انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 21
افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور
(۱۹۴۸ء)
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور
(فرمودہ ۲۵ دسمبر ۱۹۴۸ء۔ بمقام لاہور)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’اِس وقت میں تقریر کیلئے نہیں بلکہ دعا کیلئے آیا ہوں جیسا کہ میرا طریق ہے کہ دعا سے پہلے کچھ باتیں کہتا ہوں۔ اِس طریق کے مطابق آپ کے سامنے کچھ باتیں رکھنا چاہتا ہوں۔
دنیا میں جتنے کام ہوتے ہیں ان کے کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ہوتا ہے اور جتنے کام کرنے والے ہوتے ہیںان کے سامنے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ نہ ہی صحیح راستہ پر چلے بغیر کوئی قوم منزل پر پہنچ سکتی ہے اور نہ مقصد کے بغیر کوئی قوم یک جہتی سے کام کر سکتی ہے۔ اس امر کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ۱؎ ہر گھر جس میں تم داخل ہونا چاہتے ہو اس کے دروازہ میں سے داخل ہو جاؤ۔ یعنی ہر وہ کام جسے تم اختیار کرنا چاہتے ہو، اس کے حصول کا جو طریق ہے وہ اختیار کرو۔صحیح طریق اختیار کرنے کے بعد قوم کے پیش نظر کسی مقصد کا ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی قوم کا کوئی مقصد نہ ہو تو وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جس طرح دروازے میں داخل ہونے کے بغیر گھر میں داخل ہونا مشکل ہے اسی طرح اپنے مقصد کے مقرر کرنے کے بغیر کامیابی محال ہے۔ قرآن کریم میں ہے ۲؎ کہ ہر ذِی عقل شخص کا کوئی مقصد ہوتا ہے جسے سامنے رکھ کر وہ چلتا ہے۔ اِسی طرح ہر قوم کا جو کسی قانون یا تنظیم کے تحت اپنے آپ کو چلاتی ہے کوئی مقصد ہوناچاہئے۔ اگر بغیر مقصد کے کچھ لوگ کسی جگہ اکٹھے ہو جائیں تو ان میں قربانی کی روح پیدا ہوتی ہے نہ ہی ہمت اور جوش پیدا ہو سکتا ہے نہ وہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایسا اعلیٰ پروگرام جس پر عمل کر کے دنیا میں ممتاز جگہ حاصل کر سکیں پیش کر سکتے ہیں۔
پس ہماری جماعت کو یہ دونوں زریں اصول کبھی نہ بھولنے چاہئیں۔ ہمارا مقصد تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرما دیا ہے کہ’’ اسلام کو دنیا میں غالب کرنا‘‘ پس ہمارا مقصد ہمارے سامنے ہے۔ اسے حاصل کرنا ہمارا کام ہے۔ ایسا غلبہ جو دلائل اور تعلیم کے لحاظ سے ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں وہ تو قرآن کریم میں موجود ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم جس کی وجہ سے یہ تمام مذہبی کتب سے افضل ہے اس میں موجود ہیں اور ہر شخص جو غور کرے اس کو دیکھ سکتا ہے لیکن جب تک ان دلائل کو عملی طور پر پیش نہ کیا جائے محض دلائل سے کوئی شخص قائل نہیںہو سکتا۔ لوگوں کا عام طریق ہوتا ہے کہ جب وہ دلائل سے عاجز آ جاتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ بتاؤ تم نے اس تعلیم پر عمل کر کے کونسا تغیر اپنے اندر پیدا کر لیا ہے، کون سا اعلیٰ مقام حاصل کر لیا ہے، کون سی فضیلت حاصل کر لی ہے۔ چنانچہ آج دشمن اسی طریق سے اسلام پر طعنہ زن رہا ہے۔ جب ہم اس کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہیں تو کہتا ہے بتاؤ اسلامی ممالک نے کون سی رواداری کی مثال پیش کی ہے اور کون سے فتنے فساد اُنہوں نے رفع کئے ہیں کون سا نیا تغیر اُنہوں نے پیدا کیا ہے اور اگر اُنہوں نے اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے کچھ نہیں کیا تو اس تعلیم کو تم ہمارے سامنے کیوں پیش کرتے ہو۔ جب اس کے ماننے والے اسے ردّ کر چکے ہیں تو نہ ماننے والے کیونکر قبول کریں۔ یہ ایسا زبردست اعتراض ہے کہ اس کے سامنے ہمارے لئے بولنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر تغیر پیدا کریں اور اسلام کی تعلیم کے ساتھ عمل کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کریں کہ دشمن بھی اسلام کی علمی و عملی برتری کا اقرار کرنے لگے۔ جب تک ہم عملی نمونہ پیش نہ کریں ہم غلبہ نہیں پا سکتے۔
پس یہ وہ دروازہ ہے جس سے گزر کر ہم اپنے مقصد کو پا لیتے ہیں اور اسلام کے غلبہ کی عمارت میں داخل ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے مقصد کا تعلق ہے وہ واضح ہے کہ قرآن کریم میں ہمارا فریضہ اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنے میں کوشاں رہنا بیان فرمایا ہے لیکن جہاںتک عمل کا سوال ہے اس میں ہم تہی دست ہیں۔
باتیں سننا بھی ضروری ہے اور اچھی باتیں سننی چاہئیں، لیکن اب عمل کا زمانہ ہے باتیں کم سنو عمل زیادہ کرو۔……
تقسیم ہند کے بعد قتل وغارت، لوٹ مار، خیانت، بددیانتی کے جو واقعات پیش آئے ان کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا ۔
مجھے افسوس ہے کہ ان شنیع افعال کے ارتکاب سے ہماری جماعت بھی محفوظ نہیں رہ سکی۔ بیشک جماعت کے بعض افراد نے شاندار نمونہ دکھایا ہے لیکن بعض افراد نے اس موقع پر انتہائی کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے۔ افسوس ہے کہ بحیثیت جماعت، جماعت نے اچھا نمونہ نہیں دکھایا۔ ہمیشہ مصائب کا زمانہ ہی ایمان کے امتحان کا زمانہ ہوتا ہے لیکن بعض لوگ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ (الفضل ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۸ء)
۱؎ البقرۃ: ۱۹۰ ۲؎ البقرۃ: ۱۴۹
تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور
(۱۹۴۸ء)
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور۱۹۴۸ء
( فرمودہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۸ء بمقام لاہور)
(غیر مطبوعہ)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
کھانسی کی موجودہ تکلیف کے بعد مجھے کسی لمبی تقریر کرنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ پہلا موقع ہے جو مجھے ملا ہے اور گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے پہلے کی نسبت آرام ہے لیکن چونکہ کھانسی کی تکلیف ابھی باقی ہے اس لئے شاید میں کوئی لمبی تقریر نہ کر سکوں میری آواز بھی اِس وقت بیٹھی ہوئی ہے علاوہ اس کے وہ بھرائی ہوئی ہے لیکن لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ میری آواز اِنْشَائَ اللّٰہ دوستوں تک پہنچ جائے گی اور میں اپنے اُن مختصر خیالات کے اظہار کا موقع پا سکوں گا جن کے اظہار کے لئے میں اِس وقت کھڑا ہوا ہوں۔
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے آج کا جلسہ لاہور کی مقامی جماعت کا جلسہ ہے یہ ہمارا جلسہ سالانہ نہیں جو مرکزی جلسہ ہوا کرتا ہے۔ مرکزی جلسہ سالانہ کے متعلق ہمارا ارادہ تھا کہ اِس سال اپنے نئے مرکز میں کیا جائے اور وہ جلسہ ہمارے نئے مرکز کا پہلا جلسہ ہو لیکن بہت سی مشکلات کی وجہ سے جو ہمارے رستہ میں حائل ہوگئیں ہم اس ارادہ کو پورا نہیں کر سکے۔ وہاں اِس وقت تک کوئی عمارت تعمیر نہیں ہو سکی کیونکہ ابھی تک حکومت کے پاس سے کاغذات نہیں نکلے۔ ابھی تک یہی بحث ہو رہی ہے کہ اس جگہ کس شان کا اور کیسے کیسے نئے دریافت شدہ اصولوں کے مطابق شہر بسایا جائے۔ گو حقیقت یہی ہے کہ ہم تو مشرقی پنجاب کے مہاجر ہیں اور مہاجر بھی ایسے جن کی جائیدادوں کو نہ بیچنے کی اجازت ہے اور نہ یہاں لانے کی اجازت ہے جو جائیداد یہاں لائی نہیں جا سکتی اسے فروخت کرنے کی اجازت نہیں اور جو لائی جا سکتی ہے اسے یہاں لانے کی اجازت نہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس روپیہ آیا کہاں سے جس سے وہ جدید ترین طریقوں پر ایک عظیم الشان شہر بسا سکیں۔ اِس موقع پر کسی بڑے شہر کے بسانے کا خیال بھی ہمارے دلوں میں نہیں آ سکتا۔ مگر بہرحال ان دقتوں کی وجہ سے ہم وہاں جلسہ نہیں کرسکے کیونکہ آجکل سردی کا موسم ہے اور اس موسم میں بغیر اس کے کہ عمارتیں بنی ہوئی ہوں اور ہر قسم کے سامان مہیا ہوں جن سے انسان سردی سے بچ سکے کوئی اجتماع نہیں کیا جا سکتا اس لئے بڑے غوروفکر کے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جلسہ سالانہ ان دنوںکی بجائے ایسٹر ہالیڈیز (EASTER HOLIDAYS) میں کیا جائے۔ ان دنوں چونکہ گرمی ہوتی ہے اس لئے رہائش کیلئے مکانوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر خدانخواستہ ان دنوں میں عمارتیں تعمیر کرنے کا کوئی انتظام نہ بھی ہوا تو ہم جنگل میں بستر بچھا کر یا جو چیز بھی میسر آئی نیچے بچھا کر سو رہیں گے اور دن کے وقت اپنی ہی چادریں پھیلا کر اور ان کے شامیانے بنا کر تقریریں کر لیا کریں گے اور اگر اُس وقت تک خدا تعالیٰ نے عمارتیں تعمیرکرنے کی کوئی صورت پیدا کر دی تو اس سے بہتر جس قدر بھی ہو سکا سامان مہیا کرنے کی کوشش کریں گے بہرحال جلسہ سالانہ ایسٹر کی تعطیلات میں ہوگا۔ اس جلسہ کے التوا سے جماعت احمدیہ لاہور نے فائدہ اُٹھا کر یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس موقع پر اپنا جلسہ کر لیتے ہیں اور اُن کے ساتھ اس ارادہ کے نتیجہ میں بہت سی بیرونی جماعتوں کے افراد بھی آ گئے اور انہیں بھی اس اجتماع میں شامل ہونے کا موقع مل گیا۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں لاہور کی جماعت کو بھی ثواب مل گیا اور دوسرے لوگوں کو بھی ایک کی بجائے دو نیک تقریبوں میں شامل ہونے کا موقع مل جائے گا۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارا جلسہ سالانہ جو آئندہ ہوگا وہ ایسٹر ہالیڈیز میں ہوگا اور ہمارا ارادہ ہے کہ وہ اُسی جگہ کیا جائے جہاں ہم نیا مرکز بنانا چاہتے ہیں اس لحاظ سے وہ ہمارے نئے مرکز کا پہلا جلسہ ہوگا۔ اس لئے ان دوستوں کے ذریعہ جو بیرونجات سے آئے ہوئے ہیں یا جو جلسہ پر تو نہیں آ سکے لیکن اخبار کے ذریعہ ان تک آواز پہنچ سکتی ہے میں جماعت کے احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس موقع پر زیادہ سے زیادہ جمع ہونے کی کوشش کریں۔ نئے مرکز میں ہمارا پہلا سالانہ جلسہ ہونے کی وجہ سے یہ خاص طور پر ایک دعائیہ جلسہ ہوگا تا اللہ تعالیٰ ہمارے وہاں رہنے کو بابرکت بنائے۔ ہمارے لئے بھی اور ہم سے بھی زیادہ اسلام اور سچائی کیلئے اور خداتعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کیلئے۔ پس احباب جس قدر زیادہ اس جلسہ میں شامل ہو سکیں شامل ہوں بلکہ ابھی سے اس کیلئے تیاری شروع کر دیں لیکن احباب یہ بھی یاد رکھیں کہ اس سال وہاں کھانے کا سامان اکٹھا نہیں ہو سکا۔ آجکل غلّہ کی قلت ہے اور اس کی خرید پر گورنمنٹ کی طرف سے پابندیاں عائد ہیں جن کی وجہ سے ہم غلّہ جمع نہیں کر سکتے دوسرے غلّہ کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ جماعت کے لئے اس کا خریدنا مشکل ہے اور پھر ایسے زمانہ میں جب کہ جماعت کی تمام دولت اور مال مشرقی پنجاب میں رہ گیا ہے غلّہ خریدنا آسان کام نہیں۔ ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اپنے زمیندار بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو اس سال جلسہ پر آئے یا وہ افراد جو جلسہ پر آئیں اپنے ساتھ تین تین سیر گیہوں یا آٹا فی کس کے حساب سے لیتے آئیں ان تین سیر میں سے ایک کھانا گیہوں یا آٹا لانے والے کا ہوگا اور ایک کھانا ایک ایسے شخص کا ہوگا جو غریب ہے یا شہری ہے اور باوجود کوشش کے اپنے ساتھ گیہوں یا آٹا نہیں لا سکتا۔ یعنی ڈیڑھ سیر فی کس کھانے کا اندازہ ہے۔ اُن تین سیر گیہوں یا آٹا میں سے ڈیڑھ سیر اُس فرد کا ہوگا اور ڈیڑھ سیر ایک اور شخص کا ہوگا جو خدا تعالیٰ کے دفتر میں اس کا مہمان لکھا جائے گا۔ اگر سب لوگ اس پر عمل کریں توگندم اتنی کافی جمع ہو جائے گی جس سے جلسہ کے ایام بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو منتظمین کیلئے ہو یا مہمانوں کیلئے ہو آسانی کے ساتھ گزر سکیں گے۔
اس موقع پر میں یہ بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ اس جلسہ پر بھی عورتیں نہیں آ سکیں۔ اوّل تو اس لئے کہ یہ جلسہ لاہور کی جماعت کا تھا۔ کچھ عورتیں آئی ہیں مگر اتنی نہیں جتنی قادیان میں آیا کرتی تھیں۔ قادیان میں اگر جلسہ کے موقع پر تیس ہزار آدمی آتے تھے تو پندرہ ہزار کے قریب عورتیں ہوا کرتی تھیں اور جلسہ میں حاضری بھی ایسی ہی رہتی تھی۔ مجھے یاد ہے آخری جلسہ سالانہ میں ہم نے مردم شماری کرائی تو مردانہ جلسہ گاہ میں ستائیس ہزار مرد تھے اس کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد تیرہ ساڑھے تیرہ ہزار تھی۔ دوسری میٹنگ میں تیس اکتیس ہزار مرد تھے اور اس کے مقابلہ میں پندرہ سولہ ہزار کے قریب عورتیں تھیں۔ گو پچھلے دو سال سے عورتیں جلسہ سالانہ میں حصہ نہیں لے رہیں لیکن جب جلسہ سالانہ اس جگہ پر جہاں ہمارا عارضی مرکز بنے گا قائم ہوگا تو عورتوں اور بچوں کو بھی اس میں آنے کی اجازت ہوگی۔ اگر جلسہ سالانہ سے پہلے کچھ عمارتیں تعمیر ہوگئیں تو عورتیں اور بچے ان میں گزارہ کر لیں گے اور مرد باہر میدان میں سو رہیں گے اور اگر مکانات تعمیر نہ ہوئے تو عورتوں اور بچوں کے لئے قناتیں لگا دی جائیں گی چونکہ گرمی کا موسم ہوگا اس لئے عورتیں پردے کے اندر گزارہ کرسکیں گی اور مرد باہر گزارہ کر لیں گے۔ بہرحال یہ ایک نہایت ہی خوش کن اور ایمان افزاء نظارہ ہوگا۔ خانہ کعبہ میں تو یہ نظارہ ہر سال نظر آتا ہے مکہ میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ سب لوگ آسانی کے ساتھ بسر کر سکیں۔ لوگ رات کو سڑکوںپر ہی سو رہتے ہیں۔ مکہ کا موسم چونکہ اتنا ٹھنڈا نہیں ہوتا اس لئے زیادہ تکلیف محسوس نہیں ہوتی لوگ سڑکوں اور میدانوں میں پڑے رہتے ہیں اور جن لوگوں کو کمرے مل جاتے ہیں وہ بھی ایک ایک کمرہ میں پچیس پچیس تیس تیس ہوتے ہیں اور بعض لوگ تو کمرے لے لیتے ہیں مگر ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ رات کو باہر سو گئے اور صبح اُٹھ کر سامان کمرہ میں رکھا اور تالا لگا دیا۔ اس جلسہ پر بھی یہی نظارہ نظر آئے گا۔ درحقیقت وہ ابتدائی سادگی جو انسانی فطرت میں پیدا کی گئی ہے وہی دنیا میں حقیقی امن پیدا کر سکتی ہے۔ جب تک لوگ تکلفات میں پڑے رہیں گے، جب تک لوگ ایسا طریق عمل تلاش کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے نہیں بنایا بلکہ انسانوں نے بنایا ہے اُس وقت تک حقیقی امن قائم نہیں ہوگا۔ حقیقی امن اُسی وقت قائم ہوگا جب انسان اپنی زندگی کو سادہ بنا کر ان چیزوں پر اکتفا کرے گا جو خدا تعالیٰ نے اس کیلئے بنائی ہیں یا نیچر نے اس کے لئے پیدا کی ہیں۔ تب ضرورت کے مطابق اسے چیزیںمل سکیں گی اور حسد اور کینہ جاتا رہے گا۔ لڑائیاں جاتی رہیں گی فتنے اور فساد مٹ جائیں گے اور لوگ امن اور پیار کی زندگی بسر کر سکیں گے۔
اسی طرح میں یہ بھی تحریک کرتا ہوں کہ لوگ اپنی اپنی جگہ جا کر دالیں بھی جمع کریں۔ یہ دالیں بطور چندہ کے ہونگی مگریہ چندہ جلسہ سالانہ کے چندہ کے علاوہ ہوگا۔ یہ گویا نئے مرکز میں ہمارے پہلے جلسہ سالانہ کے انتظام کیلئے خاص چندہ ہوگا۔ ہر ایک شخص اپنی توفیق کے مطابق جتنی دال دے سکتا ہے دے دے۔ دال ماش، چنا، مونگ اور مسور ثابت ہوں اور اگر چنے اور ماش ثابت بھی ہوں تو کوئی حرج نہیں اگر یہ چیزیں دو تین ماہ پہلے آ جائیں تو دال تیار کرائی جاسکتی ہے۔ تھوڑی تھوڑی چیز جمع کر کے اتنی کافی ہو جاتی ہے کہ اس سے کام چل سکتا ہے۔
میں ایک اور تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں اِس وقت ربوہ میں چیزیں ویسی ہی سستی ہیں جیسے گاؤں میں سستی ہوا کرتی ہیں لیکن جونہی وہاں قصبہ بنے گا لوگ چیزوں کو گراں کرنا شروع کر دیں گے جس وقت ہمارے آدمی وہاں گئے ہیںروپے کا چار پانچ سیر دودھ ملتا تھا مگر جوں ہی وہاں پچاس ساٹھ خیمے لگائے گئے دودھ مہنگا ہو گیا۔ اب وہاں روپے کا تین سیر دودھ ملتا ہے۔ اگر وہاں قصبہ بن گیا تو وہی لاہور والا حساب ہو جائے گا یعنی دودھ پونے دوسیر فی روپیہ کے حساب سے ملے گا۔ پس ایسے علاقوں کے لوگ جہاں بھینسیں کثرت سے پالی جاتی ہیں یا وہ لوگ جن کے پاس بھینسیں ہوں انہیں اِس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ ایسے لوگ جن کے پاس بھینسیں ہوتی ہیں وہ بسا اوقات خداتعالیٰ کو خوش کرنے کیلئے صدقے بھی دیتے رہتے ہیں جس میں بھینسیں وغیرہ دے دیتے ہیں۔ پس وہ لوگ جن کے پاس بھینسیں ہوں یا جن کے دل میں خداتعالیٰ یہ ڈالے کہ ایک بے آب و گیاہ جگہ میں رہنے والے لوگ خدا تعالیٰ کے فضل کو دودھ کی شکل میں پئیں اُن کو میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ ایسی بھینسیں جو کارآمد ہوں اور دودھ دینے والی ہوں مرکز کو ھدیۃً پیش کریں۔ میرا خیال ہے کہ وہاں جانے سے پہلے وہاں اتنی بھینسیں جمع کر دی جائیں کہ ہمیں اِردگرد کے علاقہ سے دودھ نہ خریدنا پڑے اور علاقہ میں اشیاء کی قیمتیں بِلاوجہ گراں نہ ہو جائیں۔
میں نے ربوہ میں عمارتیں تعمیر کرنے کیلئے یہ تحریک کروائی تھی کہ کاریگر اپنا نام پیش کریں چنانچہ کئی سَو لوہار، بڑھئی اور دوسرے کاریگروں کی درخواستیں آ گئی ہیں۔ ایسے لوگوں سے اگر وہ یہاں ہوں ( اگر وہ یہاں نہیں ہیں تو اُن کو اطلاع دے دی جائے) میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ پابہ رکاب رہیں۔ مرکز کی طرف سے جس وقت انہیں اطلاع ملے فوراً وہاں پہنچ جائیں اور کام شروع کر دیں۔ ہمارے لئے ایک ایک دن نہایت قیمتی ہے اور ایک ایک دن کی دیر ہمارے لئے مُضر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہمیں وہاں تعمیر کی اجازت دلا دے فوراً ہی ہمیں سینکڑوں معمار، بڑھئی اور درجنوں لوہار اور دوسرے پیشہ ور درکار ہوں گے جو وہاں عارضی طور پر رہناچاہیں یا مستقل طو رپر رہائش اختیار کرنا چاہیں۔ عارضی وہ جو وہاں رہائش اختیار کرنا نہیں چاہتے اور مستقل وہ جن کا یہ ارادہ ہو کہ وہ وہیں بس جائیں۔
ربوہ کی زمین کے متعلق بعض غلط فہمیاں بھی پیدا ہوگئی ہیں جن کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ربوہ ہم نے اس زمین کا نام رکھا ہے جو نیا شہر بسانے کیلئے گورنمنٹ سے خریدی گئی ہے۔ ابھی تک ہمیں وہاں عمارت بنانے کی اجازت نہیں ملی جو زمین ذاتی ہو اُس پر ہر وقت عمارتیں تعمیر کی جا سکتی ہیں مگر جو زمین گورنمنٹ سے خریدی گئی ہو اُس کا نقشہ جب تک حکومت پاس نہ کرے کسی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں ہوتی۔ پس بوجہ گورنمنٹ کی زمین ہونے کے جب تک نقشہ کی منظوری نہ ملے ہم وہاں کوئی عمارت نہیں بنا سکتے۔ یہ زمین جو خریدی گئی ہے اس کے متعلق لوگوں میں مختلف قسم کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں مثلاً بعض لوگوں نے زمین کی قیمت بھجوائی لیکن اس قیمت پر انہیں زمین نہیں دی گئی۔ اس کی پہلے بھی وضاحت کی گئی تھی اور اب بھی اُس کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں۔ مؤمن کا ذہن تیز اور اُس کی عقل صاف ہونی چاہئے کیونکہ مؤمن کے سپرد جتنا کام ہوتا ہے وہ اگر کند ذہنی سے کام لے تو وہ اس کو پورے طور پر سرانجام نہیں دے سکتا۔ مؤمن کا ذہن اتنا تیز ہونا چاہئے کہ وہ سنتے ہی بات کو سمجھ جائے۔
ربوہ کے متعلق جو پہلے اعلان کیا گیا تھا یہ تھا کہ ۵۰۰ کنال تک زمین کی قیمت سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے لی جائے گی اور پندرہ اکتوبر تک لی جائے گی۔ اس اعلان کے یہ صاف معنی تھے کہ ۵۰۰ کنال تک زمین کی قیمت ایک سَو روپیہ فی کنال ہوگی یا پندرہ اکتوبر تک زمین کی قیمت ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے لی جائے گی۔ اب اگر پندرہ اکتوبر تک ۵۰۰ کنال زمین پوری فروخت نہ ہوتی تب بھی یہ تاریخ گزرنے پر قیمت بدل جاتی اور اگر پندرہ اکتوبر سے پہلے ۵۰۰ کنال زمین ختم ہوتی تب بھی قیمت بدل جاتی اِس قسم کی عبارت کے ہمیشہ یہ معنی ہوا کرتے ہیں کہ ان دونوں میں سے جو چیز بھی پہلے ختم ہو جائے گی اُس کے ساتھ ہی قیمت بھی ختم ہو جائے گی۔ اگر ۵۰۰ کنال پندرہ اکتوبر تک بکے تو پندرہ اکتوبر تک تو وہ زمین ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے مل جائے گی لیکن اس تاریخ کے بعد اِسی نرخ پر زمین نہیں ملے گی اسی طرح اگر ۵۰۰ کنال ختم ہو جائے اور مقررہ تاریخ میں خواہ پندرہ دن باقی ہوں تو چونکہ رقبہ ختم ہوگیا اس لئے باقی دنوں میں زمین اسی قیمت پر نہیں ملے گی۔ مگر دوستوں نے اس اعلان کو نہ سمجھا وہ سمجھتے رہے کہ انہیں لازمی طور پر ۱۵؍ اکتوبر تک ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے زمین ملے گی پس جن لوگوں کو بتایا گیا کہ وہ زمین جس کے متعلق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے ملے گی وہ ختم ہو گئی ہے اور اب اس نرخ پر زمین نہیں مل سکتی تو انہوں نے اعتراض کرنے شروع کر دیئے لیکن یہ درست نہیں یہ دونوں چیزیں بہ یک وقت اخبار میں شائع شدہ موجود ہیں یعنی ۵۰۰ کنال ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے دی جائے گی اور پندرہ اکتوبر تک ملے گی۔ اس زمین کو بعد میں ۸۰۰ کنال بھی کر دیا گیا مگر وہ ۸۰۰ کنال بھی ۶یا ۷؍ اکتوبر تک ختم ہوگئی اور اس کے بعد جو درخواستیں موصول ہوئیں وہ ردّ کر دی گئیں لیکن بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے وہ اتنی وضاحت کے باوجود اتنے بھولے پن سے جواب دیتے ہیں کہ اگر نظام کا سوال نہ ہوتا تو شاید اُن کے بھولے پن کی وجہ سے میں صدرانجمن احمدیہ کو مشورہ دیتا کہ اُن کو اِسی قیمت پر زمین دے دی جائے۔
کہتے ہیں کہ جہانگیر بادشاہ نے نورجہاں کے ہاتھ میں دو کبوتر دے کر کہا کہ انہیں پکڑے رکھنا چھوڑنا نہیں اور خود کسی کام کیلئے چلا گیا۔ نورجہاں ابھی بچی تھی اس کے ہاتھ سے اتفاقاً ایک کبوتر اُڑ گیا۔ جہانگیر واپس آیا تو اُس نے نور جہاں سے پوچھا کہ دوسرا کبوتر کہاں گیا؟ اس نے جواب دیا اُڑ گیا ہے۔ جہانگیر نے پوچھا کس طرح؟ نورجہاں نے دوسرا کبوتر اپنے ہاتھ سے چھوڑتے ہوئے کہا کہ اس طرح۔ کہتے ہیں جہانگیر کا نورجہاں سے عشق یہیں سے شروع ہوا تھا۔ اِس واقعہ میں کوئی حقیقت ہو یا نہ ہو بہرحال بعض لوگوں کی سادگی ایسی انتہاء تک پہنچ گئی ہے کہ اگر نظام کا سوال نہ ہوتا تو شاید میں انہیں اسی قیمت پر زمین دے دینے کی سفارش کر دیتا۔ بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے تو روپیہ ۱۴؍ اکتوبر کو بھیج دیا تھا دفتر والوں نے انہیں یہ جواب دیا کہ ۸۰۰ کنال زمین ختم ہو گئی ہے اور اب اِس قیمت پر زمین نہیں مل سکتی اب زمین کا نرخ دو سَوروپیہ فی کنال ہے اگر آپ اِس قیمت پر زمین لینا چاہیں تو زمین مل سکتی ہے مگر آپ جلدی اطلاع دیں کہ آیا آپ کے لئے ایک سَو روپیہ میں ۱۰ مرلہ زمین وقف کر دی جائے یاآپ اور روپیہ بھیج دیں گے تا آپ کے نام پر پوری ایک کنال زمین ریزرو کر دی جائے۔ بجائے اس کے کہ وہ دفتر والوں کو اطلاع دیتے کہ ان کے لئے دس مرلہ زمین ہی ریزرو کر دی جائے یا وہ ایک سَو روپیہ اور بھیج دیں گے اور ان کے نام پر ایک کنال زمین ریزرو کر دی جائے اُنہوں نے بحث جاری رکھی اور مجھے لکھنا شروع کر دیا کہ حضور نے فرمایا تھا کہ ۱۵؍ اکتوبر تک زمین ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے دی جائے گی ہم نے ۱۵؍ اکتوبر سے پہلے روپے ارسال کر دیئے تھے پھر ہمیں زمین سَو روپیہ پر کیوں نہیں ملتی؟ اور اس عرصہ میں وہ دو سَو روپیہ کنال والی زمین بھی ختم ہوگئی اور دفتر والوں نے انہیں لکھا کہ اب زمین کی قیمت تین سَو روپیہ فی کنال ہے اگر آپ پچاس روپیہ اور بھیج دیں تو آپ کیلئے دس مرلہ زمین ریزرو ہو سکتی ہے اور اگر آپ مزید روپیہ نہیں بھیجنا چاہتے تو اپنا روپیہ واپس لے لیں کیونکہ دس مرلہ سے کم زمین نہیں مل سکتی ۔اس پر انہوں نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ابھی تو آپ دو سَوروپیہ پر ایک کنال زمین دے رہے تھے اور اب آپ لکھ رہے ہیں کہ زمین تین سَو روپیہ پر ملے گی ہمیں دوسَو روپیہ فی کنال کے حساب سے زمین لینی منظور ہے۔ پھر وہ ایسی بحث میں مشغول رہے اور زمین کی قیمت ۵۰۰ سَو روپیہ فی کنال ہوگئی اور انہیں لکھ دیا گیا کہ اب زمین کی قیمت پانچ سَو روپیہ فی کنال ہے اگر آپ زمین لینا چاہتے ہیں تو اور روپیہ بھیج دیں ورنہ آپ اپنی رقم واپس لے سکتے ہیں۔ اُنہوں نے لکھا کہ ابھی تو آپ تین سَو روپیہ پر ہمیں ایک کنال دے رہے تھے اور اب آپ کہتے ہیں کہ زمین کی قیمت پانچ سَو روپیہ فی کنال ہوگئی ہے۔ ہمیںتین سَو روپیہ پر ایک کنال منظور ہے۔ آپ ہمیں اِسی قیمت پر زمین دے دیں۔ غرض ان کے بھولے پن کی وجہ سے زمین کی قیمت ایک سَو روپیہ سے پانچ سَو روپیہ فی کنال ہوگئی اور ابھی قیمتیں یقینا اور بڑھیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ قلیل سے قلیل حیثیت کا قصبہ بھی پچیس تیس لاکھ روپیہ کے بغیر تعمیر نہیں ہو سکتا اور یہ ایسی عمارتیں ہونگی جو سارے قصبہ کے کام آئیں گی۔ اب یہ صاف بات ہے کہ یہ روپیہ کوئی ایک شخص نہیں دے گا بلکہ یہ خرچ تمام قصبہ پر پڑے گا۔
قادیان کے لوگوں کی تکالیف کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے زمین کا کافی رقبہ اُن لوگوں کیلئے مخصوص کر دیا تھا تا کہ جو نئے مرکز میں مکان کیلئے زمین لینا چاہیں وہ ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے لے لیں اور کچھ لوگوں کو زمین مفت بھی دی گئی ہے کیونکہ بعض لوگ اتنے غریب تھے کہ وہ ایک سَو روپیہ کنال کے حساب سے بھی زمین نہیں خرید سکتے تھے۔ زمین کا سارا رقبہ جو قابل عمارت ہے وہ چار ہزار کنال ہے۔ اس میں سے دو ہزار کنال تو ایسی عمارتوں کے لئے ہے جو جماعتی عمارتیں ہیں مثلاً مساجد ہیں، کالج ہے، مقبرے ہیں، عید گاہ ہے، دفاتر ہیں، ہسپتال ہے۔ ان پر نصف کے قریب زمین خرچ ہو جائے گی۔ باقی دو ہزار کنال زمین رہ جاتی ہے اب اگر اس دو ہزار کنال زمین کو سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے بیچیں تو صرف دو لاکھ روپیہ مل سکتا ہے پچیس لاکھ روپیہ نہیں مل سکتا اور اگر یہ زمین پانچ سَو روپیہ فی کنال کی اوسط پر بِکے تو دس لاکھ روپیہ مل سکتا ہے لیکن اگر صحیح طور پر بھی خرچ کیا جائے تو نیا قصبہ بنانے پر کم سے کم ۲۵ لاکھ روپیہ صرف ہونا چاہئے۔ ہم نے کچی عمارتیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے تب بھی ہمارا خرچ کا اندازہ ۱۳ لاکھ روپیہ ہے اور یہ صاف بات ہے کہ اگر زمین ۵۰۰ سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے بِکے تب بھی اس سے ۱۳ لاکھ روپیہ نہیں آ سکتا۔ اگر اوسط قیمت چھ سَو روپیہ فی کنال ہو پھر کہیں ۱۲ لاکھ روپیہ آ سکتا ہے اور اگر ساڑھے چھ سَو روپیہ فی کنال ہوتو پھر تیرہ لاکھ روپیہ آ سکتا ہے۔ اب چونکہ قریباً ایک ہزار کنال تو ایک سَو روپیہ فی کنال کے نرخ پر ہی بِک گئی ہے اس لئے اس کے یہ معنی ہیں کہ باقی زمین کی قیمت اتنی بڑھائی جائے کہ دس بارہ لاکھ روپیہ مل جائے اور یہ روپیہ آ نہیں سکتا جب تک کہ زمین ہزار ڈیڑھ ہزار روپیہ فی کنال کے حساب سے نہ بِکے۔ ہمارے لئے اِس وقت دو ہی راستے ہیں یا تو یہ کہ یہ رقم ہم خریداروں سے لیں اور یا یہ کہ بطور چندہ جماعت سے اکٹھی کریں۔ اب یہ صاف بات ہے کہ باقی لوگوں کے لئے کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ وہ اس کے لئے چندہ دیں۔ وہ لوگ کہیں گے کہ یہ چیزیں تو مقامی ضرورتوں کیلئے ہیں جب ہم وہاں نہیں رہتے تو ہم چندہ کیوں دیں۔ بے شک ایسے مخلص لوگ بھی ہونگے جو چندہ دیں گے مگر اخلاقی طور پر وہ اس سوال کا حق رکھتے ہیں کہ وہ کیوں چندہ دیں۔ بہرحال اخراجات کا بیشتر حصہ انہی لوگوں پر پڑے گا جو وہاں آباد ہونگے اور یہ اسی طرح ہی ہو سکتا ہے کہ زمین کی قیمت پانچ سَو، سات سَو، ایک ہزار بلکہ ڈیڑھ ہزار روپیہ فی کنال کر دی جائے۔ پس جن لوگوں نے وہاں مکانات بنانے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ بحث چھوڑیں اور جلدی سے رقبہ محفوظ کرا لیں۔ مجھے ابھی تک خط آ رہے ہیں کہ ہمیں دو سَو روپیہ یا تین سَو روپیہ پر زمین دے دی جائے حالانکہ کچھ عرصہ کے بعد پانچ سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے بھی زمین نہیں مل سکے گی۔ اگر یہ لوگ بحث ہی کرتے رہے تو وہ موجودہ نرخ پر زمین خریدنے سے بھی محروم رہ جائیں گے۔ ہم ربوہ کی آبادی کے لئے عمارتی سامان بھی اکٹھا کر رہے ہیں کیونکہ عقل یہ چاہتی ہے کہ عمارتوں کی تعمیر پر کم سے کم خرچ ہو اور ہم اِس کام کو تنظیم کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے نقشے تیار کروا رہے ہیں جن کے مطابق مکان سستے سے سستا بن سکے۔ ہم نے انجینئروں کو ہدایتیں دی ہیں کہ مختلف ممالک میں جو نئی ترکیبیں مکانات بنانے کی نکلی ہیں اُن کے مطابق اور مختلف انجینئروں سے مشورہ کرنے کے بعد وہ طریق دریافت کریں جس سے مضبوط اور صحت افزاء مکانات کم سے کم خرچ میں تیار ہو سکیں۔ اِس وقت تک جو ہم نے اندازہ لگایا ہے اُس کے مطابق مکان اگر تین کمروں کا ہو اور اُس کے ساتھ برآمدہ، پاخانہ ۱؎، باورچی خانہ اور چار دیواری ہو، بنیادیں پکی ہوں اور عمارت کچی ہو تو اکتیس سَو روپیہ میں بن سکتا ہے۔ اِس سے گھٹیا درجہ کے مکان کا اندازہ اس سے کم ہے۔ ہمارا آخری اندازہ یہ ہے کہ ایک معمولی مکان جس میں دو تین کمرے ہوں سات آٹھ سَو روپیہ میں بن سکتا ہے۔ آجکل چیزیں بہت گراں ہیں اور انہیں حاصل کرنا اور بھی مشکل ہے لیکن پھر بھی بعض صورتوں میں توہمارا اندازہ ہے کہ دو کمرے والا مکان غالباً چار پانچ سَو روپیہ میں ہی بن جائے گا۔ یہی روپیہ جو ربوہ کی قیمت کے طور پر آیا ہے اس سے ہم نے سامان اکٹھا کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں جہاں جہاں سامان کا پتہ چلتا ہے ہم اُسے خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک ایروڈرام کی عمارتیں نیلام ہو رہی تھیں اُس کا سامان ہم نے خرید لیا ہے اس میں سینکڑوں بالے، روشندان، کھڑکیاں اور دروازے وغیرہ ہیں۔ اگر وہ سامان بازار سے خریدا جاتا تو وہ پندرہ سولہ ہزار میں بھی نہیں مل سکتا تھا۔ اِسی طرح لکڑی اور لوہے کا سامان حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پس وہ لوگ جو چاہتے ہوں کہ ربوہ میں مکان بنوانے کا کام فوراً شروع کرا دیں تو وہ خزانہ میں روپیہ جمع کرا دیں تا جب بھی سامان خریدا جائے، انہیں اصل لاگت پر مہیا کر دیا جائے۔ صرف پانچ فیصدی مرکزی اخراجات کے لئے ان سے لیا جائے گا اور کوئی نفع نہیں لیا جائے گا۔
ربوہ میں مکانات بنوانے کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس کی مدت بہت کم رکھی گئی ہے۔ اخبار الفضل میں اس کے متعلق اعلان ہونے پر مختلف لوگوں کی طرف سے مختلف قسم کے سوالات کئے گئے ہیں۔ جن کے جوابات بھی دیئے گئے تھے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اُن کے متعلق پھر کچھ کہہ دوں۔
قریب میں ہی مجھے ایک رؤیا ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی بات ہے جو بہت سے لوگوں کے دلوں میں ابھی تک قائم ہے۔ دو تین دن کی بات ہے مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ کوئی دوست آئے ہیں اُس وقت میری جیب میں بہت سی قلمیں ہیں جن میں سے کچھ کانے کی ہیں اور کچھ فاؤنٹین پن ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اُس دوست کو تبرک کے طور پر کچھ دوں۔ چنانچہ میں نے چاہا کہ کانے کی خوبصورت قلمیں جو میری جیب میں ہیں اُن میں سے کچھ اُسے بطور تبرک کے دے دوں۔ میں نے جب انہیں جیب میں سے نکال کر دیکھا تو وہ ٹوٹی ہوئی تھیں۔ میں اپنے ذہن میں یہ خیال کرتا ہوں کہ اُسے صرف بطور تبرک کے کچھ چاہئے اور جو چیز بطور تبرک دی جاتی ہے اس کے لئے صرف یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ جسم کے ساتھ چھوئی ہوئی ہو یا کچھ عرصہ ساتھ رہی ہو۔ اس کا سلامت ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ چنانچہ میں نے کہا کہ یہی بطور تبرک دے دیتا ہوں۔ ان لوگوں میں جو میرے سامنے کھڑے ہوئے ہیں ڈاکٹر عبدالحق صاحب ڈینٹسٹ (DENTIST) بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ربوہ میں مکانات بنانے کے لئے جو شرط لگا دی ہے کہ دو ماہ کے اندر اندر بنائے جائیں اِس پر کیسے عمل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اخبار میں چھ ماہ کے اندر مکان تعمیر کرنے کا اعلان ہوا تھا مگر ہو سکتا ہے کہ کہیں دو ماہ بھی لکھا گیا ہو۔ مجھ سے بعض لوگوں نے بیداری میں بھی دو ماہ کی ہی مدت کا ذکر کیا ہے بہرحال ڈاکٹر صاحب خواب میں مجھ سے یہی کہتے ہیں۔ میں انہیں کہتا ہوں اصل چیز تو یہ ہے کہ ہمیں مکان بنانے کی نیت کر لینی چاہئے۔ پھر اس میں جو مشکلات پیش آئیں گی وہ سب کیلئے ہونگی۔ چھ ماہ کی مدت تو اس لئے رکھی گئی ہے تا جماعت کے اندر ایک بیداری پیدا ہو جائے اور وہاں جلد آبادی ہو جائے۔ اس خیال کی وجہ سے کہ کوئی شخص اس عرصہ میں مکان کیسے تعمیر کرے گا ربوہ میں زمین خریدنے سے اُسے نہیں رُکنا چاہئے۔ اس رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کے دلوںمیں ایسا خیال پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے مجھے یہ رؤیا ہوئی ہے۔ یہ سیدھی بات ہے کہ جو مشکلات ان کے سامنے پیش آئیں گی وہ ساروں کے لئے ہونگی اگر وہ ناقابل برداشت ہونگی تو صرف اُن کیلئے ہی ناقابل برداشت نہیں ہونگی بلکہ سب کے لئے ناقابل برداشت ہونگی اور اگر قابل حل ہوئیں تو جیسے باقی حل کر لیں گے وہ بھی حل کر لیں۔ بہرحال یہ سیدھی بات ہے کہ کوئی شخص کسی سے ناممکن کام نہیں کرا سکتا جو مشکلات پیش آئیں گی انہیں حل کرنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ یہ عقل کے خلاف ہے کہ سلسلہ جماعت کے دوستوں کو اُس کام کے کرنے پر مجبور کرے جس کا کرنا ان کے لئے ناممکن ہو۔
اب میں اس کے متعلق ایک سوال لیتا ہوں جو بعض لوگوں کے دلوںمیں وساوس پیدا کر رہا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ربوہ کی زمین کے متعلق مختلف قسم کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اور لوگوں میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر قادیان ہمیں واپس مل جانا ہے تو پھر ایک نیا شہر آباد کرنے کی ضرورت کیا ہے ایک نئے شہر کا آباد کرنا بتاتا ہے کہ ہمیں قادیان کے واپس ملنے کے متعلق شُبہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جماعت کے اندر کچھ منافقین پائے جاتے ہیں جو آہستہ آہستہ جماعت کے اندر وساوس پیدا کرتے رہیں گے وہ کہتے ہیں دیکھو! اگر قادیان کے واپس مل جانے کا ہمیں یقین ہوتا تو کسی اور شہر کے بسانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ دوسری جگہ ایک نیا شہر آباد کرنے کی کوشش کرنا وہاں سکول اور کالج وغیرہ بنانا اور دوسرے لوگوں کو وہاں آباد ہونے کی تحریک کرنا بتاتا ہے کہ انہیں یہ یقین ہے کہ قادیان واپس نہیں ملے گا۔ اس اعتراض کے میں چند جواب دیتا ہوں۔
اوّل میرے یا کسی اور کے دل کے وسوسہ کا یہاں سوال نہیں۔ سوال یہ ہے کہ میرے ساتھ کسی کو عداوت ہو یا خلافت کے ساتھ کسی کو اختلاف ہو یا تنظیم سے کسی کواختلاف ہو تو ایک اور بات ہے مگر جو شخص احمدی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے توکوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ آپ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ہمارا مرکز دائمی طور پر قادیان مقرر فرمایا ہے۔ اب یہ جو آپ نے فرمایا ہے اس میں کسی جھوٹ کا امکان نہیں ہوسکتا نہ میرے وسوسے، میری کمزوری یا نظام کی کسی غلطی کی وجہ سے یہ بات غلط ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص احمدیت پر یقین رکھتا ہے اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے دعویٰ میں سچا مانتا ہے تو اسے میری دشمنی کی وجہ سے خلافت یا تنظیم سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے یہ حق تو نہیں ہو سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی میں شُبہ کرے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان رکھتا ہے پھر میں ایسے شخص سے جو یہ خیال کرتا ہے کہ چونکہ ہم اپنا مرکز ایک نئے مقام پر بنانے لگے ہیں اس لئے ہمیں قادیان کے واپس ملنے کی امید نہیں ہے دریافت کرتا ہوں کہ جب حکومت ریلیں بناتی ہے، نہریں بناتی ہے یا کوئی اور بڑا کام کرتی ہے تو وہ عارضی عمارتیں بناتی ہے یا نہیں؟ ہم نے تو کئی جگہ پر دیکھا ہے کہ جب بھی حکومت کوئی بڑا کام کرتی ہے وہ لاکھوں کی عمارتیں کھڑی کر دیتی ہے۔ لائیڈ بیراج کے وقت بھی لاکھوں کی عمارتیں بنائی گئی تھیں۔ اب جب دریائے سندھ کا بند ٹوٹا ہے میں کوئٹہ سے واپس آیا تو راستہ میں پھونس کے چھپر سینکڑوں کی تعداد میں بنے ہوئے تھے ان میں مزدور رہتے تھے اور وہ بند کی مرمت کرتے تھے۔ پس جب عارضی کام کے لئے کئی عمارتیں بنائی جاتی ہیں اور اُن پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تو اس پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی اُس وقت آپ نے خداتعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ اے خدا! میں یہ گھر اس لئے بناتا ہوں کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والا ایک شخص پیدا ہو جو تیرا نبی ہو اور وہ تیری آیات پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سنائے، تیری کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کا تزکیۂ نفوس کرے۔ اِس دعا کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو قائم کیا اور وہاں اپنی اولاد کو بسایا۔ اس دعا کے سَو سال بعد تک وہ آدمی نہیں آیا جس کے لئے دعا کی گئی تھی لیکن عربوں نے اپنے یقین کو نہ چھوڑا اور انہوں نے سمجھا کہ وعدۂ ابراہیمی ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ دو سَو سال گزرنے کے بعد بھی وہ نبی نہ آیا۔ پھر بھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی۔ تین سَو، چار سَو بلکہ پانچ سَو سال گزرنے کے بعد بھی کسی نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے میں شک نہیں کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا فاصلہ ساڑھے بائیس سَو سال کا ہے بلکہ بعض روایات کے مطابق پچیس یا چھبیس سَو سال کا فاصلہ ہے۔ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی آپ کے بعد اڑھائی ہزار سال گزرنے تک بھی پوری نہ ہوئی۔ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ساڑھے بائیس سَو سال کا عرصہ ہی سمجھ لیا جائے تب بھی اتنے لمبے عرصہ میں کتنی چیزیں غائب ہو جاتی ہیں۔ اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پیدا ہوئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا پوری ہوئی کہ اے خدا! تو اُن میں اپنا رسول مبعوث فرما جو تیری آیات پڑھ پڑھ کر انہیں سنائے،انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور اُن کا تزکیہ نفوس کرے۔ اتنے سالوں تک انتظار کرنے میں خواہ عرب مکہ میں رہے یا باہر بہرحال ان کے اندر کوئی مایوسی پیدا نہیں ہوئی۔ پھر یہ کونسی عقل کی بات ہے کہ ہم ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد ہی مایوس ہو جائیں اور خیال کرلیں کہ قادیان ہمیں واپس نہیں ملے گا۔ محض خیال کر لینا کہ چونکہ ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور ہمیں قادیان نہیں ملا اس لئے اب ہمیں اس کے واپس ملنے کی کوئی امید نہیں، قطعی طو رپر غلط ہے ہمیں امید تو یہی ہے کہ قادیان ہمیں واپس مل جائے گا مگر کیا احمدی اتنے گرے ہوئے ہیں کہ وہ کچھ مدت کا انتظار بھی نہیں کر سکتے۔ پس ہم نے جو نیا مرکز بناناہے یہ مایوسی کی وجہ سے نہیں بلکہ درمیان اورعارضی زمانہ کے لئے بھی لوگ کام کیا کرتے ہیں اس لئے ہم نے بھی یہ کام کیا ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ کیا پیشگوئی کرنے والا جھوٹا ہے اور کیا اس کی یہی ایک پیشگوئی ہے یا اس کی صداقت کے اور بھی نشانات ہیں؟ آخر ہم میں سے بعض نے یہ خیال کیوں کر لیا کہ ہمیں قادیان واپس نہیں ملے گا یا وہ کیوں کہتے ہیں کہ ہمیں قادیان کے واپس ملنے میں شُبہ ہے اس کی دو ہی وجہیں ہیں۔ اوّل اس لئے کہ ایک سال ہو گیا ہے مگر ہمیں قادیان واپس نہیں ملا اس کے جواب میں میں نے یہ دلیل دی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے متعلق جو پیشگوئی کی اس کے بعد ساڑھے بائیس سَو سال تک وہ شخص نہ آیا جس کے متعلق آپ نے پیشگوئی کی تھی مگر عربوں کو اس کے پورا ہونے میں کوئی شُبہ نہ گزرا۔ پھر قادیان کے واپس ملنے میں ہمیں شُبہ کیوں ہو۔ دوسرا جواب میں نے یہ دیا ہے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ اکیلی پیشگوئی ہے یا کوئی اور بھی ہے اگر آپ کی اور بھی پیشگوئیاں ہیں اور وہ پوری ہوگئی ہیں تو یہ پوری کیوں نہیں ہوگی۔ اگر یہ ایک پیشگوئی ہو تب تو یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ ممکن ہے ہمیں قادیان واپس نہ ملے لیکن جب آپ کی سینکڑوں اور ہزاروں پیشگوئیاں پوری ہو کر لوگوں کی حیرت کا موجب ہوئیں تو ہمیں کیسے شُبہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی۔ان حیرت انگیز انکشافات کو پورا ہوتے دیکھ کر جو آپ پر ظاہر ہوئے ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی بلکہ یہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ یہ پیشگوئی بھی ضرور پوری ہوگی اور ہم یہ شُبہ نہیں کرسکتے کہ ہمیں قادیان واپس نہیں ملے گا۔
قادیان میں کئی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آتے تھے اور آپ سے کہتے تھے کہ آپ کوئی معجزہ دکھائیں۔ مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو معجزے پہلے دکھائے جا چکے ہیں اُن سے آپ نے کیا فائدہ اُٹھایا ہے؟ آخر پہلے جو معجزے دکھائے گئے ہیں آپ ان کے متعلق غور کریں کہ وہ صحیح تھے یا نہیں۔ اگر وہ غلط تھے تو پھر میرا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا ایسی صورت میں مجھ سے اور معجزات مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر پہلے جو معجزات دکھائے گئے تھے وہ سچے تھے تب بھی نئے معجزات تمہارے لئے فائدہ مند نہیں ہو سکتے کیونکہ جب آپ نے پہلے معجزات سے فائدہ نہیں اُٹھایا تو اب نئے معجزات سے تم کیا فائدہ اُٹھاؤ گے۔ یہی جواب میں قادیان کے متعلق دیتا ہوں۔ قادیان کے واپس ملنے کے متعلق ہمیں شُبہ تب پڑ سکتا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی اور پیشگوئی نہ ہوتی۔ اگر آپ کی اور بھی پیشگوئیاں اور نشانات ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوئے جنہوں نے قطعی اور یقینی طور پر ثابت کر دیا کہ آپ سچے رسول ہیںتو آپ کی ایک پیشگوئی کے متعلق ہم کیسے شُبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں ہم جنہوں نے آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ہم صرف آپ کو دیکھ کر ہی جانتے ہیں کہ آپ سچے تھے جھوٹے نہیں تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ فرمایا اُس وقت حضرت ابوبکرؓ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ آپ جب واپس مکہ میں آئے تو رستہ میں ایک دوست کے ہاں آرام کرنے کیلئے ٹھہر گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مئی کے مہینہ میں دعویٰ نبوت فرمایا تھا اور چونکہ سخت گرمی کا موسم تھا آپ نے بجائے گھر جانے کے مناسب خیال کیا کہ آپ اپنے دوست کے ہاں دوپہر کاٹ لیں۔ آپ ابھی اپنے دوست کے گھر بیٹھے ہی تھے کہ اُس کی ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی ہائے تیرا دوست تو پاگل ہوگیا ہے۔ آپ نے پوچھا کون؟ کہنے لگی! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے پوچھا اُسے کیا ہوا؟ اس لونڈی نے جواب دیا۔ وہ کہتا ہے کہ مجھ سے خداتعالیٰ کلام کرتا ہے اور مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں۔ آپ نے فوراً اپنی چادر سنبھالی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ کے دوست نے اصرار کیا کہ گرمی زیادہ ہے دوپہر کا وقت ہے ذرا آرام کر لیں مگر آپ نے فرمایا اب میں ٹھہر نہیں سکتا۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر تشریف لائے اور دستک دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ کھولا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب آپ کو دیکھا تو دیکھتے ہی کہا۔ میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ کیا آپ نے یہ کہا ہے کہ مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں اور خداتعالیٰ مجھ سے کلام کرتا ہے؟ چونکہ مکہ میں ایک شور پڑا ہوا تھا اور حضرت ابوبکرؓ آپ کے پُرانے دوست تھے آپ نے خیال کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُسے ٹھوکر لگ جائے۔ آپ نے فرمایا۔ ابوبکر بات یہ ہے کہ … آپ تشریح کر کے اپنا دعویٰ بتانے لگے کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا۔ میں یہ نہیں سننا چاہتا۔ آپ مجھے صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ نے کہا ہے کہ مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ابوبکر! جلال میں کیوں آتے ہو بات تو سنو اصل بات یہ ہے کہ…… حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا میں آپ کو خداتعالیٰ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ اور کوئی بات نہ کریں آپ مجھے صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ نے یہ کہا ہے یا نہیں کہ مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں! میں نے ایسا کہا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔۲؎ اس کے بعد اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!آپ تو دلیلیں دے کر میرے ایمان کو خراب کرنے لگے تھے۔ جب میں نے آپ کو پہلے ہی دیکھا ہوا تھا اور میں جانتا تھا کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے تو پھر کسی دلیل کی ضرورت ہی کیا تھی۔ آپ دلیلیں دے کر میرے ایمان کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔ گویا میں مشاہدے کے بعد بھی کسی اور دلیل کا محتاج ہوں۔ غرض
آفتاب آمد دلیلِ آفتاب
بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی دلیل آپ ہوتی ہیں ان کو دیکھنے کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یہی حال ہم نے دیکھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیکھنے کے بعد ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ آپ جھوٹ بول سکتے ہیں۔
ایک دوست منشی اروڑے خاں صاحب ہوتے تھے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پُرانے صحابی تھے اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعویٰ سے پہلے بھی دیکھا ہوا تھا اور آپ سے ملتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو دیکھنے کیلئے قادیان تشریف لارہے تھے کہ لوگ آپ کو پکڑ کر مولوی ثناء اللہ صاحب کے پاس لے گئے۔ مولوی ثناء اللہ صاحب سے اُن لوگوں نے کہا کہ یہ (منشی صاحب) کپور تھلہ سے آ رہے ہیں اور قادیان جارہے ہیں۔ یہ مرزا صاحب کے بڑے مرید ہیں آپ انہیں سمجھائیں۔ مولوی ثناء اللہ صاحب دلائل دیتے رہے اور وہ خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ جب مولوی صاحب اپنے دلائل دے چکے تو لوگوں نے منشی صاحب سے کہا اب بتائیے کیا مرزا صاحب سچے ثابت ہوئے ہیں یا جھوٹے؟ منشی صاحب نے فرمایا مولوی صاحب آپ نے پندرہ بیس منٹ تقریر کی ہے آپ خواہ دو دن بھی تقریر کریں میں نے تو حضرت مرزا صاحب کا منہ دیکھا ہوا ہے مجھ پر اس کا کچھ اثر نہیں ہو سکتا۔ میں نے حضرت مرزا صاحب کا چہرہ دیکھا ہے اور آپ کو دیکھنے کے بعد میں یہ جانتا ہوں کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ اسی طرح ہم جو آپ کو بچپن سے دیکھتے رہے ہیں کسی طرح یہ قیاس بھی نہیں کر سکتے کہ آپ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) اسلام کے دشمن تھے۔
میں ابھی چھوٹا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کے ساتھ بڑی مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور بڑی محبت کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کسی کتاب کا مسودہ لکھ رہے تھے اُس وقت میری عمر گیارہ بارہ سال کی تھی آپ کی عادت تھی کہ آپ ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھتے بھی جاتے تھے۔ اسی طرح آپ اُس وقت ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھ بھی رہے تھے۔ مسجد کے پاس ہی ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جسے بیت الفکر کہتے ہیں۔ اُس کی ایک کھڑکی مسجد کی طرف کھلتی تھی۔ میں بھی پہلے اُس کھڑکی سے گزر کر نماز پڑھانے کے لئے آیا کرتا تھا بعد میں ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسری کھڑکی بنا دی گئی اور میں نے اُس سے آنا شروع کر دیا۔ اس کمرے یعنی بیت الفکر میں حضرت (اماں جان) رحل پر قرآن کریم رکھے تلاوت کر رہی تھیں۔ آپ کے پاس ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بھی بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبارک احمد سے بے حد پیار تھا بلکہ آپ کا پیار عشق کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھ بھی رہے تھے میں بھی پاس کھڑا تھا میں نے دیکھا کہ جیسے چیل جھپٹا مارتی ہے آپ کود کر اُس کمرہ میں گئے اور مبارک احمد کو ایسا تھپڑ مارا کہ اُس کے منہ پر سرخ نشان پڑ گئے۔ میں حیران تھا کہ ہوا کیا؟ ساتھ ہی آپ نے یہ الفاظ کہے تجھے شرم نہیں آتی کہ تم اللہ تعالیٰ کے کلام کی بے حرمتی کرتے ہو! بعد میں میں نے والدہ صاحبہ سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ مبارک احمد کوئی چیز مانگ رہا تھا میںنے کہا کہ تلاوت کے بعد میں تمہیں وہ چیز دوں گی۔ اِس پر اُس نے رحل کو دھکا دیا اور کہا یہ چھوڑ دو اور مجھے وہ چیز دو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سنتے ہی کود کر اندر آئے اور ایسے زور کے ساتھ اُسے تھپڑا مارا کہ اس کے منہ پر نشان پڑ گئے۔ حالانکہ مبارک احمد اُس وقت ایک چھوٹا بچہ تھا اور آپ اس سے حددرجہ پیار کرتے تھے اب کوئی شخص خواہ کتنی دلیلیں دے خواہ دس کروڑ دلیلیں دے اور کہے کہ آپ کو قرآن کریم سے عشق نہیں تھا تو ہم پر اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے۔ جس نے وہ نظارہ دیکھا ہے۔ جس نے آپ کی وہ غیرت اور وہ جوش دیکھا ہے کیا وہ ایک لمحہ کیلئے بھی مان سکتا ہے کہ آپ کے دل میں اسلام کی کوئی غیرت نہیں تھی، قرآن کریم کی کوئی غیرت نہیں تھی یا آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں تھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو محبت آپ کو تھی اس کا اندازہ مرزا سلطان احمد صاحب کے ایک واقعہ سے بھی ہو سکتاہے۔ مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ پر ایمان نہیں لائے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد انبیاء کی ہتک کے متعلق جب قانون پاس ہوا اُن دنوں میں اُن کی عیادت کے لئے گیا وہ اُن دنوں بیمار تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اُنہوں نے کہا۔ بڑا شکر ہے کہ مرزا صاحب فوت ہوگئے۔ مجھے اس بات پر سخت غصہ آیا کیونکہ وہ احمدی نہ ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب اور احترام نہیں کرتے تھے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے آج اگر مرزا صاحب زندہ ہوتے تو وہ ضرور قید ہو جاتے کیونکہ ان کے سامنے اگر کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہتک آمیز فقرہ کہہ دیتا تو اُنہوں نے اُس کے سب اوتاروں کو رگڑ دینا تھا۔ یہ ایک ایسے شخص کی روایت ہے جو آپ کی زندگی میں احمدیت میں داخل نہیں ہوا تھا۔ ان حالات کے ہوتے ہوئے ایک احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان رکھتا ہے یہ خیال بھی کیسے کر سکتا ہے کہ آپ کی یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی اور قادیان ہمیں واپس نہیں ملے گا۔
قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ اس دلیل کو لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے ۳؎ یعنی اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو کیا تم اپنی اعقاب پر پھر جاؤ گے۔ یہ آیت جنگ اُحد کے متعلق ہے جس میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر یہ خبر صحیح بھی ہوتی کہ آپ شہید ہوگئے ہیں تو کیا تم مرتد ہو جاتے۔ حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا اور یہ وعدہ قرآنِ کریم میں موجود ہے کہ آپ انسانی ہاتھوں سے قتل نہیں ہونگے۔ ۴؎ اللہ تعالیٰ آپ کو انسانی ہاتھوں سے محفوظ رکھے گا اور قتل نہیں ہونے دے گا۔ اِدھر تورات میں بھی یہ موجود تھا کہ آخری نبی کو کوئی شخص مار نہیں سکتا اگر کسی نے دعویٰ نبوت کیا اور پھر وہ مارا گیا تو وہ جھوٹا ہوگا۔ مگر باوجود اس کے کہ تورات میں بھی یہ بات موجود تھی کہ آخری نبی انسانی ہاتھوں سے مارا نہیں جائے گا اور قرآن کریم میں بھی یہ لکھا تھا ۔ آپ انسانی ہاتھوں سے مارے نہیں جائیں گے۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنی اعقاب پر پھر جاؤ گے؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا کہ آپ قتل نہیں ہونگے۔ بے شک تورات میں بھی یہ لکھا تھا کہ آخری نبی مارا نہیں جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ مارے جاتے تو کیا آپ جھوٹے ہوتے؟ کیا آپ کی صداقت کے اور بھی دلائل موجود ہیں یا نہیں؟ آپ کی صداقت کے تو اِس قدر دلائل موجود ہیں کہ تم نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا اس لئے آپ نَعُوْذُبِاللّٰہِ جھوٹے ہیں۔ تم یہی کہہ سکتے ہو کہ پھر ہم اس پیشگوئی کے معنی غلط سمجھے ہیں۔ اگر ۹۹ پیشگوئیاں ایک طرف ہوں اور ایک پیشگوئی ایک طرف ہو تو ایک پیشگوئی کے صادق نہ آنے کی وجہ سے باقی ننانوے پیشگوئیاں غلط نہیں ہو جائیں گی۔ اگر آپ کے صدق کے ننانوے اَور دلائل موجود ہیں تو ایک پیشگوئی اگر صادق نہ آئے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ آپ جھوٹے ہیں بلکہ یہ کہیں گے کہ ہم نے اس پیشگوئی کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کھائی ہے۔ بہرحال جب کسی کی صداقت کے بہت سے نشانات اور دلائل ہوں تو کسی ایک نشان یا دلیل کے پورا نہ ہونے سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ اس کے باقی نشانات اور دلائل بھی غلط ہیں۔ کثرت کے ماتحت قلت ہوتی ہے قلت کے ماتحت کثرت نہیں ہوتی۔
تیسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ہماری ہجرت کے متعلق پہلے سے پیشگوئی موجود تھی۔ اگر یہ پیشگوئی پہلے سے موجود نہ ہوتی تب بھی کوئی بات تھی۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی صراحتًا موجود ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے ’’داغِ ہجرت‘‘ ۵؎ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمیں قادیان چھوڑنی پڑے گی۔ اسی طرح آپ پر اللہ تعالیٰ نے وہی وحی نازل فرمائی جو اس نے رسول کریم ﷺ پرہجرت کے متعلق نازل فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۶؎ ہم اس ہستی کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس نے تجھ پر قرآن کریم فرض کیا ہے کہ تو مکہ سے نکالا جائے گا اور پھر مکہ میں واپس لایا جائے گا۔ یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا۔۷؎ جب یہی الہام آپ کو ہوا ہے تو پھر اس کے معنی بھی وہی ہوں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کے تھے کہ وہ تمہیں قادیان سے نکالے گا اور پھر قادیان میں اپنے فضل سے واپس لائے گا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو وفات پا گئے ہیں اور پیشگوئی آپ کے بعد پوری ہوئی۔ اگر اس پیشگوئی نے پورا ہونا تھا تو آپ کی زندگی میں ہی کیوں پوری نہ ہوئی؟ اس سوال کا جواب خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میںموجود ہے۔ آپ فرماتے ہیں میرے ہاتھ میں قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۸؎ لیکن واقعہ یہ ہے کہ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھ میں نہیں دی گئیں بلکہ حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں دی گئیں جو آپ کے خلیفہ دوم تھے۔ گویا اُس چیز کو جو حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں آنے والی تھی اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دیا جانا قرار دیا۔ درحقیقت یہ ایک عام دستور ہے کہ کبھی وہ بات جو ماتحت کے ساتھ کی جاتی ہے اُسے بزرگ کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے اور کبھی وہ بات جو بزرگ کے ساتھ کی جاتی ہے اُسے ماتحت کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا یہ تھا کہ آپ کے ہاتھ میں قیصرو کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں ہیں مگر ہوا یہ کہ وہ کنجیاں حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں دی گئیں۔
اسی طرح آپ کی ایک اور رؤیا بھی ہے۔ آپ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے پاس جنتی انگوروں کے دوخوشے لایا میں نے اس سے پوچھا یہ کس کیلئے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ ان میں سے ایک خوشہ آپ کے لئے ہے اور دوسرا ابوجہل کے لئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں اس کے جواب میں اتنا گھبرایا کہ میری آنکھ کھل گئی اور میں نے کہا کہ کیا خداتعالیٰ کے نزدیک اس کا ایک نبی اور دشمن دونوں ایک ہی مقام پر ہیں؟ خداتعالیٰ کے نبی کیلئے بھی بہشت کے انگوروں کا خوشہ آیا ہے اور اس کے دشمن کے لئے بھی بہشت سے انگوروں کا خوشہ آیا ہے۔۹؎ آپ فرماتے ہیں میرے دل پر اس رؤیا کی وجہ سے ایک بوجھ سا رہا۔ یہاں تک کہ عکرمہؓ ایمان لایا تب اس رؤیا کی تعبیر میری سمجھ میں آئی کہ ابوجہل سے مراد عکرمہؓ تھا۔
اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جگہ ابوجہل دکھایا گیا مگر اس سے مراد اس کا بیٹا تھا اور دوسری جگہ آپ کو یہ دکھایا گیا کہ قیصروکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپ کو ملیں مگر ملیں حضرت عمرؓ کو جو آپ کے دوسرے خلیفہ تھے۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’داغِ ہجرت‘‘ کا الہام تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا مگر یہ پیشگوئی درحقیقت آپ کے خلیفہ دوم کے ساتھ وابستہ ہے۔ چنانچہ یہ ہجرت کا واقعہ میری زندگی میں ہوا اور میں ہی آپ کا خلیفہ دوم ہوں۔
اس کے علاوہ خدا تعالیٰ نے خود مجھ پر اس پیشگوئی کو اس طرح بار بار کھولا ہے کہ حیرت آ جاتی ہے میں نے اپنے رؤیا کئی لوگوں کو سنائے ہیں اور وہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ واقعی حیرت انگیز ہیں۔ میں نے ۱۹۴۱ء میں ایک رؤیا دیکھا تھا جو ۱۳؍ جنوری ۱۹۴۲ء کے الفضل میں شائع شُدہ موجود ہے میں نے دیکھا کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے اور اس حملہ میں دشمن نے ہر قسم کے ہتھیار استعمال کئے ہیں اس کے نتیجہ میں ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ میں قادیان سے اس غرض کے لئے نکلا ہوں کہ میں مرکز کے لئے نئی جگہ تلاش کروں تا کہ ہم وہاں اکٹھے ہو کر قادیان کو واپس لینے کی کوشش کریں۔ جب میں اس جگہ پر پہنچا ہوں (میں تفصیل کو چھوڑتا ہوں کیونکہ وہ الفضل میں چھپی ہوئی ہے) تو ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا بڑی تباہی ہے، بڑی تباہی ہے۔ جالندھر میں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے اور لوگوں کو کہیں پناہ نہیں ملی۔ پھر میں نے دیکھا کہ قادیان کے سارے محلے دشمن نے لے لئے ہیں۔ میں نے ایک دوست سے پوچھا۔ مسجد مبارک کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ لوگ تو اب تک مقابلہ کر رہے ہیں۔ میں نے کہا اگر وہ مقابلہ کر رہے ہیں تو پھر ہمیں کامیابی ہو جائے گی۔
بھلا ۱۹۴۲ء میں کس کو خیال تھا کہ جنگ ہوگی۔ پھر کس کو خیال تھا کہ توپیں چلیں گی رائفلوں سے لڑائیاں ہونگی اور پھر قادیان اس علاقہ میں ہوگا جس پر دشمن کا قبضہ ہوگا پھر یہ تباہی جالندھر تک ہوگی اور یہ کہ قادیان کے تمام محلے خالی ہو جائیں گے۔ صرف حلقہ مسجد مبارک اپنی جگہ پر جما رہے گا۔ میری یہ رؤیا اخبار میںچھپی ہوئی موجود ہے اور اخبار ساری دنیا میںپھیل جاتے ہیں اور اُن کی ایک کاپی سرکاری دفاتر میں بھی محفوظ رہتی ہے اس لئے اس میں بناوٹ کا احتمال نہیں ہو سکتا یہ پیشگوئی ساری کی سار ی پوری ہوئی ہے حملے بھی ہوئے، تباہی بھی آئی اور پھر یہ غیرمعمولی بات ہے کہ سارے مشرقی پنجاب میں صرف قادیان ایک ایسا مقام ہے جہاں مسجد مبارک کے حلقہ میں اب تک اذانیں دی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کیا جاتا ہے یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں دیکھ کر کوئی انسان اس پیشگوئی میں شُبہ نہیں کر سکتا اور اسے ماننا پڑتا ہے کہ ہمیں خدائی کلام کے ماتحت قادیان چھوڑنا پڑا ہے اور وہ بہرحال ہمیں ایک دن واپس ملے گا۔
اسی طرح PARTITION کے اعلان سے چند دن پہلے میں دعا کرتا ہوا لیٹ گیا۔ غالباً اُس دن آخری روزہ تھا۔ مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی اور پھر الہام ہوا اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَأْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا۔ یعنی تم جہاں کہیں بھی جاؤ گے خداتعالیٰ تمہیں اکٹھا کرکے لے آئے گا۔ اس وقت پارٹیشن (PARTITION)کا اعلان نہیں ہوا تھا اور ضلع گورداسپور پاکستان میں تھا اس وقت خداتعالیٰ نے مجھے الہام میں بتایا کہ اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَأْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا تم جہاں کہیں بھی جاؤ گے اللہ تعالیٰ تمہیںاکٹھا کر کے واپس لے آئے گا۔
اب دیکھو اس الہام میں ہمارے قادیان سے دوسری جگہ جانے کی بھی خبر ہے اور پھر واپس آنے کی بھی خبر ہے۔ PARTITION کے اعلان سے پہلے صبح کے دس بجے کے قریب مجھے یہ الہام ہوا تھا اور رات کو یہ اعلان ہوا کہ گورداسپور انڈین یونین میں شامل کر دیا گیا ہے۔
پس یہاں شُبہ کی کوئی وجہ ہی نہیں۔ جب اس پیشگوئی کا وہ حصہ پورا ہوگیا جو انذار کا تھا تو اس کا وہ حصہ کیوں پورا نہیں ہوگا جو تبشیر کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے اور تمام صوفیاء اس پر متفق ہیں کہ جب اس کی طرف سے سختی اور تلخی کی کوئی خبر دی جاتی ہے تو وہ دعا اور گریہ و زاری سے ٹل جاتی ہے لیکن اس کی طرف سے بشارت کی خبر نہیں ٹل سکتی کیونکہ انذار کی خبر کو ٹلا دینا رحم اور خوبی ہے اور وعدے کو ٹلا دینا بے وفائی اوربدعہدی ہے اور خداتعالیٰ رحم تو کر سکتا ہے بے وفائی اور بدعہدی نہیں کر سکتا۔ اس لئے وہ انذار کی خبر کو ٹلا سکتا ہے خوشی کی خبر کو نہیں ٹلا سکتا۔ پس جب وہ بات جو اصول کے مطابق ٹل سکتی تھی نہیں ٹلی تو جو نہیں ٹل سکتی اُس کے متعلق تم کس طرح یہ خیال کر سکتے ہو کہ وہ واقع نہیں ہوگی۔
دوسرا شُبہ جو قادیان کے واپس ملنے کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو گیا ہے وہ یہ ہے کہ جب قادیان ملنا ہے تو پھر ربوہ کی تعمیر کی کیا ضرورت ہے اور ایک نیا مرکز کیوں تعمیر کیا جا رہا ہے؟ اس کی کئی وجوہ ہیں اوّل پیشگوئیوں کو پورا کرنے کیلئے بھی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ مکہ آپ کو واپس دیا جائے گا مگر کیا مکہ کو واپس لینے کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے جہاد نہیں کیا لڑائیاں نہیں کیں اور وہ تمام کی تمام تدابیر اختیار نہیں کیں جن سے فتح حاصل کی جا سکتی ہے فتح مکہ کے لئے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو متواتر جنگوں میں سے گزرنا پڑا۔ آپ نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا بیسیوں صحابہ کو شہید کروایا صرف اس لئے کہ مکہ واپس مل جائے۔ اگر آپ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے تو کیا یہ پیشگوئی پوری ہو سکتی تھی پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود نہایت اعلیٰ شان رکھنے کے جس کی گرد کو بھی ہم نہیں پہنچ سکتے اس پیشگوئی کے ہوتے ہوئے باقی تدابیر کو ترک نہیں کیا تو ہم کون ہیں جو اس پیشگوئی کابہانہ بنا کر اور اس کی آڑ لے کر اس جدوجہد کو چھوڑ دیں جس کو خداتعالیٰ نے قادیان کی واپسی کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔
(اس موقع پر حضور نے فرمایا
ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ اگر آپ کو پاکستان کے متعلق کوئی رؤیا ہوا ہو تو بتائیں اور اگر اب تک کوئی رؤیا نہیں ہوا تو جب بھی کوئی رؤیا ہو ہمیں بتا دیا جائے۔ یہ سوال عجیب قسم کا ہے۔ پاکستان قائم ہوچکا ہے اور جو چیز قائم ہو چکی ہو اس کے متعلق کسی رؤیا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں غالباً اِس دوست کا یہ مطلب ہے کہ اگر پاکستان کے استحکام کے متعلق کوئی رؤیا ہوا ہو تو وہ بتایا جائے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کا قیام خدائی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے اور اس میں شُبہ کی کوئی بھی گنجائش نہیں کہ اب اسلام کے لئے ترقی کا زمانہ آ گیا ہے ہم لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اسی لئے ایمان رکھتے ہیں کہ ہم پورے یقین کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ اب آپ کے ذریعہ سے اسلام کو دوبارہ مستحکم کیا جائے گا اس لئے اب یہ سوال نہیں کہ فلاں علاقہ کے لوگ آگے بڑھیں گے یا ہم بلکہ اب اسلام یقینا دوسری قوموں کو رگیدتا ہوا آگے ہی آگے اپنا قدم بڑھاتا چلا جائے گا۔ اب اسلام کے غالب ہونے کی باری ہے کفر کے غالب ہونے کی باری ختم ہو چکی ہے۔
(سلسلہ تقریر کو جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا
میں نے بتایا ہے کہ پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کی بھی ضرورت ہوتی ہے صرف یہ کہہ دینا کہ فلاں چیز کے لئے پہلے سے پیشگوئی موجود ہے کافی نہیں ہوتا۔ پس جب پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے تو یہ لازمی بات ہے کہ اس کو پورا کرنے کیلئے ایک مرکز بھی ہو۔ فوج لڑتی ہے تو اس کے لئے کمانڈر کی ضرورت ہوتی ہے، سٹاف اور عملہ کی ضرورت ہوتی ہے، مرکز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ ہمیں جب یہ یقین ہے کہ ہم ہی جیتیں گے تو پھر کسی کمانڈر کی کیا ضرورت ہے۔ سٹاف اور عملہ کی کیا ضرورت ہے تو سب لوگ اُس کی حماقت پر ہنس پڑیں گے۔ جب لڑائی ہوگی تو اُس کا ہیڈ بھی ہوگا سٹاف اور عملہ بھی ہوگا۔ خواہ بڑی سے بڑی حکومت ہو یا چھوٹی سے چھوٹی۔ سب کیلئے ان چیزوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ انگریز جب قبائلیوں پر حملہ کرتے تھے تو اُن کا بھی کمانڈر ہوتا تھا، سٹاف اور عملہ ہوتا تھا۔ اسی طرح بے شک قادیان کے متعلق خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیں واپس ملے گا لیکن باوجود اس وعدہ کے اُسے واپس لینے کیلئے ایک مرکز کی ضرورت ہے تا وہاں اکٹھے ہو کر جدوجہد کی جا سکے جیسا کہ رؤیا میں دکھایا گیا ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ قادیان میں جو مرکز قائم تھا اس کا کوئی مقصد تھا یا نہیں۔ آیا وہ مرکز محض قادیان کے لحاظ سے تھا یا کوئی کام کرنے کیلئے تھا۔ اگر کوئی کام کرنے کیلئے تھا تو وہ کام کیا تھا؟ وہ مقصد جس کے لئے قادیان میں مرکز قائم کیا گیا تھا ظاہر ہے یعنی اسلام کی اشاعت کرنا، جماعت کی تربیت کرنا، جماعت کو اکٹھا کر کے اسلام کے غلبہ کے لئے مشترکہ جدوجہد کے لئے تیار کرنا، ایسی جدوجہد جو کفر کو ہمیشہ کے لئے پسپا کر دے۔ یہ وہ غرض تھی جس کے ماتحت قادیان میں مرکز قائم کیا گیا تھا اگریہ غرض نہ ہوتی تو نہ قادیان کی ضرورت تھی اور نہ کسی اور مرکز کی۔ مکہ اور مدینہ میں بھی لوگ جاتے ہیں اور حج کر کے واپس آ جاتے ہیں مگر جب تک کوئی خاص مقصد نہ ہو کوئی آرگنائزیشن (ORGANISATION) بھی نہیں ہو سکتی۔ چونکہ لوگوں نے اس غرض کو فراموش کر دیا ہے جس کے لئے مکہ اور مدینہ قائم کئے گئے تھے اس لئے لوگ وہاں جاتے ہیں اور حج کر کے واپس آ جاتے ہیں وہاں کوئی ایسی انجمن قائم نہیں جو تبلیغ کروائے اور مسلمانوں کے اندر خالص دینی روح پیدا کرے۔
قادیان کے متعلق ہمارا دعویٰ ہے کہ جو مرکز وہاں قائم کیا گیا تھا وہ صرف اس لئے قائم نہیں کیا گیا تھا کہ وہ قادیان ہے بلکہ اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ ہم اسلام کو پھیلائیں، اسلام کو دنیا میں قائم کریں اور اسلامی روح لوگوں میں زندہ کریں تا کفر کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اگر قادیان میں مرکز بنانے کی ہماری یہی غرض تھی اور یقینا تھی تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام عارضی تھا یا مستقل۔ ایک کام موسمی ہوتے ہیں اور موسم گزر جانے کے بعد ان کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن جو کام مستقل ہوتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے اُن کی ضرورت ہوتی ہے اگر تو وہ کام جس کے لئے ہم نے قادیان میں مرکز قائم کیا تھا موسمی تھا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ قادیان میں واپس جا کرپھر اس کام کو دوبارہ شروع کر دیں گے یا اب چونکہ قادیان ہمارے ہاتھوں سے جاتا رہا ہے اس لئے اب اس کی ضرورت نہیں لیکن اگر وہ کام مستقل تھا تو ہم کہیں بھی جائیں وہ کام ہمیں بہرحال کرنا پڑے گا مثلاً اگر ہم اپنے گھروں میں ہوں تو کھانا کھاتے ہیں لیکن اگر ہم سفر کی حالت میں ہوں تو کیا ہم کھانا کھانا چھوڑ دیں گے؟ یا کپڑا ہے اگر ہم گھروں میں ہوں تو کپڑا پہننا ضروری ہے لیکن اگر ہم سفر پر ہوں تو کیا ہم کپڑا پہننا چھوڑ دیں گے؟ اگر کھانا اور کپڑا پہننا سفر میں بھی ضروری ہے اور حضر میں بھی ضروری ہے تو خواہ ہم قادیان میں ہوں یا کسی اور جگہ پر ہمیں وہ کام کرنا پڑے گا جس کے لئے ہم نے قادیان میں مرکز قائم کیا تھا اگر وہ قادیان کے باہر رہ کر بھی ہمیں لازمی طور پر کرنا ہے تو پھر اس کے لئے ایک مرکز کی بھی ضرورت ہے اگر ہمارا کوئی مرکز نہیں ہوگا تو وہ کام بھی نہیں ہو سکے گا اور اگر ہمارا کام نہیں چلے گا تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ ہم نے اس غرض کو باطل کر دیا ہے جس کیلئے قادیان کو مرکز قرار دیا گیا تھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ مقصد بیان نہیں فرمایا کہ وہ ہمیں قادیان میں بسائیں گے بلکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث کیا تھا تا آپ اسلام کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کریں۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَالَّذِیْ۱۰؎ اگر ہمارا قادیان میں مرکز بنانے کا یہ مقصد تھا تو وہ مقصد اب فوت کیسے ہو گیا۔ اگر وہ مقصد زندہ ہے تو لازماً اس کے لئے ہمیں کسی مرکز کی بھی ضرورت ہے۔
تیسرا جواب اس کا یہ ہے کہ جہاں الٰہی پیشگوئیوں میں قادیان سے ہجرت کی خبر ہے وہاں ساتھ ہی قادیان میں واپس جانے کی بھی خبر ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام ہے کہ ہم اُس ہستی کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس نے تجھ پر قرآن کریم ایک رنگ میں دوبارہ نازل کیا کہ ہم تجھے ضرور قادیان میں واپس لائیں گے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے ’’داغِ ہجرت‘‘ اور ہجرت ہمیشہ ایک مقام کی طرف ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ ہجرت مدینہ کی طرف کی گئی تھی اور یہاں بھی ہجرت کسی اور مقام کی طرف ہوگی۔ میری رؤیا میں بھی صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ میں کسی جگہ پر مرکز بناؤں گا اور قادیان کو واپس لینے کی کوشش کروں گا۔ جب یہ چیز بالکل واضح ہے تو ایک حصہ کے بعد دوسرے حصہ کو چھوڑ دینے کی کیا وجہ ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم ایک نیا مرکز بنائیں اور وہاں اکٹھے ہو کر قادیان کو واپس لینے کی کوشش کریں۔ پھر مصلح موعود والی رؤیا میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ مصلح موعود والی رؤیا میں مجھے دکھایا گیا تھا کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے اور میں وہاں سے بھاگا ہوں۔
تیسرا شُبہ بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ اگر مرکز بنانا ضروری ہے تو وہ بنا لیا جائے مگر وہاں سکول، کالج، دفاتر اور مقبرے بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بھی کم عقلی کی بات ہے یہ صاف بات ہے کہ جب وہاں مرکز بنے گا تو ضروری ہے کہ وہاں پڑھنے والے ہوں۔ جب یہ جگہ آباد ہوگی تو ضروری ہے کہ وہاں دُکانوں والے ہوں۔ کیا لوگ سائیکلوں پر جا کر دس دس میل دور سے سودے لایا کریں گے۔ پھر لازمی بات ہے کہ اگر وہاں آبادی ہوگی تو نائی، دھوبی، معمار اور نجار وغیرہ بھی ضرور ہونگے اور مختلف قسم کے اور پیشہ ور بھی ہونگے وہ وہاں رہ کر اپنی زندگیوں کو بھی سنواریں گے اور وہاں کے لوگوں کی ضرورتوں کو بھی پورا کریں گے۔
ایک سوال یہ بھی کیا گیا ہے کہ کیا وہ جگہ جہاں نیا مرکز بنایا جائے گا مقدس ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ احمدیہ مرکز صرف عمارتوں کی وجہ سے برکت نہیں پاتا بلکہ تعلیم و تربیت اور دینی کاموں کی وجہ سے برکت پاتا ہے اور یہ چیز جہاں بھی ہوگی وہ جگہ برکت پائے گی اور وہاں جو بھی احمدی جائیں گے برکت پائیں گے۔ مثلاً خلیفہ کا وجود ہے اگر اُس کی مجلس میں بیٹھنا بابرکت ہے اور اگر قادیان کی سب سے بڑی برکت یہی تھی کہ وہاں خلیفہ کا وجود تھا تو لازمی بات ہے کہ وہ جہاں بھی جائے گاوہ مقام بابرکت ہو جائے گا۔ پھر اگر قادیان کی برکت اُس نظام کی وجہ سے تھی جو وہاں قائم کیا گیا تھا تو یہ لازمی بات ہے کہ یہ نظام جہاں بھی جائے گا وہ جگہ بابرکت ہوگی یہ تو کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ قادیان میں خلیفہ ہو تو وہ بابرکت ہے اور اگر باہر چلا جائے تو پھر وہ جگہ بابرکت نہیں ہو سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کے ذریعہ تعلیم و تربیت جاری رہے گی، جس کے ذریعہ خدائی باتیں دنیا میں پھیلیں گی اور جس کے ذریعہ تبلیغ اور اشاعت کا کام ہوگا وہ جہاںبھی جائے گا مرکز بن جائے گا اور جہاں بھی رہے گا وہ مقام بابرکت ہوگا۔ کسی نے کہا ہے
صدر ہر جا کہ نشیند صدر است
صدر جہاں بھی بیٹھے، صدر ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں خلیفہ اگر کالے پانی بھی چلا جائے تو وہ بھی بابرکت بن جائے گا۔ برکت مکانوں سے بھی ملتی ہے لیکن مکینوں سے زیادہ ملتی ہے۔ مکان دعائیں نہیں کرتے مکین دعائیں کیا کرتے ہیں۔ مکان جدوجہد نہیں کرتے مکین جدوجہد کیا کرتے ہیں۔ مکان بولا نہیں کرتے مکین بولا کرتے ہیں۔ مکان تنظیم نہیں کرتے مکین تنظیم کیا کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ سب باتیں جو جماعت کو بڑھانے والی ہیں مکان کے ساتھ وابستہ نہیں مکین کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مکان ایک ذریعہ ہوتے ہیں اور مکین وہ مقصود ہوتے ہیں جن کے ذریعہ دنیا ایک نئی زندگی پاتی ہے۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ چھوڑا تو مدینہ کیا تھا۔ ایک معمولی سی بستی تھی جہاں مشرک اور یہودی بستے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چلے جانے کے بعد وہی مدینہ برکتوں سے مالا مال ہو گیا اور آج تک برکتوں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ کے مدینہ سے چلے جانے کی وجہ سے مکہ کی برکت زائل نہیں ہوئی بلکہ مدینہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اور برکت مل گئی۔ خدا تعالیٰ کے خزانے میں صرف ایک برکت نہیں تھی بلکہ اس کے خزانے ہرقسم کی برکتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو لوگوں میں قدرتاً یہ خیال پیدا ہوا کہ مکہ ایک بابرکت اور مقدس مقام تھا۔ اب مدینہ میں ویسی برکت کیا ہوسکتی ہے اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ اے خدا! میں مدینہ کے متعلق وہ ساری برکتیں تجھ سے مانگتا ہوں جو مکہ کو حاصل تھیں پھر آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور فرمایا۔ اے لوگو سنو! آج سے ہر برکت جو مکہ کو حاصل تھی مدینہ کو بھی حاصل ہے جو ذمہ داریاں تم پر مکہ میں رہنے کی وجہ سے عائد تھیں وہی ذمہ داریاں یہاں مدینہ میں رہ کر بھی تم پر عائد ہیں۔ جس طرح مکہ میں قتل و غارت اور لڑائیاں منع تھیں اسی طرح مدینہ میں بھی قتل و غارت اور لڑائیاں منع ہیں۔ پس جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چلے جانے سے مدینہ بابرکت ہوگیا تھا اسی طرح ہر وہ جگہ جہاں خدا تعالیٰ کے نام کو بلند رکھنے کیلئے کوشش کی جائے گی، ہر وہ جگہ جہاں اسلام کے غلبہ کے لئے کوشش کی جائے گی، ہر وہ جگہ جہاں اسلام کی اشاعت کیلئے کوشش کی جائے گی وہ بابرکت ہو جائے گی چاہے دنیا کا سارا شور اور نمک اُس جگہ پرکیوں نہ اکٹھا ہو جائے۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والے بعض منافق ہیں لیکن پھر بھی مجھے حیرت آتی ہے کہ سکھوں کا گرو اگر کسی جگہ پر بیٹھا ہے تو اُنہوں نے اُسے پیڑھا صاحب کہنا شروع کر دیا۔ اگر اُن کا گرو کسی چار پائی پر بیٹھا ہے تو اُنہوں نے اُسے منجا صاحب کہنا شروع کر دیا۔ اگر کسی بیری کے نیچے کھڑا ہوا تو اُنہوں نے اُسے بیری صاحب کہنا شروع کر دیا۔ جب کسی سِکھ سے پوچھا جائے کہ یہ بیری صاحب کیا ہے تو وہ کہے گا ہمارے گرو صاحب اس کے نیچے بیٹھے تھے۔ جب کسی سِکھ سے پوچھا جائے یہ پیڑھی صاحب کیا ہے وہ کہے گا ہمارے گرو صاحب اس پر بیٹھے تھے۔ جب پوچھا جائے کہ یہ منجا صاحب کیا ہے وہ کہے گا ہمارے گرو صاحب اس چارپائی پر بیٹھے تھے۔ وہ وحشی قوم جو تمام روحانی اصولوں سے عاری ہے وہ سمجھتی ہے کہ ایک پیڑھی کو اس لئے برکت حاصل ہو سکتی ہے کہ اُن کا گرو اس پر بیٹھا تھا۔ ایک چارپائی کو برکت حاصل ہو سکتی ہے کہ ان کا گرو اس پر بیٹھا تھا۔ ایک بیری کو برکت حاصل ہو سکتی ہے اس لئے کہ ان کا گرو اس کے نیچے کبھی بیٹھا تھا۔ مگر یہ منافق اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے کہ وہ جگہ جہاں خلافت قائم ہوگی کیا بابرکت نہیں ہوگی؟ وہ جگہ یقینا بابرکت ہوگی اور یقینا جب تک اس میں اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کیا جائے گا، اس کی کتاب کو شائع کیا جائے گا ،اس کے دین کو پھیلانے کیلئے جدوجہد کی جائے گی وہ بابرکت رہے گی اور صرف وہ زمین ہی بابرکت نہیں ہوگی بلکہ اس کے رہنے والوں پر فرشتے اُترتے رہیں گے اور اس کی برکات کو دنیا کے دوسرے کناروں تک پہنچاتے رہیں گے۔
تیسری بات یہ ہے کہ جب قادیان مل جائے گا تو گو ہمارا اصل مرکز وہی ہوگا لیکن ایک مرکز سے ساری دنیا کا کام نہیں چل سکتا بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس کے ماتحت اور بھی چھوٹے چھوٹے مرکز قائم کریں۔ کیا کسی مُلک کے انتظام کے لئے صرف ایک بادشاہ کافی ہوتا ہے۔ کسی مُلک کے انتظام کے لئے ایک بادشاہ کافی نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اس کے ماتحت مختلف صوبوں میں گورنر ہوتے ہیں جو اُن صوبوں میں اُس کے نائب ہوتے ہیں مثلاً برطانیہ ہے بادشاہ تو برطانیہ میں رہتا ہے مگر آسٹریلیا، کینیڈا وغیرہ ممالک میں الگ الگ انتظام موجود ہے۔ اسی طرح اگرچہ ہمارا مرکز قادیان ہی ہوگا مگر اس کے ماتحت ہمیں اور بھی کئی چھوٹے چھوٹے مراکز قائم کرنے پڑیں گے تا کہ وہاں اِردگرد کے لوگ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اکٹھے ہوں اور وہاں مل کر کام کریں۔ قادیان میں ہمارا ہائی سکول تھا اب اگر پشاور اور سیالکوٹ وغیرہ میں ہمارے ہائی سکول قائم ہو جائیں تو کوئی حرج کی بات نہیں ہوگی۔ ان جگہوں کے لڑکے وہاں قائم شُدہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ صرف ایک جگہ پر ہی ہائی اسکول کا ہونا کافی نہیں۔ اب بھی ہمارے مدرسے کئی جگہوں پر ہیں۔ اسی طرح نئے مرکز میں بھی لوگ آئیں گے اور سکولوں سے فائدہ اُٹھائیں گے۔ یہ جگہ تو چھوٹی سی ہے اگر اسے اِردگرد کے تین چار ضلعوں کا بھی مرکز بنا دیا جائے تو احمدیت کی ترقی کے بعد ہمیں اس سے بہت زیادہ جگہ کی ضرورت ہوگی۔ اس جگہ کا آبادی والا رقبہ صرف چار ہزار کنال ہے۔ اگر اس کو تین چار ضلعوں کا بھی مرکز بنا دیا جائے تو احمدیت کی ترقی کے بعد اس میں اور زیادہ توسیع کی ضرورت ہوگی۔ احمدیوں کی ہندوستان میں سرِدست دو تین لاکھ کی آبادی ہے جس کا مرکز قادیان تھا اس دو تین لاکھ کی آبادی کا مرکز کتنا بڑا ہوگیا تھا۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ربوہ کو اِردگر کے پانچ ضلعوں کا مرکز قرار دے دیا جائے یعنی اسے شیخوپورہ، سرگودھا، گوجرانوالہ، گجرات اور جہلم کا مرکز قرار دیا جائے تو ان ضلعوں کی آبادی پچاس لاکھ ہے اگر یہ سب لوگ احمدی ہو جائیں تو یقینا ان کے لئے ہمیں بہت بڑے مرکز کی ضرورت ہوگی۔ پس قادیان کے مل جانے کے بعد بھی ربوہ اپنی حیثیت کو کھو نہیں سکتا۔
چوتھا جواب یہ ہے کہ خانہ کعبہ اصل مسجد ہے مگر کیا اس خیال سے کہ ہم اس میں نمازیں ادا نہیں کر سکتے ہم دوسری مسجدیں بنانا چھوڑ دیتے ہیں؟ مسجد تو اصل وہ ہے مگر کیا ہر شہر، ہر محلہ اور ہر گاؤں میں مسجدیں نہیں بنائی گئیں؟ باوجود اس کے کہ اصل مسجد موجود ہے۔ دنیا میں ہمیشہ نئی سے نئی مسجدیں بنائی جاتی ہیں۔ اگر ہم زمانہ کے لحاظ سے یا خرچ اور سفر کی وجہ سے خانہ کعبہ نہیں جا سکتے اور دوسری جگہوں پر مساجد بنا لیتے ہیں اور انہیں بے برکت قرار نہیں دیتے تو یہ کتنی بڑی بیوقوفی کی بات ہے کہ اگرہم ایک نیا مرکز بنا لیں گے تو وہ بابرکت نہیں ہوگا۔ دیکھو کانپور میں ایک مسجد کے غسلخانے کی ایک دیوار گرا دی گئی تھی جس پر ہندوستان میں شور برپا ہو گیا تھا حالانکہ وہ مسجد نہیں، مسجد کا غسلخانہ نہیں، مسجد کے غسلخانہ کی صرف ایک دیوار تھی جس پر شور برپا ہو گیا۔ خانہ کعبہ کی نقل میں پہلے عرب میں مسجدیں بنائی گئیں۔ پھر عرب کی نقل میں ایران میں مسجدیں بنائی گئیں؟ پھر ایران کی نقل میں افغانستان میں مسجدیں بنائی گئیں؟ پھر افغانستان کی نقل میں پنجاب میں مسجدیں بنائی گئیں؟ پھر پنجاب کی نقل میں دہلی، آگرہ اور کانپور میں مسجدیں بنائی گئیں۔ غرض وہ مسجد بیسیوں نقلوں کی نقل تھی اس کے غسلخانے کا مسلمانوں میں اتنا احترام تھا کہ جب اُس کی ایک دیوار گرائی گئی تو سارے ہندوستان میں ایک شور مچ گیا اور مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسجد کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ جب ہزار نقلوں کی نقل نہیں بلکہ اس نقل کے غسلخانہ کی ایک دیوار بابرکت ہو سکتی ہے تو قادیان کے مرکز کی جو نقل ہوگا وہ کیوں بابرکت نہیں ہوگا۔ آخر مسجد بھی تو نقل ہے خانہ کعبہ کی۔ مگر کیا کوئی شخص جرأت کر سکتا ہے کہ اس کی بے حرمتی کرے اس لئے کہ وہ اصل مسجد نہیں۔ اسی طرح بے شک ربوہ قادیان کی نقل ہوگا مگر جو فعال نقل بنائی جائے گی عام نقلیں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں بلکہ میں کہتا ہوں اگر ویسٹ افریقہ میں بھی کوئی مرکز بنایا جائے تو وہ جگہ بھی بابرکت ہو جائے گی کُجا وہ جگہ جو قادیان کے لوگوں کو پناہ دینے کے لئے بنائی جائے وہ بابرکت نہ ہو وہ تو یقینا بابرکت ہوگی اور اس کے بابرکت ہونے میں کوئی شُبہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب شبہات قیاسات سے پیدا ہوئے ہیں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ تنظیم کے لئے مرکز کی کیسی شدید ضرورت ہوا کرتی ہے۔ مجھے تو حیرت آتی ہے کہ اس قسم کے شبہات پیدا کس طرح ہو جاتے ہیں۔ جب شہد تیار ہو جاتا ہے اور لوگ اس شہد کو لینے کے لئے جاتے ہیں تو ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جب کوئی شہد لینے کے لئے چھتے کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو فوراً ایک مکھی جو کوئین (QUEEN) ہوتی ہے اس کی ایک بیٹی اور دوسری مکھیوں کا ایک جھنڈ اُڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ہے اور نئے چھتے کی تلاش کرتا ہے اور پیشتر اس کے کہ شہد لینے والا شہد حاصل کرے شہد کی مکھیاں دوسری جگہ پر نیا چھتہ تیار کرنا شروع کر دیتی ہیں باوجود اس کے کہ شہد کی مکھیوں کو شہد کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، باوجود اس کے کہ وہ ان کے کسی کام نہیں آتا بلکہ دوسرا شخص شہد لے جاتا ہے صرف اس لئے کہ یہ کام ان کے سپرد ہوا ہے وہ فوراً وہاں سے اُڑ جاتی ہیں اور دوسرا چھتہ تیار کر لیتی ہیں کیا انسان کے اندر مکھی جتنی بھی عقل نہیں کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اعتراض کرنے شروع کر دیتا ہے۔ درحقیقت یہ تو ہماری کوتاہی اور غفلت کی علامت ہے کہ ہم اتنی دیر تک کوئی نیا مرکز قائم نہیں کر سکے۔
مجھے ایک شخص کی بات پر جو ایک قسم کی جہالت تھی حیرت آتی ہے۔ مجھے ایک احمدی دوست نے بتایا کہ اس کے پاس ایک زمیندار آیا اور اس نے باتیں کرنی شروع کر دیں۔ گفتگو کے دوران میں اس نے کہا تقسیم سے پہلے احمدیہ جماعت کی عظمت کا مجھ پر بہت اثر تھا اور میں سمجھتا تھا کہ باقی مسلمان تو یونہی ہیں اصل کام کرنے والی یہی جماعت ہے مگر تقسیم کے بعد ان کا مجھ پر وہ اثر نہیں رہا۔ اس احمدی دوست نے بتایا کہ میں نے اُس سے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک سال ہو گیا ہے مگر یہ ایک جگہ پر ابھی بیٹھے بھی نہیں انہیں چاہئے تھا کہ فوراً اپنا کام شروع کر دیتے اور اپنے لئے ایک مرکز بنا لیتے۔ میں نے کہا گورنمنٹ کے ساتھ خط و کتابت ہو رہی ہے اس لئے دیر ہوگئی ہے۔ اس نے کہا یہی تو مجھے اعتراض ہے اگر ان لوگوں میں جنون ہوتا تو وہ زبردستی اپنا مرکز قائم کر لیتے خواہ انہیں گولیاں چلا کر مار دیا جاتا۔ چاہے یہ مکمل عقل کی بات نہیں مگر اس حد تک دانائی کی بات ہے کہ ہمیں چاہئے تھا کہ فوراً مرکز قائم کر کے اپنا کام شروع کر دیتے۔ اگر ہماری جماعت اس بارہ میں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتی ہے اور مرکز کے بنانے میں دیر کرتی ہے تو وہ اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑا مارتی ہے اور اگر وہ مرکز کی حقیقت کو نہیں سمجھتی تو وہ روحانی بینائی سے محروم ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم وہاں مکان بنائیں گے اور پھر قادیان کے واپس ملنے پر وہاں چلے جائیں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہمارا روپیہ ضائع ہو گیا مگر یہ بالکل غلط اعتراض ہے۔ اس کا جواب میں نے پہلے بھی کئی بار دیا ہے۔ قادیان کے ملنے میں آخر کچھ وقت تو لگے گا جب ہم سفر کے لئے جاتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ پانچ دس گھنٹے کا ہوتا ہے ہم اس کے لئے فرسٹ یا سکینڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیتے ہیں یا فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے ٹکٹ لینے کی توفیق نہیں ہوتی تو ہم تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیتے ہیں اور ساتھ ہی ایسی چیزیں رکھ لیتے ہیں جو رستہ میں کام آتی ہیں تا وہ چند گھنٹوں کا سفر آرام سے کٹ جائے۔ مثلاً ہم کھانے پینے کی چیزیں ساتھ رکھ لیتے ہیں، پانی کی صراحی ساتھ رکھ لیتے ہیں یا کوئی اور چیز ساتھ لے لیتے ہیں۔ ہم دو چار گھنٹہ کے سفر کے لئے تو ایسا کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ہم خیال کرتے ہیں کہ وہ مرکز جہاں ہم نے اکٹھے ہو کر دنیا کو فتح کرنے کی سکیمیں سوچنی ہیں اُس پر خرچ کیا ہوا روپیہ ضائع چلا جائے گا۔ اوّل تو وہ روپیہ ضائع نہیں ہوگا لیکن اگر ہمارا دس بیس لاکھ روپیہ ضائع بھی ہو جائے تو اس کام کے مقابلہ میں جو ہم نے کرنا ہے اس روپے کی پرواہ ہی کیا ہے۔ اس روپیہ کے ضائع ہونے کی ہمیں اتنی بھی حس نہیں ہونی چاہئے جتنی کہ جسم کی مَیل اُتر جانے کی ہوتی ہے۔
کہتے ہیں جب شاہ جہاں کی بیوی ممتاز محل فوت ہوئی تو اُس نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا اور اُس نے نقشہ کھینچ کر بتایا کہ ممتاز محل کے لئے جنت میں ایسی جگہ تیار کی گئی ہے۔ شاہ جہاں نے چاہا کہ وہ اِس قسم کا روضہ تیار کرائے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ شاہ جہاں نے ممتاز محل کی زندگی میں ہی یہ خواب دیکھی تھی۔ بہرحال شاہ جہاں نے جب اس کا انجینئروں سے ذکر کیا تو اُنہوں نے کہا ہم ایسی عمارت نہیں بنا سکتے۔ اُن دِنوں ایک انجینئر ایران سے آیا ہوا تھا اس نے بادشاہ سے کہا ایسی عمارت بن تو سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے آپ دو لاکھ کے توڑے اپنے ساتھ لے لیں اور میرے ساتھ دریا کے پار جائیں۔ شاہ جہاں نے ایک ایک ہزار کے دو سَو توڑے لے لئے۔ جب کشتی چلی تو اس انجینئر نے ایک توڑا اُٹھایا اور دریا میں پھینک کر کہا کہ بادشاہ سلامت اس طرح روپیہ خرچ ہوگا تب عمارت بنے گی۔ شاہ جہاں نے کہا کوئی حرج نہیں۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے ایک اور توڑا دریا میں پھینک کر کہا۔ بادشاہ سلامت اس طرح روپیہ خرچ ہوگا۔ پھر اس نے ایک اور توڑا پھینکا مگر شاہ جہاں نے اُس کی ذرا بھی پرواہ نہ کی یہاں تک کہ دریا کے آخر تک دو لاکھ کے توڑے ختم ہوگئے اور شاہ جہاں کے چہرے پر قطعاً ملال کے کوئی آثار ظاہر نہ ہوئے۔ جب انجینئر دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچا تو اس نے کہا بادشاہ سلامت! آپ کی خواہش کے مطابق عمارت بن جائے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ ایسی عمارت وہ دوسرے انجینئر بھی بنا سکتے تھے لیکن اُنہوں نے یہ خیال کیا کہ اس عمارت کے تیار کرنے پر بہت زیادہ روپیہ خرچ ہوگا۔ اگر ہم نے یہ عمارت شروع کی تو کہیں ہم مار نہ دیئے جائیں اس لئے کہ ہم نے خزانہ کا اِس قدر روپیہ کیوں خرچ کرایا۔ میں نے آپ کا امتحان لے لیا ہے میں نے دو لاکھ کے توڑے دریا میں پھینک دیئے مگر آپ نے اُف تک نہیں کی تب میں سمجھا کہ اگر اس عمارت کی تیاری پر آپ کا دو کروڑ روپیہ بھی لگ جائے گا تو آپ اس کی پرواہ نہیں کریں گے۔
پس بڑے اور بلند کاموں کے لئے ان چیزوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب اتنا بڑا کام ہمارے سپرد ہوا ہے یعنی ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو تمام دنیا میں قائم کرنا ہے اور اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنا ہے تو پھر یہ سوال ہی کیا ہے کہ اس پر ہمارا روپیہ ضائع چلا جائے گا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر ہم ہر سال بھی ایک نیا مرکز بنائیں تو جماعت کے مخلص لوگ اس کی پرواہ نہیں کریں گے جب انہیں ایک مرکز سے نکال دیا جائے گا تو وہ آگے جا کر ایک اور نیا مرکز بنا لیں گے اور سمجھیں گے کہ جو خداتعالیٰ نے انہیں دیا تھا وہ اس کے کاموں میں صرف ہو گیا اور اس سے بڑھ کر اور نعمت ہی کیا ہے کہ ہم خدا کا دیا ہوا روپیہ اُسی کے کاموں پر خرچ کریں۔
پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس عارضی مرکز کے بارہ میں غفلت میں نہ رہے۔ زمین کی قیمتیں بڑھتی چلی جائیں گی۔ قادیان میں ایسا ہی ہوا تھا یہاں تک کہ بیس بیس ہزار روپیہ فی کنال تک قیمت پہنچ گئی تھی۔ ہم نے خود انجمن کے لئے ساٹھ ہزار روپیہ پر ایک ٹکڑہ زمین خریدا تھا اسی طرح جو اس جگہ میں برکتیں ہونگی ان سے بھی ان کو حصہ ملتا رہے گا۔ درس و تدریس ہوگا، نئی نئی تحریکوں میں جلد از جلد حصہ لینے کا موقع ملے گا۔ پس جماعت کو اس بارہ میں سستی نہیں کرنی چاہئے۔ جس خدا نے مکہ کو برکت دی ہے، جس خدا نے مدینہ کو برکت دی ہے، جس خدا نے قادیان کو برکت دی ہے میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اُس کے خزانے میں ابھی بہت سی برکتیں باقی ہیں تم گھبراؤ نہیں خداتعالیٰ اِس جگہ کو بھی بابرکت بنا دے گا۔ تمہاری نیت یہی ہونی چاہئے کہ تم وہاں جا کر دین کی خدمت کرو۔ جب تم وہ نیت کر لوگے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی، جب تم وہ نیت کر لوگے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی تھی تو تمہیں وہ برکتیں ملیں گی جو اُنہیں ملیں کیونکہ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کی تکمیل کے لئے کھڑا ہوگا اُس کا کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہو گا۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام خدا تعالیٰ کا کام تھا۔
اس کے بعد میں جماعت کو اس طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ہمارے دفاتر ربوہ چلے گئے ہیں۔ دفاتر کے وہاں چلے جانے کے بعد چندے میں یکدم کمی آگئی ہے اب چونکہ دو جگہیں بن گئی ہیں اِس لئے دوست سمجھتے ہیں کہ جب تمام دفاتر وہاں چلے جائیں گے تب چندے بھیج دیں گے یا پہلے لاہور چل کر پتہ کر لیں پھر چندے بھیجیں گے غالباً اس کے نتیجہ میں ہی چندوں میں کمی واقع ہوگئی ہے اور پچھلے تین مہینہ میں سلسلہ کا ایک لاکھ روپیہ کا نقصان ہوا ہے آخر یہ کام آپ لوگوں نے ہی کرنا ہے اور کسی نے نہیں کرنا۔ چندہ اکٹھا دینا مشکل ہوتا ہے اور قسط وار دینا آسان ہوتا ہے۔ اس لئے میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے چندے جلد از جلد ربوہ میں بھجوانے شروع کر دیں۔ عارضی دفاتر یہاں ہیں اصل دفاتر ربوہ میں ہیں اس لئے جو چندے جمع ہوں اُنہیں جلد از جلد ربوہ میں بھجوا دینا چاہئے۔ اگر چندوں میں اسی طرح سستی ہوتی رہی اور روپیہ نہ آیا تو سلسلہ کے کاموں کو نقصان پہنچے گا اور چونکہ ہم نیا مرکز بنانے والے ہیں اس لئے ہمیں زیادہ روپیہ کی ضرورت ہے کم روپیہ کفایت نہیں کرسکتا۔
اب میں آخری بات جس کی طرف ہماری جماعت کا توجہ کرنا ضروری ہے کہہ کر اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ پہلے مسلمانوں کے پاس اپنا کوئی وطن نہیں تھا لیکن اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے ایک مقام عطا فرمایا ہے جسے ہم اپنا وطن کہہ سکتے ہیں۔ بیشک ہم کہلاتے تو اُس وقت بھی ہندوستانی تھے لیکن جب ہمارے وطن کی باگ ڈور کسی اور قوم کے ہاتھ میں تھی تو یہ وطن درحقیقت نہ ہونے کے برابر تھا۔ مسلمانوں نے خداتعالیٰ کے سامنے التجا کی کہ وہ انہیں ایک علیحدہ وطن بخشے اور اس کے لئے اُنہوں نے کوشش بھی کی تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ایک علیحدہ وطن بخش دیا جس کا نام پاکستان رکھا گیا ہے۔ اس وطن کے مل جانے کے بعد ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ پہلے زمانہ میں اگر کوئی مُلک اِس پر حملہ کرتا تھایا کسی مُلک سے ہمارے مُلک کی لڑائی ہو جاتی تھی تو ہم کہتے تھے کہ اس مُلک پر انگریز حکومت کرتا ہے اس لئے ہمیں لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ انگریز جائے اور دشمن سے لڑے گویا اُس وقت آسانی کے ساتھ ہم وہی کچھ کہہ سکتے تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے آپ سے کہا آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کنعان کا مُلک تمہارے لئے مقدر کیا ہوا ہے تم لڑائی کرو اور مُلک لے لو۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے جواب دیا کہ جب خداتعالیٰ کا ہم سے وعدہ ہے کہ وہ ہمیں یہ مُلک دے گا تو پھر ہمیں لڑائی کے لئے کیوں کہا جاتا ہے تو جا اور تیرا خدا دونوں لڑو اور اس مُلک کو حاصل کرو جب یہ مُلک فتح ہو جائے گا تو ہم اس میں داخل ہو جائیں گے۔ وہ بیوقوف یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ اُنہی کا کام تھا خداتعالیٰ کا اس میں کوئی فائدہ نہیں تھا لیکن بہرحال جب ہندوستان پر انگریز کی حکومت تھی اس وقت یہ کہا جا سکتا تھا کہ انگریز ہم پر حکومت کرتا ہے وہ لڑتا پھرے ہم تو اسے ٹیکس ادا کر دیتے ہیں ہمیں لڑنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اب خداتعالیٰ کے فضل سے ہمیں ایک وطن مل گیا ہے اور اس نئے وطن کے مل جانے کے بعد ہماری ذمہ داریاں بدل گئی ہیں اب اس کی حفاظت انگریز کے ذمہ نہیں۔ اب انگریز کی اِس مُلک پر حکومت نہیں کہ وہ جائے اور دشمن سے لڑے۔ اب اس مُلک پر ہماری حکومت ہے اور اس کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کو ہی لڑنا پڑے گا جو اس میں بستے ہیں اور جن کا یہ وطن ہے۔ دیکھو! جس شخص کا بچہ بیمار ہوتا ہے وہی اس کا علاج کرتا ہے جس کا گھر ٹپکتا ہے وہی اس پر مٹی ڈالتا ہے جس پر کوئی درندہ حملہ کرتا ہے اسی کو دفاع کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ دوسرے لوگ اگر اُس کی مدد کے لئے آ جائیںتو یہ ان کا احسان ہوگا لیکن اصل ذمہ داری اُسی کی ہوگی۔ بہرحال مسلمانوں کو ایک وطن مل گیا ہے جس کو وہ اپنا وطن کہہ سکتے ہیں اور اس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری اخلاقی اور مادی طو رپر مسلمانوں پر ہی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ محفوظ مُلک نہیں۔
میں اِس وقت تفصیل کے ساتھ یہ نہیں بتا سکتا کہ پاکستان کو کیا کیا خطرات درپیش ہیں لیکن ظاہر ہے کہ تقسیم کے بعد پاکستان کی آبادی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ اس کی کثیر آبادی مشرقی پاکستان میں ہے اور قلیل آبادی مغربی پاکستان میں ہے۔ مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ سے کچھ زیادہ اور مشرقی پاکستان کی آبادوی چار کروڑ سے کچھ کم ہے لیکن مشرقی پاکستان کی جو آبادی ہے وہ جنگی نہیں۔ ایک لمبے عرصے سے وہ لوگ فنونِ جنگ سے بے بہرہ ہیں۔ اُن میں وہ جرأت اور بہادری نہیں پائی جاتی جو ایک آزاد قوم میں پائی جانی ضروری ہے لیکن اُس میں بعض معدنیات اور بعض زرعی اشیاء ایسی پائی جاتی ہیں جن کے بغیر پاکستان زندہ نہیں رہ سکتا۔ جوٹ اور بعض دھاتیں جو وہاں پائی جاتی ہیں ایسی ہیں جو صرف پاکستان کے خزانے کو ہی مضبوط کرنے والی نہیں بلکہ اس کے خارجی تعلقات کو بھی مضبوط کرنے والی ہیں اگر مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے کٹ جائے تو مغربی پاکستان کا قیام نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ بے شک مغربی پاکستان میں بھی زرعی اشیاء اور قیمتی دھاتیں پائی جاتی ہیں مگر اُس کی آبادی اتنی تھوڑی ہے کہ وہ بڑی آبادی والے مُلکوں کے مقابلہ میں جیت نہیں سکتا۔ پھر اس زمانہ میں جب کہ جمہوریت قائم ہو چکی ہے اور لڑائی صرف بادشاہوں اور سپاہیوں کی ہی نہیں ہوتی بلکہ مُلک کے ہر فرد کو لڑائی میں حصہ لینا پڑتا ہے کسی مُلک کی آبادی کا کم ہونا اس کے لئے نہایت مضر ہے۔ چنانچہ نئے تغیرات کے بعد آبادی کی زیادتی کی قیمت بجائے اس کے کہ وہ کم ہوتی پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ پُرانے زمانے میں چھوٹے چھوٹے مُلک اُٹھتے تھے اور بڑے بڑے ممالک پر فتح حاصل کر لیتے تھے کیونکہ اُس وقت صرف بادشاہوں اور سپاہیوں کی لڑائی ہوتی تھی مُلک کے ہر فرد کو لڑائی میں حصہ نہیں لینا پڑتا تھا کسی مُلک کی فوج کا تعداد میں زیادہ ہونا اور مضبوط ہونا ہی اُس کی فتح کے لئے کافی ہوتا تھا۔ یونان کی آبادی کتنی تھوڑی تھی۔ دس بارہ لاکھ سے زیادہ نہ تھی لیکن وہاں سے سکندر نکلا اور اس نے عرب اور مصر اور عراق اور ایران اور افغانستان وغیرہ ممالک کو فتح کر لیا اور اس کے بعد ہندوستان کو بھی فتح کر لیا۔ غرض ایک دس بارہ لاکھ کی آبادی والے مُلک نے کروڑوں کروڑ کی آبادی والے مُلکوں کو فتح کر لیا۔ اِسی طرح مغل نکلے۔ مغلوں کی دوقومیں تھیں۔ برلاس اور چغتائی۔ پہلے چغتائی نکلے اور اُنہوں نے ایک طرف جہاں یورپ کو فتح کر لیا وہاں دوسری طرف وہ چین کے انتہائی کناروں تک پہنچ گئے اور جاپان پر بھی قابض ہو گئے حالانکہ ان کی اپنی آبادی صرف دو تین لاکھ تھی۔ پھر برلاس نکلے اُن کی آبادی بھی دو تین لاکھ سے زیادہ نہ تھی مگر اُنہوں نے کروڑوں کروڑ کی آبادی رکھنے والے ممالک کو فتح کر لیا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اُس زمانہ میں صرف بادشاہ لڑتے تھے اُن کی رعایا نہیں لڑتی تھی۔ بادشاہ جتنی فوج رکھتا تھا اگر وہ شکست کھا جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھاکہ مُلک شکست کھا گیا اور اگر فوج جیت جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ مُلک فتح پا گیا۔ مثلاً ہندوستان کے بادشاہ کے پاس پچاس ہزار کی فوج ہے اگر کوئی دوسرا قبیلہ اُٹھتا ہے اور اس کی فوج پچاس ہزارہے یا کچھ زیادہ ہے تو پُرانے زمانہ کے دستور کے مطابق وہ ہندوستان پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے کیونکہ ہندوستان کی فوج بھی پچاس ہزار ہے اور اس قبیلہ کی فوج بھی پچاس ہزار ہے خواہ اس کی اپنی آبادی دو لاکھ کی ہو اور ہندوستان کی آبادی دس کروڑ ہو لیکن اب صرف حکومت ہی نہیں لڑتی بلکہ مُلک لڑتا ہے۔ حکومت اب عوام کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اور چونکہ اب حکومت عوام کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اس لئے جب کسی مُلک کی دوسرے سے لڑائی ہو جاتی ہے تو اس کا ہر فرد لڑائی کیلئے تیار ہو جاتا ہے اس لئے اب آبادی کی بڑی قیمت ہے۔ اگر کسی مُلک کی آبادی دو کروڑ ہو اور وہاں جمہوریت قائم ہو تو جب کبھی اس کی دوسرے مُلک سے لڑائی ہوگی اُس کا ہر فرد لڑائی کے لئے تیار ہو جائے گا۔ یہ چیز پہلے زمانہ میں نہیں ہوتی تھی۔
اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے تم یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ تمہارے ایک ہمسایہ مُلک کی آبادی تیس کروڑ ہے اور مغربی پاکستان کی آبادی صرف سَوا تین کروڑ ہے گویا مغربی پاکستان کے ایک آدمی کے مقابلہ میں ہندوستان کے پاس دس آدمی ہیں۔ اگر جمہوریت کی کوئی جنگ ہوئی ہم نہیںجانتے کہ جنگ ہوگی بھی یا نہیں لیکن وہ آدمی بے وقوف ہوتا ہے جو امکانات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اگر جمہوریت کی جنگ ہوئی تو یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ ہندوستان کے پاس ڈیڑھ لاکھ کی فوج ہے اور پاکستان کے پاس اسّی ہزار، اور ہو سکتا ہے کہ اسّی ہزار ڈیڑھ لاکھ پر غالب آ جائے بلکہ اس وقت ہمارے مقابلہ میں ہندوستان کی تیس کروڑ کی آبادی ہوگی۔ اگر مغربی پاکستان کا ہر ایک فرد جنگ کے لئے تیار ہو جائے تو اس کی کل آبادی سَوا تین کروڑ ہے۔ اگر یہاں کے سب کے سب افراد لڑائی کے لئے پوری طرح تیار ہو جائیں تو یہ سوا تین کروڑ تیس کروڑ کے مقابلہ میں ہوگا اور اگر سب نے اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا۔ ان کے اندر قربانی کا احساس پیدا نہ ہوا، ان کے اندر اپنے مُلک کی حفاظت کے لئے جوش پیدا نہ ہوا بلکہ ان میں سے نصف کے اندر یہ بات پیدا ہوئی تو صرف ڈیڑھ کروڑ تیس کروڑ کے مقابلہ میں ہوگا اور اگر صرف چوتھائی حصہ میں یہ بات پیدا ہوئی تو ہمارے پاس صرف پچھہتر لاکھ آدمی لڑنے والا ہوگا۔ اس کیفیت کو سمجھو اور غور کرو کہ تمہیں کس قسم کی قربانی کی ضرورت ہے اگر تم میں سے ہر ایک شخص یہ فیصلہ کر لے کہ اُسے اپنے مُلک کی خاطر اگر کوئی قربانی کرنی پڑی تو وہ اس سے کوئی دریغ نہیں کرے گا اور وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے مُلک کو آزاد رکھنے کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوگا۔ تب بھی ہندوستان کی تیس کروڑ آبادی کے مقابلہ میں ہمارا صرف تین کروڑ ہوگا یہ بھی ایک غیر طبعی مقابلہ ہے مگر بہرحال اتنی بات تو ہے کہ ایک اور پونے دس کی نسبت ہوگی۔ دُنیوی تدبیر کے لحاظ سے یہ نقطۂ نگاہ ہماری تسلی کا موجب نہیں ہو سکتا لیکن ایک اور امر ایسا ہے جو ہمارے لئے تسلی کا موجب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ اگر تم سچے مؤمن بن جاؤ تو تم میں سے ایک مؤمن دس کافروں پر غالب آ سکتا ہے۔ اب اگر سَوا تین کروڑ آدمی کے اندر اسلام کا حقیقی درد ہو اور وہ اپنے اندر جرأت اور ایثار پیدا کر لیں، اگر وہ اپنے اندر قربانی کی روح پیدا کر لیں تو یہ سَوا تین کروڑ پینتیس کروڑ کافروں پر غالب آ سکتے ہیں گویا اگر ہمارے لئے کامیابی کی کوئی مادی صورت موجود نہیں تو روحانی صورت ضرور موجود ہے۔ اگر تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک دس پر غالب آیا ہو تو قرآن کریم کی ایک آیت ضرور کہتی ہے کہ اگر تم سچے مؤمن بن جاؤ تو تم قلیل ہو کر کثیر پر غالب آسکتے ہو۔ قرآن کریم کے یہ الفاظ ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر ہم سچے طور پر کوشش کریں اور اسلام کے اصول کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں تو ہم اپنے ہمسایوں پر غالب آ سکتے ہیں۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر بیداری پیدا کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں ہم کبھی یہ اُمید نہیں کر سکتے کہ ہم سارا وقت سینماؤں اور گانوں میں لگا دیں لیکن لڑائی کے وقت فرشتے ہماری پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر ہمیں دشمن پر غلبہ دے دیں گے۔ جیسے پُرانے زمانوں میں فقیروں کا دستور تھا کہ جب کوئی فقیر آ کر پیسہ مانگتا اور دوسرا شخص انکار کر دیتا تو وہ کہتاتھا۔ اُلٹا دوں چودہ طبق۔ حالانکہ اگر چودہ طبق اس کے قبضہ میں ہوتے تو وہ پیسہ پیسہ کیوں مانگتا۔ اسی طرح اگر ہم بھی یہ سمجھتے رہیں گے کہ فرشتے اُتریں گے اور وہ فنونِ جنگ کا علم ہمارے سینوں میں بھر دیں گے تو یہ ایک نامعقول بات ہوگی اگر دنیا میں پہلے کبھی ایسا ہوا ہوتا تب بھی کوئی بات تھی لیکن اگر ایسا کبھی نہیں ہوا تو ہمیں بھی وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گاجو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے اختیار کیا تھا، ہمیں وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا جو عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نے اختیار کیا تھا، ہمیں وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں صحابہؓ نے اختیار کیا تھا ہمیں اس قسم کے واقعات آنے سے پہلے ہر قسم کی تیاری کرنی پڑے گی۔ اگر ہم پہلے سے تیاری نہیں کرتے اور عین وقت پر خداتعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہیں تو اس کے فرشتے ہم پر *** بھیجیں گے اور کہیں گے کہ تم خدا تعالیٰ کا نام گستاخی سے لیتے ہو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ باوجود اس کے کہ آپ سارا دن دینی کاموں میں مصروف رہتے تھے، سارا دن آپ مقدمات کے فیصلوں میں خرچ کر دیتے تھے۔ سارا دن آپ عبادت میں لگا دیتے تھے تو پھر بھی آپ کوئی نہ کوئی ایسا وقت نکال لیتے تھے جس میں آپ صحابہ سے پریڈ کروایا کرتے تھے، آپ ان سے تیر اندازی کرواتے اور انہیں فوجی ٹریننگ دیتے بلکہ بعض دفعہ آپ کو باہر جانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی تو آپ مسجد میں ہی یہ مشق کروا لیتے تھے۔ حضرت عائشہؓ سے بخاری میں روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن آپ سے فرمایا۔ عائشہ! کیا تم نے تماشہ دیکھنا ہے اگر تم تماشہ دیکھنا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں دکھاؤں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا ہاں یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ آپ دروازے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا عائشہ! میرے پیچھے کھڑی ہو جاؤ اور میری گردن کے پاس سے دیکھو۔ پھر آپ نے حبشی اور عرب قبائل کی مصنوعی لڑائی مجھے دکھائی۔ ۱۱؎ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بھی یہ چیزیں سکھاتے رہتے تھے۔ اب تو کئی ایسے ذرائع نکل آئے ہیں جن سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے مثلاً ہوم گارڈ ہے، نیشنل گارڈ ہے ان کے ذریعہ جو شخص چاہے فوجی تربیت حاصل کر سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص لڑائی کے فنون سیکھے گا تو وقت پر یہ اُس کے کام آسکیں گے اِس کے علاوہ جس کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ لائسنس حاصل کرے اور بندوق چلانے کی مشق کرے۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ بندوق خرید لیتے ہیں لیکن وہ چلا نہیں سکتے۔ قادیان پر جن دنوں حملہ ہوا ہے اُن دنوں ہم نے دریافت کیا کہ کن کن لوگوں کے پاس لائسنس ہیں جب ہم کسی سے پوچھتے تھے کہ کیا تمہارے پاس لائسنس ہے؟ تو وہ جواب دیتا تھا جی ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے جب ہم پوچھتے تھے کیا تمہارے پاس بندوق ہے؟ تو وہ جواب دیتا تھا جی ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے۔ لیکن جب ہم پوچھتے کہ کیا کارتوس ہیں؟ تو وہ جواب دیتا جی کارتوس تو نہیں۔ جب کارتوس نہیں تو تم نے لڑنا کس چیز سے ہے۔ اگر کارتوس نہ ہوں تو بندوق اور لٹھ میں کیا فرق ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاید بندوق آپ ہی آپ چلا کرتی ہے۔ جب کارتوس نہیں ہونگے تو نشانہ بازی کیسے کی جا سکتی ہے اور جب تک بندوق چلائی نہ جائے مشق کیسے ہو سکتی ہے۔ میں بچپن سے ہی بندوق چلاتا آ رہا ہوں اب کبھی کبھی ناغہ ہو جاتا ہے۔ اپنے وقت میں میں نے پستول کے ساتھ جانور مارے ہیں لیکن کچھ دن اگر گزر جائیں تو نشانہ درست نہیں رہتا۔ اس دفعہ جب میں کوئٹہ گیا تو میں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ آؤ تمہیں نشانہ سکھائیں۔ مجھے چونکہ مشق کئے دیر ہوچکی تھی اور وہ صبح شام مشق کرتی رہیں تیسرے چوتھے دن میری بیٹی نے مجھے بڑی شکست دی میں نے سمجھا کہ میری بیٹی دل میں کہتی ہوگی کہ اباجان یونہی کہتے رہتے ہیں کہ ہم یوں نشانہ بازی کیا کرتے تھے اصل بات یہ ہے کہ اس کام کے لئے مشق کی ضرورت ہے۔ پس تم ہتھیار لو تو مشق کرو لیکن اس طرح کی مشق نہیں جیسے زمیندار مشق کیا کرتے ہیں۔ زمیندار ہمیشہ اپنے بنے کے شریک پر مشق کیا کرتے ہیں تم بیشک مشق کرو لیکن درخت اور دیوار وغیرہ پر کرو۔ کسی آدمی کے سینہ پر نہ کرو اور اگر کسی آدمی کے سینہ پر ہی کرنی ہے تو پھر وقت آنے پر دشمن کے سینہ پر کرنا پہلے نہ کرنا۔
ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ آجکل بعض لوگوں کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ کشمیر کی جنگ جہاد ہے یا نہیں؟ قطع نظر اس کے کہ یہ سوال کتنی اہمیت رکھتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں کشمیر سے ہمدردی ہے اور یہ لڑائی جہاد ہے وہ خود اس میں حصہ کیوں نہیں لیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجابیوں نے اس میں بہت کم حصہ لیا ہے حکومت کی طرف سے کام کرنے والوں کے علاوہ سوائے ایک مثال کے اور کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی جماعت یا فرقہ نے طوعی طور پر کشمیر کی مدد کی ہو۔ بڑا کام یہی سمجھا جاتا ہے کہ جلسہ کیا۔ چند ریزولیوشن پاس کئے اور ’’غلام عباس زندہ باد‘‘ اور’’ سردار ابراہیم زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے اور سمجھ لیا کہ یہ پچیس پاؤنڈر توپیں ہیں جو دشمن کے خلاف کام کر رہی ہیں حالانکہ جب تک تم کشمیر میں جاکر اور لڑائی میں حصہ لے کر ہندوستانیوں کو مردہ باد نہیں کر لیتے یہ لوگ ’’زندہ باد‘‘ کیسے ہو سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طریق پر جنگ جاری ہے اور جس طرح وہ لمبی ہو رہی ہے میں تفصیل میں تو نہیں جانا چاہتا لیکن پھر بھی میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ صورتِ حالات نہایت ہی خطرناک ہے۔ اگر اب بھی تم نے اپنی ذمہ داریوں کو نہ سمجھا تو تم اس سے بھی زیادہ حسرت کے ساتھ اپنے ہاتھ ملو گے جس قدر حسرت کے ساتھ تم نے مشرقی پنجاب میں اپنے ہاتھ ملے تھے۔ اِس وقت بجائے اس کے کہ کشمیر کی مدد کی جاتی یہ بحثیں شروع ہو گئی ہیں کہ آیا کشمیر کی جنگ جہاد ہے یا نہیں۔ گویا جہاد کے سِوا وہ اور کوئی کام ہی نہیں کرتے۔ روٹی کھانا کیا جہاد ہے مگر کیا تم کھاتے ہو یا نہیں؟ پھر پانی پینا کیاجہاد ہے مگر دن اور رات میں تم کتنے گلاس پانی کے پی جاتے ہو۔ پھر لسّی اور دودھ پینا کیا جہاد ہے جب تمہیں کوئی شخص لسّی یا دودھ دیتا ہے تو تم یہ نہیں کہتے کہ پھینکو پَرے یہ جہاد نہیں بلکہ کہتے ہو لاؤ بِسْمِ اللّٰہِ۔ پھر تم بچے کو پیار کرتے ہو جب تم یہ کام کرتے ہو اور یہ کبھی سوال نہیں اُٹھاتے کہ یہ کام جہاد ہے یانہیںتو اس لڑائی کے وقت جہاد کا سوال کرنا کون سی عقلمندی ہے۔ تم پانی پیتے ہو اس لئے کہ اگر تم پانی نہیں پیو گے تو پیاسے مر جاؤ گے، تم روٹی کھاتے ہو اس لئے کہ اگر تم روٹی نہیں کھاؤ گے تو بھوکے مر جاؤ گے، تم کپڑے پہنتے ہو اس لئے کہ اگر تم کپڑے نہیں پہنو گے تو تم ننگے ہو جاؤ گے لیکن اگر تم اس لڑائی میں شامل نہ ہوئے تو کیا خیریت رہے گی؟ اگر خیریت رہے گی تو بے شک تم یہ کام نہ کرو لیکن اگر خیریت نہیں رہے گی تو جہاد کا سوال ہی کیا ہے۔ تم روزانہ سینکڑوں کام کرتے ہو مگر کیا انہیں جہاد سمجھ کر کرتے ہو۔ تم صبح ہی اُٹھتے ہو تو اگر تمہیں حقہ کی عادت ہے تو حقہ لے کر اُسے تازہ کرتے ہو کیایہ جہاد ہے، پھر اپنے جانوروں کو چارہ ڈالتے ہو کیا یہ جہاد ہے، پھر ہل چلاتے ہو کیا یہ جہاد ہے، پھر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپیںہانکتے ہو کیا یہ جہاد ہے، پھر اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ پیار کرتے ہو کیا یہ جہاد ہے، پھر اگر تمہارا کوئی دوست یا رشتہ دار کوئی تحفہ لاتا ہے تو تم اُسے قبول کرتے ہو کیا یہ جہادہے، تم پاخانہ کرتے ہو کیا یہ جہاد ہے، تم نہاتے ہو کیا یہ جہاد ہے، تم کپڑے دھوتے ہو کیا یہ جہاد ہے، تم تیل لگاتے ہو، تم کنگھی کرتے ہو، تم مسواک کرتے ہو کیا یہ جہاد ہے، اگر تم اپنے دن بھر کے کام گننے لگو تو وہ کروڑوں بن جاتے ہیں مگر کیا تم یہ سب کام جہاد سمجھ کر کرتے ہو۔ جب اپنی ضرورت آتی ہے تو تم وہ کام کر لیتے ہو اور کہتے ہو کہ ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ یہ کام کرنا چاہئے اور تم یہ سوال نہیں کرتے کہ آیا یہ جہادہے یا نہیں۔ اگر جہاد ہے تو ہم کریں گے اور اگر جہاد نہیں تو نہیں کریں گے مگر جب خداتعالیٰ کا سوال آتا ہے، جب اسلام کا سوال آتا ہے، جب قوم اور وطن کا سوال آتا ہے تو تم پوچھتے ہو کہ آیا یہ جہاد ہے؟ گویا تم نے اپنی ساری عمر میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جو جہاد نہیں تھا۔ تم نے جو کام بھی کیا ہے اُسے جہاد سمجھ کر ہی کیا ہے۔ جب سے تمہیں ہوش آئی ہے تم کافر ہی مارتے رہے ہو۔ یہ کتنی بڑی شرم کی بات ہے کہ جب قوم اور وطن کے لئے قربانی کرنے کا سوال آیا تو تم پوچھتے ہو کیا یہ جہاد ہے؟ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ کشمیر کی جنگ میں وہ شرطیں نہیں پائی جاتیں جن شرائط کے پائے جانے سے یہ جہاد کہلا سکتی ہے مثلاً جہاد کی یہ شرط ہے کہ ایک امام ہو مگر یہاں کوئی امام نہیں۔ مگر یہ سوال تو تب ہو سکتا تھا جب تمہارے سب کام جہاد کے مطابق ہوتے۔ جب تم سب کام عقل کے ساتھ کرتے ہو اور یہ سمجھ کر نہیں کرتے کہ یہ جہاد ہے تو یہاں اس سوال کی کیا ضرورت ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ مَنْ قُتِلَ دُوَْنَ مَالِہٖ وَ عِرْضِہٖ فَھُوَشَہِیْدٌ۱۲؎ جو شخص اپنے مال کو اور اپنی عزت کو بچاتے ہوئے مارا جاتا ہے وہ شہید ہے۔ آپ نے اس لڑائی کو جہاد نہیں کہا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے مال یا اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے۔ تم میں سے ہر وہ شخص جو اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کرتا ہوا یا اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہوا مارا جاتا ہے وہ یقینا شہید ہے۔ جو لوگ مشرقی پنجاب سے اپنی بیویوں، بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کو بچا کر لے آئے ہیں میں اُن پر کوئی اعتراض نہیں کرتا مگر جو لوگ اُنہیں وہیں چھوڑ کر آئے ہیں میں اُن سے کہتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کی رگِ حمیت اب بھی نہیں پھڑکی؟ آخر تم میں سے کتنے ہیں جو اپنے وطن کی خاطر یا اپنی قوم کی خاطر لڑائی کیلئے کشمیر جا رہے ہیں اگر اس میں جہاد سے کم ثواب ہے تو کیا لوگ ہر اُس کام کو جس کا ثواب تھوڑا ہو چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص نماز جماعت کے ساتھ پڑھتا ہے اُسے زیادہ ثواب ملتا ہے۔۱۳؎ اب اگر جماعت کے ساتھ نماز نہ ملے تو کیا تم نماز نہیں پڑھا کرتے؟ کیا تم نماز چھوڑ دیا کرتے ہو؟ پھر فرض لیں، کیا تم فرضوں کی وجہ سے سنتوں کو چھوڑ دیا کرتے ہو اس لئے کہ اُن کا ثواب کم ہے یا کیا تم سنتوں کی وجہ سے نوافل کو چھوڑ دیا کرتے ہو اس لئے کہ اُن کا ثواب کم ہوتا ہے۔ تم کہتے ہو کہ ساری چیزیں ہی اپنی اپنی جگہ پر ضروری ہیں اور وہ اپنے اپنے رنگ میں اہم ہیں پھر یہاں کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ہم تھوڑے ثواب کو کیا کریں جہاد ہوتا تو شامل ہوتے۔
صحابہؓ میں تو ثواب حاصل کرنے کے لئے خواہ وہ تھوڑا ہو یا بہت اتنا خیال پایا جاتا تھا کہ ایک دفعہ ایک جنازہ ہوا۔ جنازہ کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو جانے لگے تو ایک صحابیؓ نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا ہے۔ آپ فرماتے تھے اگر کوئی شخص جنازہ میں شامل ہو اور نماز جنازہ پڑھے تو اُسے اُحد کے برابر ایک قیراط کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی شخص جنازہ کو کندھا بھی دے، قبرستان تک ساتھ جائے اور میت کے دفن ہونے تک وہیں رہے تو اسے دو قیراط کا ثواب ہوتا ہے۔ یہ بات سن کر ایک اور صحابیؓ نے غصہ سے کہا۔ آپ نے ہمیں یہ بات اتنا عرصہ کیوں نہ بتائی۔ معلوم نہیں ہم نے کتنے قیراط ثواب ضائع کر دیا ہے۔۱۴؎ یہ چیز تھی جو صحابہؓ میں پائی جاتی تھی وہ چھوٹے سے چھوٹے ثواب کو بھی چھوڑنا پسند نہیں کرتے تھے۔ پس یہ غلط بات ہے کہ ہر ایک چیز کا انتہائی ثواب ہی ہو۔ تبھی اُسے کیا جائے، جب کسی چیز کا انتہائی ثواب نہیں ہوگا ہم اس میں حصہ نہیں لیں گے۔ بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ وَ عِرْضِہٖ فَھُوَشَہِیْدٌ۔جو شخص اپنے مال یا عزت کو بچاتے ہوئے مارا جاتا ہے وہ شہید ہے۔اسی طرح فرمایا حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ ۱۵؎ وطن سے محبت رکھنا بھی ایمان میں داخل ہے۔ پس جو شخص وطن کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے گا وہ گویا ایمان کی حفاظت کرتاہوا مارا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہید ہوگا۔ پس وہ جہاد جو مخصوص حالات اور زمانوں میں ہوتا ہے اس کے علاوہ جب ہم اور کئی کام کرتے ہیں، جہاد میسر نہ آنے پر بھی ہم روٹی کھاتے ہیں، پانی پیتے ہیں، اپنے بیوی بچوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کے علاوہ دن اور رات میں سینکڑوں کام کرتے ہیں اور ان میں سے کسی کام کے متعلق بھی ہم یہ سوال نہیں کرتے کہ آیا یہ جہاد ہے یا نہیں تو اب اگر وطن کی حفاظت کا سوال آنے پر ہم مختلف قسم کے بہانے بناتے ہیں تو ہم بہانہ خور ہیں۔ ہم یقینا جھوٹے ہیں سچے نہیں، ہم بے وقوف ہیں عقلمند نہیں اور یہ محض ایک ایسا بودا عذر ہے جس میں ذرّہ بھر بھی حقیقت نہیں پائی جاتی۔
اب ہماری جماعت کو خصوصاً یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا نظریہ اب بدل جانا چاہئے۔ ایک وقت تھا جب چندہ دینے سے تمہارا فرض ادا ہو جاتا تھا، ایک وقت تھا جب نماز پڑھنے سے تمہارا فرض ادا ہو جاتاتھا لیکن اب صرف نماز پڑھ لینے سے تمہارا فرض ادا نہیں ہوگا، اب صرف زکوٰۃ دینے سے تمہارا فرض ادا نہیں ہوگا، اب صرف حج کر لینے سے تمہارا فرض ادا نہیں ہوگا اب تمہارے سپرد ایک چیز کی گئی ہے جس کی حفاظت کے لئے تم سے تمہاری جانوں کا مطالبہ کیا جائے گا اور مالی قربانیوں کے علاوہ تمہیں جانی قربانیاں بھی دینی پڑیں گی اور جو شخص اس سے گریز کرتا ہے یا جو شخص موت سے ڈرتا ہے اس کا ایمان ہرگز کامل نہیں اس کا ایمان ناقص ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی امید نہیں کر سکتا۔ مؤمن کے لئے جان کی قربانی پیش کرنا درحقیقت چیز ہی کوئی نہیں ہے۔ غالب کے متعلق لوگ بحثیں کرتے ہیں کہ وہ شراب پیا کرتا تھا یا نہیں۔ مگر میرا تو وہ رشتہ دار ہے اور میں نے اپنی نانیوں اور پھوپھیوں سے سنا ہوا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا۔ ایسا شخص جو شراب کا عادی تھا وہ بھی کہتا ہے۔
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یعنی اگر ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتے ہیں تو کیا ہوا یہ جان بھی تو اُسی کی دی ہوئی تھی۔ پس خداتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اگر کوئی شخص جان بھی دے دیتا ہے تو وہ کوئی بڑی قربانی نہیں کرتا کیونکہ وہ جان بھی اُسی کی چیز ہے اور کسی کی امانت کو واپس کر دینا بڑی قربانی نہیں ہوتا۔
احادیث میں ایک صحابیہؓ کا قصہ آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے شوہر کو کسی اسلامی خدمت کے سلسلہ میںباہر بھیجا۔ اُن کا بچہ بیمار تھا اور اُنہیں اپنے بچہ کی بیماری کا قدرتی طور پر فکر تھا وہ صحابی جب واپس آئے تو ان کی غیر حاضری میں اُن کا بچہ فوت ہوچکا تھا۔ ماں نے اپنے مردہ بچہ پر کپڑا ڈال دیا۔ وہ نہائی دھوئی اور خوشبو لگائی اور بڑے حوصلے کے ساتھ اس نے اپنے خاوند کا استقبال کیا۔ وہ صحابی جب گھر آئے تواُنہوں نے آتے ہی سوال کیا کہ بچے کا کیا حال ہے۔ اس صحابیہ نے جواب دیا۔ بالکل آرام ہے۔ اُنہوں نے کھانا کھایا پھر تسلی کے ساتھ آرام سے لیٹ گئے اور تعلقاتِ زوجیت بھی پورے کئے۔ جب وہ اپنی بیوی سے مباشرت کر چکے تو بیوی نے کہا میں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتی ہوں۔ خاوند نے جواب دیا کیا؟ بیوی نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھ جائے اور کچھ عرصہ کے بعد وہ چیز واپس لینا چاہے تو کیا وہ چیز اُسے واپس کی جائے یا نہ کی جائے؟ اُنہوں نے جواب دیا وہ کون بے وقوف ہوگا جو کسی کی امانت کو واپس نہیں کرے گا۔ بیوی نے کہا۔ آخر اُسے افسوس تو ہوگا کہ میں امانت واپس کر رہا ہوں۔ اُنہوں نے جواب دیا۔ افسوس کس بات کا وہ چیز اُس کی اپنی نہیں تھی اگر وہ اُسے واپس کر دے تو اُسے کیا افسوس ہو سکتا ہے۔ بیوی نے کہا اچھا! اگر یہ بات ہے تو ہمارا بچہ جو خداتعالیٰ کی ایک امانت تھی اُسے خداتعالیٰ نے ہم سے واپس لے لیا ہے۔ ۱۶؎ یہ حوصلہ تھا جو اُس وقت کی عورتوں میں پایا جاتا تھا۔ پس جان کا دے دینا تو کوئی چیز ہی نہیں۔ خصوصاً مؤمن کے لئے تو یہ معمولی بات ہوتی ہے۔
ہم جہاد کے متعلق بتایا کرتے تھے کہ موجود حالات میں شرعاً جائز نہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں بعض لوگ بُزدل بن گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے جہاد کو مسئلہ کی وجہ سے نہیں چھوڑا تھا بلکہ بُزدلی کی وجہ سے چھوڑا تھا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم نے جہاد کو محض مسئلہ کی وجہ سے چھوڑا تھا اور جب کہ ہم محض شرعی مسئلہ کی وجہ سے جہاد کو ممنوع قرار دیتے تھے تو اب لوگوں کو خوش ہونا چاہئے تھا کہ وہ روکیں جو اُن کے رستہ میں حائل تھیں دور ہو گئی ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ بجائے خوش ہونے کے رو رہے ہیں یہ میں جانتا ہوں کہ آئندہ کیا ہوگا۔ پہلے تم چندہ نہیں دیتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان کیا کہ تم تین ماہ میں صرف ایک دھیلہ بطور چندہ دیا کرو۔ اُس وقت لوگ دھیلہ بھی روتے روتے دیتے تھے پھر ایسا مزہ آیا کہ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ دھیلہ کی بجائے آپ پیسہ چندہ کر دیجئے پھر تم نے کہا سہ ماہی کی شرط نہیں ہونی چاہئے یہ چندہ ماہوار ہونا چاہئے۔ پھریہ چندہ پیسہ سے دو پیسہ ہوا اور دو پیسہ سے تین پیسہ ہوا اور اب جماعت میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اپنی ماہوار آمد کا پچاس فیصدی چندہ دیتے ہیں۔ پس میں جانتا ہوں کہ ان کمزوریوں کی آہستہ آہستہ اصلاح ہو جاتی ہے اور وہ دن ضرور آئے گا جب تم یہ کہو گے کہ جان دینے میں تو کوئی خاص مزہ نہیں آتا کوئی اس سے بھی بڑی قربانی ہونی چاہئے۔ بہرحال اِس دن کے آنے پر میرا فرض ہے کہ میں جماعت کو توجہ دلاؤں کہ وہ اپنی بُزدلی کو دور کرے اور اپنے اندر جرأت، بہادری اور حوصلہ پیدا کرے۔ میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کی کیا کیفیت ہے مگر ہم جب تاریخ اسلام پڑھا کرتے تھے تو ہمارے اندر ایک جوش پیدا ہوتا تھا کہ کاش! ہم بھی اُس وقت ہوتے اور اس قسم کی قربانیاں کرتے پھر ہماری زندگی میں ہی خداتعالیٰ نے ایسا موقع دے دیا ہے جب ہم وہی قربانیاں پیش کر سکتے ہیں جو صحابہ نے اپنے وقت میں کیں۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں میں یہ جوش نہیں پایا جاتا جو لوگ راسخ الایمان ہیں ان میں بے شک یہ نمونہ بھی پایا جاتا ہے۔
ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ایک جگہ ہم نے کشمیر میں جانے کے لئے احمدیوں میں تحریک کی اور بتایا کہ یہ مُلکی سوال ہے وہاں ضرور جانا چاہئے اس پر ایک بیوہ نے جس کا ایک ہی بچہ تھا سوال کیا کہ کیا یہ ہمارا دینی فرض ہے؟ اِس پر اُس دوست نے کہا اِس وقت حفاظت اسلام کا سوال ہے اور وہاں جانا ضروری ہے۔ اِس پر اُس بیوہ نے اپنے اکلوتے بچے کو آواز دی اور کہا او فلانے! تو بولتا کیوں نہیں دین کے لئے تمہاری جان کی ضرورت ہے اور تو چپ بیٹھا ہے۔ اس دوست نے بتایا کہ اس بیوہ نے اُسی وقت اپنے اکلوتے بچے کو کشمیر کے لئے بھیج دیا۔ اسی طرح ایک اور عورت کے متعلق جس کے دو بیٹے اور دو پوتے تھے ایک دوست نے بتایا کہ جب ہم نے اُسے تحریک کی کہ اِس وقت اسلام کی خاطر جان کی قربانی کی ضرورت ہے تو وہ عورت اُس وقت گھر سے باہر کھڑی تھی اُس نے اپنے دونوں بیٹوں اور دونوں پوتوں کو آواز دے کر کہا جب تک تم سب کشمیر چلے نہیں جاؤ گے میں گھر میں داخل نہیں ہونگی۔ کہنے والا کہتا ہے کہ ہم نے کہا چاروں نہیں ہم فی الحال دو کو لے جاتے ہیں مگر اُس عورت نے بڑے اصرار سے کہا نہیں چاروں کو لے جاؤ۔ مگر جب ہم چاروں کے لے جانے پر رضا مند نہ ہوئے تو اس نے کہا۔ اچھا دونوں کو لے جاؤ۔ یہ چیز ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔درحقیقت جذبۂ نیک، جذبۂ نیک پیدا کرتا ہے۔ پہلی عورت نے بھی اپنے بیٹے سے کہا کہ دین کو تیری جان کی ضرورت ہے اگر تُو دریغ کرے گا تو میں تجھ سے خوش نہیں ہونگی اور دوسری عورت نے بھی یہی نمونہ دکھایا۔جس وقت میں نے یہ واقعہ سنا اُس وقت میری وہی کیفیت ہوگئی جو مالک بادشاہ کی ہوئی تھی۔ مالک ۱۸ سال کی عمر میں یتیم ہو گیا تھا۔ اس کے والد (جو ایک بڑا بادشاہ تھا) کے مرنے کے بعد اس کے ایک اور بیٹے اور ایک بھائی نے حصولِ تخت کے لئے لڑائی شروع کر دی۔ نظام الدین طُوسی جو اُس وقت وزیراعظم تھا اور مالک کا اُستاد بھی (یہ نظام الدین طُوسی وہی ہیں جن کا نظامِ تعلیم فرنگی محل میں ایک عرصہ تک جاری رہا ہے) اس نے مالک کو اپنے ساتھ لیا اور اُسے موسیٰ رضا کی قبر پر دعا مانگنے کے لئے لے گیا۔ موسیٰ رضا کی قبر پر ان دونوں نے دعا کی۔ مالک بھی دعا کیلئے سجدہ میں گرے اور وزیر بھی سجدہ میں گرا اور دعا کی کہ اے خدا! تُو موسیٰ رضا کے واسطہ سے ہمیں جنگ میں فتح عطا فرما! تاریخ میں آتا ہے جب دونوں دعا سے فارغ ہوئے تو مالک نے وزیر سے پوچھا تم نے کیا دعا کی ہے؟ اس نے جواب دیا۔ حضور میں نے دعا کی ہے کہ اے اللہ! تُو میرے بادشاہ کو میدانِ جنگ میں فتح عطا فرما اور اس کے دشمنوںکو رسوا کر۔ اِس پر ۱۸ سالہ مالک نے کہا۔ نظام الدین میں نے تو یہ دعا نہیں کی۔ میں نے تو یہ دعا کی ہے کہ اے اللہ! میں نہیں جانتا کہ میں قوم کے لئے مفید ہوں یا نہیں۔ بادشاہ ہونے کا مدعی میں بھی ہوں میرا بھائی بھی ہے اور میرے چچا بھی ہیں تجھے معلوم ہے کہ قوم کے لئے ہم میں سے کون سا وجود مفید ہے اگر تُو جانتا ہے کہ میں قوم کے لئے مفید ہوںتو کل کی جنگ میں مجھے کامیابی عطا فرما۔ اگر میرے بھائی یا چچا قوم کے لئے مفید ہیں تو اے اللہ! کل کی جنگ میں مجھے مروادیجیئو تا میں اُس نظام کے راستہ میں روک نہ بنوں جس کو تُو قائم کرنا چاہتا ہے۔ گبن جیسا متعصب مؤرخ لکھتا ہے مسلمان کافر ہیں مگر عیسائی دنیا کی تاریخ میں جتنے بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں ان میں سے کسی ایک کی زبان سے بھی میں نے وہ کلمہ حکمت نہیں سنا جو اس کافر ۱۸ سالہ نوجوان بادشاہ سے سنا ہے۔ مجھ پر یہ بھی اثر ہوا۔ میں نے وہ خط بند کر کے خداتعالیٰ سے دعا کی کہ میرے بیٹے اور پوتے بھی اس کام میں شامل ہیں اگر اس کام میں جان کی قربانی کی ہی ضرورت ہے تو اے خدا! اس عورت کے بیٹے واپس بھیج دیجیئو اور میرے بیٹوں کو جان کی قربانی کی توفیق عطا فرمائیو۔
پس موت کوئی چیز نہیں جس سے ڈرا جائے۔ کون ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا موت بہرحال آئے گی لیکن کوئی موت عزت کی ہوتی ہے اور کوئی موت بے عزتی کی ہوتی ہے اگر کوئی شخص اپنے آپ کو موت سے بچانا چاہتا ہے تو اس سے زیادہ احمق اور کوئی نہیں۔ پس اپنے اندر ایک نیا تغیر پیدا کرو اور جو نئی ذمہ داریاں خداتعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہیں اُنہیں دوسروں سے زیادہ محسوس کرو۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اس وقت حکومت تمہاری نہیں تم پاکستان میں اقلیت میں ہو اور اس کے فوائد دوسروں کو پہنچیں گے تم کو تو نہیں پہنچیں گے لیکن تم اس بات کے مدعی ہو کہ تم نے خدا تعالیٰ کی مخلوق اور تمام بنی نوع انسان کے لئے کام کرنا ہے۔ تم نے یہ نہیں دیکھناکہ اس سے تم کو فائدہ پہنچتا ہے یا کسی اور کو۔ تم نے یہ دیکھنا ہے کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو سب سے زیادہ ادا کرتے ہو۔ یہ وہ چیز ہے جس سے تم اپنے ایمان کو محفوظ کر سکتے ہو اور یہ وہ چیز ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تمہارے مخالفوں کے سینوں سے بغض اور کینہ دور کر دے گا۔ یہ وہ چیز ہے جس سے تم انہیں کھینچ کھینچ کر اپنی طرف لے آؤ گے اور آخری بات وہی ہوگی جو صحابہؓ کے وقت میں ہوئی۔ وہی لوگ جو اِس وقت ہمیں گالیاں دیتے ہیںاورہماری مخالفت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اِنہوں نے ایک دن نہایت ادب سے ہمارے سامنے اپنا سر جھکانا ہے اور یقینا ایک دن ایسا آئے گا جب ہمارے دشمن انتہائی لجاجت سے ہمیں کہیں گے کہ تم ہمارے سر پر ہاتھ رکھو اور ہمیں برکت دو۔ یہ دن خواہ جلد آئے یا دیر سے آئے بہرحال آ کر رہے گا لیکن اس دن کو جلد تر لانے کیلئے ہم کو بھی قربانیاں دینی پڑیں گی۔ ہمیں اعلیٰ اخلاق دکھانے پڑیں گے۔ ہمیں ایثار کا بلند ترین نمونہ پیش کرنا پڑے گا اور جب تک ہم خداتعالیٰ کی طرف سے عائد شدہ ذمہ داریوں کو ادا نہیںکریں گے اُس دن کے آنے میں دیر ہوتی چلی جائے گی۔
پس میں جماعت کو اچھی طرح آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ اب صرف چندوں کے دینے سے کوئی شخص پورا احمدی نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ اب ہماری ذمہ داریاں بدل گئی ہیں۔ جس طرح چار سال کے بچے کا کپڑا اٹھارہ سالہ نوجوان کو کام نہیں دے گا اُسی طرح تمہاری پہلی قربانیاں اب تمہارے کام نہیں آ سکتیں۔ جب تک جانی قربانیوں کی ضرورت نہیں تھی اُس وقت تک تم کامیاب سمجھے جاتے تھے لیکن اب جان کی قربانی کی بھی ضرورت ہے اور قوم اور وطن کی عزت تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو جانی قربانی کیلئے ہر وقت تیار رکھیں۔ تمہاری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ اب تمہیں چاہئے کہ تم آگے سے بڑھ کر اپنا نمونہ پیش کرو۔ تم نے پہلے چندے دینے میں ایک بے مثال نمونہ دکھا دیا ہے یہاں تک کہ ہندوستان اور دوسرے آزاد ممالک بھی وہ کام نہیں کر رہے جو تم کر رہے ہو۔ اب تمہیں دنیا کو یہ بھی دکھا دینا چاہئے کہ جان کی قربانی پیش کرنے میں بھی تم سب سے بڑھ کر ہو۔ یہ نمونہ ہے جو میں تم سے دیکھنا چاہتا ہوں یہ نمونہ ہے جس کی تمہارا امام تم سے امید کرتا ہے اور جب تک تم ایسا نہیں کرو گے تم میری نظروں میںعزت حاصل نہیں کر سکتے۔ اور اگر تم میرے معتقد ہو اور جو بات میں کہتا ہوں اس پر یقین رکھتے ہو تو میرے نقطۂ نگاہ سے تم خداتعالیٰ کی نظر میں بھی اچھے نہیں سمجھے جا سکتے۔
اب میں اپنی تقریر کو ختم کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ جو دوست اس جلسہ پر آئے ہیں اور اُنہوں نے میری باتوں کو سنا ہے انہیں خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ وہ واپس جا کر اپنی جماعتوں میں میرے خیالات کو پھیلا دیں اور اپنی اپنی جماعتوں میں تحریک کریں کہ وہ بُزدلی کو دور کریں۔ بُزدلی اور سستی سے صرف دُنیوی نقصان ہی نہیں پہنچتا بلکہ یہ چیز دین کو بھی کمزور کر دیتی ہے اور میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اب کسی صورت میں بھی بُزدلی اور سستی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جو شخص بہادر ہوگا۔ جو شخص ضرورت کے وقت اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے تیار رہے گا اور جو شخص قربانیاں پیش کر کے قوم اور وطن کی محبت کو ثابت کر دے گا وہی ہم میں رہنے کا مستحق ہوگا اور جو دوسرے لوگ ہونگے ہم آہستہ آہستہ ان کی اصلاح کی کوشش کریں گے لیکن اگر ان کی اصلاح نہ ہو سکی تو ہم انہیں علیحدہ کر دیں گے کیونکہ ماؤف ٹکڑا سارے جسم کو خراب کر دیتا ہے۔ پس جاؤ اور اپنے بھائیوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور نئی نئی ذمہ داریوں کو جو خداتعالیٰ کی طرف سے اُن کے ذمہ ڈالی گئی ہیں پورا کریں۔ پہلے ہم کڑھا کرتے تھے کہ ہم انگریز کے ماتحت ہیں اس لئے ہم اپنے مُلک کی، اپنے وطن کی اور اپنی قوم کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے لیکن اب ہماری بیڑیاں کاٹ دی گئی ہیں، ہماری طوق اُتار دیئے گئے ہیں۔ ایک شیر کو جب چھوڑ دیا جاتا ہے تو کچھ دیر کے لئے اُس پر کسل طاری ہوتا ہے اور وہ انگڑائیاں لیتا ہے۔ اتنی دیر کے لئے اگر تم پر بھی کسل طاری رہتا ہے یا تم انگڑائیاں لیتے ہو تو تم معافی کے قابل ہو لیکن اگر تم اس کے بعد بھی گرے رہتے ہو، اگر تم اس کے بعد بھی سوئے رہتے ہو تو تم معافی کے قابل نہیں سمجھے جا سکتے۔ اگر شیر پنجرے سے نکل کر بھی سویا رہتا ہے تو اس کا مرجانا اس کے زندہ رہنے سے زیادہ بہتر ہے۔ اِس سے بہتر تو گیدڑ ہے جو جانور تو ہے لیکن کم سے کم بے ایمان تو نہیں۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی، میری اولاد کو بھی اور آپ لوگوں کی اولادوں کو بھی، میرے بچوں کو بھی اور آپ لوگوں کے بچوں کو بھی، میری بیویوں کو بھی اور آپ لوگوں کی بیویوں کو بھی، میرے بہن بھائیوں کو بھی اور آپ لوگوں کے بہن بھائیوں کو بھی اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ قوت اور طاقت ہمیں عطا فرمائے جس سے ہم اسلام کو دوبارہ زندہ کر سکیں اور وہ ہمیں ان قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے جو اسلام کی فتح اور اس کی دوبارہ زندگی کے لئے ضروری ہوں۔
(ماخوذ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
۱؎ پاخانہ: بیت الخلاء
۲؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۶۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳؎ اٰل عمران: ۱۴۵ ۴؎ المائدہ: ۴۸
۵؎ تذکرہ صفحہ۷۷۲ ۔ایڈیشن چہارم
۶؎ القصص: ۸۶
۷؎ تذکرہ صفحہ۳۰۷۔ ایڈیشن چہارم
۸؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۳۴۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۹؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۱۰۶،۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۰؎ الصف: ۱۰
۱۱؎ بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق یوم العید
۱۲؎ بخاری کتاب المظالم۔ باب من قتل دون مالہ
۱۳؎ بخاری کتاب الاذان باب فضل صلوۃ الجماعۃ
۱۴؎ مسلم کتاب الجنائز باب فضل الصلوٰۃ علی الجنازۃ و اتباعھا
۱۵؎ موضوعات ملا علی قاری صفحہ۳۵۔ مطبع مجتبائی دھلی ۱۳۴۶ھ
۱۶؎ بخاری کتاب الجنائز باب لَمْ یُظْھِرْ حُزْنَہٗ عِنْدَ الْمُصِیْبَۃِ
ہر عبدالشکور کنزے کے اعزاز میں
دعوتوں کے مواقع پر تین تقاریر
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہر۱؎ عبدالشکور کنزے٭ کے اعزاز میں دعوتوں
کے مواقع پر تین تقاریر
پہلی تقریر
(فرمودہ ۱۹؍جنوری ۱۹۴۹ء بمقام رتن باغ لاہور
دعوتِ چائے از نظارت دعوت و تبلیغ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:۔
’’میرے آقا و مولا کے ارشاد کے مطابق اسلام اور اُس کے سچے متبع واقعی وہی کونے کا پتھر ہیں جو جس پر بھی گریں گے وہ پاش پاش ہو جائے گا اور جو اُن پر گرے گا وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا۔ دیکھ لیجئے جرمنوں نے اطالویوں کی مدد سے ایک عربی ملک ٹنیشیا پر یورش کی تا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو ختم کریں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی، اُنہیں ہزیمت ہوئی اور اب جب اسلام کے مبلغ اُس ملک میں پہنچے تو وہ اُن کے تمدن، اُن کے مذہب اور اُن کی اخلاقیات پر وہی کونے کا پتھر بن کر کچھ اِس طرح گرے کہ اُن کے دلوں میں جو کچھ تھا وہ ختم ہو گیا اور اُنہیں حلقہ بگوشِ اسلام ہوتے ہی بنی۔
(حضور نے فرمایا)
٭ موصوف اپنے حالات اور بعض وجوہات کی بناء پر اب جماعتِ احمدیہ کے ممبر نہیں رہے۔ (ناشر)
دل کے تمام گند دھو کر اسلام سے وابستگی حاصل کرنا یقینا ایک نئی زندگی حاصل کرنا ہے اور مجھے مسرت ہے کہ ہر عبدالشکور کو جو اسلامی لحاظ سے میرا بھائی، دوست اور روحانی بیٹا ہے یہ سعادت حاصل ہوئی۔
(حضور نے تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا)
ہر کنزے کا عبدالشکور نام رکھنا بھی میری ایک خواب کی بنا پر ہے جس میں میں نے دیکھا تھاکہ دشمنوں سے تنگ آ کر جرمنی یا اٹلی میں گیا ہوں۔ جہاں میرے تبلیغ کرنے سے متعدد لوگوں کو حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی توفیق ملی ہے اور پھر میں نے وہاں اپنا ایک نائب مقرر کیا ہے جس کو ’’عبدالشکور‘‘ نام دیا گیا ہے۔ میں نے اُسی خواب کے مطابق ہرکنزے کا نام ’’ہرعبدالشکور کنزے‘‘ رکھا ہے۔ میری دعا ہے کہ میرا خدا انہیں وہی عبدالشکور بننے کی توفیق دے اور اِن کے واسطے ان کے مُلک کو اُن تمام برکات سے نوازے جو اُس موعود عبدالشکور سے وابستہ ہیں۔
(حضور نے فرمایا)
’’ہرکنزے‘‘ اِس سے پہلے جس مذہب سے وابستہ تھے اُس میں شریعت کو *** قرار دیا گیا تھا لیکن اسلام شریعت کو برکاتِ خداوندی سے معمور گردانتا ہے۔ لہٰذا میں ہرعبدالشکور کو نصیحت کروں گا کہ جو اَب اپنے تمام اعزاو اقرباء کو چھوڑ کر خدا کے دامن سے وابستہ ہوگئے ہیں اِسے اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی کرنے کی کوشش کریں اور جس طرح وہ پہلے کبھی ہر ہٹلر کے سپاہی تھے آج میرے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا جانثار سپاہی بنیں کہ خدا ان کے ہاتھ پر فتوحات کی بارشیں کرے اور پیدائشی مسلمانوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر ایمان و اعتقاد پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
(الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۴۹ء)
دوسری تقریر
(فرمودہ ۲۴ جنوری ۱۹۴۹ء بمقام رتن باغ لاہور)
(دعوتِ عشائیہ از جماعت احمدیہ لاہور)
عملی نمونہ دکھانے اور قومی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’چونکہ مجھے اُردو میں بولنے کی اجازت دی گئی ہے اس لئے میں اُردو میں تقریر کروں گا۔ ابھی آپ لوگوں کے سامنے شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے کنزے صاحب کی آمد پر اُنہیں مبارکباد پیش کی ہے اور یہاں کے لوگوں کی طرف سے انہیں مرحبا کہا ہے۔ مسٹر کنزے جرمنی کے رہنے والے ہیں۔ آپ ٹریپولی میں جنرل رومیل کے ماتحت لڑتے رہے اور وہاں ہی آپ قید ہوئے۔ آپ کو بطور قیدی پہلے امریکہ بھیجا گیا اور پھر امریکہ سے آپ انگلینڈ لائے گئے۔ انگلینڈ آ کر آپ کے اندر مذہب کے لئے ایک تڑپ پیدا ہوئی۔ آپ نے دیکھا کہ دنیا کی حالت دن بدن خراب ہو رہی ہے اِس کا علاج کرنا چاہئے اور آپ نے یہ سمجھا کہ اس کا علاج سوائے مذہب کے اور کوئی نہیں۔ آپ نے وہ مذہب تلاش کرنا چاہا جو اِن خرابیوں کو دور کر سکے۔ اس لئے آپ نے مذاہب کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں آپ نے اسلام کے لٹریچر کا بھی مطالعہ کیا اور مزید واقفیت کے لئے آپ نے امام مسجد لندن کو چٹھی لکھی۔ آپ نے اُنہیں یہ بھی لکھا کہ آپ اُن سے ملنا چاہتے ہیں۔ اِس چٹھی کے جواب میں امام مسجد لندن نے انہیں لٹریچر بھیجا اور بعض افسروں کی معرفت اجازت لے کران سے ملے اور بعض دفعہ آپ کو بھی مسجد میں آنے کی اجازت دی گئی۔ ایک دو ملاقاتوں کے بعد ہی آپ پر اسلام کی حقیقت کھل گئی اور آپ نے اسلام قبول کر لیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد آپ نے اِس بات کا اظہار کیا کہ آپ اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں لیکن قیدی ہونے کی صورت میں آپ آزادی سے اپنے اِس ارادہ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے تھے۔ تھوڑے عرصہ کے بعد انہیں جبری طور پر جرمنی بھیجا گیا اور وہاں یہ بھی کوشش کرتے رہے اور اِدھر ہم بھی کوشش کرتے رہے اور متواتر دو تین سال کی کوشش کے بعد آپ اپنے ارادہ میں کامیاب ہوئے اور کڑاکے کی سردی میں کئی دن سفر کرتے ہوئے آپ سوئٹزرلینڈ پہنچے وہاں سے جماعت نے آپ کو انگلینڈ پہنچایا اور انگلینڈ سے پھر یہاں آئے۔
یوروپین لوگوں میں سے جنہوں نے اسلام کو بطور اسلام قبول کیا ہے مسٹر کنزے دوسرے آدمی ہیں۔ پہلے آدمی بشیر احمد آرچرڈ ہیں۔ وہ بھی نہایت مخلص اور اسلام کے ساتھ ایک قسم کا عشق رکھنے والے ہیں۔ وہ پہلے آدمی ہیں جس نے مجھ پر یہ اثر ڈالا کہ انگریزوں کی بھی روحانی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے جو شخص مجھ سے یہ پوچھتا تھا کہ برطانیہ مشن میں آپ کو کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی؟ میں اُس سے کہتا تھا کہ بظاہر ہمیں اُس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور جہاں تک مذہب کا سوال ہے ہمیں کوئی انگریز مسلمان ہوتا نظر نہیں آتا۔ انگریز لوگ ایک سوسائٹی کے طور پر دوسرے مذہب کو قبول کر لیتے ہیں۔ وہ اپنا لباس بدل لیتے ہیں، اپنی خوراک بدللیتے ہیں اور اسلام یا کسی اور مذہب میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن اُس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ اُن کے اندر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم نے اپنی ہر چیز کو اِس کے لئے قربان کرنا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کیا یہ کوئی کم احسان ہے کہ ہم نے اِس مذہب کو قبول کر لیا ہے۔ اُنہوں نے جو قربانی کرنی تھی وہ مذہب تبدیل کر کے اُنہوں نے کر لی ہے لیکن بشیر احمد آرچرڈ پہلا شخص تھا جس نے سچائی کے طور پر اسلام کو قبول کیا اور صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ خدمت اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی اور اب وہ بڑے اخلاص کے ساتھ خدمت اسلام کر رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی کچھ آدمی تھے مثلاً عبداللہ کوئلم وغیرہ جو اسلام کو ہی سچا مذہب سمجھتے تھے اور اُن کے اندر اخلاص بھی پایا جاتا تھا لیکن وہ اسلام کو اُس کی اصولی تعلیم کے لحاظ سے سچا مانتے تھے اور اس پر عملاً کاربند نہیں ہوتے تھے۔ بعض مواقع پر وہ شراب بھی پی لیں گے اور اگر وقت نہیں ملا تو وہ نماز بھی چھوڑ دیں گے۔ وہ نماز پڑھتے تھے لیکن وہ نمازوں میںبے قاعدہ تھے۔ وہ شراب پینا چھوڑ دیتے تھے لیکن بعض اوقات شراب پینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
مسٹر آرچرڈ پہلے انگریز ہیں جنہوں نے اسلام کو اسلام کے طور پر قبول کیا۔ آپ جب مجھے پہلی دفعہ قادیان ملنے کے لئے گئے اُس وقت آپ فوج میں لیفٹیننٹ تھے۔ آپ جب مجھ سے ملے اُس وقت آپ کے اندر یہ احساس پایا جاتا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی سچا مذہب نہیں اور مجھ سے لمبی بحث کی کہ کوئی مذہب سچا نہیں ہاں! ہر مذہب میں ایک حد تک سچائی پائی جاتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں اُن سب سچائیوں کو اکٹھا کر کے ایک نیا مذہب بناؤں۔ پانچ سات دن رہنے کے بعد آپ واپس تشریف لے گئے۔ میں نے سمجھا کہ وہ کورے کے کورے ہی واپس چلے گئے ہیں لیکن جب وہ کلکۃ گئے (شاید وہ برما کی طرف جا رہے تھے) وہاں سے اُنہوں نے مجھے بیعت کا خط لکھا۔ مجھے اِس بات پر سخت حیرت ہوئی۔ بعد میں مَیں نے اُن سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا میں جب تک قادیان میں رہا میں یہ سمجھتا رہا کہ یہ لوگ میرے مخالف ہیں اور میری روح کو کچل دینا چاہتے ہیں اس لئے میرے اندر مقابلہ کی روح پیدا ہوئی۔ میں سات آٹھ دن قادیان میں رہا اِس خیال سے کہ میں جن لوگوں کے پاس جا رہا ہوں انہی کے طریق پر مجھے عمل کرنا چاہئے۔ میں اپنے ساتھ شراب نہیں لایا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب میں پہلے سے بہتر معلوم ہوتا ہوں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں جب میں امرتسر پہنچا تو میں کھانے کے لئے ریسٹورنٹ میں گیا اور دوسرے لوگ بھی گئے اور انہوں نے شراب مانگی۔ باقی لوگوں کو دیکھ کر میں نے بھی شراب کے لئے آرڈر دیا لیکن بعد میں خیال آیا کہ میں جن لوگوں کے پاس سے آیا ہوں مجھے اُن کا اِس قدر تو احترام کرنا چاہئے کہ میں رستہ میں شراب نہ پیؤں۔ چنانچہ میں جتنا عرصہ ریل میں رہا شراب نہیں پی۔ جب میں کلکۃ پہنچا تو میری حالت زیادہ سے زیادہ اچھی معلوم ہوئی۔ پھر میں نے غور کرنا شروع کیا کہ آخر اِس کی وجہ کیا ہے؟ اور میں نے سمجھ لیا کہ درحقیقت میں غلطی پر تھا۔ دراصل اسلام ہی سچا مذہب ہے اور اس سے ہی دنیا کی تمام خرابیوں کا علاج کیا جا سکتا ہے پھر میں نے اسلام قبول کر لیا۔
مسٹر آرچرڈ کے اسلام قبول کر لینے پر دوسرے انگریزوں نے اُنہیں تکلیفیں دینا شروع کیں۔ اُن کے ساتھ کھانا پینا بند کر دیا گیا اور اُن کا مکمل بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اُن کے ساتھ انگریزوں نے ایسا ہی سلوک کیا جس طرح ہمارے ملک میں ایک نئے احمدی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ فوج میں آپ کو بہت تکلیفیں دی گئیں لیکن آپ گھبرائے نہیں۔ آپ نے نہ صرف پانچوں نمازیں پڑھنی شروع کر دیں، نہ صرف آپ نے محرمات کو ہی چھوڑا بلکہ تہجد بھی پڑھنی شروع کر دی۔ آپ جب تک قادیان میں رہے باقاعدہ تہجد پڑھتے رہے۔ اِس کے بعد اُنہوں نے اسلام کی خدمت کیلئے زندگی وقف کی اور اب انگلینڈ میں وہ ہمارے مبلغ ہیں۔
مسٹر کنزے دوسرے آدمی ہیں جنہوں نے اسلام کو بطور اسلام کے قبول کیا ہے۔ آپ نے نہ صرف اسلام کو قبول کیا بلکہ یہ سمجھا کہ جب تک میں خود اسلام کو اچھی طرح نہیں سمجھتا، جب تک میں خود اسلام کی تعلیم حاصل نہیں کرتا یہ فضول بات ہے کہ میں دوسروں کو اِس کی تبلیغ کروں۔ مجھے پہلے خود دینی تعلیم حاصل کرنی چاہئے اور اِس کے بعد اسلام کو اس ملک میں پھیلانا چاہئے۔ آپ نے اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کی اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے پاکستان تشریف لے آئے۔ اور بھی بعض لوگوں کے اندر یہ روح پائی جاتی ہے۔ دو اور جرمن نومسلموں کی طرف سے بھی وقف کے لئے درخواستیں آئی ہیں وہ دونوں میاں بیوی ہیں اور جرمنی کے مشہور جرنلسٹ اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اِسی طرح پولینڈ سے بھی ایک دوست کی وقف کے لئے درخواست آئی ہے وہ بھی اِس وقت قید ہے۔ حکومت نے اُسے ففتھ کالمسٹ قرار دے دیا ہے بلکہ اب تو امریکہ میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ مجھے کئی خطوط آتے ہیں جن میں اس کا اظہار کیا گیا ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ وہ بھی کسی طرح زندگی وقف کر کے اسلام کی خدمت کریں۔
مسٹر کنزے ہماری تبلیغ کے دوسرے پھل ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح یہ قوم سائنس اور دیگر دنیاوی علوم میں آگے بڑھی ہوئی ہے، جس طرح وہ علمی طور پر یورپ کو لیڈ کر رہی ہے اِسی طرح وہ مذہب میں بھی آگے بڑھ جائے گی اور تمام یورپ کو مذہبی طور پر لیڈ کرے گی۔ جنگ میں اگرچہ وہ ہار گئی ہے لیکن اِس قوم میں ترقی کی روح پائی جاتی ہے اِس لئے میں امید کرتا ہوں کہ جب اِس قوم میں اسلام پھیل جائے گا تو یہ لوگ دین کے اچھے خادم ثابت ہوں گے۔
میں نے اس بات پر بہت غور کیا ہے اور بعض جرمن احمدیوں کو جب میں نے چٹھیاں لکھیں تو اُن پر اس بات کو واضح کیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ قوم عمل اور قربانی میں دوسری قوموں سے زیادہ ہے لیکن اِس کے باوجود وہ ایک سَو سال سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر وہ ہمیشہ ناکام رہی ہے اور اُس نے ہمیشہ ڈپلومیسی میں شکست کھائی ہے اور جس مقام کے حاصل کرنے کا اُسے حق حاصل تھا اُسے وہ حاصل نہیں کر سکی۔ اِس کی کئی وجوہ دوسرے لوگوں نے بتائی ہیں لیکن میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ اِس قوم میں اسلام پھیلانا چاہتا ہے اور چونکہ اِس قوم میں اسلام پھیلنا ہے اس لئے جب بھی وہ کسی دنیاوی ترقی کیلئے کوشش کرتی ہے ناکام رہتی ہے۔
یورپ میں اسلام کا بھی حصہ ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام بیشک ایشیا میں پیدا ہوئے تھے مگر بعد میں عیسائیت یورپ میں بھی پھیلی۔ اسی طرح اب اسلام کی بھی یورپ میں پھیلنے کی باری ہے اور جس طرح اٹلی کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اُس نے ابتدا میں عیسائیت کو قبول کیا اور اس کے بعد عیسائیت کو تمام یورپ میں پھیلایا اُسی طرح اسلام کے لئے بھی تو کوئی نہ کوئی ملک مقدر ہوگا جو اسلام کو قبول کر کے اُسے آگے تمام یورپ میں پھیلائے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ وہ ملک جرمنی ہے پچھلے سَو سال کے عرصہ میں جب بھی اُنہوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہمیشہ ناکام رہے۔ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ مذہب کو لیڈ کریں اِس لئے جب بھی اُنہوں نے آگے بڑھنے کے لئے جدوجہد کی اُس میں ناکام رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب اِس قوم میں اسلام پھیلے گا وہ اسلام کے لئے ہر ممکن قربانی کرے گی۔ میں دیکھتا ہوں کہ انگلینڈ میں ہماری سالہا سال کی کوششوں کے بعد جتنے مسلمان ہوئے ہیں جرمنی میں ہماری ایک سال کی کوشش سے اُتنے احمدی ہوگئے ہیں اور مجھے کثرت سے خطوط آ رہے ہیں کہ وہ اسلام کی تحقیق کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ احمدیت کی آئندہ ترقی میں اِن کا بہت زیادہ حصہ ہوگا۔
ان لوگوں میں اتنا جوش پایا جاتا ہے کہ جب پاکستان پر مصیبت آئی تو حکومت نے چاہا کہ جرمنی سے کچھ افسر منگوائے جائیں اور فوج میں رکھے جائیں تا مُلکی دفاع کو مضبوط کیا جا سکے۔ اُس وقت جرمنی میں ایک ہی احمدی تھا (مسٹر کنزے کے علاوہ ایک اور احمدی تھے جو ہمبرگ میں رہتے تھے۔ مسٹر کنزے برلن کے رہنے والے ہیں) میں نے اُسے لکھا۔ اُس کی محبت کا اِس بات سے پتہ لگتا ہے کہ جب میں نے اُسے لکھا کہ ہمیں پاکستان آرمی کے لئے چند جرمن فوجی افسروں کی ضرورت ہے تو اُس نے رات دن ایک کر کے اور اپنے خرچ پر لمبے لمبے سفر کر کے اُن لوگوں کو پاکستان آنے کیلئے تیار کیا جو ہٹلر کے وقت میں فوج میں مختلف عہدوں پر تھے اور مجھے گیارہ آدمیوں کی ایک ٹیم بھجوائی اور لکھا پاکستان کیلئے جتنے عہدوں پر جرمن رکھنے کی ضرورت ہو اُن کے لئے یہ کافی ہیں اور وہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ اُنہوں نے صرف ایک شرط رکھی تھی کہ ہمیں انگریزوں سے ذلیل نہ کروایا جائے بلکہ انگریزوں والی ٹرمز (TERMS) ہمیں بھی دی جائیں تا ہم اُن کے سامنے ذلیل نہ ہوں اِس سے زیادہ ہم کچھ نہیں چاہتے لیکن حکومت نے اُس وقت یہ خیال کیا کہ اگر ہم نے فوج میں جرمن آفیسرز رکھ لئے تو کہیں انگریز ناراض نہ ہو جائے گو یہ تحریک بھی حکومت نے خود کی تھی لیکن جب بعض لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں تو حکومت نے کہہ دیا شکریہ۔ ہم نے اگر انہیں ملازم رکھا تو انگریز خفا ہو جائیں گے۔حکومت پاکستان کے اس رویہ سے اُس دوست کو تکلیف بھی پہنچی لیکن بہرحال اِس بات سے یہ پتہ لگتا ہے کہ اِنہیں اب اِس قدر احساس ہوچکا ہے کہ وہ سیاسی طو رپر بھی مشکلات کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لئے اپنا روپیہ خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
میں سمجھتا ہوں ایک اَور بھی چیز ہے جو ہمیں بھولنی نہیں چاہئے اور وہ یہ ہے کہ بیرونِ ممالک میں جو لوگ احمدی ہوں گے وہ اُردو زبان بھی سیکھیں گے اِس لئے اشاعت احمدیت سے اُردو زبان کو بھی بہت زیادہ تقویت پہنچے گی۔ انڈونیشیا میں ہمارا مشن قائم ہے۔ وہاں جو لوگ احمدی ہوئے اُن میں سے بعض نے اُردو زبان سیکھی اور پھر بعض نے اپنے بچوں کو قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھی بھیجا۔ مشرقی افریقہ میں اُردو جاننے والوں میں اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو احمدی ہیں۔ بعض لوگ ایسے تھے جو اُردو زبان کے بہت ہی مخالف تھے۔ ایک دوست ابوالہاشم صاحب تھے انہیں احمدی ہونے سے قبل صرف احمدیت سے ہی نفرت نہیں تھی بلکہ وہ اُردو زبان کو بھی سننا نہیں چاہتے تھے۔ وہ جب احمدی ہوئے تو اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کے لئے بڑھاپے میں اُردو زبان سیکھی اور پھر اپنے بچوں کو بھی سکھائی۔ اسی طرح عرب ممالک سے بھی بعض دوست آئے ہیں اور اُنہوں نے اُردو زبان سیکھی۔ مسٹر بشیر احمد آرچرڈ انگلینڈ سے آئے اور اُنہوں نے اُردو زبان سیکھی اور مسٹر کنزے جرمنی سے آئے ہیں وہ بھی اُردو زبان سیکھیں گے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ احمدیت کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اُردو زبان بھی پھیلتی جائے گی۔ یہ لوگ جب واپس جائیں گے اور چونکہ اِن میں دوسری زبان سیکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے اس لئے یہ اپنے دوسرے دوستوں کو بھی اُردو سکھائیں گے اور یہ چیز اُردو زبان کی ترقی کا موجب ہوگی اور لازماً پاکستان کے تعلقات بھی اُن ممالک سے گہرے ہو جائیں گے۔
ہمارے ملک میں یہ سوال عام طور پر پایا جاتا ہے کہ آیا اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے یا انگریزی زبان کو بھی ذریعہ تعلیم بنایا جائے؟ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا تو پاکستان تمام ممالک سے کٹ جائے گا۔ ذریعہ تعلیم اُسی زبان کو ہی بنانا چاہئے جسے دوسرے لوگ بھی سیکھیں۔ احمدیت کی اشاعت سے یہ سوال بھی حل ہو جائے گا۔ احمدیت کی وجہ سے اُردو زبان دوسرے ممالک میں پھیل رہی ہے اور اِنْشَائَ اللّٰہ ایک دن ایسا آئے گا جب پاکستان کا ہر ایک آدمی یہ سمجھنے لگ جائے گا کہ ہمیں کسی فارن لینگویج FORIEGN LANGUAGE) ) یا اُردو زبان کے علاوہ کسی اَور زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی ضرورت نہیں۔
شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے یہ خواہش کی ہے کہ مسٹر کنزے ایسا نمونہ پیش کریں کہ یہاں کے نوجوانوں میں بھی بیداری پیدا ہو جائے اور وہ اپنی زندگیاں خدمت دین کیلئے وقف کریں۔ مسٹر کنزے میرے روحانی فرزند ہیں اور مجھے اِن سے بے حد محبت ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ جو لوگ یہاں رہتے ہیں وہ نمونہ دکھائیں اور مسٹرکنزے اِس کی اتباع کریں۔ ابتداء ہم میں ہوئی ہے اِس لئے ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ بیشک ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بھائی بنیں لیکن یہ کہ اُن سے خواہش کی جائے کہ وہ ہمارے لئے نمونہ بنیں درست نہیں۔ ہمیں اپنا نمونہ پیش کرنا چاہئے تا وہ ہم سے اچھا نمونہ لے کر اپنے ملک میں واپس جائیں اور اپنے ملک والوں سے کہیں کہ تم اسلام کو قبول نہ کر کے ایک قیمتی چیز سے محروم ہو رہے ہو۔ اسلام کو قبول کرو تا تمہارا دین بھی درست ہو اور تمہاری دنیا بھی درست ہو۔
(غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
تیسری تقریر
(فرمودہ ۳ فروری ۱۹۴۹ء بمقام سیالکوٹ)
(دعوتِ عصرانہ از جماعت احمدیہ سیالکوٹ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مسٹر کنزے برلن سے تشریف لائے ہیں یہ ہٹلر کی فوج میں ملازم رہے ہیں اور افریقہ کے میدانوں میں پہلے انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور پھر امریکنوں اور انگریزوں دونوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ غالباً یہ الجیریا میں قید ہوئے اور اِن کو امریکہ لے جایا گیا۔ وہاں اِن کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ عیسائیت دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اس لئے دوسرے مذاہب پر غور کرنا چاہئے اور ایسا مذہب تلاش کرنا چاہئے جس سے دل تسلی پا سکے اور دنیا میں امن قائم ہو۔ چنانچہ اِنہوں نے دوسرے مذاہب کی کتب کا مطالعہ شروع کیا اور اُن کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ اِسی دوران میں انہیں انگلستان بھجوا دیا گیا۔ انگلستان پہنچنے کے بعد اتفاقاً اِن کو لندن مشن کا پتہ معلوم ہوا اور اِنہوں نے وہاں کے موجودہ امام چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سے جو اتفاقاً سیالکوٹ کے ہی رہنے والے ہیں اور نواب محمد الدین صاحب کے بھتیجے ہیں اسلام کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ اُنہوں نے فوراً اسلامی لٹریچر بھجوا دیا اور اسلام کے متعلق ضروری کوائف بہم پہنچائے۔ چوہدری صاحب نے گورنمنٹ کے افسران سے مل کر اِنہیں بعض دنوں میں مسجد میں آنے کی بھی اجازت لے دی۔ انگلستان میں دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ حوصلہ پایا جاتا ہے یہاں تک کہ امریکہ سے بھی جو ڈیماکریسی کا سب سے زیادہ حامی ہے زیادہ حوصلہ ہے۔ چوہدری صاحب کی تحریک پر گورنمنٹ کے افسران نے کہا کہ اگر مسٹر کنزے کو اسلام کی تحقیق کا شوق ہے تو وہ پولیس کی نگرانی میں مسجد میں چلے جایا کریں اور پولیس کی نگرانی میں واپس آ جایا کریں۔ چنانچہ یہ وقتاً فوقتاً مسجد میں آتے رہے اور اسلام کے متعلق حالات معلوم کرتے رہے۔ دو تین ملاقاتوں کے بعد ہی اِنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جہاں تک اسلام کے متعلق میں علم حاصل کر سکا ہوں اُس کے مطابق اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے اور اِس کے ذریعہ ہی دنیا روحانی طو رپر تسلی پا سکتی ہے۔ چنانچہ اِنہوں نے جلد ہی اسلام قبول کر لیا اور میں نے اِن کانام عبدالشکور رکھا۔ یہ نام میں نے اِس لئے رکھا کہ میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا تھا کہ میں ایک علاقہ میں جا رہا ہوں (میں ساری رؤیا کو تو بیان نہیں کرتا صرف اس کا وہ حصہ بیان کر دیتا ہوں جس کا اِن کے ساتھ تعلق ہے) وہاں میری تبلیغ کے ذریعہ کچھ لوگوں نے جو یوروپین معلوم ہوتے ہیں اسلام قبول کر لیا اور جب کچھ لوگ اسلام میں داخل ہوگئے تو میں نے اُن میں سے ایک شخص کو چنا جس کا نام میں نے عبدالشکور رکھا اور میں نے اُسے کہا اے عبدالشکور! میں ابھی اور آگے جانا چاہتا ہوں میں تمہیں اِس علاقہ میں اپنا قائمقام مقرر کرتا ہوں تم ان لوگوں میں اسلام پھیلاؤ اور اُنہیں توحید خالص کی طرف بُلاؤ۔ یہ کہہ کر میں آگے چلا جاتا ہوں اُسی وقت مجھے خیال آیا کہ یہ علاقہ اٹلی یا جرمنی کا ہے۔ اس خیال سے کہ جرمنی کے ساتھ لڑائی ہو رہی تھی میں زیادہ تو یہی سمجھتا تھا کہ وہ علاقہ اٹلی کا ہے لیکن چونکہ اتفاق سے جرمنی میں سب سے پہلے مسٹر کنزے ایمان لے آئے اِس لئے میں نے ان کا نام عبدالشکور رکھا کیونکہ بظاہر ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے جن سے میں نے یہ سمجھا کہ شاید وہ شخص جسے میں نے خواب میں قائمقام مقرر کیا تھا یہی ہے۔
اسلام میں داخل ہونے کے تھوڑے ہی دنوں بعد مسٹر عبدالشکور کنزے نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ عیسائیت سے اِس حد تک متنفر ہیں کہ وہ اب اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کر دینا چاہتے ہیں ابھی اِنہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ یہ آزاد کر دیئے گئے اور جبری طور پر اِنہیں واپس جرمنی بھیج دیا گیا۔ جرمنی پہنچ کر اِنہوں نے یہ لکھنا شروع کیااور اصرار کیا کہ میں اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں میرے لئے انتظام کیا جائے کہ کسی طرح میں پاکستان پہنچ کر دینی تعلیم حاصل کر سکوں اور پھر اپنے وطن واپس آ کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ برلن کے بارہ میں فرانس، روس، امریکہ اور انگلستان کے اختلافات کی وجہ سے جلد کوئی انتظام نہ ہو سکا لیکن کافی خط و کتابت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اِنہیں یہاں آنے کی اجازت دی جائے۔ یہ پہلے فرنچ علاقہ سے روسی علاقہ میں آئے اور وہاں سے سوئٹزرلینڈ پہنچے پھر وہاں سے آہستہ آہستہ پاکستان پہنچے۔
جہاں تک اِن کے اخلاص کا تعلق ہے اِس کا ایک چھوٹے سے واقعہ سے پتہ لگ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب مشرقی پنجاب میں فسادات ہوئے اور اِنہیں خبر پہنچی کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے تو اِن کے متواتر خطوط آنے لگے اور اِنہوں نے بار بار سوئٹزرلینڈ کے مبلغ کو لکھا (ہمارا جرمنی کے قریب ترین مشن سوئٹزرلینڈ کا ہے اور وہاں کے مبلغ انچارج سے ہی یہ خط و کتابت کرتے رہے)کہ کسی نہ کسی طرح مجھے قادیان پہنچانے کا بندوبست کیا جائے تا میں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر اسلام کے لئے لڑوں اور قادیان کی حفاظت کروں۔ یہ ایک نہایت ہی نیک جذبہ تھا جو ایک یوروپین اور خاص کر ایک جرمن کے دل میں پیدا ہوا۔ انگلستان کو تو چھوڑو کیونکہ اُس کے متعلق ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک ہندوستان پر حکومت کرنے کی وجہ سے ان کے اندر مسلمانوں کے متعلق ہمدردی کا جذبہ پایا جا سکتا ہے لیکن ایک جرمن کے متعلق خصوصاً اُن کی علمی فوقیت کی وجہ سے جو اُنہیں تمام ممالک پر حاصل ہے یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اُن کے اندر اسلام کی خدمت کے لئے اتنی تڑپ پائی جاتی ہو۔ ایک جرمن کے ان جذبات سے پتہ لگتا ہے کہ اُس کے اندر اسلام کی محبت اِس قدر رچ چکی ہے کہ اُس کے اندر بیتابی پائی جاتی ہے کہ کسی طرح وہ اسلام کے مصائب میں شریک ہو سکے۔ مسٹر کنزے معمولی انگریزی جانتے تھے لیکن بہرحال انگریزی میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اب ان کا ارادہ ہے کہ پاکستان میں رہ کر دینی تعلیم حاصل کریں اور چونکہ اِنہیں اُردونہیں آتی اس لئے پہلے یہ کوشش کی جائے گی کہ اِنہیں اُردو زبان سکھائی جائے تا یہ عام گفتگو سمجھ سکیں اور دینی تعلیم میں جلد از جلد ترقی کر سکیں۔ چنانچہ اب یہ اُردو زبان سیکھ رہے ہیں۔
آج آپ لوگوں نے اِن سے سورۃ فاتحہ سُنی ہے لاہور میں یہ سورۃ فاتحہ زیادہ اچھی طرح پڑھ سکتے تھے لیکن سیالکوٹ چونکہ اِن کے لئے ایک نئی جگہ ہے اس لئے یہاں یہ گھبرا گئے ہیں اور گھبراہٹ کی وجہ سے ایک آیت کی آیت ہی چھوڑ گئے ہیں۔ لاہور میں یہ سورۃ فاتحہ زیادہ اچھی طرح پڑھتے تھے۔ صرف اتنا فرق تھا کہ یہ کی دال چھوڑ دیتے تھے اور میں چھوڑ جاتے تھے۔ اب یہ ٹھیک پڑھنے لگ گئے تھے لیکن آج نئی جگہ ہونے کی وجہ سے گھبرا گئے اور اِس گھبراہٹ کی وجہ سے ایک آیت کی آیت ہی چھوڑ گئے۔ ویسے یہ ساری نماز عربی میں پڑھتے ہیں۔ سوائے اِس کے کہ کہیں کہیں غلطی کر جاتے ہیں۔
میرا منشاء ہے کہ ہم اِنہیں عملی طور پر اسلام سکھائیں، دینی مسائل سکھائیں اور قرآن کریم پڑھا کر اسلام کا مبلغ بنائیں۔ ان کے اسلام لانے کے بعد جرمن لوگوں میں اسلام کی طرف اَور زیادہ رغبت پیدا ہوگئی ہے اور کچھ اَور لوگ بھی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں۔ مسٹر کنزے برلن کے رہنے والے ہیں اور دوسرے لوگ ہمبرگ کے رہنے والے ہیں۔ کچھ اَور نوجوانوں میں بھی اسلام کی طرف رغبت پیدا ہو رہی ہے۔ اُن لوگوں میں جو اسلام میں داخل ہوئے ہیں ایک دوست عبداللہ کوہنے بھی ہیں۔ وہ بھی پہلے قید رہے ہیں وہ جزیرہ سائپرس میں قید تھے وہاں اُنہیں ایک مسلمان مل گیا وہ صوبیدار تھا اور شاید جیل خانہ پر اُس کی ڈیوٹی تھی۔ اُس صوبیدار سے اِن کی گفتگو ہوتی رہی اور آخر کار وہ اسلام کی طرف مائل ہوگئے۔ وہ صوبیدار صاحب اِن سے پہلے ہی وہاں سے کہیں دوسری جگہ تبدیل ہو کر چلے گئے اِنہوں نے وہاں سے خط لکھا مجھے بھی اور لندن مشن کے مبلغ کو بھی کہ میرا ایک مسلمان دوست تھا جس سے اسلام کے متعلق میری گفتگو ہوتی رہتی تھی اب وہ میرے پاس نہیں ہے۔ مجھے اسلام سے رغبت ہوگئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ مجھے اُس دوست کا پتہ مل جائے اور میں اسلام کے نقطۂ نگاہ کے لحاظ سے اُس پر غور کروں۔ ہم نے اِنہیں اُس صوبیدار کا پتہ بھجوایا۔ وہ جرمن دوست مسٹر کنزے سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ اِن کا پیشہ ہی جرنلزم ہے وہ ایک رسالے کے ایڈیٹر ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور اُ ن کی بیوی بھی کئی کتابوں کی مصنف ہے۔ وہ چھ سات زبانیں جانتے ہیں اور اُن کی بیوی بھی کئی زبانیں جانتی ہے۔ ہم نے اُن سے خط و کتابت شروع کی۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ مسلمان ہو گئے۔ ان کے بعد اَور بھی کچھ دوست مسلمان ہوئے۔ اب جرمنی میں دو جماعتیں قائم ہیں۔ برلن تو مسٹر کنزے کے یہاں آجانے کی وجہ سے خالی ہو گیا ہے لیکن ہمبرگ میں گیارہ بارہ احمدی ہیں اور تازہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمن لوگوں کے اندر اسلام کے متعلق خاص طور پر رغبت پائی جاتی ہے اور وہ اسلام کی تحقیق کر رہے ہیں۔ مسٹر عبداللہ کوہنے نے بھی اپنی زندگی وقف کر دی ہے اور اُن کی بیوی نے بھی۔ وہ دونوں پاکستان آنا چاہتے ہیں اور یہاں آ کر دینی تعلیم حاصل کریں گے۔ مسٹر عبداللہکوہنے ایک عالم آدمی ہیں اور آجکل قرآن کریم کے جرمن ترجمے پر نظر ثانی کر رہے ہیں چونکہ وہ ترجمہ ایسے لوگوں نے کیا تھا جو عیسائی تھے اُن کے خیالات اسلام سے ہمدردانہ نہیں تھے اِس لئے ہو سکتا ہے کہ ترجمہ کرتے وقت اُنہوں نے کوئی غلطی یا کوتاہی کی ہو۔ مسٹر عبداللہ کوہنے نے اپنے آپ کو اِس کام کے لئے آفر (OFFER) کیا ہے۔ اب تجویز ہے کہ وہ پہلے انگلینڈ آئیں اور قرآن کریم کے جرمن ترجمے کو رِیوائز (REVISE) کریں۔ جب وہ یہ کام ختم کرلیں گے توپھر پاکستان آ جائیں گے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ جرمنی میں اسلام کی اشاعت کے لئے کھولا ہے اور جیسا کہ مسٹر کنزے کا خیال ہے اور مسٹر کوہنے کا بھی (مسٹر کوہنے اٹلی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں علماء اور پروفیسروں سے اُن کا میل جول تھا) کہ جرمن قوم اسلام کی طرف بہت جلد مائل ہو سکتی ہے وہ کہتے ہیں کہ سب سے بڑی چیز جو جرمن قوم میں پائی جاتی تھی وہ مادیت ہے اور اس میں وہ بالکل ناکام رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب اُن کی تسلی کے لئے کسی اَور چیز کی ضرورت ہے اور وہ چیز مذہب ہی ہے اور چونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب اِنہیں صرف مذہب ہی تسلی دے سکتا ہے اِس لئے اِنہیں جتنی بھی تبلیغ کی جائے بہتر ہے اس طرح وہاں اسلام کے لئے رستہ کھل جائے گا۔ اِنہیں عیسائیت سے نفرت ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام یورپین اُن کے خلاف تھے اور وہ کہتے تھے کہ وہ کرسچین سویلزیشن کو بچانے کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اس لئے یہ لفظ کسی حدتک انہیں بھیانک معلوم ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عیسائیت ہی اُن کی تباہی کا موجب ہوئی ہے اِسی لئے وہ کسی اور مذہب کی تلاش میں ہیں جس کے ذریعہ وہ ترقی کر سکیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ جب یہ لوگ اسلام کو قبول کر لیں گے تو وہ اِس کے لئے بہت قربانیاں کریں گے۔
چند دن ہوئے مجھے اطلاع ملی تھی کہ اب ہمارا مبلغ بھی وہاں پہنچ گیا ہے۔ پہلے تو ہمارے مبلغ کو وہاں جانیکی اجازت نہیں ملتی تھی اور یہ کہا جاتا تھا کہ غیر کو اِس ملک میں آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم نے برطانیہ پر زور دیا کہ جب تمہارے پادری وہاں جاتے ہیں اور تم کہتے ہو کہ مذہب کے بارہ میں کلی طور پر آزادی ہونی چاہئے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنا مبلغ وہاں نہیں بھیج سکتے۔ اِس چیز کا تو وہ کوئی جواب نہ دے سکے لیکن اُنہوں نے یہ بہانہ بنایا کہ ہمارے پادری جو وہاں جاتے ہیں اُن کے راشن اور مکانوں کاانتظام ملٹری کرتی ہے اگر آپ کا مبلغ وہاں گیا تو وہ کہاں رہے گا اور کہاں سے کھائے گا؟ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ وہاں مکانوں کی قلت ہے اکثر مکانات گرائے جا چکے ہیں اور راشن کی بھی دقت ہے۔ چنانچہ ہم نے اپنے نَومسلموں سے خط و کتابت کی۔ اُنہوں نے لکھا کہ اگر مستقل طور پر نہیں تو عارضی طور پر دس یا پندرہ دن کے لئے تو وہ ہمارے ہاں مہمان رہ سکتے ہیں۔ یہ وہ چیز تھی کہ جس کی وجہ سے وہ کوئی اور حیلہ پیش نہ کر سکے اور پچھلے سال ہی اُنہوں نے ہمارے مبلغوں کو ہر تین ماہ میں پندرہ دن وہاں رہنے کی اجازت دے دی اور ہمارے مبلغ وہاں باری باری جاتے رہے اب جب کہ یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ مغربی جرمنی کا انتظام جرمنی کے سپرد ہی کر دیا جائے ہمیں خیال پیدا ہوا کہ اگر اِس فیصلہ پر عمل شروع ہو گیا تو پھر ہمیں اپنا مبلغ وہاں بھیجنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ پھر یہ بہانہ لگا دیا جائے گا کہ جرمن لوگ آپ کے مبلغوں کو نہیں آنے دیتے۔ ہم نے کوشش کی کہ اس عرصہ میں ہمارے لئے کوئی رستہ کھل جائے۔ چنانچہ اب اطلاع آئی ہے کہ ہمارا ایک مبلغ وہاں پہنچ گیا ہے۔ مسٹر عبداللہ کوہنے نے لکھا تھا کہ مکان کا بندوبست ہو گیاہے اس لئے اب کسی کو اعتراض کی گنجائش نہیں۔ یہ مشن ہیمبرگ میں کھولا گیا ہے۔ برلن میں مشن قائم کرنے میں بہت سی مشکلات تھیں اس لئے وہاں مشن نہیں کھولا گیا۔
بہرحال میں نے آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ جرمنی کے علاقہ میں لوگ کس طرح مسلمان ہو رہے ہیں اور کس طرح وہاں اُنہیں اسلام کی طرف رغبت پیدا ہوئی ہے۔ جو قربانی اور کام کی روح ان لوگوں میں پائی جاتی ہے اِس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ جب یہ لوگ اسلام قبول کریں گے تو اسلام کے لئے یہ ویسی ہی قربانیاں کریں گے جس طرح یہ لوگ دنیا کے لئے قربانیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثلاً مسٹر کنزے ہیں۔ اِنہیں ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ جو کام تم دوسرے سے لیتے ہو وہی مجھ سے لو۔ مسٹر کنزے جب لندن میں تھے تو وہاں کے مشنریوں کی اطلاع تھی کہ یہ ہمیشہ اصرار کرتے تھے کہ جو کام آپ کرتے ہیں وہی کام میں بھی کروں گا۔ وہ مہمان سمجھ کر اِن کا لحاظ کرتے تھے لیکن اِن کی طرف سے ہمیشہ یہ اصرار ہوتا تھا کہ میں ویسے ہی یہاں رہوں گا جس طرح آپ لوگ آپس میں مل جل کر رہتے ہیں۔ ان کا لباس بھی سادہ تھا اور یہ چاہتے ہیں کہ اپنے ہرکام کو ہمارے طریق پر کریں۔ جب ہم لاہور سے سیالکوٹ آ رہے تھے۔ بارش ہو رہی تھی ہم اپنا کھانا ساتھ لائے تھے اور یہاں بھی ہم نے اطلاع دے دی تھی کہ کھانے کا انتظام ہم نے کیا ہوا ہے رستہ میں ہم ایک جگہ پر رُکے۔ مجھے علم تھا کہ ہمارے پاس کوئی تھال وغیرہ نہیں۔ میں نے کہا۔ مسٹر کنزے آج آپ کو پاکستانی طرز پر ہی کھانا کھانا پڑے گا اور ہم بڑی بے تکلفی سے روٹی پر ہی سالن ڈال کر کھا لیتے ہیں۔ مسٹر کنزے نے کہا ہاں میں پاکستانی طرز پر ہی کھاؤں گا بلکہ اِنہوں نے کہا۔ جرمن قوم میں بھی اتنا تکلف نہیں پایا جاتا۔ پھر مجھے معلوم ہوا تھالیاں بھی ہمارے ساتھ ہیں اور ہم نے تھالیوں میں سالن ڈال کر کھانا کھایا لیکن یہ ہاتھ پر ہی روٹی رکھ کر کھانے کو تیار تھے۔ باقی امور میں بھی یہ نقل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان میں اخلاص بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ نماز کے بھی پابند ہیں اور زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہر ایک بات کے متعلق پوچھتے رہتے ہیں۔
انگلستان کی نسبت جرمن اسلام کی طرف بہت زیادہ راغب معلوم ہوتے ہیں۔ انگلینڈ میں ہمارا مشن ۱۹۱۸ء سے قائم ہے اور اِس تیس سال کے عرصہ میں ہم متواتر ناکام رہے ہیں۔ یوں تو بعض لوگ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن اسلامی روح اُن میں پیدا نہیں ہوئی۔ وہ صرف ایک سوسائٹی سمجھ کر اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں اور نام کے مسلمان ہو جانے کے بعد سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اسلام پر بہت زیادہ احسان کر دیا ہے اب ہم سے کسی مزید قربانی کی کوئی خواہش نہیں کر سکتا۔ کبھی کوئی جمعہ پڑھ لیا یا کسی عید میں آ گئے تو اور بات ہے۔ بہرحال اُن میں اسلام کی زیادہ رغبت نہیں پائی جاتی بلکہ بعض تو چار چار پانچ پانچ سال کے بعد کبھی کبھی آ جاتے ہیں۔ انگلینڈ سے ۳۰ سال کے بعد ہمیں ایک آدمی ملا جس کے اندر اسلام کی حقیقی روح پائی جاتی تھی مگر جرمنی میں وہ پہلے سال ہی مل گیا۔ انگلینڈ میں ۳۰ سال کی متواتر کوششوں کے بعد ہمیں بشیر احمد آرچرڈ ملے۔ وہ یہاں فوج میں ملازم تھے اور اپنی ملازمت کے دوران میں ہی وہ مسلمان ہوئے۔ بشیر احمد آرچرڈ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے اسلام کو صحیح طور پر عمل کے لئے قبول کیا بعد میں اُنہوں نے ملازمت چھوڑ دی اور حصولِ تعلیم کے سلسلہ میں قادیان میں بھی رہے۔ وہ جتنی دیر قادیان رہے میں نے دیکھا کہ وہ تہجد گزار تھے، نمازوں کے وہ بڑے پابند تھے، اُن کے اعمال میں ہر طرح سادگی پائی جاتی تھی اور اِس وقت وہ ہماری طرف سے انگلینڈ میں مبلغ مقرر ہیں۔ اُن کے اندر اِس قدر اخلاص پایا جاتا ہے جو انگلستان کے لئے غیر معمولی ہے اُن کے پاس روپیہ نہیں۔ ہم اپنے مبلغ کو اتنا کم خرچ دیتے ہیں کہ وہ بمشکل اپنا پیٹ بھر سکتا ہے حتیّٰ کہ ایک کیپٹن نے جو جہلم کی طرف کے رہنے والے تھے اور احمدی نہیں تھے مجھ سے شکایت کی کہ میں ملایاؔ میں تھا میں نے وہاں آپ کے مبلغوں کو دیکھا ہے آپ اپنے مبلغوں پر ظلم کرتے ہیں اور اُنہیں اتنا کم خرچ دیتے ہیں کہ وہ اپنا پیٹ بھی نہیں بھر سکتے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے چپڑاسیوں کی حالت بھی اُن سے اچھی ہے۔ میں نے اُنہیں جواب دیا آپ کی ہمدردی کا شکریہ۔ ہم اگر اپنے مبلغوں کو آپ کے خیال کے مطابق خرچ دیں تو ساری دنیا میں تبلیغ کیسے کریں؟ اگر ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرنی ہے تو یہ اس طرح ہی ہو سکتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرد قربانی کرے۔ جو لوگ تبلیغ کے لئے باہر نہیں جا سکتے وہ روپیہ دیں اور جو باہر جا سکتے ہیں وہ جائیں اور کم خرچ میں گزارہ کریں۔ بشیر احمد آرچرڈ کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ اگر کوئی پمفلٹ شائع کرنا چاہتے ہیں اور اُن کے پاس خرچ نہیں ہوتا تو وہ بجائے مرکز سے خرچ مانگنے کے وہاں مزدوری کرلیتے ہیں۔ کسی جگہ اگر مزدوری کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ وہاںچلے جاتے ہیں اور آٹھ دس دن کام کرتے ہیں اور پھر اُس آمد سے پمفلٹ شائع کرتے ہیں۔ یہ اِس قسم کی قربانی ہے جو شاید کسی ہندوستانی یا پاکستانی میں بھی نہیں پائی جاتی۔ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں یہ روح نہیں پائی جاتی کہ وہ دین کے لئے اِس قدر قربانی کریں۔ بوریاں اُٹھائیں اور اُن کی آمد سے پمفلٹ شائع کریں۔ اُن کی سادگی کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ انہیں دیکھ کر باقی نَومسلموں کے اندر بھی قربانی کی روح پیدا ہوگئی ہے۔
میرا ارادہ تھا کہ بشیر احمد آرچرڈ قادیان میں رہ کر اچھی طرح دینی تعلیم حاصل کریں اور اُن کی شادی بھی کسی ہندوستانی لڑکی سے کر دی جائے لیکن مشرقی پنجاب کے فسادات کی وجہ سے انہیں مزید تعلیم نہ دے سکے اور ہم نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ وہ یہاں رہیں بلکہ واپس انگلینڈ چلے جائیںاور کام کریں۔ جتنی تعلیم اُنہوں نے حاصل کی ہے اتنی ہی کافی ہے اور اگر کوئی کسر رہ گئی تو وہاں ہمارے مشنری پوری کر دیںگے۔ چنانچہ میں نے انہیں انگلینڈ بھیج دیا اور اُن کی شادی کی تجویز رہ گئی۔ اب میں نے ان پر زور دیا کہ وہ وہاں شادی کر لیں۔
انگریز نَو مسلم جو اَب تک اسلام میں داخل ہوئے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ رسوم کو اُسی طرز پر جاری رکھیں جس طرز پر پہلے ہوا کرتی ہیں۔ خربوزہ خربوزے سے رنگ پکڑتا ہے۔ بشیر احمد آرچرڈ انگلینڈ گئے تو انہیں دیکھ کر باقی انگریر نَو مسلموں کی روحانی حالت بھی بدلنی شروع ہوئی۔ مبلغ تو ہمارے وہاں دیر سے گئے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ہندوستانی ہیں ان کی تہذیب علیحدہ ہے، ان کا تمدن علیحدہ ہے، یہ لوگ تو ایسا کام کرنے کے عادی ہیں اِس لئے وہ اُن کی قربانیوں کو دیکھ کر ان کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے لیکن جب بشیر احمد آرچرڈ وہاں گئے اور اُن کی قربانیوں کو باقی انگریز نَو مسلموں نے دیکھا تو اُن میں بھی روحانیت پیدا ہونی شروع ہوئی۔ بشیر احمد آرچرڈ مالی لحاظ سے غریب ہیں کیونکہ ہم اپنے مبلغوں کو بہت کم گزارہ دیتے ہیں اِس لئے انہیں بھی بہت کم گزارہ ملتا ہے۔ ہم نے یہ تجویز کی کہ وہ ایک انگریز نَو مسلمہ کے ساتھ جن کے والد مالی دنیا میں اعلیٰ حیثیت رکھتے ہیں اور ایکسچینج کے ممبر ہیں شادی کر لیں۔ انگلستان میں جو شخص ایکسچینج کا ممبر ہوتا ہے اُس کی وہی شان ہوتی ہے جو پارلیمنٹ کے ایک ممبر کی ہوتی ہے۔ ہم نے تجویز کی کہ بشیر احمد آرچرڈ اُس کی لڑکی کے ساتھ شادی کر لیں۔ بشیر احمد آرچرڈ نے کہا میں اسلامی طرز پر ہی شادی کر سکتا ہوں اور کسی قسم کی کورٹ شپ وغیرہ نہیں ہوگی لیکن لڑکی کا باپ اِس بات پر راضی نہ تھا اب اطلاع آئی ہے کہ خیر اللہ ویلز لڑکی کے والد نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اسلامی طرز پر ہی لڑکی کا نکاح کریں گے اور اب جلد ہی اُن کی شادی ہو جائے گی۔ اِس سے پہلے یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ نکاح اسلامی طرز پر کیا جائے گا اور کسی قسم کی کورٹ شپ نہیں ہوگی۔ بہرحال بشیر احمد آرچرڈ کی قربانی کے نتیجہ میں دوسرے لوگوں میں بھی ایک قسم کی بیداری پیدا ہوگئی ہے اور انہیں دیکھ کر میں امید کرتا ہوں کہ اُن کے اندر اسلام کی حقیقی روح پیدا ہو جائے گی اور وہ اسلامی تمدن کے مطابق کام کرنے لگ جائیں گے۔
یہ تو اُن لوگوں کا حال ہوا باقی میں آپ لوگوں کو بھی کہوں گا کہ اگر یورپ میںباوجود مادیت کے ایسے نوجوان پیدا ہوتے ہیں جو اسلامی لباس کو اپنا لیں، اُس کی تعلیم کو اپنا لیں اور اُس پر عمل کریں۔ اگر یورپ میں ایسی عورتیں پائی جاتی ہیں جو اسلام کو اپنالیں اور وہ اُس کی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں تو ہم لوگوں کے لئے جو نسلی مسلمان ہیں یہ کتنا افسوسناک امر ہے کہ ہم اسلام کے مطابق عمل نہ کریںاور ایسا نمونہ پیش نہ کریں جس سے دوسرے لوگ سبق حاصل کریں بلکہ ہم اُس سے دُور جانے اور اسلامی تمدن کے خلاف چلنے کی کوشش کریں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ مسٹر کنزے نے اپنا لباس تبدیل کر لیا ہے اور اِنہوں نے ظاہری طور پر بھی اپنے آپ کو اسلام کے مطابق بنانے کی کوشش کی ہے۔ اِن کا لباس ہم نے نہیں بدلوایا اِنہوں نے اپنا لباس خود ہی تبدیل کیا ہے۔ یہ اسلام لائے اور اِنہوں نے مسلمانوں کو دیکھا کہ وہ داڑھی رکھتے ہیں تو اِنہوں نے پوچھا یہ کیا؟ انہیں بتایا گیا کہ مسلمان داڑھی رکھا کرتے ہیں اِس پر اِنہوں نے بھی داڑھی رکھ لی۔ مسٹرکنزے جب کراچی آئے اُس وقت یہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے مکان پر اُنہیں ملنے کے لئے گئے۔ چوہدری صاحب نے مجھے بتایا کہ میں کہیں باہر گیا ہوا تھا جب میںگھر واپس آیا اور اُس کمرے میں داخل ہوا جس میں مسٹر کنزے اور چند اور دوست بیٹھے ہوئے تھے تو میں اِنہیں پہچان نہ سکا۔ اِن کا لباس بھی اسلامی تھا اور دوسروں کا لباس بھی اسلامی تھا۔ میں حیران تھا کہ میں اِن سب میں سے کس کو مسٹر کنزے سمجھوں کیونکہ مجھے سبھی مسلمان نظر آتے تھے۔ جب مجھے بتایا گیا کہ یہ مسٹر کنزے ہیں تب مجھے اِن کا علم ہوا۔ غرض اِنہوں نے اپنے لباس کو بھی اسلامی بنا لیا ہے اگرچہ اسلام میں کسی مخصوص لباس کی شرط نہیں۔ بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۱؎ جو شخص کسی قوم کی نقل کرتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے۔ چاہے لباس اسلام کا کوئی حصہ نہیں لیکن پھر بھی اِن کے لباس بدلنے سے یہ بات تو معلوم ہوتی ہے کہ اِن کے اندر غیرتِ اسلامی پائی جاتی ہے لیکن ہم لوگ بڑی بے تکلفی سے دوسروں کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں۔
میں جب ۱۹۲۴ء میں انگلینڈ گیا اُس وقت سردی کے خیال سے میں چند علی گڑھی طرز کے پاجامے بھی سِلوا کر ساتھ لے گیا۔ میرا ارادہ تھا کہ یہ پاجامے انگلینڈ جا کر پہنوں گا مگر یونہی چند دن تک میں نے وہ پاجامے نہ پہنے۔ ہمارے مبلغ میرے پاس گھبرائے ہوئے آئے اور کہا حضور! یہاں کے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا امام ننگا پھرتا ہے۔ انگلینڈ میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ شخص جس کا کرتا پاجامہ کے اوپر ہو وہ ننگا ہوتا ہے اور چونکہ میرا کرتا اوپر ہوتا تھا اور شلوار نیچے اِس لئے اُنہوں نے میرے متعلق بھی یہی کہنا شروع کیا کہ میں ننگا پھر رہا ہوں۔ میں نے اپنے مبلغ سے کہا میں چند گرم پاجامے ساتھ لایا تو تھا اور میرا ارادہ بھی تھا کہ میں یہاں آ کر وہ پاجامے پہنوں گا مگر اب وہ پاجامے میں نہیں پہنوں گا کیونکہ یہ لوگ مجھے میرے اپنے لباس میں ننگا سمجھتے ہیں کیا میری غیرتِ قومی مجھے مجبور نہیں کرتی کہ میں اپنا لباس ہی رکھوں؟ اگر یہ لوگ ہمارے ملک میں جا کر اپنے لباس کو نہیں چھوڑ سکتے تو میں بھی اِن کے ملک میں آ کر اپنا لباس نہیں چھوڑوں گا۔ اگر یہ لوگ ہمارے ملک میں جا کر ا پنا لباس چھوڑنے پر راضی ہو جائیں تو میں بھی اپنا لباس چھوڑنے پر تیار ہو جاؤں گا۔ لیکن ہمارے مبلغ نے شور مچا دیا کہ حضور! لوگ آپ کو ننگا سمجھتے ہیں۔
سرڈینی سن راس جو وہاں ایک کالج کے پرنسپل تھے ایک دن مجھے ملنے کے لئے آئے۔ اُن کے ساتھ ایک دو اَور پروفیسر بھی تھے میرے اُن سے دوستانہ تعلقات تھے میں نے اپنے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے اُن سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ کیا آپ مجھے میرے اپنے لباس میں ملبوس ہونے کو بُرا محسوس کرتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا اگر آپ نے یہ بات پوچھی ہے تو میں آپ کو بتا ہی دیتا ہوں کہ ہم واقعی اِس چیز کو بُرا محسوس کرتے ہیں۔ سر ڈینی سن راس ایک وقت تک علیگڑھ میں بھی پرنسپل رہے تھے میں نے پوچھا جب آپ ہندوستان گئے تھے تو کیا آپ ہمارا لباس پہنا کرتے تھے؟ اُنہوں نے کہا۔ نہیں۔ میں نے کہا اگر آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ ہمارے ملک میں جا کر اپنا لباس پہنیں تو پھر آپ کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے پھر آپ ہم سے کیوں نفرت کریں؟ کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم بھی آپ کے ملک میں آ کر اپنا لباس پہنیں؟ جب آپ ہمارے ملک میں جا کر ہمارا لباس نہیں پہنتے تو ہمارا بھی یہ حق ہے کہ ہم یہاں آ کر اپنالباس پہنیں۔ اُنہوں نے کہا آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن بہرحال ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی شخص ہمارے ملک میں آ کر اپنا لباس پہنے۔ میں نے کہا اگر ہمارے ملک میں جا کر آپ کو اپنا لباس پہننے کا حق ہے تو یہ حق ہمیں بھی ملنا چاہئے۔ اگر دوسرے شخص کی دلداری مقصود ہو اور اس لئے لباس بدلنا ہو تو پھر دونوں کو اپنا لباس تبدیل کرنا چاہئے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ملک میں آ کر اپنا لباس بدل دیں تو آپ کا بھی فرض ہے کہ جب ہمارے ملک میں جائیں تو اپنا لباس بدل دیں اور شلوار اور پگڑی پہنیں۔ جس بات کی نسبت آپ اپنی طرف کرنا پسند نہیں کرتے اُس کی نسبت ہماری طرف کرنا آپ کیسے پسند کرتے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم گھاٹے میں رہیں۔اُنہوں نے کہا میں نے یہ تو نہیں کہا۔ میں نے کہا جب ہم ایک ہی جیسے ہیں تو جو چیز آپ مجھ سے کروانا چاہتے ہیں وہ چیز آپ اپنے لئے پسند کیوں نہیں کرتے؟ اگر آپ کو اپنی حکومت کا غرور ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ ہم غلام ہیں اس لئے آپ کے لئے مناسب نہیں کہ ہمارا لباس پہنیںتو میں تو آپ کا غلام نہیں ہوں۔ میں نے اُسے بتایا کہ میں پتلونیں ساتھ لایا تھا لیکن اب جبکہ مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ آپ کا یہ رویہ غرور کی وجہ سے ہے تو میں اب وہ نہیں پہنوں گا۔ غرض وہ لوگ مجھے ننگا کہتے رہے لیکن میں نے اپنالباس نہ چھوڑا۔
پس ہمارے اندر خودداری کا احساس ہونا چاہئے اور ہمیں اپنی قومی پوزیشن کو قائم رکھنا چاہئے تا کہ دوسرے لوگ ہماری اتباع کریں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارا مستقبل کسی صورت میں روشن نہیں ہو سکتا اس لئے کہ ہمارے اندر بلند خیالی نہیں پائی جاتی۔ ہماری قومی روح کو کچلنے کے لئے انگریزوں نے ہمارے تاریخی واقعات کو بگاڑ کر پیش کیا ہے۔ وہ بادشاہ تو زندہ نہیں تھے لیکن اُن کی غرض یہ تھی کہ وہ ہمارے ماضی کی روایات کو غلط رنگ میں پیش کریں تاقومی روایات اپنے صحیح رنگ میں ہمارے سامنے نہ رہیں اور اِس کی وجہ سے ہمارا مستقبل پست ہو اور ہم کوئی ترقی نہ کر سکیں۔ آپ لوگ کسی ملک میں چلے جائیں آپ دیکھیں گے کہ سارے کے سارے ملک کا لباس ایک ہی طرح کا ہوگا۔ ہاں تھوڑا بہت فرق ضرور ہوگا۔ کوئی شخص کالے رنگ کا سوٹ پہنے ہوئے ہوگا اور کوئی سفید رنگ کے لباس میں ملبوس ہوگا۔ کسی کے ہیٹ کا چھجا چھوٹا ہوگا اور کسی کے ہیٹ کا چھجا بڑا ہوگا لیکن سارے کے سارے ملک کا لباس ایک ہی قسم کا ہوگا۔ یورپ کے کسی اَور ملک میں چلے جائیں وہاں بھی آپ کو ایک ہی قسم کا لباس نظر آئے گا لیکن ہمارا کیا حال ہے؟ سیالکوٹ میں اَور قسم کا لباس ہے، لاہور میں اَور قسم کا لباس ہے بلکہ ہر ضلع کا الگ لباس ہے۔ ایک ہی قسم کا لباس ہونے سے قومی اتحاد پیدا ہوتا ہے لیکن یہاں ہر ضلع میں الگ الگ لباس ہے گویا ہم ایک نیا عالَم ہیں۔ جانوروں میں مشابہتیں پائی جاتی ہیں، جنگل میں بندر بھی پایا جاتا ہے، سؤر بھی پایا جاتا ہے، لومڑ بھی پایا جاتا ہے، کوئی شیر ہوتا ہے اور کوئی چیتا ہوتا ہے لیکن اُن میں سے ایک قسم کی جانوروں کی نسل کو لیا جائے تو سب میں مشابہت پائی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ مشابہت بہت کم ہے اسی لئے ہمارے دلی اتحاد میں بہت کمزوری پائی جاتی ہے۔
عربوں کو دیکھ لو اُن میں یہ چیز پائی جاتی ہے اُن کا لباس ایک ہی طرح کا ہوتا ہے لیکن یہاں پنجابی لباس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ دو ضلعوں میں یہ لباس اَور کا اَور ہو جاتا ہے کسی علاقہ میں پاجامہ پہنا جاتا ہے اور کسی علاقہ میں تہہ بند باندھا جاتا ہے اور صوبہ کے کئی حصوں میں دھوتی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ پھر پگڑیوں میں بھی بہت اختلاف ہے۔ غرض ہمارے لباس میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ جوتیوں کو ہی لے لو اُن میں بھی بہت فرق پایا جاتا ہے لیکن یورپین جوتیوں میں بہت کم فرق پایا جاتا ہے۔ عام طور پر وہ ایک سی شیپ کی ہوتی ہیں لیکن یہاں پشاور کی جوتیاں اَور شیپ کی ہوتی ہیں، گجرات کی جوتیاں اَور شیپ کی ہوتی ہیں۔ اِس طرح ظاہر طور پر کوئی ایک چیز بھی ہمارے ملک میں ایسی نہیں پائی جاتی جس سے معلوم ہو سکے کہ ہم میں اتحاد پایا جاتا ہے۔ اِس اتحاد کو پیدا کرنے کے لئے ہمیں اپنے قلب کی صفائی کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے پہلے فرمایا کرتے تھے صفیں ٹھیک کر لو ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے۔۲؎ بھلا صفوں کے ٹیڑھا ہونے کا دلوں کے ٹیڑھا ہونے سے کیا تعلق۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ اگر ظاہر ٹھیک نہ ہو تو باطن بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ قومی کیریکٹر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری زبان ایک ہو، ہمارے لباسوں میں کوئی اختلاف نہ پایا جائے اور جب تک یہ چیز نہ پائی جائے تمام پاکستانی آپس میںمتحد نہیں ہوسکتے۔
اسلام کو اکٹھا کرنے والی خلافت تھی جس سے اِس زمانہ کی مسلمان حکومتیں محروم ہیں۔ کونسا مسلمان ملک ہے جو اپنے بادشاہ کو خلیفہ کا خطاب دے سکے۔ اگر عراق اپنے آپ کو خلافت کا خطاب دے۔ اگر شام اپنے آپ کو خلافت کا خطاب دے یا دوسرے ممالک مثلاً سعودی عرب، شرقِ اُردن، ایران، افغانستان یا پاکستان اپنے آپ کو خلافت کا خطاب دے تو فوراً دوسرے ممالک اُس کے خلاف ہو جائیں گے اور وہ اپنے مُلک اُس کے قبضہ میں دینے سے انکار کر دیں گے۔ وہ چیز جو آج مسلمانوں کو اکٹھا کر سکتی ہے وہ صرف اتحاد ہے۔ اَور تو اَور ہماری علمی زبان میں بھی بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہمارے بعض ادیب نئی نئی طرزوں اور طریقوں کے ایجاد کرنے میں بہت خوشی محسوس کرتے ہیں اور کہیں کے کہیں چلے جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنی علمی زبان کو ہی ایک طرز پر چلانے کی کوشش کرتے تو آج ہم میںاختلاف نہ پایا جاتا۔ ہم مسلمانوں نے اُردو زبان میں عربی اور فارسی کے الفاظ ملانے کی کوشش کی اور ہندوؤں نے سنسکرت کے الفاظ گھسیڑنے کی کوشش کی اور اِس طرح ہمارے آپس کی رقابت نے بڑھتے بڑھتے یہ رنگ اختیار کر لیا کہ اُس نے ہمارے دلوں کو پھاڑ دیا۔ بہرحال ہمارے اندر کوئی نہ کوئی ایسی چیز پائی جانی چاہئے جسے دیکھ کر ہر شخص کہہ سکے کہ یہ فلاں مُلک سے تعلق رکھتا ہے۔ مثلاً یورپین اقوام کو لے لو اُن کے لباسوںکو دیکھ کر فوراً دیکھنے والا پہچان لیتا ہے کہ یہ شخص فلاں ملک سے تعلق رکھتا ہے۔ پس میں ضمنی طور پر آپ لوگوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کوشش کریں کہ ہمارے اندر کوئی نہ کوئی ایسی چیز پائی جائے جسے دیکھ کر ہر شخص کہہ سکے کہ یہ پاکستانی ہے۔ کسی مجلس میں ہم چلے جائیں وہ فوراً ہمیں پہچان کر کہہ دے کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں جیسے یوروپین لوگوں کو فوراً پہچان لیا جاتا ہے۔
(غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
۱؎ ہر: HERR۔ جرمن زبان میں مسٹر کے لئے HERR کا لفظ بولا جاتا ہے۔
ابوداؤد کتاب اللباس باب فی لُبس الشھرۃ
۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب تسویۃ الصفوف
اللہ تعالیٰ سے سچااور حقیقی تعلق قائم کرنے
میں ہی ہماری کامیابی ہے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اللہ تعالیٰ سے سچااور حقیقی تعلق قائم کرنے
میں ہی ہماری کامیابی ہے
(فرمودہ ۱۷؍فروری ۱۹۴۹ء بمقام راولپنڈی)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میری اِس وقت آپ لوگوں کو جمع کرنے سے کوئی لمبی تقریر کرنا نہیں بلکہ آپ لوگوں کو اِس وقت یہاں جمع کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ میں بدلے ہوئے حالات کے مطابق آپ کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاؤں اور چونکہ جماعت کے فرائض عورتوں اور مردوں دونوں پر ایک ہی طرح عائد ہوتے ہیں اِس لئے میں نے خواہش کی کہ اِس موقع پر عورتوں کو بھی ساتھ لایا جائے تا وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کے متعلق میرے خیالات سن سکیں اور اگر خداتعالیٰ انہیں توفیق عطا فرمائے تو وہ موجودہ حالات کے مطابق اپنے اعمال کو ڈھال سکیں۔
یہ امرِ واقعہ ہے اور ہر ایک شخص جانتا ہے کہ تقسیم ملک کے نتیجہ میں لاکھوں لاکھ آدمی مشرقی پنجاب سے اُجڑ کر مغربی پنجاب میں آ بسا ہے۔ اِن کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مشرقی پنجاب سے تو نہیں آئے لیکن کشمیر اور جموں سے ہجرت کر کے یہاں آ بسے ہیں اور ان کی تعداد بھی لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔ اِس لئے وہ رنگ جو پہلے سوسائٹی کا تھا وہ بدل گیا ہے اور لوگ اِس طرح آپس میں مل جل گئے ہیں کہ اب ان کی ذمہ داریاں اُس قسم کی نہیں رہیں جس قسم کی پہلے تھیں اور ہماری جماعت بھی اس عظیم الشان تغیر سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پہلے بھی جماعتوں میں زیادتی ہوتی رہتی تھی۔ کبھی ایک احمدی ہو گیا اور کبھی چھ سات نئے احمدی ہوگئے لیکن چونکہ یہ تعداد کم ہوتی تھی اس لئے وہ پہلے لوگوں میں اس طرح مخلوط ہو جاتے تھے کہ کوئی تغیر محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن اب تو ایسا ہوا کہ جس جماعت کی تعداد پہلے دس پندرہ تھی وہ یکدم پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ بلکہ بعض جگہوں پر اس سے بھی زیادہ ہوگئی۔
راولپنڈی کی جماعت کو ہی لے لو۔ یہ پہلے بہت چھوٹی سی جماعت تھی۔ غالباً پچیس تیس افراد پر مشتمل تھی لیکن اب اِس کی تعداد جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے تین چار سَو کے درمیان ہے اور اگر مستورات اور بچوں کو بھی ملا لیا جائے تو اِس کی تعداد پندرہ سَو یا دو ہزار کے قریب بن جاتی ہے۔ اِس عظیم الشان تغیر کے نتیجہ میں جس بیداری کی ضرورت ہے مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے وہ بیداری ابھی تک اپنے اندر پیدا نہیں کی۔ کسی عورت کے ہاں اگر بیک وقت دو تین بچے پیدا ہو جائیں اور وہ سب زندہ ہوں تو تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ کس طرح والدین ان کے فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ کس طرح ان کی غورو پرداخت میں مشغول رہتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی جماعت کی تعداد تیس سے بڑھ کر یکدم تین چار سَو ہو جائے تو اسی نسبت سے اس کے اندر بیداری کا پیدا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسے اپنی تنظیم کو زیادہ بہتر بنانا چاہئے، اپنے چندوں کو بڑھانا چاہئے، اپنی قربانیوں کے معیار کو بلند کرنا چاہئے اور پھر سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہئے تا کہ اُس کی زیادہ سے زیادہ تائید حاصل ہو سکے۔
یہ امر یاد رکھو کہ کامیابی کے لئے جن مادی سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے پاس نہیں۔ صرف ایک ہی چیز ہے جو ہمیں محفوظ رکھ سکتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا اور اُسی سے مدد مانگنا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ ۱؎ یعنی کتنی ہی جماعتیں دنیا میں ایسی گذری ہیں جو اگرچہ تعداد میں بہت تھوڑی تھیں لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی بڑی جماعتو ں پر غالب آگئیں۔ مگر یہ مثالیں درحقیقت ایسے ہی لوگوں کی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کیا اور اُس کی تائید اور نصرت سے اُنہوں نے کامیابی حاصل کی۔ ان میں سے بعض مثالیںتاریخی زمانہ سے بھی پہلے کی ہیں جیسے حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ نوح علیہ السلام کی قوم نے باوجود قلیل التعداد ہونے کے فتح پائی۔ اور بعض مثالیں تاریخی دَور کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جیسے داؤد علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور اِسی طرح اور کئی انبیاء کے واقعات پائے جاتے ہیں جنہوں نے اپنے مخالفین پر فتح پائی حالانکہ اُن کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے باوجود قلیل التعداد ہونے کے غلبہ حاصل کیا۔ جہاں تک ظاہری سامان کا تعلق تھا وہ ان کے پاس نہیں تھا لیکن ایک باطنی چیز ایسی تھی جو ساری کی ساری ان کے پاس تھی اور وہ خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق تھا۔ گویا دنیا جس میں روح اور مادہ بھی شامل تھا دو حصوں میں منقسم ہوگئی تھی۔ اِن دو حصوں میں سے مادی حصہ تمام کا تمام مخالف کے پاس تھا اور روحانیت سب کی سب اِن کے پاس تھی۔ خداتعالیٰ اِن کی طرف تھا اور روپیہ اور طاقت مخالف کی طرف تھی۔ فرشتے اِن کی طرف تھے اور سامان مخالفوں کی طرف تھا مگر اِس لڑائی میں باوجود اِس کے کہ ایک طرف ظاہری سامان تھے اور دوسری طرف نہیں تھے وہ گروہ جیتا جو قلیل التعداد تھا اور ظاہری سازو سامان سے محروم تھا اور وہ گروہ جو کثیر التعداد تھا اور تمام ظاہری سامان اس کے پاس پائے جاتے تھے وہ ہارا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو آپ نے مکہ والوں کو عام معافی دے دی سوائے چند افراد کے جنہوں نے متواتر اور غیر آئینی طور پر اور قوانین حرب کے خلاف بہت سے مسلمانوں کو مروایا تھا۔ صرف ان لوگوں کے متعلق آپ نے فرمایا کہ یہ وارکریمینل (WAR CRIMINAL ) ہیں۔ وارکریمینل کی اصطلاح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی ہے گو پرانی اصطلاح اور موجودہ اصطلاح میں بہت بھاری فرق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اصطلاح قائم کی وہ محدود اور مفید صورت میں ہے لیکن موجودہ اصطلاح مفید نہیں۔ آجکل کی اصطلاح میں ہر وہ شخص جو اپنی قوم کی طرف سے لڑا اور فوج کا ہیڈ رہا وہ وارکریمینل ہے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے ساتھ ایسی شرائط لگا دی ہیں جن کی وجہ سے اِس کا دائرہ نہایت محدود ہو گیا ہے۔ جنگ کی صورت میں جس شخص نے اپنی فوج کی خدمت کی ہو، جس نے دشمن کے خلاف اپنی قوم کی مدد کی ہو وہ سزا کا مستحق نہیں لیکن ایسا شخص جس نے قوانین حرب کے خلاف، انسانیت کے خلاف غیرآئینی طور پرایسے کام کئے ہوں جو ذاتی حیثیت رکھتے ہوں، صرف اُسے سزا دی جائے لیکن اب وہ شخص بھی جس نے ایک افسر کی حیثیت سے اپنی فوج میں کام کیا ہو یا کسی اَور طرح اپنی قوم کی اُس کے دشمن کے خلاف مدد کی ہو وارکریمینل کی اصطلاح کے نیچے آ جاتا ہے اور یہ بات ایسی ہے کہ اِس سے کوئی سپاہی بھی نہیں بچ سکتا۔ جو قوم بھی غالب آئے گی وہ دوسری قوم کے تمام سپاہیوں کو مارڈالے گی اس لئے کہ وہ وارکریمینل ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پانچ چھ آدمیوں کو (جن میں ایک عورت بھی شامل تھی) اور جنہوں نے اپنی فوج ذمہ داریوں سے باہر جا کر مسلمانوں پر مظالم ڈھائے تھے، موت کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ لوگ قابل معافی نہیں، اِنہیں سزا دی جائے گی۔ اِن لوگوں میں سے ایک ابوجہل کے بیٹے عکرمہ بھی تھے، ایک ابوسفیان کی بیوی ہندہ تھی اور ایک شاعر تھے جنہوں نے قصیدہ بُردہ لکھا ہے۔ مگر اِن لوگوں میں سے بھی اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو مسلمان ہو گئے اور اُنہیں معاف کر دیا گیا۔ عکرمہ بھی مسلمان ہوگئے اور انہیں معافی مل گئی۔ وہ شاعر بھی مسلمان ہوگئے اور اُنہیں معاف کر دیا گیا۔ ہندہ بھی مسلمان ہوگئی اور اِس سزا سے بچ گئی۔
ہندہ کی معافی کا واقعہ اِس طرح آتا ہے کہ جب ان کے متعلق سزا کا فیصلہ ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے متعلق حکم صادر فرمایا کہ چونکہ ہندہ نے غیر آئینی طور پر اور آئین حرب کے خلاف مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں بلکہ بعض مردوں کی نعشوں کی بے حرمتی کی ہے، ان کے کان کاٹ دیئے ہیں، ان کے ناک کاٹ دیئے ہیں، جگر اور کلیجے نکلوا کر چبائے ہیں اور مختلف قسم کے دیگر انسانیت سوز مظالم کئے ہیں اس لئے اِسے بھی جہاں ملے قتل کیا جائے۔ تو ایک دن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بعض عورتیں بیعت کرنے کے لئے آئیں تو ہندہ بھی چادر اوڑھ کر اُن میں شامل ہوگئی۔ پردہ کا حکم نازل ہو چکا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں سے بیعت لے رہے تھے تو بیعت کے الفاظ میں یہ الفاظ بھی آتے تھے کہ ہم شرک نہیں کریں گی، تو ہندہ کی طبیعت بڑی تیز تھی وہ جوش میں آ کر کہنے لگی یَارَسُوْلَ اللّٰہ! کیا اب بھی ہم شرک کریں گی؟ ہمارے پاس دنیا کے سب ظاہری سامان تھے، ہمارے پاس طاقت تھی، روپیہ تھا، سامانِ حرب تھا، ہماری تعداد زیادہ تھی، تجربہ کار جرنیل ہمارے پاس تھے، قوم ہمارے ساتھ تھی، ملک ہمارے ساتھ تھا یہ ساری چیزیں جو بظاہر جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں ہمارے پاس موجود تھیں، پھر آپ اکیلے تھے، آپ کے پاس طاقت نہیں تھی، ظاہری سامان نہیں تھے مگر آپ جیت گئے ہم ہار گئے۔ اگر ہمارے بتوں میں طاقت ہوتی تو کیا ہم ہار سکتے تھے؟ ہمارے پاس سب کچھ تھا لیکن باوجود اِس کے ہم ہار گئے اور آپ میں طاقت نہیں تھی، آپ کے پاس سامان نہیں تھا، سامانِ حرب نہیں تھا، تجربہ کار جرنیل نہیں تھے، قوم ساتھ نہیں تھی، آپ کے ساتھی تعداد میں ہم سے بہت کم تھے لیکن آپ جیت گئے۔ کیا اس تجربہ کے بعد بھی ہم شرک کر سکتی ہیں؟ ہندہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ دار تھیں آپ نے اُن کی آواز کو پہچان لیا اور فرمایا ہندہ ہے؟ ہندہ بڑی دلیر عورت تھی۔ اس نے فوراً کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں مسلمان ہوگئی ہوں۔ اب آپ کا پہلا حکم مجھ پر نافذ نہیں ہو سکتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا ہاں! تم مسلمان ہوگئی ہو، اب تمہیں سزا دینے کا مجھے کوئی حق نہیں رہا۔ تمہیں معاف کیا جاتا ہے۔۲؎ یہ چیز ہے جو حضور نے بطور سبق ہمارے سامنے رکھی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کے پاس روپیہ تھا، ان کی جتھہ بندی تھی، حکومت تھی، سامانِ حرب تھا، تجربہ کار جرنیل تھے، قوم ساتھ تھی، ملک ساتھ تھا اور آپ کے پاس کوئی حکومت نہیں تھی۔ظاہری سامان آپ کو میسر نہیں تھے لیکن آپ لڑے اور جیتے۔ عرب لڑے اور ہارے۔ کتنی قومیں دنیا میں ایسی گزر ی ہیں جو تعداد میں بہت تھوڑی تھیں لیکن وہ اپنے دشمن کے مقابلہ میں جیت گئیں۔ مگر یہ کب ہوا؟ جب اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تھا۔ گویا تھوڑی تعداد والی اور کمزور قوموں کو لڑائی میں جیتنے کے لئے یا تو سامان کی فراوانی کی ضرورت ہوتی ہے اور یا خداتعالیٰ ان کے ساتھ ہو، تب اُنہیں فتح حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمارے پاس طاقت نہیں۔ پس جب تک ہم ایسا راستہ تلاش نہ کریں جس میں سامان کی ضرورت نہیں رہتی کامیابی کی امید رکھنا غلط ہے۔ کامیابی حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ اگر تمہارے پاس ظاہری سامان نہیں تو تم خداتعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرو اور ایسا تعلق قائم کرو کہ اسے ہمارے لئے غیرت ہو۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس قسم کا تعلق قائم کر لیتے ہیں تو کمزور ہونا اور بے سروسامانی ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ تعداد میں کم ہونا ہمیں فکر میں نہیں ڈال سکتا۔ اس تعلق کے پیدا ہو جانے کے بعد ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ کوئی بھی ہمارے مقابلہ میں آئے ہم اس کے مقابلہ میں جیتیں گے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو اُسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف جب ہجرت کر کے گئے اور غارِ ثور میں چھپے تو دشمن آپ کی تلاش کرتا کرتا اس غار کے منہ پر پہنچ گیا۔ کھوجیوں نے اُس وقت یہ صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا تو اِس غار میں چھپے ہوئے ہیں اور یا آسمان پر چڑھ گئے ہیں۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ گھبرا گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا۔ اے ابوبکر! گھبراتے کیوں ہو؟ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔۳؎ قرآن کریم آپ کے یہ الفاظ بیان فرماتا ہے کہ ۴؎ اللہ تعالیٰ جب ہمارے ساتھ ہے تو پھر اے ابوبکر! تم غمگین کیوں ہوتے ہو۔ اگر ہماری قوم ہماری دشمن ہے تو ڈر کی کون سی بات ہے اللہ تعالیٰ تو ہمارے ساتھ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے اپنے متعلق کچھ فکر نہیں مجھے تو اِس بات کا فکر ہے کہ دشمن کہیں آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔ آپ نے فرمایا ابوبکرغم مت کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور وہی ہمیں دشمن سے بچائے گا۔ ہمارے پاس بے شک ظاہری سامان نہیں، ہمارے پاس بے شک ظاہری فوج نہیں لیکن خداتعالیٰ تو ہمارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خداتعالیٰ ہو اُس کے لئے خوف اور ڈرکی کیا وجہ ہے۔
پس طاقتور دشمن کے مقابلہ میں فتح حاصل کرنے کا ایک نسخہ تو یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق قائم کیا جائے کہ اسے ہمارے متعلق غیرت ہو۔ دوسرا نسخہ یہ ہے کہ دنیاوی سامان میسر ہوں۔ روپیہ ہو، طاقت ہو، حکومت ہو، مثلاً امریکہ کو جس طرح آجکل یہ برتری حاصل ہے یا انگلستان کو کسی زمانہ میں حاصل ہوا کرتی تھی اور وہ باوجود ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے دنیا کے تمام ممالک پر حکومت کرتا تھا اِسی طرح ہمیں طاقت حاصل ہو مگر یہ چیز ہمیں حاصل نہیں اور ہم حاصل کر بھی نہیں سکتے۔ جن چیزوں سے دولت حاصل ہوتی ہے وہ ہمیں میسر نہیں اور اگر وہ چیزیں میسر ہو بھی جائیں تو دولتوں کے حاصل کرنے کے لئے صدیوں کی ضرورت ہے۔امریکہ نے جو دولت حاصل کی ہے اِس پر بھی ایک لمبا عرصہ صَرف ہوا ہے۔ اس کے پاس کانیں تھیں، مٹی کا تیل تھا، لوہے کی مائنز تھیں اور مختلف قسم کے سامان اُسے میسر تھے مگر اس نے یہ دولت ڈیڑھ سَو سال کے عرصہ میں حاصل کی۔ امریکہ کو ۱۷۸۰ء میں آزادی حاصل ہوئی تھی۔ ایک سَو ساٹھ سال کی آزادی میں امریکہ اِس حالت تک پہنچا ہے لیکن پاکستان تو اتنا مضبوط ملک نہیں کہ اس سے دوسری بڑی طاقتیں مرعوب ہو جائیں اور نہ ابھی اس کے قیام پر کوئی لمبا عرصہ گزرا ہے۔ اب صرف ایک ہی صورت باقی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی حالت کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم خداتعالیٰ کو اپنے ساتھ ملا لیں اور اِس میں کسی لمبی دیر کی ضرورت نہیں۔ بعض دفعہ تو اِس پر ایک سیکنڈ بھی نہیں لگتا بشرطیکہ اُسے ساتھ ملانے کا صحیح طریق اختیار کیا جائے۔
صوفیاء نے لکھا ہے کہ کوئی شخص تھا اُس نے جب دیکھا کہ روحانی آدمیوں کا لوگ بہت زیادہ ادب و احترام کرتے ہیں تو اُس نے بھی دنیا داری کو چھوڑ دیا اور زاہد بن گیا۔ وہ سارا دن مسجد میں بیٹھا رہتا، نمازیں پڑھتا اور وظیفے کرتا رہتا لیکن جب بھی وہ مسجد سے باہر نکلتا لوگ کہتے دیکھو! وہ منافق جا رہا ہے۔ یہ آدمی وجاہت پسند اور دنیادار ہے لیکن دوسرے لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے اس نے اپنی یہ حالت بنا رکھی ہے۔ دس سال کا لمبا عرصہ گزر گیا لیکن اُس کی یہ امید کہ وہ دنیا کی نظر میں بزرگ تسلیم کیا جائے پوری نہ ہوئی۔ ایک دن وہ جنگل میں گیا۔ اُس نے اپنے دل میں کہا احمق! تو نے اپنی عمر کے دس سال ضائع کر دیئے اور لوگوں کی نظر میں باربار *** بنا۔ آ اور باقی عمر کو اب خداتعالیٰ کی خاطر اُس کے کاموں میں لگا دے لوگ تجھے بزرگ سمجھیں یا نہ سمجھیں تو سچے طور پر خداتعالیٰ کی عبادت کر اور اُسی کا بن جا۔ لوگ تجھے خواہ ریاکار کہیں تو اُن کی طرف توجہ نہ کر اور اپنا کام کرتا چلا جا اور اپنے خدا کو راضی کر لے۔ چنانچہ اس شخص نے اُسی وقت ریا کاری اور دکھاوے کو چھوڑ دیا۔ وضو کیا اور خداتعالیٰ کے سامنے سجدے میں گر گیا اور اُسے رو رو کر دعائیں کیں کہ اے خدا! تو میرے پچھلے گناہ معاف کر دے۔ خواہ لوگ مجھے پر لعنتیں ڈالیں یا اَور کچھ کہیں میں صرف تیری رضا چاہتا ہوں۔ توبہ کی اور پھر شہر کی طرف آیا اور مسجد میں گیا اور نماز پڑھی اور خداتعالیٰ کے حضور گڑگڑایا۔ نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر نکلا تو اُسے دیکھتے ہی لوگ کہنے لگے کہ دیکھو! کس طرح نور اس کے چہرے پر برس رہا ہے۔ یہ بہت بڑا ولی اللہ ہے اس کی دعاؤں سے ہر قسم کے عقدے حل ہو جاتے ہیں۔ اس شخص نے اپنے دل میں کہا تو نے دس سال ضائع کر دیئے تو نے لوگوں کو دھوکا دیا اور جھوٹ بولا لیکن تو لوگوں کی نظروں سے نہ بچ سکا۔ آج نیک نیتی سے اور سچے دل سے تو نے ایک نماز ادا کی ہے تو فوراً اس کا اثر دیکھ لیا۔
پس حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے، جو شخص خداتعالیٰ سے سچی صلح کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے وہ بعض دفعہ ایک سجدہ میں ہی اُسے پا لیتا ہے۔ صدیوں میں جس کام کو حل نہیں کیا جا سکتا اُسے ایک سجدہ ہی حل کر دیتا ہے۔ خداتعالیٰ جس شخص کے ساتھ ہو اُس کے ساتھ سب طاقتیں ہوتی ہیں اور وہ کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے جن دو چیزوں کے ساتھ باوجود قلیل التعداد ہونے کے مخالف پر فتح حاصل کی جاسکتی ہے اُن میں سے ایک تو ایسی ہے جس کا حاصل کرنا ہمارے اختیار سے باہر ہے اور اُسے حاصل کرنے کے لئے صدیاں درکار ہیں لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کو ہم حاصل کرنا چاہیں تو ایک دن میں بلکہ ایک سکینڈ میں اُسے حاصل کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی محبت قائم کر لیں اور فیصلہ کر لیں کہ ہم دنیا میں خداتعالیٰ کے لئے ہی زندہ رہیں گے اور اُسی کی خاطر مریں گے۔ جب ہماری یہ خواہش ہوگی کہ خداتعالیٰ ہم سے خوش ہو جائے اور اپنی دُنیوی ترقیات کو اُس کے لئے نظر انداز کر دیں گے اور محض اُس کی رضا کا حصول ہی ہمارا مقصد ہوگا تو وہ ہمیں حاصل ہو جائے گا اور جب وہ ہمیں حاصل ہو جائے گا تو یہ ہو نہیں سکتا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں تباہ و برباد کر سکے۔ خداتعالیٰ کے فرشتے خود ہماری مدد کے لئے نازل ہوں گے اور جو چیزیں دُنیوی سامانوں کے باوجود حاصل نہیں ہو سکتیں وہ ہمیں حاصل ہو جائیں گی۔ پس دو چیزوں میں سے تمہیں ایک چیز ضرور کرنی ہوگی یا تو تم فیصلہ کر لو کہ تم دنیا میں ذلّت اور رُسوائی چاہتے ہو اور یہ کہ تمہارے اوپر کسی قسم کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی اور یایہ فیصلہ کر لو کہ تم نے دنیا میں دین کو پھیلانا اور اُسے غالب کرنا ہے اور اِس کو حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریق ہے کہ تم خداتعالیٰ کو اپنا بنا لو۔ جب تم خداتعالیٰ کو اپنا بنا لو گے تو دنیا کی سب چیزیں تمہیں مل سکیں گی۔ اس لئے نہیں کہ وہ تمہاری مطلوب ہیں جو شخص دُنیوی سامانوں اور دنیوی عزت و جاہ کو اپنا مطلوب بناتا ہے اُسے خداتعالیٰ نہیں ملتا۔ لیکن جو شخص خداتعالیٰ کو اپنا مطلوب بنالیتا ہے اُسے سب چیزیں میسر آ جاتی ہیں۔ یہ دو عجیب چیزیں ہیں ان میں سے ایک چیز کی تلاش کرنے سے دوسری چیز خودبخود مل جاتی ہے لیکن دوسری کو تلاش کرنے سے پہلی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ جو شخص دنیا کی تلاش کرتا ہے اُسے خداتعالیٰ نہیں ملتا مگر جو خداتعالیٰ کی تلاش کرتا ہے اور اُس کی رضا کے حصول کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے اُسے دنیا بھی مل جاتی ہے۔ عام طور پر لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس بادشاہتیں بھی تھیں اور اِس کے معنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں بھی دُنیوی سامانوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے حالانکہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ بادشاہتیں ایسی نہیں تھیں کہ ان کی وجہ سے خداتعالیٰ مل گیا ہو بلکہ خداتعالیٰ کے مل جانے کی وجہ سے یہ بادشاہتیں ملی تھیں اور اب بھی ہم خداتعالیٰ کو پا کر بادشاہت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی چیز آسمانی جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ جو لوگ بھی خداتعالیٰ کے مأمور پر ایمان لانے والے ہوں گے۔ جو لوگ بھی اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے ساتھ وابستہ رکھیں گے اُنہیں دنیا ملے گی لیکن دنیا اُنہیں اسی صورت میں ملے گی کہ وہ دُنیوی ترقیات کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں، وہ اُنہیں دور پھینک دیں۔ وہ کہہ دیں کہ ہم اِنہیں نہیں جانتے۔ ہم صرف خداتعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔ جب وہ دنیا کی طرف سے منہ پھیر لیں گے اور ان کا مقصود اور مطلوب صرف خداتعالیٰ کی رضا ہوگی تب خداتعالیٰ دنیا کو خود اُٹھا کر اُن کے قدموں میں پھینک دے گا۔
سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ جو ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں وہ ہمیشہ عمدہ کھانا کھاتے تھے اور عمدہ لباس پہنتے تھے۔ کسی دنیا دار نے آپ پر اعتراض کیا کہ سیدعبدالقادر صاحب جیلانی ؒ اچھے کپڑے پہنتے ہیں، اچھے کھانے کھاتے ہیں یہ بزرگ نہیںہو سکتے۔ کسی نے یہ بات آپ کو بھی بتا دی کہ فلاں شخص نے آپ پر اعتراض کیا ہے کہ آپ اچھا کھاتے ہیں، اچھا پہنتے ہیں معلوم ہوتا ہے آپ بزرگ اور ولی اللہ نہیں، بھلا بزرگوں کو اِن چیزوں سے کیا تعلق۔ سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ نے فرمایا اُس شخص کو یہ معلوم نہیں کہ میں کیوں ایسا کرتا ہوں۔ آپ فرمانے لگے میں اُس وقت تک کوئی کھانا نہیں کھاتا جب تک خداتعالیٰ خود نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر جیلانی! تم یہ کھانا کھا لو۔ اور میں کوئی کپڑا نہیں پہنتا جب تک خداتعالیٰ خود مجھ سے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر جیلانی! تم یہ کپڑا پہن لو۔ غرض جو شخص خداتعالیٰ کا ہو جاتا ہے خداتعالیٰ دنیا خود اُس کے قدموں میں لا ڈالتا ہے تا کہ وہ ظاہر کرے کہ مؤمنوں کو یہ چیزیں دُنیوی ذرائع سے حاصل نہیں ہوتیں بلکہ جو میرا بن جاتا ہے میں خود اُسے یہ چیزیں دیتا ہوں۔ آپ دیکھیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی بادشاہت کو حاصل کرنے کے لئے ایک منٹ کے لئے بھی خواہش نہیں کی لیکن خداتعالیٰ نے وہ بادشاہت آپ کے قدموں پر بلکہ آپ کے خادموں کے قدموں پر لا کر ڈال دی۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ کے بعد حضرت ابوبکرؓ آپ کے خلیفہ مقرر ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ قریشی تو تھے مگر آپ قریش کے ان لوگوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے جو مکہ کے رئیس گنے جاتے تھے اور جن کی فرمانبرداری اور اطاعت کو عرب فخر محسوس کرتے تھے۔ آپ کے والد ابوقحافہ معمولی آدمی تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتداء میں ایمان نہیں لائے تھے۔ جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو مکہ میں یہ اطلاع پہنچی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں۔ یہ خبر سن کر لوگ گھبرا گئے کہ اب کیا ہوگا۔ اُنہوں نے پیغامبر سے پوچھا پھر کیا ہوا؟ اُس نے جواب دیا کہ ایک خلیفہ چن لیا گیا ہے۔ ان لوگوں میں حضرت ابوبکرؓ کے والد ابوقحافہ بھی تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کون خلیفہ چن لیا گیا ہے؟ اس نے کہا ابوبکرؓ۔ آپ کے والد نے پھر پوچھا کون ابوبکرؓ۔ آپ کے والد صاحب اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ خیال کرتے تھے کہ رؤساء کسی صورت میں بھی اُن کے بیٹے ابوبکرؓ کی بیعت نہیں کر سکتے۔ وہ مر جائیں گے لیکن ابوبکرؓ کی بیعت نہیں کریں گے اس لئے جب اُنہوں نے سنا کہ ابوبکرؓ خلیفہ چن لئے گئے ہیں تو کہنے لگے کون ابوبکرؓ؟ اس پیغامبر نے کہا ابوقحافہ کا بیٹا۔ انہیں پھر بھی یقین نہ آیا۔ انہوں نے پوچھا کون ابوقحافہ؟ اُس نے کہا تم اور کون؟ وہ کہنے لگے کیا میرا بیٹا ابوبکر چن لیا گیا ہے؟ کیا فلاں قبیلہ نے اُس کی بیعت کر لی ہے؟ پیغامبر نے کہا ہاں۔ پھر انہوں نے دریافت کیا کیا فلاں قبیلہ نے اُس کو خلیفہ مان لیا ہے؟ پیغامبر نے کہاہاں۔ یہ سن کر اُن پر یہ بات حل ہوگئی کہ اتنا بڑا تغیر صرف ایک نبی ہی پیدا کر سکتا ہے اور وہ بے اختیار ہو کر کہنے لگے۔ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلہٗ۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر بنو ہاشم کے خاندان اور قریش کے دوسرے خاندانوں نے میرے بیٹے کی بیعت کر لی ہے تو یقینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی تھے جنہوں نے ایسا عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا۔ تو دیکھو بادشاہت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموںپر ہی نہیں آپ کے خادموں کے قدموں پر بھی آ گری لیکن آپ نے نہ اُس وقت خواہش کی جب آپ کو ابھی بادشاہت نہیں ملی تھی اور نہ اُس وقت خواہش کی جب آپ کو بادشاہت مل گئی۔ نہ حضرت ابوبکرؓ نے بادشاہت کی خواہش کی، نہ حضرت عمرؓ نے بادشاہت کی خواہش کی، نہ حضرت عثمانؓ نے بادشاہت کی خواہش کی اور نہ حضرت علیؓ نے بادشاہت کی خواہش کی بلکہ ان میں بادشاہت کے آثار پائے ہی نہیں جاتے تھے حالانکہ وہ دنیا کے اتنے زبردست بادشاہ تھے جن کی تاریخ میں مثال ہی نہیں ملتی۔ ان کی طبائع اتنی سادہ تھیں، ان کی ملاقاتیں اِتنی سادہ تھیں، ان میں تواضع اِس قدر پایا جاتا تھا کہ ظاہری طور پر یہ بھی معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ بادشاہ ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میری حکومت ہے، میں بادشاہ ہوں۔ ان میں سے کوئی شخص بھی کبھی اِس بات پر آمادہ نہیں ہواکہ وہ اپنی بادشاہت کا اظہار کرے اور نہ ہی وہ اِس بات کی کبھی خواہش کرتے تھے۔ درحقیقت جو خداتعالیٰ کے ہو جاتے ہیں دنیا خود اُن کے قدموں پر آ گرتی ہے۔ لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہتوں سے اُنہیں مدد ملے گی لیکن جو خداتعالیٰ کے ہو جاتے ہیں بادشاہتیں سمجھتی ہیں کہ انہیں ان کی غلامی سے عزت ملی گی۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہر جماعت یا ہر فرد کی ترقی دو چیزوں کے ساتھ وابستہ ہے اوّل یہ کہ اُس کے پاس مادی سامانوں کی فراوانی ہو۔ دوم اُسے خداتعالیٰ مل جائے۔ جہاں تک مادی سامانوں کا تعلق ہے یہ صاف ظاہر ہے کہ مادیات کے ساتھ ترقی کرنا ہمارے دعویٰ کے خلاف ہے۔ خداتعالیٰ کے مأموروں کی جماعتیں مادیات کے ساتھ ترقی نہیں کیا کرتیں۔ اگر وہ مادیات کے ساتھ ترقی کرتیں تو مخالف یہ کہنے کا حق رکھتا کہ ان کا ترقی کرنا ان کی سچائی کی علامت نہیں مادی سامانوں کے ذریعہ تو ہر ایک ترقی کر سکتا ہے۔ پھر ان میں اور دوسری جماعتوں میں کیا فرق رہا۔ غرض اوّل تو ہمارے پاس مادی سامان ہیں ہی نہیں اور اگر مادی سامان میسر آ بھی جائیں تو پھر بھی یہ امید رکھنا کہ ہم ان کے ذریعہ ترقی کر جائیں گے غلطی ہے اِس صورت میں ہم اپنے جھوٹا ہونے کی دلیل دیں گے۔ کسی کے دعویٰ کے جھوٹا ہونے کی دلیل تو اُس کا مخالف دیتا ہے۔ وہ خود ایسا مواد فراہم نہیں کرتا جس سے وہ جھوٹا ثابت ہو۔ لیکن ہمارا یہ فعل یقینا اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا مخالف تو ہمیں جھوٹا کرنے کی کوشش میں ناکام رہا لیکن ہم نے اپنے جھوٹا ہونے کی خود اُسے دلیل مہیا کر دی۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر مأمورین کی جماعتیں مادیات کے ساتھ ترقی نہیں کیا کرتیں اور ہمارا یہ دعویٰ کہ ہم مادیات کے ساتھ ترقی کریں گے ہمارے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے تو پھر وہ کونسا ذریعہ ہے جس کو اختیار کر کے ہم ترقی کر سکتے ہیں جس کو اختیار کرنے کے بعد ہم بڑی سے بڑی قوموں کو بھی مغلوب کر سکتے ہیں؟ وہ ذریعہ خداتعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرنا ہے اگر ہم خداتعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر لیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مٹا نہیں سکتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض قومیں مٹ جاتی ہیں اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا خاتمہ ہو گیا لیکن وہ اپنے مٹ جانے کے بعد پھر ایسی ترقی کرتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ بظاہر مٹ چکی تھی لیکن اپنے مٹ جانے کے بعد اُس نے کتنی عظیم الشان ترقی کی۔ قریباً تین سَو سال کے لمبے عرصہ کے بعد انہیں حکومتیں ملیں۔ اب ۱۹۴۹ء ہے۔ گویا سترہ سَو سال اِن پر ترقی کے زمانہ کے گزر چکے ہیں۔ بعض صوفیاء نے اس بات پر بحث کی ہے کہ عیسائیوں کی ترقی کا زمانہ زیادہ لمبا کیوں ہو گیا ہے۔ ایک بزرگ نے ایک لطیفہ لکھا ہے اگرچہ وہ ذوقی ہے اُنہوں نے لکھا ہے کہ لفظ ضَآلِّیْنَ پر جو مد اور شد ڈالی گئی ہے اِس کا مطلب ہے کہ عیسائیوں کو لمبی ترقی حاصل ہوگی چونکہ عیسائیوں کے لئے لمبی ترقی مقدر تھی اس لئے قرآن کریم میں عیسائیوں کیلئے لفظ (یعنی ضَآلِّیْن) استعمال کیا گیا ہے یہ تو ایک ذوقی بات ہے لیکن صاف ظاہر ہے کہ عیسائیوں کو لمبی ترقی محض اِس لئے ملی کہ ان پر ایک لمبے عرصہ تک مظالم ہوئے۔ لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کا لمبا ہونا نہایت ہی خطرناک ہے اور وہ روحانیت کا فقدان ہے۔ روحانیت تو ایک دن میں آ جاتی ہے اس کے لئے زیادہ لمبا عرصہ درکار نہیں۔ عیسائیوں میں روحانیت ۲۷۰ سال کے بعد نہیں آئی تھی یہ چیز اِن میں ابتدائی زمانہ میں پیدا ہوگئی تھی۔ کسی مأمور کی جماعت میں ایمان اور روحانیت میں مضبوطی اُس کے قریب قریب کے عرصہ میں ہی پائی جاتی ہے اور جتنا لمبا عرصہ گزرتا جاتا ہے یہ چیزیں کمزور ہوتی جاتی ہیں۔ ہماری جماعت کی ترقی کا زمانہ بھی یہی ہے اِس لئے تم اللہ تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کی کوشش کرو۔ تم دو ہی چیزوں کے ساتھ کامیاب ہو سکتے ہو۔ اوّل محبت الٰہی کے ساتھ۔ محبت الٰہی کے لئے سامانوںکی ضرورت نہیں بلکہ ضروری ہے کہ تم اپنے اوپر دنیا وَمَافِیْھَا تاریک بنا اور اس سے جدا رہ کر اپنی زندگی بسر کرو۔ دوم وہ ذرائع ہیں جو قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں۔ مثلاً نمازیں ہیں، وظائف ہیں، ذکر الٰہی ہے، خداتعالیٰ سے دعائیں کرنا ہے، اُس کے حضور گریہ و زاری کرنا اور اُس کے حضور عرض کرنا کہ وہ ہمارے افکار اور اعمال اور ذہنوں کی اصلاح کرے۔ یہی وہ ذرائع ہیں جن کے ساتھ تم اللہ تعالیٰ کا قرب اور اُس کی محبت حاصل کر سکتے ہو۔ اس کے ساتھ ہی تم حتی المقدور قربانی میں ترقی کرنے کی کوشش کرو۔ تمہارا قدم ہر وقت آگے کی طرف پڑے پیچھے نہ ہٹے۔ جو شخص ایسا نہیں کرتا اُس کا قدم پیچھے کی طرف آتا ہے۔ یہ قانونِ قدرت ہے کہ اگر تمہارا قدم آگے کی طرف نہیں بڑھے گا تو وہ پیچھے ہٹے گا۔ تم ایک حالت پر کبھی قائم نہیں رہ سکتے۔ یہ دنیا متحرک ہے اِس لئے تم یا آگے بڑھو گے یا پیچھے ہٹو گے ایک جگہ پر کھڑے نہیں رہ سکتے۔
ایک دفعہ لندن کی نمائش میں مَیں گیا وہاں ایک چکر بنا ہوا تھا جو چلتا رہتا تھا۔ نمائش والوں نے اعلان کیا ہوا تھا کہ جو شخص اِس چکر کے سنٹر کو ہاتھ لگا دے اُسے انعام دیا جائے گا۔ یہ اُسی وقت ہو سکتا تھا جب انسان کچھ دیر ٹھہرے۔ میرے ایک ساتھی نے ایسا کرنے کی کوشش کی مگر جب بھی وہ ایسا کرنے کی کوشش کرتا چکر اُس کو دھکا دے کر پیچھے پھینک دیتا تھا۔ اِس دنیا کی مثال بھی اس چکر کی سی ہے۔ کوئی شخص ایک جگہ پر ٹک نہیں سکتا۔ ہم یا آگے بڑھیںگے یا پیچھے ہٹیں گے۔ یہ دنیا ایک مقام پر ٹھہرنے کا مقام نہیں۔ نہ تم دُنیوی لحاظ سے ایک جگہ پر ٹھہر سکتے ہو نہ روحانی لحاظ سے ایک جگہ پر ٹھہر سکتے ہو۔ دینی امور میں بھی اور مادی امور میں بھی یا تو تم ترقی کرو گے یا تم گرو گے۔ یہی وجہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کو قربِ الٰہی میں سب سے بڑا مقام حاصل تھا آپ کو خداتعالیٰ نے یہ کہا کہ ہمیشہ یہ دعا کرتے رہیں کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۵؎ اسی طرح آپ ہمیشہ ۶؎ کی بھی دعا کرتے رہے۔ گویا صرف ہم ہی نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خداتعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ! تو میرے علم کو زیادہ کر اور مجھے صراط مستقیم دکھا۔ ایک عام شخص تو کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ! تو مجھے صراط مستقیم دکھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو کوئی کمزوری نہیں پائی جاتی کہ آپ خداتعالیٰ سے دعا کرتے کہ اے خدا تو مجھے سیدھا رستہ دکھا۔ اِس کے یہی معنی تھے کہ سیدھے رستے غیر محدود ہیں۔ جس مقامِ عظیم پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فائز تھے اُس کے علاوہ اَور رستے بھی تھے۔ اِس لئے آپ کہتے تھے رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی ہستی اتنی عظیم الشان ہے کہ گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تیرہ سَو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن آپ اب بھی کی دعا مانگ رہے ہونگے۔ اور آپ کے مدارج اب بھی بڑھ رہے ہونگے کیونکہ خداتعالیٰ کی حد بندی نہیں ہو سکتی۔ انسان کتنا بھی بڑا ہو وہ بہرحال محدود ہے۔ وہ باوجود بلند مدارج حاصل کرنے کے دعا مانگتا چلا جاتا ہے تا حرکت کا سلسلہ بند نہ ہو بلکہ جاری رہے۔ اگر روحانی ترقی کے رستے محدود ہوتے تو اس کے یہ معنی ہوتے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب روحانی ترقی بند ہو جائے گی اور ایک مقام ایسا آئے گا جہاں پہنچ کر ترقی کے رستے مسدود ہو جائیں گے حالانہ یہ غلط ہے۔
پس یہ قانونِ قدرت ہے کہ اگر کسی وقت ترقی نہ ہو تو تنزل شروع ہو جاتا ہے۔ پس ہمیں ہمیشہ اپنے اعمال پر غور کرتے رہنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارا ہر دن پہلے دن کی نسبت زیادہ ترقی والا ہو۔ ہمارا قدم پہلے کی نسبت آگے ہونا چاہئے۔ ہماری عبادت اور ذکرِ الٰہی میں کوئی نہ کوئی ترقی ہونی چاہئے۔ خداتعالیٰ سے ہمارا تعلق پہلے کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے۔ اگر کوئی انسان اس رنگ میں رنگین ہو جائے تو وہ ایسا برکت والا ہو جاتا ہے کہ خداتعالیٰ کے فضلوں کاو ارث ہو جاتا ہے۔ اور جو شخص خداتعالیٰ کے فضلوں کا وارث بن جاتا ہے اُسے کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ لیکن ضروری ہے کہ عبادتوں اور ذکرِ الٰہی کے علاوہ انسان ظاہری طور پر بھی محنت کرے تا وہ خداتعالیٰ کے فضلوں کا جاذب بن سکے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعاؤں کے ساتھ ظاہری تدابیر بھی اختیار کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صحابہؓ سے مصنوعی جنگیں کرواتے تھے، کشتیاں لڑواتے تھے، گتکے کی مشق کروایا کرتے تھے۔ بخاری میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند حبشیوں کو جو مسلمان ہو گئے تھے بُلایا اور حضرت عائشہؓ سے فرمایا کیا تم تماشہ دیکھنا چاہتی ہو؟ بعض لوگ اِس حدیث کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ مسجدوں میں تماشہ کروانا جائز ہے۔ محدثین نے اِس حدیث کا ہیڈنگ ہی اِس طرز کا باندھا ہے کہ اِس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ آیا مسجد میں تماشہ کروانا جائز ہے یا نہیں؟ لیکن اس تماشا سے مراد مداری یا بندر وغیرہ کا تماشا نہیں بلکہ فوجی کرتب ہیں، لڑائی کے ہنر ہیں اور ان کاموں کی مسجد میں مشق کروانا جائز ہے۔ بلکہ مسجدیں تو ان کاموں کے لئے نہایت عمدہ مقام ہیں لوگ وہاں نماز کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اور وہ سب ان مشقوں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ عام تماشا سے مراد وہ نظارہ ہوتا ہے جو دلچسپی کا موجب ہو لیکن اُس میں فائدہ کچھ نہ ہو مگر یہ کرتب دلچسپی کا موجب بھی ہیں اور مفید بھی ہیں۔ بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کیا تم تماشا دیکھنا چاہتی ہو؟ آپ نے فرمایا ہاں میں تماشا دیکھنا چاہتی ہوں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کندھا نیچا کر لیا اور میں ایڑیوں کے بَل کھڑی ہوگئی اور آپ کے کندھوں کے اوپر سے جھانکتی رہی۔ اُس وقت مسجد میں چند حبشی اپنے فوجی ہنر دکھا رہے تھے۔ ۷؎ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کی مشق کروایا کرتے تھے۔
جنگ بدر کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو مورچوں پر کھڑا کر دیا تو آپ نے ایک طرف بیٹھ کر دعائیں کرنی شروع کیں کہ اے خدا! آج مسلمانوں کو فتح دے۔ آپ نے اِس موقع پر اتنی دعائیں کیں کہ آپ کی سجدہ گاہ آنسوؤں سے تَر ہوگئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ کو یقین نہیں کہ دشمن کے مقابلہ میں خداتعالیٰ مسلمانوں کو فتح عطا کرے گا؟آپ نے فرمایا ابوبکر!خداتعالیٰ کے ہم سے وعدے تو ہیں لیکن خداتعالیٰ غنی بھی ہے۸؎ ہمارا کام ہے کہ ہم دُنیوی سامان بھی جمع کریں اور اپنی کوتاہی کا بھی اقرار کریں تا وہ یہ بھی نہ کہے کہ ہم نے اُس کے پیدا کردہ سامانوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور یہ بھی نہ کہے کہ ہم نے اپنے سامانوں پر بھروسہ کر لیا ہے۔
غرض ظاہری سامانوں سے فائدہ اُٹھانا دین کے خلاف نہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ ظاہری سامانوں اور تدابیر کو دین کے تابع رکھا جائے۔ خداتعالیٰ کی محبت کو اتنا بڑھایا جائے کہ اسے ہمارے متعلق غیرت پیدا ہو جائے اور ساتھ ہی دنیاوی سامانوں کو بھی جمع کیا جائے تا یہ نہ سمجھا جائے کہ تم خداتعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو۔
جب شام میں جنگ ہوئی اور وہاں طاعون پڑی حضرت عمرؓ وہاں خود تشریف لے گئے تا کہ لوگوں کے مشورہ سے فوج کی حفاظت کا کوئی معقول انتظام کیا جا سکے۔ مگر جب بیماری کا حملہ تیز ہو گیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں آپ واپس مدینہ تشریف لے جائیں۔ جب آپ نے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا أَفِرَارًا مِنْ قَدْرِ اللّٰہِ؟ کیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے آپ بھاگتے ہیں؟ حضرت عمر نے فوراً جواب دیا۔ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اللّٰہِ اِلٰی قَدْرِ اللّٰہ ہاں ہم خداتعالیٰ کی ایک تقدیر سے اُس کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔۹؎ غرض دنیاوی سامانوں کو ترک کرنا جائز نہیں۔ ہاں دنیاوی سامانوں کو دین کے تابع رکھنا چاہئے۔
صحابہؓ کے متعلق آتا ہے کہ جن صحابہؓ کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا وہ سارا دن محنت کرتے تھے اور شام کو مٹھی بھر جَو جو وہ حاصل کرتے تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بطور چندہ پیش کر دیتے تھے۔ مشرکین مکہ اور منافق لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ یعنی مسلمان ملک کو فتح کرنے کے لئے جا رہے ہیں لیکن کیا یہ لوگ مٹھی بھر جَو کے ساتھ ملک کو فتح کریں گے؟۱۰؎ وہ مشرک اور منافق یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ مٹھی بھر جَو بڑی قیمتی چیز ہے۔ اُن مٹھی بھر جَو دینے والوں کا بھی جنگ لڑنے میں وہی حصہ تھا جو مالداروں کا تھا۔ مثلاً حضرت عثمانؓ نے بارہ ہزار چندہ دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی ساری جائیداد خداتعالیٰ کی راہ میں دے دی۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت ابوبکرؓ کا چندہ بے شک زیادہ تھا مگر وہ غریب آدمی بھی قربانی میں ان لوگوں سے کسی طرح کم نہ تھا جس نے سارا دن محنت کر کے مٹھی بھر جَو کمائے اور پھر اُن کی روٹی پکا کر اپنے بچے کے منہ میں نہیں دی، اس مٹھی بھر جَو کی روٹی پکا کر اس نے اپنی بیوی کہ منہ میں نہیں دی بلکہ اس نے وہ سارے دن کی کمائی مٹھی بھر جَو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دی۔ وہ مٹھی بھر جَو مالداروں کے چندوں سے کسی صورت میں بھی کم نہیں تھے کیونکہ خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کی بنیاد مادیات پر نہیں ہوتی۔
پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کروں گا کہ وہ اپنے اندر محبت الٰہی پیدا کریں۔ اس طرح کہ خداتعالیٰ کو ان کے متعلق غیرت پیدا ہو جائے۔ وہ خداتعالیٰ کی عبادت میں ترقی کریں۔ خشیت الٰہی میں ترقی کریں، تہجد پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اس بارہ میں ایک دوسرے کی نگرانی کریں، نمازوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی عادت ڈالیں اور ان کا خداتعالیٰ کے ساتھ جو تعلق ہے اُسے مضبوط بنائیں۔ یہ خیال کر لینا کہ وہ ان چیزوں کے بغیر ہی جیت جائیں گے غلط ہے۔ جیتنا تو خداتعالیٰ نے ہے اور جب تک خدا تمہارے اندر نہیں آ جاتا تم غالب نہیں آسکتے اور اگر خداتمہارے اندر آ جاتا ہے تو یقینا تم غالب آ جاؤ گے اور اگر وہ تمہارے اندر نہیں آتا تو تم غالب نہیں آ سکتے کیونکہ غلبہ خداتعالیٰ کے لئے مقدر ہے۔
دوسری بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب میں پچھلی دفعہ راولپنڈی آیا تو یہاں لجنہ اماء اللہ قائم نہیں تھی اور اگر قائم تھی تو وہ مردہ حالت میں تھی۔ اب مجھے بتایا گیا ہے کہ عورتوں میں بیداری پائی جاتی ہے۔ یہ بھی مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کو لجنہ اماء اللہ میں شامل کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ گھر کی ذمہ داری مردوں پر ہے اگر مرد اِس ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے تو قیامت کے دن اِس کے متعلق ان سے سوال کیا جائے گا۔ آپ فرماتے ہیں۔ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ۱۱؎ تم میںسے ہر ایک اپنے گھر کا نگران ہے اور اُس کے گھر میں جو افراد رہتے ہیں اُن کے متعلق اُس سے قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک عورت سے بھی یہ سوال کیا جائے گا کہ اُس نے دین کی خاطر کیا کیا قربانیاں کیں۔ اور مرد سے بھی یہ سوال کیا جائے گا کہ اُس نے اس سے کیا کیا قربانیاں کروائیں۔ ایک بیٹے کے متعلق ماں سے بھی سوال کیا جائے گا کہ اس نے اپنے بیٹے سے کیا کیا قربانیاں کروائیں مگر ساتھ ہی باپ سے بھی یہ سوال کیا جائے گا کہ اس نے اس بارہ میں کیا کچھ کیا کیونکہ بچوں کی دمہ داری جیسے عورتوں پر ہے ویسے ہی ان کی ذمہ داری باپوں پر ہے۔ پس میں جماعت کے مردوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی عورتوں کو لجنہ اماء اللہ میں شامل کریں اور ان کی اور اپنے بچوں کی اچھی طرح نگرانی کریں اور اس میں کسی قسم کی غفلت نہ کریں۔ قومی زندگی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔
اسلام ایک قومی مذہب ہے باقی مذاہب میں سے کوئی مذہب قومی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہمارے تمام کاموں میں جتھہ بندی اور جمعیت پائی جاتی ہے۔ مثلاً نماز ہے۔ باقی کسی مذہب میں ایسی نماز نہیں پائی جاتی۔ یہ نماز صرف اسلام میں ہی پائی جاتی ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ گرجاؤں میں بھی لوگ جمع ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر دعا کرتے ہیں مگر وہ نماز بھی اسلامی نمازوں کی طرح نہیں۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ گرجاؤں میں جب پادری وعظ کر رہا ہوتا ہے تو لوگوں میں سے بعض اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی کا منہ کسی طرف ہوتا ہے اور کسی کا منہ کسی طرف۔ کوئی کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے تو کوئی بنچ پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔ اس نماز کا اسلامی نماز کے ساتھ کوئی جوڑ ہی نہیں۔ جماعت کے تو یہ معنی ہوتے ہیں کہ سب مل کر ایک کام کریں اور ایک ہی جگہ کام کریں اور یہ بات عیسائیوں کی نماز میں نہیں پائی جاتی۔ مثلاً ایک پادری اگر تقریر کر رہا ہوتا ہے تو اُس کا ایک نائب ہاتھ میں شمع لئے کھڑا ہوتا ہے۔ کسی کے ہاتھ میں پانی ہوتا ہے۔ کوئی خوشبو لئے کھڑا ہوتا ہے۔ کیا ہماری نماز میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ ہماری نماز میں تو سارے کے سارے ایک ہی کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح چندے ہیں، زکوٰۃ ہے اس میں بھی کوئی دوسری قوم اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہودیوں میں یہ بات پائی جاتی ہے مگر وہ بھی اِس رنگ میں نہیں جس رنگ میں اسلام نے اِسے پیش کیا ہے۔ اسلام نے اِن چیزوں کو ایسی شرائط کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے کہ اِن کی مثال دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتی۔ پھر حج ہے۔ سال میں ایک دن حج ہوتا ہے۔ سب ممالک سے لوگ آ کر جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہی دن خانہ کعبہ کا طواف کرنا ہوتا ہے۔ ایک ہی دن عرفات جانا ہوتا ہے۔ منٰی جانا ہوتا ہے اور پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں فلاں دن قربانی کی جائے۔ یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتیں۔ غرض اسلام ایک جماعتی مذہب ہے اور مسلمانوں کے لئے ترقی کرنا ناممکن ہے جب تک وہ جماعتی طور پر اس کے لئے کوشش نہ کریں اور جب تک وہ متحدہ طور پر اِس کام کو نہیں کرتے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پس میں جماعت کے مردوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو عورتیں لجنہ اماء اللہ میں شامل نہیں ہیں وہ انہیں لجنہ اماء اللہ میں شامل کرائیں اور اُنہیں اجلاسوں میں بھیجا کریں۔ وہ یاد رکھیں کہ قیامت کے دن کوئی شخص یہ کہہ کر بریت حاصل نہیں کر سکتا کہ وہ خود نمازیں پڑھتا تھا، وہ خود چندہ دیتا تھا، وہ خود جماعتی کاموں میں حصہ لیتا تھا بلکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اُس سے اُس کی بیوی کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔ اگر اُس کی بیوی جماعتی کاموں میں حصہ نہیں لیتی تو یہ بات اُسے مجرم بنانے کے لئے کافی ہے۔
پھر اپنے بچوں کو خدام الاحمدیہ میں داخل کرو، ان کی تربیت کرو۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ بچوں کی تربیت کے ذمہ وار باپ ہیں اور اِس میں اُس نے عورتوں کو بھی شامل کیا ہے۔ ایک عورت یہ کہہ کر اپنی بریت نہیں کر سکتی کہ وہ لجنہ اماء اللہ کی ممبر ہے۔ مشترکہ کاموں میں حصہ لیتی ہے، چندے دیتی ہے، تبلیغ کرتی ہے، نمازیں پڑھتی ہے، زکوٰۃ دیتی ہے۔ بے شک یہ سب کچھ وہ کرتی ہے لیکن قیامت کے دن اس سے یہ بھی سوال کیا جائے گا کہ کیا اس نے اپنی اولاد کو بھی دیندار بنایا ہے؟ کیا انہیں سلسلہ کے کاموں میں حصہ لینے کی عادت ڈالی ہے؟ اگر نہیں تو خداتعالیٰ اُس سے کہے گا کہ تم مجرم ہو۔ میں نے تمہیں صرف یہ نہیں کہا تھا کہ تم یہ کام کرو بلکہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ تم یہ کام اپنی اولاد سے بھی کراؤ۔ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم سچ بولو بلکہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ تم اپنی اولاد کو بھی سچ بولنے کی عادت ڈالو۔ میں نے صرف یہ نہیں کہا تھا کہ تم خود نمازیں پڑھو اور روزے رکھو بلکہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تمہارا کوئی بیٹا ہے یا بیٹی ہے تو اُسے بھی اِن کاموں کی عادت ڈالو۔ میں نے تمہیں یہ نہیں کہا تھا کہ تم خود جماعتی کاموں میں حصہ لو بلکہ میں نے تم سے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ اپنی اولاد کو بھی جماعتی کاموں میں حصہ لینے کی عادت ڈالو۔ اِسی طرح مرد سے بھی یہ سوال کیا جائے گا۔ غرض یہ چیز کافی نہیں کہ تم خود اِخلاص دکھاؤ بلکہ ضروری ہے کہ تم اپنی اولاد میں بھی اخلاص کا مادہ پیدا کرو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تمہاری اپنی قربانی کافی نہیں ہو سکتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا نہ کرنے سے تم جہنمی بن جاؤ گے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ ایسا نہ کرنے سے تمہارے ثواب کا ایک حصہ ضرور کٹ جائے گا۔ جماعت کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ وہ سلسلہ قیامت تک چلا جائے گا۔ فرد مرتا ہے لیکن جماعتیں نہیں مرتیں۔ چنانچہ ہارون الرشید کے زمانہ میں ابن جنی کے ایک شاگرد ہوا کرتے تھے۔ ہارون الرشید نے اُس سے کہا۔ مَا مَاتَ مَنْ خَلَفَ مِثْلَکَ جس نے تیرے جیسا شاگرد اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گا۔
غرض جماعت کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ دائمی زندگی اختیار کرے۔ اگر اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ ہوتا تو آپ کی وفات کے ساتھ یہ بھی ختم ہو جاتا لیکن اسلام کے متعلق خداتعالیٰ نے کہا ہے کہ وہ قیامت تک چلا جائے گا۔ تو ضروری ہے کہ ہر مسلمان اپنے بیٹے کو مسلمان بنا کر جائے۔ اگر ہر مسلمان اپنے بیٹے کو مسلمان بنا کر نہیں جاتا تو اسلام قیامت تک چلے گا کس طرح ؟ ہم کہتے ہیں کہ احمدیت اسلام ہی کا نام ہے۔ اگر احمدیت اسلام ہی کا نام ہے اور اسلام نے قیامت تک جانا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اپنی اولاد کو مخلص احمدی بنا کر جائیں۔ اگر ہم اپنی اولاد کو مخلص احمدی بنا کر نہیں جاتے تو احمدیت ختم ہو جائے گی۔ پس یہ کافی نہیں کہ تم صرف اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرو بلکہ ضروری ہے کہ جہاں تم خود اعمالِ دینیہ کی طرف توجہ کرتے ہو، نمازیں پڑھتے ہو، چندے دیتے ہو، زکوٰۃ دیتے ہو، روزے رکھتے ہو، غرباء کی مدد کرتے ہو وہاں تم اپنی اولادوں کی بھی اصلاح کرو۔ اگر تم اپنی اولاد کے اندر دینی جذبہ پیدا نہیں کرتے اور مخلص احمدی بنا کر نہیں جاتے تو تمہاری زندگی یقینا فردی زندگی ہے تمہاری زندگی جماعتی زندگی نہیں۔ اور اگر کسی اور کی نسل کے ذریعہ اسلام کا کام چلتا رہا تو اسلام کی زندگی میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اسلام اگر دائمی طور پر زندہ رہے گا تو اِسی طرح کہ تم اپنی اولادوں کو دیندار بناؤ۔ مثلاً اگر ا ب ج پکا مسلمان ہے تو جب تک وہ خود مسلمان ہیں اِن کے ذریعہ بیشک اسلام زندہ رہے گا لیکن دائمی زندگی کے لئے اِن کی اولادوں کا پکا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ اگر الف کی اولاد پکی مسلمان نہیں ہے۔ ب کی اولاد مسلمان ہے۔ ج کی اولاد مسلمان ہے تو اگر اسلام زندہ ہے تو ب اور ج کی اولاد سے الف کی اولاد کی وجہ سے نہیں۔ اگر ب کی اولاد پکی مسلمان نہیں ج کی اولاد مسلمان ہے تو پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الف نے زندہ نہیں رکھا۔ ب کی اولاد نے زندہ نہیں رکھا بلکہ آپ کو زندہ رکھا تو ج کی اولاد نے رکھا ہے۔ پس یہ کتنی عظیم الشان نعمت ہے جسے ہم حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے بیٹے کو مسلمان بنا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ۳۰ یا ۴۰ سال کی اَور زندگی دے دیتے ہیں۔ اِس سے زیادہ اور کیا رُتبہ ہوگا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ۳۰ یا ۴۰ سال کا اضافہ کر دے۔ لیکن جو شخص اپنی اولاد کی اصلاح نہیں کرتا، اُسے پکا مسلمان نہیں بناتا، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو کم کر دیتا ہے اور یہ کتنی بڑی بدبختی ہے۔پس تم نہ صرف اپنے اندر ایک نیک تغیر پیدا کرو بلکہ اپنی اولاد کے اندر بھی دینی جذبہ پیدا کرو۔ جب نماز کے لئے جاؤ تو بچوں کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ اگر وہ چھوٹے ہیں تو کم از کم تمہارے ساتھ نماز پڑھتے وقت خاموش تو رہیں تمہاری نماز کو خراب تو نہ کریں۔ جیسے کل بچوں نے شور مچا کر نماز کو خراب کر دیا تھا۔
بچوں کی تربیت ہونی چاہئے۔ اگر بچہ چار پانچ سال کا ہے تو اس کے اندر دینی کاموں میں حصہ لینے کی عادت پیدا کرو اور سات سال کے بچے کو تو باقاعدہ نماز پڑھانی چاہئے اور دس سال کی عمر میں اسے نماز میں ایسا باقاعدہ ہونا چاہئے کہ اگر وہ نماز نہ پڑھے تو ایک حد تک اُسے مار پیٹ بھی جائز ہے۔ بہرحال جب بچہ چھ سات سال کا ہو جائے اُسے نماز پڑھانی چاہئے اور دینی کاموں میں حصہ لینے کی عادت ڈالنی چاہئے اگر اُسے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو نہ آئے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کے دائیں کان میں اذان دو اور اس کے بائیں کان میں تکبیر کہو۔۱۲؎ تو کیا وہ تمہاری اذان اور تکبیر کو سمجھتا ہے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے یہی سبق دیا ہے کہ تم بچے کی تربیت اُس کے پیدائش کے وقت سے ہی شروع کر دو۔ جب آپ بچے کی پیدائش کے وقت سے اُس کی تربیت کا حکم صادر فرماتے ہیں تو چھ سات سال کی عمر والا کچھ کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ جب بچہ چھ سات سال کا ہو جائے تو اُسے نمازوں میں ساتھ لاؤ۔ اُسے آیاتِ قرآنیہ یاد کراؤ۔ اچھی اچھی نظمیں یاد کراؤ۔ جب آٹھ سال کا ہو جائے تو اُس کی اِس طرح تربیت کرو کہ وہ دینی کاموں پر آمادہ ہو جائے۔ اِسی طرح ماؤں کا بھی فرض ہے کہ اگر باپ سارا دن دفتر میں رہتا ہے یا کہیں باہر گیا ہوا ہے تو اُس کی غیر حاضری میں عورت کا فرض ہے کہ وہ بچے کو نمازیں پڑھائے۔ جب وہ نماز پڑھنے لگے تو بچے کو بھی ساتھ کھڑا کرے یا اُسے اپنی نگرانی میں نمازیں پڑھوائے۔ کیونکہ بعض اوقات شرعی طور پر اسے نماز پڑھنا جائز نہیں ہوتا۔ لیکن اگر وہ خود نماز نہیں پڑھتی تو بچے کو تو اپنی نگرانی میں نماز پڑھوا سکتی ہے۔ نماز کا جب وقت آئے اُسے چاہئے کہ بچے کو کھڑا کر کے نماز پڑھوائے اور پھر جب مرد گھر آ جائے تو وہ یہ کام کرے۔ گویا جب مرد گھر پر ہو تو یہ مرد کی دمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو دینی کاموں کی عادت ڈالے اور اگر مرد گھر نہیں ہے تو عورت اپنے بچوں سے دینی کام کروائے۔
غرض آپ لوگ اپنی اولاد کی اِس رنگ میں تربیت کریں اور اپنے اندر ایسا تغیر پیدا کریں کہ تمہاری شکلوں کو دیکھ کر ہر شخص یہ سمجھ سکے کہ اِس زمانہ میں خداتعالیٰ نے احیاء دین کا ذریعہ جماعت احمدیہ کو بنایا ہے اور خداتعالیٰ سے ایسی محبت پیدا کرو کہ اسے تمہارے متعلق غیرت ہو اور وہ محسوس کرے کہ اگر یہ لوگ مَر گئے تو میں مَرا۔ خداتعالیٰ حی و قیوم ہے اُس پر موت وارد نہیں ہوتی لیکن اِس دنیا میں اگر اُس کا ذکر مٹ جائے تو گویا وہ اِس دنیا کے لئے مَر گیا۔ ایک بزرگ جو سید احمد صاحب بریلوی کے شاگردوں میں سے تھے اور بھوپال میں رہتے تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے استاد تھے اُنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو اپنی ایک خواب سنائی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں بھوپال سے باہر گیا ہوا ہوں۔ شہر کے باہر پُل پر میں نے ایک آدمی دیکھا جو کوڑھی تھا اور اندھا تھا۔ اُس کے زخموں سے بدبو آتی تھی اور اُن پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ اُس کے ہونٹ، ناک اور کان کٹے ہوئے تھے۔ غرض اُس کے جسم کا ہر ذرّہ بھیانک تھا۔ میں نے اُس شخص سے پوچھا تم کون ہو؟ یا اُس نے کہامیں خداتعالیٰ ہوں۔ میری حالت متغیر ہوگئی اور میں یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ شخص خداتعالیٰ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے اُس شخص سے کہا کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ خداتعالیٰ سے زیادہ خوبصورت اور کوئی چیز نہیں۔ اس پر اُس نے کہا میں بھوپال کے رہنے والوں کا خدا ہوں یعنی بھوپال والوں نے میری یہ شکل بنا رکھی ہے۔ پس گو موت ایسی چیز ہے جو خداتعالیٰ کی ذات میں نہیں پائی جاتی مگر بعض بندوں کے ذریعہ خداتعالیٰ اِس دنیا میں زندہ ہے اور بعض بندوں کے ذریعہ وہ اِس دنیا میں مُردہ ہے۔ اگر اُس کا ذکر اس دنیا سے مٹ جائے تو وہ اِس دنیا کے لئے گویا مَر گیا اور اگر اُس کا ذکر اِس دنیا میں نہ مٹے تو وہ گویا اِس دنیا کے لئے زندہ ہو گیا۔ اِسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ ظاہری طور پر وفات پا گئے ہیں لیکن آپ ایمان لانے والوں کے ذریعہ اِس دنیا میں زندہ ہو سکتے ہیں۔ اگرمسلمانوں کے دلوں میں ایمان ہے تو وہ زندہ ہیں اور اگر ایمان مٹ چکا ہے تو آپ زندہ نہیں۔ غرض خداتعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور موت تمہارے ہاتھوں میں ہے اگر تم چاہو تو خداتعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِس دنیا میں زندہ رہ سکتے ہیں اور اگر تم غفلت اور سستی سے کام لو گے تو خداتعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا کے لئے مَر جائیں گے۔ خداتعالیٰ ظاہری طورپر کبھی مَر نہیں سکتا مگر روحانی طور پر تم اُسے زندہ بھی رکھ سکتے ہو اور مار بھی سکتے ہو۔
جنگ بدر میں جب لڑائی خطرناک صورت اختیار کر گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی گھبراہٹ سے دعائیں کرتے تھے کہ اے خدا! اگر یہ جماعت جو چھوٹی سی ہے ہلاک ہو گئی تو لَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَدًا! تیری عبادت کرنے والا کوئی شخص دنیا میں نہیں رہے گا۔ اِس دعا کی برکت سے خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو محفوظ رکھا کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ وہ جماعت جو خد اتعالیٰ کو اِس دنیا میں زندہ رکھنے والی ہو اُس کو خداتعالیٰ کبھی مرنے نہیں دیتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی مطلب تھا کہ اے خدا! تیری زندگی اِس چھوٹی سی جماعت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر یہ جماعت مٹ گئی تو تیرا ذکر بھی اس دنیا سے مٹ جائے گا۔ اے خدا! تو اس جماعت کو مرنے نہ دے اور اِسے ہلاکت سے بچا لے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ خداتعالیٰ حی و قیوم ہے۔ ظاہری طور پر اُس پر موت وارد نہیں ہوتی لیکن روحانی طور پر وہ اِس دنیا میں جس شخص کے ذریعہ زندہ ہو اُس کو بھی وہ زندہ رکھتا ہے۔ اِسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ شعر کہا ہے کہ
سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے میرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار
یعنی اے میرے دشمن! ذرا ہوش کر کے مجھ پر وار کیجئیو کیونکہ مجھ میں خداتعالیٰ بیٹھا ہوا ہے۔ اور جس شخص کے اندر خداتعالیٰ بیٹھا ہو اُس پر کوئی شخص حملہ کر کے محفوظ نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ دراصل خداتعالیٰ پر حملہ کرتا ہے اور اُس کی ضرب خداتعالیٰ پر پڑتی ہے۔ پس جب کوئی شخص خداتعالیٰ کو اپنے اندر بٹھا لیتا ہے تو خداتعالیٰ اُسے بھی تباہ نہیں ہونے دیتا کیونکہ اُس کی موت سے خداتعالیٰ کی موت وابستہ ہوتی ہے۔
میرے گلے میں درد ہو رہا ہے جس کی وجہ سے میں زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا امید ہے کہ جماعت احمدیہ راولپنڈی اِن باتوں کو جو میںنے کہی ہیں کافی سمجھے گی اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے گی۔ اب یہ جماعت اہم جماعتوں میں سے ہے اور اِس پر پہلے سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی تعداد بڑھائیں اور اچھا نمونہ دکھائیں۔ احمدیت کی تقویت اور اِس کی زیادتی کے لئے کوشش کریں۔ مستورات بھی اور مرد بھی اِس طرف توجہ کریں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ آپ لوگوں کو اِس بات کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں میں حصہ لینے کی توفیق بخشے تا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ لوگوں کے ذریعہ ایک لمبے عرصہ تک اِس دنیا میں زندہ رہیں۔
(الفضل ۱۳،۱۹؍ ستمبر ۱۹۶۲ء)
۱؎ البقرۃ: ۲۵۰
۲؎ تاریخ کامل ابن اثیر جلد۲ صفحہ۲۵۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۸۔ مطبوعہ بیروت ۱۳۲۰ھ (مفہوماً)
۴؎ التوبۃ: ۴۰ ۵؎ طٰہٰ: ۱۱۵ ۶؎ الفاتحہ: ۶
۷؎ بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق یوم العید
۸؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۷۹۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۹؎ مسلم کتاب السلام باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ و نحوھا
۱۰؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ (الخ)
۱۱؎ بخاری کتاب النکاح باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا
۱۲؎ کنزالعمال جلد۱۶ صفحہ۵۹۹ مطبوعہ حلب ۱۹۷۷ء (مفہوماً)
ربوہ میں پہلے جلسہ سالانہ کے موقع پر افتتاحی تقریر
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ربوہ میں پہلے جلسہ سالانہ کے موقع پر افتتاحی تقریر
(فرمودہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۴۹ء)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت (جس میں کا خصوصیت کے ساتھ تین بار تکرار فرمایا۔ اس کے) بعد فرمایا:۔
’’یہ جلسہ تقریروں کا جلسہ نہیں یہ جلسہ اپنے اندر ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے ایسی تاریخی حیثیت جو مہینوں یا سالوں یا صدیوں تک نہیں جائے گی بلکہ بنی نوع انسان کی اِس دنیا پر جو زندگی ہے اِس کے خاتمہ تک جائے گی۔ اِس میں شامل ہونے والے لوگ ایک جلسہ میں شامل نہیں ہو رہے بلکہ روحانی لحاظ سے وہ ایک نئی دنیا، ایک نئی زمین اور ایک نئے آسمان کے بنانے میں شامل ہو رہے ہیں۔ پس اِس جلسہ کو تقریروں کا جلسہ مت سمجھو۔ تقریریں ہوں یا نہ ہوں، مختلف مضامین پر لیکچر سننے کا موقع ملے یا نہ ملے اِس کا کوئی سوال نہیں جو اصل مقصد ہے وہ ہمارے سامنے رہنا چاہیے اور جو اصل مقصد ہے اُس کو ہمیں ہرچیز پر اہمیت دینی چاہیے۔
میں اب قرآن کریم کی کچھ آیتیں پڑھوں گا اور آہستہ آہستہ کئی دفعہ دُہراؤں گا۔ پڑھے ہوئے اور اَن پڑھ جس قدر دوست یہاں موجود ہیں وہ بھی میرا ساتھ دے سکتے ہیں اور انہیں ساتھ دینا چاہیے۔ یعنی جب میں وہ آیتیں پڑھوں تو جماعت کے دوست کیا مرد اور کیا عورتیں ساتھ ساتھ اِن آیتوں کو دُہراتے چلے جائیں۔
(اِس موقع پر حضور نے ہدایت فرمائی کہ کوئی کارکن جا کر عورتوں کی جلسہ گاہ سے پوچھ لے کہ اُن کو آواز آ رہی ہے یا نہیں تا کہ وہ محروم نہ رہ جائیں۔ پھر فرمایا)
عورتوں میں سے جو عورتیں ایسی ہیں کہ اُن پر اِن ایام میں ایسی حالت ہے کہ وہ بلند آواز سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں اُن کو چاہیے کہ وہ دل میں اِن آیتوں کو دُہراتی چلی جائیں اور جن عورتوں کے لئے اِن ایام میں قرآن کریم پڑھنا جائز ہے وہ زبان سے بھی اِن آیتوں کو دُہرائیں۔ بہرحال جن عورتوں کے لئے ان ایام میں زبان سے پڑھنا جائز نہیں وہ زبان سے پڑھنے کی بجائے صرف دل میں اِن آیتوں کو دُہراتی رہیں کیونکہ شریعت نے اپنے حکم کے مطابق جہاں مخصوص ایام میں تلاوتِ قرآن کریم سے عورتوں کو روکا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ وہ دل میں بھی ایسے خیالات نہ لائیں یا دل میں بھی نہ دُہرائیں بلکہ صرف اتنا حکم ہے کہ زبان سے نہ دُہرائیں بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک صرف قرآن کریم کو ہاتھ لگانا منع ہے مگر احتیاط یہی ہے کہ کثرت سے جس بات پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے اُسی پر عمل کیا جائے۔ پس بجائے زبان سے دُہرانے کے وہ دل میں ان آیتوں کو دُہراتی چلی جائیں۔
میں نے بتایا ہے کہ میں کئی دفعہ آیات کو پڑھوں گا ممکن ہے میں پہلی دفعہ جلدی پڑھوں تاکہ ان کا مفہوم آسانی سے سمجھ میں آ سکے۔ اگر لفظوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہو اور انسان مضمون سے پہلے واقف نہ ہو تو آہستگی سے پڑھنے کے نتیجہ میں مضمون بجائے اچھا سمجھ آنے کے کم سمجھ آتا ہے مگر جو شخص اس کے ترجمہ سے واقف ہوتا اور مضمون سے آگاہ ہوتا ہے اُس کا دلی جوش اور جذبہ بعض دفعہ اُسے جلدی پڑھنے پر مجبور کرتا ہے اِس لئے پہلی دفعہ کی تلاوت میں اپنے لئے مخصوص کروں گا۔ یعنی میں اِس طرح پڑھوں گا جس طرح میرا اپنا دل چاہتا ہے۔ اِس کے بعد جب میں تلاوت کروں گا تو اِس امر کو مدنظر رکھوں گا کہ پڑھا ہوا اور اَن پڑھ، عالم اور جاہل، بڑی عمر کا اور چھوٹی عمر کا ہر شخص لفظاً لفظاً اگر وہ چاہے اور اگر اُس کے دل میں ارادہ اور ہمت ہو تو میرے پیچھے پیچھے چل سکے اور ہر لفظ کو دُہرا سکے۔
(ان تمہیدی الفاظ کے بعد حضور نے نہایت رقت آمیز رنگ میں قرآن کریم کی وہ دعائیں بلند آواز سے پڑھنا شروع کیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو وادیٔ مکہ میں چھوڑے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور کی تھیں۔ جماعت کے تمام دوست کیا مرد اور کیا عورتیں سب کے سب حضور کے ساتھ ساتھ ان دعاؤں کو دُہراتے چلے گئے۔ یہ دعائیں جس طرح بار بار حضور نے پڑھیں اُسی طرح ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔ حضور نے ابراہیمی دعاؤں کو منتخب کرتے ہوئے اِس موقع پر نہایت درد کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا:۔)
(اِس کے بعد دوبارہ حضور نے انہی دعاؤں کو اِس رنگ میں دُہرایا)
(اِس کے بعد حضور نے فرمایا
آج سے قریباً ۴۵ سَو سال پہلے اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کو حکم ہوا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ذبح کر ڈالے۔ یہ رؤیا اپنے اندر دو حکمتیں رکھتی تھی۔ ایک حکمت تو یہ تھی کہ اُس وقت سے پہلے انسانی قربانی کو جائز سمجھا جاتا تھا اور خصوصیت کے ساتھ لوگ اپنی اولاد کو خداتعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے یا اپنے بتوں کو خوش کرنے کے لئے قربان کر دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے فیصلہ کیا کہ اب بنی نوع انسان کو اِس مہیب اور بھیانک فعل سے باز رکھنا چاہیے کیونکہ انسانی دماغ اب اتنی ترقی کر چکا ہے کہ وہ حقیقت اور مجاز میں فرق کرنے کا اہل ہو گیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو جس کا نام ابراہیم تھا یہ رؤیا دکھائی۔ اِس رؤیا میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک حکمت یہ تھی کہ آئندہ انسانی قربانی کو روک دیا جائے اور دوسری حکمت یہ تھی کہ خداتعالیٰ انسان سے حقیقی قربانی کا مطالبہ کرنا چاہتا تھا جو مطالبہ اس سے پہلے انسان سے نہیں ہوا تھا۔ بہرحال جب سے انسان اِس قابل ہوا کہ اس پر الہام نازل ہو کسی نہ کسی صورت میں لوگ خداتعالیٰ کی عبادت کیا ہی کرتے تھے لیکن ابھی ایسا زمانہ انسان پر نہیں آیا تھا کہ کچھ لوگ اپنی زندگیوں کو کُلّی طور پر خداتعالیٰ کے لئے وقف کر دیں۔ نماز تو لوگ پڑھتے تھے، روزہ بھی رکھتے تھے، ذکرِ الٰہی بھی لوگ کرتے تھے کیونکہ ان چیزوں کے بغیر روحانیت زندہ نہیں رہ سکتی۔ اگر آدمؑ ایک روحانی انسان تھا تو نوحؑ اور آدمؑ اور اُن کے متبع یقینا نماز بھی پڑھتے تھے، ذکرِ الٰہی بھی کرتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے کیونکہ روح بغیر ان چیزوں کے جِلا نہیں پاتی اور روح کے جِلا پائے بغیر خداتعالیٰ کا قرب اور اُس کا وصال حاصل نہیں ہو سکتا۔ مگر اِس قربانی اور اُن قربانیوں میں کیا فرق تھا؟ فرق یہ تھا کہ ہر شخص اپنے اپنے طور پر نمازیں ادا کرتا تھا اور کوئی ایسا شخص بھی ہوتا تھا جس کو خداتعالیٰ چن لیتا تھا اور اسے مقرر کرتا تھا کہ تم اپنی زندگی میں میری طرف سے مأمور کی حیثیت رکھتے ہو۔ تم بنی نوع انسان کو مخاطب کرو اور اُنہیں میری طرف لانے کی کوشش کرو۔ یہ لوگ انبیاء علیہم السلام ہوتے تھے مگر ان کے علاوہ کوئی ایسے گروہ نہیں ہوتے تھے جو اپنی زندگیوں کو کسی مخصوص مقام سے وابستہ کر دیں اور دن اور رات ذکرِالٰہی کے شغل کو جاری رکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ جہاں وہ اِس غیر حقیقی قربانی کو منسوخ کر دے جو چھری کے ذریعہ سے بیٹوں کو قتل کر کے ادا کی جاتی تھی وہاں وہ اِس حقیقی قربانی کی بنیاد ڈال دے کہ دنیا کو چھوڑ کر انسان اپنی زندگی محض خداتعالیٰ کے لئے وقف کر دیا کرے۔ چھری انسانی زندگی کو ایک منٹ میں ختم کر دیتی ہے۔ بالکل ممکن ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی خداتعالیٰ کے لئے دی اور چھریوں اور نیزوں سے اپنے آپ کو قربان کروا دیا اگر وہ ایک سال اَور زندہ رہتے تو مرتد ہو جاتے، ایک سال اَور زندہ رہتے تو اُن کے ایمان کمزور ہو جاتے، ایک سال اَور زندہ رہتے تو اُن کے اندر عبادت کے لئے وہ جوش و خروش باقی نہ رہتا جو اُس وقت اُنہوں نے دکھایا تھا۔
پس چھری کے ساتھ اُنہوں نے مشتبہہ انجام کو چھپایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اپنی مرضی سے اپنی زندگی قربان کرتا ہے یا جو شخص اپنی مرضی سے اپنی اولاد کو قربان کرتا ہے وہ اِس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے کہ وہ اور اُس کی اولاد لمبے امتحانوں میں سے گذرتے ہوئے ناکام نہ رہ جائے اور وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ہی اپنی زندگی یا اپنی اولاد کی زندگی ختم کر دیتا ہے۔ مگر جو شخص ساری عمر قربان ہوتا رہتا ہے، موت کے ذریعہ نہیں بلکہ ترکِ منہیات سے، ذکرِ الٰہی کی پابندی اختیار کرنے سے، تبلیغ اسلام کو اختیار کرنے سے، بنی نوع انسان کی تربیت کی ذمہ داری لینے سے، وہ دلیرانہ اِس سمندر میں کودتا ہے۔ وہ اپنا خاتمہ موت سے نہیں کرتا بلکہ وہ اپنا ایمان اپنی زندگی سے ثابت کر دیتا ہے۔ مرنے والے کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو ایماندار رہتامگر جس نے زندہ رہ کر اپنے ایمان کو ثابت کر دیا اور جس نے مدت تک اپنے ایمان کو سلامت لے جا کر عملی طو رپر اس کے سچا ہونے کا ثبوت دے دیا، اُس کے متعلق دشمن سے دشمن کو بھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اُس نے اپنے عہد کو سچا ثابت کر دیا میں نے کہا کہ جو شخص اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو ختم کرتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں نے اُن لوگوں کو مستثنیٰ کر دیا ہے جو اپنی مرضی سے اپنی زندگی ختم نہیں کرتے بلکہ خداتعالیٰ کی مشیت سے اُن کی زندگی ختم ہو جاتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو شہداء کہتے ہیں۔
پس جو دلیل میں نے تلوار یا نیزہ سے اپنے آپ کو ختم کرنے والوں کے خلاف دی ہے وہ شہداء کے خلاف نہیں پڑتی اِس لئے کہ شہداء نے خود اپنے آپ کو مار کر زندگی کی جدوجہد سے آزاد ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ خداتعالیٰ کی مشیّت نے اُن کے زندہ رہنے کی خواہش کے باوجود یہ چاہا کہ اُن کی مادی زندگی کے دَور کو ختم کر دے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اِن دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
پس جو دلیل میں نے اپنی زندگی ختم کرنے والوں کے خلاف دی ہے وہ شہداء کے خلاف نہیں پڑتی اس لئے کہ وہ خود نہیں مرتے بلکہ اُن کو دشمن مارتا ہے ورنہ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ دشمن کو مار کر اپنے ایمانوں کو اَور بھی قوی کریں۔ اِس امر کا ثبوت کہ وہ اپنی زندگی ختم کر کے میدانِ جدوجہد سے بھاگنا نہیں چاہتے ایک حدیث سے بھی ملتا ہے۔
حضرت عبداللہؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک نہایت مقرب صحابی تھے جب شہید ہوگئے تو اُن کے بیٹے حضرت جابرؓ کو ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت افسردہ حالت میں سر جھکائے دیکھا۔ آپ نے جابرؓ سے فرمایا، جابر! تمہیں اپنے باپ کی موت کا بہت صدمہ معلوم ہوتا ہے۔ اُس نے کہا ہاں یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! باپ بھی بہت نیک تھا جس کی وفات کا طبعی طور پر مجھے سخت صدمہ ہے مگر میری افسردگی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا خاندان بہت بڑا ہے اور اب اُس کا تمام بار میرے کمزور کندھوںپر آ پڑا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جابر! اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ تمہارے باپ کا کیا حال ہوا تو تم کبھی افسردہ نہ ہوتے بلکہ خوش ہوتے۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔ جابر! جب عبداللہؓ شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہا۔ عبداللہ کی روح کو میرے سامنے لاؤ۔ جب عبداللہ کی روح اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے فرمایا کہ عبداللہ! ہم تمہارے کارنامے پر اور اسلام کے لئے تم نے جو قربانی پیش کی ہے اُس پر اتنے خوش ہوئے ہیں کہ تم جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مانگو ہم تمہاری ہر خواہش کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اِس پر عبداللہؓ نے یہ نہیں کہا کہ الٰہی! جنت کے فلاں مقام پر مجھے رکھا جائے، اِس پر عبداللہؓ نے یہ نہیں کہا کہ الٰہی! مجھے ایسی ایسی حوریں دے، عبداللہؓ نے یہ نہیں کہا کہ الٰہی! مجھے جنت میں غلمان خدمت کے لئے دے، عبداللہؓ نے یہ نہیں کہا کہ الٰہی !مجھے ایسے ایسے باغات مل جائیں بلکہ عبداللہؓ نے اگر کہا تو یہ کہا کہ اے میرے ربّ! اگر تو مجھے کچھ دینا ہی چاہتا ہے تو میری خواہش یہ ہے کہ تو مجھے پھر زندہ کر دے تا کہ میں پھر تیرے دین کی خدمت کرتا ہوا مارا جاؤں۔۱؎
اِس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ شہید ہونے والا اپنی مرضی سے مرنا نہیں چاہتا۔ وہ خطرے کے مواقع پر اپنی جان ضرور پیش کرتا ہے مگر اُس کا دل چاہتا ہے کہ میں زندہ رہ کر ان تمام مشکلات کا مقابلہ کروں جو اسلام یا دین حقّہ کو مخالفوں کی طرف سے پیش آنے والی ہیں۔ پس میں نے جو اعتراض خود کشی کرنے والوں یا جھوٹے جان دینے والوں پر کیا ہے وہ شہداء پر نہیں پڑتا۔
غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ وہ دین حقّہ کے لئے ایسے قربانی کرنے والے پیدا کرے جو اپنی جان کو مار کر اِس دنیا کی جدوجہد سے بھاگنا نہیں چاہتے بلکہ دنیا میں زندہ رہ کر دنیا کی کشمکشوں میں سے گذر کر، دنیا کی مصیبتوں کو جھیل کر، دنیا کی تکالیف کو برداشت کرکے اپنی مردانگی کا ثبوت دینا چاہتے ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا بندہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے ڈرا نہیں کرتا۔ یہی وہ حقیقی قربانی ہے جو شاندار ہوتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں خداتعالیٰ کا نام لے کر سینہ میں خنجر مار لینا کوئی قربانی نہیں وہ بزدلی ہے، وہ کمزوری ہے، وہ دون ہمتی ہے جو لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ایک قربانی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے ورنہ وہ خوب جانتا ہے کہ میں بُزدل ہوں۔ میں اس لئے مَر رہا ہوں کہ دنیا میں رہ کر میں مصیبتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ سمجھتا ہے کہ چند مصیبتیں آنے کے بعد ہی میرا ایمان کمزور ہو جائے گا اِس لئے وہ اپنی زندگی کو ختم کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اِس قربانی کی بنیاد ڈالے جو زندہ رہ کر اور دنیا کی کشمکشوں کا مقابلہ کر کے اور دنیا کی مصیبتوں کو برداشت کر کے انسان پیش کر سکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سب سے بڑا کارنامہ درحقیقت یہی تھا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وہ رؤیا دکھائی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ اکلوتے بیٹے کو جو یقینا اسماعیل تھے ذبح کر رہے ہیں تو چونکہ اُس وقت لوگ اپنے بیٹوں کو خدا تعالیٰ کے نام پر ذبح کرتے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سمجھا کہ الٰہی منشاء یہ ہے کہ میں بھی اپنے بیٹے کو خداتعالیٰ کے نام پر ذبح کر دوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل کو جن کی عمر اُس وقت تاریخ سے سات سال کی معلوم ہوتی ہے بتایا کہ میں نے ایسی ایسی رؤیا دیکھی ہے۔ اسماعیل جو اپنے باپ کی نیک تربیت کے ماتحت دین کو سمجھتا تھا اور جس میں یہ حس تھی کہ خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرنی چاہیے اُس نے فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کو قبول کیا کہ خدا تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے آپ اُس پر عمل کریں۔ ۲؎
میں اِسے حضرت اسماعیل کی ذاتی نیکی نہیں سمجھتا۔ جب وہ بڑے ہوئے تو یقینا وہ نیک ثابت ہوئے اور اُنہوں نے اپنے عمل اور طریق سے خداتعالیٰ کو اتنا خوش کیا کہ اُس نے اِنہیں نبوت کے مقام پر فائز کر دیا مگر الصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَلَوْکَانَ نَبِیًّا بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ بعد میں نبی ہی کیوں نہ بن جائے۔ سات سال کی عمر میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا یہ نمونہ دکھانا یقینا حضرت ابراہیم علیہ السلام، اُن کی بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کی نیکی کا مظاہرہ تھا حضرت اسماعیل کی ذاتی خوبی نہیں تھا۔
مجھے اپنے گھر کا ایک واقعہ یاد ہے۔ میرا ایک بچہ جس کی عمر پانچ چھ سال تھی ایک دفعہ نچلی منزل کی سیڑھی پر کھڑا تھا اور میں اُوپر تھا۔ اُس کے ایک دو بھائی جو بڑی عمر کے تھے وہ اُس کے پاس کھڑے اُسے ڈرا رہے تھے اور میرے کان میں ان کی آوازیں آ رہی تھیں۔ مجھے اُن کی باتیں کچھ دلچسپ معلوم ہوئیں اور میں غور سے سُننے لگا۔ میں نے سُنا اُن میں سے ایک نے اُسے کہا۔ اگر تم کو رات کے وقت جنگل میں اکیلے چھوڑ آئیں تو کیا تم اِس کے لئے تیار ہوگے؟ میں نے دیکھا کہ اس بات کے سنتے ہی بچے پر دہشت غالب آ گئی۔ وہ ڈر گیا اور اس نے کہا نہیں۔ اِس کے بعد دوسرے نے کہا۔ اگر میں تم کو کہوںکہ تم رات کو اکیلے جنگل میں چلے جاؤ اور وہیں رہو تو کیا تم میری بات مانو گے؟ اُس نے کہا نہیں۔ پھر اُنہوں نے کسی اَور کانام لے کر کہا کہ اگر وہ کہے تو پھر بھی مانو گے یا نہیں؟ اُس نے کہا نہیں۔ اِس کے بعد اُنہوں نے کسی اَور کا نام لیا کہ اگر وہ ایسا کہے تو کیا پھر بھی تم مانو گے یا نہیں؟ اُس نے کہا نہیں۔ پھر اُنہوں نے میرا نام لیا اور کہا کہ اگر ابا جان کہیں توکیا تم جنگل میں چلے جاؤ گے؟ اُس نے پھر کہا نہیں۔ آخر اُنہوں نے کہا۔ اگر خدا کہے کہ تم جنگل میں چلے جاؤ تو کیا تم جاؤ گے؟ میں نے دیکھا کہ اِس بات کے سنتے ہی اُس کا رنگ زرد ہو گیا مگر اُس نے کہا ہاں پھر میں مان لوں گا۔
اب دیکھو پانچ چھ سال کا بچہ نہیں جانتا کہ خدا کیا چیز ہے۔ وہ صرف موٹی موٹی باتیں جانتا ہے خداتعالیٰ کے احکام کی اہمیت کو نہیں سمجھتا مگر چونکہ صبح و شام وہ سنتا رہتا ہے کہ خداتعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے اور اُس کے احکام کو نہ ماننا کسی انسان کے لئے جائز نہیں ہو سکتا اِس لئے اور سب کا نام لینے پر اُس نے انکار کیا یہاں تک کہ باپ کا نام لینے پر بھی اُس نے یہی کہا کہ میں نہیں جاؤں گا مگر جب خداتعالیٰ کا نام لیا گیا تو اُس نے سمجھا کہ اب انکار نہیں ہو سکتا اور اُس نے کہا کہ اگر خدا کہے تو پھر میں چلا جاؤں گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ خداتعالیٰ نے مجھے رؤیا میں یہ دکھایا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں اب بتا تیری کیا رائے ہے؟ تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اُس نیک تربیت کی وجہ سے جو اُنہیں حاصل تھی یہ جواب دیا کہ جب خدا نے ایسا کہا ہے تو پھر بے شک اِس پرعمل کریں میں اِس کے لئے بالکل تیار ہوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے، ان کی آنکھوں پرپٹی باندھی، اُنہیں زمین پر لٹا دیا اور پھر چھری نکال کر چاہا کہ اُس زمانہ کے رسم و رواج کے مطابق اپنے بیٹے کو خداتعالیٰ کے نام پر ذبح کر دیں مگر خداتعالیٰ تو یہ بتانا چاہتا تھا کہ انسانی قربانی ناجائز ہے۔ چنانچہ جب اُنہوں نے چھری نکالی اور ذبح کرنا چاہا تو فرشتہ نازل ہوا اور اُس نے خداتعالیٰ کی طرف سے کہا کہ ۔ ۳؎ اے ابراہیم! تم نے عملاً اپنے بچے کو ذبح کرنے کے ارادہ سے لٹا کر اور چھری نکال کر اپنے خواب کو پورا کر دیا ہے مگر ہمارا منشاء یہ نہیں تھا کہ تم واقع میں اِسے ذبح کر دو بلکہ ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ خواب میں اگر کوئی شخص اپنے بچے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اِس کی تعبیر کچھ اَور ہوتی ہے۔ ہم انسانی قربانی کو روکنا چاہتے تھے اور اِسی لئے ہم نے یہ رؤیا دکھائی تھی۔ اِس ذریعہ سے تمہارا ایمان بھی ظاہر ہو گیا اور ہماری غرض بھی پوری ہوگئی۔ اے ابراہیم! آج سے انسانی قربانی کو بند کیا جاتا ہے اب آئندہ کسی انسان کو اِس رنگ میں قربان کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے انسانی قربانی جو خود کشی یا دوسرے کو قتل کرنے کے رنگ میں جاری تھی رُک گئی۔ درحقیقت اِس رؤیا میں یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت ابراہـیم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک وادیٔ غیر ذی ذرع میں اپنے بیٹے کو چھوڑ آئیں گے اور اس لئے چھوڑ آئیں گے ۴؎ تا کہ وہ خداتعالیٰ کی عبادت کو قائم کریں۔ دوسری جگہ یہ ذکر آتا ہے کہ اُن کو بیت اللہ کے پاس اِس لئے رکھا گیا تھا تاکہ وہ زائرین اور طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لئے اُس کے گھر کو آباد رکھیں۔۵؎ چنانچہ جب یہ قربانی جاتی رہی تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے رؤیا کے ذریعہ بتایا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل اور اس کی والدہ کو بیت اللہ کی جگہ چھوڑ آئیں۔
بخاری میں روایت آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں یہ حکم ہوا تو اُنہوں نے اپنا بچہ اُٹھا لیا یا ممکن ہے اُنہوں نے کسی سواری کا بھی انتظام کر لیا ہو۔ روایت میں آتا ہے کہ بعض جگہ حضرت ہاجرہ بچے کو اُٹھا لیتیں اور بعض جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اُسے اُٹھا لیتے اِس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی اور بچے کو ساتھ لے کر فلسطین سے مکہ کا رُخ کیا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ فلسطین سے مکہ کوئی دو ہزار میل کے قریب ہوگا۔ سفر کرتے کرتے وہ خانہ کعبہ میں پہنچے۔ اُس وقت صرف ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک ٹوکری کھجوروں کی ان کے پاس تھی اُنہوں نے اپنی بیوی اور بچے کو وہاں بٹھایا اور کھجوروں کی ٹوکری اور پانی کا مشکیزہ اُن کے پاس رکھ دیا۔ مکہ میں اُس وقت کوئی پانی کا چشمہ یا نہر نہیں تھی، کوئی نالہ بھی پاس سے نہیں گذرتا تھا اور زمین کے لحاظ سے کوئی سرسبزی و شادابی اُس میں نہیں پائی جاتی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وہاں رکھا، اپنی بیوی کو چھوڑا اور کہا میں ایک کام کے لئے جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ وہاں سے واپس چل پڑے لیکن ۸۰ سال کی عمر میں پیدا ہونے والے اکلوتے بچے کی محبت خواہ کوئی نبی بھی ہو، اُس کے دل سے ٹھنڈی نہیں ہو سکتی۔ اب ابراہیم علیہ السلام نوے سال کی عمر کو پہنچ رہے تھے اور اِس عمر میں اُن کا اپنے بیٹے اور اُس بیٹے کی شریف اور نیک ماں کو چھوڑ کر واپس چلے جانا کوئی آسان امر نہیں تھا۔ پچاس ساٹھ گز گئے تھے کہ اُنہوں نے مڑ کر اپنی بیوی اور بچے کو دیکھا اور اُن کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ پھر پچاس ساٹھ گز گئے تھے کہ محبت نے جوش مارا اور اُنہوں نے پھر ایک بار اُن کو دیکھا۔ پھر کچھ دور گئے تو محبت نے پھر جوش مارا اور اُنہوں نے مُڑ کر اُن پر نظر ڈالی۔ وہ اِس طرح کرتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے اُن کا نظر آنا مشکل ہو گیا۔ اُس وقت اُنہوں نے اُس طرف منہ کیا جدھر اُن کی بیوی بچہ تھے جن کو چھوڑ کر وہ ہمیشہ کے لئے جا رہے تھے اور جن کے زندہ رہنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عاجزانہ طور پر اُنہوں نے دعا کی کہ ۶؎ اے ہمارے ربّ! اُنہوں نے کہا ہے رَبِّیْ نہیں کہا۔ کیونکہ اِس قربانی میں وہ اپنی بیوی کو بھی شامل کرتے ہیں مگر اس کے بعد وہ کہتے ہیں اِنَّا نہیں کہتے کیونکہ یہ فعل اُن کی بیوی کی طرف سے نہیں تھا ۔ اے ہمارے ربّ! میں نے اپنی ذریت کا ایک حصہ اِس وادی میں لا کر چھوڑ دیا ہے۔ ایک حصہ اُنہوںنے اِس لئے کہا کہ اُس وقت تک حضرت اسحق بھی پیدا ہو چکے تھے۔ جب اُنہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا تھا اُس وقت تک حضرت اسحاقؑ پیدا نہیں ہوئے تھے لیکن جب اُنہوں نے حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں لا کر چھوڑا ہے اُس وقت حضرت اسحاقؑ پیدا ہو چکے تھے اِس لئے وہ فرماتے ہیں ۔الٰہی! میں نے اپنی اولاد کا ایک حصہ اس وادی میں لا کر چھوڑ دیا ہے۔ جس میں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی۔ جیسے ربوہ میں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی۔ سرکاری کاغذات میں لکھا ہوا ہے کہ اس رقبہ میں نہ زراعت ہوتی ہے اور نہ اِس وقت کی تحقیقات کے مطابق ہو سکتی ہے۔ Uncultivable Unagricultural۔ ۷؎ تیرے پاکیزہ گھر کے پاس۔ اُس وقت تک خانہ کعبہ نہیں بنا تھا لیکن اس آیت سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کسی زمانہ میں وہاں کوئی پُرانا معبد تھا۔ اور جو لوگ یہ عقیدہ نہیں رکھتے وہ اس کے معنی یہ کرتے ہیں کہ جو معبد بننے والا ہے اس کے نزدیک میں نے اپنی اولاد کو لا کر رکھ دیا ہے۔ تیسرے معنی اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ بیت اللہ درحقیقت تقویٰ کا مقام ہے۔ پس کے یہ معنی ہیں کہ میں ایک ایسے مقام کے پاس انہیں چھوڑ رہا ہوں جہاں شیطانی خیالات کا دخل نہیں ہوگا یعنی دین کی خدمت کے لئے میں انہیں یہاں چھوڑ رہا ہوں ۔ اے میرے ربّ!میں اِن کو یہاں چھوڑ تو رہا ہوں مگر اِس لئے نہیں کہ یہ بڑی بڑی کمائیاں کریں یا بڑے بڑے جتھے بنائیں اور فتوحات حاصل کریں بلکہ اے میرے ربّ! میں اس لئے ان کو یہاں چھوڑ رہا ہوں تا کہ وہ تیری عبادت کو اِس جنگل میں قائم کریں۔
۸؎ پس اے میرے ربّ! تو لوگوں کے دلوں میں خود ان کی محبت ڈال اور اُنہیں اِس طرف جھکا دے۔ چونکہ یہ خالص تیری عبادت کے لئے وقف ہوں گے اور تیرے دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں گے اِس لئے اے میرے ربّ! تو لوگوں کے ایک طبقہ کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور ان کے دلوں میں ان کی عقیدت اور احترام پیدا کر دے تا کہ وہ باہر کی دنیا میں رہ کر کمائیں اور اپنی کمائی کا ایک حصہ اِن کے کھانے کے لئے بھجوا دیا کریں۔ اور اے میرے ربّ! جب میں اپنی اولاد کو دین کی خدمت کے لئے یہاں چھوڑے جا رہا ہوں تو میں یہ نہیں چاہتا کہ مسجد کے مُلانوں کی طرح یہ جمعرات کی روٹیوں کے محتاج ہوں۔ میں اپنی اولاد کو ایک جنگل میں چھوڑ رہا ہوں، میں اپنے بچے کو جوجوان ہے اور اُس عمر سے گذر گیا ہے جس میں بچے بِالعموم مَر جایا کرتے ہیں ایک ایسی جگہ چھوڑ رہا ہوں جس میں اِس کی موت یقینی ہے انسان ہونے کے لحاظ سے میں علمِ غیب نہیں رکھتا اور میں نہیں جانتا کہ کَل تُو ان سے کیا سلوک کرے گا۔ میرا اندازہ انسانی علم کے لحاظ سے یہی ہے کہ میری بیوی اور بچہ یہاں مَر جائیں گے۔ میں نے انسان ہوتے ہوئے قربانی کے ہر نقطۂ نگاہ میں سے جو سب سے بڑا نقطۂ نگاہ تھا اُس کو پورا کر دیا ہے اب میں تیرا بھی امتحان لینا چاہتا ہوں۔ میں نے بندہ ہو کر وہ کام کیا ہے جو قربانی اور ایثار کے لحاظ سے اپنے انتہائی کمال کو پہنچا ہوا ہے اب میں تیری خدائی کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنی بیوی اور بچے کو یہاں لا کر چھوڑا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے چھوڑا ہے کہ وہ اِس جنگل میں بھوکے اور پیاسے مَر جائیں گے۔ اب اے خدا! اگر تو خدا ہے تو یہاں اُن کے لئے لوگوں کو کھینچ لا اور اُن کے قلوب اِس طرف مائل کر دے۔ ۹؎ مگر اے خدا! میں تجھ سے اُن کے لئے جمعرات کی روٹی نہیں مانگتا، میں تجھ سے اُن کے لئے چاول بھی نہیں مانگتا بلکہ میں یہ مانگتا ہوں کہ یہ جگہ جہاں گھاس کی ایک پتی بھی پیدا نہیں ہوتی اِس جگہ دنیا بھر کے میوے آئیں اور یہ اُن میووں کو یہاں بیٹھ کر کھائیں۔ تُو روٹی دے گاتو میں نہیں مانوں گا کہ تُو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے، تو چاول کھلائے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تُو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے، تو زردہ اور پلاؤ کھلائے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے۔ میں تیری خدائی کا ثبوت تب مانوں گا جب یہ مکہ میں بیٹھ کر چین اور جاپان اور یورپ اور امریکہ کے میوے کھائیں تب میں مانوں گا کہ تُو نے اپنی خدائی کا ثبوت دے دیا ہے۔ میں نے بندہ ہو کر ایک انتہائی قربانی کی ہے اب اے خدا! میں تیری خدائی کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں اور وہ بھی اِس رنگ میں کہ اِس وادیٔ غیر ذی زرع میں دنیا کا ہر بہترین رزق تُو انہیں پہنچا۔ خداتعالیٰ نے ابراہیم کے اِس چیلنج کو قبول کیا اور اُس نے کہا۔ اے ابراہیم! تُو نے اپنی اولاد کو ایک وادیٔ غیر ذی زرع میں لاکر بسایا ہے اور مجھ سے کہا ہے کہ میں نے اپنا بیٹا قربان کر دیا ہے، اب تُو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے! تُو نے کہا ہے کہ میں نے ایک عاجز بندہ ہو کر اپنی بندگی کا ثبوت دے دیا، اب اے خدا! تُو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے! اور تُو نے ثبوت یہ مانگا ہے کہ یہ نہ کمائیں بلکہ بنی نوع انسان کمائیں اور اِنہیں کھلائیں اور کھلائیں بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے میوے اِن کے پاس پہنچیں۔ میں تیرے اِس چیلنج کو قبول کرتا ہوں اور میں اِس وادیٔ غیر ذی زرع میں جہاں گھاس کی ایک پتی بھی نہیں اُگتی تجھے ایسا ہی کر کے دکھاؤں گا۔
میں نے حج کے موقع پر خود اِس کاتجربہ کیا ہے۔ میں نے مکہ مکرمہ میں ہندوستان کے گنے دیکھے ہیں، میں نے مکہ مکرمہ میں طائف کے انگور کھائے، میں نے مکہ مکرمہ میں اعلیٰ درجہ کے انار کھائے ہیں، گنے کے متعلق تو مجھے یاد نہیں کہ میری طبیعت پر اس کے متعلق کیا اثر تھا لیکن انگوروں اور اناروں کے متعلق میں شہادت دے سکتا ہوں کہ ویسے اعلیٰ درجہ کے انگور اور انار میں نے اور کہیں نہیں کھائے۔ میں یورپ بھی گیا ہوں، میں شام بھی گیا ہوں، میں فلسطین بھی گیا ہوں، اٹلی کا مُلک انگوروں کیلئے بہت مشہور ہے یورپ کے لوگ کہتے ہیں کہ بہترین انگور اٹلی میں ہوتے ہیں مگر میں نے اٹلی کے لوگوں سے کہا کہ مکہ کی وادیٔ غیر ذی زرع میں ابراہیمی پیشگوئی کے ماتحت جو انگور میں نے کھائے ہیں وہ اٹلی کے انگوروں سے بہت زیادہ میٹھے اور بہت زیادہ اعلیٰ تھے۔ ہمارے اِردگرد قندھار ، کوئٹہ اور کابل کا انار مشہور ہے مگر میں نے جو موٹا سرخ شیریں اور لذیذ انار مکہ میں کھایا ہے اُس کا سینکڑواں حصہ بھی قندھار اور کوئٹہ اور کابل کا انار نہیں۔
غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں۔ اے خدا! میں نے اپنی بندگی کا انتہائی ثبوت دے دیا ہے اب تجھ سے میں کہتا ہوں کہ تُو بھی اپنی خدائی کا انتہا درجے کا ثبوت دے اور وہ ثبوت میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ یہ نہ کمائیں بلکہ لوگ کما کر اِن کے پاس لائیں اور لائیں بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے بہترین پھل اور میوے ۱۰؎ اے میرے ربّ! میں احسان کے طور پر نہیں کہتا میں یہ نہیں کہتا کہ اگر ایسا ہوا تب میرا بدلہ اُترے گا یا تب میری اولاد کی قربانی کابدلہ اُترے گا۔ میں نے بیشک ایک مطالبہ کیا ہے مگر اِس لئے نہیں کہ میں نے کوئی قربانی کی ہے بلکہ میں نے یہ مطالبہ محض اِس لئے کیا ہے کہ بندے نے اپنی بندگی کا انتہائی ثبوت دے دیا اب تُو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے تاکہ میری اولاد ایمان پر قائم رہے اور اِسے یقین ہو کہ کیسی زبردست طاقتوں کا مالک وہ خدا ہے جس کی خدمت کے لئے وہ یہاں بیٹھے ہیں۔ بظاہر یہ ایک چیلنج معلوم ہوتا ہے کہ دیکھ! میں نے کتنی قربانی کی، اب تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے۔ مگر میری یہ غرض نہیں کہ تُو میرے فعل کی وجہ سے اِنہیں یہ پھل کھلا بلکہ میری غرض یہ ہے کہ تیرے فعل سے بنی نوع انسان کے اندر ایمان پیدا ہو۔ گویا اِس میں بھی اصل غرض تیرے نام کی بلندی ہے اپنے نام کی بلندی نہیں۔
۱۱؎ پھر ابراہیم علیہ السلام کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ بچہ چھوٹا ہے بیوی جوان ہے، یہ میری دوسری بیوی ہے میری بڑی بیوی جو میری پھوپھی زاد بہن ہے میرے گھر میں موجود ہے اور اُس سے نسل بھی ہو رہی ہے، ہاجرہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ میری چہیتی بیوی ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ اُس سے اولاد ہوگئی ہے اِس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ یہ ظالم اُس بیوی کی خاطر مجھے یہاں چھوڑے جا رہا ہے اور اُس بچے کی خاطر میرے اِس بچے کو چھوڑ رہا ہے اِس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر گئے اور اُنہوں نے کہا۔ اے میرے ربّ! میں نے تیرے نام کی عزت کے لئے اپنے اوپر یہ دھبّہ قبول کیا ہے۔ میں اپنی بیوی کو یہاں اِس لئے نہیں چھوڑ رہا کہ میں اپنی پہلی بیوی کو اِس پر مقدم رکھتا ہوں۔ میں اپنے بچے کو اِس لیے یہاں نہیں چھوڑ رہا کہ میں اِس بچے پر دوسرے بچہ کو مقدم رکھتا ہوںبلکہ اے خدا! اِس بیوی کو میں اِس لئے یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ تو نے مجھے اِس کا حکم دیا ہے اور اے خدا! یہ بچہ مجھے بہت عزیز ہے۔ اسحق سے ذلیل سمجھ کر میں اِسے یہاں نہیں چھوڑ رہا۔ میں اُس کی وراثت میں اِسے روک سمجھ کر یہاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ اے خدا! باوجود اِس کے کہ یہ مجھے بہت پیارا ہے میں اِسے اِس لئے یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ تُو نے اِسے یہاں چھوڑنے کو کہا ہے۔ یہ ظلم کا الزام، یہ بے وفائی کا الزام، یہ سنگدلی کا الزام، اے خدا! میں نے محض تیرے لئے قبول کیا ہے۔ میری بیوی اِس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتی۔ وہ سمجھے گی کہ میں نے دوسری بیوی کی خاطر اِسے یہاں چھوڑا ہے۔ میرا بچہ بھی اِس بات کو نہیں سمجھ سکتا۔ وہ بڑا ہو کر کہے گا کہ باپ کیسا ظالم تھا وہ مجھے اور میری ماں کو یہاں چھوڑ گیا۔ اے میرے ربّ! میں اپنے دل کا درد کس کو بتاؤں سوائے تیری ذات کے جسے سب کچھ علم ہے۔ تجھے پتہ ہے کہ میرے دل میں کتنا دُکھ ہے، تجھ کو پتہ ہے کہ یہ ظاہری سنگدلی اور ظلم کا الزام میں نے محض تیرے حکم کو پورا کرنے کے لئے اپنے اوپر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱۲؎ ابراہیم نے کہا تھا تُو جانتا ہے کہ میرے دل میں کتنا درد ہے اور یہ کہ ظاہری طور پر میں جو کچھ سنگدلی اور سختی کر رہا ہوں یہ محض تیرے لے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ خدائی کلام ہے ابراہیم کا نہیں۔ فرماتا ہے خداتعالیٰ کو پتہ ہے کہ زمین اور آسمان میں کیا کچھ ہے اُس کے علم سے کوئی بات مخفی نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ ابراہیم کا یہ فعل ایک بیج کی طرح زمین میں ڈالا جا رہا ہے جس سے ایک دن ایک بڑی قوم پیدا ہوگی اور وہ جانتا ہے کہ آسمان پر اِس بیج بونے کے نتیجہ میں کیسا عظیم الشان انعام مقدر ہے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کی تو حضرت ہاجرہؓ کے دل میں شُبہ پیدا ہوا کہ یہ جدائی کسی عارضی کام کے لئے معلوم نہیں ہوتی بلکہ دائمی جدائی معلوم ہوتی ہے۔ وہ دَوڑتی ہوئی آپ کے پیچھے گئیں اور اُنہوں نے کہا۔ ابراہیم! ابراہیم! تم ہمیں یہاں کس لئے چھوڑے جا رہے ہو؟ یہ تو عارضی جدائی معلوم نہیں ہوتی۔ تم ہمیں جنگل میں اکیلے چھوڑے جا رہے ہو۔ ابراہیم دیکھو! تمہارا بیٹا بھوکا مَر جائے گا، ابراہیم تمہاری جوان بیوی یہاں موجود ہے اور اس کا بھی تم پر حق ہے۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُن کی طرف نہیں دیکھا کیونکہ ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ وہ ڈرتے تھے کہ اگر میں نے جواب دیا تو بیتاب ہو جاؤں گا اور رقت مجھ پر غالب آ جائے گی اور یہ اُس شان کے خلاف ہوگا جس کا یہ قربانی تقاضا کرتی ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا تو پھر ہاجرہؓ نے کہا۔ ابراہیم! ابراہیم! اپنی بیوی اور بیٹے کو کس لئے ایک ایسے جنگل میں چھوڑے جا رہے ہو جس میں ایک دن بھی رہائش اختیار نہیں کی جا سکتی۔ بھیڑیئے آئیں گے اور ہمیں ختم کر دیں گے اور اگر بھیڑیئے نہ بھی آئے تب بھی پانی ختم ہو گیا تو ہم کیا کریں گے؟ کھجوریں ختم ہو گئیں تو ہم کیا کریں گے؟ آخر کیوں تم ہمیںیہاں چھوڑے جا رہے ہو؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر بھی اُن کی طرف نہ دیکھا اور زبان سے کوئی جواب نہ دیا۔ آخر ہاجرہؓ نے آگے بڑھ کر اُن کا دامن پکڑ لیا اور کہا۔ بتاؤ تم کس پر ہمیں چھوڑے جا رہے ہو؟ کیا خدا پر چھوڑے جا رہے ہو؟ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا منہ موڑا اور آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا دی۔ بولے نہیں کیونکہ جانتے تھے کہ اگر میں بولا تو رقت مجھ پر غالب آ جائے گی۔ اُنہوں نے صرف آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا دی جس کا مطلب یہ تھا کہ ہاں خدا پر اور خداتعالیٰ کے کہنے پر میں یہ کام کر رہا ہوں۔ ہاجرہؓایک عورت ہی سہی، وہ ایک مصری خاتون ہی سہی جس کا ابراہیمی خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر وہ ابراہیمی تربیت حاصل کر چکی تھی، وہ خدا کا نام سن چکی تھی، وہ الٰہی قدرتوں کا مشاہدہ کر چکی تھی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا کر بتایا کہ میں محض خداتعالیٰ کی خاطر اور اُسی کے حکم کی تعمیل میں تمہیں یہاں چھوڑے جا رہا ہوں تو ہاجرہؓ فوراً پیچھے ہٹ گئیں اور اُنہوں نے کہا۔ اِذًا لاَّیُضَیِّعُنَاَ ۱۳؎ تب خداتعالیٰ ہم کو ضائع نہیں کرے گا۔ـ بے شک جہاں جانا ہے چلے جاؤ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چلے گئے اور وہ بے وطن اور مسکین ہاجرہؓ اسماعیل کی ماں پھر اپنے خاوند کا منہ نہیں دیکھ سکی۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام جب جوان ہوئے تو اس کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے لیکن اُس وقت حضرت ہاجرہؓ فوت ہوچکی تھیں۔ تب خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اُنہوں نے خانۂ کعبہ کی تعمیر کی جس کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں اور جس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے ہیں۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام دوبارہ آئے اُس وقت جرہم قبیلہ کے لوگ وہاں بس چکے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ اُنہوں نے اپنی بیٹی بھی بیاہ دی تھی۔ اب وہ آبادی تھی چند خیمے یا چند جھونپڑیاں تھیں جن میں لوگ رہتے تھے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جھونپڑیاں تھیں کیونکہ روایات میں ذکر آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو حضرت اسماعیل اُس وقت گھر پر نہیں تھے۔ آپ گھر میں یہ پیغام دے گئے کہ جب اسماعیل آئے تو اُس سے کہنا کہ تمہاری چوکھٹ اچھی نہیں اُسے بدل دو۔ ۱۴؎ مطلب یہ تھا کہ تمہاری بیوی بَداخلاق ہے اِس کی بجائے کوئی اچھے اخلاق والی بیوی کرو۔ حضرت ابراہیم ؑاِس کے بعد بھی کئی دفعہ آئے۔ ایک اُس وقت آئے جب اُنہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی اور ایک اُس وقت آئے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے وہ اکثر شکار کے لئے دُور پہاڑوں میں نکل جایا کرتے تھے اور پھر شکار کا گوشت سکھا کر رکھ لیتے اور استعمال کرتے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام شکار کی تلاش میں باہر گئے ہوئے تھے۔ آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک عورت بولی۔ بابا تو کون ہے؟ آپ نے فرمایا۔ بی بی! میں اسماعیل سے ملنے کے لئے آیا ہوں۔ اُس نے کہا۔ بابا جاؤ، اسماعیل تو گھر پر نہیں۔ اُنہوں نے کہا۔ اچھا، میں جاتا تو ہوں مگر جب اسماعیل واپس آئے تو اُس سے کہہ دینا کہ تمہارے دروازہ کی چوکھٹ اچھی نہیں اُسے بدل دو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو اُنہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ پیچھے کے واقعات بتاؤ چونکہ اُس وقت مکہ میں صرف چند گھر تھے اِس لئے اُنہیں ایک دوسرے کے حالات معلوم کرنے کی طبعاً جستجو رہتی تھی اور بڑا بھاری واقعہ وہ اِس بات کو سمجھتے تھے کہ فلاں قبیلہ یہاں سے گذرا ہے اور وہ یہ یہ چیزیں لے گیا اور یہ یہ چیزیں دے گیا ہے۔ بیوی نے کہا اور تو کوئی واقعہ نہیں ہوا صرف ایک بڈھا آپ کے پیچھے آیا تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا دل دھڑکنے لگا کہ یہ بڈھا کہیں اُن کا باپ ہی نہ ہو۔ اُنہوں نے کہا اُس بڈھے نے کوئی بات بھی کی تھی یا نہیں؟ اُس نے کہا اُس بڈھے نے آپ کے متعلق پوچھا تھا۔ میں نے بتایا کہ آپ گھر پر موجود نہیں ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ کیا تم نے اُس بڈھے کی کوئی خاطر تواضع بھی کی؟ اُس نے کہا۔ میں نے تو کوئی خاطر تواضع نہیں کی البتہ جاتے وقت وہ ایک پیغام آپ کو پہنچانے کے لئے دے گیا تھا۔ اُس نے کہا تھا کہ اسماعیل سے کہہ دینا تمہاری چوکھٹ اچھی نہیں اِسے بدل دو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے یہ سنتے ہی کہا۔ بی بی! میری طرف سے تم پر طلاق۔۱۵؎ اُس نے کہا اِس کا کیا مطلب؟ حضرت اسماعیل نے کہا۔ وہ بڈھا میرا باپ تھا جو دو ہزار میل سے چل کر آیا مگر تم سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ تم اُنہیں کہتیں تشریف رکھئے اور آرام کیجئے۔ تمہارے اخلاق ایسے نہیں کہ میرے گھر میں رہنے کے قابل سمجھی جا سکو۔ چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اُسے طلاق دے دی اور ایک اَور شادی کر لی۔
کچھ عرصہ کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے۔ اتفاقاً اُس دن بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام باہر تھے آپ آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے ایک عورت نے جواب دیا کہ کون صاحب ہیں؟ بیٹھئے، تشریف رکھئے۔ چنانچہ آپ اندر گئے۔ اُس عورت نے آپ کی خدمت کی، پَیر دُھلائے، کھانے پینے کی چیزیں آپ کے سامنے رکھیں اور کہا مجھے سخت افسوس ہے کہ آپ بہت فاصلہ سے آئے مگر اسماعیل سے نہیں مل سکے۔ آپ ٹھہریئے اور ان کا انتظار کیجئے اِس عرصہ میں مجھ سے جو کچھ ہو سکتا ہے میں آپ کی خدمت کروں گی۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام ٹھہرے نہیں بلکہ واپس چلے گئے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اُن کی قوم کے افراد بہت پھیلے ہوئے تھے اور وہ ان کے ہاں ٹھہر جاتے تھے۔ جاتے ہوئے اُنہـوں نے کہا۔ اسماعیل جب واپس آئے تو اُسے کہنا کہ فلاں طرف سے ایک آدمی آیا تھا اور اُس سے کہنا کہ تمہارے دروازے کی چوکھٹ اب بالکل ٹھیک ہے اِس کو قائم رکھنا۔ چنانچہ حضرت اسماعیل ؑ جب واپس آئے اور اُنہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ کوئی نئی خبر سناؤ تو اُس نے کہا۔ آج کی نئی خبر یہ ہے کہ ایک بڈھا آیا تھا۔ حضرت اسماعیل نے جلدی سے کہا پھر؟ اُس نے کہا۔ میں نے اُن کو بٹھایا، پاؤں دُھلائے، پانی پلایا اور کھانے کے لئے اُن کے سامنے چیزیں رکھیں۔ میں نے اُن سے یہ بھی کہا تھا کہ ٹھہریئے جب تک اسماعیل واپس نہیں آ جاتے مگر اُنہوں نے کہا کہ میں زیادہ انتظار نہیں کر سکتا۔ اِس کے بعد وہ چلے گئے مگر جاتی دفعہ وہ ایک عجیب طرح کا پیغام دے گئے۔ اُنہوں نے کہا کہ اسماعیل سے کہہ دینا، تمہارے دروازہ کی چوکھٹ بڑی اچھی ہے اِسے قائم رکھنا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا۔ میری بیوی! یہ آنے والا میرا باپ تھا اور سفارش کرکے گیا ہے کہ میں تمہیں عزت و احترام سے اپنے گھر رکھوں۔۱۶؎
آخر وہ دن بھی آ گیا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل ؑ کو اپنے ساتھ لے کر اُس گھر کی بنیاد رکھی جس کو خانۂ کعبہ کہتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۱۷؎ اور جبکہ ہم نے وہ گھر جو ابرہیم نے بنایا اُس کو لوگوں کے لئے بار بار آنے کا مقام بنا دیا، زیارت گاہ بنا دیا، ثواب کی جگہ بنا دیا، اور امن کا مقام بنا دیا۔ اور اے لوگو! جو خانۂ کعبہ کے شیدائی بنتے ہو، جو بیت اللہ کی محبت کا دَم بھرتے ہو، تم ہر ایک چیز جو تمہیں پسند آتی ہے، اُس کی تصویر اپنے گھر میں رکھنے کی کوشش کرتے ہو، اگر کوئی پھل تمہیں پسند آئے تو تم اُسے اپنے گھر لاتے اور اپنے بیوی بچوں کو چکھانے کی کوشش کرتے ہو۔ اے کم عقلو! جب تم بازار میں خربوزہ دیکھ کر بس نہیں کرتے بلکہ وہ خربوزہ گھر میں لاتے ہو، جب تم کسی اچھے نظارے کو دیکھتے ہو تو اُس کی تصویر کھینچتے اور اپنے بیوی بچوں کو دکھاتے اور آئندہ آنے والوں کے لئے گھر میں رکھتے ہو تو کیا وجہ ہے، کیا سبب ہے، اس میں کون سی معقولیت ہے کہ تم اپنے مونہوں سے تو خانۂ کعبہ کی تعریفیں کرتے ہو، اپنے مونہوں سے تو خانۂ کعبہ کے احترام کا اظہار کرتے ہو لیکن تم ایک خربوزے کو تو گھر میں لانے کی کوشش کرتے ہو، تم تاج محل کو دیکھتے ہو تو اُس کی تصویر لینے کی کوشش کرتے ہو مگر تم خانۂ کعبہ کے ظِلّ کو اپنے مُلک اور اپنے علاقہ میں لانے کی کوشش نہیں کرتے۔
خانۂ کعبہ کیا ہے؟ ایک گھر ہے جو خداتعالیٰ کی عبادت کیلئے وقف ہے مگر یہ ظاہر ہے کہ ساری دنیا کے انسان خانۂ کعبہ میں نہیں جا سکتے۔ پس جس طرح خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ابراہیم ؑ کی نقلیں دنیا میں پیدا کرے، اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ تم خانۂ کعبہ کی نقلیں بناؤ جس میں تم اور تمہاری اولادیں اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کر کے بیٹھ جائیں۔ جس طرح وہ لوگ جو ابراہیم ؑ کے نمونہ پر چلیں گے، ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور اس کا ظل ہوں گے اِسی طرح یہ نقلیں خانہ کعبہ کی اولاد ہوں گی، خانہ کعبہ کی ظل اور اُس کا نمونہ ہوں گی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک خانہ کعبہ کے ظل دنیا کے گوشے گوشے میں قائم نہ کر دیئے جائیں اُس وقت تک دین پھیل نہیں سکتا۔ پس فرماتا ہے۔ اے بنی نوع انسان! ہم تجھ کوتوجہ دلانا چاہتے ہیں کہ تم بھی ابراہیمی مقام پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادتیں کرو۔ یعنی ایسے مرکز بناؤ جو دین کی اشاعت کا کام دیں۔
اب بتاتا ہے کہ وہ مقامِ ابراہیم کیا چیز ہے۔ اور ہم نے ابراہیم کو بڑی پکی نصیحت کی۔ عَھِدَبِہٖ کے معنی ہوتے ہیں اُس نے فلاں کے ساتھ عہد کیا لیکن جب کے ساتھ اِلٰی کا صلہ آئے تو اِس کے معنی ہوتے ہیں پکی نصیحت کرنا یا وصیت کرنا۔ پس فرماتا ہے۔ ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو بار بار نصیحت کی اور بار بار اِس طرف توجہ دلائی کہ تم دونوں میرے گھر کو پاک بناؤ اور ہر قسم کے عیبوں اور خرابیوں سے اِس کو بچاؤ طواف کرنے والوں کے لئے اور اُن لوگوں کے لئے جو اپنی زندگی وقف کر کے یہیں بیٹھ رہیں۔ طائفین وہ لوگ ہیں جو کبھی کبھی آئیں اور عاکفین وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی اِسی گھر کی خدمت کے لئے وقف کر دیں۔ اور اُن لوگوں کے لئے جو خداتعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے کھڑے رہتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری میں اپنی ساری زندگی بسر کرتے ہیں یا ان لوگوں کے لئے جو رکوع اور سجود کرتے ہیں۔
یہ چیز ہے جو مقامِ ابراہیم ہے اور جس کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ فرماتا ہے ہماری نصیحت یہی ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے میں خانہ کعبہ کی نقلیں بننی چاہئیں اور دنیا کے کونے کونے میں تمہیں اس کے ظل قائم کرنے چاہئیں اس کے بغیر دین حق کی کامل اشاعت کبھی نہیں ہو سکتی۔
(حضور نے فرمایا:۔)
میں ایک دفعہ اِس دعا کو پڑھ جاؤں گا۔ اس کے بعد پھر دوبارہ پڑھوں گا تمام عورتیں اور مرد میری اتباع کریں۔
(اِس ارشاد کے بعد حضور نے جس رنگ میں تلاوت فرمائی اور جس طرح بعض دعاؤں کا باربار تکرار فرمایا اُس کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ اَدْعیہ درج ذیل کی جاتی ہیں)
۔
(حضور نے فرمایا
یہاں سے گو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ مراد ہیں مگر دعا مانگتے ہوئے سے ہر شخص میاں بیوی بھی مراد لے سکتا ہے۔
اے ہمارے ربّ! بنا دے اِس کو۔ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی ہے اُس وقت مکہ کوئی شہر نہیں تھا۔ وہ صرف چند جھونپڑیاں تھیں جو ایک بے آب و گیاہ وادی میں نظر آتی تھیں۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ زمین جو ویران پڑی ہوئی ہے اِسے بنا دے۔ کیا بنا دے؟ ایک شہر بنا دے۔
عام طور پر جو لوگ عربی نہیں جانتے وہ اِس کے معنی یہ کرتے ہیں کہ اِس شہر کو امن والا بنا دے۔ حالانکہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہی منشاء ہوتا تو آپ کہنے کی بجائے ھٰذَا الْبَلَدَ فرماتے۔ مگر آپ ھٰذَا الْبَلَدَ نہیں بلکہ کہتے ہیں پس یہ شہر کے بنانے کی دعا ہے۔ شہر کو کچھ اَور بنانے کی دعا نہیں۔ اے میرے ربّ! بنا دے اِس ویران زمین کو ایک شہر۔ مگر شہروں کے ساتھ فتنہ و فساد کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ جب لوگ مل کر رہتے ہیں تو لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، جھگڑے بھی ہوتے ہیں، فسادات بھی ہوتے ہیں اور پھر شہروں کو فتح کرنے کیلئے حکومتیں حملہ بھی کرتی ہیں۔ یا بعض شہر جب بڑے ہو جائیں تو اُن کے رہنے والے اپنا نفوذ بڑھانے کیلئے دوسروں پر حملہ کر دیتے ہیں اور چونکہ یہ سارے خدشات شہروں سے وابستہ ہوتے ہیں اِس لئے میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو اِسے امن والا بنائیو۔ نہ کوئی اِس پر حملہ کرے اور نہ یہ کسی اَور پر حملہ کرے۔ اور اِس کے رہنے والوں کو ثمرات دیجیؤ۔
میں پہلے بتا چکا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اِس دعا کا یہ مفہوم ہے کہ اے خدا! میں تجھ سے ان کے لئے روٹی نہیں مانگتا، میں تجھ سے پلاؤ نہیں، میں تجھ سے دُنبے کا گوشت نہیں مانگتا، بے شک یہ بھی تیری نعمتیں ہیں اور اگر اِن کو مل جائیں تو تیرا فضل اور انعام ہے مگر میں جو کچھ چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تُو اِن کو وہ پھل کھلا جو دس میل لے جا کر بھی سَڑ جاتاہے۔ تو دنیا کے کناروں سے اِن کے لئے ہر قسم کے پھل لا اور اِنہیں اِن پھلوں سے متمتع فرما۔ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی کہ میری اولاد میں سے بھی نبی بنائیو۔ اِس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر وہ نیک ہوں گے تو ہم اُن کو اپنے انعامات سے حصہ دیں گے ورنہ نہیں۔ نبی بڑا محتاط ہوتا ہے۔ جب خداتعالیٰ نے یہ کہا کہ میں ہر ایک کو یہ انعام نہیں دے سکتا جو نیک ہوگا صرف اُسے انعام ملے گا۔ تو اِس دوسری دعا کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اِسی امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ یا اللہ جو نیک ہوں صرف اُن کو رزق دیجیؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ رزق کے معاملہ میں ہمارا اَور حکم ہے اور نبوت اور امامت کے معاملہ میں ہمارا اَور حکم ہے۔ نبوت اور امامت صرف نیک لوگوں کو ملتی ہے مگر رزق ہر ایک کو ملتا ہے۔ پس جو کافر ہوگا دنیا کی روزی ہم اُس کو بھی دیں گے۔ چنانچہ سینکڑوں سال تک مکہ کے لوگ مشرک رہے مگر ابراہیمی رزق اُن کو بھی پہنچتا رہا۔ ہاں تیری نسل ہونے کی وجہ سے وہ اُخروی عذاب سے بچ نہیں سکتے۔ مَر جائیں گے تو وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
پھر فرماتا ہے یاد کرو جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ مل کر بیت اللہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہے تھے کہ خدایا! تیرا گھر تو برکت والا ہی ہوگا کون ہے جو اُسے برکت سے محروم کر سکے ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری نسل میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو نمازیں پڑھنے والے اور تیری یاد میں اپنی زندگی بسر کرنے والے ہوں تا کہ اِس گھر کی برکت سے انہیں بھی فائدہ پہنچے مگر اگلی اولادوں کو ٹھیک کرنا آئندہ نسلوں کو درست کرنا اور اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اے ہمارے ربّ! ہم نے خالص تیرے ایمان اور محبت کے لئے یہ گھر بنایا ہے تو اپنے فضل سے اسے قبول کرلے اور اس کو ہمیشہ اپنے ذکر اور برکت کی جگہ بنا دے۔ تو ہماری دردمندانہ دعاؤں کو سننے والا اور ہمارے حالات کو خوب جاننے والا ہے۔ تو اگر فیصلہ کر دے کہ یہ گھر ہمیشہ تیرے ذکر کے لئے مخصوص رہے گا تو اِسے کون بدل سکتا ہے۔ اِس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیت اللہ بنانے کے درحقیقت دو حصے ہیں۔ ایک حصہ بندے سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا حصہ خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ جس مکان کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں وہ اینٹوں سے بنتا ہے، چونے سے بنتا ہے، گارے سے بنتا ہے اور یہ کام خداتعالیٰ نہیں کرتا بلکہ انسان کرتا ہے۔ مگر کیا انسان کے بنانے سے کوئی مکان بیت اللہ بن سکتا ہے؟ انسان تو صرف ڈھانچہ بناتا ہے روح اس میں خداتعالیٰ ڈالتا ہے۔ اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ڈھانچہ تو میں نے اور اسماعیل نے بنا دیا ہے مگر ہمارے بنانے سے کیا بنتا ہے۔ اے خدا! تو ہمارے اِس تحفہ کو قبول کر اور اسے اپنے پاس سے مقبولیت عطا فرما۔ ورنہ محض مسجدیں بنانے سے کیا بنتا ہے۔ کئی مسجدیں ایسی ہیں جو باپ دادوں نے بنائیں اور بیٹوں نے بیچ ڈالیں، کئی مسجدیں ایسی ہیں جو بادشاہوں یا شہزادوں نے بنائیں مگر آج اُن میں کتے پاخانہ پھرتے ہیں اِس لئے کہ انسان نے تو مسجدیں بنائیں مگر خدا نے اُنہیں قبول نہ کیا۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کہتے ہیں کہ اے خدا! ہم نے تو تیرا گھر بنایا ہے مگر یہ محض ہمارے بنانے سے قیامت تک قائم نہیں رہ سکتا، یہ اُس وقت تک رہ سکتا ہے جب تک تُو کہے گا اِس لئے اے خدا! ہم نے جو گھر بنایا ہے اِسے تُو قبول فرما اور تُو سچ مچ اِس میں رہ پڑ۔ اور جب خدا کسی جگہ بَس جائے تو وہ کیسے اُجڑ سکتا ہے۔ گاؤں اُجڑ جائیں تو اُجڑ جائیں، شہر اُجڑ جائیں تو اُجڑ جائیں وہ مقام کبھی نہیں اُجڑ سکتا جس جگہ خدا بس گیا ہو۔ چنانچہ دیکھ لو سینکڑوں سال تک مکہ بے آباد رہا مگر چونکہ خداوہاں تھا اس لئے اس کی عزت قائم رہی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہی دعا مانگتے ہوئے فرماتے ہیںاے خدا! اِس گھر کی آبادی تیرے بندوں سے وابستہ ہے مگر محض لوگوں کی آبادی کوئی چیز نہیں اصل چیز یہ ہے کہ اِس سے تعلق رکھنے والے نیک ہوں۔ پس ہم جو بیت اللہ کو بنانے والے ہیں اور جو دو افراد ہیں ہماری پہلی دعا تو یہ ہے کہ تُو خود ہمیں نیک بنا اور پھر ہماری اولاد میں سے ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے جو تیرا مطیع اور فرمانبردار ہو۔ پھر چاہے انسان کے دل میں کتنا ہی اخلاص ہو اگر اُسے طریق معلوم نہ ہو کہ کس طرح کسی گھر کو آباد رکھنا ہے تو پھر بھی وہ غلطی کر جاتا ہے اِس لئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! نہ صرف ہمارے دلوں میں ایمان قائم رکھ بلکہ وقتاً فوقتاً ہمیں یہ بھی بتاتا رہیو کہ ہم نے کس طرح اِسے آباد رکھنا ہے اور ہم کونسا وہ طریق عبادت اختیار کریں جس سے تُو خوش ہو اور یہ گھر آباد رہ سکے۔ مگر اِس اخلاص کے باوجود، اِس الہام کے باوجود جو یہ بتاتا رہے کہ کس طرح اِس گھر کو آباد رکھنا ہے اے خدا! ہم بندے ہیں اور ہم نے غلطیاں کرنی ہیں تُو توّاب اور رحیم ہے تو ہمیں معاف کر د یا کر اورہمارے گناہوں سے درگذر کرتا رہ۔ تو بڑی توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔ تواب اوررحیم نام اِسی لئے لائے گے ہیں کہ بندہ خواہ کتنی بھی نیک نیتی سے کام کرے وہ غلطی کر جاتا ہے۔ ایسی حالت میں توابیت اُس کے کام آتی ہے اور اگر اچھا کام کرے تو رحیمیت اُس کے کام آتی ہے۔
اے ہمارے ربّ! تو ان لوگوں میں جو اِس جگہ رہیں گے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔ اور اے ہمارے ربّ! رسول کے آنے سے یہ ضرورت تو پوری ہو جائے گی کہ خانہ کعبہ سے جس طرح تعلق رکھنا ہے اُس کا پتہ لگ جائے گا اور وہ سچے اور مخلص مؤمن بن جائیں گے مگر اے ہمارے ربّ! ہم نے جو اپنی اولاد کو یہاں آ کر بسایا ہے اس میں کچھ خودغرضی بھی ہے۔ ہماری یہ بھی غرض ہے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہماری یہ بھی غرض ہے کہ ہماری اولاد کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ ہم نے صرف تیرا گھر نہیں بنایا بلکہ اپنی اولاد کو بھی یہاں لا کر بسا دیا ہے گویا ہم نے جو تیرے نام کی بلندی کی کوشش کی ہے اِس میں کچھ خود غرضی بھی شامل ہے۔ ہم نے یہ مکان بنایا ہے اس لئے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہم نے اپنی اولاد یہاں اس لئے بسائی ہے کہ اِس کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ پس ہم نے جو اپنی اولاد یہاں بسائی ہے اِس میں ہماری یہ غرض بھی شامل ہے کہ آنے والا رسول اِنہی میں سے ہو باہر سے نہ ہو۔ وہ تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے۔ تیرے نشانات اور معجزات کے ذریعہ اُن کے ایمانوں کو بلند کرے۔ اور تیری شریعت جس کے بغیر باطن پاکیزہ نہیں ہوسکتا اور جو انسان کو مکمل نمونہ بنا دیتی ہے نازل ہو اور وہ لوگوں کو سکھائے۔ اور اے ہمارے ربّ! جب وہ رسول آئے گا انسانی عقل تیز ہو چکی ہوگی اُس وقت انسان بچہ نہیں ہوگا کہ اُسے یہ کہا جائے کہ اُٹھ اور فلاں کام کر اور جب وہ کہے کہ میں کیوں کروں؟ تو اُسے کہا جائے آگے سے بکواس مت کرو۔ عیسٰی ؑ کے زمانہ میں اور موسٰی ؑ کے زمانہ میں اور نوحؑ کے زمانہ میں ایسا ہو چکا مگر جب وہ نبی آئے گا اُس کا زمانہ انسانی عقل کے ارتقاء کا زمانہ ہوگا اُس وقت بندہ صرف یہی نہیں سنے گاکہ کر۔ بلکہ وہ پوچھے گا کہ کیوں کروں؟ پس اے خدا! تو اُس کو موسیٰ کی طرح شریعت ہی نہ دیجیؤ، نوحؑ کی طرح صحف ہی نہ دیجیؤ، داؤد کی طرح احکام ہی نہ دیجیؤ بلکہ ساتھ ہی اِن کی وجہ بھی بتا دیجیؤ اور ان احکام کی حکمت بھی واضح کیجیؤ تاکہ نہ صرف اُن کے جسم تیرے حکم کے تابع ہوں بلکہ اُن کا دماغ اور دل بھی تیرے حکم کے تابع ہو اور وہ سمجھیں کہ جو کچھ کہا گیا ہے فلسفہ کے ماتحت کہا گیا ہے، عقل کے ماتحت کہا گیا ہے، ضرورت کے ماتحت کہا گیا ہے، فوائد کے ماتحت کہا گیا ہے۔ اور اُن کو پاک کرے۔ دماغ کو ہی پاک نہ کرے بلکہ حکمت سکھا کر اُن کے قلوب کو بھی محبت الٰہی سے بھر دے یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ میں جذب کر دیں، الٰہی صفات اُن میں پیدا ہو جائیں اور وہ چلتے ہوئے انسان نظرنہ آئیں بلکہ خدا نمائی کا ایک آئینہ دکھائی دیں۔
اے ہمارے ربّ! ہم نے جو چیز مانگی ہے بظاہریہ ناممکن نظر آتی ہے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن ہم خوب جانتے ہیں کہ تجھ میں طاقت ہے تو عزیز خدا ہے، تو غالب خدا ہے اور تیری شان یہ ہے۔
جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تُو ایسا کر سکتا ہے۔ چونکہ تو عزیز خدا ہے اِس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ایسا رسول آئے۔
اِس پر اعتراض ہو سکتا تھا کہ اگر پہلے خدا نے ایسا رسول نہیں بھیجا تو اب کیوں بھیجے؟ اور اگر پہلے بھی ایسا رسول بھیجنا ضروری تھا تو پھر ایسے رسول کو نہ بھجوا کر بنی نوع انسان پر کیوں ظلم کیا گیا؟ اِس اعتراض کا کہہ کر ازالہ کر دیا کہ ہم جانتے ہیں پہلے ایسا رسول آ ہی نہیں سکتا تھا۔ پہلے لوگ اِس قابل ہی نہیں تھے کہ محمدی تعلیم کو برداشت کر سکیں۔ پس ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عزیز کہہ کر خدائی غیرت کو جوش دلایا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا مطالبہ غیر معقول نہیں ہم جانتے ہیں کہ تُو ایسا کر سکتا ہے مگر ساتھ ہی حکیم کہہ کر بتا دیا کہ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اگر پہلے تو نے ایسا رسول نہیں بھجوایا تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ تُو نے بُخل سے کام لیا ہے بلکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر پہلے تو نے ایسا نبی نہیں بھیجا تو صرف اِس لئے کہ پہلے ایسا نبی بھیجنا مناسب نہیں تھا۔
یہ کیسی کامل دعا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مقام اور آپ کے بلند ترین مدارج کو واضح کرنے والی ہے۔ مگر میں پھر کہتا ہوں دنیا دوسری چیزوں کی نقلیں کرتی ہے، دنیا چاہتی ہے کہ اگر اسے اچھی تصویریں نظر آئیں تو اُن کو اپنے گھروں میں لے جائے، وہ خوشنما اور خوبصورت مناظر دیکھتی ہے تو اُن کے نقشے اپنے گھروں میں رکھتی ہے مگر انسان کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ خانہ کعبہ کی بھی نقلیں بنائے جنہیں لوگ دیکھیں اور جہاں لوگ اپنی زندگیاں خداتعالیٰ کے ذکر اور اُس کے نام کی بلندی کے لئے وقف کر دیں۔ انسان کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ میں اپنے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر بٹھاؤں تا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ اور تصویر کو دیکھ کر اور لوگ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل بننے کی کوشش کریں حالانکہ اگر دنیا میں ہر جگہ خانہ کعبہ کے ظل اور اُس کی نقلیں نہ ہوں، اگر دنیا میں ہر جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل اور آپ کی نقلیں نہ ہوں تو وہ دنیا ہرگز رہنے کے قابل نہیں۔ دنیا تبھی بچ سکتی ہے، دنیا تبھی زندہ رہ سکتی ہے، دنیا تبھی ترقی کر سکتی ہے جب ہر مُلک کے لوگ خانہ کعبہ کی نقل میں ایسی جگہیں بنائیں جہاں لوگ اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیں اور انسان کوشش کرے کہ ہر خطہ زمین پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے نظر آئیں۔
بہرحال یہ دعائیں ہیں جو کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مانگیں۔ میں اِس وقت اِسی پر بس کرتا ہوں۔ اگر میری تقریر کے لمبا ہو جانے کی وجہ سے بعض تقریریں ضائع ہوگئی ہیں تو بیشک ہو جائیں ہمارا مقصد اِس جلسہ میں تقریریں کرنا نہیں بلکہ دعائیں کر کے اِس مقام کو بابرکت بنانا ہے۔ میں نے دعائیں سکھا دی ہیں یوں انسان کے ذہن میں دعائیں نہیں آتیں مگر نبیوں کے ذہن میں جو دعائیں آتی ہیں وہ نہایت کامل ہوتی ہیں۔ خداتعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کے دل میں ایسے وقت میں جو خیالات آئے اور جو کچھ ان مقدس مقامات کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں اور کامیابی کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے جن فضلوں کی ضرورت ہے ان تمام چیزوں کو آپ نے اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے اور اب آپ سب لوگ میرے ساتھ مل کر دعا کریں۔ یہ زمین ابھی ہمیں پورے طور پر ملی نہیں ہم تفاؤل کے طور پر اِسے اپنا مرکز بناتے ہیں اور دعاؤں کے ساتھ اِسے اپنا مذہبی مقدس مقام قرار دیتے ہیں اِس کے بعد ہمارا فرض ہوگا کہ اِس مقام کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کریں اور ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور خداتعالیٰ کے نام کی بلندی کے لئے اِسے استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ـ
پس آؤ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اے خدا! میں ابراہیم کی طرح تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو مدینہ کو بھی اُسی طرح برکتیں دے جس طرح تو نے مکہ کو برکتیں دی ہیں اِسی طرح ہم بھی اس مقام کے بابرکت ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں۔ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیںلیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور غلام ضرور ہیں اور جہاں آقا جاتا ہے وہاں خادم بھی جایا کرتا ہے۔ گورنر کی جب کسی جگہ دعوت ہوتو اُس مقام پر گورنر کا چپڑاسی پہنچ جایا کرتا ہے۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خادم ہونے کی حیثیت سے ہمارا بھی خدا پر حق ہے اور ہم بھی خداتعالیٰ کو اُس کا یہ حق یاد دلاتے ہوئے اُس سے کہتے ہیں کہ اے خدا!جس طرح تو نے مکہ اور مدینہ اور قادیان کو برکتیں دیں اُسی طرح تو ہمارے اِس نئے مرکز کو بھی مقدس بنا اور اِسے اپنی برکتوں سے مالا مال فرما۔ یہاں پر آنے والے اور یہاں پر بسنے والے، یہاں پر مَرنے والے اور یہاں پر جینے والے سارے کے سارے خداتعالیٰ کے عاشق اور اُس کے نام کو بلند کرنے والے ہوں اور یہ مقام اسلام کی اشاعت کے لئے، احمدیت کی ترقی کے لئے، روحانیت کے غلبہ کے لئے، خداتعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اُونچا کرنے کے لئے اور اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے بہت اہم اور اُونچا اور صدر مقام ثابت ہو۔
پس آؤ ہم دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ اِس مقام کو ہمارے لئے بابرکت کرے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم منشائے ابراہیمی، منشاء محمدی اور منشاء مسیح موعود کے مطابق اِس مقام کو خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے ایک بہت بڑا مرکز بنائیں اور خداتعالیٰ کے فضل ہم کو اِس کی توفیق عطا فرمائیں کہ ہم نے اِس مقام کو اشاعت اسلام کے لئے مرکز قرار دے کر جو ارادے کئے ہیں وہ پورے ہو جائیں کیونکہ سچی بات یہی ہے کہ ہم نے جو ارادے کئے ہیں اُن کو پورا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔
(اس کے بعد حضور نے اُن ہزار ہامخلصین کے ساتھ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس مقدس اجتماع میں شریک ہونے کی توفیق بخشی تھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اُٹھا کر ایک لمبی دعا کی اور پھر فرمایا)
اب میں سجدہ میں گر کر دعا کرتا ہوں کیونکہ مسجد دعا کے لئے ایک خاص مقام ہوتا ہے اگرجگہ نہ ہو تو لوگ ایک دوسرے کی پیٹھوں پر بھی سجدہ کر سکتے ہیں۔
(یہ الفاظ کہتے ہی حضور سجدہ میں گر گئے اور حضور کے ساتھ ہی ہزاروں مخلصین جو اس بابرکت اجتماع میں شمولیت کیلئے دُور و نزدیک سے تشریف لائے ہوئے تھے وہ بھی سربسجود ہوگئے اور ربُّ العرش سے اِس مقام کے بابرکت ہونے کے متعلق آنسوؤں کی جھڑی اور آہ و بکا کے شور کے ساتھ دعائیں کی گئیں۔ آمین۔)
(الفضل جلسہ سالانہ نمبر۱۹۶۵ء)
۱؎ ابن ماجہ کتاب الجہاد باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللّٰہ+ اسدالغابۃجلد۳ صفحہ۲۳۳ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۲؎ الصّٰفّٰت:۱۰۳ ۳؎ الصّٰفّٰت:۱۰۶ ۴؎ ابراہیم:۳۸
۵؎
(البقرۃ: ۱۲۶)
۶تا ۱۰؎ ابراہیم: ۳۸ ۱۱،۱۲؎ ابراہیم: ۳۹
۱۳تا۱۶؎ بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللّٰہ تعالٰی واتخذاللّٰہ ابراہیم خلیلا باب
یزفون
۱۷؎ البقرۃ:۱۲۶
آئندہ وہی قومیںعزت پائیں گی جو
مالی و جانی قربانیوں میں حصہ لیں گی
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
آئندہ وہی قومیں عزت پائیں گی جو مالی و جانی قربانیوں میں حصہ لیں گی
)خواتین سے خطاب(
(فرمودہ ۱۶؍ اپریل ۱۹۴۹ء برموقع پہلا جلسہ سالانہ منعقدہ ربوہ)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
جیسا کہ کل سے آپ سن رہی ہوں گی یہ جلسہ درحقیقت ربوہ کے افتتاح کا جلسہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت ہمیں قادیان کچھ عرصہ کے لئے چھوڑنا پڑا ہے اور ہمارے لئے ضرورت ہے کہ جماعتی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے ہم کوئی عارضی مقام بنائیں جہاں سلسلہ کے مرکز کے طور پر دنیا میں اشاعت اسلام کے کام کو جاری رکھ سکیں۔ عارضی انتظام ہونے کی وجہ سے ہمیں ہر ایک چیز باہر سے لانی پڑتی ہے۔ ربوہ میں تو درحقیقت مٹی کا دیا بھی نہیں مل سکتا مگر لاؤڈسپیکروں کے کام کے لئے بجلی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ لاہور سے بجلی کے انجن منگوائے گئے اور لاہور ہی سے لاؤڈ سپیکر لائے گئے بلکہ مزدور تک باہر سے لانے پڑے ہیں اور بعض دفعہ وہ کام چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اِس لئے کام ہوتے ہوتے رُک جاتا ہے۔ شامیانے وغیرہ بھی لاہور سے آئے ہیں، قناتیں بھی لاہور سے آئی ہیں بلکہ جو لوگ کام کر رہے ہیں وہ بھی لاہور سے آئے ہیں، کھانا کھلانے والی لڑکیاں اور عورتیں بھی لاہور سے آئی ہیں، وہ خاکروب جو صفائی کرتے ہیں ان میں سے بھی کچھ لاہور سے آئے ہیں، پانی بھرنے والے سقے اِردگرد کے علاقوں سے منگوائے گئے ہیں۔ پس یہاں کی درحقیقت کوئی بھی چیز نہیں اِس وجہ سے انتظام میں خرابیوں کا ہو جانا کوئی بعید بات نہیں بلکہ خرابیوں کا ہونا لازمی ہے اور اگر کوئی اچھی بات ہو تو وہ اتفاقی ہوگی۔
پس اِس جلسہ کی غرض اور اہمیت آپ لوگوں کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ یہ جلسہ تقریروں کے لئے نہیں ہے۔ حج ہر سال ہوتا ہے مگر وہاں کوئی تقریر نہیں ہوتی لیکن ساری دنیا سے مسلمان ہزاروں ہزار میل چل کر خانۂ کعبہ کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ ہر سال دو تین لاکھ حاجی وہاں جمع ہوجاتا ہے اور اِس دو تین لاکھ کے مجمع کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ عرفات چلے گئے، وہاں سے مزدلفہ روانہ ہوگئے، مزدلفہ سے منی آ گئے اور پھر پتھروں کے بنے ہوئے ایک مکان کے اِردگرد چکر لگائے، قربانیاں کیں اور کام ختم ہو گیا۔ ساڑھے چار ہزار سال سے کعبہ کی بنیاد پڑی ہے اور یہ وہ بنیاد ہے جو ابراہیمی ہے۔ بالکل غالب ہے کہ خانہ کعبہ اِس سے بھی پہلے کا ہو اور قرین قیاس یہی ہے کیونکہ قرآنِ کریم کی بعض آیتوں سے یہی نکلتا ہے کہ خانہ کعبہ پہلے سے تھا لیکن اگر اِس امر کو نظر انداز کر دو تب بھی ساڑھے چار ہزار سال سے ہزاروں ہزار میل کے فاصلہ سے لوگ وہاں جاتے اور ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ اب تک بھی وہاں ریل نہیں بنی اور وہاں کی زمین کی یہ حالت ہے کہ جس قسم کی ریتلی زمین یہاں ہے یہ اُس کے مقابلہ میں شاہی سڑکوں سے کم حیثیت نہیں رکھتی۔ جدہ سے مکہ جاتے ہوئے جس قسم کے میدانوں سے گذرنا پڑتا ہے اُسے دیکھ کر یہ پتہ ہی نہیں چل سکتا کہ سڑک کونسی ہے، جنگل کونسا ہے اور میدان کونسا ہے۔ یہاں تو شیڈ بنا دیئے گئے ہیں مگر وہاں سائے کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ اونٹ چلانے والے رات کو کسی جگہ اونٹ بٹھا دیتے ہیں اور اُن اونٹوں کے پاس ہی کچھ اونٹوں کی سواریاں، کچھ اونٹ چلانے والے اور کچھ اَور لوگ جو سمجھتے ہیں کہ اگر ہم ان کے ساتھ مل گئے تو ڈاکو ہم پر حملہ نہیں کر سکیں گے، اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ریت پر سر رکھ کر سو جاتے ہیں۔ پھر جو گردوغبار یہاں اُڑ رہا ہے وہاں کوئی دوسرا شخص پاس سے گذرے تو گردوغبار کی وجہ سے نظر بھی نہیں آتا مگر باوجود اِس کے ہزاروں سال تک لوگوں نے ہنسی ہنسی اور خوشی خوشی اِن تکالیف کو برداشت کیا ہے کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم خداتعالیٰ کی مرضی کو پورا کر رہے ہیں۔
آپ لوگوں کو تو صرف ایک سال اِس کا تجربہ ہوا ہے اگلے سال شاید یہ نعمت آپ لوگوں کو میسر نہ آئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں مرکز قائم ہو گیا تو اگلے سال بہت سی سہولتیں میسر آ جائیں گی مگر وہ سہولیں جسم کی ہوں گی روح کی نہیں۔ روح کی سہولتیں ہمیشہ خداتعالیٰ کی راہ میں تکالیف اُٹھانے سے ہی میسر آتی ہیں۔
انبیاء جب دنیا میں آتے ہیں تو اُن کے ابتدائی ایام میں جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہی بڑے سمجھے جاتے ہیں۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت سعدؓ اور حضرت سعیدؓ وہ لوگ تھے جو بڑے سمجھے جاتے تھے مگر ان کے بڑے سمجھے جانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو آرام زیادہ میسر آتا تھا بلکہ ان کے بڑے سمجھے جانے کی وجہ یہ تھی کہ دین کی خاطر اِنہوں نے دوسروں سے زیادہ تکلیفیں برداشت کی تھیں۔ حضرت طلحہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی زندہ رہے اور جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوا اورایک گروہ نے کہا کہ حضرت عثمانؓ کے مارنے والوں سے ہمیں بدلہ لینا چاہیے تو اس گروہ کے لیڈرحضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ تھے۔ لیکن دوسرے گروہ نے کہا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑ چکا ہے آدمی مرا ہی کرتے ہیں، سرِدست ہمیں تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنا چاہیے تا کہ اسْلام کی شوکت اور اس کی عظمت قائم ہو بعد میں ہم اِن لوگوں سے بدلہ لے لیں گے اِس گروہ کے لیڈر حضرت علیؓ تھے۔ یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؒ اور حضرت عائشہؓ نے الزام لگایا کہ علیؓ اُن لوگوں کو پناہ دینا چاہتے ہیں جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا ہے۔ اور حضرت علیؓ نے الزام لگایا کہ اِن لوگوں کو اپنی ذاتی غرضیں زیادہ مقدم ہیں اسلام کا فائدہ ان کے مدنظر نہیں۔ گویا اختلاف اپنی انتہائی صورت تک پہنچ گیا اور پھر آپس میں جنگ بھی شروع ہوئی ایسی جنگ جس میں حضرت عائشہؓ نے لشکر کی کمان کی۔ آپ اونٹ پر چڑھ کر لوگوں کو لڑواتی تھیں اور حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی اِس لڑائی میں شامل تھے۔ جب دونوں فریق میں جنگ جاری تھی ایک صحابی حضرت طلحہؓ کے پاس آئے اور اُن سے کہا۔ طلحہؓ! تمہیں یاد ہے فلاں موقع پر میں اور تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ طلحہؓ! ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم اَور لشکر میں ہوگے اور علیؓ اَور لشکر میں ہوگا اور علیؓ حق پر ہوگا اور تم غلطی پر ہوگے۔ حضرت طلحہؓ نے یہ سنا تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور اُنہوں نے کہا ہاں! مجھے یہ بات یاد آ گئی ہے اور پھر اُسی وقت لشکر سے نکل کر چلے گئے۔ جب وہ لڑائی چھوڑ کر جار ہے تھے تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری کی جائے تو ایک بدبخت انسان جو حضرت علیؓ کے لشکر کا سپاہی تھا اُس نے پیچھے سے جا کر آپ کو خنجر مار کر شہید کر دیا۔ حضرت علیؓ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے وہ اِس خیال سے کہ مجھے بہت بڑا انعام ملے گا، دَوڑتا ہوا آیا اور اُس نے کہا اے امیرالمؤمنین! آپ کو آپ کے دشمن کے مارے جانے کی خبر دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے کہا۔ کون دشمن؟ اُس نے کہا۔ اے امیرالمؤمنین! میں نے طلحہؓ کو مار دیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا اے شخص! میں بھی تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بشارت دیتا ہوں کہ تُو دوزخ میں ڈالا جائے گا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا (جبکہ طلحہؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور میں بھی بیٹھا ہوا تھا) کہ اے طلحہؓ! تُو ایک دفعہ حق و انصاف کی خاطر ذِلّت برداشت کرے گا اور تجھے ایک شخص مار ڈالے گا مگر خدا اُس کو جہنم میں ڈالے گا۔
اِس لڑائی میں جب حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ و زبیرؓ کے لشکر کی صفیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوئیں تو حضرت طلحہؓ اپنی تائید میں دلائل بیان کرنے لگے (یہ اُس وقت سے پہلے کی بات ہے جب ایک صحابی نے اُنہیں حدیث یاددلائی اور وہ جنگ چھوڑ کر چلے گے) وہ دلائل بیان کر ہی رہے تھے کہ حضرت علیؓ کے لشکر میں سے ایک شخص نے کہا او ٹنڈے! چپ کر۔ حضرت طلحہؓ کا ایک ہاتھ بالکل شل تھا وہ کام نہیں کرتا تھا۔ جب اُس نے کہا۔ او ٹنڈے! چپ کر تو حضرت طلحہؓ نے فرمایا کہ تم نے کہا تو یہ ہے کہ ٹنڈے چپ کر۔ مگر تمہیں پتہ بھی ہے کہ میں ٹنڈا کس طرح ہوا ہوں؟ اُحد کی جنگ میں جب مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تو تین ہزار کافروں کے لشکر نے ہمیں گھیرے میں لے لیا اور اُنہوں نے چاروں طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیر برسانے شروع کر دیئے۔ اِس خیال سے کہ اگر آپؐ مارے گئے تو تمام کام ختم ہو جائے گا اُس وقت کفّار کے لشکر کے ہر سپاہی کی کمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف تیر پھینکتی تھی تب میں نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کر دیا اور کفارکے لشکر کے سارے تیر میرے اِس ہاتھ پر پڑتے رہے یہاں تک کہ میرا ہاتھ بالکل بیکار ہو کر ٹنڈا ہو گیا مگر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے سے اپنا ہاتھ نہیں ہٹایا۔
ایک اور دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ یہ قصہ سنا رہے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا۔ طلحہؓ! جب آپ کے ہاتھ پر چاروں طرف سے تیر پڑتے تھے تو درد نہیں ہوتی تھی؟ طلحہؓ نے کہا درد کیوں نہیں ہوتی تھی، ہوتی تھی مگر میں اِسے برداشت کرتا تھا۔ پھر اُس نے کہا کیا آپ کے منہ سے آہ نہیں نکلتی تھی؟ طلحہؓ نے کہا۔ آہ نکلنا تو چاہتی تھی مگر میں آہ کو نکلنے نہیں دیتا تھا تا کہیں میرا ہاتھ ہِل نہ جائے اور کوئی تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ آ لگے۔
پس طلحہ،طلحہؓ کس طرح بنا؟ اُن تکلیفوں کی وجہ سے جو اُنہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اُٹھائی تھیں۔ زبیر،زبیرؓ کس طرح بنا؟ اُن تکلیفوں کی وجہ سے جو اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر برداشت کی تھیں۔
حضرت عثمانؓ بن مظعون رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے، ابتدائی ایام میں وہ آپ پر ایمان لائے۔ اُن کے والد مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس تھے۔ عثمانؓ بن مظعون کی عمر تیرہ چودہ سال کی تھی جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ ایمان لانے کے بعد کفار کی طرف سے اُن پر قسم قسم کے مظالم کئے گئے اور طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائی گئیں مگر وہ تیرہ چودہ سال کا بچہ اِن تکالیف کو بہادری کے ساتھ برداشت کرتا رہا اور تمام تکالیف کو استقلال کے ساتھ اپنی جان پر سہتا رہا اسلام سے اُس نے رُوگردانی اختیار نہ کی۔ جب ہجرت حبشہ ہوئی تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر کہ تم حبشہ چلے جاؤ حضرت عثمانؓ بن مظعون بھی حبشہ گئے مگر پھر جلد ہی واپس آ گئے اور کہا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ پھر جب سختیاں اَور بڑھ گئیں تو اُنہوں نے دوبارہ یہ ارادہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت اور آپ کے ارشاد کے ماتحت کہیں باہر چلے جائیں۔ جب وہ مکہ سے باہر جا رہے تھے تو اُنہیں اپنے باپ کا ایک دوست ملا اور اُس نے پوچھا عثمانؓ! تم مکہ چھوڑ کر کیوں جا رہے ہو؟ اُنہوں نے کہا مکہ کے لوگ رہنے نہیں دیتے۔ وہ رئیس اُن کے باپ کا بڑا دوست تھا جب اُس نے عثمانؓ بن مظعون سے یہ بات سنی تو اُن کے باپ کی یاد اور محبت کی وجہ سے اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اُس نے کہا۔ عثمانؓ! تم جانتے ہو تمہارا باپ میرا بھائی تھا اِس لئے میری موجودگی میں تمہارا یہاں سے چلے جانا بڑی ذِلّت اور رُسوائی کی بات ہے۔ تم میرے ساتھ مکہ واپس چلو میں یہ اعلان کر دوں گا کہ تم میری پناہ میں ہو اور کوئی شخص تمہیں دُکھ نہیں دے سکے گا۔چنانچہ وہ حضرت عثمانؓ کو اپنے ساتھ لے گیا اور جیسے عرب کا دستور تھا اُس نے خانۂ کعبہ میں کھڑے ہو کر اعلان کر دیا کہ عثمانؓ میری پناہ میں ہے جو اِس کو چھیڑے گا وہ مجھے لڑائی کے لئے انگیختہ کرے گا۔ عربوں میں یہ دستور تھا کہ جو شخص کسی شخص کو اپنی پناہ میں لے لیتا تھا اُس پر کوئی دوسرا شخص ہاتھ اُٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ عربوں میں عیب بھی تھے اگر عیب نہ ہوتے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیوں کرتے مگر اُن میں بعض خاص خوبیاں بھی تھیں جو اگر ہم میں پیدا ہو جائیں تو یقینا ہمیں چار چاند لگ جائیں۔ اور اُنہیں خوبیوں میں سے ایک یہ تھی کہ جب وہ کسی کو اپنی پناہ میں لے لیتے تھے تو کوئی شخص اُسے تکلیف نہیں پہنچا سکتا تھا اور اگر پہنچاتا تو اس کے یہ معنی ہوتے تھے کہ اب دونوں میں لڑائی تک نوبت پہنچ جائے گی۔ بہرحال حضرت عثمانؓ بن مظعون کو جب اُس نے پناہ دی تو مکہ والوں کے وہ مظالم جو اُن پر جاری تھے بند ہوگئے اور وہ امن سے رہنے لگ گئے مگر ایک دفعہ جب اُنہوں نے کفار کو تبلیغ کی تو اُنہوں نے اس رئیس سے شکایت کی۔ رئیس نے اُنہیں بُلا کر سمجھایا اور اُنہیں نصیحت کی کہ وہ تبلیغ نہ کیا کریں۔ اُنہوں نے کہا میں تبلیغ سے نہیں رُک سکتا، تم اپنی پناہ بے شک واپس لے لو۔ ۱؎ چنانچہ اس نے اپنی پناہ واپس لینے کا اعلان کر دیا۔
ایک دفعہ مجلس میں لبید شاعر جو عرب کے مشہور شعراء میں سے تھے، اپنے شعر سنا رہے تھے۔ حج کے دن تھے تمام رؤساء مجلس میں بیٹھے تھے کہ اُنہوں نے شعر سناتے سناتے یہ مصرع پڑھا۔
اَلاَ کُلُّ شَیْ ئٍ مَاخَلَا اللّٰہَ بَاطِلٗ
سنو سنو! خداتعالیٰ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ عثمانؓ نے کہا یہ درست ہے۔ اِس پر لبید شاعر خفا ہوئے کہ ایک بچہ ہو کر مجھ جیسے انسان کو داد دیتا ہے مگر لوگوں نے اُن کو راضی کر لیا۔ اِس کے بعد اُنہوں نے دوسرا مصرع پڑھا جو یہ تھا۔
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٗ
یعنی ہر نعمت ایک دن ضرور زائل ہونے والی ہے۔ جب اُنہوں نے کہا وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٗتو حضرت عثمانؓ جوش میں آ گئے اور اُنہوں نے کہا۔ جھوٹ، جھوٹ، بالکل غلط۔ جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہوں گی۔ بھلا جو شخص ایک مصرع کو اچھا کہنے اور اُس کی تعریف کرنے پر چِڑ گیا تھا وہ مذمت کی کب تاب لا سکتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لبید خاموش ہو گئے اور اُنہوں نے کہا میں آئندہ مکہ میں کوئی شعر نہیں سناؤں گا یہاں کے لوگ سخت بدتہذیب ہوگئے ہیں۔ تب غصہ اور جوش کی حالت میں ایک شخص آگے بڑھا اور اُس نے اِس زور سے عثمانؓ کے منہ پر گھونسا مارا کہ اُس کی انگلی آپ کی ایک آنکھ میں گھس گئی اور آنکھ پھوٹ گئی۔ وہ رئیس جس نے حضرت عثمانؓ کو پناہ دی تھی، وہ بھی اُس وقت وہاں موجود تھا مگر وہ اپنی قوم کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اکیلے آدمی کی کیا طاقت ہوتی ہے کہ وہ ساری قوم کے مقابلہ میں کھڑا ہو سکے۔ مگر یہ نظارہ دیکھ کر اُس کا دل غم سے بھر گیا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آ گیا کہ کس طرح عثمانؓ کا باپ جو مکہ کے رؤساء میں سے تھا جب شہر میں نکلتا تو لوگ اُس کا ادب اور احترام کرتے اور اُس کی راہ میں اپنی آنکھیں بچھاتے تھے مگر آج یہ حالت ہے کہ اُس کے بیٹے کو اِس بے دردی کے ساتھ پیٹا گیا ہے کہ اُس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی ہے۔ اِن تصورات کی وجہ سے ایک طرف اُس کا دل غم سے بھر گیا مگر دوسری طرف اُس کا دل خائف تھا کہ میں اپنی قوم کے خلاف کس طرح آواز بلند کروں۔ وہ اِسی کشمکش کی حالت میں عثمان کے پاس جا کر غصہ سے کہنے لگا تو نے دیکھا کہ میری پناہ سے نکلنے کا کیا انجام ہوا؟ میں نہیں کہتا تھا کہ میری پناہ میں ہی رہو! تم نے مجھے مجبور کیا اور کہا کہ میں تمہاری پناہ میں رہنے کے لئے تیار نہیں اور میں نے اپنی پناہ واپس لے لی مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ آج تمہاری آنکھ ضائع ہوگئی ہے۔ اگر خدانخواستہ تم میں سی کسی کی آنکھ نکل جائے یا تمہاری آنکھ پر چوٹ ہی آ جائے تو تم سمجھ سکتی ہو کہ تم کتنا روؤ اور کتنا چیخو اور چلاؤ مگر عثمانؓ اِس تکلیف پر روئے نہیں، وہ چلائے نہیں، اُنہوں نے افسوس ظاہر نہیں کیا، اُنہوں نے ہمدردی کرنے والے سے یہ نہیں کہا کہ آپ کا شکریہ بلکہ عثمانؓ نے کہا تو یہ کہا کہ چچا! تم تو یہ کہتے ہو کہ تیری ایک آنکھ کیوں نکلی؟ خدا کی قسم! میری تو دوسری آنکھ بھی خداتعالیٰ کی راہ میں نکلنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۲؎ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
یہ وہ تکالیف تھیں جو اُنہوں نے اُٹھائیں مگر جانتے ہو ان تکالیف کا عثمانؓ کو کیابدلا ملا؟ اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آپ کو بدلا ملا وہ تو علیحدہ چیز ہے اِس دنیا میں ہی حضرت عثمانؓ کو اِن قربانیوں کا جو بدلا ملا وہ اتنا شاندار ہے کہ آج دنیا کا بڑے سے بڑا مسلمان بادشاہ بھی یہ کہنے کے لئے تیار ہوگا کہ کاش! مجھے اور میرے سارے خاندان کو کولہومیں پیس دیا جائے مگر وہ چیز مجھے میسر آ جائے۔ وہ بدلہ یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آپ کی آخری عمر میں وفات سے دو تین سال پہلے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے ابراہیمؓ رکھا وہ آپ کی آخری عمر کا ایک ثمر تھا مگر وہ دو سال کا ہو کر فوت ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی لاش کو دفنانے کے لئے لے گئے۔ جب آپ قبر کے پاس پہنچے، جنازہ پڑھا گیا تو آپ نے بچہ کی لاش کو ہاتھ میں لیا اور قبر میں اُترے تا کہ اُسے لحد میں رکھ دیں۔ لحد میںرکھتے ہوئے آپ نے ایک فقرہ کہا جو عثمانؓ بن مظعون کی وفات کے چھ سال بعد آپ کی زبان سے نکلا۔ عثمانؓ بن مظعون شہید ہو چکے تھے وہ جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے جو ہجرت کے دوسرے سال ہوئی تھی اور یہ واقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے آٹھویں سال ہوا گویا چھ سال کے قریب حضرت عثمانؓ کی وفات پر گذر چکے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو فقرہ اُس وقت کہا وہ ایک بہترین انعام تھا جو اِس دنیا کاکوئی انسان حاصل کر سکتا ہے۔ آپ نے ابراہیمؓ کی لاش کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ گھٹنے قبر میں ٹیکے اور اُسے لحد میں رکھتے ہوئے فرمایا۔جاؤ اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے پاس۔۳؎
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ سال کے عرصہ کے بعد اپنی آخری عمر کے بیٹے کی وفات پر جس کے بعد کوئی اور اولاد ہونا ناممکن نظر آ رہا تھا اگر کوئی جذبۂ افسوس ظاہر کیا تو یہ کیا کہ آج سے چھ سال پہلے میرا بیٹا عثمانؓ شہید ہو گیا تھا۔ اب اے ابراہیم! چھ سال کے بعد تو نے مجھے پھر عثمانؓ یاد دِلا دیا۔ اگر عثمان کو ساری دنیا کی بادشاہت کے تخت پر بھی بٹھا دیا جاتا اور عثمانؓ کو خداتعالیٰ دائمی زندگی بھی بخش دیتا اور ہمیشہ ہمیش اِس دنیا پر حکمرانی کرتا رہتا، اگر عثمانؓ کی ایک آنکھ نہیں، دونوں آنکھیں نکال دی جاتیں، اُس کے دونوں کان کاٹ دیئے جاتے، اُس کی زبان بھی کاٹ دی جاتی، اُس کا ناک بھی کاٹ دیا جاتا، اُس کے دانت بھی نکال دیئے جاتے اور پھر عثمانؓ سے یہ کہا جاتا کہ تو یہ فقرہ چھوڑ دے ہم تجھے سب کچھ واپس دینے کو تیار ہیں تو بھی عثمانؓ اُن کی یہ بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوتا۔ وہ کہتا کہ میں یہ فقرہ واپس دینے کے لئے تیار نہیں تم یہ نعمتیں بے شک اپنے پاس رکھو۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ تازہ مرنے والوں میں سے ہر ایک کا صدمہ ہوتا ہے۔ ہمسائیوں کا بھی ہوتا ہے، رشتہ داروں کا بھی ہوتا ہے مگر چھ سال کا عرصہ اتنا لمبا عرصہ ہے کہ اِس میں دوست اپنے دوستوں کو اور رشتہ دار اپنے رشتہ داروں کو بھول جاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ عثمانؓ کی وفات کے چھ سال بعد آپ کا اکلوتا بیٹا جو آپ کی آخری عمر کا ثمرہ تھا، وفات پاتا ہے تو وہ یہ نہیں کہتے کہ ابراہیمؓ! تیری موت سے مجھے یہ دکھ ہوا ہے، بلکہ وہ کہتے ہیں تو یہ کہ ابراہیمؓ نے مجھے عثمانؓ کی موت یاد دلا دی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے اُنہوں نے رُتبے پائے اور عزتیں حاصل کیں۔ ہماری ایک یا دو دن کی تکلیفیں اِس کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا رکھتی ہیں۔
حضرت عائشہؓ دیر تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہی تھیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب ایران فتح ہوا، تو وہاں سے آٹا پیسنے والی ہوائی چکیاں لائی گئیں۔ جن میں باریک آٹا پیسا جانے لگا۔ جب سب سے پہلی چکی مدینہ میں لگی تو حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ پہلا پسا ہوا باریک آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بطور تحفہ بھیجا جائے۔ چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق وہ باریک میدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا گیا اور اُن کی خادمہ نے اُس آٹے کے باریک باریک پھلکے تیار کئے۔ مدینہ کی عورتیں جنہوں نے پہلے کبھی ایسا آٹا نہیں دیکھا تھا، وہ ہجوم کر کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جمع ہو گئیں کہ آؤ ہم دیکھیں وہ آٹا کیسا ہے اور اس کی روٹی کیسے تیار ہوتی ہے؟ سارا صحن عورتوں سے بھرا ہوا تھا اور سب اِس انتظار میں تھیں کہ اُس آٹے کی روٹی تیار ہو تو وہ اُسے دیکھیں۔ تم خیال کرتی ہوگی کہ شاید وہ کوئی عجیب قسم کا آٹا ہوگا۔ وہ عجیب قسم کا آٹا نہیں تھا بلکہ اُس سے بھی ادنیٰ آٹا تھا جو تم روزانہ کھاتی ہو بلکہ اُس سے بھی ادنیٰ آٹا تھا۔ آج جو آٹا تم میں سے ایک غریب سے غریب عورت کھاتی ہے اُس سے بھی وہ ادنیٰ تھا۔ مگر مدینہ میں جس قسم کے آٹے ہوتے تھے اُن سے وہ بہت اعلیٰ تھا۔ بہرحال آٹے کے پھلکے تیار ہوئے عورتوں نے اُن کو دیکھا اور وہ حیران رہ گئیں۔ وہ وفورِ شوق میں اپنی انگلیاں اُن پھلکوں کو لگاتیں اور بے ساختہ کہتیں، اُف کیسا نرم پھلکا ہے۔ کیا اِس سے اچھا آٹا بھی دنیا میں ہو سکتا ہے؟ حضرت عائشہؓ نے پھلکے میں سے ایک لقمہ توڑا اور منہ میں ڈالا۔ وہ ساری کی ساری اِس شوق سے حضرت عائشہؓ کا منہ دیکھنے لگیں کہ اِس کے کھانے سے حضرت عائشہؓ کی عجیب حالت ہوگی، وہ خوشی کا اظہار کریں گی اور خاص قسم کی لذت اِس سے محسوس کریں گی۔ مگر حضرت عائشہؓ کے منہ میں وہ لقمہ گیا تو جس طرح کسی نے گلا بند کر دیا ہو، وہ لقمہ اُن کے منہ میں ہی پڑا رہ گیا اور اُن کی آنکھوں میں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ عورتوں نے کہا۔ بی بی! آٹا تو بڑا ہی اچھا ہے، روٹی اِتنی نرم ہے کہ اِس کی کوئی حد ہی نہیں آپ کو کیا ہو گیا کہ اسے نگل ہی نہیں سکیں اور رونے لگ گئیں؟ کیا اِس آٹے میں کوئی نقص ہے؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا۔ آٹے میں نقص نہیں میں مانتی ہوں کہ یہ بڑا ہی نرم پھلکا ہے اور ایسی چیز پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھی مگر میری آنکھوں سے اِس لئے آنسو نہیں بہے کہ اِس آٹے میں کوئی نقص ہے بلکہ مجھے وہ دن یاد آگئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں سے گذر رہے تھے آپ ضعیف ہوگئے تھے اور سخت غذا نہیں کھا سکتے تھے مگر اُن دنوں میں بھی ہم پتھروں سے گندم کچل کر اور اُس کی روٹیاں پکا پکا کر آپ کو دیتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا۔وہ جس کے طفیل ہم کو یہ نعمتیں ملیں وہ تو اِن نعمتوں سے محروم چلا گیا لیکن ہم جنہیں اُس کے طفیل سے یہ سب عزتیں مل رہی ہیں ہم وہ نعمتیں استعمال کر رہے ہیں۔یہ کہا اور لقمہ تھوک دیا اور فرمایا۔اُٹھا لے جاؤ یہ پھلکے میرے سامنے سے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد آ کر گلے میں پھندا پڑتا ہے اور میں یہ پھلکا نہیں کھا سکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتیں ہمیشہ تکلیفوں سے عزت پاتی ہیں۔ اُن کی عزت اِس میں نہیں ہوتی کہ اُن کے پاس اتنا روپیہ ہے یا اتنی دولت اور جائداد ہے بلکہ اُن کی ساری عزت اِسی بات میں ہوتی ہے کہ اُنہوں نے خداتعالیٰ کی خاطر کیا کیا تکلیفیں برداشت کیں۔ پس اپنے نفس میں دین کی خاطر تکلیفیں برداشت کرنے کی عادت ڈالو۔ تم محض چندوں سے یا منہ کے لفظوں سے خداتعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتیں۔ تمہیں قربانیاں کرنی پڑیں گی وہ قربانیاں جن کے مقابلہ میں تمہاری پہلی قربانیاں بالکل ہیچ ہو کر رہ جائیں۔ جب تک تم وہ قربانیاں کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگی تم کوئی بڑی عزت حاصل نہیں کر سکتیں اور تمہاری اولادیں ہمیشہ دوسروں کی غلام بن کر رہیں گی اور غلام اور مقہور اور ذلیل اولاد کا جننا کسی خوشی کا موجب نہیں بلکہ ذلت اور رُسوائی کا موجب ہوتا ہے۔ وہ عورت جو دس بچے جنتی ہے اور اُس کے دسوں بچے غلامی اور ذلّت کی زندگی بسر کرتے ہیں، وہ اپنے خاندان کو بڑا نہیں کرتی بلکہ اُسے ذلیل کرتی ہے کیونکہ اُس نے اپنے خاندان میں دس غلاموں کی زیادتی کی ہے۔ وہی عورت عزت کی مستحق ہے جو بچہ نہیں جنتی شیر جنتی ہے، جو انسان نہیں جنتی فرشتے جنتی ہے یہی وہ کام ہے جو صحابیاتؓ نے کیا۔ صحابیاتؓ کی قربانیوں کی بیسیوں مثالیں میں نے تمہیں سنائی ہیں۔ ان کے جذبات کی بلندی اور پاکیزگی اور اُن کے احساسات کی صفائی ایسی ہے کہ اگر تم اِس کو اپنے سامنے رکھو تو وہ حقیقی نمونہ اور حقیقی راہنما ہے جو تمہارے فرائض ادا کرنے میں تمہاری مدد کر سکتا ہے۔ اُن کی زندگی کے بہت سے واقعات ہیں مگر میں اِس وقت تمہیں صرف ایک واقعہ سناتا ہوں۔
ایک صحابیہؓ کا بچہ جو اُس کا اکلوتا بیٹا تھا لڑائی میں مارا گیا مگر اُس نے اپنے بچے کی موت پر آنسو نہ بہائیـ، اُس نے اپنے بچے کی موت پر غم نہ کیا بلکہ وہ خوش رہی اور کسی قسم کے صدمے کا اُس نے اظہار نہ کیا۔ ہر قوم میں کچھ بیوقوف عورتیں بھی ہوتی ہیں، اُس کی بیوقوف ہمسائیاں اُس کے پاس آتیں اور کہتیں اے سنگدل ماں! تیرا اکلوتا بچہ مارا گیا مگر تو نے اپنے بچے کی موت پر کوئی آنسو نہیں بہایا، کیا تیری سنگدلی کی بھی کوئی انتہا ہے؟ وہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئی اور اُس نے کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میرا بیٹا دوزخ میں گیا ہے یا جنت میں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تمہارا بیٹا یقینا جنت میں گیا ہے وہ خداتعالیٰ کی راہ میں لڑتا ہوا مارا گیا ہے اور ایمان پر اُس کاخاتمہ ہوا ہے۔ اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اُس کی وہ حالت اچھی ہے جو اگلے جہان کی ہے یا اِس دنیا میں جو اُس کی حالت تھی وہ زیادہ اچھی تھی؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اِس دنیا کی اگلے جہان کے مقابلہ میں نسبت ہی کیا ہے؟ اُسے اگلے جہان میں زندگی ملی ہے، خداتعالیٰ کا قرب ملا ہے اور اُس کے انعامات اور فضلوں کا وارث ہوا ہے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! جب کسی کے بیٹے کی اچھی حالت ہوتی ہے تو وہ خوش ہوا کرتا ہے یا رویا کرتا ہے؟ میرا بیٹا اسلام کی خدمت میں مارا گیا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ اگلے جہان میں بہت بڑا انعام ملا ہے اور بہت بڑا رُتبہ حاصل ہوا ہے اِس انعام اور رُتبہ کے حاصل ہونے پر میں روؤں یا خوش ہوں؟ میری ہمسائیاں مجھے کہتی ہیں کہ تُو روتی کیوں نہیں؟ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میں کیوں روؤں جب میرا بیٹا پہلے سے بھی زیادہ اچھی حالت میں ہے۔ آپ نے فرمایا۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔ جو کچھ تمہارے بیٹے کو اگلے جہان میں ملا ہے اُس کے مقابلہ میں یہ دنیا اور اِس کی زندگی کوئی چیز ہی نہیں۔۴؎
حقیقت یہ ہے کہ مائیں ہی بچے بناتی ہیں اور مائیں ہی بچے بگاڑا کرتی ہیں۔ اِس زمانہ میں بھی خداتعالیٰ نے اسلام کو عزت دینے کے لئے ایک اسلامی علاقہ قائم کر دیا ہے اور مسلمان کہلانے والے اِس کے حکمران اور بادشاہ ہیں۔ یا تو ہمارے کافر حاکم تھے اور یا اب مسلمان حاکم ہیں۔ وہ خواہ کتنے بھی بگڑے ہوئے ہوں بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں۔ یہ رُتبہ اور یہ عزت جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بخشی ہے یہ ایک علامت ہے اِس بات کی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اَور بھی عزت دینے کے لئے تیار ہے۔ اگر تم لوگ اپنے فرائض ادا کرو تو یہی مسلمان کہلانے والے احمدی بن جائیں گے اور اِس طرح حقیقی اسلام کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ لیکن ہر نعمت کے لئے کچھ قربانی دینی پڑتی ہے اور ہر قربانی اپنے ساتھ کچھ جذبات کو بھی اُبھارا کرتی ہے اور کچھ جذبات کوصدمے بھی پہنچایا کرتی ہے۔ جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اسے بچانے کا کوئی فکر بھی نہیں ہوتا مگر جس کے پاس کچھ ہوتا ہے اُسے اپنی چیز ڈاکوؤں اور چوروں سے بچانے کے لئے اُس کی حفاظت کا بھی فکر ہوتا ہے۔ غرض دولت کی فراوانی یا حکومت اور بادشاہت اپنے ساتھ ذمہ داریاں بھی لاتی ہے۔ جب مُلک ہمارے پاس آچکا ہے تو اِس کو بچانا ہمارا کام ہے۔ اب انگریزوں کے خون سے اِس مُلک کو بچایا نہیں جا سکتا بلکہ خود مسلمانوں کے خون سے اِس مُلک کو بچایا جائے گا۔ اِس سلسلہ میں پاکستان کو کچلنے اور اسے اِس کے ایک جائز حق سے محروم کرنے کے لئے بعض خطرات پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ اِس موقع پر میں نے باربار جماعت احمدیہ کے افراد کو توجہ دلائی کہ وہ اُٹھیں اور مُلک کی خدمت کریں۔ یہ پہلا قدم ہے جو ایک اسلامی علاقہ کی حفاظت کے لئے اُٹھایا گیا ہے اِس کے بعد وہ وقت بھی آئے گا جب خالص اسلام کی حفاظت کے لئے جنگیں کرنی پڑیں گی مگر جو شخص پہلا قدم اُٹھانے کے لئے تیار نہ ہو، اُس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ دوسرا قدم اُٹھانے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اِس موقع پر وہ بہادری نہیں دکھائی جو مومن دکھایا کرتا ہے لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم میں سے بعض عورتیں ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے نہایت ہی اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھایا ہے۔ اگر وہ اَن پڑھ، جاہل اور غریب عورتیں ایسا اچھا نمونہ دکھا سکتی ہیں تو آسودہ حال اور پڑھی لکھی عورتیں کیوں ایسا نمونہ نہیں دکھا سکتیں۔
ایک جگہ رنگروٹ بھرتی کرنے کے لئے ہمارے آدمی گئے۔ اُنہوں نے جلسہ کیا اور تحریک کی کہ پاکستانی فوج میں شامل ہونے کے لئے لوگ اپنے نام لکھوائیں۔ جن قوموں میں لڑائی کی عادت نہیں ہوتی اُس کے افراد ایسے موقع پر عموماً اپنا نام لکھوانے سے ہچکچاتے ہیں، چنانچہ اِس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا۔ تحریک کی گئی کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر چاروں طرف خاموشی طاری رہی اور کوئی شخص اپنا نام لکھوانے کے لئے نہ اُٹھا۔ تب ایک بیوہ عورت جس کا ایک ہی بیٹا تھا اور جو پڑھی ہوئی بھی نہیں تھی اُس نے جب دیکھا کہ بار بار احمدی مبلّغ نے کھڑے ہو کر تحریک کی ہے کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر ہچکچانے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتے تو وہ عورتوں کی جگہ سے کھڑی ہوئی اور اُس نے اپنے لڑکے کو آواز دے کرکہا۔او فلانے! تو بولتا کیوں نہیں! تو نے سنا نہیں کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے تمہیں جنگ کے لئے بُلایا جا رہاہے۔اِس پر وہ فوراً اُٹھا اور اُس نے اپنا نام جنگ پر جانے کے لئے پیش کر دیا۔ تب اُس کو دیکھ کر اور لوگوں کے دلوں میں بھی جوش پیدا ہوا اور اُنہوں نے بھی اپنے نام لکھوانے شروع کر دیئے۔ وہ عورت زمیندار طبقہ میں سے نہیں تھی بلکہ غیر زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتی ہے جس کے متعلق زمیندار بڑی حقارت سے یہ کہا کرتے ہیں کہ وہ لڑنا نہیں جانتے مگر اُس نے غیر زمیندار ہو کر اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور ایسی حالت میں محسوس کیا جب کہ وہ بیوہ تھی اور اُس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا اور آئندہ اُسے کوئی بیٹا ہونے کی کوئی امید نہیں تھی۔ اُس نے کہا جب خدا اور اسلام کے نام پر ایک آواز اُٹھائی جا رہی ہے تو پھر میرا کوئی بیٹا رہے یا نہ رہے،مجھے اِس آواز کا جواب دینا چاہیے۔
شدید جذبات مقابل میں ویسے ہی جذبات پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ جب اُس نے یہ بات کہی تو کئی بزدل جو اپنے آپ کو پہلے بچا رہے تھے، اُنہوں نے بھی اپنے ارادوں کو پیش کرنا شروع کر دیا اور جب یہ اطلاع میرے پاس پہنچی اور خط میں میں نے یہ واقعہ پڑھا تو پیشتر اِس کے کہ میں اِس خط کو بند کرتا میں نے خداتعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہا۔
اے میرے ربّ! یہ بیوہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کو تیرے دین کی خدمت کے لئے یا مسلمانوں کے مُلک کی حفاظت کے لئے پیش کر رہی ہے۔ اے میرے ربّ! اِس بیوہ عورت سے زیادہ قربانی کرنا میرا فرض ہے۔ میں بھی تجھ کو تیرے جلال کا واسطہ دے کر تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ اگر انسانی قربانی کی ہی ضرورت ہو تو اے میرے ربّ! اِس کا بیٹا نہیں بلکہ میرا بیٹا مارا جائے۔
اِسی طرح ایک جگہ ہمارے آدمی گئے تو ایک اور عورت کہ وہ بھی زمیندار طبقہ میں سے نہیں تھی بلکہ ان لوگوں میں سے تھی جنہیں زمیندار حقارت کے ساتھ ’’کمیں‘‘ کہا کرتے ہیں اُس نے بھی اپنی قربانی کا نہایت شاندار نمونہ دکھایا۔ اُس کے دو بیٹے اور دو پوتے تھے، جب ہمارے آدمی گئے اور اُنہوںنے بتایا کہ پاکستان کی حفاظت کے لئے فوج میں بھرتی ہونا چاہیے تم بھی اپنی اولاد میں سے کسی کو پیش کرو تا کہ اسے فوج میں بھجوایا جائے تو اُس وقت باہر کھڑی کام کر رہی تھی۔ اُس نے وہیں سے کھڑے کھڑے اپنے چاروں لڑکوں اور پوتوں کو آواز دی اور ہمارے مبلّغ سے کہا یہ میرے دو لڑکے اور دو پوتے ہیں اِن چاروںکو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ پھر اُس نے اپنے لڑکوں اور پوتوں سے کہا۔دیکھو! میں گھر میں نہیں گھسوں گی جب تک تم یہاں سے چلے نہ جاؤ۔جب ہمارے آدمی نے کہا کہ اِس وقت چاروں کی ضرورت نہیں بلکہ صرف ایک نوجوان چاہیے۔ تو اُس نے کہا میں تو چاروں بھجوانے کیلئے تیار ہوں۔ آخر اصرار کر کے اُس نے کہا۔ دو تو لے جاؤ۔ چنانچہ ایک کی بجائے اُس نے دو نوجوان پیش کئے اور وہ خوشی خوشی چلے گئے۔یہ وہ روح تھی جو حقیقی روح ہوتی ہے اور جس کے ذریعہ سے دنیا میں قومیں بڑھا کرتی ہیں۔
وہ دن گئے جب انگریز اِس مُلک کے حاکم تھے اُس وقت جب کوئی حملہ کرتا تو ہم انگریزوں سے کہہ سکتے تھے کہ تم جاؤ اور مقابلہ کرو کیونکہ یہ تمہارا مُلک ہے اور ہمارا نہیں مگر اب یہ ہمارا مُلک ہے اور ہمیں ہی دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔میں تمہیں وہ بات نہیں کہتا جو میںنے نہیں کی۔ میرے جتنے جوان بیٹے پاکستان میں ہیں اُن میں سے سوائے دو کے جو کالج میں پڑھتے ہیں (اور وہ بھی بعد میں ہو آئے ہیں) باقی سب فوجی خدمت کر آئے ہیں اور میں تو سمجھتا ہوں وہ مقاصد جو ہمارے سامنے ہیں بغیر قربانی کے حاصل ہی نہیں ہو سکتے۔ ہم نے تو دنیا کو فتح کرنا ہے اور دنیا کی فتح بغیر قربانی کے نہیں ہو سکتی۔ بے شک یہ فتح قلوب کی فتح ہے مگر قلوب کی فتح بھی بغیر قربانی کے نہیں ہوسکتی۔ لوگ سب سے زیادہ قلوب کی فتح پر ہی دشمن ہوا کرتے ہیں جب تم کسی کے پاس جا کر احمدیت کی تبلیغ کرتی ہو تو اُسے دولت ایمان دیتی ہو مگر وہ خوش نہیں ہوتا بلکہ تمہارا مقابلہ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ تم بھی دولت ایمان سے محروم ہو جاؤ اور تمہیں دکھ دینا شروع کر دیتا ہے۔
پس میں تمہیں تمہارے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ تمہارے مرد بزدلی دکھا رہے ہیں اور جب اُنہیں بُلایا جاتا ہے کہ آگے آؤ تو وہ کئی قسم کے بہانے بنانے لگ جاتے ہیں، کبھی کوئی عذر کردیتے ہیں اور کبھی کوئی۔ وہ جتنے عذر کرتے ہیں قرآن کریم میں وہ سب کے سب منافقوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنی آئندہ نسلوں کو آزاد بناؤ۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنے خاوندوں سے کہو کہ یا تو تم دین کے لئے قربانی کرو یا آئندہ ہمارے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ تمہارے لئے تلوار پکڑ کر جہاد کرنے کا موقع تو بہت کم آتا ہے تمہارا جہاد یہی ہے کہ تم اپنے خاوند، اپنے باپ، اپنے بھائیوں اور اپنے بیٹوں سے کہو کہ اگر تم لڑائی کے لئے تیار نہیں ہو گے تو ہم تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھیں گی۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ہندہ جو ساری عمر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑتی رہی تھی فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوگئی تھی۔ ایک لڑائی میں ہندہ کا خاوند ابوسفیان اور اُس کا بیٹا معاویہ دونوں شامل ہوئے۔ دشمن نے ایسا شدید حملہ کیا کہ مسلمان اُن کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر جنگ سے بھاگ نکلے۔ جب ہندہ نے دیکھا کہ مسلمان واپس بھاگے چلے آرہے ہیں تو اُس نے عورتوں سے کہا دیکھو! مسلمان اِس وقت بھاگتے چلے آ رہے ہیں، آؤ ہم اِنہیں روکیں۔ یہ کہہ کر اُنہوں نے خیموں کے بانس پکڑ لئے اور اُن کے اونٹوں اور گھوڑوں کو چوبیں مار مار کر کہا کہ تم ابھی واپس جاؤ یا یہاں بیٹھ کر ہماری جگہ کھانا پکاؤ، ہم خود دشمن سے لڑنے کے لئے چلی جائیں گی۔
ابوسفیان کا ایک مشہور تاریخی فقرہ ہے جو اس موقع پر اُس نے کہا۔ اُس نے اپنے بیٹے معاویہؓ کی طرف دیکھا اور کہا معاویہ! گھوڑوں کا رُخ پھیر دو۔ دشمن کی مار اتنی تکلیف دِہ نہیں جتنی عورتوں کی یہ باتیں ہمارے لئے تکلیف دِہ ہیں۔ چنانچہ پھر وہ واپس لوٹے اور اُنہوں نے دشمن پر فتح حاصل کی۔
پس میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ تمہارے مرد اِس امتحان میں فیل ہو رہے ہیں وہ لڑائی پر جانے سے ڈرتے اور گھبراتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قربانی کرنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں مگر ایک کافی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو اِس میدان میں قدم رکھنے سے ہچکچاتے ہیں۔ تم یہ سن کر حیران ہوگی کہ لاہور شہر جس میں پانچ ہزار احمدی رہتے ہیں اس شہر میں سے باوجود توجہ دلانے کے اور باوجود اِس کے کہ میں خود اُن میں موجود تھا اور اُنہیں توجہ دلاتا رہا ایک سال میں ایک آدمی بھی فوج میں نہیں گیا۔ اِس کے مقابلہ میں میرے ایک گھر میں سے میرے سات لڑکے جا چکے ہیں۔ ایک قادیان میں بیٹھا ہے جو ہندوستانی باشندہ ہے اور شرعاً اور قانونًا حکومت ہند کا وفادار ہے۔ دو کالج میں پڑھ رہے ہیں اور باقی سب چھوٹے ہیں گویا جتنے جا سکتے تھے وہ سب کے سب جا چکے ہیں مگر لاہور کے پانچ ہزار احمدیوں میں سے ایک بھی نہیں گیا۔ یہی حال اور شہروں کا ہے مثلاً گجرات، سیالکوٹ وغیرہ۔ اِن میں سے بہت سے علاقے ہیں جو انگریز کے وقت میں پیسوں کی خاطر خوب فوجی خدمت کرتے تھے مگر اب پاکستان بننے پر وہ اِس طرح خدمت نہیں کرتے شاید اِس لئے کہ اب وہ تنخواہیں اور آرام نہیں۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے زیادہ تر وہ لوگ قربانی کر رہے ہیں جو غیر زمیندار ہیں اور جن کے متعلق زمیندار حقارت کے ساتھ یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ لوگ لڑنا نہیں جانتے۔ لڑنا جانتے ہیں تو ہم جانتے ہیں مگر قربانی کے میدان میں وہی لوگ اپنی جانوں کو پیش کر رہے ہیں۔
دیکھو! ایک دن دنیا میں اسلام نے غالب آنا ہے یہ لوگ جو کبھی پچاس پچاس اور ساٹھ ساٹھ روپیہ پر نوکریاں کرتے پھرتے تھے، جو جمعدار اور صوبیدار بن کر اِترائے پھرتے تھے، آج دین کی طرف سے، خداتعالیٰ کی طرف سے آواز بلندہو تو قربانی کرنے سے ہچکچاتے اور رُکتے ہیں یہ اور اُن کی آئندہ نسلیں اُن لوگوں کی غلام بن کر رہیں گی جنہیں آج تم حقارت کے ساتھ کمیں اور ذلیل لوگ کہتے ہو اور جن کا نام آنے پر تم ہنستے اور تکبر کے ساتھ کہتے ہو کہ ہمارے مقابلہ میں اِن کی حیثیت کیا ہے۔ آج بے شک تم اِن پر ہنس لو لیکن زمانہ یکساں نہیں رہے گا۔ اگر تم نے اپنی اصلاح کی کوشش نہ کی تو یاد رکھو یہ لوہار اور ترکھان ایک دن تمہارے افسر ہونگے، تم پر حکومت کریں گے، تمہارے بادشاہ اور حکمران ہوں گے اور سلسلہ دیکھے گا، احمدیت دیکھے گی کہ تم اِن کے غلام بنا کر رکھے جاؤ گے۔ تمہاری لڑکیاں ان کی لونڈیاں بنا کر رکھی جائیں گی اور تمہاری چوہدراہٹیں ساری کی ساری نکال کر رکھ دی جائیں گی۔ یہ لوہار اور ترکھان ایک دن بادشاہ ہونگے کیونکہ اُنہوں نے خداتعالیٰ کی آواز پر لبیک کہا اور تم جنہیں اپنی چوہدراہٹوں پر ناز ہے، اِن کے غلام بن کر رہو گے۔ تم اِس حقیقت کو سمجھو یا نہ سمجھو لیکن میں تمہیں وقت سے بہت پہلے ہوشیار کر دیتا ہوں۔ میں اِس دنیا میں نہیں ہوں گا لیکن میری آواز دنیا میں ہوگی اور جس چیز کے ساتھ میں محبت رکھتا ہوں یعنی اسلام اور احمدیت وہ دنیا میں موجود ہوگی، اُس وقت احمدیت بادشاہ ہوگی، اسلام کی دنیا پر حکومت ہوگی اور یقینا اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی تو احمدیت کی جوتیوں کی ایڑیوں کے نیچے تمہاری چوہدراہٹیں کچل کر رکھ دی جائیں گی اور جن کو تم کمیں اور ذلیل کہتے ہو یہ شہزادے ہوں گے۔ یہ بادشاہ ہونگے اور تم ذلیل اور مقہور غلاموں کی طرح اُن کے سامنے اپنی زندگی بسر کرو گے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ صحابہؓ نے پوچھا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! بڑے کون ہیں؟ آپ نے فرمایا وہی بڑے ہیں جو جاہلیت میں بڑے ہیں بشرطیکہ وہ دین کے لئے قربانیاں کریں۔ ۵؎ میں بھی تمہاری بڑائی کو مٹانا نہیں چاہتا بشرطیکہ تم دین کے لئے قربانیاں کرو لیکن اگر تم یہ گندہ نمونہ دکھاؤ گے کہ پچاس پچاس اور سَو سَو روپیہ کافروں سے لے کر تو تم اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے لیکن خدا اور اُس کے دیئے ہوئے مُلک کی خاطر جو اُس نے مسلمانوں کو دیا ہے، قربانی نہیں کرو گے تو تم کو ذلیل کیا جائے گا، تم کو رُسوا کیا جائے گا، تمہارا نام و نشان تک مٹا دیا جائے گا۔ وہ جن سے تم گوبر اُٹھواتے ہو، اِن کی لڑکیوں کی ڈولیاں تمہارے بڑے بڑے چوہدری اُٹھایا کریں گے کیونکہ احمدیت کی حکومت ہوگی اور جس کو احمدیت اونچا کرے گی وہی اونچا ہوگا دوسرا کوئی نہیں ہوگا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مکہ کے رؤساء نے آپ کی بڑی بڑی مخالفتیں کیں اور آپ کو سخت دُکھ دیئے مگر غلاموں نے آپ کی اطاعت کی اور وہ آپ پر صدقِ دل سے ایمان لے آئے اور پھر ایمان لانے کے بعد اُنہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کیں۔ بلالؓ جو ایک غلام تھے جب ایمان لائے تو اُن کا آقا اُنہیں رسّی سے باندھ کر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور وہ سارا دن اُسے دھوپ میں مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے جن میں بڑے بڑے کھِنگر پڑے ہوئے ہوتے تھے اور پھر اُسے مار مار کر کہتے کہ کہو خدا ایک نہیں تو وہ نیچے سے جواب دیتا کہ اَسْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُبلالؓ چونکہ حبشی تھے اِس لئے وہ ش نہیں بول سکتے تھے لوگ اَسْھَدُ کا لفظ سنتے تو ہنس پڑتے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ تم لوگ سنتے ہو کہ بلالؓ اَشْھَدُ کی جگہ اَسْھَدُ کہتا ہے اور تم اِس پر ہنستے ہو۔ مگر آسمان پر بیٹھا ہوا خدا اِس اَسْھَدُ کو اتنا پسند کرتا ہے کہ تمہارا ہزار اَشْھَدُ کہنا بھی اِس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
یہ تکالیف تھیں جو بلالؓ کو پہنچائی گئیں۔ مگر جانتے ہو جب مکہ فتح ہوا تو وہ بلالؓ حبشی غلام جس کے سینے پر مکہ کے بڑے بڑے افسر ناچا کرتے تھے اُس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عزت دی؟ اور کس طرح اس کا کفار سے انتقام لیا؟ جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کے ہاتھ میں ایک جھنڈا دے دیا اور اعلان کر دیا کہ اے مکہ کے سردارو! اگر تم اپنی جانیں بچاناچاہتے ہو تو بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آ کر کھڑے ہو جاؤ۔۶؎ گویا وہ بلالؓ جس کے سینہ پر مکہ کے بڑے بڑے سردار ناچا کرتے تھے اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو بتایا کہ آج تمہاری جانیں اگر بچ سکتی ہیں تو اس کی یہی صورت ہے کہ تم بلالؓ کی غلامی میں آ جاؤ حالانکہ بلالؓ غلام تھا اور وہ چوہدری تھے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ جو آدھی دنیا کے مالک بن چکے تھے ایک دفعہ حج کے لئے مکہ پہنچے۔ نماز کے بعد آپؓ کو مبارکباد دینے کے لئے بڑے بڑے رؤساء جو مکہ پر حکومت کیا کرتے تھے اور جن کے دربار میں حضرت عمرؓ کا باپ بھی ادب سے بیٹھا کرتا تھا، آنے شروع ہوئے۔ جب وہ آئے تو حضرت عمرؓ نے اُن کو عزت اور احترام کے ساتھ بٹھایا اور اُن سے محبت اور پیار کے ساتھ باتیں شروع کیں۔ وہ سات یا آٹھ آدمی تھے۔ ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں ایک غلام آیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی اور ابتدائی زمانہ میں آپ پر ایمان لا چکا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اُن رؤساء سے فرمایا کہ پیچھے ہٹ جاؤ اور اِن کو جگہ دو۔ وہ پیچھے ہٹ گئے اور اُس غلام کو آگے جگہ دی گئی۔ ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ اتنے میں ایک دوسرا غلام آگیا۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے پھر اُن سے فرمایا کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور اِن کو جگہ دے دو۔ وہ بیٹھا تو اُدھر سے تیسرا غلام آگیا۔ حضرت عمرؓ نے پھر اُن سے فرمایا کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور اِن کو جگہ دو۔ اِسی طرح یکے بعد دیگرے غلام آتے چلے گئے اور حضرت عمرؓ ہر غلام کے آنے پر یہی فرماتے کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور اِن کو جگہ دو یہاں تک کہ پیچھے ہٹتے ہٹتے وہ شہر کے رئیس جوتیوں میں جا بیٹھے اور عزت کی جگہ پر سب غلام بٹھا لئے گئے۔ یہ دیکھ کر وہ لڑکے مجلس سے اُٹھ گئے اور اُنہوں نے باہر جا کر ایک دوسرے سے کہا دیکھا! آج ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ آج ہماری وہ ذلّت کی گئی ہے کہ جس کا ہمیں وہم اور گمان تک نہ تھا۔ ہمارے زرخرید غلام جن کا کام ہماری جوتیاں صاف کرنا اور ہمارے گھروں میں پانی بھرنا تھا، اُن کو اگلی صفوں میں جگہ دی گئی اور ہمیں جوتیوں میں بٹھایا گیا۔ اُن نوجوانوں میں سے ایک زیادہ عقلمند تھا۔ اُس نے کہا۔تمہیں پتہ ہے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا؟ یہ نتیجہ ہے ہمارے افعال کاجب خدا کے رسول نے مکہ میں دعویٰ کیا تو یہ غلام ہی تھے جنہوں نے اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَاکہا اور آپ کی تائید کیلئے کھڑے ہوگئے لیکن ہمارے باپ دادا نے آپؐ کی مخالفت کی۔ پس آج جو کچھ ہوا ہے یہ اُسی قصور کی پاداش ہے جو ہمارے باپ دادا سے سرزد ہوا۔اُنہوں نے کہا ہم مانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا سے یہ قصور ہوا مگر آخر اس کے ازالہ کا بھی کوئی طریق ہونا چاہیے اُس نے کہا چلو یہی بات حضرت عمرؓ سے پوچھیں۔
حضرت عمر ؓ کے خاندان کے سپرد لوگوں کے نسب ناموں کو یاد رکھنا تھا۔ یہ کام گو ہمارے مُلک میں میراثیوں کے سپرد ہوتا ہے مگر عربوں اور دوسری آزاد قوموں میں یہ نہایت ہی معزز کام سمجھا جاتا تھا اور ہے۔ پس چونکہ حضرت عمرؓ اُسی خاندان میں سے تھے جو انساب کو جانتا تھا اِس لئے جب وہ نوجوان حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ ہم آپ کے پاس ایک سوال لے کر آئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا میں نے آپ لوگوں کی بات کو سمجھ لیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ کو اِس سلوک سے بہت تکلیف پہنچی ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ لوگوں کے باپ دادا بڑی بڑی عزتوں کے مالک تھے مگر میں مجبور تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں عزت دی جاتی تھی، میں اُن کو کس طرح پیچھے بٹھا سکتا تھا۔ اُنہوں نے کہا ہم اِس بات کو خوب سمجھ گئے ہیں ہمارا سوال صرف اتنا ہے کہ جو کچھ ہمارے باپ دادا سے ظلم ہو چکا ہے، اِس کے ہوتے ہوئے کیا کوئی صورت ایسی بھی ہے جس سے یہ کلنک کا ٹیکہ ہمارے ماتھے سے دُور ہو سکے حضرت عمرؓ کو اِس سوال پر اُن کے باپ دادا کی شان و شوکت یاد آ گئی، آنکھوں میں آنسو بھر آئے، آواز بھرا گئی زبان سے جواب دینے کی سکت نہ رہی، صرف ہـاتھ سے شام کی طرف اشارہ کیا اور خاموش ہو گئے۔ مطلب یہ تھا کہ شام میں عیسائیوں سے جنگ ہو رہی ہے اگر تم اِس جنگ میں شامل ہو کر اپنی جانیں دے دو تو یہ کلنک کا ٹیکہ تمہارے ماتھے سے دور ہو جائے گا۔ اُنہوں نے یہ جواب سنا تو اُسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی سواریوں پر زین کسی اور اِس جنگ میں شامل ہونے کے لئے شام چلے گئے اور تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ سارے کے سارے اُسی جنگ میں مارے گئے۔ اُن میں سے ایک بھی زندہ واپس نہیں آیا۔ ۷؎
پس یاد رکھو کہ آئندہ صرف چندوں سے کام نہیں چلے گا چندے بھی چلیں گے اور جان کی قربانی بھی چلے گی اور وہی قومیں عزت پائیں گی جو اِن قربانیوں میں حصہ لیں گی۔میں نے تم کو وقت پر ہوشیار کر دیا ہے خواہ اِس وقت تم میری بات کو سمجھو یا نہ سمجھو۔ جس وقت انسان کے پاس دولت ہوتی ہے، اُس کے دماغ میں غرور ہوتا ہے اور وہ دوسرے کی بات کو حقارت کے ساتھ ردّ کر دیتا ہے۔ مکہ والوں کے دماغ میں بھی یہی غرور تھا جس کی وجہ سے اُنہوں نے نقصان اُٹھایا۔ تم بھی کہو گے کہ ہماری حکومت دائمی ہے لیکن میں دیکھتا ہوں اور خدائی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے وہ جن کی اصلاح نہیں ہوگی وہ ذلیل کئے جائیں گے، وہ تباہ اور برباد کئے جائیں گے۔ پس جاؤ اور اپنے مردوں اور بچوں کی اصلاح کرو، جاؤ اور اُن میں قربانی کا مادہ پیدا کرو۔ اگر نہیں کرو گی تو تم اِس کا عبرتناک انجام دیکھو گی۔ اولادیں اِس لئے ہوا کرتی ہیں کہ سُکھ کا موجب بنیں مگر ایسی اولادیں سُکھ کا موجب نہیں بلکہ ذلّت کاموجب ہوں گی، خاندان کی ترقی کا موجب نہیں بلکہ تنزل کا موجب ہوںگی۔
پس اپنی اصلاح کرو اور صحابیاتؓ کا نمونہ اپنے سامنے رکھو۔اگر تمہارے خاوند اور بیٹے اور بھائی اور دوسرے رشتہ دار خداتعالیٰ کی راہ میں مارے گئے تو وہ ابدی زندگی پائیں گے اور اگر جی چرائیں گے تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے ذِلّت تمہارے سامنے کھڑی ہے اور وہ بہرحال تمہیں قبول کرنی پڑے گی لیکن اِس وقت اللہ تعالیٰ نے تمہاری ذلّت کو دور کرنے کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ دوسروں نے وہ روحانی لذت حاصل نہیں کی جو تم نے حاصل کی ہے۔ تم نے خداتعالیٰ کے تازہ بتازہ معجزات دیکھے ہیں، تم نے خداتعالیٰ کے کئی نشانات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، تم نے خداتعالیٰ کی آیاتِ بینات کا مشاہدہ کیا ہے اگر اِس کے بعد بھی تم نے اپنی اصلاح نہ کی اور تم نے اولادوں کو گرتے دیکھا تو یہ تمہاری قسمت۔ لیکن اگر تم اپنے خاوندوں، اپنے باپوں، اپنے بھائیوں اور اپنے بیٹوں کی اصلاح کرلو تو یقینا تم بھی وہی ثواب پاؤ گی جو وہ پائیں گے۔ تم حفاظت مُلک کی لڑائی میں خود نہیں جاؤ گی۔ جائے گا تمہارا باپ یا تمہارا خاوند جائے گا یا تمہارا بھائی جائے گا یا تمہارا بیٹا جائے گا لیکن تمہاری تعلیم کے ماتحت جو تمہارے بیٹے بہادری دکھلائیں گے، جو تمہارے بھائی بہادری دِکھلائیں گے، جو تمہارے باپ بہادری دِکھلائیں گے، جو تمہارے خاوند بہادری دِکھلائیں گے اُن کو جو کچھ ثواب ملے گا اُتنا ہی ثواب خداتعالیٰ کی درگاہ میں تمہاری نسبت بھی لکھا جائے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اَلدَّالُّ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ۸؎ جو شخص کسی دوسرے کو نیکی کی تحریک کرتا ہے، اُسے اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا خود نیکی کرنے والے کو ملتا ہے۔ جو شخص جہاد کیلئے جاتا یا مُلک کی عزت کیلئے لڑتا ہے جو کچھ ثواب اُس کو ملتا ہے وہی اُس کو بھی ملتا ہے جو اُس کے دل میں نیک تحریک پیدا کرتا ہے۔
پس موجودہ تکلیفیں جو قادیان کو چھوڑنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں اُن کو بھول جاؤ۔ اپنے عزائم کو بلند کرو اور اپنی اولادوں میں جرأت اور بہادری پیدا کرو۔ اگر اُن میں جرأت اور بہادری پیدا کرو گی تو وہی عزت پاؤ گی جو صحابیاتؓ نے پائی اور تمہارے نام بھی قیامت تک عزت کے ساتھ یاد رکھے جائیں گے۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرو گی تو تم اور تمہارے خاندان ذلیل کئے جائیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت اِس کو بدل نہیں سکتی۔ خداتعالیٰ تم کو اور ہم کو اِس عذاب سے بچائے۔ آمین
(مصباح مئی ۱۹۵۰ء صفحہ۵ تا۲۴)
۱ تا ۳؎ اسد الغابۃ جلد۳ صفحہ۳۸۵، ۳۸۶۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۹۶ھ
۴؎ ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب ومن سورۃ المومنین
۵؎ بخاری کتاب المناقب باب المناقب
۶؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۹۳۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۷؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۳۷۲۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۸؎ مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ۲۷۴۔ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۳ھ
قادیان سے ہجرت اور
نئے مرکز کی تعمیر
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قادیان سے ہجرت اور نئے مرکز کی تعمیر
(فرمودہ ۱۶؍ اپریل ۱۹۴۹ء برموقع پہلا جلسہ سالانہ منعقدہ ربوہ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’میں کل دوستوں کو بتا چکا ہوں کہ ہمارا یہ جلسہ سالانہ احمدیت کیلئے ایک مرکز جدید اختیار کرنے کا جلسہ ہے۔ اِن ایّام میں ہمارے سب افکار اور ہماری ساری گفتگوئیں اور ہمارے سارے جذبات صرف ایک اور ایک مقصد کیلئے وقف رہنے چاہئیں۔ تقریریں ہوتی رہتی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ باتیں دنیا کیا ہی کرتی ہے اور کرتی ہی چلی جائے گی مگر جو دن کسی خاص مقصد کے لئے اختیار کیا جاتا ہے وہ اُسی مقصد کے استعمال میں زیادہ تر خرچ ہونا چاہیے۔ دنیا نے، اِس سیاسی دنیا نے جس سے ہمارا کوئی واسطہ نہ تھا اِس دنیا نے جس کے مادی کاموں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اِس دنیا نے جس نے ہمیشہ ہی ہماری بدخواہی کی اور ہم نے اِس کی ہمیشہ خیرخواہی کی ایسا رویہ اختیار کیا کہ اس کی تدبیروں اور مکروں کے نتیجہ میں ہمیں وہ مقام چھوڑنا پڑا جس میں ہم امن اور اطمینان کے ساتھ اور بغیر کسی قسم کے لڑائی جھگڑے کے خدمت اسلام کا فرض سرانجام دے رہے تھے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہم اُس جگہ کو چھوڑیں، ہم نہیں چاہتے تھے کہ دوسری باتوں میں ملوث ہوں۔جب سے پاکستان بنا ہے قدرتی طور پر ہماری یہ خواہش تھی کہ ہم بھی اِس کے ساتھ ہوں اور ہم بھی اِس کے ساتھ وابستہ ہوں مگر اِس طرح نہیں کہ یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ ہم قادیان چھوڑ کر پاکستان میں آ جائیں بلکہ ہماری یہ خواہش تھی کہ قادیان بھی پاکستان میں آ جائے۔ اِس کیلئے باؤنڈری کمیشن (BOUNDRY COMMISSION) کے ایّام میں میں خود لاہور گیا اور میں نے تمام ضروری معلومات مسلمانوں کے اُس نمائندے کو مہیا کیں جو کمیشن کے سامنے مسلمانوں کی طرف سے کیس پیش کر رہا تھا تا کہ کسی طرح قادیان بھی پاکستان میں شامل ہو جائے۔ میں نے انگلستان سے ایک جغرافیہ دان بھی بُلایا جو وہاں ایک یونیورسٹی کا مشہور پروفیسر اور مصنف تھا تا کہ وہ کمیشن کی امداد کرے۔ لیکن یہ چیز یا تو پہلے سے طے شدہ تھی یا مخفی طور پر ہندوستان یونین سے وعدہ کر لیا گیا تھا کہ سکھوں کو خوش کرنے کے کئے ضلع امرتسر اور گورداسپور جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ہندوستان کو دے دیا جائے گا۔ مجھے خوب یاد ہے جب کمیشن کے سامنے مسٹر سیتل واڈ نے جو ہندوؤں کے وکیل تھے اپنی آخری تقریر شروع کی تو جس وقت وہ گورداسپور پر پہنچے اُنہیں یہ معلوم تھا کہ میں نے تمام مسالہ جمع کر کے مسلمان نمائندوں کو دیا ہے اُنہوں نے گورداسپور پر پہنچتے ہی ذرا ٹیڑھے ہو کر میری طرف دیکھا اور ایک دھمکی آمیز رنگ میں کہا گورداسپور بہرحال ہندوستان یونین کی طرف جائے گا اور اِس کو پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو نقصان پہنچے گا۔ مسٹر سیتل واڈ اُس وقت انسانی نظر سے دیکھ رہا تھا لیکن ہم انسانی نظر سے نہیں دیکھا کرتے ہم آسمانی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کفّارِ مکہ نے فیصلہ کیا کہ ہم اُنہیں قید کر لیں گے یا مکہ سے باہر نکال دیں گے یا مار ڈالیں۱؎ گے تو ان کی تمام تدبیریں اور چالیں عدمِ علم کی وجہ سے تھیں۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ اُن کی اِن تدبیروں اور اُن کی اِن چالوں کے کیا نتائج نکلنے والے ہیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے کفّارِ مکہ کو ساری تدبیروں کا موقع دیا لیکن آخر خدا تعالیٰ کی بات ہی غالب آئی اور انہیں شرمندگی کی وجہ سے سرجھکانے پڑے۔ یہی بات قادیان کی ہوگی۔ انڈین یونین کیا ہے ساری دنیا بھی اگرچاہے کہ وہ ہمیں قادیان سے دوامی طور پر نکال دے تو وہ نیست و نابود ہو جائے گی اور آخر قادیان ہمارا ہی ہوگا اور ہم اُسے حاصل کر کے رہیں گے۔ ہم نے خداتعالیٰ کے ہاتھ دیکھے ہیں، ہم نے خداتعالیٰ کے فرشتوں کی فوجوں کو دیکھا ہے، ہم نے اُس کے اقتدار کا خود معائنہ کیا ہے۔ ہمیں انسانی تدبیروں، مکروں اور چالوں کا کیا ڈر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے۔ ’’آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘۔ ۲؎ جنگ بھی ایک قسم کی آگ ہے۔ ہم جنگ نہیں کرتے بلکہ ہم امن کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دین کو تمام دنیا میں پھیلاتے ہیں لیکن ہم قادیان لیں گے اور دنیا کی آنکھیں دیکھیں گی کہ ہم نے قادیان واپس لے لیا ہے۔ بیشک وہ احمدی جو میرے سامنے بیٹھے ہیں کمزور ہیں اور جنگ کا نام سننے سے اُن کے دل کانپتے ہیں لیکن خداتعالیٰ ایسے لوگ خود پیدا کرے گا جو خون کی بہتی ہوئی ندیوں میں سے تیرتے ہوئے قادیان پہنچیں گے اور اُسے حاصل کر لیں گے اور خواہ انہیں تلوار کی نوکوں پر سے جانا پڑے، خواہ اُنہیں تلوار کی دھاروں پر چلنا پڑے وہ بہرحال قادیان کو لے کر رہیں گے اگر صلح کے ساتھ ہمیں قادیان نہ ملا تب بھی قادیان واپس لیا جائے گا اور ہم اُسے واپس لے کر رہیں گے۔‘‘ (غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’اِس وقت جو اصل سوال ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایک نئی زندگی اختیار کریں اور ایک نئے نظام کے ماتحت پھر خدمت اسلام میں مشغول ہو جائیں۔ ہم ایک منظم قوم ہیں ہم پراگندہ قوم نہیں ہم کسی مرکز کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ دوسرے لوگ مرکز کے بغیر رہ سکتے ہیں لیکن ہمارے سارے کام محورِ خلافت کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ اور اِس کے معنی یہ ہیں کہ کام کرنے کے لئے کارکن بھی ہونے چاہئیں اور ایسے ادارے بھی ہونے چاہئیں جہاں کام چلانے کی تربیت دی جائے۔ اور یہ ساری باتیں تنظیم چاہتی ہیں، یہ ساری باتیں ایک مقام چاہتی ہیں، یہ ساری باتیں ایک نظام چاہتی ہیں۔ ہم پھیل کر اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم ایک جگہ جمع ہو کر اور ایک تنظیم میں رہ کر ہی اپنے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم میں سے کئی لوگ ایسے ہیں جن کے پاکستان میں بھی مکانات ہیں۔ خود میرے پاس بھی پاکستان میں مکان ہے مجھے جب دوستوں نے کہا کہ کیوں نہ آپ وہاں چلے جائیں تو میں نے اُنہیں یہی جواب دیا کہ ہم نے جمع ہو کر رہنا ہے اس لئے ہم وہیں رہیں گے جہاں جماعت اکٹھی ہو سکے۔ اگر جماعت اکٹھی نہ ہو سکے تو ہماری غرض اور ہمارا مقصد مفقود ہو جاتا ہے۔
پس دوستوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا یہ جلسہ سالانہ تفاول کے طور پر ہے تا کہ ہم ایک نئے مرکز کی بنیاد ڈالیں۔ غیب جاننے والا خداتعالیٰ ہی ہے اور وہی جانتا ہے کہ ہمارے ارادے کس رنگ میں پورے ہوں گے۔ لیکن فی الحال میں یہی سمجھتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی مشیت اور خداتعالیٰ کا ارادہ یہی ہے کہ ہم اِس جگہ احمدیت کے نئے مرکز کی بنیاد ڈالیں۔ ہمیں حَاشَاوَکَلَّاکسی خاص مقام سے کوئی تعلق نہیں جہاں خدا چاہے ہم جانے کے لئے تیار ہیں اور وہی جگہ ہمارے لئے بابرکت ہوگی۔ بہرحال یہ جلسہ ایک نئے مرکز کے قیام کی غرض سے ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ اِس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے جو نظام ہمیںبخشا ہے وہ کتنا زبردست ہے۔ دنیا کی کونسی قوم ہے جسے اتنی شدید پریشانی ہوئی ہو جتنی ہمیں ہوئی اور پھر اُس نے اکٹھے ہو کر اپنے لئے نئے مرکز کی تعمیر کی کوشش کی ہو۔ یہ صرف احمدی ہی ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اپنے لئے ایک نئی جگہ بنائیں اور نئے سرے سے اپنی ترقی کیلئے کوشش کریں۔
میں اپنے مضمون کی طرف آنے سے پہلے چند ضمنی مضامین کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تمام قسم کی ترقیات اچھے لٹریچر کے ساتھ وابستہ ہیں۔ انگریزی ترجمۂ قرآن کریم جو حال ہی میں شائع ہوا ہے اِس کے متعلق منتظمین نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ جماعت کے دوستوں نے اس کی خریداری کی طرف پوری توجہ نہیں کی۔ بے شک اِس کی قیمت زیادہ ہے لیکن انگریزی ممالک میں تبلیغ کا اِس سے زیادہ اچھا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ ترجمہ جہاں اور جس مُلک میں پہنچا ہے اِس نے تبلیغ کے لئے ایک بڑا راستہ کھول دیا ہے۔ مثلاً شام کے اخباروں میں اس کے متعلق بڑے زوردار الفاظ میں مضامین نکلے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مستشرق جو اپنے آپ کو فرعون کی حیثیت دیتے ہیں اُن کے اندر بھی اِس ترجمہ کی وجہ سے کھلبلی مچ گئی ہے۔ تین بڑے مستشرقین نے اِس پر ریویو لکھے ہیں اور اتنے بغض کا اظہار کیا ہے کہ اس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ انہوں نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ یہ ترجمہ عیسائیت کیلئے ایک بہت بڑی زدہوگا۔ اگر یہ معمولی چیز ہوتی تو اِن مستشرقین کو کیا ضرورت تھی کہ اتنے سخت مضامین لکھتے۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انگریزی ترجمۂ قرآن کریم کی اشاعت کی طرف توجہ کریں اور یورپین ممالک میں اِسے کثرت سے شائع کرنے میں امداد دیں۔
اِسی طرح مجھے بتایا گیاہے کہ تفسیر کبیر کی نئی جلدوں کی اشاعت کی طرف بھی جماعت نے بہت کم توجہ کی ہے حالانکہ اُردو زبان میں عام لوگ بھی قرآنی مطالب کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ تفسیر کبیر کی جو پہلی جلد چھپی تھی اُس کی پانچ روپے فی جلد قیمت رکھی گئی تھی۔ مگر سٹاک ختم ہوجانے کے بعد احمدیوں نے اُسے سَو سَو روپیہ فی جلد کے حساب سے خریدا۔ افریقہ میں ایک دوست نے ایک جلد پچاس روپے پر فروخت کر دی اور سمجھا کہ وہ اِس قیمت سے ایک اور جلد خرید لیں گے مگر اُس نے جب یہاں لکھاکہ میرے لئے تفسیر کبیر کی وہ جلد پچاس روپے تک خرید لی جائے تو ہم نے اُسے جواب دیا کہ پچاس روپے کو تو کوئی شخص یہ جلد نہیں دیتا۔ ہاں کوشش کی جائے تو سَو روپیہ تک مل سکتی ہے۔ مگر جو جِلد اَب چھپی ہے اِس کی کافی تعداد موجود ہے اور اِس کی خریداری کی طرف دوستوں نے توجہ نہیں کی۔ اب آخری جِلد شائع ہو رہی ہے اور دوستوں کے لئے دونوں جِلدوں کا اکٹھا خریدنا مشکل ہوگا الگ الگ خریدنے میں آسانی ہوتی ہے اور کسی قسم کا بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔
الفضل والوں نے مجھ سے یہ درخواست کی تھی کہ میں جلسہ پر ان کے لئے بھی سفارش کروں لیکن جب میںآ رہا تھا تو میں نے سنا کہ وہ الفضل کے متعلق خود اعلان کر رہے ہیں۔ بہرحال الفضل ایک جماعتی اخبار ہے اور تربیت اور اصلاح و ارشاد کے لئے بہت ممد ہے۔ دوستوں کو اِس کی ایجنسیاں کھولنی چاہئیں اور اِس کی خریداری کو بڑھانا چاہیے۔
سب سے بڑی چیز وقف زندگی ہے لیکن میں افسوس سے کہتا ہوں کہ پنجاب کی تقسیم کے بعد جماعت کی توجہ اِس طرف سے ہٹ گئی ہے۔ اِس کی بڑی وجہ پریشانیاں ہیں۔ اکثر لوگ تجارتی کاموں میں لگے رہے اور جو انصار تھے وہ بھی مہاجرین کی مدد کے لئے اِدھر اُدھر بھاگتے رہے اور اِس طرف کسی نے توجہ نہیں کی لیکن وقف زندگی کے بغیر سلسلہ کے کام نہیں چل سکتے۔دوستوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنی زندگیاں وقف کریں اور اسلام کو جلد سے جلد تمام دنیا پر غالب کرنے کے سامان بہم پہنچائیں۔ باوجود اس کے کہ ہمیں ابھی پریشانیاں لاحق ہیں، باوجود اس کے کہ ہم نے ابھی نیا مرکز بنانا ہے خداتعالیٰ نے ہماری اشک شوئی کیلئے تبلیغ اسلام کو وسیع کر دیا ہے۔ چنانچہ گذشتہ سال جرمن میں ایک اچھی جماعت قائم ہوگئی اور ایک درجن کے قریب جرمن احمدیت میں داخل ہوئے۔ اِسی طرح ہالینڈ میں بھی جماعت احمدیہ قائم ہوگئی۔ جرمن احمدیوں میں سے مسٹر عبدالشکور کنزے کو جو پہلے سے احمدی تھے خداتعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کریں۔اِنہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ جرمن ہیں بلکہ ہر دیکھنے والا یہ سمجھے گا کہ وہ کوئی مولوی ہیں۔ اِنہوں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے اور بظاہر وہ جرمن معلوم نہیں ہوتے۔ ہالینڈ کے ایک دوست بھی اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں اور اُن سے خط و کتابت ہو رہی ہے۔ اسی طرح جرمن کے بعض اَور دوست بھی اِس فکر میں ہیں کہ وہ اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کریں۔‘‘ (الفضل ۱۳ ؍جولائی ۱۹۶۱ء)
’’ایران میں ہمارے مبلّغ تین سال سے بیٹھے تھے اور اب تک اُنہیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ وہاں تبلیغ ہوتی رہی۔ وہاں کے مشنری نے خواب میں دیکھا کہ ایران کے جنوبی علاقہ میں خداتعالیٰ کا فضل نازل ہوگا اور جماعت احمدیہ کو ترقی ہوگی۔ اِس کے بعد اُنہوں نے ایک علاقہ میں جس کے متعلق اُنہیں خیال تھا کہ وہ خواب میں دکھایا گیا ہے لٹریچر بھیجنا شروع کیا۔ بعض لوگ اُن سے ملنے کے لئے بھی آئے۔ اُن کے بڑے امام کو بھی کتابیں بھیجی گئیں۔ ایک دو ماہ کے بعد اُس نے اُنہیں لکھا کہ وفاتِ مسیح کا مسئلہ ثابت ہو گیا ہے اب آپ نبوت کے متعلق میری تسلی کرادیں۔ چنانچہ خط و کتابت ہوتی رہی۔ ڈیڑھ مہینہ ہوا کہ وہ دوست احمدی ہوچکے ہیں۔ اور نہ صرف وہ اکیلے احمدی ہوئے ہیں بلکہ اُن کے مریدوں میں سے اَور بھی کئی آدمی احمدیت قبول کر چکے ہیں۔ اب اطلاع ملی ہے کہ اُس علاقہ میں جو تین ہزار سُنّی رہتے ہیں اُن میں سے اکثریت خداتعالیٰ کے فضل سے احمدی ہو چکی ہے اور باقی بھی قریب زمانہ میں اِنْشَائَ اللّٰہُ احمدی ہو جائیں گے۔ یہ لوگ ہیں تو غریب لیکن بہت جفاکش ہیں۔ اِن کا حکومت کے ساتھ عموماً جھگڑا ہوتا رہتا ہے اور یہ اختلاف بعض اوقات لڑائیوں تک جا پہنچتا ہے۔ اِن لوگوں نے ایرانیوں کو نکال دیا تھا اور خود آزاد ہوگئے تھے لیکن اب پھر یہ ایرانی حکومت کے ماتحت ہیں۔ لیکن ایرانی ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ پھر سر نہ اُٹھائیں۔ یہ علاقہ بھی فارس کا ہے جس کے متعلق احادیث میں پیشگوئیاں ہیں کہ جب اسلام کمزور ہو جائے گا اور اُسے ضعف پہنچے گا تو خدا تعالیٰ بنوفارس میں سے ایک شخص کو کھڑا کرے گا جو دوبارہ مسلمانوں کی تنظیم کرے گا اور اسلام کو اپنی بنیادوں پر قائم کرے گا۔‘‘ (غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’امریکہ میں ۱۹۲۶ء سے تبلیغ ہو رہی ہے اِس وقت تک تبلیغ سیاہ فام لوگوں میں ہی ہوتی رہی ہے۔ امریکہ میں دو کروڑ کے قریب سیاہ فام لوگ بستے ہیں۔ پرانے زمانہ میں امریکہ والے اِنہیں افریقہ سے اپنی خدمت کے لئے پکڑ لائے تھے لیکن ایک زمانہ آیا جب امریکنوں نے خود کہا کہ وہ اِنہیں غلام رکھنا پسند نہیں کرتے۔ امریکنوں کا ایک حصہ اِس بات کے حق میں تھا کہ اِنہیں غلام نہیں رکھنا چاہیے۔ لیکن دوسرے فریق نے انہیں غلام رکھنے پر اصرار کیا۔ دونوں میں لڑائیاں ہوئیں اور وہ فریق جیت گیا جو اِس بات کے حق میں تھا کہ سیاہ فام لوگوں کو غلام نہیں رکھنا چاہیے۔ اب یہ لوگ وہیں رہتے ہیں اِن میں سے کچھ لوگ لیبیا میں بسائے گئے تھے اور باقی وہیں آباد ہوگئے اِن کی تعداد اِس وقت دو کروڑ ہے۔ اِس وقت تک اسلام کلی طور پر اِنہیں لوگوں میں پھیل رہا تھا لیکن اب سفید فام لوگوں میں بھی ہماری تبلیغ شروع ہوگئی ہے اور پچھلے دنوں دو امریکن احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک امریکن نے اسلام کی خدمت کیلئے اپنی زندگی بھی وقف کر دی ہے۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ میرے وقف زندگی کو قبول کیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ وہ پاکستان آ کر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اِس کے بعد اپنے مُلک میں واپس جا کر تبلیغ کریں گے۔ اِن کے اخلاص کا یہ حال ہے کہ امریکہ کے انچارج مبلغ خلیل احمد صاحب ناصر نے اطلاع دی ہے کہ یہ دوست سَوا سولہ فیصدی کے حساب سے چندہ دے رہے ہیں اور روپیہ بھی جمع کر رہے ہیں تا کہ وہ اپنے خرچ پر پاکستان آئیں اور دینی تعلیم حاصل کریں۔‘‘ (الفضل ۱۳ ؍جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ۴ کالم ۲)
’’اِسی طرح یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ امریکہ میں ہمارا مشن رجسٹرڈ کروا لیا گیا ہے جب تک مشن رجسٹرڈ نہ ہو امریکہ میں اُسے باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے مبلغوں کو بار بار تنگ کیا جاتا تھا اور حکومت اُنہیں مشنری تسلیم نہیں کرتی تھی۔ جب ہم کسی مبلغ کے بھیجنے کے متعلق کوشش کرتے تو اِس میں رُکاوٹیں ڈالی جاتیں۔ پاکستان کے امریکن سفارت خانے کو ہم نے کہا کہ تمہارے مشنری جب ہمارے ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں تو ہم اپنا مبلغ آپ کے ملک میں کیوں نہیں بھیج سکتے یہ تو بے انصافی ہے۔ چنانچہ امریکہ کے قونصل نے جو ایک شریف آدمی ہیں ہماری دلیل کی قوت کو تسلیم کیا اور اُنہوں نے خود مجھے لکھا کہ یہ آپ سے بے انصافی ہو رہی ہے۔ چنانچہ ایک پارٹی کے موقع پروہ مجھے ملے اور اُنہوں نے خوشخبری سنائی کہ اُن کی کوشش سے امریکہ سے یہ اطلاع آ گئی ہے کہ حکومت نے یہ منظور کر لیا ہے کہ احمدی مشنریوں کو بھی تسلیم کر لیا جائے۔ میں سرکاری اطلاع بعد میں بھجوا دوں گا اور ساتھ ہی کہا کہ آپ اب اپنے مشنوں کو رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کریں۔ ہمارے لئے مشنوں کے رجسٹرڈ کروانے میں بہت سی دِقتیں تھیں۔ حکومت کی طرف سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ ہم تمہارے مشن کو کیوں تسلیم کریں؟ جب آپ لوگ ہمارے مُلک میں دیر سے بس رہے تھے تو کیوں نہ آپ نے اپنے مشن کو رجسٹرڈ کروایا؟ اب انہیں رجسٹرڈ کروانے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے؟ اس بارہ میں بھی خدا تعالیٰ نے غیب سے سامان کیا اور ہمارا مشن ایک نئی جگہ پر کھل گیا۔ وہاں حبشیوں کی ایک پارٹی رجسٹرڈ تھی اس میں سے اکثریت احمدی ہوگئی اور اُنہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ ان کے مشن کا نام تبدیل کر کے احمدیہ مشن رکھ دیا جائے۔ دوسرے مبلّغوں نے بھی اِس حوالہ سے درخواستیں دیں کہ ہماری جماعت فلاں جگہ پر رجسٹرڈ ہے اس جگہ پر بھی اِسے رجسٹرڈ کر لیا جائے۔ اب اطلاع آئی ہے کہ ہمارے دو اَور مشن بھی رجسٹرڈ ہوگئے ہیں اب اگر وہاں مبلّغنہیں ہوگا اور جماعت حکومت کے پاس درخواست کرے گی کہ اُنہیں مبلّغمنگوانے کی اجازت دی جائے تو حکومت کے قواعد کے مطابق اسے اِس طرف توجہ دینی پڑے گی ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ حکومت ناانصافی کر رہی ہے۔
امریکن نَومُسلم یوں بھی ترقی کر رہے ہیں امریکہ کی جماعت کا بجٹ تیس ہزار روپیہ سالانہ ہے اور جس رنگ میں ترقی کر رہی ہے اِس سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ جلد ہی لاکھوں تک پہنچ جائے گا۔ (اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی) اور امریکہ کی دولت سے یہ بعید نہیں کہ ان کا بجٹ پاکستان کی جماعت کے بجٹ سے بھی بڑھ جائے۔ مثلاً امریکہ میں اگر بیس ہزار احمدی ہو جائیں تو امریکہ میں فی آدمی اوسط آمدن سَوا تین سَو روپیہ ہے اور فیملی تین آدمی کی ہوتی ہے۔ جس کے معنی یہ ہونگے کہ وہاں سات ہزار کمانے والے ہوں گے اور ان کی بیس لاکھ ماہوار سے زیادہ آمد ہوگی۔ اگر وہ وصیت کے معیار کے مطابق چندہ دیں تو اُن کا چندہ دو لاکھ سے کچھ اوپر ہوتا ہے۔ ہمارے مُلک کی آمد کا جو اندازہ لگایا گیا ہے اس کے مطابق ہمارے مُلک کے ایک فرد کی آمد تین روپے بارہ آنے ہے۔ اور اگر تین آدمیوں کی ایک فیملی شمار کر لی جائے تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ ایک فرد کے حصہ میں صرف سَوا روپیہ آتا ہے۔ لیکن امریکہ میں ایک خاندان (یعنی اوسط درجہ کے خاندان) کی اوسط آمد سَوا تین سَو روپیہ ہے گویا ہماری نسبت اُن کی آمدن تیس گنے زیادہ ہے۔ اگر امراء کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی اوسط آمدن اَور بھی بڑھ جاتی ہے۔
اِس سال کے دوران میں مشرقی افریقہ میں بھی لوگ احمدی ہونے شروع ہوگئے ہیں چنانچہ اِس مہینہ میں تیس احباب جماعت میں شامل ہوئے ہیں اَور بھی کئی لوگ احمدیت کی طرف توجہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ لوگ وقف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے مگر پھر بھی بعض دوستوں نے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے پیش کی ہیں اور وہ ہمارے مبلّغوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور اپنے اخلاص کا ثبوت دے رہے ہیں۔‘‘ (الفضل ۱۴؍ جولائی ۱۹۶۱ء)
’’اِسی طرح اِس سال خداتعالیٰ نے شرقِ اُردن میں بھی تبلیغ کا نیا رستہ کھول دیا ہے۔ شرقِ اُردن فلسطین کا ہی ایک حصہ علیحدہ کر کے الگ مُلک بنا دیا گیا ہے جو امیر عبداللہ کے ماتحت ہے۔ عمان سے جو شرقِ اُردن کا دارالخلافہ ہے کوئی شخص ہمارے فلسطین مشن میں آیا اور وہاں ہمارے مبلّغ رشید احمد صاحب چغتائی کو ملا اور اُن سے احمدیت کے متعلق باتیں کرنے لگا۔ جب وہ اپنے وطن واپس گیا تو اُس نے دوسرے لوگوں سے احمدیت کے متعلق باتیں شروع کیں اور ان کا طبائع پر بہت اثر ہوا اور ہمارے خیالات آگے پھیلنے شروع ہوئے۔ اُس شخص نے ہمارے مبلّغ کو لکھا کہ یہاں احمدیت کے لئے میدان تیار ہے اور بہت سے لوگ احمدی ہونے کے لئے تیار ہیں آپ اپنا مشن یہاں کھول دیں۔ عمان ایک بہت پُرانا شہر ہے اور اِس کا پُرانا نام قردیہ ہے۔ وہاں ہمارے لئے بہت سی دِقتیں تھیں مگر شام کے وزیر تعلیم نے جو ایک شریف آدمی ہیں ایک چٹھی لکھ دی کہ اِن کے راستہ میں کسی قسم کی روک نہیں ہونی چاہیے۔ اگر عمان میں احمدیت قائم ہوگئی تو یہ جگہ بھی کبابیر (فلسطین)کی طرح جہاں ہمارا مشن قائم ہے ہو جائے گی۔ یہ جگہ کبابیر سے بڑی ہے اور قصبہ ہے۔‘‘ (غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’سپین کے متعلق جو خبریں آ رہی ہیں وہ بھی خوشکن ہیں۔ اگرچہ وہاں لوگ مسلمان نہیں ہو رہے وہ نہایت ہی متعصب ہیں لیکن پھر بھی اُن پر اسلام اپنا اثر کر رہا ہے۔ جب ہم قادیان سے نکلے تو ہم نے کمی آمد کی وجہ سے بعض مشنریوں کو لکھا کہ یا تو تمہارے مشن بند کر دیئے جائیں گے یا تم خود گزارہ کی صورت پیدا کرو اور تبلیغ کرو سلسلہ کی طرف سے تمہیں کوئی خرچ نہیں دیا جائے گا۔ جن مشنوں کے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اُن میں سپین کا بھی مشن تھا۔ جب ہم نے اِس قسم کی چٹھیاں بیرونی مشنریوں کو لکھیں تو اِن مبلغوں نے جواب دیا کہ آپ ہمارا خرچ بے شک بند کر دیں جس طرح بھی ہوگا ہم گزارہ کریں گے۔ چنانچہ سپین کے مبلّغ نے پھیری کر کے روزی کمانا شروع کی اور خداتعالیٰ نے اس کی کمائی میں ایسی برکت ڈالی کہ چھ ماہ کے اندر اندر اِس نے سترہ اٹھارہ سَو روپیہ جمع کر لیا اور اس نے میرا لیکچر ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ ہسپانوی زبان میں شائع کیا۔ اس کا ان لوگوں پر بہت اثر ہوا۔ اِس لیکچر میں کمیونزم کے مقابلہ میں اسلام کا اقتصادی نظام پیش کیا گیا ہے اور سپین کے لوگ چونکہ روس کے دشمن ہیں اِس لئے اُنہوں نے اِس کتاب کو بہت پسند کیا۔ اخبارات اور رسالوں نے ریویو لکھے۔ چنانچہ کل ہی مجھے ایک ریویو ملا ہے جو ایک سرکاری اخبار میں شائع ہوا ہے۔ یہ اخبار سپین کی وزارت صنعت و تجارت اور امور خارجہ کی طرف سے ہفتہ وار شائع ہوتا ہے۔ اس میں ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ پر ایڈیٹر کی طرف سے جو انسپکٹر جنرل تجارت بھی ہے ایک ریویو شائع ہوا ہے جس کا ہیڈنگ ’’اسلام اور کمیونزم ‘‘ ہے۔ ہسپانیہ کے لوگ کٹر عیسائی ہیں اور اسلام سے اُنہیں عداوت ہے لیکن جب کوئی مشترکہ بات ہو تو وہ دشمنی بھول جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’سپین کے ایک نہایت ہمدرد دوست کرم الٰہی صاحب ظفر جو ہمارے ملک میں جماعت احمدیہ کے مبلّغ ہیں حال ہی میں نہایت قیمتی خدمات سرانجام دے چکے ہیں جو صرف دلچسپ ہی نہیں بلکہ اہلِ سپین اور اہلِ اسلام کے باہمی دوستانہ تعلقات مضبوط کرنے اور ایک دوسرے کو اچھے طور پر سمجھنے کا ذریعہ ہیں۔ آپ نے جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی کی ایک لطیف تصنیف کا ہسپانوی ترجمہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ’’حقیقی امن کی طرف لے جانے والا راستہ‘‘ ہے اور جس کا دوسرا عنوان ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ ہے۔ موجودہ ترجمہ انگریزی سے ہسپانوی میں کیا گیا ہے جس کا اُردو میں مقابلہ کیا گیا ہے۔
یہ قدرتی امر تھا کہ کتاب کسی قدر جذباتی اور مذہبی تعصب کا رنگ رکھتی مگر باوجود اس کے کمیونزم کے مقابلہ میں نہایت شاندار طور پر اسلام کا اقتصادی نظام پیش کرتے ہوئے وزنی دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ کمیونزم نہ صرف دنیاوی سیاسی تحریکوں اور اصولوں کے خلاف ہے بلکہ مذہبی دنیا کے بھی خلاف ہے جہاں باہم معاشرتی زندگی میں مختلف الخیال لوگوں کو خواہ وہ صحیح مذہب کے پیرو ہوں یا غلط راہ پر چل رہے ہوں پوری آزادی ہے۔
اِس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ آپ نے اِس لیکچر کے ذریعہ دنیا بھر کو اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی ہے کتاب نہایت اعلیٰ طور پر معلومات کا خزانہ ہے۔ خصوصاً ہم کیتھولک مذہب والوں کے لئے دوسرے مذاہب اور دوسری اقوام کے خیالات جاننے کے لئے کہ اِن لوگوں کی کمیونزم کے متعلق کیا رائے ہے یہ کتاب نہایت مفید ثابت ہوئی ہے۔
ہسپانوی ناظرین کے لئے سب سے زیادہ قابل کشش اور دلچسپ چیز اِس تصنیف لطیف میں اِس کا طرزِ بیان اور دلکش طور پر خیالات کا پیش کرنا اور زبان کی مٹھاس ہے۔ کتاب معارف سے پُر ہے اور قرآن کریم کی صحیح تفسیر اور دوسری اسلام کی مقدس کتب کے حوالوں اور نہایت گہری معلومات پر مشتمل ہے۔
سب سے زیادہ انتہائی دلچسپ اور قابل ذکر بات حضرت امام جماعت احمدیہ کا ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ دنیا کے سامنے نہایت دلچسپ رنگ میں پیش کرنا ہے اور دوسرے حصہ کے لئے جو کمیونزم کے متعلق ہے آپ زیادہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
خلاصہ یہ کہ جو اصحاب اقتصادیات کے متعلق اپنی معلومات وسیع کرنا چاہتے ہوں اُن سے ہم پُر زور سفارش اِس کتاب کے مطالعہ کے لئے کرتے ہیں‘‘۔
اِس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ہمارے لٹریچر کا غیروں پر کیا اثر ہو رہا ہے۔
اِس کے بعد میں جماعت کے دوستوں کو یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ میں یہ سکیم یہاں لے کر آیا ہوں کہ ہم انجمن کے سارے دفاتر لاہور سے یہاں منتقل کر دیں اس لئے جیسا کہ احباب قادیان بار بار آیا جایا کرتے تھے اُسی طرح اِنہیں ربوہ میں بھی بار بار آنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر احباب بار بار ربوہ آئیں گے تو وہ ناظروں سے مل کر جماعت کی سکیموں کو معلوم کر سکیں گے اور دوسرے لوگوں پر بھی اِس بات کا اثر ہوگا کہ کس طرح یہ لوگ اپنے نئے مرکز کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ (الفضل ۱۴ ؍جولائی ۱۹۶۱ء)
’’یہ بھی یاد رہے کہ جو لوگ آئندہ ربوہ آئیں وہ حتی الوسع ریل کے ذریعہ آئیں اور ریل کے ذریعہ جائیں۔ ریلوے حکام نے ہمارے ساتھ بہت اچھا تعاون کیا ہے اور ربوہ میں اُس وقت ریلوے سٹیشن بنایا ہے جب یہاں کوئی مکان نہیں تھا۔ یہ عمارتیں وغیرہ جو اَب بنی ہوئی ہوئی ہیں یہ ہم نے چند دنوں میں بنائی ہیں اور یہ بھی محض چھپر ہیں۔ ریلوے حکّام نے نہایت فراخدلی سے یہ جانتے ہوئے کہ جہاں اِس جماعت کا مرکز ہوگا ریل گھاٹے میں نہیں رہے گی یہاں اسٹیشن کھول دیا ہے اور آئندہ ان کا ارادہ اسے مستقل اور اہم سٹیشن بنانے کا ہے۔ انہوں نے حکّام بالا کی منظوری کے بغیر بامید منظوری یہ سٹیشن بنایا ہے اور اب انہیں دکھانا ہوگا کہ ہم نے یہاں سٹیشن کھولنے میں غلطی نہیں کی بلکہ اِس میں پاکستان کا فائدہ تھا۔ اگر جماعت کے دوست یہاں بار بار نہ آئیں گے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ریلوے کی آمدنی کم دکھائی جائے گی اور حکّامِ بالا اعتراض کریں گے کہ محض خیالات پر بنیاد قائم کر کے یہاں سٹیشن کھول دیا گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم کسی اور ذریعہ سے سفر نہ کرو۔ ضرورت کے وقت دوسرے ذرائع سے بھی سفر کیا جاسکتا ہے لیکن جہاں تک ممکن ہو ریلوے کے ذریعہ سفر کیا جائے۔ میں نے خود اپنے سب گھر والوں کو ریل کے ذریعہ بھیجا ہے اور خود موٹر پر آیا ہوں کیونکہ اُس دن میری ایک دعوت تھی جو یونیورسٹی کی طرف سے کی گئی تھی اور وہاں مجھے کئی دوسرے لوگوں سے ملنے کا موقع مل سکتا تھا۔ میں اُس دعوت پر چلا گیا اور پھر موٹر کے ذریعہ یہاں آیا۔ پس میرا یہ مطلب نہیں کہ خواہ کچھ بھی ہو آپ لوگ صرف ریلوے کے ذریعہ سفر کریں بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دوست ریلوے کے ذریعہ سفر کریں۔ میں نے تمام گھر والوں کو ریل کے ذریعہ یہاں بھیجا تھا گو موٹر کے ذریعہ آنے میں شائد تیسرا حصہ خرچ ہوتا۔ میں نے یہی سوچا کہ فائدہ اِسی میں ہے کہ میں اِنہیں ریل کے ذریعہ بھیجوں تا ریلوے کے وہ حکّام جنہوں نے ہم سے تعاون کرتے ہوئے یہاں اسٹیشن کھولا ہے بدنام نہ ہوں۔
ہمارا یہ بھی ارادہ ہے کہ سٹیشن کو اِسی صورت پر ہی قائم نہ رکھا جائے بلکہ اِسے بڑھایا جائے اور بڑا سٹیشن بنایا جائے۔ اب ڈاک خانہ والوں کے بھی آدمی آئے ہیں اور وہ بھی یہاں ڈاکخانہ کھولنے کے لئے تیار ہیں اور اگر بات پختہ ہوگئی تو پھر منی آرڈروں کے آنے جانے اور دوسری ڈاک میں بھی سہولت پیدا ہو جائے گی اور دوسرے لوگوں سے ہمارے تعلقات زیادہ اچھے ہو جائیں گے۔ پس جماعت کو چاہیے کہ وہ کثرت سے ربوہ آنا جانا شروع کر دے اور پھر وہ ریل کے ذریعہ سفر کرے سوائے کسی مجبوری کے یا سوائے اِس کے کہ انہیں ریل کے ذریعہ سفر کرنے میں نقصان ہوتا ہو۔
اِس کے بعد میں اس کڑی کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جو ربوہ کے قیام کے متعلق ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں جب انگریز کا راج تھا اور ہم اُس کی رعایا تھے اُس وقت حکومت میں ہمارا کوئی دخل نہیں تھا۔ اب پاکستان بن چکا ہے اور حکومت جہاں قومی ہے وہاں ہماری محسن بھی ہے۔ اِس لئے ہم پر اب پہلے سے زیادہ فرض ہے کہ اِس کی حفاظت اور مضبوطی کے لئے کوشش کریں۔ اور حفاظتیں خالی نعروں سے نہیں ہوا کرتیں، صرف منہ سے یہ کہہ دینا کہ ہم اپنے مُلک کی حفاظت کریں گے اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا دینا اِس بات کا یقین نہیں دلاتا کہ پاکستان کی واقعہ میں حفاظت کی جائے گی۔ خالی نعروں سے پاکستان زندہ نہیں ہوگا۔ وہ زندہ اُسی وقت ہوگا جب آپ لوگ مُلک کی خاطر موت کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ جب تک آپ خود مردہ باد نہیں ہو جاتے پاکستان زندہ باد کس طرح ہو سکتا ہے۔ اگر آپ منہ سے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائیں اور جب اِس کی حفاظت کا سوال آئے تو کہہ دیں ہم اِس کے ذمہ دار نہیں تو ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کس طرح ہو سکتا ہے۔ پاکستان اُس وقت ’’زندہ باد‘‘ ہوگا جب آپ موت کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ اور مرنے کے بھی ڈھنگ ہوتے ہیں سارے لوگ مرنا بھی نہیں جانتے۔
کہتے ہیں کسی مجلس میں ایک ڈاکٹر اور ایک اناڑی طبیب دونوں بیٹھے تھے کہ طب کا ذکر شروع ہو گیا۔ اناڑی طبیب کے متعلق ڈاکٹر نے کہا کہ اِسے طب نہیں آتی یونہی اِس نے علاج کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ اِس پر اناڑی طبیب نے کہا جناب! یہ باتیں تو ہوتی رہتی ہیں آپ کا علم بھی ہم نے دیکھ لیا کہ وہ کتنا وسیع ہے۔ میرے بھی کئی مریض بچتے ہیں آپ کے بھی کئی مریض بچتے ہیں۔ میرے بھی کئی مریض مرتے ہیں اور آپ کے بھی کئی مریض مرتے ہیں یا تو کہیں کہ آپ کا مریض مرتا ہی نہیں۔ ڈاکٹر ہوشیار آدمی تھا اُس نے کہا میرے مریض بچتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں لیکن تمہارے مریض بچتے ہیں تو وہ اتفاقی طورپر بچ جاتے ہیں اور میرے مریض بچتے ہیں تو وہ میرے علم کے ماتحت بچتے ہیں۔ اور پھر میرے مریض مرتے ہیں تو قانونِ قدرت کے ماتحت مرتے ہیں لیکن تمہارے مریض جہالت کی وجہ سے مرتے ہیں ورنہ موت تو بدل نہیں سکتی۔ غرض مرنے کا بھی ایک فن ہوتا ہے اور مارنے کا بھی ایک فن ہوتا ہے اور جس شخص کو یہ دونوں فن نہ آتے ہوں وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وقت آنے پر میں پاکستان کی حفاظت کروں گا اور اِسے دشمن سے بچا لوں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے۔ کوئی بادشاہ تھا اُس نے اپنے وزیروں کو بُلایا اور اُن سے دریافت کیا کہ فوج پر کیا خرچ ہوتا ہے؟ وزیروں نے بتایا کہ مثلاً فوج پر پچاس لاکھ یا ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے۔ بادشاہ نے کہا اتنا روپیہ یونہی فوج پر برباد کیا جا رہا ہے یہ تو بیوقوفی کی بات ہے۔ وزیروں نے کہا بادشاہ سلامت! پہلے سے یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ بادشاہ نے کہا یہ بیوقوفی کی بات ہے فوج پر اتنا روپیہ خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ لڑائی کا کیا ہے یہ قصاب جو روزانہ جانور ذبح کرتے ہیں کیا یہ فوج کا کام نہیں دے سکتے؟ جب لڑائی کا موقع آیا ہم انہیں محاذ پر بھیج دیں گے۔ چنانچہ ملک کی فوج برخواست کر دی گئی اور تمام قصابوں کو یہ کہہ دیا گیا کہ وہ وقت آنے پر لڑائی کے لئے تیار رہیں۔ ہمسایہ بادشاہ نے جب یہ دیکھا کہ اِس مُلک کا بادشاہ اتنا عقلمند ہے کہ اس نے اپنی فوج کو برخواست کر دیا ہے اور قصابوں کو لڑائی کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے تو وہ اپنی فوجیں لے کر اُس مُلک پر چڑھ آیا۔ قصابوں کو حکم دے دیا گیا کہ وہ لڑائی کے لئے چل پڑیں۔ اِس پر تمام قصاب اپنی چھریاں تیز کر کے لڑائی کے لئے چل پڑے۔ پانچ چھ منٹ کی لڑائی کے بعد ہی وہ بھاگتے ہوئے بادشاہ کے پاس آئے اور شورمچانا شروع کر دیا کہ بادشاہ سلامت فریاد! فریاد! فریاد! بادشاہ اِس انتظار میں تھا کہ لڑائی کے متعلق کوئی خوشکن خبر آئے۔ وہ قصاب جب چلاتے ہوئے دربار میں آئے تو بادشاہ نے پوچھا یہ کیا؟ قصابوں نے جواب دیا بادشاہ سلامت! ہم ایک آدمی کو دو تین مل کر پکڑتے ہیں اور قبلہ رُخ کر کے بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر نہایت اُستادی سے ذبح کرتے ہیں مگر اتنے میں دشمن ہمارے بیس بیس آدمی مار دیتا ہے انہیں روکئے بھلا یہ بھی کوئی اُستادی ہے۔ ابھی وہ یہی باتیں کر رہے تھے کہ فوج آ پہنچی اور بادشاہ قید ہو گیا۔ غرض کوئی کام بے سکیم کے نہیں ہو سکتا۔ اگر بے سکیم ہو سکتا تو پھر قصابوں کے بعد مُلک میں کسی فوج کی کیا ضرورت تھی۔ وقت آتا تو تمام قصاب نیشنل گارڈ ،ہوم گارڈ اور فوج میں بھرتی کرلئے جاتے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اس طرح مُلک کی حفاظت ہو جائے گی؟ تم یقینا یہی کہو گے کہ اس طرح مُلک کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ قصاب لڑائی کے فن سے واقف نہیں۔ جب تک کوئی لڑائی کے فن سے واقف نہ ہو وہ لڑائی میں مفید ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس لئے خواہ کچھ بھی ہو پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ مُلک و ملّت کی حفاظت کے لئے فوج میں بھرتی ہوں اور اِس طرح اپنے مُلک کی حفاظت کا صحیح طریق سیکھیں۔
میں آپ لوگوں کو سمجھانے کے لئے ایک اَور مثال بھی دے دیتا ہوں۔ کہتے ہیں کوئی پٹھان تھا اُس نے اپنی مونچھیں اونچی کر لیں اور اعلان کر دیا کہ میرے سوا کسی اور کو مونچھیں اونچی کرنے کا حق حاصل نہیں۔ اگر کسی نے مونچھیں اونچی کیں تو میں اُس کی گردن اُڑا دوں گا۔ شہر والوں نے اپنی مونچھیں نیچی کر لیں اور وہ پٹھان جس کسی کی مونچھیں اونچی دیکھ لیتا وہ اُس کے کان پکڑ لیتا اور دوسرا شخص کہتا نہیں خانصاحب غلطی ہو گئی اور اپنی مونچھیں نیچی کر لیتا۔ سب شہر والے تنگ آ گئے اُنہوں نے اُس پٹھان کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا اور اِس بات پر مصر رہا کہ مونچھیں اونچی کرانے کا اُس کے سوا اور کسی کو حق حاصل نہیں۔ شہر میں کوئی غریب امن پسند آدمی تھا، وہ عقلمند تھا جب اُس نے دیکھا کہ شہر والوں کو اس پٹھان نے تنگ کیا ہوا ہے تو اُس نے بھی مونچھیں رکھ لیں۔ وہ سارا دن گھر بیٹھا رہتا اور مونچھوں پر تیل ملتا رہتا۔ جب اُس کی مونچھیں بڑی ہوگئیں تو اُس نے تلوار نکالی او رباہر نکل کر بازار میں ٹہلنا شروع کر دیا۔ اتنے میں وہ خانصاحب آئے اور جب اُسے دیکھا کہ اُس نے مونچھیں اونچی کی ہوئی ہیں تو تلوار نکال لی اور کہا ہمارے سِوا مونچھیں اونچی رکھنے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔ اُس آدمی نے کہا کیا تم نے مونچھیں رجسٹرڈ کروا رکھی ہیں؟ تم کون ہوتے ہو اونچی مونچھیں رکھنے والے؟ اُس پٹھان نے کہا ہم نے اعلان کیا ہوا ہے کہ ہمارے سِوا کسی اور کو اونچی مونچھیں رکھنے کا حق حاصل نہیں اور جو شخص اونچی مونچھیں رکھے گا میں اُس کی گردن اُڑا دوں گا۔ اگر تم مونچھیں نیچی نہیں کرتے تو آؤ مقابلہ کر لو۔ اِس پر اُس نے تلوار کھینچ لی اور اس شخص نے بھی تلوار نکال لی۔ اور کہا خان! تمہارا تو حق ہے کہ تم میرے ساتھ لڑائی کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ لڑائی کروں گا لیکن اس میں ہمارے بیوی بچوں کا کیا قصور ہے۔ نہ میرے بیوی بچوں کا کوئی قصور ہے نہ تمہارے بیوی بچوں کا کوئی قصور ہے۔ اب اگر تم نے مجھے مار دیا یا میں نے تجھے مار دیا تو یہ بہت بڑا ظلم ہوگا ہمارے بیوی بچوں کی کون نگرانی کرے گا؟ میں پھر کہتا ہوں کہ میں ضرور لڑائی کروں گا لیکن پہلے تم بھی اپنے بیوی بچوں کو مار آؤ اور میں بھی اپنے بیوی بچوں کو مار آتا ہوں۔ پٹھان نے کہا یہ درست ہے۔ چنانچہ وہ اپنے بیوی بچوں کو مارنے کے لئے گھر چلا گیا۔ مگر دوسرا شخص وہیں ٹہلتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد پٹھان واپس آیا اور اُس نے کہا اُٹھو! میں اپنے بیوی بچوں کو مار آیا ہوں آؤ اور مجھ سے مقابلہ کر لو۔ اس شخص نے کہا کیا تم اپنے بیوی بچوں کو مار آئے ہو؟ پٹھان نے کہا ہاں۔ اِس پر اُس شخص نے کہا اگر تم اپنے بیوی بچوں کو مار آئے ہو تو میں شکست مانتا ہوں اور اپنی مونچھیں نیچی کر لیتا ہوں۔ اب دیکھو اس شخص نے عقل کی بات تو کر لی لیکن یہ فرد کا مقابلہ تھا۔ قوموں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کے منشاء کے مطابق فوجی فنون سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اگر تم دوسری قوموں کے سامنے اپنا سر بلند رکھنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہوگا کہ تم جنگ کے فنون سیکھو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فنونِ جنگ سیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ آپ صحابہ کے دو گروہ بنا کر اُن کی آپس میں تیر اندازی کروایا کرتے تھے۔ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے صحابہؓ کو اکٹھا کیا اور ان کی دو پارٹیاں بنا دیں۔ آپ نے چاہا کہ میں خود بھی ایک پارٹی میں شامل ہو جاؤں۔ اِس پر دوسری پارٹی نے کمانیں نیچی جھکا دیں اور کہا ہم اِس طرف تیر نہیں چلا سکتے جدھر آپ ہوں۔۳؎ بہرحال اس سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس قدر شوق تھا کہ آپ خود جنگ کی مشقیں کرواتے رہتے تھے حتیّٰ کہ بخاری میں ایک روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ مسجد نبوی میں بعض حبشیوں نے جنگی کرتب دکھائے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دروازے میں کھڑے ہو گئے اور حضرت عائشہؓ سے فرمایا میرے کندھے میں سے سر نکال کر دیکھ لو۔ آپ فرماتی ہیں اِس طرح میری شکل نظر نہیں آتی تھی۔ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں میں سے فنونِ جنگ دیکھتی رہی حتیّٰ کہ آپ نے فرمایا عائشہؓ !کیا تم تھک گئی ہو؟۴؎ پس آپ لوگوں کو چاہیے کہ جہاں جہاں موقع ملے حکومت کے منشاء کے مطابق فنونِ جنگ سیکھنے کی کوشش کرو۔ اگر پاکستان پر کبھی حملہ ہوا اور لڑائی ہو گئی تو جو لوگ فنونِ جنگ سے واقف ہونگے وہ اپنے مُلک کی حفاظت کیلئے فوج کے ساتھ مل کر مارچ کر سکیں گے لیکن اگر تم فنونِ جنگ نہیں سیکھو گے تو کیا تم صرف نعرے ہی مارتے رہو گے؟ تم کس منہ سے اپنی اولاد کے سامنے اپنا سر اونچا رکھ سکو گے؟ تم کس منہ سے اپنے ہم وطنوں کے سامنے سر اونچا رکھ سکو گے؟ تم کس طرح اپنی ماؤں کے سامنے سر اونچا رکھ سکو گے؟ تم کس طرح ان کی دعائیں لو گے کہ بیٹا زندہ رہو۔ تمہیں ان دعاؤں کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا بلکہ ماں کا اُس وقت یہ فرض ہوگا کہ وہ تمہیں کہے میرے سامنے سے دُور ہو جاؤ تم بزدل ہو تمہارا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘‘
(الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۱ء)
’’پس ہمیں اپنے مرکز کے ساتھ رہ کر کئی قسم کی پابندیاں برداشت کرنا ہوں گی۔ ہم اپنا نیا مرکز اِس لئے بنا رہے ہیں تا ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھائیں، خداتعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسیع کریں۔ نہ اس لئے کہ ہم خداتعالیٰ سے اپنے تعلقات کو منقطع کر لیں۔ ہم نے اپنے آپ کو منظم کر کے ظلم کا بدلہ لینا ہے۔ دنیا اِس ظلم کو بھول جائے تو بھول جائیمگر ہم اِسے نہیں بھولیں گے اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ اِس ظلم کا بدلہ نہ لے لیں۔ لاکھوں مسلمانوں کو تلوار کے گھاٹ اُتارا گیا۔ ہزاروں عورتوں کو اغوا کر لیا گیا۔ ہزاروں بچوں کو نیزے مارمار کر مار دیا گیا۔ ہزاروں عورتوں کی عصمتوں کو لوٹا گیا۔ اُن کی چوٹیاں کاٹی گئیں۔ اُن کے پستانوں کو کاٹا گیا۔ اُن کی شرمگاہوں میں نیزے مارمار کر اُنہیں مارا گیا۔ یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ جب تک کسی شریف انسان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک بھی باقی ہے وہ اِن مظالم کو بُھلا نہیں سکتا۔ کوئی بے حیا شخص ہی ہوگا جس کو یہ باتیں بھول جائیں مگر ایسا آدمی صفحۂ ہستی پر رہنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ ہماری جماعت صلح پسند ہے اور ہم صلح کے لئے ہی پکاریں گے مگر دوسری طرف ہمیں اِس ظلم کا بدلہ لینے کے لئے تیاریاں کرنا ہوں گی اور اگر کوئی لڑائی ممکن ہے تو ہمیں اِس کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔ ‘‘
(غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’حضرت مسیح علیہ السلام کو ہی دیکھ لو اُنہوں نے اگر ایک طرف یہ کہا ہے کہ تمہاری ایک گال پر اگر کوئی شخص طمانچہ مارے تو تم اپنی دوسری گال بھی اُس کی طرف پھیر دو۵؎ تو دوسری طرف آپ نے یہ بھی کہا کہ اگر تمہیں کرتہ بیچ کر بھی تلوار خریدنی پڑے تو تُو تلوار خرید۔۶؎ اور یہ دونوں باتیں درست تھیں۔ اگر یہ دونوں باتیں متضاد ہیں تو حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کا کیوں حُکم دیا؟ اگر مسیح علیہ السلام کے لئے یہ دونوںباتیں ٹھیک ہو سکتی ہیں تو ہمارے لئے بھی یہ دونوں باتیں کیوں ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک طرف اگر امن کا پیغام دیا تو دوسری طرف لڑائیاں بھی کیں۔ یہ ضروری نہیں کہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں ہوں بلکہ آپ نے یہ سکھایا ہے کہ ہر ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ موقع کے مطابق چلتا چلا جائے۔ پس ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم حکومت کی منشاء اور تجویز کے مطابق فنونِ جنگ سیکھنے کی طرف توجہ کریں اور اِس طرح وقت آنے پر اپنے مُلک کی حفاظت کریں۔ ‘‘
(الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ۵ کالم۱)
’’ ہم میں سے ہزاروں ہزار ایسے ہیں جنہوں نے کشمیر کے محاذ پر جا کر ٹریننگ حاصل کی اور وقت کی ضرورت کو پورا کیا۔ جہلم میں چلے جاؤ تم دیکھو گے کہ ہر ایک غیر احمدی کے منہ پر یہ بات ہے کہ اگر کسی نے مُلک کی کوئی خدمت کی ہے تو احمدیوں نے کی ہے۔ چنیوٹ میں جلسہ کر لینے سے کیا بنتا ہے۔ تم محاذ پر چلے جاؤ اور پوچھو کہ کس نے قربانی کی ہے؟ تمہیں ایک ایک بچہ ایسا ملے گا جو کہے گا کہ اگر قربانی کی ہے تو احمدیوں نے کی ہے۔ تم محاذ پر چلے جاؤ اور فوجیوں سے پوچھو کہ اُن کے ساتھ مل کر کس نے کام کیا ہے؟ تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ہمارے فرقان کے سپاہی منظم فوج سے کسی صورت میں کم نہیں۔ نوشہرہ کے محاذ پر ایک قلعہ کے اوپر جب پاکستانی فوجوں نے حملہ کیا اور فرقان فورس کو اپنے ساتھ شامل کر لیا اُس وقت پاکستانی فوج کے آدمی دو تین گنا زیادہ تھے اور احمدی والنٹیئرایک تہائی حصہ کے قریب تھے لیکن جس وقت وہ سرنگوں اور بموں کے علاقے کو پار کر کے اپنی منزل مقصود پر پہنچے تو کل چالیس آدمی تھے۔ جن میں سے ۲۹ احمدی تھے اور گیارہ دوسرے تھے۔ اگر تم فنونِ جنگ سیکھو گے تو ایمان کی وجہ سے تمہارے اندر جرأت پیدا ہوگی بلکہ تم دوسروں کے اندر بھی دلیری پیدا کر سکو گے لیکن اگر تم فنونِ جنگ نہیں سیکھو گے تو دوسروں کے سامنے کیا نمونہ پیش کرو گے۔ ‘‘ (غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’تم شاید کہہ دو کہ ہم چندہ زیادہ دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایمان اور اخلاص کا کیا تقاضا ہے؟ اخلاص تو یہ چاہتا ہے کہ جو کچھ خدا مانگے وہ دو۔ یہ نہیں کہتا کہ خداتعالیٰ جان مانگے تو تم جان نہ دو۔ اگر تمہارے اندر اخلاص ہے تو تم چندہ بھی دو گے، وطن کیلئے ہر قسم کی قربانیاں بھی کرو گے اور اگر تمہاری جان کی ضرورت پڑے تو بشاشت کے ساتھ تم اپنی جان بھی پیش کرو گے۔‘‘
(الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ۵ کالم ۱)
’’یہ وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ہم ربوہ میں آئے ہیں۔ یہ آواز ہے جو ربوہ سے اُٹھائی جائے گی۔ آج جو لوگ ہم پر غداری کا الزام لگاتے ہیں اگر ملک پر کوئی کٹھن وقت آیا تو وہ بھگوڑے ہوں گے اور اوّل صف میں احمدی کھڑے ہونگے۔ مگر وہ مخلص احمدی ہونگے منافق نہیں۔
میں نے پہلے بھی سنایا تھا اور آج عورتوں میں تقریر کرتے ہوئے بھی اِس کا ذکر کیا ہے کہ وہ لوگ جن کو تم کمی کہا کرتے تھے وہ زیادہ قربانی کر رہے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو جاٹ اور راجپوت وغیرہ کہہ کر مجلس میں اپنی بڑائیاں بیان کیا کرتے تھے وہ قربانی میں کم ہیں۔ بلکہ وہ عورتیں جن کو تم کمزور سمجھتے تھے وہ تم سے زیادہ قربانیاں کر رہی ہیں۔ گوجرانوالہ کے ضلع میں ایک بیوہ عورت تھی وہ بڑی عمر کی تھی اور اُس کا خاوند مر چکا تھا۔ اُس کا ایک ہی بیٹا تھا اُس کے گاؤں میں ہمارا آدمی پہنچا جو فرقان فورس کے لئے ریکروٹ لینے گیا تھا۔ لوگوں کو اکٹھا کیا گیا اور ہمارے اُس مبلّغ نے تقریر کی اور نوجوانوں کو اِس مقصد کے لئے بُلایا۔ لیکن کمزور دل مرد خاموش اور سرجھکائے کھڑے رہے تب وہ بیوہ عورت اُٹھی اور اُس نے پردہ میں اُسے آواز دی اور بڑے جوش سے کہا او فلانے! اپنے بیٹے کا نام لے کر کہا تو سنتا نہیں! دین کے لئے جان کی ضرورت ہے اور تو خاموش کھڑا ہے! تو جواب کیوں نہیں دیتا؟ وہ بچہ آگے آیا اور اُس نے اپنا نام لکھوایا۔ یہ وہ قربانی کا مظاہرہ تھا جو ایک بیوہ اور بوڑھی عورت کی طرف سے کیا گیا۔ اور میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ عورت بھی انہی لوگوں میں سے تھی جن کو تم کمی کہتے ہو۔ جب یہ خط مجھے پہنچا میں نے لفافہ کھولا اور پڑھنا شروع کیا جب میں وسطِ خط میں پہنچا تو میرے دل میں اِس واقعہ کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے خط بند کر دیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ اے خدا! میرا بھی حق ہے کہ میں تیری راہ میں قربانیاں کروں۔ اگر تیری راہ میں کسی جان کی ضرورت ہے تو اے خدا! میری تجھ سے درخواست ہے کہ تومیرے کسی بیٹے کی جان لے لیجیومگر اِس بڑھیا ماں کا بچہ صحیح سلامت واپس آ جائے۔
اِسی طرح لائلپور کی ایک عورت کا بھی ایسا ہی واقعہ ہے۔ لائلپور میں بھی ایک عورت تھی۔ اور وہ بھی انہی لوگوں میں سے تھی جن کو تم کمی کہتے ہو۔ لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں وہ تم سے زیادہ عزت والی تھی۔ وہ عورت ترکھان تھی۔ جب ہمارا مبلّغ وہاں گیا اور اُس نے کہا اِس وقت ملک کی حفاظت اور اُس کی عزت کا سوال ہے پاکستان کے احمدیوں کو چاہیے کہ وہ اِس کے لئے آگے بڑھیں اور اپنی جانیں پیش کریں تواُس عورت نے کہا کیا واقعہ میں دین کو جان کی ضرورت ہے؟ ہمارے مبلّغ نے کہا ہاں اِس وقت دین اور ملک کی حفاظت کے لئے جان کی قربانی کی ضرورت ہے۔ اُس عورت کے دو لڑکے اور دو پوتے تھے اُس نے کہا اگر یہ بات درست ہے تو میں اپنے چاروں بچوں کو پیش کرتی ہوں تم بیشک اِن چاروں کو لے جاؤ۔ پھر اُس نے اپنے لڑکوں کو اور پوتوں کو بُلا کر کہا کہ دین اور مُلک کی حفاظت کے لئے تمہاری جانوں کی ضرورت ہے۔ احمدی فوج کی طرف سے تمہیں بُلایا جا رہا ہے تم چاروں چلے جاؤ اور یاد رکھو میں اُس وقت تک گھر میں نہیں گھسوں گی جب تک تم چاروں یہاں سے چلے نہیں جاتے۔ ہمارے مبلّغ نے کہا ہمیں تمہارے دونوں لڑکوں اور پوتوں میں سے صرف ایک چاہیے لیکن وہ عورت نہ مانی۔ آخر بڑے اصرار کے بعد اُس نے کہا پھر دو کو تو ضرور لے جاؤ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے قومیں بڑھتی ہیں اور دشمن کے مقابلہ میں وہ شرمندہ نہیں ہوتیں۔
جہلم کی جماعت ایسی ہے جس نے باقی جماعت کے سامنے ایک نمونہ پیش کر دیا ہے اور ایسی باقاعدگی سے اس کام میں حصہ لیا ہے کہ کسی اور شہر کے احمدیوں نے ایسا نمونہ نہیں دکھایا۔ کراچی، سیالکوٹ، لاہور، راولپنڈی، ملتان اور لائلپور جیسے بڑے بڑے شہر موجود ہیں لیکن اُن میں سے کسی شہر نے بھی ایسا نمونہ نہیں دکھایا جو جہلم کی جماعت نے دکھایا ہے۔ اگر یہ سچ نہیں تو وہ لوگ کھڑے ہو جائیں جنہوں نے اپنی اپنی جماعت کا پورا ۶۴ واںحصہ فرقان فورس میں بھیجا ہے۔ اِس کے مقابلہ میں جہلم کے امیر کی طرف سے جب کسی کو محاذ پر جانے کے لئے کہا گیا تو اُس نے انکار نہیں کیا بلکہ اُس نے کہا اگر مجھے ملازمت سے استعفیٰ بھی دینا پڑے تو میں ضرور جاؤں گا۔ چھٹیاں دوسری جگہوں پر بھی مل سکتی ہیں پھر جو کام جہلم کی جماعت کر سکتی ہے وہ دوسری جماعتیں کیوں نہیں کر سکتیں۔ آخر وہ کون سا وقت آئے گا جب تم فنونِ جنگ سیکھو گے اور دشمن کے سامنے اپنی چھاتی تان کر کھڑے ہو جاؤ گے۔ اگر تم اب ایسا نہیں کرتے تو وقت آنے پر سوائے ناکامی اور حسرت سے تمہیں اور کیا ملے گا۔ لوگ اِس بات پر چڑتے ہیں کہ ایک طرف تو ہم پاکستان سے وفاداری کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف ہماری یہ مذہبی تعلیم ہے کہ احمدی خواہ کسی مُلک میں ہوں وہ اپنے اپنے مُلک کے وفادار رہیں۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں درست ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو احمدی انڈین یونین میں رہتے ہیں وہ انڈین یونین کے وفادار رہیں گے۔ یہی قائداعظم نے کہا تھا اور یہی گاندھی جی نے کہا تھا اور جو اِس کے خلاف لکھتا ہے وہ قائداعظم پر الزام لگاتا ہے۔ ہماری تو تعلیم ہی یہی ہے کہ ہمارے احمدی جس مُلک میں بھی رہیں گے وہ اُس کے وفادار رہیں گے۔ ہاں زائد فرق یہ ہے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں اسلام کی ترقی کے ذرائع موجود ہیں اور جب تک ہم اس اصول پر عمل نہ کریں کہ جس مُلک میں ہم رہیں اُس کے وفادار بن کر رہیں ہم اُن ذرائع سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے‘‘۔
اِس موقع پر حضور نے فرمایا:۔
’’ ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ انشورنس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ اِس کے متعلق میں اس وقت صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اب تک انشورنس کا جو طریق رائج ہے وہ اسلام کے خلاف ہے جب کوئی ایسا طریق نکل آئے گا جو اسلام کی اجازت میں آ جاتا ہو تو میں اُس کو جائز قرار دے دوں گا۔
اِسی طرح میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ربوہ میں مکان بنانے کے لئے کچھ شرائط ہوں گی جن کی پابندی لازمی ہوگی۔ مثلاً ربوہ میں مکانات بنانے والوں اور دُکانیں کھولنے والوں کے لئے یہ بات لازمی قرار دے دی جائے گی کہ وہ ایک سال میں ایک ماہ خدمت دین کے لئے وقف کریں۔ جو شخص قومی خدمت کے لئے سال میں ایک ماہ نہیں دے گا اُسے کہہ دیا جائے گا کہ جاؤ تم ربوہ میں نہیں رہ سکتے۔ پھر ربوہ میں رہنے والوں میں سے ہر ایک کے لئے یہ شرط ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائے۔ ربوہ میں ایک بھی جاہل نہیں رہنے دیا جائے گا۔ پھر یہ بھی شرط ہوگی کہ وہ باقاعدہ پانچ وقت نماز کا پابند ہو۔ اگر وہ نماز کاپابند نہیں تو اُسے یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ زمین کی فروخت کے متعلق بعض شرائط پہلے بتا دی گئی تھیں اور بعض شرائط میں نے اب بتا دی ہیں۔ ربوہ میں رہنے والوں کو اخلاقی تعلیم پر پابند رہنا پڑے گا مثال کے طور پر جس کی کوئی چوری ثابت ہوئی اُسے نکال دیا جائے گا۔ اس طرح اور بعض اخلاقی دمہ داریاں ہوں گی جو ربوہ میں آباد ہونے والوں کو اُٹھانا ہوں گی اور اُنہیں ایک نظام کے ماتحت رہنا پڑے گا۔ پس جو شخص ربوہ میں آباد ہونے کے لئے آنا چاہے اُس کے لئے یہ لازمی ہوگا کہ وہ ان شرائط پر پورے طور پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوورنہ اُسے نکال دیا جائے گا اور مکان اور زمین کی رائج الوقت قیمت اُسے دے دی جائے گی۔ ہم اِس مرکز کو مستقل طورپر اسلامی نمونہ کا شہر بنانا چاہتے ہیں۔ یہاں پر داڑھی منڈانے کی اجازت نہیں ہوگی اور جو شخص داڑھی منڈائے گا وہ یہاں نہیں رہ سکے گا۔ غرض یہاں رہنے کے لئے اسلامی قیود لازم ہوں گی۔ بیشک تجسس نہیں کیا جائے گا لیکن جو عیب ظاہر ہوگا اُسے ہم برداشت نہیں کریں گے۔ یہ برداشت نہیں کیا جائے گا کہ کسی میں ظاہری عیب بھی پایا جائے اور وہ ربوہ کا باشندہ بھی کہلائے۔‘‘
(غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’اب میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں مگر اس سے پہلے میں آپ لوگوں کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ آج سے قریباً ۲۳،۲۴ سال پہلے کی بات ہے یونان میں ایک شخص ہوا کرتا تھا وہ یہ تعلیم دیا کرتا تھا کہ خدا ایک ہے اور وہ دیویاں اور بُت جن کے لوگ معتقد ہیں باطل ہیں ہاں خدا تعالیٰ کے فرشتے موجود ہیں اور کائنات کے مختلف کام ان کے سپرد ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی مرضی اپنے نیک بندوں پر ظاہر کرتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے نیک بندوں پر جلوہ گر ہوتے اور ان سے کلام کرتے ہیں۔ اس کی یہ بھی تعلیم تھی کہ جس حکومت کے ماتحت تم رہو اُس کے فرمانبردار رہو۔ اگر تم نے دنیا میں امن قائم رکھنا ہے تو تمہیں حکومت سے اپنے مطالبات ہمیشہ امن کے ساتھ منوانے چاہئیں اور اگر کسی وقت تمہیں اُس حکومت پر اعتماد نہ رہے بلکہ تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ تمہارے مذہبی احکام کے بجا لانے میں روک بنتی ہے اور تم پر مظالم ڈھاتی ہے اور جبراً تمہارا مذہب تم سے چھڑانا چاہتی ہے تو تمہیں اُس مُلک کو چھوڑ دینا چاہئے اور ایسی حکومت کے ماتحت جا کر بس جانا چاہئے جو خدائی احکام کے بجا لانے میں کوئی روک پیدا نہ کرتی ہو۔ یہ ساری تعلیمیںقرآن کریم میں بھی موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ شخص کامل طور پر نبی نہیں تھا تو ایک مأمور من اللہ یا مجدد کی حیثیت ضرور رکھتا تھا۔ اُس کا نام سقراط تھا۔ جب حکومت کو یہ معلوم ہوا کہ وہ حکومت کے خلاف تعلیم دیتا ہے تو اس پرمقدمہ چلایا گیا اور مقدمہ چلانے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اُسے زہر پلا کر موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ پُرانے زمانہ میں یہ بھی سزا کا ایک طریق تھا کہ جس شخص کو موت کی سزا دی جاتی تھی اُسے زہر پلا کر مار دیا جاتا تھا۔ سقراط کی سزا کے لئے کوئی معین تاریخ مقرر نہ ہوئی ہاں یہ بتایا گیا کہ جس دن فلاں جہاز جو فلاں جگہ سے چلا ہے اِس مُلک میں پہنچے گا تو اُس کے دوسرے دن اُس کو مار دیا جائے گا۔ سقراط کے ماننے والوں میں بہت سے ذِی اثر لوگ بھی تھے وہ اُس کے پاس جاتے اور اُس پر زور دیتے کہ وہ مُلک کو چھوڑ دے اور کسی اَور مُلک میں جا بسے۔ افلاطون بھی سقراط کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد تھا۔ وہ اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ ایک دن سقراط کا فریتو نامی شاگرد اُن کے پاس گیا۔ وہ اُس وقت میٹھی نیند سو رہے تھے اُن کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور اُن کے جسم سے اطمینان اور سکون ظاہر تھا۔ فریتو پاس بیٹھ گیا اور پیار سے آپ کا چہرہ دیکھتا رہا۔ آپ کی اِس حالت کو دیکھ کر کہ آپ نہایت اطمینان سے سو رہے ہیں اُس پر گہرا اثر ہوا۔ اس نے آپ کو جگایا نہیں بلکہ آرام سے پاس بیٹھ کر آپ کا چہرہ دیکھتا رہا۔ جب آپ کی آنکھ کھلی تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا فریتو نامی شاگرد آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے اور پیار سے آپ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ آپ نے اُس سے پوچھا تم کب آئے ہو اور کس طرح یہاں پہنچے ہو؟ فریتو نے کہا میں آپ کو دیکھنے کے لئے آیا ہوں۔ آپ نے کہا تم اتنی جلدی صبح صبح کس طرح آ گئے؟ فریتو نے کہا جیل کے افسر میرے دوست ہیں، اس لئے اندر آنے کی مجھے اجازت مل گئی میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ اُنہوں نے کہا معلوم ہوتا ہے تم بہت دیر سے یہاں بیٹھے ہو۔ تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟ فریتو نے کہا میں جب کمرے میں داخل ہوا تو آپ سوئے ہوئے تھے اور آپ کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اِس لئے میں نے آپ کو جگایا نہیں بلکہ آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ اِس بات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا کہ وہ شخص جس کی موت کا حُکم سنایا گیا ہے کس اطمینان اور سکون سے سویا ہوا ہے۔ سقراط نے کہا میاں! کیا خدا تعالیٰ کی مرضی کو کوئی انسان دور کر سکتا ہے؟ فریتو نے کہا نہیں۔ سقراط نے کہا کیا تم اُس کی مرضی پر خوش نہیں؟ فریتو نے کہا ہاں ہم اُس کی مرضی پر خوش ہیں۔ سقراط نے کہا جب خدا تعالیٰ نے میرے لئے موت کو مقدر کیا ہے تو اُس کو کون ہٹا سکتا ہے؟ اور جب خدا تعالیٰ نے ہی میرے لئے موت مقدر کی ہے اور میں اُس کی رضا پر راضی ہوں تو پھر اِس پر بے چینی کی کیا وجہ؟ مجھے تو خوش ہونا چاہئے کہ میرے خدا کی یہ مرضی ہے کہ وہ مجھے موت دے۔ فریتو تم بتاؤ کہ اِس وقت تم مجھے کیا کہنے آئے تھے؟ فریتو نے جواب دیامیرے آقا میں آپ کو ایک بڑی خبر دینے آیا تھا کہ وہ جہاز جس کی آمد کے دوسرے دن آپ کو زہر پلائے جانے کا فیصلہ ہے وہ گو ابھی تک پہنچا تو نہیں لیکن خیال ہے کہ آج شام کو پہنچ جائے گا اِس لئے کل آپ کو مار دیا جائے گا۔ اِس پر سقراط ہنس پڑے اور کہا میرا تو یہ خیال نہیں کہ وہ جہاز آج پہنچے، وہ کل یہاں پہنچے گا۔ فریتو نے کہا وہ جہاز فلاں جگہ پر لگا ہوا ہے اور ایک آدمی خشکی کے ذریعہ یہاں آیا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ وہ جہاز آج شام تک یہاں پہنچ جائے گا کل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سقراط نے کہا فریتو! بے شک اس شخص نے یہ بتایا ہے کہ جہاز آج شام تک یہاں پہنچ جائے گا لیکن جب خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ جہاز کل یہاں پہنچے گا تو ویسا ہی ہوگا۔ فریتو نے کہا میرے آقا آپ کو کیسے علم ہوا کہ وہ جہاز کل یہاں پہنچے گا؟ سقراط نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک خوبصورت عورت میرے پاس آئی ہے اُس نے میرا نام لیا اور کہا۔ تیار ہو جاؤ پرسوں جنت کے دروازے تمہارے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ فریتو! کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ جہاز آج شام کو یہاں پہنچ جائے گا؟ اگر جہاز آج یہاں پہنچ جائے تو کیا کل مجھے سزا دے دی جائے گی؟ لیکن فرشتے نے مجھے کہا ہے کہ پرسوں تمہارے لئے جنت کے دروازے کھولے جائیں گے اس لئے جہاز آج نہیں آئے گا کل آئے گا اور پرسوں مجھے مار دیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ایک طوفون آیا اور جہاز کو وہیں ٹھہرنا پڑا اور دوسرے دن وہ اس شہر میں پہنچ سکا اور تیسرے دن وہ مارے گئے۔ آپ کی بات سننے کے بعداُس شاگرد نے کہا آپ کیوں ضد کر رہے ہیں کیا آپ کو ہم پر رحم نہیں آتا؟ اگر آپ زندہ رہیں گے تو ہمیں آپ سے بہت فوائد حاصل ہوں گے۔ اگر آپ یہاں سے بھاگ جائیں اور کسی اَور حکومت کے زیر سایہ رہنا شروع کر دیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ سقراط نے کہا میں اِس مُلک سے کس طرح بھاگ سکتا ہوں؟ کیا میں عورتوںکا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جاؤں؟ اگر میں عورتوں کا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جاؤں تو لوگ کہیں گے سقراط عورتوں کا لباس پہن کر بھاگ گیا۔ یا پھر میں جانوروں کی کھال میں لپٹ کر یہاں سے بھاگ جاؤں؟ کیا اِس سے میری عزت ہوگی؟ فریتو نے کہا میرے آقا! یہ ٹھیک ہے لیکن ہم ان چیزوں کے بغیر آپ کو نکالیں گے۔ میں ایک مالدار آدمی ہوں اور فوجی افسر میرے تابع ہیں میں نے اُن سے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ میری اِس بارہ میں مدد کریں گے اور آپ کو عزت کے ساتھ کسی اور مُلک میں چھوڑ آئیں گے جن میں سے اُس نے کریٹ کا نام بھی لیا۔ سقراط نے کہا پھر تم جانتے ہو کیا ہوگا؟ ایک بھاری رقم بطور تاوان ڈالی جائے گی اور جب ایسا ہوگا تو فریتو تم ہی بتاؤ کیا یہ اچھی بات ہوگی کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے اپنے ایک شاگرد کو تباہ کروں؟ فریتو نے کہا میرے آقا! آپ اِس کا خیال نہ کریں آپ کے شاگرد بہت سے ہیں اور یہ رقم ہم آپس میں بحصۂ رصدی تقسیم کرلیں گے۔ سقراط نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن جب حکومت کو پتہ چلا تو وہ سب کو قید کر لے گی۔ فریتو نے کہا ہاں آقا۔ مگر وہ کچھ مدت کے بعد ہمیں چھوڑ دے گی۔ سقراط نے کہا مگر کیا یہ اچھی بات ہوگی کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے اپنے شاگردوں کو قید خانہ میں ڈلواؤں؟ فریتو نے کہا مگر آقا! آپ سوچئے آپ روحانیت کی تعلیم دیں گے اور لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف لائیں گے یہ کتنا بڑا کام ہے اس کے لئے اگر ہم قید میں بھی گئے تو کیا ہوا۔ سقراط نے کہا یہ بات ٹھیک ہے اور شاید یہ بات سوچنے کے قابل ہو مگر فریتو میں جو ۸۵ سال کا ہو گیا ہوں اگر کسی مُلک میں جاتے ہوئے رستہ میں مر جاؤں تو مجھے کون عقلمند کہے گا کہ میں نے یونہی مفت میں تباہی ڈال دی۔ پھر اُنہوں نے کہا اے میرے شاگرد! تم بتاؤ تو سہی میں تمہیں اِس حکومت کے بارہ میں جس کے ماتحت تم رہتے ہو کیا تعلیم دیا کرتا تھا۔ فریتو نے کہا آپ ہمیں یہی تعلیم دیا کرتے تھے کہ اِس حکومت کا ہمیشہ فرمانبردار رہنا چاہئے۔ سقراط نے کہا اب تم ہی بتاؤ کہ میں اِس چیز کی ساری عمر تعلیم دیتا رہا اب اگر میں موت کے ڈر سے اِس مُلک سے بھاگ جاؤں تو دنیا یہی کہے گی نا کہ میں یہاں کی زندگی میں جھوٹے دعوے کیا کرتا تھا پھر تم ہی بتاؤ کہ کیا حکومت ظالم ہے جس کی وجہ سے ہمیں اِس مُلک سے نکلنا اور اِس کے قانون کو توڑنا جائز ہے؟ دنیا کی کوئی حکومت اپنے آپ کو ظالم نہیں کہتی۔ اگر میں یہاں سے پوشیدہ کسی اور مُلک میں بھاگ جاؤں تو میری بات دوسروں پر کیا اثر کرے گی۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ یہ تو وہی بات ہے جس پر اِس نے خود عمل نہیں کیا۔ میں اِس حکومت میں پیدا ہوا اور دعوے کے بعد چالیس سال تک اِس مُلک میں رہا کیا چالیس سال کے عرصہ میں میرے لئے اس مُلک کو چھوڑ جانے کا موقع نہ تھا؟ حکومت یہ کہے گی کہ اگر ہم ظالم تھے تو یہ چالیس سال کے دوران میں کیوں باہر نہیں چلا گیا بلکہ یہ تو ہمارے انصاف کا اتنا قائل تھا کہ یہ شہر سے باہر بھی نہیں نکلتا تھا۔ میں اِن باتوں کا کیا جواب دوں گا؟ غرض اس نے ایک لمبی بحث کے بعد کہا خلاصہ یہ ہے کہ میں یہیں رہوں گا اور حکومت کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں ہوگا۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے سقراط کا یہ دعویٰ تھاکہ اُسے الہام ہوتا ہے اور اُس نے اپنے الہام کی ایک معین صورت کو پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ جہاز آج نہیں پہنچے گا کل پہنچے گا۔ میرے خدا نے مجھے کہا ہے کہ تمہارے لئے جنت کے دروازے پرسوں کھول دیئے جائیں گے۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شخص خدا تعالیٰ سے تائید حاصل کرنے والا تھا۔ اُس نے اپنی جگہ سے نکلنے کا نام نہیں لیا۔
ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں قادیان سے کیوں باہر نکلا؟ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں قادیان سے نہیں نکلنا چاہیے تھا اور میں نے خود بھی کہا تھا کہ میں قادیان سے نہیں نکلوں گا بلکہ میں نے بتایا ہے کہ سقراط جو ایک مامور من اللہ تھا اُس کی زندگی میں بھی ایک واقعہ پیش آیا اور اُس نے اپنے شہر سے نکلنے سے انکار کر دیا۔‘‘ (الفضل ۱۶؍ جولائی ۱۹۶۱ء)
’’جیسا واقعہ سقراط کو یونان میں پیش آیا تھا ویسا ہی واقعہ مجھے قادیان میں پیش آیا لیکن ایک اور واقعہ بھی ہے جو ہمیں ایک اَور نبی اللہ کے متعلق ملتا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ فیصلہ تھا کہ وہ یہود کی بادشاہت کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔ مگر آپ پر ایک وقت ایسا آیا جب سارا مُلک آپ کا دشمن ہو گیا اور اُس کی دشمنی ایک خطرناک صورت اختیار کر گئی۔ یہودیوں نے حکومت کے نمائندوں کے پاس آپ کے متعلق شکایتیں کیں اور آپ کو پکڑوا دیا گیا اور آخر حُکّام کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا گیا کہ آپ باغی ہیں۔ جس طرح یونان کے مجسٹریٹوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سقراط باغی ہے اِسی طرح فلسطین کے مجسٹریٹوں نے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام باغی ہیں دونوں کے متعلق ایک ہی قسم کا الزام تھا۔ سقراط کے پاس جب ان کے شاگرد گئے اور آپ کو انہوں نے کہا کہ آپ مُلک سے نکل جائیں تو سقراط نے کہا نہیں نہیں میں اِس مُلک سے باہر نہیں نکل سکتا خدا تعالیٰ کی تقدیر یہی ہے کہ میں یہاں رہوں اور زہر کے ذریعہ مارا جاؤں۔ اگر میں اِس مُلک سے باہر نکلتا ہوں تو خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرتا ہوں۔ اِدھر حضرت مسیح علیہ السلام کو جب یہ کہا گیا کہ آپ کو پھانسی پر لٹکا کر مارا جائے گا تو آپ نے فرمایا میں اِس کے لئے تیار نہیں ہوں میں کوئی تدبیر کروں گا تا کسی طرح سزا سے بچ جاؤں۔ اور مسیح علیہ السلام نے تدبیر کی اور جیسا کہ آپ کو پہلے بتا دیا گیا تھا آپ کو دو تین دن تک قبر میں رکھا گیا اور پھر وہاں سے صحیح سلامت نکال لیا گیا۔ آپ اپنے حواریوں سے ملے اور انجیل کے بیان کے مطابق آپ آسمان پر اُڑ گئے لیکن دُنیوی تاریخ کے مطابق آپ نصیبین، ایران اور افغانستان کے راستہ ہوتے ہوئے ہندوستان چلے آئے۔ پہلے آپ مدراس گئے پھر آپ گورداسپور آئے۔ پھر کانگڑہ کی طرف چلے گئے مگر وہاں موسم اچھا نہ پا کر آپ تبت کے پہاڑوں کے راستہ سے کشمیر چلے گئے۔ گویا ایک طرف یہ مثال پائی جاتی ہے کہ مامور من اللہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ اُسے مار دیا جائے۔ اُس کے ساتھی اسے نکالنے کے لئے بڑی بڑی رقمیں خرچ کرتے ہیں اور پولیس بھی اُن کے اِس کام میں ہمدردی کرتی ہے مگر وہ انکار کر دیتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ یہاں سے کسی اور مُلک میں جانے کے لئے تیار نہیں۔ مگر حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آتا ہے وہ بھی مامورمن اللہ اور خدا تعالیٰ کے ایک نبی تھے اور جیسا کہ واقعات بتاتے ہیں سقراط بھی ایک مامورمن اللہ تھا۔ دونوں ایک ہی منبع سے علم حاصل کرنے والے تھے، ایک ہی قسم کا کام ان کے سپرد تھا۔ لیکن ایک کوجب کہا جاتا ہے کہ آپ یہاں سے نکل جائیں تو وہ یہ جواب دیتا ہے کہ میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا اور خداتعالیٰ کی تقدیر یہی ہے کہ میں یہیں مارا جاؤں اگر میں یہاں سے نکلتا ہوں تو خداتعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرتا ہوں۔ لیکن دوسرے شخص یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کو جب سزا کا حکم سنایا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں میں کوشش کروں گا کہ یہاں سے نکل جاؤں اَور کسی اور جگہ چلا جاؤں۔ یہ واقعات اِس طرح کیوں ہوئے؟ کیا سقراط جھوٹا تھا یا کیا حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک خطرناک غلطی کی اور اپنے آپ کو تقدیر الٰہی سے بچانے کی کوشش کی؟
حقیقت یہ ہے کہ سقراط اُسی شہر کی طرف مبعوث تھا جس کے رہنے والوں نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سقراط اُن جگہوں کے لئے مبعوث نہیں تھا جن کی طرف بھاگ جانے کے لئے اُسے اُس کے شاگرد مجبور کرتے تھے۔ سقراط دوسری قوموں کی طرف مبعوث نہیں تھا لیکن مسیح علیہ السلام کو یہ کہا گیا تھا کہ تم بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں تک بھی میرا یہ پیغام پہنچاؤ اور یہ بھیڑیں ایران، افغانستان اور کشمیر میں بھی بستی تھیں۔ سقراط اگر اپنے شہر کو چھوڑتا تھا تو وہ ایک مکتب اور مدرسہ کو چھوڑتا تھا جس کے لئے اُسے مقرر کیا گیا تھا۔ مثلاً ایک لوکل سکول میں کسی کو ہیڈماسٹر مقرر کیا جاتا ہے تو وہ اُس سکول کو بِلااجازت نہیں چھوڑ سکتا۔ اگر وہ اُس سکول کو بِلااجازت چھوڑے گا تو وہ مجرم ہوگا۔ لیکن ایک انسپکٹر کو اپنے حلقہ میں کسی جگہ پر جانا پڑتا ہے تو وہ بِلا اجازت چلا جاتا ہے۔ اور ایک لوکل سکول کا ہیڈماسٹر کسی دوسری جگہ نہیں جاتا جب تک وہ اپنے بالا افسر سے چھٹی حاصل نہیں کر لیتا۔ لیکن ایک انسپکٹر بغیر اجازت افسر بالا کے اپنے حلقہ کا دَورہ کرتا ہے۔ ایک ہیڈماسٹر کو یہ کہا جاتا ہے کہ تم اگر اپنی جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ گئے تو مجرم ہوگے لیکن انسپکٹر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو اُسے کوئی شخص مجرم نہیں گردانتا اِس لئے کہ اُس کا دائرہ عمل اُس حد تک وسیع ہے۔ لیکن ایک ہیڈماسٹر کا دائرہ عمل ایک سکول تک محدود ہے اور وہ اگر اُس سے نکلتا ہے تو قانون کو توڑتا ہے۔ پس سقراط ایک شہر کی طرف مبعوث کیا گیا تھا اُس کا دائرہ عمل محدود تھا اگر وہ اُس شہر کو چھوڑتا تھا تو گناہ گار تھا کیونکہ اُس کے مخاطب اُسی شہر کے باشندے تھے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اِس لئے کہ اُن کے دائرہ خطاب میں کشمیر بھی شامل تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب فلسطین کو چھوڑا تو آپ اپنے دائرہ عمل سے بھاگے نہیں بلکہ آپ اپنی دوسری ڈیوٹی پر چلے گئے۔ اگر آپ فلسطین میں ہی رہتے تو نہ آپ فلسطین میں اپنا کام کر سکتے تھے اور نہ ہی بنی اسرائیل کی دوسری کھوئی ہوئی بھیڑوں تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا سکتے تھے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اگر فلسطین کو چھوڑا تو اِس کے بعد آپ کا دائرہ عمل اور وسیع ہو گیا اور یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے قادیان چھوڑنے کے لئے اپنی رائے کو بدلنے پر مجبور کیا۔ میرے سپرد جو کام ہے وہ صرف قادیان سے تعلق نہیں رکھتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسلام کی اشاعت کیلئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام کو بلند کرنے کی خاطر ساری دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے تھے آپ کا دائرہ خطاب صرف قادیان تک محدود نہ تھا۔
بے شک میں نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں قادیان میں ہی رہوں لیکن بعد میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات پر غور کر کے مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت کے لئے ایک ہجرت مقدر ہے تو میں نے سوچا کہ میرا کام قادیان یا صرف ایک مُلک سے وابستہ نہیں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی میرا تعلق ہے۔ اگر میں قادیان میں رہتا ہوں تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ میں اُن سب کاموں کو ترک کر دیتا ہوں جو میرے سپرد ہیں اور ایک جگہ اپنے آپ کو مقید کر لیتا ہوں جیسا کہ بعد میں قادیان والوں کی حالت ہوگئی تھی لیکن اگر میں قادیان سے باہر چلا جاتا ہوں تو میں صرف ایک چھوٹے سے دائرے سے الگ ہوتا ہوں اور ایک وسیع دنیا کو بُلانے پر قادر ہو جاتا ہوں۔ سقراط نے اپنے شہر کو اس لئے نہیں چھوڑا کہ اُن کے مخاطب صرف اس شہر والے تھے اور حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اس لئے کہ فلسطین میں ان کے مخاطبوں میں سے صرف دو قبیلے تھے اور دس قبیلے فلسطین سے باہر تھے۔حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی لوگوں کی خاطر فلسطین کو چھوڑا وہ فلسطین میں بسنے والوں سے سینکڑوں گنا زیادہ تھے لیکن میں نے جن لوگوں کی خاطر قادیان کو چھوڑا، قادیان اور اُس کی آبادی اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ پس یہ صحیح ہے کہ پہلے یہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ میں قادیان نہیں چھوڑوں گا لیکن جب میں نے دیکھا کہ ہمارے لئے ہجرت مقدر ہے تو میں نے قادیان کو چھوڑ کر یہاں چلے آنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام موجود تھا کہ ’’داغِ ہجرت‘‘۷؎ اور اِدھر میری خوابوں میں بھی یہ بات تھی کہ ہمیں قادیان سے باہر جانا پڑے گا۔ میں نے دیکھا کہ یہ الہام تو موجود ہے مگر ابھی تک ہجرت نہیں ہوئی اِس لئے یا تو یہ مثیل مسیح پر پیشگوئی صادق آئے گی اور یا اسے جھوٹا ماننا پڑے گا۔ یہی وہ چیزیں تھیں جن کی وجہ سے ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا۔ پھر یہ فیصلہ میںنے خود نہیں کیا بلکہ جماعت کے دوستوں کی طرف سے مجھے یہ مشورہ دیا گیا کہ میں قادیان سے باہر آ جاؤں۔ ویسے میری ذاتی دلچسپیاں تو قادیان سے ہی وابستہ تھیں لیکن میرے سامنے دو چیزیں تھیں اوّل یہ کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں اور قادیان میں ایک نائب امیر مقرر کر دوں۔ دوم یہ کہ میں اُن سب کاموں کو ترک کر دوں جو میرے سپرد کئے گئے ہیں اور قادیان میں ایک قیدی کی حیثیت سے بیٹھا رہوں۔ اور اس بات کے حق میں کہ میں قادیان میں ہی بیٹھا رہوں ایک رائے بھی نہیں تھی۔ ۷؍ستمبر کو یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا کام قادیان سے باہر آنے پر ہی ہو سکتا ہے اِس لئے ہم جذباتی چیز کو حقیقت پر قربان کریں گے۔ پس میں نے ضروری سمجھا کہ آج میں دوستوں کو بتاؤں کہ ہم نے واقعات کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے او رہمارا قادیان سے باہر آنا ان حالات میں ہوا ہے۔ اگر سقراط کے طریق پر عمل کرتے اور قادیان میں ہی رہتے تو یہ بات غلط ہوتی کیونکہ ہمارے حالات سقراط کے حالات سے نہیں ملتے تھے۔ ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی مثال پر عمل کیا کیونکہ آپ کے حالات ہمارے حالات سے ملتے تھے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی جی نہیں چاہتا تھا کہ آپ مکہ کو چھوڑیں لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اِس کے بغیر اُس پیغام کو جو آپ دنیا کی طرف لے کر مبعوث ہوئے تھے نہیں پھیلایا جا سکتا تو آپ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺغارِ ثور سے نکلے تو آپ نے آب دیدہ ہو کر اور مکہ کی طرف منہ کر کے فرمایا اے مکہ! تو مجھے بڑا ہی پیارا تھا اور میں تجھے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن افسوس تیرے رہنے والوں نے مجھے یہاں رہنے کی اجازت نہیں دی۔۸؎ یہ فقرہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ آپ کو مکہ سے محبت تھی لیکن اشاعت اسلام چونکہ مقدم تھی اور مکہ میں رہنے سے اِس کی اشاعت کا کام باطل ہو جاتا تھا اِس لئے آپ نے مکہ چھوڑنا قبول کر لیا۔ میں نے بھی اِسی سُنّت کے ماتحت قادیان کو چھوڑا اور اب واقعات نے تصدیق کر دی ہے کہ میں اِس میں حق بجانب تھا۔ غرض دین کی اشاعت چونکہ سب سے اہم تھی اِس لئے میں نے قادیان چھوڑنا قبول کر لیا اور پاکستان آگیا۔‘‘
(الفضل ۱۸؍ جولائی ۱۹۶۱ء)
’’میں جماعت کے دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دماغی ترقی کی طرف خاص طور پر توجہ دیں۔ اِس وقت تک جو کتابیں ہماری جماعت کی طرف سے شائع ہوئی ہیں وہ کسی تنظیم کے بغیر شائع ہوئی ہیں سوائے تفسیر کبیر کے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ جماعت کا ہر فرد وقتی ضرورتوں کے ماتحت ایک خاص پروگرام کے ماتحت چلے اوراِس طرح ترقی کرنے کی کوشش کرے۔ اِس لئے میں نے سمجھا کہ میں نیا مرکز بن جانے کے بعد ایک خاص نظام قائم کروں تا جماعت کے افراد کی خاص طور پر تربیت ہو اور اخلاق، عقائد، مذہب اور دیگر دُنیوی علوم پر ہر آدمی آسانی کے ساتھ عبور حاصل کر سکے۔ اور اِس کا یہی طریق ہے کہ آسان اُردو میں ایسی کتابیں شائع کی جائیں جو ہر مضمون کے متعلق ہوں اور علمی مطالب پر حاوی ہوں اور ایسی سیدھی سادی زبان میں ہوں کہ معمولی زمیندار بھی اُنہیں سمجھ سکیں۔ بہت سے علم ایسے ہیں جن سے لوگ ڈرتے ہیں اِس لئے وہ اُن کو سیکھنے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔
ایک فلاسفر نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اُس نے بتایا ہے کہ علوم کیا ہیں۔ اُس نے تمام علوم پر جرح کر کے اور اُنہیں اصطلاحوں سے خالی کر کے پیش کیا ہے۔ اُس نے فلسفہ پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فلسفہ کیا ہے۔ فلسفہ گتے کی عمارتیں بنانا، عمارتیں بنا کر ان پر ہاتھ مارنا اور پھر ان کو گرا دینا ہے۔ غرض بہت سے علوم ایسے ہوتے ہیں جن کو لوگ ناواقفیت کی وجہ سے نہیں سیکھتے اور ان سے ڈرتے ہیں۔ اگر سب لوگ انہیں جانتے تو صرف یہی نہ ہوتا کہ بحث میں دوسروں کا ان پر اثر ہوتا بلکہ وہ دوسروں پر غالب آ جاتے۔
بعض لوگ خیال کیا کرتے ہیں کہ ہمیں دُنیوی علوم کی کیا ضرورت ہے؟ مگر یہ حماقت کی بات ہے۔ اگر ہم اس دنیا میں رہیں گے تو ہمیں دوسرے علوم بھی سیکھنے پڑیں گے اور اگر ہم نے دوسرے علوم سیکھے ہوئے ہوں گے تو کسی سے مغلوب نہیں ہوں گے۔ ہاں روحانیت کی چاشنی ضرور ساتھ ہونی چاہیے۔ اگر ہم دوسرے علوم حاصل نہ کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمیں بعض سچائیوں کو بھی نظر انداز کرنا پڑے گا۔ ہر شخص کو اپنے علم پر گھمنڈ ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ جس کو یہ علم نہیں آتا وہ کچھ بھی نہیں۔ میں پرائمری فیل ہوں لیکن دوسرے علوم کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ قرآن کریم کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور قرآنی علوم کا فیضان جو خداتعالیٰ نے مجھے بخشا ہے وہ ہر ایک کو حاصل نہیں۔ قرآن کریم کے ذریعہ ہی میں نے سب علوم حاصل کئے ہیں لیکن پھر بھی میں دوسری کتب کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور وہ لوگ جو اُن علوم کے ماہر ہیں وہ بھی میرے قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
مجھے یاد ہے جب اُمّ طاہر بیمار تھیں میں اُن کے علاج کے سلسلہ میں لاہور گیا ہوا تھا اور ہم شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے کہ ایک پارسی لڑکی جو ایم اے کی تیاری کر رہی تھی وہ مجھے ملنے کے لئے آگئی۔ شیخ صاحب کے گھر ایک لڑکی پڑھانے کے لئے آیا کرتی تھی اُس کے ساتھ وہ لڑکی بھی آ گئی۔ وہ ایم اے فلاسفی میں پڑھتی تھی۔ اُس نے سنا کہ میں لاہور آیا ہوں تو وہ ملنے کے لئے آ گئی۔ وہ میرے پاس آئی اور پوچھنے لگی احمدیت کیا ہوتی ہے؟ اِسی دوران میں اُس نے مجھے بتایا کہ میں ایم۔ اے فلاسفی میں پڑھتی ہوں اور ہمارے قاضی محمد اسلم صاحب کا نام لیا کہ اُن سے پڑھتی ہوں وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ اُس نے مجھ سے باتیں کیں اور سمجھا کہ میں اُس کی وہ باتیں نہیں سمجھتا لیکن جب میں نے اُس پر جرح کی تب وہ بیدار ہوئی اور اُس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا میں پرائمری فیل ہوں۔ اُس نے کہا اچھا! آپ پرائمری فیل ہیں! اور پھر گفتگو شروع کی۔ میں نے پھر اُس پر جرح کی تو وہ کہنے لگی کیا آپ نے ایم۔ اے فلاسفی پاس کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا میں نے اب تک یہ نہیں سنا کہ پرائمری فیل ایم۔ اے فلاسفی پاس ہوتا ہے۔ اُس نے پھر گفتگو شروع کی اور جب بہت مجبور ہو گئی تو کہنے لگی۔ کیا آپ نے امریکہ یا انگلستان میں تعلیم حاصل کی ہے؟ میں نے کہا میں تو پرائمری فیل ہوں۔ وہ پھر تنگ ہوئی تو کہنے لگی کیا آپ وکیل ہیں؟ میں نے کہا میں تو وکیل نہیں ہوں ہاں میرے میزبان وکیل ہیں۔ اُس نے کہا پھر آپ نے یہ علم کہاں سے حاصل کیا ہے؟ میں نے کہا یہ سب چیزیں خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد میں نماز کے لئے باہر آ گیا۔ قاضی اسلم صاحب بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ میں نے اُن سے کہا قاضی صاحب! آج آپ کا علم معلوم ہو گیا۔ اُنہوں نے کہا کس طرح؟ میں نے کہا آپ کی ایک شاگرد آئی تھی اُس کے دماغ میں میں نے آدھ گھنٹہ تک یہ بات ڈالنے کی کوشش کی کہ میں پرائمری فیل ہوں مگر وہ یہی پوچھتی تھی کہ کیا آپ ایم۔ اے فلاسفی پاس ہیں؟ کیا آپ نے انگلستان اور امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہے؟ کیا آپ بی۔ اے ایل۔ ایل۔ بی ہیں؟ کیا آپ کا شاگرد اتنا بھی نہیں جانتا کہ پرائمری فیل اور ایم اے پاس میں کیا فرق ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگے اُس کی عقل ماری گئی تھی وہ کرتی کیا۔ پس خواہ ہم مانیں یا نہ مانیں ہمیں دوسرے علوم ضرور سیکھنے چاہئیں تا کہ ہم معلوم کر سکیں کہ ہمارے مخالفوں کے کیا خیالات ہیں اور ہم اُنہیں کس طرح مغلوب کر سکتے ہیں۔ ہمارے علماء کی یہ غلطی تھی کہ انہوں نے ایک منطقی کو اتنی عزت دے دی کہ اُسے قرآن کریم پر بھی حاوی کر دیا۔ حالانکہ ایک منطقی کا قرآن کریم پر حاوی ہونا تو کیا وہ تو ہمارے بوٹوں کو صاف کرنے کے قابل بھی نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم بھی اِس غلطی کو دُہرانا شروع کر دیں لیکن بہرحال ہمیں دوسرے علوم کی کچھ نہ کچھ واقفیت تو ہونی چاہیے۔
وہ قوم بھی ترقی نہیں کر سکتی جس کے صرف چند افراد عالم ہوں۔ ہم نے اگر ترقی کرنا ہے تو ہمیں جماعت کے علم کے درجہ کو بلند کرنا ہوگا۔ اِس کا طریق یہی ہے کہ کتب کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے جس میں دنیا کے تمام موٹے موٹے علوم آ جائیں اور وہ بچوں، درمیانی عمر والوں اور پختہ کار لوگوں غرض سب کے لئے کافی ہوں۔ اس کے تین سلسلے ہوں گے پہلا سلسلہ مڈل سے نیچے پڑھنے والے بچوں کے لئے یا یوں سمجھ لیا جائے کہ پہلا سلسلہ ۱۳ سال سے کم عمر والے بچوں کے لئے ہوگا۔ دوسرا سلسلہ انٹرنس پاس یا سولہ سترہ سال تک کے بچوں کے لئے ہوگا اور تیسرا سلسلہ اس سے اوپر عمر والوں اور پختہ کار لوگوں کے لئے ہوگا۔ یہ کتابیں ایسی سلیس اُردو میں لکھی جائیں گی کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ اُردو لکھنے والا بھی اسے سمجھ سکے۔ اسی طرح میری رائے یہ ہے کہ یہ کتابیں اس طرز پر لکھی جائیں کہ پہلی کتاب ۵۰ صفحات کی ہو، دوسری ۸۰ صفحات کی ہو اور تیسری کتاب اوسطاً سَو صفحات پر مشتمل ہو۔اور پھر ہر وہ کتاب جو سولہ سترہ سال تک کے افراد کے لئے ہو وہ سولہ ہزار الفاظ پر مشتمل ہو۔ اور ہر کتاب جو اس سے اوپر عمر والے افراد کے لئے ہو وہ ۲۵ ہزار الفاظ پر مشتمل ہو۔ اس لئے کہ لکھنے والے ان کتابوں کو غور سے لکھیں اور مطالعہ کر کے لکھیں۔ ان کے لئے ایک رقم بطور انعام مقرر کی جائے گی تا کہ وہ اُس علم کی کتابیں مطالعہ کر کے مضمون لکھیں اور ایسی سلیس اُردو میں لکھیں کہ ہر معمولی خواندہ اسے سمجھ سکے۔ میرا خیال ہے کہ ہر اُس کتاب کے لئے جو پچاس صفحات کی ہو پچاس روپے سے ایک سَو روپیہ تک کا انعام رکھا جائے۔ یونیورسٹیاں بڑی سے بڑی کتب کے لئے پانچ پانچ سَو کا انعام رکھتی ہیں حالانکہ وہ بڑے اعلیٰ پیمانہ کی کتابیں ہوتی ہیں۔ پچاس صفحات کی کتاب کے لئے انعام کے طور پر پچاس روپیہ کی رقم بہت بڑی چیز ہے۔ ایک ماہر ایسی کتاب پندرہ دن میں لکھ سکتا ہے اس طرح اور بہت سے لوگ ایسی کتابیں لکھنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔غرض پچاس سے سَو روپیہ تک کا انعام پہلی کتاب لکھنے والے کے لئے ہوگا جو ۵۰ صفحات یا دس ہزار الفاظ پر مشتمل ہوگی۔ دوسری قسم کی کتاب کے لئے جو ۸۰ صفحات یا سولہ ہزار الفاظ پر مشتمل ہوگی ایک سَو سے ایک سَو پچاس روپے تک کا انعام ہوگا۔ تیسری قسم کی کتاب کے لئے جو سَو سَوا سَو صفحات یا ۲۵ ہزار الفاظ پر مشتمل ہوگی ڈیڑھ سَو سے اڑھائی سَو تک کا انعام ہوگا۔ یہ تین سَو کتب بن جاتی ہیں اور ۴۵ ہزار کے انعام میں لکھی جا سکتی ہیں۔ ان کتب کی اگر تین تین ہزار کاپی شائع کی جائے تو نوے ہزار روپے خرچ ہوں گے۔ پھر یہی نہیں کہ یہ کتابیں صرف احمدیوں میں فروخت ہوں گی بلکہ دوسرے لوگ شائد ہم سے بھی زیادہ تعداد میں انہیں خریدیں۔ کیونکہ ایسا تجربہ آگے کسی نے نہیں کیا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کتاب کی تین تین سَو جلدیں ہوں۔ بعض مضامین ایسے ہیں جو صرف دو دو جلدوں میں ہی آجائیں گے مثلاً سیرت ہے۔ اس کے دو حصے ہی کافی ہیں ایک حصہ بچوں کے لئے ہوگا اور ایک حصہ بڑی عمر والوں کے لئے ہوگا۔ اسی طرح اور بھی کئی مضامین ایسے ہیں جن کے لئے دو جلدیں ہی کافی ہوجائیں گی۔
(۱) ان کتب کی خصوصیات یہ ہوں گی کہ:۔
(i) ان میں تمام قسم کے علوم کے متعلق باتیں ہوں گی۔
(ii) یہ سلیس اُردو میں ہوں گی جسے ایک معمولی اُردو جاننے والا بھی سمجھ سکے۔
(iii) ان میں کسی قسم کی اصطلاح استعمال نہیں کی جائے گی۔ اصطلاحوں کی وجہ سے مضمون سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی پوچھے کہ قضیہ موجبہ یا قضیہ سالبہ کیا ہے؟ تو آپ لوگوں میں سے پچانوے فیصدی ایسے ہوں گے جو یہ سمجھتے ہوں گے کہ پتہ نہیں یہ کتنے علم کی بات کی گئی ہے حالانکہ قضیہ موجبہ کے معنی ہیں وہ آیا اور قضیہ سالبہ کے معنی ہوتے ہیں وہ نہیں گیا۔ یا یہ کہنا کہ اُس نے ایسا کر دیا یا وہ چیز ہوگئی یہ قضیہ موجبہ ہے۔ اور ایسا نہیں ہوا یہ قضیہ موجبہ ہے۔لیکن نام سن کر آپ حیران ہو جائیں گے کہ یہ کیا چیز ہے لیکن جب اِس کا ترجمہ کر دیا جائے تو ہر ایک کہے گا اچھا یہ بات ہے یہ تو میں بھی جانتا ہوں۔ پس اِن کتب کے لکھنے میں یہ شرط ہوگی کہ ان میں کسی قسم کی کوئی اصطلاح استعمال نہ کی جائے۔ اسی طرح کسی قسم کا حوالہ نہ دیا جائے۔ ہاں حوالے وغیرہ حاشیہ پر لکھے جا سکتے ہیں۔ اِسی طرح اصطلاحوں کا بھی حاشیہ میں ذکر کیا جا سکتا ہے تا ایک معمولی علم والا اپنے علم کو اعلیٰ درجہ کے علم میں تبدیل کر سکے۔ مثلاً منطقی کہتے ہیں یہ دلیل استقرائی ہے سننے والا گھبرا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے حالانکہ اِس کے صرف اتنے ہی معنی ہوتے ہیں کہ وہ چیز جو تم دیکھتے ہو کہ ہوتی چلی آئی ہے دلیل استقرائی ہے۔ مثلاً بچہ ماں سے پیدا ہوتا ہے اِس لئے کہ دنیا میں ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو تمہاری دادی سے بچہ پیدا ہوا دادا سے پیدا نہیں ہوا۔ پڑدادی سے پیدا ہوا پڑدادے سے پیدا نہیں ہوا۔ لکڑ دادی سے پیدا ہوا لکڑ دادے سے پیدا نہیں ہوا اور اِسی کا نام دلیل استقرائی ہے اور تم میں سے کون ہے جو یہ نہیں سمجھتا کہ بچہ ہمیشہ ماں سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک نیم پاگل سے بھی یہ بات پوچھی جائے تو وہ فوراً یہ بات بتا دے گا لیکن منطقی کہیں گے یہ دلیل استقرائی ہے اور سننے والا جو اُسے نہیں جانتا حیران رہ جائے گا کہ یہ کیا بلاء ہے۔ لیکن چونکہ کبھی کبھی بعض شوقین لوگ علماء کی مجلس میں بھی چلے جائیں گے اور اُن کی باتوں سے لطف اندوز ہوں گے اس لئے حاشیہ میں ان اصطلاحات کا بھی ذکر کر دیا جائے گا۔ اس طرح اُسے یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ برکلے اور کانٹ نے کیا کہا ہے بلکہ کتاب کے حاشیے میں ہی یہ لکھا ہوا ہوگا کہ برکلے اور کانٹ کا یہ مقولہ ہے یا یہ فلاں کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ غرض جب بھی وہ چاہے اپنے عام علم کو اصطلاحی علم میں بول لے یا سیدھی سادی اُردو میں پڑھ لے۔ غرض ہر صفحہ کے نیچے ہر ایک امر کا حوالہ دیا جائے گا تا جس کو شوق ہو تحقیق کر سکے۔اس سلسلہ کی کئی کڑیاں ہونگی۔
اوّل: بچوں کے لئے یعنی ابتدائی تعلیم سے مڈل تک کے بچوں کے لئے مگر اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہوں جو معمولی لکھنا پڑھنا ہی جانتے ہوں۔
دوم: بڑے بچوں کے لئے یعنی ہائی سکولوں کے طالب علموں کے لئے۔
سوم: بڑوں کے لئے قطع نظر اس سے کہ وہ کالجوں میں پڑھتے ہوں یا انہوں نے خود تحقیق کی ہو۔
چہارم: محض لڑکیوں کے لئے۔
پنجم: محض لڑکوں کے لئے۔
ششم: محض مردوں کے لئے۔
ہفتم: محض عورتوں کے لئے۔
ہشتم: بیوی کے لیے۔
نہم: میاں کے لئے۔
دہم: اچھے شہری کے لئے۔
میرے نزدیک مختلف ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس سلسلۂ کتب میں اِن مضامین پر بحث ہونی چاہیے۔
پہلا سلسلہ
(۱) ہستی باری تعالیٰ (۲) معیارِشناخت نبوت (۳) دعا (۴)قضاء و قدر (۵) بعث بعد الموت (۶) بہشت و دوزخ(۷) معجزات(۸) فرشتے
(۹) صفات ِالٰہیہ (۱۰) ضرورتِ نبوت و شریعت اور اِس کا ارتقاء
دوسرا سلسلہ
(۱) عبادت اور اس کی ضرورت (۲) نماز (۳) ذکر (۴) روزہ (۵) حج (۶) زکوٰۃ (۷) معاملات (۸) اسلامی حکومت (۹) اچھے شہری کے
فرائض (۱۰) ورثہ (۱۱) تعلیم (۱۲) اخلاق اور ان کی ضرورت (۱۳)تربیت افراد میں قوم کا فرض اور اس کی ذمہ داریاں (۱۴) ملت شخص پرمقدم ہے (۱۵)خاندان فرد پر مقدم ہے (۱۶) حکومت قوم پر مقدم ہے (۱۷) حکومت اور رعایا کے تعلقات (۱۸) ظاہر و باطن دونوں کی ضرورت اور اہمیت (۱۹) اخوتِ باہمی اور اس کی وجہ سے غریب امیر عالم جاہل پر ذمہ داریاں (۲۰) اسلام کا فلسفۂ اقتصادیات (۲۱) مظلوم کے حقوق اور اُن کا ایفاء اور اُس کا طریقہ (۲۲) ماں باپ کے حقوق، اور اُن کی ادائیگی۔ شادی کے بعد ماں باپ اور خاوند بیوی کے حقوق کا تصادم اور اِس کا علاج (۲۳) میاں بیوی کے باہمی حقوق۔ میاں بیوی کے ایک دوسرے کے والدین کے متعلق فرائض۔ میاں بیوی کے حقوق تربیت اولاد کے متعلق۔ میاں بیوی کے حقوق خاندان کے افراد کے ورثہ کے لحاظ سے (۲۴) آقا اور نوکر کے تعلقات (۲۵) تجارتی لین دین اور قرضہ کی ذمہ داریاں اور جائدادوں کے تلف ہونے کی صورتوں میں اور دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہر فریق کی ذمہ داری (۲۶) جہاد (۲۷) حفظانِ صحت جسمانی (۲۸) حفظانِ صحت بحیثیت ماحول (۲۹) محنت کی عادت اور وقت کی پابندی (۳۰) تبلیغ اور اُس کی اہمیت (۳۱) چندہ اور اس کی اہمیت (۳۲) احمدیت میں ہندوستان اور پاکستان کی خاص اہمیت (۳۳) زندگی وقف کرنے کی اہمیت۔
تیسرا سلسلہ
(۱) تاریخ مذہب قبل تاریخ (۲) تاریخ ہندو مذہب زمانۂ تاریخ (۳)تاریخ بدھ مت (۴) تاریخ زرتشت (۵) تاریخ مصلحین غیرمعروف
ارسطو، کنفیوشس وغیرہ (۶) تاریخ دنیا قبل از تاریخ (۷) تاریخ مغرب قبل تاریخ (۸)تاریخ ہند قبل از تاریخ (۹) تاریخ علاقہ جات پاکستان قبل از تاریخ (۱۰) تاریخ شمالی افریقہ قبل مسیح (۱۱) تاریخ یونان قبل تیسری صدی مسیحی (۱۲) تاریخ قبل بادشاہانِ مید و فارس (۱۳) تاریخ ایران بعد بادشاہانِ مید و فارس تازمانہ عمرؓ (۱۴) سیرۃ النبویؐ (اس کی ضرورت میری سیرت سے پوری ہو چکی ہے) (۱۵) تواریخ خلفاء (۱۶) سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (۱۷) تاریخ احمدیت بزمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (۱۸)سیرت حضرت خلیفہ اوّل(۱۹) تاریخ احمدیت (خلافت اولیٰ (۲۰) تاریخ احمدیت (خلافت ثانیہ) (۲۱) تاریخ احمدیت افغانستان (۲۲) تاریخ صحابہ مسیح موعود (۲۳)تاریخ اکابر صحابہ رسول کریم ﷺ (۲۴) تاریخ اکابر اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۲۵) تاریخ صحابیات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (۲۶) تاریخ صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (۲۷)تاریخ ہند بزمانہ اسلام تین حصوں میں (الف) افغانوں سے پہلے زمانہ کی (ب) افغانوں کے زمانہ کی (ج) مغلیہ زمانہ کی (۲۸) مبلغین اسلام ہندوستان (۲۹) سوانح صوفیائے کرام (۳۰) تاریخ اسلام اور یورپ (۳۱) تاریخ عرب بعد از چہارم صدی ہجری (۳۲) تاریخ اشاعت اسلام مغربی افریقہ (۳۳) تاریخ ایبے سینیا (۳۴) تاریخ افریقہ وسطی و جنوبی گذشتہ ہزار سال کی (۳۵) تاریخ روما (الف) قبل از مسیح (ب) بعد از مسیح (ج) بعد زمانہ نبویؐ (۳۶) تاریخ قسطنطنیہ (الف) زمانہ نبوی تک (ب) زمانہ نبوی کے بعد اسلام کے قبضہ تک (۳۷)تاریخ ہسپانیہ قبل از تسلط اسلام و بعد تسلط (۳۸)تاریخ صقلیہ قبل از تسلطِ اسلام و بعد تسلطِ اسلام (۳۹) تاریخ روما جنوبی بزمانہ اسلام (۴۰)تاریخ چین بزمانہ اسلام (۴۱)تاریخ فلپائن و ملحقہ جزائر بزمانہ اسلام (۴۲) تاریخ انڈونیشیا قبل از اسلام و بعد از اسلام (۴۳) تاریخ سیلون قبل از اسلام و بعد از اسلام (۴۴) تاریخ بخاراوملحقات قبل از اسلام و بعد از اسلام (۴۵)تاریخ روس از ابتداء تا پندرہویں صدی اور پندرھویں صدی سے لے کر آج تک، جس میں خصوصاً اسلام سے اُس کے تعلقات پر روشنی ہو (۴۶) تاریخ مارکسنرم (۴۷)تاریخ بالشوزم (۴۸) تاریخ شمالی امریکہ و جغرافیہ (۴۹) تاریخ جنوبی امریکہ و جغرافیہ (۵۰) تاریخ جزائر آسٹریلیا و نیوزی لینڈ وغیرہ (۵۱) احوال الانبیاء
چوتھا سلسلہ
(۱) رسالہ کیمسٹری ناواقفوں کیلئے (۲) رسالہ فزکس (۳) موٹے موٹے مضامین کے الگ الگ رسالے (۴) تاریخ سائنس(۵) مسلمانوں کا
سائنس میں حصہ (۶) قرآن اور علوم (۷) اسلام اور علوم (۸) علم البحر (۹) مسلمانوں کا علم بحری میں حصہ (۱۰) فلکیات (۱۱) مسلمانوں کا فلکیات میں حصہ (۱۲)جغرافیہ عالم (۱۳)جغرافیہ میں مسلمانوں کا حصہ (۱۴) جغرافیہ طبیعات (۱۵)جغرافیہ طبیعات میں مسلمانوں کا حصہ (۱۶)درندے اور اُن کے اہم افراد اور اُن کی خصوصیات (۱۷) چرندے اور اُن کے اہم افراد اور اُن کی خصوصیات (۱۸) پرندے اور اُن کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات (۱۹) مکوڑے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات (۲۰) رینگنے والے جانور اور اُن کے اہم افراد اور اُن کی خصوصیات (۲۱) پانی کے اندر کے سانس لینے والے جانور اور اُن کے اہم افراد اور اُن کی خصوصیات (۲۲) پانی میں رہنے والے لیکن باہر نکل کر سانس لینے والے جانور اور اُن کے اہم افراد اور اُن کی خصوصیات (۲۳) ساکن جانور بری اور بحری اور ان کی خصوصیات (۲۴)خورد بینی کیڑے اور اُن کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات (۲۵)انسانی پیدائش موجودہ دَور میں مادہ حیات۔ اس کے تغیرات، اس کی صحت اور بیماری کی حالت۔ اُس کے انتقال کا طریقہ اور انتقال کے بعد پیدائش تک کے اَدوار (۲۶) انسانی جسم کی تشریح (۲۷)صحت کی حالت میں اعضائے انسانی کے فرائض اور وظائف (۲۸) مختلف بیماریاں اور اُن کے اسباب (۲۹) علم النباتات (۳۰) علم الجمادات (۳۱) منطق (۳۲)فلسفۂ منطق (۳۳) فلسفہ (۳۴) فلسفۂ فلسفہ (۳۵) فلسفۂ تاریخ (۳۶) طبقات الارض (۳۷) ارتقائے نسل انسانی (۳۸) علم اللسان (۳۹) علم النفس (۴۰) ارتقائے عالم (۴۱)کائنات کی مختلف انواع میں امتیازی شان (۴۲) انسان اور دیگر اشیاء میں فرق (۴۳)علم البدن (۴۴)کیفیت مادہ‘‘ (الفضل ۲۱؍ جون ۱۹۶۱ء)
۱؎
(الانفال:۳۱)
۲؎ تذکرہ صفحہ۳۹۷۔ ایڈیشن چہارم
۳؎ بخاری کتاب الجھاد والسیر باب التحریض علی الرمی
۴؎ بخاری کتاب النکاح باب نظر المرأۃ الی الجیش(الخ)
۵؎ متی باب ۵آیت ۳۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۶؎ لوقا باب ۲۲ آیت ۳۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء (مفہوماً)
۷؎ تذکرہ صفحہ۷۷۲۔ ایڈیشن چہارم
۸؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھے جائیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھے جائیں
(فرمودہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۴۹ء۔ بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’رمضان کا مہینہ جو خدا تعالیٰ کی بہت بڑی برکات کے حصول کا ایک ذریعہ تھا آیا اور گذر گیا اِس مہینہ میں جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اُنہوں نے دعاؤں اور شب بیداری اور نوافل کے ذریعہ اُس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق خداتعالیٰ کا فیضان حاصل کیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک بہت بڑا سبق جو رمضان سے ہمیں حاصل ہوتا ہے اور جس کی طرف اِس زمانہ میں بہت کم توجہ کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ رمضان ہمیں اِس طرف توجہ دلاتا ہے کہ مؤمن کو اپنی روحانیت کی تکمیل کے لئے دوسرے ایام میں بھی روزے رکھنے چاہئیں۔ مگر ہوتا کیا ہے؟ رمضان آتا ہے تو لوگ روزے رکھنے شروع کر دیتے ہیں اور بعض دفعہ اتنا تعہد کرتے ہیں کہ مسافر اور مریض بھی روزے رکھتے ہیں اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی ایسی توجیہہ تلاش کی جائے جس کی وجہ سے باوجود بیمار اور مسافر ہونے کے روزہ رکھ لیا جائے۔ لیکن جب رمضان گذر جاتا ہے تو وہ روزوں کو اس طرح بھول جاتے ہیں کہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں اُنہیں کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ وہ تھوڑے بہت روزے رکھ لیا کریں حالانکہ اگر غور سے کام لیا جائے تو اسلام نے جس قدر عبادتیں مقرر کی ہیں وہ کسی معین وقت کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہیں اور سال کے ہر حصہ میں اُن پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑی عبادتیں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ہیں۔ ان چاروں کو دیکھ لو اِن کے لئے معین وقت نہیں بلکہ یہ سارے سال میںپھیلا دی گئی ہیں۔ نماز تو سارا سال ہی پڑھی جاتی ہے اس کے علاوہ سال میں دو دفعہ عید کی نماز رکھی گئی ہے اور پھر روزانہ فرضی نمازوں کے علاوہ دوسرے نوافل بھی ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقت کے بعد مؤمن کے لئے خداتعالیٰ کو یاد کرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ اس کی روح تازہ ہوتی رہے۔ اسی طرح حج ہے حج بیشک سال میں ایک دفعہ مقرر کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے عمرہ لگا دیا ہے جو سارا سال ہوتا رہتا ہے۔ گویا عمرہ کے ذریعہ حج کے فائدہ کو عام کر دیا گیا ہے اور اِس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ مؤمنوں کو حج کے علاوہ عمرہ بھی کرنا چاہیے تا کہ حج کے جو فوائد ہیں اُنہیں زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جاسکے۔ اِسی طرح زکوٰۃ اگرچہ سال میں ایک دفعہ مقرر ہے لیکن صدقہ تو ایک دفعہ نہیں جب بھی کوئی محتاج یا بیکس نظر آئے مؤمن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کی مدد کرے۔ یہ نہیں کہ جب وہ کسی محتاج و بیکس کو دیکھے تو کہہ دے کہ سال گذرے گا تو زکوٰۃ دے دوں گا اگر وہ اس طرح کرتا ہے تو وہ مجرم ہے کیونکہ زکوٰۃ دینے سے اُس نے تسلیم کر لیا ہے کہ صدقہ دینا ضروری چیز ہے۔ اس کے بعد اگر وہ صدقہ نہیں دیتا، غریبوں اور بیکسوں کی مدد نہیں کرتا تو وہ اقراری مجرم ہے۔ جب اُس نے مان لیا ہے کہ غریب کی مدد کرنا فرض ہے تو پھر وہ اس پر کیوں عمل نہیں کرتا۔ پس گو زکوٰۃ سال میں ایک دفعہ مقرر ہے مگر صدقہ کو جاری کر کے خداتعالیٰ نے اس کو سارے سال میں پھیلا دیا ہے۔ اسی طرح حج کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے عمرہ رکھ دیا ہے تا کہ اس کے فوائد ہمیشہ حاصل کئے جائیں۔
غرض روزانہ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ نوافل لگا کر، سال میں ایک دفعہ دی جانے والی زکوٰۃ کے ساتھ صدقہ لگا کر اور حج کے ساتھ عمرہ لگا کر خداتعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ان عبادتوںکے لئے وقت کا معین کرنا صرف بطور مشق کے ہے اور مؤمن کو یہ بتانے کے لئے ہے کہ وہ دوسرے اوقات میں بھی ایسا کرتا رہے۔ اِسی طرح رمضان بھی یہ بتانے کے لئے آتا ہے کہ سال کے باقی ایام میں بھی روزے رکھا کرو۔ تعین وقت اصلی نہیں بلکہ صرف مؤمن کو باقی ایام میں ایسا کرنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہے۔ گویا رمضان کا مہینہ مؤمن کے لئے روحانی ٹریننگ کا زمانہ ہے اور اس میں جس غرض کے لئے مشق کرائی جاتی ہے اگر وہ پوری نہ ہو تو پھر اس کا فائدہ ہی کیا؟ سپاہی کو پریڈ، گولی چلانا، چوری چھپے لیٹ کر، گھٹنے کے بل بیٹھ کر دشمن پر گولی چلانا اور دوسرے فنونِ حرب کی اس لئے مشق کرائی جاتی ہے کہ سیکھنے کے بعد وہ وقت آنے پر قوم اور وطن کی خدمت کرسکے اور دشمن کا مقابلہ کرے۔ لیکن اگر ٹریننگ کے بعد وہ یہ کہہ دے کہ اس نے اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا ہے اور وقت آنے پر اپنی قوم اور وطن کی حفاظت کے لئے دشمن سے لڑائی نہ کرے تو اُس کی ٹریننگ کا کیا فائدہ۔
غرض رمضان آتا ہی اِس لئے ہے کہ وہ مؤمن کو سال کے دوسرے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی عادت ڈالے۔ جیسے زکوٰۃ کو سال میں گو ایک دفعہ رکھا گیا ہے مگر اِس لئے کہ باقی ایام میں صدقہ دینے کی انسان کو عادت ڈالے۔ اسی طرح حج کو سال میں ایک دفعہ اس لئے مقرر کیا گیا ہے تا قومی اجتماعوں میں لوگوں کو جمع ہونے کی عادت ہو۔ اب اگر کوئی کہتا ہے کہ حج کے بعد کسی میٹنگ، کسی جلسے اور کسی شوریٰ کی ضرورت نہیں تو اسے کون عقلمند کہے گا۔ ہم اسے یہی کہیں گے کہ حج سال میں ایک دفعہ مقرر کرنے کی حکمت یہی تھی کہ مسلمانوں کو قومی اجتماعوں کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اگر کوئی زکوٰۃ دینے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ صدقہ کی کیا ضرورت ہے تو ہم اسے کہیں گے کہ زکوٰۃ مقرر ہی اِس لئے کی گئی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے غریب اور بے کس بھائیوں کی مدد کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ غرض یہ سب کام ایسے ہیں جو مؤمن کو اُس فرض کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو اُس پر عائد کیا گیا ہے۔ صحابہؓ میں ان کاموں کے لئے ایک خاص تعہد اور جوش پایا جاتا تھا۔ وہ رمضان کے بعد وقتاً فوقتاً نفلی روزے بھی رکھا کرتے تھے۔ لیکن میں اپنی جماعت کے دوستوں کو دیکھتا ہوں کہ گو وہ زکوٰۃ دینے میں کمزور ہیں لیکن پھر بھی چندے دینے اور صدقہ کرنے کی ان میں کچھ نہ کچھ عادت پائی جاتی ہے۔ اِسی طرح گو ان میں سے بعض نمازوں میں کمزور ہیں لیکن پھر بھی نوافل کی طرف کچھ نہ کچھ توجہ پائی جاتی ہے۔ حج کی طرف اگرچہ وہ پوری توجہ نہیں دیتے لیکن قومی اجتماعوں میں حصہ لینے کی اِن میں ایک حد تک عادت ہے مگر روزوں کی طرف بہت کم توجہ پائی جاتی ہے۔ بہت کم ایسے احمدی ہیں جو نفلی روزے رکھنے کے عادی ہیں۔
احادیث میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں میں نے روزانہ روزہ رکھنا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا روزانہ روزے رکھنا درست نہیں۔ میں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے بتایا ہے کہ روزے کسرنفسی کے لئے ضروری ہیں اس لئے میںبھی روزانہ روزے رکھتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزانہ روزے رکھنے کی وجہ سے بجائے اِس کے کہ عبادت نفس کو مارے، نفس عبادت کو مار دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص روزانہ روزے رکھے گا تو ایک دن ایسا آئے گا جب اُس کا نفس کہے گا مجھ سے ایسی عبادت نہیں کی جاتی۔ پس اتنی زیادہ عبادتیں بھی درست نہیں کہ بجائے اِس کے کہ عبادت انسانی نفس کو مارے نفس عبادت کو مار دے۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میں مہینہ میں ایک روزہ چھوڑ دیا کروں گا۔ آپ نے فرمایا ایک دن بہت کم ہے۔ میں نے کہا اچھا دو دن چھوڑ دیا کروں گا۔ آپ نے فرمایا دو دن بھی بہت کم ہیں۔ میں نے کہا اچھا میں تین دن چھوڑ دیا کروں گا آپ نے فرمایا یہ بھی بہت کم ہیں۔ اگر تم نے روزے رکھنے ہی ہیں تو حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے رکھ لو۔ میں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے کیسے تھے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک دن روزہ رکھ لیا کرتے تھے اور ایک دن چھوڑ دیا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓفرماتے ہیں میں نے اُس وقت یہ سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے روزوں سے محروم کر دیا ہے لیکن اب میری عمر زیادہ ہوگئی ہے اور مجھ میں اِتنی طاقت نہیں رہی کہ ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن روزہ رکھ سکوں۔ اگر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نہ کی ہوتی تو میں روزے رکھنا چھوڑ دیتا۔ اب چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہوچکی ہے اِس لئے روزے رکھنے پر مجبور ہوں لیکن نفس میں روزے رکھنے کی طاقت باقی نہیں رہی۔ ۱؎
پھر صحابہؓ میں اس کے متعلق اتنا غلّو پایا جاتا تھا کہ ایک دفعہ الٰہی منشاء کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے روزے رکھنے شروع کئے یعنی افطاری کے وقت تھوڑی بہت چیز کھا کر روزہ کھول دیتے لیکن سحری کے وقت کچھ نہ کھاتے۔ صحابہؓ نے بھی آپ کی نقل میں یہ روزے رکھنے شروع کئے۔ آپ نے صحابہؓ کو منع کیا اور فرمایا میرے ساتھ خداتعالیٰ کا اَور معاملہ ہے، وہ مجھے خود کھلاتا پلاتا ہے تمہارے ساتھ اس کا وہ معاملہ نہیں۔۲؎ غرض صحابہؓ میں یہ رنگ پایا جاتا تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر کام کی نقل کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن احمدیوں میں یہ بات بہت کم پائی جاتی ہے۔ میں نے احمدیوں میں صرف پانچ سات آدمی ایسے دیکھے ہیں جو نفلی روزے رکھنے کے عادی ہیں۔
پس چاہئے کہ مہینہ میں ایک، دو، تین یاچار جتنے روزے بھی رکھے جا سکیں، رکھے جائیں۔ اِس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو روزے رکھنے والے کو ثواب ملتا ہے اور دوسرے اَور لوگوں میں بھی روزے رکھنے کی تحریک ہوتی ہے۔ روزہ رکھنے والا جب اپنے دوستوں سے ملے گا اور وہ اُسے کھانے کے لئے کوئی چیز پیش کریں گے تو وہ یہ کہہ کر کہ میرا روزہ ہے انکار کر دے گا، اِس سے اُنہیں بھی روزے رکھنے کی تحریک ہوگی۔
غرض رمضان کا مہینہ درحقیقت مؤمن کے لئے ٹریننگ کا زمانہ ہے اور یہ اس لئے آتا ہے تا اِس میں مشق کرنے کے بعد اِس سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ اِس لئے نہیں آتا کہ اِس کے گزر جانے کے بعد انسان بیٹھ جائے اور سمجھ لے کہ اس نے جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا۔ رمضان کی برکات بے شک بہت زیادہ ہیں لیکن یہ آتا اِسی لئے ہے تا ہمیں دوسرے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی عادت ڈالے اور اپنے اور اپنے عزیزوں، دوستوں اور ہم مذہبوں کے لئے روحانی ترقیات کے حصول اور درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کرنے کی عادت ڈالے۔ پس احباب کو رمضان المبارک سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوسرے ایام میں بھی نفلی روزے رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (الفضل ۱۳؍ اپریل ۱۹۶۰ء)
۱؎ بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم
۲؎ بخاری کتاب الصوم باب الوصال
کوشش کرو کہ اُردو ہماری مادری
زبان بن جائے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کوشش کرو کہ اُردو ہماری مادری زبان بن جائے
(فرمودہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۴۹ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے خدام الاحمدیہ کے ایڈریس کے جواب میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :
’’قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ نے اپنی کارگزاری کی جو رپورٹ پڑھ کر سنائی ہے اِس پر مجھے اِس لحاظ سے خوشی حاصل ہوئی کہ یہاں کے خدام میں ایک حد تک بیداری پائی جاتی ہے اور وہ اپنے اس نام کی قدر کرتے اور اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے ہیں جو اُنہوں نے اپنے لئے اختیار کیا ہے۔ جیسا کہ احباب کو معلوم ہے چند دن سے مجھے دردِ نقرس دوبارہ شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا اِس لئے زیادہ لمبی باتیں بیان نہیں کر سکوں گا مگر پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ اِس تقریب پر کچھ باتیں بیان کر دوں۔
سب سے پہلی بات جو ایڈریس کے ساتھ تو تعلق نہیں رکھتی لیکن نہایت اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مختلف قوموں اور زبانوں کے اختلاط سے ایک زبان پیدا ہوئی جس کو اُردو کہتے ہیں۔ اِس زبان کی طرف ہندوستان میں بہت کم توجہ رہ گئی ہے بلکہ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اِسے بالکل مٹا دیا جائے۔ پنجاب کا شہری طبقہ اِس کا بہت شائق چلا آتا ہے اور اِس میں علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری جیسے بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اُردو زبان کی بہت خدمت کی ہے اور ان کی وجہ سے ہندوستان اور اس کے باہر اُردو زبان بہت مقبول ہوگئی ہے۔ مگر پنجاب کے عوام اور غیر تعلیم یافتہ اشخاص ابھی اِس سے بہت دُور ہیں اور اُنہیں اِس میں کلام کرنا دو بھر معلوم ہوتا ہے۔ اگر وہ اس میں بات کریں تو طریق گفتگو غیر زبان دانوں کا سا معلوم ہوتا ہے۔ یوں تو غیر مادری زبان میں گفتگو کرتے وقت ہمیشہ ہی مشکلات پیش آتی ہیں اور لازمی طور پر لہجہ میں فرق معلوم ہوتا ہے تا ہم اگر آپس میں اُردو زبان میں ہی گفتگو کی جائے تو اِس میں مہارت حاصل کر لینا کوئی مشکل امر نہیں۔ مثلاً میری مادری زبان اگرچہ اُردو ہے مگر میں نے پنجاب میں پرورش پائی ہے اس لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا بلکہ یہ کہنا لغو ہوگا کہ میرا لہجہ دہلی والوں کا سا ہے۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ بچپن میں میں دہلی اپنی ایک نانی کو ملنے کیلئے گیا۔ مشہور مترجم قرآن مرزا حیرت صاحب ان کے بیٹے اور میرے ماموں تھے اُنہیں احمدیت سے حد درجہ کا تعصب تھا مگربہرحال چونکہ وہ میرے ماموں تھے اس لئے دوسرے رشتہ داروں نے مجھ سے کہا کہ اپنے ماموں مرزا حیرت صاحب کو بھی سلام کر آؤ۔ میری عمر اُس وقت تیرہ چودہ سال کی تھی۔ دہلی والوں کی عادت جیسے پان کی گلوری پیش کرنے کی ہے اُسی کے مطابق میری نانی صاحبہ نے بھی مجھے پان کی گلوری دی۔ دہلی میں یہ رواج ہے کہ پان میں چھالیہ زیادہ ڈالتے ہیں میں بھی اپنی والدہ صاحبہ کی وجہ سے پان کھایا کرتا ہوں لیکن چھالیہ زیادہ پڑا ہو تو اس کی میں برداشت نہیں کر سکتا۔ میں جتنا چھالیہ کھایا کرتا ہوں اس سے کلّہ بھرتا نہیں لیکن دہلی والے پان میں اتنا زیادہ چھالیہ ڈالتے ہیں کہ اسے کھاتے وقت کلّہ بھر جاتا ہے لیکن چونکہ وہ پان مجھے میری نانی نے دیا تھا اس لئے میں لینے سے انکار بھی نہیں کر سکتا تھا اس گلوری سے میرا کلّہ بھر گیا اور اُسی طرح میں اپنے ماموں مرزا حیرت صاحب کو ملنے کے لئے چلا گیا۔ ان کا دفتر باہر ایک چوبارہ پر واقع تھا۔ اُنہوں نے بھی مجھے پان کی ایک گلوری دے دی جس سے میرا دوسرا کلّہ بھی بھر گیا اور پھر جیسے بچوں سے باتیں کی جاتی ہیں اُنہوں نے مجھ سے دریافت کیا اچھا میاں! یہ تو بتاؤتم کونسی زبان میں باتیں کیا کرتے ہو اُردو میں یا پنجابی میں؟ اُس وقت تک میں پنجابی نہیں جانتا تھا اب تو تقریر بھی کر لیتا ہوں پھر میرے دونوں کلّے بھرے ہوئے تھے اور اُگالدان پاس تھا نہیں اس لئے میرے لئے بولنا مشکل ہو گیا اور اُنہوں نے جب پوچھا میاں! تم اُردو میں باتیں کرتے ہو یا پنجابی میں؟ تو میں نے بڑی مشکل سے جواب دیا کہ میں دونوں میں بات کر لیتا ہوں۔ کلّے چونکہ بھرے ہوئے تھے اس لئے اپنے مفہوم کو صاف طور پر ادا نہ کر سکا۔ مرزا حیرت صاحب احمدیت کے شدید مخالف تھے اور دہلوی ہونے کی وجہ سے غرور بھی تھا۔ وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑے اور کہنے لگے بس بس مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ تم کس زبان میں بات کرتے ہو۔ یہ ہے تو ایک لطیفہ مگر یہ بات ظاہر ہے کہ ہم میں سے کسی کا یہ کہنا کہ اس کا لہجہ دہلی والوں کا سا ہے درست نہیں۔ ہماری مادری زبان اُردو ہے اور ہمارا خون دہلی والوں کا ہے بلکہ ان کا خون ہے جن کے خون سے اُردو بنا ہے۔ جیسے میر درد اور مرزا غالب لیکن بوجہ پنجاب میں پرورش پانے کے ہم میں ایسے آثار اور علامات پائی جائیں گی جن سے صاف معلوم ہوگا کہ ہم پورے ہندوستانی نہیں۔ بعض وقت محاوروں کا بھی اثر پڑ جاتا ہے بوجہ پنجابی ماحول ہونے کے بغیر خیال کے کوئی نہ کوئی پنجابی محاورہ منہ سے نکل جاتا ہے۔ ہم گھر میں عموماً بچوں سے مذاق کرتے ہیں وہ بات کرتے ہوئے بعض دفعہ پنجابی کے الفاظ بول جاتے ہیں۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ وہ الفاظ اُردو زبان کے نہیں لیکن غیرارادی طور پر ان کے منہ سے نکل جاتے ہیں۔
میں ایک دفعہ دہلی گیا۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے میری دعوت کی۔ مولوی نذیر احمد صاحب کے پوتے جو ذاتی رسالہ نکالتے ہیں اُن کے ماموں میرے ساتھ تھے اُنہوں نے میری کوئی تقریر سنی ہوئی تھی۔ اُنہوں نے میرے لحاظ یا تکلّف کی وجہ سے کہا کہ خواجہ صاحب! میں نے ان کی تقریر سنی ہے ان کا لہجہ بالکل دہلی والوں کا سا ہے اور یہ بالکل پنجابی معلوم نہیں ہوتے مگر خواجہ صاحب اپنے رنگ کے آدمی ہیں اُنہیں یہ بات بُری لگی اُنہوں نے کہا میں تو یہ بات نہیں مان سکتا۔ میں نے اِن کی کتابیں پڑھی ہوئی ہیں اِن میں بعض مقامات پر پنجابی محاورات استعمال ہوئے ہیں۔ لیکن آخر وہ بھی دہلوی تھے اُنہوں نے فوراً کہا۔ خواجہ صاحب! میں نے تقریر کا ذکر کیا تھا کتاب کا نہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم تقریر میں بھی بعض پنجابی محاورات غیرارادی طور پر استعمال کر جاتے ہیں تا ہم متواتر بولنے اور ہمیشہ اُردو میں ہی گفتگو کرنے کی وجہ سے عادت ہو جاتی ہے۔
پس میں آپ کو ایک نصیحت تو یہ کروں گا کہ اُردو زبان کو نئی زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنا دو۔ آپ لوگوں کو چاہیے کہ ہمیشہ اِسی زبان میں ہی گفتگو کیا کریں۔ جب ہم اُردو میں ہی گفتگو کریں گے تو لازمی بات ہے کہ بعض الفاظ کے متعلق ہمیں یہ پتہ نہیں لگے گا کہ اِن کو اُردو زبان میں کس طرح ادا کرتے ہیں۔ اس پر ہم دوسروں سے پوچھیں گے اور اِس طرح ہمارے علم میں ترقی ہوگی۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن انسان کو بڑی عمر میں بھی اُن کی سمجھ نہیں آتی لیکن جب وہ ایک زبان میں گفتگو کرنا شروع کر دے تو ان پر عبور حاصل کر لیتا ہے۔ پس ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ پنجابی زبان چھوڑ دیں اور اُردو کو جواَب بے وطن ہو گئی ہے اپنائیں۔ یہ بھی ایک بڑا مہاجر ہے جس طرح مہاجروں کو زمینیں مل رہی ہیں چاہیے کہ اِسے بھی اپنے مُلک میں جگہ دی جائے اور اِسے اتنا رائج کر دیا جائے کہ آہستہ آہستہ یہ ہماری مادری زبان بن جائے۔ میں اُن لوگوں میں سے نہیں جن کے خیال میں پنجابی زبان کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ میرے نزدیک اُردو زبان کو ہی ہمیں اپنی زبان بنا لینا چاہیے اور اِسے رواج دینا چاہیے۔ مُلک کے کناروں اور پہاڑوں پر کہیں کہیں پنجابی زبان باقی رہ جائے تو حرج نہیں۔ اگر کسی کو پنجابی زبان سننے یا بولنے کا شوق ہوگا تو وہ وہاں جا کر سن لے گا یا بول لے گا۔ بس میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ تم اُردو زبان کو اپناؤ اور اِس کو اتنا رائج کردو کہ یہ تمہاری مادری زبان بن جائے اور تمہارا لہجہ اُردو دانوں کا سا ہو جائے۔
دوسری چیز جس کے متعلق میں آپ لوگوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ علم کے بغیر کبھی صحیح عمل پیدا نہیں ہو سکتا۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ عمل کے بغیر بھی انسان حقیقی زندگی حاصل نہیں کر سکتا۔ عالم بے عمل کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ لیکن اِس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ اگر علم نہ ہو اور پھر انسان کوئی عمل کرے تو وہ غلط قسم کا ہوگا اور اس کی مثال اُس ریچھ کی سی ہوگی جس سے کسی آدمی کی دوستی ہوگئی اور وہ اُسے مکھیاں اُڑانے کے لئے اپنی ماں کے پاس بٹھا گیا۔ وہ مکھیوں کو اُس کی ماں کے منہ سے اُڑاتا لیکن وہ پھر آ بیٹھتیں۔ اُس نے خیال کیا کہ جو مکھی اُڑتی نہیں اُسے مار ڈالنا چاہیے۔ چنانچہ اُس نے ایک پتھر اُٹھایا اور مکھی پر دے مارا۔ وہ مکھی تو شاید مری یا نہ مری لیکن ماں مر گئی۔ اِسی طرح بے علم آدمی ایسی غلطیاںکر جاتا ہے کہ اُن کی اصلاح اور ازالہ مشکل ہوتا ہے۔ میں نوجوانوں کو اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اُن میں خصوصیت کے ساتھ کوئی ایسا آدمی نہیں ہونا چاہیے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتا ہو۔ جس طرح ہر شخص وکیل تو نہیں بن سکتا لیکن مُلک میں صحیح طور پر امن اُس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک ہر شخص رائج الوقت قانون سے ایک حد تک واقف نہ ہو۔ ہر شخص چوہدری نذیر احمد یا سلیم نہیں بن جاتا مگر کچھ نہ کچھ قانون کا علم اُسے ہوتا ہے۔ مثلاً وہ جانتا ہے کہ اگر وہ چوری کرے گا تو اُسے سزا ملے گی۔ قانونی باریکیاں وہ نہیں جانتا ان کے لئے اُسے وکیلوں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اِسی طرح قرآن کریم کی باریکیوں کو تم بے شک علماء پر چھوڑ دو لیکن معمولی احکام تو ہر شخص کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور اُن کا جاننا اُس کا فرض ہے۔
میرے نزدیک جو شخص قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتا وہ حقیقی مسلمان نہیں۔ جب اُسے پتہ ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ نے کیا کہا ہے تو وہ اس پر عمل کیسے کرے گا۔ یہ غلط ہے کہ صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ہی قرآنی احکام ہیں۔ اِن کے علاوہ اور ہزاروں احکام سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے۔ ان کے علاوہ کچھ فکری اور قلبی اعمال ہوتے ہیں پھر ان کا تعہد اور نگرانی کرنے والے اخلاق ہیں جب تک ان کا علم نہ ہو اور ان کے مطابق انسان کا عمل نہ ہو اُس وقت تک نہ نماز نماز رہتی ہے اور نہ زکوٰۃ زکوٰۃ رہتی ہے۔
بھیرہ کے مشہور تاجر تجارت کے لئے بخارا کی طرف جایا کرتے تھے اور بہت نفع حاصل کرتے تھے۔ جب ان کے پاس دولت زیادہ ہوگئی تو لالچ بھی بڑھ گیا اور زکوٰۃ دینے میں کوتاہی شروع کر دی۔ وہ بڑے بڑے تاجر تھے اور ہر ایک کی دس دس پندرہ پندرہ ہزار زکوٰۃ نکلتی تھی۔ اُن دنوں زکوٰۃ اِس طرح ادا کی جاتی کہ وہ سکوں یا سونے چاندی کے گھڑے بھر لیتے اور ان کے اوپر دو تین سیر گندم ڈال دیتے، پھر کسی طالبعلم یا مسجد کے مُلاّں کو گھر بُلاتے، کھلاتے پلاتے اور فراغت کے بعد گھڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے میاں! یہ سب کچھ تمہاری ملکیت ہے اور ساتھ ہی یہ کہہ دیتے تم اِسے اُٹھا کر کہاں لے جاؤ گے میرے پاس ہی فروخت کر دو۔ طالب علم اور مُلاّں یہ جانتے تھے کہ اُنہوں نے دینا تو کچھ بھی نہیں صرف ایک بہانہ ہے جو کچھ ملے لے لو۔ وہ کہتے اچھا پانچ سات روپے میں یہ گھڑا میں آپ کے پاس فروخت کرتا ہوں۔ اس طرح وہ زکوٰۃ بھی دے دیتے اور واپس بھی لے لیتے اور سمجھ لیتے ہم نے زکوٰۃ کے حکم پر عمل کر لیا ہے۔ اگر وہ لوگ سارا قرآن کریم پڑھتے تو اُنہیں اور احکام بھی معلوم ہو جاتے اور سمجھ لیتے کہ ہمارا یہ زکوٰۃ دینا محض دکھاوا اور خدا تعالیٰ سے دھوکا ہے اور ہم دُہرے عذاب کے مستحق ہیں۔
نماز کے متعلق بھی یہی بات ہے بعض نمازیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے ۱؎ فرمایا ہے یعنی ان کے لئے ہلاکت اور عذاب ہے۔ اگر ہر نماز نماز ہوتی تو خداتعالیٰ یہ کیوں کہتا۔ دراصل وہ لوگ ظاہری طور پر نماز تو ادا کرتے ہیں لیکن اسے شکل ایسی دے دیتے ہیں کہ وہ ان کے لئے بجائے موجب رحمت بننے کے موجب عذاب بن جاتی ہے۔ پس قرآن کریم کا ترجمہ جاننا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اور اگر تھوڑا سا بھی تعہد کیا جائے تو یہ کوئی مشکل امر نہیں۔ قرآن کریم کی باریکیاں سمجھنے کی توفیق ہر ایک کو نہیں ملتی جس پر خداتعالیٰ کا فضل ہو جائے وہی باریکیوں کو جان سکتا ہے۔
میری صحت بچپن سے ہی خراب ہے اور میرے متعلق بچپن سے ہی ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر یہ تیس سال کی عمر تک پہنچ گیا تو سمجھ لینا کہ بچ جائے گا یہی وجہ تھی کہ بچپن میں مجھ پر پڑھائی کیلئے کوئی دباؤ نہیں ڈالتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ اگر تم تین کام کرلو تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ ایک تو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لو، دوسرے بخاریؒ پڑھ لو اور تیسرے کچھ طب پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی شغف ہے۔ میں آپ سے ایک رُقعہ لکھوا کر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے پاس چلا گیا اور اُنہیں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے تم یہ تین چیزیں پڑھ لو باقی تمہاری صحت اجازت دے تو کچھ پڑھ لینا ورنہ ضرورت نہیں۔ آپ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا میری تو دیر سے یہ خواہش تھی اور یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں جو میں جانتا ہوں چنانچہ قرآن کریم کا ترجمہ میں نے آپ سے چھ ماہ میں پڑھا۔ میرا گلا چونکہ خراب رہتا تھا اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل مجھے پڑھنے نہیں دیتے تھے آپ خود ہی پڑھتے جاتے تھے اور میں سنتا جاتا تھا اور چھ مہینہ یا اس سے بھی کم عرصہ میں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آپ نے پڑھا دیا۔ پھر تفسیر کی باری آئی تو سارے قرآن کریم کا آپ نے ایک مہینہ میں دَور ختم کر دیا۔ اِس کے بعد میں بھی آپ کے درسوں میں شامل ہوتا رہا ہوں لیکن پڑھائی کے طور پر صرف ایک مہینہ ہی پڑھا ہوں۔ پھر آپ نے مجھے بخاری پڑھائی اور تین مہینہ میں ساری بخاری ختم کرا دی۔ حافظ روشن علی صاحب بھی میرے ساتھ درس میں شامل ہوگئے تھے۔ وہ بعض دفعہ سوالات بھی کرتے تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اُن کے جوابات دیتے تھے۔ حافظ صاحب ذہین تھے اور بات کو پھیلا پھیلا کر لمبا کر دیتے تھے۔ اُنہیں دیکھ کر مجھے بھی شوق آتا کہ میں بھی اعتراض کروں چنانچہ ایک دو دن میں نے بھی بعض اعتراضات کئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے اُن کے جوابات دیئے لیکن تیسرے دن جب میں نے کوئی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا۔ میاں! حافظ صاحب تومولوی آدمی ہیں وہ سوال کرتے ہیں تو میں جواب بھی دے دیتا ہوں لیکن تمہارے سوالات کا میں جواب نہیں دوں گا مجھے جو کچھ آتا ہے تمہیں بتا دیتا ہوں اور جو نہیں آتا وہ بتا نہیں سکتا۔ تم بھی خدا کے بندے ہو اور میں بھی خدا کا بندہ ہوں۔ تم بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمّت میں شامل ہو اور میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں شامل ہوں، اسلام پر اعتراضات کا جواب دینا صرف میرا ہی کام نہیں تمہارا بھی فرض ہے کہ تم سوچو اور اعتراضات کے جوابات دو مجھ سے مت پوچھا کرو۔ چنانچہ اِس کے بعد میں نے آپ سے کوئی سوال نہیں کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ قیمتی سبق یہی تھا جو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے اعتراضات کرنے چھوڑ دیئے اور ان کے جوابات خود سوچنے شروع کئے جس سے مجھے بہت بڑا فائدہ ہوا۔ بعد میں میں نے کچھ کتابیں صَرف و نحو کی بھی پڑھیں لیکن بطور درس کے نہیں شغل کے طور پر پڑھیں۔ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہی ارشاد تھا کہ تم ترجمہ قرآن کریم، بخاری اور کچھ طب پڑھ لو لیکن میں تمہارے لئے اِس کا بھی خلاصہ بیان کر دیتا ہوں تم قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لو، بخاری اور دوسری کتابیں تمہیں خود بخود آ جائیں گی۔
اگر کوئی شخص قرآن کریم کا ترجمہ نہیں پڑھتا تو میں تو یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کیسے قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم ایک خط ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو لکھا ہے لیکن وہ کیسا مسلمان ہے جو اسے پڑھتا نہیں بلکہ جیب میں ڈالے پھرتا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے کہ اُس کے ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچوں یا دوسرے عزیزوں کا خط آئے اور وہ اُسے جیب میں ڈال دے پڑھے نہیں؟ اگر تمہیںکسی عزیز کا خط ملتے ہی یہ شوق پیدا ہو جاتا ہے کہ میں اُسے پڑھوں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے ہمیں محبت بھی ہو اور پھر وہ خط لکھے اور ہم پڑھیں نہیں۔ اگر واقعہ میں قرآن کریم خدا تعالیٰ کا خط ہے جو اُس نے اپنے بندوں کو لکھا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خط اس کے پاس ہو اور پھر وہ چپ کر کے بیٹھا رہے اس کا ترجمہ نہ سیکھے۔ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے یہ مثال سنی ہے کہ جتنا کوئی اَن پڑھ ہوتا ہے وہ خط پڑھوانے کی زیادہ کوشش کرتا ہے۔ کسی بڑھیا کے پاس اس کے بیٹے کا خط آتا ہے تو وہ مُلاّں کے پاس جاتی ہے اور اُسے کہتی ہے میاں! میرے بیٹے کا خط پڑھ دو اور وہ خط پڑھ دیتا ہے تو اسے تسلی نہیں ہوتی۔ پھر وہ کسی اور کو دیکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وہ پڑھا ہوا ہے تو وہ اُس کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے کہ میرے بیٹے کا خط سنا دو۔ اِسی طرح جب تک وہ سات آٹھ آدمیوں سے اپنے بیٹے کا خط نہیں سن لیتی اسے تسلی نہیں ہوتی۔
پس تم میں سے جتنے بھی اَن پڑھ ہیں اُنہیں دوسروں سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کسی چیز کو سیکھنے کی کوشش کی جائے تو وہ ضرور آ جاتی ہے۔
ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک بادشاہ کے وزیر تھے انہیں علم سیکھنے اور سکھانے کا بہت شوق تھا۔ اُنہوں نے شہر کے لوگوں سے کہا مجھے چالیس لڑکے دے دو اور انہیں بارہ سال تک میرے پاس رہنے دو۔ اس کے بعد وہ جو چاہیں کریں۔ لوگوں کو ان پر اعتبار تھا انہوں نے اپنے لڑکے دے دیئے۔ اس بزرگ نے ایک مکان لیا اور خود بھی اس میں آ گئے اور کچھ استاد رکھ لئے۔ ان کا طریق یہ تھا کہ وہ صبح کے وقت اُٹھتے اور قرآن کریم بچوں کے سامنے رکھ دیتے اور کہتے تلاوت کرو۔ اس کے بعد تہجد پڑھواتے پھر صبح کی نماز کا وقت ہو جاتا ان سے اذان دلواتے، اذان اور نماز کے درمیان انہیں قرآن کریم کی ایک آیت بتا دیتے اور کہتے اسے یاد کر لو۔ پھر صبح کی نماز پڑھواتے اور نماز کے بعد ایک حدیث یاد کراتے۔ اِس کے بعد انہیں باہر لے جاتے اور ورزش کرواتے۔ جب دھوپ سر پر آ جاتی تو اُنہیں دریا کے کنارے لے جاتے اور اُنہیں تیراندازی سکھاتے۔ جب ورزش اور تیراندازی کر کے واپس آ جاتے تو انہیں دو تین چھوٹے چھوٹے اسباق اِس رنگ میں دیتے کہ ایک چھوٹا سا مسئلہ نحو کا بتا دیا، ایک چھوٹا سا مسئلہ صَرف کا بتا دیا اور کسی بڑے شاعر کا ایک شعر بتا دیا اور اُس کی لغت یاد کرا دی۔ پھر ظہر کا وقت آ جاتا نماز پڑھواتے اور نماز کے بعد لڑکوں کو عربی کی کوئی ایک ضرب المثل یاد کرا دیتے، کوئی ایک فقہ کا مسئلہ بتا دیتے یا منطق کا کوئی مسئلہ بتا دیتے۔ پھر عصر کی نماز کا وقت آ جاتا عصر کی نماز پڑھواتے اور اس کے بعد انہیں باہر لے جاتے اور وہاں فنونِ جنگ کی مہارت کرواتے۔ اِس طرح وہ سارا دن انہیں مختلف کام سکھانے میں لگے رہتے۔ بارہ سال کے اندر اندر اُنہوں نے اِن لڑکوں کو قرآن و حدیث کا پورا ماہر بنا دیا، قرآن کریم کا حافظ بنا دیا، پورا منطقی اور پورا فقیہہ بنا دیا اور اس کے ساتھ اُنہیں پورا سپاہی بھی بنا دیا۔
غرض ایک ایک چیز کا روزانہ یاد کر لینا کوئی مشکل بات نہیں تم روزانہ چند آیات یاد کر لو تو بڑی آسانی کے ساتھ تھوڑے ہی عرصہ میں سارے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ سکتے ہو۔ بعض آیات تو بہت چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں اگر انہیں دوسری چھوٹی آیات کے ساتھ ملا کر بڑی آیت کے برابر سمجھ لیا جائے اور اگر اڑھائی تین سطروں کا بھی روزانہ اندازہ رکھا جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ تم تین سال کے اندر اندر پورے قرآن کریم کا ترجمہ سیکھ سکتے ہو۔ یہ سکیم بچوں میں بھی شروع کرنی چاہیے اور اگر لجنہ اماء اللہ بھی اِس سکیم کو اپنا لے تو پھر مائیں اپنے بچوں کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا سکتی ہیں۔ تم بے شک خادم ہو لیکن اگر تمہیں خدمت کے طریق کا ہی پتہ نہ لگے تو تم کرو گے کیا؟ بے شک پانی پلا دینا اور مسجد کی صفائی کر دینا بھی اچھے کام ہیں مگر قرآن کریم میں اور بھی ہزاروں احکام ہیں اور جب تم انہیں جانتے ہی نہیں تو تم ان پر عمل کیسے کر سکتے ہو۔ خادم کے لئے ضروری ہے کہ اسے آقا کی مرضی معلوم ہو۔
پس ایک نصیحت تو میں یہ کروں گا کہ تم اُردو میں گفتگو کرنے کی عادت ڈالو اور اتنی عادت ڈالو کہ تمہارا لہجہ اُردو دانوں کا سا ہو جائے۔ الفاظ اور محاورات کی اصلاح بعد میں ہو جائے گی۔ دوسری نصیحت میری یہ ہے کہ بے شک مخلوق کی خدمت کرو لیکن اگر تمہیں قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا تو تم یہ کام پوری طرح نہیں کر سکتے۔ اگر تمہیں قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے تو باقی سب چیزیں تمہارے لئے آسان ہو جائیں گی۔
چوہدری ظفراللہ خان صاحب جب شام میں گئے تو وہاں کے ایک وزیر نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے کسی دینی مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا میں نے تو صرف قرآن کریم کاترجمہ پڑھا ہے جب قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہو تو باقی سب مضامین آسان ہو جاتے ہیں۔ اس کے مضامین کو سمجھنے کے لئے دوسری کتابوں کے حوالوں کی ضرورت پڑتی ہے اور اس طرح ساری چیزیں آ جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کے بعد دوسرے علوم کا شوق خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ ہمارا سارا علم تو ہے ہی قرآن۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف قرآن کریم ہی پڑھے ہوئے تھے۔
لاہور میں میرے پاس ایک دفعہ دو دیوبندی مولوی آئے ان میں سے ایک نے غصہ والی شکل بنا کر مجھ سے پوچھا آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا میں تو کچھ بھی پڑھا ہوا نہیںصرف قرآن کریم جانتا ہوں۔ اُس نے دوبارہ پوچھا۔ آپ بتائیں تو سہی آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا آپ کے نزدیک جو پڑھائی ہے وہ میں نے نہیں کی میں صرف قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہوں۔ اُس نے کہا بس آپ صرف قرآن کریم کا ترجمہ ہی جانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں ترجمہ سے باہر کوئی چیز رہ جاتی ہو تو وہ میں نہیں جانتا۔ وہ غصہ میں تھا اور اُس نے میرا جواب نہ سمجھا۔ دوسرے مولوی نے اسے چٹکی بھرتے ہوئے کہا وہ کہہ تو رہے ہیں میں قرآن کریم پڑھا ہوا ہوں اور تم یہ ثابت کرکے کہ قرآن کریم سے باہر کوئی چیز ہے اپنی کم علمی اور بیوقوفی کا ثبوت دے رہے ہو۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے اندر سارے علوم آ جاتے ہیں۔ میں پرائمری فیل ہوں لیکن میں تمام مذاہب کو چیلنج کر کے کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا اعتراض ہو جس کا قرآن کریم کے ساتھ ٹکراؤ ہوتا ہو تو میں اس کا جواب دوں گا اور خالی جواب ہی نہیں دوں گا بلکہ اعتراض کرنے والے کو چپ کرا کے چھوڑوں گا۔ قرآن کریم کے اندر سارے گُر موجود ہیں اور اصل عقل گروں سے ہی آتی ہے۔ اگر تم قرآن کریم پڑھ لو تو تمہارے اندر وہ مادہ پیدا ہو جائے گا جس سے تم ہر قسم کے دشمن کا مقابلہ کر سکو گے اور تمہاری عقل اتنی تیز ہو جائے گی کہ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں ہوگا جس سے تم مرعوب ہو۔ پس قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے جس کی میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں۔
اس کے بعد میں آپ لوگوں کی خواہش کے مطابق دعا کروں گا۔ باقی خدام کو بھی اپنی دعاؤں میں شامل کر لیں بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو اپنی دعاؤں میں شامل کر لیں تا کہ وہ قرآن کریم سیکھیں اور اس پر عمل کریں۔ خواہ کوئی ہندو ہے یا کوئی عیسائی یا کسی اَور مذہب کا پیرو سب کو اسلام میں لانا ہمارا فرض ہے۔ اگر وہ قرآن کریم کو ماننے لگ جائیں، مخلوق کی خدمت میں لگ جائیں تو یہی دنیا جو جہنم نظر آتی ہے اور لڑائیوں کی جگہ بنی ہوئی ہے امن کا گہوارہ بن جائے۔
(الفضل ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۶۰ء)
۱؎ الماعون: ۵
باقاعدگی سے نمازیں پڑھنے، اس کے اثرات پر غور کرنے اور دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنے کی عادت پیدا کرو
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
باقاعدگی سے نمازیں پڑھنے، اس کے اثرات پر غور کرنے اور دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنے کی عادت پیدا کرو
(لجنہ اماء اللہ کوئٹہ سے خطاب)
(فرمودہ ۱۸؍ اگست ۱۹۴۹ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’سب سے پہلے تو میں لجنہ اماء اللہ کوئٹہ کو جس کے زیر انتظام یہ جلسہ ہو رہا ہے یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وقت بھی خداتعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ ہمارے مُلک کا پُرانا خیال یہی تھا کہ وقت کی پابندی نہ کرنا بڑے لوگوں کا کام ہے چنانچہ جتنے بڑے لوگ ہوتے تھے اُتنا ہی زیادہ وہ اپنے آپ کو وقت کی پابندی سے معذور سمجھتے تھے لیکن اب دنیا کا نظریہ بدل چکا ہے۔ دنیا نے تجربہ سے معلوم کر لیا ہے کہ کسی کا بڑا ہونا اُسے وقت کی پابندی سے آزاد نہیں کر دیتا بلکہ کسی شخص کے بڑا ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ وہ وقت کی زیادہ پابندی کرے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اوقات کی پابندی کیا کرتے تھے۔
آج مجھے یہ بات معلوم کر کے تعجب ہوا کہ اجلاس کا وقت پانچ بجے مقرر تھا حالانکہ کوئٹہ کے حالات کے مطابق عصر کی نماز سَوا پانچ بجے ہوتی ہے اِس لئے اجلاس کا وقت کسی صورت میں بھی چھ بجے سے پہلے مقرر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ آنے والی خواتین نے بھی اپنی عادت کے مطابق اجلاس میں شمولیت کے لئے کچھ وقت لیا ہے۔ میں نے پانچ بجے دریافت کیا تو مجھے بتایاگیا کہ ابھی بہت کم عورتیں آئی ہیں۔ یہ طریق غلط ہے اِس سے کام کرنے والوں کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ کام کرنے والے لوگ تو وقت پر آ جاتے ہیں مگر گھنٹہ بھر اُنہیں انتظار کرنا پڑتا ہے اِس طرح اُن کا دوسروں سے زیادہ وقت ضائع ہوتا ہے حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ جتنا کوئی شخص زیادہ سمجھ دار ہو اُس کا وقت ضائع نہ ہو اور جو لوگ پہلے ہی سست ہیں اُن کا وقت ضائع ہو جائے تو کوئی حرج بھی نہیں۔ اگر وقت کی پابندی کا خیال نہ رکھا جائے تو جو کام کرنے والے ہیں اور سلسلہ کے لئے زیادہ مفید ہیں وہ تو وقت پر آجاتے ہیں مگر اُن کا گھنٹہ بھر وقت انتظار میں خرچ ہو جاتا ہے اور پھر گھنٹہ بھر کام میں خرچ ہوتا ہے، پھر اُس کام کو ختم کرنے میں بھی کچھ وقت ضرور صَرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے اُن کا وقت دوسروں سے زیادہ ضائع ہوتا ہے۔
اٹلی کا مشہور لیڈر مسولینی ۱؎ جو پچھلی جنگ میں مارا گیا جب برسر اقتدار آیا اُس وقت اٹلی کا مُلک پیچھے رہ جانے والے مُلکوں میں شمار ہوتا تھا۔ بڑی حکومتوں میں اُس کا شمار نہیں تھا مُلک کی صنعت و حرفت ناقص تھی، تجارت میں وہ دوسرے یوروپین ممالک سے پیچھے تھا، اُس کی زراعت میں کوئی ترقی نہیں پائی جاتی تھی، یہ شخص ایک معمولی مستری کا لڑکا تھا اور شروع شروع میں اُس نے خود بھی مستری کا کام کیا۔ وہ سیاسیات میں داخل ہوا اور اُس نے ایک پارٹی بنائی جس کی مدد سے وہ حاکم بن گیا۔ گو وہ ہمیشہ ہی وزیر اعظم کہلایا مگر حقیقتاً وہ بادشاہ تھا۔ اس نے اپنے مُلک کی اتنی ہی مرض پہچانی کہ لوگ وقت کی پابندی نہیں کرتے۔ اُس نے حکم دے دیا کہ تمام لوگ وقت کی پابندی کیا کریں۔ اگر کوئی کارکن ایک منٹ بھی دفتر میں لیٹ آیا تو اُسے سزا دی جائے گی، اُس کا درجہ گرا دیا جائے گا یا اُسے معطل کر دیا جائے گا۔ یہ معمولی سی بات تھی لیکن میںنے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اُس نے مُلک کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور اِس چھوٹی سی اصلاح یعنی پابندیٔ وقت کی وجہ سے مُلک کا تمام نظام درست ہو گیا۔ مجھے اُس کی پابندیٔ وقت کا خود بھی تجربہ ہے۔ ۱۹۲۴ء میں ایک مذہبی کام کے لئے میں انگلینڈ گیا، راستہ میں اٹلی میں بھی ٹھہرنے کا موقع ملا۔ مسولینی کو برسرِ اقتدار آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اُس سے بھی مُلاقات کروں اور دیکھوں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے۔ اُن دنوں سوشلسٹ پارٹی کا ایک مشہور لیڈر مسولینی کی پارٹی سے مارا گیا تھا۔ مسولینی کی پارٹی یہ کہتی تھی کہ وہ ڈر کر بھاگ گیا ہے لیکن دوسری پارٹی یہ کہتی تھی کہ وہ ڈر کر بھاگا نہیں بلکہ اُسے مارا گیا ہے۔ مہینوں سے دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ جھگڑا چلا آ رہا تھا۔ جس دن ہم وہاں پہنچے اُس سوشلسٹ کی لاش ایک قلعہ کی دیوار میں یا ایک مکان میں گڑی ہوئی ملی۔ قتل کرنے والوں نے دیوار کھود کر لاش اُس میں رکھ دی تھی۔ مسولینی اور اُس کی پارٹی کہہ رہی تھی کہ وہ لیڈر ڈر کر بھاگ گیا ہے اِس لئے لاش کے ایک دیوار یا مکان میں سے ملنے پر مخالف پارٹی کو یقین ہو گیا کہ مسولینی کی پارٹی نے ہی اُسے مارا ہے۔ اگر اُنہوں نے مارا نہ ہوتا تو اُنہیں چھپانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اِس حادثہ کی وجہ سے مسولینی کی نئی نئی قائم شدہ حکومت میں ایک زلزلہ آیا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جلد ٹوٹ جائے گی۔ میں نے جب انگریز سفیر برائے اٹلی کو کہلا بھیجا کہ وہ مسولینی سے میری ملاقات کا انتظام کرا دے تو اُس نے جواب میں یہ پیغام بھیجا کہ میں نے بعض اہم سرکاری کاموں کے لئے مسولینی کو ملاقات کا پیغام بھیجا تھا مگر وہ اِس نئے حادثہ کی وجہ سے اِس قدر پریشان ہے کہ اِس کے لئے وقت نہ نکال سکا۔ جب وہ سرکاری کاموں کے لئے وقت نہیںنکال سکا تو وہ دوسرے کاموں کے لئے کس طرح وقت نکال سکے گا۔ میں نے انگریزی سفیر کو کہلا بھیجا کہ وہ کوشش کرے اور اگر وقت مل جائے تو بہتر ہے۔ اُس کے کام اور میرے کام میں فرق ہے میں تو تھوڑے عرصہ کے لئے اِس مُلک میں آیا ہوں اور جلد چلا جاؤں گا لیکن وہ تو وہاں ہی رہے گا اور پھر کسی وقت وہ ملاقات کر سکتا ہے۔ شاید مسولینی اِس نقطۂ نگاہ سے ہی اِس معاملہ پر غور کر لے اور ملاقات کا موقع دے دے۔ انگریزی سفیر نے کہا بہت اچھا میں لکھتا ہوں۔ چنانچہ اُس نے مسولینی کو لکھا کہ ہمارے ہندوستان کے ایک مشہور مذہبی لیڈر یہاں آئے ہوئے ہیں اور وہ آپ کو ملنا چاہتے ہیں۔ دو تین گھنٹہ کے بعد اُس کا جواب آ گیا کہ مجھے اُن سے مل کر بہت خوشی ہوگی، وہ مجھے کل گیارہ بجے ملیں۔ مسولینی کا یہ طریق تھا کہ وہ صبح آٹھ بجے دفتر میں آ جاتا اور بارہ بجے تک دفتر میں کام کرتا، پھر دو بجے بعد دوپہر دفتر آتا اور شام تک کام کرتا۔ اُس دن اُس نے حکم دے دیا کہ وہ گیارہ بجے کے بعد کوئی کام نہیں کرے گا لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ میرے پرائیویٹ سیکرٹری کو یہ بات بھول گئی کہ اُنہوں نے وہاں جانے کے لئے انتظام کرنا ہے۔ دوسرے دن گیارہ بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے کہ اُنہیں یاد آیا۔ وہ جلدی سے ہوٹل سے باہر آئے اور ایک موٹر کرایہ پر لے لی۔ میں نے اُن پر خفگی کا اظہار بھی کیا کہ اگر مسولینی کو ہمارا انتظار کرنا پڑا تو وہ ہمارے متعلق کیا خیال کرے گا۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے کہا مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ پھر ظلم پر ظلم یہ ہوا کہ موٹر ڈرائیور سوائے اطالین زبان کے دوسری زبان نہیں جانتا تھا اور ہم اطالین زبان نہیں جانتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اُسے بتایا کہ ہم نے وزیر اعظم کے ہاں جانا ہے۔ اطالین زبان میں وزیر اعظم کو اَل دولے کہتے ہیں۔ ہمیں اطالوی تلفظ اور لہجہ سے واقفیت نہ تھی اسی لئے ہم اِسی لفظ کو ڈیوک یا ڈیوکے کہتے تھے۔ وہ ڈرائیور کسی اور شخص کا نام سمجھ کر چکر لگا کر گیا اور ایک مکان پر جا کر موٹر روک لی۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں پہرے وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں۔ پوچھا تو معلوم ہوا یہ کسی اور بڑے عہدہ دار کا مکان ہے۔ ہم نے اُسے پھر سمجھایا اور کہا ہماری مراد اِس شخص سے نہیں تھی۔ پھر یاد آیا کہ پریمیر کا لفظ اطالوی زبان کا ہے شاید مسولینی کو پریمیر بھی کہتے ہوں۔ ہم نے ڈرائیور سے کہا ہمیں پریمیر کے پاس لے چلو۔ اُس نے کہا آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ وہ ہمیں ایک اور محل پر لے گیا وہاں جا کر ہمیں معلوم ہوا کہ یہ بادشاہ کی رہائش گاہ ہے۔ اُس نے پریمیر کے معنی سب سے بڑا سمجھا اور ہمیں بادشاہ کے مکان پر لے گیا۔ ہم نے پھر مختلف نام لے کر اُسے مسولینی کے ہاں جانے کو کہا۔ بڑی مشکل کے بعد اُس نے کہا اچھا آپ نے اَل دولے کے پاس جانا ہے۔ ہم نے کہا کچھ ہو وہاں پہنچو تو سہی۔ ہم جب وہاں پہنچے تو مسولینی کا پرائیویٹ سیکرٹری دروازہ پر کھڑا تھا۔ اُس کا رنگ زرد ہو رہا تھا مسولینی نے ہمیں ملاقات کے لئے گیارہ بجے سے بارہ بجے تک ایک گھنٹہ وقت دیا تھا۔ ہم آدھ گھنٹہ لیٹ پہنچے اُس کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ سخت گھبرایا ہوا تھا اور ڈر کے مارے مسولینی کے کمرے میں نہیں جاتا تھا۔ اُس نے کہا آپ نے کیا کیا میں تو اب مارا جاؤں گا۔ ہم نے کہا اِس میں تمہارا کیا قصور ہے ہم ہی لیٹ ہوگئے ہیں۔ بہرحال ہم مسولینی کے کمرے میں چلے گئے۔ وہ آدھ گھنٹہ سے کام چھوڑ کر ہمارے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہم نے اُسے بتایا کہ ہمارے ساتھ یہ واقعہ ہواہے چونکہ ہم باہر کے آدمی تھے اِس لئے اُس نے دیر کو برداشت کر لیا ورنہ اُس کا سیکرٹری یہ سمجھتا تھا کہ میں ڈِس مِس ہو جاؤں گا۔ سو تمہیں بھی پابندیٔ وقت کی عادت ڈالنی چاہیے اور اجلاس کے لئے ایسا وقت مقرر کرنا چاہیے جس کی پابندی ہو سکے۔
اِس کے بعد میں تمہیں اِس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انسانی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک غذائی پہلو ہوتا ہے جس میں انسان غذا سے طاقت حاصل کرتا ہے اور دوسرا پہلو اُس کی فعالی حیثیت ہوتی ہے جس میں وہ حاصل کی ہوئی طاقت کو استعمال کرتا ہے۔ مثلاً بجلی کوئلہ کے ساتھ پیدا کی جاتی ہے، مشین کوئلہ کھاتی ہے اور اُس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ہم بٹن دباتے ہیں اور بجلی سے کام لیتے ہیں اور جہاں بجلی نہیں ہوتی وہاں غذائی اور فعالی دونوں پہلو تیار کئے جاتے ہیں۔ مثلاً لالٹین ہوتی ہے اِس میں ہم تیل ڈالتے ہیں یہ اِس کا غذائی پہلو ہے۔ پھر ہم بتی کو دِیا سلائی لگا کر روشن کرکے اس سے کام لیتے ہیں یہ اس کا فعالی پہلو ہوتا ہے۔ یہی حالت انسانی جسم کی ہے کوئی انسان خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو ایسا نہیں گزرا جو کھاتا پیتا نہ ہو۔ تم میں سے ہر بوڑھا، جوان، بچہ، عورت اور مرد غذا کھاتا ہے خواہ وہ غذا اچھی ہو یا بُری، چاول ہو یا گندم، گوشت ہو یا ترکاری، وہ غذا کھاتا ضرور ہے۔ اگر وہ غذا نہ کھائے تو اُس کا جسم مر جائے گا اور طاقت قائم نہیں رہے گی۔ غذا کھانے کے بعد وہ کام کرتا ہے۔ کوئی تاجر ہوتا ہے وہ تجارت کرتا ہے، کوئی مزدور ہوتا ہے وہ مزدوری کرتا ہے، کوئی سرکاری ملازم ہوتا ہے وہ ملازمت کرتا ہے غرض نوکری، زراعت اور تجارت سب کاموں کی بنیاد روٹی پر ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص کھانا نہ کھائے تو اُس کا جسم بے کار ہو جائے گا اور وہ کوئی کام نہیں کر سکے گا۔ انگریزی زبان کا مقولہ ہے کہ فوج پیٹ پر لڑتی ہے اگر پیٹ ہی بھرا ہوا نہ ہوگا تو کوئی سپاہی لڑے گا کیا؟ غرض پہلے انسان غذا کھاتا ہے اور پھر اُس سے جو طاقت حاصل ہوتی ہے اُس سے کام کرتا ہے یہی حالت دین کی ہے۔ دین میں بھی ایک حصہ غذائی ہوتا ہے اور ایک فعالی حصہ ہوتا ہے۔ جس طرح جسم کی طاقت کے قیام کے لئے روٹی، چاول، سبزی اور ترکاری وغیرہ اشیاء مقرر ہیں اور جس طرح ہم دن میں چار پانچ دفعہ کھاتے پیتے ہیں، اِسی طرح روح کو زندہ رکھنے کے لئے بھی خداتعالیٰ کی طرف سے کچھ چیزیں مقرر ہیں۔ مثلاً نماز ہے، روزہ ہے، زکوٰۃ ہے، صدقہ و خیرات ہے، ذکرِالٰہی ہے یہ سب روح کی غذائیں ہیں۔ جس طرح روٹی کے بغیر جسم زندہ نہیں رہ سکتااِسی طرح ان چیزوں کے بغیر روح بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ تم یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں آدمی نے ۶۰ دن تک کھانا نہیں کھایا اور پھر وہ زندہ رہا۔ اگر کوئی شخص تمہارے سامنے یہ بات بیان کرے کہ فلاں شخص چھ ماہ سے کمرے میں بند کیا ہوا ہے اُسے روٹی اور پانی نہیں دیا گیا وہ سخت گھبرایا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ اُسے باہر نکالا جائے تو تم کہو گی جو شخص چھ ماہ سے بغیر کھائے پیئے اندر بند ہے وہ کیا زندہ رہ بھی سکتا ہے۔ لیکن تم بڑے اطمینان سے یہ بات کہہ دیتی ہو کہ فلاں شخص دس سال تک نماز کے قریب بھی نہیں گیا اور اُس کی رُوح زندہ ہے، فلاں شخص دس سال سے روزے نہیں رکھتا اور اُس کی رُوح زندہ ہے، فلاں شخص دس سال سے زکوٰۃ نہیں دیتا اور اُس کی روح زندہ ہے، فلاں شخص پر حج فرض ہے وہ حج نہیں کرتا اور اُس کی رُوح زندہ ہے۔ فلاں شخص ذکرِ الٰہی نہیں کرتا اور اُس کی روح زندہ ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جسم کی غذا کے متعلق تو تم یہ خیال کرتی ہو کہ غذا کے بغیر انسان چوتھے پانچویں دن مَر جاتا ہے لیکن روحانی غذا کے متعلق تم یہ خیال کرتی ہو کہ روح دس سال کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ جس طرح غذا نہ ملنے کی وجہ سے جسم مر جاتا ہے اُسی طرح روحانی غذا نہ ملنے کی وجہ سے روح بھی مر جاتی ہے۔ انسان کھاتا پیتا ضرور ہے لیکن یاد رکھو اِس کا اصل مقصود کھانا پینا نہیں۔ ظاہری طور پر جو چیز تمہیں نظر آ رہی ہے وہ تو بشر ہے جیسے گھوڑے، گائے اور بکری وغیرہ کھاتے پیتے ہیں اور وہ انسان نہیں کہلاتے اِسی طرح صرف کھانے پینے کی وجہ سے انسان انسان نہیں کہلاتا۔ انسان اُسی کو کہتے ہیں جس میں خداتعالیٰ سے ملنے کی قابلیت پائی جاتی ہو۔
انسان اُنس سے ہے اور اُنس کے معنی محبت کے ہیں۔ عربی کا یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی اسم کے آگے الف اور نون لگا دیا جائے تو اُس کے معنی دو کے ہو جاتے ہیں۔ مثلاً مُؤْمِنٌ اسلام لانے والا ایک مرد ہے۔ اور مُؤْمَنِانِ ایمان لانے والے دو مرد ہیں۔ مُسْلِمٌ اسلام لانے والا ایک مرد ہے۔ مُسْلِمَانِ اسلام لانے والے دو مرد ہیں۔ اِسی طرح لفظ اُنْس کے معنی ہیں محبت۔ اور جب اس کے آگے الف اور نون لگا دیا جائے تو اِس کے معنی ہو جائیں گے دو محبتیں۔ چنانچہ انسان کو انسان اِسی لئے کہتے ہیں کہ اِس کے اندر دو محبتوں کا مادہ پیدا کیا گیا ہے۔ ایک تو بنی نوع انسان کی محبت ہے اور دوسرے خداتعالیٰ کی محبت۔ بنی نوع انسان کی محبت میں بیوی کی محبت بھی شامل ہوتی ہے، بچوں کی محبت بھی شامل ہے، ماں، باپ، رشتہ داروں اور دوستوں کی محبت بھی شامل ہوتی ہے، اپنے مُلک والوں کی محبت بھی شامل ہوتی ہے۔ دوسری محبت خداتعالیٰ کی ذات سے ہوتی ہے۔ جب کسی بشر میں یہ دونوں محبتیں کامل طور پر پائی جاتی ہوں تو اُسے انسان کہتے ہیں۔ غرض ایک طرف انسان، بنی نوع انسان یعنی قوم، مُلک اور خاندان کی خدمت کرتا ہے تو دوسری طرف وہ عشق الٰہی میں مبتلا ہوتا ہے، کسی بشر کو چلتا پھرتا یا سانس لیتا ہوا دیکھ کر اُسے انسان نہیں کہتے۔ وہ صرف بشر ہے یعنی زمین پر چلنے پھرنے والا ایک جانور۔ وہ انسان نہیں کیونکہ اس میں خداتعالیٰ کی محبت نہیں پائی جاتی۔ ایک محبت والے کو انسان نہیں کہتے۔ ایک طرف سے محبت کرنے والا تو جانور بھی ہوتا ہے۔ گائے، بھیڑیں اور گھوڑے بھی بچے سے محبت کرتے ہیں حتیّٰ کہ چیونٹی اور مکھیاں بھی اپنے بچوں سے محبت کرتی ہیں۔ پھر محض بیوی اور خاوند کی آپس میں محبت ہونے کی وجہ سے انسان انسان کس طرح کہلا سکتا ہے۔ یہ لفظ تو صرف اُس جانور کے لئے بولا جاتا ہے جس میں دو محبتیں پائی جاتی ہوں۔ ایک طرف اس میں خداتعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہو اور دوسری طرف بنی نوع انسان کی محبت پائی جاتی ہو۔خدا تعالیٰ کی محبت جسم سے نہیں ہوتی۔ خداتعالیٰ روحانی ہے جسمانی نہیں۔ تم اپنے بھائی اوربچے کو تو گود میں لے کر پیار کر سکتی ہو لیکن خداتعالیٰ کو جسم سے پیار نہیں کر سکتیں۔ خداتعالیٰ ایک وراء الوراء ہستی ہے جس کو نہ تم مادی آنکھوں سے دیکھ سکتی ہو نہ مادی کانوں سے، تم اُس کی آواز سُن سکتی ہو نہ تمہارے مادی ہاتھ اُسے چھو سکتے ہیں۔ وہ اعلیٰ درجہ کی اور وراء الوراء ہستی ہے۔ اُس سے محبت کی جا سکتی ہے تو دل اور روح سے۔ اور جس کی روح مردہ ہے وہ خداتعالیٰ سے محبت کیا کرے گی۔ جس روح نے کھانا نہیں کھایا وہ زندہ کس طرح ہو سکتی ہے۔ اور اگر وہ زندہ نہیں تو مردہ روح محبت نہیں کر سکتی۔ مردہ ماں کے سامنے خواہ تم اُس کے بچے کو ذبح کر دو وہ اس کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکے گی۔ ایک بکری اپنے بچے کی حفاظت کی خاطر کوشش کرے گی، ایک مرغی اپنے بچے کی خاطر کوشش کرے گی لیکن مردہ عورت اپنے بچے کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتی اِس لئے کہ وہ مر چکی ہے اور وہ اپنے بچہ کی تکلیف کو محسوس نہیں کر سکتی۔ اِسی طرح اگر کسی کی روح مر جائے تو اِس کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ محبت کر سکتا ہے سراسر بیوقوفی ہے۔ خداتعالیٰ سے محبت وہی کر سکتا ہے جس کی روح زندہ ہو اور روح تبھی زندہ رہ سکتی ہے جب اُسے غذا ملے۔ اور اُس کی غذا روٹی نہیں روح کھانا نہیں کھاتی، پانی نہیں پیتی، اُس کی غذا نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور ذکرِ الٰہی وغیرہ ہے۔ یہ چیزیں انسانیت کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔
جب میں کہتا ہوں کہ نماز کی پابندی کی جائے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تم پانچ نمازوں میں سے چار پڑھو یا ہفتہ کی ۳۵ نمازوں میں سے ۳۴ نمازیں پڑھو یا سال بھر کی ۱۸۰۰ نمازوں میں سے ۱۷۹۹ نمازیں پڑھو اِس کو پابندی نہیں کہتے۔ جب میں کہتا ہوں کہ نماز کی پابندی کی جائے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم سال کی ۱۸۰۰ نمازیں پوری کی پوری پڑھو۔ جسم فاقہ برداشت کر سکتا ہے لیکن رُوح فاقہ برداشت نہیں کر سکتی۔ تین دن کے فاقہ کے بعد بھی تمہارے جسم میں طاقت باقی رہ جائے گی۔ بعض لوگ دس دس بارہ بارہ دن فاقے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں لیکن روح ایک لطیف چیز ہے جو ایک فاقہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ اگر سال میں ایک نماز بھی چھوڑدی جائے تو روح مر جائے گی۔ اِس وجہ سے علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضاء نہیں۔ مثلاً ظہر کی نماز کا وقت آ جائے اور تم جان بوجھ کر نہ پڑھو، بیمار ہو، سو رہے ہو، یا کوئی اَور روک پیدا ہو جائے تو اَور بات ہے لیکن اگر نماز کا وقت ہو اور تم بِالارادہ نہ پڑھو تو وہ دوبارہ ساری عمر نہیں پڑھی جائے گی۔ غرض ایک چھوڑی ہوئی نماز بھی روحانیت کو ہلاک کر دیتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ہم اللہ کے فضل سے نماز پڑھتے ہیں ہاں کبھی کبھار کوئی نماز رہ جائے تو رہ جائے حالانکہ کبھی کبھار نماز کا رہ جانا بھی نماز نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی پابندی کی اتنی تاکید کی ہے کہ آپ جیسا رحیم و کریم انسان جو محبت میں چور رہتا تھا، کہتا ہے میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی جگہ کسی اَور کو امام مقرر کر دوں اور کچھ آدمیوں کے سروں پر لکڑیاں رکھ دوں اور پھر اُن سب لوگوں کے گھروں کو جو عشاء اور فجر کی نمازیں مسجد میں ادا نہیں کرتے مکینوں سمیت جلا دوں۔۲؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بے نمازوں کے متعلق نہیں کہی بلکہ ایسے پڑھنے والوں کے متعلق کہی ہے جو قاعدہ کے مطابق مسجدوں میں آکر نماز ادا نہیںکرتے۔ آپ نے ایسا کیا نہیں کیونکہ دین میں جبر جائز نہیں صرف نفرت کے اظہار کے لئے آپ نے ایسا کہا۔ ویسے آپ بادشاہ بھی تھے اور اگر ایسا کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے۔ اِس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ نے صرف اظہارِ نفرت فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کے گھروں کو جَلا دوں وہ ہمارے شہر میں رہنے کے قابل نہیں۔ بچہ اور بیمار کے لئے جائز ہے کہ وہ گھر میں نماز ادا کر لے لیکن دوسرے مردوں کے لئے جو بِلاعذر مسجد میں نماز ادا نہیں کرتے، بھاری گناہ ہے۔
اب تم دیکھ لو کہ ہمارے مُلک میں کتنے وہ لوگ ہیں جو مسجدوں میں آ کر نماز ادا کرتے ہیں، ایک فیصدی بھی نہیں۔ عورتوں کے لئے مسجد میں آ کر نماز ادا کرنا ضروری نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر ممکن ہو اور عورتیں مسجد میں آ کر نماز ادا کر لیں تو اچھا ہے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کے لئے مسجد میں نماز ادا کرنا فرض نہیں۔ ہاں اگر وہ پڑھ لیں تو منع نہیں۔ بہرحال عورتوں کے لئے مسجد میں نماز ادا کرنا فرض نہیں بعض کے نزدیک جائز ہے۔ بعض کے نزدیک اگر ممکن ہو اور مسجد میں جا کر نماز ادا کرلیں تو عام ثواب سے اُنہیں زیادہ ثواب ملے گا۔ لیکن مردوں کے متعلق یہ فتویٰ ہے کہ اگر وہ مسجد میں جا کر نماز ادا نہ کریں تو اُنہیں عذاب ملے گا۔ اگر مسجد میں جاکر وہ نماز پڑھیں گے تو اُن کی اصلی نماز سمجھی جائے گی لیکن موجودہ حالات میں عورتیں تو مسجد میں جا کر نماز کیا پڑھیں گی مرد بھی اتفاقی حادثہ کے طور پر مسجد میں جاتے ہیں۔ آجکل یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ مسجد میں نماز ادا کرنا تنخواہ دار امام یا مؤذّن کا کام ہے یا وہ مسافر جو غریب ہو اور وہ مسجد میں آ کر ٹھہر جائے، وہ نماز پڑھ لے۔ یا وہ شخص جس نے ووٹ لینے ہوں وہ نماز مسجد میں پڑھ لے اَور لوگ نماز پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے۔
میں جب مصر گیا تو وہاں قاہرہ کی جامع مسجد دیکھنے گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بہت بڑی مسجد ہے اُس میں پچاس ہزار کے قریب آدمی آ سکتے ہیں۔ اِتنی بڑی مسجد میں ایک امام پانچ چھ آدمیوںکو ساتھ لے کر ایک کونہ میں کھڑا نماز ادا کر رہا ہے۔ وہ محراب میں نہیں کھڑا تھا۔ مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی میں نے اُس مولوی سے پوچھا کہ جب محراب ہے تو تم ایک کونہ میں کھڑے ہو کر نماز کیوں ادا کر رہے ہو؟ اُس نے کہا قاہرہ کی دس لاکھ کی آبادی ہے (اب ۲۵،۳۰ لاکھ کے قریب آبادی ہے) دس لاکھ میں سے اگر معذوروں کو نکال دیا جائے تب بھی دواڑھائی لاکھ آدمی ایسا ہوگا جو مسجد میں آ کر نماز ادا کر سکتا ہے اور اگر شہر کے دُور دراز حصوں کو نکال دیا جائے تب بھی ۴۰،۴۵ ہزار آدمی مسجد میں آ کر نماز ادا کر سکتے ہیں۔ میں کونہ میں اِس لئے نماز ادا کر رہا ہوں تا غیر مذہب کا اگر کوئی آدمی آ جائے اور مجھے محراب میں کھڑا نماز پڑھتے دیکھے تو وہ یہ خیال نہ کرے کہ یہ شہر کی جماعت ہے اور شہر میں صرف چار پانچ آدمی ہیں جو مسجد میں آ کر نماز ادا کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ میں کونہ میں کھڑا اِس لئے نماز پڑھ رہا ہوں تا وہ سمجھے کہ اصل نماز تو ہوگئی ہے یہ لیٹ آنے والے لوگ ہیں۔ غرض آجکل ایک فیصدی بھی ایسے مسلمان نہیں پائے جاتے جو مسجد میں جا کر نماز پڑھنا ضروری خیال کرتے ہوں۔ سرکاری دفاتر میں ان کی طرف سے بھی نماز باجماعت کا کوئی انتظام نہیں۔ سرکاری اداروں کی طرف سے یہ شائع کیا جاتا ہے کہ عید کی نماز میں بڑے بڑے افسر شامل ہوئے لیکن کیا عید اور جمعہ کی نمازیں کسی اَور خدا نے بنائی ہیں؟ اور روزانہ پانچ نمازیں کسی اور خدا نے بنائی ہیں؟ جس خدا نے عید اور جمعہ کی نمازیں مقرر کی ہیں اُس خدا نے روزانہ پانچ نمازیں بھی مقرر کی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ عید اور جمعہ کا حکم تو مان لیتے ہیں اور روزانہ پانچ نمازوں والا حکم نہیں مانتے۔ عید اور جمعہ کی نمازوں میں لوگ چونکہ کثرت سے آتے ہیں اِس لئے بڑے بڑے لوگ شہرت کی خاطر وہاں چلے جاتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو نماز باجماعت ادا کرتے ہیں مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ عام لوگ صرف اپنے اعمال پر پردہ ڈالنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ یہ خرابی مسلمانوں میں مردوں میں بِالعموم اور عورتوں میں بِالخصوص پائی جاتی ہے۔ عورتیں کہتی ہیں کیا کریں، بچے ہیں، گھر کا کام ہے اِس لئے نماز نہیں پڑھ سکتیں۔ بھلا ایسا بھی کوئی گھر ہے جو بچوں سے خالی ہو؟ یا ایسی عورت ہے جس کو گھر کا کام نہ ہو؟ مرد باہر کا کام کرتا ہے اور عورت گھر کا کام کرتی ہے یہ کوئی ایسا بات نہیں جو نماز میں روک پیدا کر سکے۔
پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ نماز روحانی غذا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم نمازیں پڑھو، یہ حکم قرآن کریم میں پہلے سے موجود ہے، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ روزے رکھو یہ حکم قرآنِ کریم میں پہلے سے موجود ہے، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ زکوٰۃ دو، حج کرو یہ احکام تمہیں پہلے سے معلوم ہیں۔ اگر تمہیں معلوم ہیں اور معلوم ہونے کے بعد تم اِن میں کوتاہی کرتی ہو تو اِس کا علاج میرے قبضہ میں نہیں۔ میں صرف ایک بات بتانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، ذکرِ الٰہی وغیرہ روحانی غذائیں ہیں۔ جس طرح تمہارا جسم غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اِسی طرح تمہاری روح بھی غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ تمہارا جسم بے شک زندہ رہے گا لیکن تمہاری رُوح کے اندر یہ قابلیت نہیں رہے گی کہ تم خدا تعالیٰ سے مل سکو۔ وہ فضل جو عام ہے مثلاً کھانا وغیرہ ملنا یہ ایک الگ چیز ہے۔ خداتعالیٰ کی محبت وہ ہوتی ہے کہ اس سے ایسا تعلق پیدا ہو جائے کہ کسی نہ کسی رنگ میں وہ اپنی مرضی ظاہر کرتا رہے اور یہ چیز اِن چیزوں کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ مردہ زندہ والا کام نہیں کر سکتا۔
پس ایک نصیحت میں تمہیں یہ کروں گا کہ تم روح کی غذائی حالت کو بہتر بناؤ۔ جس طرح تم چاہتی ہو کہ تمہارا جسم زندہ رہے، تم بیمار اور کمزور ہو جاتی ہو تو دوائیں کھاتی ہو، یخنی پیتی ہو، مقویات استعمال کرتی ہو یا اگر کسی کا جگر خراب ہو تو وہ سبزیوں کا استعمال زیادہ کرتی ہے اسی طرح اگر تمہاری روح کمزور ہے تو اُس کی تقویت کا انتظام کرو۔ اگر صرف نماز سے سرور نہیں ہوتا تو ذکرِ الٰہی کرو، اگر صرف زکوٰۃ سے سرور پیدا نہیں ہوتا تو صدقہ خیرات کرو، پیٹ بھرنے کا آخر یہی قاعدہ ہے کہ اگر دس لقموںسے پیٹ نہیں بھرتا تو پانچ لقمے اور کھاؤ۔ یہی روح کا حال ہے۔ اگر صدقہ سے روح میں تازگی پیدا نہیں ہوتی تو اَور صدقہ دو۔ اگر پانچ نمازوں سے روح میں تازگی پیدا نہیں ہوتی تو چھ نمازیں پڑھو۔ اور اگر پھر بھی تازگی پیدا نہیں ہوتی تو سات نمازیں پڑھو۔ نماز چھوڑ دینے سے روح تازہ نہیں ہوتی بلکہ نمازیں زیادہ پڑھنے سے روح میں تازگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ روح کا ایک غذائی پہلو ہے جس کی طرف میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں۔
انسانی زندگی کا دوسرا پہلو فعالی ہے۔ انسان جو غذا کھاتا ہے اس سے جسم میں طاقت پیدا ہوتی ہے اور وہ کام کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص کھانا کھانے کے بعد بستر پر لیٹ رہے اور کوئی کام نہ کرے تو دیکھنے والے یہی کہیں گے کہ اس میں اپنے جسم سے صحیح کام لینے کا مادّہ نہیں۔ اسی طرح یہ روحانی غذائیں ہیں اِن سے طاقت حاصل کر لینے کے بعد انسان کو اَور کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ جو شخص نماز پڑھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنا کام کر لیا یا روزے رکھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنا کام کر لیا یا صدقہ خیرات دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنا کام کر لیا۔ وہ ایسا ہی بیوقوف ہے جس طرح وہ شخص جو کہے میں نے روٹی کھالی، پانی پی لیا تو زندگی کا کام پورا کر لیا۔ کھانا پینا زندگی کے کام نہیں بلکہ اُسے کام کے قابل بنانے کے لئے غذائیں ہیں۔ اِسی طرح یہ روحانی کام بھی انسانی زندگی کا مقصود نہیں، نہ جسمانی زندگی کا مقصود کھانا پینا ہے اور نہ روحانی زندگی کا مقصود نماز روزہ وغیرہ ہے۔ یہ دونوں سہارے ہیں ایک جسم کے لئے اور ایک روح کے لئے۔ ایک سے جسم کام کے قابل بنتا ہے اور دوسرے سے روح کام کے قابل بنتی ہے۔ جسم میں جب طاقت پیدا ہوتی ہے تو انسان نوکری کرتا ہے، تجارت کرتا ہے اور دنیا کے دوسرے کام کرتا ہے۔ اِسی طرح جب انسان کو روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے وہ مختلف کام کرتا ہے۔ وہ کام کیاہیں؟ وہ کام دو قسم کے ہیں۔ ایک تو اس کا کام مخفی ہوتا ہے اور وہ خداتعالیٰ کی محبت میں ترقی کرنا ہوتا ہے۔ دوسرا کام انسانی دماغ کی اصلاح اور اُس کی فکر کی اصلاح اور اُس کے خیالات و جذبات کی اصلاح ہے۔ جس طرح روٹی کھانے کے نتیجہ میں انسان ہل چلاتا ہے، تجارت کرتا ہے، صنعت و حرفت کرتا ہے، مزدوری کرتا ہے۔ انسان کے جسم میں طاقت ہو تبھی وہ اچھا سپاہی ،اچھا وکیل اور اچھا مدرِّس بن سکتا ہے۔ اِسی طرح روحانی غداؤں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور ذکرِ الٰہی وغیرہ کے نتیجہ میں انسان کو روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے اور اس طاقت کے نتیجہ میں اُس کے اخلاق درست ہو جاتے ہیں۔ وہ ظلم سے دُور چلا جاتا ہے۔ اُس کے اندر دیانت و امانت، رحم اور عدل پیدا ہو جاتا ہے، اُس میں خدمت خلق کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے، محبت اور قربِ الٰہی کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ اِس کے بعد وہ خود بھی یہ کام کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کرواتا ہے۔ مثلاً جھوٹ نہیں بولتا اور کوشش کرتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی جھوٹ نہ بولیں، وہ دوسروں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ دوسروں کو بھی تلقین کرتاہے کہ وہ بھی دوسروں پر ظلم نہ کریں، اُس کے خیالات پاکیزہ ہو جاتے ہیں اور وہ دوسروں کے خیالات کو بھی پاکیزہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ غرض اُس کی روح رات دن مخلوق کی اصلاح میں لگی رہتی ہے خود نماز مقصود نہیں۔
قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۳؎ جس طرح روٹی مقصود نہیں، روٹی کھانے سے طاقت پیدا ہوتی ہے اور پھر انسان دنیا کے کام کرتا ہے اِسی طرح نماز اصل مقصود نہیں بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ جو شخص نماز پڑھتا ہے اُس کی روح کو طاقت ملتی ہے اور بُرائیوں کے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے۔ اُس کے اندر دیانت و امانت، عدل و انصاف، رحم غرض جتنے اخلاقِ فاضلہ ہیں وہ سب پائے جاتے ہیں اور اس کے اندر یہ طاقت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کے اندر بھی یہ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ یہی حال روزوں کا ہے۔ روزوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۴؎ روزوں کی یہ غرض ہے تا روح کو طاقت پہنچے اور وہ تقویٰ کے قابل ہو جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ وہ شخص روزہ دار نہیں جو بھوکا اور پیاسا رہتا ہے۔ روزہ دار وہ ہے جس کی زبان قابو میں رہے۔ ۵؎ غرض روزے کا مقصود بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ اُسے کسی وقت اپنے بھائیوں اور بنی نوع انسان کی خاطر اپنی مملوکہ اور حلال چیزیں بھی چھوڑنی پڑیں تو وہ چھوڑ دے۔ روزے میں ہمارا اپنا کھانا جو حلال ذرائع سے کمایا ہوا ہوتا ہے اور شریعت کے لحاظ سے حرام نہیں ہوتا ہمارے پاس موجود ہوتا ہے، ہمارا اپنا پانی ہمارے پاس موجود ہوتا ہے لیکن ہم وہ کھانا بھی نہیں کھاتے، وہ پانی بھی نہیں پیتے۔ اِس میں مسلمانوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ جب تم بنی نوع انسان کی خاطر، اپنے بھائیوں کی خاطر خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنی حلال چیز بھی اپنے اُوپر حرام کر لیتے ہو تو دوسرے کا مال تم پر کس طرح حلال ہو سکتا ہے۔ غرض روزہ میں خداتعالیٰ انسان کو حلال کھانے اور حلال کمانے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
اسی طرح حج ہے لوگ اپنا کاروبار چھوڑ کر حج کے لئے جاتے ہیں اور ایک جگہ جا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اِس سے خداتعالیٰ انسان کو یہ سبق دیتاہے کہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے، اپنے وطن کے لئے اور رشتہ داروں کی خاطر تمہیں اپنا کام چھوڑ کر بھی جانا پڑے تو جاؤ۔ جو شخص سچے دل سے حج کرنے جاتا ہے اُسے یہ توفیق مل جاتی ہے کہ وہ بنی نوع انسان اور اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی خاطر کام کرے اور ایسا کرنے کے لئے اگر اُسے وطن اور کاروبار بھی چھوڑنا پڑے تو وہ چھوڑ دیتا ہے۔
غرض نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور ذکرِ الٰہی وغیرہ روحانی غذائیں ہیں۔ ان کے بعد انسان کو کچھ کام بھی کرنا ہوتا ہے لیکن بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اِس میں غفلت سے کام لیتے ہیں۔ وہ نماز پڑھ کر مغرور ہو جاتے ہیں اور بجائے اِس کے کہ اُنہیں کوئی روحانی طاقت حاصل ہو وہ نماز پڑھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ گویا اُنہوں نے خداتعالیٰ پر احسان کیا ہے۔ نماز تو اِس لئے سکھائی گئی ہے تا نیکی کی طاقت بڑھے۔ اگر کوئی شخص نمازپڑھتا ہے اور پھر اُس کی نیکی کی طاقت نہیں بڑھتی تو وہ سمجھ لے کہ اس نے صحیح طور پر نماز نہیں پڑھی۔ جس طرح تم کھانا کھاتی ہو کھانے سے اگر تمہیں جسمانی طاقت حاصل نہیں ہوتی تو تم ڈاکٹر کے پاس جاتی ہو اور علاج کرواتی ہو۔ اِسی طرح اگر نماز تمہارے اندر ایسی روحانی طاقت پیدا نہیں کرتی کہ تمہارے اندر بُرائیوں سے نفرت کا مادہ پیدا ہو جائے تو سمجھ لو تمہاری وہ نماز صحیح نماز نہیں۔ تمہارے اندر کوئی روحانی بیماری داخل ہوچکی ہے جس کا علاج ضروری ہے۔ جیسے بعض لوگ آٹے میں بُرادہ ملا دیتے ہیں بظاہر تو لوگ ایسے آٹے سے روٹی تیار کر کے کھاتے ہیں لیکن وہ انتڑیوں میں جا کر تکلیف پیدا کرتا ہے اور غذا سے جو طاقت پیدا ہوتی ہے وہ حاصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہے اور بظاہر اُسے کوئی روحانی طاقت حاصل نہیں ہوتی تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ نماز خراب ہے۔ جس کی صحت خراب ہو جاتی ہے اُسے طاقتور غذائیں استعمال کروائی جاتی ہیں، علاج کروایا جاتا ہے اسی طرح اگر روحانی صحت خراب ہو جائے تو نماز، روزہ، زکوٰۃ اور ذکرِالٰہی وغیرہ میں کثرت سے اس کا علاج کرنا چاہیے۔ یہ چیزیں خود مقصو دنہیں ہاں بطور غذا کے ہیں۔ تم اپنی نمازوں کو ٹٹولتی رہا کرو اور دیکھتی رہا کرو کہ آیا وہ کوئی زائد فائدہ تمہیں پہنچاتی ہیں یا نہیں۔
ہمارے مُلک میں ایک مثل مشہور ہے وہ ہے تو ہنسی والی لیکن جو سبق اس میں بیان کیا گیا ہے وہ بہت بڑا ہے۔ کہتے ہیں کوئی مولوی تھا اُس نے کسی گاؤں میں جا کر وعظ کرنا شروع کیا لیکن اُس کا وعظ سننے کوئی نہ آتا تھا۔ کبھی کبھار پانچ سات آدمی اکٹھے ہو جاتے تھے۔ ایک میراثی کو خیال آیا کہ اِس مولوی سے پوچھیں تو سہی کہ اِس وعظ و نصیحت سے کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ وہ مولوی کے پاس گیا اور اُس سے پوچھا مولوی صاحب! نماز روزے سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ اُس کا مطلب یہ تھا کہ انسان دنیا میں مزدوری کرتا ہے، مشقت برداشت کرتا ہے انسانی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کے بدلہ میں اُسے کچھ ملے اور جب یہ بات ہے تو نماز کے بدلہ میں مجھے کچھ ملنا چاہیے۔ مولوی نے اس میراثی کو ٹالنے کے لئے کہا کہ نماز پڑھنے سے نور ملتا ہے۔ میراثی مطمئن ہو گیا اور اُس نے خیال کر لیا اچھا کچھ تو ملے گا۔ وہ گھر گیا اور بیوی سے کہنے لگا میں نماز پڑھوں گا اور اِس کے بدلے میں مجھے نور ملے گا۔ اس میراثی نے ظہر کی نماز پڑھی، عصر کی نماز پڑھی، مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں ہر نماز کے بعد وہ جسم کو دیکھتا تھا کہ نور کیا چیز ہے؟ سردیوں کاموسم تھا صبح کی نماز کے لئے جو اُٹھا تو اُسے سردی لگی۔ مولوی نے اُسے یہ بھی بتایا تھا کہ اگر پانی نہ ملے یا کوئی بیمار ہو تو وہ تیمم کرلے۔ اُسے سردی لگی تو اُس نے خیال کر لیا کہ چلو تیمم ہی کر لوں۔ اتفاقاً اُس کے پاس توا پڑا تھا۔ اندھیرے میں اُس نے توے پر ہاتھ مارکر تیمم کر لیا۔ جونہی اُس نے اپنے ہاتھ منہ پر پھیرے وہاں سیاہی لگ گئی۔ جب اُس نے پانچ نمازیں پڑھ لیں تو خیال کر لیا اب تو نور آ جانا چاہیے۔ اُس نے بیوی کو کہا دیکھو میرے منہ پر نور ہے یا نہیں؟ بیوی کو بھی نور کا علم نہیں تھا اُس نے کہا مجھے تو کوئی تغیر معلوم نہیں ہوتا ہاں سیاہی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔میراثی نے کہا اگر نور سیاہ ہوتا ہے تو پھر تو گھٹائیں باندھ کر آیا ہے دیکھو! میرے ہاتھ بھی سیاہ ہوگئے ہیں۔ یہ ایک لطیفہ ہے لیکن اِس سے پتہ لگتا ہے کہ انسانی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اُسے محنت کے بدلہ میں کچھ ملے۔ جس کام کے بدلہ میں کچھ نہ ملے وہ کام لغو سمجھا جاتا ہے۔
پس اگر کوئی شخص یہ تقاضا کرے کہ اُسے نماز کے بعد کیا ملا تو اُس کا یہ تقاضا صحیح ہوگا۔ اِسی چیز کی طرف خداتعالیٰ اِس آیت میں اشارہ کرتا ہے کہ نماز بے حیائیوں اور بُری باتوں سے روکتی ہے۔ اِسی طرح روزے کے متعلق فرمایا۔ تا تمہارے اندر تقویٰ کی طاقت پیدا ہو جائے۔ اِسی طرح زکوٰۃ سے بھی دل میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں سب اصول بیان کر دیئے گئے ہیں اور اصول ہی اصل چیز ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پانی پینے سے پیٹ بھر جاتا ہے لیکن بخار والے مریض کا پانی سے پیٹ نہیں بھرتا بلکہ وہ پانی مانگتا چلا جاتا ہے۔ اِسی طرح نماز کا خاص فائدہ یہ ہے کہ وہ ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے اور نیکی کی طاقت پیدا کرتی ہے۔ اگر ہمیں وہ طاقت حاصل نہیں ہوتی تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری روحانی صحت میں ضرور کوئی خرابی ہے۔ جس طرح بخار والا غذا قبول نہیں کرتا یا غذا کھانے سے اُسے اِسہال شروع ہو جاتے ہیں، قَے ہو جاتی ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اُس کے اندر بیماری پیدا ہوگئی ہے۔ ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور اُس بیماری کا علاج کرواتے ہیں اگر علاج نہ کروایا جائے تو مرض بڑھ جاتا ہے۔ اِسی طرح روحانی غذاؤں سے اگر روحانی طاقت حاصل نہیں ہوتی اور پھر تم اِس کا فکر نہیں کرتیں تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم روحانی طور پر مَر جاؤ گی اِس لئے کہ تمہارے اندر بیماری پیدا ہوگئی ہے۔ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن اِس کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے، روزہ رکھتے ہیں لیکن اس کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے، ہم اندھا دُھند چلے جاتے ہیں اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح جسم غذا جذب نہیں کرتا تو وہ مَر جاتا ہے اِسی طرح ہماری روح غذا جذب نہ کرنے کی وجہ سے مَر جاتی ہے۔ انسان کو اس کی نگرانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ روحانی غذائیں اُس کے تن لگتی ہیں کہ نہیں، اِن غذاؤں سے اُسے روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔ ان غذاؤں سے پیدا شدہ تغیرات کو نہ دیکھیں تو ہو سکتا ہے ہمارے اندر کوئی بیماری پیدا ہو جائے اور ہم وقت پر اِس کا علاج نہ کریں اور ہلاکت میں مبتلا ہو جائیں۔
تمہارے لئے میں پھر خلاصہ بیان کرتا ہوں کہ اوّل لجنہ اماء اللہ کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ وہ باقاعدگی سے نماز ادا کرے۔ دوم دینی مشاغل میں وہ یاد رکھے کہ جس طرح جسم کی غذا ہے اُسی طرح روح کی بھی غذا ہے جس طرح جسم کو غذا نہ ملے تو وہ مَر جاتا ہے اسی طرح روح بھی بغیر غذا کے مَر جاتی ہے۔ مگر نہ جسمانی غذا جسم کا مقصود ہے نہ روحانی غذا روح کا مقصود ہے۔ جسمانی غذا ہم اِس لئے استعمال کرتے ہیں تا خون پیدا ہو اور طاقت حاصل ہو اور اُس طاقت سے ہم دوسرے کام کریں۔ اِسی طرح روحانی غذاؤں کی بھی یہی غرض ہے کہ ہمیں روحانی طاقت ملے جس کے ذریعہ ہم دوسرے کام کر سکیں۔ اگر غذا ہی اصل مقصود ہوتی تو خداتعالیٰ یہ کیوں فرماتا۔ ۶؎ کہ *** ہے ایسے نمازیوں پر جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض نمازیوں کی نماز اُن کے لئے *** کا موجب بھی ہو سکتی ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دوسری عبادات پر خوش نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے ذریعہ جو طاقت پیدا ہوتی ہے اُس کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے۔
پھر میںنے بتایا کہ روحانی طاقتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اندر ایک جذبہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ دوسرے شخص کے اندر بھی وہی اخلاقِ فاضلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اُس کے اندر پائے جاتے ہیں۔ تم اپنے اندر تبلیغ کا مادّہ پیدا کرو۔ اگر تم ایسا نہیں کرتیں تو تمہارے لئے موت مقدر ہے۔ ہیضہ جب آتا ہے تو پہلے وہ تمہارے ہمسایہ پر حملہ کرتا ہے اور اگر تم احتیاط نہ کرو تو تم بھی اُس سے بچ نہیں سکتیں۔ طاعون ہے اس کا بھی یہی حال ہے۔ اِسی طرح اگر تم میں دین کی تبلیغ کی طرف توجہ نہیں اور تم اسے دُور کرنے کی کوشش نہیں کرتیں تو ہمسایہ کی بھی روحانی مرض تم کو ہی لگ جائے گی۔ پس نمازیں پڑھو اور پھر اِس پر غور کرتی رہا کرو کہ وہ کیا اثر پیدا کرتی ہیں۔ پھر وہی چیز دوسروں کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گی تو وہ روحانی مرض کی مبتلاء ایک نہ ایک دن تمہیں بھی اپنا شکار بنا لیں گی۔ تم اپنے اندر دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنے کی عادت پیدا کرو تا تم اُنہیں اپنا شکار بنا لو۔
بِالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ تمہیں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق بخشے اور تمہیں سچی مؤمنہ اور مسلمہ بنائے تا تم اپنے لئے، اپنے خاندان کے لئے، مُلک و قوم کے لئے اور سب سے بڑھ کر اسلام کے لئے مفید وجود بن سکو۔ (مصباح دسمبر ۱۹۵۰ء)
۱؎ مسولینی: MUSSOLNI BENITO (۱۸۸۳ء۔ ۱۹۴۵ء) اطالوی آمر۔ یہ ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ ابتدائی دنوں میں استاد اور صحافی کا کام کیا۔ سوشلسٹ کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اطالیہ کی جنگ میں مداخلت کی۔ وکالت کی پاداش میں ۱۹۱۴ء میں سوشلسٹ تحریک سے نکال دیا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں اپنی جماعت بنائی۔ اکتوبر ۱۹۲۲ء میں شاہِ اٹلی اور فوج نے اُسے وزیر اعظم کے عہدے پر نامزد کیا۔ ۱۹۲۵ء میں اس نے آمرانہ اختیارات سنبھال لیے۔ ۱۹۲۶ء میں تمام مخالف جماعتوں کو خلافِ قانون قرار دے دیا۔ ۱۹۳۵ء میں ایتھوپیا پر قبضہ کیا۔ ۱۹۳۹ء میں البانیہ پر قبضہ کیا۔ اس حکمت عملی کے باعث وہ نازیوں کے بڑا قریب ہو گیا۔ جون ۱۹۴۰ء میں جنگ عظیم دوم میں شامل ہوا۔ اتحادیوں نے سسلی پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجہ میں اس کی ساکھ ختم ہو گئی۔ جولائی ۱۹۴۳ء میں فسطائیوں کی گرینڈ کونسل نے اُسے استعفیٰ پر مجبور کیا پھر گرفتار کر لیا گیا۔ ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۳ء کو جرمن ہوائی جہاز اُسے رہا کرا کر جرمنی لے گئے۔ لیکن پھر اس نے شمالی اٹلی میں جمہوریہ فسطائیہ کے نام سے متوازی حکومت بنا لی۔ اپریل ۱۹۴۵ء میں اسے اپنی داشتہ کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ دونوں کو گولی مار دی گئی۔ اس کی لاش میلان لے جائی گئی جہاں اُسے سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۹۶۵ء مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۲؎ بخاری کتاب الاذان باب وجوب صلٰوۃ الجماعۃ
۳؎ العنکبوت: ۴۶ ۴؎ البقرۃ: ۱۸۴ء
۵؎ بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور (مفہوماً )
۶؎ الماعون: ۵،۶
اسلام اور موجودہ مغربی نظریے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اسلام اور موجودہ مغربی نظریے
(فرمودہ ۲۱؍ اگست ۱۹۴۹ء بمقام کوئٹہ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورہ مائدہ کے ساتویں رکوع کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی۔
۱؎
اس کے بعد فرمایا:۔
’’میرا مضمون آج اسلام اور موجودہ مغربی نظریے کے فرق پر ہے۔ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ میری غرض اِس عنوان سے یہ نہیں ہو سکتی کہ ایک طرف اسلام کے نظریے بیان کر دوں اور دوسری طرف مغربی نظریے بیان کروں بلکہ میری غرض یہ ہے کہ اسلام کے نظریوں کو مغربی نظریوں پر جو فوقیت حاصل ہے اُس کو بیان کر وں لیکن پیشتر اِس کے کہ میں اس کے متعلق کچھ کہوں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تمہید کے طور پر میں اِس امر کو واضح کروں کہ اسلام اپنی کسی فوقیت کا قائل بھی ہے یا نہیں تا یہ نہ ہو کہ ہماری مثال ’’مدعی سست اور گواہ چست‘‘ والی ہو جائے۔ یعنی قرآن تو یہ دعویٰ نہ کرتا ہو کہ اِس کے نظریے اِس زمانہ یا آئندہ زمانہ کے نظریوں پر فوقیت رکھتے ہیں اور میں فوقیت ثابت کرنے لگ جاؤں۔
اس غرض کیلئے ایک تو وہ آیات جو میں نے ابھی پڑھی ہیں اِس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام کو یہ فوقیت حاصل ہے مگر اِن کے علاوہ قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی نہایت واضح اور اہم ہے اور وہ آیت یہ ہے کہ ۲؎ اوپر کی آیات سورہ مائدہ کے ساتویں رکوع کی ہیں اور یہ آیت سورہ مائدہ کے پہلے رکوع کی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا ہے اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو بطور دین کے پسند کیا ہے۔ یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی تھی جس کے ۸۰ دن کے بعد آپ وفات پاگئے۔ بعض صحابہؓ اور بہت سے مفسرین اِس بات کے مدعی ہیں کہ یہ آیت قرآن کریم کی آخری آیت ہے یعنی اس کے بعد کوئی اور کلامِ الٰہی نازل نہیں ہوا لیکن بعض نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ بہرحال اگر یہ آخری آیت نہیں تو چند نہایت ہی آخری آیتوں میں سے ایک آیت ہے اور بتاتی ہے کہ:۔
اوّل: شریعت اسلامی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکمل کر دی گئی ہے اب کوئی ایسا حکم نازل نہیں ہو سکتا جو ان حکموں کو بدل دے۔ اِس سے ہمیں یہ اصول معلوم ہوا کہ اسلام میں جس قانون کو پیش کیا گیا ہے خواہ اسے غیر مذاہب والے مانیں یا نہ مانیں ایک مسلمان کو بہرحال یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے پوری طرح مکمل کر دیا گیا ہے اور دنیا کو جتنے قوانین کی ضرورت تھی وہ سب اِس میں آ گئے ہیں۔ ایسے قانون تو بے شک بن سکتے ہیں جو وقتی اور مقامی طور پر ضروری ہوں یا جو عارضی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہوں لیکن جہاں تک وہ امور ہیں جن میں مذہب کو اِس بات کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہدایت کرے ان تمام امور کو قرآن کریم میں بیان کر دیا گیا ہے کسی کوبِالتفصیل اور کسی کو بِالاجمال۔
دوم: فرماتا ہے دین کو کامل کرنے کے نتیجہ میں میں نے اپنا انعام تم پر مکمل کر دیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے سارے احکام کوئی نہ کوئی خوبی اور حکمت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس کے احکام صرف حکم کے طور پر نہیں بلکہ ان میں انسانی فائدہ اور اس کی ترقی کو ملحوظ رکھا گیا ہے اگر یہ معنی نہ لئے جائیں تو اکمالِ دین کا نتیجہ اتمامِ نعمت نہیں ہو سکتا۔ یہ نتیجہ تبھی پیدا ہو سکتا ہے جب دین کے تمام احکام ہمارے لئے نعمت ہوں تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہمارا دین مکمل ہے اور چونکہ اِس کا ہر حکم ہمارے فائدہ کے لئے ہے اِس لئے دین کے مکمل ہونے کے ساتھ انعام بھی مکمل ہو گیا ہے۔ یہ اسلامی شریعت کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو اِسے تمام شریعتوں سے ممتاز کرتی ہے۔ باقی شریعتوں کے احکام کسی حکمت اور فلسفہ کے ماتحت نہیں مگر اسلام کسی بات کا حکم نہیں دیتا اور کسی بات سے بنی نوع انسان کو نہیں روکتا لیکن اُسی صورت میں جب اُس پر عمل یا اُس سے اجتناب لوگوں کے لئے مفید ہو۔
(اِس ضمن میں حضور نے نماز کی حقیقت کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا اور بتایا کہ) جو شخص سچے دل سے نمازپڑھتا ہے وہ ۳؎ کے مطابق ہر قسم کی بُرائیوں سے بچ جاتا ہے۔
اسی طرح روزہ ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ساتھ ہی فرمایا ہے کہ۴؎ روزے اس لئے رکھے گئے ہیں تا تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ غرض میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی کوئی ضرورت ایسی نہیں جس کو پورا کرنے کا سامان انہیں باہر سے لانا پڑے سارے احکام قرآن کریم میں بیان کر دیئے گئے ہیں اور وہ سارے احکام ایسے ہیں جو بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے ہیں۔ پس کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کو کوئی ضرورت ہو اور اُس کو پورا کرنے کا سامان اُنہیں باہر سے لانا پڑے۔ اور کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ مسلمان قرآنی احکام پر عمل کریں۔ تو اُنہیں نقصان ہو۔ عمل کے نتیجہ میں ہمیشہ نعمت ہی نعمت انہیں میسر آئے گی۔
(اِس کے بعد حضور نے سورہ مائدہ کی اِن آیات کی تفسیر فرمائی جو اوپر درج کی گئی ہیں اور بتایا کہ)
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے نہایت واضح رنگ میں موجودہ زمانہ کے مقنّنوں اور فلسفیوںکے پیچھے چلنے سے روکا ہے اور بتایا ہے کہ تمہاری تمام ترقی اسلام اور قرآن پر عمل کرنے میں ہے نہ کہ قانون اور فلسفہ اور اقتصاد اور سائنس اور صنعت و حرفت کے ماہرین کے پیچھے چلنے میں۔
(سلسلہ تقریر کو جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایاکہ:۔)
اس زمانہ میں مغربی اقوام کے مختلف نظریات اسلام سے ٹکراتے ہیں جن میں سے بعض مذہبی ہیں اور بعض سیاسی اور اقتصادی۔ لیکن کوئی ایک نظریہ بھی ایسا نہیں جس میں مغرب کو شکست فاش نہ ہوئی ہو۔ مذہبی نظریوں میں سے سب سے بڑا توحید کا نظریہ ہے۔ عیسائیت نے جب ترقی کی تو حضرت عیسیـٰ علیہ السلام کو اُنہوں نے خدا اور خدا کا بیٹا کہنا شروع کر دیا بلکہ نادان مسلمانوں نے بھی بعض خدائی صفات حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کرنی شروع کر دیں اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ انہیں کچھ علم غیب حاصل تھا۔ وہ بھی بعض جانور زندہ کر لیا کرتے تھے، وہ بھی مُردے زندہ کر لیتے تھے اور اس طرح وہ عیسائیت کی تقویت کا موجب ہوگئے مگر اسلام سے ٹکر کھانے کے بعد مغرب اپنے اِس نظریہ پر قائم نہ رہ سکا اور وہی یورپ جو اسلام کی پیش کردہ توحید پر حملہ کیا کرتا تھا آج اپنے منہ سے تثلیث کا انکار اور توحید کا اقرار کر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قومی لحاظ سے یورپ کیا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی وہ تین خداؤں کا قائل ہے؟ آج اگر عیسائیوں سے پوچھا جائے تو وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہماری مراد صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح خدا کے مقرب تھے ورنہ خدا ایک ہی ہے۔ غرض یورپ عقیدۂ توحید میں اسلام سے ٹکرایا مگر اس ٹکراؤ کے نتیجہ میں اسلام ہی غالب آیا۔
پھر طلاق کا مسئلہ لے لو۔ یورپین مصنفین نے اپنی کتب کے ہزاروں ہزار صفحات میں اِس مسئلہ پر ہنسی اُڑائی ہے۔ ان کے بڑے بڑے فلسفی اور مقنن یہ کہا کرتے تھے کہ اس تعلیم سے عورت اور مرد کے محبت کے حقوق کو تلف کر دیا گیا ہے مگر آج کیا حال ہے امریکہ طلاق کا قانون پاس کر چکا ہے، انگلستان میں بھی آہستہ آہستہ طلاق کو نرم کیا جا رہا ہے اور روس میں بھی بے حد آزادی ہے۔ امریکہ میں تو اِتنی معمولی معمولی باتوں پر طلاق واقع ہو جاتی ہے کہ حیرت آتی ہے۔ اسلام نے تو طلاق اور خلع کے ساتھ کئی قسم کی شرائط رکھ دی ہیں لیکن وہاں بعض دفعہ اتنی سی بات پر طلاق ہو جاتی ہے کہ مثلاً عورت کہتی ہے میں نے ایک ناول لکھا ہے مگر میرا خاوند کہتا ہے کہ یہ ناول بیہودہ ہے۔ مقدمہ عدالت میں جاتا ہے تو جج عورت کے حق میں فیصلہ دے کر اُسے طلاق دِلوا دیتا ہے۔ غرض اِس مسئلہ میں بھی مغرب نے اسلام سے ٹکرا کر شکست کھائی اور فتح اسلام ہی کو حاصل ہوئی۔
پھر حرمت شراب کا مسئلہ ہے اسلام نے نہایت واضح الفاظ میں شراب کو حرام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ گو اِس میں کچھ فوائد بھی ہیں مگر اِس کے نقصانات اس کے فوائد سے بڑھ کر ہیں۔۵؎ اس لئے ہم اس کا استعمال تمہارے لئے حرام قرار دیتے ہیں۔ یورپ نے اِس تعلیم پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ اسلام انسان کی علوحوصلگی اور بڑائی کو نہیں سمجھتا، اسلام فطرت کے نازک جوہروں کو نہیں سمجھتا۔ وہ ایشیائی لوگ تھے جو شراب پی کر بَدمست ہو جایا کرتے تھے اور ان کی عقل ٹھکانے نہیں رہتی تھی۔ ہمارے یورپ والے پیگ پیتے ہیں تو ان کی عقل پہلے سے بھی زیادہ تیز ہو جاتی ہے مگر پھر ٹھوکریں کھانے کے بعد امریکہ نے ہی قانون بنایا کہ شراب پینا ناجائز ہے۔ اگر پیگ عقل کو تیز کرتا ہے تو امریکہ نے شراب کو حرام کرنے کی کیوں کوشش کی؟ مگر پندرہ سال کے بعد امریکہ نے دوبارہ شراب پینا جائز قرار دے دیا اور اِس طرح ایک بار پھر اسلام کی صداقت واضح ہو گئی اور دنیا پر ثابت ہو گیا کہ قرآن نے جو کچھ کہا تھا اس کے پیچھے خدائی طاقت کام کر رہی تھی مگر یورپ کی آواز کے پیچھے کوئی خدائی طاقت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے شراب کو حرام قرار دیا تو وہ ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی لیکن امریکہ نے شراب کو حرام قرار دیا تو پندرہ سال کے بعد وہ پھر اس قانون کو منسوخ کرنے پر مجبور ہو گیا۔
پھر کثرتِ ازدواج کا مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جس کی حکمت اس زمانہ میں واضح ہو گئی ہے۔ اگر ہندوستان کے مسلمان تبلیغ پر زور دیتے تو آدھے ہندوستان کو وہ مسلمان بنا لیتے اور اگر تعددِ ازدواج سے کام لیتے تو باقی آدھا ہندوستان بھی مسلمان ہو جاتا اور آج سارے ہندوستان میں مسلمان ہی مسلمان ہوتے مگر بدقسمتی سے عیسائیوں اور یورپین اقوام کے ڈر کے مارے خود مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ تو عربوں کے زمانہ کی بات تھی چونکہ عربوں میں زیادہ شادیاں کرنے کا رواج تھا اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چار شادیاں کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کا خمیازہ آج مسلمان بھگت رہے ہیں۔ بہار میں جب فسادات ہوئے اور وہاں کے بعض دوست قادیان آئے تو میں نے اُنہیں ترقی کا یہی گُر بتایا تھا مگر ساتھ ہی کہہ دیا تھا کہ آپ لوگ اِس پرعمل نہیں کریں گے۔ اب بھی اگر مسلمان اِس پر عمل کریں تو پچاس سال میں ان کی کایا پلٹ جائے۔
پھر جوا ہے اسلام نے اس کی ممانعت کی مگر یورپ نے ہنسی اُڑائی اور کہا کہ جوئے سے روکنا ایک بے معنی بات ہے مگر آج کوئی مُلک دکھاؤ جس میں جوئے کے متعلق قانون نہ بن رہے ہوں۔ یوں کھلے طور پر وہ اسے چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ یکدم جوا چھوڑتے ہوئے انہیں شرم محسوس ہوتی ہے مگر قانون بنا رہے ہیں کہ فلاں طرز کا جوا منع ہے یا اس اس طرح کھیلنا منع ہے گویا بات وہی آ گئی جو اسلام نے پیش کی تھی مگر کھلے طور پر جوئے کو ناجائز قرار دینے میں وہ ابھی اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں۔
پھر قرآن کریم نے سزائے موت کو ضروری قرار دیا تھا مگر یورپ کے کئی مُلکوں نے سزائے موت کو منسوخ کر دیا اور کہا کہ یہ ظالمانہ سزا ہے مگر ۲۵،۳۰ سال کے بعد اب پھر سزائے موت کے قانون بنائے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے بغیر مُلک کا امن قائم نہیں رہ سکتا۔ غرض بیسیوں امور ہیں جن میں مغرب اسلام سے ٹکرایا مگر آخر مجبور ہو کر وہ اسلام کے راستہ پر ہی چلا اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آج سے تیرہ سَو سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کلام نازل ہوا تھا وہ اُسی خدا کی طرف سے تھا جس نے انسان کو پیدا کیا اور جو جانتا تھا کہ کون کون سی باتیں انسان کے لئے مفید ہیں اور کون کون سی مضر۔‘‘
(الفضل ۳۱؍ اگست ۱۹۴۹ء)
اب مسلم لیگ نے ایک قانون زمینداروں کے متعلق پیش کر دیا ہے کہ پچیس پچیس ایکڑ سے زیادہ کسی کے پاس زمین نہ رہنے دی جائے اور سب کو زمینداری کے لحاظ سے مساوات کی سطح پر رکھا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے زیادہ اعلیٰ دماغ اور عقل والا اور کون ہو سکتا ہے ہم تو یہ مساوات قائم کرنے کے لئے یورپ کے اعلیٰ سے اعلیٰ قانون کے پیچھے چل رہے ہیں حالانکہ اگر انسان سوچے تو یہ بھی ویسی ہی بیوقوفی کی بات ہے جیسے یورپ اَور ہزاروں امور میں بیوقوفی کا ارتکاب کر چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اِس طریق پر عمل کرنے سے انصاف قائم ہو جائے گا مگر اس کے متعلق پہلا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ انصاف صرف زمینداروں سے کرنا ضروری ہے غیر زمینداروں سے نہیں؟ کیا زمیندار خداتعالیٰ کی کوئی خاص مخلوق ہے اور تاجر اور صناع اور کارخانہ دار اور وزراء اُس کی مخلوق نہیں؟ ایک زمیندار کے لئے تو ضرورت ہے کہ اُس کے پاس ۲۵ ؍ایکڑ سے زیادہ زمین نہ رہنے دی جائے مگر تاجر اور صناع اور وزراء اور جرنیل اور کارخانہ دار اِن کے لئے کسی قانون کی ضرورت نہیں یہ جتنا چاہیں روپیہ کما لیں۔ ۲۵؍ ایکڑ کے معنی آجکل ۷۰،۸۰ روپیہ ماہوار کے ہیں اور یہ بھی اِن دنوں میں جب کہ اجناس کسی قدر گراں ہیں اگر جنس سستی ہو جائے تو معمولی زمین والا ۲۵ ؍ایکڑ سے پچیس تیس روپیہ ماہوار سے زیادہ کما نہیں سکتا۔ پس سوال یہ ہے کہ یہ انصاف جو زمیندار کے لئے تیار کیا جا رہا ہے اِس میں باقیوں کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ اُدھر مزدور کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اُسے ملتا ہے وہ کم ہے اُسے زیادہ ملنا چاہیے۔ تیس روپے اُس کی ضروریات کے لئے بہت کم ہیں کم از کم چھپن روپے اُسے ملنے چاہئیں اور اُدھر زمیندار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جس کے پاس ۲۵؍ ایکڑ سے زائد زمین ہو وہ لے لی جائے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف تیس چالیس روپیہ ماہوار آمد پر آ جائے۔ گویا ایک طرف اُس کی آمد پر اعتراض کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اُسی آمد کو رائج کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اتنی آمد کم کر دی جائے۔ یہ کونسا انصاف ہے جس سے کام لیا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ردِعمل ہے اُس طریق کا جو زمینداروں نے اختیار کیا تھا۔ میں ہمیشہ زمینداروں سے کہا کرتا تھا کہ تم انگریز کی وجہ سے اپنی ترقی کے لئے کئی قسم کے قوانین بنا رہے ہو جب یہ زمانہ نہ رہا تمہیں مشکل پیش آئے گی۔ مثلاً ایک قانون یہ بنوایا گیا کہ صرف زمیندار ہی زمین خرید سکتا ہے تاجر یا صناع یا ملازم زمین نہیں خرید سکتا۔ میں اُن سے کہا کرتا تھا کہ یہ کونسا انصاف ہے تم نوکری بھی کر سکو، تجارت بھی کر سکو، صنعت و حرفت بھی کر سکو، کارخانہ بھی چلا سکو اور ملازم پیشہ لوگ یا تاجر یا صناع یا کارخانہ دار زمین نہ خرید سکیں۔ یا تو تمہارے لئے بھی یہ قانون ہونا چاہیے کہ کوئی زمیندار نوکری یا تجارت وغیرہ نہیں کر سکتا مگر تم زمینداریاں بھی کر سکو، نوکریاں بھی کر سکو، تجارت بھی کر سکو، کارخانے بھی چلا سکو، یہ اَور بات ہے کہ تم ایسا نہ کرو مگر بہرحال کوئی قانون تمہارے رستہ میں روک نہیں۔ تم سب کچھ کر سکتے ہو مگر غیر زمیندار کے لئے تم نے یہ قانون بنوایا ہے کہ وہ زمین نہیں لے سکتا کسی دن تم اِس کا خمیازہ بھگتو گے۔ چنانچہ اب غیر زمیندار آگے آ گئے ہیں اور اُنہوں نے زمینداروں کے خلاف یہ قانون تجویز کر دیا ہے اور اِس کا نام مساوات رکھا جا رہا ہے حالانکہ یہ ایک غیر طبعی مساوات ہے حقیقی مساوات نہیں۔ فرض کرو کسی کے پاس ۲۵ ؍ایکڑ زمین ہے اور اُس کے دو بیٹے ہیں تو ہر بیٹے کو ساڑھے بارہ بارہ ایکڑ زمین آئے گی۔ اِس کے بعد اگر ان کے بھی دو دو بیٹے ہوئے تو چھ چھ ایکڑ زمین ہر ایک کے حصہ میں آ جائے گی اور اگر چار بچے ہوئے تو صرف ڈیڑھ ڈیڑھ ایکڑ زمین آئے گی اِس طرح کوئی صورت بھی اُن کے گزارہ کی باقی نہیں رہے گی۔ پس یہ عجیب قانون ہے جو ایک دو نسلوں تک ہی چل کر ختم ہو جائے گا۔ کوئی قانون ایسا ہوتا ہے جو سَو ڈیڑھ سَو سال تک جاتا ہے ،کوئی قانون ایسا ہوتا ہے جو دو چار سَو سال تک جاتا ہے مگر یہ قانون تو ایسا ہے جو ایک نسل کے لئے بھی کافی نہیں اور اگلی نسل کے پاس صرف اِس قدر زمین رہ جائے گی جس میں اُس کے گزارہ کی کوئی صورت ہی نہیں ہوگی۔ پھر یہ کونسا انصاف ہے کہ مزدور اگر ترقی کرنا چاہے تو کر جائے، کلرک اگر ترقی کرنا چاہے تو کر جائے مگر زمیندار کے لئے ترقی کے ہر قسم کے راستے مسدود کر دیئے جائیں۔ اگر آج ایک مزدور ترقی کرنا چاہے تو کوئی قانون اُسے ترقی سے نہیں روکتا۔ کئی مزدور ایسے ہیں جو ترقی کر کے فورمین بن جاتے ہیں اور دو دو، اڑھائی اڑھائی سَو روپیہ ماہوار کماتے ہیں۔
سندھ میں مجھے ایک دوست ملے جو مستری سے ترقی کر کے انجینئر بنے تھے اُنہوں نے باتوں باتوں میں مجھ سے ذکر کیا کہ میں حیران ہوتا ہوں لوگ اپنی ذات اور قومیت کو چھپاتے کیوں ہیں میں نے تو اِس بات میں کبھی اپنی ذلّت محسوس نہیں کی۔ میں ہمیشہ کہہ دیا کرتا ہوں کہ میں ایک مستری ہوا کرتا تھا مگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے انجینئر بنا دیا ہے۔ پھر اُنہوں نے ذکر کیا کہ لائیڈ بیراج میں میں کام کرتا تھا کہ میرا باپ اور چچا نہایت خستہ حالت میں میرے پاس پہنچے۔ میں دلیری سے چیف انجینئر کے پاس چلا گیا اور اُس سے کہا کہ یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ہیں اِنہیں کوئی مزدوری کا کام دے دیں تا کہ یہ اپنا گزارہ چلا سکیں۔ چیف انجینئر اُن کو دیکھ کر کہنے لگا خان صاحب آپ مذاق کرتے ہیں؟ میں نے کہا مذاق نہیں۔ جب خدا نے اُن کو میرا باپ بنایا ہے اور انہیں میرا چچا بنایا ہے تو میں ان کو باپ اور چچا نہ کہوں تو اَور کیا کہوں۔ وہ کہتے ہیں میری اِس بات کا اُس پر اتنا اثر ہوا کہ اُس نے شروع سے ہی اُنہیں فورمین بنا دیا اور وہ اڑھائی تین سَو روپیہ ماہوار لینے لگ گئے۔ تو یہ عجیب بات ہے کہ مزدور تو ترقی کر کے فورمین بن سکے اور زمیندار کو تیس چالیس روپیہ ماہور سے زیادہ کمانے نہ دیا جائے۔ یا تو یہ قانون بنا دو کہ زمیندار کو بھی اور کام کرنے کی اجازت ہوگی۔ وہ ملازمت بھی کر سکتا ہے، تجارت بھی کر سکتا ہے، صنعت و حرفت بھی کر سکتا ہے، کارخانے بھی چلا سکتا ہے کوئی اَور کام بھی کر سکتا ہے۔ جس طرح مزدور فورمین بن سکتا ہے، کلرک ہیڈ کلرک بن سکتا ہے، ہیڈکلرک سپرنٹنڈنٹ بن سکتا ہے اِسی طرح زمیندار کے لئے بھی ترقی کا میدان کھلا ہو اور یا پھر تمام ملازموں اور وزراء کی تنخواہیں بھی چالیس چالیس پچاس پچاس روپیہ کر دی جائیں پھر بیشک اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ مگر یہ کیا ہے کہ وزیر تو تین ہزار روپیہ ماہوار لے رہا ہو اور زمیندار کو تیس چالیس روپیہ ماہوار سے زیادہ کمانے کی اجازت نہ ہو اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مُلک میں بغاوت پیدا ہوگی۔ اب تو جس کے پاس ۱۵؍ ایکڑ زمین ہے اُسے پچیس ایکڑ زمین مل گئی تو وہ خوش ہو جائے گا مگر جب آگے اُس کے بچے پیدا ہونگے اور اُن کی ترقی کے راستے بالکل مسدود ہونگے تو سارے مُلک میں بغاوت ہو جائے گی اور تمام امن برباد ہو جائے گا۔
کئی لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ جب روس میں ایسے قانون موجود ہیں تو ہمارے مُلک میں ایسے قانون کیوں نہیں بن سکتے۔ اُنہیں یہ معلوم نہیں کہ روس اور ہمارے مُلک میں فرق ہے۔ ہمارا مُلک روس سے چھٹے حصہ سے بھی کم ہے میری مراد صرف پاکستان نہیں بلکہ پارٹیشن سے پہلے جو یونائٹیڈ اِنڈیا تھا وہ مراد ہے یعنی سارا ہندوستان جس میں پاکستان بھی شامل ہے اپنے رقبہ کے لحاظ سے روس سے چھٹے حصہ سے بھی کم ہے لیکن ہماری آبادی روس سے دُگنی ہے۔ گویا روس نے اگر ایک ایکڑ زمین کسی کو دی ہوئی ہے تو ابھی گیارہ ایکڑ زمین اُس کے پاس باقی ہے جس میں نئی نسلیں آسانی سے گزارہ کر سکتی ہیں اور اس طرح وہ اپنا قانون دس نسلوں تک قائم رکھ سکتا ہے لیکن ہماری تو اگلی نسل ہی باغی ہو جائے گی اور مُلک کا امن برباد ہو جائے گا۔یہ بھی وہی نظریہ ہے جو رشیا سے آیا اور مسلمانوں نے اِسے اپنانا شروع کر دیا۔ اُنہوں نے سمجھا کہ جب رشیا میں اِس قسم کا قانون ہے تو ہم بھی اُس کے پیچھے کیوں نہ چلیں۔
( از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
(آخر میں حضور نے مسلم لیگ کی اِس تجویز کے متعلق فرمایا جو زمینداری سسٹم کو اُڑا دینے کے لیے پیش کی جا رہی ہے اور اس کی مخالفت کرتے ہوئے حضور نے اس کے نقصانات کی وضاحت فرمائی اور فرمایا کہ)
’’مسلمان اس قانون میں روس کی نقل کر رہے ہیں جو نقصان رساں ہوگا‘‘۔
آخر میں حضور نے فرمایا:
’’تمام خرابی اور تباہی کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان قرآن کریم پر صرف اسی طور پر ایمان رکھتے ہیں ایمان ان کے عمل میں نہیں۔ ورنہ وہ سمجھتے کہ تمام برکت قرآن کریم پر عمل کرنے میں ہے اور اگر ہم ذرا بھی اس کے احکام سے اِدھر اُدھر ہوئے تو ہمیں بھی نقصان پہنچے گا اور ہماری آئندہ نسلیں بھی تباہ ہو جائیںگی‘‘۔ (الفضل ۳۱؍ اگست ۱۹۴۹ء)
۱؎ المائدۃ: ۴۹ تا ۵۲ ۲؎ المائدۃ: ۴ ۳؎ العنکبوت: ۴۶
۴؎ البقرۃ: ۱۸۴
۵؎
(البقرۃ: ۲۲۰)
خدام الاحمدیہ کے قیام سے وابستہ توقعات
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدام الاحمدیہ کے قیام سے وابستہ توقعات
(فرمودہ ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۴۹ء برموقع افتتاح سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’خدام الاحمدیہ کے قیام سے میرا مقصد دراصل یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح ہمارے نوجوانوں میں وہ روحانیت پیدا ہو جائے کہ وہ قوم کی آئندہ اپنے کندھوں پر پڑنے والی ذمہ داریوں کو اُٹھا سکیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہماری جماعت کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے اور نہ ہی مذہبی جماعتیں کبھی سیاست کے تابع چلا کرتی ہیں بلکہ سیاست خود اُن کی غلامی میں پناہ ڈھونڈا کرتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے اپنے وطن کے گذشتہ سیاسی بحران میں بھی محض تعاون اور قوم کے نیک طبیعت اکابر کی اعانت ہی کو کافی سمجھا اور باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے سے ہمیشہ پہلو تہی اختیار کی۔
باؤنڈری کمیشن کے ایام میں میں خود مدد کرتا رہا۔ پھر مصائب سے پُر ایام میں بھی ہم نے ہر ممکن اعانت کی لیکن اِس کے باوجود ہم بحیثیت جماعت کسی سیاسی پارٹی میں مدغم نہیں ہوئے بلکہ اس سے آزاد رہ کر صرف جائز حد تک تعاون ہی کو کافی سمجھا کیونکہ مومن کبھی کسی ایسی چیز یا سرگرمی میں انہماک پسند نہیں کرتا جو اللہ اور اس کے رسول کی غلامی کے جوئے کو پوری طرح اپنی گردن پر نہ رکھے۔
ہماری جماعت ایک روحانی جماعت ہے اور ہر مذہبی تحریک کی بنیاد روحانیت ہی پر ہوا کرتی ہے یہی وجہ تھی کہ جب میں نے خدام الاحمدیہ قائم کی تو میرا مقصد محض یہ تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح صحیح معنوں میں دین کو دنیا پر مقدم کرنا سیکھ لے۔ لیکن افسوس اس نے اس رنگ میں میری توقعات کو پورا نہ کیا جس رنگ میں کہ میں چاہتا تھا۔ حالانکہ میں نے ان کی سرگرمیوں کا ایک ماں کی آنکھ سے جائزہ لیا۔ اُس ماں کی طرح جس کی نظر ہمیشہ اپنے بچے کے حسن ہی پر پڑتی ہے خواہ وہ اُس کے عملی جسم کے کسی کونے میں ہو۔ میں چاہتا تھا کہ یہ باقاعدہ اور باجماعت نمازی بن جائیں، ان میں تہجد گزاری کا شوق بڑھ جائے، ان کو تبلیغ دین کا چسکا پڑ جائے اور یہ دین کے لیے قربانی و ایثار کے مجسمے بن جائیں۔ لیکن خدام الاحمدیہ نے میری اِن تمام توقعات کو اُس حد تک پورا نہ کیا جس حد تک میں چاہتا تھا کہ ہو۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ موجودہ تنظیم کو بدل کر ایک نئے رنگ میں ڈھال دیا جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ اِن میں روحانیت کے وہ تمام جوہر پیدا ہو جائیں جو پیدا کرنا اِس تنظیم کے قیام کے وقت مقصود تھا۔چنانچہ اِس نئے فیصلے کے مطابق آئندہ کے لیے مجلس خدام الاحمدیہ کا صدر میں ہوا کروں گا اور شوریٰ کی طرح اس کے اجتماع بھی میری ہی صدارت میں ہوا کریں گے۔ سوائے اس کے کہ میں موجود نہ ہوں اور کسی کو اپنی طرف سے نگران مقرر کر دوں۔
(اس کے بعد آپ نے خدام الاحمدیہ کے گزشتہ سال کے انتخابِ صدر کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا )
مجھے افسوس ہے کہ خدام الاحمدیہ کے قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے دو چالیس سال سے زائد عمر کے خدام کا نام پیش کیا گیا۔
(حضور نے فرمایا)
’’خدام الاحمدیہ ایک روحانی جماعت ہے لہٰذا اِس سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ روحانی تقاضوں کو پورا کرے۔ لیکن صدارت کے انتخاب میں جس بے پرواہی سے کام کیا گیا ہے اُس سے میں سمجھتا ہوں کہ خدام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا صدر بھی محض ایک نمبردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں نے اِس دفعہ صدارتی انتخاب کی کارروائی کا جائزہ لیا تو مجھ پر یہ اثر پڑا کہ مختلف مجلسوں نے نام پیش کرتے ہوئے اِس روح کو مدنظر نہیں رکھا جس کے قیام کے لیے خدام کی تحریک جاری کی گئی تھی۔ محض بڑے خاندان کا فرد ہونا نام تجویز کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا ہے۔ پس یہ دیکھ لیں کہ فلاں نوجوان مسیح موعود علیہ السلام کی نسل سے ہے اور اُس کا نام تجویز کر دیا حالانکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ اُس کا عمل اسلام اور احمدیت کی شان کے مطابق ہے یا نہیں؟ کیونکہ اگر کوئی نمازوں کا پابند نہیں اور دین کی خدمت کے لیے ہر وقت پیش پیش نہیں رہتا تو وہ محبت کی بجائے نفرت کا مستحق ہے۔بلکہ اہل بیت کے معاملے میں تو قرآن کریم کا ارشاد نہایت ہی سخت ہے کہ اگر وہ کوئی غلطی کریں گے تو اُنہیں دُگنی سزا ملاکرے گی۔ میں نے دیکھا کہ صدارت کے لیے بعض نام محض اِس لیے تجویز کر دیے گئے کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں حالانکہ جب تک مذہب کی صحیح روح کسی شخص میں پیدا نہ ہو جائے اُس وقت تک کوئی صحیح مومن نہیں ہو سکتا۔
(حضور نے فرمایا)
بعض لوگ ماں باپ اور رسولوں کے مقام بیان کرتے وقت نہایت غلو کر جاتے ہیں اور بعض انتہائی خشکی بھی برتتے ہیں لیکن چاہیے یہ کہ حفظِ مراتب رہے اور ہر چیز اپنے مقام پر ہو۔ اِس طرح کہ اس کے نتیجے میں احمدیت کو کوئی فائدہ پہنچے ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ:
گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی
(حضورنے فرمایا)
میرے نزدیک بہت ہی کم جماعتوں نے صحیح طور پر کام کیا ہے۔ لہٰذا میرے سامنے دو ہی صورتیں تھیں۔ اس تحریک کو ختم کر دوں یا درست کرنے کی کوشش کروں۔ اِن دونوں صورتوں میں سے میں نے درست کرنے کی کوشش کو اوّل پر ترجیح دی۔ اب میں اِس مجلس کا براہِ راست صدر ہوا کروں گا۔ اور ایک نائب صدر جو مجلس مرکزیہ کا ممبر ہوا کرے گا میرے احکام کی تنفیذ کیا کرے گا۔ نائب صدر کا یہ کام ہوگا کہ وہ تمام مجالس سے میرے احکام یا کمیٹی کے فیصلوں کی تعمیل کرایا کرے۔ اِسی طرح مرکز میں ایک مستقل سیکرٹری ہوا کرے گا جس کے لیے چالیس سال کی عمر کی قید نہیں ہوگی۔ پھر ہر صوبے کا علیحدہ ایک ایک نائب صدر اور ایک ایک سیکرٹری ہوگا۔ ہر سال مرکز میں دو دفعہ چودہ چودہ دنوں کے لیے تربیتی کورس ہوا کریں گے جن میں خدام تربیت حاصل کر کے اپنی اپنی مجالس میں دوسرے خدام کو تربیت دیا کریں گے۔
(حضور نے فرمایا)
ان تمام اخراجات کا بجٹ خدام کو خود پورا کرنا ہوگا۔ ہر ملازم، تاجر اور زمیندار اپنی آمد پر ایک پائی فی روپیہ کے حساب سے دیا کرے گا۔ سکول کے طلباء میں سے پرائمری والے دو پیسے، مڈل والے ایک آنہ اور ہائی سکول کے طلباء ڈیڑھ آنہ کے حساب سے چندہ ادا کیا کریں۔ کالج کے طلباء چار آنے ماہوار کے حساب سے چندہ ادا کیا کریں۔ عہدیداری کے لیے سب سے بڑی شرط دینداری ہوگی۔ ہر ووٹر کو ووٹ دیتے ہوئے باقاعدہ شہادت دینی پڑا کرے گی کہ یہ شخص اُس کے علم میں کیا واقعی پنجوقت کا نمازی ہے، راست باز ہے، غرباء پرور ہے، جھوٹا نہیں اور پابند نظامِ سلسلہ ہے۔
(آخر میں آپ نے فرمایا کہ)
چونکہ اب میں صدر ہوں گا لہٰذا اگر میری صحت نے اجازت دی تو میں آپ کے پروگرام میں حصہ لے کر بعض اور موقعوں پر خطاب کروں گا چونکہ پُرانے نظام کو سمجھنا اور اُس سے فائدہ اُٹھانا ضروری ہے تا کہ جو اچھا کام ہوچکا ہے وہ ضائع نہ ہو اِس لیے اِس سال کے لیے میں مرزا ناصر احمد ہی کو نائب صدر مقرر کرتا ہوں۔ سیکرٹری کی سفارش آپ لوگ کریں۔ اگر اُسے معقول سمجھوں گا تو میں مقرر کر دوں گا ورنہ واقفین میں سے یا جس کو اِس کام کے اہل سمجھوں گا مقررکر دوں گا۔ جسے دوسرے وکیلوں اور ناظروں کی طرح تبدیل بھی کیا جا سکے گا لیکن اس کے لیے عمر کی شرط نہیں ہوگی۔‘‘
(تقریر کو ختم کرتے ہوئے حضور نے فرمایا)
’’احمدی نوجوان کے معنی یہ ہیں کہ اُسے اپنی زبان پر قابو ہو، وہ محنتی ہو، وہ دیندار ہو، وہ پنجوقت کا نمازی ہو، وہ قربانی و ایثار کا مجسمہ ہو اور کلمۂ حق کو زیادہ سے زیادہ پہنچانے میں نڈر ہو۔ بے شک یہ لیفٹ رائٹ بھی بُری چیز نہیں لیکن خواہ کوئی چیز کتنی ہی اچھی ہو پھر بھی ہر چیز اپنے مقام پر ہی زیب دیتی ہے۔‘‘ (الفضل یکم نومبر ۱۹۴۹ء)
اسلامی شعار اختیار کرنے میں ہی
تمہاری کامیابی ہے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اسلامی شعار اختیار کرنے میں ہی تمہاری کامیابی ہے
(فرمودہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۴۹ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ بمقام ربوہ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
پیشتر اِس کے کہ میں تقریر شروع کروں چند باتیں میں ضمنی طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اوّل یہ کہ آپ لوگ جب یہاں آئیں تو ایک زائد چادر ساتھ لیتے آیا کریںتا کہ اِس قسم کے موقع پر نیچے بچھا کر بیٹھ جائیں۔ گرمی زیادہ ہے جس کی وجہ سے نزلہ اور کھانسی وغیرہ امراض ہو جاتی ہیں۔ اگر زائد چادر ساتھ ہو اور وہ بچھا کر بیٹھا جائے تو اِن امراض سے انسان ایک حد تک محفوظ رہتا ہے۔ پھر اس میں ثواب بھی ہے بعض مہمان آ جاتے ہیں یا بعض لوگ چادر وغیرہ ساتھ نہیں لاتے وہ بھی ساتھ بیٹھ جائیں گے۔ پس جس طرح خیموں کے لئے تم چادریں یا کھیس ساتھ لاتے ہو اُسی طرح ایک چادر زائد بھی لے آیا کرو۔ ہمارے پنجاب میں پہلے یہ رواج ہوتا تھا کہ زمیندار جب کہیں باہر جاتے تو ایک چادر کندھے پر ڈال لیتے تھے جو اِس قسم کے مواقع پر کام آ جایا کرتی تھی اب معلوم نہیں یہ رواج ہے یا نہیں۔ بہرحال یہ چیز بڑی ضروری ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض دوست تکلیف اُٹھا کر زمین پر ہی بیٹھ جاتے ہیں اور وہ اِسے کوئی معیوب بات نہیں سمجھتے لیکن باہر سے آنے والوں پر اِس کا بُرا اثر پڑتا ہے پس اپنے ساتھ ایک زائد کپڑا رکھنا چاہیے جو ایسے موقع پر زمین پر بچھا لیا جائے اور پھر اُس پر بیٹھا جائے۔
میں نے کل انتخابِ صدر کے متعلق چند تلخ باتیں کہی تھیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تلخ باتیں بھی قومی ترقی کا موجب ہو جایا کرتی ہیں۔ دنیا میں جس قوم نے بھی ترقی کی ہے اپنے جذبات کو کچل کر ہی ترقی کی ہے۔ ایسی صورت میں افراد کا فرض ہوتا ہے کہ وہ تلخ باتیں سننے کے عادی ہوں اگر وہ تلخ باتیں سننے کے عادی ہو جائیں تو اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کچھ عرصہ کے بعد ان میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے گا کہ وہ اپنی ذات پر جرح کو سُن سکیں اور اس طرح اپنی اصلاح کر سکیں۔ ہمارے خاندان کے بعض نوجوانوں میں کچھ ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو انسان کے اندر نزاکت پیدا کر دیتی ہیں یوں بھی بڑے لوگوں کے بچوں میں قدرتی طور پر نزاکت پیدا ہو جاتی ہے لیکن میں بہت حد تک اسے ناپسند کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد ہونے کی وجہ سے لوگ ہمارا لحاظ کرتے ہیں اور پھر ہمارا خاندان ایک لمبے عرصہ تک حکومت کرتا چلا آیا تھا اِس وجہ سے بھی ایک طرح غرور کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہم جب سنتے ہیں کہ ہمارے بزرگ غرور کی وجہ سے دوسروں کی باتیں نہیں سنتے تھے تو ہم میں بھی یہ رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ میرے لئے بھی ایک موقع ایسا آیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں اُس موقع پر خداتعالیٰ کے فضل سے پاس ہو گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل جب بیمار تھے اور آخری جلسہ پر تقریر کے لئے تشریف لے گئے تو اُن دنوں کسی بات پر آپ ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب مرحوم سے ناراض تھے۔ جب جلسہ پر جانے کی ضرورت پیش آئی تو بیماری کی وجہ سے آپ چل تو سکتے نہیں تھے اور قادیان میں اُن دنوں صرف ایک گاڑی تھی جس پر بیمار آ جا سکتے تھے اور وہ نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے چاہا کہ کسی طرح گاڑی بھی مل جائے اور آپ کو بھی نہ کہنا پڑے۔ چنانچہ آپ نے مجھ سے فرمایا میاں! تم نواب صاحب سے گاڑی منگواؤ۔ چنانچہ میں نے نواب صاحب کو گاڑی کے لئے کہلا بھیجا اور اُنہوں نے گاڑی بھیج دی۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سوار ہو کر جلسہ میں تشریف لے گئے۔ گاڑی کی خچریں بہت تیز تھیں جب گاڑی جلسہ گاہ(مسجد نور) کے پاس پہنچی تو خچریں دَوڑنے لگ پڑیں۔ سائیس نے مجھے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں گاڑی نواب صاحب کی کوٹھی لے جاؤں آپ جب گاڑی کے لئے آدمی بھیجیں گے تو میں فوراً آ جاؤں گا۔ مولوی محمد علی صاحب بھی پاس ہی تھے میں نے مناسب سمجھا کہ اُن سے بھی اِس بارہ میں مشورہ کر لوں۔ میں نے کہا مولوی صاحب! خچریں دَوڑتی اور شور کرتی ہیں سائیس کہتا ہے کہ اگر مجھے اجازت ہو تو انہیں نواب صاحب کی کوٹھی لے جاؤں جب آپ کہیں گے میں گاڑی لے آؤں گا۔ اُنہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے۔ میں نے سائیس سے کہا اچھا گاڑی لے جاؤ لیکن تیار رہنا اور حکم ملنے پر فوراً لے آنا۔ ہمارا اندازہ تھا کہ کوئی گھنٹہ بھر تقریر ہوگی لیکن چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی طبیعت خراب تھی اِس لئے صرف دس پندرہ منٹ تقریر ہوئی اور آپ نے کہا گاڑی لاؤ۔ میں نے فوراً آدمی دَوڑایا گاڑی آنے میں دو چار منٹ کی دیر ہوگئی آپ ناراضگی کی حالت میں ہی پیدل چل پڑے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ بیماری کی وجہ سے آپ کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں مگر میں نے خیال کیا کہ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ آپ ابھی بورڈنگ کے دروازہ تک ہی پہنچے تھے کہ گاڑی آ گئی لیکن پیشتر اس کے کہ میں گاڑی پیش کروں آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ مولوی محمد علی صاحب نے بھی کہا کہ ہاں یہ ان کی غلطی تھی حالانکہ میں نے اُن سے مشورہ کر لیا تھا۔ بہرحال میں نے عرض کیا کہ چونکہ ہمیں خیال تھا کہ حضور کی تقریر لمبی ہوگی اس لئے ہم نے گاڑی واپس بھیج دی۔ اِس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے خفگی کا اظہار فرمایا۔ مجھے اُس وقت بُرا تو محسوس ہوا لیکن میں نے اسے برداشت کیا اور سمجھا کہ آپ ہمارے بزرگ اور مقتدیٰ ہیں آپ سے اگر ایک تلخ بات بھی میں نے سن لی تو کیا ہوا۔ جب گاڑی آ گئی تو میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ گاڑی حاضر ہے حضور! اس پر سوار ہو جائیں چنانچہ آپ گاڑی پر سوار ہوگئے۔
بہرحال تلخ بات کا سننا بھی مفید ہوتا ہے ہم سے پہلوں نے تلخ باتیں سنیں اور بلند مرتبہ حاصل کیا، اگر بعد والے بھی تلخ باتیں سنیں گے تو بلند درجات حاصل کریں گے۔ ہاں انسان کو بے غیرت نہیں بننا چاہیے اور بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال نہیں دینا چاہیے۔ غیرت یہ ہے کہ انسان ایسی بات سنے تو اُسے بُرا تو لگے گا لیکن وہ سمجھے کہ میں نے ہی یہ بات کہلوائی ہے غصہ نہ منائے تا آئندہ اُسے اصلاح کا موقع ملے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے ساتھ بھی ایک دفعہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے ایک بھتیجے کو جو آپ کے پاس قادیان رہا کرتا تھا حکم دیا کہ وہ قادیان سے باہر چلا جائے اس لئے کہ وہ وہاں رہنے کے قابل نہیں تھا۔ وہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے پاس گیا اور اس نے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا اب میں کیا کروں؟ پھر فرمایا اچھا! میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس تمہاری سفارش کروں گا لیکن ابھی آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کچھ لکھا نہیں تھا کہ کسی شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا کر شکایت کر دی کہ بڑے مولوی صاحب نے اپنے بھتیجے سے کہا ہے کہ قادیان سے باہر نہ جاؤ اور یہ نہ بتایا کہ آپ نے تھوڑی دیر کے لئے صرف اِس لئے اُسے روکا ہے تا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں اس کی سفارش کر سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اگر مولوی صاحب یہ کہتے ہیں کہ وہ باہر نہ جائے تو پھر وہ بھی اس کے ساتھ ہی تشریف لے جائیں۔ اِس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس تشریف لائے اور آپ نے بتایا کہ میں نے تو یوں کہا تھا مگر شکایت کرنے والے نے آدھی بات بتائی اور آدھی نہ بتائی۔
غرض تلخ باتیں سننے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اگر تم تلخ باتیں نہیں سنو گے تو کام کرنے کی عادت نہیں پڑے گی۔ میں جب کہتا ہوں کہ تلخ باتیں سنو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم بے غیرت بن جاؤ تلخ باتیں سنو لیکن بے غیرت بن کر نہیں۔ تمہیں غصہ آئے لیکن اپنے آپ پر، استاد اور مصلح پر نہیں۔ تم یہ سمجھو کہ میں نے غلطی کی ہے جس کی وجہ سے مجھے یہ سزا ملی ہے میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ میری طبیعت پر سب سے بڑا اثر انہی تلخ باتوں نے کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ان سے بہت فائدہ پہنچا ہے۔ مثلاً اسلامی شعار ہیں آجکل اسلامی شعار اختیار کرنے کے لئے ہمت سے کام لینا پڑتا ہے۔ یہ زمانہ ایسا ہے جس میں اسلام کی کوئی بھی چیز باقی نہیں رہی۔ لَمْ یَبْقَ مِنَ الْاِسْلَامِ اِلاَّاِسْمُہٗ ۱؎ اسلام صرف نام کا رہ گیا ہے۔ تم اگر کسی کو ہیٹ پہنے دیکھو گے تو کہو گے دیکھو! وہ انگریز بنا پھرتا ہے لیکن اپنے منہ پر دیکھو تو وہاں انگریزیت پائی جاتی ہوگی، داڑھی منڈوائی ہوئی ہوگی، تم سر سے انگریز نہیں ہوگے تو منہ سے انگریر بنے ہوئے ہوگے، کسی کے سر پر پگڑی ہوگی تو نیچے سوٹ پہنا ہوگا۔ غرض کسی نہ کسی رنگ میں انگریزیت ضرور غالب ہوگی اور اس کا مقابلہ کرنا تمہیں مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن یہی مقابلے ہیں جو انسان کے لئے کارآمد ہوتے ہیں اور اس میں ہمت پیدا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب نصیحت فرمایا کرتے تھے تو بعض دفعہ آپ کا یہ طریق ہوتا تھا کہ آپ ایک چھوٹا سا فقرہ کہہ دیتے۔ میں بچپن میں بھی ٹوپی پہنا کرتا تھا جس طرح آجکل کے نوجوانوں کو پگڑی بوجھل معلوم ہوتی ہے مجھے بھی بوجھل معلوم ہوتی تھی۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہم نئے فیشن کے ہیں۔
ایک دفعہ غالباً عید کا دن تھا میں کپڑے پہن کر باہر نکلا، میں جس کمرہ میں تھا اُس کا ایک دروازہ برآمدہ میں کھلتا تھا اور ایک باہر۔ میں کپڑے بدل کر برآمدہ میں پہنچا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی گھر سے نکلے اور اُس دروازہ میں پہنچے۔ میں نے بھی اُسی دروازہ سے گزرنا تھا اور آپ بھی اُسی دروازے سے گزرے۔ میں نے ٹوپی پہنی ہوئی تھی اور صرف اُس دن ہی نہیں بلکہ بچپن سے پہنتا چلا آیا تھا لیکن آپ نے مجھے دیکھ کر کہا عید کے دن بھی ٹوپی؟ یہ فقرہ گو سادہ تھا لیکن مجھ پر اِس کا یہ اثر ہوا کہ میں اُسی وقت واپس گیا اور کسی سے کپڑا مانگ کر پگڑی باندھی اور اُس دن کے بعد کبھی میں نے ٹوپی نہیں پہنی۔
ایک دفعہ آپ فرمانے لگے ہمارے خاندان کا یہ طریق ہے کہ جب ہم میں سے کوئی شخص باہر نکلتا ہے تو کوٹ پہن کر نکلتا ہے اور سوٹی ہاتھ میں رکھتا ہے اس لئے تم بھی جب باہر نکلو تو کوٹ پہن کر نکلو اور سوٹی ہاتھ میں لے کر نکلو اور جب گھوڑے کی سواری کرو تو پٹکا باندھو۔ میں نے یہ بات آپ سے سنی اور اُسی دن سے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ ایک دن شامت اعمال سے میں پھنس گیا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے مجھ سے پوچھا میاں! تم گھر سے نکلتے ہو تو کوٹ پہن کر اور ہاتھ میں سوٹی پکڑ کر نکلتے ہو اِس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ہمارے خاندان کا یہ طریق تھا کہ جب بھی اُس کے افراد گھر سے باہر نکلتے تھے تو کوٹ پہن کر نکلتے تھے اور ہاتھ میں سوٹی لے کر نکلتے تھے اور اگر گھوڑے کی سواری کا موقع ہو تو پٹکا باندھتے تھے اس لئے میں بھی ایسا کرتا ہوں۔ یہ تو لمبی بات بھی ہے گھوڑے کی سواری سے عموماً پیٹ بڑا ہو جاتا ہے اور اگر پٹکا باندھ لیا جائے تو پیٹ بڑھتا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد تحصیلدار ہمارے نام داخل خارج چڑھانے کے لئے آیا اُن دنوں سرکاری حکام جب قادیان آتے تو مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں ٹھہرا کرتے۔ اُس نے مجھے وہاں بُلوایا میں حضرت خلیفہ اوّل کے پاس پڑھ رہا تھا اس لئے ادب کی وجہ سے نہ اُٹھا۔ دوسری دفعہ اُس نے پیغام بھیجا میں نہ گیا۔ پھر تیسری دفعہ پیغام بھیجا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے فرمایا میاں! یہ افسر لوگ ہیں چلے جاؤ۔ حضرت خلیفہ اوّل کے ادب کی وجہ سے میں نے خیال کیا کہ جلدی آ جاؤں گا۔ میری جوتی اندر تھی میں جوتی پہن کر ساتھ کے دروازہ سے اُتر آیا۔ میری شامت اعمال تھی کہ جب میں اندر گیا تو آپ نے اُن لوگوں سے جو آپ کی مجلس میں موجود تھے فرمایا دیکھو! یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات پر عمل کرتے ہوئے کوٹ پہن کر اور ہاتھ میں سوٹی لے کر باہر آئے گا اِس بات کی تصدیق کرنے کے لئے تمام لوگ دروازہ پر کھڑے ہوگئے۔ اِدھر میں اسی طرح آ گیا۔ مجھے اوپر سے یوں آواز آئی جیسے کسی کو شرمندہ کیا گیا ہو۔ جب میں واپس آیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے فرمایا میاں! تم نے مجھے آج بہت شرمندہ کیا۔ میں نے سب لوگوں سے یہ کہا تھا کہ دیکھو! یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات پر عمل کرے گا اور کوٹ پہن کر باہر آئے گا اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ تم یونہی آگئے۔ میں نے کہا میں نے آپ کے ادب کی وجہ سے یہ چاہا تھا کہ جلدی آ جاؤں اِس لئے بغیر کوٹ پہنے اور سوٹی ہاتھ میں لئے باہر نکل آیا۔ یہ واقعہ سن کر کئی احمدیوں نے بھی اُس وقت پگڑیاں پہننی شروع کر دی تھیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد میں سے بعض نے ٹوپیاں پہننی شروع کر دی ہیں، بعض نے نکٹائیاں لگانی شروع کر دی ہیں اور بعض داڑھیاں مُنڈواتے ہیں اور اُنہیں یہ حس ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اِس وقت ان کے باپ دادا کی عزت کا سوال تھا اِنہیں چاہیے تھا کہ وہ خاندانی روایات کو قائم رکھتے اور اپنے باپ دادا کے اچھے نمونہ کو قائم رکھتے لیکن اُنہوں نے اِس طرف کوئی توجہ نہیں کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ مجھے کہیں سے ایک رقم ملی اور میں نے ایک کوٹ اور پتلون سلوائی اور ایک ٹائی بھی خریدی۔ اس لباس میں میں نے ایک تصویر بھی کھنچوائی۔ یہ کوٹ اور پتلون تین چار دن ہی پہنی تھی کہ انہیں بدل دیا۔ یہ وہ دن تھے جب گورداسپور میں کرم دین بھیں والا مقدمہ چل رہا تھا متواتر تاریخ پڑنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہیں رہنا شروع کر دیا۔ عارضی قیام کے لئے وہاں ایک مکان لے لیا گیا تھا، ہمارے مہمان بھی وہیں آ جاتے تھے۔ اُس زمانہ میں بہت کم احمدی تھے اُن دنوں ہمارے ایک احمدی دوست محمد ایوب صاحب تھے جو غالباً صوبیدار میجر تھے اور مراد آباد کے رہنے والے تھے وہ اُن دنوں نئے احمدی ہوئے تھے اور نیا اخلاص لے کر آئے تھے اِس مقدمہ پر وہ بھی گورداسپور آئے تھے۔ شامت اعمال کی وجہ سے میں نے ٹائی لگائی ہوئی تھی اور غالباً سوٹ بھی پہنا ہوا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے صوبیدار میجر محمد ایوب صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ایک طرف لے جا کر کہا میاں! ہم یہاں آتے ہیں تو دین سیکھنے کے لئے آتے ہیں اور جو کچھ یہاں دیکھتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کی اصل روح ہے۔ ہمارے مولوی بتایا کرتے تھے کہ انگریزوں کی نقل کرنا کفر ہے مگر معلوم ہوتا ہے یہ کفر نہیں، آپ نے ٹائی پہنی ہوئی ہے تو میں کنچنیاں نچوانی شروع کر دوں گا اس لئے بہتر ہے کہ یہ ٹائی ابھی اُتار کر مجھے دے دو چنانچہ میں نے اپنی ٹائی اُنہیں دے دی اور اُنہوں نے وہیں پھاڑ کر پَرے پھینک دی۔ وہ پہلی اور آخری ٹائی تھی جو میں نے پہنی۔
اِسی طرح ایک دن اُنہوں نے بڑی سختی سے کام لیا ہماری والدہ دہلی کی رہنے والی ہیں دہلی اور یوپی کی تہذیب میں بہت فرق ہے۔ یوپی میں خاوند اپنی بیوی کو اگر کوئی بات کہے گا تو ’’آپ‘‘ کہے گا اسی طرح مالک اپنے نوکر کو آپ کہے گا۔ مثلاً مالک نوکر سے کہے گا ذرا آپ دوڑ کر دہی لے آئیے لیکن دہلی کی تہذیب یہ تھی کہ قریبی رشتہ داروں کو تم کہتے تھے اور میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو ’’تم‘‘ کہتے تھے ہماری والدہ بھی چونکہ دہلی کی رہنے والی تھیں اس لئے ہمیں بھی ایک دوسرے کو تم کہنے کی عادت پڑ گئی۔ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میں نے کہا کہ تم میری یہ بات سن لو۔ جب مجلس ختم ہوئی تو صوبیدار میجر محمد ایوب صاحب مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کے تو والد ہیں مگر میرے پیر ہیں اگر میں نے آئندہ اُن کے لئے تمہارے منہ سے تم کا لفظ سنا تو تمہارے بخیئے اُدھیڑ دوں گا۔ یہ پہلا سبق تھا جو مجھے دیا گیا اور میں نے ’’تم‘‘ کی بجائے ’’آپ‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ پہلی دفعہ جب میں نے ’’آپ‘‘ کہا تو یوں معلوم ہوا جیسے میں نے کسی کو گالی دی ہے لیکن آہستہ آہستہ اِس کی عادت پڑ گئی۔ میاں بشیر احمد صاحب ذرا چھوٹے تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ’’تو‘‘ کہا کرتے تھے۔ اگرچہ یہ باتیں تلخ تھیں مگر میرے لئے میٹھی باتوں سے بھی زیادہ مفید ثابت ہوئیں۔
اب میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے خاندان کے بعض لڑکوں کی داڑھیاں قریباً منڈی ہوئی ہوتی ہیں اور سوٹ پہنے ہوئے ہوتے ہیں تمہیں ان کو صاحبزادہ نہیں کہنا چاہیے۔ آخر تمہارے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت زیادہ ہے یا ان کی نسل کی عزت زیادہ ہے۔ اگر تم میں صوبیدار میجر محمد ایوب صاحب جیسی ہمت نہیںتو کم از کم جب انہیں ایسا کرتے دیکھو تو ان سے منہ پھیر لو اور کہو کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد ہوتے ہوئے ہمارے سامنے بُرا نمونہ پیش کرتے ہو اور ایسا کرتے چلے جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی اصلاح کر لیں۔ پس اپنے اندر ہمت پیدا کرو۔ اگر تم دوسرے پر اُنگلی اُٹھاؤ گے تو پھر تم اپنی بھی اصلاح کر لو گے۔
جب میں کوئٹہ میں تھا تو وہاں اخبار نویسوں کی ایک دعوت تھی اُن میں ایک احمدی بھی تھے جن کی داڑھی منڈی ہوئی تھی۔ (اب بھی وہ نمائندہ بن کر یہاں آئے ہوئے ہیں) اور ایک داڑھی والے تھے۔ وہ داڑھی والے اخبار نویس کہنے لگے میںایک بات کہنا چاہتا ہوں خواہ آپ کو بُری لگے۔ پہلے احمدیوں کی اَور بات تھی اب اَور ہے۔ اب اِتنی داڑھیاں نہیں رہیں جتنی پہلے تھیں۔ خیر اپنے گھر کی تو اور بات ہوتی ہے میں بھی اپنی اولاد کو بُرا بھلا کہہ رہا ہوں لیکن دوسرے کے منہ سے سن کر غیرت آتی ہے۔ میں نے اُسے کہا دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں ہم میں اب بھی داڑھی رکھنے والوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ہمارے دس آدمیوں میں سے اگر ایک کی داڑھی نہیں ہوتی تو آپ کے دس آدمیوں میں صرف ایک کی داڑھی ہوتی ہے۔ اُس نے کہاہاں نسبتی فرق تو اب بھی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ آخر داڑھی رکھنے میں کیا روک ہے اور داڑھی نہ رکھنے میں کیا فائدہ ہے۔ داڑھی رکھنے میں مشکل ہی کیا ہے۔ تم بتاؤ کہ داڑھی منڈوانے میں کیا خوبی ہے؟ یا کترا کترا کر نیچے لے جانے میں کیا خوبی ہے؟ آخر جیسے میں تمہیں علم سکھاتا ہوں تمہارا بھی فرض ہے کہ اگر کوئی نئی بات تمہیں معلوم ہو تو مجھے بتاؤ۔ میں تمہیں روزانہ کئی باتیں سکھاتا ہوں تمہارا بھی فرض ہے کہ اگر تمہیں کوئی نیا نکتہ مل جائے تو مجھے بتاؤ۔ میں اُس پر عمل کروں یا نہ کروں کم از کم میرا دماغ تو روشن ہو جائے گا۔ چونکہ یہ مجلس اصلاحی ہے اس لئے تم بتاؤ کہ داڑھی منڈانے یا کترا کترا کر نیچے لے جانے میں کیا فائدہ ہے؟ میں اب تقریر تھوڑی دیر کے لئے بند کر دیتا ہوں اگر تمہاری نظر میں داڑھی منڈوانے کا کوئی فائدہ ہو تو مجھے بتاؤ۔
اس موقع پر حضور نے تھوڑی دیر کے لئے جواب کا انتظار کیا تو ایک نوجوان نے کہا کہ داڑھی رکھی جائے تو نیند نہیں آتی۔ حضور نے فرمایا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ بے خوابی کے مریض تھے۔ اِس پروہ شخص شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا۔ حضور نے سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا:۔
بات یہ ہے ’’من ّ*** حجتاں ڈھیر‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا وہ ادب دلوں میں نہیں رہا جو پہلے تھا۔ اگر تم داڑھی رکھ لو گے تو کیا ہوگا؟ صرف یہی کہ لوگ تم پر ہنسیں گے اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ تم پر ہنستے ہیں۔ کامیابی کے آخر آثار ہوتے ہیں تم اپنے اندر کامیاب ہونے والوں کا سا رنگ پیدا کرو۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ لوگ تمہیں قُل اعوذئے کہیں گے اور کہا کریں۔
اِس موقع پر حضور نے مسٹر عبدالشکور کنزے (جرمن نَو مسلم) کو جنہوں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے سٹیج پر کھڑا کیا اور اُن سے دریافت کیا کہ کیا تمہاری سات پشت تک کسی نے داڑھی رکھی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا نہیں۔ اِس پر حضور نے خدام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی!! ایک غیر قوم کا آدمی داڑھی رکھتا ہے لیکن تم داڑھی نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اب مسلمان ہو گیا ہوں اِس لئے میں داڑھی رکھوں گا لیکن تمہیں کچھ احساس نہیں۔ سب سے پہلے انگریزوں نے داڑھی منڈانی شروع کی تھی ان میں سے بشر احمد آرچرڈ جو اَب ہمارے مبلّغ ہیں مسلمان ہوئے اور اُنہوں نے داڑھی رکھی۔ مسٹر کنزے کی داڑھی کے بال تو سیاہ ہیں لیکن بشیراحمد آرچرڈ کی داڑھی کے بال بھورے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے گویا مکئی کے سٹے کے بال اُتار کر لگا دیئے گئے ہیں لیکن وہ داڑھی رکھتے ہیں۔ پھر اُنہیں انگریز بیوی بھی مل گئی ہے۔ انگریزوں کے ہاں کورٹ شپ ہوتی ہے اور اس کے بغیر وہ سمجھتے ہیں گویا نکاح ہی نہیں ہوا۔ ہم نے لڑکی کے والد سے کہا کہ اب یہ رسم ختم کرو تو اُنہوں نے کہا بہت اچھا۔ وہ خاندانی آدمی تھے صحت کی خرابی کی وجہ سے اُنہوں نے ملازمت چھوڑ دی ہے اور اب ایک فارم لیا ہوا ہے اس سے بھی کافی آمد ہے۔ اُنہوں نے بڑی بہادری سے کہا اچھاکورٹ شپ نہیں ہوگی۔ ہم نے کہا لڑکی کو باوجود منگنی کے لڑکے سے علیحدہ ملنا نہیں ہوگا۔ ان کے ہاں منگنی کے بعد میاں بیوی والے تعلقات بھی ہو سکتے ہیں۔ مجھے جب یہ خبر آئی کہ اُنہوں نے کورٹ شپ کی اجازت نہیں دی تو میں نے خیال کیا انہیں ایک نیکی کی توفیق ملی ہے اب دوسری نیکی کی بھی توفیق ملے گی۔ اب میں نے ان کا فوٹو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کی اپنے داماد سے بھی بڑی داڑھی ہے اسی طرح آئندہ لوگ داڑھی رکھنے لگ جائیں گے۔ فرانس میں ۲۰ میں سے ایک آدمی نے داڑھی رکھی ہوئی ہوتی ہے۔ نوجوانوں کو سب سے زیادہ شوق برناڈشا کی کتابیں پڑھنے کاہے اُس کی بھی داڑھی تھی۔ غرض جن لوگوں کے اندر برتری کا احساس ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم دوسروں کی کیوں نقل کریں، وہ دوسروں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے۔ پس تم اسلامی احکام پر عمل کرو اور خصوصیت سے ہمارے خاندان پر اسلامی احکام پر عمل کرنا زیادہ واجب ہے۔ تمہیں اپنے اندر یہ جرأت پیدا کرنی چاہیے کہ لوگ کہیں کہ تم میں فلاں خرابی ہے اور تم اُسے برداشت کرو اور پھر اپنی اصلاح کی کوشش کرو۔ جب کوئی اپنی اصلاح کرے گا تو لازمی بات ہے کہ وہ دوسرے کی بھی اصلاح کرے گا۔ جب تک تم میں دیوانگی پیدا نہیں ہوتی تم کامیاب کیسے ہو سکتے ہو۔ دیوانگی کے بغیر کامیابی نہیں ہوا کرتی۔
انبیاء کی جماعتوں کو دیکھ لو لوگ اُنہیں دیوانے کہا کرتے ہیں لیکن کیا وہ دیوانے ہوتے ہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کو دیوانہ کہا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کو دیوانہ کہا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ محض اس لئے کہ وہ سوسائٹی کی بات نہیں مانتے تھے۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ آخر کیا بات ہے کہ اُنہوںنے ایسی شکل بنا لی ہے اور سوسائٹی کی بات نہیں مانتے۔ یقینا یہ دیوانگی کا اثر ہے قرآن کریم میں ان کی حیرت کا یہ حال آتا ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ رسول ہمیں کہتا ہے کہ تم اپنا مال یوں نہ خرچ کرو بھلا ہمارے مال میں اسے دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمارا اپنا مال ہے جس طرح ہم چاہیں اِسے استعمال کریں۔ مثلاً سُود ہے یہ کہتا ہے سُود نہ لیا کرو۔ بھلا اس کی یہ بات ہم مان سکتے ہیں؟ ہمارا مال ہے جسے چاہیں دیں اور جس طرح چاہیں دیں اس کا مذہب سے کیا واسطہ؟ لیکن کیا تمہارے نزدیک اُن کی یہ دلیل ٹھیک ہے؟ یہی چیزیں اُنہیں عجیب نظر آتی تھیں کہ مال کسی کا اور دینے والا کوئی۔ رسول کو اِس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے یہ یقینا دیوانہ ہے۔ مگر انبیاء اور اُن کی جماعتوں نے ہی جنہیں لوگ دیوانہ کہتے تھے فتح پائی۔
غرض دیوانگی کے بغیر کوئی قوم جیت نہیں سکتی۔ تم احمدی ہوگئے ہو اب تم داڑھی تو کیا بھویں بھی منڈوا لو بلکہ سر سے لے کر پاؤں تک انگریز بن جاؤ پھر بھی تمہاری مخالفت ضرور ہوگی۔ اگر تمہیں اپنی مخالفت کا ڈر تھا تو یہ مصیبت کیوں سہیڑی۔ تم کہتے ہو یہ مصیبت ہم نے اِس لئے سہیڑی ہے تا اسلام کی حکومت قائم ہو جائے۔ ہم بد عمل ہی سہی لیکن اسلام سے ہمیں محبت ہے اور اسلام کی حکومت ضرور قائم کریں گے یہ سارے مصائب ہم اس لئے برداشت کر رہے ہیں کہ اسلام کو ہم نے غالب کرنا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ تمہارے اِس دعویٰ میں کہاں تک سچائی پائی جاتی ہے۔ کیا تم میں کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے تم دنیا میں اسلام کو غالب کر سکتے ہو؟ آخر وہ کون سی چیز ہے جس سے لوگ جیتتے ہیں؟ مثلاً تعداد ہے تعداد بڑھنے کے ساتھ بھی قو میں جیتا کرتی ہیں لیکن تمہاری کتنی تعداد ہے اور کس حساب سے تمہاری تعداد بڑھ رہی ہے۔ الفضل میں شائع ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے اِس ماہ ۳۰۰؍ افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ بے شک یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے لیکن کیا اِس فضل سے تم جیت جاؤ گے؟ اگر ایک ماہ میں تین سَو احمدی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سال بھر میں صرف ۶۰۰،۳ ؍احمدی ہوں گے دس سال میں ۰۰۰،۳۶؍ احمدی ہوں گے اور ایک ہزار سال میں صرف ۰۰۰،۰۰،۶۰،۳ کی زیادتی ہوگی لیکن ہزار سال تک کوئی قوم زندہ بھی رہی ہے؟ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم ہزار سال تک زندہ رہی ہے؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم ہزار سال تک زندہ رہی ہے ؟یا کیا خود محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہزار سال تک زندہ رہی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اس عرصہ میں کوئی اَور مامور من اللہ آ جائے۔ جیتنے کی صرف یہی تین صدیاں ہوتی ہیں اور اگر رفتارِترقی یہی رہی تو اولادوں کو ملا کر تم سَو سال میں پانچ لاکھ اَور ہو جاؤ گے اِس تعداد کے ساتھ تم دنیا میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہو۔
پھر دنیا کو فتح کرنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے لیکن تمہارے پاس روپیہ بھی نہیں۔ کراچی کا ایک سیٹھ تمہاری سب جائدادیں خرید سکتا ہے۔ آخر تم کس چیز کے ساتھ کامیاب ہوگے؟ جیتنے کے لئے جتھہ کی ضرورت ہے، جیتنے کے لئے مال کی ضرورت ہے، جیتنے کے لئے عقل اور علم کی ضرورت ہے اور ان میں سے کوئی بھی چیز تمہارے پاس نہیں۔ ہاں ایک اَور چیز ہے جس سے تم جیت سکتے ہو اور وہ دیوانگی ہے لیکن وہ بھی ابھی تم میں پیدا نہیں ہوئی۔ عقل کہتی ہے تم نے غالب آنا ہے تو جتھہ پیدا کرو لیکن جتھہ تمہارے پاس نہیں ہے۔ صرف لاہور کی آبادی ۱۷ لاکھ کی ہے اور تمہاری تعداد قریباً تین لاکھ کی ہے آخر تم فخر کس بات پر کرتے ہو؟ پھر مالی لحاظ سے صدر انجمن احمدیہ کی حیثیت ایک معمولی تاجر کی بھی نہیں۔ لائل پور کے صرف ایک تاجر پر سات لاکھ روپیہ سالانہ ٹیکس لگا ہے اور تم سب مل کر سات لاکھ روپیہ کتنی مشکل سے چندہ دیتے ہو۔ علم کہو تو تمہارے ایک کے مقابلہ میں دوسروں میں ہزار عالم نکلیں گے۔ پھر کیا چیز ہے جس کی بناء پر تم کامیاب ہو جاؤ گے؟ تم اُن سے روپیہ چھین نہیں سکتے اور نہ اُن سے زیادہ روپیہ کما سکتے ہو، تم اُن کا علم چھین نہیں سکتے اور نہ ہی اُتنا علم سیکھ سکتے ہو، تم جتھہ کے لحاظ سے اُن کو ماتحت نہیں کر سکتے۔ صرف ایک ہی چیز ہے جس کی وجہ سے تم کامیاب ہو سکتے ہو اور وہ جنون ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں یہ جنون پایا جاتا تھا اور وہ جیت گئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم میں یہ جنون پایا جاتا تھا اور وہ جیت گئی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں بھی جنون تھا جس کی بناء پر وہ دنیا پر غالب آئے۔ اب تمہیں بھی جنون ہی کامیاب کر سکتا ہے لیکن تم نے اسے اپنے ہاتھوں کھو دیا ہے۔ مجنون کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔
ہمارے ہاں ایک اُستانی تھی اُس کا سر چکرایا کرتا تھا وہ چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی کہ زلزلہ آیا۔ پاس والوں نے کہا زلزلہ آیا ہے مگر وہ کہنے لگی تم آرام سے بیٹھی رہو زلزلہ وغیرہ کوئی نہیں آیا صرف میرا سر چکرایا ہے یہ علامت ہے جنون کی۔ ایسا آدمی دوسرے کی پرواہ نہیں کرتا اور ہر جگہ اپنی بات سنا دیتا ہے اور موقع بے موقع لوگ اُس کی بات سننے پر مجبور ہو جاتے ہیں جہاں بھی کوئی بات ہوگی وہ اپنی سنا دے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک مولوی کی بیوی پاگل ہوگئی۔ وہ شاہ پور کا رہنے والا تھا اُس نے اپنی پاگل بیوی سے تنگ آ کر اپنا وطن چھوڑ دیا اور لاہور چلا گیا۔ چھ ماہ یا سال گزر گیا ایک دن وہ مولوی گھر آیا تو دیکھا کہ اُس کی وہی پاگل بیوی اندر بیٹھی روٹیاں پکا رہی ہے۔ وہ بڑا حیران ہوا پانچ سات دن کے بعد اُس کی باتوں سے تنگ آ کر مولوی نے اُسے طلاق دے دی اور لاہور سے بھاگ کر لکھنؤ چلا گیا۔ وہاں تین چار سال تک رہا۔ ایک دن وہ گھر آیا تو دیکھا کہ پھر اُس کی پاگل بیوی اندر بیٹھی روٹیاں پکا رہی ہے۔ مولوی نے کہا تم یہاں کیسے آ گئی ہو میں تو تمہیں طلاق دے آیا تھا۔ وہ کہنے لگی جب تک ہم دونوں کی منظوری نہ ہو طلاق کیسے ہو سکتی ہے میں نے منظوری دی نہیں طلاق کیسے ہو سکتی ہے۔ آخر وہ تنگ آ کر ہندوستان سے ہی باہر چلا گیا۔ اسی طرح جب مومن دیکھتا ہے کہ خداتعالیٰ کی بات سنی نہیں جاتی تو وہ پاگل ہو جاتا ہے اور آخر دنیا اُس کی بات سننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ غرض یہی ایک طریق ہے جسے اختیار کر کے تم کامیاب ہو سکتے ہو۔ جب تک تم پاگلوں والا طریق اختیار نہیں کرتے اپنے مقصد میںہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے۔ تم یہ تو سوچتے ہو کہ اگر ہم نے چندہ دے دیا تو مال میں کمی آ جائے گی، تم میں سے نصف کے قریب نادہندہ ہیں، پھر کئی ایسے ہیں جن کے باپ چندہ ادا نہیں کرتے اور کئی کے ہمسائے چندہ ادا نہیں کرتے۔ کسی چندہ دینے والے نے کبھی نادہند سے یہ نہیں پوچھا کہ تم چندہ کیوں نہیں دیتے؟ تمہارے کوئی شخص پانچ روپے نہ دے تو شور مچا دیتے ہو مگر خدا تعالیٰ کے اگر کوئی پانچ ہزار روپے بھی نہیں دیتا تو تمہیں اس کی کچھ پرواہ نہیں تم کہہ دیتے ہو کہ خداتعالیٰ اس کا خود ذمہ دار ہے لیکن اپنے روپے کے بارہ میں تم خود ذمہ دار بن جاتے ہو۔ نوجوانوں میں ہمت ہوتی ہے اس لئے ان کا زیادہ فرض ہے کہ وہ خود بھی چندہ دیں اور دوسروں کو بھی چندہ دینے پر مجبور کریں۔ اگر تمہارا باپ نادہند ہے تو کم از کم تم یہ تو کہہ سکتے ہو آپ میرے باپ ہیں اور میں آپ کی عزت کرتا ہوں لیکن یہ کتنا ذلیل کام ہے جو آپ کرتے ہیں۔ میں صرف خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپ کی عزت کرتا ہوں ورنہ جو کام آپ کرتے ہیں وہ ایسا نہیں کہ آپ کی عزت کی جائے۔ تمہارے اندر اگر جرأت ہو اور تم عقل سے کام لو تو تم یہ کام کر سکتے ہو۔ صرف جنون کی ضرورت ہے اور جنون ہی تمہیں کامیاب کرے گا۔ جن لوگوں میں جنون ہوگا وہ دوسروں کو مجبور کر دیں گے کہ اُن کی بات سنیں، اُن کی بات مانیں اور اُس پر غور کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن کو چاہیے کہ اگر وہ بُرائی دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے روکے اور اگر اتنی بھی جرأت نہیں کہ اُس کی بُرائی کو زبان کے ذریعہ روکے تو کم از کم دل میں بُرا منائے۲؎ لیکن تم میں سے کتنے ہیں جو بُرائی دیکھ کر اُسے دل میں ہی بُرا مناتے ہیں پھریہ کیسا ایمان ہے جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
انگلستان میں پردہ کا سوال اُٹھا تو میں نے اپنے مبلغ کو کہلا بھیجا کہ اس مُلک کے عادات ایسے ہیں کہ عورتیں پردہ کر ہی نہیں سکتیں مگر تم ہر نَو مسلمہ سے یہ کہو کہ پردہ اسلامی حکم ہے اور پردہ نہ کرنے کو دل میں بُرا مناؤ اور یہ ایمان رکھو کہ جہاں کہیں بھی پردہ کا موقع مل گیا تم پردہ کے حکم کو بجا لاؤ گی۔ لیکن اگر ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا کہ پردہ اچھا نہیں تو وہ اس حکم کی اطاعت نہیں کریں گی۔ اسی طرح دوسری شادی ہے تم ان کے اندر یہ احساس پیدا کرو کہ دوسری شادی جائز ہے تا کہ وہ ان احکام کو اسلام کے ہی احکام مانیں اور ان کے اندر یہ احساس پیدا نہ ہو کہ یہ چیزیں غیر طبعی اور ناقابل قبول ہیں غرض جب تک تم اپنے کاموں میں جنون کا سا رنگ پیدا نہ کر لو گے تمہارے کام میں برکت نہیں پڑ سکتی اور بہت سی باتیں ہیں جن کے متعلق مجھے کچھ کہنا تھا لیکن چونکہ میں نے کل بھی بولنا ہے اِس لئے انہی باتوں پر اکتفا کرتا ہوں۔
میں تمہارا پریذیڈنٹ اِس لئے بنا ہوں تا دیکھوں کہ میری ان باتوں کا تم پر اثر ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر میں نے دیکھا کہ تم پر ان باتوں کا اثر نہیں تو میں اس نظام کو ختم کر دوں گا۔ سینکڑوں آدمی تمہارے اس نمونہ کی وجہ سے احمدیت میں داخل ہونے سے رُک گئے ہیں بعض نوجوانوں میں وہی آوارہ گردیاں پائی جاتی ہیں، وہی گانے ہیں، وہی اسلامی احکام سے تمسخر پایا جاتا ہے ابھی جب میں ربوہ آیا ہوں تو پرنسپل جامعہ احمدیہ نے مجھے ایک چٹھی لکھی لیکن دیکھو انسان کی جب حالت گر جاتی ہے تو اس کی اخلاقی حالت کیا ہو جاتی ہے وہ لکھتے ہیں جب میں بورڈنگ گیا تو لڑکے شور مچا رہے تھے۔ اگر لڑکے شور مچا رہے تھے تو کوئی بات نہیں لیکن آگے کیا ہوتا ہے۔ یہ تو وہی بات ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ایک شخص نے بتایا کہ فلاں مولوی صاحب نے نکاح پر نکاح پڑھا دیا ہے۔ میں نے کہا وہ مولوی صاحب میرے اچھے واقف ہیں مجھے تو تمہاری بات پر یقین نہیں آتا۔ اُس نے کہا اگر آپ کو یقین نہیں آتا تومولوی صاحب سے خود پوچھ لیں۔ دو چار دن کے بعد وہ مولوی صاحب میرے پاس آئے۔ میں نے کہا مولوی صاحب! مجھے تو یقین ہے کہ آپ نے ایسا نہیں کیا مگر چونکہ لوگ کہتے ہیں اِس لئے آپ بتائیں کہ یہ نکاح کے متعلق کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے آپ پہلے مجھ سے پوچھ لیتے۔
’’نمبر دار نے چڑی جڈا روپیہ میرے ہتھ تے رکھ دِتا تے میں کی کردا‘‘
پرنسپل صاحب کہتے ہیں کہ میں نے دونوں ٹیوٹروں کو بُلایا اور اُن سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ کہنے لگے ایسا تو روزانہ ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر وہ فی الواقعہ نگران ہوتے تو اِس چیز کو دور کرتے۔ مثلاً ان میں ایک بیٹا میرا بھی ہے ہو سکتا ہے کہ پرنسپل اُسے سزا دیتا اور وہ میرے کان بھرتا۔ میں افسر ہوں ہو سکتا تھاکہ میں غلطی کرتا اور اسے نکال دیتا لیکن ہو کیاجاتا۔ اگر وہ لوگ پوری طرح ایمان دار ہوتے تو کہتے ہو جائے جو کچھ ہوتا ہے لیکن ہم نے قانون پر عمل کرانا ہے لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہ تو چڑی جتنے روپے والی بات ہے۔ پرنسپل صاحب کو خیال تک نہ آیا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے اور ٹیوٹروں کی یہ بے ایمانی ہے کہ اُنہوں نے لڑکوں کے خلاف کوئی انتظامی کارروائی نہ کی۔ اس نقص کا بہرحال کوئی علاج کیا جائے گا میں نے عزم کر لیا ہے کہ ایسے لوگوں کو سکول سے نکال دوں۔ تمہارے اندر اگر ایمان ہوتا تو خدا اور رسول کے مقابلہ میں خواہ ساری دنیا ناراض ہو جاتی تمہیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ تم اگر مجھ سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لیتے ہو تو میں بہرحال انسان ہوں اور غلطی کر سکتا ہوں لیکن اگر تم دوسرے کا حق چھین لیتے ہو تو اس کے بدلہ میں تم جہنم میں جاؤ گے۔۳؎
بھلا یہ بھی کوئی طریق ہے کہ چونکہ پچاس روپیہ ماہوار کی نوکری جاتی رہے گی اس لئے ہم لڑکوں کی اصلاح نہیں کرسکتے حالانکہ تم صحیح طریق پر چل کر ہی کامیاب ہو سکتے ہو۔ جب تک تم چالبازی کرتے رہو گے، جب تک تم بے ایمانی کرتے رہو گے، جب تک تم اپنی روٹی کی فکر کرو گے اُس وقت تک تم خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے۔ اور جب تک تم خدا تعالیٰ کی رضاء حاصل نہیں کرتے سلسلہ کا مفید وجود نہیں بن سکتے اور نہ ہی کوئی کارنامہ کر سکتے ہو۔ تم چوہے کی طرح مارے جا سکتے ہو مگر بہادر شیر کی طرح فتح حاصل نہیں کر سکتے۔ میری ان باتوں کو سوچو اگر یہ باتیں غلط ہیں تو غور کرنے کے بعد میرے پاس کوئی ایسی مثال پیش کرو کہ فلاں جگہ پر فلاں جماعت بے دینی کے ذریعہ جیت گئی، انبیاء کی جماعتوں نے فلاں قوم کے فیشن کو اِس سے ڈر کر اختیار کر لیا، فلاں بستی کی قوم نے نوکریوں کی خاطر اپنے فرائض کو چھوڑ دیا۔ اگر تم نے کوئی ایسی مثال پیش کر دی تو میں مان لوں گا کہ قومیں بے دینی اختیار کر کے بھی جیت سکتی ہیں۔ تم مجھے بتاؤ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے لوگوں سے ڈر کر اُن کا فیشن اختیار کر لیا اور وہ جیت گئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نے بے دینی اختیار کر لی پھر بھی وہ جیت گئی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اپنے فرائض کو ترک کر دیا اور وہ پھر بھی جیت گئے۔ اگر تم کوئی ایسی مثال پیش کر دو تو میں تمہاری بات مان لوں گا۔ اور اگر ایسی کوئی مثال نہیں پائی جاتی تو پھر خدام الاحمدیہ ہی تمہارا ریڈیو ہے، یہی تمہارا سینما ہے جب تم یہ رنگ اختیار کر لو گے تو دنیا بے شک تمہارا تمسخر اُڑائے آسمان پر فرشتے تحسین کریں گے اور جب آسمان پر فرشتے تمہاری تحسین کرنے لگ جائیں گے تو تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ کامیابی کا صرف یہی طریق ہے کہ دنیا ہمارا بے شک تمسخر اُڑائے لیکن آسمان پر فرشتے ہماری تعریف کرنے لگ جائیں۔
(الفضل ۲۲؍ اگست ۱۹۶۲ء)
۱؎ کنز العمال جلد۱۱ صفحہ۱۸۱ مطبوعہ حلب
۲؎ ترمذی کتاب الفتن باب ماجاء فی تغییر المنکر (الخ)
۳؎ ابوداؤد کتاب القضاء باب فی قضائِ القاضی اذا اخطاء
خدام الاحمدیہ کا نائب صدر
صدر انجمن احمدیہ کا اور ہر مجلس کا قائدمقامی امیر کی مجلس عاملہ کا رُکن ہوا کرے گا
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدام الاحمدیہ کا نائب صدرصدر انجمن احمدیہ کا اور ہر مجلس کا قائد مقامی امیر کی مجلس عاملہ کارُکن ہوا کرے گا
(فرمودہ یکم نومبر۱۹۴۹ء برموقع اختتام اجتماع خدام الاحمدیہ)
’’آئندہ کے لیے خدام الاحمدیہ کا نائب صدر اپنی سرکاری حیثیت سے صدرانجمن احمدیہ کا باقاعدہ ممبر ہوا کرے گا۔ اِسی طرح ہر مجلس کا قائد اپنی سرکاری حیثیت سے مقامی امیر کی مجلس عاملہ کا رُکن ہوا کریگا۔ خدام سے معینہ چندوں کے علاوہ رضاکارانہ طور پر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ پانچ ہزار روپے کی طوعی تحریکیں کرنے کی مجاز ہوگی۔ اس سے زائد رقم کے لیے صدر انجمن احمدیہ کے ناظر بیت المال سے دریافت کرنا ضروری ہوگا۔ لیکن اگر بِالفرض ناظر بیت المال اس سے اتفاق نہ کرے تو فیصلہ صدر خدام الاحمدیہ کیا کریں گے۔ ‘‘
(آج حضور نے کوئی پونے گھنٹے تک اپنے خدام کو زریں ارشادات سے نوازا۔ سب سے پہلے فرمایا)
’’ اب جو لوگ خدام میں شامل نہیں ہیں وہ بھی انہیں میں مل جل کر بیٹھ جاتے ہیں۔ خدام کا کوئی امتیازی نشان یا وردی ہونی چاہیے یا کوئی بیج ہونا چاہیے۔ زائرین کے لیے علیحدہ سٹیج ہونا چاہیے اور میرے ساتھ جو لوگ مقامِ اجتماع میں آیا کریں اُن سے بھی باقاعدہ پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔ میرے ساتھ کسی ایسے آدمی کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جس کے پاس آپ کا دیا ہوا جازت نامہ نہ ہو ورنہ اِس پہرے کی دونوں غرضیں تنظیم اور خطرے سے حفاظت ٹوٹ کر رہ جائیں گی۔
حضور نے فرمایا کسی قاعدے کی پابندی ہر حالت میں لازمی ہوتی ہے جو قومیں دلیلوں سے قاعدے توڑنے کا جواز نکالنا شروع کر دیتی ہیں اُن کی ذہنیتیں شکست خودرہ ہو جاتی ہیں۔ افسر جو قانون بنائیں سب سے پہلے اُس پر خود کاربند ہوں۔ خدام کاایک بیج ہونا چاہیے اگر بیج آجکل نہ بن سکیں تو فی الحال کپڑے کا بیج بنوالیا جائے۔
حضور نے فرمایا:۔
میں نے پرسوں کہا تھا کہ نائب صدر کا مقام محض تنفیذ احکامِ صدر ہوگا۔ مجھے ڈر ہے اِس سے وہ لوگ جو نمبرداری مزاج کے ہوتے ہیں کوئی اُلٹ مطلب نہ نکال لیں۔ تنظیم کی تبدیلی کا تعلق میرے ساتھ ہے تمہارے ساتھ نہیں۔ وہ میرا نمائندہ ہوگا لہٰذا تمہیں نائب صدر کے احکام کی پابندی صدر ہی کے احکام سمجھ کر کرنا ہوگی۔ نائب صدر اپنی سرکاری حیثیت سے صدر انجمن احمدیہ کا ممبر ہوا کرے گا۔ اِسی طرح مجلس کا قائد بھی مقامی امیر کی مجلس عاملہ کا رُکن ہوا کرے گا۔ مجلس مرکزیہ پانچ ہزار تک چندے کی طوعی تحریک کر سکے گی لیکن اس سے اوپر ناظر بیت المال کی اجازت ضروری ہوگی۔ اگر کسی حالت میں ناظر بیت المال اس سے اتفاق نہ کرے تو صدر انجمن احمدیہ کے لمبے لائحہ عمل کی تقلید کی بجائے معاملہ صدر خدام الاحمدیہ کے پیش ہوا کرے گا۔
اِس کے بعد حضور نے خدام کے معاہدہ میں جان مال اور عزت کے علاوہ لفظ وقت کا اضافہ کرتے ہوئے فرمایا۔ اب یہ معاہدہ یوں ہوگا۔
میں اقرار کرتا ہوں کہ قومی اور ملی مفاد کی خاطر میں اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہوں گا۔
اِس کے بعد حضور نے لفظ ملی کی تشریح کی کہ اِس میں اخلاقی اور مذہبی ضرورتیں دونوں آ جاتی ہیں۔ اور ’’تیار رہوں گا‘‘ اور ’’قربانی کروں گا‘‘ کے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔ جب تم یہ کہتے ہو کہ میں فلاں قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہوں گا تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گویا اب جب بھی بلاوا آئے عذر یا التوا کی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔ پہلی صورت میں کہ قربانی کروں گا تیاری نہ ہونے کی بناء پر التواء کی گنجائش نکل آتی تھی اب اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔
اِس کے بعد حضور نے خدام کو کھڑے کر کے دونوں عہد خدام کا عہد اور قادیان کے حصول کا عہد دُہرائے اور حضور کے ساتھ خدام نے ایک ایک لفظ کر کے بآوازِ بلند اپنے ربّ سے تجدید عہد کی۔ اس کے بعد حضور دیر تک مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق خدام سے مختلف امور پوچھتے رہے اور آخر میں تلقین، تبلیغ کے سلسلے میں فرمایا۔
تبلیغ تین طریقوں سے ہو سکتی ہے۔ دوستی سے، خدمت سے اور مظلومی سے۔ لیکن مظلومی بہادری والی ہو جس سے یہ ظاہر ہو کہ تم محض اپنے ربّ کے لیے کچھ برداشت کر رہے ہو۔
اس کے بعد حضور نے کچھ دیر تک خدام کو فوجی زندگی کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔ پھر خدام الاحمدیہ کی کمی اشاعت کا شکوہ فرمایا اور کہا کہ اب تک آپ کی صدر انجمن احمدیہ سے بھی شاخیں بڑھ جانی چاہئیں تھی لیکن آپ ابھی تک ۱۲۰ سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
کچھ دیر تک فوجی زندگی سے ملک و قوم اور وطن کو نفع پہنچنے کی اہمیت بیان کرنے کے بعد فرمایا جو لوگ کام تو خود نہیں کرتے اور الزام اللہ میاں کے سر پر تھوپ دینے کے عادی ہوتے ہیں کہ صاحب! اللہ میاں کو ایسا ہی منظور تھا۔ وہ خدا کی ہتک کرتے ہیں۔ خدا منصف اور عادل ہے اور کبھی کسی کی محنت اور نیک عمل کو ضائع نہیں کرتا لہٰذا خدا کے قانون کی تاویل تمہارے ذہنوں میں کبھی نہ آئے بلکہ اس کے خلاف جہاد کرو۔ بزدل لوگ یہ کہہ کر خدا کی توہین کرتے ہیں۔ خدا کبھی اچھے کاموں کا بُرانتیجہ نہیں نکالا کرتا۔ بزدلی کی اس روح کو کچلو کیونکہ یہ روح قوموں کو خراب کر دیا کرتی ہے اور اس سے اخلاق بگڑ جایا کرتے ہیں۔
آخر میں حضور نے تعلیمی اداروں کے متعلق اور اساتذہ کو طلبہ کی اخلاقی نگرانی کو کڑا کر دینے کی تلقین فرمائی اور کہا ابھی تک ہمارے تعلیمی اداروں کا نظام خاطر خواہ نہیں ہوا۔ ہائی سکول کی حالت نسبتاً بہتر ہے لیکن آپ کا معیار تو بہت بلند ہونا چاہیے۔ ہمارے ادارے تو ابھی ابتدائیہیں ان کے بچوں کے کردار تو نہایت ہی اعلیٰ ہونے چاہئیں لہٰذا میں بتائے دیتا ہوں کہ اگر آئندہ مجھ تک ان اداروں کے متعلق کوئی بداخلاقی وغیرہ کی کوئی رپورٹ آئی تو میں طلبہ سے زیادہ اساتذہ کو ذمہ دار ٹھہراؤں گا۔
حضور نے اپنی تقریر ہی میں اجتماع کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور تقریر کے آخر پر ایک لمبی دعا فرمائی‘‘۔ (الفضل ۴؍ نومبر ۱۹۴۹ء)
پاکستان کی ترقی اور اس کے استحکام کے سلسلہ میں زریں نصائح
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستان کی ترقی اور اسکے استحکام کے سلسلہ میں زریں نصائح
(فرمودہ ۱۱؍ نومبر ۱۹۴۹ء بمقام کمپنی باغ سرگودھا)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
سرگودھا کے احباب نے جب مجھ سے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں سرگودھا میں ایک تقریر کروں اور میں نے خوشی سے اسے منظور کر لیا تو اُنہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ میں کس مضمون پر تقریر کروں گا۔ میں نے اُنہیں جواب دیا کہ میں کوئی مضمون متعین نہیں کر سکتا درحقیقت اِس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے سرگودھا میں تقریر کرنے کا اِس سے پہلے کوئی موقع نہیں ملا اور بوجہ اس کے کہ اِس سے پہلے مجھے تقریر کرنے کا یہاں موقع نہیں ملا یہ ظاہر بات ہے کہ بیسیوں امور میرے دل میں پیدا ہونے لازمی ہیں جن کے متعلق میں کچھ کہوں لیکن تھوڑے سے وقت میں بہت سے امور کے متعلق تفصیلی گفتگو نہیں ہو سکتی نہ کسی ایک کا انتخاب ایسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جبکہ دل یہ کہتا ہو کہ میں کئی باتیں کہوں۔ لاہور یا بعض ایسے مقامات جہاں مجھے متواتر بولنے کا موقع ملا ہے اور جہاں کئی باتوں پر میں اپنے خیالات کا تفصیلی طور پر اظہار کر چکا ہوں وہاں کسی مضمون کا چن لینا آسان ہوتا ہے لیکن جو نئی جگہ ہو وہاں انسان سمجھتا ہے کہ اگر سرِدست مجھے ایک موقع ملا ہے (آگے کے حالات تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے) تو جتنی ضروری باتیں میں مختصر وقت میں کہہ سکتا ہوں کہہ دوں اس لئے میں نے کوئی مضمون متعین نہیں کیا بلکہ اپنے مضمون کا ہیڈنگ یہ رکھا ہے کہ
کچھ سوچنے اور سمجھنے کی باتیں
اِس مضمون کے اندر کئی قسم کے خیالات ادا کئے جا سکتے ہیں اور متنوع باتیں اس کے اندر لائی جاسکتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ انسان اور حیوان میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ انسان سوچتا ہے اور حیوان نہیں سوچتا۔ حیوان ابتدائے آفرینش سے ایک ڈگر پر چلاآیا ہے لیکن انسان نے سوچ سوچ کر اپنے لئے نئے راستے ایجاد کر لئے ہیں اور جب کبھی انسان نے اپنے اس مقررہ طریق کو چھوڑا ہے وہ ہمیشہ نیچے گیا ہے اوپر کبھی نہیں گیا۔ پس اصل چیز جس پر ہمیں زور دینا چاہیے اور جس کی طرف ہمیں توجہ رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی اس عادت کو نہ چھوڑیں جس عادت کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کے لیے ضروری قرار دیا ہے اور وہ سوچنے کی عادت ہے۔ اگر ہم بے سوچے سمجھے اپنے لئے کوئی طریق اختیار کر لیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ ہم ترقی نہیں کریں گے بلکہ ہم جس جگہ کھڑے ہوں گے وہیں کھڑے رہیں گے اور یہ قانونِ قدرت ہے کہ جو کھڑا ہو جاتا ہے وہ پیچھے کی طرف جاتا ہے اپنے مقام پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا ایسی بنائی ہے کہ یا تو انسان آگے جائے گا یا پیچھے جائے گا کوئی مقام ایسا نہیں جہاں وہ کھڑا رہ سکے۔ دنیا کی تاریخ دیکھ لو جس وقت سے بنی نوع انسان کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے اور قرآن کریم کے ذریعہ تو ساری دنیا کی تاریخ کا علم حاصل ہوتا ہے کیونکہ آدم کے زمانہ سے اس نے تاریخ بیان کی ہے یہی نظر آتا ہے کہ یا تو لوگ آگے چلتے ہیں یا پیچھے ہٹتے ہیں، ایک جگہ پر کھڑے ہونے کی مقدرت انسان کو عطا نہیں کی گئی۔ اِس لئے کھڑے ہونے کے کوئی معنی ہی نہیں اور آگے جانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہمارا مقصد کیاہے اور ہم میں اتنی استعداد ہو کہ ہم ہر چیز پر غور کر کے اپنے لئے کوئی راستہ تجویز کرسکیں۔ پس ترقی کے لئے ہمیں اس بات کی عادت ڈالنی چاہیے کہ ہم سوچیں اور سمجھیں اور غوروفکر سے کام لیں اور پھر مناسب غور وفکر کے نتیجہ میں جو مفید باتیں معلوم ہوں اُن پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یقینا ہم اپنے آپ کو ایک مفید وجود بناتے اور اپنی زندگی سے صحیح رنگ میں فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن اگر ہم سوچتے اور سمجھتے نہیں یا سوچنے اور سمجھنے کے بعد جو مفید باتیں معلوم ہوں اُن پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہم اپنی زندگی کے مقصد کو بھول کر ایک ایسی شاہراہ پر قدم مارتے ہیں جو انسان کو ہلاکت اور بربادی کی طرف لے جاتی ہے اسے کامیابی اور ترقی سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔
اس نصیحت کے بعد میں آپ لوگوں کے سامنے چند باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ لوگ ان پر غور کریں گے اور اپنی اُس ذمہ داری کو سمجھنے کی کوشش کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں پر عائد کی ہے۔ سب سے پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں نے پاکستان طلب کیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو مل گیا۔ آپ نے خداتعالیٰ سے کہا کہ خدایا! ہمیں ڈر آتا ہے کہ اگر ہم نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر کام کیا تو وہ ہمیں نقصان پہنچائیں گے اس لئے تو ہمیں ایک الگ مُلک دے دے خواہ وہ چھوٹا ہی ہو مگر ایسا ہو جس میں ہندوؤں سے الگ رہ کر ہم اپنی زندگی بسر کر سکیں اور اپنی ترقی کے لئے جدوجہد کر سکیں۔ سو اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کی اس دعا کو سنا اور اس نے باوجود مسلمانوں کی کمزوری کے یہ فیصلہ کیا کہ جب میرے بندے مجھ سے ایک چیز مانگتے ہیں تو میں وہ انہیں کیوں نہ دوں چنانچہ اس نے مسلمانوں کی کسی قربانی کے بغیر انہیں پاکستان دے دیا۔ بے شک پاکستان ملنے کے بعد مسلمانوں کو ایک بہت بڑی قربانی دینی پڑی لیکن پاکستان بننے سے پہلے مسلمانوں کو بہت کم قربانی دینی پڑی۔ پاکستان بننے کے بعد بے شک ایک خطرناک قربانی ان سے لی گئی جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نظر نہیں آتی لیکن بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خداتعالیٰ نے بغیر قربانی کے یہ نعمت آپ لوگوں کو عطا فرمائی اور آپ کی دعا اس نے قبول فرمائی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ جو پاکستان خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کو دیا ہے آخر یہ کوئی جاندار چیز تو نہیں، جاندار وجود صرف آپ کا ہے۔ آپ بولتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں، آپ چلتے پھرتے ہیں، آپ ایک چیز کو پکڑتے ہیں، آپ اُسے کھینچتے ہیں لیکن پاکستان نہ بولتا ہے، نہ سوچتا ہے، نہ سمجھتا ہے کیونکہ وہ جاندار چیز نہیں۔ اور دنیا میں یہ قانون ہے کہ جاندار چیزیں ہی بے جان یا مثل بے جان چیزوں کی حفاظت کیا کرتی ہیں۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ بے جان چیزیں جاندار چیزوں کی حفاظت کررہی ہوں ہمیشہ جاندار چیزیں ہی بے جان چیزوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ مثلاً درخت بے جان ہیں آپ ان کی حفاظت کرتے ہیں، آپ انہیں پانی دیتے ہیں، آپ ان کی شاخ تراشی کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ درخت باغ کے مالک کی مٹھی چاپی کر رہے ہوںیا اُسے کھانا پکا کر دے رہے ہوں؟ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہمیشہ جاندار چیز ہی بے جان کی حفاظت کیا کرتی ہے۔ پاکستان بے جان ہے اور آپ لوگ جاندار ہیں۔ پس پاکستان کی آپ نے حفاظت کرنی ہے۔ پاکستان نے آپ کی حفاظت نہیں کرنی۔
بے جان کی طرح ایک چھوٹا بچہ بھی ہوتا ہے۔ عورت کو بچہ خود اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور کسی کی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ بچہ پیدا کر سکے۔ چنانچہ دیکھ لو بعض لوگوں کے ہاں ساری عمر بچہ پیدا نہیں ہوتا وہ سارا زور علاج معالجہ پر صَرف کر دیتے ہیں مگر بچہ نہیں ہوتا۔ پس بچہ اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے مگر اس کے بعد کبھی تم نے دیکھا کہ بچہ ماں کی حفاظت کر رہا ہو؟ یہ سیدھی بات ہے کہ بچہ ماں کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ ماں بچہ کی حفاظت کرتی ہے۔ وہ اِسے دودھ پلاتی ہے، اُس کی سردی گرمی کا خیال رکھتی ہے، اُس کے پاخانہ پیشاب کا خیال رکھتی ہے، اُس کی صحت کا خیال رکھتی ہے۔ اور اگر وہ اس کی نگہداشت نہیں کرتی یا بیماری میں اِس کا علاج نہیں کرتی تو وہ مر جاتا ہے۔ بچہ ایسی چیز ہے جو ماں کے اختیار میں نہیں مگر مارنا اس کے اختیار میں ہے۔ کئی مائیں ہیں جو اپنے بچوں کو مار دیتی ہیں مگر اس طرح نہیں کہ ان کا گلا گھونٹ کر بلکہ اس طرح کہ ان کی سردی گرمی کا خیال نہ رکھا اور بچہ کو نمونیہ ہو گیا اور وہ مر گیا۔ یاقبض کا خیال نہ رکھا تو تشنج ہونے لگ گیا یا فالج گرا اور مر گیا۔ معدہ کا خیال نہ رکھا تو دست آنے لگ گئے اور بچہ ہلاک ہو گیا۔ غرض مائیں بچہ پیدا نہیں کر سکتیں مگر اُس بچہ کو مار ضرور سکتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان آپ پیدا نہیں کر سکتے تھے یہ خدا تعالیٰ ہی پیدا کر سکتا تھا اور اُس نے اپنے فضل سے پاکستان آپ لوگوں کو دے دیا لیکن اب پاکستان کی حفاظت کرنا آپ کا کام ہے جس طرح ماں اپنے بچہ کی خبرگیری نہیں کرتی تو اسے مار دیتی ہے اسی طرح اگر آپ بھی پاکستان کی خبر گیری نہیں کریں گے تو وہ ضائع ہو جائے گا کیونکہ وہ بے جان چیز ہے اور اُسے زندہ رہنے والے عنصر نے قائم رکھنا ہے۔ اس کمزور عنصر کو اس طاقتور عنصر نے قائم رکھنا ہے جسے خداتعالیٰ نے عقل و فہم سے حصہ دیا ہے۔ پس آپ لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان تو آپ لوگوں نے مانگا اور وہ آپ کو مل بھی گیا مگر کیا جب آپ لوگوں نے پاکستان مانگا تھا تو اس وقت آپ کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اگر ہمیں پاکستان مل گیا تو ہمیں اس کی خبر گیری کرنی پڑے گی۔ ماں جب اللہ تعالیٰ سے بچہ مانگتی ہے اور کہتی ہے کہ خدایا! تو مجھے اپنے فضل سے اولاد عطا فرما تو وہ یہ بھی جانتی ہے کہ مجھے بچہ کے لئے راتوں کو جاگنا پڑے گا، مجھے اپنا خون اسے اپنی چھاتیوں سے پلانا پڑے گا، مجھے سخت سردی کی راتوں میں اسے اپنے کندھے سے لگا کر ٹہلنا پڑے گا، وہ پیشاب کر دے گا تو میں اُس کے کپڑوں کو بدلواؤں گی اور خود ساری رات انہی کپڑوں میں ٹھٹھرتی رہوں گی۔ غرض وہ سمجھتی ہے کہ مجھ پر کیا ذمہ داریاں ہیں اور وہ ان ذمہ داریوں کو برداشت کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہوتی ہے۔ آپ لوگ بھی پاکستان کی مائیں ہیں اور پاکستان وہ بچہ ہے جو خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ماں تو جانتی ہے کہ اُس پر بچہ کے متعلق کیا کیا ذمہ داریاں آنے والی ہیں کیا وہ ذمہ داریاں جو پاکستان بننے کے بعد آپ پر عائد ہونے والی تھیں وہ آپ کے خیال میں تھیں یا نہیں تھیں۔ یہ سیدھی بات ہے کہ جب تک ہمارے مُلک کا انگریز حاکم تھا انگریز اس بات کا ذمہ دار تھا کہ ہمارے مُلک کی حفاظت کرے۔ جب تک انگریز حکمران تھا انگریز اِس بات کا ذمہ دار تھا کہ اِس مُلک کی تجارت کو ترقی دے۔ اِس مُلک کی تعلیم کو ترقی دے، اِس ملک کی صنعت و حرفت کو ترقی دے اور اِس مُلک کی حکومت کو صحیح طور پر چلائے مگر جب آپ لوگوں نے کہا کہ خدایا! یہ بچہ ہمارا ہے یہ ہمیں دے دے اور خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو دے دیا تو اب اِس بچہ کا کوئی اور ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ صرف اور صرف آپ لوگ ہی اِس بات کے ذمہ دار ہیں کہ یہاں کا علم ترقی کرے، یہاں کی صنعت و حرفت ترقی کرے، یہاں کے لوگوں کی دینی حالت ترقی کرے، یہاں کے لوگوں کی اخلاقی حالت ترقی کرے۔ اور یہاں کی حکومت صحیح طور پر چلے۔ اسی طرح اب آپ ہی اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اگر کوئی دشمن آپ کے مُلک پر حملہ آور ہو تو آپ خود اس کا دفاع کریں۔ جب تک یہ بچہ پیدا نہیں ہوا تھا اُس وقت تک خدا کا تھا مگر جب اُس نے یہ بچہ تم کو دے دیا تو اب تمہارا کام ہے کہ تم اس کی حفاظت کرو اور اس کیلئے ان قربانیوں سے کام لو جو بچہ کی حفاظت اور نگہداشت کے سلسلہ میں کرنی پڑتی ہیں۔ بہرحال یہ سیدھی بات ہے کہ اگر آپ نے اُس وقت سوچا ہوگا کہ پاکستان ہمیں ملنا چاہیے تو پھر یہ بھی سوچا ہوگا کہ اب وہ ساری ذمہ داری ہم کو لینی پڑے گی جو پہلے انگریزوں پر ہوا کرتی تھی۔ پھر ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ بچے کی تربیت اور بڑے کی تربیت میں فرق ہوتا ہے۔ ماں کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ اسے پہلے ہی دن روٹی پکا پکا کر کھلانی شروع کر دے۔ وہ جانتی ہے کہ کچھ مدت تک وہ میرا خون چوسے گا یہ زمین کی روٹی بعد میں کھائے گا پہلے اسے مجھے اپنی چھاتیوں سے روٹی کھلانی پڑے گی کیونکہ جب تک یہ جوان نہیں ہو جاتا وہ روٹی جو ایک جوان کھا سکتا ہے یہ نہیں کھا سکتا۔ اِسی طرح ماں یہ بھی سمجھتی ہے کہ جب میرے گھر میں بچہ پیدا ہوا ہے تو اب کوئی غیر شخص اس کی حفاظت نہیں کرے گا۔ غرض یہ تین چیزیں ہیں جن کے متعلق وہ فیصلہ کر لیتی ہے۔
(۱) ماں جانتی ہے کہ یہ بچہ پالنا پڑے گا۔
(۲) ماں جانتی ہے کہ یہ بچہ مجھے ہی پالنا پڑے گا۔
(۳) ماں جانتی ہے کہ اس کی پرورش میں مجھے وہ تمام طریقے اختیار کرنے پڑیں گے جن کے نتیجہ میں یہ جوان اور طاقتور بن جائے اور جب تک یہ بڑا نہیں ہو جاتا اُس وقت تک مجھے اور قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں گی جو ان قربانیوں سے مختلف ہوں گی جو ایک بڑی عمر کے بچہ کے لئے کی جاتی ہیں۔ ایک عورت کا بچہ ۱۵ سال کا ہو اور ایک عورت کا بچہ ۲ مہینے کا تو کیا کوئی شخص اُس عورت کو معقول کہہ سکتا ہے جو اپنے دو مہینے کے بچہ کے منہ میں بھی روٹی ڈالے، اسے بھی کھلانے کے لئے پلاؤ دے اور دلیل یہ دے کہ چونکہ فلاں عورت کا ۱۵ سالہ بچہ بھی روٹیاں کھاتا ہے، ہڈیاں چباتا ہے اس لئے میں بھی اسے یہی چیزیں دوں گی۔ تم ایسی عورت کو کیا کہو گے؟ اگر پاگل نہیں تو بے وقوف ضرور کہو گے۔ اِسی طرح جو مُلک جوان ہو چکا ،جو مُلک طاقت پکڑ چکا، جو مُلک قوت حاصل کر چکا، جس کی بنیادیں مضبوط ہو چکیں اُس کے افراد کو جس رنگ میں قربانیاں کرنی پڑیں وہ ان قربانیوں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں جو ایک ایسے مُلک کے افراد کو کرنی پڑتی ہیں جس کو نئی حکومت ملی ہو۔ نئی حکومت کی مثال بالکل اُس درخت کی سی ہوتی ہے جس نے ابھی اپنی جڑیں نہیں پکڑیں۔ ایک بَڑ کے درخت کی کونپل جب زمین میں سے نکلتی ہے تو اُسے بکری بھی اپنے پاؤں سے مَسل سکتی ہے لیکن وہی بَڑ کا درخت جب بڑا ہوتا ہے تو ایک بیل بھی ٹکر مارے تو اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا بلکہ بڑے سے بڑا بھینسا بھی اسے ٹکرے مارے تو وہ ہل نہیں سکتا۔ پس محض اتنی مشابہت سے کام نہیں چل سکتا کہ فلاں خدمت میں ایسا ہوتا ہے اگر اس قسم کی مشابہت سے ہی نتائج اخذ کر لئے جائیں تو یہ طریق بالکل اُس بیوقوف ماں کی طرح ہوگا جو اپنے دودھ پیتے بچہ کو اِس مشابہت کی بناء پر روٹی کھلانے لگ جائے کہ فلاں عورت کا پندرہ سالہ بچہ روٹی کھاتا ہے میں اپنے بچے کو کیوں نہ روٹی کھلاؤں۔
غرض ایک بہت بڑا فرق ہے امریکہ، فرانس، انگلستان، روس اور جرمنی کی حکومتوں اور پاکستان کی حکومت میں۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ پاکستان بچہ ہے اور وہ جوان ہیں۔ جوانوں کے لئے اور قواعد ہوتے ہیں اور بچہ کے لئے اور قواعد ہوتے ہیں۔ جوان لڑکے کے لئے ماں رات کو نہیں جاگتی لیکن بچہ کے لئے ماں رات کو جاگتی ہے۔ جوان لڑکے کو ماں اپنی چھاتی سے دودھ نہیں پلاتی لیکن بچے کو وہ اپنا خون چوساتی ہے۔ پس جب تک تم اُن ذمہ داریوں کو نہ سمجھو جو پاکستان کی طرف سے تم پر عائد ہوتی ہیں اُس وقت تک تم محض ان مشابہتوں سے اپنے دلوں کو تسلّی نہیں دے سکتے کہ امریکہ اور انگلستان اور فرانس اور جرمنی اور روس میں ایسا ہوتا ہے۔ میں تو اخبارات میں جب اس قسم کے مضامین پڑھتا ہوں کہ امریکہ میں یوں ہوتا ہے، انگلستان اور فرانس میں یوں ہوتا ہے تو حیران ہو جاتا ہوں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ چالیس سال کے مضبوط آدمی کی طرح ہیں اور پاکستان ابھی بچہ ہے۔ بہرحال ایک پاکستانی کو اور رنگ کی قربانی کرنی پڑے گی اگر وہ اپنے مُلک کو قائم رکھنا چاہتا ہے اور انگلستان کے آدمی کو اور رنگ کی قربانی کرنی پڑے گی۔ اور پاکستان کے لوگ یہ چاہیں گے کہ وہ اتنی ہی قربانی کریں جتنی امریکہ اور انگلستان کے لوگ کر رہے ہیں تو یہ پاکستان کی دشمنی ہوگی۔ جس طرح وہ ماں جو اپنے دو مہینے کے بچے کو روٹی یا بوٹی کھلانا چاہتی ہے وہ اس کے ساتھ دشمنی کا اظہار کرتی ہے۔ اور باتوں کو جانے دو وہ زائد قربانیاں جو پاکستان کے لوگوں کو کرنی چاہئیں ان کو نظر انداز کر دو۔ وہ موٹی موٹی قربانیاں جن میں انگلستان اور امریکہ بھی شامل ہیں انہی کو لے لو اور پھر دیکھو کہ پاکستانی کیا کر رہے ہیں۔
یہ واضح بات ہے کہ حکومتیں روپے سے چلتی ہیں مگر جب پاکستان بنا تو شروع شروع میں تو ایک اندھیر مچ گیا۔ میں جب مشرقی پنجاب سے آیا تو ریلوے کے بعض بڑے بڑے افسر میرے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ بغیر ٹکٹ لئے زبردستی ریل میں گھس آتے ہیں اور کہتے ہیں انگریز تو چلا گیا اب اپنی حکومت ہے اب ہم ٹکٹ کیوں خریدیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اب ہماری اپنی حکومت ہے مگر سوال یہ ہے کہ اپنی چیز کی زیادہ حفاظت کیا کرتے ہیں یا کم حفاظت کیا کرتے ہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی عورت کہے کہ میں فلاں بچہ کے سر پر نہیں بیٹھتی کیونکہ یہ کسی اَور کا بچہ ہے میں تو اپنے بچہ کے سر پر بیٹھوں گی۔ یہ صاف بات ہے کہ اگر وہ اپنے بچہ کے سر پر بیٹھے گی تو وہ مر جائے گا پس بیشک یہ درست ہے کہ اب ہماری اپنی حکومت ہے، یہ بھی درست ہے کہ اب ہماری اپنی ریل ہے مگر اپنی حکومت اور اپنی ریل کو زیادہ بچایا کرتے ہیں یا زیادہ نقصان پہنچایا کرتے ہیں؟ یا اپنا بچہ ہو تو ہم اس کی کم قدر کیا کرتے ہیں یا زیادہ قدر کیا کرتے ہیں؟
حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ دو عورتوں میں جھگڑا ہو گیا اُن کا خاوند کہیں باہر گیا ہوا تھا کہ اس کے جانے کے تھوڑے دنوں کے بعد ہی دونوں کے ہاں بچہ پیدا ہو گیا۔ اس نے دو سال کے بعد واپس آنا تھا یہ واضح بات ہے کہ واپسی پر وہ پہچان نہیں سکتا تھا کہ اِس کا بچہ کونسا ہے اور اُس کا بچہ کونسا ہے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ابھی وہ گھر پر نہیں پہنچا تھا کہ اِن دونوں عورتوں کو ایک شادی میں شریک ہونے کے لئے کہیں باہر جانا پڑا۔ راستہ میں جنگل آتا تھا وہ جا رہی تھیں کہ بھیڑیا آیا اور اُن میں سے ایک کا بچہ اُٹھا کر لے گیا۔ جس عورت کا بچہ بھیڑیا اُٹھا کر لے گیا اُس نے سمجھا کہ جب میرا خاوند گھر میں آیا اور اس نے دیکھا کہ دوسری عورت کا تو بچہ ہے اور میرا کوئی بچہ نہیں تو اُس کی محبت مجھ سے کم ہو جائے گی اور دوسری عورت سے زیادہ محبت کرنے لگ جائے گا۔ وہ چالاک عورت اِس خیال کے آتے ہی اس نے دوسری عورت کا بچہ اُٹھا لیا اور کہنے لگی یہ میرا بچہ ہے۔ بھیڑیا تیرا بچہ اُٹھا کر لے گیا ہے۔ اس پر ان دونوں کی آپس میں خوب لڑائی ہوئی۔ ایک کہتی کہ یہ میرا بچہ ہے اور دوسری کہتی کہ یہ میرا بچہ ہے۔ وہ اس جھگڑے کو کئی قاضیوں کے پاس لے کر گئیں مگر کوئی شخص یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ بچہ کی اصلی ماں کونسی ہے۔ آخر چلتے چلتے یہ مقدمہ حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس پہنچا حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی پتہ لگ گیا کہ اس اس طرح کا ایک مقدمہ عدالتوں میں چل رہا ہے مگر ابھی تک اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ وہ نوجوان تھے اور نوجوانی میں جوش زیادہ ہوتا ہے اُنہوں نے اپنے والد کو کہلا بھیجا کہ یہ مقدمہ میری عدالت میں بھجوا دیا جائے میں اس کا فیصلہ کر دوں گا۔ اُنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ان دونوں عورتوں کو بھجوا دیا جب یہ ان کے پاس گئیں اور اپنے جھگڑے کی تفصیل بیان کی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایانہیں معلوم وہ کیسے قاضی تھے جن کے پاس یہ مقدمہ جاتا رہا اور وہ اِس کا فیصلہ نہیں کر سکے۔ یہ ایک سیدھی سادی بات ہے جب ہمیں اِس بات کا پتہ نہیں لگ سکتا کہ یہ بچہ کس عورت کا ہے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اِس بچہ کو دونوں میں آدھا آدھا بانٹ دیا جائے۔ چنانچہ اُنہوں نے حکم دیا کہ چھری لاؤ میں ابھی اِس بچہ کو کاٹ کر اِن میں آدھا آدھا تقسیم کر دیتا ہوں۔ جب اُنہوں نے کہا چھری لاؤ میں اس بچہ کو کاٹ کر دونوں میں تقسیم کر دوں تو جس کا بچہ بھیڑیا اُٹھا کر لے گیا تھا وہ کہنے لگی خدا آپ کا بھلا کرے کیسے انصاف کی بات ہے جو آپ نے کہی۔ مگر جس کا بچہ تھا وہ کہنے لگی حضور! میں نے جھوٹ بولا ہے یہ بچہ میرا نہیں اسی کا ہے بے شک اِسی کو دے دیاجائے۔ آخر اُس کی مامتا تھی وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی تدبیر کو تو نہ سمجھی اُس نے خیال کیا کہ یہ سچ مچ اِس کے دو ٹکڑے کرنے والے ہیں اِس پر اُسے خیال آیا کہ بچہ خواہ مجھے نہ ملے یہ کم از کم جیتا تو رہے۔ چنانچہ اُس نے بڑی لجاجت سے کہا کہ حضور! بچہ اسے ہی دے دیں میں نے جھوٹ بولا تھا کہ یہ میرا بچہ ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے اور اُنہوں نے وہ بچہ اس کے سپرد کر دیا جو حقیقی ماں تھی اور دوسری عورت کو سزا دی۔ تو مائیںبعض دفعہ اپنا حق بھی قربان کر دیتی ہیںمگر یہ نہیں چاہتیں کہ ان کا بچہ ہلاک ہو۔ اگر پاکستان واقع میں تمہارا ہے تو پھر تمہیں اس کی مضبوطی کے لئے قربانیاں بھی کرنی پڑیں گی۔ صرف یہ کہہ کر تم اُن قربانیوں سے آزاد نہیں ہو سکتے کہ یہ ہماری چیز ہے ہم اسے جس طرح چاہیں رکھیں بلکہ ہماری چیز کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں دوسروں سے زیادہ قربانیاں دینی پڑیں گی۔
یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے اس کے علاوہ اور بھی بیسیوں مثالیں ہیں۔ یہ زمینداروں کا ضلع ہے اور زمیندار اپنے ٹیکس کو بچا نہیں سکتا کیونکہ گورنمنٹ جانتی ہے کہ اس کے پاس اتنی زمین ہے اور اتنا اس کا معاملہ ہے۔ گورنمنٹ کا ملازم بھی پکڑا جاتا ہے کیونکہ گورنمنٹ اسے تنخواہ دے رہی ہوتی ہے اور وہ جانتی ہے کہ اسے کتنی تنخواہ ملتی ہے لیکن باقی لوگ ٹیکسوں میںبرابر کھینچا تانی کرتے رہتے ہیں۔ انگریز کے وقت تو ایک ہندوستانی کہہ سکتا تھا کہ انگریز حکمران ہے میں اسے روپیہ کیوں دوں لیکن اب تو پاکستان تمہارا اپنا بچہ ہے اپنے بچے کے لئے تمہیں لازماً قربانیاں کرنی پڑیں گی اور لازماً اپنا روپیہ خرچ کرنا پڑے گا۔ اگر روپیہ نہیں ہوگا تو فوجیں کس طرح رکھی جا سکیں گی اور حکومت کے انتظامات کس طرح چلائے جائیں گے۔ مگر باوجود اس کے کہ اب حکومت اپنی ہے اور اپنی چیز کے لئے زیادہ قربانیاں کرنی چاہئیں تاجر وہی ہیرپھیر کر رہے ہیں جو پہلے کیا کرتے تھے۔ مثلاً سیلز ٹیکس کو ہی لے لو میں نے دیکھا ہے کہ بہت کم تاجر ہیں جو سیلز ٹیکس لگاتے ہیں اور گاہک پر سیلز ٹیکس نہ لگانے کا احسان رکھ کر اپنی چیزیں نہایت گراں قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں۔ ابھی لاہور سے آتے وقت میں نے بازار سے ایک چیز منگوائی جب مجھے اس کی قیمت بتائی گئی تو میں نے کہا کہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ اس پر آدمی پھر دُکاندار کے پاس گیا مگر اس نے واپس آ کر کہا کہ وہ دُکاندار کہتا ہے میں سیلز ٹیکس اپنے پاس سے دے دونگا قیمت اس سے کم نہیں ہو سکتی۔ میں نے کہا یہ تو وہی بات ہوئی کہ ’’حلوائی کی دُکان اور دادا جی کی فاتحہ‘‘۔ سیلز ٹیکس تم مجھ سے لو مگر یہ دھوکا بازی نہ کرو۔ غرض تاجر کا عام طریق یہی ہے وہ گاہک کو بھی خوش کر لیتا ہے کیونکہ سیلز ٹیکس کھاتے میں نہیں چڑھاتا اور چیز بھی نہایت گراں قیمت پر فروخت کر دیتا ہے۔ گورنمنٹ کا اندازہ یہ تھا کہ سیلز ٹیکس سے اسے سات سے دس کروڑ تک روپیہ وصول ہوگا لیکن پچھلے سال اس کی ساری وصولی اڑھائی کروڑ روپیہ کی ہوئی ہے گویا سات آٹھ کروڑ روپیہ تاجر اُڑا گیا اور دوسرے ٹیکسوں کی بھی یہی حالت ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہی نہیں کہ اگر یہ چیزیں نہ ہوں گی اور خدانخواستہ کسی وقت دشمن آ گیا تو وہ کس پر حملہ کرے گا کیا وہ پاکستان پر نیزہ مارے گا؟ پاکستان تو ایسی چیز نہیں جسے ہندو اور سکھ نیزے مار سکیں۔ ہندو اور سکھ اگر پاکستان میں داخل ہوئے تو وہ پاکستان میں نیزہ نہیں ماریں گے وہ تمہارے سینوں میں نیزہ ماریں گے پس اِس کے لئے اگر کوئی قربانی کرو گے تو اِس کا فائدہ تمہیں ہی پہنچے گا۔ نہ کرو گے تو اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی جو کچھ تکلیف پہنچے گی وہ تمہیں پہنچے گی۔
اِسی طرح علمی ترقی ہے علمی طور پر بھی ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے معیار کو بڑھائیں اگر پاکستان بن جانے کے بعد بھی یہاں کے لوگ اسی طرح جاہل رہیں جس طرح نیپال وغیرہ کے لوگ ہیں تو پاکستان کی دنیا میں کیا عزت ہو سکتی ہے اور علمی ترقی کالجوں اور سکولوں سے ہوتی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب بھی ہمارے نوجوان کھیل کود اور لغویات میں اپنا وقت گزار رہے ہیں اگر یہی حال رہا تو پھر ہمارے مُلک کی ترقی کی کیا صورت ہوگی محض پاکستان کا نام تو کوئی ایسی چیز نہیں جس سے اسے عزت حاصل ہو سکے۔ پاکستان کو عزت اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ دنیا کی تمام قومیں اِس کا احترام کرنے پر مجبور ہوں۔ اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے سکول کا ہر لڑکا یہ فیصلہ نہ کرے کہ وہ کوشش کر کے اور رات اور دن پڑھائی کر کے ایسے مقام پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے گا کہ دنیا اُسے رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگ جائے۔ اسی طرح یہ نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے کالج کا ہر لڑکا یہی کوشش نہ کرے اور رات اور دن اپنی تعلیم کو ترقی دینے کی جدوجہد نہ کرے۔ مگر حالت یہ ہے کہ بجائے اپنے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے ہمارے نوجوان سینما میں جاتے ہیں، گندے گیت گاتے ہیںاور اپنا روپیہ کھیلوں اور دوسری لغویات میں ضائع کر دیتے ہیں۔ کیا یہ پاکستان کو ترقی دینے والی چیزیں ہیں یا اس کی عزت کو کم کرنے والی چیزیں ہیں؟ اگر ہمارا مقصد پاکستان کو ترقی دینا ہے تو جب تک ہمارا نوجوان دنیا کے نوجوانوں کے برابر کھڑا نہ ہو جائے پاکستان کو کوئی عزت حاصل نہیں ہوسکتی۔ جب تک ہمارا نوجوان ہر قسم کے علوم میں دوسروں سے آگے نہ نکل جائے تو اُس وقت تک وہ دوسروں کا راہنما نہیں بن سکتا۔ یہ کام بہرحال نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور اِس کی طرف وہ جتنی توجہ کریں کم ہے۔ اب پہلا زمانہ نہیں رہا اب ہمیں اپنی زندگیاں بدلنی پڑیںگی۔ ہم نے خود کہا تھا کہ خدایا! ہمیں یہ چیز دے اب اس چیز کو صحیح طور پر قائم رکھنا اور اسے بڑھانا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم اپنے فرائض کو نہیں سمجھیں گے تو ہم شرمندہ ہوں گے اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ اللہ تعالیٰ کہے گا میں نے تمہیں ایک بچہ دیا۔ میں نے تمہیں تمہارے مطالبہ پر بچہ دیا مگر تم نے اسے ضائع کر دیا۔
یہ امر یاد رکھو کہ آزادی کے معنی خالی حکومت کے نہیں بلکہ اپنے اندر ایسے تبدیلیاں پیدا کرنے کے ہیں جن سے وہ مُلک طاقت حاصل کرے اِس وقت یورپ میں بھی بعض ایسے علاقے ہیں جن کی کوئی طاقت نہیں جیسے ناروے ہے، سویڈن ہے یا پہلے رومانیہ اور بلغاریہ ہوا کرتے تھے انہیں آزادی تو حاصل ہے مگر طاقت کچھ نہیں لیکن امریکہ اور انگلستان اور فرانس اور روس یہ ایسی حکومتیں ہیں جن کو طاقت حاصل ہے۔ اگر آپ لوگ بھی اپنے مُلک کو ہر رنگ میں آگے نہیں بڑھائیں گے تو یہ آزادی ایک کھلونا بن کر رہ جائے گی۔
عملی قربانی ایک ایسی چیز ہے جس کے بغیر پاکستان کو مضبوطی حاصل نہیں ہو سکتی۔ جس طرح ماں رات کو جاگتی ہے اور دن کے وقت صبح سے شام تک بچہ کی خبرگیری میں مصروف رہتی ہے اسی طرح آپ لوگوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جب ہم نے آزادی مانگی اور اپنی ترقی کے لئے ایک علیحدہ مُلک مانگا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرما دیا تو اب ہمیں اس کے لئے عملی رنگ میں قربانی کرنی پڑے گی اور عملی قربانی میں محنت سے کام کرنا، ایثار سے کام کرنا اور دیانت سے کام کرنا شامل ہے۔ حُکام کو چاہیے کہ وہ رشوت خوری کی عادت کو ترک کردیں اور اپنے کیریکٹر کو مضبوط بنائیں۔ گو پہلے بھی یہ ایک نہایت گندی بات تھی لیکن اب تو قومی لحاظ سے بھی یہ ایک *** ہے اور اسے جس قدر جلد دور کیا جا سکے اُسے دور کرنا چاہیے۔
اسی طرح ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے احکام بجائے زور اور لاٹھی سے منوانے کے محبت اور پیار سے منوانے کی کوشش کیا کریں۔
یہ ایک بہت بڑی خرابی ہے کہ حکومت کے نشہ میں اپنی قوم کے جائز حقوق کا خیال نہ رکھا جائے اور ان پر زور سے حکومت چلانے کی کوشش کی جائے۔ غرض عوام الناس کو چاہیے کہ وہ اپنے ٹیکس ادا کریں، نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ علم حاصل کرنے میں اپنا سارا زور صَرف کر دیں، سرکاری حُکّام کو چاہیے کہ کسی سے رشوت لینے کا خیال تک بھی ان کے دل میں نہ آیا کرے۔ ہر شخص جو کسی افسر کے پاس جائے وہ اِس یقین اور وثوق کے ساتھ واپس آئے کہ پاکستان نے ہمارے مُلک کی کایا پلٹ دی ہے۔ پہلے تو سرکاری حُکّام روپیہ لے لیتے تھے مگر اب نہیں لیتے۔ تم ذرا ان تین چیزوں کا ہی قیاس کر کے دیکھو کہ اگر ہمارا مُلک ان پرعمل کرنے لگے تو اس میں کتنا بڑا تغیر پیدا ہو جائے یعنی تم میں سے ہر شخص اپنا ٹیکس ادا کرنے لگ جائے، تاجر انکم ٹیکس ادا کریں، پیشہ ور دیانتداری کے ساتھ سیلز ٹیکس ادا کریں، زمیندار اپنا ٹیکس ادا کریں، ریلوں پر سفر کرنے والے کبھی بغیر ٹکٹ کے سفر نہ کریں، سرکاری حُکّام رشوتیں لینا ترک کر دیں اور پھر ہر دُکاندار اور تاجر اپنے اِردگرد کے دکانداروں کا خیال رکھے اور اگر وہ سیلزٹیکس وغیرہ ادا نہ کر رہے ہوں تو اُنہیں سمجھائے اور نصیحت کرے تو پاکستان کی آمدن کہیں سے کہیں پہنچ جائے۔ اِس وقت پاکستان کی کُل آمدن اسّی کروڑ روپیہ سالانہ ہے لیکن اگر تمام لوگ صحیح طور پر ٹیکس ادا کرنے لگ جائیں تو یہ آمد ڈیڑھ ارب تک پہنچ سکتی ہے۔ ہندوستان کی آمد تین ارب سے اوپر ہے اور پاکستان کا علاقہ ہندوستان کے مقابلہ میں بہت چھوٹا ہے پاکستان کا سارا حدود اربعہ تین لاکھ میل کا ہے اور ہندوستان کا حدود اربعہ ۲۶ لاکھ میل ہے گویا اسے ۲۶ لاکھ میل کی حفاظت کے لئے تین ارب روپیہ ملتا ہے اور پاکستان کو تین لاکھ میل کی حفاظت کے لئے ڈیڑھ ارب روپیہ مل سکتا ہے اور اس طرح پاکستان کے پاس اتنا روپیہ اپنی فوج کی مضبوطی کے لئے، اپنے بحری بیڑہ کو مضبوط بنانے کے لئے اور اپنے ہوائی بیڑہ کو مضبوط بنانے کے لئے بچ سکتا ہے کہ وہ ہندوستان سے نواں حصہ چھوٹا ہوتے ہوئے بھی طاقت میں اُس سے بڑھ جائے گا لیکن اگر ٹیکس ادا نہ کرو تو پاکستان کی فوجیں کمزور ہوں گی، اس کے پاس سامانِ حرب کم ہوگا اور اس کے اندر طاقت پیدا نہیں ہوگی ایسی حالت میں اگر کسی دشمن نے حملہ کر دیا تو تم کیا کرو گے؟ آخر کونسی چیز ہوگی جو تمہارے پاس ہوگی اور جس سے تم اُس کے مقابلہ میں کامیاب ہو سکو گے۔ دشمن کو تو تم اسی طرح بھگا سکتے ہو کہ تم اپنی فوجوں کو مضبوط کرو اور یہ کام نہیں ہو سکتا جب تک تم لوگ اس کے لئے عملی قربانی نہ کرو۔ مثلاً عملی قربانی میں ایک یہ بات بھی شامل تھی کہ فوجوں میں اپنے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ بھرتی کیا جائے مگر اس طرف بھی کوئی توجہ نہیں کی گئی کیونکہ مسلمانوں کو قربانی کی عادت نہیں۔ اُنہوں نے بچہ لے لیا مگر اسے پالنا نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے بچہ دینا تھا۔ سو اس نے دے دیا مگر یہ بچہ لے کر کبھی کہتے ہیں ہم اسے اپنا خون پلائیں یہ کیسے ہو سکتا ہے، کبھی کہتے ہیں ہم اس کے لئے راتوں کو جاگیں یہ کیسے ہو سکتا ہے، کبھی کہتے ہیں ہم اس کے لئے پیسے خرچ کریں یہ کیسے ہو سکتا ہے، اگر تم نے یہی کچھ کرنا تھا تو پھر بچہ مانگا کیوں تھا؟ بچہ لینے کے بعد تو بہرحال تمہیں اس کے لئے قربانی کرنی پڑے گی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ لوگوں نے پاکستان کیوں مانگا تھا؟ جہاں تک میں نے لوگوں سے پوچھا ہے وہ اِس کا یہی جواب دیتے ہیں کہ ہم نے پاکستان اسلام کے لئے مانگا تھا اور آجکل اخبارات میں بھی یہی چرچا ہے۔ جو اخبار نکالو اس میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ گورنمنٹ پاکستان اسلام کی حکومت قائم کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتی ہم نے تو پاکستان اسلام کے لئے مانگا تھا۔ مجھے ایسے اخبارات پڑھ کر ہمیشہ ہنسی آتی ہے اور میں حیران ہوتا ہوں کہ کہنے والا کہتا کیا ہے۔ آخر اسلام کس چیز کا نام ہے؟ اسلام اِس چیز کا نام نہیں کہ دس بیس نوکریاں بعض لوگوں کو مل جائیں، اسلام اِس چیز کا نام نہیں کہ دس بیس عہدے بعض لوگوں کو مل جائیں، اسلام نام ہے کچھ اخلاقی اصول کا، کچھ روحانی اصول کا اور کچھ عقائد کا۔ اسلام نام ہے اِس بات کا کہ ہر شخص اِس بات کا اقرار کرے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ اب بتائیے پاکستان گورنمنٹ کیا قانون بنائے؟کیا وہ یہ قانون بنائے کہ ہمارے مُلک میں آئندہ ایک خدا ماننا جائز ہوگا۔ ہر شخص کہے گا کہ اگر کوئی ایک خداماننا چاہے تو اسے روکتا کون ہے۔ انگریز نہیں روکتا، روس نہیں روکتا، جرمنی نہیں روکتا، جاپان نہیں روکتا۔ جب دنیا کے ہر مُلک میں بلکہ ایسے مُلک میں بھی جو مذہب کا شدید ترین دشمن ہے یہ عقیدہ رکھا جا سکتا ہے تو پھر اس کے لئے کسی قانون کی کیا ضرورت ہے۔ اسلام نام ہے اس بات کا کہ انسان اس بات پر ایمان لائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ایسے رسول کہ جن سے خداتعالیٰ نے اپنے دین کی تکمیل کا کام انتہائی درجہ پر کیا اور وہ سارے نبیوں کے سردار ہیں۔ اب پاکستان گورنمنٹ کیا کرے؟ کیا وہ یہ کہے کہ اب تو کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول تھے مگر آئندہ اس عقیدہ کے رکھنے میں آزادی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ اس میں پاکستان گورنمنٹ کا کیا دخل ہے ہم گھر میں بیٹھے اَشْھَدُ اَنْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ بھی کہہ سکتے ہیں اور اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہِ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اِس میں نہ تو پاکستان گورنمنٹ کا کوئی دخل ہے اور نہ اس کیلئیکسی قانون کی ضرورت ہے کہ اس کے لئے چیخ و پکار کی جائے۔
دوسری چیز جو ہمارے عقائد میں شامل ہے وہ قرآن کریم کو سچا ماننا ہے۔ اب بتائیں اس عقیدہ کے رکھنے میں کونسا قانون مانع ہے یا کونسا قانون ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم قرآن کریم کو سچا نہ مانیں کہ اس کے خلاف ہمیں کسی قانون کی ضرورت ہو۔ اسلام تو صرف یہ کہتا ہے کہ تم سچے دل سے اس بات پر یقین رکھو کہ قرآن کریم خداتعالیٰ کی کتاب ہے مگر کیا کوئی قانون انگریز نے اس کے خلاف بنایا ہوا تھا۔ جب انگریزوں کے وقت اس کے خلاف کوئی قانون تھا نہ اب ہے تو مملکت پاکستان کیا کرے اور وہ کس چیز کے متعلق قانون نافذ کرے۔
اسی طرح اسلام کا اصول قضا و قدر پر ایمان لانا ہے۔ کیا انگریز نے کوئی قانون بنایا ہوا تھا کہ تم قضا و قدر پر ایمان نہ لاؤ یہ تو اپنے دل کی بات ہے اگر ہم اس عقیدہ کو ماننا چاہیں تو کوئی قانون ہمیں اس سے روکتا نہیں۔ یا مثلاً اسلام کا ایک اصل یہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور وہ دوزخ یا جنت میں رکھا جائے گا۔ اب بتاؤ آیا اس کے متعلق انگریز کا کوئی قانون تھا کہ یہ بات نہ مانو؟ یا اب کوئی قانون ہے کہ یہ عقیدہ نہ رکھا جائے؟ جب نہ پہلے کوئی قانون اس کے خلاف تھا نہ اب ہے تو کونسی چیز ہے جس کے لئے پاکستان کو کسی قانون کے بنانے کی ضرورت ہے۔
اب آگے چلو۔ اسلام نام ہے کچھ اخلاقیات کا۔ اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ مؤمنوں کو سچ بولنا چاہیے، ظلم نہیں کرنا چاہیے، فسادات نہیں کرنے چاہئیں، عصمت دری نہیں کرنی چاہیے۔ اب بتائیے ان اخلاقی تعلیموں میں سے کونسی تعلیم ہے جس کے خلاف پاکستان گورنمنٹ نے کوئی قانون بنایا ہوا ہے یا جس کے خلاف پہلے کا کوئی قانون موجود ہے۔ جب نہ پہلے اس کے خلاف کوئی قانون موجود ہے اور نہ اب ہے تو کیا چیز ہے جو لوگ مانگ رہے ہیں۔
اسی طرح اسلام کے احکام میں یہ بات شامل ہے کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، حج کرو، زکوٰۃ دو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنائے اسلام پانچ چیزوں پر ہے توحید پر یعنی یہ عقیدہ رکھا جائے کہ خداتعالیٰ ایک ہے، نماز پر، روزے پر، حج پر، زکوٰۃ پر۔ اب بتائیے پانچ ارکانِ اسلام میں سے کس رُکن کے خلاف کوئی قانون موجود ہے کیا کوئی حکم ہے کہ نماز نہ پڑھی جائے؟ اگر کسی نے نماز پڑھی تو اسے سزا دی جائے گی؟ یا کیا کوئی قانون انگریر کا تھا کہ حج نہ کرو؟ اگر کوئی حج پر گیا تو اُسے سزا دی جائے گی؟ یہ تمام احکام ایسے ہیں جو ہر شخص کی ذات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اگر نماز پڑھنا چاہے یا روزہ رکھنا چاہے یا حج کرنا چاہے یا زکوٰۃ دینا چاہے تو کوئی قانون اسے نہیں روکتا۔ قرآن کریم میں قریباً ۹۰۰ ؍احکام پائے جاتے ہیں ان میں سے شاید زیادہ سے زیادہ دو تین حکم ایسے ہوں گے جن میں حکومت کا دخل ہو باقی سب احکام ایسے ہیں جن میں فرد کا دخل ہے اور وہ اگر چاہے تو بغیر کسی روک کے ان پر عمل کر سکتا ہے۔
پس یہ جو اخبارات میں شور پڑا ہوا ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہونی چاہیے یہ ایک ایسی چیز ہے جسے دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ انگریز کے زمانہ میں بھی ان احکام پر عمل کرنے سے کوئی چیز نہیں روکتی تھی اور اب تو ہر رنگ میں آزادی حاصل ہے۔ اُس وقت تو یہ خیال بھی آ سکتا تھا کہ انگریز کی نقل کی وجہ سے لوگ اسلامی احکام پر عمل کرنے میں سست ہو رہے ہیں مگر اب تو وہ بھی بھاگ گیا پھر ہمارے لئے ان احکام پر عمل کرنے میں روک کیا ہے اور کونسی چیز ہمارے لئے مانع ہے۔ جب کوئی بھی نہیں روکتا تو پھر اِس شور کے کیا معنی ہیں کہ اسلامی حکومت قائم ہونی چاہیے۔ یہ شور جو اخباروں میں مچایا جا رہا ہے اِس کے متعلق دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ سارے مُلک کی آواز ہے یا نہیں۔ اگر یہ مُلک کی آواز نہیں تو اقلیت کو کیا حق ہے کہ جب اکثریت ایک بات کے خلاف ہے تو وہ اسے مجبور کرے اور کہے کہ ضرور اسلام پر عمل کرو۔ اور اگر مُلک کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ اسلامی قانون نافذ ہو تو سوال یہ ہے کہ جب اکثریت یہ چاہتی ہے کہ اسلام پر عمل ہو تو کیا وہ خود اسلام پر عمل کر رہی ہے؟ کیا پاکستان قائم ہونے سے پہلے دس نمازی مسجد میں آیا کرتے تھے؟ اور اب ا ن کی تعداد ہزار تک پہنچ گئی ہے؟ یا ہر مسلمان نماز پڑھنے لگ گیا ہے؟ یا اگر ہر مسلمان نہیں تو اکثر نماز پڑھنے لگ گئے ہیں؟ میں اِس وقت تقریر میں ایک عام بات کر رہا ہوں اس کی سچائی یا جھوٹ کو اس جگہ پر پرکھا نہیں جا سکتا لیکن قرآن کریم نے ایک اصول بیان کیا ہے جس سے تم کسی بات کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہو۔ اور وہ اصول یہ ہے کہ جب تمہارے سامنے کوئی سچائی پیش ہو تو تم الگ الگ یا اکٹھے ہو کر غور کرو کہ کہنے والے نے سچی بات کہی تھی یا جھوٹی بات کہی تھی۔ اس اصول کے مطابق آپ بھی غور کریں کہ کیا آپ کے ہمسایہ میں پاکستان بننے کے بعد سب لوگ نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں؟ آپ اپنے دوستوں سے پوچھئے کہ پاکستان بننے کے بعد نمازیوں میں کتنی ترقی ہوئی ہے اور پہلے ان کی تعداد کتنے فیصد تھی۔ آیا پاکستان بننے کے بعد ۵۵ فیصدی لوگ نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں کہ ہم کہہ سکیں اکثریت نماز پڑھتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ جس نے ایک نماز بھی نہ پڑھی وہ کافر ہو گیا۔۱؎ اِس لحاظ سے ہر مسلمان کو نماز کا پابند ہونا چاہیے۔ مگر میں کہتا ہوں اِس کو وسیع کر لو اور پھر حالات کا جائزہ لو۔ آپ اپنے محلہ کے لوگوں سے ہی بات کیجئے اور پھر بتائیے کہ کیا مسلمانوں میں سے ۵۵ فیصدی لوگ نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں؟ مگر ایک بات یاد رکھیئے آپ کا نفس آپ کو دھوکا نہ دے۔ ایک نماز لوگوں نے ایسی بنالی ہے جس سے وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہمیں تمام نمازوں سے چھٹی مل گئی ہے۔ ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں ایک مُلاّ تھا اس نے کہیں یہ بات پڑھ لی کہ جب کسی کو کوئی ایسی چیز مل جائے جو آوارہ پھر رہی ہو اور جس کی حفاظت نہ ہو سکتی ہو تو تین دفعہ اعلان کرنے کے بعد وہ اُس چیز کو اپنے قبضہ میں لے لے۔ یہ بات پڑھنے کے بعد اُس نے یہ طریق بنا لیا کہ جہاں کوئی ریوڑ بکریوں یا بھیڑوں کا جا رہا ہوتا وہ اُس کے پیچھے چل پڑتا اور جب کوئی بکری یا بھیڑ کا بچہ پیچھے رہ جاتا تو وہ اُسے پکڑ لیتا اور جب دیکھتا کہ گلہ بان دُور نکل گیا ہے تو زور سے آواز دیتا ’’کسی کی‘‘ اور پھر نہایت دبی زبان سے کہتا ’’بکری‘‘۔ اس طرح تین دفعہ وہ اعلان کر دیتا اور پھر بکری پکڑ کر گھر میں لے آتا اور وہ سمجھتا کہ اب اس پر میرا قبضہ جائز ہو گیا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے ایک طرف دین کا احترام قائم رکھنے کے لئے اور دوسری طرف نمازوں سے چھٹی حاصل کرنے کے لئے ایک جمعہ کا نام جمعۃ الوداع رکھا ہوا ہے۔ جو رمضان کا آخری جمعہ ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جو شخص جمعۃ الوداع میں آ کر شامل ہو گیا اور اُس نے نماز پڑھ لی اُس نے سارے سال کی نمازیں پڑھ لیں۔ اِس نماز کو وہ قضاء عمری کہتے ہیں یعنی عمر بھر کی نمازیں اس ایک نماز کے پڑھنے سے معاف ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح اُنہوں نے ایک دعائے گنج العرش بنائی ہوئی ہے جس پر یہ لکھا ہوا ہے کہ جو شخص ساری عمر میں ایک دفعہ بھی اسے پڑھ لے اسے آج تک جتنے بنی دنیا میں گزرے ہیں اور جتنی نیکیاں اُنہوں نے کی ہیں ان سب نبیوں کی نیکیوں جتنا ثواب مل جاتا ہے۔ اور جتنے بدمعاش دنیا میں آج تک گزر ے ہیں اور جتنی بدکاریاں اُنہوں نے دنیا میں آج تک کی ہیں اُن تمام بدمعاشوں کی ساری بدیوں اور گناہوں جتنے گناہ اُس کے ایک دفعہ کے پڑھنے سے معاف ہو جاتے ہیں۔گویا ایک دفعہ دعائے گنج العرش پڑھ لی اور چھٹی ہوگئی۔ نہ نماز رہی نہ روزہ رہا، نہ حج رہا نہ زکوٰۃ رہی، نہ قرآن کریم کے اَور احکام پر عمل کرنے کی ضرورت رہی۔ یہیں تک نہیں بلکہ اس کے اَور بھی بڑے بڑے افسانے مشہور ہیں۔
کہتے ہیں ایک بہت بڑا چور تھا جس نے مُلک بھر میں فتور مچا رکھا تھا اُس نے ہزاروں لوگوں کو قتل بھی کیا تھا مگر وہ پکڑا نہیں جاتا تھا۔ آخر ایک دفعہ سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور عدالت میں پیش کیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اُسے قتل کر دو مگر جب وہ اُسے قتل کرنے کیلئے گردن پر تلوار مارتے تو ذرا بھی اثر نہ ہوتا اور قتل ہونا تو کیا معمولی زخم بھی نہ لگتا۔وہ بڑے حیران ہوئے کہ یہ بات کیا ہے؟ اُنہوں نے زور زور سے تلواریں ماریں مگر وہ قتل نہ ہو سکا نہ اُسے کوئی زخم آیا۔ آخر اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا کہ ہم تو اسے قتل کرتے ہیں مگر یہ قتل نہیں ہوتا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اِسے آگ میں جلا دیا جائے۔ اُنہوں نے لکڑیوں کا انبار جمع کیا اور آگ لگا کر اُس میں اسے پھینک دیا مگر وہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شخص آگ میں یوں کھیلنے لگ گیا ہے جیسے کوئی باغ میں کھیلتا ہے۔ وہ پھر بادشاہ کے پاس گئے کہ یہ قصہ ہوا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر سے گِرا دیا جائے۔ اُنہوں نے پہاڑ کی چوٹی پر سے اسے گرایا تو وہ یوں نیچے آکر کھڑا ہو گیا جیسے کسی نے نہایت آرام سے اُسے اپنے کندھوں پر اُٹھا کر نیچے لا رکھا ہو۔ اس پر وہ پھر بادشاہ کے پاس گئے کہ ہم تو عجیب مصیبت میں پھنس گئے ہیں یہ کسی طرح مرنے میں ہی نہیں آتا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کے گلے میں ایک بڑا سا پتھر باندھ کر سمندر میں غرق کر دو۔ اُنہوں نے اس کے گلے میں ایک بڑا سا پتھر باندھا اور سمندر میں ڈبونا چاہا مگر وہ ڈوبنے کی بجائے کارک کی طرح پانی پر تیرنے لگ گیا۔ اس پر وہ پھر بادشاہ کے پاس آئے اور کہنے لگے حضور! ہم نے اسے قتل کیا مگر یہ قتل نہ ہوا، ہم نے اسے آگ میں ڈالا مگر یہ آگ میں نہ جلا، ہم نے اسے پہاڑ سے گرایا مگر یہ آرام سے نیچے آ کر کھڑا ہو گیا، ہم نے اِسے سمندر میں ڈبویا مگر یہ تیرنے لگ گیا۔ بادشاہ نے کہا اُسے میرے پاس لے آؤ وہ کوئی بہت بڑا بزرگ معلوم ہوتا ہے۔ جب وہ آیا تو بادشاہ اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا مجھے معاف کیجئے مجھ سے سخت غلطی ہوئی میں آپ کو چور اور ڈاکو سمجھتا رہا مگر آپ تو بڑے ولی اللہ اور بزرگ ہیں۔ اُس نے کہا بادشاہ سلامت! میں ہوں تو چور ہی۔ بادشاہ کہنے لگا توبہ توبہ یہ آپ کیا فرماتے ہیں آپ چور ہو سکتے ہیں آپ تو اتنے بزرگ ہیں کہ پہاڑ سے آپ کو گرائیں تو فرشتے اُٹھا لیتے ہیں، آگ میں گرائیں تو وہ گلزار بن جاتی ہے، تلوار چلائیں تو زخم نہیں آتا، سمندر میں ڈبوئیں تو تیرنے لگتے ہیں۔ اُس نے کہا حضور! یہ سب صحیح ہے مگر میں ہوں چور ہی۔ بادشاہ نے پوچھا تو پھر بات کیا ہے کہ آپ پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ میں دعائے گنج العرش پڑھا کرتا ہوں۔ تو دیکھئے کام کتنا آسان ہو جاتا ہے۔ نہ نماز رہی، نہ روزہ رہا، نہ حج رہا، نہ زکوٰۃ رہی۔ چوری کیجئے، ڈاکہ ڈالئے، بُرائیاں کیجئے صرف دعائے گنج العرش پڑھ لیا کیجئے۔ تو جب میں نے نمازوں کا ذکر کیا ہے تو آپ کا نفس آپ کو یہ دھوکا نہ دے کہ شاید اس سے ایک یا دو نمازیں پڑھنا مراد ہے بلکہ جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان آیا نماز پڑھتے ہیں یا نہیں تو یہ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ میرے نزدیک نماز پڑھنا اِس کو کہتے ہیں کہ دن رات میں پانچ دفعہ خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق باجماعت نماز ادا کی جائے اور تمام عمر مسلسل پڑھی جائے یہ نہیں کہ جمعۃ الوداع کے روز ایک دفعہ نماز پڑھ لی اور پھر ہمیشہ کے لئے چھٹی ہوگئی بلکہ اگر کوئی شخص سال بھر میں ایک نماز بھی چھوڑ دیتا ہے اگر وہ بھول جاتا ہے تو اَور بات ہے لیکن اگر وہ دیدہ دانستہ پچاس سال میں ایک نماز بھی چھوڑ دیتا ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔
پس آپ لوگ اپنے دوستوں اور اپنے ہمسایوں سے پوچھئے کہ جب سے پاکستان بنا ہے آیا مسلمان پہلے سے زیادہ نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں؟ اگر میری بیان کردہ تعریف کے مطابق پچپن فیصدی مسلمان آپ کو ایسے مل جائیں جو نماز باجماعت پڑھنے والے ہوں تو سمجھ لیجئے کہ مُلک کی اکثریت اسلامی حکومت قائم کرنے کے حق میں ہے اور اگر نہ ملیں تو پھر اخبارات میں جو شور مچایا جاتا ہے وہ محض ایک خیالی چیز بن جاتی ہے۔ اسی طرح حج اور زکوٰۃ کو لے لیجئے۔ روزے کا میں ذکر نہیں کرتا اس لئے کہ ہمارے مُلک میں روزہ مقابلہ کے طور پر رکھا جاتا ہے یعنی قرآن نے تو یہ کہا ہے کہ بیمار روزہ نہ رکھے، مسافر روزہ نہ رکھے مگر ہمارے مُلک میں بیمار بھی روزہ رکھ لیتا ہے اور مسافر بھی روزہ رکھ لیتا ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اس بارہ میں بھی لوگوں کو اسلامی مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ لیکن بہرحال روزہ رکھنے کی ہمارے مُلک کے لوگوں کو عام طور پر عادت ہے اس لئے میں روزے کا ذکر نہیں کرتا لیکن حج کو لے لو تو غریب حج کو جائیں گے مگر امیر نہیں جائیں گے۔ یہاں سرگودھا میں تین چار ہزار بڑے بڑے امراء ہوں گے مگر ان میں سے صرف پانچ دس نے حج کیا ہوگا لیکن غریب لوگ جو بھوکے مرتے ہیں اور جن پر حج فرض نہیں وہ حج کرتے چلے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان بننے سے جو ذمہ داریاں آپ لوگوں پر عائد ہوتی تھیں کیا آپ نے ان ذمہ داریوں کو ادا کر دیا ہے؟ اگر آپ نے ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا تو گورنمنٹ پاکستان کیا کرے۔ مثلاً آپ جب نماز نہیں پڑھنا چاہتے تو گورنمنٹ پاکستان کیا کرے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ پولیس مقرر کرے جو ڈنڈے کے زور سے آپ کو مسجدوں میں لے جایا کرے؟ اور اگر آپ سچے دل سے خود ہی نمازیں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس میں گورنمنٹ پاکستان کے کسی قانون یا پولیس کی کیا ضرورت ہے۔ اِسی طرح اگر آپ حج نہیں کرنا چاہتے، زکوٰۃ نہیں دینا چاہتے تو کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ آپ کو زبردستی حج پر لے جائے اور زبردستی آپ سے زکوٰۃ وصول کرے؟ آپ ان کاموں میں سے کوئی کام بھی نہیں کرتے مگر کہتے یہ ہیں کہ ہم اسلامی حکومت قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ یہ کتنے بڑے تمسخر کی بات ہے۔ ذرا سوچئے۔ یہی سوال جو اِس وقت میں نے آپ لوگوں سے کیا ہے اگر اِس کا یورپ اور امریکہ میں اشتہار دے دیا جائے کہ مسلمان نماز پڑھنا چاہتا ہے کوئی قانون اِسے نماز پڑھنے سے نہیں روکتا۔ ہر شہر بلکہ ہر بڑے شہر کے ہر محلہ میں مسجد موجود ہے مگر مسلمان کو شکایت ہے کہ گورنمنٹ مجبور کرکے اُس سے نماز کیوں نہیں پڑھاتی۔ بتائیے وہ کیا کہیں گے کہ مسلمان بیوقوف ہیں یا یہ کہیں گے کہ اس میں گورنمنٹ کی غلطی ہے۔ یہ لازمی بات ہے کہ اگر انہی لفظوں میں امریکہ میں اشتہار دے دیا جائے کہ پاکستان کے مسلمانوں پر نماز فرض ہے ، پاکستان کے مسلمان پرنماز با جماعت فرض ہے، پاکستان کے مسلمان پر مسجد میں آکر نماز پڑھنا فرض ہے، پاکستان کے مسلمان پر پانچ وقت مسجد میں آ کر نماز پڑھنا فرض ہے سوائے اِس کے کہ اسے کوئی عذر ہو لیکن گورنمنٹ اتنی نالائق ہے کہ وہ مجبور کر کے پولیس کے ذریعہ اسے مسجد میں نہیں لاتی۔ اگر امریکہ میں اِس قسم کا پراپیگنڈہ کیا جائے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہی بیوقوف سمجھیں گے، گورنمنٹ پر کوئی الزام نہیں لگائیں گے۔
یہ شور تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ دو شخص جنگل میں ایک درخت کے سایہ کے نیچے لیٹے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے دور سے ایک سپاہی کو دیکھا جو چھٹی پر اپنے گھر جا رہا تھا۔ ان میں سے ایک نے سپاہی کو زور زور سے آوازیں دینی شروع کیں کہ میاں سپاہی! ذرا اِدھر آنا، میاں سپاہی! ذرا اِدھر آنا۔ خدا کے لئے جلدی آنا ایک نہایت ضروری کام ہے۔ وہ شریف آدمی تھا اُس نے خیال کیا کہ نہ معلوم کیسا ضروری کام ہے جس کے لئے مجھے بُلایا جا رہا ہے وہ رستہ کاٹ کر ان کی طرف جلدی جلدی آیا اور پوچھا کہ بتائیے کیا کام ہے؟ جس نے آوازیں دی تھیں وہ کہنے لگا میاں سپاہی! میں نے تمہیں اس لئے بُلایا ہے کہ یہ بیر جو میرے سینے پر پڑا ہوا ہے اِسے اُٹھا کر ذرا میرے منہ میں ڈال دینا۔ سپاہی کو غصہ آیا کہ یہ عجیب آدمی ہے اس نے میرا سفر بھی خراب کیا اور کام بھی یہ بتایا کہ بیر میری چھاتی پر سے اُٹھاکر منہ میں ڈال دیا جائے۔ چنانچہ سپاہی نے اُسے گالیاں دینی شروع کر دیں کہ تیرے ہاتھ ٹوٹے ہوئے تو نہیں۔ تیرے ہاتھ سلامت ہیں اور تو آسانی سے بیر اُٹھا کر منہ میں ڈال سکتا تھا تو نے مجھے کیوں بُلایا اور میرے سفر کو خراب کیوں کیا؟ جب اس نے بہت ملامت کی تو دوسرا شخص جو پاس ہی لیٹا ہوا تھا کہنے لگا میاں سپاہی! جانے بھی دو یہ تو بالکل معذور آدمی ہے۔ ارے میاں ساری رات کتا میرا منہ چاٹتا رہا مگر اس کمبخت سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اسے شیت ہی کر دیتا۔ سپاہی چپ کر کے چلا گیا کہ یہ تو دونوں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اِسی قسم کا شور آجکل اخبار میں نظر آتا ہے۔ جو اخبار اُٹھاؤ اُس میں یہی نظر آتا ہے کہ مملکت پاکستان اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتی۔ آپ خود ہی غور کریں اور سوچیں کہ کیا چیز ہے جو اِس حکومت کے قائم کرنے میں روک ہے۔ اگر آپ نماز پڑھیں تو کون آپ کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے؟ اگر آپ روزہ رکھیں تو کون آپ کو روزہ رکھنے سے روکتا ہے؟ اگر آپ حج کریں تو کون آپ کو حج کرنے سے روکتا ہے؟ پاکستان آپ نے اسلامی حکومت بنانے کے لئے مانگا تھا اور پاکستان آپ کو مل گیا مگر جو چیز آپ کے اختیار میں ہے وہ آپ نہیں کر رہے اور الزام حکومت کو دے رہے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ شور محض اِس لئے ہے کہ اب کے یہ لوگ شرمندہ ہو رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان مانگا تھا اسلام کے لئے مگر ہم اسلام پر عمل نہیں کر رہے۔ ہمارا نفس ٹیڑھا ہے، ہمارا نفس غافل اور سست ہے لیکن ہم لوگوں کو شرمندہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہندو اور سکھ ہم سے ملیں گے اور وہ پوچھیں گے کہ کیا پاکستان لے کر تم نے اسلامی حکومت قائم کر لی تو ہم اُنہیں کہیں گے کہ ہم تو حکومت کو گالیاں دیتے رہتے ہیں حکومت ہی کچھ ایسی نالائق ہے کہ وہ اسلامی قانون نافذ نہیں کرتی مگر کیا کوئی عقلمند تمہاری اس بات کو مان لے گا؟ وہ کہے گا تمہیں کونسا قانون مجبور کرتا ہے کہ تم نماز نہ پڑھو، کونسا قانون مجبور کرتا ہے کہ تم روزے نہ رکھو، کونساقانون تمہیں کہتا ہے کہ تم گالیاں دو اور گند بکتے رہو، کونسا قانون تمہیں کہتا ہے کہ تم سینما کے گندے گیت بازاروں میں گاتے پھرو، کونسا قانون تمہیں کہتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کی بوسہ بازی تم سینما میں جا کر دیکھو، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں تم ایسا مت کرو، اسلام کہتا ہے تم ایسا مت کرو پھر کونسی چیز ہے جو تمہیں مجبور کرتی ہے کہ تم ایسا کرو۔ یقینا یہ آپ کے نفس کا بہانہ ہے کہ حکومت اس کے متعلق کوئی قانون نافذ نہیں کرتی۔ میں کہتا ہوں اگر آپ نے یہی کچھ کرنا تھا تو پھر آپ نے پاکستان کیوں مانگا تھا؟ آپ کہتے ہیں ہم نے پاکستان اسلام کے لئے مانگا تھا اور اسلام کے لئے پاکستان آپ کو مل گیا اب کونسی چیز ہے جو اسلامی احکام پر عمل کرنے میں مانع ہے۔ اگر یہ کہو کہ حکومت نماز کے لئے چھٹی نہیں دیتی تو یہ بھی غلطی ہے حکومت نے نماز کے لئے چھٹیاں دینی بھی شروع کر دی ہیں۔ چنانچہ لاہور کے متعلق میرا تجربہ ہے کہ وہاں ہماری جماعت کے آدمی جو سرکاری دفاتر میں کام کرتے ہیں باقاعدہ نماز جمعہ کے لئے آتے ہیں اور اس طرح یہ چھوٹی سی روک بھی گورنمنٹ نے دُور کر دی ہے۔ پھر کیا تمام مسلمان باقاعدگی کے ساتھ نماز جمعہ میں شامل ہوتے ہیں؟ میں نہیں جانتا کیوں؟ مگر بہرحال ہماری لاہور کی جماعت نے آجکل جمعہ کا وقت دو سے ساڑھے تین بجے تک مقرر کیا ہوا ہے۔ جمعہ کے متعلق اکثر علماء کا یہ خیال ہے کہ باقی نمازیں تو زوال کے بعد ہوتی ہیں لیکن جمعہ کے متعلق یہ استثنیٰ ہے کہ جب اشراق کا وقت آ جائے یعنی نو دس بج جائیں تو اُس وقت جمعہ پڑھ لینا جائز ہوتا ہے مگر شاید دفتروں کی وجہ سے یا کسی اَور وجہ سے لاہور میں دو بجے جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔ میں بعض دفعہ جمعہ کی نماز کے لئے ڈیڑھ بجے بھی آیا ہوں، بعض دفعہ پونے دو بجے بھی آیا ہوں، بعض دفعہ دو بجے بھی آیا ہوں مگر میں نے ہمیشہ دیکھا کہ اُس وقت بھی سارے مسلمان دکاندار سَودا فروخت کر رہے ہوتے ہیں اور گاہک سَودا خرید رہے ہوتے ہیں۔میں حیران ہوں کہ گورنمنٹ سے تو یہ کہا جاتا ہے کہ تم اسلامی قانون جاری نہیں کرتے مگر جو قانون جاری کرنا مسلمانوں کے اپنے اختیار میں ہے اس کو جاری کرنے کیلئے وہ تیار نہیں ہوتے۔ اسلام کہتا ہے ۲؎ اے مسلمانو! جب نماز جمعہ کی اذان ہو جائے تو اپنے سارے کام کاج چھوڑ دو اور جمعہ کی نماز کے لئے مساجد کی طرف چل پڑو۔ مسلمان کا شہر جمعہ کے وقت ایسا معلوم ہونا چاہیے جیسے قبرستان، سوائے گھر کی عورتوں اور بچوں اور بیماروں کے اور سوائے پولیس کے جس کا کام شہر کی نگرانی کرنا ہو اور کوئی شخص شہر میں چلتا پھرتا نظر نہیں آنا چاہیے۔ مگر یہ پولیس بھی محدود ہونی چاہیے زیادہ سے زیادہ پولیس کے دسویں حصہ کو پہرہ دینا چاہیے باقی ہر ایک شخص کو خواہ وہ ڈی سی ہو، سپرنٹنڈنٹ پولیس ہو، انسپکٹر پولیس ہو، سب انسپکٹر پولیس ہو مسجد میں نماز کے لئے حاضر ہونا چاہیے لیکن ہمارے مُلک میں اس رنگ میں کہاں نماز پڑھی جاتی ہے۔
پس سوچو اور غور کرو کہ آخر دنیا کیا کہے گی دنیا یہی کہے گی کہ تم نے اسلام کے نام پر صرف اپنے عہدوں کے لئے پاکستان مانگا تھا ورنہ اگر تم نے پاکستان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگا ہوتا، اگر تم نے پاکستان خداتعالیٰ کے لئے مانگا ہوتا تو خدا تعالیٰ کے گھر آج آباد کیوں نہ ہوتے۔ خدا تعالیٰ کے رسول کے نام کے لئے تم اپنے وقت کیوں نہ صرف کرتے۔ میں کہتا ہوں سوچئے اور غور کیجئے اگر میں نے جو کچھ کہا ہے کہ آپ لوگوں نے اسلام کے لئے پاکستان مانگا تھا یہ غلط ہے تو مجھے اِس سے آگاہ کیجئے، اگر میں نے جو کچھ کہا ہے مسلمان اب بھی نمازیں نہیں پڑھتے یہ غلط ہے تو مجھے اس سے آگاہ کیجئے، میں اپنی غلطی کا اعتراف کروں گا اور مجھے خوشی ہوگی اگر حقیقت برعکس ہو۔بھلا میرے لئے اِس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ مجھے معلوم ہو جائے کہ مسلمان واقعہ میں مسلمان بن گیا ہے، وہ نماز پڑھنے لگ گیا ہے، وہ روزہ رکھنے لگ گیا ہے، وہ حج کرنے لگ گیا ہے، وہ زکوٰۃ دینے لگ گیا ہے مگر یہ ساری چیزیں ایسی چیزیں ہیں جو مجھے نظر نہیں آتیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ چونکہ تم ایک اقلیت سے تعلق رکھتے ہو اِس لئے تمہیں ہم سے بُغض ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ میرے دل میں آپ لوگوں کی بہت زیادہ محبت ہے، میرے دل میں آپ لوگوں کی بہت بڑی ہمدردی ہے، میرے دل میں آپ لوگوں کی بہت بڑی خیرخواہی ہے آپ نہیں مانیں گے مگر واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ماں باپ کو بھی آپ سے وہ محبت نہیں جو مجھے آپ سے ہے اور یہ میرا دعویٰ ہے لیکن میں مان لیتا ہوں کہ ممکن ہے اِس بات میں مجھے کوئی غلط فہمی ہوتی ہو اِس لئے میں کہتا ہوں کہ اِس وقت تو نہیں بعد میں آپ مجھے لکھ دیجئے کہ آپ نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ غلط تھا اب سارے مسلمان نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں یا سارے نہیں تو ان کا اکثر حصہ نمازیں پڑھنے لگ گیا ہے۔ یوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی منافق تھے اور اب بھی ہو سکتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ فیصدی لوگوں کو نکال دو، دس فیصدی لوگوں کو نکال دو، پندرہ فیصدی لوگوں کو نکال دو اور پھر دیکھو کہ آیا باقی مسلمان باقاعدگی کے ساتھ نمازیں ادا کرتے ہیں؟ لیکن اگر مسلمانوں کا جائزہ لیتے وقت وہی بات ہو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پیش آئی تھی تو پھر میں کیا کروں۔
جب لوطؑ کی بستی پر عذاب نازل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا تو اللہ تعالیٰ نے کچھ فرشتوں یا بعض لوگوں کے عقیدہ اور تحقیقات کے مطابق اپنے بعض صالح اور برگزیدہ بندوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور لوطؑ کو اس کی خبر دے آؤ۔ راستہ میں اُنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی خبر دی کہ لوطؑ کی بستی پر ایسا عذاب نازل ہونے والا ہے۔ جب حضرت ابرہیم علیہ السلام کو یہ خبر ملی تو بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سجدہ میں گر گئے اور اُنہوں نے کہا اے خدا! کیا تو لوطؑ کی بستی کو اِس لئے تباہ کر دے گا کہ اس میں کچھ بدمعاش لوگ پائے جاتے ہیں؟ اے خدا! کیا نیکوکار لوگوں کا تو خیال نہیں کرے گا اور ان کی خاطر اس عذاب کو ٹال نہیں دے گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر الہام نازل کیا کہ اے ابراہیم! یقینا اگر لوطؑ کی بستی میں نیکو کار لوگوں کی کثرت ہو تو میں اس بستی کو کبھی تباہ نہیں کروں گا۔ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا خدایا! اگر اس میں نوے فیصدی نیک لوگ ہوں اور صرف دس فیصدی بدعمل ہوں تو کیا دس فیصدی کی وجہ سے تو نوے فیصدی لوگوں کو تباہ کر دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہرگز نہیں اگر نوے فیصدی نیک ہوں تب بھی میں اس بستی کو تباہ نہیں کروں گا۔ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سمجھا کہ معلوم ہوتا ہے اِس قدر نیک لوگ اس بستی میں موجود نہیں اور اُنہوں نے کہا خدایا !اگر اس میں اسّی فیصدی نیک ہوں اور بیس فیصدی بُرے لوگ ہوں تو کیا بیس فیصدی کی خاطر تو اسّی فیصدی کو تباہ کر دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے پھر الہام نازل فرمایا کہ ہرگز نہیں اسّی فیصدی نیک لوگ بھی اس میں موجود ہوں تو میں اس بستی کو کبھی تباہ نہیں کروں گا۔ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ اس میں اسّی فیصدی بھی نیک لوگ نہیں اور اُنہوں نے کہا خدایا! اگر اس میں ستر فیصدی نیک لوگ ہوں تو کیا صرف تیس فیصدی کی خاطر تو ستر فیصدی لوگوں کو تباہ کر دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بالکل نہیں اگر ستر فیصدی نیک لوگ موجود ہوں تب بھی میں اس بستی کو ہلاک نہیں کروں گا۔ غرض اِسی طرح کرتے کرتے بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا خدایا! اگر اس میں صرف دس فیصدی نیک لوگ موجود ہوں تو کیا ان کی خاطر تو اس بستی کو نہیں بچائے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم! اگر اس میں دس فیصدی نیک لوگ ہوں تب بھی میں اس بستی کو ہلاک نہیں کروں گا۔ آخر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا خدایا! دس فیصدی کیا اگر صرف دس نیک آدمی بھی اس بستی میں موجود ہوں تو کیا تو اس بستی پر رحم نہیں فرمائے گا اور اپنا عذاب اس سے نہیں ٹالے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم! اگر صرف دس آدمی بھی اس بستی میں سے نیک نکل آئیں تو میں اس بستی کو کبھی تباہ نہیں کروں گا۔ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سجدہ میں سے سر اُٹھا لیا اور سمجھ لیا کہ اب یہ شہر ضرور تباہ ہوگا ۳؎ کیونکہ اس میں دس بھی نیک نہیں۔ اس طرح اگر ایک مسلمان کہلاتا ہو اس بات کیلئے کوشش نہیں کرتا، اس بات کیلئے جدوجہد نہیں کرتا کہ وہ اسلام پر عمل کرے۔ اسلامی احکام اپنے اوپر وارد کرے اور اسلام کے غلبہ کیلئے ہر قسم کی کوشش کرے تو کوئی بتائے ہم ایک سکھ ، ایک ہندو اور ایک عیسائی کو کیا منہ دکھا سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے سامنے ہم کونسا منہ لے کر جائیں گے۔
باتیں تو میں نے اَور بھی نوٹ کی ہوئی تھیں مگر وقت ختم ہو گیا ہے اس لئے میں اسی پر اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں کہ جب بھی کوئی کام کیجئے سوچئے اور سوچ کر دیکھئے کہ آپ نے جو کام کیا ہے اس کا مطلب کیا ہے محض نعرے لگا لینا کسی قوم کی کامیابی کی علامت نہیں ہوتی۔ اگر اِس وقت سارے لوگ نعرۂ تکبیر بلند کرنے لگ جائیں، اگر اِس وقت سارے لوگ یہ کہنے لگ جائیں کہ ’’پاکستان زندہ بادہندوستان مردہ باد‘‘ تو اس سے ہندوستان کی ایک چوہیا بھی نہیں مرے گی لیکن اگر سب لوگ ان باتوں پر عمل کرنے لگ جائیں جن کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے، تاجر ٹیکس دینے لگ جائیں، عوام الناس بغیر ٹکٹ کے ریل کا سفر نہ کریں، نوجوان بیہودہ باتوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے تعلیم میں ترقی کریں اور جو مضبوط نوجوان ہیں وہ فوجوں میں بھرتی ہوں، افسر رشوت خوری کی عادت کو ترک کر دیں اور تمام کام دیانتداری اور محنت کے ساتھ کریں تو پاکستان عملی رنگ میں مضبوط سے مضبوط ہوتا چلا جائے گا پھر آپ لوگ خواہ ایک دفعہ بھی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ نہ کہیں نتیجہ یہی نکلے گا کہ ’’پاکستان زندہ باد۔‘‘
(الفضل ربوہ ۲۸؍ نومبر ۵؍ دسمبر۱۹۶۲ء)
۱؎ کنز العمال جلد۷ صفحہ ۲۸۰ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء
۲؎ الجمعۃ: ۱۰
۳؎ پیدائش باب۱۸ آیت ۲۳ تا ۳۲۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء (مفہوماً)
الرحمت
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
۱؎
الرحمت
(مضمون برائے اوّل شمارہ اخبار الرحمت ۲۱؍ نومبر۱۹۴۹ء)
’’آج سے چھتیس سال پہلے نہایت خطرناک حالات اور بالکل بے بسی اور بیکسی کی صورت میں میں نے الفضل اخبار جاری کیا تھا جو پہلے ہفتہ وار شروع ہوا اور اب روزانہ اخبار کی صورت میں شائع ہو رہا ہے اور اِس وقت مُلک کے مقتدر پرچوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد یہ پرچہ ہندوستان سے پاکستان میں آ گیا۔ اپنی مرضی سے نہیں مجبوری سے۔ مُلک کے حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا رہنا اور مغربی پنجاب میں ہندوؤں اور سکھوں کا رہنا قریباً ناممکن ہو گیا۔ یہ حالات یقینا تکلیف دِہ تھے، تکلیف دِہ ہیں اور تکلیف دِہ رہیں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِن حالات کے پیدا کرنے میں قدرت کی کوئی مصلحت بھی تھی۔ وہ کیا تھی؟ شاید اِس کا بیان ابھی مناسب نہ ہو۔ بہرحال اِن حالات کی وجہ سے علاوہ افراد کے بہت سے ہندو اور سکھ اخبار بھی مغربی پنجاب سے نکل کر مشرقی پنجاب کی طرف منتقل ہوگئے اور بہت سے مسلمانوں کے اخبار مشرقی پنجاب سے نکل کر مغربی پنجاب میں آ گئے۔ جہاں تک اخباروں کا تعلق ہے شاید نقصان ہندوؤں اور سکھوں کا زیادہ ہوا اور مسلمانوں کا کم۔ کیونکہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا ایک ہی مقتدر اخبار الفضل تھا لیکن مغربی پنجاب میں ہندوؤں کے کئی بڑے بڑے پرچے تھے مثلاً ’’ٹربیون‘‘، ’’پرتاب‘‘، ’’ملاپ‘‘، ’’اجیت‘‘، ’’ویر بھارت‘‘۔
جو پرچے جس مُلک میں گئے لازماً اُن کی ہمدردیاں اُن ممالک سے وابستہ ہوگئیں۔ الفضل گو ایک مذہبی پرچہ تھا لیکن کبھی کبھار اِس میں نیم سیاسی مضامین بھی شائع ہوتے تھے جن میں اپنی دیرینہ پالیسی کے مطابق پوری احتیاط سے کام لیا جاتا تھا اور خیال رکھا جاتا تھا کہ بین الاقوامی منافرت کی کوئی صورت پیدا نہ ہو لیکن ایک پاکستانی اخبار کے جذبات بہرحال پاکستانی ہی ہو سکتے تھے۔ میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں مگر ہندوستان کے بعض صوبوںکی حکومتوں نے الفضل کے بعض مضامین کو قابل اعتراض سمجھ کر اس کا داخلہ بند کر دیا اور اب تو قریباً سارے ہندوستان میں ہی سوائے دہلی کے اِس کا داخلہ بند ہے۔ ہندوستانی حکومت کے پاس جب اِس کے متعلق احتجاج کیا گیا تو اُنہوں نے جواب میں لکھا کہ مرکزی حکومت نے الفضل کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا اور براہِ راست اِس کے ماتحت علاقوں میں اس کا داخلہ ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔ باقی رہیں صوبہ جاتی حکومتیں سو وہ اِس معاملہ میں آزاد ہیں۔ اگر کسی صوبہ جاتی حکومت نے ایسا کیا ہو تو آپ اُس سے براہِ راست احتجاج کریں۔ الفضل چونکہ ایک مذہبی پرچہ تھا اِس لئے ہندوستان کی جماعتوں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اِس پرچہ میں سیاسی مضامین کلیتہًممنوع قرا ردیئے جائیں تا کہ کسی غیر گورنمنٹ کو اس پر اعتراض کا موقع نہ ملے لیکن یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی اور باوجود اِس کے کہ الفضل میں سیاسی مضمون چھپنے بند ہوگئے ہندوستان کے مزید صوبوں میں اِس کا داخلہ بند کیا جاتا رہا اور جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے اب قریباً سارے ہندوستان میں اِس کا داخلہ بند ہے۔ جس طرح ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ الفضل کے کونسے مضامین کی وجہ سے اس کا داخلہ ممنوع قرار دیا جانے لگا ہے اِسی طرح ہماری سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی کہ الفضل میں سیاسی مضامین کے ممنوع ہو جانے کے باوجود اِس کا داخلہ مزید صوبوں میں کیوں بند کیا جاتا رہا۔ مگر بہرحال یہ حکومت اپنے مصالح کو خود سمجھتی ہے اور دوسرے لوگوں کی سمجھ میں خواہ وہ مصالح آئیں یا نہ آئیں ان کے لئے احکامِ حکومت کی پابندی لازمی اور ضروری ہوتی ہے۔ خصوصاً جماعت احمدیہ کے لئے جس کے اصول میں یہ بات داخل ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہو اُس کے احکام کی فرمانبرداری کرو اِس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ بجائے اس کے کہ الفضل کے خلاف جو قدم اُٹھایا گیا ہے اُس پر پروٹیسٹ کریں اور اُس کے ازالہ کے لئے کوئی جدوجہد کریں ایک نیا اخبار جاری کر دیا جائے جو کلیتہً سیاسیات سے الگ ہو تا کہ ان جماعت ہائے احمدیہ کی تنظیم اور تبلیغ میں کوئی روک پیدا نہ ہو جو ہندوستان میں رہتی ہیں۔ اِس ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہوئے کہ وہ اِس پرچہ کو بابرکت بنائے اور اُن مقاصد کی اشاعت میں کامیاب کرے جن کا ذکر ذیل میں کیا جائے گا۔
میں ’’الرحمت‘‘ کو جاری کرتا ہوں۔ یہ پرچہ خالص مذہبی پرچہ ہوگا اور جہاں اس کی پالیسی یہ ہوگی کہ یہ انصاف اور عدل کے قوانین کے مطابق مختلف مذاہب کے لوگوں میں عقل اور اخلاق کی پیروی کی روح پیدا کرے وہاں اِس کی یہ بھی پالیسی ہوگی کہ وہ سیاسیات سے الگ رہتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک بہتر فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
ہمیں نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی ہندوستانیوں نے مسٹر گاندھی کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر ہندو اور سکھ اور غیر مسلم کو جو پاکستان میں رہتا ہے پاکستان کا مخلص اور وفادار شہری ہو کر رہنا چاہیے اور کئی مسلمانوں نے قائد اعظم کے اُن اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر مسلمان کو جو ہندوستان میں رہتا ہے ہندوستانی حکومت کا مخلص اور وفادار شہری ہو کر رہنا چاہیے۔ ان لیڈروں کے منشاء کے خلاف کچھ لوگ ایسے پیدا ہوگئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی غیرمسلم کو پاکستان میں رہنا ہی نہیں چاہیے۔ اور اگر ایسا ہوتو پھر پاکستان میں رہنے والے غیرمسلم کو دل میں پاکستان سے دشمنی رکھنی چاہیے اور ہندوستان میں رہنے والے مسلمان کو دل میں ہندوستان سے دشمنی رکھنی چاہیے۔ اگر گاندھی جی اور قائداعظم کے بیانات نہ بھی ہوتے تب بھی یہ جذبہ اور رُوح نہایت افسوسناک اور مذہب اور اخلاق کے خلاف تھی مگر اِن دو زبردست ہستیوں کے اعلانات کے خلاف اِس قسم کے جذبے کا پیدا ہونا نہایت ہی تعجب انگیز اور افسوسناک ہے۔ ہندوستان کی موجودہ دو علاقوں میں تقسیم بعض مصلحتوں کے ماتحت ہوئی تھی۔ ان مصلحتوں سے زیادہ کھینچ تان کر اِس مسئلہ کو کوئی اور شکل دینا کسی صورت میں جائز نہیں ہو سکتا۔ جب تقسیم اٹل ہوگئی تھی تو میں نے اُسی وقت یہ اعلان کیا تھا کہ اگر یہ تقسیم ہونی ہی ہے تو پھر کوشش کرنی چاہیے کہ دونوں مُلکوں کے باشندوں کو ایک دوسرے مُلک میں بغیر پاسپورٹ کے آنے جانے کی اجازت ہو، تجارت پر کسی قسم کی کوئی پابندیاں نہ ہوں لیکن افسوس کہ اُس وقت میری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی اور شاید آج بھی یہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ اگر میری بات کو مان لیا جاتا تو وہ خون ریزی جو مشرقی پنجاب اور کشمیر میں ہوئی ہے ہرگز نہ ہوتی۔ ہم کُلّی طور پر آزاد بھی ہوتے مگر ہماری حیثیت اُن دو بھائیوں سے مختلف نہ ہوتی جو اپنے والدین کی جائداد تقسیم کر کے اپنے چولہے الگ کر لیتے ہیں۔ وہ یقینا اپنی اپنی جائداد کے کُلّی طور پر مالک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ماتحت نہیں ہوتے، ان کا کھانا پینا بھی الگ الگ ہوتا ہے، ان کی آمدنیں بھی الگ ہوتی ہیں اور ان کے خرچ بھی الگ ہوتے ہیں مگر باوجود اِس کے وہ بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ کی جائداد کے تقسیم کرنے سے دو بھائی دشمن نہیں بن جاتے تو ہندوستان کے تقسیم کرنے سے مسلمان اور ہندو کیوں دشمن بن جائیں۔ تقسیم دشمنی نہیں پیدا کرتی تقسیم کے پیچھے کسی غلط روح کا ہونا دشمنی پیدا کرتا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ اِس غلط روح کو کچل دیا جائے اور بھائیوں بھائیوں کی طرح مسلمان اور ہندو اپنی آبائی جائداد کی تقسیم کا فیصلہ کریں مگر میری اِس آواز کو اُس وقت نہ سنا گیا۔ میری اِس آواز کو بعد میں بھی نہ سنا گیا۔ پاکستان کے ایک متعصب عنصر نے میرے اِن خیالات کی وجہ سے مجھے پاکستان کا ففتھ کالمسٹ قرار دیا اور اُنہوں نے یہ نہ سوچا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جس کا اعلان بار بار قائداعظم نے کیا تھا۔ صرف فرق یہ تھا کہ قائداعظم نے ایک مجمل اصل بیان کیا تھا اور میں شروع سے ان تفاصیل کو بیان کر رہا تھا جن تفاصیل کے ذریعہ سے ہی قائد اعظم کا بیان کردہ اصل عملی صورت اختیار کر سکتا تھا۔ میرے اِن خیالات کی وجہ سے ہندوستان کے احمدیوں کو بھی ہندوستان میں کشتنی اور گردن زدنی سمجھا گیا۔ شاید کسی اور مسلمان فرقہ کو اِس قدر نقصان ہندوستان میں نہیں پہنچا جس قدر کہ احمدی جماعت کو پہنچا ہے اور اِس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کا امام گاندھی جی کے بیان کردہ اصل کی ترجمانی کے صحیح طریق ان کے سامنے پیش کر رہا تھا۔ ہم نے ایک سچائی کے لئے دونوں مُلکوں میں تکلیف اُٹھائی اور شاید دونوں مُلکوں کے متعصب لوگوں کے ہاتھوں سے آئندہ بھی ہم دونوں مُلکوں میں تکلیف اُٹھائیں گے لیکن ہم اس دائمی سچائی کو جو قرآن کریم میں بار بار بیان کی گئی ہے کبھی نہیںچھوڑ سکتے کہ جو شخص جس حکومت میں رہتا ہے وہ اُس کا فرمانبردار رہے اور اُس کے ساتھ پوری طرح تعاون کرے۔ اور اگر کسی وقت وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مذہب اور اخلاق کو قائم رکھتے ہوئے اُس مُلک میں رہ نہیں سکتا تو اُس مُلک سے ہجرت کر جائے۔ اگر اُس مُلک کی حکومت اُس کو ہجرت بھی نہ کرنے دے تو پھر وہ آزاد ہے کہ خداتعالیٰ نے اُسے جو بھی ذریعہ بخشا ہو اُسے کام میں لاتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد کرے۔ جب کانگرس گورنمنٹ کے خلاف کھڑی ہوئی تھی تو انہی اصول کی وجہ سے میں نے کانگرس کی مخالفت کی تھی ورنہ میں کانگرس کا دشمن نہیں تھا نہ مُلک کی آزادی کا دشمن تھا۔ کانگرس کے کئی لیڈر میرے واقف تھے اور بعض دوست بھی اور وہ مختلف اوقات میں مجھ سے تبادلۂ خیالات کرتے رہتے تھے وہ جانتے تھے اور جانتے ہیں کہ میں مُلک کی آزادی کا اُن سے کم حامی نہیں تھا۔ مجھے ان سے اختلاف صرف اُس طریقۂ کار کے متعلق تھا جو میرے نزدیک مُلکی حکومت کے بن جانے پر بھی تفرقہ کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ جو کچھ میں نے اُس وقت کہا تھا آج پاکستان اور ہندوستان میں لفظاً لفظاً صحیح ثابت ہو رہا ہے۔ حکومت کے بائیکاٹ کے اعلانات کئے جا رہے ہیں، سٹرائیکیں کی جارہی ہیں اور مُلک میں رہتے ہوئے انتشار اور اختلاف کے سامان پیدا کئے جا رہے ہیں۔ میں جو انگریز کے زمانہ میں انگریز کے خلاف ایسی باتوں کی اجازت نہیں دیتا تھا یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ خود مُلکی حکومتوں کے قائم ہو جانے کے بعد پاکستان یا ہندوستان میں میں ایسی باتوں کی اجازت دے دیتا۔ چنانچہ ہر ایسے موقع پر جو پاکستان یا ہندوستان میں پیدا ہوا میں نے اپنی جماعت کو یہی حکم دیا کہ وہ حکومت وقت کی پورے طور پر وفاداری کریں اور جو ذمہ داریاں حکومت کی طرف سے شہریوں پر عائد کی جائیں ان ذمہ داریوں کو دیانتداری سے ادا کریں۔ یقینا یہ تعلیم پاکستانی اور ہندوستانی حکومتوں کی نظر میں ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھی جانی چاہیے تھی مگر افسوس کہ ہندوستان میں ایسا نہیں کیا گیا اور بعض صوبہ جاتی حکومتوں نے اِس قیمتی خزانے کی قدر نہیں کی جو احمدیہ جماعت کی صورت میں اُن کے مُلک کو حاصل ہوا تھا۔
احمدی جماعت ہر مُلک کے لئے ایک قیمتی جوہر ہے۔ وہ وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اپنے مُلک کی حکومت کے ساتھ تعاون کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ وہ انصاف اور عدل کے لئے قربانی کرنے والی جماعت ہے مگر حکومت کے ساتھ عدمِ تعاون اِس کے اصولوں کے خلاف ہے۔ وہ عدل اور انصاف کو عدل اور انصاف کے ذریعوں سے ہی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ عدل اور انصاف کے حاصل کرنے کے لئے غیر منصفانہ اور غیر عادلانہ ذرائع کے اختیار کرنے کو جائز قرار نہیں دیتی۔ ہر سمجھدار انسان اِس جماعت کو سر اور آنکھوں پر بٹھائے گا۔ ہر سمجھدار حکومت ایسی جماعت کو قدر اور عزت کی نگاہوں سے دیکھے گی۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر اِس سے پہلے نہیں تو آئندہ ہندوستان کی مختلف صوبائی حکومتیں اور مرکزی حکومت ان احمدی تعلیمات کو مدنظر رکھ کو جو میں نے اوپر بیان کی ہیں احمدیوں کے متعلق اپنے رویہ کو تبدیل کرے گی۔
مجھ سے بعض ہندوستانی جو اِدھر آتے رہتے ہیں اُنہوں نے بعض دفعہ ان امور پر تبادلۂ خیالات کیا ہے اور بعض سے سوالات کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمارے نقطۂنگاہ کو پورے طور پر نہیں سمجھا۔ مثلاً یہ کہ اگر آپ ہندوستان کے احمدیوں کو ہندوستان کی وفاداری کی تعلیم دیتے ہیں تو کیا پاکستان کے احمدی کشمیر کے معاملہ میں پاکستان حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے؟ میری اوپر کی تشریح کے بعد یہ سوال کیسا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ میں نے اوپر بیان کیا ہے اُس کا تو یہ مطلب ہے کہ ہمارے نزدیک قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ جو شخص جس حکومت میں رہے وہ اُس کا فرمانبردار رہے اور اُس کے ساتھ تعاون کرے۔ اِس تعلیم کا یہ مطلب ہے کہ ہر پاکستان میں رہنے والا احمدی اپنی حکومت کا پوری طرح فرمانبردار ہوگا اور اُس کے مقاصد اور مفاد میں پوری طرح تعاون کرے گا۔اور ہندوستان میں رہنے والا ہر احمدی حکومت ہندوستان کا پوری طرح فرمانبردار ہوگا اور اُس کے مقاصد اور مفاد میں اُس سے پوری طرح تعاون کرے گا۔ اتنی واضح تعلیم کے بعد اِس قسم کا شُبہ پیدا ہی کس طرح ہو سکتا ہے۔ یہ سوال تو بے شک کیا جا سکتا تھا کہ کیا ہندوستان میں رہنے والا احمدی اپنی حکومت کے ساتھ پوری طرح تعاون کرے گا؟ اِس کا جواب یقینا میں یہ دیتا کہ ہاں کرے گا لیکن ہر حکومت کی وفاداری کی تعلیم سن کر یہ کہنا کہ کیا پاکستان میں رہنے والا احمدی پاکستان کی حکومت سے بغاوت کرے گا؟ بالکل احمقانہ اور جاہلانہ سوال ہے۔ اوپر کی بیان کردہ تعلیم کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والا ہر احمدی حکومت پاکستان کی پوری فرمانبرداری کرے گا اور اُس کے تمام مقاصد اور مفاد میں اُس کے ساتھ تعاون کرے گا۔ اگر پاکستان ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ ہم ہندوستان کے احمدیوں کو ہندوستان سے بغاوت کی تعلیم دیں تو ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے اور اگر ہندوستان کی حکومت ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ ہندوستان میں رہنے والے احمدیوں کو امن سے رہنے دینے کی قیمت ہمیں یوں ادا کرنی چاہیے کہ پاکستان کے احمدی پاکستان کی حکومت سے غداری کریں یا اس سے عدمِ تعاون کریں تو ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے۔
ہمارا مذہب یہ کہتا ہے کہ جس حکومت میں رہو اس کے فرمانبردار رہو۔ پس جو ہندوستان میں رہتے ہیں ہم اُن کو یہی کہیں گے کہ ہندوستان کی حکومت کی فرمانبرداری کرو اور جو پاکستان میں رہتے ہیں ہم اُن کو یہی کہیں گے کہ پاکستان کی حکومت کی فرمانبرداری کرو اور یہی تعلیم ہماری انڈونیشیا، عرب، یونائیٹڈسٹیٹس آف امریکہ، انگلستان، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، ایبے سینیا، مصر اور دیگر حکومتوں کے ماتحت رہنے والے احمدیوں کو ہوگی۔ کسی کی سمجھ میں ہماری بات آئے یا نہ آئے ہماری سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ ہمارے بیان کردہ اصولوں کے بغیر دنیا میں امن قائم کس طرح رہ سکتا ہے؟ اگر ہندوستانی اپنے سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ تعلیم دیں کہ وہ جہاں کہیں جائیں ہندوستان کے ایجنٹ بن کر رہیں تو دوسری قومیں ان کو برداشت کس طرح کریں گی؟ اور اگر پاکستانی اپنی رعایا یا اپنے سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ تعلیم دیں تو اِسی سلوک کی اُن کو بھی امید رکھنی چاہیے۔ ہر سیاسی حکومت کو اپنے باشندوں کو یہی حکم دینا ہوگا کہ تم اپنی حکومت کے فرمانبردار رہو اور اگر باہر جاؤ تو عارضی طور پر اُس حکومت کے قوانین کی پیروی کرو۔اور ایک مذہبی گروپ کو اپنے افراد کو یہی تعلیم دینی ہوگی کہ تم جس مُلک کے باشندے ہو اُس مُلک کے وفادار ہو۔پس یہ اخبار اِسی پالیسی کے ماتحت ہر مُلک کے احمدیوں کو یہ تعلیم دے گا کہ وہ اپنی اپنی حکومت کے فرمانبردار اور مطیع رہیں اور اُس کے ساتھ سچا تعاون کریں۔
(۲) اِس وقت سب سے بڑی مصیبت دنیا پر یہ آئی ہوئی ہے کہ حکومتیں اپنے آپ کو اخلاقی نظام سے باہر سمجھتی ہیں۔ اخلاقی نظام کی پابندی صرف افراد کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اِس کے نتیجہ میں بہت سے فساد اور خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ الرحمت اِس مسئلہ کو بار بار سامنے لائے گا اور اپنی اِس کمزور آواز کو بلند سے بلند کرتا چلا جائے گا کہ حکومتیں اور افراد دونوں ہی اخلاقی ذمہ داریوں کو اپنے اوپر حاکم تصور کریں اور اپنے آپ کو اخلاقی حکومت سے بالا خیال نہ کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سچائی، دیانت اور عدل کے قوانین کو اگر پوری طرح مدنظر رکھا جائے تو بہت سی مشکلات جو اِس وقت ناقابل حل معلوم ہوتی ہیں آسانی سے حل ہو سکتی ہیں۔ ہر قوم کو دوسری قوم کا حق دینا چاہیے اور ایک مُلک میں رہنے والی سب قوموں کو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہیے۔ سیاسی اختلافات کی بنیاد مُلک کی ترقی پر رکھنی چاہیے نہ کہ قوموں کے اندر اختلاف اور انشقاق پیدا کرنے پر۔ ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم سب سے پہلے جماعت احمدیہ کو اس کے اخلاقی فرائض کی طرف توجہ دلائیں جس میں اُن کے مذہبی پیشواؤں نے ہم سے اتفاق کیا ہے اور اُن کو اپنے پیشواؤں کی سچی پیروی کی ہدایت کریں۔
(۳) اِس وقت ایک عظیم الشان حادثہ کی وجہ سے مسلمانوں میں انتشار پیدا ہو رہا ہے اور وہ حیران ہیں کہ اِنہیں کیا کرنا چاہیے؟ اِس اثر سے احمدی جماعت بھی آزاد نہیں۔ ہمارے نزدیک اِس انتشار کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ مُلک کی تقسیم کے بعد بھی مسلمان ہندوستان میں آزادی سے رہ سکتا ہے اگر وہ عقل سے کام لے۔ سیاسی پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم مذہبی اور اخلاقی پہلو جماعت اور دوسرے مسلمانوں کے سامنے رکھتے رہیں گے جن کی روشنی میں وہ ہندوستان کی حکومت کا ایک مفید جزو بن سکیں اور ہندوستان میں امن اور عزت کی زندگی بسر کر سکیں۔ ہم ایسی ہی خدمت اُن ہندوؤں اور سکھوں کی بھی کرنے کے لئے تیار رہیں گے جنہوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے یا جو آئندہ ایسا فیصلہ کریں۔
غرض اِس پرچہ کی بنیاد مذہب اور اخلاق پر ہوگی اور صلح اور آشتی پر ہوگی۔ یہ پرچہ سیاسیات سے الگ رہے گا۔ اختلافات کو بڑھائے گا نہیں کم کرنے کی کوشش کرے گا۔ جہاں تک عوامی تعلقات کا سوال ہے یہ پاکستان اور ہندوستان کے عوام کے جوش میں آئے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا اور ہر غداری کی روح کو خواہ وہ پاکستان میں سر اُٹھائے یا ہندوستان میں سر اُٹھائے دبانے کی کوشش کرے گا بلکہ صرف ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہر گوشہ کے لوگوں کیلئے ’’الرحمت‘‘ رحمت کا نشان بننے کی سعی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس ارادہ میں پورا اُترنے کی توفیق دے اور اِس رستہ کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت بخشے اور اپنی مدد اور نصرت سے سچائی، عدل اور انصاف کے غلبہ کے سامان مہیا کرے۔
میں پھر اُسی آیت کو دُہراتے ہوئے جس کو میں اوپر لکھ چکا ہوں اِس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ یعنی اے خدا! میں اِس کمزور کشتی کو ایک متلاطم سمندر میں پھینکتا ہوں تیرا ہی نام لیتے ہوئے اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہوئے۔ تو اپنے فضل سے اِس متلاطم سمندر میں اِس کشتی کو آرام سے چلنے میں مدد دے اور اپنی حفاظت میں اِس کے منزلِ مقصود پر پہنچنے کے سامان پیدا فرما۔ آمین
(اخبار الرحمت ۲۱؍ نومبر ۱۹۴۹ء)
۱؎ ھود: ۴۲
دنیا کے معزز ترین انسان
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
دنیا کے معزز ترین انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
(افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۹ء)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا:۔
’’ہماری موجودہ مثال اُن کمزور پرندوں کی سی ہے جو دریا کے کسی خشک حصہ میں سستانے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اور شکاری جو اُن کی تاک میں لگا ہوا ہوتا ہے اُن پر فائر کر دیتا ہے اور وہ پرندے وہاں سے اُڑ کر ایک دوسری جگہ پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم بھی آرام سے اور اطمینان سے دنیا کی چالاکیوں اور ہوشیاریوں اور فریبوں سے بالکل غافل ہو کر( کیونکہ مومن چونکہ خود چالاک اور فریبی نہیں ہوتا وہ دوسروں کی چالاکیوں اور فریبوں کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتا) اپنے آرام گاہ میں اطمینان اور آرام سے بیٹھے تھے اور ارادہ کر رہے تھے کہ ہم میں سے کوئی اُڑ کر امریکہ جائے گا، کوئی انگلستان جائے گا، کوئی جاپان جائے گا اور دین اسلام کی اشاعت ان جگہوں میں کرے گا لیکن چالاک شکاری اِس تاک میں تھا کہ وہ ان غافل اور سادہ لوح پرندوں پر فائر کرے چنانچہ اُس نے فائر کیا اور چاہا کہ وہ ہمیں منتشر کر دے مگر ہماری جماعت جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں پرندہ ہی قرار دیا گیا ہے اپنے اندر ایک اجتماعی روح رکھتی تھی۔
پرندے دو قسم کے ہوا کرتے ہیں ایک پرندے وہ ہوتے ہیں جو اجتماعی روح اپنے اندر نہیں رکھتے اور ایک پرندے وہ ہوتے ہیں جو اجتماعی روح اپنے اندر رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی تمہیں چند فاختائیں بھی اکٹھی بیٹھی ہوئی نظر آ جائیں گی، کبھی کبھی تمہیں چند چڑیاں بھی اکٹھی بیٹھی ہوئی نظر آ جائیں گی مگر جب تم اُن پر فائر کرو گے تو ان میں سے کوئی مشرق کی طرف بھاگ جائے گی، کوئی مغرب کی طرف بھاگ جائے گی، کوئی شمال کی طرف بھاگ جائے گی، کوئی جنوب کی طرف بھاگ جائے گی اور کوئی ان کے درمیانی کونوں کی طرف بھاگ جائے گی اور اس فائر کے بعد صاف پتہ لگ جائے گا کہ ان کا اتحاد عارضی تھا، اُن کا اکٹھا ہونا ایک اتفاقی امر تھا مگر جب تم مثلاً مرغابی پر فائر کرتے ہو یا مثلاً قاز۱؎ پر فائر کرتے ہو تو اس وقت ان کے اُٹھتے وقت تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہ بھی پراگندہ ہونے لگے ہیں مگر تھوڑی سی پرواز کے بعد تھوڑے سے انتشار اور پراگندگی کے بعد تم دیکھو گے کہ وہ پھر دائیں اور بائیں سے اکٹھے ہو کر دوبارہ ایک جگہ پر آ کر بیٹھ جائیں گے۔
مشرقی پنجاب سے بہت سی قومیں، بہت سے گاؤں نکلے، بہت سے شہر نکلے، بہت سے علاقے نکلے لیکن اُنہوں نے اپنے فعل سے ثابت کر دیا کہ وہ قومی روح اپنے اندر نہیں رکھتے تھے، وہ پراگندہ ہوگئے، وہ پھیل گئے، وہ منتشر ہو گئے یہاں تک کہ بعض جگہ پر بھائی کو بھائی کا، باپ کو بیٹے کا اور ماں کو اپنی لڑکی کا بھی حال معلوم نہیں۔ صرف وہ چھوٹی سی قوم، وہ تھوڑے سے افراد جو دشمن کے تیروں کا ہمیشہ سے نشانہ بنتے چلے آئے ہیں اور جن کے متعلق کہنے والے کہتے تھے کہ دشمن کے حملہ کا ایک ریلا آنے دو پھر دیکھو گے کہ ان کا کیا حشر ہوتا ہے جونہی حملہ ہوا یہ لوگ متفرق ہو جائیں گے، منتشر اور پراگندہ ہو جائیں گے وہی ہیں جو آج ایک مرکز پر جمع ہیں۔ وہ کثیر التعداد آدمی جو وہاں سے نکلے تھے وہ پھیل گئے، وہ بکھر گئے، وہ پراگندہ ہوگئے مگر وہ چھوٹی سی جماعت جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ایک معمولی سا ریلا بھی آیا تو یہ ہمیشہ کے لئے منتشر ہو جائے گی وہ مرغابیوں کی طرح اُٹھی تھوڑی دیر کے لئے اِدھر اُدھر اُڑی مگر پھر جمع ہوئی اور ربوہ میں آ کر بیٹھ گئی۔ چنانچہ جو نظارہ آج تم دیکھ رہے ہو یہ خواہ اتنا شاندار نہیں جتنا قادیان میں ہوا کرتا تھا کیونکہ ابھی ہماری پریشانی کا زمانہ ختم نہیں ہوا لیکن اور کونسی قوم ہے جس کی حالت تمہارے جیسی ہے۔ اور کونسی جماعت ہے جو آج اس طرح پھر جمع ہو کر ایک مقام پر بیٹھ گئی ہے۔ یقینا اور کوئی قوم ایسی نہیں۔ پس تمہارے اس فعل نے بتا دیا کہ تمہارے اندر ایک حد تک قومی روح ضرور سرایت کر چکی ہے۔ تم اُڑے بھی، تم پراگندہ بھی ہوئے، تم منتشر بھی ہوئے مگر پھر جو تمہاری جبلّت ہے، جو تمہاری طینت ہے، جو چیز تمہاری فطرت بن چکی ہے کہ تم ایک قوم بن کر رہتے ہو اور ایک آواز پر اکٹھے ہو جاتے ہو یہ فطرت تمہاری ظاہر ہوگئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ کوئی طاقت تمہیں ہمیشہ کے لئے پراگندہ نہیں کر سکتی۔ بے شک ابھی یہ ایک بیج ہے جو دکھائی دے رہا ہے مگر یہ بیج بڑی برکت کی نشانی ہے، بڑی رحمت کی نشانی ہے اور آئندہ کے لئے بڑی امیدیں دلانے والی چیز ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ چیز اچھی بھی ہے، بہتر بھی ہے بلکہ ہمارے لئے فخر کاموجب بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ہماری پیداکردہ نہیں بلکہ ہمارے خدا ہی کی پیدا کردہ ہے اور ہم اس خوبی میں جو ہمارے اندر لوگوں کو نظر آتی ہے اپنے خدا ہی کا ہاتھ دیکھتے ہیں۔
ایک خوبصورت حسینہ جس کی شادی کی جاتی ہے اُس کا خاوند اس کے نقش و نگار اور اُس کی زینت دیکھ کر اُس پر لٹو ہو جاتا ہے مگر اُسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس زینت کے پیچھے مشاطہ ۲؎ کا ہاتھ کام کر رہا ہے۔ اگر وہ نہ ہوتی تو اُس کی بیوی بھی ایسی خوبصورت معلوم نہ ہوتی۔ اور جہاں مشاطائیں نہیں ہوتیں وہاں گھر کی رشتہ دار عورتیں اُسے سجاتی ہیں۔ ہم بھی ایک دلہن کی طرح نکھر کر دنیا کے سامنے آئے ہیں مگر ہمارے چہرے کا رنگ و روغن اور ہمارا نکھار بتا رہا ہے کہ یہ حسن ہمارا نہیں بلکہ ہمارے خدا یعنی ازلی مشاطہ کا بنایا ہوا حسن ہے اس لئے ہم اُسی کے حضور میں ادب کے ساتھ اپنا سر جھکاتے اور اُس سے کہتے ہیں اے مہربان آقا !جس نے ہم کو انتشار کے بعد پھر جمع کیا، جس نے پریشانی کے بعد ہمیں پھر امن کا راستہ دکھایا اور جس نے آئندہ کے لئے ہمیں بہت سی امیدیں دلائیں اگر تیرے علم میں ہمارے لئے کوئی اَور ابتلاء بھی مقدر ہیں تو ہم تجھ سے امید رکھتے ہیں کہ تو پھر بھی ہم کو پراگندہ نہیں ہونے دے گا بلکہ اپنے خاص فضل اور مہربانی سے ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور ہماری خطاؤں کو معاف فرماتے ہوئے پھر ہم کو اکٹھا کر دے گا۔ پھر ہم کو جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے گا اور اُس وقت تک ہمارے ارادوں کو متزلزل نہیں ہونے دے گا جب تک کہ ہم اسلام کو تمام دنیا میں قائم نہ کر دیں۔ ہمیں یہ امیدیں تیرے فضل نے دلائی ہیں اور ہماری اُمنگیں تیری رحمت کا ہی نتیجہ ہیں پس اے آقا! ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تو ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کر کے ہم میں وہ قومی روح پیدا فرما جو دنیا کی فتح کے لئے ضروری ہے۔ اور ہم میں وہ یگانگت اور اتحاد پیدا فرما جو دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اور ہمارے لئے ایسے سامان پیدا فرما کہ ہم دنیا میں ہر مشکل اور مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہا کریں اور ہمیشہ ایک جھنڈے کے نیچے جمع رہا کریں تا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام کو ہم دنیا میں پھیلا سکیں اور خداتعالیٰ کی بادشاہت کو اِس دنیا کے چپہ چپہ پر قائم کر سکیں اور وہ محسن ترین وجود جو آج مظلوم ترین وجود بنا ہوا ہے اس کی شان اور عظمت کو دوبارہ دنیا میں قائم کر سکیں۔
مجھے اِس وقت یاد آ گیا، ایک واقعہ تھا جس کا اِس بات کے کہتے کہتے میری آنکھوں کے سامنے نقشہ کھنچ گیا۔ ایک جنگ کے موقع پر انصار اور مہاجرین میں جھگڑا ہو گیا۔ نوجوان ایسے موقع پر غلطیاں کر ہی بیٹھتے ہیں کسی نوجوان نے طعنہ دے دیا کہ ارے مہاجرو! تم اپنے گھروں سے نکالے ہوئے آئے اور ہم نے تمہیں پناہ دی۔ اِس پر مہاجرین بھی جوش میں آ گئے اور اُنہوں نے کہا ہم وہ ہیں جنہیں خداتعالیٰ نے سب سے پہلے اسلام کی شناخت کی توفیق بخشی تم ہمارا کہاں مقابلہ کر سکتے ہو۔ بات بڑھتی چلی گئی جھگڑا طول پکڑتا چلا گیا اور آخر ایسی صورت اختیار کر گیا کہ یکے بعد دیگرے اس میں دوسرے انصار اور مہاجر بھی شریک ہوگئے اور یوں معلوم ہونے لگا جیسے آج مہاجر اور انصار آپس میں لڑ ہی پڑیں گے۔ اُس وقت عبداللہ بن ابی ابن سلول دیرینہ منافق جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری سے پہلے مدینہ کی بادشاہت کے خواب دیکھ رہا تھا بلکہ بعض روایتوں کے مطابق اس کے لئے تاج بھی بنایا جا رہا تھا اور فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ اُسے تاج پہنا کر بادشاہ بنا دیا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد کی وجہ سے اُس کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے اور وہ دل ہی دل میں بُغض و کینہ کی آگ میں ہروقت جلنے لگا۔ جب اُس نے دیکھا کہ اِس طرح انصار اور مہاجر آپس میں لڑرہے ہیں تو اُس نے سمجھا کہ یہ انصار کو بھڑکانے کا ایک اچھا موقع ہے وہ آگے بڑھا اور اُس نے کہا اے انصار! یہ تمہاری ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ تم اِن لوگوں کے منہ سے ایسی باتیں سن رہے ہو۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم ایسا قدم مت اُٹھاؤ مگر تم نہ مانے اب شکر ہے کہ میری بات تمہاری سمجھ میں آ رہی ہے۔ تم ذرا ٹھہرو اور مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر دیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی وہ کم بخت (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) مدینہ کے سب سے زیادہ ذلیل آدمی یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا اور یہ فتنہ ہمیشہ کے لئے دُور ہو جائے گا۔۳؎ عبداللہ کا بیٹا مومن تھا وہ ایک سچا مسلمان تھاجب اُس نے اپنے باپ کی یہ بات سنی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ میرے باپ نے جو بات کہی ہے اُس کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہو سکتی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ یہی سزا اُسے دیں گے لیکن میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اگر کسی اَور مسلمان کو آپ نے کہا اور اُس نے میرے باپ کو قتل کر دیا اور پھر کوئی کمزوری کا وقت مجھ پر آ گیا اور وہ مسلمان میرے سامنے آیا تو ممکن ہے میرے دل میں خیال آ جائے کہ یہ میرے باپ کا قاتل ہے اور میں جوش میں آ کر اُس پر حملہ کر بیٹھوں اور اِس طرح بے ایمان ہو جاؤں۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ میری درخواست یہ ہے کہ آپ مجھے ہی یہ حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں تا کہ کسی مسلمان کا کینہ میرے دل میں پیدا نہ ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ ہم تمہارے باپ کو قتل کریں۔ اُس نے بات کی اور اپنے اندرونہ کو ظاہر کر دیا۔۴؎ ہماری طرف سے اس پر کوئی گرفت نہیں۔
اب بظاہر بات ختم ہوگئی اور وہ آئی گئی ہوگئی۔ انصار اور مہاجر آپس میں پھر بغلگیر ہوگئے۔ عبداللہ بن ابی بن سلول پھر ذلیل اور شرمندہ ہو کر اپنے خیمہ میں جا گھسا۔ پھر انصار اور مہاجرین میں بھائیوں بھائیوں کا سا نظارہ نظر آنے لگا۔ پھر ان میں محبت اور پیار کی باتیں ہونے لگیں، پھر لوگوں نے یہ نمونہ دیکھا کہ ایک بدبخت انسان نے نہایت ہی گندے الفاظ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق کہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے انتہائی فراخ دلی سے معاف فرما دیا۔ پھر لشکر نے اپنا کام شروع کر دیا اور جب وہ اپنا کام پورا کر چکا تو مدینہ کی طرف واپسی شروع ہوگئی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھول گئے کہ عبداللہ نے کیا کہا تھا، عبداللہ بھی بھول گیا کہ اس کمبخت نے کیا کہا تھا، مہاجر بھول گئے کہ وہ انصار سے لڑنے کے لئے تیار ہوگئے تھے اور انصار بھی بھول گئے کہ وہ مہاجرین سے لڑنے کے لئے تیار ہوگئے تھے لیکن ایک دل تھا جس کی آگ بھڑک رہی تھی، جس کے شعلے دَبنے میں نہیں آتے تھے اور جو سر سے پاؤں تک جلا جا رہا تھا اِس وجہ سے کہ اُس کے آقا اور اُس کے سردار کو ایک شخص نے کہ (نَعُوْذُ بِاللّٰہ)وہ ذلیل ترین وجود ہے مدینہ کا۔ اور جانتے ہو وہ کون شخص تھا؟ وہ اسی عبداللہ کا اپنابیٹا تھا غیر اس کی بات بھول گئے، رشتہ دار اس کی بات بھول گئے، دوست اس کی بات بھول گئے، دشمن اس کی بات بھول گئے لیکن اُس کا بیٹا اِس بات کو نہیں بھولا اور بغیر اس واقعہ کے اسے اور کسی چیز کا خیال تک نہیں آیا۔ جس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سواری مدینہ منورہ میں داخل ہو چکی اور اسلامی لشکر اندر داخل ہونے لگا تو وہ لڑکا اپنی سواری سے کود کر گلی کے کنارے پر کھڑا ہو گیا اور جب اپنے باپ عبداللہ بن اُبی کو دیکھا تو اُس نے تلوار نکال کر اپنے باپ سے کہا تمہیں یاد ہے تم نے وہاں کیا الفاظ کہے تھے؟ تم نے کہا تھاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل انسان ہے اور تم سب سے معزز انسان ہو۔ خدا کی قسم! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تم کو معاف کر دیا لیکن میں تمہیں معاف نہیں کروں گا اور تمہیں اُس وقت تک مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم تین دفعہ میرے سامنے یہ اقرار نہ کرو کہ میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے زیادہ معزز انسان ہیں۔ باپ نے دیکھ لیا کہ آج اس بیٹے کی تلوار میرے پیٹ میں جائے بغیر نہیں رہے گی، آج اس کی تلوار میرے دل کو چیرے بغیر نہیں رہے گی، اس نے اپنے سارے ہم نشینوں اور ہم مجلسوں کے سامنے جن میں وہ اپنی بادشاہت کی لافیں مارا کرتا تھا اقرار کیا کہ ہاں میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل شخص ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے زیادہ معزز انسان ہیں۔ ۵؎
مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا اور میں نے کہا خدا کی رحمتیں ہوں عبداللہ کے بیٹے پر کہ اُس نے اس طعنہ کو نہیں بھلایا اور تب تک اُس نے آرام نہیں کیا جب تک اپنے باپ کے منہ سے اُس نے یہ نہ کہلوا لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی سب سے زیادہ معزز وجود ہیں اور اس کا باپ سب سے زیادہ ذلیل آدمی ہے۔ مگر خدا رحم کرے ہم پر بھی جن کے سامنے دنیا نے محمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اتنی گالیاں دی ہیں کہ کسی ذلیل ترین انسان کو بھی وہ گالیاں نہیں دی گئیں، کسی کمینہ ترین انسان کو بھی وہ گالیاں نہیں دی گئیں، کسی شیطان کے مثیل انسان کو بھی وہ گالیاں نہیں دی گئیں مگر ہم آرام سے بیٹھے ہیں۔ ہمارے دلوں میں یہ جوش پیدا نہیں ہوتا کہ ہم وہ بات غیر کے منہ سے کہلوا سکیں جو عبداللہ کے بیٹے نے عبداللہ کے منہ سے کہلوائی۔ کس طرح ہم کو چین آ رہا ہے، کس طرح ہمارے دل اِدھر اُدھر کی باتوں میں مشغول ہیں اگر عبداللہ کے بیٹے جتنا ایمان ہی ہمارے دلوں میں ہوتا۔ حالانکہ چاہیے تھا کہ اس سے بہت زیادہ ایمان ہوتا تو ہمارا فرض تھا کہ ہم اُس وقت تک صبر نہ کرتے جب تک دنیا کو گھٹنے ٹیک کر یہ الفاظ کہنے پر مجبور نہ کر دیتے کہ دنیا کا سب سے زیادہ معزز وجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہے اور اس کا دشمن سب سے زیادہ ذلیل ہے۔ ہم ایک دفعہ پھر یہاں جمع ہوئے ہیں خدا تعالیٰ کی عنایت اور اُس کی مہربانی سے۔ آؤ ہم سچے دل سے یہ عہد کریں کہ ہم کم سے کم عبداللہ کے بیٹے جتنا ایمان دکھائیں گے اور جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت کا اقرار دنیا سے نہیں کروا لیں گے اُس وقت تک ہم اطمینان اور چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
ایمان کہلاتا تو ہمارا ایمان ہے لیکن حقیقتاً خداتعالیٰ کے پیدا کئے بغیر پیدا بھی نہیں ہو سکتا اِس لئے آؤ ہم خداتعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مہربانی کر کے ہم لوگوں کو جو درحقیقت اُس کے فضلوں کے مستحق نہیں سخت کمزور ہیں اور اعمال میں سست اور غافل ہیں اپنا فضل نازل کر کے وہ ایمان بخشے، وہ غیرت بخشے کہ ہمارے دلوں کی آگ سلگتی چلی جائے، بھڑکتی چلی جائے یہاں تک کہ ہم پورے عزم اور ارادہ کے ساتھ دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑے ہو جائیں اور اُس وقت تک آرام کا سانس نہ لیں جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت اور آپ کی عظمت کو پھر دنیا میں قائم نہ کر دیں اور وہ ظلم اور بے انصافی جو ہمارے آقا سے ہوتی چلی آ رہی ہے اس کا بدلہ نہ لے لیں۔ مگر وہ بدلہ نہیں جو سروں کو تلوار سے کاٹتا ہے بلکہ وہ بدلہ جو دلوں کو محبت سے بھرتا ہے تا کہ دنیا میں خداتعالیٰ کا نام پھر روشن ہو اور اللہ تعالیٰ کا جلال ایک دفعہ پھر ظاہر ہو جائے۔ پس آؤ میرے ساتھ دعا کرو۔ دل کے ساتھ، خشیت کے ساتھ، امیدوں کے ساتھ اور اپنے عجز کے اظہار اور کمزوری کے اعتراف کے ساتھ کیونکہ سچی دعا وہی ہوتی ہے جو ایک طرف اپنی کمزوری کا عجز کا اعتراف رکھتی ہے تو دوسری طرف خداتعالیٰ کی رحمتوں سے اُس میں مایوسی نہیں ہوتی۔
(الفضل ۳۱؍ دسمبر ۱۹۴۹ء)
۱؎ قاز: ایک آبی پرندہ
۲؎ مشاطہ: وہ عورت جو عورتوں کو بناؤ سنگھار کرائے۔
۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۳۰۳مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۳۰۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۰۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
قادیان سے ہماری ہجرت ایک
آسمانیتقدیر تھی
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی
(فرمودہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۹ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا:۔
کَل میں نے احبابِ جماعت میں تحریک کی تھی کہ چونکہ آپ ہی مہمان ہیں اور آپ ہی میزبان ہیں اِس لئے کام خود سنبھالیں اور کارکنوں کے ساتھ مل کر جلسہ سالانہ کی خدمات سرانجام دیں۔ ہمارے پاس چونکہ کارکن کم ہیں اس لئے جلسہ سالانہ کے کام جلسہ سالانہ پر آنے والے دوستوں کے تعاون سے ہی سرانجام دیئے جا سکتے ہیں۔ آج دفاتر کی طرف سے مجھے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ اس تحریک کے ماتحت احبابِ جماعت نے کارکنوں کے ساتھ بہت تعاون کیا ہے اور وہ تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ میں بھی ان دفاتر کے ساتھ اپنی خوشنودی کا اظہار کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ آپ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے فرائض کے ادا کرنے اور احکام کی فرمانبرداری بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ درحقیقت ایمان اور اخلاص کا یہی نمونہ ہے جو ہم لوگوں کے سامنے پیش کر سکتے ہیں تا انہیں یہ احساس ہو جائے اور یہ احساس مجھ کو اور آپ کو بھی ہو جائے کہ ایک انگلی اُٹھے گی تو آپ سب کھڑے ہو جائیں گے اور وہ انگلی جھکے گی تو آپ سب بیٹھ جائیں گے۔ تب دنیا یہ سمجھ لے گی کہ اِس جماعت کو کچلنا آسان بات نہیں اور جماعت کا امام بھی سمجھ لے گا کہ وہ اپنی جماعت کو ہر دشوار ترین راستہ پر چلا سکتا ہے کیونکہ دنیا میں کوئی شخص صرف اِس نیت سے کام نہیں کیا کرتا کہ اُسے ضرور فتح نصیب ہوگی بلکہ کام کرنے والا یہ جانتا ہے کہ اس کے لئے یا تو عزت والی زندگی مقدر ہے اور یا پھر اسے عزت والی موت نصیب ہوگی۔ دونوں میں سے ایک میں اس کا ضرور حصہ ہوگا۔ اور اگر یہ یقین پیدا نہ ہو کہ جو قدم تم اُٹھاؤ گے اس کے نتیجہ میں عزت والی زندگی یا عزت والی موت ملے گی تو قدم اُٹھانے سے پہلے تم بہت احتیاط سے کام لو گے اتنی احتیاط سے کہ بسا اوقات کام کا وقت گزر جائے گا۔ قرآن کریم میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کافر بڑے جتھے والے ہیں اور مومن کمزور ہیں پھر مومنوں کو فتح کیسے میسر آ سکتی ہے۔ ۱؎ تم میں سے بھی بعض کمزور ایمان والے لوگ ان کا ساتھ دے دیتے ہیں مگر کیا تم نے کبھی اتنا بھی سوچا ہے کہ دنیا میں لوگ ہمیشہ فتح کے لئے نہیں لڑا کرتے بلکہ لڑائیاں اَور وجوہات سے بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص راستہ پر چلا جاتا ہے ڈاکو اُس پر حملہ کر دیتے ہیں وہ اُن کا مقابلہ کرتا ہے اور مارا جاتا ہے۔ اس واقعہ کا جہاں کہیں ذکر کیا جاتا ہے یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں نے کیا ہی اچھا نمونہ دکھایا ہے۔ فلاں نے بزدلی نہیں دکھائی بلکہ اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا ہے۔ حضرت امام حسینؓ جب گھر سے باہر نکلے تھے تو وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ وہ ضرور جیت جائیں گے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کوفہ والوں نے بغاوت کی تھی یہ ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امام حسینؓ کوفہ والوں سے مل کر ساری دنیا سے لڑ سکتے تھے؟ امام حسینؓ یہ سمجھتے تھے کہ خداتعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ بعض اوقات ایک چھوٹی جماعت اپنے سے بڑی جماعتوں پر غالب آ جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ آپ کو اپنی فتح کا احساس نہیں تھا آپ کو اپنی فتح کا احساس ضرور تھا لیکن غالب خیال یہ تھا کہ یا تو انہیں دشمن کے مقابلہ میں فتح نصیب ہوگی یا شاندار موت تو کہیں گئی ہی نہیں۔ قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ اے مسلمانو! تمہیں عزت والی زندگی اور شاندار موت دونوں چیزوں میں سے ایک چیز ضرور ملے گی۔۲؎ لیکن تمہارے دشمنوں کو یا تو دونوں چیزیں نہیں ملیں گی اور یا دونوں چیزوں کا ملنا اس کے لئے مشتبہ سا ہے لیکن تمہارے پاس دونوں چیزیں یقینی ہیں۔ پھر بہادر کون ہے تم یا تمہارا دشمن؟ پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر احساسِ قومی پیدا کریں او رچاہیے کہ عمل ان کے لئے خوشکن چیز ہو۔بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بھی کوئی خوشکن نظارہ نہیں ہوگا تم اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو کہ ہر کام کو اپنا کام سمجھو اور اسے اس نیت اور ارادے سے کرو کہ خداتعالیٰ نے تمہیں اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
ایک بات پر میں اظہارِ افسوس بھی کرتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ کَل شام کو جب اجلاس ہو رہا تھا تو جماعت کے ساٹھ فیصدی احباب باتیں کر رہے تھے یہ نہایت افسوسناک امر ہے۔ نیکی کے کام کی جگہ پر باتیں کرنا منع ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن جب خطبہ ہو رہا ہو اُس وقت باتیں کرنا تو کجا کسی قسم کا اشارہ کرنا بھی منع ہے۔ ۳؎ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ خطبہ کو کوئی سہرا تو نہیں لگا ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت باتیں کرنا صرف اِس لئے منع فرمایا ہے کہ اس وقت نیکی کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ پس احباب جب جلسہ گاہ میں آیا کریں تو کچھ تکلیف اُٹھا کر جلسہ گاہ میں بیٹھا کریں اور جب جلسہ گاہ میں بیٹھیں تو کچھ تکلیف اُٹھا کر نیکی کی باتیں سنا بھی کریں اور اُن پر عمل کیا کریں اور اگر ان میں سے کوئی کام بھی نہ کر سکیں تو جلسہ گاہ میں ہی نہ آیا کریں۔ آخر آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں جن کو سال میں کئی بار مرکز میں آنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ لوگوں میں سے بعض کے لئے سال میں یہی دو تین دن ہوتے ہیں جن میں وہ مرکز کی برکات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیںاِس لئے دوستوں کو چاہیے کہ وہ یہ کوشش کریں کہ ان دنوں کو زیادہ سے زیادہ عمل میں لگایا جائے۔
ایسے اجتماعوں کے موقع پر خصوصاً اِس جنگل میں بعض مجبوریاں بھی پیش آ جاتی ہیں دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان کی پرواہ نہ کریں بلکہ ان سے بھی لطف اُٹھائیں۔ بعض دفعہ لوگ عشق کی باتوں کو بدتہذیبی یا حماقت بھی کہہ دیتے ہیں لیکن عشق جہاں عقل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہاں وہ اپنے اندر وارفتگی کا رنگ بھی رکھتا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے آپ نے ایک نہایت اچھا کپڑا پہنا ہوا تھا۔ ایک صحابیؓ نے دیکھ کر کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ یہ کپڑا مجھے عطا کر دیں۔ آپ نے وہ کپڑا اُسے دے دیا۔ دوسرے صحابہؓ نے اُس صحابیؓ کو ملامت کی۔ اُنہوں نے کہا میں نے یہ کپڑا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس لئے مانگا ہے کہ آپ کو یہ زیادہ پسند تھا اور میں نے چاہا کہ اس سے اپنا کفن بناؤں سو میں نے آپ سے اپنے لئے کفن مانگ لیا۔ یہ جواب سن کر دوسرے صحابہؓ کو رشک پیدا ہونے لگا کہ یہ کپڑا ہم نے کیوں نہ مانگ لیا۔۴؎
اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا۔ میں صرف ایک پیغامبر ہوں جو خداتعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس آیا ہوں۔ جو ذمہ داریاں تم پر ہیں وہ مجھ پر بھی ہیں۔ جہاں تک مجھ سے ہو سکا میں نے آپ لوگوں کے حقوق کو ادا کیا ہے لیکن ممکن ہے مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہو یا تم میں سے کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن تمہیں ہر چیز کا بدلہ دینا پڑے گا سو میں نہیں چاہتا کہ خداتعالیٰ مجھ سے قیامت کے دن بدلہ لے۔ اگر مجھ سے کسی کوکوئی تکلیف پہنچی ہو تو وہ مجھ سے یہیں بدلہ لے لے۔ ظاہر ہے کہ ایسے محبوب کی بیماری کی حالت میں جسے صحت کی حالت میں بھی کوئی دُکھ دینا برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا، یہ فقرات سن کر صحابہ کا کیا حال ہوا ہوگا۔ وہ مچھلی کی طرح تڑپ گئے مگر ایک صحابیؓ آگے بڑھا اور اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے آپ سے ایک تکلیف پہنچی ہے میں اُس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر دوسرے صحابہؓ کی آنکھوں میں خون اُتر آیا اور اُنہوں نے چاہا کہ اگر ممکن ہو تو اس صحابی کی تکہ بوٹی کر دی جائے لیکن اس صحابی نے ان کی طرف نہ دیکھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف دیکھتے رہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے اگر مجھ سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اس کا بدلہ لے لو۔ اس صحابی نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ!فلاںجنگ کے موقع پر جب آپ اسلامی لشکر میں صف بہ صف پھر کر نقص دور فرما رہے تھے آپ پیچھے کی طرف سے ہماری صف کو چیرتے ہوئے گزرے اُس وقت آپ کی کہنی میری پیٹھ پر لگی تھی میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ میری پیٹھ ہے اِسے کہنی مار لو۔ اس پر اُس صحابی نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جب آپ کی کہنی میری پیٹھ پر لگی اُس وقت میری پیٹھ ننگی تھی اس پر کرتہ نہیں تھا اور آپ نے کرتہ پہنا ہوا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا دو تا کہ یہ شخص اپنا بدلہ لے لے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھایا گیا۔ صحابہؓ کی آنکھوں سے خون بہنے لگا مگر اس شخص کی آنکھوں میں محبت کے آنسو آ گئے وہ جھکا اور آپ کی پیٹھ پر بوسہ دے کر اس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! پتہ نہیں پھر کب ملاقات ہو میں نے چاہا کہ اِس بہانہ سے آخری دفعہ پیار تو کر لوں۔ ۵؎ غرض عشق کی مختلف شانیں ہوتی ہیں۔ وہی صحابہؓ جن کا دل چاہتا تھا کہ اس شخص کے تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں کیونکہ اُس نے ایک نامعقول حرکت کی ہے انہی کا دل چاہتا تھا کہ اسے خوب جھنجھوڑیں اور مروڑیں کہ تم نے تو پیار کر لیا ہمیں کیوں یہ موقع نہ ملا۔
یہ وادی بے آب و گیاہ، یہ گرد و غبار، اِس میں بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو دیکھنے والے کو عجیب معلوم ہوتی ہیں مگر عشق کی نگاہ میں وہ بڑی پیاری ہیں لیکن پھر بھی مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کی تکلیف کا موجب نہ بنے۔ مجھے بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ موٹروں والے اپنی موٹریں بے تحاشا چلاتے ہیں جس کی وجہ سے گردوغبار ہم پر پڑتا ہے، ہماری آنکھیں مٹی سے بھر جاتی ہیں، ہمارے چہرے غبار سے اَٹ جاتے ہیں، کپڑے خاک آلودہ ہو جاتے ہیں، نزلہ زکام اور کھانسی میں ہم مبتلا ہو جاتے ہیں، ہمارا دل چاہتا ہے کہ انہیں ذرا کھڑے کر کے پوچھیں کہ تم یہ کیا حرکتیں کرتے ہو؟ میں کہتا ہوں بے شک ان کا ذہن بدظنی کی طرف گیا ہے لیکن میرا ذہن نیک ظنی کی طرف جاتاہے۔ میں کہتا ہوں یہ لوگ اپنی موٹریں اس لئے نہیں بھگاتے کہ وہ دکھائیں کہ ان کے پاس موٹریں ہیں بلکہ شاید وہ اس لئے کاریں دَوڑاتے ہیں کہ وہ اس وادیٔ بے آب و گیاہ میں بھی جس میں ہزاروں سال سے کوئی آدم زاد نہیں بسا اپنی کاریں دَوڑائیں تا خداتعالیٰ کے اس نشان میں جو اس سرزمین میں دکھایا گیا وہ بھی حصہ دار ہوں۔ اگر وہ اس نیت سے موٹریں دَوڑاتے ہیں تو میں کہوں گا اے مبارک گرد! تو بھی خداتعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے آ اور ہمارے کپڑوں اور جسموں کو گرد آلود کر دے۔ آ اور ہمارے ناک اور آنکھوں کو بھر دے، ہمیں نزلہ، زکام اور کھانسی کی کچھ پرواہ نہیں۔ محبت کی نگاہ میں یہ مٹی بھی ایک شان رکھتی ہے۔ آخر یہ خداتعالیٰ کا ہی کام ہے کہ اس نے ہزار ہا سال کے بعد اس زمین کو جس کے آباد کرنے سے لوگ عاجز آ گئے تھے اپنی پاک جماعت کے ذریعہ آباد کیا۔ اور جیسا کہ میں نے کَل بتایا تھا مرغابیاں ایک جگہ پر بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں اُن پر شکاری فائر کرتا ہے بعض ماری جاتی ہیں اور باقی اُڑ جاتی ہیں لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر ایک جگہ پر اکٹھی بیٹھ جاتی ہیں۔ کیا یہ خداتعالیٰ کا کام نہیں کہ تم بھی اس قوم میں سے تھے جوتشتُّت اور پراگندگی کا شکار ہو رہی تھی۔ تم قادیان میں بیٹھ گئے۔ دشمن نے تم پر فائر کیا، تم وہاں سے اُڑے اور ربوہ میں آکر بیٹھ گئے۔ مگر آخر غریبوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم بدتہذیب ہو، میں یہ نہیں کہتا کہ تم اخلاق سے گری ہوئی کوئی حرکت کر رہے ہو، میں کہتا ہوں کہ تمہارے اعمال ہمیشہ اچھی نیتوں پر مبنی ہونے چاہئیں۔ آخر جب تک سڑکیںنہیں بنیں گی یہ گردوغبار تو ضرور اُڑے گا کیونکہ ہر شخص یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ نیکی کی جگہ پر سب سے پہلے پہنچے اور اس کے لئے موٹروں والے اپنی موٹریں بھی دَوڑائیں گے جس کی وجہ سے گردوغبار اُڑے گا اور تمہارے جسموں اور کپڑوں پر پڑے گا۔ میں تو اِس کی گرد کو بھی رحمت کا ایک چھینٹا سمجھتا ہوں۔ آخر اَور کونسی قوم ہے جو ہماری طرح بے بس ہو، بیکس ہو اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُسے اِس طرح اکٹھا کر دیا ہو۔ پس یہ گرد وغبار زندہ خدا کا ایک زندہ نشان ہے۔ یہ گرد کے ذرّے نہیں یہ خداتعالیٰ کے نور کی شعاعیں ہیں جو نکل رہی ہیں اور بتا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کر سکتا ہے۔ مگر جہاں مجھے اس نشان کو دیکھنے میں مزا آتا ہے وہاں مجھے اُن دوستوں کو سمجھانا بھی پڑتا ہے جو ایک رنگ میں اپنے بھائیوں کی تکلیف کا موجب بنتے ہیں۔ عقل یہی کہتی ہے کہ کمزور کا خیال رکھا جائے۔ بعض لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں اُن کی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ہم نے بھی تقریریں کرنی ہوتی ہیں ہمارا بھی خیال رکھیں گرد گلے میں جاتی ہے جس سے تکلیف ہوتی ہے۔ ابھی جب میں تقریر کے لئے آرہا تھا تو ہماری جرمن بہن رقیہ تھائمس مارگرٹ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا بھی خیال رکھیں۔ آخر آپ نے تقریر کرنی ہے۔ میں نے کہا اِس کا کون خیال کرتا ہے۔ بہرحال ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم دوسرے بھائیوں کی تکلیف کا موجب نہ بنیں۔
میں سمجھتا ہوں اِس میں ایک حد تک ذمہ داری منتظمین پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ذمہ دار لوگوں نے اِس میں کوتاہی کی ہے اُنہیں چاہیے تھا کہ وہ سڑکوں کے نشانوں کو نمایاں کرتے لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ مگر ساتھ ہی میں شکایت کرنے والے دوستوں کو بھی کہوں گا کہ وہ اپنی نظروں کو وسیع کریں اور اِن چیزوں میں بھی خداتعالیٰ کا نشان دیکھیں۔ میری نصیحت ایسی ہی ہے جیسے بچے ماں کو گالیاں دیتے اور تھپڑ مار دیتے ہیں تو ماں انہیں مارتی بھی ہے مگر اس کے چہرے پر عجیب آثار ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بچہ تھپڑ نہیں کھا رہا کوئی مزیدار شربت پی رہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ وہ کونسی طاقت ہے جس نے ایک جگہ پر جس کو حکومتیں بھی نہیں بسا سکیں تھیں تمہیں لا کر بسا دیا ہے۔ اِسے دیکھ کر وہ زمانہ یاد آتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذریعہ مکہ کی دوبارہ بنیاد رکھوائی۔ یہ نشان تمہارے ایمان کی جتنی تقویت کا بھی موجب ہو تھوڑا ہے۔
مجھ سے یہ خواہش کی گئی ہے کہ میں الفضل کے متعلق بھی تحریک کروں کہ احباب اِس کی اشاعت کو بڑھانے کی طرف توجہ کریں۔ پچھلے سال میں نے احباب کو ایجنسیاں قائم کرنے کے لئے کہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تحریک کی وجہ سے اب دُگنی تعداد ہوگئی ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ بھی کم ہے جہاں جہاں شہروں میں جماعتیں پائی جاتی ہیں دوستوں کو وہاں ایجنسیاں قائم کرنی چاہئیں اور الفضل کی اشاعت کو بڑھانے میں مدد کرنی چاہیے۔
اب سب سے پہلے میں ربوہ کے سوال کو لیتا ہوں میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا یہاں آنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ دیر کی ایک الٰہی تقدیر ہے۔ بعض لوگ جنہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اِس معاملہ میں غور نہیں کیا اور اُس سلسلۂ تحریک کو نہیں دیکھا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے وہ اسے اتفاقی حادثہ سمجھتے ہیں لیکن یہ اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُس کی ایک مقررہ سکیم کے ماتحت ہوا ہے۔ اِس کا ثبوت اِس بات سے ملتا ہے کہ اس بارہ میں دیر سے خبریں دی جا رہی تھیں اور جس چیز کے متعلق دیر سے خبریں دی گئی ہوں وہ اتفاقی حادثہ نہیں ہوا کرتی۔ آپ لوگوں میں کسی شخص کا چلتے چلتے گھوڑا گر جاتا ہے وہ خود زخمی ہو جاتا ہے اور اسے کسی مکان میں لے جایا جاتا ہے اس واقعہ کی کسی کو پہلے خبر دینے کی کیا ضرورت ہے مثلاً یسعیاہ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس واقعہ کی پہلے سے اطلاع دیں، حزقیل کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اِس واقعہ کے متعلق پہلے سے کچھ ذکر کریں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کے متعلق قبل از وقت اطلاع دینے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر دنیا میں بھی یہ طریق جاری ہے کہ بڑے افسر اور اعلیٰ محکمے بڑی بڑی سکیمیں بناتے ہیں اور چھوٹی سکیمیں آگے چھوٹے افسروں اور ادنیٰ محکموں کے سپرد ہوتی ہیں۔ مثلاً اگر سیکرٹریٹ کا کوئی آدمی یا کوئی منسٹر کوئی سکیم بناتا ہے تو وہ اہم اور اصولی سمجھی جائے گی۔ پھر اس کا کوئی حصہ ڈیفنس کمشنر کے سپرد ہوگا، کوئی پروانشل کمشنر کے سپرد ہوگا اور کوئی ڈپٹی کمشنر کے سپرد ہوگا جتنے نیچے ہم اُترتے آئیں گے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ باتیں کم اہم ہیں۔ پس اگر ہمارے ربوہ میں آباد ہونے کا ذکر پہلے سے انبیاء کی کتابوں میں ہے تو ماننا پڑے گا کہ یہ الٰہی تقدیر تھی خواہ اِس کی حقیقت ہم پر آج کھلی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی خبر دی ہے کہ جب مسیح دنیا میں آئے گا تو اُس وقت دو قومیں نکلیں گی اور اُن کا جتھہ اتنا مضبوط ہوگا کہ ان کے مقابلہ کی کسی میں طاقت نہیں ہوگی۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے آواز آئے گی کہ حَرِّزْ عِبَادِیْ اِلَی الطُّوْرِ کہ تو ہمارے بندوں کو پہاڑ کی طرف لے جا۔ ۶؎
اس حدیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ کسی زمانہ میں مسیح موعود کی جماعت کو اپنا مرکز چھوڑنا پڑے گا اور وہ کسی پہاڑی علاقہ میں جاگزیں ہوگی۔ اب سارے پنجاب میں کس کو علم تھا کہ وہ اِس جگہ ٹھہرے گی۔ یہ خدائی فعل تھا کہ ہجرت کے بعد اس نے جماعت کو اس جگہ لا کر اکٹھا کر دیا باوجود اِس کے کہ مجھے بھی رؤیا میں یہ جگہ دکھائی گئی تھی مگر پھر بھی میری نظر میں یہ جگہ نہ تھی۔ میں شیخوپورہ کے ضلع میں کوشش کر رہا تھا کہ کہیں ایسی جگہ مل جائے جہاں جماعت کا عارضی مرکز بنایا جائے۔ ایک دفعہ میں اس بارہ میں بعض دوستوں سے مشورہ کر رہا تھا کہ چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج آئے اور اُنہوں نے کہا میں ایک جگہ بتاؤں جس کا میں خود واقف ہوں۔ چناب پار ایک جگہ ہے جس پر آپ کی خواب کے اکثر حصے چسپاں ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک تاریخ مقرر کی گئی اور میں نواب محمد الدین صاحب مرحوم، میاں بشیر احمد صاحب اور بعض اور دوست یہاں آئے اور یہ جگہ دیکھی۔ جب میں نے یہ مقام دیکھا تو سوائے اِس کے کہ یہاں سبزہ نہیں تھا باقی تمام علامات درست نکلیں اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ وہی جگہ ہے جو مجھے خواب میں دکھائی گئی تھی۔ سبزہ کے متعلق میں نے سمجھا کہ شاید اس کی کوئی اور تعبیر ہو۔ ظاہر ہے کہ ۵ ہزار مربع میل کے علاقہ میں کوئی جگہ تلاش کرنا آسان بات نہیں۔ بعض غیر احمدی افسر اور معززین جب یہاں سے گزرتے ہیں تو کئی ان میں سے مجھے ملنے کے لئے آ جاتے ہیںاور بے ساختہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ آپ نے تو غضب کی جگہ چنی ہے۔ اب یہ کوئی اتفاقی بات نہیں کہ چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج کو میری وہ خواب یاد آ گئی جس میں ہجرت کے بعد یہاں آنا دکھایا گیا تھا۔ پھر اُن کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ وہی جگہ ہے جس کا خواب میں ذکر ہے۔ پھر جس مجلس میں اس کا ذکر ہو رہا تھا اُس میں وہ موجود تھے۔ پھر اُنہوں نے چاہا کہ میں اس بارہ میں مشورہ دے دوں اور پھر میرا دل بھی اُن کا مشورہ ماننے پر راضی ہو گیا۔ یہ جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہوا۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل از وقت اس جگہ کی خبر دی ہے۔ اگر یہ مقام اسلام کی سکیم کا حصہ نہیں تھا تو آپ نے قبل از وقت اِس جگہ کا ذکر کیوں کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کتنے واقعات رونما ہوئے ہیں مگر اُن میں سے ہزاروں واقعات کا آپ نے ذکر نہیں کیا لیکن اس کا ذکر موجود ہے کہ مسیح موعود کی پہلے دجال سے لڑائی ہوگی، اس کے بعد یأجوج اور مأجوج دو قومیں نکلیں گی اور وہ ایسی طاقتور ہوں گی کہ ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکے گا، اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے آواز آئے گی کہ جاؤ پہاڑ پر چلے جاؤ وہاں تمہیں پناہ ملے گی۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ یہ جگہ خود اتنی اونچی ہے کہ پہاڑ معلوم ہوتی ہے جب ہم یہ جگہ دیکھنے کے لئے آئے تو احمدنگر چلے گئے تا کہ اس زمین کے حالات دریافت کئے جائیں۔ پانی کے متعلق پوچھا تو ہمیں بتایا گیا کہ دو دفعہ بعض لوگوں نے کوشش کی ہے کہ اِس مقام کو آباد کیا جائے لیکن وہ ناکام ہوئے اور بھاگ گئے۔ پھر ہم نے پوچھا کہ کیا دریا میں کبھی سیلاب بھی آتا ہے؟ تو بتایا گیا ہاں سیلاب آتا ہے اور ہماری فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ ہم نے دریافت کیا کہ کیا سیلاب کا پانی اس جگہ پر بھی آ جاتا ہے؟ تو گاؤں کے نمبردار نے جس سے ہم حالات دریافت کر رہے تھے ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اگر اس کے سر تک پانی پہنچ جائے تو شاید اُس جگہ بھی پانی چڑھ جائے۔ غرض یہ اونچی جگہ ہے جس کی وجہ سے اس کا نام ’’ربوہ‘‘ رکھا گیا ہے اور خدائی تصرف کے ماتحت ہم یہاں لائے گئے ہیں۔ باقی یہ کہ خداتعالیٰ نے اس کی حقیقت کو کب کھولنا شروع کیا ہے سو یاد رکھنا چاہیے کہ خدائی سکیمیں آہستہ آہستہ کھلتی ہیں۔ مکہ مکرمہ کی بنیاد کے وقت کس شخص کو علم تھا کہ واقع میں یہ اتنا بڑا شہر بن جائے گا اور دنیا کی ہر نعمت یہاں میسر ہو سکے گی لیکن وہی کچھ ظہور میں آیا جس کا پہلے علم دیا گیا تھا۔
بعض لوگ اس حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم قادیان کے بے وفا ہیں کیونکہ ہم نے دوسرا مرکز بنا لیا ہے۔ وہ نادان ہیں وہ نہیں جانتے کہ گو ہم قادیان کے وفادار ہیں مگر سب سے زیادہ ہم خداتعالیٰ کے وفادار ہیں۔ جہاں خداتعالیٰ کا ہاتھ ہوگا ہمارا ہاتھ بھی اُسی جگہ ہوگا۔ پھر قادیان دلانا ہے تو خداتعالیٰ نے دلانا ہے ہم میں کیا طاقت ہے کہ قادیان واپس لیں۔ خداتعالیٰ ہی ایسے کرے گا اور جب خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہی سب کچھ ہے تو اس کی سکیم میں دخل انداز ہونے کی ضرورت کیا ہے۔ اگر خداتعالیٰ ایک صدی کے لئے بھی ہمیں کسی اَور جگہ رکھنا چاہے تو ٰاٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا ہم اس کے لئے تیار ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایمان عشق کا نام ہے۔
محمود غزنوی کو اپنے ایک غلام ایاز نامی سے بہت پیار تھا۔ امراء اُس پر حسد کرتے تھے اور حسد کی وجہ سے وہ بادشاہ کے پاس شکایت کرتے رہتے تھے کہ وہ غدار ہے اور بادشاہ کا مال ضائع کرتا ہے۔ محمود غزنوی یہ سمجھتا تھا کہ وہ حق پر نہیں بلکہ محض حسد کی بناء پر ایسا کر رہے ہیں۔ مگر اُس نے اُنہیں خاموش کرانے کے لئے ایک دن دربار لگایا اور اپنے خزانہ کا سب سے قیمتی موتی جس کی وجہ سے اس کی دُور دُور تک شہرت تھی منگوایا اور وزیر اعظم کو بُلایا اور ہتھوڑا منگوا کر اسے کہا کہ اِس موتی کو توڑ دو۔ وزیر اعظم نے کہا بادشاہ سلامت! ہمارے باپ دادا بھی آپ کے نمک خوار چلے آئے ہیں، ہم غدار تھوڑے ہیں کہ اتنے قیمتی موتی کو جس کی وجہ سے آپ کی دُور تک شہرت ہے توڑ دیں۔ سب درباریوں نے اس کے اس جذبہ کی تعریف کی۔ اُس زمانہ میں بادشاہ کے سات وزیر ہوا کرتے تھے۔ بادشاہ نے بار باری ساتوں وزیروں کو بُلایا مگر چونکہ وزیراعظم کا جواب وہ سن ہی چکے تھے اور وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ سب درباریوں نے اسکی تعریف کی ہے اس لئے ان میں سے ہر ایک یہی جواب دیتا۔ سب درباری تحسین کرتے اور وہ بیٹھ جاتا۔ ساتوں وزیروں کے جوابات سننے کے بعد بادشاہ نے اپنے غلام ایاز کو بُلایا اور اُسے اشارہ کیا کہ اِس موتی کو توڑ دو۔ بادشاہ کے منہ سے اِس لفظ کا نکلنا تھا کہ اُس نے ہتھوڑا مار کر موتی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ دربار میں ناراضگی کی ایک لہر دَوڑ گئی۔ سب درباری کہنے لگے کہ یہ کتنا قیمتی موتی تھا ہمارے بادشاہ کی اِس موتی کی وجہ سے دُور دُور تک شہرت تھی، ایسا موتی کسی اور بادشاہ کے پاس نہ تھا لیکن اِس بے وقوف نے کچھ بھی نہ سوچا اور ہتھوڑا مار کر موتی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ بادشاہ نے مصنوعی غصہ بنایا اور ایاز سے کہا ایاز! تم نے دیکھا نہیں تھا کہ ان کا نمونہ کیا تھا؟ ایاز نے جواب دیا بادشاہ سلامت! جو جواب ان لوگوں نے دیا ہے اُس کی ذمہ داری اِن پر ہے، میرے نزدیک محمود کے منہ سے نکلا ہوا ایک لفظ اِس قسم کے ہزاروں موتیوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ اِس کی قدر میں جانتا ہوں یہ نہیں جانتے۔ دربار پر ایک سناٹا چھا گیا۔ بادشاہ نے درباریوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اب بتاؤ تم میں سے کون میرا سچا خیر خواہ ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا ہم ہارے اور یہ جیتا۔ پس ہم تو خداتعالیٰ کو جانتے ہیں اور اُس کے وفادار ہیں وہ جس طرف اشارہ کرے گا ہم چلے جائیں گے۔ وہ اگر کہے تو خواہ کسی پہاڑ کی چوٹی کیوں نہ ہو یا سمندر کی سطح ہی کیوں نہ ہو ہم کہیں گے حضور! یہی بہترین جگہ ہے۔ مومن عاشق ہوتا ہے دلیلیں دینا اور بحث کرنا نوکر کا کام ہے عاشق کا کام نہیں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب نزول المسیح میں بیان فرمایا ہے کہ زکریا کی کتاب کے چودھویں باب میں جہاں یروشلم کا ذکر ہے وہاں یروشلم سے مراد بیت المقدس نہیں بلکہ قادیان ہے اور اِس باب میں جو خبر دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک زمانہ میں یروشلم پر حملہ ہوگا۔ شہر والے مغلوب ہو جائیں گے اور پھر پہاڑوں کی ایک وادی کی طرف بھاگ جائیں گے جہاں پناہ لیں گے۔۷؎ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا بھی الہام ہے کہ ’’داغِ ہجرت‘‘ ۸؎ اب سوال یہ ہے کہ یہ ہجرت کہاں ہونی ہے؟ اِس کا پتہ اوپر دیئے ہوئے حوالہ سے لگتا ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان کے متعلق بیان فرمایا ہے۔پھر آپ کا ایک اور الہام یہ بھی ہے کہ یُخْرِجُ ھَمُّہٗ وَغَمُّہٗ دَوْحَۃَ اِسْمَاعِیْلَ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُجَ ۹؎ یعنی تمہارے ہم اور غم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک اسماعیلی درخت اُگائے گا لیکن یہ راز چھپائے رکھو یہاں تک کہ وہ درخت نکل آئے۔ سو اِس ہجرت پر پردہ پڑا رہا یہاں تک کہ قادیان پر جن دنوں حملہ ہو رہا تھا اور میں بتا رہا تھا کہ تم خدائی وعدہ کے مطابق قادیان سے نکلو گے، آپ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے تو یہاں سے ہلنا نہیں۔ پھر ان لوگوں میں سے جو کہہ رہے تھے کہ ہم نے ہلنا نہیں بعض نکل آئے مگر دوسرے لوگ پھر بھی کہہ رہے تھے کہ ہم نے تو یہاں سے نہیں جانا۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیان سے محبت کی وجہ سے کسی کا اِس طرف خیال ہی نہیں جاتا تھا کہ ہجرت ہوگی اور ہم قادیان کو چھوڑ کر باہر آ جائیں گے۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے جب وفات پائی تو حضرت عمرؓ کی یہ کیفیت تھی کہ باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺفوت ہوچکے تھے وہ یہ کہنے لگے کہ میں تو مان ہی نہیں سکتا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ پس جہاں محبت ہوتی ہے وہاں ایسا خیال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح خداتعالیٰ کا قادیان کو دائمی اور مستقل مرکز قرار دینا اِس بات پر پردہ ڈال رہا تھا کہ ہمیں قادیان سے ہجرت کرنی پڑے گی۔ مگر آخر وہی بات ہو گئی کہ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُجَ جب تک وہ درخت نکل نہ آئے اُسے ظاہر نہ کرنا۔ ورنہ یہ لوگ قادیان آنے سے رُک جائیں گے اور اگر یہ رُک گئے تو قادیان میں مکان کیسے بنائیں گے حالانکہ ہمارا یہ ارادہ ہے کہ یہ لوگ قادیان میں مکان بناتے چلے جائیں۔ جب قادیان ہاتھ سے نکل جائے گا تو جو سچا متبع ہوگا وہ تو کہے گا کہ جیسے ہم نے پہلے چھتہ بنایا تھا ویسے ہی پھر بنا لیں گے اور جو کمزور ہوگا اُس کا دل تو یہ کہتا ہوگا کہ میں نے جو کرنا تھا کر لیا لیکن بظاہر وہ کہے گا اچھا یہ اور مرکز بنا رہے ہیں یہ قادیان کو بھول رہے ہیں اور اس طرح وہ اپنی منافقت کو ظاہر کر دے گا۔
پھر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتایا تھا کہ آپ ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنائیں گے۔۱۰؎ بے شک سلسلہ بھی ایک نئی زمین اور نیا آسمان ہے لیکن بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ انہیں بنا بنایا مرکز مل گیا ہے اس لئے انہیں طاقت حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ جب میری خلافت کا انکار کیا گیا اور منکرین خلافت قادیان چھوڑ کر لاہور آگئے تو اُس وقت اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جماعت کا پچانوے فیصدی حصہ ہمارے ساتھ ہے لیکن ایک ماہ کے اندر اندر خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کا اکثر حصہ میرے ساتھ شامل ہو گیا۔ اُس وقت وہ لوگ یہی جواب دیتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے جماعت کو قادیان سے محبت ہے اس لئے یہ نہیں جیتا قادیان جیتی ہے۔ خداتعالیٰ نے اُن کو اِس اعتراض کا جواب دینا تھا اب لاہور میں جو اِن کا ۳۵ سالہ مرکز ہے اُن کا بھی جلسہ ہو رہا ہے وہ ذرا ربوہ کے جلسہ کی سی شان تو دکھا دیں۔ اِس وادیٔ بے آب و گیاہ میں بھی لوگ جمع ہوئے ہیں یا نہیں؟ کہاں گئی اُن کی وہ دلیل کہ میں قادیان کی وجہ سے جیتا ہوں۔ اگر اُس وقت میں قادیان کی وجہ سے جیتا تھا تو اب قادیان میرے ہارنے کا بھی موجب ہونا چاہیے تھا کیونکہ میں قادیان میں نہیں تھا۔ مجھ سے عقیدت رکھنے والے لوگ تو یہ کہہ سکتے تھے کہ میں مصیبت کی وجہ سے یہاں آ گیا ہوں مگر جو مخالف تھے انہیں تو مجھے چھوڑ دینا چاہیے تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ایک واقعہ سنایا کرتے تھے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک عورت بڑی محنتی تھی، وہ سوت کاتا کرتی تھی اور جو اُجرت ملتی تھی اس سے ایک رقم اکٹھی کر کے اس نے سونے کے کڑے بنوائے۔ ایک دن وہ سو رہی تھی کہ ایک چور آیا اور اس نے اس کے کڑے اُتارنے کی کوشش کی۔ اس نے پانچ سال کی محنت کے بعد کڑے بنوائے تھے وہ ان کی حفاظت کے لئے کچھ وقت تک چور کا مقابلہ کرتی رہی لیکن آخر چور زبردستی کڑے چھین کر بھاگ گیا۔ اس عورت نے چور کی شکل پہچان لی۔ دیہات میں عورتوں کا یہ طریق ہوتا ہے کہ وہ گھروں سے باہر گلیوں میں چرخہ کاتا کرتی ہیں وہ بھی گلی میں بیٹھی ایک دن چرخہ کات رہی تھی کہ ایک شخص لنگوٹی پہنے گزرا۔ اس عورت نے اُسے پہچان لیا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے اس کے کڑے چرائے تھے۔ اُس نے اُسے آواز دی اور کہا ذرا بات سن جاؤ۔ وہ شخص گھبرایا اور وہاں سے بھاگا۔ اِس عورت نے کہا میں کسی کو بھید نہیں بتاؤں گی، صرف میری ایک بات سن لو۔ جب اس نے یہ سمجھا کہ یہ عورت جو کچھ کہہ رہی ہے سنجیدگی سے کہہ رہی ہے تو وہ واپس آیا اور اُس نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟ اُس عورت نے کہا دیکھو! حلال اور حرام میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ مجھے سونے کے کڑے پہننے کا شوق تھا میں نے پانچ سال کی محنت کے بعد کڑے بنوائے مگر وہ تُو لے گیا۔ میں نے پھر محنت کی اور کڑے بنوا لئے چنانچہ دیکھ لو میرے پاس اَب بھی کڑے موجود ہیں لیکن تیری وہی لنگوٹی کی لنگوٹی ہے۔ میں بھی اُن لوگوں کو یہی جواب دیتا ہوںکہ میرے پاس کڑے اَب بھی موجود ہیں لیکن تمہاری وہی لنگوٹی کی لنگوٹی ہے۔ بہرحال یہ خداتعالیٰ کی سکیم تھی اور خداتعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ قادیان سے باہر رہ کر بھی احمدیت ترقی کر سکتی ہے۔
پھر بعض منافق کہتے تھے کہ احمدیت کی ترقی رُک رہی ہے لیکن خداتعالیٰ نے کتنے بڑے انقلاب میں ڈال کر تمہیں دوبارہ اکٹھا کر دیا۔ اگر یہ سلسلہ کمزور ہوتا تو اس ابتلاء کی تاب نہ لاسکتا اور ٹوٹ جاتا، کمزور شیشہ ٹوٹ جایا کرتا ہے۔ اگر منافق لوگوں کے کہنے کے مطابق یہ سلسلہ فی الواقعہ کمزور ہوتا تو بہشتی مقبرہ، مساجد، مینارۃ المسیح، کالج، سکول اور کروڑوں کی جائدادیں چھوڑ کر یہاں آنے کے بعد لوگ کہتے کہ یہ جھوٹا تھا، اس لئے قادیان سے نکل آیا لیکن اتنی بڑی ٹھوکرکے بعد بھی جماعت متزلزل نہیں ہوئی بلکہ پھر اکٹھی ہوگئی اور اس نے دشمنانِ احمدیت کو بتا دیا کہ اتنے بڑے ابتلاء اور اتنی بڑی ٹھوکر کے بعد بھی وہ پہاڑ کی طرح کھڑی ہے اور اُس وقت تک کھڑی رہے گی جب تک کہ کفر اس سے ٹکرا کر پاش پاش نہیں ہوجاتا۔ پھر میں نے بھی ہجرت کے متعلق کھلی کھلی رؤیا دیکھی تھیں جو الفضل میں چھپ چکی ہیں اور میں نے پچھلے جلسہ سالانہ کے موقع پر سنائی بھی تھیں۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیاں پوری ہو چکی تھیں تو پھر مجھے یہ نظارے کیوں دکھائے گئے؟ یہ اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ اس کا نبی خبر دیتا ہے اور وہ بظاہر بعض اور لوگوں پر بھی صادق آتی ہے۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام تھا A Word and Two Girls ۱۱؎ (اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز) یعنی ایک کلام اور دو لڑکیاں۔ یہ الہام اپنے اندر ایک خاص حکمت رکھتا تھا اور اس نے آئندہ کسی زمانہ میں پورا ہونا تھا لیکن جب یہ الہام شائع ہوا اُڑیسہ کے احمدی دوست قادیان آ رہے تھے اُن کے ساتھ ان کی دو لڑکیاں بھی تھیں۔ اُنہوں نے اس الہام کو اپنے اوپر چسپاں کر لیا اور کہا سُبْحَانَ اللّٰہ کتنی جلدی پورا ہوا۔ میں یہاں آیا ہوں اور میرے ساتھ دو لڑکیاں بھی ہیں۔ غرض بعض لوگ تو پیشگوئیوں کو کسی معمولی چیز پر چسپاں کر کے وہیں چھوڑ دیتے ہیں اور بعض دفعہ لوگ اُنہیں قیامت کے بغیر اور کسی چیز پر چسپاں ہی نہیں کرتے جیسے مسلمانوں نے اِس زمانہ کے متعلق جس قدر پیشگوئیاں تھیں انہیں قیامت پر لگا دیا حالانکہ ہم ان کے ساتھ آجکل یورپ کو شرمندہ کر رہے ہیں۔ گویا پہاڑ ٹوٹنے کی خبر کو بعض تو گھڑا ٹوٹنے پر لگا دیتے ہیں اور بعض کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو قیامت کے متعلق ہے اس لئے خداتعالیٰ کی یہ سُنّت ہے کہ جب اس کی کسی پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آتا ہے تو وہ اس کی کسی اَور ذریعہ سے بھی خبر دے دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا ’’داغِ ہجرت‘‘ اور جب اس کے پورا ہونے کا وقت آیا تو خداتعالیٰ نے مجھے بعض نظارے دکھائے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ الہام اِسی زمانہ کے متعلق تھا سو پورا ہو گیا۔
میں نے کل پرندوں کا ذکر کیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام بھی ہے کہ یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ۱۲؎ اے پہاڑو اور اے پرندو! تم اس مسیح کے ساتھ مل کر خداتعالیٰ کے ذکر کو بلند کرو۔ اس الہام میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ آئندہ کسی وقت پہاڑوں میں بھی خداتعالیٰ کا ذکر بلند کیا جائے گا اور اس میں مسیح بھی شامل ہوگا۔ لیکن جب وقت لمبا ہو گیا اور لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ وہ سوسائٹیاں بنا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے تو خداتعالیٰ نے مجھے بتایا کہ تمہیں انہیں رستوں سے گزرنا ہوگا جن سے پہلے انبیاء کی جماعتیں گذری ہیں۔ چنانچہ مجھے الہامات ہونے شروع ہوئے کہ ہمیں قادیان چھوڑنا پڑے گا اور کسی پہاڑی مقام میں پناہ لینی پڑے گی پھر وہاں سے ہم خداتعالیٰ کے ذکر کو بلند کریں گے۔ یہ چیز بتاتی تھی کہ پہلی پیشگوئی ختم نہیں بلکہ ابھی چل رہی ہے۔ چنانچہ بعد میں عملاً لڑائیاں ہوئیں اور قادیان ہمیں چھوڑنا پڑا سو اَب تعبیر کی ضرورت نہیں۔ باقی رؤیا میں جو سبزہ دکھایا گیا تھا دیکھیں خداتعالیٰ اسے کس رنگ میں پورا کرتا ہے۔ پچھلے جلسہ کے بعد جب ہم لاہور واپس جانے لگے تو میں، تین چار مستورات اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے چند آدمی موٹر کے ذریعہ گئے اور باقی افراد ٹرین کے ذریعہ۔ پہلے ٹرین لیٹ تھی اور اس کے آنے میں دیر ہوگئی اس لئے ہم نے سب سواریوں کو واپس بلا لیا لیکن جب ٹرین آئی تو ایک انسپکٹر جو ساتھ تھا اُس نے کہا کہ کچھ ڈبے لاہور سے آئے ہیں اور ریزرو ہیں ان کا دوسری گاڑی کے ساتھ لگانے کا انتظام ہوگا اور دوسری ٹرین ان کا انتظار کرے گی اس لئے ان سواریوں کو پھر ٹرین کے ذریعہ بھیج دیا گیا۔ جب ٹرین چلی تو معلوم ہوا کہ ان کا کھانا رہ گیا ہے اس پر کھانا موٹر کے ذریعہ چنیوٹ بھجوا دیا گیا۔ اب صورت یہ تھی کہ جب تک موٹر واپس نہ آئے میں لاہور نہیں جا سکتا تھا اس لئے میں لیٹ گیا۔ اُس وقت مجھ پر غنودگی سی طاری ہوئی اور اِس نیم غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں خداتعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھ رہا ہوں۔
جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب
پاؤں کے نیچے سے مرے پانی بہا دیا
اِس سے میں نے سمجھا کہ خداتعالیٰ کوئی ایسی صورت ضرور پیدا کر دے گا کہ پانی نکل آئے۔ سو خداتعالیٰ نے اِس جلسہ کی وجہ سے کہ اس کے بندے ایک بڑی تعداد میں یہاں آئے اور اُنہوں نے اس کے ذکر کو بلند کیا اِس الہام کو بھی پورا کر دیا۔ جس طرح بادشاہ کے آنے پر لوگ تحفے دیا کرتے ہیں اسی طرح اس دفعہ خداتعالیٰ نے کہا میرے بندے آئے ہیں چلو اِنہیں تحفہ کے طور پر میٹھا پانی ہی دے دو۔ چنانچہ سرکاری ٹکڑوں میں جہاں میرا گھر بنایا جانا تجویز کیا گیا ہے اُسی جگہ کے نیچے خداتعالیٰ نے پانی نکال دیا ہے۔پہلے یہاں پانی نہیں نکلتا تھا ہم نے لائلپور کے محکمہ کے ذریعہ تین جگہ بورنگ کروائی مگر بے سُود لیکن عین اُس جگہ کے نیچے جہاں میرا مکان تجویز کیا گیا تھا پانی نکل آیا۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہے کہ کنویں پر انجن لگا ہوا ہے اور وہی پانی آپ لوگ استعمال کر رہے ہیں۔
میں نے جماعت کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ جن حالات سے ہم گذر رہے ہیں اِن سے بڑی بڑی قربانیاں ابھی ہمارے سامنے آنے والی ہیں۔ جیب سے کچھ خرچ کر کے گھروں میں بیٹھے ہوئے باہر مبلّغ بھیج دینے سے ہمارا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ کام تو دوسری سوسائٹیاں بھی کر سکتی ہیں۔ نبیوں کی قومیں ماریں کھاتی ہیں اور وطن سے نکالی جاتی ہیں۔ پس جب تک ہم بھی ان حالات سے نہیں گزریں گے ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
تحریک جدید کے اعلان کے بعد میں نے متواتر خطباتِ جمعہ میں احباب کو اس طرف توجہ دلائی تھی۔ چنانچہ یہ پہلا موقع ہے کہ جب خداتعالیٰ نے ہم سے وہ کام کرایا ہے جو پچھلے انبیاء کی قومیں کرتی چلی آئی ہیں اور وہ یہ کہ ساری کی ساری قوم اپنے مرکز کو چھوڑ کر باہر آگئی۔ جائدادیں لٹ گئیں، رشتہ دار مارے گئے، بہن بھائی قتل ہوئے، بعض عورتیں اُدھر ہی رہ گئیں۔ اب ہم اُن دروازوں سے گذرے ہیں جن سے انبیاء کی جماعتیں گزرا کرتی ہیں اور یقینا اس کے نتیجہ میں جنت بھی تمہیں نصیب ہو جائے گی۔
لوگ کہتے ہیں قادیان سے نکلنے کے بعد ہم اپنے مقصد کو کھو بیٹھے ہیں میں کہتا ہوں کہ قادیان سے ہم نکلے اور ہم نے اپنے مقصد کو پا لیا کیونکہ ہم نے وہ کچھ کر لیا جو انبیاء کی جماعتیںکرتی چلی آئی ہیں۔ اگر ہم اِن دروازوں سے نہ گذرتے تو ایک نبی کی جماعت نہ کہلا سکتے۔ تم مجھے کسی ایک نبی کی قوم ہی دکھا دو جو بغیر تکلیفوں کے اور بغیر وطن سے نکلنے کے جیتی ہو۔ آخر دنیا کو فتح کرنا کوئی کھیل نہیں کہ ایک انجمن بنا لی اور مثلاً اس کا نام ’’ترقی اسلام‘‘ یا ’’حمایت اسلام‘‘ رکھ لیا اور سمجھ لیا کہ ہم اسلام کو دنیا میں غالب کر دیں گے۔ اِس قسم کی انجمنوں سے انبیاء کی قومیں نہیں جیتا کرتیں۔ انبیاء کی جماعتیں قتل کی جاتی ہیں، اُنہیں وطنوںسے نکالا جاتا ہے، اُن کی جائدادیں لوٹی جاتی ہیں تب وہ کامیاب ہوا کرتی ہیں۔
پھر ایک اور چیز بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ اگر تم اپنے وطنوں سے نکالے گئے ہو، اگر تم میں سے بعض قتل کئے گئے ہیں اور تمہاری جائدادیں لوٹی گئی ہیں تو تمہارے ساتھ دوسرے لوگ بھی تو ہیں جن کے ساتھ ایسا سلوک ہوا یہ کیوں ہوا؟ میں کہتا ہوں آؤ ذرا قرآن کریم دیکھو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر سے نکلنے کے متعلق جہاں ذکر آتا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے مصر کو چھوڑا تو ان کے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جو آپ کی جماعت میں شامل نہیں تھے۔ پس بعض دفعہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایسے ابتلاء بھی لائے جاتے ہیں کہ وہ صرف نبی کی قوم پر ہی نہیں آتے بلکہ اُن کے ساتھ دوسروں پر بھی آتے ہیں مگر مقصود صرف نبی کی جماعت ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو غیر از جماعت لوگ آئے کنعان اُنہیں نہیں ملا۔ کنعان حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو ملا۔ اِسی طرح تمہارے ساتھ جو دوسرے لوگ مشرقی پنجاب سے نکلے تھے اُنہیں کوئی مرکز نہیں ملا۔ مرکز ملا ہے تو تمہیں ملا ہے کیونکہ اس سے مقصود صرف تم ہی تھے۔ تم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم اکٹھے رہیں گے خواہ جنگل میں ہی ہمیں بسنا پڑے۔ یہی عزم نبیوں کی جماعتوں میں پایا جاتا ہے مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے عزم کر لیا تھا کہ وہ اکٹھے رہیں گے۔ خداتعالیٰ نے انہیں کنعان کا مُلک دے دیا لیکن اس کے غیر نے یہ عزم نہیں کیا تھا۔ یہی عزم ہے جو انبیاء کی جماعتوں کو کامیاب بناتا ہے۔ یہی عزم ہے جس کی طرف میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں۔ تم یہ عزم کر لو کہ ہم اکٹھے رہیں گے اور خواہ ہمیں کتنی ہی تکلیفیں دی جائیں ہم کبھی جدا نہیں ہوں گے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح کو کہا جائے گا کہ پہاڑوں پر جا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی یہی کہا گیا تھا کہ تو ہجرت کرے گا لیکن آپ فوت ہوگئے اور آپ کے زمانہ میں یہ بات پوری نہ ہوئی اب کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ بات جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی کہی وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ جھوٹی نکلی؟ یا کوئی ایسی گنجائش ہے کہ اس کے معنی بدل سکیں؟ یاد رکھنا چاہیے کہ بخاری میں لکھا ہے جب دنیا سے ایمان اُٹھ جائے گا تو خداتعالیٰ فارسی النسل لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے کھڑے کرے گا جو ایمان کو پھر اِس دنیا میں واپس لائیں گے۔۱۳؎ بعض روایات میں رجلٌ کا لفظ آتا ہے اور بعض روایات میں رجالٌ کا لفظ آتا ہے۔ یعنی یہ پیشگوئی ایک سے زیادہ اشخاص کے ہاتھ سے پوری ہوگی۔ رجالٌ کا لفظ استعمال کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ یہ پیشگوئی ایک ہی شخص کے متعلق نہ سمجھ لینا۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی واضح کر دیا کہ کسی نبی کے خلیفہ کے ذریعہ بھی اُس کی بعض پیشگوئیاں پوری ہو جاتی ہیں اس لئے ضروری نہیں کہ یہ پیشگوئی یعنی ہجرت کی پیشگوئی میرے ہی ذریعہ پوری ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پیشگوئی میرے کسی ظل کے ذریعہ سے پوری ہو۔ پھر میں نے جو رؤیا میں دیکھا کہ میں مسیح موعود ہوں تو اس سے بھی یہ سوال حل ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ میرا ایک بیٹا ہوگا جو حسن و احسان میں میرا نظیر ہوگا۔۱۴؎ پھر ازالہ اوہام میں لکھا ہے کہ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ہمارے بعد کوئی اَور بھی مسیح کا مثیل بن کر آوے۔ ۱۵؎
مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے مجھے فرمایا کہ میاں! اپنے ابا سے پوچھو تو سہی کہ وہ مسیح کونسے ہیں اور وہ کب ہوں گے؟ بہرحال جب اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت قریب آیا تو میں نے وہ رؤیا دیکھا جس میں میرے منہ سے نکلا اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَ خَلِیْفَتُہٗ خداتعالیٰ نے جب دیکھا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ پیشگوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ پوری ہونی تھی تو اُس نے میرے منہ سے نکلوا دیا کہ اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ۔ میں بھی مسیح موعود ہوں گویا ساڑھے تین سال قبل اِس کی پیش بندی کر دی۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ اُس وقت ختم نہیں ہوا جبکہ وہ فوت ہوئے بلکہ وہ جاری رہنے والا تھا اور اُس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک کہ اسلام قوت نہیں پکڑتا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ میرا زمانہ اس لئے حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہے کہ دوبارہ بعثت مسیحی میں ابھی کچھ وقفہ ہے اس لئے میں اس وقفہ کو پورا کرنے کیلئے ہوں۔ جب وہ ہوگی تو یہ خلیج پاٹ کر ایک ہی زمانہ پھر شروع ہو جائے گا۔ پس درحقیقت آپ کا زمانہ ممتد ہے میرے زمانہ تک۔ جب تک میں ہوں اُس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی زمانہ ہے پھر اَور مسیح ہوں گے شاید وہ کچھ وقفہ کے بعد ہوں لیکن مقدر یہی ہے کہ اسلام کے استحکام کے لئے بار بار مسیح دنیا میں آئیں اور انہیں آنا چاہیے کیونکہ جتنا نقصان مسیح ؑ کی اُمت نے اسلام کو پہنچایا ہے اتنا نقصان اور کسی نے نہیں پہنچایا اس لئے اسلام کے استحکام پر بھی خداتعالیٰ مسیح کی اُمت کو ہی لگانا چاہتا ہے۔
غرض تمام پیشگوئیوں سے ظاہر ہے کہ یہ زمانۂ مسیح موعود ہے اور میں اُن کا بروز اور اُن کا نام پانے والا ہوں۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا مسیح موعود سے کہے گا کہ پہاڑ پر چلے جاؤ تو اِس سے مراد میں تھا۔ چنانچہ مجھے بتایا گیا کہ میں قادیان سے ہجرت کر کے ایک پہاڑی علاقہ میں جاؤں گا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آؤ ہم ایک نیا آسمان اور نئی زمین بنائیں جس میں سلسلہ کا نیا مرکز بنانے کی طرف اشارہ تھا تو اِس سے بھی مراد میں تھا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہر نبی کے لئے ہجرت ضروری ہے اس لئے ان کو بھی ہجرت کا موقع ملے گا تو اس سے میں ہی مراد تھا کہ میرے ذریعہ سے آپ کو ہجرت نصیب ہوگی اور یہ سمجھایا گیا تھا کہ نادان اور کمزور کہیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لاش کو قادیان میں چھوڑ کر چلے گئے اس لئے اُن کو سمجھانے کے لئے خداتعالیٰ نے کہا کہ نہیں مسیح موعود خود قادیان سے نکل کر ہجرت کر گیا یعنی میرے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح حلول کر کے قادیان سے آ گئی ہے۔ نادان کہے گا وہ اَور تم اَور، دو وجود ایک کیسے ہوگئے؟میں انہیں کہتا ہوں یہ اُسی طرح ہوا جس طرح خدا کی باتیں ہوا کرتی ہیں۔ جب مریم اور مسیح ایک ہو سکتے ہیں تو میں اور مسیح ایک کیوں نہیں ہو سکتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ میں مریم بھی ہوں اور مسیح بھی ہوں۔ ۱۶؎ پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں کہا کہ خدا ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں تو کفار نے کہا اِس نے تو سب خداؤں کو ایک بنا دیا ہے۔ اگر سب خداؤں کو ملا کر ایک خدا کی تعلیم دی جا سکتی ہے، اگر مریم اور مسیح ایک ہو سکتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے مسیح کا نام پانے والا بھی ایک ہو سکتے ہیں۔ خداتعالیٰ کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ جو الٰہی رازوں کو نہیں سمجھتے وہ اعتراض کر دیتے ہیں۔
۱۳۰۰ سال ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے مگر خداتعالیٰ نے کہا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر ی زمانہ میں عرب سے ہجرت کر کے مسجد اقصیٰ میں آئیں گے۔ وہ کونسا نسخہ ہے جس سے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب سے ہندوستان میں لاتے ہو۔ پھر اُس نے اِس وعدہ کو دُہرا کر فرمایا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں‘‘ ۱۷؎ وہ کونسا نسخہ ہے یا وہ کونسی تاؤیل ہے جس کے ذریعہ تم اِس الہام کو حل کرتے ہو۔ اگر تمہارے خیال میں یہ سب باتیں سچی تھیں اور تم اِنہیں سچی کہتے ہو تو اس رنگ میں تم اس مشکل کو بھی حل کر سکتے ہو۔ کیا یہ ہوا کرتا ہے کہ مُردے واپس آ جائیں؟ مگر جبکہ تمہارے دشمن کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے ایسا نہیں ہو سکتا، تم کہتے ہو ہو گیا اور مسیح موعود کے ذریعہ سے ہو گیا اب بھی منافق کہتا ہے یہ کیونکر ہوا؟ میں کہتا ہوں جس طرح خداتعالیٰ کی باتیں ہوا کرتی ہیں۔ ایلیا یوحنا کے ذریعہ سے آیا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسیح موعود کے ذریعہ سے آئے اور مسیح موعود میرے ذریعہ سے آئے۔ اگر نہیں آئے تو بتاؤ کیا وہ پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں؟ کب گئے تھے مسیح موعود پہاڑ پر؟ کب اُنہوں نے ہجرت کی؟ کیا خداتعالیٰ نے جھوٹ بولا یا تم نے جھوٹ سمجھا؟ مگر خداتعالیٰ جھوٹ نہیں بولتا۔ جھوٹا منافق یا کافر ہی ہوتا ہے مگر مؤمن خداتعالیٰ کی باتوں پر ایمان لاتا ہے خواہ اس کے لئے اسے سر ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
اے سننے والو سُنو، اور اے سوچنے والو سوچو! جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ دنیا نہیں چاہتی تھی کہ ایسا ہو مگر خداتعالیٰ چاہتا تھا کہ ایسا ہو۔ خداتعالیٰ کی باتیں پوری ہو چکی ہیں جن کی آنکھیں ہیں دیکھتے ہیں، جن کے کان ہیں سنتے ہیں، منکر انکار ہی کرتے چلے جائیں گے، بہرے یہی کہتے جائیں گے کہ کوئی آواز نہیں آئی، اندھے یہی کہتے جائیں گے کہ ہمیں کچھ نظر نہیں آیا لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ وہ پیشگوئی جس میں کہا گیا تھا کہ مسیح موعود پہاڑی علاقہ میں جائے گا اور وہ پیشگوئیاں جن میں کہا گیا تھا کہ اے پہاڑو! اور اے پرندو! ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم مسیح موعود کے ساتھ مل کر ذکرِ الٰہی کرو، اِن پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا پھر پیدا نہ ہوگا کیونکہ یہ پوری ہو چکی ہیں۔ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں مسیح علیہ السلام آسمان پر ہیں اور وہ دوبارہ اِس دنیا میں آئیں گے مگر یہ لوگ اسی طرح انتظار کرتے جائیں گے یہاں تک کہ نسل کے بعد نسل گزرتی جائے گی لیکن آسمان سے کوئی نہیں آئے گا۔ اِسی طرح میں کہتا ہوں کہ لوگ شاید اِس انتظار میں ہوں کہ کوئی اَور مسیح آئے گا جو پہاڑی علاقہ میں جائے گا اور جس کے ساتھ پہاڑ اور پرندے مل کر ذکرِ الٰہی کو بلند کریں گے لیکن وہ انتظار کرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ اُن کی نسل کے بعد نسل گذر جائے گی اور غالباً یہ انتظار کرنے والے احمدی ہی ہوں گے مگر وہ مسیح جسے پہاڑ پر جانے اور ایک نئی بنیاد رکھنے کا حکم تھا وہ اب کبھی نہیں آئے گا کیونکہ وہ آچکا ہے۔ اب قیامت تک دوسرا ان پیشگوئیوں کا پورا کرنے والا پیدا نہ ہوگا۔ منافق ہنستے چلے جائیں گے، منکر انکار کرتے جائیں گے مگر ایک دن ان کی امیدوں کا پودا خشک ہو جائے گا، اُمنگوں کی عمارت گر جائے گی تب وہ حسبِ عاداتِ منکرین سرے سے ان پیشگوئیوں ہی کا انکار کر دیں گے۔ مگر جس طرح انتظار سے کچھ نہیں بنے گا انکار سے بھی کچھ نہیں بنے گا دُلہنیں اپنے سنگھار سے خوش و خرم ہوں گی، بیوائیں خون کے آنسو بہاتی چلی جائیں گی۔
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ربوہ کی پوزیشن کیا ہے۔ ربوہ کو خداتعالیٰ نے مسیح موعود کا دوسرا مسکن مقرر فرمایا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسیح موعود کی الہامی جائے پناہ قرار دیا ہے۔ میرے الہامات نے اس پیشگوئی کے قرب میں پورا ہونے کا اعلان کیا ہے۔ سو اب یہ مقدس ہے جس طرح خداتعالیٰ کی مقدس جگہیں ہوتی ہیں۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ سکھ تو اپنے گورؤوں کی جگہ کو مقدس سمجھتے ہیں لیکن ہماری جماعت کا یہ عجیب احساس ہے کہ وہ سمجھتی ہے جو چاہے یہ حق لے لے حالانکہ سب سے پہلے ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی جگہوں کو مقدس کہیں کیونکہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے مقدس قرار دی گئی ہیں۔
پس اب یہ ایک مقدس مقام ہے اور یہاں کی عبادتیں دوسری جگہوں کی عبادتوں سے اچھی ہیں اور یہاں کی رہائش دوسری جگہوں کی رہائش سے اچھی ہے۔ لوگ کہیں گے کیا یہ مکہ ہے؟ میں کہوں گا نہیں۔ لوگ کہیں گے کیا یہ بیت المقدس ہے؟ میں کہوں گا نہیں۔ لوگ کہیں گے کیا یہ مدینہ ہے؟ میں کہوں گا نہیں۔ لوگ کہیں گے اچھا تو کیا یہ قادیان ہے؟ میں کہوں گا نہیں۔ لوگ کہیں گے پھر یہ کیا ہے اور یہ گردوغبار کی جگہ جو رہائش کے لئے بھی موزوں نظر نہیں آتی جو ہزاروں سال سے ویران پڑی تھی جس کے متعلق گورنمنٹ کے کاغذات میں بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ کاشت کے ناقابل ہے یہ کس طرح مقدس ہوگئی اور اس کو برکت کہاں سے ملی؟ میں کہوں گا یہ خداتعالیٰ کے مقدسوں کی جائے پناہ ہے اور اِس کو وہیں سے برکت ملی ہے جہاں سے باقی مقدس مقاموں اور بہت سے جانے نہ جانے مقامات کو برکت ملی ہے۔
ایک عورت اور ایک بچہ آج سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال پہلے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے نکلے تھے اور ایک جگہ نے ان کو پناہ دی۔ زمین نے انہیں پانی دے دیا۔ اُس جگہ میں کیا رکھا تھا؟ وہ بے آب و گیاہ جگہ تھی اور کوئی جانا پہچانا نبی ہمیں ایسا معلوم نہیں ہوتا جو وہاں رہ کر عبادتیں کیا کرتا ہو لیکن خدا تعالیٰ نے جب دیکھا کہ اس زمین نے میرے پیاروں کوپناہ دی ہے تو اُس نے کہا میری رضا کی تلاش کرنے والی روحوں کو پناہ دینے والی جگہ تُو بابرکت ہو جا اور وہ بابرکت ہوگئی۔ اُس جگہ کو برکتیں ملنے کی وجہ صرف اتنی تھی کہ اس نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو پناہ دی اور جب اس نے پناہ دی تو خدا تعالیٰ نے عرش سے اسے دیکھ کر کہا کہ اے زمین! تو نے میری رضا کی خاطر بھاگنے والوں کو پناہ دی ہے۔ دنیا تجھے بیکار سمجھتی ہے، تو کسی کام کی نہیں تھی مگر تو نے وہ کام کیا جو کسی نے نہ کیا جو سرسبز و شاداب کھیتوں نے نہ کیا۔ میں کہتا ہوں تو ہو جا بابرکت۔ جس ذات نے کُنْ ۱۸؎ کہا اور سب چیزیں پیدا ہو گئیں اُسی ذات نے اُسے کہا تو بابرکت ہو جا اور وہ بابرکت ہوگئی۔ وہ پناہ لینے والے بھی فوت ہوگئے اور ان پناہ لینے والوں کی اولاد بھی کچھ عرصہ بعد روزی کی تلاش میں اُس جگہ کو چھوڑ کر مُلک میں پھیل گئی۔ صدیوں بعد زمانۂ محمدی کے قریب پھر ایک باہمت انسان انہیں مکہ میں جمع کر کے لایا لیکن وہ بابرکت رہی تب بھی جب وہ آباد تھی اور وہ بابرکت رہی تب بھی جب وہ ویران تھی۔ وہ بابرکت تھی جب خداتعالیٰ کا آخری اعلان وہاں سے سنایا گیا اور وہ بابرکت تھی جب کہ خداتعالیٰ کا آخری شارع وہاں سے مجبور کر کے نکال دیا گیا کیونکہ خداتعالیٰ کی یہ سنّت ہے کہ جگہوں کی برکت واپس نہیں کی جاتی کیونکہ وہ گناہ نہیں کرتیں جس کے خمیازہ میں ان سے برکت چھینی جائے۔ آدمی گناہ کرتے ہیں، خاندان گناہ کرتے ہیں اور اُن سے برکتیں چھین لی جاتی ہیں لیکن جگہوں سے برکتیں واپس نہیں لی جاتیں۔
پھر ایک خداکا بندہ اور اُس کی قوم شاہانِ مصر کے ظلموں سے تنگ آ کر مصر سے نکلے۔ کنعان کی زمین نے اُن کو پناہ دی۔ پس کنعان کا دل یروشلم بابرکت ہو گیا۔ وہ بابرکت رہا اُس قوم کی نبوت کے زمانہ میں۔ اور وہ بابرکت رہا اُس قوم کی نبوت کے ختم ہونے کے بعد بھی۔ کیونکہ خداتعالیٰ جب کسی جگہ کو برکت دیتا ہے تو پھر اُسے واپس نہیں لیتا۔ کیونکہ انسان کبھی خداتعالیٰ کا باغی ہو کر برکت کھو بیٹھتا ہے مگر جگہ باغی نہیں ہوتی اس لئے اُس کی برکت دائمی ہوتی ہے۔ وہ زندہ پیغام سے کم بابرکت ہوتی ہے مگر بوجہ موت نہ آنے کے ہوتی ہمیشہ کے لئے بابرکت ہے۔
ایک خدا کا پہلوان، کائنات کا اصلی راز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ظلموں سے تنگ ہو کر مکہ جیسی بابرکت بستی کو چھوڑ کر نکلا۔ یثرب نے اُس کے لئے اپنی گود کھول دی۔ یثرب کی بیٹیوں نے اُس کے راستہ میں اپنی آنکھیں بچھا دیں۔ عرش پر خداتعالیٰ نے یہ نظارہ دیکھا اور وہ خوش ہو گیا۔ اُس نے کہا یہ زمین جس نے میرے پیارے کو برکت دی، برکت والی ہو اور وہ برکت والی ہوگئی۔ خداتعالیٰ نے مکہ سے برکت نہیں چھینی کیونکہ اُس کی برکتوں کا خزانہ محدود نہیں ہے۔ اُس نے نئی برکت اُس دوسری بستی کو دے دی۔ پھر وہ محبوب بھی اِس دنیا سے چلا گیا اُس کا بنایا ہوا مرکز بھی وہاں سے نکل کر عراق اور شام کی طرف منتقل ہو گیا مگر اُس جگہ کی برکت قائم رہی کیونکہ خداتعالیٰ جو انعام کیا کرتا ہے اُسے بِلاوجہ واپس نہیں لیا کرتا۔ پھر ایک زمانہ آیا کہ اسلام غریب ہو گیا۔ خداتعالیٰ اپنی مملوکہ دنیا میں ایک اجنبی کی طرح دیکھا جانے لگا اور اُس کی مہمان نوازی سے دنیا نے انکار کر دیا۔ مگر قادیان کے ایک فرد نے اُسے اپنے دل میں جگہ دی، عزت سے اپنے گھر لے گیا اور خدا تعالیٰ نے کہا اے قادیان کی بستی! تو بابرکت ہو جا اور وہ بابرکت ہوگئی۔ وہ برکت اب کبھی نہیں چھینی جائے گی، اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہوگا۔ برکتوں والے لوگ وہاں سے چلے جائیں، برکتوں والے ادارے وہاں سے منتقل ہو جائیں مگر برکت وہاں سے نہیں جائے گی۔ جو بھی اور جب بھی وہاں برکت کے لئے جائے گا اُسے وہاں برکت ملے گی۔ پھر ایک دن آیا کہ دنیا کی وجاہت چاہنے والوں نے اس پُرامن بستی پر حملہ کیا اور خداتعالیٰ کی یاد میں بسر کرنے والے اور صداقت کو پھیلانے والے مسکین بندے قادیان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، وہ گھروں سے پریشان ہو کر نکلے اُنہوں نے چاروں طرف نگاہ کی، معمور شہروں، آباد قصبوں اور زرخیز زمین نے انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا، ان کے ساتھ بھاگنے والے چاروں طرف پھیل گئے مگر یہ حیران تھے کہ ہم کہاں جائیں کیونکہ وہ ایک مقصد رکھتے تھے اور اس کے لئے اکٹھا رہنا ان کے لئے ضروری تھا۔ وہ خداتعالیٰ کے سپاہی تھے اور اکٹھا رہنا اور اکٹھا لڑنا جانتے تھے۔ وہ حیران تھے کہ چناب پار کی پہاڑیوں نے اُنہیں دعوت دی، بہتے ہوئے پانی کے پاس ایک اونچے ٹیلے نے کہا اے خدا کی راہ میں بھاگنے والو! اِدھر آؤ۔ میری چھاتیوں میں دودھ نہیں ہے مجھے کبھی بھی دنیا کے نوجوانوں نے اپنے لئے قبول نہیں کیا مگر میں اپنی خشک چھاتیاں اور جھلسا ہوا سینہ تمہارے لئے پیش کرتی ہوں اور ان بھاگنے والوں نے خدا کا شکر کیا اور اِس جگہ ڈیرہ ڈال دیا۔ جس طرح مکہ میں ایک دائی کو سب لوگوں نے اپنے بچے دینے سے انکار کر دیا تھا مگر اُس نے خالی ہاتھ جانا پسند نہ کیا اور وہ ایک ایسے بچے کو لے گئی جو یتیم تھا، جس کی ماں بیوہ تھی اور جس کے گھر سے اُسے کچھ ملنے کی امید نہ تھی۔ اِسی طرح خداتعالیٰ نے اِنہیں بھی ایک ایسی دائی دی جس کا گھر آمنہ کے گھر کی طرح خالی تھا۔ پس اُنہوں نے خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اُنہوں نے اس میں خداتعالیٰ کی باتوں کو پورا ہوتے دیکھا اور خداتعالیٰ نے بھی عرش سے اِس امر کو دیکھ کر کہا اے بے آب و گیاہ وادی! تُو بابرکت ہو کہ تو نے میرے لئے بھاگنے والوں کو پناہ دی اور وہ بابرکت ہوگئی۔ اس نے یہ برکت کسی اَور سے نہیں چھینی۔مکہ کی برکتیں اُسی کے پاس ہیں، یروشلم کی برکتیں اُسی کے پاس ہیں۔ مدینہ کی برکتیں اُسی کے پاس ہیں، قادیان کی برکتیں اُسی کے پاس ہیں، اِس کو یہ برکت خدا کے خزانہ سے ملی ہے جس کے خزانے غیر محدود ہیں۔ وہ جو اِس پر حسد کرتا ہے حسد کرتا چلا جائے۔ دینے والے نے دے دیا اور لینے والے نے لے لیا۔ اب حاسد کے لئے سوائے دانت پیسنے اور رونے کے کچھ نہیں۔ اب یہ جگہ ہمیشہ کے لئے بابرکت ہے خواہ ہمیں اِسے کسی وقت چھوڑنا ہی پڑے۔ اس کی برکت اس سے کبھی چھینی نہیں جائے گی بلکہ پیش گوئیوں سے جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ قیامت سے پہلے یہ جگہ ضرور ایک دفعہ علم محمدی کے سربلند کرنے کا موجب ثابت ہوگی اور اسرافیل یہاں سے ایک دفعہ ضرور اپنا صور پھونکے گا لیکن میں کہتا ہوں خواہ اوپر کے امور میں سے کوئی بھی درست نہ ہوتا پھر بھی جماعت کے لئے ایک مرکز کی ضرورت تھی۔ اگر کسی کے پاس روحانی آنکھیں نہیں کہ وہ اِس چیز کی اہمیت کو محسوس کر سکے تو کم از کم اتنی عقل تو اُس میں ہونی چاہیے کہ وہ اِس بات کو سمجھ سکے کہ بغیر مرکز کے جماعت ترقی نہیں کر سکتی۔
قادیان بے شک ہمارا مرکز ہے مگر اِس کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہماری زندگی کی بنیاد رکھنے والا ہے۔ پس جب کبھی ہمارا عملی مرکز وہاں سے جدا ہو، اس عرصہ میں بھی کوئی نہ کوئی مرکز ضروری ہے تا کہ اجتماعی کام خوش اسلوبی سے ہو سکیں وہ ربوہ نہ سہی کوئی سہی۔اور اَور کوئی نہ ہو تو ربوہ سہی۔ بہرحال جب تک ہم اکٹھے نہیں رہیں گے اُس وقت تک اسلام کی ترقی کے لئے سکیمیں کس طرح بنائیں گے۔ اکٹھے نہ بیٹھیں گے تو مل کر کام کس طرح کریں گے۔ ہمارے مبلغ کہاں تیار ہوں گے، لٹریچر کہاں تیار ہوگا، لائبریریاں کہاں قائم ہوں گی، دین سیکھنے کے خواہش مند دین کہاں سیکھیں گے، روپیہ کہاں جمع ہوگا، سکول کہاں بنائے جائیں گے، مبشرین کی کلاسیں کہاں کھولی جائیں گی۔ پس اگر یہ پیش گوئیاں نہ بھی ہوں تب بھی ہمیں کوئی نہ کوئی جگہ مرکز کے لئے اختیار کرنی پڑے گی۔ اگر کسی کے پاس روحانی آنکھیں نہیں تو بے شک وہ ان باتوں کو نہ مانے جن کو میں نے ابھی بیان کیا ہے اِس میں میرے لئے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ یہ خداتعالیٰ کی باتیں ہیں جو پوری ہو کر رہیں گی لیکن انہیں کم از کم اتنا تو ماننا پڑے گا کہ ہمارے لئے اپنے کام کو جاری رکھنے کے لئے مرکز بنانا ضروری ہے اور جب ہمیں کسی نہ کسی جگہ مرکز بنانا ہی پڑے گا تو اس کو آباد کرنا بھی جماعت کا ہی کام ہے۔ قادیان سے نکلنے کے بعد ہمارا کام بہت ترقی کر گیا ہے۔ وہی مبلّغ جو دوسرے ممالک میں بیٹھے نہایت سستی کے ساتھ کام کر رہے تھے اُنہیں یکدم ہوش آگیا اور وہ بڑے بڑے عالم اور فقیہہ بن گئے ہیں اور اپنے کام کو اُنہوں نے وسیع کر لیا ہے۔ قادیان سے نکلنے سے پہلے ہماری جماعت جتنی معروف تھی اُس سے کئی گنا زیادہ اب معروف ہے۔ قادیان سے نکلنے سے پہلے جتنے لوگ اس کی طرف متوجہ تھے اُس سے بہت زیادہ لوگ اب توجہ کر رہے ہیں۔ غرض قادیان سے نکلنے کے بعد ہمارے مشنوں میں یکدم بیداری پیدا ہوگئی ہے اور اب وہ جوان ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ہماری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں اور مبلّغ بننے کے لئے باہر سے لوگ آ رہے ہیں۔ شروع میں مسٹر کنزے اور ایک دو چینی طالب علم آئے تھے اب رشید احمد (امریکن نَو مسلم) آئے ہیں ابھی ایک اور جرمن اور ایک امریکن خاتون دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں آنے والے ہیں اُن کی تعلیم کا انتظام ہمیں کرنا ہوگا۔ اب اگر مرکز نہ ہو تو یہ کہاں تعلیم حاصل کریں گے۔ قادیان میں ہمارے سکول تھے، کالج تھا، جامعہ احمدیہ تھا، لڑکیوں کا سکول تھا، کروڑوں کی جائدادیں تھیں، بارہ تیرہ مساجد تھیں، دفاتر تھے یہاں پر سب عمارتیں نئے سرے سے بنانی پڑیں گی۔ پھر قادیان میں کارکنوں کے اپنے مکانات تھے اور یہاں وہ بھی بنانے پڑیں گے۔ ان سب کیلئے روپیہ کی ضرورت ہے۔
۱۹۴۷ء میں میں نے ایک لاکھ روپیہ کی تحریک کی تھی لیکن دو جلسوں پر اور عارضی رہائش کے لئے عمارتیں بنانے میں ہی بہت زیادہ روپیہ خرچ ہو گیا ہمارا اندازہ تھا کہ پندرہ ہزار میں سوائے چند پکی عمارتوں کے کچی عمارتیں بن جائیں گی۔ مسجد مبارک کے لئے تو دوستوں نے چندہ دیا ہے اور امید ہے کہ ایک دو ماہ کے اندر اندر مسجد تیار ہو جائے گی۔ پھر بڑی مسجد کے لئے چندہ کا اعلان کیا جائے گا اِس کے بعد ہمیں سکولوں اور کالجوں کے لئے بھی چندہ کرنا پڑے گا۔ سلسلہ کی مالی حالت یہ ہے کہ ہندوستانی جماعتوں کا چندہ جو دو لاکھ روپیہ تھا اب نہیں ملتا اور اِدھر کام بڑھ گیا ہے۔ میں نے یہ تجویز کی ہے کہ گورنمنٹ نے زمین کی جو واجبی قیمت تھی وہ تو لے لی ہے۔ جب ہم یہاں بس جائیں گے تو کالجوں اور سکولوں کی وجہ سے لازماً لوگ یہاں مکان بنائیں گے اس لئے جو زیادہ قیمت مل سکے وہ ہمارا حق ہے اور ہمیں لینی چاہیے کیونکہ ہماری وجہ سے لوگ یہاں بسیں گے اور مکانات بنائیں گے۔ پس میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کے وقت میں اِس جگہ کی آبادی کے لئے جو سامان کرے گا اُسی روپیہ سے عمارتیں بن جائیں گی۔ تین لاکھ پچاس ہزار کی زمین فروخت ہوچکی ہے اور اِس سے عارضی مکانات بنائے جائیں گے لیکن اِن اخراجات میں سے کچھ حصہ ایسا بھی ہے جو واپس آ جائے گا۔ مثلاً لکڑی ہے یہی لکڑی دوسرے مکانات کے کام آجائے گی۔ یہ خداتعالیٰ کی تدبیر تھی کہ بجائے اِس کے کہ وہ ہم پر کوئی نیابوجھ ڈالے، ہمیں اِس زمین سے ہی روپیہ مل رہا ہے۔ اب زمین بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔ صرف چار سَو کنال کا ٹکڑا ایسا رہ گیا ہے جو فروخت نہیں ہوا جس کے معنی یہ ہیںکہ اگر یہی قیمت رہی تو تین لاکھ روپیہ کی اور امیدہو سکتی ہے مگر بعد میں آنے والوں کو مرکز میں دیر سے آنے کا کچھ خمیازہ بھی بھگتنا چاہیے۔ اگر زمین کی قیمت کچھ بڑھا دی گئی تو شاید کچھ اور رقم آجائے او رپندرہ سولہ سَو روپیہ مزید مل جائے۔ اگر میری یہ رائے صحیح ہے کہ یہ سلسلہ خداتعالیٰ کا قائم کردہ ہے بلکہ میں رَای العین کی طرح کہہ سکتا ہوں کہ یہ خدا کا قائم کردہ ہے تو پندرہ سَو کیا پندرہ ہزار بھی آ جائیں گے بہرحال اِس وقت ہمیں پندرہ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے تین لاکھ پچاس ہزار کی تو زمین بِک چکی ہے اور تین چار لاکھ روپیہ کی اَور آمد ہوگی مگر ضرورت ہے پندرہ لاکھ روپیہ کی۔ آٹھ لاکھ روپیہ باقی رہ جاتا ہے وہ کہیں سے پورا کرنا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ چندہ حفاظت مرکز کے وعدے جن کے ذمہ واجب الادا ہیں وہ ادا کر دیں۔ اگر ان لوگوں نے جو اَب سستی کر رہے ہیں کوشش کی تو شاید چار پانچ لاکھ اَور بھی جمع ہو جائے۔ یہ بارہ تیرہ لاکھ کے قریب ہو جاتا ہے۔ رہ گیا تین لاکھ روپیہ اِس کے لئے میں چند تجاویز دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں جن پر عمل کر کے وہ بغیر تکلیف اُٹھائے ربوہ کی آبادی میں مدد دے سکتے ہیں۔
یہ تو میں نے اشارہ کر دیا ہے کہ جو یہاں آنا چاہتے ہیں وہ آ جائیں ورنہ بعد میں ہزار ہزار، پندرہ پندرہ سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے بھی زمین نہیں مل سکے گی۔ دوست اگر کوشش کریں تو یہ کوئی مشکل امر نہیں اگر وہ الگ الگ زمین لیں تو شاید سالوں میں بھی یہاں مکان نہ بنا سکیں لیکن اگر دو دو ،تین تین مل کر ایک ٹکڑہ خرید لیں اور مکان بنا لیں، پھر دوسرا ٹکڑا خرید لیں اور مکان بنا لیں تو بڑی آسانی سے وہ یہاں مکان بنا سکتے ہیں۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ امانت تحریک جدید اور امانت صدر انجمن احمدیہ کی برکت کو تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے یہاں روپیہ جمع کرنے کی وجہ سے گذشتہ فسادات میں ہزاروں احمدیوں کا روپیہ بچ گیا ہے۔ جو لوگ امانت تحریک جدید میں یا صدر انجمن احمدیہ کے پاس روپیہ رکھواتے تھے ان کی ساری کی ساری رقمیں محفوظ رہی ہیں۔ مثلاً اگر کسی شخص نے پانچ ہزار روپیہ امانت میں رکھوایا تھا تو اُسے پانچ ہزار کا پانچ ہزار ہی مل گیا ہے اور اِدھر آ کر اُس نے اس سے مختلف تجارتیں اور دوسرے کاروبارکامیاب طور پر چلا لئے ہیں لیکن جنہوں نے امانت میں روپیہ نہیں رکھوایا تھا بلکہ نفع کی خاطر کسی اور شخص کو دے دیا تھا اور کہتے تھے کہ ہمیں پچیس فیصدی منافع ملے گا، اُن کو نہ پچیس فیصدی منافع ملا اور نہ اصل رقوم ہی ملیں۔ پچیس فیصدی منافع لیتے لیتے اُن کی اصل رقوم بھی ضائع ہو گئیں۔ اب بھی میں بتاتا ہوں کہ تمہارا فائدہ اِسی میں ہے کہ تم اپنا روپیہ امانت تحریک جدید یا امانت صدر انجمن احمدیہ میں جمع کراؤ یہ مفت کا ثواب ہے جو تمہیں حاصل ہو سکتا ہے۔ تم میں سے کوئی شخص اپنا سارے کا سارا روپیہ تجارت میں نہیں لگاتا۔ فرض کرو تم پانچ پانچ روپے بھی امانت تحریک جدید یا امانت صدر انجمن احمدیہ میں جمع کراؤ تو دس لاکھ روپیہ جمع ہو جاتا ہے پھر روپیہ واپس لینے میں کوئی مشکل بھی نہیں۔ کسی نوٹس کی ضرورت نہیں چاہے آج جمع کراؤ اور کل لے جاؤ۔ بلکہ میں کہتا ہوں اگر کسی میں ایمان ہو تو جب وہ ربوہ میں آئے تو اگر اس کے پاس پانچ روپے بھی ہوں تو وہ آتے ہی یہاں جمع کرا دے اور پھر جاتے ہوئے لے لے۔ اِس طرح چھوٹی سے چھوٹی رقم سے بھی جماعت فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ چھوٹی چھوٹی رقوم سے کس طرح فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے؟ سو یہ ایک اقتصادی راز ہے جو ہر شخص نہیں جانتا مگر میں بتا دیتا ہوں کہ وہ کیا ہے۔ دنیا میں جتنے بینک ہیں اِن کے پاس امانتیں ہوتی ہیں اور وہ اِن امانتوں سے بڑی بڑی آمد نیں پیدا کر لیتے ہیں۔ ایک دفعہ الائیڈ بنک کا جنرل مینیجر جو انگریز تھا مجھے امرتسر سے ملنے کے لئے آیا اور اُس نے کہا مجھے پتہ لگا ہے کہ آپ کے خزانہ میں دس پندرہ لاکھ روپیہ پڑا ہے وہ آپ ہمارے بنک میں کیوں جمع نہیں کرا دیتے ہم آپ کو ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچائیں گے۔ میں نے کہا تم امرتسر سے چل کر یہاں آئے ہو آخر کوئی بات تو ہے۔ اُس نے کہا یہ دس پندرہ لاکھ روپیہ ہمارے بینک میں جائے گا تو ہم بہت کچھ کما لیں گے۔ میں نے اُسے کہا تم مجھے وہ راز بتاؤ جس کے ذریعہ تم اِس روپیہ سے بہت کچھ کما لو گے۔ میں نے تو اپنے دفتر والوں کو یہ ہدایت دی ہوئی ہے کہ روپیہ میں سے اٹھنی خرچ کرنی ہے اٹھنی خرچ نہیں کرنی۔ اُس نے کہا ہم تو دس آنہ میں سے ایک آنہ رکھتے ہیں نو آنے خرچ کر لیتے ہیں مثلاً ایک لاکھ روپیہ اگر ہمارے پاس ہو تو نوے ہزار سے ہم تجارتیں کرتے ہیں اور دس ہزار خزانہ میں پڑا رہتا ہے۔ کبھی گاہک اتنا روپیہ ایک ہی دفعہ آ کر نہیں لیتا۔ میںنے کہا میں تو روپیہ میں سے اٹھنی سے زیادہ خرچ کرنے کی اجازت نہیں دیا کرتا۔ جب ہم قادیان سے نکلے تو یکدم ریلا آ پڑا اور لوگ اپنی اپنی رقمیں واپس لے گئے کیونکہ کسی نے تجارت شروع کر دی اور کسی نے کوئی اور کام شروع کر دیا اور اس کے لئے اُنہیں روپیہ کی ضرورت تھی۔ میری تجویز یہ تھی کہ روپیہ میں سے آٹھ آنے خرچ کرو آٹھ آنے محفوظ رکھو جب لوگ روپیہ واپس لینے آئے تو میں نے کہا ہر ایک کو اُس کا روپیہ دے دو۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خزانہ سے بارہ تیرہ لاکھ روپیہ یکدم نکل گیا لیکن پھربھی ہمارے پاس امانت پڑی رہی۔ غرض امانت رکھنا بڑی مفید چیز ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے لئے تو اللہ تعالیٰ نے امانت کو روزی کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ ہم اپنے پاس امانتیں رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ ہمارا گزارہ چلا رہا ہے۔ ضرورت کے وقت امانت میں سے ہم روپیہ نکالتے ہیں اور خرچ کر لیتے ہیں اور جب روپے والا اپنی رقم واپس لینے آتا ہے تو اُس کے لئے بھی روپیہ موجود ہوتا ہے۔ غرض امانت سے سلسلہ کو بہت بڑی مدد مل سکتی ہے اس لئے میں تحریک کرتا ہوں کہ دوست زیادہ سے زیادہ رقوم امانت تحریک جدید اور امانت صدر انجمن احمدیہ میں جمع کرائیں۔ اگر دوست صحیح طور پر اِس پر عمل کریں تو میرا خیال ہے کہ ہمارے پاس اتنا روپیہ جمع ہو سکتا ہے کہ کسی قسم کا چندہ لینے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے۔ غرض اپنا روپیہ امانت تحریک جدید اور امانت صدر انجمن احمدیہ میں جمع کرانا شروع کر دو اِس سے ہمیں بہت بڑی امداد مل جائے گی۔ اِدھر میں دفتر والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح شہر کا بینک ضرورت کے وقت بغیر کٹوتی کے روپیہ ادا کر دیتا ہے اِسی طرح وہ بھی روپیہ واپس مانگنے پر بغیر کسی کٹوتی کے روپیہ بھیج دیا کریں۔ مثلاً منٹگمری کا ایک آدمی ہے اُس نے اپنے شہر کے بنک میں روپیہ جمع کرایا ہے اُسے جب بھی ضرورت ہوگی وہاں جائے گا اور رقم لے لے گا اور پوری کی پوری لے گا اس پر کوئی منی آرڈر فیس وغیرہ نہیں لگے گی۔ اِسی طرح اگر آپ بھی کریں گے اور روپیہ واپس مانگنے پر بغیر کسی کٹوتی کے دے دیں گے تو روپیہ جمع کرانے والے سمجھیں گے کہ اس میں اور بنک میں کوئی فرق نہیں اور جب کوئی فرق نہیں تو وہ کیوں اپنا روپیہ امانت تحریک جدید یا امانت صدر انجمن احمدیہ میں جمع نہ کرائیں۔ اِس طرح لوگ خوشی سے اپنا روپیہ یہاں جمع کرائیں گے اور کثرت سے کرائیں گے۔ یہ امانت غیر تابع مرضی نہیں ہوگی بلکہ تابع مرضی ہوگی۔ بے شک کوئی صبح جمع کرائے اور دو گھنٹے بعد اپنی رقم واپس لے لے۔ اگر انجمن نے میرا مشورہ مان لیا تو احباب کو بوقت ضرورت بغیر کسی خرچ کے روپیہ واپس مل جائے گا۔ یا ان کے شہر کے بنک کے نام چیک بھجوا دیا جائے گا اور وہاں سے انہیں پوری کی پوری رقم مل جائے گی۔
غرض یہ صورت ایسی ہے کہ بغیر کسی محنت کے اور بغیر کسی خطرے کے روپیہ جمع ہو سکتا ہے اور اُس سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ بظاہر تو آئندہ کوئی خطرہ نظر نہیں آتا مگر پچھلے خطرہ کے وقت بھی جن لوگوں نے روپیہ جمع کرایا تھا ان کا روپیہ بالکل محفوظ رہا تھا اور اس میں بھی خداتعالیٰ نے مجھے ہی کام کرنے کا موقع دیا تھا اور وہ اس طرح کہ بیت المال والوں نے اصرار کیا کہ روپیہ بنک میں محفوظ ہے اور اسے وہیں رہنے دیا جائے لیکن میں نے اصرار کیا کہ روپیہ جلد نکلواؤ۔ اُس وقت ہندوستان سے روپیہ آنے میں کوئی روک نہ تھی۔ خداتعالیٰ کی قدرت ہے جونہی اُنہوں نے روپے واپس منگوائے ہندوستان سے روپیہ آنا بند ہو گیا۔ صرف ۶۰ ہزار روپیہ کی ایک رقم باقی رہ گئی جو میرے مشورہ کے بغیر رہنے دی گئی تھی۔
تیسری صورت قرض ہے اگر جماعت نے امانت کی طرف پوری توجہ نہ دی تو پھر جماعت کی بعض جائدادیں گرو رکھ کر اس کام کے لئے رقم حاصل کی جائے گی۔ میرا ارادہ ہے کہ چندہ کی صورت میں ربوہ کی تعمیر کے لئے کوئی رقم جمع نہ کی جائے بلکہ جماعت کی بعض جائدادیںگرو رکھ کر قرض حاصل کر لیا جائے یا دوست امانت کی صورت میں اِس کام میں مدد دیں۔اگر شہر بن گیا تو آپ لوگوں کے لڑکے یہاں آئیں گے اور تعلیم حاصل کریں گے اُس وقت خداتعالیٰ آپ لوگوں کی جیبوں میں سے کسی اَور صورت میں روپیہ نکال لے لگا۔ مثلاً آپ یہاں آئیں گے تو یہاں کے دُکانداروں سے سَودا خریدیں گے۔ اِس طرح دُکانداروں کی آمدنیں بڑھیں گی اور چندہ میں زیادتی ہوگی۔
اب میں جماعت کے دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مرکز کے قیام سے اِسی صورت میں فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جب وہ بار بار یہاں آئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو لوگ بار بار قادیان آنے کی خواہش نہیں رکھتے وہ اپنے ایمانوں کی فکر کریں۔ بعض لوگوں سے میں نے سنا ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان کہا ہے، ربوہ نہیں کہا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ربوہ نہیں کہا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قادیان کب کہا تھا؟ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مدینہ نہیں کہا تھا تو حضرت نوح علیہ السلام نے مکہ کب کہا تھا؟ یہ تو الٰہی سلسلہ ہے جو لوگ اطاعت میں اپنی گردنیں جھکا دیں گے وہ برکتیں حاصل کریںگے اور جو اپنی گردنیں نہیں جھکائیں گے وہ خود نقصان اُٹھائیں گے، دوسروں کو اس سے کیا نقصان ہو سکتا ہے۔
قادیان سے تعلق رکھنے کے متعلق جو کہا گیا تھا وہ اِسی لئے تھا تا مرکز سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ قادیان سے پہلے مکہ سے بوجہ مرکز ہونے کے فائدہ اُٹھایا جاتا تھا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار قادیان آنے کے لئے جماعت کو تلقین کی تو مخالفین نے کہا دیکھو! اب مکہ کی بھی ہتک ہونے لگی حالانکہ وہ نادان یہ نہیں جانتے تھے کہ مکہ سے فائدہ اُٹھانے کے لئے جب کہا گیا تھا تو اُس کے مرکز ہونے کی وجہ سے کہا گیا تھا۔ اِسی طرح اگر تم میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان کہا تھا ربوہ نہیں کہاتو اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو کچھ تھا قادیان کے مرکز ہونے کی وجہ سے تھا۔ اب تو وہ وہاں رہ گیا۔ اب اگر وہ کالج نہیں ہوں گے جو قادیان میں تھے تو کیا عالم بن جائیں گے؟ پس قطع نظر اِس سے کہ ربوہ مرکز ہے یا نہیں، برکات یہیں ہیں جو اِن برکات سے حصہ نہیں لے گا وہ خود نقصان اُٹھائے گا دوسروں کا اِس سے کیا بگڑے گا۔ پس دوستوں کو یہاں بار بار آنا چاہیے اس سے مشکلات کے حل میں مدد ملے گی۔ جن لوگوں کو فرصت ہو وہ یہاں آئیں اور دفاتر میں کام کریں۔ آخر نیا مرکز بن رہا ہے اور اِس کی تعمیر کے رستہ میں جو مشکلات ہیں اُنہیں بھی ہم نے ہی حل کرنا ہے۔ پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور بار بار یہاں آئیں اور کام میں مدد دیں۔ جن کی تعلیم کا انتظام نہیں وہ یہاں آئیں خود بھی تعلیم حاصل کریں او ربچوں کو بھی تعلیم دلائیں اِس طرح جماعت مضبوط ہوگی۔ پھر یہاں آ کر اجتماعی عبادات سے فائدہ اُٹھائیں۔ اجتماعی دعائیں بہت بابرکت ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی جماعت بہرحال ربوہ میں ہی ہے (اِس سے پہلے سب سے بڑی جماعت قادیان میں تھی) اس لئے اِس جگہ کی عبادت کا فائدہ بہرحال اُس عبادت سے زیادہ ہوگا جو تم اپنے گھروں میں کرتے ہو۔ دوسرے تعمیر میں جتنی مشکلات ہیں اُن کا دوستوںکو علم ہوگا۔ جتنی دلچسپی اس کام میں نواب محمد الدین صاحب مرحوم نے لی ہے باقیوں نے نہیں لی حالانکہ جماعت کے مرکز کو مضبوط بنانا ایسا کام ہے کہ مومن کو اپنے بیوی بچوں سے بھی زیادہ اسے مقدم سمجھنا چاہیے۔
اب میں ایک بات مہاجرین سے بھی کہتا ہوں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھلی دفعہ بھی اور اِس دفعہ بھی میں نے دیکھا ہے کہ اِن کے چہروں پر ایک افسردگی سی طاری ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کیوں ہے؟ دوسرے لوگ مایوس رہیں تو رہیں ہمارا تو ایک زندہ خدا ہے، ہمارے لئے مایوسی اور افسردگی کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی بلکہ مومن تو ہزار بھٹیوں سے بھی گزر کر پھر بھی خوش رہتا ہے۔ میں نے کئی دفعہ واقعہ سنایا ہے کہ ایک جرمن عورت کے سات لڑکے تھے۔ پچھلی جنگ عظیم میں وہ ساتوں کے ساتوں مارے گئے جب اُس کا ساتواں بچہ مارا گیا تو فوج کے کمانڈر نے وزیر جنگ کو اطلاع بھیجی کہ اس عورت کی عزت افزائی کی جائے۔ وزیر جنگ نے قیصر کو بتایا اس نے بھی اسے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا اور کہا میرے نام سے اس عورت کا شکریہ ادا کیا جائے۔ وہ لوگ تو قیصر کو خدا سمجھتے تھے۔ قیصر نے وزیر جنگ سے کہا کہ اُس عورت کو بُلائے اور میری طرف سے شکریہ ادا کرے۔ وزیر جنگ نے اُس عورت کو بُلایا اور بڑا اعزاز کیا اور کہا میں قیصر کی طرف سے تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں تمہارے ساتوں بچے مُلک کی خدمت کرتے ہوئے مارے گئے ہیں۔ انگریز جنگ کے زمانہ میں بھی دوسرے مُلکوںمیں انہی میں سے نامۂ نگار رکھا کرتے تھے جو حالات انہیں بھیجتے رہتے تھے۔ میں ڈیلی کرانیکل اخبار منگوایا کرتا تھا اُس میں لکھا تھا کہ جب وہ عورت باہر آئی نامہ نگار نے لکھا کہ میںبھی وہاں کھڑا تھا وہ ۸۰ سال کی بڑھیا تھی، اُس کے اعصاب کانپ رہے تھے اور اُس سے کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا مگر اس نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر اپنی کمر کو سیدھا کیا اور ایک جھوٹا قہقہہ لگا کر کہا آخر ہوا کیا میرے ساتوں بچے اپنے مُلک کے لئے ہی مارے گئے ہیں۔ دیکھو! وہ بڑھیا ۸۰ سال کی تھی مگر اُس کے اندر یہ احساس تھا کہ آخر ہوا کیا، میرے بچے مُلک کی خدمت کرتے ہوئے مارے گئے ہیں۔ اُس کے بچے تو مُلک کے لئے مارے گئے تھے اور وہ مُلک بچا نہیں لیکن اگر مسلمان مارے گئے ہیں تو اُنہیں ایک مُلک بھی تو مل گیا ہے۔ یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے تمہیں غلامی سے آزاد کر دیا، تمہیں تو اپنی تکلیفوں کا خیال بھی نہیں کرنا چاہیے۔
میں اَوروں کو تو نہیں کہہ سکتا ہاں احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ یہ خیال چھوڑ دو کہ تم لُٹے ہوئے ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن مہاجرین پر افسوس کیا کرتے تھے جو وطن اور جائدادوں کے چھوٹ جانے پر افسوس کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے اُس وقت مدینہ کا نام یثرب ہوا کرتا تھا اور وہاں ملیریا کثرت سے ہوتا تھا۔ ملیریا پھیلنا شروع ہوا تو مہاجرین کو بخار چڑھے اِدھر وطن کی جدائی کا صدمہ تھا ان میں سے بعض نے رونا اور چلانا شروع کر دیا کہ ہائے مکہ ہائے مکہ۔ ایک دن حضرت بلالؓ کو بھی بخار ہو گیا اُنہوں نے شعر بنا بنا کر شور مچانا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آپ خفا ہوئے اور فرمایا کیا تم ایسے کام کے لئے یہاں آئے ہو؟ ۱۹؎ میں بھی تمہیں یہی کہتا ہوں کہ خوش رہو۔ تم یہ نہ دیکھو کہ ہم نے کیا کھویا ہے تم یہ دیکھو کہ ہم نے کس کے لئے کھویا ہے۔ اگر تم نے جو کچھ کھویا ہے وہ خداتعالیٰ کے لئے اور اسلام کی ترقی کے لئے کھویا ہے تو تم خوش رہو اور کسی موقع پر بھی اپنی کمریں خم نہ ہونے دو۔ تمہارے چہرے افسردہ نہ ہوں بلکہ اُن پر خوشی کے آثار پائے جائیں۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مسلمان ایسی حالت میں چلے آ رہے تھے کہ اُنہوں نے گردن نیچے ڈالی ہوئی تھی حضرت عمرؓ نے اُن کی ٹھوڑی پر مکہ مارا اور کہا اسلام کی فتوحات کا زمانہ ہے اور تم اپنی گردن جھکائے پھررہے ہو!! خداتعالیٰ نے اِس وقت اسلام کو حکومت دی ہے دنیا جو چاہے کہے مگر تم تو یقین رکھتے ہو کہ اسلام کو فتح ہوگی۔ اگر تم یقین رکھتے ہو کہ اسلام کو فتح ہوگی تو پھر رونا کیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی ایک لڑکی کا بچہ فوت ہو جایا کرتا تھا۔ جب کئی بچے فوت ہوگئے تو اُس کی والدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس دعا کے لئے آئیں۔ آپ نے دعا کی اور فرمایا کوئی بات نہیں۔ پھر ایک بچہ پیدا ہوا اور فوت ہو گیا۔ وہ پھر دعا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ نے دعا کی اور فرمایا گھبراؤ نہیں بچہ کمزور تھا خداتعالیٰ اسے تندرست کرکے واپس بھیجے گا۔ وہ واپس چلی گئیں پھر تیسرا بچہ پیدا ہوا اور مر گیا تو بیٹی نے والدہ سے کہا جلدی جاؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دعا کراؤ۔ اُنہوں نے جواب دیا میں جب گئی تھی تو آپ نے فرمایا تھا بچے وہاں تندرست ہونے جاتے ہیں اب جانے کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے اُنہیں بچے دیئے اور اب اُن کے بچوں کے بھی بچے ہیں۔ پس میں مہاجرین سے کہتا ہوں کہ تم اپنی اُمنگوں اور امیدوں کو بڑھاؤ اور یہ بات مت بھولو کہ خداتعالیٰ نے تم سے ابھی بہت کچھ کام لینے ہیں جتنا بیج تم ڈالا کرتے ہو تمہیں اتنی ہی کھیتی ملتی ہے مگر میں خداتعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ تمہارا جو کچھ نقصان ہوا ہے، اُس سے بہت زیادہ تمہیں خداتعالیٰ کی طرف سے ملے گا۔ ‘‘(الفضل ۲۶؍ دسمبر ۱۹۶۱ء)
حفاظت مرکز قادیان کے لیے چندہ کی اپیل
اب میں قادیان کو لیتا ہوں۔ قادیان ہمارا مقدس مرکز ہے جو اِس وقت ہم سے کٹا ہوا ہے اور اِس وجہ سے اس کی ذمہ داریوں کو ہم نے ہی ادا کرنا ہے۔ میں نے جماعت میں تحریک کی تھی کہ جن احباب کے پاس جائدادیں ہیں وہ اُن کی قیمت کا ایک فیصدی حفاظت مرکز کے لئے بطور چندہ دیں اور جن کی جائدادیں نہیں وہ ایک ایک ماہ کی آمد دیں۔ اِس تحریک کے جواب میں جو وعدے آئے وہ تیرہ لاکھ روپیہ کے تھے لیکن جو وصولی ہوئی وہ صرف چھ سات لاکھ روپیہ کی ہے۔ گویا چھ سات لاکھ روپیہ ایسا ہے جو ابھی واجب الادا ہے لیکن اب کسی دن آٹھ روپے اور کسی دن دس روپے اِس مد میں وصول ہوتے ہیں اگر وصولی کی یہی رفتار رہی تو غالباً کسی نئے مأمور کے وقت تک بھی یہ رقم جمع نہیں ہوگی۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کیوں ہے میں جب باہر جاتا ہوں تو میرے اِردگرد ایک جمگھٹا سا بندھ جاتا ہے اور لوگ پوچھتے ہیں کہ قادیان کب ملے گا؟ لیکن قادیان سے اُن کی محبت کا یہ حال ہے کہ اُس کی حفاظت کے لئے چندہ کی تحریک کی گئی تو بعض نے وعدہ بھی کیا لیکن وہ وعدہ اب تک پورا نہیں کیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب اِس چندہ کی کیا ضرورت ہے دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتے ہیں کہ مریض تو مر چکا ہے اب علاج کی کیا ضرورت ہے۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس کب ملے گا اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ قادیان کا کام ختم ہوچکا ہے۔ جب قادیان اُن کے نزدیک ختم ہو چکا ہے تو وہ واپس کس طرح مل سکتا ہے لیکن اگر وہ مریض ہے تو پھر اس کے علاج کی کس نے کوشش کرنی ہے۔ آخر قادیان ہمارا ہے اور اس کے علاج کی ہمیں ہی کوشش کرنی پڑے گی غیر تو ایسا نہیں کرے گا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو چندہ ادا کر چکے ہیں مثلاً اُن میں سے ایک میں ہی ہوں۔ میں نے قادیان میں ہی یہ چندہ ادا کر دیا تھا لیکن نصف کے قریب لوگ ایسے تھے جنہوں نے اِس مد میں چندہ لکھوایا تو تھا لیکن یا تو چندہ ادا ہی نہیں کیا یا اُس کا برائے نام ایک حصہ ادا کیا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہوںنے شروع سے ہی کانوں میں سکہ ڈال رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم نے اچھا کیا کہ چندہ نہ دیا کیونکہ قادیان نے ہمارے ہاتھ سے چلے ہی جانا تھا۔ لیکن کیا کسی کا بچہ مر جائے تو وہ یہ کہا کرتا ہے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ میں نے علاج نہیں کیا تھا۔ ایسا کوئی نہیں کہتا اس لئے کہ اُسے بچہ سے محبت ہوتی ہے لیکن تم میں سے بعض ایسا کہتے ہیں اس لئے کہ انہیں قادیان سے محبت نہیں۔ اگر انہیں قادیان سے محبت ہوتی تو وہ ایسا کیوں کہتے۔ میں اُن لوگوں سے جو کہتے ہیں کہ قادیان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اب چندہ کی کیا ضرورت ہے کہتا ہوں کہ یہ چندہ کس لئے تھا؟ آیا تمہاری حفاظت کے لئے تھا یا قادیان کی حفاظت کے لئے تھا؟ اگر یہ چندہ تمہاری حفاظت کے لئے تھا تو پھر اس کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن اگر قادیان کی حفاظت کے لئے تھا تو قادیان اب بھی موجود ہے اور جب تک وہ واپس ہمارے ہاتھ میں نہ آ جائے اُس کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہمارا فرض ہے۔ تم اپنے نفس سے پوچھ لو کہ تم نے کس لئے یہ وعدہ کیا تھا۔ خیروعافیت سے اپنے آپ کو پاکستان پہنچانے کے لئے یا قادیان کی حفاظت کے لئے؟ اگر خیروعافیت سے اپنے آپ کو ہندوستان میں سے لانے کے لئے تم نے اِس چندہ کا وعدہ کیا تھا تو تم کہہ سکتے ہو ہم پاکستان آگئے اب اِس چندہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر تم نے اِس چندہ کا وعدہ قادیان کی حفاظت کے لئے کیاتھا تو قادیان اب بھی موجود ہے اور اس کی حفاظت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
میں جب کوئٹہ گیاتو رستہ میں میری ایک لڑکی رونے لگی وہ کہنے لگی کہ میں نے اس کمرہ میں نہیں رہنا میں نے دوسری والدہ کے پاس جانا ہے۔ (اُس کی اپنی والدہ فوت ہو چکی ہے) چونکہ جگہ محدود تھی اور برابر کی تقسیم کی ہوئی تھی میں نے چاہا کہ اُسے دوسرے کمرہ میں چھوڑ آؤں اور اُس کی جگہ پر کوئی دوسری سواری لے آؤں۔ میں اُس لڑکی کو دوسرے کمرہ میں چھوڑ آیا اور اُس کی جگہ پر اپنی ایک بہو کو لے آیا۔ میں ابھی پلیٹ فارم پر ہی تھا کہ گاڑی چل پڑی۔ ڈرائیور نے غالباً شرارت کی اور گاڑی کو یکدم تیز کر دیا۔ زنجیر کھینچی گئی مگر وہ جام تھی اِس لئے کھینچی نہ جاسکی اِدھر پرائیویٹ سیکرٹری کا عملہ حسب دستور چپ چاپ گاڑی میں بیٹھا رہا۔ میری بیوی اور لڑکی کاچونکہ جسمانی رشتہ بھی تھا اس لئے اُنہوں نے شور مچا دیا دوسرے ڈبہ سے میری بیوی نے زنجیر کھینچنے کے لئے پورا زور لگایا مگر وہ بھی جام تھی اُنہوں نے لڑکی سے کہا تو بھی ساتھ لٹک جاچنانچہ دونوں نے مل کر زور لگایا اور بِالآخر وہ زنجیر کھینچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ جب کوئٹہ پہنچے تو میں نے مذاقاً کہا اب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب تار دیں گے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ہم سب خیریت سے پہنچ گئے ہیں صرف خلیفۃ المسیح پیچھے رہ گئے ہیں۔ تمہارا رویہ بھی ایسا ہی ہے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ہم سب خیریت سے پاکستان پہنچ گئے ہیں صرف قادیان پیچھے رہ گیا ہے اس لئے اب کسی چندہ کی ضرورت نہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ قادیان کے متعلق خداتعالیٰ کیا تدابیر اختیار کرے گا مگر ہماری دلی خواہش یہی ہے کہ خداتعالیٰ ایسا فضل فرمائے کہ قادیان ہمیں جلد سے جلد مل جائے۔
تم میں سے بعض مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ میرا ایک نیا مرکز بنانا قادیان سے بے وفائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قادیان کے لئے اُنہوں نے وہ قربانی نہیں کی جو میں نے کی ہے۔ یہ بات بتا رہی ہے کہ ایسا اعتراض کرنے والے منافق ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اگر میں نئی تحریک کروں تو مخلص لوگ ضرور اس میں حصہ لیں گے اور کئی دوست مجھے تحریک بھی کرتے رہتے ہیں کہ اگر بقایا داران چندہ نہیں دیتے تو آپ نئی تحریک کریں ہم چندہ دینے کے لئے تیار ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ باقی رہنے والا ٹکڑا بہت زیادہ ہے اگر نادہندگان تھوڑی تعداد میں ہوتے تو میں انہیں نظر انداز کر دیتا اتنے بڑے ٹکڑے کو میں خداتعالیٰ کی ملامت کے نیچے لانا پسند نہیں کرتا۔ اگر میں نئی تحریک کر دوں تو یہ لوگ خداتعالیٰ کی ناراضگی کے مورِد بن جائیں گے اور یہ بات میری طبیعت برداشت نہیں کرتی۔
میں جانتا ہوں کہ نادہندگان میں سے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ قادیان کی جنگ چونکہ ختم ہو چکی ہے اس لئے اب کسی چندہ کی ضرورت نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ قادیان کی جنگ اب بھی جاری ہے اور اُس کے لئے ہمیں بار بار قربانی کرنی پڑے گی اور متواتر جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔ وہ لوگ جو اپنی جائدادیں مشرقی پنجاب چھوڑ آئے ہیں اُنہیں یہ کوشش کرنی چاہیے تھی کہ وہ چندہ پہلے ادا کر دیتے لیکن اگر اب وہ اِس حالت میں نہیں کہ چندہ ادا کر سکیں تو کم از کم وہ یہ لکھ کر دے دیں کہ ہماری جائدادیں مشرقی پنجاب میں رہ گئی ہیں اور اب ہم اس قابل نہیں کہ اپنے وعدہ کو پورا کر سکیں۔ اس کے بعد وہ ثواب حاصل کرنے کے لئے اس مد میں خواہ ایک روپیہ ہی چندہ دے سکیں دے دیں یہ چندہ اُن کی جائدادوں کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ بطور اظہارِ عقیدت یہ بتانے کے لئے ہوگا کہ اگرچہ ہم غریب ہیں مگر ہمارا دل غریب نہیں اور اس سے یہ بھی پتہ لگ جائے گا کہ نادہندگان میں سے کتنے ہیں جو وعدہ پورا کرنے سے معذور ہیں۔
ہم نے مغربی پنجاب کے دو ضلعوں لائلپور اور ملتان کا اندازہ لگایا ہے ان میں سے ایک کے ذمہ ابھی ۷۰ فیصدی کے قریب وعدے واجب الادا ہیں اور ایک کے ذمہ ۸۰ فیصدی۔ جب وعدہ کنندگان کو اِس طرف توجہ دلائی گئی تو اُن میں سے بعض نے جواب دیا کہ ہم تو سمجھے تھے کہ کام ختم ہو گیا اِس لئے اب اِس چندہ کی ضرورت نہیں رہی۔ مگر یہ جواب صحیح نہیں تھا کام جاری ہے اور اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک قادیان ہمیں دوبارہ نہیں مل جاتا۔ لیکن جو لوگ اب چندہ دینے سے معذور ہیں اُنہیں کم از کم اپنے کھاتے صاف کرا دینے چاہئیں اور پھر حسب توفیق ایک روپیہ یا آٹھ آنے ہی اگر وہ چندہ دے سکتے ہیں تو حفاظت مرکز کے لئے ارسال کر دیں تا کہ وہ ثواب سے محروم نہ رہیں اور جو اِس طرف کے رہنے والے ہیں اور اُن کی جائدادیں محفوظ ہیں اُن سے میں کہتا ہوں کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور یہ چندہ بہت جلد ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اور وہ کارکن جو چندہ دے چکے ہیں انہیں میں کہتا ہوں کہ تمہارا کام ہے کہ غافل مؤمنوں کو بیدار کرو۔ دفتر سے اپنی جماعت کے وعدوں کی نقول منگواؤ اور لوگوں کے پاس جاؤ اور اُنہیں ادائیگی کی طرف متوجہ کرو۔ یاد رکھو نادہندوں میں سے بعض غافل مؤمن ہیں اور بعض منافق۔ منافق قادیان پر سب سے زیادہ آنسو بہاتا ہے لیکن تم دیکھو گے قادیان کا چندہ اُس کے ذمہ ہوگا اور غافل مومن کبھی مخلصوں کی آواز پر جاگ پڑتا ہے اور کبھی منافقوں کی آواز پر سو جاتا ہے اُس کو جگانا ہمارا فرض ہے اور اُس کا کوشش کرکے جاگنا خود اُس کا فرض ہے سو اگر تم مخلص ہو تو کمزوروں کو جگا کر اُن سے رقم وصول کرو اور اگر تم سست ہو تو استغفار کرکے اپنی غلطی کا ازالہ کرو۔
وقف جائداد اور وقف آمد کی تحریکیں ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی ہیں۔ جن لوگوں نے جائدادیں وقف کی ہوئی تھیں اُنہیں لکھا گیا تھا کہ وہ اپنی جائداد کی قیمت کا ایک فیصدی دیں لیکن چونکہ وہ نازک موقع تھا اور روپیہ کی فوراً ضرورت تھی اس لئے ہم نے کہا کہ دوسرے لوگ جن کے پاس جائدادیں نہیں وہ بھی آئیں اور اپنی ایک ماہ کی آمد دے کر اِس چندہ میں حصہ لیں۔ جس شخص نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے خواہ وقف جائداد کے لحاظ سے خواہ وقف آمد کے لحاظ سے وہ اِس تحریک کا مخاطب نہیں لیکن جس نے چندہ نہیں دیا اُس کے لئے چندہ کا ادا کرنا ضروری ہے۔
(اس کے بعد حضور نے فرمایا
وہ لوگ جنہوں نے چندہ حفاظت مرکز دے دیا ہے وہ کھڑے ہو جائیں (اِس پر وہ دوست جنہوں نے چندہ حفاظت مرکز دے دیا تھا کھڑے ہوگئے اس کے بعد حضور نے فرمایا) اب جنہوں نے یہ چندہ ادا نہیں کیا اُن سے میں کہتا ہوں کہ اگر ان دوستوں نے چندہ دے دیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ تم یہ چندہ نہیں دیتے۔ میں جانتا ہوں کہ جو لوگ بیٹھے رہتے ہیں اُن میں سے ایک ایسی تعداد بھی ہے جو مشرقی پنجاب سے آئی ہے اور وہ اب غربت کی حالت میں ہیں لیکن میں اُن سے کہتا ہوں کہ اگر وہ چندہ ادا نہیں کر سکتے تو اپنا کھاتہ صاف کرا دیں اور دفتر کو اپنی ذمہ داری کی اطلاع دے دیں۔ اور جو اِن کے سِوا ہیں میں اُن سے کہتا ہوں کہ آخر اس غفلت کے معنی کیا ہیں ہمیں دو تین سال کے لئے دو تین لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اور اس کے بعد بھی کچھ رقم کی ضرورت ہوگی اور یہ رقم ہم دوسرے چندوں سے نہیں بچا سکتے۔ حفاظت مرکز کے چندہ کے تیرہ لاکھ کے وعدے تھے اور اب جماعت کچھ بڑھ بھی گئی ہے اس لئے شاید یہ وعدے پندرہ لاکھ تک پہنچ چکے ہوں گے بہرحال نادہندگان پر بہت بڑی ذمہ داری ہے انہیں چاہیے کہ استغفار کریں اور اپنی غفلتوں کو دور کریں لیکن اگر اُنہوں نے اپنی غفلتوں کو دور نہ کیا تو اِن دوستوں سے جو اپنے وعدے ادا کر چکے ہیں میں کہوں گا کہ اگر یہ لوگ نہ جاگیں تو کیا وہ تیار ہیں کہ میں دوبارہ تحریک کروں اور وہ چند دیں؟ (اِس پر سب وعدہ پورا کرنے والوں نے بیک آواز کہا کہ حضور ہم تیار ہیں۔)
(آخر میں حضور نے فرمایا
اب میں ان لوگوں سے جنہوں نے چندہ ادا نہیں کیا کہتا ہوں کہ آپ اپنے بقایا اگلے چھ ماہ میں ادا کر دیں۔ مشرقی پنجاب سے آنے والوں میں سے جنہیں کام مل گئے ہیں یا جائیدادیں مل گئی ہیں اور اب وہ اِس قابل ہیں کہ چندہ ادا کر سکیں وہ بھی اِس میں شامل ہیں۔ اگر اِس مدت کے اندر اُنہوں نے اپنا چندہ ادا نہ کیا تو ہم سمجھیں گے کہ خدا کے مقرر کردہ مرکز سے اُنہیں کوئی محبت نہیں پھر میں دوبارہ تحریک کروں گا جس میں اِن لوگوں کے لئے حصہ لینا قطعاً ناجائز ہوگا۔ اور میں جماعت پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ اپنا فرض ادا کر چکے ہیں وہ یقینا ایک بار پھر یہ ثابت کر دیں گے کہ دنیا میں جہاں فرض ادا نہ کرنے والے لوگ ہیں وہاں اپنے فرض کو ادا کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ (از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
۱؎
۲؎ قل ھل تربصون بنا الا احدی الحسنیین (التوبۃ: ۵۲)
۳؎ بخاری کتاب الجمعۃ باب الانصات یوم الجمعۃ (الخ)
۴؎ بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق والسخاء (الخ)
۵؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۷۸۔ ۲۷۹۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۶؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال (الخ)
۷؎ نزول المسیح صفحہ۴۴۔ حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۴۲۰ حاشیہ+ ذکریا باب ۱۴ آیت ۱ تا ۲۱
برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء (مفہوماً)
۸؎ تذکرہ صفحہ ۷۷۲۔ ایڈیشن چہارم
۹؎ تذکرہ صفحہ۵۹۵۔ ایڈیشن چہارم
۱۰؎ تذکرہ صفحہ۱۹۲۔۱۹۳۔ ایڈیشن چہارم
۱۱؎ تذکرہ صفحہ۵۹۳۔ ایڈیشن چہارم
۱۲؎ تذکرہ صفحہ۴۸۰۔ ایڈیشن چہارم
۱۳؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ وآخرین منھم (الخ)
۱۴؎ تذکرہ صفحہ۱۵۸۔ ایڈیشن چہارم
۱۵؎ ازالہ اوہام صفحہ۷۹۔۸۰۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۱۷۹۔۱۸۰
۱۶؎ کشتی نوح صفحہ۴۸۔۴۹۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۵۰،۵۱
۱۷؎ تذکرہ صفحہ۴۸۵۔ ایڈیشن چہارم
۱۸؎ یٰسین: ۸۳
اسلام اور ملکیت زمین
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
وَالسَّلَامُ عَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
اسلام اور ملکیت زمین
اِس وقت پاکستان اور ہندوستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں میں طاقت حاصل کرنے کے لئے ایک رسّہ کشی جاری ہے۔ دوسرے ملکوں کا تو یہ قاعدہ ہے کہ پارٹیاں بعض اصول کیلئے بنائی جاتی ہیں اور ان اصول کے ماننے والے اُن میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جوں جوں کوئی پارٹی طاقت پکڑتی جاتی ہے وہ اپنے تجویز کردہ اصول کو ملک میں جاری کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شروع شروع میں دوسری پارٹیوں سے مل کر اور جب اُسے اتنا اقتدار حاصل ہو جائے کہ وہ منفردانہ طور پر اپنے اصول کو ملک میں جاری کر سکے تو پھربِلا اشتراک غیرے وہ اپنے تجویز کردہ اصول کو قانون کی شکل میں بدل دیتی ہے لیکن ہندوستانی ممالک میں بد قسمتی سے پارٹیاں پہلے بنتی ہیں اور اصول بعد میں تجویز کئے جاتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان و ہندوستان میں زیادہ تر پارٹیوں کی بنیاد مذہب پر ہے مذہب ابھی تک اس برصغیر میں ایک متحرک اور قوی طاقت ہے۔ عوام الناس کی اکثریت مذہب پر عمل کرے نہ کرے وقتی طور پر اگر جوش میں آتی ہے تو مذہب کے نام سے ہی آتی ہے۔ اِس لئے جب کبھی کوئی تحریک اِس برصغیر میں اُٹھتی ہے تو اِس کا محرک مذہب ہی ہوتا ہے گو شکل اُسے سیاسی دے دی جاتی ہے۔ اور اگر کوئی سیاسی تحریک بھی اُٹھے تو بعد میں وہ مذہبی رنگ اختیار کر جاتی ہے۔ جیسے کانگرس جب ہندوستان میں بنائی گئی تو اُس وقت خالص سیاسی تھی بلکہ خالص تمدنی تھی لیکن آہستہ آہستہ وہ ہندو تحریک بنتی چلی گئی اور مسلمان عناصر اِس سے الگ ہوتے چلے گئے۔ خلافت کی تحریک کے زمانہ میں پھر مسلمان اس میں داخل ہوئے لیکن مجبوری سے یا خوشی سے ایک دو سال کے بعد وہ پھر اس سے الگ ہوگئے۔ ان حالات کا نتیجہ یہ ہوا کہ گو کانگرس حقیقی طور پر ایک سیاسی تحریک بن چکی تھی مگر چونکہ اُس میں ایک بہت بڑی اکثریت ہندوئوں کی تھی ہندو مذہبی رہنمائوں نے اِس کو اپنا آلۂ کار بنا نا آسان امر سمجھا اور ایسے لوگ بھی کانگرس میں شامل ہوگئے جو حقیقتاً سیاسی نقطۂ نگاہ نہیں رکھتے تھے بلکہ مذہبی یا نسلی نقطۂ نگاہ رکھتے تھے۔ حقیقی سیاسی نقطۂ نگاہ رکھنے والے ہندوئوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس دوسرے گروہ کی نجی گفتگوئوں کو سن سن کر مسلمان چوکنے ہوگئے۔ انہوں نے اپنی ایک الگ انجمن بنالی جو مسلم لیگ کہلائی۔ مسلم لیگ کی بنیا دی ضرورت صرف اِتنی تھی کہ ہندوستان کی طاقت پکڑنے والی سیاسی انجمنوں کی کوششوں کے نتیجہ میں ہندوستان کی سیاسی طاقت ہندوئوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ اُن ہندو کہلانے والے لوگوں کے ہاتھ میں نہیں جو در حقیقت سیاسی تربیت رکھنے کی وجہ سے ہندوستانی ہیں ہندو نہیں بلکہ اُن ہندوئوں کے ہاتھ میں جو پس پردہ کانگرس پر اپنا جال ڈال رہے ہیں اور آہستہ آہستہ کانگرس کو اپنا آلۂ کار بنا کر اپنی سکیم کو ملک میں جاری کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کانگرس کی طرح مسلم لیگ کا بھی کوئی معیّن سیاسی پروگرام نہیں ہوسکتا تھا۔ کانگرس کا سیاسی پروگرام یہ تھا کہ ہندوستانیوں کے ہاتھ میں اختیارات آجائیں۔ ابتدائے کار میں اِس کو اِس سے غرض نہ تھی کہ اختیار کن کے ہاتھ میں آئے، قدیم الخیال لوگوں کے ہاتھ میں یا آزاد خیال لوگوں کے ہاتھ میں یا سوشلسٹ لوگوں کے ہاتھ میں یا کمیونسٹ لوگوں کے ہاتھ میں، اُس کا نقطئہ نظر یہ تھا کہ ملک آزاد ہو۔ پھر جو طاقتور ہو اختیارات سنبھال لے۔ مسلم لیگ کا بھی کوئی سیاسی پروگرام نہیں تھا۔ مسلم لیگ کی غرض بھی یہی تھی کہ جب ملک میں طاقت آئے تو مسلمان کو بھی اُس کا حصہ ملے۔ ہندوستانی سے مراد ہندو نہ ہو بلکہ اُسی طرح مسلمان مراد ہو جس طرح ہندو مراد ہو۔ باقی رہا سیاسی پروگرام سو مسلمانوں میں سے جو طاقت اُس وقت غالب ہو وہ اختیارات کو سنبھال لے۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہمارے ملک کا اصلی نظریہ مذہبی ہے اِس لئے لازمی نتیجہ اِن تحریکوں کا یہ ہوا کہ ہندوستانی کی تعریف ہندو سے بدلتی چلی گئی اور مسلم کی جگہ پر اسلام آگے آتا چلا گیا۔ حقیقتاً تو مذہب آگے نہیں آیا لیکن مذہب کو حالات نے آگے دھکیل دیا۔ مجھے اِس سے سروکار نہیں کہ اِس تحریک کے نتیجہ میں ہندو مذہب کو کوئی فائدہ پہنچا یا نہیں یا اسلام کو کوئی فائدہ پہنچا یا نہیں لیکن ظاہری صورت یہی ہو گئی کہ ایک طرف ویدک تہذیب کی بلندی کے نعرے لگنے لگ گئے اور دوسری طرف اسلام زندہ باد کا آوازہ بلند ہونے لگا۔ ہندوئوں کا مذہب چونکہ کسی معیّن صورت میں باقی نہیں، جو لوگ ہندو مذہب کی تائید میں جدو جہد کرنے لگے اُن کی کوششیں بجائے ہندو مذہب کی مضبوطی کے اسلام کی تخریب میں خرچ ہونے لگیں۔ کیونکہ جب کوئی عمارت ہو ہی نہ تو اُس کی مرمت اور اصلاح کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورت میں انسان صرف یہی کر سکتا ہے کہ اپنے مدّمقابل کے مکان کو گرانے کی کوشش کرے۔ لیکن مسلم لیگ کی کوششوں کے نتیجہ میں جو اسلام زندہ باد کے نعرے بلند ہونے لگے اِس سے مسلم عوام کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوگیا کہ اب اسلامی احکام کو اُس علاقہ میں جاری کیا جائے گا جو مسلمانوں کے قبضہ میں آئے گا۔ مسلمان اسلام سے غافل تھا ، مسلمان اسلام کی پابندی چھوڑ چکا تھا ، اکثر مسلمانوں نے قرآن کا نام سنا تھا اُسے کھول کر دیکھا نہیں تھا ، مسجدیں خالی پڑی تھیں ، زکوٰۃ جن جن پر واجب تھی وہ اُس کے دینے سے گریز کرتے تھے ، سُود کا عام رواج ہو رہا تھا ، حج کو وہ لوگ تو نہ جاتے تھے جن پر حج فرض تھا ہاں اُن لوگوں میں سے کچھ تعداد جاتی تھی جن پر حج فرض نہیں تھا لیکن اسلام کی محبت مسلمان میں باقی تھی اُس کی عظمت کا وہ قائل تھا۔ وہ اُس پر متواتر عمل کرنے کو تیار نہ تھا لیکن ہنگامی طور پر اُس پر جان دینے پرآمادہ تھا۔ وہ عملاً تو اسلام پر قائم نہ تھا لیکن اُس کے دل کی گہرائیوں میں یہ احساس موجود تھا کہ اسلام پر عمل کرنا اُس کے لئے دینی و دُنیوی طور پر اچھا ہوگا۔ وہ ایک افیون کے نشہ میں مبتلا آدمی کی طرح جو ایسے گھر میں پڑا ہو جس میں آگ لگ چکی ہو خود اپنی کوشش سے تو اپنی حالت کو بدل نہیں سکتا تھا لیکن اُس کے اندر یہ خواہش ضرور تھی کہ کوئی مجھے اُٹھاکر محفوظ جگہ پر ڈال دے۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ مجھ سے کوئی حکومت جبر اً اسلام پر عمل کروانے لگے۔ غرض قوتِ عمل اُس کی بیکار تھی لیکن ارادئہ نیک ابھی زندہ تھا۔ مسلمانوں میں سے سیاسی اقتدار حاصل کرنے والے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ جس طرح ہندو مسلمانوں کے خلاف کچھ قانون بنا کر اپنی قوم میں سچا ہندو کہلا سکتا ہے اس طرح ہم ہندوئوں کے خلاف کوئی قانون بنا کر سچے مسلمان نہیں کہلا سکتے۔ کیونکہ ہندو مذہب ایک خیالی چیز ہے اسلام ایک حقیقت ہے۔ خیالی معشوق اور حقیقی معشوق میں فرق ہوتا ہے۔ ایک شاعر اپنے خیالی معشوق کی موجودگی میں دنیا کے سارے کام کرتا ہے مگر ایک نوجوان حقیقی عشق کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد دنیا کے سب کاموں سے محروم ہو جاتا ہے پس مسلمانوں کے سیاسی رہنمائوں میں سے جو مذہبی رنگ رکھتے تھے اُنہوں نے تو اپنے جذبات کے ماتحت یہ فیصلہ کر لیا کہ پاکستان میں کسی نہ کسی رنگ اسلامی قانون جاری کرنا ہوگا اور جو مذہبی رنگ نہیں رکھتے تھے اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ پاکستان میں جو بھی قانون جاری کیا جائے اُسے اسلامی رنگ دینا ضروری ہوگا خواہ ہو بھیڑیا مگر بھیڑ کی کھال اُسے پہنانا ضروری ہے ورنہ عوام الناس مسلمان اُسے قبول نہ کریں گے۔
یہ مختلف خیالات کے لوگ مسلم لیگ میں یا دوسری اسلامی سوسائٹیوں میں ہنگامی طور پر اِس لئے شامل ہوگئے تھے کہ ہندو مسلمان میں کشمکش پیدا ہو رہی تھی اور وہ بھی مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے اِس کشمکش کے اثرات سے بچ نہیں سکتے تھے۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو مختلف لوگوں کے مختلف سیاسی نظریے پھر روشن ہونے لگے، پھر ان کے مٹے ہوئے نقوش اُبھرنے لگے لیکن اُنہوں نے دیکھا کہ پاکستان کی جنگ اسلام ہی کے نام سے لڑی گئی ہے اور اِسی کے نام کی برکت سے فتح کی گئی ہے۔ اور پھر انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ اسلام ایک معین اور ایک مفصل تعلیم رکھتا ہے اِس کو با لکل پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا۔ محض سیاسی نظریوں کو پیش کر کے اِس کا اثر مسلمانوں کے دلوں سے محو نہیں کیا جا سکتا پس اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عوام الناس اسلام کے نام پر جان دیتے ہیں مگر قرآن و حدیث کو نہ انہوں نے پڑھا نہ اُس کی تعلیم انہیں معلوم ہے اس لئے اپنے نظریوں کا نام اسلام رکھ دو اور یہ شور مچا دو کہ اسلامی تعلیم کو پاکستان میں جاری کرنا چاہیے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عوام الناس کے جوش بھڑکیںگے نہیں۔ جہاں تک اس تعلیم کو لوگوں میں مقبول عام کیا جاسکے گا وہ تعلیم بغیر مذہبی مخالفت کے پاکستان کے سیاسی پروگرام کا جزو بن جائے گی۔ یہ مرض اتنی بڑھی کہ پاکستان کے کمیونسٹ بھی ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ اپنی نجی گفتگوئوں میں وہ اسلام پر تمسخرے اُڑاتے ہیں اور اسلام کو ایک فرسودہ مذہب قرار دیتے ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر سٹالن ان کے نزدیک زیادہ شان رکھتا ہے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) اور اسلام سے کمیونزم کے اصول ان کے نزدیک زیادہ شاندار ہیں لیکن کمیونزم کے معروف اصول کے ماتحت وہ کمیونسٹ تعلیم کو اسلامی تعلیم قرار دے کر پاکستانی عوام میں اِس کو مقبول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ اس کی ظاہری شکل ایسی ہے کہ موجودہ اکثریت اِس کے حق میں چلی جاتی ہے اس لئے اسلام کے نام کی وجہ سے عوام الناس اِن کے بعض اصول کو اپنا لیتے ہیں اور جب دوسرے سیاسی لیڈر یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں فلاں نظریہ عوام میں بہت مقبول ہو گیا ہے تو وہ بھی اس نظریے کو اپنانا اپنی کامیابی کے لئے ضروری سمجھ لیتے ہیں۔چنانچہ ایسے ہی مسائل میں سے ایک ملکیتِ زمین کا مسئلہ ہے ۔
کمیونسٹ تحریک نے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ شامل ہو کر یہ آواز بلند کرنی شروع کی ہے کہ زمین کی ملکیت کے متعلق ہمارے ملک میں اصلاح کی ضرورت ہے اور جو اصلاح انہوں نے تجویز کی ہے وہ تفصیلاً وہی ہے جو کمیونزم نے تجویز کی ہے لیکن پاکستان کے عوام الناس کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے اس کا نام اسلامی اصلاح رکھا گیا ہے۔ بعض نے تو اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر ایسی شکل دینے کی کوشش کی ہے کہ لوگ اس تحریک کو اسلامی ہی سمجھیں۔ بعض نے بعض اصولی آیات یا احادیث کولے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کے تعامل کو بالکل نظر انداز کر کے کچھ نئے معنی ان آیات اور احادیث کو دے دئیے ہیں جن سے ان کے نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے اور بعض نے بعض دوسرے طریقے اختیار کئے ہیں جن کی تفصیل میں پڑنے کا یہ موقع نہیں۔ اس پروپیگنڈا سے متأثر ہو کر مسلم لیگ نے بھی زمیندارہ سسٹم کی اصلاح کے متعلق مختلف جگہوں پر کمیٹیاں مقرر کیں۔ بعض جگہ حکومت کے انتظام کے نیچے اور بعض جگہ صرف مسلم لیگ کے انتظام کے نیچے اس مسئلہ پر غور کیا گیا۔ پنجاب، سندھ، صوبہ سرحد اور ایسٹ بنگال میں ایسی کمیٹیاں بنی ہیں اور اُنہوں نے اپنی رپورٹیں پیش کی ہیں اور ان رپورٹوں پر غور کرنے کے بعد مرکزی مسلم لیگ نے بھی ایک کمیٹی مقرر کی ہے جس کی رپورٹ پر غور کرنے کے لئے پھر اس نے ایک اور سب کمیٹی مقرر کی اور اس سب کمیٹی کی رپورٹ پر مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے زمیندارہ اصلاح کے متعلق کچھ اصول تجویز کر کے صوبجاتی حکومتوں کو توجہ دلائی کہ ان اصول کو اپنے ملک میں جاری کرنے کی کوشش کریں۔
مسلم لیگ جس نتیجہ پر پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ زمینداری اور جاگیرداری کو جلد ختم کیا جائے۔ مرکزی مسلم لیگ کے بعض ممبروں یا صوبجاتی مسلم لیگوں کے بعض ممبروں میں اگر کوئی اختلاف ہے تو اِس بارہ میں ہے کہ ان دونوں چیزوں کو کس شکل میں ختم کیا جائے یا کس حد تک ختم کیا جائے۔ یعنی کتنی زمین کسی کے پاس رہنے دی جائے یا کتنی قیمت کسی کو دی جائے لیکن اس پر سارے متفق ہیں کہ زمینداری اور جاگیرداری کو ختم کرنا چاہیے۔
جہاں تک حکومت کے نمائندوں کے فیصلوں کا تعلق ہے مجھے اُس پر بحث کرنے کی نہ ضرورت ہے نہ میں اس کا اہل ہوں کیونکہ سیاسی امور سیاسی لوگوں پر ہی چھوڑ دینے چاہئیں۔ اگر ملک کی اکثریت کوئی قانون بنائے تو اقلیت کا فرض ہے کہ وہ اُس قانون پر عمل کرے۔ ہاں اگر مناسب سمجھے تو آئینی طریقوں سے اس کے بدلوانے کی کوشش کرے۔ پس جہاں تک قانون کا سوال ہے ایک پاکستانی شہری ہونے کے لحاظ سے مجھے حق تو پہنچتا ہے کہ میں اس پر رائے زنی کروں لیکن بوجہ ایک مذہبی آدمی ہونے کے میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ کے اِس حصہ کو میں سیاسی لوگوں پر ہی چھوڑ دوں۔ مگر ایک بات ایسی ہے جس کے متعلق خاموشی کو میں جائز نہیں سمجھتا اور وہ یہ کہ اسلام کے نام پر کوئی ایسی بات کہی جائے جو اسلام سے ثابت نہ ہو۔ اگر ایسا ہو تو پھر ہر مذہبی آدمی کا فرض ہے کہ وہ اُس وقت اسلام کی تعلیم کو واضح کر دے۔ اس وضاحت کو ماننا یا نہ ماننا یہ دوسرے آدمی کا کام ہے لیکن اس کا واضح کر دینا ایک مذہبی آدمی کا فرض ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو خدا تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے سامنے جواب دِہ ہو گا۔
یاد رکھنا چاہیے کہ زمینداری کا طریق اسلام کے بعد جاری نہیں ہوا بلکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے یہ طریق دنیا میں کسی نہ کسی رنگ میں رائج چلا آتا ہے۔ عرب بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک ویران ملک تھا اور اس کی آبادی چند لاکھ افراد پر مشتمل تھی بوجہ صحرائوں اور بیابانوں کی کثرت کے اس میں کھیتی باڑی کم ہوتی تھی مگر پھر بھی کچھ ٹکڑے ایسے تھے جو بہت زرخیز تھے اور ان ٹکڑوں کی آبادی کے لئے چھوٹے چھوٹے قصبے یا شہر ان کے گرد بن گئے تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ فرمایا تو اُس وقت ایسے قصبے اور شہر موجود تھے۔ مکہ مکرمہ کے ہمسایہ میں طائف کا علاقہ زمیندارہ علاقہ تھا، طائف سے چل کر مکہ سے آٹھ دس میل کے فاصلہ تک کھجوروں کے باغات اور کھیتوں کا سلسلہ ممتد تھا اور مکہ کے امراء ان باغوں یا کھیتوں کو خرید کر اپنے لئے گزارہ کی صورتیں پیدا کیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا مجمل اشارہ ملا تو آپ نے اُسی وقت ایک رؤیا کی بناء پر جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ آپ ایک کھجوروں والے علاقہ میں ہجرت کرکے گئے ہیں یہ سمجھا کہ طائف اور مکہ کے درمیان جو نخلہ مقام ہے اور جہاں کھجوروں کے بہت سے باغ ہیں شاید آپ ہجرت کر کے وہاں تشریف لے جائیں گے۔ آپ کا وہ اہم سفر جو طائف کی طرف آپ نے اختیار فرمایا وہ بھی اسی تعبیر کے نتیجہ میں تھا۔ آپ نے خیال فرمایا کہ اگر نخلہ ہی وہ مقام ہے جدھر آپ کو ہجرت کرنی ہوگی تو غالباً طائف کے لوگ آپ پر جلد ایمان لے آئیں گے لیکن خداتعالیٰ کے علم میں وہ مقام نخلہ نہ تھا بلکہ مدینہ منورہ تھا۔۱؎ اس لئے طائف کے لوگوں نے بجائے ایمان لانے کے آپ پر پتھر برسائے اور آپ کو سخت ایذائیں دیں۔۲؎ یمن بھی ایک زرعی ملک ہے، دارلہجرت مدینہ منورہ بھی ایک زرعی علاقہ ہے، بحرین کا علاقہ بھی زرعی ہے اور کئی دوسرے عرب علاقے بھی زرعی ہیں۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کے وقت عرب میں زراعت کی جاتی تھی۔ لوگ زمینوں کے مالک تھے، بڑے مالک بھی اور چھوٹے مالک بھی، اِس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام کے سامنے یہ مسئلہ نہیں آیا اس لئے اس نے اس مسئلہ کے متعلق کوئی روشنی نہیں ڈالی یا اس کے متعلق کوئی تفصیلات بیان نہیں کیں۔ ہمارے نزدیک تو اسلام خداتعالیٰ کا بھیجا ہوا مذہب ہے اور خداتعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ آئندہ آنے والے امور کے متعلق بھی قرآن کریم میں راہنمائی فرماتا ہے لیکن بعض مادی خیال کے لوگ ایسی دلیلیں بعض دفعہ پیش کر دیا کرتے ہیں کہ فلاں بات اسلام کے وقت میں نہیں تھی اس لئے اسلام میں اس کے متعلق اس تعلیم کا ملنا مشکل ہے۔ ایسے لوگوں کا منہ بند کرنے کیلئے میں کہتا ہوں کہ زمین کی ملکیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پائی جاتی تھی اور یہ سوال پوری طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا۔ پس ایسا سوال جو آپ کے سامنے آیا، ایسا معاملہ جو خود آپ کی ذات سے گزرا اور آپ کے صحابہؓ کے ساتھ پیش آیا اُس کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ اسلام نے اس کے بارہ میںکوئی تعلیم نہیں دی یہ گویا اِس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ اسلام ایک نا مکمل مذہب ہے بلکہ ناقص مذہب ہے جس نے آئندہ زمانوں کے مسائل کو تو کیا حل کرنا تھا اپنے زمانہ کے اہم مسائل کو بھی اِس نے نہ حل کیا نہ چھیڑا( نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ)
اگر اسلام نے اِس مسئلہ کے متعلق کوئی روشنی نہیں ڈالی تو بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہؓ نے زمینوں کے متعلق کوئی نہ کوئی طریق عمل تو اختیار کیا ہوگا کیونکہ اسلام کی حکومت میں زمیندار بستے تھے ، اور زمینداروں اور ان کے مزارعوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے تھے اور تصفیہ کے لئے وہ حکام کے سامنے پیش بھی ہوتے رہتے تھے۔ اگر نَعُوْذُبِاللّٰہِ اسلام نے کوئی تعلیم نہیں دی تھی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ نے کوئی عقلی فیصلہ اسلامی اصول کی روشنی میں اس بارہ میں ضرور کیا ہوگا۔ اور اگر ایسا کوئی فیصلہ کیا تھا تو وہ فیصلہ ہزاروں ہزار مسلمانوں کے عمل میں بھی آیا ہوگا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی چونکہ زمین تھی آپ کے عمل میں بھی آیا ہوگا۔آپ کے خلفاء کے پاس بھی زمین تھی ان کے عمل میں بھی آیا ہوگا۔ آپ کے صحابہ ؓ میں سے حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ، حضرت علی ؓ، حضرت زبیر ؓ اور بہت سے اکابر صحابہؓ کی زمینداریوں کا ثبوت حدیثوں اور تاریخوں سے ملتا ہے اور انصار تو قریباً سب کے سب زمیندار تھے ان لوگوں کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا لائحہ عمل پیش کیا تھا؟ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی خیبر کی فتح کے بعد زمین آگئی تھی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے کیا طریق عمل پسند فرمایا تھا؟ اس سوال کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ہمارے لئے اتنا ہی کافی نہیں کہ ہم قرآن کریم کی بعض آیات کا غلط یا صحیح مفہوم نکال کر ایک قانون بنا دیں بلکہ ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ قرآن کریم کی اس آیت کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا معنی کئے اور اس پر کس شکل میں عمل کیا۔ کیونکہ یہ مسئلہ صرف اعتقادی نہیں کہ اسے صرف اصولی احکام سے حل کیا جائے بلکہ عملی ہے جس کی تفصیلات پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عمل کیا اور دوسروں سے عمل کروایا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صاف طور پر فرماتا ہے۔ ۳؎ یعنی تو ہمارے پہلے بھیجے ہوئے بزرگوں کے طریق پر عمل کر۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ جب تک قرآن کریم کا کوئی حکم نازل نہیں ہوتا تھا آپ تورات کے بتائے ہوئے طریق اور انبیائے سابق کے عمل کی اتباع فرمایا کرتے تھے۔ مثلاً قبلہ کا مشہور مسئلہ ہے۔ جب تک قبلہ کے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ آپ خانہ کعبہ کی اُس سمت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے جس سمت میں خانہ کعبہ بھی آپ کے سامنے آجاتا تھا اور بیت المقدس کی مسجد بھی آپ کے سامنے آجاتی تھی۔ اِس ذریعہ سے آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت پر بھی عمل کر لیتے تھے اور بنی اسرائیل کے انبیاء کی سنت پر بھی عمل کر لیتے تھے۔ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو چونکہ مدینہ منورہ بیت المقدس اور مکہ مکرمہ کے درمیان میں ہے اور دونوں طرف ایک ہی وقت میں منہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے آخری زمانہ کے انبیاء کا احترام کرتے ہوئے آپ نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع کردی لیکن بعد میں قرآن کریم میں قبلہ کا حکم نازل ہوگیا اور پھر آپ نے خانۂ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی شروع کر دی۔۴؎
اِسی طرح اور بہت سے مسائل ملتے ہیں جن میں رسول کریم ﷺ نے احکامِ قرآنیہ کے نزول سے پہلے بنی اسرائیل کے انبیاء کے طریق کو اختیار کئے رکھا اور تاریخ اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ بِالارادہ یہ کام کرتے تھے۔ پس جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم ہے کہ جہاں اور جب تک کوئی نص نہ ملے پُرانے انبیاء کے طریق کو اختیار کر لیا کرو تو کیا یہ بات خیال میں آسکتی ہے کہ اگر بِالفرض کوئی نص قرآن کریم میں موجود نہیں تو ایک مسلمان کو یہ اجازت ہے کہ وہ اپنی عقل سے اپنے لئے رستہ تجویز کرے اور رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے طریق عمل کو نہ دیکھے۔ خدا تعالیٰ نے اپنی فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اور اطاعت بھی واجب کی ہے اور میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کرتے تھے وہ کلی طور پر اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت کرتے تھے لیکن فرض کرو کسی کا یہ عقیدہ نہیں تو بھی اُس کو یہ ماننا پڑے گا کہ اگر کسی معاملہ میں اُس کو قرآنی ہدایت نہیں ملتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور آپ کے ارشاد میں سے اسے اسلام کی اصولی تعلیم کا صحیح مفہوم ملے گا۔ اِس تمہید کے بعد جاگیرداری اور زمینداری کے متعلق جو مختلف سوال پیدا ہوسکتے ہیں یا ہوئے ہیں ان کے متعلق میں قرآن کریم اور حدیث اور ائمۂ اسلام کی تعلیم اور ان کا تعامل پیش کرنا چاہتا ہوں تا مسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ اسلام کی رائے اس مسئلہ کے متعلق کیا ہے اور کوئی بات اسلام کے نام سے ایسی نہ کہی جائے جس کو اسلام نے پیش نہیں کیا۔
پہلا باب
اِسلام نے ملکیّتِ اشیاء کے متعلق کیا قانون مقرر کئے ہیں؟
دنیا میں بہت سے جھگڑے اِس بناء پر پیدا ہوتے ہیں کہ ملکیت اشیاء کس کی ہے؟ بعض ملکیت حکومت کا حق سمجھتے ہیں، بعض قوم کا، بعض خاندان کا اور بعض فرد کا۔ اور پھر ملکیت کے بعد تصرف اور کسی چیز سے نفع حاصل کرنے کے متعلق بھی وہ اختلاف رکھتے ہیں۔ بعض مقبوضہ چیزوں سے نفع اُٹھانے کے غیر محدود حق کو تسلیم کرتے ہیں اور بعض لوگ محدود حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسلام نے اِس بارہ میں جو تعلیم دی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۵؎ یعنی اللہ ہی ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے ان سب کو چھ زمانوں میں پیدا کیا اور پھر وہ عرش پر قائم ہو گیا۔
دوسری جگہ اِسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۶؎ یقینا تمہارا ربّ وہ اللہ ہے جس نے کہ آسمانوں اور زمین کو چھ زمانوں میں پیدا کیا۔ پھر تمام مخلوق کا انتظام کرتے ہوئے وہ عرش پر قائم ہو گیا۔ یہ مضمون قرآن کریم میں مختلف جگہ پر آیا ہے۔ مثلاً سورئہ لقمان میں، سورئہ زخرف میں، سورئہ زمر میں، سورئہ ہود میں، سورئہ حدید میں اور مختلف اَور سورتوں میں۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان اور جو کچھ اِن میں ہے سب اللہ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے اس لئے اُسی کو حق ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے متعلق کو ئی قانون بنائے اور اس مخلوق کا نظام چلانے کے متعلق کوئی اصول تجویز کرے۔ اِس مضمون کی مزید تشریح کیلئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۷؎ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ جس نے زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ تم سب کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے۔ اِس آیت میں اِس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ زمین میں جو کچھ ہے وہ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے بنایا گیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے زمین اور اُس کے ساتھ کی متعلقہ چیزوں کو خدائی قانون کے مطابق فائدہ اُٹھانے کے لئے انسان کو بحیثیت مجموعی بخش دیا ہے۔ اسلام کے مختلف احکام اِسی مسئلہ کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ مثلاً جب جانور ذبح کیا جاتا ہے تو کہی جاتی ہے۔ جس میں اِس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ جانور اصل میں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اُس کی اجازت سے میں اِسے ذبح کر رہا ہوں۔ ہر چیز کے کھانے سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ اس کے بھی یہی معنی ہو تے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ کی اجازت سے اِس کھانے کو استعمال کرنے لگا ہوں۔ یہ کھانا اصل میں اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اور کھانے کے بعد کہی جاتی ہے۔یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسے انسان کو کوئی تحفہ دیتا ہے تو اُس کے مقابلہ میں جَزَاکُمُ اللّٰہُ کہا جاتا ہے۔ کے معنی ہیں سب تعریف اللہ ہی کی ہے یعنی یہ تحفہ بھی خدا نے ہی دیا ہے اور باقی سب چیزیں جو مجھے ملتی ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہیں۔ اِسی طرح جب جانور پر سواری کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ۸؎ یعنی یہ جانور بھی اصل میں خدا کا ہے اور اُسی نے مجھے دیا ہے تاکہ میں اس سے فائدہ اُٹھائوں۔ تسخیر کے ایک معنی عربی زبان میں یہ بھی ہوتے ہیں کہ کسی کو مفت فائدہ اُٹھانے کے لئے کوئی چیز دینا۔ ۹؎ پس اس حکم کے معنی یہی ہیں کہ انسان جب کسی جانور سے فائدہ اُٹھائے تو اقرار کرے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور یہ عارضی طور پر مجھے فائدہ اُٹھانے کے لئے دیا گیا ہے۔
غرض مختلف احکامِ شریعت کو اوپر بیان کئے ہوئے مضمون کی تشریح کے طور پر اسلام نے بیان کیا ہے اور بار بار ایک مسلمان کے ذہن میں یہ بات راسخ کی گئی ہے کہ ملکیت اشیاء اللہ تعالیٰ کی ہے اِس لئے کہ اُس نے اِن چیزوں کو پیدا کیا ہے اور جو پیدا کرتا ہے وہی چیز کا مالک ہوتا ہے دوسرا مالک نہیں ہوتا۔ دوسرے کی ملکیت مستعار ہوگی یعنی مالک کے دیئے ہوئے حقوق کے مطابق اُس کو حقوق حاصل ہونگے اُس سے زیادہ نہیں۔
اب رہا یہ سوال کہ کیا خدا تعالیٰ کلّی طور پر کسی کو ملکیت دے دیتاہے؟ تو اس کا جواب بھی قرآن کریم میں بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ سورئہ نحل میں فرماتا ہے۔ ۱۰؎ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے پس وہ جن کو دوسروں پر رزق میں فضیلت حاصل ہے وہ اپنے غلاموں کو اس طرح اپنے مال کا مالک نہیں بناتے کہ وہ غلام اُن کے ساتھ ملکیت میں برابر کے شریک ہو جائیں۔ پھر کیا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں؟ یعنی جو لوگ یہ تعلیم پھیلاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی بعض مخلوق فرشتے، جن یا بُت یا انسان خدائی طاقتیں رکھتے ہیں اور جب اعتراض کیا جائے تو یہ جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طاقتیں ان کے سپرد کردی ہیں ہم اُن سے یہ کہتے ہیں کہ کیا کبھی تم نے بھی ایسا کیا ہے کہ اپنے مالوں میں اپنے غلاموں کو برابر کا شریک کر لو؟ اگر تم نے کبھی ایسا نہیں کیا تو تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کیونکر خیال کرتے ہو کہ وہ اپنی مملوکہ اشیاء میں دوسروں کو برابر کا شریک کر لے گا۔ اِس قسم کا خیا ل تو تبھی آسکتا ہے جبکہ انسان دل میں یہ سمجھتا ہو کہ اصل میں یہ دُنیا خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ نہیں کچھ دوسری ہستیوں کا بھی اِس کے پیدا کرنے میں دخل ہے اور اس لئے وہ اس کی مالک ہیں۔اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کلّی ملکیت کبھی کسی دوسرے کو نہیں دیتا۔ اصل ملکیت ہر چیز کی اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے دوسروں کی طرف ایک محدود ملکیت منتقل کی جاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اسلام کے نزدیک تمام مخلوقات کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ ملکیت اُس کو بوجہ مخلوقات کا خالق ہونے کے حاصل ہوئی۔ جبر یا ورثہ سے نہیں ملی یعنی یہ ملکیت اس کی خالص اور منصفانہ ہے۔ اِس میں کسی اور کی ملکیت کا حق غصب نہیں کیا گیا نہ کسی سے حق مستعار لیا گیا ہے۔ ہاں آگے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو بہت حد تک زمین اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزوں کی ملکیت بخش دی ہے اور جیسا کہ دوسری آیات سے پتہ لگتا ہے ایک حد تک زمین سے باہر کی اشیاء پر بھی اس کو فائدہ اُٹھانے کا حق بخشا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۱؎ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے فائدہ کے لئے آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے سب کا سب تمہیں مفت فائدہ اُٹھانے کے لئے عطا فرمایا۔ اس میں سوچنے والے لوگوں کے لئے بڑے بھاری نشانات ہیں۔
اس آیت میں دو باتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ زمین میں جو کچھ ہے وہ تو ظاہری طور پر انسان کے سپرد ہے ہی مگر زمین کے اوپر اور بلندیوں میں جو کچھ ہے اس سے بھی انسان فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور اُٹھاتا ہے اور یہ بات شریعت یا اسلام کے خلاف نہیں۔ دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ انسان کو اپنی علمی ترقی میں صرف زمینی چیزوں پر غور کرنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ انسان کی ایجاد کا سلسلہ آسمانی چیزوں تک ممتد ہے۔ نظر آنے والی روشنی کی شعاعیں اور نہ نظر آنے والی شعاعیں اور آسمانی ستاروں کی سرگرمیاں اور اَور کئی چیزیں معلوم اور غیرمعلوم اَن گنت ایسی ہیں جن کو انسان غور کر کے معلوم کر سکتا اور اپنے فائدہ کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ پس انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے صرف زمین پر ہی قبضہ نہیں ملا بلکہ زمین سے پیدا ہونے والی یا ان سے پیدا ہونے والی تمام چیزوں پر قبضہ ملا ہے اور ان سب چیزوں کو استعمال کرتے وقت انسان خدا تعالیٰ کا اجیر ہوتا ہے،کامل مالک نہیں ہوتا۔ حتیّٰ کہ جس دماغ سے انسان کام لیتا ہے اُس کا مالک بھی خُدا ہے۔ اور اس سے فائدہ اُٹھاتے وقت بھی انسان اپنی کامل ملکیت کی چیز سے فائدہ نہیں اُٹھا رہا ہوتا بلکہ خداتعالیٰ کی مشروط طور پر دی ہوئی چیز سے ایک مشروط حد تک اور مقید حد تک فائدہ اُٹھا رہا ہوتا ہے۔ اور جس طرح زمین کی تمام چیزیں تمام بنی نوع انسان کی ملکیت ہیں اِسی طرح ان سے آگے نکلی ہوئی تمام چیزیں بھی تمام بنی نوع انسان کی ملکیت ہیں حتی کہ خود تمام انسان بھی ایک رنگ میں تمام بنی نوع انسان کی ملکیت ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو اسلام کیوں تمام بنی نوع انسان کے ذمہ یہ خدمت لگاتا کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کی خدمت کریں۔
در حقیقت یہ ملکیت کا مسئلہ قرآن کریم نے صرف ایک اعتقادی مسئلہ کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ اسلامی احکام کی اس میں تشریح اور توضیح کی ہے۔ اسلام کہتا ہے سچ بولو اور اسلام کہتا ہے لوگوں سے سچ بلوائو۔ ایک انسان کہہ سکتا ہے کہ مجھے یہ حکم کیوں دیا جارہا ہے۔ آخر خدا کو اس سے کیا واسطہ ہے؟ خدا تعالیٰ اِس کا جواب یہ دیتا ہے کہ یہ دنیا بھی مَیں نے پیدا کی، دوسری مخلوقات بھی میں نے پیدا کیں اور تم کو بھی میں نے پیدا کیا ہے۔ جس طرح دنیا کا ہر ذرہ میں نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے تم کو میں نے دنیا کی باقی مخلوق کے لئے پیدا کیا ہے۔ جس طرح کہہ کر باقی مخلوق کو تمہاری ملکیت بنایا گیاہے اسی طرح اِس فقرہ سے تم بھی تو دوسرے انسانوںکے مملوک ہو جاتے ہو۔ کیونکہ تمام انسان بھی میں شامل ہیں۔پس جس طرح زمین کا ہر ذرّہ تمام نوعِ انسان کیلئے ہے اِسی طرح زمین کا ہر فرد تمام بنی نوع انسان کیلئے بلکہ ساری مخلوقات کیلئے ہے اور یہ ملکیت درحقیقت ایک غیر متناہی دائرہ کی صورت میں اِس دنیا میں قائم کی گئی ہے۔ اس وجہ سے ہر ذرّہ اور ہر فرد پر خدا تعالیٰ کی طرف سے حق ہے کہ وہ دوسرے ذرّات اور دوسرے افراد کی خدمت کرے۔ اسلام کی ساری تعلیم اِسی نکتہ کے ماتحت ہے اِس سے باہر نہیں۔ دوسرے مذاہب نے بھی خدمتِ خلق وغیرہ کے مسائل بیان کئے ہیں لیکن اُنہوں نے اِن مسائل کے جواز کی کوئی صورت پیش نہیں کی۔ اسلام نے اِس حقیقت کو بیان کر کے ان تمام احکام کے جائز اور درست ہونے کی دلیل مہیا کردی ہے۔ ہاں یہ بھی قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ یہ تمام باہمی ایک دوسرے پر ملکیت کے حقوق خدا تعالیٰ کے بیان کردہ قواعد کے ماتحت ہونگے اُن سے باہر نہیں ہونگے کیونکہ ملکیت خدا تعالیٰ کی ہے کسی اَور کی نہیں۔ اور جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اللہ تعالیٰ نے جنسی ملکیت کے علاوہ جو تمام بنی نوع انسان کو دنیا کی تمام اشیاء پر حاصل ہے فردی ملکیت کو بھی تسلیم فرمایا ہے۔ جیسا کہ خود فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت دی ہے۔ اگر فردی ملکیت مسَلَّم نہیں تو کسی شخص کو دوسرے پر رزق میں جائز طور پر فضیلت حاصل ہی نہیں ہو سکتی۔
میں نے جو اِن آیات کی تشریح کی ہے میری اِس تشریح کے ساتھ پُرانے ائمہ بھی متفق ہیں۔چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ جلد۲صفحہ۹۲ پر تحریر فرماتے ہیں:۔
ان الکل مال اللّٰہ لیس فیہ حق لاحد فی الحقیقۃ لکن اللّٰہ تعالی لما اباح لھم الانتفاع بالارض وما فیھا وقعت المشاحۃ فکان الحکم حینئذ ان لا یھیج احد مما سبق الیہ من غیر مضارۃ فالارض المیتۃ التی لیست فی البلادو لافی فناء ھا اذا عمرھا رجل فقد سبقت یدہ الیھا من غیر مضارۃ۔ ۱۲؎
یعنی جو کچھ بھی اِس دنیا میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا مال ہے۔ حقیقی ملکیت اس میں کسی اَور کو حاصل نہیں لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زمین اور جو کچھ اس میں ہے اُس سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت دی ہے اس لئے بوجہ ملکیت کی مشارکت کے اعلان کے باہمی اختلافات کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ پس اِس مخالفت کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ جو شخص کسی دوسرے فرد کے حق کو نقصان پہنچائے بغیر کسی چیز پر پہلے قبضہ کر لے وہ اُسی کی ملکیت سمجھی جائے گی۔ چنانچہ وہ زمین جو شہری حدود میں نہ ہو اور نہ شہر کے گرد کے علاقہ میں ہو اور کسی کے قبضہ میں نہ ہو جب اُسے کوئی شخص قبضہ میں لے آئے تو اُس کا قبضہ صحیح سمجھا جائے گا اور باوجود اِس کے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت دنیا کی ہر چیز کے تمام انسان مشترک مالک ہیں اُس حصہ پر اُس شخص کی منفرد ملکیت تسلیم کر لی جائے گی اور کسی کو اختلاف کرنے کا حق نہ ہو گا۔ اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب بھی اسلام کی مالکیت کے متعلق تعلیم میں وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو میں نے قرآن کریم سے استدلال کر کے اوپر بتایا ہے۔ اور ان کے نزدیک بھی تمام اشیاء کا مالک اللہ تعالیٰ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اس کے ارشاد کے ماتحت کھیتوں اور دوسری چیزوں کی ملکیت فردِ واحد حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ فقرہ بھی لکھا ہے کہ معنی الملک فی حق الادمی کونہ احق بالا نتفاع من غیرہ۱۳؎ آدمی کے حق میں ملکیت کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ دوسرے شخص کی نسبت زیادہ فائدہ اُٹھانے کا شرعاً حقدار ہوتا ہے۔
حدیث کی کتاب ابو دائود میں آتا ہے۔ من سبق الی مالم یسبق الیہ مسلم فھولہ۱۴؎ جو شخص کسی ایسی چیز پر قبضہ کر لے جس پر پہلے کسی اور مسلمان نے قبضہ نہیں کیا تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔
اِسی طرح حنفیوں کی مشہور کتاب ھدایہ میں لکھا ہے من سبقت یدہ الی مال مباح ملکہ۱۵؎ جس نے دوسرے سے پہلے کسی ایسی چیز پر قبضہ کر لیا جس کا کوئی فرد مالک نہیں تو وہی اُس کا مالک ہوگا۔
امام ابو حنیفہ ؒصاحب اِس بارہ میں یہ قید لگاتے ہیں کہ لایجوز احیاء الارض الا باذن الامام۔ غیر مملوکہ یا غیر مزروعہ زمین (جس پر اس سے پہلے تاریخی زمانہ میں زراعت نہیں ہوئی) پر اُسی وقت دوسرے شخص کو قبضہ کرنے کی اجازت ہو سکتی ہے جب کہ امام اِس کی اجازت دے(یا اُن دنوں کی حکومت اس کی اجازت دے تب اس زمین پر قبضہ ہو سکتا ہے)
اوپر کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص کی زمین پر قبضہ کرنے کا حق نہیں۔ اگر کسی شخص کے پاس زمین ہو اور وہ اسے زیر کاشت نہ لاتا ہو یا اور کسی کام میں نہ لاتا ہو یا حکومت کی زمین ہو جو اُفتادہ پڑی ہو تو اُس پر دوسرے لوگوں کو جن کے پاس زراعت کے لئے زمین نہ ہو قبضہ کرنے کا حق ہے بشرطیکہ حکومت کی طرف سے اِس کی اجازت ہو(یہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا استدلال ہے جو اُنہوں نے ایک اصولی حدیث سے کیا ہے اور عقل اس پر شاہد ہے کہ جس جگہ کوئی حکومت ہو اُس جگہ اُس کے قاعدہ کی پابندی لازمی ہے ورنہ فتنہ و فساد کا دروازہ کھل جاتا ہے) اور یہی قانون زمین کے سِوا دوسری اشیاء کے بارہ میں بھی ہے۔ چنانچہ بخاری میں آتا ہے۔
عن زید بن خالدؓ قال جاء رجل الی رسول اللّٰہ ﷺ فسالہ عن اللقطۃ فقال اعرف عفا صھا ووکاء ھا ثم عرفھا سنۃ فان جاء صاحبھا و الا شانک بھا قال فضالۃ الغنم؟ قال ھی لک اولاخیک او للذئب قال فضالۃ الابل؟ قال مالک ولھا معھا سقاء ھا وحذاوھا ترد الماء وتاکل الشجر حتی یلقاھاربھا۔۱۶؎
یعنی حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے عرض کیا کہ اگر مجھے راستہ میں کوئی گری پڑی چیز مل جائے تو اُس کے بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اُس کے بٹوے کو اور اُس کے منہ باندھنے والے تسمہ کو اچھی طرح پہچان رکھ اور ایک سال تک لوگوں میں اعلان کر۔اگر اِس عرصہ میں اُس کا مالک تجھے مل جائے تو تُو وہ چیز اُس کے حوالہ کر اور اگر نہ ملے تو پھر اُس روپیہ کو تُو جہاں چاہے خرچ کر لے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر کوئی گم شدہ بکری مجھے مل جائے تو اُس کے بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا۔ تُو اُسے اپنے قبضہ میں لے لے کیونکہ یا تو وہ تیرے ہاتھ آئے گی یا تیرے کسی بھائی کے ہاتھ میں آئے گی یا کسی بھیڑیئے کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر کوئی گُم شدہ اونٹ مجھے مل جائے تو اس کے بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تیرا اونٹ سے کیا واسطہ۔اُس کا پانی اُس کے پاس ہے اور اُس کی ٹانگیں بھی موجود ہیں وہ پانی پی کر اور درختوں کے پتے وغیرہ کھا کر زندہ رہ سکتا ہے یہاں تک کہ اُس کا مالک اُسے ڈھونڈ لے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زمین کے علاوہ دوسری اشیاء کے لئے بھی یہی قاعدہ ہے کہ جس چیز کا مالک کوئی نہ ہو وہ جسے ملے اُس پر قبضہ کر سکتا ہے بشرطیکہ پہلے مناسب جگہوں پر اعلان کردے لیکن وہ اشیاء جو خود اپنی فکر کر سکتی ہیں اُن پر قبضہ کرنا خواہ اُن کا مالک نظر نہ آتا ہو جائز نہیں۔ چنانچہ جب اُس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پُوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر مجھے ایک اونٹ نظر آئے جس کا مالک پاس نہ ہو تو کیا میں اُس پر قبضہ کرلوں؟ تو آپ نے فرمایا اُس کا کھانا (جنگل کے کانٹے) اور اُس کا پانی اُس کے پاس ہے پھر تجھے اُس سے کیا کام۔ یعنی یہ حکم تو اُن اشیاء کے بارہ میں ہے جن کے ضائع ہو جانے کا ڈر ہے اگر مالک اُن کا وقت پر نہ پہنچے گا تو وہ ضرور ضائع ہو جائیں گی اِس لئے جس کو مل جائیں وہ اُن پر قبضہ کر لے۔ اگر اُن کو کچھ عرصہ تک سنبھال کر رکھا جاسکتا ہو تو سنبھال کر رکھا جائے اور اُن کے بارہ میں اعلان کیا جائے اگر پھر بھی مالک نہ ملے تو اپنے کا م میں لایا جائے۔اگر سنبھال کر نہ رکھا جاسکے مثلاً سڑنے والی اشیاء تو اِس بات کی تسلّی ہو جانے پر کہ اُن کا مالک کہیں چلا گیا ہے اُن کو استعمال کر لیا جائے۔ ظاہر ہے کہ زمین ان چیزوں میں سے نہیں کہ اس کا ضائع ہونے کا ڈر ہو اس لئے اس کے بارہ میں وہی قانون جاری ہوگا جو اونٹ کے بارہ میں ہے کہ جب اونٹ خود اپنی حفاظت کر سکتا ہے تو مالک کا پاس نہ ہونا دوسرے کو اُس پر قبضہ کر لینے کا حق نہیں دیتا۔ ہاں چونکہ اس کے بیکار پڑا رہنے سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے اِس لئے حکومت کو حق ہے کہ مالک کو نوٹس دے کہ زمین کو آباد کرے۔ اگر وہ پھر بھی آباد نہ کرے تو وہ اُسے دوسرے لوگوں میں تقسیم کردے۔گو میرے نزدیک اُس وقت بھی حکومت کا فرض ہوگا کہ اُس کی مناسب قیمت مالک کو دے یا کوئی مناسب سمجھوتہ مالک اور نیا قبضہ کرنیوالے لوگوں میں کر وادے۔
میری دلیل اِس بارہ میں یہ ہے کہ بلال بن حارث مزنی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو زمین ملی تھی جب وہ اُس کو آباد نہ کر سکے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن سے وہ زمین چھینی نہیں بلکہ اُنہیں بُلا کر سمجھایا اور آخر اُن کی اِس شرط کو قبول کرلیا کہ میںزمین تو چھوڑتا ہوں لیکن اس زمین کی کانیں سب میری ملکیت ہونگی۔۱۷؎ اِس حدیث سے یہ نتیجہ نکلا کہ حکومت کی اپنی عطا کردہ اُفتادہ زمین کو بھی حکومت مُلک کی اقتصادی حالت کے درست کرنے کے لئے واپس تو لے سکتی ہے لیکن اُسے مالکوں سے معاہدہ کرنا پڑے گا جبراًایسی زمین حاصل نہیں کرسکتی۔
ملکیت زمین کے متعلق آئمّہ اہل تشیع کا بھی وہی خیال ہے جو اہل السنت کا ہے۔ چنانچہ فروع الکافی جلد ۲ صفحہ ۱۰۸ میں جو اہل تشیع کے نزدیک حدیث کی ویسی ہی مستند کتاب ہے جیسی اہل السنت کے نزدیک بخاری اور مسلم ہیں یہ حدیث آتی ہے کہ عن معاویۃ بن وھب قال سمعت ابا عبداللّٰہ یقول…… ان الارض للّٰہ ولمن عمرھا یعنی معاویہ بن وہب کہتے ہیں یعنی امام ابو عبداللہ علیہ اسلام سے سنا کہ زمین کا اوّل مالک اللہ ہے اور اس کے بعد وہ شخص مالک ہے جس نے اُسے آباد کیا ہے۔ پس اس سوال کے متعلق کہ آیا افراد زمین کے مالک ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ تمام مسلمان فرقے متفق ہیں اور اُن کا یہ فیصلہ ہے کہ افراد زمین کے مالک ہو سکتے ہیں مگر وہ ملکیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوگی کیونکہ اصل مالک وہ ہے۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ جب زمین اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے تو کیا حکومت کو جو خداتعالیٰ کی ظل ہے اِس بات کا اختیار حاصل نہیں کہ وہ ملکیت زمین کے متعلق کوئی نیا قانون جاری کردے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ نہیں۔ظلّی حکّام کی حکومت اُس طرح محدود ہوتی ہے جس طرح ظلّی مالک کی ملکیت محدود ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول نے جہاں ظلّی مالکوں کے لئے کچھ قیود مقررکی ہیں وہاں ظلّی حاکموں کے لئے بھی اُس نے کچھ قیود مقرر کردی ہیں اور وہ قیود یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول اور السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے فیصلہ کے خلاف کوئی نیا قانون جاری نہیں کیا جاسکتا اور زمین کا معاملہ ایسا ہے جس کے متعلق خداتعالیٰ کا فیصلہ بھی موجود ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بھی موجود ہے اور خلفائے اربعہ اور اَئمہ صحابہ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ اس صورت میں کسی حکومت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ظل اللہ قراردے کر کوئی نیا قانون بنادے۔ وہ اُن امور میں بے شک نئے قانون بناسکتی ہے جن کے متعلق خدا اور اس کا رسول اور السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ صحابہؓ خاموش ہیں لیکن اُن امور کے متعلق وہ کوئی نیا قانون نہیں بناسکتی جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے کوئی روشنی ڈالی ہے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کے سامنے وہ معاملات پیش ہوئے ہیں اور اُنہوں نے اُن کے متعلق اصولی یا جزوی فیصلے کئے ہیں۔ اگر ظلّی حکاّم کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ خدا اور اُس کے رسول اور اکثریت صحابہ کے فیصلوں کو ردّ کر کے کوئی نیا فیصلہ جاری کردیں تو پھر ظلّی مالکوں کو بھی حق ہے کہ وہ اُن تمام حدبندیوں اور قیود کا انکار کردیں جو خدا اور رسول اور صحابہ کرامؓ کی طرف سے اُن پر عائد ہیں۔ ظل بہر حال اصل کے تابع ہوتا ہے وہ حاکم ہو یا مالک اُس کی حکومت بھی محدود ہے اور اُس کی مالکیت بھی محدود ہے۔ یہ میں آگے چل کر تفصیل سے بیان کروں گا کہ اِس بارہ میں خدا اور اُس کے رسول اور اکثریت صحابہؓ نے کیا فیصلہ کیا ہے۔
دوسراباب
کیا زمین کو اسلام نے فردِ واحد کی ملکیت اُن معنوں میں قرار دیا ہے جن معنوں میں کہ دوسری چیزوں کی ملکیت ہوتی ہے؟
اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو آیات اوپر لکھی گئی ہیں ان میں زمین اور غیر زمین میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ ان آیات میں صاف بتا دیا گیا ہے کہ ہر چیز خداتعالیٰ نے پیدا کی ہے اس لئے ہر مخلوق خدا تعالیٰ کی مِلک ہے۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ زمین کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر چیز اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے بخشی ہے۔ اوپر کی آیت میں جو ارض کا لفظ ہے اُس سے مراد کھیتی نہیں بلکہ کرئہ ارض ہے اور اُس میں سے نکلی ہوئی چیز کے معنی سبزی، ترکاری یا غلّہ نہیں بلکہ کرئہ ارض کے اوپر یا نیچے ہر ایسی چیز جس پر انسان قبضہ کر سکتا ہے مراد ہے۔ بلکہ اس زمین سے نکلی ہوئی چیزوں سے جو چیز آگے بنائی جائے وہ بھی مراد ہے کیونکہ کسی کی دی ہوئی لکڑی سے،کسی کے دیئے ہوئے ہتھیاروں کی مدد سے ،کسی کے دیئے ہوئے ہاتھ اور دماغ کے ذریعہ سے جو چیز بنے گی اُس کا مالک بھی وہی ہوگا جس کی لکڑی تھی، جس کے ہتھیار تھے، جس نے ہاتھ اور دماغ بنایا تھا۔ پس خداتعالیٰ صرف کھیتوں ہی کا مالک نہیں بلکہ خدا تعالیٰ روئی کا بھی مالک ہے، لکڑی کا بھی مالک ہے، لوہے کا بھی مالک ہے، جڑی بوٹیوں کا بھی مالک ہے، جنگل کے پتھروں کا بھی مالک ہے، اُس کی ریت کا بھی مالک ہے اور جب اُس نے ان چیزوں کی ملکیت تمام بنی نوع انسان کو مشترکہ طور پر عطا فرمائی تو صرف کھیتوں ہی کی ملکیت تمام انسانوں کو عطا نہیں فرمائی بلکہ دریائوں کی ملکیت بھی تمام بنی نوع انسان کو عطافرمائی۔ پہاڑوں اور اُن کی برفوںاور اُن کے درختوں اور اُن کے پھولوں اور اُن کی بوٹیوں اور اُن کے اندر چھپی ہوئی کوئلہ کی کانوں،سیسہ کی کانوں، تانبے کی کانوں، ہیرے اور جواہرات کی کانوں اور اِسی طرح زمین کے صحرائوں، پانی کے نیچے کی مچھلیوں، ہوا کے پرندوں اور تمام باقی چیزوں کی ملکیت بھی عطا فرمائی۔ بنی نوع انسان مشترک طور پر صرف کھیتی ہی کے مالک نہیں بلکہ پرندوں کے بھی مالک ہیں۔ تمام اُن دوائوں کے بھی مالک ہیں جو کہ بوٹیوں سے تیار کی جاتی ہیں، تمام اُن مشینوں کے بھی مالک ہیںجو کہ لوہے سے بنائی جاتی ہیں۔ تمام اُن اشیاء کے بھی مالک ہیں جو خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ لکڑیوں سے بنائی جاتی ہیں۔ غرض دنیا میں جس چیز پر کوئی قبضہ کر سکتا ہے یا جس چیز کی کوئی قیمت پڑ سکتی ہے ایسی ہر چیز کے تمام بنی نوع انسان مشترک طور پر مالک ہیں۔ آگے خاص حالات میں اس مشترک ملکیت کو مقید کر دیا گیا ہے اور ایک خاص دائرہ میں شخصی ملکیت کو بھی تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن قرآن شریف کی کسی آیت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں کار خانوں میں بننے والی چیزوں یا زمین کے اندر سے نکالی جانے والی چیزوں یا جنگل میں اُگنے والی چیزوں یا تجارت سے حاصل ہونے والے مالوں یا دریائوں کے نیچے سے نکلنے والی چیزوں اور کھیتوں کی ملکیت میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ خدا تعالیٰ یکساں مالک ہے کھیتوں کا بھی، پہاڑوں کا بھی، دریائوں کا بھی،کارخانوں کا بھی اور تمام بنی نوع انسان یکساں مالک ہیں اِن تمام چیزوں کے۔ اور فرد اِن چیزوں میں سے جتنے حصّہ کا مالک ہے اُس کو ایک ہی قسم کے حقوق حاصل ہیں خواہ وہ کھیتی کا مالک ہو، خواہ کارخانے کا مالک ہو یا کانوں کا مالک ہو یا تجارتی گوداموں کا مالک ہو یا گورنمنٹ سے حاصل ہونے والی تنخواہ کا مالک ہو۔
تیسرا باب
زمین کی ملکیت کو اسلام نے جن معنوں میں تسلیم کیا ہے اُن کے رُو سے وہ زمین کے مالک کو کیا کیا حق دیتا ہے؟
اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو کچھ قرآن کریم اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت زمین کے مالک کو ویسے ہی تمام حقوق دیتی ہے جیسا کہ وہ کارخانوں کے مالک کو دیتی ہے یا تجارتی کوٹھیوں کے مالکوں کو دیتی ہے یا کانوں کے مالکوں کو دیتی ہے یا جڑی بوٹیوں یا جنگلوں کے خریدنے والوں کو دیتی ہے اس میں اسلام کوئی فرق نہیں کرتا۔ ان تمام قسم کی ملکیتوں کے متعلق اسلام کی طرف سے مندرجہ ذیل قیود عائد ہیں:۔
اوّل: اصل مالک خدا ہے۔ اُس کی ملکیت بہر حال قائم رہے گی یعنی خدا تعالیٰ جتنا چاہے فردِ واحد کی ملکیت کو مقید کر سکتا ہے۔
دوم: کوئی ملکیّت ایسی شکل میں نہیں آسکتی کہ وہ ملکیت اپنی ذات میں دوسروں کے حقوق پر اثر انداز ہو۔ مثلاًزمین کی ملکیت کو لے لو۔کوئی شخص پانی کو زمین پر چلنے سے نہیں روک سکتا، افراد کو جائز طور پر زمین پر چلنے سے روک نہیں سکتا۔ جائز طور پر چلنے کے معنی یہ ہیں کہ جو پگڈنڈیاں بنائی جائیں اُن پر چلنے سے روک نہیں سکتا یا بغیر نقصان کے کھیتوں میں سے چلنے والے کو روک نہیں سکتا۔ یہ مراد نہیں کہ کوئی شخص زبردستی کسی کے کھیت کو تباہ کرنا چاہے تو وہ اُس کو بھی روک نہیں سکتا۔ کوئی شخص غیر محدود زمانہ تک زمین کو اُفتادہ نہیں رکھ سکتا۔ اگر زمین پر کام کرنے والے لوگ موجود ہیں تو وہ کام میں آنی چاہئے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے۔ المسلمون شرکاء فی الماء والکلاء والنار۱۸؎ یعنی لوگوں کو حق نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو پانی سے روکیں یا خود رَو گھاس سے کسی کو روکیں یا آگ لینے سے کسی کو روکیں۔ پس جائز نہیں ہوگا کہ اگر کسی کی زمین میں چشمہ ہو تو وہ وہاں سے پانی لینے سے لوگوں کو روکے یا خود رَو گھاس ہو تو وہ اُس کے کھانے سے دوسروں کے جانوروں کو منع کرے یا وہ آگ جلائے تو دوسرے لوگوں کو آگ لینے سے منع کرے۔اِسی طرح علامہ ابن قدامہ اپنی کتاب مغنی میں تحریر فرماتے ہیں۔
المعادن الظاھرۃ وھی التی یوصل مافیھا من غیر موونۃ ینتابھا الناس وینتفعون بھا کالملح والماء والکبریت والقیر والمومیاء والنفت والکحل والیاقوت ومقاطع الطین واشباہ ذلک… لا تملک بالا حیاء ولا یجوز اقطاعھا لاحد من الناس ولا احتجار ھادون المسلمین لان فیہ ضررا بالمسلمین وتضییقا علیھم ۱۹؎
یعنی وہ کانیں جن کو کھود کر اور تکلیف سے نکالنا نہیں پڑتا بلکہ وہ سطح زمین پر یا اس کے قریب ہوتی ہیں اور عوام الناس اُن کو کام میں لاتے اور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ جیسے نمک اور پانی اور گندھک اور کول تار اور مومیائی اور مٹی کا تیل اور سرمہ اور یاقوت اور مٹی لینے کی جگہیں اور اِسی قسم کی چیزیں خواہ کوئی اس زمین پر جائز قبضہ کرے جس میں وہ پائی جاتی ہیں تب بھی یہ اشیاء اُس کی ملکیت نہیں ہوں گی اور کسی بادشاہ کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اِن چیزوں کو کسی ایک شخص کے حق میں دے دے یا حُکمًا اُن کا استعمال مسلمانوں کے لئے روک دے کیونکہ اس میں مسلمانوں کے لئے نقصان اور تنگی ہے۔
اِسی طرح علاّمہ ابن قدامہ مغنی جلد ۴ صفحہ ۳۸۶ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
وکذالایجوز احیاء ماتعلق بہ حق العامۃ کما فی النھر والطریق یعنی اِسی طرح شخصی ملکیت نہروں اور راستوں پر بھی تسلیم نہیں کی جاسکتی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا فیصلہ اور اس کے بعد علمائے اسلام کے اُس فیصلہ سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی تشریح میں ہے اور خالی عقلی بناء پر نہیں کیا گیا، یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی ملکیت محدود ہے اور بعض امور میں پبلک کے حق میں اُس کو اپنی ملکیت چھوڑنی پڑے گی۔ مثلاًاگر کوئی پہاڑی نالہ کسی کی زمین پر سے گذرتا ہے تو اُس کے پانی کی ملکیت اُس کی نہیں ہوگی فوراً پبلک کی ملکیت ہو جائے گی۔ یا حکومت کی ملکیت ہو جائے گی۔ اِسی طرح کوئی شاہراہ بھی اگر کسی کی ملکیت میں سے گزرتا ہے تو وہ اُس کی ملکیت نہیں ہو سکے گا بلکہ پبلک کا ہو جائے گا۔ اِسی طرح کانیں وغیرہ جو سطح زمین پر ہیں اور اُن کے لئے گہری کھدائی نہیں کرنی پڑتی وہ بھی پبلک کی ملکیت ہوں گی گو حکومت ان کی منتظم اور نگران ہوگی مگر حکومت بھی اُن کانوں کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی روزانہ ضرورتوں سے اُن کو محروم نہیں کر سکتی۔ ہاں جتنا حصہ تجارتی ہو گا وہ حکومت کے قبضہ میں ہوگا۔ اِسی اصل کے ماتحت ہم یہ قانون نکالیں گے کہ اگر کوئی انسان ایسی فصل بوئے جو صحت کے لئے مضر ہو یا اُس کے پھول اور کیڑے اُڑ کر اِرد گرد کی فصلوں کو نقصان پہنچائیں اور اُن کی حیثیت کو ادنیٰ بنادیں تو حکومت ایسے احکام جاری کر سکتی ہے جن کے رُو سے وہ لوگوں کو اِس قسم کی فصل بونے سے روک دے۔ مثلاًجس علاقہ میں عام طور پر امریکن کپاس بوئی جاتی ہے اگر اُس علاقہ میں دیسی کپاس بوئی جائے تو اُس کی وجہ سے امریکن کپاس کی قسم کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور بعد میں اُس کے امتزاج کی وجہ سے باقی لوگوں کی کپاس کی قیمتیں بھی گر جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں حکومت کو یقینا اختیار حاصل ہے کہ وہ مندرجہ بالا حدیث اور اَئمّہ کے استدلال پر قیاس کرتے ہوئے حکم دے دے کہ اِس علاقہ میں فلاں چیز کا بونا چونکہ لوگوں کے لئے مضر ہے اس لئے اُس کو نہ بویا جائے۔ لیکن حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ چونکہ اِس شخص کی ملکیت دوسرے لوگوں کے لئے مضر ہے اس لئے اس کو ملکیت سے محروم کر دیا جائے کیونکہ ملکیت اپنی ذات میں ضرر نہیں پہنچاتی جس طرح کہ غلط کاشت اپنی جگہ میں دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اِس حدتک تو میں نے یہ بتایا ہے کہ مالک ِ زمین کے حقوق کہاں تک محدود ہیں۔ اب میں یہ بتاتا ہوں کہ زمین کے مالک کے حقوق کس حدتک قرآن کریم اور احادیث اور صحابہء کرامؓ اور اَئمّہ عظام کے فتووں یا عمل سے ثابت ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ سورئہ بقرہ میں حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے اُن کو کہا۔ ۲۰؎ اے آدم تُو اور تیری بیوی دونوں اس باغ میں رہو۔ اِس آیت سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ انسان زمین کا مالک ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم اور اُن کی بیوی کو ایک باغ کا مالک بنایا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ جس شخص کو کسی جگہ پر رہنے کا اختیار دیا جائے گا دوسروں کو اُس جگہ پر جانے کا اختیار باقی نہیں رہے گا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک کافر اور ایک مؤمن کی گفتگو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے۔۲۱؎ یعنی مؤمن کافر سے کہتا ہے کہ جب تُو اپنے باغ میں داخل ہوتا ہے تو تُو یہ کیوں نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے سِوا کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں ہے اور تو مجھ پر فخر جتاتا ہے کہ تیرے پاس مجھ سے زیادہ مال ہے اور تیری اولاد مجھ سے زیادہ ہے۔ پس تو یاد رکھ کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ مجھے تیرے باغ سے بڑا باغ دے اور تیرے باغ پر آسمان پر سے ایک کنکروں والی آاندھی چلا دے اور تیرا باغ اُجڑی ہوئی زمین ہو کر رہ جائے۔ گویہ ایک مثال ہے لیکن اس سے یہ اصول ثابت ہو جاتا ہے کہ انسان بڑے بڑے باغوں کا بھی مالک ہو سکتا ہے اور باغ اور زمین میں کوئی فرق نہیں کیونکہ باغ زمین کے ساتھ وابسطہ ہوتا ہے۔
اِسی طرح سورئہ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گذشتہ انبیاء کی قوموں نے جب اُن کو دکھ دیا اور اُ ن کو دھمکی دی کہ وہ اُنہیں ملک سے نکال دیں گے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو الہام کیا کہ ۲۲؎ ہم اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتے ہیںکہ ہم تم کو اِس زمین میں بسادیں گے۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اُن لوگوں کے زمین میں بسانے کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور جب ہم پہلی تاریخوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی اُمتوں میں فردِواحد کی ملکیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ پس ’’ہم بسا دیں گے ‘‘کے الفاظ نے اِس ملکیت کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے بلکہ اِس بات کا بھی اظہار فرمایا ہے کہ وہ ملکیت خداتعالیٰ کے قانون کے مطابق تھی اور خداتعالیٰ کی عطا کی ہوئی تھی۔
اِسی طرح سورئہ بنی اسرائیل کے بارہویں رکوع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ ارضِ مقدس میں بس جائو۔۲۳؎ اِس بسنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ اور جب ہم بائبل سے اس بسنے کی کیفیت معلوم کرتے ہیں تو اس میں زمین کی انفرادی ملکیت کا ثبوت ملتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کی مختلف آیات سے زمینوں اور باغوں کی انفرادی ملکیت کا استدلال ہوتا ہے۔ احادیث بھی اس استدلال کی مؤید ہیں۔ چنانچہ سنن ابودائود باب۲فی اقطاع الارضین کے نیچے صفحہ ۴۳۷پر لکھا ہے۔ عن اسمر بن مضرس قال اتیت النبیﷺ فبایعتہ فقال من سبق الی مالم یسبق الیہ مسلم فھولہ ۲۴؎ یعنی حضرت اسمرؓ فرماتے ہیں مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ کی بیعت کی۔ اُس وقت میں نے سُنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے کہ جس زمین پر کسی مسلمان کا قبضہ نہیں جو مسلمان بھی اُس پر قبضہ کرے وہ اُسی کی ملکیت ہو جائیگی۔
اسی طرح بخاری کتاب المزارعۃ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ من اعمر ارضالیست لاحد فھوا حق۔۲۵؎ جو شخص کسی ایسی زمین پر قابض ہو جائے جو کسی اَور کی نہیں تو وہی اُس کا جائز مالک ہوگا۔ اِس حدیث سے ثابت ہے کہ جو زمین آپ کے زمانہ میں کسی کی مملوکہ تھی آپ نے اُس کی ملکیت کو جائز قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو یہ نصیحت کی ہے کہ ایسی زمینوں پر قبضہ کرو جن کے دوسرے مالک نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشاد کے مطابق حضرت عمرؓ سے بھی ایک اثر ثابت ہے اور وہ یہ ہے کہ قال عمر من احیا ارضا میتۃ فھی لہ ۲۶؎ جو شخص کسی ایسی زمین پر قبضہ کر ے جس پر کوئی مسلمان قابض نہیں تو وہ اُس کا مالک قرار دیا جائے گا۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ارضِ موات جس پر قبضہ کرنا جائز رکھا گیا ہے وہ کیا چیز ہے؟ اور آیا اُس پر قبضہ کرنے کی کوئی شرائط بھی ہیں یا نہیں؟ سو اِس کا جواب یہ ہے کہ ارضِ موات سے مراد سرکاری زمینیں ہیں نہ کہ افراد کی زمینیں اور نہ وہ زمینیں جو کہ شہروں اور قصبات کے اِردگرد ہوتی ہیں اور زمینداروں کی مشترک ملکیت ہوتی ہیں۔ اُنہیں کاشت میں نہیں لایا جاتا مگر وہ چراگاہوں کے طور پر، کھیل کے میدانوں کے طور پر، یا سوختنی لکڑیوں کے جنگلوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ چنانچہ کتاب بدائع الفقۃ الحنفیہ میں لکھا ہے الاراضی فی الاصل نوعان ارض مملوکۃ وارض مباحۃ غیر مملوکۃ والمملوکۃ نوعان عامرۃ وخرابوالمباحۃ نوعان ایضا۔ نوع ھو من مرافق البلدۃ محتطبا لھم و مرعی لمواشیھم ونوع لیس من مرافقھا وھو مسمی بالموات۲۷؎ یعنی زمین در حقیقت دو قسم کی ہوتی ہے ایک مملوکہ اور ایک غیر مملوکہ۔ مملوکہ بھی آگے دو قسم کی ہوتی ہے آباد اور غیر آباد۔ اور غیرمملوکہ بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک وہ جو کہ شہروں کے پاس ہو اور شہری لوگ اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہوں یا اُس سے لکڑیاں لیتے ہوں یا اُن کے جانور اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہوںاور ایک غیر مملوکہ وہ ہوتی ہے جو شہر وں سے دُور ہوتی ہے اور لوگ اُس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور اُسی کو موات کہتے ہیں۔
امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ الموات کل ارض اذا وقف علی ادنا ھا من العامر مناد باعلی صوتہ لم یسمع اقرب الناس الیھا فی العامر۲۸؎ یعنی موات وہ زمین ہے کہ اُس کا جو حصہ شہر سے قریب ترین ہو اُس پر کھڑے ہو کر اگر کوئی اونچی آواز والا آدمی نہایت بلند آواز سے بولے تو شہر میں سے جو حصہ اُس جانب سب سے قریب ہے وہاں کے لوگ بھی اُس کی آواز نہ سن سکیں۔
اِن حوالوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مملوکہ زمین تو کسی صورت میں بھی موات نہیں کہلاتی اور غیر مملوکہ زمین بھی اُسی وقت موات کہلاتی ہے جس پر قبضہ کر لینے کا افراد کو حق دیا گیا ہے یا لوگوں میں تقسیم کرنے کا حق دیا گیا ہے جبکہ وہ زمین شہروں سے اتنے فاصلہ پر ہو کہ شہر کی ضرورتوں کو اُس کے تقسیم کر دینے سے نقصان نہ پہنچتا ہو۔گویا حنفی علماء کے نزدیک افراد کا قبضہ کرلینا تو الگ رہا حکومت بھی ایسی زمین کو تقسیم نہیں کر سکتی جس کا آزاد چھوڑنا کسی شہر یا قصبہ کیلئے ضروری ہو۔
اور حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک تو فرد کسی صورت میں بھی ایسی غیر مملوکہ اور سرکاری زمین پر بغیر حکومت کی اجازت کے قبضہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں۔ لایجوز احیاء الارض الا باذن الامام لقولہﷺ لیس لاحد الا ماطابت بہ نفس امامہ۲۹؎ یعنی لا وارث اور غیر مملوکہ زمین پر قبضہ کرنا بھی بغیر حکومت کی اجازت کے جائز نہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کسی سرکاری چیز کا مالک نہیں ہو سکتا جب تک کہ امام خوشی سے اُس کو بخش نہ دے۔
چوتھا باب
اسلام نے زمین کی ملکیت کا حق کن کن اصول پر دیا ہے؟
یہ ثابت کر چکنے کے بعد کہ اسلام میں زمین کی ملکیت جائز ہے اور یہ ثابت کرنے کے بعد کہ زمین کی ملکیت اُسی حد تک جائز ہے جس حد تک کہ اموالِ تجارت یا پیشوں یا نوکریوں کی آمدنیوں کی ملکیت جائز ہے یعنی جو حق ایک پیشہ ور کو اپنے پیشہ کے متعلق ہے، ایک تاجر کو اپنی تجارت کے متعلق ہے، ایک صنّاع کو اپنی صنعت کے متعلق ہے وہی حق ایک زمیندار کو اپنی زمین کے متعلق ہے اور جن معنوں میں کہ زمین خداتعالیٰ کی ملکیت ہے اُنہی معنوں میں اموالِ تجارت اور صنعت و حرفت سے تیار کئے ہوئے اموال اور پیشوں سے حاصل کئے ہوئے مال اور نوکریوں سے حاصل کئے ہوئے مال بھی خداتعالیٰ کی ملکیت میں شامل ہیں۔ اور زمینوں کے متعلق وہی قوانین بنائے جاسکتے ہیںجو ان دوسری چیزوں کے متعلق بنائے جاتے ہیں ان دونوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا جاسکتا۔ اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے زمین کی ملکیت کن کن بنیادوں پر تسلیم کی ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں ملکیت کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
اوّل ورثہ دوم خرید سوم ہبہچہارم کسی ایسی چیز پر قبضہ جو لاوارث ہو اور جس پر قبضہ کرنا شریعت کے رُو سے جائز ہو۔
ورثہ کا ثبوت تو قرآن شریف سے ثابت ہے۔ قرآن شریف میں اولاد کو والد کی جائداد کا وارث قرار دیا گیاہے پس جس کے والد کے پاس کوئی جائداد تھی اُس کی اولاد اُس کی مالک ہے اور ویسی ہی مالک ہے جیسا کہ باپ مالک تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے یہ بات بھی بِلا اختلاف ثابت کردی ہے کہ جاہلیت کی ملکیتیں اسلام میں بھی جائز ملکیتیں سمجھی جائیں گی اِسی طرح جاہلیت کے قبضے اسلام میں بھی جائز سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ عرب میں جو لوگ مسلمان ہوئے وہ جن زمینوں پر قابض تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اُن زمینوں پر قابض رہنے دیا سوائے اِس کے کہ وہ زمینیں جنگی قانون کے ماتحت ضبط ہوئی ہوں۔
دوسری صورت خرید کی ہے۔ خرید کا ثبوت بھی صحابہؓ کے طریق سے ثابت ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد اور اپنے مکانوں کے لئے مدینہ کے لوگوں سے زمین خریدی۔ یہ امر ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر کے گئے تھے۔ مدینہ میں ان لوگوں کی کوئی جائداد یں نہیں تھیں۔ مدینہ میں جا کر جو اِن لوگوں نے گھر بنائے وہ وہیں کے لوگوں سے زمینیں خرید کر بنائے تھے۔ چنانچہ یہ مشہور حدیث ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کچھ عرصہ تک مدینہ کے باہر ٹھہر کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو آپ نے فرمایا جہاں میری اونٹنی ٹھہرے گی وہاں میں اپنا گھر بنائوں گا۔ مدینہ کے لوگوں نے اپنے گھروں میں سے نکل نکل کر اصرار کیا کہ اُن کے گھروں میں آپ ٹھہریں مگر آپ نے اِسے تسلیم نہ کیا۔ آخر جس جگہ پر آپ کی اونٹنی ٹھہری اُس جگہ کو آپ نے مسجد کے لئے اور اپنے مکانوں کے لئے پسند فرمایا۔ وہ دو یتیموں کی زمین تھی یتیموں کے وارثوں نے وہ زمین مفت دینی چاہی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کو پسند نہ فرمایا بلکہ فرمایا کہ واجبی قیمت پر اِس کو فروخت کر دو۔۳۰؎ اِس جگہ پر بعد میں مسجد اور آپ کے اہلِ بیت کے گھر بنے۔ پس زمین کی بیع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل اور طریق سے ثابت ہے۔
تیسرا طریقہ ملکیت کا ہبہ ہے یعنی کوئی شخص کسی شخص کو یا کسی قوم کو یا کسی جماعت کو اپنا مال ہبہ کے طور پر بخش دے تب اُس شخص کو یا اُس گروہ کو اُس زمین پر اُس حد تک مالکانہ حقوق حاصل ہونگے جس حد تک کہ ہبہ کرنے والے شخص نے ان کو حق دیا ہے۔ اگر اُس نے پورے مالکانہ حقوق بخش دئیے ہیں تو جو حق کسی کامل مالک کو حاصل ہوتے ہیں وہ سب اُن لوگوں کو حاصل ہونگے جن کے نام زمین ہبہ کی گئی ہے اور اگر کسی شرط کے ساتھ ملکیت منتقل کی گئی ہو تو جس حد تک پابندی لگائی گئی ہے اس کے بعد باقی حق اُن کو حاصل ہونگے۔ اِس قسم کے ہبے احادیث سے دونوں طرح کے ثابت ہیں۔ بے شرط بھی اور شرط کے ساتھ بھی۔ بے شرط ہبہ کی مثال وہ زمینیں ہیں جو قرآنی حکم کے ماتحت مالِ غنیمت کے طور پر صحابہؓ میں تقسیم کی گئیں جس کی مشہور مثال خیبر کی زمین ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی مثالیں بھی بہت سی پائی جاتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی زمینوں میں سے جو فوری طور پر صحابہؓ میں تقسیم نہیں کی گئیں اپنی مرضی سے یا صحابہؓ کے مانگنے پر اُن کو زمینیں عطا فرمائیں۔ چنانچہ کنزالعمال میں بیہقی کے حوالہ سے لکھا ہے۔
عن عبداللّٰہ بن ابی بکر قال جاء بلال بن الحارث المزنی الی رسول اللّٰہﷺ فاستقطع ارضا عریضۃ طویلۃ فقطعھا۔۳۱؎
یعنی عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ بلال بن حارث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ زمین کا ایک بہت لمبا اور چوڑا قطعہ اُن کے نام ہبہ کر دیا جائے۔ اُن کی اِس درخواست کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرمایا اور ایک بہت بڑا ٹکڑہ جو شایدبیسیوں مربع میل کا تھا اُن کو ہبہ کردیا۔
چوتھی صورت یعنی ایسی جگہ پر قبضہ کرلینا جس پر کسی اَور کا قبضہ نہ ہو اور اُس پر قبضہ کرنا شریعت کے رو سے جائز ہو۔ اِس کی مثال کے طور پر مَیں یہ حدیث پیش کرتا ہوں۔
بخاری میں لکھا ہے کتاب المزارعۃ باب من احیا ارضًامواتًا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من اعمر ارضا لیست لاحد فھوا حقُّ۔ جس نے کسی ایسی زمین کو آباد کردیا جو کسی کی نہیں وہ اُس کا حقدار ہے۔
اِسی طرح بخاری کی اِسی کتاب اور اِسی باب میں یہ درج ہے کہ قال عمر من احیا ارضا میتۃ فھی لہ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص کسی ایسی لاوارث زمین پر قابض ہوگیا جس کا کوئی مالک نہیں وہ اُسی کو ملے گی۔
یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسا قبضہ اُسی صورت میں جائز ہوگا جبکہ امام کی طرف سے اس کی اجازت دی جائے کیونکہ لاوارث زمین درحقیقت حکومت کی ہوتی ہے پس امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک چونکہ حکومت اُس کی مالک ہے حکومت کی اجازت کے بعد اُس پر قبضہ کرنا چاہیے یونہی نہیں۔ باقی آئمہ کے نزدیک چونکہ حکومت اُس کو کام میں نہیں لارہی اور درحقیقت مالک افراد ہیں حکومت صرف مختارِ کار ہے اِس لئے اگر افراد میں سے کوئی شخص ایسی زمین پر بقدرِ ضرورت قبضہ کر لے تو وہ جائز ہوگا۔
میری غرض ان حوالوں کو نقل کرنے سے یہ ہے کہ ہر مسلمان جو نسلاً کسی زمین کا وارث چلا آرہا ہے اور اُس پر اُس کا قبضہ ہے یا جس نے وہ زمین خریدی ہے یا جس کو وہ زمین ہبہ میں ملی ہے یا جس نے کسی اُفتادہ زمین پر کہ جو کسی کی ملکیت نہیں تھی قبضہ کر لیا ہے اسلامی شریعت کے رُو سے وہ شخص اُس کا مالک تصور کیا جائے گا ویسا ہی مالک جیسا کہ کارخانہ کا مالک اُس کا مالک ہے یا تجارتی دکان کا مالک اُس کا مالک ہے یا ملازمت سے حاصل ہونے والے روپے کا مالک اُس کا مالک ہے۔ ہاں اگر اِن چار ذرائع کے سِوا کسی اور ناجائز ذریعہ سے کسی نے کوئی زمین دبالی ہو تو حکومت کا حق ہے کہ اُس کوواپس لے۔ لیکن اوپر کے بیان کردہ چار ذرائع کے لحاظ سے اگر کوئی شخص کسی زمین کا مالک ہے تو یہ کہہ کر کہ زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اُس پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ زمین کا ہی مالک نہیں وہ نوکریوں کا بھی مالک ہے۔ تجارتوں کا بھی مالک ہے، صنعت و حرفت کابھی مالک ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی وجہ سے زمینوں پر قبضہ کرنا جائز ہے تو اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی وجہ سے تجارتوں پر بھی، صنعت و حرفت پر بھی اور ملازمتوں پر بھی قبضہ کرنا چاہیے، بلکہ افراد کی جانیں بھی خداتعالیٰ کی ملکیت ہیں۔ اگر خداتعالیٰ کی ملکیت کے یہ معنی ہیں کہ حکومت اپنے آپ کو ظل اللہ قرار دے کر جس چیز پر چاہے قبضہ کر لے تو پھر حکومت کو لوگوں کی جانوں پر بھی قبضہ حاصل ہونا چاہئے۔ حکومت کو اختیار حاصل ہونا چاہئے کہ جس کو چاہے جس کام پر لگا دے اور کھانا کپڑا دے دے کوئی تنخواہ وغیرہ مقرر نہ کرے جیسا کہ غلاموں کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن یہ امر سوائے بالشوزم کے اور کہیں جائز نہیں سمجھا جاتا۔
پانچواں باب
کیا جاگیرداری اسلام میں جائز ہے؟
میں نے اوپر کی فصل میں یہ بات بیان کی ہے کہ زمینوں کی ملکیت جائز ذرائع سے افراد کے لئے جائز ہے۔ یہاںشاید کسی کو یہ دھوکا لگے کہ اس اوپر کی فصل کے ماتحت جاگیرداری بھی جائز ہے۔ سو یاد رہے یہ درست نہیں۔ جاگیر داری اور زمینداری میں ایک فرق ہوتا ہے۔ زمینداری اِسے کہتے ہیں کہ ایک شخص زمین کا مالک ہوتا ہے لیکن حکومت یا پبلک کے حقوق کو پوری طرح ادا کرتا ہے اور جاگیر داری اِسے کہتے ہیں کہ حکومت یا پبلک کا حق کلّی طور پر یا جزوی طور پر اُسے معاف ہو جاتا ہے۔ مثلاًزمیندار باوجود زمین کا مالک ہونے کے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ معاملہ یا آبیانہ جسے اسلامی اصطلاح میں عُشر یا خراج یا زکوٰۃ کہتے ہیں ادا کرتا رہتا ہے لیکن جاگیر دار کو تو کلّی طور پر خراج یا عشر یا زکوٰۃ معاف ہوتی ہے یا اس کا ایک حصہ معاف ہوتا ہے اور وہ گویا ملک کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں دوسری رعایا کے ساتھ شریک نہیں ہوتا۔ مُلک کے امن،مُلک کے عدل و انصاف، مُلک کی حفاظت ، مُلک کے دفاع اور مُلک کی حکومت کے چلانے کے لئے ایک غریب سے غریب آدمی کچھ نہ کچھ زکوٰۃ یا ٹیکس دے رہا ہوتا ہے لیکن یہ شخص ان تمام انتظامات سے فائدہ تو اُٹھا رہا ہوتا ہے لیکن ان کا بوجھ اُٹھانے میں شریک نہیں ہوتا۔ یہ چیز قطعی طور پر حرام ہے اور کسی حکومت کو زکوٰۃ یا عُشر کے معاف کردینے کا حق نہیں حتی کہ بانی اسلام بھی ایسا نہیں کرسکتے تھے کیونکہ یہ حق خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ ہے اور خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ حق کو کوئی انسان معاف نہیں کر سکتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلا معاملہ یہی مسلمانوں کو پیش آیا۔ آپ کی وفات کے بعد عرب کے قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ یہ حق صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک تھا اس کے بعد نہیں۔ صحابہؓ نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زکوٰۃ وصول نہیں کی جائے گی تو حکومت چلے گی کس طرح؟اگر ایسا کیا جائے تو اسلامی نظام درہم برہم ہو جائے گا لیکن نَو مسلم قبائیلیوں کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی اور اُنہوں نے اصرار کیا کہ ہم زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان کو جاگیر دار سمجھ لیا جائے۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے حکام کے نام ہدایتیں جاری کی گئیں کہ زکوٰۃ باقاعدہ وصول کی جائے اور کسی کو معاف نہ کی جائے تو ملک نے بیک وقت بغاوت کردی اور مختلف قبائل مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے اپنے گھروں سے روانہ ہو گئے۔ یہ وقت اسلام کے لئے نہایت نازک تھا۔ سوائے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ اور ایک دو اَور ایسی جگہوں کے تمام کا تمام عرب باغی ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا بہادر آدمی بھی اِس موقع پر گھبرا گیا اور اُنہوں نے دوسرے صحابہؓ سے مشورہ کر کے حضرت ابو بکرؓ سے یہ درخواست کی کہ سرِدست لوگوں کو زکوٰۃ معاف کردی جائے۔ آہستہ آہستہ جب یہ لوگ اسلام میں پکے ہو جائیں گے تو آپ ہی آپ زکوٰۃ دینے لگ جائیں گے اور ساتھ ہی اُنہوں نے کہا کہ مدینہ کے چند ہزار آدمی سارے عرب کا مقابلہ کر ہی کس طرح سکتے ہیں۔ بیس بیس ہزار کا لشکر ایک ایک طرف سے چلا آرہا ہے اگر یہ لوگ مدینہ تک پہنچ گئے تو مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی ساری بات سن کر فرمایا عمرؓ! زکوٰۃ خدا کا حق ہے میں اسے معاف کرنے کی طاقت نہیں پاتا۔ خدا کی قسم! میں خدا کے اس حق کے لینے کے لئے لڑوں گا اور اگر صحابہؓ بھی میرا ساتھ چھوڑ دیں تو میں اکیلا ان لوگوں سے جنگ کروں گا۔ خدا کی قسم! اگر یہ لوگ مدینہ میں گھس آئیں اور ازواجِ نبیؐ کی لاشیں گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں ان لوگوں سے نہیں ڈروں گا اور اُس وقت تک ان سے جنگ جاری رکھوں گا جب تک کہ زکوٰۃ کی وہ چھوٹی رسّی جو اونٹ کا گھٹنا باندھنے کے کام آتی ہے اور جسے یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ادا کرتے تھے اب بھی ادا نہ کریں گے۔۳۲؎ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ یہ باتیں سن کر میرا دل دہل گیا اور میں نے سمجھا کہ واقعہ میں یہی شخص اِس بات کا مستحق تھا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد اسلام کی باگ ڈور اِس کے ہاتھ میں دی جاتی۔
یہ وہ فیصلہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام کے پہلے خلیفہ نے کیا اور صحابہؓ باوجود خطرات کو دیکھنے کے اس فیصلہ کو ماننے پر مجبور ہو گئے اور خدا تعالیٰ نے بھی آسمانی شہادتوں سے اس فیصلہ کی سچائی کو ثابت کر دیا۔ اکثر حصہ مسلمانوں کا اسامہ بن زیدؓ کے ماتحت شام کی جنگ کے لئے بھجوا دیا گیا تھا اور مٹھی بھر صحابہؓ باقی رہ گئے تھے۔ دشمن اتنی تعداد میں تھا اور اتنا طاقتور تھا کہ باقی ماندہ صحابہؓ ان کے اونٹوں کے پائوں تلے روندے جاسکتے تھے لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی، اُسی طرح اِن ایام میں اُس نے حضرت ابوبکر ؓ کی بھی مدد کی۔ اس لئے کہ ابوبکرؓ ایک ایسے مسئلہ کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے جو اسلام کے پانچ ارکان میں شامل ہے اور خداتعالیٰ نے صحابہؓ کو وہ قوتِ بازو بخشی اور وہ عزم عطا فرمایا کہ باوجود اِس کے کہ بعض دفعہ ہزاروں ہزار آدمی کے لشکر کے سامنے وہ پہاڑی کنکروں کی طرح اِدھر اُدھر بکھر جاتے تھے مگر پھر ان کے قدم مضبوط ہو جاتے تھے، ان کو پھر اکٹھا ہو جانے کی توفیق مل جاتی تھی اور شیروں کی طرح وہ دشمنوں کے ٹڈی دل لشکروں پر پھر جاپڑتے تھے۔ جہاں تک لشکروں کا سوال ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اتنی کم تعداد کے صحابہؓ کو اتنے بڑے لشکروں کا مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن نہ صحابہؓ نے اس کمی کو محسوس کیا اور نہ خدا تعالیٰ نے اِس کمی کے بد نتائج پیدا ہونے دئیے۔ آخر مدینہ سے چند منزل کے فاصلہ پر سب سے بڑے باغی لشکر کو جس میں بعض روایتوں کے مطابق کوئی ایک لاکھ کے قریب سپاہی تھا،صرف دوہزار صحابہؓ نے شکست دی۔ وہ دانوں کی طرح بھن گئے، وہ قیمے کی طرح اُڑگئے لیکن اُن کا قدم پیچھے نہ ہٹا اور اُسی وقت اُن کی تلواریں ٹھہریں جبکہ مسیلمہ کذاب مارا گیا اور باقی لشکر تتر بتر ہو گیا۔
یہ واقعات بتاتے ہیں کہ آسمان سے خداتعالیٰ نے کہا کہ جو کچھ ابو بکرؓ نے کیا ٹھیک کیا۔ اگر زکوٰۃ کا معاف کرنا کسی حکومت کے اختیار میں ہوتا تو ایسے نازک حالات میں ابوبکرؓ ضرور زکوٰۃ معاف کر دیتے۔ لیکن اُنہوں نے زکوٰۃ معاف نہیں کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر دشمن مسلمانوں پر غالب آکر مدینہ میں گھس آئے اور ازواج النبیؐ کی لاشوں کی ٹانگیں پکڑ کر کتے مدینہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھریں تب بھی وہ زکوٰۃ معاف نہیں کریںگے۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ کوئی حکومت خواہ مذہبی ہو یا سیاسی اِس چیز کو معاف نہیں کرسکتی۔ میں حیران ہوں کہ مسلمانوں میں یہ جہالت کس طرح آگئی کہ انہوں نے عُشر اور خراج معاف کرنے شروع کردئیے اور جاگیرداری سسٹم قائم کر دیا۔ جاگیرداری سسٹم کے تو یقینا یہ معنی ہیں کہ مالک خدا نہیں بلکہ حکومت ہے اور وہ جس کو چاہتی ہے اپنے بندوں کا مالک بنا دیتی ہے۔
غرض جاگیرداری سسٹم قطعاً اسلام کے خلاف ہے اور نہ صرف اسلام کے خلاف ہے بلکہ اسلام کے پنج ارکان کے خلاف ہے وہ پانچ حکم جن میں سے ایک حکم توڑنے سے بھی انسان قطعی کافر ہو جاتا ہے ان میں سے ایک ہے۔ پس میں مسلمان جاگیرداروں سے کہوں گا کہ حکومت کے کہنے پر نہیں خدا اور رسول کے کہنے پر وہ اپنی جاگیریں چھوڑ دیں۔ عُشر کو یا خراج کو کوئی معاف نہیں کر سکتا۔ اسلام میں عُشر وصول نہ کرنے کی صرف ایک ہی مثال پائی جاتی ہے اور وہ بطور سزا کے ہے۔ ایک شخص نے عُشر کے ادا کرنے میں تنگی محسوس کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آئندہ اس شخص سے زکوٰۃ وصول نہ کی جائے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے وہ شخص اپنی زکوٰۃ لے کر جو ہزاروں ہزار روپیہ کی قیمت کی تھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عاجزانہ طور پر درخواست کی کہ زکوٰۃ مجھ سے وصول کی جائے۔ لیکن وہ ابوبکرؓ جس نے مرتدین عرب کے مقابلہ میں یہ کہا تھا کہ اگر زکوٰۃ کی ایک چھوٹی سی رسّی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کی جاتی تھی تو وہ بھی میں لے کر چھوڑوں گا اُسی ابوبکر ؓ نے اُس شخص کو یہ جواب دیا کہ جس زکوٰۃ کو خدا کے رسول نے وصول نہیںکیا ابوبکرؓ اُس کو وصول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ وہ شخص ہر سال زکوٰۃ لاتا تھا۔ اُس سال کی بھی اور پچھلے سالوں کی بھی اور اصرار کرتا تھا کہ اُس سے زکوٰۃ وصول کی جائے مگر حضرت ابوبکرؓ اُس کی زکوٰۃ کو ردّ کر دیتے تھے اور وہ اپنی بد بختی پر خون کے آنسو بہاتا ہوا مثالی طور پر نہیں عملی طور پر روتا ہوا واپس چلا جاتا تھا۔
اِس ایک جاگیرداری کی مثال کے سِوا قرونِ اُولیٰ میں جاگیرداری کی کوئی مثال نہیں ملتی مگر یہ کتنی ذلّت والی اور کتنی دکھ والی جاگیرداری تھی۔ وہ کمزور انسان، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو ردّ کر دینے والا انسان اِس زکوٰۃ کی معافی کو *** سمجھتا تھا اور اس *** کے داغ کو اپنے ماتھے پر سے دھونا چاہتا تھا۔ کیا آج کا جاگیردار مسلمان اِس *** کو اپنی اولادوں کی طرف منتقل کرنا چاہتا ہے؟یہ تو کوئی سوال ہی نہیں کہ حکومت کوئی ایسا قانون پاس کرتی ہے یا نہیں ایک مسلمان کی حیثیت سے جاگیردار کو چاہیے کہ حکومت اگر زور بھی دے کہ تُو یہ رقم اپنے پاس رکھ لے تو وہ کہے کہ میں یہ رقم رکھنے کے لئے ہر گز تیار نہیں۔ یہ تو میرے ایمان کا دیوالہ نکالنے والی بات ہے، یہ تو مجھے کافروں میں شامل کرنے والی رقم ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی جائدادیں صحابہؓ کو ہبہ کی تھیں اُن سب کے اوپر آپ نے زکوٰۃ کو قائم رکھا تھا۔ چنانچہ سنن ابودائود میں آتا ہے۔
عن بشیر بن یسار عن رجال من اصحاب النبیﷺ ادرکھم یذکرون عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین ظھر علی خیبر قسمھا علی ستۃ وثلاثین سھما۔ جمع کل سھم مائۃ سھم فجعل ذالک کلہ للمسلمین فکان فی ذالک النصف سھام المسلمین وسھم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم معھا وجعل النصف الاخر لمن ینزل بہ من الوفود والا مور و نوائب الناس۳۳؎ یعنی بشیر بن یسار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابہؓ سے جن سے اُن کو ملاقات کا موقع ملا ہے یہ روایت سنی ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر فتح پائی تو آپؐ نے خیبر کی ساری زمین چھتیس حصوں میں تقسیم کردی۔ ہر حصہ ایک سَو حصص کا تھا۔ گویا کل تین ہزار چھ سَو حصہ مقرر کیا گیا۔ اِن حصوں میں سے نصف یعنی اٹھارہ سَو حصے تو آپ نے مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے جن میں خود آپ کا بھی حصہ شامل تھا اور باقی نصف آپ نے اِس بات کے لئے محفوظ کر دیا کہ غریبوں کی مشکلات اور حکومت کی ضروریات پر اس کی آمد خرچ ہو۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی نصف زمین صحابہؓ میں بانٹ دی تھی۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا اِس نصف زمین پر سے عُشر وصول ہوتا تھا یا نہیں؟ سو اِس کے متعلق ابودائود میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہ ؓ کو خیبر کی طرف بھیجا کرتے تھے اور وہ وہاں جاکر کھجوروں کے درختوں کے پھلوں کی قیمت کا اندازہ لگاتے تھے پیشتر اِس کے کہ لوگ اُس میں سے کچھ کھائیں۔ پھر وہ یہودیوں کو موقع دیا کرتے تھے کہ خواہ وہ اس اندازہ کو قبول کرکے اپنا حقِ مزارعہ رکھ کر ان کو دے دیںیا وہ اس اندازہ کو ردّ کردیں تو ابن رواحہ اپنے اندازہ کے مطابق ان کو حصہ دے کر باقی اپنے پاس رکھ لیں۔ ۳۴؎ یہ وہی طریقہ ہے جسے کنکوت کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ وہ اِس لئے ایسا کرتے تھے کہ پھلوں کے کھائے جانے سے پہلے زکوٰۃ کا اندازہ ہو جائے جس کے معنی یہ ہیں کہ خیبر کے عطیات پر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ سے زیادہ کون جاگیرداری کا مستحق تھا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنے لئے جاگیرداری کو قبول کیا اور نہ صحابہؓ کیلئے جاگیر داری پسند کی بلکہ زکوٰۃ کا حق سب سے وصول کیا۔
چھٹا باب
کیا زمین کے بڑے بڑے ٹکڑوں کی ملکیت بھی جاگیرداری کی طرح ممنوع ہے؟
اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ نہیں۔ اسلام میں زمین کے بڑے بڑے ٹکڑوں کا مالک ہونا بھی جائز ہے اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا مالک ہونا بھی جائز ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ میں جو خیبر کی زمین آئی تھی وہ اتنی بڑی تھی کہ کان ینفق منھا ویاکل و یعود علی فقراء بنی ھاشم ویزوج ایمھم ۳۵؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِس زمین کی آمد میں سے اپنے اخراجات اور اپنے ۹ گھروں کے اخراجات بھی نکالتے تھے اور بنو ہاشم کے غرباء پر بھی اسے خرچ کرتے تھے اور بنوہاشم کی بیوائوں کے نکاح بھی اس روپیہ سے کرتے تھے۔
اِس طرح حدیث میں آتا ہے ۔ قد سال یمیم الداری رسول اللّٰہﷺ ان یقطعہ عیون البلد الذی کان منہ بالشام قبل۳۶؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تمیم داری رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ آپ شام کی بعض نہروں کی زمین اُن کو عطا فرمادیں اور آپ نے اُن کو وہ زمین عطا فرمادی۔
اِس طرح روایت ہے کہ حضرت عمروبن عاص کا طائف میں انگوروں کا ایک باغ تھا جس میں دس لاکھ لکڑی سہارے کی لگی ہوئی تھی ۳۷؎ اگر ایک ایک انگور کے سہارے کے لئے دس دس لکڑیاں بھی سمجھی جائیں تو ایک لاکھ درخت بنتا ہے اور اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سَو ایکڑ سے بڑا باغ تھا۔ باغ کے ایک ایکڑ کی آمدن دس ایکڑ زرعی زمین سے زیادہ ہوتی ہے گویا ایک ہزار ایکڑ کی ملکیت اُن کے پاس تھی۔
کتاب الخراج صفحہ ۳۵پر شیخ الاسلام امام ابو یوسف ؒ شاگرد حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ حدثنی بعض اشیاخی من اھل المدینۃ قال اقطع رسول اللّٰہﷺ بلال ابن الحارث المزنی مابین البحر والصخر۳۸؎ یعنی رسول کریم ﷺنے بلال بن حارث کو سمندر اور پہاڑ کے درمیان کا علاقہ سارے کا سارا بخش دیا۔ اِس واقعہ کو سنن ابو دائود باب اقطاع الارضین صفحہ ۴۳۵ پر یوں بیان کیا گیا ہے کہ عمرو بن عوفؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث المزنی کو سمندر سے لے کر مدینہ کے قریب کے پہاڑ قدس تک تمام کانیں اور تمام اونچے ٹیلوں والی زمینیں اور تمام نشیب والی زمینیںعطا فرمادی تھیں لیکن یہ شرط لگادی تھی کہ اس علاقہ میں اگر کسی مسلمان کی زمین ہو تو وہ تم کو نہیں ملے گی اور ان الفاظ میں آپ نے اُن کو ہبہ نامہ عطافرمایا تھا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ھذا ما اعطی محمد رسول اللّٰہﷺ بلال ابن الحارث المزنی اعطاہ معادن القبلیۃ من القدس جلسیھا و غوریھا وحیث یصلح الزرع ولم یعطہ حق مسلم۳۹؎ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلال بن حارث کو یہ پروانہ دیتے ہیں کہ آپ نے ان کو قبلیہ کی کانیں خواہ وہ اونچی جگہوں پر ہوں یا نیچی جگہوں پر ہوں اور قدس پہاڑ کے پرے جتنی زمین زراعت کے قابل ہے سب کی سب بخش دی ہے۔
یہ زمین اتنی بڑی تھی کہ باوجود اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی فتوحات سے مسلمانوں کے پاس بہت مال آگیا تھا پھر بھی بلال اُن کو آباد نہیں کر سکے اور اس بارہ میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کو ایک قدم اُٹھانا پڑا جس کا ذکر ایک اگلے باب میں آئے گا۔
کنزالعمال جلد ۲ صفحہ۱۹۰ پر سنن بیہقی کے حوالے سے یہ روایت لکھی ہے کہ عن عبداللّٰہ بن الحسن ان علیا سال عمر بن الخطاب فاقطعہ ینبع۔ یعنی عبداللہ بن حسن رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے خواہش کی کہ وہ انہیں کچھ زمین ہبہ کریں۔ اِس پر اُنہوں نے ینبُع قصبہ سارے کا سارا اُن کے نام لکھ دیا۔
ینبُع ایک قصبہ ہے جو مدینہ منورہ کا بندر گاہ بھی ہے اس لحاظ سے اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ ظاہر بات ہے کہ اس قصبہ کے ساتھ پانچ سات ہزار ایکڑ زمین تو ضرور ہوگی بلکہ اِس سے بھی زیادہ زمین ہوگی۔
اِسی طرح حدیث میں آتا ہے:۔قد اقطع رسول اللّٰہﷺ الزبیر بن العوام رکض فرسہ من موات النقیح فاجراہ ثم رمی بسوطہ رغبۃ فی الزیادۃ فقال رسول اللّٰہِﷺ اعطوہ منتھی سوطہ ۴۰؎ سنن ابودائود میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے یہ روایت اس طرح درج ہے کہ اقطع الزبیر حضر فرسہٖ فاجریٰ فرسہٗ حتی قام ثم رمی بسوطہٖ فقال اعطوہ من حیث بلغت السوط ۴۱؎ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرؓ کو سرکاری زمینوں میں سے ایک اتنا بڑا ٹکڑا عطا فرما یا جس میں کہ حضرت زبیر ؓ کا گھوڑا آخری سانس تک دَوڑ سکے۔ حضرت زبیرؓ کا گھوڑا جس جگہ پر جا کر کھڑا ہوا وہاں سے انہوں نے اپنا کوڑا بڑے زور سے اَور پرے پھینکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ نہ صرف اُس حد تک زمین اُن کو دی جائے جہاں اُن کا گھوڑا جا کر کھڑا ہوگیا تھا بلکہ جہاں اُن کا کوڑا گرا تھا اُس حد تک ان کو زمین دی جائے۔ ہمارے ملک کا گھوڑا بھی میلوں میل دَوڑ سکتا ہے اور عرب کا گھوڑا تو بہت زیادہ تیز ہوتا ہے اگر چار پانچ میل بھی گھوڑے کی دَوڑ رکھی جائے تو بیس ہزار ایکڑ کے قریب زمین بنتی ہے۔
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کتاب الخراج کے صفحہ ۳۴ پر لکھتے ہیں اقطع رسول اللّٰہ ﷺ الزبیر ارضا فیھا… نخل من اموال بنی نضیر و ذکر انھا کانت ارضا یقال لہ الجرف ۴۲؎ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو ایک زمین کا ٹکڑا بخشا جس میں کھجور کے درخت بھی لگے ہوئے تھے اور وہ کسی وقت یہودی قبیلہ بنو نضیر کی ملکیت میں سے تھا اور اُس کو جرف کہتے تھے یعنی وہ ایک مستقل گائوں تھا۔ جب ہم پہلی حدیثوں سے اِس حدیث کو ملائیں تو اِس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرؓ کو اُس وقت اوپر والی زمین بخشی جبکہ وہ پہلے سے ایک گائوں کے مالک تھے جس میں کھجور کے باغ بھی تھے۔
کتاب الخراج کے صفحہ ۳۵ پر امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ ایک اور روایت بھی درج فرماتے ہیں جو یہ ہے۔عن ابی رافع قال اعطاھم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ارضا فعجز وا عن عمارتھا فباعوھا فی زمن عمرابن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ بثمانیۃ الاف دینارا او بثمان مائۃ الف درھم۴۳؎ یعنی حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کے خاندان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہت بڑی زمین دی۔ اُس کی وسعت کی وجہ سے ان کا خاندان اسے آباد کرنے سے قاصر رہا۔ آخر انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ زمین آٹھ ہزار دینار پر جو آٹھ لاکھ درہم کے برابر ہوتا ہے فروخت کردی۔درہم کی قیمت ہمارے زمانہ کے سکّوں کے لحاظ سے ساڑھے تین آنہ بنتی ہے وہ چاندی کا سکہ ہوتا تھا اور دینار سونے کا سکہ ہوتا تھا۔ پس حساب کے رو سے اگر آٹھ لاکھ درہم کو روپوں میں تبدیل کیا جائے تو قریباً دو لاکھ روپے ہوتے ہیں۔ چونکہ اُس وقت سکہ کی قیمت زیادہ گراں ہوتی تھی اور اب سکہ کی قیمت اُس زمانہ سے پندرہ بیس گنا گر گئی ہے اس لئے یہ رقم اس زمانہ کے لحاظ سے پندرہ بیس لاکھ سے کم نہیں بنتی۔
اُوپر کے حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہؓ نے بڑی بڑی زمینداریاں بعض افراد کو بخشی تھیں۔ جن میں سے بعض پندرہ پندرہ، بیس بیس، تیس تیس ہزار ایکڑ پر مشتمل تھیںاور جن میں سے ایک کی قیمت جو بڑی زمینداریوں میں سے نہیں تھی موجود ہ زمانہ کے روپیہ کے لحاظ سے پندرہ بیس لاکھ روپے کی تھی۔
ساتواں باب
کیا زمین کا خود کاشت کرنا ضروری ہے یا اُسے آگے لگان پر بھی دیا جاسکتا ہے؟
اُوپر کے باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلامی شرع کے رُو سے ایک شخص زمین کے بڑے ٹکڑے کا بھی مالک ہو سکتا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس بڑے ٹکڑے کو کیا کرے گا؟ آخرکوئی شخص اتنے بڑے ٹکڑے کو خود کاشت نہیں کر سکتا۔ یہی صورت ہو سکتی ہے کہ وہ دوسروں کو ملازم رکھ کر کاشت کروائے یا دوسرے لوگوں کو حصہ پر یا لگان پر کاشت کرنے کے لئے اپنی طرف سے زمین دے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کی رُو سے یہ جائز ہے کہ انسان اپنی زمین پر خود تو کاشت نہ کرے لیکن دوسروں سے کاشت کروا کے ان سے حصہ لے لے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں یہ جائز ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔ مسلمانوں میں اختلاف کی بنیاد شیعہ سُنّی سے پڑتی ہے۔ تیسری پارٹی خوارج کی ان کے بعد آئی۔ شیعوں کو سارا غصہ یہی ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے باغِ فدک کی جائیداد جو آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کے خاندان کے خرچ کے لئے مخصوص تھی اُسے آپ کا ترکہ قرار نہ دے کر حسبِ شریعت تقسیم نہ کیا۔ اِس جھگڑے سے تو ہمیں بحث نہیں کیونکہ اس جگہ پر ہم زمین کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ زمین خواہ وقف تھی خواہ مملوکہ تھی اور خواہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال باقی مسلمانوں کی طرح ورثہ میں تقسیم ہو سکتے تھے یا آپ کے بعض ارشادات کے مطابق تقسیم نہیں ہو سکتے تھے، کیا اس کی کاشت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود کیا کرتے تھے یا آپ کے خاندان کے لوگ کیا کرتے تھے؟ زمین تو خیبر میں تھی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے تمام مرد افراد مدینہ منورہ میں رہتے تھے وہ اس زمین کو کاشت کر ہی نہیں سکتے تھے۔ بہر حال دوسرے لوگ ہی اس کی کاشت کرتے ہونگے۔ پس خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا گزارہ ایک ایسی زمین پر تھا جو آگے مقاطعہ پر دی ہوئی تھی اور جو آمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مطہر وجود کے لئے پاک تھی وہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لئے کیوں پاک نہیں؟ بہر حال آپ کے فعل نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اسلام کے رُو سے مالک زمین کا اپنی زمین دوسرے کو مقاطعہ پر دے دینا بالکل جائز اور درست ہے۔ یہ جو کچھ میں نے کہا ہے ایسا واضح معاملہ ہے کہ اس کا کوئی عقلمند انسان انکار نہیں کر سکتا لیکن میں مزید ثبوت کے طور پر بعض احادیث اور روایات بھی اس کی تائید میں پیش کرتا ہوں۔
بخاری میں لکھا ہے۔ عن ابن عمر ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اعطی خیبر الیھود علی ان یعملوھا ویزرعوھا ولھم شطر ماخرج منھا۴۴؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین پر جو آپ نے اپنے لئے اور اپنے صحابہؓ کیلئے اور بیت المال کے لئے تقسیم کردی تھی یہودیوں کو اس شرط پر دے دی کہ وہ اس پر کام کریں اور اس میں زراعت کریں اور جو پیداوار ہو اُس کا نصف اُن کو دیا جائے۔
اہلِ شیعہ کی احادیث میں بھی اس مسئلہ کی تصدیق آتی ہے۔ چنانچہ فروع الکافی جلد ۲ صفحہ ۱۰۳ پر یہ روایت درج ہے کہ
عن یعقوب بن شعیب عن ابی عبداللّٰہ علیہ السلام قال سألت عن الرجل یکون لہالارض من ارض الخراج فیدفعہ الی الرجل علٰی ان یعمرھا ویصلحھا ویودی خراجھا وماکان من فضل فھو بینھما قال لاباس وسالتہ عن المزارعۃ فقال النفقۃ منک والارض لصالحبھا فما اخرج اللّٰہ منھا من شییء قسم علی شرط وکذلک اعطی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیبر حین اتوہ فاعطاھم ایاھا علی ان یعمروھا ولھم النصف مما اخرجت یعنی یعقوب بن شعیبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا کہ اگر کسی شخص کے پاس خراجی زمین میں سے کچھ حصہ زمین کا ہو تو کیا اُس کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی اَور شخص کو وہ زمین دے دے تاکہ وہ اس میں کاشت کرے اور اس کو سنوارے اور گورنمٹ کا خراج اس میں سے ادا کرے اور خراج کے بعد جو کچھ بچ رہے اُسے زمین دینے والے کے ساتھ آدھا آدھا بانٹ لے؟ امام ابو عبداللہ نے فرمایا کہ اِس میں کوئی حرج نہیں وہ ایسا کر سکتا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا کسی سے زمین مقاطعہ پر لے کر اُس میں کھیتی کرنا جائز ہے؟ فرمایا ہاں خرچ تمہارا ہوگا، زمین اُس کی ہوگی۔تم دونوں اس کے حصہ دار ہوگے۔ پھر جو کچھ اس زمین میں سے پیدا ہوگا وہ مقاطعہ کی شرطوں کے مطابق تقسیم ہو جائے گا۔اور فرمایا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو اس طرح کرتے تھے۔ جب خیبر کے یہودی آپؐ کے پاس آئے تو آپؐ نے خیبر کی زمینیں جو مسلمانوں میں تقسیم ہو چکی تھیں، وہ اُن کو اِس شرط پر دِلوادیں کہ وہ اس میں کھیتی باڑی کریں گے اور آدھا حصہ مسلمانوں کو مل جائے گا اور آدھا حصہ اُن کو مل جائے گا۔
اِن روایتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام کے احکام کے رُو سے اگر کوئی شخص بوجہ بیماری یا غیر حاضری اپنی تھوڑی سی زمین کو خود کاشت نہ کر سکے یا بڑی زمین کو خود آباد نہ کر سکے تو وہ اپنی زمین بٹائی پر دوسرے لوگوں کو دے سکتا ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا اور صحابہؓ نے ایسا کیا اور دوسروں کو ایسا کرنے کا مشورہ دیا۔ پس بٹائی پر زمین کا دینا اسلام کی رُو سے ہر گز ناجائز نہیں۔
آٹھواں باب
کیا زمین صرف بٹائی پر دی جاسکتی ہے یا لگان پر بھی دی جاسکتی ہے اور کیا اس کے لئے کوئی حد بندی مقرر ہے؟
یہ ثابت کر چکنے کے بعد کہ اسلام میں بڑی زمینوں کی ملکیت بھی جائز ہے اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس کے پاس بڑی زمین ہو چونکہ وہ خود کاشت نہیں کر سکتا اور اُسے لازماً زمین دوسروں کو دینی پڑے گی تاکہ وہ اس کی طرف سے کاشت کریں اس کے لئے آیا اسلام نے کوئی قاعدہ مقرر کیا ہے یا مختلف طریقوں کو جائز رکھا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کے رُو سے زمین کو کاشت پر دینے کی کئی جائز صورتیں پائی جاتی ہیں۔
اوّل زمین کو بٹائی پر دینا۔
دوم زمین کو لگان پر دینا۔
سوم زمین اپنے بھائیوں کی امداد کے لئے مفت دینا۔
پہلی صورت یعنی بٹائی پر دینے کے متعلق پہلے مختلف ابواب میں احادیث نقل کی جاچکی ہیں اور بتایا جاچکا ہے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زمین اس طرح پر یہودیوں کو کاشت کے لئے دی تھی۔ اِسی بارہ میں بعض اور احادیث اور اقوال بھی نقل کئے جاتے ہیں۔
محلّٰی ابن حزم جلد ۸ کتاب احکام المزارعہ میں لکھا ہے۔ان اخر فعل رسول اللّٰہ ﷺ الی ان مات کان اعطاء الارض بنصف مایخرج منھا من الزرع و من الثمر ففعلہ علیہ السلام فی خیبر ھوالناسخیعنی امام ابن حزم(جو حدیث میں اتنا بڑا پایہ رکھتے ہیں کہ ان کو چھوٹا احمد بن حنبل کہا جاتا ہے) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری فعل جو وفات تک جاری رہا یہ تھا کہ آپ پیداوار کی نصفانصف بٹائی پر زمین مزارع کو دیا کرتے تھے اور کھجوروں کا باغ بھی پیداوار کی نصفا نصف بٹائی پر دیا کرتے تھے۔ پس چونکہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری فیصلہ تھا جو آپ نے خیبر میں نافذ کیا اور آپ کی وفات تک اِس پر عمل کیا گیا اس لئے اگر کوئی حدیث اِس کے خلاف ہے تو یہ فیصلہ اور یہ عمل اُس کو منسوخ کرتا ہے۔
خلفاء اور صحابہ کا عمل بھی اِسی کے مطابق تھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں زمین بٹائی پر دینے کا کام جاری رکھا تھا۔ چنانچہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب یمن سے یہودیوں اور عیسائیوں کو نکال دیا تو اُن کی زمینیں لوگوں کو ٹھیکہ پر دیں اور شرط یہ کی کہ اگر وہ تمام قسم کے اخراجات خود برداشت کریں تو دو تہائی اُن کا اور حکومت کا ایک ثلث حصہ ہو گا اور اگر عمرؓ یعنی حکومت بیج اپنے پاس سے دیں تو نصف عمرؓ یعنی حکومت کو ملے گااور نصف مزارعین کو ملے گا۔ بعض روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ بعض جگہ پر اس میں کسی قدر تبدیلی بھی ہوئی اور اس طرح بھی مقاطعہ دیا گیا کہ اگر بیج، بیل اور سامانِ کاشت حضرت عمرؓ یعنی حکومت دے تو حکومت کو دو تہائی اور مزارع کو ایک تہائی ملے گا۔ اور اگر یہ چیزیں مزارع دیں تو پھر آدھا حکومت کا ہوگا اور آدھا اُن لوگوں کا ہوگا۔۴۵؎
اسی طرح بخاری باب المزارعۃ میں یہ حدیث درج ہے۔قال قیس بن مسلم عن ابی جعفر قال ما بالمد ینۃ اھل بیت ھجرۃ الا یزرعون علی الثلث والربع و زارع علی وسعد بن مالک و عبداللّٰہ بن مسعود و عمرو بن عبدالعزیز والقاسم و عروۃ بن زبیر و اٰل ابی بکر و اٰل عمر واٰل علی و ابن سیرین و قال عبدالرحمن بن الاسود کنت اشارک عبدالرحمٰن بن یزید فی الزرع۔یعنی ابی جعفرؓ کی روایت ہے کہ مدینہ کے مہاجرین کا ایک خاندان بھی نہیں تھا جو تیسرے یا چوتھے حصہ کی بٹائی پر زراعت نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ حضرت علیؓ اور سعد بن مالکؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ اور عمروبن عبدالعزیزؓ اور قاسمؓ اور عروہ بن زبیرؓ اور خاندانِ حضرت ابوبکرؓ اور خاندانِ حضرت عمرؓ اور خاندانِ حضرت علیؓ اور مشہور تابعی ابن سیرین یہ سب کے سب زمین بٹائی پر دیا کرتے تھے۔ عبدالرحمن بن الاسود کہتے ہیں کہ میں بھی عبدالرحمن بن یزید کے ساتھ مل کر یہ کام کیا کرتا تھا۔
اِس حدیث پر علامہ ابن حجر اپنی کتاب فتح الباری جلد۵صفحہ۷ میں یہ نوٹ لکھتے ہیں کہ امام بخاریؓ نے یہ روایت نقل کر کے اِس طرف اشارہ کیا ہے کہ بٹائی پر زمین دینے کے جواز میں کسی صحابی کو اختلاف نہیں خصوصاً مہاجر، اہلِ مدینہ تمام کے تمام اِس بات پر متفق ہیں۔
اِسی طرح ایک روایت میں خالد حذاء یمنی کہتے ہیں کہ مَیں ایک دفعہ حضرت مجاہد کے پاس بیٹھا تھا(یہ ایک بہت بڑے فقیہہ اور مفسر قرآن تابعی تھے) کہ حضرت مجاہد نے رافع بن خدیج کی روایت بیان کی جو زمین کو مقاطعہ پر دینے کے خلاف ہے۔ اس مجلس میں طائوس بھی بیٹھے ہوئے تھے( یہ بھی بہت بڑے تابعی اور مفسر گزرے ہیں۔ )انہوں نے جب یہ روایت سُنی تو اپنے سینہ پر زور سے ہاتھ مارا اور کہا کہ قدم علینا معاذ الیمن وکان یعطی الارض علی الثلث والربع فنحن نعمل بہ الی الیوم ۴۷؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمارے پاس آپؐ کی طرف سے گورنر مقرر ہو کر حضرت معاذ صحابیؓ یمن میں تشریف لائے اور آپ زمین تیسرے یا چوتھے حصّہ پر بٹائی پر لوگوں کو دیا کرتے تھے ہم بھی اِسی طرح بٹائی پر لوگوں کو زمین دیتے رہے اور آج تک دیتے ہیں اس لئے ہم اس دوسری حدیث کی صحت کو تسلیم نہیں کرتے۔
حضرت طائوس کو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اِس فیصلہ پر اتنا اصرار تھا کہ نسائی میں عمروبن دینار سے روایت لکھی ہے کہ طائوس کہتے تھے اصل طریقہ زمین کو کاشت کے لئے دینے کا بٹائی ہی ہے کسی رقم کے بدلہ پر زمین دینا نا پسند دیدہ ہے (اس بارہ میں تفصیل آگے آئے گی۔)
بخاری کتاب المزارعۃ میں حضرت ابو ہریرہؓ سے ایک راویت آتی ہے کہ انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور غرض کیا کہ ہمارے باغات ہم میں اور مہاجرین میں آدھے آدھے بانٹ دئیے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر فرمایا یہ صورت ہوسکتی ہے وہ لوگ محنت کریں اور پھل میں تمہارے ساتھ شریک ہوجائیں۔ انصار نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم نے آپؐ کا ارشاد سنا اور ہم ایسا ہی کریں گے۔
ائمہ اہل بیت کا بھی یہی تعامل رہا ہے اور اِسی کے مطابق ان کا فتویٰ تھا۔چنانچہ حضرت امام ابو عبداللہ سے روایت ہے کہ آپؓ نے فرمایا گندم کی معین مقدار پر زمین کا ٹھیکہ مت لیا کرو بلکہ نصف پیداوار یا تہائی پیداوار یا چوتھائی پیداوار یا پانچویں حصہ کی پیداوار پر ٹھیکہ لیا کرو۔ اِس میں کوئی حرج نہیں(فروع الکافی جلد۲ صفحہ ۱۰۲ یہ کتاب شیعوں کی کتب میں حدیث بخاری کا درجہ رکھتی ہے)
اِسی طرح حضرت امام ابو عبداللہ سے یعقوب بن شعیب روایت کرتے ہیں کہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ میری جان آپؐ پر قربان ہو آپ کا کیا فتویٰ ہے اُس زمین کے بارہ میں جو مجھے بادشاہ سے ملے پھر میں اُس کو آگے مقاطعہ پر دے دوں اور یہ شرط کروں کہ جو کچھ اس میں سے نکلے،سلطنت کا حق دینے کے بعد جو بچے گا اُس میں سے نصف یا ثلث میرا ہوگا آیا یہ جائز ہے؟ حضرت امام نے فرمایا۔ اس میں کوئی حرج نہیں میں بھی اِسی طرح اپنی زمینوں کے متعلق کیا کرتا ہوں۔ ۴۹؎
اِسی طرح ابراہیم کرخی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو عبداللہ سے پوچھا کہ میں اگر کسی ذمی کے ساتھ یہ معاہدہ کروں کہ زمین اور بیج اور بیل میرے ہونگے اور ذمی کے ذمہ زمین کی نگہداشت اور پانی دینا اور ہل چلانا اور گڈائی وغیرہ کرنا ہوگا یہاں تک کہ گندم یا جَو پک جائیں پھر جو فصل پیدا ہو اُس میں سے حکومت کا خرچ ادا کرنے کے بعد جو بچے اُس میں سے وہ ذمی مزارع تو تیسرا حصہ لے اور باقی دو حصّے میرے ہوں تو کیا یہ جائز ہے؟ حضرت امام ابوعبداللہ نے فرمایا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ۵۰؎
ائمہ اہل السنت واہل حدیث اور دیگر علماء کا بھی یہی فیصلہ ہے چنانچہ امام نووی شرح مسلم کی جلد۲ صفحہ ۱۴ پر لکھتے ہیں کہ قال ابن ابی لیلٰی وابویوسف و محمد وسائر الکوفیّین وفقھاء المحدثین واحمد وابن خزیمۃ وابن شریح وآخرون تجوز المسا قاۃ والمزارعۃ مجتمعتین و یجوز کل واحد منھما منفردۃً یعنی ابن ابی لیلیٰ اور ابو یوسف اور محمد اور کوفہ کے دوسرے تمام علماء اور محدثین میں سے سب بڑے بڑے فقہاء اور امام احمد اور شافعیوں میں سے ابن خزیمہ اور ابن شریح اور اَور بہت سے علماء باغ اور اس کی زمین کو اکٹھا ٹھیکے پر لینا یا دینا یا زمین کو الگ ٹھیکے پر دینا اور باغ کو الگ ٹھیکے پر دینا جائز سمجھتے ہیں۔
اِسی صفحہ پر اُن کا یہ قول بھی درج ہے کہ ابن شریح اور ابن خزیمہ اور ان کے سوا ہمارے شافعی مذہب کے دوسرے بڑے علماء کی بھی یہی رائے ہے اور یہی پسندیدہ فیصلہ ہے اور اِسی پر ہمارا عمل ہے۔ پھر امام نووی کی یہ رائے بھی اِسی صفحہ پر درج ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمان اور تمام پچھلے زمانوں کے مسلمان زمین کو بٹائی پر دینے کے طریقہ پر عمل کرتے رہے ہیں۔
امام ابو یوسف جو امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں میں سے سب سے بڑے پایہ کے سمجھے جاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ھذا احسن ما سمعنا فی ذالک واللّٰہ اعلم وھو الماخوذ بہ عندنا ۵۱؎ یعنی بٹائی پر زمین دینے کا جو طریق ہے اس کے جائز ہونے کے متعلق جو روایتیں ہیں وہ نہایت ہی ثابت شدہ روایتیں ہیں۔ باقی حقیقی علم خدا تعالیٰ کو ہے مگر ہم لوگ تو اِسی فتو یٰ پر عمل کرتے ہیں۔
اِسی طرح امام نووی سے ان کی شرح مسلم کی جلد ۲صفحہ ۱۲ پر یہ روایت درج ہے کہ مالکیوں میں سے ایک بڑی جماعت کا یہ فتویٰ ہے کہ زمین کو بٹائی پر دینا تیسرے حصہ پر یا چوتھے حصہ پر یا اَور کسی طریق پر جس کا باہم فیصلہ ہو جائے جائز ہے۔
سابق بڑے ائمہ میں سے صرف امام ابو حنیفہؒ ہیں جو اس کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ صرف نقدی پر زمین دی جاسکتی ہے، بٹائی پر زمین نہیں دی جاسکتی۔ امام ابو حنیفہؒ کا یہ فتویٰ امام نووی کی شرح مسلم جلد ۲ صفحہ۱۴ پر درج ہے۔ اور علامہ طحاوی کی کتاب شرح معانی الآثار جلد ۴ صفحہ ۱۳۰ پر بھی یہ فتویٰ درج ہے۔ اس کتاب میں یہ فتویٰ اِن الفاظ میں درج ہے۔ لایجوز المساقاۃ ولا المزارعۃ الا بالدراھم والدنا نیر وما اشبھما من العروض۔ یعنی باغوں کا ٹھیکہ پر دینا یا زمین کا ٹھیکہ پر دینا صرف روپے سونے کے لگان کے بِالمقابل جائز ہے، غلّہ کی بٹائی پر جائز نہیں۔
علّامہ ابن قیم جو اہلِ حدیث اور صوفیاء دونوں میں بڑی عزّت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اعلام الموقعین جلد ۲ صفحہ ۱۲۶ پر فرماتے ہیں۔ المزارعۃ الطریقۃ المشروعۃ التی فعلھا رسول اللّٰہ ﷺ حتی کانھا رای عین واتفق علیہ الصحابۃ وصح فعلھا عن الخلفاء الراشیدین لایشک فیھا کما حکاہ البخاری ۵۲؎ یعنی زمین کا بٹائی پر دینا ایک شرعی طریقہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے اور اِس حد تک ثابت ہے کہ گویا ہم نے اپنی آنکھوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عمل کرتے دیکھ لیا ہے۔ اور صحابہؓ نے بھی اِس پر اتفاق کیا ہے اور خلفائے راشدین کا عمل بھی اس پر ثابت ہے جس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں۔ اور امام بخاری نے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ صاحب کا بھی یہی مذہب تھا چنانچہ حجۃاللہ البالغہ کی جلد ۲ صفحہ ۱۰۷،۱۰۸ پر یہ عبارت درج ہے۔ المساقاۃ ان تکون اصول اشجر لرجل فیکفی مؤونتھا الاخر علی ان تکون الثمر بینھما والمزارعۃ ان تکون الارض والبذر لواحد والعمل والبقر من الاخر والمخابرۃ ان تکون الارض لواحد والبذرو البقر والعمل من الاخر ونوع اخر ان یکون العمل من احدھما والباقی من الاخر… وکان وجوہ التابعین یتعاملون بالمزارعۃ ویدل علی الجواز حدیث معاملۃ اھل خیبر۔۵۳؎ شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ مساقاۃ کا لفظ جو حدیثوں میں آتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ درخت کسی شخص کی ملکیت ہوں اور اُن کو پانی دینے کا کام یا دوسری خدمات کسی اَور شخص کے سپرد ہوں اِس شرط پر کہ پھل وہ آپس میں بانٹ لیں گے۔ اور مزارعت یہ ہے کہ زمین اور بیج ایک کا ہو اور محنت اور جانور وغیرہ دوسرے کے ہوں اور پھر فصل آپس میں بانٹ لی جائے۔ اور مخابرت یہ ہے کہ زمین ایک کی ہو اور بیج اور جانور اور محنت دوسرے کی ہو۔ اور ایک قسم اَور بھی ہوتی ہے کہ صرف محنت ایک شخص کی ہو اور باقی سب اخراجات اور زمین دوسرے کے ہوں۔ تابعیوں میں سے جو بڑے بڑے تابعی تھے وہ لوگ اوپر جو مزارعۃ کی قسم لکھی ہے اُس پر عمل کیا کرتے تھے اور اہلِ خیبر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاملہ کیا اُس سے بھی اِس کی تصدیق ہوتی ہے۔
اوپر کی روایات سے ثابت ہے کہ غیر مشروط طور پر صرف امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ہی بٹائی ناجائز ہے باقی سب نے یا تو کلّی طور پر اِس کو جائز رکھا ہے یا مقیّد طور پر اِس کو جائز رکھا ہے۔
میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ صرف امام ابو حنیفہؒ ہی ہیں جو کلّی طور پر بٹائی کے خلاف ہیں اور یہ بھی واضح کر چکا ہوں کہ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒاُن کے دونوں بڑے شاگرد اُن کے اِس فتویٰ کو تسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ اِس کی سند میں علامہ نووی کا یہ حوالہ پیش ہے وہ فرماتے ہیں المزارعۃ مختلف فیھا عندالحنفیۃ فابو حنیفۃ یقول انھا لاتجوز الابالذھب والورق وابویوسف و محمد یقولان بجوازھا مطلقا وقولھما ھوا لمفتی بہ فیالمذھب لان فیہ توسعۃ علی الناس۵۴؎ یعنی حنفیوں کے نزدیک زمین ٹھیکہ پر دینے کے متعلق اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک چاندی اور سونے کے سِوا اور کسی رنگ میں مقاطعہ پر نہیں دی جاسکتی لیکن امام ابویوسفؒ اور امام محمد اِن کے دونوں شاگرد کہتے ہیں کہ مقاطعہ پر دینا کلّی طور پر جائز ہے اور اِنہی دونوں کے قول کے مطابق حنفیوں میں فتویٰ دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں لوگوں کے لئے زیادہ سہولت ہے۔
امام ابوحنیفہ ؒ نے خیبر کی روایت کی یہ توجیہہ کی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان تھا ۵۵؎ لیکن ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم احسان کے طور پر بھی کوئی ناجائز فعل تو نہیں کر سکتے تھے جو چیز منع تھی وہ ہر ایک کے لئے منع تھی۔
دوسری توجیہہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ سے یہ مروی ہے کہ شاید امام کو بیت المال اور لوگوں کے درمیان معاملات طے کرنے میں خاص حق حاصل ہونگے جو دوسرے لوگوں کو باہم معاملات میں حاصل نہیں۔ ۵۶؎
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کو خود بھی تسلی نہیں کہ اصل وجہ کیا تھی کیونکہ وہ خود بھی تردّد ظاہر کرتے ہیں کہ شاید یہ وجہ ہو یا یہ وجہ ہو۔ اور شاید کے ساتھ تو کوئی نص صریح باطل نہیں ہو سکتی۔ ایک طرف نص ہے اور ایک طرف قیاس۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کے دونوں چوٹی کے شاگرد اِس فتویٰ میں اُن کے خلاف تھے۔
یہ بھی غور طلب بات ہے کہ بٹائی کا طریق کیوں ناپسندیدہ ہے۔ اِس کے ناپسندیدہ ہونے کی وجہ یہی بیان کی جاتی ہے کہ اِس سے کسان کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر یہ وجہ صحیح ہو تو یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ حکومت کے لئے تو یہ جائز ہو کہ وہ کسان کو نقصان پہنچائے لیکن عوام الناس کو جائز نہ ہو کہ وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں۔ اگر اس سے کسان کو نقصان پہنچتا ہے اور اِسی وجہ سے شریعت نے اِس کو منع فرمایا ہے تو حکومت زیادہ حقدار ہے کہ وہ رعایا کے ساتھ احسان کرے اور اِس بات کی زیادہ پابند ہے کہ رعایاکو نقصان نہ پہنچنے دے۔ پس اگر بٹائی کے نادرست ہونے کی جو وجہ بتائی جاتی ہے وہ درست ہے تو پھر عوام الناس کے لئے خواہ بٹائی جائز ہوتی حکومت کے لئے بالکل نا جائز ہونی چاہیے تھی کیونکہ وہ عوام الناس کے حقوق کی محافظ ہے۔ اِس کی حیثیت بھائی بھائی کی نہیں بلکہ اُس کی حیثیت ایک مختارِ کار کی ہے۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمین بٹائی پر دینا ثابت کرتا ہے کہ یہ وجہ درست نہیں ہے۔ اِسی طرح یہ امر بھی سوچنے کے قابل ہے کہ خیبر کی زمین سب کی سب حکومت کی نہ تھی بلکہ اس کا نصف صحابہ میں تقسیم ہو گیا تھا۔ پس اس زمین کا بٹائی پر دینا بتاتا ہے کہ حکومت کے علاوہ عوام بھی بٹائی پر زمین دے سکتے ہیں۔
بٹائی کے متعلق جو بعض اختلافات پائے جاتے ہیں اُن میں سے بعض یہ ہیں:۔
حنابلہ کہتے ہیں کہ بٹائی جائز تو ہے مگر بہتر یہ ہے کہ بیج کی ذمہ داری مالک پر ڈالی جائے یعنی وہ بیج کا دینا مالک پر واجب تو نہیں سمجھتے لیکن اِس بات کو پسندیدہ سمجھتے ہیں کہ مالک یہ ذمہ داری لے۔۵۷؎
مالکیوں کا یہ خیال ہے کہ ہر رنگ میں یہ بات جائز ہے مگر خود امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ اُسی زمین کا نکلا ہوا غلّہ بٹائی میں دیا جائے۔ امام مالک کے بعض اقوال میں یہ بھی ہے کہ غلّہ کے بدلہ میں خواہ وہ اُس زمین میں سے نہ بھی نکلا ہو بٹائی نہ کی جائے۔ لیکن اُن کے شاگردوں میں سے بعض کا قول یہ ہے کہ نہیں نہ صرف بٹائی جائز ہے بلکہ اُس غلّہ کے ساتھ بھی بٹائی جائز ہے جو اُس زمین سے پیدا ہوا ہو۔ ۵۸؎
شافعیہ میں بھی اِسی طرز پر اختلاف ہے بعض اِس کو ناجائز قرار دیتے ہیں بعض باغ اور زمین کو اکٹھا دینا جائز سمجھتے ہیں اور بعض مطلق زمین کو دینا جائز سمجھتے ہیں۔۵۹؎
امام شافعیؒ کے نزدیک بھی ایسی زمین جس میں کچھ درخت ہوں بٹائی پر دی جاسکتی ہے ورنہ نہیں۔ گو امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک مطلقاً بٹائی ناجائز ہے اور امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک مشروط طور پر جائز ہے اور امام احمد حنبلؒ اور امام بخاریؒ اور امام مسلم اور علاّمہ ابن حزم اور تمام اہلِ حدیث اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒکے دونوں بڑے شاگرد اور شافعیوں کے تمام بڑے علماء اور مالکیوں میں سے بھی ایک بڑا حصہ مزارـعت کو مطلقاً جائز سمجھتا ہے۔ حضرت عمربن عبدالعزیز جن کو گویا خلافت کا دوبارہ احیاء کرنے والا سمجھا جاتا تھا وہ بھی غلّہ کی بٹائی کے طریق کو جائز سمجھتے تھے۔ چنانچہ محلّی شرح محلّی کتاب المزارعۃ میں لکھا ہے کہ حضرت عمربن عبدالعزیز نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ تمام اُفتادہ زمین مقاطعہ پر دے دو۔ چوتھے حصہ پر لگ جائے تو چوتھے حصہ پر لگا دو، تیسرے حصہ پر لگ جائے تو تیسرے حصہ پر لگا دو، پانچویں حصہ پر لگ جائے تو پانچویں حصہ پر لگا دو۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص زمین کاشت کرنے والا نہ ملے تو اگر کوئی دسواں حصہ دے کر ہی کاشت کرنے پر راضی ہو جائے تو دسویں حصہ پر ہی زمین دے دو لیکن زمین کو خالی نہ چھوڑو۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاء اور آپ کے صحابہؓ سے عملاً یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے غلّہ کی بٹائی پر زمین مقاطعہ پر دی۔
اب رہا دوسرا طریق یعنی نقدی پر زمین کا دینا سو جیسا کہ بتایا جا چکا ہے امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک تو درحقیقت یہی صورت جائز ہے، بٹائی جائز نہیں۔ اور طائوس کے نزدیک بٹائی ہی جائز ہے روپیہ پر دینا مکروہ ہے۔ بہر حال اِس امر کی تائید میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث موجود ہیں چنانچہ رافع بن خدیج کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ زمین تین طرح پر کاشت کی جاسکتی ہے۔ ایک تو اِس طرح کہ کوئی شخص خود زمین کاشت کرے۔ دوسرے اِس طرح کہ کسی اَور نے اُس کو زمین دی ہو اور وہ کاشت کرے۔ تیسرے اِس طرح کہ زمین چاندی اور سونے کے بدلہ میں مقاطعہ پر لے کر کاشت کی جائے۔ ۶۰؎
فتح الباری جلد ۵صفحہ ۱۷ پر لکھا ہے کہ قد اطلق ابن المنذر ان الصحابۃ اجمعوا علی جواز کراء الارض بالذھب والفضۃ… و نقل ابن بطال اتفاق فقھاء الامصار علیہ یعنی ابن المنذر نے قطعی طور پر لکھا ہے کہ صحابہؓ اِس امر پر متفق تھے کہ سونے اور چاندی کے بدلہ میں زمین مقاطعہ پر دینی جائز ہے۔ اور ابن بطال نے بھی لکھا ہے کہ تمام مختلف ممالک کے علمائے اسلام اِس بات پر متفق ہیں کہ سونے چاندی کے بدلہ میں زمین مقاطعہ پر دینی جائز ہے۔ باقی رہا کسی کو زمین مفت بِلا مبادلہ کاشت پر دینا سو اِس کے متعلق کسی کو شبہ ہی نہیں ہو سکتایہ احسان ہے اور احسان کو اسلام ردّ نہیں کرتا۔
نواں باب
کیا حکومت کسی کے مال پر جس میں زمین بھی شامل ہے جبراً قبضہ کرسکتی ہے؟
آجکل بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ بے شک ایک انسان اِس قدر زمین کا مالک بھی ہو سکتا ہے کہ جس کو وہ خود کاشت نہ کر سکتا ہو اور مقاطعہ پر بھی دے سکتا ہے لیکن اگر کسی وقت حکومت مصلحتِ مُلکی کے مطابق چاہے تو اُس سے وہ زمین ضبط بھی کر سکتی ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ اسلام کی رو سے ایسا کرنا ویسا ہی غصب ہو گا جیسا کوئی غیر حاکم کسی دوسرے کی زمین چھین لے۔ پہلی دلیل تو اِس کی یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور تمام مسلمانوں کے استعمال میں آنے والی مسجد کے لئے مدینہ میں زمین خریدنی چاہی۔ بحقِ حکومت آپؐ نے ضبط کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ دوسرے اِس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کئی احادیث بھی مروی ہیں جن سے زمین کا ضبط کرنا نا جائز ثابت ہو تا ہے۔ رافع بن خدیج جن کی روایت پر آجکل بہت کچھ مدار رکھا جاتا ہے ان سے کتب احادیث میں ایک روایت ان الفاظ میں آتی ہے۔ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من زرع بارض قوم بغیر اذنھم فلیس لہ من الزرع شیی ولہ نفقتہ۶۱؎ یعنی جو شخص کسی زمین پر زمین کے مالک کی اجازت کے بغیر کاشت کرے اُس کو فصل کا کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ صرف اُس کا جو خرچ ہے وہ اُس کو دلوایا جائے گا۔
اِسی طرح سعد بن زیدؓ سے روایت ہے کہ قال رسول اللّٰہ ﷺ من اخذ شبرا من ارض بغیر حق طوقہ من سبع ارضین۶۲؎ جو شخص کسی کی زمین بغیر حق کے لے لے تو سات زمینوں کا طوق اُس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔
اَئمہ اسلام نے اِس بارہ میں یہ لکھا ہے کہ وہ آباد زمین جس کا مالک معلوم ہو بادشاہ کو اُس میں کسی قسم کا دخل دینے کا حق نہیں۔ سوائے زکوٰۃ وغیرہ کی وصولی کے جو اُس زمین پر مقررہے۔۶۳؎
حضرت عمربن عبدالعزیز کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے لڑکے عبدالمالک سے پوچھا کہ میری حکومت سے پہلے جو خلفاء نے بعض لوگوں کی زمینیں چھین لی تھیں ان کے متعلق لوگ مطالبہ کرتے ہیں تمہاری اس بارہ میں کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ فوراً یہ زمینیں واپس کر یں ورنہ جن لوگوں نے ان پر پہلے خلفاء کے احکام کے ماتحت قبضہ کیا ہوا ہے آپ بھی ان کے گناہ میں شریک ہونگے۔اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فوراً ان جائدادوں کو واپس کرنے کا حکم جاری فرما دیا۔ ۶۴؎
ردّالمختار شامی جو حنفیوں کی نہایت ہی مستند کتاب ہے اِس کی جلد ۵ صفحہ۳۵۵ پر لکھا ہے کہ ملک الظاہر بیبرس (BAYBARS) A۶۴؎ جو مصر کا بادشاہ تھا اُس نے احکام جاری کئے کہ ہر زمیندار ثبوت پیش کرے کہ جو زمین اُس کے پاس ہے وہ اُس کی ملکیت ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکا تو وہ زمین اُس سے چھین لی جائے گی۔ اِس پر شیخ الاسلام امام نووی کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ یہ فیصلہ بالکل جاہلانہ ہے اور محض بغض پر مبنی ہے اور یہ کہ مسلمانوں کے علماء میں سے کسی ایک کے نزدیک بھی ایسا کرنا جائز نہیں بلکہ جس کی ملکیت میں کوئی زمین ہو وہی اُس کا مالک ہے۔ اُس کا قبضہ ہی اُس کے مالک ہونے کا ثبوت ہے اور کسی کے لئے جائز نہیں کہ اُس پر کوئی اعتراض کرے اور نہ یہ کہ اُس سے ثبوت طلب کرے کہ کسی زمانہ میں یہ زمین تمہارے پاس کس طرح آئی تھی (کیونکہ یہ مقدمہ اُس شخص کی طرف سے ہو سکتا ہے جسے اُس کا اصل مالک ہونے کا دعویٰ ہو نہ کہ حکومت کی طرف سے۔) امام نووی بادشاہ کو برابر اِس بارہ میں ملامت کرتے رہے اور وعظ و نصیحتیں کرتے رہے یہاں تک کہ اُس نے اِس حکم کو واپس لے لیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک روایت میں آتا ہے کہ جب انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے ماتحت یہودیوں اور عیسائیوں کو یمن سے نکالا تو آپ نے اُن کی زمینیں ضبط نہیں کیں بلکہ اُن کی زمینیں خرید یں۔۶۵؎
امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ اِس مسئلہ میں اتنے متشدد تھے کہ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ بغداد جس زمین پر آباد کیا گیا ہے وہ دوسرے لوگوں کی ملکیت تھی اور حکومت نے ضبط کی تھی اور اس کی مناسب قیمت ادا نہیں کی تھی تو آپ نے اپنی وفات کے وقت یہ وصیّت کی کہ جو قبرستان اس زمین میں واقع ہے مجھے اُس میں دفن نہ کیا جائے کیونکہ میں اُس زمین میں دفن ہونا ناجائز سمجھتا ہوں جو بغیر مناسب قیمت دینے کے حکومت نے ضبط کر لی ہو۔ چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو بغداد کے قبرستان سے باہر کے علاقہ میں دفن کیا گیا۔ آپ کے وقت کا خلیفہ منصور عباسی خود بھی آپ کا جنازہ پڑھنے کیلئے گیا اور اُس نے آپ کا جنازہ پڑھا۔ جب بعد میں اُسے آپ کی وصیّت سنائی گئی تو اُس نے جھنجھلا کر کہا کہ اِس شخص نے زندگی میں بھی مجھے ستایا اور مرتے ہوئے بھی مجھے دکھ دے گیا۔ ۶۶؎
اسی طرح امام ابویوسف جو امام ابو حنیفہؒ کے چوٹی کے شاگرد سمجھے جاتے تھے اور سب سے پہلے شیخ الاسلام تھے وہ تحریر فرماتے ہیں کہ جو زمین بھی سواد کے علاقہ (یعنی عراق) میں سے خلفائے اربعہ نے کسی کو دی ہو بعد میں آنے والے خلفاء میں سے کسی کا حق نہیں کہ اُس زمین کو واپس لے سکے یا اُس شخص سے واپس لے سکے جس نے اُس کو خریدا ہو یا اُس کو ورثہ میں پایا ہو۔ اور جو زمین اس طرح بادشاہ کسی کے ہاتھ سے لے کر کسی اَور کو دے دے اُس کی حالت ویسی ہی ہو گی جیسے کوئی شخص ایک کا حق چُرا لیتا ہے اور دوسرے کو دے دیتا ہے اور یہ بات کسی بادشاہ کے لئے جائز نہیں۔ اِسی طرح کسی بادشاہ کے لئے جائز نہیں کہ وہ ایک مسلمان سے کوئی چیز لے کر دوسرے مسلمان کو دے دے۔ اور نہ یہ جائز ہے کہ کسی غیر مسلم رعایا سے کوئی چیز چھین کر کسی دوسرے کو دے دے۔ اور کوئی چیز کسی کے ہاتھ سے بغیر حق کے نہیں لی جاسکتی۶۷؎ اور حق کی تعریف علماء نے یہ کی ہے کہ جو چیز ورثہ سے ملے یا ہبہ سے ملے یا خریدی جائے یا وقف کی صورت میں کوئی چیز کسی کے سپرد کی جائے یا نص احکامِ شرعیہ کے ماتحت اُس پر قبضہ کیا جائے۔ جیسے زکوٰۃ، عُشر یا لاوارثی وغیرہ۔ اِن پانچ صورتوں کے علاوہ کوئی چیز کسی شخص سے دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہو سکتی۔
دسواں باب
اُن لوگوں کا جواب جن کے نزدیک بڑی زمینوںکی ملکیّت یا زمینوں کا بٹائی پر دینا جائز نہیں یا جن لوگوں کے نزدیک حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ ضرورت کے موقع پر زمینداروں سے زمینیں واپس لے لے
اب میں اُن لوگوں کے اعتراضات کو لیتا ہوں جو زمین کی ملکیّت کے بارے میں یہ پہلو اختیار کرتے ہیں کہ بڑی زمینوں کا رکھنا جائز نہیں، نہ زمین کا بٹائی پر دینا جائز ہے، نہ مقاطعہ پر دینا جائز ہے۔یا تو انسان خود کاشت کرے یا لوگوں کو مفت کاشت پر دے دے اور یہ کہ قرآن کریم کی نص سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین خدا تعالیٰ کی ملکیّت ہے اور اُس نے سب بندوں کے لئے اِس کو پیدا کیا ہے اور چونکہ زمین کو اُس نے سب بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے کسی ایک شخص کے ہاتھ میں بہت سی زمین جمع نہیں ہوسکتی کیونکہ اِس سے دوسرے حصہ داروں کو نقصان پہنچتا ہے۔
جہاں تک اِس سوال کا تعلق ہے کہ زمین خداتعالیٰ نے سب انسانوں کے لئے پیدا کی ہے اس لئے بہت بڑی زمین کسی ایک ہاتھ میں جمع نہیں ہو سکتی کیونکہ اِس سے دوسروں کے حقوق کو نقصان پہنچتا ہے اِس کا جواب مَیں پہلے باب میں دے آیا ہوں اور ثابت کر چکا ہوں کہ قرآن کریم کی رُو سے زمین ہی نہیں بلکہ تمام اشیاء خدا تعالیٰ نے تمام انسانوں کے فائدے کے لئے پیدا کی ہیں۔ اگر اتنی زمین کسی شخص کے ہاتھ میں جمع نہیں ہوسکتی جس کی آمدن تین ہزار روپیہ ماہوار تک پہنچتی ہو تو یقینا حکومت کسی شخص کو اتنی تنخواہ بھی نہیں دے سکتی جس کی مقدار تین ہزار روپیہ ماہوار تک پہنچتی ہو اور نہ کسی ڈاکٹر اور وکیل کو اجازت ہوسکتی ہے کہ وہ اِس حد سے زیادہ کمائے جس حد تک کہ زمیندار کی آمدن کو محدود کیا جائے اور نہ کار خانہ داروں اور صنّاعوں کو ایسی اجازت ہو سکتی ہے کیونکہ قرآن کریم میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ کھیتی کے نہیں بلکہ زمین اور اس کی متعلقہ تمام اشیاء کے ہیں جس میں سونا، چاندی، روپیہ، اور سکّہ وغیرہ سب شامل ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جائداد کے خالی پڑا رہنے کے لئے قرآن کریم میں کوئی نص موجود نہیں صرف علماء نے قیاس کیا ہے اور روپیہ، چاندی اور سونے کے جمع نہ رکھنے کے متعلق قرآن کریم میں نص موجود ہے۔ روپیہ سکہ، سونا اور چاندی کے جمع رکھنے کو اِس لئے اہمیت دی گئی ہے کہ روپیہ سکّہ، چاندی اور سونا جمع رکھا جائے تو اِس سے دوسرے لوگ کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے لیکن زمین اگر پڑی رہے اور اس کو استعمال میں نہ لایا جائے تو اس میں خودرَو جھاڑیاں اور گھانس وغیرہ اُگ کر کچھ نہ کچھ فائدہ دنیا کو پہنچا دیتا ہے اس لئے شریعت نے روپیہ سکہ چاندی اور سونے کے جمع رکھنے کو زیادہ خطرناک جرم قرار دیا ہے اور اس کے متعلق نص اُتاری ہے لیکن زمین کا بے فائدہ پڑے رہنا چونکہ کم جرم ہے اس لئے اس کے متعلق کوئی نص نہیں اُتاری۔
زمین کو مال کے مطابق قرار دینے کی سند مندرجہ ذیل ہے:۔
حضرت امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ الارض عندی بمنزلۃ المال۶۸؎ یعنی زمین کے متعلق احکام میرے نزدیک وہی ہیں جو مال کے متعلق ہیں۔ یعنی جس طرح مال تجارت پر لگایا جاسکتا ہے یا صنعت و حرفت پر لگایا جاسکتا ہے اسی طرح زمین بھی مقاطعہ یا بٹائی وغیرہ پر دی جاسکتی ہے۔
امام محمد ابن سیرین جو تابعی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے داماد تھے اور بہت بڑے روحانی اور ظاہری عالم سمجھے جاتے تھے فرماتے ہیں۔ الارض عندی مثل مال المضاربۃ۶۹؎ یعنی میرے نزدیک زمین کے احکام بھی ویسے ہی ہیں جیسا کہ تجارت پر لگائے جانے والے مال کے۔
امام ابن قیم تحریر فرماتے ہیں کہ زمین کے متعلق میرا نظریہ یہی ہے کہ ھونظیر دفع مال الی من یتجر فیہ لجزء من الربح۷۰؎ یعنی زمین کی حیثیت میرے نزدیک وہی ہے جیسا کہ اُس مال کی جسے کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کے اِس لئے حوالے کردے کہ وہ اُس کے ساتھ تجارت کرے اور اُس کے نفع کا ایک حصہ اُس کو دے۔
اِن حوالجات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن اَئمّہ نے تسلیم کیا ہے کہ اصل نص مال کے متعلق ہے اِس لئے زمین کے معاملہ کو مال پر قیاس کیا جاتا ہے۔ پس جبکہ اصل نص مال کے متعلق ہے اور زمین کے معاملہ کو اس پر قیاس کیا جاتا ہے تو یہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ زمین کے ذریعہ سے تو زیادہ روپیہ کمانا جائز نہیں لیکن روپیہ کے ذریعہ سے زیادہ مقدار میں روپیہ کمانا جائز ہے۔ کیونکہ ناجائز ہونے کی قیود شریعت نے نص کے ذریعہ سے مال پر لگائی ہیں زمین پر نہیںلگائیں اور فقہاء نے ان قیود کو زمین کی طرف قیاس اور اجتہاد کے ذریعہ سے منتقل کیا ہے۔پس شریعت کا مسئلہ یہ ہوگا کہ اصل حرمت مال کے متعلق ہے اور اجتہاداً ہم اس کو زمین کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ پس جو چیز ہم تجارت اور صنعت و حرفت کے متعلق جائز قرار دینگے وہ لازماً اور بدرجہ اولیٰ زمین کے متعلق جائز ہوگی۔
یہ کہنا کہ زمین کا کسی ایک شخص کے پاس ہونا دوسرے افراد کو کمائی سے روکتا ہے اِس لئے اِس بات کو روکنا چاہئے۔ اگر یہ استدلال درست ہے تو بڑی تجارت اور بڑی صنعت و حرفت اور بڑی تنخواہیں بھی سامانِ معیشت کو دوسرے لوگوں تک پہنچنے سے روکتی ہیں بلکہ جتنی زمین ایک شخص کے پاس رہنے دینے کی تجویز بعض لوگ کر رہے ہیں اِس کی آمد کو مد نظر رکھتے ہوئے تو معمولی تجارت اور معمولی صنعت و حرفت کی اجازت بھی کسی شخص کو نہیں دی جاسکتی۔
مندرجہ بالا خیالات کے لوگوں کی طرف سے قرآن کریم کی یہ آیت اپنی تائید میں پیش کی جاتی ہے۔ ۷۱؎
یعنی اے انسانو! کیا تم اُس خدا کی صفات کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو اوقات میں پیدا کیا اور اُس کے شریک اور مثیل بناتے ہو حالانکہ وہ تمام جہانوں کو پیدا کرکے اُنہیں ترقی کی طرف لے جانے والا ہے۔ اور اُس نے (یعنی خدا تعالیٰ نے) زمین میں پہاڑ بنائے ہیں اور زمین میں بہت سی کانیں وغیرہ پیدا کی ہیں اور اس میں ان تمام اشیاء کو بقدر اندازہ مہیا کیا ہے جواس کے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے لئے قیام کا موجب ہیں اور یہ سب کچھ اُس نے چار وقتوں میں پیدا کیا ہے اور تمام جستجو کرنے والوں کے لئے برابر مواقع بہم پہنچائے ہیں۔
نیز ایک ادنیٰ تدبرّ سے بھی یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ اس آیت سے اوپر کا استدلال نکالنا بالکل غلط ہے۔ اِس آیت سے اس بارہ میں جو کچھ نکلتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ:۔
(۱) زمین اور اس کی تمام کانیں اور اس کی تمام زراعت اور اُس سے پیداوار ہونے والی یا اُس کے نیچے جمع ہونے والی ساری کی ساری اشیاء خدا تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔
(۲) یہ کہ تمام جستجو کرنے والوں کے لئے اس میں برابر کے حقوق ہیں۔
اس مضمون سے یہ کہاں نکلتا ہے کہ زمین میں سب انسان برابر کے حقدار ہیں۔ اگر اس سے کچھ نتیجہ نکلتا ہے تو یہ کہ ان چیزوں میں سب انسان برابر کے حقدار ہیں۔ لیکن کیا زمین کو تقسیم کرنے والے باقی چیزوں کو بھی تقسیم کرواتے ہیں؟ اگر اس آیت کا وہی مطلب لیا جائے جو کہ نکالا جاتا ہے تو پھر زمین کا سارا لوہا لوگوں میں برابر تقسیم ہونا چاہئے، زمین کی ساری لکڑی لوگوں میں برابر تقسیم ہونی چاہئے، زمین کا سارا پانی لوگوں میں برابر تقسیم ہونا چاہئے، زمین کا سارا مٹی کا تیل اور پٹرول لوگوں میں برابر تقسیم ہونا چاہئے، زمین کی ساری روئی لوگوں میں برابر تقسیم ہونی چاہئے، زمین کی ساری گندم لوگوں میں برابر تقسیم ہونی چاہئے، مگر کیا ایسا ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے؟ جو بات عقل کے خلاف ہے وہ یقینا قرآن کریم کی طرف منسوب نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ خود آیت کا اگلا حصہ ہی اِن معنوں کو رد کرتا ہے اور اس آیت کے صحیح مفہوم کو واضح کرتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ سَوَآئً لِّلنَّاسِ تمام انسانوں کے لئے برابر ہے بلکہ یہ فرمایا کہ تمام جستجو کرنے والوں کے لئے برابر ہے۔ یعنی جو شخص بھی صحیح ذرائع کو کام میں لا کر زمین اور اس کی زراعت اور اس کی دھاتوں اور اس کی کانوں اور اس کی کیمیاوی اشیاء سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گا۔ خداتعالیٰ اُس کو اپنی اس جستجومیں ناکام نہیں کرے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ صحیح ذرائع کو ہندوستانی کام میں لائے تو کامیاب ہو جائے چینی کام میں لائے تو کامیاب نہ ہو یا عیسائی کام میں لائے تو کامیاب ہوجائے لیکن مسلمان کام میں لائے تو کامیاب نہ ہو۔ یا یوروپین کام میں لائے تو کامیاب ہو جائے لیکن مشرقی کام میں لائے تو کامیاب نہ ہو۔ اور یہ حقیقت ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور اس آیت میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ خدا ایک ہے اور کافرو مومن کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ مشرک و موحد کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ اگر دنیا کے کئی خدا ہوتے تو دنیا میں مختلف لوگوں کے لئے مختلف قواعد ہوتے۔ کسی خدا کے ملک میں کچھ قانون ہوتا اور کسی خدا کے ملک میں کچھ قانون ہوتا۔ جیسے امریکہ کی دولت سے امریکن لوگ جس قدر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ہندوستانی اُس قدر فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ اسی طرح ایک خدا کے ملک میں اُس کے عبادت گزار زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے اور دوسرے لوگ اجانب قرار دیئے جا کر اُس فائدہ سے محروم کر دئیے جاتے۔ پس معلوم ہوا کہ خدا ایک ہے اور اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔ یہ مضمون لفظوں کے مطابق بھی ہے اور عقل کے مطابق بھی ہے اور حقیقت کے مطابق بھی ہے لیکن جو استدلال اِس سے زمینوں کی برابر تقسیم کے مدعی لوگوں نے کیا ہے وہ تو عقل کے بھی خلاف ہے، حقیقت کے بھی خلاف ہے اور آیت کے الفاظ کے بھی خلاف ہے۔ آخر کیوں خدا تعالیٰ نے یہاں انسان کا لفظ نہیں رکھا ہے جستجو کرنے والے کا لفظ کیوں رکھا ہے؟ اسی لئے کہ یہاں تقسیم کا ذکر نہیں تھا۔ یہاں قابلیت کے نتائج پیدا کرنے کا ذکر تھا اور قابلیت کے نتائج پیدا کرنے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مختلف جستجو کرنے والوں میں فرق نہیں کیا جاتا خواہ اُن کا مذہب کوئی بھی ہو۔ اگر مسلمان سستی کرنے لگ جائیں اور قوانین قدرت سے فائدہ اُٹھانا چھوڑ دیں اور کفار چُست ہو جائیں اور خداتعالیٰ کے قانونِ قدرت سے فائدہ اُٹھانے لگ جائیں تو دُنیوی طور پر کفار ترقی کر جائیں گے اور مسلمان گر جائیں گے۔ پس اِس آیت سے اگر مسلمان فائدہ اُٹھانا چاہتے تو انہیں یہ فائدہ اُٹھانا چاہئے تھا وہ جھُوٹے توکّل کو کام میں لا کر سست نہ ہو جاتے، علوم کو نہ چھوڑ دیتے، صنعت و حرفت کی طرف سے توجہ ترک نہ کر دیتے اور سمجھتے کہ اِس آیت کے ماتحت دنیا کی دولتیں اور دنیا کے سامان ہمارے لئے مخصوص نہیں بلکہ جو بھی اس کے متعلق کوشش کرے گا اُس کو مل جائے گا۔ اگر اسلام کے دشمن کوشش کریں گے تو وہ اُن کو مل جائیں گے۔ اور اگر صرف مسلمان کوشش کریں گے تو اُن کو ملیں گے کفار کو نہیں ملیں گے۔ اور اگر دونوں کوشِش کریں گے تو دونوں کو اپنی اپنی محنت اور کوشش کے مطابق نتیجہ مل جائے گا۔ پس ہمیں سست نہیں ہونا چاہئے۔
زمین کو برابر تقسیم کرنے کے مدعی اس بات سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں اس قانوں سے یہ نتیجہ نہ نکال لیا جائے کہ ذاتی قابلیت کی کوئی قیمت اِسلام تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اس سے ان کی اپنی تنخواہوں اور اپنے کاروبار اور پنی صنعت و حرفت پر بھی اثر پڑتا ہے اِس لئے وہ یہ اصول بھی اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ اسلام نے ذاتی قابلیت کی قیمت کو تسلیم کیا ہے۔ اس لئے جو شخص ذاتی قابلیت سے کچھ کمائے وہ اُسی کا حق ہے۔ چنانچہ اس کے ثبوت میں وہ قرآن شریف کی یہ آیت پیش کرتے ہیں۔۷۲؎ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت دی ہے۔ پس وہ لوگ جن کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنے غلاموں کو اپنا رزق اِس طرح نہیں دیتے کہ غلام کا اور ان کا حق اُس میں برابر ہو جائے۔ کیا اِس دلیل کے ہوتے ہوئے بھی مشرک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں؟
اس سے یہ لوگ استدلال کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ذاتی قابلیت کے جوہر کی قیمت کو تسلیم کیا ہے پس زمین سے زیادہ کمانا تو نا جائز ہے لیکن ذاتی قابلیت سے زیادہ کمانا جائز ہے۔ مذکورہ بالا آیت بھی قرآن کریم میں شرک کے ردّ کے لئے آئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسان اپنے مال اور اپنی جائیداد میں اپنے غلام کو برابر کا شریک نہیں بناتا تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی ملکیت میں برابر کا شریک بنا کر ان کو ایک معبود کا رُتبہ کس طرح دے سکتا ہے۔
جب مشرکین پر قرآن کریم میں اعتراض کئے گئے کہ شرک کا مسئلہ عقلاً کسی طرح بھی ثابت نہیں ہو سکتا تو اُنہوں نے اپنے پیشرو مشرکین کی طرح شرک کی یہ تأویل کی کہ جس کو تم شرک کہتے ہووہ شرک ہے ہی نہیں وہ تو کامل توحید ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ خداتعالیٰ کے سواء کوئی اور شخص بھی اپنی ذات میں دنیا کا حاکم ہے بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ خداتعالیٰ نے خود اپنے بعض مقرب بندوں کو اپنے اختیاراتِ حکومت سونپ دیئے ہیں اِس لئے جن لوگوں کی ہم پرستش کر رہے ہیں وہ پرستش در حقیقت خداتعالیٰ ہی کی پرستش ہے پس یہ شرک نہیں۔ اللہ تعالیٰ اِس کے جواب میں فرماتا ہے کہ بادشاہ کے نائب یا ماتحت کو تو اِس لئے اختیار دیئے جاتے ہیں کہ بادشاہ ہر جگہ نہیں پہنچ سکتا۔ جہاں دونوں موجود ہوں یعنی بادشاہ بھی اُسی طرح موجود ہوجس طرح ماتحت۔ جیسے شاہی دربار ہوتا ہے کیا اس جگہ پر بھی بادشاہ کے اختیارات ماتحتوں کی طرف منتقل ہوتے ہیں؟ ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ ایسے موقع پر تو کسی اور کو مخاطب کرنا بھی گستاخی سمجھا جاتا ہے۔ پس چونکہ خداتعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اسے اس طرح اختیار سپرد کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے معاملہ میں نائب کی مثال درست نہیں بلکہ یہ مثال درست ہے کہ ایک آقا اپنے گھر میں اپنے غلام کو مساوی حقوق دیدے مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ دور کے علاقوں میں نیا بت کے اختیارات دیئے جاتے ہیں مگر یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک بادشاہ اپنے غلام سے یہ کہے کہ تمہیں میری بیوی بچوں پر یا گھر کے سازو سامان پر یا نوکروں پر برابر کے اختیارات حاصل ہیں۔ اس طرح تو وہ دو عملی پیدا ہوگی کہ اندھیر آ جائے گا اور مالک کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہے گی۔ پس یہ دلیل جو مشرک دیتے ہیں غلط ہے اور خداتعالیٰ ہر گز کسی کو اختیارِ عبودیت عطانہیں فرماتا کیونکہ وہ ذرّے ذرّے کا خود واقف ہے اور ذرّے ذرّے تک اُس کا اقتدار براہ راست پہنچتا ہے۔ اُس کو تحصیلیں اور ضلع اور گورنریاں بنانے کی ضرورت نہیں۔
اصل مفہوم تو اِس آیت کا وہ ہے جو میں نے اوپر بیان کیا ہے لیکن ضمنی طور پر اس سے اور نتائج اخذ کرنا قرآنی اصول کے خلاف نہیں بلکہ درست ہے۔ پس اگر اِس آیت سے وہ معنے بھی نکلتے ہوں جو کہ زمین کو برابر تقسیم کرنے کے خواہش مند مگر ذاتی قابلیتوں کے نتائج میں امتیاز قائم رکھنے کو جائز سمجھنے والے لوگ نکالتے ہیں تو یقینا میں اِس کو درست تسلیم کروں گا۔ لیکن ایک ادنیٰ تدبّر سے بھی یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ ان کے لئے ایسا کرنا درست نہیں کیونکہ یہ استدلال ان کے پہلے استدلال کے مخالف پڑتا ہے۔ اور قرآن کریم کی کسی آیت کے وہ معنی نہیں لئے جاسکتے جو اس کی کسی دوسری آیت کو ردّ کرتے ہوں کیونکہ قرآن کریم خداتعالیٰ کا کلام ہے اور خداتعالیٰ کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا بلکہ کسی معمولی عقلمند انسان کے کلام میں بھی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ اگر مختلف ذاتی قابلیت رکھنے والے لوگوں میں مختلف مدارج کو ملحوظ رکھنا ہوگا تو پھر بڑی اور چھوٹی جائداد رکھنے والوں میں بھی مختلف مدارج کو ملحوظ رکھنا ہو گا کیونکہ سوال یہ ہے کہ بڑی جائداد کسی شخص کے پاس آتی کس طرح ہے؟ ظاہر ہے کہ بڑی جائداد تین ہی جائز ذریعوں سے آسکتی ہے۔ اول اِس طرح کہ کسی نے کوئی بڑی جائداد خریدی ہو۔ اگر کسی نے کوئی بڑی جائداد خریدی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ بہت سے روپے کا مالک ہوگا،وہ روپیہ اُس نے اپنی ذاتی قابلیت سے ہی کمایا ہوگا۔ دوسرے تھوڑے سے روپیہ کے ساتھ وہ جائداد بڑھاتا چلا گیا ہو گا۔ اگر ایسا ہے تو یہ بھی ذاتی قابلیت کا ہی نتیجہ ہوگا۔ تیسرے ذاتی قابلیت سے پیدا کرنے والے کی جائداد کا وارث ہو کر۔
اگر شریعت نے ذاتی قابلیت کی قیمت کو تسلیم کیا ہے تو ذاتی قابلیت سے اعلیٰ نوکری پر پہنچنے والا اور ذاتی قابلیت سے اعلیٰ تجارت حاصل کرنے والا اور ذاتی قابلیت سے اعلیٰ صنعت و حرفت کا مالک ہونے والا اور ذاتی قابلیت سے زیادہ زمین کا مالک ہونے والا برابرہیں، ان میں امتیاز کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ زمین بھی نتیجہ ہے ذاتی قابلیت کا، اور عہدہ بھی نتیجہ ہے ذاتی قابلیت کا اور تجارت بھی نتیجہ ہے ذاتی قابلیت کا۔ اور صنعت و حرفت بھی نتیجہ ہے ذاتی قابلیت کا، اگر کہا جائے کہ ہم تو اس شخص کے متعلق بات نہیں کرتے جس نے کہ ذاتی قابلیت کے ماتحت بہت سی زمین حاصل کر لی ہو بلکہ ہم تو اُن اشخاص کا ذکر کرتے ہیں جن کو ورثہ میں زمین ملی ہو تو اس پر بھی وہی اعتراض ہوتا ہے کیونکہ اگر ورثہ میں بڑی زمین مل جانے پر اعتراض ہے تو ورثہ میں بڑی کوٹھی مل جانے پر بھی اعتراض ہونا چاہئے۔ ورثہ میں بڑی تجارت مل جانے پر بھی اعتراض ہونا چاہئے۔ ورثہ میں بڑی صنعت و حرفت مل جانے پر بھی اعتراض ہونا چاہئے۔ آخر جو شخص تین یا چار یا پانچ ہزار روپیہ گورنمنٹ سے تنخواہ لیتاہے۔ کیا اُسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ساری کی ساری رقم ماہوار خرچ کردے؟ یا اسے اجازت ہوتی ہے کہ وہ بچے ہوئے روپیہ سے کوٹھیاں اور مکان خریدے؟ یا صنعت و حرفت کے کارخانوں کے حصے خریدے؟ یا بنک میں روپیہ جمع کرادے؟ اور اگر شریعت کا پابند نہیں تو اس کے سود سے فائدہ اُٹھائے؟ اور اگر اسے یہ اجازت ہوتی ہے اور واقعہ میں ایسی اجازت ہے تو کیا ان کوٹھیوں اور مکانوں اور دکانوں اور تجارتی حصوں اور کارخانوں کے حصوں کی وارث اِس کے بعد اُس کی اولاد ہوتی ہے یا نہیں ہوتی؟ اگر اُس کی اولاد اس کے بعد وارث ہوتی ہے حالانکہ اس کمائی میں اولاد کی ذاتی قابلیت کا کوئی دخل نہیں ہوتا تو پھر اگر کسی شخص نے ذاتی قابلیت سے بہت سی زمین خرید لی تو اُس کی اولاد اس کی کیوں وارث نہیں ہو سکتی۔ قرآن شریف میں ذاتی قابلیت کو اگر تسلیم کیا ہے تو جس طرح وہ نوکری اور تجارت اور صنعت و حرفت میں تسلیم کی جائے گی اسی طرح زمین کے متعلق بھی تسلیم کی جائے گی۔ اور اگر ذاتی قابلیت رکھنے والے انسان کی متروکہ جائداد کی اولاد جائز وارث ہو سکتی ہے تو پھر جس طرح نوکری کی آمد سے پیدا کی ہوئی جائداد کی اولاد جائز وارث ہو سکتی ہے یا تجارت اور صنعت و حرفت سے پیدا کی ہوئی جائداد کی اولاد جائز وارث ہوسکتی ہے اسی طرح ذاتی قابلیت سے پیدا کی ہوئی زمینوں کی بھی اولاد جائز وارث ہو سکتی ہے۔
اگر کہا جائے کہ ہم ان لوگوں کے متعلق بھی گفتگو نہیں کر رہے جن کے باپ دادوں نے جائداد خریدی تھی بلکہ ہم تو ان لوگوں کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں جن کی جائدادوں کے متعلق معلوم نہیں کہ وہ جائدادیں ان کو کس طرح ملیں یا جن کو حکومت نے جائدادیں بخشیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو یہ بات غلط ہے کہ یہ لوگ صرف ان لوگوں کے متعلق بحث کر رہے ہیں جن کی جائدادوں کے متعلق علم نہیں کہ وہ کیسے حاصل ہوئی تھیںیا جن کی جائدادیں حکومت کی عطا کردہ ہیں۔ اس مسئلہ پر جتنی بحثیں کی گئی ہیں ان میں قطعی طور پر کوئی استشناء نہیں کیا گیا اور جائدادیں خریدنے والے اور ورثہ میں لینے والے اور گورنمنٹ سے حاصل کرنے والے سب کو برابر قرار دیا گیا ہے لیکن اگر یہ لوگ یہ امتیاز اور فرق تسلیم کر لیں تب بھی ان کا دعویٰ باطل ہے کیونکہ جیسا کہ میں اوپر ثابت کر چکا ہوں کوئی حکومت اپنے سے پہلے زمانہ کی ملکیتوں پر نئے سرے سے بحث نہیں اُٹھا سکتی۔
پہلا ثبوت تو اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ملتا ہے۔ آپ نے اپنے زمانہ کے صاحب جائداد لوگوں کے متعلق ہر گز یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ اُن کو یہ جائداد کس ذریعہ سے حاصل ہوئی۔ جائز ذریعہ سے یا ناجائز ذریعہ سے۔کیونکہ ایک لمبے عرصہ کے بعد کوئی شخص اس بات کو ثابت ہی نہیں کر سکتا کہ اس کے باپ دادا کو جائداد کہاں سے ملی تھی۔ پس شریعت نے ایسے پرانے قبضہ کو جائز قبضہ قرار دیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بڑی جائدادیں تھیں ہی نہیں۔ چونکہ بڑی جائدادیں نہیں تھیںاس لئے ان کے متعلق اس قسم کی بحث اُٹھانے کا سوال ہی پیدا نہ ہو سکا تھا تو یہ عذر بھی درست نہیں ہوگا اس لئے کہ خود ان معترضین نے تسلیم کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کے پاس ایسی جائدادیں موجود تھیں جو ان کو کافر ماں باپ کی طرف سے ورثہ میں ملی تھیں مگر جن کو وہ اکیلے کاشت نہیں کر سکتے تھے اور وہ زمینیں انہیں دوسرے لوگوں کو کاشت پر دینی پڑتی تھیں اور یہ لوگ مدینہ منورہ کے رہنے والے انصار تھے۔ ان معترضین نے خود وہ حدیثیں نقل کی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ میں رہنے والے انصار اپنی ساری زمینیں خود کاشت نہیں کرسکتے تھے اور وہ دوسروں کو زمین کاشت پر دے دیا کرتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے انہیں نہیں منع فرمایا۔ اس سوال کو الگ رکھ کے کہ آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کیا یا نہیں کیا؟ یا اگر منع کیا تو کس بات سے منع کیا۔ (اس امر پر میں بحث آگے چل کر کروں گا) ان احادیث سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ مدینہ کے بعض انصار کے پاس اتنی زیادہ زمینیں تھیں کہ وہ خود اُن کو کاشت نہیں کرسکتے تھے اور دُوسروں کو کاشت کے لئے دینے پر مجبور تھے۔ اور جب یہ ثابت ہو گیا تو پھر یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی زمین کے متعلق ثابت کریں کہ ان کے باپ دادوں کو وہ زمین کس جائز ذریعہ سے ملی تھی ورنہ وہ زمین سرکاری زمین سمجھی جائے گی اور بحق سرکار ضبط ہو کر ان کے پاس اتنی ہی زمین رہنے دی جائے گی جس کی وہ خود کاشت کر سکیں باقی دوسرے لوگوں میں تقسیم کردی جائے گی۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اسلام سے پہلے کی حاصل کردہ جائدادوں کی ملکیت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم فرمایا ہے۔
دوسری دلیل اِس کی تائید میں امام نووی کا فیصلہ ہے وہ بھی میں نویں باب میں درج کر آیا ہوں۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مصر کے بادشاہ بیبرس (BAYBARS) نے اپنے زمانہ کی زمینوں کو اِسی بناء پر ضبط کرنا چاہا کہ لوگ ثابت کریں کہ ان کے باپ دادا کو وہ زمینیں جائز ذرائع سے حاصل ہوئی تھیں ورنہ ان کی زمینیں ضبط کی جائیں گی۔ اِس پر علامہ نووی نے اُس کے خلاف احتجاج کیا اور ثابت کیا کہ تمام علمائے اسلام اِس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص جس جائداد پر قابض ہے وہ اُس کا مالک سمجھا جائے گا سوائے اِس کے کہ کوئی دوسرا مدعی اُس پر نالش کر کے اپنا حق ثابت کرے۔ پس اس معاملہ میں چونکہ حکومت مدعی ہے حکومت ثابت کرے کہ فلاںشخص کے پاس جو جائداد ہے وہ اُس کی نہیں بلکہ حکومت کی ہے اور اُس نے اُس پر ناجائز اور نا واجب قبضہ کیا ہے۔ زمین کے قابض کا یہ فرض نہیں کہ وہ یہ دلیل دے کہ وہ زمین اس کے پاس جائز طور پر آئی ہے۔ اُس کا قبضہ ہی اِس بات کا ثبوت ہے کہ قبضہ جائز ہے۔ اگر قبضہ جائز نہیں تھا تو کیوں نہیں زمین کا مالک بولا اور کیوں نہیں اِس کے خلاف اس نے کوئی کارروائی کی۔ اِس حوالہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دیرینہ قبضہ کے درست ہونے کو جس طرح موجودہ حکومتیں تسلیم کرتی ہیں اسی طرح اسلام کا قانون بھی تسلیم کرتا ہے۔
اگر زمین کی برابر تقسیم کے مدعی سرکاری عطیات کے متعلق اپنے اعتراضات محدود کردیں تو بھی ان کا خیال درست نہیں کیونکہ یہ بھی میں چھٹے باب میں ثابت کر آیا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لوگوں کو اتنی اتنی زمینیں دیں جن کی وہ خود کاشت نہیں کر سکتے تھے بلکہ جن کے ہزارویں حصہ کے کاشت کرنے کی بھی ان میں طاقت نہیں تھی۔ اسی طرح بعد میں خلفاء نے بھی لوگوں کو ایسے عطیے عطا کئے اور اسلامی بادشاہوں نے بھی لوگوں کو ایسے عطیے دیئے مگر کبھی بھی ان کو نا جائز قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ جیسا کہ میں نویں باب میں ثابت کر چکا ہوں امام ابو یوسف کا یہ فتویٰ ہے کہ اس قسم کے عطیات واپس لینے کا کسی کو ئی حق حاصل نہیں۔ اور اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص سے جس کو حکومت نے عطیۃً کوئی زمین دی ہو یا اس کی اولاد سے زمین واپس لے لے تو وہ ویسا ہی غاصب سمجھا جائے گا جیسا کہ ہر ذاتی ملکیت کا غصب کرنے والا۔ (دیکھو نواں باب بعنوان کیا حکومت کسی کے مال پر جس میں زمین بھی شامل ہے، جبرًا قبضہ کر سکتی ہے؟)
اصل سوال تو یہ ہے کہ آیا اسلام اتنی زمین سے زیادہ جس پر انسان خود ہل چلا سکے کسی کو زمین رکھنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ جس بات کی اسلام اجازت دیتا ہے اُسے گناہ نہیں قراردیا جاسکتا اور نہ خلافِ قانون قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور جب کوئی چیز نہ گناہ ہے نہ خلافِ قانون تو اُس کی ضبطی جائز نہیں ہوسکتی۔
معترضین اِس جگہ پر تین حوالے پیش کیا کرتے ہیں جن سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پاس اتنی زمین ہو کہ وہ اُسے آباد نہ کر سکے تو وہ زائد زمین یا تو اپنے بھائیوں کو مفت کاشت کرنے کے لئے دے دے یا حکومت اُس سے وہ زمین ضبط کرلے اور دوسرے لوگوں میں تقسیم کردے۔ ان میں سے پہلا حوالہ رافع بن خدیج ؓکی حدیث کا پیش کیا جاتا ہے۔ یہ حدیث بخاری میں درج ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں۔ عن رافع بن خدیج قال نھا نا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن امرٍکان لنا نافعًا اذا کانت لاحد نا ارض ان یعطیھا ببعض خراجھا اوبد راھم وقال اذا کانت لا حدکم ارض فالیمنحھا اخاہ اولیزرعھا۔۷۳؎ یعنی حضرت رافع بن خدیج ؓفرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی بات سے منع فرمایا جو ہمارے لئے نفع بخش تھی اور وہ یہ کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس زیادہ زمین ہوتی تھی تو وہ کسی دوسرے شخص کو بٹائی یا روپیہ کے بدلہ میں زمین دے دیتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارے پاس زمین ہو تو یا تو اُسے اپنے بھائی کو کاشت کرنے کے لئے مفت دے دیا کرو یا خود کاشت کیا کرو۔
اسی طرح رافع بن خدیج ؓسے یہ روایت بھی آتی ہے۔ان رسول اللّٰہ ﷺ اتی بن حارثۃ فرأ ی زرعا فی ارض ظھیر فقال ما احسن زرع ظھیر قالوا لیس لظھیر قال الیس ارض ظھیر قالوا بلی ولکنہ زرع فلان۔ قال فخذوا زرعکم وردوا علیہ النفقۃ قال رافع فاخذنا زرعنا ورددنا الیہ النفقۃ۔۷۴؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اس جگہ پر آئے جہاں بنوحارثہ کی زمینیں تھیں۔ آپ نے ایک کھیتی دیکھی جو ظہیر کی زمین میں تھی اور فرمایا ظہیر کی کھیتی کتنی اچھی ہے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! یہ ظہیر کی تو نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ زمین ظہیر کی نہیں؟ انہوں نے کہا ہاں زمین تو ظہیر کی ہے لیکن اس میں فلاں شخص نے کھیتی کی ہے۔ اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنی کھیتی لے لو اور اِس کا خرچ اُس کو دے دو۔ رافع کہتے ہیں اِس پر ہم نے فصل لے لی اور اُس کا خرچ اُسے دے دیا۔
ایک روایت رافع بن خدیج ؓسے اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ عن عمہ ظھیر بن رافع قال ظھیر لقد نھانا رسول اللّٰہ ﷺ کان بنا رافقا قلت ما قال رسول اللّٰہ ﷺ۔ قال ماتصنعون بمحا قلکم؟ قلت نؤاجرھا علی الربیع و علی الا وسق من التمر والشعیر قال لا تفعلواازرعوھا او ازرعوھا اوامسکوھا۷۵؎ یعنی رافع بن خدیج ؓکہتے ہیں کہ میں نے اپنے چچا ظہیر بن رافع سے سناآپ فرماتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی بات سے روکا جو ہمارے لئے بڑی سہولت والی تھی۔میں نے کہا کہ وہ کیا بات تھی؟ تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی زمینوں کے ساتھ کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہم ان کو اس شرط کے ساتھ ٹھیکہ پر دے دیتے ہیں کہ ربیع ہماری اور کچھ کھجوریں اور کچھ جَو ہمارے۔ اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو۔ یا خود کھیتی کرو یا کسی کو کھیتی کرنے دو یا زمین بنجر چھوڑ دو۔
اِس قسم کی بعض اور روایات بھی مسلم اور دوسری کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نھی رسول اللّٰہﷺ ان یوخذ للارض اجر اوحظ ۷۶؎ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو منع فرمایا کہ ہم زمین کے بدلہ میں کوئی روپیہ لیں یا اس میں سے کوئی حصہ لیں۔
اِنہی جابرؓ سے ایک اور روایت بخاری میں بھی درج ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:۔
کانوا یذر عونھا بالثلث والربع والنصف فقال النبیﷺ من کانت لہ ارض فلیزرعھا اولیمنحھا فان لم یعفل فلیمسک ارضہ۷۷؎ یعنی ہم لوگ تیسرے یا چوتھے حِصّہ پر یا نصف بٹائی پر زمین دیا کرتے تھے۔ یہ معلوم کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو یا تو وہ خود کھیتی کرے یا دوسرے کومفت دے دے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو پھر اپنی زمین خالی پڑی رہنے دے کسی کو نہ دے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس بارہ میں ایک ایسی ہی روایت درج ہے۔
بظاہر اِن حدیثوں سے یہی معنی نکلتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو مقاطعہ پر دینے سے کلّی طور پر منع فرمایا ہے اور صرف یہی اجازت دی ہے کہ جو شخص خود کاشت نہیں کر سکتا وہ اپنے کسی بھائی کو مفت زمین کاشت کرنے کے لئے دے دے یا خالی پڑا رہنے دے۔ چونکہ زمین کا خالی رہنے دینا جبکہ اس کے لئے کاشتکار موجود ہوں اسلامی اصول کے خلاف ہے اس لئے اس نہی کے دوسرے معنے یہی نکلیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتے تھے کہ ان کو اس سے زیادہ زمین اپنے پاس نہیں رکھنی چاہیے جس کو کہ وہ خود کاشت کر سکیں۔ مگر جیسا کہ میں ابھی ثابت کر وں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گز یہ منشا نہیں تھا اور اگر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ہے تو اس کا بھی وہ مفہوم نہیں جو سمجھا گیا ہے اور نہ جابر رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیثوں کے وہ معنے ہیں جو بظاہر لفظوں سے نظر آتے ہیں۔
پہلی دلیل جو مَیں اصولی طور پر دینا چاہتا ہوں یہ ہے کہ میں اوپر چھٹے باب میں یہ ثابت کر آیا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال بن حارث مزنی کو اتنا وسیع ٹکڑا زمین کا عطا فرمایا کہ ایک چھوڑ ہزار آدمی بھی اُس میں ہل نہیں چلا سکتا تھا۔ اس طرح حضرت زبیرؓ کو آپ نے اتنا بڑا ٹکڑا زمین کا عطا فرمایا جس کا رقبہ کئی مربعہ میل بنتا تھا۔ اس باب میں مَیں یہ بھی حدیث نقل کر چکا ہوں کہ حضرت علی ؓ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک بڑا ٹکڑا زمین کا طلب فرمایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ ٹکڑا اُن کو دیا۔ اگر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اور جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے وہی معنی ہیں جو ملکیت زمین کے مخالف لوگ پیش کرتے ہیں تو اوّل تو خود رافع کے خاندان کے پاس ضرورت سے زیادہ زمین کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ناجائز قرار نہیں دیا ورنہ آپ اُن سے زمین چھینتے کیوں نہ۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ ان کے پاس وہ زمین پہلے سے چلی آتی تھی اس لئے آپ نے اُن سے چھینی نہیں بلکہ نصیحت کردی تو پھر اوپر کی روایتوں کا کیا جواب ہوگا۔
رافعؓ کے خاندان سے تو آپ نے اِس لئے زمین نہ چھینی کہ اُن کے پاس یہ زمین اسلام سے پہلے کی تھی۔ ہاں اشارہ فرمادیا کہ اتنی زمین رکھنی منع ہے مگر بلال رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کو اِن سے بھی کئی سو گنے زیادہ زمین خود کیوں دے دی؟ کون عقلمند کہہ سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بڑی زمین دیتے وقت یہ نہیں سمجھتے تھے کہ ایک ہل یا بیٹوں کے ہل ملا کر تین چار ہل بیسیوں مربع میل علاقہ میں کاشت نہیں کر سکتے۔ پھر کون مان سکتا ہے کہ اِس حکم کے ہوتے ہوئے حضرت علیؓ جیسا مستغنی انسان حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ینبع کے قصبہ کی زمین طلب فرمائے گا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا انسان اِس ممنوع سوال کو قبول کر لے گا اور وہ زمین اُن کو دے دیگا۔میں نے رافع کی روایت میں چند الفاظ کا ترجمہ نہیں کیا تھا۔ صرف عربی الفاظ ہی دُہرادیئے تھے اور اس کی ایک وجہ تھی۔ وہ وجہ یہ تھی کہ زمین کی ملکیت کے مخالف لکھنے والوں میں سے ایک صاحب جنہوں نے گورنمنٹ کی کمیٹی میں اپنی رائے علیحدہ لکھ کر پیش کی ہے اُنہوں نے اِن احادیث میں آنے والے الفاظ ربیع اور اربعاء کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ہم چوتھے حصہ پر بٹائی کیا کرتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس سے منع فرمایا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان صاحب نے بجائے اصل حدیثیں دیکھنے کے کسی ناواقف شخص کے ترجمہ سے یہ حدیثیں اخذ کی ہیں ورنہ وہ اتنی بڑی غلطی نہ کرتے۔ ان احادیث میں جو ربیع اور اربعاء کے الفاظ آتے ہیں ان کے معنی چوتھے حصہ کے نہیں بلکہ ربیع کے معنے چھوٹی نہر کے ہو تے ہیںاور اربعاء اس کی جمع ہے جس کے معنی ہیں چھوٹی نہریں۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہیر ؓ سے سوال کیا کہ تم اپنی زمینوں کے ساتھ کیا کرتے ہو؟ تو جو جواب حضرت ظہیر رضی اللہ عنہ نے دیا اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ ہم چوتھے حصہ پر بٹائی کرتے ہیں اور کھجور اور جَو کا کچھ وزن مقرر کر لیتے ہیں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو منع فرمایا بلکہ ظہیر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا اور یہی معنی عربی کے ہیں کہ ہم جس کو زمین بٹائی پر دیتے تھے اُس سے یہ شرط کر لیتے تھے کہ جو حصہ فصل کا نہروں کے کناروں پر آئے گا وہ سارا ہمارا ہوگا اور جو باقی بچے گا اُسے اُس کے بدلہ میں تم کچھ کھجوریں اور کچھ جَو جو پہلے مقرر کر دئیے جاتے تھے ہم کو دے دیا کرنا۔ ظاہر ہے کہ یہ طریق خالص جوئے بازی کا ہے۔ اوّل تو یہ فعل نہایت ظالمانہ ہے کہ پانی کے کنارے کی جو اعلیٰ فصل ہو اُس کو اپنے لئے مخصوص کر لیا جائے۔ دوسرے یہ بھی ناجائز فعل ہے کہ بغیر اِس علم کے کہ زمین سے کیا پیدا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا قبل از وقت کچھ مقدار غلّہ کی اور کچھ کھجور کی مقرر کر لی جائے کہ یہ تم نے ہم کو ضرور دینی ہے خواہ فصل پیدا ہو یا نہ ہو۔
یہ استدلال میرا نہیں بلکہ خود رافع بن خدیج ؓ نے دوسری حدیثوں میں اس کی تشریح کردی ہے چنانچہ رافع بن خدیج ؓ کی ایک حدیث ان الفاظ میں کتابوں میں آتی ہے۔ حدیثنی عمای انھما کانا یکریان علی عھد رسول اللّٰہﷺ بما ینبت علی الاربعاء وشی ء یستثنیہ صاحب الارض فنھی النبیﷺ عن ذالک ۷۸؎ یعنی رافع بن خدیج ؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے دونوں چچوں نے ذکر کیا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زمین مقاطعہ پر دیا کرتے تھے اور شرط یہ ہوتی تھی کہ جو فصل پانی کی نالیوں کے کنارے پر ہو اور جو فصل اُن ٹکڑوں پر ہو جن کو زمین کا مالک خود پسند کرے وہ اُس کی ہوگی اور باقی مزارع کی ہوگی اِس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو منع فرمایا۔
اس حدیث میں بھی اربعاء کا لفظ ہے جو ربیع کی جمع ہے اور اس کے معنے چوتھے حصے کے نہیں بلکہ پانی کے نالوں کے کناروں کی فصل کے ہیں۔ چنانچہ یہ حدیث جہاں بخاری میں آتی ہے وہاں اسکی شرح میں علامہ ابن حجرؓ لکھتے ہیں الاربعاء جمع ربیع وھوالنھر الصغیر والمعنی انھم کانوا یکرون الارض ویشترطون لانفسھم ماینبت علی الانھار۔۷۹؎ یعنی اربعاء کا لفظ جو اِس حدیث میں آیا ہے وہ ربیع کی جمع ہے اور اِس کے معنی چھوٹی نہر کے ہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اُس زمانہ میں لوگ زمین مقاطعہ پر دیتے وقت یہ شرط کر لیا کرتے تھے کہ جو فصل نہروں کے کناروں پر ہوگی وہ مالک لے گا۔
علّامہ شوکانی اس حدیث کو پیش کر کے یہ نوٹ لکھتے ہیں:۔ ھذا الحدیث یدل علی ان سبب النھی ھو ھذا و وجہ ذالک الجھالۃ وتجویز عدم حصول ماینبت فی المکان الذی کان التاجیر علی مایخرج منہ وعلیہ یحمل ماورد من مطلق النھی عن المخابرۃ۸۰؎ یعنی اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سے منع فرمایا وہ یہی بات تھی نہ کہ زمین کا بٹائی پر دینا۔ اور اس مناہی کی وجہ یہ ہے کہ یہ امر کہ فلاں ٹکڑا میں کیا فصل ہوگی غیر معلوم ہے اور جوئے کی قسم ہے اور اِس سے یہ بھی خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ معینہ مقدار غلّہ کی مالک کو دے کر مزارعہ کے لئے کچھ بھی نہ بچے حالانکہ مزارعۃ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مزارع کا بھی فصل میں حصّہ ہوگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مخابرۃ سے منع فرمایا ہے اُس سے بھی یہی مراد ہے۔
مسلم کی ایک روایت سے پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صرف یہی طریقہ مقاطعہ کا رائج تھا چنانچہ اُس میں یہ حدیث آتی ہے ۔عن حنظلۃ بن قیس الانصاری قال سألت رافع بن خدیج عن کراء الارض بالذھب والورق قال لابأس بہ انما کان الناس یؤاجرون علی عھدالنبی ﷺ علی الماذیانات واقبال الجداول واشیاء من الزرع فیھلک ھذا ویسلم ھٰذا۔ ویسلم ہذا ویھلک ھذافلم یکن للناس کراء الاہذا فلذلک زجر عنہ۸۱؎ یعنی حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج ؓ انصاری سے پوچھا کہ کیا زمین کا سونا چاندی کے مقاطعہ پر دینا بھی منع ہے؟ حضرت رافع ؓ نے فرمایا اِس میں کوئی حرج نہیں۔ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ ماذیانات اور اقبال الجداول اور کھیتی کے کچھ حصّہ کی شرط پر زمین مقاطعہ پر دیا کرتے تھے تو کبھی یہ حصہ مارا جاتا اور وہ بچ جاتا اور کبھی وہ مارا جاتا اور یہ بچ جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اِس کے سوا مقاطعہ پر دینے کا کوئی طریق نہیں تھا پس آپؐ نے اِس سے منع فرمایا۔
حدیث کے یہ الفاظ کہ لوگ ماذیانات اور اقبال الجداول پر زمین مقاطعہ پر دیا کرتے تھے اِس کے معنی علامہ نووی نے شرح مسلم کی جلد ۲صفحہ ۱۳ پر یوں درج کئے ہیں۔
ماذیانات کے معنی پانی کی نہریں ہیں یا پانی کی نہروں کے کناروں پر جو کھیتی اُگتی ہے۔ اور یہ لفظ غیر زبان کا ہے جو عربی میں اختیار کر لیا گیا ہے۔ علامہ ابن الا ثیر فر ماتے ہیں کہ یہ ماذیان کی جمع ہے جس کے معنی بڑے نالے کے ہیں اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ زمین اِس شرط پر مقاطعہ پر دیتے تھے کہ جو شخص اِس زمین کو کاشت کرے وہ نہروں کے کناروں کی فصل مالک کو دے دے اور پانی کی نالیوں پر جو فصل ہووہ بھی مالک کو دے دے یا وہ یہ شرط کیا کرتے تھے کہ جب فصل ہو گی تو فلاں ٹکڑے کی فصل میں لے لُوںگا اور فلاں ٹکڑے کی فصل تجھے دے دونگا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمادیا کیونکہ اس میں دھوکا ہوتاہے۔
اِس حدیث سے بھی واضح ہے کہ خود رافع بن خدیج ؓ کے نزدیک مقاطعہ پرزمین دینے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا بلکہ اس دھوکا دینے والے طریق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے جس کو اسلام کے علماء نے کبھی بھی پچھلے پونے چودہ سَو سال میں جائز نہیں رکھا۔ بلکہ یہ طریق متفقہ طور پر تمام مسلمانوں کے نزدیک خواہ وہ سنّی ہوں یا شیعہ ہوں یا خارجی ہوں منع اور حرام ہے کیونکہ اس میں جوئے کا رنگ پایا جاتا ہے
مسندابودائود میں بھی اس حدیث کو درج کرکے یہ لفظ لکھے ہیں حدیث ابراھیم ھذا اتم ۸۲؎ یعنی اس بارہ میں جتنی حدیثیں آئی ہیں ان میں سب سے زیادہ ابراہیم کی مذکورہ بالا حدیث ہی مکمل ہے۔
حنفیوں کی معتبر ترین کتابوں میں سے مشہور کتاب طحاوی میںلکھاہے عن رافع بن خدیجؓ قال کنا بنی حارثۃ اکثر اھل المدینۃ حقلا وکنا نکری الارض علی ان ماسقی الماذیانات والربیع فلنا وما سقت الجداول فلھم فربما سلم ھذا و ربما ھلک وسلم ھذا ولم یکن عندنا یومئذ ذھب ولا فضۃ فنعمل ذالک فسئلنا رسول اللّٰہﷺ عن ذالک فنھانا۸۳؎ یعنی رافع بن خدیج ؓ فرماتے ہیں کہ ہمارا قبیلہ بنو حارثہ مدینہ میں سب سے زیادہ زمینوں کا مالک تھا اور ہم اپنی زمینیں اِس شرط پر مقاطعہ پر دیا کرتے تھے کہ بڑے نالے اور چھوٹے نالے سے براہ راست پانی لے کر یا اُس کے کناروں پر جو فصل ہوگی وہ ہماری ہوگی اور کھائیاں کھود کر جس زمین کو پانی دیا جائے وہ مزارع کی ہوگی نتیجہ یہ ہوتا کہ کبھی یہ سلامت رہ جاتی اور وہ ہلاک ہو جاتی اور کبھی وہ سلامت رہ جاتی اور یہ ہلاک ہو جاتی۔ اُس زمانہ میں ہمارے پاس سونا چاندی نہیں ہوتا تھا کہ ہم اُس کے ذریعہ سے یہ کام کرتے۔ سوہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس بارہ میں دریافت فرمایا تو آپؐ نے ہم کو اِس بات سے روک دیا۔
یہ حدیث بھی اس بات پر شاہد ہے کہ مناہی زمین کو مقاطعہ پر دینے کی نہیں تھی بلکہ اُس غلط طریق پر جو جوئے کے مشابہہ تھا مقاطعہ پر دینے کی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینہ میں رائج تھا۔
بعض صحابہؓ نے تو رافع کی حدیث کو باوجود ان تشریحات کے غلط قرار دیا ہے چنانچہ مسند ابودائود اور طحاوی دونوں میں ایک حدیث درج ہے جو ان الفاظ میں آئی ہے۔ وانکر بعض علی رافع و قال انہ لم یحفظ اوّل الحدیث لان عروۃ قال قال زید بن ثابت یغفر اللہ لرافع بن خدیجؓ انا واللّٰہ کنت اعلم بالحدیث منہ انما جاء رجلان من الانصار الی رسول اللّٰہﷺ قد اقتتلا فقال ان کان ھذا شانکم فلاتکروا المزارع فسمع قولہ لاتکروا المزارع۸۴؎ یعنی بعض لوگوں نے رافع ؓ کی اِس حدیث کو بالکل ردّ کر دیا ہے اور وہ لوگ اِس کے بارہ میں یہ کہتے ہیں کہ رافع ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا ایک حصہ یاد رہ گیا اور دوسرا بھول گیا۔ چنانچہ عروہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی جن کے سپُرد حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمر ؓ نے قرآن شریف کے جمع کرنے کی ڈیوٹی لگائی تھی اِس بناء پر کہ یہ سب سے زیادہ قرآن شریف کو جانتے اور نہایت دیانتدار آدمی ہیں) کو یہ کہتے سنا کہ اللہ تعالیٰ رافع بن خدیجؓ کی غلطی معاف فرمائے۔ خدا کی قسم! مجھے یہ حدیث اُن سے زیادہ معلوم ہے۔ میں اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا جب یہ واقعہ ہوا آپؐ کے پاس انصار کے دو آدمی جھگڑتے ہوئے آئے (معلوم ہوتا ہے اُن میں سے ایک رافع کے چچا تھے اور ایک اُن کا مزارع تھا) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اُن کو اِس طرح جھگڑتے ہوئے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا اگر تم لوگوں کی حالت ایسی ہی ہے کہ ان باتوں پر لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہو تو زمین مقاطعہ پر دو ہی نہ اِس جھگڑے کو ختم کرو۔ معلوم ہوتا ہے رافعؓ نے اتنا فقرہ تو سُن لیا کہ زمین مقاطعہ پر نہ دو اور باقی بات نہ سنی۔
میں کہتا ہوں کہ خود رافعؓ کی حدیث سے میں اوپر ثابت کر آیا ہوں کہ رافع خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود ہی نہیں تھے اُن کو اُن کے چچا نے گھر پر آکر یہ بات سُنائی۔ پس ہو سکتا ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہو کہ اس قسم کے لڑائی جھگڑوں کو بند کرنے کے لئے میں فی الحال مزارعۃ کو ہی روکتا ہوں تو انہوں نے اپنے بھتیجے کو بات کا خلاصہ سنا دیا اور بھتیجے نے اِس سے ایک غلط نتیجہ نکال لیا۔ اور اِس کی قطعی دلیل یہ ہے کہ زید بن ثابتؓ جو نہایت اعلی پائے کے صحابی ،کاتبِ وحئی قرآن اور جامع قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سیکرٹری تھے قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ رافع نے یہ بات نہیں سمجھی۔ میں خود اس موقع پر موجود تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات یوں نہیں فرمائی بلکہ یوں فرمائی ہے۔
اِسی طرح ایک اور حدیث بھی اس بارہ میں آئی ہے جو یہ ہے۔ عن سعید بن المسیب عن سعد بن ابی وقاص قال کان اصحاب المزارع یکرون مزارعھم فی زمان رسول اللّٰہﷺ بما یکون علی الساقی من الزرع فجاؤوا یختصمون فنھاھم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یکروا بذلک وقال اکروا بالذھب والفضۃ۸۵؎ یعنی سعید بن مسیّب نے سعد بن ابی وقاصؓ صحابی سے جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے یہ روایت کی ہے کہ زمینوں والے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنی زمینیں مقاطعہ پر دیا کرتے تھے اور شرط یہ کیا کرتے تھے کہ جو نہروں کے کناروں پر فصل ہوگی وہ اُن کی ہوگی اور دوسری جگہ جو پانی سے دُور ہوگی وہ مزارع کی ہوگی۔ ایک دفعہ ایسے لوگ جھگڑتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اِس شرط پر مقاطعہ دینے سے منع فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ چاندی اور سونے کے بدلے زمین دیا کرو۔
امام محمد جو حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے اعلیٰ پایہ کے شاگرد تھے فرماتے ہیں کہ جعفر بن محمد نے اپنے والد سے یُوں روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو مقاطعہ پر دینے سے منع نہیں فرمایا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ایک دوسرے کے ظلم کی شکایتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائیں۔ بعض آدمی اپنی زمین مقاطعہ پر دیتے تھے اور یہ شرط کر لیتے تھے کہ بڑی نہر سے براہ راست جس زمین کو پانی لگے یا جو نہر کے کناروں پر اُگے وہ اُن کی ہوگی۔ بعض دفعہ اِس پر جھگڑا ہو جاتا( مالک اچھی فصل دیکھ کر ایک لمبا قطعہ مقرر کر دیتا کہ یہ قطعہ نہر کے کنارے کا قطعہ ہے۔ یا درمیان کی فصل خراب دیکھ کر مزارع عین نہر کے سرے پر نشان دہی کرتا تھا کہ اتنا چھوٹا سا حصّہ نہر کا کنارہ ہے باقی نہیں) جب اِس قسم کے جھگڑوں کی شکایت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپؐ نے اِس قسم کے جھگڑے والی بات سے منع فرمادیا۔۸۶؎
پس امام محمد نے اِس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ نہی اس جھگڑے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور حقیقی نہیں بلکہ ایک قید ہے۔
علّامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقاطعہ سے منع نہیں فرمایا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس غلط شرط سے منع فرمایاہے۔۸۷؎
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب جن کے حوالوں پر زمینداری کے مخالفوں نے خاص طور پر انحصار رکھا ہے وہ تو اِس سے بھی آگے چلے جاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ھذہ الممانعۃ علی مصلحۃ خاصۃ بذلک الوقت من جھۃ کثرۃ مناقشتھم فی ھذہ المعاملۃ حینئذ ۸۸؎ یعنی یہ ممانعت خاص مصلحت کے ما تحت اُس محدود زمانہ کے لئے تھی کیونکہ اُس وقت اِس بارہ میں جھگڑے بہت بڑھ گئے تھے۔
طائوس تابعی اور مفسر قرآن کہتے ہیں کہ مجھ سے مسلمانوں کے علماء میں سے سب سے بڑے عالم یعنی حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقاطعہ سے منع نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا تھا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو زمین مفت دے دے تو یہ مقاطعہ سے بہتر رہے گی۔ ۸۹؎
میں یہ کہتا ہوں زمین اپنے بھائی کو مفت دے دینا یقینا ایک احسان ہے اور احسان سود سے اچھا ہوتا ہے۔
اسی طرح علامہ شوکانی نے ابن عباسؓ کی یہ روایت درج کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقاطعہ سے منع نہیں فرمایا لیکن یہ فرمایا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نرمی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ ۹۰؎
علماء نے ان تمام احادیث پر غور کرنے کے بعد یہ فتویٰ دیا ہے کہ احادیث رافع بن خدیج مضطرب المتون ولذلک ضعفھا بعض المحدثین۔۹۱؎ یعنی رافع بن خدیج ؓ کی حدیث اس بارہ میں بہت سے اختلاف رکھتی ہے اس لئے بعض محدثین نے اِس کو کمزور قرار دیا ہے۔
ابن شہابؓ( یعنی امام زہری جو اَئمہء فقہا ء اور محدثین کے استادوں میں سے تھے اور تابعی تھے) فرماتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہؓ (حضرت عمرؓ کے پوتے) سے پوچھا کہ زمین کا مقاطعہ پر دینا کیسا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ سونے اورچاندی پر دینے میں تو کچھ بھی حرج نہیں۔ اِس پر میں نے کہا کہ آپ نے وہ حدیث تو سنی ہے جو رافع بن خدیج ؓ کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا رافع نے اس معاملہ میں تعدی سے کام لیا ہے۔ اگر میرے پاس زمین ہوتی تو میں اُسے ضرور مقاطعہ پر دیتا۹۲؎ (اور اِس حدیث کی کوئی پرواہ نہ کرتا کیونکہ یہ حدیث رسول نہیں بلکہ رافع کا غلط خیال تھا)۔
جیسا کہ میں اوپر درج کر آیا ہوں جن علماء نے رافع بن خدیج ؓ کی روایت کو صحیح تسلیم کیا ہے انہوں نے بھی یہ فتویٰ دیا ہے کہ یہ ابتدائے اسلام کا حکم تھا بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کو منسوخ فرمادیا اور خیبر کی زمینیں مقاطعہ پر دیں اور آخر عمر تک برابر مقاطعہ پر دیتے رہے اور اسی طرح آپ کے بعد خلفاء اور صحابہؓ کرتے رہے۔
یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کیوں منع فرمادیا اور پھر کیوں اِس کو جائز قرار دے دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ جب ایک بُرائی کسی قوم میں رائج ہوتی تھی جس کی اصلاح کی جاسکتی تھی تو آپ پہلے اُس سے قطعاً منع فرمادیا کرتے تھے۔ جب قوم کی عادت درست ہو جاتی تو پھر اصلاح شدہ امر کو جاری فرمادیتے تھے۔ چونکہ مدینہ کے لوگوں میں اوپر کے بیان کردہ مقاطعہ کے طریق کے سوا اور کوئی رائج نہیں تھا اور اس طریق میں جوئے بازی کا رنگ پایا جاتا تھا اِس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر کہ ساری کی ساری قوم ایک عادت میں مبتلا ہے پہلے اِس سے قطعاً منع فرمادیا پھر جب دیکھا کہ وہ عادت ان کی چھٹ چکی ہے تو پھر وہ طریق جو اسلام کے مطابق تھا جاری کردیا یعنی ساری پیداوار پر خواہ وہ کناروں کی ہو یا بیچ کی ہو، تھوڑی ہو یا بہت ہو اُس کو جمع کر کے زکوٰۃ دینے کے بعد اُس کا مقررہ حصہ مالک کو دے دیا جائے۔
اِس طریق کی میں ایک اور مثال پیش کرتا ہوں جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس حکیمانہ فعل پر روشنی پڑتی ہے۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عبدالقیس کا جو ربیعہ قبیلہ کا ایک حصہ تھا ایک وفد آیا اور اُنہوں نے اسلام قبول کیا اور آپ سے چلتے وقت کچھ نصائح کی درخواست کی۔ اِس پر آپ نے اُن کو جہاں بعض اور نصیحتیں کیں وہاں یہ بھی فرمایا کہ تم سبز روغن کئے ہوئے برتن اور سوکھے کدّو کے بنے ہوئے پیالے اور لکڑی کے کھود کر بنائے ہوئے برتن اور وہ برتن جن پر لُک لگایا گیا ہو استعمال نہ کیا کرو۔ ۹۳؎
اِس کی وجہ درحقیقت یہ تھی کہ وہ لوگ اِن چار برتنوں میں شراب بناتے تھے۔ آپ نے اُن کی شراب کی عادت کا اندازہ لگا کر یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر یہ برتن ان کے سامنے آتے رہے تو پھر شراب بنانے لگ جائیں گے اور شراب پینے لگ جائیں گے اس لئے بہتر ہے کہ اِس سے ان کو کُلّی طور پر روک دوں۔ جب کچھ عرصہ بعد ان کی وہ عادت دُور ہوگئی تو آپ نے اِس حکم کو بدل دیا۔ چنانچہ اب سارے مسلمان ان برتنوں کو استعمال کرتے ہیں کیا حنفی اور کیا وہابی اور کیا شافعی اور کوئی بھی ان سے منع نہیں کرتا۔اور علمائے حدیث اورفقہ یہی لکھتے ہیں کہ ان لوگوں کی شراب کی عادت چھڑوانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کُلّی مناہی کا حکم دے دیا تھا جو بعد میں آپ نے منسوخ فرما دیا۔
دوسری دلیل پراونشل سندھ زمیندارہ کمیٹی کی اقلیت کی رپورٹ میں یہ دی گئی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلال بن الحارث المزنی کو بُلا کر کہا کہ تمہارے پاس زمین زیادہ ہے اور تم اس کو کاشت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ زمین ضبط کر کے دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دی۔ اِس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ اُتنی ہی زمین کسی شخص کے پاس ہونی چاہئے جتنی زمین کی وہ کاشت کر سکے۔ دوسرے یہ کہ حکومت کو زائد زمین ضبط کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
اِس اعتراض کے متعلق بھی مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اصل حوالہ کو نہیں دیکھا گیا بلکہ دوسری کتابوں سے نقل کر لیا گیا ہے۔ اگر اصل حوالہ کو دیکھا جاتا تو معترض کو معلوم ہو جاتا کہ اِس حوالہ کا مفہوم اُس سے بالکل مختلف ہے جو انہوں نے لیا ہے۔ بلال بن الحارث المزنی کی زمین کے متعلق چھٹے باب میں یہ لکھا جاچکا ہے کہ یہ زمین نہ اُن کی جدّی تھی نہ اُن کی خرید کردہ تھی بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو بیت المال سے عطیّہ کے طور پر دی تھی۔ اِس لئے اگر معترض کا اعتراض درست بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ اس کا اثر گورنمنٹ کے عطیوں پر پڑے گا اِس سے زیادہ نہیں۔ مگر میں اُوپر پوری طرح ثابت کر چکا ہوں کہ گورنمنٹ بھی اپنے عطیوں کو واپس نہیں لے سکتی سوائے اس کے کہ عطیہ مشروط ہو۔ اورجس کو زمین یا کوئی اور چیز عطیّہ میں دی گئی ہو وہ اُس کی شرطوں کو پورا کرنے سے قاصر رہا ہو۔ بشر طیکہ وہ شرطیں جائز ہوں۔ اور اگر بیع ہو تو کوئی شرط ایسی نہ ہو جو بیع کے شرعی قواعد کے لحاظ سے ناجائز ہو۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ہر گز وہ زمین بلالؓ سے نہیں چھینی بلکہ اُن کی مرضی سے وہ زمین اُن سے لی گئی تھی اور اُس شرط کے ماتحت لی گئی تھی جو بلال ؓ نے خود عائد کی تھی۔ چنانچہ اِس واقعہ کے متعلق جو اثر آتا ہے اُس کے الفاظ یہ ہیں۔ حدثنی بعض اشیا خی من اھل المدینۃ قال اقطع رسول اللّٰہﷺ بلال بن الحارث المزنی مابین البحر والصخر فلما کان زمن عمر بن الخطاب قال لہ انک لاتستطیع ان تعمل ھذا فطیب لہ ان یقطعھا ماخلا المعادن فانہ استثناھا ۹۴؎ یعنی امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے بعض اُستادوں نے جو مدینہ کے رہنے والے تھے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن الحارث المزنی کو سمندر اور پہاڑ کے درمیان کا تمام علاقہ عطا فرمادیا تھا۔ جب حضرت عمر بن خطابؓ کا زمانہ آیا تو انہوں نے بلالؓ سے کہا کہ آپ اس زمین کو آباد نہیں کرسکتے اور یہ زمین خالی پڑی ہے۔ اِس بات کو سن کر بلالؓ نے اپنی خوشی سے وہ زمین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو واپس کر دی اور اجازت دی کہ وہ اُس کو دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ مگر شرط یہ کی کہ جتنی کانیں اِس زمین میں ہوں گی اُن کا مالک مَیں ہی رہوں گا کوئی اَور نہیں ہوگا۔ اس طرح کانوں کو اُنہوں نے باقی حصوں سے مستثنیٰ کر لیا۔
اس حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہر گز بلالؓ سے زمین نہیں چھینی۔
پس اوّل تو اس حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ کم سے کم حکومت اپنے ہدیہ کو تو واپس لے سکتی ہے درست نہیں۔
دوسرے اس حدیث سے ثابت ہے کہ بلال ؓ نے اپنی مرضی سے یہ زمین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دی نہ کہ جبریہ قانون کے ماتحت۔
تیسرے اِس حدیث سے ثابت ہے کہ بلالؓ نے زمین کو واپس کرتے وقت ایک شرط بھی اپنی طرف سے پیش کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُسے تسلیم کر لیا اور وہ شرط یہ تھی کہ اُس میں سے جتنی کانیں نکلیں وہ بلال بن الحارث المزنی رضی اللہ عنہ کی ہوں گی۔ یہ شرط اپنی ذات میں بتاتی ہے کہ بڑی زمینداریاں جائز ہیں کیونکہ کانوں کی ملکیت تو خالی زمین کی ملکیت سے بہت بڑی ملکیت ہوتی ہے۔
تیسری دلیل اس مسئلہ کے متعلق بعض لوگ یہ پیش کیا کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بڑے بڑے زمینداروں سے اُن کی زمینیں چھین لیں اور لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ حوالہ بھی قطعی طور پر غلط اور خلافِ واقعہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یزید کے زمانہ سے بنوامیہ میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ وہ ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور خلافت کی قیود اُن پر عائد نہیں۔ اُن کا نام خلیفہ تھا لیکن عمل جابر بادشاہوں والے تھے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد خلافت ہوگی اور خلافت کے بعد مُلْکًا عَاضًّا ہوگا یعنی ظالم بادشاہتیں ہوںگی۔ پس یہ لوگ اپنے لئے وہ سب کچھ جائز سمجھتے تھے جو قیصرو کسریٰ اپنے لئے جائز سمجھتے تھے اور اُن کا خیال تھا کہ تمام زمین حکومت کی ہے اور حکومت اُن کے نزدیک بادشاہ کا مترادف لفظ تھا۔ پس اُن کے خیال کے مطابق تمام زمین بادشاہ کی تھی اِس لئے جب وہ اپنے کسی رشتہ دار یا عزیز کو خوش کرنا چاہتے تھے تو لوگوں کی زمینیں چھین کر اُن کو دے دیتے تھے جیسے جابر بادشاہ کیا ہی کرتے ہیں۔ اب بھی کشمیر کا راجہ اِسی طرح کیا کرتا تھا اور شاید اَور راجے بھی ہندوستان کے اِسی طرح کرتے ہوں۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ہاتھ میں حکومت آئی تو چونکہ وہ ایک خدا ترس انسان تھے اور اسلام کے احکام کو اُن کی اصلی صورت میں قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے، جن لوگوں کی زمینیں چھینی گئی تھیں اُنہوں نے اُن کے پاس درخواستیں بھجوانی شروع کیں کہ ہماری زمینیں ہم کو واپس دلائی جائیں کیونکہ حکومت کو کوئی اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ جبراً ہم سے زمینیں چھین کر دوسرے لوگوں کو دے دیتی۔ جب یہ درخواستیں کثرت سے آپ کے پاس آئیں تو جیسا کہ میں باب نمبر۹ میں یہ روایت درج کر آیا ہوں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے بیٹے عبدالملک سے جو ایک بہت بڑے عالم اور بڑے خدا ترس تھے مشورہ لیا کہ مَیں اِس بارہ میں کیا کروں؟ ایک طرف یہ لوگ ہیں جو اپنی زمینیں واپس مانگتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہیںپہلے بادشاہوں نے زمینیں عطا کردیں تھیں اور وہ اپنے آپ کواُن کا جائز مالک سمجھتے ہیں۔ عبدالملک نے اپنے والد کو مشورہ دیا کہ چونکہ یہ زمین لوگوں سے چھین کر اُن کو دی گئی تھی اِس لئے یہ مغصوبہ زمین ہے اور مغصوبہ زمین کا کوئی شخص مالک نہیں ہو سکتا۔ نہ حکومت اور نہ غیر۔ پس مغصوبہ زمین کا موجودہ قابضوں سے چھین لینا کوئی گناہ کی بات نہیں بلکہ یہ عین انصاف ہے پس آپ یہ زمینیں لوگوں سے چھین کر اُن کے اصل مالکوں کو واپس کردیں۔ اِس مشورے کو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قبول کیا اور وہ تمام زمینیں جو مغصوبہ زمینیں تھیں یعنی دوسروں کی مملوکہ زمینوں کو اُن سے چھین کر اَوروں کے حوالے کیا گیا تھا اصل مالکوں کو واپس کردیں۔
پس اس حوالہ سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ حکومت لوگوں کی ضرورت سے زیادہ زمینیں چھین کر دوسرے لوگوں میں تقسیم کر سکتی ہے بلکہ اس حوالہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر لوگوں کی زمینیں چھین کر حکومت نے دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دی ہوں تو بعد میں آنے والی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ پھر اُن کے قابضوں سے زمین چھین کر اُن کے اصل مالکوں کو زمین لوٹا دے۔ پس یہ حوالہ تو زمینداری کے مخالف لوگوں کے منشاء کے اُلٹ ہے۔
سندھ گورنمنٹ کی زمیندارہ کمیٹی کی اقلّیت کی رپورٹ میں مولوی عبیداللہ صاحب سندھی کا بھی ایک حوالہ پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے تابع ہیں اور امام صاحب نے زمین کو مقاطعہ پر دینا ناجائز قرار دیا ہے بلکہ اتنی ہی زمین اپنے پاس رکھنے کی اجازت دی ہے جتنی کوئی خود کاشت کر سکتا ہے اس لئے موجودہ طریق زمینداری کا ناجائز ہے۔ مولوی عبیداللہ صاحب سندھی ایک خداترس انسان تھے اور سادہ مزاج تھے۔ میرے وہ بچپن سے واقف تھے۔ جماعت احمدیہ کے پہلے امام کے زمانہ میں وہ قادیان بھی آیا کرتے تھے اور باوجود اِس کے کہ میں اُس وقت ایک طالب علم کی حیثیت رکھتا تھا میرا بہت ادب کرتے تھے۔ بعد میں بھی اُن کے ساتھ تعلقات قائم رہے۔ چنانچہ مَیں دیو بند میں بھی جا کر اُن سے ملا تھا۔ کبھی کبھار پیغام و سلام بھی آتا جاتا رہتا تھا اس لئے میرے دل میں اُن کا بہت ادب ہے۔ مَیں اُن کو متصنّع آدمی نہیں سمجھتا تھا لیکن اُن کو جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ شدّت سے کمیونسٹ خیالات سے متاثّر تھے۔ ہجرت کی تحریک کے موقع پر وہ ہندوستان سے نکلے۔ رشیا میں بڑے بڑے کمیونسٹ لوگوں سے اُن کے تعلقات رہے لیکن پھربگاڑ پیدا ہوگیا اور وہاں سے آگئے لیکن کمیونسٹ خیالات نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا بوجہ کمیونسٹوں سے بگاڑ کے وہ ظاہراً کمیونسٹ نہیں رہے تھے مگر خیالات پر وہی رنگ تھا۔ حجاز میںرہتے ہوئے بھی جو رپورٹیں آتی تھیں وہ یہی تھیں کہ کمیونسٹ اصول کو انہوں نے ترک نہیں کیا۔ چنانچہ غالباً ۱۹۲۷ ء یا ۱۹۲۸ء کی بات ہے کہ اُن کے متعلق تحریک کی گئی کہ چونکہ اب کمیونسٹ حکومت اُن کی مخالف ہے اِس لئے اُن کو ہندوستان میں آنے کی اجازت دی جائے۔ اُس وقت غالباً سرمائونٹ مورنسی پنجاب کے گورنر تھے۔ انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا مَیں اُن کو جانتا ہوں اور آیا ان کو واپس آنے کی اجازت دینے میں کوئی حرج تو نہیں ہوگا؟ میں نے اُنہیں جواب دیا کہ میں مولانا کو خوب جانتا ہوں وہ نہایت شریف اور نیک طبیعت کے آدمی ہیں لیکن اپنی بات کے پکّے بھی ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ریشہ دوانی یا سازش کی باتوں سے وہ بالا ہیں اور اِس قسم کا شُبہ اُن پر نہیں کیا جاسکتا مگر یہ کہ خود کمیونسٹ خیالات سے وہ آزاد ہو چکے ہوں میرے خیال میں یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی کیونکہ وہ اپنی بات کے بڑے پکّے ہیں۔ نہ جلدی رائے قائم کرتے ہیں نہ جلدی رائے چھوڑتے ہیں۔ ہاں نیک طبیعت اور سادہ طبع ہونے کی وجہ سے دوسرے کے فائدہ کے خیال سے کبھی اپنی بات جلدی سے بدل بھی لیتے ہیں مگر طبیعت کی وجہ سے نہیں بلکہ اخلاق کی اتباع کے خیال سے۔ کچھ عرصہ کے بعد اُن کے واپس آنے کی اجازت دے دی گئی۔ مَیں نہیں جانتا کہ اس تحقیق کے سلسلہ میں یا بعد میں دوبارہ سوال اُٹھایا گیا اور اُنہیں ہندوستان واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ اس کے بعد ہمیں ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
شاید ۱۹۴۴ ء کی بات ہے کہ میں نے اُن کو دعوت دینے کا ارادہ کیا مگر مَیں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ فوت ہوگئے۔ پُرانی طرز کے علماء میں سے وہ ایک نہایت ہی اعلیٰ پایہ کے آدمی تھے لیکن اُن کا کوئی خیال دلیل نہیں کہلاسکتا۔ وہ بعض دفعہ عجیب عجیب قسم کی باتیں سوچا کرتے تھے۔ اُن کے دوست اُن کے دماغ کی اِس کیفیت کو خوب جانتے ہیں۔ مَیں مثال کے طور پر ایک بات پیش کرتا ہوں۔
ایک دفعہ مجھ سے کہنے لگے کہ آپ جانتے ہیں کہ میں احمدیوں سے کوئی تعصّب نہیں رکھتا۔ میں نے کہا خوب جانتا ہوں۔ کہنے لگے اِس کا یہ مطلب نہیں کہ مَیں احمدیہ عقیدہ سے بھی متفق ہوں۔ میں مرزا صاحب کو ایک بڑا بزرگ سمجھتا ہوں اور صوفی سمجھتا ہوں مگر میرا یقین ہے کہ اُن کو مسیح اور مہدی کے بارہ میں غلطی لگی ہے اور اس بارہ میں مَیں نے بڑی لمبی تحقیق کی ہے اور گہرا غور کیا ہے اور عجیب نکتہ نکالا ہے۔ میں نے پوچھا فرمائیے وہ کیا نکتہ ہے ہمیں بھی معلوم ہو۔تو اِس پر وہ ایک بستہ اُٹھا لائے جس میں بہت سے نوٹ اُن کے لکھے ہوئے تھے۔ اُس میں انہوں نے بڑی لمبی تحقیقات لکھی ہوئی تھی جسے نہ وہ سُنا سکتے تھے نہ ہمارے پاس اُس کے سُننے کا وقت تھا۔ بہرحال اُس کا خلاصہ تھا کہ مسیحؑ دوبارہ اِس دنیا میں آئیں گے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اُن کی تھیوری یہ تھی کہ وہ فوت تو ہو چکے ہیں مگر دوبارہ زندہ کر کے بھجوائے جائیں گے اور یہ وہ زمانہ ہوگا جب اُمتِ محمدؐ یہ میں سے مہدی پیدا ہو چکا ہوگا۔ مہدی آکر مسلمانوں کی بادشاہت سنبھال لے گا اور عیسیٰؑ آکر عیسائیوں کی حکومت سنبھال لے گا اور یہ دونوں مل کر ایک سمجھوتہ کر لیں گے جس کے ماتحت عیسائیوں اور مسلمانوں میں دائمی صلح ہو جائے گی۔ میں نے کہا مولانا! سیاسی صلح کیلئے تو مسیحؑ اور مہدی کی ضرورت نہیں اور خاتم النبیّٖن کے بعد دین میں کسی شکست وریخت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو یہ آکرمسیحیو ں اور مسلمانوں میں صلح کس بات کی کرائیں گے؟ اُنہوں نے پھر اِس پر ایک لمبی تقریر کی جس کا کچھ حصہ تو مجھے یاد نہیں اور جو یاد ہے اُس کا کہنا مناسب نہیں۔
پس باوجود اِس کے کہ مولوی عبیداللہ صاحب سندھی کا میں بہت ادب اور احترام کرتا ہوں اور اُن کو طبیعتاً ایک نیک انسان سمجھتا ہوں لیکن وہ ہر گز اِس پایہ کے آدمی نہیں تھے کہ اِن معاملات میں اُن کی رائے کو کوئی وزن دیا جاسکے۔ اور شاید اپنے خیالات کی سختی کی وجہ سے وہ بعض دفعہ پوری تحقیق کرنے سے بھی عاجز رہتے تھے۔ مثلاً یہی حوالہ جو اُن کی طرف منسوب کیا گیا ہے اُس کا مضمون قطعی طور پر غلط ہے اور یا شاید اقلیت کی رپورٹ نے اِس کو غلط نقل کر دیا ہے۔ بہر حال اقلیت کی رپورٹ کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ:۔
’’ہم امام ابو حنیفہ کے تابع ہیں جنہوں نے زمین کو مقاطعہ پر دینا منع کیا ہے اُن کے نزدیک آدمی اتنی ہی زمین رکھ سکتا ہے جتنی زمین وہ خود کاشت کر سکے‘‘۔ ۹۵؎
میں اوپر بار بار حوالوں سے ثابت کر چکا ہوںکہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا ہر گز یہ مذہب نہیں۔ امام ابو حنیفہ ہر گز مقاطعہ پر زمین دینے کو ناجائز نہیں سمجھتے بلکہ وہ بٹائی پر زمین دینے کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ چنانچہ پھر ذیل میں مَیں چند حوالے درج کرتا ہوں۔
لایجوز المساقاۃ ولا المزارعۃ الا بالدراھم والدنا نیر وما اشبھھما من العروض وھذا کلہ قول ابی حنیفۃؒ ۹۶؎
یعنی باغ اور زمین کو ٹھیکے پر دینا جائز ہے سوائے اِس کے کہ سونے اور چاندی کے بدلہ میں اُنہیں ٹھیکے پر دیا جائے یا ایسی چیزیں جو قیمت کے طور پر استعمال ہوتی ہیں اُن کے بدلہ میں انہیں ٹھیکہ پر دے دیا جائے اور یہ سب کہ سب الفاظ امام ابو حنیفہؒ کے ہیں۔
حنفی علماء جانتے ہیں کہ علاّمہ طحاوی حنفیوں کے فقہاء میں سے اَئمہ کے بعد بڑے رتبہ کے لوگوں میں سے ہیں۔نووی میں لکھا ہے المزارعۃ مختلف فیھا عند الحنفیۃ فابو حنیفۃ یقول انھا لاتجوز (الا بالذھب والورق) وابو یوسف ومحمد یقولان بجواز ھا مطلقا۹۷؎ یعنی زمین کو مقاطعہ پر دینے کے بارہ میں حنفیوں میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒکا قول ہے کہ زمین صرف سونے چاندی کے بدلہ میں ٹھیکہ پر دی جاسکتی ہے بٹائی پر نہیں۔ لیکن امام ابویوسف اور امام محمد دونوں اُن کے شاگرد یہ کہتے ہیں کہ زمین کو ٹھیکے پر دینا خواہ بٹائی پر ہو یا روپیہ کے بدلہ میں دونوں طرح جائز ہے۔
پس علامہ سندھی نے جو بات امام ابو حنیفہؒ کی طرف منسوب کی ہے وہ حنفی فقہ سے کلّی طور پر غلط ثابت ہوتی ہے۔ نہ امام ابو حنیفہؒ نے یہ کہا ہے کہ زمین کو مقاطعہ پر دینا قطعی طور پر ناجائز ہے اور نہ اُنہوں نے یہ کہا کہ انسان صرف اُتنی ہی زمین اپنے پاس رکھ سکتا ہے جس کو وہ خود کاشت کر سکے۔ یہ دونوں باتیں سراسر غلط ہیں۔
اقلیتی رپورٹ میں امام ابو یوسف پر ایک نہایت ہی رکیک الزام لگایا گیا ہے۔ اُس میں لکھا ہے کہ امام ابو یوسف کے نزدیک زمین ٹھیکے پر دی جاسکتی ہے اور پھر لکھا ہے کہ وہ تو ہارون الرشید کے بڑے مفتی تھے جو شہنشاہیت کا بڑا علمبردار تھا اور اس لئے امام ابو یوسف سے یہ امید بھی نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ ہارون الرشید کے اُن خیالات کے خلاف کہہ سکے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اِس زمانہ کے معمولی معمولی ٹٹ پونجئے گریجوایٹوں کے متعلق یا مولویوں کے متعلق تو کہا جاتا ہے کہ اُن پر بد ظنی نہ کی جائے لیکن امام ابو یوسف جیسے انسان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اُن کا یہ فتویٰ دیانت داری پر مبنی نہیں تھا بلکہ ہارون الرشید کو خوش کرنے کے لئے انہوں نے دے دیا تھا۔ لیکن اقلیت کی رپورٹ لکھنے والوں کا ذہن اِدھر نہیں گیا کہ یہ فتویٰ امام ابو یوسف کا ہی نہیں امام محمد کا بھی ہے جن کو حکومت میں کوئی رُتبہ حاصل نہیں تھااور وہ امام ابو یوسف سے اُتر کر امام ابو حنیفہ کے دوسرے نمبر کے شاگرد سمجھے جاتے تھے۔ گو انہوں نے بوجہ وفات امام ابوحنیفہؒ تکمیل تعلیم امام ابو یوسف سے کی۔ سوال یہ ہے کہ امام ابو یوسف نے اگر ہارون الرشید کو خوش کرنے کے لئے شریعت کو بدل دیا تھا تو امام محمد نے کس کو خوش کرنے کے لئے شریعت کو بدل دیا۔
امام ابو یوسف کے پایہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اَئمہ اہل حدیث جو کہ فقہاء کی بہت کم تعریف کیا کرتے ہیں اُنہوں نے امام ابو یوسف کی نہایت اچھے الفاظ میں تعریف کی ہے۔ مثلاًیحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ علمائے فقہ میں سے امام ابو یوسف سے زیادہ کثیرالحدیث اور صحیح الروایت اَور کوئی شخص نہیں۔ اور اُن کے متعلق یحییٰ بن معین نے یہ الفاظ بھی کہے ہیں کہ امام ابو یوسف صاحبِ حدیث اور صاحب السنۃ ہیں۔۹۸؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا تتبع کرتے ہیں اور رسول کریم کے طریقِ عمل پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اَلْفَضْلُ مَاشَھِدَتْ بِہِ الْاَ عْدَائُ۔ خوبی وہی ہوتی ہے جس کا مخالف بھی اقرار کرتا ہو۔ یہ اقرار اُن لوگوں کا ہے جو علمائے فقہاء کے خلاف تھے۔ اُن کا یہ کہنا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں پیش پیش ہیں ایک ایسی شہادت ہے جس کو آجکل کا کوئی آدمی کسی صورت میں بھی ردّ نہیں کرسکتا۔
اُن کی نسبت تاریخوں سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ خلیفہ ہارون کی بیویوں اور حکام کے خلاف فیصلے کرتے تھے بلکہ خود خلیفہ ہارون کی مرضی کے خلاف بھی فیصلے کیا کرتے تھے۔
اس رپورٹ میں شاہ عبدالعزیز صاحب کا بھی ایک حوالہ لکھا گیا ہے جس میں یہ درج ہے کہ ہندوستان کی تمام زمین مسلمانوں کی ہے اور بیت المال کی ہے اور یہ کہ زمیندار مینجروں کی طرح ہیں۔ یہ حوالہ بھی صحیح درج نہیں۔ شاہ صاحب نے اِس بات پر بحث نہیں کی کہ ہندوستانی زمین کی ملکیت کی نوعیت کیا ہے بلکہ اُنہوں نے عُشر پر بحث کی ہے اور یہ بتانا چاہا ہے کہ ہندوستان کی زمینوں پر عُشر ہے یا نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ازروئے اسلام زمینیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک عُشری اور ایک خراجی۔ عُشر چونکہ زکوٰۃ کا قائم مقام ہے اِس لئے اَئمّہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ عُشر صرف اُن زمینوں کے لئے ہے جن کے مالک مسلمان ہو جائیں کیونکہ زکوٰۃ صرف مسلمان سے لی جاسکتی ہے۔ آگے خراجی زمین کے متعلق پھر اختلاف ہے۔بعضوں نے کہا کہ جب اس زمین کا مالک مسلمان ہو جائے گا تو اُس کی زمین عُشری ہوجائے گی۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ عُشری اور خراجی زمین کے لحاظ سے ہے مالک کے لحاظ سے نہیں۔ اگر خراجی زمین کو مسلمان خرید لے تو وہ عشری نہیں بن جاتی کیونکہ جو حق ایک وقت میں قائم ہوگیا وہ مالک کے بدلنے سے بدل نہیں جاتا۔ اِس بناء پر انہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ ہندوستان کی زمین خراجی ہے عُشری نہیں خواہ بعد میں اُس کے مالک مسلمان ہو گئے ہوں۔ اس اختلاف پر شاہ صاحب اپنی رائے دے رہے ہیں اورتحریر فرماتے ہیں:۔
’’امامِ وقت جو زمین کسی کو بطور انعام دیتاہے اس کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں۔
اوّل: امام بیت المال کی مملوکہ زمین کسی کو ہمیشہ کے لئے دے دے۔
دوم: امام بیت المال کی مملوکہ زمین کی آمدن بطور انعام دے دے (یعنی عُشر یا خراج بخش دے)
سوم: امام کسی ذمّی یا مسلمان کی مملوکہ زمین چھین کر کسی دوسرے کو ہمیشہ کے لئے دے دے۔
چہارم: امام ایسی زمین کی سرکاری آمدن کسی دوسرے کو بطور انعام دے دے۔
(یعنی زمین مالک ہی کے پاس رہے۔ اُس کا خراج یا عُشر دوسرے کو دے دے)
ان میں سے تیسری صورت صرف عقلی احتمال ہے جو خلافِ شرع بھی ہے(جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز صاحب کے نزدیک حکومت کا کسی مسلمان یا کافر سے اس کی زمین چھین کر کسی اَور کو دے دینا علاوہ خلاف شریعت ہونے کے اس قدر خلافِ عقل ہے کہ وہ باور ہی نہیں کرتے کہ کوئی اسلامی حکومت ایسا کرے گی اس لئے لکھتے ہیں کہ عملاًتو ایسا نہیں ہو سکتا۔ صرف بحث کی خاطر میں اس شق کو بطور احتمال پیش کرتا ہوں۔ یعنی بفرض محال اگر کوئی حکومت ایسا کرے تو اس کا کیا حکم ہے۔ سووہ حکم یہ ہے کہ یہ عمل خلاف شریعت ہوگا) باقی تین صورتوں میں سے پہلی صورت میں وہ شخص زمین کا پوری طرح مالک ہوگا جس کو زمین دی گئی ہے اور باقی دو صورتوں میں صرف خراج اور عُشر یعنی سرکاری آمدن لینے کا اُسے حق ہوگا لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ سارے قواعد ہمارے ملک کے رواج پر منطبق نہیں ہوتے اِس لئے کہ اس ملک میں ہر جگہ زمیندار زمین کے مالک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پس ایسی زمین جو بیت المال کی ملک ہو اِس ملک میں موجود نہیں اور نہ ہی ایسی زمین جو موات کا حکم رکھتی ہو یا ایسی زمین جو وارث کے نہ ہونے کی وجہ سے بیت المال کی ملک میں آئی ہو یا بیت المال کی آمدن سے اُسے خریدا گیا ہو اور اگر کوئی ایسی زمینیں ہیں تو وہ ممیز اور دوسری زمینوں سے نمایاں نہیں ہیں۔ پس اس حکم کو کسی معین جگہ پر جاری کرنا ممکن نہیں ہوگا سوائے اس کے حضرت شیخ جلال تھانیسری نے جو کچھ اپنے رسالہ میں لکھا ہے اُسے بنیاد مانا جائے۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان کی زمین ابتداء میں سوادِ عراق کی مانند فتح ہوئی تھی اس لئے یہ بیت المال کے لئے وقف ہے اور زمیندار وں کی حیثیت متولّی اور مینجر سے زیادہ نہیں جیسا کہ لفظ زمیندار بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے اور زمینداری میں تغیرو تبدل اور زمینداروں کو معزول کرنا اور رکھنا اور بعض کو نکالنا اور بعض کو مقرر کرنا اور بعض زمینیں افغانوں، بلوچوں، سیّدوں اور قدوائیوں کو بطور زمینداری دینا اس پر صریح دلالت کرتا ہے۔ پس اس صورت میں تمام اراضیِ ہندوستان بیت المال کی مِلک ہو جائیں گی۔ اِس طور پر کہ وہ اُن کے پاس نصف یا کم و بیش بٹائی کی صورت میں ہونگی۔ اس زمین کا ہر قطعہ جو بادشاہِ وقت دائمی طور پر کسی کو بخش دے وہ اُس کی مِلک ہوگا اور جو قطعہ بصورتِ گذارہ آمدن (حقوقِ موروثیت) اُس کو دیا گیا ہو وہ عاریۃً شمار ہوگا۔ ہاں پُرانے بادشاہوں کے حکمناموں کو دیکھ لینا چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ کون سی زمین دائمی ملکیت کی ہے اور کون سی دوسری۔ اور جو زمین دائمی ملکیت کی ہے اگر تو اُس کے ساتھ خراج کی معافی بھی تھی تو خراج بھی واجب نہ ہوگا کیونکہ اس صورت میں رقبہء ارضی کی تملیک ہوگی اور خراج بطور تنخواہ اُسے ملتا ہوگا۔ اور اگر صرف زمین کی تملیک ہے اور خراج معاف نہیں ہوا تو خراج واجب ہوگا۔ اور پہلی صورت میں بھی امام کو حق حاصل ہے کہ زمین مذکورہ سے خراج وصول کرے۔ بہر حال اس ملک کی زمینوں میں شبہ ہے اور پہلوں کو جو زمینیں دی گئی تھیں اُن کے دینے کی صورتوں میں بھی لوگوں کے مختلف خیالات ہیں۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ ۹۹؎
یہ حوالہ جس کتاب سے سندھ زمیندارہ کمیٹی کی اقلیتی رپورٹ میں درج کیا گیا ہے کسی قدر مختلف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اصل کتاب سے مفصل عبارت کا ترجمہ درج کر دیا ہے جو لفظاً لفظاً صحیح ہے۔ ہر شخص اصل کتاب نکال کر دیکھ سکتا ہے کہ ترجمہ وہی ہے جو مَیں نے کیا ہے اور وہ غلط ہے جو اس رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ شاہ عبدالعزیز صاحب نے ہر گز یہ بحث نہیں کی اور نہ یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہندوستان کی زمین کی حکومت اُن معنوں میں مالک ہے جن معنوں میں اقلیت کی رپورٹ میں لیا گیا ہے۔ شاہ صاحب تو اِس پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا ہندوستان کی زمین پر عُشر لینا واجب ہے یا نہیں اور مختلف اقوال نقل کر رہے ہیں کہ بعضوں نے اِس زمین کو خراجی قرار دیا ہے اور حکومت کی ملکیت قرار دیا ہے اور بعضوں نے اس کو عُشری قرار دیا ہے یعنی اس پر وہ احکام جاری کئے ہیں جو مسلمان کی مملوکہ زمین کے ہوتے ہیں۔ اِس سے یہ کیونکر نتیجہ نکل آیا کہ زمین حکومت کی ہے اور وہ جس طرح چاہے اُس کو تقسیم کر سکتی ہے۔ خراجی اور عُشری کی بحث کا اس معاملہ سے دُور کا بھی تعلق نہیں اور نہ شاہ صاحب نے اِس جگہ پر اپنی کوئی رائے دی ہے۔ اور نہ اِس پر بحث کی ہے کہ خراجی اور عُشری زمین کی ملکیتوں میں فرق کیا ہوتا ہے یمن کی زمین جو عیسائیوں اور یہودیوں کے نیچے تھی وہ خراجی تھی لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ زمین یہودیوں اور عیسائیوں سے لے لی اور اُن کو عرب کے جزیرے سے نکال دیا تو باوجود اِس کے کہ وہ زمین خراجی تھی اور اصولی طور پر حکومت اُس کی مالک سمجھی جاتی تھی اُنہوں نے وہ زمین اُن سے چھینی نہیں بلکہ خریدی۔ چنانچہ فتح الباری (شرح بخاری)جلد ۵ صفحہ ۸ پر یہ حدیث درج ہے۔ عن یحیی بن سعید ان عمر اجلی اھل نجران والیھود والنصاری واشتری بیاض ارضھم و کرومھم یعنی یحییٰ بن سعیدؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے نجران کے مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کو وہاں سے جلاوطن کردیا اور اُن کی زمینیں اور باغ خرید لئے۔
یہ ظاہر ہے کہ یہودیوں کی زمین عُشر ی نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر وہ عُشر تھی تو اس کا مالک کوئی مسلمان ہوگا۔ پس یہودیوں سے اُس کے خریدنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا وہ یقینا خراجی تھی جیسا کہ ہندوستان کی زمین کو خراجی قرار دیا جاتا ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُس کو خراجی قرار دے کر اور حکومت کو اُس کا مالک قرار دے کر اُس کو ضبط نہیں کیا بلکہ اُس کو خریدا۔
شاید کوئی کہے کہ یہ زمین نہ خراجی ہوگی نہ عُشری ہوگی بلکہ کسی اور قسم کی ہوگی تو یہ خیال بے ہودہ ہوگا اور اسلامی شریعت سے ناواقفی کی علامت ہوگا۔ اُوپر جو حوالہ شاہ صاحب کا درج کیا گیا ہے اُس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عُشری اور خراجی کے سوا اَور کوئی زمین اسلام میں نہیں سوائے اِس کے کہ وہ بیکار پڑی ہوئی ہو اور اُس کا مالک کوئی فردِ واحد نہ ہو۔ پس لازماً یہودی اور نصرانی اور مشرک اہلِ نجران کی زمینیں یا خراجی تھیں یا عُشری تھیں مگر دونوں صورتوں میں اُن کا مالک حضرت عمرؓ نے اُن کے قابضوں کو قرار دیا ہے اور اُن سے وہ زمین خریدی ہے۔
اب میں پھرشاہ صاحب کے حوالہ کی طرف آتا ہوں اور توجہ دلاتا ہوں کہ اِس حوالہ کو پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فتویٰ زمینداری کے مخالف لوگوں کے سراسر خلاف ہے نہ کہ اُن کی تائید میں۔ شاہ صاحب تو اِس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ بادشاہ خراج اور عُشر کو بھی معاف کر سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں اوپر باب ۵ میں ثابت کر آیا ہوں میرے نزدیک کوئی بادشاہ عُشر یا خراج کو معاف نہیں کر سکتا اور نہ کوئی حکومت ایسا کر سکتی ہے۔ شاہ صاحب نے شریعت کا ادب مدنظر رکھتے ہوئے اشارۃً اِس اعتراض کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ زمین کی آمدن عطیہ سمجھی جائے گی اور خراج یا عشر جو حکومت نے چھوڑا ہے وہ اُس شخص کی تنخواہ سمجھی جائے گی لیکن ظاہر ہے کہ یہ توجیہہ کوئی ایسی اعلیٰ توجیہہ نہیں ہے۔ درحقیقت بات یہی ہے کہ خراج بقدر عُشر یا عُشر کوکوئی حکومت معاف نہیں کر سکتی اور معافی والی جاگیر ہر گز اسلام میں جائز نہیں۔ خراج کا اُتنا حصہ جو عُشر کے برابر ہو اور عُشر بہر حال تمام مسلمان زمینداروں سے لینا پڑے گا۔ غیر مسلم پر چونکہ زکوٰۃ واجب نہیں اِس لئے میں اِس وقت اُس کے متعلق کوئی فتویٰ نہیں دیتا وہ مسئلہ اس بحث کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا۔ لیکن ہر مسلمان زمیندار کو عُشری زمین کے بدلہ میں عُشر یا خراجی زمین کے بدلہ میں کم سے کم عُشر کے برابر رقم لازماً دینی ہوگی اور حکومت کو یہ رقم لازماً لینی ہوگی۔ اگر کوئی مسلمان زمیندار یہ رقم نہ دے گا تو وہ گنہگار ہوگا اور اگر حکومت اتنی رقم اس سے نہ لے گی تو وہ گنہگار ہوگی۔ نہ اِس کے معاف کروانے کا کسی کو حق ہے نہ اس کے معاف کرنے کا کسی کو حق ہے۔
شاہ صاحب کے مندرجہ بالا حوالہ میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ بعض علماء نے ہندوستان کی زمین کو سوادِ عراق کی زمین کا قائم مقام قرار دیا ہے اور اس لئے یہ ساری زمین حکومت کی مملوکہ ہے۔ اِس حوالہ کا کوئی تعلق زمینداری کی بحث کے ساتھ نہیں لیکن آجکل اِس حوالہ کے غلط معنی لے کر بعض لوگ ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں وہ لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ سوادِ عراق کی زمین اِس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام نے زمینوں کو حکومت کی ملکیت میں رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس لئے تمام اسلامی حکومتوں میں جس قدر زمینیں پائی جاتی ہیں وہ سب حکومت کی ملکیت قرار دی جانی چاہئیں۔ سوادِ عراق کی زمینوں کے مسئلہ کو شاید ہندوستان میں جو اہمیت دی جارہی ہے اُس کا پہلا بانی میں ہوں۔ آج سے قریباً ۲۷ سال پہلے مَیں نے خلافت پر لیکچر دیئے تھے اور اُن میں اِس زمین کے سوال کو اختلافات کی بنیادوں میں اہم بنیاد ثابت کیا تھا۔ میرے یہ لیکچر خداتعالیٰ کے فضل سے علمی دنیا میں خاص طور پر مقبول ہوئے تھے اور بعض اسلامی کالجوں میں پرائیوٹ سٹڈی کے طور پر مقرر کئے گئے تھے۔ شاید اُس وقت میرے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ کسی زمانہ میں یہی مسئلہ ایک اَور شکل اختیار کرکے ملک میں فتنہ کا موجب بن جائے گا۔
سوادِ عراق کی زمینوں کی حقیقت یہ ہے کہ جب عراق فتح ہوا تو عراق میں جو شاہِ ایران کسریٰ کی مملوکہ زمین تھی وہ مسلمانوں کے قبضہ میں آئی۔ اُس وقت تک طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی ملک بزور شمشیر فتح ہوتا تھا اور اُس کے متعلق کوئی معاہدہ نہ ہوتا تھا تو تمام سرکاری زمینیں یا اُن لوگوں کی زمینیں جو عملاً لڑائی میں شامل ہوتے تھے چھین کر مسلمان مجاہدین میں تقسیم کر دی جاتی تھیں سوائے اُتنے حصہ کے جو قرآن کریم نے اموالِ غنیمت میں سے خدا تعالیٰ اور حکومت کا مقرر فرمایا ہے۔ چونکہ ابتداء ً زمینیں کم آتی تھیں اور مسلمان محتاج زیادہ تھے یا بعض ایسے حقدار مسلمان ہوتے تھے جنہوں نے اسلام کی بڑی خدمات کی ہوئی ہوتی تھیں اُن کو دوسرے لوگوں سے زیادہ معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا تھا اِس لئے عراق کی فتح تک تمام ایسی زمینیں جو حکومت کی ملکیت ہوتی تھیں یا لڑنے والے افراد کی ملکیت ہوتی تھیں مسلمانوں میں تقسیم کر دی جاتی تھیں۔ خدا تعالیٰ اور حکومت کا حصہ بھی قریباً قریباً ساتھ کے ساتھ تقسیم ہوتا چلا جاتا تھا کیونکہ آخر وہ بھی پبلک کے فائدہ کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ فرق اتنا تھا کہ وہ حصہ ایسے غرباء کو مل جاتا تھا جو لڑائی میں شامل نہیں ہوتے تھے یا اُن لوگوں کو مل جاتا تھا جن کو اُن کے غنیمت کے حق سے زیادہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا تھا لیکن جب عراق فتح ہوا تو چونکہ عراق میں شاہِ کسریٰ کی بہت بڑی بڑی زمینیں تھیں اِسی طرح اُس کے اُمراء کے بہت بڑے بڑے علاقے خالی پڑے تھے حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو اب کافی زمینیں مل چکی ہیں اب آئندہ فوجوں کے اخراجات غنیمت کے مال سے نکلنے مشکل ہونگے اِس طرح آئندہ آنے والی نسلوں کی امداد اگر حکومت کرنا چاہے گی تو اُس کے لئے بھی روپیہ کی ضرورت ہوگی پس انہوں نے فیصلہ کیا کہ سرِدست سوادِ عراق یعنی عراق کی غیر مملوکہ زمین اور بعض کے نزدیک شام کے علاقہ کی کچھ زمین یا دوسرے لفظوں میں سرکا ری زمین موجودہ مجاہدین میں تقسیم نہ کی جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِس فیصلہ کے اعلان سے پہلے صحابہؓ سے مشورہ کیا تو صحابہؓ نے اُن سے اِس بارہ میں سخت اختلاف کیا اور اصرار کیا کہ یہ زمین سابق دستور کے مطابق فوراً مسلمانوں میں تقسیم ہوجانی چاہئے۔ چنانچہ اِس کی تفصیل کتاب الخراج میں اِس طرح آتی ہے۔
قال ابو یوسف وحدثنی غیر واحد من علماء اھل المدینۃ قالوا۔۔۔۔ لما جاء فتح العراق شاور الناس فی التفصیل۔۔۔ وشاورھم فی قسمۃ الارضین التی افاء اللّٰہ علی المسلمین من ارض العراق والشام فتکلم قوم فیھا وارادوا ان یقسم لھم حقوقھم وما فتحوا فقال عمر رضی اللّٰہ عنہ فکیف بمن یاتی من المسلمین فیجدون الارض بعلوجھا قد اقتسمت و ورثت عن الاباء وحیزت۔ ماھذا رأیی۔۔۔ واللّٰہ لایفتح بعدی بلد فیکون فیہ کبیر نیل بل عسی ان یکون کلا علی المسلمین فاذا قسمت ارض العراق بعلوجھا وارض الشام بعلوجھا فما یسدبہ الثغور وما یکون للذریۃ والارامل بھذالبلد وبغیرہ من اھل الشام والعراق… قدرأیت ان احبس الارضین بعلوجھا واضع علیھم فیھا الخراج وفی رقابھم الجزیۃ یؤدونھا فتکون فیئا للمسلمین المقاتلۃ والذریۃ ولمن یأتی من بعدھم ارأیتم ھذہ الثغور لا بدلھا من رجال یلزمونھا أرئیتم ھٰذہ المدن العظام کالشام والجزیرۃ والکوفۃ والبصرۃ ومصر لا بدلھا من ان تشحن بالجیوش وادرار العطاء علیھم فمن این یعطی ھولاء اذا قسمت الارضون والعلوج فقالوا جمیعا الرأی رأیک فنعم ماقلت ونعم مارأیت۱۰۰؎
یعنی امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ مجھ سے اہلِ مدینہ کے کئی علماء نے بیان کیا ہے کہ جب عراق فتح ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوںسے مشورہ کیا اور اُن سے پوچھا کہ شام وعراق میں جو زمین خداتعالیٰ کی طرف سے ملی ہے اُس کو کس طرح تقسیم کیا جائے۔ اِس پر لوگوں نے مشورہ دیا کہ اُن کے حقوق جو اموالِ غنیمت کے ہیں اور جو زمین انہوں نے فتح کی ہے وہ اُن میں فوراً تقسیم ہونی چاہئے۔ اِس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ اُن مسلمانوں کا کیا حال ہوگا جو بعد میں آئیں گے اور وہ دیکھیں گے کہ زمین کا ہر ٹکڑہ اور اُس کے کسان تقسیم ہو چکے ہیں اور باپ دادوں سے دوسرے لوگوں کو ورثہ میں ملے ہوئے ہیں۔ میری یہ رائے نہیں۔ خدا کی قسم! میرے بعد کوئی اور ملک ایسا فتح نہیں ہوگا جس میں نیل جیسے دریا ہوں بلکہ ممکن ہے کہ ایسے ملک فتح ہوں جو مسلمانوں پر بوجھ ہوں اور اُن کا خرچ مسلمانوں کو اُٹھانا پڑے۔ پس اگر مَیں عراق کی زمین اور اُس کے کسانوں کو تقسیم کردوں اور شام کی زمین اور اُس کے کسان کو تقسیم کر دوں تو اسلامی ملک کی سرحدوں پر لڑائی کا خرچ کہاں سے اُٹھایا جائے گا اور آئندہ اولاد کے لئے کیا بچے گا اور اس ملک اور شام اور عراق کے رہنے والے لوگوں اور بیوائوں کو کیا ملے گا۔ میری رائے تو یہ ہے کہ میں یہ زمینیں اور اُن کے کسانوں کو روک لُوں اور اُن کے اُوپر ایک خراج مقرر کر دوں اور اِس طرح شرعی طور پر ایک جزیہ مقرر کر دوں جو وہ دیتے رہیں۔ پس یہ ایک مال ہوگا اُن مسلمانوں کے لئے جو آئندہ جنگ میں حصہ لیں گے اور اُن کی اولادوں کے لئے اور اُن لوگوں کے لئے جو اُن کے بعد آئیں گے۔ کیا تمہاری رائے نہیں کہ یہ اسلامی سرحدیں اِس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہاں فوجیں رہیں جو ہر وقت اُن کی نگہداشت کریں؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ بڑے بڑے شہر جیسے دمشق اور جزیرہ اور کوفہ اور بصرہ اور مصر کے لئے ضروری ہے کہ فوجوں کے ساتھ اُن کی حفاظت کی جائے اور مقررہ وظائف فوجیوں کو ملتے رہیں؟ اگر یہ زمینیں اور ان کے کسان تقسیم کر دیئے جائیں تو وہ فوجی کس روپیہ سے مہیّا کئے جائیں گے جن کی ملک کی حفاظت کے لئے ضرورت ہے۔ اِس پر صحابہؓ نے کہا جو کچھ آپ نے فرمایا ہے درست ہے اور جو کچھ آپ نے سمجھا وہی صحیح ہے۔
بعض اور آثار میں یہ زائد بات بھی بیان کی گئی ہے کہ صحابہؓ برابر کئی دن تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ تیسرے دن حضرت عمرؓ نے کھڑے ہو کر کہا کہ مجھے قرآن شریف کی ایک آیت سے حوالہ مل گیا جس سے میرا استدلال درست ثابت ہوتا ہے چنانچہ اس بارہ میں مندرجہ ذیل روایت کتاب الخراج میں لکھی ہے۔
حدثنی محمد بن اسحاق عن الزھری ان عمر بن الخطابؓ استشار الناس فی السواد حین افتتح فرأی عامتھم ان یقسمہ وکان بلال بن رباح من اشدھم فی ذلک وکان رأی عمرؓ ان یترکہ ولا یقسمہ فقال اللھم اکفنی بلا لاواصْحابہ ومکثوا فی ذلک یومین او ثلاثۃ اودون ذلک ثم قال عمرؓ انی قد وجدت حجۃ قال اللّٰہ تعالی فی کتابہ ما افاء اللّٰہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من خیل ولارکاب ولکن اللّٰہ یسلط رسلہ علی من یشاء واللّٰہ علی کل شییٔ قدیر حتی فرغ من شأن بنی النضیر فھذہ عامۃ فی القری کلھاثم قال ما افاء اللّٰہ علی رسولہ من اھل القری فللّٰہ وللرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین و ابن السبیل کیلا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم و ما اتکم الرسول فخدوہ ومانھکم عنہ فانتھوا واتقوا اللّٰہ ان اللّٰہ شدید العقاب۔ ثم قال للفقراء المھاجرین الذین اخرجوا من دیارھم واموالھم یبتغون فضلا من اللّٰہ و رضوانا۔ وینصرون اللّٰہ و رسولہ اولئک ھم الصدقون ثم لم یرض حتی خلط بھم غیرھم فقال والذین تبوؤا الدار والایمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم ولا یجدون فی صدورھم حاجۃ مما اوتوْا ویؤثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ ومن یوق شح نفسہ فاؤلئک ھم المفلحون۔ فھذا فیما بلغنا واللّٰہ اعلم۔ للانصار خاصۃ ثم لم یرض حتی خلط بھم غیر ھم فقال والذین جاء وا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بِالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غِلا للذین اٰمنوا ربنا انک رء وف رحیم۔ فکانت ھذہ عامۃ لمن جاء من بعدھم فقد صار ھذا الفیٔ بین ھولاء جمیعا فکیف نقسمہ لھؤلاء و ندع من تخلف بعدھم بغیر قسم فاجمع علی ترکہ وجمع خراجہ ۱۰۱؎ یعنی محمدبن اسحاق نے امام زہری سے روایت کی ہے کہ جب سوادِ عراق فتح ہوا تو حضرت عمر ؓ نے لوگوں سے اس کے متعلق مشورہ کیا۔ اُن میں سے اکثر کی رائے یہ تھی کہ اس کو تقسیم کر دیا جائے اور بلال بن رباح رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ شدت سے اس بات پر مصِرّ تھے کہ یہ ضرور تقسیم ہونا چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ اس کو چھوڑ دیا جائے اور فی الحال تقسیم نہ کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اِن لوگوں کی مخالفت دیکھتے تھے تو بے اختیار اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! بلالؓ اور اُس کے ساتھیوں کے اعتراض سے مجھے بچا اور اُن کا جواب مجھے خود سمجھا۔ یہ بحث دو تین دن تک یا اِس سے کم وبیش جاری رہی۔ آخری دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک دلیل مل گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ اپنے رسول کو عطا فرمائے ایسی چیزیں جن پر تمہارے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑے بلکہ اُس نے خود ہی اپنے فضل سے اپنے رسول کو جس چیز پر چاہا قبضہ دے دیا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اِس آیت کی تلاوت کے بعد حضرت عمرؓ نے فرمایا یہاں تک تو یہودیوں کے بنو نضیر قبیلہ کے متعلق ذکر تھا اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی آیتوں میں تمام ملکوں کے متعلق احکام جاری فرمائے ہیں اور فرمایا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بستیوں اور اُن کے باشندوں میں سے بخشا وہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور اس کے رسول کا ہے اور قریبیوں کا ہے اور یتامیٰ کا ہے اور مساکین کا ہے اور مسافروں کا ہے تاکہ یہ مال تم میں سے امیروں کے درمیان چکر کھانے والا نہ بن جائے۔ اور رسول اِس مال میں سے تم کو جو کچھ دے وہ لے لو اور جس بات سے روکے اُس سے رُک جائو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ اللہ سزا دینے میں سخت بھی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ آگے فرماتا ہے کہ یہ مال مہاجر غریبوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اوراپنے مالوں سے محروم کئے گئے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضاء کی جستجو میں رہتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی سچے لوگ ہیں۔ اتنی آیتیں پڑھنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دیکھو! پھر اللہ تعالیٰ نے اِسی پر بس نہیں کیا بلکہ اُن کے ساتھ ایک اور جماعت کو ملایا ہے اور فرماتا ہے اور اُن لوگوں کے لئے بھی جو اس گھر میں پہلے سے رہتے تھے اور جنہوں نے کہ ایمان کو اپنے دلوں میں داخل کر لیا تھا وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اُن کے شہر میں آ بسے ہیں اور اپنے دلوں میں اُس مال سے جو اُن کو دیا جائے پورا استغناء محسوس کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں خواہ وہ کتنی ہی غربت اور فاقہ میں کیوں نہ مبتلا ہوں۔ اور جس قوم کے دل سے اللہ تعالیٰ بخل کو دور کردے وہ قو م بڑی کامیابی پانے والی ہوتی ہے۔ یہ آیتیں پڑھنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جہاں تک ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا ہے یہ آیتیں خاص طور پر انصار کے متعلق ہیں۔ پھر فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ اُن کے ساتھ ایک اور جماعت کو ملادیا اور فرمایاوہ لوگ جو اُن کے بعد آئیں گے اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہمارے گناہوں کو بخش اور ہمارے اُن بھائیوں کو بخش جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے تھے اور ہمارے دلوں میں مومنوں کے متعلق بغض پیدا نہ کر تُو بہت بخشش کرنے والا مہربان ہے۔ پھر فرمایا دیکھو !یہ آیت اُن سب لوگوں کے متعلق ہے جو بعد میں آئیں گے اور قرآنی فیصلہ کے مطابق حکومت کو تمام لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ پس ہم کس طرح تمام اموال کو موجودہ نسل میں تقسیم کردیں اور جو ابھی تک آئے نہیں اُن کا حصہ کوئی چھوڑیں ہی نہ۔ اِس پر تمام صحابہؓ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ متفق ہوگئے اور سوادِ عراق پر خراج لگانے کا فیصلہ دے دیا گیا۔
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یہ کوئی اسلامی فتویٰ نہیں کہ تمام مفتوحہ ممالک کی زمین حکومت کی ہوتی ہے۔ اگر یہ فتویٰ ہوتا تو عرب کے مفتوحہ علاقوں کی زمین کیوں تقسیم کی جاتی؟ یا سوادِ عراق سے باہر عراق کے علاقوں کی یا شام کے بعض علاقوں کی زمین کیوں تقسیم کی جاتی؟ جو بات اِس حوالہ میں سے نکلتی ہے وہ صرف اِس قدر ہے کہ حکومت کو صرف اپنے موجودہ زمانہ کے لوگوں کی ضرورتوں کا ہی خیال نہیں رکھنا چاہئے بلکہ آئندہ زمانہ کے لوگوں کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِسی خیال کے ماتحت ساری فتوحات نہیں بلکہ فتوحات کا ایک حصہ حکومت کے قبضہ میں رکھا۔ لیکن آہستہ آہستہ وہ علاقے بھی آخر حکومت نے تقسیم کردیئے اور لوگوں کی ملکیت ہوگئے اور ایسی ملکیت ہوگئے کہ جب بنو عباس نے شاید اِسی قسم کے فتویٰ سے متاثر ہوکر جو اِس وقت زمیندارہ کے خلاف لوگ دے رہے ہیں لوگوں سے زمین چھین کر بغداد بسایا تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اِس چھینی ہوئی زمین کے مقبرہ میں دفن ہونا بھی پسند نہ فرمایا اور وصیت کی کہ مجھے اِس جگہ سے باہر دفن کیا جائے۔
پُرانے فقہا نے جو کچھ سواد کے متعلق سمجھا ہے میں اس کے متعلق بھی اس جگہ پر ایک حوالہ نقل کر دیتا ہوں۔ حنفیوں کی مشہور کتاب ردّ المختار شامی میں لکھا ہے۔ سواد العراق ای قراہ وکذا کل مافتح عنوۃ واقر اھلہ علیھا اوصولحوا ووضع الخراج علی ارضیھم فھی مملوکۃ لاھلھا…… لان الامام اذا فتح ارضا عنوۃ لہ ان یقرا ھلھا علیھا ویضع علیھا الخراج وعلی رؤو سھم الجزیۃ فتبقی الارض مملوکۃ لاھلھا ۱۰۲؎ یعنی سوادِ عراق کی زمین اور اسی طرح اُن تمام ممالک کی زمین جو زور کے ساتھ فتح کئے گئے ہوں اور فاتح حکومت نے اُس ملک کے باشندوں کو اُن کی زمینوں پر قابض رہنے دیا ہو یا ایسے ملک جن کے ساتھ صلح کی گئی ہو اور اُن کی زمین پر خراج لگادیا گیا ہو یہ سب کی سب (سوادِ عراق اِس میں شامل ہے) اُن زمینوں کے مالکوں کی ملکیت ہونگی کیونکہ جب امام کسی زمین کو زبر دستی فتح کرے تو وہ اگر مناسب سمجھے تو اُس جگہ کے لوگوں کو اُس پر قابض رہنے دے اور اُن پر خراج مقرر کردے اور جزیہ لگادے اِس صورت میں زمین اُنہی لوگوں کی رہتی ہے جن کے قبضہ میں وہ ہوتی ہے۔
اِس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ سوادِ عراق کی بحث کا زمینوں کی ملکیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے ردالمختار شامی کے حوالہ سے بتایا ہے سوادِ عراق کی زمینوں کو حنفیوں نے ویسی ہی افراد کی مملوکہ زمینیں قرار دیا ہے جیسا کہ کوئی اَور زمین ہو۔ شاہی زمین ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ملکیت میں کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔ شاہی زمین ہونے کے محض اتنے معنی ہیں کہ اُس زمانہ میں جب وہ ملک فتح ہوا اُس زمین کے حقوقِ ملکیت کسی اَور شخص کو نہیں دئیے گئے لیکن بعد میں جب وہ حقوق دوسروں کو دیدئے گئے تو وہ لوگ جو اُس پر قابض تھے اُن سب کو ویسا ہی مالک سمجھا گیا جیسا کہ دنیا میں کوئی اَور مالک ہوتا ہے۔
پھر اِسی کتاب میں لکھا ہے۔ ان ارض سواد العراق مملوکۃ لاھلھا یجوز بیعھم لھا وتصرفھم فیھا وکذلک ارض مصر و الشام ۱۰۳؎ یعنی سوادِ عراق کی زمین جن لوگوں کی ملکیت میں ہے وہ اُنہی کی مملوکہ ہے ( حکومت کی نہیں) وہ اُس کو بیچ بھی سکتے ہیں اور جس طرح چاہیں اُس میں تصرّف بھی کرسکتے ہیں (یعنی عمارتیں وغیرہ بنا لیں یا باغ بنا لیں) اِسی طرح مصر اور شام کی زمین کے متعلق بھی یہی حکم ہے۔
خلاصہ یہ کہ سوادِعراق کے محض اتنے معنی ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اُس زمین کو اُسی زمانہ کے مسلمانوں میں تقسیم کر کے عُشری نہیں بنایا بلکہ اُس کو خراجی رہنے دیا تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں میں اُن زمینوں کو تقسیم کیا جاسکے اور اُن کے لئے بھی کچھ حصہ باقی رہے۔ ورنہ جو کسان اُس پر قابض تھے وہ اُس کے ویسے ہی مالک تھے جیسے اور موروثی کسان مالک ہوتے ہیں اور جن لوگوں کو وہ زمین دی جاتی تھی یا جو حکومت سے خریدتے تھے وہ اُس کے ویسے ہی مالک ہوتے تھے جیسے کوئی اَور زمینوں کا مالک ہوتا ہے۔
اگر کسی کے دل میں یہ شبہ ہو کہ آیا حکومت کا مال فروخت بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کے لئے میں چند حوالے پیش کرتا ہوں۔
مذکورہ بالا کتاب میں ہی لکھا ہے۔ لوباع شیئا من بیت المال صح بیعہ۱۰۴؎ اگر امام یعنی حکومت بیت المال کی چیزوں میں سے کسی چیز کو بیچے تو اُس کی بیع درست ہوگی۔
اِسی طرح لکھا ہے۔من اشتری شیئا مما صارت لبیت المال فقد ملکھا۱۰۵؎ جو شخص کوئی ایسی چیز خریدے جو بیت المال کی تھی تو وہ اس کا پوری طرح مالک ہو جائے گا بلکہ یہاں تک لکھا کہ اگر کوئی خراجی زمین حکومت سے خریدے تو وہ بھی خراجی نہیں رہے گی عُشری بن جائے گی۔
چنانچہ لکھا ان الخراج ارتفع عن اراضی مصر لعودھا الی بیت المال بموت ملاکھا فاذا اشترھا انسان من الامام بشرطہ شراء صحیحا ملکہ ولا خراج علیھا لان الامام قد اخذ البدل للمسلمین۱۰۶؎ یعنی مصر کی زمین پر سے خراج اُڑ گیا۔ مصر کی زمین سے خراج کیوں اُڑا؟ اِس لئے کہ اُس کے قابض اُمراء کے مرنے کے بعد وہ زمین بیت المال کی ہوگئی اور قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص حکومت سے شرائط کے مطابق صحیح سود ا کرے تو وہ اُس کا پورا مالک بن جاتا ہے اور اِس لئے اُس زمین پر خراج نہیں رہتا اِس لئے کہ امام نے جو اُس زمین میں مسلمانوں کا حصہ تھا اُس کے بدلہ میں خریدار سے قیمت وصول کرلی۔ یعنی علّامہ شامی یہ سوال اُٹھا کر مصر کی زمین جو خراجی تھی اب وہ عُشری کیوں ہوگئی ہے؟ اِس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ پہلے مصر خراجی تھا کیونکہ وہ فتح کیا گیا تھا اور فتح کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کی ملکیت ہو گیا تھا لیکن مصر کے رئوساء کے پاس ہی اُن کی زمینیں رہنے دی گئی تھیں اور حکومت جو مسلمانوں کی قائم مقام تھی وہ مسلمانوں کے حق کے طور پر اُن رئوساء سے خراج لیتی تھی۔ اِس کے بعد ایک ایسا زمانہ آیا کہ وہ رئوساء اور زمیندار مر گئے اور اُن کی زمینیں لاوارثی کے طور پر پھر حکومت کے پاس آگئیں اور مسلمانوں نے حکومت سے وہ زمینیں دوبارہ خریدیں تو اب وہ خراجی نہ رہیں۔ کیونکہ حکومت یعنی مسلمانوں کی نمائندہ طاقت نے زمین کی قیمت خریدار سے وصول کر لی اور اس طرح جو مالکانہ حصہ تھا وہ حکومت کے پاس چلا گیا۔ پس خراج جو مالکانہ حصہ کے مقابلہ میں ہوتا ہے وہ روپیہ کی صورت میں حکومت کو مل گیا یا دوسرے لفظوں میں مسلمانوں کو مل گیا۔ اب صرف عُشر رہ گیا جو خدا تعالیٰ کا حصہ ہے جس کو نہ کوئی معاف کرسکتا ہے نہ بخش سکتا ہے۔
دیکھو! اس حوالہ میں کتنی وضاحت سے یہ بات بتا دی گئی ہے کہ خراج در حقیقت قائم مقام ہے اُس مالکانہ حق کا جو مفتوحہ ملک پر مسلمانوں کو حاصل ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص کوئی زمین حکومت سے خرید لے یا حکومت اُس کو بخش دے تو پھر اُس پر سے خراج اُڑ جاتا ہے اور صرف عُشر باقی رہ جاتا ہے اور حکومت کو آئندہ اُس زمین کے متعلق کوئی اختیار باقی نہیں رہتابلکہ خریدار کو یا جس کو ہبہ کے طور پر زمین دی گئی ہو کلّی طور پر ملکیت کے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔
اقلیت کی رپورٹ میں مولانا ابو الکلام صاحب آزاد کا بھی ایک حوالہ دیا گیا ہے مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں مولانا ابو الکلام صاحب آزاد کو بھی شریعت کے متعلق کوئی خصوصی مقام حاصل ہونے کا دعویٰ نہیں نہ اُن کی طرف سے کوئی ایسی دلیل ہی پیش کی گئی ہے جس کو شرعی طور پر ردّ کرنے کی ضرورت ہے۔
میں قریباً اُن تمام باتوں کا اُوپر جواب دے چکا ہوں جو زمینداری کے مخالف لوگوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں اور خصوصاً وہ باتیں جو سندھ گورنمنٹ زراعتی کمیٹی کی اقلّیت کی رپورٹ میں درج کی گئی ہیں۔ البتہ ایک بات رہ گئی ہے جو کوئی شرعی دلیل تو نہیں لیکن ایک جذباتی دلیل ضرور ہے اور وہ ابن تین کا قول ہے یعنی چھٹی صدی ہجری کے ایک محدث ابن تین کا ایک قول نقل کیا گیا ہے جو یہ ہے:۔
’’ہمارا آج کا مشاہدہ بھی یہ ہے کہ سب سے زیادہ تکلیف اور دُکھ پانے والی جماعت کسان ہیں۔‘‘۱۰۷؎
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس حوالہ کا ترجمہ بھی غلط کیا گیا ہے۔ اِس حوالہ میں ہرگز اس طرف یہ اشارہ نہیں ہے کہ کسانوں کی حالت خراب ہے جیسا کہ اقلیتی رپورٹ نے ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اِس رپورٹ میں اِس حوالہ کے نقل کرنے سے پہلے یہ لکھا ہے کہ :۔
’’زمیندارہ طریق نے ایک وسیع مصیبت اور غربت کسانوںمیں پیدا کردی تھی یہاں تک کہ چھٹی صدی ہجری میں بھی ابن تین کو یوں لکھنا پڑا۔‘‘
اِن الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ رپورٹ لکھنے والے صاحب پڑھنے والے پر یہ اثر ڈالنا چاہتے ہیں کہ گویا اوپر کی عبارت میں کسان کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو زمیندار کے ظلم کی وجہ سے اُس پر وارد ہو رہی تھی حالانکہ اِس حوالہ میں ہرگز اس کی طرف اشارہ بھی نہیں۔ ابن تین کی پوری عبارت کا ترجمہ یہ ہے:۔
’’ابن تین کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات( جس کا ذکر آئندہ کیا جائے گا)غیب کی خبروںمیں سے تھی کیونکہ یہ بات مشاہدہ سے معلوم ہوتی ہے کہ اکثر ظلم کھیتی کرنے والوں پر ہوتا ہے۔‘‘
اِس حوالہ میں کھیتی باڑی کے الفاظ ہیں جو ہرگز کسان پر دلالت نہیں کرتے۔ بارہ ایکڑ یا پندرہ ایکڑ یا پچیس ایکڑ والا وہ زمیندار جو اَب پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بھی کھیتی باڑی کرنے والا آدمی ہوگا اور ویسا ہی آدمی جو پہلے گزر چکا ہو وہ بھی کھیتی باڑی کرنے والا تھا خواہ وہ اپنی زمین کا آپ مالک تھا۔ پس اِس عبارت سے وہ نتیجہ نکالنا جو نکالا گیا ہے بالکل خلافِ واقعہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اِس عبارت کو سمجھنے کے لئے اِس کے پہلے حصّہ کا درج کرنا بھی ضروری تھا جس کو رپورٹ لکھنے والے نے حذف کردیا ہے اور وہ پہلا حصہ یہ ہے کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات پیشگوئی کے طور پر معلوم ہوتی ہے۔‘‘اِس حصہ کو اگر رپورٹ لکھنے والے صاحب ساتھ نقل کر دیتے اور یہ حصہ اُس کتاب میں موجود ہے جس سے انہوں نے یہ حوالہ نقل کیا ہے تو غالباً اُن پر بھی حقیقت کھل جاتی اور پڑھنے والوں پر بھی حقیقت کھل جاتی۔ اگر وہ حوالہ پورا نقل کرتے تو ہر شخص یہ سوال کرتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کونسی بات ہے جس کی طرف ابن تین اشارہ کرتے ہیں اور جب وہ بات اس کے سامنے آتی تو ساری حقیقت اُس پر واضح ہوجاتی۔
وہ بات جس کی طرف ابن تین نے اشارہ کیا ہے وہ ایک حدیث ہے جو بخاری میں بھی اور بہت سی دوسری کتب احادیث میں بھی درج ہے۔ اِس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:۔ عن ابی امامۃ الباھلی انہ رای سکۃ و شیئا من الۃ الحرث فقال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول لا یدخل ھذا بیت قوم الا ادخلہ اللّٰہ الذل ۱۰۸؎ یعنی ابی امامۃ الباہلیؓ کی نسبت روایت ہے کہ انہوں نے ہل اور زراعت کے آلات میں سے کوئی اَور آلہ دیکھا تو فرمایا میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ چیز یعنی زراعت کا آلہ کسی قوم میں داخل نہیں ہوتا کہ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اُس کے گھر میں ذلّت نہ داخل کردیتا ہو۔
ابن تین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس قول کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً بطور پیشگوئی کے فرمائی تھی کیونکہ زمینداروں پر (جس میں زمیندار اور کاشتکار دونوں شامل ہیں نہ کہ صرف کاشتکار) اِس زمانہ میں سب سے زیادہ ظلم ہوتا ہے۔
ابن تین کی بات کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے مَیں خود اس حدیث کے متعلق اَئمہ اہلحدیث کے اقوال درج کرتا ہوں۔امام محمدؒ مبسوط میں فرماتے ہیں۔ مراد الحدیث ان المسلمین اذا اشتغلوا بالزراعۃ واتبعوا اذناب البقر وقعدوا عن الجھاد کرعلیھم عدوھم فجعلوھم اذلۃ ۱۰۹؎ یعنی اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ جب مسلمان زراعت میں مشغول ہوجائیں گے( صاف ظاہر ہے کہ یہاں صرف کسان مراد نہیں) اور بیلوں کی دُموں کے پیچھے پیچھے چلیں گے اور جہاد کو چھوڑ دیں گے تو اُن پر دشمن لوٹ کر حملہ کرے گا اور اُن کو ذلیل کر دے گا۔
اِسی طرح اُنہوں نے لکھا ہے کہ ظنوا ان المراد بالتزام الخراج ولیس کذلک ۱۱۰؎ یعنی بعض لوگوں نے اس حدیث کے یہ معنے کئے ہیں کہ زراعت کرنے سے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور یہ ذلّت ہے۔ امام محمدؒ کہتے ہیں یہ ہر گز مراد نہیں بلکہ مراد وہ ہے جو ہم پہلے لکھ آئے ہیں۔
شاہ ولی اللہ صاحب بھی اِس بارہ میں یُوں فرماتے اعلم ان النبیﷺ بعث بالخلافۃ العامۃ وغلبۃ دینہ علی سائر الادیان لا یتحقق الا بالجھادو اعداد الاتہ فاذا ترکوا الجھاد واتبعوا اذناب البقر احاطہ بھم الذل وغلب علیھم اھل سائر الادیان ۱۱۱؎ ٰؑ یعنی یاد رکھو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور سارے دینوں پر آپ کے دین کا غلبہ جہاد اور جہاد کے سامانوں کی تیاری کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ پس جب مسلمانوں نے جہاد چھوڑ دیا اور بیلوں کی دُموں کے پیچھے چل پڑے(یعنی کھیتی باڑی کرنے لگے) تو ذلّت نے اُن کو گھیر لیا اور دوسرے دینوں والے لوگ اُن پر غالب آگئے۔
عینی شرح بخاری میں بھی اِس حدیث کے متعلق یُوں لکھا ہے۔ ھذا لمن یقرب من العدو فانہ اذا اشتغل بالحرث لایشتغل بالفرو سیۃ ویتاسد علیہ العدو واما غیرھم فالحرث محمود لھم وقال عزوجل واعدوا لھم ماستطعتم الایۃ وھولا تقوم الا بالزراعۃ ومن ھو بالثغور اوبمقاربۃ للعدو لایشتغل بالحرث فعلی المسلمین ان یمدوھم بمایختاجون الیہ۱۱۲؎ (جو حنفیوں کی لکھی ہوئی بخاری کی شرح ہے) یعنی یہ حدیث تمام مسلمانوں کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف اُن مسلمانوںکے لئے ہے جو دشمن کے قریب ہیں کیونکہ اگر وہ کھیتی باڑی میں لگ جائیں تو پھر جنگی فنون کی طرف توجہ نہیں کر سکتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن اُن پر دلیر ہوکر حملہ آور ہوجائے گا۔ اور جو اُن کے سوا ہیں یعنی اندرونِ ملک کے رہنے والے اُن کے لئے کھیتی ہے اُن کے لئے ایک اعلیٰ درجہ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دشمن کیلئے اُن تمام ذرائع سے کام لے کر تیاری کرو جو تمہاری طاقت میں ہوں اور یہ حکم بغیر زراعت کے پُورا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جو فوجیں سرحدوں پر بیٹھی ہوںگی یا دشمن کے قرب و جوار میں رہتی ہوں گی وہ تو کھیتی باڑی میں مشغول نہیں ہوسکتیں پس دوسرے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ کھیتی باڑی کر کے اُن فوجوں تک غلّہ اور دوسرے کھانے پینے کے سامان بھجوائیں۔
دیکھئے اِن حوالوں سے ابن تین کی بات کس قدر بدل جاتی ہے۔ ابن تین اپنے پاس سے بات نہیں کہتے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اِس حدیث میں کسانوں کا ذکر نہیں بلکہ زراعت کرنے والوں کا ذکر ہے اور علمائے اسلام نے اِن احادیث کے یہ معنی کئے ہیں کہ یہ حدیث اُن مسلمانوں کے لئے ہے جن کے ذمہ حفاظت ملک کا کام ہوتا ہے اُن کو کھیتی باڑی میں مشغول نہیں ہونا چاہئے اگر وہ ایسا کریں گے تو پھر جنگی فنون کی طرف سے غافل ہو جائیں گے۔ ورنہ کھیتی باڑی ایک اچھا فعل ہے۔ پس حدیث میں نہ کسی کسان کا ذکر ہے نہ کسی زمیندار کے ظلم کا ذکر ہے بلکہ مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ اپنے میں سے ایک حصہ کو (کیونکہ اُس وقت باقاعدہ فوجیں نہیں ہوتی تھیں) کھیتی باڑی کی فکروں سے آزاد کردیں۔ تاکہ وہ لوگ کلّی طور پر فارغ ہو کر فنونِ جنگ کے سیکھنے میں لگ جائیں اور دشمن کے مقابلہ کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ ظاہر ہے کہ اِن معنوں سے کھیتی باڑی کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے مذمّت نہیں کی گئی اور کسانوں کا ظلم نہیں بیان کیا گیا بلکہ خواہ ملکیتی زمین رکھنے والا ہو یا مقاطعہ کی زمین رکھنے والا ہو اگر وہ فوج میں اپنے آپ کو بھرتی کرتا ہے یا ایسے مقام پر ہے جہاں سے اُسے فوجی خدمت کے لئے بُلانے کی ضرورت پیش آ جائے گی تو اُسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ زراعت کے کام کی طرف توجہ نہ کرے تاکہ وہ جنگ کے کاموں کی طرف پوری توجہ دے سکے۔
قرآن شریف میں بالکل اِسی رنگ کا یہودیوں کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام یہودیوں کو کنعان کی طرف لے کر جارہے تھے تاکہ اُس ملک کی بادشاہت اُن کے حوالے کی جائے تو رستہ میں بہت سی مشکلات پیش آئیں اور کئی قوموں سے اُنہیں جنگیں کرنی پڑیں۔ ایک لمبا عرصہ گذر جانے کی وجہ سے یہودی گھبرا گئے اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا۔ ۱۱۳؎ یعنی اے موسیٰ! یہ جنگل کی کھمبیاں اور بوٹیاں کھانی اور شکاری پرندے پکڑ کر کھانے ہمیں پسند نہیں۔ ہمیشہ ایک ہی کھانے پر ہم کب تک صبر کرتے چلے جائیں۔ پس تُو اپنے ربّ سے کہہ کہ وہ ہمارے لئے وہ چیزیں پیدا کرے جو زمین اُگاتی ہے جیسے سبزی، ککڑیا ں، کھیرے، ساگ، گندم دالیں اور پیاز وغیرہ۔ تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے کہا ۱۱۴؎ یعنی اے لوگو! کیا تم اچھی چیز کے بدلہ میں ادنیٰ چیز لیتے ہو ؟اگر تمہاری ایسی ہی خواہش ہے تو جائو کسی شہر میں چلے جائو وہاں جو کچھ تم مانگ رہے ہو وہ تمہیں مل جائے گا۔ سو اُن کے اِس قول کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُن پر ذلّت اور مسکینی نازل کی اور خداتعالیٰ کے غضب نے اُن کے گھروں میں ڈیرے ڈال دیئے۔
دیکھو! اس آیت میں ترکاریاں مانگنے کے خلاف کتنی شدّت سے غصّہ کا اظہار کیا گیا ہے حالانکہ ترکاری بُری چیز تو نہیں اچھی چیز ہے۔ خود قرآن شریف نے میووں وغیرہ کی تعریفیں کی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ترکاری پسند تھی۔ قرآن شریف میں حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ اُن کے لئے خداتعالیٰ نے کدو کا درخت اُگایا یعنی وہ اُس کا پانی پی پی کر طاقت حاصل کرتے تھے۔ تو جب قرآن شریف اور حدیث میں کئی ترکاریوں کی تعریف آئی ہے اور وہ بھی خداتعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہیں تو اتنا غضب اُن پر کیوں نازل کیا گیا۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ یہودی لوگ اُس وقت دشمنوں سے جنگ کر رہے تھے۔ اُن کے قومی حالات کے مناسبِ حال یہی پیشہ تھا کہ شکار کرتے، جانور پکڑتے،خود رو سبزیاں کھاتے اور ہر وقت جنگ کے لئے تیار رہتے۔ اگر وہ کھیتی باڑی میں مشغول ہو جاتے تو لازماً اُن کا سفر وہیں رُک جاتا اور کنعان جانے سے پہلے پہلے ہی وہ ایک چھوٹا سا قبیلہ بن کر اپنے اِرد گرد کی اقوام میں مدغم ہو جاتے۔ یہی بات ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے جس کو بگاڑ کر کچھ کا کچھ کر دیا گیا ہے۔ ابن تین کا مفہوم بھی یہی ہے کہ زمیندار بوجہ اِس کے کہ اپنی جگہوں سے ہل نہیں سکتے اور زمینوں کی ملکیت کی وجہ سے اپنے مقام کو چھوڑ نہیں سکتے بادشاہ اُن پر زیادہ ظلم کر سکتے ہیں۔ تاجر پر اتنا ظلم نہیں کیا جاسکتا۔ صناع پر اتنا ظلم نہیں کیا جاسکتا تاجر اپنی تجارت نسبتاً آسانی کے ساتھ دوسرے ملک میں منتقل کر سکتا ہے۔ اِسی طرح صناع اپنے ہتھیار لے کر دوسرے صوبہ یا ملک میں جاسکتا ہے لیکن زمیندار اپنی زمین اُٹھا کر نہیں لے جاسکتا اس لئے وہ مجبور ہے کہ پولیس کے انتظامی افسروں کے، زراعتی افسروں کے اور تعلیمی افسروں کے ظلم سہے اور ڈالیوں سے اُن کے گھر بھرتا رہے، مگر اس وجہ سے اپنے گھر میں بیٹھا رہے کہ میں اپنی زمین چھوڑ کر کہاں جائوں۔ پس ابن تین نے کسانوں کی حالت کا نقشہ نہیں کھینچا بلکہ زمیندار کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے جو زمین کا مالک ہوتا ہے اور وہی ہے جو زمین چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ ورنہ کسان تو زمیندار سے زیادہ آزاد ہوتا ہے اگر کسی علاقہ میں اُس پر ظلم ہو تو وہ اُس کو نسبتاً آزادی سے چھوڑ سکتا ہے۔
افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور
(۱۹۴۸ء)
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور
(فرمودہ ۲۵ دسمبر ۱۹۴۸ء۔ بمقام لاہور)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’اِس وقت میں تقریر کیلئے نہیں بلکہ دعا کیلئے آیا ہوں جیسا کہ میرا طریق ہے کہ دعا سے پہلے کچھ باتیں کہتا ہوں۔ اِس طریق کے مطابق آپ کے سامنے کچھ باتیں رکھنا چاہتا ہوں۔
دنیا میں جتنے کام ہوتے ہیں ان کے کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی راستہ ہوتا ہے اور جتنے کام کرنے والے ہوتے ہیںان کے سامنے کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے۔ نہ ہی صحیح راستہ پر چلے بغیر کوئی قوم منزل پر پہنچ سکتی ہے اور نہ مقصد کے بغیر کوئی قوم یک جہتی سے کام کر سکتی ہے۔ اس امر کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے کہ ۱؎ ہر گھر جس میں تم داخل ہونا چاہتے ہو اس کے دروازہ میں سے داخل ہو جاؤ۔ یعنی ہر وہ کام جسے تم اختیار کرنا چاہتے ہو، اس کے حصول کا جو طریق ہے وہ اختیار کرو۔صحیح طریق اختیار کرنے کے بعد قوم کے پیش نظر کسی مقصد کا ہونا ضروری ہے۔ اگر کسی قوم کا کوئی مقصد نہ ہو تو وہ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ جس طرح دروازے میں داخل ہونے کے بغیر گھر میں داخل ہونا مشکل ہے اسی طرح اپنے مقصد کے مقرر کرنے کے بغیر کامیابی محال ہے۔ قرآن کریم میں ہے ۲؎ کہ ہر ذِی عقل شخص کا کوئی مقصد ہوتا ہے جسے سامنے رکھ کر وہ چلتا ہے۔ اِسی طرح ہر قوم کا جو کسی قانون یا تنظیم کے تحت اپنے آپ کو چلاتی ہے کوئی مقصد ہوناچاہئے۔ اگر بغیر مقصد کے کچھ لوگ کسی جگہ اکٹھے ہو جائیں تو ان میں قربانی کی روح پیدا ہوتی ہے نہ ہی ہمت اور جوش پیدا ہو سکتا ہے نہ وہ کامیابی حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی ایسا اعلیٰ پروگرام جس پر عمل کر کے دنیا میں ممتاز جگہ حاصل کر سکیں پیش کر سکتے ہیں۔
پس ہماری جماعت کو یہ دونوں زریں اصول کبھی نہ بھولنے چاہئیں۔ ہمارا مقصد تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرما دیا ہے کہ’’ اسلام کو دنیا میں غالب کرنا‘‘ پس ہمارا مقصد ہمارے سامنے ہے۔ اسے حاصل کرنا ہمارا کام ہے۔ ایسا غلبہ جو دلائل اور تعلیم کے لحاظ سے ہم دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں وہ تو قرآن کریم میں موجود ہے اور وہ اعلیٰ تعلیم جس کی وجہ سے یہ تمام مذہبی کتب سے افضل ہے اس میں موجود ہیں اور ہر شخص جو غور کرے اس کو دیکھ سکتا ہے لیکن جب تک ان دلائل کو عملی طور پر پیش نہ کیا جائے محض دلائل سے کوئی شخص قائل نہیںہو سکتا۔ لوگوں کا عام طریق ہوتا ہے کہ جب وہ دلائل سے عاجز آ جاتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ بتاؤ تم نے اس تعلیم پر عمل کر کے کونسا تغیر اپنے اندر پیدا کر لیا ہے، کون سا اعلیٰ مقام حاصل کر لیا ہے، کون سی فضیلت حاصل کر لی ہے۔ چنانچہ آج دشمن اسی طریق سے اسلام پر طعنہ زن رہا ہے۔ جب ہم اس کے سامنے اسلام کی تعلیم پیش کرتے ہیں تو کہتا ہے بتاؤ اسلامی ممالک نے کون سی رواداری کی مثال پیش کی ہے اور کون سے فتنے فساد اُنہوں نے رفع کئے ہیں کون سا نیا تغیر اُنہوں نے پیدا کیا ہے اور اگر اُنہوں نے اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے کچھ نہیں کیا تو اس تعلیم کو تم ہمارے سامنے کیوں پیش کرتے ہو۔ جب اس کے ماننے والے اسے ردّ کر چکے ہیں تو نہ ماننے والے کیونکر قبول کریں۔ یہ ایسا زبردست اعتراض ہے کہ اس کے سامنے ہمارے لئے بولنے کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر تغیر پیدا کریں اور اسلام کی تعلیم کے ساتھ عمل کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کریں کہ دشمن بھی اسلام کی علمی و عملی برتری کا اقرار کرنے لگے۔ جب تک ہم عملی نمونہ پیش نہ کریں ہم غلبہ نہیں پا سکتے۔
پس یہ وہ دروازہ ہے جس سے گزر کر ہم اپنے مقصد کو پا لیتے ہیں اور اسلام کے غلبہ کی عمارت میں داخل ہو سکتے ہیں۔ جہاں تک ہمارے مقصد کا تعلق ہے وہ واضح ہے کہ قرآن کریم میں ہمارا فریضہ اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کرنے میں کوشاں رہنا بیان فرمایا ہے لیکن جہاںتک عمل کا سوال ہے اس میں ہم تہی دست ہیں۔
باتیں سننا بھی ضروری ہے اور اچھی باتیں سننی چاہئیں، لیکن اب عمل کا زمانہ ہے باتیں کم سنو عمل زیادہ کرو۔……
تقسیم ہند کے بعد قتل وغارت، لوٹ مار، خیانت، بددیانتی کے جو واقعات پیش آئے ان کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا ۔
مجھے افسوس ہے کہ ان شنیع افعال کے ارتکاب سے ہماری جماعت بھی محفوظ نہیں رہ سکی۔ بیشک جماعت کے بعض افراد نے شاندار نمونہ دکھایا ہے لیکن بعض افراد نے اس موقع پر انتہائی کمزوری کا مظاہرہ کیا ہے۔ افسوس ہے کہ بحیثیت جماعت، جماعت نے اچھا نمونہ نہیں دکھایا۔ ہمیشہ مصائب کا زمانہ ہی ایمان کے امتحان کا زمانہ ہوتا ہے لیکن بعض لوگ اس میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ (الفضل ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۸ء)
۱؎ البقرۃ: ۱۹۰ ۲؎ البقرۃ: ۱۴۹
تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور
(۱۹۴۸ء)
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تقریر جلسہ سالانہ جماعت احمدیہ لاہور۱۹۴۸ء
( فرمودہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۸ء بمقام لاہور)
(غیر مطبوعہ)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
کھانسی کی موجودہ تکلیف کے بعد مجھے کسی لمبی تقریر کرنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ پہلا موقع ہے جو مجھے ملا ہے اور گو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے پہلے کی نسبت آرام ہے لیکن چونکہ کھانسی کی تکلیف ابھی باقی ہے اس لئے شاید میں کوئی لمبی تقریر نہ کر سکوں میری آواز بھی اِس وقت بیٹھی ہوئی ہے علاوہ اس کے وہ بھرائی ہوئی ہے لیکن لاؤڈ سپیکر کی وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ میری آواز اِنْشَائَ اللّٰہ دوستوں تک پہنچ جائے گی اور میں اپنے اُن مختصر خیالات کے اظہار کا موقع پا سکوں گا جن کے اظہار کے لئے میں اِس وقت کھڑا ہوا ہوں۔
جیسا کہ احباب کو معلوم ہے آج کا جلسہ لاہور کی مقامی جماعت کا جلسہ ہے یہ ہمارا جلسہ سالانہ نہیں جو مرکزی جلسہ ہوا کرتا ہے۔ مرکزی جلسہ سالانہ کے متعلق ہمارا ارادہ تھا کہ اِس سال اپنے نئے مرکز میں کیا جائے اور وہ جلسہ ہمارے نئے مرکز کا پہلا جلسہ ہو لیکن بہت سی مشکلات کی وجہ سے جو ہمارے رستہ میں حائل ہوگئیں ہم اس ارادہ کو پورا نہیں کر سکے۔ وہاں اِس وقت تک کوئی عمارت تعمیر نہیں ہو سکی کیونکہ ابھی تک حکومت کے پاس سے کاغذات نہیں نکلے۔ ابھی تک یہی بحث ہو رہی ہے کہ اس جگہ کس شان کا اور کیسے کیسے نئے دریافت شدہ اصولوں کے مطابق شہر بسایا جائے۔ گو حقیقت یہی ہے کہ ہم تو مشرقی پنجاب کے مہاجر ہیں اور مہاجر بھی ایسے جن کی جائیدادوں کو نہ بیچنے کی اجازت ہے اور نہ یہاں لانے کی اجازت ہے جو جائیداد یہاں لائی نہیں جا سکتی اسے فروخت کرنے کی اجازت نہیں اور جو لائی جا سکتی ہے اسے یہاں لانے کی اجازت نہیں۔ ایسے لوگوں کے پاس روپیہ آیا کہاں سے جس سے وہ جدید ترین طریقوں پر ایک عظیم الشان شہر بسا سکیں۔ اِس موقع پر کسی بڑے شہر کے بسانے کا خیال بھی ہمارے دلوں میں نہیں آ سکتا۔ مگر بہرحال ان دقتوں کی وجہ سے ہم وہاں جلسہ نہیں کرسکے کیونکہ آجکل سردی کا موسم ہے اور اس موسم میں بغیر اس کے کہ عمارتیں بنی ہوئی ہوں اور ہر قسم کے سامان مہیا ہوں جن سے انسان سردی سے بچ سکے کوئی اجتماع نہیں کیا جا سکتا اس لئے بڑے غوروفکر کے بعد ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جلسہ سالانہ ان دنوںکی بجائے ایسٹر ہالیڈیز (EASTER HOLIDAYS) میں کیا جائے۔ ان دنوں چونکہ گرمی ہوتی ہے اس لئے رہائش کیلئے مکانوں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر خدانخواستہ ان دنوں میں عمارتیں تعمیر کرنے کا کوئی انتظام نہ بھی ہوا تو ہم جنگل میں بستر بچھا کر یا جو چیز بھی میسر آئی نیچے بچھا کر سو رہیں گے اور دن کے وقت اپنی ہی چادریں پھیلا کر اور ان کے شامیانے بنا کر تقریریں کر لیا کریں گے اور اگر اُس وقت تک خدا تعالیٰ نے عمارتیں تعمیرکرنے کی کوئی صورت پیدا کر دی تو اس سے بہتر جس قدر بھی ہو سکا سامان مہیا کرنے کی کوشش کریں گے بہرحال جلسہ سالانہ ایسٹر کی تعطیلات میں ہوگا۔ اس جلسہ کے التوا سے جماعت احمدیہ لاہور نے فائدہ اُٹھا کر یہ فیصلہ کیا کہ ہم اس موقع پر اپنا جلسہ کر لیتے ہیں اور اُن کے ساتھ اس ارادہ کے نتیجہ میں بہت سی بیرونی جماعتوں کے افراد بھی آ گئے اور انہیں بھی اس اجتماع میں شامل ہونے کا موقع مل گیا۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں لاہور کی جماعت کو بھی ثواب مل گیا اور دوسرے لوگوں کو بھی ایک کی بجائے دو نیک تقریبوں میں شامل ہونے کا موقع مل جائے گا۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارا جلسہ سالانہ جو آئندہ ہوگا وہ ایسٹر ہالیڈیز میں ہوگا اور ہمارا ارادہ ہے کہ وہ اُسی جگہ کیا جائے جہاں ہم نیا مرکز بنانا چاہتے ہیں اس لحاظ سے وہ ہمارے نئے مرکز کا پہلا جلسہ ہوگا۔ اس لئے ان دوستوں کے ذریعہ جو بیرونجات سے آئے ہوئے ہیں یا جو جلسہ پر تو نہیں آ سکے لیکن اخبار کے ذریعہ ان تک آواز پہنچ سکتی ہے میں جماعت کے احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ اس موقع پر زیادہ سے زیادہ جمع ہونے کی کوشش کریں۔ نئے مرکز میں ہمارا پہلا سالانہ جلسہ ہونے کی وجہ سے یہ خاص طور پر ایک دعائیہ جلسہ ہوگا تا اللہ تعالیٰ ہمارے وہاں رہنے کو بابرکت بنائے۔ ہمارے لئے بھی اور ہم سے بھی زیادہ اسلام اور سچائی کیلئے اور خداتعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کیلئے۔ پس احباب جس قدر زیادہ اس جلسہ میں شامل ہو سکیں شامل ہوں بلکہ ابھی سے اس کیلئے تیاری شروع کر دیں لیکن احباب یہ بھی یاد رکھیں کہ اس سال وہاں کھانے کا سامان اکٹھا نہیں ہو سکا۔ آجکل غلّہ کی قلت ہے اور اس کی خرید پر گورنمنٹ کی طرف سے پابندیاں عائد ہیں جن کی وجہ سے ہم غلّہ جمع نہیں کر سکتے دوسرے غلّہ کی قیمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ جماعت کے لئے اس کا خریدنا مشکل ہے اور پھر ایسے زمانہ میں جب کہ جماعت کی تمام دولت اور مال مشرقی پنجاب میں رہ گیا ہے غلّہ خریدنا آسان کام نہیں۔ ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اپنے زمیندار بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ ہر وہ شخص جو اس سال جلسہ پر آئے یا وہ افراد جو جلسہ پر آئیں اپنے ساتھ تین تین سیر گیہوں یا آٹا فی کس کے حساب سے لیتے آئیں ان تین سیر میں سے ایک کھانا گیہوں یا آٹا لانے والے کا ہوگا اور ایک کھانا ایک ایسے شخص کا ہوگا جو غریب ہے یا شہری ہے اور باوجود کوشش کے اپنے ساتھ گیہوں یا آٹا نہیں لا سکتا۔ یعنی ڈیڑھ سیر فی کس کھانے کا اندازہ ہے۔ اُن تین سیر گیہوں یا آٹا میں سے ڈیڑھ سیر اُس فرد کا ہوگا اور ڈیڑھ سیر ایک اور شخص کا ہوگا جو خدا تعالیٰ کے دفتر میں اس کا مہمان لکھا جائے گا۔ اگر سب لوگ اس پر عمل کریں توگندم اتنی کافی جمع ہو جائے گی جس سے جلسہ کے ایام بغیر کسی ایسی تکلیف کے جو منتظمین کیلئے ہو یا مہمانوں کیلئے ہو آسانی کے ساتھ گزر سکیں گے۔
اس موقع پر میں یہ بھی ذکر کر دینا چاہتا ہوں کہ اس جلسہ پر بھی عورتیں نہیں آ سکیں۔ اوّل تو اس لئے کہ یہ جلسہ لاہور کی جماعت کا تھا۔ کچھ عورتیں آئی ہیں مگر اتنی نہیں جتنی قادیان میں آیا کرتی تھیں۔ قادیان میں اگر جلسہ کے موقع پر تیس ہزار آدمی آتے تھے تو پندرہ ہزار کے قریب عورتیں ہوا کرتی تھیں اور جلسہ میں حاضری بھی ایسی ہی رہتی تھی۔ مجھے یاد ہے آخری جلسہ سالانہ میں ہم نے مردم شماری کرائی تو مردانہ جلسہ گاہ میں ستائیس ہزار مرد تھے اس کے مقابلہ میں عورتوں کی تعداد تیرہ ساڑھے تیرہ ہزار تھی۔ دوسری میٹنگ میں تیس اکتیس ہزار مرد تھے اور اس کے مقابلہ میں پندرہ سولہ ہزار کے قریب عورتیں تھیں۔ گو پچھلے دو سال سے عورتیں جلسہ سالانہ میں حصہ نہیں لے رہیں لیکن جب جلسہ سالانہ اس جگہ پر جہاں ہمارا عارضی مرکز بنے گا قائم ہوگا تو عورتوں اور بچوں کو بھی اس میں آنے کی اجازت ہوگی۔ اگر جلسہ سالانہ سے پہلے کچھ عمارتیں تعمیر ہوگئیں تو عورتیں اور بچے ان میں گزارہ کر لیں گے اور مرد باہر میدان میں سو رہیں گے اور اگر مکانات تعمیر نہ ہوئے تو عورتوں اور بچوں کے لئے قناتیں لگا دی جائیں گی چونکہ گرمی کا موسم ہوگا اس لئے عورتیں پردے کے اندر گزارہ کرسکیں گی اور مرد باہر گزارہ کر لیں گے۔ بہرحال یہ ایک نہایت ہی خوش کن اور ایمان افزاء نظارہ ہوگا۔ خانہ کعبہ میں تو یہ نظارہ ہر سال نظر آتا ہے مکہ میں اتنی گنجائش نہیں ہوتی کہ سب لوگ آسانی کے ساتھ بسر کر سکیں۔ لوگ رات کو سڑکوںپر ہی سو رہتے ہیں۔ مکہ کا موسم چونکہ اتنا ٹھنڈا نہیں ہوتا اس لئے زیادہ تکلیف محسوس نہیں ہوتی لوگ سڑکوں اور میدانوں میں پڑے رہتے ہیں اور جن لوگوں کو کمرے مل جاتے ہیں وہ بھی ایک ایک کمرہ میں پچیس پچیس تیس تیس ہوتے ہیں اور بعض لوگ تو کمرے لے لیتے ہیں مگر ان کی حالت یہ ہوتی ہے کہ رات کو باہر سو گئے اور صبح اُٹھ کر سامان کمرہ میں رکھا اور تالا لگا دیا۔ اس جلسہ پر بھی یہی نظارہ نظر آئے گا۔ درحقیقت وہ ابتدائی سادگی جو انسانی فطرت میں پیدا کی گئی ہے وہی دنیا میں حقیقی امن پیدا کر سکتی ہے۔ جب تک لوگ تکلفات میں پڑے رہیں گے، جب تک لوگ ایسا طریق عمل تلاش کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے نہیں بنایا بلکہ انسانوں نے بنایا ہے اُس وقت تک حقیقی امن قائم نہیں ہوگا۔ حقیقی امن اُسی وقت قائم ہوگا جب انسان اپنی زندگی کو سادہ بنا کر ان چیزوں پر اکتفا کرے گا جو خدا تعالیٰ نے اس کیلئے بنائی ہیں یا نیچر نے اس کے لئے پیدا کی ہیں۔ تب ضرورت کے مطابق اسے چیزیںمل سکیں گی اور حسد اور کینہ جاتا رہے گا۔ لڑائیاں جاتی رہیں گی فتنے اور فساد مٹ جائیں گے اور لوگ امن اور پیار کی زندگی بسر کر سکیں گے۔
اسی طرح میں یہ بھی تحریک کرتا ہوں کہ لوگ اپنی اپنی جگہ جا کر دالیں بھی جمع کریں۔ یہ دالیں بطور چندہ کے ہونگی مگریہ چندہ جلسہ سالانہ کے چندہ کے علاوہ ہوگا۔ یہ گویا نئے مرکز میں ہمارے پہلے جلسہ سالانہ کے انتظام کیلئے خاص چندہ ہوگا۔ ہر ایک شخص اپنی توفیق کے مطابق جتنی دال دے سکتا ہے دے دے۔ دال ماش، چنا، مونگ اور مسور ثابت ہوں اور اگر چنے اور ماش ثابت بھی ہوں تو کوئی حرج نہیں اگر یہ چیزیں دو تین ماہ پہلے آ جائیں تو دال تیار کرائی جاسکتی ہے۔ تھوڑی تھوڑی چیز جمع کر کے اتنی کافی ہو جاتی ہے کہ اس سے کام چل سکتا ہے۔
میں ایک اور تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں اِس وقت ربوہ میں چیزیں ویسی ہی سستی ہیں جیسے گاؤں میں سستی ہوا کرتی ہیں لیکن جونہی وہاں قصبہ بنے گا لوگ چیزوں کو گراں کرنا شروع کر دیں گے جس وقت ہمارے آدمی وہاں گئے ہیںروپے کا چار پانچ سیر دودھ ملتا تھا مگر جوں ہی وہاں پچاس ساٹھ خیمے لگائے گئے دودھ مہنگا ہو گیا۔ اب وہاں روپے کا تین سیر دودھ ملتا ہے۔ اگر وہاں قصبہ بن گیا تو وہی لاہور والا حساب ہو جائے گا یعنی دودھ پونے دوسیر فی روپیہ کے حساب سے ملے گا۔ پس ایسے علاقوں کے لوگ جہاں بھینسیں کثرت سے پالی جاتی ہیں یا وہ لوگ جن کے پاس بھینسیں ہوں انہیں اِس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ ایسے لوگ جن کے پاس بھینسیں ہوتی ہیں وہ بسا اوقات خداتعالیٰ کو خوش کرنے کیلئے صدقے بھی دیتے رہتے ہیں جس میں بھینسیں وغیرہ دے دیتے ہیں۔ پس وہ لوگ جن کے پاس بھینسیں ہوں یا جن کے دل میں خداتعالیٰ یہ ڈالے کہ ایک بے آب و گیاہ جگہ میں رہنے والے لوگ خدا تعالیٰ کے فضل کو دودھ کی شکل میں پئیں اُن کو میں یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ ایسی بھینسیں جو کارآمد ہوں اور دودھ دینے والی ہوں مرکز کو ھدیۃً پیش کریں۔ میرا خیال ہے کہ وہاں جانے سے پہلے وہاں اتنی بھینسیں جمع کر دی جائیں کہ ہمیں اِردگرد کے علاقہ سے دودھ نہ خریدنا پڑے اور علاقہ میں اشیاء کی قیمتیں بِلاوجہ گراں نہ ہو جائیں۔
میں نے ربوہ میں عمارتیں تعمیر کرنے کیلئے یہ تحریک کروائی تھی کہ کاریگر اپنا نام پیش کریں چنانچہ کئی سَو لوہار، بڑھئی اور دوسرے کاریگروں کی درخواستیں آ گئی ہیں۔ ایسے لوگوں سے اگر وہ یہاں ہوں ( اگر وہ یہاں نہیں ہیں تو اُن کو اطلاع دے دی جائے) میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ پابہ رکاب رہیں۔ مرکز کی طرف سے جس وقت انہیں اطلاع ملے فوراً وہاں پہنچ جائیں اور کام شروع کر دیں۔ ہمارے لئے ایک ایک دن نہایت قیمتی ہے اور ایک ایک دن کی دیر ہمارے لئے مُضر ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہمیں وہاں تعمیر کی اجازت دلا دے فوراً ہی ہمیں سینکڑوں معمار، بڑھئی اور درجنوں لوہار اور دوسرے پیشہ ور درکار ہوں گے جو وہاں عارضی طور پر رہناچاہیں یا مستقل طو رپر رہائش اختیار کرنا چاہیں۔ عارضی وہ جو وہاں رہائش اختیار کرنا نہیں چاہتے اور مستقل وہ جن کا یہ ارادہ ہو کہ وہ وہیں بس جائیں۔
ربوہ کی زمین کے متعلق بعض غلط فہمیاں بھی پیدا ہوگئی ہیں جن کے متعلق میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ربوہ ہم نے اس زمین کا نام رکھا ہے جو نیا شہر بسانے کیلئے گورنمنٹ سے خریدی گئی ہے۔ ابھی تک ہمیں وہاں عمارت بنانے کی اجازت نہیں ملی جو زمین ذاتی ہو اُس پر ہر وقت عمارتیں تعمیر کی جا سکتی ہیں مگر جو زمین گورنمنٹ سے خریدی گئی ہو اُس کا نقشہ جب تک حکومت پاس نہ کرے کسی قسم کی تعمیر کی اجازت نہیں ہوتی۔ پس بوجہ گورنمنٹ کی زمین ہونے کے جب تک نقشہ کی منظوری نہ ملے ہم وہاں کوئی عمارت نہیں بنا سکتے۔ یہ زمین جو خریدی گئی ہے اس کے متعلق لوگوں میں مختلف قسم کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں مثلاً بعض لوگوں نے زمین کی قیمت بھجوائی لیکن اس قیمت پر انہیں زمین نہیں دی گئی۔ اس کی پہلے بھی وضاحت کی گئی تھی اور اب بھی اُس کی وضاحت کر دینا چاہتا ہوں۔ مؤمن کا ذہن تیز اور اُس کی عقل صاف ہونی چاہئے کیونکہ مؤمن کے سپرد جتنا کام ہوتا ہے وہ اگر کند ذہنی سے کام لے تو وہ اس کو پورے طور پر سرانجام نہیں دے سکتا۔ مؤمن کا ذہن اتنا تیز ہونا چاہئے کہ وہ سنتے ہی بات کو سمجھ جائے۔
ربوہ کے متعلق جو پہلے اعلان کیا گیا تھا یہ تھا کہ ۵۰۰ کنال تک زمین کی قیمت سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے لی جائے گی اور پندرہ اکتوبر تک لی جائے گی۔ اس اعلان کے یہ صاف معنی تھے کہ ۵۰۰ کنال تک زمین کی قیمت ایک سَو روپیہ فی کنال ہوگی یا پندرہ اکتوبر تک زمین کی قیمت ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے لی جائے گی۔ اب اگر پندرہ اکتوبر تک ۵۰۰ کنال زمین پوری فروخت نہ ہوتی تب بھی یہ تاریخ گزرنے پر قیمت بدل جاتی اور اگر پندرہ اکتوبر سے پہلے ۵۰۰ کنال زمین ختم ہوتی تب بھی قیمت بدل جاتی اِس قسم کی عبارت کے ہمیشہ یہ معنی ہوا کرتے ہیں کہ ان دونوں میں سے جو چیز بھی پہلے ختم ہو جائے گی اُس کے ساتھ ہی قیمت بھی ختم ہو جائے گی۔ اگر ۵۰۰ کنال پندرہ اکتوبر تک بکے تو پندرہ اکتوبر تک تو وہ زمین ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے مل جائے گی لیکن اس تاریخ کے بعد اِسی نرخ پر زمین نہیں ملے گی اسی طرح اگر ۵۰۰ کنال ختم ہو جائے اور مقررہ تاریخ میں خواہ پندرہ دن باقی ہوں تو چونکہ رقبہ ختم ہوگیا اس لئے باقی دنوں میں زمین اسی قیمت پر نہیں ملے گی۔ مگر دوستوں نے اس اعلان کو نہ سمجھا وہ سمجھتے رہے کہ انہیں لازمی طور پر ۱۵؍ اکتوبر تک ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے زمین ملے گی پس جن لوگوں کو بتایا گیا کہ وہ زمین جس کے متعلق یہ اعلان کیا گیا تھا کہ وہ ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے ملے گی وہ ختم ہو گئی ہے اور اب اس نرخ پر زمین نہیں مل سکتی تو انہوں نے اعتراض کرنے شروع کر دیئے لیکن یہ درست نہیں یہ دونوں چیزیں بہ یک وقت اخبار میں شائع شدہ موجود ہیں یعنی ۵۰۰ کنال ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے دی جائے گی اور پندرہ اکتوبر تک ملے گی۔ اس زمین کو بعد میں ۸۰۰ کنال بھی کر دیا گیا مگر وہ ۸۰۰ کنال بھی ۶یا ۷؍ اکتوبر تک ختم ہوگئی اور اس کے بعد جو درخواستیں موصول ہوئیں وہ ردّ کر دی گئیں لیکن بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے وہ اتنی وضاحت کے باوجود اتنے بھولے پن سے جواب دیتے ہیں کہ اگر نظام کا سوال نہ ہوتا تو شاید اُن کے بھولے پن کی وجہ سے میں صدرانجمن احمدیہ کو مشورہ دیتا کہ اُن کو اِسی قیمت پر زمین دے دی جائے۔
کہتے ہیں کہ جہانگیر بادشاہ نے نورجہاں کے ہاتھ میں دو کبوتر دے کر کہا کہ انہیں پکڑے رکھنا چھوڑنا نہیں اور خود کسی کام کیلئے چلا گیا۔ نورجہاں ابھی بچی تھی اس کے ہاتھ سے اتفاقاً ایک کبوتر اُڑ گیا۔ جہانگیر واپس آیا تو اُس نے نور جہاں سے پوچھا کہ دوسرا کبوتر کہاں گیا؟ اس نے جواب دیا اُڑ گیا ہے۔ جہانگیر نے پوچھا کس طرح؟ نورجہاں نے دوسرا کبوتر اپنے ہاتھ سے چھوڑتے ہوئے کہا کہ اس طرح۔ کہتے ہیں جہانگیر کا نورجہاں سے عشق یہیں سے شروع ہوا تھا۔ اِس واقعہ میں کوئی حقیقت ہو یا نہ ہو بہرحال بعض لوگوں کی سادگی ایسی انتہاء تک پہنچ گئی ہے کہ اگر نظام کا سوال نہ ہوتا تو شاید میں انہیں اسی قیمت پر زمین دے دینے کی سفارش کر دیتا۔ بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ ہم نے تو روپیہ ۱۴؍ اکتوبر کو بھیج دیا تھا دفتر والوں نے انہیں یہ جواب دیا کہ ۸۰۰ کنال زمین ختم ہو گئی ہے اور اب اِس قیمت پر زمین نہیں مل سکتی اب زمین کا نرخ دو سَوروپیہ فی کنال ہے اگر آپ اِس قیمت پر زمین لینا چاہیں تو زمین مل سکتی ہے مگر آپ جلدی اطلاع دیں کہ آیا آپ کے لئے ایک سَو روپیہ میں ۱۰ مرلہ زمین وقف کر دی جائے یاآپ اور روپیہ بھیج دیں گے تا آپ کے نام پر پوری ایک کنال زمین ریزرو کر دی جائے۔ بجائے اس کے کہ وہ دفتر والوں کو اطلاع دیتے کہ ان کے لئے دس مرلہ زمین ہی ریزرو کر دی جائے یا وہ ایک سَو روپیہ اور بھیج دیں گے اور ان کے نام پر ایک کنال زمین ریزرو کر دی جائے اُنہوں نے بحث جاری رکھی اور مجھے لکھنا شروع کر دیا کہ حضور نے فرمایا تھا کہ ۱۵؍ اکتوبر تک زمین ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے دی جائے گی ہم نے ۱۵؍ اکتوبر سے پہلے روپے ارسال کر دیئے تھے پھر ہمیں زمین سَو روپیہ پر کیوں نہیں ملتی؟ اور اس عرصہ میں وہ دو سَو روپیہ کنال والی زمین بھی ختم ہوگئی اور دفتر والوں نے انہیں لکھا کہ اب زمین کی قیمت تین سَو روپیہ فی کنال ہے اگر آپ پچاس روپیہ اور بھیج دیں تو آپ کیلئے دس مرلہ زمین ریزرو ہو سکتی ہے اور اگر آپ مزید روپیہ نہیں بھیجنا چاہتے تو اپنا روپیہ واپس لے لیں کیونکہ دس مرلہ سے کم زمین نہیں مل سکتی ۔اس پر انہوں نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ ابھی تو آپ دو سَوروپیہ پر ایک کنال زمین دے رہے تھے اور اب آپ لکھ رہے ہیں کہ زمین تین سَو روپیہ پر ملے گی ہمیں دوسَو روپیہ فی کنال کے حساب سے زمین لینی منظور ہے۔ پھر وہ ایسی بحث میں مشغول رہے اور زمین کی قیمت ۵۰۰ سَو روپیہ فی کنال ہوگئی اور انہیں لکھ دیا گیا کہ اب زمین کی قیمت پانچ سَو روپیہ فی کنال ہے اگر آپ زمین لینا چاہتے ہیں تو اور روپیہ بھیج دیں ورنہ آپ اپنی رقم واپس لے سکتے ہیں۔ اُنہوں نے لکھا کہ ابھی تو آپ تین سَو روپیہ پر ہمیں ایک کنال دے رہے تھے اور اب آپ کہتے ہیں کہ زمین کی قیمت پانچ سَو روپیہ فی کنال ہوگئی ہے۔ ہمیںتین سَو روپیہ پر ایک کنال منظور ہے۔ آپ ہمیں اِسی قیمت پر زمین دے دیں۔ غرض ان کے بھولے پن کی وجہ سے زمین کی قیمت ایک سَو روپیہ سے پانچ سَو روپیہ فی کنال ہوگئی اور ابھی قیمتیں یقینا اور بڑھیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ قلیل سے قلیل حیثیت کا قصبہ بھی پچیس تیس لاکھ روپیہ کے بغیر تعمیر نہیں ہو سکتا اور یہ ایسی عمارتیں ہونگی جو سارے قصبہ کے کام آئیں گی۔ اب یہ صاف بات ہے کہ یہ روپیہ کوئی ایک شخص نہیں دے گا بلکہ یہ خرچ تمام قصبہ پر پڑے گا۔
قادیان کے لوگوں کی تکالیف کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے زمین کا کافی رقبہ اُن لوگوں کیلئے مخصوص کر دیا تھا تا کہ جو نئے مرکز میں مکان کیلئے زمین لینا چاہیں وہ ایک سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے لے لیں اور کچھ لوگوں کو زمین مفت بھی دی گئی ہے کیونکہ بعض لوگ اتنے غریب تھے کہ وہ ایک سَو روپیہ کنال کے حساب سے بھی زمین نہیں خرید سکتے تھے۔ زمین کا سارا رقبہ جو قابل عمارت ہے وہ چار ہزار کنال ہے۔ اس میں سے دو ہزار کنال تو ایسی عمارتوں کے لئے ہے جو جماعتی عمارتیں ہیں مثلاً مساجد ہیں، کالج ہے، مقبرے ہیں، عید گاہ ہے، دفاتر ہیں، ہسپتال ہے۔ ان پر نصف کے قریب زمین خرچ ہو جائے گی۔ باقی دو ہزار کنال زمین رہ جاتی ہے اب اگر اس دو ہزار کنال زمین کو سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے بیچیں تو صرف دو لاکھ روپیہ مل سکتا ہے پچیس لاکھ روپیہ نہیں مل سکتا اور اگر یہ زمین پانچ سَو روپیہ فی کنال کی اوسط پر بِکے تو دس لاکھ روپیہ مل سکتا ہے لیکن اگر صحیح طور پر بھی خرچ کیا جائے تو نیا قصبہ بنانے پر کم سے کم ۲۵ لاکھ روپیہ صرف ہونا چاہئے۔ ہم نے کچی عمارتیں بنانے کا فیصلہ کیا ہے تب بھی ہمارا خرچ کا اندازہ ۱۳ لاکھ روپیہ ہے اور یہ صاف بات ہے کہ اگر زمین ۵۰۰ سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے بِکے تب بھی اس سے ۱۳ لاکھ روپیہ نہیں آ سکتا۔ اگر اوسط قیمت چھ سَو روپیہ فی کنال ہو پھر کہیں ۱۲ لاکھ روپیہ آ سکتا ہے اور اگر ساڑھے چھ سَو روپیہ فی کنال ہوتو پھر تیرہ لاکھ روپیہ آ سکتا ہے۔ اب چونکہ قریباً ایک ہزار کنال تو ایک سَو روپیہ فی کنال کے نرخ پر ہی بِک گئی ہے اس لئے اس کے یہ معنی ہیں کہ باقی زمین کی قیمت اتنی بڑھائی جائے کہ دس بارہ لاکھ روپیہ مل جائے اور یہ روپیہ آ نہیں سکتا جب تک کہ زمین ہزار ڈیڑھ ہزار روپیہ فی کنال کے حساب سے نہ بِکے۔ ہمارے لئے اِس وقت دو ہی راستے ہیں یا تو یہ کہ یہ رقم ہم خریداروں سے لیں اور یا یہ کہ بطور چندہ جماعت سے اکٹھی کریں۔ اب یہ صاف بات ہے کہ باقی لوگوں کے لئے کوئی وجہ نہیں ہو سکتی کہ وہ اس کے لئے چندہ دیں۔ وہ لوگ کہیں گے کہ یہ چیزیں تو مقامی ضرورتوں کیلئے ہیں جب ہم وہاں نہیں رہتے تو ہم چندہ کیوں دیں۔ بے شک ایسے مخلص لوگ بھی ہونگے جو چندہ دیں گے مگر اخلاقی طور پر وہ اس سوال کا حق رکھتے ہیں کہ وہ کیوں چندہ دیں۔ بہرحال اخراجات کا بیشتر حصہ انہی لوگوں پر پڑے گا جو وہاں آباد ہونگے اور یہ اسی طرح ہی ہو سکتا ہے کہ زمین کی قیمت پانچ سَو، سات سَو، ایک ہزار بلکہ ڈیڑھ ہزار روپیہ فی کنال کر دی جائے۔ پس جن لوگوں نے وہاں مکانات بنانے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ بحث چھوڑیں اور جلدی سے رقبہ محفوظ کرا لیں۔ مجھے ابھی تک خط آ رہے ہیں کہ ہمیں دو سَو روپیہ یا تین سَو روپیہ پر زمین دے دی جائے حالانکہ کچھ عرصہ کے بعد پانچ سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے بھی زمین نہیں مل سکے گی۔ اگر یہ لوگ بحث ہی کرتے رہے تو وہ موجودہ نرخ پر زمین خریدنے سے بھی محروم رہ جائیں گے۔ ہم ربوہ کی آبادی کے لئے عمارتی سامان بھی اکٹھا کر رہے ہیں کیونکہ عقل یہ چاہتی ہے کہ عمارتوں کی تعمیر پر کم سے کم خرچ ہو اور ہم اِس کام کو تنظیم کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے نقشے تیار کروا رہے ہیں جن کے مطابق مکان سستے سے سستا بن سکے۔ ہم نے انجینئروں کو ہدایتیں دی ہیں کہ مختلف ممالک میں جو نئی ترکیبیں مکانات بنانے کی نکلی ہیں اُن کے مطابق اور مختلف انجینئروں سے مشورہ کرنے کے بعد وہ طریق دریافت کریں جس سے مضبوط اور صحت افزاء مکانات کم سے کم خرچ میں تیار ہو سکیں۔ اِس وقت تک جو ہم نے اندازہ لگایا ہے اُس کے مطابق مکان اگر تین کمروں کا ہو اور اُس کے ساتھ برآمدہ، پاخانہ ۱؎، باورچی خانہ اور چار دیواری ہو، بنیادیں پکی ہوں اور عمارت کچی ہو تو اکتیس سَو روپیہ میں بن سکتا ہے۔ اِس سے گھٹیا درجہ کے مکان کا اندازہ اس سے کم ہے۔ ہمارا آخری اندازہ یہ ہے کہ ایک معمولی مکان جس میں دو تین کمرے ہوں سات آٹھ سَو روپیہ میں بن سکتا ہے۔ آجکل چیزیں بہت گراں ہیں اور انہیں حاصل کرنا اور بھی مشکل ہے لیکن پھر بھی بعض صورتوں میں توہمارا اندازہ ہے کہ دو کمرے والا مکان غالباً چار پانچ سَو روپیہ میں ہی بن جائے گا۔ یہی روپیہ جو ربوہ کی قیمت کے طور پر آیا ہے اس سے ہم نے سامان اکٹھا کرنا شروع کر دیا ہے۔ ہمیں جہاں جہاں سامان کا پتہ چلتا ہے ہم اُسے خریدنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک ایروڈرام کی عمارتیں نیلام ہو رہی تھیں اُس کا سامان ہم نے خرید لیا ہے اس میں سینکڑوں بالے، روشندان، کھڑکیاں اور دروازے وغیرہ ہیں۔ اگر وہ سامان بازار سے خریدا جاتا تو وہ پندرہ سولہ ہزار میں بھی نہیں مل سکتا تھا۔ اِسی طرح لکڑی اور لوہے کا سامان حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پس وہ لوگ جو چاہتے ہوں کہ ربوہ میں مکان بنوانے کا کام فوراً شروع کرا دیں تو وہ خزانہ میں روپیہ جمع کرا دیں تا جب بھی سامان خریدا جائے، انہیں اصل لاگت پر مہیا کر دیا جائے۔ صرف پانچ فیصدی مرکزی اخراجات کے لئے ان سے لیا جائے گا اور کوئی نفع نہیں لیا جائے گا۔
ربوہ میں مکانات بنوانے کے متعلق بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس کی مدت بہت کم رکھی گئی ہے۔ اخبار الفضل میں اس کے متعلق اعلان ہونے پر مختلف لوگوں کی طرف سے مختلف قسم کے سوالات کئے گئے ہیں۔ جن کے جوابات بھی دیئے گئے تھے لیکن میں چاہتا ہوں کہ اُن کے متعلق پھر کچھ کہہ دوں۔
قریب میں ہی مجھے ایک رؤیا ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی بات ہے جو بہت سے لوگوں کے دلوں میں ابھی تک قائم ہے۔ دو تین دن کی بات ہے مَیں نے رؤیا میں دیکھا کہ کوئی دوست آئے ہیں اُس وقت میری جیب میں بہت سی قلمیں ہیں جن میں سے کچھ کانے کی ہیں اور کچھ فاؤنٹین پن ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ اُس دوست کو تبرک کے طور پر کچھ دوں۔ چنانچہ میں نے چاہا کہ کانے کی خوبصورت قلمیں جو میری جیب میں ہیں اُن میں سے کچھ اُسے بطور تبرک کے دے دوں۔ میں نے جب انہیں جیب میں سے نکال کر دیکھا تو وہ ٹوٹی ہوئی تھیں۔ میں اپنے ذہن میں یہ خیال کرتا ہوں کہ اُسے صرف بطور تبرک کے کچھ چاہئے اور جو چیز بطور تبرک دی جاتی ہے اس کے لئے صرف یہ ضروری ہوتا ہے کہ وہ جسم کے ساتھ چھوئی ہوئی ہو یا کچھ عرصہ ساتھ رہی ہو۔ اس کا سلامت ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ چنانچہ میں نے کہا کہ یہی بطور تبرک دے دیتا ہوں۔ ان لوگوں میں جو میرے سامنے کھڑے ہوئے ہیں ڈاکٹر عبدالحق صاحب ڈینٹسٹ (DENTIST) بھی ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ نے ربوہ میں مکانات بنانے کے لئے جو شرط لگا دی ہے کہ دو ماہ کے اندر اندر بنائے جائیں اِس پر کیسے عمل ہو سکتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اخبار میں چھ ماہ کے اندر مکان تعمیر کرنے کا اعلان ہوا تھا مگر ہو سکتا ہے کہ کہیں دو ماہ بھی لکھا گیا ہو۔ مجھ سے بعض لوگوں نے بیداری میں بھی دو ماہ کی ہی مدت کا ذکر کیا ہے بہرحال ڈاکٹر صاحب خواب میں مجھ سے یہی کہتے ہیں۔ میں انہیں کہتا ہوں اصل چیز تو یہ ہے کہ ہمیں مکان بنانے کی نیت کر لینی چاہئے۔ پھر اس میں جو مشکلات پیش آئیں گی وہ سب کیلئے ہونگی۔ چھ ماہ کی مدت تو اس لئے رکھی گئی ہے تا جماعت کے اندر ایک بیداری پیدا ہو جائے اور وہاں جلد آبادی ہو جائے۔ اس خیال کی وجہ سے کہ کوئی شخص اس عرصہ میں مکان کیسے تعمیر کرے گا ربوہ میں زمین خریدنے سے اُسے نہیں رُکنا چاہئے۔ اس رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے لوگوں کے دلوںمیں ایسا خیال پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے مجھے یہ رؤیا ہوئی ہے۔ یہ سیدھی بات ہے کہ جو مشکلات ان کے سامنے پیش آئیں گی وہ ساروں کے لئے ہونگی اگر وہ ناقابل برداشت ہونگی تو صرف اُن کیلئے ہی ناقابل برداشت نہیں ہونگی بلکہ سب کے لئے ناقابل برداشت ہونگی اور اگر قابل حل ہوئیں تو جیسے باقی حل کر لیں گے وہ بھی حل کر لیں۔ بہرحال یہ سیدھی بات ہے کہ کوئی شخص کسی سے ناممکن کام نہیں کرا سکتا جو مشکلات پیش آئیں گی انہیں حل کرنے کی کوشش کی جائے گی کیونکہ یہ عقل کے خلاف ہے کہ سلسلہ جماعت کے دوستوں کو اُس کام کے کرنے پر مجبور کرے جس کا کرنا ان کے لئے ناممکن ہو۔
اب میں اس کے متعلق ایک سوال لیتا ہوں جو بعض لوگوں کے دلوںمیں وساوس پیدا کر رہا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ ربوہ کی زمین کے متعلق مختلف قسم کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اور لوگوں میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر قادیان ہمیں واپس مل جانا ہے تو پھر ایک نیا شہر آباد کرنے کی ضرورت کیا ہے ایک نئے شہر کا آباد کرنا بتاتا ہے کہ ہمیں قادیان کے واپس ملنے کے متعلق شُبہ ہے۔ میں جانتا ہوں کہ جماعت کے اندر کچھ منافقین پائے جاتے ہیں جو آہستہ آہستہ جماعت کے اندر وساوس پیدا کرتے رہیں گے وہ کہتے ہیں دیکھو! اگر قادیان کے واپس مل جانے کا ہمیں یقین ہوتا تو کسی اور شہر کے بسانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ دوسری جگہ ایک نیا شہر آباد کرنے کی کوشش کرنا وہاں سکول اور کالج وغیرہ بنانا اور دوسرے لوگوں کو وہاں آباد ہونے کی تحریک کرنا بتاتا ہے کہ انہیں یہ یقین ہے کہ قادیان واپس نہیں ملے گا۔ اس اعتراض کے میں چند جواب دیتا ہوں۔
اوّل میرے یا کسی اور کے دل کے وسوسہ کا یہاں سوال نہیں۔ سوال یہ ہے کہ میرے ساتھ کسی کو عداوت ہو یا خلافت کے ساتھ کسی کو اختلاف ہو یا تنظیم سے کسی کواختلاف ہو تو ایک اور بات ہے مگر جو شخص احمدی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت پر ایمان رکھتا ہے اسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے توکوئی اختلاف نہیں ہو سکتا۔ آپ فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ہمارا مرکز دائمی طور پر قادیان مقرر فرمایا ہے۔ اب یہ جو آپ نے فرمایا ہے اس میں کسی جھوٹ کا امکان نہیں ہوسکتا نہ میرے وسوسے، میری کمزوری یا نظام کی کسی غلطی کی وجہ سے یہ بات غلط ہو سکتی ہے۔ اگر کوئی شخص احمدیت پر یقین رکھتا ہے اگر کوئی شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اپنے دعویٰ میں سچا مانتا ہے تو اسے میری دشمنی کی وجہ سے خلافت یا تنظیم سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے یہ حق تو نہیں ہو سکتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی میں شُبہ کرے کیونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان رکھتا ہے پھر میں ایسے شخص سے جو یہ خیال کرتا ہے کہ چونکہ ہم اپنا مرکز ایک نئے مقام پر بنانے لگے ہیں اس لئے ہمیں قادیان کے واپس ملنے کی امید نہیں ہے دریافت کرتا ہوں کہ جب حکومت ریلیں بناتی ہے، نہریں بناتی ہے یا کوئی اور بڑا کام کرتی ہے تو وہ عارضی عمارتیں بناتی ہے یا نہیں؟ ہم نے تو کئی جگہ پر دیکھا ہے کہ جب بھی حکومت کوئی بڑا کام کرتی ہے وہ لاکھوں کی عمارتیں کھڑی کر دیتی ہے۔ لائیڈ بیراج کے وقت بھی لاکھوں کی عمارتیں بنائی گئی تھیں۔ اب جب دریائے سندھ کا بند ٹوٹا ہے میں کوئٹہ سے واپس آیا تو راستہ میں پھونس کے چھپر سینکڑوں کی تعداد میں بنے ہوئے تھے ان میں مزدور رہتے تھے اور وہ بند کی مرمت کرتے تھے۔ پس جب عارضی کام کے لئے کئی عمارتیں بنائی جاتی ہیں اور اُن پر کوئی اعتراض نہیں ہوتا تو اس پر کیوں اعتراض کیا جاتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی اُس وقت آپ نے خداتعالیٰ سے یہ دعا کی تھی کہ اے خدا! میں یہ گھر اس لئے بناتا ہوں کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والا ایک شخص پیدا ہو جو تیرا نبی ہو اور وہ تیری آیات پڑھ پڑھ کر لوگوں کو سنائے، تیری کتاب اور حکمت سکھائے اور ان کا تزکیۂ نفوس کرے۔ اِس دعا کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو قائم کیا اور وہاں اپنی اولاد کو بسایا۔ اس دعا کے سَو سال بعد تک وہ آدمی نہیں آیا جس کے لئے دعا کی گئی تھی لیکن عربوں نے اپنے یقین کو نہ چھوڑا اور انہوں نے سمجھا کہ وعدۂ ابراہیمی ضرور پورا ہو کر رہے گا۔ دو سَو سال گزرنے کے بعد بھی وہ نبی نہ آیا۔ پھر بھی کسی نے یہ نہیں کہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ پیشگوئی غلط ثابت ہوئی۔ تین سَو، چار سَو بلکہ پانچ سَو سال گزرنے کے بعد بھی کسی نے اس پیشگوئی کے پورا ہونے میں شک نہیں کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا فاصلہ ساڑھے بائیس سَو سال کا ہے بلکہ بعض روایات کے مطابق پچیس یا چھبیس سَو سال کا فاصلہ ہے۔ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیشگوئی آپ کے بعد اڑھائی ہزار سال گزرنے تک بھی پوری نہ ہوئی۔ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ساڑھے بائیس سَو سال کا عرصہ ہی سمجھ لیا جائے تب بھی اتنے لمبے عرصہ میں کتنی چیزیں غائب ہو جاتی ہیں۔ اتنا لمبا عرصہ گزرنے کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پیدا ہوئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا پوری ہوئی کہ اے خدا! تو اُن میں اپنا رسول مبعوث فرما جو تیری آیات پڑھ پڑھ کر انہیں سنائے،انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور اُن کا تزکیہ نفوس کرے۔ اتنے سالوں تک انتظار کرنے میں خواہ عرب مکہ میں رہے یا باہر بہرحال ان کے اندر کوئی مایوسی پیدا نہیں ہوئی۔ پھر یہ کونسی عقل کی بات ہے کہ ہم ایک سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد ہی مایوس ہو جائیں اور خیال کرلیں کہ قادیان ہمیں واپس نہیں ملے گا۔ محض خیال کر لینا کہ چونکہ ایک سال کا عرصہ گزر گیا ہے اور ہمیں قادیان نہیں ملا اس لئے اب ہمیں اس کے واپس ملنے کی کوئی امید نہیں، قطعی طو رپر غلط ہے ہمیں امید تو یہی ہے کہ قادیان ہمیں واپس مل جائے گا مگر کیا احمدی اتنے گرے ہوئے ہیں کہ وہ کچھ مدت کا انتظار بھی نہیں کر سکتے۔ پس ہم نے جو نیا مرکز بناناہے یہ مایوسی کی وجہ سے نہیں بلکہ درمیان اورعارضی زمانہ کے لئے بھی لوگ کام کیا کرتے ہیں اس لئے ہم نے بھی یہ کام کیا ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ کیا پیشگوئی کرنے والا جھوٹا ہے اور کیا اس کی یہی ایک پیشگوئی ہے یا اس کی صداقت کے اور بھی نشانات ہیں؟ آخر ہم میں سے بعض نے یہ خیال کیوں کر لیا کہ ہمیں قادیان واپس نہیں ملے گا یا وہ کیوں کہتے ہیں کہ ہمیں قادیان کے واپس ملنے میں شُبہ ہے اس کی دو ہی وجہیں ہیں۔ اوّل اس لئے کہ ایک سال ہو گیا ہے مگر ہمیں قادیان واپس نہیں ملا اس کے جواب میں میں نے یہ دلیل دی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کے متعلق جو پیشگوئی کی اس کے بعد ساڑھے بائیس سَو سال تک وہ شخص نہ آیا جس کے متعلق آپ نے پیشگوئی کی تھی مگر عربوں کو اس کے پورا ہونے میں کوئی شُبہ نہ گزرا۔ پھر قادیان کے واپس ملنے میں ہمیں شُبہ کیوں ہو۔ دوسرا جواب میں نے یہ دیا ہے کہ کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ اکیلی پیشگوئی ہے یا کوئی اور بھی ہے اگر آپ کی اور بھی پیشگوئیاں ہیں اور وہ پوری ہوگئی ہیں تو یہ پوری کیوں نہیں ہوگی۔ اگر یہ ایک پیشگوئی ہو تب تو یہ خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ ممکن ہے ہمیں قادیان واپس نہ ملے لیکن جب آپ کی سینکڑوں اور ہزاروں پیشگوئیاں پوری ہو کر لوگوں کی حیرت کا موجب ہوئیں تو ہمیں کیسے شُبہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی۔ان حیرت انگیز انکشافات کو پورا ہوتے دیکھ کر جو آپ پر ظاہر ہوئے ہم یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی بلکہ یہ یقینی اور قطعی بات ہے کہ یہ پیشگوئی بھی ضرور پوری ہوگی اور ہم یہ شُبہ نہیں کرسکتے کہ ہمیں قادیان واپس نہیں ملے گا۔
قادیان میں کئی لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آتے تھے اور آپ سے کہتے تھے کہ آپ کوئی معجزہ دکھائیں۔ مجھے خوب یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو معجزے پہلے دکھائے جا چکے ہیں اُن سے آپ نے کیا فائدہ اُٹھایا ہے؟ آخر پہلے جو معجزے دکھائے گئے ہیں آپ ان کے متعلق غور کریں کہ وہ صحیح تھے یا نہیں۔ اگر وہ غلط تھے تو پھر میرا جھوٹا ہونا ثابت ہو گیا ایسی صورت میں مجھ سے اور معجزات مانگنے کی کیا ضرورت ہے۔ اور اگر پہلے جو معجزات دکھائے گئے تھے وہ سچے تھے تب بھی نئے معجزات تمہارے لئے فائدہ مند نہیں ہو سکتے کیونکہ جب آپ نے پہلے معجزات سے فائدہ نہیں اُٹھایا تو اب نئے معجزات سے تم کیا فائدہ اُٹھاؤ گے۔ یہی جواب میں قادیان کے متعلق دیتا ہوں۔ قادیان کے واپس ملنے کے متعلق ہمیں شُبہ تب پڑ سکتا تھا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کوئی اور پیشگوئی نہ ہوتی۔ اگر آپ کی اور بھی پیشگوئیاں اور نشانات ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوئے جنہوں نے قطعی اور یقینی طور پر ثابت کر دیا کہ آپ سچے رسول ہیںتو آپ کی ایک پیشگوئی کے متعلق ہم کیسے شُبہ میں مبتلا ہو سکتے ہیں ہم جنہوں نے آپ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ہم صرف آپ کو دیکھ کر ہی جانتے ہیں کہ آپ سچے تھے جھوٹے نہیں تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ فرمایا اُس وقت حضرت ابوبکرؓ کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ آپ جب واپس مکہ میں آئے تو رستہ میں ایک دوست کے ہاں آرام کرنے کیلئے ٹھہر گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مئی کے مہینہ میں دعویٰ نبوت فرمایا تھا اور چونکہ سخت گرمی کا موسم تھا آپ نے بجائے گھر جانے کے مناسب خیال کیا کہ آپ اپنے دوست کے ہاں دوپہر کاٹ لیں۔ آپ ابھی اپنے دوست کے گھر بیٹھے ہی تھے کہ اُس کی ایک لونڈی آئی اور کہنے لگی ہائے تیرا دوست تو پاگل ہوگیا ہے۔ آپ نے پوچھا کون؟ کہنے لگی! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے پوچھا اُسے کیا ہوا؟ اس لونڈی نے جواب دیا۔ وہ کہتا ہے کہ مجھ سے خداتعالیٰ کلام کرتا ہے اور مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں۔ آپ نے فوراً اپنی چادر سنبھالی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ کے دوست نے اصرار کیا کہ گرمی زیادہ ہے دوپہر کا وقت ہے ذرا آرام کر لیں مگر آپ نے فرمایا اب میں ٹھہر نہیں سکتا۔ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر پر تشریف لائے اور دستک دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ کھولا۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب آپ کو دیکھا تو دیکھتے ہی کہا۔ میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں۔ کیا آپ نے یہ کہا ہے کہ مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں اور خداتعالیٰ مجھ سے کلام کرتا ہے؟ چونکہ مکہ میں ایک شور پڑا ہوا تھا اور حضرت ابوبکرؓ آپ کے پُرانے دوست تھے آپ نے خیال کیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اُسے ٹھوکر لگ جائے۔ آپ نے فرمایا۔ ابوبکر بات یہ ہے کہ … آپ تشریح کر کے اپنا دعویٰ بتانے لگے کہ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا۔ میں یہ نہیں سننا چاہتا۔ آپ مجھے صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ نے کہا ہے کہ مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا ابوبکر! جلال میں کیوں آتے ہو بات تو سنو اصل بات یہ ہے کہ…… حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا میں آپ کو خداتعالیٰ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ اور کوئی بات نہ کریں آپ مجھے صرف یہ بتائیں کہ کیا آپ نے یہ کہا ہے یا نہیں کہ مجھ پر فرشتے اُترتے ہیں اور اللہ تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ہاں! میں نے ایسا کہا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔۲؎ اس کے بعد اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!آپ تو دلیلیں دے کر میرے ایمان کو خراب کرنے لگے تھے۔ جب میں نے آپ کو پہلے ہی دیکھا ہوا تھا اور میں جانتا تھا کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے تو پھر کسی دلیل کی ضرورت ہی کیا تھی۔ آپ دلیلیں دے کر میرے ایمان کو کمزور کرنا چاہتے تھے۔ گویا میں مشاہدے کے بعد بھی کسی اور دلیل کا محتاج ہوں۔ غرض
آفتاب آمد دلیلِ آفتاب
بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی دلیل آپ ہوتی ہیں ان کو دیکھنے کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ یہی حال ہم نے دیکھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیکھنے کے بعد ہمیں یہ احساس بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ آپ جھوٹ بول سکتے ہیں۔
ایک دوست منشی اروڑے خاں صاحب ہوتے تھے۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پُرانے صحابی تھے اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دعویٰ سے پہلے بھی دیکھا ہوا تھا اور آپ سے ملتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ وہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو دیکھنے کیلئے قادیان تشریف لارہے تھے کہ لوگ آپ کو پکڑ کر مولوی ثناء اللہ صاحب کے پاس لے گئے۔ مولوی ثناء اللہ صاحب سے اُن لوگوں نے کہا کہ یہ (منشی صاحب) کپور تھلہ سے آ رہے ہیں اور قادیان جارہے ہیں۔ یہ مرزا صاحب کے بڑے مرید ہیں آپ انہیں سمجھائیں۔ مولوی ثناء اللہ صاحب دلائل دیتے رہے اور وہ خاموش بیٹھے سنتے رہے۔ جب مولوی صاحب اپنے دلائل دے چکے تو لوگوں نے منشی صاحب سے کہا اب بتائیے کیا مرزا صاحب سچے ثابت ہوئے ہیں یا جھوٹے؟ منشی صاحب نے فرمایا مولوی صاحب آپ نے پندرہ بیس منٹ تقریر کی ہے آپ خواہ دو دن بھی تقریر کریں میں نے تو حضرت مرزا صاحب کا منہ دیکھا ہوا ہے مجھ پر اس کا کچھ اثر نہیں ہو سکتا۔ میں نے حضرت مرزا صاحب کا چہرہ دیکھا ہے اور آپ کو دیکھنے کے بعد میں یہ جانتا ہوں کہ وہ جھوٹ نہیں بول سکتے۔ اسی طرح ہم جو آپ کو بچپن سے دیکھتے رہے ہیں کسی طرح یہ قیاس بھی نہیں کر سکتے کہ آپ (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) اسلام کے دشمن تھے۔
میں ابھی چھوٹا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام بچوں کے ساتھ بڑی مہربانی کے ساتھ پیش آتے تھے اور بڑی محبت کرتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کسی کتاب کا مسودہ لکھ رہے تھے اُس وقت میری عمر گیارہ بارہ سال کی تھی آپ کی عادت تھی کہ آپ ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھتے بھی جاتے تھے۔ اسی طرح آپ اُس وقت ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھ بھی رہے تھے۔ مسجد کے پاس ہی ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جسے بیت الفکر کہتے ہیں۔ اُس کی ایک کھڑکی مسجد کی طرف کھلتی تھی۔ میں بھی پہلے اُس کھڑکی سے گزر کر نماز پڑھانے کے لئے آیا کرتا تھا بعد میں ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ سے ایک دوسری کھڑکی بنا دی گئی اور میں نے اُس سے آنا شروع کر دیا۔ اس کمرے یعنی بیت الفکر میں حضرت (اماں جان) رحل پر قرآن کریم رکھے تلاوت کر رہی تھیں۔ آپ کے پاس ہمارا چھوٹا بھائی مبارک احمد بھی بیٹھا ہوا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبارک احمد سے بے حد پیار تھا بلکہ آپ کا پیار عشق کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام ٹہلتے بھی جاتے تھے اور لکھ بھی رہے تھے میں بھی پاس کھڑا تھا میں نے دیکھا کہ جیسے چیل جھپٹا مارتی ہے آپ کود کر اُس کمرہ میں گئے اور مبارک احمد کو ایسا تھپڑ مارا کہ اُس کے منہ پر سرخ نشان پڑ گئے۔ میں حیران تھا کہ ہوا کیا؟ ساتھ ہی آپ نے یہ الفاظ کہے تجھے شرم نہیں آتی کہ تم اللہ تعالیٰ کے کلام کی بے حرمتی کرتے ہو! بعد میں میں نے والدہ صاحبہ سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا کہ مبارک احمد کوئی چیز مانگ رہا تھا میںنے کہا کہ تلاوت کے بعد میں تمہیں وہ چیز دوں گی۔ اِس پر اُس نے رحل کو دھکا دیا اور کہا یہ چھوڑ دو اور مجھے وہ چیز دو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سنتے ہی کود کر اندر آئے اور ایسے زور کے ساتھ اُسے تھپڑا مارا کہ اس کے منہ پر نشان پڑ گئے۔ حالانکہ مبارک احمد اُس وقت ایک چھوٹا بچہ تھا اور آپ اس سے حددرجہ پیار کرتے تھے اب کوئی شخص خواہ کتنی دلیلیں دے خواہ دس کروڑ دلیلیں دے اور کہے کہ آپ کو قرآن کریم سے عشق نہیں تھا تو ہم پر اس کا کیا اثر ہو سکتا ہے۔ جس نے وہ نظارہ دیکھا ہے۔ جس نے آپ کی وہ غیرت اور وہ جوش دیکھا ہے کیا وہ ایک لمحہ کیلئے بھی مان سکتا ہے کہ آپ کے دل میں اسلام کی کوئی غیرت نہیں تھی، قرآن کریم کی کوئی غیرت نہیں تھی یا آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں تھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو محبت آپ کو تھی اس کا اندازہ مرزا سلطان احمد صاحب کے ایک واقعہ سے بھی ہو سکتاہے۔ مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ پر ایمان نہیں لائے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد انبیاء کی ہتک کے متعلق جب قانون پاس ہوا اُن دنوں میں اُن کی عیادت کے لئے گیا وہ اُن دنوں بیمار تھے۔ مجھے دیکھتے ہی اُنہوں نے کہا۔ بڑا شکر ہے کہ مرزا صاحب فوت ہوگئے۔ مجھے اس بات پر سخت غصہ آیا کیونکہ وہ احمدی نہ ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ادب اور احترام نہیں کرتے تھے۔ مگر تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگے آج اگر مرزا صاحب زندہ ہوتے تو وہ ضرور قید ہو جاتے کیونکہ ان کے سامنے اگر کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہتک آمیز فقرہ کہہ دیتا تو اُنہوں نے اُس کے سب اوتاروں کو رگڑ دینا تھا۔ یہ ایک ایسے شخص کی روایت ہے جو آپ کی زندگی میں احمدیت میں داخل نہیں ہوا تھا۔ ان حالات کے ہوتے ہوئے ایک احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان رکھتا ہے یہ خیال بھی کیسے کر سکتا ہے کہ آپ کی یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی اور قادیان ہمیں واپس نہیں ملے گا۔
قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ اس دلیل کو لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے ۳؎ یعنی اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو کیا تم اپنی اعقاب پر پھر جاؤ گے۔ یہ آیت جنگ اُحد کے متعلق ہے جس میں یہ مشہور ہو گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہوگئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر یہ خبر صحیح بھی ہوتی کہ آپ شہید ہوگئے ہیں تو کیا تم مرتد ہو جاتے۔ حالانکہ یہ صاف بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا اور یہ وعدہ قرآنِ کریم میں موجود ہے کہ آپ انسانی ہاتھوں سے قتل نہیں ہونگے۔ ۴؎ اللہ تعالیٰ آپ کو انسانی ہاتھوں سے محفوظ رکھے گا اور قتل نہیں ہونے دے گا۔ اِدھر تورات میں بھی یہ موجود تھا کہ آخری نبی کو کوئی شخص مار نہیں سکتا اگر کسی نے دعویٰ نبوت کیا اور پھر وہ مارا گیا تو وہ جھوٹا ہوگا۔ مگر باوجود اس کے کہ تورات میں بھی یہ بات موجود تھی کہ آخری نبی انسانی ہاتھوں سے مارا نہیں جائے گا اور قرآن کریم میں بھی یہ لکھا تھا ۔ آپ انسانی ہاتھوں سے مارے نہیں جائیں گے۔ پھر بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں یا قتل کر دیئے جائیں تو کیا تم اپنی اعقاب پر پھر جاؤ گے؟ اس کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ تھا کہ آپ قتل نہیں ہونگے۔ بے شک تورات میں بھی یہ لکھا تھا کہ آخری نبی مارا نہیں جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اگر آپ مارے جاتے تو کیا آپ جھوٹے ہوتے؟ کیا آپ کی صداقت کے اور بھی دلائل موجود ہیں یا نہیں؟ آپ کی صداقت کے تو اِس قدر دلائل موجود ہیں کہ تم نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ یہ وعدہ پورا نہیں ہوا اس لئے آپ نَعُوْذُبِاللّٰہِ جھوٹے ہیں۔ تم یہی کہہ سکتے ہو کہ پھر ہم اس پیشگوئی کے معنی غلط سمجھے ہیں۔ اگر ۹۹ پیشگوئیاں ایک طرف ہوں اور ایک پیشگوئی ایک طرف ہو تو ایک پیشگوئی کے صادق نہ آنے کی وجہ سے باقی ننانوے پیشگوئیاں غلط نہیں ہو جائیں گی۔ اگر آپ کے صدق کے ننانوے اَور دلائل موجود ہیں تو ایک پیشگوئی اگر صادق نہ آئے تو ہم یہ نہیں کہیں گے کہ آپ جھوٹے ہیں بلکہ یہ کہیں گے کہ ہم نے اس پیشگوئی کا مفہوم سمجھنے میں غلطی کھائی ہے۔ بہرحال جب کسی کی صداقت کے بہت سے نشانات اور دلائل ہوں تو کسی ایک نشان یا دلیل کے پورا نہ ہونے سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جاسکتا کہ اس کے باقی نشانات اور دلائل بھی غلط ہیں۔ کثرت کے ماتحت قلت ہوتی ہے قلت کے ماتحت کثرت نہیں ہوتی۔
تیسرا جواب اس کا یہ ہے کہ ہماری ہجرت کے متعلق پہلے سے پیشگوئی موجود تھی۔ اگر یہ پیشگوئی پہلے سے موجود نہ ہوتی تب بھی کوئی بات تھی۔ ہم تو دیکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی صراحتًا موجود ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے ’’داغِ ہجرت‘‘ ۵؎ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ہمیں قادیان چھوڑنی پڑے گی۔ اسی طرح آپ پر اللہ تعالیٰ نے وہی وحی نازل فرمائی جو اس نے رسول کریم ﷺ پرہجرت کے متعلق نازل فرمائی تھی۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۶؎ ہم اس ہستی کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس نے تجھ پر قرآن کریم فرض کیا ہے کہ تو مکہ سے نکالا جائے گا اور پھر مکہ میں واپس لایا جائے گا۔ یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا۔۷؎ جب یہی الہام آپ کو ہوا ہے تو پھر اس کے معنی بھی وہی ہوں گے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کے تھے کہ وہ تمہیں قادیان سے نکالے گا اور پھر قادیان میں اپنے فضل سے واپس لائے گا۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو وفات پا گئے ہیں اور پیشگوئی آپ کے بعد پوری ہوئی۔ اگر اس پیشگوئی نے پورا ہونا تھا تو آپ کی زندگی میں ہی کیوں پوری نہ ہوئی؟ اس سوال کا جواب خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میںموجود ہے۔ آپ فرماتے ہیں میرے ہاتھ میں قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں۸؎ لیکن واقعہ یہ ہے کہ قیصر و کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپ کے ہاتھ میں نہیں دی گئیں بلکہ حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں دی گئیں جو آپ کے خلیفہ دوم تھے۔ گویا اُس چیز کو جو حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں آنے والی تھی اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں دیا جانا قرار دیا۔ درحقیقت یہ ایک عام دستور ہے کہ کبھی وہ بات جو ماتحت کے ساتھ کی جاتی ہے اُسے بزرگ کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے اور کبھی وہ بات جو بزرگ کے ساتھ کی جاتی ہے اُسے ماتحت کی طرف منسوب کر دیا جاتا ہے۔ یہاں بھی ایسا ہی ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا یہ تھا کہ آپ کے ہاتھ میں قیصرو کسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں دی گئیں ہیں مگر ہوا یہ کہ وہ کنجیاں حضرت عمرؓ کے ہاتھ میں دی گئیں۔
اسی طرح آپ کی ایک اور رؤیا بھی ہے۔ آپ فرماتے ہیں میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے پاس جنتی انگوروں کے دوخوشے لایا میں نے اس سے پوچھا یہ کس کیلئے ہیں؟ تو اس نے جواب دیا کہ ان میں سے ایک خوشہ آپ کے لئے ہے اور دوسرا ابوجہل کے لئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں اس کے جواب میں اتنا گھبرایا کہ میری آنکھ کھل گئی اور میں نے کہا کہ کیا خداتعالیٰ کے نزدیک اس کا ایک نبی اور دشمن دونوں ایک ہی مقام پر ہیں؟ خداتعالیٰ کے نبی کیلئے بھی بہشت کے انگوروں کا خوشہ آیا ہے اور اس کے دشمن کے لئے بھی بہشت سے انگوروں کا خوشہ آیا ہے۔۹؎ آپ فرماتے ہیں میرے دل پر اس رؤیا کی وجہ سے ایک بوجھ سا رہا۔ یہاں تک کہ عکرمہؓ ایمان لایا تب اس رؤیا کی تعبیر میری سمجھ میں آئی کہ ابوجہل سے مراد عکرمہؓ تھا۔
اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جگہ ابوجہل دکھایا گیا مگر اس سے مراد اس کا بیٹا تھا اور دوسری جگہ آپ کو یہ دکھایا گیا کہ قیصروکسریٰ کے خزانوں کی کنجیاں آپ کو ملیں مگر ملیں حضرت عمرؓ کو جو آپ کے دوسرے خلیفہ تھے۔ اسی طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’’داغِ ہجرت‘‘ کا الہام تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا مگر یہ پیشگوئی درحقیقت آپ کے خلیفہ دوم کے ساتھ وابستہ ہے۔ چنانچہ یہ ہجرت کا واقعہ میری زندگی میں ہوا اور میں ہی آپ کا خلیفہ دوم ہوں۔
اس کے علاوہ خدا تعالیٰ نے خود مجھ پر اس پیشگوئی کو اس طرح بار بار کھولا ہے کہ حیرت آ جاتی ہے میں نے اپنے رؤیا کئی لوگوں کو سنائے ہیں اور وہ اقرار کرتے ہیں کہ یہ واقعی حیرت انگیز ہیں۔ میں نے ۱۹۴۱ء میں ایک رؤیا دیکھا تھا جو ۱۳؍ جنوری ۱۹۴۲ء کے الفضل میں شائع شُدہ موجود ہے میں نے دیکھا کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے اور اس حملہ میں دشمن نے ہر قسم کے ہتھیار استعمال کئے ہیں اس کے نتیجہ میں ہمیں قادیان چھوڑنا پڑا ہے۔ پھر میں نے دیکھا کہ میں قادیان سے اس غرض کے لئے نکلا ہوں کہ میں مرکز کے لئے نئی جگہ تلاش کروں تا کہ ہم وہاں اکٹھے ہو کر قادیان کو واپس لینے کی کوشش کریں۔ جب میں اس جگہ پر پہنچا ہوں (میں تفصیل کو چھوڑتا ہوں کیونکہ وہ الفضل میں چھپی ہوئی ہے) تو ایک شخص میرے پاس آیا اور اس نے کہا بڑی تباہی ہے، بڑی تباہی ہے۔ جالندھر میں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے اور لوگوں کو کہیں پناہ نہیں ملی۔ پھر میں نے دیکھا کہ قادیان کے سارے محلے دشمن نے لے لئے ہیں۔ میں نے ایک دوست سے پوچھا۔ مسجد مبارک کا کیا حال ہے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ لوگ تو اب تک مقابلہ کر رہے ہیں۔ میں نے کہا اگر وہ مقابلہ کر رہے ہیں تو پھر ہمیں کامیابی ہو جائے گی۔
بھلا ۱۹۴۲ء میں کس کو خیال تھا کہ جنگ ہوگی۔ پھر کس کو خیال تھا کہ توپیں چلیں گی رائفلوں سے لڑائیاں ہونگی اور پھر قادیان اس علاقہ میں ہوگا جس پر دشمن کا قبضہ ہوگا پھر یہ تباہی جالندھر تک ہوگی اور یہ کہ قادیان کے تمام محلے خالی ہو جائیں گے۔ صرف حلقہ مسجد مبارک اپنی جگہ پر جما رہے گا۔ میری یہ رؤیا اخبار میںچھپی ہوئی موجود ہے اور اخبار ساری دنیا میںپھیل جاتے ہیں اور اُن کی ایک کاپی سرکاری دفاتر میں بھی محفوظ رہتی ہے اس لئے اس میں بناوٹ کا احتمال نہیں ہو سکتا یہ پیشگوئی ساری کی سار ی پوری ہوئی ہے حملے بھی ہوئے، تباہی بھی آئی اور پھر یہ غیرمعمولی بات ہے کہ سارے مشرقی پنجاب میں صرف قادیان ایک ایسا مقام ہے جہاں مسجد مبارک کے حلقہ میں اب تک اذانیں دی جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کیا جاتا ہے یہ باتیں ایسی ہیں جنہیں دیکھ کر کوئی انسان اس پیشگوئی میں شُبہ نہیں کر سکتا اور اسے ماننا پڑتا ہے کہ ہمیں خدائی کلام کے ماتحت قادیان چھوڑنا پڑا ہے اور وہ بہرحال ہمیں ایک دن واپس ملے گا۔
اسی طرح PARTITION کے اعلان سے چند دن پہلے میں دعا کرتا ہوا لیٹ گیا۔ غالباً اُس دن آخری روزہ تھا۔ مجھ پر غنودگی طاری ہوگئی اور پھر الہام ہوا اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَأْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا۔ یعنی تم جہاں کہیں بھی جاؤ گے خداتعالیٰ تمہیں اکٹھا کرکے لے آئے گا۔ اس وقت پارٹیشن (PARTITION)کا اعلان نہیں ہوا تھا اور ضلع گورداسپور پاکستان میں تھا اس وقت خداتعالیٰ نے مجھے الہام میں بتایا کہ اَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یَأْتِ بِکُمُ اللّٰہُ جَمِیْعًا تم جہاں کہیں بھی جاؤ گے اللہ تعالیٰ تمہیںاکٹھا کر کے واپس لے آئے گا۔
اب دیکھو اس الہام میں ہمارے قادیان سے دوسری جگہ جانے کی بھی خبر ہے اور پھر واپس آنے کی بھی خبر ہے۔ PARTITION کے اعلان سے پہلے صبح کے دس بجے کے قریب مجھے یہ الہام ہوا تھا اور رات کو یہ اعلان ہوا کہ گورداسپور انڈین یونین میں شامل کر دیا گیا ہے۔
پس یہاں شُبہ کی کوئی وجہ ہی نہیں۔ جب اس پیشگوئی کا وہ حصہ پورا ہوگیا جو انذار کا تھا تو اس کا وہ حصہ کیوں پورا نہیں ہوگا جو تبشیر کا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ہے اور تمام صوفیاء اس پر متفق ہیں کہ جب اس کی طرف سے سختی اور تلخی کی کوئی خبر دی جاتی ہے تو وہ دعا اور گریہ و زاری سے ٹل جاتی ہے لیکن اس کی طرف سے بشارت کی خبر نہیں ٹل سکتی کیونکہ انذار کی خبر کو ٹلا دینا رحم اور خوبی ہے اور وعدے کو ٹلا دینا بے وفائی اوربدعہدی ہے اور خداتعالیٰ رحم تو کر سکتا ہے بے وفائی اور بدعہدی نہیں کر سکتا۔ اس لئے وہ انذار کی خبر کو ٹلا سکتا ہے خوشی کی خبر کو نہیں ٹلا سکتا۔ پس جب وہ بات جو اصول کے مطابق ٹل سکتی تھی نہیں ٹلی تو جو نہیں ٹل سکتی اُس کے متعلق تم کس طرح یہ خیال کر سکتے ہو کہ وہ واقع نہیں ہوگی۔
دوسرا شُبہ جو قادیان کے واپس ملنے کے متعلق لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو گیا ہے وہ یہ ہے کہ جب قادیان ملنا ہے تو پھر ربوہ کی تعمیر کی کیا ضرورت ہے اور ایک نیا مرکز کیوں تعمیر کیا جا رہا ہے؟ اس کی کئی وجوہ ہیں اوّل پیشگوئیوں کو پورا کرنے کیلئے بھی جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ مکہ آپ کو واپس دیا جائے گا مگر کیا مکہ کو واپس لینے کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ نے جہاد نہیں کیا لڑائیاں نہیں کیں اور وہ تمام کی تمام تدابیر اختیار نہیں کیں جن سے فتح حاصل کی جا سکتی ہے فتح مکہ کے لئے آپ کو اور آپ کے صحابہ کو متواتر جنگوں میں سے گزرنا پڑا۔ آپ نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالا بیسیوں صحابہ کو شہید کروایا صرف اس لئے کہ مکہ واپس مل جائے۔ اگر آپ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جاتے تو کیا یہ پیشگوئی پوری ہو سکتی تھی پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود نہایت اعلیٰ شان رکھنے کے جس کی گرد کو بھی ہم نہیں پہنچ سکتے اس پیشگوئی کے ہوتے ہوئے باقی تدابیر کو ترک نہیں کیا تو ہم کون ہیں جو اس پیشگوئی کابہانہ بنا کر اور اس کی آڑ لے کر اس جدوجہد کو چھوڑ دیں جس کو خداتعالیٰ نے قادیان کی واپسی کے ساتھ وابستہ کیا ہے۔
(اس موقع پر حضور نے فرمایا
ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ اگر آپ کو پاکستان کے متعلق کوئی رؤیا ہوا ہو تو بتائیں اور اگر اب تک کوئی رؤیا نہیں ہوا تو جب بھی کوئی رؤیا ہو ہمیں بتا دیا جائے۔ یہ سوال عجیب قسم کا ہے۔ پاکستان قائم ہوچکا ہے اور جو چیز قائم ہو چکی ہو اس کے متعلق کسی رؤیا کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں غالباً اِس دوست کا یہ مطلب ہے کہ اگر پاکستان کے استحکام کے متعلق کوئی رؤیا ہوا ہو تو وہ بتایا جائے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ پاکستان کا قیام خدائی تقدیروں میں سے ایک تقدیر ہے اور اس میں شُبہ کی کوئی بھی گنجائش نہیں کہ اب اسلام کے لئے ترقی کا زمانہ آ گیا ہے ہم لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان رکھتے ہیں اسی لئے ایمان رکھتے ہیں کہ ہم پورے یقین کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ اب آپ کے ذریعہ سے اسلام کو دوبارہ مستحکم کیا جائے گا اس لئے اب یہ سوال نہیں کہ فلاں علاقہ کے لوگ آگے بڑھیں گے یا ہم بلکہ اب اسلام یقینا دوسری قوموں کو رگیدتا ہوا آگے ہی آگے اپنا قدم بڑھاتا چلا جائے گا۔ اب اسلام کے غالب ہونے کی باری ہے کفر کے غالب ہونے کی باری ختم ہو چکی ہے۔
(سلسلہ تقریر کو جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا
میں نے بتایا ہے کہ پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کی بھی ضرورت ہوتی ہے صرف یہ کہہ دینا کہ فلاں چیز کے لئے پہلے سے پیشگوئی موجود ہے کافی نہیں ہوتا۔ پس جب پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے جدوجہد کی بھی ضرورت ہوا کرتی ہے تو یہ لازمی بات ہے کہ اس کو پورا کرنے کیلئے ایک مرکز بھی ہو۔ فوج لڑتی ہے تو اس کے لئے کمانڈر کی ضرورت ہوتی ہے، سٹاف اور عملہ کی ضرورت ہوتی ہے، مرکز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ ہمیں جب یہ یقین ہے کہ ہم ہی جیتیں گے تو پھر کسی کمانڈر کی کیا ضرورت ہے۔ سٹاف اور عملہ کی کیا ضرورت ہے تو سب لوگ اُس کی حماقت پر ہنس پڑیں گے۔ جب لڑائی ہوگی تو اُس کا ہیڈ بھی ہوگا سٹاف اور عملہ بھی ہوگا۔ خواہ بڑی سے بڑی حکومت ہو یا چھوٹی سے چھوٹی۔ سب کیلئے ان چیزوں کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ انگریز جب قبائلیوں پر حملہ کرتے تھے تو اُن کا بھی کمانڈر ہوتا تھا، سٹاف اور عملہ ہوتا تھا۔ اسی طرح بے شک قادیان کے متعلق خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیں واپس ملے گا لیکن باوجود اس وعدہ کے اُسے واپس لینے کیلئے ایک مرکز کی ضرورت ہے تا وہاں اکٹھے ہو کر جدوجہد کی جا سکے جیسا کہ رؤیا میں دکھایا گیا ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ قادیان میں جو مرکز قائم تھا اس کا کوئی مقصد تھا یا نہیں۔ آیا وہ مرکز محض قادیان کے لحاظ سے تھا یا کوئی کام کرنے کیلئے تھا۔ اگر کوئی کام کرنے کیلئے تھا تو وہ کام کیا تھا؟ وہ مقصد جس کے لئے قادیان میں مرکز قائم کیا گیا تھا ظاہر ہے یعنی اسلام کی اشاعت کرنا، جماعت کی تربیت کرنا، جماعت کو اکٹھا کر کے اسلام کے غلبہ کے لئے مشترکہ جدوجہد کے لئے تیار کرنا، ایسی جدوجہد جو کفر کو ہمیشہ کے لئے پسپا کر دے۔ یہ وہ غرض تھی جس کے ماتحت قادیان میں مرکز قائم کیا گیا تھا اگریہ غرض نہ ہوتی تو نہ قادیان کی ضرورت تھی اور نہ کسی اور مرکز کی۔ مکہ اور مدینہ میں بھی لوگ جاتے ہیں اور حج کر کے واپس آ جاتے ہیں مگر جب تک کوئی خاص مقصد نہ ہو کوئی آرگنائزیشن (ORGANISATION) بھی نہیں ہو سکتی۔ چونکہ لوگوں نے اس غرض کو فراموش کر دیا ہے جس کے لئے مکہ اور مدینہ قائم کئے گئے تھے اس لئے لوگ وہاں جاتے ہیں اور حج کر کے واپس آ جاتے ہیں وہاں کوئی ایسی انجمن قائم نہیں جو تبلیغ کروائے اور مسلمانوں کے اندر خالص دینی روح پیدا کرے۔
قادیان کے متعلق ہمارا دعویٰ ہے کہ جو مرکز وہاں قائم کیا گیا تھا وہ صرف اس لئے قائم نہیں کیا گیا تھا کہ وہ قادیان ہے بلکہ اس لئے قائم کیا گیا تھا کہ ہم اسلام کو پھیلائیں، اسلام کو دنیا میں قائم کریں اور اسلامی روح لوگوں میں زندہ کریں تا کفر کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اگر قادیان میں مرکز بنانے کی ہماری یہی غرض تھی اور یقینا تھی تو سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام عارضی تھا یا مستقل۔ ایک کام موسمی ہوتے ہیں اور موسم گزر جانے کے بعد ان کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن جو کام مستقل ہوتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے اُن کی ضرورت ہوتی ہے اگر تو وہ کام جس کے لئے ہم نے قادیان میں مرکز قائم کیا تھا موسمی تھا تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ قادیان میں واپس جا کرپھر اس کام کو دوبارہ شروع کر دیں گے یا اب چونکہ قادیان ہمارے ہاتھوں سے جاتا رہا ہے اس لئے اب اس کی ضرورت نہیں لیکن اگر وہ کام مستقل تھا تو ہم کہیں بھی جائیں وہ کام ہمیں بہرحال کرنا پڑے گا مثلاً اگر ہم اپنے گھروں میں ہوں تو کھانا کھاتے ہیں لیکن اگر ہم سفر کی حالت میں ہوں تو کیا ہم کھانا کھانا چھوڑ دیں گے؟ یا کپڑا ہے اگر ہم گھروں میں ہوں تو کپڑا پہننا ضروری ہے لیکن اگر ہم سفر پر ہوں تو کیا ہم کپڑا پہننا چھوڑ دیں گے؟ اگر کھانا اور کپڑا پہننا سفر میں بھی ضروری ہے اور حضر میں بھی ضروری ہے تو خواہ ہم قادیان میں ہوں یا کسی اور جگہ پر ہمیں وہ کام کرنا پڑے گا جس کے لئے ہم نے قادیان میں مرکز قائم کیا تھا اگر وہ قادیان کے باہر رہ کر بھی ہمیں لازمی طور پر کرنا ہے تو پھر اس کے لئے ایک مرکز کی بھی ضرورت ہے اگر ہمارا کوئی مرکز نہیں ہوگا تو وہ کام بھی نہیں ہو سکے گا اور اگر ہمارا کام نہیں چلے گا تو اس کے معنی یہ ہونگے کہ ہم نے اس غرض کو باطل کر دیا ہے جس کیلئے قادیان کو مرکز قرار دیا گیا تھا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ مقصد بیان نہیں فرمایا کہ وہ ہمیں قادیان میں بسائیں گے بلکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے مبعوث کیا تھا تا آپ اسلام کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کریں۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھُوَالَّذِیْ۱۰؎ اگر ہمارا قادیان میں مرکز بنانے کا یہ مقصد تھا تو وہ مقصد اب فوت کیسے ہو گیا۔ اگر وہ مقصد زندہ ہے تو لازماً اس کے لئے ہمیں کسی مرکز کی بھی ضرورت ہے۔
تیسرا جواب اس کا یہ ہے کہ جہاں الٰہی پیشگوئیوں میں قادیان سے ہجرت کی خبر ہے وہاں ساتھ ہی قادیان میں واپس جانے کی بھی خبر ہے۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام ہے کہ ہم اُس ہستی کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس نے تجھ پر قرآن کریم ایک رنگ میں دوبارہ نازل کیا کہ ہم تجھے ضرور قادیان میں واپس لائیں گے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام ہے ’’داغِ ہجرت‘‘ اور ہجرت ہمیشہ ایک مقام کی طرف ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ ہجرت مدینہ کی طرف کی گئی تھی اور یہاں بھی ہجرت کسی اور مقام کی طرف ہوگی۔ میری رؤیا میں بھی صاف طور پر بتایا گیا ہے کہ میں کسی جگہ پر مرکز بناؤں گا اور قادیان کو واپس لینے کی کوشش کروں گا۔ جب یہ چیز بالکل واضح ہے تو ایک حصہ کے بعد دوسرے حصہ کو چھوڑ دینے کی کیا وجہ ہے۔ پس ضروری ہے کہ ہم ایک نیا مرکز بنائیں اور وہاں اکٹھے ہو کر قادیان کو واپس لینے کی کوشش کریں۔ پھر مصلح موعود والی رؤیا میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ مصلح موعود والی رؤیا میں مجھے دکھایا گیا تھا کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے اور میں وہاں سے بھاگا ہوں۔
تیسرا شُبہ بعض لوگ یہ کرتے ہیں کہ اگر مرکز بنانا ضروری ہے تو وہ بنا لیا جائے مگر وہاں سکول، کالج، دفاتر اور مقبرے بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ یہ بھی کم عقلی کی بات ہے یہ صاف بات ہے کہ جب وہاں مرکز بنے گا تو ضروری ہے کہ وہاں پڑھنے والے ہوں۔ جب یہ جگہ آباد ہوگی تو ضروری ہے کہ وہاں دُکانوں والے ہوں۔ کیا لوگ سائیکلوں پر جا کر دس دس میل دور سے سودے لایا کریں گے۔ پھر لازمی بات ہے کہ اگر وہاں آبادی ہوگی تو نائی، دھوبی، معمار اور نجار وغیرہ بھی ضرور ہونگے اور مختلف قسم کے اور پیشہ ور بھی ہونگے وہ وہاں رہ کر اپنی زندگیوں کو بھی سنواریں گے اور وہاں کے لوگوں کی ضرورتوں کو بھی پورا کریں گے۔
ایک سوال یہ بھی کیا گیا ہے کہ کیا وہ جگہ جہاں نیا مرکز بنایا جائے گا مقدس ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ احمدیہ مرکز صرف عمارتوں کی وجہ سے برکت نہیں پاتا بلکہ تعلیم و تربیت اور دینی کاموں کی وجہ سے برکت پاتا ہے اور یہ چیز جہاں بھی ہوگی وہ جگہ برکت پائے گی اور وہاں جو بھی احمدی جائیں گے برکت پائیں گے۔ مثلاً خلیفہ کا وجود ہے اگر اُس کی مجلس میں بیٹھنا بابرکت ہے اور اگر قادیان کی سب سے بڑی برکت یہی تھی کہ وہاں خلیفہ کا وجود تھا تو لازمی بات ہے کہ وہ جہاں بھی جائے گاوہ مقام بابرکت ہو جائے گا۔ پھر اگر قادیان کی برکت اُس نظام کی وجہ سے تھی جو وہاں قائم کیا گیا تھا تو یہ لازمی بات ہے کہ یہ نظام جہاں بھی جائے گا وہ جگہ بابرکت ہوگی یہ تو کوئی بھی نہیں کہہ سکتا کہ قادیان میں خلیفہ ہو تو وہ بابرکت ہے اور اگر باہر چلا جائے تو پھر وہ جگہ بابرکت نہیں ہو سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ جس شخص کے ذریعہ تعلیم و تربیت جاری رہے گی، جس کے ذریعہ خدائی باتیں دنیا میں پھیلیں گی اور جس کے ذریعہ تبلیغ اور اشاعت کا کام ہوگا وہ جہاںبھی جائے گا مرکز بن جائے گا اور جہاں بھی رہے گا وہ مقام بابرکت ہوگا۔ کسی نے کہا ہے
صدر ہر جا کہ نشیند صدر است
صدر جہاں بھی بیٹھے، صدر ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں خلیفہ اگر کالے پانی بھی چلا جائے تو وہ بھی بابرکت بن جائے گا۔ برکت مکانوں سے بھی ملتی ہے لیکن مکینوں سے زیادہ ملتی ہے۔ مکان دعائیں نہیں کرتے مکین دعائیں کیا کرتے ہیں۔ مکان جدوجہد نہیں کرتے مکین جدوجہد کیا کرتے ہیں۔ مکان بولا نہیں کرتے مکین بولا کرتے ہیں۔ مکان تنظیم نہیں کرتے مکین تنظیم کیا کرتے ہیں۔ اسی طرح وہ سب باتیں جو جماعت کو بڑھانے والی ہیں مکان کے ساتھ وابستہ نہیں مکین کے ساتھ وابستہ ہیں۔ مکان ایک ذریعہ ہوتے ہیں اور مکین وہ مقصود ہوتے ہیں جن کے ذریعہ دنیا ایک نئی زندگی پاتی ہے۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ چھوڑا تو مدینہ کیا تھا۔ ایک معمولی سی بستی تھی جہاں مشرک اور یہودی بستے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چلے جانے کے بعد وہی مدینہ برکتوں سے مالا مال ہو گیا اور آج تک برکتوں سے بھرا ہوا ہے۔ آپ کے مدینہ سے چلے جانے کی وجہ سے مکہ کی برکت زائل نہیں ہوئی بلکہ مدینہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اور برکت مل گئی۔ خدا تعالیٰ کے خزانے میں صرف ایک برکت نہیں تھی بلکہ اس کے خزانے ہرقسم کی برکتوں سے بھرے پڑے ہیں۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے تو لوگوں میں قدرتاً یہ خیال پیدا ہوا کہ مکہ ایک بابرکت اور مقدس مقام تھا۔ اب مدینہ میں ویسی برکت کیا ہوسکتی ہے اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ اے خدا! میں مدینہ کے متعلق وہ ساری برکتیں تجھ سے مانگتا ہوں جو مکہ کو حاصل تھیں پھر آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور فرمایا۔ اے لوگو سنو! آج سے ہر برکت جو مکہ کو حاصل تھی مدینہ کو بھی حاصل ہے جو ذمہ داریاں تم پر مکہ میں رہنے کی وجہ سے عائد تھیں وہی ذمہ داریاں یہاں مدینہ میں رہ کر بھی تم پر عائد ہیں۔ جس طرح مکہ میں قتل و غارت اور لڑائیاں منع تھیں اسی طرح مدینہ میں بھی قتل و غارت اور لڑائیاں منع ہیں۔ پس جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چلے جانے سے مدینہ بابرکت ہوگیا تھا اسی طرح ہر وہ جگہ جہاں خدا تعالیٰ کے نام کو بلند رکھنے کیلئے کوشش کی جائے گی، ہر وہ جگہ جہاں اسلام کے غلبہ کے لئے کوشش کی جائے گی، ہر وہ جگہ جہاں اسلام کی اشاعت کیلئے کوشش کی جائے گی وہ بابرکت ہو جائے گی چاہے دنیا کا سارا شور اور نمک اُس جگہ پرکیوں نہ اکٹھا ہو جائے۔ اس قسم کا اعتراض کرنے والے بعض منافق ہیں لیکن پھر بھی مجھے حیرت آتی ہے کہ سکھوں کا گرو اگر کسی جگہ پر بیٹھا ہے تو اُنہوں نے اُسے پیڑھا صاحب کہنا شروع کر دیا۔ اگر اُن کا گرو کسی چار پائی پر بیٹھا ہے تو اُنہوں نے اُسے منجا صاحب کہنا شروع کر دیا۔ اگر کسی بیری کے نیچے کھڑا ہوا تو اُنہوں نے اُسے بیری صاحب کہنا شروع کر دیا۔ جب کسی سِکھ سے پوچھا جائے کہ یہ بیری صاحب کیا ہے تو وہ کہے گا ہمارے گرو صاحب اس کے نیچے بیٹھے تھے۔ جب کسی سِکھ سے پوچھا جائے یہ پیڑھی صاحب کیا ہے وہ کہے گا ہمارے گرو صاحب اس پر بیٹھے تھے۔ جب پوچھا جائے کہ یہ منجا صاحب کیا ہے وہ کہے گا ہمارے گرو صاحب اس چارپائی پر بیٹھے تھے۔ وہ وحشی قوم جو تمام روحانی اصولوں سے عاری ہے وہ سمجھتی ہے کہ ایک پیڑھی کو اس لئے برکت حاصل ہو سکتی ہے کہ اُن کا گرو اس پر بیٹھا تھا۔ ایک چارپائی کو برکت حاصل ہو سکتی ہے کہ ان کا گرو اس پر بیٹھا تھا۔ ایک بیری کو برکت حاصل ہو سکتی ہے اس لئے کہ ان کا گرو اس کے نیچے کبھی بیٹھا تھا۔ مگر یہ منافق اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے کہ وہ جگہ جہاں خلافت قائم ہوگی کیا بابرکت نہیں ہوگی؟ وہ جگہ یقینا بابرکت ہوگی اور یقینا جب تک اس میں اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کیا جائے گا، اس کی کتاب کو شائع کیا جائے گا ،اس کے دین کو پھیلانے کیلئے جدوجہد کی جائے گی وہ بابرکت رہے گی اور صرف وہ زمین ہی بابرکت نہیں ہوگی بلکہ اس کے رہنے والوں پر فرشتے اُترتے رہیں گے اور اس کی برکات کو دنیا کے دوسرے کناروں تک پہنچاتے رہیں گے۔
تیسری بات یہ ہے کہ جب قادیان مل جائے گا تو گو ہمارا اصل مرکز وہی ہوگا لیکن ایک مرکز سے ساری دنیا کا کام نہیں چل سکتا بلکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ اس کے ماتحت اور بھی چھوٹے چھوٹے مرکز قائم کریں۔ کیا کسی مُلک کے انتظام کے لئے صرف ایک بادشاہ کافی ہوتا ہے۔ کسی مُلک کے انتظام کے لئے ایک بادشاہ کافی نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ اس کے ماتحت مختلف صوبوں میں گورنر ہوتے ہیں جو اُن صوبوں میں اُس کے نائب ہوتے ہیں مثلاً برطانیہ ہے بادشاہ تو برطانیہ میں رہتا ہے مگر آسٹریلیا، کینیڈا وغیرہ ممالک میں الگ الگ انتظام موجود ہے۔ اسی طرح اگرچہ ہمارا مرکز قادیان ہی ہوگا مگر اس کے ماتحت ہمیں اور بھی کئی چھوٹے چھوٹے مراکز قائم کرنے پڑیں گے تا کہ وہاں اِردگرد کے لوگ اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اکٹھے ہوں اور وہاں مل کر کام کریں۔ قادیان میں ہمارا ہائی سکول تھا اب اگر پشاور اور سیالکوٹ وغیرہ میں ہمارے ہائی سکول قائم ہو جائیں تو کوئی حرج کی بات نہیں ہوگی۔ ان جگہوں کے لڑکے وہاں قائم شُدہ اسکولوں میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ صرف ایک جگہ پر ہی ہائی اسکول کا ہونا کافی نہیں۔ اب بھی ہمارے مدرسے کئی جگہوں پر ہیں۔ اسی طرح نئے مرکز میں بھی لوگ آئیں گے اور سکولوں سے فائدہ اُٹھائیں گے۔ یہ جگہ تو چھوٹی سی ہے اگر اسے اِردگرد کے تین چار ضلعوں کا بھی مرکز بنا دیا جائے تو احمدیت کی ترقی کے بعد ہمیں اس سے بہت زیادہ جگہ کی ضرورت ہوگی۔ اس جگہ کا آبادی والا رقبہ صرف چار ہزار کنال ہے۔ اگر اس کو تین چار ضلعوں کا بھی مرکز بنا دیا جائے تو احمدیت کی ترقی کے بعد اس میں اور زیادہ توسیع کی ضرورت ہوگی۔ احمدیوں کی ہندوستان میں سرِدست دو تین لاکھ کی آبادی ہے جس کا مرکز قادیان تھا اس دو تین لاکھ کی آبادی کا مرکز کتنا بڑا ہوگیا تھا۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ربوہ کو اِردگر کے پانچ ضلعوں کا مرکز قرار دے دیا جائے یعنی اسے شیخوپورہ، سرگودھا، گوجرانوالہ، گجرات اور جہلم کا مرکز قرار دیا جائے تو ان ضلعوں کی آبادی پچاس لاکھ ہے اگر یہ سب لوگ احمدی ہو جائیں تو یقینا ان کے لئے ہمیں بہت بڑے مرکز کی ضرورت ہوگی۔ پس قادیان کے مل جانے کے بعد بھی ربوہ اپنی حیثیت کو کھو نہیں سکتا۔
چوتھا جواب یہ ہے کہ خانہ کعبہ اصل مسجد ہے مگر کیا اس خیال سے کہ ہم اس میں نمازیں ادا نہیں کر سکتے ہم دوسری مسجدیں بنانا چھوڑ دیتے ہیں؟ مسجد تو اصل وہ ہے مگر کیا ہر شہر، ہر محلہ اور ہر گاؤں میں مسجدیں نہیں بنائی گئیں؟ باوجود اس کے کہ اصل مسجد موجود ہے۔ دنیا میں ہمیشہ نئی سے نئی مسجدیں بنائی جاتی ہیں۔ اگر ہم زمانہ کے لحاظ سے یا خرچ اور سفر کی وجہ سے خانہ کعبہ نہیں جا سکتے اور دوسری جگہوں پر مساجد بنا لیتے ہیں اور انہیں بے برکت قرار نہیں دیتے تو یہ کتنی بڑی بیوقوفی کی بات ہے کہ اگرہم ایک نیا مرکز بنا لیں گے تو وہ بابرکت نہیں ہوگا۔ دیکھو کانپور میں ایک مسجد کے غسلخانے کی ایک دیوار گرا دی گئی تھی جس پر ہندوستان میں شور برپا ہو گیا تھا حالانکہ وہ مسجد نہیں، مسجد کا غسلخانہ نہیں، مسجد کے غسلخانہ کی صرف ایک دیوار تھی جس پر شور برپا ہو گیا۔ خانہ کعبہ کی نقل میں پہلے عرب میں مسجدیں بنائی گئیں۔ پھر عرب کی نقل میں ایران میں مسجدیں بنائی گئیں؟ پھر ایران کی نقل میں افغانستان میں مسجدیں بنائی گئیں؟ پھر افغانستان کی نقل میں پنجاب میں مسجدیں بنائی گئیں؟ پھر پنجاب کی نقل میں دہلی، آگرہ اور کانپور میں مسجدیں بنائی گئیں۔ غرض وہ مسجد بیسیوں نقلوں کی نقل تھی اس کے غسلخانے کا مسلمانوں میں اتنا احترام تھا کہ جب اُس کی ایک دیوار گرائی گئی تو سارے ہندوستان میں ایک شور مچ گیا اور مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ مسجد کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ جب ہزار نقلوں کی نقل نہیں بلکہ اس نقل کے غسلخانہ کی ایک دیوار بابرکت ہو سکتی ہے تو قادیان کے مرکز کی جو نقل ہوگا وہ کیوں بابرکت نہیں ہوگا۔ آخر مسجد بھی تو نقل ہے خانہ کعبہ کی۔ مگر کیا کوئی شخص جرأت کر سکتا ہے کہ اس کی بے حرمتی کرے اس لئے کہ وہ اصل مسجد نہیں۔ اسی طرح بے شک ربوہ قادیان کی نقل ہوگا مگر جو فعال نقل بنائی جائے گی عام نقلیں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں بلکہ میں کہتا ہوں اگر ویسٹ افریقہ میں بھی کوئی مرکز بنایا جائے تو وہ جگہ بھی بابرکت ہو جائے گی کُجا وہ جگہ جو قادیان کے لوگوں کو پناہ دینے کے لئے بنائی جائے وہ بابرکت نہ ہو وہ تو یقینا بابرکت ہوگی اور اس کے بابرکت ہونے میں کوئی شُبہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب شبہات قیاسات سے پیدا ہوئے ہیں جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد کیا ہے وہ جانتے ہیں کہ تنظیم کے لئے مرکز کی کیسی شدید ضرورت ہوا کرتی ہے۔ مجھے تو حیرت آتی ہے کہ اس قسم کے شبہات پیدا کس طرح ہو جاتے ہیں۔ جب شہد تیار ہو جاتا ہے اور لوگ اس شہد کو لینے کے لئے جاتے ہیں تو ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ جب کوئی شہد لینے کے لئے چھتے کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے تو فوراً ایک مکھی جو کوئین (QUEEN) ہوتی ہے اس کی ایک بیٹی اور دوسری مکھیوں کا ایک جھنڈ اُڑ کر دوسری جگہ چلا جاتا ہے اور نئے چھتے کی تلاش کرتا ہے اور پیشتر اس کے کہ شہد لینے والا شہد حاصل کرے شہد کی مکھیاں دوسری جگہ پر نیا چھتہ تیار کرنا شروع کر دیتی ہیں باوجود اس کے کہ شہد کی مکھیوں کو شہد کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، باوجود اس کے کہ وہ ان کے کسی کام نہیں آتا بلکہ دوسرا شخص شہد لے جاتا ہے صرف اس لئے کہ یہ کام ان کے سپرد ہوا ہے وہ فوراً وہاں سے اُڑ جاتی ہیں اور دوسرا چھتہ تیار کر لیتی ہیں کیا انسان کے اندر مکھی جتنی بھی عقل نہیں کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اعتراض کرنے شروع کر دیتا ہے۔ درحقیقت یہ تو ہماری کوتاہی اور غفلت کی علامت ہے کہ ہم اتنی دیر تک کوئی نیا مرکز قائم نہیں کر سکے۔
مجھے ایک شخص کی بات پر جو ایک قسم کی جہالت تھی حیرت آتی ہے۔ مجھے ایک احمدی دوست نے بتایا کہ اس کے پاس ایک زمیندار آیا اور اس نے باتیں کرنی شروع کر دیں۔ گفتگو کے دوران میں اس نے کہا تقسیم سے پہلے احمدیہ جماعت کی عظمت کا مجھ پر بہت اثر تھا اور میں سمجھتا تھا کہ باقی مسلمان تو یونہی ہیں اصل کام کرنے والی یہی جماعت ہے مگر تقسیم کے بعد ان کا مجھ پر وہ اثر نہیں رہا۔ اس احمدی دوست نے بتایا کہ میں نے اُس سے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ ایک سال ہو گیا ہے مگر یہ ایک جگہ پر ابھی بیٹھے بھی نہیں انہیں چاہئے تھا کہ فوراً اپنا کام شروع کر دیتے اور اپنے لئے ایک مرکز بنا لیتے۔ میں نے کہا گورنمنٹ کے ساتھ خط و کتابت ہو رہی ہے اس لئے دیر ہوگئی ہے۔ اس نے کہا یہی تو مجھے اعتراض ہے اگر ان لوگوں میں جنون ہوتا تو وہ زبردستی اپنا مرکز قائم کر لیتے خواہ انہیں گولیاں چلا کر مار دیا جاتا۔ چاہے یہ مکمل عقل کی بات نہیں مگر اس حد تک دانائی کی بات ہے کہ ہمیں چاہئے تھا کہ فوراً مرکز قائم کر کے اپنا کام شروع کر دیتے۔ اگر ہماری جماعت اس بارہ میں کوتاہی اور غفلت سے کام لیتی ہے اور مرکز کے بنانے میں دیر کرتی ہے تو وہ اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑا مارتی ہے اور اگر وہ مرکز کی حقیقت کو نہیں سمجھتی تو وہ روحانی بینائی سے محروم ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب ہم وہاں مکان بنائیں گے اور پھر قادیان کے واپس ملنے پر وہاں چلے جائیں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہمارا روپیہ ضائع ہو گیا مگر یہ بالکل غلط اعتراض ہے۔ اس کا جواب میں نے پہلے بھی کئی بار دیا ہے۔ قادیان کے ملنے میں آخر کچھ وقت تو لگے گا جب ہم سفر کے لئے جاتے ہیں تو باوجود اس کے کہ وہ پانچ دس گھنٹے کا ہوتا ہے ہم اس کے لئے فرسٹ یا سکینڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیتے ہیں یا فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے ٹکٹ لینے کی توفیق نہیں ہوتی تو ہم تھرڈ کلاس کا ٹکٹ لے لیتے ہیں اور ساتھ ہی ایسی چیزیں رکھ لیتے ہیں جو رستہ میں کام آتی ہیں تا وہ چند گھنٹوں کا سفر آرام سے کٹ جائے۔ مثلاً ہم کھانے پینے کی چیزیں ساتھ رکھ لیتے ہیں، پانی کی صراحی ساتھ رکھ لیتے ہیں یا کوئی اور چیز ساتھ لے لیتے ہیں۔ ہم دو چار گھنٹہ کے سفر کے لئے تو ایسا کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ہم خیال کرتے ہیں کہ وہ مرکز جہاں ہم نے اکٹھے ہو کر دنیا کو فتح کرنے کی سکیمیں سوچنی ہیں اُس پر خرچ کیا ہوا روپیہ ضائع چلا جائے گا۔ اوّل تو وہ روپیہ ضائع نہیں ہوگا لیکن اگر ہمارا دس بیس لاکھ روپیہ ضائع بھی ہو جائے تو اس کام کے مقابلہ میں جو ہم نے کرنا ہے اس روپے کی پرواہ ہی کیا ہے۔ اس روپیہ کے ضائع ہونے کی ہمیں اتنی بھی حس نہیں ہونی چاہئے جتنی کہ جسم کی مَیل اُتر جانے کی ہوتی ہے۔
کہتے ہیں جب شاہ جہاں کی بیوی ممتاز محل فوت ہوئی تو اُس نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ آیا اور اُس نے نقشہ کھینچ کر بتایا کہ ممتاز محل کے لئے جنت میں ایسی جگہ تیار کی گئی ہے۔ شاہ جہاں نے چاہا کہ وہ اِس قسم کا روضہ تیار کرائے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ شاہ جہاں نے ممتاز محل کی زندگی میں ہی یہ خواب دیکھی تھی۔ بہرحال شاہ جہاں نے جب اس کا انجینئروں سے ذکر کیا تو اُنہوں نے کہا ہم ایسی عمارت نہیں بنا سکتے۔ اُن دِنوں ایک انجینئر ایران سے آیا ہوا تھا اس نے بادشاہ سے کہا ایسی عمارت بن تو سکتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے آپ دو لاکھ کے توڑے اپنے ساتھ لے لیں اور میرے ساتھ دریا کے پار جائیں۔ شاہ جہاں نے ایک ایک ہزار کے دو سَو توڑے لے لئے۔ جب کشتی چلی تو اس انجینئر نے ایک توڑا اُٹھایا اور دریا میں پھینک کر کہا کہ بادشاہ سلامت اس طرح روپیہ خرچ ہوگا تب عمارت بنے گی۔ شاہ جہاں نے کہا کوئی حرج نہیں۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے ایک اور توڑا دریا میں پھینک کر کہا۔ بادشاہ سلامت اس طرح روپیہ خرچ ہوگا۔ پھر اس نے ایک اور توڑا پھینکا مگر شاہ جہاں نے اُس کی ذرا بھی پرواہ نہ کی یہاں تک کہ دریا کے آخر تک دو لاکھ کے توڑے ختم ہوگئے اور شاہ جہاں کے چہرے پر قطعاً ملال کے کوئی آثار ظاہر نہ ہوئے۔ جب انجینئر دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچا تو اس نے کہا بادشاہ سلامت! آپ کی خواہش کے مطابق عمارت بن جائے گی۔ اصل بات یہ ہے کہ ایسی عمارت وہ دوسرے انجینئر بھی بنا سکتے تھے لیکن اُنہوں نے یہ خیال کیا کہ اس عمارت کے تیار کرنے پر بہت زیادہ روپیہ خرچ ہوگا۔ اگر ہم نے یہ عمارت شروع کی تو کہیں ہم مار نہ دیئے جائیں اس لئے کہ ہم نے خزانہ کا اِس قدر روپیہ کیوں خرچ کرایا۔ میں نے آپ کا امتحان لے لیا ہے میں نے دو لاکھ کے توڑے دریا میں پھینک دیئے مگر آپ نے اُف تک نہیں کی تب میں سمجھا کہ اگر اس عمارت کی تیاری پر آپ کا دو کروڑ روپیہ بھی لگ جائے گا تو آپ اس کی پرواہ نہیں کریں گے۔
پس بڑے اور بلند کاموں کے لئے ان چیزوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب اتنا بڑا کام ہمارے سپرد ہوا ہے یعنی ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو تمام دنیا میں قائم کرنا ہے اور اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنا ہے تو پھر یہ سوال ہی کیا ہے کہ اس پر ہمارا روپیہ ضائع چلا جائے گا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اگر ہم ہر سال بھی ایک نیا مرکز بنائیں تو جماعت کے مخلص لوگ اس کی پرواہ نہیں کریں گے جب انہیں ایک مرکز سے نکال دیا جائے گا تو وہ آگے جا کر ایک اور نیا مرکز بنا لیں گے اور سمجھیں گے کہ جو خداتعالیٰ نے انہیں دیا تھا وہ اس کے کاموں میں صرف ہو گیا اور اس سے بڑھ کر اور نعمت ہی کیا ہے کہ ہم خدا کا دیا ہوا روپیہ اُسی کے کاموں پر خرچ کریں۔
پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس عارضی مرکز کے بارہ میں غفلت میں نہ رہے۔ زمین کی قیمتیں بڑھتی چلی جائیں گی۔ قادیان میں ایسا ہی ہوا تھا یہاں تک کہ بیس بیس ہزار روپیہ فی کنال تک قیمت پہنچ گئی تھی۔ ہم نے خود انجمن کے لئے ساٹھ ہزار روپیہ پر ایک ٹکڑہ زمین خریدا تھا اسی طرح جو اس جگہ میں برکتیں ہونگی ان سے بھی ان کو حصہ ملتا رہے گا۔ درس و تدریس ہوگا، نئی نئی تحریکوں میں جلد از جلد حصہ لینے کا موقع ملے گا۔ پس جماعت کو اس بارہ میں سستی نہیں کرنی چاہئے۔ جس خدا نے مکہ کو برکت دی ہے، جس خدا نے مدینہ کو برکت دی ہے، جس خدا نے قادیان کو برکت دی ہے میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ اُس کے خزانے میں ابھی بہت سی برکتیں باقی ہیں تم گھبراؤ نہیں خداتعالیٰ اِس جگہ کو بھی بابرکت بنا دے گا۔ تمہاری نیت یہی ہونی چاہئے کہ تم وہاں جا کر دین کی خدمت کرو۔ جب تم وہ نیت کر لوگے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی، جب تم وہ نیت کر لوگے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی تھی تو تمہیں وہ برکتیں ملیں گی جو اُنہیں ملیں کیونکہ جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کام کی تکمیل کے لئے کھڑا ہوگا اُس کا کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام ہو گا۔ جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کام خدا تعالیٰ کا کام تھا۔
اس کے بعد میں جماعت کو اس طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ ہمارے دفاتر ربوہ چلے گئے ہیں۔ دفاتر کے وہاں چلے جانے کے بعد چندے میں یکدم کمی آگئی ہے اب چونکہ دو جگہیں بن گئی ہیں اِس لئے دوست سمجھتے ہیں کہ جب تمام دفاتر وہاں چلے جائیں گے تب چندے بھیج دیں گے یا پہلے لاہور چل کر پتہ کر لیں پھر چندے بھیجیں گے غالباً اس کے نتیجہ میں ہی چندوں میں کمی واقع ہوگئی ہے اور پچھلے تین مہینہ میں سلسلہ کا ایک لاکھ روپیہ کا نقصان ہوا ہے آخر یہ کام آپ لوگوں نے ہی کرنا ہے اور کسی نے نہیں کرنا۔ چندہ اکٹھا دینا مشکل ہوتا ہے اور قسط وار دینا آسان ہوتا ہے۔ اس لئے میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے چندے جلد از جلد ربوہ میں بھجوانے شروع کر دیں۔ عارضی دفاتر یہاں ہیں اصل دفاتر ربوہ میں ہیں اس لئے جو چندے جمع ہوں اُنہیں جلد از جلد ربوہ میں بھجوا دینا چاہئے۔ اگر چندوں میں اسی طرح سستی ہوتی رہی اور روپیہ نہ آیا تو سلسلہ کے کاموں کو نقصان پہنچے گا اور چونکہ ہم نیا مرکز بنانے والے ہیں اس لئے ہمیں زیادہ روپیہ کی ضرورت ہے کم روپیہ کفایت نہیں کرسکتا۔
اب میں آخری بات جس کی طرف ہماری جماعت کا توجہ کرنا ضروری ہے کہہ کر اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ پہلے مسلمانوں کے پاس اپنا کوئی وطن نہیں تھا لیکن اب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل سے ایک مقام عطا فرمایا ہے جسے ہم اپنا وطن کہہ سکتے ہیں۔ بیشک ہم کہلاتے تو اُس وقت بھی ہندوستانی تھے لیکن جب ہمارے وطن کی باگ ڈور کسی اور قوم کے ہاتھ میں تھی تو یہ وطن درحقیقت نہ ہونے کے برابر تھا۔ مسلمانوں نے خداتعالیٰ کے سامنے التجا کی کہ وہ انہیں ایک علیحدہ وطن بخشے اور اس کے لئے اُنہوں نے کوشش بھی کی تو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں ایک علیحدہ وطن بخش دیا جس کا نام پاکستان رکھا گیا ہے۔ اس وطن کے مل جانے کے بعد ہماری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ پہلے زمانہ میں اگر کوئی مُلک اِس پر حملہ کرتا تھایا کسی مُلک سے ہمارے مُلک کی لڑائی ہو جاتی تھی تو ہم کہتے تھے کہ اس مُلک پر انگریز حکومت کرتا ہے اس لئے ہمیں لڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ انگریز جائے اور دشمن سے لڑے گویا اُس وقت آسانی کے ساتھ ہم وہی کچھ کہہ سکتے تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے آپ سے کہا آپ نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے کنعان کا مُلک تمہارے لئے مقدر کیا ہوا ہے تم لڑائی کرو اور مُلک لے لو۔ موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے جواب دیا کہ جب خداتعالیٰ کا ہم سے وعدہ ہے کہ وہ ہمیں یہ مُلک دے گا تو پھر ہمیں لڑائی کے لئے کیوں کہا جاتا ہے تو جا اور تیرا خدا دونوں لڑو اور اس مُلک کو حاصل کرو جب یہ مُلک فتح ہو جائے گا تو ہم اس میں داخل ہو جائیں گے۔ وہ بیوقوف یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ اُنہی کا کام تھا خداتعالیٰ کا اس میں کوئی فائدہ نہیں تھا لیکن بہرحال جب ہندوستان پر انگریز کی حکومت تھی اس وقت یہ کہا جا سکتا تھا کہ انگریز ہم پر حکومت کرتا ہے وہ لڑتا پھرے ہم تو اسے ٹیکس ادا کر دیتے ہیں ہمیں لڑنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن اب خداتعالیٰ کے فضل سے ہمیں ایک وطن مل گیا ہے اور اس نئے وطن کے مل جانے کے بعد ہماری ذمہ داریاں بدل گئی ہیں اب اس کی حفاظت انگریز کے ذمہ نہیں۔ اب انگریز کی اِس مُلک پر حکومت نہیں کہ وہ جائے اور دشمن سے لڑے۔ اب اس مُلک پر ہماری حکومت ہے اور اس کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کو ہی لڑنا پڑے گا جو اس میں بستے ہیں اور جن کا یہ وطن ہے۔ دیکھو! جس شخص کا بچہ بیمار ہوتا ہے وہی اس کا علاج کرتا ہے جس کا گھر ٹپکتا ہے وہی اس پر مٹی ڈالتا ہے جس پر کوئی درندہ حملہ کرتا ہے اسی کو دفاع کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ دوسرے لوگ اگر اُس کی مدد کے لئے آ جائیںتو یہ ان کا احسان ہوگا لیکن اصل ذمہ داری اُسی کی ہوگی۔ بہرحال مسلمانوں کو ایک وطن مل گیا ہے جس کو وہ اپنا وطن کہہ سکتے ہیں اور اس کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری اخلاقی اور مادی طو رپر مسلمانوں پر ہی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ محفوظ مُلک نہیں۔
میں اِس وقت تفصیل کے ساتھ یہ نہیں بتا سکتا کہ پاکستان کو کیا کیا خطرات درپیش ہیں لیکن ظاہر ہے کہ تقسیم کے بعد پاکستان کی آبادی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ اس کی کثیر آبادی مشرقی پاکستان میں ہے اور قلیل آبادی مغربی پاکستان میں ہے۔ مغربی پاکستان کی آبادی تین کروڑ سے کچھ زیادہ اور مشرقی پاکستان کی آبادوی چار کروڑ سے کچھ کم ہے لیکن مشرقی پاکستان کی جو آبادی ہے وہ جنگی نہیں۔ ایک لمبے عرصے سے وہ لوگ فنونِ جنگ سے بے بہرہ ہیں۔ اُن میں وہ جرأت اور بہادری نہیں پائی جاتی جو ایک آزاد قوم میں پائی جانی ضروری ہے لیکن اُس میں بعض معدنیات اور بعض زرعی اشیاء ایسی پائی جاتی ہیں جن کے بغیر پاکستان زندہ نہیں رہ سکتا۔ جوٹ اور بعض دھاتیں جو وہاں پائی جاتی ہیں ایسی ہیں جو صرف پاکستان کے خزانے کو ہی مضبوط کرنے والی نہیں بلکہ اس کے خارجی تعلقات کو بھی مضبوط کرنے والی ہیں اگر مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے کٹ جائے تو مغربی پاکستان کا قیام نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ بے شک مغربی پاکستان میں بھی زرعی اشیاء اور قیمتی دھاتیں پائی جاتی ہیں مگر اُس کی آبادی اتنی تھوڑی ہے کہ وہ بڑی آبادی والے مُلکوں کے مقابلہ میں جیت نہیں سکتا۔ پھر اس زمانہ میں جب کہ جمہوریت قائم ہو چکی ہے اور لڑائی صرف بادشاہوں اور سپاہیوں کی ہی نہیں ہوتی بلکہ مُلک کے ہر فرد کو لڑائی میں حصہ لینا پڑتا ہے کسی مُلک کی آبادی کا کم ہونا اس کے لئے نہایت مضر ہے۔ چنانچہ نئے تغیرات کے بعد آبادی کی زیادتی کی قیمت بجائے اس کے کہ وہ کم ہوتی پہلے سے بڑھ گئی ہے۔ پُرانے زمانے میں چھوٹے چھوٹے مُلک اُٹھتے تھے اور بڑے بڑے ممالک پر فتح حاصل کر لیتے تھے کیونکہ اُس وقت صرف بادشاہوں اور سپاہیوں کی لڑائی ہوتی تھی مُلک کے ہر فرد کو لڑائی میں حصہ نہیں لینا پڑتا تھا کسی مُلک کی فوج کا تعداد میں زیادہ ہونا اور مضبوط ہونا ہی اُس کی فتح کے لئے کافی ہوتا تھا۔ یونان کی آبادی کتنی تھوڑی تھی۔ دس بارہ لاکھ سے زیادہ نہ تھی لیکن وہاں سے سکندر نکلا اور اس نے عرب اور مصر اور عراق اور ایران اور افغانستان وغیرہ ممالک کو فتح کر لیا اور اس کے بعد ہندوستان کو بھی فتح کر لیا۔ غرض ایک دس بارہ لاکھ کی آبادی والے مُلک نے کروڑوں کروڑ کی آبادی والے مُلکوں کو فتح کر لیا۔ اِسی طرح مغل نکلے۔ مغلوں کی دوقومیں تھیں۔ برلاس اور چغتائی۔ پہلے چغتائی نکلے اور اُنہوں نے ایک طرف جہاں یورپ کو فتح کر لیا وہاں دوسری طرف وہ چین کے انتہائی کناروں تک پہنچ گئے اور جاپان پر بھی قابض ہو گئے حالانکہ ان کی اپنی آبادی صرف دو تین لاکھ تھی۔ پھر برلاس نکلے اُن کی آبادی بھی دو تین لاکھ سے زیادہ نہ تھی مگر اُنہوں نے کروڑوں کروڑ کی آبادی رکھنے والے ممالک کو فتح کر لیا۔ اس کی وجہ کیا تھی؟ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ اُس زمانہ میں صرف بادشاہ لڑتے تھے اُن کی رعایا نہیں لڑتی تھی۔ بادشاہ جتنی فوج رکھتا تھا اگر وہ شکست کھا جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا تھاکہ مُلک شکست کھا گیا اور اگر فوج جیت جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ مُلک فتح پا گیا۔ مثلاً ہندوستان کے بادشاہ کے پاس پچاس ہزار کی فوج ہے اگر کوئی دوسرا قبیلہ اُٹھتا ہے اور اس کی فوج پچاس ہزارہے یا کچھ زیادہ ہے تو پُرانے زمانہ کے دستور کے مطابق وہ ہندوستان پر غلبہ حاصل کر سکتا ہے کیونکہ ہندوستان کی فوج بھی پچاس ہزار ہے اور اس قبیلہ کی فوج بھی پچاس ہزار ہے خواہ اس کی اپنی آبادی دو لاکھ کی ہو اور ہندوستان کی آبادی دس کروڑ ہو لیکن اب صرف حکومت ہی نہیں لڑتی بلکہ مُلک لڑتا ہے۔ حکومت اب عوام کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اور چونکہ اب حکومت عوام کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اس لئے جب کسی مُلک کی دوسرے سے لڑائی ہو جاتی ہے تو اس کا ہر فرد لڑائی کیلئے تیار ہو جاتا ہے اس لئے اب آبادی کی بڑی قیمت ہے۔ اگر کسی مُلک کی آبادی دو کروڑ ہو اور وہاں جمہوریت قائم ہو تو جب کبھی اس کی دوسرے مُلک سے لڑائی ہوگی اُس کا ہر فرد لڑائی کے لئے تیار ہو جائے گا۔ یہ چیز پہلے زمانہ میں نہیں ہوتی تھی۔
اس امر کو مدنظر رکھتے ہوئے تم یہ حقیقت اچھی طرح ذہن نشین کر لو کہ تمہارے ایک ہمسایہ مُلک کی آبادی تیس کروڑ ہے اور مغربی پاکستان کی آبادی صرف سَوا تین کروڑ ہے گویا مغربی پاکستان کے ایک آدمی کے مقابلہ میں ہندوستان کے پاس دس آدمی ہیں۔ اگر جمہوریت کی کوئی جنگ ہوئی ہم نہیںجانتے کہ جنگ ہوگی بھی یا نہیں لیکن وہ آدمی بے وقوف ہوتا ہے جو امکانات کو نظر انداز کر دیتا ہے۔ اگر جمہوریت کی جنگ ہوئی تو یہ نہیں دیکھا جائے گا کہ ہندوستان کے پاس ڈیڑھ لاکھ کی فوج ہے اور پاکستان کے پاس اسّی ہزار، اور ہو سکتا ہے کہ اسّی ہزار ڈیڑھ لاکھ پر غالب آ جائے بلکہ اس وقت ہمارے مقابلہ میں ہندوستان کی تیس کروڑ کی آبادی ہوگی۔ اگر مغربی پاکستان کا ہر ایک فرد جنگ کے لئے تیار ہو جائے تو اس کی کل آبادی سَوا تین کروڑ ہے۔ اگر یہاں کے سب کے سب افراد لڑائی کے لئے پوری طرح تیار ہو جائیں تو یہ سوا تین کروڑ تیس کروڑ کے مقابلہ میں ہوگا اور اگر سب نے اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا۔ ان کے اندر قربانی کا احساس پیدا نہ ہوا، ان کے اندر اپنے مُلک کی حفاظت کے لئے جوش پیدا نہ ہوا بلکہ ان میں سے نصف کے اندر یہ بات پیدا ہوئی تو صرف ڈیڑھ کروڑ تیس کروڑ کے مقابلہ میں ہوگا اور اگر صرف چوتھائی حصہ میں یہ بات پیدا ہوئی تو ہمارے پاس صرف پچھہتر لاکھ آدمی لڑنے والا ہوگا۔ اس کیفیت کو سمجھو اور غور کرو کہ تمہیں کس قسم کی قربانی کی ضرورت ہے اگر تم میں سے ہر ایک شخص یہ فیصلہ کر لے کہ اُسے اپنے مُلک کی خاطر اگر کوئی قربانی کرنی پڑی تو وہ اس سے کوئی دریغ نہیں کرے گا اور وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے مُلک کو آزاد رکھنے کیلئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوگا۔ تب بھی ہندوستان کی تیس کروڑ آبادی کے مقابلہ میں ہمارا صرف تین کروڑ ہوگا یہ بھی ایک غیر طبعی مقابلہ ہے مگر بہرحال اتنی بات تو ہے کہ ایک اور پونے دس کی نسبت ہوگی۔ دُنیوی تدبیر کے لحاظ سے یہ نقطۂ نگاہ ہماری تسلی کا موجب نہیں ہو سکتا لیکن ایک اور امر ایسا ہے جو ہمارے لئے تسلی کا موجب ہو سکتا ہے اور وہ یہ کہ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ اگر تم سچے مؤمن بن جاؤ تو تم میں سے ایک مؤمن دس کافروں پر غالب آ سکتا ہے۔ اب اگر سَوا تین کروڑ آدمی کے اندر اسلام کا حقیقی درد ہو اور وہ اپنے اندر جرأت اور ایثار پیدا کر لیں، اگر وہ اپنے اندر قربانی کی روح پیدا کر لیں تو یہ سَوا تین کروڑ پینتیس کروڑ کافروں پر غالب آ سکتے ہیں گویا اگر ہمارے لئے کامیابی کی کوئی مادی صورت موجود نہیں تو روحانی صورت ضرور موجود ہے۔ اگر تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ ایک دس پر غالب آیا ہو تو قرآن کریم کی ایک آیت ضرور کہتی ہے کہ اگر تم سچے مؤمن بن جاؤ تو تم قلیل ہو کر کثیر پر غالب آسکتے ہو۔ قرآن کریم کے یہ الفاظ ہمیں بتاتے ہیں کہ اگر ہم سچے طور پر کوشش کریں اور اسلام کے اصول کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں تو ہم اپنے ہمسایوں پر غالب آ سکتے ہیں۔ مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے اندر بیداری پیدا کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کریں ہم کبھی یہ اُمید نہیں کر سکتے کہ ہم سارا وقت سینماؤں اور گانوں میں لگا دیں لیکن لڑائی کے وقت فرشتے ہماری پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر ہمیں دشمن پر غلبہ دے دیں گے۔ جیسے پُرانے زمانوں میں فقیروں کا دستور تھا کہ جب کوئی فقیر آ کر پیسہ مانگتا اور دوسرا شخص انکار کر دیتا تو وہ کہتاتھا۔ اُلٹا دوں چودہ طبق۔ حالانکہ اگر چودہ طبق اس کے قبضہ میں ہوتے تو وہ پیسہ پیسہ کیوں مانگتا۔ اسی طرح اگر ہم بھی یہ سمجھتے رہیں گے کہ فرشتے اُتریں گے اور وہ فنونِ جنگ کا علم ہمارے سینوں میں بھر دیں گے تو یہ ایک نامعقول بات ہوگی اگر دنیا میں پہلے کبھی ایسا ہوا ہوتا تب بھی کوئی بات تھی لیکن اگر ایسا کبھی نہیں ہوا تو ہمیں بھی وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گاجو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے اختیار کیا تھا، ہمیں وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا جو عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نے اختیار کیا تھا، ہمیں وہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں صحابہؓ نے اختیار کیا تھا ہمیں اس قسم کے واقعات آنے سے پہلے ہر قسم کی تیاری کرنی پڑے گی۔ اگر ہم پہلے سے تیاری نہیں کرتے اور عین وقت پر خداتعالیٰ سے مدد طلب کرتے ہیں تو اس کے فرشتے ہم پر *** بھیجیں گے اور کہیں گے کہ تم خدا تعالیٰ کا نام گستاخی سے لیتے ہو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ باوجود اس کے کہ آپ سارا دن دینی کاموں میں مصروف رہتے تھے، سارا دن آپ مقدمات کے فیصلوں میں خرچ کر دیتے تھے۔ سارا دن آپ عبادت میں لگا دیتے تھے تو پھر بھی آپ کوئی نہ کوئی ایسا وقت نکال لیتے تھے جس میں آپ صحابہ سے پریڈ کروایا کرتے تھے، آپ ان سے تیر اندازی کرواتے اور انہیں فوجی ٹریننگ دیتے بلکہ بعض دفعہ آپ کو باہر جانے کی فرصت نہیں ہوتی تھی تو آپ مسجد میں ہی یہ مشق کروا لیتے تھے۔ حضرت عائشہؓ سے بخاری میں روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن آپ سے فرمایا۔ عائشہ! کیا تم نے تماشہ دیکھنا ہے اگر تم تماشہ دیکھنا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں دکھاؤں۔ حضرت عائشہؓ نے فرمایا ہاں یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ آپ دروازے میں کھڑے ہوگئے اور فرمایا عائشہ! میرے پیچھے کھڑی ہو جاؤ اور میری گردن کے پاس سے دیکھو۔ پھر آپ نے حبشی اور عرب قبائل کی مصنوعی لڑائی مجھے دکھائی۔ ۱۱؎ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بھی یہ چیزیں سکھاتے رہتے تھے۔ اب تو کئی ایسے ذرائع نکل آئے ہیں جن سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے مثلاً ہوم گارڈ ہے، نیشنل گارڈ ہے ان کے ذریعہ جو شخص چاہے فوجی تربیت حاصل کر سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص لڑائی کے فنون سیکھے گا تو وقت پر یہ اُس کے کام آسکیں گے اِس کے علاوہ جس کو بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ لائسنس حاصل کرے اور بندوق چلانے کی مشق کرے۔ میں نے دیکھا ہے بعض لوگ بندوق خرید لیتے ہیں لیکن وہ چلا نہیں سکتے۔ قادیان پر جن دنوں حملہ ہوا ہے اُن دنوں ہم نے دریافت کیا کہ کن کن لوگوں کے پاس لائسنس ہیں جب ہم کسی سے پوچھتے تھے کہ کیا تمہارے پاس لائسنس ہے؟ تو وہ جواب دیتا تھا جی ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے جب ہم پوچھتے تھے کیا تمہارے پاس بندوق ہے؟ تو وہ جواب دیتا تھا جی ہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہے۔ لیکن جب ہم پوچھتے کہ کیا کارتوس ہیں؟ تو وہ جواب دیتا جی کارتوس تو نہیں۔ جب کارتوس نہیں تو تم نے لڑنا کس چیز سے ہے۔ اگر کارتوس نہ ہوں تو بندوق اور لٹھ میں کیا فرق ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ شاید بندوق آپ ہی آپ چلا کرتی ہے۔ جب کارتوس نہیں ہونگے تو نشانہ بازی کیسے کی جا سکتی ہے اور جب تک بندوق چلائی نہ جائے مشق کیسے ہو سکتی ہے۔ میں بچپن سے ہی بندوق چلاتا آ رہا ہوں اب کبھی کبھی ناغہ ہو جاتا ہے۔ اپنے وقت میں میں نے پستول کے ساتھ جانور مارے ہیں لیکن کچھ دن اگر گزر جائیں تو نشانہ درست نہیں رہتا۔ اس دفعہ جب میں کوئٹہ گیا تو میں نے اپنے گھر والوں سے کہا کہ آؤ تمہیں نشانہ سکھائیں۔ مجھے چونکہ مشق کئے دیر ہوچکی تھی اور وہ صبح شام مشق کرتی رہیں تیسرے چوتھے دن میری بیٹی نے مجھے بڑی شکست دی میں نے سمجھا کہ میری بیٹی دل میں کہتی ہوگی کہ اباجان یونہی کہتے رہتے ہیں کہ ہم یوں نشانہ بازی کیا کرتے تھے اصل بات یہ ہے کہ اس کام کے لئے مشق کی ضرورت ہے۔ پس تم ہتھیار لو تو مشق کرو لیکن اس طرح کی مشق نہیں جیسے زمیندار مشق کیا کرتے ہیں۔ زمیندار ہمیشہ اپنے بنے کے شریک پر مشق کیا کرتے ہیں تم بیشک مشق کرو لیکن درخت اور دیوار وغیرہ پر کرو۔ کسی آدمی کے سینہ پر نہ کرو اور اگر کسی آدمی کے سینہ پر ہی کرنی ہے تو پھر وقت آنے پر دشمن کے سینہ پر کرنا پہلے نہ کرنا۔
ایک اور بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ آجکل بعض لوگوں کی طرف سے یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ کشمیر کی جنگ جہاد ہے یا نہیں؟ قطع نظر اس کے کہ یہ سوال کتنی اہمیت رکھتا ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمیں کشمیر سے ہمدردی ہے اور یہ لڑائی جہاد ہے وہ خود اس میں حصہ کیوں نہیں لیتے۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجابیوں نے اس میں بہت کم حصہ لیا ہے حکومت کی طرف سے کام کرنے والوں کے علاوہ سوائے ایک مثال کے اور کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی جماعت یا فرقہ نے طوعی طور پر کشمیر کی مدد کی ہو۔ بڑا کام یہی سمجھا جاتا ہے کہ جلسہ کیا۔ چند ریزولیوشن پاس کئے اور ’’غلام عباس زندہ باد‘‘ اور’’ سردار ابراہیم زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائے اور سمجھ لیا کہ یہ پچیس پاؤنڈر توپیں ہیں جو دشمن کے خلاف کام کر رہی ہیں حالانکہ جب تک تم کشمیر میں جاکر اور لڑائی میں حصہ لے کر ہندوستانیوں کو مردہ باد نہیں کر لیتے یہ لوگ ’’زندہ باد‘‘ کیسے ہو سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طریق پر جنگ جاری ہے اور جس طرح وہ لمبی ہو رہی ہے میں تفصیل میں تو نہیں جانا چاہتا لیکن پھر بھی میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ صورتِ حالات نہایت ہی خطرناک ہے۔ اگر اب بھی تم نے اپنی ذمہ داریوں کو نہ سمجھا تو تم اس سے بھی زیادہ حسرت کے ساتھ اپنے ہاتھ ملو گے جس قدر حسرت کے ساتھ تم نے مشرقی پنجاب میں اپنے ہاتھ ملے تھے۔ اِس وقت بجائے اس کے کہ کشمیر کی مدد کی جاتی یہ بحثیں شروع ہو گئی ہیں کہ آیا کشمیر کی جنگ جہاد ہے یا نہیں۔ گویا جہاد کے سِوا وہ اور کوئی کام ہی نہیں کرتے۔ روٹی کھانا کیا جہاد ہے مگر کیا تم کھاتے ہو یا نہیں؟ پھر پانی پینا کیاجہاد ہے مگر دن اور رات میں تم کتنے گلاس پانی کے پی جاتے ہو۔ پھر لسّی اور دودھ پینا کیا جہاد ہے جب تمہیں کوئی شخص لسّی یا دودھ دیتا ہے تو تم یہ نہیں کہتے کہ پھینکو پَرے یہ جہاد نہیں بلکہ کہتے ہو لاؤ بِسْمِ اللّٰہِ۔ پھر تم بچے کو پیار کرتے ہو جب تم یہ کام کرتے ہو اور یہ کبھی سوال نہیں اُٹھاتے کہ یہ کام جہاد ہے یانہیںتو اس لڑائی کے وقت جہاد کا سوال کرنا کون سی عقلمندی ہے۔ تم پانی پیتے ہو اس لئے کہ اگر تم پانی نہیں پیو گے تو پیاسے مر جاؤ گے، تم روٹی کھاتے ہو اس لئے کہ اگر تم روٹی نہیں کھاؤ گے تو بھوکے مر جاؤ گے، تم کپڑے پہنتے ہو اس لئے کہ اگر تم کپڑے نہیں پہنو گے تو تم ننگے ہو جاؤ گے لیکن اگر تم اس لڑائی میں شامل نہ ہوئے تو کیا خیریت رہے گی؟ اگر خیریت رہے گی تو بے شک تم یہ کام نہ کرو لیکن اگر خیریت نہیں رہے گی تو جہاد کا سوال ہی کیا ہے۔ تم روزانہ سینکڑوں کام کرتے ہو مگر کیا انہیں جہاد سمجھ کر کرتے ہو۔ تم صبح ہی اُٹھتے ہو تو اگر تمہیں حقہ کی عادت ہے تو حقہ لے کر اُسے تازہ کرتے ہو کیایہ جہاد ہے، پھر اپنے جانوروں کو چارہ ڈالتے ہو کیا یہ جہاد ہے، پھر ہل چلاتے ہو کیا یہ جہاد ہے، پھر اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر گپیںہانکتے ہو کیا یہ جہاد ہے، پھر اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ پیار کرتے ہو کیا یہ جہاد ہے، پھر اگر تمہارا کوئی دوست یا رشتہ دار کوئی تحفہ لاتا ہے تو تم اُسے قبول کرتے ہو کیا یہ جہادہے، تم پاخانہ کرتے ہو کیا یہ جہاد ہے، تم نہاتے ہو کیا یہ جہاد ہے، تم کپڑے دھوتے ہو کیا یہ جہاد ہے، تم تیل لگاتے ہو، تم کنگھی کرتے ہو، تم مسواک کرتے ہو کیا یہ جہاد ہے، اگر تم اپنے دن بھر کے کام گننے لگو تو وہ کروڑوں بن جاتے ہیں مگر کیا تم یہ سب کام جہاد سمجھ کر کرتے ہو۔ جب اپنی ضرورت آتی ہے تو تم وہ کام کر لیتے ہو اور کہتے ہو کہ ہماری عقل یہ کہتی ہے کہ یہ کام کرنا چاہئے اور تم یہ سوال نہیں کرتے کہ آیا یہ جہادہے یا نہیں۔ اگر جہاد ہے تو ہم کریں گے اور اگر جہاد نہیں تو نہیں کریں گے مگر جب خداتعالیٰ کا سوال آتا ہے، جب اسلام کا سوال آتا ہے، جب قوم اور وطن کا سوال آتا ہے تو تم پوچھتے ہو کہ آیا یہ جہاد ہے؟ گویا تم نے اپنی ساری عمر میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جو جہاد نہیں تھا۔ تم نے جو کام بھی کیا ہے اُسے جہاد سمجھ کر ہی کیا ہے۔ جب سے تمہیں ہوش آئی ہے تم کافر ہی مارتے رہے ہو۔ یہ کتنی بڑی شرم کی بات ہے کہ جب قوم اور وطن کے لئے قربانی کرنے کا سوال آیا تو تم پوچھتے ہو کیا یہ جہاد ہے؟ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ کشمیر کی جنگ میں وہ شرطیں نہیں پائی جاتیں جن شرائط کے پائے جانے سے یہ جہاد کہلا سکتی ہے مثلاً جہاد کی یہ شرط ہے کہ ایک امام ہو مگر یہاں کوئی امام نہیں۔ مگر یہ سوال تو تب ہو سکتا تھا جب تمہارے سب کام جہاد کے مطابق ہوتے۔ جب تم سب کام عقل کے ساتھ کرتے ہو اور یہ سمجھ کر نہیں کرتے کہ یہ جہاد ہے تو یہاں اس سوال کی کیا ضرورت ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ مَنْ قُتِلَ دُوَْنَ مَالِہٖ وَ عِرْضِہٖ فَھُوَشَہِیْدٌ۱۲؎ جو شخص اپنے مال کو اور اپنی عزت کو بچاتے ہوئے مارا جاتا ہے وہ شہید ہے۔ آپ نے اس لڑائی کو جہاد نہیں کہا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے مال یا اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے۔ تم میں سے ہر وہ شخص جو اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کرتا ہوا یا اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہوا مارا جاتا ہے وہ یقینا شہید ہے۔ جو لوگ مشرقی پنجاب سے اپنی بیویوں، بیٹیوں، بہنوں اور ماؤں کو بچا کر لے آئے ہیں میں اُن پر کوئی اعتراض نہیں کرتا مگر جو لوگ اُنہیں وہیں چھوڑ کر آئے ہیں میں اُن سے کہتا ہوں کہ کیا آپ لوگوں کی رگِ حمیت اب بھی نہیں پھڑکی؟ آخر تم میں سے کتنے ہیں جو اپنے وطن کی خاطر یا اپنی قوم کی خاطر لڑائی کیلئے کشمیر جا رہے ہیں اگر اس میں جہاد سے کم ثواب ہے تو کیا لوگ ہر اُس کام کو جس کا ثواب تھوڑا ہو چھوڑ دیا کرتے ہیں۔ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو شخص نماز جماعت کے ساتھ پڑھتا ہے اُسے زیادہ ثواب ملتا ہے۔۱۳؎ اب اگر جماعت کے ساتھ نماز نہ ملے تو کیا تم نماز نہیں پڑھا کرتے؟ کیا تم نماز چھوڑ دیا کرتے ہو؟ پھر فرض لیں، کیا تم فرضوں کی وجہ سے سنتوں کو چھوڑ دیا کرتے ہو اس لئے کہ اُن کا ثواب کم ہے یا کیا تم سنتوں کی وجہ سے نوافل کو چھوڑ دیا کرتے ہو اس لئے کہ اُن کا ثواب کم ہوتا ہے۔ تم کہتے ہو کہ ساری چیزیں ہی اپنی اپنی جگہ پر ضروری ہیں اور وہ اپنے اپنے رنگ میں اہم ہیں پھر یہاں کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ہم تھوڑے ثواب کو کیا کریں جہاد ہوتا تو شامل ہوتے۔
صحابہؓ میں تو ثواب حاصل کرنے کے لئے خواہ وہ تھوڑا ہو یا بہت اتنا خیال پایا جاتا تھا کہ ایک دفعہ ایک جنازہ ہوا۔ جنازہ کے بعد لوگ اپنے اپنے گھروں کو جانے لگے تو ایک صحابیؓ نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا ہے۔ آپ فرماتے تھے اگر کوئی شخص جنازہ میں شامل ہو اور نماز جنازہ پڑھے تو اُسے اُحد کے برابر ایک قیراط کا ثواب ملتا ہے اور اگر کوئی شخص جنازہ کو کندھا بھی دے، قبرستان تک ساتھ جائے اور میت کے دفن ہونے تک وہیں رہے تو اسے دو قیراط کا ثواب ہوتا ہے۔ یہ بات سن کر ایک اور صحابیؓ نے غصہ سے کہا۔ آپ نے ہمیں یہ بات اتنا عرصہ کیوں نہ بتائی۔ معلوم نہیں ہم نے کتنے قیراط ثواب ضائع کر دیا ہے۔۱۴؎ یہ چیز تھی جو صحابہؓ میں پائی جاتی تھی وہ چھوٹے سے چھوٹے ثواب کو بھی چھوڑنا پسند نہیں کرتے تھے۔ پس یہ غلط بات ہے کہ ہر ایک چیز کا انتہائی ثواب ہی ہو۔ تبھی اُسے کیا جائے، جب کسی چیز کا انتہائی ثواب نہیں ہوگا ہم اس میں حصہ نہیں لیں گے۔ بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ وَ عِرْضِہٖ فَھُوَشَہِیْدٌ۔جو شخص اپنے مال یا عزت کو بچاتے ہوئے مارا جاتا ہے وہ شہید ہے۔اسی طرح فرمایا حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْاِیْمَانِ ۱۵؎ وطن سے محبت رکھنا بھی ایمان میں داخل ہے۔ پس جو شخص وطن کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے گا وہ گویا ایمان کی حفاظت کرتاہوا مارا جائے گا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک شہید ہوگا۔ پس وہ جہاد جو مخصوص حالات اور زمانوں میں ہوتا ہے اس کے علاوہ جب ہم اور کئی کام کرتے ہیں، جہاد میسر نہ آنے پر بھی ہم روٹی کھاتے ہیں، پانی پیتے ہیں، اپنے بیوی بچوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کے علاوہ دن اور رات میں سینکڑوں کام کرتے ہیں اور ان میں سے کسی کام کے متعلق بھی ہم یہ سوال نہیں کرتے کہ آیا یہ جہاد ہے یا نہیں تو اب اگر وطن کی حفاظت کا سوال آنے پر ہم مختلف قسم کے بہانے بناتے ہیں تو ہم بہانہ خور ہیں۔ ہم یقینا جھوٹے ہیں سچے نہیں، ہم بے وقوف ہیں عقلمند نہیں اور یہ محض ایک ایسا بودا عذر ہے جس میں ذرّہ بھر بھی حقیقت نہیں پائی جاتی۔
اب ہماری جماعت کو خصوصاً یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارا نظریہ اب بدل جانا چاہئے۔ ایک وقت تھا جب چندہ دینے سے تمہارا فرض ادا ہو جاتا تھا، ایک وقت تھا جب نماز پڑھنے سے تمہارا فرض ادا ہو جاتاتھا لیکن اب صرف نماز پڑھ لینے سے تمہارا فرض ادا نہیں ہوگا، اب صرف زکوٰۃ دینے سے تمہارا فرض ادا نہیں ہوگا، اب صرف حج کر لینے سے تمہارا فرض ادا نہیں ہوگا اب تمہارے سپرد ایک چیز کی گئی ہے جس کی حفاظت کے لئے تم سے تمہاری جانوں کا مطالبہ کیا جائے گا اور مالی قربانیوں کے علاوہ تمہیں جانی قربانیاں بھی دینی پڑیں گی اور جو شخص اس سے گریز کرتا ہے یا جو شخص موت سے ڈرتا ہے اس کا ایمان ہرگز کامل نہیں اس کا ایمان ناقص ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی امید نہیں کر سکتا۔ مؤمن کے لئے جان کی قربانی پیش کرنا درحقیقت چیز ہی کوئی نہیں ہے۔ غالب کے متعلق لوگ بحثیں کرتے ہیں کہ وہ شراب پیا کرتا تھا یا نہیں۔ مگر میرا تو وہ رشتہ دار ہے اور میں نے اپنی نانیوں اور پھوپھیوں سے سنا ہوا ہے کہ وہ شراب پیتا تھا۔ ایسا شخص جو شراب کا عادی تھا وہ بھی کہتا ہے۔
جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
یعنی اگر ہم خدا تعالیٰ کی راہ میں جان دیتے ہیں تو کیا ہوا یہ جان بھی تو اُسی کی دی ہوئی تھی۔ پس خداتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں اگر کوئی شخص جان بھی دے دیتا ہے تو وہ کوئی بڑی قربانی نہیں کرتا کیونکہ وہ جان بھی اُسی کی چیز ہے اور کسی کی امانت کو واپس کر دینا بڑی قربانی نہیں ہوتا۔
احادیث میں ایک صحابیہؓ کا قصہ آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے شوہر کو کسی اسلامی خدمت کے سلسلہ میںباہر بھیجا۔ اُن کا بچہ بیمار تھا اور اُنہیں اپنے بچہ کی بیماری کا قدرتی طور پر فکر تھا وہ صحابی جب واپس آئے تو ان کی غیر حاضری میں اُن کا بچہ فوت ہوچکا تھا۔ ماں نے اپنے مردہ بچہ پر کپڑا ڈال دیا۔ وہ نہائی دھوئی اور خوشبو لگائی اور بڑے حوصلے کے ساتھ اس نے اپنے خاوند کا استقبال کیا۔ وہ صحابی جب گھر آئے تواُنہوں نے آتے ہی سوال کیا کہ بچے کا کیا حال ہے۔ اس صحابیہ نے جواب دیا۔ بالکل آرام ہے۔ اُنہوں نے کھانا کھایا پھر تسلی کے ساتھ آرام سے لیٹ گئے اور تعلقاتِ زوجیت بھی پورے کئے۔ جب وہ اپنی بیوی سے مباشرت کر چکے تو بیوی نے کہا میں آپ سے ایک بات دریافت کرنا چاہتی ہوں۔ خاوند نے جواب دیا کیا؟ بیوی نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی کے پاس امانت رکھ جائے اور کچھ عرصہ کے بعد وہ چیز واپس لینا چاہے تو کیا وہ چیز اُسے واپس کی جائے یا نہ کی جائے؟ اُنہوں نے جواب دیا وہ کون بے وقوف ہوگا جو کسی کی امانت کو واپس نہیں کرے گا۔ بیوی نے کہا۔ آخر اُسے افسوس تو ہوگا کہ میں امانت واپس کر رہا ہوں۔ اُنہوں نے جواب دیا۔ افسوس کس بات کا وہ چیز اُس کی اپنی نہیں تھی اگر وہ اُسے واپس کر دے تو اُسے کیا افسوس ہو سکتا ہے۔ بیوی نے کہا اچھا! اگر یہ بات ہے تو ہمارا بچہ جو خداتعالیٰ کی ایک امانت تھی اُسے خداتعالیٰ نے ہم سے واپس لے لیا ہے۔ ۱۶؎ یہ حوصلہ تھا جو اُس وقت کی عورتوں میں پایا جاتا تھا۔ پس جان کا دے دینا تو کوئی چیز ہی نہیں۔ خصوصاً مؤمن کے لئے تو یہ معمولی بات ہوتی ہے۔
ہم جہاد کے متعلق بتایا کرتے تھے کہ موجود حالات میں شرعاً جائز نہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں بعض لوگ بُزدل بن گئے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے جہاد کو مسئلہ کی وجہ سے نہیں چھوڑا تھا بلکہ بُزدلی کی وجہ سے چھوڑا تھا۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم نے جہاد کو محض مسئلہ کی وجہ سے چھوڑا تھا اور جب کہ ہم محض شرعی مسئلہ کی وجہ سے جہاد کو ممنوع قرار دیتے تھے تو اب لوگوں کو خوش ہونا چاہئے تھا کہ وہ روکیں جو اُن کے رستہ میں حائل تھیں دور ہو گئی ہیں لیکن میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگ بجائے خوش ہونے کے رو رہے ہیں یہ میں جانتا ہوں کہ آئندہ کیا ہوگا۔ پہلے تم چندہ نہیں دیتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اعلان کیا کہ تم تین ماہ میں صرف ایک دھیلہ بطور چندہ دیا کرو۔ اُس وقت لوگ دھیلہ بھی روتے روتے دیتے تھے پھر ایسا مزہ آیا کہ تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا کہ دھیلہ کی بجائے آپ پیسہ چندہ کر دیجئے پھر تم نے کہا سہ ماہی کی شرط نہیں ہونی چاہئے یہ چندہ ماہوار ہونا چاہئے۔ پھریہ چندہ پیسہ سے دو پیسہ ہوا اور دو پیسہ سے تین پیسہ ہوا اور اب جماعت میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو اپنی ماہوار آمد کا پچاس فیصدی چندہ دیتے ہیں۔ پس میں جانتا ہوں کہ ان کمزوریوں کی آہستہ آہستہ اصلاح ہو جاتی ہے اور وہ دن ضرور آئے گا جب تم یہ کہو گے کہ جان دینے میں تو کوئی خاص مزہ نہیں آتا کوئی اس سے بھی بڑی قربانی ہونی چاہئے۔ بہرحال اِس دن کے آنے پر میرا فرض ہے کہ میں جماعت کو توجہ دلاؤں کہ وہ اپنی بُزدلی کو دور کرے اور اپنے اندر جرأت، بہادری اور حوصلہ پیدا کرے۔ میں نہیں جانتا کہ آپ لوگوں کی کیا کیفیت ہے مگر ہم جب تاریخ اسلام پڑھا کرتے تھے تو ہمارے اندر ایک جوش پیدا ہوتا تھا کہ کاش! ہم بھی اُس وقت ہوتے اور اس قسم کی قربانیاں کرتے پھر ہماری زندگی میں ہی خداتعالیٰ نے ایسا موقع دے دیا ہے جب ہم وہی قربانیاں پیش کر سکتے ہیں جو صحابہ نے اپنے وقت میں کیں۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ بعض لوگوں میں یہ جوش نہیں پایا جاتا جو لوگ راسخ الایمان ہیں ان میں بے شک یہ نمونہ بھی پایا جاتا ہے۔
ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ایک جگہ ہم نے کشمیر میں جانے کے لئے احمدیوں میں تحریک کی اور بتایا کہ یہ مُلکی سوال ہے وہاں ضرور جانا چاہئے اس پر ایک بیوہ نے جس کا ایک ہی بچہ تھا سوال کیا کہ کیا یہ ہمارا دینی فرض ہے؟ اِس پر اُس دوست نے کہا اِس وقت حفاظت اسلام کا سوال ہے اور وہاں جانا ضروری ہے۔ اِس پر اُس بیوہ نے اپنے اکلوتے بچے کو آواز دی اور کہا او فلانے! تو بولتا کیوں نہیں دین کے لئے تمہاری جان کی ضرورت ہے اور تو چپ بیٹھا ہے۔ اس دوست نے بتایا کہ اس بیوہ نے اُسی وقت اپنے اکلوتے بچے کو کشمیر کے لئے بھیج دیا۔ اسی طرح ایک اور عورت کے متعلق جس کے دو بیٹے اور دو پوتے تھے ایک دوست نے بتایا کہ جب ہم نے اُسے تحریک کی کہ اِس وقت اسلام کی خاطر جان کی قربانی کی ضرورت ہے تو وہ عورت اُس وقت گھر سے باہر کھڑی تھی اُس نے اپنے دونوں بیٹوں اور دونوں پوتوں کو آواز دے کر کہا جب تک تم سب کشمیر چلے نہیں جاؤ گے میں گھر میں داخل نہیں ہونگی۔ کہنے والا کہتا ہے کہ ہم نے کہا چاروں نہیں ہم فی الحال دو کو لے جاتے ہیں مگر اُس عورت نے بڑے اصرار سے کہا نہیں چاروں کو لے جاؤ۔ مگر جب ہم چاروں کے لے جانے پر رضا مند نہ ہوئے تو اس نے کہا۔ اچھا دونوں کو لے جاؤ۔ یہ چیز ہے جس کی ہمیں ضرورت ہے۔درحقیقت جذبۂ نیک، جذبۂ نیک پیدا کرتا ہے۔ پہلی عورت نے بھی اپنے بیٹے سے کہا کہ دین کو تیری جان کی ضرورت ہے اگر تُو دریغ کرے گا تو میں تجھ سے خوش نہیں ہونگی اور دوسری عورت نے بھی یہی نمونہ دکھایا۔جس وقت میں نے یہ واقعہ سنا اُس وقت میری وہی کیفیت ہوگئی جو مالک بادشاہ کی ہوئی تھی۔ مالک ۱۸ سال کی عمر میں یتیم ہو گیا تھا۔ اس کے والد (جو ایک بڑا بادشاہ تھا) کے مرنے کے بعد اس کے ایک اور بیٹے اور ایک بھائی نے حصولِ تخت کے لئے لڑائی شروع کر دی۔ نظام الدین طُوسی جو اُس وقت وزیراعظم تھا اور مالک کا اُستاد بھی (یہ نظام الدین طُوسی وہی ہیں جن کا نظامِ تعلیم فرنگی محل میں ایک عرصہ تک جاری رہا ہے) اس نے مالک کو اپنے ساتھ لیا اور اُسے موسیٰ رضا کی قبر پر دعا مانگنے کے لئے لے گیا۔ موسیٰ رضا کی قبر پر ان دونوں نے دعا کی۔ مالک بھی دعا کیلئے سجدہ میں گرے اور وزیر بھی سجدہ میں گرا اور دعا کی کہ اے خدا! تُو موسیٰ رضا کے واسطہ سے ہمیں جنگ میں فتح عطا فرما! تاریخ میں آتا ہے جب دونوں دعا سے فارغ ہوئے تو مالک نے وزیر سے پوچھا تم نے کیا دعا کی ہے؟ اس نے جواب دیا۔ حضور میں نے دعا کی ہے کہ اے اللہ! تُو میرے بادشاہ کو میدانِ جنگ میں فتح عطا فرما اور اس کے دشمنوںکو رسوا کر۔ اِس پر ۱۸ سالہ مالک نے کہا۔ نظام الدین میں نے تو یہ دعا نہیں کی۔ میں نے تو یہ دعا کی ہے کہ اے اللہ! میں نہیں جانتا کہ میں قوم کے لئے مفید ہوں یا نہیں۔ بادشاہ ہونے کا مدعی میں بھی ہوں میرا بھائی بھی ہے اور میرے چچا بھی ہیں تجھے معلوم ہے کہ قوم کے لئے ہم میں سے کون سا وجود مفید ہے اگر تُو جانتا ہے کہ میں قوم کے لئے مفید ہوںتو کل کی جنگ میں مجھے کامیابی عطا فرما۔ اگر میرے بھائی یا چچا قوم کے لئے مفید ہیں تو اے اللہ! کل کی جنگ میں مجھے مروادیجیئو تا میں اُس نظام کے راستہ میں روک نہ بنوں جس کو تُو قائم کرنا چاہتا ہے۔ گبن جیسا متعصب مؤرخ لکھتا ہے مسلمان کافر ہیں مگر عیسائی دنیا کی تاریخ میں جتنے بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں ان میں سے کسی ایک کی زبان سے بھی میں نے وہ کلمہ حکمت نہیں سنا جو اس کافر ۱۸ سالہ نوجوان بادشاہ سے سنا ہے۔ مجھ پر یہ بھی اثر ہوا۔ میں نے وہ خط بند کر کے خداتعالیٰ سے دعا کی کہ میرے بیٹے اور پوتے بھی اس کام میں شامل ہیں اگر اس کام میں جان کی قربانی کی ہی ضرورت ہے تو اے خدا! اس عورت کے بیٹے واپس بھیج دیجیئو اور میرے بیٹوں کو جان کی قربانی کی توفیق عطا فرمائیو۔
پس موت کوئی چیز نہیں جس سے ڈرا جائے۔ کون ہے جو ہمیشہ زندہ رہے گا موت بہرحال آئے گی لیکن کوئی موت عزت کی ہوتی ہے اور کوئی موت بے عزتی کی ہوتی ہے اگر کوئی شخص اپنے آپ کو موت سے بچانا چاہتا ہے تو اس سے زیادہ احمق اور کوئی نہیں۔ پس اپنے اندر ایک نیا تغیر پیدا کرو اور جو نئی ذمہ داریاں خداتعالیٰ نے تمہارے سپرد کی ہیں اُنہیں دوسروں سے زیادہ محسوس کرو۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اس وقت حکومت تمہاری نہیں تم پاکستان میں اقلیت میں ہو اور اس کے فوائد دوسروں کو پہنچیں گے تم کو تو نہیں پہنچیں گے لیکن تم اس بات کے مدعی ہو کہ تم نے خدا تعالیٰ کی مخلوق اور تمام بنی نوع انسان کے لئے کام کرنا ہے۔ تم نے یہ نہیں دیکھناکہ اس سے تم کو فائدہ پہنچتا ہے یا کسی اور کو۔ تم نے یہ دیکھنا ہے کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو سب سے زیادہ ادا کرتے ہو۔ یہ وہ چیز ہے جس سے تم اپنے ایمان کو محفوظ کر سکتے ہو اور یہ وہ چیز ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تمہارے مخالفوں کے سینوں سے بغض اور کینہ دور کر دے گا۔ یہ وہ چیز ہے جس سے تم انہیں کھینچ کھینچ کر اپنی طرف لے آؤ گے اور آخری بات وہی ہوگی جو صحابہؓ کے وقت میں ہوئی۔ وہی لوگ جو اِس وقت ہمیں گالیاں دیتے ہیںاورہماری مخالفت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اِنہوں نے ایک دن نہایت ادب سے ہمارے سامنے اپنا سر جھکانا ہے اور یقینا ایک دن ایسا آئے گا جب ہمارے دشمن انتہائی لجاجت سے ہمیں کہیں گے کہ تم ہمارے سر پر ہاتھ رکھو اور ہمیں برکت دو۔ یہ دن خواہ جلد آئے یا دیر سے آئے بہرحال آ کر رہے گا لیکن اس دن کو جلد تر لانے کیلئے ہم کو بھی قربانیاں دینی پڑیں گی۔ ہمیں اعلیٰ اخلاق دکھانے پڑیں گے۔ ہمیں ایثار کا بلند ترین نمونہ پیش کرنا پڑے گا اور جب تک ہم خداتعالیٰ کی طرف سے عائد شدہ ذمہ داریوں کو ادا نہیںکریں گے اُس دن کے آنے میں دیر ہوتی چلی جائے گی۔
پس میں جماعت کو اچھی طرح آگاہ کر دینا چاہتا ہوں کہ اب صرف چندوں کے دینے سے کوئی شخص پورا احمدی نہیں سمجھا جا سکتا بلکہ اب ہماری ذمہ داریاں بدل گئی ہیں۔ جس طرح چار سال کے بچے کا کپڑا اٹھارہ سالہ نوجوان کو کام نہیں دے گا اُسی طرح تمہاری پہلی قربانیاں اب تمہارے کام نہیں آ سکتیں۔ جب تک جانی قربانیوں کی ضرورت نہیں تھی اُس وقت تک تم کامیاب سمجھے جاتے تھے لیکن اب جان کی قربانی کی بھی ضرورت ہے اور قوم اور وطن کی عزت تقاضا کرتی ہے کہ ہم اپنے آپ کو جانی قربانی کیلئے ہر وقت تیار رکھیں۔ تمہاری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ اب تمہیں چاہئے کہ تم آگے سے بڑھ کر اپنا نمونہ پیش کرو۔ تم نے پہلے چندے دینے میں ایک بے مثال نمونہ دکھا دیا ہے یہاں تک کہ ہندوستان اور دوسرے آزاد ممالک بھی وہ کام نہیں کر رہے جو تم کر رہے ہو۔ اب تمہیں دنیا کو یہ بھی دکھا دینا چاہئے کہ جان کی قربانی پیش کرنے میں بھی تم سب سے بڑھ کر ہو۔ یہ نمونہ ہے جو میں تم سے دیکھنا چاہتا ہوں یہ نمونہ ہے جس کی تمہارا امام تم سے امید کرتا ہے اور جب تک تم ایسا نہیں کرو گے تم میری نظروں میںعزت حاصل نہیں کر سکتے۔ اور اگر تم میرے معتقد ہو اور جو بات میں کہتا ہوں اس پر یقین رکھتے ہو تو میرے نقطۂ نگاہ سے تم خداتعالیٰ کی نظر میں بھی اچھے نہیں سمجھے جا سکتے۔
اب میں اپنی تقریر کو ختم کرتے ہوئے دعا کرتا ہوں کہ جو دوست اس جلسہ پر آئے ہیں اور اُنہوں نے میری باتوں کو سنا ہے انہیں خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ وہ واپس جا کر اپنی جماعتوں میں میرے خیالات کو پھیلا دیں اور اپنی اپنی جماعتوں میں تحریک کریں کہ وہ بُزدلی کو دور کریں۔ بُزدلی اور سستی سے صرف دُنیوی نقصان ہی نہیں پہنچتا بلکہ یہ چیز دین کو بھی کمزور کر دیتی ہے اور میں واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اب کسی صورت میں بھی بُزدلی اور سستی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جو شخص بہادر ہوگا۔ جو شخص ضرورت کے وقت اپنی جان کی قربانی دینے کے لئے تیار رہے گا اور جو شخص قربانیاں پیش کر کے قوم اور وطن کی محبت کو ثابت کر دے گا وہی ہم میں رہنے کا مستحق ہوگا اور جو دوسرے لوگ ہونگے ہم آہستہ آہستہ ان کی اصلاح کی کوشش کریں گے لیکن اگر ان کی اصلاح نہ ہو سکی تو ہم انہیں علیحدہ کر دیں گے کیونکہ ماؤف ٹکڑا سارے جسم کو خراب کر دیتا ہے۔ پس جاؤ اور اپنے بھائیوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں اور نئی نئی ذمہ داریوں کو جو خداتعالیٰ کی طرف سے اُن کے ذمہ ڈالی گئی ہیں پورا کریں۔ پہلے ہم کڑھا کرتے تھے کہ ہم انگریز کے ماتحت ہیں اس لئے ہم اپنے مُلک کی، اپنے وطن کی اور اپنی قوم کی کوئی خدمت نہیں کر سکتے لیکن اب ہماری بیڑیاں کاٹ دی گئی ہیں، ہماری طوق اُتار دیئے گئے ہیں۔ ایک شیر کو جب چھوڑ دیا جاتا ہے تو کچھ دیر کے لئے اُس پر کسل طاری ہوتا ہے اور وہ انگڑائیاں لیتا ہے۔ اتنی دیر کے لئے اگر تم پر بھی کسل طاری رہتا ہے یا تم انگڑائیاں لیتے ہو تو تم معافی کے قابل ہو لیکن اگر تم اس کے بعد بھی گرے رہتے ہو، اگر تم اس کے بعد بھی سوئے رہتے ہو تو تم معافی کے قابل نہیں سمجھے جا سکتے۔ اگر شیر پنجرے سے نکل کر بھی سویا رہتا ہے تو اس کا مرجانا اس کے زندہ رہنے سے زیادہ بہتر ہے۔ اِس سے بہتر تو گیدڑ ہے جو جانور تو ہے لیکن کم سے کم بے ایمان تو نہیں۔
میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی، میری اولاد کو بھی اور آپ لوگوں کی اولادوں کو بھی، میرے بچوں کو بھی اور آپ لوگوں کے بچوں کو بھی، میری بیویوں کو بھی اور آپ لوگوں کی بیویوں کو بھی، میرے بہن بھائیوں کو بھی اور آپ لوگوں کے بہن بھائیوں کو بھی اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ قوت اور طاقت ہمیں عطا فرمائے جس سے ہم اسلام کو دوبارہ زندہ کر سکیں اور وہ ہمیں ان قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے جو اسلام کی فتح اور اس کی دوبارہ زندگی کے لئے ضروری ہوں۔
(ماخوذ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
۱؎ پاخانہ: بیت الخلاء
۲؎ سیرت ابن ہشام جلد۱ صفحہ۲۶۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳؎ اٰل عمران: ۱۴۵ ۴؎ المائدہ: ۴۸
۵؎ تذکرہ صفحہ۷۷۲ ۔ایڈیشن چہارم
۶؎ القصص: ۸۶
۷؎ تذکرہ صفحہ۳۰۷۔ ایڈیشن چہارم
۸؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۳۴۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۹؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۱۰۶،۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۱۰؎ الصف: ۱۰
۱۱؎ بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق یوم العید
۱۲؎ بخاری کتاب المظالم۔ باب من قتل دون مالہ
۱۳؎ بخاری کتاب الاذان باب فضل صلوۃ الجماعۃ
۱۴؎ مسلم کتاب الجنائز باب فضل الصلوٰۃ علی الجنازۃ و اتباعھا
۱۵؎ موضوعات ملا علی قاری صفحہ۳۵۔ مطبع مجتبائی دھلی ۱۳۴۶ھ
۱۶؎ بخاری کتاب الجنائز باب لَمْ یُظْھِرْ حُزْنَہٗ عِنْدَ الْمُصِیْبَۃِ
ہر عبدالشکور کنزے کے اعزاز میں
دعوتوں کے مواقع پر تین تقاریر
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہر۱؎ عبدالشکور کنزے٭ کے اعزاز میں دعوتوں
کے مواقع پر تین تقاریر
پہلی تقریر
(فرمودہ ۱۹؍جنوری ۱۹۴۹ء بمقام رتن باغ لاہور
دعوتِ چائے از نظارت دعوت و تبلیغ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:۔
’’میرے آقا و مولا کے ارشاد کے مطابق اسلام اور اُس کے سچے متبع واقعی وہی کونے کا پتھر ہیں جو جس پر بھی گریں گے وہ پاش پاش ہو جائے گا اور جو اُن پر گرے گا وہ بھی چکنا چور ہو جائے گا۔ دیکھ لیجئے جرمنوں نے اطالویوں کی مدد سے ایک عربی ملک ٹنیشیا پر یورش کی تا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو ختم کریں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکی، اُنہیں ہزیمت ہوئی اور اب جب اسلام کے مبلغ اُس ملک میں پہنچے تو وہ اُن کے تمدن، اُن کے مذہب اور اُن کی اخلاقیات پر وہی کونے کا پتھر بن کر کچھ اِس طرح گرے کہ اُن کے دلوں میں جو کچھ تھا وہ ختم ہو گیا اور اُنہیں حلقہ بگوشِ اسلام ہوتے ہی بنی۔
(حضور نے فرمایا)
٭ موصوف اپنے حالات اور بعض وجوہات کی بناء پر اب جماعتِ احمدیہ کے ممبر نہیں رہے۔ (ناشر)
دل کے تمام گند دھو کر اسلام سے وابستگی حاصل کرنا یقینا ایک نئی زندگی حاصل کرنا ہے اور مجھے مسرت ہے کہ ہر عبدالشکور کو جو اسلامی لحاظ سے میرا بھائی، دوست اور روحانی بیٹا ہے یہ سعادت حاصل ہوئی۔
(حضور نے تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا)
ہر کنزے کا عبدالشکور نام رکھنا بھی میری ایک خواب کی بنا پر ہے جس میں میں نے دیکھا تھاکہ دشمنوں سے تنگ آ کر جرمنی یا اٹلی میں گیا ہوں۔ جہاں میرے تبلیغ کرنے سے متعدد لوگوں کو حلقہ بگوشِ اسلام ہونے کی توفیق ملی ہے اور پھر میں نے وہاں اپنا ایک نائب مقرر کیا ہے جس کو ’’عبدالشکور‘‘ نام دیا گیا ہے۔ میں نے اُسی خواب کے مطابق ہرکنزے کا نام ’’ہرعبدالشکور کنزے‘‘ رکھا ہے۔ میری دعا ہے کہ میرا خدا انہیں وہی عبدالشکور بننے کی توفیق دے اور اِن کے واسطے ان کے مُلک کو اُن تمام برکات سے نوازے جو اُس موعود عبدالشکور سے وابستہ ہیں۔
(حضور نے فرمایا)
’’ہرکنزے‘‘ اِس سے پہلے جس مذہب سے وابستہ تھے اُس میں شریعت کو *** قرار دیا گیا تھا لیکن اسلام شریعت کو برکاتِ خداوندی سے معمور گردانتا ہے۔ لہٰذا میں ہرعبدالشکور کو نصیحت کروں گا کہ جو اَب اپنے تمام اعزاو اقرباء کو چھوڑ کر خدا کے دامن سے وابستہ ہوگئے ہیں اِسے اپنی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی کرنے کی کوشش کریں اور جس طرح وہ پہلے کبھی ہر ہٹلر کے سپاہی تھے آج میرے آقا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا جانثار سپاہی بنیں کہ خدا ان کے ہاتھ پر فتوحات کی بارشیں کرے اور پیدائشی مسلمانوں سے کہیں بڑھ چڑھ کر ایمان و اعتقاد پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
(الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۴۹ء)
دوسری تقریر
(فرمودہ ۲۴ جنوری ۱۹۴۹ء بمقام رتن باغ لاہور)
(دعوتِ عشائیہ از جماعت احمدیہ لاہور)
عملی نمونہ دکھانے اور قومی اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کریں
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’چونکہ مجھے اُردو میں بولنے کی اجازت دی گئی ہے اس لئے میں اُردو میں تقریر کروں گا۔ ابھی آپ لوگوں کے سامنے شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے کنزے صاحب کی آمد پر اُنہیں مبارکباد پیش کی ہے اور یہاں کے لوگوں کی طرف سے انہیں مرحبا کہا ہے۔ مسٹر کنزے جرمنی کے رہنے والے ہیں۔ آپ ٹریپولی میں جنرل رومیل کے ماتحت لڑتے رہے اور وہاں ہی آپ قید ہوئے۔ آپ کو بطور قیدی پہلے امریکہ بھیجا گیا اور پھر امریکہ سے آپ انگلینڈ لائے گئے۔ انگلینڈ آ کر آپ کے اندر مذہب کے لئے ایک تڑپ پیدا ہوئی۔ آپ نے دیکھا کہ دنیا کی حالت دن بدن خراب ہو رہی ہے اِس کا علاج کرنا چاہئے اور آپ نے یہ سمجھا کہ اس کا علاج سوائے مذہب کے اور کوئی نہیں۔ آپ نے وہ مذہب تلاش کرنا چاہا جو اِن خرابیوں کو دور کر سکے۔ اس لئے آپ نے مذاہب کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ اس سلسلے میں آپ نے اسلام کے لٹریچر کا بھی مطالعہ کیا اور مزید واقفیت کے لئے آپ نے امام مسجد لندن کو چٹھی لکھی۔ آپ نے اُنہیں یہ بھی لکھا کہ آپ اُن سے ملنا چاہتے ہیں۔ اِس چٹھی کے جواب میں امام مسجد لندن نے انہیں لٹریچر بھیجا اور بعض افسروں کی معرفت اجازت لے کران سے ملے اور بعض دفعہ آپ کو بھی مسجد میں آنے کی اجازت دی گئی۔ ایک دو ملاقاتوں کے بعد ہی آپ پر اسلام کی حقیقت کھل گئی اور آپ نے اسلام قبول کر لیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد آپ نے اِس بات کا اظہار کیا کہ آپ اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں لیکن قیدی ہونے کی صورت میں آپ آزادی سے اپنے اِس ارادہ کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتے تھے۔ تھوڑے عرصہ کے بعد انہیں جبری طور پر جرمنی بھیجا گیا اور وہاں یہ بھی کوشش کرتے رہے اور اِدھر ہم بھی کوشش کرتے رہے اور متواتر دو تین سال کی کوشش کے بعد آپ اپنے ارادہ میں کامیاب ہوئے اور کڑاکے کی سردی میں کئی دن سفر کرتے ہوئے آپ سوئٹزرلینڈ پہنچے وہاں سے جماعت نے آپ کو انگلینڈ پہنچایا اور انگلینڈ سے پھر یہاں آئے۔
یوروپین لوگوں میں سے جنہوں نے اسلام کو بطور اسلام قبول کیا ہے مسٹر کنزے دوسرے آدمی ہیں۔ پہلے آدمی بشیر احمد آرچرڈ ہیں۔ وہ بھی نہایت مخلص اور اسلام کے ساتھ ایک قسم کا عشق رکھنے والے ہیں۔ وہ پہلے آدمی ہیں جس نے مجھ پر یہ اثر ڈالا کہ انگریزوں کی بھی روحانی اصلاح ہو سکتی ہے۔ اس سے پہلے جو شخص مجھ سے یہ پوچھتا تھا کہ برطانیہ مشن میں آپ کو کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی؟ میں اُس سے کہتا تھا کہ بظاہر ہمیں اُس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا اور جہاں تک مذہب کا سوال ہے ہمیں کوئی انگریز مسلمان ہوتا نظر نہیں آتا۔ انگریز لوگ ایک سوسائٹی کے طور پر دوسرے مذہب کو قبول کر لیتے ہیں۔ وہ اپنا لباس بدل لیتے ہیں، اپنی خوراک بدللیتے ہیں اور اسلام یا کسی اور مذہب میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن اُس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ اُن کے اندر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم نے اپنی ہر چیز کو اِس کے لئے قربان کرنا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کیا یہ کوئی کم احسان ہے کہ ہم نے اِس مذہب کو قبول کر لیا ہے۔ اُنہوں نے جو قربانی کرنی تھی وہ مذہب تبدیل کر کے اُنہوں نے کر لی ہے لیکن بشیر احمد آرچرڈ پہلا شخص تھا جس نے سچائی کے طور پر اسلام کو قبول کیا اور صرف قبول ہی نہیں کیا بلکہ خدمت اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کر دی اور اب وہ بڑے اخلاص کے ساتھ خدمت اسلام کر رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی کچھ آدمی تھے مثلاً عبداللہ کوئلم وغیرہ جو اسلام کو ہی سچا مذہب سمجھتے تھے اور اُن کے اندر اخلاص بھی پایا جاتا تھا لیکن وہ اسلام کو اُس کی اصولی تعلیم کے لحاظ سے سچا مانتے تھے اور اس پر عملاً کاربند نہیں ہوتے تھے۔ بعض مواقع پر وہ شراب بھی پی لیں گے اور اگر وقت نہیں ملا تو وہ نماز بھی چھوڑ دیں گے۔ وہ نماز پڑھتے تھے لیکن وہ نمازوں میںبے قاعدہ تھے۔ وہ شراب پینا چھوڑ دیتے تھے لیکن بعض اوقات شراب پینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
مسٹر آرچرڈ پہلے انگریز ہیں جنہوں نے اسلام کو اسلام کے طور پر قبول کیا۔ آپ جب مجھے پہلی دفعہ قادیان ملنے کے لئے گئے اُس وقت آپ فوج میں لیفٹیننٹ تھے۔ آپ جب مجھ سے ملے اُس وقت آپ کے اندر یہ احساس پایا جاتا تھا کہ دنیا میں کوئی بھی سچا مذہب نہیں اور مجھ سے لمبی بحث کی کہ کوئی مذہب سچا نہیں ہاں! ہر مذہب میں ایک حد تک سچائی پائی جاتی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ میں اُن سب سچائیوں کو اکٹھا کر کے ایک نیا مذہب بناؤں۔ پانچ سات دن رہنے کے بعد آپ واپس تشریف لے گئے۔ میں نے سمجھا کہ وہ کورے کے کورے ہی واپس چلے گئے ہیں لیکن جب وہ کلکۃ گئے (شاید وہ برما کی طرف جا رہے تھے) وہاں سے اُنہوں نے مجھے بیعت کا خط لکھا۔ مجھے اِس بات پر سخت حیرت ہوئی۔ بعد میں مَیں نے اُن سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا میں جب تک قادیان میں رہا میں یہ سمجھتا رہا کہ یہ لوگ میرے مخالف ہیں اور میری روح کو کچل دینا چاہتے ہیں اس لئے میرے اندر مقابلہ کی روح پیدا ہوئی۔ میں سات آٹھ دن قادیان میں رہا اِس خیال سے کہ میں جن لوگوں کے پاس جا رہا ہوں انہی کے طریق پر مجھے عمل کرنا چاہئے۔ میں اپنے ساتھ شراب نہیں لایا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ اب میں پہلے سے بہتر معلوم ہوتا ہوں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں جب میں امرتسر پہنچا تو میں کھانے کے لئے ریسٹورنٹ میں گیا اور دوسرے لوگ بھی گئے اور انہوں نے شراب مانگی۔ باقی لوگوں کو دیکھ کر میں نے بھی شراب کے لئے آرڈر دیا لیکن بعد میں خیال آیا کہ میں جن لوگوں کے پاس سے آیا ہوں مجھے اُن کا اِس قدر تو احترام کرنا چاہئے کہ میں رستہ میں شراب نہ پیؤں۔ چنانچہ میں جتنا عرصہ ریل میں رہا شراب نہیں پی۔ جب میں کلکۃ پہنچا تو میری حالت زیادہ سے زیادہ اچھی معلوم ہوئی۔ پھر میں نے غور کرنا شروع کیا کہ آخر اِس کی وجہ کیا ہے؟ اور میں نے سمجھ لیا کہ درحقیقت میں غلطی پر تھا۔ دراصل اسلام ہی سچا مذہب ہے اور اس سے ہی دنیا کی تمام خرابیوں کا علاج کیا جا سکتا ہے پھر میں نے اسلام قبول کر لیا۔
مسٹر آرچرڈ کے اسلام قبول کر لینے پر دوسرے انگریزوں نے اُنہیں تکلیفیں دینا شروع کیں۔ اُن کے ساتھ کھانا پینا بند کر دیا گیا اور اُن کا مکمل بائیکاٹ کر دیا گیا۔ اُن کے ساتھ انگریزوں نے ایسا ہی سلوک کیا جس طرح ہمارے ملک میں ایک نئے احمدی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ فوج میں آپ کو بہت تکلیفیں دی گئیں لیکن آپ گھبرائے نہیں۔ آپ نے نہ صرف پانچوں نمازیں پڑھنی شروع کر دیں، نہ صرف آپ نے محرمات کو ہی چھوڑا بلکہ تہجد بھی پڑھنی شروع کر دی۔ آپ جب تک قادیان میں رہے باقاعدہ تہجد پڑھتے رہے۔ اِس کے بعد اُنہوں نے اسلام کی خدمت کیلئے زندگی وقف کی اور اب انگلینڈ میں وہ ہمارے مبلغ ہیں۔
مسٹر کنزے دوسرے آدمی ہیں جنہوں نے اسلام کو بطور اسلام کے قبول کیا ہے۔ آپ نے نہ صرف اسلام کو قبول کیا بلکہ یہ سمجھا کہ جب تک میں خود اسلام کو اچھی طرح نہیں سمجھتا، جب تک میں خود اسلام کی تعلیم حاصل نہیں کرتا یہ فضول بات ہے کہ میں دوسروں کو اِس کی تبلیغ کروں۔ مجھے پہلے خود دینی تعلیم حاصل کرنی چاہئے اور اِس کے بعد اسلام کو اس ملک میں پھیلانا چاہئے۔ آپ نے اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کی اور دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے پاکستان تشریف لے آئے۔ اور بھی بعض لوگوں کے اندر یہ روح پائی جاتی ہے۔ دو اور جرمن نومسلموں کی طرف سے بھی وقف کے لئے درخواستیں آئی ہیں وہ دونوں میاں بیوی ہیں اور جرمنی کے مشہور جرنلسٹ اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اِسی طرح پولینڈ سے بھی ایک دوست کی وقف کے لئے درخواست آئی ہے وہ بھی اِس وقت قید ہے۔ حکومت نے اُسے ففتھ کالمسٹ قرار دے دیا ہے بلکہ اب تو امریکہ میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا ہے۔ مجھے کئی خطوط آتے ہیں جن میں اس کا اظہار کیا گیا ہے اور وہ سوچ رہے ہیں کہ وہ بھی کسی طرح زندگی وقف کر کے اسلام کی خدمت کریں۔
مسٹر کنزے ہماری تبلیغ کے دوسرے پھل ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح یہ قوم سائنس اور دیگر دنیاوی علوم میں آگے بڑھی ہوئی ہے، جس طرح وہ علمی طور پر یورپ کو لیڈ کر رہی ہے اِسی طرح وہ مذہب میں بھی آگے بڑھ جائے گی اور تمام یورپ کو مذہبی طور پر لیڈ کرے گی۔ جنگ میں اگرچہ وہ ہار گئی ہے لیکن اِس قوم میں ترقی کی روح پائی جاتی ہے اِس لئے میں امید کرتا ہوں کہ جب اِس قوم میں اسلام پھیل جائے گا تو یہ لوگ دین کے اچھے خادم ثابت ہوں گے۔
میں نے اس بات پر بہت غور کیا ہے اور بعض جرمن احمدیوں کو جب میں نے چٹھیاں لکھیں تو اُن پر اس بات کو واضح کیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ قوم عمل اور قربانی میں دوسری قوموں سے زیادہ ہے لیکن اِس کے باوجود وہ ایک سَو سال سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے مگر وہ ہمیشہ ناکام رہی ہے اور اُس نے ہمیشہ ڈپلومیسی میں شکست کھائی ہے اور جس مقام کے حاصل کرنے کا اُسے حق حاصل تھا اُسے وہ حاصل نہیں کر سکی۔ اِس کی کئی وجوہ دوسرے لوگوں نے بتائی ہیں لیکن میرے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ اِس قوم میں اسلام پھیلانا چاہتا ہے اور چونکہ اِس قوم میں اسلام پھیلنا ہے اس لئے جب بھی وہ کسی دنیاوی ترقی کیلئے کوشش کرتی ہے ناکام رہتی ہے۔
یورپ میں اسلام کا بھی حصہ ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام بیشک ایشیا میں پیدا ہوئے تھے مگر بعد میں عیسائیت یورپ میں بھی پھیلی۔ اسی طرح اب اسلام کی بھی یورپ میں پھیلنے کی باری ہے اور جس طرح اٹلی کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اُس نے ابتدا میں عیسائیت کو قبول کیا اور اس کے بعد عیسائیت کو تمام یورپ میں پھیلایا اُسی طرح اسلام کے لئے بھی تو کوئی نہ کوئی ملک مقدر ہوگا جو اسلام کو قبول کر کے اُسے آگے تمام یورپ میں پھیلائے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ وہ ملک جرمنی ہے پچھلے سَو سال کے عرصہ میں جب بھی اُنہوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی ہمیشہ ناکام رہے۔ خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ یہ مذہب کو لیڈ کریں اِس لئے جب بھی اُنہوں نے آگے بڑھنے کے لئے جدوجہد کی اُس میں ناکام رہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب اِس قوم میں اسلام پھیلے گا وہ اسلام کے لئے ہر ممکن قربانی کرے گی۔ میں دیکھتا ہوں کہ انگلینڈ میں ہماری سالہا سال کی کوششوں کے بعد جتنے مسلمان ہوئے ہیں جرمنی میں ہماری ایک سال کی کوشش سے اُتنے احمدی ہوگئے ہیں اور مجھے کثرت سے خطوط آ رہے ہیں کہ وہ اسلام کی تحقیق کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ احمدیت کی آئندہ ترقی میں اِن کا بہت زیادہ حصہ ہوگا۔
ان لوگوں میں اتنا جوش پایا جاتا ہے کہ جب پاکستان پر مصیبت آئی تو حکومت نے چاہا کہ جرمنی سے کچھ افسر منگوائے جائیں اور فوج میں رکھے جائیں تا مُلکی دفاع کو مضبوط کیا جا سکے۔ اُس وقت جرمنی میں ایک ہی احمدی تھا (مسٹر کنزے کے علاوہ ایک اور احمدی تھے جو ہمبرگ میں رہتے تھے۔ مسٹر کنزے برلن کے رہنے والے ہیں) میں نے اُسے لکھا۔ اُس کی محبت کا اِس بات سے پتہ لگتا ہے کہ جب میں نے اُسے لکھا کہ ہمیں پاکستان آرمی کے لئے چند جرمن فوجی افسروں کی ضرورت ہے تو اُس نے رات دن ایک کر کے اور اپنے خرچ پر لمبے لمبے سفر کر کے اُن لوگوں کو پاکستان آنے کیلئے تیار کیا جو ہٹلر کے وقت میں فوج میں مختلف عہدوں پر تھے اور مجھے گیارہ آدمیوں کی ایک ٹیم بھجوائی اور لکھا پاکستان کیلئے جتنے عہدوں پر جرمن رکھنے کی ضرورت ہو اُن کے لئے یہ کافی ہیں اور وہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ اُنہوں نے صرف ایک شرط رکھی تھی کہ ہمیں انگریزوں سے ذلیل نہ کروایا جائے بلکہ انگریزوں والی ٹرمز (TERMS) ہمیں بھی دی جائیں تا ہم اُن کے سامنے ذلیل نہ ہوں اِس سے زیادہ ہم کچھ نہیں چاہتے لیکن حکومت نے اُس وقت یہ خیال کیا کہ اگر ہم نے فوج میں جرمن آفیسرز رکھ لئے تو کہیں انگریز ناراض نہ ہو جائے گو یہ تحریک بھی حکومت نے خود کی تھی لیکن جب بعض لوگوں نے اپنی خدمات پیش کیں تو حکومت نے کہہ دیا شکریہ۔ ہم نے اگر انہیں ملازم رکھا تو انگریز خفا ہو جائیں گے۔حکومت پاکستان کے اس رویہ سے اُس دوست کو تکلیف بھی پہنچی لیکن بہرحال اِس بات سے یہ پتہ لگتا ہے کہ اِنہیں اب اِس قدر احساس ہوچکا ہے کہ وہ سیاسی طو رپر بھی مشکلات کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لئے اپنا روپیہ خرچ کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
میں سمجھتا ہوں ایک اَور بھی چیز ہے جو ہمیں بھولنی نہیں چاہئے اور وہ یہ ہے کہ بیرونِ ممالک میں جو لوگ احمدی ہوں گے وہ اُردو زبان بھی سیکھیں گے اِس لئے اشاعت احمدیت سے اُردو زبان کو بھی بہت زیادہ تقویت پہنچے گی۔ انڈونیشیا میں ہمارا مشن قائم ہے۔ وہاں جو لوگ احمدی ہوئے اُن میں سے بعض نے اُردو زبان سیکھی اور پھر بعض نے اپنے بچوں کو قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھی بھیجا۔ مشرقی افریقہ میں اُردو جاننے والوں میں اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو احمدی ہیں۔ بعض لوگ ایسے تھے جو اُردو زبان کے بہت ہی مخالف تھے۔ ایک دوست ابوالہاشم صاحب تھے انہیں احمدی ہونے سے قبل صرف احمدیت سے ہی نفرت نہیں تھی بلکہ وہ اُردو زبان کو بھی سننا نہیں چاہتے تھے۔ وہ جب احمدی ہوئے تو اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب پڑھنے کے لئے بڑھاپے میں اُردو زبان سیکھی اور پھر اپنے بچوں کو بھی سکھائی۔ اسی طرح عرب ممالک سے بھی بعض دوست آئے ہیں اور اُنہوں نے اُردو زبان سیکھی۔ مسٹر بشیر احمد آرچرڈ انگلینڈ سے آئے اور اُنہوں نے اُردو زبان سیکھی اور مسٹر کنزے جرمنی سے آئے ہیں وہ بھی اُردو زبان سیکھیں گے۔ پس میں سمجھتا ہوں کہ احمدیت کی اشاعت کے ساتھ ساتھ اُردو زبان بھی پھیلتی جائے گی۔ یہ لوگ جب واپس جائیں گے اور چونکہ اِن میں دوسری زبان سیکھنے کا بہت شوق ہوتا ہے اس لئے یہ اپنے دوسرے دوستوں کو بھی اُردو سکھائیں گے اور یہ چیز اُردو زبان کی ترقی کا موجب ہوگی اور لازماً پاکستان کے تعلقات بھی اُن ممالک سے گہرے ہو جائیں گے۔
ہمارے ملک میں یہ سوال عام طور پر پایا جاتا ہے کہ آیا اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا جائے یا انگریزی زبان کو بھی ذریعہ تعلیم بنایا جائے؟ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر اُردو زبان کو ذریعہ تعلیم بنایا گیا تو پاکستان تمام ممالک سے کٹ جائے گا۔ ذریعہ تعلیم اُسی زبان کو ہی بنانا چاہئے جسے دوسرے لوگ بھی سیکھیں۔ احمدیت کی اشاعت سے یہ سوال بھی حل ہو جائے گا۔ احمدیت کی وجہ سے اُردو زبان دوسرے ممالک میں پھیل رہی ہے اور اِنْشَائَ اللّٰہ ایک دن ایسا آئے گا جب پاکستان کا ہر ایک آدمی یہ سمجھنے لگ جائے گا کہ ہمیں کسی فارن لینگویج FORIEGN LANGUAGE) ) یا اُردو زبان کے علاوہ کسی اَور زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کی ضرورت نہیں۔
شیخ بشیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ لاہور نے یہ خواہش کی ہے کہ مسٹر کنزے ایسا نمونہ پیش کریں کہ یہاں کے نوجوانوں میں بھی بیداری پیدا ہو جائے اور وہ اپنی زندگیاں خدمت دین کیلئے وقف کریں۔ مسٹر کنزے میرے روحانی فرزند ہیں اور مجھے اِن سے بے حد محبت ہے لیکن میں چاہتا ہوں کہ جو لوگ یہاں رہتے ہیں وہ نمونہ دکھائیں اور مسٹرکنزے اِس کی اتباع کریں۔ ابتداء ہم میں ہوئی ہے اِس لئے ہم پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ بیشک ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بھائی بنیں لیکن یہ کہ اُن سے خواہش کی جائے کہ وہ ہمارے لئے نمونہ بنیں درست نہیں۔ ہمیں اپنا نمونہ پیش کرنا چاہئے تا وہ ہم سے اچھا نمونہ لے کر اپنے ملک میں واپس جائیں اور اپنے ملک والوں سے کہیں کہ تم اسلام کو قبول نہ کر کے ایک قیمتی چیز سے محروم ہو رہے ہو۔ اسلام کو قبول کرو تا تمہارا دین بھی درست ہو اور تمہاری دنیا بھی درست ہو۔
(غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
تیسری تقریر
(فرمودہ ۳ فروری ۱۹۴۹ء بمقام سیالکوٹ)
(دعوتِ عصرانہ از جماعت احمدیہ سیالکوٹ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’مسٹر کنزے برلن سے تشریف لائے ہیں یہ ہٹلر کی فوج میں ملازم رہے ہیں اور افریقہ کے میدانوں میں پہلے انگریزوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں اور پھر امریکنوں اور انگریزوں دونوں کے خلاف لڑتے رہے ہیں۔ غالباً یہ الجیریا میں قید ہوئے اور اِن کو امریکہ لے جایا گیا۔ وہاں اِن کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ عیسائیت دنیا میں امن قائم کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اس لئے دوسرے مذاہب پر غور کرنا چاہئے اور ایسا مذہب تلاش کرنا چاہئے جس سے دل تسلی پا سکے اور دنیا میں امن قائم ہو۔ چنانچہ اِنہوں نے دوسرے مذاہب کی کتب کا مطالعہ شروع کیا اور اُن کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ اِسی دوران میں انہیں انگلستان بھجوا دیا گیا۔ انگلستان پہنچنے کے بعد اتفاقاً اِن کو لندن مشن کا پتہ معلوم ہوا اور اِنہوں نے وہاں کے موجودہ امام چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ سے جو اتفاقاً سیالکوٹ کے ہی رہنے والے ہیں اور نواب محمد الدین صاحب کے بھتیجے ہیں اسلام کے متعلق معلومات حاصل کیں۔ اُنہوں نے فوراً اسلامی لٹریچر بھجوا دیا اور اسلام کے متعلق ضروری کوائف بہم پہنچائے۔ چوہدری صاحب نے گورنمنٹ کے افسران سے مل کر اِنہیں بعض دنوں میں مسجد میں آنے کی بھی اجازت لے دی۔ انگلستان میں دوسرے ممالک کی نسبت بہت زیادہ حوصلہ پایا جاتا ہے یہاں تک کہ امریکہ سے بھی جو ڈیماکریسی کا سب سے زیادہ حامی ہے زیادہ حوصلہ ہے۔ چوہدری صاحب کی تحریک پر گورنمنٹ کے افسران نے کہا کہ اگر مسٹر کنزے کو اسلام کی تحقیق کا شوق ہے تو وہ پولیس کی نگرانی میں مسجد میں چلے جایا کریں اور پولیس کی نگرانی میں واپس آ جایا کریں۔ چنانچہ یہ وقتاً فوقتاً مسجد میں آتے رہے اور اسلام کے متعلق حالات معلوم کرتے رہے۔ دو تین ملاقاتوں کے بعد ہی اِنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ جہاں تک اسلام کے متعلق میں علم حاصل کر سکا ہوں اُس کے مطابق اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے اور اِس کے ذریعہ ہی دنیا روحانی طو رپر تسلی پا سکتی ہے۔ چنانچہ اِنہوں نے جلد ہی اسلام قبول کر لیا اور میں نے اِن کانام عبدالشکور رکھا۔ یہ نام میں نے اِس لئے رکھا کہ میں نے ایک دفعہ رؤیا میں دیکھا تھا کہ میں ایک علاقہ میں جا رہا ہوں (میں ساری رؤیا کو تو بیان نہیں کرتا صرف اس کا وہ حصہ بیان کر دیتا ہوں جس کا اِن کے ساتھ تعلق ہے) وہاں میری تبلیغ کے ذریعہ کچھ لوگوں نے جو یوروپین معلوم ہوتے ہیں اسلام قبول کر لیا اور جب کچھ لوگ اسلام میں داخل ہوگئے تو میں نے اُن میں سے ایک شخص کو چنا جس کا نام میں نے عبدالشکور رکھا اور میں نے اُسے کہا اے عبدالشکور! میں ابھی اور آگے جانا چاہتا ہوں میں تمہیں اِس علاقہ میں اپنا قائمقام مقرر کرتا ہوں تم ان لوگوں میں اسلام پھیلاؤ اور اُنہیں توحید خالص کی طرف بُلاؤ۔ یہ کہہ کر میں آگے چلا جاتا ہوں اُسی وقت مجھے خیال آیا کہ یہ علاقہ اٹلی یا جرمنی کا ہے۔ اس خیال سے کہ جرمنی کے ساتھ لڑائی ہو رہی تھی میں زیادہ تو یہی سمجھتا تھا کہ وہ علاقہ اٹلی کا ہے لیکن چونکہ اتفاق سے جرمنی میں سب سے پہلے مسٹر کنزے ایمان لے آئے اِس لئے میں نے ان کا نام عبدالشکور رکھا کیونکہ بظاہر ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے جن سے میں نے یہ سمجھا کہ شاید وہ شخص جسے میں نے خواب میں قائمقام مقرر کیا تھا یہی ہے۔
اسلام میں داخل ہونے کے تھوڑے ہی دنوں بعد مسٹر عبدالشکور کنزے نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ عیسائیت سے اِس حد تک متنفر ہیں کہ وہ اب اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کر دینا چاہتے ہیں ابھی اِنہوں نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ یہ آزاد کر دیئے گئے اور جبری طور پر اِنہیں واپس جرمنی بھیج دیا گیا۔ جرمنی پہنچ کر اِنہوں نے یہ لکھنا شروع کیااور اصرار کیا کہ میں اسلام کی خدمت کرنا چاہتا ہوں میرے لئے انتظام کیا جائے کہ کسی طرح میں پاکستان پہنچ کر دینی تعلیم حاصل کر سکوں اور پھر اپنے وطن واپس آ کر اسلام کی تبلیغ کروں۔ برلن کے بارہ میں فرانس، روس، امریکہ اور انگلستان کے اختلافات کی وجہ سے جلد کوئی انتظام نہ ہو سکا لیکن کافی خط و کتابت کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اِنہیں یہاں آنے کی اجازت دی جائے۔ یہ پہلے فرنچ علاقہ سے روسی علاقہ میں آئے اور وہاں سے سوئٹزرلینڈ پہنچے پھر وہاں سے آہستہ آہستہ پاکستان پہنچے۔
جہاں تک اِن کے اخلاص کا تعلق ہے اِس کا ایک چھوٹے سے واقعہ سے پتہ لگ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جب مشرقی پنجاب میں فسادات ہوئے اور اِنہیں خبر پہنچی کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے تو اِن کے متواتر خطوط آنے لگے اور اِنہوں نے بار بار سوئٹزرلینڈ کے مبلغ کو لکھا (ہمارا جرمنی کے قریب ترین مشن سوئٹزرلینڈ کا ہے اور وہاں کے مبلغ انچارج سے ہی یہ خط و کتابت کرتے رہے)کہ کسی نہ کسی طرح مجھے قادیان پہنچانے کا بندوبست کیا جائے تا میں اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر اسلام کے لئے لڑوں اور قادیان کی حفاظت کروں۔ یہ ایک نہایت ہی نیک جذبہ تھا جو ایک یوروپین اور خاص کر ایک جرمن کے دل میں پیدا ہوا۔ انگلستان کو تو چھوڑو کیونکہ اُس کے متعلق ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک ہندوستان پر حکومت کرنے کی وجہ سے ان کے اندر مسلمانوں کے متعلق ہمدردی کا جذبہ پایا جا سکتا ہے لیکن ایک جرمن کے متعلق خصوصاً اُن کی علمی فوقیت کی وجہ سے جو اُنہیں تمام ممالک پر حاصل ہے یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اُن کے اندر اسلام کی خدمت کے لئے اتنی تڑپ پائی جاتی ہو۔ ایک جرمن کے ان جذبات سے پتہ لگتا ہے کہ اُس کے اندر اسلام کی محبت اِس قدر رچ چکی ہے کہ اُس کے اندر بیتابی پائی جاتی ہے کہ کسی طرح وہ اسلام کے مصائب میں شریک ہو سکے۔ مسٹر کنزے معمولی انگریزی جانتے تھے لیکن بہرحال انگریزی میں اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اب ان کا ارادہ ہے کہ پاکستان میں رہ کر دینی تعلیم حاصل کریں اور چونکہ اِنہیں اُردونہیں آتی اس لئے پہلے یہ کوشش کی جائے گی کہ اِنہیں اُردو زبان سکھائی جائے تا یہ عام گفتگو سمجھ سکیں اور دینی تعلیم میں جلد از جلد ترقی کر سکیں۔ چنانچہ اب یہ اُردو زبان سیکھ رہے ہیں۔
آج آپ لوگوں نے اِن سے سورۃ فاتحہ سُنی ہے لاہور میں یہ سورۃ فاتحہ زیادہ اچھی طرح پڑھ سکتے تھے لیکن سیالکوٹ چونکہ اِن کے لئے ایک نئی جگہ ہے اس لئے یہاں یہ گھبرا گئے ہیں اور گھبراہٹ کی وجہ سے ایک آیت کی آیت ہی چھوڑ گئے ہیں۔ لاہور میں یہ سورۃ فاتحہ زیادہ اچھی طرح پڑھتے تھے۔ صرف اتنا فرق تھا کہ یہ کی دال چھوڑ دیتے تھے اور میں چھوڑ جاتے تھے۔ اب یہ ٹھیک پڑھنے لگ گئے تھے لیکن آج نئی جگہ ہونے کی وجہ سے گھبرا گئے اور اِس گھبراہٹ کی وجہ سے ایک آیت کی آیت ہی چھوڑ گئے۔ ویسے یہ ساری نماز عربی میں پڑھتے ہیں۔ سوائے اِس کے کہ کہیں کہیں غلطی کر جاتے ہیں۔
میرا منشاء ہے کہ ہم اِنہیں عملی طور پر اسلام سکھائیں، دینی مسائل سکھائیں اور قرآن کریم پڑھا کر اسلام کا مبلغ بنائیں۔ ان کے اسلام لانے کے بعد جرمن لوگوں میں اسلام کی طرف اَور زیادہ رغبت پیدا ہوگئی ہے اور کچھ اَور لوگ بھی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں۔ مسٹر کنزے برلن کے رہنے والے ہیں اور دوسرے لوگ ہمبرگ کے رہنے والے ہیں۔ کچھ اَور نوجوانوں میں بھی اسلام کی طرف رغبت پیدا ہو رہی ہے۔ اُن لوگوں میں جو اسلام میں داخل ہوئے ہیں ایک دوست عبداللہ کوہنے بھی ہیں۔ وہ بھی پہلے قید رہے ہیں وہ جزیرہ سائپرس میں قید تھے وہاں اُنہیں ایک مسلمان مل گیا وہ صوبیدار تھا اور شاید جیل خانہ پر اُس کی ڈیوٹی تھی۔ اُس صوبیدار سے اِن کی گفتگو ہوتی رہی اور آخر کار وہ اسلام کی طرف مائل ہوگئے۔ وہ صوبیدار صاحب اِن سے پہلے ہی وہاں سے کہیں دوسری جگہ تبدیل ہو کر چلے گئے اِنہوں نے وہاں سے خط لکھا مجھے بھی اور لندن مشن کے مبلغ کو بھی کہ میرا ایک مسلمان دوست تھا جس سے اسلام کے متعلق میری گفتگو ہوتی رہتی تھی اب وہ میرے پاس نہیں ہے۔ مجھے اسلام سے رغبت ہوگئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ مجھے اُس دوست کا پتہ مل جائے اور میں اسلام کے نقطۂ نگاہ کے لحاظ سے اُس پر غور کروں۔ ہم نے اِنہیں اُس صوبیدار کا پتہ بھجوایا۔ وہ جرمن دوست مسٹر کنزے سے زیادہ تعلیم یافتہ ہیں۔ اِن کا پیشہ ہی جرنلزم ہے وہ ایک رسالے کے ایڈیٹر ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں اور اُ ن کی بیوی بھی کئی کتابوں کی مصنف ہے۔ وہ چھ سات زبانیں جانتے ہیں اور اُن کی بیوی بھی کئی زبانیں جانتی ہے۔ ہم نے اُن سے خط و کتابت شروع کی۔ تھوڑے ہی عرصہ کے بعد وہ مسلمان ہو گئے۔ ان کے بعد اَور بھی کچھ دوست مسلمان ہوئے۔ اب جرمنی میں دو جماعتیں قائم ہیں۔ برلن تو مسٹر کنزے کے یہاں آجانے کی وجہ سے خالی ہو گیا ہے لیکن ہمبرگ میں گیارہ بارہ احمدی ہیں اور تازہ خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمن لوگوں کے اندر اسلام کے متعلق خاص طور پر رغبت پائی جاتی ہے اور وہ اسلام کی تحقیق کر رہے ہیں۔ مسٹر عبداللہ کوہنے نے بھی اپنی زندگی وقف کر دی ہے اور اُن کی بیوی نے بھی۔ وہ دونوں پاکستان آنا چاہتے ہیں اور یہاں آ کر دینی تعلیم حاصل کریں گے۔ مسٹر عبداللہکوہنے ایک عالم آدمی ہیں اور آجکل قرآن کریم کے جرمن ترجمے پر نظر ثانی کر رہے ہیں چونکہ وہ ترجمہ ایسے لوگوں نے کیا تھا جو عیسائی تھے اُن کے خیالات اسلام سے ہمدردانہ نہیں تھے اِس لئے ہو سکتا ہے کہ ترجمہ کرتے وقت اُنہوں نے کوئی غلطی یا کوتاہی کی ہو۔ مسٹر عبداللہ کوہنے نے اپنے آپ کو اِس کام کے لئے آفر (OFFER) کیا ہے۔ اب تجویز ہے کہ وہ پہلے انگلینڈ آئیں اور قرآن کریم کے جرمن ترجمے کو رِیوائز (REVISE) کریں۔ جب وہ یہ کام ختم کرلیں گے توپھر پاکستان آ جائیں گے۔
بہرحال اللہ تعالیٰ نے یہ سلسلہ جرمنی میں اسلام کی اشاعت کے لئے کھولا ہے اور جیسا کہ مسٹر کنزے کا خیال ہے اور مسٹر کوہنے کا بھی (مسٹر کوہنے اٹلی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہاں علماء اور پروفیسروں سے اُن کا میل جول تھا) کہ جرمن قوم اسلام کی طرف بہت جلد مائل ہو سکتی ہے وہ کہتے ہیں کہ سب سے بڑی چیز جو جرمن قوم میں پائی جاتی تھی وہ مادیت ہے اور اس میں وہ بالکل ناکام رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب اُن کی تسلی کے لئے کسی اَور چیز کی ضرورت ہے اور وہ چیز مذہب ہی ہے اور چونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب اِنہیں صرف مذہب ہی تسلی دے سکتا ہے اِس لئے اِنہیں جتنی بھی تبلیغ کی جائے بہتر ہے اس طرح وہاں اسلام کے لئے رستہ کھل جائے گا۔ اِنہیں عیسائیت سے نفرت ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ تمام یورپین اُن کے خلاف تھے اور وہ کہتے تھے کہ وہ کرسچین سویلزیشن کو بچانے کے لئے لڑ رہے ہیں۔ اس لئے یہ لفظ کسی حدتک انہیں بھیانک معلوم ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عیسائیت ہی اُن کی تباہی کا موجب ہوئی ہے اِسی لئے وہ کسی اور مذہب کی تلاش میں ہیں جس کے ذریعہ وہ ترقی کر سکیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ جب یہ لوگ اسلام کو قبول کر لیں گے تو وہ اِس کے لئے بہت قربانیاں کریں گے۔
چند دن ہوئے مجھے اطلاع ملی تھی کہ اب ہمارا مبلغ بھی وہاں پہنچ گیا ہے۔ پہلے تو ہمارے مبلغ کو وہاں جانیکی اجازت نہیں ملتی تھی اور یہ کہا جاتا تھا کہ غیر کو اِس ملک میں آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم نے برطانیہ پر زور دیا کہ جب تمہارے پادری وہاں جاتے ہیں اور تم کہتے ہو کہ مذہب کے بارہ میں کلی طور پر آزادی ہونی چاہئے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنا مبلغ وہاں نہیں بھیج سکتے۔ اِس چیز کا تو وہ کوئی جواب نہ دے سکے لیکن اُنہوں نے یہ بہانہ بنایا کہ ہمارے پادری جو وہاں جاتے ہیں اُن کے راشن اور مکانوں کاانتظام ملٹری کرتی ہے اگر آپ کا مبلغ وہاں گیا تو وہ کہاں رہے گا اور کہاں سے کھائے گا؟ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ وہاں مکانوں کی قلت ہے اکثر مکانات گرائے جا چکے ہیں اور راشن کی بھی دقت ہے۔ چنانچہ ہم نے اپنے نَومسلموں سے خط و کتابت کی۔ اُنہوں نے لکھا کہ اگر مستقل طور پر نہیں تو عارضی طور پر دس یا پندرہ دن کے لئے تو وہ ہمارے ہاں مہمان رہ سکتے ہیں۔ یہ وہ چیز تھی کہ جس کی وجہ سے وہ کوئی اور حیلہ پیش نہ کر سکے اور پچھلے سال ہی اُنہوں نے ہمارے مبلغوں کو ہر تین ماہ میں پندرہ دن وہاں رہنے کی اجازت دے دی اور ہمارے مبلغ وہاں باری باری جاتے رہے اب جب کہ یہ فیصلہ ہو گیا ہے کہ مغربی جرمنی کا انتظام جرمنی کے سپرد ہی کر دیا جائے ہمیں خیال پیدا ہوا کہ اگر اِس فیصلہ پر عمل شروع ہو گیا تو پھر ہمیں اپنا مبلغ وہاں بھیجنا مشکل ہو جائے گا کیونکہ پھر یہ بہانہ لگا دیا جائے گا کہ جرمن لوگ آپ کے مبلغوں کو نہیں آنے دیتے۔ ہم نے کوشش کی کہ اس عرصہ میں ہمارے لئے کوئی رستہ کھل جائے۔ چنانچہ اب اطلاع آئی ہے کہ ہمارا ایک مبلغ وہاں پہنچ گیا ہے۔ مسٹر عبداللہ کوہنے نے لکھا تھا کہ مکان کا بندوبست ہو گیاہے اس لئے اب کسی کو اعتراض کی گنجائش نہیں۔ یہ مشن ہیمبرگ میں کھولا گیا ہے۔ برلن میں مشن قائم کرنے میں بہت سی مشکلات تھیں اس لئے وہاں مشن نہیں کھولا گیا۔
بہرحال میں نے آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ جرمنی کے علاقہ میں لوگ کس طرح مسلمان ہو رہے ہیں اور کس طرح وہاں اُنہیں اسلام کی طرف رغبت پیدا ہوئی ہے۔ جو قربانی اور کام کی روح ان لوگوں میں پائی جاتی ہے اِس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ جب یہ لوگ اسلام قبول کریں گے تو اسلام کے لئے یہ ویسی ہی قربانیاں کریں گے جس طرح یہ لوگ دنیا کے لئے قربانیاں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مثلاً مسٹر کنزے ہیں۔ اِنہیں ہمیشہ یہ احساس رہتا ہے کہ جو کام تم دوسرے سے لیتے ہو وہی مجھ سے لو۔ مسٹر کنزے جب لندن میں تھے تو وہاں کے مشنریوں کی اطلاع تھی کہ یہ ہمیشہ اصرار کرتے تھے کہ جو کام آپ کرتے ہیں وہی کام میں بھی کروں گا۔ وہ مہمان سمجھ کر اِن کا لحاظ کرتے تھے لیکن اِن کی طرف سے ہمیشہ یہ اصرار ہوتا تھا کہ میں ویسے ہی یہاں رہوں گا جس طرح آپ لوگ آپس میں مل جل کر رہتے ہیں۔ ان کا لباس بھی سادہ تھا اور یہ چاہتے ہیں کہ اپنے ہرکام کو ہمارے طریق پر کریں۔ جب ہم لاہور سے سیالکوٹ آ رہے تھے۔ بارش ہو رہی تھی ہم اپنا کھانا ساتھ لائے تھے اور یہاں بھی ہم نے اطلاع دے دی تھی کہ کھانے کا انتظام ہم نے کیا ہوا ہے رستہ میں ہم ایک جگہ پر رُکے۔ مجھے علم تھا کہ ہمارے پاس کوئی تھال وغیرہ نہیں۔ میں نے کہا۔ مسٹر کنزے آج آپ کو پاکستانی طرز پر ہی کھانا کھانا پڑے گا اور ہم بڑی بے تکلفی سے روٹی پر ہی سالن ڈال کر کھا لیتے ہیں۔ مسٹر کنزے نے کہا ہاں میں پاکستانی طرز پر ہی کھاؤں گا بلکہ اِنہوں نے کہا۔ جرمن قوم میں بھی اتنا تکلف نہیں پایا جاتا۔ پھر مجھے معلوم ہوا تھالیاں بھی ہمارے ساتھ ہیں اور ہم نے تھالیوں میں سالن ڈال کر کھانا کھایا لیکن یہ ہاتھ پر ہی روٹی رکھ کر کھانے کو تیار تھے۔ باقی امور میں بھی یہ نقل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان میں اخلاص بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ نماز کے بھی پابند ہیں اور زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہر ایک بات کے متعلق پوچھتے رہتے ہیں۔
انگلستان کی نسبت جرمن اسلام کی طرف بہت زیادہ راغب معلوم ہوتے ہیں۔ انگلینڈ میں ہمارا مشن ۱۹۱۸ء سے قائم ہے اور اِس تیس سال کے عرصہ میں ہم متواتر ناکام رہے ہیں۔ یوں تو بعض لوگ اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں لیکن اسلامی روح اُن میں پیدا نہیں ہوئی۔ وہ صرف ایک سوسائٹی سمجھ کر اسلام میں داخل ہو جاتے ہیں اور نام کے مسلمان ہو جانے کے بعد سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اسلام پر بہت زیادہ احسان کر دیا ہے اب ہم سے کسی مزید قربانی کی کوئی خواہش نہیں کر سکتا۔ کبھی کوئی جمعہ پڑھ لیا یا کسی عید میں آ گئے تو اور بات ہے۔ بہرحال اُن میں اسلام کی زیادہ رغبت نہیں پائی جاتی بلکہ بعض تو چار چار پانچ پانچ سال کے بعد کبھی کبھی آ جاتے ہیں۔ انگلینڈ سے ۳۰ سال کے بعد ہمیں ایک آدمی ملا جس کے اندر اسلام کی حقیقی روح پائی جاتی تھی مگر جرمنی میں وہ پہلے سال ہی مل گیا۔ انگلینڈ میں ۳۰ سال کی متواتر کوششوں کے بعد ہمیں بشیر احمد آرچرڈ ملے۔ وہ یہاں فوج میں ملازم تھے اور اپنی ملازمت کے دوران میں ہی وہ مسلمان ہوئے۔ بشیر احمد آرچرڈ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے اسلام کو صحیح طور پر عمل کے لئے قبول کیا بعد میں اُنہوں نے ملازمت چھوڑ دی اور حصولِ تعلیم کے سلسلہ میں قادیان میں بھی رہے۔ وہ جتنی دیر قادیان رہے میں نے دیکھا کہ وہ تہجد گزار تھے، نمازوں کے وہ بڑے پابند تھے، اُن کے اعمال میں ہر طرح سادگی پائی جاتی تھی اور اِس وقت وہ ہماری طرف سے انگلینڈ میں مبلغ مقرر ہیں۔ اُن کے اندر اِس قدر اخلاص پایا جاتا ہے جو انگلستان کے لئے غیر معمولی ہے اُن کے پاس روپیہ نہیں۔ ہم اپنے مبلغ کو اتنا کم خرچ دیتے ہیں کہ وہ بمشکل اپنا پیٹ بھر سکتا ہے حتیّٰ کہ ایک کیپٹن نے جو جہلم کی طرف کے رہنے والے تھے اور احمدی نہیں تھے مجھ سے شکایت کی کہ میں ملایاؔ میں تھا میں نے وہاں آپ کے مبلغوں کو دیکھا ہے آپ اپنے مبلغوں پر ظلم کرتے ہیں اور اُنہیں اتنا کم خرچ دیتے ہیں کہ وہ اپنا پیٹ بھی نہیں بھر سکتے ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے چپڑاسیوں کی حالت بھی اُن سے اچھی ہے۔ میں نے اُنہیں جواب دیا آپ کی ہمدردی کا شکریہ۔ ہم اگر اپنے مبلغوں کو آپ کے خیال کے مطابق خرچ دیں تو ساری دنیا میں تبلیغ کیسے کریں؟ اگر ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرنی ہے تو یہ اس طرح ہی ہو سکتی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک فرد قربانی کرے۔ جو لوگ تبلیغ کے لئے باہر نہیں جا سکتے وہ روپیہ دیں اور جو باہر جا سکتے ہیں وہ جائیں اور کم خرچ میں گزارہ کریں۔ بشیر احمد آرچرڈ کے متعلق معلوم ہوا ہے کہ وہ اگر کوئی پمفلٹ شائع کرنا چاہتے ہیں اور اُن کے پاس خرچ نہیں ہوتا تو وہ بجائے مرکز سے خرچ مانگنے کے وہاں مزدوری کرلیتے ہیں۔ کسی جگہ اگر مزدوری کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ وہاںچلے جاتے ہیں اور آٹھ دس دن کام کرتے ہیں اور پھر اُس آمد سے پمفلٹ شائع کرتے ہیں۔ یہ اِس قسم کی قربانی ہے جو شاید کسی ہندوستانی یا پاکستانی میں بھی نہیں پائی جاتی۔ ہندوستانیوں اور پاکستانیوں میں یہ روح نہیں پائی جاتی کہ وہ دین کے لئے اِس قدر قربانی کریں۔ بوریاں اُٹھائیں اور اُن کی آمد سے پمفلٹ شائع کریں۔ اُن کی سادگی کا یہ نتیجہ ہوا ہے کہ انہیں دیکھ کر باقی نَومسلموں کے اندر بھی قربانی کی روح پیدا ہوگئی ہے۔
میرا ارادہ تھا کہ بشیر احمد آرچرڈ قادیان میں رہ کر اچھی طرح دینی تعلیم حاصل کریں اور اُن کی شادی بھی کسی ہندوستانی لڑکی سے کر دی جائے لیکن مشرقی پنجاب کے فسادات کی وجہ سے انہیں مزید تعلیم نہ دے سکے اور ہم نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ وہ یہاں رہیں بلکہ واپس انگلینڈ چلے جائیںاور کام کریں۔ جتنی تعلیم اُنہوں نے حاصل کی ہے اتنی ہی کافی ہے اور اگر کوئی کسر رہ گئی تو وہاں ہمارے مشنری پوری کر دیںگے۔ چنانچہ میں نے انہیں انگلینڈ بھیج دیا اور اُن کی شادی کی تجویز رہ گئی۔ اب میں نے ان پر زور دیا کہ وہ وہاں شادی کر لیں۔
انگریز نَو مسلم جو اَب تک اسلام میں داخل ہوئے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ رسوم کو اُسی طرز پر جاری رکھیں جس طرز پر پہلے ہوا کرتی ہیں۔ خربوزہ خربوزے سے رنگ پکڑتا ہے۔ بشیر احمد آرچرڈ انگلینڈ گئے تو انہیں دیکھ کر باقی انگریر نَو مسلموں کی روحانی حالت بھی بدلنی شروع ہوئی۔ مبلغ تو ہمارے وہاں دیر سے گئے ہوئے ہیں لیکن وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ہندوستانی ہیں ان کی تہذیب علیحدہ ہے، ان کا تمدن علیحدہ ہے، یہ لوگ تو ایسا کام کرنے کے عادی ہیں اِس لئے وہ اُن کی قربانیوں کو دیکھ کر ان کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے لیکن جب بشیر احمد آرچرڈ وہاں گئے اور اُن کی قربانیوں کو باقی انگریز نَو مسلموں نے دیکھا تو اُن میں بھی روحانیت پیدا ہونی شروع ہوئی۔ بشیر احمد آرچرڈ مالی لحاظ سے غریب ہیں کیونکہ ہم اپنے مبلغوں کو بہت کم گزارہ دیتے ہیں اِس لئے انہیں بھی بہت کم گزارہ ملتا ہے۔ ہم نے یہ تجویز کی کہ وہ ایک انگریز نَو مسلمہ کے ساتھ جن کے والد مالی دنیا میں اعلیٰ حیثیت رکھتے ہیں اور ایکسچینج کے ممبر ہیں شادی کر لیں۔ انگلستان میں جو شخص ایکسچینج کا ممبر ہوتا ہے اُس کی وہی شان ہوتی ہے جو پارلیمنٹ کے ایک ممبر کی ہوتی ہے۔ ہم نے تجویز کی کہ بشیر احمد آرچرڈ اُس کی لڑکی کے ساتھ شادی کر لیں۔ بشیر احمد آرچرڈ نے کہا میں اسلامی طرز پر ہی شادی کر سکتا ہوں اور کسی قسم کی کورٹ شپ وغیرہ نہیں ہوگی لیکن لڑکی کا باپ اِس بات پر راضی نہ تھا اب اطلاع آئی ہے کہ خیر اللہ ویلز لڑکی کے والد نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اسلامی طرز پر ہی لڑکی کا نکاح کریں گے اور اب جلد ہی اُن کی شادی ہو جائے گی۔ اِس سے پہلے یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ نکاح اسلامی طرز پر کیا جائے گا اور کسی قسم کی کورٹ شپ نہیں ہوگی۔ بہرحال بشیر احمد آرچرڈ کی قربانی کے نتیجہ میں دوسرے لوگوں میں بھی ایک قسم کی بیداری پیدا ہوگئی ہے اور انہیں دیکھ کر میں امید کرتا ہوں کہ اُن کے اندر اسلام کی حقیقی روح پیدا ہو جائے گی اور وہ اسلامی تمدن کے مطابق کام کرنے لگ جائیں گے۔
یہ تو اُن لوگوں کا حال ہوا باقی میں آپ لوگوں کو بھی کہوں گا کہ اگر یورپ میںباوجود مادیت کے ایسے نوجوان پیدا ہوتے ہیں جو اسلامی لباس کو اپنا لیں، اُس کی تعلیم کو اپنا لیں اور اُس پر عمل کریں۔ اگر یورپ میں ایسی عورتیں پائی جاتی ہیں جو اسلام کو اپنالیں اور وہ اُس کی تعلیم پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں تو ہم لوگوں کے لئے جو نسلی مسلمان ہیں یہ کتنا افسوسناک امر ہے کہ ہم اسلام کے مطابق عمل نہ کریںاور ایسا نمونہ پیش نہ کریں جس سے دوسرے لوگ سبق حاصل کریں بلکہ ہم اُس سے دُور جانے اور اسلامی تمدن کے خلاف چلنے کی کوشش کریں۔ آپ نے دیکھا ہے کہ مسٹر کنزے نے اپنا لباس تبدیل کر لیا ہے اور اِنہوں نے ظاہری طور پر بھی اپنے آپ کو اسلام کے مطابق بنانے کی کوشش کی ہے۔ اِن کا لباس ہم نے نہیں بدلوایا اِنہوں نے اپنا لباس خود ہی تبدیل کیا ہے۔ یہ اسلام لائے اور اِنہوں نے مسلمانوں کو دیکھا کہ وہ داڑھی رکھتے ہیں تو اِنہوں نے پوچھا یہ کیا؟ انہیں بتایا گیا کہ مسلمان داڑھی رکھا کرتے ہیں اِس پر اِنہوں نے بھی داڑھی رکھ لی۔ مسٹرکنزے جب کراچی آئے اُس وقت یہ چوہدری ظفراللہ خان صاحب کے مکان پر اُنہیں ملنے کے لئے گئے۔ چوہدری صاحب نے مجھے بتایا کہ میں کہیں باہر گیا ہوا تھا جب میںگھر واپس آیا اور اُس کمرے میں داخل ہوا جس میں مسٹر کنزے اور چند اور دوست بیٹھے ہوئے تھے تو میں اِنہیں پہچان نہ سکا۔ اِن کا لباس بھی اسلامی تھا اور دوسروں کا لباس بھی اسلامی تھا۔ میں حیران تھا کہ میں اِن سب میں سے کس کو مسٹر کنزے سمجھوں کیونکہ مجھے سبھی مسلمان نظر آتے تھے۔ جب مجھے بتایا گیا کہ یہ مسٹر کنزے ہیں تب مجھے اِن کا علم ہوا۔ غرض اِنہوں نے اپنے لباس کو بھی اسلامی بنا لیا ہے اگرچہ اسلام میں کسی مخصوص لباس کی شرط نہیں۔ بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۱؎ جو شخص کسی قوم کی نقل کرتا ہے وہ انہی میں سے ہوتا ہے۔ چاہے لباس اسلام کا کوئی حصہ نہیں لیکن پھر بھی اِن کے لباس بدلنے سے یہ بات تو معلوم ہوتی ہے کہ اِن کے اندر غیرتِ اسلامی پائی جاتی ہے لیکن ہم لوگ بڑی بے تکلفی سے دوسروں کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں۔
میں جب ۱۹۲۴ء میں انگلینڈ گیا اُس وقت سردی کے خیال سے میں چند علی گڑھی طرز کے پاجامے بھی سِلوا کر ساتھ لے گیا۔ میرا ارادہ تھا کہ یہ پاجامے انگلینڈ جا کر پہنوں گا مگر یونہی چند دن تک میں نے وہ پاجامے نہ پہنے۔ ہمارے مبلغ میرے پاس گھبرائے ہوئے آئے اور کہا حضور! یہاں کے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا امام ننگا پھرتا ہے۔ انگلینڈ میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ شخص جس کا کرتا پاجامہ کے اوپر ہو وہ ننگا ہوتا ہے اور چونکہ میرا کرتا اوپر ہوتا تھا اور شلوار نیچے اِس لئے اُنہوں نے میرے متعلق بھی یہی کہنا شروع کیا کہ میں ننگا پھر رہا ہوں۔ میں نے اپنے مبلغ سے کہا میں چند گرم پاجامے ساتھ لایا تو تھا اور میرا ارادہ بھی تھا کہ میں یہاں آ کر وہ پاجامے پہنوں گا مگر اب وہ پاجامے میں نہیں پہنوں گا کیونکہ یہ لوگ مجھے میرے اپنے لباس میں ننگا سمجھتے ہیں کیا میری غیرتِ قومی مجھے مجبور نہیں کرتی کہ میں اپنا لباس ہی رکھوں؟ اگر یہ لوگ ہمارے ملک میں جا کر اپنے لباس کو نہیں چھوڑ سکتے تو میں بھی اِن کے ملک میں آ کر اپنا لباس نہیں چھوڑوں گا۔ اگر یہ لوگ ہمارے ملک میں جا کر ا پنا لباس چھوڑنے پر راضی ہو جائیں تو میں بھی اپنا لباس چھوڑنے پر تیار ہو جاؤں گا۔ لیکن ہمارے مبلغ نے شور مچا دیا کہ حضور! لوگ آپ کو ننگا سمجھتے ہیں۔
سرڈینی سن راس جو وہاں ایک کالج کے پرنسپل تھے ایک دن مجھے ملنے کے لئے آئے۔ اُن کے ساتھ ایک دو اَور پروفیسر بھی تھے میرے اُن سے دوستانہ تعلقات تھے میں نے اپنے دوستانہ تعلقات کی وجہ سے اُن سے کہا کہ میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ کیا آپ مجھے میرے اپنے لباس میں ملبوس ہونے کو بُرا محسوس کرتے ہیں؟ اُنہوں نے کہا اگر آپ نے یہ بات پوچھی ہے تو میں آپ کو بتا ہی دیتا ہوں کہ ہم واقعی اِس چیز کو بُرا محسوس کرتے ہیں۔ سر ڈینی سن راس ایک وقت تک علیگڑھ میں بھی پرنسپل رہے تھے میں نے پوچھا جب آپ ہندوستان گئے تھے تو کیا آپ ہمارا لباس پہنا کرتے تھے؟ اُنہوں نے کہا۔ نہیں۔ میں نے کہا اگر آپ کو یہ حق حاصل ہے کہ آپ ہمارے ملک میں جا کر اپنا لباس پہنیں تو پھر آپ کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہے پھر آپ ہم سے کیوں نفرت کریں؟ کیا ہمارا حق نہیں کہ ہم بھی آپ کے ملک میں آ کر اپنا لباس پہنیں؟ جب آپ ہمارے ملک میں جا کر ہمارا لباس نہیں پہنتے تو ہمارا بھی یہ حق ہے کہ ہم یہاں آ کر اپنالباس پہنیں۔ اُنہوں نے کہا آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن بہرحال ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی شخص ہمارے ملک میں آ کر اپنا لباس پہنے۔ میں نے کہا اگر ہمارے ملک میں جا کر آپ کو اپنا لباس پہننے کا حق ہے تو یہ حق ہمیں بھی ملنا چاہئے۔ اگر دوسرے شخص کی دلداری مقصود ہو اور اس لئے لباس بدلنا ہو تو پھر دونوں کو اپنا لباس تبدیل کرنا چاہئے۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ ہم آپ کے ملک میں آ کر اپنا لباس بدل دیں تو آپ کا بھی فرض ہے کہ جب ہمارے ملک میں جائیں تو اپنا لباس بدل دیں اور شلوار اور پگڑی پہنیں۔ جس بات کی نسبت آپ اپنی طرف کرنا پسند نہیں کرتے اُس کی نسبت ہماری طرف کرنا آپ کیسے پسند کرتے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم گھاٹے میں رہیں۔اُنہوں نے کہا میں نے یہ تو نہیں کہا۔ میں نے کہا جب ہم ایک ہی جیسے ہیں تو جو چیز آپ مجھ سے کروانا چاہتے ہیں وہ چیز آپ اپنے لئے پسند کیوں نہیں کرتے؟ اگر آپ کو اپنی حکومت کا غرور ہے اور آپ سمجھتے ہیں کہ ہم غلام ہیں اس لئے آپ کے لئے مناسب نہیں کہ ہمارا لباس پہنیںتو میں تو آپ کا غلام نہیں ہوں۔ میں نے اُسے بتایا کہ میں پتلونیں ساتھ لایا تھا لیکن اب جبکہ مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ آپ کا یہ رویہ غرور کی وجہ سے ہے تو میں اب وہ نہیں پہنوں گا۔ غرض وہ لوگ مجھے ننگا کہتے رہے لیکن میں نے اپنالباس نہ چھوڑا۔
پس ہمارے اندر خودداری کا احساس ہونا چاہئے اور ہمیں اپنی قومی پوزیشن کو قائم رکھنا چاہئے تا کہ دوسرے لوگ ہماری اتباع کریں۔ اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمارا مستقبل کسی صورت میں روشن نہیں ہو سکتا اس لئے کہ ہمارے اندر بلند خیالی نہیں پائی جاتی۔ ہماری قومی روح کو کچلنے کے لئے انگریزوں نے ہمارے تاریخی واقعات کو بگاڑ کر پیش کیا ہے۔ وہ بادشاہ تو زندہ نہیں تھے لیکن اُن کی غرض یہ تھی کہ وہ ہمارے ماضی کی روایات کو غلط رنگ میں پیش کریں تاقومی روایات اپنے صحیح رنگ میں ہمارے سامنے نہ رہیں اور اِس کی وجہ سے ہمارا مستقبل پست ہو اور ہم کوئی ترقی نہ کر سکیں۔ آپ لوگ کسی ملک میں چلے جائیں آپ دیکھیں گے کہ سارے کے سارے ملک کا لباس ایک ہی طرح کا ہوگا۔ ہاں تھوڑا بہت فرق ضرور ہوگا۔ کوئی شخص کالے رنگ کا سوٹ پہنے ہوئے ہوگا اور کوئی سفید رنگ کے لباس میں ملبوس ہوگا۔ کسی کے ہیٹ کا چھجا چھوٹا ہوگا اور کسی کے ہیٹ کا چھجا بڑا ہوگا لیکن سارے کے سارے ملک کا لباس ایک ہی قسم کا ہوگا۔ یورپ کے کسی اَور ملک میں چلے جائیں وہاں بھی آپ کو ایک ہی قسم کا لباس نظر آئے گا لیکن ہمارا کیا حال ہے؟ سیالکوٹ میں اَور قسم کا لباس ہے، لاہور میں اَور قسم کا لباس ہے بلکہ ہر ضلع کا الگ لباس ہے۔ ایک ہی قسم کا لباس ہونے سے قومی اتحاد پیدا ہوتا ہے لیکن یہاں ہر ضلع میں الگ الگ لباس ہے گویا ہم ایک نیا عالَم ہیں۔ جانوروں میں مشابہتیں پائی جاتی ہیں، جنگل میں بندر بھی پایا جاتا ہے، سؤر بھی پایا جاتا ہے، لومڑ بھی پایا جاتا ہے، کوئی شیر ہوتا ہے اور کوئی چیتا ہوتا ہے لیکن اُن میں سے ایک قسم کی جانوروں کی نسل کو لیا جائے تو سب میں مشابہت پائی جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ مشابہت بہت کم ہے اسی لئے ہمارے دلی اتحاد میں بہت کمزوری پائی جاتی ہے۔
عربوں کو دیکھ لو اُن میں یہ چیز پائی جاتی ہے اُن کا لباس ایک ہی طرح کا ہوتا ہے لیکن یہاں پنجابی لباس میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ دو ضلعوں میں یہ لباس اَور کا اَور ہو جاتا ہے کسی علاقہ میں پاجامہ پہنا جاتا ہے اور کسی علاقہ میں تہہ بند باندھا جاتا ہے اور صوبہ کے کئی حصوں میں دھوتی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ پھر پگڑیوں میں بھی بہت اختلاف ہے۔ غرض ہمارے لباس میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے۔ جوتیوں کو ہی لے لو اُن میں بھی بہت فرق پایا جاتا ہے لیکن یورپین جوتیوں میں بہت کم فرق پایا جاتا ہے۔ عام طور پر وہ ایک سی شیپ کی ہوتی ہیں لیکن یہاں پشاور کی جوتیاں اَور شیپ کی ہوتی ہیں، گجرات کی جوتیاں اَور شیپ کی ہوتی ہیں۔ اِس طرح ظاہر طور پر کوئی ایک چیز بھی ہمارے ملک میں ایسی نہیں پائی جاتی جس سے معلوم ہو سکے کہ ہم میں اتحاد پایا جاتا ہے۔ اِس اتحاد کو پیدا کرنے کے لئے ہمیں اپنے قلب کی صفائی کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے سے پہلے فرمایا کرتے تھے صفیں ٹھیک کر لو ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے۔۲؎ بھلا صفوں کے ٹیڑھا ہونے کا دلوں کے ٹیڑھا ہونے سے کیا تعلق۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ اگر ظاہر ٹھیک نہ ہو تو باطن بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ قومی کیریکٹر بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری زبان ایک ہو، ہمارے لباسوں میں کوئی اختلاف نہ پایا جائے اور جب تک یہ چیز نہ پائی جائے تمام پاکستانی آپس میںمتحد نہیں ہوسکتے۔
اسلام کو اکٹھا کرنے والی خلافت تھی جس سے اِس زمانہ کی مسلمان حکومتیں محروم ہیں۔ کونسا مسلمان ملک ہے جو اپنے بادشاہ کو خلیفہ کا خطاب دے سکے۔ اگر عراق اپنے آپ کو خلافت کا خطاب دے۔ اگر شام اپنے آپ کو خلافت کا خطاب دے یا دوسرے ممالک مثلاً سعودی عرب، شرقِ اُردن، ایران، افغانستان یا پاکستان اپنے آپ کو خلافت کا خطاب دے تو فوراً دوسرے ممالک اُس کے خلاف ہو جائیں گے اور وہ اپنے مُلک اُس کے قبضہ میں دینے سے انکار کر دیں گے۔ وہ چیز جو آج مسلمانوں کو اکٹھا کر سکتی ہے وہ صرف اتحاد ہے۔ اَور تو اَور ہماری علمی زبان میں بھی بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ہمارے بعض ادیب نئی نئی طرزوں اور طریقوں کے ایجاد کرنے میں بہت خوشی محسوس کرتے ہیں اور کہیں کے کہیں چلے جاتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اپنی علمی زبان کو ہی ایک طرز پر چلانے کی کوشش کرتے تو آج ہم میںاختلاف نہ پایا جاتا۔ ہم مسلمانوں نے اُردو زبان میں عربی اور فارسی کے الفاظ ملانے کی کوشش کی اور ہندوؤں نے سنسکرت کے الفاظ گھسیڑنے کی کوشش کی اور اِس طرح ہمارے آپس کی رقابت نے بڑھتے بڑھتے یہ رنگ اختیار کر لیا کہ اُس نے ہمارے دلوں کو پھاڑ دیا۔ بہرحال ہمارے اندر کوئی نہ کوئی ایسی چیز پائی جانی چاہئے جسے دیکھ کر ہر شخص کہہ سکے کہ یہ فلاں مُلک سے تعلق رکھتا ہے۔ مثلاً یورپین اقوام کو لے لو اُن کے لباسوںکو دیکھ کر فوراً دیکھنے والا پہچان لیتا ہے کہ یہ شخص فلاں ملک سے تعلق رکھتا ہے۔ پس میں ضمنی طور پر آپ لوگوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ کوشش کریں کہ ہمارے اندر کوئی نہ کوئی ایسی چیز پائی جائے جسے دیکھ کر ہر شخص کہہ سکے کہ یہ پاکستانی ہے۔ کسی مجلس میں ہم چلے جائیں وہ فوراً ہمیں پہچان کر کہہ دے کہ ہم پاکستان سے آئے ہیں جیسے یوروپین لوگوں کو فوراً پہچان لیا جاتا ہے۔
(غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
۱؎ ہر: HERR۔ جرمن زبان میں مسٹر کے لئے HERR کا لفظ بولا جاتا ہے۔
ابوداؤد کتاب اللباس باب فی لُبس الشھرۃ
۲؎ سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب تسویۃ الصفوف
اللہ تعالیٰ سے سچااور حقیقی تعلق قائم کرنے
میں ہی ہماری کامیابی ہے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اللہ تعالیٰ سے سچااور حقیقی تعلق قائم کرنے
میں ہی ہماری کامیابی ہے
(فرمودہ ۱۷؍فروری ۱۹۴۹ء بمقام راولپنڈی)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
میری اِس وقت آپ لوگوں کو جمع کرنے سے کوئی لمبی تقریر کرنا نہیں بلکہ آپ لوگوں کو اِس وقت یہاں جمع کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ میں بدلے ہوئے حالات کے مطابق آپ کو اپنے فرائض کی طرف توجہ دلاؤں اور چونکہ جماعت کے فرائض عورتوں اور مردوں دونوں پر ایک ہی طرح عائد ہوتے ہیں اِس لئے میں نے خواہش کی کہ اِس موقع پر عورتوں کو بھی ساتھ لایا جائے تا وہ بھی اپنی ذمہ داریوں کے متعلق میرے خیالات سن سکیں اور اگر خداتعالیٰ انہیں توفیق عطا فرمائے تو وہ موجودہ حالات کے مطابق اپنے اعمال کو ڈھال سکیں۔
یہ امرِ واقعہ ہے اور ہر ایک شخص جانتا ہے کہ تقسیم ملک کے نتیجہ میں لاکھوں لاکھ آدمی مشرقی پنجاب سے اُجڑ کر مغربی پنجاب میں آ بسا ہے۔ اِن کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مشرقی پنجاب سے تو نہیں آئے لیکن کشمیر اور جموں سے ہجرت کر کے یہاں آ بسے ہیں اور ان کی تعداد بھی لاکھوں تک جا پہنچی ہے۔ اِس لئے وہ رنگ جو پہلے سوسائٹی کا تھا وہ بدل گیا ہے اور لوگ اِس طرح آپس میں مل جل گئے ہیں کہ اب ان کی ذمہ داریاں اُس قسم کی نہیں رہیں جس قسم کی پہلے تھیں اور ہماری جماعت بھی اس عظیم الشان تغیر سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پہلے بھی جماعتوں میں زیادتی ہوتی رہتی تھی۔ کبھی ایک احمدی ہو گیا اور کبھی چھ سات نئے احمدی ہوگئے لیکن چونکہ یہ تعداد کم ہوتی تھی اس لئے وہ پہلے لوگوں میں اس طرح مخلوط ہو جاتے تھے کہ کوئی تغیر محسوس نہیں ہوتا تھا لیکن اب تو ایسا ہوا کہ جس جماعت کی تعداد پہلے دس پندرہ تھی وہ یکدم پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ بلکہ بعض جگہوں پر اس سے بھی زیادہ ہوگئی۔
راولپنڈی کی جماعت کو ہی لے لو۔ یہ پہلے بہت چھوٹی سی جماعت تھی۔ غالباً پچیس تیس افراد پر مشتمل تھی لیکن اب اِس کی تعداد جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے تین چار سَو کے درمیان ہے اور اگر مستورات اور بچوں کو بھی ملا لیا جائے تو اِس کی تعداد پندرہ سَو یا دو ہزار کے قریب بن جاتی ہے۔ اِس عظیم الشان تغیر کے نتیجہ میں جس بیداری کی ضرورت ہے مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے وہ بیداری ابھی تک اپنے اندر پیدا نہیں کی۔ کسی عورت کے ہاں اگر بیک وقت دو تین بچے پیدا ہو جائیں اور وہ سب زندہ ہوں تو تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ کس طرح والدین ان کے فکر میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ کس طرح ان کی غورو پرداخت میں مشغول رہتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی جماعت کی تعداد تیس سے بڑھ کر یکدم تین چار سَو ہو جائے تو اسی نسبت سے اس کے اندر بیداری کا پیدا ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسے اپنی تنظیم کو زیادہ بہتر بنانا چاہئے، اپنے چندوں کو بڑھانا چاہئے، اپنی قربانیوں کے معیار کو بلند کرنا چاہئے اور پھر سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہئے تا کہ اُس کی زیادہ سے زیادہ تائید حاصل ہو سکے۔
یہ امر یاد رکھو کہ کامیابی کے لئے جن مادی سامانوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے پاس نہیں۔ صرف ایک ہی چیز ہے جو ہمیں محفوظ رکھ سکتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا اور اُسی سے مدد مانگنا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں واضح الفاظ میں فرماتا ہے کہ ۱؎ یعنی کتنی ہی جماعتیں دنیا میں ایسی گذری ہیں جو اگرچہ تعداد میں بہت تھوڑی تھیں لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی بڑی جماعتو ں پر غالب آگئیں۔ مگر یہ مثالیں درحقیقت ایسے ہی لوگوں کی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کیا اور اُس کی تائید اور نصرت سے اُنہوں نے کامیابی حاصل کی۔ ان میں سے بعض مثالیںتاریخی زمانہ سے بھی پہلے کی ہیں جیسے حضرت نوح علیہ السلام ہیں۔ نوح علیہ السلام کی قوم نے باوجود قلیل التعداد ہونے کے فتح پائی۔ اور بعض مثالیں تاریخی دَور کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جیسے داؤد علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، عیسیٰ علیہ السلام اور اِسی طرح اور کئی انبیاء کے واقعات پائے جاتے ہیں جنہوں نے اپنے مخالفین پر فتح پائی حالانکہ اُن کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم نے باوجود قلیل التعداد ہونے کے غلبہ حاصل کیا۔ جہاں تک ظاہری سامان کا تعلق تھا وہ ان کے پاس نہیں تھا لیکن ایک باطنی چیز ایسی تھی جو ساری کی ساری ان کے پاس تھی اور وہ خداتعالیٰ کے ساتھ تعلق تھا۔ گویا دنیا جس میں روح اور مادہ بھی شامل تھا دو حصوں میں منقسم ہوگئی تھی۔ اِن دو حصوں میں سے مادی حصہ تمام کا تمام مخالف کے پاس تھا اور روحانیت سب کی سب اِن کے پاس تھی۔ خداتعالیٰ اِن کی طرف تھا اور روپیہ اور طاقت مخالف کی طرف تھی۔ فرشتے اِن کی طرف تھے اور سامان مخالفوں کی طرف تھا مگر اِس لڑائی میں باوجود اِس کے کہ ایک طرف ظاہری سامان تھے اور دوسری طرف نہیں تھے وہ گروہ جیتا جو قلیل التعداد تھا اور ظاہری سازو سامان سے محروم تھا اور وہ گروہ جو کثیر التعداد تھا اور تمام ظاہری سامان اس کے پاس پائے جاتے تھے وہ ہارا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ فتح کیا تو آپ نے مکہ والوں کو عام معافی دے دی سوائے چند افراد کے جنہوں نے متواتر اور غیر آئینی طور پر اور قوانین حرب کے خلاف بہت سے مسلمانوں کو مروایا تھا۔ صرف ان لوگوں کے متعلق آپ نے فرمایا کہ یہ وارکریمینل (WAR CRIMINAL ) ہیں۔ وارکریمینل کی اصطلاح بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمائی ہے گو پرانی اصطلاح اور موجودہ اصطلاح میں بہت بھاری فرق ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اصطلاح قائم کی وہ محدود اور مفید صورت میں ہے لیکن موجودہ اصطلاح مفید نہیں۔ آجکل کی اصطلاح میں ہر وہ شخص جو اپنی قوم کی طرف سے لڑا اور فوج کا ہیڈ رہا وہ وارکریمینل ہے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے ساتھ ایسی شرائط لگا دی ہیں جن کی وجہ سے اِس کا دائرہ نہایت محدود ہو گیا ہے۔ جنگ کی صورت میں جس شخص نے اپنی فوج کی خدمت کی ہو، جس نے دشمن کے خلاف اپنی قوم کی مدد کی ہو وہ سزا کا مستحق نہیں لیکن ایسا شخص جس نے قوانین حرب کے خلاف، انسانیت کے خلاف غیرآئینی طور پرایسے کام کئے ہوں جو ذاتی حیثیت رکھتے ہوں، صرف اُسے سزا دی جائے لیکن اب وہ شخص بھی جس نے ایک افسر کی حیثیت سے اپنی فوج میں کام کیا ہو یا کسی اَور طرح اپنی قوم کی اُس کے دشمن کے خلاف مدد کی ہو وارکریمینل کی اصطلاح کے نیچے آ جاتا ہے اور یہ بات ایسی ہے کہ اِس سے کوئی سپاہی بھی نہیں بچ سکتا۔ جو قوم بھی غالب آئے گی وہ دوسری قوم کے تمام سپاہیوں کو مارڈالے گی اس لئے کہ وہ وارکریمینل ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پانچ چھ آدمیوں کو (جن میں ایک عورت بھی شامل تھی) اور جنہوں نے اپنی فوج ذمہ داریوں سے باہر جا کر مسلمانوں پر مظالم ڈھائے تھے، موت کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ لوگ قابل معافی نہیں، اِنہیں سزا دی جائے گی۔ اِن لوگوں میں سے ایک ابوجہل کے بیٹے عکرمہ بھی تھے، ایک ابوسفیان کی بیوی ہندہ تھی اور ایک شاعر تھے جنہوں نے قصیدہ بُردہ لکھا ہے۔ مگر اِن لوگوں میں سے بھی اکثریت اُن لوگوں کی ہے جو مسلمان ہو گئے اور اُنہیں معاف کر دیا گیا۔ عکرمہ بھی مسلمان ہوگئے اور انہیں معافی مل گئی۔ وہ شاعر بھی مسلمان ہوگئے اور اُنہیں معاف کر دیا گیا۔ ہندہ بھی مسلمان ہوگئی اور اِس سزا سے بچ گئی۔
ہندہ کی معافی کا واقعہ اِس طرح آتا ہے کہ جب ان کے متعلق سزا کا فیصلہ ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کے متعلق حکم صادر فرمایا کہ چونکہ ہندہ نے غیر آئینی طور پر اور آئین حرب کے خلاف مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے ہیں بلکہ بعض مردوں کی نعشوں کی بے حرمتی کی ہے، ان کے کان کاٹ دیئے ہیں، ان کے ناک کاٹ دیئے ہیں، جگر اور کلیجے نکلوا کر چبائے ہیں اور مختلف قسم کے دیگر انسانیت سوز مظالم کئے ہیں اس لئے اِسے بھی جہاں ملے قتل کیا جائے۔ تو ایک دن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بعض عورتیں بیعت کرنے کے لئے آئیں تو ہندہ بھی چادر اوڑھ کر اُن میں شامل ہوگئی۔ پردہ کا حکم نازل ہو چکا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عورتوں سے بیعت لے رہے تھے تو بیعت کے الفاظ میں یہ الفاظ بھی آتے تھے کہ ہم شرک نہیں کریں گی، تو ہندہ کی طبیعت بڑی تیز تھی وہ جوش میں آ کر کہنے لگی یَارَسُوْلَ اللّٰہ! کیا اب بھی ہم شرک کریں گی؟ ہمارے پاس دنیا کے سب ظاہری سامان تھے، ہمارے پاس طاقت تھی، روپیہ تھا، سامانِ حرب تھا، ہماری تعداد زیادہ تھی، تجربہ کار جرنیل ہمارے پاس تھے، قوم ہمارے ساتھ تھی، ملک ہمارے ساتھ تھا یہ ساری چیزیں جو بظاہر جنگ میں فتح حاصل کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں ہمارے پاس موجود تھیں، پھر آپ اکیلے تھے، آپ کے پاس طاقت نہیں تھی، ظاہری سامان نہیں تھے مگر آپ جیت گئے ہم ہار گئے۔ اگر ہمارے بتوں میں طاقت ہوتی تو کیا ہم ہار سکتے تھے؟ ہمارے پاس سب کچھ تھا لیکن باوجود اِس کے ہم ہار گئے اور آپ میں طاقت نہیں تھی، آپ کے پاس سامان نہیں تھا، سامانِ حرب نہیں تھا، تجربہ کار جرنیل نہیں تھے، قوم ساتھ نہیں تھی، آپ کے ساتھی تعداد میں ہم سے بہت کم تھے لیکن آپ جیت گئے۔ کیا اس تجربہ کے بعد بھی ہم شرک کر سکتی ہیں؟ ہندہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ دار تھیں آپ نے اُن کی آواز کو پہچان لیا اور فرمایا ہندہ ہے؟ ہندہ بڑی دلیر عورت تھی۔ اس نے فوراً کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں مسلمان ہوگئی ہوں۔ اب آپ کا پہلا حکم مجھ پر نافذ نہیں ہو سکتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا ہاں! تم مسلمان ہوگئی ہو، اب تمہیں سزا دینے کا مجھے کوئی حق نہیں رہا۔ تمہیں معاف کیا جاتا ہے۔۲؎ یہ چیز ہے جو حضور نے بطور سبق ہمارے سامنے رکھی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین کے پاس روپیہ تھا، ان کی جتھہ بندی تھی، حکومت تھی، سامانِ حرب تھا، تجربہ کار جرنیل تھے، قوم ساتھ تھی، ملک ساتھ تھا اور آپ کے پاس کوئی حکومت نہیں تھی۔ظاہری سامان آپ کو میسر نہیں تھے لیکن آپ لڑے اور جیتے۔ عرب لڑے اور ہارے۔ کتنی قومیں دنیا میں ایسی گزر ی ہیں جو تعداد میں بہت تھوڑی تھیں لیکن وہ اپنے دشمن کے مقابلہ میں جیت گئیں۔ مگر یہ کب ہوا؟ جب اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تھا۔ گویا تھوڑی تعداد والی اور کمزور قوموں کو لڑائی میں جیتنے کے لئے یا تو سامان کی فراوانی کی ضرورت ہوتی ہے اور یا خداتعالیٰ ان کے ساتھ ہو، تب اُنہیں فتح حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ تو صاف نظر آ رہا ہے کہ ہمارے پاس طاقت نہیں۔ پس جب تک ہم ایسا راستہ تلاش نہ کریں جس میں سامان کی ضرورت نہیں رہتی کامیابی کی امید رکھنا غلط ہے۔ کامیابی حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ اگر تمہارے پاس ظاہری سامان نہیں تو تم خداتعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرو اور ایسا تعلق قائم کرو کہ اسے ہمارے لئے غیرت ہو۔ اگر ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس قسم کا تعلق قائم کر لیتے ہیں تو کمزور ہونا اور بے سروسامانی ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ تعداد میں کم ہونا ہمیں فکر میں نہیں ڈال سکتا۔ اس تعلق کے پیدا ہو جانے کے بعد ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ کوئی بھی ہمارے مقابلہ میں آئے ہم اس کے مقابلہ میں جیتیں گے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہو اُسے کوئی مغلوب نہیں کر سکتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف جب ہجرت کر کے گئے اور غارِ ثور میں چھپے تو دشمن آپ کی تلاش کرتا کرتا اس غار کے منہ پر پہنچ گیا۔ کھوجیوں نے اُس وقت یہ صاف طور پر کہہ دیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا تو اِس غار میں چھپے ہوئے ہیں اور یا آسمان پر چڑھ گئے ہیں۔ اُس وقت حضرت ابوبکرؓ گھبرا گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا۔ اے ابوبکر! گھبراتے کیوں ہو؟ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔۳؎ قرآن کریم آپ کے یہ الفاظ بیان فرماتا ہے کہ ۴؎ اللہ تعالیٰ جب ہمارے ساتھ ہے تو پھر اے ابوبکر! تم غمگین کیوں ہوتے ہو۔ اگر ہماری قوم ہماری دشمن ہے تو ڈر کی کون سی بات ہے اللہ تعالیٰ تو ہمارے ساتھ ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے اپنے متعلق کچھ فکر نہیں مجھے تو اِس بات کا فکر ہے کہ دشمن کہیں آپ کو نقصان نہ پہنچائے۔ آپ نے فرمایا ابوبکرغم مت کرو اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے اور وہی ہمیں دشمن سے بچائے گا۔ ہمارے پاس بے شک ظاہری سامان نہیں، ہمارے پاس بے شک ظاہری فوج نہیں لیکن خداتعالیٰ تو ہمارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خداتعالیٰ ہو اُس کے لئے خوف اور ڈرکی کیا وجہ ہے۔
پس طاقتور دشمن کے مقابلہ میں فتح حاصل کرنے کا ایک نسخہ تو یہ ہے کہ خداتعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق قائم کیا جائے کہ اسے ہمارے متعلق غیرت ہو۔ دوسرا نسخہ یہ ہے کہ دنیاوی سامان میسر ہوں۔ روپیہ ہو، طاقت ہو، حکومت ہو، مثلاً امریکہ کو جس طرح آجکل یہ برتری حاصل ہے یا انگلستان کو کسی زمانہ میں حاصل ہوا کرتی تھی اور وہ باوجود ایک چھوٹا سا ملک ہونے کے دنیا کے تمام ممالک پر حکومت کرتا تھا اِسی طرح ہمیں طاقت حاصل ہو مگر یہ چیز ہمیں حاصل نہیں اور ہم حاصل کر بھی نہیں سکتے۔ جن چیزوں سے دولت حاصل ہوتی ہے وہ ہمیں میسر نہیں اور اگر وہ چیزیں میسر ہو بھی جائیں تو دولتوں کے حاصل کرنے کے لئے صدیوں کی ضرورت ہے۔امریکہ نے جو دولت حاصل کی ہے اِس پر بھی ایک لمبا عرصہ صَرف ہوا ہے۔ اس کے پاس کانیں تھیں، مٹی کا تیل تھا، لوہے کی مائنز تھیں اور مختلف قسم کے سامان اُسے میسر تھے مگر اس نے یہ دولت ڈیڑھ سَو سال کے عرصہ میں حاصل کی۔ امریکہ کو ۱۷۸۰ء میں آزادی حاصل ہوئی تھی۔ ایک سَو ساٹھ سال کی آزادی میں امریکہ اِس حالت تک پہنچا ہے لیکن پاکستان تو اتنا مضبوط ملک نہیں کہ اس سے دوسری بڑی طاقتیں مرعوب ہو جائیں اور نہ ابھی اس کے قیام پر کوئی لمبا عرصہ گزرا ہے۔ اب صرف ایک ہی صورت باقی ہے جس کی وجہ سے ہم اپنی حالت کو برقرار رکھ سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم خداتعالیٰ کو اپنے ساتھ ملا لیں اور اِس میں کسی لمبی دیر کی ضرورت نہیں۔ بعض دفعہ تو اِس پر ایک سیکنڈ بھی نہیں لگتا بشرطیکہ اُسے ساتھ ملانے کا صحیح طریق اختیار کیا جائے۔
صوفیاء نے لکھا ہے کہ کوئی شخص تھا اُس نے جب دیکھا کہ روحانی آدمیوں کا لوگ بہت زیادہ ادب و احترام کرتے ہیں تو اُس نے بھی دنیا داری کو چھوڑ دیا اور زاہد بن گیا۔ وہ سارا دن مسجد میں بیٹھا رہتا، نمازیں پڑھتا اور وظیفے کرتا رہتا لیکن جب بھی وہ مسجد سے باہر نکلتا لوگ کہتے دیکھو! وہ منافق جا رہا ہے۔ یہ آدمی وجاہت پسند اور دنیادار ہے لیکن دوسرے لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے اس نے اپنی یہ حالت بنا رکھی ہے۔ دس سال کا لمبا عرصہ گزر گیا لیکن اُس کی یہ امید کہ وہ دنیا کی نظر میں بزرگ تسلیم کیا جائے پوری نہ ہوئی۔ ایک دن وہ جنگل میں گیا۔ اُس نے اپنے دل میں کہا احمق! تو نے اپنی عمر کے دس سال ضائع کر دیئے اور لوگوں کی نظر میں باربار *** بنا۔ آ اور باقی عمر کو اب خداتعالیٰ کی خاطر اُس کے کاموں میں لگا دے لوگ تجھے بزرگ سمجھیں یا نہ سمجھیں تو سچے طور پر خداتعالیٰ کی عبادت کر اور اُسی کا بن جا۔ لوگ تجھے خواہ ریاکار کہیں تو اُن کی طرف توجہ نہ کر اور اپنا کام کرتا چلا جا اور اپنے خدا کو راضی کر لے۔ چنانچہ اس شخص نے اُسی وقت ریا کاری اور دکھاوے کو چھوڑ دیا۔ وضو کیا اور خداتعالیٰ کے سامنے سجدے میں گر گیا اور اُسے رو رو کر دعائیں کیں کہ اے خدا! تو میرے پچھلے گناہ معاف کر دے۔ خواہ لوگ مجھے پر لعنتیں ڈالیں یا اَور کچھ کہیں میں صرف تیری رضا چاہتا ہوں۔ توبہ کی اور پھر شہر کی طرف آیا اور مسجد میں گیا اور نماز پڑھی اور خداتعالیٰ کے حضور گڑگڑایا۔ نماز سے فارغ ہو کر مسجد سے باہر نکلا تو اُسے دیکھتے ہی لوگ کہنے لگے کہ دیکھو! کس طرح نور اس کے چہرے پر برس رہا ہے۔ یہ بہت بڑا ولی اللہ ہے اس کی دعاؤں سے ہر قسم کے عقدے حل ہو جاتے ہیں۔ اس شخص نے اپنے دل میں کہا تو نے دس سال ضائع کر دیئے تو نے لوگوں کو دھوکا دیا اور جھوٹ بولا لیکن تو لوگوں کی نظروں سے نہ بچ سکا۔ آج نیک نیتی سے اور سچے دل سے تو نے ایک نماز ادا کی ہے تو فوراً اس کا اثر دیکھ لیا۔
پس حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا ہو جاتا ہے، جو شخص خداتعالیٰ سے سچی صلح کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے وہ بعض دفعہ ایک سجدہ میں ہی اُسے پا لیتا ہے۔ صدیوں میں جس کام کو حل نہیں کیا جا سکتا اُسے ایک سجدہ ہی حل کر دیتا ہے۔ خداتعالیٰ جس شخص کے ساتھ ہو اُس کے ساتھ سب طاقتیں ہوتی ہیں اور وہ کبھی مغلوب نہیں ہوتا۔پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے جن دو چیزوں کے ساتھ باوجود قلیل التعداد ہونے کے مخالف پر فتح حاصل کی جاسکتی ہے اُن میں سے ایک تو ایسی ہے جس کا حاصل کرنا ہمارے اختیار سے باہر ہے اور اُسے حاصل کرنے کے لئے صدیاں درکار ہیں لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کو ہم حاصل کرنا چاہیں تو ایک دن میں بلکہ ایک سکینڈ میں اُسے حاصل کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے قلوب میں اللہ تعالیٰ کی محبت قائم کر لیں اور فیصلہ کر لیں کہ ہم دنیا میں خداتعالیٰ کے لئے ہی زندہ رہیں گے اور اُسی کی خاطر مریں گے۔ جب ہماری یہ خواہش ہوگی کہ خداتعالیٰ ہم سے خوش ہو جائے اور اپنی دُنیوی ترقیات کو اُس کے لئے نظر انداز کر دیں گے اور محض اُس کی رضا کا حصول ہی ہمارا مقصد ہوگا تو وہ ہمیں حاصل ہو جائے گا اور جب وہ ہمیں حاصل ہو جائے گا تو یہ ہو نہیں سکتا کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں تباہ و برباد کر سکے۔ خداتعالیٰ کے فرشتے خود ہماری مدد کے لئے نازل ہوں گے اور جو چیزیں دُنیوی سامانوں کے باوجود حاصل نہیں ہو سکتیں وہ ہمیں حاصل ہو جائیں گی۔ پس دو چیزوں میں سے تمہیں ایک چیز ضرور کرنی ہوگی یا تو تم فیصلہ کر لو کہ تم دنیا میں ذلّت اور رُسوائی چاہتے ہو اور یہ کہ تمہارے اوپر کسی قسم کی ذمہ داری عائد نہیں ہوتی اور یایہ فیصلہ کر لو کہ تم نے دنیا میں دین کو پھیلانا اور اُسے غالب کرنا ہے اور اِس کو حاصل کرنے کا صرف ایک ہی طریق ہے کہ تم خداتعالیٰ کو اپنا بنا لو۔ جب تم خداتعالیٰ کو اپنا بنا لو گے تو دنیا کی سب چیزیں تمہیں مل سکیں گی۔ اس لئے نہیں کہ وہ تمہاری مطلوب ہیں جو شخص دُنیوی سامانوں اور دنیوی عزت و جاہ کو اپنا مطلوب بناتا ہے اُسے خداتعالیٰ نہیں ملتا۔ لیکن جو شخص خداتعالیٰ کو اپنا مطلوب بنالیتا ہے اُسے سب چیزیں میسر آ جاتی ہیں۔ یہ دو عجیب چیزیں ہیں ان میں سے ایک چیز کی تلاش کرنے سے دوسری چیز خودبخود مل جاتی ہے لیکن دوسری کو تلاش کرنے سے پہلی چیز حاصل نہیں ہوتی۔ جو شخص دنیا کی تلاش کرتا ہے اُسے خداتعالیٰ نہیں ملتا مگر جو خداتعالیٰ کی تلاش کرتا ہے اور اُس کی رضا کے حصول کو اپنا مقصد بنا لیتا ہے اُسے دنیا بھی مل جاتی ہے۔ عام طور پر لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے پاس بادشاہتیں بھی تھیں اور اِس کے معنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں بھی دُنیوی سامانوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے حالانکہ وہ نہیں سمجھتے کہ یہ بادشاہتیں ایسی نہیں تھیں کہ ان کی وجہ سے خداتعالیٰ مل گیا ہو بلکہ خداتعالیٰ کے مل جانے کی وجہ سے یہ بادشاہتیں ملی تھیں اور اب بھی ہم خداتعالیٰ کو پا کر بادشاہت کو حاصل کر سکتے ہیں۔ یہی چیز آسمانی جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے۔ جو لوگ بھی خداتعالیٰ کے مأمور پر ایمان لانے والے ہوں گے۔ جو لوگ بھی اپنے آپ کو خداتعالیٰ کے ساتھ وابستہ رکھیں گے اُنہیں دنیا ملے گی لیکن دنیا اُنہیں اسی صورت میں ملے گی کہ وہ دُنیوی ترقیات کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں، وہ اُنہیں دور پھینک دیں۔ وہ کہہ دیں کہ ہم اِنہیں نہیں جانتے۔ ہم صرف خداتعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔ جب وہ دنیا کی طرف سے منہ پھیر لیں گے اور ان کا مقصود اور مطلوب صرف خداتعالیٰ کی رضا ہوگی تب خداتعالیٰ دنیا کو خود اُٹھا کر اُن کے قدموں میں پھینک دے گا۔
سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ جو ایک بہت بڑے بزرگ گذرے ہیں وہ ہمیشہ عمدہ کھانا کھاتے تھے اور عمدہ لباس پہنتے تھے۔ کسی دنیا دار نے آپ پر اعتراض کیا کہ سیدعبدالقادر صاحب جیلانی ؒ اچھے کپڑے پہنتے ہیں، اچھے کھانے کھاتے ہیں یہ بزرگ نہیںہو سکتے۔ کسی نے یہ بات آپ کو بھی بتا دی کہ فلاں شخص نے آپ پر اعتراض کیا ہے کہ آپ اچھا کھاتے ہیں، اچھا پہنتے ہیں معلوم ہوتا ہے آپ بزرگ اور ولی اللہ نہیں، بھلا بزرگوں کو اِن چیزوں سے کیا تعلق۔ سید عبدالقادر صاحب جیلانی ؒ نے فرمایا اُس شخص کو یہ معلوم نہیں کہ میں کیوں ایسا کرتا ہوں۔ آپ فرمانے لگے میں اُس وقت تک کوئی کھانا نہیں کھاتا جب تک خداتعالیٰ خود نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر جیلانی! تم یہ کھانا کھا لو۔ اور میں کوئی کپڑا نہیں پہنتا جب تک خداتعالیٰ خود مجھ سے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر جیلانی! تم یہ کپڑا پہن لو۔ غرض جو شخص خداتعالیٰ کا ہو جاتا ہے خداتعالیٰ دنیا خود اُس کے قدموں میں لا ڈالتا ہے تا کہ وہ ظاہر کرے کہ مؤمنوں کو یہ چیزیں دُنیوی ذرائع سے حاصل نہیں ہوتیں بلکہ جو میرا بن جاتا ہے میں خود اُسے یہ چیزیں دیتا ہوں۔ آپ دیکھیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی بادشاہت کو حاصل کرنے کے لئے ایک منٹ کے لئے بھی خواہش نہیں کی لیکن خداتعالیٰ نے وہ بادشاہت آپ کے قدموں پر بلکہ آپ کے خادموں کے قدموں پر لا کر ڈال دی۔
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ کے بعد حضرت ابوبکرؓ آپ کے خلیفہ مقرر ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ قریشی تو تھے مگر آپ قریش کے ان لوگوں سے تعلق نہیں رکھتے تھے جو مکہ کے رئیس گنے جاتے تھے اور جن کی فرمانبرداری اور اطاعت کو عرب فخر محسوس کرتے تھے۔ آپ کے والد ابوقحافہ معمولی آدمی تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ابتداء میں ایمان نہیں لائے تھے۔ جب حضرت ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو مکہ میں یہ اطلاع پہنچی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں۔ یہ خبر سن کر لوگ گھبرا گئے کہ اب کیا ہوگا۔ اُنہوں نے پیغامبر سے پوچھا پھر کیا ہوا؟ اُس نے جواب دیا کہ ایک خلیفہ چن لیا گیا ہے۔ ان لوگوں میں حضرت ابوبکرؓ کے والد ابوقحافہ بھی تھے۔ انہوں نے دریافت کیا کہ کون خلیفہ چن لیا گیا ہے؟ اس نے کہا ابوبکرؓ۔ آپ کے والد نے پھر پوچھا کون ابوبکرؓ۔ آپ کے والد صاحب اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ خیال کرتے تھے کہ رؤساء کسی صورت میں بھی اُن کے بیٹے ابوبکرؓ کی بیعت نہیں کر سکتے۔ وہ مر جائیں گے لیکن ابوبکرؓ کی بیعت نہیں کریں گے اس لئے جب اُنہوں نے سنا کہ ابوبکرؓ خلیفہ چن لئے گئے ہیں تو کہنے لگے کون ابوبکرؓ؟ اس پیغامبر نے کہا ابوقحافہ کا بیٹا۔ انہیں پھر بھی یقین نہ آیا۔ انہوں نے پوچھا کون ابوقحافہ؟ اُس نے کہا تم اور کون؟ وہ کہنے لگے کیا میرا بیٹا ابوبکر چن لیا گیا ہے؟ کیا فلاں قبیلہ نے اُس کی بیعت کر لی ہے؟ پیغامبر نے کہا ہاں۔ پھر انہوں نے دریافت کیا کیا فلاں قبیلہ نے اُس کو خلیفہ مان لیا ہے؟ پیغامبر نے کہاہاں۔ یہ سن کر اُن پر یہ بات حل ہوگئی کہ اتنا بڑا تغیر صرف ایک نبی ہی پیدا کر سکتا ہے اور وہ بے اختیار ہو کر کہنے لگے۔ اَشْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلہٗ۔ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر بنو ہاشم کے خاندان اور قریش کے دوسرے خاندانوں نے میرے بیٹے کی بیعت کر لی ہے تو یقینا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچے نبی تھے جنہوں نے ایسا عظیم الشان تغیر پیدا کر دیا۔ تو دیکھو بادشاہت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموںپر ہی نہیں آپ کے خادموں کے قدموں پر بھی آ گری لیکن آپ نے نہ اُس وقت خواہش کی جب آپ کو ابھی بادشاہت نہیں ملی تھی اور نہ اُس وقت خواہش کی جب آپ کو بادشاہت مل گئی۔ نہ حضرت ابوبکرؓ نے بادشاہت کی خواہش کی، نہ حضرت عمرؓ نے بادشاہت کی خواہش کی، نہ حضرت عثمانؓ نے بادشاہت کی خواہش کی اور نہ حضرت علیؓ نے بادشاہت کی خواہش کی بلکہ ان میں بادشاہت کے آثار پائے ہی نہیں جاتے تھے حالانکہ وہ دنیا کے اتنے زبردست بادشاہ تھے جن کی تاریخ میں مثال ہی نہیں ملتی۔ ان کی طبائع اتنی سادہ تھیں، ان کی ملاقاتیں اِتنی سادہ تھیں، ان میں تواضع اِس قدر پایا جاتا تھا کہ ظاہری طور پر یہ بھی معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ وہ بادشاہ ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ میری حکومت ہے، میں بادشاہ ہوں۔ ان میں سے کوئی شخص بھی کبھی اِس بات پر آمادہ نہیں ہواکہ وہ اپنی بادشاہت کا اظہار کرے اور نہ ہی وہ اِس بات کی کبھی خواہش کرتے تھے۔ درحقیقت جو خداتعالیٰ کے ہو جاتے ہیں دنیا خود اُن کے قدموں پر آ گرتی ہے۔ لوگ تو یہ سمجھتے ہیں کہ بادشاہتوں سے اُنہیں مدد ملے گی لیکن جو خداتعالیٰ کے ہو جاتے ہیں بادشاہتیں سمجھتی ہیں کہ انہیں ان کی غلامی سے عزت ملی گی۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہر جماعت یا ہر فرد کی ترقی دو چیزوں کے ساتھ وابستہ ہے اوّل یہ کہ اُس کے پاس مادی سامانوں کی فراوانی ہو۔ دوم اُسے خداتعالیٰ مل جائے۔ جہاں تک مادی سامانوں کا تعلق ہے یہ صاف ظاہر ہے کہ مادیات کے ساتھ ترقی کرنا ہمارے دعویٰ کے خلاف ہے۔ خداتعالیٰ کے مأموروں کی جماعتیں مادیات کے ساتھ ترقی نہیں کیا کرتیں۔ اگر وہ مادیات کے ساتھ ترقی کرتیں تو مخالف یہ کہنے کا حق رکھتا کہ ان کا ترقی کرنا ان کی سچائی کی علامت نہیں مادی سامانوں کے ذریعہ تو ہر ایک ترقی کر سکتا ہے۔ پھر ان میں اور دوسری جماعتوں میں کیا فرق رہا۔ غرض اوّل تو ہمارے پاس مادی سامان ہیں ہی نہیں اور اگر مادی سامان میسر آ بھی جائیں تو پھر بھی یہ امید رکھنا کہ ہم ان کے ذریعہ ترقی کر جائیں گے غلطی ہے اِس صورت میں ہم اپنے جھوٹا ہونے کی دلیل دیں گے۔ کسی کے دعویٰ کے جھوٹا ہونے کی دلیل تو اُس کا مخالف دیتا ہے۔ وہ خود ایسا مواد فراہم نہیں کرتا جس سے وہ جھوٹا ثابت ہو۔ لیکن ہمارا یہ فعل یقینا اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا مخالف تو ہمیں جھوٹا کرنے کی کوشش میں ناکام رہا لیکن ہم نے اپنے جھوٹا ہونے کی خود اُسے دلیل مہیا کر دی۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر مأمورین کی جماعتیں مادیات کے ساتھ ترقی نہیں کیا کرتیں اور ہمارا یہ دعویٰ کہ ہم مادیات کے ساتھ ترقی کریں گے ہمارے جھوٹا ہونے کی دلیل ہے تو پھر وہ کونسا ذریعہ ہے جس کو اختیار کر کے ہم ترقی کر سکتے ہیں جس کو اختیار کرنے کے بعد ہم بڑی سے بڑی قوموں کو بھی مغلوب کر سکتے ہیں؟ وہ ذریعہ خداتعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرنا ہے اگر ہم خداتعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر لیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں مٹا نہیں سکتی۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض قومیں مٹ جاتی ہیں اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا خاتمہ ہو گیا لیکن وہ اپنے مٹ جانے کے بعد پھر ایسی ترقی کرتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے۔ مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم پر ایک وقت ایسا بھی آیا جب وہ بظاہر مٹ چکی تھی لیکن اپنے مٹ جانے کے بعد اُس نے کتنی عظیم الشان ترقی کی۔ قریباً تین سَو سال کے لمبے عرصہ کے بعد انہیں حکومتیں ملیں۔ اب ۱۹۴۹ء ہے۔ گویا سترہ سَو سال اِن پر ترقی کے زمانہ کے گزر چکے ہیں۔ بعض صوفیاء نے اس بات پر بحث کی ہے کہ عیسائیوں کی ترقی کا زمانہ زیادہ لمبا کیوں ہو گیا ہے۔ ایک بزرگ نے ایک لطیفہ لکھا ہے اگرچہ وہ ذوقی ہے اُنہوں نے لکھا ہے کہ لفظ ضَآلِّیْنَ پر جو مد اور شد ڈالی گئی ہے اِس کا مطلب ہے کہ عیسائیوں کو لمبی ترقی حاصل ہوگی چونکہ عیسائیوں کے لئے لمبی ترقی مقدر تھی اس لئے قرآن کریم میں عیسائیوں کیلئے لفظ (یعنی ضَآلِّیْن) استعمال کیا گیا ہے یہ تو ایک ذوقی بات ہے لیکن صاف ظاہر ہے کہ عیسائیوں کو لمبی ترقی محض اِس لئے ملی کہ ان پر ایک لمبے عرصہ تک مظالم ہوئے۔ لیکن ایک چیز ایسی ہے جس کا لمبا ہونا نہایت ہی خطرناک ہے اور وہ روحانیت کا فقدان ہے۔ روحانیت تو ایک دن میں آ جاتی ہے اس کے لئے زیادہ لمبا عرصہ درکار نہیں۔ عیسائیوں میں روحانیت ۲۷۰ سال کے بعد نہیں آئی تھی یہ چیز اِن میں ابتدائی زمانہ میں پیدا ہوگئی تھی۔ کسی مأمور کی جماعت میں ایمان اور روحانیت میں مضبوطی اُس کے قریب قریب کے عرصہ میں ہی پائی جاتی ہے اور جتنا لمبا عرصہ گزرتا جاتا ہے یہ چیزیں کمزور ہوتی جاتی ہیں۔ ہماری جماعت کی ترقی کا زمانہ بھی یہی ہے اِس لئے تم اللہ تعالیٰ سے تعلق پیداکرنے کی کوشش کرو۔ تم دو ہی چیزوں کے ساتھ کامیاب ہو سکتے ہو۔ اوّل محبت الٰہی کے ساتھ۔ محبت الٰہی کے لئے سامانوںکی ضرورت نہیں بلکہ ضروری ہے کہ تم اپنے اوپر دنیا وَمَافِیْھَا تاریک بنا اور اس سے جدا رہ کر اپنی زندگی بسر کرو۔ دوم وہ ذرائع ہیں جو قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائے ہیں۔ مثلاً نمازیں ہیں، وظائف ہیں، ذکر الٰہی ہے، خداتعالیٰ سے دعائیں کرنا ہے، اُس کے حضور گریہ و زاری کرنا اور اُس کے حضور عرض کرنا کہ وہ ہمارے افکار اور اعمال اور ذہنوں کی اصلاح کرے۔ یہی وہ ذرائع ہیں جن کے ساتھ تم اللہ تعالیٰ کا قرب اور اُس کی محبت حاصل کر سکتے ہو۔ اس کے ساتھ ہی تم حتی المقدور قربانی میں ترقی کرنے کی کوشش کرو۔ تمہارا قدم ہر وقت آگے کی طرف پڑے پیچھے نہ ہٹے۔ جو شخص ایسا نہیں کرتا اُس کا قدم پیچھے کی طرف آتا ہے۔ یہ قانونِ قدرت ہے کہ اگر تمہارا قدم آگے کی طرف نہیں بڑھے گا تو وہ پیچھے ہٹے گا۔ تم ایک حالت پر کبھی قائم نہیں رہ سکتے۔ یہ دنیا متحرک ہے اِس لئے تم یا آگے بڑھو گے یا پیچھے ہٹو گے ایک جگہ پر کھڑے نہیں رہ سکتے۔
ایک دفعہ لندن کی نمائش میں مَیں گیا وہاں ایک چکر بنا ہوا تھا جو چلتا رہتا تھا۔ نمائش والوں نے اعلان کیا ہوا تھا کہ جو شخص اِس چکر کے سنٹر کو ہاتھ لگا دے اُسے انعام دیا جائے گا۔ یہ اُسی وقت ہو سکتا تھا جب انسان کچھ دیر ٹھہرے۔ میرے ایک ساتھی نے ایسا کرنے کی کوشش کی مگر جب بھی وہ ایسا کرنے کی کوشش کرتا چکر اُس کو دھکا دے کر پیچھے پھینک دیتا تھا۔ اِس دنیا کی مثال بھی اس چکر کی سی ہے۔ کوئی شخص ایک جگہ پر ٹک نہیں سکتا۔ ہم یا آگے بڑھیںگے یا پیچھے ہٹیں گے۔ یہ دنیا ایک مقام پر ٹھہرنے کا مقام نہیں۔ نہ تم دُنیوی لحاظ سے ایک جگہ پر ٹھہر سکتے ہو نہ روحانی لحاظ سے ایک جگہ پر ٹھہر سکتے ہو۔ دینی امور میں بھی اور مادی امور میں بھی یا تو تم ترقی کرو گے یا تم گرو گے۔ یہی وجہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کو قربِ الٰہی میں سب سے بڑا مقام حاصل تھا آپ کو خداتعالیٰ نے یہ کہا کہ ہمیشہ یہ دعا کرتے رہیں کہ رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۵؎ اسی طرح آپ ہمیشہ ۶؎ کی بھی دعا کرتے رہے۔ گویا صرف ہم ہی نہیں بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی خداتعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے اللہ! تو میرے علم کو زیادہ کر اور مجھے صراط مستقیم دکھا۔ ایک عام شخص تو کہہ سکتا ہے کہ اے اللہ! تو مجھے صراط مستقیم دکھا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں تو کوئی کمزوری نہیں پائی جاتی کہ آپ خداتعالیٰ سے دعا کرتے کہ اے خدا تو مجھے سیدھا رستہ دکھا۔ اِس کے یہی معنی تھے کہ سیدھے رستے غیر محدود ہیں۔ جس مقامِ عظیم پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فائز تھے اُس کے علاوہ اَور رستے بھی تھے۔ اِس لئے آپ کہتے تھے رَبِّ زِدْنِیْ عِلْمًا۔ بلکہ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی ہستی اتنی عظیم الشان ہے کہ گو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تیرہ سَو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن آپ اب بھی کی دعا مانگ رہے ہونگے۔ اور آپ کے مدارج اب بھی بڑھ رہے ہونگے کیونکہ خداتعالیٰ کی حد بندی نہیں ہو سکتی۔ انسان کتنا بھی بڑا ہو وہ بہرحال محدود ہے۔ وہ باوجود بلند مدارج حاصل کرنے کے دعا مانگتا چلا جاتا ہے تا حرکت کا سلسلہ بند نہ ہو بلکہ جاری رہے۔ اگر روحانی ترقی کے رستے محدود ہوتے تو اس کے یہ معنی ہوتے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب روحانی ترقی بند ہو جائے گی اور ایک مقام ایسا آئے گا جہاں پہنچ کر ترقی کے رستے مسدود ہو جائیں گے حالانہ یہ غلط ہے۔
پس یہ قانونِ قدرت ہے کہ اگر کسی وقت ترقی نہ ہو تو تنزل شروع ہو جاتا ہے۔ پس ہمیں ہمیشہ اپنے اعمال پر غور کرتے رہنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ہمارا ہر دن پہلے دن کی نسبت زیادہ ترقی والا ہو۔ ہمارا قدم پہلے کی نسبت آگے ہونا چاہئے۔ ہماری عبادت اور ذکرِ الٰہی میں کوئی نہ کوئی ترقی ہونی چاہئے۔ خداتعالیٰ سے ہمارا تعلق پہلے کی نسبت زیادہ ہونا چاہئے۔ اگر کوئی انسان اس رنگ میں رنگین ہو جائے تو وہ ایسا برکت والا ہو جاتا ہے کہ خداتعالیٰ کے فضلوں کاو ارث ہو جاتا ہے۔ اور جو شخص خداتعالیٰ کے فضلوں کا وارث بن جاتا ہے اُسے کسی قسم کی گھبراہٹ نہیں ہوتی۔ لیکن ضروری ہے کہ عبادتوں اور ذکرِ الٰہی کے علاوہ انسان ظاہری طور پر بھی محنت کرے تا وہ خداتعالیٰ کے فضلوں کا جاذب بن سکے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعاؤں کے ساتھ ظاہری تدابیر بھی اختیار کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صحابہؓ سے مصنوعی جنگیں کرواتے تھے، کشتیاں لڑواتے تھے، گتکے کی مشق کروایا کرتے تھے۔ بخاری میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند حبشیوں کو جو مسلمان ہو گئے تھے بُلایا اور حضرت عائشہؓ سے فرمایا کیا تم تماشہ دیکھنا چاہتی ہو؟ بعض لوگ اِس حدیث کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ مسجدوں میں تماشہ کروانا جائز ہے۔ محدثین نے اِس حدیث کا ہیڈنگ ہی اِس طرز کا باندھا ہے کہ اِس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ آیا مسجد میں تماشہ کروانا جائز ہے یا نہیں؟ لیکن اس تماشا سے مراد مداری یا بندر وغیرہ کا تماشا نہیں بلکہ فوجی کرتب ہیں، لڑائی کے ہنر ہیں اور ان کاموں کی مسجد میں مشق کروانا جائز ہے۔ بلکہ مسجدیں تو ان کاموں کے لئے نہایت عمدہ مقام ہیں لوگ وہاں نماز کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں اور وہ سب ان مشقوں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ عام تماشا سے مراد وہ نظارہ ہوتا ہے جو دلچسپی کا موجب ہو لیکن اُس میں فائدہ کچھ نہ ہو مگر یہ کرتب دلچسپی کا موجب بھی ہیں اور مفید بھی ہیں۔ بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کیا تم تماشا دیکھنا چاہتی ہو؟ آپ نے فرمایا ہاں میں تماشا دیکھنا چاہتی ہوں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کندھا نیچا کر لیا اور میں ایڑیوں کے بَل کھڑی ہوگئی اور آپ کے کندھوں کے اوپر سے جھانکتی رہی۔ اُس وقت مسجد میں چند حبشی اپنے فوجی ہنر دکھا رہے تھے۔ ۷؎ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کی مشق کروایا کرتے تھے۔
جنگ بدر کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کو مورچوں پر کھڑا کر دیا تو آپ نے ایک طرف بیٹھ کر دعائیں کرنی شروع کیں کہ اے خدا! آج مسلمانوں کو فتح دے۔ آپ نے اِس موقع پر اتنی دعائیں کیں کہ آپ کی سجدہ گاہ آنسوؤں سے تَر ہوگئی۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ کو یقین نہیں کہ دشمن کے مقابلہ میں خداتعالیٰ مسلمانوں کو فتح عطا کرے گا؟آپ نے فرمایا ابوبکر!خداتعالیٰ کے ہم سے وعدے تو ہیں لیکن خداتعالیٰ غنی بھی ہے۸؎ ہمارا کام ہے کہ ہم دُنیوی سامان بھی جمع کریں اور اپنی کوتاہی کا بھی اقرار کریں تا وہ یہ بھی نہ کہے کہ ہم نے اُس کے پیدا کردہ سامانوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا اور یہ بھی نہ کہے کہ ہم نے اپنے سامانوں پر بھروسہ کر لیا ہے۔
غرض ظاہری سامانوں سے فائدہ اُٹھانا دین کے خلاف نہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ ظاہری سامانوں اور تدابیر کو دین کے تابع رکھا جائے۔ خداتعالیٰ کی محبت کو اتنا بڑھایا جائے کہ اسے ہمارے متعلق غیرت پیدا ہو جائے اور ساتھ ہی دنیاوی سامانوں کو بھی جمع کیا جائے تا یہ نہ سمجھا جائے کہ تم خداتعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہو۔
جب شام میں جنگ ہوئی اور وہاں طاعون پڑی حضرت عمرؓ وہاں خود تشریف لے گئے تا کہ لوگوں کے مشورہ سے فوج کی حفاظت کا کوئی معقول انتظام کیا جا سکے۔ مگر جب بیماری کا حملہ تیز ہو گیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ آپ کا یہاں ٹھہرنا مناسب نہیں آپ واپس مدینہ تشریف لے جائیں۔ جب آپ نے واپسی کا ارادہ کیا تو حضرت ابوعبیدہؓ نے کہا أَفِرَارًا مِنْ قَدْرِ اللّٰہِ؟ کیا اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے آپ بھاگتے ہیں؟ حضرت عمر نے فوراً جواب دیا۔ نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اللّٰہِ اِلٰی قَدْرِ اللّٰہ ہاں ہم خداتعالیٰ کی ایک تقدیر سے اُس کی دوسری تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں۔۹؎ غرض دنیاوی سامانوں کو ترک کرنا جائز نہیں۔ ہاں دنیاوی سامانوں کو دین کے تابع رکھنا چاہئے۔
صحابہؓ کے متعلق آتا ہے کہ جن صحابہؓ کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا وہ سارا دن محنت کرتے تھے اور شام کو مٹھی بھر جَو جو وہ حاصل کرتے تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بطور چندہ پیش کر دیتے تھے۔ مشرکین مکہ اور منافق لوگ کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ یعنی مسلمان ملک کو فتح کرنے کے لئے جا رہے ہیں لیکن کیا یہ لوگ مٹھی بھر جَو کے ساتھ ملک کو فتح کریں گے؟۱۰؎ وہ مشرک اور منافق یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ مٹھی بھر جَو بڑی قیمتی چیز ہے۔ اُن مٹھی بھر جَو دینے والوں کا بھی جنگ لڑنے میں وہی حصہ تھا جو مالداروں کا تھا۔ مثلاً حضرت عثمانؓ نے بارہ ہزار چندہ دیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی ساری جائیداد خداتعالیٰ کی راہ میں دے دی۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت ابوبکرؓ کا چندہ بے شک زیادہ تھا مگر وہ غریب آدمی بھی قربانی میں ان لوگوں سے کسی طرح کم نہ تھا جس نے سارا دن محنت کر کے مٹھی بھر جَو کمائے اور پھر اُن کی روٹی پکا کر اپنے بچے کے منہ میں نہیں دی، اس مٹھی بھر جَو کی روٹی پکا کر اس نے اپنی بیوی کہ منہ میں نہیں دی بلکہ اس نے وہ سارے دن کی کمائی مٹھی بھر جَو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دی۔ وہ مٹھی بھر جَو مالداروں کے چندوں سے کسی صورت میں بھی کم نہیں تھے کیونکہ خداتعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ کی بنیاد مادیات پر نہیں ہوتی۔
پس میں جماعت کے دوستوں کو نصیحت کروں گا کہ وہ اپنے اندر محبت الٰہی پیدا کریں۔ اس طرح کہ خداتعالیٰ کو ان کے متعلق غیرت پیدا ہو جائے۔ وہ خداتعالیٰ کی عبادت میں ترقی کریں۔ خشیت الٰہی میں ترقی کریں، تہجد پڑھنے کی عادت ڈالیں اور اس بارہ میں ایک دوسرے کی نگرانی کریں، نمازوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کی عادت ڈالیں اور ان کا خداتعالیٰ کے ساتھ جو تعلق ہے اُسے مضبوط بنائیں۔ یہ خیال کر لینا کہ وہ ان چیزوں کے بغیر ہی جیت جائیں گے غلط ہے۔ جیتنا تو خداتعالیٰ نے ہے اور جب تک خدا تمہارے اندر نہیں آ جاتا تم غالب نہیں آسکتے اور اگر خداتمہارے اندر آ جاتا ہے تو یقینا تم غالب آ جاؤ گے اور اگر وہ تمہارے اندر نہیں آتا تو تم غالب نہیں آ سکتے کیونکہ غلبہ خداتعالیٰ کے لئے مقدر ہے۔
دوسری بات جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب میں پچھلی دفعہ راولپنڈی آیا تو یہاں لجنہ اماء اللہ قائم نہیں تھی اور اگر قائم تھی تو وہ مردہ حالت میں تھی۔ اب مجھے بتایا گیا ہے کہ عورتوں میں بیداری پائی جاتی ہے۔ یہ بھی مردوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ عورتوں کو لجنہ اماء اللہ میں شامل کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ گھر کی ذمہ داری مردوں پر ہے اگر مرد اِس ذمہ داری کو ادا نہیں کرتے تو قیامت کے دن اِس کے متعلق ان سے سوال کیا جائے گا۔ آپ فرماتے ہیں۔ کُلُّکُمْ رَاعٍ وَکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٖ ۱۱؎ تم میںسے ہر ایک اپنے گھر کا نگران ہے اور اُس کے گھر میں جو افراد رہتے ہیں اُن کے متعلق اُس سے قیامت کے دن سوال کیا جائے گا۔ قیامت کے دن ایک عورت سے بھی یہ سوال کیا جائے گا کہ اُس نے دین کی خاطر کیا کیا قربانیاں کیں۔ اور مرد سے بھی یہ سوال کیا جائے گا کہ اُس نے اس سے کیا کیا قربانیاں کروائیں۔ ایک بیٹے کے متعلق ماں سے بھی سوال کیا جائے گا کہ اس نے اپنے بیٹے سے کیا کیا قربانیاں کروائیں مگر ساتھ ہی باپ سے بھی یہ سوال کیا جائے گا کہ اس نے اس بارہ میں کیا کچھ کیا کیونکہ بچوں کی دمہ داری جیسے عورتوں پر ہے ویسے ہی ان کی ذمہ داری باپوں پر ہے۔ پس میں جماعت کے مردوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی عورتوں کو لجنہ اماء اللہ میں شامل کریں اور ان کی اور اپنے بچوں کی اچھی طرح نگرانی کریں اور اس میں کسی قسم کی غفلت نہ کریں۔ قومی زندگی کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔
اسلام ایک قومی مذہب ہے باقی مذاہب میں سے کوئی مذہب قومی حیثیت نہیں رکھتا۔ ہمارے تمام کاموں میں جتھہ بندی اور جمعیت پائی جاتی ہے۔ مثلاً نماز ہے۔ باقی کسی مذہب میں ایسی نماز نہیں پائی جاتی۔ یہ نماز صرف اسلام میں ہی پائی جاتی ہے۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ گرجاؤں میں بھی لوگ جمع ہوتے ہیں اور اجتماعی طور پر دعا کرتے ہیں مگر وہ نماز بھی اسلامی نمازوں کی طرح نہیں۔ ہم نے خود دیکھا ہے کہ گرجاؤں میں جب پادری وعظ کر رہا ہوتا ہے تو لوگوں میں سے بعض اِدھر اُدھر کی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ کسی کا منہ کسی طرف ہوتا ہے اور کسی کا منہ کسی طرف۔ کوئی کرسی پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے تو کوئی بنچ پر بیٹھا ہوا ہوتا ہے۔ اس نماز کا اسلامی نماز کے ساتھ کوئی جوڑ ہی نہیں۔ جماعت کے تو یہ معنی ہوتے ہیں کہ سب مل کر ایک کام کریں اور ایک ہی جگہ کام کریں اور یہ بات عیسائیوں کی نماز میں نہیں پائی جاتی۔ مثلاً ایک پادری اگر تقریر کر رہا ہوتا ہے تو اُس کا ایک نائب ہاتھ میں شمع لئے کھڑا ہوتا ہے۔ کسی کے ہاتھ میں پانی ہوتا ہے۔ کوئی خوشبو لئے کھڑا ہوتا ہے۔ کیا ہماری نماز میں بھی ایسا ہوتا ہے؟ ہماری نماز میں تو سارے کے سارے ایک ہی کام میں لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اسی طرح چندے ہیں، زکوٰۃ ہے اس میں بھی کوئی دوسری قوم اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ یہودیوں میں یہ بات پائی جاتی ہے مگر وہ بھی اِس رنگ میں نہیں جس رنگ میں اسلام نے اِسے پیش کیا ہے۔ اسلام نے اِن چیزوں کو ایسی شرائط کے ساتھ وابستہ کر دیا ہے کہ اِن کی مثال دوسرے مذہب میں نہیں مل سکتی۔ پھر حج ہے۔ سال میں ایک دن حج ہوتا ہے۔ سب ممالک سے لوگ آ کر جمع ہوتے ہیں۔ ایک ہی دن خانہ کعبہ کا طواف کرنا ہوتا ہے۔ ایک ہی دن عرفات جانا ہوتا ہے۔ منٰی جانا ہوتا ہے اور پھر یہ بتایا جاتا ہے کہ فلاں فلاں دن قربانی کی جائے۔ یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتیں۔ غرض اسلام ایک جماعتی مذہب ہے اور مسلمانوں کے لئے ترقی کرنا ناممکن ہے جب تک وہ جماعتی طور پر اس کے لئے کوشش نہ کریں اور جب تک وہ متحدہ طور پر اِس کام کو نہیں کرتے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پس میں جماعت کے مردوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جو عورتیں لجنہ اماء اللہ میں شامل نہیں ہیں وہ انہیں لجنہ اماء اللہ میں شامل کرائیں اور اُنہیں اجلاسوں میں بھیجا کریں۔ وہ یاد رکھیں کہ قیامت کے دن کوئی شخص یہ کہہ کر بریت حاصل نہیں کر سکتا کہ وہ خود نمازیں پڑھتا تھا، وہ خود چندہ دیتا تھا، وہ خود جماعتی کاموں میں حصہ لیتا تھا بلکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اُس سے اُس کی بیوی کے متعلق بھی سوال کیا جائے گا۔ اگر اُس کی بیوی جماعتی کاموں میں حصہ نہیں لیتی تو یہ بات اُسے مجرم بنانے کے لئے کافی ہے۔
پھر اپنے بچوں کو خدام الاحمدیہ میں داخل کرو، ان کی تربیت کرو۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ بچوں کی تربیت کے ذمہ وار باپ ہیں اور اِس میں اُس نے عورتوں کو بھی شامل کیا ہے۔ ایک عورت یہ کہہ کر اپنی بریت نہیں کر سکتی کہ وہ لجنہ اماء اللہ کی ممبر ہے۔ مشترکہ کاموں میں حصہ لیتی ہے، چندے دیتی ہے، تبلیغ کرتی ہے، نمازیں پڑھتی ہے، زکوٰۃ دیتی ہے۔ بے شک یہ سب کچھ وہ کرتی ہے لیکن قیامت کے دن اس سے یہ بھی سوال کیا جائے گا کہ کیا اس نے اپنی اولاد کو بھی دیندار بنایا ہے؟ کیا انہیں سلسلہ کے کاموں میں حصہ لینے کی عادت ڈالی ہے؟ اگر نہیں تو خداتعالیٰ اُس سے کہے گا کہ تم مجرم ہو۔ میں نے تمہیں صرف یہ نہیں کہا تھا کہ تم یہ کام کرو بلکہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ تم یہ کام اپنی اولاد سے بھی کراؤ۔ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ تم سچ بولو بلکہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ تم اپنی اولاد کو بھی سچ بولنے کی عادت ڈالو۔ میں نے صرف یہ نہیں کہا تھا کہ تم خود نمازیں پڑھو اور روزے رکھو بلکہ میں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تمہارا کوئی بیٹا ہے یا بیٹی ہے تو اُسے بھی اِن کاموں کی عادت ڈالو۔ میں نے تمہیں یہ نہیں کہا تھا کہ تم خود جماعتی کاموں میں حصہ لو بلکہ میں نے تم سے یہ بھی مطالبہ کیا تھا کہ اپنی اولاد کو بھی جماعتی کاموں میں حصہ لینے کی عادت ڈالو۔ اِسی طرح مرد سے بھی یہ سوال کیا جائے گا۔ غرض یہ چیز کافی نہیں کہ تم خود اِخلاص دکھاؤ بلکہ ضروری ہے کہ تم اپنی اولاد میں بھی اخلاص کا مادہ پیدا کرو۔ اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو تمہاری اپنی قربانی کافی نہیں ہو سکتی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ایسا نہ کرنے سے تم جہنمی بن جاؤ گے مگر یہ ضرور کہوں گا کہ ایسا نہ کرنے سے تمہارے ثواب کا ایک حصہ ضرور کٹ جائے گا۔ جماعت کے معنی یہی ہوتے ہیں کہ وہ سلسلہ قیامت تک چلا جائے گا۔ فرد مرتا ہے لیکن جماعتیں نہیں مرتیں۔ چنانچہ ہارون الرشید کے زمانہ میں ابن جنی کے ایک شاگرد ہوا کرتے تھے۔ ہارون الرشید نے اُس سے کہا۔ مَا مَاتَ مَنْ خَلَفَ مِثْلَکَ جس نے تیرے جیسا شاگرد اپنے پیچھے چھوڑا ہے وہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہے گا۔
غرض جماعت کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ دائمی زندگی اختیار کرے۔ اگر اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وابستہ ہوتا تو آپ کی وفات کے ساتھ یہ بھی ختم ہو جاتا لیکن اسلام کے متعلق خداتعالیٰ نے کہا ہے کہ وہ قیامت تک چلا جائے گا۔ تو ضروری ہے کہ ہر مسلمان اپنے بیٹے کو مسلمان بنا کر جائے۔ اگر ہر مسلمان اپنے بیٹے کو مسلمان بنا کر نہیں جاتا تو اسلام قیامت تک چلے گا کس طرح ؟ ہم کہتے ہیں کہ احمدیت اسلام ہی کا نام ہے۔ اگر احمدیت اسلام ہی کا نام ہے اور اسلام نے قیامت تک جانا ہے تو ضروری ہے کہ ہم اپنی اولاد کو مخلص احمدی بنا کر جائیں۔ اگر ہم اپنی اولاد کو مخلص احمدی بنا کر نہیں جاتے تو احمدیت ختم ہو جائے گی۔ پس یہ کافی نہیں کہ تم صرف اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرو بلکہ ضروری ہے کہ جہاں تم خود اعمالِ دینیہ کی طرف توجہ کرتے ہو، نمازیں پڑھتے ہو، چندے دیتے ہو، زکوٰۃ دیتے ہو، روزے رکھتے ہو، غرباء کی مدد کرتے ہو وہاں تم اپنی اولادوں کی بھی اصلاح کرو۔ اگر تم اپنی اولاد کے اندر دینی جذبہ پیدا نہیں کرتے اور مخلص احمدی بنا کر نہیں جاتے تو تمہاری زندگی یقینا فردی زندگی ہے تمہاری زندگی جماعتی زندگی نہیں۔ اور اگر کسی اور کی نسل کے ذریعہ اسلام کا کام چلتا رہا تو اسلام کی زندگی میں تمہارا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ اسلام اگر دائمی طور پر زندہ رہے گا تو اِسی طرح کہ تم اپنی اولادوں کو دیندار بناؤ۔ مثلاً اگر ا ب ج پکا مسلمان ہے تو جب تک وہ خود مسلمان ہیں اِن کے ذریعہ بیشک اسلام زندہ رہے گا لیکن دائمی زندگی کے لئے اِن کی اولادوں کا پکا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ اگر الف کی اولاد پکی مسلمان نہیں ہے۔ ب کی اولاد مسلمان ہے۔ ج کی اولاد مسلمان ہے تو اگر اسلام زندہ ہے تو ب اور ج کی اولاد سے الف کی اولاد کی وجہ سے نہیں۔ اگر ب کی اولاد پکی مسلمان نہیں ج کی اولاد مسلمان ہے تو پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو الف نے زندہ نہیں رکھا۔ ب کی اولاد نے زندہ نہیں رکھا بلکہ آپ کو زندہ رکھا تو ج کی اولاد نے رکھا ہے۔ پس یہ کتنی عظیم الشان نعمت ہے جسے ہم حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم اپنے بیٹے کو مسلمان بنا کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ۳۰ یا ۴۰ سال کی اَور زندگی دے دیتے ہیں۔ اِس سے زیادہ اور کیا رُتبہ ہوگا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ۳۰ یا ۴۰ سال کا اضافہ کر دے۔ لیکن جو شخص اپنی اولاد کی اصلاح نہیں کرتا، اُسے پکا مسلمان نہیں بناتا، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو کم کر دیتا ہے اور یہ کتنی بڑی بدبختی ہے۔پس تم نہ صرف اپنے اندر ایک نیک تغیر پیدا کرو بلکہ اپنی اولاد کے اندر بھی دینی جذبہ پیدا کرو۔ جب نماز کے لئے جاؤ تو بچوں کو بھی ساتھ لے جاؤ۔ اگر وہ چھوٹے ہیں تو کم از کم تمہارے ساتھ نماز پڑھتے وقت خاموش تو رہیں تمہاری نماز کو خراب تو نہ کریں۔ جیسے کل بچوں نے شور مچا کر نماز کو خراب کر دیا تھا۔
بچوں کی تربیت ہونی چاہئے۔ اگر بچہ چار پانچ سال کا ہے تو اس کے اندر دینی کاموں میں حصہ لینے کی عادت پیدا کرو اور سات سال کے بچے کو تو باقاعدہ نماز پڑھانی چاہئے اور دس سال کی عمر میں اسے نماز میں ایسا باقاعدہ ہونا چاہئے کہ اگر وہ نماز نہ پڑھے تو ایک حد تک اُسے مار پیٹ بھی جائز ہے۔ بہرحال جب بچہ چھ سات سال کا ہو جائے اُسے نماز پڑھانی چاہئے اور دینی کاموں میں حصہ لینے کی عادت ڈالنی چاہئے اگر اُسے کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو نہ آئے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس کے دائیں کان میں اذان دو اور اس کے بائیں کان میں تکبیر کہو۔۱۲؎ تو کیا وہ تمہاری اذان اور تکبیر کو سمجھتا ہے؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے یہی سبق دیا ہے کہ تم بچے کی تربیت اُس کے پیدائش کے وقت سے ہی شروع کر دو۔ جب آپ بچے کی پیدائش کے وقت سے اُس کی تربیت کا حکم صادر فرماتے ہیں تو چھ سات سال کی عمر والا کچھ کتنی اہمیت رکھتا ہے۔ جب بچہ چھ سات سال کا ہو جائے تو اُسے نمازوں میں ساتھ لاؤ۔ اُسے آیاتِ قرآنیہ یاد کراؤ۔ اچھی اچھی نظمیں یاد کراؤ۔ جب آٹھ سال کا ہو جائے تو اُس کی اِس طرح تربیت کرو کہ وہ دینی کاموں پر آمادہ ہو جائے۔ اِسی طرح ماؤں کا بھی فرض ہے کہ اگر باپ سارا دن دفتر میں رہتا ہے یا کہیں باہر گیا ہوا ہے تو اُس کی غیر حاضری میں عورت کا فرض ہے کہ وہ بچے کو نمازیں پڑھائے۔ جب وہ نماز پڑھنے لگے تو بچے کو بھی ساتھ کھڑا کرے یا اُسے اپنی نگرانی میں نمازیں پڑھوائے۔ کیونکہ بعض اوقات شرعی طور پر اسے نماز پڑھنا جائز نہیں ہوتا۔ لیکن اگر وہ خود نماز نہیں پڑھتی تو بچے کو تو اپنی نگرانی میں نماز پڑھوا سکتی ہے۔ نماز کا جب وقت آئے اُسے چاہئے کہ بچے کو کھڑا کر کے نماز پڑھوائے اور پھر جب مرد گھر آ جائے تو وہ یہ کام کرے۔ گویا جب مرد گھر پر ہو تو یہ مرد کی دمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو دینی کاموں کی عادت ڈالے اور اگر مرد گھر نہیں ہے تو عورت اپنے بچوں سے دینی کام کروائے۔
غرض آپ لوگ اپنی اولاد کی اِس رنگ میں تربیت کریں اور اپنے اندر ایسا تغیر پیدا کریں کہ تمہاری شکلوں کو دیکھ کر ہر شخص یہ سمجھ سکے کہ اِس زمانہ میں خداتعالیٰ نے احیاء دین کا ذریعہ جماعت احمدیہ کو بنایا ہے اور خداتعالیٰ سے ایسی محبت پیدا کرو کہ اسے تمہارے متعلق غیرت ہو اور وہ محسوس کرے کہ اگر یہ لوگ مَر گئے تو میں مَرا۔ خداتعالیٰ حی و قیوم ہے اُس پر موت وارد نہیں ہوتی لیکن اِس دنیا میں اگر اُس کا ذکر مٹ جائے تو گویا وہ اِس دنیا کے لئے مَر گیا۔ ایک بزرگ جو سید احمد صاحب بریلوی کے شاگردوں میں سے تھے اور بھوپال میں رہتے تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے استاد تھے اُنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو اپنی ایک خواب سنائی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں بھوپال سے باہر گیا ہوا ہوں۔ شہر کے باہر پُل پر میں نے ایک آدمی دیکھا جو کوڑھی تھا اور اندھا تھا۔ اُس کے زخموں سے بدبو آتی تھی اور اُن پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔ اُس کے ہونٹ، ناک اور کان کٹے ہوئے تھے۔ غرض اُس کے جسم کا ہر ذرّہ بھیانک تھا۔ میں نے اُس شخص سے پوچھا تم کون ہو؟ یا اُس نے کہامیں خداتعالیٰ ہوں۔ میری حالت متغیر ہوگئی اور میں یہ نہ سمجھ سکا کہ یہ شخص خداتعالیٰ کیسے ہو سکتا ہے۔ میں نے اُس شخص سے کہا کہ قرآن کریم تو کہتا ہے کہ خداتعالیٰ سے زیادہ خوبصورت اور کوئی چیز نہیں۔ اس پر اُس نے کہا میں بھوپال کے رہنے والوں کا خدا ہوں یعنی بھوپال والوں نے میری یہ شکل بنا رکھی ہے۔ پس گو موت ایسی چیز ہے جو خداتعالیٰ کی ذات میں نہیں پائی جاتی مگر بعض بندوں کے ذریعہ خداتعالیٰ اِس دنیا میں زندہ ہے اور بعض بندوں کے ذریعہ وہ اِس دنیا میں مُردہ ہے۔ اگر اُس کا ذکر اس دنیا سے مٹ جائے تو وہ اِس دنیا کے لئے گویا مَر گیا اور اگر اُس کا ذکر اِس دنیا میں نہ مٹے تو وہ گویا اِس دنیا کے لئے زندہ ہو گیا۔ اِسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ ظاہری طور پر وفات پا گئے ہیں لیکن آپ ایمان لانے والوں کے ذریعہ اِس دنیا میں زندہ ہو سکتے ہیں۔ اگرمسلمانوں کے دلوں میں ایمان ہے تو وہ زندہ ہیں اور اگر ایمان مٹ چکا ہے تو آپ زندہ نہیں۔ غرض خداتعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور موت تمہارے ہاتھوں میں ہے اگر تم چاہو تو خداتعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِس دنیا میں زندہ رہ سکتے ہیں اور اگر تم غفلت اور سستی سے کام لو گے تو خداتعالیٰ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا کے لئے مَر جائیں گے۔ خداتعالیٰ ظاہری طورپر کبھی مَر نہیں سکتا مگر روحانی طور پر تم اُسے زندہ بھی رکھ سکتے ہو اور مار بھی سکتے ہو۔
جنگ بدر میں جب لڑائی خطرناک صورت اختیار کر گئی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی گھبراہٹ سے دعائیں کرتے تھے کہ اے خدا! اگر یہ جماعت جو چھوٹی سی ہے ہلاک ہو گئی تو لَنْ تُعْبَدَ فِی الْاَرْضِ اَبَدًا! تیری عبادت کرنے والا کوئی شخص دنیا میں نہیں رہے گا۔ اِس دعا کی برکت سے خداتعالیٰ نے مسلمانوں کو محفوظ رکھا کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ وہ جماعت جو خد اتعالیٰ کو اِس دنیا میں زندہ رکھنے والی ہو اُس کو خداتعالیٰ کبھی مرنے نہیں دیتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی مطلب تھا کہ اے خدا! تیری زندگی اِس چھوٹی سی جماعت کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگر یہ جماعت مٹ گئی تو تیرا ذکر بھی اس دنیا سے مٹ جائے گا۔ اے خدا! تو اس جماعت کو مرنے نہ دے اور اِسے ہلاکت سے بچا لے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگرچہ خداتعالیٰ حی و قیوم ہے۔ ظاہری طور پر اُس پر موت وارد نہیں ہوتی لیکن روحانی طور پر وہ اِس دنیا میں جس شخص کے ذریعہ زندہ ہو اُس کو بھی وہ زندہ رکھتا ہے۔ اِسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ شعر کہا ہے کہ
سر سے میرے پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں
اے میرے بدخواہ کرنا ہوش کر کے مجھ پہ وار
یعنی اے میرے دشمن! ذرا ہوش کر کے مجھ پر وار کیجئیو کیونکہ مجھ میں خداتعالیٰ بیٹھا ہوا ہے۔ اور جس شخص کے اندر خداتعالیٰ بیٹھا ہو اُس پر کوئی شخص حملہ کر کے محفوظ نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ دراصل خداتعالیٰ پر حملہ کرتا ہے اور اُس کی ضرب خداتعالیٰ پر پڑتی ہے۔ پس جب کوئی شخص خداتعالیٰ کو اپنے اندر بٹھا لیتا ہے تو خداتعالیٰ اُسے بھی تباہ نہیں ہونے دیتا کیونکہ اُس کی موت سے خداتعالیٰ کی موت وابستہ ہوتی ہے۔
میرے گلے میں درد ہو رہا ہے جس کی وجہ سے میں زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا امید ہے کہ جماعت احمدیہ راولپنڈی اِن باتوں کو جو میںنے کہی ہیں کافی سمجھے گی اور اپنی اصلاح کی کوشش کرے گی۔ اب یہ جماعت اہم جماعتوں میں سے ہے اور اِس پر پہلے سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی تعداد بڑھائیں اور اچھا نمونہ دکھائیں۔ احمدیت کی تقویت اور اِس کی زیادتی کے لئے کوشش کریں۔ مستورات بھی اور مرد بھی اِس طرف توجہ کریں۔ میں دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ آپ لوگوں کو اِس بات کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں میں حصہ لینے کی توفیق بخشے تا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ لوگوں کے ذریعہ ایک لمبے عرصہ تک اِس دنیا میں زندہ رہیں۔
(الفضل ۱۳،۱۹؍ ستمبر ۱۹۶۲ء)
۱؎ البقرۃ: ۲۵۰
۲؎ تاریخ کامل ابن اثیر جلد۲ صفحہ۲۵۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۳؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۸۔ مطبوعہ بیروت ۱۳۲۰ھ (مفہوماً)
۴؎ التوبۃ: ۴۰ ۵؎ طٰہٰ: ۱۱۵ ۶؎ الفاتحہ: ۶
۷؎ بخاری کتاب العیدین باب الحراب والدرق یوم العید
۸؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۷۹۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۹؎ مسلم کتاب السلام باب الطاعون والطیرۃ والکھانۃ و نحوھا
۱۰؎ بخاری کتاب الزکوٰۃ باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ (الخ)
۱۱؎ بخاری کتاب النکاح باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا
۱۲؎ کنزالعمال جلد۱۶ صفحہ۵۹۹ مطبوعہ حلب ۱۹۷۷ء (مفہوماً)
ربوہ میں پہلے جلسہ سالانہ کے موقع پر افتتاحی تقریر
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ربوہ میں پہلے جلسہ سالانہ کے موقع پر افتتاحی تقریر
(فرمودہ ۱۵؍ اپریل ۱۹۴۹ء)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت (جس میں کا خصوصیت کے ساتھ تین بار تکرار فرمایا۔ اس کے) بعد فرمایا:۔
’’یہ جلسہ تقریروں کا جلسہ نہیں یہ جلسہ اپنے اندر ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے ایسی تاریخی حیثیت جو مہینوں یا سالوں یا صدیوں تک نہیں جائے گی بلکہ بنی نوع انسان کی اِس دنیا پر جو زندگی ہے اِس کے خاتمہ تک جائے گی۔ اِس میں شامل ہونے والے لوگ ایک جلسہ میں شامل نہیں ہو رہے بلکہ روحانی لحاظ سے وہ ایک نئی دنیا، ایک نئی زمین اور ایک نئے آسمان کے بنانے میں شامل ہو رہے ہیں۔ پس اِس جلسہ کو تقریروں کا جلسہ مت سمجھو۔ تقریریں ہوں یا نہ ہوں، مختلف مضامین پر لیکچر سننے کا موقع ملے یا نہ ملے اِس کا کوئی سوال نہیں جو اصل مقصد ہے وہ ہمارے سامنے رہنا چاہیے اور جو اصل مقصد ہے اُس کو ہمیں ہرچیز پر اہمیت دینی چاہیے۔
میں اب قرآن کریم کی کچھ آیتیں پڑھوں گا اور آہستہ آہستہ کئی دفعہ دُہراؤں گا۔ پڑھے ہوئے اور اَن پڑھ جس قدر دوست یہاں موجود ہیں وہ بھی میرا ساتھ دے سکتے ہیں اور انہیں ساتھ دینا چاہیے۔ یعنی جب میں وہ آیتیں پڑھوں تو جماعت کے دوست کیا مرد اور کیا عورتیں ساتھ ساتھ اِن آیتوں کو دُہراتے چلے جائیں۔
(اِس موقع پر حضور نے ہدایت فرمائی کہ کوئی کارکن جا کر عورتوں کی جلسہ گاہ سے پوچھ لے کہ اُن کو آواز آ رہی ہے یا نہیں تا کہ وہ محروم نہ رہ جائیں۔ پھر فرمایا)
عورتوں میں سے جو عورتیں ایسی ہیں کہ اُن پر اِن ایام میں ایسی حالت ہے کہ وہ بلند آواز سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں اُن کو چاہیے کہ وہ دل میں اِن آیتوں کو دُہراتی چلی جائیں اور جن عورتوں کے لئے اِن ایام میں قرآن کریم پڑھنا جائز ہے وہ زبان سے بھی اِن آیتوں کو دُہرائیں۔ بہرحال جن عورتوں کے لئے ان ایام میں زبان سے پڑھنا جائز نہیں وہ زبان سے پڑھنے کی بجائے صرف دل میں اِن آیتوں کو دُہراتی رہیں کیونکہ شریعت نے اپنے حکم کے مطابق جہاں مخصوص ایام میں تلاوتِ قرآن کریم سے عورتوں کو روکا ہے وہاں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا کہ وہ دل میں بھی ایسے خیالات نہ لائیں یا دل میں بھی نہ دُہرائیں بلکہ صرف اتنا حکم ہے کہ زبان سے نہ دُہرائیں بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک صرف قرآن کریم کو ہاتھ لگانا منع ہے مگر احتیاط یہی ہے کہ کثرت سے جس بات پر مسلمانوں کا عمل رہا ہے اُسی پر عمل کیا جائے۔ پس بجائے زبان سے دُہرانے کے وہ دل میں ان آیتوں کو دُہراتی چلی جائیں۔
میں نے بتایا ہے کہ میں کئی دفعہ آیات کو پڑھوں گا ممکن ہے میں پہلی دفعہ جلدی پڑھوں تاکہ ان کا مفہوم آسانی سے سمجھ میں آ سکے۔ اگر لفظوں کے درمیان فاصلہ زیادہ ہو اور انسان مضمون سے پہلے واقف نہ ہو تو آہستگی سے پڑھنے کے نتیجہ میں مضمون بجائے اچھا سمجھ آنے کے کم سمجھ آتا ہے مگر جو شخص اس کے ترجمہ سے واقف ہوتا اور مضمون سے آگاہ ہوتا ہے اُس کا دلی جوش اور جذبہ بعض دفعہ اُسے جلدی پڑھنے پر مجبور کرتا ہے اِس لئے پہلی دفعہ کی تلاوت میں اپنے لئے مخصوص کروں گا۔ یعنی میں اِس طرح پڑھوں گا جس طرح میرا اپنا دل چاہتا ہے۔ اِس کے بعد جب میں تلاوت کروں گا تو اِس امر کو مدنظر رکھوں گا کہ پڑھا ہوا اور اَن پڑھ، عالم اور جاہل، بڑی عمر کا اور چھوٹی عمر کا ہر شخص لفظاً لفظاً اگر وہ چاہے اور اگر اُس کے دل میں ارادہ اور ہمت ہو تو میرے پیچھے پیچھے چل سکے اور ہر لفظ کو دُہرا سکے۔
(ان تمہیدی الفاظ کے بعد حضور نے نہایت رقت آمیز رنگ میں قرآن کریم کی وہ دعائیں بلند آواز سے پڑھنا شروع کیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو وادیٔ مکہ میں چھوڑے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور کی تھیں۔ جماعت کے تمام دوست کیا مرد اور کیا عورتیں سب کے سب حضور کے ساتھ ساتھ ان دعاؤں کو دُہراتے چلے گئے۔ یہ دعائیں جس طرح بار بار حضور نے پڑھیں اُسی طرح ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔ حضور نے ابراہیمی دعاؤں کو منتخب کرتے ہوئے اِس موقع پر نہایت درد کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے عرض کیا:۔)
(اِس کے بعد دوبارہ حضور نے انہی دعاؤں کو اِس رنگ میں دُہرایا)
(اِس کے بعد حضور نے فرمایا
آج سے قریباً ۴۵ سَو سال پہلے اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کو حکم ہوا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ذبح کر ڈالے۔ یہ رؤیا اپنے اندر دو حکمتیں رکھتی تھی۔ ایک حکمت تو یہ تھی کہ اُس وقت سے پہلے انسانی قربانی کو جائز سمجھا جاتا تھا اور خصوصیت کے ساتھ لوگ اپنی اولاد کو خداتعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے یا اپنے بتوں کو خوش کرنے کے لئے قربان کر دیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت نے فیصلہ کیا کہ اب بنی نوع انسان کو اِس مہیب اور بھیانک فعل سے باز رکھنا چاہیے کیونکہ انسانی دماغ اب اتنی ترقی کر چکا ہے کہ وہ حقیقت اور مجاز میں فرق کرنے کا اہل ہو گیا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے اپنے اس بندے کو جس کا نام ابراہیم تھا یہ رؤیا دکھائی۔ اِس رؤیا میں جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک حکمت یہ تھی کہ آئندہ انسانی قربانی کو روک دیا جائے اور دوسری حکمت یہ تھی کہ خداتعالیٰ انسان سے حقیقی قربانی کا مطالبہ کرنا چاہتا تھا جو مطالبہ اس سے پہلے انسان سے نہیں ہوا تھا۔ بہرحال جب سے انسان اِس قابل ہوا کہ اس پر الہام نازل ہو کسی نہ کسی صورت میں لوگ خداتعالیٰ کی عبادت کیا ہی کرتے تھے لیکن ابھی ایسا زمانہ انسان پر نہیں آیا تھا کہ کچھ لوگ اپنی زندگیوں کو کُلّی طور پر خداتعالیٰ کے لئے وقف کر دیں۔ نماز تو لوگ پڑھتے تھے، روزہ بھی رکھتے تھے، ذکرِ الٰہی بھی لوگ کرتے تھے کیونکہ ان چیزوں کے بغیر روحانیت زندہ نہیں رہ سکتی۔ اگر آدمؑ ایک روحانی انسان تھا تو نوحؑ اور آدمؑ اور اُن کے متبع یقینا نماز بھی پڑھتے تھے، ذکرِ الٰہی بھی کرتے تھے اور روزہ بھی رکھتے تھے کیونکہ روح بغیر ان چیزوں کے جِلا نہیں پاتی اور روح کے جِلا پائے بغیر خداتعالیٰ کا قرب اور اُس کا وصال حاصل نہیں ہو سکتا۔ مگر اِس قربانی اور اُن قربانیوں میں کیا فرق تھا؟ فرق یہ تھا کہ ہر شخص اپنے اپنے طور پر نمازیں ادا کرتا تھا اور کوئی ایسا شخص بھی ہوتا تھا جس کو خداتعالیٰ چن لیتا تھا اور اسے مقرر کرتا تھا کہ تم اپنی زندگی میں میری طرف سے مأمور کی حیثیت رکھتے ہو۔ تم بنی نوع انسان کو مخاطب کرو اور اُنہیں میری طرف لانے کی کوشش کرو۔ یہ لوگ انبیاء علیہم السلام ہوتے تھے مگر ان کے علاوہ کوئی ایسے گروہ نہیں ہوتے تھے جو اپنی زندگیوں کو کسی مخصوص مقام سے وابستہ کر دیں اور دن اور رات ذکرِالٰہی کے شغل کو جاری رکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ جہاں وہ اِس غیر حقیقی قربانی کو منسوخ کر دے جو چھری کے ذریعہ سے بیٹوں کو قتل کر کے ادا کی جاتی تھی وہاں وہ اِس حقیقی قربانی کی بنیاد ڈال دے کہ دنیا کو چھوڑ کر انسان اپنی زندگی محض خداتعالیٰ کے لئے وقف کر دیا کرے۔ چھری انسانی زندگی کو ایک منٹ میں ختم کر دیتی ہے۔ بالکل ممکن ہے کہ جنہوں نے اپنی زندگی خداتعالیٰ کے لئے دی اور چھریوں اور نیزوں سے اپنے آپ کو قربان کروا دیا اگر وہ ایک سال اَور زندہ رہتے تو مرتد ہو جاتے، ایک سال اَور زندہ رہتے تو اُن کے ایمان کمزور ہو جاتے، ایک سال اَور زندہ رہتے تو اُن کے اندر عبادت کے لئے وہ جوش و خروش باقی نہ رہتا جو اُس وقت اُنہوں نے دکھایا تھا۔
پس چھری کے ساتھ اُنہوں نے مشتبہہ انجام کو چھپایا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اپنی مرضی سے اپنی زندگی قربان کرتا ہے یا جو شخص اپنی مرضی سے اپنی اولاد کو قربان کرتا ہے وہ اِس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ ڈرتا ہے کہ وہ اور اُس کی اولاد لمبے امتحانوں میں سے گذرتے ہوئے ناکام نہ رہ جائے اور وہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لئے ہی اپنی زندگی یا اپنی اولاد کی زندگی ختم کر دیتا ہے۔ مگر جو شخص ساری عمر قربان ہوتا رہتا ہے، موت کے ذریعہ نہیں بلکہ ترکِ منہیات سے، ذکرِ الٰہی کی پابندی اختیار کرنے سے، تبلیغ اسلام کو اختیار کرنے سے، بنی نوع انسان کی تربیت کی ذمہ داری لینے سے، وہ دلیرانہ اِس سمندر میں کودتا ہے۔ وہ اپنا خاتمہ موت سے نہیں کرتا بلکہ وہ اپنا ایمان اپنی زندگی سے ثابت کر دیتا ہے۔ مرنے والے کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو ایماندار رہتامگر جس نے زندہ رہ کر اپنے ایمان کو ثابت کر دیا اور جس نے مدت تک اپنے ایمان کو سلامت لے جا کر عملی طو رپر اس کے سچا ہونے کا ثبوت دے دیا، اُس کے متعلق دشمن سے دشمن کو بھی اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اُس نے اپنے عہد کو سچا ثابت کر دیا میں نے کہا کہ جو شخص اپنی مرضی سے اپنی زندگی کو ختم کرتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں نے اُن لوگوں کو مستثنیٰ کر دیا ہے جو اپنی مرضی سے اپنی زندگی ختم نہیں کرتے بلکہ خداتعالیٰ کی مشیت سے اُن کی زندگی ختم ہو جاتی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کو شہداء کہتے ہیں۔
پس جو دلیل میں نے تلوار یا نیزہ سے اپنے آپ کو ختم کرنے والوں کے خلاف دی ہے وہ شہداء کے خلاف نہیں پڑتی اِس لئے کہ شہداء نے خود اپنے آپ کو مار کر زندگی کی جدوجہد سے آزاد ہونے کی کوشش نہیں کی بلکہ خداتعالیٰ کی مشیّت نے اُن کے زندہ رہنے کی خواہش کے باوجود یہ چاہا کہ اُن کی مادی زندگی کے دَور کو ختم کر دے اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اِن دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے۔
پس جو دلیل میں نے اپنی زندگی ختم کرنے والوں کے خلاف دی ہے وہ شہداء کے خلاف نہیں پڑتی اس لئے کہ وہ خود نہیں مرتے بلکہ اُن کو دشمن مارتا ہے ورنہ وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ دشمن کو مار کر اپنے ایمانوں کو اَور بھی قوی کریں۔ اِس امر کا ثبوت کہ وہ اپنی زندگی ختم کر کے میدانِ جدوجہد سے بھاگنا نہیں چاہتے ایک حدیث سے بھی ملتا ہے۔
حضرت عبداللہؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک نہایت مقرب صحابی تھے جب شہید ہوگئے تو اُن کے بیٹے حضرت جابرؓ کو ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت افسردہ حالت میں سر جھکائے دیکھا۔ آپ نے جابرؓ سے فرمایا، جابر! تمہیں اپنے باپ کی موت کا بہت صدمہ معلوم ہوتا ہے۔ اُس نے کہا ہاں یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! باپ بھی بہت نیک تھا جس کی وفات کا طبعی طور پر مجھے سخت صدمہ ہے مگر میری افسردگی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا خاندان بہت بڑا ہے اور اب اُس کا تمام بار میرے کمزور کندھوںپر آ پڑا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ جابر! اگر تمہیں معلوم ہوتا کہ تمہارے باپ کا کیا حال ہوا تو تم کبھی افسردہ نہ ہوتے بلکہ خوش ہوتے۔ پھر آپؐ نے فرمایا۔ جابر! جب عبداللہؓ شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہا۔ عبداللہ کی روح کو میرے سامنے لاؤ۔ جب عبداللہ کی روح اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کی گئی تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے باپ سے فرمایا کہ عبداللہ! ہم تمہارے کارنامے پر اور اسلام کے لئے تم نے جو قربانی پیش کی ہے اُس پر اتنے خوش ہوئے ہیں کہ تم جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مانگو ہم تمہاری ہر خواہش کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اِس پر عبداللہؓ نے یہ نہیں کہا کہ الٰہی! جنت کے فلاں مقام پر مجھے رکھا جائے، اِس پر عبداللہؓ نے یہ نہیں کہا کہ الٰہی! مجھے ایسی ایسی حوریں دے، عبداللہؓ نے یہ نہیں کہا کہ الٰہی! مجھے جنت میں غلمان خدمت کے لئے دے، عبداللہؓ نے یہ نہیں کہا کہ الٰہی !مجھے ایسے ایسے باغات مل جائیں بلکہ عبداللہؓ نے اگر کہا تو یہ کہا کہ اے میرے ربّ! اگر تو مجھے کچھ دینا ہی چاہتا ہے تو میری خواہش یہ ہے کہ تو مجھے پھر زندہ کر دے تا کہ میں پھر تیرے دین کی خدمت کرتا ہوا مارا جاؤں۔۱؎
اِس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ شہید ہونے والا اپنی مرضی سے مرنا نہیں چاہتا۔ وہ خطرے کے مواقع پر اپنی جان ضرور پیش کرتا ہے مگر اُس کا دل چاہتا ہے کہ میں زندہ رہ کر ان تمام مشکلات کا مقابلہ کروں جو اسلام یا دین حقّہ کو مخالفوں کی طرف سے پیش آنے والی ہیں۔ پس میں نے جو اعتراض خود کشی کرنے والوں یا جھوٹے جان دینے والوں پر کیا ہے وہ شہداء پر نہیں پڑتا۔
غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ وہ دین حقّہ کے لئے ایسے قربانی کرنے والے پیدا کرے جو اپنی جان کو مار کر اِس دنیا کی جدوجہد سے بھاگنا نہیں چاہتے بلکہ دنیا میں زندہ رہ کر دنیا کی کشمکشوں میں سے گذر کر، دنیا کی مصیبتوں کو جھیل کر، دنیا کی تکالیف کو برداشت کرکے اپنی مردانگی کا ثبوت دینا چاہتے ہیں اور بتانا چاہتے ہیں کہ خداتعالیٰ کا بندہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے ڈرا نہیں کرتا۔ یہی وہ حقیقی قربانی ہے جو شاندار ہوتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں خداتعالیٰ کا نام لے کر سینہ میں خنجر مار لینا کوئی قربانی نہیں وہ بزدلی ہے، وہ کمزوری ہے، وہ دون ہمتی ہے جو لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ایک قربانی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے ورنہ وہ خوب جانتا ہے کہ میں بُزدل ہوں۔ میں اس لئے مَر رہا ہوں کہ دنیا میں رہ کر میں مصیبتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور وہ سمجھتا ہے کہ چند مصیبتیں آنے کے بعد ہی میرا ایمان کمزور ہو جائے گا اِس لئے وہ اپنی زندگی کو ختم کر دیتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ اِس قربانی کی بنیاد ڈالے جو زندہ رہ کر اور دنیا کی کشمکشوں کا مقابلہ کر کے اور دنیا کی مصیبتوں کو برداشت کر کے انسان پیش کر سکتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا سب سے بڑا کارنامہ درحقیقت یہی تھا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وہ رؤیا دکھائی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ وہ اکلوتے بیٹے کو جو یقینا اسماعیل تھے ذبح کر رہے ہیں تو چونکہ اُس وقت لوگ اپنے بیٹوں کو خدا تعالیٰ کے نام پر ذبح کرتے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سمجھا کہ الٰہی منشاء یہ ہے کہ میں بھی اپنے بیٹے کو خداتعالیٰ کے نام پر ذبح کر دوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل کو جن کی عمر اُس وقت تاریخ سے سات سال کی معلوم ہوتی ہے بتایا کہ میں نے ایسی ایسی رؤیا دیکھی ہے۔ اسماعیل جو اپنے باپ کی نیک تربیت کے ماتحت دین کو سمجھتا تھا اور جس میں یہ حس تھی کہ خداتعالیٰ کے لئے قربانی کرنی چاہیے اُس نے فوراً حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس بات کو قبول کیا کہ خدا تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے آپ اُس پر عمل کریں۔ ۲؎
میں اِسے حضرت اسماعیل کی ذاتی نیکی نہیں سمجھتا۔ جب وہ بڑے ہوئے تو یقینا وہ نیک ثابت ہوئے اور اُنہوں نے اپنے عمل اور طریق سے خداتعالیٰ کو اتنا خوش کیا کہ اُس نے اِنہیں نبوت کے مقام پر فائز کر دیا مگر الصَّبِیُّ صَبِیٌّ وَلَوْکَانَ نَبِیًّا بچہ بچہ ہی ہے خواہ وہ بعد میں نبی ہی کیوں نہ بن جائے۔ سات سال کی عمر میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا یہ نمونہ دکھانا یقینا حضرت ابراہیم علیہ السلام، اُن کی بیوی اور دوسرے رشتہ داروں کی نیکی کا مظاہرہ تھا حضرت اسماعیل کی ذاتی خوبی نہیں تھا۔
مجھے اپنے گھر کا ایک واقعہ یاد ہے۔ میرا ایک بچہ جس کی عمر پانچ چھ سال تھی ایک دفعہ نچلی منزل کی سیڑھی پر کھڑا تھا اور میں اُوپر تھا۔ اُس کے ایک دو بھائی جو بڑی عمر کے تھے وہ اُس کے پاس کھڑے اُسے ڈرا رہے تھے اور میرے کان میں ان کی آوازیں آ رہی تھیں۔ مجھے اُن کی باتیں کچھ دلچسپ معلوم ہوئیں اور میں غور سے سُننے لگا۔ میں نے سُنا اُن میں سے ایک نے اُسے کہا۔ اگر تم کو رات کے وقت جنگل میں اکیلے چھوڑ آئیں تو کیا تم اِس کے لئے تیار ہوگے؟ میں نے دیکھا کہ اس بات کے سنتے ہی بچے پر دہشت غالب آ گئی۔ وہ ڈر گیا اور اس نے کہا نہیں۔ اِس کے بعد دوسرے نے کہا۔ اگر میں تم کو کہوںکہ تم رات کو اکیلے جنگل میں چلے جاؤ اور وہیں رہو تو کیا تم میری بات مانو گے؟ اُس نے کہا نہیں۔ پھر اُنہوں نے کسی اَور کانام لے کر کہا کہ اگر وہ کہے تو پھر بھی مانو گے یا نہیں؟ اُس نے کہا نہیں۔ اِس کے بعد اُنہوں نے کسی اَور کا نام لیا کہ اگر وہ ایسا کہے تو کیا پھر بھی تم مانو گے یا نہیں؟ اُس نے کہا نہیں۔ پھر اُنہوں نے میرا نام لیا اور کہا کہ اگر ابا جان کہیں توکیا تم جنگل میں چلے جاؤ گے؟ اُس نے پھر کہا نہیں۔ آخر اُنہوں نے کہا۔ اگر خدا کہے کہ تم جنگل میں چلے جاؤ تو کیا تم جاؤ گے؟ میں نے دیکھا کہ اِس بات کے سنتے ہی اُس کا رنگ زرد ہو گیا مگر اُس نے کہا ہاں پھر میں مان لوں گا۔
اب دیکھو پانچ چھ سال کا بچہ نہیں جانتا کہ خدا کیا چیز ہے۔ وہ صرف موٹی موٹی باتیں جانتا ہے خداتعالیٰ کے احکام کی اہمیت کو نہیں سمجھتا مگر چونکہ صبح و شام وہ سنتا رہتا ہے کہ خداتعالیٰ کی ذات بہت بڑی ہے اور اُس کے احکام کو نہ ماننا کسی انسان کے لئے جائز نہیں ہو سکتا اِس لئے اور سب کا نام لینے پر اُس نے انکار کیا یہاں تک کہ باپ کا نام لینے پر بھی اُس نے یہی کہا کہ میں نہیں جاؤں گا مگر جب خداتعالیٰ کا نام لیا گیا تو اُس نے سمجھا کہ اب انکار نہیں ہو سکتا اور اُس نے کہا کہ اگر خدا کہے تو پھر میں چلا جاؤں گا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی جب اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ خداتعالیٰ نے مجھے رؤیا میں یہ دکھایا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں اب بتا تیری کیا رائے ہے؟ تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اُس نیک تربیت کی وجہ سے جو اُنہیں حاصل تھی یہ جواب دیا کہ جب خدا نے ایسا کہا ہے تو پھر بے شک اِس پرعمل کریں میں اِس کے لئے بالکل تیار ہوں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو جنگل میں لے گئے، ان کی آنکھوں پرپٹی باندھی، اُنہیں زمین پر لٹا دیا اور پھر چھری نکال کر چاہا کہ اُس زمانہ کے رسم و رواج کے مطابق اپنے بیٹے کو خداتعالیٰ کے نام پر ذبح کر دیں مگر خداتعالیٰ تو یہ بتانا چاہتا تھا کہ انسانی قربانی ناجائز ہے۔ چنانچہ جب اُنہوں نے چھری نکالی اور ذبح کرنا چاہا تو فرشتہ نازل ہوا اور اُس نے خداتعالیٰ کی طرف سے کہا کہ ۔ ۳؎ اے ابراہیم! تم نے عملاً اپنے بچے کو ذبح کرنے کے ارادہ سے لٹا کر اور چھری نکال کر اپنے خواب کو پورا کر دیا ہے مگر ہمارا منشاء یہ نہیں تھا کہ تم واقع میں اِسے ذبح کر دو بلکہ ہم یہ بتانا چاہتے تھے کہ خواب میں اگر کوئی شخص اپنے بچے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو اِس کی تعبیر کچھ اَور ہوتی ہے۔ ہم انسانی قربانی کو روکنا چاہتے تھے اور اِسی لئے ہم نے یہ رؤیا دکھائی تھی۔ اِس ذریعہ سے تمہارا ایمان بھی ظاہر ہو گیا اور ہماری غرض بھی پوری ہوگئی۔ اے ابراہیم! آج سے انسانی قربانی کو بند کیا جاتا ہے اب آئندہ کسی انسان کو اِس رنگ میں قربان کرنا جائز نہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے انسانی قربانی جو خود کشی یا دوسرے کو قتل کرنے کے رنگ میں جاری تھی رُک گئی۔ درحقیقت اِس رؤیا میں یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت ابراہـیم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک وادیٔ غیر ذی ذرع میں اپنے بیٹے کو چھوڑ آئیں گے اور اس لئے چھوڑ آئیں گے ۴؎ تا کہ وہ خداتعالیٰ کی عبادت کو قائم کریں۔ دوسری جگہ یہ ذکر آتا ہے کہ اُن کو بیت اللہ کے پاس اِس لئے رکھا گیا تھا تاکہ وہ زائرین اور طواف کرنے والوں اور اعتکاف بیٹھنے والوں اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والوں کے لئے اُس کے گھر کو آباد رکھیں۔۵؎ چنانچہ جب یہ قربانی جاتی رہی تو پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے رؤیا کے ذریعہ بتایا کہ وہ اپنے بیٹے اسماعیل اور اس کی والدہ کو بیت اللہ کی جگہ چھوڑ آئیں۔
بخاری میں روایت آتی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں یہ حکم ہوا تو اُنہوں نے اپنا بچہ اُٹھا لیا یا ممکن ہے اُنہوں نے کسی سواری کا بھی انتظام کر لیا ہو۔ روایت میں آتا ہے کہ بعض جگہ حضرت ہاجرہ بچے کو اُٹھا لیتیں اور بعض جگہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اُسے اُٹھا لیتے اِس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی اور بچے کو ساتھ لے کر فلسطین سے مکہ کا رُخ کیا۔ میرا اندازہ یہ ہے کہ فلسطین سے مکہ کوئی دو ہزار میل کے قریب ہوگا۔ سفر کرتے کرتے وہ خانہ کعبہ میں پہنچے۔ اُس وقت صرف ایک مشکیزہ پانی کا اور ایک ٹوکری کھجوروں کی ان کے پاس تھی اُنہوں نے اپنی بیوی اور بچے کو وہاں بٹھایا اور کھجوروں کی ٹوکری اور پانی کا مشکیزہ اُن کے پاس رکھ دیا۔ مکہ میں اُس وقت کوئی پانی کا چشمہ یا نہر نہیں تھی، کوئی نالہ بھی پاس سے نہیں گذرتا تھا اور زمین کے لحاظ سے کوئی سرسبزی و شادابی اُس میں نہیں پائی جاتی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو وہاں رکھا، اپنی بیوی کو چھوڑا اور کہا میں ایک کام کے لئے جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ وہاں سے واپس چل پڑے لیکن ۸۰ سال کی عمر میں پیدا ہونے والے اکلوتے بچے کی محبت خواہ کوئی نبی بھی ہو، اُس کے دل سے ٹھنڈی نہیں ہو سکتی۔ اب ابراہیم علیہ السلام نوے سال کی عمر کو پہنچ رہے تھے اور اِس عمر میں اُن کا اپنے بیٹے اور اُس بیٹے کی شریف اور نیک ماں کو چھوڑ کر واپس چلے جانا کوئی آسان امر نہیں تھا۔ پچاس ساٹھ گز گئے تھے کہ اُنہوں نے مڑ کر اپنی بیوی اور بچے کو دیکھا اور اُن کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ پھر پچاس ساٹھ گز گئے تھے کہ محبت نے جوش مارا اور اُنہوں نے پھر ایک بار اُن کو دیکھا۔ پھر کچھ دور گئے تو محبت نے پھر جوش مارا اور اُنہوں نے مُڑ کر اُن پر نظر ڈالی۔ وہ اِس طرح کرتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں سے اُن کا نظر آنا مشکل ہو گیا۔ اُس وقت اُنہوں نے اُس طرف منہ کیا جدھر اُن کی بیوی بچہ تھے جن کو چھوڑ کر وہ ہمیشہ کے لئے جا رہے تھے اور جن کے زندہ رہنے کا بظاہر کوئی امکان نہیں تھا اور اللہ تعالیٰ کے حضور نہایت عاجزانہ طور پر اُنہوں نے دعا کی کہ ۶؎ اے ہمارے ربّ! اُنہوں نے کہا ہے رَبِّیْ نہیں کہا۔ کیونکہ اِس قربانی میں وہ اپنی بیوی کو بھی شامل کرتے ہیں مگر اس کے بعد وہ کہتے ہیں اِنَّا نہیں کہتے کیونکہ یہ فعل اُن کی بیوی کی طرف سے نہیں تھا ۔ اے ہمارے ربّ! میں نے اپنی ذریت کا ایک حصہ اِس وادی میں لا کر چھوڑ دیا ہے۔ ایک حصہ اُنہوںنے اِس لئے کہا کہ اُس وقت تک حضرت اسحق بھی پیدا ہو چکے تھے۔ جب اُنہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنا چاہا تھا اُس وقت تک حضرت اسحاقؑ پیدا نہیں ہوئے تھے لیکن جب اُنہوں نے حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ میں لا کر چھوڑا ہے اُس وقت حضرت اسحاقؑ پیدا ہو چکے تھے اِس لئے وہ فرماتے ہیں ۔الٰہی! میں نے اپنی اولاد کا ایک حصہ اس وادی میں لا کر چھوڑ دیا ہے۔ جس میں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی۔ جیسے ربوہ میں کوئی کھیتی باڑی نہیں ہوتی۔ سرکاری کاغذات میں لکھا ہوا ہے کہ اس رقبہ میں نہ زراعت ہوتی ہے اور نہ اِس وقت کی تحقیقات کے مطابق ہو سکتی ہے۔ Uncultivable Unagricultural۔ ۷؎ تیرے پاکیزہ گھر کے پاس۔ اُس وقت تک خانہ کعبہ نہیں بنا تھا لیکن اس آیت سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ کسی زمانہ میں وہاں کوئی پُرانا معبد تھا۔ اور جو لوگ یہ عقیدہ نہیں رکھتے وہ اس کے معنی یہ کرتے ہیں کہ جو معبد بننے والا ہے اس کے نزدیک میں نے اپنی اولاد کو لا کر رکھ دیا ہے۔ تیسرے معنی اس کے یہ کئے جاتے ہیں کہ بیت اللہ درحقیقت تقویٰ کا مقام ہے۔ پس کے یہ معنی ہیں کہ میں ایک ایسے مقام کے پاس انہیں چھوڑ رہا ہوں جہاں شیطانی خیالات کا دخل نہیں ہوگا یعنی دین کی خدمت کے لئے میں انہیں یہاں چھوڑ رہا ہوں ۔ اے میرے ربّ!میں اِن کو یہاں چھوڑ تو رہا ہوں مگر اِس لئے نہیں کہ یہ بڑی بڑی کمائیاں کریں یا بڑے بڑے جتھے بنائیں اور فتوحات حاصل کریں بلکہ اے میرے ربّ! میں اس لئے ان کو یہاں چھوڑ رہا ہوں تا کہ وہ تیری عبادت کو اِس جنگل میں قائم کریں۔
۸؎ پس اے میرے ربّ! تو لوگوں کے دلوں میں خود ان کی محبت ڈال اور اُنہیں اِس طرف جھکا دے۔ چونکہ یہ خالص تیری عبادت کے لئے وقف ہوں گے اور تیرے دین کی خدمت میں لگے ہوئے ہوں گے اِس لئے اے میرے ربّ! تو لوگوں کے ایک طبقہ کے دلوں کو ان کی طرف جھکا دے اور ان کے دلوں میں ان کی عقیدت اور احترام پیدا کر دے تا کہ وہ باہر کی دنیا میں رہ کر کمائیں اور اپنی کمائی کا ایک حصہ اِن کے کھانے کے لئے بھجوا دیا کریں۔ اور اے میرے ربّ! جب میں اپنی اولاد کو دین کی خدمت کے لئے یہاں چھوڑے جا رہا ہوں تو میں یہ نہیں چاہتا کہ مسجد کے مُلانوں کی طرح یہ جمعرات کی روٹیوں کے محتاج ہوں۔ میں اپنی اولاد کو ایک جنگل میں چھوڑ رہا ہوں، میں اپنے بچے کو جوجوان ہے اور اُس عمر سے گذر گیا ہے جس میں بچے بِالعموم مَر جایا کرتے ہیں ایک ایسی جگہ چھوڑ رہا ہوں جس میں اِس کی موت یقینی ہے انسان ہونے کے لحاظ سے میں علمِ غیب نہیں رکھتا اور میں نہیں جانتا کہ کَل تُو ان سے کیا سلوک کرے گا۔ میرا اندازہ انسانی علم کے لحاظ سے یہی ہے کہ میری بیوی اور بچہ یہاں مَر جائیں گے۔ میں نے انسان ہوتے ہوئے قربانی کے ہر نقطۂ نگاہ میں سے جو سب سے بڑا نقطۂ نگاہ تھا اُس کو پورا کر دیا ہے اب میں تیرا بھی امتحان لینا چاہتا ہوں۔ میں نے بندہ ہو کر وہ کام کیا ہے جو قربانی اور ایثار کے لحاظ سے اپنے انتہائی کمال کو پہنچا ہوا ہے اب میں تیری خدائی کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے اپنی بیوی اور بچے کو یہاں لا کر چھوڑا ہے اور یہ سمجھتے ہوئے چھوڑا ہے کہ وہ اِس جنگل میں بھوکے اور پیاسے مَر جائیں گے۔ اب اے خدا! اگر تو خدا ہے تو یہاں اُن کے لئے لوگوں کو کھینچ لا اور اُن کے قلوب اِس طرف مائل کر دے۔ ۹؎ مگر اے خدا! میں تجھ سے اُن کے لئے جمعرات کی روٹی نہیں مانگتا، میں تجھ سے اُن کے لئے چاول بھی نہیں مانگتا بلکہ میں یہ مانگتا ہوں کہ یہ جگہ جہاں گھاس کی ایک پتی بھی پیدا نہیں ہوتی اِس جگہ دنیا بھر کے میوے آئیں اور یہ اُن میووں کو یہاں بیٹھ کر کھائیں۔ تُو روٹی دے گاتو میں نہیں مانوں گا کہ تُو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے، تو چاول کھلائے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تُو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے، تو زردہ اور پلاؤ کھلائے گا تو میں نہیں مانوں گا کہ تو نے اپنی خدائی کا ثبوت دیا ہے۔ میں تیری خدائی کا ثبوت تب مانوں گا جب یہ مکہ میں بیٹھ کر چین اور جاپان اور یورپ اور امریکہ کے میوے کھائیں تب میں مانوں گا کہ تُو نے اپنی خدائی کا ثبوت دے دیا ہے۔ میں نے بندہ ہو کر ایک انتہائی قربانی کی ہے اب اے خدا! میں تیری خدائی کو بھی دیکھنا چاہتا ہوں اور وہ بھی اِس رنگ میں کہ اِس وادیٔ غیر ذی زرع میں دنیا کا ہر بہترین رزق تُو انہیں پہنچا۔ خداتعالیٰ نے ابراہیم کے اِس چیلنج کو قبول کیا اور اُس نے کہا۔ اے ابراہیم! تُو نے اپنی اولاد کو ایک وادیٔ غیر ذی زرع میں لاکر بسایا ہے اور مجھ سے کہا ہے کہ میں نے اپنا بیٹا قربان کر دیا ہے، اب تُو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے! تُو نے کہا ہے کہ میں نے ایک عاجز بندہ ہو کر اپنی بندگی کا ثبوت دے دیا، اب اے خدا! تُو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے! اور تُو نے ثبوت یہ مانگا ہے کہ یہ نہ کمائیں بلکہ بنی نوع انسان کمائیں اور اِنہیں کھلائیں اور کھلائیں بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے میوے اِن کے پاس پہنچیں۔ میں تیرے اِس چیلنج کو قبول کرتا ہوں اور میں اِس وادیٔ غیر ذی زرع میں جہاں گھاس کی ایک پتی بھی نہیں اُگتی تجھے ایسا ہی کر کے دکھاؤں گا۔
میں نے حج کے موقع پر خود اِس کاتجربہ کیا ہے۔ میں نے مکہ مکرمہ میں ہندوستان کے گنے دیکھے ہیں، میں نے مکہ مکرمہ میں طائف کے انگور کھائے، میں نے مکہ مکرمہ میں اعلیٰ درجہ کے انار کھائے ہیں، گنے کے متعلق تو مجھے یاد نہیں کہ میری طبیعت پر اس کے متعلق کیا اثر تھا لیکن انگوروں اور اناروں کے متعلق میں شہادت دے سکتا ہوں کہ ویسے اعلیٰ درجہ کے انگور اور انار میں نے اور کہیں نہیں کھائے۔ میں یورپ بھی گیا ہوں، میں شام بھی گیا ہوں، میں فلسطین بھی گیا ہوں، اٹلی کا مُلک انگوروں کیلئے بہت مشہور ہے یورپ کے لوگ کہتے ہیں کہ بہترین انگور اٹلی میں ہوتے ہیں مگر میں نے اٹلی کے لوگوں سے کہا کہ مکہ کی وادیٔ غیر ذی زرع میں ابراہیمی پیشگوئی کے ماتحت جو انگور میں نے کھائے ہیں وہ اٹلی کے انگوروں سے بہت زیادہ میٹھے اور بہت زیادہ اعلیٰ تھے۔ ہمارے اِردگرد قندھار ، کوئٹہ اور کابل کا انار مشہور ہے مگر میں نے جو موٹا سرخ شیریں اور لذیذ انار مکہ میں کھایا ہے اُس کا سینکڑواں حصہ بھی قندھار اور کوئٹہ اور کابل کا انار نہیں۔
غرض حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں۔ اے خدا! میں نے اپنی بندگی کا انتہائی ثبوت دے دیا ہے اب تجھ سے میں کہتا ہوں کہ تُو بھی اپنی خدائی کا انتہا درجے کا ثبوت دے اور وہ ثبوت میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ یہ نہ کمائیں بلکہ لوگ کما کر اِن کے پاس لائیں اور لائیں بھی معمولی چیزیں نہیں بلکہ دنیا بھر کے بہترین پھل اور میوے ۱۰؎ اے میرے ربّ! میں احسان کے طور پر نہیں کہتا میں یہ نہیں کہتا کہ اگر ایسا ہوا تب میرا بدلہ اُترے گا یا تب میری اولاد کی قربانی کابدلہ اُترے گا۔ میں نے بیشک ایک مطالبہ کیا ہے مگر اِس لئے نہیں کہ میں نے کوئی قربانی کی ہے بلکہ میں نے یہ مطالبہ محض اِس لئے کیا ہے کہ بندے نے اپنی بندگی کا انتہائی ثبوت دے دیا اب تُو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے تاکہ میری اولاد ایمان پر قائم رہے اور اِسے یقین ہو کہ کیسی زبردست طاقتوں کا مالک وہ خدا ہے جس کی خدمت کے لئے وہ یہاں بیٹھے ہیں۔ بظاہر یہ ایک چیلنج معلوم ہوتا ہے کہ دیکھ! میں نے کتنی قربانی کی، اب تو بھی اپنی خدائی کا ثبوت دے۔ مگر میری یہ غرض نہیں کہ تُو میرے فعل کی وجہ سے اِنہیں یہ پھل کھلا بلکہ میری غرض یہ ہے کہ تیرے فعل سے بنی نوع انسان کے اندر ایمان پیدا ہو۔ گویا اِس میں بھی اصل غرض تیرے نام کی بلندی ہے اپنے نام کی بلندی نہیں۔
۱۱؎ پھر ابراہیم علیہ السلام کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ بچہ چھوٹا ہے بیوی جوان ہے، یہ میری دوسری بیوی ہے میری بڑی بیوی جو میری پھوپھی زاد بہن ہے میرے گھر میں موجود ہے اور اُس سے نسل بھی ہو رہی ہے، ہاجرہ یہ بھی جانتی ہے کہ وہ میری چہیتی بیوی ہے اور یہ بھی جانتی ہے کہ اُس سے اولاد ہوگئی ہے اِس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوگا کہ یہ ظالم اُس بیوی کی خاطر مجھے یہاں چھوڑے جا رہا ہے اور اُس بچے کی خاطر میرے اِس بچے کو چھوڑ رہا ہے اِس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے حضور گر گئے اور اُنہوں نے کہا۔ اے میرے ربّ! میں نے تیرے نام کی عزت کے لئے اپنے اوپر یہ دھبّہ قبول کیا ہے۔ میں اپنی بیوی کو یہاں اِس لئے نہیں چھوڑ رہا کہ میں اپنی پہلی بیوی کو اِس پر مقدم رکھتا ہوں۔ میں اپنے بچے کو اِس لیے یہاں نہیں چھوڑ رہا کہ میں اِس بچے پر دوسرے بچہ کو مقدم رکھتا ہوںبلکہ اے خدا! اِس بیوی کو میں اِس لئے یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ تو نے مجھے اِس کا حکم دیا ہے اور اے خدا! یہ بچہ مجھے بہت عزیز ہے۔ اسحق سے ذلیل سمجھ کر میں اِسے یہاں نہیں چھوڑ رہا۔ میں اُس کی وراثت میں اِسے روک سمجھ کر یہاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ اے خدا! باوجود اِس کے کہ یہ مجھے بہت پیارا ہے میں اِسے اِس لئے یہاں چھوڑ رہا ہوں کہ تُو نے اِسے یہاں چھوڑنے کو کہا ہے۔ یہ ظلم کا الزام، یہ بے وفائی کا الزام، یہ سنگدلی کا الزام، اے خدا! میں نے محض تیرے لئے قبول کیا ہے۔ میری بیوی اِس نکتہ کو نہیں سمجھ سکتی۔ وہ سمجھے گی کہ میں نے دوسری بیوی کی خاطر اِسے یہاں چھوڑا ہے۔ میرا بچہ بھی اِس بات کو نہیں سمجھ سکتا۔ وہ بڑا ہو کر کہے گا کہ باپ کیسا ظالم تھا وہ مجھے اور میری ماں کو یہاں چھوڑ گیا۔ اے میرے ربّ! میں اپنے دل کا درد کس کو بتاؤں سوائے تیری ذات کے جسے سب کچھ علم ہے۔ تجھے پتہ ہے کہ میرے دل میں کتنا دُکھ ہے، تجھ کو پتہ ہے کہ یہ ظاہری سنگدلی اور ظلم کا الزام میں نے محض تیرے حکم کو پورا کرنے کے لئے اپنے اوپر لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱۲؎ ابراہیم نے کہا تھا تُو جانتا ہے کہ میرے دل میں کتنا درد ہے اور یہ کہ ظاہری طور پر میں جو کچھ سنگدلی اور سختی کر رہا ہوں یہ محض تیرے لے ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ خدائی کلام ہے ابراہیم کا نہیں۔ فرماتا ہے خداتعالیٰ کو پتہ ہے کہ زمین اور آسمان میں کیا کچھ ہے اُس کے علم سے کوئی بات مخفی نہیں۔ وہ جانتا ہے کہ ابراہیم کا یہ فعل ایک بیج کی طرح زمین میں ڈالا جا رہا ہے جس سے ایک دن ایک بڑی قوم پیدا ہوگی اور وہ جانتا ہے کہ آسمان پر اِس بیج بونے کے نتیجہ میں کیسا عظیم الشان انعام مقدر ہے۔
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہاتھ اُٹھا کر یہ دعا کی تو حضرت ہاجرہؓ کے دل میں شُبہ پیدا ہوا کہ یہ جدائی کسی عارضی کام کے لئے معلوم نہیں ہوتی بلکہ دائمی جدائی معلوم ہوتی ہے۔ وہ دَوڑتی ہوئی آپ کے پیچھے گئیں اور اُنہوں نے کہا۔ ابراہیم! ابراہیم! تم ہمیں یہاں کس لئے چھوڑے جا رہے ہو؟ یہ تو عارضی جدائی معلوم نہیں ہوتی۔ تم ہمیں جنگل میں اکیلے چھوڑے جا رہے ہو۔ ابراہیم دیکھو! تمہارا بیٹا بھوکا مَر جائے گا، ابراہیم تمہاری جوان بیوی یہاں موجود ہے اور اس کا بھی تم پر حق ہے۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُن کی طرف نہیں دیکھا کیونکہ ان کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔ وہ ڈرتے تھے کہ اگر میں نے جواب دیا تو بیتاب ہو جاؤں گا اور رقت مجھ پر غالب آ جائے گی اور یہ اُس شان کے خلاف ہوگا جس کا یہ قربانی تقاضا کرتی ہے۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جواب نہ دیا تو پھر ہاجرہؓ نے کہا۔ ابراہیم! ابراہیم! اپنی بیوی اور بیٹے کو کس لئے ایک ایسے جنگل میں چھوڑے جا رہے ہو جس میں ایک دن بھی رہائش اختیار نہیں کی جا سکتی۔ بھیڑیئے آئیں گے اور ہمیں ختم کر دیں گے اور اگر بھیڑیئے نہ بھی آئے تب بھی پانی ختم ہو گیا تو ہم کیا کریں گے؟ کھجوریں ختم ہو گئیں تو ہم کیا کریں گے؟ آخر کیوں تم ہمیںیہاں چھوڑے جا رہے ہو؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پھر بھی اُن کی طرف نہ دیکھا اور زبان سے کوئی جواب نہ دیا۔ آخر ہاجرہؓ نے آگے بڑھ کر اُن کا دامن پکڑ لیا اور کہا۔ بتاؤ تم کس پر ہمیں چھوڑے جا رہے ہو؟ کیا خدا پر چھوڑے جا رہے ہو؟ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا منہ موڑا اور آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا دی۔ بولے نہیں کیونکہ جانتے تھے کہ اگر میں بولا تو رقت مجھ پر غالب آ جائے گی۔ اُنہوں نے صرف آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا دی جس کا مطلب یہ تھا کہ ہاں خدا پر اور خداتعالیٰ کے کہنے پر میں یہ کام کر رہا ہوں۔ ہاجرہؓایک عورت ہی سہی، وہ ایک مصری خاتون ہی سہی جس کا ابراہیمی خاندان سے کوئی تعلق نہیں تھا مگر وہ ابراہیمی تربیت حاصل کر چکی تھی، وہ خدا کا نام سن چکی تھی، وہ الٰہی قدرتوں کا مشاہدہ کر چکی تھی جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آسمان کی طرف اُنگلی اُٹھا کر بتایا کہ میں محض خداتعالیٰ کی خاطر اور اُسی کے حکم کی تعمیل میں تمہیں یہاں چھوڑے جا رہا ہوں تو ہاجرہؓ فوراً پیچھے ہٹ گئیں اور اُنہوں نے کہا۔ اِذًا لاَّیُضَیِّعُنَاَ ۱۳؎ تب خداتعالیٰ ہم کو ضائع نہیں کرے گا۔ـ بے شک جہاں جانا ہے چلے جاؤ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام چلے گئے اور وہ بے وطن اور مسکین ہاجرہؓ اسماعیل کی ماں پھر اپنے خاوند کا منہ نہیں دیکھ سکی۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام جب جوان ہوئے تو اس کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے لیکن اُس وقت حضرت ہاجرہؓ فوت ہوچکی تھیں۔ تب خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اُنہوں نے خانۂ کعبہ کی تعمیر کی جس کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں اور جس کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے ہیں۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام دوبارہ آئے اُس وقت جرہم قبیلہ کے لوگ وہاں بس چکے تھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ اُنہوں نے اپنی بیٹی بھی بیاہ دی تھی۔ اب وہ آبادی تھی چند خیمے یا چند جھونپڑیاں تھیں جن میں لوگ رہتے تھے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ جھونپڑیاں تھیں کیونکہ روایات میں ذکر آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو حضرت اسماعیل اُس وقت گھر پر نہیں تھے۔ آپ گھر میں یہ پیغام دے گئے کہ جب اسماعیل آئے تو اُس سے کہنا کہ تمہاری چوکھٹ اچھی نہیں اُسے بدل دو۔ ۱۴؎ مطلب یہ تھا کہ تمہاری بیوی بَداخلاق ہے اِس کی بجائے کوئی اچھے اخلاق والی بیوی کرو۔ حضرت ابراہیم ؑاِس کے بعد بھی کئی دفعہ آئے۔ ایک اُس وقت آئے جب اُنہوں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی بنیاد رکھی تھی اور ایک اُس وقت آئے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام گھر پر نہیں تھے وہ اکثر شکار کے لئے دُور پہاڑوں میں نکل جایا کرتے تھے اور پھر شکار کا گوشت سکھا کر رکھ لیتے اور استعمال کرتے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تو حضرت اسماعیل علیہ السلام شکار کی تلاش میں باہر گئے ہوئے تھے۔ آپ نے دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے ایک عورت بولی۔ بابا تو کون ہے؟ آپ نے فرمایا۔ بی بی! میں اسماعیل سے ملنے کے لئے آیا ہوں۔ اُس نے کہا۔ بابا جاؤ، اسماعیل تو گھر پر نہیں۔ اُنہوں نے کہا۔ اچھا، میں جاتا تو ہوں مگر جب اسماعیل واپس آئے تو اُس سے کہہ دینا کہ تمہارے دروازہ کی چوکھٹ اچھی نہیں اُسے بدل دو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو اُنہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ پیچھے کے واقعات بتاؤ چونکہ اُس وقت مکہ میں صرف چند گھر تھے اِس لئے اُنہیں ایک دوسرے کے حالات معلوم کرنے کی طبعاً جستجو رہتی تھی اور بڑا بھاری واقعہ وہ اِس بات کو سمجھتے تھے کہ فلاں قبیلہ یہاں سے گذرا ہے اور وہ یہ یہ چیزیں لے گیا اور یہ یہ چیزیں دے گیا ہے۔ بیوی نے کہا اور تو کوئی واقعہ نہیں ہوا صرف ایک بڈھا آپ کے پیچھے آیا تھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کا دل دھڑکنے لگا کہ یہ بڈھا کہیں اُن کا باپ ہی نہ ہو۔ اُنہوں نے کہا اُس بڈھے نے کوئی بات بھی کی تھی یا نہیں؟ اُس نے کہا اُس بڈھے نے آپ کے متعلق پوچھا تھا۔ میں نے بتایا کہ آپ گھر پر موجود نہیں ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا کہ کیا تم نے اُس بڈھے کی کوئی خاطر تواضع بھی کی؟ اُس نے کہا۔ میں نے تو کوئی خاطر تواضع نہیں کی البتہ جاتے وقت وہ ایک پیغام آپ کو پہنچانے کے لئے دے گیا تھا۔ اُس نے کہا تھا کہ اسماعیل سے کہہ دینا تمہاری چوکھٹ اچھی نہیں اِسے بدل دو۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے یہ سنتے ہی کہا۔ بی بی! میری طرف سے تم پر طلاق۔۱۵؎ اُس نے کہا اِس کا کیا مطلب؟ حضرت اسماعیل نے کہا۔ وہ بڈھا میرا باپ تھا جو دو ہزار میل سے چل کر آیا مگر تم سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ تم اُنہیں کہتیں تشریف رکھئے اور آرام کیجئے۔ تمہارے اخلاق ایسے نہیں کہ میرے گھر میں رہنے کے قابل سمجھی جا سکو۔ چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اُسے طلاق دے دی اور ایک اَور شادی کر لی۔
کچھ عرصہ کے بعد پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے۔ اتفاقاً اُس دن بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام باہر تھے آپ آئے اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے ایک عورت نے جواب دیا کہ کون صاحب ہیں؟ بیٹھئے، تشریف رکھئے۔ چنانچہ آپ اندر گئے۔ اُس عورت نے آپ کی خدمت کی، پَیر دُھلائے، کھانے پینے کی چیزیں آپ کے سامنے رکھیں اور کہا مجھے سخت افسوس ہے کہ آپ بہت فاصلہ سے آئے مگر اسماعیل سے نہیں مل سکے۔ آپ ٹھہریئے اور ان کا انتظار کیجئے اِس عرصہ میں مجھ سے جو کچھ ہو سکتا ہے میں آپ کی خدمت کروں گی۔ مگر حضرت ابراہیم علیہ السلام ٹھہرے نہیں بلکہ واپس چلے گئے۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ اُن کی قوم کے افراد بہت پھیلے ہوئے تھے اور وہ ان کے ہاں ٹھہر جاتے تھے۔ جاتے ہوئے اُنہـوں نے کہا۔ اسماعیل جب واپس آئے تو اُسے کہنا کہ فلاں طرف سے ایک آدمی آیا تھا اور اُس سے کہنا کہ تمہارے دروازے کی چوکھٹ اب بالکل ٹھیک ہے اِس کو قائم رکھنا۔ چنانچہ حضرت اسماعیل ؑ جب واپس آئے اور اُنہوں نے اپنی بیوی سے کہا کہ کوئی نئی خبر سناؤ تو اُس نے کہا۔ آج کی نئی خبر یہ ہے کہ ایک بڈھا آیا تھا۔ حضرت اسماعیل نے جلدی سے کہا پھر؟ اُس نے کہا۔ میں نے اُن کو بٹھایا، پاؤں دُھلائے، پانی پلایا اور کھانے کے لئے اُن کے سامنے چیزیں رکھیں۔ میں نے اُن سے یہ بھی کہا تھا کہ ٹھہریئے جب تک اسماعیل واپس نہیں آ جاتے مگر اُنہوں نے کہا کہ میں زیادہ انتظار نہیں کر سکتا۔ اِس کے بعد وہ چلے گئے مگر جاتی دفعہ وہ ایک عجیب طرح کا پیغام دے گئے۔ اُنہوں نے کہا کہ اسماعیل سے کہہ دینا، تمہارے دروازہ کی چوکھٹ بڑی اچھی ہے اِسے قائم رکھنا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا۔ میری بیوی! یہ آنے والا میرا باپ تھا اور سفارش کرکے گیا ہے کہ میں تمہیں عزت و احترام سے اپنے گھر رکھوں۔۱۶؎
آخر وہ دن بھی آ گیا جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل ؑ کو اپنے ساتھ لے کر اُس گھر کی بنیاد رکھی جس کو خانۂ کعبہ کہتے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔
۱۷؎ اور جبکہ ہم نے وہ گھر جو ابرہیم نے بنایا اُس کو لوگوں کے لئے بار بار آنے کا مقام بنا دیا، زیارت گاہ بنا دیا، ثواب کی جگہ بنا دیا، اور امن کا مقام بنا دیا۔ اور اے لوگو! جو خانۂ کعبہ کے شیدائی بنتے ہو، جو بیت اللہ کی محبت کا دَم بھرتے ہو، تم ہر ایک چیز جو تمہیں پسند آتی ہے، اُس کی تصویر اپنے گھر میں رکھنے کی کوشش کرتے ہو، اگر کوئی پھل تمہیں پسند آئے تو تم اُسے اپنے گھر لاتے اور اپنے بیوی بچوں کو چکھانے کی کوشش کرتے ہو۔ اے کم عقلو! جب تم بازار میں خربوزہ دیکھ کر بس نہیں کرتے بلکہ وہ خربوزہ گھر میں لاتے ہو، جب تم کسی اچھے نظارے کو دیکھتے ہو تو اُس کی تصویر کھینچتے اور اپنے بیوی بچوں کو دکھاتے اور آئندہ آنے والوں کے لئے گھر میں رکھتے ہو تو کیا وجہ ہے، کیا سبب ہے، اس میں کون سی معقولیت ہے کہ تم اپنے مونہوں سے تو خانۂ کعبہ کی تعریفیں کرتے ہو، اپنے مونہوں سے تو خانۂ کعبہ کے احترام کا اظہار کرتے ہو لیکن تم ایک خربوزے کو تو گھر میں لانے کی کوشش کرتے ہو، تم تاج محل کو دیکھتے ہو تو اُس کی تصویر لینے کی کوشش کرتے ہو مگر تم خانۂ کعبہ کے ظِلّ کو اپنے مُلک اور اپنے علاقہ میں لانے کی کوشش نہیں کرتے۔
خانۂ کعبہ کیا ہے؟ ایک گھر ہے جو خداتعالیٰ کی عبادت کیلئے وقف ہے مگر یہ ظاہر ہے کہ ساری دنیا کے انسان خانۂ کعبہ میں نہیں جا سکتے۔ پس جس طرح خداتعالیٰ چاہتا ہے کہ ابراہیم ؑ کی نقلیں دنیا میں پیدا کرے، اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ تم خانۂ کعبہ کی نقلیں بناؤ جس میں تم اور تمہاری اولادیں اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کر کے بیٹھ جائیں۔ جس طرح وہ لوگ جو ابراہیم ؑ کے نمونہ پر چلیں گے، ابراہیم علیہ السلام کی اولاد اور اس کا ظل ہوں گے اِسی طرح یہ نقلیں خانہ کعبہ کی اولاد ہوں گی، خانہ کعبہ کی ظل اور اُس کا نمونہ ہوں گی۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک خانہ کعبہ کے ظل دنیا کے گوشے گوشے میں قائم نہ کر دیئے جائیں اُس وقت تک دین پھیل نہیں سکتا۔ پس فرماتا ہے۔ اے بنی نوع انسان! ہم تجھ کوتوجہ دلانا چاہتے ہیں کہ تم بھی ابراہیمی مقام پر کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادتیں کرو۔ یعنی ایسے مرکز بناؤ جو دین کی اشاعت کا کام دیں۔
اب بتاتا ہے کہ وہ مقامِ ابراہیم کیا چیز ہے۔ اور ہم نے ابراہیم کو بڑی پکی نصیحت کی۔ عَھِدَبِہٖ کے معنی ہوتے ہیں اُس نے فلاں کے ساتھ عہد کیا لیکن جب کے ساتھ اِلٰی کا صلہ آئے تو اِس کے معنی ہوتے ہیں پکی نصیحت کرنا یا وصیت کرنا۔ پس فرماتا ہے۔ ہم نے ابراہیم اور اسماعیل کو بار بار نصیحت کی اور بار بار اِس طرف توجہ دلائی کہ تم دونوں میرے گھر کو پاک بناؤ اور ہر قسم کے عیبوں اور خرابیوں سے اِس کو بچاؤ طواف کرنے والوں کے لئے اور اُن لوگوں کے لئے جو اپنی زندگی وقف کر کے یہیں بیٹھ رہیں۔ طائفین وہ لوگ ہیں جو کبھی کبھی آئیں اور عاکفین وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی اِسی گھر کی خدمت کے لئے وقف کر دیں۔ اور اُن لوگوں کے لئے جو خداتعالیٰ کی توحید کے قیام کے لئے کھڑے رہتے ہیں اور اس کی فرمانبرداری میں اپنی ساری زندگی بسر کرتے ہیں یا ان لوگوں کے لئے جو رکوع اور سجود کرتے ہیں۔
یہ چیز ہے جو مقامِ ابراہیم ہے اور جس کو قائم کرنے کا اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے۔ فرماتا ہے ہماری نصیحت یہی ہے کہ دنیا کے گوشے گوشے میں خانہ کعبہ کی نقلیں بننی چاہئیں اور دنیا کے کونے کونے میں تمہیں اس کے ظل قائم کرنے چاہئیں اس کے بغیر دین حق کی کامل اشاعت کبھی نہیں ہو سکتی۔
(حضور نے فرمایا:۔)
میں ایک دفعہ اِس دعا کو پڑھ جاؤں گا۔ اس کے بعد پھر دوبارہ پڑھوں گا تمام عورتیں اور مرد میری اتباع کریں۔
(اِس ارشاد کے بعد حضور نے جس رنگ میں تلاوت فرمائی اور جس طرح بعض دعاؤں کا باربار تکرار فرمایا اُس کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ اَدْعیہ درج ذیل کی جاتی ہیں)
۔
(حضور نے فرمایا
یہاں سے گو حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ مراد ہیں مگر دعا مانگتے ہوئے سے ہر شخص میاں بیوی بھی مراد لے سکتا ہے۔
اے ہمارے ربّ! بنا دے اِس کو۔ جس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی ہے اُس وقت مکہ کوئی شہر نہیں تھا۔ وہ صرف چند جھونپڑیاں تھیں جو ایک بے آب و گیاہ وادی میں نظر آتی تھیں۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ زمین جو ویران پڑی ہوئی ہے اِسے بنا دے۔ کیا بنا دے؟ ایک شہر بنا دے۔
عام طور پر جو لوگ عربی نہیں جانتے وہ اِس کے معنی یہ کرتے ہیں کہ اِس شہر کو امن والا بنا دے۔ حالانکہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہی منشاء ہوتا تو آپ کہنے کی بجائے ھٰذَا الْبَلَدَ فرماتے۔ مگر آپ ھٰذَا الْبَلَدَ نہیں بلکہ کہتے ہیں پس یہ شہر کے بنانے کی دعا ہے۔ شہر کو کچھ اَور بنانے کی دعا نہیں۔ اے میرے ربّ! بنا دے اِس ویران زمین کو ایک شہر۔ مگر شہروں کے ساتھ فتنہ و فساد کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ جب لوگ مل کر رہتے ہیں تو لڑائیاں بھی ہوتی ہیں، جھگڑے بھی ہوتے ہیں، فسادات بھی ہوتے ہیں اور پھر شہروں کو فتح کرنے کیلئے حکومتیں حملہ بھی کرتی ہیں۔ یا بعض شہر جب بڑے ہو جائیں تو اُن کے رہنے والے اپنا نفوذ بڑھانے کیلئے دوسروں پر حملہ کر دیتے ہیں اور چونکہ یہ سارے خدشات شہروں سے وابستہ ہوتے ہیں اِس لئے میں تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو اِسے امن والا بنائیو۔ نہ کوئی اِس پر حملہ کرے اور نہ یہ کسی اَور پر حملہ کرے۔ اور اِس کے رہنے والوں کو ثمرات دیجیؤ۔
میں پہلے بتا چکا ہوں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اِس دعا کا یہ مفہوم ہے کہ اے خدا! میں تجھ سے ان کے لئے روٹی نہیں مانگتا، میں تجھ سے پلاؤ نہیں، میں تجھ سے دُنبے کا گوشت نہیں مانگتا، بے شک یہ بھی تیری نعمتیں ہیں اور اگر اِن کو مل جائیں تو تیرا فضل اور انعام ہے مگر میں جو کچھ چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تُو اِن کو وہ پھل کھلا جو دس میل لے جا کر بھی سَڑ جاتاہے۔ تو دنیا کے کناروں سے اِن کے لئے ہر قسم کے پھل لا اور اِنہیں اِن پھلوں سے متمتع فرما۔ پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی تھی کہ میری اولاد میں سے بھی نبی بنائیو۔ اِس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر وہ نیک ہوں گے تو ہم اُن کو اپنے انعامات سے حصہ دیں گے ورنہ نہیں۔ نبی بڑا محتاط ہوتا ہے۔ جب خداتعالیٰ نے یہ کہا کہ میں ہر ایک کو یہ انعام نہیں دے سکتا جو نیک ہوگا صرف اُسے انعام ملے گا۔ تو اِس دوسری دعا کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اِسی امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ یا اللہ جو نیک ہوں صرف اُن کو رزق دیجیؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ رزق کے معاملہ میں ہمارا اَور حکم ہے اور نبوت اور امامت کے معاملہ میں ہمارا اَور حکم ہے۔ نبوت اور امامت صرف نیک لوگوں کو ملتی ہے مگر رزق ہر ایک کو ملتا ہے۔ پس جو کافر ہوگا دنیا کی روزی ہم اُس کو بھی دیں گے۔ چنانچہ سینکڑوں سال تک مکہ کے لوگ مشرک رہے مگر ابراہیمی رزق اُن کو بھی پہنچتا رہا۔ ہاں تیری نسل ہونے کی وجہ سے وہ اُخروی عذاب سے بچ نہیں سکتے۔ مَر جائیں گے تو وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے اور وہ بہت بُرا ٹھکانا ہے۔
پھر فرماتا ہے یاد کرو جب ابراہیم ؑ اور اسماعیل ؑ مل کر بیت اللہ کی بنیادیں اُٹھا رہے تھے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ سے دعائیں کر رہے تھے کہ خدایا! تیرا گھر تو برکت والا ہی ہوگا کون ہے جو اُسے برکت سے محروم کر سکے ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہماری نسل میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو نمازیں پڑھنے والے اور تیری یاد میں اپنی زندگی بسر کرنے والے ہوں تا کہ اِس گھر کی برکت سے انہیں بھی فائدہ پہنچے مگر اگلی اولادوں کو ٹھیک کرنا آئندہ نسلوں کو درست کرنا اور اپنے ایمانوں کی حفاظت کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اے ہمارے ربّ! ہم نے خالص تیرے ایمان اور محبت کے لئے یہ گھر بنایا ہے تو اپنے فضل سے اسے قبول کرلے اور اس کو ہمیشہ اپنے ذکر اور برکت کی جگہ بنا دے۔ تو ہماری دردمندانہ دعاؤں کو سننے والا اور ہمارے حالات کو خوب جاننے والا ہے۔ تو اگر فیصلہ کر دے کہ یہ گھر ہمیشہ تیرے ذکر کے لئے مخصوص رہے گا تو اِسے کون بدل سکتا ہے۔ اِس آیت سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ بیت اللہ بنانے کے درحقیقت دو حصے ہیں۔ ایک حصہ بندے سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا حصہ خداتعالیٰ سے تعلق رکھتا ہے۔ جس مکان کو ہم بیت اللہ کہتے ہیں وہ اینٹوں سے بنتا ہے، چونے سے بنتا ہے، گارے سے بنتا ہے اور یہ کام خداتعالیٰ نہیں کرتا بلکہ انسان کرتا ہے۔ مگر کیا انسان کے بنانے سے کوئی مکان بیت اللہ بن سکتا ہے؟ انسان تو صرف ڈھانچہ بناتا ہے روح اس میں خداتعالیٰ ڈالتا ہے۔ اسی امر کو مدنظر رکھتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ڈھانچہ تو میں نے اور اسماعیل نے بنا دیا ہے مگر ہمارے بنانے سے کیا بنتا ہے۔ اے خدا! تو ہمارے اِس تحفہ کو قبول کر اور اسے اپنے پاس سے مقبولیت عطا فرما۔ ورنہ محض مسجدیں بنانے سے کیا بنتا ہے۔ کئی مسجدیں ایسی ہیں جو باپ دادوں نے بنائیں اور بیٹوں نے بیچ ڈالیں، کئی مسجدیں ایسی ہیں جو بادشاہوں یا شہزادوں نے بنائیں مگر آج اُن میں کتے پاخانہ پھرتے ہیں اِس لئے کہ انسان نے تو مسجدیں بنائیں مگر خدا نے اُنہیں قبول نہ کیا۔ پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کہتے ہیں کہ اے خدا! ہم نے تو تیرا گھر بنایا ہے مگر یہ محض ہمارے بنانے سے قیامت تک قائم نہیں رہ سکتا، یہ اُس وقت تک رہ سکتا ہے جب تک تُو کہے گا اِس لئے اے خدا! ہم نے جو گھر بنایا ہے اِسے تُو قبول فرما اور تُو سچ مچ اِس میں رہ پڑ۔ اور جب خدا کسی جگہ بَس جائے تو وہ کیسے اُجڑ سکتا ہے۔ گاؤں اُجڑ جائیں تو اُجڑ جائیں، شہر اُجڑ جائیں تو اُجڑ جائیں وہ مقام کبھی نہیں اُجڑ سکتا جس جگہ خدا بس گیا ہو۔ چنانچہ دیکھ لو سینکڑوں سال تک مکہ بے آباد رہا مگر چونکہ خداوہاں تھا اس لئے اس کی عزت قائم رہی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہی دعا مانگتے ہوئے فرماتے ہیںاے خدا! اِس گھر کی آبادی تیرے بندوں سے وابستہ ہے مگر محض لوگوں کی آبادی کوئی چیز نہیں اصل چیز یہ ہے کہ اِس سے تعلق رکھنے والے نیک ہوں۔ پس ہم جو بیت اللہ کو بنانے والے ہیں اور جو دو افراد ہیں ہماری پہلی دعا تو یہ ہے کہ تُو خود ہمیں نیک بنا اور پھر ہماری اولاد میں سے ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے جو تیرا مطیع اور فرمانبردار ہو۔ پھر چاہے انسان کے دل میں کتنا ہی اخلاص ہو اگر اُسے طریق معلوم نہ ہو کہ کس طرح کسی گھر کو آباد رکھنا ہے تو پھر بھی وہ غلطی کر جاتا ہے اِس لئے وہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! نہ صرف ہمارے دلوں میں ایمان قائم رکھ بلکہ وقتاً فوقتاً ہمیں یہ بھی بتاتا رہیو کہ ہم نے کس طرح اِسے آباد رکھنا ہے اور ہم کونسا وہ طریق عبادت اختیار کریں جس سے تُو خوش ہو اور یہ گھر آباد رہ سکے۔ مگر اِس اخلاص کے باوجود، اِس الہام کے باوجود جو یہ بتاتا رہے کہ کس طرح اِس گھر کو آباد رکھنا ہے اے خدا! ہم بندے ہیں اور ہم نے غلطیاں کرنی ہیں تُو توّاب اور رحیم ہے تو ہمیں معاف کر د یا کر اورہمارے گناہوں سے درگذر کرتا رہ۔ تو بڑی توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔ تواب اوررحیم نام اِسی لئے لائے گے ہیں کہ بندہ خواہ کتنی بھی نیک نیتی سے کام کرے وہ غلطی کر جاتا ہے۔ ایسی حالت میں توابیت اُس کے کام آتی ہے اور اگر اچھا کام کرے تو رحیمیت اُس کے کام آتی ہے۔
اے ہمارے ربّ! تو ان لوگوں میں جو اِس جگہ رہیں گے ایک عظیم الشان رسول مبعوث فرما۔ اور اے ہمارے ربّ! رسول کے آنے سے یہ ضرورت تو پوری ہو جائے گی کہ خانہ کعبہ سے جس طرح تعلق رکھنا ہے اُس کا پتہ لگ جائے گا اور وہ سچے اور مخلص مؤمن بن جائیں گے مگر اے ہمارے ربّ! ہم نے جو اپنی اولاد کو یہاں آ کر بسایا ہے اس میں کچھ خودغرضی بھی ہے۔ ہماری یہ بھی غرض ہے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہماری یہ بھی غرض ہے کہ ہماری اولاد کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ ہم نے صرف تیرا گھر نہیں بنایا بلکہ اپنی اولاد کو بھی یہاں لا کر بسا دیا ہے گویا ہم نے جو تیرے نام کی بلندی کی کوشش کی ہے اِس میں کچھ خود غرضی بھی شامل ہے۔ ہم نے یہ مکان بنایا ہے اس لئے کہ تیرا نام بلند ہو اور ہم نے اپنی اولاد یہاں اس لئے بسائی ہے کہ اِس کے ذریعہ تیرا نام بلند ہو۔ پس ہم نے جو اپنی اولاد یہاں بسائی ہے اِس میں ہماری یہ غرض بھی شامل ہے کہ آنے والا رسول اِنہی میں سے ہو باہر سے نہ ہو۔ وہ تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے۔ تیرے نشانات اور معجزات کے ذریعہ اُن کے ایمانوں کو بلند کرے۔ اور تیری شریعت جس کے بغیر باطن پاکیزہ نہیں ہوسکتا اور جو انسان کو مکمل نمونہ بنا دیتی ہے نازل ہو اور وہ لوگوں کو سکھائے۔ اور اے ہمارے ربّ! جب وہ رسول آئے گا انسانی عقل تیز ہو چکی ہوگی اُس وقت انسان بچہ نہیں ہوگا کہ اُسے یہ کہا جائے کہ اُٹھ اور فلاں کام کر اور جب وہ کہے کہ میں کیوں کروں؟ تو اُسے کہا جائے آگے سے بکواس مت کرو۔ عیسٰی ؑ کے زمانہ میں اور موسٰی ؑ کے زمانہ میں اور نوحؑ کے زمانہ میں ایسا ہو چکا مگر جب وہ نبی آئے گا اُس کا زمانہ انسانی عقل کے ارتقاء کا زمانہ ہوگا اُس وقت بندہ صرف یہی نہیں سنے گاکہ کر۔ بلکہ وہ پوچھے گا کہ کیوں کروں؟ پس اے خدا! تو اُس کو موسیٰ کی طرح شریعت ہی نہ دیجیؤ، نوحؑ کی طرح صحف ہی نہ دیجیؤ، داؤد کی طرح احکام ہی نہ دیجیؤ بلکہ ساتھ ہی اِن کی وجہ بھی بتا دیجیؤ اور ان احکام کی حکمت بھی واضح کیجیؤ تاکہ نہ صرف اُن کے جسم تیرے حکم کے تابع ہوں بلکہ اُن کا دماغ اور دل بھی تیرے حکم کے تابع ہو اور وہ سمجھیں کہ جو کچھ کہا گیا ہے فلسفہ کے ماتحت کہا گیا ہے، عقل کے ماتحت کہا گیا ہے، ضرورت کے ماتحت کہا گیا ہے، فوائد کے ماتحت کہا گیا ہے۔ اور اُن کو پاک کرے۔ دماغ کو ہی پاک نہ کرے بلکہ حکمت سکھا کر اُن کے قلوب کو بھی محبت الٰہی سے بھر دے یہاں تک کہ وہ اپنے آپ کو خداتعالیٰ میں جذب کر دیں، الٰہی صفات اُن میں پیدا ہو جائیں اور وہ چلتے ہوئے انسان نظرنہ آئیں بلکہ خدا نمائی کا ایک آئینہ دکھائی دیں۔
اے ہمارے ربّ! ہم نے جو چیز مانگی ہے بظاہریہ ناممکن نظر آتی ہے اور جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن ہم خوب جانتے ہیں کہ تجھ میں طاقت ہے تو عزیز خدا ہے، تو غالب خدا ہے اور تیری شان یہ ہے۔
جس بات کو کہے کہ کروں گا میں یہ ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہوا لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تُو ایسا کر سکتا ہے۔ چونکہ تو عزیز خدا ہے اِس لئے ہم چاہتے ہیں کہ ایسا رسول آئے۔
اِس پر اعتراض ہو سکتا تھا کہ اگر پہلے خدا نے ایسا رسول نہیں بھیجا تو اب کیوں بھیجے؟ اور اگر پہلے بھی ایسا رسول بھیجنا ضروری تھا تو پھر ایسے رسول کو نہ بھجوا کر بنی نوع انسان پر کیوں ظلم کیا گیا؟ اِس اعتراض کا کہہ کر ازالہ کر دیا کہ ہم جانتے ہیں پہلے ایسا رسول آ ہی نہیں سکتا تھا۔ پہلے لوگ اِس قابل ہی نہیں تھے کہ محمدی تعلیم کو برداشت کر سکیں۔ پس ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عزیز کہہ کر خدائی غیرت کو جوش دلایا ہے اور کہا ہے کہ ہمارا مطالبہ غیر معقول نہیں ہم جانتے ہیں کہ تُو ایسا کر سکتا ہے مگر ساتھ ہی حکیم کہہ کر بتا دیا کہ ہم یہ نہیں سمجھتے کہ اگر پہلے تو نے ایسا رسول نہیں بھجوایا تو نَعُوْذُ بِاللّٰہِ تُو نے بُخل سے کام لیا ہے بلکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر پہلے تو نے ایسا نبی نہیں بھیجا تو صرف اِس لئے کہ پہلے ایسا نبی بھیجنا مناسب نہیں تھا۔
یہ کیسی کامل دعا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مقام اور آپ کے بلند ترین مدارج کو واضح کرنے والی ہے۔ مگر میں پھر کہتا ہوں دنیا دوسری چیزوں کی نقلیں کرتی ہے، دنیا چاہتی ہے کہ اگر اسے اچھی تصویریں نظر آئیں تو اُن کو اپنے گھروں میں لے جائے، وہ خوشنما اور خوبصورت مناظر دیکھتی ہے تو اُن کے نقشے اپنے گھروں میں رکھتی ہے مگر انسان کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ وہ خانہ کعبہ کی بھی نقلیں بنائے جنہیں لوگ دیکھیں اور جہاں لوگ اپنی زندگیاں خداتعالیٰ کے ذکر اور اُس کے نام کی بلندی کے لئے وقف کر دیں۔ انسان کو یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ میں اپنے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا کر بٹھاؤں تا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نمونہ اور تصویر کو دیکھ کر اور لوگ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ظل بننے کی کوشش کریں حالانکہ اگر دنیا میں ہر جگہ خانہ کعبہ کے ظل اور اُس کی نقلیں نہ ہوں، اگر دنیا میں ہر جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظل اور آپ کی نقلیں نہ ہوں تو وہ دنیا ہرگز رہنے کے قابل نہیں۔ دنیا تبھی بچ سکتی ہے، دنیا تبھی زندہ رہ سکتی ہے، دنیا تبھی ترقی کر سکتی ہے جب ہر مُلک کے لوگ خانہ کعبہ کی نقل میں ایسی جگہیں بنائیں جہاں لوگ اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیں اور انسان کوشش کرے کہ ہر خطہ زمین پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے نظر آئیں۔
بہرحال یہ دعائیں ہیں جو کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مانگیں۔ میں اِس وقت اِسی پر بس کرتا ہوں۔ اگر میری تقریر کے لمبا ہو جانے کی وجہ سے بعض تقریریں ضائع ہوگئی ہیں تو بیشک ہو جائیں ہمارا مقصد اِس جلسہ میں تقریریں کرنا نہیں بلکہ دعائیں کر کے اِس مقام کو بابرکت بنانا ہے۔ میں نے دعائیں سکھا دی ہیں یوں انسان کے ذہن میں دعائیں نہیں آتیں مگر نبیوں کے ذہن میں جو دعائیں آتی ہیں وہ نہایت کامل ہوتی ہیں۔ خداتعالیٰ کے نبی حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کے دل میں ایسے وقت میں جو خیالات آئے اور جو کچھ ان مقدس مقامات کے فرائض اور ذمہ داریاں ہیں اور کامیابی کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ کے جن فضلوں کی ضرورت ہے ان تمام چیزوں کو آپ نے اللہ تعالیٰ سے مانگا ہے اور اب آپ سب لوگ میرے ساتھ مل کر دعا کریں۔ یہ زمین ابھی ہمیں پورے طور پر ملی نہیں ہم تفاؤل کے طور پر اِسے اپنا مرکز بناتے ہیں اور دعاؤں کے ساتھ اِسے اپنا مذہبی مقدس مقام قرار دیتے ہیں اِس کے بعد ہمارا فرض ہوگا کہ اِس مقام کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھنے کی کوشش کریں اور ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور خداتعالیٰ کے نام کی بلندی کے لئے اِسے استعمال کرنے کی کوشش کریں۔ـ
پس آؤ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لے گئے تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ اے خدا! میں ابراہیم کی طرح تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ تو مدینہ کو بھی اُسی طرح برکتیں دے جس طرح تو نے مکہ کو برکتیں دی ہیں اِسی طرح ہم بھی اس مقام کے بابرکت ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں۔ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہیںلیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم اور غلام ضرور ہیں اور جہاں آقا جاتا ہے وہاں خادم بھی جایا کرتا ہے۔ گورنر کی جب کسی جگہ دعوت ہوتو اُس مقام پر گورنر کا چپڑاسی پہنچ جایا کرتا ہے۔ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خادم ہونے کی حیثیت سے ہمارا بھی خدا پر حق ہے اور ہم بھی خداتعالیٰ کو اُس کا یہ حق یاد دلاتے ہوئے اُس سے کہتے ہیں کہ اے خدا!جس طرح تو نے مکہ اور مدینہ اور قادیان کو برکتیں دیں اُسی طرح تو ہمارے اِس نئے مرکز کو بھی مقدس بنا اور اِسے اپنی برکتوں سے مالا مال فرما۔ یہاں پر آنے والے اور یہاں پر بسنے والے، یہاں پر مَرنے والے اور یہاں پر جینے والے سارے کے سارے خداتعالیٰ کے عاشق اور اُس کے نام کو بلند کرنے والے ہوں اور یہ مقام اسلام کی اشاعت کے لئے، احمدیت کی ترقی کے لئے، روحانیت کے غلبہ کے لئے، خداتعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام اُونچا کرنے کے لئے اور اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرنے کے لئے بہت اہم اور اُونچا اور صدر مقام ثابت ہو۔
پس آؤ ہم دعاکریں کہ اللہ تعالیٰ اِس مقام کو ہمارے لئے بابرکت کرے اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم منشائے ابراہیمی، منشاء محمدی اور منشاء مسیح موعود کے مطابق اِس مقام کو خداتعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے ایک بہت بڑا مرکز بنائیں اور خداتعالیٰ کے فضل ہم کو اِس کی توفیق عطا فرمائیں کہ ہم نے اِس مقام کو اشاعت اسلام کے لئے مرکز قرار دے کر جو ارادے کئے ہیں وہ پورے ہو جائیں کیونکہ سچی بات یہی ہے کہ ہم نے جو ارادے کئے ہیں اُن کو پورا کرنا ہمارے بس کی بات نہیں۔
(اس کے بعد حضور نے اُن ہزار ہامخلصین کے ساتھ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس مقدس اجتماع میں شریک ہونے کی توفیق بخشی تھی اللہ تعالیٰ کے حضور ہاتھ اُٹھا کر ایک لمبی دعا کی اور پھر فرمایا)
اب میں سجدہ میں گر کر دعا کرتا ہوں کیونکہ مسجد دعا کے لئے ایک خاص مقام ہوتا ہے اگرجگہ نہ ہو تو لوگ ایک دوسرے کی پیٹھوں پر بھی سجدہ کر سکتے ہیں۔
(یہ الفاظ کہتے ہی حضور سجدہ میں گر گئے اور حضور کے ساتھ ہی ہزاروں مخلصین جو اس بابرکت اجتماع میں شمولیت کیلئے دُور و نزدیک سے تشریف لائے ہوئے تھے وہ بھی سربسجود ہوگئے اور ربُّ العرش سے اِس مقام کے بابرکت ہونے کے متعلق آنسوؤں کی جھڑی اور آہ و بکا کے شور کے ساتھ دعائیں کی گئیں۔ آمین۔)
(الفضل جلسہ سالانہ نمبر۱۹۶۵ء)
۱؎ ابن ماجہ کتاب الجہاد باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللّٰہ+ اسدالغابۃجلد۳ صفحہ۲۳۳ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ
۲؎ الصّٰفّٰت:۱۰۳ ۳؎ الصّٰفّٰت:۱۰۶ ۴؎ ابراہیم:۳۸
۵؎
(البقرۃ: ۱۲۶)
۶تا ۱۰؎ ابراہیم: ۳۸ ۱۱،۱۲؎ ابراہیم: ۳۹
۱۳تا۱۶؎ بخاری کتاب الانبیاء باب قول اللّٰہ تعالٰی واتخذاللّٰہ ابراہیم خلیلا باب
یزفون
۱۷؎ البقرۃ:۱۲۶
آئندہ وہی قومیںعزت پائیں گی جو
مالی و جانی قربانیوں میں حصہ لیں گی
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
آئندہ وہی قومیں عزت پائیں گی جو مالی و جانی قربانیوں میں حصہ لیں گی
)خواتین سے خطاب(
(فرمودہ ۱۶؍ اپریل ۱۹۴۹ء برموقع پہلا جلسہ سالانہ منعقدہ ربوہ)
تشہّد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
جیسا کہ کل سے آپ سن رہی ہوں گی یہ جلسہ درحقیقت ربوہ کے افتتاح کا جلسہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے ماتحت ہمیں قادیان کچھ عرصہ کے لئے چھوڑنا پڑا ہے اور ہمارے لئے ضرورت ہے کہ جماعتی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے ہم کوئی عارضی مقام بنائیں جہاں سلسلہ کے مرکز کے طور پر دنیا میں اشاعت اسلام کے کام کو جاری رکھ سکیں۔ عارضی انتظام ہونے کی وجہ سے ہمیں ہر ایک چیز باہر سے لانی پڑتی ہے۔ ربوہ میں تو درحقیقت مٹی کا دیا بھی نہیں مل سکتا مگر لاؤڈسپیکروں کے کام کے لئے بجلی کی ضرورت تھی۔ چنانچہ لاہور سے بجلی کے انجن منگوائے گئے اور لاہور ہی سے لاؤڈ سپیکر لائے گئے بلکہ مزدور تک باہر سے لانے پڑے ہیں اور بعض دفعہ وہ کام چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں اِس لئے کام ہوتے ہوتے رُک جاتا ہے۔ شامیانے وغیرہ بھی لاہور سے آئے ہیں، قناتیں بھی لاہور سے آئی ہیں بلکہ جو لوگ کام کر رہے ہیں وہ بھی لاہور سے آئے ہیں، کھانا کھلانے والی لڑکیاں اور عورتیں بھی لاہور سے آئی ہیں، وہ خاکروب جو صفائی کرتے ہیں ان میں سے بھی کچھ لاہور سے آئے ہیں، پانی بھرنے والے سقے اِردگرد کے علاقوں سے منگوائے گئے ہیں۔ پس یہاں کی درحقیقت کوئی بھی چیز نہیں اِس وجہ سے انتظام میں خرابیوں کا ہو جانا کوئی بعید بات نہیں بلکہ خرابیوں کا ہونا لازمی ہے اور اگر کوئی اچھی بات ہو تو وہ اتفاقی ہوگی۔
پس اِس جلسہ کی غرض اور اہمیت آپ لوگوں کو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے۔ یہ جلسہ تقریروں کے لئے نہیں ہے۔ حج ہر سال ہوتا ہے مگر وہاں کوئی تقریر نہیں ہوتی لیکن ساری دنیا سے مسلمان ہزاروں ہزار میل چل کر خانۂ کعبہ کے پاس جمع ہوتے ہیں۔ ہر سال دو تین لاکھ حاجی وہاں جمع ہوجاتا ہے اور اِس دو تین لاکھ کے مجمع کا کام صرف اتنا ہوتا ہے کہ عرفات چلے گئے، وہاں سے مزدلفہ روانہ ہوگئے، مزدلفہ سے منی آ گئے اور پھر پتھروں کے بنے ہوئے ایک مکان کے اِردگرد چکر لگائے، قربانیاں کیں اور کام ختم ہو گیا۔ ساڑھے چار ہزار سال سے کعبہ کی بنیاد پڑی ہے اور یہ وہ بنیاد ہے جو ابراہیمی ہے۔ بالکل غالب ہے کہ خانہ کعبہ اِس سے بھی پہلے کا ہو اور قرین قیاس یہی ہے کیونکہ قرآنِ کریم کی بعض آیتوں سے یہی نکلتا ہے کہ خانہ کعبہ پہلے سے تھا لیکن اگر اِس امر کو نظر انداز کر دو تب بھی ساڑھے چار ہزار سال سے ہزاروں ہزار میل کے فاصلہ سے لوگ وہاں جاتے اور ہر قسم کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے جاتے ہیں۔ اب تک بھی وہاں ریل نہیں بنی اور وہاں کی زمین کی یہ حالت ہے کہ جس قسم کی ریتلی زمین یہاں ہے یہ اُس کے مقابلہ میں شاہی سڑکوں سے کم حیثیت نہیں رکھتی۔ جدہ سے مکہ جاتے ہوئے جس قسم کے میدانوں سے گذرنا پڑتا ہے اُسے دیکھ کر یہ پتہ ہی نہیں چل سکتا کہ سڑک کونسی ہے، جنگل کونسا ہے اور میدان کونسا ہے۔ یہاں تو شیڈ بنا دیئے گئے ہیں مگر وہاں سائے کے لئے بھی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ اونٹ چلانے والے رات کو کسی جگہ اونٹ بٹھا دیتے ہیں اور اُن اونٹوں کے پاس ہی کچھ اونٹوں کی سواریاں، کچھ اونٹ چلانے والے اور کچھ اَور لوگ جو سمجھتے ہیں کہ اگر ہم ان کے ساتھ مل گئے تو ڈاکو ہم پر حملہ نہیں کر سکیں گے، اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ریت پر سر رکھ کر سو جاتے ہیں۔ پھر جو گردوغبار یہاں اُڑ رہا ہے وہاں کوئی دوسرا شخص پاس سے گذرے تو گردوغبار کی وجہ سے نظر بھی نہیں آتا مگر باوجود اِس کے ہزاروں سال تک لوگوں نے ہنسی ہنسی اور خوشی خوشی اِن تکالیف کو برداشت کیا ہے کیونکہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ ہم خداتعالیٰ کی مرضی کو پورا کر رہے ہیں۔
آپ لوگوں کو تو صرف ایک سال اِس کا تجربہ ہوا ہے اگلے سال شاید یہ نعمت آپ لوگوں کو میسر نہ آئے۔ اگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں مرکز قائم ہو گیا تو اگلے سال بہت سی سہولتیں میسر آ جائیں گی مگر وہ سہولیں جسم کی ہوں گی روح کی نہیں۔ روح کی سہولتیں ہمیشہ خداتعالیٰ کی راہ میں تکالیف اُٹھانے سے ہی میسر آتی ہیں۔
انبیاء جب دنیا میں آتے ہیں تو اُن کے ابتدائی ایام میں جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہی بڑے سمجھے جاتے ہیں۔ ہر مسلمان جانتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ، حضرت سعدؓ اور حضرت سعیدؓ وہ لوگ تھے جو بڑے سمجھے جاتے تھے مگر ان کے بڑے سمجھے جانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ان کو آرام زیادہ میسر آتا تھا بلکہ ان کے بڑے سمجھے جانے کی وجہ یہ تھی کہ دین کی خاطر اِنہوں نے دوسروں سے زیادہ تکلیفیں برداشت کی تھیں۔ حضرت طلحہؓ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی زندہ رہے اور جب حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوا اورایک گروہ نے کہا کہ حضرت عثمانؓ کے مارنے والوں سے ہمیں بدلہ لینا چاہیے تو اس گروہ کے لیڈرحضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت عائشہؓ تھے۔ لیکن دوسرے گروہ نے کہا کہ مسلمانوں میں تفرقہ پڑ چکا ہے آدمی مرا ہی کرتے ہیں، سرِدست ہمیں تمام مسلمانوں کو اکٹھا کرنا چاہیے تا کہ اسْلام کی شوکت اور اس کی عظمت قائم ہو بعد میں ہم اِن لوگوں سے بدلہ لے لیں گے اِس گروہ کے لیڈر حضرت علیؓ تھے۔ یہ اختلاف اتنا بڑھا کہ حضرت طلحہؓ، حضرت زبیرؒ اور حضرت عائشہؓ نے الزام لگایا کہ علیؓ اُن لوگوں کو پناہ دینا چاہتے ہیں جنہوں نے حضرت عثمانؓ کو شہید کیا ہے۔ اور حضرت علیؓ نے الزام لگایا کہ اِن لوگوں کو اپنی ذاتی غرضیں زیادہ مقدم ہیں اسلام کا فائدہ ان کے مدنظر نہیں۔ گویا اختلاف اپنی انتہائی صورت تک پہنچ گیا اور پھر آپس میں جنگ بھی شروع ہوئی ایسی جنگ جس میں حضرت عائشہؓ نے لشکر کی کمان کی۔ آپ اونٹ پر چڑھ کر لوگوں کو لڑواتی تھیں اور حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ بھی اِس لڑائی میں شامل تھے۔ جب دونوں فریق میں جنگ جاری تھی ایک صحابی حضرت طلحہؓ کے پاس آئے اور اُن سے کہا۔ طلحہؓ! تمہیں یاد ہے فلاں موقع پر میں اور تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ طلحہؓ! ایک وقت ایسا آئے گا کہ تم اَور لشکر میں ہوگے اور علیؓ اَور لشکر میں ہوگا اور علیؓ حق پر ہوگا اور تم غلطی پر ہوگے۔ حضرت طلحہؓ نے یہ سنا تو اُن کی آنکھیں کھل گئیں اور اُنہوں نے کہا ہاں! مجھے یہ بات یاد آ گئی ہے اور پھر اُسی وقت لشکر سے نکل کر چلے گئے۔ جب وہ لڑائی چھوڑ کر جار ہے تھے تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پوری کی جائے تو ایک بدبخت انسان جو حضرت علیؓ کے لشکر کا سپاہی تھا اُس نے پیچھے سے جا کر آپ کو خنجر مار کر شہید کر دیا۔ حضرت علیؓ اپنی جگہ پر بیٹھے ہوئے تھے وہ اِس خیال سے کہ مجھے بہت بڑا انعام ملے گا، دَوڑتا ہوا آیا اور اُس نے کہا اے امیرالمؤمنین! آپ کو آپ کے دشمن کے مارے جانے کی خبر دیتا ہوں۔ حضرت علیؓ نے کہا۔ کون دشمن؟ اُس نے کہا۔ اے امیرالمؤمنین! میں نے طلحہؓ کو مار دیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا اے شخص! میں بھی تجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بشارت دیتا ہوں کہ تُو دوزخ میں ڈالا جائے گا کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا (جبکہ طلحہؓ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور میں بھی بیٹھا ہوا تھا) کہ اے طلحہؓ! تُو ایک دفعہ حق و انصاف کی خاطر ذِلّت برداشت کرے گا اور تجھے ایک شخص مار ڈالے گا مگر خدا اُس کو جہنم میں ڈالے گا۔
اِس لڑائی میں جب حضرت علیؓ اور حضرت طلحہؓ و زبیرؓ کے لشکر کی صفیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوئیں تو حضرت طلحہؓ اپنی تائید میں دلائل بیان کرنے لگے (یہ اُس وقت سے پہلے کی بات ہے جب ایک صحابی نے اُنہیں حدیث یاددلائی اور وہ جنگ چھوڑ کر چلے گے) وہ دلائل بیان کر ہی رہے تھے کہ حضرت علیؓ کے لشکر میں سے ایک شخص نے کہا او ٹنڈے! چپ کر۔ حضرت طلحہؓ کا ایک ہاتھ بالکل شل تھا وہ کام نہیں کرتا تھا۔ جب اُس نے کہا۔ او ٹنڈے! چپ کر تو حضرت طلحہؓ نے فرمایا کہ تم نے کہا تو یہ ہے کہ ٹنڈے چپ کر۔ مگر تمہیں پتہ بھی ہے کہ میں ٹنڈا کس طرح ہوا ہوں؟ اُحد کی جنگ میں جب مسلمانوں کے قدم اُکھڑ گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف بارہ آدمی رہ گئے تو تین ہزار کافروں کے لشکر نے ہمیں گھیرے میں لے لیا اور اُنہوں نے چاروں طرف سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر تیر برسانے شروع کر دیئے۔ اِس خیال سے کہ اگر آپؐ مارے گئے تو تمام کام ختم ہو جائے گا اُس وقت کفّار کے لشکر کے ہر سپاہی کی کمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف تیر پھینکتی تھی تب میں نے اپنا ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کر دیا اور کفارکے لشکر کے سارے تیر میرے اِس ہاتھ پر پڑتے رہے یہاں تک کہ میرا ہاتھ بالکل بیکار ہو کر ٹنڈا ہو گیا مگر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے سے اپنا ہاتھ نہیں ہٹایا۔
ایک اور دفعہ کا واقعہ ہے کہ آپ یہ قصہ سنا رہے تھے کہ ایک شخص نے پوچھا۔ طلحہؓ! جب آپ کے ہاتھ پر چاروں طرف سے تیر پڑتے تھے تو درد نہیں ہوتی تھی؟ طلحہؓ نے کہا درد کیوں نہیں ہوتی تھی، ہوتی تھی مگر میں اِسے برداشت کرتا تھا۔ پھر اُس نے کہا کیا آپ کے منہ سے آہ نہیں نکلتی تھی؟ طلحہؓ نے کہا۔ آہ نکلنا تو چاہتی تھی مگر میں آہ کو نکلنے نہیں دیتا تھا تا کہیں میرا ہاتھ ہِل نہ جائے اور کوئی تیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ آ لگے۔
پس طلحہ،طلحہؓ کس طرح بنا؟ اُن تکلیفوں کی وجہ سے جو اُنہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اُٹھائی تھیں۔ زبیر،زبیرؓ کس طرح بنا؟ اُن تکلیفوں کی وجہ سے جو اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر برداشت کی تھیں۔
حضرت عثمانؓ بن مظعون رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے، ابتدائی ایام میں وہ آپ پر ایمان لائے۔ اُن کے والد مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس تھے۔ عثمانؓ بن مظعون کی عمر تیرہ چودہ سال کی تھی جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے۔ ایمان لانے کے بعد کفار کی طرف سے اُن پر قسم قسم کے مظالم کئے گئے اور طرح طرح کی تکلیفیں پہنچائی گئیں مگر وہ تیرہ چودہ سال کا بچہ اِن تکالیف کو بہادری کے ساتھ برداشت کرتا رہا اور تمام تکالیف کو استقلال کے ساتھ اپنی جان پر سہتا رہا اسلام سے اُس نے رُوگردانی اختیار نہ کی۔ جب ہجرت حبشہ ہوئی تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سن کر کہ تم حبشہ چلے جاؤ حضرت عثمانؓ بن مظعون بھی حبشہ گئے مگر پھر جلد ہی واپس آ گئے اور کہا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بغیر رہ نہیں سکتا۔ پھر جب سختیاں اَور بڑھ گئیں تو اُنہوں نے دوبارہ یہ ارادہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت اور آپ کے ارشاد کے ماتحت کہیں باہر چلے جائیں۔ جب وہ مکہ سے باہر جا رہے تھے تو اُنہیں اپنے باپ کا ایک دوست ملا اور اُس نے پوچھا عثمانؓ! تم مکہ چھوڑ کر کیوں جا رہے ہو؟ اُنہوں نے کہا مکہ کے لوگ رہنے نہیں دیتے۔ وہ رئیس اُن کے باپ کا بڑا دوست تھا جب اُس نے عثمانؓ بن مظعون سے یہ بات سنی تو اُن کے باپ کی یاد اور محبت کی وجہ سے اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور اُس نے کہا۔ عثمانؓ! تم جانتے ہو تمہارا باپ میرا بھائی تھا اِس لئے میری موجودگی میں تمہارا یہاں سے چلے جانا بڑی ذِلّت اور رُسوائی کی بات ہے۔ تم میرے ساتھ مکہ واپس چلو میں یہ اعلان کر دوں گا کہ تم میری پناہ میں ہو اور کوئی شخص تمہیں دُکھ نہیں دے سکے گا۔چنانچہ وہ حضرت عثمانؓ کو اپنے ساتھ لے گیا اور جیسے عرب کا دستور تھا اُس نے خانۂ کعبہ میں کھڑے ہو کر اعلان کر دیا کہ عثمانؓ میری پناہ میں ہے جو اِس کو چھیڑے گا وہ مجھے لڑائی کے لئے انگیختہ کرے گا۔ عربوں میں یہ دستور تھا کہ جو شخص کسی شخص کو اپنی پناہ میں لے لیتا تھا اُس پر کوئی دوسرا شخص ہاتھ اُٹھانے کی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ عربوں میں عیب بھی تھے اگر عیب نہ ہوتے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیوں کرتے مگر اُن میں بعض خاص خوبیاں بھی تھیں جو اگر ہم میں پیدا ہو جائیں تو یقینا ہمیں چار چاند لگ جائیں۔ اور اُنہیں خوبیوں میں سے ایک یہ تھی کہ جب وہ کسی کو اپنی پناہ میں لے لیتے تھے تو کوئی شخص اُسے تکلیف نہیں پہنچا سکتا تھا اور اگر پہنچاتا تو اس کے یہ معنی ہوتے تھے کہ اب دونوں میں لڑائی تک نوبت پہنچ جائے گی۔ بہرحال حضرت عثمانؓ بن مظعون کو جب اُس نے پناہ دی تو مکہ والوں کے وہ مظالم جو اُن پر جاری تھے بند ہوگئے اور وہ امن سے رہنے لگ گئے مگر ایک دفعہ جب اُنہوں نے کفار کو تبلیغ کی تو اُنہوں نے اس رئیس سے شکایت کی۔ رئیس نے اُنہیں بُلا کر سمجھایا اور اُنہیں نصیحت کی کہ وہ تبلیغ نہ کیا کریں۔ اُنہوں نے کہا میں تبلیغ سے نہیں رُک سکتا، تم اپنی پناہ بے شک واپس لے لو۔ ۱؎ چنانچہ اس نے اپنی پناہ واپس لینے کا اعلان کر دیا۔
ایک دفعہ مجلس میں لبید شاعر جو عرب کے مشہور شعراء میں سے تھے، اپنے شعر سنا رہے تھے۔ حج کے دن تھے تمام رؤساء مجلس میں بیٹھے تھے کہ اُنہوں نے شعر سناتے سناتے یہ مصرع پڑھا۔
اَلاَ کُلُّ شَیْ ئٍ مَاخَلَا اللّٰہَ بَاطِلٗ
سنو سنو! خداتعالیٰ کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ عثمانؓ نے کہا یہ درست ہے۔ اِس پر لبید شاعر خفا ہوئے کہ ایک بچہ ہو کر مجھ جیسے انسان کو داد دیتا ہے مگر لوگوں نے اُن کو راضی کر لیا۔ اِس کے بعد اُنہوں نے دوسرا مصرع پڑھا جو یہ تھا۔
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٗ
یعنی ہر نعمت ایک دن ضرور زائل ہونے والی ہے۔ جب اُنہوں نے کہا وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٗتو حضرت عثمانؓ جوش میں آ گئے اور اُنہوں نے کہا۔ جھوٹ، جھوٹ، بالکل غلط۔ جنت کی نعمتیں کبھی زائل نہیں ہوں گی۔ بھلا جو شخص ایک مصرع کو اچھا کہنے اور اُس کی تعریف کرنے پر چِڑ گیا تھا وہ مذمت کی کب تاب لا سکتا تھا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ لبید خاموش ہو گئے اور اُنہوں نے کہا میں آئندہ مکہ میں کوئی شعر نہیں سناؤں گا یہاں کے لوگ سخت بدتہذیب ہوگئے ہیں۔ تب غصہ اور جوش کی حالت میں ایک شخص آگے بڑھا اور اُس نے اِس زور سے عثمانؓ کے منہ پر گھونسا مارا کہ اُس کی انگلی آپ کی ایک آنکھ میں گھس گئی اور آنکھ پھوٹ گئی۔ وہ رئیس جس نے حضرت عثمانؓ کو پناہ دی تھی، وہ بھی اُس وقت وہاں موجود تھا مگر وہ اپنی قوم کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ اکیلے آدمی کی کیا طاقت ہوتی ہے کہ وہ ساری قوم کے مقابلہ میں کھڑا ہو سکے۔ مگر یہ نظارہ دیکھ کر اُس کا دل غم سے بھر گیا اور اُس کی آنکھوں کے سامنے یہ نقشہ آ گیا کہ کس طرح عثمانؓ کا باپ جو مکہ کے رؤساء میں سے تھا جب شہر میں نکلتا تو لوگ اُس کا ادب اور احترام کرتے اور اُس کی راہ میں اپنی آنکھیں بچھاتے تھے مگر آج یہ حالت ہے کہ اُس کے بیٹے کو اِس بے دردی کے ساتھ پیٹا گیا ہے کہ اُس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی ہے۔ اِن تصورات کی وجہ سے ایک طرف اُس کا دل غم سے بھر گیا مگر دوسری طرف اُس کا دل خائف تھا کہ میں اپنی قوم کے خلاف کس طرح آواز بلند کروں۔ وہ اِسی کشمکش کی حالت میں عثمان کے پاس جا کر غصہ سے کہنے لگا تو نے دیکھا کہ میری پناہ سے نکلنے کا کیا انجام ہوا؟ میں نہیں کہتا تھا کہ میری پناہ میں ہی رہو! تم نے مجھے مجبور کیا اور کہا کہ میں تمہاری پناہ میں رہنے کے لئے تیار نہیں اور میں نے اپنی پناہ واپس لے لی مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا؟ آج تمہاری آنکھ ضائع ہوگئی ہے۔ اگر خدانخواستہ تم میں سی کسی کی آنکھ نکل جائے یا تمہاری آنکھ پر چوٹ ہی آ جائے تو تم سمجھ سکتی ہو کہ تم کتنا روؤ اور کتنا چیخو اور چلاؤ مگر عثمانؓ اِس تکلیف پر روئے نہیں، وہ چلائے نہیں، اُنہوں نے افسوس ظاہر نہیں کیا، اُنہوں نے ہمدردی کرنے والے سے یہ نہیں کہا کہ آپ کا شکریہ بلکہ عثمانؓ نے کہا تو یہ کہا کہ چچا! تم تو یہ کہتے ہو کہ تیری ایک آنکھ کیوں نکلی؟ خدا کی قسم! میری تو دوسری آنکھ بھی خداتعالیٰ کی راہ میں نکلنے کے لئے تیار بیٹھی ہے۲؎ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلیٰ اٰلِ مُحَمَّدٍ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
یہ وہ تکالیف تھیں جو اُنہوں نے اُٹھائیں مگر جانتے ہو ان تکالیف کا عثمانؓ کو کیابدلا ملا؟ اگلے جہان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو آپ کو بدلا ملا وہ تو علیحدہ چیز ہے اِس دنیا میں ہی حضرت عثمانؓ کو اِن قربانیوں کا جو بدلا ملا وہ اتنا شاندار ہے کہ آج دنیا کا بڑے سے بڑا مسلمان بادشاہ بھی یہ کہنے کے لئے تیار ہوگا کہ کاش! مجھے اور میرے سارے خاندان کو کولہومیں پیس دیا جائے مگر وہ چیز مجھے میسر آ جائے۔ وہ بدلہ یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آپ کی آخری عمر میں وفات سے دو تین سال پہلے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام آپ نے ابراہیمؓ رکھا وہ آپ کی آخری عمر کا ایک ثمر تھا مگر وہ دو سال کا ہو کر فوت ہو گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کی لاش کو دفنانے کے لئے لے گئے۔ جب آپ قبر کے پاس پہنچے، جنازہ پڑھا گیا تو آپ نے بچہ کی لاش کو ہاتھ میں لیا اور قبر میں اُترے تا کہ اُسے لحد میں رکھ دیں۔ لحد میںرکھتے ہوئے آپ نے ایک فقرہ کہا جو عثمانؓ بن مظعون کی وفات کے چھ سال بعد آپ کی زبان سے نکلا۔ عثمانؓ بن مظعون شہید ہو چکے تھے وہ جنگ بدر میں شہید ہوئے تھے جو ہجرت کے دوسرے سال ہوئی تھی اور یہ واقعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے آٹھویں سال ہوا گویا چھ سال کے قریب حضرت عثمانؓ کی وفات پر گذر چکے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جو فقرہ اُس وقت کہا وہ ایک بہترین انعام تھا جو اِس دنیا کاکوئی انسان حاصل کر سکتا ہے۔ آپ نے ابراہیمؓ کی لاش کو اپنے ہاتھ میں لیا۔ گھٹنے قبر میں ٹیکے اور اُسے لحد میں رکھتے ہوئے فرمایا۔جاؤ اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے پاس۔۳؎
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چھ سال کے عرصہ کے بعد اپنی آخری عمر کے بیٹے کی وفات پر جس کے بعد کوئی اور اولاد ہونا ناممکن نظر آ رہا تھا اگر کوئی جذبۂ افسوس ظاہر کیا تو یہ کیا کہ آج سے چھ سال پہلے میرا بیٹا عثمانؓ شہید ہو گیا تھا۔ اب اے ابراہیم! چھ سال کے بعد تو نے مجھے پھر عثمانؓ یاد دِلا دیا۔ اگر عثمان کو ساری دنیا کی بادشاہت کے تخت پر بھی بٹھا دیا جاتا اور عثمانؓ کو خداتعالیٰ دائمی زندگی بھی بخش دیتا اور ہمیشہ ہمیش اِس دنیا پر حکمرانی کرتا رہتا، اگر عثمانؓ کی ایک آنکھ نہیں، دونوں آنکھیں نکال دی جاتیں، اُس کے دونوں کان کاٹ دیئے جاتے، اُس کی زبان بھی کاٹ دی جاتی، اُس کا ناک بھی کاٹ دیا جاتا، اُس کے دانت بھی نکال دیئے جاتے اور پھر عثمانؓ سے یہ کہا جاتا کہ تو یہ فقرہ چھوڑ دے ہم تجھے سب کچھ واپس دینے کو تیار ہیں تو بھی عثمانؓ اُن کی یہ بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوتا۔ وہ کہتا کہ میں یہ فقرہ واپس دینے کے لئے تیار نہیں تم یہ نعمتیں بے شک اپنے پاس رکھو۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ تازہ مرنے والوں میں سے ہر ایک کا صدمہ ہوتا ہے۔ ہمسائیوں کا بھی ہوتا ہے، رشتہ داروں کا بھی ہوتا ہے مگر چھ سال کا عرصہ اتنا لمبا عرصہ ہے کہ اِس میں دوست اپنے دوستوں کو اور رشتہ دار اپنے رشتہ داروں کو بھول جاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ عثمانؓ کی وفات کے چھ سال بعد آپ کا اکلوتا بیٹا جو آپ کی آخری عمر کا ثمرہ تھا، وفات پاتا ہے تو وہ یہ نہیں کہتے کہ ابراہیمؓ! تیری موت سے مجھے یہ دکھ ہوا ہے، بلکہ وہ کہتے ہیں تو یہ کہ ابراہیمؓ نے مجھے عثمانؓ کی موت یاد دلا دی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس سے اُنہوں نے رُتبے پائے اور عزتیں حاصل کیں۔ ہماری ایک یا دو دن کی تکلیفیں اِس کے مقابلہ میں حقیقت ہی کیا رکھتی ہیں۔
حضرت عائشہؓ دیر تک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہی تھیں۔ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب ایران فتح ہوا، تو وہاں سے آٹا پیسنے والی ہوائی چکیاں لائی گئیں۔ جن میں باریک آٹا پیسا جانے لگا۔ جب سب سے پہلی چکی مدینہ میں لگی تو حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ پہلا پسا ہوا باریک آٹا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بطور تحفہ بھیجا جائے۔ چنانچہ آپ کے حکم کے مطابق وہ باریک میدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا گیا اور اُن کی خادمہ نے اُس آٹے کے باریک باریک پھلکے تیار کئے۔ مدینہ کی عورتیں جنہوں نے پہلے کبھی ایسا آٹا نہیں دیکھا تھا، وہ ہجوم کر کے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں جمع ہو گئیں کہ آؤ ہم دیکھیں وہ آٹا کیسا ہے اور اس کی روٹی کیسے تیار ہوتی ہے؟ سارا صحن عورتوں سے بھرا ہوا تھا اور سب اِس انتظار میں تھیں کہ اُس آٹے کی روٹی تیار ہو تو وہ اُسے دیکھیں۔ تم خیال کرتی ہوگی کہ شاید وہ کوئی عجیب قسم کا آٹا ہوگا۔ وہ عجیب قسم کا آٹا نہیں تھا بلکہ اُس سے بھی ادنیٰ آٹا تھا جو تم روزانہ کھاتی ہو بلکہ اُس سے بھی ادنیٰ آٹا تھا۔ آج جو آٹا تم میں سے ایک غریب سے غریب عورت کھاتی ہے اُس سے بھی وہ ادنیٰ تھا۔ مگر مدینہ میں جس قسم کے آٹے ہوتے تھے اُن سے وہ بہت اعلیٰ تھا۔ بہرحال آٹے کے پھلکے تیار ہوئے عورتوں نے اُن کو دیکھا اور وہ حیران رہ گئیں۔ وہ وفورِ شوق میں اپنی انگلیاں اُن پھلکوں کو لگاتیں اور بے ساختہ کہتیں، اُف کیسا نرم پھلکا ہے۔ کیا اِس سے اچھا آٹا بھی دنیا میں ہو سکتا ہے؟ حضرت عائشہؓ نے پھلکے میں سے ایک لقمہ توڑا اور منہ میں ڈالا۔ وہ ساری کی ساری اِس شوق سے حضرت عائشہؓ کا منہ دیکھنے لگیں کہ اِس کے کھانے سے حضرت عائشہؓ کی عجیب حالت ہوگی، وہ خوشی کا اظہار کریں گی اور خاص قسم کی لذت اِس سے محسوس کریں گی۔ مگر حضرت عائشہؓ کے منہ میں وہ لقمہ گیا تو جس طرح کسی نے گلا بند کر دیا ہو، وہ لقمہ اُن کے منہ میں ہی پڑا رہ گیا اور اُن کی آنکھوں میں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔ عورتوں نے کہا۔ بی بی! آٹا تو بڑا ہی اچھا ہے، روٹی اِتنی نرم ہے کہ اِس کی کوئی حد ہی نہیں آپ کو کیا ہو گیا کہ اسے نگل ہی نہیں سکیں اور رونے لگ گئیں؟ کیا اِس آٹے میں کوئی نقص ہے؟ حضرت عائشہؓ نے فرمایا۔ آٹے میں نقص نہیں میں مانتی ہوں کہ یہ بڑا ہی نرم پھلکا ہے اور ایسی چیز پہلے ہم نے کبھی نہیں دیکھی مگر میری آنکھوں سے اِس لئے آنسو نہیں بہے کہ اِس آٹے میں کوئی نقص ہے بلکہ مجھے وہ دن یاد آگئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی آخری عمر میں سے گذر رہے تھے آپ ضعیف ہوگئے تھے اور سخت غذا نہیں کھا سکتے تھے مگر اُن دنوں میں بھی ہم پتھروں سے گندم کچل کر اور اُس کی روٹیاں پکا پکا کر آپ کو دیتے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا۔وہ جس کے طفیل ہم کو یہ نعمتیں ملیں وہ تو اِن نعمتوں سے محروم چلا گیا لیکن ہم جنہیں اُس کے طفیل سے یہ سب عزتیں مل رہی ہیں ہم وہ نعمتیں استعمال کر رہے ہیں۔یہ کہا اور لقمہ تھوک دیا اور فرمایا۔اُٹھا لے جاؤ یہ پھلکے میرے سامنے سے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد آ کر گلے میں پھندا پڑتا ہے اور میں یہ پھلکا نہیں کھا سکتی۔
حقیقت یہ ہے کہ انبیاء کی جماعتیں ہمیشہ تکلیفوں سے عزت پاتی ہیں۔ اُن کی عزت اِس میں نہیں ہوتی کہ اُن کے پاس اتنا روپیہ ہے یا اتنی دولت اور جائداد ہے بلکہ اُن کی ساری عزت اِسی بات میں ہوتی ہے کہ اُنہوں نے خداتعالیٰ کی خاطر کیا کیا تکلیفیں برداشت کیں۔ پس اپنے نفس میں دین کی خاطر تکلیفیں برداشت کرنے کی عادت ڈالو۔ تم محض چندوں سے یا منہ کے لفظوں سے خداتعالیٰ کو خوش نہیں کر سکتیں۔ تمہیں قربانیاں کرنی پڑیں گی وہ قربانیاں جن کے مقابلہ میں تمہاری پہلی قربانیاں بالکل ہیچ ہو کر رہ جائیں۔ جب تک تم وہ قربانیاں کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگی تم کوئی بڑی عزت حاصل نہیں کر سکتیں اور تمہاری اولادیں ہمیشہ دوسروں کی غلام بن کر رہیں گی اور غلام اور مقہور اور ذلیل اولاد کا جننا کسی خوشی کا موجب نہیں بلکہ ذلت اور رُسوائی کا موجب ہوتا ہے۔ وہ عورت جو دس بچے جنتی ہے اور اُس کے دسوں بچے غلامی اور ذلّت کی زندگی بسر کرتے ہیں، وہ اپنے خاندان کو بڑا نہیں کرتی بلکہ اُسے ذلیل کرتی ہے کیونکہ اُس نے اپنے خاندان میں دس غلاموں کی زیادتی کی ہے۔ وہی عورت عزت کی مستحق ہے جو بچہ نہیں جنتی شیر جنتی ہے، جو انسان نہیں جنتی فرشتے جنتی ہے یہی وہ کام ہے جو صحابیاتؓ نے کیا۔ صحابیاتؓ کی قربانیوں کی بیسیوں مثالیں میں نے تمہیں سنائی ہیں۔ ان کے جذبات کی بلندی اور پاکیزگی اور اُن کے احساسات کی صفائی ایسی ہے کہ اگر تم اِس کو اپنے سامنے رکھو تو وہ حقیقی نمونہ اور حقیقی راہنما ہے جو تمہارے فرائض ادا کرنے میں تمہاری مدد کر سکتا ہے۔ اُن کی زندگی کے بہت سے واقعات ہیں مگر میں اِس وقت تمہیں صرف ایک واقعہ سناتا ہوں۔
ایک صحابیہؓ کا بچہ جو اُس کا اکلوتا بیٹا تھا لڑائی میں مارا گیا مگر اُس نے اپنے بچے کی موت پر آنسو نہ بہائیـ، اُس نے اپنے بچے کی موت پر غم نہ کیا بلکہ وہ خوش رہی اور کسی قسم کے صدمے کا اُس نے اظہار نہ کیا۔ ہر قوم میں کچھ بیوقوف عورتیں بھی ہوتی ہیں، اُس کی بیوقوف ہمسائیاں اُس کے پاس آتیں اور کہتیں اے سنگدل ماں! تیرا اکلوتا بچہ مارا گیا مگر تو نے اپنے بچے کی موت پر کوئی آنسو نہیں بہایا، کیا تیری سنگدلی کی بھی کوئی انتہا ہے؟ وہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گئی اور اُس نے کہا۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میرا بیٹا دوزخ میں گیا ہے یا جنت میں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ تمہارا بیٹا یقینا جنت میں گیا ہے وہ خداتعالیٰ کی راہ میں لڑتا ہوا مارا گیا ہے اور ایمان پر اُس کاخاتمہ ہوا ہے۔ اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! اُس کی وہ حالت اچھی ہے جو اگلے جہان کی ہے یا اِس دنیا میں جو اُس کی حالت تھی وہ زیادہ اچھی تھی؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اِس دنیا کی اگلے جہان کے مقابلہ میں نسبت ہی کیا ہے؟ اُسے اگلے جہان میں زندگی ملی ہے، خداتعالیٰ کا قرب ملا ہے اور اُس کے انعامات اور فضلوں کا وارث ہوا ہے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! جب کسی کے بیٹے کی اچھی حالت ہوتی ہے تو وہ خوش ہوا کرتا ہے یا رویا کرتا ہے؟ میرا بیٹا اسلام کی خدمت میں مارا گیا ہے اور آپ فرماتے ہیں کہ اگلے جہان میں بہت بڑا انعام ملا ہے اور بہت بڑا رُتبہ حاصل ہوا ہے اِس انعام اور رُتبہ کے حاصل ہونے پر میں روؤں یا خوش ہوں؟ میری ہمسائیاں مجھے کہتی ہیں کہ تُو روتی کیوں نہیں؟ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میں کیوں روؤں جب میرا بیٹا پہلے سے بھی زیادہ اچھی حالت میں ہے۔ آپ نے فرمایا۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔ جو کچھ تمہارے بیٹے کو اگلے جہان میں ملا ہے اُس کے مقابلہ میں یہ دنیا اور اِس کی زندگی کوئی چیز ہی نہیں۔۴؎
حقیقت یہ ہے کہ مائیں ہی بچے بناتی ہیں اور مائیں ہی بچے بگاڑا کرتی ہیں۔ اِس زمانہ میں بھی خداتعالیٰ نے اسلام کو عزت دینے کے لئے ایک اسلامی علاقہ قائم کر دیا ہے اور مسلمان کہلانے والے اِس کے حکمران اور بادشاہ ہیں۔ یا تو ہمارے کافر حاکم تھے اور یا اب مسلمان حاکم ہیں۔ وہ خواہ کتنے بھی بگڑے ہوئے ہوں بہرحال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں۔ یہ رُتبہ اور یہ عزت جو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو بخشی ہے یہ ایک علامت ہے اِس بات کی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اَور بھی عزت دینے کے لئے تیار ہے۔ اگر تم لوگ اپنے فرائض ادا کرو تو یہی مسلمان کہلانے والے احمدی بن جائیں گے اور اِس طرح حقیقی اسلام کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ لیکن ہر نعمت کے لئے کچھ قربانی دینی پڑتی ہے اور ہر قربانی اپنے ساتھ کچھ جذبات کو بھی اُبھارا کرتی ہے اور کچھ جذبات کوصدمے بھی پہنچایا کرتی ہے۔ جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا اسے بچانے کا کوئی فکر بھی نہیں ہوتا مگر جس کے پاس کچھ ہوتا ہے اُسے اپنی چیز ڈاکوؤں اور چوروں سے بچانے کے لئے اُس کی حفاظت کا بھی فکر ہوتا ہے۔ غرض دولت کی فراوانی یا حکومت اور بادشاہت اپنے ساتھ ذمہ داریاں بھی لاتی ہے۔ جب مُلک ہمارے پاس آچکا ہے تو اِس کو بچانا ہمارا کام ہے۔ اب انگریزوں کے خون سے اِس مُلک کو بچایا نہیں جا سکتا بلکہ خود مسلمانوں کے خون سے اِس مُلک کو بچایا جائے گا۔ اِس سلسلہ میں پاکستان کو کچلنے اور اسے اِس کے ایک جائز حق سے محروم کرنے کے لئے بعض خطرات پیدا کر دیئے گئے ہیں۔ اِس موقع پر میں نے باربار جماعت احمدیہ کے افراد کو توجہ دلائی کہ وہ اُٹھیں اور مُلک کی خدمت کریں۔ یہ پہلا قدم ہے جو ایک اسلامی علاقہ کی حفاظت کے لئے اُٹھایا گیا ہے اِس کے بعد وہ وقت بھی آئے گا جب خالص اسلام کی حفاظت کے لئے جنگیں کرنی پڑیں گی مگر جو شخص پہلا قدم اُٹھانے کے لئے تیار نہ ہو، اُس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ دوسرا قدم اُٹھانے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ مجھے افسوس ہے کہ جماعت نے اِس موقع پر وہ بہادری نہیں دکھائی جو مومن دکھایا کرتا ہے لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تم میں سے بعض عورتیں ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے نہایت ہی اعلیٰ درجے کا نمونہ دکھایا ہے۔ اگر وہ اَن پڑھ، جاہل اور غریب عورتیں ایسا اچھا نمونہ دکھا سکتی ہیں تو آسودہ حال اور پڑھی لکھی عورتیں کیوں ایسا نمونہ نہیں دکھا سکتیں۔
ایک جگہ رنگروٹ بھرتی کرنے کے لئے ہمارے آدمی گئے۔ اُنہوں نے جلسہ کیا اور تحریک کی کہ پاکستانی فوج میں شامل ہونے کے لئے لوگ اپنے نام لکھوائیں۔ جن قوموں میں لڑائی کی عادت نہیں ہوتی اُس کے افراد ایسے موقع پر عموماً اپنا نام لکھوانے سے ہچکچاتے ہیں، چنانچہ اِس موقع پر بھی ایسا ہی ہوا۔ تحریک کی گئی کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر چاروں طرف خاموشی طاری رہی اور کوئی شخص اپنا نام لکھوانے کے لئے نہ اُٹھا۔ تب ایک بیوہ عورت جس کا ایک ہی بیٹا تھا اور جو پڑھی ہوئی بھی نہیں تھی اُس نے جب دیکھا کہ بار بار احمدی مبلّغ نے کھڑے ہو کر تحریک کی ہے کہ لوگ اپنے نام لکھوائیں مگر ہچکچانے کی وجہ سے آگے نہیں بڑھتے تو وہ عورتوں کی جگہ سے کھڑی ہوئی اور اُس نے اپنے لڑکے کو آواز دے کرکہا۔او فلانے! تو بولتا کیوں نہیں! تو نے سنا نہیں کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے تمہیں جنگ کے لئے بُلایا جا رہاہے۔اِس پر وہ فوراً اُٹھا اور اُس نے اپنا نام جنگ پر جانے کے لئے پیش کر دیا۔ تب اُس کو دیکھ کر اور لوگوں کے دلوں میں بھی جوش پیدا ہوا اور اُنہوں نے بھی اپنے نام لکھوانے شروع کر دیئے۔ وہ عورت زمیندار طبقہ میں سے نہیں تھی بلکہ غیر زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتی ہے جس کے متعلق زمیندار بڑی حقارت سے یہ کہا کرتے ہیں کہ وہ لڑنا نہیں جانتے مگر اُس نے غیر زمیندار ہو کر اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا اور ایسی حالت میں محسوس کیا جب کہ وہ بیوہ تھی اور اُس کا صرف ایک ہی بیٹا تھا اور آئندہ اُسے کوئی بیٹا ہونے کی کوئی امید نہیں تھی۔ اُس نے کہا جب خدا اور اسلام کے نام پر ایک آواز اُٹھائی جا رہی ہے تو پھر میرا کوئی بیٹا رہے یا نہ رہے،مجھے اِس آواز کا جواب دینا چاہیے۔
شدید جذبات مقابل میں ویسے ہی جذبات پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ جب اُس نے یہ بات کہی تو کئی بزدل جو اپنے آپ کو پہلے بچا رہے تھے، اُنہوں نے بھی اپنے ارادوں کو پیش کرنا شروع کر دیا اور جب یہ اطلاع میرے پاس پہنچی اور خط میں میں نے یہ واقعہ پڑھا تو پیشتر اِس کے کہ میں اِس خط کو بند کرتا میں نے خداتعالیٰ سے دعا کرتے ہوئے کہا۔
اے میرے ربّ! یہ بیوہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کو تیرے دین کی خدمت کے لئے یا مسلمانوں کے مُلک کی حفاظت کے لئے پیش کر رہی ہے۔ اے میرے ربّ! اِس بیوہ عورت سے زیادہ قربانی کرنا میرا فرض ہے۔ میں بھی تجھ کو تیرے جلال کا واسطہ دے کر تجھ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ اگر انسانی قربانی کی ہی ضرورت ہو تو اے میرے ربّ! اِس کا بیٹا نہیں بلکہ میرا بیٹا مارا جائے۔
اِسی طرح ایک جگہ ہمارے آدمی گئے تو ایک اور عورت کہ وہ بھی زمیندار طبقہ میں سے نہیں تھی بلکہ ان لوگوں میں سے تھی جنہیں زمیندار حقارت کے ساتھ ’’کمیں‘‘ کہا کرتے ہیں اُس نے بھی اپنی قربانی کا نہایت شاندار نمونہ دکھایا۔ اُس کے دو بیٹے اور دو پوتے تھے، جب ہمارے آدمی گئے اور اُنہوںنے بتایا کہ پاکستان کی حفاظت کے لئے فوج میں بھرتی ہونا چاہیے تم بھی اپنی اولاد میں سے کسی کو پیش کرو تا کہ اسے فوج میں بھجوایا جائے تو اُس وقت باہر کھڑی کام کر رہی تھی۔ اُس نے وہیں سے کھڑے کھڑے اپنے چاروں لڑکوں اور پوتوں کو آواز دی اور ہمارے مبلّغ سے کہا یہ میرے دو لڑکے اور دو پوتے ہیں اِن چاروںکو اپنے ساتھ لے جاؤ۔ پھر اُس نے اپنے لڑکوں اور پوتوں سے کہا۔دیکھو! میں گھر میں نہیں گھسوں گی جب تک تم یہاں سے چلے نہ جاؤ۔جب ہمارے آدمی نے کہا کہ اِس وقت چاروں کی ضرورت نہیں بلکہ صرف ایک نوجوان چاہیے۔ تو اُس نے کہا میں تو چاروں بھجوانے کیلئے تیار ہوں۔ آخر اصرار کر کے اُس نے کہا۔ دو تو لے جاؤ۔ چنانچہ ایک کی بجائے اُس نے دو نوجوان پیش کئے اور وہ خوشی خوشی چلے گئے۔یہ وہ روح تھی جو حقیقی روح ہوتی ہے اور جس کے ذریعہ سے دنیا میں قومیں بڑھا کرتی ہیں۔
وہ دن گئے جب انگریز اِس مُلک کے حاکم تھے اُس وقت جب کوئی حملہ کرتا تو ہم انگریزوں سے کہہ سکتے تھے کہ تم جاؤ اور مقابلہ کرو کیونکہ یہ تمہارا مُلک ہے اور ہمارا نہیں مگر اب یہ ہمارا مُلک ہے اور ہمیں ہی دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔میں تمہیں وہ بات نہیں کہتا جو میںنے نہیں کی۔ میرے جتنے جوان بیٹے پاکستان میں ہیں اُن میں سے سوائے دو کے جو کالج میں پڑھتے ہیں (اور وہ بھی بعد میں ہو آئے ہیں) باقی سب فوجی خدمت کر آئے ہیں اور میں تو سمجھتا ہوں وہ مقاصد جو ہمارے سامنے ہیں بغیر قربانی کے حاصل ہی نہیں ہو سکتے۔ ہم نے تو دنیا کو فتح کرنا ہے اور دنیا کی فتح بغیر قربانی کے نہیں ہو سکتی۔ بے شک یہ فتح قلوب کی فتح ہے مگر قلوب کی فتح بھی بغیر قربانی کے نہیں ہوسکتی۔ لوگ سب سے زیادہ قلوب کی فتح پر ہی دشمن ہوا کرتے ہیں جب تم کسی کے پاس جا کر احمدیت کی تبلیغ کرتی ہو تو اُسے دولت ایمان دیتی ہو مگر وہ خوش نہیں ہوتا بلکہ تمہارا مقابلہ کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ تم بھی دولت ایمان سے محروم ہو جاؤ اور تمہیں دکھ دینا شروع کر دیتا ہے۔
پس میں تمہیں تمہارے فرائض کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ تمہارے مرد بزدلی دکھا رہے ہیں اور جب اُنہیں بُلایا جاتا ہے کہ آگے آؤ تو وہ کئی قسم کے بہانے بنانے لگ جاتے ہیں، کبھی کوئی عذر کردیتے ہیں اور کبھی کوئی۔ وہ جتنے عذر کرتے ہیں قرآن کریم میں وہ سب کے سب منافقوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنی آئندہ نسلوں کو آزاد بناؤ۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنے خاوندوں سے کہو کہ یا تو تم دین کے لئے قربانی کرو یا آئندہ ہمارے ساتھ تمہارا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ تمہارے لئے تلوار پکڑ کر جہاد کرنے کا موقع تو بہت کم آتا ہے تمہارا جہاد یہی ہے کہ تم اپنے خاوند، اپنے باپ، اپنے بھائیوں اور اپنے بیٹوں سے کہو کہ اگر تم لڑائی کے لئے تیار نہیں ہو گے تو ہم تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھیں گی۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ہندہ جو ساری عمر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑتی رہی تھی فتح مکہ کے وقت مسلمان ہوگئی تھی۔ ایک لڑائی میں ہندہ کا خاوند ابوسفیان اور اُس کا بیٹا معاویہ دونوں شامل ہوئے۔ دشمن نے ایسا شدید حملہ کیا کہ مسلمان اُن کے مقابلہ کی تاب نہ لا کر جنگ سے بھاگ نکلے۔ جب ہندہ نے دیکھا کہ مسلمان واپس بھاگے چلے آرہے ہیں تو اُس نے عورتوں سے کہا دیکھو! مسلمان اِس وقت بھاگتے چلے آ رہے ہیں، آؤ ہم اِنہیں روکیں۔ یہ کہہ کر اُنہوں نے خیموں کے بانس پکڑ لئے اور اُن کے اونٹوں اور گھوڑوں کو چوبیں مار مار کر کہا کہ تم ابھی واپس جاؤ یا یہاں بیٹھ کر ہماری جگہ کھانا پکاؤ، ہم خود دشمن سے لڑنے کے لئے چلی جائیں گی۔
ابوسفیان کا ایک مشہور تاریخی فقرہ ہے جو اس موقع پر اُس نے کہا۔ اُس نے اپنے بیٹے معاویہؓ کی طرف دیکھا اور کہا معاویہ! گھوڑوں کا رُخ پھیر دو۔ دشمن کی مار اتنی تکلیف دِہ نہیں جتنی عورتوں کی یہ باتیں ہمارے لئے تکلیف دِہ ہیں۔ چنانچہ پھر وہ واپس لوٹے اور اُنہوں نے دشمن پر فتح حاصل کی۔
پس میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ تمہارے مرد اِس امتحان میں فیل ہو رہے ہیں وہ لڑائی پر جانے سے ڈرتے اور گھبراتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قربانی کرنے والے لوگ بھی پائے جاتے ہیں مگر ایک کافی تعداد اُن لوگوں کی ہے جو اِس میدان میں قدم رکھنے سے ہچکچاتے ہیں۔ تم یہ سن کر حیران ہوگی کہ لاہور شہر جس میں پانچ ہزار احمدی رہتے ہیں اس شہر میں سے باوجود توجہ دلانے کے اور باوجود اِس کے کہ میں خود اُن میں موجود تھا اور اُنہیں توجہ دلاتا رہا ایک سال میں ایک آدمی بھی فوج میں نہیں گیا۔ اِس کے مقابلہ میں میرے ایک گھر میں سے میرے سات لڑکے جا چکے ہیں۔ ایک قادیان میں بیٹھا ہے جو ہندوستانی باشندہ ہے اور شرعاً اور قانونًا حکومت ہند کا وفادار ہے۔ دو کالج میں پڑھ رہے ہیں اور باقی سب چھوٹے ہیں گویا جتنے جا سکتے تھے وہ سب کے سب جا چکے ہیں مگر لاہور کے پانچ ہزار احمدیوں میں سے ایک بھی نہیں گیا۔ یہی حال اور شہروں کا ہے مثلاً گجرات، سیالکوٹ وغیرہ۔ اِن میں سے بہت سے علاقے ہیں جو انگریز کے وقت میں پیسوں کی خاطر خوب فوجی خدمت کرتے تھے مگر اب پاکستان بننے پر وہ اِس طرح خدمت نہیں کرتے شاید اِس لئے کہ اب وہ تنخواہیں اور آرام نہیں۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے زیادہ تر وہ لوگ قربانی کر رہے ہیں جو غیر زمیندار ہیں اور جن کے متعلق زمیندار حقارت کے ساتھ یہ کہا کرتے ہیں کہ یہ لوگ لڑنا نہیں جانتے۔ لڑنا جانتے ہیں تو ہم جانتے ہیں مگر قربانی کے میدان میں وہی لوگ اپنی جانوں کو پیش کر رہے ہیں۔
دیکھو! ایک دن دنیا میں اسلام نے غالب آنا ہے یہ لوگ جو کبھی پچاس پچاس اور ساٹھ ساٹھ روپیہ پر نوکریاں کرتے پھرتے تھے، جو جمعدار اور صوبیدار بن کر اِترائے پھرتے تھے، آج دین کی طرف سے، خداتعالیٰ کی طرف سے آواز بلندہو تو قربانی کرنے سے ہچکچاتے اور رُکتے ہیں یہ اور اُن کی آئندہ نسلیں اُن لوگوں کی غلام بن کر رہیں گی جنہیں آج تم حقارت کے ساتھ کمیں اور ذلیل لوگ کہتے ہو اور جن کا نام آنے پر تم ہنستے اور تکبر کے ساتھ کہتے ہو کہ ہمارے مقابلہ میں اِن کی حیثیت کیا ہے۔ آج بے شک تم اِن پر ہنس لو لیکن زمانہ یکساں نہیں رہے گا۔ اگر تم نے اپنی اصلاح کی کوشش نہ کی تو یاد رکھو یہ لوہار اور ترکھان ایک دن تمہارے افسر ہونگے، تم پر حکومت کریں گے، تمہارے بادشاہ اور حکمران ہوں گے اور سلسلہ دیکھے گا، احمدیت دیکھے گی کہ تم اِن کے غلام بنا کر رکھے جاؤ گے۔ تمہاری لڑکیاں ان کی لونڈیاں بنا کر رکھی جائیں گی اور تمہاری چوہدراہٹیں ساری کی ساری نکال کر رکھ دی جائیں گی۔ یہ لوہار اور ترکھان ایک دن بادشاہ ہونگے کیونکہ اُنہوں نے خداتعالیٰ کی آواز پر لبیک کہا اور تم جنہیں اپنی چوہدراہٹوں پر ناز ہے، اِن کے غلام بن کر رہو گے۔ تم اِس حقیقت کو سمجھو یا نہ سمجھو لیکن میں تمہیں وقت سے بہت پہلے ہوشیار کر دیتا ہوں۔ میں اِس دنیا میں نہیں ہوں گا لیکن میری آواز دنیا میں ہوگی اور جس چیز کے ساتھ میں محبت رکھتا ہوں یعنی اسلام اور احمدیت وہ دنیا میں موجود ہوگی، اُس وقت احمدیت بادشاہ ہوگی، اسلام کی دنیا پر حکومت ہوگی اور یقینا اگر تم نے اپنی اصلاح نہ کی تو احمدیت کی جوتیوں کی ایڑیوں کے نیچے تمہاری چوہدراہٹیں کچل کر رکھ دی جائیں گی اور جن کو تم کمیں اور ذلیل کہتے ہو یہ شہزادے ہوں گے۔ یہ بادشاہ ہونگے اور تم ذلیل اور مقہور غلاموں کی طرح اُن کے سامنے اپنی زندگی بسر کرو گے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ صحابہؓ نے پوچھا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! بڑے کون ہیں؟ آپ نے فرمایا وہی بڑے ہیں جو جاہلیت میں بڑے ہیں بشرطیکہ وہ دین کے لئے قربانیاں کریں۔ ۵؎ میں بھی تمہاری بڑائی کو مٹانا نہیں چاہتا بشرطیکہ تم دین کے لئے قربانیاں کرو لیکن اگر تم یہ گندہ نمونہ دکھاؤ گے کہ پچاس پچاس اور سَو سَو روپیہ کافروں سے لے کر تو تم اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتے تھے لیکن خدا اور اُس کے دیئے ہوئے مُلک کی خاطر جو اُس نے مسلمانوں کو دیا ہے، قربانی نہیں کرو گے تو تم کو ذلیل کیا جائے گا، تم کو رُسوا کیا جائے گا، تمہارا نام و نشان تک مٹا دیا جائے گا۔ وہ جن سے تم گوبر اُٹھواتے ہو، اِن کی لڑکیوں کی ڈولیاں تمہارے بڑے بڑے چوہدری اُٹھایا کریں گے کیونکہ احمدیت کی حکومت ہوگی اور جس کو احمدیت اونچا کرے گی وہی اونچا ہوگا دوسرا کوئی نہیں ہوگا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مکہ کے رؤساء نے آپ کی بڑی بڑی مخالفتیں کیں اور آپ کو سخت دُکھ دیئے مگر غلاموں نے آپ کی اطاعت کی اور وہ آپ پر صدقِ دل سے ایمان لے آئے اور پھر ایمان لانے کے بعد اُنہوں نے بڑی بڑی قربانیاں کیں۔ بلالؓ جو ایک غلام تھے جب ایمان لائے تو اُن کا آقا اُنہیں رسّی سے باندھ کر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور وہ سارا دن اُسے دھوپ میں مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرتے جن میں بڑے بڑے کھِنگر پڑے ہوئے ہوتے تھے اور پھر اُسے مار مار کر کہتے کہ کہو خدا ایک نہیں تو وہ نیچے سے جواب دیتا کہ اَسْھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُبلالؓ چونکہ حبشی تھے اِس لئے وہ ش نہیں بول سکتے تھے لوگ اَسْھَدُ کا لفظ سنتے تو ہنس پڑتے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ تم لوگ سنتے ہو کہ بلالؓ اَشْھَدُ کی جگہ اَسْھَدُ کہتا ہے اور تم اِس پر ہنستے ہو۔ مگر آسمان پر بیٹھا ہوا خدا اِس اَسْھَدُ کو اتنا پسند کرتا ہے کہ تمہارا ہزار اَشْھَدُ کہنا بھی اِس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔
یہ تکالیف تھیں جو بلالؓ کو پہنچائی گئیں۔ مگر جانتے ہو جب مکہ فتح ہوا تو وہ بلالؓ حبشی غلام جس کے سینے پر مکہ کے بڑے بڑے افسر ناچا کرتے تھے اُس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا عزت دی؟ اور کس طرح اس کا کفار سے انتقام لیا؟ جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلالؓ کے ہاتھ میں ایک جھنڈا دے دیا اور اعلان کر دیا کہ اے مکہ کے سردارو! اگر تم اپنی جانیں بچاناچاہتے ہو تو بلالؓ کے جھنڈے کے نیچے آ کر کھڑے ہو جاؤ۔۶؎ گویا وہ بلالؓ جس کے سینہ پر مکہ کے بڑے بڑے سردار ناچا کرتے تھے اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو بتایا کہ آج تمہاری جانیں اگر بچ سکتی ہیں تو اس کی یہی صورت ہے کہ تم بلالؓ کی غلامی میں آ جاؤ حالانکہ بلالؓ غلام تھا اور وہ چوہدری تھے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ جو آدھی دنیا کے مالک بن چکے تھے ایک دفعہ حج کے لئے مکہ پہنچے۔ نماز کے بعد آپؓ کو مبارکباد دینے کے لئے بڑے بڑے رؤساء جو مکہ پر حکومت کیا کرتے تھے اور جن کے دربار میں حضرت عمرؓ کا باپ بھی ادب سے بیٹھا کرتا تھا، آنے شروع ہوئے۔ جب وہ آئے تو حضرت عمرؓ نے اُن کو عزت اور احترام کے ساتھ بٹھایا اور اُن سے محبت اور پیار کے ساتھ باتیں شروع کیں۔ وہ سات یا آٹھ آدمی تھے۔ ابھی وہ بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں ایک غلام آیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی اور ابتدائی زمانہ میں آپ پر ایمان لا چکا تھا۔ حضرت عمرؓ نے اُن رؤساء سے فرمایا کہ پیچھے ہٹ جاؤ اور اِن کو جگہ دو۔ وہ پیچھے ہٹ گئے اور اُس غلام کو آگے جگہ دی گئی۔ ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ اتنے میں ایک دوسرا غلام آگیا۔ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کا امتحان لینا چاہتا تھا۔ حضرت عمرؓ نے پھر اُن سے فرمایا کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور اِن کو جگہ دے دو۔ وہ بیٹھا تو اُدھر سے تیسرا غلام آگیا۔ حضرت عمرؓ نے پھر اُن سے فرمایا کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور اِن کو جگہ دو۔ اِسی طرح یکے بعد دیگرے غلام آتے چلے گئے اور حضرت عمرؓ ہر غلام کے آنے پر یہی فرماتے کہ ذرا پیچھے ہٹ جاؤ اور اِن کو جگہ دو یہاں تک کہ پیچھے ہٹتے ہٹتے وہ شہر کے رئیس جوتیوں میں جا بیٹھے اور عزت کی جگہ پر سب غلام بٹھا لئے گئے۔ یہ دیکھ کر وہ لڑکے مجلس سے اُٹھ گئے اور اُنہوں نے باہر جا کر ایک دوسرے سے کہا دیکھا! آج ہمارے ساتھ کیا ہوا۔ آج ہماری وہ ذلّت کی گئی ہے کہ جس کا ہمیں وہم اور گمان تک نہ تھا۔ ہمارے زرخرید غلام جن کا کام ہماری جوتیاں صاف کرنا اور ہمارے گھروں میں پانی بھرنا تھا، اُن کو اگلی صفوں میں جگہ دی گئی اور ہمیں جوتیوں میں بٹھایا گیا۔ اُن نوجوانوں میں سے ایک زیادہ عقلمند تھا۔ اُس نے کہا۔تمہیں پتہ ہے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا گیا؟ یہ نتیجہ ہے ہمارے افعال کاجب خدا کے رسول نے مکہ میں دعویٰ کیا تو یہ غلام ہی تھے جنہوں نے اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَاکہا اور آپ کی تائید کیلئے کھڑے ہوگئے لیکن ہمارے باپ دادا نے آپؐ کی مخالفت کی۔ پس آج جو کچھ ہوا ہے یہ اُسی قصور کی پاداش ہے جو ہمارے باپ دادا سے سرزد ہوا۔اُنہوں نے کہا ہم مانتے ہیں کہ ہمارے باپ دادا سے یہ قصور ہوا مگر آخر اس کے ازالہ کا بھی کوئی طریق ہونا چاہیے اُس نے کہا چلو یہی بات حضرت عمرؓ سے پوچھیں۔
حضرت عمر ؓ کے خاندان کے سپرد لوگوں کے نسب ناموں کو یاد رکھنا تھا۔ یہ کام گو ہمارے مُلک میں میراثیوں کے سپرد ہوتا ہے مگر عربوں اور دوسری آزاد قوموں میں یہ نہایت ہی معزز کام سمجھا جاتا تھا اور ہے۔ پس چونکہ حضرت عمرؓ اُسی خاندان میں سے تھے جو انساب کو جانتا تھا اِس لئے جب وہ نوجوان حضرت عمرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ ہم آپ کے پاس ایک سوال لے کر آئے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے کہا میں نے آپ لوگوں کی بات کو سمجھ لیا ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ کو اِس سلوک سے بہت تکلیف پہنچی ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ آپ لوگوں کے باپ دادا بڑی بڑی عزتوں کے مالک تھے مگر میں مجبور تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں عزت دی جاتی تھی، میں اُن کو کس طرح پیچھے بٹھا سکتا تھا۔ اُنہوں نے کہا ہم اِس بات کو خوب سمجھ گئے ہیں ہمارا سوال صرف اتنا ہے کہ جو کچھ ہمارے باپ دادا سے ظلم ہو چکا ہے، اِس کے ہوتے ہوئے کیا کوئی صورت ایسی بھی ہے جس سے یہ کلنک کا ٹیکہ ہمارے ماتھے سے دُور ہو سکے حضرت عمرؓ کو اِس سوال پر اُن کے باپ دادا کی شان و شوکت یاد آ گئی، آنکھوں میں آنسو بھر آئے، آواز بھرا گئی زبان سے جواب دینے کی سکت نہ رہی، صرف ہـاتھ سے شام کی طرف اشارہ کیا اور خاموش ہو گئے۔ مطلب یہ تھا کہ شام میں عیسائیوں سے جنگ ہو رہی ہے اگر تم اِس جنگ میں شامل ہو کر اپنی جانیں دے دو تو یہ کلنک کا ٹیکہ تمہارے ماتھے سے دور ہو جائے گا۔ اُنہوں نے یہ جواب سنا تو اُسی وقت اُٹھ کھڑے ہوئے اور اپنی سواریوں پر زین کسی اور اِس جنگ میں شامل ہونے کے لئے شام چلے گئے اور تاریخیں بتاتی ہیں کہ وہ سارے کے سارے اُسی جنگ میں مارے گئے۔ اُن میں سے ایک بھی زندہ واپس نہیں آیا۔ ۷؎
پس یاد رکھو کہ آئندہ صرف چندوں سے کام نہیں چلے گا چندے بھی چلیں گے اور جان کی قربانی بھی چلے گی اور وہی قومیں عزت پائیں گی جو اِن قربانیوں میں حصہ لیں گی۔میں نے تم کو وقت پر ہوشیار کر دیا ہے خواہ اِس وقت تم میری بات کو سمجھو یا نہ سمجھو۔ جس وقت انسان کے پاس دولت ہوتی ہے، اُس کے دماغ میں غرور ہوتا ہے اور وہ دوسرے کی بات کو حقارت کے ساتھ ردّ کر دیتا ہے۔ مکہ والوں کے دماغ میں بھی یہی غرور تھا جس کی وجہ سے اُنہوں نے نقصان اُٹھایا۔ تم بھی کہو گے کہ ہماری حکومت دائمی ہے لیکن میں دیکھتا ہوں اور خدائی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں کہ تم میں سے وہ جن کی اصلاح نہیں ہوگی وہ ذلیل کئے جائیں گے، وہ تباہ اور برباد کئے جائیں گے۔ پس جاؤ اور اپنے مردوں اور بچوں کی اصلاح کرو، جاؤ اور اُن میں قربانی کا مادہ پیدا کرو۔ اگر نہیں کرو گی تو تم اِس کا عبرتناک انجام دیکھو گی۔ اولادیں اِس لئے ہوا کرتی ہیں کہ سُکھ کا موجب بنیں مگر ایسی اولادیں سُکھ کا موجب نہیں بلکہ ذلّت کاموجب ہوں گی، خاندان کی ترقی کا موجب نہیں بلکہ تنزل کا موجب ہوںگی۔
پس اپنی اصلاح کرو اور صحابیاتؓ کا نمونہ اپنے سامنے رکھو۔اگر تمہارے خاوند اور بیٹے اور بھائی اور دوسرے رشتہ دار خداتعالیٰ کی راہ میں مارے گئے تو وہ ابدی زندگی پائیں گے اور اگر جی چرائیں گے تو جیسا کہ میں نے بتایا ہے ذِلّت تمہارے سامنے کھڑی ہے اور وہ بہرحال تمہیں قبول کرنی پڑے گی لیکن اِس وقت اللہ تعالیٰ نے تمہاری ذلّت کو دور کرنے کا سامان پیدا کر دیا ہے۔ دوسروں نے وہ روحانی لذت حاصل نہیں کی جو تم نے حاصل کی ہے۔ تم نے خداتعالیٰ کے تازہ بتازہ معجزات دیکھے ہیں، تم نے خداتعالیٰ کے کئی نشانات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں، تم نے خداتعالیٰ کی آیاتِ بینات کا مشاہدہ کیا ہے اگر اِس کے بعد بھی تم نے اپنی اصلاح نہ کی اور تم نے اولادوں کو گرتے دیکھا تو یہ تمہاری قسمت۔ لیکن اگر تم اپنے خاوندوں، اپنے باپوں، اپنے بھائیوں اور اپنے بیٹوں کی اصلاح کرلو تو یقینا تم بھی وہی ثواب پاؤ گی جو وہ پائیں گے۔ تم حفاظت مُلک کی لڑائی میں خود نہیں جاؤ گی۔ جائے گا تمہارا باپ یا تمہارا خاوند جائے گا یا تمہارا بھائی جائے گا یا تمہارا بیٹا جائے گا لیکن تمہاری تعلیم کے ماتحت جو تمہارے بیٹے بہادری دکھلائیں گے، جو تمہارے بھائی بہادری دِکھلائیں گے، جو تمہارے باپ بہادری دِکھلائیں گے، جو تمہارے خاوند بہادری دِکھلائیں گے اُن کو جو کچھ ثواب ملے گا اُتنا ہی ثواب خداتعالیٰ کی درگاہ میں تمہاری نسبت بھی لکھا جائے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ اَلدَّالُّ عَلَی الْخَیْرِ کَفَاعِلِہٖ۸؎ جو شخص کسی دوسرے کو نیکی کی تحریک کرتا ہے، اُسے اتنا ہی ثواب ملتا ہے جتنا خود نیکی کرنے والے کو ملتا ہے۔ جو شخص جہاد کیلئے جاتا یا مُلک کی عزت کیلئے لڑتا ہے جو کچھ ثواب اُس کو ملتا ہے وہی اُس کو بھی ملتا ہے جو اُس کے دل میں نیک تحریک پیدا کرتا ہے۔
پس موجودہ تکلیفیں جو قادیان کو چھوڑنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں اُن کو بھول جاؤ۔ اپنے عزائم کو بلند کرو اور اپنی اولادوں میں جرأت اور بہادری پیدا کرو۔ اگر اُن میں جرأت اور بہادری پیدا کرو گی تو وہی عزت پاؤ گی جو صحابیاتؓ نے پائی اور تمہارے نام بھی قیامت تک عزت کے ساتھ یاد رکھے جائیں گے۔ لیکن اگر تم ایسا نہیں کرو گی تو تم اور تمہارے خاندان ذلیل کئے جائیں گے اور دنیا کی کوئی طاقت اِس کو بدل نہیں سکتی۔ خداتعالیٰ تم کو اور ہم کو اِس عذاب سے بچائے۔ آمین
(مصباح مئی ۱۹۵۰ء صفحہ۵ تا۲۴)
۱ تا ۳؎ اسد الغابۃ جلد۳ صفحہ۳۸۵، ۳۸۶۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۹۶ھ
۴؎ ترمذی کتاب تفسیر القرآن باب ومن سورۃ المومنین
۵؎ بخاری کتاب المناقب باب المناقب
۶؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۹۳۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۷؎ اسد الغابۃ جلد۲ صفحہ۳۷۲۔ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ
۸؎ مسند احمد بن حنبل جلد۵ صفحہ۲۷۴۔ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۳ھ
قادیان سے ہجرت اور
نئے مرکز کی تعمیر
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قادیان سے ہجرت اور نئے مرکز کی تعمیر
(فرمودہ ۱۶؍ اپریل ۱۹۴۹ء برموقع پہلا جلسہ سالانہ منعقدہ ربوہ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’میں کل دوستوں کو بتا چکا ہوں کہ ہمارا یہ جلسہ سالانہ احمدیت کیلئے ایک مرکز جدید اختیار کرنے کا جلسہ ہے۔ اِن ایّام میں ہمارے سب افکار اور ہماری ساری گفتگوئیں اور ہمارے سارے جذبات صرف ایک اور ایک مقصد کیلئے وقف رہنے چاہئیں۔ تقریریں ہوتی رہتی ہیں اور ہوتی رہیں گی۔ باتیں دنیا کیا ہی کرتی ہے اور کرتی ہی چلی جائے گی مگر جو دن کسی خاص مقصد کے لئے اختیار کیا جاتا ہے وہ اُسی مقصد کے استعمال میں زیادہ تر خرچ ہونا چاہیے۔ دنیا نے، اِس سیاسی دنیا نے جس سے ہمارا کوئی واسطہ نہ تھا اِس دنیا نے جس کے مادی کاموں سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اِس دنیا نے جس نے ہمیشہ ہی ہماری بدخواہی کی اور ہم نے اِس کی ہمیشہ خیرخواہی کی ایسا رویہ اختیار کیا کہ اس کی تدبیروں اور مکروں کے نتیجہ میں ہمیں وہ مقام چھوڑنا پڑا جس میں ہم امن اور اطمینان کے ساتھ اور بغیر کسی قسم کے لڑائی جھگڑے کے خدمت اسلام کا فرض سرانجام دے رہے تھے۔ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہم اُس جگہ کو چھوڑیں، ہم نہیں چاہتے تھے کہ دوسری باتوں میں ملوث ہوں۔جب سے پاکستان بنا ہے قدرتی طور پر ہماری یہ خواہش تھی کہ ہم بھی اِس کے ساتھ ہوں اور ہم بھی اِس کے ساتھ وابستہ ہوں مگر اِس طرح نہیں کہ یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ ہم قادیان چھوڑ کر پاکستان میں آ جائیں بلکہ ہماری یہ خواہش تھی کہ قادیان بھی پاکستان میں آ جائے۔ اِس کیلئے باؤنڈری کمیشن (BOUNDRY COMMISSION) کے ایّام میں میں خود لاہور گیا اور میں نے تمام ضروری معلومات مسلمانوں کے اُس نمائندے کو مہیا کیں جو کمیشن کے سامنے مسلمانوں کی طرف سے کیس پیش کر رہا تھا تا کہ کسی طرح قادیان بھی پاکستان میں شامل ہو جائے۔ میں نے انگلستان سے ایک جغرافیہ دان بھی بُلایا جو وہاں ایک یونیورسٹی کا مشہور پروفیسر اور مصنف تھا تا کہ وہ کمیشن کی امداد کرے۔ لیکن یہ چیز یا تو پہلے سے طے شدہ تھی یا مخفی طور پر ہندوستان یونین سے وعدہ کر لیا گیا تھا کہ سکھوں کو خوش کرنے کے کئے ضلع امرتسر اور گورداسپور جس میں مسلمانوں کی اکثریت ہے ہندوستان کو دے دیا جائے گا۔ مجھے خوب یاد ہے جب کمیشن کے سامنے مسٹر سیتل واڈ نے جو ہندوؤں کے وکیل تھے اپنی آخری تقریر شروع کی تو جس وقت وہ گورداسپور پر پہنچے اُنہیں یہ معلوم تھا کہ میں نے تمام مسالہ جمع کر کے مسلمان نمائندوں کو دیا ہے اُنہوں نے گورداسپور پر پہنچتے ہی ذرا ٹیڑھے ہو کر میری طرف دیکھا اور ایک دھمکی آمیز رنگ میں کہا گورداسپور بہرحال ہندوستان یونین کی طرف جائے گا اور اِس کو پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو نقصان پہنچے گا۔ مسٹر سیتل واڈ اُس وقت انسانی نظر سے دیکھ رہا تھا لیکن ہم انسانی نظر سے نہیں دیکھا کرتے ہم آسمانی نظر سے دیکھنے کے عادی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کفّارِ مکہ نے فیصلہ کیا کہ ہم اُنہیں قید کر لیں گے یا مکہ سے باہر نکال دیں گے یا مار ڈالیں۱؎ گے تو ان کی تمام تدبیریں اور چالیں عدمِ علم کی وجہ سے تھیں۔ اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ اُن کی اِن تدبیروں اور اُن کی اِن چالوں کے کیا نتائج نکلنے والے ہیں۔ چنانچہ خدا تعالیٰ نے کفّارِ مکہ کو ساری تدبیروں کا موقع دیا لیکن آخر خدا تعالیٰ کی بات ہی غالب آئی اور انہیں شرمندگی کی وجہ سے سرجھکانے پڑے۔ یہی بات قادیان کی ہوگی۔ انڈین یونین کیا ہے ساری دنیا بھی اگرچاہے کہ وہ ہمیں قادیان سے دوامی طور پر نکال دے تو وہ نیست و نابود ہو جائے گی اور آخر قادیان ہمارا ہی ہوگا اور ہم اُسے حاصل کر کے رہیں گے۔ ہم نے خداتعالیٰ کے ہاتھ دیکھے ہیں، ہم نے خداتعالیٰ کے فرشتوں کی فوجوں کو دیکھا ہے، ہم نے اُس کے اقتدار کا خود معائنہ کیا ہے۔ ہمیں انسانی تدبیروں، مکروں اور چالوں کا کیا ڈر ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے۔ ’’آگ سے ہمیں مت ڈرا آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘۔ ۲؎ جنگ بھی ایک قسم کی آگ ہے۔ ہم جنگ نہیں کرتے بلکہ ہم امن کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دین کو تمام دنیا میں پھیلاتے ہیں لیکن ہم قادیان لیں گے اور دنیا کی آنکھیں دیکھیں گی کہ ہم نے قادیان واپس لے لیا ہے۔ بیشک وہ احمدی جو میرے سامنے بیٹھے ہیں کمزور ہیں اور جنگ کا نام سننے سے اُن کے دل کانپتے ہیں لیکن خداتعالیٰ ایسے لوگ خود پیدا کرے گا جو خون کی بہتی ہوئی ندیوں میں سے تیرتے ہوئے قادیان پہنچیں گے اور اُسے حاصل کر لیں گے اور خواہ انہیں تلوار کی نوکوں پر سے جانا پڑے، خواہ اُنہیں تلوار کی دھاروں پر چلنا پڑے وہ بہرحال قادیان کو لے کر رہیں گے اگر صلح کے ساتھ ہمیں قادیان نہ ملا تب بھی قادیان واپس لیا جائے گا اور ہم اُسے واپس لے کر رہیں گے۔‘‘ (غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’اِس وقت جو اصل سوال ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ ہم ایک نئی زندگی اختیار کریں اور ایک نئے نظام کے ماتحت پھر خدمت اسلام میں مشغول ہو جائیں۔ ہم ایک منظم قوم ہیں ہم پراگندہ قوم نہیں ہم کسی مرکز کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ دوسرے لوگ مرکز کے بغیر رہ سکتے ہیں لیکن ہمارے سارے کام محورِ خلافت کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ اور اِس کے معنی یہ ہیں کہ کام کرنے کے لئے کارکن بھی ہونے چاہئیں اور ایسے ادارے بھی ہونے چاہئیں جہاں کام چلانے کی تربیت دی جائے۔ اور یہ ساری باتیں تنظیم چاہتی ہیں، یہ ساری باتیں ایک مقام چاہتی ہیں، یہ ساری باتیں ایک نظام چاہتی ہیں۔ ہم پھیل کر اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتے۔ ہم ایک جگہ جمع ہو کر اور ایک تنظیم میں رہ کر ہی اپنے مقصد کو حاصل کر سکتے ہیں۔ ہم میں سے کئی لوگ ایسے ہیں جن کے پاکستان میں بھی مکانات ہیں۔ خود میرے پاس بھی پاکستان میں مکان ہے مجھے جب دوستوں نے کہا کہ کیوں نہ آپ وہاں چلے جائیں تو میں نے اُنہیں یہی جواب دیا کہ ہم نے جمع ہو کر رہنا ہے اس لئے ہم وہیں رہیں گے جہاں جماعت اکٹھی ہو سکے۔ اگر جماعت اکٹھی نہ ہو سکے تو ہماری غرض اور ہمارا مقصد مفقود ہو جاتا ہے۔
پس دوستوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ہمارا یہ جلسہ سالانہ تفاول کے طور پر ہے تا کہ ہم ایک نئے مرکز کی بنیاد ڈالیں۔ غیب جاننے والا خداتعالیٰ ہی ہے اور وہی جانتا ہے کہ ہمارے ارادے کس رنگ میں پورے ہوں گے۔ لیکن فی الحال میں یہی سمجھتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی مشیت اور خداتعالیٰ کا ارادہ یہی ہے کہ ہم اِس جگہ احمدیت کے نئے مرکز کی بنیاد ڈالیں۔ ہمیں حَاشَاوَکَلَّاکسی خاص مقام سے کوئی تعلق نہیں جہاں خدا چاہے ہم جانے کے لئے تیار ہیں اور وہی جگہ ہمارے لئے بابرکت ہوگی۔ بہرحال یہ جلسہ ایک نئے مرکز کے قیام کی غرض سے ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ اِس حالت میں بھی اللہ تعالیٰ نے جو نظام ہمیںبخشا ہے وہ کتنا زبردست ہے۔ دنیا کی کونسی قوم ہے جسے اتنی شدید پریشانی ہوئی ہو جتنی ہمیں ہوئی اور پھر اُس نے اکٹھے ہو کر اپنے لئے نئے مرکز کی تعمیر کی کوشش کی ہو۔ یہ صرف احمدی ہی ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اپنے لئے ایک نئی جگہ بنائیں اور نئے سرے سے اپنی ترقی کیلئے کوشش کریں۔
میں اپنے مضمون کی طرف آنے سے پہلے چند ضمنی مضامین کے متعلق بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ تمام قسم کی ترقیات اچھے لٹریچر کے ساتھ وابستہ ہیں۔ انگریزی ترجمۂ قرآن کریم جو حال ہی میں شائع ہوا ہے اِس کے متعلق منتظمین نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ جماعت کے دوستوں نے اس کی خریداری کی طرف پوری توجہ نہیں کی۔ بے شک اِس کی قیمت زیادہ ہے لیکن انگریزی ممالک میں تبلیغ کا اِس سے زیادہ اچھا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ ترجمہ جہاں اور جس مُلک میں پہنچا ہے اِس نے تبلیغ کے لئے ایک بڑا راستہ کھول دیا ہے۔ مثلاً شام کے اخباروں میں اس کے متعلق بڑے زوردار الفاظ میں مضامین نکلے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مستشرق جو اپنے آپ کو فرعون کی حیثیت دیتے ہیں اُن کے اندر بھی اِس ترجمہ کی وجہ سے کھلبلی مچ گئی ہے۔ تین بڑے مستشرقین نے اِس پر ریویو لکھے ہیں اور اتنے بغض کا اظہار کیا ہے کہ اس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ انہوں نے یہ محسوس کر لیا ہے کہ یہ ترجمہ عیسائیت کیلئے ایک بہت بڑی زدہوگا۔ اگر یہ معمولی چیز ہوتی تو اِن مستشرقین کو کیا ضرورت تھی کہ اتنے سخت مضامین لکھتے۔ پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ انگریزی ترجمۂ قرآن کریم کی اشاعت کی طرف توجہ کریں اور یورپین ممالک میں اِسے کثرت سے شائع کرنے میں امداد دیں۔
اِسی طرح مجھے بتایا گیاہے کہ تفسیر کبیر کی نئی جلدوں کی اشاعت کی طرف بھی جماعت نے بہت کم توجہ کی ہے حالانکہ اُردو زبان میں عام لوگ بھی قرآنی مطالب کو اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ تفسیر کبیر کی جو پہلی جلد چھپی تھی اُس کی پانچ روپے فی جلد قیمت رکھی گئی تھی۔ مگر سٹاک ختم ہوجانے کے بعد احمدیوں نے اُسے سَو سَو روپیہ فی جلد کے حساب سے خریدا۔ افریقہ میں ایک دوست نے ایک جلد پچاس روپے پر فروخت کر دی اور سمجھا کہ وہ اِس قیمت سے ایک اور جلد خرید لیں گے مگر اُس نے جب یہاں لکھاکہ میرے لئے تفسیر کبیر کی وہ جلد پچاس روپے تک خرید لی جائے تو ہم نے اُسے جواب دیا کہ پچاس روپے کو تو کوئی شخص یہ جلد نہیں دیتا۔ ہاں کوشش کی جائے تو سَو روپیہ تک مل سکتی ہے۔ مگر جو جِلد اَب چھپی ہے اِس کی کافی تعداد موجود ہے اور اِس کی خریداری کی طرف دوستوں نے توجہ نہیں کی۔ اب آخری جِلد شائع ہو رہی ہے اور دوستوں کے لئے دونوں جِلدوں کا اکٹھا خریدنا مشکل ہوگا الگ الگ خریدنے میں آسانی ہوتی ہے اور کسی قسم کا بوجھ محسوس نہیں ہوتا۔
الفضل والوں نے مجھ سے یہ درخواست کی تھی کہ میں جلسہ پر ان کے لئے بھی سفارش کروں لیکن جب میںآ رہا تھا تو میں نے سنا کہ وہ الفضل کے متعلق خود اعلان کر رہے ہیں۔ بہرحال الفضل ایک جماعتی اخبار ہے اور تربیت اور اصلاح و ارشاد کے لئے بہت ممد ہے۔ دوستوں کو اِس کی ایجنسیاں کھولنی چاہئیں اور اِس کی خریداری کو بڑھانا چاہیے۔
سب سے بڑی چیز وقف زندگی ہے لیکن میں افسوس سے کہتا ہوں کہ پنجاب کی تقسیم کے بعد جماعت کی توجہ اِس طرف سے ہٹ گئی ہے۔ اِس کی بڑی وجہ پریشانیاں ہیں۔ اکثر لوگ تجارتی کاموں میں لگے رہے اور جو انصار تھے وہ بھی مہاجرین کی مدد کے لئے اِدھر اُدھر بھاگتے رہے اور اِس طرف کسی نے توجہ نہیں کی لیکن وقف زندگی کے بغیر سلسلہ کے کام نہیں چل سکتے۔دوستوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اپنی زندگیاں وقف کریں اور اسلام کو جلد سے جلد تمام دنیا پر غالب کرنے کے سامان بہم پہنچائیں۔ باوجود اس کے کہ ہمیں ابھی پریشانیاں لاحق ہیں، باوجود اس کے کہ ہم نے ابھی نیا مرکز بنانا ہے خداتعالیٰ نے ہماری اشک شوئی کیلئے تبلیغ اسلام کو وسیع کر دیا ہے۔ چنانچہ گذشتہ سال جرمن میں ایک اچھی جماعت قائم ہوگئی اور ایک درجن کے قریب جرمن احمدیت میں داخل ہوئے۔ اِسی طرح ہالینڈ میں بھی جماعت احمدیہ قائم ہوگئی۔ جرمن احمدیوں میں سے مسٹر عبدالشکور کنزے کو جو پہلے سے احمدی تھے خداتعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے اپنی زندگی وقف کریں۔اِنہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ جرمن ہیں بلکہ ہر دیکھنے والا یہ سمجھے گا کہ وہ کوئی مولوی ہیں۔ اِنہوں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے اور بظاہر وہ جرمن معلوم نہیں ہوتے۔ ہالینڈ کے ایک دوست بھی اپنی زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں اور اُن سے خط و کتابت ہو رہی ہے۔ اسی طرح جرمن کے بعض اَور دوست بھی اِس فکر میں ہیں کہ وہ اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کریں۔‘‘ (الفضل ۱۳ ؍جولائی ۱۹۶۱ء)
’’ایران میں ہمارے مبلّغ تین سال سے بیٹھے تھے اور اب تک اُنہیں کوئی کامیابی نہیں ہوئی تھی۔ آہستہ آہستہ وہاں تبلیغ ہوتی رہی۔ وہاں کے مشنری نے خواب میں دیکھا کہ ایران کے جنوبی علاقہ میں خداتعالیٰ کا فضل نازل ہوگا اور جماعت احمدیہ کو ترقی ہوگی۔ اِس کے بعد اُنہوں نے ایک علاقہ میں جس کے متعلق اُنہیں خیال تھا کہ وہ خواب میں دکھایا گیا ہے لٹریچر بھیجنا شروع کیا۔ بعض لوگ اُن سے ملنے کے لئے بھی آئے۔ اُن کے بڑے امام کو بھی کتابیں بھیجی گئیں۔ ایک دو ماہ کے بعد اُس نے اُنہیں لکھا کہ وفاتِ مسیح کا مسئلہ ثابت ہو گیا ہے اب آپ نبوت کے متعلق میری تسلی کرادیں۔ چنانچہ خط و کتابت ہوتی رہی۔ ڈیڑھ مہینہ ہوا کہ وہ دوست احمدی ہوچکے ہیں۔ اور نہ صرف وہ اکیلے احمدی ہوئے ہیں بلکہ اُن کے مریدوں میں سے اَور بھی کئی آدمی احمدیت قبول کر چکے ہیں۔ اب اطلاع ملی ہے کہ اُس علاقہ میں جو تین ہزار سُنّی رہتے ہیں اُن میں سے اکثریت خداتعالیٰ کے فضل سے احمدی ہو چکی ہے اور باقی بھی قریب زمانہ میں اِنْشَائَ اللّٰہُ احمدی ہو جائیں گے۔ یہ لوگ ہیں تو غریب لیکن بہت جفاکش ہیں۔ اِن کا حکومت کے ساتھ عموماً جھگڑا ہوتا رہتا ہے اور یہ اختلاف بعض اوقات لڑائیوں تک جا پہنچتا ہے۔ اِن لوگوں نے ایرانیوں کو نکال دیا تھا اور خود آزاد ہوگئے تھے لیکن اب پھر یہ ایرانی حکومت کے ماتحت ہیں۔ لیکن ایرانی ڈرتے ہیں کہ کہیں یہ پھر سر نہ اُٹھائیں۔ یہ علاقہ بھی فارس کا ہے جس کے متعلق احادیث میں پیشگوئیاں ہیں کہ جب اسلام کمزور ہو جائے گا اور اُسے ضعف پہنچے گا تو خدا تعالیٰ بنوفارس میں سے ایک شخص کو کھڑا کرے گا جو دوبارہ مسلمانوں کی تنظیم کرے گا اور اسلام کو اپنی بنیادوں پر قائم کرے گا۔‘‘ (غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’امریکہ میں ۱۹۲۶ء سے تبلیغ ہو رہی ہے اِس وقت تک تبلیغ سیاہ فام لوگوں میں ہی ہوتی رہی ہے۔ امریکہ میں دو کروڑ کے قریب سیاہ فام لوگ بستے ہیں۔ پرانے زمانہ میں امریکہ والے اِنہیں افریقہ سے اپنی خدمت کے لئے پکڑ لائے تھے لیکن ایک زمانہ آیا جب امریکنوں نے خود کہا کہ وہ اِنہیں غلام رکھنا پسند نہیں کرتے۔ امریکنوں کا ایک حصہ اِس بات کے حق میں تھا کہ اِنہیں غلام نہیں رکھنا چاہیے۔ لیکن دوسرے فریق نے انہیں غلام رکھنے پر اصرار کیا۔ دونوں میں لڑائیاں ہوئیں اور وہ فریق جیت گیا جو اِس بات کے حق میں تھا کہ سیاہ فام لوگوں کو غلام نہیں رکھنا چاہیے۔ اب یہ لوگ وہیں رہتے ہیں اِن میں سے کچھ لوگ لیبیا میں بسائے گئے تھے اور باقی وہیں آباد ہوگئے اِن کی تعداد اِس وقت دو کروڑ ہے۔ اِس وقت تک اسلام کلی طور پر اِنہیں لوگوں میں پھیل رہا تھا لیکن اب سفید فام لوگوں میں بھی ہماری تبلیغ شروع ہوگئی ہے اور پچھلے دنوں دو امریکن احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ ایک امریکن نے اسلام کی خدمت کیلئے اپنی زندگی بھی وقف کر دی ہے۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ میرے وقف زندگی کو قبول کیا جائے اور ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے کہ وہ پاکستان آ کر دینی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اِس کے بعد اپنے مُلک میں واپس جا کر تبلیغ کریں گے۔ اِن کے اخلاص کا یہ حال ہے کہ امریکہ کے انچارج مبلغ خلیل احمد صاحب ناصر نے اطلاع دی ہے کہ یہ دوست سَوا سولہ فیصدی کے حساب سے چندہ دے رہے ہیں اور روپیہ بھی جمع کر رہے ہیں تا کہ وہ اپنے خرچ پر پاکستان آئیں اور دینی تعلیم حاصل کریں۔‘‘ (الفضل ۱۳ ؍جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ۴ کالم ۲)
’’اِسی طرح یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ امریکہ میں ہمارا مشن رجسٹرڈ کروا لیا گیا ہے جب تک مشن رجسٹرڈ نہ ہو امریکہ میں اُسے باقاعدہ طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ ہمارے مبلغوں کو بار بار تنگ کیا جاتا تھا اور حکومت اُنہیں مشنری تسلیم نہیں کرتی تھی۔ جب ہم کسی مبلغ کے بھیجنے کے متعلق کوشش کرتے تو اِس میں رُکاوٹیں ڈالی جاتیں۔ پاکستان کے امریکن سفارت خانے کو ہم نے کہا کہ تمہارے مشنری جب ہمارے ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں تو ہم اپنا مبلغ آپ کے ملک میں کیوں نہیں بھیج سکتے یہ تو بے انصافی ہے۔ چنانچہ امریکہ کے قونصل نے جو ایک شریف آدمی ہیں ہماری دلیل کی قوت کو تسلیم کیا اور اُنہوں نے خود مجھے لکھا کہ یہ آپ سے بے انصافی ہو رہی ہے۔ چنانچہ ایک پارٹی کے موقع پروہ مجھے ملے اور اُنہوں نے خوشخبری سنائی کہ اُن کی کوشش سے امریکہ سے یہ اطلاع آ گئی ہے کہ حکومت نے یہ منظور کر لیا ہے کہ احمدی مشنریوں کو بھی تسلیم کر لیا جائے۔ میں سرکاری اطلاع بعد میں بھجوا دوں گا اور ساتھ ہی کہا کہ آپ اب اپنے مشنوں کو رجسٹرڈ کروانے کی کوشش کریں۔ ہمارے لئے مشنوں کے رجسٹرڈ کروانے میں بہت سی دِقتیں تھیں۔ حکومت کی طرف سے یہ سوال کیا جاتا تھا کہ ہم تمہارے مشن کو کیوں تسلیم کریں؟ جب آپ لوگ ہمارے مُلک میں دیر سے بس رہے تھے تو کیوں نہ آپ نے اپنے مشن کو رجسٹرڈ کروایا؟ اب انہیں رجسٹرڈ کروانے کی کیا ضرورت پیش آئی ہے؟ اس بارہ میں بھی خدا تعالیٰ نے غیب سے سامان کیا اور ہمارا مشن ایک نئی جگہ پر کھل گیا۔ وہاں حبشیوں کی ایک پارٹی رجسٹرڈ تھی اس میں سے اکثریت احمدی ہوگئی اور اُنہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ ان کے مشن کا نام تبدیل کر کے احمدیہ مشن رکھ دیا جائے۔ دوسرے مبلّغوں نے بھی اِس حوالہ سے درخواستیں دیں کہ ہماری جماعت فلاں جگہ پر رجسٹرڈ ہے اس جگہ پر بھی اِسے رجسٹرڈ کر لیا جائے۔ اب اطلاع آئی ہے کہ ہمارے دو اَور مشن بھی رجسٹرڈ ہوگئے ہیں اب اگر وہاں مبلّغنہیں ہوگا اور جماعت حکومت کے پاس درخواست کرے گی کہ اُنہیں مبلّغمنگوانے کی اجازت دی جائے تو حکومت کے قواعد کے مطابق اسے اِس طرف توجہ دینی پڑے گی ورنہ یہ سمجھا جائے گا کہ حکومت ناانصافی کر رہی ہے۔
امریکن نَومُسلم یوں بھی ترقی کر رہے ہیں امریکہ کی جماعت کا بجٹ تیس ہزار روپیہ سالانہ ہے اور جس رنگ میں ترقی کر رہی ہے اِس سے میں امید کرتا ہوں کہ وہ جلد ہی لاکھوں تک پہنچ جائے گا۔ (اِنْشَائَ اللّٰہُ تَعَالٰی) اور امریکہ کی دولت سے یہ بعید نہیں کہ ان کا بجٹ پاکستان کی جماعت کے بجٹ سے بھی بڑھ جائے۔ مثلاً امریکہ میں اگر بیس ہزار احمدی ہو جائیں تو امریکہ میں فی آدمی اوسط آمدن سَوا تین سَو روپیہ ہے اور فیملی تین آدمی کی ہوتی ہے۔ جس کے معنی یہ ہونگے کہ وہاں سات ہزار کمانے والے ہوں گے اور ان کی بیس لاکھ ماہوار سے زیادہ آمد ہوگی۔ اگر وہ وصیت کے معیار کے مطابق چندہ دیں تو اُن کا چندہ دو لاکھ سے کچھ اوپر ہوتا ہے۔ ہمارے مُلک کی آمد کا جو اندازہ لگایا گیا ہے اس کے مطابق ہمارے مُلک کے ایک فرد کی آمد تین روپے بارہ آنے ہے۔ اور اگر تین آدمیوں کی ایک فیملی شمار کر لی جائے تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ ایک فرد کے حصہ میں صرف سَوا روپیہ آتا ہے۔ لیکن امریکہ میں ایک خاندان (یعنی اوسط درجہ کے خاندان) کی اوسط آمد سَوا تین سَو روپیہ ہے گویا ہماری نسبت اُن کی آمدن تیس گنے زیادہ ہے۔ اگر امراء کو بھی شامل کر لیا جائے تو ان کی اوسط آمدن اَور بھی بڑھ جاتی ہے۔
اِس سال کے دوران میں مشرقی افریقہ میں بھی لوگ احمدی ہونے شروع ہوگئے ہیں چنانچہ اِس مہینہ میں تیس احباب جماعت میں شامل ہوئے ہیں اَور بھی کئی لوگ احمدیت کی طرف توجہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ وہ لوگ وقف کی حقیقت کو نہیں سمجھتے مگر پھر بھی بعض دوستوں نے اپنی زندگیاں خدمت دین کے لئے پیش کی ہیں اور وہ ہمارے مبلّغوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور اپنے اخلاص کا ثبوت دے رہے ہیں۔‘‘ (الفضل ۱۴؍ جولائی ۱۹۶۱ء)
’’اِسی طرح اِس سال خداتعالیٰ نے شرقِ اُردن میں بھی تبلیغ کا نیا رستہ کھول دیا ہے۔ شرقِ اُردن فلسطین کا ہی ایک حصہ علیحدہ کر کے الگ مُلک بنا دیا گیا ہے جو امیر عبداللہ کے ماتحت ہے۔ عمان سے جو شرقِ اُردن کا دارالخلافہ ہے کوئی شخص ہمارے فلسطین مشن میں آیا اور وہاں ہمارے مبلّغ رشید احمد صاحب چغتائی کو ملا اور اُن سے احمدیت کے متعلق باتیں کرنے لگا۔ جب وہ اپنے وطن واپس گیا تو اُس نے دوسرے لوگوں سے احمدیت کے متعلق باتیں شروع کیں اور ان کا طبائع پر بہت اثر ہوا اور ہمارے خیالات آگے پھیلنے شروع ہوئے۔ اُس شخص نے ہمارے مبلّغ کو لکھا کہ یہاں احمدیت کے لئے میدان تیار ہے اور بہت سے لوگ احمدی ہونے کے لئے تیار ہیں آپ اپنا مشن یہاں کھول دیں۔ عمان ایک بہت پُرانا شہر ہے اور اِس کا پُرانا نام قردیہ ہے۔ وہاں ہمارے لئے بہت سی دِقتیں تھیں مگر شام کے وزیر تعلیم نے جو ایک شریف آدمی ہیں ایک چٹھی لکھ دی کہ اِن کے راستہ میں کسی قسم کی روک نہیں ہونی چاہیے۔ اگر عمان میں احمدیت قائم ہوگئی تو یہ جگہ بھی کبابیر (فلسطین)کی طرح جہاں ہمارا مشن قائم ہے ہو جائے گی۔ یہ جگہ کبابیر سے بڑی ہے اور قصبہ ہے۔‘‘ (غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’سپین کے متعلق جو خبریں آ رہی ہیں وہ بھی خوشکن ہیں۔ اگرچہ وہاں لوگ مسلمان نہیں ہو رہے وہ نہایت ہی متعصب ہیں لیکن پھر بھی اُن پر اسلام اپنا اثر کر رہا ہے۔ جب ہم قادیان سے نکلے تو ہم نے کمی آمد کی وجہ سے بعض مشنریوں کو لکھا کہ یا تو تمہارے مشن بند کر دیئے جائیں گے یا تم خود گزارہ کی صورت پیدا کرو اور تبلیغ کرو سلسلہ کی طرف سے تمہیں کوئی خرچ نہیں دیا جائے گا۔ جن مشنوں کے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اُن میں سپین کا بھی مشن تھا۔ جب ہم نے اِس قسم کی چٹھیاں بیرونی مشنریوں کو لکھیں تو اِن مبلغوں نے جواب دیا کہ آپ ہمارا خرچ بے شک بند کر دیں جس طرح بھی ہوگا ہم گزارہ کریں گے۔ چنانچہ سپین کے مبلّغ نے پھیری کر کے روزی کمانا شروع کی اور خداتعالیٰ نے اس کی کمائی میں ایسی برکت ڈالی کہ چھ ماہ کے اندر اندر اِس نے سترہ اٹھارہ سَو روپیہ جمع کر لیا اور اس نے میرا لیکچر ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ ہسپانوی زبان میں شائع کیا۔ اس کا ان لوگوں پر بہت اثر ہوا۔ اِس لیکچر میں کمیونزم کے مقابلہ میں اسلام کا اقتصادی نظام پیش کیا گیا ہے اور سپین کے لوگ چونکہ روس کے دشمن ہیں اِس لئے اُنہوں نے اِس کتاب کو بہت پسند کیا۔ اخبارات اور رسالوں نے ریویو لکھے۔ چنانچہ کل ہی مجھے ایک ریویو ملا ہے جو ایک سرکاری اخبار میں شائع ہوا ہے۔ یہ اخبار سپین کی وزارت صنعت و تجارت اور امور خارجہ کی طرف سے ہفتہ وار شائع ہوتا ہے۔ اس میں ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ پر ایڈیٹر کی طرف سے جو انسپکٹر جنرل تجارت بھی ہے ایک ریویو شائع ہوا ہے جس کا ہیڈنگ ’’اسلام اور کمیونزم ‘‘ ہے۔ ہسپانیہ کے لوگ کٹر عیسائی ہیں اور اسلام سے اُنہیں عداوت ہے لیکن جب کوئی مشترکہ بات ہو تو وہ دشمنی بھول جاتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
’’سپین کے ایک نہایت ہمدرد دوست کرم الٰہی صاحب ظفر جو ہمارے ملک میں جماعت احمدیہ کے مبلّغ ہیں حال ہی میں نہایت قیمتی خدمات سرانجام دے چکے ہیں جو صرف دلچسپ ہی نہیں بلکہ اہلِ سپین اور اہلِ اسلام کے باہمی دوستانہ تعلقات مضبوط کرنے اور ایک دوسرے کو اچھے طور پر سمجھنے کا ذریعہ ہیں۔ آپ نے جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی کی ایک لطیف تصنیف کا ہسپانوی ترجمہ شائع کیا ہے جس کا عنوان ’’حقیقی امن کی طرف لے جانے والا راستہ‘‘ ہے اور جس کا دوسرا عنوان ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ ہے۔ موجودہ ترجمہ انگریزی سے ہسپانوی میں کیا گیا ہے جس کا اُردو میں مقابلہ کیا گیا ہے۔
یہ قدرتی امر تھا کہ کتاب کسی قدر جذباتی اور مذہبی تعصب کا رنگ رکھتی مگر باوجود اس کے کمیونزم کے مقابلہ میں نہایت شاندار طور پر اسلام کا اقتصادی نظام پیش کرتے ہوئے وزنی دلائل کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ کمیونزم نہ صرف دنیاوی سیاسی تحریکوں اور اصولوں کے خلاف ہے بلکہ مذہبی دنیا کے بھی خلاف ہے جہاں باہم معاشرتی زندگی میں مختلف الخیال لوگوں کو خواہ وہ صحیح مذہب کے پیرو ہوں یا غلط راہ پر چل رہے ہوں پوری آزادی ہے۔
اِس بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ آپ نے اِس لیکچر کے ذریعہ دنیا بھر کو اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی ہے کتاب نہایت اعلیٰ طور پر معلومات کا خزانہ ہے۔ خصوصاً ہم کیتھولک مذہب والوں کے لئے دوسرے مذاہب اور دوسری اقوام کے خیالات جاننے کے لئے کہ اِن لوگوں کی کمیونزم کے متعلق کیا رائے ہے یہ کتاب نہایت مفید ثابت ہوئی ہے۔
ہسپانوی ناظرین کے لئے سب سے زیادہ قابل کشش اور دلچسپ چیز اِس تصنیف لطیف میں اِس کا طرزِ بیان اور دلکش طور پر خیالات کا پیش کرنا اور زبان کی مٹھاس ہے۔ کتاب معارف سے پُر ہے اور قرآن کریم کی صحیح تفسیر اور دوسری اسلام کی مقدس کتب کے حوالوں اور نہایت گہری معلومات پر مشتمل ہے۔
سب سے زیادہ انتہائی دلچسپ اور قابل ذکر بات حضرت امام جماعت احمدیہ کا ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ دنیا کے سامنے نہایت دلچسپ رنگ میں پیش کرنا ہے اور دوسرے حصہ کے لئے جو کمیونزم کے متعلق ہے آپ زیادہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔
خلاصہ یہ کہ جو اصحاب اقتصادیات کے متعلق اپنی معلومات وسیع کرنا چاہتے ہوں اُن سے ہم پُر زور سفارش اِس کتاب کے مطالعہ کے لئے کرتے ہیں‘‘۔
اِس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ہمارے لٹریچر کا غیروں پر کیا اثر ہو رہا ہے۔
اِس کے بعد میں جماعت کے دوستوں کو یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ میں یہ سکیم یہاں لے کر آیا ہوں کہ ہم انجمن کے سارے دفاتر لاہور سے یہاں منتقل کر دیں اس لئے جیسا کہ احباب قادیان بار بار آیا جایا کرتے تھے اُسی طرح اِنہیں ربوہ میں بھی بار بار آنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر احباب بار بار ربوہ آئیں گے تو وہ ناظروں سے مل کر جماعت کی سکیموں کو معلوم کر سکیں گے اور دوسرے لوگوں پر بھی اِس بات کا اثر ہوگا کہ کس طرح یہ لوگ اپنے نئے مرکز کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘ (الفضل ۱۴ ؍جولائی ۱۹۶۱ء)
’’یہ بھی یاد رہے کہ جو لوگ آئندہ ربوہ آئیں وہ حتی الوسع ریل کے ذریعہ آئیں اور ریل کے ذریعہ جائیں۔ ریلوے حکام نے ہمارے ساتھ بہت اچھا تعاون کیا ہے اور ربوہ میں اُس وقت ریلوے سٹیشن بنایا ہے جب یہاں کوئی مکان نہیں تھا۔ یہ عمارتیں وغیرہ جو اَب بنی ہوئی ہوئی ہیں یہ ہم نے چند دنوں میں بنائی ہیں اور یہ بھی محض چھپر ہیں۔ ریلوے حکّام نے نہایت فراخدلی سے یہ جانتے ہوئے کہ جہاں اِس جماعت کا مرکز ہوگا ریل گھاٹے میں نہیں رہے گی یہاں اسٹیشن کھول دیا ہے اور آئندہ ان کا ارادہ اسے مستقل اور اہم سٹیشن بنانے کا ہے۔ انہوں نے حکّام بالا کی منظوری کے بغیر بامید منظوری یہ سٹیشن بنایا ہے اور اب انہیں دکھانا ہوگا کہ ہم نے یہاں سٹیشن کھولنے میں غلطی نہیں کی بلکہ اِس میں پاکستان کا فائدہ تھا۔ اگر جماعت کے دوست یہاں بار بار نہ آئیں گے تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ریلوے کی آمدنی کم دکھائی جائے گی اور حکّامِ بالا اعتراض کریں گے کہ محض خیالات پر بنیاد قائم کر کے یہاں سٹیشن کھول دیا گیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم کسی اور ذریعہ سے سفر نہ کرو۔ ضرورت کے وقت دوسرے ذرائع سے بھی سفر کیا جاسکتا ہے لیکن جہاں تک ممکن ہو ریلوے کے ذریعہ سفر کیا جائے۔ میں نے خود اپنے سب گھر والوں کو ریل کے ذریعہ بھیجا ہے اور خود موٹر پر آیا ہوں کیونکہ اُس دن میری ایک دعوت تھی جو یونیورسٹی کی طرف سے کی گئی تھی اور وہاں مجھے کئی دوسرے لوگوں سے ملنے کا موقع مل سکتا تھا۔ میں اُس دعوت پر چلا گیا اور پھر موٹر کے ذریعہ یہاں آیا۔ پس میرا یہ مطلب نہیں کہ خواہ کچھ بھی ہو آپ لوگ صرف ریلوے کے ذریعہ سفر کریں بلکہ میرا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دوست ریلوے کے ذریعہ سفر کریں۔ میں نے تمام گھر والوں کو ریل کے ذریعہ یہاں بھیجا تھا گو موٹر کے ذریعہ آنے میں شائد تیسرا حصہ خرچ ہوتا۔ میں نے یہی سوچا کہ فائدہ اِسی میں ہے کہ میں اِنہیں ریل کے ذریعہ بھیجوں تا ریلوے کے وہ حکّام جنہوں نے ہم سے تعاون کرتے ہوئے یہاں اسٹیشن کھولا ہے بدنام نہ ہوں۔
ہمارا یہ بھی ارادہ ہے کہ سٹیشن کو اِسی صورت پر ہی قائم نہ رکھا جائے بلکہ اِسے بڑھایا جائے اور بڑا سٹیشن بنایا جائے۔ اب ڈاک خانہ والوں کے بھی آدمی آئے ہیں اور وہ بھی یہاں ڈاکخانہ کھولنے کے لئے تیار ہیں اور اگر بات پختہ ہوگئی تو پھر منی آرڈروں کے آنے جانے اور دوسری ڈاک میں بھی سہولت پیدا ہو جائے گی اور دوسرے لوگوں سے ہمارے تعلقات زیادہ اچھے ہو جائیں گے۔ پس جماعت کو چاہیے کہ وہ کثرت سے ربوہ آنا جانا شروع کر دے اور پھر وہ ریل کے ذریعہ سفر کرے سوائے کسی مجبوری کے یا سوائے اِس کے کہ انہیں ریل کے ذریعہ سفر کرنے میں نقصان ہوتا ہو۔
اِس کے بعد میں اس کڑی کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں جو ربوہ کے قیام کے متعلق ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے میں اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہندوستان میں جب انگریز کا راج تھا اور ہم اُس کی رعایا تھے اُس وقت حکومت میں ہمارا کوئی دخل نہیں تھا۔ اب پاکستان بن چکا ہے اور حکومت جہاں قومی ہے وہاں ہماری محسن بھی ہے۔ اِس لئے ہم پر اب پہلے سے زیادہ فرض ہے کہ اِس کی حفاظت اور مضبوطی کے لئے کوشش کریں۔ اور حفاظتیں خالی نعروں سے نہیں ہوا کرتیں، صرف منہ سے یہ کہہ دینا کہ ہم اپنے مُلک کی حفاظت کریں گے اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگا دینا اِس بات کا یقین نہیں دلاتا کہ پاکستان کی واقعہ میں حفاظت کی جائے گی۔ خالی نعروں سے پاکستان زندہ نہیں ہوگا۔ وہ زندہ اُسی وقت ہوگا جب آپ لوگ مُلک کی خاطر موت کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ جب تک آپ خود مردہ باد نہیں ہو جاتے پاکستان زندہ باد کس طرح ہو سکتا ہے۔ اگر آپ منہ سے ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے نعرے لگائیں اور جب اِس کی حفاظت کا سوال آئے تو کہہ دیں ہم اِس کے ذمہ دار نہیں تو ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کس طرح ہو سکتا ہے۔ پاکستان اُس وقت ’’زندہ باد‘‘ ہوگا جب آپ موت کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ اور مرنے کے بھی ڈھنگ ہوتے ہیں سارے لوگ مرنا بھی نہیں جانتے۔
کہتے ہیں کسی مجلس میں ایک ڈاکٹر اور ایک اناڑی طبیب دونوں بیٹھے تھے کہ طب کا ذکر شروع ہو گیا۔ اناڑی طبیب کے متعلق ڈاکٹر نے کہا کہ اِسے طب نہیں آتی یونہی اِس نے علاج کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ اِس پر اناڑی طبیب نے کہا جناب! یہ باتیں تو ہوتی رہتی ہیں آپ کا علم بھی ہم نے دیکھ لیا کہ وہ کتنا وسیع ہے۔ میرے بھی کئی مریض بچتے ہیں آپ کے بھی کئی مریض بچتے ہیں۔ میرے بھی کئی مریض مرتے ہیں اور آپ کے بھی کئی مریض مرتے ہیں یا تو کہیں کہ آپ کا مریض مرتا ہی نہیں۔ ڈاکٹر ہوشیار آدمی تھا اُس نے کہا میرے مریض بچتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں لیکن تمہارے مریض بچتے ہیں تو وہ اتفاقی طورپر بچ جاتے ہیں اور میرے مریض بچتے ہیں تو وہ میرے علم کے ماتحت بچتے ہیں۔ اور پھر میرے مریض مرتے ہیں تو قانونِ قدرت کے ماتحت مرتے ہیں لیکن تمہارے مریض جہالت کی وجہ سے مرتے ہیں ورنہ موت تو بدل نہیں سکتی۔ غرض مرنے کا بھی ایک فن ہوتا ہے اور مارنے کا بھی ایک فن ہوتا ہے اور جس شخص کو یہ دونوں فن نہ آتے ہوں وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وقت آنے پر میں پاکستان کی حفاظت کروں گا اور اِسے دشمن سے بچا لوں گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے۔ کوئی بادشاہ تھا اُس نے اپنے وزیروں کو بُلایا اور اُن سے دریافت کیا کہ فوج پر کیا خرچ ہوتا ہے؟ وزیروں نے بتایا کہ مثلاً فوج پر پچاس لاکھ یا ساٹھ لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے۔ بادشاہ نے کہا اتنا روپیہ یونہی فوج پر برباد کیا جا رہا ہے یہ تو بیوقوفی کی بات ہے۔ وزیروں نے کہا بادشاہ سلامت! پہلے سے یہی ہوتا چلا آیا ہے۔ بادشاہ نے کہا یہ بیوقوفی کی بات ہے فوج پر اتنا روپیہ خرچ نہیں کرنا چاہیے۔ لڑائی کا کیا ہے یہ قصاب جو روزانہ جانور ذبح کرتے ہیں کیا یہ فوج کا کام نہیں دے سکتے؟ جب لڑائی کا موقع آیا ہم انہیں محاذ پر بھیج دیں گے۔ چنانچہ ملک کی فوج برخواست کر دی گئی اور تمام قصابوں کو یہ کہہ دیا گیا کہ وہ وقت آنے پر لڑائی کے لئے تیار رہیں۔ ہمسایہ بادشاہ نے جب یہ دیکھا کہ اِس مُلک کا بادشاہ اتنا عقلمند ہے کہ اس نے اپنی فوج کو برخواست کر دیا ہے اور قصابوں کو لڑائی کے لئے تیار رہنے کا حکم دیا ہے تو وہ اپنی فوجیں لے کر اُس مُلک پر چڑھ آیا۔ قصابوں کو حکم دے دیا گیا کہ وہ لڑائی کے لئے چل پڑیں۔ اِس پر تمام قصاب اپنی چھریاں تیز کر کے لڑائی کے لئے چل پڑے۔ پانچ چھ منٹ کی لڑائی کے بعد ہی وہ بھاگتے ہوئے بادشاہ کے پاس آئے اور شورمچانا شروع کر دیا کہ بادشاہ سلامت فریاد! فریاد! فریاد! بادشاہ اِس انتظار میں تھا کہ لڑائی کے متعلق کوئی خوشکن خبر آئے۔ وہ قصاب جب چلاتے ہوئے دربار میں آئے تو بادشاہ نے پوچھا یہ کیا؟ قصابوں نے جواب دیا بادشاہ سلامت! ہم ایک آدمی کو دو تین مل کر پکڑتے ہیں اور قبلہ رُخ کر کے بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہہ کر نہایت اُستادی سے ذبح کرتے ہیں مگر اتنے میں دشمن ہمارے بیس بیس آدمی مار دیتا ہے انہیں روکئے بھلا یہ بھی کوئی اُستادی ہے۔ ابھی وہ یہی باتیں کر رہے تھے کہ فوج آ پہنچی اور بادشاہ قید ہو گیا۔ غرض کوئی کام بے سکیم کے نہیں ہو سکتا۔ اگر بے سکیم ہو سکتا تو پھر قصابوں کے بعد مُلک میں کسی فوج کی کیا ضرورت تھی۔ وقت آتا تو تمام قصاب نیشنل گارڈ ،ہوم گارڈ اور فوج میں بھرتی کرلئے جاتے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ اس طرح مُلک کی حفاظت ہو جائے گی؟ تم یقینا یہی کہو گے کہ اس طرح مُلک کی حفاظت نہیں ہو سکتی۔ اس لئے کہ قصاب لڑائی کے فن سے واقف نہیں۔ جب تک کوئی لڑائی کے فن سے واقف نہ ہو وہ لڑائی میں مفید ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس لئے خواہ کچھ بھی ہو پاکستانیوں کو چاہیے کہ وہ مُلک و ملّت کی حفاظت کے لئے فوج میں بھرتی ہوں اور اِس طرح اپنے مُلک کی حفاظت کا صحیح طریق سیکھیں۔
میں آپ لوگوں کو سمجھانے کے لئے ایک اَور مثال بھی دے دیتا ہوں۔ کہتے ہیں کوئی پٹھان تھا اُس نے اپنی مونچھیں اونچی کر لیں اور اعلان کر دیا کہ میرے سوا کسی اور کو مونچھیں اونچی کرنے کا حق حاصل نہیں۔ اگر کسی نے مونچھیں اونچی کیں تو میں اُس کی گردن اُڑا دوں گا۔ شہر والوں نے اپنی مونچھیں نیچی کر لیں اور وہ پٹھان جس کسی کی مونچھیں اونچی دیکھ لیتا وہ اُس کے کان پکڑ لیتا اور دوسرا شخص کہتا نہیں خانصاحب غلطی ہو گئی اور اپنی مونچھیں نیچی کر لیتا۔ سب شہر والے تنگ آ گئے اُنہوں نے اُس پٹھان کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا اور اِس بات پر مصر رہا کہ مونچھیں اونچی کرانے کا اُس کے سوا اور کسی کو حق حاصل نہیں۔ شہر میں کوئی غریب امن پسند آدمی تھا، وہ عقلمند تھا جب اُس نے دیکھا کہ شہر والوں کو اس پٹھان نے تنگ کیا ہوا ہے تو اُس نے بھی مونچھیں رکھ لیں۔ وہ سارا دن گھر بیٹھا رہتا اور مونچھوں پر تیل ملتا رہتا۔ جب اُس کی مونچھیں بڑی ہوگئیں تو اُس نے تلوار نکالی او رباہر نکل کر بازار میں ٹہلنا شروع کر دیا۔ اتنے میں وہ خانصاحب آئے اور جب اُسے دیکھا کہ اُس نے مونچھیں اونچی کی ہوئی ہیں تو تلوار نکال لی اور کہا ہمارے سِوا مونچھیں اونچی رکھنے کا کسی کو حق حاصل نہیں۔ اُس آدمی نے کہا کیا تم نے مونچھیں رجسٹرڈ کروا رکھی ہیں؟ تم کون ہوتے ہو اونچی مونچھیں رکھنے والے؟ اُس پٹھان نے کہا ہم نے اعلان کیا ہوا ہے کہ ہمارے سِوا کسی اور کو اونچی مونچھیں رکھنے کا حق حاصل نہیں اور جو شخص اونچی مونچھیں رکھے گا میں اُس کی گردن اُڑا دوں گا۔ اگر تم مونچھیں نیچی نہیں کرتے تو آؤ مقابلہ کر لو۔ اِس پر اُس نے تلوار کھینچ لی اور اس شخص نے بھی تلوار نکال لی۔ اور کہا خان! تمہارا تو حق ہے کہ تم میرے ساتھ لڑائی کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ لڑائی کروں گا لیکن اس میں ہمارے بیوی بچوں کا کیا قصور ہے۔ نہ میرے بیوی بچوں کا کوئی قصور ہے نہ تمہارے بیوی بچوں کا کوئی قصور ہے۔ اب اگر تم نے مجھے مار دیا یا میں نے تجھے مار دیا تو یہ بہت بڑا ظلم ہوگا ہمارے بیوی بچوں کی کون نگرانی کرے گا؟ میں پھر کہتا ہوں کہ میں ضرور لڑائی کروں گا لیکن پہلے تم بھی اپنے بیوی بچوں کو مار آؤ اور میں بھی اپنے بیوی بچوں کو مار آتا ہوں۔ پٹھان نے کہا یہ درست ہے۔ چنانچہ وہ اپنے بیوی بچوں کو مارنے کے لئے گھر چلا گیا۔ مگر دوسرا شخص وہیں ٹہلتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد پٹھان واپس آیا اور اُس نے کہا اُٹھو! میں اپنے بیوی بچوں کو مار آیا ہوں آؤ اور مجھ سے مقابلہ کر لو۔ اس شخص نے کہا کیا تم اپنے بیوی بچوں کو مار آئے ہو؟ پٹھان نے کہا ہاں۔ اِس پر اُس شخص نے کہا اگر تم اپنے بیوی بچوں کو مار آئے ہو تو میں شکست مانتا ہوں اور اپنی مونچھیں نیچی کر لیتا ہوں۔ اب دیکھو اس شخص نے عقل کی بات تو کر لی لیکن یہ فرد کا مقابلہ تھا۔ قوموں کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے حکومت کے منشاء کے مطابق فوجی فنون سیکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اگر تم دوسری قوموں کے سامنے اپنا سر بلند رکھنا چاہتے ہو تو تمہارے لئے ضروری ہوگا کہ تم جنگ کے فنون سیکھو۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فنونِ جنگ سیکھنے کا اتنا شوق تھا کہ آپ صحابہ کے دو گروہ بنا کر اُن کی آپس میں تیر اندازی کروایا کرتے تھے۔ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے صحابہؓ کو اکٹھا کیا اور ان کی دو پارٹیاں بنا دیں۔ آپ نے چاہا کہ میں خود بھی ایک پارٹی میں شامل ہو جاؤں۔ اِس پر دوسری پارٹی نے کمانیں نیچی جھکا دیں اور کہا ہم اِس طرف تیر نہیں چلا سکتے جدھر آپ ہوں۔۳؎ بہرحال اس سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس قدر شوق تھا کہ آپ خود جنگ کی مشقیں کرواتے رہتے تھے حتیّٰ کہ بخاری میں ایک روایت آتی ہے کہ ایک دفعہ مسجد نبوی میں بعض حبشیوں نے جنگی کرتب دکھائے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دروازے میں کھڑے ہو گئے اور حضرت عائشہؓ سے فرمایا میرے کندھے میں سے سر نکال کر دیکھ لو۔ آپ فرماتی ہیں اِس طرح میری شکل نظر نہیں آتی تھی۔ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں میں سے فنونِ جنگ دیکھتی رہی حتیّٰ کہ آپ نے فرمایا عائشہؓ !کیا تم تھک گئی ہو؟۴؎ پس آپ لوگوں کو چاہیے کہ جہاں جہاں موقع ملے حکومت کے منشاء کے مطابق فنونِ جنگ سیکھنے کی کوشش کرو۔ اگر پاکستان پر کبھی حملہ ہوا اور لڑائی ہو گئی تو جو لوگ فنونِ جنگ سے واقف ہونگے وہ اپنے مُلک کی حفاظت کیلئے فوج کے ساتھ مل کر مارچ کر سکیں گے لیکن اگر تم فنونِ جنگ نہیں سیکھو گے تو کیا تم صرف نعرے ہی مارتے رہو گے؟ تم کس منہ سے اپنی اولاد کے سامنے اپنا سر اونچا رکھ سکو گے؟ تم کس منہ سے اپنے ہم وطنوں کے سامنے سر اونچا رکھ سکو گے؟ تم کس طرح اپنی ماؤں کے سامنے سر اونچا رکھ سکو گے؟ تم کس طرح ان کی دعائیں لو گے کہ بیٹا زندہ رہو۔ تمہیں ان دعاؤں کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا بلکہ ماں کا اُس وقت یہ فرض ہوگا کہ وہ تمہیں کہے میرے سامنے سے دُور ہو جاؤ تم بزدل ہو تمہارا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔‘‘
(الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۱ء)
’’پس ہمیں اپنے مرکز کے ساتھ رہ کر کئی قسم کی پابندیاں برداشت کرنا ہوں گی۔ ہم اپنا نیا مرکز اِس لئے بنا رہے ہیں تا ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑھائیں، خداتعالیٰ کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسیع کریں۔ نہ اس لئے کہ ہم خداتعالیٰ سے اپنے تعلقات کو منقطع کر لیں۔ ہم نے اپنے آپ کو منظم کر کے ظلم کا بدلہ لینا ہے۔ دنیا اِس ظلم کو بھول جائے تو بھول جائیمگر ہم اِسے نہیں بھولیں گے اور اُس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک کہ اِس ظلم کا بدلہ نہ لے لیں۔ لاکھوں مسلمانوں کو تلوار کے گھاٹ اُتارا گیا۔ ہزاروں عورتوں کو اغوا کر لیا گیا۔ ہزاروں بچوں کو نیزے مارمار کر مار دیا گیا۔ ہزاروں عورتوں کی عصمتوں کو لوٹا گیا۔ اُن کی چوٹیاں کاٹی گئیں۔ اُن کے پستانوں کو کاٹا گیا۔ اُن کی شرمگاہوں میں نیزے مارمار کر اُنہیں مارا گیا۔ یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ جب تک کسی شریف انسان کے جسم میں خون کا ایک قطرہ تک بھی باقی ہے وہ اِن مظالم کو بُھلا نہیں سکتا۔ کوئی بے حیا شخص ہی ہوگا جس کو یہ باتیں بھول جائیں مگر ایسا آدمی صفحۂ ہستی پر رہنے کے قابل نہیں ہو سکتا۔ یہ درست ہے کہ ہماری جماعت صلح پسند ہے اور ہم صلح کے لئے ہی پکاریں گے مگر دوسری طرف ہمیں اِس ظلم کا بدلہ لینے کے لئے تیاریاں کرنا ہوں گی اور اگر کوئی لڑائی ممکن ہے تو ہمیں اِس کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔ ‘‘
(غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’حضرت مسیح علیہ السلام کو ہی دیکھ لو اُنہوں نے اگر ایک طرف یہ کہا ہے کہ تمہاری ایک گال پر اگر کوئی شخص طمانچہ مارے تو تم اپنی دوسری گال بھی اُس کی طرف پھیر دو۵؎ تو دوسری طرف آپ نے یہ بھی کہا کہ اگر تمہیں کرتہ بیچ کر بھی تلوار خریدنی پڑے تو تُو تلوار خرید۔۶؎ اور یہ دونوں باتیں درست تھیں۔ اگر یہ دونوں باتیں متضاد ہیں تو حضرت مسیح علیہ السلام نے ان کا کیوں حُکم دیا؟ اگر مسیح علیہ السلام کے لئے یہ دونوںباتیں ٹھیک ہو سکتی ہیں تو ہمارے لئے بھی یہ دونوں باتیں کیوں ٹھیک نہیں ہو سکتی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک طرف اگر امن کا پیغام دیا تو دوسری طرف لڑائیاں بھی کیں۔ یہ ضروری نہیں کہ دونوں باتیں ایک ہی وقت میں ہوں بلکہ آپ نے یہ سکھایا ہے کہ ہر ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ موقع کے مطابق چلتا چلا جائے۔ پس ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ہم حکومت کی منشاء اور تجویز کے مطابق فنونِ جنگ سیکھنے کی طرف توجہ کریں اور اِس طرح وقت آنے پر اپنے مُلک کی حفاظت کریں۔ ‘‘
(الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ۵ کالم۱)
’’ ہم میں سے ہزاروں ہزار ایسے ہیں جنہوں نے کشمیر کے محاذ پر جا کر ٹریننگ حاصل کی اور وقت کی ضرورت کو پورا کیا۔ جہلم میں چلے جاؤ تم دیکھو گے کہ ہر ایک غیر احمدی کے منہ پر یہ بات ہے کہ اگر کسی نے مُلک کی کوئی خدمت کی ہے تو احمدیوں نے کی ہے۔ چنیوٹ میں جلسہ کر لینے سے کیا بنتا ہے۔ تم محاذ پر چلے جاؤ اور پوچھو کہ کس نے قربانی کی ہے؟ تمہیں ایک ایک بچہ ایسا ملے گا جو کہے گا کہ اگر قربانی کی ہے تو احمدیوں نے کی ہے۔ تم محاذ پر چلے جاؤ اور فوجیوں سے پوچھو کہ اُن کے ساتھ مل کر کس نے کام کیا ہے؟ تو تمہیں معلوم ہوگا کہ ہمارے فرقان کے سپاہی منظم فوج سے کسی صورت میں کم نہیں۔ نوشہرہ کے محاذ پر ایک قلعہ کے اوپر جب پاکستانی فوجوں نے حملہ کیا اور فرقان فورس کو اپنے ساتھ شامل کر لیا اُس وقت پاکستانی فوج کے آدمی دو تین گنا زیادہ تھے اور احمدی والنٹیئرایک تہائی حصہ کے قریب تھے لیکن جس وقت وہ سرنگوں اور بموں کے علاقے کو پار کر کے اپنی منزل مقصود پر پہنچے تو کل چالیس آدمی تھے۔ جن میں سے ۲۹ احمدی تھے اور گیارہ دوسرے تھے۔ اگر تم فنونِ جنگ سیکھو گے تو ایمان کی وجہ سے تمہارے اندر جرأت پیدا ہوگی بلکہ تم دوسروں کے اندر بھی دلیری پیدا کر سکو گے لیکن اگر تم فنونِ جنگ نہیں سیکھو گے تو دوسروں کے سامنے کیا نمونہ پیش کرو گے۔ ‘‘ (غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’تم شاید کہہ دو کہ ہم چندہ زیادہ دیتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ایمان اور اخلاص کا کیا تقاضا ہے؟ اخلاص تو یہ چاہتا ہے کہ جو کچھ خدا مانگے وہ دو۔ یہ نہیں کہتا کہ خداتعالیٰ جان مانگے تو تم جان نہ دو۔ اگر تمہارے اندر اخلاص ہے تو تم چندہ بھی دو گے، وطن کیلئے ہر قسم کی قربانیاں بھی کرو گے اور اگر تمہاری جان کی ضرورت پڑے تو بشاشت کے ساتھ تم اپنی جان بھی پیش کرو گے۔‘‘
(الفضل ۱۵؍ جولائی ۱۹۶۱ء صفحہ۵ کالم ۱)
’’یہ وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ہم ربوہ میں آئے ہیں۔ یہ آواز ہے جو ربوہ سے اُٹھائی جائے گی۔ آج جو لوگ ہم پر غداری کا الزام لگاتے ہیں اگر ملک پر کوئی کٹھن وقت آیا تو وہ بھگوڑے ہوں گے اور اوّل صف میں احمدی کھڑے ہونگے۔ مگر وہ مخلص احمدی ہونگے منافق نہیں۔
میں نے پہلے بھی سنایا تھا اور آج عورتوں میں تقریر کرتے ہوئے بھی اِس کا ذکر کیا ہے کہ وہ لوگ جن کو تم کمی کہا کرتے تھے وہ زیادہ قربانی کر رہے ہیں۔ اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو جاٹ اور راجپوت وغیرہ کہہ کر مجلس میں اپنی بڑائیاں بیان کیا کرتے تھے وہ قربانی میں کم ہیں۔ بلکہ وہ عورتیں جن کو تم کمزور سمجھتے تھے وہ تم سے زیادہ قربانیاں کر رہی ہیں۔ گوجرانوالہ کے ضلع میں ایک بیوہ عورت تھی وہ بڑی عمر کی تھی اور اُس کا خاوند مر چکا تھا۔ اُس کا ایک ہی بیٹا تھا اُس کے گاؤں میں ہمارا آدمی پہنچا جو فرقان فورس کے لئے ریکروٹ لینے گیا تھا۔ لوگوں کو اکٹھا کیا گیا اور ہمارے اُس مبلّغ نے تقریر کی اور نوجوانوں کو اِس مقصد کے لئے بُلایا۔ لیکن کمزور دل مرد خاموش اور سرجھکائے کھڑے رہے تب وہ بیوہ عورت اُٹھی اور اُس نے پردہ میں اُسے آواز دی اور بڑے جوش سے کہا او فلانے! اپنے بیٹے کا نام لے کر کہا تو سنتا نہیں! دین کے لئے جان کی ضرورت ہے اور تو خاموش کھڑا ہے! تو جواب کیوں نہیں دیتا؟ وہ بچہ آگے آیا اور اُس نے اپنا نام لکھوایا۔ یہ وہ قربانی کا مظاہرہ تھا جو ایک بیوہ اور بوڑھی عورت کی طرف سے کیا گیا۔ اور میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ عورت بھی انہی لوگوں میں سے تھی جن کو تم کمی کہتے ہو۔ جب یہ خط مجھے پہنچا میں نے لفافہ کھولا اور پڑھنا شروع کیا جب میں وسطِ خط میں پہنچا تو میرے دل میں اِس واقعہ کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے خط بند کر دیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ اے خدا! میرا بھی حق ہے کہ میں تیری راہ میں قربانیاں کروں۔ اگر تیری راہ میں کسی جان کی ضرورت ہے تو اے خدا! میری تجھ سے درخواست ہے کہ تومیرے کسی بیٹے کی جان لے لیجیومگر اِس بڑھیا ماں کا بچہ صحیح سلامت واپس آ جائے۔
اِسی طرح لائلپور کی ایک عورت کا بھی ایسا ہی واقعہ ہے۔ لائلپور میں بھی ایک عورت تھی۔ اور وہ بھی انہی لوگوں میں سے تھی جن کو تم کمی کہتے ہو۔ لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں وہ تم سے زیادہ عزت والی تھی۔ وہ عورت ترکھان تھی۔ جب ہمارا مبلّغ وہاں گیا اور اُس نے کہا اِس وقت ملک کی حفاظت اور اُس کی عزت کا سوال ہے پاکستان کے احمدیوں کو چاہیے کہ وہ اِس کے لئے آگے بڑھیں اور اپنی جانیں پیش کریں تواُس عورت نے کہا کیا واقعہ میں دین کو جان کی ضرورت ہے؟ ہمارے مبلّغ نے کہا ہاں اِس وقت دین اور ملک کی حفاظت کے لئے جان کی قربانی کی ضرورت ہے۔ اُس عورت کے دو لڑکے اور دو پوتے تھے اُس نے کہا اگر یہ بات درست ہے تو میں اپنے چاروں بچوں کو پیش کرتی ہوں تم بیشک اِن چاروں کو لے جاؤ۔ پھر اُس نے اپنے لڑکوں کو اور پوتوں کو بُلا کر کہا کہ دین اور مُلک کی حفاظت کے لئے تمہاری جانوں کی ضرورت ہے۔ احمدی فوج کی طرف سے تمہیں بُلایا جا رہا ہے تم چاروں چلے جاؤ اور یاد رکھو میں اُس وقت تک گھر میں نہیں گھسوں گی جب تک تم چاروں یہاں سے چلے نہیں جاتے۔ ہمارے مبلّغ نے کہا ہمیں تمہارے دونوں لڑکوں اور پوتوں میں سے صرف ایک چاہیے لیکن وہ عورت نہ مانی۔ آخر بڑے اصرار کے بعد اُس نے کہا پھر دو کو تو ضرور لے جاؤ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے قومیں بڑھتی ہیں اور دشمن کے مقابلہ میں وہ شرمندہ نہیں ہوتیں۔
جہلم کی جماعت ایسی ہے جس نے باقی جماعت کے سامنے ایک نمونہ پیش کر دیا ہے اور ایسی باقاعدگی سے اس کام میں حصہ لیا ہے کہ کسی اور شہر کے احمدیوں نے ایسا نمونہ نہیں دکھایا۔ کراچی، سیالکوٹ، لاہور، راولپنڈی، ملتان اور لائلپور جیسے بڑے بڑے شہر موجود ہیں لیکن اُن میں سے کسی شہر نے بھی ایسا نمونہ نہیں دکھایا جو جہلم کی جماعت نے دکھایا ہے۔ اگر یہ سچ نہیں تو وہ لوگ کھڑے ہو جائیں جنہوں نے اپنی اپنی جماعت کا پورا ۶۴ واںحصہ فرقان فورس میں بھیجا ہے۔ اِس کے مقابلہ میں جہلم کے امیر کی طرف سے جب کسی کو محاذ پر جانے کے لئے کہا گیا تو اُس نے انکار نہیں کیا بلکہ اُس نے کہا اگر مجھے ملازمت سے استعفیٰ بھی دینا پڑے تو میں ضرور جاؤں گا۔ چھٹیاں دوسری جگہوں پر بھی مل سکتی ہیں پھر جو کام جہلم کی جماعت کر سکتی ہے وہ دوسری جماعتیں کیوں نہیں کر سکتیں۔ آخر وہ کون سا وقت آئے گا جب تم فنونِ جنگ سیکھو گے اور دشمن کے سامنے اپنی چھاتی تان کر کھڑے ہو جاؤ گے۔ اگر تم اب ایسا نہیں کرتے تو وقت آنے پر سوائے ناکامی اور حسرت سے تمہیں اور کیا ملے گا۔ لوگ اِس بات پر چڑتے ہیں کہ ایک طرف تو ہم پاکستان سے وفاداری کا اعلان کرتے ہیں اور دوسری طرف ہماری یہ مذہبی تعلیم ہے کہ احمدی خواہ کسی مُلک میں ہوں وہ اپنے اپنے مُلک کے وفادار رہیں۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں درست ہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جو احمدی انڈین یونین میں رہتے ہیں وہ انڈین یونین کے وفادار رہیں گے۔ یہی قائداعظم نے کہا تھا اور یہی گاندھی جی نے کہا تھا اور جو اِس کے خلاف لکھتا ہے وہ قائداعظم پر الزام لگاتا ہے۔ ہماری تو تعلیم ہی یہی ہے کہ ہمارے احمدی جس مُلک میں بھی رہیں گے وہ اُس کے وفادار رہیں گے۔ ہاں زائد فرق یہ ہے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ساری دنیا میں اسلام کی ترقی کے ذرائع موجود ہیں اور جب تک ہم اس اصول پر عمل نہ کریں کہ جس مُلک میں ہم رہیں اُس کے وفادار بن کر رہیں ہم اُن ذرائع سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے‘‘۔
اِس موقع پر حضور نے فرمایا:۔
’’ ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ انشورنس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ اِس کے متعلق میں اس وقت صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اب تک انشورنس کا جو طریق رائج ہے وہ اسلام کے خلاف ہے جب کوئی ایسا طریق نکل آئے گا جو اسلام کی اجازت میں آ جاتا ہو تو میں اُس کو جائز قرار دے دوں گا۔
اِسی طرح میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ربوہ میں مکان بنانے کے لئے کچھ شرائط ہوں گی جن کی پابندی لازمی ہوگی۔ مثلاً ربوہ میں مکانات بنانے والوں اور دُکانیں کھولنے والوں کے لئے یہ بات لازمی قرار دے دی جائے گی کہ وہ ایک سال میں ایک ماہ خدمت دین کے لئے وقف کریں۔ جو شخص قومی خدمت کے لئے سال میں ایک ماہ نہیں دے گا اُسے کہہ دیا جائے گا کہ جاؤ تم ربوہ میں نہیں رہ سکتے۔ پھر ربوہ میں رہنے والوں میں سے ہر ایک کے لئے یہ شرط ہوگی کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دلائے۔ ربوہ میں ایک بھی جاہل نہیں رہنے دیا جائے گا۔ پھر یہ بھی شرط ہوگی کہ وہ باقاعدہ پانچ وقت نماز کا پابند ہو۔ اگر وہ نماز کاپابند نہیں تو اُسے یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ زمین کی فروخت کے متعلق بعض شرائط پہلے بتا دی گئی تھیں اور بعض شرائط میں نے اب بتا دی ہیں۔ ربوہ میں رہنے والوں کو اخلاقی تعلیم پر پابند رہنا پڑے گا مثال کے طور پر جس کی کوئی چوری ثابت ہوئی اُسے نکال دیا جائے گا۔ اس طرح اور بعض اخلاقی دمہ داریاں ہوں گی جو ربوہ میں آباد ہونے والوں کو اُٹھانا ہوں گی اور اُنہیں ایک نظام کے ماتحت رہنا پڑے گا۔ پس جو شخص ربوہ میں آباد ہونے کے لئے آنا چاہے اُس کے لئے یہ لازمی ہوگا کہ وہ ان شرائط پر پورے طور پر عمل کرنے کے لئے تیار ہوورنہ اُسے نکال دیا جائے گا اور مکان اور زمین کی رائج الوقت قیمت اُسے دے دی جائے گی۔ ہم اِس مرکز کو مستقل طورپر اسلامی نمونہ کا شہر بنانا چاہتے ہیں۔ یہاں پر داڑھی منڈانے کی اجازت نہیں ہوگی اور جو شخص داڑھی منڈائے گا وہ یہاں نہیں رہ سکے گا۔ غرض یہاں رہنے کے لئے اسلامی قیود لازم ہوں گی۔ بیشک تجسس نہیں کیا جائے گا لیکن جو عیب ظاہر ہوگا اُسے ہم برداشت نہیں کریں گے۔ یہ برداشت نہیں کیا جائے گا کہ کسی میں ظاہری عیب بھی پایا جائے اور وہ ربوہ کا باشندہ بھی کہلائے۔‘‘
(غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
’’اب میں اپنے اصل مضمون کی طرف آتا ہوں مگر اس سے پہلے میں آپ لوگوں کو ایک واقعہ سنانا چاہتا ہوں۔ آج سے قریباً ۲۳،۲۴ سال پہلے کی بات ہے یونان میں ایک شخص ہوا کرتا تھا وہ یہ تعلیم دیا کرتا تھا کہ خدا ایک ہے اور وہ دیویاں اور بُت جن کے لوگ معتقد ہیں باطل ہیں ہاں خدا تعالیٰ کے فرشتے موجود ہیں اور کائنات کے مختلف کام ان کے سپرد ہیں۔ وہ یہ بھی کہا کرتا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی مرضی اپنے نیک بندوں پر ظاہر کرتا ہے اور اس کے فرشتے اس کے نیک بندوں پر جلوہ گر ہوتے اور ان سے کلام کرتے ہیں۔ اس کی یہ بھی تعلیم تھی کہ جس حکومت کے ماتحت تم رہو اُس کے فرمانبردار رہو۔ اگر تم نے دنیا میں امن قائم رکھنا ہے تو تمہیں حکومت سے اپنے مطالبات ہمیشہ امن کے ساتھ منوانے چاہئیں اور اگر کسی وقت تمہیں اُس حکومت پر اعتماد نہ رہے بلکہ تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ تمہارے مذہبی احکام کے بجا لانے میں روک بنتی ہے اور تم پر مظالم ڈھاتی ہے اور جبراً تمہارا مذہب تم سے چھڑانا چاہتی ہے تو تمہیں اُس مُلک کو چھوڑ دینا چاہئے اور ایسی حکومت کے ماتحت جا کر بس جانا چاہئے جو خدائی احکام کے بجا لانے میں کوئی روک پیدا نہ کرتی ہو۔ یہ ساری تعلیمیںقرآن کریم میں بھی موجود ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر وہ شخص کامل طور پر نبی نہیں تھا تو ایک مأمور من اللہ یا مجدد کی حیثیت ضرور رکھتا تھا۔ اُس کا نام سقراط تھا۔ جب حکومت کو یہ معلوم ہوا کہ وہ حکومت کے خلاف تعلیم دیتا ہے تو اس پرمقدمہ چلایا گیا اور مقدمہ چلانے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ اُسے زہر پلا کر موت کے گھاٹ اُتار دیا جائے۔ پُرانے زمانہ میں یہ بھی سزا کا ایک طریق تھا کہ جس شخص کو موت کی سزا دی جاتی تھی اُسے زہر پلا کر مار دیا جاتا تھا۔ سقراط کی سزا کے لئے کوئی معین تاریخ مقرر نہ ہوئی ہاں یہ بتایا گیا کہ جس دن فلاں جہاز جو فلاں جگہ سے چلا ہے اِس مُلک میں پہنچے گا تو اُس کے دوسرے دن اُس کو مار دیا جائے گا۔ سقراط کے ماننے والوں میں بہت سے ذِی اثر لوگ بھی تھے وہ اُس کے پاس جاتے اور اُس پر زور دیتے کہ وہ مُلک کو چھوڑ دے اور کسی اَور مُلک میں جا بسے۔ افلاطون بھی سقراط کے شاگردوں میں سے ایک شاگرد تھا۔ وہ اپنی ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ ایک دن سقراط کا فریتو نامی شاگرد اُن کے پاس گیا۔ وہ اُس وقت میٹھی نیند سو رہے تھے اُن کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اور اُن کے جسم سے اطمینان اور سکون ظاہر تھا۔ فریتو پاس بیٹھ گیا اور پیار سے آپ کا چہرہ دیکھتا رہا۔ آپ کی اِس حالت کو دیکھ کر کہ آپ نہایت اطمینان سے سو رہے ہیں اُس پر گہرا اثر ہوا۔ اس نے آپ کو جگایا نہیں بلکہ آرام سے پاس بیٹھ کر آپ کا چہرہ دیکھتا رہا۔ جب آپ کی آنکھ کھلی تو آپ نے دیکھا کہ آپ کا فریتو نامی شاگرد آپ کے پاس بیٹھا ہوا ہے اور پیار سے آپ کی طرف دیکھ رہا ہے۔ آپ نے اُس سے پوچھا تم کب آئے ہو اور کس طرح یہاں پہنچے ہو؟ فریتو نے کہا میں آپ کو دیکھنے کے لئے آیا ہوں۔ آپ نے کہا تم اتنی جلدی صبح صبح کس طرح آ گئے؟ فریتو نے کہا جیل کے افسر میرے دوست ہیں، اس لئے اندر آنے کی مجھے اجازت مل گئی میں آپ سے ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں۔ اُنہوں نے کہا معلوم ہوتا ہے تم بہت دیر سے یہاں بیٹھے ہو۔ تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں؟ فریتو نے کہا میں جب کمرے میں داخل ہوا تو آپ سوئے ہوئے تھے اور آپ کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی اِس لئے میں نے آپ کو جگایا نہیں بلکہ آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کے چہرے کو دیکھتا رہا۔ اِس بات کا مجھ پر گہرا اثر ہوا کہ وہ شخص جس کی موت کا حُکم سنایا گیا ہے کس اطمینان اور سکون سے سویا ہوا ہے۔ سقراط نے کہا میاں! کیا خدا تعالیٰ کی مرضی کو کوئی انسان دور کر سکتا ہے؟ فریتو نے کہا نہیں۔ سقراط نے کہا کیا تم اُس کی مرضی پر خوش نہیں؟ فریتو نے کہا ہاں ہم اُس کی مرضی پر خوش ہیں۔ سقراط نے کہا جب خدا تعالیٰ نے میرے لئے موت کو مقدر کیا ہے تو اُس کو کون ہٹا سکتا ہے؟ اور جب خدا تعالیٰ نے ہی میرے لئے موت مقدر کی ہے اور میں اُس کی رضا پر راضی ہوں تو پھر اِس پر بے چینی کی کیا وجہ؟ مجھے تو خوش ہونا چاہئے کہ میرے خدا کی یہ مرضی ہے کہ وہ مجھے موت دے۔ فریتو تم بتاؤ کہ اِس وقت تم مجھے کیا کہنے آئے تھے؟ فریتو نے جواب دیامیرے آقا میں آپ کو ایک بڑی خبر دینے آیا تھا کہ وہ جہاز جس کی آمد کے دوسرے دن آپ کو زہر پلائے جانے کا فیصلہ ہے وہ گو ابھی تک پہنچا تو نہیں لیکن خیال ہے کہ آج شام کو پہنچ جائے گا اِس لئے کل آپ کو مار دیا جائے گا۔ اِس پر سقراط ہنس پڑے اور کہا میرا تو یہ خیال نہیں کہ وہ جہاز آج پہنچے، وہ کل یہاں پہنچے گا۔ فریتو نے کہا وہ جہاز فلاں جگہ پر لگا ہوا ہے اور ایک آدمی خشکی کے ذریعہ یہاں آیا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ وہ جہاز آج شام تک یہاں پہنچ جائے گا کل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سقراط نے کہا فریتو! بے شک اس شخص نے یہ بتایا ہے کہ جہاز آج شام تک یہاں پہنچ جائے گا لیکن جب خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ جہاز کل یہاں پہنچے گا تو ویسا ہی ہوگا۔ فریتو نے کہا میرے آقا آپ کو کیسے علم ہوا کہ وہ جہاز کل یہاں پہنچے گا؟ سقراط نے کہا میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک خوبصورت عورت میرے پاس آئی ہے اُس نے میرا نام لیا اور کہا۔ تیار ہو جاؤ پرسوں جنت کے دروازے تمہارے لئے کھول دیئے جائیں گے۔ فریتو! کیا تم نے یہ نہیں سنا کہ جہاز آج شام کو یہاں پہنچ جائے گا؟ اگر جہاز آج یہاں پہنچ جائے تو کیا کل مجھے سزا دے دی جائے گی؟ لیکن فرشتے نے مجھے کہا ہے کہ پرسوں تمہارے لئے جنت کے دروازے کھولے جائیں گے اس لئے جہاز آج نہیں آئے گا کل آئے گا اور پرسوں مجھے مار دیا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ ایک طوفون آیا اور جہاز کو وہیں ٹھہرنا پڑا اور دوسرے دن وہ اس شہر میں پہنچ سکا اور تیسرے دن وہ مارے گئے۔ آپ کی بات سننے کے بعداُس شاگرد نے کہا آپ کیوں ضد کر رہے ہیں کیا آپ کو ہم پر رحم نہیں آتا؟ اگر آپ زندہ رہیں گے تو ہمیں آپ سے بہت فوائد حاصل ہوں گے۔ اگر آپ یہاں سے بھاگ جائیں اور کسی اَور حکومت کے زیر سایہ رہنا شروع کر دیں تو کیا ہی اچھا ہو۔ سقراط نے کہا میں اِس مُلک سے کس طرح بھاگ سکتا ہوں؟ کیا میں عورتوںکا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جاؤں؟ اگر میں عورتوں کا لباس پہن کر یہاں سے بھاگ جاؤں تو لوگ کہیں گے سقراط عورتوں کا لباس پہن کر بھاگ گیا۔ یا پھر میں جانوروں کی کھال میں لپٹ کر یہاں سے بھاگ جاؤں؟ کیا اِس سے میری عزت ہوگی؟ فریتو نے کہا میرے آقا! یہ ٹھیک ہے لیکن ہم ان چیزوں کے بغیر آپ کو نکالیں گے۔ میں ایک مالدار آدمی ہوں اور فوجی افسر میرے تابع ہیں میں نے اُن سے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ میری اِس بارہ میں مدد کریں گے اور آپ کو عزت کے ساتھ کسی اور مُلک میں چھوڑ آئیں گے جن میں سے اُس نے کریٹ کا نام بھی لیا۔ سقراط نے کہا پھر تم جانتے ہو کیا ہوگا؟ ایک بھاری رقم بطور تاوان ڈالی جائے گی اور جب ایسا ہوگا تو فریتو تم ہی بتاؤ کیا یہ اچھی بات ہوگی کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے اپنے ایک شاگرد کو تباہ کروں؟ فریتو نے کہا میرے آقا! آپ اِس کا خیال نہ کریں آپ کے شاگرد بہت سے ہیں اور یہ رقم ہم آپس میں بحصۂ رصدی تقسیم کرلیں گے۔ سقراط نے کہا ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن جب حکومت کو پتہ چلا تو وہ سب کو قید کر لے گی۔ فریتو نے کہا ہاں آقا۔ مگر وہ کچھ مدت کے بعد ہمیں چھوڑ دے گی۔ سقراط نے کہا مگر کیا یہ اچھی بات ہوگی کہ میں اپنی جان بچانے کے لئے اپنے شاگردوں کو قید خانہ میں ڈلواؤں؟ فریتو نے کہا مگر آقا! آپ سوچئے آپ روحانیت کی تعلیم دیں گے اور لوگوں کو خداتعالیٰ کی طرف لائیں گے یہ کتنا بڑا کام ہے اس کے لئے اگر ہم قید میں بھی گئے تو کیا ہوا۔ سقراط نے کہا یہ بات ٹھیک ہے اور شاید یہ بات سوچنے کے قابل ہو مگر فریتو میں جو ۸۵ سال کا ہو گیا ہوں اگر کسی مُلک میں جاتے ہوئے رستہ میں مر جاؤں تو مجھے کون عقلمند کہے گا کہ میں نے یونہی مفت میں تباہی ڈال دی۔ پھر اُنہوں نے کہا اے میرے شاگرد! تم بتاؤ تو سہی میں تمہیں اِس حکومت کے بارہ میں جس کے ماتحت تم رہتے ہو کیا تعلیم دیا کرتا تھا۔ فریتو نے کہا آپ ہمیں یہی تعلیم دیا کرتے تھے کہ اِس حکومت کا ہمیشہ فرمانبردار رہنا چاہئے۔ سقراط نے کہا اب تم ہی بتاؤ کہ میں اِس چیز کی ساری عمر تعلیم دیتا رہا اب اگر میں موت کے ڈر سے اِس مُلک سے بھاگ جاؤں تو دنیا یہی کہے گی نا کہ میں یہاں کی زندگی میں جھوٹے دعوے کیا کرتا تھا پھر تم ہی بتاؤ کہ کیا حکومت ظالم ہے جس کی وجہ سے ہمیں اِس مُلک سے نکلنا اور اِس کے قانون کو توڑنا جائز ہے؟ دنیا کی کوئی حکومت اپنے آپ کو ظالم نہیں کہتی۔ اگر میں یہاں سے پوشیدہ کسی اور مُلک میں بھاگ جاؤں تو میری بات دوسروں پر کیا اثر کرے گی۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ یہ تو وہی بات ہے جس پر اِس نے خود عمل نہیں کیا۔ میں اِس حکومت میں پیدا ہوا اور دعوے کے بعد چالیس سال تک اِس مُلک میں رہا کیا چالیس سال کے عرصہ میں میرے لئے اس مُلک کو چھوڑ جانے کا موقع نہ تھا؟ حکومت یہ کہے گی کہ اگر ہم ظالم تھے تو یہ چالیس سال کے دوران میں کیوں باہر نہیں چلا گیا بلکہ یہ تو ہمارے انصاف کا اتنا قائل تھا کہ یہ شہر سے باہر بھی نہیں نکلتا تھا۔ میں اِن باتوں کا کیا جواب دوں گا؟ غرض اس نے ایک لمبی بحث کے بعد کہا خلاصہ یہ ہے کہ میں یہیں رہوں گا اور حکومت کے مقابلہ کے لئے تیار نہیں ہوگا۔
جیسا کہ میں نے بتایا ہے سقراط کا یہ دعویٰ تھاکہ اُسے الہام ہوتا ہے اور اُس نے اپنے الہام کی ایک معین صورت کو پیش کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ جہاز آج نہیں پہنچے گا کل پہنچے گا۔ میرے خدا نے مجھے کہا ہے کہ تمہارے لئے جنت کے دروازے پرسوں کھول دیئے جائیں گے۔ یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شخص خدا تعالیٰ سے تائید حاصل کرنے والا تھا۔ اُس نے اپنی جگہ سے نکلنے کا نام نہیں لیا۔
ہماری جماعت میں سے بھی بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں قادیان سے کیوں باہر نکلا؟ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں قادیان سے نہیں نکلنا چاہیے تھا اور میں نے خود بھی کہا تھا کہ میں قادیان سے نہیں نکلوں گا بلکہ میں نے بتایا ہے کہ سقراط جو ایک مامور من اللہ تھا اُس کی زندگی میں بھی ایک واقعہ پیش آیا اور اُس نے اپنے شہر سے نکلنے سے انکار کر دیا۔‘‘ (الفضل ۱۶؍ جولائی ۱۹۶۱ء)
’’جیسا واقعہ سقراط کو یونان میں پیش آیا تھا ویسا ہی واقعہ مجھے قادیان میں پیش آیا لیکن ایک اور واقعہ بھی ہے جو ہمیں ایک اَور نبی اللہ کے متعلق ملتا ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ فیصلہ تھا کہ وہ یہود کی بادشاہت کو دوبارہ دنیا میں قائم کریں گے۔ مگر آپ پر ایک وقت ایسا آیا جب سارا مُلک آپ کا دشمن ہو گیا اور اُس کی دشمنی ایک خطرناک صورت اختیار کر گئی۔ یہودیوں نے حکومت کے نمائندوں کے پاس آپ کے متعلق شکایتیں کیں اور آپ کو پکڑوا دیا گیا اور آخر حُکّام کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا گیا کہ آپ باغی ہیں۔ جس طرح یونان کے مجسٹریٹوں نے یہ فیصلہ کیا کہ سقراط باغی ہے اِسی طرح فلسطین کے مجسٹریٹوں نے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام باغی ہیں دونوں کے متعلق ایک ہی قسم کا الزام تھا۔ سقراط کے پاس جب ان کے شاگرد گئے اور آپ کو انہوں نے کہا کہ آپ مُلک سے نکل جائیں تو سقراط نے کہا نہیں نہیں میں اِس مُلک سے باہر نہیں نکل سکتا خدا تعالیٰ کی تقدیر یہی ہے کہ میں یہاں رہوں اور زہر کے ذریعہ مارا جاؤں۔ اگر میں اِس مُلک سے باہر نکلتا ہوں تو خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرتا ہوں۔ اِدھر حضرت مسیح علیہ السلام کو جب یہ کہا گیا کہ آپ کو پھانسی پر لٹکا کر مارا جائے گا تو آپ نے فرمایا میں اِس کے لئے تیار نہیں ہوں میں کوئی تدبیر کروں گا تا کسی طرح سزا سے بچ جاؤں۔ اور مسیح علیہ السلام نے تدبیر کی اور جیسا کہ آپ کو پہلے بتا دیا گیا تھا آپ کو دو تین دن تک قبر میں رکھا گیا اور پھر وہاں سے صحیح سلامت نکال لیا گیا۔ آپ اپنے حواریوں سے ملے اور انجیل کے بیان کے مطابق آپ آسمان پر اُڑ گئے لیکن دُنیوی تاریخ کے مطابق آپ نصیبین، ایران اور افغانستان کے راستہ ہوتے ہوئے ہندوستان چلے آئے۔ پہلے آپ مدراس گئے پھر آپ گورداسپور آئے۔ پھر کانگڑہ کی طرف چلے گئے مگر وہاں موسم اچھا نہ پا کر آپ تبت کے پہاڑوں کے راستہ سے کشمیر چلے گئے۔ گویا ایک طرف یہ مثال پائی جاتی ہے کہ مامور من اللہ کے متعلق یہ فیصلہ کیا گیا کہ اُسے مار دیا جائے۔ اُس کے ساتھی اسے نکالنے کے لئے بڑی بڑی رقمیں خرچ کرتے ہیں اور پولیس بھی اُن کے اِس کام میں ہمدردی کرتی ہے مگر وہ انکار کر دیتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کے اصرار کے باوجود یہ کہہ دیتے ہیں کہ وہ یہاں سے کسی اور مُلک میں جانے کے لئے تیار نہیں۔ مگر حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی ایسا ہی واقعہ پیش آتا ہے وہ بھی مامورمن اللہ اور خدا تعالیٰ کے ایک نبی تھے اور جیسا کہ واقعات بتاتے ہیں سقراط بھی ایک مامورمن اللہ تھا۔ دونوں ایک ہی منبع سے علم حاصل کرنے والے تھے، ایک ہی قسم کا کام ان کے سپرد تھا۔ لیکن ایک کوجب کہا جاتا ہے کہ آپ یہاں سے نکل جائیں تو وہ یہ جواب دیتا ہے کہ میں یہاں سے نہیں ہٹوں گا اور خداتعالیٰ کی تقدیر یہی ہے کہ میں یہیں مارا جاؤں اگر میں یہاں سے نکلتا ہوں تو خداتعالیٰ کے منشاء کے خلاف کرتا ہوں۔ لیکن دوسرے شخص یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کو جب سزا کا حکم سنایا جاتا ہے تو آپ فرماتے ہیں میں کوشش کروں گا کہ یہاں سے نکل جاؤں اَور کسی اور جگہ چلا جاؤں۔ یہ واقعات اِس طرح کیوں ہوئے؟ کیا سقراط جھوٹا تھا یا کیا حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک خطرناک غلطی کی اور اپنے آپ کو تقدیر الٰہی سے بچانے کی کوشش کی؟
حقیقت یہ ہے کہ سقراط اُسی شہر کی طرف مبعوث تھا جس کے رہنے والوں نے آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سقراط اُن جگہوں کے لئے مبعوث نہیں تھا جن کی طرف بھاگ جانے کے لئے اُسے اُس کے شاگرد مجبور کرتے تھے۔ سقراط دوسری قوموں کی طرف مبعوث نہیں تھا لیکن مسیح علیہ السلام کو یہ کہا گیا تھا کہ تم بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں تک بھی میرا یہ پیغام پہنچاؤ اور یہ بھیڑیں ایران، افغانستان اور کشمیر میں بھی بستی تھیں۔ سقراط اگر اپنے شہر کو چھوڑتا تھا تو وہ ایک مکتب اور مدرسہ کو چھوڑتا تھا جس کے لئے اُسے مقرر کیا گیا تھا۔ مثلاً ایک لوکل سکول میں کسی کو ہیڈماسٹر مقرر کیا جاتا ہے تو وہ اُس سکول کو بِلااجازت نہیں چھوڑ سکتا۔ اگر وہ اُس سکول کو بِلااجازت چھوڑے گا تو وہ مجرم ہوگا۔ لیکن ایک انسپکٹر کو اپنے حلقہ میں کسی جگہ پر جانا پڑتا ہے تو وہ بِلا اجازت چلا جاتا ہے۔ اور ایک لوکل سکول کا ہیڈماسٹر کسی دوسری جگہ نہیں جاتا جب تک وہ اپنے بالا افسر سے چھٹی حاصل نہیں کر لیتا۔ لیکن ایک انسپکٹر بغیر اجازت افسر بالا کے اپنے حلقہ کا دَورہ کرتا ہے۔ ایک ہیڈماسٹر کو یہ کہا جاتا ہے کہ تم اگر اپنی جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ گئے تو مجرم ہوگے لیکن انسپکٹر ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتا ہے تو اُسے کوئی شخص مجرم نہیں گردانتا اِس لئے کہ اُس کا دائرہ عمل اُس حد تک وسیع ہے۔ لیکن ایک ہیڈماسٹر کا دائرہ عمل ایک سکول تک محدود ہے اور وہ اگر اُس سے نکلتا ہے تو قانون کو توڑتا ہے۔ پس سقراط ایک شہر کی طرف مبعوث کیا گیا تھا اُس کا دائرہ عمل محدود تھا اگر وہ اُس شہر کو چھوڑتا تھا تو گناہ گار تھا کیونکہ اُس کے مخاطب اُسی شہر کے باشندے تھے لیکن حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اِس لئے کہ اُن کے دائرہ خطاب میں کشمیر بھی شامل تھا۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب فلسطین کو چھوڑا تو آپ اپنے دائرہ عمل سے بھاگے نہیں بلکہ آپ اپنی دوسری ڈیوٹی پر چلے گئے۔ اگر آپ فلسطین میں ہی رہتے تو نہ آپ فلسطین میں اپنا کام کر سکتے تھے اور نہ ہی بنی اسرائیل کی دوسری کھوئی ہوئی بھیڑوں تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا سکتے تھے۔ حضرت مسیح علیہ السلام نے اگر فلسطین کو چھوڑا تو اِس کے بعد آپ کا دائرہ عمل اور وسیع ہو گیا اور یہی وہ چیز ہے جس نے مجھے قادیان چھوڑنے کے لئے اپنی رائے کو بدلنے پر مجبور کیا۔ میرے سپرد جو کام ہے وہ صرف قادیان سے تعلق نہیں رکھتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اسلام کی اشاعت کیلئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام کو بلند کرنے کی خاطر ساری دنیا کی طرف مبعوث کئے گئے تھے آپ کا دائرہ خطاب صرف قادیان تک محدود نہ تھا۔
بے شک میں نے پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ میں قادیان میں ہی رہوں لیکن بعد میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات پر غور کر کے مجھے یقین ہو گیا کہ جماعت کے لئے ایک ہجرت مقدر ہے تو میں نے سوچا کہ میرا کام قادیان یا صرف ایک مُلک سے وابستہ نہیں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی میرا تعلق ہے۔ اگر میں قادیان میں رہتا ہوں تو اِس کے یہ معنی ہیں کہ میں اُن سب کاموں کو ترک کر دیتا ہوں جو میرے سپرد ہیں اور ایک جگہ اپنے آپ کو مقید کر لیتا ہوں جیسا کہ بعد میں قادیان والوں کی حالت ہوگئی تھی لیکن اگر میں قادیان سے باہر چلا جاتا ہوں تو میں صرف ایک چھوٹے سے دائرے سے الگ ہوتا ہوں اور ایک وسیع دنیا کو بُلانے پر قادر ہو جاتا ہوں۔ سقراط نے اپنے شہر کو اس لئے نہیں چھوڑا کہ اُن کے مخاطب صرف اس شہر والے تھے اور حضرت مسیح علیہ السلام نے فلسطین کو چھوڑا تو اس لئے کہ فلسطین میں ان کے مخاطبوں میں سے صرف دو قبیلے تھے اور دس قبیلے فلسطین سے باہر تھے۔حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی لوگوں کی خاطر فلسطین کو چھوڑا وہ فلسطین میں بسنے والوں سے سینکڑوں گنا زیادہ تھے لیکن میں نے جن لوگوں کی خاطر قادیان کو چھوڑا، قادیان اور اُس کی آبادی اس کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ پس یہ صحیح ہے کہ پہلے یہی فیصلہ کیا گیا تھا کہ میں قادیان نہیں چھوڑوں گا لیکن جب میں نے دیکھا کہ ہمارے لئے ہجرت مقدر ہے تو میں نے قادیان کو چھوڑ کر یہاں چلے آنے کا فیصلہ کیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ الہام موجود تھا کہ ’’داغِ ہجرت‘‘۷؎ اور اِدھر میری خوابوں میں بھی یہ بات تھی کہ ہمیں قادیان سے باہر جانا پڑے گا۔ میں نے دیکھا کہ یہ الہام تو موجود ہے مگر ابھی تک ہجرت نہیں ہوئی اِس لئے یا تو یہ مثیل مسیح پر پیشگوئی صادق آئے گی اور یا اسے جھوٹا ماننا پڑے گا۔ یہی وہ چیزیں تھیں جن کی وجہ سے ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا۔ پھر یہ فیصلہ میںنے خود نہیں کیا بلکہ جماعت کے دوستوں کی طرف سے مجھے یہ مشورہ دیا گیا کہ میں قادیان سے باہر آ جاؤں۔ ویسے میری ذاتی دلچسپیاں تو قادیان سے ہی وابستہ تھیں لیکن میرے سامنے دو چیزیں تھیں اوّل یہ کہ میں قادیان سے باہر چلا جاؤں اور قادیان میں ایک نائب امیر مقرر کر دوں۔ دوم یہ کہ میں اُن سب کاموں کو ترک کر دوں جو میرے سپرد کئے گئے ہیں اور قادیان میں ایک قیدی کی حیثیت سے بیٹھا رہوں۔ اور اس بات کے حق میں کہ میں قادیان میں ہی بیٹھا رہوں ایک رائے بھی نہیں تھی۔ ۷؍ستمبر کو یہ فیصلہ ہوا کہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا کام قادیان سے باہر آنے پر ہی ہو سکتا ہے اِس لئے ہم جذباتی چیز کو حقیقت پر قربان کریں گے۔ پس میں نے ضروری سمجھا کہ آج میں دوستوں کو بتاؤں کہ ہم نے واقعات کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے او رہمارا قادیان سے باہر آنا ان حالات میں ہوا ہے۔ اگر سقراط کے طریق پر عمل کرتے اور قادیان میں ہی رہتے تو یہ بات غلط ہوتی کیونکہ ہمارے حالات سقراط کے حالات سے نہیں ملتے تھے۔ ہم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی مثال پر عمل کیا کیونکہ آپ کے حالات ہمارے حالات سے ملتے تھے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی جی نہیں چاہتا تھا کہ آپ مکہ کو چھوڑیں لیکن جب آپ نے دیکھا کہ اِس کے بغیر اُس پیغام کو جو آپ دنیا کی طرف لے کر مبعوث ہوئے تھے نہیں پھیلایا جا سکتا تو آپ مکہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ جب رسول کریم ﷺغارِ ثور سے نکلے تو آپ نے آب دیدہ ہو کر اور مکہ کی طرف منہ کر کے فرمایا اے مکہ! تو مجھے بڑا ہی پیارا تھا اور میں تجھے چھوڑنا نہیں چاہتا تھا لیکن افسوس تیرے رہنے والوں نے مجھے یہاں رہنے کی اجازت نہیں دی۔۸؎ یہ فقرہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ آپ کو مکہ سے محبت تھی لیکن اشاعت اسلام چونکہ مقدم تھی اور مکہ میں رہنے سے اِس کی اشاعت کا کام باطل ہو جاتا تھا اِس لئے آپ نے مکہ چھوڑنا قبول کر لیا۔ میں نے بھی اِسی سُنّت کے ماتحت قادیان کو چھوڑا اور اب واقعات نے تصدیق کر دی ہے کہ میں اِس میں حق بجانب تھا۔ غرض دین کی اشاعت چونکہ سب سے اہم تھی اِس لئے میں نے قادیان چھوڑنا قبول کر لیا اور پاکستان آگیا۔‘‘
(الفضل ۱۸؍ جولائی ۱۹۶۱ء)
’’میں جماعت کے دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ میرے نزدیک اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دماغی ترقی کی طرف خاص طور پر توجہ دیں۔ اِس وقت تک جو کتابیں ہماری جماعت کی طرف سے شائع ہوئی ہیں وہ کسی تنظیم کے بغیر شائع ہوئی ہیں سوائے تفسیر کبیر کے۔ لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ جماعت کا ہر فرد وقتی ضرورتوں کے ماتحت ایک خاص پروگرام کے ماتحت چلے اوراِس طرح ترقی کرنے کی کوشش کرے۔ اِس لئے میں نے سمجھا کہ میں نیا مرکز بن جانے کے بعد ایک خاص نظام قائم کروں تا جماعت کے افراد کی خاص طور پر تربیت ہو اور اخلاق، عقائد، مذہب اور دیگر دُنیوی علوم پر ہر آدمی آسانی کے ساتھ عبور حاصل کر سکے۔ اور اِس کا یہی طریق ہے کہ آسان اُردو میں ایسی کتابیں شائع کی جائیں جو ہر مضمون کے متعلق ہوں اور علمی مطالب پر حاوی ہوں اور ایسی سیدھی سادی زبان میں ہوں کہ معمولی زمیندار بھی اُنہیں سمجھ سکیں۔ بہت سے علم ایسے ہیں جن سے لوگ ڈرتے ہیں اِس لئے وہ اُن کو سیکھنے کی طرف توجہ نہیں کرتے۔
ایک فلاسفر نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اُس نے بتایا ہے کہ علوم کیا ہیں۔ اُس نے تمام علوم پر جرح کر کے اور اُنہیں اصطلاحوں سے خالی کر کے پیش کیا ہے۔ اُس نے فلسفہ پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ فلسفہ کیا ہے۔ فلسفہ گتے کی عمارتیں بنانا، عمارتیں بنا کر ان پر ہاتھ مارنا اور پھر ان کو گرا دینا ہے۔ غرض بہت سے علوم ایسے ہوتے ہیں جن کو لوگ ناواقفیت کی وجہ سے نہیں سیکھتے اور ان سے ڈرتے ہیں۔ اگر سب لوگ انہیں جانتے تو صرف یہی نہ ہوتا کہ بحث میں دوسروں کا ان پر اثر ہوتا بلکہ وہ دوسروں پر غالب آ جاتے۔
بعض لوگ خیال کیا کرتے ہیں کہ ہمیں دُنیوی علوم کی کیا ضرورت ہے؟ مگر یہ حماقت کی بات ہے۔ اگر ہم اس دنیا میں رہیں گے تو ہمیں دوسرے علوم بھی سیکھنے پڑیں گے اور اگر ہم نے دوسرے علوم سیکھے ہوئے ہوں گے تو کسی سے مغلوب نہیں ہوں گے۔ ہاں روحانیت کی چاشنی ضرور ساتھ ہونی چاہیے۔ اگر ہم دوسرے علوم حاصل نہ کریں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہمیں بعض سچائیوں کو بھی نظر انداز کرنا پڑے گا۔ ہر شخص کو اپنے علم پر گھمنڈ ہوتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ جس کو یہ علم نہیں آتا وہ کچھ بھی نہیں۔ میں پرائمری فیل ہوں لیکن دوسرے علوم کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ قرآن کریم کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور قرآنی علوم کا فیضان جو خداتعالیٰ نے مجھے بخشا ہے وہ ہر ایک کو حاصل نہیں۔ قرآن کریم کے ذریعہ ہی میں نے سب علوم حاصل کئے ہیں لیکن پھر بھی میں دوسری کتب کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور وہ لوگ جو اُن علوم کے ماہر ہیں وہ بھی میرے قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
مجھے یاد ہے جب اُمّ طاہر بیمار تھیں میں اُن کے علاج کے سلسلہ میں لاہور گیا ہوا تھا اور ہم شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے کہ ایک پارسی لڑکی جو ایم اے کی تیاری کر رہی تھی وہ مجھے ملنے کے لئے آگئی۔ شیخ صاحب کے گھر ایک لڑکی پڑھانے کے لئے آیا کرتی تھی اُس کے ساتھ وہ لڑکی بھی آ گئی۔ وہ ایم اے فلاسفی میں پڑھتی تھی۔ اُس نے سنا کہ میں لاہور آیا ہوں تو وہ ملنے کے لئے آ گئی۔ وہ میرے پاس آئی اور پوچھنے لگی احمدیت کیا ہوتی ہے؟ اِسی دوران میں اُس نے مجھے بتایا کہ میں ایم۔ اے فلاسفی میں پڑھتی ہوں اور ہمارے قاضی محمد اسلم صاحب کا نام لیا کہ اُن سے پڑھتی ہوں وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔ اُس نے مجھ سے باتیں کیں اور سمجھا کہ میں اُس کی وہ باتیں نہیں سمجھتا لیکن جب میں نے اُس پر جرح کی تب وہ بیدار ہوئی اور اُس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا میں پرائمری فیل ہوں۔ اُس نے کہا اچھا! آپ پرائمری فیل ہیں! اور پھر گفتگو شروع کی۔ میں نے پھر اُس پر جرح کی تو وہ کہنے لگی کیا آپ نے ایم۔ اے فلاسفی پاس کیا ہوا ہے؟ میں نے کہا میں نے اب تک یہ نہیں سنا کہ پرائمری فیل ایم۔ اے فلاسفی پاس ہوتا ہے۔ اُس نے پھر گفتگو شروع کی اور جب بہت مجبور ہو گئی تو کہنے لگی۔ کیا آپ نے امریکہ یا انگلستان میں تعلیم حاصل کی ہے؟ میں نے کہا میں تو پرائمری فیل ہوں۔ وہ پھر تنگ ہوئی تو کہنے لگی کیا آپ وکیل ہیں؟ میں نے کہا میں تو وکیل نہیں ہوں ہاں میرے میزبان وکیل ہیں۔ اُس نے کہا پھر آپ نے یہ علم کہاں سے حاصل کیا ہے؟ میں نے کہا یہ سب چیزیں خدا تعالیٰ کی دی ہوئی ہیں۔ اس کے بعد میں نماز کے لئے باہر آ گیا۔ قاضی اسلم صاحب بھی وہاں آئے ہوئے تھے۔ میں نے اُن سے کہا قاضی صاحب! آج آپ کا علم معلوم ہو گیا۔ اُنہوں نے کہا کس طرح؟ میں نے کہا آپ کی ایک شاگرد آئی تھی اُس کے دماغ میں میں نے آدھ گھنٹہ تک یہ بات ڈالنے کی کوشش کی کہ میں پرائمری فیل ہوں مگر وہ یہی پوچھتی تھی کہ کیا آپ ایم۔ اے فلاسفی پاس ہیں؟ کیا آپ نے انگلستان اور امریکہ میں تعلیم حاصل کی ہے؟ کیا آپ بی۔ اے ایل۔ ایل۔ بی ہیں؟ کیا آپ کا شاگرد اتنا بھی نہیں جانتا کہ پرائمری فیل اور ایم اے پاس میں کیا فرق ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگے اُس کی عقل ماری گئی تھی وہ کرتی کیا۔ پس خواہ ہم مانیں یا نہ مانیں ہمیں دوسرے علوم ضرور سیکھنے چاہئیں تا کہ ہم معلوم کر سکیں کہ ہمارے مخالفوں کے کیا خیالات ہیں اور ہم اُنہیں کس طرح مغلوب کر سکتے ہیں۔ ہمارے علماء کی یہ غلطی تھی کہ انہوں نے ایک منطقی کو اتنی عزت دے دی کہ اُسے قرآن کریم پر بھی حاوی کر دیا۔ حالانکہ ایک منطقی کا قرآن کریم پر حاوی ہونا تو کیا وہ تو ہمارے بوٹوں کو صاف کرنے کے قابل بھی نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہم بھی اِس غلطی کو دُہرانا شروع کر دیں لیکن بہرحال ہمیں دوسرے علوم کی کچھ نہ کچھ واقفیت تو ہونی چاہیے۔
وہ قوم بھی ترقی نہیں کر سکتی جس کے صرف چند افراد عالم ہوں۔ ہم نے اگر ترقی کرنا ہے تو ہمیں جماعت کے علم کے درجہ کو بلند کرنا ہوگا۔ اِس کا طریق یہی ہے کہ کتب کا ایک سلسلہ شروع کیا جائے جس میں دنیا کے تمام موٹے موٹے علوم آ جائیں اور وہ بچوں، درمیانی عمر والوں اور پختہ کار لوگوں غرض سب کے لئے کافی ہوں۔ اس کے تین سلسلے ہوں گے پہلا سلسلہ مڈل سے نیچے پڑھنے والے بچوں کے لئے یا یوں سمجھ لیا جائے کہ پہلا سلسلہ ۱۳ سال سے کم عمر والے بچوں کے لئے ہوگا۔ دوسرا سلسلہ انٹرنس پاس یا سولہ سترہ سال تک کے بچوں کے لئے ہوگا اور تیسرا سلسلہ اس سے اوپر عمر والوں اور پختہ کار لوگوں کے لئے ہوگا۔ یہ کتابیں ایسی سلیس اُردو میں لکھی جائیں گی کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ اُردو لکھنے والا بھی اسے سمجھ سکے۔ اسی طرح میری رائے یہ ہے کہ یہ کتابیں اس طرز پر لکھی جائیں کہ پہلی کتاب ۵۰ صفحات کی ہو، دوسری ۸۰ صفحات کی ہو اور تیسری کتاب اوسطاً سَو صفحات پر مشتمل ہو۔اور پھر ہر وہ کتاب جو سولہ سترہ سال تک کے افراد کے لئے ہو وہ سولہ ہزار الفاظ پر مشتمل ہو۔ اور ہر کتاب جو اس سے اوپر عمر والے افراد کے لئے ہو وہ ۲۵ ہزار الفاظ پر مشتمل ہو۔ اس لئے کہ لکھنے والے ان کتابوں کو غور سے لکھیں اور مطالعہ کر کے لکھیں۔ ان کے لئے ایک رقم بطور انعام مقرر کی جائے گی تا کہ وہ اُس علم کی کتابیں مطالعہ کر کے مضمون لکھیں اور ایسی سلیس اُردو میں لکھیں کہ ہر معمولی خواندہ اسے سمجھ سکے۔ میرا خیال ہے کہ ہر اُس کتاب کے لئے جو پچاس صفحات کی ہو پچاس روپے سے ایک سَو روپیہ تک کا انعام رکھا جائے۔ یونیورسٹیاں بڑی سے بڑی کتب کے لئے پانچ پانچ سَو کا انعام رکھتی ہیں حالانکہ وہ بڑے اعلیٰ پیمانہ کی کتابیں ہوتی ہیں۔ پچاس صفحات کی کتاب کے لئے انعام کے طور پر پچاس روپیہ کی رقم بہت بڑی چیز ہے۔ ایک ماہر ایسی کتاب پندرہ دن میں لکھ سکتا ہے اس طرح اور بہت سے لوگ ایسی کتابیں لکھنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔غرض پچاس سے سَو روپیہ تک کا انعام پہلی کتاب لکھنے والے کے لئے ہوگا جو ۵۰ صفحات یا دس ہزار الفاظ پر مشتمل ہوگی۔ دوسری قسم کی کتاب کے لئے جو ۸۰ صفحات یا سولہ ہزار الفاظ پر مشتمل ہوگی ایک سَو سے ایک سَو پچاس روپے تک کا انعام ہوگا۔ تیسری قسم کی کتاب کے لئے جو سَو سَوا سَو صفحات یا ۲۵ ہزار الفاظ پر مشتمل ہوگی ڈیڑھ سَو سے اڑھائی سَو تک کا انعام ہوگا۔ یہ تین سَو کتب بن جاتی ہیں اور ۴۵ ہزار کے انعام میں لکھی جا سکتی ہیں۔ ان کتب کی اگر تین تین ہزار کاپی شائع کی جائے تو نوے ہزار روپے خرچ ہوں گے۔ پھر یہی نہیں کہ یہ کتابیں صرف احمدیوں میں فروخت ہوں گی بلکہ دوسرے لوگ شائد ہم سے بھی زیادہ تعداد میں انہیں خریدیں۔ کیونکہ ایسا تجربہ آگے کسی نے نہیں کیا۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر کتاب کی تین تین سَو جلدیں ہوں۔ بعض مضامین ایسے ہیں جو صرف دو دو جلدوں میں ہی آجائیں گے مثلاً سیرت ہے۔ اس کے دو حصے ہی کافی ہیں ایک حصہ بچوں کے لئے ہوگا اور ایک حصہ بڑی عمر والوں کے لئے ہوگا۔ اسی طرح اور بھی کئی مضامین ایسے ہیں جن کے لئے دو جلدیں ہی کافی ہوجائیں گی۔
(۱) ان کتب کی خصوصیات یہ ہوں گی کہ:۔
(i) ان میں تمام قسم کے علوم کے متعلق باتیں ہوں گی۔
(ii) یہ سلیس اُردو میں ہوں گی جسے ایک معمولی اُردو جاننے والا بھی سمجھ سکے۔
(iii) ان میں کسی قسم کی اصطلاح استعمال نہیں کی جائے گی۔ اصطلاحوں کی وجہ سے مضمون سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی پوچھے کہ قضیہ موجبہ یا قضیہ سالبہ کیا ہے؟ تو آپ لوگوں میں سے پچانوے فیصدی ایسے ہوں گے جو یہ سمجھتے ہوں گے کہ پتہ نہیں یہ کتنے علم کی بات کی گئی ہے حالانکہ قضیہ موجبہ کے معنی ہیں وہ آیا اور قضیہ سالبہ کے معنی ہوتے ہیں وہ نہیں گیا۔ یا یہ کہنا کہ اُس نے ایسا کر دیا یا وہ چیز ہوگئی یہ قضیہ موجبہ ہے۔ اور ایسا نہیں ہوا یہ قضیہ موجبہ ہے۔لیکن نام سن کر آپ حیران ہو جائیں گے کہ یہ کیا چیز ہے لیکن جب اِس کا ترجمہ کر دیا جائے تو ہر ایک کہے گا اچھا یہ بات ہے یہ تو میں بھی جانتا ہوں۔ پس اِن کتب کے لکھنے میں یہ شرط ہوگی کہ ان میں کسی قسم کی کوئی اصطلاح استعمال نہ کی جائے۔ اسی طرح کسی قسم کا حوالہ نہ دیا جائے۔ ہاں حوالے وغیرہ حاشیہ پر لکھے جا سکتے ہیں۔ اِسی طرح اصطلاحوں کا بھی حاشیہ میں ذکر کیا جا سکتا ہے تا ایک معمولی علم والا اپنے علم کو اعلیٰ درجہ کے علم میں تبدیل کر سکے۔ مثلاً منطقی کہتے ہیں یہ دلیل استقرائی ہے سننے والا گھبرا جاتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے حالانکہ اِس کے صرف اتنے ہی معنی ہوتے ہیں کہ وہ چیز جو تم دیکھتے ہو کہ ہوتی چلی آئی ہے دلیل استقرائی ہے۔ مثلاً بچہ ماں سے پیدا ہوتا ہے اِس لئے کہ دنیا میں ہمیشہ سے ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو تمہاری دادی سے بچہ پیدا ہوا دادا سے پیدا نہیں ہوا۔ پڑدادی سے پیدا ہوا پڑدادے سے پیدا نہیں ہوا۔ لکڑ دادی سے پیدا ہوا لکڑ دادے سے پیدا نہیں ہوا اور اِسی کا نام دلیل استقرائی ہے اور تم میں سے کون ہے جو یہ نہیں سمجھتا کہ بچہ ہمیشہ ماں سے پیدا ہوتا ہے۔ ایک نیم پاگل سے بھی یہ بات پوچھی جائے تو وہ فوراً یہ بات بتا دے گا لیکن منطقی کہیں گے یہ دلیل استقرائی ہے اور سننے والا جو اُسے نہیں جانتا حیران رہ جائے گا کہ یہ کیا بلاء ہے۔ لیکن چونکہ کبھی کبھی بعض شوقین لوگ علماء کی مجلس میں بھی چلے جائیں گے اور اُن کی باتوں سے لطف اندوز ہوں گے اس لئے حاشیہ میں ان اصطلاحات کا بھی ذکر کر دیا جائے گا۔ اس طرح اُسے یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ برکلے اور کانٹ نے کیا کہا ہے بلکہ کتاب کے حاشیے میں ہی یہ لکھا ہوا ہوگا کہ برکلے اور کانٹ کا یہ مقولہ ہے یا یہ فلاں کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ غرض جب بھی وہ چاہے اپنے عام علم کو اصطلاحی علم میں بول لے یا سیدھی سادی اُردو میں پڑھ لے۔ غرض ہر صفحہ کے نیچے ہر ایک امر کا حوالہ دیا جائے گا تا جس کو شوق ہو تحقیق کر سکے۔اس سلسلہ کی کئی کڑیاں ہونگی۔
اوّل: بچوں کے لئے یعنی ابتدائی تعلیم سے مڈل تک کے بچوں کے لئے مگر اس سے وہ لوگ بھی فائدہ اُٹھا سکتے ہوں جو معمولی لکھنا پڑھنا ہی جانتے ہوں۔
دوم: بڑے بچوں کے لئے یعنی ہائی سکولوں کے طالب علموں کے لئے۔
سوم: بڑوں کے لئے قطع نظر اس سے کہ وہ کالجوں میں پڑھتے ہوں یا انہوں نے خود تحقیق کی ہو۔
چہارم: محض لڑکیوں کے لئے۔
پنجم: محض لڑکوں کے لئے۔
ششم: محض مردوں کے لئے۔
ہفتم: محض عورتوں کے لئے۔
ہشتم: بیوی کے لیے۔
نہم: میاں کے لئے۔
دہم: اچھے شہری کے لئے۔
میرے نزدیک مختلف ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اِس سلسلۂ کتب میں اِن مضامین پر بحث ہونی چاہیے۔
پہلا سلسلہ
(۱) ہستی باری تعالیٰ (۲) معیارِشناخت نبوت (۳) دعا (۴)قضاء و قدر (۵) بعث بعد الموت (۶) بہشت و دوزخ(۷) معجزات(۸) فرشتے
(۹) صفات ِالٰہیہ (۱۰) ضرورتِ نبوت و شریعت اور اِس کا ارتقاء
دوسرا سلسلہ
(۱) عبادت اور اس کی ضرورت (۲) نماز (۳) ذکر (۴) روزہ (۵) حج (۶) زکوٰۃ (۷) معاملات (۸) اسلامی حکومت (۹) اچھے شہری کے
فرائض (۱۰) ورثہ (۱۱) تعلیم (۱۲) اخلاق اور ان کی ضرورت (۱۳)تربیت افراد میں قوم کا فرض اور اس کی ذمہ داریاں (۱۴) ملت شخص پرمقدم ہے (۱۵)خاندان فرد پر مقدم ہے (۱۶) حکومت قوم پر مقدم ہے (۱۷) حکومت اور رعایا کے تعلقات (۱۸) ظاہر و باطن دونوں کی ضرورت اور اہمیت (۱۹) اخوتِ باہمی اور اس کی وجہ سے غریب امیر عالم جاہل پر ذمہ داریاں (۲۰) اسلام کا فلسفۂ اقتصادیات (۲۱) مظلوم کے حقوق اور اُن کا ایفاء اور اُس کا طریقہ (۲۲) ماں باپ کے حقوق، اور اُن کی ادائیگی۔ شادی کے بعد ماں باپ اور خاوند بیوی کے حقوق کا تصادم اور اِس کا علاج (۲۳) میاں بیوی کے باہمی حقوق۔ میاں بیوی کے ایک دوسرے کے والدین کے متعلق فرائض۔ میاں بیوی کے حقوق تربیت اولاد کے متعلق۔ میاں بیوی کے حقوق خاندان کے افراد کے ورثہ کے لحاظ سے (۲۴) آقا اور نوکر کے تعلقات (۲۵) تجارتی لین دین اور قرضہ کی ذمہ داریاں اور جائدادوں کے تلف ہونے کی صورتوں میں اور دیوالیہ ہونے کی صورت میں ہر فریق کی ذمہ داری (۲۶) جہاد (۲۷) حفظانِ صحت جسمانی (۲۸) حفظانِ صحت بحیثیت ماحول (۲۹) محنت کی عادت اور وقت کی پابندی (۳۰) تبلیغ اور اُس کی اہمیت (۳۱) چندہ اور اس کی اہمیت (۳۲) احمدیت میں ہندوستان اور پاکستان کی خاص اہمیت (۳۳) زندگی وقف کرنے کی اہمیت۔
تیسرا سلسلہ
(۱) تاریخ مذہب قبل تاریخ (۲) تاریخ ہندو مذہب زمانۂ تاریخ (۳)تاریخ بدھ مت (۴) تاریخ زرتشت (۵) تاریخ مصلحین غیرمعروف
ارسطو، کنفیوشس وغیرہ (۶) تاریخ دنیا قبل از تاریخ (۷) تاریخ مغرب قبل تاریخ (۸)تاریخ ہند قبل از تاریخ (۹) تاریخ علاقہ جات پاکستان قبل از تاریخ (۱۰) تاریخ شمالی افریقہ قبل مسیح (۱۱) تاریخ یونان قبل تیسری صدی مسیحی (۱۲) تاریخ قبل بادشاہانِ مید و فارس (۱۳) تاریخ ایران بعد بادشاہانِ مید و فارس تازمانہ عمرؓ (۱۴) سیرۃ النبویؐ (اس کی ضرورت میری سیرت سے پوری ہو چکی ہے) (۱۵) تواریخ خلفاء (۱۶) سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (۱۷) تاریخ احمدیت بزمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (۱۸)سیرت حضرت خلیفہ اوّل(۱۹) تاریخ احمدیت (خلافت اولیٰ (۲۰) تاریخ احمدیت (خلافت ثانیہ) (۲۱) تاریخ احمدیت افغانستان (۲۲) تاریخ صحابہ مسیح موعود (۲۳)تاریخ اکابر صحابہ رسول کریم ﷺ (۲۴) تاریخ اکابر اصحاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام (۲۵) تاریخ صحابیات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم (۲۶) تاریخ صحابیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (۲۷)تاریخ ہند بزمانہ اسلام تین حصوں میں (الف) افغانوں سے پہلے زمانہ کی (ب) افغانوں کے زمانہ کی (ج) مغلیہ زمانہ کی (۲۸) مبلغین اسلام ہندوستان (۲۹) سوانح صوفیائے کرام (۳۰) تاریخ اسلام اور یورپ (۳۱) تاریخ عرب بعد از چہارم صدی ہجری (۳۲) تاریخ اشاعت اسلام مغربی افریقہ (۳۳) تاریخ ایبے سینیا (۳۴) تاریخ افریقہ وسطی و جنوبی گذشتہ ہزار سال کی (۳۵) تاریخ روما (الف) قبل از مسیح (ب) بعد از مسیح (ج) بعد زمانہ نبویؐ (۳۶) تاریخ قسطنطنیہ (الف) زمانہ نبوی تک (ب) زمانہ نبوی کے بعد اسلام کے قبضہ تک (۳۷)تاریخ ہسپانیہ قبل از تسلط اسلام و بعد تسلط (۳۸)تاریخ صقلیہ قبل از تسلطِ اسلام و بعد تسلطِ اسلام (۳۹) تاریخ روما جنوبی بزمانہ اسلام (۴۰)تاریخ چین بزمانہ اسلام (۴۱)تاریخ فلپائن و ملحقہ جزائر بزمانہ اسلام (۴۲) تاریخ انڈونیشیا قبل از اسلام و بعد از اسلام (۴۳) تاریخ سیلون قبل از اسلام و بعد از اسلام (۴۴) تاریخ بخاراوملحقات قبل از اسلام و بعد از اسلام (۴۵)تاریخ روس از ابتداء تا پندرہویں صدی اور پندرھویں صدی سے لے کر آج تک، جس میں خصوصاً اسلام سے اُس کے تعلقات پر روشنی ہو (۴۶) تاریخ مارکسنرم (۴۷)تاریخ بالشوزم (۴۸) تاریخ شمالی امریکہ و جغرافیہ (۴۹) تاریخ جنوبی امریکہ و جغرافیہ (۵۰) تاریخ جزائر آسٹریلیا و نیوزی لینڈ وغیرہ (۵۱) احوال الانبیاء
چوتھا سلسلہ
(۱) رسالہ کیمسٹری ناواقفوں کیلئے (۲) رسالہ فزکس (۳) موٹے موٹے مضامین کے الگ الگ رسالے (۴) تاریخ سائنس(۵) مسلمانوں کا
سائنس میں حصہ (۶) قرآن اور علوم (۷) اسلام اور علوم (۸) علم البحر (۹) مسلمانوں کا علم بحری میں حصہ (۱۰) فلکیات (۱۱) مسلمانوں کا فلکیات میں حصہ (۱۲)جغرافیہ عالم (۱۳)جغرافیہ میں مسلمانوں کا حصہ (۱۴) جغرافیہ طبیعات (۱۵)جغرافیہ طبیعات میں مسلمانوں کا حصہ (۱۶)درندے اور اُن کے اہم افراد اور اُن کی خصوصیات (۱۷) چرندے اور اُن کے اہم افراد اور اُن کی خصوصیات (۱۸) پرندے اور اُن کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات (۱۹) مکوڑے اور ان کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات (۲۰) رینگنے والے جانور اور اُن کے اہم افراد اور اُن کی خصوصیات (۲۱) پانی کے اندر کے سانس لینے والے جانور اور اُن کے اہم افراد اور اُن کی خصوصیات (۲۲) پانی میں رہنے والے لیکن باہر نکل کر سانس لینے والے جانور اور اُن کے اہم افراد اور اُن کی خصوصیات (۲۳) ساکن جانور بری اور بحری اور ان کی خصوصیات (۲۴)خورد بینی کیڑے اور اُن کے اہم افراد اور ان کی خصوصیات (۲۵)انسانی پیدائش موجودہ دَور میں مادہ حیات۔ اس کے تغیرات، اس کی صحت اور بیماری کی حالت۔ اُس کے انتقال کا طریقہ اور انتقال کے بعد پیدائش تک کے اَدوار (۲۶) انسانی جسم کی تشریح (۲۷)صحت کی حالت میں اعضائے انسانی کے فرائض اور وظائف (۲۸) مختلف بیماریاں اور اُن کے اسباب (۲۹) علم النباتات (۳۰) علم الجمادات (۳۱) منطق (۳۲)فلسفۂ منطق (۳۳) فلسفہ (۳۴) فلسفۂ فلسفہ (۳۵) فلسفۂ تاریخ (۳۶) طبقات الارض (۳۷) ارتقائے نسل انسانی (۳۸) علم اللسان (۳۹) علم النفس (۴۰) ارتقائے عالم (۴۱)کائنات کی مختلف انواع میں امتیازی شان (۴۲) انسان اور دیگر اشیاء میں فرق (۴۳)علم البدن (۴۴)کیفیت مادہ‘‘ (الفضل ۲۱؍ جون ۱۹۶۱ء)
۱؎
(الانفال:۳۱)
۲؎ تذکرہ صفحہ۳۹۷۔ ایڈیشن چہارم
۳؎ بخاری کتاب الجھاد والسیر باب التحریض علی الرمی
۴؎ بخاری کتاب النکاح باب نظر المرأۃ الی الجیش(الخ)
۵؎ متی باب ۵آیت ۳۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء
۶؎ لوقا باب ۲۲ آیت ۳۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء (مفہوماً)
۷؎ تذکرہ صفحہ۷۷۲۔ ایڈیشن چہارم
۸؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھے جائیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
رمضان کے علاوہ بھی روزے رکھے جائیں
(فرمودہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۴۹ء۔ بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’رمضان کا مہینہ جو خدا تعالیٰ کی بہت بڑی برکات کے حصول کا ایک ذریعہ تھا آیا اور گذر گیا اِس مہینہ میں جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی اُنہوں نے دعاؤں اور شب بیداری اور نوافل کے ذریعہ اُس کا قرب حاصل کرنے کی کوشش کی اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق خداتعالیٰ کا فیضان حاصل کیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک بہت بڑا سبق جو رمضان سے ہمیں حاصل ہوتا ہے اور جس کی طرف اِس زمانہ میں بہت کم توجہ کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ رمضان ہمیں اِس طرف توجہ دلاتا ہے کہ مؤمن کو اپنی روحانیت کی تکمیل کے لئے دوسرے ایام میں بھی روزے رکھنے چاہئیں۔ مگر ہوتا کیا ہے؟ رمضان آتا ہے تو لوگ روزے رکھنے شروع کر دیتے ہیں اور بعض دفعہ اتنا تعہد کرتے ہیں کہ مسافر اور مریض بھی روزے رکھتے ہیں اور یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کوئی ایسی توجیہہ تلاش کی جائے جس کی وجہ سے باوجود بیمار اور مسافر ہونے کے روزہ رکھ لیا جائے۔ لیکن جب رمضان گذر جاتا ہے تو وہ روزوں کو اس طرح بھول جاتے ہیں کہ سال کے باقی گیارہ مہینوں میں اُنہیں کبھی خیال بھی نہیں آتا کہ وہ تھوڑے بہت روزے رکھ لیا کریں حالانکہ اگر غور سے کام لیا جائے تو اسلام نے جس قدر عبادتیں مقرر کی ہیں وہ کسی معین وقت کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے ہیں اور سال کے ہر حصہ میں اُن پر عمل کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑی عبادتیں نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ہیں۔ ان چاروں کو دیکھ لو اِن کے لئے معین وقت نہیں بلکہ یہ سارے سال میںپھیلا دی گئی ہیں۔ نماز تو سارا سال ہی پڑھی جاتی ہے اس کے علاوہ سال میں دو دفعہ عید کی نماز رکھی گئی ہے اور پھر روزانہ فرضی نمازوں کے علاوہ دوسرے نوافل بھی ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑے تھوڑے وقت کے بعد مؤمن کے لئے خداتعالیٰ کو یاد کرنا ضروری ہوتا ہے تا کہ اس کی روح تازہ ہوتی رہے۔ اسی طرح حج ہے حج بیشک سال میں ایک دفعہ مقرر کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ خدا تعالیٰ نے عمرہ لگا دیا ہے جو سارا سال ہوتا رہتا ہے۔ گویا عمرہ کے ذریعہ حج کے فائدہ کو عام کر دیا گیا ہے اور اِس طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ مؤمنوں کو حج کے علاوہ عمرہ بھی کرنا چاہیے تا کہ حج کے جو فوائد ہیں اُنہیں زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جاسکے۔ اِسی طرح زکوٰۃ اگرچہ سال میں ایک دفعہ مقرر ہے لیکن صدقہ تو ایک دفعہ نہیں جب بھی کوئی محتاج یا بیکس نظر آئے مؤمن کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کی مدد کرے۔ یہ نہیں کہ جب وہ کسی محتاج و بیکس کو دیکھے تو کہہ دے کہ سال گذرے گا تو زکوٰۃ دے دوں گا اگر وہ اس طرح کرتا ہے تو وہ مجرم ہے کیونکہ زکوٰۃ دینے سے اُس نے تسلیم کر لیا ہے کہ صدقہ دینا ضروری چیز ہے۔ اس کے بعد اگر وہ صدقہ نہیں دیتا، غریبوں اور بیکسوں کی مدد نہیں کرتا تو وہ اقراری مجرم ہے۔ جب اُس نے مان لیا ہے کہ غریب کی مدد کرنا فرض ہے تو پھر وہ اس پر کیوں عمل نہیں کرتا۔ پس گو زکوٰۃ سال میں ایک دفعہ مقرر ہے مگر صدقہ کو جاری کر کے خداتعالیٰ نے اس کو سارے سال میں پھیلا دیا ہے۔ اسی طرح حج کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے عمرہ رکھ دیا ہے تا کہ اس کے فوائد ہمیشہ حاصل کئے جائیں۔
غرض روزانہ پانچ وقت کی نماز کے ساتھ نوافل لگا کر، سال میں ایک دفعہ دی جانے والی زکوٰۃ کے ساتھ صدقہ لگا کر اور حج کے ساتھ عمرہ لگا کر خداتعالیٰ نے اس طرف توجہ دلائی ہے کہ ان عبادتوںکے لئے وقت کا معین کرنا صرف بطور مشق کے ہے اور مؤمن کو یہ بتانے کے لئے ہے کہ وہ دوسرے اوقات میں بھی ایسا کرتا رہے۔ اِسی طرح رمضان بھی یہ بتانے کے لئے آتا ہے کہ سال کے باقی ایام میں بھی روزے رکھا کرو۔ تعین وقت اصلی نہیں بلکہ صرف مؤمن کو باقی ایام میں ایسا کرنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے ہے۔ گویا رمضان کا مہینہ مؤمن کے لئے روحانی ٹریننگ کا زمانہ ہے اور اس میں جس غرض کے لئے مشق کرائی جاتی ہے اگر وہ پوری نہ ہو تو پھر اس کا فائدہ ہی کیا؟ سپاہی کو پریڈ، گولی چلانا، چوری چھپے لیٹ کر، گھٹنے کے بل بیٹھ کر دشمن پر گولی چلانا اور دوسرے فنونِ حرب کی اس لئے مشق کرائی جاتی ہے کہ سیکھنے کے بعد وہ وقت آنے پر قوم اور وطن کی خدمت کرسکے اور دشمن کا مقابلہ کرے۔ لیکن اگر ٹریننگ کے بعد وہ یہ کہہ دے کہ اس نے اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا ہے اور وقت آنے پر اپنی قوم اور وطن کی حفاظت کے لئے دشمن سے لڑائی نہ کرے تو اُس کی ٹریننگ کا کیا فائدہ۔
غرض رمضان آتا ہی اِس لئے ہے کہ وہ مؤمن کو سال کے دوسرے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی عادت ڈالے۔ جیسے زکوٰۃ کو سال میں گو ایک دفعہ رکھا گیا ہے مگر اِس لئے کہ باقی ایام میں صدقہ دینے کی انسان کو عادت ڈالے۔ اسی طرح حج کو سال میں ایک دفعہ اس لئے مقرر کیا گیا ہے تا قومی اجتماعوں میں لوگوں کو جمع ہونے کی عادت ہو۔ اب اگر کوئی کہتا ہے کہ حج کے بعد کسی میٹنگ، کسی جلسے اور کسی شوریٰ کی ضرورت نہیں تو اسے کون عقلمند کہے گا۔ ہم اسے یہی کہیں گے کہ حج سال میں ایک دفعہ مقرر کرنے کی حکمت یہی تھی کہ مسلمانوں کو قومی اجتماعوں کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اگر کوئی زکوٰۃ دینے کے بعد یہ سمجھتا ہے کہ صدقہ کی کیا ضرورت ہے تو ہم اسے کہیں گے کہ زکوٰۃ مقرر ہی اِس لئے کی گئی ہے کہ مسلمانوں کو اپنے غریب اور بے کس بھائیوں کی مدد کرنے کی عادت ڈالی جائے۔ غرض یہ سب کام ایسے ہیں جو مؤمن کو اُس فرض کی طرف توجہ دلاتے ہیں جو اُس پر عائد کیا گیا ہے۔ صحابہؓ میں ان کاموں کے لئے ایک خاص تعہد اور جوش پایا جاتا تھا۔ وہ رمضان کے بعد وقتاً فوقتاً نفلی روزے بھی رکھا کرتے تھے۔ لیکن میں اپنی جماعت کے دوستوں کو دیکھتا ہوں کہ گو وہ زکوٰۃ دینے میں کمزور ہیں لیکن پھر بھی چندے دینے اور صدقہ کرنے کی ان میں کچھ نہ کچھ عادت پائی جاتی ہے۔ اِسی طرح گو ان میں سے بعض نمازوں میں کمزور ہیں لیکن پھر بھی نوافل کی طرف کچھ نہ کچھ توجہ پائی جاتی ہے۔ حج کی طرف اگرچہ وہ پوری توجہ نہیں دیتے لیکن قومی اجتماعوں میں حصہ لینے کی اِن میں ایک حد تک عادت ہے مگر روزوں کی طرف بہت کم توجہ پائی جاتی ہے۔ بہت کم ایسے احمدی ہیں جو نفلی روزے رکھنے کے عادی ہیں۔
احادیث میں آتا ہے حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں میں نے روزانہ روزہ رکھنا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا روزانہ روزے رکھنا درست نہیں۔ میں نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! آپ نے بتایا ہے کہ روزے کسرنفسی کے لئے ضروری ہیں اس لئے میںبھی روزانہ روزے رکھتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزانہ روزے رکھنے کی وجہ سے بجائے اِس کے کہ عبادت نفس کو مارے، نفس عبادت کو مار دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص روزانہ روزے رکھے گا تو ایک دن ایسا آئے گا جب اُس کا نفس کہے گا مجھ سے ایسی عبادت نہیں کی جاتی۔ پس اتنی زیادہ عبادتیں بھی درست نہیں کہ بجائے اِس کے کہ عبادت انسانی نفس کو مارے نفس عبادت کو مار دے۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میں مہینہ میں ایک روزہ چھوڑ دیا کروں گا۔ آپ نے فرمایا ایک دن بہت کم ہے۔ میں نے کہا اچھا دو دن چھوڑ دیا کروں گا۔ آپ نے فرمایا دو دن بھی بہت کم ہیں۔ میں نے کہا اچھا میں تین دن چھوڑ دیا کروں گا آپ نے فرمایا یہ بھی بہت کم ہیں۔ اگر تم نے روزے رکھنے ہی ہیں تو حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے رکھ لو۔ میں نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! حضرت داؤد علیہ السلام کے روزے کیسے تھے؟ آپ نے فرمایا وہ ایک دن روزہ رکھ لیا کرتے تھے اور ایک دن چھوڑ دیا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمروؓفرماتے ہیں میں نے اُس وقت یہ سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے روزوں سے محروم کر دیا ہے لیکن اب میری عمر زیادہ ہوگئی ہے اور مجھ میں اِتنی طاقت نہیں رہی کہ ایک دن چھوڑ کر دوسرے دن روزہ رکھ سکوں۔ اگر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات نہ کی ہوتی تو میں روزے رکھنا چھوڑ دیتا۔ اب چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات ہوچکی ہے اِس لئے روزے رکھنے پر مجبور ہوں لیکن نفس میں روزے رکھنے کی طاقت باقی نہیں رہی۔ ۱؎
پھر صحابہؓ میں اس کے متعلق اتنا غلّو پایا جاتا تھا کہ ایک دفعہ الٰہی منشاء کے ماتحت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال کے روزے رکھنے شروع کئے یعنی افطاری کے وقت تھوڑی بہت چیز کھا کر روزہ کھول دیتے لیکن سحری کے وقت کچھ نہ کھاتے۔ صحابہؓ نے بھی آپ کی نقل میں یہ روزے رکھنے شروع کئے۔ آپ نے صحابہؓ کو منع کیا اور فرمایا میرے ساتھ خداتعالیٰ کا اَور معاملہ ہے، وہ مجھے خود کھلاتا پلاتا ہے تمہارے ساتھ اس کا وہ معاملہ نہیں۔۲؎ غرض صحابہؓ میں یہ رنگ پایا جاتا تھا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر کام کی نقل کرنے کی کوشش کرتے تھے لیکن احمدیوں میں یہ بات بہت کم پائی جاتی ہے۔ میں نے احمدیوں میں صرف پانچ سات آدمی ایسے دیکھے ہیں جو نفلی روزے رکھنے کے عادی ہیں۔
پس چاہئے کہ مہینہ میں ایک، دو، تین یاچار جتنے روزے بھی رکھے جا سکیں، رکھے جائیں۔ اِس سے دو فائدے ہوتے ہیں ایک تو روزے رکھنے والے کو ثواب ملتا ہے اور دوسرے اَور لوگوں میں بھی روزے رکھنے کی تحریک ہوتی ہے۔ روزہ رکھنے والا جب اپنے دوستوں سے ملے گا اور وہ اُسے کھانے کے لئے کوئی چیز پیش کریں گے تو وہ یہ کہہ کر کہ میرا روزہ ہے انکار کر دے گا، اِس سے اُنہیں بھی روزے رکھنے کی تحریک ہوگی۔
غرض رمضان کا مہینہ درحقیقت مؤمن کے لئے ٹریننگ کا زمانہ ہے اور یہ اس لئے آتا ہے تا اِس میں مشق کرنے کے بعد اِس سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ اِس لئے نہیں آتا کہ اِس کے گزر جانے کے بعد انسان بیٹھ جائے اور سمجھ لے کہ اس نے جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا۔ رمضان کی برکات بے شک بہت زیادہ ہیں لیکن یہ آتا اِسی لئے ہے تا ہمیں دوسرے دنوں میں بھی روزے رکھنے کی عادت ڈالے اور اپنے اور اپنے عزیزوں، دوستوں اور ہم مذہبوں کے لئے روحانی ترقیات کے حصول اور درجات کی بلندی کے لئے دعائیں کرنے کی عادت ڈالے۔ پس احباب کو رمضان المبارک سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوسرے ایام میں بھی نفلی روزے رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ (الفضل ۱۳؍ اپریل ۱۹۶۰ء)
۱؎ بخاری کتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم
۲؎ بخاری کتاب الصوم باب الوصال
کوشش کرو کہ اُردو ہماری مادری
زبان بن جائے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
کوشش کرو کہ اُردو ہماری مادری زبان بن جائے
(فرمودہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۴۹ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے خدام الاحمدیہ کے ایڈریس کے جواب میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :
’’قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ نے اپنی کارگزاری کی جو رپورٹ پڑھ کر سنائی ہے اِس پر مجھے اِس لحاظ سے خوشی حاصل ہوئی کہ یہاں کے خدام میں ایک حد تک بیداری پائی جاتی ہے اور وہ اپنے اس نام کی قدر کرتے اور اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے ہیں جو اُنہوں نے اپنے لئے اختیار کیا ہے۔ جیسا کہ احباب کو معلوم ہے چند دن سے مجھے دردِ نقرس دوبارہ شروع ہو گیا ہے جس کی وجہ سے زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا اِس لئے زیادہ لمبی باتیں بیان نہیں کر سکوں گا مگر پھر بھی میں چاہتا ہوں کہ اِس تقریب پر کچھ باتیں بیان کر دوں۔
سب سے پہلی بات جو ایڈریس کے ساتھ تو تعلق نہیں رکھتی لیکن نہایت اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں مختلف قوموں اور زبانوں کے اختلاط سے ایک زبان پیدا ہوئی جس کو اُردو کہتے ہیں۔ اِس زبان کی طرف ہندوستان میں بہت کم توجہ رہ گئی ہے بلکہ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ اِسے بالکل مٹا دیا جائے۔ پنجاب کا شہری طبقہ اِس کا بہت شائق چلا آتا ہے اور اِس میں علامہ اقبال اور حفیظ جالندھری جیسے بڑے بڑے شاعر پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اُردو زبان کی بہت خدمت کی ہے اور ان کی وجہ سے ہندوستان اور اس کے باہر اُردو زبان بہت مقبول ہوگئی ہے۔ مگر پنجاب کے عوام اور غیر تعلیم یافتہ اشخاص ابھی اِس سے بہت دُور ہیں اور اُنہیں اِس میں کلام کرنا دو بھر معلوم ہوتا ہے۔ اگر وہ اس میں بات کریں تو طریق گفتگو غیر زبان دانوں کا سا معلوم ہوتا ہے۔ یوں تو غیر مادری زبان میں گفتگو کرتے وقت ہمیشہ ہی مشکلات پیش آتی ہیں اور لازمی طور پر لہجہ میں فرق معلوم ہوتا ہے تا ہم اگر آپس میں اُردو زبان میں ہی گفتگو کی جائے تو اِس میں مہارت حاصل کر لینا کوئی مشکل امر نہیں۔ مثلاً میری مادری زبان اگرچہ اُردو ہے مگر میں نے پنجاب میں پرورش پائی ہے اس لئے میں یہ نہیں کہہ سکتا بلکہ یہ کہنا لغو ہوگا کہ میرا لہجہ دہلی والوں کا سا ہے۔
مجھے یاد ہے ایک دفعہ بچپن میں میں دہلی اپنی ایک نانی کو ملنے کیلئے گیا۔ مشہور مترجم قرآن مرزا حیرت صاحب ان کے بیٹے اور میرے ماموں تھے اُنہیں احمدیت سے حد درجہ کا تعصب تھا مگربہرحال چونکہ وہ میرے ماموں تھے اس لئے دوسرے رشتہ داروں نے مجھ سے کہا کہ اپنے ماموں مرزا حیرت صاحب کو بھی سلام کر آؤ۔ میری عمر اُس وقت تیرہ چودہ سال کی تھی۔ دہلی والوں کی عادت جیسے پان کی گلوری پیش کرنے کی ہے اُسی کے مطابق میری نانی صاحبہ نے بھی مجھے پان کی گلوری دی۔ دہلی میں یہ رواج ہے کہ پان میں چھالیہ زیادہ ڈالتے ہیں میں بھی اپنی والدہ صاحبہ کی وجہ سے پان کھایا کرتا ہوں لیکن چھالیہ زیادہ پڑا ہو تو اس کی میں برداشت نہیں کر سکتا۔ میں جتنا چھالیہ کھایا کرتا ہوں اس سے کلّہ بھرتا نہیں لیکن دہلی والے پان میں اتنا زیادہ چھالیہ ڈالتے ہیں کہ اسے کھاتے وقت کلّہ بھر جاتا ہے لیکن چونکہ وہ پان مجھے میری نانی نے دیا تھا اس لئے میں لینے سے انکار بھی نہیں کر سکتا تھا اس گلوری سے میرا کلّہ بھر گیا اور اُسی طرح میں اپنے ماموں مرزا حیرت صاحب کو ملنے کے لئے چلا گیا۔ ان کا دفتر باہر ایک چوبارہ پر واقع تھا۔ اُنہوں نے بھی مجھے پان کی ایک گلوری دے دی جس سے میرا دوسرا کلّہ بھی بھر گیا اور پھر جیسے بچوں سے باتیں کی جاتی ہیں اُنہوں نے مجھ سے دریافت کیا اچھا میاں! یہ تو بتاؤتم کونسی زبان میں باتیں کیا کرتے ہو اُردو میں یا پنجابی میں؟ اُس وقت تک میں پنجابی نہیں جانتا تھا اب تو تقریر بھی کر لیتا ہوں پھر میرے دونوں کلّے بھرے ہوئے تھے اور اُگالدان پاس تھا نہیں اس لئے میرے لئے بولنا مشکل ہو گیا اور اُنہوں نے جب پوچھا میاں! تم اُردو میں باتیں کرتے ہو یا پنجابی میں؟ تو میں نے بڑی مشکل سے جواب دیا کہ میں دونوں میں بات کر لیتا ہوں۔ کلّے چونکہ بھرے ہوئے تھے اس لئے اپنے مفہوم کو صاف طور پر ادا نہ کر سکا۔ مرزا حیرت صاحب احمدیت کے شدید مخالف تھے اور دہلوی ہونے کی وجہ سے غرور بھی تھا۔ وہ قہقہہ مار کر ہنس پڑے اور کہنے لگے بس بس مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ تم کس زبان میں بات کرتے ہو۔ یہ ہے تو ایک لطیفہ مگر یہ بات ظاہر ہے کہ ہم میں سے کسی کا یہ کہنا کہ اس کا لہجہ دہلی والوں کا سا ہے درست نہیں۔ ہماری مادری زبان اُردو ہے اور ہمارا خون دہلی والوں کا ہے بلکہ ان کا خون ہے جن کے خون سے اُردو بنا ہے۔ جیسے میر درد اور مرزا غالب لیکن بوجہ پنجاب میں پرورش پانے کے ہم میں ایسے آثار اور علامات پائی جائیں گی جن سے صاف معلوم ہوگا کہ ہم پورے ہندوستانی نہیں۔ بعض وقت محاوروں کا بھی اثر پڑ جاتا ہے بوجہ پنجابی ماحول ہونے کے بغیر خیال کے کوئی نہ کوئی پنجابی محاورہ منہ سے نکل جاتا ہے۔ ہم گھر میں عموماً بچوں سے مذاق کرتے ہیں وہ بات کرتے ہوئے بعض دفعہ پنجابی کے الفاظ بول جاتے ہیں۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ وہ الفاظ اُردو زبان کے نہیں لیکن غیرارادی طور پر ان کے منہ سے نکل جاتے ہیں۔
میں ایک دفعہ دہلی گیا۔ خواجہ حسن نظامی صاحب نے میری دعوت کی۔ مولوی نذیر احمد صاحب کے پوتے جو ذاتی رسالہ نکالتے ہیں اُن کے ماموں میرے ساتھ تھے اُنہوں نے میری کوئی تقریر سنی ہوئی تھی۔ اُنہوں نے میرے لحاظ یا تکلّف کی وجہ سے کہا کہ خواجہ صاحب! میں نے ان کی تقریر سنی ہے ان کا لہجہ بالکل دہلی والوں کا سا ہے اور یہ بالکل پنجابی معلوم نہیں ہوتے مگر خواجہ صاحب اپنے رنگ کے آدمی ہیں اُنہیں یہ بات بُری لگی اُنہوں نے کہا میں تو یہ بات نہیں مان سکتا۔ میں نے اِن کی کتابیں پڑھی ہوئی ہیں اِن میں بعض مقامات پر پنجابی محاورات استعمال ہوئے ہیں۔ لیکن آخر وہ بھی دہلوی تھے اُنہوں نے فوراً کہا۔ خواجہ صاحب! میں نے تقریر کا ذکر کیا تھا کتاب کا نہیں۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم تقریر میں بھی بعض پنجابی محاورات غیرارادی طور پر استعمال کر جاتے ہیں تا ہم متواتر بولنے اور ہمیشہ اُردو میں ہی گفتگو کرنے کی وجہ سے عادت ہو جاتی ہے۔
پس میں آپ کو ایک نصیحت تو یہ کروں گا کہ اُردو زبان کو نئی زندگی دو اور ایک نیا لباس پہنا دو۔ آپ لوگوں کو چاہیے کہ ہمیشہ اِسی زبان میں ہی گفتگو کیا کریں۔ جب ہم اُردو میں ہی گفتگو کریں گے تو لازمی بات ہے کہ بعض الفاظ کے متعلق ہمیں یہ پتہ نہیں لگے گا کہ اِن کو اُردو زبان میں کس طرح ادا کرتے ہیں۔ اس پر ہم دوسروں سے پوچھیں گے اور اِس طرح ہمارے علم میں ترقی ہوگی۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہوتی ہیں لیکن انسان کو بڑی عمر میں بھی اُن کی سمجھ نہیں آتی لیکن جب وہ ایک زبان میں گفتگو کرنا شروع کر دے تو ان پر عبور حاصل کر لیتا ہے۔ پس ہمارے نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ پنجابی زبان چھوڑ دیں اور اُردو کو جواَب بے وطن ہو گئی ہے اپنائیں۔ یہ بھی ایک بڑا مہاجر ہے جس طرح مہاجروں کو زمینیں مل رہی ہیں چاہیے کہ اِسے بھی اپنے مُلک میں جگہ دی جائے اور اِسے اتنا رائج کر دیا جائے کہ آہستہ آہستہ یہ ہماری مادری زبان بن جائے۔ میں اُن لوگوں میں سے نہیں جن کے خیال میں پنجابی زبان کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ میرے نزدیک اُردو زبان کو ہی ہمیں اپنی زبان بنا لینا چاہیے اور اِسے رواج دینا چاہیے۔ مُلک کے کناروں اور پہاڑوں پر کہیں کہیں پنجابی زبان باقی رہ جائے تو حرج نہیں۔ اگر کسی کو پنجابی زبان سننے یا بولنے کا شوق ہوگا تو وہ وہاں جا کر سن لے گا یا بول لے گا۔ بس میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ تم اُردو زبان کو اپناؤ اور اِس کو اتنا رائج کردو کہ یہ تمہاری مادری زبان بن جائے اور تمہارا لہجہ اُردو دانوں کا سا ہو جائے۔
دوسری چیز جس کے متعلق میں آپ لوگوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ علم کے بغیر کبھی صحیح عمل پیدا نہیں ہو سکتا۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ عمل کے بغیر بھی انسان حقیقی زندگی حاصل نہیں کر سکتا۔ عالم بے عمل کی مثال اُس گدھے کی سی ہے جس کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ لیکن اِس میں بھی کوئی شُبہ نہیں کہ اگر علم نہ ہو اور پھر انسان کوئی عمل کرے تو وہ غلط قسم کا ہوگا اور اس کی مثال اُس ریچھ کی سی ہوگی جس سے کسی آدمی کی دوستی ہوگئی اور وہ اُسے مکھیاں اُڑانے کے لئے اپنی ماں کے پاس بٹھا گیا۔ وہ مکھیوں کو اُس کی ماں کے منہ سے اُڑاتا لیکن وہ پھر آ بیٹھتیں۔ اُس نے خیال کیا کہ جو مکھی اُڑتی نہیں اُسے مار ڈالنا چاہیے۔ چنانچہ اُس نے ایک پتھر اُٹھایا اور مکھی پر دے مارا۔ وہ مکھی تو شاید مری یا نہ مری لیکن ماں مر گئی۔ اِسی طرح بے علم آدمی ایسی غلطیاںکر جاتا ہے کہ اُن کی اصلاح اور ازالہ مشکل ہوتا ہے۔ میں نوجوانوں کو اِس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اُن میں خصوصیت کے ساتھ کوئی ایسا آدمی نہیں ہونا چاہیے جو قرآن کریم کا ترجمہ نہ جانتا ہو۔ جس طرح ہر شخص وکیل تو نہیں بن سکتا لیکن مُلک میں صحیح طور پر امن اُس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک ہر شخص رائج الوقت قانون سے ایک حد تک واقف نہ ہو۔ ہر شخص چوہدری نذیر احمد یا سلیم نہیں بن جاتا مگر کچھ نہ کچھ قانون کا علم اُسے ہوتا ہے۔ مثلاً وہ جانتا ہے کہ اگر وہ چوری کرے گا تو اُسے سزا ملے گی۔ قانونی باریکیاں وہ نہیں جانتا ان کے لئے اُسے وکیلوں کے پاس جانا پڑتا ہے۔ اِسی طرح قرآن کریم کی باریکیوں کو تم بے شک علماء پر چھوڑ دو لیکن معمولی احکام تو ہر شخص کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور اُن کا جاننا اُس کا فرض ہے۔
میرے نزدیک جو شخص قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتا وہ حقیقی مسلمان نہیں۔ جب اُسے پتہ ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ نے کیا کہا ہے تو وہ اس پر عمل کیسے کرے گا۔ یہ غلط ہے کہ صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ہی قرآنی احکام ہیں۔ اِن کے علاوہ اور ہزاروں احکام سے قرآن کریم بھرا پڑا ہے۔ ان کے علاوہ کچھ فکری اور قلبی اعمال ہوتے ہیں پھر ان کا تعہد اور نگرانی کرنے والے اخلاق ہیں جب تک ان کا علم نہ ہو اور ان کے مطابق انسان کا عمل نہ ہو اُس وقت تک نہ نماز نماز رہتی ہے اور نہ زکوٰۃ زکوٰۃ رہتی ہے۔
بھیرہ کے مشہور تاجر تجارت کے لئے بخارا کی طرف جایا کرتے تھے اور بہت نفع حاصل کرتے تھے۔ جب ان کے پاس دولت زیادہ ہوگئی تو لالچ بھی بڑھ گیا اور زکوٰۃ دینے میں کوتاہی شروع کر دی۔ وہ بڑے بڑے تاجر تھے اور ہر ایک کی دس دس پندرہ پندرہ ہزار زکوٰۃ نکلتی تھی۔ اُن دنوں زکوٰۃ اِس طرح ادا کی جاتی کہ وہ سکوں یا سونے چاندی کے گھڑے بھر لیتے اور ان کے اوپر دو تین سیر گندم ڈال دیتے، پھر کسی طالبعلم یا مسجد کے مُلاّں کو گھر بُلاتے، کھلاتے پلاتے اور فراغت کے بعد گھڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے میاں! یہ سب کچھ تمہاری ملکیت ہے اور ساتھ ہی یہ کہہ دیتے تم اِسے اُٹھا کر کہاں لے جاؤ گے میرے پاس ہی فروخت کر دو۔ طالب علم اور مُلاّں یہ جانتے تھے کہ اُنہوں نے دینا تو کچھ بھی نہیں صرف ایک بہانہ ہے جو کچھ ملے لے لو۔ وہ کہتے اچھا پانچ سات روپے میں یہ گھڑا میں آپ کے پاس فروخت کرتا ہوں۔ اس طرح وہ زکوٰۃ بھی دے دیتے اور واپس بھی لے لیتے اور سمجھ لیتے ہم نے زکوٰۃ کے حکم پر عمل کر لیا ہے۔ اگر وہ لوگ سارا قرآن کریم پڑھتے تو اُنہیں اور احکام بھی معلوم ہو جاتے اور سمجھ لیتے کہ ہمارا یہ زکوٰۃ دینا محض دکھاوا اور خدا تعالیٰ سے دھوکا ہے اور ہم دُہرے عذاب کے مستحق ہیں۔
نماز کے متعلق بھی یہی بات ہے بعض نمازیوں کے متعلق خدا تعالیٰ نے ۱؎ فرمایا ہے یعنی ان کے لئے ہلاکت اور عذاب ہے۔ اگر ہر نماز نماز ہوتی تو خداتعالیٰ یہ کیوں کہتا۔ دراصل وہ لوگ ظاہری طور پر نماز تو ادا کرتے ہیں لیکن اسے شکل ایسی دے دیتے ہیں کہ وہ ان کے لئے بجائے موجب رحمت بننے کے موجب عذاب بن جاتی ہے۔ پس قرآن کریم کا ترجمہ جاننا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اور اگر تھوڑا سا بھی تعہد کیا جائے تو یہ کوئی مشکل امر نہیں۔ قرآن کریم کی باریکیاں سمجھنے کی توفیق ہر ایک کو نہیں ملتی جس پر خداتعالیٰ کا فضل ہو جائے وہی باریکیوں کو جان سکتا ہے۔
میری صحت بچپن سے ہی خراب ہے اور میرے متعلق بچپن سے ہی ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اگر یہ تیس سال کی عمر تک پہنچ گیا تو سمجھ لینا کہ بچ جائے گا یہی وجہ تھی کہ بچپن میں مجھ پر پڑھائی کیلئے کوئی دباؤ نہیں ڈالتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ اگر تم تین کام کرلو تو کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔ ایک تو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لو، دوسرے بخاریؒ پڑھ لو اور تیسرے کچھ طب پڑھ لو کیونکہ یہ ہمارا خاندانی شغف ہے۔ میں آپ سے ایک رُقعہ لکھوا کر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے پاس چلا گیا اور اُنہیں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے تم یہ تین چیزیں پڑھ لو باقی تمہاری صحت اجازت دے تو کچھ پڑھ لینا ورنہ ضرورت نہیں۔ آپ بہت ہی خوش ہوئے اور فرمایا میری تو دیر سے یہ خواہش تھی اور یہ تینوں چیزیں ایسی ہیں جو میں جانتا ہوں چنانچہ قرآن کریم کا ترجمہ میں نے آپ سے چھ ماہ میں پڑھا۔ میرا گلا چونکہ خراب رہتا تھا اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل مجھے پڑھنے نہیں دیتے تھے آپ خود ہی پڑھتے جاتے تھے اور میں سنتا جاتا تھا اور چھ مہینہ یا اس سے بھی کم عرصہ میں سارے قرآن کریم کا ترجمہ آپ نے پڑھا دیا۔ پھر تفسیر کی باری آئی تو سارے قرآن کریم کا آپ نے ایک مہینہ میں دَور ختم کر دیا۔ اِس کے بعد میں بھی آپ کے درسوں میں شامل ہوتا رہا ہوں لیکن پڑھائی کے طور پر صرف ایک مہینہ ہی پڑھا ہوں۔ پھر آپ نے مجھے بخاری پڑھائی اور تین مہینہ میں ساری بخاری ختم کرا دی۔ حافظ روشن علی صاحب بھی میرے ساتھ درس میں شامل ہوگئے تھے۔ وہ بعض دفعہ سوالات بھی کرتے تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل اُن کے جوابات دیتے تھے۔ حافظ صاحب ذہین تھے اور بات کو پھیلا پھیلا کر لمبا کر دیتے تھے۔ اُنہیں دیکھ کر مجھے بھی شوق آتا کہ میں بھی اعتراض کروں چنانچہ ایک دو دن میں نے بھی بعض اعتراضات کئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے اُن کے جوابات دیئے لیکن تیسرے دن جب میں نے کوئی اعتراض کیا تو آپ نے فرمایا۔ میاں! حافظ صاحب تومولوی آدمی ہیں وہ سوال کرتے ہیں تو میں جواب بھی دے دیتا ہوں لیکن تمہارے سوالات کا میں جواب نہیں دوں گا مجھے جو کچھ آتا ہے تمہیں بتا دیتا ہوں اور جو نہیں آتا وہ بتا نہیں سکتا۔ تم بھی خدا کے بندے ہو اور میں بھی خدا کا بندہ ہوں۔ تم بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمّت میں شامل ہو اور میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمّت میں شامل ہوں، اسلام پر اعتراضات کا جواب دینا صرف میرا ہی کام نہیں تمہارا بھی فرض ہے کہ تم سوچو اور اعتراضات کے جوابات دو مجھ سے مت پوچھا کرو۔ چنانچہ اِس کے بعد میں نے آپ سے کوئی سوال نہیں کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ قیمتی سبق یہی تھا جو آپ نے مجھے دیا۔ میں نے اعتراضات کرنے چھوڑ دیئے اور ان کے جوابات خود سوچنے شروع کئے جس سے مجھے بہت بڑا فائدہ ہوا۔ بعد میں میں نے کچھ کتابیں صَرف و نحو کی بھی پڑھیں لیکن بطور درس کے نہیں شغل کے طور پر پڑھیں۔ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہی ارشاد تھا کہ تم ترجمہ قرآن کریم، بخاری اور کچھ طب پڑھ لو لیکن میں تمہارے لئے اِس کا بھی خلاصہ بیان کر دیتا ہوں تم قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ لو، بخاری اور دوسری کتابیں تمہیں خود بخود آ جائیں گی۔
اگر کوئی شخص قرآن کریم کا ترجمہ نہیں پڑھتا تو میں تو یہ سمجھ ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کیسے قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم ایک خط ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو لکھا ہے لیکن وہ کیسا مسلمان ہے جو اسے پڑھتا نہیں بلکہ جیب میں ڈالے پھرتا ہے۔ کیا تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے کہ اُس کے ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچوں یا دوسرے عزیزوں کا خط آئے اور وہ اُسے جیب میں ڈال دے پڑھے نہیں؟ اگر تمہیںکسی عزیز کا خط ملتے ہی یہ شوق پیدا ہو جاتا ہے کہ میں اُسے پڑھوں تو یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ سے ہمیں محبت بھی ہو اور پھر وہ خط لکھے اور ہم پڑھیں نہیں۔ اگر واقعہ میں قرآن کریم خدا تعالیٰ کا خط ہے جو اُس نے اپنے بندوں کو لکھا ہے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ خط اس کے پاس ہو اور پھر وہ چپ کر کے بیٹھا رہے اس کا ترجمہ نہ سیکھے۔ میں نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے یہ مثال سنی ہے کہ جتنا کوئی اَن پڑھ ہوتا ہے وہ خط پڑھوانے کی زیادہ کوشش کرتا ہے۔ کسی بڑھیا کے پاس اس کے بیٹے کا خط آتا ہے تو وہ مُلاّں کے پاس جاتی ہے اور اُسے کہتی ہے میاں! میرے بیٹے کا خط پڑھ دو اور وہ خط پڑھ دیتا ہے تو اسے تسلی نہیں ہوتی۔ پھر وہ کسی اور کو دیکھتی ہے اور سمجھتی ہے کہ وہ پڑھا ہوا ہے تو وہ اُس کے پاس جاتی ہے اور کہتی ہے کہ میرے بیٹے کا خط سنا دو۔ اِسی طرح جب تک وہ سات آٹھ آدمیوں سے اپنے بیٹے کا خط نہیں سن لیتی اسے تسلی نہیں ہوتی۔
پس تم میں سے جتنے بھی اَن پڑھ ہیں اُنہیں دوسروں سے زیادہ سیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر کسی چیز کو سیکھنے کی کوشش کی جائے تو وہ ضرور آ جاتی ہے۔
ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ ایک بادشاہ کے وزیر تھے انہیں علم سیکھنے اور سکھانے کا بہت شوق تھا۔ اُنہوں نے شہر کے لوگوں سے کہا مجھے چالیس لڑکے دے دو اور انہیں بارہ سال تک میرے پاس رہنے دو۔ اس کے بعد وہ جو چاہیں کریں۔ لوگوں کو ان پر اعتبار تھا انہوں نے اپنے لڑکے دے دیئے۔ اس بزرگ نے ایک مکان لیا اور خود بھی اس میں آ گئے اور کچھ استاد رکھ لئے۔ ان کا طریق یہ تھا کہ وہ صبح کے وقت اُٹھتے اور قرآن کریم بچوں کے سامنے رکھ دیتے اور کہتے تلاوت کرو۔ اس کے بعد تہجد پڑھواتے پھر صبح کی نماز کا وقت ہو جاتا ان سے اذان دلواتے، اذان اور نماز کے درمیان انہیں قرآن کریم کی ایک آیت بتا دیتے اور کہتے اسے یاد کر لو۔ پھر صبح کی نماز پڑھواتے اور نماز کے بعد ایک حدیث یاد کراتے۔ اِس کے بعد انہیں باہر لے جاتے اور ورزش کرواتے۔ جب دھوپ سر پر آ جاتی تو اُنہیں دریا کے کنارے لے جاتے اور اُنہیں تیراندازی سکھاتے۔ جب ورزش اور تیراندازی کر کے واپس آ جاتے تو انہیں دو تین چھوٹے چھوٹے اسباق اِس رنگ میں دیتے کہ ایک چھوٹا سا مسئلہ نحو کا بتا دیا، ایک چھوٹا سا مسئلہ صَرف کا بتا دیا اور کسی بڑے شاعر کا ایک شعر بتا دیا اور اُس کی لغت یاد کرا دی۔ پھر ظہر کا وقت آ جاتا نماز پڑھواتے اور نماز کے بعد لڑکوں کو عربی کی کوئی ایک ضرب المثل یاد کرا دیتے، کوئی ایک فقہ کا مسئلہ بتا دیتے یا منطق کا کوئی مسئلہ بتا دیتے۔ پھر عصر کی نماز کا وقت آ جاتا عصر کی نماز پڑھواتے اور اس کے بعد انہیں باہر لے جاتے اور وہاں فنونِ جنگ کی مہارت کرواتے۔ اِس طرح وہ سارا دن انہیں مختلف کام سکھانے میں لگے رہتے۔ بارہ سال کے اندر اندر اُنہوں نے اِن لڑکوں کو قرآن و حدیث کا پورا ماہر بنا دیا، قرآن کریم کا حافظ بنا دیا، پورا منطقی اور پورا فقیہہ بنا دیا اور اس کے ساتھ اُنہیں پورا سپاہی بھی بنا دیا۔
غرض ایک ایک چیز کا روزانہ یاد کر لینا کوئی مشکل بات نہیں تم روزانہ چند آیات یاد کر لو تو بڑی آسانی کے ساتھ تھوڑے ہی عرصہ میں سارے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھ سکتے ہو۔ بعض آیات تو بہت چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں اگر انہیں دوسری چھوٹی آیات کے ساتھ ملا کر بڑی آیت کے برابر سمجھ لیا جائے اور اگر اڑھائی تین سطروں کا بھی روزانہ اندازہ رکھا جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ تم تین سال کے اندر اندر پورے قرآن کریم کا ترجمہ سیکھ سکتے ہو۔ یہ سکیم بچوں میں بھی شروع کرنی چاہیے اور اگر لجنہ اماء اللہ بھی اِس سکیم کو اپنا لے تو پھر مائیں اپنے بچوں کو قرآن کریم کا ترجمہ پڑھا سکتی ہیں۔ تم بے شک خادم ہو لیکن اگر تمہیں خدمت کے طریق کا ہی پتہ نہ لگے تو تم کرو گے کیا؟ بے شک پانی پلا دینا اور مسجد کی صفائی کر دینا بھی اچھے کام ہیں مگر قرآن کریم میں اور بھی ہزاروں احکام ہیں اور جب تم انہیں جانتے ہی نہیں تو تم ان پر عمل کیسے کر سکتے ہو۔ خادم کے لئے ضروری ہے کہ اسے آقا کی مرضی معلوم ہو۔
پس ایک نصیحت تو میں یہ کروں گا کہ تم اُردو میں گفتگو کرنے کی عادت ڈالو اور اتنی عادت ڈالو کہ تمہارا لہجہ اُردو دانوں کا سا ہو جائے۔ الفاظ اور محاورات کی اصلاح بعد میں ہو جائے گی۔ دوسری نصیحت میری یہ ہے کہ بے شک مخلوق کی خدمت کرو لیکن اگر تمہیں قرآن کریم کا ترجمہ نہیں آتا تو تم یہ کام پوری طرح نہیں کر سکتے۔ اگر تمہیں قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہے تو باقی سب چیزیں تمہارے لئے آسان ہو جائیں گی۔
چوہدری ظفراللہ خان صاحب جب شام میں گئے تو وہاں کے ایک وزیر نے اُن سے پوچھا کہ آپ نے کسی دینی مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا میں نے تو صرف قرآن کریم کاترجمہ پڑھا ہے جب قرآن کریم کا ترجمہ آتا ہو تو باقی سب مضامین آسان ہو جاتے ہیں۔ اس کے مضامین کو سمجھنے کے لئے دوسری کتابوں کے حوالوں کی ضرورت پڑتی ہے اور اس طرح ساری چیزیں آ جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کے بعد دوسرے علوم کا شوق خود بخود پیدا ہو جاتا ہے۔ ہمارا سارا علم تو ہے ہی قرآن۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف قرآن کریم ہی پڑھے ہوئے تھے۔
لاہور میں میرے پاس ایک دفعہ دو دیوبندی مولوی آئے ان میں سے ایک نے غصہ والی شکل بنا کر مجھ سے پوچھا آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا میں تو کچھ بھی پڑھا ہوا نہیںصرف قرآن کریم جانتا ہوں۔ اُس نے دوبارہ پوچھا۔ آپ بتائیں تو سہی آپ کیا پڑھے ہوئے ہیں؟ میں نے کہا آپ کے نزدیک جو پڑھائی ہے وہ میں نے نہیں کی میں صرف قرآن کریم کا ترجمہ جانتا ہوں۔ اُس نے کہا بس آپ صرف قرآن کریم کا ترجمہ ہی جانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں ترجمہ سے باہر کوئی چیز رہ جاتی ہو تو وہ میں نہیں جانتا۔ وہ غصہ میں تھا اور اُس نے میرا جواب نہ سمجھا۔ دوسرے مولوی نے اسے چٹکی بھرتے ہوئے کہا وہ کہہ تو رہے ہیں میں قرآن کریم پڑھا ہوا ہوں اور تم یہ ثابت کرکے کہ قرآن کریم سے باہر کوئی چیز ہے اپنی کم علمی اور بیوقوفی کا ثبوت دے رہے ہو۔
بہرحال یہ حقیقت ہے کہ قرآن کریم کے اندر سارے علوم آ جاتے ہیں۔ میں پرائمری فیل ہوں لیکن میں تمام مذاہب کو چیلنج کر کے کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا اعتراض ہو جس کا قرآن کریم کے ساتھ ٹکراؤ ہوتا ہو تو میں اس کا جواب دوں گا اور خالی جواب ہی نہیں دوں گا بلکہ اعتراض کرنے والے کو چپ کرا کے چھوڑوں گا۔ قرآن کریم کے اندر سارے گُر موجود ہیں اور اصل عقل گروں سے ہی آتی ہے۔ اگر تم قرآن کریم پڑھ لو تو تمہارے اندر وہ مادہ پیدا ہو جائے گا جس سے تم ہر قسم کے دشمن کا مقابلہ کر سکو گے اور تمہاری عقل اتنی تیز ہو جائے گی کہ دنیا کا کوئی علم ایسا نہیں ہوگا جس سے تم مرعوب ہو۔ پس قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے جس کی میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں۔
اس کے بعد میں آپ لوگوں کی خواہش کے مطابق دعا کروں گا۔ باقی خدام کو بھی اپنی دعاؤں میں شامل کر لیں بلکہ ساری دنیا کے لوگوں کو اپنی دعاؤں میں شامل کر لیں تا کہ وہ قرآن کریم سیکھیں اور اس پر عمل کریں۔ خواہ کوئی ہندو ہے یا کوئی عیسائی یا کسی اَور مذہب کا پیرو سب کو اسلام میں لانا ہمارا فرض ہے۔ اگر وہ قرآن کریم کو ماننے لگ جائیں، مخلوق کی خدمت میں لگ جائیں تو یہی دنیا جو جہنم نظر آتی ہے اور لڑائیوں کی جگہ بنی ہوئی ہے امن کا گہوارہ بن جائے۔
(الفضل ۱۲؍ اکتوبر ۱۹۶۰ء)
۱؎ الماعون: ۵
باقاعدگی سے نمازیں پڑھنے، اس کے اثرات پر غور کرنے اور دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنے کی عادت پیدا کرو
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
باقاعدگی سے نمازیں پڑھنے، اس کے اثرات پر غور کرنے اور دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنے کی عادت پیدا کرو
(لجنہ اماء اللہ کوئٹہ سے خطاب)
(فرمودہ ۱۸؍ اگست ۱۹۴۹ء بمقام یارک ہاؤس کوئٹہ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’سب سے پہلے تو میں لجنہ اماء اللہ کوئٹہ کو جس کے زیر انتظام یہ جلسہ ہو رہا ہے یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ وقت بھی خداتعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے۔ ہمارے مُلک کا پُرانا خیال یہی تھا کہ وقت کی پابندی نہ کرنا بڑے لوگوں کا کام ہے چنانچہ جتنے بڑے لوگ ہوتے تھے اُتنا ہی زیادہ وہ اپنے آپ کو وقت کی پابندی سے معذور سمجھتے تھے لیکن اب دنیا کا نظریہ بدل چکا ہے۔ دنیا نے تجربہ سے معلوم کر لیا ہے کہ کسی کا بڑا ہونا اُسے وقت کی پابندی سے آزاد نہیں کر دیتا بلکہ کسی شخص کے بڑا ہونے کیلئے یہ شرط ہے کہ وہ وقت کی زیادہ پابندی کرے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اوقات کی پابندی کیا کرتے تھے۔
آج مجھے یہ بات معلوم کر کے تعجب ہوا کہ اجلاس کا وقت پانچ بجے مقرر تھا حالانکہ کوئٹہ کے حالات کے مطابق عصر کی نماز سَوا پانچ بجے ہوتی ہے اِس لئے اجلاس کا وقت کسی صورت میں بھی چھ بجے سے پہلے مقرر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ آنے والی خواتین نے بھی اپنی عادت کے مطابق اجلاس میں شمولیت کے لئے کچھ وقت لیا ہے۔ میں نے پانچ بجے دریافت کیا تو مجھے بتایاگیا کہ ابھی بہت کم عورتیں آئی ہیں۔ یہ طریق غلط ہے اِس سے کام کرنے والوں کا بہت نقصان ہوتا ہے۔ کام کرنے والے لوگ تو وقت پر آ جاتے ہیں مگر گھنٹہ بھر اُنہیں انتظار کرنا پڑتا ہے اِس طرح اُن کا دوسروں سے زیادہ وقت ضائع ہوتا ہے حالانکہ چاہیے یہ تھا کہ جتنا کوئی شخص زیادہ سمجھ دار ہو اُس کا وقت ضائع نہ ہو اور جو لوگ پہلے ہی سست ہیں اُن کا وقت ضائع ہو جائے تو کوئی حرج بھی نہیں۔ اگر وقت کی پابندی کا خیال نہ رکھا جائے تو جو کام کرنے والے ہیں اور سلسلہ کے لئے زیادہ مفید ہیں وہ تو وقت پر آجاتے ہیں مگر اُن کا گھنٹہ بھر وقت انتظار میں خرچ ہو جاتا ہے اور پھر گھنٹہ بھر کام میں خرچ ہوتا ہے، پھر اُس کام کو ختم کرنے میں بھی کچھ وقت ضرور صَرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے اُن کا وقت دوسروں سے زیادہ ضائع ہوتا ہے۔
اٹلی کا مشہور لیڈر مسولینی ۱؎ جو پچھلی جنگ میں مارا گیا جب برسر اقتدار آیا اُس وقت اٹلی کا مُلک پیچھے رہ جانے والے مُلکوں میں شمار ہوتا تھا۔ بڑی حکومتوں میں اُس کا شمار نہیں تھا مُلک کی صنعت و حرفت ناقص تھی، تجارت میں وہ دوسرے یوروپین ممالک سے پیچھے تھا، اُس کی زراعت میں کوئی ترقی نہیں پائی جاتی تھی، یہ شخص ایک معمولی مستری کا لڑکا تھا اور شروع شروع میں اُس نے خود بھی مستری کا کام کیا۔ وہ سیاسیات میں داخل ہوا اور اُس نے ایک پارٹی بنائی جس کی مدد سے وہ حاکم بن گیا۔ گو وہ ہمیشہ ہی وزیر اعظم کہلایا مگر حقیقتاً وہ بادشاہ تھا۔ اس نے اپنے مُلک کی اتنی ہی مرض پہچانی کہ لوگ وقت کی پابندی نہیں کرتے۔ اُس نے حکم دے دیا کہ تمام لوگ وقت کی پابندی کیا کریں۔ اگر کوئی کارکن ایک منٹ بھی دفتر میں لیٹ آیا تو اُسے سزا دی جائے گی، اُس کا درجہ گرا دیا جائے گا یا اُسے معطل کر دیا جائے گا۔ یہ معمولی سی بات تھی لیکن میںنے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ اُس نے مُلک کی کایا پلٹ کر رکھ دی اور اِس چھوٹی سی اصلاح یعنی پابندیٔ وقت کی وجہ سے مُلک کا تمام نظام درست ہو گیا۔ مجھے اُس کی پابندیٔ وقت کا خود بھی تجربہ ہے۔ ۱۹۲۴ء میں ایک مذہبی کام کے لئے میں انگلینڈ گیا، راستہ میں اٹلی میں بھی ٹھہرنے کا موقع ملا۔ مسولینی کو برسرِ اقتدار آئے ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اُس سے بھی مُلاقات کروں اور دیکھوں کہ وہ کس قسم کا آدمی ہے۔ اُن دنوں سوشلسٹ پارٹی کا ایک مشہور لیڈر مسولینی کی پارٹی سے مارا گیا تھا۔ مسولینی کی پارٹی یہ کہتی تھی کہ وہ ڈر کر بھاگ گیا ہے لیکن دوسری پارٹی یہ کہتی تھی کہ وہ ڈر کر بھاگا نہیں بلکہ اُسے مارا گیا ہے۔ مہینوں سے دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ جھگڑا چلا آ رہا تھا۔ جس دن ہم وہاں پہنچے اُس سوشلسٹ کی لاش ایک قلعہ کی دیوار میں یا ایک مکان میں گڑی ہوئی ملی۔ قتل کرنے والوں نے دیوار کھود کر لاش اُس میں رکھ دی تھی۔ مسولینی اور اُس کی پارٹی کہہ رہی تھی کہ وہ لیڈر ڈر کر بھاگ گیا ہے اِس لئے لاش کے ایک دیوار یا مکان میں سے ملنے پر مخالف پارٹی کو یقین ہو گیا کہ مسولینی کی پارٹی نے ہی اُسے مارا ہے۔ اگر اُنہوں نے مارا نہ ہوتا تو اُنہیں چھپانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اِس حادثہ کی وجہ سے مسولینی کی نئی نئی قائم شدہ حکومت میں ایک زلزلہ آیا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جلد ٹوٹ جائے گی۔ میں نے جب انگریز سفیر برائے اٹلی کو کہلا بھیجا کہ وہ مسولینی سے میری ملاقات کا انتظام کرا دے تو اُس نے جواب میں یہ پیغام بھیجا کہ میں نے بعض اہم سرکاری کاموں کے لئے مسولینی کو ملاقات کا پیغام بھیجا تھا مگر وہ اِس نئے حادثہ کی وجہ سے اِس قدر پریشان ہے کہ اِس کے لئے وقت نہ نکال سکا۔ جب وہ سرکاری کاموں کے لئے وقت نہیںنکال سکا تو وہ دوسرے کاموں کے لئے کس طرح وقت نکال سکے گا۔ میں نے انگریزی سفیر کو کہلا بھیجا کہ وہ کوشش کرے اور اگر وقت مل جائے تو بہتر ہے۔ اُس کے کام اور میرے کام میں فرق ہے میں تو تھوڑے عرصہ کے لئے اِس مُلک میں آیا ہوں اور جلد چلا جاؤں گا لیکن وہ تو وہاں ہی رہے گا اور پھر کسی وقت وہ ملاقات کر سکتا ہے۔ شاید مسولینی اِس نقطۂ نگاہ سے ہی اِس معاملہ پر غور کر لے اور ملاقات کا موقع دے دے۔ انگریزی سفیر نے کہا بہت اچھا میں لکھتا ہوں۔ چنانچہ اُس نے مسولینی کو لکھا کہ ہمارے ہندوستان کے ایک مشہور مذہبی لیڈر یہاں آئے ہوئے ہیں اور وہ آپ کو ملنا چاہتے ہیں۔ دو تین گھنٹہ کے بعد اُس کا جواب آ گیا کہ مجھے اُن سے مل کر بہت خوشی ہوگی، وہ مجھے کل گیارہ بجے ملیں۔ مسولینی کا یہ طریق تھا کہ وہ صبح آٹھ بجے دفتر میں آ جاتا اور بارہ بجے تک دفتر میں کام کرتا، پھر دو بجے بعد دوپہر دفتر آتا اور شام تک کام کرتا۔ اُس دن اُس نے حکم دے دیا کہ وہ گیارہ بجے کے بعد کوئی کام نہیں کرے گا لیکن عجیب بات یہ ہوئی کہ میرے پرائیویٹ سیکرٹری کو یہ بات بھول گئی کہ اُنہوں نے وہاں جانے کے لئے انتظام کرنا ہے۔ دوسرے دن گیارہ بجنے میں پانچ منٹ باقی تھے کہ اُنہیں یاد آیا۔ وہ جلدی سے ہوٹل سے باہر آئے اور ایک موٹر کرایہ پر لے لی۔ میں نے اُن پر خفگی کا اظہار بھی کیا کہ اگر مسولینی کو ہمارا انتظار کرنا پڑا تو وہ ہمارے متعلق کیا خیال کرے گا۔ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے کہا مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ پھر ظلم پر ظلم یہ ہوا کہ موٹر ڈرائیور سوائے اطالین زبان کے دوسری زبان نہیں جانتا تھا اور ہم اطالین زبان نہیں جانتے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے اُسے بتایا کہ ہم نے وزیر اعظم کے ہاں جانا ہے۔ اطالین زبان میں وزیر اعظم کو اَل دولے کہتے ہیں۔ ہمیں اطالوی تلفظ اور لہجہ سے واقفیت نہ تھی اسی لئے ہم اِسی لفظ کو ڈیوک یا ڈیوکے کہتے تھے۔ وہ ڈرائیور کسی اور شخص کا نام سمجھ کر چکر لگا کر گیا اور ایک مکان پر جا کر موٹر روک لی۔ ہم نے دیکھا کہ وہاں پہرے وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں۔ پوچھا تو معلوم ہوا یہ کسی اور بڑے عہدہ دار کا مکان ہے۔ ہم نے اُسے پھر سمجھایا اور کہا ہماری مراد اِس شخص سے نہیں تھی۔ پھر یاد آیا کہ پریمیر کا لفظ اطالوی زبان کا ہے شاید مسولینی کو پریمیر بھی کہتے ہوں۔ ہم نے ڈرائیور سے کہا ہمیں پریمیر کے پاس لے چلو۔ اُس نے کہا آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ وہ ہمیں ایک اور محل پر لے گیا وہاں جا کر ہمیں معلوم ہوا کہ یہ بادشاہ کی رہائش گاہ ہے۔ اُس نے پریمیر کے معنی سب سے بڑا سمجھا اور ہمیں بادشاہ کے مکان پر لے گیا۔ ہم نے پھر مختلف نام لے کر اُسے مسولینی کے ہاں جانے کو کہا۔ بڑی مشکل کے بعد اُس نے کہا اچھا آپ نے اَل دولے کے پاس جانا ہے۔ ہم نے کہا کچھ ہو وہاں پہنچو تو سہی۔ ہم جب وہاں پہنچے تو مسولینی کا پرائیویٹ سیکرٹری دروازہ پر کھڑا تھا۔ اُس کا رنگ زرد ہو رہا تھا مسولینی نے ہمیں ملاقات کے لئے گیارہ بجے سے بارہ بجے تک ایک گھنٹہ وقت دیا تھا۔ ہم آدھ گھنٹہ لیٹ پہنچے اُس کے پرائیویٹ سیکرٹری کی حالت اتنی خراب تھی کہ وہ سخت گھبرایا ہوا تھا اور ڈر کے مارے مسولینی کے کمرے میں نہیں جاتا تھا۔ اُس نے کہا آپ نے کیا کیا میں تو اب مارا جاؤں گا۔ ہم نے کہا اِس میں تمہارا کیا قصور ہے ہم ہی لیٹ ہوگئے ہیں۔ بہرحال ہم مسولینی کے کمرے میں چلے گئے۔ وہ آدھ گھنٹہ سے کام چھوڑ کر ہمارے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا۔ ہم نے اُسے بتایا کہ ہمارے ساتھ یہ واقعہ ہواہے چونکہ ہم باہر کے آدمی تھے اِس لئے اُس نے دیر کو برداشت کر لیا ورنہ اُس کا سیکرٹری یہ سمجھتا تھا کہ میں ڈِس مِس ہو جاؤں گا۔ سو تمہیں بھی پابندیٔ وقت کی عادت ڈالنی چاہیے اور اجلاس کے لئے ایسا وقت مقرر کرنا چاہیے جس کی پابندی ہو سکے۔
اِس کے بعد میں تمہیں اِس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انسانی زندگی کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ ایک غذائی پہلو ہوتا ہے جس میں انسان غذا سے طاقت حاصل کرتا ہے اور دوسرا پہلو اُس کی فعالی حیثیت ہوتی ہے جس میں وہ حاصل کی ہوئی طاقت کو استعمال کرتا ہے۔ مثلاً بجلی کوئلہ کے ساتھ پیدا کی جاتی ہے، مشین کوئلہ کھاتی ہے اور اُس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ ہم بٹن دباتے ہیں اور بجلی سے کام لیتے ہیں اور جہاں بجلی نہیں ہوتی وہاں غذائی اور فعالی دونوں پہلو تیار کئے جاتے ہیں۔ مثلاً لالٹین ہوتی ہے اِس میں ہم تیل ڈالتے ہیں یہ اِس کا غذائی پہلو ہے۔ پھر ہم بتی کو دِیا سلائی لگا کر روشن کرکے اس سے کام لیتے ہیں یہ اس کا فعالی پہلو ہوتا ہے۔ یہی حالت انسانی جسم کی ہے کوئی انسان خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو ایسا نہیں گزرا جو کھاتا پیتا نہ ہو۔ تم میں سے ہر بوڑھا، جوان، بچہ، عورت اور مرد غذا کھاتا ہے خواہ وہ غذا اچھی ہو یا بُری، چاول ہو یا گندم، گوشت ہو یا ترکاری، وہ غذا کھاتا ضرور ہے۔ اگر وہ غذا نہ کھائے تو اُس کا جسم مر جائے گا اور طاقت قائم نہیں رہے گی۔ غذا کھانے کے بعد وہ کام کرتا ہے۔ کوئی تاجر ہوتا ہے وہ تجارت کرتا ہے، کوئی مزدور ہوتا ہے وہ مزدوری کرتا ہے، کوئی سرکاری ملازم ہوتا ہے وہ ملازمت کرتا ہے غرض نوکری، زراعت اور تجارت سب کاموں کی بنیاد روٹی پر ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص کھانا نہ کھائے تو اُس کا جسم بے کار ہو جائے گا اور وہ کوئی کام نہیں کر سکے گا۔ انگریزی زبان کا مقولہ ہے کہ فوج پیٹ پر لڑتی ہے اگر پیٹ ہی بھرا ہوا نہ ہوگا تو کوئی سپاہی لڑے گا کیا؟ غرض پہلے انسان غذا کھاتا ہے اور پھر اُس سے جو طاقت حاصل ہوتی ہے اُس سے کام کرتا ہے یہی حالت دین کی ہے۔ دین میں بھی ایک حصہ غذائی ہوتا ہے اور ایک فعالی حصہ ہوتا ہے۔ جس طرح جسم کی طاقت کے قیام کے لئے روٹی، چاول، سبزی اور ترکاری وغیرہ اشیاء مقرر ہیں اور جس طرح ہم دن میں چار پانچ دفعہ کھاتے پیتے ہیں، اِسی طرح روح کو زندہ رکھنے کے لئے بھی خداتعالیٰ کی طرف سے کچھ چیزیں مقرر ہیں۔ مثلاً نماز ہے، روزہ ہے، زکوٰۃ ہے، صدقہ و خیرات ہے، ذکرِالٰہی ہے یہ سب روح کی غذائیں ہیں۔ جس طرح روٹی کے بغیر جسم زندہ نہیں رہ سکتااِسی طرح ان چیزوں کے بغیر روح بھی زندہ نہیں رہ سکتی۔ تم یہ کبھی نہیں کہہ سکتے کہ فلاں آدمی نے ۶۰ دن تک کھانا نہیں کھایا اور پھر وہ زندہ رہا۔ اگر کوئی شخص تمہارے سامنے یہ بات بیان کرے کہ فلاں شخص چھ ماہ سے کمرے میں بند کیا ہوا ہے اُسے روٹی اور پانی نہیں دیا گیا وہ سخت گھبرایا ہوا ہے اور چاہتا ہے کہ اُسے باہر نکالا جائے تو تم کہو گی جو شخص چھ ماہ سے بغیر کھائے پیئے اندر بند ہے وہ کیا زندہ رہ بھی سکتا ہے۔ لیکن تم بڑے اطمینان سے یہ بات کہہ دیتی ہو کہ فلاں شخص دس سال تک نماز کے قریب بھی نہیں گیا اور اُس کی رُوح زندہ ہے، فلاں شخص دس سال سے روزے نہیں رکھتا اور اُس کی رُوح زندہ ہے، فلاں شخص دس سال سے زکوٰۃ نہیں دیتا اور اُس کی روح زندہ ہے، فلاں شخص پر حج فرض ہے وہ حج نہیں کرتا اور اُس کی رُوح زندہ ہے۔ فلاں شخص ذکرِ الٰہی نہیں کرتا اور اُس کی روح زندہ ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جسم کی غذا کے متعلق تو تم یہ خیال کرتی ہو کہ غذا کے بغیر انسان چوتھے پانچویں دن مَر جاتا ہے لیکن روحانی غذا کے متعلق تم یہ خیال کرتی ہو کہ روح دس سال کے بعد بھی زندہ رہتی ہے۔ جس طرح غذا نہ ملنے کی وجہ سے جسم مر جاتا ہے اُسی طرح روحانی غذا نہ ملنے کی وجہ سے روح بھی مر جاتی ہے۔ انسان کھاتا پیتا ضرور ہے لیکن یاد رکھو اِس کا اصل مقصود کھانا پینا نہیں۔ ظاہری طور پر جو چیز تمہیں نظر آ رہی ہے وہ تو بشر ہے جیسے گھوڑے، گائے اور بکری وغیرہ کھاتے پیتے ہیں اور وہ انسان نہیں کہلاتے اِسی طرح صرف کھانے پینے کی وجہ سے انسان انسان نہیں کہلاتا۔ انسان اُسی کو کہتے ہیں جس میں خداتعالیٰ سے ملنے کی قابلیت پائی جاتی ہو۔
انسان اُنس سے ہے اور اُنس کے معنی محبت کے ہیں۔ عربی کا یہ قاعدہ ہے کہ جب کسی اسم کے آگے الف اور نون لگا دیا جائے تو اُس کے معنی دو کے ہو جاتے ہیں۔ مثلاً مُؤْمِنٌ اسلام لانے والا ایک مرد ہے۔ اور مُؤْمَنِانِ ایمان لانے والے دو مرد ہیں۔ مُسْلِمٌ اسلام لانے والا ایک مرد ہے۔ مُسْلِمَانِ اسلام لانے والے دو مرد ہیں۔ اِسی طرح لفظ اُنْس کے معنی ہیں محبت۔ اور جب اس کے آگے الف اور نون لگا دیا جائے تو اِس کے معنی ہو جائیں گے دو محبتیں۔ چنانچہ انسان کو انسان اِسی لئے کہتے ہیں کہ اِس کے اندر دو محبتوں کا مادہ پیدا کیا گیا ہے۔ ایک تو بنی نوع انسان کی محبت ہے اور دوسرے خداتعالیٰ کی محبت۔ بنی نوع انسان کی محبت میں بیوی کی محبت بھی شامل ہوتی ہے، بچوں کی محبت بھی شامل ہے، ماں، باپ، رشتہ داروں اور دوستوں کی محبت بھی شامل ہوتی ہے، اپنے مُلک والوں کی محبت بھی شامل ہوتی ہے۔ دوسری محبت خداتعالیٰ کی ذات سے ہوتی ہے۔ جب کسی بشر میں یہ دونوں محبتیں کامل طور پر پائی جاتی ہوں تو اُسے انسان کہتے ہیں۔ غرض ایک طرف انسان، بنی نوع انسان یعنی قوم، مُلک اور خاندان کی خدمت کرتا ہے تو دوسری طرف وہ عشق الٰہی میں مبتلا ہوتا ہے، کسی بشر کو چلتا پھرتا یا سانس لیتا ہوا دیکھ کر اُسے انسان نہیں کہتے۔ وہ صرف بشر ہے یعنی زمین پر چلنے پھرنے والا ایک جانور۔ وہ انسان نہیں کیونکہ اس میں خداتعالیٰ کی محبت نہیں پائی جاتی۔ ایک محبت والے کو انسان نہیں کہتے۔ ایک طرف سے محبت کرنے والا تو جانور بھی ہوتا ہے۔ گائے، بھیڑیں اور گھوڑے بھی بچے سے محبت کرتے ہیں حتیّٰ کہ چیونٹی اور مکھیاں بھی اپنے بچوں سے محبت کرتی ہیں۔ پھر محض بیوی اور خاوند کی آپس میں محبت ہونے کی وجہ سے انسان انسان کس طرح کہلا سکتا ہے۔ یہ لفظ تو صرف اُس جانور کے لئے بولا جاتا ہے جس میں دو محبتیں پائی جاتی ہوں۔ ایک طرف اس میں خداتعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہو اور دوسری طرف بنی نوع انسان کی محبت پائی جاتی ہو۔خدا تعالیٰ کی محبت جسم سے نہیں ہوتی۔ خداتعالیٰ روحانی ہے جسمانی نہیں۔ تم اپنے بھائی اوربچے کو تو گود میں لے کر پیار کر سکتی ہو لیکن خداتعالیٰ کو جسم سے پیار نہیں کر سکتیں۔ خداتعالیٰ ایک وراء الوراء ہستی ہے جس کو نہ تم مادی آنکھوں سے دیکھ سکتی ہو نہ مادی کانوں سے، تم اُس کی آواز سُن سکتی ہو نہ تمہارے مادی ہاتھ اُسے چھو سکتے ہیں۔ وہ اعلیٰ درجہ کی اور وراء الوراء ہستی ہے۔ اُس سے محبت کی جا سکتی ہے تو دل اور روح سے۔ اور جس کی روح مردہ ہے وہ خداتعالیٰ سے محبت کیا کرے گی۔ جس روح نے کھانا نہیں کھایا وہ زندہ کس طرح ہو سکتی ہے۔ اور اگر وہ زندہ نہیں تو مردہ روح محبت نہیں کر سکتی۔ مردہ ماں کے سامنے خواہ تم اُس کے بچے کو ذبح کر دو وہ اس کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکے گی۔ ایک بکری اپنے بچے کی حفاظت کی خاطر کوشش کرے گی، ایک مرغی اپنے بچے کی خاطر کوشش کرے گی لیکن مردہ عورت اپنے بچے کے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتی اِس لئے کہ وہ مر چکی ہے اور وہ اپنے بچہ کی تکلیف کو محسوس نہیں کر سکتی۔ اِسی طرح اگر کسی کی روح مر جائے تو اِس کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ وہ محبت کر سکتا ہے سراسر بیوقوفی ہے۔ خداتعالیٰ سے محبت وہی کر سکتا ہے جس کی روح زندہ ہو اور روح تبھی زندہ رہ سکتی ہے جب اُسے غذا ملے۔ اور اُس کی غذا روٹی نہیں روح کھانا نہیں کھاتی، پانی نہیں پیتی، اُس کی غذا نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور ذکرِ الٰہی وغیرہ ہے۔ یہ چیزیں انسانیت کو قائم رکھنے کے لئے ضروری ہیں۔
جب میں کہتا ہوں کہ نماز کی پابندی کی جائے تو اِس کا یہ مطلب نہیں کہ تم پانچ نمازوں میں سے چار پڑھو یا ہفتہ کی ۳۵ نمازوں میں سے ۳۴ نمازیں پڑھو یا سال بھر کی ۱۸۰۰ نمازوں میں سے ۱۷۹۹ نمازیں پڑھو اِس کو پابندی نہیں کہتے۔ جب میں کہتا ہوں کہ نماز کی پابندی کی جائے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم سال کی ۱۸۰۰ نمازیں پوری کی پوری پڑھو۔ جسم فاقہ برداشت کر سکتا ہے لیکن رُوح فاقہ برداشت نہیں کر سکتی۔ تین دن کے فاقہ کے بعد بھی تمہارے جسم میں طاقت باقی رہ جائے گی۔ بعض لوگ دس دس بارہ بارہ دن فاقے کے بعد بھی زندہ رہتے ہیں لیکن روح ایک لطیف چیز ہے جو ایک فاقہ بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ اگر سال میں ایک نماز بھی چھوڑدی جائے تو روح مر جائے گی۔ اِس وجہ سے علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ جان بوجھ کر چھوڑی ہوئی نماز کی قضاء نہیں۔ مثلاً ظہر کی نماز کا وقت آ جائے اور تم جان بوجھ کر نہ پڑھو، بیمار ہو، سو رہے ہو، یا کوئی اَور روک پیدا ہو جائے تو اَور بات ہے لیکن اگر نماز کا وقت ہو اور تم بِالارادہ نہ پڑھو تو وہ دوبارہ ساری عمر نہیں پڑھی جائے گی۔ غرض ایک چھوڑی ہوئی نماز بھی روحانیت کو ہلاک کر دیتی ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں ہم اللہ کے فضل سے نماز پڑھتے ہیں ہاں کبھی کبھار کوئی نماز رہ جائے تو رہ جائے حالانکہ کبھی کبھار نماز کا رہ جانا بھی نماز نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی پابندی کی اتنی تاکید کی ہے کہ آپ جیسا رحیم و کریم انسان جو محبت میں چور رہتا تھا، کہتا ہے میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی جگہ کسی اَور کو امام مقرر کر دوں اور کچھ آدمیوں کے سروں پر لکڑیاں رکھ دوں اور پھر اُن سب لوگوں کے گھروں کو جو عشاء اور فجر کی نمازیں مسجد میں ادا نہیں کرتے مکینوں سمیت جلا دوں۔۲؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بے نمازوں کے متعلق نہیں کہی بلکہ ایسے پڑھنے والوں کے متعلق کہی ہے جو قاعدہ کے مطابق مسجدوں میں آکر نماز ادا نہیںکرتے۔ آپ نے ایسا کیا نہیں کیونکہ دین میں جبر جائز نہیں صرف نفرت کے اظہار کے لئے آپ نے ایسا کہا۔ ویسے آپ بادشاہ بھی تھے اور اگر ایسا کرنا چاہتے تو کر سکتے تھے۔ اِس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ نے صرف اظہارِ نفرت فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کے گھروں کو جَلا دوں وہ ہمارے شہر میں رہنے کے قابل نہیں۔ بچہ اور بیمار کے لئے جائز ہے کہ وہ گھر میں نماز ادا کر لے لیکن دوسرے مردوں کے لئے جو بِلاعذر مسجد میں نماز ادا نہیں کرتے، بھاری گناہ ہے۔
اب تم دیکھ لو کہ ہمارے مُلک میں کتنے وہ لوگ ہیں جو مسجدوں میں آ کر نماز ادا کرتے ہیں، ایک فیصدی بھی نہیں۔ عورتوں کے لئے مسجد میں آ کر نماز ادا کرنا ضروری نہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ اگر ممکن ہو اور عورتیں مسجد میں آ کر نماز ادا کر لیں تو اچھا ہے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کے لئے مسجد میں نماز ادا کرنا فرض نہیں۔ ہاں اگر وہ پڑھ لیں تو منع نہیں۔ بہرحال عورتوں کے لئے مسجد میں نماز ادا کرنا فرض نہیں بعض کے نزدیک جائز ہے۔ بعض کے نزدیک اگر ممکن ہو اور مسجد میں جا کر نماز ادا کرلیں تو عام ثواب سے اُنہیں زیادہ ثواب ملے گا۔ لیکن مردوں کے متعلق یہ فتویٰ ہے کہ اگر وہ مسجد میں جا کر نماز ادا نہ کریں تو اُنہیں عذاب ملے گا۔ اگر مسجد میں جاکر وہ نماز پڑھیں گے تو اُن کی اصلی نماز سمجھی جائے گی لیکن موجودہ حالات میں عورتیں تو مسجد میں جا کر نماز کیا پڑھیں گی مرد بھی اتفاقی حادثہ کے طور پر مسجد میں جاتے ہیں۔ آجکل یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ مسجد میں نماز ادا کرنا تنخواہ دار امام یا مؤذّن کا کام ہے یا وہ مسافر جو غریب ہو اور وہ مسجد میں آ کر ٹھہر جائے، وہ نماز پڑھ لے۔ یا وہ شخص جس نے ووٹ لینے ہوں وہ نماز مسجد میں پڑھ لے اَور لوگ نماز پڑھنا ضروری نہیں سمجھتے۔
میں جب مصر گیا تو وہاں قاہرہ کی جامع مسجد دیکھنے گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بہت بڑی مسجد ہے اُس میں پچاس ہزار کے قریب آدمی آ سکتے ہیں۔ اِتنی بڑی مسجد میں ایک امام پانچ چھ آدمیوںکو ساتھ لے کر ایک کونہ میں کھڑا نماز ادا کر رہا ہے۔ وہ محراب میں نہیں کھڑا تھا۔ مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی میں نے اُس مولوی سے پوچھا کہ جب محراب ہے تو تم ایک کونہ میں کھڑے ہو کر نماز کیوں ادا کر رہے ہو؟ اُس نے کہا قاہرہ کی دس لاکھ کی آبادی ہے (اب ۲۵،۳۰ لاکھ کے قریب آبادی ہے) دس لاکھ میں سے اگر معذوروں کو نکال دیا جائے تب بھی دواڑھائی لاکھ آدمی ایسا ہوگا جو مسجد میں آ کر نماز ادا کر سکتا ہے اور اگر شہر کے دُور دراز حصوں کو نکال دیا جائے تب بھی ۴۰،۴۵ ہزار آدمی مسجد میں آ کر نماز ادا کر سکتے ہیں۔ میں کونہ میں اِس لئے نماز ادا کر رہا ہوں تا غیر مذہب کا اگر کوئی آدمی آ جائے اور مجھے محراب میں کھڑا نماز پڑھتے دیکھے تو وہ یہ خیال نہ کرے کہ یہ شہر کی جماعت ہے اور شہر میں صرف چار پانچ آدمی ہیں جو مسجد میں آ کر نماز ادا کرنا ضروری خیال کرتے ہیں۔ میں کونہ میں کھڑا اِس لئے نماز پڑھ رہا ہوں تا وہ سمجھے کہ اصل نماز تو ہوگئی ہے یہ لیٹ آنے والے لوگ ہیں۔ غرض آجکل ایک فیصدی بھی ایسے مسلمان نہیں پائے جاتے جو مسجد میں جا کر نماز پڑھنا ضروری خیال کرتے ہوں۔ سرکاری دفاتر میں ان کی طرف سے بھی نماز باجماعت کا کوئی انتظام نہیں۔ سرکاری اداروں کی طرف سے یہ شائع کیا جاتا ہے کہ عید کی نماز میں بڑے بڑے افسر شامل ہوئے لیکن کیا عید اور جمعہ کی نمازیں کسی اَور خدا نے بنائی ہیں؟ اور روزانہ پانچ نمازیں کسی اور خدا نے بنائی ہیں؟ جس خدا نے عید اور جمعہ کی نمازیں مقرر کی ہیں اُس خدا نے روزانہ پانچ نمازیں بھی مقرر کی ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ عید اور جمعہ کا حکم تو مان لیتے ہیں اور روزانہ پانچ نمازوں والا حکم نہیں مانتے۔ عید اور جمعہ کی نمازوں میں لوگ چونکہ کثرت سے آتے ہیں اِس لئے بڑے بڑے لوگ شہرت کی خاطر وہاں چلے جاتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو نماز باجماعت ادا کرتے ہیں مگر ایسے لوگ بہت کم ہیں۔ عام لوگ صرف اپنے اعمال پر پردہ ڈالنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ یہ خرابی مسلمانوں میں مردوں میں بِالعموم اور عورتوں میں بِالخصوص پائی جاتی ہے۔ عورتیں کہتی ہیں کیا کریں، بچے ہیں، گھر کا کام ہے اِس لئے نماز نہیں پڑھ سکتیں۔ بھلا ایسا بھی کوئی گھر ہے جو بچوں سے خالی ہو؟ یا ایسی عورت ہے جس کو گھر کا کام نہ ہو؟ مرد باہر کا کام کرتا ہے اور عورت گھر کا کام کرتی ہے یہ کوئی ایسا بات نہیں جو نماز میں روک پیدا کر سکے۔
پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ نماز روحانی غذا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم نمازیں پڑھو، یہ حکم قرآن کریم میں پہلے سے موجود ہے، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ روزے رکھو یہ حکم قرآنِ کریم میں پہلے سے موجود ہے، میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ زکوٰۃ دو، حج کرو یہ احکام تمہیں پہلے سے معلوم ہیں۔ اگر تمہیں معلوم ہیں اور معلوم ہونے کے بعد تم اِن میں کوتاہی کرتی ہو تو اِس کا علاج میرے قبضہ میں نہیں۔ میں صرف ایک بات بتانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، ذکرِ الٰہی وغیرہ روحانی غذائیں ہیں۔ جس طرح تمہارا جسم غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اِسی طرح تمہاری روح بھی غذا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ تمہارا جسم بے شک زندہ رہے گا لیکن تمہاری رُوح کے اندر یہ قابلیت نہیں رہے گی کہ تم خدا تعالیٰ سے مل سکو۔ وہ فضل جو عام ہے مثلاً کھانا وغیرہ ملنا یہ ایک الگ چیز ہے۔ خداتعالیٰ کی محبت وہ ہوتی ہے کہ اس سے ایسا تعلق پیدا ہو جائے کہ کسی نہ کسی رنگ میں وہ اپنی مرضی ظاہر کرتا رہے اور یہ چیز اِن چیزوں کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ مردہ زندہ والا کام نہیں کر سکتا۔
پس ایک نصیحت میں تمہیں یہ کروں گا کہ تم روح کی غذائی حالت کو بہتر بناؤ۔ جس طرح تم چاہتی ہو کہ تمہارا جسم زندہ رہے، تم بیمار اور کمزور ہو جاتی ہو تو دوائیں کھاتی ہو، یخنی پیتی ہو، مقویات استعمال کرتی ہو یا اگر کسی کا جگر خراب ہو تو وہ سبزیوں کا استعمال زیادہ کرتی ہے اسی طرح اگر تمہاری روح کمزور ہے تو اُس کی تقویت کا انتظام کرو۔ اگر صرف نماز سے سرور نہیں ہوتا تو ذکرِ الٰہی کرو، اگر صرف زکوٰۃ سے سرور پیدا نہیں ہوتا تو صدقہ خیرات کرو، پیٹ بھرنے کا آخر یہی قاعدہ ہے کہ اگر دس لقموںسے پیٹ نہیں بھرتا تو پانچ لقمے اور کھاؤ۔ یہی روح کا حال ہے۔ اگر صدقہ سے روح میں تازگی پیدا نہیں ہوتی تو اَور صدقہ دو۔ اگر پانچ نمازوں سے روح میں تازگی پیدا نہیں ہوتی تو چھ نمازیں پڑھو۔ اور اگر پھر بھی تازگی پیدا نہیں ہوتی تو سات نمازیں پڑھو۔ نماز چھوڑ دینے سے روح تازہ نہیں ہوتی بلکہ نمازیں زیادہ پڑھنے سے روح میں تازگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ روح کا ایک غذائی پہلو ہے جس کی طرف میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں۔
انسانی زندگی کا دوسرا پہلو فعالی ہے۔ انسان جو غذا کھاتا ہے اس سے جسم میں طاقت پیدا ہوتی ہے اور وہ کام کرتا ہے۔ اگر کوئی شخص کھانا کھانے کے بعد بستر پر لیٹ رہے اور کوئی کام نہ کرے تو دیکھنے والے یہی کہیں گے کہ اس میں اپنے جسم سے صحیح کام لینے کا مادّہ نہیں۔ اسی طرح یہ روحانی غذائیں ہیں اِن سے طاقت حاصل کر لینے کے بعد انسان کو اَور کام بھی کرنا پڑتا ہے۔ جو شخص نماز پڑھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنا کام کر لیا یا روزے رکھ کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنا کام کر لیا یا صدقہ خیرات دے کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنا کام کر لیا۔ وہ ایسا ہی بیوقوف ہے جس طرح وہ شخص جو کہے میں نے روٹی کھالی، پانی پی لیا تو زندگی کا کام پورا کر لیا۔ کھانا پینا زندگی کے کام نہیں بلکہ اُسے کام کے قابل بنانے کے لئے غذائیں ہیں۔ اِسی طرح یہ روحانی کام بھی انسانی زندگی کا مقصود نہیں، نہ جسمانی زندگی کا مقصود کھانا پینا ہے اور نہ روحانی زندگی کا مقصود نماز روزہ وغیرہ ہے۔ یہ دونوں سہارے ہیں ایک جسم کے لئے اور ایک روح کے لئے۔ ایک سے جسم کام کے قابل بنتا ہے اور دوسرے سے روح کام کے قابل بنتی ہے۔ جسم میں جب طاقت پیدا ہوتی ہے تو انسان نوکری کرتا ہے، تجارت کرتا ہے اور دنیا کے دوسرے کام کرتا ہے۔ اِسی طرح جب انسان کو روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے وہ مختلف کام کرتا ہے۔ وہ کام کیاہیں؟ وہ کام دو قسم کے ہیں۔ ایک تو اس کا کام مخفی ہوتا ہے اور وہ خداتعالیٰ کی محبت میں ترقی کرنا ہوتا ہے۔ دوسرا کام انسانی دماغ کی اصلاح اور اُس کی فکر کی اصلاح اور اُس کے خیالات و جذبات کی اصلاح ہے۔ جس طرح روٹی کھانے کے نتیجہ میں انسان ہل چلاتا ہے، تجارت کرتا ہے، صنعت و حرفت کرتا ہے، مزدوری کرتا ہے۔ انسان کے جسم میں طاقت ہو تبھی وہ اچھا سپاہی ،اچھا وکیل اور اچھا مدرِّس بن سکتا ہے۔ اِسی طرح روحانی غداؤں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور ذکرِ الٰہی وغیرہ کے نتیجہ میں انسان کو روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے اور اس طاقت کے نتیجہ میں اُس کے اخلاق درست ہو جاتے ہیں۔ وہ ظلم سے دُور چلا جاتا ہے۔ اُس کے اندر دیانت و امانت، رحم اور عدل پیدا ہو جاتا ہے، اُس میں خدمت خلق کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے، محبت اور قربِ الٰہی کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے۔ اِس کے بعد وہ خود بھی یہ کام کرتا ہے اور دوسروں سے بھی کرواتا ہے۔ مثلاً جھوٹ نہیں بولتا اور کوشش کرتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی جھوٹ نہ بولیں، وہ دوسروں پر ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ دوسروں کو بھی تلقین کرتاہے کہ وہ بھی دوسروں پر ظلم نہ کریں، اُس کے خیالات پاکیزہ ہو جاتے ہیں اور وہ دوسروں کے خیالات کو بھی پاکیزہ بنانے کی کوشش کرتا ہے۔ غرض اُس کی روح رات دن مخلوق کی اصلاح میں لگی رہتی ہے خود نماز مقصود نہیں۔
قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۳؎ جس طرح روٹی مقصود نہیں، روٹی کھانے سے طاقت پیدا ہوتی ہے اور پھر انسان دنیا کے کام کرتا ہے اِسی طرح نماز اصل مقصود نہیں بلکہ اس کا کام یہ ہے کہ وہ ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ جو شخص نماز پڑھتا ہے اُس کی روح کو طاقت ملتی ہے اور بُرائیوں کے مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے۔ اُس کے اندر دیانت و امانت، عدل و انصاف، رحم غرض جتنے اخلاقِ فاضلہ ہیں وہ سب پائے جاتے ہیں اور اس کے اندر یہ طاقت بھی پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کے اندر بھی یہ اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرے۔ یہی حال روزوں کا ہے۔ روزوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۴؎ روزوں کی یہ غرض ہے تا روح کو طاقت پہنچے اور وہ تقویٰ کے قابل ہو جائے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ وہ شخص روزہ دار نہیں جو بھوکا اور پیاسا رہتا ہے۔ روزہ دار وہ ہے جس کی زبان قابو میں رہے۔ ۵؎ غرض روزے کا مقصود بھوکا اور پیاسا رہنا نہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر یہ جذبہ پیدا ہو جائے کہ اُسے کسی وقت اپنے بھائیوں اور بنی نوع انسان کی خاطر اپنی مملوکہ اور حلال چیزیں بھی چھوڑنی پڑیں تو وہ چھوڑ دے۔ روزے میں ہمارا اپنا کھانا جو حلال ذرائع سے کمایا ہوا ہوتا ہے اور شریعت کے لحاظ سے حرام نہیں ہوتا ہمارے پاس موجود ہوتا ہے، ہمارا اپنا پانی ہمارے پاس موجود ہوتا ہے لیکن ہم وہ کھانا بھی نہیں کھاتے، وہ پانی بھی نہیں پیتے۔ اِس میں مسلمانوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ جب تم بنی نوع انسان کی خاطر، اپنے بھائیوں کی خاطر خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنی حلال چیز بھی اپنے اُوپر حرام کر لیتے ہو تو دوسرے کا مال تم پر کس طرح حلال ہو سکتا ہے۔ غرض روزہ میں خداتعالیٰ انسان کو حلال کھانے اور حلال کمانے کی طرف توجہ دلاتا ہے۔
اسی طرح حج ہے لوگ اپنا کاروبار چھوڑ کر حج کے لئے جاتے ہیں اور ایک جگہ جا کر اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اِس سے خداتعالیٰ انسان کو یہ سبق دیتاہے کہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے، اپنے وطن کے لئے اور رشتہ داروں کی خاطر تمہیں اپنا کام چھوڑ کر بھی جانا پڑے تو جاؤ۔ جو شخص سچے دل سے حج کرنے جاتا ہے اُسے یہ توفیق مل جاتی ہے کہ وہ بنی نوع انسان اور اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی خاطر کام کرے اور ایسا کرنے کے لئے اگر اُسے وطن اور کاروبار بھی چھوڑنا پڑے تو وہ چھوڑ دیتا ہے۔
غرض نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور ذکرِ الٰہی وغیرہ روحانی غذائیں ہیں۔ ان کے بعد انسان کو کچھ کام بھی کرنا ہوتا ہے لیکن بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اِس میں غفلت سے کام لیتے ہیں۔ وہ نماز پڑھ کر مغرور ہو جاتے ہیں اور بجائے اِس کے کہ اُنہیں کوئی روحانی طاقت حاصل ہو وہ نماز پڑھ کر یہ سمجھتے ہیں کہ گویا اُنہوں نے خداتعالیٰ پر احسان کیا ہے۔ نماز تو اِس لئے سکھائی گئی ہے تا نیکی کی طاقت بڑھے۔ اگر کوئی شخص نمازپڑھتا ہے اور پھر اُس کی نیکی کی طاقت نہیں بڑھتی تو وہ سمجھ لے کہ اس نے صحیح طور پر نماز نہیں پڑھی۔ جس طرح تم کھانا کھاتی ہو کھانے سے اگر تمہیں جسمانی طاقت حاصل نہیں ہوتی تو تم ڈاکٹر کے پاس جاتی ہو اور علاج کرواتی ہو۔ اِسی طرح اگر نماز تمہارے اندر ایسی روحانی طاقت پیدا نہیں کرتی کہ تمہارے اندر بُرائیوں سے نفرت کا مادہ پیدا ہو جائے تو سمجھ لو تمہاری وہ نماز صحیح نماز نہیں۔ تمہارے اندر کوئی روحانی بیماری داخل ہوچکی ہے جس کا علاج ضروری ہے۔ جیسے بعض لوگ آٹے میں بُرادہ ملا دیتے ہیں بظاہر تو لوگ ایسے آٹے سے روٹی تیار کر کے کھاتے ہیں لیکن وہ انتڑیوں میں جا کر تکلیف پیدا کرتا ہے اور غذا سے جو طاقت پیدا ہوتی ہے وہ حاصل نہیں ہوتی۔ اسی طرح اگر کوئی شخص نماز پڑھتا ہے اور بظاہر اُسے کوئی روحانی طاقت حاصل نہیں ہوتی تو اُسے سمجھ لینا چاہیے کہ نماز خراب ہے۔ جس کی صحت خراب ہو جاتی ہے اُسے طاقتور غذائیں استعمال کروائی جاتی ہیں، علاج کروایا جاتا ہے اسی طرح اگر روحانی صحت خراب ہو جائے تو نماز، روزہ، زکوٰۃ اور ذکرِالٰہی وغیرہ میں کثرت سے اس کا علاج کرنا چاہیے۔ یہ چیزیں خود مقصو دنہیں ہاں بطور غذا کے ہیں۔ تم اپنی نمازوں کو ٹٹولتی رہا کرو اور دیکھتی رہا کرو کہ آیا وہ کوئی زائد فائدہ تمہیں پہنچاتی ہیں یا نہیں۔
ہمارے مُلک میں ایک مثل مشہور ہے وہ ہے تو ہنسی والی لیکن جو سبق اس میں بیان کیا گیا ہے وہ بہت بڑا ہے۔ کہتے ہیں کوئی مولوی تھا اُس نے کسی گاؤں میں جا کر وعظ کرنا شروع کیا لیکن اُس کا وعظ سننے کوئی نہ آتا تھا۔ کبھی کبھار پانچ سات آدمی اکٹھے ہو جاتے تھے۔ ایک میراثی کو خیال آیا کہ اِس مولوی سے پوچھیں تو سہی کہ اِس وعظ و نصیحت سے کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ وہ مولوی کے پاس گیا اور اُس سے پوچھا مولوی صاحب! نماز روزے سے کیا حاصل ہوتا ہے؟ اُس کا مطلب یہ تھا کہ انسان دنیا میں مزدوری کرتا ہے، مشقت برداشت کرتا ہے انسانی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اس کے بدلہ میں اُسے کچھ ملے اور جب یہ بات ہے تو نماز کے بدلہ میں مجھے کچھ ملنا چاہیے۔ مولوی نے اس میراثی کو ٹالنے کے لئے کہا کہ نماز پڑھنے سے نور ملتا ہے۔ میراثی مطمئن ہو گیا اور اُس نے خیال کر لیا اچھا کچھ تو ملے گا۔ وہ گھر گیا اور بیوی سے کہنے لگا میں نماز پڑھوں گا اور اِس کے بدلے میں مجھے نور ملے گا۔ اس میراثی نے ظہر کی نماز پڑھی، عصر کی نماز پڑھی، مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھیں ہر نماز کے بعد وہ جسم کو دیکھتا تھا کہ نور کیا چیز ہے؟ سردیوں کاموسم تھا صبح کی نماز کے لئے جو اُٹھا تو اُسے سردی لگی۔ مولوی نے اُسے یہ بھی بتایا تھا کہ اگر پانی نہ ملے یا کوئی بیمار ہو تو وہ تیمم کرلے۔ اُسے سردی لگی تو اُس نے خیال کر لیا کہ چلو تیمم ہی کر لوں۔ اتفاقاً اُس کے پاس توا پڑا تھا۔ اندھیرے میں اُس نے توے پر ہاتھ مارکر تیمم کر لیا۔ جونہی اُس نے اپنے ہاتھ منہ پر پھیرے وہاں سیاہی لگ گئی۔ جب اُس نے پانچ نمازیں پڑھ لیں تو خیال کر لیا اب تو نور آ جانا چاہیے۔ اُس نے بیوی کو کہا دیکھو میرے منہ پر نور ہے یا نہیں؟ بیوی کو بھی نور کا علم نہیں تھا اُس نے کہا مجھے تو کوئی تغیر معلوم نہیں ہوتا ہاں سیاہی زیادہ معلوم ہوتی ہے۔میراثی نے کہا اگر نور سیاہ ہوتا ہے تو پھر تو گھٹائیں باندھ کر آیا ہے دیکھو! میرے ہاتھ بھی سیاہ ہوگئے ہیں۔ یہ ایک لطیفہ ہے لیکن اِس سے پتہ لگتا ہے کہ انسانی فطرت یہ تقاضا کرتی ہے کہ اُسے محنت کے بدلہ میں کچھ ملے۔ جس کام کے بدلہ میں کچھ نہ ملے وہ کام لغو سمجھا جاتا ہے۔
پس اگر کوئی شخص یہ تقاضا کرے کہ اُسے نماز کے بعد کیا ملا تو اُس کا یہ تقاضا صحیح ہوگا۔ اِسی چیز کی طرف خداتعالیٰ اِس آیت میں اشارہ کرتا ہے کہ نماز بے حیائیوں اور بُری باتوں سے روکتی ہے۔ اِسی طرح روزے کے متعلق فرمایا۔ تا تمہارے اندر تقویٰ کی طاقت پیدا ہو جائے۔ اِسی طرح زکوٰۃ سے بھی دل میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں سب اصول بیان کر دیئے گئے ہیں اور اصول ہی اصل چیز ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پانی پینے سے پیٹ بھر جاتا ہے لیکن بخار والے مریض کا پانی سے پیٹ نہیں بھرتا بلکہ وہ پانی مانگتا چلا جاتا ہے۔ اِسی طرح نماز کا خاص فائدہ یہ ہے کہ وہ ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے اور نیکی کی طاقت پیدا کرتی ہے۔ اگر ہمیں وہ طاقت حاصل نہیں ہوتی تو ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہماری روحانی صحت میں ضرور کوئی خرابی ہے۔ جس طرح بخار والا غذا قبول نہیں کرتا یا غذا کھانے سے اُسے اِسہال شروع ہو جاتے ہیں، قَے ہو جاتی ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اُس کے اندر بیماری پیدا ہوگئی ہے۔ ہم ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں اور اُس بیماری کا علاج کرواتے ہیں اگر علاج نہ کروایا جائے تو مرض بڑھ جاتا ہے۔ اِسی طرح روحانی غذاؤں سے اگر روحانی طاقت حاصل نہیں ہوتی اور پھر تم اِس کا فکر نہیں کرتیں تو اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تم روحانی طور پر مَر جاؤ گی اِس لئے کہ تمہارے اندر بیماری پیدا ہوگئی ہے۔ ہم نماز پڑھتے ہیں لیکن اِس کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے، روزہ رکھتے ہیں لیکن اس کے نتیجہ پر غور نہیں کرتے، ہم اندھا دُھند چلے جاتے ہیں اِس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح جسم غذا جذب نہیں کرتا تو وہ مَر جاتا ہے اِسی طرح ہماری روح غذا جذب نہ کرنے کی وجہ سے مَر جاتی ہے۔ انسان کو اس کی نگرانی کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ یہ روحانی غذائیں اُس کے تن لگتی ہیں کہ نہیں، اِن غذاؤں سے اُسے روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے یا نہیں۔ ان غذاؤں سے پیدا شدہ تغیرات کو نہ دیکھیں تو ہو سکتا ہے ہمارے اندر کوئی بیماری پیدا ہو جائے اور ہم وقت پر اِس کا علاج نہ کریں اور ہلاکت میں مبتلا ہو جائیں۔
تمہارے لئے میں پھر خلاصہ بیان کرتا ہوں کہ اوّل لجنہ اماء اللہ کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہیے کہ وہ باقاعدگی سے نماز ادا کرے۔ دوم دینی مشاغل میں وہ یاد رکھے کہ جس طرح جسم کی غذا ہے اُسی طرح روح کی بھی غذا ہے جس طرح جسم کو غذا نہ ملے تو وہ مَر جاتا ہے اسی طرح روح بھی بغیر غذا کے مَر جاتی ہے۔ مگر نہ جسمانی غذا جسم کا مقصود ہے نہ روحانی غذا روح کا مقصود ہے۔ جسمانی غذا ہم اِس لئے استعمال کرتے ہیں تا خون پیدا ہو اور طاقت حاصل ہو اور اُس طاقت سے ہم دوسرے کام کریں۔ اِسی طرح روحانی غذاؤں کی بھی یہی غرض ہے کہ ہمیں روحانی طاقت ملے جس کے ذریعہ ہم دوسرے کام کر سکیں۔ اگر غذا ہی اصل مقصود ہوتی تو خداتعالیٰ یہ کیوں فرماتا۔ ۶؎ کہ *** ہے ایسے نمازیوں پر جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ بعض نمازیوں کی نماز اُن کے لئے *** کا موجب بھی ہو سکتی ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج اور دوسری عبادات پر خوش نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے ذریعہ جو طاقت پیدا ہوتی ہے اُس کا مطالعہ کرتے رہنا چاہیے۔
پھر میںنے بتایا کہ روحانی طاقتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اندر ایک جذبہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ دوسرے شخص کے اندر بھی وہی اخلاقِ فاضلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جو اُس کے اندر پائے جاتے ہیں۔ تم اپنے اندر تبلیغ کا مادّہ پیدا کرو۔ اگر تم ایسا نہیں کرتیں تو تمہارے لئے موت مقدر ہے۔ ہیضہ جب آتا ہے تو پہلے وہ تمہارے ہمسایہ پر حملہ کرتا ہے اور اگر تم احتیاط نہ کرو تو تم بھی اُس سے بچ نہیں سکتیں۔ طاعون ہے اس کا بھی یہی حال ہے۔ اِسی طرح اگر تم میں دین کی تبلیغ کی طرف توجہ نہیں اور تم اسے دُور کرنے کی کوشش نہیں کرتیں تو ہمسایہ کی بھی روحانی مرض تم کو ہی لگ جائے گی۔ پس نمازیں پڑھو اور پھر اِس پر غور کرتی رہا کرو کہ وہ کیا اثر پیدا کرتی ہیں۔ پھر وہی چیز دوسروں کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گی تو وہ روحانی مرض کی مبتلاء ایک نہ ایک دن تمہیں بھی اپنا شکار بنا لیں گی۔ تم اپنے اندر دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنے کی عادت پیدا کرو تا تم اُنہیں اپنا شکار بنا لو۔
بِالآخر میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ تمہیں اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق بخشے اور تمہیں سچی مؤمنہ اور مسلمہ بنائے تا تم اپنے لئے، اپنے خاندان کے لئے، مُلک و قوم کے لئے اور سب سے بڑھ کر اسلام کے لئے مفید وجود بن سکو۔ (مصباح دسمبر ۱۹۵۰ء)
۱؎ مسولینی: MUSSOLNI BENITO (۱۸۸۳ء۔ ۱۹۴۵ء) اطالوی آمر۔ یہ ایک لوہار کا بیٹا تھا۔ ابتدائی دنوں میں استاد اور صحافی کا کام کیا۔ سوشلسٹ کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران اطالیہ کی جنگ میں مداخلت کی۔ وکالت کی پاداش میں ۱۹۱۴ء میں سوشلسٹ تحریک سے نکال دیا گیا۔ ۱۹۱۹ء میں اپنی جماعت بنائی۔ اکتوبر ۱۹۲۲ء میں شاہِ اٹلی اور فوج نے اُسے وزیر اعظم کے عہدے پر نامزد کیا۔ ۱۹۲۵ء میں اس نے آمرانہ اختیارات سنبھال لیے۔ ۱۹۲۶ء میں تمام مخالف جماعتوں کو خلافِ قانون قرار دے دیا۔ ۱۹۳۵ء میں ایتھوپیا پر قبضہ کیا۔ ۱۹۳۹ء میں البانیہ پر قبضہ کیا۔ اس حکمت عملی کے باعث وہ نازیوں کے بڑا قریب ہو گیا۔ جون ۱۹۴۰ء میں جنگ عظیم دوم میں شامل ہوا۔ اتحادیوں نے سسلی پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا جس کے نتیجہ میں اس کی ساکھ ختم ہو گئی۔ جولائی ۱۹۴۳ء میں فسطائیوں کی گرینڈ کونسل نے اُسے استعفیٰ پر مجبور کیا پھر گرفتار کر لیا گیا۔ ۱۵؍ستمبر ۱۹۴۳ء کو جرمن ہوائی جہاز اُسے رہا کرا کر جرمنی لے گئے۔ لیکن پھر اس نے شمالی اٹلی میں جمہوریہ فسطائیہ کے نام سے متوازی حکومت بنا لی۔ اپریل ۱۹۴۵ء میں اسے اپنی داشتہ کے ساتھ گرفتار کیا گیا۔ دونوں کو گولی مار دی گئی۔ اس کی لاش میلان لے جائی گئی جہاں اُسے سڑکوں پر گھسیٹا گیا۔
(اُردو جامع انسائیکلوپیڈیا جلد۲ صفحہ۱۹۶۵ء مطبوعہ ۱۹۸۸ء لاہور)
۲؎ بخاری کتاب الاذان باب وجوب صلٰوۃ الجماعۃ
۳؎ العنکبوت: ۴۶ ۴؎ البقرۃ: ۱۸۴ء
۵؎ بخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور (مفہوماً )
۶؎ الماعون: ۵،۶
اسلام اور موجودہ مغربی نظریے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اسلام اور موجودہ مغربی نظریے
(فرمودہ ۲۱؍ اگست ۱۹۴۹ء بمقام کوئٹہ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورہ مائدہ کے ساتویں رکوع کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی۔
۱؎
اس کے بعد فرمایا:۔
’’میرا مضمون آج اسلام اور موجودہ مغربی نظریے کے فرق پر ہے۔ یہ تو ظاہر ہی ہے کہ میری غرض اِس عنوان سے یہ نہیں ہو سکتی کہ ایک طرف اسلام کے نظریے بیان کر دوں اور دوسری طرف مغربی نظریے بیان کروں بلکہ میری غرض یہ ہے کہ اسلام کے نظریوں کو مغربی نظریوں پر جو فوقیت حاصل ہے اُس کو بیان کر وں لیکن پیشتر اِس کے کہ میں اس کے متعلق کچھ کہوں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تمہید کے طور پر میں اِس امر کو واضح کروں کہ اسلام اپنی کسی فوقیت کا قائل بھی ہے یا نہیں تا یہ نہ ہو کہ ہماری مثال ’’مدعی سست اور گواہ چست‘‘ والی ہو جائے۔ یعنی قرآن تو یہ دعویٰ نہ کرتا ہو کہ اِس کے نظریے اِس زمانہ یا آئندہ زمانہ کے نظریوں پر فوقیت رکھتے ہیں اور میں فوقیت ثابت کرنے لگ جاؤں۔
اس غرض کیلئے ایک تو وہ آیات جو میں نے ابھی پڑھی ہیں اِس بات کی دلیل ہیں کہ اسلام کو یہ فوقیت حاصل ہے مگر اِن کے علاوہ قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی نہایت واضح اور اہم ہے اور وہ آیت یہ ہے کہ ۲؎ اوپر کی آیات سورہ مائدہ کے ساتویں رکوع کی ہیں اور یہ آیت سورہ مائدہ کے پہلے رکوع کی ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ آج کے دن میں نے تمہارا دین تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت کا اتمام کر دیا ہے اور میں نے تمہارے لئے اسلام کو بطور دین کے پسند کیا ہے۔ یہ آیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی تھی جس کے ۸۰ دن کے بعد آپ وفات پاگئے۔ بعض صحابہؓ اور بہت سے مفسرین اِس بات کے مدعی ہیں کہ یہ آیت قرآن کریم کی آخری آیت ہے یعنی اس کے بعد کوئی اور کلامِ الٰہی نازل نہیں ہوا لیکن بعض نے اس سے اختلاف کیا ہے۔ بہرحال اگر یہ آخری آیت نہیں تو چند نہایت ہی آخری آیتوں میں سے ایک آیت ہے اور بتاتی ہے کہ:۔
اوّل: شریعت اسلامی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مکمل کر دی گئی ہے اب کوئی ایسا حکم نازل نہیں ہو سکتا جو ان حکموں کو بدل دے۔ اِس سے ہمیں یہ اصول معلوم ہوا کہ اسلام میں جس قانون کو پیش کیا گیا ہے خواہ اسے غیر مذاہب والے مانیں یا نہ مانیں ایک مسلمان کو بہرحال یہ ماننا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے پوری طرح مکمل کر دیا گیا ہے اور دنیا کو جتنے قوانین کی ضرورت تھی وہ سب اِس میں آ گئے ہیں۔ ایسے قانون تو بے شک بن سکتے ہیں جو وقتی اور مقامی طور پر ضروری ہوں یا جو عارضی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ہوں لیکن جہاں تک وہ امور ہیں جن میں مذہب کو اِس بات کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہدایت کرے ان تمام امور کو قرآن کریم میں بیان کر دیا گیا ہے کسی کوبِالتفصیل اور کسی کو بِالاجمال۔
دوم: فرماتا ہے دین کو کامل کرنے کے نتیجہ میں میں نے اپنا انعام تم پر مکمل کر دیا ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے سارے احکام کوئی نہ کوئی خوبی اور حکمت اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس کے احکام صرف حکم کے طور پر نہیں بلکہ ان میں انسانی فائدہ اور اس کی ترقی کو ملحوظ رکھا گیا ہے اگر یہ معنی نہ لئے جائیں تو اکمالِ دین کا نتیجہ اتمامِ نعمت نہیں ہو سکتا۔ یہ نتیجہ تبھی پیدا ہو سکتا ہے جب دین کے تمام احکام ہمارے لئے نعمت ہوں تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ چونکہ ہمارا دین مکمل ہے اور چونکہ اِس کا ہر حکم ہمارے فائدہ کے لئے ہے اِس لئے دین کے مکمل ہونے کے ساتھ انعام بھی مکمل ہو گیا ہے۔ یہ اسلامی شریعت کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو اِسے تمام شریعتوں سے ممتاز کرتی ہے۔ باقی شریعتوں کے احکام کسی حکمت اور فلسفہ کے ماتحت نہیں مگر اسلام کسی بات کا حکم نہیں دیتا اور کسی بات سے بنی نوع انسان کو نہیں روکتا لیکن اُسی صورت میں جب اُس پر عمل یا اُس سے اجتناب لوگوں کے لئے مفید ہو۔
(اِس ضمن میں حضور نے نماز کی حقیقت کو تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا اور بتایا کہ) جو شخص سچے دل سے نمازپڑھتا ہے وہ ۳؎ کے مطابق ہر قسم کی بُرائیوں سے بچ جاتا ہے۔
اسی طرح روزہ ہے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صرف روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ ساتھ ہی فرمایا ہے کہ۴؎ روزے اس لئے رکھے گئے ہیں تا تم میں تقویٰ پیدا ہو۔ غرض میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کی کوئی ضرورت ایسی نہیں جس کو پورا کرنے کا سامان انہیں باہر سے لانا پڑے سارے احکام قرآن کریم میں بیان کر دیئے گئے ہیں اور وہ سارے احکام ایسے ہیں جو بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے ہیں۔ پس کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ مسلمانوں کو کوئی ضرورت ہو اور اُس کو پورا کرنے کا سامان اُنہیں باہر سے لانا پڑے۔ اور کبھی ایسا نہیں ہو سکتا کہ مسلمان قرآنی احکام پر عمل کریں۔ تو اُنہیں نقصان ہو۔ عمل کے نتیجہ میں ہمیشہ نعمت ہی نعمت انہیں میسر آئے گی۔
(اِس کے بعد حضور نے سورہ مائدہ کی اِن آیات کی تفسیر فرمائی جو اوپر درج کی گئی ہیں اور بتایا کہ)
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے نہایت واضح رنگ میں موجودہ زمانہ کے مقنّنوں اور فلسفیوںکے پیچھے چلنے سے روکا ہے اور بتایا ہے کہ تمہاری تمام ترقی اسلام اور قرآن پر عمل کرنے میں ہے نہ کہ قانون اور فلسفہ اور اقتصاد اور سائنس اور صنعت و حرفت کے ماہرین کے پیچھے چلنے میں۔
(سلسلہ تقریر کو جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایاکہ:۔)
اس زمانہ میں مغربی اقوام کے مختلف نظریات اسلام سے ٹکراتے ہیں جن میں سے بعض مذہبی ہیں اور بعض سیاسی اور اقتصادی۔ لیکن کوئی ایک نظریہ بھی ایسا نہیں جس میں مغرب کو شکست فاش نہ ہوئی ہو۔ مذہبی نظریوں میں سے سب سے بڑا توحید کا نظریہ ہے۔ عیسائیت نے جب ترقی کی تو حضرت عیسیـٰ علیہ السلام کو اُنہوں نے خدا اور خدا کا بیٹا کہنا شروع کر دیا بلکہ نادان مسلمانوں نے بھی بعض خدائی صفات حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کرنی شروع کر دیں اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ انہیں کچھ علم غیب حاصل تھا۔ وہ بھی بعض جانور زندہ کر لیا کرتے تھے، وہ بھی مُردے زندہ کر لیتے تھے اور اس طرح وہ عیسائیت کی تقویت کا موجب ہوگئے مگر اسلام سے ٹکر کھانے کے بعد مغرب اپنے اِس نظریہ پر قائم نہ رہ سکا اور وہی یورپ جو اسلام کی پیش کردہ توحید پر حملہ کیا کرتا تھا آج اپنے منہ سے تثلیث کا انکار اور توحید کا اقرار کر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ قومی لحاظ سے یورپ کیا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج بھی وہ تین خداؤں کا قائل ہے؟ آج اگر عیسائیوں سے پوچھا جائے تو وہ صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہماری مراد صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح خدا کے مقرب تھے ورنہ خدا ایک ہی ہے۔ غرض یورپ عقیدۂ توحید میں اسلام سے ٹکرایا مگر اس ٹکراؤ کے نتیجہ میں اسلام ہی غالب آیا۔
پھر طلاق کا مسئلہ لے لو۔ یورپین مصنفین نے اپنی کتب کے ہزاروں ہزار صفحات میں اِس مسئلہ پر ہنسی اُڑائی ہے۔ ان کے بڑے بڑے فلسفی اور مقنن یہ کہا کرتے تھے کہ اس تعلیم سے عورت اور مرد کے محبت کے حقوق کو تلف کر دیا گیا ہے مگر آج کیا حال ہے امریکہ طلاق کا قانون پاس کر چکا ہے، انگلستان میں بھی آہستہ آہستہ طلاق کو نرم کیا جا رہا ہے اور روس میں بھی بے حد آزادی ہے۔ امریکہ میں تو اِتنی معمولی معمولی باتوں پر طلاق واقع ہو جاتی ہے کہ حیرت آتی ہے۔ اسلام نے تو طلاق اور خلع کے ساتھ کئی قسم کی شرائط رکھ دی ہیں لیکن وہاں بعض دفعہ اتنی سی بات پر طلاق ہو جاتی ہے کہ مثلاً عورت کہتی ہے میں نے ایک ناول لکھا ہے مگر میرا خاوند کہتا ہے کہ یہ ناول بیہودہ ہے۔ مقدمہ عدالت میں جاتا ہے تو جج عورت کے حق میں فیصلہ دے کر اُسے طلاق دِلوا دیتا ہے۔ غرض اِس مسئلہ میں بھی مغرب نے اسلام سے ٹکرا کر شکست کھائی اور فتح اسلام ہی کو حاصل ہوئی۔
پھر حرمت شراب کا مسئلہ ہے اسلام نے نہایت واضح الفاظ میں شراب کو حرام قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ گو اِس میں کچھ فوائد بھی ہیں مگر اِس کے نقصانات اس کے فوائد سے بڑھ کر ہیں۔۵؎ اس لئے ہم اس کا استعمال تمہارے لئے حرام قرار دیتے ہیں۔ یورپ نے اِس تعلیم پر بھی اعتراض کیا اور کہا کہ اسلام انسان کی علوحوصلگی اور بڑائی کو نہیں سمجھتا، اسلام فطرت کے نازک جوہروں کو نہیں سمجھتا۔ وہ ایشیائی لوگ تھے جو شراب پی کر بَدمست ہو جایا کرتے تھے اور ان کی عقل ٹھکانے نہیں رہتی تھی۔ ہمارے یورپ والے پیگ پیتے ہیں تو ان کی عقل پہلے سے بھی زیادہ تیز ہو جاتی ہے مگر پھر ٹھوکریں کھانے کے بعد امریکہ نے ہی قانون بنایا کہ شراب پینا ناجائز ہے۔ اگر پیگ عقل کو تیز کرتا ہے تو امریکہ نے شراب کو حرام کرنے کی کیوں کوشش کی؟ مگر پندرہ سال کے بعد امریکہ نے دوبارہ شراب پینا جائز قرار دے دیا اور اِس طرح ایک بار پھر اسلام کی صداقت واضح ہو گئی اور دنیا پر ثابت ہو گیا کہ قرآن نے جو کچھ کہا تھا اس کے پیچھے خدائی طاقت کام کر رہی تھی مگر یورپ کی آواز کے پیچھے کوئی خدائی طاقت نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے شراب کو حرام قرار دیا تو وہ ہمیشہ کے لئے حرام ہوگئی لیکن امریکہ نے شراب کو حرام قرار دیا تو پندرہ سال کے بعد وہ پھر اس قانون کو منسوخ کرنے پر مجبور ہو گیا۔
پھر کثرتِ ازدواج کا مسئلہ بھی ان مسائل میں سے ہے جس کی حکمت اس زمانہ میں واضح ہو گئی ہے۔ اگر ہندوستان کے مسلمان تبلیغ پر زور دیتے تو آدھے ہندوستان کو وہ مسلمان بنا لیتے اور اگر تعددِ ازدواج سے کام لیتے تو باقی آدھا ہندوستان بھی مسلمان ہو جاتا اور آج سارے ہندوستان میں مسلمان ہی مسلمان ہوتے مگر بدقسمتی سے عیسائیوں اور یورپین اقوام کے ڈر کے مارے خود مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ تو عربوں کے زمانہ کی بات تھی چونکہ عربوں میں زیادہ شادیاں کرنے کا رواج تھا اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی چار شادیاں کرنے کی اجازت دے دی۔ اس کا خمیازہ آج مسلمان بھگت رہے ہیں۔ بہار میں جب فسادات ہوئے اور وہاں کے بعض دوست قادیان آئے تو میں نے اُنہیں ترقی کا یہی گُر بتایا تھا مگر ساتھ ہی کہہ دیا تھا کہ آپ لوگ اِس پرعمل نہیں کریں گے۔ اب بھی اگر مسلمان اِس پر عمل کریں تو پچاس سال میں ان کی کایا پلٹ جائے۔
پھر جوا ہے اسلام نے اس کی ممانعت کی مگر یورپ نے ہنسی اُڑائی اور کہا کہ جوئے سے روکنا ایک بے معنی بات ہے مگر آج کوئی مُلک دکھاؤ جس میں جوئے کے متعلق قانون نہ بن رہے ہوں۔ یوں کھلے طور پر وہ اسے چھوڑ نہیں سکتے کیونکہ یکدم جوا چھوڑتے ہوئے انہیں شرم محسوس ہوتی ہے مگر قانون بنا رہے ہیں کہ فلاں طرز کا جوا منع ہے یا اس اس طرح کھیلنا منع ہے گویا بات وہی آ گئی جو اسلام نے پیش کی تھی مگر کھلے طور پر جوئے کو ناجائز قرار دینے میں وہ ابھی اپنی ہتک محسوس کرتے ہیں۔
پھر قرآن کریم نے سزائے موت کو ضروری قرار دیا تھا مگر یورپ کے کئی مُلکوں نے سزائے موت کو منسوخ کر دیا اور کہا کہ یہ ظالمانہ سزا ہے مگر ۲۵،۳۰ سال کے بعد اب پھر سزائے موت کے قانون بنائے جا رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اس کے بغیر مُلک کا امن قائم نہیں رہ سکتا۔ غرض بیسیوں امور ہیں جن میں مغرب اسلام سے ٹکرایا مگر آخر مجبور ہو کر وہ اسلام کے راستہ پر ہی چلا اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ آج سے تیرہ سَو سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کلام نازل ہوا تھا وہ اُسی خدا کی طرف سے تھا جس نے انسان کو پیدا کیا اور جو جانتا تھا کہ کون کون سی باتیں انسان کے لئے مفید ہیں اور کون کون سی مضر۔‘‘
(الفضل ۳۱؍ اگست ۱۹۴۹ء)
اب مسلم لیگ نے ایک قانون زمینداروں کے متعلق پیش کر دیا ہے کہ پچیس پچیس ایکڑ سے زیادہ کسی کے پاس زمین نہ رہنے دی جائے اور سب کو زمینداری کے لحاظ سے مساوات کی سطح پر رکھا جائے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم سے زیادہ اعلیٰ دماغ اور عقل والا اور کون ہو سکتا ہے ہم تو یہ مساوات قائم کرنے کے لئے یورپ کے اعلیٰ سے اعلیٰ قانون کے پیچھے چل رہے ہیں حالانکہ اگر انسان سوچے تو یہ بھی ویسی ہی بیوقوفی کی بات ہے جیسے یورپ اَور ہزاروں امور میں بیوقوفی کا ارتکاب کر چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اِس طریق پر عمل کرنے سے انصاف قائم ہو جائے گا مگر اس کے متعلق پہلا سوال تو یہی پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ انصاف صرف زمینداروں سے کرنا ضروری ہے غیر زمینداروں سے نہیں؟ کیا زمیندار خداتعالیٰ کی کوئی خاص مخلوق ہے اور تاجر اور صناع اور کارخانہ دار اور وزراء اُس کی مخلوق نہیں؟ ایک زمیندار کے لئے تو ضرورت ہے کہ اُس کے پاس ۲۵ ؍ایکڑ سے زیادہ زمین نہ رہنے دی جائے مگر تاجر اور صناع اور وزراء اور جرنیل اور کارخانہ دار اِن کے لئے کسی قانون کی ضرورت نہیں یہ جتنا چاہیں روپیہ کما لیں۔ ۲۵؍ ایکڑ کے معنی آجکل ۷۰،۸۰ روپیہ ماہوار کے ہیں اور یہ بھی اِن دنوں میں جب کہ اجناس کسی قدر گراں ہیں اگر جنس سستی ہو جائے تو معمولی زمین والا ۲۵ ؍ایکڑ سے پچیس تیس روپیہ ماہوار سے زیادہ کما نہیں سکتا۔ پس سوال یہ ہے کہ یہ انصاف جو زمیندار کے لئے تیار کیا جا رہا ہے اِس میں باقیوں کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ اُدھر مزدور کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اُسے ملتا ہے وہ کم ہے اُسے زیادہ ملنا چاہیے۔ تیس روپے اُس کی ضروریات کے لئے بہت کم ہیں کم از کم چھپن روپے اُسے ملنے چاہئیں اور اُدھر زمیندار کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جس کے پاس ۲۵؍ ایکڑ سے زائد زمین ہو وہ لے لی جائے۔ جس کے معنی یہ ہیں کہ وہ صرف تیس چالیس روپیہ ماہوار آمد پر آ جائے۔ گویا ایک طرف اُس کی آمد پر اعتراض کیا جاتا ہے اور دوسری طرف اُسی آمد کو رائج کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اتنی آمد کم کر دی جائے۔ یہ کونسا انصاف ہے جس سے کام لیا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ ردِعمل ہے اُس طریق کا جو زمینداروں نے اختیار کیا تھا۔ میں ہمیشہ زمینداروں سے کہا کرتا تھا کہ تم انگریز کی وجہ سے اپنی ترقی کے لئے کئی قسم کے قوانین بنا رہے ہو جب یہ زمانہ نہ رہا تمہیں مشکل پیش آئے گی۔ مثلاً ایک قانون یہ بنوایا گیا کہ صرف زمیندار ہی زمین خرید سکتا ہے تاجر یا صناع یا ملازم زمین نہیں خرید سکتا۔ میں اُن سے کہا کرتا تھا کہ یہ کونسا انصاف ہے تم نوکری بھی کر سکو، تجارت بھی کر سکو، صنعت و حرفت بھی کر سکو، کارخانہ بھی چلا سکو اور ملازم پیشہ لوگ یا تاجر یا صناع یا کارخانہ دار زمین نہ خرید سکیں۔ یا تو تمہارے لئے بھی یہ قانون ہونا چاہیے کہ کوئی زمیندار نوکری یا تجارت وغیرہ نہیں کر سکتا مگر تم زمینداریاں بھی کر سکو، نوکریاں بھی کر سکو، تجارت بھی کر سکو، کارخانے بھی چلا سکو، یہ اَور بات ہے کہ تم ایسا نہ کرو مگر بہرحال کوئی قانون تمہارے رستہ میں روک نہیں۔ تم سب کچھ کر سکتے ہو مگر غیر زمیندار کے لئے تم نے یہ قانون بنوایا ہے کہ وہ زمین نہیں لے سکتا کسی دن تم اِس کا خمیازہ بھگتو گے۔ چنانچہ اب غیر زمیندار آگے آ گئے ہیں اور اُنہوں نے زمینداروں کے خلاف یہ قانون تجویز کر دیا ہے اور اِس کا نام مساوات رکھا جا رہا ہے حالانکہ یہ ایک غیر طبعی مساوات ہے حقیقی مساوات نہیں۔ فرض کرو کسی کے پاس ۲۵ ؍ایکڑ زمین ہے اور اُس کے دو بیٹے ہیں تو ہر بیٹے کو ساڑھے بارہ بارہ ایکڑ زمین آئے گی۔ اِس کے بعد اگر ان کے بھی دو دو بیٹے ہوئے تو چھ چھ ایکڑ زمین ہر ایک کے حصہ میں آ جائے گی اور اگر چار بچے ہوئے تو صرف ڈیڑھ ڈیڑھ ایکڑ زمین آئے گی اِس طرح کوئی صورت بھی اُن کے گزارہ کی باقی نہیں رہے گی۔ پس یہ عجیب قانون ہے جو ایک دو نسلوں تک ہی چل کر ختم ہو جائے گا۔ کوئی قانون ایسا ہوتا ہے جو سَو ڈیڑھ سَو سال تک جاتا ہے ،کوئی قانون ایسا ہوتا ہے جو دو چار سَو سال تک جاتا ہے مگر یہ قانون تو ایسا ہے جو ایک نسل کے لئے بھی کافی نہیں اور اگلی نسل کے پاس صرف اِس قدر زمین رہ جائے گی جس میں اُس کے گزارہ کی کوئی صورت ہی نہیں ہوگی۔ پھر یہ کونسا انصاف ہے کہ مزدور اگر ترقی کرنا چاہے تو کر جائے، کلرک اگر ترقی کرنا چاہے تو کر جائے مگر زمیندار کے لئے ترقی کے ہر قسم کے راستے مسدود کر دیئے جائیں۔ اگر آج ایک مزدور ترقی کرنا چاہے تو کوئی قانون اُسے ترقی سے نہیں روکتا۔ کئی مزدور ایسے ہیں جو ترقی کر کے فورمین بن جاتے ہیں اور دو دو، اڑھائی اڑھائی سَو روپیہ ماہوار کماتے ہیں۔
سندھ میں مجھے ایک دوست ملے جو مستری سے ترقی کر کے انجینئر بنے تھے اُنہوں نے باتوں باتوں میں مجھ سے ذکر کیا کہ میں حیران ہوتا ہوں لوگ اپنی ذات اور قومیت کو چھپاتے کیوں ہیں میں نے تو اِس بات میں کبھی اپنی ذلّت محسوس نہیں کی۔ میں ہمیشہ کہہ دیا کرتا ہوں کہ میں ایک مستری ہوا کرتا تھا مگر اب اللہ تعالیٰ نے مجھے انجینئر بنا دیا ہے۔ پھر اُنہوں نے ذکر کیا کہ لائیڈ بیراج میں میں کام کرتا تھا کہ میرا باپ اور چچا نہایت خستہ حالت میں میرے پاس پہنچے۔ میں دلیری سے چیف انجینئر کے پاس چلا گیا اور اُس سے کہا کہ یہ میرے والد ہیں اور یہ میرے چچا ہیں اِنہیں کوئی مزدوری کا کام دے دیں تا کہ یہ اپنا گزارہ چلا سکیں۔ چیف انجینئر اُن کو دیکھ کر کہنے لگا خان صاحب آپ مذاق کرتے ہیں؟ میں نے کہا مذاق نہیں۔ جب خدا نے اُن کو میرا باپ بنایا ہے اور انہیں میرا چچا بنایا ہے تو میں ان کو باپ اور چچا نہ کہوں تو اَور کیا کہوں۔ وہ کہتے ہیں میری اِس بات کا اُس پر اتنا اثر ہوا کہ اُس نے شروع سے ہی اُنہیں فورمین بنا دیا اور وہ اڑھائی تین سَو روپیہ ماہوار لینے لگ گئے۔ تو یہ عجیب بات ہے کہ مزدور تو ترقی کر کے فورمین بن سکے اور زمیندار کو تیس چالیس روپیہ ماہور سے زیادہ کمانے نہ دیا جائے۔ یا تو یہ قانون بنا دو کہ زمیندار کو بھی اور کام کرنے کی اجازت ہوگی۔ وہ ملازمت بھی کر سکتا ہے، تجارت بھی کر سکتا ہے، صنعت و حرفت بھی کر سکتا ہے، کارخانے بھی چلا سکتا ہے کوئی اَور کام بھی کر سکتا ہے۔ جس طرح مزدور فورمین بن سکتا ہے، کلرک ہیڈ کلرک بن سکتا ہے، ہیڈکلرک سپرنٹنڈنٹ بن سکتا ہے اِسی طرح زمیندار کے لئے بھی ترقی کا میدان کھلا ہو اور یا پھر تمام ملازموں اور وزراء کی تنخواہیں بھی چالیس چالیس پچاس پچاس روپیہ کر دی جائیں پھر بیشک اِس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ مگر یہ کیا ہے کہ وزیر تو تین ہزار روپیہ ماہوار لے رہا ہو اور زمیندار کو تیس چالیس روپیہ ماہوار سے زیادہ کمانے کی اجازت نہ ہو اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ مُلک میں بغاوت پیدا ہوگی۔ اب تو جس کے پاس ۱۵؍ ایکڑ زمین ہے اُسے پچیس ایکڑ زمین مل گئی تو وہ خوش ہو جائے گا مگر جب آگے اُس کے بچے پیدا ہونگے اور اُن کی ترقی کے راستے بالکل مسدود ہونگے تو سارے مُلک میں بغاوت ہو جائے گی اور تمام امن برباد ہو جائے گا۔
کئی لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ جب روس میں ایسے قانون موجود ہیں تو ہمارے مُلک میں ایسے قانون کیوں نہیں بن سکتے۔ اُنہیں یہ معلوم نہیں کہ روس اور ہمارے مُلک میں فرق ہے۔ ہمارا مُلک روس سے چھٹے حصہ سے بھی کم ہے میری مراد صرف پاکستان نہیں بلکہ پارٹیشن سے پہلے جو یونائٹیڈ اِنڈیا تھا وہ مراد ہے یعنی سارا ہندوستان جس میں پاکستان بھی شامل ہے اپنے رقبہ کے لحاظ سے روس سے چھٹے حصہ سے بھی کم ہے لیکن ہماری آبادی روس سے دُگنی ہے۔ گویا روس نے اگر ایک ایکڑ زمین کسی کو دی ہوئی ہے تو ابھی گیارہ ایکڑ زمین اُس کے پاس باقی ہے جس میں نئی نسلیں آسانی سے گزارہ کر سکتی ہیں اور اس طرح وہ اپنا قانون دس نسلوں تک قائم رکھ سکتا ہے لیکن ہماری تو اگلی نسل ہی باغی ہو جائے گی اور مُلک کا امن برباد ہو جائے گا۔یہ بھی وہی نظریہ ہے جو رشیا سے آیا اور مسلمانوں نے اِسے اپنانا شروع کر دیا۔ اُنہوں نے سمجھا کہ جب رشیا میں اِس قسم کا قانون ہے تو ہم بھی اُس کے پیچھے کیوں نہ چلیں۔
( از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
(آخر میں حضور نے مسلم لیگ کی اِس تجویز کے متعلق فرمایا جو زمینداری سسٹم کو اُڑا دینے کے لیے پیش کی جا رہی ہے اور اس کی مخالفت کرتے ہوئے حضور نے اس کے نقصانات کی وضاحت فرمائی اور فرمایا کہ)
’’مسلمان اس قانون میں روس کی نقل کر رہے ہیں جو نقصان رساں ہوگا‘‘۔
آخر میں حضور نے فرمایا:
’’تمام خرابی اور تباہی کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان قرآن کریم پر صرف اسی طور پر ایمان رکھتے ہیں ایمان ان کے عمل میں نہیں۔ ورنہ وہ سمجھتے کہ تمام برکت قرآن کریم پر عمل کرنے میں ہے اور اگر ہم ذرا بھی اس کے احکام سے اِدھر اُدھر ہوئے تو ہمیں بھی نقصان پہنچے گا اور ہماری آئندہ نسلیں بھی تباہ ہو جائیںگی‘‘۔ (الفضل ۳۱؍ اگست ۱۹۴۹ء)
۱؎ المائدۃ: ۴۹ تا ۵۲ ۲؎ المائدۃ: ۴ ۳؎ العنکبوت: ۴۶
۴؎ البقرۃ: ۱۸۴
۵؎
(البقرۃ: ۲۲۰)
خدام الاحمدیہ کے قیام سے وابستہ توقعات
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدام الاحمدیہ کے قیام سے وابستہ توقعات
(فرمودہ ۳۰؍ اکتوبر ۱۹۴۹ء برموقع افتتاح سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ)
تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
’’خدام الاحمدیہ کے قیام سے میرا مقصد دراصل یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح ہمارے نوجوانوں میں وہ روحانیت پیدا ہو جائے کہ وہ قوم کی آئندہ اپنے کندھوں پر پڑنے والی ذمہ داریوں کو اُٹھا سکیں۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ ہماری جماعت کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے اور نہ ہی مذہبی جماعتیں کبھی سیاست کے تابع چلا کرتی ہیں بلکہ سیاست خود اُن کی غلامی میں پناہ ڈھونڈا کرتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ہم نے اپنے وطن کے گذشتہ سیاسی بحران میں بھی محض تعاون اور قوم کے نیک طبیعت اکابر کی اعانت ہی کو کافی سمجھا اور باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے سے ہمیشہ پہلو تہی اختیار کی۔
باؤنڈری کمیشن کے ایام میں میں خود مدد کرتا رہا۔ پھر مصائب سے پُر ایام میں بھی ہم نے ہر ممکن اعانت کی لیکن اِس کے باوجود ہم بحیثیت جماعت کسی سیاسی پارٹی میں مدغم نہیں ہوئے بلکہ اس سے آزاد رہ کر صرف جائز حد تک تعاون ہی کو کافی سمجھا کیونکہ مومن کبھی کسی ایسی چیز یا سرگرمی میں انہماک پسند نہیں کرتا جو اللہ اور اس کے رسول کی غلامی کے جوئے کو پوری طرح اپنی گردن پر نہ رکھے۔
ہماری جماعت ایک روحانی جماعت ہے اور ہر مذہبی تحریک کی بنیاد روحانیت ہی پر ہوا کرتی ہے یہی وجہ تھی کہ جب میں نے خدام الاحمدیہ قائم کی تو میرا مقصد محض یہ تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح صحیح معنوں میں دین کو دنیا پر مقدم کرنا سیکھ لے۔ لیکن افسوس اس نے اس رنگ میں میری توقعات کو پورا نہ کیا جس رنگ میں کہ میں چاہتا تھا۔ حالانکہ میں نے ان کی سرگرمیوں کا ایک ماں کی آنکھ سے جائزہ لیا۔ اُس ماں کی طرح جس کی نظر ہمیشہ اپنے بچے کے حسن ہی پر پڑتی ہے خواہ وہ اُس کے عملی جسم کے کسی کونے میں ہو۔ میں چاہتا تھا کہ یہ باقاعدہ اور باجماعت نمازی بن جائیں، ان میں تہجد گزاری کا شوق بڑھ جائے، ان کو تبلیغ دین کا چسکا پڑ جائے اور یہ دین کے لیے قربانی و ایثار کے مجسمے بن جائیں۔ لیکن خدام الاحمدیہ نے میری اِن تمام توقعات کو اُس حد تک پورا نہ کیا جس حد تک میں چاہتا تھا کہ ہو۔ لہٰذا میں نے فیصلہ کیا ہے کہ موجودہ تنظیم کو بدل کر ایک نئے رنگ میں ڈھال دیا جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ اِن میں روحانیت کے وہ تمام جوہر پیدا ہو جائیں جو پیدا کرنا اِس تنظیم کے قیام کے وقت مقصود تھا۔چنانچہ اِس نئے فیصلے کے مطابق آئندہ کے لیے مجلس خدام الاحمدیہ کا صدر میں ہوا کروں گا اور شوریٰ کی طرح اس کے اجتماع بھی میری ہی صدارت میں ہوا کریں گے۔ سوائے اس کے کہ میں موجود نہ ہوں اور کسی کو اپنی طرف سے نگران مقرر کر دوں۔
(اس کے بعد آپ نے خدام الاحمدیہ کے گزشتہ سال کے انتخابِ صدر کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا )
مجھے افسوس ہے کہ خدام الاحمدیہ کے قواعد و ضوابط کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے دو چالیس سال سے زائد عمر کے خدام کا نام پیش کیا گیا۔
(حضور نے فرمایا)
’’خدام الاحمدیہ ایک روحانی جماعت ہے لہٰذا اِس سے توقع کی جاتی ہے کہ یہ روحانی تقاضوں کو پورا کرے۔ لیکن صدارت کے انتخاب میں جس بے پرواہی سے کام کیا گیا ہے اُس سے میں سمجھتا ہوں کہ خدام یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا صدر بھی محض ایک نمبردار کی حیثیت رکھتا ہے۔ میں نے اِس دفعہ صدارتی انتخاب کی کارروائی کا جائزہ لیا تو مجھ پر یہ اثر پڑا کہ مختلف مجلسوں نے نام پیش کرتے ہوئے اِس روح کو مدنظر نہیں رکھا جس کے قیام کے لیے خدام کی تحریک جاری کی گئی تھی۔ محض بڑے خاندان کا فرد ہونا نام تجویز کرنے کے لیے کافی سمجھا گیا ہے۔ پس یہ دیکھ لیں کہ فلاں نوجوان مسیح موعود علیہ السلام کی نسل سے ہے اور اُس کا نام تجویز کر دیا حالانکہ دیکھنا یہ چاہیے کہ اُس کا عمل اسلام اور احمدیت کی شان کے مطابق ہے یا نہیں؟ کیونکہ اگر کوئی نمازوں کا پابند نہیں اور دین کی خدمت کے لیے ہر وقت پیش پیش نہیں رہتا تو وہ محبت کی بجائے نفرت کا مستحق ہے۔بلکہ اہل بیت کے معاملے میں تو قرآن کریم کا ارشاد نہایت ہی سخت ہے کہ اگر وہ کوئی غلطی کریں گے تو اُنہیں دُگنی سزا ملاکرے گی۔ میں نے دیکھا کہ صدارت کے لیے بعض نام محض اِس لیے تجویز کر دیے گئے کہ وہ مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں حالانکہ جب تک مذہب کی صحیح روح کسی شخص میں پیدا نہ ہو جائے اُس وقت تک کوئی صحیح مومن نہیں ہو سکتا۔
(حضور نے فرمایا)
بعض لوگ ماں باپ اور رسولوں کے مقام بیان کرتے وقت نہایت غلو کر جاتے ہیں اور بعض انتہائی خشکی بھی برتتے ہیں لیکن چاہیے یہ کہ حفظِ مراتب رہے اور ہر چیز اپنے مقام پر ہو۔ اِس طرح کہ اس کے نتیجے میں احمدیت کو کوئی فائدہ پہنچے ورنہ یہ تو ظاہر ہے کہ:
گر حفظِ مراتب نہ کنی زندیقی
(حضورنے فرمایا)
میرے نزدیک بہت ہی کم جماعتوں نے صحیح طور پر کام کیا ہے۔ لہٰذا میرے سامنے دو ہی صورتیں تھیں۔ اس تحریک کو ختم کر دوں یا درست کرنے کی کوشش کروں۔ اِن دونوں صورتوں میں سے میں نے درست کرنے کی کوشش کو اوّل پر ترجیح دی۔ اب میں اِس مجلس کا براہِ راست صدر ہوا کروں گا۔ اور ایک نائب صدر جو مجلس مرکزیہ کا ممبر ہوا کرے گا میرے احکام کی تنفیذ کیا کرے گا۔ نائب صدر کا یہ کام ہوگا کہ وہ تمام مجالس سے میرے احکام یا کمیٹی کے فیصلوں کی تعمیل کرایا کرے۔ اِسی طرح مرکز میں ایک مستقل سیکرٹری ہوا کرے گا جس کے لیے چالیس سال کی عمر کی قید نہیں ہوگی۔ پھر ہر صوبے کا علیحدہ ایک ایک نائب صدر اور ایک ایک سیکرٹری ہوگا۔ ہر سال مرکز میں دو دفعہ چودہ چودہ دنوں کے لیے تربیتی کورس ہوا کریں گے جن میں خدام تربیت حاصل کر کے اپنی اپنی مجالس میں دوسرے خدام کو تربیت دیا کریں گے۔
(حضور نے فرمایا)
ان تمام اخراجات کا بجٹ خدام کو خود پورا کرنا ہوگا۔ ہر ملازم، تاجر اور زمیندار اپنی آمد پر ایک پائی فی روپیہ کے حساب سے دیا کرے گا۔ سکول کے طلباء میں سے پرائمری والے دو پیسے، مڈل والے ایک آنہ اور ہائی سکول کے طلباء ڈیڑھ آنہ کے حساب سے چندہ ادا کیا کریں۔ کالج کے طلباء چار آنے ماہوار کے حساب سے چندہ ادا کیا کریں۔ عہدیداری کے لیے سب سے بڑی شرط دینداری ہوگی۔ ہر ووٹر کو ووٹ دیتے ہوئے باقاعدہ شہادت دینی پڑا کرے گی کہ یہ شخص اُس کے علم میں کیا واقعی پنجوقت کا نمازی ہے، راست باز ہے، غرباء پرور ہے، جھوٹا نہیں اور پابند نظامِ سلسلہ ہے۔
(آخر میں آپ نے فرمایا کہ)
چونکہ اب میں صدر ہوں گا لہٰذا اگر میری صحت نے اجازت دی تو میں آپ کے پروگرام میں حصہ لے کر بعض اور موقعوں پر خطاب کروں گا چونکہ پُرانے نظام کو سمجھنا اور اُس سے فائدہ اُٹھانا ضروری ہے تا کہ جو اچھا کام ہوچکا ہے وہ ضائع نہ ہو اِس لیے اِس سال کے لیے میں مرزا ناصر احمد ہی کو نائب صدر مقرر کرتا ہوں۔ سیکرٹری کی سفارش آپ لوگ کریں۔ اگر اُسے معقول سمجھوں گا تو میں مقرر کر دوں گا ورنہ واقفین میں سے یا جس کو اِس کام کے اہل سمجھوں گا مقررکر دوں گا۔ جسے دوسرے وکیلوں اور ناظروں کی طرح تبدیل بھی کیا جا سکے گا لیکن اس کے لیے عمر کی شرط نہیں ہوگی۔‘‘
(تقریر کو ختم کرتے ہوئے حضور نے فرمایا)
’’احمدی نوجوان کے معنی یہ ہیں کہ اُسے اپنی زبان پر قابو ہو، وہ محنتی ہو، وہ دیندار ہو، وہ پنجوقت کا نمازی ہو، وہ قربانی و ایثار کا مجسمہ ہو اور کلمۂ حق کو زیادہ سے زیادہ پہنچانے میں نڈر ہو۔ بے شک یہ لیفٹ رائٹ بھی بُری چیز نہیں لیکن خواہ کوئی چیز کتنی ہی اچھی ہو پھر بھی ہر چیز اپنے مقام پر ہی زیب دیتی ہے۔‘‘ (الفضل یکم نومبر ۱۹۴۹ء)
اسلامی شعار اختیار کرنے میں ہی
تمہاری کامیابی ہے
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اسلامی شعار اختیار کرنے میں ہی تمہاری کامیابی ہے
(فرمودہ ۳۱؍ اکتوبر ۱۹۴۹ء برموقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ بمقام ربوہ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
پیشتر اِس کے کہ میں تقریر شروع کروں چند باتیں میں ضمنی طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں۔ اوّل یہ کہ آپ لوگ جب یہاں آئیں تو ایک زائد چادر ساتھ لیتے آیا کریںتا کہ اِس قسم کے موقع پر نیچے بچھا کر بیٹھ جائیں۔ گرمی زیادہ ہے جس کی وجہ سے نزلہ اور کھانسی وغیرہ امراض ہو جاتی ہیں۔ اگر زائد چادر ساتھ ہو اور وہ بچھا کر بیٹھا جائے تو اِن امراض سے انسان ایک حد تک محفوظ رہتا ہے۔ پھر اس میں ثواب بھی ہے بعض مہمان آ جاتے ہیں یا بعض لوگ چادر وغیرہ ساتھ نہیں لاتے وہ بھی ساتھ بیٹھ جائیں گے۔ پس جس طرح خیموں کے لئے تم چادریں یا کھیس ساتھ لاتے ہو اُسی طرح ایک چادر زائد بھی لے آیا کرو۔ ہمارے پنجاب میں پہلے یہ رواج ہوتا تھا کہ زمیندار جب کہیں باہر جاتے تو ایک چادر کندھے پر ڈال لیتے تھے جو اِس قسم کے مواقع پر کام آ جایا کرتی تھی اب معلوم نہیں یہ رواج ہے یا نہیں۔ بہرحال یہ چیز بڑی ضروری ہے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض دوست تکلیف اُٹھا کر زمین پر ہی بیٹھ جاتے ہیں اور وہ اِسے کوئی معیوب بات نہیں سمجھتے لیکن باہر سے آنے والوں پر اِس کا بُرا اثر پڑتا ہے پس اپنے ساتھ ایک زائد کپڑا رکھنا چاہیے جو ایسے موقع پر زمین پر بچھا لیا جائے اور پھر اُس پر بیٹھا جائے۔
میں نے کل انتخابِ صدر کے متعلق چند تلخ باتیں کہی تھیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ تلخ باتیں بھی قومی ترقی کا موجب ہو جایا کرتی ہیں۔ دنیا میں جس قوم نے بھی ترقی کی ہے اپنے جذبات کو کچل کر ہی ترقی کی ہے۔ ایسی صورت میں افراد کا فرض ہوتا ہے کہ وہ تلخ باتیں سننے کے عادی ہوں اگر وہ تلخ باتیں سننے کے عادی ہو جائیں تو اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کچھ عرصہ کے بعد ان میں یہ جذبہ پیدا ہو جائے گا کہ وہ اپنی ذات پر جرح کو سُن سکیں اور اس طرح اپنی اصلاح کر سکیں۔ ہمارے خاندان کے بعض نوجوانوں میں کچھ ایسی باتیں پائی جاتی ہیں جو انسان کے اندر نزاکت پیدا کر دیتی ہیں یوں بھی بڑے لوگوں کے بچوں میں قدرتی طور پر نزاکت پیدا ہو جاتی ہے لیکن میں بہت حد تک اسے ناپسند کرتا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد ہونے کی وجہ سے لوگ ہمارا لحاظ کرتے ہیں اور پھر ہمارا خاندان ایک لمبے عرصہ تک حکومت کرتا چلا آیا تھا اِس وجہ سے بھی ایک طرح غرور کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ ہم جب سنتے ہیں کہ ہمارے بزرگ غرور کی وجہ سے دوسروں کی باتیں نہیں سنتے تھے تو ہم میں بھی یہ رنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ میرے لئے بھی ایک موقع ایسا آیا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میں اُس موقع پر خداتعالیٰ کے فضل سے پاس ہو گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل جب بیمار تھے اور آخری جلسہ پر تقریر کے لئے تشریف لے گئے تو اُن دنوں کسی بات پر آپ ہمارے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب مرحوم سے ناراض تھے۔ جب جلسہ پر جانے کی ضرورت پیش آئی تو بیماری کی وجہ سے آپ چل تو سکتے نہیں تھے اور قادیان میں اُن دنوں صرف ایک گاڑی تھی جس پر بیمار آ جا سکتے تھے اور وہ نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی تھی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے چاہا کہ کسی طرح گاڑی بھی مل جائے اور آپ کو بھی نہ کہنا پڑے۔ چنانچہ آپ نے مجھ سے فرمایا میاں! تم نواب صاحب سے گاڑی منگواؤ۔ چنانچہ میں نے نواب صاحب کو گاڑی کے لئے کہلا بھیجا اور اُنہوں نے گاڑی بھیج دی۔ اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سوار ہو کر جلسہ میں تشریف لے گئے۔ گاڑی کی خچریں بہت تیز تھیں جب گاڑی جلسہ گاہ(مسجد نور) کے پاس پہنچی تو خچریں دَوڑنے لگ پڑیں۔ سائیس نے مجھے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو میں گاڑی نواب صاحب کی کوٹھی لے جاؤں آپ جب گاڑی کے لئے آدمی بھیجیں گے تو میں فوراً آ جاؤں گا۔ مولوی محمد علی صاحب بھی پاس ہی تھے میں نے مناسب سمجھا کہ اُن سے بھی اِس بارہ میں مشورہ کر لوں۔ میں نے کہا مولوی صاحب! خچریں دَوڑتی اور شور کرتی ہیں سائیس کہتا ہے کہ اگر مجھے اجازت ہو تو انہیں نواب صاحب کی کوٹھی لے جاؤں جب آپ کہیں گے میں گاڑی لے آؤں گا۔ اُنہوں نے کہا ہاں ٹھیک ہے۔ میں نے سائیس سے کہا اچھا گاڑی لے جاؤ لیکن تیار رہنا اور حکم ملنے پر فوراً لے آنا۔ ہمارا اندازہ تھا کہ کوئی گھنٹہ بھر تقریر ہوگی لیکن چونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی طبیعت خراب تھی اِس لئے صرف دس پندرہ منٹ تقریر ہوئی اور آپ نے کہا گاڑی لاؤ۔ میں نے فوراً آدمی دَوڑایا گاڑی آنے میں دو چار منٹ کی دیر ہوگئی آپ ناراضگی کی حالت میں ہی پیدل چل پڑے۔ میں دیکھ رہا تھا کہ بیماری کی وجہ سے آپ کے قدم لڑکھڑا رہے ہیں مگر میں نے خیال کیا کہ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ آپ ابھی بورڈنگ کے دروازہ تک ہی پہنچے تھے کہ گاڑی آ گئی لیکن پیشتر اس کے کہ میں گاڑی پیش کروں آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا۔ مولوی محمد علی صاحب نے بھی کہا کہ ہاں یہ ان کی غلطی تھی حالانکہ میں نے اُن سے مشورہ کر لیا تھا۔ بہرحال میں نے عرض کیا کہ چونکہ ہمیں خیال تھا کہ حضور کی تقریر لمبی ہوگی اس لئے ہم نے گاڑی واپس بھیج دی۔ اِس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے خفگی کا اظہار فرمایا۔ مجھے اُس وقت بُرا تو محسوس ہوا لیکن میں نے اسے برداشت کیا اور سمجھا کہ آپ ہمارے بزرگ اور مقتدیٰ ہیں آپ سے اگر ایک تلخ بات بھی میں نے سن لی تو کیا ہوا۔ جب گاڑی آ گئی تو میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ گاڑی حاضر ہے حضور! اس پر سوار ہو جائیں چنانچہ آپ گاڑی پر سوار ہوگئے۔
بہرحال تلخ بات کا سننا بھی مفید ہوتا ہے ہم سے پہلوں نے تلخ باتیں سنیں اور بلند مرتبہ حاصل کیا، اگر بعد والے بھی تلخ باتیں سنیں گے تو بلند درجات حاصل کریں گے۔ ہاں انسان کو بے غیرت نہیں بننا چاہیے اور بات کو ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال نہیں دینا چاہیے۔ غیرت یہ ہے کہ انسان ایسی بات سنے تو اُسے بُرا تو لگے گا لیکن وہ سمجھے کہ میں نے ہی یہ بات کہلوائی ہے غصہ نہ منائے تا آئندہ اُسے اصلاح کا موقع ملے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے ساتھ بھی ایک دفعہ ایسا ہی ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے ایک بھتیجے کو جو آپ کے پاس قادیان رہا کرتا تھا حکم دیا کہ وہ قادیان سے باہر چلا جائے اس لئے کہ وہ وہاں رہنے کے قابل نہیں تھا۔ وہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے پاس گیا اور اس نے یہ واقعہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا اب میں کیا کروں؟ پھر فرمایا اچھا! میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس تمہاری سفارش کروں گا لیکن ابھی آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کچھ لکھا نہیں تھا کہ کسی شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جا کر شکایت کر دی کہ بڑے مولوی صاحب نے اپنے بھتیجے سے کہا ہے کہ قادیان سے باہر نہ جاؤ اور یہ نہ بتایا کہ آپ نے تھوڑی دیر کے لئے صرف اِس لئے اُسے روکا ہے تا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں اس کی سفارش کر سکیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا اگر مولوی صاحب یہ کہتے ہیں کہ وہ باہر نہ جائے تو پھر وہ بھی اس کے ساتھ ہی تشریف لے جائیں۔ اِس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس تشریف لائے اور آپ نے بتایا کہ میں نے تو یوں کہا تھا مگر شکایت کرنے والے نے آدھی بات بتائی اور آدھی نہ بتائی۔
غرض تلخ باتیں سننے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اگر تم تلخ باتیں نہیں سنو گے تو کام کرنے کی عادت نہیں پڑے گی۔ میں جب کہتا ہوں کہ تلخ باتیں سنو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم بے غیرت بن جاؤ تلخ باتیں سنو لیکن بے غیرت بن کر نہیں۔ تمہیں غصہ آئے لیکن اپنے آپ پر، استاد اور مصلح پر نہیں۔ تم یہ سمجھو کہ میں نے غلطی کی ہے جس کی وجہ سے مجھے یہ سزا ملی ہے میں آئندہ ایسا نہیں کروں گا۔ میری طبیعت پر سب سے بڑا اثر انہی تلخ باتوں نے کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ مجھے ان سے بہت فائدہ پہنچا ہے۔ مثلاً اسلامی شعار ہیں آجکل اسلامی شعار اختیار کرنے کے لئے ہمت سے کام لینا پڑتا ہے۔ یہ زمانہ ایسا ہے جس میں اسلام کی کوئی بھی چیز باقی نہیں رہی۔ لَمْ یَبْقَ مِنَ الْاِسْلَامِ اِلاَّاِسْمُہٗ ۱؎ اسلام صرف نام کا رہ گیا ہے۔ تم اگر کسی کو ہیٹ پہنے دیکھو گے تو کہو گے دیکھو! وہ انگریز بنا پھرتا ہے لیکن اپنے منہ پر دیکھو تو وہاں انگریزیت پائی جاتی ہوگی، داڑھی منڈوائی ہوئی ہوگی، تم سر سے انگریز نہیں ہوگے تو منہ سے انگریر بنے ہوئے ہوگے، کسی کے سر پر پگڑی ہوگی تو نیچے سوٹ پہنا ہوگا۔ غرض کسی نہ کسی رنگ میں انگریزیت ضرور غالب ہوگی اور اس کا مقابلہ کرنا تمہیں مشکل معلوم ہوتا ہے لیکن یہی مقابلے ہیں جو انسان کے لئے کارآمد ہوتے ہیں اور اس میں ہمت پیدا کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جب نصیحت فرمایا کرتے تھے تو بعض دفعہ آپ کا یہ طریق ہوتا تھا کہ آپ ایک چھوٹا سا فقرہ کہہ دیتے۔ میں بچپن میں بھی ٹوپی پہنا کرتا تھا جس طرح آجکل کے نوجوانوں کو پگڑی بوجھل معلوم ہوتی ہے مجھے بھی بوجھل معلوم ہوتی تھی۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہم نئے فیشن کے ہیں۔
ایک دفعہ غالباً عید کا دن تھا میں کپڑے پہن کر باہر نکلا، میں جس کمرہ میں تھا اُس کا ایک دروازہ برآمدہ میں کھلتا تھا اور ایک باہر۔ میں کپڑے بدل کر برآمدہ میں پہنچا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی گھر سے نکلے اور اُس دروازہ میں پہنچے۔ میں نے بھی اُسی دروازہ سے گزرنا تھا اور آپ بھی اُسی دروازے سے گزرے۔ میں نے ٹوپی پہنی ہوئی تھی اور صرف اُس دن ہی نہیں بلکہ بچپن سے پہنتا چلا آیا تھا لیکن آپ نے مجھے دیکھ کر کہا عید کے دن بھی ٹوپی؟ یہ فقرہ گو سادہ تھا لیکن مجھ پر اِس کا یہ اثر ہوا کہ میں اُسی وقت واپس گیا اور کسی سے کپڑا مانگ کر پگڑی باندھی اور اُس دن کے بعد کبھی میں نے ٹوپی نہیں پہنی۔
ایک دفعہ آپ فرمانے لگے ہمارے خاندان کا یہ طریق ہے کہ جب ہم میں سے کوئی شخص باہر نکلتا ہے تو کوٹ پہن کر نکلتا ہے اور سوٹی ہاتھ میں رکھتا ہے اس لئے تم بھی جب باہر نکلو تو کوٹ پہن کر نکلو اور سوٹی ہاتھ میں لے کر نکلو اور جب گھوڑے کی سواری کرو تو پٹکا باندھو۔ میں نے یہ بات آپ سے سنی اور اُسی دن سے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ ایک دن شامت اعمال سے میں پھنس گیا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے مجھ سے پوچھا میاں! تم گھر سے نکلتے ہو تو کوٹ پہن کر اور ہاتھ میں سوٹی پکڑ کر نکلتے ہو اِس کی کیا وجہ ہے؟ میں نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ ہمارے خاندان کا یہ طریق تھا کہ جب بھی اُس کے افراد گھر سے باہر نکلتے تھے تو کوٹ پہن کر نکلتے تھے اور ہاتھ میں سوٹی لے کر نکلتے تھے اور اگر گھوڑے کی سواری کا موقع ہو تو پٹکا باندھتے تھے اس لئے میں بھی ایسا کرتا ہوں۔ یہ تو لمبی بات بھی ہے گھوڑے کی سواری سے عموماً پیٹ بڑا ہو جاتا ہے اور اگر پٹکا باندھ لیا جائے تو پیٹ بڑھتا نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد تحصیلدار ہمارے نام داخل خارج چڑھانے کے لئے آیا اُن دنوں سرکاری حکام جب قادیان آتے تو مرزا نظام الدین صاحب کے ہاں ٹھہرا کرتے۔ اُس نے مجھے وہاں بُلوایا میں حضرت خلیفہ اوّل کے پاس پڑھ رہا تھا اس لئے ادب کی وجہ سے نہ اُٹھا۔ دوسری دفعہ اُس نے پیغام بھیجا میں نہ گیا۔ پھر تیسری دفعہ پیغام بھیجا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے فرمایا میاں! یہ افسر لوگ ہیں چلے جاؤ۔ حضرت خلیفہ اوّل کے ادب کی وجہ سے میں نے خیال کیا کہ جلدی آ جاؤں گا۔ میری جوتی اندر تھی میں جوتی پہن کر ساتھ کے دروازہ سے اُتر آیا۔ میری شامت اعمال تھی کہ جب میں اندر گیا تو آپ نے اُن لوگوں سے جو آپ کی مجلس میں موجود تھے فرمایا دیکھو! یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات پر عمل کرتے ہوئے کوٹ پہن کر اور ہاتھ میں سوٹی لے کر باہر آئے گا اِس بات کی تصدیق کرنے کے لئے تمام لوگ دروازہ پر کھڑے ہوگئے۔ اِدھر میں اسی طرح آ گیا۔ مجھے اوپر سے یوں آواز آئی جیسے کسی کو شرمندہ کیا گیا ہو۔ جب میں واپس آیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے فرمایا میاں! تم نے مجھے آج بہت شرمندہ کیا۔ میں نے سب لوگوں سے یہ کہا تھا کہ دیکھو! یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بات پر عمل کرے گا اور کوٹ پہن کر باہر آئے گا اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ تم یونہی آگئے۔ میں نے کہا میں نے آپ کے ادب کی وجہ سے یہ چاہا تھا کہ جلدی آ جاؤں اِس لئے بغیر کوٹ پہنے اور سوٹی ہاتھ میں لئے باہر نکل آیا۔ یہ واقعہ سن کر کئی احمدیوں نے بھی اُس وقت پگڑیاں پہننی شروع کر دی تھیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد میں سے بعض نے ٹوپیاں پہننی شروع کر دی ہیں، بعض نے نکٹائیاں لگانی شروع کر دی ہیں اور بعض داڑھیاں مُنڈواتے ہیں اور اُنہیں یہ حس ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ اِس وقت ان کے باپ دادا کی عزت کا سوال تھا اِنہیں چاہیے تھا کہ وہ خاندانی روایات کو قائم رکھتے اور اپنے باپ دادا کے اچھے نمونہ کو قائم رکھتے لیکن اُنہوں نے اِس طرف کوئی توجہ نہیں کی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ مجھے کہیں سے ایک رقم ملی اور میں نے ایک کوٹ اور پتلون سلوائی اور ایک ٹائی بھی خریدی۔ اس لباس میں میں نے ایک تصویر بھی کھنچوائی۔ یہ کوٹ اور پتلون تین چار دن ہی پہنی تھی کہ انہیں بدل دیا۔ یہ وہ دن تھے جب گورداسپور میں کرم دین بھیں والا مقدمہ چل رہا تھا متواتر تاریخ پڑنے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہیں رہنا شروع کر دیا۔ عارضی قیام کے لئے وہاں ایک مکان لے لیا گیا تھا، ہمارے مہمان بھی وہیں آ جاتے تھے۔ اُس زمانہ میں بہت کم احمدی تھے اُن دنوں ہمارے ایک احمدی دوست محمد ایوب صاحب تھے جو غالباً صوبیدار میجر تھے اور مراد آباد کے رہنے والے تھے وہ اُن دنوں نئے احمدی ہوئے تھے اور نیا اخلاص لے کر آئے تھے اِس مقدمہ پر وہ بھی گورداسپور آئے تھے۔ شامت اعمال کی وجہ سے میں نے ٹائی لگائی ہوئی تھی اور غالباً سوٹ بھی پہنا ہوا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے صوبیدار میجر محمد ایوب صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ایک طرف لے جا کر کہا میاں! ہم یہاں آتے ہیں تو دین سیکھنے کے لئے آتے ہیں اور جو کچھ یہاں دیکھتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کی اصل روح ہے۔ ہمارے مولوی بتایا کرتے تھے کہ انگریزوں کی نقل کرنا کفر ہے مگر معلوم ہوتا ہے یہ کفر نہیں، آپ نے ٹائی پہنی ہوئی ہے تو میں کنچنیاں نچوانی شروع کر دوں گا اس لئے بہتر ہے کہ یہ ٹائی ابھی اُتار کر مجھے دے دو چنانچہ میں نے اپنی ٹائی اُنہیں دے دی اور اُنہوں نے وہیں پھاڑ کر پَرے پھینک دی۔ وہ پہلی اور آخری ٹائی تھی جو میں نے پہنی۔
اِسی طرح ایک دن اُنہوں نے بڑی سختی سے کام لیا ہماری والدہ دہلی کی رہنے والی ہیں دہلی اور یوپی کی تہذیب میں بہت فرق ہے۔ یوپی میں خاوند اپنی بیوی کو اگر کوئی بات کہے گا تو ’’آپ‘‘ کہے گا اسی طرح مالک اپنے نوکر کو آپ کہے گا۔ مثلاً مالک نوکر سے کہے گا ذرا آپ دوڑ کر دہی لے آئیے لیکن دہلی کی تہذیب یہ تھی کہ قریبی رشتہ داروں کو تم کہتے تھے اور میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو ’’تم‘‘ کہتے تھے ہماری والدہ بھی چونکہ دہلی کی رہنے والی تھیں اس لئے ہمیں بھی ایک دوسرے کو تم کہنے کی عادت پڑ گئی۔ ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ میں نے کہا کہ تم میری یہ بات سن لو۔ جب مجلس ختم ہوئی تو صوبیدار میجر محمد ایوب صاحب مجھے ایک طرف لے گئے اور کہنے لگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کے تو والد ہیں مگر میرے پیر ہیں اگر میں نے آئندہ اُن کے لئے تمہارے منہ سے تم کا لفظ سنا تو تمہارے بخیئے اُدھیڑ دوں گا۔ یہ پہلا سبق تھا جو مجھے دیا گیا اور میں نے ’’تم‘‘ کی بجائے ’’آپ‘‘ کہنا شروع کر دیا۔ پہلی دفعہ جب میں نے ’’آپ‘‘ کہا تو یوں معلوم ہوا جیسے میں نے کسی کو گالی دی ہے لیکن آہستہ آہستہ اِس کی عادت پڑ گئی۔ میاں بشیر احمد صاحب ذرا چھوٹے تھے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ’’تو‘‘ کہا کرتے تھے۔ اگرچہ یہ باتیں تلخ تھیں مگر میرے لئے میٹھی باتوں سے بھی زیادہ مفید ثابت ہوئیں۔
اب میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے خاندان کے بعض لڑکوں کی داڑھیاں قریباً منڈی ہوئی ہوتی ہیں اور سوٹ پہنے ہوئے ہوتے ہیں تمہیں ان کو صاحبزادہ نہیں کہنا چاہیے۔ آخر تمہارے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عزت زیادہ ہے یا ان کی نسل کی عزت زیادہ ہے۔ اگر تم میں صوبیدار میجر محمد ایوب صاحب جیسی ہمت نہیںتو کم از کم جب انہیں ایسا کرتے دیکھو تو ان سے منہ پھیر لو اور کہو کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اولاد ہوتے ہوئے ہمارے سامنے بُرا نمونہ پیش کرتے ہو اور ایسا کرتے چلے جاؤ یہاں تک کہ وہ اپنی اصلاح کر لیں۔ پس اپنے اندر ہمت پیدا کرو۔ اگر تم دوسرے پر اُنگلی اُٹھاؤ گے تو پھر تم اپنی بھی اصلاح کر لو گے۔
جب میں کوئٹہ میں تھا تو وہاں اخبار نویسوں کی ایک دعوت تھی اُن میں ایک احمدی بھی تھے جن کی داڑھی منڈی ہوئی تھی۔ (اب بھی وہ نمائندہ بن کر یہاں آئے ہوئے ہیں) اور ایک داڑھی والے تھے۔ وہ داڑھی والے اخبار نویس کہنے لگے میںایک بات کہنا چاہتا ہوں خواہ آپ کو بُری لگے۔ پہلے احمدیوں کی اَور بات تھی اب اَور ہے۔ اب اِتنی داڑھیاں نہیں رہیں جتنی پہلے تھیں۔ خیر اپنے گھر کی تو اور بات ہوتی ہے میں بھی اپنی اولاد کو بُرا بھلا کہہ رہا ہوں لیکن دوسرے کے منہ سے سن کر غیرت آتی ہے۔ میں نے اُسے کہا دوسرے مسلمانوں کے مقابلہ میں ہم میں اب بھی داڑھی رکھنے والوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ہمارے دس آدمیوں میں سے اگر ایک کی داڑھی نہیں ہوتی تو آپ کے دس آدمیوں میں صرف ایک کی داڑھی ہوتی ہے۔ اُس نے کہاہاں نسبتی فرق تو اب بھی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ آخر داڑھی رکھنے میں کیا روک ہے اور داڑھی نہ رکھنے میں کیا فائدہ ہے۔ داڑھی رکھنے میں مشکل ہی کیا ہے۔ تم بتاؤ کہ داڑھی منڈوانے میں کیا خوبی ہے؟ یا کترا کترا کر نیچے لے جانے میں کیا خوبی ہے؟ آخر جیسے میں تمہیں علم سکھاتا ہوں تمہارا بھی فرض ہے کہ اگر کوئی نئی بات تمہیں معلوم ہو تو مجھے بتاؤ۔ میں تمہیں روزانہ کئی باتیں سکھاتا ہوں تمہارا بھی فرض ہے کہ اگر تمہیں کوئی نیا نکتہ مل جائے تو مجھے بتاؤ۔ میں اُس پر عمل کروں یا نہ کروں کم از کم میرا دماغ تو روشن ہو جائے گا۔ چونکہ یہ مجلس اصلاحی ہے اس لئے تم بتاؤ کہ داڑھی منڈانے یا کترا کترا کر نیچے لے جانے میں کیا فائدہ ہے؟ میں اب تقریر تھوڑی دیر کے لئے بند کر دیتا ہوں اگر تمہاری نظر میں داڑھی منڈوانے کا کوئی فائدہ ہو تو مجھے بتاؤ۔
اس موقع پر حضور نے تھوڑی دیر کے لئے جواب کا انتظار کیا تو ایک نوجوان نے کہا کہ داڑھی رکھی جائے تو نیند نہیں آتی۔ حضور نے فرمایا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ بے خوابی کے مریض تھے۔ اِس پروہ شخص شرمندہ ہو کر خاموش ہو گیا۔ حضور نے سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے فرمایا:۔
بات یہ ہے ’’من ّ*** حجتاں ڈھیر‘‘ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کا وہ ادب دلوں میں نہیں رہا جو پہلے تھا۔ اگر تم داڑھی رکھ لو گے تو کیا ہوگا؟ صرف یہی کہ لوگ تم پر ہنسیں گے اب بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ تم پر ہنستے ہیں۔ کامیابی کے آخر آثار ہوتے ہیں تم اپنے اندر کامیاب ہونے والوں کا سا رنگ پیدا کرو۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ لوگ تمہیں قُل اعوذئے کہیں گے اور کہا کریں۔
اِس موقع پر حضور نے مسٹر عبدالشکور کنزے (جرمن نَو مسلم) کو جنہوں نے داڑھی رکھی ہوئی ہے سٹیج پر کھڑا کیا اور اُن سے دریافت کیا کہ کیا تمہاری سات پشت تک کسی نے داڑھی رکھی ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا نہیں۔ اِس پر حضور نے خدام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تمہیں شرم نہیں آتی!! ایک غیر قوم کا آدمی داڑھی رکھتا ہے لیکن تم داڑھی نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتا ہے کہ میں اب مسلمان ہو گیا ہوں اِس لئے میں داڑھی رکھوں گا لیکن تمہیں کچھ احساس نہیں۔ سب سے پہلے انگریزوں نے داڑھی منڈانی شروع کی تھی ان میں سے بشر احمد آرچرڈ جو اَب ہمارے مبلّغ ہیں مسلمان ہوئے اور اُنہوں نے داڑھی رکھی۔ مسٹر کنزے کی داڑھی کے بال تو سیاہ ہیں لیکن بشیراحمد آرچرڈ کی داڑھی کے بال بھورے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے گویا مکئی کے سٹے کے بال اُتار کر لگا دیئے گئے ہیں لیکن وہ داڑھی رکھتے ہیں۔ پھر اُنہیں انگریز بیوی بھی مل گئی ہے۔ انگریزوں کے ہاں کورٹ شپ ہوتی ہے اور اس کے بغیر وہ سمجھتے ہیں گویا نکاح ہی نہیں ہوا۔ ہم نے لڑکی کے والد سے کہا کہ اب یہ رسم ختم کرو تو اُنہوں نے کہا بہت اچھا۔ وہ خاندانی آدمی تھے صحت کی خرابی کی وجہ سے اُنہوں نے ملازمت چھوڑ دی ہے اور اب ایک فارم لیا ہوا ہے اس سے بھی کافی آمد ہے۔ اُنہوں نے بڑی بہادری سے کہا اچھاکورٹ شپ نہیں ہوگی۔ ہم نے کہا لڑکی کو باوجود منگنی کے لڑکے سے علیحدہ ملنا نہیں ہوگا۔ ان کے ہاں منگنی کے بعد میاں بیوی والے تعلقات بھی ہو سکتے ہیں۔ مجھے جب یہ خبر آئی کہ اُنہوں نے کورٹ شپ کی اجازت نہیں دی تو میں نے خیال کیا انہیں ایک نیکی کی توفیق ملی ہے اب دوسری نیکی کی بھی توفیق ملے گی۔ اب میں نے ان کا فوٹو دیکھا تو معلوم ہوا کہ ان کی اپنے داماد سے بھی بڑی داڑھی ہے اسی طرح آئندہ لوگ داڑھی رکھنے لگ جائیں گے۔ فرانس میں ۲۰ میں سے ایک آدمی نے داڑھی رکھی ہوئی ہوتی ہے۔ نوجوانوں کو سب سے زیادہ شوق برناڈشا کی کتابیں پڑھنے کاہے اُس کی بھی داڑھی تھی۔ غرض جن لوگوں کے اندر برتری کا احساس ہوتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم دوسروں کی کیوں نقل کریں، وہ دوسروں کی بالکل پرواہ نہیں کرتے۔ پس تم اسلامی احکام پر عمل کرو اور خصوصیت سے ہمارے خاندان پر اسلامی احکام پر عمل کرنا زیادہ واجب ہے۔ تمہیں اپنے اندر یہ جرأت پیدا کرنی چاہیے کہ لوگ کہیں کہ تم میں فلاں خرابی ہے اور تم اُسے برداشت کرو اور پھر اپنی اصلاح کی کوشش کرو۔ جب کوئی اپنی اصلاح کرے گا تو لازمی بات ہے کہ وہ دوسرے کی بھی اصلاح کرے گا۔ جب تک تم میں دیوانگی پیدا نہیں ہوتی تم کامیاب کیسے ہو سکتے ہو۔ دیوانگی کے بغیر کامیابی نہیں ہوا کرتی۔
انبیاء کی جماعتوں کو دیکھ لو لوگ اُنہیں دیوانے کہا کرتے ہیں لیکن کیا وہ دیوانے ہوتے ہیں؟ پھر کیا وجہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی جماعت کو دیوانہ کہا گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والوں کو دیوانہ کہا گیا۔ ایسا کیوں ہوا؟ محض اس لئے کہ وہ سوسائٹی کی بات نہیں مانتے تھے۔ لوگ حیران ہوتے ہیں کہ آخر کیا بات ہے کہ اُنہوںنے ایسی شکل بنا لی ہے اور سوسائٹی کی بات نہیں مانتے۔ یقینا یہ دیوانگی کا اثر ہے قرآن کریم میں ان کی حیرت کا یہ حال آتا ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ رسول ہمیں کہتا ہے کہ تم اپنا مال یوں نہ خرچ کرو بھلا ہمارے مال میں اسے دخل دینے کی کیا ضرورت ہے۔ ہمارا اپنا مال ہے جس طرح ہم چاہیں اِسے استعمال کریں۔ مثلاً سُود ہے یہ کہتا ہے سُود نہ لیا کرو۔ بھلا اس کی یہ بات ہم مان سکتے ہیں؟ ہمارا مال ہے جسے چاہیں دیں اور جس طرح چاہیں دیں اس کا مذہب سے کیا واسطہ؟ لیکن کیا تمہارے نزدیک اُن کی یہ دلیل ٹھیک ہے؟ یہی چیزیں اُنہیں عجیب نظر آتی تھیں کہ مال کسی کا اور دینے والا کوئی۔ رسول کو اِس میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے یہ یقینا دیوانہ ہے۔ مگر انبیاء اور اُن کی جماعتوں نے ہی جنہیں لوگ دیوانہ کہتے تھے فتح پائی۔
غرض دیوانگی کے بغیر کوئی قوم جیت نہیں سکتی۔ تم احمدی ہوگئے ہو اب تم داڑھی تو کیا بھویں بھی منڈوا لو بلکہ سر سے لے کر پاؤں تک انگریز بن جاؤ پھر بھی تمہاری مخالفت ضرور ہوگی۔ اگر تمہیں اپنی مخالفت کا ڈر تھا تو یہ مصیبت کیوں سہیڑی۔ تم کہتے ہو یہ مصیبت ہم نے اِس لئے سہیڑی ہے تا اسلام کی حکومت قائم ہو جائے۔ ہم بد عمل ہی سہی لیکن اسلام سے ہمیں محبت ہے اور اسلام کی حکومت ضرور قائم کریں گے یہ سارے مصائب ہم اس لئے برداشت کر رہے ہیں کہ اسلام کو ہم نے غالب کرنا ہے۔ اب تم ہی بتاؤ کہ تمہارے اِس دعویٰ میں کہاں تک سچائی پائی جاتی ہے۔ کیا تم میں کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے تم دنیا میں اسلام کو غالب کر سکتے ہو؟ آخر وہ کون سی چیز ہے جس سے لوگ جیتتے ہیں؟ مثلاً تعداد ہے تعداد بڑھنے کے ساتھ بھی قو میں جیتا کرتی ہیں لیکن تمہاری کتنی تعداد ہے اور کس حساب سے تمہاری تعداد بڑھ رہی ہے۔ الفضل میں شائع ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کے فضل سے اِس ماہ ۳۰۰؍ افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ بے شک یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے لیکن کیا اِس فضل سے تم جیت جاؤ گے؟ اگر ایک ماہ میں تین سَو احمدی ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سال بھر میں صرف ۶۰۰،۳ ؍احمدی ہوں گے دس سال میں ۰۰۰،۳۶؍ احمدی ہوں گے اور ایک ہزار سال میں صرف ۰۰۰،۰۰،۶۰،۳ کی زیادتی ہوگی لیکن ہزار سال تک کوئی قوم زندہ بھی رہی ہے؟ کیا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم ہزار سال تک زندہ رہی ہے؟ کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم ہزار سال تک زندہ رہی ہے ؟یا کیا خود محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت ہزار سال تک زندہ رہی ہے؟ ہو سکتا ہے کہ اس عرصہ میں کوئی اَور مامور من اللہ آ جائے۔ جیتنے کی صرف یہی تین صدیاں ہوتی ہیں اور اگر رفتارِترقی یہی رہی تو اولادوں کو ملا کر تم سَو سال میں پانچ لاکھ اَور ہو جاؤ گے اِس تعداد کے ساتھ تم دنیا میں کیسے کامیاب ہو سکتے ہو۔
پھر دنیا کو فتح کرنے کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے لیکن تمہارے پاس روپیہ بھی نہیں۔ کراچی کا ایک سیٹھ تمہاری سب جائدادیں خرید سکتا ہے۔ آخر تم کس چیز کے ساتھ کامیاب ہوگے؟ جیتنے کے لئے جتھہ کی ضرورت ہے، جیتنے کے لئے مال کی ضرورت ہے، جیتنے کے لئے عقل اور علم کی ضرورت ہے اور ان میں سے کوئی بھی چیز تمہارے پاس نہیں۔ ہاں ایک اَور چیز ہے جس سے تم جیت سکتے ہو اور وہ دیوانگی ہے لیکن وہ بھی ابھی تم میں پیدا نہیں ہوئی۔ عقل کہتی ہے تم نے غالب آنا ہے تو جتھہ پیدا کرو لیکن جتھہ تمہارے پاس نہیں ہے۔ صرف لاہور کی آبادی ۱۷ لاکھ کی ہے اور تمہاری تعداد قریباً تین لاکھ کی ہے آخر تم فخر کس بات پر کرتے ہو؟ پھر مالی لحاظ سے صدر انجمن احمدیہ کی حیثیت ایک معمولی تاجر کی بھی نہیں۔ لائل پور کے صرف ایک تاجر پر سات لاکھ روپیہ سالانہ ٹیکس لگا ہے اور تم سب مل کر سات لاکھ روپیہ کتنی مشکل سے چندہ دیتے ہو۔ علم کہو تو تمہارے ایک کے مقابلہ میں دوسروں میں ہزار عالم نکلیں گے۔ پھر کیا چیز ہے جس کی بناء پر تم کامیاب ہو جاؤ گے؟ تم اُن سے روپیہ چھین نہیں سکتے اور نہ اُن سے زیادہ روپیہ کما سکتے ہو، تم اُن کا علم چھین نہیں سکتے اور نہ ہی اُتنا علم سیکھ سکتے ہو، تم جتھہ کے لحاظ سے اُن کو ماتحت نہیں کر سکتے۔ صرف ایک ہی چیز ہے جس کی وجہ سے تم کامیاب ہو سکتے ہو اور وہ جنون ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں یہ جنون پایا جاتا تھا اور وہ جیت گئی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم میں یہ جنون پایا جاتا تھا اور وہ جیت گئی، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں میں بھی جنون تھا جس کی بناء پر وہ دنیا پر غالب آئے۔ اب تمہیں بھی جنون ہی کامیاب کر سکتا ہے لیکن تم نے اسے اپنے ہاتھوں کھو دیا ہے۔ مجنون کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ وہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔
ہمارے ہاں ایک اُستانی تھی اُس کا سر چکرایا کرتا تھا وہ چارپائی پر بیٹھی ہوئی تھی کہ زلزلہ آیا۔ پاس والوں نے کہا زلزلہ آیا ہے مگر وہ کہنے لگی تم آرام سے بیٹھی رہو زلزلہ وغیرہ کوئی نہیں آیا صرف میرا سر چکرایا ہے یہ علامت ہے جنون کی۔ ایسا آدمی دوسرے کی پرواہ نہیں کرتا اور ہر جگہ اپنی بات سنا دیتا ہے اور موقع بے موقع لوگ اُس کی بات سننے پر مجبور ہو جاتے ہیں جہاں بھی کوئی بات ہوگی وہ اپنی سنا دے گا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سنایا کرتے تھے کہ ایک مولوی کی بیوی پاگل ہوگئی۔ وہ شاہ پور کا رہنے والا تھا اُس نے اپنی پاگل بیوی سے تنگ آ کر اپنا وطن چھوڑ دیا اور لاہور چلا گیا۔ چھ ماہ یا سال گزر گیا ایک دن وہ مولوی گھر آیا تو دیکھا کہ اُس کی وہی پاگل بیوی اندر بیٹھی روٹیاں پکا رہی ہے۔ وہ بڑا حیران ہوا پانچ سات دن کے بعد اُس کی باتوں سے تنگ آ کر مولوی نے اُسے طلاق دے دی اور لاہور سے بھاگ کر لکھنؤ چلا گیا۔ وہاں تین چار سال تک رہا۔ ایک دن وہ گھر آیا تو دیکھا کہ پھر اُس کی پاگل بیوی اندر بیٹھی روٹیاں پکا رہی ہے۔ مولوی نے کہا تم یہاں کیسے آ گئی ہو میں تو تمہیں طلاق دے آیا تھا۔ وہ کہنے لگی جب تک ہم دونوں کی منظوری نہ ہو طلاق کیسے ہو سکتی ہے میں نے منظوری دی نہیں طلاق کیسے ہو سکتی ہے۔ آخر وہ تنگ آ کر ہندوستان سے ہی باہر چلا گیا۔ اسی طرح جب مومن دیکھتا ہے کہ خداتعالیٰ کی بات سنی نہیں جاتی تو وہ پاگل ہو جاتا ہے اور آخر دنیا اُس کی بات سننے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ غرض یہی ایک طریق ہے جسے اختیار کر کے تم کامیاب ہو سکتے ہو۔ جب تک تم پاگلوں والا طریق اختیار نہیں کرتے اپنے مقصد میںہرگز کامیاب نہیں ہوسکتے۔ تم یہ تو سوچتے ہو کہ اگر ہم نے چندہ دے دیا تو مال میں کمی آ جائے گی، تم میں سے نصف کے قریب نادہندہ ہیں، پھر کئی ایسے ہیں جن کے باپ چندہ ادا نہیں کرتے اور کئی کے ہمسائے چندہ ادا نہیں کرتے۔ کسی چندہ دینے والے نے کبھی نادہند سے یہ نہیں پوچھا کہ تم چندہ کیوں نہیں دیتے؟ تمہارے کوئی شخص پانچ روپے نہ دے تو شور مچا دیتے ہو مگر خدا تعالیٰ کے اگر کوئی پانچ ہزار روپے بھی نہیں دیتا تو تمہیں اس کی کچھ پرواہ نہیں تم کہہ دیتے ہو کہ خداتعالیٰ اس کا خود ذمہ دار ہے لیکن اپنے روپے کے بارہ میں تم خود ذمہ دار بن جاتے ہو۔ نوجوانوں میں ہمت ہوتی ہے اس لئے ان کا زیادہ فرض ہے کہ وہ خود بھی چندہ دیں اور دوسروں کو بھی چندہ دینے پر مجبور کریں۔ اگر تمہارا باپ نادہند ہے تو کم از کم تم یہ تو کہہ سکتے ہو آپ میرے باپ ہیں اور میں آپ کی عزت کرتا ہوں لیکن یہ کتنا ذلیل کام ہے جو آپ کرتے ہیں۔ میں صرف خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آپ کی عزت کرتا ہوں ورنہ جو کام آپ کرتے ہیں وہ ایسا نہیں کہ آپ کی عزت کی جائے۔ تمہارے اندر اگر جرأت ہو اور تم عقل سے کام لو تو تم یہ کام کر سکتے ہو۔ صرف جنون کی ضرورت ہے اور جنون ہی تمہیں کامیاب کرے گا۔ جن لوگوں میں جنون ہوگا وہ دوسروں کو مجبور کر دیں گے کہ اُن کی بات سنیں، اُن کی بات مانیں اور اُس پر غور کریں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن کو چاہیے کہ اگر وہ بُرائی دیکھے تو اُسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تو زبان سے روکے اور اگر اتنی بھی جرأت نہیں کہ اُس کی بُرائی کو زبان کے ذریعہ روکے تو کم از کم دل میں بُرا منائے۲؎ لیکن تم میں سے کتنے ہیں جو بُرائی دیکھ کر اُسے دل میں ہی بُرا مناتے ہیں پھریہ کیسا ایمان ہے جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔
انگلستان میں پردہ کا سوال اُٹھا تو میں نے اپنے مبلغ کو کہلا بھیجا کہ اس مُلک کے عادات ایسے ہیں کہ عورتیں پردہ کر ہی نہیں سکتیں مگر تم ہر نَو مسلمہ سے یہ کہو کہ پردہ اسلامی حکم ہے اور پردہ نہ کرنے کو دل میں بُرا مناؤ اور یہ ایمان رکھو کہ جہاں کہیں بھی پردہ کا موقع مل گیا تم پردہ کے حکم کو بجا لاؤ گی۔ لیکن اگر ان کے اندر یہ احساس پیدا ہو گیا کہ پردہ اچھا نہیں تو وہ اس حکم کی اطاعت نہیں کریں گی۔ اسی طرح دوسری شادی ہے تم ان کے اندر یہ احساس پیدا کرو کہ دوسری شادی جائز ہے تا کہ وہ ان احکام کو اسلام کے ہی احکام مانیں اور ان کے اندر یہ احساس پیدا نہ ہو کہ یہ چیزیں غیر طبعی اور ناقابل قبول ہیں غرض جب تک تم اپنے کاموں میں جنون کا سا رنگ پیدا نہ کر لو گے تمہارے کام میں برکت نہیں پڑ سکتی اور بہت سی باتیں ہیں جن کے متعلق مجھے کچھ کہنا تھا لیکن چونکہ میں نے کل بھی بولنا ہے اِس لئے انہی باتوں پر اکتفا کرتا ہوں۔
میں تمہارا پریذیڈنٹ اِس لئے بنا ہوں تا دیکھوں کہ میری ان باتوں کا تم پر اثر ہوتا ہے یا نہیں۔ اگر میں نے دیکھا کہ تم پر ان باتوں کا اثر نہیں تو میں اس نظام کو ختم کر دوں گا۔ سینکڑوں آدمی تمہارے اس نمونہ کی وجہ سے احمدیت میں داخل ہونے سے رُک گئے ہیں بعض نوجوانوں میں وہی آوارہ گردیاں پائی جاتی ہیں، وہی گانے ہیں، وہی اسلامی احکام سے تمسخر پایا جاتا ہے ابھی جب میں ربوہ آیا ہوں تو پرنسپل جامعہ احمدیہ نے مجھے ایک چٹھی لکھی لیکن دیکھو انسان کی جب حالت گر جاتی ہے تو اس کی اخلاقی حالت کیا ہو جاتی ہے وہ لکھتے ہیں جب میں بورڈنگ گیا تو لڑکے شور مچا رہے تھے۔ اگر لڑکے شور مچا رہے تھے تو کوئی بات نہیں لیکن آگے کیا ہوتا ہے۔ یہ تو وہی بات ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ مجھے ایک شخص نے بتایا کہ فلاں مولوی صاحب نے نکاح پر نکاح پڑھا دیا ہے۔ میں نے کہا وہ مولوی صاحب میرے اچھے واقف ہیں مجھے تو تمہاری بات پر یقین نہیں آتا۔ اُس نے کہا اگر آپ کو یقین نہیں آتا تومولوی صاحب سے خود پوچھ لیں۔ دو چار دن کے بعد وہ مولوی صاحب میرے پاس آئے۔ میں نے کہا مولوی صاحب! مجھے تو یقین ہے کہ آپ نے ایسا نہیں کیا مگر چونکہ لوگ کہتے ہیں اِس لئے آپ بتائیں کہ یہ نکاح کے متعلق کیا بات ہے؟ وہ کہنے لگے آپ پہلے مجھ سے پوچھ لیتے۔
’’نمبر دار نے چڑی جڈا روپیہ میرے ہتھ تے رکھ دِتا تے میں کی کردا‘‘
پرنسپل صاحب کہتے ہیں کہ میں نے دونوں ٹیوٹروں کو بُلایا اور اُن سے دریافت کیا کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟ وہ کہنے لگے ایسا تو روزانہ ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ اگر وہ فی الواقعہ نگران ہوتے تو اِس چیز کو دور کرتے۔ مثلاً ان میں ایک بیٹا میرا بھی ہے ہو سکتا ہے کہ پرنسپل اُسے سزا دیتا اور وہ میرے کان بھرتا۔ میں افسر ہوں ہو سکتا تھاکہ میں غلطی کرتا اور اسے نکال دیتا لیکن ہو کیاجاتا۔ اگر وہ لوگ پوری طرح ایمان دار ہوتے تو کہتے ہو جائے جو کچھ ہوتا ہے لیکن ہم نے قانون پر عمل کرانا ہے لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ یہ تو چڑی جتنے روپے والی بات ہے۔ پرنسپل صاحب کو خیال تک نہ آیا کہ وہ کیا لکھ رہا ہے اور ٹیوٹروں کی یہ بے ایمانی ہے کہ اُنہوں نے لڑکوں کے خلاف کوئی انتظامی کارروائی نہ کی۔ اس نقص کا بہرحال کوئی علاج کیا جائے گا میں نے عزم کر لیا ہے کہ ایسے لوگوں کو سکول سے نکال دوں۔ تمہارے اندر اگر ایمان ہوتا تو خدا اور رسول کے مقابلہ میں خواہ ساری دنیا ناراض ہو جاتی تمہیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ تم اگر مجھ سے اپنے حق میں فیصلہ کرا لیتے ہو تو میں بہرحال انسان ہوں اور غلطی کر سکتا ہوں لیکن اگر تم دوسرے کا حق چھین لیتے ہو تو اس کے بدلہ میں تم جہنم میں جاؤ گے۔۳؎
بھلا یہ بھی کوئی طریق ہے کہ چونکہ پچاس روپیہ ماہوار کی نوکری جاتی رہے گی اس لئے ہم لڑکوں کی اصلاح نہیں کرسکتے حالانکہ تم صحیح طریق پر چل کر ہی کامیاب ہو سکتے ہو۔ جب تک تم چالبازی کرتے رہو گے، جب تک تم بے ایمانی کرتے رہو گے، جب تک تم اپنی روٹی کی فکر کرو گے اُس وقت تک تم خداتعالیٰ کی رضا کو حاصل نہیں کر سکتے۔ اور جب تک تم خدا تعالیٰ کی رضاء حاصل نہیں کرتے سلسلہ کا مفید وجود نہیں بن سکتے اور نہ ہی کوئی کارنامہ کر سکتے ہو۔ تم چوہے کی طرح مارے جا سکتے ہو مگر بہادر شیر کی طرح فتح حاصل نہیں کر سکتے۔ میری ان باتوں کو سوچو اگر یہ باتیں غلط ہیں تو غور کرنے کے بعد میرے پاس کوئی ایسی مثال پیش کرو کہ فلاں جگہ پر فلاں جماعت بے دینی کے ذریعہ جیت گئی، انبیاء کی جماعتوں نے فلاں قوم کے فیشن کو اِس سے ڈر کر اختیار کر لیا، فلاں بستی کی قوم نے نوکریوں کی خاطر اپنے فرائض کو چھوڑ دیا۔ اگر تم نے کوئی ایسی مثال پیش کر دی تو میں مان لوں گا کہ قومیں بے دینی اختیار کر کے بھی جیت سکتی ہیں۔ تم مجھے بتاؤ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے لوگوں سے ڈر کر اُن کا فیشن اختیار کر لیا اور وہ جیت گئی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قوم نے بے دینی اختیار کر لی پھر بھی وہ جیت گئی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اپنے فرائض کو ترک کر دیا اور وہ پھر بھی جیت گئے۔ اگر تم کوئی ایسی مثال پیش کر دو تو میں تمہاری بات مان لوں گا۔ اور اگر ایسی کوئی مثال نہیں پائی جاتی تو پھر خدام الاحمدیہ ہی تمہارا ریڈیو ہے، یہی تمہارا سینما ہے جب تم یہ رنگ اختیار کر لو گے تو دنیا بے شک تمہارا تمسخر اُڑائے آسمان پر فرشتے تحسین کریں گے اور جب آسمان پر فرشتے تمہاری تحسین کرنے لگ جائیں گے تو تم کامیاب ہو جاؤ گے۔ کامیابی کا صرف یہی طریق ہے کہ دنیا ہمارا بے شک تمسخر اُڑائے لیکن آسمان پر فرشتے ہماری تعریف کرنے لگ جائیں۔
(الفضل ۲۲؍ اگست ۱۹۶۲ء)
۱؎ کنز العمال جلد۱۱ صفحہ۱۸۱ مطبوعہ حلب
۲؎ ترمذی کتاب الفتن باب ماجاء فی تغییر المنکر (الخ)
۳؎ ابوداؤد کتاب القضاء باب فی قضائِ القاضی اذا اخطاء
خدام الاحمدیہ کا نائب صدر
صدر انجمن احمدیہ کا اور ہر مجلس کا قائدمقامی امیر کی مجلس عاملہ کا رُکن ہوا کرے گا
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدام الاحمدیہ کا نائب صدرصدر انجمن احمدیہ کا اور ہر مجلس کا قائد مقامی امیر کی مجلس عاملہ کارُکن ہوا کرے گا
(فرمودہ یکم نومبر۱۹۴۹ء برموقع اختتام اجتماع خدام الاحمدیہ)
’’آئندہ کے لیے خدام الاحمدیہ کا نائب صدر اپنی سرکاری حیثیت سے صدرانجمن احمدیہ کا باقاعدہ ممبر ہوا کرے گا۔ اِسی طرح ہر مجلس کا قائد اپنی سرکاری حیثیت سے مقامی امیر کی مجلس عاملہ کا رُکن ہوا کریگا۔ خدام سے معینہ چندوں کے علاوہ رضاکارانہ طور پر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ پانچ ہزار روپے کی طوعی تحریکیں کرنے کی مجاز ہوگی۔ اس سے زائد رقم کے لیے صدر انجمن احمدیہ کے ناظر بیت المال سے دریافت کرنا ضروری ہوگا۔ لیکن اگر بِالفرض ناظر بیت المال اس سے اتفاق نہ کرے تو فیصلہ صدر خدام الاحمدیہ کیا کریں گے۔ ‘‘
(آج حضور نے کوئی پونے گھنٹے تک اپنے خدام کو زریں ارشادات سے نوازا۔ سب سے پہلے فرمایا)
’’ اب جو لوگ خدام میں شامل نہیں ہیں وہ بھی انہیں میں مل جل کر بیٹھ جاتے ہیں۔ خدام کا کوئی امتیازی نشان یا وردی ہونی چاہیے یا کوئی بیج ہونا چاہیے۔ زائرین کے لیے علیحدہ سٹیج ہونا چاہیے اور میرے ساتھ جو لوگ مقامِ اجتماع میں آیا کریں اُن سے بھی باقاعدہ پوچھ گچھ ہونی چاہیے۔ میرے ساتھ کسی ایسے آدمی کو اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے جس کے پاس آپ کا دیا ہوا جازت نامہ نہ ہو ورنہ اِس پہرے کی دونوں غرضیں تنظیم اور خطرے سے حفاظت ٹوٹ کر رہ جائیں گی۔
حضور نے فرمایا کسی قاعدے کی پابندی ہر حالت میں لازمی ہوتی ہے جو قومیں دلیلوں سے قاعدے توڑنے کا جواز نکالنا شروع کر دیتی ہیں اُن کی ذہنیتیں شکست خودرہ ہو جاتی ہیں۔ افسر جو قانون بنائیں سب سے پہلے اُس پر خود کاربند ہوں۔ خدام کاایک بیج ہونا چاہیے اگر بیج آجکل نہ بن سکیں تو فی الحال کپڑے کا بیج بنوالیا جائے۔
حضور نے فرمایا:۔
میں نے پرسوں کہا تھا کہ نائب صدر کا مقام محض تنفیذ احکامِ صدر ہوگا۔ مجھے ڈر ہے اِس سے وہ لوگ جو نمبرداری مزاج کے ہوتے ہیں کوئی اُلٹ مطلب نہ نکال لیں۔ تنظیم کی تبدیلی کا تعلق میرے ساتھ ہے تمہارے ساتھ نہیں۔ وہ میرا نمائندہ ہوگا لہٰذا تمہیں نائب صدر کے احکام کی پابندی صدر ہی کے احکام سمجھ کر کرنا ہوگی۔ نائب صدر اپنی سرکاری حیثیت سے صدر انجمن احمدیہ کا ممبر ہوا کرے گا۔ اِسی طرح مجلس کا قائد بھی مقامی امیر کی مجلس عاملہ کا رُکن ہوا کرے گا۔ مجلس مرکزیہ پانچ ہزار تک چندے کی طوعی تحریک کر سکے گی لیکن اس سے اوپر ناظر بیت المال کی اجازت ضروری ہوگی۔ اگر کسی حالت میں ناظر بیت المال اس سے اتفاق نہ کرے تو صدر انجمن احمدیہ کے لمبے لائحہ عمل کی تقلید کی بجائے معاملہ صدر خدام الاحمدیہ کے پیش ہوا کرے گا۔
اِس کے بعد حضور نے خدام کے معاہدہ میں جان مال اور عزت کے علاوہ لفظ وقت کا اضافہ کرتے ہوئے فرمایا۔ اب یہ معاہدہ یوں ہوگا۔
میں اقرار کرتا ہوں کہ قومی اور ملی مفاد کی خاطر میں اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو قربان کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہوں گا۔
اِس کے بعد حضور نے لفظ ملی کی تشریح کی کہ اِس میں اخلاقی اور مذہبی ضرورتیں دونوں آ جاتی ہیں۔ اور ’’تیار رہوں گا‘‘ اور ’’قربانی کروں گا‘‘ کے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا۔ جب تم یہ کہتے ہو کہ میں فلاں قربانی کے لیے ہر وقت تیار رہوں گا تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ گویا اب جب بھی بلاوا آئے عذر یا التوا کی گنجائش قطعاً نہیں ہے۔ پہلی صورت میں کہ قربانی کروں گا تیاری نہ ہونے کی بناء پر التواء کی گنجائش نکل آتی تھی اب اس کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔
اِس کے بعد حضور نے خدام کو کھڑے کر کے دونوں عہد خدام کا عہد اور قادیان کے حصول کا عہد دُہرائے اور حضور کے ساتھ خدام نے ایک ایک لفظ کر کے بآوازِ بلند اپنے ربّ سے تجدید عہد کی۔ اس کے بعد حضور دیر تک مطالعہ کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق خدام سے مختلف امور پوچھتے رہے اور آخر میں تلقین، تبلیغ کے سلسلے میں فرمایا۔
تبلیغ تین طریقوں سے ہو سکتی ہے۔ دوستی سے، خدمت سے اور مظلومی سے۔ لیکن مظلومی بہادری والی ہو جس سے یہ ظاہر ہو کہ تم محض اپنے ربّ کے لیے کچھ برداشت کر رہے ہو۔
اس کے بعد حضور نے کچھ دیر تک خدام کو فوجی زندگی کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی۔ پھر خدام الاحمدیہ کی کمی اشاعت کا شکوہ فرمایا اور کہا کہ اب تک آپ کی صدر انجمن احمدیہ سے بھی شاخیں بڑھ جانی چاہئیں تھی لیکن آپ ابھی تک ۱۲۰ سے آگے نہیں بڑھ سکے۔
کچھ دیر تک فوجی زندگی سے ملک و قوم اور وطن کو نفع پہنچنے کی اہمیت بیان کرنے کے بعد فرمایا جو لوگ کام تو خود نہیں کرتے اور الزام اللہ میاں کے سر پر تھوپ دینے کے عادی ہوتے ہیں کہ صاحب! اللہ میاں کو ایسا ہی منظور تھا۔ وہ خدا کی ہتک کرتے ہیں۔ خدا منصف اور عادل ہے اور کبھی کسی کی محنت اور نیک عمل کو ضائع نہیں کرتا لہٰذا خدا کے قانون کی تاویل تمہارے ذہنوں میں کبھی نہ آئے بلکہ اس کے خلاف جہاد کرو۔ بزدل لوگ یہ کہہ کر خدا کی توہین کرتے ہیں۔ خدا کبھی اچھے کاموں کا بُرانتیجہ نہیں نکالا کرتا۔ بزدلی کی اس روح کو کچلو کیونکہ یہ روح قوموں کو خراب کر دیا کرتی ہے اور اس سے اخلاق بگڑ جایا کرتے ہیں۔
آخر میں حضور نے تعلیمی اداروں کے متعلق اور اساتذہ کو طلبہ کی اخلاقی نگرانی کو کڑا کر دینے کی تلقین فرمائی اور کہا ابھی تک ہمارے تعلیمی اداروں کا نظام خاطر خواہ نہیں ہوا۔ ہائی سکول کی حالت نسبتاً بہتر ہے لیکن آپ کا معیار تو بہت بلند ہونا چاہیے۔ ہمارے ادارے تو ابھی ابتدائیہیں ان کے بچوں کے کردار تو نہایت ہی اعلیٰ ہونے چاہئیں لہٰذا میں بتائے دیتا ہوں کہ اگر آئندہ مجھ تک ان اداروں کے متعلق کوئی بداخلاقی وغیرہ کی کوئی رپورٹ آئی تو میں طلبہ سے زیادہ اساتذہ کو ذمہ دار ٹھہراؤں گا۔
حضور نے اپنی تقریر ہی میں اجتماع کے خاتمے کا اعلان فرمایا اور تقریر کے آخر پر ایک لمبی دعا فرمائی‘‘۔ (الفضل ۴؍ نومبر ۱۹۴۹ء)
پاکستان کی ترقی اور اس کے استحکام کے سلسلہ میں زریں نصائح
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
پاکستان کی ترقی اور اسکے استحکام کے سلسلہ میں زریں نصائح
(فرمودہ ۱۱؍ نومبر ۱۹۴۹ء بمقام کمپنی باغ سرگودھا)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔
سرگودھا کے احباب نے جب مجھ سے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں سرگودھا میں ایک تقریر کروں اور میں نے خوشی سے اسے منظور کر لیا تو اُنہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ میں کس مضمون پر تقریر کروں گا۔ میں نے اُنہیں جواب دیا کہ میں کوئی مضمون متعین نہیں کر سکتا درحقیقت اِس کی وجہ یہ تھی کہ مجھے سرگودھا میں تقریر کرنے کا اِس سے پہلے کوئی موقع نہیں ملا اور بوجہ اس کے کہ اِس سے پہلے مجھے تقریر کرنے کا یہاں موقع نہیں ملا یہ ظاہر بات ہے کہ بیسیوں امور میرے دل میں پیدا ہونے لازمی ہیں جن کے متعلق میں کچھ کہوں لیکن تھوڑے سے وقت میں بہت سے امور کے متعلق تفصیلی گفتگو نہیں ہو سکتی نہ کسی ایک کا انتخاب ایسی صورت میں کیا جا سکتا ہے جبکہ دل یہ کہتا ہو کہ میں کئی باتیں کہوں۔ لاہور یا بعض ایسے مقامات جہاں مجھے متواتر بولنے کا موقع ملا ہے اور جہاں کئی باتوں پر میں اپنے خیالات کا تفصیلی طور پر اظہار کر چکا ہوں وہاں کسی مضمون کا چن لینا آسان ہوتا ہے لیکن جو نئی جگہ ہو وہاں انسان سمجھتا ہے کہ اگر سرِدست مجھے ایک موقع ملا ہے (آگے کے حالات تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے) تو جتنی ضروری باتیں میں مختصر وقت میں کہہ سکتا ہوں کہہ دوں اس لئے میں نے کوئی مضمون متعین نہیں کیا بلکہ اپنے مضمون کا ہیڈنگ یہ رکھا ہے کہ
کچھ سوچنے اور سمجھنے کی باتیں
اِس مضمون کے اندر کئی قسم کے خیالات ادا کئے جا سکتے ہیں اور متنوع باتیں اس کے اندر لائی جاسکتی ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ انسان اور حیوان میں سب سے بڑا فرق یہی ہے کہ انسان سوچتا ہے اور حیوان نہیں سوچتا۔ حیوان ابتدائے آفرینش سے ایک ڈگر پر چلاآیا ہے لیکن انسان نے سوچ سوچ کر اپنے لئے نئے راستے ایجاد کر لئے ہیں اور جب کبھی انسان نے اپنے اس مقررہ طریق کو چھوڑا ہے وہ ہمیشہ نیچے گیا ہے اوپر کبھی نہیں گیا۔ پس اصل چیز جس پر ہمیں زور دینا چاہیے اور جس کی طرف ہمیں توجہ رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی اس عادت کو نہ چھوڑیں جس عادت کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ترقی کے لیے ضروری قرار دیا ہے اور وہ سوچنے کی عادت ہے۔ اگر ہم بے سوچے سمجھے اپنے لئے کوئی طریق اختیار کر لیں گے تو یہ لازمی بات ہے کہ ہم ترقی نہیں کریں گے بلکہ ہم جس جگہ کھڑے ہوں گے وہیں کھڑے رہیں گے اور یہ قانونِ قدرت ہے کہ جو کھڑا ہو جاتا ہے وہ پیچھے کی طرف جاتا ہے اپنے مقام پر قائم نہیں رہ سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا ایسی بنائی ہے کہ یا تو انسان آگے جائے گا یا پیچھے جائے گا کوئی مقام ایسا نہیں جہاں وہ کھڑا رہ سکے۔ دنیا کی تاریخ دیکھ لو جس وقت سے بنی نوع انسان کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے اور قرآن کریم کے ذریعہ تو ساری دنیا کی تاریخ کا علم حاصل ہوتا ہے کیونکہ آدم کے زمانہ سے اس نے تاریخ بیان کی ہے یہی نظر آتا ہے کہ یا تو لوگ آگے چلتے ہیں یا پیچھے ہٹتے ہیں، ایک جگہ پر کھڑے ہونے کی مقدرت انسان کو عطا نہیں کی گئی۔ اِس لئے کھڑے ہونے کے کوئی معنی ہی نہیں اور آگے جانے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہمارا مقصد کیاہے اور ہم میں اتنی استعداد ہو کہ ہم ہر چیز پر غور کر کے اپنے لئے کوئی راستہ تجویز کرسکیں۔ پس ترقی کے لئے ہمیں اس بات کی عادت ڈالنی چاہیے کہ ہم سوچیں اور سمجھیں اور غوروفکر سے کام لیں اور پھر مناسب غور وفکر کے نتیجہ میں جو مفید باتیں معلوم ہوں اُن پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یقینا ہم اپنے آپ کو ایک مفید وجود بناتے اور اپنی زندگی سے صحیح رنگ میں فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن اگر ہم سوچتے اور سمجھتے نہیں یا سوچنے اور سمجھنے کے بعد جو مفید باتیں معلوم ہوں اُن پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہم اپنی زندگی کے مقصد کو بھول کر ایک ایسی شاہراہ پر قدم مارتے ہیں جو انسان کو ہلاکت اور بربادی کی طرف لے جاتی ہے اسے کامیابی اور ترقی سے ہمکنار نہیں کرسکتی۔
اس نصیحت کے بعد میں آپ لوگوں کے سامنے چند باتیں پیش کرنا چاہتا ہوں اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ لوگ ان پر غور کریں گے اور اپنی اُس ذمہ داری کو سمجھنے کی کوشش کریں گے جو اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں پر عائد کی ہے۔ سب سے پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں نے پاکستان طلب کیا اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو مل گیا۔ آپ نے خداتعالیٰ سے کہا کہ خدایا! ہمیں ڈر آتا ہے کہ اگر ہم نے ہندوؤں کے ساتھ مل کر کام کیا تو وہ ہمیں نقصان پہنچائیں گے اس لئے تو ہمیں ایک الگ مُلک دے دے خواہ وہ چھوٹا ہی ہو مگر ایسا ہو جس میں ہندوؤں سے الگ رہ کر ہم اپنی زندگی بسر کر سکیں اور اپنی ترقی کے لئے جدوجہد کر سکیں۔ سو اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کی اس دعا کو سنا اور اس نے باوجود مسلمانوں کی کمزوری کے یہ فیصلہ کیا کہ جب میرے بندے مجھ سے ایک چیز مانگتے ہیں تو میں وہ انہیں کیوں نہ دوں چنانچہ اس نے مسلمانوں کی کسی قربانی کے بغیر انہیں پاکستان دے دیا۔ بے شک پاکستان ملنے کے بعد مسلمانوں کو ایک بہت بڑی قربانی دینی پڑی لیکن پاکستان بننے سے پہلے مسلمانوں کو بہت کم قربانی دینی پڑی۔ پاکستان بننے کے بعد بے شک ایک خطرناک قربانی ان سے لی گئی جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نظر نہیں آتی لیکن بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خداتعالیٰ نے بغیر قربانی کے یہ نعمت آپ لوگوں کو عطا فرمائی اور آپ کی دعا اس نے قبول فرمائی۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ جو پاکستان خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کو دیا ہے آخر یہ کوئی جاندار چیز تو نہیں، جاندار وجود صرف آپ کا ہے۔ آپ بولتے ہیں، آپ سمجھتے ہیں، آپ چلتے پھرتے ہیں، آپ ایک چیز کو پکڑتے ہیں، آپ اُسے کھینچتے ہیں لیکن پاکستان نہ بولتا ہے، نہ سوچتا ہے، نہ سمجھتا ہے کیونکہ وہ جاندار چیز نہیں۔ اور دنیا میں یہ قانون ہے کہ جاندار چیزیں ہی بے جان یا مثل بے جان چیزوں کی حفاظت کیا کرتی ہیں۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ بے جان چیزیں جاندار چیزوں کی حفاظت کررہی ہوں ہمیشہ جاندار چیزیں ہی بے جان چیزوں کی حفاظت کرتی ہیں۔ مثلاً درخت بے جان ہیں آپ ان کی حفاظت کرتے ہیں، آپ انہیں پانی دیتے ہیں، آپ ان کی شاخ تراشی کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے دیکھا کہ درخت باغ کے مالک کی مٹھی چاپی کر رہے ہوںیا اُسے کھانا پکا کر دے رہے ہوں؟ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہمیشہ جاندار چیز ہی بے جان کی حفاظت کیا کرتی ہے۔ پاکستان بے جان ہے اور آپ لوگ جاندار ہیں۔ پس پاکستان کی آپ نے حفاظت کرنی ہے۔ پاکستان نے آپ کی حفاظت نہیں کرنی۔
بے جان کی طرح ایک چھوٹا بچہ بھی ہوتا ہے۔ عورت کو بچہ خود اللہ تعالیٰ دیتا ہے اور کسی کی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ بچہ پیدا کر سکے۔ چنانچہ دیکھ لو بعض لوگوں کے ہاں ساری عمر بچہ پیدا نہیں ہوتا وہ سارا زور علاج معالجہ پر صَرف کر دیتے ہیں مگر بچہ نہیں ہوتا۔ پس بچہ اللہ تعالیٰ ہی دیتا ہے مگر اس کے بعد کبھی تم نے دیکھا کہ بچہ ماں کی حفاظت کر رہا ہو؟ یہ سیدھی بات ہے کہ بچہ ماں کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ ماں بچہ کی حفاظت کرتی ہے۔ وہ اِسے دودھ پلاتی ہے، اُس کی سردی گرمی کا خیال رکھتی ہے، اُس کے پاخانہ پیشاب کا خیال رکھتی ہے، اُس کی صحت کا خیال رکھتی ہے۔ اور اگر وہ اس کی نگہداشت نہیں کرتی یا بیماری میں اِس کا علاج نہیں کرتی تو وہ مر جاتا ہے۔ بچہ ایسی چیز ہے جو ماں کے اختیار میں نہیں مگر مارنا اس کے اختیار میں ہے۔ کئی مائیں ہیں جو اپنے بچوں کو مار دیتی ہیں مگر اس طرح نہیں کہ ان کا گلا گھونٹ کر بلکہ اس طرح کہ ان کی سردی گرمی کا خیال نہ رکھا اور بچہ کو نمونیہ ہو گیا اور وہ مر گیا۔ یاقبض کا خیال نہ رکھا تو تشنج ہونے لگ گیا یا فالج گرا اور مر گیا۔ معدہ کا خیال نہ رکھا تو دست آنے لگ گئے اور بچہ ہلاک ہو گیا۔ غرض مائیں بچہ پیدا نہیں کر سکتیں مگر اُس بچہ کو مار ضرور سکتی ہیں۔ اسی طرح پاکستان آپ پیدا نہیں کر سکتے تھے یہ خدا تعالیٰ ہی پیدا کر سکتا تھا اور اُس نے اپنے فضل سے پاکستان آپ لوگوں کو دے دیا لیکن اب پاکستان کی حفاظت کرنا آپ کا کام ہے جس طرح ماں اپنے بچہ کی خبرگیری نہیں کرتی تو اسے مار دیتی ہے اسی طرح اگر آپ بھی پاکستان کی خبر گیری نہیں کریں گے تو وہ ضائع ہو جائے گا کیونکہ وہ بے جان چیز ہے اور اُسے زندہ رہنے والے عنصر نے قائم رکھنا ہے۔ اس کمزور عنصر کو اس طاقتور عنصر نے قائم رکھنا ہے جسے خداتعالیٰ نے عقل و فہم سے حصہ دیا ہے۔ پس آپ لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان تو آپ لوگوں نے مانگا اور وہ آپ کو مل بھی گیا مگر کیا جب آپ لوگوں نے پاکستان مانگا تھا تو اس وقت آپ کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اگر ہمیں پاکستان مل گیا تو ہمیں اس کی خبر گیری کرنی پڑے گی۔ ماں جب اللہ تعالیٰ سے بچہ مانگتی ہے اور کہتی ہے کہ خدایا! تو مجھے اپنے فضل سے اولاد عطا فرما تو وہ یہ بھی جانتی ہے کہ مجھے بچہ کے لئے راتوں کو جاگنا پڑے گا، مجھے اپنا خون اسے اپنی چھاتیوں سے پلانا پڑے گا، مجھے سخت سردی کی راتوں میں اسے اپنے کندھے سے لگا کر ٹہلنا پڑے گا، وہ پیشاب کر دے گا تو میں اُس کے کپڑوں کو بدلواؤں گی اور خود ساری رات انہی کپڑوں میں ٹھٹھرتی رہوں گی۔ غرض وہ سمجھتی ہے کہ مجھ پر کیا ذمہ داریاں ہیں اور وہ ان ذمہ داریوں کو برداشت کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہوتی ہے۔ آپ لوگ بھی پاکستان کی مائیں ہیں اور پاکستان وہ بچہ ہے جو خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ ماں تو جانتی ہے کہ اُس پر بچہ کے متعلق کیا کیا ذمہ داریاں آنے والی ہیں کیا وہ ذمہ داریاں جو پاکستان بننے کے بعد آپ پر عائد ہونے والی تھیں وہ آپ کے خیال میں تھیں یا نہیں تھیں۔ یہ سیدھی بات ہے کہ جب تک ہمارے مُلک کا انگریز حاکم تھا انگریز اس بات کا ذمہ دار تھا کہ ہمارے مُلک کی حفاظت کرے۔ جب تک انگریز حکمران تھا انگریز اِس بات کا ذمہ دار تھا کہ اِس مُلک کی تجارت کو ترقی دے۔ اِس مُلک کی تعلیم کو ترقی دے، اِس ملک کی صنعت و حرفت کو ترقی دے اور اِس مُلک کی حکومت کو صحیح طور پر چلائے مگر جب آپ لوگوں نے کہا کہ خدایا! یہ بچہ ہمارا ہے یہ ہمیں دے دے اور خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو دے دیا تو اب اِس بچہ کا کوئی اور ذمہ دار نہیں ہو سکتا۔ صرف اور صرف آپ لوگ ہی اِس بات کے ذمہ دار ہیں کہ یہاں کا علم ترقی کرے، یہاں کی صنعت و حرفت ترقی کرے، یہاں کے لوگوں کی دینی حالت ترقی کرے، یہاں کے لوگوں کی اخلاقی حالت ترقی کرے۔ اور یہاں کی حکومت صحیح طور پر چلے۔ اسی طرح اب آپ ہی اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اگر کوئی دشمن آپ کے مُلک پر حملہ آور ہو تو آپ خود اس کا دفاع کریں۔ جب تک یہ بچہ پیدا نہیں ہوا تھا اُس وقت تک خدا کا تھا مگر جب اُس نے یہ بچہ تم کو دے دیا تو اب تمہارا کام ہے کہ تم اس کی حفاظت کرو اور اس کیلئے ان قربانیوں سے کام لو جو بچہ کی حفاظت اور نگہداشت کے سلسلہ میں کرنی پڑتی ہیں۔ بہرحال یہ سیدھی بات ہے کہ اگر آپ نے اُس وقت سوچا ہوگا کہ پاکستان ہمیں ملنا چاہیے تو پھر یہ بھی سوچا ہوگا کہ اب وہ ساری ذمہ داری ہم کو لینی پڑے گی جو پہلے انگریزوں پر ہوا کرتی تھی۔ پھر ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ بچے کی تربیت اور بڑے کی تربیت میں فرق ہوتا ہے۔ ماں کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ وہ اسے پہلے ہی دن روٹی پکا پکا کر کھلانی شروع کر دے۔ وہ جانتی ہے کہ کچھ مدت تک وہ میرا خون چوسے گا یہ زمین کی روٹی بعد میں کھائے گا پہلے اسے مجھے اپنی چھاتیوں سے روٹی کھلانی پڑے گی کیونکہ جب تک یہ جوان نہیں ہو جاتا وہ روٹی جو ایک جوان کھا سکتا ہے یہ نہیں کھا سکتا۔ اِسی طرح ماں یہ بھی سمجھتی ہے کہ جب میرے گھر میں بچہ پیدا ہوا ہے تو اب کوئی غیر شخص اس کی حفاظت نہیں کرے گا۔ غرض یہ تین چیزیں ہیں جن کے متعلق وہ فیصلہ کر لیتی ہے۔
(۱) ماں جانتی ہے کہ یہ بچہ پالنا پڑے گا۔
(۲) ماں جانتی ہے کہ یہ بچہ مجھے ہی پالنا پڑے گا۔
(۳) ماں جانتی ہے کہ اس کی پرورش میں مجھے وہ تمام طریقے اختیار کرنے پڑیں گے جن کے نتیجہ میں یہ جوان اور طاقتور بن جائے اور جب تک یہ بڑا نہیں ہو جاتا اُس وقت تک مجھے اور قسم کی قربانیاں کرنی پڑیں گی جو ان قربانیوں سے مختلف ہوں گی جو ایک بڑی عمر کے بچہ کے لئے کی جاتی ہیں۔ ایک عورت کا بچہ ۱۵ سال کا ہو اور ایک عورت کا بچہ ۲ مہینے کا تو کیا کوئی شخص اُس عورت کو معقول کہہ سکتا ہے جو اپنے دو مہینے کے بچہ کے منہ میں بھی روٹی ڈالے، اسے بھی کھلانے کے لئے پلاؤ دے اور دلیل یہ دے کہ چونکہ فلاں عورت کا ۱۵ سالہ بچہ بھی روٹیاں کھاتا ہے، ہڈیاں چباتا ہے اس لئے میں بھی اسے یہی چیزیں دوں گی۔ تم ایسی عورت کو کیا کہو گے؟ اگر پاگل نہیں تو بے وقوف ضرور کہو گے۔ اِسی طرح جو مُلک جوان ہو چکا ،جو مُلک طاقت پکڑ چکا، جو مُلک قوت حاصل کر چکا، جس کی بنیادیں مضبوط ہو چکیں اُس کے افراد کو جس رنگ میں قربانیاں کرنی پڑیں وہ ان قربانیوں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں جو ایک ایسے مُلک کے افراد کو کرنی پڑتی ہیں جس کو نئی حکومت ملی ہو۔ نئی حکومت کی مثال بالکل اُس درخت کی سی ہوتی ہے جس نے ابھی اپنی جڑیں نہیں پکڑیں۔ ایک بَڑ کے درخت کی کونپل جب زمین میں سے نکلتی ہے تو اُسے بکری بھی اپنے پاؤں سے مَسل سکتی ہے لیکن وہی بَڑ کا درخت جب بڑا ہوتا ہے تو ایک بیل بھی ٹکر مارے تو اُسے کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا بلکہ بڑے سے بڑا بھینسا بھی اسے ٹکرے مارے تو وہ ہل نہیں سکتا۔ پس محض اتنی مشابہت سے کام نہیں چل سکتا کہ فلاں خدمت میں ایسا ہوتا ہے اگر اس قسم کی مشابہت سے ہی نتائج اخذ کر لئے جائیں تو یہ طریق بالکل اُس بیوقوف ماں کی طرح ہوگا جو اپنے دودھ پیتے بچہ کو اِس مشابہت کی بناء پر روٹی کھلانے لگ جائے کہ فلاں عورت کا پندرہ سالہ بچہ روٹی کھاتا ہے میں اپنے بچے کو کیوں نہ روٹی کھلاؤں۔
غرض ایک بہت بڑا فرق ہے امریکہ، فرانس، انگلستان، روس اور جرمنی کی حکومتوں اور پاکستان کی حکومت میں۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ پاکستان بچہ ہے اور وہ جوان ہیں۔ جوانوں کے لئے اور قواعد ہوتے ہیں اور بچہ کے لئے اور قواعد ہوتے ہیں۔ جوان لڑکے کے لئے ماں رات کو نہیں جاگتی لیکن بچہ کے لئے ماں رات کو جاگتی ہے۔ جوان لڑکے کو ماں اپنی چھاتی سے دودھ نہیں پلاتی لیکن بچے کو وہ اپنا خون چوساتی ہے۔ پس جب تک تم اُن ذمہ داریوں کو نہ سمجھو جو پاکستان کی طرف سے تم پر عائد ہوتی ہیں اُس وقت تک تم محض ان مشابہتوں سے اپنے دلوں کو تسلّی نہیں دے سکتے کہ امریکہ اور انگلستان اور فرانس اور جرمنی اور روس میں ایسا ہوتا ہے۔ میں تو اخبارات میں جب اس قسم کے مضامین پڑھتا ہوں کہ امریکہ میں یوں ہوتا ہے، انگلستان اور فرانس میں یوں ہوتا ہے تو حیران ہو جاتا ہوں۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ چالیس سال کے مضبوط آدمی کی طرح ہیں اور پاکستان ابھی بچہ ہے۔ بہرحال ایک پاکستانی کو اور رنگ کی قربانی کرنی پڑے گی اگر وہ اپنے مُلک کو قائم رکھنا چاہتا ہے اور انگلستان کے آدمی کو اور رنگ کی قربانی کرنی پڑے گی۔ اور پاکستان کے لوگ یہ چاہیں گے کہ وہ اتنی ہی قربانی کریں جتنی امریکہ اور انگلستان کے لوگ کر رہے ہیں تو یہ پاکستان کی دشمنی ہوگی۔ جس طرح وہ ماں جو اپنے دو مہینے کے بچے کو روٹی یا بوٹی کھلانا چاہتی ہے وہ اس کے ساتھ دشمنی کا اظہار کرتی ہے۔ اور باتوں کو جانے دو وہ زائد قربانیاں جو پاکستان کے لوگوں کو کرنی چاہئیں ان کو نظر انداز کر دو۔ وہ موٹی موٹی قربانیاں جن میں انگلستان اور امریکہ بھی شامل ہیں انہی کو لے لو اور پھر دیکھو کہ پاکستانی کیا کر رہے ہیں۔
یہ واضح بات ہے کہ حکومتیں روپے سے چلتی ہیں مگر جب پاکستان بنا تو شروع شروع میں تو ایک اندھیر مچ گیا۔ میں جب مشرقی پنجاب سے آیا تو ریلوے کے بعض بڑے بڑے افسر میرے پاس آئے اور انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ بغیر ٹکٹ لئے زبردستی ریل میں گھس آتے ہیں اور کہتے ہیں انگریز تو چلا گیا اب اپنی حکومت ہے اب ہم ٹکٹ کیوں خریدیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اب ہماری اپنی حکومت ہے مگر سوال یہ ہے کہ اپنی چیز کی زیادہ حفاظت کیا کرتے ہیں یا کم حفاظت کیا کرتے ہیں۔ یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی عورت کہے کہ میں فلاں بچہ کے سر پر نہیں بیٹھتی کیونکہ یہ کسی اَور کا بچہ ہے میں تو اپنے بچہ کے سر پر بیٹھوں گی۔ یہ صاف بات ہے کہ اگر وہ اپنے بچہ کے سر پر بیٹھے گی تو وہ مر جائے گا پس بیشک یہ درست ہے کہ اب ہماری اپنی حکومت ہے، یہ بھی درست ہے کہ اب ہماری اپنی ریل ہے مگر اپنی حکومت اور اپنی ریل کو زیادہ بچایا کرتے ہیں یا زیادہ نقصان پہنچایا کرتے ہیں؟ یا اپنا بچہ ہو تو ہم اس کی کم قدر کیا کرتے ہیں یا زیادہ قدر کیا کرتے ہیں؟
حضرت سلیمان علیہ السلام کے زمانہ میں ایک دفعہ دو عورتوں میں جھگڑا ہو گیا اُن کا خاوند کہیں باہر گیا ہوا تھا کہ اس کے جانے کے تھوڑے دنوں کے بعد ہی دونوں کے ہاں بچہ پیدا ہو گیا۔ اس نے دو سال کے بعد واپس آنا تھا یہ واضح بات ہے کہ واپسی پر وہ پہچان نہیں سکتا تھا کہ اِس کا بچہ کونسا ہے اور اُس کا بچہ کونسا ہے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ ابھی وہ گھر پر نہیں پہنچا تھا کہ اِن دونوں عورتوں کو ایک شادی میں شریک ہونے کے لئے کہیں باہر جانا پڑا۔ راستہ میں جنگل آتا تھا وہ جا رہی تھیں کہ بھیڑیا آیا اور اُن میں سے ایک کا بچہ اُٹھا کر لے گیا۔ جس عورت کا بچہ بھیڑیا اُٹھا کر لے گیا اُس نے سمجھا کہ جب میرا خاوند گھر میں آیا اور اس نے دیکھا کہ دوسری عورت کا تو بچہ ہے اور میرا کوئی بچہ نہیں تو اُس کی محبت مجھ سے کم ہو جائے گی اور دوسری عورت سے زیادہ محبت کرنے لگ جائے گا۔ وہ چالاک عورت اِس خیال کے آتے ہی اس نے دوسری عورت کا بچہ اُٹھا لیا اور کہنے لگی یہ میرا بچہ ہے۔ بھیڑیا تیرا بچہ اُٹھا کر لے گیا ہے۔ اس پر ان دونوں کی آپس میں خوب لڑائی ہوئی۔ ایک کہتی کہ یہ میرا بچہ ہے اور دوسری کہتی کہ یہ میرا بچہ ہے۔ وہ اس جھگڑے کو کئی قاضیوں کے پاس لے کر گئیں مگر کوئی شخص یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ بچہ کی اصلی ماں کونسی ہے۔ آخر چلتے چلتے یہ مقدمہ حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس پہنچا حضرت سلیمان علیہ السلام کو بھی پتہ لگ گیا کہ اس اس طرح کا ایک مقدمہ عدالتوں میں چل رہا ہے مگر ابھی تک اس کا کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔ وہ نوجوان تھے اور نوجوانی میں جوش زیادہ ہوتا ہے اُنہوں نے اپنے والد کو کہلا بھیجا کہ یہ مقدمہ میری عدالت میں بھجوا دیا جائے میں اس کا فیصلہ کر دوں گا۔ اُنہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس ان دونوں عورتوں کو بھجوا دیا جب یہ ان کے پاس گئیں اور اپنے جھگڑے کی تفصیل بیان کی تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایانہیں معلوم وہ کیسے قاضی تھے جن کے پاس یہ مقدمہ جاتا رہا اور وہ اِس کا فیصلہ نہیں کر سکے۔ یہ ایک سیدھی سادی بات ہے جب ہمیں اِس بات کا پتہ نہیں لگ سکتا کہ یہ بچہ کس عورت کا ہے تو انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اِس بچہ کو دونوں میں آدھا آدھا بانٹ دیا جائے۔ چنانچہ اُنہوں نے حکم دیا کہ چھری لاؤ میں ابھی اِس بچہ کو کاٹ کر اِن میں آدھا آدھا تقسیم کر دیتا ہوں۔ جب اُنہوں نے کہا چھری لاؤ میں اس بچہ کو کاٹ کر دونوں میں تقسیم کر دوں تو جس کا بچہ بھیڑیا اُٹھا کر لے گیا تھا وہ کہنے لگی خدا آپ کا بھلا کرے کیسے انصاف کی بات ہے جو آپ نے کہی۔ مگر جس کا بچہ تھا وہ کہنے لگی حضور! میں نے جھوٹ بولا ہے یہ بچہ میرا نہیں اسی کا ہے بے شک اِسی کو دے دیاجائے۔ آخر اُس کی مامتا تھی وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی تدبیر کو تو نہ سمجھی اُس نے خیال کیا کہ یہ سچ مچ اِس کے دو ٹکڑے کرنے والے ہیں اِس پر اُسے خیال آیا کہ بچہ خواہ مجھے نہ ملے یہ کم از کم جیتا تو رہے۔ چنانچہ اُس نے بڑی لجاجت سے کہا کہ حضور! بچہ اسے ہی دے دیں میں نے جھوٹ بولا تھا کہ یہ میرا بچہ ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام سمجھ گئے اور اُنہوں نے وہ بچہ اس کے سپرد کر دیا جو حقیقی ماں تھی اور دوسری عورت کو سزا دی۔ تو مائیںبعض دفعہ اپنا حق بھی قربان کر دیتی ہیںمگر یہ نہیں چاہتیں کہ ان کا بچہ ہلاک ہو۔ اگر پاکستان واقع میں تمہارا ہے تو پھر تمہیں اس کی مضبوطی کے لئے قربانیاں بھی کرنی پڑیں گی۔ صرف یہ کہہ کر تم اُن قربانیوں سے آزاد نہیں ہو سکتے کہ یہ ہماری چیز ہے ہم اسے جس طرح چاہیں رکھیں بلکہ ہماری چیز کے معنی یہ ہیں کہ تمہیں دوسروں سے زیادہ قربانیاں دینی پڑیں گی۔
یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے اس کے علاوہ اور بھی بیسیوں مثالیں ہیں۔ یہ زمینداروں کا ضلع ہے اور زمیندار اپنے ٹیکس کو بچا نہیں سکتا کیونکہ گورنمنٹ جانتی ہے کہ اس کے پاس اتنی زمین ہے اور اتنا اس کا معاملہ ہے۔ گورنمنٹ کا ملازم بھی پکڑا جاتا ہے کیونکہ گورنمنٹ اسے تنخواہ دے رہی ہوتی ہے اور وہ جانتی ہے کہ اسے کتنی تنخواہ ملتی ہے لیکن باقی لوگ ٹیکسوں میںبرابر کھینچا تانی کرتے رہتے ہیں۔ انگریز کے وقت تو ایک ہندوستانی کہہ سکتا تھا کہ انگریز حکمران ہے میں اسے روپیہ کیوں دوں لیکن اب تو پاکستان تمہارا اپنا بچہ ہے اپنے بچے کے لئے تمہیں لازماً قربانیاں کرنی پڑیں گی اور لازماً اپنا روپیہ خرچ کرنا پڑے گا۔ اگر روپیہ نہیں ہوگا تو فوجیں کس طرح رکھی جا سکیں گی اور حکومت کے انتظامات کس طرح چلائے جائیں گے۔ مگر باوجود اس کے کہ اب حکومت اپنی ہے اور اپنی چیز کے لئے زیادہ قربانیاں کرنی چاہئیں تاجر وہی ہیرپھیر کر رہے ہیں جو پہلے کیا کرتے تھے۔ مثلاً سیلز ٹیکس کو ہی لے لو میں نے دیکھا ہے کہ بہت کم تاجر ہیں جو سیلز ٹیکس لگاتے ہیں اور گاہک پر سیلز ٹیکس نہ لگانے کا احسان رکھ کر اپنی چیزیں نہایت گراں قیمت پر فروخت کر دیتے ہیں۔ ابھی لاہور سے آتے وقت میں نے بازار سے ایک چیز منگوائی جب مجھے اس کی قیمت بتائی گئی تو میں نے کہا کہ قیمت بہت زیادہ ہے۔ اس پر آدمی پھر دُکاندار کے پاس گیا مگر اس نے واپس آ کر کہا کہ وہ دُکاندار کہتا ہے میں سیلز ٹیکس اپنے پاس سے دے دونگا قیمت اس سے کم نہیں ہو سکتی۔ میں نے کہا یہ تو وہی بات ہوئی کہ ’’حلوائی کی دُکان اور دادا جی کی فاتحہ‘‘۔ سیلز ٹیکس تم مجھ سے لو مگر یہ دھوکا بازی نہ کرو۔ غرض تاجر کا عام طریق یہی ہے وہ گاہک کو بھی خوش کر لیتا ہے کیونکہ سیلز ٹیکس کھاتے میں نہیں چڑھاتا اور چیز بھی نہایت گراں قیمت پر فروخت کر دیتا ہے۔ گورنمنٹ کا اندازہ یہ تھا کہ سیلز ٹیکس سے اسے سات سے دس کروڑ تک روپیہ وصول ہوگا لیکن پچھلے سال اس کی ساری وصولی اڑھائی کروڑ روپیہ کی ہوئی ہے گویا سات آٹھ کروڑ روپیہ تاجر اُڑا گیا اور دوسرے ٹیکسوں کی بھی یہی حالت ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہی نہیں کہ اگر یہ چیزیں نہ ہوں گی اور خدانخواستہ کسی وقت دشمن آ گیا تو وہ کس پر حملہ کرے گا کیا وہ پاکستان پر نیزہ مارے گا؟ پاکستان تو ایسی چیز نہیں جسے ہندو اور سکھ نیزے مار سکیں۔ ہندو اور سکھ اگر پاکستان میں داخل ہوئے تو وہ پاکستان میں نیزہ نہیں ماریں گے وہ تمہارے سینوں میں نیزہ ماریں گے پس اِس کے لئے اگر کوئی قربانی کرو گے تو اِس کا فائدہ تمہیں ہی پہنچے گا۔ نہ کرو گے تو اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی جو کچھ تکلیف پہنچے گی وہ تمہیں پہنچے گی۔
اِسی طرح علمی ترقی ہے علمی طور پر بھی ہمیں یہ خیال رکھنا چاہیے کہ ہم اپنے معیار کو بڑھائیں اگر پاکستان بن جانے کے بعد بھی یہاں کے لوگ اسی طرح جاہل رہیں جس طرح نیپال وغیرہ کے لوگ ہیں تو پاکستان کی دنیا میں کیا عزت ہو سکتی ہے اور علمی ترقی کالجوں اور سکولوں سے ہوتی ہے مگر میں دیکھتا ہوں کہ اب بھی ہمارے نوجوان کھیل کود اور لغویات میں اپنا وقت گزار رہے ہیں اگر یہی حال رہا تو پھر ہمارے مُلک کی ترقی کی کیا صورت ہوگی محض پاکستان کا نام تو کوئی ایسی چیز نہیں جس سے اسے عزت حاصل ہو سکے۔ پاکستان کو عزت اسی طرح حاصل ہو سکتی ہے کہ وہ ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ دنیا کی تمام قومیں اِس کا احترام کرنے پر مجبور ہوں۔ اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے سکول کا ہر لڑکا یہ فیصلہ نہ کرے کہ وہ کوشش کر کے اور رات اور دن پڑھائی کر کے ایسے مقام پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے گا کہ دنیا اُسے رشک کی نگاہوں سے دیکھنے لگ جائے۔ اسی طرح یہ نہیں ہو سکتا جب تک ہمارے کالج کا ہر لڑکا یہی کوشش نہ کرے اور رات اور دن اپنی تعلیم کو ترقی دینے کی جدوجہد نہ کرے۔ مگر حالت یہ ہے کہ بجائے اپنے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے ہمارے نوجوان سینما میں جاتے ہیں، گندے گیت گاتے ہیںاور اپنا روپیہ کھیلوں اور دوسری لغویات میں ضائع کر دیتے ہیں۔ کیا یہ پاکستان کو ترقی دینے والی چیزیں ہیں یا اس کی عزت کو کم کرنے والی چیزیں ہیں؟ اگر ہمارا مقصد پاکستان کو ترقی دینا ہے تو جب تک ہمارا نوجوان دنیا کے نوجوانوں کے برابر کھڑا نہ ہو جائے پاکستان کو کوئی عزت حاصل نہیں ہوسکتی۔ جب تک ہمارا نوجوان ہر قسم کے علوم میں دوسروں سے آگے نہ نکل جائے تو اُس وقت تک وہ دوسروں کا راہنما نہیں بن سکتا۔ یہ کام بہرحال نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور اِس کی طرف وہ جتنی توجہ کریں کم ہے۔ اب پہلا زمانہ نہیں رہا اب ہمیں اپنی زندگیاں بدلنی پڑیںگی۔ ہم نے خود کہا تھا کہ خدایا! ہمیں یہ چیز دے اب اس چیز کو صحیح طور پر قائم رکھنا اور اسے بڑھانا ہمارے ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم اپنے فرائض کو نہیں سمجھیں گے تو ہم شرمندہ ہوں گے اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی۔ اللہ تعالیٰ کہے گا میں نے تمہیں ایک بچہ دیا۔ میں نے تمہیں تمہارے مطالبہ پر بچہ دیا مگر تم نے اسے ضائع کر دیا۔
یہ امر یاد رکھو کہ آزادی کے معنی خالی حکومت کے نہیں بلکہ اپنے اندر ایسے تبدیلیاں پیدا کرنے کے ہیں جن سے وہ مُلک طاقت حاصل کرے اِس وقت یورپ میں بھی بعض ایسے علاقے ہیں جن کی کوئی طاقت نہیں جیسے ناروے ہے، سویڈن ہے یا پہلے رومانیہ اور بلغاریہ ہوا کرتے تھے انہیں آزادی تو حاصل ہے مگر طاقت کچھ نہیں لیکن امریکہ اور انگلستان اور فرانس اور روس یہ ایسی حکومتیں ہیں جن کو طاقت حاصل ہے۔ اگر آپ لوگ بھی اپنے مُلک کو ہر رنگ میں آگے نہیں بڑھائیں گے تو یہ آزادی ایک کھلونا بن کر رہ جائے گی۔
عملی قربانی ایک ایسی چیز ہے جس کے بغیر پاکستان کو مضبوطی حاصل نہیں ہو سکتی۔ جس طرح ماں رات کو جاگتی ہے اور دن کے وقت صبح سے شام تک بچہ کی خبرگیری میں مصروف رہتی ہے اسی طرح آپ لوگوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جب ہم نے آزادی مانگی اور اپنی ترقی کے لئے ایک علیحدہ مُلک مانگا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرما دیا تو اب ہمیں اس کے لئے عملی رنگ میں قربانی کرنی پڑے گی اور عملی قربانی میں محنت سے کام کرنا، ایثار سے کام کرنا اور دیانت سے کام کرنا شامل ہے۔ حُکام کو چاہیے کہ وہ رشوت خوری کی عادت کو ترک کردیں اور اپنے کیریکٹر کو مضبوط بنائیں۔ گو پہلے بھی یہ ایک نہایت گندی بات تھی لیکن اب تو قومی لحاظ سے بھی یہ ایک *** ہے اور اسے جس قدر جلد دور کیا جا سکے اُسے دور کرنا چاہیے۔
اسی طرح ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے احکام بجائے زور اور لاٹھی سے منوانے کے محبت اور پیار سے منوانے کی کوشش کیا کریں۔
یہ ایک بہت بڑی خرابی ہے کہ حکومت کے نشہ میں اپنی قوم کے جائز حقوق کا خیال نہ رکھا جائے اور ان پر زور سے حکومت چلانے کی کوشش کی جائے۔ غرض عوام الناس کو چاہیے کہ وہ اپنے ٹیکس ادا کریں، نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ علم حاصل کرنے میں اپنا سارا زور صَرف کر دیں، سرکاری حُکّام کو چاہیے کہ کسی سے رشوت لینے کا خیال تک بھی ان کے دل میں نہ آیا کرے۔ ہر شخص جو کسی افسر کے پاس جائے وہ اِس یقین اور وثوق کے ساتھ واپس آئے کہ پاکستان نے ہمارے مُلک کی کایا پلٹ دی ہے۔ پہلے تو سرکاری حُکّام روپیہ لے لیتے تھے مگر اب نہیں لیتے۔ تم ذرا ان تین چیزوں کا ہی قیاس کر کے دیکھو کہ اگر ہمارا مُلک ان پرعمل کرنے لگے تو اس میں کتنا بڑا تغیر پیدا ہو جائے یعنی تم میں سے ہر شخص اپنا ٹیکس ادا کرنے لگ جائے، تاجر انکم ٹیکس ادا کریں، پیشہ ور دیانتداری کے ساتھ سیلز ٹیکس ادا کریں، زمیندار اپنا ٹیکس ادا کریں، ریلوں پر سفر کرنے والے کبھی بغیر ٹکٹ کے سفر نہ کریں، سرکاری حُکّام رشوتیں لینا ترک کر دیں اور پھر ہر دُکاندار اور تاجر اپنے اِردگرد کے دکانداروں کا خیال رکھے اور اگر وہ سیلزٹیکس وغیرہ ادا نہ کر رہے ہوں تو اُنہیں سمجھائے اور نصیحت کرے تو پاکستان کی آمدن کہیں سے کہیں پہنچ جائے۔ اِس وقت پاکستان کی کُل آمدن اسّی کروڑ روپیہ سالانہ ہے لیکن اگر تمام لوگ صحیح طور پر ٹیکس ادا کرنے لگ جائیں تو یہ آمد ڈیڑھ ارب تک پہنچ سکتی ہے۔ ہندوستان کی آمد تین ارب سے اوپر ہے اور پاکستان کا علاقہ ہندوستان کے مقابلہ میں بہت چھوٹا ہے پاکستان کا سارا حدود اربعہ تین لاکھ میل کا ہے اور ہندوستان کا حدود اربعہ ۲۶ لاکھ میل ہے گویا اسے ۲۶ لاکھ میل کی حفاظت کے لئے تین ارب روپیہ ملتا ہے اور پاکستان کو تین لاکھ میل کی حفاظت کے لئے ڈیڑھ ارب روپیہ مل سکتا ہے اور اس طرح پاکستان کے پاس اتنا روپیہ اپنی فوج کی مضبوطی کے لئے، اپنے بحری بیڑہ کو مضبوط بنانے کے لئے اور اپنے ہوائی بیڑہ کو مضبوط بنانے کے لئے بچ سکتا ہے کہ وہ ہندوستان سے نواں حصہ چھوٹا ہوتے ہوئے بھی طاقت میں اُس سے بڑھ جائے گا لیکن اگر ٹیکس ادا نہ کرو تو پاکستان کی فوجیں کمزور ہوں گی، اس کے پاس سامانِ حرب کم ہوگا اور اس کے اندر طاقت پیدا نہیں ہوگی ایسی حالت میں اگر کسی دشمن نے حملہ کر دیا تو تم کیا کرو گے؟ آخر کونسی چیز ہوگی جو تمہارے پاس ہوگی اور جس سے تم اُس کے مقابلہ میں کامیاب ہو سکو گے۔ دشمن کو تو تم اسی طرح بھگا سکتے ہو کہ تم اپنی فوجوں کو مضبوط کرو اور یہ کام نہیں ہو سکتا جب تک تم لوگ اس کے لئے عملی قربانی نہ کرو۔ مثلاً عملی قربانی میں ایک یہ بات بھی شامل تھی کہ فوجوں میں اپنے نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ بھرتی کیا جائے مگر اس طرف بھی کوئی توجہ نہیں کی گئی کیونکہ مسلمانوں کو قربانی کی عادت نہیں۔ اُنہوں نے بچہ لے لیا مگر اسے پالنا نہیں آتا۔ اللہ تعالیٰ نے بچہ دینا تھا۔ سو اس نے دے دیا مگر یہ بچہ لے کر کبھی کہتے ہیں ہم اسے اپنا خون پلائیں یہ کیسے ہو سکتا ہے، کبھی کہتے ہیں ہم اس کے لئے راتوں کو جاگیں یہ کیسے ہو سکتا ہے، کبھی کہتے ہیں ہم اس کے لئے پیسے خرچ کریں یہ کیسے ہو سکتا ہے، اگر تم نے یہی کچھ کرنا تھا تو پھر بچہ مانگا کیوں تھا؟ بچہ لینے کے بعد تو بہرحال تمہیں اس کے لئے قربانی کرنی پڑے گی۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آپ لوگوں نے پاکستان کیوں مانگا تھا؟ جہاں تک میں نے لوگوں سے پوچھا ہے وہ اِس کا یہی جواب دیتے ہیں کہ ہم نے پاکستان اسلام کے لئے مانگا تھا اور آجکل اخبارات میں بھی یہی چرچا ہے۔ جو اخبار نکالو اس میں یہی لکھا ہوتا ہے کہ گورنمنٹ پاکستان اسلام کی حکومت قائم کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتی ہم نے تو پاکستان اسلام کے لئے مانگا تھا۔ مجھے ایسے اخبارات پڑھ کر ہمیشہ ہنسی آتی ہے اور میں حیران ہوتا ہوں کہ کہنے والا کہتا کیا ہے۔ آخر اسلام کس چیز کا نام ہے؟ اسلام اِس چیز کا نام نہیں کہ دس بیس نوکریاں بعض لوگوں کو مل جائیں، اسلام اِس چیز کا نام نہیں کہ دس بیس عہدے بعض لوگوں کو مل جائیں، اسلام نام ہے کچھ اخلاقی اصول کا، کچھ روحانی اصول کا اور کچھ عقائد کا۔ اسلام نام ہے اِس بات کا کہ ہر شخص اِس بات کا اقرار کرے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ اب بتائیے پاکستان گورنمنٹ کیا قانون بنائے؟کیا وہ یہ قانون بنائے کہ ہمارے مُلک میں آئندہ ایک خدا ماننا جائز ہوگا۔ ہر شخص کہے گا کہ اگر کوئی ایک خداماننا چاہے تو اسے روکتا کون ہے۔ انگریز نہیں روکتا، روس نہیں روکتا، جرمنی نہیں روکتا، جاپان نہیں روکتا۔ جب دنیا کے ہر مُلک میں بلکہ ایسے مُلک میں بھی جو مذہب کا شدید ترین دشمن ہے یہ عقیدہ رکھا جا سکتا ہے تو پھر اس کے لئے کسی قانون کی کیا ضرورت ہے۔ اسلام نام ہے اس بات کا کہ انسان اس بات پر ایمان لائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول تھے ایسے رسول کہ جن سے خداتعالیٰ نے اپنے دین کی تکمیل کا کام انتہائی درجہ پر کیا اور وہ سارے نبیوں کے سردار ہیں۔ اب پاکستان گورنمنٹ کیا کرے؟ کیا وہ یہ کہے کہ اب تو کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول تھے مگر آئندہ اس عقیدہ کے رکھنے میں آزادی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ اس میں پاکستان گورنمنٹ کا کیا دخل ہے ہم گھر میں بیٹھے اَشْھَدُ اَنْ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ بھی کہہ سکتے ہیں اور اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَّسُوْلُ اللّٰہِ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اِس میں نہ تو پاکستان گورنمنٹ کا کوئی دخل ہے اور نہ اس کیلئیکسی قانون کی ضرورت ہے کہ اس کے لئے چیخ و پکار کی جائے۔
دوسری چیز جو ہمارے عقائد میں شامل ہے وہ قرآن کریم کو سچا ماننا ہے۔ اب بتائیں اس عقیدہ کے رکھنے میں کونسا قانون مانع ہے یا کونسا قانون ہمیں مجبور کرتا ہے کہ ہم قرآن کریم کو سچا نہ مانیں کہ اس کے خلاف ہمیں کسی قانون کی ضرورت ہو۔ اسلام تو صرف یہ کہتا ہے کہ تم سچے دل سے اس بات پر یقین رکھو کہ قرآن کریم خداتعالیٰ کی کتاب ہے مگر کیا کوئی قانون انگریز نے اس کے خلاف بنایا ہوا تھا۔ جب انگریزوں کے وقت اس کے خلاف کوئی قانون تھا نہ اب ہے تو مملکت پاکستان کیا کرے اور وہ کس چیز کے متعلق قانون نافذ کرے۔
اسی طرح اسلام کا اصول قضا و قدر پر ایمان لانا ہے۔ کیا انگریز نے کوئی قانون بنایا ہوا تھا کہ تم قضا و قدر پر ایمان نہ لاؤ یہ تو اپنے دل کی بات ہے اگر ہم اس عقیدہ کو ماننا چاہیں تو کوئی قانون ہمیں اس سے روکتا نہیں۔ یا مثلاً اسلام کا ایک اصل یہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور وہ دوزخ یا جنت میں رکھا جائے گا۔ اب بتاؤ آیا اس کے متعلق انگریز کا کوئی قانون تھا کہ یہ بات نہ مانو؟ یا اب کوئی قانون ہے کہ یہ عقیدہ نہ رکھا جائے؟ جب نہ پہلے کوئی قانون اس کے خلاف تھا نہ اب ہے تو کونسی چیز ہے جس کے لئے پاکستان کو کسی قانون کے بنانے کی ضرورت ہے۔
اب آگے چلو۔ اسلام نام ہے کچھ اخلاقیات کا۔ اسلام اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ مؤمنوں کو سچ بولنا چاہیے، ظلم نہیں کرنا چاہیے، فسادات نہیں کرنے چاہئیں، عصمت دری نہیں کرنی چاہیے۔ اب بتائیے ان اخلاقی تعلیموں میں سے کونسی تعلیم ہے جس کے خلاف پاکستان گورنمنٹ نے کوئی قانون بنایا ہوا ہے یا جس کے خلاف پہلے کا کوئی قانون موجود ہے۔ جب نہ پہلے اس کے خلاف کوئی قانون موجود ہے اور نہ اب ہے تو کیا چیز ہے جو لوگ مانگ رہے ہیں۔
اسی طرح اسلام کے احکام میں یہ بات شامل ہے کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، حج کرو، زکوٰۃ دو چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنائے اسلام پانچ چیزوں پر ہے توحید پر یعنی یہ عقیدہ رکھا جائے کہ خداتعالیٰ ایک ہے، نماز پر، روزے پر، حج پر، زکوٰۃ پر۔ اب بتائیے پانچ ارکانِ اسلام میں سے کس رُکن کے خلاف کوئی قانون موجود ہے کیا کوئی حکم ہے کہ نماز نہ پڑھی جائے؟ اگر کسی نے نماز پڑھی تو اسے سزا دی جائے گی؟ یا کیا کوئی قانون انگریر کا تھا کہ حج نہ کرو؟ اگر کوئی حج پر گیا تو اُسے سزا دی جائے گی؟ یہ تمام احکام ایسے ہیں جو ہر شخص کی ذات کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ وہ اگر نماز پڑھنا چاہے یا روزہ رکھنا چاہے یا حج کرنا چاہے یا زکوٰۃ دینا چاہے تو کوئی قانون اسے نہیں روکتا۔ قرآن کریم میں قریباً ۹۰۰ ؍احکام پائے جاتے ہیں ان میں سے شاید زیادہ سے زیادہ دو تین حکم ایسے ہوں گے جن میں حکومت کا دخل ہو باقی سب احکام ایسے ہیں جن میں فرد کا دخل ہے اور وہ اگر چاہے تو بغیر کسی روک کے ان پر عمل کر سکتا ہے۔
پس یہ جو اخبارات میں شور پڑا ہوا ہے کہ اسلامی حکومت قائم ہونی چاہیے یہ ایک ایسی چیز ہے جسے دیکھ کر حیرت آتی ہے۔ انگریز کے زمانہ میں بھی ان احکام پر عمل کرنے سے کوئی چیز نہیں روکتی تھی اور اب تو ہر رنگ میں آزادی حاصل ہے۔ اُس وقت تو یہ خیال بھی آ سکتا تھا کہ انگریز کی نقل کی وجہ سے لوگ اسلامی احکام پر عمل کرنے میں سست ہو رہے ہیں مگر اب تو وہ بھی بھاگ گیا پھر ہمارے لئے ان احکام پر عمل کرنے میں روک کیا ہے اور کونسی چیز ہمارے لئے مانع ہے۔ جب کوئی بھی نہیں روکتا تو پھر اِس شور کے کیا معنی ہیں کہ اسلامی حکومت قائم ہونی چاہیے۔ یہ شور جو اخباروں میں مچایا جا رہا ہے اِس کے متعلق دو ہی صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ کہ سارے مُلک کی آواز ہے یا نہیں۔ اگر یہ مُلک کی آواز نہیں تو اقلیت کو کیا حق ہے کہ جب اکثریت ایک بات کے خلاف ہے تو وہ اسے مجبور کرے اور کہے کہ ضرور اسلام پر عمل کرو۔ اور اگر مُلک کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ اسلامی قانون نافذ ہو تو سوال یہ ہے کہ جب اکثریت یہ چاہتی ہے کہ اسلام پر عمل ہو تو کیا وہ خود اسلام پر عمل کر رہی ہے؟ کیا پاکستان قائم ہونے سے پہلے دس نمازی مسجد میں آیا کرتے تھے؟ اور اب ا ن کی تعداد ہزار تک پہنچ گئی ہے؟ یا ہر مسلمان نماز پڑھنے لگ گیا ہے؟ یا اگر ہر مسلمان نہیں تو اکثر نماز پڑھنے لگ گئے ہیں؟ میں اِس وقت تقریر میں ایک عام بات کر رہا ہوں اس کی سچائی یا جھوٹ کو اس جگہ پر پرکھا نہیں جا سکتا لیکن قرآن کریم نے ایک اصول بیان کیا ہے جس سے تم کسی بات کی حقیقت تک پہنچ سکتے ہو۔ اور وہ اصول یہ ہے کہ جب تمہارے سامنے کوئی سچائی پیش ہو تو تم الگ الگ یا اکٹھے ہو کر غور کرو کہ کہنے والے نے سچی بات کہی تھی یا جھوٹی بات کہی تھی۔ اس اصول کے مطابق آپ بھی غور کریں کہ کیا آپ کے ہمسایہ میں پاکستان بننے کے بعد سب لوگ نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں؟ آپ اپنے دوستوں سے پوچھئے کہ پاکستان بننے کے بعد نمازیوں میں کتنی ترقی ہوئی ہے اور پہلے ان کی تعداد کتنے فیصد تھی۔ آیا پاکستان بننے کے بعد ۵۵ فیصدی لوگ نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں کہ ہم کہہ سکیں اکثریت نماز پڑھتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ جس نے ایک نماز بھی نہ پڑھی وہ کافر ہو گیا۔۱؎ اِس لحاظ سے ہر مسلمان کو نماز کا پابند ہونا چاہیے۔ مگر میں کہتا ہوں اِس کو وسیع کر لو اور پھر حالات کا جائزہ لو۔ آپ اپنے محلہ کے لوگوں سے ہی بات کیجئے اور پھر بتائیے کہ کیا مسلمانوں میں سے ۵۵ فیصدی لوگ نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں؟ مگر ایک بات یاد رکھیئے آپ کا نفس آپ کو دھوکا نہ دے۔ ایک نماز لوگوں نے ایسی بنالی ہے جس سے وہ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اب ہمیں تمام نمازوں سے چھٹی مل گئی ہے۔ ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہے جیسے کہتے ہیں ایک مُلاّ تھا اس نے کہیں یہ بات پڑھ لی کہ جب کسی کو کوئی ایسی چیز مل جائے جو آوارہ پھر رہی ہو اور جس کی حفاظت نہ ہو سکتی ہو تو تین دفعہ اعلان کرنے کے بعد وہ اُس چیز کو اپنے قبضہ میں لے لے۔ یہ بات پڑھنے کے بعد اُس نے یہ طریق بنا لیا کہ جہاں کوئی ریوڑ بکریوں یا بھیڑوں کا جا رہا ہوتا وہ اُس کے پیچھے چل پڑتا اور جب کوئی بکری یا بھیڑ کا بچہ پیچھے رہ جاتا تو وہ اُسے پکڑ لیتا اور جب دیکھتا کہ گلہ بان دُور نکل گیا ہے تو زور سے آواز دیتا ’’کسی کی‘‘ اور پھر نہایت دبی زبان سے کہتا ’’بکری‘‘۔ اس طرح تین دفعہ وہ اعلان کر دیتا اور پھر بکری پکڑ کر گھر میں لے آتا اور وہ سمجھتا کہ اب اس پر میرا قبضہ جائز ہو گیا ہے۔ اسی طرح بعض لوگوں نے ایک طرف دین کا احترام قائم رکھنے کے لئے اور دوسری طرف نمازوں سے چھٹی حاصل کرنے کے لئے ایک جمعہ کا نام جمعۃ الوداع رکھا ہوا ہے۔ جو رمضان کا آخری جمعہ ہوتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ جو شخص جمعۃ الوداع میں آ کر شامل ہو گیا اور اُس نے نماز پڑھ لی اُس نے سارے سال کی نمازیں پڑھ لیں۔ اِس نماز کو وہ قضاء عمری کہتے ہیں یعنی عمر بھر کی نمازیں اس ایک نماز کے پڑھنے سے معاف ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح اُنہوں نے ایک دعائے گنج العرش بنائی ہوئی ہے جس پر یہ لکھا ہوا ہے کہ جو شخص ساری عمر میں ایک دفعہ بھی اسے پڑھ لے اسے آج تک جتنے بنی دنیا میں گزرے ہیں اور جتنی نیکیاں اُنہوں نے کی ہیں ان سب نبیوں کی نیکیوں جتنا ثواب مل جاتا ہے۔ اور جتنے بدمعاش دنیا میں آج تک گزر ے ہیں اور جتنی بدکاریاں اُنہوں نے دنیا میں آج تک کی ہیں اُن تمام بدمعاشوں کی ساری بدیوں اور گناہوں جتنے گناہ اُس کے ایک دفعہ کے پڑھنے سے معاف ہو جاتے ہیں۔گویا ایک دفعہ دعائے گنج العرش پڑھ لی اور چھٹی ہوگئی۔ نہ نماز رہی نہ روزہ رہا، نہ حج رہا نہ زکوٰۃ رہی، نہ قرآن کریم کے اَور احکام پر عمل کرنے کی ضرورت رہی۔ یہیں تک نہیں بلکہ اس کے اَور بھی بڑے بڑے افسانے مشہور ہیں۔
کہتے ہیں ایک بہت بڑا چور تھا جس نے مُلک بھر میں فتور مچا رکھا تھا اُس نے ہزاروں لوگوں کو قتل بھی کیا تھا مگر وہ پکڑا نہیں جاتا تھا۔ آخر ایک دفعہ سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور عدالت میں پیش کیا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اُسے قتل کر دو مگر جب وہ اُسے قتل کرنے کیلئے گردن پر تلوار مارتے تو ذرا بھی اثر نہ ہوتا اور قتل ہونا تو کیا معمولی زخم بھی نہ لگتا۔وہ بڑے حیران ہوئے کہ یہ بات کیا ہے؟ اُنہوں نے زور زور سے تلواریں ماریں مگر وہ قتل نہ ہو سکا نہ اُسے کوئی زخم آیا۔ آخر اسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا کہ ہم تو اسے قتل کرتے ہیں مگر یہ قتل نہیں ہوتا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اِسے آگ میں جلا دیا جائے۔ اُنہوں نے لکڑیوں کا انبار جمع کیا اور آگ لگا کر اُس میں اسے پھینک دیا مگر وہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ شخص آگ میں یوں کھیلنے لگ گیا ہے جیسے کوئی باغ میں کھیلتا ہے۔ وہ پھر بادشاہ کے پاس گئے کہ یہ قصہ ہوا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر سے گِرا دیا جائے۔ اُنہوں نے پہاڑ کی چوٹی پر سے اسے گرایا تو وہ یوں نیچے آکر کھڑا ہو گیا جیسے کسی نے نہایت آرام سے اُسے اپنے کندھوں پر اُٹھا کر نیچے لا رکھا ہو۔ اس پر وہ پھر بادشاہ کے پاس گئے کہ ہم تو عجیب مصیبت میں پھنس گئے ہیں یہ کسی طرح مرنے میں ہی نہیں آتا۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس کے گلے میں ایک بڑا سا پتھر باندھ کر سمندر میں غرق کر دو۔ اُنہوں نے اس کے گلے میں ایک بڑا سا پتھر باندھا اور سمندر میں ڈبونا چاہا مگر وہ ڈوبنے کی بجائے کارک کی طرح پانی پر تیرنے لگ گیا۔ اس پر وہ پھر بادشاہ کے پاس آئے اور کہنے لگے حضور! ہم نے اسے قتل کیا مگر یہ قتل نہ ہوا، ہم نے اسے آگ میں ڈالا مگر یہ آگ میں نہ جلا، ہم نے اسے پہاڑ سے گرایا مگر یہ آرام سے نیچے آ کر کھڑا ہو گیا، ہم نے اِسے سمندر میں ڈبویا مگر یہ تیرنے لگ گیا۔ بادشاہ نے کہا اُسے میرے پاس لے آؤ وہ کوئی بہت بڑا بزرگ معلوم ہوتا ہے۔ جب وہ آیا تو بادشاہ اس کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا مجھے معاف کیجئے مجھ سے سخت غلطی ہوئی میں آپ کو چور اور ڈاکو سمجھتا رہا مگر آپ تو بڑے ولی اللہ اور بزرگ ہیں۔ اُس نے کہا بادشاہ سلامت! میں ہوں تو چور ہی۔ بادشاہ کہنے لگا توبہ توبہ یہ آپ کیا فرماتے ہیں آپ چور ہو سکتے ہیں آپ تو اتنے بزرگ ہیں کہ پہاڑ سے آپ کو گرائیں تو فرشتے اُٹھا لیتے ہیں، آگ میں گرائیں تو وہ گلزار بن جاتی ہے، تلوار چلائیں تو زخم نہیں آتا، سمندر میں ڈبوئیں تو تیرنے لگتے ہیں۔ اُس نے کہا حضور! یہ سب صحیح ہے مگر میں ہوں چور ہی۔ بادشاہ نے پوچھا تو پھر بات کیا ہے کہ آپ پر کچھ بھی اثر نہیں ہوتا؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ میں دعائے گنج العرش پڑھا کرتا ہوں۔ تو دیکھئے کام کتنا آسان ہو جاتا ہے۔ نہ نماز رہی، نہ روزہ رہا، نہ حج رہا، نہ زکوٰۃ رہی۔ چوری کیجئے، ڈاکہ ڈالئے، بُرائیاں کیجئے صرف دعائے گنج العرش پڑھ لیا کیجئے۔ تو جب میں نے نمازوں کا ذکر کیا ہے تو آپ کا نفس آپ کو یہ دھوکا نہ دے کہ شاید اس سے ایک یا دو نمازیں پڑھنا مراد ہے بلکہ جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان آیا نماز پڑھتے ہیں یا نہیں تو یہ اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ میرے نزدیک نماز پڑھنا اِس کو کہتے ہیں کہ دن رات میں پانچ دفعہ خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق باجماعت نماز ادا کی جائے اور تمام عمر مسلسل پڑھی جائے یہ نہیں کہ جمعۃ الوداع کے روز ایک دفعہ نماز پڑھ لی اور پھر ہمیشہ کے لئے چھٹی ہوگئی بلکہ اگر کوئی شخص سال بھر میں ایک نماز بھی چھوڑ دیتا ہے اگر وہ بھول جاتا ہے تو اَور بات ہے لیکن اگر وہ دیدہ دانستہ پچاس سال میں ایک نماز بھی چھوڑ دیتا ہے تو وہ مسلمان نہیں رہتا۔
پس آپ لوگ اپنے دوستوں اور اپنے ہمسایوں سے پوچھئے کہ جب سے پاکستان بنا ہے آیا مسلمان پہلے سے زیادہ نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں؟ اگر میری بیان کردہ تعریف کے مطابق پچپن فیصدی مسلمان آپ کو ایسے مل جائیں جو نماز باجماعت پڑھنے والے ہوں تو سمجھ لیجئے کہ مُلک کی اکثریت اسلامی حکومت قائم کرنے کے حق میں ہے اور اگر نہ ملیں تو پھر اخبارات میں جو شور مچایا جاتا ہے وہ محض ایک خیالی چیز بن جاتی ہے۔ اسی طرح حج اور زکوٰۃ کو لے لیجئے۔ روزے کا میں ذکر نہیں کرتا اس لئے کہ ہمارے مُلک میں روزہ مقابلہ کے طور پر رکھا جاتا ہے یعنی قرآن نے تو یہ کہا ہے کہ بیمار روزہ نہ رکھے، مسافر روزہ نہ رکھے مگر ہمارے مُلک میں بیمار بھی روزہ رکھ لیتا ہے اور مسافر بھی روزہ رکھ لیتا ہے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ اس بارہ میں بھی لوگوں کو اسلامی مسائل سے آگاہ کیا جائے۔ لیکن بہرحال روزہ رکھنے کی ہمارے مُلک کے لوگوں کو عام طور پر عادت ہے اس لئے میں روزے کا ذکر نہیں کرتا لیکن حج کو لے لو تو غریب حج کو جائیں گے مگر امیر نہیں جائیں گے۔ یہاں سرگودھا میں تین چار ہزار بڑے بڑے امراء ہوں گے مگر ان میں سے صرف پانچ دس نے حج کیا ہوگا لیکن غریب لوگ جو بھوکے مرتے ہیں اور جن پر حج فرض نہیں وہ حج کرتے چلے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان بننے سے جو ذمہ داریاں آپ لوگوں پر عائد ہوتی تھیں کیا آپ نے ان ذمہ داریوں کو ادا کر دیا ہے؟ اگر آپ نے ان ذمہ داریوں کو ادا نہیں کیا تو گورنمنٹ پاکستان کیا کرے۔ مثلاً آپ جب نماز نہیں پڑھنا چاہتے تو گورنمنٹ پاکستان کیا کرے۔ کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ وہ پولیس مقرر کرے جو ڈنڈے کے زور سے آپ کو مسجدوں میں لے جایا کرے؟ اور اگر آپ سچے دل سے خود ہی نمازیں پڑھنا چاہتے ہیں تو اس میں گورنمنٹ پاکستان کے کسی قانون یا پولیس کی کیا ضرورت ہے۔ اِسی طرح اگر آپ حج نہیں کرنا چاہتے، زکوٰۃ نہیں دینا چاہتے تو کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ گورنمنٹ آپ کو زبردستی حج پر لے جائے اور زبردستی آپ سے زکوٰۃ وصول کرے؟ آپ ان کاموں میں سے کوئی کام بھی نہیں کرتے مگر کہتے یہ ہیں کہ ہم اسلامی حکومت قائم کرنے کے خواہشمند ہیں۔ یہ کتنے بڑے تمسخر کی بات ہے۔ ذرا سوچئے۔ یہی سوال جو اِس وقت میں نے آپ لوگوں سے کیا ہے اگر اِس کا یورپ اور امریکہ میں اشتہار دے دیا جائے کہ مسلمان نماز پڑھنا چاہتا ہے کوئی قانون اِسے نماز پڑھنے سے نہیں روکتا۔ ہر شہر بلکہ ہر بڑے شہر کے ہر محلہ میں مسجد موجود ہے مگر مسلمان کو شکایت ہے کہ گورنمنٹ مجبور کرکے اُس سے نماز کیوں نہیں پڑھاتی۔ بتائیے وہ کیا کہیں گے کہ مسلمان بیوقوف ہیں یا یہ کہیں گے کہ اس میں گورنمنٹ کی غلطی ہے۔ یہ لازمی بات ہے کہ اگر انہی لفظوں میں امریکہ میں اشتہار دے دیا جائے کہ پاکستان کے مسلمانوں پر نماز فرض ہے ، پاکستان کے مسلمان پرنماز با جماعت فرض ہے، پاکستان کے مسلمان پر مسجد میں آکر نماز پڑھنا فرض ہے، پاکستان کے مسلمان پر پانچ وقت مسجد میں آ کر نماز پڑھنا فرض ہے سوائے اِس کے کہ اسے کوئی عذر ہو لیکن گورنمنٹ اتنی نالائق ہے کہ وہ مجبور کر کے پولیس کے ذریعہ اسے مسجد میں نہیں لاتی۔ اگر امریکہ میں اِس قسم کا پراپیگنڈہ کیا جائے تو یہ لازمی بات ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہی بیوقوف سمجھیں گے، گورنمنٹ پر کوئی الزام نہیں لگائیں گے۔
یہ شور تو بالکل ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں کہ دو شخص جنگل میں ایک درخت کے سایہ کے نیچے لیٹے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے دور سے ایک سپاہی کو دیکھا جو چھٹی پر اپنے گھر جا رہا تھا۔ ان میں سے ایک نے سپاہی کو زور زور سے آوازیں دینی شروع کیں کہ میاں سپاہی! ذرا اِدھر آنا، میاں سپاہی! ذرا اِدھر آنا۔ خدا کے لئے جلدی آنا ایک نہایت ضروری کام ہے۔ وہ شریف آدمی تھا اُس نے خیال کیا کہ نہ معلوم کیسا ضروری کام ہے جس کے لئے مجھے بُلایا جا رہا ہے وہ رستہ کاٹ کر ان کی طرف جلدی جلدی آیا اور پوچھا کہ بتائیے کیا کام ہے؟ جس نے آوازیں دی تھیں وہ کہنے لگا میاں سپاہی! میں نے تمہیں اس لئے بُلایا ہے کہ یہ بیر جو میرے سینے پر پڑا ہوا ہے اِسے اُٹھا کر ذرا میرے منہ میں ڈال دینا۔ سپاہی کو غصہ آیا کہ یہ عجیب آدمی ہے اس نے میرا سفر بھی خراب کیا اور کام بھی یہ بتایا کہ بیر میری چھاتی پر سے اُٹھاکر منہ میں ڈال دیا جائے۔ چنانچہ سپاہی نے اُسے گالیاں دینی شروع کر دیں کہ تیرے ہاتھ ٹوٹے ہوئے تو نہیں۔ تیرے ہاتھ سلامت ہیں اور تو آسانی سے بیر اُٹھا کر منہ میں ڈال سکتا تھا تو نے مجھے کیوں بُلایا اور میرے سفر کو خراب کیوں کیا؟ جب اس نے بہت ملامت کی تو دوسرا شخص جو پاس ہی لیٹا ہوا تھا کہنے لگا میاں سپاہی! جانے بھی دو یہ تو بالکل معذور آدمی ہے۔ ارے میاں ساری رات کتا میرا منہ چاٹتا رہا مگر اس کمبخت سے اتنا بھی نہ ہو سکا کہ اسے شیت ہی کر دیتا۔ سپاہی چپ کر کے چلا گیا کہ یہ تو دونوں ایک دوسرے سے بڑھے ہوئے ہیں۔ اِسی قسم کا شور آجکل اخبار میں نظر آتا ہے۔ جو اخبار اُٹھاؤ اُس میں یہی نظر آتا ہے کہ مملکت پاکستان اسلامی حکومت قائم کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتی۔ آپ خود ہی غور کریں اور سوچیں کہ کیا چیز ہے جو اِس حکومت کے قائم کرنے میں روک ہے۔ اگر آپ نماز پڑھیں تو کون آپ کو نماز پڑھنے سے روکتا ہے؟ اگر آپ روزہ رکھیں تو کون آپ کو روزہ رکھنے سے روکتا ہے؟ اگر آپ حج کریں تو کون آپ کو حج کرنے سے روکتا ہے؟ پاکستان آپ نے اسلامی حکومت بنانے کے لئے مانگا تھا اور پاکستان آپ کو مل گیا مگر جو چیز آپ کے اختیار میں ہے وہ آپ نہیں کر رہے اور الزام حکومت کو دے رہے ہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ شور محض اِس لئے ہے کہ اب کے یہ لوگ شرمندہ ہو رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان مانگا تھا اسلام کے لئے مگر ہم اسلام پر عمل نہیں کر رہے۔ ہمارا نفس ٹیڑھا ہے، ہمارا نفس غافل اور سست ہے لیکن ہم لوگوں کو شرمندہ بھی نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہندو اور سکھ ہم سے ملیں گے اور وہ پوچھیں گے کہ کیا پاکستان لے کر تم نے اسلامی حکومت قائم کر لی تو ہم اُنہیں کہیں گے کہ ہم تو حکومت کو گالیاں دیتے رہتے ہیں حکومت ہی کچھ ایسی نالائق ہے کہ وہ اسلامی قانون نافذ نہیں کرتی مگر کیا کوئی عقلمند تمہاری اس بات کو مان لے گا؟ وہ کہے گا تمہیں کونسا قانون مجبور کرتا ہے کہ تم نماز نہ پڑھو، کونسا قانون مجبور کرتا ہے کہ تم روزے نہ رکھو، کونساقانون تمہیں کہتا ہے کہ تم گالیاں دو اور گند بکتے رہو، کونسا قانون تمہیں کہتا ہے کہ تم سینما کے گندے گیت بازاروں میں گاتے پھرو، کونسا قانون تمہیں کہتا ہے کہ عورتوں اور مردوں کی بوسہ بازی تم سینما میں جا کر دیکھو، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں تم ایسا مت کرو، اسلام کہتا ہے تم ایسا مت کرو پھر کونسی چیز ہے جو تمہیں مجبور کرتی ہے کہ تم ایسا کرو۔ یقینا یہ آپ کے نفس کا بہانہ ہے کہ حکومت اس کے متعلق کوئی قانون نافذ نہیں کرتی۔ میں کہتا ہوں اگر آپ نے یہی کچھ کرنا تھا تو پھر آپ نے پاکستان کیوں مانگا تھا؟ آپ کہتے ہیں ہم نے پاکستان اسلام کے لئے مانگا تھا اور اسلام کے لئے پاکستان آپ کو مل گیا اب کونسی چیز ہے جو اسلامی احکام پر عمل کرنے میں مانع ہے۔ اگر یہ کہو کہ حکومت نماز کے لئے چھٹی نہیں دیتی تو یہ بھی غلطی ہے حکومت نے نماز کے لئے چھٹیاں دینی بھی شروع کر دی ہیں۔ چنانچہ لاہور کے متعلق میرا تجربہ ہے کہ وہاں ہماری جماعت کے آدمی جو سرکاری دفاتر میں کام کرتے ہیں باقاعدہ نماز جمعہ کے لئے آتے ہیں اور اس طرح یہ چھوٹی سی روک بھی گورنمنٹ نے دُور کر دی ہے۔ پھر کیا تمام مسلمان باقاعدگی کے ساتھ نماز جمعہ میں شامل ہوتے ہیں؟ میں نہیں جانتا کیوں؟ مگر بہرحال ہماری لاہور کی جماعت نے آجکل جمعہ کا وقت دو سے ساڑھے تین بجے تک مقرر کیا ہوا ہے۔ جمعہ کے متعلق اکثر علماء کا یہ خیال ہے کہ باقی نمازیں تو زوال کے بعد ہوتی ہیں لیکن جمعہ کے متعلق یہ استثنیٰ ہے کہ جب اشراق کا وقت آ جائے یعنی نو دس بج جائیں تو اُس وقت جمعہ پڑھ لینا جائز ہوتا ہے مگر شاید دفتروں کی وجہ سے یا کسی اَور وجہ سے لاہور میں دو بجے جمعہ کی نماز ہوتی ہے۔ میں بعض دفعہ جمعہ کی نماز کے لئے ڈیڑھ بجے بھی آیا ہوں، بعض دفعہ پونے دو بجے بھی آیا ہوں، بعض دفعہ دو بجے بھی آیا ہوں مگر میں نے ہمیشہ دیکھا کہ اُس وقت بھی سارے مسلمان دکاندار سَودا فروخت کر رہے ہوتے ہیں اور گاہک سَودا خرید رہے ہوتے ہیں۔میں حیران ہوں کہ گورنمنٹ سے تو یہ کہا جاتا ہے کہ تم اسلامی قانون جاری نہیں کرتے مگر جو قانون جاری کرنا مسلمانوں کے اپنے اختیار میں ہے اس کو جاری کرنے کیلئے وہ تیار نہیں ہوتے۔ اسلام کہتا ہے ۲؎ اے مسلمانو! جب نماز جمعہ کی اذان ہو جائے تو اپنے سارے کام کاج چھوڑ دو اور جمعہ کی نماز کے لئے مساجد کی طرف چل پڑو۔ مسلمان کا شہر جمعہ کے وقت ایسا معلوم ہونا چاہیے جیسے قبرستان، سوائے گھر کی عورتوں اور بچوں اور بیماروں کے اور سوائے پولیس کے جس کا کام شہر کی نگرانی کرنا ہو اور کوئی شخص شہر میں چلتا پھرتا نظر نہیں آنا چاہیے۔ مگر یہ پولیس بھی محدود ہونی چاہیے زیادہ سے زیادہ پولیس کے دسویں حصہ کو پہرہ دینا چاہیے باقی ہر ایک شخص کو خواہ وہ ڈی سی ہو، سپرنٹنڈنٹ پولیس ہو، انسپکٹر پولیس ہو، سب انسپکٹر پولیس ہو مسجد میں نماز کے لئے حاضر ہونا چاہیے لیکن ہمارے مُلک میں اس رنگ میں کہاں نماز پڑھی جاتی ہے۔
پس سوچو اور غور کرو کہ آخر دنیا کیا کہے گی دنیا یہی کہے گی کہ تم نے اسلام کے نام پر صرف اپنے عہدوں کے لئے پاکستان مانگا تھا ورنہ اگر تم نے پاکستان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگا ہوتا، اگر تم نے پاکستان خداتعالیٰ کے لئے مانگا ہوتا تو خدا تعالیٰ کے گھر آج آباد کیوں نہ ہوتے۔ خدا تعالیٰ کے رسول کے نام کے لئے تم اپنے وقت کیوں نہ صرف کرتے۔ میں کہتا ہوں سوچئے اور غور کیجئے اگر میں نے جو کچھ کہا ہے کہ آپ لوگوں نے اسلام کے لئے پاکستان مانگا تھا یہ غلط ہے تو مجھے اِس سے آگاہ کیجئے، اگر میں نے جو کچھ کہا ہے مسلمان اب بھی نمازیں نہیں پڑھتے یہ غلط ہے تو مجھے اس سے آگاہ کیجئے، میں اپنی غلطی کا اعتراف کروں گا اور مجھے خوشی ہوگی اگر حقیقت برعکس ہو۔بھلا میرے لئے اِس سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ مجھے معلوم ہو جائے کہ مسلمان واقعہ میں مسلمان بن گیا ہے، وہ نماز پڑھنے لگ گیا ہے، وہ روزہ رکھنے لگ گیا ہے، وہ حج کرنے لگ گیا ہے، وہ زکوٰۃ دینے لگ گیا ہے مگر یہ ساری چیزیں ایسی چیزیں ہیں جو مجھے نظر نہیں آتیں۔ ممکن ہے کچھ لوگ کہیں کہ چونکہ تم ایک اقلیت سے تعلق رکھتے ہو اِس لئے تمہیں ہم سے بُغض ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ میرے دل میں آپ لوگوں کی بہت زیادہ محبت ہے، میرے دل میں آپ لوگوں کی بہت بڑی ہمدردی ہے، میرے دل میں آپ لوگوں کی بہت بڑی خیرخواہی ہے آپ نہیں مانیں گے مگر واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ماں باپ کو بھی آپ سے وہ محبت نہیں جو مجھے آپ سے ہے اور یہ میرا دعویٰ ہے لیکن میں مان لیتا ہوں کہ ممکن ہے اِس بات میں مجھے کوئی غلط فہمی ہوتی ہو اِس لئے میں کہتا ہوں کہ اِس وقت تو نہیں بعد میں آپ مجھے لکھ دیجئے کہ آپ نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کے متعلق جو کچھ کہا تھا وہ غلط تھا اب سارے مسلمان نمازیں پڑھنے لگ گئے ہیں یا سارے نہیں تو ان کا اکثر حصہ نمازیں پڑھنے لگ گیا ہے۔ یوں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی منافق تھے اور اب بھی ہو سکتے ہیں اس لئے ایسے لوگوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پانچ فیصدی لوگوں کو نکال دو، دس فیصدی لوگوں کو نکال دو، پندرہ فیصدی لوگوں کو نکال دو اور پھر دیکھو کہ آیا باقی مسلمان باقاعدگی کے ساتھ نمازیں ادا کرتے ہیں؟ لیکن اگر مسلمانوں کا جائزہ لیتے وقت وہی بات ہو جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پیش آئی تھی تو پھر میں کیا کروں۔
جب لوطؑ کی بستی پر عذاب نازل کرنے کا اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما دیا تو اللہ تعالیٰ نے کچھ فرشتوں یا بعض لوگوں کے عقیدہ اور تحقیقات کے مطابق اپنے بعض صالح اور برگزیدہ بندوں کو حکم دیا کہ جاؤ اور لوطؑ کو اس کی خبر دے آؤ۔ راستہ میں اُنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی خبر دی کہ لوطؑ کی بستی پر ایسا عذاب نازل ہونے والا ہے۔ جب حضرت ابرہیم علیہ السلام کو یہ خبر ملی تو بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سجدہ میں گر گئے اور اُنہوں نے کہا اے خدا! کیا تو لوطؑ کی بستی کو اِس لئے تباہ کر دے گا کہ اس میں کچھ بدمعاش لوگ پائے جاتے ہیں؟ اے خدا! کیا نیکوکار لوگوں کا تو خیال نہیں کرے گا اور ان کی خاطر اس عذاب کو ٹال نہیں دے گا؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر الہام نازل کیا کہ اے ابراہیم! یقینا اگر لوطؑ کی بستی میں نیکو کار لوگوں کی کثرت ہو تو میں اس بستی کو کبھی تباہ نہیں کروں گا۔ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا خدایا! اگر اس میں نوے فیصدی نیک لوگ ہوں اور صرف دس فیصدی بدعمل ہوں تو کیا دس فیصدی کی وجہ سے تو نوے فیصدی لوگوں کو تباہ کر دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہرگز نہیں اگر نوے فیصدی نیک ہوں تب بھی میں اس بستی کو تباہ نہیں کروں گا۔ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سمجھا کہ معلوم ہوتا ہے اِس قدر نیک لوگ اس بستی میں موجود نہیں اور اُنہوں نے کہا خدایا !اگر اس میں اسّی فیصدی نیک ہوں اور بیس فیصدی بُرے لوگ ہوں تو کیا بیس فیصدی کی خاطر تو اسّی فیصدی کو تباہ کر دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے پھر الہام نازل فرمایا کہ ہرگز نہیں اسّی فیصدی نیک لوگ بھی اس میں موجود ہوں تو میں اس بستی کو کبھی تباہ نہیں کروں گا۔ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام سمجھ گئے کہ اس میں اسّی فیصدی بھی نیک لوگ نہیں اور اُنہوں نے کہا خدایا! اگر اس میں ستر فیصدی نیک لوگ ہوں تو کیا صرف تیس فیصدی کی خاطر تو ستر فیصدی لوگوں کو تباہ کر دے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا بالکل نہیں اگر ستر فیصدی نیک لوگ موجود ہوں تب بھی میں اس بستی کو ہلاک نہیں کروں گا۔ غرض اِسی طرح کرتے کرتے بائبل میں لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا خدایا! اگر اس میں صرف دس فیصدی نیک لوگ موجود ہوں تو کیا ان کی خاطر تو اس بستی کو نہیں بچائے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم! اگر اس میں دس فیصدی نیک لوگ ہوں تب بھی میں اس بستی کو ہلاک نہیں کروں گا۔ آخر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا خدایا! دس فیصدی کیا اگر صرف دس نیک آدمی بھی اس بستی میں موجود ہوں تو کیا تو اس بستی پر رحم نہیں فرمائے گا اور اپنا عذاب اس سے نہیں ٹالے گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے ابراہیم! اگر صرف دس آدمی بھی اس بستی میں سے نیک نکل آئیں تو میں اس بستی کو کبھی تباہ نہیں کروں گا۔ تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سجدہ میں سے سر اُٹھا لیا اور سمجھ لیا کہ اب یہ شہر ضرور تباہ ہوگا ۳؎ کیونکہ اس میں دس بھی نیک نہیں۔ اس طرح اگر ایک مسلمان کہلاتا ہو اس بات کیلئے کوشش نہیں کرتا، اس بات کیلئے جدوجہد نہیں کرتا کہ وہ اسلام پر عمل کرے۔ اسلامی احکام اپنے اوپر وارد کرے اور اسلام کے غلبہ کیلئے ہر قسم کی کوشش کرے تو کوئی بتائے ہم ایک سکھ ، ایک ہندو اور ایک عیسائی کو کیا منہ دکھا سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے سامنے ہم کونسا منہ لے کر جائیں گے۔
باتیں تو میں نے اَور بھی نوٹ کی ہوئی تھیں مگر وقت ختم ہو گیا ہے اس لئے میں اسی پر اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں کہ جب بھی کوئی کام کیجئے سوچئے اور سوچ کر دیکھئے کہ آپ نے جو کام کیا ہے اس کا مطلب کیا ہے محض نعرے لگا لینا کسی قوم کی کامیابی کی علامت نہیں ہوتی۔ اگر اِس وقت سارے لوگ نعرۂ تکبیر بلند کرنے لگ جائیں، اگر اِس وقت سارے لوگ یہ کہنے لگ جائیں کہ ’’پاکستان زندہ بادہندوستان مردہ باد‘‘ تو اس سے ہندوستان کی ایک چوہیا بھی نہیں مرے گی لیکن اگر سب لوگ ان باتوں پر عمل کرنے لگ جائیں جن کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے، تاجر ٹیکس دینے لگ جائیں، عوام الناس بغیر ٹکٹ کے ریل کا سفر نہ کریں، نوجوان بیہودہ باتوں میں اپنا وقت ضائع کرنے کی بجائے تعلیم میں ترقی کریں اور جو مضبوط نوجوان ہیں وہ فوجوں میں بھرتی ہوں، افسر رشوت خوری کی عادت کو ترک کر دیں اور تمام کام دیانتداری اور محنت کے ساتھ کریں تو پاکستان عملی رنگ میں مضبوط سے مضبوط ہوتا چلا جائے گا پھر آپ لوگ خواہ ایک دفعہ بھی ’’پاکستان زندہ باد‘‘ نہ کہیں نتیجہ یہی نکلے گا کہ ’’پاکستان زندہ باد۔‘‘
(الفضل ربوہ ۲۸؍ نومبر ۵؍ دسمبر۱۹۶۲ء)
۱؎ کنز العمال جلد۷ صفحہ ۲۸۰ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ء
۲؎ الجمعۃ: ۱۰
۳؎ پیدائش باب۱۸ آیت ۲۳ تا ۳۲۔ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء (مفہوماً)
الرحمت
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
۱؎
الرحمت
(مضمون برائے اوّل شمارہ اخبار الرحمت ۲۱؍ نومبر۱۹۴۹ء)
’’آج سے چھتیس سال پہلے نہایت خطرناک حالات اور بالکل بے بسی اور بیکسی کی صورت میں میں نے الفضل اخبار جاری کیا تھا جو پہلے ہفتہ وار شروع ہوا اور اب روزانہ اخبار کی صورت میں شائع ہو رہا ہے اور اِس وقت مُلک کے مقتدر پرچوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد یہ پرچہ ہندوستان سے پاکستان میں آ گیا۔ اپنی مرضی سے نہیں مجبوری سے۔ مُلک کے حالات ہی کچھ ایسے ہوگئے کہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا رہنا اور مغربی پنجاب میں ہندوؤں اور سکھوں کا رہنا قریباً ناممکن ہو گیا۔ یہ حالات یقینا تکلیف دِہ تھے، تکلیف دِہ ہیں اور تکلیف دِہ رہیں گے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِن حالات کے پیدا کرنے میں قدرت کی کوئی مصلحت بھی تھی۔ وہ کیا تھی؟ شاید اِس کا بیان ابھی مناسب نہ ہو۔ بہرحال اِن حالات کی وجہ سے علاوہ افراد کے بہت سے ہندو اور سکھ اخبار بھی مغربی پنجاب سے نکل کر مشرقی پنجاب کی طرف منتقل ہوگئے اور بہت سے مسلمانوں کے اخبار مشرقی پنجاب سے نکل کر مغربی پنجاب میں آ گئے۔ جہاں تک اخباروں کا تعلق ہے شاید نقصان ہندوؤں اور سکھوں کا زیادہ ہوا اور مسلمانوں کا کم۔ کیونکہ مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کا ایک ہی مقتدر اخبار الفضل تھا لیکن مغربی پنجاب میں ہندوؤں کے کئی بڑے بڑے پرچے تھے مثلاً ’’ٹربیون‘‘، ’’پرتاب‘‘، ’’ملاپ‘‘، ’’اجیت‘‘، ’’ویر بھارت‘‘۔
جو پرچے جس مُلک میں گئے لازماً اُن کی ہمدردیاں اُن ممالک سے وابستہ ہوگئیں۔ الفضل گو ایک مذہبی پرچہ تھا لیکن کبھی کبھار اِس میں نیم سیاسی مضامین بھی شائع ہوتے تھے جن میں اپنی دیرینہ پالیسی کے مطابق پوری احتیاط سے کام لیا جاتا تھا اور خیال رکھا جاتا تھا کہ بین الاقوامی منافرت کی کوئی صورت پیدا نہ ہو لیکن ایک پاکستانی اخبار کے جذبات بہرحال پاکستانی ہی ہو سکتے تھے۔ میرے علم میں تو ایسی کوئی بات نہیں مگر ہندوستان کے بعض صوبوںکی حکومتوں نے الفضل کے بعض مضامین کو قابل اعتراض سمجھ کر اس کا داخلہ بند کر دیا اور اب تو قریباً سارے ہندوستان میں ہی سوائے دہلی کے اِس کا داخلہ بند ہے۔ ہندوستانی حکومت کے پاس جب اِس کے متعلق احتجاج کیا گیا تو اُنہوں نے جواب میں لکھا کہ مرکزی حکومت نے الفضل کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا اور براہِ راست اِس کے ماتحت علاقوں میں اس کا داخلہ ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔ باقی رہیں صوبہ جاتی حکومتیں سو وہ اِس معاملہ میں آزاد ہیں۔ اگر کسی صوبہ جاتی حکومت نے ایسا کیا ہو تو آپ اُس سے براہِ راست احتجاج کریں۔ الفضل چونکہ ایک مذہبی پرچہ تھا اِس لئے ہندوستان کی جماعتوں کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اِس پرچہ میں سیاسی مضامین کلیتہًممنوع قرا ردیئے جائیں تا کہ کسی غیر گورنمنٹ کو اس پر اعتراض کا موقع نہ ملے لیکن یہ تدبیر بھی کارگر نہ ہوئی اور باوجود اِس کے کہ الفضل میں سیاسی مضمون چھپنے بند ہوگئے ہندوستان کے مزید صوبوں میں اِس کا داخلہ بند کیا جاتا رہا اور جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے اب قریباً سارے ہندوستان میں اِس کا داخلہ بند ہے۔ جس طرح ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی تھی کہ الفضل کے کونسے مضامین کی وجہ سے اس کا داخلہ ممنوع قرار دیا جانے لگا ہے اِسی طرح ہماری سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آئی کہ الفضل میں سیاسی مضامین کے ممنوع ہو جانے کے باوجود اِس کا داخلہ مزید صوبوں میں کیوں بند کیا جاتا رہا۔ مگر بہرحال یہ حکومت اپنے مصالح کو خود سمجھتی ہے اور دوسرے لوگوں کی سمجھ میں خواہ وہ مصالح آئیں یا نہ آئیں ان کے لئے احکامِ حکومت کی پابندی لازمی اور ضروری ہوتی ہے۔ خصوصاً جماعت احمدیہ کے لئے جس کے اصول میں یہ بات داخل ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہو اُس کے احکام کی فرمانبرداری کرو اِس لئے ہم نے مناسب سمجھا کہ بجائے اس کے کہ الفضل کے خلاف جو قدم اُٹھایا گیا ہے اُس پر پروٹیسٹ کریں اور اُس کے ازالہ کے لئے کوئی جدوجہد کریں ایک نیا اخبار جاری کر دیا جائے جو کلیتہً سیاسیات سے الگ ہو تا کہ ان جماعت ہائے احمدیہ کی تنظیم اور تبلیغ میں کوئی روک پیدا نہ ہو جو ہندوستان میں رہتی ہیں۔ اِس ارادہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے ہوئے کہ وہ اِس پرچہ کو بابرکت بنائے اور اُن مقاصد کی اشاعت میں کامیاب کرے جن کا ذکر ذیل میں کیا جائے گا۔
میں ’’الرحمت‘‘ کو جاری کرتا ہوں۔ یہ پرچہ خالص مذہبی پرچہ ہوگا اور جہاں اس کی پالیسی یہ ہوگی کہ یہ انصاف اور عدل کے قوانین کے مطابق مختلف مذاہب کے لوگوں میں عقل اور اخلاق کی پیروی کی روح پیدا کرے وہاں اِس کی یہ بھی پالیسی ہوگی کہ وہ سیاسیات سے الگ رہتے ہوئے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ایک بہتر فضا پیدا کرنے کی کوشش کرے۔
ہمیں نہایت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کئی ہندوستانیوں نے مسٹر گاندھی کے ان اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر ہندو اور سکھ اور غیر مسلم کو جو پاکستان میں رہتا ہے پاکستان کا مخلص اور وفادار شہری ہو کر رہنا چاہیے اور کئی مسلمانوں نے قائد اعظم کے اُن اعلانات کو بھلا دیا ہے کہ ہر مسلمان کو جو ہندوستان میں رہتا ہے ہندوستانی حکومت کا مخلص اور وفادار شہری ہو کر رہنا چاہیے۔ ان لیڈروں کے منشاء کے خلاف کچھ لوگ ایسے پیدا ہوگئے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ کسی غیرمسلم کو پاکستان میں رہنا ہی نہیں چاہیے۔ اور اگر ایسا ہوتو پھر پاکستان میں رہنے والے غیرمسلم کو دل میں پاکستان سے دشمنی رکھنی چاہیے اور ہندوستان میں رہنے والے مسلمان کو دل میں ہندوستان سے دشمنی رکھنی چاہیے۔ اگر گاندھی جی اور قائداعظم کے بیانات نہ بھی ہوتے تب بھی یہ جذبہ اور رُوح نہایت افسوسناک اور مذہب اور اخلاق کے خلاف تھی مگر اِن دو زبردست ہستیوں کے اعلانات کے خلاف اِس قسم کے جذبے کا پیدا ہونا نہایت ہی تعجب انگیز اور افسوسناک ہے۔ ہندوستان کی موجودہ دو علاقوں میں تقسیم بعض مصلحتوں کے ماتحت ہوئی تھی۔ ان مصلحتوں سے زیادہ کھینچ تان کر اِس مسئلہ کو کوئی اور شکل دینا کسی صورت میں جائز نہیں ہو سکتا۔ جب تقسیم اٹل ہوگئی تھی تو میں نے اُسی وقت یہ اعلان کیا تھا کہ اگر یہ تقسیم ہونی ہی ہے تو پھر کوشش کرنی چاہیے کہ دونوں مُلکوں کے باشندوں کو ایک دوسرے مُلک میں بغیر پاسپورٹ کے آنے جانے کی اجازت ہو، تجارت پر کسی قسم کی کوئی پابندیاں نہ ہوں لیکن افسوس کہ اُس وقت میری آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی اور شاید آج بھی یہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوگی۔ اگر میری بات کو مان لیا جاتا تو وہ خون ریزی جو مشرقی پنجاب اور کشمیر میں ہوئی ہے ہرگز نہ ہوتی۔ ہم کُلّی طور پر آزاد بھی ہوتے مگر ہماری حیثیت اُن دو بھائیوں سے مختلف نہ ہوتی جو اپنے والدین کی جائداد تقسیم کر کے اپنے چولہے الگ کر لیتے ہیں۔ وہ یقینا اپنی اپنی جائداد کے کُلّی طور پر مالک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ماتحت نہیں ہوتے، ان کا کھانا پینا بھی الگ الگ ہوتا ہے، ان کی آمدنیں بھی الگ ہوتی ہیں اور ان کے خرچ بھی الگ ہوتے ہیں مگر باوجود اِس کے وہ بھائی بھائی ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ کی جائداد کے تقسیم کرنے سے دو بھائی دشمن نہیں بن جاتے تو ہندوستان کے تقسیم کرنے سے مسلمان اور ہندو کیوں دشمن بن جائیں۔ تقسیم دشمنی نہیں پیدا کرتی تقسیم کے پیچھے کسی غلط روح کا ہونا دشمنی پیدا کرتا ہے۔ میں چاہتا تھا کہ اِس غلط روح کو کچل دیا جائے اور بھائیوں بھائیوں کی طرح مسلمان اور ہندو اپنی آبائی جائداد کی تقسیم کا فیصلہ کریں مگر میری اِس آواز کو اُس وقت نہ سنا گیا۔ میری اِس آواز کو بعد میں بھی نہ سنا گیا۔ پاکستان کے ایک متعصب عنصر نے میرے اِن خیالات کی وجہ سے مجھے پاکستان کا ففتھ کالمسٹ قرار دیا اور اُنہوں نے یہ نہ سوچا کہ میں وہی کہہ رہا ہوں جس کا اعلان بار بار قائداعظم نے کیا تھا۔ صرف فرق یہ تھا کہ قائداعظم نے ایک مجمل اصل بیان کیا تھا اور میں شروع سے ان تفاصیل کو بیان کر رہا تھا جن تفاصیل کے ذریعہ سے ہی قائد اعظم کا بیان کردہ اصل عملی صورت اختیار کر سکتا تھا۔ میرے اِن خیالات کی وجہ سے ہندوستان کے احمدیوں کو بھی ہندوستان میں کشتنی اور گردن زدنی سمجھا گیا۔ شاید کسی اور مسلمان فرقہ کو اِس قدر نقصان ہندوستان میں نہیں پہنچا جس قدر کہ احمدی جماعت کو پہنچا ہے اور اِس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ان کا امام گاندھی جی کے بیان کردہ اصل کی ترجمانی کے صحیح طریق ان کے سامنے پیش کر رہا تھا۔ ہم نے ایک سچائی کے لئے دونوں مُلکوں میں تکلیف اُٹھائی اور شاید دونوں مُلکوں کے متعصب لوگوں کے ہاتھوں سے آئندہ بھی ہم دونوں مُلکوں میں تکلیف اُٹھائیں گے لیکن ہم اس دائمی سچائی کو جو قرآن کریم میں بار بار بیان کی گئی ہے کبھی نہیںچھوڑ سکتے کہ جو شخص جس حکومت میں رہتا ہے وہ اُس کا فرمانبردار رہے اور اُس کے ساتھ پوری طرح تعاون کرے۔ اور اگر کسی وقت وہ یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے مذہب اور اخلاق کو قائم رکھتے ہوئے اُس مُلک میں رہ نہیں سکتا تو اُس مُلک سے ہجرت کر جائے۔ اگر اُس مُلک کی حکومت اُس کو ہجرت بھی نہ کرنے دے تو پھر وہ آزاد ہے کہ خداتعالیٰ نے اُسے جو بھی ذریعہ بخشا ہو اُسے کام میں لاتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد کرے۔ جب کانگرس گورنمنٹ کے خلاف کھڑی ہوئی تھی تو انہی اصول کی وجہ سے میں نے کانگرس کی مخالفت کی تھی ورنہ میں کانگرس کا دشمن نہیں تھا نہ مُلک کی آزادی کا دشمن تھا۔ کانگرس کے کئی لیڈر میرے واقف تھے اور بعض دوست بھی اور وہ مختلف اوقات میں مجھ سے تبادلۂ خیالات کرتے رہتے تھے وہ جانتے تھے اور جانتے ہیں کہ میں مُلک کی آزادی کا اُن سے کم حامی نہیں تھا۔ مجھے ان سے اختلاف صرف اُس طریقۂ کار کے متعلق تھا جو میرے نزدیک مُلکی حکومت کے بن جانے پر بھی تفرقہ کو بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ جو کچھ میں نے اُس وقت کہا تھا آج پاکستان اور ہندوستان میں لفظاً لفظاً صحیح ثابت ہو رہا ہے۔ حکومت کے بائیکاٹ کے اعلانات کئے جا رہے ہیں، سٹرائیکیں کی جارہی ہیں اور مُلک میں رہتے ہوئے انتشار اور اختلاف کے سامان پیدا کئے جا رہے ہیں۔ میں جو انگریز کے زمانہ میں انگریز کے خلاف ایسی باتوں کی اجازت نہیں دیتا تھا یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ خود مُلکی حکومتوں کے قائم ہو جانے کے بعد پاکستان یا ہندوستان میں میں ایسی باتوں کی اجازت دے دیتا۔ چنانچہ ہر ایسے موقع پر جو پاکستان یا ہندوستان میں پیدا ہوا میں نے اپنی جماعت کو یہی حکم دیا کہ وہ حکومت وقت کی پورے طور پر وفاداری کریں اور جو ذمہ داریاں حکومت کی طرف سے شہریوں پر عائد کی جائیں ان ذمہ داریوں کو دیانتداری سے ادا کریں۔ یقینا یہ تعلیم پاکستانی اور ہندوستانی حکومتوں کی نظر میں ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھی جانی چاہیے تھی مگر افسوس کہ ہندوستان میں ایسا نہیں کیا گیا اور بعض صوبہ جاتی حکومتوں نے اِس قیمتی خزانے کی قدر نہیں کی جو احمدیہ جماعت کی صورت میں اُن کے مُلک کو حاصل ہوا تھا۔
احمدی جماعت ہر مُلک کے لئے ایک قیمتی جوہر ہے۔ وہ وفاداری اور اخلاص کے ساتھ اپنے مُلک کی حکومت کے ساتھ تعاون کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔ وہ انصاف اور عدل کے لئے قربانی کرنے والی جماعت ہے مگر حکومت کے ساتھ عدمِ تعاون اِس کے اصولوں کے خلاف ہے۔ وہ عدل اور انصاف کو عدل اور انصاف کے ذریعوں سے ہی حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ عدل اور انصاف کے حاصل کرنے کے لئے غیر منصفانہ اور غیر عادلانہ ذرائع کے اختیار کرنے کو جائز قرار نہیں دیتی۔ ہر سمجھدار انسان اِس جماعت کو سر اور آنکھوں پر بٹھائے گا۔ ہر سمجھدار حکومت ایسی جماعت کو قدر اور عزت کی نگاہوں سے دیکھے گی۔ اور میں امید کرتا ہوں کہ اگر اِس سے پہلے نہیں تو آئندہ ہندوستان کی مختلف صوبائی حکومتیں اور مرکزی حکومت ان احمدی تعلیمات کو مدنظر رکھ کو جو میں نے اوپر بیان کی ہیں احمدیوں کے متعلق اپنے رویہ کو تبدیل کرے گی۔
مجھ سے بعض ہندوستانی جو اِدھر آتے رہتے ہیں اُنہوں نے بعض دفعہ ان امور پر تبادلۂ خیالات کیا ہے اور بعض سے سوالات کیے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے ہمارے نقطۂنگاہ کو پورے طور پر نہیں سمجھا۔ مثلاً یہ کہ اگر آپ ہندوستان کے احمدیوں کو ہندوستان کی وفاداری کی تعلیم دیتے ہیں تو کیا پاکستان کے احمدی کشمیر کے معاملہ میں پاکستان حکومت کا ساتھ نہیں دیں گے؟ میری اوپر کی تشریح کے بعد یہ سوال کیسا مضحکہ خیز معلوم ہوتا ہے۔ جو کچھ میں نے اوپر بیان کیا ہے اُس کا تو یہ مطلب ہے کہ ہمارے نزدیک قرآن کریم کی یہ تعلیم ہے کہ جو شخص جس حکومت میں رہے وہ اُس کا فرمانبردار رہے اور اُس کے ساتھ تعاون کرے۔ اِس تعلیم کا یہ مطلب ہے کہ ہر پاکستان میں رہنے والا احمدی اپنی حکومت کا پوری طرح فرمانبردار ہوگا اور اُس کے مقاصد اور مفاد میں پوری طرح تعاون کرے گا۔اور ہندوستان میں رہنے والا ہر احمدی حکومت ہندوستان کا پوری طرح فرمانبردار ہوگا اور اُس کے مقاصد اور مفاد میں اُس سے پوری طرح تعاون کرے گا۔ اتنی واضح تعلیم کے بعد اِس قسم کا شُبہ پیدا ہی کس طرح ہو سکتا ہے۔ یہ سوال تو بے شک کیا جا سکتا تھا کہ کیا ہندوستان میں رہنے والا احمدی اپنی حکومت کے ساتھ پوری طرح تعاون کرے گا؟ اِس کا جواب یقینا میں یہ دیتا کہ ہاں کرے گا لیکن ہر حکومت کی وفاداری کی تعلیم سن کر یہ کہنا کہ کیا پاکستان میں رہنے والا احمدی پاکستان کی حکومت سے بغاوت کرے گا؟ بالکل احمقانہ اور جاہلانہ سوال ہے۔ اوپر کی بیان کردہ تعلیم کا یہ لازمی نتیجہ ہے کہ پاکستان میں رہنے والا ہر احمدی حکومت پاکستان کی پوری فرمانبرداری کرے گا اور اُس کے تمام مقاصد اور مفاد میں اُس کے ساتھ تعاون کرے گا۔ اگر پاکستان ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ ہم ہندوستان کے احمدیوں کو ہندوستان سے بغاوت کی تعلیم دیں تو ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے اور اگر ہندوستان کی حکومت ہم سے یہ مطالبہ کرے کہ ہندوستان میں رہنے والے احمدیوں کو امن سے رہنے دینے کی قیمت ہمیں یوں ادا کرنی چاہیے کہ پاکستان کے احمدی پاکستان کی حکومت سے غداری کریں یا اس سے عدمِ تعاون کریں تو ہم ایسا کبھی نہیں کریں گے۔
ہمارا مذہب یہ کہتا ہے کہ جس حکومت میں رہو اس کے فرمانبردار رہو۔ پس جو ہندوستان میں رہتے ہیں ہم اُن کو یہی کہیں گے کہ ہندوستان کی حکومت کی فرمانبرداری کرو اور جو پاکستان میں رہتے ہیں ہم اُن کو یہی کہیں گے کہ پاکستان کی حکومت کی فرمانبرداری کرو اور یہی تعلیم ہماری انڈونیشیا، عرب، یونائیٹڈسٹیٹس آف امریکہ، انگلستان، فرانس، جرمنی، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، ایبے سینیا، مصر اور دیگر حکومتوں کے ماتحت رہنے والے احمدیوں کو ہوگی۔ کسی کی سمجھ میں ہماری بات آئے یا نہ آئے ہماری سمجھ میں بھی یہ بات نہیں آتی کہ ہمارے بیان کردہ اصولوں کے بغیر دنیا میں امن قائم کس طرح رہ سکتا ہے؟ اگر ہندوستانی اپنے سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ تعلیم دیں کہ وہ جہاں کہیں جائیں ہندوستان کے ایجنٹ بن کر رہیں تو دوسری قومیں ان کو برداشت کس طرح کریں گی؟ اور اگر پاکستانی اپنی رعایا یا اپنے سے ہمدردی رکھنے والے لوگوں کو یہ تعلیم دیں تو اِسی سلوک کی اُن کو بھی امید رکھنی چاہیے۔ ہر سیاسی حکومت کو اپنے باشندوں کو یہی حکم دینا ہوگا کہ تم اپنی حکومت کے فرمانبردار رہو اور اگر باہر جاؤ تو عارضی طور پر اُس حکومت کے قوانین کی پیروی کرو۔اور ایک مذہبی گروپ کو اپنے افراد کو یہی تعلیم دینی ہوگی کہ تم جس مُلک کے باشندے ہو اُس مُلک کے وفادار ہو۔پس یہ اخبار اِسی پالیسی کے ماتحت ہر مُلک کے احمدیوں کو یہ تعلیم دے گا کہ وہ اپنی اپنی حکومت کے فرمانبردار اور مطیع رہیں اور اُس کے ساتھ سچا تعاون کریں۔
(۲) اِس وقت سب سے بڑی مصیبت دنیا پر یہ آئی ہوئی ہے کہ حکومتیں اپنے آپ کو اخلاقی نظام سے باہر سمجھتی ہیں۔ اخلاقی نظام کی پابندی صرف افراد کے لئے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ اِس کے نتیجہ میں بہت سے فساد اور خرابیاں پیدا ہو رہی ہیں۔ الرحمت اِس مسئلہ کو بار بار سامنے لائے گا اور اپنی اِس کمزور آواز کو بلند سے بلند کرتا چلا جائے گا کہ حکومتیں اور افراد دونوں ہی اخلاقی ذمہ داریوں کو اپنے اوپر حاکم تصور کریں اور اپنے آپ کو اخلاقی حکومت سے بالا خیال نہ کریں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سچائی، دیانت اور عدل کے قوانین کو اگر پوری طرح مدنظر رکھا جائے تو بہت سی مشکلات جو اِس وقت ناقابل حل معلوم ہوتی ہیں آسانی سے حل ہو سکتی ہیں۔ ہر قوم کو دوسری قوم کا حق دینا چاہیے اور ایک مُلک میں رہنے والی سب قوموں کو آپس میں بھائی بھائی بن کر رہنا چاہیے۔ سیاسی اختلافات کی بنیاد مُلک کی ترقی پر رکھنی چاہیے نہ کہ قوموں کے اندر اختلاف اور انشقاق پیدا کرنے پر۔ ہماری یہ کوشش ہوگی کہ ہم سب سے پہلے جماعت احمدیہ کو اس کے اخلاقی فرائض کی طرف توجہ دلائیں جس میں اُن کے مذہبی پیشواؤں نے ہم سے اتفاق کیا ہے اور اُن کو اپنے پیشواؤں کی سچی پیروی کی ہدایت کریں۔
(۳) اِس وقت ایک عظیم الشان حادثہ کی وجہ سے مسلمانوں میں انتشار پیدا ہو رہا ہے اور وہ حیران ہیں کہ اِنہیں کیا کرنا چاہیے؟ اِس اثر سے احمدی جماعت بھی آزاد نہیں۔ ہمارے نزدیک اِس انتشار کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ مُلک کی تقسیم کے بعد بھی مسلمان ہندوستان میں آزادی سے رہ سکتا ہے اگر وہ عقل سے کام لے۔ سیاسی پہلوؤں کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم مذہبی اور اخلاقی پہلو جماعت اور دوسرے مسلمانوں کے سامنے رکھتے رہیں گے جن کی روشنی میں وہ ہندوستان کی حکومت کا ایک مفید جزو بن سکیں اور ہندوستان میں امن اور عزت کی زندگی بسر کر سکیں۔ ہم ایسی ہی خدمت اُن ہندوؤں اور سکھوں کی بھی کرنے کے لئے تیار رہیں گے جنہوں نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے یا جو آئندہ ایسا فیصلہ کریں۔
غرض اِس پرچہ کی بنیاد مذہب اور اخلاق پر ہوگی اور صلح اور آشتی پر ہوگی۔ یہ پرچہ سیاسیات سے الگ رہے گا۔ اختلافات کو بڑھائے گا نہیں کم کرنے کی کوشش کرے گا۔ جہاں تک عوامی تعلقات کا سوال ہے یہ پاکستان اور ہندوستان کے عوام کے جوش میں آئے ہوئے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے گا اور ہر غداری کی روح کو خواہ وہ پاکستان میں سر اُٹھائے یا ہندوستان میں سر اُٹھائے دبانے کی کوشش کرے گا بلکہ صرف ہندوستان اور پاکستان میں ہی نہیں دنیا کے ہر گوشہ کے لوگوں کیلئے ’’الرحمت‘‘ رحمت کا نشان بننے کی سعی کرے گا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِس ارادہ میں پورا اُترنے کی توفیق دے اور اِس رستہ کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی ہمت بخشے اور اپنی مدد اور نصرت سے سچائی، عدل اور انصاف کے غلبہ کے سامان مہیا کرے۔
میں پھر اُسی آیت کو دُہراتے ہوئے جس کو میں اوپر لکھ چکا ہوں اِس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔ یعنی اے خدا! میں اِس کمزور کشتی کو ایک متلاطم سمندر میں پھینکتا ہوں تیرا ہی نام لیتے ہوئے اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہوئے۔ تو اپنے فضل سے اِس متلاطم سمندر میں اِس کشتی کو آرام سے چلنے میں مدد دے اور اپنی حفاظت میں اِس کے منزلِ مقصود پر پہنچنے کے سامان پیدا فرما۔ آمین
(اخبار الرحمت ۲۱؍ نومبر ۱۹۴۹ء)
۱؎ ھود: ۴۲
دنیا کے معزز ترین انسان
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
دنیا کے معزز ترین انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
(افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۲۶؍ دسمبر ۱۹۴۹ء)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا:۔
’’ہماری موجودہ مثال اُن کمزور پرندوں کی سی ہے جو دریا کے کسی خشک حصہ میں سستانے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں اور شکاری جو اُن کی تاک میں لگا ہوا ہوتا ہے اُن پر فائر کر دیتا ہے اور وہ پرندے وہاں سے اُڑ کر ایک دوسری جگہ پر جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہم بھی آرام سے اور اطمینان سے دنیا کی چالاکیوں اور ہوشیاریوں اور فریبوں سے بالکل غافل ہو کر( کیونکہ مومن چونکہ خود چالاک اور فریبی نہیں ہوتا وہ دوسروں کی چالاکیوں اور فریبوں کا بھی اندازہ نہیں لگا سکتا) اپنے آرام گاہ میں اطمینان اور آرام سے بیٹھے تھے اور ارادہ کر رہے تھے کہ ہم میں سے کوئی اُڑ کر امریکہ جائے گا، کوئی انگلستان جائے گا، کوئی جاپان جائے گا اور دین اسلام کی اشاعت ان جگہوں میں کرے گا لیکن چالاک شکاری اِس تاک میں تھا کہ وہ ان غافل اور سادہ لوح پرندوں پر فائر کرے چنانچہ اُس نے فائر کیا اور چاہا کہ وہ ہمیں منتشر کر دے مگر ہماری جماعت جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے الہامات میں پرندہ ہی قرار دیا گیا ہے اپنے اندر ایک اجتماعی روح رکھتی تھی۔
پرندے دو قسم کے ہوا کرتے ہیں ایک پرندے وہ ہوتے ہیں جو اجتماعی روح اپنے اندر نہیں رکھتے اور ایک پرندے وہ ہوتے ہیں جو اجتماعی روح اپنے اندر رکھتے ہیں۔ کبھی کبھی تمہیں چند فاختائیں بھی اکٹھی بیٹھی ہوئی نظر آ جائیں گی، کبھی کبھی تمہیں چند چڑیاں بھی اکٹھی بیٹھی ہوئی نظر آ جائیں گی مگر جب تم اُن پر فائر کرو گے تو ان میں سے کوئی مشرق کی طرف بھاگ جائے گی، کوئی مغرب کی طرف بھاگ جائے گی، کوئی شمال کی طرف بھاگ جائے گی، کوئی جنوب کی طرف بھاگ جائے گی اور کوئی ان کے درمیانی کونوں کی طرف بھاگ جائے گی اور اس فائر کے بعد صاف پتہ لگ جائے گا کہ ان کا اتحاد عارضی تھا، اُن کا اکٹھا ہونا ایک اتفاقی امر تھا مگر جب تم مثلاً مرغابی پر فائر کرتے ہو یا مثلاً قاز۱؎ پر فائر کرتے ہو تو اس وقت ان کے اُٹھتے وقت تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ شاید وہ بھی پراگندہ ہونے لگے ہیں مگر تھوڑی سی پرواز کے بعد تھوڑے سے انتشار اور پراگندگی کے بعد تم دیکھو گے کہ وہ پھر دائیں اور بائیں سے اکٹھے ہو کر دوبارہ ایک جگہ پر آ کر بیٹھ جائیں گے۔
مشرقی پنجاب سے بہت سی قومیں، بہت سے گاؤں نکلے، بہت سے شہر نکلے، بہت سے علاقے نکلے لیکن اُنہوں نے اپنے فعل سے ثابت کر دیا کہ وہ قومی روح اپنے اندر نہیں رکھتے تھے، وہ پراگندہ ہوگئے، وہ پھیل گئے، وہ منتشر ہو گئے یہاں تک کہ بعض جگہ پر بھائی کو بھائی کا، باپ کو بیٹے کا اور ماں کو اپنی لڑکی کا بھی حال معلوم نہیں۔ صرف وہ چھوٹی سی قوم، وہ تھوڑے سے افراد جو دشمن کے تیروں کا ہمیشہ سے نشانہ بنتے چلے آئے ہیں اور جن کے متعلق کہنے والے کہتے تھے کہ دشمن کے حملہ کا ایک ریلا آنے دو پھر دیکھو گے کہ ان کا کیا حشر ہوتا ہے جونہی حملہ ہوا یہ لوگ متفرق ہو جائیں گے، منتشر اور پراگندہ ہو جائیں گے وہی ہیں جو آج ایک مرکز پر جمع ہیں۔ وہ کثیر التعداد آدمی جو وہاں سے نکلے تھے وہ پھیل گئے، وہ بکھر گئے، وہ پراگندہ ہوگئے مگر وہ چھوٹی سی جماعت جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ ایک معمولی سا ریلا بھی آیا تو یہ ہمیشہ کے لئے منتشر ہو جائے گی وہ مرغابیوں کی طرح اُٹھی تھوڑی دیر کے لئے اِدھر اُدھر اُڑی مگر پھر جمع ہوئی اور ربوہ میں آ کر بیٹھ گئی۔ چنانچہ جو نظارہ آج تم دیکھ رہے ہو یہ خواہ اتنا شاندار نہیں جتنا قادیان میں ہوا کرتا تھا کیونکہ ابھی ہماری پریشانی کا زمانہ ختم نہیں ہوا لیکن اور کونسی قوم ہے جس کی حالت تمہارے جیسی ہے۔ اور کونسی جماعت ہے جو آج اس طرح پھر جمع ہو کر ایک مقام پر بیٹھ گئی ہے۔ یقینا اور کوئی قوم ایسی نہیں۔ پس تمہارے اس فعل نے بتا دیا کہ تمہارے اندر ایک حد تک قومی روح ضرور سرایت کر چکی ہے۔ تم اُڑے بھی، تم پراگندہ بھی ہوئے، تم منتشر بھی ہوئے مگر پھر جو تمہاری جبلّت ہے، جو تمہاری طینت ہے، جو چیز تمہاری فطرت بن چکی ہے کہ تم ایک قوم بن کر رہتے ہو اور ایک آواز پر اکٹھے ہو جاتے ہو یہ فطرت تمہاری ظاہر ہوگئی اور دنیا نے دیکھ لیا کہ کوئی طاقت تمہیں ہمیشہ کے لئے پراگندہ نہیں کر سکتی۔ بے شک ابھی یہ ایک بیج ہے جو دکھائی دے رہا ہے مگر یہ بیج بڑی برکت کی نشانی ہے، بڑی رحمت کی نشانی ہے اور آئندہ کے لئے بڑی امیدیں دلانے والی چیز ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ یہ چیز اچھی بھی ہے، بہتر بھی ہے بلکہ ہمارے لئے فخر کاموجب بھی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ہماری پیداکردہ نہیں بلکہ ہمارے خدا ہی کی پیدا کردہ ہے اور ہم اس خوبی میں جو ہمارے اندر لوگوں کو نظر آتی ہے اپنے خدا ہی کا ہاتھ دیکھتے ہیں۔
ایک خوبصورت حسینہ جس کی شادی کی جاتی ہے اُس کا خاوند اس کے نقش و نگار اور اُس کی زینت دیکھ کر اُس پر لٹو ہو جاتا ہے مگر اُسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس زینت کے پیچھے مشاطہ ۲؎ کا ہاتھ کام کر رہا ہے۔ اگر وہ نہ ہوتی تو اُس کی بیوی بھی ایسی خوبصورت معلوم نہ ہوتی۔ اور جہاں مشاطائیں نہیں ہوتیں وہاں گھر کی رشتہ دار عورتیں اُسے سجاتی ہیں۔ ہم بھی ایک دلہن کی طرح نکھر کر دنیا کے سامنے آئے ہیں مگر ہمارے چہرے کا رنگ و روغن اور ہمارا نکھار بتا رہا ہے کہ یہ حسن ہمارا نہیں بلکہ ہمارے خدا یعنی ازلی مشاطہ کا بنایا ہوا حسن ہے اس لئے ہم اُسی کے حضور میں ادب کے ساتھ اپنا سر جھکاتے اور اُس سے کہتے ہیں اے مہربان آقا !جس نے ہم کو انتشار کے بعد پھر جمع کیا، جس نے پریشانی کے بعد ہمیں پھر امن کا راستہ دکھایا اور جس نے آئندہ کے لئے ہمیں بہت سی امیدیں دلائیں اگر تیرے علم میں ہمارے لئے کوئی اَور ابتلاء بھی مقدر ہیں تو ہم تجھ سے امید رکھتے ہیں کہ تو پھر بھی ہم کو پراگندہ نہیں ہونے دے گا بلکہ اپنے خاص فضل اور مہربانی سے ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اور ہماری خطاؤں کو معاف فرماتے ہوئے پھر ہم کو اکٹھا کر دے گا۔ پھر ہم کو جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائے گا اور اُس وقت تک ہمارے ارادوں کو متزلزل نہیں ہونے دے گا جب تک کہ ہم اسلام کو تمام دنیا میں قائم نہ کر دیں۔ ہمیں یہ امیدیں تیرے فضل نے دلائی ہیں اور ہماری اُمنگیں تیری رحمت کا ہی نتیجہ ہیں پس اے آقا! ہم تجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ تو ہماری کمزوریوں کو نظر انداز کر کے ہم میں وہ قومی روح پیدا فرما جو دنیا کی فتح کے لئے ضروری ہے۔ اور ہم میں وہ یگانگت اور اتحاد پیدا فرما جو دشمن پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے۔ اور ہمارے لئے ایسے سامان پیدا فرما کہ ہم دنیا میں ہر مشکل اور مصیبت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہا کریں اور ہمیشہ ایک جھنڈے کے نیچے جمع رہا کریں تا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نام کو ہم دنیا میں پھیلا سکیں اور خداتعالیٰ کی بادشاہت کو اِس دنیا کے چپہ چپہ پر قائم کر سکیں اور وہ محسن ترین وجود جو آج مظلوم ترین وجود بنا ہوا ہے اس کی شان اور عظمت کو دوبارہ دنیا میں قائم کر سکیں۔
مجھے اِس وقت یاد آ گیا، ایک واقعہ تھا جس کا اِس بات کے کہتے کہتے میری آنکھوں کے سامنے نقشہ کھنچ گیا۔ ایک جنگ کے موقع پر انصار اور مہاجرین میں جھگڑا ہو گیا۔ نوجوان ایسے موقع پر غلطیاں کر ہی بیٹھتے ہیں کسی نوجوان نے طعنہ دے دیا کہ ارے مہاجرو! تم اپنے گھروں سے نکالے ہوئے آئے اور ہم نے تمہیں پناہ دی۔ اِس پر مہاجرین بھی جوش میں آ گئے اور اُنہوں نے کہا ہم وہ ہیں جنہیں خداتعالیٰ نے سب سے پہلے اسلام کی شناخت کی توفیق بخشی تم ہمارا کہاں مقابلہ کر سکتے ہو۔ بات بڑھتی چلی گئی جھگڑا طول پکڑتا چلا گیا اور آخر ایسی صورت اختیار کر گیا کہ یکے بعد دیگرے اس میں دوسرے انصار اور مہاجر بھی شریک ہوگئے اور یوں معلوم ہونے لگا جیسے آج مہاجر اور انصار آپس میں لڑ ہی پڑیں گے۔ اُس وقت عبداللہ بن ابی ابن سلول دیرینہ منافق جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مدینہ میں تشریف آوری سے پہلے مدینہ کی بادشاہت کے خواب دیکھ رہا تھا بلکہ بعض روایتوں کے مطابق اس کے لئے تاج بھی بنایا جا رہا تھا اور فیصلہ کیا جا چکا تھا کہ اُسے تاج پہنا کر بادشاہ بنا دیا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آمد کی وجہ سے اُس کے تمام منصوبے خاک میں مل گئے اور وہ دل ہی دل میں بُغض و کینہ کی آگ میں ہروقت جلنے لگا۔ جب اُس نے دیکھا کہ اِس طرح انصار اور مہاجر آپس میں لڑرہے ہیں تو اُس نے سمجھا کہ یہ انصار کو بھڑکانے کا ایک اچھا موقع ہے وہ آگے بڑھا اور اُس نے کہا اے انصار! یہ تمہاری ہی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ تم اِن لوگوں کے منہ سے ایسی باتیں سن رہے ہو۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ تم ایسا قدم مت اُٹھاؤ مگر تم نہ مانے اب شکر ہے کہ میری بات تمہاری سمجھ میں آ رہی ہے۔ تم ذرا ٹھہرو اور مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر دیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی وہ کم بخت (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ) مدینہ کے سب سے زیادہ ذلیل آدمی یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا اور یہ فتنہ ہمیشہ کے لئے دُور ہو جائے گا۔۳؎ عبداللہ کا بیٹا مومن تھا وہ ایک سچا مسلمان تھاجب اُس نے اپنے باپ کی یہ بات سنی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ میرے باپ نے جو بات کہی ہے اُس کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہو سکتی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ یہی سزا اُسے دیں گے لیکن میرے دل میں خیال آتا ہے کہ اگر کسی اَور مسلمان کو آپ نے کہا اور اُس نے میرے باپ کو قتل کر دیا اور پھر کوئی کمزوری کا وقت مجھ پر آ گیا اور وہ مسلمان میرے سامنے آیا تو ممکن ہے میرے دل میں خیال آ جائے کہ یہ میرے باپ کا قاتل ہے اور میں جوش میں آ کر اُس پر حملہ کر بیٹھوں اور اِس طرح بے ایمان ہو جاؤں۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ میری درخواست یہ ہے کہ آپ مجھے ہی یہ حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں تا کہ کسی مسلمان کا کینہ میرے دل میں پیدا نہ ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں کہ ہم تمہارے باپ کو قتل کریں۔ اُس نے بات کی اور اپنے اندرونہ کو ظاہر کر دیا۔۴؎ ہماری طرف سے اس پر کوئی گرفت نہیں۔
اب بظاہر بات ختم ہوگئی اور وہ آئی گئی ہوگئی۔ انصار اور مہاجر آپس میں پھر بغلگیر ہوگئے۔ عبداللہ بن ابی بن سلول پھر ذلیل اور شرمندہ ہو کر اپنے خیمہ میں جا گھسا۔ پھر انصار اور مہاجرین میں بھائیوں بھائیوں کا سا نظارہ نظر آنے لگا۔ پھر ان میں محبت اور پیار کی باتیں ہونے لگیں، پھر لوگوں نے یہ نمونہ دیکھا کہ ایک بدبخت انسان نے نہایت ہی گندے الفاظ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق کہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے انتہائی فراخ دلی سے معاف فرما دیا۔ پھر لشکر نے اپنا کام شروع کر دیا اور جب وہ اپنا کام پورا کر چکا تو مدینہ کی طرف واپسی شروع ہوگئی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھول گئے کہ عبداللہ نے کیا کہا تھا، عبداللہ بھی بھول گیا کہ اس کمبخت نے کیا کہا تھا، مہاجر بھول گئے کہ وہ انصار سے لڑنے کے لئے تیار ہوگئے تھے اور انصار بھی بھول گئے کہ وہ مہاجرین سے لڑنے کے لئے تیار ہوگئے تھے لیکن ایک دل تھا جس کی آگ بھڑک رہی تھی، جس کے شعلے دَبنے میں نہیں آتے تھے اور جو سر سے پاؤں تک جلا جا رہا تھا اِس وجہ سے کہ اُس کے آقا اور اُس کے سردار کو ایک شخص نے کہ (نَعُوْذُ بِاللّٰہ)وہ ذلیل ترین وجود ہے مدینہ کا۔ اور جانتے ہو وہ کون شخص تھا؟ وہ اسی عبداللہ کا اپنابیٹا تھا غیر اس کی بات بھول گئے، رشتہ دار اس کی بات بھول گئے، دوست اس کی بات بھول گئے، دشمن اس کی بات بھول گئے لیکن اُس کا بیٹا اِس بات کو نہیں بھولا اور بغیر اس واقعہ کے اسے اور کسی چیز کا خیال تک نہیں آیا۔ جس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سواری مدینہ منورہ میں داخل ہو چکی اور اسلامی لشکر اندر داخل ہونے لگا تو وہ لڑکا اپنی سواری سے کود کر گلی کے کنارے پر کھڑا ہو گیا اور جب اپنے باپ عبداللہ بن اُبی کو دیکھا تو اُس نے تلوار نکال کر اپنے باپ سے کہا تمہیں یاد ہے تم نے وہاں کیا الفاظ کہے تھے؟ تم نے کہا تھاکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل انسان ہے اور تم سب سے معزز انسان ہو۔ خدا کی قسم! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تم کو معاف کر دیا لیکن میں تمہیں معاف نہیں کروں گا اور تمہیں اُس وقت تک مدینہ میں داخل نہیں ہونے دوں گا جب تک تم تین دفعہ میرے سامنے یہ اقرار نہ کرو کہ میں سب سے زیادہ ذلیل ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے زیادہ معزز انسان ہیں۔ باپ نے دیکھ لیا کہ آج اس بیٹے کی تلوار میرے پیٹ میں جائے بغیر نہیں رہے گی، آج اس کی تلوار میرے دل کو چیرے بغیر نہیں رہے گی، اس نے اپنے سارے ہم نشینوں اور ہم مجلسوں کے سامنے جن میں وہ اپنی بادشاہت کی لافیں مارا کرتا تھا اقرار کیا کہ ہاں میں مدینہ کا سب سے زیادہ ذلیل شخص ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے زیادہ معزز انسان ہیں۔ ۵؎
مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا اور میں نے کہا خدا کی رحمتیں ہوں عبداللہ کے بیٹے پر کہ اُس نے اس طعنہ کو نہیں بھلایا اور تب تک اُس نے آرام نہیں کیا جب تک اپنے باپ کے منہ سے اُس نے یہ نہ کہلوا لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی سب سے زیادہ معزز وجود ہیں اور اس کا باپ سب سے زیادہ ذلیل آدمی ہے۔ مگر خدا رحم کرے ہم پر بھی جن کے سامنے دنیا نے محمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اتنی گالیاں دی ہیں کہ کسی ذلیل ترین انسان کو بھی وہ گالیاں نہیں دی گئیں، کسی کمینہ ترین انسان کو بھی وہ گالیاں نہیں دی گئیں، کسی شیطان کے مثیل انسان کو بھی وہ گالیاں نہیں دی گئیں مگر ہم آرام سے بیٹھے ہیں۔ ہمارے دلوں میں یہ جوش پیدا نہیں ہوتا کہ ہم وہ بات غیر کے منہ سے کہلوا سکیں جو عبداللہ کے بیٹے نے عبداللہ کے منہ سے کہلوائی۔ کس طرح ہم کو چین آ رہا ہے، کس طرح ہمارے دل اِدھر اُدھر کی باتوں میں مشغول ہیں اگر عبداللہ کے بیٹے جتنا ایمان ہی ہمارے دلوں میں ہوتا۔ حالانکہ چاہیے تھا کہ اس سے بہت زیادہ ایمان ہوتا تو ہمارا فرض تھا کہ ہم اُس وقت تک صبر نہ کرتے جب تک دنیا کو گھٹنے ٹیک کر یہ الفاظ کہنے پر مجبور نہ کر دیتے کہ دنیا کا سب سے زیادہ معزز وجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ہے اور اس کا دشمن سب سے زیادہ ذلیل ہے۔ ہم ایک دفعہ پھر یہاں جمع ہوئے ہیں خدا تعالیٰ کی عنایت اور اُس کی مہربانی سے۔ آؤ ہم سچے دل سے یہ عہد کریں کہ ہم کم سے کم عبداللہ کے بیٹے جتنا ایمان دکھائیں گے اور جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت کا اقرار دنیا سے نہیں کروا لیں گے اُس وقت تک ہم اطمینان اور چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
ایمان کہلاتا تو ہمارا ایمان ہے لیکن حقیقتاً خداتعالیٰ کے پیدا کئے بغیر پیدا بھی نہیں ہو سکتا اِس لئے آؤ ہم خداتعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مہربانی کر کے ہم لوگوں کو جو درحقیقت اُس کے فضلوں کے مستحق نہیں سخت کمزور ہیں اور اعمال میں سست اور غافل ہیں اپنا فضل نازل کر کے وہ ایمان بخشے، وہ غیرت بخشے کہ ہمارے دلوں کی آگ سلگتی چلی جائے، بھڑکتی چلی جائے یہاں تک کہ ہم پورے عزم اور ارادہ کے ساتھ دنیا کی اصلاح کے لئے کھڑے ہو جائیں اور اُس وقت تک آرام کا سانس نہ لیں جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت اور آپ کی عظمت کو پھر دنیا میں قائم نہ کر دیں اور وہ ظلم اور بے انصافی جو ہمارے آقا سے ہوتی چلی آ رہی ہے اس کا بدلہ نہ لے لیں۔ مگر وہ بدلہ نہیں جو سروں کو تلوار سے کاٹتا ہے بلکہ وہ بدلہ جو دلوں کو محبت سے بھرتا ہے تا کہ دنیا میں خداتعالیٰ کا نام پھر روشن ہو اور اللہ تعالیٰ کا جلال ایک دفعہ پھر ظاہر ہو جائے۔ پس آؤ میرے ساتھ دعا کرو۔ دل کے ساتھ، خشیت کے ساتھ، امیدوں کے ساتھ اور اپنے عجز کے اظہار اور کمزوری کے اعتراف کے ساتھ کیونکہ سچی دعا وہی ہوتی ہے جو ایک طرف اپنی کمزوری کا عجز کا اعتراف رکھتی ہے تو دوسری طرف خداتعالیٰ کی رحمتوں سے اُس میں مایوسی نہیں ہوتی۔
(الفضل ۳۱؍ دسمبر ۱۹۴۹ء)
۱؎ قاز: ایک آبی پرندہ
۲؎ مشاطہ: وہ عورت جو عورتوں کو بناؤ سنگھار کرائے۔
۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۳۰۳مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۴؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ۳۰۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۵؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۲ صفحہ۳۰۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
قادیان سے ہماری ہجرت ایک
آسمانیتقدیر تھی
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
قادیان سے ہماری ہجرت ایک آسمانی تقدیر تھی
(فرمودہ ۲۷؍ دسمبر ۱۹۴۹ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد فرمایا:۔
کَل میں نے احبابِ جماعت میں تحریک کی تھی کہ چونکہ آپ ہی مہمان ہیں اور آپ ہی میزبان ہیں اِس لئے کام خود سنبھالیں اور کارکنوں کے ساتھ مل کر جلسہ سالانہ کی خدمات سرانجام دیں۔ ہمارے پاس چونکہ کارکن کم ہیں اس لئے جلسہ سالانہ کے کام جلسہ سالانہ پر آنے والے دوستوں کے تعاون سے ہی سرانجام دیئے جا سکتے ہیں۔ آج دفاتر کی طرف سے مجھے اطلاع موصول ہوئی ہے کہ اس تحریک کے ماتحت احبابِ جماعت نے کارکنوں کے ساتھ بہت تعاون کیا ہے اور وہ تمام دوستوں کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ میں بھی ان دفاتر کے ساتھ اپنی خوشنودی کا اظہار کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ خداتعالیٰ آپ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے فرائض کے ادا کرنے اور احکام کی فرمانبرداری بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔ درحقیقت ایمان اور اخلاص کا یہی نمونہ ہے جو ہم لوگوں کے سامنے پیش کر سکتے ہیں تا انہیں یہ احساس ہو جائے اور یہ احساس مجھ کو اور آپ کو بھی ہو جائے کہ ایک انگلی اُٹھے گی تو آپ سب کھڑے ہو جائیں گے اور وہ انگلی جھکے گی تو آپ سب بیٹھ جائیں گے۔ تب دنیا یہ سمجھ لے گی کہ اِس جماعت کو کچلنا آسان بات نہیں اور جماعت کا امام بھی سمجھ لے گا کہ وہ اپنی جماعت کو ہر دشوار ترین راستہ پر چلا سکتا ہے کیونکہ دنیا میں کوئی شخص صرف اِس نیت سے کام نہیں کیا کرتا کہ اُسے ضرور فتح نصیب ہوگی بلکہ کام کرنے والا یہ جانتا ہے کہ اس کے لئے یا تو عزت والی زندگی مقدر ہے اور یا پھر اسے عزت والی موت نصیب ہوگی۔ دونوں میں سے ایک میں اس کا ضرور حصہ ہوگا۔ اور اگر یہ یقین پیدا نہ ہو کہ جو قدم تم اُٹھاؤ گے اس کے نتیجہ میں عزت والی زندگی یا عزت والی موت ملے گی تو قدم اُٹھانے سے پہلے تم بہت احتیاط سے کام لو گے اتنی احتیاط سے کہ بسا اوقات کام کا وقت گزر جائے گا۔ قرآن کریم میں خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ منافق لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ کافر بڑے جتھے والے ہیں اور مومن کمزور ہیں پھر مومنوں کو فتح کیسے میسر آ سکتی ہے۔ ۱؎ تم میں سے بھی بعض کمزور ایمان والے لوگ ان کا ساتھ دے دیتے ہیں مگر کیا تم نے کبھی اتنا بھی سوچا ہے کہ دنیا میں لوگ ہمیشہ فتح کے لئے نہیں لڑا کرتے بلکہ لڑائیاں اَور وجوہات سے بھی ہوتی ہیں۔ مثلاً ایک شخص راستہ پر چلا جاتا ہے ڈاکو اُس پر حملہ کر دیتے ہیں وہ اُن کا مقابلہ کرتا ہے اور مارا جاتا ہے۔ اس واقعہ کا جہاں کہیں ذکر کیا جاتا ہے یہی کہا جاتا ہے کہ فلاں نے کیا ہی اچھا نمونہ دکھایا ہے۔ فلاں نے بزدلی نہیں دکھائی بلکہ اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا گیا ہے۔ حضرت امام حسینؓ جب گھر سے باہر نکلے تھے تو وہ یہ نہیں سمجھتے تھے کہ وہ ضرور جیت جائیں گے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کوفہ والوں نے بغاوت کی تھی یہ ٹھیک ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا امام حسینؓ کوفہ والوں سے مل کر ساری دنیا سے لڑ سکتے تھے؟ امام حسینؓ یہ سمجھتے تھے کہ خداتعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ بعض اوقات ایک چھوٹی جماعت اپنے سے بڑی جماعتوں پر غالب آ جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ آپ کو اپنی فتح کا احساس نہیں تھا آپ کو اپنی فتح کا احساس ضرور تھا لیکن غالب خیال یہ تھا کہ یا تو انہیں دشمن کے مقابلہ میں فتح نصیب ہوگی یا شاندار موت تو کہیں گئی ہی نہیں۔ قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ اے مسلمانو! تمہیں عزت والی زندگی اور شاندار موت دونوں چیزوں میں سے ایک چیز ضرور ملے گی۔۲؎ لیکن تمہارے دشمنوں کو یا تو دونوں چیزیں نہیں ملیں گی اور یا دونوں چیزوں کا ملنا اس کے لئے مشتبہ سا ہے لیکن تمہارے پاس دونوں چیزیں یقینی ہیں۔ پھر بہادر کون ہے تم یا تمہارا دشمن؟ پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر احساسِ قومی پیدا کریں او رچاہیے کہ عمل ان کے لئے خوشکن چیز ہو۔بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ یہ بھی کوئی خوشکن نظارہ نہیں ہوگا تم اپنے اندر یہ احساس پیدا کرو کہ ہر کام کو اپنا کام سمجھو اور اسے اس نیت اور ارادے سے کرو کہ خداتعالیٰ نے تمہیں اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
ایک بات پر میں اظہارِ افسوس بھی کرتا ہوں اور وہ یہ کہ مجھے اطلاع دی گئی ہے کہ کَل شام کو جب اجلاس ہو رہا تھا تو جماعت کے ساٹھ فیصدی احباب باتیں کر رہے تھے یہ نہایت افسوسناک امر ہے۔ نیکی کے کام کی جگہ پر باتیں کرنا منع ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ جمعہ کے دن جب خطبہ ہو رہا ہو اُس وقت باتیں کرنا تو کجا کسی قسم کا اشارہ کرنا بھی منع ہے۔ ۳؎ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ خطبہ کو کوئی سہرا تو نہیں لگا ہوا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت باتیں کرنا صرف اِس لئے منع فرمایا ہے کہ اس وقت نیکی کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ پس احباب جب جلسہ گاہ میں آیا کریں تو کچھ تکلیف اُٹھا کر جلسہ گاہ میں بیٹھا کریں اور جب جلسہ گاہ میں بیٹھیں تو کچھ تکلیف اُٹھا کر نیکی کی باتیں سنا بھی کریں اور اُن پر عمل کیا کریں اور اگر ان میں سے کوئی کام بھی نہ کر سکیں تو جلسہ گاہ میں ہی نہ آیا کریں۔ آخر آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں جن کو سال میں کئی بار مرکز میں آنے کا موقع ملتا ہے۔ آپ لوگوں میں سے بعض کے لئے سال میں یہی دو تین دن ہوتے ہیں جن میں وہ مرکز کی برکات سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیںاِس لئے دوستوں کو چاہیے کہ وہ یہ کوشش کریں کہ ان دنوں کو زیادہ سے زیادہ عمل میں لگایا جائے۔
ایسے اجتماعوں کے موقع پر خصوصاً اِس جنگل میں بعض مجبوریاں بھی پیش آ جاتی ہیں دوستوں کو چاہیے کہ وہ ان کی پرواہ نہ کریں بلکہ ان سے بھی لطف اُٹھائیں۔ بعض دفعہ لوگ عشق کی باتوں کو بدتہذیبی یا حماقت بھی کہہ دیتے ہیں لیکن عشق جہاں عقل کے ساتھ تعلق رکھتا ہے وہاں وہ اپنے اندر وارفتگی کا رنگ بھی رکھتا ہے۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے آپ نے ایک نہایت اچھا کپڑا پہنا ہوا تھا۔ ایک صحابیؓ نے دیکھ کر کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ یہ کپڑا مجھے عطا کر دیں۔ آپ نے وہ کپڑا اُسے دے دیا۔ دوسرے صحابہؓ نے اُس صحابیؓ کو ملامت کی۔ اُنہوں نے کہا میں نے یہ کپڑا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس لئے مانگا ہے کہ آپ کو یہ زیادہ پسند تھا اور میں نے چاہا کہ اس سے اپنا کفن بناؤں سو میں نے آپ سے اپنے لئے کفن مانگ لیا۔ یہ جواب سن کر دوسرے صحابہؓ کو رشک پیدا ہونے لگا کہ یہ کپڑا ہم نے کیوں نہ مانگ لیا۔۴؎
اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو آپ نے فرمایا۔ میں صرف ایک پیغامبر ہوں جو خداتعالیٰ کی طرف سے تمہارے پاس آیا ہوں۔ جو ذمہ داریاں تم پر ہیں وہ مجھ پر بھی ہیں۔ جہاں تک مجھ سے ہو سکا میں نے آپ لوگوں کے حقوق کو ادا کیا ہے لیکن ممکن ہے مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہوگئی ہو یا تم میں سے کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف پہنچی ہو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن تمہیں ہر چیز کا بدلہ دینا پڑے گا سو میں نہیں چاہتا کہ خداتعالیٰ مجھ سے قیامت کے دن بدلہ لے۔ اگر مجھ سے کسی کوکوئی تکلیف پہنچی ہو تو وہ مجھ سے یہیں بدلہ لے لے۔ ظاہر ہے کہ ایسے محبوب کی بیماری کی حالت میں جسے صحت کی حالت میں بھی کوئی دُکھ دینا برداشت نہیں کیا جا سکتا تھا، یہ فقرات سن کر صحابہ کا کیا حال ہوا ہوگا۔ وہ مچھلی کی طرح تڑپ گئے مگر ایک صحابیؓ آگے بڑھا اور اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے آپ سے ایک تکلیف پہنچی ہے میں اُس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر دوسرے صحابہؓ کی آنکھوں میں خون اُتر آیا اور اُنہوں نے چاہا کہ اگر ممکن ہو تو اس صحابی کی تکہ بوٹی کر دی جائے لیکن اس صحابی نے ان کی طرف نہ دیکھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف دیکھتے رہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے اگر مجھ سے تمہیں کوئی تکلیف پہنچی ہے تو اس کا بدلہ لے لو۔ اس صحابی نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ!فلاںجنگ کے موقع پر جب آپ اسلامی لشکر میں صف بہ صف پھر کر نقص دور فرما رہے تھے آپ پیچھے کی طرف سے ہماری صف کو چیرتے ہوئے گزرے اُس وقت آپ کی کہنی میری پیٹھ پر لگی تھی میں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ میری پیٹھ ہے اِسے کہنی مار لو۔ اس پر اُس صحابی نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! جب آپ کی کہنی میری پیٹھ پر لگی اُس وقت میری پیٹھ ننگی تھی اس پر کرتہ نہیں تھا اور آپ نے کرتہ پہنا ہوا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا دو تا کہ یہ شخص اپنا بدلہ لے لے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھایا گیا۔ صحابہؓ کی آنکھوں سے خون بہنے لگا مگر اس شخص کی آنکھوں میں محبت کے آنسو آ گئے وہ جھکا اور آپ کی پیٹھ پر بوسہ دے کر اس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! پتہ نہیں پھر کب ملاقات ہو میں نے چاہا کہ اِس بہانہ سے آخری دفعہ پیار تو کر لوں۔ ۵؎ غرض عشق کی مختلف شانیں ہوتی ہیں۔ وہی صحابہؓ جن کا دل چاہتا تھا کہ اس شخص کے تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں کیونکہ اُس نے ایک نامعقول حرکت کی ہے انہی کا دل چاہتا تھا کہ اسے خوب جھنجھوڑیں اور مروڑیں کہ تم نے تو پیار کر لیا ہمیں کیوں یہ موقع نہ ملا۔
یہ وادی بے آب و گیاہ، یہ گرد و غبار، اِس میں بیسیوں باتیں ایسی ہیں جو دیکھنے والے کو عجیب معلوم ہوتی ہیں مگر عشق کی نگاہ میں وہ بڑی پیاری ہیں لیکن پھر بھی مومن کو چاہیے کہ وہ اپنے بھائی کی تکلیف کا موجب نہ بنے۔ مجھے بعض دوستوں نے لکھا ہے کہ موٹروں والے اپنی موٹریں بے تحاشا چلاتے ہیں جس کی وجہ سے گردوغبار ہم پر پڑتا ہے، ہماری آنکھیں مٹی سے بھر جاتی ہیں، ہمارے چہرے غبار سے اَٹ جاتے ہیں، کپڑے خاک آلودہ ہو جاتے ہیں، نزلہ زکام اور کھانسی میں ہم مبتلا ہو جاتے ہیں، ہمارا دل چاہتا ہے کہ انہیں ذرا کھڑے کر کے پوچھیں کہ تم یہ کیا حرکتیں کرتے ہو؟ میں کہتا ہوں بے شک ان کا ذہن بدظنی کی طرف گیا ہے لیکن میرا ذہن نیک ظنی کی طرف جاتاہے۔ میں کہتا ہوں یہ لوگ اپنی موٹریں اس لئے نہیں بھگاتے کہ وہ دکھائیں کہ ان کے پاس موٹریں ہیں بلکہ شاید وہ اس لئے کاریں دَوڑاتے ہیں کہ وہ اس وادیٔ بے آب و گیاہ میں بھی جس میں ہزاروں سال سے کوئی آدم زاد نہیں بسا اپنی کاریں دَوڑائیں تا خداتعالیٰ کے اس نشان میں جو اس سرزمین میں دکھایا گیا وہ بھی حصہ دار ہوں۔ اگر وہ اس نیت سے موٹریں دَوڑاتے ہیں تو میں کہوں گا اے مبارک گرد! تو بھی خداتعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے آ اور ہمارے کپڑوں اور جسموں کو گرد آلود کر دے۔ آ اور ہمارے ناک اور آنکھوں کو بھر دے، ہمیں نزلہ، زکام اور کھانسی کی کچھ پرواہ نہیں۔ محبت کی نگاہ میں یہ مٹی بھی ایک شان رکھتی ہے۔ آخر یہ خداتعالیٰ کا ہی کام ہے کہ اس نے ہزار ہا سال کے بعد اس زمین کو جس کے آباد کرنے سے لوگ عاجز آ گئے تھے اپنی پاک جماعت کے ذریعہ آباد کیا۔ اور جیسا کہ میں نے کَل بتایا تھا مرغابیاں ایک جگہ پر بیٹھی ہوئی ہوتی ہیں اُن پر شکاری فائر کرتا ہے بعض ماری جاتی ہیں اور باقی اُڑ جاتی ہیں لیکن تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر ایک جگہ پر اکٹھی بیٹھ جاتی ہیں۔ کیا یہ خداتعالیٰ کا کام نہیں کہ تم بھی اس قوم میں سے تھے جوتشتُّت اور پراگندگی کا شکار ہو رہی تھی۔ تم قادیان میں بیٹھ گئے۔ دشمن نے تم پر فائر کیا، تم وہاں سے اُڑے اور ربوہ میں آکر بیٹھ گئے۔ مگر آخر غریبوں کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم بدتہذیب ہو، میں یہ نہیں کہتا کہ تم اخلاق سے گری ہوئی کوئی حرکت کر رہے ہو، میں کہتا ہوں کہ تمہارے اعمال ہمیشہ اچھی نیتوں پر مبنی ہونے چاہئیں۔ آخر جب تک سڑکیںنہیں بنیں گی یہ گردوغبار تو ضرور اُڑے گا کیونکہ ہر شخص یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ نیکی کی جگہ پر سب سے پہلے پہنچے اور اس کے لئے موٹروں والے اپنی موٹریں بھی دَوڑائیں گے جس کی وجہ سے گردوغبار اُڑے گا اور تمہارے جسموں اور کپڑوں پر پڑے گا۔ میں تو اِس کی گرد کو بھی رحمت کا ایک چھینٹا سمجھتا ہوں۔ آخر اَور کونسی قوم ہے جو ہماری طرح بے بس ہو، بیکس ہو اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُسے اِس طرح اکٹھا کر دیا ہو۔ پس یہ گرد وغبار زندہ خدا کا ایک زندہ نشان ہے۔ یہ گرد کے ذرّے نہیں یہ خداتعالیٰ کے نور کی شعاعیں ہیں جو نکل رہی ہیں اور بتا رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو چاہے کر سکتا ہے۔ مگر جہاں مجھے اس نشان کو دیکھنے میں مزا آتا ہے وہاں مجھے اُن دوستوں کو سمجھانا بھی پڑتا ہے جو ایک رنگ میں اپنے بھائیوں کی تکلیف کا موجب بنتے ہیں۔ عقل یہی کہتی ہے کہ کمزور کا خیال رکھا جائے۔ بعض لوگ بیمار بھی ہوتے ہیں اُن کی صحت کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ ہم نے بھی تقریریں کرنی ہوتی ہیں ہمارا بھی خیال رکھیں گرد گلے میں جاتی ہے جس سے تکلیف ہوتی ہے۔ ابھی جب میں تقریر کے لئے آرہا تھا تو ہماری جرمن بہن رقیہ تھائمس مارگرٹ نے اپنے گلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کا بھی خیال رکھیں۔ آخر آپ نے تقریر کرنی ہے۔ میں نے کہا اِس کا کون خیال کرتا ہے۔ بہرحال ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم دوسرے بھائیوں کی تکلیف کا موجب نہ بنیں۔
میں سمجھتا ہوں اِس میں ایک حد تک ذمہ داری منتظمین پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ذمہ دار لوگوں نے اِس میں کوتاہی کی ہے اُنہیں چاہیے تھا کہ وہ سڑکوں کے نشانوں کو نمایاں کرتے لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ مگر ساتھ ہی میں شکایت کرنے والے دوستوں کو بھی کہوں گا کہ وہ اپنی نظروں کو وسیع کریں اور اِن چیزوں میں بھی خداتعالیٰ کا نشان دیکھیں۔ میری نصیحت ایسی ہی ہے جیسے بچے ماں کو گالیاں دیتے اور تھپڑ مار دیتے ہیں تو ماں انہیں مارتی بھی ہے مگر اس کے چہرے پر عجیب آثار ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بچہ تھپڑ نہیں کھا رہا کوئی مزیدار شربت پی رہا ہے۔ میں حیران ہوں کہ وہ کونسی طاقت ہے جس نے ایک جگہ پر جس کو حکومتیں بھی نہیں بسا سکیں تھیں تمہیں لا کر بسا دیا ہے۔ اِسے دیکھ کر وہ زمانہ یاد آتا ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ذریعہ مکہ کی دوبارہ بنیاد رکھوائی۔ یہ نشان تمہارے ایمان کی جتنی تقویت کا بھی موجب ہو تھوڑا ہے۔
مجھ سے یہ خواہش کی گئی ہے کہ میں الفضل کے متعلق بھی تحریک کروں کہ احباب اِس کی اشاعت کو بڑھانے کی طرف توجہ کریں۔ پچھلے سال میں نے احباب کو ایجنسیاں قائم کرنے کے لئے کہا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تحریک کی وجہ سے اب دُگنی تعداد ہوگئی ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ بھی کم ہے جہاں جہاں شہروں میں جماعتیں پائی جاتی ہیں دوستوں کو وہاں ایجنسیاں قائم کرنی چاہئیں اور الفضل کی اشاعت کو بڑھانے میں مدد کرنی چاہیے۔
اب سب سے پہلے میں ربوہ کے سوال کو لیتا ہوں میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا یہاں آنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ دیر کی ایک الٰہی تقدیر ہے۔ بعض لوگ جنہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اِس معاملہ میں غور نہیں کیا اور اُس سلسلۂ تحریک کو نہیں دیکھا جو خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے وہ اسے اتفاقی حادثہ سمجھتے ہیں لیکن یہ اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ خداتعالیٰ کی طرف سے اُس کی ایک مقررہ سکیم کے ماتحت ہوا ہے۔ اِس کا ثبوت اِس بات سے ملتا ہے کہ اس بارہ میں دیر سے خبریں دی جا رہی تھیں اور جس چیز کے متعلق دیر سے خبریں دی گئی ہوں وہ اتفاقی حادثہ نہیں ہوا کرتی۔ آپ لوگوں میں کسی شخص کا چلتے چلتے گھوڑا گر جاتا ہے وہ خود زخمی ہو جاتا ہے اور اسے کسی مکان میں لے جایا جاتا ہے اس واقعہ کی کسی کو پہلے خبر دینے کی کیا ضرورت ہے مثلاً یسعیاہ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اس واقعہ کی پہلے سے اطلاع دیں، حزقیل کو کیا ضرورت ہے کہ وہ اِس واقعہ کے متعلق پہلے سے کچھ ذکر کریں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس کے متعلق قبل از وقت اطلاع دینے کی کیا ضرورت ہے۔ پھر دنیا میں بھی یہ طریق جاری ہے کہ بڑے افسر اور اعلیٰ محکمے بڑی بڑی سکیمیں بناتے ہیں اور چھوٹی سکیمیں آگے چھوٹے افسروں اور ادنیٰ محکموں کے سپرد ہوتی ہیں۔ مثلاً اگر سیکرٹریٹ کا کوئی آدمی یا کوئی منسٹر کوئی سکیم بناتا ہے تو وہ اہم اور اصولی سمجھی جائے گی۔ پھر اس کا کوئی حصہ ڈیفنس کمشنر کے سپرد ہوگا، کوئی پروانشل کمشنر کے سپرد ہوگا اور کوئی ڈپٹی کمشنر کے سپرد ہوگا جتنے نیچے ہم اُترتے آئیں گے اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ باتیں کم اہم ہیں۔ پس اگر ہمارے ربوہ میں آباد ہونے کا ذکر پہلے سے انبیاء کی کتابوں میں ہے تو ماننا پڑے گا کہ یہ الٰہی تقدیر تھی خواہ اِس کی حقیقت ہم پر آج کھلی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر کی خبر دی ہے کہ جب مسیح دنیا میں آئے گا تو اُس وقت دو قومیں نکلیں گی اور اُن کا جتھہ اتنا مضبوط ہوگا کہ ان کے مقابلہ کی کسی میں طاقت نہیں ہوگی۔ اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے آواز آئے گی کہ حَرِّزْ عِبَادِیْ اِلَی الطُّوْرِ کہ تو ہمارے بندوں کو پہاڑ کی طرف لے جا۔ ۶؎
اس حدیث میں یہ خبر دی گئی ہے کہ کسی زمانہ میں مسیح موعود کی جماعت کو اپنا مرکز چھوڑنا پڑے گا اور وہ کسی پہاڑی علاقہ میں جاگزیں ہوگی۔ اب سارے پنجاب میں کس کو علم تھا کہ وہ اِس جگہ ٹھہرے گی۔ یہ خدائی فعل تھا کہ ہجرت کے بعد اس نے جماعت کو اس جگہ لا کر اکٹھا کر دیا باوجود اِس کے کہ مجھے بھی رؤیا میں یہ جگہ دکھائی گئی تھی مگر پھر بھی میری نظر میں یہ جگہ نہ تھی۔ میں شیخوپورہ کے ضلع میں کوشش کر رہا تھا کہ کہیں ایسی جگہ مل جائے جہاں جماعت کا عارضی مرکز بنایا جائے۔ ایک دفعہ میں اس بارہ میں بعض دوستوں سے مشورہ کر رہا تھا کہ چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج آئے اور اُنہوں نے کہا میں ایک جگہ بتاؤں جس کا میں خود واقف ہوں۔ چناب پار ایک جگہ ہے جس پر آپ کی خواب کے اکثر حصے چسپاں ہوتے ہیں۔ چنانچہ ایک تاریخ مقرر کی گئی اور میں نواب محمد الدین صاحب مرحوم، میاں بشیر احمد صاحب اور بعض اور دوست یہاں آئے اور یہ جگہ دیکھی۔ جب میں نے یہ مقام دیکھا تو سوائے اِس کے کہ یہاں سبزہ نہیں تھا باقی تمام علامات درست نکلیں اور میں نے سمجھ لیا کہ یہ وہی جگہ ہے جو مجھے خواب میں دکھائی گئی تھی۔ سبزہ کے متعلق میں نے سمجھا کہ شاید اس کی کوئی اور تعبیر ہو۔ ظاہر ہے کہ ۵ ہزار مربع میل کے علاقہ میں کوئی جگہ تلاش کرنا آسان بات نہیں۔ بعض غیر احمدی افسر اور معززین جب یہاں سے گزرتے ہیں تو کئی ان میں سے مجھے ملنے کے لئے آ جاتے ہیںاور بے ساختہ کہہ اُٹھتے ہیں کہ آپ نے تو غضب کی جگہ چنی ہے۔ اب یہ کوئی اتفاقی بات نہیں کہ چوہدری عزیز احمد صاحب سب جج کو میری وہ خواب یاد آ گئی جس میں ہجرت کے بعد یہاں آنا دکھایا گیا تھا۔ پھر اُن کے ذہن میں یہ بات آئی کہ یہ وہی جگہ ہے جس کا خواب میں ذکر ہے۔ پھر جس مجلس میں اس کا ذکر ہو رہا تھا اُس میں وہ موجود تھے۔ پھر اُنہوں نے چاہا کہ میں اس بارہ میں مشورہ دے دوں اور پھر میرا دل بھی اُن کا مشورہ ماننے پر راضی ہو گیا۔ یہ جو کچھ ہوا اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہوا۔ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبل از وقت اس جگہ کی خبر دی ہے۔ اگر یہ مقام اسلام کی سکیم کا حصہ نہیں تھا تو آپ نے قبل از وقت اِس جگہ کا ذکر کیوں کیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کتنے واقعات رونما ہوئے ہیں مگر اُن میں سے ہزاروں واقعات کا آپ نے ذکر نہیں کیا لیکن اس کا ذکر موجود ہے کہ مسیح موعود کی پہلے دجال سے لڑائی ہوگی، اس کے بعد یأجوج اور مأجوج دو قومیں نکلیں گی اور وہ ایسی طاقتور ہوں گی کہ ان کا مقابلہ نہیں کیا جا سکے گا، اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُسے آواز آئے گی کہ جاؤ پہاڑ پر چلے جاؤ وہاں تمہیں پناہ ملے گی۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ یہ جگہ خود اتنی اونچی ہے کہ پہاڑ معلوم ہوتی ہے جب ہم یہ جگہ دیکھنے کے لئے آئے تو احمدنگر چلے گئے تا کہ اس زمین کے حالات دریافت کئے جائیں۔ پانی کے متعلق پوچھا تو ہمیں بتایا گیا کہ دو دفعہ بعض لوگوں نے کوشش کی ہے کہ اِس مقام کو آباد کیا جائے لیکن وہ ناکام ہوئے اور بھاگ گئے۔ پھر ہم نے پوچھا کہ کیا دریا میں کبھی سیلاب بھی آتا ہے؟ تو بتایا گیا ہاں سیلاب آتا ہے اور ہماری فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ ہم نے دریافت کیا کہ کیا سیلاب کا پانی اس جگہ پر بھی آ جاتا ہے؟ تو گاؤں کے نمبردار نے جس سے ہم حالات دریافت کر رہے تھے ایک درخت کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اگر اس کے سر تک پانی پہنچ جائے تو شاید اُس جگہ بھی پانی چڑھ جائے۔ غرض یہ اونچی جگہ ہے جس کی وجہ سے اس کا نام ’’ربوہ‘‘ رکھا گیا ہے اور خدائی تصرف کے ماتحت ہم یہاں لائے گئے ہیں۔ باقی یہ کہ خداتعالیٰ نے اس کی حقیقت کو کب کھولنا شروع کیا ہے سو یاد رکھنا چاہیے کہ خدائی سکیمیں آہستہ آہستہ کھلتی ہیں۔ مکہ مکرمہ کی بنیاد کے وقت کس شخص کو علم تھا کہ واقع میں یہ اتنا بڑا شہر بن جائے گا اور دنیا کی ہر نعمت یہاں میسر ہو سکے گی لیکن وہی کچھ ظہور میں آیا جس کا پہلے علم دیا گیا تھا۔
بعض لوگ اس حکمت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم قادیان کے بے وفا ہیں کیونکہ ہم نے دوسرا مرکز بنا لیا ہے۔ وہ نادان ہیں وہ نہیں جانتے کہ گو ہم قادیان کے وفادار ہیں مگر سب سے زیادہ ہم خداتعالیٰ کے وفادار ہیں۔ جہاں خداتعالیٰ کا ہاتھ ہوگا ہمارا ہاتھ بھی اُسی جگہ ہوگا۔ پھر قادیان دلانا ہے تو خداتعالیٰ نے دلانا ہے ہم میں کیا طاقت ہے کہ قادیان واپس لیں۔ خداتعالیٰ ہی ایسے کرے گا اور جب خداتعالیٰ کے ہاتھ میں ہی سب کچھ ہے تو اس کی سکیم میں دخل انداز ہونے کی ضرورت کیا ہے۔ اگر خداتعالیٰ ایک صدی کے لئے بھی ہمیں کسی اَور جگہ رکھنا چاہے تو ٰاٰمَنَّا وَ صَدَّقْنَا ہم اس کے لئے تیار ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ایمان عشق کا نام ہے۔
محمود غزنوی کو اپنے ایک غلام ایاز نامی سے بہت پیار تھا۔ امراء اُس پر حسد کرتے تھے اور حسد کی وجہ سے وہ بادشاہ کے پاس شکایت کرتے رہتے تھے کہ وہ غدار ہے اور بادشاہ کا مال ضائع کرتا ہے۔ محمود غزنوی یہ سمجھتا تھا کہ وہ حق پر نہیں بلکہ محض حسد کی بناء پر ایسا کر رہے ہیں۔ مگر اُس نے اُنہیں خاموش کرانے کے لئے ایک دن دربار لگایا اور اپنے خزانہ کا سب سے قیمتی موتی جس کی وجہ سے اس کی دُور دُور تک شہرت تھی منگوایا اور وزیر اعظم کو بُلایا اور ہتھوڑا منگوا کر اسے کہا کہ اِس موتی کو توڑ دو۔ وزیر اعظم نے کہا بادشاہ سلامت! ہمارے باپ دادا بھی آپ کے نمک خوار چلے آئے ہیں، ہم غدار تھوڑے ہیں کہ اتنے قیمتی موتی کو جس کی وجہ سے آپ کی دُور تک شہرت ہے توڑ دیں۔ سب درباریوں نے اس کے اس جذبہ کی تعریف کی۔ اُس زمانہ میں بادشاہ کے سات وزیر ہوا کرتے تھے۔ بادشاہ نے بار باری ساتوں وزیروں کو بُلایا مگر چونکہ وزیراعظم کا جواب وہ سن ہی چکے تھے اور وہ یہ بھی دیکھ چکے تھے کہ سب درباریوں نے اسکی تعریف کی ہے اس لئے ان میں سے ہر ایک یہی جواب دیتا۔ سب درباری تحسین کرتے اور وہ بیٹھ جاتا۔ ساتوں وزیروں کے جوابات سننے کے بعد بادشاہ نے اپنے غلام ایاز کو بُلایا اور اُسے اشارہ کیا کہ اِس موتی کو توڑ دو۔ بادشاہ کے منہ سے اِس لفظ کا نکلنا تھا کہ اُس نے ہتھوڑا مار کر موتی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ دربار میں ناراضگی کی ایک لہر دَوڑ گئی۔ سب درباری کہنے لگے کہ یہ کتنا قیمتی موتی تھا ہمارے بادشاہ کی اِس موتی کی وجہ سے دُور دُور تک شہرت تھی، ایسا موتی کسی اور بادشاہ کے پاس نہ تھا لیکن اِس بے وقوف نے کچھ بھی نہ سوچا اور ہتھوڑا مار کر موتی ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ بادشاہ نے مصنوعی غصہ بنایا اور ایاز سے کہا ایاز! تم نے دیکھا نہیں تھا کہ ان کا نمونہ کیا تھا؟ ایاز نے جواب دیا بادشاہ سلامت! جو جواب ان لوگوں نے دیا ہے اُس کی ذمہ داری اِن پر ہے، میرے نزدیک محمود کے منہ سے نکلا ہوا ایک لفظ اِس قسم کے ہزاروں موتیوں سے زیادہ قیمتی ہے۔ اِس کی قدر میں جانتا ہوں یہ نہیں جانتے۔ دربار پر ایک سناٹا چھا گیا۔ بادشاہ نے درباریوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اب بتاؤ تم میں سے کون میرا سچا خیر خواہ ہے؟ اُنہوں نے جواب دیا ہم ہارے اور یہ جیتا۔ پس ہم تو خداتعالیٰ کو جانتے ہیں اور اُس کے وفادار ہیں وہ جس طرف اشارہ کرے گا ہم چلے جائیں گے۔ وہ اگر کہے تو خواہ کسی پہاڑ کی چوٹی کیوں نہ ہو یا سمندر کی سطح ہی کیوں نہ ہو ہم کہیں گے حضور! یہی بہترین جگہ ہے۔ مومن عاشق ہوتا ہے دلیلیں دینا اور بحث کرنا نوکر کا کام ہے عاشق کا کام نہیں۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی کتاب نزول المسیح میں بیان فرمایا ہے کہ زکریا کی کتاب کے چودھویں باب میں جہاں یروشلم کا ذکر ہے وہاں یروشلم سے مراد بیت المقدس نہیں بلکہ قادیان ہے اور اِس باب میں جو خبر دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک زمانہ میں یروشلم پر حملہ ہوگا۔ شہر والے مغلوب ہو جائیں گے اور پھر پہاڑوں کی ایک وادی کی طرف بھاگ جائیں گے جہاں پناہ لیں گے۔۷؎ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا اپنا بھی الہام ہے کہ ’’داغِ ہجرت‘‘ ۸؎ اب سوال یہ ہے کہ یہ ہجرت کہاں ہونی ہے؟ اِس کا پتہ اوپر دیئے ہوئے حوالہ سے لگتا ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان کے متعلق بیان فرمایا ہے۔پھر آپ کا ایک اور الہام یہ بھی ہے کہ یُخْرِجُ ھَمُّہٗ وَغَمُّہٗ دَوْحَۃَ اِسْمَاعِیْلَ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُجَ ۹؎ یعنی تمہارے ہم اور غم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایک اسماعیلی درخت اُگائے گا لیکن یہ راز چھپائے رکھو یہاں تک کہ وہ درخت نکل آئے۔ سو اِس ہجرت پر پردہ پڑا رہا یہاں تک کہ قادیان پر جن دنوں حملہ ہو رہا تھا اور میں بتا رہا تھا کہ تم خدائی وعدہ کے مطابق قادیان سے نکلو گے، آپ لوگ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم نے تو یہاں سے ہلنا نہیں۔ پھر ان لوگوں میں سے جو کہہ رہے تھے کہ ہم نے ہلنا نہیں بعض نکل آئے مگر دوسرے لوگ پھر بھی کہہ رہے تھے کہ ہم نے تو یہاں سے نہیں جانا۔ حقیقت یہ ہے کہ قادیان سے محبت کی وجہ سے کسی کا اِس طرف خیال ہی نہیں جاتا تھا کہ ہجرت ہوگی اور ہم قادیان کو چھوڑ کر باہر آ جائیں گے۔ جیسے رسول کریم ﷺ نے جب وفات پائی تو حضرت عمرؓ کی یہ کیفیت تھی کہ باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺفوت ہوچکے تھے وہ یہ کہنے لگے کہ میں تو مان ہی نہیں سکتا کہ رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ پس جہاں محبت ہوتی ہے وہاں ایسا خیال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ اِسی طرح خداتعالیٰ کا قادیان کو دائمی اور مستقل مرکز قرار دینا اِس بات پر پردہ ڈال رہا تھا کہ ہمیں قادیان سے ہجرت کرنی پڑے گی۔ مگر آخر وہی بات ہو گئی کہ فَاَخْفِھَا حَتّٰی تَخْرُجَ جب تک وہ درخت نکل نہ آئے اُسے ظاہر نہ کرنا۔ ورنہ یہ لوگ قادیان آنے سے رُک جائیں گے اور اگر یہ رُک گئے تو قادیان میں مکان کیسے بنائیں گے حالانکہ ہمارا یہ ارادہ ہے کہ یہ لوگ قادیان میں مکان بناتے چلے جائیں۔ جب قادیان ہاتھ سے نکل جائے گا تو جو سچا متبع ہوگا وہ تو کہے گا کہ جیسے ہم نے پہلے چھتہ بنایا تھا ویسے ہی پھر بنا لیں گے اور جو کمزور ہوگا اُس کا دل تو یہ کہتا ہوگا کہ میں نے جو کرنا تھا کر لیا لیکن بظاہر وہ کہے گا اچھا یہ اور مرکز بنا رہے ہیں یہ قادیان کو بھول رہے ہیں اور اس طرح وہ اپنی منافقت کو ظاہر کر دے گا۔
پھر خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بتایا تھا کہ آپ ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنائیں گے۔۱۰؎ بے شک سلسلہ بھی ایک نئی زمین اور نیا آسمان ہے لیکن بعض لوگ یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ انہیں بنا بنایا مرکز مل گیا ہے اس لئے انہیں طاقت حاصل ہوگئی ہے۔ چنانچہ جب میری خلافت کا انکار کیا گیا اور منکرین خلافت قادیان چھوڑ کر لاہور آگئے تو اُس وقت اُنہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ جماعت کا پچانوے فیصدی حصہ ہمارے ساتھ ہے لیکن ایک ماہ کے اندر اندر خداتعالیٰ کے فضل سے جماعت کا اکثر حصہ میرے ساتھ شامل ہو گیا۔ اُس وقت وہ لوگ یہی جواب دیتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وجہ سے جماعت کو قادیان سے محبت ہے اس لئے یہ نہیں جیتا قادیان جیتی ہے۔ خداتعالیٰ نے اُن کو اِس اعتراض کا جواب دینا تھا اب لاہور میں جو اِن کا ۳۵ سالہ مرکز ہے اُن کا بھی جلسہ ہو رہا ہے وہ ذرا ربوہ کے جلسہ کی سی شان تو دکھا دیں۔ اِس وادیٔ بے آب و گیاہ میں بھی لوگ جمع ہوئے ہیں یا نہیں؟ کہاں گئی اُن کی وہ دلیل کہ میں قادیان کی وجہ سے جیتا ہوں۔ اگر اُس وقت میں قادیان کی وجہ سے جیتا تھا تو اب قادیان میرے ہارنے کا بھی موجب ہونا چاہیے تھا کیونکہ میں قادیان میں نہیں تھا۔ مجھ سے عقیدت رکھنے والے لوگ تو یہ کہہ سکتے تھے کہ میں مصیبت کی وجہ سے یہاں آ گیا ہوں مگر جو مخالف تھے انہیں تو مجھے چھوڑ دینا چاہیے تھا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ایک واقعہ سنایا کرتے تھے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ایک عورت بڑی محنتی تھی، وہ سوت کاتا کرتی تھی اور جو اُجرت ملتی تھی اس سے ایک رقم اکٹھی کر کے اس نے سونے کے کڑے بنوائے۔ ایک دن وہ سو رہی تھی کہ ایک چور آیا اور اس نے اس کے کڑے اُتارنے کی کوشش کی۔ اس نے پانچ سال کی محنت کے بعد کڑے بنوائے تھے وہ ان کی حفاظت کے لئے کچھ وقت تک چور کا مقابلہ کرتی رہی لیکن آخر چور زبردستی کڑے چھین کر بھاگ گیا۔ اس عورت نے چور کی شکل پہچان لی۔ دیہات میں عورتوں کا یہ طریق ہوتا ہے کہ وہ گھروں سے باہر گلیوں میں چرخہ کاتا کرتی ہیں وہ بھی گلی میں بیٹھی ایک دن چرخہ کات رہی تھی کہ ایک شخص لنگوٹی پہنے گزرا۔ اس عورت نے اُسے پہچان لیا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے اس کے کڑے چرائے تھے۔ اُس نے اُسے آواز دی اور کہا ذرا بات سن جاؤ۔ وہ شخص گھبرایا اور وہاں سے بھاگا۔ اِس عورت نے کہا میں کسی کو بھید نہیں بتاؤں گی، صرف میری ایک بات سن لو۔ جب اس نے یہ سمجھا کہ یہ عورت جو کچھ کہہ رہی ہے سنجیدگی سے کہہ رہی ہے تو وہ واپس آیا اور اُس نے دریافت کیا کہ کیا بات ہے؟ اُس عورت نے کہا دیکھو! حلال اور حرام میں کتنا فرق ہوتا ہے۔ مجھے سونے کے کڑے پہننے کا شوق تھا میں نے پانچ سال کی محنت کے بعد کڑے بنوائے مگر وہ تُو لے گیا۔ میں نے پھر محنت کی اور کڑے بنوا لئے چنانچہ دیکھ لو میرے پاس اَب بھی کڑے موجود ہیں لیکن تیری وہی لنگوٹی کی لنگوٹی ہے۔ میں بھی اُن لوگوں کو یہی جواب دیتا ہوںکہ میرے پاس کڑے اَب بھی موجود ہیں لیکن تمہاری وہی لنگوٹی کی لنگوٹی ہے۔ بہرحال یہ خداتعالیٰ کی سکیم تھی اور خداتعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ قادیان سے باہر رہ کر بھی احمدیت ترقی کر سکتی ہے۔
پھر بعض منافق کہتے تھے کہ احمدیت کی ترقی رُک رہی ہے لیکن خداتعالیٰ نے کتنے بڑے انقلاب میں ڈال کر تمہیں دوبارہ اکٹھا کر دیا۔ اگر یہ سلسلہ کمزور ہوتا تو اس ابتلاء کی تاب نہ لاسکتا اور ٹوٹ جاتا، کمزور شیشہ ٹوٹ جایا کرتا ہے۔ اگر منافق لوگوں کے کہنے کے مطابق یہ سلسلہ فی الواقعہ کمزور ہوتا تو بہشتی مقبرہ، مساجد، مینارۃ المسیح، کالج، سکول اور کروڑوں کی جائدادیں چھوڑ کر یہاں آنے کے بعد لوگ کہتے کہ یہ جھوٹا تھا، اس لئے قادیان سے نکل آیا لیکن اتنی بڑی ٹھوکرکے بعد بھی جماعت متزلزل نہیں ہوئی بلکہ پھر اکٹھی ہوگئی اور اس نے دشمنانِ احمدیت کو بتا دیا کہ اتنے بڑے ابتلاء اور اتنی بڑی ٹھوکر کے بعد بھی وہ پہاڑ کی طرح کھڑی ہے اور اُس وقت تک کھڑی رہے گی جب تک کہ کفر اس سے ٹکرا کر پاش پاش نہیں ہوجاتا۔ پھر میں نے بھی ہجرت کے متعلق کھلی کھلی رؤیا دیکھی تھیں جو الفضل میں چھپ چکی ہیں اور میں نے پچھلے جلسہ سالانہ کے موقع پر سنائی بھی تھیں۔ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئیاں پوری ہو چکی تھیں تو پھر مجھے یہ نظارے کیوں دکھائے گئے؟ یہ اللہ تعالیٰ کے رازوں میں سے ایک راز ہے کہ اس کا نبی خبر دیتا ہے اور وہ بظاہر بعض اور لوگوں پر بھی صادق آتی ہے۔ مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام تھا A Word and Two Girls ۱۱؎ (اے ورڈ اینڈ ٹو گرلز) یعنی ایک کلام اور دو لڑکیاں۔ یہ الہام اپنے اندر ایک خاص حکمت رکھتا تھا اور اس نے آئندہ کسی زمانہ میں پورا ہونا تھا لیکن جب یہ الہام شائع ہوا اُڑیسہ کے احمدی دوست قادیان آ رہے تھے اُن کے ساتھ ان کی دو لڑکیاں بھی تھیں۔ اُنہوں نے اس الہام کو اپنے اوپر چسپاں کر لیا اور کہا سُبْحَانَ اللّٰہ کتنی جلدی پورا ہوا۔ میں یہاں آیا ہوں اور میرے ساتھ دو لڑکیاں بھی ہیں۔ غرض بعض لوگ تو پیشگوئیوں کو کسی معمولی چیز پر چسپاں کر کے وہیں چھوڑ دیتے ہیں اور بعض دفعہ لوگ اُنہیں قیامت کے بغیر اور کسی چیز پر چسپاں ہی نہیں کرتے جیسے مسلمانوں نے اِس زمانہ کے متعلق جس قدر پیشگوئیاں تھیں انہیں قیامت پر لگا دیا حالانکہ ہم ان کے ساتھ آجکل یورپ کو شرمندہ کر رہے ہیں۔ گویا پہاڑ ٹوٹنے کی خبر کو بعض تو گھڑا ٹوٹنے پر لگا دیتے ہیں اور بعض کہہ دیتے ہیں کہ یہ تو قیامت کے متعلق ہے اس لئے خداتعالیٰ کی یہ سُنّت ہے کہ جب اس کی کسی پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آتا ہے تو وہ اس کی کسی اَور ذریعہ سے بھی خبر دے دیتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہوا ’’داغِ ہجرت‘‘ اور جب اس کے پورا ہونے کا وقت آیا تو خداتعالیٰ نے مجھے بعض نظارے دکھائے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ الہام اِسی زمانہ کے متعلق تھا سو پورا ہو گیا۔
میں نے کل پرندوں کا ذکر کیا تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک الہام بھی ہے کہ یَا جِبَالُ اَوِّبِیْ مَعَہٗ وَالطَّیْرَ۱۲؎ اے پہاڑو اور اے پرندو! تم اس مسیح کے ساتھ مل کر خداتعالیٰ کے ذکر کو بلند کرو۔ اس الہام میں یہ اشارہ کیا گیا تھا کہ آئندہ کسی وقت پہاڑوں میں بھی خداتعالیٰ کا ذکر بلند کیا جائے گا اور اس میں مسیح بھی شامل ہوگا۔ لیکن جب وقت لمبا ہو گیا اور لوگوں میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ وہ سوسائٹیاں بنا کر اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے تو خداتعالیٰ نے مجھے بتایا کہ تمہیں انہیں رستوں سے گزرنا ہوگا جن سے پہلے انبیاء کی جماعتیں گذری ہیں۔ چنانچہ مجھے الہامات ہونے شروع ہوئے کہ ہمیں قادیان چھوڑنا پڑے گا اور کسی پہاڑی مقام میں پناہ لینی پڑے گی پھر وہاں سے ہم خداتعالیٰ کے ذکر کو بلند کریں گے۔ یہ چیز بتاتی تھی کہ پہلی پیشگوئی ختم نہیں بلکہ ابھی چل رہی ہے۔ چنانچہ بعد میں عملاً لڑائیاں ہوئیں اور قادیان ہمیں چھوڑنا پڑا سو اَب تعبیر کی ضرورت نہیں۔ باقی رؤیا میں جو سبزہ دکھایا گیا تھا دیکھیں خداتعالیٰ اسے کس رنگ میں پورا کرتا ہے۔ پچھلے جلسہ کے بعد جب ہم لاہور واپس جانے لگے تو میں، تین چار مستورات اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے چند آدمی موٹر کے ذریعہ گئے اور باقی افراد ٹرین کے ذریعہ۔ پہلے ٹرین لیٹ تھی اور اس کے آنے میں دیر ہوگئی اس لئے ہم نے سب سواریوں کو واپس بلا لیا لیکن جب ٹرین آئی تو ایک انسپکٹر جو ساتھ تھا اُس نے کہا کہ کچھ ڈبے لاہور سے آئے ہیں اور ریزرو ہیں ان کا دوسری گاڑی کے ساتھ لگانے کا انتظام ہوگا اور دوسری ٹرین ان کا انتظار کرے گی اس لئے ان سواریوں کو پھر ٹرین کے ذریعہ بھیج دیا گیا۔ جب ٹرین چلی تو معلوم ہوا کہ ان کا کھانا رہ گیا ہے اس پر کھانا موٹر کے ذریعہ چنیوٹ بھجوا دیا گیا۔ اب صورت یہ تھی کہ جب تک موٹر واپس نہ آئے میں لاہور نہیں جا سکتا تھا اس لئے میں لیٹ گیا۔ اُس وقت مجھ پر غنودگی سی طاری ہوئی اور اِس نیم غنودگی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ میں خداتعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھ رہا ہوں۔
جاتے ہوئے حضور کی تقدیر نے جناب
پاؤں کے نیچے سے مرے پانی بہا دیا
اِس سے میں نے سمجھا کہ خداتعالیٰ کوئی ایسی صورت ضرور پیدا کر دے گا کہ پانی نکل آئے۔ سو خداتعالیٰ نے اِس جلسہ کی وجہ سے کہ اس کے بندے ایک بڑی تعداد میں یہاں آئے اور اُنہوں نے اس کے ذکر کو بلند کیا اِس الہام کو بھی پورا کر دیا۔ جس طرح بادشاہ کے آنے پر لوگ تحفے دیا کرتے ہیں اسی طرح اس دفعہ خداتعالیٰ نے کہا میرے بندے آئے ہیں چلو اِنہیں تحفہ کے طور پر میٹھا پانی ہی دے دو۔ چنانچہ سرکاری ٹکڑوں میں جہاں میرا گھر بنایا جانا تجویز کیا گیا ہے اُسی جگہ کے نیچے خداتعالیٰ نے پانی نکال دیا ہے۔پہلے یہاں پانی نہیں نکلتا تھا ہم نے لائلپور کے محکمہ کے ذریعہ تین جگہ بورنگ کروائی مگر بے سُود لیکن عین اُس جگہ کے نیچے جہاں میرا مکان تجویز کیا گیا تھا پانی نکل آیا۔ چنانچہ آپ نے دیکھا ہے کہ کنویں پر انجن لگا ہوا ہے اور وہی پانی آپ لوگ استعمال کر رہے ہیں۔
میں نے جماعت کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ جن حالات سے ہم گذر رہے ہیں اِن سے بڑی بڑی قربانیاں ابھی ہمارے سامنے آنے والی ہیں۔ جیب سے کچھ خرچ کر کے گھروں میں بیٹھے ہوئے باہر مبلّغ بھیج دینے سے ہمارا مقصد پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ کام تو دوسری سوسائٹیاں بھی کر سکتی ہیں۔ نبیوں کی قومیں ماریں کھاتی ہیں اور وطن سے نکالی جاتی ہیں۔ پس جب تک ہم بھی ان حالات سے نہیں گزریں گے ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
تحریک جدید کے اعلان کے بعد میں نے متواتر خطباتِ جمعہ میں احباب کو اس طرف توجہ دلائی تھی۔ چنانچہ یہ پہلا موقع ہے کہ جب خداتعالیٰ نے ہم سے وہ کام کرایا ہے جو پچھلے انبیاء کی قومیں کرتی چلی آئی ہیں اور وہ یہ کہ ساری کی ساری قوم اپنے مرکز کو چھوڑ کر باہر آگئی۔ جائدادیں لٹ گئیں، رشتہ دار مارے گئے، بہن بھائی قتل ہوئے، بعض عورتیں اُدھر ہی رہ گئیں۔ اب ہم اُن دروازوں سے گذرے ہیں جن سے انبیاء کی جماعتیں گزرا کرتی ہیں اور یقینا اس کے نتیجہ میں جنت بھی تمہیں نصیب ہو جائے گی۔
لوگ کہتے ہیں قادیان سے نکلنے کے بعد ہم اپنے مقصد کو کھو بیٹھے ہیں میں کہتا ہوں کہ قادیان سے ہم نکلے اور ہم نے اپنے مقصد کو پا لیا کیونکہ ہم نے وہ کچھ کر لیا جو انبیاء کی جماعتیںکرتی چلی آئی ہیں۔ اگر ہم اِن دروازوں سے نہ گذرتے تو ایک نبی کی جماعت نہ کہلا سکتے۔ تم مجھے کسی ایک نبی کی قوم ہی دکھا دو جو بغیر تکلیفوں کے اور بغیر وطن سے نکلنے کے جیتی ہو۔ آخر دنیا کو فتح کرنا کوئی کھیل نہیں کہ ایک انجمن بنا لی اور مثلاً اس کا نام ’’ترقی اسلام‘‘ یا ’’حمایت اسلام‘‘ رکھ لیا اور سمجھ لیا کہ ہم اسلام کو دنیا میں غالب کر دیں گے۔ اِس قسم کی انجمنوں سے انبیاء کی قومیں نہیں جیتا کرتیں۔ انبیاء کی جماعتیں قتل کی جاتی ہیں، اُنہیں وطنوںسے نکالا جاتا ہے، اُن کی جائدادیں لوٹی جاتی ہیں تب وہ کامیاب ہوا کرتی ہیں۔
پھر ایک اور چیز بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ اگر تم اپنے وطنوں سے نکالے گئے ہو، اگر تم میں سے بعض قتل کئے گئے ہیں اور تمہاری جائدادیں لوٹی گئی ہیں تو تمہارے ساتھ دوسرے لوگ بھی تو ہیں جن کے ساتھ ایسا سلوک ہوا یہ کیوں ہوا؟ میں کہتا ہوں آؤ ذرا قرآن کریم دیکھو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مصر سے نکلنے کے متعلق جہاں ذکر آتا ہے، وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے مصر کو چھوڑا تو ان کے ساتھ وہ لوگ بھی تھے جو آپ کی جماعت میں شامل نہیں تھے۔ پس بعض دفعہ خداتعالیٰ کی طرف سے ایسے ابتلاء بھی لائے جاتے ہیں کہ وہ صرف نبی کی قوم پر ہی نہیں آتے بلکہ اُن کے ساتھ دوسروں پر بھی آتے ہیں مگر مقصود صرف نبی کی جماعت ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ جو غیر از جماعت لوگ آئے کنعان اُنہیں نہیں ملا۔ کنعان حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو ملا۔ اِسی طرح تمہارے ساتھ جو دوسرے لوگ مشرقی پنجاب سے نکلے تھے اُنہیں کوئی مرکز نہیں ملا۔ مرکز ملا ہے تو تمہیں ملا ہے کیونکہ اس سے مقصود صرف تم ہی تھے۔ تم نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم اکٹھے رہیں گے خواہ جنگل میں ہی ہمیں بسنا پڑے۔ یہی عزم نبیوں کی جماعتوں میں پایا جاتا ہے مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے عزم کر لیا تھا کہ وہ اکٹھے رہیں گے۔ خداتعالیٰ نے انہیں کنعان کا مُلک دے دیا لیکن اس کے غیر نے یہ عزم نہیں کیا تھا۔ یہی عزم ہے جو انبیاء کی جماعتوں کو کامیاب بناتا ہے۔ یہی عزم ہے جس کی طرف میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں۔ تم یہ عزم کر لو کہ ہم اکٹھے رہیں گے اور خواہ ہمیں کتنی ہی تکلیفیں دی جائیں ہم کبھی جدا نہیں ہوں گے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسیح کو کہا جائے گا کہ پہاڑوں پر جا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی یہی کہا گیا تھا کہ تو ہجرت کرے گا لیکن آپ فوت ہوگئے اور آپ کے زمانہ میں یہ بات پوری نہ ہوئی اب کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ وہ بات جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی کہی وہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ جھوٹی نکلی؟ یا کوئی ایسی گنجائش ہے کہ اس کے معنی بدل سکیں؟ یاد رکھنا چاہیے کہ بخاری میں لکھا ہے جب دنیا سے ایمان اُٹھ جائے گا تو خداتعالیٰ فارسی النسل لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے کھڑے کرے گا جو ایمان کو پھر اِس دنیا میں واپس لائیں گے۔۱۳؎ بعض روایات میں رجلٌ کا لفظ آتا ہے اور بعض روایات میں رجالٌ کا لفظ آتا ہے۔ یعنی یہ پیشگوئی ایک سے زیادہ اشخاص کے ہاتھ سے پوری ہوگی۔ رجالٌ کا لفظ استعمال کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ یہ پیشگوئی ایک ہی شخص کے متعلق نہ سمجھ لینا۔
پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی واضح کر دیا کہ کسی نبی کے خلیفہ کے ذریعہ بھی اُس کی بعض پیشگوئیاں پوری ہو جاتی ہیں اس لئے ضروری نہیں کہ یہ پیشگوئی یعنی ہجرت کی پیشگوئی میرے ہی ذریعہ پوری ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یہ پیشگوئی میرے کسی ظل کے ذریعہ سے پوری ہو۔ پھر میں نے جو رؤیا میں دیکھا کہ میں مسیح موعود ہوں تو اس سے بھی یہ سوال حل ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ میرا ایک بیٹا ہوگا جو حسن و احسان میں میرا نظیر ہوگا۔۱۴؎ پھر ازالہ اوہام میں لکھا ہے کہ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ ہمارے بعد کوئی اَور بھی مسیح کا مثیل بن کر آوے۔ ۱۵؎
مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے مجھے فرمایا کہ میاں! اپنے ابا سے پوچھو تو سہی کہ وہ مسیح کونسے ہیں اور وہ کب ہوں گے؟ بہرحال جب اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت قریب آیا تو میں نے وہ رؤیا دیکھا جس میں میرے منہ سے نکلا اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ مَثِیْلُہٗ وَ خَلِیْفَتُہٗ خداتعالیٰ نے جب دیکھا کہ لوگ کہیں گے کہ یہ پیشگوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ پوری ہونی تھی تو اُس نے میرے منہ سے نکلوا دیا کہ اَنَا الْمَسِیْحُ الْمَوْعُوْدُ۔ میں بھی مسیح موعود ہوں گویا ساڑھے تین سال قبل اِس کی پیش بندی کر دی۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ اُس وقت ختم نہیں ہوا جبکہ وہ فوت ہوئے بلکہ وہ جاری رہنے والا تھا اور اُس وقت تک ختم نہیں ہوگا جب تک کہ اسلام قوت نہیں پکڑتا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ میرا زمانہ اس لئے حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہے کہ دوبارہ بعثت مسیحی میں ابھی کچھ وقفہ ہے اس لئے میں اس وقفہ کو پورا کرنے کیلئے ہوں۔ جب وہ ہوگی تو یہ خلیج پاٹ کر ایک ہی زمانہ پھر شروع ہو جائے گا۔ پس درحقیقت آپ کا زمانہ ممتد ہے میرے زمانہ تک۔ جب تک میں ہوں اُس وقت تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہی زمانہ ہے پھر اَور مسیح ہوں گے شاید وہ کچھ وقفہ کے بعد ہوں لیکن مقدر یہی ہے کہ اسلام کے استحکام کے لئے بار بار مسیح دنیا میں آئیں اور انہیں آنا چاہیے کیونکہ جتنا نقصان مسیح ؑ کی اُمت نے اسلام کو پہنچایا ہے اتنا نقصان اور کسی نے نہیں پہنچایا اس لئے اسلام کے استحکام پر بھی خداتعالیٰ مسیح کی اُمت کو ہی لگانا چاہتا ہے۔
غرض تمام پیشگوئیوں سے ظاہر ہے کہ یہ زمانۂ مسیح موعود ہے اور میں اُن کا بروز اور اُن کا نام پانے والا ہوں۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا مسیح موعود سے کہے گا کہ پہاڑ پر چلے جاؤ تو اِس سے مراد میں تھا۔ چنانچہ مجھے بتایا گیا کہ میں قادیان سے ہجرت کر کے ایک پہاڑی علاقہ میں جاؤں گا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آؤ ہم ایک نیا آسمان اور نئی زمین بنائیں جس میں سلسلہ کا نیا مرکز بنانے کی طرف اشارہ تھا تو اِس سے بھی مراد میں تھا۔ پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہر نبی کے لئے ہجرت ضروری ہے اس لئے ان کو بھی ہجرت کا موقع ملے گا تو اس سے میں ہی مراد تھا کہ میرے ذریعہ سے آپ کو ہجرت نصیب ہوگی اور یہ سمجھایا گیا تھا کہ نادان اور کمزور کہیں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لاش کو قادیان میں چھوڑ کر چلے گئے اس لئے اُن کو سمجھانے کے لئے خداتعالیٰ نے کہا کہ نہیں مسیح موعود خود قادیان سے نکل کر ہجرت کر گیا یعنی میرے وجود میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روح حلول کر کے قادیان سے آ گئی ہے۔ نادان کہے گا وہ اَور تم اَور، دو وجود ایک کیسے ہوگئے؟میں انہیں کہتا ہوں یہ اُسی طرح ہوا جس طرح خدا کی باتیں ہوا کرتی ہیں۔ جب مریم اور مسیح ایک ہو سکتے ہیں تو میں اور مسیح ایک کیوں نہیں ہو سکتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ میں مریم بھی ہوں اور مسیح بھی ہوں۔ ۱۶؎ پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں کہا کہ خدا ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں تو کفار نے کہا اِس نے تو سب خداؤں کو ایک بنا دیا ہے۔ اگر سب خداؤں کو ملا کر ایک خدا کی تعلیم دی جا سکتی ہے، اگر مریم اور مسیح ایک ہو سکتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور دوسرے مسیح کا نام پانے والا بھی ایک ہو سکتے ہیں۔ خداتعالیٰ کی باتیں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ جو الٰہی رازوں کو نہیں سمجھتے وہ اعتراض کر دیتے ہیں۔
۱۳۰۰ سال ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے مگر خداتعالیٰ نے کہا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر ی زمانہ میں عرب سے ہجرت کر کے مسجد اقصیٰ میں آئیں گے۔ وہ کونسا نسخہ ہے جس سے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عرب سے ہندوستان میں لاتے ہو۔ پھر اُس نے اِس وعدہ کو دُہرا کر فرمایا کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں‘‘ ۱۷؎ وہ کونسا نسخہ ہے یا وہ کونسی تاؤیل ہے جس کے ذریعہ تم اِس الہام کو حل کرتے ہو۔ اگر تمہارے خیال میں یہ سب باتیں سچی تھیں اور تم اِنہیں سچی کہتے ہو تو اس رنگ میں تم اس مشکل کو بھی حل کر سکتے ہو۔ کیا یہ ہوا کرتا ہے کہ مُردے واپس آ جائیں؟ مگر جبکہ تمہارے دشمن کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے ایسا نہیں ہو سکتا، تم کہتے ہو ہو گیا اور مسیح موعود کے ذریعہ سے ہو گیا اب بھی منافق کہتا ہے یہ کیونکر ہوا؟ میں کہتا ہوں جس طرح خداتعالیٰ کی باتیں ہوا کرتی ہیں۔ ایلیا یوحنا کے ذریعہ سے آیا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسیح موعود کے ذریعہ سے آئے اور مسیح موعود میرے ذریعہ سے آئے۔ اگر نہیں آئے تو بتاؤ کیا وہ پیشگوئیاں جھوٹی نکلیں؟ کب گئے تھے مسیح موعود پہاڑ پر؟ کب اُنہوں نے ہجرت کی؟ کیا خداتعالیٰ نے جھوٹ بولا یا تم نے جھوٹ سمجھا؟ مگر خداتعالیٰ جھوٹ نہیں بولتا۔ جھوٹا منافق یا کافر ہی ہوتا ہے مگر مؤمن خداتعالیٰ کی باتوں پر ایمان لاتا ہے خواہ اس کے لئے اسے سر ہی کیوں نہ دینا پڑے۔
اے سننے والو سُنو، اور اے سوچنے والو سوچو! جو ہونا تھا وہ ہوچکا۔ دنیا نہیں چاہتی تھی کہ ایسا ہو مگر خداتعالیٰ چاہتا تھا کہ ایسا ہو۔ خداتعالیٰ کی باتیں پوری ہو چکی ہیں جن کی آنکھیں ہیں دیکھتے ہیں، جن کے کان ہیں سنتے ہیں، منکر انکار ہی کرتے چلے جائیں گے، بہرے یہی کہتے جائیں گے کہ کوئی آواز نہیں آئی، اندھے یہی کہتے جائیں گے کہ ہمیں کچھ نظر نہیں آیا لیکن میں سچ کہتا ہوں کہ وہ پیشگوئی جس میں کہا گیا تھا کہ مسیح موعود پہاڑی علاقہ میں جائے گا اور وہ پیشگوئیاں جن میں کہا گیا تھا کہ اے پہاڑو! اور اے پرندو! ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم مسیح موعود کے ساتھ مل کر ذکرِ الٰہی کرو، اِن پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا پھر پیدا نہ ہوگا کیونکہ یہ پوری ہو چکی ہیں۔ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لکھا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں مسیح علیہ السلام آسمان پر ہیں اور وہ دوبارہ اِس دنیا میں آئیں گے مگر یہ لوگ اسی طرح انتظار کرتے جائیں گے یہاں تک کہ نسل کے بعد نسل گزرتی جائے گی لیکن آسمان سے کوئی نہیں آئے گا۔ اِسی طرح میں کہتا ہوں کہ لوگ شاید اِس انتظار میں ہوں کہ کوئی اَور مسیح آئے گا جو پہاڑی علاقہ میں جائے گا اور جس کے ساتھ پہاڑ اور پرندے مل کر ذکرِ الٰہی کو بلند کریں گے لیکن وہ انتظار کرتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ اُن کی نسل کے بعد نسل گذر جائے گی اور غالباً یہ انتظار کرنے والے احمدی ہی ہوں گے مگر وہ مسیح جسے پہاڑ پر جانے اور ایک نئی بنیاد رکھنے کا حکم تھا وہ اب کبھی نہیں آئے گا کیونکہ وہ آچکا ہے۔ اب قیامت تک دوسرا ان پیشگوئیوں کا پورا کرنے والا پیدا نہ ہوگا۔ منافق ہنستے چلے جائیں گے، منکر انکار کرتے جائیں گے مگر ایک دن ان کی امیدوں کا پودا خشک ہو جائے گا، اُمنگوں کی عمارت گر جائے گی تب وہ حسبِ عاداتِ منکرین سرے سے ان پیشگوئیوں ہی کا انکار کر دیں گے۔ مگر جس طرح انتظار سے کچھ نہیں بنے گا انکار سے بھی کچھ نہیں بنے گا دُلہنیں اپنے سنگھار سے خوش و خرم ہوں گی، بیوائیں خون کے آنسو بہاتی چلی جائیں گی۔
اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ربوہ کی پوزیشن کیا ہے۔ ربوہ کو خداتعالیٰ نے مسیح موعود کا دوسرا مسکن مقرر فرمایا ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسیح موعود کی الہامی جائے پناہ قرار دیا ہے۔ میرے الہامات نے اس پیشگوئی کے قرب میں پورا ہونے کا اعلان کیا ہے۔ سو اب یہ مقدس ہے جس طرح خداتعالیٰ کی مقدس جگہیں ہوتی ہیں۔ مجھے تعجب آتا ہے کہ سکھ تو اپنے گورؤوں کی جگہ کو مقدس سمجھتے ہیں لیکن ہماری جماعت کا یہ عجیب احساس ہے کہ وہ سمجھتی ہے جو چاہے یہ حق لے لے حالانکہ سب سے پہلے ہمارا حق ہے کہ ہم اپنے بزرگوں کی جگہوں کو مقدس کہیں کیونکہ وہ خداتعالیٰ کی طرف سے مقدس قرار دی گئی ہیں۔
پس اب یہ ایک مقدس مقام ہے اور یہاں کی عبادتیں دوسری جگہوں کی عبادتوں سے اچھی ہیں اور یہاں کی رہائش دوسری جگہوں کی رہائش سے اچھی ہے۔ لوگ کہیں گے کیا یہ مکہ ہے؟ میں کہوں گا نہیں۔ لوگ کہیں گے کیا یہ بیت المقدس ہے؟ میں کہوں گا نہیں۔ لوگ کہیں گے کیا یہ مدینہ ہے؟ میں کہوں گا نہیں۔ لوگ کہیں گے اچھا تو کیا یہ قادیان ہے؟ میں کہوں گا نہیں۔ لوگ کہیں گے پھر یہ کیا ہے اور یہ گردوغبار کی جگہ جو رہائش کے لئے بھی موزوں نظر نہیں آتی جو ہزاروں سال سے ویران پڑی تھی جس کے متعلق گورنمنٹ کے کاغذات میں بھی یہ لکھا ہوا ہے کہ یہ کاشت کے ناقابل ہے یہ کس طرح مقدس ہوگئی اور اس کو برکت کہاں سے ملی؟ میں کہوں گا یہ خداتعالیٰ کے مقدسوں کی جائے پناہ ہے اور اِس کو وہیں سے برکت ملی ہے جہاں سے باقی مقدس مقاموں اور بہت سے جانے نہ جانے مقامات کو برکت ملی ہے۔
ایک عورت اور ایک بچہ آج سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں سال پہلے خدا تعالیٰ کو خوش کرنے کے لئے نکلے تھے اور ایک جگہ نے ان کو پناہ دی۔ زمین نے انہیں پانی دے دیا۔ اُس جگہ میں کیا رکھا تھا؟ وہ بے آب و گیاہ جگہ تھی اور کوئی جانا پہچانا نبی ہمیں ایسا معلوم نہیں ہوتا جو وہاں رہ کر عبادتیں کیا کرتا ہو لیکن خدا تعالیٰ نے جب دیکھا کہ اس زمین نے میرے پیاروں کوپناہ دی ہے تو اُس نے کہا میری رضا کی تلاش کرنے والی روحوں کو پناہ دینے والی جگہ تُو بابرکت ہو جا اور وہ بابرکت ہوگئی۔ اُس جگہ کو برکتیں ملنے کی وجہ صرف اتنی تھی کہ اس نے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو پناہ دی اور جب اس نے پناہ دی تو خدا تعالیٰ نے عرش سے اسے دیکھ کر کہا کہ اے زمین! تو نے میری رضا کی خاطر بھاگنے والوں کو پناہ دی ہے۔ دنیا تجھے بیکار سمجھتی ہے، تو کسی کام کی نہیں تھی مگر تو نے وہ کام کیا جو کسی نے نہ کیا جو سرسبز و شاداب کھیتوں نے نہ کیا۔ میں کہتا ہوں تو ہو جا بابرکت۔ جس ذات نے کُنْ ۱۸؎ کہا اور سب چیزیں پیدا ہو گئیں اُسی ذات نے اُسے کہا تو بابرکت ہو جا اور وہ بابرکت ہوگئی۔ وہ پناہ لینے والے بھی فوت ہوگئے اور ان پناہ لینے والوں کی اولاد بھی کچھ عرصہ بعد روزی کی تلاش میں اُس جگہ کو چھوڑ کر مُلک میں پھیل گئی۔ صدیوں بعد زمانۂ محمدی کے قریب پھر ایک باہمت انسان انہیں مکہ میں جمع کر کے لایا لیکن وہ بابرکت رہی تب بھی جب وہ آباد تھی اور وہ بابرکت رہی تب بھی جب وہ ویران تھی۔ وہ بابرکت تھی جب خداتعالیٰ کا آخری اعلان وہاں سے سنایا گیا اور وہ بابرکت تھی جب کہ خداتعالیٰ کا آخری شارع وہاں سے مجبور کر کے نکال دیا گیا کیونکہ خداتعالیٰ کی یہ سنّت ہے کہ جگہوں کی برکت واپس نہیں کی جاتی کیونکہ وہ گناہ نہیں کرتیں جس کے خمیازہ میں ان سے برکت چھینی جائے۔ آدمی گناہ کرتے ہیں، خاندان گناہ کرتے ہیں اور اُن سے برکتیں چھین لی جاتی ہیں لیکن جگہوں سے برکتیں واپس نہیں لی جاتیں۔
پھر ایک خداکا بندہ اور اُس کی قوم شاہانِ مصر کے ظلموں سے تنگ آ کر مصر سے نکلے۔ کنعان کی زمین نے اُن کو پناہ دی۔ پس کنعان کا دل یروشلم بابرکت ہو گیا۔ وہ بابرکت رہا اُس قوم کی نبوت کے زمانہ میں۔ اور وہ بابرکت رہا اُس قوم کی نبوت کے ختم ہونے کے بعد بھی۔ کیونکہ خداتعالیٰ جب کسی جگہ کو برکت دیتا ہے تو پھر اُسے واپس نہیں لیتا۔ کیونکہ انسان کبھی خداتعالیٰ کا باغی ہو کر برکت کھو بیٹھتا ہے مگر جگہ باغی نہیں ہوتی اس لئے اُس کی برکت دائمی ہوتی ہے۔ وہ زندہ پیغام سے کم بابرکت ہوتی ہے مگر بوجہ موت نہ آنے کے ہوتی ہمیشہ کے لئے بابرکت ہے۔
ایک خدا کا پہلوان، کائنات کا اصلی راز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قوم کے ظلموں سے تنگ ہو کر مکہ جیسی بابرکت بستی کو چھوڑ کر نکلا۔ یثرب نے اُس کے لئے اپنی گود کھول دی۔ یثرب کی بیٹیوں نے اُس کے راستہ میں اپنی آنکھیں بچھا دیں۔ عرش پر خداتعالیٰ نے یہ نظارہ دیکھا اور وہ خوش ہو گیا۔ اُس نے کہا یہ زمین جس نے میرے پیارے کو برکت دی، برکت والی ہو اور وہ برکت والی ہوگئی۔ خداتعالیٰ نے مکہ سے برکت نہیں چھینی کیونکہ اُس کی برکتوں کا خزانہ محدود نہیں ہے۔ اُس نے نئی برکت اُس دوسری بستی کو دے دی۔ پھر وہ محبوب بھی اِس دنیا سے چلا گیا اُس کا بنایا ہوا مرکز بھی وہاں سے نکل کر عراق اور شام کی طرف منتقل ہو گیا مگر اُس جگہ کی برکت قائم رہی کیونکہ خداتعالیٰ جو انعام کیا کرتا ہے اُسے بِلاوجہ واپس نہیں لیا کرتا۔ پھر ایک زمانہ آیا کہ اسلام غریب ہو گیا۔ خداتعالیٰ اپنی مملوکہ دنیا میں ایک اجنبی کی طرح دیکھا جانے لگا اور اُس کی مہمان نوازی سے دنیا نے انکار کر دیا۔ مگر قادیان کے ایک فرد نے اُسے اپنے دل میں جگہ دی، عزت سے اپنے گھر لے گیا اور خدا تعالیٰ نے کہا اے قادیان کی بستی! تو بابرکت ہو جا اور وہ بابرکت ہوگئی۔ وہ برکت اب کبھی نہیں چھینی جائے گی، اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہوگا۔ برکتوں والے لوگ وہاں سے چلے جائیں، برکتوں والے ادارے وہاں سے منتقل ہو جائیں مگر برکت وہاں سے نہیں جائے گی۔ جو بھی اور جب بھی وہاں برکت کے لئے جائے گا اُسے وہاں برکت ملے گی۔ پھر ایک دن آیا کہ دنیا کی وجاہت چاہنے والوں نے اس پُرامن بستی پر حملہ کیا اور خداتعالیٰ کی یاد میں بسر کرنے والے اور صداقت کو پھیلانے والے مسکین بندے قادیان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئے، وہ گھروں سے پریشان ہو کر نکلے اُنہوں نے چاروں طرف نگاہ کی، معمور شہروں، آباد قصبوں اور زرخیز زمین نے انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا، ان کے ساتھ بھاگنے والے چاروں طرف پھیل گئے مگر یہ حیران تھے کہ ہم کہاں جائیں کیونکہ وہ ایک مقصد رکھتے تھے اور اس کے لئے اکٹھا رہنا ان کے لئے ضروری تھا۔ وہ خداتعالیٰ کے سپاہی تھے اور اکٹھا رہنا اور اکٹھا لڑنا جانتے تھے۔ وہ حیران تھے کہ چناب پار کی پہاڑیوں نے اُنہیں دعوت دی، بہتے ہوئے پانی کے پاس ایک اونچے ٹیلے نے کہا اے خدا کی راہ میں بھاگنے والو! اِدھر آؤ۔ میری چھاتیوں میں دودھ نہیں ہے مجھے کبھی بھی دنیا کے نوجوانوں نے اپنے لئے قبول نہیں کیا مگر میں اپنی خشک چھاتیاں اور جھلسا ہوا سینہ تمہارے لئے پیش کرتی ہوں اور ان بھاگنے والوں نے خدا کا شکر کیا اور اِس جگہ ڈیرہ ڈال دیا۔ جس طرح مکہ میں ایک دائی کو سب لوگوں نے اپنے بچے دینے سے انکار کر دیا تھا مگر اُس نے خالی ہاتھ جانا پسند نہ کیا اور وہ ایک ایسے بچے کو لے گئی جو یتیم تھا، جس کی ماں بیوہ تھی اور جس کے گھر سے اُسے کچھ ملنے کی امید نہ تھی۔ اِسی طرح خداتعالیٰ نے اِنہیں بھی ایک ایسی دائی دی جس کا گھر آمنہ کے گھر کی طرح خالی تھا۔ پس اُنہوں نے خداتعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اُنہوں نے اس میں خداتعالیٰ کی باتوں کو پورا ہوتے دیکھا اور خداتعالیٰ نے بھی عرش سے اِس امر کو دیکھ کر کہا اے بے آب و گیاہ وادی! تُو بابرکت ہو کہ تو نے میرے لئے بھاگنے والوں کو پناہ دی اور وہ بابرکت ہوگئی۔ اس نے یہ برکت کسی اَور سے نہیں چھینی۔مکہ کی برکتیں اُسی کے پاس ہیں، یروشلم کی برکتیں اُسی کے پاس ہیں۔ مدینہ کی برکتیں اُسی کے پاس ہیں، قادیان کی برکتیں اُسی کے پاس ہیں، اِس کو یہ برکت خدا کے خزانہ سے ملی ہے جس کے خزانے غیر محدود ہیں۔ وہ جو اِس پر حسد کرتا ہے حسد کرتا چلا جائے۔ دینے والے نے دے دیا اور لینے والے نے لے لیا۔ اب حاسد کے لئے سوائے دانت پیسنے اور رونے کے کچھ نہیں۔ اب یہ جگہ ہمیشہ کے لئے بابرکت ہے خواہ ہمیں اِسے کسی وقت چھوڑنا ہی پڑے۔ اس کی برکت اس سے کبھی چھینی نہیں جائے گی بلکہ پیش گوئیوں سے جو کچھ معلوم ہوا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ قیامت سے پہلے یہ جگہ ضرور ایک دفعہ علم محمدی کے سربلند کرنے کا موجب ثابت ہوگی اور اسرافیل یہاں سے ایک دفعہ ضرور اپنا صور پھونکے گا لیکن میں کہتا ہوں خواہ اوپر کے امور میں سے کوئی بھی درست نہ ہوتا پھر بھی جماعت کے لئے ایک مرکز کی ضرورت تھی۔ اگر کسی کے پاس روحانی آنکھیں نہیں کہ وہ اِس چیز کی اہمیت کو محسوس کر سکے تو کم از کم اتنی عقل تو اُس میں ہونی چاہیے کہ وہ اِس بات کو سمجھ سکے کہ بغیر مرکز کے جماعت ترقی نہیں کر سکتی۔
قادیان بے شک ہمارا مرکز ہے مگر اِس کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہماری زندگی کی بنیاد رکھنے والا ہے۔ پس جب کبھی ہمارا عملی مرکز وہاں سے جدا ہو، اس عرصہ میں بھی کوئی نہ کوئی مرکز ضروری ہے تا کہ اجتماعی کام خوش اسلوبی سے ہو سکیں وہ ربوہ نہ سہی کوئی سہی۔اور اَور کوئی نہ ہو تو ربوہ سہی۔ بہرحال جب تک ہم اکٹھے نہیں رہیں گے اُس وقت تک اسلام کی ترقی کے لئے سکیمیں کس طرح بنائیں گے۔ اکٹھے نہ بیٹھیں گے تو مل کر کام کس طرح کریں گے۔ ہمارے مبلغ کہاں تیار ہوں گے، لٹریچر کہاں تیار ہوگا، لائبریریاں کہاں قائم ہوں گی، دین سیکھنے کے خواہش مند دین کہاں سیکھیں گے، روپیہ کہاں جمع ہوگا، سکول کہاں بنائے جائیں گے، مبشرین کی کلاسیں کہاں کھولی جائیں گی۔ پس اگر یہ پیش گوئیاں نہ بھی ہوں تب بھی ہمیں کوئی نہ کوئی جگہ مرکز کے لئے اختیار کرنی پڑے گی۔ اگر کسی کے پاس روحانی آنکھیں نہیں تو بے شک وہ ان باتوں کو نہ مانے جن کو میں نے ابھی بیان کیا ہے اِس میں میرے لئے گھبراہٹ کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ یہ خداتعالیٰ کی باتیں ہیں جو پوری ہو کر رہیں گی لیکن انہیں کم از کم اتنا تو ماننا پڑے گا کہ ہمارے لئے اپنے کام کو جاری رکھنے کے لئے مرکز بنانا ضروری ہے اور جب ہمیں کسی نہ کسی جگہ مرکز بنانا ہی پڑے گا تو اس کو آباد کرنا بھی جماعت کا ہی کام ہے۔ قادیان سے نکلنے کے بعد ہمارا کام بہت ترقی کر گیا ہے۔ وہی مبلّغ جو دوسرے ممالک میں بیٹھے نہایت سستی کے ساتھ کام کر رہے تھے اُنہیں یکدم ہوش آگیا اور وہ بڑے بڑے عالم اور فقیہہ بن گئے ہیں اور اپنے کام کو اُنہوں نے وسیع کر لیا ہے۔ قادیان سے نکلنے سے پہلے ہماری جماعت جتنی معروف تھی اُس سے کئی گنا زیادہ اب معروف ہے۔ قادیان سے نکلنے سے پہلے جتنے لوگ اس کی طرف متوجہ تھے اُس سے بہت زیادہ لوگ اب توجہ کر رہے ہیں۔ غرض قادیان سے نکلنے کے بعد ہمارے مشنوں میں یکدم بیداری پیدا ہوگئی ہے اور اب وہ جوان ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ہماری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں اور مبلّغ بننے کے لئے باہر سے لوگ آ رہے ہیں۔ شروع میں مسٹر کنزے اور ایک دو چینی طالب علم آئے تھے اب رشید احمد (امریکن نَو مسلم) آئے ہیں ابھی ایک اور جرمن اور ایک امریکن خاتون دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں آنے والے ہیں اُن کی تعلیم کا انتظام ہمیں کرنا ہوگا۔ اب اگر مرکز نہ ہو تو یہ کہاں تعلیم حاصل کریں گے۔ قادیان میں ہمارے سکول تھے، کالج تھا، جامعہ احمدیہ تھا، لڑکیوں کا سکول تھا، کروڑوں کی جائدادیں تھیں، بارہ تیرہ مساجد تھیں، دفاتر تھے یہاں پر سب عمارتیں نئے سرے سے بنانی پڑیں گی۔ پھر قادیان میں کارکنوں کے اپنے مکانات تھے اور یہاں وہ بھی بنانے پڑیں گے۔ ان سب کیلئے روپیہ کی ضرورت ہے۔
۱۹۴۷ء میں میں نے ایک لاکھ روپیہ کی تحریک کی تھی لیکن دو جلسوں پر اور عارضی رہائش کے لئے عمارتیں بنانے میں ہی بہت زیادہ روپیہ خرچ ہو گیا ہمارا اندازہ تھا کہ پندرہ ہزار میں سوائے چند پکی عمارتوں کے کچی عمارتیں بن جائیں گی۔ مسجد مبارک کے لئے تو دوستوں نے چندہ دیا ہے اور امید ہے کہ ایک دو ماہ کے اندر اندر مسجد تیار ہو جائے گی۔ پھر بڑی مسجد کے لئے چندہ کا اعلان کیا جائے گا اِس کے بعد ہمیں سکولوں اور کالجوں کے لئے بھی چندہ کرنا پڑے گا۔ سلسلہ کی مالی حالت یہ ہے کہ ہندوستانی جماعتوں کا چندہ جو دو لاکھ روپیہ تھا اب نہیں ملتا اور اِدھر کام بڑھ گیا ہے۔ میں نے یہ تجویز کی ہے کہ گورنمنٹ نے زمین کی جو واجبی قیمت تھی وہ تو لے لی ہے۔ جب ہم یہاں بس جائیں گے تو کالجوں اور سکولوں کی وجہ سے لازماً لوگ یہاں مکان بنائیں گے اس لئے جو زیادہ قیمت مل سکے وہ ہمارا حق ہے اور ہمیں لینی چاہیے کیونکہ ہماری وجہ سے لوگ یہاں بسیں گے اور مکانات بنائیں گے۔ پس میں نے سوچا کہ اللہ تعالیٰ اس مصیبت کے وقت میں اِس جگہ کی آبادی کے لئے جو سامان کرے گا اُسی روپیہ سے عمارتیں بن جائیں گی۔ تین لاکھ پچاس ہزار کی زمین فروخت ہوچکی ہے اور اِس سے عارضی مکانات بنائے جائیں گے لیکن اِن اخراجات میں سے کچھ حصہ ایسا بھی ہے جو واپس آ جائے گا۔ مثلاً لکڑی ہے یہی لکڑی دوسرے مکانات کے کام آجائے گی۔ یہ خداتعالیٰ کی تدبیر تھی کہ بجائے اِس کے کہ وہ ہم پر کوئی نیابوجھ ڈالے، ہمیں اِس زمین سے ہی روپیہ مل رہا ہے۔ اب زمین بہت تھوڑی رہ گئی ہے۔ صرف چار سَو کنال کا ٹکڑا ایسا رہ گیا ہے جو فروخت نہیں ہوا جس کے معنی یہ ہیںکہ اگر یہی قیمت رہی تو تین لاکھ روپیہ کی اور امیدہو سکتی ہے مگر بعد میں آنے والوں کو مرکز میں دیر سے آنے کا کچھ خمیازہ بھی بھگتنا چاہیے۔ اگر زمین کی قیمت کچھ بڑھا دی گئی تو شاید کچھ اور رقم آجائے او رپندرہ سولہ سَو روپیہ مزید مل جائے۔ اگر میری یہ رائے صحیح ہے کہ یہ سلسلہ خداتعالیٰ کا قائم کردہ ہے بلکہ میں رَای العین کی طرح کہہ سکتا ہوں کہ یہ خدا کا قائم کردہ ہے تو پندرہ سَو کیا پندرہ ہزار بھی آ جائیں گے بہرحال اِس وقت ہمیں پندرہ لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے تین لاکھ پچاس ہزار کی تو زمین بِک چکی ہے اور تین چار لاکھ روپیہ کی اَور آمد ہوگی مگر ضرورت ہے پندرہ لاکھ روپیہ کی۔ آٹھ لاکھ روپیہ باقی رہ جاتا ہے وہ کہیں سے پورا کرنا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ چندہ حفاظت مرکز کے وعدے جن کے ذمہ واجب الادا ہیں وہ ادا کر دیں۔ اگر ان لوگوں نے جو اَب سستی کر رہے ہیں کوشش کی تو شاید چار پانچ لاکھ اَور بھی جمع ہو جائے۔ یہ بارہ تیرہ لاکھ کے قریب ہو جاتا ہے۔ رہ گیا تین لاکھ روپیہ اِس کے لئے میں چند تجاویز دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں جن پر عمل کر کے وہ بغیر تکلیف اُٹھائے ربوہ کی آبادی میں مدد دے سکتے ہیں۔
یہ تو میں نے اشارہ کر دیا ہے کہ جو یہاں آنا چاہتے ہیں وہ آ جائیں ورنہ بعد میں ہزار ہزار، پندرہ پندرہ سَو روپیہ فی کنال کے حساب سے بھی زمین نہیں مل سکے گی۔ دوست اگر کوشش کریں تو یہ کوئی مشکل امر نہیں اگر وہ الگ الگ زمین لیں تو شاید سالوں میں بھی یہاں مکان نہ بنا سکیں لیکن اگر دو دو ،تین تین مل کر ایک ٹکڑہ خرید لیں اور مکان بنا لیں، پھر دوسرا ٹکڑا خرید لیں اور مکان بنا لیں تو بڑی آسانی سے وہ یہاں مکان بنا سکتے ہیں۔
دوسری تجویز یہ ہے کہ امانت تحریک جدید اور امانت صدر انجمن احمدیہ کی برکت کو تو آپ نے دیکھ ہی لیا ہے یہاں روپیہ جمع کرنے کی وجہ سے گذشتہ فسادات میں ہزاروں احمدیوں کا روپیہ بچ گیا ہے۔ جو لوگ امانت تحریک جدید میں یا صدر انجمن احمدیہ کے پاس روپیہ رکھواتے تھے ان کی ساری کی ساری رقمیں محفوظ رہی ہیں۔ مثلاً اگر کسی شخص نے پانچ ہزار روپیہ امانت میں رکھوایا تھا تو اُسے پانچ ہزار کا پانچ ہزار ہی مل گیا ہے اور اِدھر آ کر اُس نے اس سے مختلف تجارتیں اور دوسرے کاروبارکامیاب طور پر چلا لئے ہیں لیکن جنہوں نے امانت میں روپیہ نہیں رکھوایا تھا بلکہ نفع کی خاطر کسی اور شخص کو دے دیا تھا اور کہتے تھے کہ ہمیں پچیس فیصدی منافع ملے گا، اُن کو نہ پچیس فیصدی منافع ملا اور نہ اصل رقوم ہی ملیں۔ پچیس فیصدی منافع لیتے لیتے اُن کی اصل رقوم بھی ضائع ہو گئیں۔ اب بھی میں بتاتا ہوں کہ تمہارا فائدہ اِسی میں ہے کہ تم اپنا روپیہ امانت تحریک جدید یا امانت صدر انجمن احمدیہ میں جمع کراؤ یہ مفت کا ثواب ہے جو تمہیں حاصل ہو سکتا ہے۔ تم میں سے کوئی شخص اپنا سارے کا سارا روپیہ تجارت میں نہیں لگاتا۔ فرض کرو تم پانچ پانچ روپے بھی امانت تحریک جدید یا امانت صدر انجمن احمدیہ میں جمع کراؤ تو دس لاکھ روپیہ جمع ہو جاتا ہے پھر روپیہ واپس لینے میں کوئی مشکل بھی نہیں۔ کسی نوٹس کی ضرورت نہیں چاہے آج جمع کراؤ اور کل لے جاؤ۔ بلکہ میں کہتا ہوں اگر کسی میں ایمان ہو تو جب وہ ربوہ میں آئے تو اگر اس کے پاس پانچ روپے بھی ہوں تو وہ آتے ہی یہاں جمع کرا دے اور پھر جاتے ہوئے لے لے۔ اِس طرح چھوٹی سے چھوٹی رقم سے بھی جماعت فائدہ اُٹھا سکتی ہے۔ آپ کہیں گے کہ چھوٹی چھوٹی رقوم سے کس طرح فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے؟ سو یہ ایک اقتصادی راز ہے جو ہر شخص نہیں جانتا مگر میں بتا دیتا ہوں کہ وہ کیا ہے۔ دنیا میں جتنے بینک ہیں اِن کے پاس امانتیں ہوتی ہیں اور وہ اِن امانتوں سے بڑی بڑی آمد نیں پیدا کر لیتے ہیں۔ ایک دفعہ الائیڈ بنک کا جنرل مینیجر جو انگریز تھا مجھے امرتسر سے ملنے کے لئے آیا اور اُس نے کہا مجھے پتہ لگا ہے کہ آپ کے خزانہ میں دس پندرہ لاکھ روپیہ پڑا ہے وہ آپ ہمارے بنک میں کیوں جمع نہیں کرا دیتے ہم آپ کو ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچائیں گے۔ میں نے کہا تم امرتسر سے چل کر یہاں آئے ہو آخر کوئی بات تو ہے۔ اُس نے کہا یہ دس پندرہ لاکھ روپیہ ہمارے بینک میں جائے گا تو ہم بہت کچھ کما لیں گے۔ میں نے اُسے کہا تم مجھے وہ راز بتاؤ جس کے ذریعہ تم اِس روپیہ سے بہت کچھ کما لو گے۔ میں نے تو اپنے دفتر والوں کو یہ ہدایت دی ہوئی ہے کہ روپیہ میں سے اٹھنی خرچ کرنی ہے اٹھنی خرچ نہیں کرنی۔ اُس نے کہا ہم تو دس آنہ میں سے ایک آنہ رکھتے ہیں نو آنے خرچ کر لیتے ہیں مثلاً ایک لاکھ روپیہ اگر ہمارے پاس ہو تو نوے ہزار سے ہم تجارتیں کرتے ہیں اور دس ہزار خزانہ میں پڑا رہتا ہے۔ کبھی گاہک اتنا روپیہ ایک ہی دفعہ آ کر نہیں لیتا۔ میںنے کہا میں تو روپیہ میں سے اٹھنی سے زیادہ خرچ کرنے کی اجازت نہیں دیا کرتا۔ جب ہم قادیان سے نکلے تو یکدم ریلا آ پڑا اور لوگ اپنی اپنی رقمیں واپس لے گئے کیونکہ کسی نے تجارت شروع کر دی اور کسی نے کوئی اور کام شروع کر دیا اور اس کے لئے اُنہیں روپیہ کی ضرورت تھی۔ میری تجویز یہ تھی کہ روپیہ میں سے آٹھ آنے خرچ کرو آٹھ آنے محفوظ رکھو جب لوگ روپیہ واپس لینے آئے تو میں نے کہا ہر ایک کو اُس کا روپیہ دے دو۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خزانہ سے بارہ تیرہ لاکھ روپیہ یکدم نکل گیا لیکن پھربھی ہمارے پاس امانت پڑی رہی۔ غرض امانت رکھنا بڑی مفید چیز ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرمایا کرتے تھے کہ ہمارے لئے تو اللہ تعالیٰ نے امانت کو روزی کا ایک ذریعہ بنایا ہے۔ ہم اپنے پاس امانتیں رکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ ہمارا گزارہ چلا رہا ہے۔ ضرورت کے وقت امانت میں سے ہم روپیہ نکالتے ہیں اور خرچ کر لیتے ہیں اور جب روپے والا اپنی رقم واپس لینے آتا ہے تو اُس کے لئے بھی روپیہ موجود ہوتا ہے۔ غرض امانت سے سلسلہ کو بہت بڑی مدد مل سکتی ہے اس لئے میں تحریک کرتا ہوں کہ دوست زیادہ سے زیادہ رقوم امانت تحریک جدید اور امانت صدر انجمن احمدیہ میں جمع کرائیں۔ اگر دوست صحیح طور پر اِس پر عمل کریں تو میرا خیال ہے کہ ہمارے پاس اتنا روپیہ جمع ہو سکتا ہے کہ کسی قسم کا چندہ لینے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے۔ غرض اپنا روپیہ امانت تحریک جدید اور امانت صدر انجمن احمدیہ میں جمع کرانا شروع کر دو اِس سے ہمیں بہت بڑی امداد مل جائے گی۔ اِدھر میں دفتر والوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح شہر کا بینک ضرورت کے وقت بغیر کٹوتی کے روپیہ ادا کر دیتا ہے اِسی طرح وہ بھی روپیہ واپس مانگنے پر بغیر کسی کٹوتی کے روپیہ بھیج دیا کریں۔ مثلاً منٹگمری کا ایک آدمی ہے اُس نے اپنے شہر کے بنک میں روپیہ جمع کرایا ہے اُسے جب بھی ضرورت ہوگی وہاں جائے گا اور رقم لے لے گا اور پوری کی پوری لے گا اس پر کوئی منی آرڈر فیس وغیرہ نہیں لگے گی۔ اِسی طرح اگر آپ بھی کریں گے اور روپیہ واپس مانگنے پر بغیر کسی کٹوتی کے دے دیں گے تو روپیہ جمع کرانے والے سمجھیں گے کہ اس میں اور بنک میں کوئی فرق نہیں اور جب کوئی فرق نہیں تو وہ کیوں اپنا روپیہ امانت تحریک جدید یا امانت صدر انجمن احمدیہ میں جمع نہ کرائیں۔ اِس طرح لوگ خوشی سے اپنا روپیہ یہاں جمع کرائیں گے اور کثرت سے کرائیں گے۔ یہ امانت غیر تابع مرضی نہیں ہوگی بلکہ تابع مرضی ہوگی۔ بے شک کوئی صبح جمع کرائے اور دو گھنٹے بعد اپنی رقم واپس لے لے۔ اگر انجمن نے میرا مشورہ مان لیا تو احباب کو بوقت ضرورت بغیر کسی خرچ کے روپیہ واپس مل جائے گا۔ یا ان کے شہر کے بنک کے نام چیک بھجوا دیا جائے گا اور وہاں سے انہیں پوری کی پوری رقم مل جائے گی۔
غرض یہ صورت ایسی ہے کہ بغیر کسی محنت کے اور بغیر کسی خطرے کے روپیہ جمع ہو سکتا ہے اور اُس سے فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے۔ بظاہر تو آئندہ کوئی خطرہ نظر نہیں آتا مگر پچھلے خطرہ کے وقت بھی جن لوگوں نے روپیہ جمع کرایا تھا ان کا روپیہ بالکل محفوظ رہا تھا اور اس میں بھی خداتعالیٰ نے مجھے ہی کام کرنے کا موقع دیا تھا اور وہ اس طرح کہ بیت المال والوں نے اصرار کیا کہ روپیہ بنک میں محفوظ ہے اور اسے وہیں رہنے دیا جائے لیکن میں نے اصرار کیا کہ روپیہ جلد نکلواؤ۔ اُس وقت ہندوستان سے روپیہ آنے میں کوئی روک نہ تھی۔ خداتعالیٰ کی قدرت ہے جونہی اُنہوں نے روپے واپس منگوائے ہندوستان سے روپیہ آنا بند ہو گیا۔ صرف ۶۰ ہزار روپیہ کی ایک رقم باقی رہ گئی جو میرے مشورہ کے بغیر رہنے دی گئی تھی۔
تیسری صورت قرض ہے اگر جماعت نے امانت کی طرف پوری توجہ نہ دی تو پھر جماعت کی بعض جائدادیں گرو رکھ کر اس کام کے لئے رقم حاصل کی جائے گی۔ میرا ارادہ ہے کہ چندہ کی صورت میں ربوہ کی تعمیر کے لئے کوئی رقم جمع نہ کی جائے بلکہ جماعت کی بعض جائدادیںگرو رکھ کر قرض حاصل کر لیا جائے یا دوست امانت کی صورت میں اِس کام میں مدد دیں۔اگر شہر بن گیا تو آپ لوگوں کے لڑکے یہاں آئیں گے اور تعلیم حاصل کریں گے اُس وقت خداتعالیٰ آپ لوگوں کی جیبوں میں سے کسی اَور صورت میں روپیہ نکال لے لگا۔ مثلاً آپ یہاں آئیں گے تو یہاں کے دُکانداروں سے سَودا خریدیں گے۔ اِس طرح دُکانداروں کی آمدنیں بڑھیں گی اور چندہ میں زیادتی ہوگی۔
اب میں جماعت کے دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ مرکز کے قیام سے اِسی صورت میں فائدہ اُٹھا سکتے ہیں جب وہ بار بار یہاں آئیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ جو لوگ بار بار قادیان آنے کی خواہش نہیں رکھتے وہ اپنے ایمانوں کی فکر کریں۔ بعض لوگوں سے میں نے سنا ہے کہ حضرت مسیح موعو دعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان کہا ہے، ربوہ نہیں کہا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ربوہ نہیں کہا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قادیان کب کہا تھا؟ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مدینہ نہیں کہا تھا تو حضرت نوح علیہ السلام نے مکہ کب کہا تھا؟ یہ تو الٰہی سلسلہ ہے جو لوگ اطاعت میں اپنی گردنیں جھکا دیں گے وہ برکتیں حاصل کریںگے اور جو اپنی گردنیں نہیں جھکائیں گے وہ خود نقصان اُٹھائیں گے، دوسروں کو اس سے کیا نقصان ہو سکتا ہے۔
قادیان سے تعلق رکھنے کے متعلق جو کہا گیا تھا وہ اِسی لئے تھا تا مرکز سے فائدہ اُٹھایا جائے۔ قادیان سے پہلے مکہ سے بوجہ مرکز ہونے کے فائدہ اُٹھایا جاتا تھا۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بار بار قادیان آنے کے لئے جماعت کو تلقین کی تو مخالفین نے کہا دیکھو! اب مکہ کی بھی ہتک ہونے لگی حالانکہ وہ نادان یہ نہیں جانتے تھے کہ مکہ سے فائدہ اُٹھانے کے لئے جب کہا گیا تھا تو اُس کے مرکز ہونے کی وجہ سے کہا گیا تھا۔ اِسی طرح اگر تم میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قادیان کہا تھا ربوہ نہیں کہاتو اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ جو کچھ تھا قادیان کے مرکز ہونے کی وجہ سے تھا۔ اب تو وہ وہاں رہ گیا۔ اب اگر وہ کالج نہیں ہوں گے جو قادیان میں تھے تو کیا عالم بن جائیں گے؟ پس قطع نظر اِس سے کہ ربوہ مرکز ہے یا نہیں، برکات یہیں ہیں جو اِن برکات سے حصہ نہیں لے گا وہ خود نقصان اُٹھائے گا دوسروں کا اِس سے کیا بگڑے گا۔ پس دوستوں کو یہاں بار بار آنا چاہیے اس سے مشکلات کے حل میں مدد ملے گی۔ جن لوگوں کو فرصت ہو وہ یہاں آئیں اور دفاتر میں کام کریں۔ آخر نیا مرکز بن رہا ہے اور اِس کی تعمیر کے رستہ میں جو مشکلات ہیں اُنہیں بھی ہم نے ہی حل کرنا ہے۔ پس دوستوں کو چاہیے کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور بار بار یہاں آئیں اور کام میں مدد دیں۔ جن کی تعلیم کا انتظام نہیں وہ یہاں آئیں خود بھی تعلیم حاصل کریں او ربچوں کو بھی تعلیم دلائیں اِس طرح جماعت مضبوط ہوگی۔ پھر یہاں آ کر اجتماعی عبادات سے فائدہ اُٹھائیں۔ اجتماعی دعائیں بہت بابرکت ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی جماعت بہرحال ربوہ میں ہی ہے (اِس سے پہلے سب سے بڑی جماعت قادیان میں تھی) اس لئے اِس جگہ کی عبادت کا فائدہ بہرحال اُس عبادت سے زیادہ ہوگا جو تم اپنے گھروں میں کرتے ہو۔ دوسرے تعمیر میں جتنی مشکلات ہیں اُن کا دوستوںکو علم ہوگا۔ جتنی دلچسپی اس کام میں نواب محمد الدین صاحب مرحوم نے لی ہے باقیوں نے نہیں لی حالانکہ جماعت کے مرکز کو مضبوط بنانا ایسا کام ہے کہ مومن کو اپنے بیوی بچوں سے بھی زیادہ اسے مقدم سمجھنا چاہیے۔
اب میں ایک بات مہاجرین سے بھی کہتا ہوں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھلی دفعہ بھی اور اِس دفعہ بھی میں نے دیکھا ہے کہ اِن کے چہروں پر ایک افسردگی سی طاری ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کیوں ہے؟ دوسرے لوگ مایوس رہیں تو رہیں ہمارا تو ایک زندہ خدا ہے، ہمارے لئے مایوسی اور افسردگی کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی بلکہ مومن تو ہزار بھٹیوں سے بھی گزر کر پھر بھی خوش رہتا ہے۔ میں نے کئی دفعہ واقعہ سنایا ہے کہ ایک جرمن عورت کے سات لڑکے تھے۔ پچھلی جنگ عظیم میں وہ ساتوں کے ساتوں مارے گئے جب اُس کا ساتواں بچہ مارا گیا تو فوج کے کمانڈر نے وزیر جنگ کو اطلاع بھیجی کہ اس عورت کی عزت افزائی کی جائے۔ وزیر جنگ نے قیصر کو بتایا اس نے بھی اسے نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا اور کہا میرے نام سے اس عورت کا شکریہ ادا کیا جائے۔ وہ لوگ تو قیصر کو خدا سمجھتے تھے۔ قیصر نے وزیر جنگ سے کہا کہ اُس عورت کو بُلائے اور میری طرف سے شکریہ ادا کرے۔ وزیر جنگ نے اُس عورت کو بُلایا اور بڑا اعزاز کیا اور کہا میں قیصر کی طرف سے تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں تمہارے ساتوں بچے مُلک کی خدمت کرتے ہوئے مارے گئے ہیں۔ انگریز جنگ کے زمانہ میں بھی دوسرے مُلکوںمیں انہی میں سے نامۂ نگار رکھا کرتے تھے جو حالات انہیں بھیجتے رہتے تھے۔ میں ڈیلی کرانیکل اخبار منگوایا کرتا تھا اُس میں لکھا تھا کہ جب وہ عورت باہر آئی نامہ نگار نے لکھا کہ میںبھی وہاں کھڑا تھا وہ ۸۰ سال کی بڑھیا تھی، اُس کے اعصاب کانپ رہے تھے اور اُس سے کھڑا نہیں ہوا جاتا تھا مگر اس نے دونوں ہاتھ کمر پر رکھ کر اپنی کمر کو سیدھا کیا اور ایک جھوٹا قہقہہ لگا کر کہا آخر ہوا کیا میرے ساتوں بچے اپنے مُلک کے لئے ہی مارے گئے ہیں۔ دیکھو! وہ بڑھیا ۸۰ سال کی تھی مگر اُس کے اندر یہ احساس تھا کہ آخر ہوا کیا، میرے بچے مُلک کی خدمت کرتے ہوئے مارے گئے ہیں۔ اُس کے بچے تو مُلک کے لئے مارے گئے تھے اور وہ مُلک بچا نہیں لیکن اگر مسلمان مارے گئے ہیں تو اُنہیں ایک مُلک بھی تو مل گیا ہے۔ یہ خداتعالیٰ کا فضل ہے کہ اُس نے تمہیں غلامی سے آزاد کر دیا، تمہیں تو اپنی تکلیفوں کا خیال بھی نہیں کرنا چاہیے۔
میں اَوروں کو تو نہیں کہہ سکتا ہاں احمدیوں سے یہ کہتا ہوں کہ یہ خیال چھوڑ دو کہ تم لُٹے ہوئے ہو۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن مہاجرین پر افسوس کیا کرتے تھے جو وطن اور جائدادوں کے چھوٹ جانے پر افسوس کرتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے اُس وقت مدینہ کا نام یثرب ہوا کرتا تھا اور وہاں ملیریا کثرت سے ہوتا تھا۔ ملیریا پھیلنا شروع ہوا تو مہاجرین کو بخار چڑھے اِدھر وطن کی جدائی کا صدمہ تھا ان میں سے بعض نے رونا اور چلانا شروع کر دیا کہ ہائے مکہ ہائے مکہ۔ ایک دن حضرت بلالؓ کو بھی بخار ہو گیا اُنہوں نے شعر بنا بنا کر شور مچانا شروع کر دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو آپ خفا ہوئے اور فرمایا کیا تم ایسے کام کے لئے یہاں آئے ہو؟ ۱۹؎ میں بھی تمہیں یہی کہتا ہوں کہ خوش رہو۔ تم یہ نہ دیکھو کہ ہم نے کیا کھویا ہے تم یہ دیکھو کہ ہم نے کس کے لئے کھویا ہے۔ اگر تم نے جو کچھ کھویا ہے وہ خداتعالیٰ کے لئے اور اسلام کی ترقی کے لئے کھویا ہے تو تم خوش رہو اور کسی موقع پر بھی اپنی کمریں خم نہ ہونے دو۔ تمہارے چہرے افسردہ نہ ہوں بلکہ اُن پر خوشی کے آثار پائے جائیں۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایک مسلمان ایسی حالت میں چلے آ رہے تھے کہ اُنہوں نے گردن نیچے ڈالی ہوئی تھی حضرت عمرؓ نے اُن کی ٹھوڑی پر مکہ مارا اور کہا اسلام کی فتوحات کا زمانہ ہے اور تم اپنی گردن جھکائے پھررہے ہو!! خداتعالیٰ نے اِس وقت اسلام کو حکومت دی ہے دنیا جو چاہے کہے مگر تم تو یقین رکھتے ہو کہ اسلام کو فتح ہوگی۔ اگر تم یقین رکھتے ہو کہ اسلام کو فتح ہوگی تو پھر رونا کیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی ایک لڑکی کا بچہ فوت ہو جایا کرتا تھا۔ جب کئی بچے فوت ہوگئے تو اُس کی والدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس دعا کے لئے آئیں۔ آپ نے دعا کی اور فرمایا کوئی بات نہیں۔ پھر ایک بچہ پیدا ہوا اور فوت ہو گیا۔ وہ پھر دعا کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ نے دعا کی اور فرمایا گھبراؤ نہیں بچہ کمزور تھا خداتعالیٰ اسے تندرست کرکے واپس بھیجے گا۔ وہ واپس چلی گئیں پھر تیسرا بچہ پیدا ہوا اور مر گیا تو بیٹی نے والدہ سے کہا جلدی جاؤ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے دعا کراؤ۔ اُنہوں نے جواب دیا میں جب گئی تھی تو آپ نے فرمایا تھا بچے وہاں تندرست ہونے جاتے ہیں اب جانے کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ خداتعالیٰ نے اُنہیں بچے دیئے اور اب اُن کے بچوں کے بھی بچے ہیں۔ پس میں مہاجرین سے کہتا ہوں کہ تم اپنی اُمنگوں اور امیدوں کو بڑھاؤ اور یہ بات مت بھولو کہ خداتعالیٰ نے تم سے ابھی بہت کچھ کام لینے ہیں جتنا بیج تم ڈالا کرتے ہو تمہیں اتنی ہی کھیتی ملتی ہے مگر میں خداتعالیٰ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ تمہارا جو کچھ نقصان ہوا ہے، اُس سے بہت زیادہ تمہیں خداتعالیٰ کی طرف سے ملے گا۔ ‘‘(الفضل ۲۶؍ دسمبر ۱۹۶۱ء)
حفاظت مرکز قادیان کے لیے چندہ کی اپیل
اب میں قادیان کو لیتا ہوں۔ قادیان ہمارا مقدس مرکز ہے جو اِس وقت ہم سے کٹا ہوا ہے اور اِس وجہ سے اس کی ذمہ داریوں کو ہم نے ہی ادا کرنا ہے۔ میں نے جماعت میں تحریک کی تھی کہ جن احباب کے پاس جائدادیں ہیں وہ اُن کی قیمت کا ایک فیصدی حفاظت مرکز کے لئے بطور چندہ دیں اور جن کی جائدادیں نہیں وہ ایک ایک ماہ کی آمد دیں۔ اِس تحریک کے جواب میں جو وعدے آئے وہ تیرہ لاکھ روپیہ کے تھے لیکن جو وصولی ہوئی وہ صرف چھ سات لاکھ روپیہ کی ہے۔ گویا چھ سات لاکھ روپیہ ایسا ہے جو ابھی واجب الادا ہے لیکن اب کسی دن آٹھ روپے اور کسی دن دس روپے اِس مد میں وصول ہوتے ہیں اگر وصولی کی یہی رفتار رہی تو غالباً کسی نئے مأمور کے وقت تک بھی یہ رقم جمع نہیں ہوگی۔ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا کیوں ہے میں جب باہر جاتا ہوں تو میرے اِردگرد ایک جمگھٹا سا بندھ جاتا ہے اور لوگ پوچھتے ہیں کہ قادیان کب ملے گا؟ لیکن قادیان سے اُن کی محبت کا یہ حال ہے کہ اُس کی حفاظت کے لئے چندہ کی تحریک کی گئی تو بعض نے وعدہ بھی کیا لیکن وہ وعدہ اب تک پورا نہیں کیا۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب اِس چندہ کی کیا ضرورت ہے دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہتے ہیں کہ مریض تو مر چکا ہے اب علاج کی کیا ضرورت ہے۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس کب ملے گا اور دوسری طرف کہتے ہیں کہ قادیان کا کام ختم ہوچکا ہے۔ جب قادیان اُن کے نزدیک ختم ہو چکا ہے تو وہ واپس کس طرح مل سکتا ہے لیکن اگر وہ مریض ہے تو پھر اس کے علاج کی کس نے کوشش کرنی ہے۔ آخر قادیان ہمارا ہے اور اس کے علاج کی ہمیں ہی کوشش کرنی پڑے گی غیر تو ایسا نہیں کرے گا۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو چندہ ادا کر چکے ہیں مثلاً اُن میں سے ایک میں ہی ہوں۔ میں نے قادیان میں ہی یہ چندہ ادا کر دیا تھا لیکن نصف کے قریب لوگ ایسے تھے جنہوں نے اِس مد میں چندہ لکھوایا تو تھا لیکن یا تو چندہ ادا ہی نہیں کیا یا اُس کا برائے نام ایک حصہ ادا کیا ہے اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہوںنے شروع سے ہی کانوں میں سکہ ڈال رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں ہم نے اچھا کیا کہ چندہ نہ دیا کیونکہ قادیان نے ہمارے ہاتھ سے چلے ہی جانا تھا۔ لیکن کیا کسی کا بچہ مر جائے تو وہ یہ کہا کرتا ہے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ میں نے علاج نہیں کیا تھا۔ ایسا کوئی نہیں کہتا اس لئے کہ اُسے بچہ سے محبت ہوتی ہے لیکن تم میں سے بعض ایسا کہتے ہیں اس لئے کہ انہیں قادیان سے محبت نہیں۔ اگر انہیں قادیان سے محبت ہوتی تو وہ ایسا کیوں کہتے۔ میں اُن لوگوں سے جو کہتے ہیں کہ قادیان ہمارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اب چندہ کی کیا ضرورت ہے کہتا ہوں کہ یہ چندہ کس لئے تھا؟ آیا تمہاری حفاظت کے لئے تھا یا قادیان کی حفاظت کے لئے تھا؟ اگر یہ چندہ تمہاری حفاظت کے لئے تھا تو پھر اس کی کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ لیکن اگر قادیان کی حفاظت کے لئے تھا تو قادیان اب بھی موجود ہے اور جب تک وہ واپس ہمارے ہاتھ میں نہ آ جائے اُس کی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہمارا فرض ہے۔ تم اپنے نفس سے پوچھ لو کہ تم نے کس لئے یہ وعدہ کیا تھا۔ خیروعافیت سے اپنے آپ کو پاکستان پہنچانے کے لئے یا قادیان کی حفاظت کے لئے؟ اگر خیروعافیت سے اپنے آپ کو ہندوستان میں سے لانے کے لئے تم نے اِس چندہ کا وعدہ کیا تھا تو تم کہہ سکتے ہو ہم پاکستان آگئے اب اِس چندہ کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر تم نے اِس چندہ کا وعدہ قادیان کی حفاظت کے لئے کیاتھا تو قادیان اب بھی موجود ہے اور اس کی حفاظت کی پہلے سے زیادہ ضرورت ہے۔
میں جب کوئٹہ گیاتو رستہ میں میری ایک لڑکی رونے لگی وہ کہنے لگی کہ میں نے اس کمرہ میں نہیں رہنا میں نے دوسری والدہ کے پاس جانا ہے۔ (اُس کی اپنی والدہ فوت ہو چکی ہے) چونکہ جگہ محدود تھی اور برابر کی تقسیم کی ہوئی تھی میں نے چاہا کہ اُسے دوسرے کمرہ میں چھوڑ آؤں اور اُس کی جگہ پر کوئی دوسری سواری لے آؤں۔ میں اُس لڑکی کو دوسرے کمرہ میں چھوڑ آیا اور اُس کی جگہ پر اپنی ایک بہو کو لے آیا۔ میں ابھی پلیٹ فارم پر ہی تھا کہ گاڑی چل پڑی۔ ڈرائیور نے غالباً شرارت کی اور گاڑی کو یکدم تیز کر دیا۔ زنجیر کھینچی گئی مگر وہ جام تھی اِس لئے کھینچی نہ جاسکی اِدھر پرائیویٹ سیکرٹری کا عملہ حسب دستور چپ چاپ گاڑی میں بیٹھا رہا۔ میری بیوی اور لڑکی کاچونکہ جسمانی رشتہ بھی تھا اس لئے اُنہوں نے شور مچا دیا دوسرے ڈبہ سے میری بیوی نے زنجیر کھینچنے کے لئے پورا زور لگایا مگر وہ بھی جام تھی اُنہوں نے لڑکی سے کہا تو بھی ساتھ لٹک جاچنانچہ دونوں نے مل کر زور لگایا اور بِالآخر وہ زنجیر کھینچنے میں کامیاب ہوگئیں۔ جب کوئٹہ پہنچے تو میں نے مذاقاً کہا اب پرائیویٹ سیکرٹری صاحب تار دیں گے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ہم سب خیریت سے پہنچ گئے ہیں صرف خلیفۃ المسیح پیچھے رہ گئے ہیں۔ تمہارا رویہ بھی ایسا ہی ہے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ ہم سب خیریت سے پاکستان پہنچ گئے ہیں صرف قادیان پیچھے رہ گیا ہے اس لئے اب کسی چندہ کی ضرورت نہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ قادیان کے متعلق خداتعالیٰ کیا تدابیر اختیار کرے گا مگر ہماری دلی خواہش یہی ہے کہ خداتعالیٰ ایسا فضل فرمائے کہ قادیان ہمیں جلد سے جلد مل جائے۔
تم میں سے بعض مجھ پر اعتراض کرتے ہیں کہ میرا ایک نیا مرکز بنانا قادیان سے بے وفائی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قادیان کے لئے اُنہوں نے وہ قربانی نہیں کی جو میں نے کی ہے۔ یہ بات بتا رہی ہے کہ ایسا اعتراض کرنے والے منافق ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ اگر میں نئی تحریک کروں تو مخلص لوگ ضرور اس میں حصہ لیں گے اور کئی دوست مجھے تحریک بھی کرتے رہتے ہیں کہ اگر بقایا داران چندہ نہیں دیتے تو آپ نئی تحریک کریں ہم چندہ دینے کے لئے تیار ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ باقی رہنے والا ٹکڑا بہت زیادہ ہے اگر نادہندگان تھوڑی تعداد میں ہوتے تو میں انہیں نظر انداز کر دیتا اتنے بڑے ٹکڑے کو میں خداتعالیٰ کی ملامت کے نیچے لانا پسند نہیں کرتا۔ اگر میں نئی تحریک کر دوں تو یہ لوگ خداتعالیٰ کی ناراضگی کے مورِد بن جائیں گے اور یہ بات میری طبیعت برداشت نہیں کرتی۔
میں جانتا ہوں کہ نادہندگان میں سے بعض ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ قادیان کی جنگ چونکہ ختم ہو چکی ہے اس لئے اب کسی چندہ کی ضرورت نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ قادیان کی جنگ اب بھی جاری ہے اور اُس کے لئے ہمیں بار بار قربانی کرنی پڑے گی اور متواتر جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔ وہ لوگ جو اپنی جائدادیں مشرقی پنجاب چھوڑ آئے ہیں اُنہیں یہ کوشش کرنی چاہیے تھی کہ وہ چندہ پہلے ادا کر دیتے لیکن اگر اب وہ اِس حالت میں نہیں کہ چندہ ادا کر سکیں تو کم از کم وہ یہ لکھ کر دے دیں کہ ہماری جائدادیں مشرقی پنجاب میں رہ گئی ہیں اور اب ہم اس قابل نہیں کہ اپنے وعدہ کو پورا کر سکیں۔ اس کے بعد وہ ثواب حاصل کرنے کے لئے اس مد میں خواہ ایک روپیہ ہی چندہ دے سکیں دے دیں یہ چندہ اُن کی جائدادوں کی وجہ سے نہیں ہوگا بلکہ بطور اظہارِ عقیدت یہ بتانے کے لئے ہوگا کہ اگرچہ ہم غریب ہیں مگر ہمارا دل غریب نہیں اور اس سے یہ بھی پتہ لگ جائے گا کہ نادہندگان میں سے کتنے ہیں جو وعدہ پورا کرنے سے معذور ہیں۔
ہم نے مغربی پنجاب کے دو ضلعوں لائلپور اور ملتان کا اندازہ لگایا ہے ان میں سے ایک کے ذمہ ابھی ۷۰ فیصدی کے قریب وعدے واجب الادا ہیں اور ایک کے ذمہ ۸۰ فیصدی۔ جب وعدہ کنندگان کو اِس طرف توجہ دلائی گئی تو اُن میں سے بعض نے جواب دیا کہ ہم تو سمجھے تھے کہ کام ختم ہو گیا اِس لئے اب اِس چندہ کی ضرورت نہیں رہی۔ مگر یہ جواب صحیح نہیں تھا کام جاری ہے اور اُس وقت تک جاری رہے گا جب تک قادیان ہمیں دوبارہ نہیں مل جاتا۔ لیکن جو لوگ اب چندہ دینے سے معذور ہیں اُنہیں کم از کم اپنے کھاتے صاف کرا دینے چاہئیں اور پھر حسب توفیق ایک روپیہ یا آٹھ آنے ہی اگر وہ چندہ دے سکتے ہیں تو حفاظت مرکز کے لئے ارسال کر دیں تا کہ وہ ثواب سے محروم نہ رہیں اور جو اِس طرف کے رہنے والے ہیں اور اُن کی جائدادیں محفوظ ہیں اُن سے میں کہتا ہوں کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور یہ چندہ بہت جلد ادا کرنے کی کوشش کرو۔ اور وہ کارکن جو چندہ دے چکے ہیں انہیں میں کہتا ہوں کہ تمہارا کام ہے کہ غافل مؤمنوں کو بیدار کرو۔ دفتر سے اپنی جماعت کے وعدوں کی نقول منگواؤ اور لوگوں کے پاس جاؤ اور اُنہیں ادائیگی کی طرف متوجہ کرو۔ یاد رکھو نادہندوں میں سے بعض غافل مؤمن ہیں اور بعض منافق۔ منافق قادیان پر سب سے زیادہ آنسو بہاتا ہے لیکن تم دیکھو گے قادیان کا چندہ اُس کے ذمہ ہوگا اور غافل مومن کبھی مخلصوں کی آواز پر جاگ پڑتا ہے اور کبھی منافقوں کی آواز پر سو جاتا ہے اُس کو جگانا ہمارا فرض ہے اور اُس کا کوشش کرکے جاگنا خود اُس کا فرض ہے سو اگر تم مخلص ہو تو کمزوروں کو جگا کر اُن سے رقم وصول کرو اور اگر تم سست ہو تو استغفار کرکے اپنی غلطی کا ازالہ کرو۔
وقف جائداد اور وقف آمد کی تحریکیں ایک بھی ہیں اور الگ الگ بھی ہیں۔ جن لوگوں نے جائدادیں وقف کی ہوئی تھیں اُنہیں لکھا گیا تھا کہ وہ اپنی جائداد کی قیمت کا ایک فیصدی دیں لیکن چونکہ وہ نازک موقع تھا اور روپیہ کی فوراً ضرورت تھی اس لئے ہم نے کہا کہ دوسرے لوگ جن کے پاس جائدادیں نہیں وہ بھی آئیں اور اپنی ایک ماہ کی آمد دے کر اِس چندہ میں حصہ لیں۔ جس شخص نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے خواہ وقف جائداد کے لحاظ سے خواہ وقف آمد کے لحاظ سے وہ اِس تحریک کا مخاطب نہیں لیکن جس نے چندہ نہیں دیا اُس کے لئے چندہ کا ادا کرنا ضروری ہے۔
(اس کے بعد حضور نے فرمایا
وہ لوگ جنہوں نے چندہ حفاظت مرکز دے دیا ہے وہ کھڑے ہو جائیں (اِس پر وہ دوست جنہوں نے چندہ حفاظت مرکز دے دیا تھا کھڑے ہوگئے اس کے بعد حضور نے فرمایا) اب جنہوں نے یہ چندہ ادا نہیں کیا اُن سے میں کہتا ہوں کہ اگر ان دوستوں نے چندہ دے دیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ تم یہ چندہ نہیں دیتے۔ میں جانتا ہوں کہ جو لوگ بیٹھے رہتے ہیں اُن میں سے ایک ایسی تعداد بھی ہے جو مشرقی پنجاب سے آئی ہے اور وہ اب غربت کی حالت میں ہیں لیکن میں اُن سے کہتا ہوں کہ اگر وہ چندہ ادا نہیں کر سکتے تو اپنا کھاتہ صاف کرا دیں اور دفتر کو اپنی ذمہ داری کی اطلاع دے دیں۔ اور جو اِن کے سِوا ہیں میں اُن سے کہتا ہوں کہ آخر اس غفلت کے معنی کیا ہیں ہمیں دو تین سال کے لئے دو تین لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اور اس کے بعد بھی کچھ رقم کی ضرورت ہوگی اور یہ رقم ہم دوسرے چندوں سے نہیں بچا سکتے۔ حفاظت مرکز کے چندہ کے تیرہ لاکھ کے وعدے تھے اور اب جماعت کچھ بڑھ بھی گئی ہے اس لئے شاید یہ وعدے پندرہ لاکھ تک پہنچ چکے ہوں گے بہرحال نادہندگان پر بہت بڑی ذمہ داری ہے انہیں چاہیے کہ استغفار کریں اور اپنی غفلتوں کو دور کریں لیکن اگر اُنہوں نے اپنی غفلتوں کو دور نہ کیا تو اِن دوستوں سے جو اپنے وعدے ادا کر چکے ہیں میں کہوں گا کہ اگر یہ لوگ نہ جاگیں تو کیا وہ تیار ہیں کہ میں دوبارہ تحریک کروں اور وہ چند دیں؟ (اِس پر سب وعدہ پورا کرنے والوں نے بیک آواز کہا کہ حضور ہم تیار ہیں۔)
(آخر میں حضور نے فرمایا
اب میں ان لوگوں سے جنہوں نے چندہ ادا نہیں کیا کہتا ہوں کہ آپ اپنے بقایا اگلے چھ ماہ میں ادا کر دیں۔ مشرقی پنجاب سے آنے والوں میں سے جنہیں کام مل گئے ہیں یا جائیدادیں مل گئی ہیں اور اب وہ اِس قابل ہیں کہ چندہ ادا کر سکیں وہ بھی اِس میں شامل ہیں۔ اگر اِس مدت کے اندر اُنہوں نے اپنا چندہ ادا نہ کیا تو ہم سمجھیں گے کہ خدا کے مقرر کردہ مرکز سے اُنہیں کوئی محبت نہیں پھر میں دوبارہ تحریک کروں گا جس میں اِن لوگوں کے لئے حصہ لینا قطعاً ناجائز ہوگا۔ اور میں جماعت پر یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جو لوگ اپنا فرض ادا کر چکے ہیں وہ یقینا ایک بار پھر یہ ثابت کر دیں گے کہ دنیا میں جہاں فرض ادا نہ کرنے والے لوگ ہیں وہاں اپنے فرض کو ادا کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں۔ (از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)
۱؎
۲؎ قل ھل تربصون بنا الا احدی الحسنیین (التوبۃ: ۵۲)
۳؎ بخاری کتاب الجمعۃ باب الانصات یوم الجمعۃ (الخ)
۴؎ بخاری کتاب الادب باب حسن الخلق والسخاء (الخ)
۵؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۷۸۔ ۲۷۹۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۶؎ مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال (الخ)
۷؎ نزول المسیح صفحہ۴۴۔ حاشیہ۔ روحانی خزائن جلد۱۸ صفحہ۴۲۰ حاشیہ+ ذکریا باب ۱۴ آیت ۱ تا ۲۱
برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء (مفہوماً)
۸؎ تذکرہ صفحہ ۷۷۲۔ ایڈیشن چہارم
۹؎ تذکرہ صفحہ۵۹۵۔ ایڈیشن چہارم
۱۰؎ تذکرہ صفحہ۱۹۲۔۱۹۳۔ ایڈیشن چہارم
۱۱؎ تذکرہ صفحہ۵۹۳۔ ایڈیشن چہارم
۱۲؎ تذکرہ صفحہ۴۸۰۔ ایڈیشن چہارم
۱۳؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الجمعۃ باب قولہ وآخرین منھم (الخ)
۱۴؎ تذکرہ صفحہ۱۵۸۔ ایڈیشن چہارم
۱۵؎ ازالہ اوہام صفحہ۷۹۔۸۰۔ روحانی خزائن جلد۳ صفحہ۱۷۹۔۱۸۰
۱۶؎ کشتی نوح صفحہ۴۸۔۴۹۔ روحانی خزائن جلد۱۹ صفحہ۵۰،۵۱
۱۷؎ تذکرہ صفحہ۴۸۵۔ ایڈیشن چہارم
۱۸؎ یٰسین: ۸۳
اسلام اور ملکیت زمین
از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
وَالسَّلَامُ عَلٰی عَبْدِہِ الْمَسِیْحِ الْمَوْعُوْدِ
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ۔ ھُوَالنَّاصِرُ
اسلام اور ملکیت زمین
اِس وقت پاکستان اور ہندوستان کی مختلف سیاسی پارٹیوں میں طاقت حاصل کرنے کے لئے ایک رسّہ کشی جاری ہے۔ دوسرے ملکوں کا تو یہ قاعدہ ہے کہ پارٹیاں بعض اصول کیلئے بنائی جاتی ہیں اور ان اصول کے ماننے والے اُن میں شامل ہو جاتے ہیں۔ جوں جوں کوئی پارٹی طاقت پکڑتی جاتی ہے وہ اپنے تجویز کردہ اصول کو ملک میں جاری کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شروع شروع میں دوسری پارٹیوں سے مل کر اور جب اُسے اتنا اقتدار حاصل ہو جائے کہ وہ منفردانہ طور پر اپنے اصول کو ملک میں جاری کر سکے تو پھربِلا اشتراک غیرے وہ اپنے تجویز کردہ اصول کو قانون کی شکل میں بدل دیتی ہے لیکن ہندوستانی ممالک میں بد قسمتی سے پارٹیاں پہلے بنتی ہیں اور اصول بعد میں تجویز کئے جاتے ہیں۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان و ہندوستان میں زیادہ تر پارٹیوں کی بنیاد مذہب پر ہے مذہب ابھی تک اس برصغیر میں ایک متحرک اور قوی طاقت ہے۔ عوام الناس کی اکثریت مذہب پر عمل کرے نہ کرے وقتی طور پر اگر جوش میں آتی ہے تو مذہب کے نام سے ہی آتی ہے۔ اِس لئے جب کبھی کوئی تحریک اِس برصغیر میں اُٹھتی ہے تو اِس کا محرک مذہب ہی ہوتا ہے گو شکل اُسے سیاسی دے دی جاتی ہے۔ اور اگر کوئی سیاسی تحریک بھی اُٹھے تو بعد میں وہ مذہبی رنگ اختیار کر جاتی ہے۔ جیسے کانگرس جب ہندوستان میں بنائی گئی تو اُس وقت خالص سیاسی تھی بلکہ خالص تمدنی تھی لیکن آہستہ آہستہ وہ ہندو تحریک بنتی چلی گئی اور مسلمان عناصر اِس سے الگ ہوتے چلے گئے۔ خلافت کی تحریک کے زمانہ میں پھر مسلمان اس میں داخل ہوئے لیکن مجبوری سے یا خوشی سے ایک دو سال کے بعد وہ پھر اس سے الگ ہوگئے۔ ان حالات کا نتیجہ یہ ہوا کہ گو کانگرس حقیقی طور پر ایک سیاسی تحریک بن چکی تھی مگر چونکہ اُس میں ایک بہت بڑی اکثریت ہندوئوں کی تھی ہندو مذہبی رہنمائوں نے اِس کو اپنا آلۂ کار بنا نا آسان امر سمجھا اور ایسے لوگ بھی کانگرس میں شامل ہوگئے جو حقیقتاً سیاسی نقطۂ نگاہ نہیں رکھتے تھے بلکہ مذہبی یا نسلی نقطۂ نگاہ رکھتے تھے۔ حقیقی سیاسی نقطۂ نگاہ رکھنے والے ہندوئوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس دوسرے گروہ کی نجی گفتگوئوں کو سن سن کر مسلمان چوکنے ہوگئے۔ انہوں نے اپنی ایک الگ انجمن بنالی جو مسلم لیگ کہلائی۔ مسلم لیگ کی بنیا دی ضرورت صرف اِتنی تھی کہ ہندوستان کی طاقت پکڑنے والی سیاسی انجمنوں کی کوششوں کے نتیجہ میں ہندوستان کی سیاسی طاقت ہندوئوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ اُن ہندو کہلانے والے لوگوں کے ہاتھ میں نہیں جو در حقیقت سیاسی تربیت رکھنے کی وجہ سے ہندوستانی ہیں ہندو نہیں بلکہ اُن ہندوئوں کے ہاتھ میں جو پس پردہ کانگرس پر اپنا جال ڈال رہے ہیں اور آہستہ آہستہ کانگرس کو اپنا آلۂ کار بنا کر اپنی سکیم کو ملک میں جاری کرنا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کانگرس کی طرح مسلم لیگ کا بھی کوئی معیّن سیاسی پروگرام نہیں ہوسکتا تھا۔ کانگرس کا سیاسی پروگرام یہ تھا کہ ہندوستانیوں کے ہاتھ میں اختیارات آجائیں۔ ابتدائے کار میں اِس کو اِس سے غرض نہ تھی کہ اختیار کن کے ہاتھ میں آئے، قدیم الخیال لوگوں کے ہاتھ میں یا آزاد خیال لوگوں کے ہاتھ میں یا سوشلسٹ لوگوں کے ہاتھ میں یا کمیونسٹ لوگوں کے ہاتھ میں، اُس کا نقطئہ نظر یہ تھا کہ ملک آزاد ہو۔ پھر جو طاقتور ہو اختیارات سنبھال لے۔ مسلم لیگ کا بھی کوئی سیاسی پروگرام نہیں تھا۔ مسلم لیگ کی غرض بھی یہی تھی کہ جب ملک میں طاقت آئے تو مسلمان کو بھی اُس کا حصہ ملے۔ ہندوستانی سے مراد ہندو نہ ہو بلکہ اُسی طرح مسلمان مراد ہو جس طرح ہندو مراد ہو۔ باقی رہا سیاسی پروگرام سو مسلمانوں میں سے جو طاقت اُس وقت غالب ہو وہ اختیارات کو سنبھال لے۔ لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ہمارے ملک کا اصلی نظریہ مذہبی ہے اِس لئے لازمی نتیجہ اِن تحریکوں کا یہ ہوا کہ ہندوستانی کی تعریف ہندو سے بدلتی چلی گئی اور مسلم کی جگہ پر اسلام آگے آتا چلا گیا۔ حقیقتاً تو مذہب آگے نہیں آیا لیکن مذہب کو حالات نے آگے دھکیل دیا۔ مجھے اِس سے سروکار نہیں کہ اِس تحریک کے نتیجہ میں ہندو مذہب کو کوئی فائدہ پہنچا یا نہیں یا اسلام کو کوئی فائدہ پہنچا یا نہیں لیکن ظاہری صورت یہی ہو گئی کہ ایک طرف ویدک تہذیب کی بلندی کے نعرے لگنے لگ گئے اور دوسری طرف اسلام زندہ باد کا آوازہ بلند ہونے لگا۔ ہندوئوں کا مذہب چونکہ کسی معیّن صورت میں باقی نہیں، جو لوگ ہندو مذہب کی تائید میں جدو جہد کرنے لگے اُن کی کوششیں بجائے ہندو مذہب کی مضبوطی کے اسلام کی تخریب میں خرچ ہونے لگیں۔ کیونکہ جب کوئی عمارت ہو ہی نہ تو اُس کی مرمت اور اصلاح کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔ ایسی صورت میں انسان صرف یہی کر سکتا ہے کہ اپنے مدّمقابل کے مکان کو گرانے کی کوشش کرے۔ لیکن مسلم لیگ کی کوششوں کے نتیجہ میں جو اسلام زندہ باد کے نعرے بلند ہونے لگے اِس سے مسلم عوام کے دل میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوگیا کہ اب اسلامی احکام کو اُس علاقہ میں جاری کیا جائے گا جو مسلمانوں کے قبضہ میں آئے گا۔ مسلمان اسلام سے غافل تھا ، مسلمان اسلام کی پابندی چھوڑ چکا تھا ، اکثر مسلمانوں نے قرآن کا نام سنا تھا اُسے کھول کر دیکھا نہیں تھا ، مسجدیں خالی پڑی تھیں ، زکوٰۃ جن جن پر واجب تھی وہ اُس کے دینے سے گریز کرتے تھے ، سُود کا عام رواج ہو رہا تھا ، حج کو وہ لوگ تو نہ جاتے تھے جن پر حج فرض تھا ہاں اُن لوگوں میں سے کچھ تعداد جاتی تھی جن پر حج فرض نہیں تھا لیکن اسلام کی محبت مسلمان میں باقی تھی اُس کی عظمت کا وہ قائل تھا۔ وہ اُس پر متواتر عمل کرنے کو تیار نہ تھا لیکن ہنگامی طور پر اُس پر جان دینے پرآمادہ تھا۔ وہ عملاً تو اسلام پر قائم نہ تھا لیکن اُس کے دل کی گہرائیوں میں یہ احساس موجود تھا کہ اسلام پر عمل کرنا اُس کے لئے دینی و دُنیوی طور پر اچھا ہوگا۔ وہ ایک افیون کے نشہ میں مبتلا آدمی کی طرح جو ایسے گھر میں پڑا ہو جس میں آگ لگ چکی ہو خود اپنی کوشش سے تو اپنی حالت کو بدل نہیں سکتا تھا لیکن اُس کے اندر یہ خواہش ضرور تھی کہ کوئی مجھے اُٹھاکر محفوظ جگہ پر ڈال دے۔ وہ یہ چاہتا تھا کہ مجھ سے کوئی حکومت جبر اً اسلام پر عمل کروانے لگے۔ غرض قوتِ عمل اُس کی بیکار تھی لیکن ارادئہ نیک ابھی زندہ تھا۔ مسلمانوں میں سے سیاسی اقتدار حاصل کرنے والے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ جس طرح ہندو مسلمانوں کے خلاف کچھ قانون بنا کر اپنی قوم میں سچا ہندو کہلا سکتا ہے اس طرح ہم ہندوئوں کے خلاف کوئی قانون بنا کر سچے مسلمان نہیں کہلا سکتے۔ کیونکہ ہندو مذہب ایک خیالی چیز ہے اسلام ایک حقیقت ہے۔ خیالی معشوق اور حقیقی معشوق میں فرق ہوتا ہے۔ ایک شاعر اپنے خیالی معشوق کی موجودگی میں دنیا کے سارے کام کرتا ہے مگر ایک نوجوان حقیقی عشق کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد دنیا کے سب کاموں سے محروم ہو جاتا ہے پس مسلمانوں کے سیاسی رہنمائوں میں سے جو مذہبی رنگ رکھتے تھے اُنہوں نے تو اپنے جذبات کے ماتحت یہ فیصلہ کر لیا کہ پاکستان میں کسی نہ کسی رنگ اسلامی قانون جاری کرنا ہوگا اور جو مذہبی رنگ نہیں رکھتے تھے اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ پاکستان میں جو بھی قانون جاری کیا جائے اُسے اسلامی رنگ دینا ضروری ہوگا خواہ ہو بھیڑیا مگر بھیڑ کی کھال اُسے پہنانا ضروری ہے ورنہ عوام الناس مسلمان اُسے قبول نہ کریں گے۔
یہ مختلف خیالات کے لوگ مسلم لیگ میں یا دوسری اسلامی سوسائٹیوں میں ہنگامی طور پر اِس لئے شامل ہوگئے تھے کہ ہندو مسلمان میں کشمکش پیدا ہو رہی تھی اور وہ بھی مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہونے کی وجہ سے اِس کشمکش کے اثرات سے بچ نہیں سکتے تھے۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو مختلف لوگوں کے مختلف سیاسی نظریے پھر روشن ہونے لگے، پھر ان کے مٹے ہوئے نقوش اُبھرنے لگے لیکن اُنہوں نے دیکھا کہ پاکستان کی جنگ اسلام ہی کے نام سے لڑی گئی ہے اور اِسی کے نام کی برکت سے فتح کی گئی ہے۔ اور پھر انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ اسلام ایک معین اور ایک مفصل تعلیم رکھتا ہے اِس کو با لکل پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا۔ محض سیاسی نظریوں کو پیش کر کے اِس کا اثر مسلمانوں کے دلوں سے محو نہیں کیا جا سکتا پس اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ عوام الناس اسلام کے نام پر جان دیتے ہیں مگر قرآن و حدیث کو نہ انہوں نے پڑھا نہ اُس کی تعلیم انہیں معلوم ہے اس لئے اپنے نظریوں کا نام اسلام رکھ دو اور یہ شور مچا دو کہ اسلامی تعلیم کو پاکستان میں جاری کرنا چاہیے۔ اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ عوام الناس کے جوش بھڑکیںگے نہیں۔ جہاں تک اس تعلیم کو لوگوں میں مقبول عام کیا جاسکے گا وہ تعلیم بغیر مذہبی مخالفت کے پاکستان کے سیاسی پروگرام کا جزو بن جائے گی۔ یہ مرض اتنی بڑھی کہ پاکستان کے کمیونسٹ بھی ’’اسلام خطرے میں ہے‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں۔ اپنی نجی گفتگوئوں میں وہ اسلام پر تمسخرے اُڑاتے ہیں اور اسلام کو ایک فرسودہ مذہب قرار دیتے ہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر سٹالن ان کے نزدیک زیادہ شان رکھتا ہے (نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ) اور اسلام سے کمیونزم کے اصول ان کے نزدیک زیادہ شاندار ہیں لیکن کمیونزم کے معروف اصول کے ماتحت وہ کمیونسٹ تعلیم کو اسلامی تعلیم قرار دے کر پاکستانی عوام میں اِس کو مقبول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چونکہ اس کی ظاہری شکل ایسی ہے کہ موجودہ اکثریت اِس کے حق میں چلی جاتی ہے اس لئے اسلام کے نام کی وجہ سے عوام الناس اِن کے بعض اصول کو اپنا لیتے ہیں اور جب دوسرے سیاسی لیڈر یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں فلاں نظریہ عوام میں بہت مقبول ہو گیا ہے تو وہ بھی اس نظریے کو اپنانا اپنی کامیابی کے لئے ضروری سمجھ لیتے ہیں۔چنانچہ ایسے ہی مسائل میں سے ایک ملکیتِ زمین کا مسئلہ ہے ۔
کمیونسٹ تحریک نے مختلف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ شامل ہو کر یہ آواز بلند کرنی شروع کی ہے کہ زمین کی ملکیت کے متعلق ہمارے ملک میں اصلاح کی ضرورت ہے اور جو اصلاح انہوں نے تجویز کی ہے وہ تفصیلاً وہی ہے جو کمیونزم نے تجویز کی ہے لیکن پاکستان کے عوام الناس کے احساسات کا خیال رکھتے ہوئے اس کا نام اسلامی اصلاح رکھا گیا ہے۔ بعض نے تو اسلامی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر ایسی شکل دینے کی کوشش کی ہے کہ لوگ اس تحریک کو اسلامی ہی سمجھیں۔ بعض نے بعض اصولی آیات یا احادیث کولے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کے تعامل کو بالکل نظر انداز کر کے کچھ نئے معنی ان آیات اور احادیث کو دے دئیے ہیں جن سے ان کے نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے اور بعض نے بعض دوسرے طریقے اختیار کئے ہیں جن کی تفصیل میں پڑنے کا یہ موقع نہیں۔ اس پروپیگنڈا سے متأثر ہو کر مسلم لیگ نے بھی زمیندارہ سسٹم کی اصلاح کے متعلق مختلف جگہوں پر کمیٹیاں مقرر کیں۔ بعض جگہ حکومت کے انتظام کے نیچے اور بعض جگہ صرف مسلم لیگ کے انتظام کے نیچے اس مسئلہ پر غور کیا گیا۔ پنجاب، سندھ، صوبہ سرحد اور ایسٹ بنگال میں ایسی کمیٹیاں بنی ہیں اور اُنہوں نے اپنی رپورٹیں پیش کی ہیں اور ان رپورٹوں پر غور کرنے کے بعد مرکزی مسلم لیگ نے بھی ایک کمیٹی مقرر کی ہے جس کی رپورٹ پر غور کرنے کے لئے پھر اس نے ایک اور سب کمیٹی مقرر کی اور اس سب کمیٹی کی رپورٹ پر مسلم لیگ کی مجلس عاملہ نے زمیندارہ اصلاح کے متعلق کچھ اصول تجویز کر کے صوبجاتی حکومتوں کو توجہ دلائی کہ ان اصول کو اپنے ملک میں جاری کرنے کی کوشش کریں۔
مسلم لیگ جس نتیجہ پر پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ زمینداری اور جاگیرداری کو جلد ختم کیا جائے۔ مرکزی مسلم لیگ کے بعض ممبروں یا صوبجاتی مسلم لیگوں کے بعض ممبروں میں اگر کوئی اختلاف ہے تو اِس بارہ میں ہے کہ ان دونوں چیزوں کو کس شکل میں ختم کیا جائے یا کس حد تک ختم کیا جائے۔ یعنی کتنی زمین کسی کے پاس رہنے دی جائے یا کتنی قیمت کسی کو دی جائے لیکن اس پر سارے متفق ہیں کہ زمینداری اور جاگیرداری کو ختم کرنا چاہیے۔
جہاں تک حکومت کے نمائندوں کے فیصلوں کا تعلق ہے مجھے اُس پر بحث کرنے کی نہ ضرورت ہے نہ میں اس کا اہل ہوں کیونکہ سیاسی امور سیاسی لوگوں پر ہی چھوڑ دینے چاہئیں۔ اگر ملک کی اکثریت کوئی قانون بنائے تو اقلیت کا فرض ہے کہ وہ اُس قانون پر عمل کرے۔ ہاں اگر مناسب سمجھے تو آئینی طریقوں سے اس کے بدلوانے کی کوشش کرے۔ پس جہاں تک قانون کا سوال ہے ایک پاکستانی شہری ہونے کے لحاظ سے مجھے حق تو پہنچتا ہے کہ میں اس پر رائے زنی کروں لیکن بوجہ ایک مذہبی آدمی ہونے کے میں سمجھتا ہوں کہ مسئلہ کے اِس حصہ کو میں سیاسی لوگوں پر ہی چھوڑ دوں۔ مگر ایک بات ایسی ہے جس کے متعلق خاموشی کو میں جائز نہیں سمجھتا اور وہ یہ کہ اسلام کے نام پر کوئی ایسی بات کہی جائے جو اسلام سے ثابت نہ ہو۔ اگر ایسا ہو تو پھر ہر مذہبی آدمی کا فرض ہے کہ وہ اُس وقت اسلام کی تعلیم کو واضح کر دے۔ اس وضاحت کو ماننا یا نہ ماننا یہ دوسرے آدمی کا کام ہے لیکن اس کا واضح کر دینا ایک مذہبی آدمی کا فرض ہے اور اگر وہ ایسا نہ کرے تو خدا تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کے سامنے جواب دِہ ہو گا۔
یاد رکھنا چاہیے کہ زمینداری کا طریق اسلام کے بعد جاری نہیں ہوا بلکہ جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے یہ طریق دنیا میں کسی نہ کسی رنگ میں رائج چلا آتا ہے۔ عرب بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک ویران ملک تھا اور اس کی آبادی چند لاکھ افراد پر مشتمل تھی بوجہ صحرائوں اور بیابانوں کی کثرت کے اس میں کھیتی باڑی کم ہوتی تھی مگر پھر بھی کچھ ٹکڑے ایسے تھے جو بہت زرخیز تھے اور ان ٹکڑوں کی آبادی کے لئے چھوٹے چھوٹے قصبے یا شہر ان کے گرد بن گئے تھے۔ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ فرمایا تو اُس وقت ایسے قصبے اور شہر موجود تھے۔ مکہ مکرمہ کے ہمسایہ میں طائف کا علاقہ زمیندارہ علاقہ تھا، طائف سے چل کر مکہ سے آٹھ دس میل کے فاصلہ تک کھجوروں کے باغات اور کھیتوں کا سلسلہ ممتد تھا اور مکہ کے امراء ان باغوں یا کھیتوں کو خرید کر اپنے لئے گزارہ کی صورتیں پیدا کیا کرتے تھے۔ چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کا مجمل اشارہ ملا تو آپ نے اُسی وقت ایک رؤیا کی بناء پر جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ آپ ایک کھجوروں والے علاقہ میں ہجرت کرکے گئے ہیں یہ سمجھا کہ طائف اور مکہ کے درمیان جو نخلہ مقام ہے اور جہاں کھجوروں کے بہت سے باغ ہیں شاید آپ ہجرت کر کے وہاں تشریف لے جائیں گے۔ آپ کا وہ اہم سفر جو طائف کی طرف آپ نے اختیار فرمایا وہ بھی اسی تعبیر کے نتیجہ میں تھا۔ آپ نے خیال فرمایا کہ اگر نخلہ ہی وہ مقام ہے جدھر آپ کو ہجرت کرنی ہوگی تو غالباً طائف کے لوگ آپ پر جلد ایمان لے آئیں گے لیکن خداتعالیٰ کے علم میں وہ مقام نخلہ نہ تھا بلکہ مدینہ منورہ تھا۔۱؎ اس لئے طائف کے لوگوں نے بجائے ایمان لانے کے آپ پر پتھر برسائے اور آپ کو سخت ایذائیں دیں۔۲؎ یمن بھی ایک زرعی ملک ہے، دارلہجرت مدینہ منورہ بھی ایک زرعی علاقہ ہے، بحرین کا علاقہ بھی زرعی ہے اور کئی دوسرے عرب علاقے بھی زرعی ہیں۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ کے وقت عرب میں زراعت کی جاتی تھی۔ لوگ زمینوں کے مالک تھے، بڑے مالک بھی اور چھوٹے مالک بھی، اِس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام کے سامنے یہ مسئلہ نہیں آیا اس لئے اس نے اس مسئلہ کے متعلق کوئی روشنی نہیں ڈالی یا اس کے متعلق کوئی تفصیلات بیان نہیں کیں۔ ہمارے نزدیک تو اسلام خداتعالیٰ کا بھیجا ہوا مذہب ہے اور خداتعالیٰ عالم الغیب ہے۔ وہ آئندہ آنے والے امور کے متعلق بھی قرآن کریم میں راہنمائی فرماتا ہے لیکن بعض مادی خیال کے لوگ ایسی دلیلیں بعض دفعہ پیش کر دیا کرتے ہیں کہ فلاں بات اسلام کے وقت میں نہیں تھی اس لئے اسلام میں اس کے متعلق اس تعلیم کا ملنا مشکل ہے۔ ایسے لوگوں کا منہ بند کرنے کیلئے میں کہتا ہوں کہ زمین کی ملکیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پائی جاتی تھی اور یہ سوال پوری طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا۔ پس ایسا سوال جو آپ کے سامنے آیا، ایسا معاملہ جو خود آپ کی ذات سے گزرا اور آپ کے صحابہؓ کے ساتھ پیش آیا اُس کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ اسلام نے اس کے بارہ میںکوئی تعلیم نہیں دی یہ گویا اِس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ اسلام ایک نا مکمل مذہب ہے بلکہ ناقص مذہب ہے جس نے آئندہ زمانوں کے مسائل کو تو کیا حل کرنا تھا اپنے زمانہ کے اہم مسائل کو بھی اِس نے نہ حل کیا نہ چھیڑا( نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ)
اگر اسلام نے اِس مسئلہ کے متعلق کوئی روشنی نہیں ڈالی تو بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہؓ نے زمینوں کے متعلق کوئی نہ کوئی طریق عمل تو اختیار کیا ہوگا کیونکہ اسلام کی حکومت میں زمیندار بستے تھے ، اور زمینداروں اور ان کے مزارعوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوتے تھے اور تصفیہ کے لئے وہ حکام کے سامنے پیش بھی ہوتے رہتے تھے۔ اگر نَعُوْذُبِاللّٰہِ اسلام نے کوئی تعلیم نہیں دی تھی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ نے کوئی عقلی فیصلہ اسلامی اصول کی روشنی میں اس بارہ میں ضرور کیا ہوگا۔ اور اگر ایسا کوئی فیصلہ کیا تھا تو وہ فیصلہ ہزاروں ہزار مسلمانوں کے عمل میں بھی آیا ہوگا۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی چونکہ زمین تھی آپ کے عمل میں بھی آیا ہوگا۔آپ کے خلفاء کے پاس بھی زمین تھی ان کے عمل میں بھی آیا ہوگا۔ آپ کے صحابہ ؓ میں سے حضرت ابوبکرؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ، حضرت علی ؓ، حضرت زبیر ؓ اور بہت سے اکابر صحابہؓ کی زمینداریوں کا ثبوت حدیثوں اور تاریخوں سے ملتا ہے اور انصار تو قریباً سب کے سب زمیندار تھے ان لوگوں کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا لائحہ عمل پیش کیا تھا؟ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی خیبر کی فتح کے بعد زمین آگئی تھی۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے کیا طریق عمل پسند فرمایا تھا؟ اس سوال کو ہم نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ہمارے لئے اتنا ہی کافی نہیں کہ ہم قرآن کریم کی بعض آیات کا غلط یا صحیح مفہوم نکال کر ایک قانون بنا دیں بلکہ ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ قرآن کریم کی اس آیت کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا معنی کئے اور اس پر کس شکل میں عمل کیا۔ کیونکہ یہ مسئلہ صرف اعتقادی نہیں کہ اسے صرف اصولی احکام سے حل کیا جائے بلکہ عملی ہے جس کی تفصیلات پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود عمل کیا اور دوسروں سے عمل کروایا۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صاف طور پر فرماتا ہے۔ ۳؎ یعنی تو ہمارے پہلے بھیجے ہوئے بزرگوں کے طریق پر عمل کر۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ جب تک قرآن کریم کا کوئی حکم نازل نہیں ہوتا تھا آپ تورات کے بتائے ہوئے طریق اور انبیائے سابق کے عمل کی اتباع فرمایا کرتے تھے۔ مثلاً قبلہ کا مشہور مسئلہ ہے۔ جب تک قبلہ کے متعلق کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ آپ خانہ کعبہ کی اُس سمت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے تھے جس سمت میں خانہ کعبہ بھی آپ کے سامنے آجاتا تھا اور بیت المقدس کی مسجد بھی آپ کے سامنے آجاتی تھی۔ اِس ذریعہ سے آپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت پر بھی عمل کر لیتے تھے اور بنی اسرائیل کے انبیاء کی سنت پر بھی عمل کر لیتے تھے۔ جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو چونکہ مدینہ منورہ بیت المقدس اور مکہ مکرمہ کے درمیان میں ہے اور دونوں طرف ایک ہی وقت میں منہ نہیں کیا جاسکتا اس لئے آخری زمانہ کے انبیاء کا احترام کرتے ہوئے آپ نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع کردی لیکن بعد میں قرآن کریم میں قبلہ کا حکم نازل ہوگیا اور پھر آپ نے خانۂ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنی شروع کر دی۔۴؎
اِسی طرح اور بہت سے مسائل ملتے ہیں جن میں رسول کریم ﷺ نے احکامِ قرآنیہ کے نزول سے پہلے بنی اسرائیل کے انبیاء کے طریق کو اختیار کئے رکھا اور تاریخ اور حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپ بِالارادہ یہ کام کرتے تھے۔ پس جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم ہے کہ جہاں اور جب تک کوئی نص نہ ملے پُرانے انبیاء کے طریق کو اختیار کر لیا کرو تو کیا یہ بات خیال میں آسکتی ہے کہ اگر بِالفرض کوئی نص قرآن کریم میں موجود نہیں تو ایک مسلمان کو یہ اجازت ہے کہ وہ اپنی عقل سے اپنے لئے رستہ تجویز کرے اور رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہؓ کے طریق عمل کو نہ دیکھے۔ خدا تعالیٰ نے اپنی فرمانبرداری اور اطاعت کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری اور اطاعت بھی واجب کی ہے اور میرا تو یہی عقیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کرتے تھے وہ کلی طور پر اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت کرتے تھے لیکن فرض کرو کسی کا یہ عقیدہ نہیں تو بھی اُس کو یہ ماننا پڑے گا کہ اگر کسی معاملہ میں اُس کو قرآنی ہدایت نہیں ملتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل اور آپ کے ارشاد میں سے اسے اسلام کی اصولی تعلیم کا صحیح مفہوم ملے گا۔ اِس تمہید کے بعد جاگیرداری اور زمینداری کے متعلق جو مختلف سوال پیدا ہوسکتے ہیں یا ہوئے ہیں ان کے متعلق میں قرآن کریم اور حدیث اور ائمۂ اسلام کی تعلیم اور ان کا تعامل پیش کرنا چاہتا ہوں تا مسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ اسلام کی رائے اس مسئلہ کے متعلق کیا ہے اور کوئی بات اسلام کے نام سے ایسی نہ کہی جائے جس کو اسلام نے پیش نہیں کیا۔
پہلا باب
اِسلام نے ملکیّتِ اشیاء کے متعلق کیا قانون مقرر کئے ہیں؟
دنیا میں بہت سے جھگڑے اِس بناء پر پیدا ہوتے ہیں کہ ملکیت اشیاء کس کی ہے؟ بعض ملکیت حکومت کا حق سمجھتے ہیں، بعض قوم کا، بعض خاندان کا اور بعض فرد کا۔ اور پھر ملکیت کے بعد تصرف اور کسی چیز سے نفع حاصل کرنے کے متعلق بھی وہ اختلاف رکھتے ہیں۔ بعض مقبوضہ چیزوں سے نفع اُٹھانے کے غیر محدود حق کو تسلیم کرتے ہیں اور بعض لوگ محدود حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ اسلام نے اِس بارہ میں جو تعلیم دی ہے وہ مندرجہ ذیل ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ ۵؎ یعنی اللہ ہی ہے کہ جس نے آسمانوں اور زمین اور جو کچھ ان کے درمیان میں ہے ان سب کو چھ زمانوں میں پیدا کیا اور پھر وہ عرش پر قائم ہو گیا۔
دوسری جگہ اِسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ۶؎ یقینا تمہارا ربّ وہ اللہ ہے جس نے کہ آسمانوں اور زمین کو چھ زمانوں میں پیدا کیا۔ پھر تمام مخلوق کا انتظام کرتے ہوئے وہ عرش پر قائم ہو گیا۔ یہ مضمون قرآن کریم میں مختلف جگہ پر آیا ہے۔ مثلاً سورئہ لقمان میں، سورئہ زخرف میں، سورئہ زمر میں، سورئہ ہود میں، سورئہ حدید میں اور مختلف اَور سورتوں میں۔ ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان اور جو کچھ اِن میں ہے سب اللہ ہی کا پیدا کیا ہوا ہے اس لئے اُسی کو حق ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے متعلق کو ئی قانون بنائے اور اس مخلوق کا نظام چلانے کے متعلق کوئی اصول تجویز کرے۔ اِس مضمون کی مزید تشریح کیلئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۷؎ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ جس نے زمین میں جو کچھ بھی ہے وہ تم سب کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے۔ اِس آیت میں اِس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ زمین میں جو کچھ ہے وہ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے بنایا گیا ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے زمین اور اُس کے ساتھ کی متعلقہ چیزوں کو خدائی قانون کے مطابق فائدہ اُٹھانے کے لئے انسان کو بحیثیت مجموعی بخش دیا ہے۔ اسلام کے مختلف احکام اِسی مسئلہ کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ مثلاً جب جانور ذبح کیا جاتا ہے تو کہی جاتی ہے۔ جس میں اِس طرف اشارہ ہوتا ہے کہ یہ جانور اصل میں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور اُس کی اجازت سے میں اِسے ذبح کر رہا ہوں۔ ہر چیز کے کھانے سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ اس کے بھی یہی معنی ہو تے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ کی اجازت سے اِس کھانے کو استعمال کرنے لگا ہوں۔ یہ کھانا اصل میں اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اور کھانے کے بعد کہی جاتی ہے۔یہ جملہ ایسا ہی ہے جیسے انسان کو کوئی تحفہ دیتا ہے تو اُس کے مقابلہ میں جَزَاکُمُ اللّٰہُ کہا جاتا ہے۔ کے معنی ہیں سب تعریف اللہ ہی کی ہے یعنی یہ تحفہ بھی خدا نے ہی دیا ہے اور باقی سب چیزیں جو مجھے ملتی ہیں وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتی ہیں۔ اِسی طرح جب جانور پر سواری کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ ۸؎ یعنی یہ جانور بھی اصل میں خدا کا ہے اور اُسی نے مجھے دیا ہے تاکہ میں اس سے فائدہ اُٹھائوں۔ تسخیر کے ایک معنی عربی زبان میں یہ بھی ہوتے ہیں کہ کسی کو مفت فائدہ اُٹھانے کے لئے کوئی چیز دینا۔ ۹؎ پس اس حکم کے معنی یہی ہیں کہ انسان جب کسی جانور سے فائدہ اُٹھائے تو اقرار کرے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے اور یہ عارضی طور پر مجھے فائدہ اُٹھانے کے لئے دیا گیا ہے۔
غرض مختلف احکامِ شریعت کو اوپر بیان کئے ہوئے مضمون کی تشریح کے طور پر اسلام نے بیان کیا ہے اور بار بار ایک مسلمان کے ذہن میں یہ بات راسخ کی گئی ہے کہ ملکیت اشیاء اللہ تعالیٰ کی ہے اِس لئے کہ اُس نے اِن چیزوں کو پیدا کیا ہے اور جو پیدا کرتا ہے وہی چیز کا مالک ہوتا ہے دوسرا مالک نہیں ہوتا۔ دوسرے کی ملکیت مستعار ہوگی یعنی مالک کے دیئے ہوئے حقوق کے مطابق اُس کو حقوق حاصل ہونگے اُس سے زیادہ نہیں۔
اب رہا یہ سوال کہ کیا خدا تعالیٰ کلّی طور پر کسی کو ملکیت دے دیتاہے؟ تو اس کا جواب بھی قرآن کریم میں بیان ہے۔ اللہ تعالیٰ سورئہ نحل میں فرماتا ہے۔ ۱۰؎ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے پس وہ جن کو دوسروں پر رزق میں فضیلت حاصل ہے وہ اپنے غلاموں کو اس طرح اپنے مال کا مالک نہیں بناتے کہ وہ غلام اُن کے ساتھ ملکیت میں برابر کے شریک ہو جائیں۔ پھر کیا یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا جان بوجھ کر انکار کرتے ہیں؟ یعنی جو لوگ یہ تعلیم پھیلاتے ہیں کہ خداتعالیٰ کی بعض مخلوق فرشتے، جن یا بُت یا انسان خدائی طاقتیں رکھتے ہیں اور جب اعتراض کیا جائے تو یہ جواب دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی طاقتیں ان کے سپرد کردی ہیں ہم اُن سے یہ کہتے ہیں کہ کیا کبھی تم نے بھی ایسا کیا ہے کہ اپنے مالوں میں اپنے غلاموں کو برابر کا شریک کر لو؟ اگر تم نے کبھی ایسا نہیں کیا تو تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ کیونکر خیال کرتے ہو کہ وہ اپنی مملوکہ اشیاء میں دوسروں کو برابر کا شریک کر لے گا۔ اِس قسم کا خیا ل تو تبھی آسکتا ہے جبکہ انسان دل میں یہ سمجھتا ہو کہ اصل میں یہ دُنیا خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ نہیں کچھ دوسری ہستیوں کا بھی اِس کے پیدا کرنے میں دخل ہے اور اس لئے وہ اس کی مالک ہیں۔اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کلّی ملکیت کبھی کسی دوسرے کو نہیں دیتا۔ اصل ملکیت ہر چیز کی اللہ تعالیٰ ہی کے قبضہ میں ہے دوسروں کی طرف ایک محدود ملکیت منتقل کی جاتی ہے۔ خلاصہ یہ کہ اسلام کے نزدیک تمام مخلوقات کا مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے اور یہ ملکیت اُس کو بوجہ مخلوقات کا خالق ہونے کے حاصل ہوئی۔ جبر یا ورثہ سے نہیں ملی یعنی یہ ملکیت اس کی خالص اور منصفانہ ہے۔ اِس میں کسی اور کی ملکیت کا حق غصب نہیں کیا گیا نہ کسی سے حق مستعار لیا گیا ہے۔ ہاں آگے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو بہت حد تک زمین اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزوں کی ملکیت بخش دی ہے اور جیسا کہ دوسری آیات سے پتہ لگتا ہے ایک حد تک زمین سے باہر کی اشیاء پر بھی اس کو فائدہ اُٹھانے کا حق بخشا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۱؎ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے فائدہ کے لئے آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ بھی ہے سب کا سب تمہیں مفت فائدہ اُٹھانے کے لئے عطا فرمایا۔ اس میں سوچنے والے لوگوں کے لئے بڑے بھاری نشانات ہیں۔
اس آیت میں دو باتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔ اوّل یہ کہ زمین میں جو کچھ ہے وہ تو ظاہری طور پر انسان کے سپرد ہے ہی مگر زمین کے اوپر اور بلندیوں میں جو کچھ ہے اس سے بھی انسان فائدہ اُٹھا سکتا ہے اور اُٹھاتا ہے اور یہ بات شریعت یا اسلام کے خلاف نہیں۔ دوسری بات یہ بتائی گئی ہے کہ انسان کو اپنی علمی ترقی میں صرف زمینی چیزوں پر غور کرنے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ انسان کی ایجاد کا سلسلہ آسمانی چیزوں تک ممتد ہے۔ نظر آنے والی روشنی کی شعاعیں اور نہ نظر آنے والی شعاعیں اور آسمانی ستاروں کی سرگرمیاں اور اَور کئی چیزیں معلوم اور غیرمعلوم اَن گنت ایسی ہیں جن کو انسان غور کر کے معلوم کر سکتا اور اپنے فائدہ کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ پس انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے صرف زمین پر ہی قبضہ نہیں ملا بلکہ زمین سے پیدا ہونے والی یا ان سے پیدا ہونے والی تمام چیزوں پر قبضہ ملا ہے اور ان سب چیزوں کو استعمال کرتے وقت انسان خدا تعالیٰ کا اجیر ہوتا ہے،کامل مالک نہیں ہوتا۔ حتیّٰ کہ جس دماغ سے انسان کام لیتا ہے اُس کا مالک بھی خُدا ہے۔ اور اس سے فائدہ اُٹھاتے وقت بھی انسان اپنی کامل ملکیت کی چیز سے فائدہ نہیں اُٹھا رہا ہوتا بلکہ خداتعالیٰ کی مشروط طور پر دی ہوئی چیز سے ایک مشروط حد تک اور مقید حد تک فائدہ اُٹھا رہا ہوتا ہے۔ اور جس طرح زمین کی تمام چیزیں تمام بنی نوع انسان کی ملکیت ہیں اِسی طرح ان سے آگے نکلی ہوئی تمام چیزیں بھی تمام بنی نوع انسان کی ملکیت ہیں حتی کہ خود تمام انسان بھی ایک رنگ میں تمام بنی نوع انسان کی ملکیت ہیں۔ اگر یہ نہ ہوتا تو اسلام کیوں تمام بنی نوع انسان کے ذمہ یہ خدمت لگاتا کہ وہ اپنے دوسرے بھائیوں کی خدمت کریں۔
در حقیقت یہ ملکیت کا مسئلہ قرآن کریم نے صرف ایک اعتقادی مسئلہ کے طور پر بیان نہیں کیا بلکہ اسلامی احکام کی اس میں تشریح اور توضیح کی ہے۔ اسلام کہتا ہے سچ بولو اور اسلام کہتا ہے لوگوں سے سچ بلوائو۔ ایک انسان کہہ سکتا ہے کہ مجھے یہ حکم کیوں دیا جارہا ہے۔ آخر خدا کو اس سے کیا واسطہ ہے؟ خدا تعالیٰ اِس کا جواب یہ دیتا ہے کہ یہ دنیا بھی مَیں نے پیدا کی، دوسری مخلوقات بھی میں نے پیدا کیں اور تم کو بھی میں نے پیدا کیا ہے۔ جس طرح دنیا کا ہر ذرہ میں نے تمہارے لیے پیدا کیا ہے تم کو میں نے دنیا کی باقی مخلوق کے لئے پیدا کیا ہے۔ جس طرح کہہ کر باقی مخلوق کو تمہاری ملکیت بنایا گیاہے اسی طرح اِس فقرہ سے تم بھی تو دوسرے انسانوںکے مملوک ہو جاتے ہو۔ کیونکہ تمام انسان بھی میں شامل ہیں۔پس جس طرح زمین کا ہر ذرّہ تمام نوعِ انسان کیلئے ہے اِسی طرح زمین کا ہر فرد تمام بنی نوع انسان کیلئے بلکہ ساری مخلوقات کیلئے ہے اور یہ ملکیت درحقیقت ایک غیر متناہی دائرہ کی صورت میں اِس دنیا میں قائم کی گئی ہے۔ اس وجہ سے ہر ذرّہ اور ہر فرد پر خدا تعالیٰ کی طرف سے حق ہے کہ وہ دوسرے ذرّات اور دوسرے افراد کی خدمت کرے۔ اسلام کی ساری تعلیم اِسی نکتہ کے ماتحت ہے اِس سے باہر نہیں۔ دوسرے مذاہب نے بھی خدمتِ خلق وغیرہ کے مسائل بیان کئے ہیں لیکن اُنہوں نے اِن مسائل کے جواز کی کوئی صورت پیش نہیں کی۔ اسلام نے اِس حقیقت کو بیان کر کے ان تمام احکام کے جائز اور درست ہونے کی دلیل مہیا کردی ہے۔ ہاں یہ بھی قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ یہ تمام باہمی ایک دوسرے پر ملکیت کے حقوق خدا تعالیٰ کے بیان کردہ قواعد کے ماتحت ہونگے اُن سے باہر نہیں ہونگے کیونکہ ملکیت خدا تعالیٰ کی ہے کسی اَور کی نہیں۔ اور جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اللہ تعالیٰ نے جنسی ملکیت کے علاوہ جو تمام بنی نوع انسان کو دنیا کی تمام اشیاء پر حاصل ہے فردی ملکیت کو بھی تسلیم فرمایا ہے۔ جیسا کہ خود فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہی تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت دی ہے۔ اگر فردی ملکیت مسَلَّم نہیں تو کسی شخص کو دوسرے پر رزق میں جائز طور پر فضیلت حاصل ہی نہیں ہو سکتی۔
میں نے جو اِن آیات کی تشریح کی ہے میری اِس تشریح کے ساتھ پُرانے ائمہ بھی متفق ہیں۔چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب اپنی کتاب حجۃ اللہ البالغہ جلد۲صفحہ۹۲ پر تحریر فرماتے ہیں:۔
ان الکل مال اللّٰہ لیس فیہ حق لاحد فی الحقیقۃ لکن اللّٰہ تعالی لما اباح لھم الانتفاع بالارض وما فیھا وقعت المشاحۃ فکان الحکم حینئذ ان لا یھیج احد مما سبق الیہ من غیر مضارۃ فالارض المیتۃ التی لیست فی البلادو لافی فناء ھا اذا عمرھا رجل فقد سبقت یدہ الیھا من غیر مضارۃ۔ ۱۲؎
یعنی جو کچھ بھی اِس دنیا میں ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا مال ہے۔ حقیقی ملکیت اس میں کسی اَور کو حاصل نہیں لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو زمین اور جو کچھ اس میں ہے اُس سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت دی ہے اس لئے بوجہ ملکیت کی مشارکت کے اعلان کے باہمی اختلافات کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ پس اِس مخالفت کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ جو شخص کسی دوسرے فرد کے حق کو نقصان پہنچائے بغیر کسی چیز پر پہلے قبضہ کر لے وہ اُسی کی ملکیت سمجھی جائے گی۔ چنانچہ وہ زمین جو شہری حدود میں نہ ہو اور نہ شہر کے گرد کے علاقہ میں ہو اور کسی کے قبضہ میں نہ ہو جب اُسے کوئی شخص قبضہ میں لے آئے تو اُس کا قبضہ صحیح سمجھا جائے گا اور باوجود اِس کے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت دنیا کی ہر چیز کے تمام انسان مشترک مالک ہیں اُس حصہ پر اُس شخص کی منفرد ملکیت تسلیم کر لی جائے گی اور کسی کو اختلاف کرنے کا حق نہ ہو گا۔ اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب بھی اسلام کی مالکیت کے متعلق تعلیم میں وہی عقیدہ رکھتے ہیں جو میں نے قرآن کریم سے استدلال کر کے اوپر بتایا ہے۔ اور ان کے نزدیک بھی تمام اشیاء کا مالک اللہ تعالیٰ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی اجازت اور اس کے ارشاد کے ماتحت کھیتوں اور دوسری چیزوں کی ملکیت فردِ واحد حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ فقرہ بھی لکھا ہے کہ معنی الملک فی حق الادمی کونہ احق بالا نتفاع من غیرہ۱۳؎ آدمی کے حق میں ملکیت کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ وہ دوسرے شخص کی نسبت زیادہ فائدہ اُٹھانے کا شرعاً حقدار ہوتا ہے۔
حدیث کی کتاب ابو دائود میں آتا ہے۔ من سبق الی مالم یسبق الیہ مسلم فھولہ۱۴؎ جو شخص کسی ایسی چیز پر قبضہ کر لے جس پر پہلے کسی اور مسلمان نے قبضہ نہیں کیا تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے۔
اِسی طرح حنفیوں کی مشہور کتاب ھدایہ میں لکھا ہے من سبقت یدہ الی مال مباح ملکہ۱۵؎ جس نے دوسرے سے پہلے کسی ایسی چیز پر قبضہ کر لیا جس کا کوئی فرد مالک نہیں تو وہی اُس کا مالک ہوگا۔
امام ابو حنیفہ ؒصاحب اِس بارہ میں یہ قید لگاتے ہیں کہ لایجوز احیاء الارض الا باذن الامام۔ غیر مملوکہ یا غیر مزروعہ زمین (جس پر اس سے پہلے تاریخی زمانہ میں زراعت نہیں ہوئی) پر اُسی وقت دوسرے شخص کو قبضہ کرنے کی اجازت ہو سکتی ہے جب کہ امام اِس کی اجازت دے(یا اُن دنوں کی حکومت اس کی اجازت دے تب اس زمین پر قبضہ ہو سکتا ہے)
اوپر کی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ کسی شخص کو کسی دوسرے شخص کی زمین پر قبضہ کرنے کا حق نہیں۔ اگر کسی شخص کے پاس زمین ہو اور وہ اسے زیر کاشت نہ لاتا ہو یا اور کسی کام میں نہ لاتا ہو یا حکومت کی زمین ہو جو اُفتادہ پڑی ہو تو اُس پر دوسرے لوگوں کو جن کے پاس زراعت کے لئے زمین نہ ہو قبضہ کرنے کا حق ہے بشرطیکہ حکومت کی طرف سے اِس کی اجازت ہو(یہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا استدلال ہے جو اُنہوں نے ایک اصولی حدیث سے کیا ہے اور عقل اس پر شاہد ہے کہ جس جگہ کوئی حکومت ہو اُس جگہ اُس کے قاعدہ کی پابندی لازمی ہے ورنہ فتنہ و فساد کا دروازہ کھل جاتا ہے) اور یہی قانون زمین کے سِوا دوسری اشیاء کے بارہ میں بھی ہے۔ چنانچہ بخاری میں آتا ہے۔
عن زید بن خالدؓ قال جاء رجل الی رسول اللّٰہ ﷺ فسالہ عن اللقطۃ فقال اعرف عفا صھا ووکاء ھا ثم عرفھا سنۃ فان جاء صاحبھا و الا شانک بھا قال فضالۃ الغنم؟ قال ھی لک اولاخیک او للذئب قال فضالۃ الابل؟ قال مالک ولھا معھا سقاء ھا وحذاوھا ترد الماء وتاکل الشجر حتی یلقاھاربھا۔۱۶؎
یعنی حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے عرض کیا کہ اگر مجھے راستہ میں کوئی گری پڑی چیز مل جائے تو اُس کے بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو اُس کے بٹوے کو اور اُس کے منہ باندھنے والے تسمہ کو اچھی طرح پہچان رکھ اور ایک سال تک لوگوں میں اعلان کر۔اگر اِس عرصہ میں اُس کا مالک تجھے مل جائے تو تُو وہ چیز اُس کے حوالہ کر اور اگر نہ ملے تو پھر اُس روپیہ کو تُو جہاں چاہے خرچ کر لے۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر کوئی گم شدہ بکری مجھے مل جائے تو اُس کے بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے؟ آپ نے فرمایا۔ تُو اُسے اپنے قبضہ میں لے لے کیونکہ یا تو وہ تیرے ہاتھ آئے گی یا تیرے کسی بھائی کے ہاتھ میں آئے گی یا کسی بھیڑیئے کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر کوئی گُم شدہ اونٹ مجھے مل جائے تو اس کے بارہ میں حضور کا کیا ارشاد ہے؟ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تیرا اونٹ سے کیا واسطہ۔اُس کا پانی اُس کے پاس ہے اور اُس کی ٹانگیں بھی موجود ہیں وہ پانی پی کر اور درختوں کے پتے وغیرہ کھا کر زندہ رہ سکتا ہے یہاں تک کہ اُس کا مالک اُسے ڈھونڈ لے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ زمین کے علاوہ دوسری اشیاء کے لئے بھی یہی قاعدہ ہے کہ جس چیز کا مالک کوئی نہ ہو وہ جسے ملے اُس پر قبضہ کر سکتا ہے بشرطیکہ پہلے مناسب جگہوں پر اعلان کردے لیکن وہ اشیاء جو خود اپنی فکر کر سکتی ہیں اُن پر قبضہ کرنا خواہ اُن کا مالک نظر نہ آتا ہو جائز نہیں۔ چنانچہ جب اُس شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پُوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! اگر مجھے ایک اونٹ نظر آئے جس کا مالک پاس نہ ہو تو کیا میں اُس پر قبضہ کرلوں؟ تو آپ نے فرمایا اُس کا کھانا (جنگل کے کانٹے) اور اُس کا پانی اُس کے پاس ہے پھر تجھے اُس سے کیا کام۔ یعنی یہ حکم تو اُن اشیاء کے بارہ میں ہے جن کے ضائع ہو جانے کا ڈر ہے اگر مالک اُن کا وقت پر نہ پہنچے گا تو وہ ضرور ضائع ہو جائیں گی اِس لئے جس کو مل جائیں وہ اُن پر قبضہ کر لے۔ اگر اُن کو کچھ عرصہ تک سنبھال کر رکھا جاسکتا ہو تو سنبھال کر رکھا جائے اور اُن کے بارہ میں اعلان کیا جائے اگر پھر بھی مالک نہ ملے تو اپنے کا م میں لایا جائے۔اگر سنبھال کر نہ رکھا جاسکے مثلاً سڑنے والی اشیاء تو اِس بات کی تسلّی ہو جانے پر کہ اُن کا مالک کہیں چلا گیا ہے اُن کو استعمال کر لیا جائے۔ ظاہر ہے کہ زمین ان چیزوں میں سے نہیں کہ اس کا ضائع ہونے کا ڈر ہو اس لئے اس کے بارہ میں وہی قانون جاری ہوگا جو اونٹ کے بارہ میں ہے کہ جب اونٹ خود اپنی حفاظت کر سکتا ہے تو مالک کا پاس نہ ہونا دوسرے کو اُس پر قبضہ کر لینے کا حق نہیں دیتا۔ ہاں چونکہ اس کے بیکار پڑا رہنے سے ملک کو نقصان پہنچتا ہے اِس لئے حکومت کو حق ہے کہ مالک کو نوٹس دے کہ زمین کو آباد کرے۔ اگر وہ پھر بھی آباد نہ کرے تو وہ اُسے دوسرے لوگوں میں تقسیم کردے۔گو میرے نزدیک اُس وقت بھی حکومت کا فرض ہوگا کہ اُس کی مناسب قیمت مالک کو دے یا کوئی مناسب سمجھوتہ مالک اور نیا قبضہ کرنیوالے لوگوں میں کر وادے۔
میری دلیل اِس بارہ میں یہ ہے کہ بلال بن حارث مزنی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو زمین ملی تھی جب وہ اُس کو آباد نہ کر سکے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُن سے وہ زمین چھینی نہیں بلکہ اُنہیں بُلا کر سمجھایا اور آخر اُن کی اِس شرط کو قبول کرلیا کہ میںزمین تو چھوڑتا ہوں لیکن اس زمین کی کانیں سب میری ملکیت ہونگی۔۱۷؎ اِس حدیث سے یہ نتیجہ نکلا کہ حکومت کی اپنی عطا کردہ اُفتادہ زمین کو بھی حکومت مُلک کی اقتصادی حالت کے درست کرنے کے لئے واپس تو لے سکتی ہے لیکن اُسے مالکوں سے معاہدہ کرنا پڑے گا جبراًایسی زمین حاصل نہیں کرسکتی۔
ملکیت زمین کے متعلق آئمّہ اہل تشیع کا بھی وہی خیال ہے جو اہل السنت کا ہے۔ چنانچہ فروع الکافی جلد ۲ صفحہ ۱۰۸ میں جو اہل تشیع کے نزدیک حدیث کی ویسی ہی مستند کتاب ہے جیسی اہل السنت کے نزدیک بخاری اور مسلم ہیں یہ حدیث آتی ہے کہ عن معاویۃ بن وھب قال سمعت ابا عبداللّٰہ یقول…… ان الارض للّٰہ ولمن عمرھا یعنی معاویہ بن وہب کہتے ہیں یعنی امام ابو عبداللہ علیہ اسلام سے سنا کہ زمین کا اوّل مالک اللہ ہے اور اس کے بعد وہ شخص مالک ہے جس نے اُسے آباد کیا ہے۔ پس اس سوال کے متعلق کہ آیا افراد زمین کے مالک ہو سکتے ہیں یا نہیں؟ تمام مسلمان فرقے متفق ہیں اور اُن کا یہ فیصلہ ہے کہ افراد زمین کے مالک ہو سکتے ہیں مگر وہ ملکیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہوگی کیونکہ اصل مالک وہ ہے۔
اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ جب زمین اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہے تو کیا حکومت کو جو خداتعالیٰ کی ظل ہے اِس بات کا اختیار حاصل نہیں کہ وہ ملکیت زمین کے متعلق کوئی نیا قانون جاری کردے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ نہیں۔ظلّی حکّام کی حکومت اُس طرح محدود ہوتی ہے جس طرح ظلّی مالک کی ملکیت محدود ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول نے جہاں ظلّی مالکوں کے لئے کچھ قیود مقررکی ہیں وہاں ظلّی حاکموں کے لئے بھی اُس نے کچھ قیود مقرر کردی ہیں اور وہ قیود یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول اور السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے فیصلہ کے خلاف کوئی نیا قانون جاری نہیں کیا جاسکتا اور زمین کا معاملہ ایسا ہے جس کے متعلق خداتعالیٰ کا فیصلہ بھی موجود ہے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ بھی موجود ہے اور خلفائے اربعہ اور اَئمہ صحابہ کا فیصلہ بھی موجود ہے۔ اس صورت میں کسی حکومت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے آپ کو ظل اللہ قراردے کر کوئی نیا قانون بنادے۔ وہ اُن امور میں بے شک نئے قانون بناسکتی ہے جن کے متعلق خدا اور اس کا رسول اور السَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ صحابہؓ خاموش ہیں لیکن اُن امور کے متعلق وہ کوئی نیا قانون نہیں بناسکتی جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے کوئی روشنی ڈالی ہے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کے سامنے وہ معاملات پیش ہوئے ہیں اور اُنہوں نے اُن کے متعلق اصولی یا جزوی فیصلے کئے ہیں۔ اگر ظلّی حکاّم کو یہ اختیار حاصل ہو کہ وہ خدا اور اُس کے رسول اور اکثریت صحابہ کے فیصلوں کو ردّ کر کے کوئی نیا فیصلہ جاری کردیں تو پھر ظلّی مالکوں کو بھی حق ہے کہ وہ اُن تمام حدبندیوں اور قیود کا انکار کردیں جو خدا اور رسول اور صحابہ کرامؓ کی طرف سے اُن پر عائد ہیں۔ ظل بہر حال اصل کے تابع ہوتا ہے وہ حاکم ہو یا مالک اُس کی حکومت بھی محدود ہے اور اُس کی مالکیت بھی محدود ہے۔ یہ میں آگے چل کر تفصیل سے بیان کروں گا کہ اِس بارہ میں خدا اور اُس کے رسول اور اکثریت صحابہؓ نے کیا فیصلہ کیا ہے۔
دوسراباب
کیا زمین کو اسلام نے فردِ واحد کی ملکیت اُن معنوں میں قرار دیا ہے جن معنوں میں کہ دوسری چیزوں کی ملکیت ہوتی ہے؟
اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو آیات اوپر لکھی گئی ہیں ان میں زمین اور غیر زمین میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ ان آیات میں صاف بتا دیا گیا ہے کہ ہر چیز خداتعالیٰ نے پیدا کی ہے اس لئے ہر مخلوق خدا تعالیٰ کی مِلک ہے۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ زمین کے ساتھ تعلق رکھنے والی ہر چیز اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے بخشی ہے۔ اوپر کی آیت میں جو ارض کا لفظ ہے اُس سے مراد کھیتی نہیں بلکہ کرئہ ارض ہے اور اُس میں سے نکلی ہوئی چیز کے معنی سبزی، ترکاری یا غلّہ نہیں بلکہ کرئہ ارض کے اوپر یا نیچے ہر ایسی چیز جس پر انسان قبضہ کر سکتا ہے مراد ہے۔ بلکہ اس زمین سے نکلی ہوئی چیزوں سے جو چیز آگے بنائی جائے وہ بھی مراد ہے کیونکہ کسی کی دی ہوئی لکڑی سے،کسی کے دیئے ہوئے ہتھیاروں کی مدد سے ،کسی کے دیئے ہوئے ہاتھ اور دماغ کے ذریعہ سے جو چیز بنے گی اُس کا مالک بھی وہی ہوگا جس کی لکڑی تھی، جس کے ہتھیار تھے، جس نے ہاتھ اور دماغ بنایا تھا۔ پس خداتعالیٰ صرف کھیتوں ہی کا مالک نہیں بلکہ خدا تعالیٰ روئی کا بھی مالک ہے، لکڑی کا بھی مالک ہے، لوہے کا بھی مالک ہے، جڑی بوٹیوں کا بھی مالک ہے، جنگل کے پتھروں کا بھی مالک ہے، اُس کی ریت کا بھی مالک ہے اور جب اُس نے ان چیزوں کی ملکیت تمام بنی نوع انسان کو مشترکہ طور پر عطا فرمائی تو صرف کھیتوں ہی کی ملکیت تمام انسانوں کو عطا نہیں فرمائی بلکہ دریائوں کی ملکیت بھی تمام بنی نوع انسان کو عطافرمائی۔ پہاڑوں اور اُن کی برفوںاور اُن کے درختوں اور اُن کے پھولوں اور اُن کی بوٹیوں اور اُن کے اندر چھپی ہوئی کوئلہ کی کانوں،سیسہ کی کانوں، تانبے کی کانوں، ہیرے اور جواہرات کی کانوں اور اِسی طرح زمین کے صحرائوں، پانی کے نیچے کی مچھلیوں، ہوا کے پرندوں اور تمام باقی چیزوں کی ملکیت بھی عطا فرمائی۔ بنی نوع انسان مشترک طور پر صرف کھیتی ہی کے مالک نہیں بلکہ پرندوں کے بھی مالک ہیں۔ تمام اُن دوائوں کے بھی مالک ہیں جو کہ بوٹیوں سے تیار کی جاتی ہیں، تمام اُن مشینوں کے بھی مالک ہیںجو کہ لوہے سے بنائی جاتی ہیں۔ تمام اُن اشیاء کے بھی مالک ہیں جو خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ لکڑیوں سے بنائی جاتی ہیں۔ غرض دنیا میں جس چیز پر کوئی قبضہ کر سکتا ہے یا جس چیز کی کوئی قیمت پڑ سکتی ہے ایسی ہر چیز کے تمام بنی نوع انسان مشترک طور پر مالک ہیں۔ آگے خاص حالات میں اس مشترک ملکیت کو مقید کر دیا گیا ہے اور ایک خاص دائرہ میں شخصی ملکیت کو بھی تسلیم کر لیا گیا ہے لیکن قرآن شریف کی کسی آیت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث میں کار خانوں میں بننے والی چیزوں یا زمین کے اندر سے نکالی جانے والی چیزوں یا جنگل میں اُگنے والی چیزوں یا تجارت سے حاصل ہونے والے مالوں یا دریائوں کے نیچے سے نکلنے والی چیزوں اور کھیتوں کی ملکیت میں کوئی فرق نہیں کیا گیا۔ خدا تعالیٰ یکساں مالک ہے کھیتوں کا بھی، پہاڑوں کا بھی، دریائوں کا بھی،کارخانوں کا بھی اور تمام بنی نوع انسان یکساں مالک ہیں اِن تمام چیزوں کے۔ اور فرد اِن چیزوں میں سے جتنے حصّہ کا مالک ہے اُس کو ایک ہی قسم کے حقوق حاصل ہیں خواہ وہ کھیتی کا مالک ہو، خواہ کارخانے کا مالک ہو یا کانوں کا مالک ہو یا تجارتی گوداموں کا مالک ہو یا گورنمنٹ سے حاصل ہونے والی تنخواہ کا مالک ہو۔
تیسرا باب
زمین کی ملکیت کو اسلام نے جن معنوں میں تسلیم کیا ہے اُن کے رُو سے وہ زمین کے مالک کو کیا کیا حق دیتا ہے؟
اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ جو کچھ قرآن کریم اور احادیث سے معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ شریعت زمین کے مالک کو ویسے ہی تمام حقوق دیتی ہے جیسا کہ وہ کارخانوں کے مالک کو دیتی ہے یا تجارتی کوٹھیوں کے مالکوں کو دیتی ہے یا کانوں کے مالکوں کو دیتی ہے یا جڑی بوٹیوں یا جنگلوں کے خریدنے والوں کو دیتی ہے اس میں اسلام کوئی فرق نہیں کرتا۔ ان تمام قسم کی ملکیتوں کے متعلق اسلام کی طرف سے مندرجہ ذیل قیود عائد ہیں:۔
اوّل: اصل مالک خدا ہے۔ اُس کی ملکیت بہر حال قائم رہے گی یعنی خدا تعالیٰ جتنا چاہے فردِ واحد کی ملکیت کو مقید کر سکتا ہے۔
دوم: کوئی ملکیّت ایسی شکل میں نہیں آسکتی کہ وہ ملکیت اپنی ذات میں دوسروں کے حقوق پر اثر انداز ہو۔ مثلاًزمین کی ملکیت کو لے لو۔کوئی شخص پانی کو زمین پر چلنے سے نہیں روک سکتا، افراد کو جائز طور پر زمین پر چلنے سے روک نہیں سکتا۔ جائز طور پر چلنے کے معنی یہ ہیں کہ جو پگڈنڈیاں بنائی جائیں اُن پر چلنے سے روک نہیں سکتا یا بغیر نقصان کے کھیتوں میں سے چلنے والے کو روک نہیں سکتا۔ یہ مراد نہیں کہ کوئی شخص زبردستی کسی کے کھیت کو تباہ کرنا چاہے تو وہ اُس کو بھی روک نہیں سکتا۔ کوئی شخص غیر محدود زمانہ تک زمین کو اُفتادہ نہیں رکھ سکتا۔ اگر زمین پر کام کرنے والے لوگ موجود ہیں تو وہ کام میں آنی چاہئے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے۔ المسلمون شرکاء فی الماء والکلاء والنار۱۸؎ یعنی لوگوں کو حق نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو پانی سے روکیں یا خود رَو گھاس سے کسی کو روکیں یا آگ لینے سے کسی کو روکیں۔ پس جائز نہیں ہوگا کہ اگر کسی کی زمین میں چشمہ ہو تو وہ وہاں سے پانی لینے سے لوگوں کو روکے یا خود رَو گھاس ہو تو وہ اُس کے کھانے سے دوسروں کے جانوروں کو منع کرے یا وہ آگ جلائے تو دوسرے لوگوں کو آگ لینے سے منع کرے۔اِسی طرح علامہ ابن قدامہ اپنی کتاب مغنی میں تحریر فرماتے ہیں۔
المعادن الظاھرۃ وھی التی یوصل مافیھا من غیر موونۃ ینتابھا الناس وینتفعون بھا کالملح والماء والکبریت والقیر والمومیاء والنفت والکحل والیاقوت ومقاطع الطین واشباہ ذلک… لا تملک بالا حیاء ولا یجوز اقطاعھا لاحد من الناس ولا احتجار ھادون المسلمین لان فیہ ضررا بالمسلمین وتضییقا علیھم ۱۹؎
یعنی وہ کانیں جن کو کھود کر اور تکلیف سے نکالنا نہیں پڑتا بلکہ وہ سطح زمین پر یا اس کے قریب ہوتی ہیں اور عوام الناس اُن کو کام میں لاتے اور فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ جیسے نمک اور پانی اور گندھک اور کول تار اور مومیائی اور مٹی کا تیل اور سرمہ اور یاقوت اور مٹی لینے کی جگہیں اور اِسی قسم کی چیزیں خواہ کوئی اس زمین پر جائز قبضہ کرے جس میں وہ پائی جاتی ہیں تب بھی یہ اشیاء اُس کی ملکیت نہیں ہوں گی اور کسی بادشاہ کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اِن چیزوں کو کسی ایک شخص کے حق میں دے دے یا حُکمًا اُن کا استعمال مسلمانوں کے لئے روک دے کیونکہ اس میں مسلمانوں کے لئے نقصان اور تنگی ہے۔
اِسی طرح علاّمہ ابن قدامہ مغنی جلد ۴ صفحہ ۳۸۶ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
وکذالایجوز احیاء ماتعلق بہ حق العامۃ کما فی النھر والطریق یعنی اِسی طرح شخصی ملکیت نہروں اور راستوں پر بھی تسلیم نہیں کی جاسکتی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مذکورہ بالا فیصلہ اور اس کے بعد علمائے اسلام کے اُس فیصلہ سے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی تشریح میں ہے اور خالی عقلی بناء پر نہیں کیا گیا، یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی ملکیت محدود ہے اور بعض امور میں پبلک کے حق میں اُس کو اپنی ملکیت چھوڑنی پڑے گی۔ مثلاًاگر کوئی پہاڑی نالہ کسی کی زمین پر سے گذرتا ہے تو اُس کے پانی کی ملکیت اُس کی نہیں ہوگی فوراً پبلک کی ملکیت ہو جائے گی۔ یا حکومت کی ملکیت ہو جائے گی۔ اِسی طرح کوئی شاہراہ بھی اگر کسی کی ملکیت میں سے گزرتا ہے تو وہ اُس کی ملکیت نہیں ہو سکے گا بلکہ پبلک کا ہو جائے گا۔ اِسی طرح کانیں وغیرہ جو سطح زمین پر ہیں اور اُن کے لئے گہری کھدائی نہیں کرنی پڑتی وہ بھی پبلک کی ملکیت ہوں گی گو حکومت ان کی منتظم اور نگران ہوگی مگر حکومت بھی اُن کانوں کے آس پاس رہنے والے لوگوں کی روزانہ ضرورتوں سے اُن کو محروم نہیں کر سکتی۔ ہاں جتنا حصہ تجارتی ہو گا وہ حکومت کے قبضہ میں ہوگا۔ اِسی اصل کے ماتحت ہم یہ قانون نکالیں گے کہ اگر کوئی انسان ایسی فصل بوئے جو صحت کے لئے مضر ہو یا اُس کے پھول اور کیڑے اُڑ کر اِرد گرد کی فصلوں کو نقصان پہنچائیں اور اُن کی حیثیت کو ادنیٰ بنادیں تو حکومت ایسے احکام جاری کر سکتی ہے جن کے رُو سے وہ لوگوں کو اِس قسم کی فصل بونے سے روک دے۔ مثلاًجس علاقہ میں عام طور پر امریکن کپاس بوئی جاتی ہے اگر اُس علاقہ میں دیسی کپاس بوئی جائے تو اُس کی وجہ سے امریکن کپاس کی قسم کو بھی نقصان پہنچتا ہے اور بعد میں اُس کے امتزاج کی وجہ سے باقی لوگوں کی کپاس کی قیمتیں بھی گر جاتی ہیں۔ ایسی صورت میں حکومت کو یقینا اختیار حاصل ہے کہ وہ مندرجہ بالا حدیث اور اَئمّہ کے استدلال پر قیاس کرتے ہوئے حکم دے دے کہ اِس علاقہ میں فلاں چیز کا بونا چونکہ لوگوں کے لئے مضر ہے اس لئے اُس کو نہ بویا جائے۔ لیکن حکومت یہ نہیں کہہ سکتی کہ چونکہ اِس شخص کی ملکیت دوسرے لوگوں کے لئے مضر ہے اس لئے اس کو ملکیت سے محروم کر دیا جائے کیونکہ ملکیت اپنی ذات میں ضرر نہیں پہنچاتی جس طرح کہ غلط کاشت اپنی جگہ میں دوسروں کو نقصان پہنچاتی ہے۔
اِس حدتک تو میں نے یہ بتایا ہے کہ مالک ِ زمین کے حقوق کہاں تک محدود ہیں۔ اب میں یہ بتاتا ہوں کہ زمین کے مالک کے حقوق کس حدتک قرآن کریم اور احادیث اور صحابہء کرامؓ اور اَئمّہ عظام کے فتووں یا عمل سے ثابت ہیں۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ سورئہ بقرہ میں حضرت آدم علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے کہ ہم نے اُن کو کہا۔ ۲۰؎ اے آدم تُو اور تیری بیوی دونوں اس باغ میں رہو۔ اِس آیت سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ انسان زمین کا مالک ہو سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم اور اُن کی بیوی کو ایک باغ کا مالک بنایا۔ اور یہ ظاہر ہے کہ جس شخص کو کسی جگہ پر رہنے کا اختیار دیا جائے گا دوسروں کو اُس جگہ پر جانے کا اختیار باقی نہیں رہے گا۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ایک کافر اور ایک مؤمن کی گفتگو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے۔۲۱؎ یعنی مؤمن کافر سے کہتا ہے کہ جب تُو اپنے باغ میں داخل ہوتا ہے تو تُو یہ کیوں نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ جو چاہتا ہے کرتا ہے اللہ تعالیٰ کے سِوا کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں ہے اور تو مجھ پر فخر جتاتا ہے کہ تیرے پاس مجھ سے زیادہ مال ہے اور تیری اولاد مجھ سے زیادہ ہے۔ پس تو یاد رکھ کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ مجھے تیرے باغ سے بڑا باغ دے اور تیرے باغ پر آسمان پر سے ایک کنکروں والی آاندھی چلا دے اور تیرا باغ اُجڑی ہوئی زمین ہو کر رہ جائے۔ گویہ ایک مثال ہے لیکن اس سے یہ اصول ثابت ہو جاتا ہے کہ انسان بڑے بڑے باغوں کا بھی مالک ہو سکتا ہے اور باغ اور زمین میں کوئی فرق نہیں کیونکہ باغ زمین کے ساتھ وابسطہ ہوتا ہے۔
اِسی طرح سورئہ ابراہیم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گذشتہ انبیاء کی قوموں نے جب اُن کو دکھ دیا اور اُ ن کو دھمکی دی کہ وہ اُنہیں ملک سے نکال دیں گے تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں کو الہام کیا کہ ۲۲؎ ہم اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر کہتے ہیںکہ ہم تم کو اِس زمین میں بسادیں گے۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے اُن لوگوں کے زمین میں بسانے کو اپنی طرف منسوب کیا ہے اور جب ہم پہلی تاریخوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی اُمتوں میں فردِواحد کی ملکیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ پس ’’ہم بسا دیں گے ‘‘کے الفاظ نے اِس ملکیت کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے بلکہ اِس بات کا بھی اظہار فرمایا ہے کہ وہ ملکیت خداتعالیٰ کے قانون کے مطابق تھی اور خداتعالیٰ کی عطا کی ہوئی تھی۔
اِسی طرح سورئہ بنی اسرائیل کے بارہویں رکوع میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ ارضِ مقدس میں بس جائو۔۲۳؎ اِس بسنے کو بھی اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے۔ اور جب ہم بائبل سے اس بسنے کی کیفیت معلوم کرتے ہیں تو اس میں زمین کی انفرادی ملکیت کا ثبوت ملتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ قرآن کریم کی مختلف آیات سے زمینوں اور باغوں کی انفرادی ملکیت کا استدلال ہوتا ہے۔ احادیث بھی اس استدلال کی مؤید ہیں۔ چنانچہ سنن ابودائود باب۲فی اقطاع الارضین کے نیچے صفحہ ۴۳۷پر لکھا ہے۔ عن اسمر بن مضرس قال اتیت النبیﷺ فبایعتہ فقال من سبق الی مالم یسبق الیہ مسلم فھولہ ۲۴؎ یعنی حضرت اسمرؓ فرماتے ہیں مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ کی بیعت کی۔ اُس وقت میں نے سُنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے کہ جس زمین پر کسی مسلمان کا قبضہ نہیں جو مسلمان بھی اُس پر قبضہ کرے وہ اُسی کی ملکیت ہو جائیگی۔
اسی طرح بخاری کتاب المزارعۃ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ من اعمر ارضالیست لاحد فھوا حق۔۲۵؎ جو شخص کسی ایسی زمین پر قابض ہو جائے جو کسی اَور کی نہیں تو وہی اُس کا جائز مالک ہوگا۔ اِس حدیث سے ثابت ہے کہ جو زمین آپ کے زمانہ میں کسی کی مملوکہ تھی آپ نے اُس کی ملکیت کو جائز قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو یہ نصیحت کی ہے کہ ایسی زمینوں پر قبضہ کرو جن کے دوسرے مالک نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس ارشاد کے مطابق حضرت عمرؓ سے بھی ایک اثر ثابت ہے اور وہ یہ ہے کہ قال عمر من احیا ارضا میتۃ فھی لہ ۲۶؎ جو شخص کسی ایسی زمین پر قبضہ کر ے جس پر کوئی مسلمان قابض نہیں تو وہ اُس کا مالک قرار دیا جائے گا۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ارضِ موات جس پر قبضہ کرنا جائز رکھا گیا ہے وہ کیا چیز ہے؟ اور آیا اُس پر قبضہ کرنے کی کوئی شرائط بھی ہیں یا نہیں؟ سو اِس کا جواب یہ ہے کہ ارضِ موات سے مراد سرکاری زمینیں ہیں نہ کہ افراد کی زمینیں اور نہ وہ زمینیں جو کہ شہروں اور قصبات کے اِردگرد ہوتی ہیں اور زمینداروں کی مشترک ملکیت ہوتی ہیں۔ اُنہیں کاشت میں نہیں لایا جاتا مگر وہ چراگاہوں کے طور پر، کھیل کے میدانوں کے طور پر، یا سوختنی لکڑیوں کے جنگلوں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ چنانچہ کتاب بدائع الفقۃ الحنفیہ میں لکھا ہے الاراضی فی الاصل نوعان ارض مملوکۃ وارض مباحۃ غیر مملوکۃ والمملوکۃ نوعان عامرۃ وخرابوالمباحۃ نوعان ایضا۔ نوع ھو من مرافق البلدۃ محتطبا لھم و مرعی لمواشیھم ونوع لیس من مرافقھا وھو مسمی بالموات۲۷؎ یعنی زمین در حقیقت دو قسم کی ہوتی ہے ایک مملوکہ اور ایک غیر مملوکہ۔ مملوکہ بھی آگے دو قسم کی ہوتی ہے آباد اور غیر آباد۔ اور غیرمملوکہ بھی دو قسم کی ہوتی ہے ایک وہ جو کہ شہروں کے پاس ہو اور شہری لوگ اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہوں یا اُس سے لکڑیاں لیتے ہوں یا اُن کے جانور اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہوںاور ایک غیر مملوکہ وہ ہوتی ہے جو شہر وں سے دُور ہوتی ہے اور لوگ اُس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے اور اُسی کو موات کہتے ہیں۔
امام ابو یوسف فرماتے ہیں کہ الموات کل ارض اذا وقف علی ادنا ھا من العامر مناد باعلی صوتہ لم یسمع اقرب الناس الیھا فی العامر۲۸؎ یعنی موات وہ زمین ہے کہ اُس کا جو حصہ شہر سے قریب ترین ہو اُس پر کھڑے ہو کر اگر کوئی اونچی آواز والا آدمی نہایت بلند آواز سے بولے تو شہر میں سے جو حصہ اُس جانب سب سے قریب ہے وہاں کے لوگ بھی اُس کی آواز نہ سن سکیں۔
اِن حوالوں سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مملوکہ زمین تو کسی صورت میں بھی موات نہیں کہلاتی اور غیر مملوکہ زمین بھی اُسی وقت موات کہلاتی ہے جس پر قبضہ کر لینے کا افراد کو حق دیا گیا ہے یا لوگوں میں تقسیم کرنے کا حق دیا گیا ہے جبکہ وہ زمین شہروں سے اتنے فاصلہ پر ہو کہ شہر کی ضرورتوں کو اُس کے تقسیم کر دینے سے نقصان نہ پہنچتا ہو۔گویا حنفی علماء کے نزدیک افراد کا قبضہ کرلینا تو الگ رہا حکومت بھی ایسی زمین کو تقسیم نہیں کر سکتی جس کا آزاد چھوڑنا کسی شہر یا قصبہ کیلئے ضروری ہو۔
اور حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک تو فرد کسی صورت میں بھی ایسی غیر مملوکہ اور سرکاری زمین پر بغیر حکومت کی اجازت کے قبضہ نہیں کر سکتا۔ چنانچہ حضرت امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں۔ لایجوز احیاء الارض الا باذن الامام لقولہﷺ لیس لاحد الا ماطابت بہ نفس امامہ۲۹؎ یعنی لا وارث اور غیر مملوکہ زمین پر قبضہ کرنا بھی بغیر حکومت کی اجازت کے جائز نہیں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کوئی شخص کسی سرکاری چیز کا مالک نہیں ہو سکتا جب تک کہ امام خوشی سے اُس کو بخش نہ دے۔
چوتھا باب
اسلام نے زمین کی ملکیت کا حق کن کن اصول پر دیا ہے؟
یہ ثابت کر چکنے کے بعد کہ اسلام میں زمین کی ملکیت جائز ہے اور یہ ثابت کرنے کے بعد کہ زمین کی ملکیت اُسی حد تک جائز ہے جس حد تک کہ اموالِ تجارت یا پیشوں یا نوکریوں کی آمدنیوں کی ملکیت جائز ہے یعنی جو حق ایک پیشہ ور کو اپنے پیشہ کے متعلق ہے، ایک تاجر کو اپنی تجارت کے متعلق ہے، ایک صنّاع کو اپنی صنعت کے متعلق ہے وہی حق ایک زمیندار کو اپنی زمین کے متعلق ہے اور جن معنوں میں کہ زمین خداتعالیٰ کی ملکیت ہے اُنہی معنوں میں اموالِ تجارت اور صنعت و حرفت سے تیار کئے ہوئے اموال اور پیشوں سے حاصل کئے ہوئے مال اور نوکریوں سے حاصل کئے ہوئے مال بھی خداتعالیٰ کی ملکیت میں شامل ہیں۔ اور زمینوں کے متعلق وہی قوانین بنائے جاسکتے ہیںجو ان دوسری چیزوں کے متعلق بنائے جاتے ہیں ان دونوں میں کوئی امتیاز نہیں کیا جاسکتا۔ اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے زمین کی ملکیت کن کن بنیادوں پر تسلیم کی ہے۔ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام میں ملکیت کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:۔
اوّل ورثہ دوم خرید سوم ہبہچہارم کسی ایسی چیز پر قبضہ جو لاوارث ہو اور جس پر قبضہ کرنا شریعت کے رُو سے جائز ہو۔
ورثہ کا ثبوت تو قرآن شریف سے ثابت ہے۔ قرآن شریف میں اولاد کو والد کی جائداد کا وارث قرار دیا گیاہے پس جس کے والد کے پاس کوئی جائداد تھی اُس کی اولاد اُس کی مالک ہے اور ویسی ہی مالک ہے جیسا کہ باپ مالک تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل نے یہ بات بھی بِلا اختلاف ثابت کردی ہے کہ جاہلیت کی ملکیتیں اسلام میں بھی جائز ملکیتیں سمجھی جائیں گی اِسی طرح جاہلیت کے قبضے اسلام میں بھی جائز سمجھے جائیں گے۔ چنانچہ عرب میں جو لوگ مسلمان ہوئے وہ جن زمینوں پر قابض تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں اُن زمینوں پر قابض رہنے دیا سوائے اِس کے کہ وہ زمینیں جنگی قانون کے ماتحت ضبط ہوئی ہوں۔
دوسری صورت خرید کی ہے۔ خرید کا ثبوت بھی صحابہؓ کے طریق سے ثابت ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد اور اپنے مکانوں کے لئے مدینہ کے لوگوں سے زمین خریدی۔ یہ امر ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر کے گئے تھے۔ مدینہ میں ان لوگوں کی کوئی جائداد یں نہیں تھیں۔ مدینہ میں جا کر جو اِن لوگوں نے گھر بنائے وہ وہیں کے لوگوں سے زمینیں خرید کر بنائے تھے۔ چنانچہ یہ مشہور حدیث ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کچھ عرصہ تک مدینہ کے باہر ٹھہر کر مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو آپ نے فرمایا جہاں میری اونٹنی ٹھہرے گی وہاں میں اپنا گھر بنائوں گا۔ مدینہ کے لوگوں نے اپنے گھروں میں سے نکل نکل کر اصرار کیا کہ اُن کے گھروں میں آپ ٹھہریں مگر آپ نے اِسے تسلیم نہ کیا۔ آخر جس جگہ پر آپ کی اونٹنی ٹھہری اُس جگہ کو آپ نے مسجد کے لئے اور اپنے مکانوں کے لئے پسند فرمایا۔ وہ دو یتیموں کی زمین تھی یتیموں کے وارثوں نے وہ زمین مفت دینی چاہی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کو پسند نہ فرمایا بلکہ فرمایا کہ واجبی قیمت پر اِس کو فروخت کر دو۔۳۰؎ اِس جگہ پر بعد میں مسجد اور آپ کے اہلِ بیت کے گھر بنے۔ پس زمین کی بیع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل اور طریق سے ثابت ہے۔
تیسرا طریقہ ملکیت کا ہبہ ہے یعنی کوئی شخص کسی شخص کو یا کسی قوم کو یا کسی جماعت کو اپنا مال ہبہ کے طور پر بخش دے تب اُس شخص کو یا اُس گروہ کو اُس زمین پر اُس حد تک مالکانہ حقوق حاصل ہونگے جس حد تک کہ ہبہ کرنے والے شخص نے ان کو حق دیا ہے۔ اگر اُس نے پورے مالکانہ حقوق بخش دئیے ہیں تو جو حق کسی کامل مالک کو حاصل ہوتے ہیں وہ سب اُن لوگوں کو حاصل ہونگے جن کے نام زمین ہبہ کی گئی ہے اور اگر کسی شرط کے ساتھ ملکیت منتقل کی گئی ہو تو جس حد تک پابندی لگائی گئی ہے اس کے بعد باقی حق اُن کو حاصل ہونگے۔ اِس قسم کے ہبے احادیث سے دونوں طرح کے ثابت ہیں۔ بے شرط بھی اور شرط کے ساتھ بھی۔ بے شرط ہبہ کی مثال وہ زمینیں ہیں جو قرآنی حکم کے ماتحت مالِ غنیمت کے طور پر صحابہؓ میں تقسیم کی گئیں جس کی مشہور مثال خیبر کی زمین ہے۔ اس کے علاوہ انفرادی مثالیں بھی بہت سی پائی جاتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی زمینوں میں سے جو فوری طور پر صحابہؓ میں تقسیم نہیں کی گئیں اپنی مرضی سے یا صحابہؓ کے مانگنے پر اُن کو زمینیں عطا فرمائیں۔ چنانچہ کنزالعمال میں بیہقی کے حوالہ سے لکھا ہے۔
عن عبداللّٰہ بن ابی بکر قال جاء بلال بن الحارث المزنی الی رسول اللّٰہﷺ فاستقطع ارضا عریضۃ طویلۃ فقطعھا۔۳۱؎
یعنی عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ بلال بن حارث رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ زمین کا ایک بہت لمبا اور چوڑا قطعہ اُن کے نام ہبہ کر دیا جائے۔ اُن کی اِس درخواست کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور فرمایا اور ایک بہت بڑا ٹکڑہ جو شایدبیسیوں مربع میل کا تھا اُن کو ہبہ کردیا۔
چوتھی صورت یعنی ایسی جگہ پر قبضہ کرلینا جس پر کسی اَور کا قبضہ نہ ہو اور اُس پر قبضہ کرنا شریعت کے رو سے جائز ہو۔ اِس کی مثال کے طور پر مَیں یہ حدیث پیش کرتا ہوں۔
بخاری میں لکھا ہے کتاب المزارعۃ باب من احیا ارضًامواتًا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من اعمر ارضا لیست لاحد فھوا حقُّ۔ جس نے کسی ایسی زمین کو آباد کردیا جو کسی کی نہیں وہ اُس کا حقدار ہے۔
اِسی طرح بخاری کی اِسی کتاب اور اِسی باب میں یہ درج ہے کہ قال عمر من احیا ارضا میتۃ فھی لہ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو شخص کسی ایسی لاوارث زمین پر قابض ہوگیا جس کا کوئی مالک نہیں وہ اُسی کو ملے گی۔
یہ بات پہلے بیان ہوچکی ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسا قبضہ اُسی صورت میں جائز ہوگا جبکہ امام کی طرف سے اس کی اجازت دی جائے کیونکہ لاوارث زمین درحقیقت حکومت کی ہوتی ہے پس امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک چونکہ حکومت اُس کی مالک ہے حکومت کی اجازت کے بعد اُس پر قبضہ کرنا چاہیے یونہی نہیں۔ باقی آئمہ کے نزدیک چونکہ حکومت اُس کو کام میں نہیں لارہی اور درحقیقت مالک افراد ہیں حکومت صرف مختارِ کار ہے اِس لئے اگر افراد میں سے کوئی شخص ایسی زمین پر بقدرِ ضرورت قبضہ کر لے تو وہ جائز ہوگا۔
میری غرض ان حوالوں کو نقل کرنے سے یہ ہے کہ ہر مسلمان جو نسلاً کسی زمین کا وارث چلا آرہا ہے اور اُس پر اُس کا قبضہ ہے یا جس نے وہ زمین خریدی ہے یا جس کو وہ زمین ہبہ میں ملی ہے یا جس نے کسی اُفتادہ زمین پر کہ جو کسی کی ملکیت نہیں تھی قبضہ کر لیا ہے اسلامی شریعت کے رُو سے وہ شخص اُس کا مالک تصور کیا جائے گا ویسا ہی مالک جیسا کہ کارخانہ کا مالک اُس کا مالک ہے یا تجارتی دکان کا مالک اُس کا مالک ہے یا ملازمت سے حاصل ہونے والے روپے کا مالک اُس کا مالک ہے۔ ہاں اگر اِن چار ذرائع کے سِوا کسی اور ناجائز ذریعہ سے کسی نے کوئی زمین دبالی ہو تو حکومت کا حق ہے کہ اُس کوواپس لے۔ لیکن اوپر کے بیان کردہ چار ذرائع کے لحاظ سے اگر کوئی شخص کسی زمین کا مالک ہے تو یہ کہہ کر کہ زمین کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اُس پر قبضہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ زمین کا ہی مالک نہیں وہ نوکریوں کا بھی مالک ہے۔ تجارتوں کا بھی مالک ہے، صنعت و حرفت کابھی مالک ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی وجہ سے زمینوں پر قبضہ کرنا جائز ہے تو اللہ تعالیٰ کی ملکیت کی وجہ سے تجارتوں پر بھی، صنعت و حرفت پر بھی اور ملازمتوں پر بھی قبضہ کرنا چاہیے، بلکہ افراد کی جانیں بھی خداتعالیٰ کی ملکیت ہیں۔ اگر خداتعالیٰ کی ملکیت کے یہ معنی ہیں کہ حکومت اپنے آپ کو ظل اللہ قرار دے کر جس چیز پر چاہے قبضہ کر لے تو پھر حکومت کو لوگوں کی جانوں پر بھی قبضہ حاصل ہونا چاہئے۔ حکومت کو اختیار حاصل ہونا چاہئے کہ جس کو چاہے جس کام پر لگا دے اور کھانا کپڑا دے دے کوئی تنخواہ وغیرہ مقرر نہ کرے جیسا کہ غلاموں کے ساتھ کیا جاتا ہے لیکن یہ امر سوائے بالشوزم کے اور کہیں جائز نہیں سمجھا جاتا۔
پانچواں باب
کیا جاگیرداری اسلام میں جائز ہے؟
میں نے اوپر کی فصل میں یہ بات بیان کی ہے کہ زمینوں کی ملکیت جائز ذرائع سے افراد کے لئے جائز ہے۔ یہاںشاید کسی کو یہ دھوکا لگے کہ اس اوپر کی فصل کے ماتحت جاگیرداری بھی جائز ہے۔ سو یاد رہے یہ درست نہیں۔ جاگیر داری اور زمینداری میں ایک فرق ہوتا ہے۔ زمینداری اِسے کہتے ہیں کہ ایک شخص زمین کا مالک ہوتا ہے لیکن حکومت یا پبلک کے حقوق کو پوری طرح ادا کرتا ہے اور جاگیر داری اِسے کہتے ہیں کہ حکومت یا پبلک کا حق کلّی طور پر یا جزوی طور پر اُسے معاف ہو جاتا ہے۔ مثلاًزمیندار باوجود زمین کا مالک ہونے کے حکومت کی طرف سے مقرر کردہ معاملہ یا آبیانہ جسے اسلامی اصطلاح میں عُشر یا خراج یا زکوٰۃ کہتے ہیں ادا کرتا رہتا ہے لیکن جاگیر دار کو تو کلّی طور پر خراج یا عشر یا زکوٰۃ معاف ہوتی ہے یا اس کا ایک حصہ معاف ہوتا ہے اور وہ گویا ملک کی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں دوسری رعایا کے ساتھ شریک نہیں ہوتا۔ مُلک کے امن،مُلک کے عدل و انصاف، مُلک کی حفاظت ، مُلک کے دفاع اور مُلک کی حکومت کے چلانے کے لئے ایک غریب سے غریب آدمی کچھ نہ کچھ زکوٰۃ یا ٹیکس دے رہا ہوتا ہے لیکن یہ شخص ان تمام انتظامات سے فائدہ تو اُٹھا رہا ہوتا ہے لیکن ان کا بوجھ اُٹھانے میں شریک نہیں ہوتا۔ یہ چیز قطعی طور پر حرام ہے اور کسی حکومت کو زکوٰۃ یا عُشر کے معاف کردینے کا حق نہیں حتی کہ بانی اسلام بھی ایسا نہیں کرسکتے تھے کیونکہ یہ حق خدا تعالیٰ کا مقرر کردہ ہے اور خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ حق کو کوئی انسان معاف نہیں کر سکتا۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سب سے پہلا معاملہ یہی مسلمانوں کو پیش آیا۔ آپ کی وفات کے بعد عرب کے قبائل نے زکوٰۃ دینے سے انکار کر دیا تھا اور کہہ دیا تھا کہ یہ حق صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تک تھا اس کے بعد نہیں۔ صحابہؓ نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زکوٰۃ وصول نہیں کی جائے گی تو حکومت چلے گی کس طرح؟اگر ایسا کیا جائے تو اسلامی نظام درہم برہم ہو جائے گا لیکن نَو مسلم قبائیلیوں کی سمجھ میں یہ بات نہ آئی اور اُنہوں نے اصرار کیا کہ ہم زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان کو جاگیر دار سمجھ لیا جائے۔ جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے حکام کے نام ہدایتیں جاری کی گئیں کہ زکوٰۃ باقاعدہ وصول کی جائے اور کسی کو معاف نہ کی جائے تو ملک نے بیک وقت بغاوت کردی اور مختلف قبائل مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے اپنے گھروں سے روانہ ہو گئے۔ یہ وقت اسلام کے لئے نہایت نازک تھا۔ سوائے مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ اور ایک دو اَور ایسی جگہوں کے تمام کا تمام عرب باغی ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا بہادر آدمی بھی اِس موقع پر گھبرا گیا اور اُنہوں نے دوسرے صحابہؓ سے مشورہ کر کے حضرت ابو بکرؓ سے یہ درخواست کی کہ سرِدست لوگوں کو زکوٰۃ معاف کردی جائے۔ آہستہ آہستہ جب یہ لوگ اسلام میں پکے ہو جائیں گے تو آپ ہی آپ زکوٰۃ دینے لگ جائیں گے اور ساتھ ہی اُنہوں نے کہا کہ مدینہ کے چند ہزار آدمی سارے عرب کا مقابلہ کر ہی کس طرح سکتے ہیں۔ بیس بیس ہزار کا لشکر ایک ایک طرف سے چلا آرہا ہے اگر یہ لوگ مدینہ تک پہنچ گئے تو مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ مگر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی ساری بات سن کر فرمایا عمرؓ! زکوٰۃ خدا کا حق ہے میں اسے معاف کرنے کی طاقت نہیں پاتا۔ خدا کی قسم! میں خدا کے اس حق کے لینے کے لئے لڑوں گا اور اگر صحابہؓ بھی میرا ساتھ چھوڑ دیں تو میں اکیلا ان لوگوں سے جنگ کروں گا۔ خدا کی قسم! اگر یہ لوگ مدینہ میں گھس آئیں اور ازواجِ نبیؐ کی لاشیں گلیوں میں کتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں ان لوگوں سے نہیں ڈروں گا اور اُس وقت تک ان سے جنگ جاری رکھوں گا جب تک کہ زکوٰۃ کی وہ چھوٹی رسّی جو اونٹ کا گھٹنا باندھنے کے کام آتی ہے اور جسے یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں ادا کرتے تھے اب بھی ادا نہ کریں گے۔۳۲؎ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ یہ باتیں سن کر میرا دل دہل گیا اور میں نے سمجھا کہ واقعہ میں یہی شخص اِس بات کا مستحق تھا کہ رسول کریم ﷺ کے بعد اسلام کی باگ ڈور اِس کے ہاتھ میں دی جاتی۔
یہ وہ فیصلہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسلام کے پہلے خلیفہ نے کیا اور صحابہؓ باوجود خطرات کو دیکھنے کے اس فیصلہ کو ماننے پر مجبور ہو گئے اور خدا تعالیٰ نے بھی آسمانی شہادتوں سے اس فیصلہ کی سچائی کو ثابت کر دیا۔ اکثر حصہ مسلمانوں کا اسامہ بن زیدؓ کے ماتحت شام کی جنگ کے لئے بھجوا دیا گیا تھا اور مٹھی بھر صحابہؓ باقی رہ گئے تھے۔ دشمن اتنی تعداد میں تھا اور اتنا طاقتور تھا کہ باقی ماندہ صحابہؓ ان کے اونٹوں کے پائوں تلے روندے جاسکتے تھے لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کی تھی، اُسی طرح اِن ایام میں اُس نے حضرت ابوبکر ؓ کی بھی مدد کی۔ اس لئے کہ ابوبکرؓ ایک ایسے مسئلہ کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے جو اسلام کے پانچ ارکان میں شامل ہے اور خداتعالیٰ نے صحابہؓ کو وہ قوتِ بازو بخشی اور وہ عزم عطا فرمایا کہ باوجود اِس کے کہ بعض دفعہ ہزاروں ہزار آدمی کے لشکر کے سامنے وہ پہاڑی کنکروں کی طرح اِدھر اُدھر بکھر جاتے تھے مگر پھر ان کے قدم مضبوط ہو جاتے تھے، ان کو پھر اکٹھا ہو جانے کی توفیق مل جاتی تھی اور شیروں کی طرح وہ دشمنوں کے ٹڈی دل لشکروں پر پھر جاپڑتے تھے۔ جہاں تک لشکروں کا سوال ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی اتنی کم تعداد کے صحابہؓ کو اتنے بڑے لشکروں کا مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا لیکن نہ صحابہؓ نے اس کمی کو محسوس کیا اور نہ خدا تعالیٰ نے اِس کمی کے بد نتائج پیدا ہونے دئیے۔ آخر مدینہ سے چند منزل کے فاصلہ پر سب سے بڑے باغی لشکر کو جس میں بعض روایتوں کے مطابق کوئی ایک لاکھ کے قریب سپاہی تھا،صرف دوہزار صحابہؓ نے شکست دی۔ وہ دانوں کی طرح بھن گئے، وہ قیمے کی طرح اُڑگئے لیکن اُن کا قدم پیچھے نہ ہٹا اور اُسی وقت اُن کی تلواریں ٹھہریں جبکہ مسیلمہ کذاب مارا گیا اور باقی لشکر تتر بتر ہو گیا۔
یہ واقعات بتاتے ہیں کہ آسمان سے خداتعالیٰ نے کہا کہ جو کچھ ابو بکرؓ نے کیا ٹھیک کیا۔ اگر زکوٰۃ کا معاف کرنا کسی حکومت کے اختیار میں ہوتا تو ایسے نازک حالات میں ابوبکرؓ ضرور زکوٰۃ معاف کر دیتے۔ لیکن اُنہوں نے زکوٰۃ معاف نہیں کی اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر دشمن مسلمانوں پر غالب آکر مدینہ میں گھس آئے اور ازواج النبیؐ کی لاشوں کی ٹانگیں پکڑ کر کتے مدینہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھریں تب بھی وہ زکوٰۃ معاف نہیں کریںگے۔ یہ بات ثابت کرتی ہے کہ کوئی حکومت خواہ مذہبی ہو یا سیاسی اِس چیز کو معاف نہیں کرسکتی۔ میں حیران ہوں کہ مسلمانوں میں یہ جہالت کس طرح آگئی کہ انہوں نے عُشر اور خراج معاف کرنے شروع کردئیے اور جاگیرداری سسٹم قائم کر دیا۔ جاگیرداری سسٹم کے تو یقینا یہ معنی ہیں کہ مالک خدا نہیں بلکہ حکومت ہے اور وہ جس کو چاہتی ہے اپنے بندوں کا مالک بنا دیتی ہے۔
غرض جاگیرداری سسٹم قطعاً اسلام کے خلاف ہے اور نہ صرف اسلام کے خلاف ہے بلکہ اسلام کے پنج ارکان کے خلاف ہے وہ پانچ حکم جن میں سے ایک حکم توڑنے سے بھی انسان قطعی کافر ہو جاتا ہے ان میں سے ایک ہے۔ پس میں مسلمان جاگیرداروں سے کہوں گا کہ حکومت کے کہنے پر نہیں خدا اور رسول کے کہنے پر وہ اپنی جاگیریں چھوڑ دیں۔ عُشر کو یا خراج کو کوئی معاف نہیں کر سکتا۔ اسلام میں عُشر وصول نہ کرنے کی صرف ایک ہی مثال پائی جاتی ہے اور وہ بطور سزا کے ہے۔ ایک شخص نے عُشر کے ادا کرنے میں تنگی محسوس کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آئندہ اس شخص سے زکوٰۃ وصول نہ کی جائے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے وہ شخص اپنی زکوٰۃ لے کر جو ہزاروں ہزار روپیہ کی قیمت کی تھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عاجزانہ طور پر درخواست کی کہ زکوٰۃ مجھ سے وصول کی جائے۔ لیکن وہ ابوبکرؓ جس نے مرتدین عرب کے مقابلہ میں یہ کہا تھا کہ اگر زکوٰۃ کی ایک چھوٹی سی رسّی بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کی جاتی تھی تو وہ بھی میں لے کر چھوڑوں گا اُسی ابوبکر ؓ نے اُس شخص کو یہ جواب دیا کہ جس زکوٰۃ کو خدا کے رسول نے وصول نہیںکیا ابوبکرؓ اُس کو وصول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ روایتوں میں آتا ہے کہ وہ شخص ہر سال زکوٰۃ لاتا تھا۔ اُس سال کی بھی اور پچھلے سالوں کی بھی اور اصرار کرتا تھا کہ اُس سے زکوٰۃ وصول کی جائے مگر حضرت ابوبکرؓ اُس کی زکوٰۃ کو ردّ کر دیتے تھے اور وہ اپنی بد بختی پر خون کے آنسو بہاتا ہوا مثالی طور پر نہیں عملی طور پر روتا ہوا واپس چلا جاتا تھا۔
اِس ایک جاگیرداری کی مثال کے سِوا قرونِ اُولیٰ میں جاگیرداری کی کوئی مثال نہیں ملتی مگر یہ کتنی ذلّت والی اور کتنی دکھ والی جاگیرداری تھی۔ وہ کمزور انسان، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو ردّ کر دینے والا انسان اِس زکوٰۃ کی معافی کو *** سمجھتا تھا اور اس *** کے داغ کو اپنے ماتھے پر سے دھونا چاہتا تھا۔ کیا آج کا جاگیردار مسلمان اِس *** کو اپنی اولادوں کی طرف منتقل کرنا چاہتا ہے؟یہ تو کوئی سوال ہی نہیں کہ حکومت کوئی ایسا قانون پاس کرتی ہے یا نہیں ایک مسلمان کی حیثیت سے جاگیردار کو چاہیے کہ حکومت اگر زور بھی دے کہ تُو یہ رقم اپنے پاس رکھ لے تو وہ کہے کہ میں یہ رقم رکھنے کے لئے ہر گز تیار نہیں۔ یہ تو میرے ایمان کا دیوالہ نکالنے والی بات ہے، یہ تو مجھے کافروں میں شامل کرنے والی رقم ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی جائدادیں صحابہؓ کو ہبہ کی تھیں اُن سب کے اوپر آپ نے زکوٰۃ کو قائم رکھا تھا۔ چنانچہ سنن ابودائود میں آتا ہے۔
عن بشیر بن یسار عن رجال من اصحاب النبیﷺ ادرکھم یذکرون عن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم حین ظھر علی خیبر قسمھا علی ستۃ وثلاثین سھما۔ جمع کل سھم مائۃ سھم فجعل ذالک کلہ للمسلمین فکان فی ذالک النصف سھام المسلمین وسھم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم معھا وجعل النصف الاخر لمن ینزل بہ من الوفود والا مور و نوائب الناس۳۳؎ یعنی بشیر بن یسار نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سے صحابہؓ سے جن سے اُن کو ملاقات کا موقع ملا ہے یہ روایت سنی ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر فتح پائی تو آپؐ نے خیبر کی ساری زمین چھتیس حصوں میں تقسیم کردی۔ ہر حصہ ایک سَو حصص کا تھا۔ گویا کل تین ہزار چھ سَو حصہ مقرر کیا گیا۔ اِن حصوں میں سے نصف یعنی اٹھارہ سَو حصے تو آپ نے مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے جن میں خود آپ کا بھی حصہ شامل تھا اور باقی نصف آپ نے اِس بات کے لئے محفوظ کر دیا کہ غریبوں کی مشکلات اور حکومت کی ضروریات پر اس کی آمد خرچ ہو۔
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی نصف زمین صحابہؓ میں بانٹ دی تھی۔ اب ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا اِس نصف زمین پر سے عُشر وصول ہوتا تھا یا نہیں؟ سو اِس کے متعلق ابودائود میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن رواحہ ؓ کو خیبر کی طرف بھیجا کرتے تھے اور وہ وہاں جاکر کھجوروں کے درختوں کے پھلوں کی قیمت کا اندازہ لگاتے تھے پیشتر اِس کے کہ لوگ اُس میں سے کچھ کھائیں۔ پھر وہ یہودیوں کو موقع دیا کرتے تھے کہ خواہ وہ اس اندازہ کو قبول کرکے اپنا حقِ مزارعہ رکھ کر ان کو دے دیںیا وہ اس اندازہ کو ردّ کردیں تو ابن رواحہ اپنے اندازہ کے مطابق ان کو حصہ دے کر باقی اپنے پاس رکھ لیں۔ ۳۴؎ یہ وہی طریقہ ہے جسے کنکوت کہتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ وہ اِس لئے ایسا کرتے تھے کہ پھلوں کے کھائے جانے سے پہلے زکوٰۃ کا اندازہ ہو جائے جس کے معنی یہ ہیں کہ خیبر کے عطیات پر بھی زکوٰۃ واجب ہوتی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ سے زیادہ کون جاگیرداری کا مستحق تھا۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ اپنے لئے جاگیرداری کو قبول کیا اور نہ صحابہؓ کیلئے جاگیر داری پسند کی بلکہ زکوٰۃ کا حق سب سے وصول کیا۔
چھٹا باب
کیا زمین کے بڑے بڑے ٹکڑوں کی ملکیت بھی جاگیرداری کی طرح ممنوع ہے؟
اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ نہیں۔ اسلام میں زمین کے بڑے بڑے ٹکڑوں کا مالک ہونا بھی جائز ہے اور چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا مالک ہونا بھی جائز ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حصہ میں جو خیبر کی زمین آئی تھی وہ اتنی بڑی تھی کہ کان ینفق منھا ویاکل و یعود علی فقراء بنی ھاشم ویزوج ایمھم ۳۵؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِس زمین کی آمد میں سے اپنے اخراجات اور اپنے ۹ گھروں کے اخراجات بھی نکالتے تھے اور بنو ہاشم کے غرباء پر بھی اسے خرچ کرتے تھے اور بنوہاشم کی بیوائوں کے نکاح بھی اس روپیہ سے کرتے تھے۔
اِس طرح حدیث میں آتا ہے ۔ قد سال یمیم الداری رسول اللّٰہﷺ ان یقطعہ عیون البلد الذی کان منہ بالشام قبل۳۶؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تمیم داری رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ آپ شام کی بعض نہروں کی زمین اُن کو عطا فرمادیں اور آپ نے اُن کو وہ زمین عطا فرمادی۔
اِس طرح روایت ہے کہ حضرت عمروبن عاص کا طائف میں انگوروں کا ایک باغ تھا جس میں دس لاکھ لکڑی سہارے کی لگی ہوئی تھی ۳۷؎ اگر ایک ایک انگور کے سہارے کے لئے دس دس لکڑیاں بھی سمجھی جائیں تو ایک لاکھ درخت بنتا ہے اور اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ سَو ایکڑ سے بڑا باغ تھا۔ باغ کے ایک ایکڑ کی آمدن دس ایکڑ زرعی زمین سے زیادہ ہوتی ہے گویا ایک ہزار ایکڑ کی ملکیت اُن کے پاس تھی۔
کتاب الخراج صفحہ ۳۵پر شیخ الاسلام امام ابو یوسف ؒ شاگرد حضرت امام ابو حنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ حدثنی بعض اشیاخی من اھل المدینۃ قال اقطع رسول اللّٰہﷺ بلال ابن الحارث المزنی مابین البحر والصخر۳۸؎ یعنی رسول کریم ﷺنے بلال بن حارث کو سمندر اور پہاڑ کے درمیان کا علاقہ سارے کا سارا بخش دیا۔ اِس واقعہ کو سنن ابو دائود باب اقطاع الارضین صفحہ ۴۳۵ پر یوں بیان کیا گیا ہے کہ عمرو بن عوفؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن حارث المزنی کو سمندر سے لے کر مدینہ کے قریب کے پہاڑ قدس تک تمام کانیں اور تمام اونچے ٹیلوں والی زمینیں اور تمام نشیب والی زمینیںعطا فرمادی تھیں لیکن یہ شرط لگادی تھی کہ اس علاقہ میں اگر کسی مسلمان کی زمین ہو تو وہ تم کو نہیں ملے گی اور ان الفاظ میں آپ نے اُن کو ہبہ نامہ عطافرمایا تھا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ھذا ما اعطی محمد رسول اللّٰہﷺ بلال ابن الحارث المزنی اعطاہ معادن القبلیۃ من القدس جلسیھا و غوریھا وحیث یصلح الزرع ولم یعطہ حق مسلم۳۹؎ یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلال بن حارث کو یہ پروانہ دیتے ہیں کہ آپ نے ان کو قبلیہ کی کانیں خواہ وہ اونچی جگہوں پر ہوں یا نیچی جگہوں پر ہوں اور قدس پہاڑ کے پرے جتنی زمین زراعت کے قابل ہے سب کی سب بخش دی ہے۔
یہ زمین اتنی بڑی تھی کہ باوجود اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی فتوحات سے مسلمانوں کے پاس بہت مال آگیا تھا پھر بھی بلال اُن کو آباد نہیں کر سکے اور اس بارہ میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کو ایک قدم اُٹھانا پڑا جس کا ذکر ایک اگلے باب میں آئے گا۔
کنزالعمال جلد ۲ صفحہ۱۹۰ پر سنن بیہقی کے حوالے سے یہ روایت لکھی ہے کہ عن عبداللّٰہ بن الحسن ان علیا سال عمر بن الخطاب فاقطعہ ینبع۔ یعنی عبداللہ بن حسن رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے حضرت عمررضی اللہ عنہ سے خواہش کی کہ وہ انہیں کچھ زمین ہبہ کریں۔ اِس پر اُنہوں نے ینبُع قصبہ سارے کا سارا اُن کے نام لکھ دیا۔
ینبُع ایک قصبہ ہے جو مدینہ منورہ کا بندر گاہ بھی ہے اس لحاظ سے اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ ظاہر بات ہے کہ اس قصبہ کے ساتھ پانچ سات ہزار ایکڑ زمین تو ضرور ہوگی بلکہ اِس سے بھی زیادہ زمین ہوگی۔
اِسی طرح حدیث میں آتا ہے:۔قد اقطع رسول اللّٰہﷺ الزبیر بن العوام رکض فرسہ من موات النقیح فاجراہ ثم رمی بسوطہ رغبۃ فی الزیادۃ فقال رسول اللّٰہِﷺ اعطوہ منتھی سوطہ ۴۰؎ سنن ابودائود میں حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے یہ روایت اس طرح درج ہے کہ اقطع الزبیر حضر فرسہٖ فاجریٰ فرسہٗ حتی قام ثم رمی بسوطہٖ فقال اعطوہ من حیث بلغت السوط ۴۱؎ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرؓ کو سرکاری زمینوں میں سے ایک اتنا بڑا ٹکڑا عطا فرما یا جس میں کہ حضرت زبیر ؓ کا گھوڑا آخری سانس تک دَوڑ سکے۔ حضرت زبیرؓ کا گھوڑا جس جگہ پر جا کر کھڑا ہوا وہاں سے انہوں نے اپنا کوڑا بڑے زور سے اَور پرے پھینکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ نہ صرف اُس حد تک زمین اُن کو دی جائے جہاں اُن کا گھوڑا جا کر کھڑا ہوگیا تھا بلکہ جہاں اُن کا کوڑا گرا تھا اُس حد تک ان کو زمین دی جائے۔ ہمارے ملک کا گھوڑا بھی میلوں میل دَوڑ سکتا ہے اور عرب کا گھوڑا تو بہت زیادہ تیز ہوتا ہے اگر چار پانچ میل بھی گھوڑے کی دَوڑ رکھی جائے تو بیس ہزار ایکڑ کے قریب زمین بنتی ہے۔
امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کتاب الخراج کے صفحہ ۳۴ پر لکھتے ہیں اقطع رسول اللّٰہ ﷺ الزبیر ارضا فیھا… نخل من اموال بنی نضیر و ذکر انھا کانت ارضا یقال لہ الجرف ۴۲؎ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر کو ایک زمین کا ٹکڑا بخشا جس میں کھجور کے درخت بھی لگے ہوئے تھے اور وہ کسی وقت یہودی قبیلہ بنو نضیر کی ملکیت میں سے تھا اور اُس کو جرف کہتے تھے یعنی وہ ایک مستقل گائوں تھا۔ جب ہم پہلی حدیثوں سے اِس حدیث کو ملائیں تو اِس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیرؓ کو اُس وقت اوپر والی زمین بخشی جبکہ وہ پہلے سے ایک گائوں کے مالک تھے جس میں کھجور کے باغ بھی تھے۔
کتاب الخراج کے صفحہ ۳۵ پر امام ابو یوسف علیہ الرحمۃ ایک اور روایت بھی درج فرماتے ہیں جو یہ ہے۔عن ابی رافع قال اعطاھم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ارضا فعجز وا عن عمارتھا فباعوھا فی زمن عمرابن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ بثمانیۃ الاف دینارا او بثمان مائۃ الف درھم۴۳؎ یعنی حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ کے خاندان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہت بڑی زمین دی۔ اُس کی وسعت کی وجہ سے ان کا خاندان اسے آباد کرنے سے قاصر رہا۔ آخر انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں وہ زمین آٹھ ہزار دینار پر جو آٹھ لاکھ درہم کے برابر ہوتا ہے فروخت کردی۔درہم کی قیمت ہمارے زمانہ کے سکّوں کے لحاظ سے ساڑھے تین آنہ بنتی ہے وہ چاندی کا سکہ ہوتا تھا اور دینار سونے کا سکہ ہوتا تھا۔ پس حساب کے رو سے اگر آٹھ لاکھ درہم کو روپوں میں تبدیل کیا جائے تو قریباً دو لاکھ روپے ہوتے ہیں۔ چونکہ اُس وقت سکہ کی قیمت زیادہ گراں ہوتی تھی اور اب سکہ کی قیمت اُس زمانہ سے پندرہ بیس گنا گر گئی ہے اس لئے یہ رقم اس زمانہ کے لحاظ سے پندرہ بیس لاکھ سے کم نہیں بنتی۔
اُوپر کے حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہؓ نے بڑی بڑی زمینداریاں بعض افراد کو بخشی تھیں۔ جن میں سے بعض پندرہ پندرہ، بیس بیس، تیس تیس ہزار ایکڑ پر مشتمل تھیںاور جن میں سے ایک کی قیمت جو بڑی زمینداریوں میں سے نہیں تھی موجود ہ زمانہ کے روپیہ کے لحاظ سے پندرہ بیس لاکھ روپے کی تھی۔
ساتواں باب
کیا زمین کا خود کاشت کرنا ضروری ہے یا اُسے آگے لگان پر بھی دیا جاسکتا ہے؟
اُوپر کے باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ اسلامی شرع کے رُو سے ایک شخص زمین کے بڑے ٹکڑے کا بھی مالک ہو سکتا ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس بڑے ٹکڑے کو کیا کرے گا؟ آخرکوئی شخص اتنے بڑے ٹکڑے کو خود کاشت نہیں کر سکتا۔ یہی صورت ہو سکتی ہے کہ وہ دوسروں کو ملازم رکھ کر کاشت کروائے یا دوسرے لوگوں کو حصہ پر یا لگان پر کاشت کرنے کے لئے اپنی طرف سے زمین دے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اسلام کی رُو سے یہ جائز ہے کہ انسان اپنی زمین پر خود تو کاشت نہ کرے لیکن دوسروں سے کاشت کروا کے ان سے حصہ لے لے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں یہ جائز ہے اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔ مسلمانوں میں اختلاف کی بنیاد شیعہ سُنّی سے پڑتی ہے۔ تیسری پارٹی خوارج کی ان کے بعد آئی۔ شیعوں کو سارا غصہ یہی ہے کہ حضرت ابو بکرؓ نے باغِ فدک کی جائیداد جو آنحضر ت صلی اللہ علیہ وسلم کے اور آپ کے خاندان کے خرچ کے لئے مخصوص تھی اُسے آپ کا ترکہ قرار نہ دے کر حسبِ شریعت تقسیم نہ کیا۔ اِس جھگڑے سے تو ہمیں بحث نہیں کیونکہ اس جگہ پر ہم زمین کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ وہ زمین خواہ وقف تھی خواہ مملوکہ تھی اور خواہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اموال باقی مسلمانوں کی طرح ورثہ میں تقسیم ہو سکتے تھے یا آپ کے بعض ارشادات کے مطابق تقسیم نہیں ہو سکتے تھے، کیا اس کی کاشت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود کیا کرتے تھے یا آپ کے خاندان کے لوگ کیا کرتے تھے؟ زمین تو خیبر میں تھی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے تمام مرد افراد مدینہ منورہ میں رہتے تھے وہ اس زمین کو کاشت کر ہی نہیں سکتے تھے۔ بہر حال دوسرے لوگ ہی اس کی کاشت کرتے ہونگے۔ پس خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کا گزارہ ایک ایسی زمین پر تھا جو آگے مقاطعہ پر دی ہوئی تھی اور جو آمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسے مطہر وجود کے لئے پاک تھی وہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کے لئے کیوں پاک نہیں؟ بہر حال آپ کے فعل نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ اسلام کے رُو سے مالک زمین کا اپنی زمین دوسرے کو مقاطعہ پر دے دینا بالکل جائز اور درست ہے۔ یہ جو کچھ میں نے کہا ہے ایسا واضح معاملہ ہے کہ اس کا کوئی عقلمند انسان انکار نہیں کر سکتا لیکن میں مزید ثبوت کے طور پر بعض احادیث اور روایات بھی اس کی تائید میں پیش کرتا ہوں۔
بخاری میں لکھا ہے۔ عن ابن عمر ان رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم اعطی خیبر الیھود علی ان یعملوھا ویزرعوھا ولھم شطر ماخرج منھا۴۴؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی زمین پر جو آپ نے اپنے لئے اور اپنے صحابہؓ کیلئے اور بیت المال کے لئے تقسیم کردی تھی یہودیوں کو اس شرط پر دے دی کہ وہ اس پر کام کریں اور اس میں زراعت کریں اور جو پیداوار ہو اُس کا نصف اُن کو دیا جائے۔
اہلِ شیعہ کی احادیث میں بھی اس مسئلہ کی تصدیق آتی ہے۔ چنانچہ فروع الکافی جلد ۲ صفحہ ۱۰۳ پر یہ روایت درج ہے کہ
عن یعقوب بن شعیب عن ابی عبداللّٰہ علیہ السلام قال سألت عن الرجل یکون لہالارض من ارض الخراج فیدفعہ الی الرجل علٰی ان یعمرھا ویصلحھا ویودی خراجھا وماکان من فضل فھو بینھما قال لاباس وسالتہ عن المزارعۃ فقال النفقۃ منک والارض لصالحبھا فما اخرج اللّٰہ منھا من شییء قسم علی شرط وکذلک اعطی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خیبر حین اتوہ فاعطاھم ایاھا علی ان یعمروھا ولھم النصف مما اخرجت یعنی یعقوب بن شعیبؓ فرماتے ہیں کہ میں نے امام ابو عبداللہ علیہ السلام سے پوچھا کہ اگر کسی شخص کے پاس خراجی زمین میں سے کچھ حصہ زمین کا ہو تو کیا اُس کے لئے جائز ہے کہ وہ کسی اَور شخص کو وہ زمین دے دے تاکہ وہ اس میں کاشت کرے اور اس کو سنوارے اور گورنمٹ کا خراج اس میں سے ادا کرے اور خراج کے بعد جو کچھ بچ رہے اُسے زمین دینے والے کے ساتھ آدھا آدھا بانٹ لے؟ امام ابو عبداللہ نے فرمایا کہ اِس میں کوئی حرج نہیں وہ ایسا کر سکتا ہے۔ پھر وہ کہتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا کسی سے زمین مقاطعہ پر لے کر اُس میں کھیتی کرنا جائز ہے؟ فرمایا ہاں خرچ تمہارا ہوگا، زمین اُس کی ہوگی۔تم دونوں اس کے حصہ دار ہوگے۔ پھر جو کچھ اس زمین میں سے پیدا ہوگا وہ مقاطعہ کی شرطوں کے مطابق تقسیم ہو جائے گا۔اور فرمایا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو اس طرح کرتے تھے۔ جب خیبر کے یہودی آپؐ کے پاس آئے تو آپؐ نے خیبر کی زمینیں جو مسلمانوں میں تقسیم ہو چکی تھیں، وہ اُن کو اِس شرط پر دِلوادیں کہ وہ اس میں کھیتی باڑی کریں گے اور آدھا حصہ مسلمانوں کو مل جائے گا اور آدھا حصہ اُن کو مل جائے گا۔
اِن روایتوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اسلام کے احکام کے رُو سے اگر کوئی شخص بوجہ بیماری یا غیر حاضری اپنی تھوڑی سی زمین کو خود کاشت نہ کر سکے یا بڑی زمین کو خود آباد نہ کر سکے تو وہ اپنی زمین بٹائی پر دوسرے لوگوں کو دے سکتا ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا اور صحابہؓ نے ایسا کیا اور دوسروں کو ایسا کرنے کا مشورہ دیا۔ پس بٹائی پر زمین کا دینا اسلام کی رُو سے ہر گز ناجائز نہیں۔
آٹھواں باب
کیا زمین صرف بٹائی پر دی جاسکتی ہے یا لگان پر بھی دی جاسکتی ہے اور کیا اس کے لئے کوئی حد بندی مقرر ہے؟
یہ ثابت کر چکنے کے بعد کہ اسلام میں بڑی زمینوں کی ملکیت بھی جائز ہے اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس کے پاس بڑی زمین ہو چونکہ وہ خود کاشت نہیں کر سکتا اور اُسے لازماً زمین دوسروں کو دینی پڑے گی تاکہ وہ اس کی طرف سے کاشت کریں اس کے لئے آیا اسلام نے کوئی قاعدہ مقرر کیا ہے یا مختلف طریقوں کو جائز رکھا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کے رُو سے زمین کو کاشت پر دینے کی کئی جائز صورتیں پائی جاتی ہیں۔
اوّل زمین کو بٹائی پر دینا۔
دوم زمین کو لگان پر دینا۔
سوم زمین اپنے بھائیوں کی امداد کے لئے مفت دینا۔
پہلی صورت یعنی بٹائی پر دینے کے متعلق پہلے مختلف ابواب میں احادیث نقل کی جاچکی ہیں اور بتایا جاچکا ہے کہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زمین اس طرح پر یہودیوں کو کاشت کے لئے دی تھی۔ اِسی بارہ میں بعض اور احادیث اور اقوال بھی نقل کئے جاتے ہیں۔
محلّٰی ابن حزم جلد ۸ کتاب احکام المزارعہ میں لکھا ہے۔ان اخر فعل رسول اللّٰہ ﷺ الی ان مات کان اعطاء الارض بنصف مایخرج منھا من الزرع و من الثمر ففعلہ علیہ السلام فی خیبر ھوالناسخیعنی امام ابن حزم(جو حدیث میں اتنا بڑا پایہ رکھتے ہیں کہ ان کو چھوٹا احمد بن حنبل کہا جاتا ہے) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا آخری فعل جو وفات تک جاری رہا یہ تھا کہ آپ پیداوار کی نصفانصف بٹائی پر زمین مزارع کو دیا کرتے تھے اور کھجوروں کا باغ بھی پیداوار کی نصفا نصف بٹائی پر دیا کرتے تھے۔ پس چونکہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری فیصلہ تھا جو آپ نے خیبر میں نافذ کیا اور آپ کی وفات تک اِس پر عمل کیا گیا اس لئے اگر کوئی حدیث اِس کے خلاف ہے تو یہ فیصلہ اور یہ عمل اُس کو منسوخ کرتا ہے۔
خلفاء اور صحابہ کا عمل بھی اِسی کے مطابق تھا۔ چنانچہ حضرت عمرؓ نے اپنے زمانۂ خلافت میں زمین بٹائی پر دینے کا کام جاری رکھا تھا۔ چنانچہ فتح الباری شرح صحیح بخاری میں لکھا ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب یمن سے یہودیوں اور عیسائیوں کو نکال دیا تو اُن کی زمینیں لوگوں کو ٹھیکہ پر دیں اور شرط یہ کی کہ اگر وہ تمام قسم کے اخراجات خود برداشت کریں تو دو تہائی اُن کا اور حکومت کا ایک ثلث حصہ ہو گا اور اگر عمرؓ یعنی حکومت بیج اپنے پاس سے دیں تو نصف عمرؓ یعنی حکومت کو ملے گااور نصف مزارعین کو ملے گا۔ بعض روایتوں سے پتہ لگتا ہے کہ بعض جگہ پر اس میں کسی قدر تبدیلی بھی ہوئی اور اس طرح بھی مقاطعہ دیا گیا کہ اگر بیج، بیل اور سامانِ کاشت حضرت عمرؓ یعنی حکومت دے تو حکومت کو دو تہائی اور مزارع کو ایک تہائی ملے گا۔ اور اگر یہ چیزیں مزارع دیں تو پھر آدھا حکومت کا ہوگا اور آدھا اُن لوگوں کا ہوگا۔۴۵؎
اسی طرح بخاری باب المزارعۃ میں یہ حدیث درج ہے۔قال قیس بن مسلم عن ابی جعفر قال ما بالمد ینۃ اھل بیت ھجرۃ الا یزرعون علی الثلث والربع و زارع علی وسعد بن مالک و عبداللّٰہ بن مسعود و عمرو بن عبدالعزیز والقاسم و عروۃ بن زبیر و اٰل ابی بکر و اٰل عمر واٰل علی و ابن سیرین و قال عبدالرحمن بن الاسود کنت اشارک عبدالرحمٰن بن یزید فی الزرع۔یعنی ابی جعفرؓ کی روایت ہے کہ مدینہ کے مہاجرین کا ایک خاندان بھی نہیں تھا جو تیسرے یا چوتھے حصہ کی بٹائی پر زراعت نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ حضرت علیؓ اور سعد بن مالکؓ اور عبداللہ بن مسعودؓ اور عمروبن عبدالعزیزؓ اور قاسمؓ اور عروہ بن زبیرؓ اور خاندانِ حضرت ابوبکرؓ اور خاندانِ حضرت عمرؓ اور خاندانِ حضرت علیؓ اور مشہور تابعی ابن سیرین یہ سب کے سب زمین بٹائی پر دیا کرتے تھے۔ عبدالرحمن بن الاسود کہتے ہیں کہ میں بھی عبدالرحمن بن یزید کے ساتھ مل کر یہ کام کیا کرتا تھا۔
اِس حدیث پر علامہ ابن حجر اپنی کتاب فتح الباری جلد۵صفحہ۷ میں یہ نوٹ لکھتے ہیں کہ امام بخاریؓ نے یہ روایت نقل کر کے اِس طرف اشارہ کیا ہے کہ بٹائی پر زمین دینے کے جواز میں کسی صحابی کو اختلاف نہیں خصوصاً مہاجر، اہلِ مدینہ تمام کے تمام اِس بات پر متفق ہیں۔
اِسی طرح ایک روایت میں خالد حذاء یمنی کہتے ہیں کہ مَیں ایک دفعہ حضرت مجاہد کے پاس بیٹھا تھا(یہ ایک بہت بڑے فقیہہ اور مفسر قرآن تابعی تھے) کہ حضرت مجاہد نے رافع بن خدیج کی روایت بیان کی جو زمین کو مقاطعہ پر دینے کے خلاف ہے۔ اس مجلس میں طائوس بھی بیٹھے ہوئے تھے( یہ بھی بہت بڑے تابعی اور مفسر گزرے ہیں۔ )انہوں نے جب یہ روایت سُنی تو اپنے سینہ پر زور سے ہاتھ مارا اور کہا کہ قدم علینا معاذ الیمن وکان یعطی الارض علی الثلث والربع فنحن نعمل بہ الی الیوم ۴۷؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمارے پاس آپؐ کی طرف سے گورنر مقرر ہو کر حضرت معاذ صحابیؓ یمن میں تشریف لائے اور آپ زمین تیسرے یا چوتھے حصّہ پر بٹائی پر لوگوں کو دیا کرتے تھے ہم بھی اِسی طرح بٹائی پر لوگوں کو زمین دیتے رہے اور آج تک دیتے ہیں اس لئے ہم اس دوسری حدیث کی صحت کو تسلیم نہیں کرتے۔
حضرت طائوس کو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے اِس فیصلہ پر اتنا اصرار تھا کہ نسائی میں عمروبن دینار سے روایت لکھی ہے کہ طائوس کہتے تھے اصل طریقہ زمین کو کاشت کے لئے دینے کا بٹائی ہی ہے کسی رقم کے بدلہ پر زمین دینا نا پسند دیدہ ہے (اس بارہ میں تفصیل آگے آئے گی۔)
بخاری کتاب المزارعۃ میں حضرت ابو ہریرہؓ سے ایک راویت آتی ہے کہ انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور غرض کیا کہ ہمارے باغات ہم میں اور مہاجرین میں آدھے آدھے بانٹ دئیے جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر فرمایا یہ صورت ہوسکتی ہے وہ لوگ محنت کریں اور پھل میں تمہارے ساتھ شریک ہوجائیں۔ انصار نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! ہم نے آپؐ کا ارشاد سنا اور ہم ایسا ہی کریں گے۔
ائمہ اہل بیت کا بھی یہی تعامل رہا ہے اور اِسی کے مطابق ان کا فتویٰ تھا۔چنانچہ حضرت امام ابو عبداللہ سے روایت ہے کہ آپؓ نے فرمایا گندم کی معین مقدار پر زمین کا ٹھیکہ مت لیا کرو بلکہ نصف پیداوار یا تہائی پیداوار یا چوتھائی پیداوار یا پانچویں حصہ کی پیداوار پر ٹھیکہ لیا کرو۔ اِس میں کوئی حرج نہیں(فروع الکافی جلد۲ صفحہ ۱۰۲ یہ کتاب شیعوں کی کتب میں حدیث بخاری کا درجہ رکھتی ہے)
اِسی طرح حضرت امام ابو عبداللہ سے یعقوب بن شعیب روایت کرتے ہیں کہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ میری جان آپؐ پر قربان ہو آپ کا کیا فتویٰ ہے اُس زمین کے بارہ میں جو مجھے بادشاہ سے ملے پھر میں اُس کو آگے مقاطعہ پر دے دوں اور یہ شرط کروں کہ جو کچھ اس میں سے نکلے،سلطنت کا حق دینے کے بعد جو بچے گا اُس میں سے نصف یا ثلث میرا ہوگا آیا یہ جائز ہے؟ حضرت امام نے فرمایا۔ اس میں کوئی حرج نہیں میں بھی اِسی طرح اپنی زمینوں کے متعلق کیا کرتا ہوں۔ ۴۹؎
اِسی طرح ابراہیم کرخی بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام ابو عبداللہ سے پوچھا کہ میں اگر کسی ذمی کے ساتھ یہ معاہدہ کروں کہ زمین اور بیج اور بیل میرے ہونگے اور ذمی کے ذمہ زمین کی نگہداشت اور پانی دینا اور ہل چلانا اور گڈائی وغیرہ کرنا ہوگا یہاں تک کہ گندم یا جَو پک جائیں پھر جو فصل پیدا ہو اُس میں سے حکومت کا خرچ ادا کرنے کے بعد جو بچے اُس میں سے وہ ذمی مزارع تو تیسرا حصہ لے اور باقی دو حصّے میرے ہوں تو کیا یہ جائز ہے؟ حضرت امام ابوعبداللہ نے فرمایا۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ ۵۰؎
ائمہ اہل السنت واہل حدیث اور دیگر علماء کا بھی یہی فیصلہ ہے چنانچہ امام نووی شرح مسلم کی جلد۲ صفحہ ۱۴ پر لکھتے ہیں کہ قال ابن ابی لیلٰی وابویوسف و محمد وسائر الکوفیّین وفقھاء المحدثین واحمد وابن خزیمۃ وابن شریح وآخرون تجوز المسا قاۃ والمزارعۃ مجتمعتین و یجوز کل واحد منھما منفردۃً یعنی ابن ابی لیلیٰ اور ابو یوسف اور محمد اور کوفہ کے دوسرے تمام علماء اور محدثین میں سے سب بڑے بڑے فقہاء اور امام احمد اور شافعیوں میں سے ابن خزیمہ اور ابن شریح اور اَور بہت سے علماء باغ اور اس کی زمین کو اکٹھا ٹھیکے پر لینا یا دینا یا زمین کو الگ ٹھیکے پر دینا اور باغ کو الگ ٹھیکے پر دینا جائز سمجھتے ہیں۔
اِسی صفحہ پر اُن کا یہ قول بھی درج ہے کہ ابن شریح اور ابن خزیمہ اور ان کے سوا ہمارے شافعی مذہب کے دوسرے بڑے علماء کی بھی یہی رائے ہے اور یہی پسندیدہ فیصلہ ہے اور اِسی پر ہمارا عمل ہے۔ پھر امام نووی کی یہ رائے بھی اِسی صفحہ پر درج ہے کہ تمام ملکوں کے مسلمان اور تمام پچھلے زمانوں کے مسلمان زمین کو بٹائی پر دینے کے طریقہ پر عمل کرتے رہے ہیں۔
امام ابو یوسف جو امام ابو حنیفہؒ کے شاگردوں میں سے سب سے بڑے پایہ کے سمجھے جاتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ھذا احسن ما سمعنا فی ذالک واللّٰہ اعلم وھو الماخوذ بہ عندنا ۵۱؎ یعنی بٹائی پر زمین دینے کا جو طریق ہے اس کے جائز ہونے کے متعلق جو روایتیں ہیں وہ نہایت ہی ثابت شدہ روایتیں ہیں۔ باقی حقیقی علم خدا تعالیٰ کو ہے مگر ہم لوگ تو اِسی فتو یٰ پر عمل کرتے ہیں۔
اِسی طرح امام نووی سے ان کی شرح مسلم کی جلد ۲صفحہ ۱۲ پر یہ روایت درج ہے کہ مالکیوں میں سے ایک بڑی جماعت کا یہ فتویٰ ہے کہ زمین کو بٹائی پر دینا تیسرے حصہ پر یا چوتھے حصہ پر یا اَور کسی طریق پر جس کا باہم فیصلہ ہو جائے جائز ہے۔
سابق بڑے ائمہ میں سے صرف امام ابو حنیفہؒ ہیں جو اس کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ صرف نقدی پر زمین دی جاسکتی ہے، بٹائی پر زمین نہیں دی جاسکتی۔ امام ابو حنیفہؒ کا یہ فتویٰ امام نووی کی شرح مسلم جلد ۲ صفحہ۱۴ پر درج ہے۔ اور علامہ طحاوی کی کتاب شرح معانی الآثار جلد ۴ صفحہ ۱۳۰ پر بھی یہ فتویٰ درج ہے۔ اس کتاب میں یہ فتویٰ اِن الفاظ میں درج ہے۔ لایجوز المساقاۃ ولا المزارعۃ الا بالدراھم والدنا نیر وما اشبھما من العروض۔ یعنی باغوں کا ٹھیکہ پر دینا یا زمین کا ٹھیکہ پر دینا صرف روپے سونے کے لگان کے بِالمقابل جائز ہے، غلّہ کی بٹائی پر جائز نہیں۔
علّامہ ابن قیم جو اہلِ حدیث اور صوفیاء دونوں میں بڑی عزّت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں اعلام الموقعین جلد ۲ صفحہ ۱۲۶ پر فرماتے ہیں۔ المزارعۃ الطریقۃ المشروعۃ التی فعلھا رسول اللّٰہ ﷺ حتی کانھا رای عین واتفق علیہ الصحابۃ وصح فعلھا عن الخلفاء الراشیدین لایشک فیھا کما حکاہ البخاری ۵۲؎ یعنی زمین کا بٹائی پر دینا ایک شرعی طریقہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے اور اِس حد تک ثابت ہے کہ گویا ہم نے اپنی آنکھوں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عمل کرتے دیکھ لیا ہے۔ اور صحابہؓ نے بھی اِس پر اتفاق کیا ہے اور خلفائے راشدین کا عمل بھی اس پر ثابت ہے جس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں۔ اور امام بخاری نے ایسا ہی روایت کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ صاحب کا بھی یہی مذہب تھا چنانچہ حجۃاللہ البالغہ کی جلد ۲ صفحہ ۱۰۷،۱۰۸ پر یہ عبارت درج ہے۔ المساقاۃ ان تکون اصول اشجر لرجل فیکفی مؤونتھا الاخر علی ان تکون الثمر بینھما والمزارعۃ ان تکون الارض والبذر لواحد والعمل والبقر من الاخر والمخابرۃ ان تکون الارض لواحد والبذرو البقر والعمل من الاخر ونوع اخر ان یکون العمل من احدھما والباقی من الاخر… وکان وجوہ التابعین یتعاملون بالمزارعۃ ویدل علی الجواز حدیث معاملۃ اھل خیبر۔۵۳؎ شاہ ولی اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ مساقاۃ کا لفظ جو حدیثوں میں آتا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ درخت کسی شخص کی ملکیت ہوں اور اُن کو پانی دینے کا کام یا دوسری خدمات کسی اَور شخص کے سپرد ہوں اِس شرط پر کہ پھل وہ آپس میں بانٹ لیں گے۔ اور مزارعت یہ ہے کہ زمین اور بیج ایک کا ہو اور محنت اور جانور وغیرہ دوسرے کے ہوں اور پھر فصل آپس میں بانٹ لی جائے۔ اور مخابرت یہ ہے کہ زمین ایک کی ہو اور بیج اور جانور اور محنت دوسرے کی ہو۔ اور ایک قسم اَور بھی ہوتی ہے کہ صرف محنت ایک شخص کی ہو اور باقی سب اخراجات اور زمین دوسرے کے ہوں۔ تابعیوں میں سے جو بڑے بڑے تابعی تھے وہ لوگ اوپر جو مزارعۃ کی قسم لکھی ہے اُس پر عمل کیا کرتے تھے اور اہلِ خیبر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاملہ کیا اُس سے بھی اِس کی تصدیق ہوتی ہے۔
اوپر کی روایات سے ثابت ہے کہ غیر مشروط طور پر صرف امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک ہی بٹائی ناجائز ہے باقی سب نے یا تو کلّی طور پر اِس کو جائز رکھا ہے یا مقیّد طور پر اِس کو جائز رکھا ہے۔
میں اوپر لکھ چکا ہوں کہ صرف امام ابو حنیفہؒ ہی ہیں جو کلّی طور پر بٹائی کے خلاف ہیں اور یہ بھی واضح کر چکا ہوں کہ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒاُن کے دونوں بڑے شاگرد اُن کے اِس فتویٰ کو تسلیم نہیں کرتے۔ چنانچہ اِس کی سند میں علامہ نووی کا یہ حوالہ پیش ہے وہ فرماتے ہیں المزارعۃ مختلف فیھا عندالحنفیۃ فابو حنیفۃ یقول انھا لاتجوز الابالذھب والورق وابویوسف و محمد یقولان بجوازھا مطلقا وقولھما ھوا لمفتی بہ فیالمذھب لان فیہ توسعۃ علی الناس۵۴؎ یعنی حنفیوں کے نزدیک زمین ٹھیکہ پر دینے کے متعلق اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک چاندی اور سونے کے سِوا اور کسی رنگ میں مقاطعہ پر نہیں دی جاسکتی لیکن امام ابویوسفؒ اور امام محمد اِن کے دونوں شاگرد کہتے ہیں کہ مقاطعہ پر دینا کلّی طور پر جائز ہے اور اِنہی دونوں کے قول کے مطابق حنفیوں میں فتویٰ دیا جاتا ہے کیونکہ اس میں لوگوں کے لئے زیادہ سہولت ہے۔
امام ابوحنیفہ ؒ نے خیبر کی روایت کی یہ توجیہہ کی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احسان تھا ۵۵؎ لیکن ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم احسان کے طور پر بھی کوئی ناجائز فعل تو نہیں کر سکتے تھے جو چیز منع تھی وہ ہر ایک کے لئے منع تھی۔
دوسری توجیہہ امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ سے یہ مروی ہے کہ شاید امام کو بیت المال اور لوگوں کے درمیان معاملات طے کرنے میں خاص حق حاصل ہونگے جو دوسرے لوگوں کو باہم معاملات میں حاصل نہیں۔ ۵۶؎
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کو خود بھی تسلی نہیں کہ اصل وجہ کیا تھی کیونکہ وہ خود بھی تردّد ظاہر کرتے ہیں کہ شاید یہ وجہ ہو یا یہ وجہ ہو۔ اور شاید کے ساتھ تو کوئی نص صریح باطل نہیں ہو سکتی۔ ایک طرف نص ہے اور ایک طرف قیاس۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کے دونوں چوٹی کے شاگرد اِس فتویٰ میں اُن کے خلاف تھے۔
یہ بھی غور طلب بات ہے کہ بٹائی کا طریق کیوں ناپسندیدہ ہے۔ اِس کے ناپسندیدہ ہونے کی وجہ یہی بیان کی جاتی ہے کہ اِس سے کسان کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر یہ وجہ صحیح ہو تو یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ حکومت کے لئے تو یہ جائز ہو کہ وہ کسان کو نقصان پہنچائے لیکن عوام الناس کو جائز نہ ہو کہ وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچائیں۔ اگر اس سے کسان کو نقصان پہنچتا ہے اور اِسی وجہ سے شریعت نے اِس کو منع فرمایا ہے تو حکومت زیادہ حقدار ہے کہ وہ رعایا کے ساتھ احسان کرے اور اِس بات کی زیادہ پابند ہے کہ رعایاکو نقصان نہ پہنچنے دے۔ پس اگر بٹائی کے نادرست ہونے کی جو وجہ بتائی جاتی ہے وہ درست ہے تو پھر عوام الناس کے لئے خواہ بٹائی جائز ہوتی حکومت کے لئے بالکل نا جائز ہونی چاہیے تھی کیونکہ وہ عوام الناس کے حقوق کی محافظ ہے۔ اِس کی حیثیت بھائی بھائی کی نہیں بلکہ اُس کی حیثیت ایک مختارِ کار کی ہے۔ پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمین بٹائی پر دینا ثابت کرتا ہے کہ یہ وجہ درست نہیں ہے۔ اِسی طرح یہ امر بھی سوچنے کے قابل ہے کہ خیبر کی زمین سب کی سب حکومت کی نہ تھی بلکہ اس کا نصف صحابہ میں تقسیم ہو گیا تھا۔ پس اس زمین کا بٹائی پر دینا بتاتا ہے کہ حکومت کے علاوہ عوام بھی بٹائی پر زمین دے سکتے ہیں۔
بٹائی کے متعلق جو بعض اختلافات پائے جاتے ہیں اُن میں سے بعض یہ ہیں:۔
حنابلہ کہتے ہیں کہ بٹائی جائز تو ہے مگر بہتر یہ ہے کہ بیج کی ذمہ داری مالک پر ڈالی جائے یعنی وہ بیج کا دینا مالک پر واجب تو نہیں سمجھتے لیکن اِس بات کو پسندیدہ سمجھتے ہیں کہ مالک یہ ذمہ داری لے۔۵۷؎
مالکیوں کا یہ خیال ہے کہ ہر رنگ میں یہ بات جائز ہے مگر خود امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات نا پسند ہے کہ اُسی زمین کا نکلا ہوا غلّہ بٹائی میں دیا جائے۔ امام مالک کے بعض اقوال میں یہ بھی ہے کہ غلّہ کے بدلہ میں خواہ وہ اُس زمین میں سے نہ بھی نکلا ہو بٹائی نہ کی جائے۔ لیکن اُن کے شاگردوں میں سے بعض کا قول یہ ہے کہ نہیں نہ صرف بٹائی جائز ہے بلکہ اُس غلّہ کے ساتھ بھی بٹائی جائز ہے جو اُس زمین سے پیدا ہوا ہو۔ ۵۸؎
شافعیہ میں بھی اِسی طرز پر اختلاف ہے بعض اِس کو ناجائز قرار دیتے ہیں بعض باغ اور زمین کو اکٹھا دینا جائز سمجھتے ہیں اور بعض مطلق زمین کو دینا جائز سمجھتے ہیں۔۵۹؎
امام شافعیؒ کے نزدیک بھی ایسی زمین جس میں کچھ درخت ہوں بٹائی پر دی جاسکتی ہے ورنہ نہیں۔ گو امام ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک مطلقاً بٹائی ناجائز ہے اور امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک مشروط طور پر جائز ہے اور امام احمد حنبلؒ اور امام بخاریؒ اور امام مسلم اور علاّمہ ابن حزم اور تمام اہلِ حدیث اور حضرت امام ابو حنیفہ ؒکے دونوں بڑے شاگرد اور شافعیوں کے تمام بڑے علماء اور مالکیوں میں سے بھی ایک بڑا حصہ مزارـعت کو مطلقاً جائز سمجھتا ہے۔ حضرت عمربن عبدالعزیز جن کو گویا خلافت کا دوبارہ احیاء کرنے والا سمجھا جاتا تھا وہ بھی غلّہ کی بٹائی کے طریق کو جائز سمجھتے تھے۔ چنانچہ محلّی شرح محلّی کتاب المزارعۃ میں لکھا ہے کہ حضرت عمربن عبدالعزیز نے اپنے گورنروں کو لکھا کہ تمام اُفتادہ زمین مقاطعہ پر دے دو۔ چوتھے حصہ پر لگ جائے تو چوتھے حصہ پر لگا دو، تیسرے حصہ پر لگ جائے تو تیسرے حصہ پر لگا دو، پانچویں حصہ پر لگ جائے تو پانچویں حصہ پر لگا دو۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص زمین کاشت کرنے والا نہ ملے تو اگر کوئی دسواں حصہ دے کر ہی کاشت کرنے پر راضی ہو جائے تو دسویں حصہ پر ہی زمین دے دو لیکن زمین کو خالی نہ چھوڑو۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے خلفاء اور آپ کے صحابہؓ سے عملاً یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے غلّہ کی بٹائی پر زمین مقاطعہ پر دی۔
اب رہا دوسرا طریق یعنی نقدی پر زمین کا دینا سو جیسا کہ بتایا جا چکا ہے امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک تو درحقیقت یہی صورت جائز ہے، بٹائی جائز نہیں۔ اور طائوس کے نزدیک بٹائی ہی جائز ہے روپیہ پر دینا مکروہ ہے۔ بہر حال اِس امر کی تائید میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث موجود ہیں چنانچہ رافع بن خدیج کی روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ زمین تین طرح پر کاشت کی جاسکتی ہے۔ ایک تو اِس طرح کہ کوئی شخص خود زمین کاشت کرے۔ دوسرے اِس طرح کہ کسی اَور نے اُس کو زمین دی ہو اور وہ کاشت کرے۔ تیسرے اِس طرح کہ زمین چاندی اور سونے کے بدلہ میں مقاطعہ پر لے کر کاشت کی جائے۔ ۶۰؎
فتح الباری جلد ۵صفحہ ۱۷ پر لکھا ہے کہ قد اطلق ابن المنذر ان الصحابۃ اجمعوا علی جواز کراء الارض بالذھب والفضۃ… و نقل ابن بطال اتفاق فقھاء الامصار علیہ یعنی ابن المنذر نے قطعی طور پر لکھا ہے کہ صحابہؓ اِس امر پر متفق تھے کہ سونے اور چاندی کے بدلہ میں زمین مقاطعہ پر دینی جائز ہے۔ اور ابن بطال نے بھی لکھا ہے کہ تمام مختلف ممالک کے علمائے اسلام اِس بات پر متفق ہیں کہ سونے چاندی کے بدلہ میں زمین مقاطعہ پر دینی جائز ہے۔ باقی رہا کسی کو زمین مفت بِلا مبادلہ کاشت پر دینا سو اِس کے متعلق کسی کو شبہ ہی نہیں ہو سکتایہ احسان ہے اور احسان کو اسلام ردّ نہیں کرتا۔
نواں باب
کیا حکومت کسی کے مال پر جس میں زمین بھی شامل ہے جبراً قبضہ کرسکتی ہے؟
آجکل بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ بے شک ایک انسان اِس قدر زمین کا مالک بھی ہو سکتا ہے کہ جس کو وہ خود کاشت نہ کر سکتا ہو اور مقاطعہ پر بھی دے سکتا ہے لیکن اگر کسی وقت حکومت مصلحتِ مُلکی کے مطابق چاہے تو اُس سے وہ زمین ضبط بھی کر سکتی ہے۔ لیکن یہ بات درست نہیں۔ اسلام کی رو سے ایسا کرنا ویسا ہی غصب ہو گا جیسا کوئی غیر حاکم کسی دوسرے کی زمین چھین لے۔ پہلی دلیل تو اِس کی یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اور تمام مسلمانوں کے استعمال میں آنے والی مسجد کے لئے مدینہ میں زمین خریدنی چاہی۔ بحقِ حکومت آپؐ نے ضبط کرنے کا ارادہ نہیں کیا۔ دوسرے اِس بارہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور کئی احادیث بھی مروی ہیں جن سے زمین کا ضبط کرنا نا جائز ثابت ہو تا ہے۔ رافع بن خدیج جن کی روایت پر آجکل بہت کچھ مدار رکھا جاتا ہے ان سے کتب احادیث میں ایک روایت ان الفاظ میں آتی ہے۔ قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم من زرع بارض قوم بغیر اذنھم فلیس لہ من الزرع شیی ولہ نفقتہ۶۱؎ یعنی جو شخص کسی زمین پر زمین کے مالک کی اجازت کے بغیر کاشت کرے اُس کو فصل کا کوئی حصہ نہیں ملے گا۔ صرف اُس کا جو خرچ ہے وہ اُس کو دلوایا جائے گا۔
اِسی طرح سعد بن زیدؓ سے روایت ہے کہ قال رسول اللّٰہ ﷺ من اخذ شبرا من ارض بغیر حق طوقہ من سبع ارضین۶۲؎ جو شخص کسی کی زمین بغیر حق کے لے لے تو سات زمینوں کا طوق اُس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔
اَئمہ اسلام نے اِس بارہ میں یہ لکھا ہے کہ وہ آباد زمین جس کا مالک معلوم ہو بادشاہ کو اُس میں کسی قسم کا دخل دینے کا حق نہیں۔ سوائے زکوٰۃ وغیرہ کی وصولی کے جو اُس زمین پر مقررہے۔۶۳؎
حضرت عمربن عبدالعزیز کے متعلق لکھا ہے کہ انہوں نے اپنے لڑکے عبدالمالک سے پوچھا کہ میری حکومت سے پہلے جو خلفاء نے بعض لوگوں کی زمینیں چھین لی تھیں ان کے متعلق لوگ مطالبہ کرتے ہیں تمہاری اس بارہ میں کیا رائے ہے؟ انہوں نے کہا کہ آپ فوراً یہ زمینیں واپس کر یں ورنہ جن لوگوں نے ان پر پہلے خلفاء کے احکام کے ماتحت قبضہ کیا ہوا ہے آپ بھی ان کے گناہ میں شریک ہونگے۔اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فوراً ان جائدادوں کو واپس کرنے کا حکم جاری فرما دیا۔ ۶۴؎
ردّالمختار شامی جو حنفیوں کی نہایت ہی مستند کتاب ہے اِس کی جلد ۵ صفحہ۳۵۵ پر لکھا ہے کہ ملک الظاہر بیبرس (BAYBARS) A۶۴؎ جو مصر کا بادشاہ تھا اُس نے احکام جاری کئے کہ ہر زمیندار ثبوت پیش کرے کہ جو زمین اُس کے پاس ہے وہ اُس کی ملکیت ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکا تو وہ زمین اُس سے چھین لی جائے گی۔ اِس پر شیخ الاسلام امام نووی کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا کہ یہ فیصلہ بالکل جاہلانہ ہے اور محض بغض پر مبنی ہے اور یہ کہ مسلمانوں کے علماء میں سے کسی ایک کے نزدیک بھی ایسا کرنا جائز نہیں بلکہ جس کی ملکیت میں کوئی زمین ہو وہی اُس کا مالک ہے۔ اُس کا قبضہ ہی اُس کے مالک ہونے کا ثبوت ہے اور کسی کے لئے جائز نہیں کہ اُس پر کوئی اعتراض کرے اور نہ یہ کہ اُس سے ثبوت طلب کرے کہ کسی زمانہ میں یہ زمین تمہارے پاس کس طرح آئی تھی (کیونکہ یہ مقدمہ اُس شخص کی طرف سے ہو سکتا ہے جسے اُس کا اصل مالک ہونے کا دعویٰ ہو نہ کہ حکومت کی طرف سے۔) امام نووی بادشاہ کو برابر اِس بارہ میں ملامت کرتے رہے اور وعظ و نصیحتیں کرتے رہے یہاں تک کہ اُس نے اِس حکم کو واپس لے لیا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق ایک روایت میں آتا ہے کہ جب انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے ماتحت یہودیوں اور عیسائیوں کو یمن سے نکالا تو آپ نے اُن کی زمینیں ضبط نہیں کیں بلکہ اُن کی زمینیں خرید یں۔۶۵؎
امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ اِس مسئلہ میں اتنے متشدد تھے کہ جب اُنہیں معلوم ہوا کہ بغداد جس زمین پر آباد کیا گیا ہے وہ دوسرے لوگوں کی ملکیت تھی اور حکومت نے ضبط کی تھی اور اس کی مناسب قیمت ادا نہیں کی تھی تو آپ نے اپنی وفات کے وقت یہ وصیّت کی کہ جو قبرستان اس زمین میں واقع ہے مجھے اُس میں دفن نہ کیا جائے کیونکہ میں اُس زمین میں دفن ہونا ناجائز سمجھتا ہوں جو بغیر مناسب قیمت دینے کے حکومت نے ضبط کر لی ہو۔ چنانچہ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو بغداد کے قبرستان سے باہر کے علاقہ میں دفن کیا گیا۔ آپ کے وقت کا خلیفہ منصور عباسی خود بھی آپ کا جنازہ پڑھنے کیلئے گیا اور اُس نے آپ کا جنازہ پڑھا۔ جب بعد میں اُسے آپ کی وصیّت سنائی گئی تو اُس نے جھنجھلا کر کہا کہ اِس شخص نے زندگی میں بھی مجھے ستایا اور مرتے ہوئے بھی مجھے دکھ دے گیا۔ ۶۶؎
اسی طرح امام ابویوسف جو امام ابو حنیفہؒ کے چوٹی کے شاگرد سمجھے جاتے تھے اور سب سے پہلے شیخ الاسلام تھے وہ تحریر فرماتے ہیں کہ جو زمین بھی سواد کے علاقہ (یعنی عراق) میں سے خلفائے اربعہ نے کسی کو دی ہو بعد میں آنے والے خلفاء میں سے کسی کا حق نہیں کہ اُس زمین کو واپس لے سکے یا اُس شخص سے واپس لے سکے جس نے اُس کو خریدا ہو یا اُس کو ورثہ میں پایا ہو۔ اور جو زمین اس طرح بادشاہ کسی کے ہاتھ سے لے کر کسی اَور کو دے دے اُس کی حالت ویسی ہی ہو گی جیسے کوئی شخص ایک کا حق چُرا لیتا ہے اور دوسرے کو دے دیتا ہے اور یہ بات کسی بادشاہ کے لئے جائز نہیں۔ اِسی طرح کسی بادشاہ کے لئے جائز نہیں کہ وہ ایک مسلمان سے کوئی چیز لے کر دوسرے مسلمان کو دے دے۔ اور نہ یہ جائز ہے کہ کسی غیر مسلم رعایا سے کوئی چیز چھین کر کسی دوسرے کو دے دے۔ اور کوئی چیز کسی کے ہاتھ سے بغیر حق کے نہیں لی جاسکتی۶۷؎ اور حق کی تعریف علماء نے یہ کی ہے کہ جو چیز ورثہ سے ملے یا ہبہ سے ملے یا خریدی جائے یا وقف کی صورت میں کوئی چیز کسی کے سپرد کی جائے یا نص احکامِ شرعیہ کے ماتحت اُس پر قبضہ کیا جائے۔ جیسے زکوٰۃ، عُشر یا لاوارثی وغیرہ۔ اِن پانچ صورتوں کے علاوہ کوئی چیز کسی شخص سے دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہو سکتی۔
دسواں باب
اُن لوگوں کا جواب جن کے نزدیک بڑی زمینوںکی ملکیّت یا زمینوں کا بٹائی پر دینا جائز نہیں یا جن لوگوں کے نزدیک حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ ضرورت کے موقع پر زمینداروں سے زمینیں واپس لے لے
اب میں اُن لوگوں کے اعتراضات کو لیتا ہوں جو زمین کی ملکیّت کے بارے میں یہ پہلو اختیار کرتے ہیں کہ بڑی زمینوں کا رکھنا جائز نہیں، نہ زمین کا بٹائی پر دینا جائز ہے، نہ مقاطعہ پر دینا جائز ہے۔یا تو انسان خود کاشت کرے یا لوگوں کو مفت کاشت پر دے دے اور یہ کہ قرآن کریم کی نص سے ثابت ہوتا ہے کہ زمین خدا تعالیٰ کی ملکیّت ہے اور اُس نے سب بندوں کے لئے اِس کو پیدا کیا ہے اور چونکہ زمین کو اُس نے سب بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے کسی ایک شخص کے ہاتھ میں بہت سی زمین جمع نہیں ہوسکتی کیونکہ اِس سے دوسرے حصہ داروں کو نقصان پہنچتا ہے۔
جہاں تک اِس سوال کا تعلق ہے کہ زمین خداتعالیٰ نے سب انسانوں کے لئے پیدا کی ہے اس لئے بہت بڑی زمین کسی ایک ہاتھ میں جمع نہیں ہو سکتی کیونکہ اِس سے دوسروں کے حقوق کو نقصان پہنچتا ہے اِس کا جواب مَیں پہلے باب میں دے آیا ہوں اور ثابت کر چکا ہوں کہ قرآن کریم کی رُو سے زمین ہی نہیں بلکہ تمام اشیاء خدا تعالیٰ نے تمام انسانوں کے فائدے کے لئے پیدا کی ہیں۔ اگر اتنی زمین کسی شخص کے ہاتھ میں جمع نہیں ہوسکتی جس کی آمدن تین ہزار روپیہ ماہوار تک پہنچتی ہو تو یقینا حکومت کسی شخص کو اتنی تنخواہ بھی نہیں دے سکتی جس کی مقدار تین ہزار روپیہ ماہوار تک پہنچتی ہو اور نہ کسی ڈاکٹر اور وکیل کو اجازت ہوسکتی ہے کہ وہ اِس حد سے زیادہ کمائے جس حد تک کہ زمیندار کی آمدن کو محدود کیا جائے اور نہ کار خانہ داروں اور صنّاعوں کو ایسی اجازت ہو سکتی ہے کیونکہ قرآن کریم میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ کھیتی کے نہیں بلکہ زمین اور اس کی متعلقہ تمام اشیاء کے ہیں جس میں سونا، چاندی، روپیہ، اور سکّہ وغیرہ سب شامل ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جائداد کے خالی پڑا رہنے کے لئے قرآن کریم میں کوئی نص موجود نہیں صرف علماء نے قیاس کیا ہے اور روپیہ، چاندی اور سونے کے جمع نہ رکھنے کے متعلق قرآن کریم میں نص موجود ہے۔ روپیہ سکہ، سونا اور چاندی کے جمع رکھنے کو اِس لئے اہمیت دی گئی ہے کہ روپیہ سکّہ، چاندی اور سونا جمع رکھا جائے تو اِس سے دوسرے لوگ کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے لیکن زمین اگر پڑی رہے اور اس کو استعمال میں نہ لایا جائے تو اس میں خودرَو جھاڑیاں اور گھانس وغیرہ اُگ کر کچھ نہ کچھ فائدہ دنیا کو پہنچا دیتا ہے اس لئے شریعت نے روپیہ سکہ چاندی اور سونے کے جمع رکھنے کو زیادہ خطرناک جرم قرار دیا ہے اور اس کے متعلق نص اُتاری ہے لیکن زمین کا بے فائدہ پڑے رہنا چونکہ کم جرم ہے اس لئے اس کے متعلق کوئی نص نہیں اُتاری۔
زمین کو مال کے مطابق قرار دینے کی سند مندرجہ ذیل ہے:۔
حضرت امام یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ الارض عندی بمنزلۃ المال۶۸؎ یعنی زمین کے متعلق احکام میرے نزدیک وہی ہیں جو مال کے متعلق ہیں۔ یعنی جس طرح مال تجارت پر لگایا جاسکتا ہے یا صنعت و حرفت پر لگایا جاسکتا ہے اسی طرح زمین بھی مقاطعہ یا بٹائی وغیرہ پر دی جاسکتی ہے۔
امام محمد ابن سیرین جو تابعی اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے داماد تھے اور بہت بڑے روحانی اور ظاہری عالم سمجھے جاتے تھے فرماتے ہیں۔ الارض عندی مثل مال المضاربۃ۶۹؎ یعنی میرے نزدیک زمین کے احکام بھی ویسے ہی ہیں جیسا کہ تجارت پر لگائے جانے والے مال کے۔
امام ابن قیم تحریر فرماتے ہیں کہ زمین کے متعلق میرا نظریہ یہی ہے کہ ھونظیر دفع مال الی من یتجر فیہ لجزء من الربح۷۰؎ یعنی زمین کی حیثیت میرے نزدیک وہی ہے جیسا کہ اُس مال کی جسے کوئی شخص کسی دوسرے آدمی کے اِس لئے حوالے کردے کہ وہ اُس کے ساتھ تجارت کرے اور اُس کے نفع کا ایک حصہ اُس کو دے۔
اِن حوالجات سے معلوم ہوتا ہے کہ اِن اَئمّہ نے تسلیم کیا ہے کہ اصل نص مال کے متعلق ہے اِس لئے زمین کے معاملہ کو مال پر قیاس کیا جاتا ہے۔ پس جبکہ اصل نص مال کے متعلق ہے اور زمین کے معاملہ کو اس پر قیاس کیا جاتا ہے تو یہ کہنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کہ زمین کے ذریعہ سے تو زیادہ روپیہ کمانا جائز نہیں لیکن روپیہ کے ذریعہ سے زیادہ مقدار میں روپیہ کمانا جائز ہے۔ کیونکہ ناجائز ہونے کی قیود شریعت نے نص کے ذریعہ سے مال پر لگائی ہیں زمین پر نہیںلگائیں اور فقہاء نے ان قیود کو زمین کی طرف قیاس اور اجتہاد کے ذریعہ سے منتقل کیا ہے۔پس شریعت کا مسئلہ یہ ہوگا کہ اصل حرمت مال کے متعلق ہے اور اجتہاداً ہم اس کو زمین کی طرف منتقل کرتے ہیں۔ پس جو چیز ہم تجارت اور صنعت و حرفت کے متعلق جائز قرار دینگے وہ لازماً اور بدرجہ اولیٰ زمین کے متعلق جائز ہوگی۔
یہ کہنا کہ زمین کا کسی ایک شخص کے پاس ہونا دوسرے افراد کو کمائی سے روکتا ہے اِس لئے اِس بات کو روکنا چاہئے۔ اگر یہ استدلال درست ہے تو بڑی تجارت اور بڑی صنعت و حرفت اور بڑی تنخواہیں بھی سامانِ معیشت کو دوسرے لوگوں تک پہنچنے سے روکتی ہیں بلکہ جتنی زمین ایک شخص کے پاس رہنے دینے کی تجویز بعض لوگ کر رہے ہیں اِس کی آمد کو مد نظر رکھتے ہوئے تو معمولی تجارت اور معمولی صنعت و حرفت کی اجازت بھی کسی شخص کو نہیں دی جاسکتی۔
مندرجہ بالا خیالات کے لوگوں کی طرف سے قرآن کریم کی یہ آیت اپنی تائید میں پیش کی جاتی ہے۔ ۷۱؎
یعنی اے انسانو! کیا تم اُس خدا کی صفات کا انکار کرتے ہو جس نے زمین کو دو اوقات میں پیدا کیا اور اُس کے شریک اور مثیل بناتے ہو حالانکہ وہ تمام جہانوں کو پیدا کرکے اُنہیں ترقی کی طرف لے جانے والا ہے۔ اور اُس نے (یعنی خدا تعالیٰ نے) زمین میں پہاڑ بنائے ہیں اور زمین میں بہت سی کانیں وغیرہ پیدا کی ہیں اور اس میں ان تمام اشیاء کو بقدر اندازہ مہیا کیا ہے جواس کے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں کے لئے قیام کا موجب ہیں اور یہ سب کچھ اُس نے چار وقتوں میں پیدا کیا ہے اور تمام جستجو کرنے والوں کے لئے برابر مواقع بہم پہنچائے ہیں۔
نیز ایک ادنیٰ تدبرّ سے بھی یہ بات معلوم ہو سکتی ہے کہ اس آیت سے اوپر کا استدلال نکالنا بالکل غلط ہے۔ اِس آیت سے اس بارہ میں جو کچھ نکلتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ:۔
(۱) زمین اور اس کی تمام کانیں اور اس کی تمام زراعت اور اُس سے پیداوار ہونے والی یا اُس کے نیچے جمع ہونے والی ساری کی ساری اشیاء خدا تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی ہیں۔
(۲) یہ کہ تمام جستجو کرنے والوں کے لئے اس میں برابر کے حقوق ہیں۔
اس مضمون سے یہ کہاں نکلتا ہے کہ زمین میں سب انسان برابر کے حقدار ہیں۔ اگر اس سے کچھ نتیجہ نکلتا ہے تو یہ کہ ان چیزوں میں سب انسان برابر کے حقدار ہیں۔ لیکن کیا زمین کو تقسیم کرنے والے باقی چیزوں کو بھی تقسیم کرواتے ہیں؟ اگر اس آیت کا وہی مطلب لیا جائے جو کہ نکالا جاتا ہے تو پھر زمین کا سارا لوہا لوگوں میں برابر تقسیم ہونا چاہئے، زمین کی ساری لکڑی لوگوں میں برابر تقسیم ہونی چاہئے، زمین کا سارا پانی لوگوں میں برابر تقسیم ہونا چاہئے، زمین کا سارا مٹی کا تیل اور پٹرول لوگوں میں برابر تقسیم ہونا چاہئے، زمین کی ساری روئی لوگوں میں برابر تقسیم ہونی چاہئے، زمین کی ساری گندم لوگوں میں برابر تقسیم ہونی چاہئے، مگر کیا ایسا ہوتا ہے یا ہو سکتا ہے؟ جو بات عقل کے خلاف ہے وہ یقینا قرآن کریم کی طرف منسوب نہیں کی جا سکتی۔ چنانچہ خود آیت کا اگلا حصہ ہی اِن معنوں کو رد کرتا ہے اور اس آیت کے صحیح مفہوم کو واضح کرتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ سَوَآئً لِّلنَّاسِ تمام انسانوں کے لئے برابر ہے بلکہ یہ فرمایا کہ تمام جستجو کرنے والوں کے لئے برابر ہے۔ یعنی جو شخص بھی صحیح ذرائع کو کام میں لا کر زمین اور اس کی زراعت اور اس کی دھاتوں اور اس کی کانوں اور اس کی کیمیاوی اشیاء سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے گا۔ خداتعالیٰ اُس کو اپنی اس جستجومیں ناکام نہیں کرے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ صحیح ذرائع کو ہندوستانی کام میں لائے تو کامیاب ہو جائے چینی کام میں لائے تو کامیاب نہ ہو یا عیسائی کام میں لائے تو کامیاب ہوجائے لیکن مسلمان کام میں لائے تو کامیاب نہ ہو۔ یا یوروپین کام میں لائے تو کامیاب ہو جائے لیکن مشرقی کام میں لائے تو کامیاب نہ ہو۔ اور یہ حقیقت ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور اس آیت میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ خدا ایک ہے اور کافرو مومن کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ مشرک و موحد کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ اگر دنیا کے کئی خدا ہوتے تو دنیا میں مختلف لوگوں کے لئے مختلف قواعد ہوتے۔ کسی خدا کے ملک میں کچھ قانون ہوتا اور کسی خدا کے ملک میں کچھ قانون ہوتا۔ جیسے امریکہ کی دولت سے امریکن لوگ جس قدر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں ہندوستانی اُس قدر فائدہ نہیں اُٹھا سکتے۔ اسی طرح ایک خدا کے ملک میں اُس کے عبادت گزار زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے اور دوسرے لوگ اجانب قرار دیئے جا کر اُس فائدہ سے محروم کر دئیے جاتے۔ پس معلوم ہوا کہ خدا ایک ہے اور اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔ یہ مضمون لفظوں کے مطابق بھی ہے اور عقل کے مطابق بھی ہے اور حقیقت کے مطابق بھی ہے لیکن جو استدلال اِس سے زمینوں کی برابر تقسیم کے مدعی لوگوں نے کیا ہے وہ تو عقل کے بھی خلاف ہے، حقیقت کے بھی خلاف ہے اور آیت کے الفاظ کے بھی خلاف ہے۔ آخر کیوں خدا تعالیٰ نے یہاں انسان کا لفظ نہیں رکھا ہے جستجو کرنے والے کا لفظ کیوں رکھا ہے؟ اسی لئے کہ یہاں تقسیم کا ذکر نہیں تھا۔ یہاں قابلیت کے نتائج پیدا کرنے کا ذکر تھا اور قابلیت کے نتائج پیدا کرنے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے مختلف جستجو کرنے والوں میں فرق نہیں کیا جاتا خواہ اُن کا مذہب کوئی بھی ہو۔ اگر مسلمان سستی کرنے لگ جائیں اور قوانین قدرت سے فائدہ اُٹھانا چھوڑ دیں اور کفار چُست ہو جائیں اور خداتعالیٰ کے قانونِ قدرت سے فائدہ اُٹھانے لگ جائیں تو دُنیوی طور پر کفار ترقی کر جائیں گے اور مسلمان گر جائیں گے۔ پس اِس آیت سے اگر مسلمان فائدہ اُٹھانا چاہتے تو انہیں یہ فائدہ اُٹھانا چاہئے تھا وہ جھُوٹے توکّل کو کام میں لا کر سست نہ ہو جاتے، علوم کو نہ چھوڑ دیتے، صنعت و حرفت کی طرف سے توجہ ترک نہ کر دیتے اور سمجھتے کہ اِس آیت کے ماتحت دنیا کی دولتیں اور دنیا کے سامان ہمارے لئے مخصوص نہیں بلکہ جو بھی اس کے متعلق کوشش کرے گا اُس کو مل جائے گا۔ اگر اسلام کے دشمن کوشش کریں گے تو وہ اُن کو مل جائیں گے۔ اور اگر صرف مسلمان کوشش کریں گے تو اُن کو ملیں گے کفار کو نہیں ملیں گے۔ اور اگر دونوں کوشِش کریں گے تو دونوں کو اپنی اپنی محنت اور کوشش کے مطابق نتیجہ مل جائے گا۔ پس ہمیں سست نہیں ہونا چاہئے۔
زمین کو برابر تقسیم کرنے کے مدعی اس بات سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں اس قانوں سے یہ نتیجہ نہ نکال لیا جائے کہ ذاتی قابلیت کی کوئی قیمت اِسلام تسلیم نہیں کرتا کیونکہ اس سے ان کی اپنی تنخواہوں اور اپنے کاروبار اور پنی صنعت و حرفت پر بھی اثر پڑتا ہے اِس لئے وہ یہ اصول بھی اسلام کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ اسلام نے ذاتی قابلیت کی قیمت کو تسلیم کیا ہے۔ اس لئے جو شخص ذاتی قابلیت سے کچھ کمائے وہ اُسی کا حق ہے۔ چنانچہ اس کے ثبوت میں وہ قرآن شریف کی یہ آیت پیش کرتے ہیں۔۷۲؎ یعنی اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق میں فضیلت دی ہے۔ پس وہ لوگ جن کو فضیلت دی گئی ہے وہ اپنے غلاموں کو اپنا رزق اِس طرح نہیں دیتے کہ غلام کا اور ان کا حق اُس میں برابر ہو جائے۔ کیا اِس دلیل کے ہوتے ہوئے بھی مشرک اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں؟
اس سے یہ لوگ استدلال کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ذاتی قابلیت کے جوہر کی قیمت کو تسلیم کیا ہے پس زمین سے زیادہ کمانا تو نا جائز ہے لیکن ذاتی قابلیت سے زیادہ کمانا جائز ہے۔ مذکورہ بالا آیت بھی قرآن کریم میں شرک کے ردّ کے لئے آئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ اگر انسان اپنے مال اور اپنی جائیداد میں اپنے غلام کو برابر کا شریک نہیں بناتا تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنی ملکیت میں برابر کا شریک بنا کر ان کو ایک معبود کا رُتبہ کس طرح دے سکتا ہے۔
جب مشرکین پر قرآن کریم میں اعتراض کئے گئے کہ شرک کا مسئلہ عقلاً کسی طرح بھی ثابت نہیں ہو سکتا تو اُنہوں نے اپنے پیشرو مشرکین کی طرح شرک کی یہ تأویل کی کہ جس کو تم شرک کہتے ہووہ شرک ہے ہی نہیں وہ تو کامل توحید ہے۔ ہمارا یہ عقیدہ نہیں کہ خداتعالیٰ کے سواء کوئی اور شخص بھی اپنی ذات میں دنیا کا حاکم ہے بلکہ ہمارا تو یہ عقیدہ ہے کہ خداتعالیٰ نے خود اپنے بعض مقرب بندوں کو اپنے اختیاراتِ حکومت سونپ دیئے ہیں اِس لئے جن لوگوں کی ہم پرستش کر رہے ہیں وہ پرستش در حقیقت خداتعالیٰ ہی کی پرستش ہے پس یہ شرک نہیں۔ اللہ تعالیٰ اِس کے جواب میں فرماتا ہے کہ بادشاہ کے نائب یا ماتحت کو تو اِس لئے اختیار دیئے جاتے ہیں کہ بادشاہ ہر جگہ نہیں پہنچ سکتا۔ جہاں دونوں موجود ہوں یعنی بادشاہ بھی اُسی طرح موجود ہوجس طرح ماتحت۔ جیسے شاہی دربار ہوتا ہے کیا اس جگہ پر بھی بادشاہ کے اختیارات ماتحتوں کی طرف منتقل ہوتے ہیں؟ ایسا نہیں ہوتا۔ بلکہ ایسے موقع پر تو کسی اور کو مخاطب کرنا بھی گستاخی سمجھا جاتا ہے۔ پس چونکہ خداتعالیٰ ہر جگہ موجود ہے اسے اس طرح اختیار سپرد کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے معاملہ میں نائب کی مثال درست نہیں بلکہ یہ مثال درست ہے کہ ایک آقا اپنے گھر میں اپنے غلام کو مساوی حقوق دیدے مگر ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ دور کے علاقوں میں نیا بت کے اختیارات دیئے جاتے ہیں مگر یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک بادشاہ اپنے غلام سے یہ کہے کہ تمہیں میری بیوی بچوں پر یا گھر کے سازو سامان پر یا نوکروں پر برابر کے اختیارات حاصل ہیں۔ اس طرح تو وہ دو عملی پیدا ہوگی کہ اندھیر آ جائے گا اور مالک کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہے گی۔ پس یہ دلیل جو مشرک دیتے ہیں غلط ہے اور خداتعالیٰ ہر گز کسی کو اختیارِ عبودیت عطانہیں فرماتا کیونکہ وہ ذرّے ذرّے کا خود واقف ہے اور ذرّے ذرّے تک اُس کا اقتدار براہ راست پہنچتا ہے۔ اُس کو تحصیلیں اور ضلع اور گورنریاں بنانے کی ضرورت نہیں۔
اصل مفہوم تو اِس آیت کا وہ ہے جو میں نے اوپر بیان کیا ہے لیکن ضمنی طور پر اس سے اور نتائج اخذ کرنا قرآنی اصول کے خلاف نہیں بلکہ درست ہے۔ پس اگر اِس آیت سے وہ معنے بھی نکلتے ہوں جو کہ زمین کو برابر تقسیم کرنے کے خواہش مند مگر ذاتی قابلیتوں کے نتائج میں امتیاز قائم رکھنے کو جائز سمجھنے والے لوگ نکالتے ہیں تو یقینا میں اِس کو درست تسلیم کروں گا۔ لیکن ایک ادنیٰ تدبّر سے بھی یہ بات معلوم ہوسکتی ہے کہ ان کے لئے ایسا کرنا درست نہیں کیونکہ یہ استدلال ان کے پہلے استدلال کے مخالف پڑتا ہے۔ اور قرآن کریم کی کسی آیت کے وہ معنی نہیں لئے جاسکتے جو اس کی کسی دوسری آیت کو ردّ کرتے ہوں کیونکہ قرآن کریم خداتعالیٰ کا کلام ہے اور خداتعالیٰ کے کلام میں اختلاف نہیں ہو سکتا بلکہ کسی معمولی عقلمند انسان کے کلام میں بھی اختلاف نہیں ہوسکتا۔ اگر مختلف ذاتی قابلیت رکھنے والے لوگوں میں مختلف مدارج کو ملحوظ رکھنا ہوگا تو پھر بڑی اور چھوٹی جائداد رکھنے والوں میں بھی مختلف مدارج کو ملحوظ رکھنا ہو گا کیونکہ سوال یہ ہے کہ بڑی جائداد کسی شخص کے پاس آتی کس طرح ہے؟ ظاہر ہے کہ بڑی جائداد تین ہی جائز ذریعوں سے آسکتی ہے۔ اول اِس طرح کہ کسی نے کوئی بڑی جائداد خریدی ہو۔ اگر کسی نے کوئی بڑی جائداد خریدی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ بہت سے روپے کا مالک ہوگا،وہ روپیہ اُس نے اپنی ذاتی قابلیت سے ہی کمایا ہوگا۔ دوسرے تھوڑے سے روپیہ کے ساتھ وہ جائداد بڑھاتا چلا گیا ہو گا۔ اگر ایسا ہے تو یہ بھی ذاتی قابلیت کا ہی نتیجہ ہوگا۔ تیسرے ذاتی قابلیت سے پیدا کرنے والے کی جائداد کا وارث ہو کر۔
اگر شریعت نے ذاتی قابلیت کی قیمت کو تسلیم کیا ہے تو ذاتی قابلیت سے اعلیٰ نوکری پر پہنچنے والا اور ذاتی قابلیت سے اعلیٰ تجارت حاصل کرنے والا اور ذاتی قابلیت سے اعلیٰ صنعت و حرفت کا مالک ہونے والا اور ذاتی قابلیت سے زیادہ زمین کا مالک ہونے والا برابرہیں، ان میں امتیاز کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ زمین بھی نتیجہ ہے ذاتی قابلیت کا، اور عہدہ بھی نتیجہ ہے ذاتی قابلیت کا اور تجارت بھی نتیجہ ہے ذاتی قابلیت کا۔ اور صنعت و حرفت بھی نتیجہ ہے ذاتی قابلیت کا، اگر کہا جائے کہ ہم تو اس شخص کے متعلق بات نہیں کرتے جس نے کہ ذاتی قابلیت کے ماتحت بہت سی زمین حاصل کر لی ہو بلکہ ہم تو اُن اشخاص کا ذکر کرتے ہیں جن کو ورثہ میں زمین ملی ہو تو اس پر بھی وہی اعتراض ہوتا ہے کیونکہ اگر ورثہ میں بڑی زمین مل جانے پر اعتراض ہے تو ورثہ میں بڑی کوٹھی مل جانے پر بھی اعتراض ہونا چاہئے۔ ورثہ میں بڑی تجارت مل جانے پر بھی اعتراض ہونا چاہئے۔ ورثہ میں بڑی صنعت و حرفت مل جانے پر بھی اعتراض ہونا چاہئے۔ آخر جو شخص تین یا چار یا پانچ ہزار روپیہ گورنمنٹ سے تنخواہ لیتاہے۔ کیا اُسے مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ساری کی ساری رقم ماہوار خرچ کردے؟ یا اسے اجازت ہوتی ہے کہ وہ بچے ہوئے روپیہ سے کوٹھیاں اور مکان خریدے؟ یا صنعت و حرفت کے کارخانوں کے حصے خریدے؟ یا بنک میں روپیہ جمع کرادے؟ اور اگر شریعت کا پابند نہیں تو اس کے سود سے فائدہ اُٹھائے؟ اور اگر اسے یہ اجازت ہوتی ہے اور واقعہ میں ایسی اجازت ہے تو کیا ان کوٹھیوں اور مکانوں اور دکانوں اور تجارتی حصوں اور کارخانوں کے حصوں کی وارث اِس کے بعد اُس کی اولاد ہوتی ہے یا نہیں ہوتی؟ اگر اُس کی اولاد اس کے بعد وارث ہوتی ہے حالانکہ اس کمائی میں اولاد کی ذاتی قابلیت کا کوئی دخل نہیں ہوتا تو پھر اگر کسی شخص نے ذاتی قابلیت سے بہت سی زمین خرید لی تو اُس کی اولاد اس کی کیوں وارث نہیں ہو سکتی۔ قرآن شریف میں ذاتی قابلیت کو اگر تسلیم کیا ہے تو جس طرح وہ نوکری اور تجارت اور صنعت و حرفت میں تسلیم کی جائے گی اسی طرح زمین کے متعلق بھی تسلیم کی جائے گی۔ اور اگر ذاتی قابلیت رکھنے والے انسان کی متروکہ جائداد کی اولاد جائز وارث ہو سکتی ہے تو پھر جس طرح نوکری کی آمد سے پیدا کی ہوئی جائداد کی اولاد جائز وارث ہو سکتی ہے یا تجارت اور صنعت و حرفت سے پیدا کی ہوئی جائداد کی اولاد جائز وارث ہوسکتی ہے اسی طرح ذاتی قابلیت سے پیدا کی ہوئی زمینوں کی بھی اولاد جائز وارث ہو سکتی ہے۔
اگر کہا جائے کہ ہم ان لوگوں کے متعلق بھی گفتگو نہیں کر رہے جن کے باپ دادوں نے جائداد خریدی تھی بلکہ ہم تو ان لوگوں کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں جن کی جائدادوں کے متعلق معلوم نہیں کہ وہ جائدادیں ان کو کس طرح ملیں یا جن کو حکومت نے جائدادیں بخشیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو یہ بات غلط ہے کہ یہ لوگ صرف ان لوگوں کے متعلق بحث کر رہے ہیں جن کی جائدادوں کے متعلق علم نہیں کہ وہ کیسے حاصل ہوئی تھیںیا جن کی جائدادیں حکومت کی عطا کردہ ہیں۔ اس مسئلہ پر جتنی بحثیں کی گئی ہیں ان میں قطعی طور پر کوئی استشناء نہیں کیا گیا اور جائدادیں خریدنے والے اور ورثہ میں لینے والے اور گورنمنٹ سے حاصل کرنے والے سب کو برابر قرار دیا گیا ہے لیکن اگر یہ لوگ یہ امتیاز اور فرق تسلیم کر لیں تب بھی ان کا دعویٰ باطل ہے کیونکہ جیسا کہ میں اوپر ثابت کر چکا ہوں کوئی حکومت اپنے سے پہلے زمانہ کی ملکیتوں پر نئے سرے سے بحث نہیں اُٹھا سکتی۔
پہلا ثبوت تو اس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ملتا ہے۔ آپ نے اپنے زمانہ کے صاحب جائداد لوگوں کے متعلق ہر گز یہ سوال نہیں اُٹھایا کہ اُن کو یہ جائداد کس ذریعہ سے حاصل ہوئی۔ جائز ذریعہ سے یا ناجائز ذریعہ سے۔کیونکہ ایک لمبے عرصہ کے بعد کوئی شخص اس بات کو ثابت ہی نہیں کر سکتا کہ اس کے باپ دادا کو جائداد کہاں سے ملی تھی۔ پس شریعت نے ایسے پرانے قبضہ کو جائز قبضہ قرار دیا ہے۔ اگر کہا جائے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بڑی جائدادیں تھیں ہی نہیں۔ چونکہ بڑی جائدادیں نہیں تھیںاس لئے ان کے متعلق اس قسم کی بحث اُٹھانے کا سوال ہی پیدا نہ ہو سکا تھا تو یہ عذر بھی درست نہیں ہوگا اس لئے کہ خود ان معترضین نے تسلیم کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کے پاس ایسی جائدادیں موجود تھیں جو ان کو کافر ماں باپ کی طرف سے ورثہ میں ملی تھیں مگر جن کو وہ اکیلے کاشت نہیں کر سکتے تھے اور وہ زمینیں انہیں دوسرے لوگوں کو کاشت پر دینی پڑتی تھیں اور یہ لوگ مدینہ منورہ کے رہنے والے انصار تھے۔ ان معترضین نے خود وہ حدیثیں نقل کی ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مدینہ میں رہنے والے انصار اپنی ساری زمینیں خود کاشت نہیں کرسکتے تھے اور وہ دوسروں کو زمین کاشت پر دے دیا کرتے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے انہیں نہیں منع فرمایا۔ اس سوال کو الگ رکھ کے کہ آیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں منع کیا یا نہیں کیا؟ یا اگر منع کیا تو کس بات سے منع کیا۔ (اس امر پر میں بحث آگے چل کر کروں گا) ان احادیث سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ مدینہ کے بعض انصار کے پاس اتنی زیادہ زمینیں تھیں کہ وہ خود اُن کو کاشت نہیں کرسکتے تھے اور دُوسروں کو کاشت کے لئے دینے پر مجبور تھے۔ اور جب یہ ثابت ہو گیا تو پھر یہ دیکھنا پڑے گا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ اپنی زمین کے متعلق ثابت کریں کہ ان کے باپ دادوں کو وہ زمین کس جائز ذریعہ سے ملی تھی ورنہ وہ زمین سرکاری زمین سمجھی جائے گی اور بحق سرکار ضبط ہو کر ان کے پاس اتنی ہی زمین رہنے دی جائے گی جس کی وہ خود کاشت کر سکیں باقی دوسرے لوگوں میں تقسیم کردی جائے گی۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ جس سے معلوم ہوا کہ اسلام سے پہلے کی حاصل کردہ جائدادوں کی ملکیت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم فرمایا ہے۔
دوسری دلیل اِس کی تائید میں امام نووی کا فیصلہ ہے وہ بھی میں نویں باب میں درج کر آیا ہوں۔ اس میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ مصر کے بادشاہ بیبرس (BAYBARS) نے اپنے زمانہ کی زمینوں کو اِسی بناء پر ضبط کرنا چاہا کہ لوگ ثابت کریں کہ ان کے باپ دادا کو وہ زمینیں جائز ذرائع سے حاصل ہوئی تھیں ورنہ ان کی زمینیں ضبط کی جائیں گی۔ اِس پر علامہ نووی نے اُس کے خلاف احتجاج کیا اور ثابت کیا کہ تمام علمائے اسلام اِس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص جس جائداد پر قابض ہے وہ اُس کا مالک سمجھا جائے گا سوائے اِس کے کہ کوئی دوسرا مدعی اُس پر نالش کر کے اپنا حق ثابت کرے۔ پس اس معاملہ میں چونکہ حکومت مدعی ہے حکومت ثابت کرے کہ فلاںشخص کے پاس جو جائداد ہے وہ اُس کی نہیں بلکہ حکومت کی ہے اور اُس نے اُس پر ناجائز اور نا واجب قبضہ کیا ہے۔ زمین کے قابض کا یہ فرض نہیں کہ وہ یہ دلیل دے کہ وہ زمین اس کے پاس جائز طور پر آئی ہے۔ اُس کا قبضہ ہی اِس بات کا ثبوت ہے کہ قبضہ جائز ہے۔ اگر قبضہ جائز نہیں تھا تو کیوں نہیں زمین کا مالک بولا اور کیوں نہیں اِس کے خلاف اس نے کوئی کارروائی کی۔ اِس حوالہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دیرینہ قبضہ کے درست ہونے کو جس طرح موجودہ حکومتیں تسلیم کرتی ہیں اسی طرح اسلام کا قانون بھی تسلیم کرتا ہے۔
اگر زمین کی برابر تقسیم کے مدعی سرکاری عطیات کے متعلق اپنے اعتراضات محدود کردیں تو بھی ان کا خیال درست نہیں کیونکہ یہ بھی میں چھٹے باب میں ثابت کر آیا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود لوگوں کو اتنی اتنی زمینیں دیں جن کی وہ خود کاشت نہیں کر سکتے تھے بلکہ جن کے ہزارویں حصہ کے کاشت کرنے کی بھی ان میں طاقت نہیں تھی۔ اسی طرح بعد میں خلفاء نے بھی لوگوں کو ایسے عطیے عطا کئے اور اسلامی بادشاہوں نے بھی لوگوں کو ایسے عطیے دیئے مگر کبھی بھی ان کو نا جائز قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ جیسا کہ میں نویں باب میں ثابت کر چکا ہوں امام ابو یوسف کا یہ فتویٰ ہے کہ اس قسم کے عطیات واپس لینے کا کسی کو ئی حق حاصل نہیں۔ اور اگر کوئی شخص کسی ایسے شخص سے جس کو حکومت نے عطیۃً کوئی زمین دی ہو یا اس کی اولاد سے زمین واپس لے لے تو وہ ویسا ہی غاصب سمجھا جائے گا جیسا کہ ہر ذاتی ملکیت کا غصب کرنے والا۔ (دیکھو نواں باب بعنوان کیا حکومت کسی کے مال پر جس میں زمین بھی شامل ہے، جبرًا قبضہ کر سکتی ہے؟)
اصل سوال تو یہ ہے کہ آیا اسلام اتنی زمین سے زیادہ جس پر انسان خود ہل چلا سکے کسی کو زمین رکھنے کی اجازت دیتا ہے یا نہیں۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ جس بات کی اسلام اجازت دیتا ہے اُسے گناہ نہیں قراردیا جاسکتا اور نہ خلافِ قانون قرار دیا جاسکتا ہے۔ اور جب کوئی چیز نہ گناہ ہے نہ خلافِ قانون تو اُس کی ضبطی جائز نہیں ہوسکتی۔
معترضین اِس جگہ پر تین حوالے پیش کیا کرتے ہیں جن سے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اگر کسی شخص کے پاس اتنی زمین ہو کہ وہ اُسے آباد نہ کر سکے تو وہ زائد زمین یا تو اپنے بھائیوں کو مفت کاشت کرنے کے لئے دے دے یا حکومت اُس سے وہ زمین ضبط کرلے اور دوسرے لوگوں میں تقسیم کردے۔ ان میں سے پہلا حوالہ رافع بن خدیج ؓکی حدیث کا پیش کیا جاتا ہے۔ یہ حدیث بخاری میں درج ہے اور اس کے الفاظ یہ ہیں۔ عن رافع بن خدیج قال نھا نا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن امرٍکان لنا نافعًا اذا کانت لاحد نا ارض ان یعطیھا ببعض خراجھا اوبد راھم وقال اذا کانت لا حدکم ارض فالیمنحھا اخاہ اولیزرعھا۔۷۳؎ یعنی حضرت رافع بن خدیج ؓفرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی بات سے منع فرمایا جو ہمارے لئے نفع بخش تھی اور وہ یہ کہ جب ہم میں سے کسی کے پاس زیادہ زمین ہوتی تھی تو وہ کسی دوسرے شخص کو بٹائی یا روپیہ کے بدلہ میں زمین دے دیتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تمہارے پاس زمین ہو تو یا تو اُسے اپنے بھائی کو کاشت کرنے کے لئے مفت دے دیا کرو یا خود کاشت کیا کرو۔
اسی طرح رافع بن خدیج ؓسے یہ روایت بھی آتی ہے۔ان رسول اللّٰہ ﷺ اتی بن حارثۃ فرأ ی زرعا فی ارض ظھیر فقال ما احسن زرع ظھیر قالوا لیس لظھیر قال الیس ارض ظھیر قالوا بلی ولکنہ زرع فلان۔ قال فخذوا زرعکم وردوا علیہ النفقۃ قال رافع فاخذنا زرعنا ورددنا الیہ النفقۃ۔۷۴؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ اس جگہ پر آئے جہاں بنوحارثہ کی زمینیں تھیں۔ آپ نے ایک کھیتی دیکھی جو ظہیر کی زمین میں تھی اور فرمایا ظہیر کی کھیتی کتنی اچھی ہے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! یہ ظہیر کی تو نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ زمین ظہیر کی نہیں؟ انہوں نے کہا ہاں زمین تو ظہیر کی ہے لیکن اس میں فلاں شخص نے کھیتی کی ہے۔ اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااپنی کھیتی لے لو اور اِس کا خرچ اُس کو دے دو۔ رافع کہتے ہیں اِس پر ہم نے فصل لے لی اور اُس کا خرچ اُسے دے دیا۔
ایک روایت رافع بن خدیج ؓسے اس طرح بیان کی جاتی ہے کہ عن عمہ ظھیر بن رافع قال ظھیر لقد نھانا رسول اللّٰہ ﷺ کان بنا رافقا قلت ما قال رسول اللّٰہ ﷺ۔ قال ماتصنعون بمحا قلکم؟ قلت نؤاجرھا علی الربیع و علی الا وسق من التمر والشعیر قال لا تفعلواازرعوھا او ازرعوھا اوامسکوھا۷۵؎ یعنی رافع بن خدیج ؓکہتے ہیں کہ میں نے اپنے چچا ظہیر بن رافع سے سناآپ فرماتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی بات سے روکا جو ہمارے لئے بڑی سہولت والی تھی۔میں نے کہا کہ وہ کیا بات تھی؟ تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی زمینوں کے ساتھ کیا کرتے ہو؟ میں نے کہا کہ ہم ان کو اس شرط کے ساتھ ٹھیکہ پر دے دیتے ہیں کہ ربیع ہماری اور کچھ کھجوریں اور کچھ جَو ہمارے۔ اِس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا مت کرو۔ یا خود کھیتی کرو یا کسی کو کھیتی کرنے دو یا زمین بنجر چھوڑ دو۔
اِس قسم کی بعض اور روایات بھی مسلم اور دوسری کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نھی رسول اللّٰہﷺ ان یوخذ للارض اجر اوحظ ۷۶؎ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو منع فرمایا کہ ہم زمین کے بدلہ میں کوئی روپیہ لیں یا اس میں سے کوئی حصہ لیں۔
اِنہی جابرؓ سے ایک اور روایت بخاری میں بھی درج ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:۔
کانوا یذر عونھا بالثلث والربع والنصف فقال النبیﷺ من کانت لہ ارض فلیزرعھا اولیمنحھا فان لم یعفل فلیمسک ارضہ۷۷؎ یعنی ہم لوگ تیسرے یا چوتھے حِصّہ پر یا نصف بٹائی پر زمین دیا کرتے تھے۔ یہ معلوم کر کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے پاس زمین ہو یا تو وہ خود کھیتی کرے یا دوسرے کومفت دے دے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو پھر اپنی زمین خالی پڑی رہنے دے کسی کو نہ دے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس بارہ میں ایک ایسی ہی روایت درج ہے۔
بظاہر اِن حدیثوں سے یہی معنی نکلتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو مقاطعہ پر دینے سے کلّی طور پر منع فرمایا ہے اور صرف یہی اجازت دی ہے کہ جو شخص خود کاشت نہیں کر سکتا وہ اپنے کسی بھائی کو مفت زمین کاشت کرنے کے لئے دے دے یا خالی پڑا رہنے دے۔ چونکہ زمین کا خالی رہنے دینا جبکہ اس کے لئے کاشتکار موجود ہوں اسلامی اصول کے خلاف ہے اس لئے اس نہی کے دوسرے معنے یہی نکلیں گے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلاتے تھے کہ ان کو اس سے زیادہ زمین اپنے پاس نہیں رکھنی چاہیے جس کو کہ وہ خود کاشت کر سکیں۔ مگر جیسا کہ میں ابھی ثابت کر وں گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر گز یہ منشا نہیں تھا اور اگر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح ہے تو اس کا بھی وہ مفہوم نہیں جو سمجھا گیا ہے اور نہ جابر رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیثوں کے وہ معنے ہیں جو بظاہر لفظوں سے نظر آتے ہیں۔
پہلی دلیل جو مَیں اصولی طور پر دینا چاہتا ہوں یہ ہے کہ میں اوپر چھٹے باب میں یہ ثابت کر آیا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال بن حارث مزنی کو اتنا وسیع ٹکڑا زمین کا عطا فرمایا کہ ایک چھوڑ ہزار آدمی بھی اُس میں ہل نہیں چلا سکتا تھا۔ اس طرح حضرت زبیرؓ کو آپ نے اتنا بڑا ٹکڑا زمین کا عطا فرمایا جس کا رقبہ کئی مربعہ میل بنتا تھا۔ اس باب میں مَیں یہ بھی حدیث نقل کر چکا ہوں کہ حضرت علی ؓ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک بڑا ٹکڑا زمین کا طلب فرمایا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ ٹکڑا اُن کو دیا۔ اگر رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اور جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کے وہی معنی ہیں جو ملکیت زمین کے مخالف لوگ پیش کرتے ہیں تو اوّل تو خود رافع کے خاندان کے پاس ضرورت سے زیادہ زمین کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ناجائز قرار نہیں دیا ورنہ آپ اُن سے زمین چھینتے کیوں نہ۔ لیکن اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ ان کے پاس وہ زمین پہلے سے چلی آتی تھی اس لئے آپ نے اُن سے چھینی نہیں بلکہ نصیحت کردی تو پھر اوپر کی روایتوں کا کیا جواب ہوگا۔
رافعؓ کے خاندان سے تو آپ نے اِس لئے زمین نہ چھینی کہ اُن کے پاس یہ زمین اسلام سے پہلے کی تھی۔ ہاں اشارہ فرمادیا کہ اتنی زمین رکھنی منع ہے مگر بلال رضی اللہ عنہ اور زبیر رضی اللہ عنہ کو اِن سے بھی کئی سو گنے زیادہ زمین خود کیوں دے دی؟ کون عقلمند کہہ سکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی بڑی زمین دیتے وقت یہ نہیں سمجھتے تھے کہ ایک ہل یا بیٹوں کے ہل ملا کر تین چار ہل بیسیوں مربع میل علاقہ میں کاشت نہیں کر سکتے۔ پھر کون مان سکتا ہے کہ اِس حکم کے ہوتے ہوئے حضرت علیؓ جیسا مستغنی انسان حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ینبع کے قصبہ کی زمین طلب فرمائے گا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسا انسان اِس ممنوع سوال کو قبول کر لے گا اور وہ زمین اُن کو دے دیگا۔میں نے رافع کی روایت میں چند الفاظ کا ترجمہ نہیں کیا تھا۔ صرف عربی الفاظ ہی دُہرادیئے تھے اور اس کی ایک وجہ تھی۔ وہ وجہ یہ تھی کہ زمین کی ملکیت کے مخالف لکھنے والوں میں سے ایک صاحب جنہوں نے گورنمنٹ کی کمیٹی میں اپنی رائے علیحدہ لکھ کر پیش کی ہے اُنہوں نے اِن احادیث میں آنے والے الفاظ ربیع اور اربعاء کا ترجمہ یہ کیا ہے کہ ہم چوتھے حصہ پر بٹائی کیا کرتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس سے منع فرمایا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان صاحب نے بجائے اصل حدیثیں دیکھنے کے کسی ناواقف شخص کے ترجمہ سے یہ حدیثیں اخذ کی ہیں ورنہ وہ اتنی بڑی غلطی نہ کرتے۔ ان احادیث میں جو ربیع اور اربعاء کے الفاظ آتے ہیں ان کے معنی چوتھے حصہ کے نہیں بلکہ ربیع کے معنے چھوٹی نہر کے ہو تے ہیںاور اربعاء اس کی جمع ہے جس کے معنی ہیں چھوٹی نہریں۔ پس جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہیر ؓ سے سوال کیا کہ تم اپنی زمینوں کے ساتھ کیا کرتے ہو؟ تو جو جواب حضرت ظہیر رضی اللہ عنہ نے دیا اس کے یہ معنے نہیں تھے کہ ہم چوتھے حصہ پر بٹائی کرتے ہیں اور کھجور اور جَو کا کچھ وزن مقرر کر لیتے ہیں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو منع فرمایا بلکہ ظہیر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ تھا اور یہی معنی عربی کے ہیں کہ ہم جس کو زمین بٹائی پر دیتے تھے اُس سے یہ شرط کر لیتے تھے کہ جو حصہ فصل کا نہروں کے کناروں پر آئے گا وہ سارا ہمارا ہوگا اور جو باقی بچے گا اُسے اُس کے بدلہ میں تم کچھ کھجوریں اور کچھ جَو جو پہلے مقرر کر دئیے جاتے تھے ہم کو دے دیا کرنا۔ ظاہر ہے کہ یہ طریق خالص جوئے بازی کا ہے۔ اوّل تو یہ فعل نہایت ظالمانہ ہے کہ پانی کے کنارے کی جو اعلیٰ فصل ہو اُس کو اپنے لئے مخصوص کر لیا جائے۔ دوسرے یہ بھی ناجائز فعل ہے کہ بغیر اِس علم کے کہ زمین سے کیا پیدا ہوگا اور کیا نہیں ہوگا قبل از وقت کچھ مقدار غلّہ کی اور کچھ کھجور کی مقرر کر لی جائے کہ یہ تم نے ہم کو ضرور دینی ہے خواہ فصل پیدا ہو یا نہ ہو۔
یہ استدلال میرا نہیں بلکہ خود رافع بن خدیج ؓ نے دوسری حدیثوں میں اس کی تشریح کردی ہے چنانچہ رافع بن خدیج ؓ کی ایک حدیث ان الفاظ میں کتابوں میں آتی ہے۔ حدیثنی عمای انھما کانا یکریان علی عھد رسول اللّٰہﷺ بما ینبت علی الاربعاء وشی ء یستثنیہ صاحب الارض فنھی النبیﷺ عن ذالک ۷۸؎ یعنی رافع بن خدیج ؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے دونوں چچوں نے ذکر کیا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زمین مقاطعہ پر دیا کرتے تھے اور شرط یہ ہوتی تھی کہ جو فصل پانی کی نالیوں کے کنارے پر ہو اور جو فصل اُن ٹکڑوں پر ہو جن کو زمین کا مالک خود پسند کرے وہ اُس کی ہوگی اور باقی مزارع کی ہوگی اِس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو منع فرمایا۔
اس حدیث میں بھی اربعاء کا لفظ ہے جو ربیع کی جمع ہے اور اس کے معنے چوتھے حصے کے نہیں بلکہ پانی کے نالوں کے کناروں کی فصل کے ہیں۔ چنانچہ یہ حدیث جہاں بخاری میں آتی ہے وہاں اسکی شرح میں علامہ ابن حجرؓ لکھتے ہیں الاربعاء جمع ربیع وھوالنھر الصغیر والمعنی انھم کانوا یکرون الارض ویشترطون لانفسھم ماینبت علی الانھار۔۷۹؎ یعنی اربعاء کا لفظ جو اِس حدیث میں آیا ہے وہ ربیع کی جمع ہے اور اِس کے معنی چھوٹی نہر کے ہیں اور حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اُس زمانہ میں لوگ زمین مقاطعہ پر دیتے وقت یہ شرط کر لیا کرتے تھے کہ جو فصل نہروں کے کناروں پر ہوگی وہ مالک لے گا۔
علّامہ شوکانی اس حدیث کو پیش کر کے یہ نوٹ لکھتے ہیں:۔ ھذا الحدیث یدل علی ان سبب النھی ھو ھذا و وجہ ذالک الجھالۃ وتجویز عدم حصول ماینبت فی المکان الذی کان التاجیر علی مایخرج منہ وعلیہ یحمل ماورد من مطلق النھی عن المخابرۃ۸۰؎ یعنی اس حدیث سے پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سے منع فرمایا وہ یہی بات تھی نہ کہ زمین کا بٹائی پر دینا۔ اور اس مناہی کی وجہ یہ ہے کہ یہ امر کہ فلاں ٹکڑا میں کیا فصل ہوگی غیر معلوم ہے اور جوئے کی قسم ہے اور اِس سے یہ بھی خطرہ پیدا ہوتا ہے کہ معینہ مقدار غلّہ کی مالک کو دے کر مزارعہ کے لئے کچھ بھی نہ بچے حالانکہ مزارعۃ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مزارع کا بھی فصل میں حصّہ ہوگا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مخابرۃ سے منع فرمایا ہے اُس سے بھی یہی مراد ہے۔
مسلم کی ایک روایت سے پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صرف یہی طریقہ مقاطعہ کا رائج تھا چنانچہ اُس میں یہ حدیث آتی ہے ۔عن حنظلۃ بن قیس الانصاری قال سألت رافع بن خدیج عن کراء الارض بالذھب والورق قال لابأس بہ انما کان الناس یؤاجرون علی عھدالنبی ﷺ علی الماذیانات واقبال الجداول واشیاء من الزرع فیھلک ھذا ویسلم ھٰذا۔ ویسلم ہذا ویھلک ھذافلم یکن للناس کراء الاہذا فلذلک زجر عنہ۸۱؎ یعنی حنظلہ بن قیس انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رافع بن خدیج ؓ انصاری سے پوچھا کہ کیا زمین کا سونا چاندی کے مقاطعہ پر دینا بھی منع ہے؟ حضرت رافع ؓ نے فرمایا اِس میں کوئی حرج نہیں۔ بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ ماذیانات اور اقبال الجداول اور کھیتی کے کچھ حصّہ کی شرط پر زمین مقاطعہ پر دیا کرتے تھے تو کبھی یہ حصہ مارا جاتا اور وہ بچ جاتا اور کبھی وہ مارا جاتا اور یہ بچ جاتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اِس کے سوا مقاطعہ پر دینے کا کوئی طریق نہیں تھا پس آپؐ نے اِس سے منع فرمایا۔
حدیث کے یہ الفاظ کہ لوگ ماذیانات اور اقبال الجداول پر زمین مقاطعہ پر دیا کرتے تھے اِس کے معنی علامہ نووی نے شرح مسلم کی جلد ۲صفحہ ۱۳ پر یوں درج کئے ہیں۔
ماذیانات کے معنی پانی کی نہریں ہیں یا پانی کی نہروں کے کناروں پر جو کھیتی اُگتی ہے۔ اور یہ لفظ غیر زبان کا ہے جو عربی میں اختیار کر لیا گیا ہے۔ علامہ ابن الا ثیر فر ماتے ہیں کہ یہ ماذیان کی جمع ہے جس کے معنی بڑے نالے کے ہیں اور حدیث کے معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ زمین اِس شرط پر مقاطعہ پر دیتے تھے کہ جو شخص اِس زمین کو کاشت کرے وہ نہروں کے کناروں کی فصل مالک کو دے دے اور پانی کی نالیوں پر جو فصل ہووہ بھی مالک کو دے دے یا وہ یہ شرط کیا کرتے تھے کہ جب فصل ہو گی تو فلاں ٹکڑے کی فصل میں لے لُوںگا اور فلاں ٹکڑے کی فصل تجھے دے دونگا۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمادیا کیونکہ اس میں دھوکا ہوتاہے۔
اِس حدیث سے بھی واضح ہے کہ خود رافع بن خدیج ؓ کے نزدیک مقاطعہ پرزمین دینے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع نہیں فرمایا بلکہ اس دھوکا دینے والے طریق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے جس کو اسلام کے علماء نے کبھی بھی پچھلے پونے چودہ سَو سال میں جائز نہیں رکھا۔ بلکہ یہ طریق متفقہ طور پر تمام مسلمانوں کے نزدیک خواہ وہ سنّی ہوں یا شیعہ ہوں یا خارجی ہوں منع اور حرام ہے کیونکہ اس میں جوئے کا رنگ پایا جاتا ہے
مسندابودائود میں بھی اس حدیث کو درج کرکے یہ لفظ لکھے ہیں حدیث ابراھیم ھذا اتم ۸۲؎ یعنی اس بارہ میں جتنی حدیثیں آئی ہیں ان میں سب سے زیادہ ابراہیم کی مذکورہ بالا حدیث ہی مکمل ہے۔
حنفیوں کی معتبر ترین کتابوں میں سے مشہور کتاب طحاوی میںلکھاہے عن رافع بن خدیجؓ قال کنا بنی حارثۃ اکثر اھل المدینۃ حقلا وکنا نکری الارض علی ان ماسقی الماذیانات والربیع فلنا وما سقت الجداول فلھم فربما سلم ھذا و ربما ھلک وسلم ھذا ولم یکن عندنا یومئذ ذھب ولا فضۃ فنعمل ذالک فسئلنا رسول اللّٰہﷺ عن ذالک فنھانا۸۳؎ یعنی رافع بن خدیج ؓ فرماتے ہیں کہ ہمارا قبیلہ بنو حارثہ مدینہ میں سب سے زیادہ زمینوں کا مالک تھا اور ہم اپنی زمینیں اِس شرط پر مقاطعہ پر دیا کرتے تھے کہ بڑے نالے اور چھوٹے نالے سے براہ راست پانی لے کر یا اُس کے کناروں پر جو فصل ہوگی وہ ہماری ہوگی اور کھائیاں کھود کر جس زمین کو پانی دیا جائے وہ مزارع کی ہوگی نتیجہ یہ ہوتا کہ کبھی یہ سلامت رہ جاتی اور وہ ہلاک ہو جاتی اور کبھی وہ سلامت رہ جاتی اور یہ ہلاک ہو جاتی۔ اُس زمانہ میں ہمارے پاس سونا چاندی نہیں ہوتا تھا کہ ہم اُس کے ذریعہ سے یہ کام کرتے۔ سوہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس بارہ میں دریافت فرمایا تو آپؐ نے ہم کو اِس بات سے روک دیا۔
یہ حدیث بھی اس بات پر شاہد ہے کہ مناہی زمین کو مقاطعہ پر دینے کی نہیں تھی بلکہ اُس غلط طریق پر جو جوئے کے مشابہہ تھا مقاطعہ پر دینے کی تھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینہ میں رائج تھا۔
بعض صحابہؓ نے تو رافع کی حدیث کو باوجود ان تشریحات کے غلط قرار دیا ہے چنانچہ مسند ابودائود اور طحاوی دونوں میں ایک حدیث درج ہے جو ان الفاظ میں آئی ہے۔ وانکر بعض علی رافع و قال انہ لم یحفظ اوّل الحدیث لان عروۃ قال قال زید بن ثابت یغفر اللہ لرافع بن خدیجؓ انا واللّٰہ کنت اعلم بالحدیث منہ انما جاء رجلان من الانصار الی رسول اللّٰہﷺ قد اقتتلا فقال ان کان ھذا شانکم فلاتکروا المزارع فسمع قولہ لاتکروا المزارع۸۴؎ یعنی بعض لوگوں نے رافع ؓ کی اِس حدیث کو بالکل ردّ کر دیا ہے اور وہ لوگ اِس کے بارہ میں یہ کہتے ہیں کہ رافع ؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کا ایک حصہ یاد رہ گیا اور دوسرا بھول گیا۔ چنانچہ عروہ کہتے ہیں کہ میں نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ (یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی جن کے سپُرد حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمر ؓ نے قرآن شریف کے جمع کرنے کی ڈیوٹی لگائی تھی اِس بناء پر کہ یہ سب سے زیادہ قرآن شریف کو جانتے اور نہایت دیانتدار آدمی ہیں) کو یہ کہتے سنا کہ اللہ تعالیٰ رافع بن خدیجؓ کی غلطی معاف فرمائے۔ خدا کی قسم! مجھے یہ حدیث اُن سے زیادہ معلوم ہے۔ میں اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا تھا جب یہ واقعہ ہوا آپؐ کے پاس انصار کے دو آدمی جھگڑتے ہوئے آئے (معلوم ہوتا ہے اُن میں سے ایک رافع کے چچا تھے اور ایک اُن کا مزارع تھا) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اُن کو اِس طرح جھگڑتے ہوئے دیکھا تو آپؐ نے فرمایا اگر تم لوگوں کی حالت ایسی ہی ہے کہ ان باتوں پر لڑنے جھگڑنے لگ جاتے ہو تو زمین مقاطعہ پر دو ہی نہ اِس جھگڑے کو ختم کرو۔ معلوم ہوتا ہے رافعؓ نے اتنا فقرہ تو سُن لیا کہ زمین مقاطعہ پر نہ دو اور باقی بات نہ سنی۔
میں کہتا ہوں کہ خود رافعؓ کی حدیث سے میں اوپر ثابت کر آیا ہوں کہ رافع خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود ہی نہیں تھے اُن کو اُن کے چچا نے گھر پر آکر یہ بات سُنائی۔ پس ہو سکتا ہے کہ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا ہو کہ اس قسم کے لڑائی جھگڑوں کو بند کرنے کے لئے میں فی الحال مزارعۃ کو ہی روکتا ہوں تو انہوں نے اپنے بھتیجے کو بات کا خلاصہ سنا دیا اور بھتیجے نے اِس سے ایک غلط نتیجہ نکال لیا۔ اور اِس کی قطعی دلیل یہ ہے کہ زید بن ثابتؓ جو نہایت اعلی پائے کے صحابی ،کاتبِ وحئی قرآن اور جامع قرآن اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سیکرٹری تھے قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ رافع نے یہ بات نہیں سمجھی۔ میں خود اس موقع پر موجود تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات یوں نہیں فرمائی بلکہ یوں فرمائی ہے۔
اِسی طرح ایک اور حدیث بھی اس بارہ میں آئی ہے جو یہ ہے۔ عن سعید بن المسیب عن سعد بن ابی وقاص قال کان اصحاب المزارع یکرون مزارعھم فی زمان رسول اللّٰہﷺ بما یکون علی الساقی من الزرع فجاؤوا یختصمون فنھاھم رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ان یکروا بذلک وقال اکروا بالذھب والفضۃ۸۵؎ یعنی سعید بن مسیّب نے سعد بن ابی وقاصؓ صحابی سے جو عشرہ مبشرہ میں سے تھے یہ روایت کی ہے کہ زمینوں والے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اپنی زمینیں مقاطعہ پر دیا کرتے تھے اور شرط یہ کیا کرتے تھے کہ جو نہروں کے کناروں پر فصل ہوگی وہ اُن کی ہوگی اور دوسری جگہ جو پانی سے دُور ہوگی وہ مزارع کی ہوگی۔ ایک دفعہ ایسے لوگ جھگڑتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اِس شرط پر مقاطعہ دینے سے منع فرما دیا اور ارشاد فرمایا کہ چاندی اور سونے کے بدلے زمین دیا کرو۔
امام محمد جو حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے اعلیٰ پایہ کے شاگرد تھے فرماتے ہیں کہ جعفر بن محمد نے اپنے والد سے یُوں روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کو مقاطعہ پر دینے سے منع نہیں فرمایا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے ایک دوسرے کے ظلم کی شکایتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچائیں۔ بعض آدمی اپنی زمین مقاطعہ پر دیتے تھے اور یہ شرط کر لیتے تھے کہ بڑی نہر سے براہ راست جس زمین کو پانی لگے یا جو نہر کے کناروں پر اُگے وہ اُن کی ہوگی۔ بعض دفعہ اِس پر جھگڑا ہو جاتا( مالک اچھی فصل دیکھ کر ایک لمبا قطعہ مقرر کر دیتا کہ یہ قطعہ نہر کے کنارے کا قطعہ ہے۔ یا درمیان کی فصل خراب دیکھ کر مزارع عین نہر کے سرے پر نشان دہی کرتا تھا کہ اتنا چھوٹا سا حصّہ نہر کا کنارہ ہے باقی نہیں) جب اِس قسم کے جھگڑوں کی شکایت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپؐ نے اِس قسم کے جھگڑے والی بات سے منع فرمادیا۔۸۶؎
پس امام محمد نے اِس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ نہی اس جھگڑے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور حقیقی نہیں بلکہ ایک قید ہے۔
علّامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقاطعہ سے منع نہیں فرمایا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس غلط شرط سے منع فرمایاہے۔۸۷؎
حضرت شاہ ولی اللہ صاحب جن کے حوالوں پر زمینداری کے مخالفوں نے خاص طور پر انحصار رکھا ہے وہ تو اِس سے بھی آگے چلے جاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ ھذہ الممانعۃ علی مصلحۃ خاصۃ بذلک الوقت من جھۃ کثرۃ مناقشتھم فی ھذہ المعاملۃ حینئذ ۸۸؎ یعنی یہ ممانعت خاص مصلحت کے ما تحت اُس محدود زمانہ کے لئے تھی کیونکہ اُس وقت اِس بارہ میں جھگڑے بہت بڑھ گئے تھے۔
طائوس تابعی اور مفسر قرآن کہتے ہیں کہ مجھ سے مسلمانوں کے علماء میں سے سب سے بڑے عالم یعنی حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقاطعہ سے منع نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا تھا کہ اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کو زمین مفت دے دے تو یہ مقاطعہ سے بہتر رہے گی۔ ۸۹؎
میں یہ کہتا ہوں زمین اپنے بھائی کو مفت دے دینا یقینا ایک احسان ہے اور احسان سود سے اچھا ہوتا ہے۔
اسی طرح علامہ شوکانی نے ابن عباسؓ کی یہ روایت درج کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقاطعہ سے منع نہیں فرمایا لیکن یہ فرمایا کہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے نرمی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ ۹۰؎
علماء نے ان تمام احادیث پر غور کرنے کے بعد یہ فتویٰ دیا ہے کہ احادیث رافع بن خدیج مضطرب المتون ولذلک ضعفھا بعض المحدثین۔۹۱؎ یعنی رافع بن خدیج ؓ کی حدیث اس بارہ میں بہت سے اختلاف رکھتی ہے اس لئے بعض محدثین نے اِس کو کمزور قرار دیا ہے۔
ابن شہابؓ( یعنی امام زہری جو اَئمہء فقہا ء اور محدثین کے استادوں میں سے تھے اور تابعی تھے) فرماتے ہیں کہ میں نے سالم بن عبداللہؓ (حضرت عمرؓ کے پوتے) سے پوچھا کہ زمین کا مقاطعہ پر دینا کیسا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ سونے اورچاندی پر دینے میں تو کچھ بھی حرج نہیں۔ اِس پر میں نے کہا کہ آپ نے وہ حدیث تو سنی ہے جو رافع بن خدیج ؓ کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا رافع نے اس معاملہ میں تعدی سے کام لیا ہے۔ اگر میرے پاس زمین ہوتی تو میں اُسے ضرور مقاطعہ پر دیتا۹۲؎ (اور اِس حدیث کی کوئی پرواہ نہ کرتا کیونکہ یہ حدیث رسول نہیں بلکہ رافع کا غلط خیال تھا)۔
جیسا کہ میں اوپر درج کر آیا ہوں جن علماء نے رافع بن خدیج ؓ کی روایت کو صحیح تسلیم کیا ہے انہوں نے بھی یہ فتویٰ دیا ہے کہ یہ ابتدائے اسلام کا حکم تھا بعد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کو منسوخ فرمادیا اور خیبر کی زمینیں مقاطعہ پر دیں اور آخر عمر تک برابر مقاطعہ پر دیتے رہے اور اسی طرح آپ کے بعد خلفاء اور صحابہؓ کرتے رہے۔
یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے کیوں منع فرمادیا اور پھر کیوں اِس کو جائز قرار دے دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق یہ تھا کہ جب ایک بُرائی کسی قوم میں رائج ہوتی تھی جس کی اصلاح کی جاسکتی تھی تو آپ پہلے اُس سے قطعاً منع فرمادیا کرتے تھے۔ جب قوم کی عادت درست ہو جاتی تو پھر اصلاح شدہ امر کو جاری فرمادیتے تھے۔ چونکہ مدینہ کے لوگوں میں اوپر کے بیان کردہ مقاطعہ کے طریق کے سوا اور کوئی رائج نہیں تھا اور اس طریق میں جوئے بازی کا رنگ پایا جاتا تھا اِس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر کہ ساری کی ساری قوم ایک عادت میں مبتلا ہے پہلے اِس سے قطعاً منع فرمادیا پھر جب دیکھا کہ وہ عادت ان کی چھٹ چکی ہے تو پھر وہ طریق جو اسلام کے مطابق تھا جاری کردیا یعنی ساری پیداوار پر خواہ وہ کناروں کی ہو یا بیچ کی ہو، تھوڑی ہو یا بہت ہو اُس کو جمع کر کے زکوٰۃ دینے کے بعد اُس کا مقررہ حصہ مالک کو دے دیا جائے۔
اِس طریق کی میں ایک اور مثال پیش کرتا ہوں جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس حکیمانہ فعل پر روشنی پڑتی ہے۔ حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عبدالقیس کا جو ربیعہ قبیلہ کا ایک حصہ تھا ایک وفد آیا اور اُنہوں نے اسلام قبول کیا اور آپ سے چلتے وقت کچھ نصائح کی درخواست کی۔ اِس پر آپ نے اُن کو جہاں بعض اور نصیحتیں کیں وہاں یہ بھی فرمایا کہ تم سبز روغن کئے ہوئے برتن اور سوکھے کدّو کے بنے ہوئے پیالے اور لکڑی کے کھود کر بنائے ہوئے برتن اور وہ برتن جن پر لُک لگایا گیا ہو استعمال نہ کیا کرو۔ ۹۳؎
اِس کی وجہ درحقیقت یہ تھی کہ وہ لوگ اِن چار برتنوں میں شراب بناتے تھے۔ آپ نے اُن کی شراب کی عادت کا اندازہ لگا کر یہ فیصلہ فرمایا کہ اگر یہ برتن ان کے سامنے آتے رہے تو پھر شراب بنانے لگ جائیں گے اور شراب پینے لگ جائیں گے اس لئے بہتر ہے کہ اِس سے ان کو کُلّی طور پر روک دوں۔ جب کچھ عرصہ بعد ان کی وہ عادت دُور ہوگئی تو آپ نے اِس حکم کو بدل دیا۔ چنانچہ اب سارے مسلمان ان برتنوں کو استعمال کرتے ہیں کیا حنفی اور کیا وہابی اور کیا شافعی اور کوئی بھی ان سے منع نہیں کرتا۔اور علمائے حدیث اورفقہ یہی لکھتے ہیں کہ ان لوگوں کی شراب کی عادت چھڑوانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کُلّی مناہی کا حکم دے دیا تھا جو بعد میں آپ نے منسوخ فرما دیا۔
دوسری دلیل پراونشل سندھ زمیندارہ کمیٹی کی اقلیت کی رپورٹ میں یہ دی گئی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بلال بن الحارث المزنی کو بُلا کر کہا کہ تمہارے پاس زمین زیادہ ہے اور تم اس کو کاشت نہیں کر سکتے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ زمین ضبط کر کے دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دی۔ اِس سے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ اُتنی ہی زمین کسی شخص کے پاس ہونی چاہئے جتنی زمین کی وہ کاشت کر سکے۔ دوسرے یہ کہ حکومت کو زائد زمین ضبط کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
اِس اعتراض کے متعلق بھی مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اصل حوالہ کو نہیں دیکھا گیا بلکہ دوسری کتابوں سے نقل کر لیا گیا ہے۔ اگر اصل حوالہ کو دیکھا جاتا تو معترض کو معلوم ہو جاتا کہ اِس حوالہ کا مفہوم اُس سے بالکل مختلف ہے جو انہوں نے لیا ہے۔ بلال بن الحارث المزنی کی زمین کے متعلق چھٹے باب میں یہ لکھا جاچکا ہے کہ یہ زمین نہ اُن کی جدّی تھی نہ اُن کی خرید کردہ تھی بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو بیت المال سے عطیّہ کے طور پر دی تھی۔ اِس لئے اگر معترض کا اعتراض درست بھی ہو تو زیادہ سے زیادہ اس کا اثر گورنمنٹ کے عطیوں پر پڑے گا اِس سے زیادہ نہیں۔ مگر میں اُوپر پوری طرح ثابت کر چکا ہوں کہ گورنمنٹ بھی اپنے عطیوں کو واپس نہیں لے سکتی سوائے اس کے کہ عطیہ مشروط ہو۔ اورجس کو زمین یا کوئی اور چیز عطیّہ میں دی گئی ہو وہ اُس کی شرطوں کو پورا کرنے سے قاصر رہا ہو۔ بشر طیکہ وہ شرطیں جائز ہوں۔ اور اگر بیع ہو تو کوئی شرط ایسی نہ ہو جو بیع کے شرعی قواعد کے لحاظ سے ناجائز ہو۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ہر گز وہ زمین بلالؓ سے نہیں چھینی بلکہ اُن کی مرضی سے وہ زمین اُن سے لی گئی تھی اور اُس شرط کے ماتحت لی گئی تھی جو بلال ؓ نے خود عائد کی تھی۔ چنانچہ اِس واقعہ کے متعلق جو اثر آتا ہے اُس کے الفاظ یہ ہیں۔ حدثنی بعض اشیا خی من اھل المدینۃ قال اقطع رسول اللّٰہﷺ بلال بن الحارث المزنی مابین البحر والصخر فلما کان زمن عمر بن الخطاب قال لہ انک لاتستطیع ان تعمل ھذا فطیب لہ ان یقطعھا ماخلا المعادن فانہ استثناھا ۹۴؎ یعنی امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے میرے بعض اُستادوں نے جو مدینہ کے رہنے والے تھے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال بن الحارث المزنی کو سمندر اور پہاڑ کے درمیان کا تمام علاقہ عطا فرمادیا تھا۔ جب حضرت عمر بن خطابؓ کا زمانہ آیا تو انہوں نے بلالؓ سے کہا کہ آپ اس زمین کو آباد نہیں کرسکتے اور یہ زمین خالی پڑی ہے۔ اِس بات کو سن کر بلالؓ نے اپنی خوشی سے وہ زمین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو واپس کر دی اور اجازت دی کہ وہ اُس کو دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ مگر شرط یہ کی کہ جتنی کانیں اِس زمین میں ہوں گی اُن کا مالک مَیں ہی رہوں گا کوئی اَور نہیں ہوگا۔ اس طرح کانوں کو اُنہوں نے باقی حصوں سے مستثنیٰ کر لیا۔
اس حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہر گز بلالؓ سے زمین نہیں چھینی۔
پس اوّل تو اس حدیث سے یہ استدلال کرنا کہ کم سے کم حکومت اپنے ہدیہ کو تو واپس لے سکتی ہے درست نہیں۔
دوسرے اس حدیث سے ثابت ہے کہ بلال ؓ نے اپنی مرضی سے یہ زمین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو دی نہ کہ جبریہ قانون کے ماتحت۔
تیسرے اِس حدیث سے ثابت ہے کہ بلالؓ نے زمین کو واپس کرتے وقت ایک شرط بھی اپنی طرف سے پیش کی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُسے تسلیم کر لیا اور وہ شرط یہ تھی کہ اُس میں سے جتنی کانیں نکلیں وہ بلال بن الحارث المزنی رضی اللہ عنہ کی ہوں گی۔ یہ شرط اپنی ذات میں بتاتی ہے کہ بڑی زمینداریاں جائز ہیں کیونکہ کانوں کی ملکیت تو خالی زمین کی ملکیت سے بہت بڑی ملکیت ہوتی ہے۔
تیسری دلیل اس مسئلہ کے متعلق بعض لوگ یہ پیش کیا کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے بڑے بڑے زمینداروں سے اُن کی زمینیں چھین لیں اور لوگوں میں تقسیم کر دیں۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ حوالہ بھی قطعی طور پر غلط اور خلافِ واقعہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یزید کے زمانہ سے بنوامیہ میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ وہ ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتے ہیں اور خلافت کی قیود اُن پر عائد نہیں۔ اُن کا نام خلیفہ تھا لیکن عمل جابر بادشاہوں والے تھے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ میرے بعد خلافت ہوگی اور خلافت کے بعد مُلْکًا عَاضًّا ہوگا یعنی ظالم بادشاہتیں ہوںگی۔ پس یہ لوگ اپنے لئے وہ سب کچھ جائز سمجھتے تھے جو قیصرو کسریٰ اپنے لئے جائز سمجھتے تھے اور اُن کا خیال تھا کہ تمام زمین حکومت کی ہے اور حکومت اُن کے نزدیک بادشاہ کا مترادف لفظ تھا۔ پس اُن کے خیال کے مطابق تمام زمین بادشاہ کی تھی اِس لئے جب وہ اپنے کسی رشتہ دار یا عزیز کو خوش کرنا چاہتے تھے تو لوگوں کی زمینیں چھین کر اُن کو دے دیتے تھے جیسے جابر بادشاہ کیا ہی کرتے ہیں۔ اب بھی کشمیر کا راجہ اِسی طرح کیا کرتا تھا اور شاید اَور راجے بھی ہندوستان کے اِسی طرح کرتے ہوں۔ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کے ہاتھ میں حکومت آئی تو چونکہ وہ ایک خدا ترس انسان تھے اور اسلام کے احکام کو اُن کی اصلی صورت میں قائم کرنے کی کوشش کرتے تھے، جن لوگوں کی زمینیں چھینی گئی تھیں اُنہوں نے اُن کے پاس درخواستیں بھجوانی شروع کیں کہ ہماری زمینیں ہم کو واپس دلائی جائیں کیونکہ حکومت کو کوئی اختیار حاصل نہیں تھا کہ وہ جبراً ہم سے زمینیں چھین کر دوسرے لوگوں کو دے دیتی۔ جب یہ درخواستیں کثرت سے آپ کے پاس آئیں تو جیسا کہ میں باب نمبر۹ میں یہ روایت درج کر آیا ہوں حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اپنے بیٹے عبدالملک سے جو ایک بہت بڑے عالم اور بڑے خدا ترس تھے مشورہ لیا کہ مَیں اِس بارہ میں کیا کروں؟ ایک طرف یہ لوگ ہیں جو اپنی زمینیں واپس مانگتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جنہیںپہلے بادشاہوں نے زمینیں عطا کردیں تھیں اور وہ اپنے آپ کواُن کا جائز مالک سمجھتے ہیں۔ عبدالملک نے اپنے والد کو مشورہ دیا کہ چونکہ یہ زمین لوگوں سے چھین کر اُن کو دی گئی تھی اِس لئے یہ مغصوبہ زمین ہے اور مغصوبہ زمین کا کوئی شخص مالک نہیں ہو سکتا۔ نہ حکومت اور نہ غیر۔ پس مغصوبہ زمین کا موجودہ قابضوں سے چھین لینا کوئی گناہ کی بات نہیں بلکہ یہ عین انصاف ہے پس آپ یہ زمینیں لوگوں سے چھین کر اُن کے اصل مالکوں کو واپس کردیں۔ اِس مشورے کو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قبول کیا اور وہ تمام زمینیں جو مغصوبہ زمینیں تھیں یعنی دوسروں کی مملوکہ زمینوں کو اُن سے چھین کر اَوروں کے حوالے کیا گیا تھا اصل مالکوں کو واپس کردیں۔
پس اس حوالہ سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ حکومت لوگوں کی ضرورت سے زیادہ زمینیں چھین کر دوسرے لوگوں میں تقسیم کر سکتی ہے بلکہ اس حوالہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر لوگوں کی زمینیں چھین کر حکومت نے دوسرے لوگوں میں تقسیم کر دی ہوں تو بعد میں آنے والی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ پھر اُن کے قابضوں سے زمین چھین کر اُن کے اصل مالکوں کو زمین لوٹا دے۔ پس یہ حوالہ تو زمینداری کے مخالف لوگوں کے منشاء کے اُلٹ ہے۔
سندھ گورنمنٹ کی زمیندارہ کمیٹی کی اقلّیت کی رپورٹ میں مولوی عبیداللہ صاحب سندھی کا بھی ایک حوالہ پیش کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم امام ابو حنیفہ رحمۃاللہ علیہ کے تابع ہیں اور امام صاحب نے زمین کو مقاطعہ پر دینا ناجائز قرار دیا ہے بلکہ اتنی ہی زمین اپنے پاس رکھنے کی اجازت دی ہے جتنی کوئی خود کاشت کر سکتا ہے اس لئے موجودہ طریق زمینداری کا ناجائز ہے۔ مولوی عبیداللہ صاحب سندھی ایک خداترس انسان تھے اور سادہ مزاج تھے۔ میرے وہ بچپن سے واقف تھے۔ جماعت احمدیہ کے پہلے امام کے زمانہ میں وہ قادیان بھی آیا کرتے تھے اور باوجود اِس کے کہ میں اُس وقت ایک طالب علم کی حیثیت رکھتا تھا میرا بہت ادب کرتے تھے۔ بعد میں بھی اُن کے ساتھ تعلقات قائم رہے۔ چنانچہ مَیں دیو بند میں بھی جا کر اُن سے ملا تھا۔ کبھی کبھار پیغام و سلام بھی آتا جاتا رہتا تھا اس لئے میرے دل میں اُن کا بہت ادب ہے۔ مَیں اُن کو متصنّع آدمی نہیں سمجھتا تھا لیکن اُن کو جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ شدّت سے کمیونسٹ خیالات سے متاثّر تھے۔ ہجرت کی تحریک کے موقع پر وہ ہندوستان سے نکلے۔ رشیا میں بڑے بڑے کمیونسٹ لوگوں سے اُن کے تعلقات رہے لیکن پھربگاڑ پیدا ہوگیا اور وہاں سے آگئے لیکن کمیونسٹ خیالات نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا بوجہ کمیونسٹوں سے بگاڑ کے وہ ظاہراً کمیونسٹ نہیں رہے تھے مگر خیالات پر وہی رنگ تھا۔ حجاز میںرہتے ہوئے بھی جو رپورٹیں آتی تھیں وہ یہی تھیں کہ کمیونسٹ اصول کو انہوں نے ترک نہیں کیا۔ چنانچہ غالباً ۱۹۲۷ ء یا ۱۹۲۸ء کی بات ہے کہ اُن کے متعلق تحریک کی گئی کہ چونکہ اب کمیونسٹ حکومت اُن کی مخالف ہے اِس لئے اُن کو ہندوستان میں آنے کی اجازت دی جائے۔ اُس وقت غالباً سرمائونٹ مورنسی پنجاب کے گورنر تھے۔ انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ کیا مَیں اُن کو جانتا ہوں اور آیا ان کو واپس آنے کی اجازت دینے میں کوئی حرج تو نہیں ہوگا؟ میں نے اُنہیں جواب دیا کہ میں مولانا کو خوب جانتا ہوں وہ نہایت شریف اور نیک طبیعت کے آدمی ہیں لیکن اپنی بات کے پکّے بھی ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں ریشہ دوانی یا سازش کی باتوں سے وہ بالا ہیں اور اِس قسم کا شُبہ اُن پر نہیں کیا جاسکتا مگر یہ کہ خود کمیونسٹ خیالات سے وہ آزاد ہو چکے ہوں میرے خیال میں یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی کیونکہ وہ اپنی بات کے بڑے پکّے ہیں۔ نہ جلدی رائے قائم کرتے ہیں نہ جلدی رائے چھوڑتے ہیں۔ ہاں نیک طبیعت اور سادہ طبع ہونے کی وجہ سے دوسرے کے فائدہ کے خیال سے کبھی اپنی بات جلدی سے بدل بھی لیتے ہیں مگر طبیعت کی وجہ سے نہیں بلکہ اخلاق کی اتباع کے خیال سے۔ کچھ عرصہ کے بعد اُن کے واپس آنے کی اجازت دے دی گئی۔ مَیں نہیں جانتا کہ اس تحقیق کے سلسلہ میں یا بعد میں دوبارہ سوال اُٹھایا گیا اور اُنہیں ہندوستان واپس آنے کی اجازت مل گئی۔ اس کے بعد ہمیں ملنے کا اتفاق نہیں ہوا۔
شاید ۱۹۴۴ ء کی بات ہے کہ میں نے اُن کو دعوت دینے کا ارادہ کیا مگر مَیں ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ وہ فوت ہوگئے۔ پُرانی طرز کے علماء میں سے وہ ایک نہایت ہی اعلیٰ پایہ کے آدمی تھے لیکن اُن کا کوئی خیال دلیل نہیں کہلاسکتا۔ وہ بعض دفعہ عجیب عجیب قسم کی باتیں سوچا کرتے تھے۔ اُن کے دوست اُن کے دماغ کی اِس کیفیت کو خوب جانتے ہیں۔ مَیں مثال کے طور پر ایک بات پیش کرتا ہوں۔
ایک دفعہ مجھ سے کہنے لگے کہ آپ جانتے ہیں کہ میں احمدیوں سے کوئی تعصّب نہیں رکھتا۔ میں نے کہا خوب جانتا ہوں۔ کہنے لگے اِس کا یہ مطلب نہیں کہ مَیں احمدیہ عقیدہ سے بھی متفق ہوں۔ میں مرزا صاحب کو ایک بڑا بزرگ سمجھتا ہوں اور صوفی سمجھتا ہوں مگر میرا یقین ہے کہ اُن کو مسیح اور مہدی کے بارہ میں غلطی لگی ہے اور اس بارہ میں مَیں نے بڑی لمبی تحقیق کی ہے اور گہرا غور کیا ہے اور عجیب نکتہ نکالا ہے۔ میں نے پوچھا فرمائیے وہ کیا نکتہ ہے ہمیں بھی معلوم ہو۔تو اِس پر وہ ایک بستہ اُٹھا لائے جس میں بہت سے نوٹ اُن کے لکھے ہوئے تھے۔ اُس میں انہوں نے بڑی لمبی تحقیقات لکھی ہوئی تھی جسے نہ وہ سُنا سکتے تھے نہ ہمارے پاس اُس کے سُننے کا وقت تھا۔ بہرحال اُس کا خلاصہ تھا کہ مسیحؑ دوبارہ اِس دنیا میں آئیں گے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اُن کی تھیوری یہ تھی کہ وہ فوت تو ہو چکے ہیں مگر دوبارہ زندہ کر کے بھجوائے جائیں گے اور یہ وہ زمانہ ہوگا جب اُمتِ محمدؐ یہ میں سے مہدی پیدا ہو چکا ہوگا۔ مہدی آکر مسلمانوں کی بادشاہت سنبھال لے گا اور عیسیٰؑ آکر عیسائیوں کی حکومت سنبھال لے گا اور یہ دونوں مل کر ایک سمجھوتہ کر لیں گے جس کے ماتحت عیسائیوں اور مسلمانوں میں دائمی صلح ہو جائے گی۔ میں نے کہا مولانا! سیاسی صلح کیلئے تو مسیحؑ اور مہدی کی ضرورت نہیں اور خاتم النبیّٖن کے بعد دین میں کسی شکست وریخت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تو یہ آکرمسیحیو ں اور مسلمانوں میں صلح کس بات کی کرائیں گے؟ اُنہوں نے پھر اِس پر ایک لمبی تقریر کی جس کا کچھ حصہ تو مجھے یاد نہیں اور جو یاد ہے اُس کا کہنا مناسب نہیں۔
پس باوجود اِس کے کہ مولوی عبیداللہ صاحب سندھی کا میں بہت ادب اور احترام کرتا ہوں اور اُن کو طبیعتاً ایک نیک انسان سمجھتا ہوں لیکن وہ ہر گز اِس پایہ کے آدمی نہیں تھے کہ اِن معاملات میں اُن کی رائے کو کوئی وزن دیا جاسکے۔ اور شاید اپنے خیالات کی سختی کی وجہ سے وہ بعض دفعہ پوری تحقیق کرنے سے بھی عاجز رہتے تھے۔ مثلاً یہی حوالہ جو اُن کی طرف منسوب کیا گیا ہے اُس کا مضمون قطعی طور پر غلط ہے اور یا شاید اقلیت کی رپورٹ نے اِس کو غلط نقل کر دیا ہے۔ بہر حال اقلیت کی رپورٹ کے الفاظ کا ترجمہ یہ ہے کہ:۔
’’ہم امام ابو حنیفہ کے تابع ہیں جنہوں نے زمین کو مقاطعہ پر دینا منع کیا ہے اُن کے نزدیک آدمی اتنی ہی زمین رکھ سکتا ہے جتنی زمین وہ خود کاشت کر سکے‘‘۔ ۹۵؎
میں اوپر بار بار حوالوں سے ثابت کر چکا ہوںکہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا ہر گز یہ مذہب نہیں۔ امام ابو حنیفہ ہر گز مقاطعہ پر زمین دینے کو ناجائز نہیں سمجھتے بلکہ وہ بٹائی پر زمین دینے کو ناجائز سمجھتے ہیں۔ چنانچہ پھر ذیل میں مَیں چند حوالے درج کرتا ہوں۔
لایجوز المساقاۃ ولا المزارعۃ الا بالدراھم والدنا نیر وما اشبھھما من العروض وھذا کلہ قول ابی حنیفۃؒ ۹۶؎
یعنی باغ اور زمین کو ٹھیکے پر دینا جائز ہے سوائے اِس کے کہ سونے اور چاندی کے بدلہ میں اُنہیں ٹھیکے پر دیا جائے یا ایسی چیزیں جو قیمت کے طور پر استعمال ہوتی ہیں اُن کے بدلہ میں انہیں ٹھیکہ پر دے دیا جائے اور یہ سب کہ سب الفاظ امام ابو حنیفہؒ کے ہیں۔
حنفی علماء جانتے ہیں کہ علاّمہ طحاوی حنفیوں کے فقہاء میں سے اَئمہ کے بعد بڑے رتبہ کے لوگوں میں سے ہیں۔نووی میں لکھا ہے المزارعۃ مختلف فیھا عند الحنفیۃ فابو حنیفۃ یقول انھا لاتجوز (الا بالذھب والورق) وابو یوسف ومحمد یقولان بجواز ھا مطلقا۹۷؎ یعنی زمین کو مقاطعہ پر دینے کے بارہ میں حنفیوں میں اختلاف ہے۔ امام ابو حنیفہ ؒکا قول ہے کہ زمین صرف سونے چاندی کے بدلہ میں ٹھیکہ پر دی جاسکتی ہے بٹائی پر نہیں۔ لیکن امام ابویوسف اور امام محمد دونوں اُن کے شاگرد یہ کہتے ہیں کہ زمین کو ٹھیکے پر دینا خواہ بٹائی پر ہو یا روپیہ کے بدلہ میں دونوں طرح جائز ہے۔
پس علامہ سندھی نے جو بات امام ابو حنیفہؒ کی طرف منسوب کی ہے وہ حنفی فقہ سے کلّی طور پر غلط ثابت ہوتی ہے۔ نہ امام ابو حنیفہؒ نے یہ کہا ہے کہ زمین کو مقاطعہ پر دینا قطعی طور پر ناجائز ہے اور نہ اُنہوں نے یہ کہا کہ انسان صرف اُتنی ہی زمین اپنے پاس رکھ سکتا ہے جس کو وہ خود کاشت کر سکے۔ یہ دونوں باتیں سراسر غلط ہیں۔
اقلیتی رپورٹ میں امام ابو یوسف پر ایک نہایت ہی رکیک الزام لگایا گیا ہے۔ اُس میں لکھا ہے کہ امام ابو یوسف کے نزدیک زمین ٹھیکے پر دی جاسکتی ہے اور پھر لکھا ہے کہ وہ تو ہارون الرشید کے بڑے مفتی تھے جو شہنشاہیت کا بڑا علمبردار تھا اور اس لئے امام ابو یوسف سے یہ امید بھی نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ ہارون الرشید کے اُن خیالات کے خلاف کہہ سکے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ اِس زمانہ کے معمولی معمولی ٹٹ پونجئے گریجوایٹوں کے متعلق یا مولویوں کے متعلق تو کہا جاتا ہے کہ اُن پر بد ظنی نہ کی جائے لیکن امام ابو یوسف جیسے انسان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اُن کا یہ فتویٰ دیانت داری پر مبنی نہیں تھا بلکہ ہارون الرشید کو خوش کرنے کے لئے انہوں نے دے دیا تھا۔ لیکن اقلیت کی رپورٹ لکھنے والوں کا ذہن اِدھر نہیں گیا کہ یہ فتویٰ امام ابو یوسف کا ہی نہیں امام محمد کا بھی ہے جن کو حکومت میں کوئی رُتبہ حاصل نہیں تھااور وہ امام ابو یوسف سے اُتر کر امام ابو حنیفہ کے دوسرے نمبر کے شاگرد سمجھے جاتے تھے۔ گو انہوں نے بوجہ وفات امام ابوحنیفہؒ تکمیل تعلیم امام ابو یوسف سے کی۔ سوال یہ ہے کہ امام ابو یوسف نے اگر ہارون الرشید کو خوش کرنے کے لئے شریعت کو بدل دیا تھا تو امام محمد نے کس کو خوش کرنے کے لئے شریعت کو بدل دیا۔
امام ابو یوسف کے پایہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اَئمہ اہل حدیث جو کہ فقہاء کی بہت کم تعریف کیا کرتے ہیں اُنہوں نے امام ابو یوسف کی نہایت اچھے الفاظ میں تعریف کی ہے۔ مثلاًیحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ علمائے فقہ میں سے امام ابو یوسف سے زیادہ کثیرالحدیث اور صحیح الروایت اَور کوئی شخص نہیں۔ اور اُن کے متعلق یحییٰ بن معین نے یہ الفاظ بھی کہے ہیں کہ امام ابو یوسف صاحبِ حدیث اور صاحب السنۃ ہیں۔۹۸؎ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا تتبع کرتے ہیں اور رسول کریم کے طریقِ عمل پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اَلْفَضْلُ مَاشَھِدَتْ بِہِ الْاَ عْدَائُ۔ خوبی وہی ہوتی ہے جس کا مخالف بھی اقرار کرتا ہو۔ یہ اقرار اُن لوگوں کا ہے جو علمائے فقہاء کے خلاف تھے۔ اُن کا یہ کہنا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں پیش پیش ہیں ایک ایسی شہادت ہے جس کو آجکل کا کوئی آدمی کسی صورت میں بھی ردّ نہیں کرسکتا۔
اُن کی نسبت تاریخوں سے یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ خلیفہ ہارون کی بیویوں اور حکام کے خلاف فیصلے کرتے تھے بلکہ خود خلیفہ ہارون کی مرضی کے خلاف بھی فیصلے کیا کرتے تھے۔
اس رپورٹ میں شاہ عبدالعزیز صاحب کا بھی ایک حوالہ لکھا گیا ہے جس میں یہ درج ہے کہ ہندوستان کی تمام زمین مسلمانوں کی ہے اور بیت المال کی ہے اور یہ کہ زمیندار مینجروں کی طرح ہیں۔ یہ حوالہ بھی صحیح درج نہیں۔ شاہ صاحب نے اِس بات پر بحث نہیں کی کہ ہندوستانی زمین کی ملکیت کی نوعیت کیا ہے بلکہ اُنہوں نے عُشر پر بحث کی ہے اور یہ بتانا چاہا ہے کہ ہندوستان کی زمینوں پر عُشر ہے یا نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ازروئے اسلام زمینیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک عُشری اور ایک خراجی۔ عُشر چونکہ زکوٰۃ کا قائم مقام ہے اِس لئے اَئمّہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ عُشر صرف اُن زمینوں کے لئے ہے جن کے مالک مسلمان ہو جائیں کیونکہ زکوٰۃ صرف مسلمان سے لی جاسکتی ہے۔ آگے خراجی زمین کے متعلق پھر اختلاف ہے۔بعضوں نے کہا کہ جب اس زمین کا مالک مسلمان ہو جائے گا تو اُس کی زمین عُشری ہوجائے گی۔ اور بعضوں نے کہا ہے کہ عُشری اور خراجی زمین کے لحاظ سے ہے مالک کے لحاظ سے نہیں۔ اگر خراجی زمین کو مسلمان خرید لے تو وہ عشری نہیں بن جاتی کیونکہ جو حق ایک وقت میں قائم ہوگیا وہ مالک کے بدلنے سے بدل نہیں جاتا۔ اِس بناء پر انہوں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ ہندوستان کی زمین خراجی ہے عُشری نہیں خواہ بعد میں اُس کے مالک مسلمان ہو گئے ہوں۔ اس اختلاف پر شاہ صاحب اپنی رائے دے رہے ہیں اورتحریر فرماتے ہیں:۔
’’امامِ وقت جو زمین کسی کو بطور انعام دیتاہے اس کی چار صورتیں ہو سکتی ہیں۔
اوّل: امام بیت المال کی مملوکہ زمین کسی کو ہمیشہ کے لئے دے دے۔
دوم: امام بیت المال کی مملوکہ زمین کی آمدن بطور انعام دے دے (یعنی عُشر یا خراج بخش دے)
سوم: امام کسی ذمّی یا مسلمان کی مملوکہ زمین چھین کر کسی دوسرے کو ہمیشہ کے لئے دے دے۔
چہارم: امام ایسی زمین کی سرکاری آمدن کسی دوسرے کو بطور انعام دے دے۔
(یعنی زمین مالک ہی کے پاس رہے۔ اُس کا خراج یا عُشر دوسرے کو دے دے)
ان میں سے تیسری صورت صرف عقلی احتمال ہے جو خلافِ شرع بھی ہے(جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ شاہ عبدالعزیز صاحب کے نزدیک حکومت کا کسی مسلمان یا کافر سے اس کی زمین چھین کر کسی اَور کو دے دینا علاوہ خلاف شریعت ہونے کے اس قدر خلافِ عقل ہے کہ وہ باور ہی نہیں کرتے کہ کوئی اسلامی حکومت ایسا کرے گی اس لئے لکھتے ہیں کہ عملاًتو ایسا نہیں ہو سکتا۔ صرف بحث کی خاطر میں اس شق کو بطور احتمال پیش کرتا ہوں۔ یعنی بفرض محال اگر کوئی حکومت ایسا کرے تو اس کا کیا حکم ہے۔ سووہ حکم یہ ہے کہ یہ عمل خلاف شریعت ہوگا) باقی تین صورتوں میں سے پہلی صورت میں وہ شخص زمین کا پوری طرح مالک ہوگا جس کو زمین دی گئی ہے اور باقی دو صورتوں میں صرف خراج اور عُشر یعنی سرکاری آمدن لینے کا اُسے حق ہوگا لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ سارے قواعد ہمارے ملک کے رواج پر منطبق نہیں ہوتے اِس لئے کہ اس ملک میں ہر جگہ زمیندار زمین کے مالک ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پس ایسی زمین جو بیت المال کی ملک ہو اِس ملک میں موجود نہیں اور نہ ہی ایسی زمین جو موات کا حکم رکھتی ہو یا ایسی زمین جو وارث کے نہ ہونے کی وجہ سے بیت المال کی ملک میں آئی ہو یا بیت المال کی آمدن سے اُسے خریدا گیا ہو اور اگر کوئی ایسی زمینیں ہیں تو وہ ممیز اور دوسری زمینوں سے نمایاں نہیں ہیں۔ پس اس حکم کو کسی معین جگہ پر جاری کرنا ممکن نہیں ہوگا سوائے اس کے حضرت شیخ جلال تھانیسری نے جو کچھ اپنے رسالہ میں لکھا ہے اُسے بنیاد مانا جائے۔ اُنہوں نے لکھا ہے کہ ہندوستان کی زمین ابتداء میں سوادِ عراق کی مانند فتح ہوئی تھی اس لئے یہ بیت المال کے لئے وقف ہے اور زمیندار وں کی حیثیت متولّی اور مینجر سے زیادہ نہیں جیسا کہ لفظ زمیندار بھی اس طرف اشارہ کرتا ہے اور زمینداری میں تغیرو تبدل اور زمینداروں کو معزول کرنا اور رکھنا اور بعض کو نکالنا اور بعض کو مقرر کرنا اور بعض زمینیں افغانوں، بلوچوں، سیّدوں اور قدوائیوں کو بطور زمینداری دینا اس پر صریح دلالت کرتا ہے۔ پس اس صورت میں تمام اراضیِ ہندوستان بیت المال کی مِلک ہو جائیں گی۔ اِس طور پر کہ وہ اُن کے پاس نصف یا کم و بیش بٹائی کی صورت میں ہونگی۔ اس زمین کا ہر قطعہ جو بادشاہِ وقت دائمی طور پر کسی کو بخش دے وہ اُس کی مِلک ہوگا اور جو قطعہ بصورتِ گذارہ آمدن (حقوقِ موروثیت) اُس کو دیا گیا ہو وہ عاریۃً شمار ہوگا۔ ہاں پُرانے بادشاہوں کے حکمناموں کو دیکھ لینا چاہیے تاکہ معلوم ہو کہ کون سی زمین دائمی ملکیت کی ہے اور کون سی دوسری۔ اور جو زمین دائمی ملکیت کی ہے اگر تو اُس کے ساتھ خراج کی معافی بھی تھی تو خراج بھی واجب نہ ہوگا کیونکہ اس صورت میں رقبہء ارضی کی تملیک ہوگی اور خراج بطور تنخواہ اُسے ملتا ہوگا۔ اور اگر صرف زمین کی تملیک ہے اور خراج معاف نہیں ہوا تو خراج واجب ہوگا۔ اور پہلی صورت میں بھی امام کو حق حاصل ہے کہ زمین مذکورہ سے خراج وصول کرے۔ بہر حال اس ملک کی زمینوں میں شبہ ہے اور پہلوں کو جو زمینیں دی گئی تھیں اُن کے دینے کی صورتوں میں بھی لوگوں کے مختلف خیالات ہیں۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ ۹۹؎
یہ حوالہ جس کتاب سے سندھ زمیندارہ کمیٹی کی اقلیتی رپورٹ میں درج کیا گیا ہے کسی قدر مختلف ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے اصل کتاب سے مفصل عبارت کا ترجمہ درج کر دیا ہے جو لفظاً لفظاً صحیح ہے۔ ہر شخص اصل کتاب نکال کر دیکھ سکتا ہے کہ ترجمہ وہی ہے جو مَیں نے کیا ہے اور وہ غلط ہے جو اس رپورٹ میں کیا گیا ہے۔ اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ شاہ عبدالعزیز صاحب نے ہر گز یہ بحث نہیں کی اور نہ یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ہندوستان کی زمین کی حکومت اُن معنوں میں مالک ہے جن معنوں میں اقلیت کی رپورٹ میں لیا گیا ہے۔ شاہ صاحب تو اِس پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا ہندوستان کی زمین پر عُشر لینا واجب ہے یا نہیں اور مختلف اقوال نقل کر رہے ہیں کہ بعضوں نے اِس زمین کو خراجی قرار دیا ہے اور حکومت کی ملکیت قرار دیا ہے اور بعضوں نے اس کو عُشری قرار دیا ہے یعنی اس پر وہ احکام جاری کئے ہیں جو مسلمان کی مملوکہ زمین کے ہوتے ہیں۔ اِس سے یہ کیونکر نتیجہ نکل آیا کہ زمین حکومت کی ہے اور وہ جس طرح چاہے اُس کو تقسیم کر سکتی ہے۔ خراجی اور عُشری کی بحث کا اس معاملہ سے دُور کا بھی تعلق نہیں اور نہ شاہ صاحب نے اِس جگہ پر اپنی کوئی رائے دی ہے۔ اور نہ اِس پر بحث کی ہے کہ خراجی اور عُشری زمین کی ملکیتوں میں فرق کیا ہوتا ہے یمن کی زمین جو عیسائیوں اور یہودیوں کے نیچے تھی وہ خراجی تھی لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ زمین یہودیوں اور عیسائیوں سے لے لی اور اُن کو عرب کے جزیرے سے نکال دیا تو باوجود اِس کے کہ وہ زمین خراجی تھی اور اصولی طور پر حکومت اُس کی مالک سمجھی جاتی تھی اُنہوں نے وہ زمین اُن سے چھینی نہیں بلکہ خریدی۔ چنانچہ فتح الباری (شرح بخاری)جلد ۵ صفحہ ۸ پر یہ حدیث درج ہے۔ عن یحیی بن سعید ان عمر اجلی اھل نجران والیھود والنصاری واشتری بیاض ارضھم و کرومھم یعنی یحییٰ بن سعیدؓ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے نجران کے مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کو وہاں سے جلاوطن کردیا اور اُن کی زمینیں اور باغ خرید لئے۔
یہ ظاہر ہے کہ یہودیوں کی زمین عُشر ی نہیں ہوسکتی کیونکہ اگر وہ عُشر تھی تو اس کا مالک کوئی مسلمان ہوگا۔ پس یہودیوں سے اُس کے خریدنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا وہ یقینا خراجی تھی جیسا کہ ہندوستان کی زمین کو خراجی قرار دیا جاتا ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُس کو خراجی قرار دے کر اور حکومت کو اُس کا مالک قرار دے کر اُس کو ضبط نہیں کیا بلکہ اُس کو خریدا۔
شاید کوئی کہے کہ یہ زمین نہ خراجی ہوگی نہ عُشری ہوگی بلکہ کسی اور قسم کی ہوگی تو یہ خیال بے ہودہ ہوگا اور اسلامی شریعت سے ناواقفی کی علامت ہوگا۔ اُوپر جو حوالہ شاہ صاحب کا درج کیا گیا ہے اُس سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہ عُشری اور خراجی کے سوا اَور کوئی زمین اسلام میں نہیں سوائے اِس کے کہ وہ بیکار پڑی ہوئی ہو اور اُس کا مالک کوئی فردِ واحد نہ ہو۔ پس لازماً یہودی اور نصرانی اور مشرک اہلِ نجران کی زمینیں یا خراجی تھیں یا عُشری تھیں مگر دونوں صورتوں میں اُن کا مالک حضرت عمرؓ نے اُن کے قابضوں کو قرار دیا ہے اور اُن سے وہ زمین خریدی ہے۔
اب میں پھرشاہ صاحب کے حوالہ کی طرف آتا ہوں اور توجہ دلاتا ہوں کہ اِس حوالہ کو پڑھنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فتویٰ زمینداری کے مخالف لوگوں کے سراسر خلاف ہے نہ کہ اُن کی تائید میں۔ شاہ صاحب تو اِس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ بادشاہ خراج اور عُشر کو بھی معاف کر سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ مَیں اوپر باب ۵ میں ثابت کر آیا ہوں میرے نزدیک کوئی بادشاہ عُشر یا خراج کو معاف نہیں کر سکتا اور نہ کوئی حکومت ایسا کر سکتی ہے۔ شاہ صاحب نے شریعت کا ادب مدنظر رکھتے ہوئے اشارۃً اِس اعتراض کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ زمین کی آمدن عطیہ سمجھی جائے گی اور خراج یا عشر جو حکومت نے چھوڑا ہے وہ اُس شخص کی تنخواہ سمجھی جائے گی لیکن ظاہر ہے کہ یہ توجیہہ کوئی ایسی اعلیٰ توجیہہ نہیں ہے۔ درحقیقت بات یہی ہے کہ خراج بقدر عُشر یا عُشر کوکوئی حکومت معاف نہیں کر سکتی اور معافی والی جاگیر ہر گز اسلام میں جائز نہیں۔ خراج کا اُتنا حصہ جو عُشر کے برابر ہو اور عُشر بہر حال تمام مسلمان زمینداروں سے لینا پڑے گا۔ غیر مسلم پر چونکہ زکوٰۃ واجب نہیں اِس لئے میں اِس وقت اُس کے متعلق کوئی فتویٰ نہیں دیتا وہ مسئلہ اس بحث کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا۔ لیکن ہر مسلمان زمیندار کو عُشری زمین کے بدلہ میں عُشر یا خراجی زمین کے بدلہ میں کم سے کم عُشر کے برابر رقم لازماً دینی ہوگی اور حکومت کو یہ رقم لازماً لینی ہوگی۔ اگر کوئی مسلمان زمیندار یہ رقم نہ دے گا تو وہ گنہگار ہوگا اور اگر حکومت اتنی رقم اس سے نہ لے گی تو وہ گنہگار ہوگی۔ نہ اِس کے معاف کروانے کا کسی کو حق ہے نہ اس کے معاف کرنے کا کسی کو حق ہے۔
شاہ صاحب کے مندرجہ بالا حوالہ میں یہ بھی ذکر آتا ہے کہ بعض علماء نے ہندوستان کی زمین کو سوادِ عراق کی زمین کا قائم مقام قرار دیا ہے اور اس لئے یہ ساری زمین حکومت کی مملوکہ ہے۔ اِس حوالہ کا کوئی تعلق زمینداری کی بحث کے ساتھ نہیں لیکن آجکل اِس حوالہ کے غلط معنی لے کر بعض لوگ ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں وہ لوگ اس کے یہ معنی کرتے ہیں کہ سوادِ عراق کی زمین اِس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام نے زمینوں کو حکومت کی ملکیت میں رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس لئے تمام اسلامی حکومتوں میں جس قدر زمینیں پائی جاتی ہیں وہ سب حکومت کی ملکیت قرار دی جانی چاہئیں۔ سوادِ عراق کی زمینوں کے مسئلہ کو شاید ہندوستان میں جو اہمیت دی جارہی ہے اُس کا پہلا بانی میں ہوں۔ آج سے قریباً ۲۷ سال پہلے مَیں نے خلافت پر لیکچر دیئے تھے اور اُن میں اِس زمین کے سوال کو اختلافات کی بنیادوں میں اہم بنیاد ثابت کیا تھا۔ میرے یہ لیکچر خداتعالیٰ کے فضل سے علمی دنیا میں خاص طور پر مقبول ہوئے تھے اور بعض اسلامی کالجوں میں پرائیوٹ سٹڈی کے طور پر مقرر کئے گئے تھے۔ شاید اُس وقت میرے ذہن میں بھی یہ بات نہ تھی کہ کسی زمانہ میں یہی مسئلہ ایک اَور شکل اختیار کرکے ملک میں فتنہ کا موجب بن جائے گا۔
سوادِ عراق کی زمینوں کی حقیقت یہ ہے کہ جب عراق فتح ہوا تو عراق میں جو شاہِ ایران کسریٰ کی مملوکہ زمین تھی وہ مسلمانوں کے قبضہ میں آئی۔ اُس وقت تک طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی ملک بزور شمشیر فتح ہوتا تھا اور اُس کے متعلق کوئی معاہدہ نہ ہوتا تھا تو تمام سرکاری زمینیں یا اُن لوگوں کی زمینیں جو عملاً لڑائی میں شامل ہوتے تھے چھین کر مسلمان مجاہدین میں تقسیم کر دی جاتی تھیں سوائے اُتنے حصہ کے جو قرآن کریم نے اموالِ غنیمت میں سے خدا تعالیٰ اور حکومت کا مقرر فرمایا ہے۔ چونکہ ابتداء ً زمینیں کم آتی تھیں اور مسلمان محتاج زیادہ تھے یا بعض ایسے حقدار مسلمان ہوتے تھے جنہوں نے اسلام کی بڑی خدمات کی ہوئی ہوتی تھیں اُن کو دوسرے لوگوں سے زیادہ معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا تھا اِس لئے عراق کی فتح تک تمام ایسی زمینیں جو حکومت کی ملکیت ہوتی تھیں یا لڑنے والے افراد کی ملکیت ہوتی تھیں مسلمانوں میں تقسیم کر دی جاتی تھیں۔ خدا تعالیٰ اور حکومت کا حصہ بھی قریباً قریباً ساتھ کے ساتھ تقسیم ہوتا چلا جاتا تھا کیونکہ آخر وہ بھی پبلک کے فائدہ کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔ فرق اتنا تھا کہ وہ حصہ ایسے غرباء کو مل جاتا تھا جو لڑائی میں شامل نہیں ہوتے تھے یا اُن لوگوں کو مل جاتا تھا جن کو اُن کے غنیمت کے حق سے زیادہ دینے کا فیصلہ کیا جاتا تھا لیکن جب عراق فتح ہوا تو چونکہ عراق میں شاہِ کسریٰ کی بہت بڑی بڑی زمینیں تھیں اِسی طرح اُس کے اُمراء کے بہت بڑے بڑے علاقے خالی پڑے تھے حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فیصلہ کیا کہ موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو اب کافی زمینیں مل چکی ہیں اب آئندہ فوجوں کے اخراجات غنیمت کے مال سے نکلنے مشکل ہونگے اِس طرح آئندہ آنے والی نسلوں کی امداد اگر حکومت کرنا چاہے گی تو اُس کے لئے بھی روپیہ کی ضرورت ہوگی پس انہوں نے فیصلہ کیا کہ سرِدست سوادِ عراق یعنی عراق کی غیر مملوکہ زمین اور بعض کے نزدیک شام کے علاقہ کی کچھ زمین یا دوسرے لفظوں میں سرکا ری زمین موجودہ مجاہدین میں تقسیم نہ کی جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِس فیصلہ کے اعلان سے پہلے صحابہؓ سے مشورہ کیا تو صحابہؓ نے اُن سے اِس بارہ میں سخت اختلاف کیا اور اصرار کیا کہ یہ زمین سابق دستور کے مطابق فوراً مسلمانوں میں تقسیم ہوجانی چاہئے۔ چنانچہ اِس کی تفصیل کتاب الخراج میں اِس طرح آتی ہے۔
قال ابو یوسف وحدثنی غیر واحد من علماء اھل المدینۃ قالوا۔۔۔۔ لما جاء فتح العراق شاور الناس فی التفصیل۔۔۔ وشاورھم فی قسمۃ الارضین التی افاء اللّٰہ علی المسلمین من ارض العراق والشام فتکلم قوم فیھا وارادوا ان یقسم لھم حقوقھم وما فتحوا فقال عمر رضی اللّٰہ عنہ فکیف بمن یاتی من المسلمین فیجدون الارض بعلوجھا قد اقتسمت و ورثت عن الاباء وحیزت۔ ماھذا رأیی۔۔۔ واللّٰہ لایفتح بعدی بلد فیکون فیہ کبیر نیل بل عسی ان یکون کلا علی المسلمین فاذا قسمت ارض العراق بعلوجھا وارض الشام بعلوجھا فما یسدبہ الثغور وما یکون للذریۃ والارامل بھذالبلد وبغیرہ من اھل الشام والعراق… قدرأیت ان احبس الارضین بعلوجھا واضع علیھم فیھا الخراج وفی رقابھم الجزیۃ یؤدونھا فتکون فیئا للمسلمین المقاتلۃ والذریۃ ولمن یأتی من بعدھم ارأیتم ھذہ الثغور لا بدلھا من رجال یلزمونھا أرئیتم ھٰذہ المدن العظام کالشام والجزیرۃ والکوفۃ والبصرۃ ومصر لا بدلھا من ان تشحن بالجیوش وادرار العطاء علیھم فمن این یعطی ھولاء اذا قسمت الارضون والعلوج فقالوا جمیعا الرأی رأیک فنعم ماقلت ونعم مارأیت۱۰۰؎
یعنی امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ مجھ سے اہلِ مدینہ کے کئی علماء نے بیان کیا ہے کہ جب عراق فتح ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوںسے مشورہ کیا اور اُن سے پوچھا کہ شام وعراق میں جو زمین خداتعالیٰ کی طرف سے ملی ہے اُس کو کس طرح تقسیم کیا جائے۔ اِس پر لوگوں نے مشورہ دیا کہ اُن کے حقوق جو اموالِ غنیمت کے ہیں اور جو زمین انہوں نے فتح کی ہے وہ اُن میں فوراً تقسیم ہونی چاہئے۔ اِس پر حضرت عمرؓ نے کہا کہ اُن مسلمانوں کا کیا حال ہوگا جو بعد میں آئیں گے اور وہ دیکھیں گے کہ زمین کا ہر ٹکڑہ اور اُس کے کسان تقسیم ہو چکے ہیں اور باپ دادوں سے دوسرے لوگوں کو ورثہ میں ملے ہوئے ہیں۔ میری یہ رائے نہیں۔ خدا کی قسم! میرے بعد کوئی اور ملک ایسا فتح نہیں ہوگا جس میں نیل جیسے دریا ہوں بلکہ ممکن ہے کہ ایسے ملک فتح ہوں جو مسلمانوں پر بوجھ ہوں اور اُن کا خرچ مسلمانوں کو اُٹھانا پڑے۔ پس اگر مَیں عراق کی زمین اور اُس کے کسانوں کو تقسیم کردوں اور شام کی زمین اور اُس کے کسان کو تقسیم کر دوں تو اسلامی ملک کی سرحدوں پر لڑائی کا خرچ کہاں سے اُٹھایا جائے گا اور آئندہ اولاد کے لئے کیا بچے گا اور اس ملک اور شام اور عراق کے رہنے والے لوگوں اور بیوائوں کو کیا ملے گا۔ میری رائے تو یہ ہے کہ میں یہ زمینیں اور اُن کے کسانوں کو روک لُوں اور اُن کے اُوپر ایک خراج مقرر کر دوں اور اِس طرح شرعی طور پر ایک جزیہ مقرر کر دوں جو وہ دیتے رہیں۔ پس یہ ایک مال ہوگا اُن مسلمانوں کے لئے جو آئندہ جنگ میں حصہ لیں گے اور اُن کی اولادوں کے لئے اور اُن لوگوں کے لئے جو اُن کے بعد آئیں گے۔ کیا تمہاری رائے نہیں کہ یہ اسلامی سرحدیں اِس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ وہاں فوجیں رہیں جو ہر وقت اُن کی نگہداشت کریں؟ کیا تم نہیں دیکھتے کہ یہ بڑے بڑے شہر جیسے دمشق اور جزیرہ اور کوفہ اور بصرہ اور مصر کے لئے ضروری ہے کہ فوجوں کے ساتھ اُن کی حفاظت کی جائے اور مقررہ وظائف فوجیوں کو ملتے رہیں؟ اگر یہ زمینیں اور ان کے کسان تقسیم کر دیئے جائیں تو وہ فوجی کس روپیہ سے مہیّا کئے جائیں گے جن کی ملک کی حفاظت کے لئے ضرورت ہے۔ اِس پر صحابہؓ نے کہا جو کچھ آپ نے فرمایا ہے درست ہے اور جو کچھ آپ نے سمجھا وہی صحیح ہے۔
بعض اور آثار میں یہ زائد بات بھی بیان کی گئی ہے کہ صحابہؓ برابر کئی دن تک حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بحث کرتے رہے یہاں تک کہ تیسرے دن حضرت عمرؓ نے کھڑے ہو کر کہا کہ مجھے قرآن شریف کی ایک آیت سے حوالہ مل گیا جس سے میرا استدلال درست ثابت ہوتا ہے چنانچہ اس بارہ میں مندرجہ ذیل روایت کتاب الخراج میں لکھی ہے۔
حدثنی محمد بن اسحاق عن الزھری ان عمر بن الخطابؓ استشار الناس فی السواد حین افتتح فرأی عامتھم ان یقسمہ وکان بلال بن رباح من اشدھم فی ذلک وکان رأی عمرؓ ان یترکہ ولا یقسمہ فقال اللھم اکفنی بلا لاواصْحابہ ومکثوا فی ذلک یومین او ثلاثۃ اودون ذلک ثم قال عمرؓ انی قد وجدت حجۃ قال اللّٰہ تعالی فی کتابہ ما افاء اللّٰہ علی رسولہ منھم فما اوجفتم علیہ من خیل ولارکاب ولکن اللّٰہ یسلط رسلہ علی من یشاء واللّٰہ علی کل شییٔ قدیر حتی فرغ من شأن بنی النضیر فھذہ عامۃ فی القری کلھاثم قال ما افاء اللّٰہ علی رسولہ من اھل القری فللّٰہ وللرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین و ابن السبیل کیلا یکون دولۃ بین الاغنیاء منکم و ما اتکم الرسول فخدوہ ومانھکم عنہ فانتھوا واتقوا اللّٰہ ان اللّٰہ شدید العقاب۔ ثم قال للفقراء المھاجرین الذین اخرجوا من دیارھم واموالھم یبتغون فضلا من اللّٰہ و رضوانا۔ وینصرون اللّٰہ و رسولہ اولئک ھم الصدقون ثم لم یرض حتی خلط بھم غیرھم فقال والذین تبوؤا الدار والایمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم ولا یجدون فی صدورھم حاجۃ مما اوتوْا ویؤثرون علی انفسھم ولوکان بھم خصاصۃ ومن یوق شح نفسہ فاؤلئک ھم المفلحون۔ فھذا فیما بلغنا واللّٰہ اعلم۔ للانصار خاصۃ ثم لم یرض حتی خلط بھم غیر ھم فقال والذین جاء وا من بعدھم یقولون ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بِالایمان ولا تجعل فی قلوبنا غِلا للذین اٰمنوا ربنا انک رء وف رحیم۔ فکانت ھذہ عامۃ لمن جاء من بعدھم فقد صار ھذا الفیٔ بین ھولاء جمیعا فکیف نقسمہ لھؤلاء و ندع من تخلف بعدھم بغیر قسم فاجمع علی ترکہ وجمع خراجہ ۱۰۱؎ یعنی محمدبن اسحاق نے امام زہری سے روایت کی ہے کہ جب سوادِ عراق فتح ہوا تو حضرت عمر ؓ نے لوگوں سے اس کے متعلق مشورہ کیا۔ اُن میں سے اکثر کی رائے یہ تھی کہ اس کو تقسیم کر دیا جائے اور بلال بن رباح رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ شدت سے اس بات پر مصِرّ تھے کہ یہ ضرور تقسیم ہونا چاہیے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے یہ تھی کہ اس کو چھوڑ دیا جائے اور فی الحال تقسیم نہ کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب اِن لوگوں کی مخالفت دیکھتے تھے تو بے اختیار اللہ تعالیٰ سے یوں دعا کرتے تھے کہ اے اللہ! بلالؓ اور اُس کے ساتھیوں کے اعتراض سے مجھے بچا اور اُن کا جواب مجھے خود سمجھا۔ یہ بحث دو تین دن تک یا اِس سے کم وبیش جاری رہی۔ آخری دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک دلیل مل گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ اپنے رسول کو عطا فرمائے ایسی چیزیں جن پر تمہارے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑے بلکہ اُس نے خود ہی اپنے فضل سے اپنے رسول کو جس چیز پر چاہا قبضہ دے دیا اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ اِس آیت کی تلاوت کے بعد حضرت عمرؓ نے فرمایا یہاں تک تو یہودیوں کے بنو نضیر قبیلہ کے متعلق ذکر تھا اِس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اگلی آیتوں میں تمام ملکوں کے متعلق احکام جاری فرمائے ہیں اور فرمایا کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو بستیوں اور اُن کے باشندوں میں سے بخشا وہ اللہ تعالیٰ کا ہے اور اس کے رسول کا ہے اور قریبیوں کا ہے اور یتامیٰ کا ہے اور مساکین کا ہے اور مسافروں کا ہے تاکہ یہ مال تم میں سے امیروں کے درمیان چکر کھانے والا نہ بن جائے۔ اور رسول اِس مال میں سے تم کو جو کچھ دے وہ لے لو اور جس بات سے روکے اُس سے رُک جائو اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ اللہ سزا دینے میں سخت بھی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ آگے فرماتا ہے کہ یہ مال مہاجر غریبوں کے لئے ہے جو اپنے گھروں سے نکالے گئے اوراپنے مالوں سے محروم کئے گئے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضاء کی جستجو میں رہتے ہیں اور اللہ اور اُس کے رسول کی مدد کرتے ہیں یہی سچے لوگ ہیں۔ اتنی آیتیں پڑھنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ دیکھو! پھر اللہ تعالیٰ نے اِسی پر بس نہیں کیا بلکہ اُن کے ساتھ ایک اور جماعت کو ملایا ہے اور فرماتا ہے اور اُن لوگوں کے لئے بھی جو اس گھر میں پہلے سے رہتے تھے اور جنہوں نے کہ ایمان کو اپنے دلوں میں داخل کر لیا تھا وہ ان لوگوں سے محبت کرتے ہیں جو ہجرت کر کے اُن کے شہر میں آ بسے ہیں اور اپنے دلوں میں اُس مال سے جو اُن کو دیا جائے پورا استغناء محسوس کرتے ہیں اور دوسرے لوگوں کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں خواہ وہ کتنی ہی غربت اور فاقہ میں کیوں نہ مبتلا ہوں۔ اور جس قوم کے دل سے اللہ تعالیٰ بخل کو دور کردے وہ قو م بڑی کامیابی پانے والی ہوتی ہے۔ یہ آیتیں پڑھنے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جہاں تک ہمیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوا ہے یہ آیتیں خاص طور پر انصار کے متعلق ہیں۔ پھر فرمایا لیکن اللہ تعالیٰ نے اِسی پر بس نہیں کی بلکہ اُن کے ساتھ ایک اور جماعت کو ملادیا اور فرمایاوہ لوگ جو اُن کے بعد آئیں گے اور کہیں گے اے ہمارے رب! ہمارے گناہوں کو بخش اور ہمارے اُن بھائیوں کو بخش جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے تھے اور ہمارے دلوں میں مومنوں کے متعلق بغض پیدا نہ کر تُو بہت بخشش کرنے والا مہربان ہے۔ پھر فرمایا دیکھو !یہ آیت اُن سب لوگوں کے متعلق ہے جو بعد میں آئیں گے اور قرآنی فیصلہ کے مطابق حکومت کو تمام لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے۔ پس ہم کس طرح تمام اموال کو موجودہ نسل میں تقسیم کردیں اور جو ابھی تک آئے نہیں اُن کا حصہ کوئی چھوڑیں ہی نہ۔ اِس پر تمام صحابہؓ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ متفق ہوگئے اور سوادِ عراق پر خراج لگانے کا فیصلہ دے دیا گیا۔
اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ یہ کوئی اسلامی فتویٰ نہیں کہ تمام مفتوحہ ممالک کی زمین حکومت کی ہوتی ہے۔ اگر یہ فتویٰ ہوتا تو عرب کے مفتوحہ علاقوں کی زمین کیوں تقسیم کی جاتی؟ یا سوادِ عراق سے باہر عراق کے علاقوں کی یا شام کے بعض علاقوں کی زمین کیوں تقسیم کی جاتی؟ جو بات اِس حوالہ میں سے نکلتی ہے وہ صرف اِس قدر ہے کہ حکومت کو صرف اپنے موجودہ زمانہ کے لوگوں کی ضرورتوں کا ہی خیال نہیں رکھنا چاہئے بلکہ آئندہ زمانہ کے لوگوں کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِسی خیال کے ماتحت ساری فتوحات نہیں بلکہ فتوحات کا ایک حصہ حکومت کے قبضہ میں رکھا۔ لیکن آہستہ آہستہ وہ علاقے بھی آخر حکومت نے تقسیم کردیئے اور لوگوں کی ملکیت ہوگئے اور ایسی ملکیت ہوگئے کہ جب بنو عباس نے شاید اِسی قسم کے فتویٰ سے متاثر ہوکر جو اِس وقت زمیندارہ کے خلاف لوگ دے رہے ہیں لوگوں سے زمین چھین کر بغداد بسایا تو امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے اِس چھینی ہوئی زمین کے مقبرہ میں دفن ہونا بھی پسند نہ فرمایا اور وصیت کی کہ مجھے اِس جگہ سے باہر دفن کیا جائے۔
پُرانے فقہا نے جو کچھ سواد کے متعلق سمجھا ہے میں اس کے متعلق بھی اس جگہ پر ایک حوالہ نقل کر دیتا ہوں۔ حنفیوں کی مشہور کتاب ردّ المختار شامی میں لکھا ہے۔ سواد العراق ای قراہ وکذا کل مافتح عنوۃ واقر اھلہ علیھا اوصولحوا ووضع الخراج علی ارضیھم فھی مملوکۃ لاھلھا…… لان الامام اذا فتح ارضا عنوۃ لہ ان یقرا ھلھا علیھا ویضع علیھا الخراج وعلی رؤو سھم الجزیۃ فتبقی الارض مملوکۃ لاھلھا ۱۰۲؎ یعنی سوادِ عراق کی زمین اور اسی طرح اُن تمام ممالک کی زمین جو زور کے ساتھ فتح کئے گئے ہوں اور فاتح حکومت نے اُس ملک کے باشندوں کو اُن کی زمینوں پر قابض رہنے دیا ہو یا ایسے ملک جن کے ساتھ صلح کی گئی ہو اور اُن کی زمین پر خراج لگادیا گیا ہو یہ سب کی سب (سوادِ عراق اِس میں شامل ہے) اُن زمینوں کے مالکوں کی ملکیت ہونگی کیونکہ جب امام کسی زمین کو زبر دستی فتح کرے تو وہ اگر مناسب سمجھے تو اُس جگہ کے لوگوں کو اُس پر قابض رہنے دے اور اُن پر خراج مقرر کردے اور جزیہ لگادے اِس صورت میں زمین اُنہی لوگوں کی رہتی ہے جن کے قبضہ میں وہ ہوتی ہے۔
اِس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ سوادِ عراق کی بحث کا زمینوں کی ملکیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اور جیسا کہ مَیں نے ردالمختار شامی کے حوالہ سے بتایا ہے سوادِ عراق کی زمینوں کو حنفیوں نے ویسی ہی افراد کی مملوکہ زمینیں قرار دیا ہے جیسا کہ کوئی اَور زمین ہو۔ شاہی زمین ہونے کی وجہ سے لوگوں کی ملکیت میں کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔ شاہی زمین ہونے کے محض اتنے معنی ہیں کہ اُس زمانہ میں جب وہ ملک فتح ہوا اُس زمین کے حقوقِ ملکیت کسی اَور شخص کو نہیں دئیے گئے لیکن بعد میں جب وہ حقوق دوسروں کو دیدئے گئے تو وہ لوگ جو اُس پر قابض تھے اُن سب کو ویسا ہی مالک سمجھا گیا جیسا کہ دنیا میں کوئی اَور مالک ہوتا ہے۔
پھر اِسی کتاب میں لکھا ہے۔ ان ارض سواد العراق مملوکۃ لاھلھا یجوز بیعھم لھا وتصرفھم فیھا وکذلک ارض مصر و الشام ۱۰۳؎ یعنی سوادِ عراق کی زمین جن لوگوں کی ملکیت میں ہے وہ اُنہی کی مملوکہ ہے ( حکومت کی نہیں) وہ اُس کو بیچ بھی سکتے ہیں اور جس طرح چاہیں اُس میں تصرّف بھی کرسکتے ہیں (یعنی عمارتیں وغیرہ بنا لیں یا باغ بنا لیں) اِسی طرح مصر اور شام کی زمین کے متعلق بھی یہی حکم ہے۔
خلاصہ یہ کہ سوادِعراق کے محض اتنے معنی ہیں کہ حضرت عمرؓ نے اُس زمین کو اُسی زمانہ کے مسلمانوں میں تقسیم کر کے عُشری نہیں بنایا بلکہ اُس کو خراجی رہنے دیا تاکہ آئندہ آنے والی نسلوں میں اُن زمینوں کو تقسیم کیا جاسکے اور اُن کے لئے بھی کچھ حصہ باقی رہے۔ ورنہ جو کسان اُس پر قابض تھے وہ اُس کے ویسے ہی مالک تھے جیسے اور موروثی کسان مالک ہوتے ہیں اور جن لوگوں کو وہ زمین دی جاتی تھی یا جو حکومت سے خریدتے تھے وہ اُس کے ویسے ہی مالک ہوتے تھے جیسے کوئی اَور زمینوں کا مالک ہوتا ہے۔
اگر کسی کے دل میں یہ شبہ ہو کہ آیا حکومت کا مال فروخت بھی ہو سکتا ہے یا نہیں؟ تو اس کے لئے میں چند حوالے پیش کرتا ہوں۔
مذکورہ بالا کتاب میں ہی لکھا ہے۔ لوباع شیئا من بیت المال صح بیعہ۱۰۴؎ اگر امام یعنی حکومت بیت المال کی چیزوں میں سے کسی چیز کو بیچے تو اُس کی بیع درست ہوگی۔
اِسی طرح لکھا ہے۔من اشتری شیئا مما صارت لبیت المال فقد ملکھا۱۰۵؎ جو شخص کوئی ایسی چیز خریدے جو بیت المال کی تھی تو وہ اس کا پوری طرح مالک ہو جائے گا بلکہ یہاں تک لکھا کہ اگر کوئی خراجی زمین حکومت سے خریدے تو وہ بھی خراجی نہیں رہے گی عُشری بن جائے گی۔
چنانچہ لکھا ان الخراج ارتفع عن اراضی مصر لعودھا الی بیت المال بموت ملاکھا فاذا اشترھا انسان من الامام بشرطہ شراء صحیحا ملکہ ولا خراج علیھا لان الامام قد اخذ البدل للمسلمین۱۰۶؎ یعنی مصر کی زمین پر سے خراج اُڑ گیا۔ مصر کی زمین سے خراج کیوں اُڑا؟ اِس لئے کہ اُس کے قابض اُمراء کے مرنے کے بعد وہ زمین بیت المال کی ہوگئی اور قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص حکومت سے شرائط کے مطابق صحیح سود ا کرے تو وہ اُس کا پورا مالک بن جاتا ہے اور اِس لئے اُس زمین پر خراج نہیں رہتا اِس لئے کہ امام نے جو اُس زمین میں مسلمانوں کا حصہ تھا اُس کے بدلہ میں خریدار سے قیمت وصول کرلی۔ یعنی علّامہ شامی یہ سوال اُٹھا کر مصر کی زمین جو خراجی تھی اب وہ عُشری کیوں ہوگئی ہے؟ اِس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ پہلے مصر خراجی تھا کیونکہ وہ فتح کیا گیا تھا اور فتح کے نتیجے میں وہ مسلمانوں کی ملکیت ہو گیا تھا لیکن مصر کے رئوساء کے پاس ہی اُن کی زمینیں رہنے دی گئی تھیں اور حکومت جو مسلمانوں کی قائم مقام تھی وہ مسلمانوں کے حق کے طور پر اُن رئوساء سے خراج لیتی تھی۔ اِس کے بعد ایک ایسا زمانہ آیا کہ وہ رئوساء اور زمیندار مر گئے اور اُن کی زمینیں لاوارثی کے طور پر پھر حکومت کے پاس آگئیں اور مسلمانوں نے حکومت سے وہ زمینیں دوبارہ خریدیں تو اب وہ خراجی نہ رہیں۔ کیونکہ حکومت یعنی مسلمانوں کی نمائندہ طاقت نے زمین کی قیمت خریدار سے وصول کر لی اور اس طرح جو مالکانہ حصہ تھا وہ حکومت کے پاس چلا گیا۔ پس خراج جو مالکانہ حصہ کے مقابلہ میں ہوتا ہے وہ روپیہ کی صورت میں حکومت کو مل گیا یا دوسرے لفظوں میں مسلمانوں کو مل گیا۔ اب صرف عُشر رہ گیا جو خدا تعالیٰ کا حصہ ہے جس کو نہ کوئی معاف کرسکتا ہے نہ بخش سکتا ہے۔
دیکھو! اس حوالہ میں کتنی وضاحت سے یہ بات بتا دی گئی ہے کہ خراج در حقیقت قائم مقام ہے اُس مالکانہ حق کا جو مفتوحہ ملک پر مسلمانوں کو حاصل ہوتا ہے۔ جب کوئی شخص کوئی زمین حکومت سے خرید لے یا حکومت اُس کو بخش دے تو پھر اُس پر سے خراج اُڑ جاتا ہے اور صرف عُشر باقی رہ جاتا ہے اور حکومت کو آئندہ اُس زمین کے متعلق کوئی اختیار باقی نہیں رہتابلکہ خریدار کو یا جس کو ہبہ کے طور پر زمین دی گئی ہو کلّی طور پر ملکیت کے حقوق حاصل ہو جاتے ہیں۔
اقلیت کی رپورٹ میں مولانا ابو الکلام صاحب آزاد کا بھی ایک حوالہ دیا گیا ہے مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں مولانا ابو الکلام صاحب آزاد کو بھی شریعت کے متعلق کوئی خصوصی مقام حاصل ہونے کا دعویٰ نہیں نہ اُن کی طرف سے کوئی ایسی دلیل ہی پیش کی گئی ہے جس کو شرعی طور پر ردّ کرنے کی ضرورت ہے۔
میں قریباً اُن تمام باتوں کا اُوپر جواب دے چکا ہوں جو زمینداری کے مخالف لوگوں کی طرف سے پیش کی جاتی ہیں اور خصوصاً وہ باتیں جو سندھ گورنمنٹ زراعتی کمیٹی کی اقلّیت کی رپورٹ میں درج کی گئی ہیں۔ البتہ ایک بات رہ گئی ہے جو کوئی شرعی دلیل تو نہیں لیکن ایک جذباتی دلیل ضرور ہے اور وہ ابن تین کا قول ہے یعنی چھٹی صدی ہجری کے ایک محدث ابن تین کا ایک قول نقل کیا گیا ہے جو یہ ہے:۔
’’ہمارا آج کا مشاہدہ بھی یہ ہے کہ سب سے زیادہ تکلیف اور دُکھ پانے والی جماعت کسان ہیں۔‘‘۱۰۷؎
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس حوالہ کا ترجمہ بھی غلط کیا گیا ہے۔ اِس حوالہ میں ہرگز اس طرف یہ اشارہ نہیں ہے کہ کسانوں کی حالت خراب ہے جیسا کہ اقلیتی رپورٹ نے ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ اِس رپورٹ میں اِس حوالہ کے نقل کرنے سے پہلے یہ لکھا ہے کہ :۔
’’زمیندارہ طریق نے ایک وسیع مصیبت اور غربت کسانوںمیں پیدا کردی تھی یہاں تک کہ چھٹی صدی ہجری میں بھی ابن تین کو یوں لکھنا پڑا۔‘‘
اِن الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ یہ رپورٹ لکھنے والے صاحب پڑھنے والے پر یہ اثر ڈالنا چاہتے ہیں کہ گویا اوپر کی عبارت میں کسان کی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو زمیندار کے ظلم کی وجہ سے اُس پر وارد ہو رہی تھی حالانکہ اِس حوالہ میں ہرگز اس کی طرف اشارہ بھی نہیں۔ ابن تین کی پوری عبارت کا ترجمہ یہ ہے:۔
’’ابن تین کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات( جس کا ذکر آئندہ کیا جائے گا)غیب کی خبروںمیں سے تھی کیونکہ یہ بات مشاہدہ سے معلوم ہوتی ہے کہ اکثر ظلم کھیتی کرنے والوں پر ہوتا ہے۔‘‘
اِس حوالہ میں کھیتی باڑی کے الفاظ ہیں جو ہرگز کسان پر دلالت نہیں کرتے۔ بارہ ایکڑ یا پندرہ ایکڑ یا پچیس ایکڑ والا وہ زمیندار جو اَب پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ بھی کھیتی باڑی کرنے والا آدمی ہوگا اور ویسا ہی آدمی جو پہلے گزر چکا ہو وہ بھی کھیتی باڑی کرنے والا تھا خواہ وہ اپنی زمین کا آپ مالک تھا۔ پس اِس عبارت سے وہ نتیجہ نکالنا جو نکالا گیا ہے بالکل خلافِ واقعہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اِس عبارت کو سمجھنے کے لئے اِس کے پہلے حصّہ کا درج کرنا بھی ضروری تھا جس کو رپورٹ لکھنے والے نے حذف کردیا ہے اور وہ پہلا حصہ یہ ہے کہ ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات پیشگوئی کے طور پر معلوم ہوتی ہے۔‘‘اِس حصہ کو اگر رپورٹ لکھنے والے صاحب ساتھ نقل کر دیتے اور یہ حصہ اُس کتاب میں موجود ہے جس سے انہوں نے یہ حوالہ نقل کیا ہے تو غالباً اُن پر بھی حقیقت کھل جاتی اور پڑھنے والوں پر بھی حقیقت کھل جاتی۔ اگر وہ حوالہ پورا نقل کرتے تو ہر شخص یہ سوال کرتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ کونسی بات ہے جس کی طرف ابن تین اشارہ کرتے ہیں اور جب وہ بات اس کے سامنے آتی تو ساری حقیقت اُس پر واضح ہوجاتی۔
وہ بات جس کی طرف ابن تین نے اشارہ کیا ہے وہ ایک حدیث ہے جو بخاری میں بھی اور بہت سی دوسری کتب احادیث میں بھی درج ہے۔ اِس حدیث کے الفاظ یہ ہیں:۔ عن ابی امامۃ الباھلی انہ رای سکۃ و شیئا من الۃ الحرث فقال سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول لا یدخل ھذا بیت قوم الا ادخلہ اللّٰہ الذل ۱۰۸؎ یعنی ابی امامۃ الباہلیؓ کی نسبت روایت ہے کہ انہوں نے ہل اور زراعت کے آلات میں سے کوئی اَور آلہ دیکھا تو فرمایا میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یہ چیز یعنی زراعت کا آلہ کسی قوم میں داخل نہیں ہوتا کہ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اُس کے گھر میں ذلّت نہ داخل کردیتا ہو۔
ابن تین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس قول کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً بطور پیشگوئی کے فرمائی تھی کیونکہ زمینداروں پر (جس میں زمیندار اور کاشتکار دونوں شامل ہیں نہ کہ صرف کاشتکار) اِس زمانہ میں سب سے زیادہ ظلم ہوتا ہے۔
ابن تین کی بات کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے مَیں خود اس حدیث کے متعلق اَئمہ اہلحدیث کے اقوال درج کرتا ہوں۔امام محمدؒ مبسوط میں فرماتے ہیں۔ مراد الحدیث ان المسلمین اذا اشتغلوا بالزراعۃ واتبعوا اذناب البقر وقعدوا عن الجھاد کرعلیھم عدوھم فجعلوھم اذلۃ ۱۰۹؎ یعنی اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ جب مسلمان زراعت میں مشغول ہوجائیں گے( صاف ظاہر ہے کہ یہاں صرف کسان مراد نہیں) اور بیلوں کی دُموں کے پیچھے پیچھے چلیں گے اور جہاد کو چھوڑ دیں گے تو اُن پر دشمن لوٹ کر حملہ کرے گا اور اُن کو ذلیل کر دے گا۔
اِسی طرح اُنہوں نے لکھا ہے کہ ظنوا ان المراد بالتزام الخراج ولیس کذلک ۱۱۰؎ یعنی بعض لوگوں نے اس حدیث کے یہ معنے کئے ہیں کہ زراعت کرنے سے ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے اور یہ ذلّت ہے۔ امام محمدؒ کہتے ہیں یہ ہر گز مراد نہیں بلکہ مراد وہ ہے جو ہم پہلے لکھ آئے ہیں۔
شاہ ولی اللہ صاحب بھی اِس بارہ میں یُوں فرماتے اعلم ان النبیﷺ بعث بالخلافۃ العامۃ وغلبۃ دینہ علی سائر الادیان لا یتحقق الا بالجھادو اعداد الاتہ فاذا ترکوا الجھاد واتبعوا اذناب البقر احاطہ بھم الذل وغلب علیھم اھل سائر الادیان ۱۱۱؎ ٰؑ یعنی یاد رکھو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری دنیا کے لئے مبعوث ہوئے تھے اور سارے دینوں پر آپ کے دین کا غلبہ جہاد اور جہاد کے سامانوں کی تیاری کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ پس جب مسلمانوں نے جہاد چھوڑ دیا اور بیلوں کی دُموں کے پیچھے چل پڑے(یعنی کھیتی باڑی کرنے لگے) تو ذلّت نے اُن کو گھیر لیا اور دوسرے دینوں والے لوگ اُن پر غالب آگئے۔
عینی شرح بخاری میں بھی اِس حدیث کے متعلق یُوں لکھا ہے۔ ھذا لمن یقرب من العدو فانہ اذا اشتغل بالحرث لایشتغل بالفرو سیۃ ویتاسد علیہ العدو واما غیرھم فالحرث محمود لھم وقال عزوجل واعدوا لھم ماستطعتم الایۃ وھولا تقوم الا بالزراعۃ ومن ھو بالثغور اوبمقاربۃ للعدو لایشتغل بالحرث فعلی المسلمین ان یمدوھم بمایختاجون الیہ۱۱۲؎ (جو حنفیوں کی لکھی ہوئی بخاری کی شرح ہے) یعنی یہ حدیث تمام مسلمانوں کے لئے نہیں ہے بلکہ صرف اُن مسلمانوںکے لئے ہے جو دشمن کے قریب ہیں کیونکہ اگر وہ کھیتی باڑی میں لگ جائیں تو پھر جنگی فنون کی طرف توجہ نہیں کر سکتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دشمن اُن پر دلیر ہوکر حملہ آور ہوجائے گا۔ اور جو اُن کے سوا ہیں یعنی اندرونِ ملک کے رہنے والے اُن کے لئے کھیتی ہے اُن کے لئے ایک اعلیٰ درجہ کا کام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دشمن کیلئے اُن تمام ذرائع سے کام لے کر تیاری کرو جو تمہاری طاقت میں ہوں اور یہ حکم بغیر زراعت کے پُورا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ جو فوجیں سرحدوں پر بیٹھی ہوںگی یا دشمن کے قرب و جوار میں رہتی ہوں گی وہ تو کھیتی باڑی میں مشغول نہیں ہوسکتیں پس دوسرے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ کھیتی باڑی کر کے اُن فوجوں تک غلّہ اور دوسرے کھانے پینے کے سامان بھجوائیں۔
دیکھئے اِن حوالوں سے ابن تین کی بات کس قدر بدل جاتی ہے۔ ابن تین اپنے پاس سے بات نہیں کہتے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اِس حدیث میں کسانوں کا ذکر نہیں بلکہ زراعت کرنے والوں کا ذکر ہے اور علمائے اسلام نے اِن احادیث کے یہ معنی کئے ہیں کہ یہ حدیث اُن مسلمانوں کے لئے ہے جن کے ذمہ حفاظت ملک کا کام ہوتا ہے اُن کو کھیتی باڑی میں مشغول نہیں ہونا چاہئے اگر وہ ایسا کریں گے تو پھر جنگی فنون کی طرف سے غافل ہو جائیں گے۔ ورنہ کھیتی باڑی ایک اچھا فعل ہے۔ پس حدیث میں نہ کسی کسان کا ذکر ہے نہ کسی زمیندار کے ظلم کا ذکر ہے بلکہ مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ اپنے میں سے ایک حصہ کو (کیونکہ اُس وقت باقاعدہ فوجیں نہیں ہوتی تھیں) کھیتی باڑی کی فکروں سے آزاد کردیں۔ تاکہ وہ لوگ کلّی طور پر فارغ ہو کر فنونِ جنگ کے سیکھنے میں لگ جائیں اور دشمن کے مقابلہ کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ ظاہر ہے کہ اِن معنوں سے کھیتی باڑی کرنے والے کی تعریف کی گئی ہے مذمّت نہیں کی گئی اور کسانوں کا ظلم نہیں بیان کیا گیا بلکہ خواہ ملکیتی زمین رکھنے والا ہو یا مقاطعہ کی زمین رکھنے والا ہو اگر وہ فوج میں اپنے آپ کو بھرتی کرتا ہے یا ایسے مقام پر ہے جہاں سے اُسے فوجی خدمت کے لئے بُلانے کی ضرورت پیش آ جائے گی تو اُسے حکم دیا گیا ہے کہ وہ زراعت کے کام کی طرف توجہ نہ کرے تاکہ وہ جنگ کے کاموں کی طرف پوری توجہ دے سکے۔
قرآن شریف میں بالکل اِسی رنگ کا یہودیوں کا ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام یہودیوں کو کنعان کی طرف لے کر جارہے تھے تاکہ اُس ملک کی بادشاہت اُن کے حوالے کی جائے تو رستہ میں بہت سی مشکلات پیش آئیں اور کئی قوموں سے اُنہیں جنگیں کرنی پڑیں۔ ایک لمبا عرصہ گذر جانے کی وجہ سے یہودی گھبرا گئے اور انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا۔ ۱۱۳؎ یعنی اے موسیٰ! یہ جنگل کی کھمبیاں اور بوٹیاں کھانی اور شکاری پرندے پکڑ کر کھانے ہمیں پسند نہیں۔ ہمیشہ ایک ہی کھانے پر ہم کب تک صبر کرتے چلے جائیں۔ پس تُو اپنے ربّ سے کہہ کہ وہ ہمارے لئے وہ چیزیں پیدا کرے جو زمین اُگاتی ہے جیسے سبزی، ککڑیا ں، کھیرے، ساگ، گندم دالیں اور پیاز وغیرہ۔ تو حضرت موسٰی علیہ السلام نے کہا ۱۱۴؎ یعنی اے لوگو! کیا تم اچھی چیز کے بدلہ میں ادنیٰ چیز لیتے ہو ؟اگر تمہاری ایسی ہی خواہش ہے تو جائو کسی شہر میں چلے جائو وہاں جو کچھ تم مانگ رہے ہو وہ تمہیں مل جائے گا۔ سو اُن کے اِس قول کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اُن پر ذلّت اور مسکینی نازل کی اور خداتعالیٰ کے غضب نے اُن کے گھروں میں ڈیرے ڈال دیئے۔
دیکھو! اس آیت میں ترکاریاں مانگنے کے خلاف کتنی شدّت سے غصّہ کا اظہار کیا گیا ہے حالانکہ ترکاری بُری چیز تو نہیں اچھی چیز ہے۔ خود قرآن شریف نے میووں وغیرہ کی تعریفیں کی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ترکاری پسند تھی۔ قرآن شریف میں حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ اُن کے لئے خداتعالیٰ نے کدو کا درخت اُگایا یعنی وہ اُس کا پانی پی پی کر طاقت حاصل کرتے تھے۔ تو جب قرآن شریف اور حدیث میں کئی ترکاریوں کی تعریف آئی ہے اور وہ بھی خداتعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہیں تو اتنا غضب اُن پر کیوں نازل کیا گیا۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ یہودی لوگ اُس وقت دشمنوں سے جنگ کر رہے تھے۔ اُن کے قومی حالات کے مناسبِ حال یہی پیشہ تھا کہ شکار کرتے، جانور پکڑتے،خود رو سبزیاں کھاتے اور ہر وقت جنگ کے لئے تیار رہتے۔ اگر وہ کھیتی باڑی میں مشغول ہو جاتے تو لازماً اُن کا سفر وہیں رُک جاتا اور کنعان جانے سے پہلے پہلے ہی وہ ایک چھوٹا سا قبیلہ بن کر اپنے اِرد گرد کی اقوام میں مدغم ہو جاتے۔ یہی بات ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے جس کو بگاڑ کر کچھ کا کچھ کر دیا گیا ہے۔ ابن تین کا مفہوم بھی یہی ہے کہ زمیندار بوجہ اِس کے کہ اپنی جگہوں سے ہل نہیں سکتے اور زمینوں کی ملکیت کی وجہ سے اپنے مقام کو چھوڑ نہیں سکتے بادشاہ اُن پر زیادہ ظلم کر سکتے ہیں۔ تاجر پر اتنا ظلم نہیں کیا جاسکتا۔ صناع پر اتنا ظلم نہیں کیا جاسکتا تاجر اپنی تجارت نسبتاً آسانی کے ساتھ دوسرے ملک میں منتقل کر سکتا ہے۔ اِسی طرح صناع اپنے ہتھیار لے کر دوسرے صوبہ یا ملک میں جاسکتا ہے لیکن زمیندار اپنی زمین اُٹھا کر نہیں لے جاسکتا اس لئے وہ مجبور ہے کہ پولیس کے انتظامی افسروں کے، زراعتی افسروں کے اور تعلیمی افسروں کے ظلم سہے اور ڈالیوں سے اُن کے گھر بھرتا رہے، مگر اس وجہ سے اپنے گھر میں بیٹھا رہے کہ میں اپنی زمین چھوڑ کر کہاں جائوں۔ پس ابن تین نے کسانوں کی حالت کا نقشہ نہیں کھینچا بلکہ زمیندار کی حالت کا نقشہ کھینچا ہے جو زمین کا مالک ہوتا ہے اور وہی ہے جو زمین چھوڑ کر نہیں جاسکتا۔ ورنہ کسان تو زمیندار سے زیادہ آزاد ہوتا ہے اگر کسی علاقہ میں اُس پر ظلم ہو تو وہ اُس کو نسبتاً آزادی سے چھوڑ سکتا ہے۔