں ان لوگوں سے مؤاخذہ نہیں ہوگا بلکہ خداتعالیٰ قیامت کے دن ان لوگوں کی طرف دوبارہ نبی مبعوث فرمائے گا اوران کو سچ اورجھوٹ کو پہچاننے کاموقع دیاجائے گا ۔تب جس پر حجت تمام ہوگی وہ دوزخ میں جائے گااورجوہدایت کو قبول کرے گا وہ جنت میں جائے گا ۔پس یہ غلط ہے کہ احمدیوں کے نزدیک ہروہ شخص جو احمدیت میں داخل نہیں ہوتا دوزخی ہے۔ نجات کے متعلق ہمارایہ عقیدہ ہے کہ ہروہ شخص جو صداقت کے سمجھنے سے گریز کرتاہے اوریہ کوشش کر تاہے کہ صداقت اس کے کان میں نہ پڑے تاکہ اسے ماننی نہ پڑے یاجس پر حجت تمام ہوجائے مگرپھر بھی ایمان نہ لائے خداتعالیٰ کے نزدیک قابل مؤاخذہ ہے۔ لیکن ایسے شخص کو بھی اگر خداتعالیٰ چاہے تومعاف کرسکتاہے ۔اس کی رحمت کی تقسیم ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ ایک غلام اپنے آقا کو سخاوت سے باز نہیں رکھ سکتا ۔خداتعالیٰ ہماراآقا ہے اورہمارابادشاہ ہے اورہماراخالق ہے اور ہمارامالک ہے۔ اگراس کی حکمت اوراس کاعلم اوراس کی رحمت کسی ایسے شخص کوبھی بخشنا چاہے جس کی عام حالات کے مطابق بخشش ناممکن نظر آتی ہو توہم کون ہیں جواس کے ہاتھ کو روکیں اورہم کو ن ہیں جو اس کو بخشش سے باز رکھیں۔
نجات کے متعلق تو احمدیت کا عقیدہ اتنا وسیع ہے کہ اس کی وجہ سے بعض مولویوں نے احمدیوں پرکفر کافتوی لگایاہے یعنی ہم لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی انسان بھی دائمی عذاب میں مبتلا نہیں ہو گا، نہ مؤمن نہ کافر۔ کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۵؎ میری رحمت نے ہرچیز کااحاطہ کیا ہوا ہے اور پھر فرماتا ہے کہ ۶؎کافراوردوزخ کی آپس کی نسبت ایسی ہوگی جیسے عورت اوراس کے بچہ کی ہوتی ہے اور پھر فرماتا ہے کہ ۷؎ تمام جن و انس کو میں نے اپنا عبد بنانے کے لئے پیداکیا ہے۔ ان اورایسی ہی اوربہت سی آیات کے ہوتے ہوئے ہم کیونکر مان سکتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی رحمت آخر دوزخیوں کو نہیں ڈھانپ لے گی اور دوزخی جہنم کے رحم سے کبھی بھی خارج نہ ہوگااوروہ بندے جن کو خداتعالیٰ نے اپنا عبد بنانے کے لئے پیداکیاتھا وہ دائمی طورپر شیطان کے عبد رہیں گے اورخداتعالیٰ کے عبد نہیں بنیں گے اورخداتعالیٰ کی محبت بھری آواز کبھی بھی ان کو مخاطب کرکے یہ نہیںکہے گی کہ۸؎ آئو میرے بندوں میں داخل ہوکر میری جنت میں داخل ہوجائو!
احمدیوں کا احادیث پرایمان
بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ احمدی حدیثوںکونہیں مانتے اوربعض لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ احمدی اَئمہ فقہاء کو
نہیںمانتے۔ یہ دونوں باتیں غلط ہیں ۔احمدیت تقلیدو عدمِ تقلید کے مسئلہ میں بین بین راہ اختیار کرتی ہے ۔ احمدیت کی تعلیم یہ ہے کہ جوبات محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اس کے بعد کسی اورانسان کی آواز کوسننا محمد رسول اللہ کی ہتک ہے۔آقاکے ہوتے ہوئے کسی غلام کی آواز نہیں سنی جاسکتی ۔ اُستاد کی موجودگی میں کسی شاگرد سے سبق نہیں لیاجاسکتا۔اَئمہ فقہاء خواہ کتنے بڑے ہوں ،بہرحال محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں ۔ان کی تمام عزت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں تھی اور ان کی تمام شان محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں تھی۔ پس جب کوئی بات رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوجائے اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ جو قول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیاجائے قرآن کریم کے مطابق ہو تووہ بات ایک آخری فیصلہ ہے ایک نہ ٹلنے والاحکم ہے اورکوئی شخص اس بات کاحق نہیں رکھتا کہ وہ اس حکم کو ردّ کردے یااس کے خلاف زبا ن کھولے لیکن چونکہ حدیث کے راوی انسان ہیں اوران میں نیک بھی ہیں اوربد بھی ہیں اوراچھے حافظوں والے بھی ہیں اور بُرے حافظوں والے بھی ہیں اوراچھے ذہن والے بھی ہیں اورکند ذہن بھی ہیں ۔اگرکوئی ایسی حدیث ہو جس کامفہوم قرآن کریم کے خلاف ہو توچونکہ ہرایک حدیث قطعی نہیں بلکہ خود اَئمہ حدیث کے مسلّمات کے مطابق بعض حدیثیں قطعی ہیں، بعض عام درجہ کی ہیں، بعض مشکوک اورظنّی ہیں اور بعض وضعی ہیں اس لئے قرآن کریم جیسی قطعی کتاب کے مقابلہ میں جوحدیث آجائے گی اس کوتسلیم نہیں کیاجائے گا۔ مگرجہاں قرآن کریم کی بھی کو ئی نصِّ صریح موجود نہ ہو اورحدیث بھی ایسے ذرائع سے ثابت نہ ہو جویقین اورقطعیت تک پہنچاتے ہوں یاحدیث کے الفاظ ایسے ہوں کہ ان سے کئی معنی نکل سکتے ہوں تو اُس وقت یقیناً اَئمہ فقہاء جنہوں نے اپنی عمریں قرآن کریم پر اور احادیث پر غور اورتدبّر کرنے میںصرف کردی ہیں اجتہاد کرنے کے مستحق ہیں اورایک عامی آدمی جس نے نہ قرآن پر غور کیا ہے نہ حدیث پر غور کیا ہے یاجس کاعلم اورتفقّہ اِس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ غور کرسکے اس کاحق نہیں کہ وہ یہ کہے کہ امام ابوحنیفہؒ یاامام احمدؒیاامام شافعیؒ یاامام مالکؒ یادوسرے اَئمۂ دین کو کیاحق ہے کہ ان کی بات کو مجھ سے زیادہ وز ن دیا جائے۔ میں بھی مسلمان ہوں اوروہ بھی مسلمان۔ اگرایک عامی آد می اورایک ڈاکٹر کامرض کے متعلق اختلاف ہوتو ایک ڈاکٹر کی رائے کو عامی کی رائے پر ترجیح دی جاتی ہے اورقانون میں اختلاف ہو تو ایک وکیل کی رائے کو غیر وکیل کی رائے پرترجیح دی جاتی ہے۔پھر کیا وجہ ہے کہ دینی معاملات میں ان اَئمہ کی رائے کوترجیح نہ دی جائے جنہوں نے اپنی عمریں قرآن کریم اور حدیث پر تدبّر کرنے میں صرف کردی ہوں اورجن کے ذہنی قویٰ بھی دوسرے لاکھوں آدمیوں سے اچھے ہوں اورجن کے تقوٰی اورجن کی طہارت پر خدائی سلوک نے مہر لگادی ہو۔
غرض احمدیت نہ کلّی طورپر اہل حدیث کی بات کی تائید کرتی ہے نہ کلی طور پر مقلّدین کی تائید کرتی ہے۔ احمدیت کاسیدھا سادہ عقیدہ اس بار ہ میں وہی ہے جو حضرت امام ابوحنیفہؒ کاتھا کہ قرآن کریم سب سے مقدم ہے اِس سے اُترکر احادیث صحیحہ ہیں اور اس سے اُترکر ماہرین فن کا استدلال اوراجتہاد ہے ۔اسی عقیدہ کے مطابق احمدی بعض دفعہ اپنے آپ کو حنفی بھی کہتے ہیں جس کے معنی یہ بھی ہوتے ہیں کہ امام ابوحنیفہؒ نے جو اصل مذہب کابیان فرمایاہے ہم اس کو صحیح تسلیم کرتے ہیںاور بعض دفعہ احمدی اپنے آپ کو اہل حدیث بھی کہہ دیتے ہیں کیونکہ احمدیت کے نزدیک محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاقول جب وہ ثابت اورروشن ہوتمام بنی نوع انسان کے اقوال پر فوقیت رکھتاہے ،حتی کہ تمام اَئمہ کے مجموعی اقوال پربھی فوقیت رکھتاہے۔
احمدیوں کاتقدیر کے متعلق عقیدہ
ان غلط فہمیوں میں سے جوناواقفوں کوجماعت احمدیہ کے متعلق ہیں ایک غلط فہمی یہ بھی ہے کہ احمدی لوگ
تقدیر کے منکر ہیں ۔احمدی لوگ تقدیر کے ہرگز منکر نہیں۔ہم لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خداتعالیٰ کی تقدیر اِس دنیا میں جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی اوراس کی تقدیر کوکوئی بدل نہیں سکتاہم صرف اس بات کے خلاف ہیں کہ چو ر کی چوری، بے نماز کے ترکِ نماز، جھوٹے کے جھوٹ، دھوکے باز کے دھوکے، قاتل کے قتل اوربدکار کی بدکاری کوخداتعالیٰ کی طرف منسوب کیاجائے اوراپنے منہ کی سیاہی خداتعالیٰ کے منہ پرملنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں تقدیر اورتدبیر کی دونہریں ایک وقت میں چلائی ہیں اور ۹؎ کے ارشاد کے مطابق ان کے درمیان ایک ایسی حدِفاصل مقررکردی ہے کہ یہ کبھی آپس میںٹکراتی نہیں۔تدبیر کامیدان اپنی جگہ پر ہے اورتقدیر کامیدان اپنی جگہ پرہے ۔جن امورکے لئے خداتعالیٰ نے اپنی تقدیرکو لازم قراردیاہے ان میں تدبیر کچھ نہیں کرسکتی اورجن امور کے لئے اُس نے تدبیر کارستہ کھولاہے ان میں تقدیر پرامید لگاکربیٹھے رہنا اپنے مستقبل کو خود تباہ کرناہے۔ پس ہم جس بات کے مخالف ہیں وہ یہ ہے کہ انسان اپنی بداعمالیوں کوتقدیر کے پردہ میں چھپانے کی کوشش کرے اور اپنی سستیوں اور غفلتوں کاجواز تقدیر کے لفظ سے نکالے اورجہاں خداتعالیٰ نے تدبیر کاحکم دیاہے وہاں تقدیر پرآس لگائے بیٹھارہے کیونکہ اسکانتیجہ ہمیشہ خطرناک نکلتا ہے۔ مسلمان خدائی تقدیر پر نظر رکھ کربیٹھے رہے اور اس جدوجہد کوانہوں نے ترک کردیا جوقومی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے اس کانتیجہ یہ ہواکہ وہ دین سے توگئے تھے ، دنیاسے بھی گذرگئے ۔اگروہ اس امر کومدنظر رکھتے کہ جن کاموں کے لئے خداتعالیٰ نے تدبیر کادروازہ کھولاہے ان میں تقدیر کومدنظر رکھنے کی بجائے تدبیر کومدنظر رکھناچاہئے تو ان کی حالت اتنی نہ گرتی اوروہ اتنے زبوں حال نہ ہوتے جتنے کہ اب ہیں۔
احمدیوںکاجہادکے متعلق عقیدہ
احمدیت کے متعلق جو غلط فہمیاں ہیںان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ احمدی جہاد کے منکر ہیں۔یہ درست نہیں ،
احمدی جہاد کے منکر نہیں۔ احمدیوں کاعقیدہ صرف یہ ہے کہ جنگیں دوقسم کی ہوتی ہیں ایک جہاد اورایک محض جنگ۔جہاد صرف اُس جنگ کو کہتے ہیں جس میں مذہب کے بچانے کے لئے لڑائی کی جائے اورایسے دشمنوں کامقابلہ کیاجائے جو مذہب کو تلوار کے زورسے مٹاناچاہتے ہیں اور جو خنجر کی نوک سے عقیدہ تبدیل کرواناچاہتے ہیں۔اگردنیا میں ایسے واقعات ظاہر ہوں تو جہاد ہرمسلمان پر فرض ہوجاتاہے مگرایسے جہاد کے لئے ایک یہ بھی شرط ہے کہ اس جہاد کااعلان امام کی طرف سے ہوناچاہئے تامسلمانوں کو معلوم ہوسکے کہ ان میں سے کن کن کو جہاد میں شامل ہوناچاہئے اورکن کن کو اپنی باری کاانتظا رکرناچاہئے۔اگرایسانہ ہوتوایسے جہاد کے موقع کے آنے پر جومسلمان بھی جہادمیں شامل نہ ہوگا وہ گنہگارہوگا لیکن اگر امام ہوتووہی مسلمان گناہگار ہوگا جس کو جہاد کے لئے بُلایاجائے اور وہ نہ آئے ۔جب احمدی جماعت کسی ملک میں جہاد کاانکارکرتی تھی تواِس لئے کرتی تھی کہ مذہب کو بزورِ شمشیر بدلوانے کی کوشش انگریز نہیں کر رہے تھے۔ اگراحمدی جماعت کایہ خیا ل غلط تھا او رواقعہ میں انگریز شمشیر سے مذہب کو بدلوانے کی کوشش کررہے تھے توپھر یقینا جہاد واجب تھا مگر سوال یہ ہے کہ کیا جہاد کے واجب ہوجانے کے بعد ہرمسلمان نے تلوار اُٹھاکرانگریز کامقابلہ کیا؟ اگرنہیں کیاتواحمدی تو خداتعالیٰ کویہ جواب دیں گے کہ ہمارے نزدیک ابھی جہاد کاوقت نہیں آیاتھااگرہم نے غلطی کی تو ہماری غلطی اجتہادی تھی لیکن ان کے مخالف مولوی کیاجواب دیں گے ۔کیاوہ یہ کہیں گے کہ اے خدا! جہاد کاوقت توتھا اورہم یقین رکھتے تھے کہ یہ جہاد کاوقت ہے اورہم سمجھتے تھے کہ جہاد فرض ہوگیاہے لیکن اے ہمارے خدا! ہم نے جہاد نہیں کیا کیونکہ ہمارے دل ڈرتے تھے اورنہ ہم نے ان لوگوں کو جہاد کے لئے آگے بھجوایاجن کے دل نہیں ڈرتے تھے ،کیونکہ ہم ڈرتے تھے کہ ایساکرنے سے بھی انگریز ہم کو پکڑ لیں گے ۔میں یہ فیصلہ منصف مزاج لوگوں پر ہی چھوڑتاہوں کہ ان دونوں جوابوں میں سے کونساجواب خداتعالیٰ کے نزدیک زیادہ قابل قبول ہے؟
اب تک توجوکچھ میں نے کہاوہ ان لوگوں کے وساوس کو دور کرنے کے لئے کہا ہے جواحمدیت کاسرسری مطالعہ بھی نہیں رکھتے اور جواحمدیت کے پیغام کے اس کے دشمنوںسے سنتے یا بغیر احمدیت کامطالعہ کرنے کے اپنے دلوں سے احمدیت کے عقائد اوراحمدیت کی تعلیم بنانا چاہتے ہیں ۔اب میں ان لوگوں کو مخاطب کرناچاہتاہوں جنہوں نے احمدیت کاایک حد تک مطالعہ کیا ہے اورجوجانتے ہیں کہ احمدی خداتعالیٰ کی توحید پر یقین رکھتے ہیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ قرآن کریم کو بھی مانتے ہیں۔ حدیث کوبھی مانتے ہیں۔نمازیں بھی پڑھتے ہیں۔روزے بھی رکھتے ہیں۔ حج بھی کرتے ہیں۔زکوٰۃ بھی دیتے ہیں۔ حشر و نشر اور جزاء و سزا پر بھی ایمان رکھتے ہیں ۔لیکن وہ حیران ہیں کہ جب احمدی دوسرے مسلمانوں کی طرح ہیں توپھر اس نئے فرقہ کو قائم کرنے کی ضرورت کیاہے؟ان کے نزدیک احمدیوں کاعقیدہ اوراحمدیوںکاعمل قابل اعتراض نہیں لیکن ان کے نزدیک ایک نئی جماعت بناناقابل اعتراض امر ہے ۔کیونکہ جب فرق کوئی نہیں توافتراق کرنے کی وجہ کیا ہوئی اورجب اختلاف نہیں تودوسری مسجد بنانے کامقصد کیاہوا؟
نئی جماعت بنانے کی وجہ
اس سوال کا جواب دو طرح دیا جا سکتا ہے۔ عقلی طور پر اور روحانی طور پر۔ عقلی طور پر اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ
جماعت صرف تعداد کا نام نہیں۔ ہزار ،لاکھ یا کروڑ افراد کو جماعت نہیں کہتے بلکہ جماعت ان افراد کے مجموعہ کوکہتے ہیں جو متحد ہو کر کام کرنے کا فیصلہ کرچکے ہوں اور ایک متحدہ پروگرام کے مطابق کام کررہے ہوں۔ ایسے افراد اگر پانچ سات بھی ہوں تو جماعت ہے اور جن میں یہ بات نہ ہو وہ کروڑوں بھی جماعت نہیں ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں نبوت کا دعویٰ کیا تو پہلے دن آپؐ پر صرف چار آدمی ایمان لائے تھے آپؐ پانچویں تھے ۔باوجود پانچ ہونے کے آپ ایک جماعت تھے مگر مکہ کی آٹھ دس ہزار کی آبادی جماعت نہیں تھی نہ عرب کی آبادی جماعت تھی ۔کیونکہ نہ انہوں نے متحد ہو کر کا م کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور نہ ان کا کوئی متحدہ پروگرام تھا۔ پس اِس قسم کا سوال کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اِس وقت مسلمان کوئی جماعت ہیں؟ کیا دنیا کے مسلمان تمام معاملات میں آپس میں مل کر کام کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں یا ان کا کوئی متحد ہ پروگرام ہے ؟ جہاں تک ہمدردی کا سوال ہے میں مانتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے متعلق ہمدردی ہے مگر وہ بھی سارے مسلمانوں میں نہیں ۔کچھ کے دلوں میں ہے اور کچھ کے دلوں میں نہیں اور پھر کوئی ایسا نظام موجود نہیں جس کے ذریعہ سے اختلاف کو مٹا یا جا سکے۔ اختلاف تو جماعت میں بھی ہوتا ہے بلکہ نبیوں کے وقت کی جماعت میں بھی ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی بعض دفعہ انصاراورمہاجرین کا اختلاف ہوگیااوربعض دفعہ بعض دوسرے قبائل میں اختلاف ہوگیا لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تو اُس وقت سب اختلاف مٹ گیا۔ اسی طرح خلافت کے ایام میں بھی اختلاف پیداہوجاتاتھا لیکن جب کوئی اختلاف پیداہوتاخلفاء فیصلہ کرتے اوروہ اختلاف مٹ جا تا ۔ خلافت کے ختم ہونے کے بعدبھی کوئی ۷۰ سال مسلمان ایک حکومت کے نیچے جہاں جہاں بھی مسلمان تھے وہ ایک نظام کے تابع تھے۔ وہ نظام بُرا تھا یا اچھا تھا بہرحال اس نے مسلمانوں کو ایک رشتہ سے باندھ رکھاتھا۔اس کے بعد اختلاف ہوااورمسلمان دوگروہوںمیں تقسیم ہوگئے۔ سپین کاایک حلقہ بن گیااورباقی دنیا کاایک حلقہ بن گیا۔ یہ اختلاف توتھا مگر بہت ہی محدود اختلاف تھا۔ دنیا کے مسلمانوں کا بیشتر حصہ پھر بھی ایک نظام کے نیچے چل رہا تھا۔ مگر تین سَو سال گذرنے کے بعد یہ انتظام ایساٹوٹاکہ تمام مسلمانو ں میں اختلاف پیداہوگیااوران میں تشتّت اورپراگندگی پیداہوگئی۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ خَیْرُ الْقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَفْشُوْا الْکَذِبُ۱۰؎ سب سے اچھی صدی میری ہے ان سے اُترکروہ لوگ ہوں گے جودوسری صدی میں ہوں گے اوران سے اُتر کر وہ لوگ ہوں گے جوتیسری صدی میں ہوں گے ۔پھر دنیا میں سے سچائی مٹ جائے گی اورظلم و تشدد اور اختلاف کادَوردَورہ ہوجائے گا اور ایساہی ہوااور پھر یہ اختلاف بڑھتاچلاگیا یہا ں تک کہ گذشتہ تین صدیوں میں تومسلمان اپنی طاقت بالکل ہی کھو بیٹھے۔کجا وہ وقت تھاکہ یورپ ایک ایک مسلمان بادشاہ سے ڈرتاتھا اوراب یورپ اورامریکہ کی ایک ایک طاقت کامقابلہ کرنے کی سکت سارے عالم اسلام میں بھی نہیں۔ یہودیوں کی کتنی چھوٹی سی حکومت فلسطین میں بنی ہے۔ شام، عراق، لبنان، سعودی عرب، مصر اورفلسطین کی فوجیں اس کامقابلہ کررہی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یو۔ این۔ اونے جو علاقہ یہودیوں کو دیا تھا اُس سے بہت زیادہ اِس وقت یہودیوں کے قبضہ میں ہے ۔یہ درست ہے کہ یہودی حکومت کی مدد امریکہ اور انگلستان کر رہے ہیں لیکن سوال بھی تویہی ہے کہ کبھی تومسلمانوں کی ایک ایک حکومت سارے مغرب پر غالب تھی اوراب مغرب کی بعض حکومتیں سارے مسلمانوں سے زیادہ طاقتور ہیں۔
پس جماعت کا جومفہوم ہے اس وقت اس کے مطابق مسلمانوں کی کوئی جماعت نہیں۔ حکومتیں ہیں جن میں سے سب سے بڑی پاکستان کی حکومت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب قائم ہوئی ہے ۔لیکن اسلام پاکستان کانام نہیں۔نہ اسلام مصرکانام ہے۔ نہ اسلام شام کانام ہے۔ نہ اسلام ایران کانام ہے۔ نہ اسلام افغانستان کانام ہے۔ نہ اسلام سعودی عرب کانام ہے۔ اسلام تو اُس رشتہ ٔوحدت کانام ہے جس نے سارے مسلمانوں کویکجا کر دیا تھا اور ایسا کوئی انتظام اِس وقت دنیا میں موجود نہیں ۔ پاکستان کو افغانستان سے ہمدردی ہے افغانستان کو پاکستان سے ہمدردی ہے لیکن نہ پاکستان افغانستان کی ہربات ماننے کے لئے تیار ہے نہ افغانستا ن پاکستان کی ہربات ماننے کے لئے تیارہے۔دونوں کی سیاست الگ الگ ہے اور دونوں اپنے اندرونی معاملات میں آزاد ہیں ۔ یہی حال افرادکا ہے افغانستان کے باشندے اپنی جگہ پر آزاد ہیں ۔پاکستان کے باشندے اپنی جگہ پر آزاد ہیں ۔مصر کے باشندے اپنی جگہ پر آزاد ہیں۔ ان کو ایک لڑی میں پرونے والی کو ئی چیز نہیں۔ پس اِس وقت مسلمان بھی ہیں، مسلمانوں کی حکومتیں بھی ہیںاوران میں سے بعض حکومتیں خداتعالیٰ کے فضل سے مضبوط ہورہی ہیں لیکن پھر بھی مسلمان ایک جماعت نہیں۔ فرض کرو پاکستان کا بیڑہ اتنامضبوط ہوجائے کہ تمام بحر الہندمیں حکومت کرنے لگ جائے۔ اِس کی فوج اتنی مضبوط ہو جائے کہ ہندوستان یونین اس سے کانپنے لگ جائے۔ اِس کی اقتصادی حالت اتنی بڑھ جائے کہ دنیا کی منڈیوں پر اِس کاقبضہ ہوجائے بلکہ اِس کی طاقت اتنی بڑھ جائے کہ امریکہ کی طاقت سے بھی بڑھ جائے توکیاایران،شام ،فلسطین اورمصر اپنے آپ کو پاکستان میں مدغم کرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ وہ پاکستان کی عظمت کااقرار کرنے کے لئے تیار ہوں گے، وہ اس سے ہمدردی کرنے کے لئے تیار ہوں گے مگروہ اپنی ہستی کو اس میں مٹادینے کے لئے تیارنہیں ہوں گے۔ پس گوخداتعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کی سیاسی حالت بہتر ہورہی ہے اور بعض نئی اسلامی حکومتیں قائم ہورہی ہیں لیکن باوجود اس کے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک اسلامی جماعت نہیں کہہ سکتے۔کیونکہ وہ مختلف سیاستوں میں بٹے ہوئے ہیں اورالگ الگ حکومتوں میں تقسیم ہیں۔ان سب کی آواز کو ایک جگہ جمع کردینے والی کوئی طاقت نہیں۔ مگراسلام توعالمگیر ہونے کادعویٰ کرتاہے ۔اسلام عرب کے مسلمانوں کانام نہیں۔ اسلام شام کے مسلمانوں کانام نہیں۔اسلام ایران کے مسلمانوں کانام نہیں۔اسلام افغانستان کے مسلمانوں کا نام نہیں۔ جب دنیا کے ہرملک کے مسلمان اسلام کے نام کے نیچے جمع ہوجاتے ہیں تو اسلامی جماعت وہی ہوسکتی ہے جوان سارے گروہوں کو اکٹھاکرنے والی ہو اورجب تک ایسی جماعت دنیا میں قائم نہ ہو ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اِس وقت مسلمانوں کی کوئی جماعت نہیں گو حکومت ہے اور سیاست ہے۔
اسی طرح متحدہ پروگرام کاسوال ہے۔ جہاں ایساکوئی انتظام نہیں جوساری دنیا کے مسلمانوں کواکٹھاکرسکے وہاں مسلمانوں کاکوئی متحدہ پروگرام بھی نہیں۔ نہ سیاسی نہ تمدنی نہ مذہبی۔ منفردانہ طور پرکسی کسی جگہ پر کسی مسلمان کادشمنانِ اسلام سے مقابلہ کر لینایہ اورچیز ہے اور متحدہ طور پر ایک مخصوص نظام کے ماتحت چاروں طرف سے دشمن کے حملہ کاجائزہ لے کر اس کے مقابلہ کی کو شش کرنایہ الگ بات ہے ۔پس پروگرام کے لحاظ سے بھی مسلمان ایک جماعت نہیں۔ ایسی صورت میں اگرکوئی جماعت قائم ہو اورمذکورہ بالادونوں مقاصد کو لے کر قائم ہو تو اس پر یہ اعتراض نہیںکیاجاسکتاکہ وہ ایک نئی جماعت بن گئی ہے بلکہ یوں کہناچاہئے کہ پہلے کوئی جماعت نہیں تھی اب ایک جماعت بن گئی ہے۔
میں ان دوستوں سے جن کے دلوں میں یہ شبہ پیداہوتاہے کہ باوجود ایک نماز، ایک قبلہ، ایک قرآن اور ایک رسول ہونے کے پھر احمدی جماعت نے الگ جماعت کیوں بنائی، کہتاہوں کہ وہ اس نکتہ پر غور کریں او ر سوچیں کہ اسلام کو پھر ایک جماعت بنانے کاوقت آ چکا ہے اس کام کے لئے کب تک انتظار کیاجائے گا؟ مصر کی حکومت اپنی جگہ پر کام اپناکررہی ہے۔ ایران کی حکومت اپنی جگہ پر اپنا کام کررہی ہے افغانستان کی حکومت اپنی جگہ پر اپناکام کررہی ہے ۔دیگر اسلامی حکومتیں اپنی اپنی جگہ پر اپناکام کررہی ہیں لیکن ان کی موجود گی میں بھی ایک خلاباقی ہے۔ایک کمی باقی ہے اوراسی خلااورکمی کو پوراکرنے کے لئے احمدیہ جماعت قائم ہوئی ہے۔
جب خلافتِ ترکیہ کو ترکوں نے ختم کر دیا تو مصر کے بعض علماء نے (بعض راز داروں کے قول کے مطابق شاہ مصر کے اشارہ سے) ایک تحریکِ خلافت شروع کی اوراس تحریک سے اس کا منشاء یہ تھا کہ شاہِ مصر کوخلیفۃ المسلین تصورکرلیاجائے اوراس طرح مصر کو دوسرے ممالک پر فوقیت حاصل ہوجائے۔ سعودی عرب نے اس کی مخالفت شروع کی اوریہ پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ یہ تحریک انگریزوں کی اُٹھائی ہوئی ہے اگرکوئی شخص خلافت کامستحق ہے تووہ سعودی عرب کابادشاہ ہے ۔جہاں تک خلافت کاتعلق ہے وہ یقینا ایک ایسارشتہ ہے جس سے سب مسلمان اکٹھے ہوجاتے ہیں لیکن جب یہ خلافت کالفظ کسی خاص بادشاہ کے ساتھ مخصوص ہونے لگا تو دوسرے بادشاہوں نے فوراً تاڑ لیا کہ ہماری حکومت میں رخنہ ڈالاجاتاہے اوروہ مفید تحریک بیکار ہوکر رہ گئی ۔ لیکن اگریہی تحریک عوام میں پیداہواورمذہبی روح اس کے پیچھے کام کررہی ہو توسیاسی رقابت اس کے رستہ میں حائل نہیں ہوگی۔صرف جماعتی رقابت اس کے رستہ میں روک بنے گی۔ سیاسی رقابت کی وجہ سے ایسی تحریک اُسی ملک میں محدود ہوکر رہ جائے گی جس کی حکومت اُس کی تائید میں ہوگی لیکن جماعتی مخالفت کی صورت میں وہ کسی ملک میں محدود نہیں رہے گی۔ہرملک میں جائے گی اورپھیلے گی اور اپنی جڑیں بنائے گی بلکہ ایسے ملکوں میں بھی جاکر کامیاب ہوگی جہاں اسلامی حکومت نہیں ہوگی کیونکہ سیاسی ٹکرائو نہ ہونے کی وجہ سے ابتدائی زمانہ میں حکومتیں اس کی مخالفت نہیں کریں گی چنانچہ احمدیت کی تاریخ اس بات کی گوا ہ ہے۔ احمدیت کامنشاء محض مسلمانوں کے اند راتحاد پیداکرناتھا ۔وہ بادشاہت کی طالب نہیں تھی۔ وہ حکومت کی طالب نہیں تھی ۔انگریزوں نے اپنے ملک میں بعض دفعہ احمدیت کو تکلیفیں بھی پہنچائی ہیں لیکن اس کے خالص مذہبی ہونے کی وجہ سے اس سے کھلے بندوں ٹکرانے کی ضرورت نہیں سمجھی ۔افغانستان میں ملانوں سے ڈر کر بعض دفعہ بادشاہوں نے سختیاںکیں لیکن پرائیویٹ ملاقاتوں میں اپنی معذوریاں بھی ظاہر کرتے رہے اور اظہارِ ندامت بھی کرتے رہے ۔اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک میں عوام الناس نے مخالفت کی ۔علماء نے مخالفت کی اور ان سے ڈر کر حکومت نے بھی بعض دفعہ روکیں ڈالیں۔ لیکن کسی حکومت نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ تحریک ہماری حکومت کا تختہ اُلٹنے کے لئے قائم ہوئی ہے اوریہ ان کاخیال درست تھا۔
احمدیت کو سیاست سے کوئی غرض نہیں۔ احمدیت صرف اس غرض کے لئے کھڑی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی دینی حالت کو درست کرے اورانہیں ایک رشتہ میں پروئے تاکہ وہ مل کر اسلام کے دشمنوں کا اخلاقی اورروحانی ہتھیاروں سے مقابلہ کرسکیں ۔ اسی بات کو سمجھتے ہوئے امریکہ میں احمدی مبلغ گئے۔ جس حد تک وہ ایشیائیوں کی مخالفت کرتے ہیں انہوں نے احمد ی مبلغوں کی مخالفت کی۔ لیکن جہاں تک مذہبی تحریک کاسوال تھا اس کے مدنظر انہوں نے مخالفت نہیں کی۔ ڈچ حکومت نے انڈونیشیا میں بھی اسی طریق سے کام لیا ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سیاست میں یہ ہمارے ساتھ نہیں ٹکراتے تو گوانہوں نے مخفی نگرانیاں بھی کیں، بے اعتنائیاں بھی کیں مگرکھلے بندوں احمدیت سے ٹکرانے کی ضرورت نہیں سمجھی اوراس رویہ میں وہ بالکل حق بجانب تھے۔ بہرحال ہم ان کے مذہب کے خلاف تبلیغ کرتے تھے اس لئے ہم اُن سے کسی ہمدردی کے امیدوار نہیں تھے مگرہم اُن کی سیاست سے بھی براہِ راست نہیں ٹکراتے تھے اس لئے ان کابھی یہ کوئی حق نہیں تھا کہ ہم سے براہِ راست ٹکراتے۔ اس کانتیجہ یہ ہواکہ اب جماعت احمدیہ قریباً ہر ملک میں قائم ہے ۔ ہندوستان میں بھی ۔افغانستان میں بھی۔ ایران میں بھی۔ عراق میں بھی۔ شام میں بھی۔ فلسطین میں بھی۔ مصر میں بھی۔ اٹلی میں بھی ۔سوئٹزرلینڈ میں بھی۔ جرمنی میں بھی۔انگلینڈ میں بھی ۔یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں بھی۔ انڈونیشیا، ملایا، ایسٹ اور ویسٹ افریقہ، ایبے سینیا، ارجنٹائن غرض ہرملک میں تھوڑی یابہت جماعت موجود ہے اوران ممالک کے اصلی شہریوں میں سے جماعت موجود ہے ۔یہ نہیں کہ وہاں کے بعض ہندوستانی احمدی ہوگئے ہوں اور وہ ایسے مخلص لوگ ہیں کہ اپنی زندگیاںاسلام کی خدمت کے لئے قربان کررہے ہیں۔ایک انگریز لیفٹیننٹ اپنی زندگی وقف کرکے اِس وقت مبلغ کے طور پر انگلستان میں کام کررہاہے۔ باقاعدہ نمازی ہے۔شراب وغیرہ کے قریب نہیں جاتا۔خود محنت مزدوری سے پیسے کما کر ٹریکٹ وغیرہ شائع کرتاہے یاجلسے کرتا ہے۔ ہم اُسے گذارہ کے لئے اتنی قلیل رقم دیتے ہیں جس سے انگلستان کا ایک چوہڑابھی زیادہ کماتا ہے۔ اسی طرح جرمنی کے ایک شخص نے زندگی وقف کی ہے۔وہ بھی فوجی افسر ہے ۔بڑی جدوجہد سے وہ جرمنی سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ابھی اطلاع آئی ہے کہ وہ سوئٹزر لینڈ پہنچ گیا ہے اور وہاں ویزا کا انتظار کررہاہے۔ یہ نوجوان اسلام کی خدمت کابے انتہاء جوش اپنے دل میں رکھتاہے اور اس لئے پاکستان آرہاہے کہ یہاں اسلام کی تعلیم پوری طرح حاصل کرکے کسی غیر ملک میں اسلام کی تبلیغ کرے ۔جرمنی کاایک اور نوجوان مصنف اور اس کی تعلیم یافتہ بیوی زندگی وقف کرنے کا ارادہ ظاہرکر رہے ہیں اور شاید عنقریب ہی وہ اس فیصلہ پر پہنچ کر پاکستان تعلیم اسلام کے لئے آجائیں گے۔اسی طرح ہالینڈ کا ایک نوجوان اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کاارادہ کرچکاہے اورغالباً جلدہی کسی نہ کسی ملک میں تبلیغ اسلام کے کام پر لگ جائے گا۔بیشک جماعت احمدیہ تھوڑی ہے لیکن دیکھنایہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے جماعت اسلامی قائم ہورہی ہے ۔ ہرملک میں کچھ نہ کچھ افراد اس میں شامل ہوکر ایک عالمگیر اتحاد کی بنیاد رکھ رہے ہیں اور ہر سیاست کے ماننے والے لوگوں میں سے کچھ نہ کچھ آدمی ا س میں شامل ہو رہے ہیں ۔ایسی تحریکوں کی ابتداء شروع میں چھوٹی ہی ہواکرتی ہے۔ لیکن ایک وقت میں جاکروہ ایک فوری قوت حاصل کرلیتی ہیں اورچنددنوں میں اتحاد اور اتفاق کابیج بونے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ سیاسی طاقت کے لئے سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے اور مذہبی اوراخلاقی طاقت کے لئے مذہبی اوراخلاقی جماعتوں کی ضرورت ہے۔ جماعت احمدیہ سیاست سے اسی لئے الگ رہتی ہے کہ اگروہ ان باتوں میں دخل دے تو وہ اپنے کام میں سست ہوجائے ۔
جماعت احمدیہ کاپروگرام
دوسراسوال پروگرام کارہا۔پروگرام کے لحاظ سے بھی جماعت احمدیہ ہی ایک متحدہ پروگرام رکھتی ہے اورکوئی
جماعت متحدہ پروگرام نہیں رکھتی ۔ جماعت احمدیہ عیسائیت کے حملہ کاپورااندازہ لگاکرہرملک میں اس کامقابلہ کررہی ہے۔ اِس وقت دنیا کاسب سے کمزور خطہ اوربعض لحاظ سے سب سے طاقتور خطہ افریقہ ہے ۔عیسائیت نے اِس وقت ساری طاقت سے افریقہ میں دھاوابول دیا ہے اب توکھلے بندوں وہ اپنے ان ارادوں کااظہارکررہے ہیں ،اس سے پہلے صرف پادریوں کا ذہن اِدھر جا رہا تھا۔ پھر انگلستان کی کنسرویٹو پارٹی۱۱؎ ادھر مائل ہوئی اوراب تو لیبر پارٹی نے بھی اعلان کردیاہے کہ یو رپ کی نجات کادارومدار افریقہ کی ترقی اوراس کی تنظیم پر ہے مگریورپ سمجھتاتھاکہ یہ ترقی اورتنظیم اسی صورت میں یورپ کے لئے مفید ہوسکتی ہے جبکہ اس کے باشندے عیسائی ہوجائیں ۔احمدیت نے اس راز کو چوبیس سال پہلے بھانپ لیا اورچوبیس سال پہلے اپنے مبلغ وہاںبھجوادیئے جہاں ہزاروں ہزار آدمی عیسائیت سے نکل کر مسلمان ہوگئے اور اِس وقت افریقہ میں سب سے منظم اسلامی جماعت احمدیت کی ہے جس کا مقابلہ کرنے سے عیسائیوں نے گریز کرناشروع کردیاہے اوران کے لٹریچر میں متواتراس بات کااظہار کیا جا رہا ہے کہ احمدیہ جماعت کی مساعی نے عیسائی مشنریوں کی کوششوں کو باطل کر دیاہے۔یہی تبلیغی سلسلہ مشرقی افریقہ میں بھی سالہاسال سے جاری ہے اورگووہاں کام کی ابتداء ہے اوراس وجہ سے نتائج ابھی اتنے شاندار نہیں جتنے مغربی افریقہ میں ہیں لیکن پھر بھی عیسائیوں میں سے کچھ لوگ مسلمان ہونے شروع ہوگئے ہیں اورامید ہے کہ چندسال میں یہاں بھی مبلغوں کی کوششیں اعلیٰ نتائج پیداکرنے لگ جائیں گی۔ انڈونیشیا اور ملایا میں بھی ایک لمبے عرصہ سے مشن قائم ہیں اور اسلام کے بھاگتے ہوئے گروہوں کوٹھہرانے، جمع کرنے اور اکٹھا کرکے دشمن کے مقابل پر کھڑاکرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔یونائٹیڈ سٹیٹس امریکہ عیسائی طاقتوں میں سے اب سب سے آگے آچکی ہے۔ وہاں بھی چوبیس سال سے احمدی مبلغ کام کررہے ہیںاورہزاروں باشندے امریکہ کے احمدی ہوچکے ہیںاورہزار ہاروپیہ سالانہ تبلیغ اسلام پرخرچ کررہے ہیں۔ امریکہ کی دولت کے مقابلہ میں یہ کچھ بھی نہیں اوروہاں کے پادریوں کی کوششوں کے مقابلہ میں یہ بالکل حقیر کوشش ہے لیکن سوال تویہ ہے کہ مقابلہ شروع کر دیا گیاہے اورفتح ہم کو ہورہی ہے۔ کیونکہ ہم عیسائی جماعت کے آدمی چھین کر اپنی طرف لا رہے ہیں ۔عیسائی جماعت ہمارے آدمی چھین کرنہیں لے جارہی۔ پس یہ نہیں کہناچاہئے کہ احمدیت نے ایک نئی جماعت کیوں قائم کی ہے۔ کہنایہ چاہئے کہ احمدیت نے ایک جماعت قائم کردی جبکہ اس سے پہلے کوئی جماعت نہیں تھی اور کیا یہ قابل اعتراض بات ہے یا قابل تعریف بات ہے؟
احمدیوںکودوسری جماعتوں سے علیحدہ رکھنے کی وجہ
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسی کسی جماعت کے بنانے کی
ضرورت کیاتھی؟ یہی باتیں دوسرے مسلمانوں میں پھیلائی جانی چاہئے تھیں۔اس کاعقلی جواب یہ ہے کہ ایک کمانڈر اُنہی لوگوں کو لڑائی میں بھیج سکتاہے جوفوج میں بھرتی ہوچکے ہوں جولوگ فوج میں بھرتی نہیں وہ ان کو بھیج کس طرح سکتاہے ؟اگرجماعت ہی کوئی نہ بنائی جاتی توبانی سلسلہ احمدیہ کس سے کام لیتااورکس کوحکم دیتا او ران کے خلفاء کس سے کام لیتے اورکس کو حکم دیتے۔کیاوہ بازار میں پھرناشروع کرتے اورہرمسلمان کو پکڑ کرکہتے کہ آج فلاںجگہ اسلام کے لئے ضرورت ہے تووہاں جااور وہ آگے سے یہ جواب دیتاکہ میں توآپ کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں، اورپھر وہ اگلے آدمی کو جاپکڑتے او رپھراس سے اگلے آدمی کو جا پکڑتے۔ یہ ایک عقلی حقیقت ہے کہ جب کو ئی منظم کام کرناہوتواس کے لئے ایک جماعت کی ضرور ت ہوتی ہے بغیر ایسی جماعت کے کوئی منظم کام نہیں ہوسکتا۔اگرکہوکہ جماعت توبناتے لیکن سب میں ملے جلے رہتے۔ تواس کاجواب یہ ہے کہ جان کوجوکھوں میں ڈالنے والے کاموں کے لئے ہرشخص کہاں تیار ہوتاہے ۔ایسے کام تودیوانے ہی کیاکرتے ہیں اوردیوانوں کو ہوشیاروں سے الگ رکھناضروری ہوتاہے ۔اگرہوشیار دیوانوں کو بھی اپنے جیسابنالیں گے توپھرایسے کام کو کون کرے گا۔ نیز دوسروں سے الگ رہنا خود بخود طبائع میں استعجاب پیدا کرتا ہے اور آپ ہی آپ لوگ اس کی کرید اور تجسس شروع کرتے ہیں اور آخر ایک دن اسی چیز کاشکار ہوجاتے ہیں جس کو مٹانے کے لئے وہ آگے بڑھتے ہیں ۔پس سارے اعتراضا ت قلت تدبر کانتیجہ ہیں۔ اگر عقل سے کام لیاجائے توسمجھ آسکتاہے کہ اصل میں وہی طریقہ درست ہے جو احمدیت نے اختیار کیا ہے ۔اسی صحیح طریقے پر عمل کرکے وہ اسلام کے لئے قربانی کرنے والوں کی ایک جماعت پیداکرسکی ہے اورجب تک وہ اِس طریق پر عمل کرتی رہے گی روزبروز ایسے افراد کی تعداد کو بڑھاتی چلی جائے گی یہاں تک کہ کفرمحسوس کرے گاکہ اب اسلام طاقت پکڑ گیا ہے اوروہ اسلام پر اپنی ساری طاقت کے ساتھ حملہ کرے گا مگرحملے کاوقت گذر چکاہوگا ۔میدان اسلام ہی کے ہاتھ رہے گا اورکفرشکست کھاجائے گا۔
ہم سیاسی جدوجہدکرنے والوں کے رستہ میں روک نہیں بنتے ہم ان سے کہتے ہیں کہ جب تک تمہاری سمجھ میں ہماری باتیں نہ آئیں تم اپناکام کرتے چلے جائو۔لیکن ہم ان سے یہ بھی خواہش کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے رستہ سے نہ روکیں۔ اگرکسی کی سمجھ میں ان کاطریقہ اچھامعلوم ہوتاہے تووہ ان سے جاملے اوراگرکسی کی سمجھ میں ہماراطریقہ اچھامعلوم ہوتاہے تووہ ہم میں آملے۔ان کے طریقہ میں قربانی کم اورشہرت زیادہ ہے اورہمارے طریقہ میں قربانی زیادہ اورشہرت کم ہے ۔ ان کو ان کاحصہ ملتارہے گااورہم کوہماراحصہ ملتارہے گا ۔جن لوگوں کی نگاہ میں مغز اورحقیقت کے لحاظ سے اسلام کاقیام زیادہ ضروری ہوگا وہ ہم میں آملیں گے اورجو لو گ ظاہری بادشاہت کے شیدائی ہوں گے، وہ اُن میں جاملیں گے ۔لیکن ہم لڑیں کیوں اور جھگڑیں کیوں؟ دونوں ہی غم ملت میں تڑپ رہے ہیں۔گوجداجدااعضاء میں ٹیس اُٹھ رہی ہے۔ ان کے دماغوں میں درد ہے، ہمارے دل اذیت پارہے ہیں۔یہ تومیں نے عقلی نقطۂ نگاہ سے جواب دیا ہے ۔اب میں روحانی نقطۂ نگاہ سے جواب دیتا ہوں اورمیرے نزدیک وہی حقیقی نقطۂ نگاہ ہے۔
اس سوال کاروحانی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت ہے کہ جب کبھی دنیا میں خرابی پھیل جاتی ہے ، روحانیت اس سے مفقود ہوجاتی ہے، لوگ دنیا کودین پرمقدم کرنے لگ جاتے ہیں توا س وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت اورراہنمائی کے لئے آسمان سے کسی مأمور کومبعوث فرماتاہے تاکہ اس کے کھوئے ہوئے بندوں کو پھر اس کی طرف واپس لائے اور اس کے بھیجے ہوئے دین کو پھر دنیا میں قائم کرے۔ بعض دفعہ یہ مأمورین شریعت ساتھ لاتے ہیں اوربعض دفعہ کسی پہلی شریعت کے قائم کرنے کیلئے آتے ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی اِس سنت پر خاص طور پرزور دیا گیا ہے اورباربار بنی نوع انسان کواللہ تعالیٰ کے اس رحم اور کرم کی شناخت کی طرف متوجہ کیاگیاہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خداتعالیٰ بہت بڑی شان رکھتاہے اورانسان اس کے مقابلہ میں ایک کیڑے سے بھی بدتر ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام کام حکمت سے پُر ہوتے ہیں اوروہ کوئی کام بھی بِلاوجہ اوربغیر فائدہ کے نہیں کرتا ۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتاہے۱۲؎ یعنی ہم نے یہ زمین اورآسمان یونہی نہیں پیداکئے بلکہ ان کی پیدائش میں غرض رکھی ہے اوروہ غرض یہی ہے کہ انسان خداتعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرے اوراس کامظہر بن کر دنیا کے اُن لوگوںکو جو بلندپروازی کی طاقت نہیں رکھتے خداتعالیٰ سے روشناس کرے۔ابتدائے آفرینش سے لے کر اِس وقت تک خداتعالیٰ کی یہی سنت جاری رہی ہے اورمختلف اوقات میں خداتعالیٰ نے اپنے مختلف مظاہر اس دنیا میں مبعوث فرمائے ۔کبھی خداتعالیٰ کی صفات آدمؑ کے ذریعہ سے جلوہ گر ہوئیں۔ کبھی نوحؑ کے ذریعہ سے جلوہ گرہوئیں، کبھی ابراہیمی ؑ جسم میں سے وہ ظاہر ہوئیں تو کبھی موسوی جسم سے ہویدا ہوئیں، کبھی دائود ؑنے خداتعالیٰ کاچہرہ دنیا کودکھایاتوکبھی مسیحؑ نے اللہ تعالیٰ کے انوار کو اپنے وجود میں ظاہر کیا، سب سے آخر او رسب سے کامل طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو اجمالاً اورتفصیلاً انفرادی حیثیت سے بھی اوراجتماعی حیثیت سے بھی ایسی شان اورایسے جلال کے ساتھ دنیا پر ظاہر کیا کہ پہلے انبیاء آپ کے شمسی وجودکے آگے ستاروں کی مانند ماند پڑ گئے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام شریعتیں ختم ہوگئیں اورتمام شریعت لانے والے انبیاء کی آمد کارستہ بند کردیاگیا۔کسی جنبہ داری کی وجہ سے نہیں، کسی لحاظ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ رسول کریم ﷺ ایسی شریعت لائے جو تمام ضرورتوںکی جامع اورتمام حاجتوں کوپوراکرنے والی تھی۔ جو چیز خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والی تھی وہ تو پوری ہوگئی لیکن بندوں کے متعلق کوئی ضمانت نہیں تھی کہ وہ صحیح رستہ کو نہیں چھوڑ یں گے اوراس سچی تعلیم کونہیں بھولیں گے بلکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا تھا کہ ۱۳؎ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اس آخری کلام اور اپنی اس آخری شریعت کو آسمان سے زمین پر قائم کردے گااور لوگوں کی مخالفت اس کے رستہ میں روک نہیں بنے گی۔ مگرپھر ایک عرصہ کے بعد یہ کلام آسمان پر چڑھنا شروع ہوگا اورایک ہزار سال میں یہ دنیا سے اُٹھ جائے گا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قیامِ دین کے زمانہ کوتین سَو سال کا عرصہ قرار دیتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی جاچکی ہے اور قرآن کریم بھی الٓمرٰ کے ذریعہ سے ۲۷۱ سال کاعرصہ اس زمانہ کو قرا ر دیتا ہے۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہزار سال تک دین کے آسمان پر چڑھنے کے عرصہ کو ملایاجائے تویہ ۱۲۷۱ہوتاہے گویادنیا سے اسلام کی روح کے غائب ہوجانے کازمانہ قرآن کریم کی روسے ۱۲۷۱سال ہے یاتیرھویں صدی کا آخر۔ جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتاہے ایسے زمانہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے ضرور ایک ہادی اور راہنما آیا کرتا ہے تاکہ دنیا ہمیشہ کے لئے شیطان کے قبضہ میں نہ چلی جائے اورخداتعالیٰ کی حکومت ابدی طور پر دنیاسے مٹ نہ جائے ۔پس ضروری تھا کہ اِس زمانہ میں خداتعالیٰ کی طر ف سے کوئی شخص آتا۔وہ کوئی ہوتامگرآناضرو رتھا۔یہ کس طرح ہوسکتاتھاکہ آدمؑ کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیداہوئی توخداتعالیٰ نے ان کی خبرلی۔ نوحؑ کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیداہوئی توخداتعالیٰ نے ان کی خبرلی۔ ابراہیم ؑ کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیداہوئی توخداتعالیٰ نے ان کی خبر لی۔موسیٰؑ کے اتباع میں خرابی پیداہوئی توخداتعالیٰ نے ان کی خبر لی، عیسیٰؑ کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیداہوئی توخداتعالیٰ نے ان کی خبر لی لیکن سیدالانبیاء حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں خرابی پیداہوتوخداتعالیٰ اس کی خبر نہ لے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے متعلق تویہ پیش گو ئی تھی کہ چھوٹے چھوٹے مفاسد کودور کرنے کے لئے آپ کی اُمت میں ہرصدی کے سرپرایک مجدّد مبعو ث ہواکرے گا ۔ کیاکوئی عقل اس کو تسلیم کرسکتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے مفاسد کودورکرنے کیلئے توخداتعالیٰ کی طرف سے مجددین ظاہرہوتے رہیں جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اِنََّ اللّٰہَ یَبْعَثُ لِھٰذِہِ الْاُمَّۃِ عَلٰی رَأْسِ کُلِّ مِائَۃِ سَنَۃٍ مَّنْ یُّجَدِّدُلَھَادِیْنَھَا۱۴؎ لیکن اس عظیم الشان فتنہ کے موقع پر جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب سے دنیا میںانبیاء آنے لگے ہیں وہ اس فتنہ کی خبردیتے چلے آئے ہیں، کوئی مأمو رنہ آئے، کوئی ہادی نہ آئے، کو ئی راہنمانہ آئے، مسلمانوں کو دین حقہ پر جمع کرنے کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے کوئی آواز بلند نہ کی جائے، مسلمانوں کو تاریکی اور ظلمت کے گڑھے میں سے نکالنے کیلئے آسمان سے کوئی رسّی نہ گرائی جائے۔ وہ خدا جو ابتدائے عالم سے اپنے رحم وکرم کے نمونے دکھاتاچلاآیاہے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اس کے رحم اورکرم کے دریا میں مزید جوش پیداہوگیاہے نہ کہ اس کا رحم اورکرم مٹ گئے ہیں۔ اگر خداتعالیٰ کبھی بھی رحیم تھا تو اُمت محمدیہ کیلئے اس کو پہلے سے زیادہ رحیم ہونا چاہیے، اگر خداتعالیٰ کبھی بھی کریم تھا تو اُمتِ محمدیہ کے لیے اُس کو پہلے سے زیادہ کریم ہوناچاہئے اور یقینا وہ ایساہی ہے ۔قرآن کریم اوراحادیث اس پر شاہد ہیں کہ اُمتِ محمدیہ میں جب کبھی خرابی پیداہوگی خداتعالیٰ اپنی طرف سے ہادی اورراہنما بھجواتا رہے گا۔ خصوصاً اِس آخری زمانہ میں جبکہ دجال کافتنہ ظاہرہوگا۔عیسائیت غالب آجائے گی ۔اسلام ظاہری طور پر مغلوب ہوجائے گا اورمسلمان دین کو چھوڑ بیٹھیں گے اوردوسری اقوام کے رسم و رواج کو اختیارکرلیں گے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاایک کامل مظہر ظاہر ہوگا اوراس زمانہ کی اصلاح کرے گا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَایَبْقیٰ مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اِسْمُہٗ وَلَایَبْقیٰ مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہٗ ۱۵؎ یعنی اسلام کاصرف نام باقی رہ جائے گا اورقرآن کی صرف تحریررہ جائے گی اسلام کامغز کہیں نظر نہ آئے گااور قرآن کے معنی کسی پرروشن نہ ہو ں گے۔
پس اے عزیزو!سلسلہ احمدیہ کاقیام اسی سنتِ قدیمہ کے ماتحت ہواہے اورانہی پیشگوئیوں کے مطابق ہواہے جورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ سے پہلے انبیاء نے اِس زمانہ کے متعلق بیان فرمائی ہیں۔اگرمرزاصاحب کاانتخاب اس کام کے لئے مناسب نہ تھا تو یہ خداتعالیٰ پر الزام ہے، مرزاصاحب کااس میں کیاقصورہے ۔لیکن اگرخداتعالیٰ عالم الغیب ہے اورکوئی راز اس سے پوشیدہ نہیں اوراس کے تمام کام حکمتوں سے پُرہوتے ہیں توپھر سمجھ لیناچاہئے کہ مرزاغلام احمد علیہ الصلوٰۃ والسلام کاانتخاب ہی صحیح انتخاب تھااورانہی کے ماننے میں مسلمانوں اور دنیا کی بہتری ہے۔آپ کو ئی نیا پیغام دنیا کیلئے نہیں لائے مگروہی پیغام جو محمدرسول اللہ ﷺنے دنیا کو سنایا تھا مگر دنیا اُسے بھول گئی، وہی پیغام جوقرآن کریم نے پیش کیاتھا مگردنیا نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیااور وہ یہی پیغام ہے کہ تمام کائنات کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے۔ اس نے انسان کو اپنی محبت اور تعلق کے لئے پیداکیاہے۔ اپنی صفات کو اس کے ذریعہ سے ظاہرکرنے کے لیے اسے بنایا ہے۔ جیساکہ وہ فرماتا ہے ۱۶؎ پس آدمؑ اوراس کی نسل خداتعالیٰ کی خلیفہ یعنی اس کی نمائندہ ہے وہ خداتعالیٰ کی صفات کو دنیا پر ظاہر کرنے کیلئے پیداکی گئی ہے ۔پس تما م بنی نو ع انسان کایہ فرض ہے کہ وہ اپنی زندگیوںکو خداتعالیٰ کی صفات کے مطابق بنائیں اور جس طرح ایک نمائندہ اپنے تمام کاموں میں اپنے مؤکّل کی طرف بار بارمتوجہ ہوتاہے اورایک غلام ہرنیا قدم اُٹھانے سے پہلے اپنے آقاکی طرف دیکھتا ہے اسی طرح انسان کابھی فرض ہے کہ وہ خداتعالیٰ کے ساتھ ایساتعلق پیداکرے کہ خداتعالیٰ اس کی ہردم اورہرکام میں راہنمائی کرے اورتمام چیزوں سے زیادہ وہ اس کا محبوب ہو اور تمام باتوں میں وہ اس پر توکل کرنے والاہواور اسی فرض کو پوراکروانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دنیا میں آئے۔ ان کایہ کام تھاکہ وہ دنیادار لوگوں کودیندار بنائیں۔ اسلام کی حکومت دلوں پر قائم کریں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر اپنے روحانی تخت پر بٹھائیں جس تخت پر سے اُتارنے کے لئے شیطانی طاقتیں اندونی اور بیرونی حملے کر رہی ہیں۔
اِ س غرض کو پوراکرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے سب سے پہلا کام یہ کیاکہ مسلمانوں کو قشرکی بجائے مغز کی طرف توجہ دلائی اوراِس بات پر زوردیا کہ احکام کاظاہر بھی نہایت اہم اورضروری ہے لیکن بغیر باطن کی طرف توجہ کرنے کے انسان کوئی ترقی نہیں کرسکتا۔چنانچہ آپ نے ایک جماعت قائم کی اورعہد بیعت میں یہ شرط مقرر کی کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا ۔درحقیقت یہی مرض تھی جو مسلمانوںکو گھن کی طرح کھارہی تھی۔ باوجود اس کے کہ دنیا ان کے ہاتھوں سے چھٹ چکی تھی پھر بھی دنیا ہی کی طر ف ان کی توجہ جاتی تھی۔ اسلام کی ترقی کے معنی ان کے نزدیک بادشاہتوں کاحصول رہ گیاتھا اوراسلام کی کامیابی کے معنی ان کے نزدیک مسلمان کہلانے والوں کی تعلیم اور ان کی تجارت کی ترقی تھی حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں اس لئے نہیں آئے تھے کہ لوگ مسلمان کہلانے لگ جائیں بلکہ آپ لوگوں کو حقیقی مسلمان بنانے کے لئے آئے تھے جس کی تعریف قرآن کریم نے یہ فرمائی ہے کہ ۱۷؎ وہ اپنے سارے وجود کو خداتعالیٰ کے لئے وقف کر دے اور اپنی دُنیوی حاجات کو دینی حاجات کے تابع کردے ۔ بظاہر یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً اسلام اوردیگر ادیان میں یہی فرق ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم علم حاصل نہ کرو۔ نہ یہ کہتاہے کہ تم تجارتیں نہ کرو۔ نہ یہ کہتاہے کہ صنعت و حرفت نہ کرو ۔نہ یہ کہتاہے کہ تم اپنی حکومت کی مضبوطی کی کوشش نہ کرو۔ وہ صرف انسان کے نقطۂ نگاہ کو بدلتاہے دنیامیں تمام کاموں کے دونقطۂ نگاہ ہوتے ہیں۔ایک قشر سے مغز حاصل کرنے کانقطۂ نگاہ ہوتاہے اورایک مغز سے قشر حاصل کرنے کانقطۂ نگاہ ہوتاہے ۔جوشخص قشر سے مغز حاصل کرنے کی امید رکھتاہے ضروری نہیں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے بلکہ اکثر وہ ناکام رہتاہے لیکن جو شخص مغز حاصل کرتاہے اس کوساتھ ہی قشر بھی مل جاتاہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اتباع کی تمام جدوجہد دین کے لئے تھی لیکن یہ نہیں کہ وہ دُنیوی نعمتوں سے محروم ہوگئے ہوں۔یہ توایک طبعی امر ہے جن لوگوں کو دین ملے گا دنیا لونڈی کی طرح ان کے پیچھے دوڑتی آئے گی ۔لیکن دنیا کے ساتھ دین کاملنا ضروری نہیں،بسااوقات وہ نہیں ملتا۔ بسا اوقات رہاسہادین بھی ہاتھو ں سے جاتارہتاہے۔
پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے انبیاء کے طریق پر چلتے ہوئے خداتعالیٰ کے حکم سے دین پر زور دیناشروع کیا۔جس وقت آپ ظاہر ہوئے مسلمانوں میں دوقسم کی تحریکیں جاری تھیں۔ایک تحریک یہ تھی کہ مسلمان کمزور ہوچکے ہیں اس لئے انہیں دُنیوی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔دوسری تحریک آپ نے چلائی کہ ہم کو دین کی طرف توجہ کرنی چاہئے ،اس کالازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا اللہ تعالیٰ ہمیں خود دیدے گا۔
بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ آپ کی تحریک بھی ویسی ہی ہے جیسے آجکل کے صوفیاء وغیرہ کی تحریک ہوتی ہے کہ وہ ظاہر ی طورپر نما ز روزہ پر زور دیتے ہیں اوراچھے بھلے آدمیوں کو خلوت میں بٹھاکر پردہ نشین عورتوں کی طرح بنادیتے ہیں ۔اگرآپ ایساکرتے تویقینا آپ بھی مغز کے نام سے ایک قشر کے حصول کی تحریک کرتے مگرآپ نے ایسانہیں کیا ۔ آپ نے جہاں دینی احکام پر زور دیا وہاں اِس بات پر بھی زور دیا کہ دین اللہ کی طرف سے اس لئے آیا کرتا ہے کہ وہ انسان کے ذہن کو جلابخشے اور اُس کے دماغ کو منور کرے اور اُس کی عقل کو تیز کرے۔ آپ نے کہا جوشخص سچے طورپر دین پر عمل کرتاہے اوربناوٹ سے کام نہیں لیتا ،دین اُس کے اندر اخلاقِ فاضلہ پیداکرتاہے ۔دین اُس کے اندرقوتِ عملیہ پیداکرتاہے اوردین اُس کے اندر ایثار اورقربانی کامادہ پیداکرتاہے ۔آپ نے فرمایاکہ تم دین کو اختیار کرو۔تم نمازیں پڑھو، تم روزے رکھو، حج کرو، زکوٰۃ دو لیکن وہ نمازیں پڑھو جو قرآن نے بتائی ہیں اوروہ روزے رکھو جو قرآن نے بتائے ہیں اوروہ حج کرو جو قرآن نے بتایاہے اوروہ زکوٰ ۃ دوجو قرآن نے بتائی ہے ۔قرآن کریم تم سے اُٹھک بیٹھک کامطالبہ نہیں کرتا ۔نہ وہ تم سے بھوکے رہنے کامطالبہ کرتاہے ۔نہ اپنا ملک بے فائدہ چھوڑنے کامطالبہ کرتاہے ،نہ اپنا مال گنوانے کا مطالبہ کرتا ہے۔ قرآن کریم تو نماز کے متعلق یہ فرماتا ہے کہ ۱۸؎ نماز تم سے فحشاء اور منکر کو ترک کروادیتی ہے پس اگروہ نتیجہ نہیں نکلتاجونماز کا قرآن کریم نے بتایاہے توتمہاری نماز نماز نہیں ہے اور روزے کے متعلق قرآن کریم فرماتاہے کہ۱۹؎ روزہ اس لئے مقرر کیاگیاہے تاتمہارے اندر تقویٰ اور اخلاقِ فاضلہ پیداہوں۔پس اگر تم روزے رکھتے ہواوریہ نتیجہ پیدانہیں ہوتا تومعلوم ہواکہ تمہاری نیت درست نہیں اورتم روزہ نہیں رکھتے بلکہ تم اپنے آپ کو بھوکارکھتے ہواورخداتعالیٰ کوتمہارابھوکارکھناتومطلوب نہیں۔اور حج کے لیے فرماتاہے کہ یہ بغاوت کے خیالات کو روکنے اورباہمی جھگڑوں کو دورکرنے کاذریعہ ہے۔ پس حج رفث اورفسق اور جدال کو روکنے کے لیے ہے۔ اور زکوٰۃ کے لیے فرماتا ہے۲۰؎ زکوٰۃ تزکیہ فرد و قوم اور تطہیر قلب وافکار کے لئے مقررکی گئی ہے ۔پس جب تک یہ نتائج پیدانہ ہوں تمہاراحج اورتمہاری زکوٰۃ صرف دکھاوے کے ہیں ۔پس تم نماز پڑھو، روزہ رکھو، حج کرو، زکوٰۃ دومگرتمہاری نماز اور روزے اورحج کو میں تب تسلیم کروںگا جب ان کانتیجہ نکلے۔ اورتم فحشاء و منکر سے بچو اور تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو اور رفث اور فسوق اورجدال سے کلی طور پر دور ہو جائو اورتزکیہ فردوقوم اورتطہیر قلب و افکار تم کوحاصل ہو لیکن جس شخص کے اند ریہ نتیجہ پیدانہیں ہوگا میں اُسے اپنی جماعت میں نہیںسمجھوں گا کیونکہ اس نے قشر کو اختیار کیامغز کو اختیار نہیں کیاجو خداتعالیٰ کا مقصود تھا ۔اسی طرح تمام باقی عبادات کے متعلق آ پ نے مغز پر زور دیا اور فرمایا کہ اسلام کا کوئی حکم ایسانہیں جو حکمت کے بغیر ہو۔خداتعالیٰ آنکھوںکونظر نہیں آتا۔ خداتعالیٰ دل کو نظر آتاہے ۔خد اتعالیٰ کوہاتھوں سے نہیں چھواجاتا،خداتعالیٰ کومحبت سے چھوا جاتا ہے۔ پس مذہب کی غرض یہ نہیں کہ وہ صرف آنکھ اورہاتھ پر حکومت کرے بلکہ جب بھی وہ آنکھ اور ہاتھ پر حکومت کرتاہے تووہ دل اور جذبات کو صاف کرنے کے لئے حکومت کرتاہے تاکہ وہ قوتیں انسان کے اند رپیداہوں جن سے وہ خداتعالیٰ کودیکھ سکے اورجن سے وہ خداتعالیٰ کو چھو سکے اوروہ قوتیں پیداہوں کہ جن سے وہ خداتعالیٰ کی آواز کو سن سکے۔غرض ان باتوں پر زور دے کر آپ نے ایک راستہ اسلام کی ترقی کے لئے کھول دیا اورنتیجہ یہ ہواکہ گو ایک چھوٹی سی جماعت پیداہوئی مگرایک جماعت ایسی پیداہوگئی جس نے دین کو دنیا پر مقدم کرلیا اور اسلام کی روحانی ترقی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بادشاہت کے قیام کے لئے ہرقسم کی قربانی کرنی شروع کردی ۔
آپ لوگ سوچیں تو سہی کہ کہاں احمدیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت اور کہاں تمام مسلمانوں کا عظیم الشان گروہ لیکن اسلام کی اشاعت او راس کی ترقی کے لئے جو کچھ احمدیہ جماعت کررہی ہے کیاباقی مسلمان جو ان سے ہزاروں گنا زیادہ ہیں ان سے نصف یاچوتھا حصہ بھی کررہے ہیں ؟آخر یہ تبدیلی کیوں ہوئی؟اسی لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے احمدیوں پر زور دیاتھا کہ وہ دین کودنیاپرمقدم کریں۔ یہ حقیقت احمدیوں پر کھل گئی تو ان کے اعمال ایک نئے قسم کے اعمال ہوگئے ۔ایک سچے احمدی کی نماز وہ نماز نہیں جیسی ایک عام مسلمان نماز پڑھتاہے۔ شکل وہی ہے ،کلمات وہی ہیں لیکن مغز اورہے۔ احمدی نماز کو نماز کی خاطر پڑھتاہے اورخداتعالیٰ کے ساتھ تعلق بڑھانے کے لئے پڑھتاہے ۔شاید کو ئی کہے کہ کیاباقی لوگ خداتعالیٰ کے ساتھ اپناتعلق بڑھانے کے لئے نماز نہیں پڑھتے ؟ میراجواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں۔اگرآپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس وقت مسلمانوں میں بدقسمتی سے یہ خیال پیداہوچکا ہے کہ خداتعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق پیداہوہی نہیں سکتا ۔مسلمانوں کوعام طو رپر یہ غلطی لگ رہی ہے کہ نہ خداتعالیٰ آج بندوں سے بولتاہے اورنہ بندے خداتعالیٰ سے کوئی بات منوا سکتے ہیں۔ایک صدی سے زیادہ عرصہ گذراکہ الہامِ الٰہی کے نزول سے مسلمان منکرہوچکے ہیں۔ بیشک اس سے پہلے مسلمانوں میں وہ لوگ موجود تھے جوکلامِ الٰہی کے نازل ہوتے رہنے کے قائل تھے۔ قائل ہی نہیں وہ اس بات کے بھی مدعی تھے کہ خداتعالیٰ ان سے باتیں کرتاہے لیکن ایک صدی سے مسلمانوں پر یہ آفت نازل ہوئی ہے کہ وہ کلی طور پر کلامِ الٰہی کے جاری رہنے سے منکرہوگئے بلکہ بعض علماء نے تواس حقیقت کے اظہارکو کفر قرار دے دیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا کہ مجھ سے خداتعالیٰ باتیں کرتاہے اورمجھ سے ہی نہیں بلکہ جو شخص میری اتباع کرے گا اور میرے نقش قدم پر چلے گااورمیری تعلیم کومانے گا اور میری ہدایت کو قبول کرے گاخداتعالیٰ اس سے بھی باتیں کرے گا۔ آپ نے متواترخدائی کلام کو دنیا کے سامنے پیش کیااوراپنے ماننے والوں میں تحریک کی کہ تم بھی خداتعالیٰ کے ان انعامات کو حاصل کرنے کی کو شش کرو۔ آپ نے فرمایا مسلمان پانچ وقت خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگتا ہے کہ ۲۱؎ اے خدا! تو ہمیں سیدھا رستہ دکھاان لوگوں کارستہ جن پر تونے انعام نازل کئے تھے یعنی سابق انبیاء کرام ۔پھر یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ اس کی یہ دعاہمیشہ ہمیش کے لئے رائیگاں جاتی اور خداتعالیٰ مسلمانوں میں سے کسی کے لیے بھی وہ رستہ نہ کھولتا جو پہلے نبیوں کے لئے کھولاگیاتھا اورکسی شخص سے بھی اس طرح کلام نہ کرتا جس طرح پہلے نبیوں سے کلام کرتاتھا ۔اس طرح آپ نے اس جمود کو کُلّی طور پر دور کردیا جو مسلمانوں کے دلوں پر طاری تھا۔میں نہیں کہتاکہ ہر احمدی مگر میں یہ ضرور کہتاہوں کہ ہروہ احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مقصد کو پوری طرح سمجھ گیاوہ نماز کو اس طرح نہیں پڑھتا کہ گو یا وہ ایک فرض اداکررہاہے ۔وہ نماز کو اس طرح پڑھتاہے کہ گویاوہ خداتعالیٰ سے کچھ لینے گیا ہے ۔وہ خداتعالیٰ سے ایک نیاتعلق پیدا کرنے کے لئے گیا ہے اوراس اراد ہ کے ساتھ جو شخص نماز پڑھے گا ،سمجھ میں آسکتاہے کہ اس کی نماز اور دوسرے لوگوں کی نماز یکساں نہیں ہوسکتی۔ آپ نے خداتعالیٰ کے تعلق پر اس حد تک زوردیا کہ فرمایاکہ میرے دعوے کے ماننے کے لئے خداتعالیٰ نے بہت سے دلائل دیئے ہیں۔مگرمیں تمہیں یہ نہیں کہتاکہ تم ان دلائل کو سوچو اوران پر غو رکرو۔اگرتم ان دلائل پر سوچنے اور غورکرنے کاموقع نہیں پاتے یااس کی ضرورت نہیں سمجھتے یا یہ خیال کرتے ہو کہ شاید ہماری عقل ان باتوں کے متعلق فیصلہ کرنے میں کوئی غلطی کرجائے تومیں تمہیں اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ سے میرے متعلق دعاکرواورخداتعالیٰ سے ہدایت چاہو کہ اگریہ سچا ہے توہماری راہنمائی فرمااور اگریہ جھوٹاہے توہمیں اس سے دور رکھ اورفرمایا کہ اگر کوئی شخص سچے دل سے بغیر تعصب کے کچھ دن اس قسم کی دعاکرے گا تواللہ تعالیٰ ضرور اس کے لئے ہدایت کا رستہ کھول دے گا اورمیری صداقت اس پر روشن کردے گا۔ سینکڑوں او رہزاروں آدمی ہیں جنہوں نے اس طرح کوشش کی اورخداتعالیٰ سے روشنی پائی ۔ یہ کتنی بڑی روشن دلیل ہے۔ انسان اپنی عقل میں غلطی کرسکتاہے لیکن خداتواپنی راہنمائی میں غلطی نہیں کرسکتا اور کیسا یقین ہے اپنی سچائی پر اس شخص کو جو اپنی صداقت کے پہچاننے کے لئے اس قسم کا طریق فیصلہ دنیا کے سامنے پیش کرتاہے ۔کیاکوئی جھوٹایہ کہہ سکتا ہے کہ جائو اورخداسے میرے متعلق پوچھو؟ کیاکوئی جھوٹاشخص یہ خیال کرسکتاہے کہ اس قسم کافیصلہ میرے حق میں صادرہوگا؟ جوشخص خداکی طرف سے نہیں لیکن اس قسم کے طریق فیصلہ کو تسلیم کرتاہے وہ توگویا اپنے خلاف خود ہی ڈگری دے دیتا ہے اور اپنے پائو ںپر آپ کلہاڑی مارتاہے ۔ مگرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیشہ ہی دنیا کے سامنے یہ بات پیش کی کہ میں اپنے ساتھ ہزاروں دلائل رکھتاہوں لیکن میں کہتاہوں کہ اگرتمہاری ان دلائل سے تسلی نہیں ہوتی تونہ میری سنواور نہ میرے مخالفوں کی سنو۔ خداتعالیٰ کے پاس جائواور اس سے پوچھو کہ آیا میں سچاہوں یاجھوٹاہوں اگرخداتعالیٰ کہہ دے کہ میں جھوٹاہوں توبیشک جھوٹاہوں لیکن اگرخداتعالیٰ یہ کہے کہ میں سچاہوں تو پھر تمہیں میری سچائی کے قبول کرنے سے کیاانکار ہے؟
اے عزیزو! یہ کتناسیدھااور راستبازی کاطریق فیصلہ تھا ہزاروں نے اس سے فائدہ اُٹھایااورتمام و ہ لوگ جواس طریقِ فیصلہ کو اَب بھی قبول کریں اس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ اس طریقِ فیصلہ میں درحقیقت یہی حکمت کارفرماتھی کہ آپ سمجھتے تھے دین دنیا پر مقدم ہے۔ آپ فرماتے تھے خداتعالیٰ نے مادی چیزوں کو دیکھنے کے لئے آنکھیں دی ہیں ۔مادی چیزوں کے سمجھنے کے لئے عقل بخشی ہے اورمادی اشیاء کو دکھانے کے لئے اس نے اپنا سورج پیداکیا ہے اور ستارے پیداکئے ہیںپھر کس طرح ہوسکتاہے کہ روحانی ہدایتوں کے دکھانے کے لئے اس نے کوئی رستہ تجویز نہ کیا ہو۔یقینا جب کبھی بھی کوئی شخص اس سے روحانی چیزوں کے دیکھنے کی خواہش کرتاہے ،خداتعالیٰ اس کے لئے رستہ کھول دیتاہے وہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے۲۲؎ جو لوگ بھی ہمارے ملنے کی خواہش رکھتے ہوئے جدوجہدسے کام لیتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنا رستہ دکھادیتے ہیں۔
خلاصہ کلا م یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کاطریق اپنی جماعت کے لئے بھی کھولااوراپنے منکروں کے سامنے بھی اسی طریق کو پیش کیا۔ ہمارا خدا ایک زندہ خداہے۔وہ اب بھی کارخانۂ عالم چلارہاہے دنیاکابھی اوردین کا بھی۔ ایک مؤمن کیلئے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس سے تعلق پیداکرے اوراس کے قریب ہوتا چلا جائے اوروہ شخص جس پر ہدایت ظاہر نہیں ہوئی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے ہی روشنی چاہے اوراسی کی مدد سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے ۔پس اصل کام اوراصل پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کایہی تھا کہ وہ دنیا کی اصلاح کریں اور بنی نوع انسان کو پھر خداتعالیٰ کی طرف لے جائیں اور جو لوگ خداتعالیٰ کے ملنے سے مایوس ہیں ان کے دلوں میں خداتعالیٰ کی ملاقات کایقین پیداکریں اوراس قسم کی زندگی سے لوگوں کو روشناس کریں جو موسیٰ اورعیسیٰ علیہماالسلام اوردوسرے انبیاء کے زمانہ میں لوگوں کو نصیب تھی۔
اے عزیزو!پرانی کتابیں پڑھ کردیکھو ۔پھرخود اپنے اسلاف کی تاریخ دیکھوکیاا ن لوگوں کی زندگیاں مادی تھیں؟کیاان کے کام صرف مادی تدابیر سے چلتے تھے؟ وہ لوگ خداتعالیٰ کی محبت کے حاصل کرنے کے لئے رات دن تڑپتے تھے اوران میں سے کامیاب لوگ خداتعالیٰ کے معجزات اورنشانات سے حصہ پاتے تھے اوریہی وہ زندگی تھی جو ان کو دوسری قوموں کے لوگوں سے ممتاز کرتی تھی لیکن آج وہ کونساامتیاز ہے جو مسلمانوں کو ہندوئوں اور عیسائیوں اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں حاصل ہے؟ اگرکوئی ایساامتیاز نہیںتوپھر اسلام کی ضرورت کیا ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایساامتیاز ہے لیکن مسلمانوں نے اسے بھلادیااوروہ امتیاز یہ ہے کہ اسلام میں ہمیشہ کیلئے خداتعالیٰ کاکلام جاری ہے اورہمیشہ ہی خداتعالیٰ کے ساتھ براہِ راست تعلق پیداکیاجاسکتاہے ۔رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کے یہی تو معنی ہیں۔ آپ کے فیضان کے یہ معنی تونہیں ہوسکتے کہ ہم بی اے یا ایم اے کاامتحان پاس کر لیں۔ کیا ایک عیسائی بی اے یاایم اے نہیں ہوتا۔آپ کے فیضان کے یہ معنی تو نہیں ہیں کہ ہم نے کوئی بڑاکارخانہ چلا لیاہے کیاعیسائی اورہندواورسکھ ایسے کارخانے نہیں چلاتے ۔آ پ کے فیضان کے یہ معنی تونہیں کہ کوئی بڑی تجارتی کوٹھی ہم نے کھول لی اوردوردراز ملکوں میںہم نے تجارتی کاروبار جاری کردیاہے۔ یہ بھی سب ہندواورعیسائی اوریہودی کررہے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کے یہی معنی ہیں کہ آپ کے طفیل انسان کاخداتعالیٰ کے ساتھ براہِ راست تعلق قائم ہوجائے۔ انسان کادل خداتعالیٰ کو دیکھے ۔اس کی روح کااس سے اتحاد ہوجائے۔ وہ اس کا شیریں کلام سنے اورخداتعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات اورآیات اس کے لئے ظاہر ہوں۔ یہ وہ چیز ہے جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے بغیر کسی شخص کو دنیا میں نہیں مل سکتی اوریہی وہ چیز ہے جس میںمحمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع دوسری قوموں سے ممتاز ہیں۔ پس اسی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں کوتوجہ دلائی اور یہی چیز اپنے نہ ماننے والوں کے سامنے پیش کی کہ خداتعالیٰ نے یہ کھویا ہوا موتی مجھے دیاہے اوریہ ضائع شدہ متاع مجھے بخشی ہے اوریہ سب کچھ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اورآپ کی اتباع سے ملا ہے اوراس مقام پرآپ ہی کے فیضان نے مجھے پہنچایاہے۔ اس کے علاوہ او ربھی بہت سے کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئے لیکن وہ سب جزوی حیثیت رکھتے ہیں گو بہت اہم اورعظیم الشان ہیں لیکن اصل کام یہی تھا کہ آپ نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور مادیت پر روحانیت کوغالب کرنے کی مہم شروع کی اور یقینا اسلام کودوسرے ادیان پر غلبہ اسی رستہ سے ہوگا۔ہم توپوں اوربندوقوں سے اپنے ملکوں کادفاع بھی کریں گے ۔ ہم بعض بعض دشمنوں پر ان ذرائع سے غالب بھی آئیں گے لیکن ساری دنیا پر اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوگا وہ اسی روحانی طریقہ سے حاصل ہوگا جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے۔ جب مسلمان مسلمان ہوجائے گا جب وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے لگ جائے گاجب وہ روحانی اشیاء کومادی اشیاء پر فوقیت دینے لگے گا تووہ عیاشانہ زندگی جو اس وقت مغربی اقوام کی وجہ سے ہمارے ملک میں رائج ہورہی ہے آپ ہی آپ مٹ جائے گی اورانسان کسی کے کہنے کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے نفس کی خواہش کے ماتحت لغویات کوچھوڑ دے گا اورسنجیدہ زندگی بسرکرنے لگ جائے گا اوراس کی زبان میں تاثیر پیداہوجائے گی اوراس کاہمسایہ اس کے رنگ کو اختیار کرنے لگے گااورعیسائی اورہندواوردوسرے ادیان کے لوگ بھی اسی طرح جس طرح کہ مکہ کے لوگوں نے کہاتھا یہ کہناشروع کردیں گے کہ ۲۳؎ کاش! وہ مسلمان ہوتے اورپھر ہوتے ہوتے یہ قول ان کامکہ کے لوگوں کی طرح عمل میں بدل جائے گا اوروہ مسلمان ہوجائیں گے کیونکہ کوئی شخص زیادہ دیر تک اچھی بات سے دور نہیں رہ سکتا ۔پہلے رغبت پیدا ہوتی ہے، پھر لالچ آتی ہے، پھر کوشش پیداہوتی ہے اورآخر انسان کھچاکھچا اس چیز کی طرف آہی جاتاہے۔ یہی اب بھی ہوگا۔ پہلے اسلام مسلمانوںکے دلوں میں داخل ہوگا ۔پھروہ ان کے جسموں پر جاری ہوجائے گا۔ پھر غیرمسلم لوگ خود بخود ایسے کامل مسلمانوں کی نقل کرنے پرآمادہ ہو جائیں گے اوردنیا مسلمانوں سے بھر جائے گی اوراسلام سے معمور ہوجائے گی ۔
اے عزیزو! اس چھوٹے سے مضمون میں میں تفصیلی دلائل بیان نہیں کرسکتا اوراحمدیت کے پیغام کی تمام جزئیات کو آپ کے سامنے پیش نہیں کرسکتا ۔میں نے اجمالی طورپر احمدیت کی غرض اور اس کامقصد آ پ لوگوںکے سامنے رکھ دیا ہے اورمیں آپ سے درخواست کرتاہوں کہ اس مضمون پر غور کر یں اورسوچیں کہ دنیا میں کبھی بھی مذہبی تحریکیں صرف دنیوی ذرائع سے غالب نہیں ہوئیں۔ مذہبی تحریکیں اصلاحِ نفس ،تبلیغ اورقربانی ہی کے ساتھ ہمیشہ غالب آتی رہی ہیں ۔ آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک جونہیں ہواوہ اب بھی نہیں ہوگا اور جس ذریعہ سے آج تک خداتعالیٰ کے پیغام دنیا میں پھیلتے رہے ہیں اسی طرح اب بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاپیغام دنیا میں پھیلے گا ۔پس اپنی جانوں پر رحم کرتے ہوئے، اپنی اولادوں پر رحم کرتے ہوئے اپنے خاندانوں اور اپنی قوموں پر رحم کرتے ہوئے، اپنے ملک پر رحم کرتے ہوئے خداتعالیٰ کے پیغام کو سننے اورسمجھنے کی کوشش کریں تاکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے دروازے آپ کے لئے جلد سے جلد کھل جائیں اوراسلام کی ترقی پیچھے نہ پڑتی جائے ابھی بہت کام ہے جو ہم نے کرناہے ۔مگراس کیلئے ہم آپ کی آمد کے منتظر ہیںکیونکہ خدائی ترقیات علاوہ معجزات کے دین کی اشاعت کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں۔ آپ آئیں اوراس بوجھ کو ہمارے ساتھ مل کر اُٹھائیں جس بوجھ کااٹھانا اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے ۔بے شک قربانی اورایثار اور ملامت اورتعذیب ان سب چیزوں کادیکھنا اس رستہ میں ضروری ہے ،مگرخداتعالیٰ کی راہ میں موت ہی حقیقی زندگی بخشتی ہے اوراس موت کو اختیار کئے بغیر کوئی شخص خداتعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا اوراس موت کو اختیار کئے بغیراسلام بھی غالب نہیں ہوسکتا ۔ہمت کریں او رمو ت کے اس پیالہ کو منہ سے لگالیں تاکہ ہماری اور آپ کی موت سے اسلام کو زندگی ملے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادین پھر تروتازہ ہوجائے اوراس موت کو قبول کرکے ہم بھی اپنے محبوب کی گود میں ابدی زندگی کالطف اُٹھائیں۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
خاکسار
مرزا محمود احمد
امام جماعت احمدیہ
اکتوبر ۱۹۴۸ء
(الفضل ۶نومبر۱۹۴۸ء)
۱؎ البقرۃ: ۱۵۲ ۲؎ الفاتحہ: ۴ ۳؎ الاحزاب: ۴۱
۴؎ متداول: ہاتھوں میں پھری ہوئی چیز۔ دست بہ دست پہنچی ہوئی چیز
۵؎ الاعراف: ۱۵۷ ۶؎ التکاثر: ۱۰ ۷؎ الذّٰریت: ۵۷
۸؎ الفجر: ۳۰۔۳۱ ۹؎ الرحمٰن: ۲۱
۱۰؎ ترمذی ابواب الشہادات حدیث ۲۳۰۳
۱۱؎ کنسرویٹو پارٹی: (Conservative Party) برطانوی سیاسی پارٹی جو سترھویں صدی کے آخر میں ٹوری پارٹی کی جگہ برسراقتدار آئی۔ نام ابتدائً ۱۸۳۰ء میں مشہور ہوا۔ پارٹی میں ۱۸۴۶ء میں پھوٹ پڑی۔ ۱۸۷۴ء سے ۱۸۸۰ء تک دوبار برسراقتدار آئی۔ ۱۸۸۵ء سے ۱۹۰۵ء تک (معمولی وقفے کے سوا) پھر اس پارٹی کی حکومت رہی۔ جوزف چیمبرلین کی اصلاحاتِ محاصل کے بعد پارٹی انتشار کا شکار ہوئی اور ۱۹۱۴ء تک لبرل حکومت قائم رہی۔ ۱۹۲۴ء اور ۱۹۲۹ء میں لیبر پارٹی کی کامیابی کے علاوہ ۱۹۲۲ء سے ۱۹۴۰ء تک تمام عرصہ کنسرویٹوپارٹی حاوی رہی۔ دوسری عالمی جنگ میں کنسرویٹو ونسٹن چرچل نے مخلوط وزارت بنائی۔ ۵۱۔۱۹۴۵ء میں لیبر حکومت رہی اور چرچل کے زیر عنان پھر کنسرویٹو سربر آرائے سلطنت ہوئے۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ مطبوعہ لاہور۱۹۸۸ء صفحہ۱۲۲۱)
۱۲؎ الدخان: ۳۹ ۱۳؎ السجدۃ: ۶
۱۴؎ ابوداؤد کتاب الملاحم باب مایذکر فی قرن المائۃ
۱۵؎ کنز العمال جلد۱۱ صفحہ۱۸۱ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء
۱۶؎ البقرۃ: ۳۱ ۱۷؎ البقرۃ: ۱۱۳ ۱۸؎ العنکبوت: ۴۶
۱۹؎ البقرۃ: ۱۸۴ ۲۰؎ التوبۃ: ۱۰۳ ۲۱؎ الفاتحہ: ۶،۷
۲۲؎ العنکبوت: ۷۰ ۲۳؎ الحجر: ۳


ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی

اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام
(۲۰؍ دسمبر ۱۹۴۸ء)
نیاماحول اورنئی ذمہ داریاں
برادرانِ جماعت احمدیہ قادیان و ہندوستان یونین!
اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ
میں آپ لوگوں کو سالانہ جلسہ کے موقع پرحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت قائم رکھنے کی توفیق پانے پر مبارکباد دیتاہوں ۔سناگیاہے کہ ہندوستان یونین نے سَو کے قریب ہندوستانی احمدیوں کو جلسہ میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے گویہ اجازت بہت بعد میں ملی ہے اور شاید اس سے جماعت کے لوگ فائدہ نہ اُٹھاسکیں لیکن اگر بعض افراد کو اس سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق ملی ہوتومیں انہیں بھی اِس اہم موقعہ پر حصہ لینے پر مبارکباد دیتاہوں ۔
برادران! جماعتیں بڑے صدمات میں سے گذرے بغیر کبھی بڑی نہیں ہوتیں ۔قربانی کے مواقع کامیسر آنا اورپھرقربانی کرنے کی قابلیت کاظاہر کردینا ،یہی افرادکو جماعتوں میں تبدیل کردیتاہے اوراس سے جماعتیں بڑی جماعت بنتی ہیں ۔ہماری قربانیاں اس وقت تک بالکل اَور قسم کی تھیں اوران کو دیکھتے ہوئے نہیں کہاجاسکتاتھا کہ ہماری جماعت کے بڑے بننے کے امکانات موجود ہیں ۔مگراب جوقادیان کا حادثہ پیش آیاہے وہ اس قسم کے واقعات میں سے ہے جو قوموں کو بڑابنایاکرتے ہیں ۔اگراس وقت ہماری جماعت نے اپنے فرائض کو سمجھا، اور اپنی ذمہ داریوں کواداکیاتوبڑائی اورعظمت اورخدائی برکات یقینا اس کے شامل حال ہوں گی اور وہ اس کام کو پوراکرنے میں کامیاب ہوگی جو خداتعالیٰ نے اس کے سپرد کیاہے ۔
میں قادیان کے رہنے والے احمدیوںکو اس امر کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ شوروشر کازمانہ جس نے عمل کے مواقع کو بالکل باطل کردیاتھااب ختم ہورہاہے ۔ آہستہ آہستہ امن فساد کی جگہ لے رہاہے ۔بہت سی جگہوں کے راستے کھل گئے ہیں اورباقی کے متعلق امید ہے کہ آہستہ آہستہ کھل جائیں گے مگرجس رنگ میں کام چل رہاہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ ساری دنیا کی جماعت احمدیہ کاایک مرکز پر جمع ہوجاناابھی کچھ وقت چاہتاہے ۔وہ وقت لمباہویاچھوٹا لیکن بہر حال جب تک وہ وقت نہ آئے جس حد تک موجود ہ تعطل کو دور کیا جاسکے اس کادُو رکیا جاناضروری ہے ۔گذشتہ سال جو تعطل واقع ہواوہ معافی کے قابل تھاکیونکہ تمام علاقے آپس میں کٹے ہوئے تھے اورایک دوسرے تک خبر پہنچاناناممکن تھا لیکن اب وہ حالت نہیں رہی۔ اب کسی نہ کسی ذریعہ سے قادیان اورہندوستان کی جماعتوں کاتعلق قائم رکھا جا سکتاہے اورتبلیغ اوراشاعت کے کام کو بھی ہاتھوں میں لیاجاسکتاہے ۔گذشتہ ایام میں جو تباہی آئی اس موقعہ پر قادیان کے اکثر احباب نے نہایت ہی عمدہ نمونہ دکھایااورقابلِ تعریف قربانی پیش کی ۔ جس پر مَیں ہی نہیں ہندوستان اورپاکستان کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا کے دور دراز ملکوں کے لوگ بھی قادیان کے لوگوں کی قربانی کی تعریف کررہے ہیں ۔امریکہ اوریورپ کے لو گ اب قادیان کو صرف ایک مذہبی مرکز کے طور پر نہیں دیکھ رہے بلکہ قربانی کرنے والے ایثار کرنے والے اوراس دکھ بھری دنیا کو اس کے دکھوں سے نجات دینے کی کوشش کرنے والے لوگوں کامرکز سمجھ رہے ہیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے قادیان اب صرف احمدیوںکا مرکز نہیں رہا بلکہ وہ مختلف مفید عام کاموں کی خواہش رکھنے والے لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی ہوگیا ہے۔ ابھی چنددنوں کی بات ہے کہ ایک مجلس میں شامل ہونے کامجھے موقع ملا۔ میرے پاس امریکن قونصل جنرل کی بیوی تشریف رکھتی تھیں ۔مجلس سے اٹھتے وقت میں نے ان سے کہا کہ اپنے خاوندسے مجھے انٹروڈیوس کرادیں۔ انہوں نے اپنے خاوند کو مجھ سے ملوایا۔ملنے کے بعد سب سے پہلے فقرہ جو امریکن قونصل جنرل نے کہا وہ یہ تھا کہ مجھے قادیان دیکھنے کی بہت خواہش ہے افسوس ہے کہ اس وقت تک میں اس خواہش کو پورانہیں کرسکا۔مَیں نے کہاہمیں بھی بہت خواہش ہے لیکن افسوس کہ اس وقت ہم بھی اس خواہش کو پورانہیں کرسکتے ۔اسے سن کر نہایت افسوس سے امریکن قونصل جنرل نے کہا۔ہاں ہمیں بھی ا س بات کابہت افسوس ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے گواحمدیہ جماعت کی اکثریت قادیان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہے اوراب صرف چندسواحمدی قادیان میں رہ گئے ہیں لیکن قادیان پہلے سے بھی زیادہ دنیا کی توجہ کامرکز ہوگیا ہے اوراس کی وجہ وہی قربانی اورشاندار نمونہ ہے جوقادیان کے احمدیوں نے پیش کیااورآپ لوگ اس قربانی کی مثال کو زندہ رکھنے والے ہیں اوراس وجہ سے اس معاملہ میں سب سے زیادہ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔لیکن صرف کسی چیز کو زندہ رکھناکافی نہیں ہواکرتا اس چیز کو زیادہ سے زیادہ پھیلانااصل کام ہوتاہے ۔اگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم اس نورآسمانی کو اپنے دل میں زندہ رکھتے جوآسمان سے اس وقت نازل ہواتھاتویہ بھی ایک بہت بڑاکام ہوتا لیکن اتنابڑاکام نہیں جواس صورت میں ہواکہ آپؐ نے اس نور کو اپنے دل ہی میں زندہ نہیں رکھا بلکہ ہزاروں لاکھوں اَور انسانوں کوبھی اس نو رسے منور کردیا ۔صحابہ کرامؓ نے اس نور کو اپنی زندگیوں میں زندہ رکھ کر ایک بہت بڑانمونہ دکھایا لیکن ان کایہ نمونہ اس سے بھی زیادہ شاندار تھاکہ انہوں نے نورِ محمدی کاایک حصہ اپنے سینوں سے نکال کر لاکھوں اورکروڑوں دیگر انسانوں کے دلوں میں بھی بھر دیا۔ پس اے میرے عزیزو! آپ کی زندگی کا پہلا دَور ختم ہوتاہے اورنیا دور شروع کرنے کاوقت آگیا ہے ۔پہلے دور کی مثال ایسی تھی جیسے چٹان پر ایک لیمپ روشن کیاجاتاہے تاکہ وہ قریب آنے والے جہازوں کو ہوشیارکرتارہے اورتباہی سے بچائے لیکن نئے دور کی مثال اس سورج کی سی ہے جس کے گرد دنیا گھومتی ہے اورجوباری باری ساری دنیاکو روشن کر دیتا ہے۔ بیشک آپ کی تعداد قادیان میں تین سوتیرہ ہے لیکن آپ اس بات کو نہیں بھولے ہوں گے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان میں خداتعالیٰ کے بتائے ہوئے کام کو شروع فرمایاتھا تواس وقت قادیان میں احمدیوں کی تعداد صرف دوتین تھی ۔تین سَوآدمی یقینا تین سے زیادہ ہوتے ہیں ۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دعوے کے وقت قادیان کی آبادی گیارہ سَوتھی ۔گیارہ سَو اور تین کی نسبت ۳۶۶/۱ کی ہوتی ہے ۔اگر اِس وقت قادیان کی آبادی بارہ ہزار سمجھی جائے توموجودہ احمدیہ آبادی کی نسبت باقی قادیان کے لوگوں سے ۳۶؍۱ ہوتی ہے ۔گویاجس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کام شروع کیا اُس سے آپ کی طاقت اِس وقت دس گنے زیادہ ہے۔ پھر جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کام شروع کیا اس وقت قادیان سے باہرکوئی احمدیہ جماعت نہیں تھی لیکن اب ہندوستان میں بھی بیسیوں جگہ پر احمدیہ جماعتیں قائم ہیں ۔ان جماعتوں کوبیدارکرنا،منظم کرنا، ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑاکرنااورا س ارادہ کے ساتھ ان کی طاقتوںکو جمع کرناکہ وہ اسلام اوراحمدیت کی تبلیغ کو ہندوستان کے چاروں گوشوں میں پھیلادیں یہ آپ لوگوں کاہی کام ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ قادیان احمدیوںکامرکز ہے۔ آپ لوگ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس لئے قادیان میںبیٹھے ہیں کہ یہ ہم احمدیوں کا مرکز ہے۔ اب یہ آپ لوگوں کافرض ہے کہ مرکز کو مرکز کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کریں۔ مرکز چندمجاوروں کے جمع ہوکر بیٹھ جانے کانام نہیں۔ مرکز ایک بے انتہاء جذبہ کانام ہے جواپنے ماحول پر چھاجانے کاارادہ کرکے کھڑا ہو۔ مرکز کا نام قرآن کریم میں ماں رکھا ہے اورماں وہی ہوتی ہے جو اپناخون پلاکربچوں کو پالتی،بڑاکرتی اور جوان کرتی ہے ۔پس قادیان مرکز اسی صورت میں ہوسکتاہے کہ وہ اپنی چھاتیوںکادودھ تمام طالبانِ صداقت کو پیش کرے ،ان کو پالے اور ان کی پرورش کرے اوران کو پروان چڑھائے ۔ پس آپ لوگ اب اپنی نئی ذمہ داریوں کوسمجھتے ہوئے نئے سرے سے اپنے دفاتر کی تنظیم کریں اورہندوستان کی باقی جماعتوں کودوبارہ زندہ کرنے اورزندہ رکھنے کی کوشش کریں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کو بڑھانے اورپھیلانے کی کوشش کریں ۔وہ تمام اغراض جن کے لئے احمدیہ جماعت قائم کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہیں ۔ان اغراض کو سامنے رکھ کر صدر انجمن احمدیہ کی تنظیم کریں اور تمام ہندوستان کی جماعتوں کے ساتھ خط و کتابت کرکے ان کو منظم کریں اورپھیلنے پھولنے میں مدد دیں۔ اس کام کے متعلق مَیں چند تجاویز آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتاہوں :
اوّل۔ہندوستان یونین کی تمام احمدیہ جماعتوں کی لسٹیں جمع کریں ۔(جولسٹیں وہاں موجود نہ ہوں وہ لسٹیں پاکستان کے مرکز سے منگوالیں)
(۲)پریس کودوبارہ جاری کرنے کی کوشش کریں ۔جب تک قادیان کاپریس واگذار نہیں ہوتا اس وقت تک ضروری اشتہارات لکھ کر دہلی بھجوادیاکریں اوروہاں سے چھپواکر ریل میں منگوالیاکریں اورپھر ڈاک کے ذریعہ تمام ہندوستانی جماعتوں میں تقسیم کردیاکریں ۔
(۳)چونکہ گذشتہ صدمہ سے بعض جماعتوں میں کمزوری پیداہوگئی ہے اس کو دُور کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں مبلغ مقررکریں تاکہ وہ پھر پھر کے جماعتوں کی دوبارہ تنظیم کریں ۔ اس وقت مبلّغ صرف دہلی ،بمبئی ،حیدرآباد دکن،بہار،اڑیسہ،اورکلکتہ میں ہیں ۔جونہی آپ کام کرنے کے قابل ہوجائیں اوراپنے انتظامات کو مکمل کرلیں دہلی کے مبلغ کی طرح باقی مبلّغوں کو بھی براہِ راست قادیان کے ماتحت کردیاجائیگا مگراب بھی حقیقتاً وہ آپ ہی کے ماتحت ہیں اور آپ کو ان سے کام لیناچاہئے ۔
(۴) اس وقت قادیان میں قریباً دودرجن دیہاتی مبلّغ ہیں۔ان لوگوں کوکوشش کرکے دہلی پہنچایاجائے اوروہاں سے آگے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جہاں احمدیہ جماعتیں قائم ہیں پھیلادیاجائے ۔یہ لوگ وہاں جاکر نہ صرف موجودہ جماعتوں کی تنظیم کریں بلکہ جماعت کووسیع کرنے کی کوشش کریں ۔چونکہ آپ لوگ انڈین یونین میں ہیں اوروفادار شہریوں کی حیثیت میں ہیں کوئی وجہ نہیں کہ حکومت آپ میں اوردوسرے کام کرنے والے مسلمانوں میں کوئی فرق کرے۔ان جانے والوں کے بدلے میں ہندوستان کی جماعتوں میں تحریک کرکے نئے واقفین بُلواکے قادیان میں رکھے جائیں جوقادیان میں آکر تعلیم حاصل کریں اورپھر بیرونی جماعتوں میں پھیلادیئے جائیں ۔سردست اگر جلسہ میں کچھ احمدی باہر سے آکر شامل ہوئے ہیں توان کے ساتھ پانچ دیہاتی مبلّغ بھجوادیئے جائیں جومولوی بشیراحمدصاحب دہلوی کی نگرانی میں یو۔پی کے مختلف علاقوں میں کام کریں۔یو۔پی کی جماعتوں میں سے لکھنؤ، شاہجہانپوراوربریلی ،آگرہ کی اچھی جماعتیں تھیں لیکن اب دیر سے ان کاپتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کہاں ہیں ۔اگریہ لوگ وہاں جاکر کام کریں تونہ صرف وہ جماعتیں جلد منظم ہوجائیں گی بلکہ نئے سرے سے پھولنے اورپھلنے لگ جائیں گی ۔ان جانے والے مبلّغین کوسمجھادیاجائے اگربعض جماعتیں گذشتہ صدمات کی برداشت نہ کرکے بالکل مردہ ہوچکی ہوں تب بھی گھبرائیں نہیں۔ ایک دوتین جتنے احمدی مل سکیں ان کوجمع کرکے نئے سرے سے کام شروع کردیں ۔ پھر وہ انشاء اللہ دیکھیں گے کہ ابھی چنددن بھی نہیں گذرے ہوں گے اورپہلے سے بھی زیادہ مضبوط جماعتیں وہاں قائم ہوجائیں گی بلکہ اِردگرد کے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلنے لگ جائے گی ۔ یہ یاد رہے کہ سب کے سب مبلّغوں کو اکٹھا نہ بھجوایاجائے کیونکہ ممکن ہے کہ ان کے قائم مقاموں کے آنے میں دقت پیداہواورقادیان کی احمدی آبادی کم ہوجائے ۔اس خطرہ کوآپ کبھی نہ بھولیں اور ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں۔ ہمیشہ پہلے باہر سے آنے والوں کواندرلایاکریں اور پھر بعض دوسروں کو باہرجانے کی اجازت دیاکریں سوائے ان پانچ کے جن کامیں نے اوپر ذکر کیا ہے ۔
(۵) چونکہ اب ملک میں ہندی کا زور ہوگا ا سلئے آپ لوگ بھی دیوتاگری رسم الخط کے سیکھنے کی کوشش کریں اورہندی زبان میں لٹریچر کی اشاعت کی طرف خاص توجہ دیں ۔
(۶) جب تک باہر سے واقفین کے آنے کی پوری آزادی نہ ہویہ بھی ہوسکتاہے کہ کچھ طالب علموںکو مولوی بشیر احمد صاحب اپنے ساتھ رکھ کر دہلی میں پڑھائیں اورکچھ طالب علموں کوساتھ رکھ کر مولوی محمدسلیم صاحب کلکتہ میں پڑھائیں اورکچھ طالب علموں کوساتھ رکھ کر مولوی عبدالمالک صاحب حیدرآباد میں پڑھائیں اورپھران کو ارد گرد کے علاقوں میں پھیلاتے چلے جائیں لیکن یہ مدنظر رکھاجائے کہ ہندوستان کے چندوں سے ہندوستان کاخرچ چل سکے اور قادیان کی آبادی کاخرچ بھی وہیں سے نکل سکے ۔
(۷)قادیان میں احمدیوں کے آنے اورقادیان کے احمدیوںکو ہندوستان یونین میں جانے کے متعلق آزادی کرانے کے لئے آپ لوگ باقاعد ہ کوشش کریں اورکوشش کرتے چلے جائیں تاکہ قادیان میں پھر زائرین آنے لگ جائیں اور قادیان کی نہر ایک کھڑے پانی کے جوہڑ کی سی شکل اختیار نہ کرلے ۔
(۸)آبادی کی زندگی کے لئے عورتوں اوربچوں کاہونابھی ضروری ہے ۔آپ لوگ متواترحکومت کے ساتھ خط و کتابت کریں اورکوشش کریں کہ ایسے حالات پیداہوجائیں کہ قادیان کے ساکنان کے بیوی بچے وہاں حفاظت کے ساتھ رہ سکیں۔
(۹)جونہی قادیان میں کچھ ایسے نوجوان آجائیں جن کا تعلیم پانے کازمانہ ہوتوفوراً ایک سکول کی بنیاد رکھ دی جائے جس کے متعلق کوشش ہو کہ وہ آہستہ آہستہ بڑھتاچلاجائے ۔
(۱۰)ہندوستان یونین کی صدرانجمن احمدیہ نے ایک دن کے لئے بھی ہندوستان نہیں چھوڑا۔ اسی طرح وہاں کی تحریک جدید انجمن بھی وہیں ہے ۔یہ انجمنیں قادیان کی جائداد کامطالبہ کرسکتی ہیں ۔آ پ کو بڑے زور سے اس امر کامطالبہ کرناچاہئے ۔افراد کی جائداد کا بے شک جھگڑاہولیکن صدر انجمن احمدیہ اورتحریک جدید جوکہ ہندوستان یونین میں موجود ہیں تو کیوں حکومت ان کے سپرد ان کی جائداد نہ کرے۔ کالج، سکول، ہسپتال، ریتی چھلہ، زنانہ سکول، دارالانوارکاگیسٹ ہائوس،خدام الاحمدیہ کے دفاتر،تحریک جدید کی زمینیں، ان کے مالک قادیان میں بیٹھے ہیں۔آ پ لوگ اس کے متعلق دعویٰ کریں اوران لفظوں میں کریں کہ جبکہ ان جگہوں کے مالک صدر انجمن احمدیہ،تحریک جدیداورخدام الاحمدیہ قادیان میں موجود ہیں اورجبکہ ان جگہوں سے فائدہ اٹھانے والے احمدی ہندوستان یونین میں موجود ہیں توکس قانون کے ماتحت ان چیزوں پرقبضہ کیاگیاہے ۔یہ چیزیں ہمارے سپرد ہونی چاہئیں اورہمیں ان کے استعمال کاموقع دیناچاہئے ۔عقل کے ساتھ اورادب کے ساتھ اگران مطالبات کو حکام کے سامنے بار بار رکھاجائے او ران پریہ روشن کیاجائے کہ ہندوستان یونین کے احمدی ہندوستان یونین کے وفادار ہیں جس طرح پاکستان کے احمدی پاکستان کے وفادار ہیں پھران سے باغیوں کاساسلوک کیوں کیاجاتاہے تویقیناً حکومت ایک دن اپنا رویہ بدلنے پرمجبور ہوگی۔
(۱۱)جب تک پریس نہیں ملتااس وقت جماعتوں کے نام چٹھی لکھ کر ہرپندرھویں روز بھجواناشروع کریں جس میں جماعتوں کو ان کے فرض کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اگر عہدہ داران جگہ چھوڑ گئے ہیں تونئے عہدہ دار مقررکرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اگرعہدہ دا ر عہدوں پر موجود ہیں لیکن کام نہیں کرتے توان کو کام کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے ۔ اگر بالکل بیدار نہیں ہوتے توان کو بدلنے کی طرف توجہ دلائی جائے ۔قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔۱؎ اگرآپ پیچھے پڑ جائیں گے تویقیناایمان کی چنگاری پھر سُلگ اُٹھے گی سونے والے پھر بیدار ہوجائیں گے بلکہ مردے بھی زندہ ہوجائیں گے اورپھر تروتازگی اورنشوونماکے آثار ظاہر ہونے لگ جائیں گے ۔آپ تین سَو سے زیادہ آدمی وہاں ہیں۔اگران میں سے سَو آدمی کا خط پڑھے جانے کے قابل ہو اور ہر چٹھی تین تین سَوکی تعداد میں باہربھیجی جائے توہرلکھے پڑھے آدمی کوپندرہ دن میں صرف تین چٹھیوں کو نقل کرناپڑتاہے اوریہ کوئی بڑاکام نہیں۔ان چٹھیوں میں ایمان کوابھارنے یازندگی کو قائم رکھنے ،ہمت سے کام لینے اورخداتعالیٰ کے ان بے انتہاء فضلوں میں حصہ لینے کی دعوت ہو جن کاحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ کیاگیاتھا ۔طرح طرح سے اور باربار جماعتوں کو ہلایاجائے ،جگایاجائے اورنہ صرف ہلایاجائے اورجگایاجائے بلکہ تبلیغ کرکے اپنے آپ کو وسیع کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے ۔اس وقت مسلمان بے کسی کی حالت میں پڑا ہے۔ اس وقت وہ سچائی پر غور کرنے کیلئے تیار ہے ۔وہ اس ہاتھ کیلئے ترس رہاہے جو اس کوپکڑ کرنجات کی طرف لے جائے ۔اگرآج آپ لوگ صحیح طور پر جماعتوں کو بیدار کرنے کی طرف توجہ کریں تو ہندوستان میں احمدیت کے پھیلنے کا بے نظیر موقع ہے ۔سردست مولوی بشیر احمد صاحب یو۔پی کی جماعتوں کو منظم کریں اوریو۔پی کے تما م چندے سوائے تحریک جدید کے چندہ کے جو غیرممالک کی تبلیغ پر خرچ ہوتاہے قادیان بھجوائیں آپ لوگ باقاعدہ خط و کتابت کے ذریعہ سے ہمیں بتاتے رہیں کہ فلاں فلاں جماعت منظم ہوگئی ہے اور ان کاچندہ قادیان میں آنے لگ گیا ہے تاایسانہ ہو کہ دوعملی کی وجہ سے کوئی جماعت بالکل تباہ ہو جائے۔ جب آپ یو۔پی کی جماعتوں کومنظم کرلیں گے توہم دوسرے صوبوں کوباری باری آپ کے سپر د کرتے چلے جائیں گے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اب خاموشی سے جھنڈے کو پکڑ کر کھڑے رہنے کاوقت گذر چکا ۔وہ کام آپ نے شاندار طو رپر کیا جس کے لئے دنیا بھر کے احمدی آپ لوگوںکے ممنون ہیں اور آنے والی نسلیں بھی آپ کی ممنون رہیں گی مگرانسان ایک بڑھنے والی ہستی ہے ۔ ہرروز اس کے حالات متغیر ہوتے ہیں اورہرروز کے بدلے ہوئے حالات کے مطابق اسے کام کرنا پڑتا ہے کل کی روٹی آج کام نہیں آسکتی اورآج کی روٹی آنے والے کل کام نہیں آسکتی۔پس وہ عظیم الشان خدمت جس کے کرنے کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق بخشی ہے اس کاتقاضا ہے کہ اب آپ اگلا قدم اُٹھائیں اورقادیان کے خاموش مر کز کو ایک زندہ مرکز میں تبدیل کردیں۔ ہندوستان یونین کی آبادی ۲۸،۲۹ کروڑ کے قریب ہے ۔اس کی اصلاح اورنجات کو ئی معمولی کام نہیں، کسی زمانہ میں ساری دنیا کی آبادی اتنی ہی تھی۔پس آج سے سینکڑوں سال پہلے ساری دنیا کی اصلاح کا کام جتنا اہم تھا اتنا ہی آج ہندوستان کی اصلاح کاکام اہم ہے۔ جن لوگوں کو خداتعالیٰ نے قادیان کی چھوٹی سی بستی کو بڑھا کرایک سعی و عمل کاٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بنانے کی توفیق بخشی وہ بھی انسان تھے اورآپ بھی انسان ہیں آپ اپنے آپ کو افراد کی حقیقت میں دیکھنا چھوڑ دیں۔ خداتعالیٰ فرماتاہے کہ ۲؎ ابراہیم ؑ ایک اُمت تھا۔ جولوگ خداتعالیٰ پر نظر رکھتے ہوئے اس کی عائد کر دہ ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو فرد سمجھناچھو ڑدیتے ہیں ۔ان میں سے ہرشخص اپنے آپ کو اُمت سمجھتاہے اوران میں سے بعض شخص تو اپنے آپ کو دنیا سمجھتے ہیں۔ آپ لوگ بھی او ر وہ دوسرے دوست بھی جو اس وقت باہر سے قادیان میں تشریف لاسکے ہوں وہ بھی آج سے اپنا نقطۂ نگاہ بدل دیں۔ آج سے ان میں سے ہر شخص اپنے آ پ کو اُمت سمجھنے لگ جائے ۔وہ یہ سمجھ لے کہ جس طرح آم کی گٹھلی میں سے ایک بڑا درخت پیدا ہوتا ہے ،جس طرح بَڑ کے چھوٹے سے بیج میںسے سینکڑوں آدمیوں کو سایہ دینے والا بَڑ پیدا ہو جاتا ہے، اسی طرح وہ اُمت بن کر رہے گا ۔وہ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں اپنی نسلیں پھیلا دے گا ۔وہ خاموش قربانی کی جگہ اب اصلاح کیلئے اپنی قربانی کو پیش کرے گا۔ ہندوستان اس بات کامتقاضی ہے کہ اس کے اندر پھر سے انسانیت کو قائم کیا جائے۔ پھر سے صلح اور آشتی کوقائم کیاجائے پھر سے خداتعالیٰ کی محبت اس کے دل میں پیداکی جائے اوریہ کام سوائے آپ لوگوں کے اَورکوئی نہیں کرسکتا۔ عزمِ صمیم کے ساتھ اُٹھیں۔ طوفان کاساجوش لے کر اُٹھیں اورہندوستان پر چھاجائیں جس کانتیجہ ضرور یہ نکلے گا کہ وہ لوگ جو آج احمدیت کو بغض اورکینہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اورایک دشمن کی حیثیت میں دیکھتے ہیں وہ اور ان کی نسلیں آپ لوگوں کے ہاتھ چومیں گی۔ آپ لوگوں کیلئے برکتیںمانگیں گی اوردعائیں دیں گی کہ آپ لو گ اس بدقسمت ملک کو امن دینے والے اور صلح اور آشتی کی طر ف لانے والے ثابت ہوئے۔ احمدیت ایک نورہے، احمدیت صلح کاپیغام ہے، احمدیت امن کی آواز ہے ،تم اس نور سے دنیا کو منور کرو۔تم اس پیغام کی طرف لوگوں کوبلائو۔تم اس آواز کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں بلند کردو ۔ خداتمہارے ساتھ ہو ۔ خاکسا رمرزامحمود احمد
۲۰ دسمبر ۱۹۴۸ء
۱؎ اعلیٰ: ۱۰ ۲؎ النحل: ۱۲۱
 
Top