• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 22

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
انوار العلوم ۔ مجموعہ کتب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ ۔ جلد 22




عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بنا سکتی ہیں




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بنا سکتی ہیں
(فرمودہ ۱۷ ؍ستمبر ۱۹۵۰ء بمقام احمدیہ ہال کراچی)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :۔
’’مجھے افسوس ہے کہ آج پچھلے دوہفتوں کے متواتر بولنے کی وجہ سے میرا گلا بہت ہی زیادہ بیٹھا ہؤا ہے کھانسی بہت شدت کی اٹھ رہی ہے اورمیں آج اچھی طرح اپنے خیالات ظاہر نہیں کرسکتا ۔میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کو جس قدر مواقع ملتے رہے ہیں اسی نسبت سے عورتوں کیلئے زیادہ سے زیادہ مواقع نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دین کی ضروریات سے واقف ہوں اوراپنے فرائض سے آگاہ ہوں لیکن عورتوں کا پروگرام میرے یہاں کے قیام کے آخری دنوں میں اتفاقاً آپڑا کیونکہ جب پہلے دن میری تقریر رکھی گئی تھی تواس دن مجھے نقرس کا ایسا شدید دَورہ ہؤاکہ میں چل پھر بھی نہیں سکتاتھا۔ مگر بعد میں پروگرام رکھنے کی وجہ سے میرا گلا اتنا مائوف ہوچکاہے کہ اب میرے لئے بولنا مشکل ہے۔ خصوصاً اِس لئے بھی کہ آج ہی میری ایک تقریر مردوں میں بھی ہوچکی ہے حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ میں شدید نزلہ اورکھانسی میں مبتلا ہوں اوربعض دفعہ تو دودو گھنٹہ تک ایک ہی اُچھو اُٹھتا چلاجاتاہے اور رات اوردن دوائیاں کھاکھاکر افاقہ ہوتاہے۔ پس آج کے دن کوئی اَورتقریر نہیں رکھنی چاہئے تھی اورایسے حالات میںسے مجھے نہیں گزارنا چاہئے تھا کہ میں عورتوں میں بولنے کے قابل نہ رہتا۔ مگر یہ آپ کا اور آپ کے خاوندوںیا باپوں کا معاملہ ہے آپ گھر میں نبٹ لیجئے ۔بہرحال آج کے مردوں کے پروگرام نے مجھے بالکل بے بس کردیاہے اور گلا اِس قدر زخمی ہے کہ معمولی آواز سے بھی میں بول نہیں سکتا۔ پھر سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ علاوہ گلے کے مائوف ہونے کے آواز کے جو پردے ہیں وہ نزلہ کے اثر کے نیچے اِس قدر مائوف ہوچکے ہیں کہ میری آواز صاف بھی نہیں اور ایسی طرح نہیں نکلتی کہ میرے الفاظ اچھی طرح سمجھے جاسکتے ہوں۔
انسانی پیدائش کی غرض
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ انسان کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتاہے


۱؎ یہ آیت بنی نوع انسان کی پیدائش کے واقعات کو اور اُس کی پیدائش کی غرض کو نہایت مختصر الفاظ میں بیان کررہی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتاہے اے لوگو! تقویٰ کرواپنے ربّ کا۔ ناس عربی زبان میں اسی کو کہتے ہیں جس کو اُردو یا فارسی زبان میں آدمی کہتے ہیں ۔بد قسمتی سے ہمارے ملک میں جہاں عورتوں میں یہ بیداری پیداہوگئی ہے کہ وہ اِس بات کا مطالبہ کرتی ہیں کہ ان کو بھی قومی اور دینی خدمت کرنے کا موقع دیا جائے وہاں وہ ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھ سکیں کہ وہ بھی آدمی ہیں ۔ذراکسی عورت سے کہو کہ تم آدمی ہو تو وہ کہے گی میں کیوں آدمی ہونے لگی آد می ہوتے ہیں مرد۔ حالانکہ آدمی کے معنی ہیں آدم کی اولاد اورجوآدمی کے معنی ہیں وہی ناس کے ہیں۔ عربی زبان میں جب ناسکا لفظ استعمال کرتے ہیں تواس میں مرد بھی شامل ہوتے ہیں اورعورتیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ اسی طرح اردو میں جب آدمی کا لفظ استعمال کیا جاتاہے تواس میں مرد بھی شامل ہوتے ہیںاورعورتیں بھی شامل ہوتی ہیں ۔جب ہم کہتے ہیں آدمی پر یہ فرائض عائد ہیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ مردوں پربھی یہ فرائض عائد ہیں اورعورتوں پر بھی یہ فرائض عائدہیں ۔اسی طرح عربی میں جب ہم کہتے ہیں ناس کا یہ حال ہے تو اِس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ مردوں کابھی یہی حال ہے اورعورتوںکا بھی یہی حال ہے ۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۲؎ کہو میں پناہ مانگتا ہوں ناس کے ربّ کی، ناس کے بادشاہ کی، ناس کے معبود کی۔ اب اِس کے یہ معنی نہیں کہ مردوں کے ربّ کی، مردوں کے بادشاہ کی اور مردوں کے معبود کی بلکہ اِس کے یہ معنی ہیں کہ میں پناہ مانگتاہوں مردوںاورعورتوں کے ربّ کی ۔میں پناہ مانگتاہوں مردوں اورعورتوںکے بادشاہ کی اورمیں پناہ مانگتاہوں مردوں اور عورتوں کے معبود کی۔ پس ناس عربی میں اورآدمی فارسی میں اور اُردومیں ایک ہی معنی رکھتے ہیں۔ آدمی کا لفظ عربی زبان کا ہی لفظ ہے مگر عام طورپر یہ استعمال نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر ناس کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں لیکن فارسی اوراُردومیں آدمی کا لفظ استعمال کیا جاتاہے۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ اے مردو اور عورتو! تم پناہ اورڈھال کے طورپر بنالو اپنے ربّ کو۔ وہ جس نے تم کو پیدا کیا۔ ایک ہی قسم کی طاقتوں کے ساتھ، ایک ہی قسم کے جذبات کے ساتھ۔ ایک ہی قسم کے ارادوں کے ساتھ ،ایک ہی قسم کی فکروں کے ساتھ، ایک ہی قسم کی اُمنگوں کے ساتھ ۔گویا اِس آیت میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ مردوعورت جہاںتک نفس کا تعلق ہے برابر ہیں اورایک ہی اصل پر چل رہے ہیں۔ جس قسم کی باتیں مرد کو غصہ دلاسکتی ہیں ویسی ہی باتیں ایک عورت کو بھی غصہ دلاسکتی ہیں، جس قسم کے سلوک کو ایک مرد ناپسند کرتاہے ویسے ہی سلوک کو ایک عورت بھی ناپسند کرتی ہے اور جس قسم کے جذبات ایک مرد میں پائے جاتے ہیں ویسے ہی جذبات ایک عورت میں بھی پائے جاتے ہیں۔پس جہاں تک نفسِ انسانی کا تعلق ہے وہی نفس مرد میں پایا جاتاہے اور وہی نفس عورت میں پایا جاتاہے۔ عام طورپر لوگ اِس کے یہ معنی کیا کرتے ہیںکہ اے انسانو! تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک آدمی سے پیدا کیامگر یہ معنی غلط ہیں۔نفس کے معنی عربی زبان میں آدمی کے ہرگز نہیں۔ نفس کے معنی جان کے ہیں۳؎ اورجان کا لفظ عورت کے لئے بھی بولا جاتاہے اورمرد کے لئے بھی بولاجاتاہے۔ نفس کے معنی ہیںسانس لینے والی چیز اور سانس مردبھی لیتاہے اورعورت بھی لیتی ہے ۔عربی کاایک لفظ ہے تنفّس یعنی سانس اپنے اندر کھینچنا ۔۴؎ اُردو میںبھی کہاجاتاہے میرے تنفّس میں خرابی پیداہوگئی ہے ۔مثلاًنزلہ کھانسی یادمہ کی وجہ سے یادمہ کوضیق النفس بھی کہتے ہیں یعنی سانس کی تنگی ۔تو نفس کے معنی اصل میں سانس کے ہوتے ہیں لیکن پھر نفس کے معنی سانس لینے والی چیز کے بھی بن گئے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔اے انسانو! مردواورعورتو! اپنے خدا کو اپنے لئے ڈھال بنالو اور تمام خرابیوں اورفتنوں سے بچنے کے لئے اس کی پناہ لیا کروجس نے تم کو ایک سانس لینے والے وجود سے یعنی ایک ہی قسم کی ہستی سے پیداکیاہے۔ اب یہاں کسی مرد کا ذکر نہیں ،کسی عورت کاذکر نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ تمام مرد اورتمام عورتیں ایک ہی قسم کی قوتیں اپنے اندر رکھتے ہیں کوئی علیحدہ علیحدہ چیز نہیں ہے۔ اور پھر اِس قسم کے اُس نے بہت سے جوڑے پیدا کئے ہیں۔ کے معنی ہیں ۔اس قسم کے جوڑے پیداکئے ہیں۔یعنی ایک انسانی وجود شروع ہؤا جس میں مرد بھی شامل تھا اور عورت بھی اور ان کے جذبات اور خواہش اور اُمنگیں ایک ہی قسم کی تھیں۔پھر آگے ان کی نئی نسل سے جو ہزاروں ہزاروں افرادپھیلے وہ بھی کوئی علیحدہ قسم کے نہیں تھے ۔یہ نہیں کہ آدم کے وقت تووہ ایک قسم کے تھے اوربعد کی نسلوں میں فرق پڑ گیا ۔بعد کی نسلوں میں فرق نہیں پڑا بلکہ ان کے مرد اور عورتیں دونوں ایک ہی قسم کے جذبات رکھتے تھے ۔ ۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان جوڑوں میں سے مردو عورتیں بہت سی پھیلائیں۔ یعنی مرداپنی ماں اوراپنے باپ کا وارث تھا اورعورت اپنی ماں اوراپنے باپ کی وارث تھی۔جس طرح مرد نے اپنے باپ کے علاوہ ماں کے جذبات کا حصہ لیا اسی طرح عورت نے اپنی ماں کے علاوہ باپ کے جذبات کا حصہ لیا ۔
قرآن کریم کی امتیازی تعلیم
یہ ایک اصول بات قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے جس میں اسلام کو باقی تمام مذاہب پر فوقیت
حاصل ہے ۔دنیامیں کوئی مذہب ایسا نہیں جس نے یہ بیان کیا ہوکہ عورت اورمرد کے جذبات اوراحساسات اوراُمنگیں ایک ہی قسم کی ہیں۔ یہ خیال کرلینا کہ مرد اورقسم کے ہیں اورعورتیں اَورقسم کی ہیں غلط ہے ۔جیسے ایک عمارت میں اگرکچھ لوگ رہتے ہیں اور اُن کے ہمسایہ میں بعض اَورلوگ ٹھہرے ہوئے ہوں تویہ نہیں کہا جاتاکہ یہ اَورقسم کے مردہیں اوروہ اَورقسم کے مرد ہیں بلکہ باوجود الگ الگ محلّوں، الگ الگ مکانوں اورالگ الگ شہروں میں رہنے کے ہرشخص سمجھتاہے کہ تمام لوگ ایک جیسی طاقتیں رکھتے ہیں ۔اسی طرح بے شک عورت اورمردکے جسم الگ الگ ہیں مگر طاقتیں ایک جیسی ہیں اور اُن کے جسموں کا الگ الگ ہونا ایسا ہی ہے جیسے الگ الگ مکان میںمختلف لوگ رہ رہے ہوں ۔اگر عورت کے جسم میں روح آجائے تووہ کوئی الگ چیز نہیں بن جاتی بلکہ اُس کے اندر وہی روح ہے جومرد کے اندر ہے صرف اُس کے جسم کی بناوٹ مرد سے علیحدہ ہے ۔ورنہ اُ س کے اندروہی روح پائی جاتی ہے جو مرد وںکے اندر پائی جاتی ہے۔ اب اس بات کو پھیلاکر دیکھوتو معلوم ہوگا کہ یہ ایک بہت بڑی سچائی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے۔ تمام چیزیں جو مردپر اثر کرتی ہیں وہی عورت پر بھی اثر کرتی ہیں۔ مثلاًبچہ پیداہوتاہے تویہ نہیں ہوتا کہ مرد ہنسنے لگیں اور عورت رونا شروع کردے یا بھوک پر عورت روٹی کھانے لگے اورمرد فاقہ شروع کردیں۔ یا باپ مرے توبیٹے رونے لگ جائیں اوربیٹیاں ہنسنے لگ جائیں ۔ایسا کبھی نہیں ہؤا بلکہ باپ کی وفات کا جواثر بیٹوں پر ہوتاہے وہی اثر بیٹیوں پر بھی ہوتاہے۔ اِسی طرح خاوند کی وفات پر جواثر بیوی پرہوتاہے ویسا ہی اثر بیوی کی وفات کا خاوند پر ہوتاہے۔ آخر وہ کونسی چیز ہے جو ان کو الگ کرتی ہے۔ جہاں تک مکا ن کاتعلق ہے اِس کافرق کوئی فرق نہیں ۔فرض کروایک شخص ایک انگریزی طرز کی کوٹھی میں رہتا ہے اورایک پرانے طرز کے محل میں رہتاہے توکیا ان دونوں میں فرق ہوگا؟ اِس میں رہنے والے بھی مرد ہیں اور اُس میں رہنے والے بھی مرد ہیں۔ اِسی طرح جسم ایک مکان ہے خواہ جسم مرد کی شکل میں بنا دیا جائے اورخواہ عورت کی شکل میں بنادیاجائے۔ اس میں رہنے والی بھی روح ہے۔ یہ مضمون ہے جو قرآن کریم بیان فرماتا ہے۔ اورجو دنیا کی کسی اور کتاب میں بیان نہیں کیا گیا۔ اِس سے اللہ تعالیٰ یہ سبق دیتا ہے کہ
خداکواپنی ڈھال بنائو
فرماتا ہے۔
اے مردواورعورتو ! اُس خداکواپنی ڈھال بنالو جس کا نام لے کر دُنیا میں اپنی اغراض پوری کرتے ہو اورجس کے نام کے ساتھ تم لوگوں سے رحم اورانصاف کی اپیل کرتے ہو اورکہتے ہو خدا کے واسطے یہ معاملہ یوں کرو، خدا کے واسطے یہ معاملہ یوں کرو۔ فرماتا ہے جب تم لوگ یہ کہتے ہو کہ خدا کے واسطے ہمارے ساتھ یوں معاملہ کرو توتم ہماری طاقت اورقوت کا اقرار کرتے ہو۔ لیکن ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ تم جب انسانوں سے خدا کے نام پر اپیل کرتے ہو توتم کیوں اُسی خدا کے پاس نہیں جاتے اور اُس سے براہ راست اپنا تعلق پیدا نہیں کرتے جو تمام تکلیفوں کو دور کرنے والا ہے ۔کیونکہ بہرحال انسانوں میں سے بھی بعض ایسے ہوتے ہیں جس کے سامنے اگر خداتعالیٰ کانام بھی لیاجائے تو اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔مثلاًدہریہ ہیں ۔اگر ان کے سامنے خداتعالیٰ کا نا م لیا جائے تووہ ہنستے ہیں۔ اسی طرح بعض سنگدل ڈاکو جب ڈاکہ ڈالتے ہیں یا دشمن کی فوجیں چڑھائی کرتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کانام لے کر اگر ان کے سامنے فریادکی جائے توکیا وہ چھوڑ دیتے ہیں؟کیا کبھی ایسا ہؤا ہے کہ کہیں ڈاکہ پڑا ہو اور لوگوں نے یہ کہا ہو کہ خداکے واسطے ہمیں چھوڑ دو اور اُنہوں نے چھوڑ دیا ہو؟ـیا مثلاً جرمنوں اورانگریزوں کی لڑائی ہوچکی ہے۔اس لڑائی میں کیا وہ گولیاں چلاتے تھے یاخداکا نام سن کراپنے دشمن کو چھوڑ دیتے تھے؟ ان کے سامنے اگر ہزار دفعہ بھی خداکانام لیا جاتا تو وہ چھوڑتے نہیں تھے ۔ پس بیشک انسان خداتعالیٰ کا نام لیتا ہے مگر جس طرح اِس نام کا وہ استعمال کرتاہے وہ غلط ہے ۔صحیح طریق یہ ہے کہ انسان خداتعالیٰ کے آگے جھکے اور بجائے انسان سے یہ کہے کہ تو خداکے واسطے مجھے چھوڑدے وہ خداتعالیٰ سے ہی کہے کہ اے خدا !تواپنی صفاتِ حسنہ سے کام لے کر اوراپنی صفات رحمانیت اوررحیمیت سے کام لیکر مجھ پر رحم کراورمیری مشکلات کو دور فرمادے۔پس یہ اللہ تعالیٰ کے نام لینے کاغلط طریق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر انسانوں سے اپیل کرتاہے۔ حالانکہ جس سے وہ اپیل کررہا ہوتاہے وہ بعض دفعہ دہریہ ہوتاہے ،بے دین ہوتاہے، سنگدل ہوتاہے اوروہ اللہ تعالیٰ کے نام کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔پس اصل طریق یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے جائے اوراُس کے سامنے اپنی مشکلات پیش کرے۔
دیکھو اس میں مرد وعورت کا یکساں حق تسلیم کیا گیا ہے یہ نہیں کہا گیا کہ مردوں کی دُعا سُنی جاتی ہے لیکن عورتوں کی نہیں بلکہ فرماتاہے اے مرداوراے عورتو! تم میرے نام کو اپنی ڈھال بنائو اور اپنی ضرورتوں کے وقت مجھے اپنی مدد کے لئے بلائو۔ فرماتاہے ۔دنیا میں بہت سے جھگڑے رقابتوں پر چلتے ہیں ۔عجیب بات یہ ہے کہ محبت کا سب سے گہرا تعلق میاں بیوی کا ہوتاہے اِدھر مرد کی ساری زندگی گزر جاتی ہے عورتوں اوربچوں کی پرورش میں اور اُدھر عورت کی ساری زندگی گزرجاتی ہے مرد کو آرام پہنچانے اور اُس کے کھانے پینے کا خیال رکھنے میں۔ مگر باوجود اِس کے وہ ایک دوسرے کے رقیب ہوتے ہیں ۔ذرا بات ہوتو عورت کہے گی مرد ایسے ہوتے ہیں اورذرا عورت سے کوئی اختلاف ہوتو مرد کہے گا کہ عورتیں ایسی ہوتی ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مثال کے طورپربیان فرمایا کہ مرد عورت کے لئے ساری عمر قربانی کرتا رہتاہے، ساری عمر اُس کی ضروریا ت کو پورا کرتا رہتاہے مگر کسی دن اُس کی مرضی کے خلاف بات ہوجائے تووہ کہے گی کہ میں نے تو تجھ سے کبھی کوئی خیر نہیں دیکھی جب بھی تونے سلوک کیا بُراہی کیا ۔۵؎ مردوں میں بھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں ۔کئی مرد بھی ایسے ہوتے ہیںجو عورت کی تمام قربانیوں کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے توتجھ میں کبھی کوئی خوبی دیکھی ہی نہیں۔ آخر اِس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ عورت اورمرد میں مقابلہ کے جذبات پیدا کئے گئے ہیں ۔جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ہمیں یہ نظارہ نظر آتاہے ۔چونکہ قرآن کریم کی یہ تعلیم کہ مرد اور عورت میں یکساں قوتیں رکھی گئی ہیں ابھی دنیا میں نازل نہیں ہوئی تھی اِس لئے عورت مرد کے خلاف کھڑی ہوجاتی اور مرد عورت کے خلاف کھڑا ہو جاتا اِن دونوں میں خوب مقابلہ ہوتا۔ بیشک جہاں تک محبت کا تعلق ہے ہزاروں لاکھوں گھرانے محبت وپیار سے رہتے تھے اوروہ ایک دوسرے کے لئے قربانی بھی کرتے تھے لیکن جہاں تک زبان کا تعلق تھا ،جہاں تک تقریروں کا تعلق تھا، جہاںتک تحریروں کا تعلق تھا ،مرد کہتے کہ ان عورتوں نے یوں کیا اور عورتیں کہتیں کہ اِن مردوں نے یوں کیا۔ اللہ تعالیٰ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتاہے کہ اے مرد اورعورتو! یاد رکھو تم ایک دوسرے کے رقیب بنے ہوئے ہوحالانکہ اصل رقیب خداہے اور وہ دیکھتاہے کہ ہم نے جو طاقتیں رکھی ہیں تم اُن کا کس طرح استعمال کرتے ہو۔ ہم نے یہ طاقتیں اِس لئے رکھی ہیں تاکہ تم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور محبت اور پیار سے زندگی بسر کرو۔اگر تم آپس میں ہی لڑتے جھگڑتے رہتے ہوتو تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ تم دونہیں بلکہ ایک تیسرا وجود بھی تمہیں دیکھ رہا ہے جو خدا ہے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں۔ جہاں دوہوتے ہیں وہاں ایک تیسرا وجود خدا بھی ہوتا ہے۔۶؎ پس یہ نہ سمجھو کہ صرف تم ہی ہو بلکہ ہم بھی ہیں ۔اگر تم ہمارے قواعد کوپورا نہیں کروگے توہم بھی تمہارا فیصلہ کرنے کیلئے موجود ہیں۔
عورتوں اور مردوں کی ذمہ داریوں میں فرق
اِس آیت میں جہاں تک قوتوں کا سوال ہے،
جہاںتک جذبات کا سوال ہے، جہاں تک افکار کا سوال ہے مردوں اور عورتوں کو برابر قرار دیا گیاہے ۔اورجب وہ برابرہیں اورجب ان کی طاقتیں بھی برابر ہیں تولازماً ان کی خدمتیں بھی برا بر ہوں گی گوان کی نوعیت بدل جائے گی ۔ بعض لوگ کہتے ہیںکہ اگر مردوں اورعورتوں کی طاقتیں برا بر ہیں توان کو کام بھی ایک جیسا ہی کرنا چاہئے ۔مگریہ غلط ہے ۔دنیا میں ایک کالج سے ہی تین نوجوان بی ۔اے کی تعلیم حاصل کرکے فارغ ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد ایک انجینئرنگ کی طرف چلا جاتاہے، ایک وکیل بن جاتاہے اور ایک اچھا ایڈمنسٹریٹر بن جاتاہے۔ اب جہاں تک تعلیم کا سوال ہے تینوں کوتعلیم یا فتہ قراردیا جائے گا لیکن ان کی ذمہ داریوں میں فرق ہے۔ اسی طرح عورت اور مرد میں ایک سے جذبات پیدا کئے گئے ہیں مگر ان کی ذمہ داری الگ الگ ہے۔ عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دے اور اُنہیں اچھا شہری بنائے۔ اِسی طرح جو فوجی کا م ایسے ہیں جن میں عورت زیادہ بہتر طور پر اپنے فرائض اداکرسکتی ہے اُن میں حصہ لے ۔مثلاً نرسنگ ہے یہ کام عورت زیادہ بہتر کرسکتی ہے۔
ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ پر تشریف لے جانے لگے تو ایک صحابیہؓ آئیں اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میں بھی جنگ پر جا نا چاہتی ہوں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہاں عورت کیا کرے گی ؟اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! میں نرسنگ نہیں کرسکتی ۔میں زخمیوں اوربیماروں کی تیمارداری اوران کی مرہم پٹی کروں گی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا چلو۔۷؎ چونکہ عربوںمیں یہ رواج تھا کہ وہ مرد کو ہی سپاہی سمجھتے تھے اس لئے جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگا توعورت کا سوال آگیا۔ اُس زمانے میں سپاہیوں کو تنخواہیں نہیں ملتی تھیں اور انہیں اپنے کھانے پینے کے تما م اخراجات اپنی گرہ سے اداکرنے پڑتے تھے بلکہ ہتھیار بھی وہ اپنے پاس سے خرید کر استعمال کیا کرتے تھے لیکن اِس زمانہ میں سپاہی کو تنخواہ بھی ملتی ہے اور اسے راشن بھی دیا جاتاہے اورپھر ہتھیار بھی گورنمنٹ مہیا کرتی ہے۔ غرض اُس زمانہ میں چونکہ سارا خرچ وہ خود کرتے تھے اِس لئے دشمن کی طرف سے جو مال ملتاتھا وہ بعد میں سپاہیوں میں تقسیم کردیاجاتاتھا ۔چنانچہ جب اموالِ غنیمت تقسیم ہونے لگے تو صحابہؓ نے کہا یَارَسُوْل اللّٰہِ! ایک عورت بھی آئی تھی کیا اُس کا بھی حصہ نکالا جائے؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ تو عورت نے جو خدمت کی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے تسلیم کیا اور اس کاحصہ نکالا۔ سو اصل کاموں کو قائم رکھتے ہوئے جو بچوں کی پرورش اور ان کی نگرانی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو زائد کام عورت کرسکتی ہو شریعت نے اِس کی اجازت دی ہے ۔مثلاً تعلیم کو ہی لے لو۔ حضرت عائشہ ؓ نے اِس میں اتنی ترقی کرلی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہؓ سے فرمایا کہ آدھا دین تم عائشہؓ سے سیکھ سکتے ہو۔۸؎ آدھے دین کے یہ معنی نہیں کہ ان کو نماز روزہ کے احکام کا زیادہ علم تھا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کامقصد یہ تھا کہ عورتوں کے متعلق جو شریعت کے احکام ہیں وہ حضرت عائشہؓ کو خوب معلوم ہیں۔ چنانچہ جن لوگوں کو عورتوں کے متعلق کوئی مسئلہ پوچھنے کی ضرورت ہوتی تو وہ حضرت عائشہ ؓ سے پوچھ لیتے تھے اوراُن کی مشکل حل ہوجاتی تھی۔ غرض عورتوں کے حقوق اور اُن کے فرائض اورکاموں کے متعلق جومعلومات حضرت عائشہؓ کو تھیں وہ مردوں کو بھی نہیں تھیں اِسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حصہ عائشہؓ سے سیکھو کیونکہ عائشہ ؓ اپنی خلقت اوربناوٹ کی وجہ سے یہ حصہ زیادہ یاد رکھ سکتی تھیں۔ چنانچہ عورتوں کے متعلق جتنے مسائل ہوتے تھے وہ صحابہؓ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھتے تھے اور دریافت کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے بارہ میں کیا مسلک تھا۔ توتعلیم میں بھی عورتیں ہمیشہ حصہ لیتی رہی ہیں لیکن سب سے بڑا کام جو عورت کے ذمہ لگایا گیا ہے وہ تربیت صحیح ہے ۔یعنی اولاد کو صحیح اور سچا مسلمان بنانا۔ بہت سی عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ یہ کوئی کام نہیںحالانکہ اگرہم غور کریں تو دنیا میں جتنی تباہی آئی ہے آئندہ نسل کی صحیح تربیت نہ کرنے کی وجہ سے ہی آئی ہے ۔ اورجب بھی کسی قوم نے ترقی کی ہے آئندہ نسل کے اچھا ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اوراس کا اگلا قدم تباہی کی طرف اُسی وقت اُٹھا ہے جب اس کی آئندہ نسل خراب ہو گئی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو ہی دیکھ لو۔تیس سال تک اسلام نے کیسی ترقی کی تھی مگر پھر جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایاتھاکہ میں نے دیکھا میرے منبر پر سؤر اور کُتّے ناچ رہے ہیں۔۹؎ تیس چالیس برس کے بعد ایسے جوان پیدا ہوگئے جن کی ماؤں نے ان کی صحیح تربیت نہیں کی تھی اور وہ ایسے خرا ب ثابت ہوئے کہ بادشاہ بھی بنے، وزرا ء بھی بنے،گونر بھی بنے،علاقوں کے حکمران بھی بنے مگر اسلام سے ان کو اتنی دوری تھی کہ خدا نے ان کوسؤروں اور کُتّوں سے مشابہت دیدی۔وہ اُس منبر پر بیٹھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا مگر انہوں نے باتیں وہ کیں جو کُتّوں اور سؤروںوالی تھیں اور جو اتنی بھیانک اور خوفناک تھیں کہ خود اُن کی اولادوں نے ان کے خلاف نفرت اور حقارت کا اظہار کیا۔یزید کے مرنے کے بعد جب اس کے بیٹے کو بادشاہ بنایا گیاتو اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا۔اے لوگو!اِس وقت تم میں ایسے لڑکے موجود ہیںجو مجھ سے زیادہ اچھے ہیںاور ایسے لڑکے موجود ہیںجن کے باپ میرے باپ سے زیادہ اچھے ہیںپس اِن لڑکو ں کی موجودگی میںجو مجھ سے زیادہ اچھے ہیںاور اِن لڑکوں کی موجودگی میں جن کے باپ میرے باپ سے زیادہ اچھے ہیںمیرا تخت شاہی پر بیٹھنا مناسب نہیںچنانچہ میں اِس بادشاہت کو چھوڑتا ہوں۔یہ مسلمانوںکا حق ہے وہ جسے چاہیںدیدیںمیں بادشاہت کے لئے تیار نہیںہوں۔میرے نزدیک ہمارے باپ دادانے بھی ظلم کیا تھا اور میں ان ظلموں میں شریک ہونے کیلئے تیار نہیں ہوں۔۱۰؎ اُس کی ماں نے جب یہ تقریر سُنی تو اُس نے زور سے اپنے سینے پر ہاتھ مارااور کہانالائق تو نے اپنے باپ داداکی ناک کاٹ دی۔اس نے کہاامّاں! میں نے اپنے باپ داداکی ناک نہیںکاٹی بلکہ جوڑی ہے۔اِس کے بعد اُس نے اپنے کمرے میں داخل ہوکر دروازے بند کر لئے اور چند روز کے بعد ہی فوت ہوگیا۔یہ اس کی طبعی فطرت کا اظہار تھا ورنہ ماں نے اسے ضرور خراب کرنے کی کوشش کی ہوگی اور اُس نے ہی تحریک کی ہو گی کہ تو ظلم کو جاری رکھ اور حکومت پر قبضہ کرلے جس پر تیرے باپ نے ظالمانہ طور پر قبضہ کیا ہؤا تھا۔
تو ماں کی تربیت ایک نہا یت اہم چیز ہے۔مرد کا کام موجودہ زمانہ کی اصلاح کرنا ہے عورت کا کام آئندہ زمانہ کی اصلاح کرنا ہے۔یہ صا ف ظاہر ہے کہ اِن دونوں میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جاسکتی۔بے شک موجودہ کام مرد کرتے ہیںلیکن آئندہ دَور کی تعمیر عورتیں کرتی ہیں ۔اگرعورتوںنے آئندہ نسل کی صحیح تربیت نہیں کی ہو گی اور ایسے قائمقام پید انہیںکئے ہو نگے جو دین اور تقویٰ سے متاثر ہوںتو مردوں کی تمام کوششیں اکارت چلی جائیں گی۔پس عورت کی ذمہ داری مرد سے کم نہیں۔ اگر وہ اپنے فرائض کو بھول کر ان کامو ں میں حصہ لینا شروع کردیتی ہے جو مرد کے سپرد کئے گئے ہیں تواس کا یہ فعل ایسا ہی ہو گاجیسا کسی کو جج بنایا جائے اور وہ ایک سپاہی کو دیکھے کہ وہ دائیں طرف ہاتھ کرتا ہے تواُس طرف کی کاریں کھڑی ہو جاتی ہیںاور بائیں طرف ہاتھ کرتا ہے تو اُس طرف کی کاریں کھڑی ہوجاتی ہیں تو وہ اِس نظارے سے ایسا متأثر ہو کہ ججی کا کا م چھوڑ کر سپاہی کا کام اختیا ر کرے حالانکہ سپاہی کا کام بہت ادنیٰ ہے ۔بیشک اُس کی شان بڑی نظر آتی ہے کہ وہ اکڑا ہؤ اکھڑا ہوتاہے او ر سامنے سے کسی رئیس یا جج یا فوج کے اعلیٰ افسر کی کا ر آتی ہے تووہ اُس کے ایک اشارہ پر کھڑی ہو جاتی ہے لیکن حقیقتاًجو جج کی اہمیت ہے وہ سپاہی کی نہیں۔اسی طرح عورت کو اللہ تعالیٰ نے اگلی نسل کا معلّم بنا یا ہے اور یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو ا س کے سپرد کیا گیا ہے۔
یوں سمجھ لو کہ جیسے فوج میں ایک لڑنے والے ہوتے ہیںاور ایک سیپرمائنر (Sappers and Miners)ہوتے ہیں جو سڑکیں بناتے ہیں،جھاڑیاں کاٹتے ہیں، پہاڑیاں اُڑاتے ہیں، ریلیں بچھاتے ہیں اور فوج کیلئے راستہ صاف کرتے ہیں۔ دنیا کی کسی فوج میں سیپرمائینر کم نہیں سمجھے جاتے ۔ان میں بھی کپتان ہوتے ہیں۔ان میں بھی میجر ہوتے ہیں ، ان میں بھی کرنیل ہوتے ہیں اور یہ سمجھا جاتاہے کہ اگر سیپر مائینرنہیں ہوں گے تو فوج لڑ نہیں سکے گی ۔اسی طرح اگر عورتیں اپنی ذمہ داری نہ سمجھیں توآئندہ نسل کی صحیح تربیت نہیں ہوسکتی۔اور جب تک آئندہ نسل کی صحیح تربیت نہ ہو اُس وقت تک قومی ترقی نہیںہو سکتی۔اگر تابعین کی نسل کی صحیح طور پر نگرانی کی جاتی تو یزید کہاں سے پیدا ہوتا۔یزید اِسی وجہ سے پیدا ہؤ اکہ عورتوں نے کہاکہ ہمارا کام ختم ہو گیا ہے۔جب اُنہوں نے تربیت کی تو صحابہؓ جیسے نیک لوگ پید ا ہوئے جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بے انتہا فائدہ پہنچایا اور جب اُنہوں نے توجہ ہٹالی تو وہ لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بے انتہا نقصان پہنچایا۔جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ ؐ کی قوتِ قدسیہ سے اللہ تعالیٰ نے ابوبکرؓاور عمرؓاورعثمانؓ اور علیؓ اور طلحہؓاور زبیرؓاور لاکھوں نیک لوگ پید ا کئے لیکن دوسرے ابوبکرؓپید اکرنا عورت کاکام تھاکیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر انسان تھے اور انہوں نے ایک دن فوت ہوجانا تھا۔
پس پہلا ابوبکرؓمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا لیکن دوسرا ابوبکرؓایک عورت ہی پید اکر سکتی تھی۔پہلا عمرؓمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پید اکیا لیکن دوسرا عمرؓایک عور ت ہی پید اکر سکتی تھی۔پہلا عثمانؓ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا لیکن دوسرا عثمان ؓ ایک عورت ہی پیدا کر سکتی تھی۔پہلا علیؓ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیالیکن دوسرا علیؓ تو ایک عورت ہی پید ا کر سکتی تھی۔اور جب انہوں نے پیدا نہ کیا تو نتیجہ یہ ہؤاکہ تباہی آ گئی۔عدل جاتا رہا،انصاف قائم نہ رہااور چاروں طرف ظلم ہی ظلم ہونے لگا۔آخر مسلمانوں کی اگلی نسل کیوں بگڑی؟کیا ان کے بگاڑنے کیلئے جہنم سے شیطان آئے تھے؟ وہ اس لئے بگڑے کہ عورتوں نے اپنی ذمہ داری نہ سمجھی اور انہوں نے اپنی اولاد کو ایسی تعلیم نہ دی جس کے ماتحت وہ اپنے والدین کے نقشِ قدم پر چلنے والے ہوتے۔
ایک عجیب مثال
ایک عجیب مثال مجھے ہمیشہ ایک واقعہ یاد رہتا ہے جس کا میرے دل پر نہایت گہرا اثر ہے اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح
بعض جاہل عورتوں کو بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ اُن کی اولاد صحیح راستہ سے منحرف نہ ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میںایک میراثن تھی جسکااٹھارہ بیس سال کا ایک نوجوان لڑکا عیسائی ہو گیا ۔وہ احمدی نہیں تھی لیکن اُس نے کسی سے سُنا کہ قادیان میں ایک مرز ا صاحب ہیں جو عیسائیوں کا بڑامقابلہ کرتے ہیں۔وہ لڑکا بڑا پکّا عیسائی تھا مگر وہ اُسے ساتھ لے کر قادیان پہنچی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہو گئی۔اس کے لڑکے کوسِل کا مرض تھا آپ نے اسے قادیان میں رکھا اور حضرت خلیفہ اوّل سے علاج کروایا اور میراثن روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے پاس آتی اور منتیں کرتی کہ آپ دعاکریں اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کو ہدایت دے دے۔آ پ اُسے بلاتے اور سمجھاتے مگر وہ اتنا پکا عیسائی تھا کہ ہر قسم کے دلائل کے باوجود اُس نے عیسائیت ترک کرنے کا نام نہ لیا۔آخر ایک دن وہ اپنی ماں کو سوتا دیکھ کر رات کے وقت سِل کی حالت میں گیارہ بارہ بجے اُٹھ کر بھاگاتاکہ وہ بٹالہ میں عیسائیوں کے پاس چلا جائے۔آدھ گھنٹہ کے بعد اُس کی ماں کی آنکھ کھلی اور جب اُس نے دیکھا کہ اس کا لڑکا بستر پر نہیں تو فوراً اُسے خیا ل آیا کہ وہ بھاگ گیا ہے۔ چنانچہ وہ اُسی وقت دَوڑی اور آدھی رات کے وقت جنگل میں سات آٹھ میل تک دَوڑتی چلی گئی اور بٹالہ کے قریب پہنچ کر اُس نے لڑکے کو پکڑ لیااور راتوں رات پھر اسے قادیان واپس لائی۔اِس واقعہ کا کہ اب تک اُس کے لڑکے کی اصلاح نہیں ہوئی اُسے اتنا صدمہ ہؤاکہ وہ دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس آئی اور رو رو کر التجا کی کہ میر ا ایک ہی بیٹا ہے خاوند میرا مرچکا ہے میں آپ سے صرف یہ درخواست کرتی ہوں کہ آپ کوشش کریں کہ یہ کلمہ پڑھ کر مرجائے۔مجھے اِس کی زندگی کی خواہش نہیں ،اِس کی صحت کی خواہش نہیں مجھے صرف اتنی خواہش ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں نہ مرے۔جس کرب و اضطراب سے اُس نے یہ باتیں کیںاِس کا اثر ہؤا۔ خدا تعالیٰ نے اُس کی دعا سُنی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی دعا فرمائی اور سات آٹھ دن کے بعد اُس کا لڑکا مسلما ن ہو گیااور مسلمان ہونے کے تین چار دن بعدمر گیا۔
اب دیکھو! وہ ایک جاہل عورت تھی مگر اُس کے دل میں یہ درد تھاکہ میں اپنے بعد محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے والی اولاد چھوڑوں ۔اگر معاویہ کی بیوی کے دل میں بھی یہی درد ہوتا کہ میں ایسی اولاد چھوڑوں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرنے والی ہو تو یزید پیدا نہ ہوتا بلکہ سعید پیدا ہوتا۔مگر اس نے اپنی ذمہ داری نہ سمجھی اور یہ چاہا کہ صرف ایک لڑکا ہو جو میر انام قائم رکھنے والا ہو اور اُس نے سمجھا کہ گھر کے کام کے علاوہ مجھ پر اور کوئی ذمہ داری نہیں۔
پس عورتیں اگر چاہیں تو وہ دنیا کو مستقل طور پر دین بخش سکتی ہیں ، عورتیں اگر چاہیں تو وہ دنیا کو مستقل طور پر ایمان بخش سکتی ہیں اور یہ کا م اتنا بڑا ہے کہ نپولین کی فتح یا تیمور کی فتح یا ملکہ الز بتھ کی فتح یا اور بادشاہوں کی فتوحات اس کے مقابلہ میں بالکل ہیچ ہو کر رہ جاتی ہیں۔قرآن کہتا ہے کہ تم ہمیشہ کیلئے دین قائم کرو مگر یہ کس طرح ہو سکتا ہے جب ہمیشہ کیلئے عورت دین کو قائم کرنے کی جدو جہد نہ کرے۔اگر عورت فیصلہ کر لے کہ میں نے آئندہ نسل کو پہلوںسے زیادہ دین دار بنانا ہے تو شیطان اس پر کس طرح قبضہ کر سکتا ہے۔ مردوں نے شیطان کا مقابلہ کیااور ہمیشہ ناکام رہے۔زیادہ سے زیادہ وہ صرف ایک نسل کو دین کو دین پر قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔صرف عورت ہی ہے جو شیطان کا ہمیشہ کے لیے مقابلہ کرسکتی ہے۔اگر عورتیں فیصلہ کرلیںکہ ہم نے آئندہ نسلوں کو خادمِ دین بنانا ہے تو شیطان کس کو بگاڑے گا۔آئندہ نسل پر شیطان کا اثر نہیںہوتابلکہ ماں کا اثر ہوتا ہے۔لیکن ماں اپنی غلطی سے اُسے چھوڑ دیتی ہے او ر وہ شیطان کا شکار ہو جاتا ہے۔پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو۔یہ کہنا کہ مرد اگر تبلیغ کیلئے امریکہ گئے ہیں تو ہم بھی جائیں، ایک ادنیٰ خواہش ہے ۔سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو ایسے راستہ پر چلاؤ جس پر چل کر وہ پہلوں سے زیادہ دیندار ہوں،پہلوں سے زیادہ قربانی کرنے والے ہوں، پہلوں سے زیادہ ایثا رسے کام لینے والے ہوں۔ اگر تم ایسا کرو اور اگلی نسل کی عورتیں اگلی نسل کو بچائیں تو اِس طرح قیامت تک خدااور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہو سکتی ہے۔گویا جس کام کوتیرہ سَو سال میں امام ابوحنیفہؒ نہیں کرسکے ،امام شافعیؒ نہیں کرسکے ،سید عبدلقادر صاحب جیلانی ؒنہیں کر سکے، حضرت معین الدین صاحب چشتی ؒ نہیں کر سکے ،شہاب الدین صاحب سہروردی ؒ نہیں کرسکے عورت اس کو کر سکتی ہے کیونکہ عورت کے ہاتھ میں بچہ ہوتا ہے ۔بچہ بولنا سیکھتا ہے تو اپنی ماں کی گود میں۔ جذبات سیکھتا ہے تو اپنی ماں کے ذریعہ سے۔ فکر کا مادہ اس میں پیدا ہوتا ہے تو ماں کی وجہ سے۔ غرض وہ تمام باتیں عورت سے ہی سیکھتا ہے ۔اگر عورت اِس عزم کے ساتھ کھڑی ہوجائے کہ میں اپنی آئندہ نسل کی اصلاح کروں گی تو جو کام بزرگوں سے نہیں ہؤا وہ ہمیشہ ہمیش کیلئے ہو سکتا ہے اور خدا کی بادشاہت اس دنیا میں قائم ہو سکتی ہے جس طرح وہ آسمان پر ہے ۔حضرت مسیح نے نہایت درد سے کہا تھاکہ اے خدا! جس طرح تیری بادشاہت آسما ن پر ہے ویسی ہی زمین پر بھی قائم ہو۔ہر مومن کے دل میں ایسا ہی جذبہ ہونا چاہئے۔مگر سچ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت آسمان پر تو فرشتوں کے ذریعہ قائم ہے لیکن زمین پر وہ اِسی طرح آ سکتی ہے جب عورتیں اُس کو قائم کرنے کا تہیہ کرلیں۔مرد صرف اپنے زمانہ کی اصلاح کر سکتے ہیں لیکن عورتیں آئندہ نسل کو دین پر قائم کرسکتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنے فرائض کے سمجھنے کی توفیق دے تا کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو آپ ہمیشہ ہمیش کیلئے دنیا میں قائم کر دیں۔اور آپ کے بعد آپ کی بیٹیاں اور پھر بیٹیوں کے بعد اُن کی بیٹیاں قرآن کریم کی تعلیم کو جاری کرنے والی اور اپنے نیک نمونہ کے ساتھ اسلام کو دائمی زندگی بخشنے والی ہوں۔ اَللّٰھُمَّ اٰمِیْنَ
(الا ظہار لزوات الخمارصفحہ ۸۷ تا ۱۰۰)
۱؎ النسائ: ۲ ۲؎ الناس: ۲ تا ۴
۳؎ اقرب الموارد جلد۲ صفحہ ۱۳۲۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۴؎ المنجد عربی اُردو صفحہ۱۰۳۵ مطبوعہ کراچی ۱۹۹۴ء
۵؎ بخاری کتاب الایمان باب کفران العشیر (الخ)
۶؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبیﷺ باب مناقب المہاجرین وفضلھم
۷؎ ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی المرأۃ والعبد یحذیان من الغنیمۃ
۸؎ موضوعات کبیر ملا علی قاری صفحہ۳۷ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ
۹؎ کنز العمال جز ۱۱ صفحہ ۱۱۷ کتاب الفتن والاھواء باب فی الفتن و الھرج مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ الطبعۃ الخامسۃ ۱۹۸۱ء میں بندروں کا ذکر ہے۔
۱۰؎ تاریخ ابن اثیر جلد۴ صفحہ۱۳۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء



اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلو





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اپنے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلو
(فرمودہ ۱۴؍جون ۱۹۵۱ء برموقع افتتاح جامعہ نصرت ربوہ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: -
زمانہ کے حالات بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدلتا چلا جاتا ہے یہ ایک عام قانون ہے جو دُنیا میں جاری ہے۔ دریا چلتے ہیں اور پہاڑوں اور میدانوں کے نشیب و فراز کی وجہ سے ان کے بعض حصوں پر دبائو پڑتا ہے اوراس کے نتیجہ میں کچھ دور جاکر دریا کا رُخ بدل جاتا ہے۔ بعض دفعہ دس دس ،پندرہ پندرہ ، بیس بیس، تیس تیس میل تک دریا رُخ بدلتے چلے جاتے ہیں۔ اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ زمانہ بدل جاتا ہے۔ یہ دونوں قسم کے نظارے ہمیں دُنیا میں نظر آتے ہیں۔ کبھی زمانہ کے بدلنے سے انسان بدلتے ہیں اور کبھی انسانوں کے بدلنے سے زمانہ بدلتا ہے۔
انسان کمزور ہوتا ہے تو زمانہ کے بدلنے سے وہ بدل جاتا ہے اور جب طاقتور ہوتا ہے تو اُس کے بدلنے سے زمانہ بدل جاتا ہے۔ کمزور قومیں اپنی حاصل شدہ عظمت اور طاقت کو زمانہ کے حالات کے مطابق بدلتی چلی جاتی ہیں۔ وہ اپنے ہمسایوں سے بد رسوم کو لیتی ہیں، اپنے ہمسایوں سے بد اخلاق کو لیتی ہیں، اپنے ہمسایوں سے سُستی اور جہالت کو لیتی ہیں، اپنے ہمسایوں سے جھوٹ اور فریب کو لیتی ہیں، اپنے ہمسایوں سے ظلم اور تعدی کولیتی ہیں اور وہی قوم جو کسی وقت آسمان پر چاند اور ستاروں کی طرح چمک رہی ہوتی ہے نہایت ذلیل اور حقیر ہو کر رہ جاتی ہے۔ تم اپنے ہی اسلاف کو دیکھو اگر تمہیں اپنے بنائو اور سنگار سے فُرصت ہو کہ تمہارے اسلاف کیا تھے اور اب تم کیا ہو ۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ کالج کی طالبات نے جب مضمونوں کا انتخاب کیا تو ان میں سے اکثر نے تاریخ سے بچنے کی کوشش کی۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ہم کسی بچہ سے کہیں کہ آئو ہم تمہیں تمہارے ماں باپ کانام بتائیں اور وہ بھاگے۔
تاریخ کیا ہے؟ تاریخ تمہیں بتاتی ہے کہ تمہار باپ کون تھا، تمہارا دادا کون تھا، تمہاری ماں کون تھی، تمہاری نانی کون تھی۔ تاریخ تمہیں بتاتی ہے کہ تمہارے آبائو اجداد کیا تھے اور اب تم کیا ہو۔ تاریخ سے کسی شخص کا بھاگنا یا اِس مضمون کو بوجھل سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے آبائو اجداد کی بات سننے کے لئے تیار نہ ہو۔ حالانکہ اگر دُنیوی لحاظ سے کوئی مضمون ایسا ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں لڑنا چاہئے تو وہ تاریخ ہی ہے۔ تاریخ سے بھاگنے کے معنی ہوتے ہیں طبیعت میں مُردہ دلی ہے۔ جیسے کمزور آدمی کو زخم لگ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے مجھے نہ دکھائو مَیں نہیں دیکھتامیرا دل ڈرتا ہے۔ تاریخ سے بھاگنے والی قوم وہی ہوتی ہے جو ڈرپوک ہو تی ہے اور ڈرتی ہے کہ اگر میرے ماں باپ کی تاریخ میرے سامنے آئی اور اس میں میرا بھیانک چہرہ مجھے نظر آیا اور مجھے پتہ لگا کہ مَیں کون ہوں تو میرا دل برداشت نہیںکرے ۔گا چونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس آئینہ میں میری شکل مجھے نظر آئے گی اس لئے وہ اپنی شکل کے خیال سے اور تصور سے کہ وہ کتنی بدصورت ہو گی اسے دیکھنے سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ بات فطرت انسانی میں داخل ہے کہ وہ اپنے آبائو واجداد اور اپنی اولاد اور اپنے رشتہ داروں کو اپنی شکل کا دیکھنا چاہتا ہے۔ کئی ماں باپ جن کے ہاں کسی حادثہ یا بیماری کی وجہ سے بدصورت بچے پیدا ہو جاتے ہیں اُن سے اُن کی مائیں بھی نفرت کرنے لگتی ہیں اور وہ بدصورت بچے اپنے دوسرے بھائیوں سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں اِس خیال سے کہ یہ ہم سے اچھے ہیں۔ اِسی طرح جب تاریخ میں انسان اپنے آباء کو دیکھتا ہے کہ اُنہوں نے یہ یہ کارنامے سر انجام دیئے ہیں اور اُن کی یہ شان تھی اور اس کے مقابلہ میں وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہم کیا ہیں او رپھر وہ اس چلن اور طریق کو دیکھتا ہے جو اُس نے اور اُس کے ساتھیوں نے اختیار کیا ہؤا ہے تو دیانتداری کے ساتھ وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ میری غفلت اور میری سحر انگاری اور میری اپنے فرائض سے کوتاہی اور میری عیش و آرام کی زندگی مجھ کو مجرم بنانے کے لئے کافی ہے۔ اسے تاریخ کے اس آئینے میں اپنا گھناؤنا چہرہ نظر آجاتا ہے اوروہ خیال کرتا ہے کہ جب مَیں پُرانے حالات پڑھوں گا اور دیکھوں گا کہ وہ لوگ جو میرے آباء تھے ان کاموں سے نفرت کیا کرتے تھے تو مجھے اپنے اندر تغیر پیدا کرنا پڑے گا۔ پس وہ اپنے بدصورت چہرہ کو ان کے خوبصورت چہرہ سے ملانے سے گھبراتا ہے اور اس لئے تاریخ سے دُور بھاگتا ہے۔ جب آج کل کا مسلمان تاریخ کے آئینہ میں یہ دیکھتا ہے کہ اس کے ماں اور باپ ہمالیہ سے بھی اونچے قدوں والے تھے، آسمان بھی ان کے دبد بہ سے کانپتا تھا اور اس کے مقابلہ میں وہ اپنی تصویر کا خیال کرتا ہے کہ بالکل ایک بالشتیہ نظر آتا ہے اور اس کی مثال ایک کارک جتنی بھی نہیں جو دریا میں بہتا چلا جاتا ہے۔ سمندر کی لہریں اُٹھتی ہیں اور اُس کے آبائو اجداد کی مضبوط چٹان سے ٹکراتی ہیں اور وہ بلند و بالا ہو نے والی لہریں جن کو دیکھ کر بسا اوقات انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ دُنیا کو بہا کر لے جائیں گی وہ اُس کے آبائواجداد کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں ان کاپانی جھاگ بن کر رہ جاتا ہے اور اس چٹان کے قدموں میں وہ جھاگ پھیل رہی ہوتی ہے، ہوا میں بلبلے پھٹ پھٹ کر غائب ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کو نظر آتا ہے کہ اس کے آبائو اجداد کی کیا شان تھی۔ پھر وہ اپنی طرف دیکھتا ہے کہ ایک چھوٹی سی ندی جس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ایک کارک کی طرح اِدھر اُدھر پھر رہا ہے کبھی وہ کسی چٹان سے ٹکراتا ہے اور کبھی کسی سے وہ دائیں طرف چلا جاتا ہے اور کبھی بائیں طرف، کبھی وہ خش و خاشاک کے ڈھیروں میں چھپ جاتا ہے اور کبھی گندی جھاگ میںاور ہر شخص اس کی لرزتی اور کپکپاتی ہوئی حالت کو دیکھ کر اس سے اپنا مُنہ پھیر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کیا ہی ذلیل چیز ہے۔ تاریخ سے بھاگنے والا بُزدل ہوتا ہے جس میں یہ جرأت نہیں ہوتی کہ وہ حقائق کے آئینہ میں اپنے باپ دادا کی شکل کے سامنے اپنی شکل رکھ سکے۔ بہادر اور ہمت والا انسان خود جاتا ہے اور اس آئینہ کو اُٹھاتا ہے وہ اس آئینہ میں اپنی شکل کو دیکھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے اور کہتا ہے ہاں میرے آباء اجداد اگر چٹان تھے تومَیں بھی چٹان بن کر رہوں گا وہ اگر طوفان تھے تو مَیں ان سے بھی اونچا طوفان بنوں گا۔ وہ اگر سمند ر کی لہروں کی طرح اُٹھتے تھے تو مَیں ان سے بھی اونچا اٹھوں گا۔ تم جا نتی ہو کہ وہ لڑکی جس کے نمبر کلاس میں زیادہ ہوتے ہیں وہ اپنے نمبروںکو چھُپاتی نہیں بلکہ ہر ایک کو بتاتی ہے۔ نمبروں کا بتانا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انسان کا اپنا مُنہ دکھانا ۔ وہ اپنا اندرونہ دکھلاتی ہے اورجس کے نمبر کم ہوتے ہیں وہ ان کو چھپایا کرتی ہے ۔ پس تاریخ کے پڑھنے سے گریز درحقیقت بُزدلی کی علامت ہے۔ درحقیقت یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس شخص کو اپنے مکروہ چہرے کا پتہ ہے اور اس شخص کو اپنے آباء و اجداد کے حسین چہرے کا بھی پتہ ہے مگر ان دونوں باتوں کے معلوم ہونے کے بعد وہ یہ جرات نہیں رکھتا کہ ایک آئینہ میں دونوں کی اکھٹی شکل دیکھ سکے۔
یہاں تک تو مَیں نے صرف عام پیرایہ میں اِس مضمون کی اہمیت بیان کی ہے اگر مذہبی پہلو لے لو تو تاریخ ہی ایک مسلمان کو بتا سکتی ہے کہ کس طرح ایک ریگستان سے ایک انسان اُٹھا اور اس نے اپنی مقناطیسی قوت سے اپنے اِردگِرد کے فولادی ذروں کو جمع کرنا شروع کیا۔ پھر تھوڑے ہی عرصہ میں وہ ایک علاقہ میں پھیل گیا پھر مُلک میں پھیل گیا پھر زمین کے تمام گوشوں میں چَپے چَپے پر اُس کی جماعت پھیل گئی۔ قرآن کریم میں مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ ان کا نام بَرَرَہ ۱؎ اور سَفَرَۃ ۲؎ رکھا ہے۔ یعنی ان کے قدم گھر میں ٹکتے ہی نہیں تھے دُنیا کے گوشوں گوشوں میں پھیلتے جاتے تھے اور جہاں جاتے تھے اپنی خوش اخلاقی اور اعلیٰ درجہ کے چلن کی خوشبو پھیلاتے جاتے تھے۔ لیکن کُجاوہ پھیلنے والا مسلمان اور کُجا آج کا سمٹنے والا مسلمان، کُجا وہ زمانہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں فرمایا کہ مردم شماری کرو اور دیکھو کہ اب کتنے مسلمان ہو چکے ہیں۔ مردم شماری کی گئی اور گنتی کی گئی اور مسلمان مردوں عورتوں اور بچوںکی تعداد سات سَو نکلی۔ تم جانتی ہو کہ ربوہ کی آبادی اِس وقت اڑھائی ہزار کے قریب ہے گویا وہ تمہاری ربوہ کی آبادی کا ۴/۱ حصّہ تھے۔ اور یہ وہ مردم شماری تھی جو ساری دُنیا کے مسلمانوں کی تھی کیونکہ اُس وقت مدینہ سے باہر مسلمان بہت تھوڑے تھے سوائے حبشہ کے کہ وہاں کوئی پچاس کے قریب مسلمان ہوں گے یا مکّہ میں کچھ مسلمان تھے جو ڈر کے مارے اپنے ایمان کا اظہار نہیں کرتے تھے اور کھلے بندوں اسلام میں شامل نہیں تھے ۔ غرض مردم شماری کی گئی اور سات سَو کی آبادی نکلی۔ وہ صحابہ جن کے سپرد یہ کام تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللہ! مسلمانوں کی آبادی سات سَو نکلی ہے پھر انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللہ!آپ نے مردم شماری کا حکم کیوں دیا تھا؟ کیا آپ کو یہ خیال آیا کہ مسلمان تھوڑے ہیں؟ یَا رَسُوْلَ اللہ!اب تو ہم سات سَو ہو گئے ہیںاب ہمیں دُنیا سے کون مٹا سکتا ہے ۔ ۳؎
آج کہا جاتا ہے کہ مسلمان ساٹھ کروڑ ہیں لیکن ان ساٹھ کروڑ کا دل اتنا مضبوط نہیں جتنا اُن سات سَو کا دل مضبوط تھا ۔ آخر یہ تفاوت جو دلوں کے اندر ہے تمہیں اس کا کس طرح پتہ لگ سکتاہے بغیر تاریخ کے مطالعہ کے۔ ایک ایک مسلمان نکلتا تھا اور دُنیا کی طاقتیں اُس کے سامنے جھک جاتی تھی۔ وہ نقّال نہیں تھا بلکہ خود اپنی ذات میں اپنے آپ کو آدم سمجھتا تھا۔ وہ یقین رکھتا تھا کہ دُنیا میری نقل کرے گی میرا کام نہیں کہ مَیں اس کی نقل کروں ۔ تم اگر تاریخ پڑھو تو تمہیں پتہ لگے گا آج تم ہر بات میں یورپ کی نقل کررہی ہو۔ تم بعض دفعہ کہہ دیتی ہو فلاں تصویر میں مَیں نے ایسے باغ دیکھے تھے اُف جب تک مَیں بھی ایسے بال نہ بنا لوں مجھے چین نہیں آئے گا۔ فلاں پائوڈر نکلا ہے جب تک اُسے خرید نہ لوں مجھے قرار نہیں آئے گا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ تم سمجھتی ہو کہ تمہارا دُشمن بڑا ہے اور تم چھوٹی ہو۔ اگر تم بڑی ہو تو اُس کا کام ہے کہ وہ تمہاری نقل کرے اور اگر وہ بڑا ہے تو پھر تمہارا کام ہے کہ تم اُس کی نقل کرو۔
حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسلامی لشکر ایران کے ساتھ ٹکر لے رہا تھا کہ بادشاہ کو خیال آیا کہ یہ عرب ایک غریب مُلک کے رہنے والے بھوکے ننگے لوگ ہیں اگر ان کو انعام کے طور پر کچھ روپیہ دے دیا جائے تو ممکن ہے کہ یہ لوگ واپس چلے جائیں اور لڑائی کا خیال ترک کر دیں چنانچہ اُس نے مسلمانوں کے کمانڈر انچیف کو کہلا بھیجا کہ اپنے چند آدمی میرے پاس بھجوا دیئے جائیں مَیں اُن سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں ۔ جب وہ ملنے کے لئے آئے تو اُس وقت بادشاہ بھی اپنے دار الخلافہ سے نکل کر کچھ دُور آگے آیا ہؤا تھا اور عیش اور تنعم کا ہر قسم کا سامان اس کے ساتھ تھا ،نہایت قیمتی قالین بچھے ہوئے تھے، نہایت اعلیٰ درجے کے کائوچ اور کُرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور بادشاہ تخت پر بیٹھا تھا کہ مسلمان سپاہی آ پہنچے۔ سپاہیوں کے پائوں میں آدھے چھلے ہوئے چمڑے کی جوتیاں تھیں جو مٹی سے اَٹی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں نیزے تھے۔ جس وقت وہ دروازے پر پہنچے چوبدار نے آواز دی کہ بادشاہ سلامت کی حضوری میں تم حاضر ہوتے ہو اپنے آپ کو ٹھیک کرو۔ پھر اس نے مسلمان افسر سے کہا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ کس قسم کے قیمتی قالین بچھے ہوئے ہیں تم نے اپنے ہاتھوں میں نیزے اُٹھائے ہوئے ہیں اِن نیزوں سمیت قالینوں پر سے گزرو گے تو ان کو نقصان پہنچے گا۔ اُس مسلمان افسر نے کہا تمہارے بادشاہ نے ہم کو بُلایا ہے ہم اپنی مرضی سے اس سے ملنے کے لئے نہیں آئے ہیں۔ اگر ملنے کی احتیاج ہے تو اُس کو ہے ہمیں نہیں۔ اسے اگر اپنے قالینوں کا خیال ہے تو اسے کہہ دو کہ وہ اپنے قالین اُٹھا لے۔ ہم جُوتیاں اُتارنے یا نیزے اپنے ہاتھ سے رکھنے کے لئے تیار نہیں۔ اس نے بہتیرا پروٹسٹ کیا اور کہا کہ اندر نہایت قیمتی فرش ہے جُوتیاں اُتار دو اور نیزے رکھ دو مگر انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا۔ اس نے ہمیں بُلایا ہے ہم اپنی مرضی سے اس سے ملنے نہیں آئے۔ غرض اِسی حالت میں وہ اندر پہنچے۔ وہاں تو بڑے سے بڑا جرنیل اور وزیر بھی زمین بوس ہوتا اور بادشاہ کے سامنے سجدہ کرتا تھا مگر یہ تنی ہوئی چھاتیوں اور اُٹھی ہوئی گردنوں کے ساتھ وہاں پہنچے۔ بادشاہ کو سلام کیا اور پھر اُس سے پوچھا کہ بادشاہ تم نے ہمیں کیوں بلایا ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ تمہارا مُلک نہایت جاہل پَست، درماندہ اور مالی تنگی کا شکار ہے اور پھر عرب وہ قوم ہے کہ جو گوہ تک (ایک ادنیٰ جانور ہے) کھاتی ہے وہ عمدہ کھانوں سے نا آشنا ہے، عمدہ لباس سے ناآشنا ہے اور بھُوک اور افلاس نے اسے پریشان کر رکھا ہے۔ معلوم ہوتا ہے اس تنگی اور قحط کی وجہ سے تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہؤا ہے کہ ہم دوسرے مُلکوں میں جائیں اور ان کو لَوٹیں۔ مَیں تمہارے سامنے تمہاری اس تکلیف کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ تمہارا جتنا لشکر ہے اِس میں سے ہر سپاہی کو میں ایک ایک اشرفی اور ہر افسر کو دو دو اشرفیاں دے دوں گا۔ تم یہ روپیہ لو اور اپنے مُلک میں واپس چلے جائو۔ مسلمان کمانڈر نے کہا اے بادشاہ! یہ جو تم کہتے ہو کہ ہماری قوم گوہ تک کھانے والی تھی اور ہم غربت اور ناداری میں اپنے ایام بسر کر رہے تھے یہ بالکل درست ہے۔ ایسا ہی تھا مگر اب وہ زمانہ نہیں رہا۔ خدا تعالیٰ نے ہم میں اپنا ایک رسول بھیجا اور اُس نے ہم کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور ہم نے اُسے قبول کر لیا۔ تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم روپوئوں کے لئے نکلے ہیں؟ مگر ہم روپوئوں کے لئے نہیں نکلے تمہاری قوم نے ہم سے جنگ شروع کی ہے اور اب ہماری تلواریں تبھی نیام میں جائیں گی جب یا تو کلمۂ شہادت پڑھ کر مسلمان ہوجائو گے اوریا پھر مسلمانوں کے باجگزار ہو جائوگے اور ہمیں جزیہ ادا کروگے۔ ایران کا بادشاہ جو اپنے آپ کو نصف دُنیا کا بادشاہ سمجھتا تھا وہ اس جواب کو برداشت نہ کر سکا اُسے غصہ آیا اُس نے چوبدار سے کہا جائو اور ایک بورے میں مٹی ڈال کر لے آئو۔ وہ بوری میں مٹی ڈال کر لے آیا تواس نے کہا کہ یہ بوری اِس مسلمان سردار کے سر پر رکھ دو اور اسے کہہ دو کہ مَیں تمہارے سروں پر خاک ڈالتا ہوں اور سوائے اِس مٹی کے تمہیں کچھ اَور دینے کے لئے تیار نہیں۔ وہ مسلمان افسر جس کی گردن ایران کے بادشاہ کے سامنے نہیں جھکی تھی اِس موقع پر اُس نے فوراً اپنی گردن جُھکا دی، پیٹھ پر بوری رکھی اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آجائو۔ بادشاہ نے خود ایران کی زمین ہمارے سپرد کر دی ہے ۔ مشرک تو وہمی ہوتا ہے بادشاہ نے یہ سُنا تو اس کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی اور اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان لوگوں کو جلدی پکڑو مگر وہ اُس وقت تک دُور نکل چکے تھے۔۴؎ اُنہوں نے کہا اب یہ پکڑی جانے والی مخلوق نہیں ہے۔ پھر وہی بادشاہ جس نے یہ کہا تھا کہ مَیں تمہارے سروں پر خاک ڈالتا ہوں وہ میدان چھوڑ کر بھاگا ، پھر مُلک چھوڑ کر بھاگا اور شمالی پہاڑوں میں جا کر پناہ گزین ہو گیا اور اس کے قلعے اور محلات اور خزانے سارے کے سارے مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے۔
ابو ہریرہ ؓ وہ غریب ابو ہریرہؓ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ساراد ن بیٹھے رہنے کے خیال سے کوئی گزارہ کی صورت پیدا نہیں کرتا تھا اور جسے بعض دفعہ کئی کئی دن کے فاقے ہو جایا کرتے تھے۔ ایک دن وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہیں کھانسی اُٹھی انہوں نے اپنی جیب میں سے رومال نکالا اور اُس میں بلغم تُھوکا اور پھر کہا بخ بخ ابو ہریرہؓ! یعنی واہ واہ ابو ہریرہؓ! کبھی تُو فاقوں سے بے ہوش ہو جایا کرتا تھا اور آج تُو کسریٰ کے اس رومال میں تھوک رہا ہے جسے بادشاہ تخت پر بیٹھتے وقت اپنی شان دکھانے کے لئے خاص طور پر اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا ۔ لوگوں نے کہا یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا مَیں آخری زمانہ میں مسلمان ہؤا تھا مَیں نے اس خیال سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں لوگوں نے بہت کچھ سُن لی ہیں اور اب میرے لئے بہت تھوڑا زمانہ باقی ہے یہ عہد کر لیا کہ مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ سے نہیں ہِلوں گا سارا دن مسجد میں ہی رہوں گا تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی باہر تشریف لائیں میں آپ کی باتیں سُن سکوں۔ کچھ دن تو میرا بھائی مجھے روٹی پہنچاتا رہا آخر اُس نے روٹی پہنچانی چھوڑ دی اور مجھے فاقے آنے لگے اور بعض دفعہ سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور بھُوک کی شدت کی وجہ سے مَیں بے ہوش ہو کر گر جاتا تھا لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دَورہ ہو گیا ہے اور عربوں میں یہ رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دَورہ ہوتا تو اُس کے سر پر جُوتیاں مارا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا علاج ہے۔ جب مَیں بے ہوش ہوتا تو میرے سر پر بھی وہ جُوتیاں مارنا شروع کر دیتے حالانکہ مَیں بھوک کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوتا تھا ۔ اب کُجا وہ حالت اور کُجا یہ حالت کہ ایران کا خزانہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور اموال تقسیم ہوئے تووہ رومال جو شاہِ ایران تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا وہ میرے حصّہ میں آیا۔ مگر ایران کا بادشاہ تو آرائش کے لئے اِس رومال کو اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا اور میرے نزدیک اِس رومال کی صرف اتنی قیمت ہے کہ مَیں اس میں اپنا بلغم تُھوک رہا ہوں۔۵؎
سوائے تاریخ کے کون سی چیز ہے جو تمہیں اپنے آباء کے ان حالات سے واقف کر سکتی ہے اور تمہیں بتا سکتی ہے کہ تم کیا تھے اور اب کیا ہو۔ کسی مُلک میں مسلمان عورت نکل جاتی تھی تو لوگوں کی مجال تک نہیں ہوتی تھی کہ وہ اُس کی طرف اپنی آنکھ اُٹھا سکیں۔ آجکل ربوہ کی گلیوں میں احمدی عورتیں پھرتی ہیں تو ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ باہر کا کوئی اوباش آدمی یہاں آیا ہؤا ہو اور وہ کوئی شرارت کر جائے۔ لیکن ایک وہ زمانہ گزرا ہے کہ مسلمان عورتیں دُنیا کے گوشے گوشے میں جاتیں، اکیلے اور تن تنہا جاتیں اور کسی کو جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان کی طرف ترچھی نگاہ سے دیکھ سکے اور اگر کبھی کوئی ایسی غلطی کر بیٹھتا تو وہ اُس کا ایسا خمیازہ بھُگتتا کہ نسلوںنسل تک اُس کی اولاد ناک رگڑتی چلی جاتی۔ مسلمان اپنے ابتدائی دَور میں ہی دُنیا میں پھیل گئے تھے ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ابھی اسّی نوّے سال ہی گزرے تھے کہ وہ چین اور ملایا اور سیلون اور ہندوستان کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے ادھر وہ افریقہ کے مغربی ساحلوں تک چلے گئے تھے اور ان کی لہریں یورپ کے پہاڑوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ اس ابتدائی دَور میں مسلمانوں کا ایک قافلہ جس کو سیلون کے بدھ بادشاہ نے خلیفۂ وقت کے لئے کچھ تحائف بھی دیئے تھے سیلون سے روانہ ہؤا اور اسے سندھ میں لوٹ لیا گیا ۔ سندھ میں اُن دنوں راجہ داہر کی حکومت تھی جب اس قافلہ کے لُوٹے جانے کی خبر مشہور ہوئی تو گورنر عراق کا والیٔ مکران کو حکم پہنچا کہ ہمارے پاس یہ خبر پہنچی ہے کہ مسلمانوں کا ایک قافلہ جو سیلون سے چلا تھا وہ سندھ میں لُوٹا گیا ہے اور مسلمان مرد اور عورتیں قید ہیں تم اس واقعہ کی تحقیق کر کے ہمیں اطلاع دو۔ والیٔ مکران نے راجہ داہر سے دریافت کیا تو اُس نے اِس واقعہ کا انکار کر دیا ۔ مسلمان چونکہ خود راست باز تھے اِس لئے وہ سمجھتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی سچ بولتے ہیںجب راجہ داہر نے انکار کر دیا تو انہوںنے بھی مان لیا کہ یہ بات سچ ہوگی۔ کچھ عرصہ کے بعد ایک اور قافلہ انہوں نے اسی طرح لُوٹا اور ان میں سے بھی کچھ عورتیں انہوں نے قید کیں۔ ان عورتوں میں سے ایک عورت نے کسی طرح ایک مسلمان کو جو قید نہیں ہؤا تھا یاقید ہونے کے بعد کسی طرح رہا ہو گیا تھا کہا کہ میرا پیغام مسلمان قوم کو پہنچا دو کہ ہم یہاں قید ہیں اور مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہم کو بچائے۔ اُس وقت خلیفہ بنو امیہ افریقہ پر چڑھائی کی تجویزیں کر رہا تھا اور سپین فتح کرنے کی سکیم بن رہی تھی اور تمام علاقوں میں یہ احکام جاری ہو چکے تھے کہ جتنی فوج میسر آسکے وہ افریقہ کے لئے بھجوا دی جائے۔ اُس وقت وہ پیغامبر پہنچا اور اُس نے عراق کے گورنر کو جو حجاج نامی تھا اور جو سخت بدنام تھا یہ پیغام پہنچایا۔ اِس میں بدنامی کی بھی باتیں ہوں گی مگر اس جیسا نڈر، بہادر اور اسلام کے لئے قربانی کرنے والا آدمی بھی اُس زمانہ میں ہمیں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے ۔ آنے والے نے حجاج سے کہا کہ مَیں سندھ سے آیا ہوں۔ وہاں یکے بعد دیگرے دومسلمان قافلے لُوٹے گئے ہیںاورکئی مسلمان قید ہیں۔ راجہ داہر نے گورنر مکران سے کہا یہ بالکل جھوٹ کہا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہؤا۔ حجاج نے کہا کہ مَیں کس طرح مان لوں کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو درست کہہ رہے ہو۔ ہر بات کی دلیل ہونی چاہئے بغیر کسی دلیل کے مَیں تمہاری بات نہیں مان سکتا۔ اُس نے کہا کہ آپ مانیں یا نہ مانیں واقعہ یہی ہے کہ وہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں۔ حجاج نے کہا کہ اوّل تو تمہاری بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیںہم نے گورنر مکران کو لکھا اور اُس نے جو جواب دیا وہ تمہارے اس بیان کے خلاف ہے دوسرے تمہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے۔ خلیفۂ وقت کا حکم ہے کہ جتنی فوج میسر ہو افریقہ بھیج دو پس اِس وقت ہم اپنی فوجوںکو کسی اور طرف نہیں بھیج سکتے۔ غرض اس نے ہر طرح سمجھایا مگر حجاج پر کوئی اثر نہیں ہؤا اور اُس نے کہا کہ میرے حالات اِس قسم کے نہیں کہ مَیں اِس طرف توجہ کر سکوں۔ جب وہ ہر طرح دلائل دے کر تھک گیا تو اُس نے کہا میرے پاس آپ کے لئے اور خلیفۂ وقت کے لئے ایک پیغام بھی ہے۔ حجاج نے کہا کے وہ کیا ہے؟ اُس نے کہا کہ جب مَیں چلا ہوں تو ایک مسلمان عورت جو قید ہونے کے خطرہ میں تھی اور اِس وقت تک قید ہو چکی ہوگی اُس نے مجھے یہ پیغام دیا تھا کہ اسلامی خلیفہ اور عراق کے گورنر کو ہماری طرف سے یہ پیغام دے دیں کہ مسلمان عورتیں ظالم ہندوئوں کے ہاتھ میں قید ہیں اور ان کی عزت اور ان کا ناموس محفوظ نہیں ہے ہم مسلمان قوم سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے فرض کو ادا کرے اور ہمیں یہاں سے بچانے کی کوشش کرے۔ کوئی مُلک نہیں، کوئی قوم نہیں دو یا تین عورتیں ہیں اور بیس یا پچیس مرد ہیں جن کے بچانے کے لئے بعض دفعہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر بھی یہ کہہ دیتا ہے کہ میرے پاس سپاہی موجود نہیں یہ ایک معمولی واقعہ ہے اس کا حجاج پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہی حجاج جو یہ کہہ رہاتھا کہ ہمارے پاس فوج نہیں ہم یورپ پر حملہ کی تیاری کر رہے ہیں وہ اِس پیغام کو سُن کر گھبرا کر کھڑا ہوگیا اور جب اُس آنے والے آدمی نے پوچھا کہ اب آپ مجھے کیا جواب دیتے ہیں؟ تو حجاج نے کہا کہ اب کہنے اور سُننے کا کوئی وقت نہیں اب میرے لئے کوئی اَور فیصلہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اب اِس کا جواب ہندوستان کی فوج کو ہی دیا جائے گا۔ چنانچہ اُس نے بادشاہ کو لکھا اُس نے بھی یہی کہا کہ ٹھیک فیصلہ ہے اب ہمارے پاس غور کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں۔اور اس فیصلے کے مطابق مسلمان فوج سندھ کے لئے روانہ کر دی گئی۔ درمیان میں کوئی ہزار میل کا فاصلہ ہے یا اِس سے بھی زیادہ اور اِس زمانے میں موٹروں کے ساتھ بھی اِس فاصلے کو آسانی سے طے نہیں کیا جا سکتا لیکن بادشاہ نے حکم دیا کہ اب مسلمانوںکی عزت اور ناموس کا سوال ہے بغیر کسی التوا کے جلد سے جلد منزلِ مقصود پر مسلمانوں کا پہنچنا ضروی ہے چنانچہ مسلمان درمیان میں کہیں ٹھہرے نہیں اُنہوں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر رات دن سفر کیا اور بارھویں دن اس فاصلے کو جو آج ریلوں اور موٹروں کے ذریعہ بھی اتنے قلیل عرصہ میں طے نہیںکیا جا سکتا اپنی اَن تھک محنت اور کوشش کے ساتھ طے کرتے ہوئے وہ ہندوستان کی سرحد پر پہنچ گئے۔ اب تو تمہاراا پنا وجود ہی بتا رہا ہے کہ اِس مُہم کا نتیجہ کیا ہؤا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ آٹھ ہزار سپاہی جو بصرہ سے چلا تھا ۔ اس آٹھ ہزار سپاہی نے دو مہینہ کے اندر اندر سندھ، ملتان اور اس کے گرد و نواح تک کو فتح کر لیا اور وہ قیدی بچائے گئے، عورتیں بچائی گئیں اور سندھ کا مُلک جس میں راجہ داہر کی حکومت تھی اِسے سارا کا سارا فتح کر لیا گیا اور پھر مسلمانوں کا لشکر ملتان کی طرف بڑھا مگر بدقسمتی سے بادشاہ کی وفات کے بعد اُس کا بھائی تخت نشین ہؤا اُسے اِن لڑائیوں میں بادشاہ سے بھی اختلاف تھا اور افسروں سے بھی اختلاف تھا ۔ جب وہ اپنے بھائی کی وفات کے بعد حکومت کے تخت پر بیٹھا تو اُس نے محمد بن قاسم کو جو ایک فاتح جرنیل تھا اور جو ارادہ رکھتا تھا کہ حملہ کر کے بنگال تک چلا جائے معزول کر کے واپس آنے کا حکم دے دیا اور جب وہ واپس آیا تو اسے قتل کروا دیا ورنہ ہندوستان کا نقشہ آج بالکل اَور ہوتا۔ آج صرف یہاں پاکستان نہ ہوتا بلکہ سارا ہندوستان ہی پاکستان ہوتا۔
جن مُلکوںکو عربوں نے فتح کیا ہے اُن میں اسلام اس طرح داخل ہؤا ہے کہ کوئی شخص اسے قبول کرنے سے بچا نہیں۔ غیر قومیں جو ہندوستان میں آئی ہیں ان کے اندر تبلیغی جوش نہیں تھا اس لئے انہوں نے چند علاقوںکو فتح کیا ہے۔ وہاں کے رہنے والوں میں اسلام کی دُشمنی بھی تھی، اسلامی تعلیم سے منافرت بھی تھی اور پھر ان فاتح اقوام کا سلوک بھی اچھا نہیں تھا لیکن عرب تو اِس طرح بِچھ جاتا تھا کہ وہ جس مُلک میں جاتا اپنے آپ کو حاکم نہیں سمجھتا تھا بلکہ لوگوں کا خادم سمجھتا تھا نتیجہ یہ ہوتا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی سارے کا سارا مُلک مسلمان ہو جاتا۔ پس اگر اُس زمانہ میں ہندوستان کو فتح کر لیا جاتا تو یقینا آج ہندوستان ،ایران اورمصر کی طرح ایک مسلمان مُلک ہوتا کیونکہ وہ لوگ عربوںکا نمونہ دیکھتے تھے۔ اُن کی خدمت اور حسن سلوک کو دیکھتے تھے، اُن کی دیانت اور راست بازی کو دیکھتے تھے اور ان اخلاق سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔ ان کے سامنے عرب یا غیر عرب کا سوال نہیں ہوتا تھا بلکہ صرف سچّائی کا سوال ہوتا تھا جس کے بعد بُغض اورکینے آپ ہی آپ مٹ جاتے ہیں۔ تمہارے باپ دادا کے یہ حالات سوائے تاریخ کے تمہیں اور کس ذریعہ سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ یہی چیز ہے جو تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے ورنہ محض دو دونے چار سے یعنی دو کو دو سے ضرب دی جائے توچار حاصل ہوتے ہیں تمہیں کیا نفع حاصل ہو سکتا ہے ۔ لیکن اگر تم تاریخ پڑھو اور تم ذرا بھی عقل رکھتی ہو ذرا بھی جستجو کا مادہ اپنے اندر رکھتی ہو تو تمہاری زندگی ضائع نہیں ہو سکتی۔
مضمون تو مَیں نے اَور شروع کیا تھا مگر مَیں رَو میں بہہ کر کہیں کا کہیں چلا گیا اور مَیں کہہ یہ رہا تھا کہ کبھی زمانہ بدلتا ہے اور لوگ اس کے ساتھ بدلتے چلے جاتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ زمانوں کو بدل دیتے ہیں۔ مسلمان وہ قوم تھی جو زمانے کے ساتھ نہیں بدلی بلکہ زمانے کو اِس نے اپنے ساتھ بدل دیا اور وہ جہاں جہاں گئے انہوں نے لوگوں کو اپنے اخلاق کی نقل پر مجبور کر دیا۔ اپنے لباس کی نقل پر مجبور کر دیا، اپنے تمدن کی نقل پر مجبور کر دیا اور وہ دُنیا کے اُستاد اور راہنما تسلیم کئے گئے۔ آج مسلمان عورت یورپ کی بے پردگی کی نقل کر رہی ہے حالانکہ کبھی وہ زمانہ تھا کہ مسلمان عورتوں کے پردہ کو دیکھ کر یورپ کی عورتوں نے پردہ کیا۔ چنانچہ ننوں(NUNS) کو دیکھ لو۔ یورپ ایک بے پرد مُلک تھا اور بے پردگی اِن میں فیشن سمجھا جاتا تھا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان عورت پردہ کرتی ہے تو بہت حد تک انہوں نے بھی پردہ لے لیا۔ چنانچہ ننز (NUNS)میں گو پورا پردہ نہ ہو لیکن ان کی نقاب بھی ہوتی ہے ،ان کی پیشانی بھی ڈھکی ہوئی ہوتی ہے اور ان کے جسم پرکوٹ بھی ہوتا ہے جس سے ان کے تمام اعضاء ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں اور گو ہم اسے پورا اسلامی پردہ نہ کہہ سکیں مگر نوے فیصدی پردہ ان میں ضرور پایا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہ وہ عورت تھی جو اسلام کے یورپ میں جانے سے پہلے ننگی پھرتی تھی اور جیسے بندریا کو ایک گھگھری پہنا دی جاتی ہے اِسی طرح انہوں نے ایک گھگھری پہنی ہوئی ہوتی تھی چنانچہ یورپ کی پُرانی تصویریں دیکھ لو عورتوں کے بازو ٹانگیں اور سینہ وغیرہ سب ننگا ہوتا تھا مگر جب مسلمان عورتوں کو انہوں نے پردہ کرتے ہوئے دیکھا تو انہوںنے بھی پردہ کے بہت سے حصوںکو لے لیا۔ مگر اب یورپ پھر اُسی پہلے زمانہ کی طرف جا رہا ہے اور مسلمان عورت بھی پردہ اُتار کر خوش ہوتی ہے کہ وہ یورپ کی نقل کر رہی ہے۔ آج کی مسلمان عورت یہ کہتی ہے کہ ہم زمانہ کے ساتھ چلیں اور پرانی مسلمان عورت یہ کہتی تھی کہ زمانہ میرے ساتھ ہے۔ یہ اپنی غلامی کا اقرار کرتی ہے اور وہ اپنی بادشاہی کا اعلان کرتی تھی کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ مَیں دوسروں کی نقل کروں لوگوں کا کام ہے کہ وہ میری نقل کریں۔ غرض مَیں کہہ یہ رہا تھا کہ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے لئے تعلیم میں مشکلات تھیں۔
ایک عیسائی قوم ہم پر حاکم تھی اور مغربی تعلیم دلوانے میں ہمارے لئے مشکلات تھیں۔ پس مَیں اس بات پر زور دیتا تھا کہ ہماری لڑکیاں دینیات کلاس میں پڑھیں اور اپنا سارا زور مذہبی اور دینی تعلیم کے حصول میں صَرف کریں اور شاید جماعت میںمَیں اکیلا ہی تھا جو اِس بات پر زور دیتا تھا ورنہ جماعت کے افسر کیا اور افراد کیا اِن سب کی مختلف وقتوں میں یہی کوشش رہی کہ ہائی سکول کے ساتھ ایک بورڈنگ بنانے کی اجازت دے دی جائے تا کہ بیرون جات سے لڑکیاں آئیں اور وہ قادیان میں رہ کر انگریزی تعلیم حاصل کریں ۔ اِسی طرح اِس بات پر بھی زور دیا جاتا رہا کہ لڑکیوں کے لئے کالج کھولنے کی اجازت دی جائے۔ مگر مَیں نے ہمیشہ اِس کی مخالفت کی لیکن آج مَیں ہی زنانہ کالج کا افتتاح کر رہا ہوں۔ یہ تیسری قسم کی چیز ہے نہ مَیںزمانہ کے ساتھ بدلا نہ زمانہ میرے ساتھ بدلا بلکہ خدا تعالیٰ نے زمانہ میں ایسی خوشگوار تبدیلی پیدا کر دی کہ اب تعلیم کو اسلامی طریق کے ماتحت ہم کالج میں رائج کر سکتے ہیں۔ یہ کہ اس تعلیم کی آئندہ کیا تفصیلات ہوں گی اِس کو جانے دو لیکن یہ کتنا خوش گوار احساس ہے کہ پاکستان بننے کے بعد یونیورسٹی کے مضامین میں ایک مضمون اسلامیات کا بھی رکھا گیا ہے جس میں اسلامی تاریخ پر خاص طور پر زور دیا جائے گا۔ پس ہم زمانہ کے ساتھ نہیں بدلے۔ زمانہ بھی ہمارے ساتھ نہیں بدلا کیونکہ جو زور ہمارے نزدیک اسلامی تعلیم پر ہونا چاہئے وہ ابھی نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ نے زمانہ کو سمو دیا ہے اور اِسے کچھ ہمارے مطابق کر دیا ہے اور کچھ ابھی ہمارے مطابق نہیں۔ پس اِن بدلے ہوئے حالات کے مطابق جبکہ ہم سہولت کے ساتھ کالج میں بھی دینیات کی تعلیم دے سکتے ہیں مَیں نے فیصلہ کیا کہ دینیات کلاسز کو اُڑا دیا جائے اور اسی کالج میں لڑکیوںکو زائد دینی تعلیم دی جائے تا کہ وہ کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی اعلیٰ درجہ کی معلومات حاصل کر لیں اور اسلام پر اِن کی نظر وسیع ہو جائے۔ عیسائی حکومت جو تعلیم میں پہلے دخل دیا کرتی تھی وہ اب باقی نہیں رہی۔ پس مَیں نے فیصلہ کیا کہ اب ہمیں کالج قائم کر دینا چاہئے تا کہ ہماری لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں جو اعلیٰ تعلیم یافتہ عورتیں ہیں اُن کی برابری کر سکیں اور ایک مقام پر ان کے ساتھ بیٹھ سکیں۔ گو ہونا تو یہ چاہئے کہ اِس تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد تمہاری دماغی کیفیت اور تمہاری قلبی کیفیت اور تمہاری ذہانت دوسروں سے بہت بالا اور بلند ہو اور جب بھی تم اُن کے پاس بیٹھو وہ محسوس کریںکہ تمارا علم اَور ہے اور اُن کا علم اَور۔ تمہارا علم آسمانی ہے اور اُن کا زمینی۔ اور اگر تم قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اس پر غور کرنے کی عادت ڈالو تو یہ کوئی بڑی بات نہیں۔ تم انڑنس پاس ہو لیکن مَیں انٹرنس میں فیل ہؤا تھا بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ مَیں مڈل پاس بھی نہیں کیونکہ مَیں مڈل میں بھی فیل ہؤا تھا۔ درحقیقت قانون کے مطابق میری تعلیم پرائمری تک ختم ہو جانی چاہئے تھی کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے مَیں نے پرائمری کا امتحان بھی پاس نہ کیا تھا مگر چونکہ گھر کا سکول تھا اِس لئے اساتذہ مجھے اگلی کلاسوں میں بٹھاتے چلے گئے۔ پس مَیں پرائمری پاس بھی نہیں اور تم تو میڑک کا امتحان پاس کر چکی ہو۔ پھر ایف اے بنو گی اِس کے بعد بی اے بنو گی اور پھر اِنْشَائَ اﷲُ ایم اے کی کلاسز کھل جائیں گی اور تم ایم اے ہو جائو گی۔ اگر تم یہ سمجھو کہ قرآن کریم کے علوم کے مقابلہ میں دُنیا کے علوم بالکل ہیچ ہیں تو یقینا تم تلاش کرو گی کہ قرآن کریم میں وہ علوم کیوں پائے جاتے ہیں۔ پہلے ہمیشہ ایمان پیدا ہوتا ہے اور پھر عمل پیدا ہوتا ہے اگر تمہیں یقین ہو کہ قرآن کریم میں وہ علم بھرا ہؤا ہے جو دُنیا میں نہیں تو یقینا تم تلاش کرو گی کہ وہ ہے کہاں؟اور جب تم تلاش کرو گی تووہ تمہیں مل جائے گا۔
قرآن کریم خود بتاتا ہے کہ وہ ایک بند خزانہ ہے اِس کے الفاظ ہر ایک کے لئے کُھلے ہیں، اس کی سورتیں ہر ایک کے لئے کھلی ہیں مگر اُس کے لئے کھلی ہیں جو پہلے ایمان لاتا ہے وہ فرماتا ہے۶؎ وہ لوگ جو ہماری برکت اور رحمت سے ممسوح کئے جاتے ہیں وہی سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں کیا کچھ بیان ہؤا ہے۔ باقی عربی کتابیں عربی جاننے سے سمجھی جا سکتی ہیں لیکن قرآن ایمان سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر تمہیں کامل ایمان حاصل ہو اور پھر تم اس کو دیکھو تو اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ دُنیا کی کسی مجلس میں، دُنیا کی کسی یونیورسٹی کی ڈگری یافتہ عورت سے تم نیچی نہیں ہو سکتی۔ وہ تمہیں اِس طرح دیکھیں گی جس طرح شاگرد اپنے اساتذہ اور معلّمین کو دیکھتے ہیں کیونکہ تمہارے پاس وہ چیز ہو گی جو اُن کے پاس نہیںہوگی۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ احمدی نوجوان بھی ابھی اِس بات پرتو ایمان لے آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنا مأمور بھیجا وہ اِس بات پربھی ایمان لے آیا ہے کہ احمدیت سچی ہے مگر ابھی اِس بات پر اُسے پختہ ایمان حاصل نہیںہؤا کہ قرآن کریم میں ہر چیز موجود ہے۔ اگر یہ بات حاصل ہو جاتی تو آج ہماری جماعت کہیں سے کہیں پہنچ جاتی۔ اگر تمہاری جیب میں روپیہ موجود ہو تو کیا ضروت ہے کہ تم صندوق کھولنے جاتی ہو تم اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتی ہو اور روپیہ نکال لیتی ہو۔ اگر واقعہ میں ایک احمدی مرد اور عورت کے دل میں یہ ایمان ہو کہ قرآن کریم میں ہر چیز موجود ہے تو وہ کسی اَور طرف جائے گا کیوں؟ وہ قرآن پر غور کرے گا اور اُسے وہ کچھ ملے گا جو اُسے دوسری کتابوں میںمل سکتا ہی نہیں۔ تب اُس کی زندگی دوسروں سے زیادہ اعلیٰ ہو گی اور وہ ان میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہو گا۔ بے شک بعض مجبوریوںکی وجہ سے اسے بھی یونیورسٹیوں میں پڑھنا پڑے گا مگر اس کو آخری ڈگری دینے والا کوئی چانسلر نہیں ہوگا ،کوئی گورنر نہیں ہو گا، کوئی وزیر نہیں ہوگا بلکہ اسے آخری ڈگری دینے والا خدا ہوگا۔ اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی ڈگری کے مقابلہ میں انسانوں کی ڈگری کوئی حقیقت نہیں رکھتی۔
غرض یہ کالج مَیں نے اِس لئے کھولا ہے کہ اب دین اوردُنیا کی تعلیم چونکہ مشترک ہو سکتی ہے اس لئے اسے مشترک کر دیا جائے۔ اِس کالج میں پڑھنے والی دو قسم کی لڑکیاں ہوسکتی ہیں۔ کچھ تو وہ ہوں گی جن کامقصد یہ ہو گا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دُنیاوی کام کریں اور کچھ وہ ہوں گی جن کامقصدیہ ہو گا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کی خدمت کریں۔ مَیں دونوں سے کہتا ہوں کہ دینی خدمت بھی دُنیا سے الگ نہیں ہو سکتی اور دُنیا کے کام بھی دین سے الگ نہیں ہو سکتے۔ اسلام نام ہے خدا تعالیٰ کی محبت اور بنی نوع انسان کی خدمت کا۔ اور بنی نوع انسان کی خدمت ایک دُنیوی چیز ہے جس طرح خداتعالیٰ کی محبت ایک دینی چیز ہے۔ پس جب اسلام دونوں چیزوں کا نام ہے اور جب وہ لڑکی جو اِس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دُنیا کا کام کرے اور وہ لڑکی جو اِس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کا کام کرے اور دونوں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ جو لڑکی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دُنیا کا کام کرے اُسے معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنا بھی دین کا حصّہ ہے اور جو لڑکی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دین کا کام کرے اُسے معلوم ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حصّہ ہے پس دونوں کا مقصد مشترک ہو گیا۔ جو دینی خدمت کی طرف جانے والی ہیں اُنہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حصّہ ہے۔ دین کے معنی صرف سُبْحَانَ اﷲِ، سُبْحَانَ اﷲِ کرنے کے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنے اور ان کے دُکھ درد کو دور کرنے میں حصّہ لینے کے بھی ہیں۔ اور جو لڑکیاں دُنیا کا کام کرنا چاہتی ہیں انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام نے خداتعالیٰ کی محبت پر بھی زور دیا ہے پس اُنہیں دُنیوی کاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی محبت کو کبھی نظرانداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیشہ اس کی محبت اپنے دلوں میں زیادہ سے زیادہ پیدا کرتے چلے جانا چاہئے۔ اور چونکہ دونوں قسم کی لڑکیاں درحقیقت ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھتی ہیں اِس لئے جو اختلاف تمہیں اپنے اندر نظر آسکتا تھا وہ نہ رہا اور تم سب کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی مدّعا ہو گیا۔ پس یہ مقصد ہے جو تمہارے سامنے ہوگا اور اِس مقصد کے لئے تمہیں دینی روح بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جذبہ بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے تا کہ وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے تم اس کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئی ہو۔ دوسرے کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں ہو سکتا ہے کہ خداتعالیٰ کو بھلا کر دُنیوی کاموں میں ہی منہمک ہو جائیں مگر چونکہ یہ کالج احمدیہ کالج ہے اِس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم دونوں دامنوںکو مضبوطی سے پکڑے رہو۔ اگر ایک دامن بھی تمہارے ہاتھ سے چُھوٹ جاتا ہے تو تم اُس مقصد کو پورا نہیں کر سکتیں جو تمہارے سامنے رکھا گیا ہے اور جس کے پورا کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے۔ پس اِن ہدایات کے ساتھ مَیں احمدیہ زنانہ کالج کے افتتاح کا اعلان کرتاہوں اور امید کرتا ہوں کہ جو اِس کالج میں پڑھانے والی ہوں گی وہ بھی اِس بات کو مدنظر رکھ کر پڑھائیں گی کہ طالبات کے اندر ایسی آگ پیدا کی جائے کہ ان کو پارہ کی طرح ہر وقت بے قرار اور مضطرب رکھے۔ جس طرح پارہ ایک جگہ پر نہیں ٹِکتا بلکہ وہ ہر آن اپنے اندر ایک اضطرابی کیفیت رکھتا ہے اِسی طرح تمہارے اندر وہ سیماب کی طرح تڑپنے والا دل ہونا چاہئے جو اُس وقت تک تمہیں چین نہ لینے دے جب تک تم احمدیت اور اسلام کو اور احمدیت اور اسلام کی حقیقی روح کو دُنیا میں قائم نہ کر دو۔ اِسی طرح پروفیسروں کے اندر بھی یہ جذبہ ہونا چاہئے کہ وہ صحیح طور پر تعلیم دیں، اخلاق فاضلہ سکھائیں اور سچائی کی اہمیت تم پر روشن کریں۔
تمہیں بُرا تو لگے گا مگر واقعہ یہی ہے کہ عورت سچ بہت کم بولتی ہے اِس کے نزدیک اپنے خاوند کو خوش کرنے کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور سچائی کی کم۔ جب اسے پتہ لگتا ہے کہ فلاں بات کے معلوم ہونے پر میرا خاوند ناراض ہو گا تو بھی اس معاملہ میں جھوٹ ہی بولتی ہے سچائی سے کام نہیں لیتی کیونکہ وہ ڈرتی ہے کہ اگر مَیں نے سچ بولا تو میرا خاوند ناراض ہو گا۔ وہ ایک طرف تو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ مَیں محکوم نہیں مجھے مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں اور دوسری طرف وہ مرد سے ڈرتی ہے۔ اگر اس کا مرد سے ڈرنا ٹھیک ہے تو پھر وہ محکوم ہے اسے دُنیا کے کسی فلسفہ اور قانون نے آزاد نہیں کیا۔ اور اگروہ مرد کے برابر قویٰ رکھتی ہے تو کوئی وجہ نہیںکہ وہ جھوٹ بولے اور اسی طرح صداقت پر قائم نہ رہے جس طرح آزاد مرد صداقت پر قائم رہتے ہیں۔ یہ ایک چھوٹا مسئلہ ہے لیکن تمہاری اصلاح کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے۔ تمہیں اپنے دل میں یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ تم آزاد ہو یا نہیں۔ اگر تم آزاد نہیں ہو تو کہو کہ خدا نے ہمیں غلام بنا دیا ہے اور چھوڑو اس بات کو کہ تمہیں مردوں کے برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں اور اگر تم آزاد ہو تو خاوند کے ڈر کے مارے جھوٹ بولنا اور راستی کو چھپانا ایک لغو بات ہے۔
اِسی طرح مَیں دیکھتا ہوں کہ ہمارے مُلک کی عورت میں کام کرنے کی عادت بہت کم ہے ۔ لجنہ بنی ہوئی ہے اور کئی دفعہ مَیں اِسے اِس طرف توجہ بھی دلا چُکا ہوں مگر ہنوز روزِ اوّل والا معاملہ ہے۔ تمہیں اپنے کالج کے زمانہ میں اِس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ عورت کی زندگی زیادہ سے زیادہ کس طرح مفید بنائی جا سکتی ہے۔ یہ پرانا دستور جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور اب بھی ہے کہ کھانا پکانا عورت کے ذمہ ہے اِس میں اب تبدیلی کی ضروت ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں عورت صرف کھانے پینے کے کام کے لئے ہی رہ گئی ہے اس کے پاس کوئی وقت ہی نہیں بچتا جس میں وہ دینی یا مذہبی یا قومی کام کر سکے۔ یورپ کے مدبرین نے مل کر اس کاکچھ حل سوچاہے اور اِس وجہ سے اُن کی عورتوں کو بہت سا وقت بچ جاتاہے مثلاً یورپ نے ایک قسم کی روٹی ایجاد کر لی ہے جسے ہمارے ہاں ڈبل روٹی کہتے ہیں۔ یہ روٹی عورتیں گھر میں نہیں پکاتیں بلکہ بازار سے آتی ہے اور مرد عورتیں اور بچے سب اسے استعمال کرتے ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ بادشاہ کے ہاں کیا دستور ہے کہ آیا اُس کی روٹی بازار سے آتی ہے یا نہیںلیکن یورپ میں ایک لاکھ میں سے ننانوے ہزار نو سَو ننانوے یقینا بازار کی روٹی ہی کھاتے ہیں اور اِس طرح وہ اپنا بہت سا وقت بچا لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اِس قسم کے کھانا پکانے کے برتن (Cooker) نکالے ہوئے ہیں جن سے بہت کم وقت میں سبزی اور گوشت وغیرہ تیار ہو جاتا ہے۔ پھر انہوںنے اپنی زندگیاں اِس طرح ڈھال لی ہیں کہ عام طور پر وہ ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں۔ یورپ میں بِالعموم چار کھانے ہوتے ہیں صبح کا ناشتہ، دوپہر کا کھانا، شام کا ناشتہ اور رات کا کھانا۔ عام طور پر درمیانے طبقہ کے لوگ صبح کی چائے گھر پر تیار کر لیتے ہیں۔ باقی دوپہر کے کھانے اور شام کی چائے وہ ہوٹل میں کھا لیتے ہیں اور شام کا کھانا گھر پر کھاتے ہیں۔ پھر سر د مُلک ہونے کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا کئی کئی وقت چلا جاتا ہے اور پھر کھانے انہوں نے اس قسم کے ایجاد کر لئے ہیں جن کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً کولڈ میٹ (Cold meat) ہے۔ روٹی بازار سے منگوا لی اور کولڈ میٹ کے ٹکڑے کاٹ کر اس سے روٹی کھا لی لیکن ہمارے ہاں ہر وقت چولہا جلتا رہتا ہے۔ جب تم کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتی ہو تو تمہیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ تم اپنی زندگی کس طرح گزارو گی ۔ اگر چولہے کا کام تمہارے ساتھ رہا تو پھر پڑھائی بالکل بے کار چلی جائے گی۔ تمہیں غور کر کے اپنے مُلک میں ایسے تغیرات پیدا کرنے پڑیں گے کہ چولہے جھونکنے کا شغل بہت کم ہو جائے۔ اگر یہ شغل جاری رہا تو پڑھائی سب خواب و خیال ہو کر رہ جائے گی۔ یہی چولہا پُھونکنے کا شغل اگر کم سے کم وقت میں محدود کر دیا جائے مثلاً اس کے لئے ایک گھنٹہ صبح اور ایک گھنٹہ شام رکھ لیا جائے تب بھی اَور کاموں کے لئے تمہارے پاس بہت سا وقت بچ سکتا ہے۔ یہ مت خیال کرو کہ تم نوکر رکھ لوگی نوکر رکھنے کا زمانہ اب جارہا ہے اب ہر شخص نوکر نہیں رکھ سکے گا بلکہ بہت بڑے بڑے لوگ ہی نوکر رکھ سکیں گے۔ کیونکہ نوکروں کی تنخواہیں بڑھ رہی ہیں اور ان تنخواہوں کے ادا کرنے کی متوسط طبقہ کے لوگوں میں بھی استطاعت نہیں ہوسکتی۔
جب مَیں یورپ میں گیا ہوں تو اُس وقت ابھی نوکروں کی تنخواہیں اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھیں تب بھی ہم نے جو عورت رکھی ہوئی تھی اُسے ہم ۲۱ شلنگ ہفتہ وار یا ساٹھ روپے ماہوار دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی کھانا بھی دیتے تھے پھر ان کی یہ شرط ہؤا کرتی تھی کہ ہفتہ میں ایک دن کی پوری اور ایک دن کی آدھی چھُٹی ہو گی۔ ڈیڑھ دن تو اس طرح نکل گیا جس میں گھر والوں کو خود کام کرنا پڑتا تھا۔ آقا بہتیری شور مچاتی رہے کہ کام بہت ہے وہ کہے گی کہ مَیں نہیں آ سکتی کیوںکہ میری چھُٹی کا دن ہے۔ پھر جتنا وقت مقرر ہو اس سے زیادہ وہ کام نہیںکرے گی کتنا بھی کام پڑا ہو وہ فوراً چھوڑ کر چلی جائے گی اور کہے گی کہ وقت ہو چُکا ہے۔ دراصل اِس میں ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے اختیار میں ہی نہیں ہوتا کہ زیادہ کام کریں کیونکہ وہاں ہر طبقہ کے لوگوں کی الگ الگ انجمنیں بنی ہوئی ہیں۔ کوئی گھر کے نوکروںکی انجمن ہے، کوئی قلیوں کی انجمن ہے، کوئی انجنوں میں کوئلہ ڈالنے والوں کی انجمن ہے، کوئی اُستادوںکی انجمن ہے ان انجمنوں کی سفارش کے بغیر کسی کو نوکری نہیں ملتی۔ اگر وہ زائد کام کریں تو انجمن کی ممبری سے ان کا نام کٹ جاتا ہے اور پھر انہیں کہیں ملازمت نہیں ملتی۔ ہمیں وہاں مضمون لکھنے کے لئے ایک ٹائپسٹ کی ضرورت تھی۔ دفترنے ایک عورت اس غرض سے رکھی جو زیکو سلواکیہ کی رہنے والی تھی اُسے ہمارے مضامین پڑھنے کے بعد سلسلہ سے دلچسپی ہو گئی مگر مشکل یہ تھی کہ اُس کا وقت ختم ہو جاتا اور ہمارا کام ابھی پڑا ہؤا ہوتا۔ بعض دفعہ ہمیں دوسرے ہی دن مضمون کی ضرورت ہوتی اور وہ کہتی کہ اب مَیں جارہی ہوںکیونکہ وقت ہو گیا ہے۔ مگر چونکہ اسے ہمارے سلسلہ میں دلچسپی ہو گئی تھی اِس لئے وہ کہتی کہ مَیں ز ائد وقت کی ملازمت تو نہیں کر سکتی لیکن مَیں یہ کرسکتی ہوں کہ مضمون ساتھ لے جائوں اور گھر پر اسے ٹائپ کروں۔ انجمن والے مجھے گھر کے کام سے نہیں روک سکتے اُس وقت میرا اختیار ہے کہ مَیں جو چاہوں کروں آپ مجھے اس وقت کی تنخواہ نہ دیں مَیں آپ کا کام مُفت کردوں گی۔ اگر آپ مجھے کچھ دینا چاہیں تو بعد میں انعام کے طور پر دے دیںاِس طرح وہ مشن کا کام کیا کرتی تھی۔ کیونکہ وہ ڈرتی تھی کہ اگر انہیں پتہ لگا کہ مَیں چھ گھنٹہ سے زیادہ کہیں کام کرتی ہوں تو وہ مجھے نکال دیں گے اور پھر مجھے کہیں بھی نوکری نہیں ملے گی۔ یہ چیزیں ابھی ہمارے مُلک میں نہیں آئیں لیکن جب آئیں تو پھر لوگوں کے لئے بہت کچھ مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ اب تو وہ پانچ سات روپے میں نوکر رکھ سکتے ہیں لیکن جس دن نوکر کی پچاس روپیہ تنخواہ ہو گئی اور سو روپیہ تمہیں ملا تو تم نوکر کہاں رکھو گی۔ آجکل یورپ میں نوکر کی تنخواہ تین پونڈ ہفتہ وار ہے جس کے معنی آجکل کے پاکستانی روپیہ کی قیمت کے لحاظ سے ۱۲۰ روپیہ ماہوار کے ہیں اور کھانا بھی الگ ہی دینا پڑتا ہے اِس زمانہ میں اوپر کے طبقہ کی تنخواہیں گر رہی ہیں اور نچلے طبقہ کی تنخواہیں بڑھتی جا رہی ہیں اِس کے معنی یہ ہیں جو شخص سات آٹھ سَو روپے ماہوار لیتا ہے وہ بھی ملازم نہیں رکھ سکتا صر ف ہزاروں روپیہ ماہوار کمانے والا ملازم رکھ سکتا ہے ایسی صورت میں یہی ہو سکتا ہے کہ ایک وقت کا کھانا دو تین وقتوں میں کھالیا یا ایک وقت ہوٹل میں جاکر کھا لیا اور دوسرے وقت کے کھانے میں کولڈمیٹ استعمال کر لیا اِس طرح بہت سا وقت اَور کاموں کے لئے بھی بچ سکتا ہے۔
پھر ہمارے ہاں ایک یہ بھی نقص ہے کہ بچوں کو کام کرنے کی عادت نہیں ڈالی جاتی۔ بچے دستر خوان پر بیٹھتے ہیں اور شور مچاتے ہیں کہ امّی نوکر پانی نہیں لاتی کہ ہم ہاتھ دھوئیں، اَمّی نوکر نے برتن صاف نہیں کئے۔ امریکہ میں ہر بچہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے کھانے کے برتن کو خود دھو کر رکھے اور اگر نہ دھوئے تو اسے سزا ملتی ہے کیونکہ ماں اکیلی تمام کام نہیں کر سکتی۔ اگر وہ کرے تو اس کے پاس کوئی وقت ہی نہ بچے وہ اسی طرح کرتی ہے کہ کچھ کام خود کرتی ہے اور کچھ کاموں میں بچوں سے مدد لیتی ہے۔
غرض یورپ میں اوّل تو روٹی بازار سے منگوائی جاتی ہے پھر انہوں نے کولڈ میٹ اور اِسی قسم کی چیزیں ایسی بنائی ہیں جن کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اور بجائے اس کے کہ ہر وقت گرم کھانا کھایا جائے وہ اِسی سے روٹی کھا لیتے ہیں پھر ایک وقت کا پکا ہؤا کھانا دو وقتوں میں کھا لیتے ہیں اور پھر کام میں بچوںکو بھی شامل کیا جاتا ہے اور اس طرح بہت سا وقت بچا لیا جاتا ہے۔ تھوڑے ہی دن ہوئے مَیں نے ایک لطیفہ پڑھا جو امریکہ کے مشہور رسالہ میں شائع ہؤا تھا اور جس سے ان لوگوں کے کریکٹر پر خاص طور پر روشنی پڑتی ہے ۔ ایک باپ کہتا ہے کہ میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ میرے بچوںکو کبھی کبھی یہ تو بھُول جاتا ہے کہ آج ہم نے سکول جانا ہے ،کبھی یہ بھی بھُول جاتا ہے کہ ہم نے اپنے کپڑے بدلنے ہیں، کبھی یہ بھی بھُول جاتا ہے کہ ہم نے اتنے بجے سونا ہے لیکن اگر کبھی ہنسی میں مَیں نے اپنے بچوں سے کوئی وعدہ کیا ہؤا ہوتا ہے اور اُس پر پانچ سال بھی گزر چکے ہوں تو وہ ان کو نہیں بھُولتا۔ اِس مثال سے اُن کے کریکٹر کا پتہ لگتا ہے کہ وقت پر سونا، وقت پر سکول جانا، وقت پر کپڑے بدلنا اور کھانے کے برتن دھونا یہ سب بچوںکو سکھایا جاتا ہے اوریہ باتیں ان کے فرائض میں شامل کی جاتی ہیں۔ اِس رنگ میں انہوں نے ایسا انتظام کیا ہؤا ہے کہ ان کا بہت سا وقت بچ جاتا ہے۔
پھر بچوںکے پالنے کا کام ایسا ہے جس میںبہت کچھ تبدیلی کی ضروت ہے ۔ یورپ میں تو عورتیں بچے کو پنگھوڑے میں ڈالتی ہیں چُوسنی تیار کر کے اُس کے پاس رکھ دیتی ہیں اور مکان کو تالا لگا کر دفتر میں چلی جاتی ہیں۔ جب بچے کو بھُوک لگتی ہے تووہ خود چُوسنی اُٹھا کر مُنہ میں لگا لیتا ہے لیکن ہمارے ہاں اگر ماں دو منٹ کے لئے بھی بچے سے الگ ہو تو وہ اتنا شور مچاتا ہے کہ آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ ماں بچے کو الگ نہیں کرتی اسے ہر وقت اپنے ساتھ چمٹائے پھرتی ہے۔ بچہ پیدا ہؤا اور اسے گود میں ڈال لیا اور پھر تین چار سال تک اسے گود میں اُٹھائے پھرتی ہے بلکہ ہمارے مُلک میں تو پانچ پانچ سال تک لاڈلے بچوں کو اُٹھائے پھرتی ہیں۔ یہ سارے رواج اِس قابل ہیں کہ ان کو بدلا جائے۔ جب تم ہمت کر کے اِن رسوم کو بدلو گی تو آہستہ آہستہ باقی عورتوںمیں بھی تمہارے پیچھے چلنے کا شوق پیدا ہو جائے گا۔
مَیں نے بتایا ہے کہ سب سے پہلے روٹی پکانے کے طریق میں تبدیلی کی ضروت ہے عربوں میں بھی بازار سے روٹی منگوانے کا طریق ہے مگر وہان تنور کی خمیری روٹی ہوتی ہے۔ انگریزی روٹی کا رواج نہیں۔ جتنے مُلکوں میں بازار سے روٹی منگوانے کا طریق رائج ہے اُن سب میں خمیری روٹی کھائی جاتی ہے۔ خمیری روٹی ہمیشہ تازہ ہی پکا کر کھانی پڑتی ہے۔ بہر حال بغیر اس کے روٹی کا سوال حل ہو ہماری عورتیں فارغ نہیں ہو سکتیں اور بغیر اس کے کہ بچہ پالنے کے طریق میں تبدیلی ہو ہماری عورتیں فارغ نہیں ہو سکتیں۔ جب تک بچہ گود میں رہے گاماں بے کار رہنے پر مجبور ہو گی یا بیٹی مجبور رہے گی۔ کام کے لئے اُسے فراغت اُسی وقت ہو سکتی ہے جب بچہ کو پیدا ہوتے ہی پنگھوڑے میں ڈال دیا جائے اور پھر وقت پر اسے دودھ پلادیا جائے گود میںاسے نہ اُٹھایا جائے۔ غرض جب تک یہ سوال حل نہیں ہوتا ماں کی زندگی بیکار رہے گی۔ اور جب تک کھانے کا سوال حل نہیں ہوتا عورت کی زندگی بیکار رہے گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ روزانہ چار وقت کے کھانے کی بجائے صرف دو وقت کا کھانا رکھ لیا جائے اور ناشتے کا کوئی سادہ دستور نکالا جائے اور کھانے ایسے تیار کئے جائیں جو کئی کئی وقت کام آسکیں اور روٹی بازار سے منگوا لی جائے لیکن اگر صبح شام کھانا پکانے اور برتن مانجنے کا کام اگر عورت کے ہی سپرد رہے گا تو وہ بالکل بے کار ہو کر رہ جائے گی اور کسی کام کے لئے وقت صَرف نہیں کرے گی۔ پس جہاں دینی مسائل کو مدنظر رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے وہاں اِن عائلی مشکلات کو حل کرنا تمہارے لئے ضروری ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کے تنزّل اور ان کے انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہوئی کہ جب ان کے پاس دولت آ گئی تو انہوں نے اس قسم کے مشاغل۔ بے کاری کو اختیار کرلیا۔ گھروں میں مرد بیٹھے چھالیہ کاٹ رہے ہیں، گلوریاں بنا رہے ہیں اور عورت بھی کھانے پکانے میں مصروف ہے کبھی یہ چیز تلی جا رہی ہے، کبھی وہ چیز تلی جارہی ہے، کبھی کہتی ہے اب مَیں چٹنی بنا لوں، کبھی کہتی ہے اب مَیں میٹھا بنا رہی ہوں۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ تو کھانے تیار کرنے میں مشغول ہو گئے اور حکومت انگریزوں نے سنبھال لی۔ یہ مصیبت جتنی ہندوستان میں ہے باہر نہیں۔ عرب میں جا کر دیکھ لو سارا عرب بازار سے روٹی منگواتا ہے ۔ مصر میں جا کر دیکھ لو سارا مصر بازار سے روٹی منگواتا ہے اور سالن بھی وہ گھر تیار نہیں کرتے بازار سے ہی منگوا لیتے ہیں۔ وہاں لوبیا کی پھلیاں بڑی کثرت سے ہوتی ہیں صبح کے وقت مکّہ میں چلے جائو، قاہرہ میں چلے جائو بازاروں میں لوبیا کی دیگیں تیار ہوں گی اور ہرشخص اپنا برتن لے جائے گا اور تندور کی روٹیاں اور لوبیا کی پھلیاں لے آئے گا۔ غریب اسے یونہی کھا لیتے ہیں اور امیر آدمی گھی کا تڑکہ لگا لیتے ہیں۔ اِسی طرح دوپہر کے وقت روٹی بازار سے آتی ہے اور سالن کے طور پر وہ کوئی بھی سَستی سی چیز لے لیتے ہیں اور گزارہ کر لیتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں یہ حالت ہے کہ لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم وہ ماما رکھنا چاہتے ہیں جو ایک سیر آٹے میں ۸۰ پُھلکے پکا سکتی ہو۔ بازار والوں نے اپنے کام کو اِس طرح ہلکا کر لیا کہ سیر آٹے میں چھ روٹیاں تیار کر لیں اور انگریزوں نے سیر میں چار اور بعض دفعہ دو اور انہوں نے اپنے کام کو اس طرح بوجھل بنا لیا کہ ۸۰،۸۰پُھلکیبنانے لگے۔ یہ سب شغل بے کاری ہیں۔ جن کو دُور کرنا پڑے گا اور جن کو دُور کر کے ہم اپنا وقت بچا سکتے ہیں۔ آخر علم کے استعمال کے لئے تمہارے پاس وقت چاہئے۔ اگر تم نے اپنے آپ کو ایسا بنا لیا کہ تمہارے پاس کچھ بھی وقت نہ بچا تو تم نے کرنا کیا ہے۔
پس پہلا سوال وقت کا ہے تم کو اپنی زندگی ایسی بنانی پڑے گی کہ تم ان کاموں کے لئے اپنے اوقات کو فارغ کر سکو پھر تمہارے لئے آسانی ہی آسانی ہے اور تم اِس وقت سے فائدہ اُٹھا کر بیسیوں ایسے کام کر سکتی ہو جو تمہاری ترقی کے لئے ضروری ہیں۔ پس یہ مسئلہ بھی تمہیں ہی حل کرنا پڑے گا پس اگر تم یہ مسئلہ حل کر لو توتمہاری مائیں آپ ہی آپ تمہاری نقل کرنے پر مجبور ہوں گی۔ ہم نے دیکھا ہے کہ لڑکی پرائمری پاس ہوتی ہے تو جاہل مائیں اپنی لڑکی کے آگے پیچھے پھرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہماری یہ بیٹی پرائمری پاس ہے بڑی عقل مند اور ہوشیار ہے۔ اگر مائیں اپنی پرائمری پاس لڑکیوں کی بات رد نہیں کر سکتیں تو تم تو بی ۔اے ہو گی تمہاری بات وہ کیوں ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گی۔ یہ کام جو مَیں نے بتایا ہے اِسے معمولی نہ سمجھو یہی وہ چیز ہے جس نے ہمارے مُلک کی عورت کو بے کار بنا دیا ہے ۔ دوسری قوموں نے تو اس مسئلہ کو حل کر لیا اور چھ سات گھنٹے بچا لئے لیکن تمہیں کھانے پکانے کے دھندوں سے ہی فُرصت نہیں ملتی اگر تم بھی چھ سات گھنٹے بچا لو تو یقینا تم ان اقوام سے بہت زیادہ ترقی کر سکتی ہو۔ کیونکہ وہ اگر چھ گھنٹے بچاتی ہیں تو دو گھنٹے قومی کاموں میں صَرف کرتی ہیں اور چار گھنٹے ناچ گانے میں صَرف کرتی ہیں۔ لیکن تم اپنا سارا وقت قومی اور مذہبی کاموں میں صَرف کر دو گی۔ اِس لئے یورپ کی عورت کے مقابلے میں تمہیں اپنے کاموں کے لئے تین گُنا وقت مل جائے گا اورجب وہ چھ گھنٹوں میں سے چار گھنٹے ناچ گانے میں صَرف کریں گی اور تمہارا تمام وقت خالص دینی کاموں میںصَرف ہوگا اور اس طرح تم ان سے تین گُنا کرو گی تو تمہاری فتح یقینی ہے کیونکہ وقت کے لحاظ سے یورپ کی تین تین عورتوں کے مقابلے میں تمہاری ایک ایک عورت ہو گی۔ اِس وقت تمہاری سَو عورت بھی یورپ کی ایک عورت کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ تمہارا علم بھی کم ہے اور تمہارے پاس اپنے قومی کاموں کے لئے وقت بھی نہیں بچتا۔ لیکن جب تم علم حاصل کرلو گی اور قومی کاموں کے لئے وقت بھی ان سے زیادہ صَرف کرو گی تو تمہاری ایک عورت کے مقابلے میں یورپ کی سَو عورت بھی کوئی حقیقت نہیں رکھے گی۔ جب تک یورپ کا ماحول ایسا ہے اور اس کا طریقِ عمل ایسا ہے کہ اس کی ایک عورت تمہاری سَو عورت کے برابر ہو گی اُس کا جیتنا یقینی ہے۔ لیکن جب تم اپنے آپ کو ایسی بنا لوگی کہ تمہاری ایک عورت اُن کی سَو عورت کے برابر ہو گی تو پھر تمہارا جیتنا یقینی ہے۔ ان ریمارکس اور نیتوں کے ساتھ میں اپنے خطبہ کو ختم کر تا ہؤا کالج کا افتتاح کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے زنانہ کالج کی چھوٹی سی بنیاد کو اپنی عظیم الشان برکتوں سے نوازے اور یہ چھوٹا سا ادارہ دُنیا کے تمام علمی اداروں پر چھا جائے۔
(الفضل ربوہ ۱۵؍جولائی ۱۹۵۱ئ)
۱؎ عبس : ۱۷ ۲؎ عبس: ۱۶
۳؎ مسلم کتاب الایمان باب جواز الا ستسرار بالایمان(الخ)
۴؎ تاریخ طبری جلد ۴ صفحہ ۳۲۲ تا ۳۲۵ دارالفکر بیروت ۱۹۸۷ء
۵؎ بخاری کتاب الاعتصام باب مَاذَکر النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّم وَ حَضَّ
عَلٰی اِتِّفَاقِ اَھْلِ الْعِلْمِ (الخ)
۶؎ الواقعۃ:۸۰



ہر احمدی تحریک جدید میں
بڑھ چڑھ کر حصّہ لے



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لے
(فرمودہ ۲؍ستمبر ۱۹۵۱ء بر موقع جلسہ یوم تحریک جدید بمقام بیت مبارک ربوہ)
تشہّد ،تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا پیغام حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم تک ایک ہی رہا ہے۔ بے شک اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، اس میں ترقی ہوتی رہی ہے لیکن مغز اور جڑ ایک ہی رہی ہے ۔مثلاً مذہب کی جڑ ہے خدا تعالیٰ پر ایمان لانا اور پھر خدائے واحد پر ایمان لانا۔ زمانے کی ضرورتوں اور لوگوں کی عقل کے معیار کے مطابق توحید کی شرح پہلے موٹی تھی پھر درمیانے درجہ کی ہوئی اور پھر فلسفی اور باریک رنگ کی ہو گئی۔ لیکن کہا ہر نبی نے یہی ہے کہ خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تک ہر نبی نے یہی کہا ہے کہ ہمیشہ ایک خدا کی عبادت کرنی چاہئے۔ ہاں عبادت میں آگے فرق ہو گیا ہے۔ زمانہ کے حالات، لوگوں کی عقل کے معیار اور اُن کے کام کاج اور اخلاص کے معیار کے مطابق کسی مذہب میں ہفتہ میں ایک نماز فرض کر دی گئی اور باقی کو نفل قرار دے دیا گیا۔ کسی مذہب میں صبح و شام دو نمازوں کو فرض قرار دے دیا گیا اور باقی نمازوں کو نفل قرار دیا گیا اور اسلام میں آکر خدا تعالیٰ نے پانچ نمازیں ایک دن رات میں فرض قرار دے دیں اور باقی نمازوں کو نفل قرار دے دیا لیکن عبادت در حقیقت ایک ہی رہی ہاں اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں۔
پھر روزے ہیں۔ ہر مذہب میں روزے کی تعلیم پائی جاتی ہے۔ روزوں کی شکل میں فرق ہے۔ ہندو ؤں میں اُس زمانہ کے حالات اور مشکلات کو دیکھ کر یہ روزہ قرار دیا گیا کہ چولھے کی پکی ہوئی چیز نہیں کھانی ، کوئی مادی اور ٹھوس چیز نہیں کھانی۔ ہاں اگر کوئی ہلکی پھُلکی چیز ہو اور وہ کھا لی جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اُس زمانہ میں لوگ جنگلات میں رہتے تھے اور غیر محفوظ تھے۔ دُشمن اور جانوروں کے اچانک حملہ کا اِنہیں مقابلہ کرنا پڑتا تھا اِس لئے روزوں میں کھانا بالکل بند نہ کیا گیا تاکہ ان کی طاقت بحال رہے اور انسان کمزور نہ ہونے پائے۔ اُس وقت شہر نہیں تھے اور نہ ہی مقرر شُدہ راستے تھے۔ دُشمن چوری چوری حملہ آور ہوتا تھا۔ مہذب مُلکوں میں تو راستے مقرر ہوتے ہیں اور خواہ دُشمن ہوں یا دوست اُن ہی راستوں کے ذریعہ آتے جاتے ہیں اِس لئے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے میں سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں لیکن پہلے زمانہ میں یہ سہولتیں نہیں تھیں۔ جس طرح جنگل میں ایک شکاری اچانک بندوق ہاتھ میں لے کر جانور کے سر پر پہنچ جاتا ہے اِسی طرح لوگ جنگلوں میں رہتے تھے تو دُشمن اُن پر اچانک حملہ آور ہو جاتا تھا اِس لئے روزوں میں یہ رعایت دی گئی کہ وہ ہلکی پھُلکی چیزیں کھا سکتے ہیں۔ گویا روزہ اُس وقت بھی موجود تھا ہاں اِس کی شکل بدلی ہوئی تھی۔ البتہ ہندوؤں میں کچھ روزے ایسے بھی تھے جن میں ہماری طرح کھانا پینا بالکل منع ہوتا تھا۔
پھر عیسائیوں میں بھی روزے پائے جاتے ہیں۔ کچھ روزے ایسے ہیں جن میں آدھے دن کا فاقہ ہوتا ہے یاویسے بعض پابندیاں لگا دی جاتی ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے کہ گوشت نہیں کھانا۔ اِسی طرح دوسرے مذاہب میں روزے پائے جاتے ہیں۔ اسلام نے ان روزوں کی شکل بدل دی ہے ورنہ روزہ اپنی ذات میں وہی ہے جو پہلے زمانوں میں تھا۔
پھر زکوٰۃ اور صدقہ ہے۔ یہ بھی ہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔ زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بعض پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں لیکن اصول ایک ہی رہے ہیں۔ عیسائیوں ، زرتشتیوں، یہودیوں، ہندوؤں اور دیگر سب مذاہب میں صدقہ اور زکوٰۃ پائے جاتے ہیں ہاں شکل اور تفصیل میں فرق آگیا ہے۔
پھر حج ہے یہ بھی قریباً ہر مذہب میں پایا جاتا ہے۔ عرب میں حج کرنے کا رواج تھا یہودی بھی بیت المقدس جاتے تھے۔ زرتشتی بھی ایسے مقدس مقامات پر جمع ہوتے تھے۔ ہندو بھی گنگا جمنا اور ہر دوار جاتے تھے۔ گویا حج ہر مذہب میں تھا لیکن اس کی شکل مختلف تھی۔
غرض توحید ہر زمانہ میں ایک تھی ۔ عبادت بھی وہی تھی صرف تفصیل میں کچھ فرق نظر آتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تک کسی نہ کسی رنگ میں اِس کا وجود پایا جاتا تھا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں یہ موٹے رنگ میں تھی اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اِس میں باریکی اور فلسفہ پیدا کر دیا۔
پھر چوری ہے۔ یہ بھی ہر مذہب میں بُری سمجھی جاتی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم تک سب نبیوں نے اس سے روکا ہے۔ پھر ہر نبی نے جھوٹ سے منع کیا ہے ہر نبی نے یہ کہا ہے کہ قتل مت کرو۔ قرآن کریم میں ہابیل اور قابیل کا قصّہ موجود ہے۔ اِن میں سے ایک نے دوسرے کو کہا کہ تم مجھے قتل نہ کرو کہ اِس سے اﷲ تعالیٰ ناراض ہو گا۔
غرض محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی یہی تعلیم پیش کی ہے۔ گویا اخلاقی تعلیم بھی اصولی لحاظ سے ہر زمانہ میں ایک سی تھی۔ پھر لین دین میں انصاف کے متعلق ہر نبی نے تعلیم دی ہے۔ پھر اسلام میں یا اسلام کے بعد جدید کیا چیز ہے کہ اس کا نام جدید رکھا جائے۔ جہاں تک اصول کا تعلق ہے وہ ایک ہی ہیں۔ اسلام نے کوئی نیا اصل پیش نہیں کیا بلکہ بعض لوگوں نے یہاں تک دھوکا کھایا ہے کہ اسلام محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے پہلے بھی موجود تھا۔ حالانکہ اِس کا صرف یہ مطلب ہے کہ پہلے زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کا حکم تھا۔ اِس لئے وہ مذہب اسلام کہلانے کے مستحق تھے لیکن اسلام کے عقائد اور مسائل کی تفصیل پہلے نہیں پائی جاتی تھی۔ یوں اصولی لحاظ سے اسلام نے بھی کوئی نئی چیز پیش نہیں کی۔ جدید چیز جو ہے وہ درحقیقت کام کی روح ہوتی ہے۔ اس کی شکل ہوتی ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد لوگ تعلیم کو بھُول جاتے ہیں اور اُن ذمہ داریوں سے جو اُن پر عائد ہوتی ہیں فاضل ہو جاتے ہیں۔ ان ذمہ داریوں کی طرف لوگوں کو توجہ پھرانے کے لئے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ لوگ تحریکیں کرتے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دُنیا میں تشریف لائے تو آپ نے فرمایا خدائے واحد سے محبت کے تعلقات پیدا کرو اور اس سے ملنے کی کوشش کرو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام دُنیا میں آئے تو اُنہوں نے بھی یہی کہا کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرو اور اُس سے ملنے کی کوشش کرو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے تو اُنہوں نے بھی یہی کہا کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرو اور اُس سے ملنے کی کوشش کرو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم میں کوئی جِدّت نہیں پائی جاتی۔ جِدّت صرف یہ تھی کہ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم کو بھُول چُکے تھے۔ گویا موسوی تعلیم ان کے قلوب سے مٹ چُکی تھی۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا چلو ہم کوئی نئی بات کریں تا لوگ اس طرف متوجہ ہوں۔ کُلُّ جَدِیْدٍ لَذِیْذً کے مطابق لوگ نئی آواز کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں اس لئے یہودیوں میں پھر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہو گئی۔ اُنہوں نے اپنے اندر محبتِ الٰہی کو پیدا کیا۔ خدا تعالیٰ کی عزت کو دوبارہ قائم کیا اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم پر دوبارہ عمل پیرا ہوئے۔ لیکن جب عیسائی بھی خدا تعالیٰ کی محبت کو بھُول گئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم کو اُنہوں نے پسِ پُشت ڈال دیا تو خدا تعالیٰ نے محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا۔ آپ نے محبتِ الٰہی کو دوبارہ قائم کیا لیکن مسلمان بھی چند صدیوں کے بعد رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کو بھُول گئے اور اُنہوں نے خدا تعالیٰ سے تعلقات منقطع کر لئے۔ اِس پر خدا تعالیٰ نے ان کی سُستی دُور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کھڑا کر دیا۔ گویا خداتعالیٰ کے لحاظ سے تو مذہب ایک ہی ہے لیکن بندوں کے لحاظ سے اس کی شکل بدلتی رہتی ہے کیونکہ وہ کچھ عرصہ کے بعد اس کو بھُول جاتے ہیں۔ خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے بھی یہی کہا تھا کہ جاؤ اور میرے بندوں کو میری طرف لاؤ۔ حضرت نوح علیہ السلام کو بھی یہی کہا تھا کہ جاؤ اور میرے بندو کو میری طرف لاؤ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی یہی کہا تھا کہ جاؤ اور میرے بندوں کو میری طرف لاؤ۔ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی یہی کہا تھا کہ جاؤ اور میرے بندوں کو میری طرف لاؤ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بھی یہی کہا تھا کہ جاؤ اورمیری بندوں کو میری طرف لاؤ اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی یہی کہا ہے کہ جاؤ اورمیرے بندوں کو میری طرف لاؤ۔ درحقیقت بات ایک ہی تھی لیکن وہ نئی تھی اُن لوگوں کے لئے جو خدا تعالیٰ سے غافل ہو گئے تھے اور اُس کی تعلیم کو بھُول گئے تھے۔ جیسے کسی نے اگر کوئی شہر بچپن میں دیکھا ہو پھر وہ بڑھاپے کے وقت اُس میں دوبارہ جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر پہلے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا اور وہ اُسے بالکل نیا معلوم ہوتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص غرض کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ غرض قیامت تک مقدم رہے گی اور باقی ہر چیز اس سے مؤخر رہے گی۔ جو لوگ اِس غرض کو بھُول جاتے ہیں وہ اِس دُنیا میں بھی ذلیل ہوتے ہیں اور اگلی زندگی میں بھی ذلیل ہوتے ہیں۔ اِس دُنیا میں انسانوں کے دو گروہ ہوتے ہیں۔ ایک گروہ وہ ہوتا ہے جو خداتعالیٰ کے برگزیدہ کو نہیں مانتا اور ایک وہ گروہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کو مانتا ہے۔ اب جو شخص اپنی غرضِ پیدائش کو بھُول جاتا ہے وہ دُنیا میں اس طبقہ کے لوگوں میں ذلیل ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کو مانتے ہیں اور جو نہیں مانتے ان میں ان کی ایک حد تک قدر ہوتی ہے لیکن اگلی زندگی میں وہ سب لوگوں کے سامنے ذلیل ہوتا ہے۔ اِسی طرح خداتعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے سامنے بھی وہ ذلیل ہوتا ہے۔ بسا اوقات دُنیا میں خداتعالیٰ کے برگزیدہ کو نہ ماننے والے زیادہ ہوتے ہیں اِس لئے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کامخالف یہ سمجھتا ہے کہ اس کی عزت زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ اسے اکثریت کی تائید حاصل ہوتی ہے۔
مولوی ثناء اﷲ صاحب ایک دفعہ قادیان آئے اور ایک بڑے جلسہ میں نعرہائے تکبیر میں اُنہوں نے کہا مَیں ایک نکتہ بیان کرتا ہوں۔ مرزا صاحب اور میرے درمیان آسان طریقِ فیصلہ یہ ہے کہ مرزا صاحب میرے ساتھ کلکتہ تک ٹرین میں چلیں۔ کلکتہ تک سینکڑوں اسٹیشن ہیں ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں اُنہیں پتھر پڑتے ہیں یا مجھے، اور پھول مُجھ پر برسائے جاتے ہیں یا اُن پر ۔ کلکتہ تک جاتے ہوئے اِس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ مسلمان کس کی تائید میں ہیں۔ جماعت کے دوست گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور اُنہوں نے کہا لوگوں پر بڑا اثر ہؤا ہے اور وہ اُس وقت سخت جوش میں ہیں۔ شام کو میری تقریر تھی۔ مَیں نے کہا مولوی ثناء اﷲ صاحب نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ سچا کون ہے صرف فرق یہ ہے کہ اُنہوں نے نتیجہ از خود نکال لیا ہے۔ اگر نتیجہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا نکلا ہؤا ہے تو اچھا ہے۔ مَیں نے کہا مولوی ثناء اﷲ صاحب نے کہا ہے کہ مرزا محمود احمد میرے ساتھ کلکتہ چلیں ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں پھُول کس پر برستے ہیں اور پتھر کس پر پھینکے جاتے ہیں۔ مَیں نے کہا مولوی صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جس پر پھُول پڑیں گے وہ سچا ہو گا۔ حالانکہ نتیجہ نکالنا اِن کا کام نہیں تھا۔ ہم سے پہلے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابو جہل گزر چکے ہیں۔ مولوی صاحب خود بتادیں کہ مکّہ میں پتھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو پڑا کرتے تھے یا ابو جہل کو؟ اور پھُول ابو جہل کو پڑا کرتے تھے یا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو؟ اور اگر پتھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو پڑا کرتے تھے اور پھُول ابو جہل پر برسائے جاتے تھے تو نتیجہ ظاہر ہے کہ جس پر پتھر پڑیں گے وہ سچا ہے اور جس پر پھُول برسائے جائیں گے وہ جھوٹا ہے۔ غرض کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گندی حالت کی وجہ سے اکثریت اُن لوگوں کی ہو جاتی ہے جو دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں۔بد اخلاقی اور بے دینی کی ایک رَو چل پڑتی ہے۔ جس طرح اِس زمانہ میں احراری ہیں۔ اِنہیں ہزاروں آدمی میسّر ہیں جن میں وہ کھڑے ہو کر نعرے لگاتے ہیں، جلوس نکالنے کے لئے انہیں ہزاروں لوگ مل جاتے ہیں۔ ہماری طرف سے اگر کوئی دھتکارا جاتا ہے تو وہ اسے سٹیج پر کھڑا کرکے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عزت اِسی جھوٹ میں ہی ہے اور بظاہر وہ معزز نظر آتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک عزت اُس کو ملتی ہے جو صداقت شعار ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی تعلیم کا پیرو ہوتا ہے اور راستبازوں کے نزدیک بھی وہی سچا ہوتا ہے لیکن اِس دُنیا میں بظاہر جھوٹ بولنے والے مؤیّدین کی اکثریت کی وجہ سے اپنے آپ کو معزز سمجھتے ہیں۔
ایک دفعہ میرے پاس دیو بند کے دو طالب علم آئے۔ اُنہوں نے کہیں سے یہ سُن لیا تھا کہ مَیں نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ میرے پاس کچھ اَور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دونوں طالب علم بھی آکر بیٹھ گئے اور ان میں سے ایک جو زیادہ تیز معلوم ہوتا تھا اُس نے کہا آپ کہاں تک پڑھے ہوئے ہیں؟ مَیں سمجھ گیا کہ وہ گستاخ ہے۔ مَیں نے کہا مَیں نے کچھ نہیں پڑھا۔ اُس نے کہا پھر بھی آپ کِس مدرسے میں پڑھے ہیں؟ مَیں نے کہا اگر مَیں پڑھا ہوتا تو مَیں پہلے ہی بتا دیتا۔ وہ کہنے لگا کیا آپ ہندوستان یا پنجاب کے کسی سکول کے فارغ التحصیل نہیں ہیں؟ مَیں نے کہا مَیں نے ایک دفعہ واضح کر دیا ہے کہ جس چیز کو آپ پڑھائی خیال کرتے ہیں وہ مَیں نے کہیں سے بھی حاصل نہیں کی۔ جس وقت مَیں نے یہ کہا تو اس کے دوسرے ساتھی نے جو ذرا ہوشیار معلوم ہوتا تھا اُس کے گھٹنے کو چھُوکر چُپ کرانے کی کوشش کی لیکن چونکہ وہ جوش میں تھا چُپ نہ ہؤا۔ اُس نے کہا اِس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ بالکل اَن پڑھ ہیں۔ مَیں نے کہا آپ کی گفتگو کی بنیاد اِس بات پر تھی کہ مَیں کس مدرسہ میں پڑھا ہوں اور کس نصاب کو مَیں نے پاس کیا ہے؟ سو مَیں نے کوئی سکول یا نصاب پاس نہیں کیا۔ مَیں نے وہی تعلیم حاصل کی ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے حاصل کی تھی اور آگے اپنے متبعین کو دی اور وہ قرآن ہے۔ اب آپ فیصلہ کر لیں کہ کیا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم (نعوذ باﷲ) جاہل تھے یا عالم۔ بے شک جو درجہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو حاصل ہے وہ بہت بلند ہے۔ ہم دونوں ایک ہی کتاب پڑھنے والے ہیں۔ چنانچہ میرے اِس جواب پر وہ خاموش ہو گیا۔ غرض بعض دفعہ انسان جھوٹی خوشی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کے نزدیک جب تک کسی نے سُلْم، الشَمس البازغہ، شروح کافیہ و شروح شافیہ اور سیبویہ اور ہدایہ اور شافی وغیرہ کتب نہ پڑھی ہوں وہ عالم نہیں کہلا سکتا۔ علماء سب تفاسیر تو نہیں پڑھے ہوتے ہاں اُنہوں نے بیضاوی کے چند سیپارے پڑھے ہوتے ہیں اور اِس کا نام وہ علم رکھتے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانہ میں نہ منطق تھی نہ فلسفہ صرف قرآن ہی قرآن تھا۔ پھر آپ ؐ نے کیا پڑھا تھا؟ صرف قرآن کریم اور قرآن کریم اخلاق، علم النفس ، فلسفہ اور منطق سب کچھ پیش کرتا ہے لیکن لوگ چاہتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ سے ہٹ کر بندوں کی طرف مائل ہو جائیں۔ اگر یہ کہیں کہ مَیں فلاں کتاب پڑھا ہوں جو مصنفہ خدا تعالیٰ ہے تو یہ بات اُنہیں تسلی نہیں دیتی۔ اُنہیں یہ بات تسلی دیتی ہے کہ کس نے وہ کتاب جو مصنفہ بیضادی ہے پڑھی ہو مصنفہ خدا تعالیٰ ان کے نزدیک کوئی چیز نہیں۔ اور جب انہیں ایسی باتوں کا پتہ لگتا ہے یعنی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم بیضادی پڑھے ہوئے ہیں اور فلاں نے بیضادی نہیں پڑھی تو بہت خوش ہوتے ہیں۔ عیسائی بھی یہ شور مچاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بائیبل اور عبرانی نہیں جانتے تھے اِس لئے جو قصّے جھوٹے تھے وہ اُنہوں نے قرآن کریم میں درج کر دیئے ہیں سچّے قصّے اُنہوں نے درج نہیں کئے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک جو قصّے قرآن میں بیان نہیں ہوئے وہ اِس قابل نہیں تھے کہ قرآن کریم میں بیان ہوتے۔ لیکن بعد میں آنے والے مسلمانوں نے ان قصّوں کو بھی نہ چھوڑا جن کو قرآن کریم نے چھوڑ دیا تھا اور اُنہوں نے وہ سب قصّے تفسیروں میں بھر دیئے اور لکھ دیا کہ فلاں روایت یوں آتی ہے اور فلاں روایت یوں آتی ہے۔ یہ باتیں بالکل ایسی ہی ہیں جیسے کوئی نجاست پھینکے تو دوسرا شخص اُسے قبول کرے۔ غرض یہ چیزیں کمزوروں کے لئے تو کچھ اثر رکھتی ہیں لیکن طاقتور کے لئے یہ کوئی چیز نہیں۔ ہماری جماعت میں بھی جو کمزور تھے اُن کے دِل خائف تھے۔ جب ہم قادیان سے نکلے تو اُنہوںنے خیال کر لیا کہ اب سلسلہ کمزور ہو جائے گا لیکن ہمارے دل میں قادیان سے نکلنے کے بعد اَور زیادہ ایمان پیدا ہؤا اور اگر ہمیں خدانخواستہ یہاں سے بھی نکلنا پڑے تو اِس سے ہمارے ایمان میں اَور بھی زیادتی ہو گی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم جتنا نیچے گریں گے اُنتا ہی زیادہ اُبھریں گے اور اگر ہمیں دُشمن مٹا ڈالے گا تو پھر خدا تعالیٰ کوئی بہت بڑا معجزہ دکھائے گا اور ہمیں اس کے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ طاقت عطا کرے گا۔ غرض یہ ابتلاء اور مصائب ایماندار کے لئے کوئی چیز نہیں۔ ہاں کمزور اس سے خائف ہو جاتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ دُشمن سے لڑائی کی کبھی خواہش نہ کرو جس کے معنے یہ ہیں کہ ابتلاؤں اور مصائب کی دُعا نہ کرو۔ہمیشہ دُعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں ان سے محفوظ رکھے لیکن باوجود اس کے مومن کا حوصلہ اتنا بلند ہونا چاہئے کہ ساری دُنیا بھی مقابلہ پر آئے تو جسم میں لرزہ پیدا نہ ہو۔ جب تک یہ چیز انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر لیتا اُس کا یہ خیال کر لینا کہ وہ مأمور کی جماعت میں داخل ہے اُسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ ہمارے رستہ میں کانٹے ہی کانٹے اور قربانیاں ہی قربانیاں ہیں۔ اگر ہم یہ خیال کر لیں کہ ہم پر کوئی مصیبت اور ابتلاء نہیں آئے گا تو یہ ہماری کمزوری ہو گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے میری جماعت میں شامل ہونا پھُولوں کی سیج پر چلنا نہیں بلکہ کانٹوں پر چلنا ہے۔ اگر تم نازک بدن ہو اور کانٹوں پر چلنا برداشت نہیں کر سکتے تو کہیں اَور چلے جاؤ۔ ہم احراریوں سے جو ہمیں ہر وقت مارنے کے لئے تدابیر کرتے رہتے ہیں نہیں ڈرتے۔ ہم تم سے ڈرتے ہیں۔ ہم اُس شخص سے ڈرتے ہیں جو ہمارے ساتھ چل پڑتا ہے اور پھر تلواروں سے ڈرتا ہے۔ ایسا شخص ہمیں کمزور کر سکتا ہے۔ احراریوں کے مقابلہ میں تو ہمارا ایک ایک احمدی ان کے دس دس ہزار آدمی سے زیادہ طاقتور ہے۔
غرض منافقت سب سے زیادہ خطرناک چیز ہے مگر لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ منافق خود بھی اپنے آپ کو منافق سمجھتا ہے حالانکہ یہ درست نہیں۔ منافق اپنے آپ کو مومن ہی سمجھتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اُس کے کام بھی مومنوں والے ہیں یا نہیں؟ صرف اپنے آپ کو مومن کہہ دینا مومن بننے کے لئے کافی نہیں مومن قربانی میں ہمیشہ آگے بڑھتا ہے اور پھر افسوس کرتا ہے مَیں نے اِس قدر قربانی نہیں کی جس قدر کرنی چاہئے تھی۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں نِیَّۃُ الْمُؤْ مِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ۔ ۱؎ شرّاحِ حدیث نے تو اس کی عجیب و غریب تفسیر کی ہے لیکن اس کی سیدھی سادھی تفسیر یہی ہے کہ مومن کا نیک کام کرنے کا ارادہ اُس کے عمل سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے۔ وہ اگر چھ نمازیں یعنی پانچ فرض اور چھٹی تہجد کی نماز پڑھتا ہے تو ساتھ ہی یہ ارادہ کرتا ہے کہ مَیں ان سے زیادہ نمازیں پڑھوں۔ وہ جس قدر نیک عمل کرتا ہے اُس سے بڑھ کر نیک عمل کرنے کی نیّت کرتا ہے۔ وہ اگر ایک روپیہ چندہ دیتا ہے اور خواہش یہ رکھتا ہے کہ ہو سکے تو وہ دو روپیہ چندہ دے اور اگر دو روپیہ چندہ دیتا ہے تو وہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ اڑھائی روپے چندہ دے۔ غرض مومن کی نیّت اُس کے عمل سے زیادہ ہوتی ہے لیکن تم میں سے بعض کی یہ حالت ہے کہ وہ قربانی کرتے وقت سوچنے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے یہ قربانی کی تو فلاں خرچ کہاں سے پورا کریں گے۔ جب تمہارا بچہ بیمار ہو جاتا ہے اُسے ٹائیفائڈ یا ہیضہ ہو جاتا ہے تو کیا تمہاری اُس وقت کی قربانی اور دین پر حملہ کے وقت کی تمہاری قربانیاں ایک سی ہیں؟ اگردونوں مواقع پر تمہاری قربانیاں ایک سی ہیں تب تو کوئی بات ہے لیکن تم اگر اپنے بچہ کی بیماری کے وقت تو اپنا لحاف اور پگڑی بھی بیچنے پر تیار ہو جاتے ہو اور اُس سے علاج کے اخراجات پورے کرتے ہو اور جب دین کی خاطر قربانی کرنے کا وقت آتا ہے تو تم بہانے بنانے لگ جاتے ہو تو تم کیسے مومن ہو۔ تمہارا یہ کہہ دینا کہ تم مومن ہو تمہیں مومن نہیں بنا سکتا اور تمہاری یہ دلیل درست نہیں ہو سکتی کہ تم اپنے آپ کو منافق خیال نہیں کرتے بلکہ مومن خیال کرتے ہو۔ تم مومن ہو یا منافق اِس کا فیصلہ خدا تعالیٰ نے کرنا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے کہیں نہیں فرمایا کہ منافق یہ کہتا ہے کہ مَیں منافق ہوں مومن نہیں ہوں۔ وہ کہتا یہی ہے کہ مَیں مومن ہوں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ منافق کی یہ علامت ہے کہ وہ موقع پر جھوٹ بولتا ہے۔ غصّہ آئے تو گالیاں دینے لگ جاتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے جھوٹا کرتا ہے اور جب اُس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اُس میں خیانت کرتا ہے۔۲؎ اب دیکھ لو ان میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ کہیں نہیں کہا کہ منافق اپنے آپ کو منافق سمجھتا ہے وہ اپنے آپ کو مومن سمجھتا ہے لیکن موقع پر جھوٹ بولتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو مومن سمجھتا ہے لیکن غصّہ آنے پر گالیاں دینے لگ جاتا ہے۔ اور وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا (جیسے کہ کمزور وعدہ کرنے والے تحریک کے دفتر سے معاملہ کر رہے ہیں) اور جب اُس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اُس میں خیانت کرتا ہے۔ یہ وہ فیصلہ ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے منافق کے متعلق فرمایا ہے اب جو شخص اِس کے خلاف منافق کی تعریف یہ کرتا ہے کہ منافق وہ ہے جو اپنے آپ کو منافق کہتا ہے یا سمجھتا ہے اُس کی مثال درحقیقت اُس پٹھان کی سی ہے جس نے فقہ کی کتاب ’’قدوری‘‘ یا ’’کنز‘‘ پڑھی (پٹھان فقہ بہت پڑھتے ہیں) اور فقہ میں پڑھا کہ حرکتِ قلیلہ بھی نماز کو توڑ دیتی ہے۔ پھر اُس نے ایک دن حدیث میں پڑھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے روتے ہوئے بچہ کو گود میں اُٹھا لیا تو کہنے لگا۔ خو! محمد ؐ صاحب کا نماز ٹوٹ گیا۔ کسی دوسرے شخص نے کہا نماز تمہیں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بتائی ہے پھر تم کون ہو یہ کہنے والے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حرکت سے نماز ٹوٹ گئی۔ پس فیصلہ تو خدا اور اُس کے رسول نے کرنا ہے تم خود اپنے آپ کو مومن سمجھ لو تو یہ درست نہیں ہو سکتا۔ مومن اور منافق میں یہ فرق ہے کہ مومن ہر ضرورت کے وقت قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور اُس کی نیت عمل سے بڑھتی جاتی ہے۔ یعنی وہ قربانی کرتا ہے لیکن اُس کا نفس کہتا ہے کہ یہ قربانی تھوڑی ہے مَیں اور قربانی کروں۔ اور پھر وہ ان بوجھوں کو برداشت کرتا ہے جو اس کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ جو وعدہ کرتا ہے اسے ضرور پورا کرتا ہے۔
مَیں نے کئی دفعہ سُنایا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات کے بعد منشی اروڑے خان صاحب ایک دفعہ قادیان آئے۔ آپ پہلے منشی تھے بعد میں ترقی کر کے تحصیلدار ہو گئے تھے۔ اُس زمانہ میں منشی کی تنخواہ سات آٹھ روپیہ ہوتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت کی وجہ سے وہ ہر اتوار قادیان آتے۔ منشی صاحب کپورتھلے کے تھے اور اُن کا گاؤں قادیان سے پچیس چھبیس میل کے فاصلے پر تھا۔ وہ پیدل چل پڑتے اور رستہ میں کہیں دو پیسے یا آنہ دے کر تانگہ پر بیٹھ جاتے اور پھر پیدل چل پڑتے۔ آٹھ دس روپے تنخواہ کے لحاظ سے جو وہ جمع کر سکتے جمع کرتے اور جب قادیان آتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بطور نذرانہ پیش کر دیتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات سے کچھ دیر قبل یا وفات کے کچھ دیر بعد وہ تحصیلدار ہو گئے اور اُن کی تنخواہ بھی بڑھ گئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے چھ سات ماہ بعد وہ قادیان تشریف لائے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل سے کہنے لگے مجھے ایک رُقعہ لکھ دیں مَیں نے میاں صاحب سے ملنا ہے۔ اُس وقت خلیفہ تو آپ ہی تھے لیکن آپ نے پھر بھی ایک رُقعہ بطور سفارش مجھے لکھ دیا اور وہ رُقعہ اُنہوں نے اندر بھیجا اور مَیں باہر آگیا۔ اُنہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مصافحہ تک اُنہوں نے اپنے جذبات پر قابو رکھا۔ اُن کے ہاتھ میں کچھ نقدی تھی۔ اُنہوں نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا اور رونے لگ گئے۔ اُن کی حالت ایسی تھی جس طرح کسی بکرے کو ذبح کیا جاتا ہے۔ میری عمر چھوٹی تھی اور مَیں حیران تھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہ رو رہے ہیں۔ آٹھ دس منٹ کے بعد اُنہوں نے بولنا شروع کیا لیکن پھر بھی وہ متواتر نہیں بول سکتے تھے۔ آدھا فقرہ کہتے اور رونے لگ جاتے۔ پھر ایسا کرتے۔ آٹھ دس منٹ میں جو فقرہ اُنہوں نے مکمل کیا وہ یہ تھا کہ مَیں ہمیشہ خیال کرتا تھا کہ کتنی دیر کے بعد خدا تعالیٰ نے اُمت کی التجاؤں کو سُنا ہے اور اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے۔ مَیں دیکھتا تھا کہ لوگ اپنے پِیروں کو سونا پیش کرتے ہیں اور آپ ؑ کی شان تو اُن سے بہت زیادہ ہے۔ میری خواہش تھی کہ مَیں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں سونا پیش کروں لیکن زیادہ دیر انتظار نہیں کیا جاسکتاتھا۔ جو رقم جمع ہوتی مَیں وہ یہاں آکر پیش کر جاتا۔ آخر وہ وقت بھی آگیا کہ خدا تعالیٰ نے میری تنخواہ بڑھا دی اور اُس نے توفیق دی کہ سونا جمع کر کے میں اپنی خواہش کو پورا کر سکوں لیکن جب یہ وقت آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فوت ہو گئے۔ یہ فقرہ کہا ہی تھا کہ ان کی چیخ نکل گئی۔ پھر وہ کچھ سنبھلے اور کہا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس دُنیا میں تھے تو مجھے سونا میسّر نہیں تھا اور جب سونا میسّر آیا تو آپ اس دُنیا سے رُخصت ہو گئے۔ اُن کے ہاتھ میں اُس وقت پانچ یا سات اشرفیاں تھیں وہ اُنہوں نے مجھے دیں اور کہا یہ اب حضرت (خلیفۃ المسیح) کو دے دی جائیں۔
وہ لوگ بھی انسان تھے جنّات نہیں تھے وہ بھی تمہارے جیسے مرد تھے فرشتے نہیں تھے، اُن کو بھی کھانے پینے کی ضرورت تھی، اُن کے ساتھ بھی دُنیاوی حوائج لگی ہوئی تھیں لیکن ان کے اندر ایمان کا شعلہ بھڑک رہا تھا اور وہ قربانی کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ خواہ ہم ننگے رہیں لیکن خدا تعالیٰ کا بلند کیا ہؤا جھنڈا اُونچا رہے لیکن تم ان سے کئی گُنا زیادہ ہو چکے ہو۔ تم احمدیت سے جو لذّت حاصل کر رہے ہو یہ لذّت وہ حاصل نہیں کرتے تھے۔ اُس وقت احمدیوں کی تعریف کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ اُس وقت ابھی مرکز کی بنیاد رکھی جا رہی تھی۔ جیسے مکڑی اپنا جالا بُنتی ہے لیکن یہ کہ وہ دُور دُور ممالک میں نکل جائیں، تبلیغ کریں اور عیسائیوں اور ادنیٰ اقوام کو مسلمان بنائیں اور اِس طرح اسلام کا جھنڈا بلند کریں یہ چیز انہیں حاصل نہیں تھی۔ یہ چیز اب تمہیں نصیب ہوئی ہے۔ اِس لئے کہ تم نے تحریک جدید میں دو دو، چار چار، سَوسَو، دو دو سَو روپے دیئے ہیں اور اس خرچ سے باہر مبلّغ بھیجے جاتے ہیں اور وہ دوسری اقوام میں تبلیغ کرتے ہیں۔ جب تمہیں احراری یا اس قسم کے دوسرے لوگ گالیاں دے رہے ہوتے ہیں تو اُن میں سے ایک آدمی کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے چاہے تم انہیں گالیاں دو لیکن اسلام کی صحیح خدمت یہی لوگ کر رہے ہیں۔
پس چاہئے تو یہ تھا کہ ہر احمدی اس تحریک میں شامل ہوتا اور پھر ہر سال آگے نکلنے کی کوشش کرتا اور اپنے وعدہ کو پورا کرتا لیکن حالت یہ ہے کہ بجٹ وہی ہے۔ بجٹ میں جو ۱۲ لاکھ روپیہ کی رقم دکھائی گئی ہے اِس میں بیرونی مُمالک کی رقوم بھی شامل ہیں جو پہلے بجٹ میں شامل نہیں کی جاتی تھیں۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ اصلی بجٹ بھی پہلے سے ۵۰،۶۰ ہزار زیادہ ہے لیکن ہر سال پانچ سات ہزار کا خرچ بڑھ جانا معمولی چیز ہے۔ اعتراض تب تھا جب مقامی اخراجات زیادہ بڑھ جاتے لیکن صورت یہ ہے کہ بجٹ بڑھا نہیں لیکن باوجود اس کے کہ بجٹ وہی ہے ساری آمد پہلے تین ماہ میں خرچ ہو جاتی ہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ اخراجات کا بجٹ زیادہ ہو گیا ہے بلکہ یہ اس لئے ہے کہ جماعت میں سے ایک حصّہ سُست ہو گیا ہے۔ پچھلے سال بھی مجھے بار بار توجہ دلانی پڑی اور میرے بار بار توجہ دلانے پر جماعت سنبھل گئی لیکن یہ سال پچھلے سال سے بھی بدتر ہے۔ پچھلے سال اِس وقت تک ایک لاکھ اٹھارہ ہزار روپیہ وصول ہو چُکا تھا اور وہ سال اتنا خراب تھا کہ کئی دن بغیر کسی آمد کے گزر جاتے تھے۔ اس سال باوجود اِس کے کہ احباب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ وقت پر وعدہ ادا کریں گے اور قربانی پیش کریں گے صرف ایک لاکھ ۱۲ ہزار پانسو روپیہ کی آمد ہوئی ہے۔ گویا تحریک جدید کے لحاظ سے جو سال تاریک اور بُرا تھا ، یہ سال اُس سے بھی زیادہ تاریک اور بُرا ہے۔ اِن حالات میں جو لوگ وعدہ پورا کرنے میں سُستی کر رہے ہیں اُن کا کیا حق ہے کہ وہ کہیں کہ ہم وہ جماعت ہیں جس نے اسلام کو تمام دُنیا پر غالب کرنا ہے۔ اگر وعدے نہ کرتے تو اِس سے بہتر تھا کہ وہ وعدے کر کے انہیں پورا نہیں کر رہے۔ اصل بات تو یہی تھی کہ وہ بھی وعدے کرتے اور دوسرے احمدی بھی وعدے کرتے اور پھر ان کو جلد سے جلد ادا کرتے۔ تحریک جدید کے قواعد کے ماتحت اپنے ماحول کو اور اپنے اخراجات کو ایسا بناتے کہ وہ قربانی کر سکتے۔ مگر اِس سے اُتر کر یہ مقام تھا کہ وہ کہہ دیتے کہ ہم اِس بوجھ کو نہیں اُٹھا سکتے۔ تم ہنستے ہو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر کہ اُنہوں نے وقت پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا۳؎کہ جاؤ تُو اور تیرا ربّ لڑتے پِھرو ہم یہاں بیٹھے ہیں ۔ مگر وہ لوگ ان سے اچھے تھے جنہوں نے تحریک کے وعدے کر دیئے اور وقت پر پورا کرنے کی کوشش نہ کی کیونکہ اُنہوں نے اپنے نبی سے سچ سچ کہہ دیا کہ ہم تمہارے ساتھ مل کر دُشمن سے نہیں لڑسکتے۔ اُنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دھوکا نہیں دیا ۔ اگر پچاس ساٹھ ہزار آدمی اُن کے ساتھ مل جاتا اور پھر دُشمن کے مقابل پر آکر بھاگ جاتا تو یہ زیادہ خطرناک تھا۔ مَیں اگر اکیلا باہر نکلوں گا تو مَیں اپنی طاقت کے مطابق سکیم تیار کروں گا لیکن اگر پچاس ساٹھ آدمی کا جتھا میرے ساتھ دُشمن کے ساتھ لڑنے کے لئے نکل کھڑا ہو اور جب دُشمن سامنے آجائے تو وہ بھاگ کھڑا ہو تو اِس سے وہ کام جس کے لئے ہم باہر نکلے تھے پورا نہیں ہو سکتا بلکہ خود امام کی جان خطرہ میں پڑ جاتی ہے۔ پس اگر اِن لوگوں میں روحانیت ہوتی، اگر ان میں ایمان ہوتا، اگر شرافت ہوتی تو وہ اپنے وعدوں کو جلد ادا کر دیتے۔ اِس سال سے پہلے دو لاکھ اسّی ہزار تک بھی وعدے ہوتے رہے ہیں اور وہ پورے ہوتے رہے ہیں لیکن اِس سال دو لاکھ سینتالیس ہزار روپے میں سے صرف ایک لاکھ بارہ ہزار پانچ صد روپے وصول ہوئے ہیں۔ یہ کیا کمال ہے جس کا دعویٰ کرتے ہوئے تم میں سے بعض کے مُنہ سے جھاگ آنے لگتی ہے۔ ان لوگوں نے اپنے اندر کافروں والی دلیری ہی کیوں پیدا نہ کر لی کہ یہ کہہ دیتے کہ جاؤ ہم تمہارے ساتھ مل کر کام نہیں کرتے جس سے کم سے کم یہ پتہ تو لگ سکتا کہ میرے ساتھ کتنے آدمی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس سے سویں حصّہ سے کام لے لیا تھا۔ اگر پہلے دن ہی یہ معلوم ہو جاتا کہ ہمارے ساتھ کام کرنے والے تھوڑے ہیں تو ہم کام کی نوعیت بدل دیتے اور بجائے مرکز قائم کرنے کے ہم خود ہی باہر نکل جاتے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہتے۔ لیکن اب شروع سال میں تو اُنہوں نے وعدے کئے کہ ہم قربانی کریں گے پیچھے نہیں ہٹیں گے مگر موقع پر آکر دھوکا دے دیا۔ اوّل تو وعدے بھی بعض کے اپنی شان سے کم ہوتے ہیں اور بعد میں عین وقت پر ایسے لوگ بھاگ جاتے ہیں۔ اگر وعدہ پورا نہیں کرنا تھا تو پھر وعدہ ہی کیوں کیا تھا۔ اُنہوں نے کیوں اپنا ایسا ماحول پیدا نہ کر لیا کہ جس سے وعدہ ادا کرنے میں سہولت ہوتی۔
آج سے پندرہ سال پہلے جب تحریک جدید شروع ہوئی تو اس وقت کے لوگ زیادہ چُستی کے ساتھ ادائیگی کرتے تھے۔ اُس وقت ایک چپڑاسی کی تنخواہ ۱۲،۱۳ روپے تھی اور اب چالیس روپے کے قریب ہے۔ اگر آج سے ۱۰،۱۵ سال قبل وہ ۱۳ روپے میں سے پانچ روپے سالانہ دے سکتا تھا تو وہ آج کیوں پانچ روپے نہیں دے سکتا۔ یہ صرف اِس لئے ہے کہ آج سے دس پندرہ سال پہلے تحریک جدید میں حصّہ لینے والا یہ سمجھتا تھا کہ ان پانچ روپوں پر میری آئندہ روحانی زندگی کا دارومدار ہے اور وہ شروع سال سے ہی ان کی ادائیگی کی فکر کر لیتا تھا۔ اب چالیس روپے تنخواہ والا آدمی بیٹھا رہتا ہے اور خیال کر لیتا ہے کہ پانچ روپے میں کونسی جلدی ہے جلد ادا کر لوں گا۔
مَیں نے پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کیا ہے جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جنگ تبوک کے لئے باہر تشریف لے گئے اُس وقت تین صحابہ ؓ سے سُستی ہو گئی تھی اور وہ اس جنگ میں شریک نہیںہو سکے تھے۔ اُنہوں نے خیال کر لیا تھا کہ ہمیں کونسی جلدی ہے۔ روپیہ پاس ہے جب چاہیں گے تیاری کر لیں گے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ مل جائیں گے۔ وہ اِسی طرح کرتے رہے حتّٰی کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم بہت دُور نکل گئے اور وہ صحابہ ؓ آپ کے ساتھ نہ مل سکے۔ اگر تم پہلے دن سے اپنے وعدے کی ادائیگی کی فکر کرتے تو اپریل مئی تک اپنے وعدے ادا کر لیتے۔ جو قربانی تم نے اب کمزور بن کر کرنی ہے تو تم نے اعلیٰ مومن بن کر ہی کیوں نہ کر لی۔ اب تم قربانی بھی کروگے اور کمزور کے کمزور بھی رہو گے لیکن اس سے پہلے یہی قربانی کرتے تو تم اعلیٰ مومن کہلاتے اور پھر وہ قربانی موجودہ قربانی سے کم ہوتی۔ قربانی کا اصل وقت وعدہ کے بعد کے پہلے چھ ماہ ہوتے ہیں۔ اگر تم اُس وقت وعدہ پورا کر لیتے تو اب چھاتی تان کر پھرتے کہ ہم نے تبلیغ کے لئے جس رقم کاوعدہ کیا تھا وہ ہم ادا کر چکے ہیں۔ اب سردیوں کا موسم آنے والا ہے کسی نے لحاف بنانا ہے، کسی نے سردیوں کے لئے کپڑوں کی مرمت کروانی ہے، جس پر کافی خرچ آئے گا اور پھر بچوں کے لئے اور اپنے لئے گرم کپڑے بنوانے ہیں۔ گرمیوں میں بستروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بستروں اور زیادہ کپڑوں کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے۔ مَیں اس دفعہ بعض وجوہات کی بنا پر کسی پہاڑ پر نہیں جاسکا۔ ساری گرمیاں یہیں رہا ہوں۔ مَیں نے مہینہ بھر قمیض نہیں پہنی۔ رات کو صرف تہہ بند باندھ کر سوتا رہا ہوں۔ کیونکہ سر سے پیر تک گرمی کے دانوں کی وجہ سے زخم پڑے ہوئے تھے۔ کھانا کھانا چاہتا تھا تو بھُوک محسوس نہیں ہوتی تھی لیکن سردیوں میں زیادہ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کھایا پیا اچھا جاتا ہے۔ پس اِس وقت تو آپ لوگوں کے سامنے سردیوں کے اخراجات آ چکے ہیں جو عام طور پر نومبر دسمبر تک ہوتے ہیں اِس کے بعد اِنسان اس بوجھ سے فارغ ہو جاتا ہے۔
پس قربانی کا بہترین وقت جنوری سے لے کر جون جولائی تک ہوتا ہے۔ خرچ کم ہوتا ہے اور زمینداروں کی دونوں فصلوں کی آمد اِس عرصہ میں آجاتی ہے اور پھر تازہ وعدہ کی وجہ سے دلوں میں جوش ہوتا ہے۔ جو اِس وقت کو گزار دیتا ہے وہ اپنے آپ کو وعدہ خلافی کے خطرہ میںڈال لیتا ہے۔ مَیں اِس بات کا اقرار کروں گا کہ یہ پہلا سال ہے جس میں میرا وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہؤا تھا لیکن اِس کی وجہ صرف یہ تھی کہ مَیں سمجھتا تھا کہ مَیں وعدہ پورا کر چُکا ہوں۔ قریباً ایک ماہ ہؤا کہ دفتر والوں نے مجھے یاددہانی کرائی۔ اِس پر مَیں نے انہیں کہا کہ تم نے اِس سے پہلے مجھے کیوں یاد نہ کرایا لیکن میں نے دفتر میں چیک دے دیا ہے کہ وہ تحریک جدید کو ادا کر دیں۔ معلوم نہیں کہ اُنہوں نے وہ چیک دے دیا ہے یا نہیں (بعد میں معلوم ہؤا کہ یہ چیک خزانہ میں پہنچ چُکا ہے) میری ہمیشہ ہی یہ کوشش رہی ہے کہ مَیں مارچ اپریل تک اپنا وعدہ ادا کر دوں۔ مارچ اپریل میں وعدہ کا پورا کرنا آسان ہوتا ہے اور انسان فارغ ہو کر اگلے سال کے متعلق سوچ بچار کرتا ہے اور اس کے لئے سکیمیں بنانا شروع کر دیتا ہے۔ اگر نئے سال کے وعدہ تک بوجھ سر پر رہے تو وقت آنے پرانسان بُزدل ہو جاتا ہے۔ ایک طرف بھُوک نہ لگنے کی وجہ سے طبیعت پریشان ہوتی ہے تو دوسری طرف شدّتِ گرمی اور تپ وغیرہ کے ساتھ جان نکل رہی ہوتی ہے۔ پھر سردی کے اخراجات کا فکر شروع ہو جاتا ہے اس طرح نئے وعدے تک انسان کی جان نکل جاتی ہے اور اُس کے لئے وعدے میں اضافہ کرنا مُشکل ہو جاتا ہے۔ اگر جنوری سے اگست تک وعدہ ادا کیا جاتا تو نئے وعدہ سے دس ماہ قبل وہ اَکڑ کر چلتااور نیا وعدہ بڑھ چڑھ کر کرتا۔ پہلے وعدہ ادا کرنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک لمباعرصہ بوجھ سے فارغ رہنے کی وجہ سے قربانی میں بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔
پس تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو۔ جماعت کے پاس روپیہ ہے۔ ہم نے تقسیمِ مُلک سے قبل جماعت کی ماہوار آمد کا اندازہ لگایا تھا تو وہ ۱۳لاکھ روپیہ کی تھی اور ابھی کئی وعدے وصول نہیں ہوئے تھے۔ اندازہ تھا کہ پندرہ سولہ لاکھ روپیہ ماہوار جماعت کی آمد ہے۔ اگر پندرہ سولہ لاکھ جماعت کی ایک ماہ کی آمد ہے تو اس کا اگر ۳۳ فیصد بھی دیا جائے تو ہمیں چھ لاکھ روپیہ مل سکتا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وصولی بہت کم ہے۔ تین لاکھ پچاس ہزار روپیہ کے کُل وعدے ہیں لیکن وصولی صرف ایک لاکھ بارہ ہزار کی دفتر اوّل میں ہوئی ہے اور دفتر دوم میں صرف ۳۰،۴۰ ہزار روپیہ وصول ہؤا ہے۔ اِس کی کام سے کوئی نسبت ہی نہیں۔
تمام دُنیا میں تبلیغ کرنا کوئی معمولی کام نہیں۔ تم پہاڑ کو خلالوں سے کھود نہیں سکتے۔ تم پھونکوں سے ہنڈیا پکا نہیں سکتے۔ تم تنکے پر بیٹھ کر دریا پار نہیں کر سکتے۔ تم نے جو کام کرنا ہے وہ نہایت عظیم الشان ہے۔ اتنے قریب وقت میں اتنے وسیع پیمانہ پر دُنیا کی کسی اور قوم نے کام نہیں کیا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں معلومہ دُنیا شام، فلسطین، عراق، مصر اور عرب تک محدود تھی۔ اب ہمارے مخاطب لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے۔ تمام دُنیا معلوم ہو چکی ہے اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے ذرائع آمد ورفت میں سہولت پیدا ہو گئی ہے۔ پہلی قوموں کے اگر دس پندرہ لاکھ انسان مخاطب ہوتے تھے تو ہمارے اڑھائی ارب انسان مخاطب ہوتے تھے تو ہمارے اڑھائی ارب انسان مخاطب ہیں۔ اب تمہیں پہلوں سے بہت بڑھ کر قربانی کرنا پڑے گی لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم پہلوں والی قربانی بھی نہیں کرتے۔ جب تک تم اپنی روح کو بدلو گے نہیں، جب تک تم اس طرح غسل نہیں لے لیتے جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے جاری کیا تھا۔ آپ نے بپتسمہ جاری کیا۔ آپ جسم پر پانی کا چھینٹا دیتے اور کہتے ’’لو اب تُو پاک ہو گیا ہے‘‘ بپتسمہ کا مطلب یہی تھا کہ جس طرح تمہیں ظاہری غسل دیا گیا ہے اور اِس سے تم پاک ہو گئے ہو اِسی طرح تم اپنی روح کو بھی غسل دو اور اُسے صاف کرو۔
پس جب تک تم اپنی روح میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے تم اس بوجھ کو اُٹھا نہیں سکتے۔ اگر تم نے وعدہ کر کے اُسے ادا نہیں کرنا تو تم پہلے سے ہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے۔ تم اس کا م میں شامل ہو کر اور وعدوں کی عدم ادائیگی سے جماعت کو نقصان پہنچا رہے ہو۔ آج سے سترہ سال قبل بھی تو کام ہو رہا تھا۔ اگرچہ وہ محدود تھا لیکن اُس وقت جماعت کا چندہ کہاں تھا۔ ہر زمانے کے مطابق انسان اپنی سکیم بناتا اور اس کے مطابق کام کرتا ہے لیکن اب سکیم بعض وعدہ کرنے والوں کے جھوٹے وعدوں کے مطابق بنائی جاتی ہے اِس لئے درمیان میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔ کل ہی ایک مبلّغ کی شکایت آئی ہے کہ مجھے چھ ماہ تک کوئی خرچ نہیں ملا۔ وہ مبلّغ جھوٹ نہیں بولتا۔ محکمہ بہانے بنائے گا گو واقعہ کا انکار نہیں کرے گا لیکن حقیقت یہی نکلے گی کہ روپیہ نہیں تھا۔ ویسے وہ بہانے بنائے گا اور دوسرے محکمہ کو لکھے گا کہ رپورٹ کرو۔ اِس پر دس پندرہ دن لگ جائیں گے۔ پھر تیسرے محکمہ کو لکھا جائے گا کہ ایسا کیوں ہؤا؟ اور اس کی رپورٹ آنے تک دس بارہ دن اور گزر جائیں گے۔ پھر اوپر کے محکمہ کو لکھا جائے گا کہ اب کیا کریں لیکن مبلغ وہاں اکیلا بیٹھا ذلیل اور رُسوا ہو رہا ہے۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ اُس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں کپڑے دُھلانے کے لئے پیسے نہیں، سفر کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں اور اُس کا دل بیٹھا جاتا ہے۔ پس تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور اگر تم نے اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرنی تو صاف کہہ دو کہ ہم کام نہیں کریں گے تاکہ ہم اس کے مطابق اپنی سکیم بدل دیں۔ خدا تعالیٰ نے انسان پر اتنی ذمہ داریاں ہی ڈالی ہیں۔ جتنے سامان اُسے مہیا کئے گئے ہیں۔ خدا تعالیٰ جو سامان مہیا کردیگا اُس کے مطابق ہم کام کرتے جائیں گے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ مخلصین کی جماعت اُس وقت آگے نکل آئے گی۔ مَیں نے اِس تحریک کا آغاز کرتے ہوئے ہی بتا دیا تھا کہ اس تحریک کی بنیاد روپے پر نہیں۔ اِس کی بنیاد قربانی پر ہے۔ اُس وقت کئی لوگ ہزاروں میل پیدل یا جہاز کے ڈیک پر یا ریل کا تھرڈ کا ٹکٹ لے کے باہر نکل گئے تھے۔
میرے نزدیک اس سُستی کی ذمہ داری صرف جماعت پر نہیں دفتر پر بھی ہے۔ نوجوان دفتروں میں آگئے ہیں اور اُنہیں ہوئی جہاز کے سفر کے سِوا کوئی بات سُوجھتی ہی نہیں۔ اِس کا بجٹ پر اثر پڑتا ہے۔ لیکن اس کے علاوہ جو کام اِس سے پہلے ایک وکیل اپنے ہاتھ سے کرتا تھا اُس کے لئے اب وہ ایک ایک دو دو کلرک مانگتا ہے۔ اِن چیزوں سے نقصان ہوتا ہے۔ دس بارہ سال تک جب تک کام میرے سپرد رہا اگر کوئی وکیل کہتا کہ مجھے ایک آدمی کی ضرورت ہے تو مَیں کہتا کہ تم بھی آدمی ہو، تم خود کام کرو۔ پہلے صرف دو آدمی تھے جن کے سپرد تحریک جدید کا کام تھا۔ مولوی عبدالرحمن صاحب انور عام کاموں کے سیکرٹری تھے اور چوہدری برکت علی خاں صاحب مال کے سیکرٹری تھے۔ پھر قریشی عبدالرشید صاحب آگئے اور یہ تینوں کام چلاتے رہے۔ اگرچہ بعد میں انہوں نے ایک ایک دو دو کلرک لے لئے تھے لیکن کام بہت سادہ تھا لیکن اب وہی محکمہ صدر انجمن احمدیہ کو چیلنج کر رہا ہے حالانکہ صدر انجمن احمدیہ کی آمد تحریک جدید کی آمد سے پانچ گُنے زیادہ ہے۔ نوجوان آئے اور اُنہوں نے مرکز کی اِس روح کو بدل ڈالا۔ عملہ بڑھایا جا رہا ہے پھر بھی کام میں دیر ہو جاتی ہے۔ پہلے سیدھے سادھے طور پر وہ کاغذات میرے پاس لاتے تھے۔ اب ہر جگہ شکایت ہے کہ کام کو لمبا کیا جاتا ہے۔ کئی دفعہ خود مجھے تین تین چارچار دفعہ کاغذ بھجوانے پڑتے ہیں پھر کہیں جواب آتا ہے۔ پہلی دفعہ کاغذ بھیجتا ہوں۔ چند دن کے بعد وہ سمجھتے ہیں شاید مَیں بھُول گیا ہوں گا۔ آخر مَیں بھی انسان ہوں۔ بعض دفعہ میں بھی بھُول جاتا ہوں۔ پھر دوبارہ کاغذ بھیجتا ہوں اور وہ کہتے ہیں ہم اس کا جواب بھیجتے ہیں۔ پہلے سُستی ہو گئی تھی اب نہیں ہو گی لیکن وہ کاغذ بھی پاس رکھ لیتے ہیں اور چند دن کے بعد یہ سمجھ کر کہ مَیں بھُول گیا ہوں گا بے فکر ہو جاتے ہیں۔ غرض مرکز میں بھی اب نقص پیدا ہو رہا ہے۔ وکلاء اُس معیار پر قائم نہیں جس معیار پر انہیں قائم ہونا چاہئے تھا۔ وہ ذاتی طور پر بہت کم کام کرتے ہیں اور دوسروں سے کام لینے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ساری عمر ہم نے خود کام کیا اور دفتر سے پتہ کیا جاسکتا ہے کہ میرے ہاتھ کا لکھا ہؤا روزانہ کتنا ہوتا ہے۔ بے شک اب نقرس کی وجہ سے مجھ سے لکھا کم جاتا ہے اور اکثر اوقات مَیں کسی دوسرے شخص سے لکھواتا ہوں لیکن یہ بیماری کی وجہ سے ہے۔ پہلے میں کتابیں بھی تصنیف کرتا تھا اور اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا۔ ڈاک پر نوٹ بھی میں خود لکھتا تھا۔ مِسلوں پر نوٹ بھی مَیں خود لکھتا تھا اور یہ کبھی نہیں ہؤا تھا کہ مَیں نے اِس کام کے لئے کوئی آدمی رکھا ہو۔ اب بھی شوق ہے کہ مَیں اُنگلیوں کو کام کی عادت ڈالوں اور پھر خود کام کرنا شروع کر دوں لیکن نقرس کی وجہ سے اُنگلیاں چلتی نہیں پھر بھی ہر ناظر اور وکیل سے زیادہ تحریر میری ہوتی ہے۔ بہرحال دفتر میں یہ نقص بھی ہے کہ وکلاء خود کام کم کرتے ہیں اورعملہ کو بڑھاتے جارہے ہیں لیکن اِس کا تعلق آمد سے نہیں صرف تحریک کی روح کی خلاف ورزی ہے۔ آمد سے تعلق تب ہوتا اگر وعدوں سے بجٹ کو بڑھا کر پیش کیا جاتا۔ مگر ایسا نہیں۔ خرچ کے بجٹ میں زیادتی ہوتی تو مرکزی انجمن ذمہ دار تھی لیکن واقعہ یہ ہے کہ آمد کم ہورہی ہے۔ چھ ماہ میں جہاں تین لاکھ روپیہ وصول ہو جاتا تھا وہاں اب ۹ ماہ میں صرف ڈیڑھ لاکھ روپیہ وصول ہؤا ہے۔ حالانکہ مُلک میں آمدنیں بڑھ رہی ہیں۔ جب سے پاکستان بنا ہے مُلک آزاد ہو جانے کی وجہ سے تجارت اور صنعت بڑھ گئی ہے جس کا ماہوار آمدنوں پر اثر پڑا ہے۔ سنٹرل گورنمنٹ نے اب جو گریڈ بنائے ہیں اُس پر دو کروڑ روپیہ زائد خرچ آئے گا اور جن لوگوں کے گریڈ بڑھے ہیں اُن میں احمدی بھی ہیں۔ پھر صوبائی حکومت نے بھی تنخواہوں میں زیادتی کی ہے اور مُلکی آزادی کی وجہ سے لوگوں کی آمدنیں بڑھ گئی ہیں۔ اِس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ چندے بڑھ جائیں۔وصیت کا محکمہ ہے وہاں یہ اجازت ہے کہ جب کوئی چاہے اپنی وصیت منسوخ کرا دے لیکن پھر بھی لوگ وصیت منسوخ نہیں کراتے اور چندہ بھی نہیں دیتے۔ جب اخراج از جماعت کی سزا ہوتی ہے تو چندہ ادا کرتے ہیں۔ حالانکہ سیدھا سادھا طریق یہ تھا کہ آمد کم ہو گئی ہے تو وصیت منسوخ کر الو اور جب حالات درست ہو جائیں تو پھر وصیت کر دو لیکن جماعت کے دوست اس اصول پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔ وہ ناجائز طریق اختیار کرتے ہیں۔ مَیں جماعت سے کہوں گا کہ جو لوگ کام کرنا نہیں چاہتے بہتر ہے کہ وہ الگ ہو جائیں۔ جن لوگوں کا اس تحریک میں حصّہ لینے کو جی نہیں چاہتا ہم ان کو بُرا سمجھتے ہیں لیکن وہ لوگ ان لوگوں سے اچھے ہیں جنہوں نے وعدہ کیا اور پورا نہ کیا۔ کم سے کم وقت پر اُنہوں نے ہمیں ہوشیار تو کر دیا۔
یہودیوں نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون عَلَیْھِمَا السلام ہوشیار ہو گئے اور انہوں نے ایک سکیم بنالی۔ اگر یہودی ان کے ساتھ ہو جاتے لیکن وقت پر بھاگ جاتے تو بوجہ نبی ہونے کے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام بھاگ تو نہیں سکتے تھے لازمی بات تھی کہ وہ کم سے کم مارے جانے کے خطرہ میں پڑ جاتے لیکن جب یہودیوں نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں جائیں گے تو اُنہوں نے ایک نئی سکیم بنا لی جس سے اُن کی جانیں بھی بچ گئیں اور کام بھی ہو گیا۔ لیکن اگر قوم انہیں عین وقت پر دھوکا دیتی تو اُن کی جانیں خطرہ میں پڑ جاتیں۔ مسلمان جنگِ حنین میں اپنی غلطی کی وجہ سے بھاگے اور ایک وقت ایسا آیا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس صرف ایک شخص رہ گیا یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا جس نے مدد کی اور آپ کو دُشمن کے نرغہ سے بچالیا لیکن جہاں تک ظاہری تدبیر کا سوال ہے اُس وقت جو صورت پیدا ہو گئی تھی اُس میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی شہادت یقینی تھی۔ خدا تعالیٰ نے ہی معجزہ دِکھلایا ورنہ بھاگنے والوں نے تو آپ کو دُشمن کے سپرد کر دیا تھا۔ اگر وہ ساتھ نہ جاتے تو خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو کوئی اَور تدبیر بتا دیتا جس سے آپ کی جان محفوظ رہتی اور طائف بھی فتح ہو جاتا۔آخر مدینہ بھی تو بغیر لشکروں کے فتح ہؤا تھا۔
پس تمہارے سامنے دونوں طریق موجود ہیں۔ زیادہ صحیح یہی ہے کہ ہر احمدی تحریک جدید میں حصّہ لے اور بڑھ چڑھ کر حصّہ لے۔ زندگی کو اتنا سادہ بنا لے کہ اس پر یہ قربانی دُوبھر نہ ہو اور تمام وعدے پہلے تین چار ماہ میں ہی ادا ہو جائیں۔ دوسرا مقام یہ ہے کہ تم بالکل انکار کر دو کہ ہم اس میں حصّہ نہیں لیں گے لیکن یہ سب سے خطرناک ہے کہ تم وعدہ کرو اور اُسے وقت کے اندر پورا نہ کرو۔ تم پہلے یہ چیز پوری طرح سمجھ لو اور پھر کام کرو۔ چاہئے کہ تم سب اِس میں شامل ہو جاؤ۔ اپنی زندگی کو سادہ بناؤ اور وعدے کو وقت کے اندر پورا کرو یا تم میں سے ایک حصّہ یہ کہہ دے کہ ہم آپ کے ساتھ اسلام کی جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے لیکن اگر تم وعدہ کرو اور پورا نہ کرو تو یہ منافق کا کام ہے تم اِس صورت میں خدا تعالیٰ کے سامنے کبھی بھی اپنی براء ت نہیں کر سکتے۔ تم خود سمجھ لو کہ اِن تینوں فریقوں میں سے تم کون سے فریق میں شامل ہو۔ جب تم وعدہ لکھاتے ہو تو کہتے ہو کہ خداتعالیٰ کے فضل سے ہم نے وعدہ لکھوا دیا ہے لیکن دل میں یہ کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے غضب کے ماتحت ہم نے اس وعدہ کو پورا نہیں کرنا۔ یہ کتنی خطرناک چیز ہے کہ ایک دوست کے سامنے جس کا تم پر کوئی تصرف نہیں وہ تمہیں اگلی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔ تم خوش ہونا چاہتے ہو لیکن خدا تعالیٰ کے سامنے تم اپنا مُنہ کالا کرتے ہو جس سے تمہارا ہر وقت کا واسطہ ہے۔ اِس سے بہتر تھا کہ تم ادنیٰ درجہ کے مومن بن جاتے اور منافقوں میں تمہارا شُمار نہ ہوتا۔ (الفضل ربوہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۵۱ئ)
۱؎ المعجم الکبیر جلد ۶ صفحہ ۲۲۸ مطبوعہ عراق ۱۹۷۹ئ
۲؎ بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق
۳؎ المائدہ: ۲۵



خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں
اور چندہ کو منظّم کریں



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں
اور چندہ کو منظّم کریں
(فرمودہ ۱۳؍اکتوبر ۱۹۵۱ء برموقع اجتماع خدام الاحمدیہ بوقت سوا سات بجے شام بمقام ربوہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’چونکہ اِس سال گرمی زیادہ پڑی ہے اور میری طبیعت کمزور ی کی وجہ سے گرمی برداشت نہیں کر سکتی اِس لئے مَیں خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں گزشتہ سال جتنا حصّہ نہیں لے سکا اس لئے مَیں نے چاہا کہ رات کے وقت ایک مختصر سی تقریر کردوں تا آخری تقریر کو ساتھ ملا کر تین تقاریر ہو جائیں۔ درحقیقت یہ وقت علمی مقابلوں کا ہے اور مَیں نے پروگرام پر غور کر کے سمجھا کہ مَیں اِس وقت میں سے کچھ وقت تقریر کے لئے لے سکتا ہوں کیونکہ علم کے ساتھ تربیت اور ہدایات کا تعلق ہے اِس لئے علمی مقابلوں کے وقت سے تقریر کے لئے کچھ وقت بچانا درست ہو سکتا ہے چنانچہ مَیں نے کہلا بھیجا کہ مَیں سات بجے آؤں گا اور تقریر بھی کروں گا۔
میرے نزدیک کل جو شوریٰ ہونے والی ہے اُس میں اِس امر پر بھی غور کر لیا جائے کہ آئندہ سالانہ اجتماع کِن دنوں میں ہؤا کرے۔ کل جب مَیں تقریر کر رہا تھا تو مَیں نے دیکھا کہ تین چار نوجوان بیہوش ہو گئے اور اُنہیں اُس جگہ پہنچایا گیا جہاں طبّی امداد کا انتظام ہے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ اِس سال اتنی گرمی پڑ رہی ہے کہ اس میں کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے اور ہر نوجوان اس کی برداشت نہیں کر سکتا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو قومیں اپنے وطن اور اس کے حالات کو یاد رکھتی ہیں وہ اپنے آپ کو اُس کے مطابق بنانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم گرم مُلک والے ٹھنڈے مُلک والے حاکموں کے ماتحت ایک لمبا عرصہ گزار چکے ہیں اور اُن کو آسائش اور آرام کے لئے جو سامان کرتے ہم نے دیکھا اور اُس میں ہمیں بعض فوائد نظر آئے ہم نے اُن کی نقل شروع کر دی۔ اب ہم واقعات سے اتنے مجبور ہو گئے ہیں کہ خواہ ان سے بچنے کی کتنی کوشش کریں ان سے بچ نہیں سکتے۔ ورنہ عرب اور افریقہ کے لوگ جن کے مُلک میں اتنی گرمی پڑتی ہے کہ ہمارے مُلک کی گرمی اُس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں وہ دھوپ میں بہت اچھی طرح چلتے پھرتے ہیں اور گرمی کا انہیں احساس بھی نہیں ہوتا۔ اِس کی وجہ یہی ہے کہ اُنہوں نے اپنے مُلک کے حالات کو دیکھا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جب اُنہوں نے عرب اور افریقہ جیسے گرم ممالک میں بودوباش اختیار کی ہے تو اُنہوں نے اپنی روزی بھی وہیں سے تلاش کرنی ہے اِس لئے اُنہوں نے بچپن سے ہی ایسی عادات پیدا کر لی ہیں کہ وہ گرمی برداشت کر لیتے ہیں لیکن ہمارے مُلک کے لوگوں نے مُلکی حالات کے مطابق اپنے حالات نہیں بنائے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مُلک پر جو لوگ حاکم تھے اُنہوں نے جب اپنے آرام کے لئے پنکھوں کا انتظام کیا تو یہ خیال کیا کہ اگر اُنہوں نے اپنے ماتحت کلرکوں کے لئے ایسا انتظام نہ کیا اور اُن کے کمروں میں بجلی کے پنکھے نہ لگوائے تو کام پوری طرح نہیں ہو گا اِس لئے اگرچہ اُنہوں نے بجلیاں اپنے کام کے لئے چلائیں لیکن بجلی کے پنکھے اُنہوں نے کلرکوں کے کمروں میں بھی لگا دیئے حالانکہ پٹھانوں ، مغلوں اور دوسرے راجوں مہاراجوں کے زمانہ میں یہاں بجلیاں نہیں تھیں وہ اِنہی مُلکوں میں رہتے تھے۔ یہاں گرمی پڑتی تھی اور وہ لوگ اس میں رہنے کی مشق کرتے تھے، اِس وجہ سے اُنہیں گرمی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ آہستہ آہستہ جب ہم اپنے مُلک کے حالات کو سُدھاریں گے یا ہمارا مُلک سُدھرجائے گا تو یہ دونوںباتیں ممکنات میں سے ہو جائیں گی۔ یا تو انگریزوں کے جانے کے بعد لوگ آرام و آسائش کے خیال کو چھوڑ دیں گے اور وہ افریقہ اور عرب جیسے ٹروپیکل کنٹریز (Tropical Countries) کی طرح گرمی کو اپنالیں گے اور اسے برداشت کرنے کی مشق کریں گے اور یا سائنس میں ترقی کر کے مُلک کے حالات کو اپنے مطابق بنالیں گے۔ جیسے یورپ نے ترقی کر کے کمروں کو گرم کرنے کا طریق نکال لیا ہے اور ایسی ایجادیں کر لی ہیں جن سے اُن کی زندگی آرام اور آسائش والی ہو گئی ہے اسی طرح ہمارے مُلک کے لوگ ترقی کر کے ایسی ایجادیں کر لیں گے جن سے فضا ٹھنڈی ہو جائے گی اور تمام لوگ اس مُلک میں اُسی طرح رہیں گے جس طرح وہ ایک درمیانی گرمی والے مُلک میں رہتے ہیں یا جس طرح لوگ پہاڑوں پر رہتے ہیں۔ غرض جب مُلک ترقی کرے گا تو ہمارے مُلک کے لوگ اپنے حالات کو گرمی کے مطابق بنا لیں گے یا ہمارے عالم اور سائنسدان گرمی کو ہمارے حالات کے مطابق بنا دیں گے۔ بہرحال کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا کیونکہ جب کوئی قوم ترقی کرتی ہے تو وہ ماحول کو اپنے مطابق بنا لیتی ہے یا اپنے آپ کو ماحول کے مطابق بنا لیا کرتی ہے لیکن جب تک یہ زمانہ نہیں آتا ہمیں یہ احتیاط کرنی چاہئے کہ ہم اپنے اجتماع کو ٹھنڈے موسم میں کریں۔
ہمارے مُلک میں بدقسمتی سے یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ جو چیز انگریز نے پیدا کی ہے وہ تم نہ کرو اور یہ انگریزوں سے نفرت اور اُن کی بد سلوکیوں کی وجہ سے ہے۔ انگریز اپنے ایک خاص دن کی یاد میں دسمبر کے مہینہ میں سات آٹھ دن کی چھُٹیاں دیا کرتا تھا۔ اب ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک نے وہ چھُٹیاں منسوخ کر دی ہیں حالانکہ ہر قوم کو اجتماع کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنی چاہئے اور اس کے لئے بہترین دن سردی کے ہیں۔ محرم نے تو چکر کھانا ہے اِس سال اکتوبر میں آیا ہے تو دوسرے سال اِس کے کچھ دن ستمبر میں آجائیں گے۔ تیسرے سال محرم ستمبر کے درمیان آجائے گا، چوتھے سال ستمبر کے شروع میں آجائے گا اور پانچویں سال اس کے کچھ دن اگست میں آجائیں گے، اِس طرح ۱۶،۱۷ سال برابر بدلتا جائے گا۔ گویا ۱۷ سال تک ہماری قوم کو ایسے معتدل دن نہیں ملیں گے جن میں لوگ اجتماع کر سکیں یا وہ مل کر باتیں کر سکیں۔ انگریز کے زمانہ میں ہماری ساری ضروریات دسمبر کے مہینہ میں پوری ہو جاتی تھیں خواہ نام ان کا کرسمس رکھ لیں لیکن بہرحال وہ دن ایسے تھے کہ ہمارے اجتماع آرام سے گزر جاتے تھے۔ اب اگر انگریز چلے گئے ہیں تو اِن دنوں کا نام کرسمس نہ رکھو نیشنل ہالیڈیز(National Holidays) رکھ لو تا قوم کو اجتماع وغیرہ کا موقع مل سکے۔ انگریزوں نے اپنے رواج کے مطابق سال میں بعض ایسے دن رکھ لئے تھے جن میں وہ اکٹھے ہوتے تھے اور باتیں کرتے تھے۔ اُن کے جانے کے بعد اب کوئی بھی قومی تہوار کے دن نہیں جن میں اجتماع وغیرہ ہو سکے۔ یورپ میں کرسمس اور ایسٹر کے نام سے سال میں بعض چھُٹیاں آجاتی ہیں اِسی طرح سال میں اور دن بھی مقرر ہیں جن میں قوم کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے معاملات پر غور کرتے ہیں۔ ہمیں بھی ایسے دن بنانے پڑیں گے اور جب ہمیں ایسے دن بنانے پڑیں گے تو کیوں نہ ہم ابھی سے ایسے دن بنا لیں۔ اگر محرم دس دن قبل ہؤا تو یہ اجتماع نہیں ہوسکے گا۔ اِس سال حج میں جو آج سے کچھ دن قبل ہؤا تو کسی وجہ سے سات ہزار حاجی مر گیا ہے اگر ہم ابھی سے کوئی تجویز نہیں کریں گے تو ہم قومی جانیں ضائع کرنے کا موجب ہوں گے۔ جب آئندہ ایسے دن نظر آرہے ہیں تو کیوں نہ ہم ابھی فیصلہ کر لیں۔ آخر ہم میں سے کتنے لوگ ملازم ہیں جو چھُٹیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے اجتماع سے رہ جائیں گے۔ کراچی میں کوئی پچاس ہزار ملازم ہیں جن میں قریباً … ملازمین احمدی ہوں گے اور ان میں سے اجتماع کے موقع پر ربوہ آنے والے چھ سات ہوں گے ۔ کیا ان چھ سات افراد کو اجتماع کے لئے چھُٹیاں نہیں مل سکیں گی؟ سال میں ۲۰ دن کی چھُٹیوں کا گورنمنٹ نے بھی حق دیا ہؤا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے چھ سات افراد چھُٹی حاصل کرنا چاہیں اور اُنہیں چھٹی نہ ملے۔ یہ ہو سکتا ہے کہ ضرورت کے وقت حکومت چھُٹیاں روک لے لیکن یہ دقّت اُس وقت ہو گی جب لوگ کثرت سے یہاں آئیں گے۔ اور جب لوگ کثرت سے آئیں گے نہیں تو حکومت کا دوچار پانچ دس افراد کو رُخصت دینے میں کیا حرج ہے۔ پھر تمہارا بیس دن کی چھُٹی کا حق بھی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اجتماع کے لئے کوئی دن مقرر کر لیں اور اِن دنوں میں چھُٹیاں حاصل کر کے لوگ یہاں آجایا کریں۔ اِسی طرح اور جگہوں کو دیکھ لو۔ پچھلے سال کوئٹہ سے کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ اب پتہ لگا ہے کہ اس سال دو نمائندے کوئٹہ سے آئے ہیں۔ اب کیا کوئٹہ شہر سے دو آدمیوں کو رخصت نہیں مل سکتی۔ آخر اِن کی رخصت میں حکومت کیوں روک ڈالے گی۔ یہی حال لاہور کا ہے۔ لاہور کی دس لاکھ کی آبادی ہے اور ان میں سے پچاس ہزار کے قریب ملازم ہوں گے جن میں سے بہت تھوڑی تعداد ہماری ہے۔ اب اگر لاہور سے آٹھ دس آدمی اجتماع پر آجائیں تو کیا وجہ ہے کہ اُن کی رخصت کا انتظام نہ ہو۔ اگر یہاں آنے والوں میں ملازمین کی کثرت ہوتی یا ہم سب ملازموں کو یہاں بُلاتے تو حکومت کے لئے مُشکل پیدا ہو سکتی تھی لیکن جب یہاں آنے والوں میں ملازمین کی کثرت بھی نہیں اور نہ ہم سب ملازمین کو یہاں بُلاتے ہیں صرف چند نمائندے یہاں آتے ہیں اور اُن کی نسبت اتنی بھی نہیں ہوتی جتنی آٹے میں نمک کی ہوتی ہے تو اس سے کیا فرق پڑ سکتا ہے۔ پھر کیوں نہ خدام اس موقع پر چھُٹیاں لے کر آئیں۔ یہ کیا بات ہے کہ چھُٹیاں ملیں گی تو ہم آئیں گے ورنہ نہیں آئیں گے۔ قوم کو سال میں دو تین دن کی ضرورت ہو اور وہ بھی لوگ پیش نہ کر سکیں۔ میرے اپنے خیال میں چونکہ دسمبر میں جلسہ سالانہ بھی ہوتا ہے اِس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سالانہ اجتماع نومبر کے پہلے ہفتہ میں ہو۔ لاکھوں کی جماعت ہے جن میں سے اِس اجتماع پر صرف ۵۵۵ دوست باہر سے آئے ہیں اور اِن میں سے اکثر ایسے ہوں گے جو جلسہ پر بھی آجائیں گے اس لئے اگر نومبر کے پہلے ہفتہ میں اجتماع رکھ لیا جائے تو اِس کا جلسہ سالانہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ خدا تعالیٰ انہیں توفیق دے گا تو وہ دوبارہ بھی آجائیں گے۔ جو لوگ دُور سے آئے ہیں وہ کوئی چالیس پچاس ہوں گے اور اِن میں سے دس بارہ ایسے افراد ہوں گے جو دوبارہ جلسہ سالانہ پر نہ آسکتے ہوں اِس لئے ساری جماعت کے فائدہ کو قربان نہیں کیا جاسکتا۔ کل شوریٰ میں اس کے متعلق فیصلہ کر لیا جائے آئندہ یہ اجتماع محرم کے دنوں میں نہیں ہو سکے گا کیونکہ محرم آئندہ اٹھارہ سال گرمی کے موسم میں آئے گا اور گرمی برداشت نہیں ہو سکے گی۔
مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اِس سال اجتماع میں نمائندگان کی حاضری بہت کمزور ہے۔ گزشتہ سالوں میں رپورٹ میں مقابلہ کیا جاتا تھا کہ پچھلے سال اتنے خدام حاضر ہوئے تھے اور اب اتنے خدام آئے ہیں لیکن اِس سال یہ حوالہ نہیں دیا گیا اور جب حوالہ نہ دیا گیا تو مجھے شک پڑا اس لئے مَیں نے کہا پچھلے حوالے لاؤ۔ جب وہ حوالے لائے گئے تو معلوم ہؤا کہ پچھلے سال بیرون جات سے ۵۹۰ خدام آئے تھے اور اِس سال ۵۵۵ خدام آئے ہیں۔ پچھلے سال بیرونی جماعتوں کی نمائندگی ۷۳ تھی لیکن اِس سال صرف ۵۴ مجالس کے نمائندے آئے ہیں۔ گویا اس سال ۴-۱ کی کمی آگئی بلکہ ۴-۱ سے کچھ زیادہ کی کمی ہے۔ یہ حالت تسلی بخش نہیں۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ چند نمائندے زیادہ آتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر واقعہ میں اپنے فرائض کو ادا کیا جاتا اور خدام اپنے وعدے پورے کرتے تو اِس سال سینکڑوں نئی جگہوں میں جماعتیں قائم ہو جاتیں۔ اور اگر ان نئی جماعتوں میں سے دس فی صدی جماعتوں کے نمائندے بھی یہاں آتے تو پچھلے سال مجالس کی نمائندگی جو ۷۳ تھی اب ۱۰۰ ہو جاتی۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدام نے صحیح طور پر اپنے فرائض کو ادا نہیں کیا۔
ایک اور چیز جس کا رپورٹ میں ذکر نہیں کیاگیا وہ یہ ہے کہ رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اِس سال کتنی نئی مجالس قائم ہوئی ہیں اور ان نئی مجالس میں سے کتنی مجالس کے نمائندے یہاں آئے ہیں۔ پچھلے سال مَیں نے کہا تھا کہ ہر گاؤں اور ہر شہر میں مجالس قائم کرو اِس لئے چاہئے تھا کہ مجلسِ عاملہ مجھے بتاتی کہ پچھلے سال کُل تعداد مجالس کیا تھی اور اب کیا ہے ۔ مجھے ابھی بتایا گیا ہے کہ اِس سال ۲۹ نئی مجالس قائم ہوئی ہیں۔ اگر یہ بات درست ہے تو پچھلے سال ۲۹ مجالس کم تھیں لیکن ۷۳ مجالس کے نمائندے اجتماع پر آئے تھے اب ۲۹ مجالس زیادہ بھی ہو گئی ہیں لیکن صرف ۵۴ مجالس کے نمائندے یہاں آئے ہیں۔ اگر اِن مجالس میں سے پانچ سات مجالس بھی ایسی ہیں جو اِس سال نئی قائم ہوئی ہیں تو اِس کے معنے یہ ہیں کہ پُرانی مجالس میں سے ۴۵ یا ۴۶ مجالس کے نمائندے آئے۔ اِس طرح حاضری میں کوئی ۴۰فیصد کی کمی آگئی اور یہ بات نہایت افسوسناک ہے۔ اِس طرف توجہ کرنی چاہئے۔ یہ کام مجلسِ عاملہ کا ہے اُسے اِس طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے۔
اِس سال سوائے لڑائی اور شکایتوں کے مجلسِ عاملہ نے کوئی کام نہیںکیا۔ آپس کے جھگڑوں پر اِس نے وقت ضائع کیا ہے اصل کا م کی طرف توجہ نہیں کی۔ لیکن جہاں یہ بات افسوسناک ہے کہ مجلس عاملہ نے کوئی کام نہیں کیا وہاں مجھے یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی ہے کہ ہماری تنظیم میں ترقی ہوئی ہے۔ ایک تو ۲۹ نئی مجالس قائم ہوئی ہیں۔ اگرچہ یہ تعداد تسلی بخش نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ہمارا قدم پیچھے نہیں ہٹا بلکہ کچھ آگے ہی بڑھا ہے مگر یہ کہ جتنا قدم آگے بڑھنا چاہئے تھا اُتنا نہیں بڑھا۔ دوسری خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارا چندہ منظم ہو رہا ہے۔ پچھلے سال کے چار ہزار روپیہ چندہ کے مقابلہ میں اِس سال کا چندہ آٹھ ہزار روپیہ سے کچھ زائد ہے اور یہ چیز بتاتی ہے کہ مجالس اپنے فرائض کو سمجھ رہی ہیں۔ اگر ہر جگہ مجالس قائم ہو جائیں اور چندہ منظم ہو جائے تو چالیس پچاس ہزار روپیہ چندہ اکٹھا ہونا کوئی مشکل امر نہیں۔ ابھی ہم نے مرکز بنانا ہے۔ لجنہ اماء اﷲ اپنا مرکز بنا چُکی ہے۔ لنگر کے سامنے شمال کی طرف یہ عمارت بنی ہے خدام اسے دیکھ لیں۔ پچھلے سال کسی نے کہا تھا کہ عورتیں آخر ہم سے ہی چندہ لیتی ہیں اور مَیں نے کہا تھا کہ عورتیں پھر بھی تم سے زیادہ ہمت والی ہیں کہ تمہاری جیب سے لے کر چندہ دے دیتی ہیں لیکن تم خود چندہ نہیں دے سکتے۔ دیکھو اُنہوں نے کارکنات کے لئے الگ مکانات بھی بنالئے ہیں۔ مَیں جب وہاں سے گزرتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ اِن مکانات میں رہنے سے اُنہیں زیادہ آرام مل سکتا ہے لیکن تم نے یہ کام ابھی کرنا ہے۔ مَیں نے خدام کو ۱۲ کنال زمین اس لئے دی ہے کہ وہ اس میں اپنا مرکزی دفتر تعمیر کریں۔ پس اپنے چندہ کو بڑھاؤ اور ہر جگہ خدام الاحمدیہ کی مجالس قائم کرو۔ اگر سب جگہ مجالس قائم ہو جائیں اور ہمارا چندہ منظم ہو جائے تو مَیں سمجھتا ہوں یہ کام کچھ مشکل نہیں۔ پندرہ بیس ہزار روپیہ قرض بھی لیا جاسکتا ہے جو اگلے سال آسانی سے اُتر سکتا ہے۔‘‘ (الفضل ربوہ ۱۷؍اکتوبر ۱۹۶۲ئ)



رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا
بلند کردار اور اعلیٰ صفات
قرآن مجید سے معلوم ہوتی ہیں


از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا بلند کردار اور
اعلیٰ صفات قرآن مجید سے معلوم ہوتی ہیں
(خطاب فرمودہ ۱۸؍نومبر ۱۹۵۱ء بر موقع جلسہ سیرۃ النبی ؐبمقام بیت مبارک ربوہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’مَیں آج محض اِس غرض کے لئے جلسہ میں آگیا ہوں کہ مجھے عرصہ سے سیرت النبی ؐ کے جلسوں میں بولنے کا موقع نہیں ملا، ورنہ میری صحت اِس امر کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ مَیں جلسہ میں آؤںاور تقریر کروں۔ میرا گلہ بیٹھا ہؤا ہے اور کھانسی کی شکایت ہے۔ کل بخار بھی رہا ہے اور اس سے پہلے بھی بخار آتا رہا ہے اِس لئے میرے لئے کھڑا ہونا مُشکل ہے۔ پس میری یہاں آنے کی اصل غرض یہ نہیں کہ مَیں کوئی تقریر کروں۔ تقریریں لوگ کرتے ہی ہیں بلکہ میری یہاں آنے کی غرض حصولِ برکت تھی جو اِس قسم کے جلسوں میں شمولیت کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے۔ مَیں جب یہاں پہنچا تو اِس بات کو دیکھ کر مجھے سخت افسوس ہؤا کہ اکثر لوگوں نے اس بارہ میں بے توجہی سے کام لیا ہے۔ جو لوگ جلسہ میں حاضر ہیں وہ ربوہ کی آبادی کے تیسرے حصّہ سے بھی کم ہیں۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ ہم باہر تو تحریک کرتے ہیں کہ احمدی اور غیر احمدی تو کیا، غیر مسلم بھی اس قسم کے جلسوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں لیکن خود ہماری دلچسپی کا یہ حال ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات سُننے کے لئے سال میں ہم ایک دن بھی نہیں نکال سکتے۔ اِس سال جلسہ کی حاضری دیکھ کر مَیں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ گزشتہ سالوں میں بھی ویسی ہی بے توجہی برتی گئی ہو گی اور کارکنوں نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا ہو گا اور جماعت کے افراد کو ان کے فرائض کی طرف توجہ نہیں دلائی ہو گی۔ جس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے مقام سے گرتے چلے گئے اور آخر وہ دن آگیا جب اکثریت اپنے فرائض سے غافل ہو گئی اور صرف اقلّیت فرائض کو پہچاننے والی رہ گئی۔ پس بہرحال یہاں آنے کے نتیجہ میں مجھے ایک برکت تو حاصل ہو گئی۔ مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ کارکن اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے اور اس کے نتیجہ میں جماعت کی توجہ اس اہم کام کی طرف کم ہو گئی ہے۔
دُنیا میں ہر چیز خواہ وہ بیماری ہو یا تندرستی، وہ دوسروں پر اثر ڈالتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مجلس میں اگر ایک شخص کھانستا ہے تو اس کے ساتھ دس افراد اور کھانسنے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ اس سے پہلے کھانس نہیں رہے تھے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص کی کھانسنے کی آواز کان میں پڑتے ہی ساتھ والے افراد کے اعصاب بھی اسی قسم کی حرکت کرنے لگتے ہیں جس قسم کی حرکات کے نتیجہ میں کھانسی پیدا ہوتی ہے۔ مجلس میں ایک شخص اُباسی لیتا ہے تو جھٹ دس پندرہ اور افراد بھی اُباسی لینے لگ جاتے ہیں کیونکہ وہ اُسے اُباسی لیتے ہوئے وہی حالات اور کیفیات محسوس کرنے لگ جاتے ہیں جن حالات اور کیفیات کے نتیجہ میں اُباسی پیدا ہوتی ہے۔ ایک آدمی دَوڑتا ہؤا نظر آتا ہے تو دوسرے کئی لوگ بھی دَوڑنے لگ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی حادثہ ہو گیا ہے یا کوئی تماشہ ہے جس کی طرف لوگ بھاگے جارہے ہیں۔ اِسی طرح دوسرے کاموں میں بھی خواہ وہ دینی ہوں یا دُنیوی لوگ ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں۔ اِسی طرح یہاں بھی ہؤا ہے جب دس پندرہ افراد نے سُستی کی اور کارکنوں نے اس طرف توجہ نہیں کی تو دوسری دفعہ پچاس، ساٹھ افراد نے سُستی سے کام لیا اور جب ان پر بھی کارکنوں نے کوئی ایکشن نہ لیا تو تیسری دفعہ سَو، دو سَو افراد نے سُستی سے کام لیا اور جب پھر بھی کارکنوں نے اس طرف توجہ نہ کی تو چار پانچ سَو افراد نے سُستی کی اور جب کارکنوں کو اتنی کمی نظر آئی تو اُنہوں نے سمجھ لیا کہ رسّہ ہاتھ سے نکل چُکا ہے اب اس کی اصلاح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر جماعت کو اِنہی حالات میں سے گزرنے دیا گیا تو دس پندرہ سال کے بعد یہ حالت ہوجائے گی کہ دس بارہ سیکرٹری جمع ہو جایا کریں گے اور شاید اخبار میںیہ شائع کر دیا جایا کرے گا کہ نہایت شاندار جلسہ ہؤا، دُھواں دھار تقریریں ہوئیں، زور دار لیکچر دیئے گئے۔ اِس طرح یہ چیز الفضل کا ریزولیوشن بن کر رہ جائے گی، اس میں حقیقت نہیں ہو گی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کا نظارہ نہیں ہو گا بلکہ تمسخر ہو گا۔
اب مَیں ہدایت دیتا ہوں کہ جلسہ میں آنے والوں کی لِسٹیں تیار کرو تاکہ نہ آنے والوں کی نگرانی کی جاسکے۔ پھر ان سے پوچھو کہ وہ جلسہ میں کیوں نہیں آئے؟ حقیقت یہ ہے کہ ان جلسوں کو چھٹی لینے کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے۔ یوم التبلیغ کو لے لو۔ اُس دن سب اداروں میں چھٹی ہوتی ہے لیکن کارکن تبلیغ کے لئے باہر نہیں جاتے اور جب کارکن تبلیغ کے لئے باہر نہیں جاتے تو اُنہیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی سُستی کرتے ہیں لیکن مجھے نظارت کی طرف سے چٹھی آجاتی ہے کہ ایک دن کی چھٹی منظور کی جائے، ہم نے تبلیغ کے لئے جانا ہے لیکن چھٹی ہو جانے کے باوجود نہ ناظر باہر جاتے ہیں نہ وکلاء باہر جاتے ہیں اور نہ دوسرے کارکن باہر جاتے ہیں۔ مَیں اِس چیز کو دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ آخر یہ غفلت کب دُور ہو گی؟ لیکن رپورٹیں آجاتی ہیں کہ سب لوگ تبلیغ کے لئے باہر گئے ہوئے تھے حالانکہ باہر جانیوالے صرف اُستاد، طالب علم اور کچھ مخلصین ہوتے ہیں۔ کارکنوں میں سے ایک چوتھائی حصّہ بھی باہر نہیں جاتا۔ تمام ناظر اور وکلاء گھروں میں جابیٹھتے ہیں اور اُس دن چھُٹی مناتے ہیں حالانکہ چھُٹی دی ہی اس لئے جاتی ہے کہ لوگ باہر جائیں اور تبلیغ کریں۔ اِس نقص کو دیکھ کر مَیں نے قادیان میں یہ حُکم دیا تھا کہ جو تبلیغ کے لئے باہر جائیں صرف انہیں چھُٹی دی جائے، باقی کارکن دفاتر میں کام کریں لیکن اس حُکم کے باوجود اس دن کو چھُٹی کا دن بنا لیا جاتا ہے۔ گویا یومُ التبلیغ کیا ہے قادیان کا قدموں کا میلہ ہے یا لاہور کا چراغاں کا میلہ ہے اور یا لائلپور کی طرح کی جانوروں کی منڈیاں ہیں۔ صحیح روح پیدا نہیں کی گئی۔
پس مَیں سمجھتا ہوں کہ میرے یہاں آنے کے نتیجہ میں ایک فائدہ یہ بھی ہؤا ہے کہ مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ کارکن اپنے فرائض کی طرف توجہ نہیں دے رہے۔ باوجود اِس کے کہ مجھے جلسہ میں آنے کی طاقت نہیں تھی، میری طبیعت خراب تھی لیکن کل خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈال دیا کہ مَیں جلسہ میں ضرور جاؤں۔ مَیں ایک دو سال سے سُن رہا تھا کہ لوگ اس طرف پوری توجہ نہیں دیتے اور ان میں وہ جوش اور ولولہ نہیں ہوتا جو عاشق کو اپنے معشوق کی ملاقات کے وقت ہوتا ہے سو آج یہاں آنے سے اس کی تصدیق ہوگئی۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات کوئی ایسی چیز نہیں ہیں کہ جنہیں کوئی انسان ایک بیٹھک میں یا ایک تصنیف میں بیان کر سکے۔ آپ کے اعمال، آپ کے اقوال اور آپ کے جذبات اتنے متنوّع تھے اور اتنی اقسام پر مشتمل تھے کہ انہیں ایک وقت میں یا ایک بیٹھک میں محسوب کر لینا، گِن لینا اورشُمار کر لینا انسانی طاقت سے بالا ہے۔ درحقیقت جس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے صفاتِ الٰہیہ کو بیان کیا ہے اور ایسے رنگ میں بیان کیا ہے کہ اور کوئی شخص اس طرح صفاتِ الٰہیہ کو بیان نہیں کر سکا اِسی طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات کو جس طرح قرآن کریم نے بیان کیا ہے یا خدا تعالیٰ نے ان کا احاطہ کیا ہے اُس طرح اور کوئی انسان ان کو بیان نہیں کر سکتا اور نہ ان کا احاطہ کرسکتا ہے۔
احادیث کی کُتب میں حضرت عائشہ ؓ سے ایک قول مروی ہے کہ آپؐ نے فرمایا کَانَ خُلُقُہٗ کُلُّہٗ فِی الْقُرْاٰنِ ۱؎ اس کے ایک معنے تو یہ ہیں جو ہمیشہ کئے جاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی تمام صفات اور تمام خوبیاں قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں۔ یعنی قرآن کریم میں جن اخلاق کو سکھایا گیا ہے اُن سب پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے عمل کیا ہے۔ لیکن اس کے ایک دوسرے معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اگر تم رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق اور خوبیوں کو جمع کرنا چاہو اور اُن کا احاطہ کرنا چاہو تو وہ سب کی سب قرآن کریم میں مل سکتی ہیں۔ وہ سب کی سب کسی انسانی تصنیف میں نہیں مل سکتیں۔ انسان اگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے احکام، اعمال اور خوبیوں کو گِنے گا تو ان میں بہت سی کوتاہی رہ جائے گی اور جب تم اس کتاب کو دیکھو گے تو کہو گے اوہو! وہ فلاں خوبی بیان کرنا تو بھُول گیا لیکن قرآن کریم لکھنے والا بھُولتا نہیں۔ اس لئے جب تم قرآن کریم میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خوبیاں آپ کے اعمال و اقوال اور اخلاق دیکھو گے تو تم یہ نہیں کہو گے کہ اوہو! فلاں چیز رہ گئی ہے بلکہ تم یہ کہو گے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم میں یہ خوبی بھی تھی لیکن مَیں نے اِس کا خیال نہیں کیا تھا۔ پس اگر کسی انسان نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خوبیوں ، اخلاق اور اعمال و اقوال کا احاطہ کرنا ہو تو اِس کا ذریعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کو دیکھا جائے اور معلوم کیا جائے کہ آپؐ کے کیا اعمال ہیں اور آپؐ کے کیا اقوال ہیں۔
اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریف ، سیرت اور سوانح پرمشتمل نہیں لیکن اِس میں یہ خوبی ہے کہ جب وہ کوئی مضمون لیتا ہے تو اس کے تمام متعلقہ مضامین کو اُس کے نیچے تہہ بہ تہہ جمع کر دیتا ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح زمین کے طبقات ہوتے ہیں۔ اوپر کے طبقہ میں اور قسم کی مٹی ہوتی ہے، دوسرے طبقہ میں اور قسم کی مٹی ہوتی ہے، تیسرے طبقہ میں اور قسم کی مٹی ہوتی ہے۔ اور جب ہم کسی زمین کو دیکھتے ہیں تو اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ زمین اچھی پیداوار دینے والی ہے یا بُری پیداوار دینے والی ہے۔ یہ کنکریلی زمین ہے یا اس میں عمدہ لیسدار مٹی پائی جاتی ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس میں فصل اچھی ہو گی یا خراب ہو گی۔ مکان اچھے تعمیر ہوں گے یا خراب تعمیر ہوں گے، بنیادیں گہری کھودنی پڑیں گی یا تھوڑی، عمارت کئی منزلوں کی بن سکے گی یا وہ زمین زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی لیکن ایک ماہر فن اس زمین کوکھودے گا تو کہدے گا کہ اتنے گز زمین کھودنے کے بعد پتہ لگتا ہے کہ اتنے ہزار سال پہلے اس جگہ میں پانی ہوتا تھا اور وہ اپنے اندر فلاں قسم کے جانور اور حیوانات رکھتا تھا۔ پھر وہ چند گز اور مٹی کھودے گا اور اس زمین سے جس کو سرسری طور پر دیکھ کر ہم نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ اس میں فصل زیادہ ہو گی یا کم، عمارت کئی منزلوں والی بن سکے گی یا نہیں، وہ ماہرِ فن یہ نتیجہ نکالے گا کہ فلاں فلاں وقت میں اس زمین میں یہ یہ تبدیلیاں اندرونی آگ یا گرمی کی وجہ سے پیدا ہوئیں یا دھاتوں نے پِگھل پِگھل کر اِس کے اندر یہ یہ تغیرات پیدا کر دیئے۔ اِسی طرح وہ نیچے چلتا جائے گا اور تاریخ کے مختلف زمانے بیان کرتا جائے گا۔ وہ محض اس زمین کو دیکھ کر دو دو تین تین ہزار سال تک کے واقعات بیان کرے گا اور یہ سب چیزیں زمین کے اندر مخفی ہوں گی۔ یہی حال قرآن کریم کا ہے۔ اس کے مطالب بھی الفاظ کی تہوں کے نیچے چھپے ہوتے ہیں۔ اگر زمین کی سب چیزوں کو باہر نکال کر پھیلا دیا جائے تو انسان کا زمین پر چلنا پھرنا مُشکل ہو جائے گا لیکن چونکہ وہ سب چیزیں زمین کے اندر تہہ بہ تہہ رکھی ہوئی ہیں اس لئے ہم اس کے اُوپر چلتے پھرتے ہیں لیکن جب اسے کھودتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مثلاً اِس کے اندر چونے کی چٹانیں ہیں۔ اگر وہ چُونے کی چٹانیں باہر نکال کر سطح پر پھیلا دی جائیں تو کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہاں ربوہ آباد ہو سکتا تھا؟ یہ جگہ بجائے آدمیوں کے چٹانوں سے بھری ہوئی ہوتی۔ اِس طرح وہ سب مطالب جو قرآنی الفاظ کی تہوں میں چھپے ہوئے ہیں باہر نکال لئے جاتے اور ظاہری الفاظ میں انہیں بیان کیا جاتا تو جیسے اس زمین کی اندر کی چیزیں اگر باہر آجائیں تو ربوہ آباد نہیں ہو سکتا تھا وہ چیزیں پھیل کر سینکڑوں میل کا علاقہ رُک جاتا اِسی طرح قرآن کریم کو بھی انسان نہیں پڑھ سکتا تھا۔ وہ اتنی بڑی کتاب ہو جاتی کہ کتاب نہ رہتی ایک عظیم الشان لائبریری ہو جاتی اور اس میں ہزاروں کُتب رکھی ہوئی ہوتیں۔ ایک نسلِ انسانی کہہ دیتی کہ ہم نے اس کے پانچ سَو صفحات پڑھے ہیں، دوسری کہتی کہ ہم نے اس کے ایک ہزار صفحات پڑھے ہیں۔ اب قرآن کریم ایک چھوٹی سی کتاب ہے لیکن زمین کی طرح اِس کی ایک تہہ کے نیچے ایک مضمون ہے دوسری تہہ کے نیچے دوسرا مضمون ہے تیسری تہہ کے نیچے تیسرا مضمون ہے اور اس طرح تھوڑے سے الفاظ میں ہزاروں مضامین بیان کر دیئے گئے ہیں۔ حفظ کرنے والے اِسے آسانی سے حفظ کر سکتے ہیں اور پڑھنے والے اِسے جلدی پڑھ لیتے ہیں۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے حالات اور سوانح بھی قرآن کریم میں تہہ بہ تہہ بیان کئے گئے ہیں۔ ظاہر الفاظ میں مضمون اَور ہوتا ہے لیکن ان کے نیچے اَور مضامین بھی ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو پہلا مقام جہاں آپ پر کلامِ الٰہی نازل ہؤا وہ غار حرا تھی۔ دُنیا کے لیڈر جب کوئی اُمنگ رکھتے ہیں یا اپنے اندر کوئی خوبی دیکھتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو باہر لاتے ہیں اور اپنی خوبیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس طرح لوگوں کی توجہ اُن کی طرف پِھرتی ہے اور وہ اپنے اِرد گِرد ایک جماعت اکٹھی کر لیتے ہیں لیکن اِس کے بر خلاف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم دُنیا سے الگ ہو گئے تھے۔ آپ غارِ حرا میں چلے جاتے تھے اور کئی کئی دن تک آپ وہاں عبادت کرتے تھے۔ غارِ ثور تک تو میں جا نہیں سکا میرے دل کو اُن دنوں تکلیف تھی اور غارِ ثور پہاڑ پر ایک ننگی جگہ واقع ہے اور اس کے نیچے کھڈ آتی ہے۔ عین اُس جگہ پہنچ کر کہ جہاں سے غارِ ثور قریباً سَو گز رہ گئی تھی مَیں بیٹھ گیا اور اپنے ایک ساتھی کو وہاں بھیجا کہ وہ غار دیکھ آئے۔ غارِ حرا میں مَیں خود گیا ہوں اور قریباً ایک گھنٹہ تک مَیں نے وہاں نماز پڑھی ہے اور دُعائیں کی ہیں۔
غارِ حرا استعارہ کے طور پر غار کہلاتی ہے لیکن دراصل وہ غار نہیں بلکہ حرا پہاڑی پر چڑھ جائیں تو جو رستہ معروف ہے وَاﷲُ اَعْلَمُکہ یہی رستہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا بہرحال جو اِس وقت معروف رستہ ہے اس کے ذریعہ اگر پہاڑی کی چوٹی تک چلے جائیں تو اس کی چوٹی تک کوئی غار نہیں آتی۔ غارِحرا میں جانے کے لئے چوٹی سے نیچے اُترنا پڑتا ہے اور چند گز نیچے جاکر ایک جگہ آتی ہے جسے غارِ حرا کہتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں یہاں زلزلہ آیا جس کے نتیجہ میں چوٹی سے ایک پتھر گرا جو نیچے جاکر ایک پتھر پر ٹک گیا اور ایک پہلو پر ایک اَور پتھر آٹکا اس طرح وہ جگہ ایک کمرہ کی صورت اختیار کر گئی ہے۔ یہ ایک چھوٹی سی جگہ ہے جس کا رقبہ سات آٹھ فٹ ہو گا کیونکہ مَیں نے جب وہاں نماز پڑھی ہے تو وہاں کوئی ایسی زائد جگہ نظر نہیں آتی تھی کہ دو تین آدمی وہاں بیٹھ جائیں لیکن یہ جگہ اُونچی ہے اور انسان کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سیر کے دوران میں اِس جگہ کو دیکھا اور اِسے عبادت کے لئے چُن لیا۔ غار اُسے کہتے ہیں جو زمین کے اندر گھسی ہوئی ہو لیکن غارحرا زمین کے اندر گھسی ہوئی نہیں بلکہ وہ تین چار پتھرہیں جو ایک دوسرے کے سہارے کھڑے ہیں اور اِس طرح ایک کمرہ بن گیا ہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم غارِ حرا میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں عبادت کیا کرتے تھے وہ علیحدگی معمولی علیحدگی نہیں تھی۔ حرا مکّہ سے چار پانچ میل کے فاصلہ پر ایک ویران جگہ میں واقع ہے اس کے قریب کوئی آبادی نہیں۔ اِتنی دُور جاکر بیٹھنا بڑی ہمت کا کام ہے اور یہ کام انسان اُسی وقت کر سکتا ہے جب وہ دُنیا سے بیزار ہو جائے اور اس سے بالکل علیحدگی اختیار کرلے۔آپ نے اس جگہ عبادت کی اور اس سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ مَیں نے دُنیا بالکل چھوڑ دی ہے جیسے ہندوؤں کے سادھو پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں اور اس طرح لوگوں سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت آپؐ کو یہ خیال آیا کہ یہ دُنیا رہنے کے قابل نہیں اصل ذات اﷲتعالیٰ کی ہے جس سے دل لگانا چاہئے۔ اس وجہ سے مکّہ سے دُور جاکر عبادت میں مشغول رہتے تھے۔ حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے ۔ اُس زمانہ کے لحاظ سے یہ سامان ستُّو، کھجوریں اور چھاگل پانی کی قسم کا ہؤا کرتا تھا اور عرب میں اتنی غذا کو کافی سمجھا جاتا تھا۔ شوربہ چاول تو دو چار دن تک کام نہیں دے سکتے۔ زیادہ دیر تک یہی خشک چیزیں کام دیتی ہیں۔ حضرت عائشہ ؓ بیان فرماتی ہیں کہ آپ کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے اور کئی کئی دن تک غار حرا میں عبادت کرتے۔ جب کھانے پینے کا سامان ختم ہو جاتا تو گھر واپس آتے اور مزید سامان لے کر واپس غارِ حرا چلے جاتے۔۲؎ اِس عرصہ میں آپ پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہؤا۔ ایک فرشتہ آیا اور اُس نے کہا ۳؎یہ پہلا کلام ہے جو آپ پر نازل ہؤا اور غارِ حرا میں نازل ہؤا۔ اِس کا ایک پہلو تو تعلیمی ہے اس کو مَیں اِس وقت نظر انداز کرتا ہوں۔ مَیں یہ کہتا ہوں کہ جب کسی سے کلام کیا جاتا ہے تو پہلا مخاطب وہی ہوتا ہے اور کلام میں اس کا لحاظ کیا جاتا ہے۔ قرآن کریم کے پہلے مخاطب عرب لوگ تھے اِس لئے اِس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں وہ وہی ہیں جنہیں عرب لوگ جانتے تھے۔ قرآن کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے، حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے یا عرب کے بعض نبیوں اور قوموں کا ذکر ہے۔ جیسے ثمود اور عاد کا ذکر ہے جو عرب میں یا عرب کے کناروں میں گزری ہیں اور عرب لوگ ان سے واقف تھے لیکن قرآن کریم میں حضرت کرشن اور حضرت رام چندر علیہما السلام کا ذکر نہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کو قرآن کریم خدا تعالیٰ کا نبی نہیں مانتا۔ قرآن کریم نے ۴؎کہہ کر ان کی نبوت کو تسلیم کیا ہے۔ اِس کا ایک طرف یہ کہنا کہ ہر قوم میں نبی گزرا ہے اور دوسری طرف ان سب کا ذکر نہ کرنا بلکہ صرف اُن کا ذکر کرنا جو عرب کے علاقہ میں گزرے ہیں یا اُس کے اِرد گِرد گزرے ہیں یہ بتاتا ہے کہ قرآن کریم میں صرف اُن انبیاء اور قوموں کا ذکر ہے جو عرب کے ساتھ ساتھ تھیں اور عرب لوگ اُنہیں جانتے تھے کیونکہ جو شخص پیغام کو صحیح طور پر سمجھ نہ سکے وہ صحیح طور پر پیغام نہیں پہنچا سکتا۔ صحیح پیغام پُہنچانے کے لئے ضروری تھا کہ جن کو وہ پیغام دیا گیا ہے وہ اُسے سمجھ سکتے اِس لئے قرآن کریم میں صرف اُن انبیاء ؑ اور قوموں کا ذکر آتا ہے جن کو عرب لوگ جانتے تھے تا وہ ان واقعات سے نتیجہ اخذ کر سکیں اور اس کے بعد غیر معروف نبیوں کا صرف اصولی طور پر ذکر کر دیا گیا ہے۔ پس جب بھی کسی سے کلام کیا جاتا ہے تو کلام میں مخاطب کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ اب ایک فقرہ ہے جس میں بظاہر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پڑھ اپنے رب کا نام لے کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے اور رب کے معنے ہیں وہ ذات جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر ایسے ذرائع مہیا کئے جن پر عمل کر کے وہ دُنیا میں ترقی کر سکتا ہے اور پھر بڑھاتے بڑھاتے انسان کو کمال تک پہنچا دیا۔ پس جہاں تک انسان کی پیدائش کا سوال ہے وہ لفظ رب میں آجاتا تھا اور یہ کہنا کافی تھا کہ پڑھ اُسی رب کا نام لے کر جس نے دُنیا کو پیدا کیا ہے لیکن اِس جگہ ’’اپنے رب‘‘ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور ان الفاظ سے بنی نوع انسان کی پیدائش اور ان کی ربوبیت کے مضمون سے ترقی کر کے خود اُس فردِ مخاطب کی پیدائش اور ربوبیت کی طرف توجہ پھیری گئی ہے جو قرآن کریم کا سب سے پہلا مخاطب ہے یعنی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم۔
اِس آیت سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی فطرت کا پتہ لگتا ہے۔ بہت سے انسان سوچ سمجھ کر کام نہیں کرتے بلکہ عادتاً یا رسم و رواج کی نقل میں کام کرتے ہیں۔ کسی کو اگر فرشتہ نظر آجاتا ہے تو یہ ایک شاندار حادثہ ہے اِس کے لئے اس شخص کو کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب انسان کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جو عام حالات میں سامنے نہیں آتی تو دوسرا بے شک یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ وہم ہے۔ لیکن جس شخص پر یہ بات گزرتی ہے وہ اسے وہم نہیں سمجھتا وہ اسے حقیقت سمجھتا ہے۔ مثلاً ایک شخص خواب میں سانپ دیکھتا ہے وہ روتا ہے، چیختا ہے اور دوڑتا ہے۔ اب دوسروں کے لئے تو یہ ایک خواب ہے لیکن جس نے یہ نظارہ دیکھا ہے اُس پر وہ تمام کیفیات طاری ہو جاتی ہیں جو فیِ الْواقعہ سانپ دیکھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں۔ اِسی طرح فرض کرو کہ ایک شخص فرشتہ دیکھتا ہے لیکن دراصل وہ فرشتہ نہیں ہوتا بلکہ محض وہم ہوتا ہے تو بھی دیکھنے والے کے لئے وہ نظارہ نہایت ڈراؤنا اور ہیبت ناک ہوتا ہے۔ وہ ڈرتا ہے اور اُس کا دل مرعوب ہو جاتا ہے۔ اگر تمہیں محض ایک فرشتہ نظر آتا اور وہ کہتا اُٹھو اور فلاں کام کرو تو تم فوراً وہ کام کرنے لگ جاتے لیکن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرشتہ نظر آتا ہے جنگل میں جہاں آپ اکیلے تھے۔ ایک ہیبت ناک چیز کا سامنے آجانا جو پہاڑوں کی پرواہ بھی نہیں کرتی اور اُنہیں طے کر کے آجاتی ہے کوئی کم ہیبت ناک نظارہ نہیں تھا مگر جب وہ فرشتہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے تو عالم الغیب خدا جانتا تھا کہ محمد رسول اﷲ صرف فرشتہ کے کہنے کی وجہ سے پڑھنے نہیں لگ جائیں گے وہ دلیل چاہیں گے۔ اِس لئے اُس نے اس پیغام میں جو آپ کو دیا گیا ساتھ دلیل بھی رکھ دی اورہی نہیں کہا بلکہ سے آپ کو مخاطب کیا گیا تا آپ کہہ سکیں کہ آپ کو کیوں پڑھنا چاہئے اور آپ کے پڑھنے میں کوئی فائدہ بھی ہو گا یا نہیں۔ اگر خالی کہا جاتا تو آپ خیال کر سکتے تھے کہ مَیں اپنی قوم کو اور اپنے شہر کو چھوڑ کر یہاں آگیا ہوں۔ میری قوم کو جو رُتبہ حاصل تھا مَیں نے اُس کی بھی پرواہ نہیں کی اس لئے کہ وہ جو کچھ کرتی تھی بِلادلیل کرتی تھی اب مَیں اس کی بات کیوں مانوں۔ پس آپ کے اخلاق کا پہلا حصّہ اِس آیت میں نظر آجاتا ہے اِس لئے کہ جب فرشتہ نے کہا تُو پڑھ تو اس نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کہا تُو اپنے رب کا نام لے کر پڑھ جس نے تجھے پیدا کیا ہے۔ یعنی جو خدا تیرا خالق و مالک ہے وہ اپنے خالق و مالک ہونے کی وجہ سے تجھے حُکم دیتا ہے بِلاوجہ حُکم نہیں دیتا۔ اِس سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی فطرتِ صحیحہ کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ کوئی کام بِلا وجہ اور بِلا دلیل نہیں کرتے تھے۔ جب کوئی انسان اس حکمت کے ماتحت کام کرنے لگ جائے تو خواہ اسے الہام کی روشنی نصیب نہ ہو ، وہ شاندار کام کر جاتا ہے۔ چنانچہ بعض جرنیلوں نے باوجود اسباب کی کمی کے نہایت شاندار کام کیا ہے اِس لئے کہ وہ فطرت کے مطابق چلتے تھے۔ خالد ؓ، سعد بن وقاص ؓ ، عمروبن عاص نے صحابہ ؓ میں سے اور موسیٰ ،طارق، محمد بن قاسم نے قرونِ اُولیٰ کے مسلمانوں میں سے اور چنگیز خان، قبلائی خاں اور باتو خاں اور تیمور نے ایشیائی مسلمانوں اور غیر مسلموں میں سے حیرت انگیز کام کئے ہیں۔
چند دن ہوئے مَیں ’’باتو خاں‘‘ کے متعلق کچھ باتیں معلوم کرنے کے لئے انسائیکلوپیڈیا دیکھ رہا تھا تو مَیں نے اُس میں پڑھا کہ اُس کے زمانہ میں لاریاں نہیں تھیں، گاڑیاں نہیں تھیں اور نہ دوسرے موجودہ زمانہ کے نقل و حرکت کے سامان میسر تھے۔ باجود اِس کے وہ ایک لشکرِ جرار کے ساتھ آیا۔ یورپ کی تمام قومیں اور حکومتیںاس کے مقابلہ کے لئے اکٹھی ہو گئیں۔ وہ چکر کھا کر پولینڈ کی طرف چلا گیا، یورپین قومیں خوشیاں منانے لگیں کہ ہم باتو خاں سے بچ گئی ہیں لیکن ابھی وہ لوگ خوشی کا جشن ہی منا رہے تھے کہ وہ بجلی کی سی رفتار سے پولینڈ کو فتح کرتے ہوئے ہنگری کے اُن میدانوں میں اُترآیا جہاں یورپ کی فوجیں جمع تھیں۔ غرض باوجود سامانِ نقل و حرکت کے نہ ہونے کے یہ لوگ اس طرح سفر کرتے تھے جس طرح آندھیاں چلتی ہیں اور یہ محض ہوشیاری اور ذہانت کی وجہ سے تھا۔ وہ لوگ بے سوچے سمجھے کام نہیں کرتے تھے بلکہ عقل سے کام لیتے تھے۔ اِسی طرح تیمور تھا، نپولین تھا، یا اِس زمانہ میں ہٹلر تھا۔ چاہے وہ ناکام ہو گیا لیکن ایک عرصہ تک لوگ حیران تھے کہ وہ کیا کرتا ہے۔
پس فطرتِ صحیحہ سے کام لینے والا شاندار کام کر جاتا ہے اور جب اس فطرت کے ساتھ نور مل جائے تو پھر نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ ہو جاتا ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ کو ایسی فطرت عطا ہوئی تھی کہ اگر آگ نہ بھی ہوتی تب بھی وہ جل اُٹھتی۔ اس کے معنے یہ ہیں کہ نور نے آکر فطرتِ صحیحہ کو نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍکر دیا تھا لیکن فطرتِ صحیحہ آپ کو پہلے سے عطا کی جاچکی تھی۔ خدا تعالیٰ کا پہلا کلام رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم پر کتنے ڈراؤنے اور حیران کُن حالات میں نازل ہوتا ہے۔ ایک شخص تنہائی میں شہر سے کئی میل دُور عبادت کر رہا تھا کہ ایک فرشتہ آتا ہے اور جن حالات میں وہ فرشتہ آتا ہے وہ کوئی کم ہیبت ناک نہیں۔ وہ حیران ہوتا ہے کہ یہ کیسا وجود ہے کہ جس طرح چاہتا ہے آتا ہے۔ جنگل اور پہاڑیاں بھی اسے روک نہیں سکتیں۔ اِس رُعب کی موجودگی میں اور اِس ہیبت ناک نظارہ کی موجودگی میں بھی خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ اگر کوئی بات رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہی جائے گی تو آپ کہیں گے، مَیں یہ کام کیوں کروں پہلے میری تسلی کرو۔ اِس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا تُو اپنے اس رب کے نام سے پڑھ جس نے تجھے پیدا کیا ہے یعنی ساتھ ہی اس کی دلیل بھی دے دی۔ ’’‘‘ کہہ کر بتایا کہ تیرے پیدا کرنے والے کا تُجھ پر حق ہے تُو اِس حق کو پورا کرنے کے لئے یہ کام کر۔ مگر ابھی یہ سوال رہ جاتا تھا کہ کیا جن کی طرف پیغام بھیجا جا رہا ہے اُن پر بھی پیغام بھجوانے والے کا کوئی حق ہے؟ سو کہہ کر بتایا کہ وہ تیرا رب ہی نہیں سب مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے۔ پس اس کا حق ہے کہ ان سے بھی اپنی فرمانبرداری کا مطالبہ کرے۔ پس تجھے کسی ایسے کام کے لئے نہیں بھجوایا جاتا جس کا تجھے حق نہیں بلکہ تجھے بھجوانے والے کا اُن پر بھی حق ہے۔ اس آیت میں کا لفظ استعمال کیا گیا ہے کی حد بندی نہیں کی گئی اس سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی صفت وسیع ہے اور اس کی مخلوقات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔ گویا قائم مقام ہے خَلَقَ کُلَّ الْمَخْلُوْقَاتِ کا۔ گویا اﷲ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ تُومیرا پیغام پہنچانے کے لئے تیار ہو جا اِس لئے کہ مَیں پیغام دینے والا تیرا پیدا کرنے والا اور تربیت کرنے والا ہوں اور جن لوگوں کی طرف بھجوا رہا ہوں وہ بھی میرے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں۔ ان کے بارہ میں رَبِّھِمْ کا لفظ استعمال نہیں کیا کیونکہ وہ قرآنی پیغام سے پہلے خدا تعالیٰ کی کامل ربوبیت تلے نہیں آئے تھے بلکہ صرف کی صفت کے نیچے آتے تھے۔ اگر خالی یہ کہا جاتا کہتو اس سے شُبہ ہو سکتا تھا کہ شاید لوگوں پر جبر کیا جارہا ہے۔ آخر خدا تعالیٰ کو انہیں حُکم دینے کا کیا حق ہے۔ پس کے الفاظ زائد کر کے بتا دیا گیا کہ اﷲ تعالیٰ کا محمد رسول اﷲ ؐ پر اگر خالق و رب ہونے کا حق ہے تو دوسرے لوگوں پر خالق ہونے کا حق تو واضح ہے۔ گو رب ہونے کا حق ابھی مخفی ہے۔ جب تم خدا کے پیغامبر ہو کر ان تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا دو گے تو خداتعالیٰ کی ربوبیت کامل طور پر ان کی طرف بھی منتقل ہو جائے گی۔ گویا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی فطرت کا اِن الفاظ میں نقشہ پیش کر دیا گیا ہے کہ آپ بِلا دلیل بات کو سُننے کے لئے کسی حالت میں تیار نہ تھے۔
اِس مرحلہ کے بعد اب ایک اَور مرحلہ پیش آتا ہے۔ بے دلیل بات نہ کرنے کے علاوہ فطرتِ صحیحہ یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ کوئی بے نتیجہ کام اُس سے نہ کروایا جائے۔ مانا کہ خدا تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ انسان کو حُکم دے مگر کیا اس کے حُکم کو ماننے کا کوئی امکان ہے؟ اگر اس کے ماننے کا کوئی امکان ہی نہیں تو یہ بے نتیجہ کام کیوں کیا جائے۔ اگلی آیت اس شُبہ کا ازالہ کرتی ہے۔ اس میںفرمایا گیا ہے کہ ۔ انسان کے اندر تعلق بِاﷲ کا مادہ رکھا گیا ہے اِس لئے خواہ تیرے مخاطب کتنے ہی تقویٰ اور خوفِ خدا سے دُور پڑے ہوئے ہوں فطرتاً ان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف لَوٹیں اور اُس سے محبت کریں۔ پس ظاہری حالات کے لحاظ سے یہ پیغام کتنا ہی کامیابی سے دُور نظر آتا ہے حقیقتاً ناممکن نہیں بلکہ اس کے کامیاب ہونے کے مخفی اور فطری سامان موجود ہیں۔
بظاہر تو اِس دلیل میں انسانی فطرت کی پاکیزگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مگر باطناً اِس میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی فطرت کے اِس پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ کوئی فضول اور بے نتیجہ کام کرنے کے لئے تیار نہ تھے۔ آپ وہی کام کرتے تھے جس کا کوئی فائدہ ہو۔ خواہ مادی خواہ قانونی یااخلاقی۔ اور یہ ایک بہت زبردست پاکیزہ فطرت پر دلالت کرنے والی بات ہے۔
قرآن کریم ایک دوسری جگہ فرماتا ہے ہم نے انسان کو نُطفہ سے پیدا کیا ہے،نُطفہ سے ہم نے علقہ پیدا کیا اور علقہ سے مُضغہ بنایا۔ مُضغہ سے ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پرگوشت چڑھایا اور اس کے بعد اس کے اندر ایک اہم تغیر کر کے روح پیدا کی۵؎ لیکن اس آیت کے ایک تحت السطح معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ عربی محاورہ میں خُلِقَ مِنْ شَیْئٍکے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اس کی فطرت میں یہ چیز رکھی گئی ہے مثلاً وَلَقَدْخَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَۃِ مِّنْ طِیْنٍ۶؎ کے معنے ہوں گے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے لیکن جب ’’مِنْ عَجَلٍ‘‘ ۷؎ آجائے تو اِس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ ہم نے انسان کو جلدی سے پیدا کیا ہے۔ جلدی کوئی مادہ تو نہیں کہ اسے گھولا اور انسان پیدا کر دیا بلکہ اِس کے یہ معنے ہیں کہ انسان کی فطرت میں عُجلت رکھی گئی ہے۔ پس جہاں علق کے ایک معنے یہ تھے کہ ہم نے انسان کو اس حالت سے پیدا کیا ہے کہ وہ رحم سے چمٹا ہؤا تھا وہاں اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے انسان کی فطرت میں محبت اور علاقہ کا مادہ رکھا ہے۔ جیسے ’’من عجل‘‘ کے عربی محاورہ کے رو سے یہ معنے ہیں کہ انسان کے اندر عجلت رکھی گئی ہے۔ پس کے ایک معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں یہ مادہ رکھا گیا ہے کہ وہ کسی کا ہورہے۔ شعراء اور صوفیا کا خیال بھی یہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پنجابی کا ایک مصرعہ سُنایا کرتے تھے جو اِس وقت مجھے یاد نہیں رہا لیکن اُس کا مطلب یہ تھا کہ یا تو تُو کسی کا ہو جا یا کوئی تمہارا ہو جائے۔ پسکے یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے انسانی فطرت میں محبت اور علاقہ کا مادہ رکھا ہے۔ ہم نے اسے اسی حالت پر پیدا کیا ہے کہ وہ کسی کا ہو رہے۔ اِس لئے اے رسول! تُو دوسرے لوگوں کے پاس جا اور اِس بات کا خیال نہ کر کہ بظاہر حالات وہ تیرے پیغام کو نہیں سُنیں گے کیونکہ ہم نے انسان کی فطرت میں یہ چیز رکھ دی ہے کہ وہ خداتعالیٰ کا ہو کر رہنا چاہتا ہے۔ بے شک جب تک اسے اصل چیز نہیں ملتی اس وقت تک کبھی وہ بیوی کا ہو رہتا ہے، کبھی بہن بھائی کا ہو رہتا ہے، کبھی وہ ماں باپ کا ہو رہتا ہے، کبھی وہ دوستوں کا ہو رہتا ہے، وہ درمیان میں بُھولتا پھرتا ہے مگر جب خدا تعالیٰ کے ملنے کا راستہ اُس پر کھل جاتا ہے تو پھر وہ خدا تعالیٰ ہی کا ہوکر رہتا ہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر دیکھا کہ ایک عورت کا بچہ گم ہو گیا ہے اور وہ میدانِ جنگ میں اپنے بچہ کو تلاش کرنے کے لئے ماری ماری پھر رہی ہے۔ اسے جہاں کوئی بچہ ملتا وہ اسے پیار کرتی اور گلے لگاتی لیکن جب دیکھتی کہ وہ اُس کا اپنا بچہ نہیں تو اسے چھوڑ دیتی اور آگے چلی جاتی یہاں تک کہ اُسے اپنا بچہ مل گیا۔ اُس نے اُسے پیار کیا، گلے لگایا اور ایک جگہ آرام سے بیٹھ گئی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم یہ نظارہ دیکھ رہے تھے۔ آپ نے صحابہ ؓکو مخاطب کر کے فرمایا۔ یہی حالت خدا تعالیٰ کی ہوتی ہے۔ جس طرح یہ عورت جب اِسے کوئی بچہ ملتا ہے تو اُس سے پیار کرتی ہے، گلے لگاتی ہے اور جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ میرا بچہ نہیں تو اُسے چھوڑ کر آگے چلی جاتی ہے حتّٰی کہ اسے اپنا بچہ مل جاتا ہے اور وہ سکون سے ایک جگہ پر بیٹھ جاتی ہے۔ اِسی طرح اﷲ تعالیٰ اپنے بندہ کے لئے ہر وقت بیتاب رہتا ہے ۔ جب بندہ صحیح رنگ میں توبہ کر کے اُسے مل جاتا ہے تو وہ ویسا ہی سکون محسوس کرتا ہے جس طرح کا سکون اس ماں نے محسوس کیا ہے۔ ۸؎ پسکے معنے یہ ہیں کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس میں تعلق اور محبت پیدا کرنے کا مادہ رکھ دیا ہے اور اس میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اے رسول! تُو ان سے مایوس نہ ہو۔ ہم نے ان میں ایسا مادہ ودیعت کر رکھا ہے کہ وہ تجھے مانیں گے۔
غرض میں بظاہر ایک پیغام دیا گیا ہے لیکن بباطن اس پیغام کے الفاظ میں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اخلاق پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بِلا دلیل کسی کام کو کرنے کے لئے تیار نہ تھے نہ بِلا حق کسی سے کوئی کام کروانے کے لئے تیار تھے اور نہ کسی بے نتیجہ کام کو کرنے کے لئے تیار تھے۔ اِن تین اعلیٰ اخلاق کو پیش کر کے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اخلاقی مثال بھی دُنیا کے سامنے پیش کر دی گئی ہے۔
اِس وقت میری صحت اِس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ مَیں کوئی لمبا مضمون بیان کروں۔ میری غرض اِس وقت آنے کی یہ تھی کہ تمہیں بتاؤں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی فطرت کا نقشہ آپ کے پہلے الہام میں کس طرح بیان کیا گیا ہے۔ایک بااخلاق انسان کو جب کوئی کام دیا جاتا ہے تو پہلے وہ پوچھتا ہے کہ مجھے بتاؤ کہ مَیں تمہاری بات کیوں مانوں؟ مَیں ڈر سے کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔ جب اُس پر حق ثابت کیا جاتا ہے تو اعلیٰ اخلاق والا انسان یہ کہتا ہے کہ مَیں مانتا ہوں کہ آپ کا مجھ پر حق ہے لیکن اس کام کا تعلق دوسرے لوگوں سے ہے اِس لئے پہلے یہ بتاؤ کہ کیا تمہارا ان پر بھی حق ہے؟ اگر تمہارا ان پر بھی حق ہے تو پھر مَیں جاؤں گا اور یہ کام کروں گا۔ پھر جب یہ سوال حل ہو جاتا ہے تو اخلاقِ فاضلہ والا انسان یہ پوچھتا ہے کہ مخاطبین پر تمہارا حق سہی مگر کیا اِس پیغامبری کا مادی یا اخلاقی فائدہ ہے اور اس پیغام کے پہنچانے میں کوئی حکمت کار فرما ہے؟ اگر ایسا ہو تو مَیں یہ کام کر سکتا ہوں ورنہ نہیں کیونکہ اِس کے بغیر کام کرنے کے یہ معنی ہوں گے کہ گومَیں ایک فرض بجا لاتا ہوں، گو مَیں لوگوں کو اُن کے فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں مگر ایک بے فائدہ اور بے نتیجہ کام کرتا ہوں۔ چنانچہ فطرتِ صحیحہ کے اِس مظاہرہ کا بھی جواب اِس آیت میں دیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ کام بظاہر بے فائدہ نظر آتا ہے مگر حقیقتاً بے فائدہ نہیں نتیجہ خیز ہے اور مفید ہے۔
غرض اِن آیات میں بتایا گیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم پر حق ہے کیونکہ اس نے آپ کو پیدا کیا ہے اور تربیت کر کے کمال تک پہنچایا ہے۔ پھر مخلوقات پر بھی اُس کا حق ہے کیونکہ وہ ان کا بھی خالق و مالک ہے۔ پھر انسان کی فطرت میں خدائی محبت رکھی گئی ہے اِس لئے یہ کہنا کہ آپ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے غلط ہے۔ آج احمدی بھی کہتے ہیں کہ غیر احمدی کس طرح مانیں گے؟ تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو سے پیدا کیا ہے۔ خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں محبت کا مادہ رکھ دیا ہے۔ صرف فرق یہ ہے کہ تم نے اسے ننگا نہیں کیا۔ اِس پر جو پردے پڑے ہیں اِن پردوں کو تم نے اُٹھایا نہیں۔ اگر تم ان پردوں کو اُٹھاؤ گے تو تمہیں خدا تعالیٰ کا وجود نظر آجائے گا۔
مَیں اب ضُعف محسوس کررہا ہوں اِس لئے اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ مجھے افسوس ہے کہ جتنی آیات مَیں نے پڑھی تھیں مَیں ان سب کی تفسیر بیان نہیں کر سکا لیکن مَیں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ یہ جلسہ نہایت اہم ہے۔ یہ جلسہ اُس عظیم الشان انسان کے حالات اور سوانح بیان کرنے کے لئے ہے جو نہ صرف خود ایک عظیم الشان انسان تھا بلکہ اُس نے ہمیں بھی عظیم الشان بنا دیا ہے۔ اِس جلسہ میں چھوٹے بچوں کو گھسیٹ کر لانا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ تمہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم سے والہانہ محبت ہے۔ محض خیالی محبت نہیں۔ (الفضل ۲۵؍مارچ ۱۹۵۲ئ)
۱؎ مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحہ ۹۱ مطبوعہ بیروت ۱۲۱۳ ھ میں’’ کَانَ خُلُقُہُ الْقُراٰنُ‘‘
کے الفاظ ہیں۔
۲؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیْفَ کَانَ بدء الوحی اِلٰی رَسُوْل اﷲ (الخ)
۳؎ العلق: ۲ تا ۶ ۴؎ فاطر: ۲۵ ۵؎ المؤمنون: ۱۴ ، ۱۵
۶؎ المؤمنون: ۱۳ ۷؎ الانبیاء : ۲۸
۸؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ االولد و تقبیلہٖ و معانقتہٖ



ہجرت





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہجرت
(رقم فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی )
’’آج سے قریباً ساڑھے تیرہ سَو سال پہلے بنی نوع انسان کے سردار، آخری شریعت کے حامل، مالکِ ارض و سما کے محبوب، اپنے اہلِ وطن کے ظلم و ستم سے ستائے جاکر، اپنے محبوب وطن کے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے۔ مکّہ سے نکل کر آپ ؐ تین دن غارِ ثور میں چھُپے رہے۔ جب وہاں سے آپؐ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپؐ نے مکّہ کی طرف مُنہ کیا اور کچھ دیر تک محبت سے لبریز نگاہوں سے دیکھنے کے بعد کہا اے مکّہ! تُو مجھے دُنیا کی ساری جگہوں سے زیادہ پیارا ہے لیکن تیرے شہریوں نے مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ۱؎
یہ وہ آخری فقرہ تھا جو مکّہ کو وداع کہتے وقت میرے آقا نے کہا۔ اإس فقرہ کا ایک ایک لفظ اس غم اور رنج کی ترجمانی کر رہا ہے جو مکّہ کے چھوڑنے پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دل میں پیدا ہو رہا تھا۔ آج ساڑھے تیرہ سَو سال کے بعد بھی ہمارے دل اِس فقرہ کو پڑھ کر ہاتھوں سے نکلنے لگتے ہیں تو قیاس کرو اُن لوگوں کا کیا حال ہو گا جنہوں نے وہ الفاظ عین موقع پر اپنے کانوں سے سُنے ۔ حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ اُس وقت آپؐ کے ساتھ تھے یہ الفاظ سُنتے ہی اُن کا دل بے قابو ہو گیا اور بے اختیار بو ل اُٹھے مکّہ نے اپنے نبی کو نکال دیا، اب یہ شہر اپنی تباہی کا انتظار کرے۔ مگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا فقرہ کہنے کے بعد اس غم اور صدمہ کو جو مکّہ کے چھوڑنے پر آپؐ کے دل میں پیدا ہؤا تھا یکسر بھُلا دیا۔ وہ کامل وقار اور سکون کے ساتھ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ مکّہ آپؐ کو پیارا تھا مگر خدا تعالیٰ آپؐ کو اس سے بھی زیادہ پیارا تھا۔ خدا تعالیٰ نے ایک کام آپؐ کے سپرد کیا تھا وہ کام آپؐ کی ساری توجہ چاہتا تھا۔ مکّہ سے زیادہ مکّہ اور اُس کے گِردونواح کے دلوں کی فتح آپؐ کے مدّنظر تھی۔ مکّہ کا گردو نواح ہی نہیں بلکہ سارا عرب اور ساری دُنیا چِلّا چِلّا کر محمد ؐ عربی کو پُکار رہی تھی کہ ہمیں شیطان کے پنجہ سے چھُڑائیے اور اس کی دست بردسے نجات دِلوائیے۔ دُنیا کے نجات دہندہ نے اپنے غموں کو دُنیا کے غموں کے لئے قربان کر دیا۔ بے شک آپؐ کو آپؐ کے اہلِ وطن نے دھتکار دیا تھا لیکن آپؐ باوفا تھے، آپؐ اُن کو دھتکارنے کے لئے تیار نہ تھے۔ آپؐ نے مکّہ کو پیچھے چھوڑا مگر اِس عزمِ صمیم کے ساتھ کہ پھر مکّہ کو فتح کریں گے۔ مکّہ کی فتح کی خاطر نہیں مکّہ والوں کے دلوں کی فتح کی خاطر۔ اِس لئے نہیں کہ پھر اپنا وطن اپنے لئے حاصل کریں بلکہ اس لئے کہ جنت سے نکالے ہوئے اور دھتکارے ہوئے مکّہ والوں کو پھر اُن کے وطن جنت میں واپس لے جاکر داخل کریں۔ مدینہ جو آپؐ کا دارِہجرت تھا وہ موسمی بخار کا گھر تھا۔ جب آپؐ وہاں پہنچے تو طبعاً مہاجرین، جن کے وطن میں یہ بخار کم ہوتا تھا، مدینہ والوں سے بھی زیادہ اس کے شکار ہونے شروع ہوئے۔ بعض نے بخار کے حملہ میں رونا اور چِلّانا شروع کیا اور مکّہ کی یاد میں شعر گُنگنانے لگے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے سُنا تو اِس پر خفگی کا اظہارفرمایا اور فرمایا کہ خدا کی تقدیر پر خوش ہونااور اُس کے مقررہ فرائض کو انجام تک پہنچانے میں لگ جانا ہی مومن کا کام ہے۔ اُس دن کے بعد حبشہ، یمن اور یونان سے آکر بسے ہوئے مکّہ کے عارضی باشندے تو کبھی کبھار مکّہ کی یاد میں آہیں بھرلیتے تھے مگر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جن کی نسل بنائے مکّہ سے لے کر اُس وقت تک مکّہ میں بس رہی تھی وہ مکّہ کو بھُلا چکے تھے۔ ان کے سامنے صرف دُنیا کو نجات دلانے کا کام تھا اور وہ اِسی کام میں لگ گئے اور اُس وقت تک صبر نہ کیا جب تک کہ دُنیا کو شیطان کے پنجہ سے چھڑانہ لیا۔ آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ مکّہ والوں نے مجھے مکّہ سے نکال دیا ہے بلکہ اِس بات پر غور فرمایا کہ مکّہ نے مجھے کیوں نکالا؟ ایک پُر امن شہری اور خیر خواہِ خلائق فرد کو اپنے وطن سے نکال دینے والا کسی بڑی اور گہری اخلاقی اور رُوحانی بیماری میں مُبتلا ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو ہمدردی اور جو پیار بنی نوع انسان سے تھا اُس کو دیکھتے ہوئے کوئی شریف مکّہ والا آپؐ کو مکّہ سے نکلنے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا۔ آپؐ کے لئے تو یہ بات حد درجہ بعید از قیاس تھی۔
جب پہلی وحی ٔ نبوّت آپؐ پر نازل ہوئی، آپؐ کی رفیقۂ حیات حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا آپؐ کو ساتھ لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس جو اُن کے رشتہ دار تھے، مگر عیسائی ہو چکے تھے، مشورہ کے لئے گئیں۔ ورقہ بن نوفل نے سارے حالات سُن کر کہا کہ ’’آپؐ پر وحی لانے والا فرشتہ وہی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی لایا تھا۔ اور پھر کہا کاش! مَیں اُس وقت تک زندہ رہوں جب تمہاری قوم تمہیں اپنے وطن سے نکال دے گی تاکہ مَیں اس وقت پورے طور پر تمہاری مدد کر سکوں۔ اِس فقرہ کو سُن کر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے محبت اور اُس ہمدردی پر نظر کرتے ہوئے جو آپ ؐ کے دل میں مکّہ والوں کے لئے تھی حیرت سے ورقہ کے مُنہ کو دیکھا اور کہا۔ کیا کہتے ہو؟کیا مکّہ والے مجھے نکال دیں گے؟ورقہ نے کہا۔ ہاں! ہاں! وہ ضرور تمہیں نکال دیں گے۔ لوگ نبیوں سے ایسا ہی کیا کرتے ہیں۔۲؎ غرض مکّہ والوں کے متعلق یہ وہم بھی نہیں کیا جاسکتا تھا کہ وہ ایسے خیر خواہ شخص کو اپنے وطن سے نکال دیں گے مگر اُنہوں نے ایسا ہی کیا۔ اور یہ اِس بات کا ثبوت تھا کہ ان کے دل انسانی دل نہیں رہے تھے اور شیطان نے اُن پر قبضہ پالیا تھا۔ مگر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ میں جانا چاہتے تھے اور ایسا کرنے کا پُختہ ارادہ رکھتے تھے اِس لئے نہیں کہ آپؐ ان سے بدلہ لیں جنہوں نے آپؐ کو نکال دیا تھا بلکہ اِس لئے کہ اُن کو شیطان کے پنجہ سے چھُڑائیں اور شیطان کی جگہ خدا تعالیٰ کی حکومت پھر دوبارہ مکّہ میں قائم کر دیں۔
آج بھی مشرقی پنجاب سے لاکھوں مسلمان اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں۔ اُنہیں یقینا اپنے وطن پیارے ہوں گے اور اپنی جائیدادوں کے جاتے رہنے کا غم ہو گا۔ ان کے دل ان لوگوں کے خلاف غصّہ اور رنج سے بھرے ہوئے ہوں گے جنہوں نے اُنہیں ان کے گھروں سے نکالا۔ ان جائیدادوں پر قبضہ کر لیا اور ان کی عزّت و ناموس پر حملہ کیا۔ مگر مَیں ان سے پوچھتا ہوں کہ ایسا کرنے والوں نے ایسا کیوں کیا؟ کیا اِن مہاجرین نے اپنی جائیدادیں ان سے چھین کر حاصل کی تھیں؟ کیا یہ مہاجرین غیر مُلکی لُٹیرے تھے جو مشرقی پنجاب میں زبردستی آگھسے تھے؟ کیا یہ مہاجرین مشرقی پنجاب کے ہندوؤں اور سکھوں کے ہمسائے نہ تھے ان کی خوشیوں اور غمیوں میں اُن کے شریک نہ تھے؟ اُن کے جتھوں اور اُن کی دھڑا بازیوں میں شامل نہ تھے؟ کیا یہ آپس میں ایسے ملے ہوئے نہ تھے؟ کیا یہ عدالتی مقدمات میں سکّھوں اور ہندوؤں کی گواہی میں بیسیوں مسلمان اُن کی طرف سے گواہ نہیں گزرتے تھے؟ پھر ان پُرانے ساتھیوں، دوستوں اور ہمسایوں نے اپنے ہی جسم کے کاٹنے کے لئے کیوں تلوار اُٹھائی؟ اپنی ہی عزّت و ناموس کو برباد کرنے کے لئے کیوں کھڑے ہو گئے؟ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا مُلک کیوں اُجاڑا؟ یقینا کوئی گہری اور پوشیدہ اخلاقی بیماری ان کی رُوحوں کو لگی ہوئی تھی۔ ان خدا کے بندوں کو شیطان چھین کر لے گیا تھا۔
پس مَیں مشرقی پنجاب سے آنے والے سب لوگوں سے کہتا ہوں آؤ ہم بھی اپنے آقا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اتباع میں تہیہ کر لیں کہ اپنے آبائی وطن کو لَوٹیں گے اور ضرور لَوٹیں گے لیکن بُغض اور کینہ اور انتقام کے جذبہ کے ساتھ نہیں بلکہ انسانیت اور رُوحانیت کے تقاضوں کے جواب میں اور ہمدردی اور محبت کے جذبات لئے ہوئے۔ اِن واقعات نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں، اِن واقعات نے ہمیں بتا دیا ہے کہ انسان کی ظاہری شکل تو وہی ہے جو پہلے تھی مگر اس کا باطن بدل چُکا ہے۔ انسان کے جسم میں وحشی درندوں کی رُوحیں داخل ہو گئی ہیں۔ آؤ! ہم بھی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرح عزم کر لیں کہ ہم اِن وحشی اور درندہ رُوحوں کو اپنے بھائیوں کے جسم سے نکال دیں گے۔ ہم ضرور اپنے وطنوں کو جائیں گے۔ اِس لئے نہیں کہ اپنی حکومت وہاں قائم کریں بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت وہاں قائم کریں۔ جس طرح ہمارے آقا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے کیا۔ جب تک خدا تعالیٰ کی حکومت مشرقی پنجاب کیا ساری دُنیا میں قائم نہ ہو گی، بہار، نواکھلی، امرتسر، گورداسپور، لدھیانہ، جالندھر، پٹیالہ، کپورتھلہ کے واقعات ہر جگہ پر اور بار بار ہوتے رہیں گے۔ جنگل کے درندے ابتدائے آفرینش سے آج تک لڑتے ہی چلے آئے ہیں۔ انسانوں میں سے سچّا انسان ہی صرف امن اور صلح سے رہنا جانتا ہے۔ وہ بھی لڑنے پر مجبور ہوتا ہے مگر اِس لئے کہ امن قائم کرے۔
پس اگر ہم امن چاہتے ہیں تو خواہ صلح سے یا جنگ سے جس طرح بھی ہو ہمیں خداتعالیٰ کی بادشاہت دُنیا میں قائم کرنی ہو گی۔ اگر اس کے لئے ہمیں جنگ بھی کرنی پڑے تو وہ جنگ جنگ نہیں ہو گی، وہ صلح کا پیغام ہو گا۔ وہ امن کی آواز ہو گی۔ مرضیں اُبھر پڑی ہیں۔ بیماریاں ظاہر ہو گئی ہیں اور مرض کا ظاہر ہو جانا خوش قسمتی کی علامت ہے۔ اے دُنیا کے سب سے بڑے طبیبِ روحانی سے منسوب ہونے والے لوگو! اُٹھو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور سب دوسرے کاموں کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے ، اپنے مقصد اوّل کی طرف توجہ کرو۔ دُنیا کا ہسپتال بیماروں سے پُر ہے۔ دُنیا کا طبیبِ اعظم ہسپتال کے عملہ کو اپنی امداد کے لئے بُلارہا ہے۔ کیا تم اس کی آواز پر لبیک نہیں کہو گے؟ ‘‘
(مکتبہ سلطان القلم ربوہ)
۱؎ السیرۃ الحلبیۃجلد ۲ صفحہ ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ئ
۲؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیف کَانَ بدء الوحی اِلٰی رَسُوْلِ اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم(الخ)



افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء
(فرمودہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۵۱ء برموقع افتتاح جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:
’’مَیں بعض حالات کی وجہ سے افتتاح جلسہ سے پہلے دو نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ مَیں نے اِس بات کو ظاہر نہیں ہونے دیا کیونکہ ایسے موقع پر دوسرے احباب اپنے کاغذات دے دیتے اور اتنا وقت لے لیتے ہیں کہ جس سے جلسہ کے پروگرام پر بھی اثر پڑ جاتا ہے۔ یہ دو نکاح جن کا اعلان کرنا چاہتا ہوں ایک تو میرے لڑکے مرزا وسیم احمد کا ہے جوکہ شروع ایّامِ ہجرت سے قادیان میں بیٹھا ہؤا ہے۔ یہ نکاح امۃ القدوس بیگم جو ہمارے ماموں مرحوم و مغفور میر محمد اسمٰعیل صاحب کی بیٹی ہیں اُن سے ایک ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے۔ لڑکی کی طرف سے اُس کے چچا زاد بھائی سیّد داؤد احمد وکیل ہیں اور لڑکے کی طرف سے قبولیت کا اختیار میرے نام آیا ہؤا ہے۔
(اس کے بعد حضور نے سیّد داؤد احمد صاحب سے دریافت فرمایا کہ):
’’ سیّد داؤد احمد تمہیں امۃ القدوس کے حقیقی ولیوں کی طرف سے اور امۃ القدوس بیگم کی طرف سے اُن کا نکاح ایک ہزار وروپیہ مہر پر مرزا وسیم احمد ولد مرزا محمود احمد سے منظورہے؟‘‘
(اِس پر سیّد داؤد احمد صاحب نے اپنی منظوری کا اعلان کیا۔ اِس کے بعد حضور نے فرمایا:)
’’اب مَیں مرزا وسیم احمد کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ اُن کو ایک ہزار روپیہ مہر پر امۃ القدوس بیگم بنت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب مرحوم سے اپنا نکاح منظور ہے۔‘‘
دوسرا نکاح امۃ النصیر بیگم جو میری لڑکی اور سارہ بیگم مرحومہ کے بطن سے ہے اس کا ایک ہزار روپیہ مہر پر پِیر معین الدین ولد پیر اکبر علی صاحب مرحوم سے قرار پایا ہے۔ احباب کو معلوم ہو گا کہ مَیں اپنی لڑکیوں کا نکاح صرف واقفینِ زندگی سے کر رہا ہوں اور اِس رشتہ میں بھی میرے لئے یہی کشش تھی کہ لڑکا واقفِ زندگی ہے۔ مَیں اپنی طرف سے اور امۃ النصیر بیگم کی طرف سے پیر معین الدین صاحب ولد پیر اکبر علی صاحب مرحوم سے ایک ہزار روپیہ مہر پر اِن کے نکاح کی قبولیت کا اعلان کرتا ہوں۔
پیر معین الدین ولد پیر اکبر علی صاحب مرحوم کیا آپ کو ایک ہزار روپیہ مہر پر امۃ النصیر بیگم بنت مرزا محمود احمد سے اپنا نکاح منظور ہے؟‘‘
(اِن کی منظوری کے بعد حضور نے فرمایا:)
’’دوست اب دُعا کر لیں۔ اِس کے بعد جلسہ کا افتتاح ہو گا۔‘‘
(دُعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:)
’’آج ہم پھر کسی انسان کے حُکم سے نہیں، کسی ذاتی خواہش کے مطابق نہیں، کسی دُنیوی نفع حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ محض خدا تعالیٰ کے نام کی عزت کے لئے اور اس کے دین کی خدمت کے مواقع تلاش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں۔ ہم اپنے مخالفوں کی نظر میں ایک حقیر کیڑے سے بھی بدتر ہیں لیکن اِس حقارت اور اِس عداوت کو دیکھ کر ہمارے دل نہ مایوس ہوتے ہیں نہ افسردہ ہوتے ہیں اِس لئے کہ ہماری نظر میں یہ سلوک بہترین انعام ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہونے والی جماعتوں کو ملا کرتا ہے۔ ایک چھوٹا بچہ جب اکیلا گلی میں سے گزر رہا ہوتا ہے اور گلی کے اوباش اور شریر لڑکے اُس کو دِق کرنے کے لئے اس پر حملہ کرتے ہیں اور اُس کی آواز سُن کر اُس کی ماں بے تاب ہو کر اپنے گھر سے باہر نکل آتی ہے تو وہ اس لڑکے کی افسردگی کا وقت نہیں ہوتا بلکہ وہ اِس پر ناز کرتا ہے کہ میری ماں نے میرے لئے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ آخر سیدھی بات ہے کہ ہمارا دُشمن ہمارا دُشمن ہی ہے اور ہمارا خدا ہمارا خدا ہی ہے۔ کتنا نادان ہے وہ انسان ، کیسا بے وقوف اور کیسا احمق ہے جو خدا کی محبت کو انسانی دُشمن کی عداوت سے حقیر سمجھتا ہو۔ خداتعالیٰ کی محبت اور اس کا پیار تو اتنی قیمتی چیز ہے کہ انسان اس کے مقابلہ میں اگر وہ انسانی عداوت سے حاصل ہوتا ہو تو نہ صرف یہ کہ اس کو ناپسند نہ کرے گا بلکہ تمنا کرے گا کہ وہ عداوت مجھے حاصل ہو تاکہ میرے خدا کی محبت میرے لئے اور زیادہ جوش مارے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیںلَا تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ ۱؎ دُشمن کے حملہ کی تمنّا نہ کیا کرو۔ آخر سوچنا چاہئے کہ اس فقرہ کے معنے کیا ہیں؟ کون دُشمن کے حملہ کی تمنا کیا کرتا ہے اور اِس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ جہاں تک لڑائی کا تعلق ہے، جہاں تک مرنے کا تعلق ہے، جہاں تک تکالیف کا تعلق ہے کوئی شخص بھی دُشمن کے حملہ کی تمنّا نہیں کر سکتا مگر مسلمان ایسی حالت میں تھے کہ ان کے دل اِسی نکتہ کے ماتحت جو مَیں نے بیان کیا ہے بعض دفعہ خواہش کر سکتے تھے کہ کاش! ہمارا دُشمن ہم پر حملہ کرے تاکہ ہمارا خدا بھی ہماری مدد کے لئے آجائے۔ تو صرف اور صرف یہی وجہ ہو سکتی تھی کہ جس کے لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ فقرہ فرمایا یعنی اے مسلمانو! جب دُشمن تم پر حملہ کرتا ہے تو خدا تمہارے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ بات تمہیں اِتنی لذیذ معلوم ہوتی ہے اور تمہیں اِس میں اتنا مزا آتا ہے کہ جب دُشمن حملہ چھوڑ دیتا ہے تو تم کہتے ہو کاش! ہمارا دُشمن ہم پر پھر حملہ کرے تا ہمارا خدا پھر ہمارے پاس آجائے۔ یہ خواہشِ عشق تو ٹھیک ہے لیکن الٰہی حکمتوں اور الٰہی منشاء کے خلاف ہے اس لئے لَا تَتَمَنَّوْا لِقَائَ الْعَدُوِّ فرما کر بتایا کہ یہ ہے تو بڑی زبردست خواہش اور ہے تو عاشقانہ مطالبہ لیکن خدا تعالیٰ کی مدد کی خاطر اُس کے ادب کے لحاظ سے ایسی خواہش مت کیا کرو۔
پس ہمارے لئے دُنیا میں کوئی ایسا حملہ، کوئی ایسی تحقیر، کوئی ایسی تذلیل نہیں ہے جو کہ ہمیں اپنے کام سے پِھرا سکے اور جو ہمیں مایوس کر سکے۔ پس ہمارے احباب کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ درحقیقت سب سے محفوظ مقام، سب سے عزت والا مقام ، سب سے مزے والا مقام اِس وقت دُنیا میں اگر کسی کو حاصل ہے تو وہ آپ لوگوں کو ہی حاصل ہے۔ دُنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہ ، دُنیا کے بڑے سے بڑے حاکم، دُنیا کے بڑے سے بڑے حکمران، دُنیا کے بڑے سے بڑے لیڈر انسانی امداد پر بھروسہ کرتے ہیں۔ ان کی تکلیفوں کے وقت کچھ انسان آگے آتے ہیں مگر تمہاری تکلیفوں کے وقت خدائے واحد خود آسمان سے اُتر آتا ہے۔
پس یہ ایّام بہترین ایّام ہیں جو کسی قوم اور کسی فرد کو کبھی حاصل ہوئے ہوں۔ یہی وہ انعام ہے جو کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی جماعت کو حاصل ہؤا، یہی وہ انعام ہے جو حضرت عیسیٰ ؑ کی جماعت کو حاصل ہؤا، یہی وہ انعام ہے جو حضرت موسیٰ ؑ کی جماعت کو حاصل ہؤا اور یہی وہ انعام ہے جس کے لئے خدانے ہمیں یہ دُعا سکھائی ہے کہ ۔ ۲؎ پس یہ چیز جو کہ بہترین انعاموں میں سے ہے اور وہ خلعت جو ہمیشہ ہی اﷲ تعالیٰ کے خاص لوگوں کو پہنایا جاتا ہے وہ آج آپ لوگوں کو پہنایا گیا ہے۔ اور درحقیقت ہم اس لئے بھی یہاں جمع ہوئے ہیں تاکہ اپنے رب کے حضور میں اپنا اظہارِ شکریہ کریں اور اُس کی خدمت میں عرض کریں کہ ہم اِس انعام کی قدر کرتے ہیں جو آپ کی طرف سے ہم پر نازل کیا گیا ہے۔ پس اپنے اِن ایّام کو شُکر گزاروں اور قدر دانوں کے ایّام کی طرح گزارو۔ لغو باتوں، فضول باتوں اور بیکار باتوں میں اپنے اوقات صَرف مت کرو۔ کبھی نہ کبھی انسانوں پر ایسا وقت بھی آتا ہے خواہ وہ کتنے ہی مشغول ہوں اور کتنے ہی اعلیٰ مقام پر ہوں جبکہ وہ ایک مزاح کے رنگ میں ہوتے ہیں اور ایک خوشی کی حالت میں ہوتے ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت بھی آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک بچہ آپؐ کے پاس آیا تو آپؐ نے اُس کو مذاقیہ کہا کہ وہ چِڑیا اُڑ گئی۔ اِسی طرح وضو فرماتے ہوئے آپؐ نے مُنہ سے اپنی کُلّی کا پانی اُس پرپھینکا۔ یہ وقت بھی بے شک آتے ہیں مگر ہر کام کا ایک موقع اور ہر نکتے کا ایک الگ مقام ہوتا ہے۔
یہ دن ہمارے لئے ایسے دن ہیں کہ ان میں بہت زیادہ ہمیں عبادت کرنی چاہئے، بہت زیادہ ہمیں اپنے اوقات دین کی خدمت میں خرچ کرنے چاہئیں اور بہت زیادہ ہمیں اپنے اوقات مفید کاموں اور سلسلہ کے کاموں اور اسلام کے کاموں میں صرف کرنے چاہئیں۔
جیسا کہ آپ لوگوں نے محسوس کیا ہو گا میری آواز بیٹھی ہوئی ہے۔ مجھے یکدم چھ سات دن سے نزلہ کی شکایت پیدا ہوئی اور اتنا شدید نزلہ ہؤا کہ تین دن تک مَیں دائیں اور بائیں رات کو کروٹ بدلتے ہوئے (بلکہ اوّل تو بہت سا وقت نیند ہی نہیں آتی تھی) ناک کے نیچے رومال رکھ کر لیٹتا تھا کیونکہ پانی پر نالے کی طرح چلتا چلا جاتا تھا اور مجھے یہی احتمال تھا کہ مَیں شاید اِس جلسہ پر کوئی تقریر نہیں کر سکوں گا مگر پرسوں سے کسی قدر افاقہ شروع ہؤا ہے۔ مگر ایسا نہیں کہ نزلہ بالکل بند ہو گیا ہو نہ ایسا کہ میری آواز کھلی ہو اِس لئے مَیں آہستہ ہی بول سکتا ہوں۔ یہ نہیں جانتا کہ کل تک کیا ہو۔ ممکن ہے اﷲ تعالیٰ اِس بات کی توفیق عطا کر دے کہ مَیں اچھی طرح بول سکوں مگر موجودہ حالت یہی ہے کہ معمولی سی بات کرنے سے بھی سینہ میں خراش شروع ہو جاتی ہے اور اِس طرح ناک بہنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور چھینکیں شروع ہو جاتی ہیں گو پہلے سے بہت افاقہ ہے اس لئے مَیں احباب سے یہ بھی خواہش کرتا ہوں کہ جیسا کہ انہوں نے گزشتہ سال نہایت ہی ہمت کے ساتھ اور عقل سے کام لے کر بہت حد تک گَرداُڑانے سے پرہیز کیا تھا جلسہ کے وقت میں بھی اور ملاقاتوں کے وقت میں بھی اس دفعہ اُس سے بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اُن دنوں عملاً میری بیماری رفع ہو چکی تھی کمزوری باقی تھی لیکن اِن دنوں میں عملاً مجھ پر بیماری کا حملہ ہے اور ذرا سی گرد اُڑنے سے بھی نزلہ کی شکایت عَود کر آتی ہے۔ ملاقات کے وقت بعض دوست ذرا پیر زیادہ زور سے مارنے کے عادی ہوتے ہیں۔ مَیں اِس کو بُرا تو نہیں کہتا آخر کام کرنے والی اور اُمنگوں والی جماعتوں میں کچھ بہادرانہ رنگ بھی پایا جانا چاہئے مگر وقت وقت کے لحاظ سے بعض دفعہ احتیاط بھی کی جاسکتی ہے۔ سو دوست جب ملاقات کے لئے آئیں اُس وقت آہستہ سے قدم رکھیں تاکہ گَرد نہ اُڑے۔ اِسی طرح بعض لوگ اپنا کپڑا ساتھ سمیٹتے آتے ہیں۔ خصوصاً گاؤں کے لوگ اور ان کے کپڑے کے سمیٹنے سے اُسی طرح گرد اڑتی ہے جس طرح جھاڑوسے۔ وہ تو تندرست ہوتے ہیں اُن کو وہ گرد محسوس نہیں ہوتی مگر میرے لئے وہ گرد بہت زیادہ تکلیف کے بڑھانے کا موجب ہوجاتی ہے۔ اِسی طرح بعض دفعہ دوست گاڑی کے ساتھ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں یا ایسی طرز پر اِردگِرد کھڑے ہوتے ہیں کہ اس سے گَرد پڑتی ہے۔چونکہ آگے میرے دو بلکہ تین دن کام کے لحاظ سے نہایت بھاری ہیں۔ گھنٹوں مجھے ملاقات بھی کرنی پڑے گی اور پھر مجھے اگر خدا نے توفیق دی تو گھنٹوں ہی تقریر بھی کرنی پڑے گی اِن حالات کے لحاظ سے میرا بھی اور ان کا اپنا فائدہ بھی اِسی میں ہے کہ وہ گزشتہ سال کی طرح اِس سال بھی احتیاط سے کام لیں تاکہ اﷲ تعالیٰ آرام اور سہولت سے یہ دن ہمارے گزار دے اور ہمیں اپنے فرائض کے ادا کرنے میں کسی قسم کی کوئی روک پیدا نہ ہو۔
اس کے بعد مَیں دُعا کردیتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے اس اجتماع کو مبارک کرے اور ہمیں اپنے فضلوں کا وارث بنائے اور ہمارے دلوں میں ایسا نور پیدا کرے جو کہ دُنیا کو روشن کر دے اور ہماری زبانوں میں وہ تأثیر بخشے جو لوگوں کے لئے اطمینان پیدا کرنے کا موجب ہو اور ہماری غفلتوں اور سُستیوں اور مناقشانہ طبیعت اور بدظنی کی طبیعت کو بدل کر سچے اور محنتی اور عقلمند کارکنوں والی طبیعت ہم کو عطا فرمائے تاکہ ہم نہ صرف یہ کہ آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہیں بلکہ بیرونی دُنیا کے فتنوں اور فسادوں کو دور کر کے ساری دُنیا میں ایک ایسا امن قائم کر دیں، ایک ایسا نظام قائم کر دیں جس کے ذریعہ سے دُنیا اُن آرام کے دنوں کو پھر دیکھ لے جن کے لئے وہ صدیوں سے ترس رہی ہے اور جن حالات کی وجہ سے بنی نوع انسان کا امن بالکل برباد ہو چُکا ہے اور انسان اپنے خدا سے بدظن ہوگیا ہے۔
پس آؤ اُس خدا سے دُعا کریں جس کے ہاتھ میں ساری طاقتیں ہیں اور جو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے، مایوسیوں کو اُمیدوں سے بدل دیتا ہے، شکوک کو یقین سے تبدیل کر دیتا ہے۔
(الفضل لاہور یکم جنوری ۱۹۵۲ئ)
۱؎ کنز العمال جلد ۴ صفحہ ۳۶۱ مطبوعہ حلب ۱۹۷۰ئ
۲؎ الفاتحہ: ۶ ،۷



چشمہ ٔ ہدایت




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
چشمہ ہدایت
’’حالات خواہ اچھے ہوں یا بُرے
احمدیت کی گاڑی بہرحال چلتی جائے گی‘‘
(فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۵۱ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’ بعض دوست توجہ دلانے کے باوجود جلسے کے مبارک ایّام ذکرِ الٰہی اور دُعاؤں میں گزارنے کی بجائے اِدھر اُدھر پھرنے میں ضائع کر دیتے ہیں۔ جب مَیں نے دوستوں کو اِدھر اُدھر پھرتے دیکھا تو دل میں کہا کہ جو لوگ توجہ دلانے کے باوجود ایسا کرتے ہیں اُن کے دلوں کو بدلنا اُسی کے اختیار میں ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے ۔ پس جب مَیں نماز میں خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہؤا تو مَیں نے اُس سے عرض کیا کہ الٰہی!! تُو نے ان کو اپنے دین کی خدمت کے لئے کھڑا کیا ہے پس اب تُو ہی اِن کے دلوں میں دین کی عزت ، ذکرِ الٰہی کا احترام اور عبادت کی محبت عطا فرما کہ یہ کام میرے بس میںنہیں ہے۔ آمین
آج کے دن میری عورتوں میں بھی تقریر ہؤا کرتی ہے لیکن اِس سال عورتوں نے خود ہی اپنے حق کو چھوڑ دیا بعض وجوہات سے۔ کیونکہ عورتوں میں چونکہ وہ برقع پہنے ہوئے ہوتی ہیں اِس لئے پورے طور پر یہ نگرانی نہیں کی جاسکتی کہ ممکن ہے کوئی مرد ہی آجائے یا کوئی عورت ہی بدارادہ سے آئی ہوئی ہو تو اُس کی نگرانی نہیں کی جاسکتی اِس لئے اُنہوں نے کہا ہم اپنا حق آپ چھوڑتی ہیں۔ چونکہ میرا بھی گلا بیٹھا ہؤا تھا اور مجھے نزلہ کی شکایت بھی تھی مَیں نے اِس کو ایک الٰہی تحریک سمجھا اور بڑی خوشی سے اِس کو قبول کیا کہ بہت اچھا اگر تم اپنا حق آپ چھوڑتی ہو تو پھر مجھے کیا عُذر ہو سکتا ہے۔ مگر اُنہوں نے یہ بھی ساتھ خواہش کی کہ مردوں کی تقریر میں کچھ ہمارے متعلق بھی کہا جائے تاکہ ہم وہیں سے لاؤڈسپیکر کے ذریعہ سے سُن سکیں۔ حسبِ وعدہ مَیں دو چار منٹ یہ تقریر عورتوں کی طرف خطاب کر کے کرتا ہوں۔
تبلیغ کی طرف توجہ کی ضرورت
سب سے پہلے تو مَیں اُن کو اپنی گزشتہ سال کی تقریر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ مَیں نے
اُنہیں اب دین میں زیادہ حصّہ لینے اور تبلیغ کی طرف توجہ کرنے کی تحریک کی تھی لیکن وہی منتظمات جنہوں نے مجھے تحریک کی ہے کہ مَیں عورتوں کو مخاطب کروں، مردوں کی سٹیج سے مَیں اُنہی کو کہتا ہوں کہ سب سے پہلے اُنہوں نے ہی اپنی فرض شناسی سے گریز کیا ہے۔ مَیں نے یہ تجویز کی تھی کہ عورتیں آزادی کی رَو میں بَہہ رہی ہیں اور نئی نئی اُمنگیں ان کے دلوں میں پیدا ہو رہی ہیں اِس لئے تبلیغ کا میدان ان میں اِس وقت زیادہ وسیع ہے بہ نسبت مردوں کے کیونکہ وہ اِس وقت حکومت کے نشہ میں چُور ہو رہے ہیں اور مذہب سے بہت ہی دُور ہو رہے ہیں۔ چنانچہ میری اس تحریک کے ماتحت مختلف اضلاع میں عورتوں کی پارٹیاں ربوہ سے بھیجی گئیں اور عورتوں کی مجالس جمع کی گئیں اور ان میں یہاں کی عورتوں نے جاکر لٹریچر بھی تقسیم کیا اور تقریریں بھی کیں۔ اب چاہئے یہ تھا کہ ۱۹۵۱ء میں اس سلسلہ کو وسیع کیا جاتا مگر جہاں تک میرا علم ہے اُن ضلعوں میں بھی دَورہ نہیں کیا گیا جن میں پہلے کیا گیا تھا اور نئے ضلع تو بالکل ہی اِس سوال سے باہر ہیں۔پس سب سے پہلے مَیں انہیں کہتا ہوں کہ تم نے جو مجھ سے حق مانگا ہے سٹیج پر سے تقریر کا اسی کے مطابق مَیں تمہیں کہتا ہوں کہ اپنے فرائض کی طرف توجہ کرو اور اِس سُستی اور غفلت کو چھوڑ دو۔
تعمیر دفتر لجنہ اماء اﷲ
یہ بات تو مَیں نے اپنی طرف سے کہی ہے جس بات کی اُنہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے وہ یہ ہے کہ مَیں عورتوں
میں تحریک کروں کہ لجنہ اماء اﷲ کا دفتر بن گیا ہے وہ اس کے چندہ کی طرف زیادہ توجہ کریں۔ اِس میں تو مَیں سمجھتا ہوں کہ عورتوں نے پھر ہم پر بازی لے لی ہے۔ مردوں کے دفتر ابھی بنیادوں سے ہی نیچے پڑے ہوئے ہیں اور سال سال، دو دو سال سے رقمیں بھی منظور ہو چُکی ہیں، سامان بھی آچکے ہیں اور افسر بھی مقرر ہو چُکے ہیں اور انجینئر بھی ہیں لیکن وہ ابھی تک ابتدائی مراحل سے بھی نہیں گزر سکے مگر عورتوں کا دفتر خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو چُکا ہے۔ صرف پردہ بنانے میں افسر نے کسی قدر سُستی کی ہے۔ اگر وہ پردہ بنا ہؤا ہوتا تو اُن کا سارا کام اِس جگہ پر بڑی اچھی طرح چل سکتا تھا۔
پھر یہ بھی ہے کہ عورت اپنی نظر سے بہت فائدہ اُٹھاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اُس کے اندر کچھ ایسی صفت رکھی ہے کہ جو چیز دکھاوے والی ہو اُس پر وہ فریفتہ ہوتی ہے۔ سونا ہے، زیور ہے، اِس زیور کے اُوپر وہ جان دیتی ہے۔ اُسے آپ نظر نہیں آرہا ہوتا کہ میرے گلے میں ہار کیسا پڑا ہؤا ہے اُس کا سارا لُطف تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ دیکھ رہے ہیں میرے گلے کا ہار۔تو مَیں نے لجنہ سے کہا تھا کہ میری کسی تحریک کی ضرورت ہی نہیں۔ جس وقت مستورات اپنا دفتر بنا ہؤا دیکھیں گی بس کہیں گی سُبْحَانَ اﷲِ فوراً لو چندہ اور اس کو مکمل کرو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بار ہا مَیں نے یہ لطیفہ سُنا ہؤا ہے کہ آپ فرماتے تھے کوئی عورت تھی اِسی طرح کی اُسے عادت تھی مگر تھی وہ غریب۔ اُس نے ایک اچھی سی انگوٹھی بڑے شوق سے بنوائی اور خیال کیا کہ عورتیں اس کی تعریف کریں گی اور کہیں گی۔ بی بی! تم نے یہ کہاں سے بنوائی ہے؟ کتنی قیمت میں بنی ہے؟ نمونہ کیسا اچھا ہے! ہم تو چاہتی ہیں ایسی انگوٹھی ہم بھی بنوائیں مگر اتفاق کی بات ہے لوگوں کی اُس پر نظر نہ پڑی اور اُنہوں نے اُس سے کچھ پوچھا نہیں۔ آخر اُس نے باتیں کرنی شروع کر دیں کہ فلاں بات یُوں ہے، فلاں بات یُوں ہے اور بات کے ساتھ ساتھ انگوٹھی بھی سامنے کر دیتی لیکن پھر بھی کسی نے نہ پوچھا۔ آخر تنگ آکر اُس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی۔ سارے اِرد گِرد کے لوگ اکٹھے ہو گئے، عورتیں بھی آگئیں اور اُس سے ہمدردی کرنے لگیں کہ کیا ہؤا؟ کچھ بچا بھی؟ اُس نے کہا کچھ نہیں بچا صرف یہ انگوٹھی بچی ہے۔ آخر کسی عورت نے پوچھا کہ بہن! یہ انگوٹھی تم نے کب بنوائی تھی؟ وہ رو کر کہنے لگی کہ تُو پہلے پوچھ لیتی تو میرا گھر ہی کیوں جلتا۔ تو بار ہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ لطیفہ سُنایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ عورت کی فطرت میں کچھ نمائش اﷲ تعالیٰ نے رکھی ہے۔ پس میرے زیادہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میرے خیال میں جو سامنے دفتر لجنہ اماء اﷲ کا بنا ہؤا ہے وہ اپنی شان سے اور اپنی عظمت سے اور اپنے اس نظارہ سے کہ مرد چُپ کر کے بیٹھے ہیں اور ہم نے اپنا دفتر بنا لیا ہے عورتوں کو سب وعظوں سے زیادہ کام پر تیار کر دے گا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بڑے شوق سے جاتے ہی روپے جمع کرنا شروع کر دیں گی اور جو باقی رقم ہے اُس کو غالباً چنددنوں کے اندر ہی پورا کر دیں گی۔
مسجد ہالینڈ کے لئے چندہ کی تحریک
مجھے زیادہ فکر عورتوں کے ذمہ جو مسجدہالینڈ لگائی گئی ہے اُس کا ہے اس
میں ابھی بہت سی کمی باقی ہے۔ مَیں نے جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے مسجد ہالینڈ کا چندہ عورتوں نے مردوں سے زیادہ دیا ہے۔ مردوں کے ذمّہ واشنگٹن کی مسجد لگائی گئی ہے اور اُس کا خرچ مسجد بنا کر قریباً اڑھائی پونے تین لاکھ ہوتا ہے اور جو عورتوں کے ذمّہ کام لگایا تھا مسجد ہالینڈ کا اُس کی ساری رقم زمین وغیرہ ملا کر کوئی اسّی ہزار یا لاکھ کے قریب بنتی ہے۔ اُنہوں نے اپنے اسّی ہزار میں سے چھیالیس ہزار روپیہ ادا کر دیا ہے یعنی پچاس فیصدی سے زیادہ اور مردوں نے اپنے اڑھائی پونے تین لاکھ میں سے اب تک چھتیس ہزار روپیہ دیا ہے اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مکان کو اِس وقت تک ایک احمدی کے پاس گِروہی سمجھئے۔ یوں تو اُنہوں نے قرض دیا ہؤا ہے لیکن بہرحال اس مکان کے لئے دیا ہؤا ہے اِس لئے اُسے گِرو ہی سمجھو۔ اِس کے ساتھ وہاں کے مبلّغ کی طرف سے اصرار ہو رہا ہے کہ پچھلا قرضہ ادا کرو اور آگے کے لئے مسجد کی تیاری کرو۔ پس ممکن ہے یہ مکان گِروہی رکھنا پڑے لیکن مسجد ہالینڈ کی طرف مَیں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو توجہ دلانے کی اِتنی ضرورت نہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ میری اِس مختصر تحریک سے ہی اپنے فرض کو سمجھنے لگ جائیں گی اور اِس نیک کام کی تکمیل تک پہنچا دیں گی۔
مَیں عورتوں سے کہتا ہوں تمہاری قربانی مردوں سے اس وقت بڑھی ہوئی ہے۔ اپنی اِس شان کو قائم رکھتے ہوئے اپنے دفتر کے قرضہ کو بھی ادا کرو اور اس کے ساتھ مسجد ہالینڈ کو بھی نہ بھُولنا۔ اِس کے لئے ابھی کوئی پچاس ہزار روپیہ کے قریب ضرورت ہے۔ ہمارا پہلا اندازہ مکان اور مسجد کی تعمیر کا تیس ہزار کے قریب تھا لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ ساٹھ ہزار سے کم میں وہ جگہ نہیں بن سکتی کیونکہ اِس جگہ پر گورنمنٹ کی طرف سے کچھ قیود ہیں اور وہ ایک خاص قسم کی اور خاص شان کی عمارت بنانے کی وہاں اجازت دیتے ہیں اِس سے کم نہیں دیتے۔ پس زمین کی قیمت مِل کر ۹۰ہزار سے ایک لاکھ تک کا خرچ ہو گا جس میں سے وہ بفضلہ چھیالیس ہزار تک اِس وقت تک ادا کر چُکی ہیں۔
یہ باتیں تو مَیں نے عورتوں سے مخاطب ہو کے کی ہیں اب جو باقی باتیں ہیں چونکہ اسلام مردوں کا بھی ہے اور عورتوں کا بھی اِس لئے اِس میں مرد بھی شریک ہوں گے اور عورتیں بھی شریک ہوں گی۔(الاظہار لذوات الخمار صفحہ ۱۳۱ تا ۱۳۳، الفضل ۲؍جنوری ۱۹۵۲ئ)
’’قادیان سے ایک اخبار ’’بدر‘‘ کے نام سے نکلنا شروع ہؤا ہے۔ گو مَیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مُلک کی ضروریات اس سے کچھ زیادہ پوری نہ ہو سکیں گی لیکن دوستوں کو یہ امر ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اِس وقت یہاں کے دوست نسبتاً زیادہ اچھی حالت میں ہیں اِس لئے وہ اخبار کی زیادہ مدد کر سکتے ہیں اور ان کی یہ مدد اِس اخبار کی مالی حالت کو مضبوط کرنے کے علاوہ ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ میں بھی بڑی مُمِد ثابت ہو گی۔ پس یہ ایک ثواب کا فعل ہے دوستوں کو ضرور اِس اخبار کی مدد کرنا چاہئے۔
’’الفضل‘‘ کے خریداروں کی تعداد میں ایک عرصہ سے کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہو رہا۔ حالانکہ جماعت کافی بڑھ رہی ہے۔ اخبارات ضروریاتِ زندگی میں سے ہوتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی اکثر مجھے اخبار پڑھنے کی تحریک فرمایا کرتے تھے اور ایک روزنامہ اخبار تو بڑی بھاری تربیت گاہ کا رنگ رکھتا ہے۔ اِس کی طرف سے لاپرواہی اور عدمِ توجّہی اپنے علم کو زنگ لگانے کے مترادف ہے۔ پس احباب کو الفضل کی خریداری بڑھانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے۔
رسالہ ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) اب دوبارہ شائع ہونا شروع ہو گیا ہے اور تبلیغ کی غرض سے مختلف ممالک کی لائبریریوں وغیرہ میں بھی بھجوایا جارہا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِسے دس ہزار کی تعداد میں شائع کرنے کی خواہش فرمائی تھی اور ہماری موجودہ طاقت اور تبلیغی ضرورت کے لحاظ سے تو دس ہزار کہتے ہوئے بھی ہمیں شرم آنی چاہئے کیونکہ اب تو اِس سے بہت زیادہ اشاعت کی ضرورت ہے۔ احباب دو طرح سے اِس کی اشاعت میں حصّہ لے سکتے ہیں ایک تو اِس کے خریداربن کر اور دوسرے اسے موزوں غیر مسلم اصحاب یا لائبریریوں میں پہنچانے کے لئے چندہ دے کر۔
ایک بات میں دوستوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر سال جو دُنیا میں آتا ہے وہ اپنے ساتھ کچھ نئی مُشکلات لاتا ہے اور کچھ نئی آسانیاں بھی لاتا ہے۔ جو قوم یا جو فرد بھی یہ خیال کر لیتا ہے کہ بس ہمارے اُوپر پچھلے پانچ یا سات سال سے جو کچھ گزرا تھا وہی گزرتا چلا جائے اُس سے زیادہ نادان اور غافل کوئی نہیں ہو سکتا۔ یقینا ساری دُنیا بدلتی ہے، بدلتی چلی جائے گی اور جب دُنیا بدلتی ہے تو کونسا انسان ایسا ہو سکتا ہے جو ایک جگہ پر کھڑا رہے اور اُس کے لئے حالات نہ بدلیں۔ ہر گھر میں دیکھ لو ہر سال میں کوئی مرجاتا ہے اور کوئی پیدا ہو جاتا ہے۔ گویا ایک صورت ترقی کی ہو جاتی ہے اور ایک تنزل کی ہو جاتی ہے اور اِس طرح لوگ بالعموم سموئے جاتے ہیں۔ آہستہ آہستہ دُنیا کا قدم آگے نکلتا چلا جاتا ہے اور بعضوں کا آہستہ آہستہ نیچے گِرنا شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ دونوں باتیں ایک وقت میں لگی ضرور رہتی ہیں مگر جماعت کے دوستوں کو مَیں نے دیکھا ہے کہ قومی لحاظ سے انہیں اس کا احساس نہیں ہوتا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس حالت سے ہم گزررہے ہیں اُسی حالت میں ہم گزرتے چلے جائیں اور یہ ناممکن بات ہے۔ اگر اِسی حالت میں ہم گزرتے چلے جائیں تو یقینا ہم پر ایک موت طاری ہو جائے گی۔ درحقیقت انسان موت سے بچتا ہے حرکت کے ساتھ۔ تمام قرآن کریم اِسی سے بھرا ہؤا ہے کہ کام کرنا اور عمل کرنا بس یہی انسان کی زندگی کا موجب ہوتا ہے۔ اوراب تو دیکھ لو جو نیا اضافی فلسفہ نکلا ہے اور آئن سٹائن نے نکالا ہے اِس میں اُس نے اصول ہی یہ رکھا ہے کہ ایک خاص حد تک تیز رفتار میں موت سے انسان بچ جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہلاکت اور تباہی اِس تیزی سے نیچے نیچے ہے۔ جب کوئی چیز سورج کی روشنی کے برابر رفتار میں تیز ہو جائے گی وہ موت سے بچ جائے گی۔ تو تیز رفتار انسان کو ہلاکت سے بچاتی ہے۔ کھڑے رہنے کی خواہش کرنا یا آہستہ چلنے کی خواہش کرنا قوم کو تباہ کر دیتا ہے اور اﷲ تعالیٰ ضرور نئی نئی مُشکلات لاتا ہے تاکہ لوگوں کے اندر بیداری پیدا ہو۔ اگر اﷲ تعالیٰ نئی نئی مُشکلات نہ لائے تو آہستہ آہستہ لوگ سُست ہوتے چلے جائیں۔ قرآن کی طرف رغبت کم ہو جائے، دین کی طرف رغبت کم ہو جائے، قربانیوں کی طرف رغبت کم ہو جائے اور پھر وہ ایک قسم کے جانور بن کر رہ جائیں انسان نہ رہیں۔ اور اب تو ایک اَور دلچسپی کی چیز ہمارے لئے پیدا ہو گئی ہے جو ہمارے لئے خدا نے پیدا کی ہے کیونکہ اِس کے فوائد اگر اسلام کو پہنچیں گے تو اسلام ہمارا ہے ہم اس کے دعویدار ہیں اور وہ پاکستان ہے۔ ہمارے لئے بھی کچھ نہ کچھ نئی مُشکلات پیدا ہو جاتی ہیں اور پاکستان کے لئے بھی اور باقی عالَمِ اسلام کے لئے بھی۔ کمزور انسان اِن باتوں کو دیکھ کر گھبراتا ہے وہ کہتا ہے یہ مصیبت آگئی وہ مصیبت آگئی لیکن عقل مند انسان سمجھتا ہے کہ اِن مصیبتوں کے بغیر میری قوتِ عملیہ کبھی بھی اپنے پورے زور میں نہیں آئے گی اور بغیر اِس کے کہ قوتِ عملیہ اپنے پورے زور پر آئے مسلمان ترقی نہیں کر سکتے۔
ہماری ذاتی مُشکلات میں سے سب سے پہلے احرار کی مخالفت ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک اِن کی مخالفت کا سوال ہے اس کے دو پہلو ہیں۔ ایک پہلو تو اِس کا یہ ہے کہ لوگوں کے اندر مخالفت ہوتی ہے اور وہ مخالفت کی وجہ سے ہماری باتوں کے سُننے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے۔ اُن کے دلوں میں غصّہ پیدا ہوتا ہے یہ چیز تو ہمارے لئے بُری ہوتی ہے۔ مگر ایک صورت یہ بھی ہؤا کرتی ہے کہ جب کوئی شخص مخالفت کی باتیں سُنتا ہے تو وہ پھر کریدتا ہے کہ اچھا! یہ ایسے گندے لوگ ہیں۔ ذرا مَیں بھی تو جاکے دیکھوں۔ اور جب وہ دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ جو باتیں مجھے اُنہوں نے بتائی تھیں وہ تو بالکل اور تھیں اور یہ باتیں جو کہتے ہیں بالکل اور ہیں اَور وہ ہدایت کو تسلیم کر لیتا ہے۔
مجھے خوب یاد ہے مَیں چھوٹا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف رکھتے تھے، مجلس لگی ہوئی تھی کہ ایک صاحب رام پور سے تشریف لائے ۔ وہ رہنے والے تو لکھنؤ یا اُس کے پاس کے کسی مقام کے تھے، چھوٹا سا قد تھا، دُبلے پتلے آدمی تھے۔ ادیب تھے، شاعر تھے اور اُن کو محاوراتِ اُردو کی لُغت لکھنے پر نواب صاحب رامپور نے مقرر کیا ہؤا تھا، وہ آکے مجلس میں بیٹھے اور اُنہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں رام پور سے آیا ہوں اور نواب صاحب کادرباری ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ کو یہاں آنے کی تحریک کس طرح ہوئی؟ اُنہوں نے کہا مَیں بیعت میں شامل ہونے کے لئے آیا ہوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے۔ اِس طرف تو ہماری جماعت کا آدمی بہت کم پایا جاتا ہے، تبلیغ بھی بہت کم ہے، آپ کو اس طرف آنے کی تحریک کس نے کی؟ تو یہ لفظ میرے کانوں میں آج تک گونج رہے ہیں اور مَیں آج تک اِس کو بھُول نہیں سکا حالانکہ میری عمر اُس وقت سولہ سال کی تھی کہ اِس کے جواب میں اُنہوں نے بے ساختہ طور پر کہا کہ یہاں آنے کی تحریک مجھے مولوی ثناء اﷲ صاحب نے کی۔ مَیں تو شاید اپنی عمر کے لحاظ سے نہ ہی سمجھا ہوں گا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اِس پر ہنس پڑے اور فرمایا ۔ کس طرح؟ اُنہوں نے کہا مولوی ثناء اﷲ صاحب کی کتابیں دربار میں آئیں۔ نواب صاحب بھی پڑھتے تھے اور مجھے بھی پڑھنے کے لئے کہا گیا تو مَیں نے کہا جو جو حوالے یہ لکھتے ہیں مَیں ذرا مرزا صاحب کی کتابیں بھی نکال کر دیکھ لوں کہ وہ حوالے کیا ہیں۔ خیال تو مَیں نے یہ کیا کہ مَیں اِس طرح احمدیت کے خلاف اچھا مواد جمع کر لوں گا لیکن جب مَیں نے حوالے نکال کر پڑھنے شروع کئے تو ان کا مضمون ہی اَور تھا۔ اِس سے مجھے اور دلچسپی پیدا ہوئی اور مَیں نے کہا کہ چند اور صفحے بھی اگلے پچھلے پڑھ لوں۔ جب مَیں نے وہ پڑھے تو مجھے معلوم ہؤا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کی شان اور آپ کی عظمت جو مرزا صاحب بیان کرتے ہیں وہ تو اِن لوگوں کے دلوں میں ہے ہی نہیں۔ پھر کہنے لگے مجھے فارسی کا شوق تھا۔ اِتفاقاً مجھے درثمین فارسی مل گئی اور مَیں نے وہ پڑھنی شروع کی تو اِس کے بعد میرا دل بالکل صاف ہو گیا اور مَیں نے کہا کہ جاکر بیعت کر لوں۔
تو مخالفت ایک رنگ میں مفید بھی ہؤا کرتی ہے اور ایک رنگ میں مُضر بھی ہؤا کرتی ہے۔ یعنی لوگ جوش میں آجاتے ہیں اور بعض دفعہ فساد کرنے لگ جاتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ سلسلہ کی باتیں سُننے سے آئندہ محروم رہ جاتے ہیں۔ پس اِن دونوں نقطۂ نگاہ سے ہمیں اپنے نظریئے تبدیل کرنے پڑتے ہیں۔ جو مخالفت کا نقطۂ نگاہ ہے اس سے ہم کو اپنا یہ نقطہ نگاہ تبدیل کرنا پڑتا ہے کہ ہم جس چُستی کے ساتھ اپنا لٹریچر لکھ رہے تھے ، جس طرز سے ہم اپنا لٹریچر لکھ رہے تھے، جس طرح ہم اِس کی اشاعت کر رہے تھے، جس طرح ہم تبلیغ کر رہے تھے ہم کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ہم پُرانے ڈگر پر چل سکیں اور اپنے پُرانے طریق پر لوگوں تک پہنچ سکیں کیونکہ اب لوگوں کے دل ہماری نسبت انقباض محسوس کر رہے ہیں اور اب ہمیں ان تک پہنچنے کے لئے نئے طریقے اور نئی طرزیں ایجاد کرنی پڑیں گی۔ اور جہاں تک لوگوں کو توجہ ہوتی ہے اس کے لحاظ سے ہمارے لئے سہولت پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ خود ہمارے گھروں تک پہنچتے ہیں۔ مَیں نے دیکھا ہے اِس زمانہ میں بھی مخالفت کے باوجود کئی لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور وہ یہی بتاتے ہیں کہ ہم نے مخالفوں کی باتیں سُنیں اور اِس کی وجہ سے سلسلہ کی طرف متوجہ ہو گئے۔
دوسرا امر جو اِس سال ہمارے لئے وجہِ تشویش بنا رہا ہے یہ ہے کہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں بسنے والی احمدی جماعتوں کے لئے بعض وجوہ کی بناء پر نئی نئی مُشکلات پیدا کی جارہی ہیں۔
تحریک جدید اِس وقت ایک نازک دَور میں سے گزر رہی ہے۔ ہمارے جو مبلغین سالہاسال سے مختلف ممالک میں متعیّن ہیں اُن کے تبادلے کی وجہ سے ہمارا خرچ بہت بڑھ گیا ہے لیکن آمد میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہؤا۔ گو اِس سال دوستوں نے وعدوں میں بھی اور وصولی میں بھی گزشتہ سال کی نسبت اچھا نمونہ دکھایا ہے لیکن ابھی اِس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے تاکہ تحریک پر قرض کا جو بار آپڑا ہے اُسے اُتارا جاسکے۔ دوست زیادہ سے زیادہ وعدے لکھائیں اور پھر نہ صرف اِس سال کے بلکہ گزشتہ سال کے وعدوں کی وصولی کے لئے بھی خاص کوشش کریں۔
اِس سال ہمارے علاوہ عام مسلمانوں کے لئے بھی کافی مُشکلات رہی ہیں۔ مثلاً کشمیر کا مسئلہ ہے جو حل ہونے میں ہی نہیں آتا۔ میرے نزدیک اس مسئلہ کو یوں غیر معیّن عرصہ کے لئے مُلتوی کرنا قرینِ مصلحت نہیں ہے۔ ایک لمبے عرصہ تک باشندگانِ کشمیر کو ایک غیر مُلکی حکومت کے ماتحت رہنے دینا اور پھر یہ اُمید کرنا کہ وہ ہمیں ووٹ دیں گے کوئی ایسی تشفّی کی بات نہیں ہے۔ پھر ہمارے مُلک میں اِسی سال نوابزادہ لیاقت علی صاحب کا قتل بھی ایک افسوسناک واقعہ ہے جو نتیجہ ہے مولویوں کے اُس پروپیگنڈا کا کہ جس سے اختلافِ رائے ہو بے شک اُسے قتل کر دیا کرو۔
مسئلہ فلسطین بھی کشمیر کے مسئلہ سے کم اہم نہیں ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا مُلک ہے اور وہاں لاکھوں مہاجرین کو آباد کرنے کا سوال درپیش ہے۔ پاکستان کو یہ سہولت تھی کہ یہ ایک وسیع مُلک ہے جہاں مہاجرین کافی تعداد میں بسائے جاسکتے تھے لیکن وہاں یہ حالت نہیں ہے۔ مہاجرین کی آبادکاری کے سوال کے علاوہ اِس مسئلہ کا ایک نازک اوراہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے آقا محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وسلم کے جوار میں دُشمنِ اسلام کو بسا دیا گیا ہے۔ مَیں نے تو ابتداء میں ہی اِس خدشہ کا اظہار کیا تھا لیکن اب تو یہودی علانیہ اپنی کتابوں میں مدینہ منورہ اور مکّہ معظمہ پر قابض ہونے کے ناپاک عزائم کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ علاوہ ازیں ایران میں تیل کا مسئلہ، مصر کا برطانیہ سے تنازعہ، سوڈان کی بے چینی اور شام کے فسادات یہ سب ایسے امور ہیں جو مسلمانوں کے لئے تکلیف دِہ ہیں۔ہم تعداد میں بہت کم ہیں اِس لئے ان مُشکلات کے ازالہ کے لئے عملاً زیادہ حصّہ نہیں لے سکتے لیکن کم از کم دُعا کا ہتھیار تو ہمارے پاس ہے۔ پس آؤ ہم دُعا کریں کہ اﷲ تعالیٰ مسلمانوں کی اِن مُشکلات کو اپنے خاص فضل سے دُور کرے اور نقصان کی بجائے ان مُشکلات کو اسلام کی ترقی کا ذریعہ بنائے۔ آمین
احمدیت بہرحال ترقی کرے گی
اِس سال اﷲ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے تبلیغی مشنوں میں اضافہ ہؤا ہے جس
کے نتیجہ میں ہماری تبلیغ میں وسعت پیداہوئی ہے اور جماعت نے ترقی کی ہے۔ جس مقام پر ہم آج ہیں یقینا گزشتہ سال وہ مقام ہمیں حاصل نہ تھا اور جس قسم کے تغیرات اِس وقت رونما ہو رہے ہیں اِن سے پتہ چلتا ہے کہ جس مقام پر ہم آج ہیں آئندہ سال انشاء اﷲ ہم اِس سے یقینا آگے ہوں گے۔ یہ تغیرات نہ تمہارے اختیار میں ہیں نہ میرے یہ خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں۔ بس انسانی تدابیر کو نہ دیکھو بلکہ خدائی تقدیر کی اُنگلی کو دیکھو جو یہ بتا رہی ہے کہ حالات خواہ اچھے ہوں یا بُرے احمدیت کی گاڑی بہرحال چلتی چلی جائے گی۔انشاء اﷲ (نعرہ ہائے تکبیر)
ہم نے ربوہ کی زمین خرید کر یہاں مہاجرین کو آباد کرنے کے لئے مختلف قواعد بنائے تھے یقینا ان قواعد کی رو سے ہم سَو فیصدی سب کو خوش نہیں کر سکتے تھے چنانچہ جن دوستوں کو اِس سے کچھ نقصان پہنچا ہے اُنہوں نے اِس سلسلے میں بے چینی اور بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے۔ یہ بے چینی دُنیوی روح پر دلالت کرتی ہے گو ساتھ ہی زیر کی اور دانائی کی بھی علامت ہے لیکن محض دُنیوی زیرکی اور دانائی کی۔ مَیں اِن دوستوں سے کہتا ہوں کہ تمہاری یہ بے چینی درست ہوتی بشرطیکہ تمہیں غیب کا علم ہوتا۔ جب تمہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک کون ہمسایہ تمہارے لئے اچھا ہو گا اور کون سی جگہ تمہارے اور تمہارے اہل و عیال کی صحت کے لئے اچھی ہو گی تو پھر اِس بے چینی کا کیا مطلب؟ تمہارے لئے تو ایک ہی محفوظ طریق ہے اور وہ یہ کہ جہاں تک ظاہری حالت کا تعلق ہے بے شک ایک حد تک انہیں مد نظر رکھو لیکن اگر دوسرے بھائی سے اختلاف اور رنجش کی صورت ہوگئی ہے تو پھر استخارہ کرو اور معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ آخر تمہیں کیا پتہ کہ کونسا قطعہ تمہارے لئے اچھا ثابت ہو گا۔ پس کیوں نہیں تم خدا تعالیٰ پر معاملہ چھوڑ دیتے تاکہ اس کی مشیٔت میں جو تمہارے لئے بہتر ہے وہی ہو جائے۔
ایک اور بات جس کا مَیں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ مَیں نے گزشتہ سالوں میں ایک سکیم تیار کی تھی اور اِس بات کی خواہش کی تھی کہ سلسلہ کی طرف سے کچھ لٹریچر شائع کیا جائے۔ کچھ بچوں کے لئے ہو، کچھ درمیانی عمر والوں کے لئے ہو اور کچھ بڑے لوگوں کے لئے ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ ہمارے مصنفین اور علماء نے اِس کی طرف پوری توجہ نہیں کی اِس لئے اب مَیں نے اِس کو خود اپنی نگرانی میں لے کر آدمی مقرر کر دیئے ہیں کہ تم یہ کام کرو۔ پہلے ہم نے بچوں کا حصّہ لیا ہے اور کچھ کتابیں مختلف لوگوں کے ذمّہ لگا دی ہیں کہ یہ تم نے چند مہینوں کے اندر پوری کر کے دینی ہیں چنانچہ یہ کتابیں فِی الْحال مَیں نے لوگوں کے سپرد کر دی ہیں۔ (۱) ہستی باری تعالیٰ پر ایسا سادہ مضمون جس کو بچے سمجھ سکیں۔ (۲)معیار و شناخت نبوت۔ (۳) دُعا۔(۴) قضاء و قدر۔ (۵) بعث بعد الموت۔ (۶)بہشت و دوزخ ۔ (۷) معجزات۔ (۸) فرشتے۔ (۹) صفاتِ الٰہیہ ۔ (۱۰)ضرورتِ نبوت و شریعت اور اس کا ارتقائ۔ (۱۱) عبادت اور اس کی ضرورت۔ (۱۲) نماز ۔ (۱۳) ذکرِ الٰہی۔ (۱۴) روزہ۔ (۱۵) حج۔ (۱۶) زکوٰۃ۔ (۱۷) معاملات۔ اچھے شہری کے فرائض، ورثہ، تعلیم، تربیتِ افراد میں قوم کا فرض اور اس کی ذمّہ داریاں۔ (۱۸) اخلاق اور ان کی ضرورت، ملّت شخص پر مقدم ہے، فرد پر خاندان مقدم ہوتا ہے۔ حکومت قوم پر مقدم ہوتی ہے، ظاہر و باطن دونوں کی ضرورت اور اہمیت۔ (۱۹) ماں باپ پر بچوں کے متعلق فرائض اور بچوں پر ماں باپ کے متعلق فرائض۔ (۲۰) حفظانِ صحتِ جسمانی بحیثیت ماحول اور حفظان صحتِ جسمانی بحیثیت فرد۔ (۲۱) محنت کی عادت اور وقت کی پابندی، ایفائے عہد، مظلوم کی امداد، سچ، جھوٹ سے پرہیز۔ (۲۲) چندہ اور اس کی اہمیت، تبلیغ اور اس کی اہمیت، زندگی وقف کرنے کی اہمیت۔ (۲۳) احمدیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کی اہمیت۔ (۲۴)حکومتِ اسلامی ، حکومت اور رعایا کے تعلقات، جہاد۔ ان میں سے بعض مضامین پر تو مستقل رسالہ ہو گا اور بعض تین تین، چار چار عنوانوں پر ایک ایک رسالہ ہو گا۔ یہ انشاء اﷲ دو تین مہینے میں اُمید ہے کہ کتابیں تیار ہوجائیں گی اور پھر ان کو اگلے سال یعنی ۱۹۵۲ء میں انشاء اﷲ چھپوار دیا جائے گا۔ اِس طرح بچوں کی تربیت اور تعلیم میں بہت کچھ مدد مل جائے گی۔
دوسرا طریق مَیں نے بڑے مضامین کے متعلق سوچا۔ مَیں نے پچھلے سال تحریک کی کہ ہمارے جو جامعہ کے لڑکے ہیں اُن کو ڈگری نہ دی جائے جب تک یہ کسی نہ کسی مضمون کے متعلق کتاب نہ لکھ دیں۔ اِس کے ذریعہ بھی بڑا مفید لٹریچر جمع ہو جائے گا۔ عنوان ہم مقرر کریں گے اور کام ان سے لیں گے۔ اِس طرح وہ مستقل کتابیں پیدا ہو جائیں گی جن کے ذریعہ ہماری جماعت بھی فائدہ اُٹھائے گی اور دوسرے لوگ بھی فائدہ اُٹھا سکیں گے۔ اِس سال چونکہ یہ بے وقت کارروائی شروع ہوئی اِس لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ بجائے لمبی کتاب دینے کے پچہتّرصفحوں کی کتاب مقرر کر دی جائے اور ایسے عنوان مقرر کئے جائیں جن کو وہ زیادہ آسانی کے ساتھ لکھ سکیں۔ چنانچہ یہ کتابیں اِس سال انشاء اﷲ وہ تھیسس کے طور پر لکھیں گے اور پھر اِن کو سلسلہ کی طرف سے (جو اِن میں سے مفید ہوں گی) شائع کر دیا جاہے گا۔
(۱) احکامُ الصلوٰۃ اور ان کی اصولی حکمتیں۔
(۲) اجرائے نبوت فِی الْامۃ (حدیث کی روشنی میں جو کچھ اس مسئلہ پر علمائے سلسلہ لکھتے آئے ہیں ان کا خلاصہ اور نئی تحقیق)
(۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف کی وجہ سے غیر احمدی مصنفین پر کیا اثر پڑا ہے۔ (مسائل کے لحاظ سے)
(۴) اشتراکیت اور مذہب
(۵) الامام المہدی (اسلامی لٹریچر میں پہلے اِس کی کیا اہمیت رہی ہے اور اب مسلمان اِس حقیقت کو کس طرح فراموش کرتے جارہے ہیں)
(۶) ہمارے مشن(یعنی اب تک جس جس جگہ ہمارے مشن قائم ہوئے ان کا ذکر نیز ان ممالک کے مختصر ضروری جغرافیائی اور تاریخی احوال اور مذہبی تحریکیں نیز مشن کے قیام کی تاریخ، کام کی نوعیت اور نتیجہ)
(۷) ہجرت از قادیان اور پیشگوئی دربارہ واپسی۔
(۸) مودودی تحریک پر تبصرہ۔
(۹) حضرت مسیح ناصری ؑ کی سیرت قرآن مجید کی روشنی میں۔
(۱۰) تاریخِ اسلام بعہد حضرت عمر ؓ۔
(۱۱) تاریخِ اسلام بعہد حضرت ابو بکر ؓ۔
(۱۲) سُود کے متعلق ہمارا نقطۂ نظر۔
(۱۳) علوم متعلقہ حدیث۔
(۱۴) جہاد۔
(۱۵) انڈیکس کتاب تذکرہ۔
(۱۶) احکام صَوم اور اس کی اصولی حکمتیں۔
(۱۷) اسلامی قانون وراثت۔
یہ گویا ۱۷کتابیں انشاء اﷲ تعالیٰ مارچ تک تیار ہو جائیں گی اورخدا تعالیٰ نے چاہا تو ان میں سے بہت سی ۱۹۵۲ء میں شائع کر دی جائیں گی۔ آئندہ کے لئے اس سے زیادہ وسیع مضامین دینے کا ارادہ ہے۔ چونکہ اِس دفعہ لڑکوں کو صرف تین تین مہینے کی مُہلت دی گئی ہے۔ طریقِ کار یہ اختیار کیا گیا ہے کہ وہ ہیڈنگ جو رکھے گئے ہیں اِن کے متعلق کہا گیا کہ وہ ان کے ضمنی عنوان لکھ کر لائیں کہ ان کے کون کون سے پہلوؤں پر وہ روشنی ڈالیں گے پھر ان کا پروفیسر جس کے ذمہ وہ مضمون لگایا گیا ہے پرنسپل اور وکیل التعلیم اور وہ طالبعلم باری باری میرے پاس آئے اور میری مجلس میں ان پر غور کر کے اس کی اصلاح کی گئی جو غیر ضروری مضمون تھے وہ کاٹے گئے اور جو ضروری حصّے رہ گئے تھے اُن کو داخل کر کے پھر وہ مضمون ان کو دیا گیا کہ اس پر وہ کتاب لکھ کر لائیں۔ آئندہ کے لئے ارادہ ہے زیادہ مستقل کتابیں ہوں جن کے اوپر وہ ایک لمبا عرصہ غور کرنے کے بعد مضمون لکھ سکیں۔
اس کے علاوہ کچھ لٹریچر ہندوؤں اور سکھوں کے لئے بھی تیار ہو رہاہے۔ جماعت کو اس کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئے کہ کتابیں اگر لکھ کر الماریوں میں پڑی رہیں تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ دوستوں کو کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور کتابیں پڑھوانے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ دُنیا میں سب سے اچھا جلیس کتاب ہوتی ہے کیونکہ انسان کسی جگہ پر بھی جائے وہ جلیس ساتھ جاسکتا ہے۔ تمہارا گہرے سے گہرا دوست جب تم گھر میں جاتے ہو تو وہ باہر رہ جاتا ہے۔ تمہارا گہرے سے گہرا دوست اپنے بیوی بچوں کی ضرورتوں کے لئے رات کو تمہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے لیکن تمہاری کتاب ہر وقت ساتھ رہ سکتی ہے۔ رات کو تم سوتے ہو، بیوی تمہارے ساتھ ہے، دروازے بند کئے ہوئے ہو، پردہ کئے ہوئے ہو، اُس نے بھی کتاب اُٹھائی ہوئی ہے اور تم نے بھی ایک کتاب اُٹھائی ہوئی ہے دونوں پڑھتے چلے جاتے ہیں۔ علم بڑھتا چلا جاتا ہے۔ کوئی خاص مسئلہ تمہیں پسند آتا ہے تو تم اس سے مخاطب ہو جاتے ہو۔ کوئی خاص مسئلہ اُسے پسند آتا ہے تو وہ تم سے مخاطب ہو جاتی ہے۔ اِس طرح دونوں اپنے تبادلۂ خیالات سے اپنے گھر کا علم بھی بڑھاتے جاتے ہیں، اپنے خاندان کا علم بھی بڑھاتے جاتے ہیں اور پھر اپنے ہمسایہ اور اپنی قوم کا علم بھی بڑھاتے جاتے ہیں۔
تو سب سے پہلی ذمّہ داری جماعت پر یہ ہے کہ وہ اس لٹریچر کو خریدے۔ دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ پھر وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو پڑھوائیں اور تیسری ذمہ داری جو مَیں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر علم وسیع نہیں ہو سکتا یہ ہے کہ ہر جماعت میں لائبریریاں کھولی جائیں۔ اگر ہم ہر جماعت میں لائبریریاں کھول دیں تو مَیں سمجھتا ہوں ہماری تبلیغ کئی گُنا وسیع ہو سکتی ہے ۔ لائبریری کے لئے کوئی دوست کچھ وقت دے دیا کریں۔ آخر جو چندہ جمع کرتا ہے اُس کو بھی گھر بیٹھے چندہ نہیں آجاتا دن میں سے گھنٹہ دو گھنٹے وہ وقف کرتا ہے تبھی چندہ آتا ہے۔ بعض دفعہ شام کے وقت جب وہ سمجھتا ہے کہ مجھے فُرصت ہے تو اِس کام کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے بلکہ بڑے شہر والوں نے تو بتایا کہ اُنہیں دو دو تین تین گھنٹے روزانہ وقت دینا پڑتا ہے۔ اِسی طرح کوئی شخص لائبریری کے لئے بھی وقت دے سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ شام کو پانچ بجے سے سات بجے تک یا چھ سے آٹھ بجے تک یا سات سے نَو بجے تک لائبریری کھلے گی اور لوگوں کو کتابیں دی جائیں گی۔ کچھ اخبار بھی منگوا کر رکھے جاسکتے ہیں۔ چھوٹی جماعتوں کے لئے تو کتابیں تقسیم کرنے والی لائبریری زیادہ اچھی رہتی ہے اُن سے اِتنا خرچ برداشت نہیں ہو سکتا کہ میزیں ہوں اور کُرسیاں ہوں لیکن بڑے شہر مثلاً لاہور ہے، کراچی ہے، ملتان ہے، پشاور ہے، راولپنڈی ہے، لائل پور ہے۔ اِسی طرح مَیں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بنگال کو ملا کر کوئی بیس پچیس ایسے شہر ہیں جن میں باقاعدہ احمدی لائبریریاں ہونی چاہئیں اور باقی جگہ ایسی لائبریریاں ہونی چاہئیں جو کتابیں تقسیم کرنے والی ہوتی ہیں۔ گھر کی ایک الماری میں کتابیں رکھی ہوئی ہوں اور ایک صفحہ پر کتابوں کی لِسٹ چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کر دی جائے کہ یہ ہماری لسٹ ہے جس نے کوئی کتاب پڑھنی ہو وہ بتا دے ہم اُس کے گھر پر پہنچا دیں گے اور جب وہ کتاب پڑھ کر واپس کر دے تو پھر دوسروں کو دے دی جائے۔
پردہ بِل اور اسلام
حال ہی میں پنجاب اسمبلی کے ایک رُکن عبدالستارصاحب نیازی نے اسمبلی میں پردہ بل پیش کرنے کی کوشش کی تھی جو کامیاب
نہ ہو سکی۔ اِس بِل کی غرض یہ تھی کہ جو عورتیں پردہ کی پابندی نہیں کرتیں اُنہیں قانوناً مجرم سمجھا جائے اور سزا دی جائے۔
(حضور نے اِس بِل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:)
اِس بِل پر بہت لے دے ہوئی ہے۔ ایک طبقہ کا یہ خیال ہے کہ جب اسلام نے پردہ کا حُکم دیا ہے تو اِس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ضرور سزا ملنی چاہئے لیکن دوسرے طبقہ نے یہ کہا ہے کہ جب قرآن مجید نے بے پردگی کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کی تو ہماری طرف سے سزا تجویز کرنا شریعت میں دخل اندازی کے مترادف ہو گا۔ دراصل اِس مسئلہ کو ایک عجیب گورکھ دھندا بنا دیا گیا ہے۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ چونکہ پردہ ایک اسلامی حُکم ہے اِس لئے اِس کی خلاف ورزی پر ضرور سزا ملنی چاہئے تو سوال یہ ہے کہ کیا دیگر اسلامی احکام کی خلاف ورزی پر سزا ملتی ہے؟ قرآن مجید نے سُود سے منع کیا ہے لیکن پاکستان کے سارے محکمے سُود لیتے ہیں۔ اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے لیکن یہ مساوات پاکستان میں کہاں نظر آتی ہے اور اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ جس معاملہ میں قرآن مجید نے کوئی سزا تجویز نہ کی ہو اُس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے تو سوال یہ ہے کہ آج پاکستان میں جو تعزیرات نافذ ہیں کیا ان سب کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے؟ اس دلیل کی رو سے تو پاکستان کی تعزیرات میں سے نصف کے قریب فوراً منسوخ کرنی پڑیں گی کیونکہ ان کا قرآن مجید میں کوئی ذکر نہیں ہے۔
درحقیقت اِس قسم کے بل پیش کرنے اور پھر اِن کو مسترد کرنے کے لئے اِس قسم کی دلیلیں دینے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آج مسلمان کس قدر پراگندہ خیال ہو چکے ہیں۔ وہ بالکل متضاد چیزیں پیش کرتے ہیں اور پھر اُنہیں اسلام کا نام دے دیتے ہیں۔ مثلاً اگر پاکستان میں یہ قانون پاس ہو جاتا تو یہاں پردے کی خلاف ورزی کرنے پر سزا ملتی۔ لیکن اس کے برعکس ٹرکی میں یہ قانون جاری ہے کہ جو پردہ کرے اُسے سزا دی جائے۔ اور کئی دیگر اسلامی مُمالک میں یہ قانون رائج ہے کہ نہ پردے کی پابندی پر سزا ملتی ہے اور نہ اسے چھوڑنے پر۔ گویا تینوں متضاد صورتیں اسلامی ممالک میں رائج ہیں لیکن تینوں صورتوں کو اسلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ پراگندہ خیالی ہے جسے دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے ہیں۔ آپ نے یہی بتایا ہے کہ جب تک مسلمان اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے ایک ہاتھ پر جمع نہ ہوں گے تا ساری اسلامی دُنیا میں ایک ہی قانون اور فتویٰ جاری ہو اُس وقت تک وہ کبھی بھی موجودہ انتشار اور پراگندگی سے بچ نہیں سکتے نہ مذہبی طور پر نہ سیاسی طور پر۔
گو ہماری ہر جگہ مخالفت کی جاتی ہے لیکن ذرا غور کرو احمدیت کی ضرورت کتنی واضح ہو جاتی ہے۔ اِس تمسخر کو دیکھ کر جو آج خود مسلمان اسلام سے کر رہے ہیں ہر طبقہ اور ہر فرقہ اپنے خیال اور اپنی خواہش کو اسلام کی طرف اور قرآن کی طرف منسوب کر دیتا ہے اور اپنی اکثریت کے زعم میں دوسروں سے جبراً اپنے مسلک کو منوانے کی کوشش کر تا ہے۔ ایسا کرنے میں آج وہ اخبار بھی شامل ہے جس نے حال ہی میں حکومت کو میرے خلاف کارروائی کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ مَیں ایسے اخبار نویسوں کو کہتا ہوں کہ تمہاری یہ دھمکیاں اِس لئے ہیں ناکہ تم زیادہ ہو اور ہم تھوڑے ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ تم اس قسم کی باتیں انگریزوں اور ہندوؤں کے متعلق نہیں کہتے؟ یہ محض اکثریت میں ہونے کا نتیجہ ہے کہ تم ایسی باتیں کر رہے ہو لیکن غور کرو کیا ابو جہل کی بھی یہی دلیل نہیں تھی کہ محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) کو کوئی حق نہیں کہ وہ ہمارے مُلک کی ننانوے فیصدی آبادی کے خیالات کے خلاف کوئی بات کہے۔ آخر آج جو دلیل تم دیتے ہو کیا وہی دلائل ابو جہل نہیں دیا کرتا تھا؟ تمہارے کہنے پر حکومت بے شک مجھے پکڑ سکتی ہے، قید کر سکتی ہے، مار سکتی ہے لیکن میرے عقیدہ کو وہ دبا نہیں سکتی۔ اِس لئے کہ میرا عقیدہ جیتنے والا عقیدہ ہے وہ یقینا ایک دن جیتے گا تب ایسا تکبر کرنے والے لوگ پشیمان ہونے کی حالت میں آئیں گے اور اُنہیں کہا جائے گا بتاؤ کیا تمہارا فتویٰ اب تم پر عاید کیا جائے؟ جب محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مکّہ فتح کیا اور اکثریت کا گھمنڈ کرنے والے لوگ آپؐ کے سامنے پیش ہوئے تو آپؐ نے اُنہیں فرمایا بتاؤ اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ آپ کا مقصد یہ کہنے سے یہی تھا کہ وہ اپنی اکثریت کے زعم میں جو کچھ کہا کرتے تھے وہ اُنہیں یاد دلایا جائے۔ کفار نے کہا بے شک ہم نے بہت ظلم کئے لیکن ہم آپؐ سے یوسف ؑ والے سلوک ہی کی اُمید کرتے ہیں۔مَیں بھی کہتا ہوں کہ اُس دن جب تمہارا اکثریت میں ہونے کا غرور ٹُوٹ جائے گا تو خواہ اُس وقت میں ہوں یا میرا قائمقام تم سے بھی بہر حال یوسف ؑ والا سلوک ہی کیا جائے گا۔ (انشاء اﷲ)
اصل دیکھنے والی چیز ہمارے لئے یہ ہے کہ ہم سوچیں اور غور کریں کہ کیا واقعی ہم نے اپنے خدا کو خوش کر لیا ہے؟ کیا ہمیں وہ چیز مل گئی ہے جس کی خاطر ہم نے دُنیا جہاں کی مخالفتیں مُول لی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر واقعی ہمیں دُنیا کی کسی طاقت کی پرواہ نہیں لیکن اگر یہ چیز نہیں ملی تو خواہ دُنیا کہے یا نہ کہے ہم مر چکے اور ہمارا دل ہی ہماری حالت پر نوحہ کناں ہو گا ۔ پس پورا زور لگاؤ کہ وہ چیز ہمیں حاصل ہو جائے جس کی خاطر ہم یہ سب تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں۔ لیکن وہ چیز کیا ہے؟ وہ چیز ہے ایمان بِاﷲ جسے قرآن مجید نے مومنوں کے سامنے ایک بہترین تحفہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ اگر ایمان بِاﷲ مل جائے اور اگر اس کے سارے پہلو اُسی طرح محفوظ ہوں جس طرح قرآن مجید کہتا ہے تو پھر سمجھ لو کہ تم نے سب کچھ پالیا۔‘‘(الفضل ۳؍جنوری ۱۹۵۲ء لاہور)
حضور نے تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا:-
چشمۂ ہدایت
’’اﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے
۱؎یعنی دنیا پر نظر کر کے اور تاریخ عالَم پر غور کر کے تمہیں دکھائی دے سکتا ہے کہ ہر طرف گھاٹا ہی گھاٹا اور تباہی ہی تباہی اور جھگڑے ہی جھگڑے پائے جاتے ہیں۔صرف ایک ہی چیز ہے جو اِن تما م بد اثرات سے پاک نظر آسکتی ہے اور وہ مومن انسان ہے جو عمل صالح کرتا ہے اورکرتا ہے اورکرتا ہے۔ گویا یہ چار چیزیں ایسی ہیں جو ساری دنیا کے فسادات کا علاج ہیں۔جن میں سے پہلی اور سب سے اہم چیز ایمان ہے۔ یہ سیدھی بات ہے کہ اگر ایمانِ کامل کسی کو نصیب ہو جائے تو پھر دنیا کی مشکلات اوردنیا کی تکالیف اس کی نگاہ میں بالکل بے حقیقت ہو جاتی ہیں۔ احادیث میں ایک واقعہ بیان ہؤ اہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ ایمان کی کیاکیفیت ہوتی ہے اور جب وہ کسی شخص کو سچے طور پر حاصل ہو جائے تو اُس کی نگاہ میں دنیا کتنی بے حقیقت ہوجاتی ہے۔
احد کی جنگ میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کے نتیجہ میں لوگوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں۔ تمام مدینہ میں کُہرام مچ گیا اور عورتیں اور بچے بلبلاتے اور چیختے ہوئے میدانِ جنگ کی طرف دَوڑ پڑے۔ شہر سے نکلنے والی عورتوں میں ایک ستّر سالہ بڑ ھیا بھی تھی اس کی بینائی بہت کمزور ہو چکی تھی اور اسے نہایت قریب سے ہی کوئی چیز نظر آتی تھی دُور کی چیز کووہ نہیں دیکھ سکتی تھی زیادہ تر دوسرے کو آواز سے پہچانتی تھی۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُس وقت میدانِ جنگ سے بخیریت واپس تشریف لارہے تھے اور آپ کی خاص طور پر حفاظت کرنے کے لئے ایک انصاری صحابیؓ آپ کے ساتھ ساتھ چلے آرہے تھے اور وہ اِس فخر میں آپ کے اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے تھے کہ ہم خدا کے رسول کو میدانِ جنگ سے زندہ سلامت لے آئے ہیں ۔ان کے دوسرے بھائی اِسی جنگ میں شہید ہو چکے تھے ۔جب مدینہ سے عورتوں اور بچوں کا ایک ریلا روتا اور بلبلاتا ہؤا نکل رہا تھا تو اِس صحابی ؓ نے دیکھا کہ ان کی ستّر سالہ بڑھیا ماں بھی بے تابی کے ساتھ چلی آرہی ہے۔ اس نابینا بڑھیا کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ اُسے رستہ نظر نہیں آتا تھا اور وہ پریشانی کے عالم میں اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی۔ جب اس صحابی ؓ نے اپنی ماں کو دیکھا تو انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللہ! میری ماں!،یَا رَسُوْلَ اللہ! میری ماں! مطلب یہ تھا کہ اس کا جوان بیٹا بڑھاپے کی عمر اور کمزوری میں مارا گیا ہے آپ اس کی طرف توجہ فرمائیں تاکہ اس کے دل کو تسکین حاصل ہو۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی اِس بات کو سمجھ گئے۔ وہ بڑھیا قریب آئی تو آپ نے فرمایا میری اونٹنی کو کھڑا کرو۔ پھر آپ ؐ نے اس عورت کو مخاطب کیا اور فرمایا اے خاتون! مَیں تمہارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے بیٹے کو شہادت کا رُتبہ دیا وہ تمھیں صبر دے اور تمہارے اِس غم کو دُور کرے ۔نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ عورت اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی کہ یہ آواز مجھے کہاں سے آرہی ہے؟ وہ تو یہی سمجھتی تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور آواز تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی۔ دیکھتے دیکھتے آپ کے چہرہ پر اس کی نظر پڑ گئی اور اس نے دیکھ لیا کہ آپ ہی ہیں اور آپ ہی بول رہے ہیں۔ اِس پرتِنک کر جیسے عورت خفگی میں بولتی ہے کہنے لگی یَا رَسُوْلَ اللہ! آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں۔ یَا رَسُوْلَ اللہ!میرے بیٹے کا یہاں کیا ذکر ہے سوال تو آپ کی زندگی کا تھا سو آپ خیریت سے آگئے بیٹے مرتے پِھریں ان کا کیا سوال ہے۔۲؎
تو حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم کو خدا مل جائے اور اگر ہر قسم کے خطرات کو مُول لینے کے بعد خدا کا دامن ہمارے ہا تھ میں آجائے تو ہم تو یہی کہیں گے کہ قوم کیا ہوتی ہے قومیں رہیں یا جائیں خدا ہمارا مدد گار ہے۔ پس ہمیں ایمان کی فکر کرنی چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ آیا ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ خدا کے منشاء کے مطابق ہے یا وہ اُس معیار تک پہنچتا ہے جس معیار تک پہنچنے کے بعد انسان ہر قسم کے روحانی خطرات سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
پہلی چیز ایمان ہے۔ دوسری چیز عملِ صالح ہے ۔تیسری چیز وصیت بِا لحق۔ اور چوتھی چیز وصیت بِالصبر ہے۔اِن میں سے پہلی چیز کو لیتا ہوںیعنی ایمان۔ ہم مُنہ سے کہہ دیتے ہیں کہ ایمان۔ایمان۔یا ایمان کا کیا ہے۔ اللہ کا فضل ہے ہمیں ایمان نصیب ہے لیکن ہم کبھی یہ نہیں سمجھتے کہ ایمان ہو تا کیا ہے۔آیا ایمان صرف پانچ حرفوں کے جمع ہونے کا نام ہے؟ آخر ہر چیز کی کوئی حقیقت ہوتی ہے ،خربوزہ کی کوئی حقیقت ہے،آم کی کوئی حقیقت ہوتی ہے، ہم کپڑے کا لفظ بولتے ہیں تو اس کی بھی کوئی حقیقت ہوتی ہے۔ کپڑا کھدّر بھی ہے، کپڑا کمخواب بھی ہے، کپڑا زربفت بھی ہے۔
پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ آخر یہ جو لفظ ایمان ہے اس کا کیا مفہوم ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جب ہمارے دماغ میں کوئی عقیدہ راسخ ہوگیا اور ہم نے سمجھ لیا کہ فلاں چیز سچی ہے اور ہم نے مُنہ سے کہہ دیا کہ یہ چیز سچی ہے تو گویا ہم کو ایمان نصیب ہو گیاحالانکہ اسلام یہ معنے نہیں کرتا۔ ایمان کا لفظ امن سے نکلاہے اور امن تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں روزانہ بحث ہوتی ہے کہ دُنیا میں امن ہونا چاہئے، امن ہونا چاہئے گو ساتھ ہی یہ بحث بھی ہوتی ہے کہ جہاں احمدی جلسہ ہو اُس میں سر پھٹول ہونی چاہئے اور ان کے جلسہ کو برخاست کر دینا چاہئے۔بہر حال ایمان کے معنے ہیں امن دینا۔ سو اَب ایمان کے معنے خالی عقیدہ کے مان لینے کے نہ ہوئے ایمان تو اُس چیز کو کہیں گے کہ کسی عقیدہ کو ایسا مان لینا جو امن دے دے۔ اگر اس کے ساتھ اسے امن مل گیا ہے تو وہ ایمان ہے اور اگر امن نہیں تو نام ہے ایمان نہیں۔اب ایک امن تو وہ ہے جو ہمارے دیکھنے میں نہیں آتامثلاً لوگ کہتے ہیں ہم دوزخ سے بچ جائیں گے اور جنت میں چلے جائیں گے۔ سو دوزخ کو کس نے دیکھا اور جنت کو کس نے دیکھا۔ہندو بھی یہی کہتا ہے کہ میں دوزخ سے بچ گیا اور جنت میں چلا گیا ۔کُتّا،سُور،بلی بن گئے تو دوزخ ہو گئی،آدمی بن گئے تو جنت ہو گئی ۔پس وہ بھی یہی کہتا ہے ،بدھ بھی یہی کہتا ہے کہ بُرے اعمال ہوں گے تو جُونیں بھگتوں گا۔بُرے اعمال نہ ہوئے تو نہیں بھگتوں گا۔عیسائی بھی یہی کہتا ہے کہ جس کے بُرے اعمال ہوں گے وہ ہمیشہ ہمیش کی دوزخ میں جائے گا اور آگ اور پتھر اور گندھک اور کیا کیا بلائوں میں وہ جلایا جائے گا اور اگر عیسائیت پر پکا ہؤا ایمان ہؤ ا اور مسیح پر پختہ ایمان ہؤا تو اگلے جہان میں نہایت ہی خوشحال قلب کے ساتھ رہے گا تو کیا فرق ہے ہمارئے ایمان کا لفظ کہنے میں اور ان کے ایمان کے کہنے میں،وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمیں ایمان حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی چیز بھی ہو جس کو ہم دیکھ سکیں تو ہم اس سے ایمان کی حقیقت پہچانیں گے۔اگلے جہان کی جو جنت ہے وہ عقل سے پہچانی نہیں جا سکتی اور نہ رؤیت میں آتی ہے صرف عقیدہ پر اس کی بنیاد ہے ۔قرآن کہتا ہے تو ہم مانتے ہیں، انجیل کہتی ہے تو عیسائی مانتے ہیں،وید اور اپنشد کہتے ہیں تو ہندو مانتے ہیں،بدھ مذہب کی کتابیں کہتی ہیں تو بدھ مانتے ہیں،زرتشتی کتابیں کہتی ہیں تو وہ مانتے ہیں۔نہ کسی نے دیکھانہ کوئی عقلی دلیل ایسی ہے جس کے ذریعہ اس کے وجود کو سامنے لا سکیں۔ اب اگر کوئی ایسی دلیل ہم کو مل جائے جسے دوسرے کے سامنے ہم ثابت کر سکیں اور کہہ سکیں کہ لو یہ معیار ہے اور اسے ماننا پڑے کہ یہ ٹھیک ہے تو پھر بے شک ہم کہیں گے کہ چونکہ ایمان کے پہچاننے کی دلیل صرف ہمارے پاس ہے تمہارے پاس نہیں اِس لئے ایمان صرف ہمارے پاس ہی ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے ایمان کی کیا تعریف کی ہے اس طرح آہستہ آہستہ اس کے معنے ہم پر کھلتے جائیں گے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایمان کا چھوٹے سے چھوٹا مزہ جو انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ مَنْ کَانَ اَنْ یُّلْقٰی فِی النَّار اَحَبُّ اِلَیْہِ مِنْ اَنْ یَّرْجِعَ فِی الْکُفْرِبَعْدَ اَنْ اَنْقَذَہُ اﷲ۔ ۳؎ یعنی ایمان لانے کے بعد اگر اُس کو آگ میں ڈال کر جلا دیا جائے تو وہ اِس کو نہایت ہی پسند کرے گا بہ نسبت اِس کے کہ وہ اپنے اس عقیدہ کو چھوڑ دے اور کُفر کی طرف لَوٹ جائے بعد اِس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو کفر سے بچالیا ہے ۔
ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ پُرانے زمانہ کی اُمتوں میں سے جن کو ایمان نصیب ہوتا تھا لوگ اُن کے سروں پر آرے رکھ کر اُنہیں چِیر دیتے تھے اور وہ کٹ کر دو ٹکڑے ہو جاتے تھے لیکن اپنی بات پر قائم رہتے تھے ۔۴؎ صحابہؓ میں اِس کی نظیریں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں ۔حضرت بلال ؓکو بھُوکا رکھا جاتا تھا،چوبیس گھنٹے ان کی خوراک کو بند رکھتے۔ اِس کے بعد ان کو تپتی ہوئی ریت پر لٹاتے، بڑا سا گرم پتھر اُن کے سینہ پر رکھتے اور پھر ایک آدمی اُن کے سینہ پر چڑھ جاتا اور کُودتا۔ پھر کہتے تھے کہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم جھوٹے ہیں اور خدا تعالیٰ کے اَور بھی شریک ہیں۔ یہ لات منات او ر عُزٰی جو ہیں یہ سب خدا کے شریک ہیں۔زبان اُن کی اٹک جاتی تھی، گلا اُن کا خشک ہو جاتا تھا۔ جشیوں کے مُنہ سے یوں بھی ش نہیں نکلتا ۔جس وقت ان کو بہت پیٹتے تو وہ کہتے تھے اَسْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ اور جب بالکل ہی بے دم ہو جاتے تو وہ فرماتے اَحَدٌ اَحَدٌ یعنی خدا ایک ہی ہے۔۵؎
غرض اس کا نمونہ مسلمانوں میں موجود ہے کہ کس کس طرح اُنہیں تکلیفیں دی گئیں مگر پھر بھی وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہے۔ اِس کے مقابلہ میں وہ بھی مسلمان کہلانے والے لوگ ہوتے ہیں جو معمولی لالچ کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔
حضرت خلیفہ اوّل سُنایا کرتے تھے کہ کوئی مولوی صاحب میرے دوست تھے اور مجھے ان پر بڑی حُسنِ ظنی تھی ،بظاہر بڑے نیک اور نمازی نظر آتے تھے ایک دن کسی نے مجھے آکر کہا کہ آپ فلاں مولوی صاحب کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ وہ بڑا ذلیل قسم کا آدمی ہے میں نے کہا نہیں بڑا اچھا آدمی ہے کہنے لگا فلاں لڑکی جو شادی شدہ تھی اُس کی اس نے دوسری جگہ شادی کر دی ہے۔ میں نے کہا تم الزام لگاتے ہو ایک دو دن کے بعد مولوی صاحب جو مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے کہا مولوی صاحب! میں تو نہیں مانتا لیکن کسی شخص نے یہ بات بتائی ہے اور میرا فرض ہے کہ آپ کو وہ بات پہنچادوں اُس نے کہا ہے کہ آپ نے ایک شادی شُدہ عورت کا دوسری جگہ پر نکاح پڑھ دیا ہے۔ کہنے لگا شادی شدہ عورت کا دوسری جگہ پر نکاح۔ مولوی صاحب! آدمی کو چاہئے کہ پہلے تحقیقات کرے اور پھر دیکھے کہ کیا بات ہے یونہی کسی پر الزام نہیں لگانا چاہئے۔ میں نے کہا یہی تو میری غرض تھی اور میں خوش ہو گیا کہ معلوم ہوتا ہے بات جھوٹی ہے اور یہی میرا مطلب تھا لیکن اس کے بعد کہنے لگا مولوی صاحب! یہ بتائیے’’نمبر دار نے چڑی جِڈّا روپیہ جے کڈھ کے میرے سامنے رکھ دتّا تے میں کی کردا‘‘۔
آپ فرماتے تھے میں نے سمجھا تھا کہ خبر نہیں مارا ہو گا، پیٹا ہو گا، گھر سے نکال دیا ہوگااَور کیا کیا زمینداروں نے ظلم کیا ہو گا ۔آخر کہلوا لیا ہو گا مولوی تھا ڈر گیا۔مگر ظلم کیا نکلا؟ مجبوری کیا نکلی؟ مجبوری یہ نکلی کہ’’چِڑی جِڈّا روپیہ کڈھ کے اَگّے رکھ دتا تے میں کی کردا‘‘یہ آجکل کے مسلمانوں کی حالت ہے۔مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ آرے سے تم کو چِیر دیا جائے، آگ میں تم کو جلا دیا جائے مگر تمہارے دل میں جو یقین اور وثوق پیدا ہو چُکا ہو وہ نہ نکلے اور تم اپنی بات پر قائم رہو اور یہ بھی ادنیٰ درجہ کا ایمان ہے۔ اس کے اوپر ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اب ہم ایمان کے سمجھنے میں ایک قدم قریب ہو گئے لیکن یہ بھی بات ہے کہ ہر شخص کو آرے سے تو چِیرانہیں جاتا، ہر شخص کو تو آگ میں نہیں ڈالا جاتا، ہر شخص کو تو پہاڑ سے گِرایا نہیں جاتا۔ جس کو گرائیں گے اُس کو تو پتہ لگ جائے گا کہ ایمان اسے نصیب ہے یا نہیں ہمیں کس طرح پتہ لگے گا؟اُس کو تو پتہ لگ گیا کہ ایمان کی کیا طاقت ہے ہمیں کس طرح پتہ لگے گا؟ یہ معیار اگر مل جائے تو پھر بے شک ہم مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہمیں ایمان حاصل ہے۔
اِس کے پہچاننے کے لئے ہم کو یہ مسئلہ یوں سمجھنا چاہئے کہ ایمان کے معنے بیان کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ایمان اُس عقیدہ کا نام ہے جو غیرمتزلزل ہو یعنی و ہ کسی صورت میں بھی متزلزل نہ ہو سکے۔ اب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایت لے کر خدائی قانون کی طرف جاتے ہیں کہ غیر متزلزل کونسی چیز ہؤا کرتی ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ کسی چیز کو عام حالات میں کیا بات متزلزل کر دیا کرتی ہے؟ یُوں تو ایک پاگل ہوتا ہے وہ ہر بات کے متعلق قیاس کر لیتا ہے سوال یہ ہے کہ ایک انسان جو معمولی عقل کا انسان ہے اور مشترک عقل اُس میں پائی جاتی ہے وہ کیوںمتذبذب ہؤا کرتا ہے؟
اگر تم غور کر و گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ تین چیز یں ہیں جن کی وجہ سے انسان متزلزل ہؤا کرتا ہے۔ ایک متزلزل کرنے والی چیز ہوتی ہے عقیدہ اور نقل۔ ایک شخص کو یقین ہے کہ قرآن سچا ہے اُس کو اگر آ کر کوئی کہے کہ قرآن میں یہ لکھا ہؤ ا ہے تو چاہے اس کا کوئی عقیدہ ہو اگر وہ قرآن کو سچا سمجھتا ہو گا تو فوراً کہہ دے گا کہ میری غلطی ہے قطع نظر اِس کے کہ وہ بات ٹھیک ہے یا نہیںیہ جانے دو۔ لیکن جس کو کسی چیز پر عقیدت ہو جس کو نقل کہتے ہیںیعنی حوالہ کہ تمہارے مذہب میں یا فلاں کتاب میں یوں لکھا ہؤا ہے اُس کی وجہ سے انسان اپنے عقیدہ پر پکّا ہوتا ہے۔جب اس سے ہٹا دو کہ یُوں نہیں تو وہ ہِل جاتا ہے۔
میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سُنایا ہے کہ مولوی نظام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک پُرانے دوست ہؤا کرتے تھے۔ مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کے بھی وہ دوست تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٔ مسیحیت کیا اور انہوں نے مخالفت کی اور کفر کے فتوے لگائے تو مولوی نظام الدین صاحب اُس وقت حج کے لئے گئے ہوئے تھے، اُنہیں حج کا بڑا شوق تھا، ۱۲ حج اُنہوں نے کئے تھے، جب حج سے واپس آئے اور انہوں نے سُنا کہ اس طرح جھگڑا ہو گیا ہے تو اُنہیں بڑا افسوس ہؤا اور قادیان پہنچے۔ حضرت صاحب بیٹھے تھے کہنے لگے میں نے حج سے واپس آکر کچھ باتیں سُنی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے فرمایا آپ نے کیا سُنا ہے؟ انہوں نے کہا میں نے سُنا ہے آپ کہتے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں آپ نے فرمایا میاں صاحب! بات تو ٹھیک ہے۔ وہ کہنے لگے قرآن میں تو اِس کے خلاف لکھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے فرمایا اگر قرآن میں اس کے خلاف لکھا ہوتا تو ہم فوراً چھوڑ دیتے۔یہی تو سوال ہے ہم کہتے ہیں قرآن میں لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیںاوروہ کہتے ہیں نہیں لکھا۔وہ کہنے لگے قرآن میں تو بیسیوں آیتیں ہیں۔ آپ نے فرمایا بیسیوں نہیں آپ ایک ہی لے آئیے۔انہوں نے تو اپنے مولویوں سے سُنا ہؤا تھا کہ قرآن میں لکھا ہے حضرت عیسٰی علیہ السلام زند ہ ہیں، وہ تھے اَن پڑھ مگر دیندار بہت تھے کہنے لگے اچھا اگر میں سَو آیت لے آئوں تو کیا آپ مان جائیں گے؟ آپ نے فرمایا سَو کا سوال نہیں ایک ہی لے آئیں۔ اِس پر اُنہیں شُبہ پڑا کہ شاید سَو آیتیں نہ ہوں کہنے لگے اچھا اگر میں پچاس آیتیں لے آئوں تو کیا آپ مان جائیں گے؟حضرت صاحب نے فرمایا میاں صاحب! ہم نے کہہ جو دیا ہے کہ ایک آیت ہی لے آئیں تو ہم اپنا عقیدہ چھوڑنے کے لئے تیار ہیں۔ اس سے پھر ان کو اَور شُبہ پڑا اور آخردس پر آ گئے۔ چونکہ ہر روز وعظ سُنتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اِس لئے انہوں نے سمجھا کہ کم سے کم دس آیتیں تو ضرور ہوں گی اس سے کم تو نہیں ہو سکتیں۔ پھر کہنے لگے اچھا اقرار رہا مگر شرط یہ ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی میرا بھی دوست ہے اور آپ کا بھی دوست ہے آپ جانتے ہیں اس کے دل میں بدظنی ہو گی وہ آپ کے اقرار کو یوں نہیں مانے گا ۔لاہور میں جامع مسجد میں جا کر اعلان کرنا پڑے گا کہ میری غلطی ہے۔ آپ نے فرمایا ضرور ۔ اُن دِنوں حضرت خلیفہ اوّل جموں سے چھُٹی لے کر لاہور آئے ہوئے تھے اور مولوی محمد حسین صاحب نے آپ سے بحث شروع کر دی تھی کہ میرے ساتھ وفاتِ مسیح ؑ پر مباحثہ کر لو اور معیار کیا ہو گا حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے قرآن اور وہ کہتے تھے حدیث۔ آخر بڑے جھگڑوں اور اشتہار بازیوں کے بعد اور پیغام رسانیوں کے بعد حضرت خلیفہ اوّل نے مان لیا کہ اچھا تم بخاری کو اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابِ اﷲِ کہتے ہو جو کچھ قرآن اور بخاری میں لکھا ہو گا وہ میں مان لوں گا۔ چینیاں والی مسجد میں مولوی محمد حسین صاحب بیٹھے ہوئے تھے اُن کے اِردگِرد اُن کے معتقد تھے اور وہ بڑے زور شور سے کہہ رہے تھے تعلّی کی اُن کو عادت تھی کہ دیکھو نور الدین ؓ اتنا بڑا عالم بنا پھرتا ہے سارے ہندوستان میں مشہور ہے میں نے اُس کو یہ دلیل دی اور اُس نے وہ دلیل دی۔اُس نے یوں کہا اور میں نے اُسے یوں کہا۔ او ر میں نے اُسے یُوں پٹخنی دی اور آخر اُسے منوا لیا کہ حدیث بھی پیش ہو سکے گی۔اِتنے میں بد قسمتی سے مولوی نظام الدین صاحب وہاں پہنچ گئے اور کہنے لگے مولوی صاحب ’’چھڈّو بھی تہانوں عادت ہے اینویں لمبے جھگڑے کرن دی‘‘ ۔میں مرزاصاحب کو منوا آیا ہوں آپ قرآن سے دس آیتیں لکھ دیں،میں ابھی مرزا صاحب کو شاہی مسجد میں لا کر سب کے سامنے ان سے توبہ کرائوں گا۔اب عین موقع پر جو آکر انہوں نے یہ کہا دوسرے موقع پر بات ہوتی تو شاید وہ برداشت بھی کر جاتے تعلّی تو اُن کی ساری یہی تھی کہ نور الدین قرآن کہتا تھا اور میں نے حدیث منوالی۔اِس موقع پر جو نظام الدین صاحب نے یہ بات کہی تو مولوی محمد حسین صاحب غصہ میں آ گئے اور کہنے لگے میں مہینہ بھر توں حدیث ول لیا رہیا،تُوں پھر قرآن وَل لے گیا ہاں‘‘۔میاں نظام الدین صاحب نیک آدمی تھے،جب اُنہوں نے یہ بات سُنی تو اُن پر سکتہ سا آگیا اور بہت ہی افسردہ شکل بنا کر مجلس سے اُٹھے اور کہنے لگے’’ چنگا مولوی صاحب! جے ایہہ گل ہے تو پھر جِدھر قرآن اُدھر میں‘‘۔
اور یہ کہہ کر وہ قادیان آئے اور اُنہوں نے بیعت کر لی۔ تو حقیقت یہ ہے کہ جب کسی شخص کو یقین ہوتا ہے نقل پر تو اُس کو اگر حوالہ دیا جائے تو وہ متزلزل ہو جاتا ہے۔
دوسری چیز متزلزل کرنے والی عقل ہوتی ہے ۔عقل کا مادہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں پیدا کیا ہے اور عقل سے انسان روزانہ فیصلے کرتا ہے۔ اگر کسی شخص کی سمجھ میں آ جائے کہ عقل یوں کہتی ہے تو وہ بھی متزلزل ہو جاتا ہے۔
تیسری چیز انسان کو متزلزل کرنے والی جذباتِ صحیحہ ہوتے ہیں۔ بے شک عقل بھی کام دیتی ہے اور نقل بھی کام دیتی ہے۔ لیکن اگر فطرت کوئی بات کہتی ہو تو جس کو نہ قرآ ن کا پتہ ہو نہ حدیث کا پتہ ہو، پہاڑوں میں رہنے والا ہو وہ بھی کہہ دے گا کہ بات درست ہے۔ مثلاً بچے کی محبت یا بچہ کے لئے قربانی کیا کسی آیت کے تحت ہے یا حدیث کے ماتحت ہے؟ یہ محض فطرت کے ماتحت کی جاتی ہے۔ اگر کسی کے جذبات انگیخت میں آجائیں اور اسے کہا جائے کہ یہ فطرت کے خلاف ہے۔ کسی ماں کو کہا جائے کہ یہ بات تیرے ماں ہونے کے خلاف ہے ۔کسی باپ کو یہ کہا جائے کہ یہ تیرے باپ ہونے کی حیثیت کے خلاف ہے تو وہ فوراً پُرانے خیالات کو چھوڑ دے گا اور سمجھے گا کہ مَیں با پ ہوںجو چیز میرے باپ ہونے کے خلاف ہے اُس کو میں اختیار نہیں کر سکتا۔ تو تین چیزیں ہیں جن سے کوئی چیز متزلزل ہو سکتی ہے۔نقل، عقل اور جذباتِ صحیحہ ۔جس چیز کی تائید میں نقل، عقل اور جذباتِ صحیحہ ہوں اُس میں تزلزل کبھی نہیں آسکتا کیونکہ اِنہی تین چیزوں سے انسان بدلا جاتا ہے۔ اگر یہ تینوں چیزیں اس کی تائید میں ہو جائیں تو پھر اسے متزلزل کرنے والی اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔
اب ہمارئے پاس دلیل آ گئی جس سے بغیر آگ میں ڈالے جانے کے، بغیر آرے سے چیرے جانے کے ہم پتہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے اندر ایمان موجودہے ۔اگر ہمارے عقیدے عقل کے مطابق ہیں، نقل کے مطابق ہیں، جذباتِ صحیحہ کے مطابق ہیں تو سیدھی بات ہے کہ جب تک ہمارے ہوش قائم ہیں ،جب تک ہم پاگل نہیں ہو جاتے ہم اُنہیں بھی نہیں چھوڑ سکتے ۔ لالچ سے انسان چھوڑ سکتا ہے لیکن دل سے وہ کبھی الگ نہیں ہو سکتا۔ یہی ایمان کے پرکھنے کا ذریعہ ہے۔ اور وہی قوم ایماندار ہو سکتی ہے جس میں یہ تینوں باتیں پائی جائیں۔ یوں تو ہر قوم کہتی ہے کہ ہم ایماندار ہیں عیسائی بھی کہتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیں اور ہندو بھی کہتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیں،سکھ بھی کہتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیں، زرتشی بھی کہتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیں ،مسلمانوں میں سے حنفی، شافعی، حنبلی سب کہتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیںمگر سوال یہ ہے کہ جو کچھ ان کے عقیدے ہیں اگر وہ نقل ،عقل اور جذباتِ صحیحہ کے مطابق ہیں تو پھر وہ غیر متزلزل ہیں کیونکہ ایمان کی تعریف میں شامل ہیں اور اگر ان کے عقیدے اور ان کے خیالات متزلزل ہو سکتے ہیں کسی جگہ عقل کے خلاف ہیں، کسی جگہ نقل کے خلاف ہیں، کسی جگہ جذباتِ صحیحہ کے خلاف ہیں تو سمجھ لو کہ چاہے وہ کتنا ہی یقین ظاہر کرتے ہوںقسمیں کھاتے ہوں، روتے ہوں،چلّاتے ہوں ،جس دن بھی ان کے کان کھلے اور عقل اندر آئی،جس دن بھی ان کے کان کھلے اور نقل اندر آئی، جذباتِ صحیحہ اندر آئے اُسی دن اُن کا ایمان متزلزل ہو جائے گا۔یہی وہ ایمان ہوتا ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ
’’ کیا ایک چلّو پانی سے ایمان بہہ گیا‘‘
چنانچہ دیکھو یہ ایک ایسا مسئلہ تھا کہ اِس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غیر لوگ بھی سمجھ گئے تھے ۔وہ ایمان نہیں لائے تھے مگر سمجھ گئے تھے ۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کو جو تبلیغی خط لکھے تو ایک خط ہر قل کے نام بھی تھا۔ جب اس کے پاس خط پہنچا تو اس نے کہا کہ عرب کا کوئی آدمی لائو جس سے میں پوچھوں کہ حقیقت کیا ہے؟اتفاق کی بات ہے کہ ابوسفیان جو اُس وقت مکّہ کے سردار تھے اور اِسی طرح مکّہ کے چند اَور آدمی تجارت کے لئے وہاں گئے ہوئے تھے،سپاہی اُنہیں پکڑ کر لے آئے۔ اُس نے ابوسفیان کے پیچھے اس کے ساتھیوں کو کھڑا کر دیا اور کہا کہ میں اس سے چند سوال کر ونگا اگر یہ سچ بولے تو چُپ رہنا اور اگر کسی بات میں اس نے جھوٹ بولا تو تم پکڑ لینا چنانچہ ابوسفیان کھڑے ہو گئے۔
بعد میں جب وہ اسلام لائے تواُنہوں نے بتایا کہ کئی جگہ میرا دل چاہتا تھا کہ میں جھوٹ بولوںلیکن پھر مَیں رُک جاتا تھا اِس خیال سے کہ میرے ساتھی ہی مجھے جھُٹلادیں گے۔ اُس نے جو سوال کئے اُن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ یَرْتَدُّ اَحَدٌ مِّنْھُمْ سُخْطَۃً لِدِیْنِہٖ کہ کیا کوئی اس کے دین سے اِس طرح بھی مرتد ہوتا ہے کہ خود اس کے دین سے اُس کو نفرت ہو؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُسے نفرت ہو جائے، صحابیوں سے نفرت ہوجائے، روپیہ پر جھگڑا ہو جائے،زمین پر جھگڑا ہو جائے اور وہ مرتد ہو جائے تو یہ اَور بات ہے۔میرا مطلب یہ ہے کہ جو عقیدہ یہ شخص پیش کرتا ہے ۔مثلاًکہتا ہے خدا ایک ہے تو کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے جو مرتد ہونے کے بعد یہ کہنا شروع کر دے کہ مجھ پر اب ثابت ہو گیا ہے کہ خدا ایک نہیں دو ہیں کیا ایسا بھی کبھی ہو تا ہے؟ ابو سفیان نے کہا نہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مرتد تو ہوئے ہیں۔ کئی مرتد ین کا تاریخ میں ذکر آتا ہے لیکن دیکھو اُس نے یہ نہیں پوچھا کہ مرتد ہوتے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مرتد تو لوگ ہوتے ہی ہیں۔شیطان خدا سے مرتد ہؤا۔ پس مرتد ہونا کوئی بات نہیں سُخْطَۃً لِدِیْنِہٖاِس کے عقیدہ کو غلط سمجھ کر الگ ہونا اصل چیز ہے۔ جب اُس نے کہا نہیں تو اُس نے کہا بس میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نبیوں کی یہ علامت ہؤا کرتی ہے۔ ان سے لڑائیاں بھی ہو سکتی ہیں، لالچوں کے مارے بھی لوگ اُن سے الگ ہو سکتے ہیں ،لیکن وہ ایسی سچائی پیش کرتے ہیں کہ انسان اُس سچائی سے نفرت نہیں کر سکتا،جس نے ایک دفعہ مانا وہ جہاں جائے اُس عقیدہ کو وہ چھوڑ نہیں سکتا۔۶؎
ہر قل کا یہ سوال بتاتا ہے کہ وہ جانتا تھا کہ سچے نبی کے ساتھ یہ تین چیزیں ہوتی ہیں۔نقلِ صحیح ،عقلِ صحیح اور جذباتِ صحیحہ ۔جب یہ تین چیزیں ہوں تو ایمان میں تزلزل نہیں آ سکتا اس لئے وہ جب بھی مرتد ہو گا عقیدہ سے نہیں ہو گا۔یہی چیز ہے جس کو قرآن کریم میں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہے کہ ان کافروں سے کہو کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم میںسے لوگ ہم میں آرہے ہیں اور گو کوئی کوئی ہمارا بھی تم میں چلا جاتا ہے لیکن تم یہ تو سوچو کہ ۷؎ فرق یہ ہے کہ کوئی شخص میرے عقیدہ کو جھوٹا سمجھ کر تم میں نہیں جاتا۔ لالچ سے جاتا ہے ،ڈر سے جاتا ہے، مصیبتوں سے خوف کھا کر جاتا ہے، قوم کی خوشنودی کے لئے جاتا ہے۔ اور جو میرے پاس آتا ہے وہ کسی لالچ سے نہیں آتا، کسی فریب سے نہیں آتا بلکہ میرے عقیدہ کو سچا سمجھ کر میرے پاس آتا ہے یہ فرق ہے جو پایا جاتا ہے۔
اب دیکھو یہ کتنا سیدھا سادہ اور واضح اصول مقرر ہو گیا۔ ہم ایک عیسائی کے سامنے بھی اسے ثابت کر سکتے ہیں، ایک ہندو کے سامنے بھی اُسے ثابت کر سکتے ہیں۔ایک یہودی کے سامنے بھی اسے ثابت کر سکتے ہیں آخر کوئی بتائے کہ عقلِ صحیح اور نقلِ صحیح اور جذباتِ صحیحہ کے سو ااور کونسی چیز ہے جو انسان کو متزلزل کرنے والی ہے اور یہ چیز یں جس کی تائید میں ہوں کیا اس کو کوئی متزلزل کر سکتا ہے؟یہی حال اب دیکھو کہ کوئی شخص احمدیت سے اس کے عقیدہ کی وجہ سے مرتد نہیں ہو تا ،کوئی شخص تم نے نہیں دیکھا ہو گا جو یہ کہے کہ میری سمجھ میں آگیا کہ انسان مرا نہیں کرتے لیکن تم سارے کے سارے اس لئے احمدی ہو کہ تم کہتے ہو سب لوگ مرا کرتے ہیں۔ اِسی طرح ہمیں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو احمدیت سے مرتد ہؤا ہو اور اس نے یہ کہنا شروع کر دیا ہو کہ حضرت صاحب نے کہہ دیا تھا کہ قرآن میں کوئی آیت منسوخ نہیں یہ کتنا ظلم تھا میں تو قرآ ن میں بیسیوں آیتیں منسوخ دکھا سکتا ہوں ۔یُوں بیسیوں احمدی ایسے نکل آئیں گے جو کہیں گے کہ میرا مقدمہ تھا خلیفہ صاحب نے غلط فیصلہ کر دیا، میری جائیدادلُوٹ لی، میری فلاں رقم کھا لی یا میری بیوی کوخلع دلا دیا اور پھر وہ چلا جاتا ہے سَو دفعہ چلا جائے مگر وہ اس لئے نہیں جائے گا کہ اب مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ قرآن میں کچھ آیتیں منسوخ بھی ہیں۔ یاہم کہتے ہیں قرآن میں ترتیب ہے اور وہ کہنا شروع کر دے کہ قرآن بے ترتیب ہے۔ تو سُخْطَۃً لِدِیْنِہٖ کوئی شخص احمدیت سے مرتد نہیں ہوتا لیکن سُخْطَۃً لِدِیْنِہٖ تم سارے کے سارے غیر احمدیت سے آئے ہو، تم سارے غیر احمدیت سے اس لئے آئے ہو کہ تمہیںوہ عقائد عقل کے خلاف نظر آئے ،نقل کے خلاف نظر آئے، جذباتِ صحیحہ کے خلاف نظر آئے۔ بہت کم تعداد میں ہمارے ہاں مرتد ہوئے ہیں لیکن ان سب مرتدوں میں سے ہم نے کسی کو بھی نہیں دیکھا جس نے احمدیت کے عقائد کو ترک کر دیا ہو۔ ہم نے دیکھا ہے بیسیوں سال کے مرتد بھی ملیں اور اُن سے پوچھا جائے کہ وفاتِ مسیح ؑکے متعلق کیا خیال ہے؟ تو وہ کہتے ہیں وہ تو مرزا صاحب نے سچ ہی کہا ہے عیسیٰ ؑ تو مرا ہی ہؤ ا ہے۔
غرض میں تمہیں بتا تا ہوں کہ تمہارے لئے حصولِ ایمان کے مواقع موجود ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شحص کے اندر ایمان موجود ہے، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص کے اندر ایمان موجود ہونا ضروری ہے ۔میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمہارے لئے ایسے مواقع ضرور موجود ہیں کہ بغیر اِس کے کہ تم کو تلوار سے کاٹا جائے ،بغیر اِس کے کہ تم کو آگ میں ڈالا جائے، بغیر اِس کے کہ تم کو پہاڑ سے گرایا جائے تم کہہ سکتے ہو کہ ہم میں ایمان موجود ہے۔ تم اپنے عقیدوں کو نمبروار لکھ لو اور پھر دیکھو کہ عقل اُن کی تائید کرتی ہے یا نہیں؟ نقل اُن کی تائید کرتی ہے یا نہیں؟جذباتِ صحیحہ اُن کی تائید کرتے ہیں یا نہیں؟تم زبان پر میٹھا رکھو تو تمہاری زبان چاہے دس کروڑ بادشاہ تم کو کہے کہ کہو یہ چیز کڑوی ہے وہ کبھی اُسے کڑوا نہیں کہے گی ،لیکن لالچ میں آجائو تو پانچ روپے لے کر کونین کے متعلق بھی تم کہہ سکتے ہوکہ وہ کڑوی نہیں۔ پس لالچ اور چیز ہے ورنہ جس شخص کے ساتھ یہ تینوں باتیں مل جائیں گی وہ یقین اور وثوق کے ساتھ آپ ہی آپ فیصلہ کر سکتا ہے۔ جو انی میں فیصلہ کر سکتا ہے،بچپن میں فیصلہ کر سکتا ہے کہ میں اس مقام پر اب کھڑا ہو گیا ہوں کہ اب میرے لئے ایسے مواقع موجود ہیں کہ میرے ایمان کو کوئی اور ورغلا نہیں سکتا ۔نہ بادشاہتیں مجھے ہِلا سکتی ہیں، نہ حکومتیں ہِلا سکتی ہیں نہ کوئی اَور طاقت ہِلا سکتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے احمدیت کے جو اصول دنیا کے سامنے پیش فرمائے ہیں وہ اگرچہ بہت سے ہیں مگر میں اِس وقت صرف دس موٹے موٹے اُصول پیش کرتا ہوں جن سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اس وقت حقیقی ایمان ہمارے پاس ہے یا ہمارے غیر کے پاس ۔آپ نے بتایا کہ:-
۱-
تمام انسان جو اَب تک پیدا ہوئے اپنا کام ختم کر کے فوت ہو چُکے ہیں ،خواہ وہ بڑے
ہوں خواہ چھوٹے ،خواہ روحانی بزرگ ہوں یا مادی۔
۲-
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِن معنوں میں خاتم النبیین تھے کہ تمام سابقہ نبیوں کی نبوت آپ کی تصدیق کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتی اور آئندہ آنے والے مأمورین بھی آپ کی مُہر سے ہی کسی درجہ کو پہنچ سکتے ہیں۔ محض آخری ہونا کوئی فخر کی بات نہیں۔
۳-
اسلام کا روحانی غلبہ تمام دنیا پر ہو گا۔
۴-
الہامِ الہٰی کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے۔
۵-
قرآن کریم ایک زندہ نا قابلِ منسوخ اور ایک غیر محدود مطالب والی کتاب ہے۔
۶-
خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنی قدرتوں کے ذریعہ سے اپنے آپ کو ظاہر کرتا رہتا ہے۔
۷-
مذہب کی بنیا د اخلاق پر ہے۔
۸-
قانونِ شریعت اور قانونِ قدرت کا متشارک اور متشابہہ ہونا ضروری ہے۔
۹-
اسلام کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں اور اِسی وجہ سے قرآن کریم کے مطالب میں ترتیب پائی جاتی ہے۔
۱۰-
خدا تعالیٰ ہمیشہ ایسے آدمی پیدا کرتا ہے جو تزکیۂ نفس کریں۔
اب ہم نمبروار ایک ایک عقیدہ کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ عقائد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے پیش فرمائے آیا نقل ان کی تائید کرتی ہے، عقل ان کی تائید کرتی ہے یا جذباتِ صحیحہ ان کی تائید کرتے ہیں؟ اگر یہ تینوں چیزیں ان عقائد کو درست تسلیم کرتی ہوں تو یہ لازمی بات ہے کہ وہی عقائد آخر دنیا میں قائم ہو ں گے اور ہر وہ شخص جو مذہب پر ایمان رکھتا ہو گا، ہر وہ شخص جس کے دماغ میں عقل کا مادہ ہو گا اور ہر وہ شخص جس کی فطرت میں جذباتِ صحیحہ پائے جاتے ہوں گے وہ ان عقائد کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
پہلی چیز جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے پیش فرمائی وہ یہ ہے کہ ہر انسان خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا،خواہ نبی ہو یا غیر نبی اپنا وقت ختم کر کے اور اُس طبعی عمر کو پا کر جو سنت اللہ میں پائی جاتی ہے آخر فوت ہو جاتا ہے۔ یہ عقیدہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیش فرمایا لیکن غیر احمدی علماء سُنی کیا اور شیعہ کیا اور حنفی کیا اور شافعی کیا اور حنبلی کیا اور مالکی کیا سب یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں وہ فوت نہیں ہوئے اور یہ کہ آخری زمانہ میں وہی دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور اُمتِ محمدیہ کی اصلاح کریں گے۔
اب اِس مسئلہ میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آیا نقل اِن کی تائید کرتی ہے؟پہلی چیز قرآن مجید ہے قرآن کریم سے وہ صرف یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ۸؎ اور وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام زندہ ہیں حالانکہ ایک بچہ بھی ان کے اس استد لال کو سُن کر ہنس پڑے گا ۔مثلاً وہی لوگ جو اِس آیت کو پیش کرتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ کیا آپ کے پردادا کو قتل کیا گیا تھا یا اُن کو صلیب دیا گیا تھا؟ او ر جب وہ کہیں نہیں تو پوچھا جائے کہ پھر کیا وہ زندہ ہیں؟ تو وہ کہیں گے نہیں وہ تو فوت ہوگئے۔ یہ کونسی دلیل ہے کہ جسے قتل نہ کیا جائے یا صلیب پر نہ لٹکایا جائے تو وہ زندہ ہو تا ہے سب ہنس پڑیں گے کہ کیسا بیوقوفی کا سوال ہے۔وہ اگر قتل نہیں ہوئے یا صلیب نہیں دیئے گئے تو زندہ کس طرح ہو گئے۔مگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہی الفاظ آگئے تو لوگوں نے نتیجہ نکال لیا کہ چونکہ وہ قتل نہیں ہوئے اور چونکہ وہ صلیب نہیں دیئے گئے اِس لئے ثابت ہؤاکہ وہ زندہ ہیں ۔گویا جسے نہ قتل کیا جائے نہ صلیب دیا جائے وہ زندہ ہوتا ہے ۔ان لوگوں کی مثال بالکل ویسی ہی ہے ،جیسے کہتے ہیں کہ کسی شخص کو بگولے نے اڑایا اور ایک باغ میں لا کر گرا دیا۔اتفاقاً وہاں انگور کی کچھ بیلیں تھیں ۔اُس کے اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے سے بہت سے انگور گرے اور جمع ہو گئے اُسے لالچ آئی اور اُس نے ٹوکرا بھرا اور سر پر رکھ کر گھر کی طرف چل پڑا ۔راستہ میں مالک نے دیکھ لیا او اُس نے پوچھا کہ یہ انگور کہاں لئے جا رہے ہو؟کہنے لگا پہلے ساری بات سُن لو پھر خفا ہونا۔بات یہ ہے کہ مجھے بگولے نے اُڑا کر تمہارے باغ میں پہنچا دیا۔جہاں گِرا وہاں انگور کی بیلیں تھیں ،ہاتھ اِدھر اُدھر مارے تو انگور گر کر پاس ہی ٹوکرا پڑا ہؤا تھاسب اس میں جمع ہو گئے اب فرمائیے اِس میں میرا کیا قصور ہے؟ اُس نے کہا اتنا تو درست ہے لیکن تمہیں یہ کس نے کہا تھاکہ انگور کا ٹوکرا اُٹھا کر سر پر رکھ کر گھر کی طرف چل پڑو؟کہنے لگا بس یہی میں بھی سوچتا چلا آرہا تھا کہ یہ بات کیا ہوئی۔یہی حال اِن کا ہے کہ مسیح ؑ کو قتل نہیں کیا گیا،مسیح ؑ کو صیلب نہیں دیا گیا اِس سے ثابت ہؤا کہ مسیح ؑ آسمان پر اُٹھا لیا گیا ہے او ر اب وہ سوچ رہے ہیں کہ یہ بات کیا ہوئی؟ کیا جسے قتل نہ کیا جائے یا جسے صلیب نہ دیا جائے وہ آسمان پر چلا جاتا ہے۔اِس کے مقابلہ میں ہم بیسیوں آیات پیش کرتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں ۔پھر صحابہ ؓ کا اجماع بھی اِسی پر ہؤا کہ تمام رسول فوت ہو چکے ہیں اور یہ پہلا اجماع تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ہؤا۔اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جاتے تو حضرت عمر ؓکی تو جان ہی نکل جاتی۔غرض نقلی طور پر کوئی چیز بھی نہیں جو ہمیں اس عقیدہ سے متزلزل کر سکے۔
باقی رہی عقل۔ سو عقلی طور پر دلیلِ استقرائی ہمارئے حق میں ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جو بھی پیدا ہوتا ہے وہ مرتا ہے۔اِستثنا ء یہ لوگ بتاتے ہیں کہ عیسٰی ؑ پیدا ہؤا اور وہ مرا نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آم کے درخت کو ہمیشہ آم ہی لگیں گے لیکن یہ لوگ ہم سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ اِستثنائی طور پر کیکر کو بھی آم لگ جاتا ہے ہم کہیں گے عقل اِس کو نہیں مانتی۔عقل یہی کہتی ہے کہ کیکر کو آم نہیں لگ سکتا ہمیشہ آم کے درخت کو ہی آم لگے گا ۔اِسی طرح جو شخص بھی پیدا ہؤا وہ مرا اور جو شخص بھی پیدا ہو گا وہ مرے گا ۔پھر عیسیٰ کا استثنائکیسا؟ابھی ہمارے اخبار میں ایک مضمون چھپا ہے کسی غیر احمدی نے نظم کہتے ہوئے ایک شعر کہہ دیا کہ:-
جناب موسیٰ عیسٰی کے بعد دنیا سے
ہوئے رسولِ معظّم بھی سوئے خلد رحیل
اب شعر سے صاف ثابت ہوتا تھا کہ موسیٰ ؑ عیسٰی ؑ سب فوت ہو چکے ہیں،لیکن جب اُس سے کہا گیا کہ دیکھو تم نے خود اقرار کر لیا ہے کہ عیسٰی ؑ فوت ہو چُکا ہے تو اب اِس ڈر سے کہ لوگ مجھے کیا کہیں گے اُس نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ اس کے یہ معنے تھوڑے ہی ہیں کہ عیسٰی ؑ فوت ہو چُکا ہے یہ تو اپنی طرف سے معنے کر لئے گئے ہیں۔ اب بات کیا ہے؟ بات یہ ہے کہ سچی بات مُنہ سے نکل جایا کرتی ہے۔ کہتے ہیں کہیں چوری ہو گئی مگر پولیس کو چورکا پتہ نہیں لگتا تھا ۔جس نے چوری کی تھی وہ کوئی نیا نیا چور بنا تھا ۔اُسے خوف پیدا ہؤ ا کہ کہیں میں پکڑا نہ جائوں وہ پولیس کے ساتھ ساتھ رہنے لگا اور جب اُنہوں نے تفتیش شروع کی تو وہ اپنی عقلمندی جتانے کے لئے جتانے لگا کہ معلوم ہوتا ہے پہلے چور یہاں آیا پھر آگے بڑھاپھر اندر داخل ہؤا اور آخر اُس نے اسباب اُٹھا کر گٹھڑی میں باندھ لیا،اِس کے بعد وہ دیوار پھاند کر نکلنے لگا توگٹھڑی اور مَیں باہر۔پولیس والوں نے جھٹ اُسے گرفتا ر کر لیا اور کہا کہ اب آپ بھی باہر نہیں رہ سکتے۔ تو بات یہ ہے کہ دماغ میں تو یہی گھسا ہؤا ہے کہ ہر شخص مرتا ہے اور عقل اِسی کی تائید کرتی ہے چنانچہ جہاں بے ساختہ شعر کہنا پڑے وہاں اُن کی زبان سے یہی نکل جاتا ہے کہ موسیٰ ؑکہاں اور عیسیٰ ؑ کہاں سب فوت ہو چکے ہیں۔
جذباتِ صحیحہ کولے لو تو کوئی مسلمان بھی یہ برداشت نہیں کرے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو جائیں اور حضرت عیسٰی ؑ کو سنبھال کر رکھ لیا جائے۔ آخر تم کونسی چیز سنبھال کر رکھا کرتے ہو اچھی چیز یا بُری چیز؟ہمیشہ اچھی چیز سنبھال کر رکھی جاتی ہے ،مثلاََ گھر میں کباب پکتے ہیں تو ایک دو شامی کباب تم سنبھال کر رکھ لیتے ہو کہ بچہ صبح ناشتہ کرلے گا۔لیکن کبھی ایسا نہیں ہؤا کہ دال خراب ہو گئی اور تم نے اُسے سنبھال کر رکھ لیا ہو کہ صبح بچے کو کھلائیں گے یا اچھا کوٹ تو تم سنبھال کر نہ رکھو اور پھٹا ہؤا کو ٹ سنبھال لو کہ اگلے سال عید کے موقع پر پہنیں گے ۔اگر خدا نے کسی نبی کو سنبھال کر ہی رکھنا تھا تو تم میں تو عقل ہے کہ تم شامی کباب سنبھال کر رکھو ،سڑی ہوئی دال نہ رکھو لیکن خدا نے سنبھالنا چاہا تو محمدرسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کو نہ سنبھالا عیسٰی ؑ کو سنبھالا ۔
دوسری چیز مسئلہ نبوت ہے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ وسلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبییّن ہونے کے یہ معنے بیان فرمائے ہیں کہ آپ اپنے درجہ اور روحانی کمالات میں تمام انبیائے سابقین سے افضل واعلیٰ ہیں اور کسی نبی کی نبوت بھی آپ کی تصدیق کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتی آپ تصدیق کرتے ہیں تو اُس کو نبی تسلیم کیا جاتا ہے اگر آپ تسلیم نہ کریں اور آپ کی مُہر تصدیق اُس کی نبوت پر نہ لگے تو وہ کبھی نبی تسلیم نہیں کیا جا سکتا ۔اب دیکھ لو جہاں تک نقل کا سوال ہے سارا قرآن اِس مضمون کی تصدیق کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن کریم وضاحتاََ بتاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نازل ہونے والی کُتب کی تصدیق کرتے ہیں یعنی جب تک آپ کی تصدیق نہ ہو اور جب تک آپ کی طرف سے اعلان نہ ہو کہ فلاں کتاب خدائی تھی اور فلاںنبی خداتعالیٰ کی طرف سے تھا اُس وقت تک نہ اُس کتاب کا منجانبِ اللہ ہونا تسلیم کیا جا سکتا ہے اور نہ اُس نبی کی نبوت تسلیم کی جا سکتی ہے۔ عقلاً دیکھ لو کہ کیا کوئی نبی بھی دنیا میں ایسا پایا جاتا ہے جس کے حالات کو پڑھ کر ہم خود یہ فیصلہ کر سکیں کہ فلاں شخص نبی تھا ۔ہم اگر کسی کو نبی تسلیم کرتے ہیں تو محض اِس لئے کہ قرآن نے کہا کہ وہ نبی تھا۔ یا قرآن نے ہمیں نبیوں کی شناحت کے اُصول بتائے ہیں کہ فلاں فلاں اُمور کا نبیوں میں پایا جانا ضروری ہے ورنہ اُن کے حالات جو بیان کئے جاتے ہیں اُن کواگر مد نظر رکھا جائے تو پھر تو کسی نبی کی نبوت کو بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً مسیح کو ہی لے لیا جائے۔انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح لوگوں کے جِنّ بھُوت نکالتے تھے،اور پھر سؤروں کے گلوں پر اُن کو ڈال دیتے تھے اور وہ جھیل میں ڈوب کر مر جاتے تھے۔انجیل کہتی ہے کہ شیطان حضرت مسیح ؑ کے پاس آیا اور وہ اُنہیں ایک پہاڑی پر لے گیا اور کہا کہ تُو مجھے سجدہ کرے تو میں ساری دنیا کی دولت اور ساری دنیا کے خزانے تجھے دے دوں گا ۔انجیل کہتی ہے کہ حضرت مسیح اُن مجالس میں شریک ہؤا کرتے تھے،جن میں شراب پی پی کر لوگ مدہوش ہو جاتے تھے بلکہ ایک مجلس میں شراب ختم ہو گئی تو اُنہوں نے کھڑے ہو کر یہ معجزہ دکھایا کہ جن مٹکو ں میں پانی بھرا ہؤا تھا وہ سب کے سب شراب سے بھر گئے۔ ہمارے شاعر تو صرف تفنن طبع کے لئے یہ کہہ د یا کرتے ہیں کہ ساقیا ہمیں اور پِلا مگر انجیل کے بیان کے مطابق تو حضرت عیسٰی علیہ السلام معجزے دکھا دکھا کر شرابیں پِلایا کرتے تھے۔ اِسی طرح اور بیسیوں باتیں ہیں جو انجیل میں درج ہیںاِن باتوں کے دیکھتے ہوئے کیا کوئی عقل مان سکتی ہے کہ اِس قسم کے انسان کو خدا رسیدہ کہا جا سکے۔صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ نعوذباللہ کوئی ہتھکنڈے باز آدمی تھا۔گلّاڈرکے بھاگاتو کہہ دیا میرے پاس جِنّ بھُوت تھے جو میں نے ان پر ڈال دیئے تھے ۔شراب میں مدہوش لوگوں کو پانی پلادیااور کہہ دیا کہ یہ پانی نہیں تھا شراب تھی۔ مگر جس وقت ہم قرآن کو دیکھتے ہیں،جس وقت ہم قرآن کی پاکیزگی اوراس کی طہارت کو دیکھتے ہیں اور پھر قرآن کو ہی یہ کہتے ہوئے سُنتے ہیں کہ عیسیٰ ؑ خدا تعالیٰ کا رسول تھا تو ہم سر جھکا دیتے ہیں اورکہتے ہیںیہ عیسیٰ جو قرآن نے پیش کیا ہے وہ اَور ہے اور وہ عیسیٰ ؑجو انجیل پیش کرتی ہے و ہ اَور ہے۔ قرآن کا عیسیٰ ؑ نبی ہے انجیل کا عیسیٰ ؑنبی نہیں ۔گویا ہماری مثال ویسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ پنجابی شاعر پر کسی شخص نے جس کا نام محمد تھا،سخت ظلم کئے۔ وہ کہنے لگا بہت اچھا تم ظلم کر لو میں بھی شعر کہہ کر تمہاری خوب خبر لوں گا ۔اُس نے کہا تم نے شعر کہے تو میں تم پر کفر کا فتویٰ لگوادونگاکیونکہ میرانام محمدہے۔ مگر وہ بھی ہوشیار تھااُس نے نظم کہی اور اس کی خوب خبر لی مگر دو چار شعروں کے بعد وہ یہ شعر ضرور لکھ دیتا ہے کہ:-
جس دا اسیں کلمہ پڑھ دے
اوہ محمد ہور ہے ایہہ محمد چور ہے
یہی ہماری حالت ہے۔ انجیل والے عیسٰیؑ کا ذکر آئے تو ہم کہتے ہیں دفع بھی کرو وہ کوئی آدمی تھا! لیکن قرآن کے مسیحؑ کا ذکر آئے تو ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے یہ عیسی ؑخدا کا نبی تھاکیونکہ اِس کی نبوت پر محمد رسول اللہ کی مُہر لگ گئی۔ اب خواہ ساری دنیا حضرت مسیح ؑ کی بُرائیاں کرے، ساری دنیا ان کی طرف عیوب منسوب کر ے ہم کہیں گے سب جھوٹ ہے عیسی ؑسچ مچ خدا کا نبی تھا۔
اِسی طرح موسی ؑکے حالات جو تورات میں بیا ن ہوئے ہیں وہ ایسے تکلیف دہ ہیں کہ کوئی شخص اُن حالات کودیکھ کر اُنہیں نبی نہیں کہہ سکتا۔ یہی حال حضرت دائود کا ہے۔ قرآن کے حالات پڑھ کر یوںمعلوم ہوتا ہے کہ دائود ایک فرشتہ تھا ۔مگر بائیبل میں جو حالات لکھے ہیں اُن کو پڑھ کر تو شرم آجاتی ہے کہ کیا یہ شخص خدا کا نبی کہلا سکتا ہے؟ بائببل بتاتی ہے کہ دائود کو فتح حاصل ہوئی تو اِس خوشی میں وہ ننگے ہو کر لشکر کے آگے آگے ناچنے اور کُودنے لگے اور اِسی حالت میں وہ شہر میں داخل ہوئے بادشاہ کی بیٹی سے اُن کی شادی ہو چکی تھی وہ اپنے جھروکے میں بیٹھی لشکر کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی ۔اُس نے جو دیکھا کہ دائود لشکر کے آگے ناچتے کُو دتے چلے آرہے ہیں تو اسے اتنی شرم آئی کہ اُن کے گھر میں داخل ہوتے ہی اُس نے کہا کہ آج آپ نے بڑی قابلِ شرم حرکت کی ہے۔لیکن اِدھر ہم قرآن والا دائود دیکھتے ہیں تو چونکہ اِس کی نبوت پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مُہر لگ گئی اِس لئے دائود کا ناچنا اور تھرکنااور کُودنا اوراِن کا ننگا ہونا سب ہماری نگاہ سے غائب ہو جاتا ہے اور ہم کہتے ہیں تم جھوٹ کہتے ہو دائود خدا کا نبی تھا۔
اِسی طرح نوحؑ اور لوط کے واقعات پڑھ کر دیکھو لو ،بائیبل بتاتی ہے کہ وہ شراب پی کر ننگے ہوئے اور اُنہوں نے اپنی بیٹیوں سے زنا کیا۔اگر قرآن کی تصدیق ہمیں نظر نہ آتی،اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مُہر ان نبیوں کی نبوت پر نہ لگتی تو ہم کہتے یہ سب جھوٹے انسان تھے لیکن اب ہم نہیں کہہ سکتے۔ اب ہم کہتے ہیں کہ یہ لوگ خدا کے مقدس اور راستباز انسان تھے اور جو کچھ کہنے والے ان کے متعلق کہتے ہیں وہ سب غلط اور بیہودہ باتیں ہیں۔
اِسی طرح حضرت کرشن اور رام چندر کو لے لو۔قران نے یہ اصول بتایا کہ ۹؎ اِس اصول کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں بھی نبی آئے اور کرشن ؑ اور رام چندر ؑ دونوں نبی تھے۔ مگر اُن کے حالات جو ہندو تاریخ بتاتی ہے وہ اتنے گھنائونے ہیں کہ کوئی سلیمُ الْفطرت انسان اُن واقعات کی بنا ء پر اِن لوگوں کے تقدس کا قائل نہیں رہ سکتا۔سیتا کے ساتھ جو ظلم کیا گیا او ر اسے سالہا سال تک جس طرح جنگل میں نکال دیا گیا وہ ایسے واقعات ہیں جو طبیعت پر سخت گراں گزرتے ہیں۔لیکن جب محمدر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہُر اِن پر لگ جاتی ہے تو سارے واقعات ایک ایک کر کے ہماری نگاہ میں بے حقیقت ہو جاتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ یہ سب مخالفین کی افتراء پردازیوں کا نتیجہ ہے ورنہ وہ لوگ نبی تھے، خدا تعالیٰ کے راستباز اور مقدس انسان تھے۔
اب دیکھو یہ معنے جو خاتم النّبییّن کے ہم کرتے ہیں یہ ایسے ہیں جن کی بناء پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی یہ ثابت کیا جا سکتا تھا کہ آپ ؐ خاتم النّبییّن ہیں۔آپ کی زندگی میں بھی مسلمان کہہ سکتے تھے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النّبییّن ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ نوح ؑاور لوط ؑ اور دائود ؑ اور موسیٰ ؑ اور عیسٰی ؑ وغیرہ کو ہم نبی تسلیم کرتے ہیں ورنہ اُن کی اپنی کتابوں کے واقعات اُن کی نبوت کے خلاف ہیں۔ مگر جن معنوں میں غیر احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النّبییّن قرار دیتے ہیں اُن معنوں میں تو قیامت کے دن تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النّبییّن ہونا ثابت ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ کسی کو کیا پتہ کہ کل کوئی نبی آ جائے۔یہ تو محض ایک خیال ہے کہ کوئی نبی نہیں آسکتا ۔کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ تمہیں کیا پتہ کہ کوئی آئے گا یا نہیںممکن ہے کہ کل ہی کوئی نبی آجائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النّبییّن نہ رہیں ۔پس یہ معنے ایسے نہیں جن کو دنیا پر ثابت کیا جا سکے۔اِن معنوں کے لحاظ سے تو جب کوئی شخص مرنے لگے اُس وقت بھی وہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ ولیہ وسلم خاتم النّبییّن ہیں کیونکہ وہ کہہ سکتا ہے کہ ممکن ہے میرے مرنے کے بعد ہی کوئی نبی دنیا میں آ جائے۔غرض جب تک صُورِ اسرافیل نہ پھُونکا جائے یہ معنے دنیا پر ثابت نہیں کئے جا سکتے کیونکہ قیامت کے دن تک ہر شخص کو یہ شُبہ ہے کہ ممکن ہے کوئی نبی آ جائے اور یہ معنے غلط ہو جائیں ۔پس غیر احمدی جو خاتم النّبییّن کے معنے کرتے ہیں ان کے رو سے قیامت کے آنے سے پہلے آپ کا خاتم النّبییّن ہونا ثابت نہیں ہو سکتا لیکن ہمارے معنوں کے رو سے محمد رسو ل اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم اُس دن بھی خاتم النّبییّن تھے جس دن آپ نے دعویٰ فرمایا کیونکہ اُس دن بھی بائیبل موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑ اور دائود ؑ اور دوسرے نبیوں کے وہی حالات پیش کرتی تھی جو آج پیش کرتی ہے لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِن نبیوں پر مُہر لگ گئی، جب آپ نے ان کی نبوت کی تصدیق فرمادی تو ہم اِن واقعات کو بھی پڑھتے ہیں مگر ہم پورے یقین اور وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ سب باتیں غلط ہیں ۔یہ لوگ یقینا نبی تھے، یقینا راست باز اور مقدس انسان تھے۔
اب دیکھو کتنا زمین وآسمان کا فرق ہے جو ہمارے معنوں میں اور انکے معنوں میں پایا جاتا ہے۔ ایک معنوں کے رُو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت اُسی دن ثابت تھی جس دن آپ نے خاتم النّبییّن ہونے کا دعویٰ فرمایا ،اور ایک معنوں کے رُو سے قیامت کا دن آنے سے پہلے پہلے آپ خاتم النّبییّن ثابت نہیں ہو سکتے جب تک اسرافیل اپنا صُور نہ پھُونکے۔ جب تک عزرائیل دنیا سے آخر ی آدمی کی بھی جان نہ نکال لے اُس وقت تک یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ لیکن اگر تمام انسان ختم ہو جائیں، ہر انسان موت کا شکار ہو جائے، دنیا پر ایک متنفس بھی باقی نہ رہے اور اُس وقت تک کوئی نبی نہ آئے تو پھر بے شک کہا جا سکے گا کہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب تک کوئی نبی نہیں آیا۔ لیکن ہمیں تو آج بھی پتہ ہے کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم خاتم النّبییّن ہیں۔ ہمارے تو آبائو اجداد کو بھی یقین تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النّبییّن ہیں بلکہ آج سے تیرہ سَو سال پہلے صحابہ ؓکو بھی یقین تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النّبییّن ہیں کیونکہ ہمارے بزرگ اِس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے بغیر نہ عیسیٰ کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے نہ موسیٰ ؑ کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے نہ کسی اورنبی کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے۔
پھراِن کے علماء نے خود اِن کے خلاف لکھا ہے چنانچہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ بھلا یہ کوئی عقل کی بات ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ کہا جائے کہ چونکہ وہ سب سے آخر میں آئے ہیں اِس لئے سب سے بڑے نبی ہیں؟آخر میں آنا بھی کوئی بڑائی کی بات ہوتی ہے؟یہ عقل کے خلاف ہے۔ اب آیت کو دیکھ لو تو وہ بھی صاف طور پر ہمارے معنوں کی ہی تائید کرتی ہے۔قرآن کریم میں یہ آیت اِس طرح آتی ہے کہ ۱۰؎ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النّبییّن ہیں ۔اب اگر وہ معنے کرو جو غیر احمدی کرتے ہیں تو اِس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ جو شخص کسی کا باپ نہ ہو وہ رسولُ اللہ ہوتا ہے اور جو رسولُ اللہ ہو وہ خاتم النّبییّن ہوتا ہے۔
جس طرح وہ لطیفہ تھا کہ چونکہ مسیح ؑ قتل نہیں ہوئے اور صلیب نہیں دئیے گئے اِس لئے معلوم ہؤا کہ چوتھے آسمان پر چلے گئے۔اِسی طرح یہ لطیفہ ہے کیونکہ فقرہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن آگے مضمون یہ بیان کیا جاتا ہے کہ چونکہ و ہ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں اِس لئے وہ رسولُ اللہ ہیں اور چونکہ وہ رسولُ اللہ ہیں اِس لئے خاتم النّبییّن ہیں۔ گویا معنے یہ بنے کہ جو کسی کا باپ نہ ہو وہ رسولُ اللہ ہوتا ہے اور جو رسول اللہ ہو وہ خاتم النّبییّن ہوتا ہے۔کیا اِن میں کوئی بھی جوڑ اور مطابقت ہے؟ یا کوئی بھی مطلب ہے جو اِن معنوں کو تسلیم کرنے سے نکل سکتا ہے؟
بے شک بعض جاہل لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس لئے اولاد نہیں ہوئی کہ آپ آخری رسول تھے ۔چونکہ نبی کی اولاد بہر حال نبی ہؤا کرتی ہے اور رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا تھا اِس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کوئی زندہ رہنے والی اولاد نہیں دی۔ لیکن واقعات کا علم رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے ۔نبی کی اولاد کا نبی ہونا ضروری نہیں۔ چنانچہ نوحؑ کی اولاد ہوئی مگر وہ نبی نہیں ہوئی ۔اِسی طرح قرآن کریم میں اشارتاً اور بائیبل میں وضاحتاً ذکر آتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک بیٹا ہؤا جو ناخلف تھا۔پس یہ غلط ہے کہ نبی کی اولاد ضرور نبی بنتی ہے اور یہ بھی غلط ہے کہ جس کی اولاد نہ ہو وہ رسولُ اللہ ہوتا ہے اور جو رسولُ اللہ ہو وہ خاتم النّبییّن ہوتا ہے۔پس جو معنے غیر احمدی بیان کرتے ہیں وہ عقل کے بھی خلاف ہیں کیونکہ محض آخری ہو نا عقلاً کوئی بڑائی کی علامت نہیں ہؤا کرتی اور پھر نقل کے بھی مطابق نہیں کیونکہ اگر قرآن کریم کی اس آیت کا وہ مفہوم لیا جائے تو آیت بالکل بے معنی بن جاتی ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاتم النّبییّن کا مفہوم بیان کرتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ خاتم النّبییّن ایک نہایت ہی بلند اور ارفع و اعلیٰ مقام ہے جو نبوت ورسالت سے بالا ہے اور اِس کے معنے یہ ہیں کہ اب جو بھی فیضانِ الٰہی آئے گا وہ آپؐ کے توسّط سے آئے گا اور وہی شخص اللہ تعالیٰ کے قُرب کو حاصل کر سکے گاجس پر اس خاتم النّبییّن کی مُہر ہو گی۔گویا الٰہی دربار میں رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے ایک رجسٹرار کی ہوتی ہے،بغیر آپ کے واسطہ کے اور بغیر آپ کی تصدیق اور آپ کی مُہر کے الٰہی دربار میں کسی کو مقبولیت حاصل نہیں ہو سکتی ۔چنانچہ پچھلے نبی بھی آپ ؐکی تصدیق کے ساتھ ہی نبی ثابت ہوتے ہیں اور آئندہ بھی آپ کے فیضان سے ہی اللہ تعالیٰ کے قُرب کے مدارج حاصل ہؤا کریں گے ۔اِسی مقام کی وضاحت ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ میں کی گئی تھی کہ۱۱؎ اے محمد! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرا دُشمن لَاوَلَد رہے گا اور تیرے بیٹے ہوں گے۔ یہ دعویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اور بتایا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے اولاد نہیں رہیں گے بلکہ ان کا دُشمن بے اولاد رہے گا ۔اب جب خدا نے یہ کہا کہ تو دُشمن کو اعتراض کا موقع مل سکتا تھا کہ دیکھا کہتے تھے کہ میری اولاد ہو گی اور دُشمن کی نہیں ہو گی مگر اب آپ ہی مان لیا کہ میں بے اولاد ہوں گا۔اللہ تعالیٰ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں تو اس سے ان کا چھوٹا ہوتا ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ تم نے جو کے معنے سمجھے تھے وہ غلط تھے۔ باوجود اس کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد نہیں ہو گی ۔پھر بھی سورہ کوثر میں جو بتایا گیا تھا کہ اس کے دُشمن ابتر رہیں گے وہ بالکل درست ہے،کس طرح؟ اُنہوں نے یہ سمجھا تھا کہ اس جگہ جسمانی اولاد مراد ہے حالانکہ ہماری مراد یہاں جسمانی اولاد نہیں بلکہ روحانی اولاد تھی۔ ہمارا منشاء یہ تھا کہ آج دُشمن اپنی اکثریت کے گھمنڈ میں اکٹر رہا ہے لیکن ایک دن آنے والا ہے جبکہ وہ بے اولاد ہو جائے گا اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اولاد والے ہو جائیں گے یعنی ان دُشمنوں کی اولاد یں اپنے ماں باپ کو چھوڑچھوڑ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں شامل ہوتی چلی جائیں گی اور اِس طرح دُشمن گھٹتے جائیں گے اور آپ بڑھتے جائیں گے۔ یہ مفہوم تھا جو سورۃ کوثر کی آیت کا تھا ۔اب یہ سیدھی بات ہے کہ جس کی جماعت دنیا میں قائم ہو جائے گی، جو ساری دنیا پر غالب آجائے گا،جس کے دُشمن مٹ جائیں گے، جواپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا وہ یقینا رسولُ اللہ ہو گا ۔یہ نہیں کہ کسی کا بیٹا نہ ہو اور اُس کے متعلق کہا جائے کہ وہ رسولُ اللہ بن گیا۔
آگے فرماتا ہے خالی یہی نہیں کہ یہ اللہ کا رسول ہے بلکہ رسولوں کی مُہر ہے۔تم اِس کو جھوٹا سمجھتے ہو اور خیال کرتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشگوئی کی تھی کہ میرا دُشمن ابتر رہے گا۔وہ غلط نکلی۔ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ وہ پیشگوئی پوری ہو گی اور اِس کی اولاد دنیا میں ہمیشہ کے لئے قائم رکھی جائے گی۔ یعنی اِس کا فیضان کبھی ختم نہ ہو گا اور قیامت تک اِسی کی برکت سے اور اِسی کی غلامی میں وہ لوگ کھڑے ہوں گے جو اِس کے لائے ہوئے دین کی دنیا میں اشاعت کریں گے اور اس کے نام کو کونہ کونہ میں پھیلائیں گے۔
اب دیکھو یہ معنے جو ہم کرتے ہیں یہ نقلی طور پر بھی صحیح ہیں اور عقلی طورپر بھی صحیح ہیں اور جذباتی طورپر بھی صحیح ہیں کونکہ جذباتِ صحیحہ کسی کی یہ بڑائی تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ اس لئے بڑا ہے کہ سب کے آخر میں آیا۔ وہ بادشاہ جو کسی خاندان یا قوم کا آخری بادشاہ ہو اور اس کے بعد اس خاندان اور قوم میں سے بادشاہت مٹ جائے اُسے کوئی بھی بڑا نہیں کہا کرتا۔غرض ہمارا عقیدہ وہ ہے جس کی تقل بھی تائید کرتی ہے جس کی عقل بھی تائید کرتی ہے اور جس کی جذباتِ صحیحہ بھی تائید کرتے ہیں لیکن غیر احمدیوںکے معنے نقل کے لحاظ سے بھی باطل ہیں اور عقل کے لحاظ سے بھی باطل ہیں اور جذبات صحیحہ کے لحاظ سے بھی باطل ہیں ،پس جو شخص بھی اس عقیدہ کو سمجھ کرمانے گاوہ کبھی بھی اِس عقیدہ کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اور جو بھی تم میں سے غور کرے وہ خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ ختمِ نبوت کے کون سے معنے ہیں جن سے نقل تسلی پاتی ہے، کون سے معنے ہیں جن سے عقل تسلی پاتی ہے اور کون سے معنے ہیں جن سے جذباتِ صحیحہ تسلی پاتے ہیں ۔میں یقینا کہتا ہوں کہ اِس عقیدہ کو سمجھ لینے کے بعد ایک آرا کیا اگر دس ہزار آرا بھی کسی کے سر پر رکھ دیا جائے تو وہ کہے گا کہ بات تو یہی ٹھیک ہے تمہارا دل جتنا چاہے مجھے مارلو میں اِس عقیدہ کو نہیں چھوڑ سکتا۔
تیسرا اصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیش فرمایا کہ اسلام کا روحانی غلبہ تمام دنیا پر ہو گا۔ یہ اصل بھی نہایت اہم ہے اور مسلمان بغیر اِس مطمح نظر کے دنیا میں کبھی بھی حقیقی سر بلند ی حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ عجیب بات ہے کہ مسلمان پہلے تو اس اصل کو کسی نہ کسی شکل میں تسلیم کرتا تھا مگر اب ہماری مخالفت میں اُس نے اس اصل کو بھی چھوڑ دیا ہے۔پہلے کہتا تھا کہ مسیح اور مہدی دنیا میں آئیں گے تو سب کفار کو مسلمان بنا لیں گے اور گو وہ کہتا یہی تھا کہ تلوار کے زور سے مسلمان بنائیں گے مگر یہ سیدھی بات ہے کہ جب مسیح اور مہدی نے آنا تھا تو کچھ نہ کچھ اس کے ذریعہ روحانیت نے بھی غلبہ پانا تھا مگر اب جُوں جُوں ہماری تبلیغ وسیع ہوتی جارہی ہے اور جُوں جُوں وہ مسیح اور مہدی کی آمد سے مایوس ہوتا جا رہا ہے تعلیم یافتہ طبقہ نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ قرآن کے ہوتے ہوئے کسی عیسیٰ اور مہدی کی ضرورت ہی کیا ہے۔گویا تھوڑا بہت جو وہ سچائی کے قریب تھے وہ بھی ختم ہو گیا۔اب دنیا میں صرف ہماری ہی جماعت ہے جو اِس مسئلہ کو پیش کرتی ہے کہ اسلام روحانی طور پر ساری دنیا پر غالب آئے گا۔مسلمان اِس بات کو ردّ کرتا ہے اور وہ کہتا ہے ہمیں اِس روحانی غلبہ کی ضرورت نہیں ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی طور پر ایران آزاد ہو جائے،شام آزاد ہو جائے، فلسطین آزاد ہو جائے،لبنان آزاد ہو جائے، سعودی عرب آزاد ہو جائے، مصر سے انگریزی فوجیں نکل جائیں،پاکستان کی حکومت مضبوط ہو جائے، سوڈان کو آزادی حاصل ہو جائے۔اگر یہ ممالک سیاسی رنگ میں مکمل آزادی حاصل کر لیں تو مسلمان سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو گئے۔ مگر میں پوچھتا ہوں اگر یہ ساری باتیں ہم کو حاصل ہو جائیں،اگر پاکستان ایک مضبوط اسلامی مُلک بن جائے اور تھوڑی بہت اِس کی طاقت میں جو کمی ہے وہ دُور ہو جائے،اگر ایران کے تیل کے چشموں کا سوال حل ہو جائے اور پھر اس کی مالی حیثیت بھی اتنی مضبوط ہو جائے کہ اس کا خزانہ ہر قسم کا مالی بوجھ اُٹھانے کے لئے تیار ہو جائے،اگر سعودی عرب بھی آزاد ہو جائے اور اس کے تیل کے چشمے اُسی کے قبضہ میں آ جائیں اور وہ موجودہ آمد سے دس بیس گُنا آمد اِسے دینے لگیں، اگر مصر میں سے بھی انگریزی فوجیں نکل جائیں،اگر شام کے جھگڑے بھی ختم ہو جائیں اور آئے دن جو وہاں قتل کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کوئی کمانڈر اِنچیف مارا جاتا ہے اور کبھی کوئی وزیر یہ سب باتیں ختم ہو جائیں،اگر پاکستان میں اندرونی طور پر جو جھگڑے پائے جاتے ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں اور دُشمنوں کی سازشیں اور ریشہ دوانیاںجاتی رہیں تب بھی تم غور کرکے دیکھ لو کہ اِس موجودہ دنیا کے نقشہ پر روس اور امریکہ اور انگلینڈ اور فرانس کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا اِن ممالک کی آزادی اور ان کی طاقت ہمارے لئے کوئی بھی فخر کی چیز ہو گی؟یہ ساری حکومتیں آزاد بھی ہو جائیں تو دنیا کی پالیٹکس میں اِن کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے۔ روس اور امریکہ اور انگلینڈ اور فرانس کے مقابلہ میں ان کا کیا درجہ تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایک بادشاہ کے گھر کے پاس کسی غریب آدمی کا مکان ہو اور فرض کر لو کہ اس کے پاس کسی وقت لاکھ دو لاکھ روپیہ بھی آجائے تب بھی بادشاہ کے مقابلہ میں اس کی کیا حیثیت تسلیم کی جاسکتی ہے۔جس دن اُ س کا روپیہ ختم ہو جائے گااُسی دن اس کی ساری حیثیت جاتی رہے گی اور وہ پھر دنیا میں ایک بے حقیقت چیز بن کر رہ جائیگا۔ پس سوال یہ ہے کہ اگر وہ سب کچھ ہو جائے جو مسلمان چاہتے ہیں تب بھی دنیا میں مسلمان کی کیا حیثیت ہو گی؟ کیا اِس کا پھیلائو، کیا اِس کا روپیہ،کیا اِس کی فوج ،کیا اِس کی تعداد اور کیا اِس کی طاقت اِس قابل سمجھی جا سکتی ہے کہ دنیا کی پالیٹکس پر کوئی غیر معمولی اثر پیدا کر سکے؟ اگر نہیں تو بتائو اِس مطمح نظر سے اسلام کو کیا فائدہ؟ اور مسلمان نوجوانوں کے اندر اس مطمح نظر سے وہ کونسا انقلاب پیدا ہو سکتا ہے کہ ہر مسلمان کا دل اُچھلنے لگے کہ میں بھی اس مطمح نظر کے حصول کے لئے کچھ کوشش کروں شاید کہ میرا نام بھی تاریخ میں محفوظ ہو جائے۔ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو پولیٹیکل دنیا میں ایک تیسرے درجہ کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور تیسرے درجہ کی حیثیت کوئی ایسی چیز نہیں جو اِنتہائی مقصود قرار دیا جا سکے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ مسلمان ممالک کی آزادی ٖضروری چیز ہے۔کون چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ غلام بنا رہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مطمح نظر ایسا ہو سکتا ہے جس سے مسلمان نوجوانوں کی رگوں میں نیا خون دَوڑ نے لگے اور کیا اِس کے ذریعہ سے اسلام کو کوئی اہم پوزیشن دنیا میں حاصل ہوجاتی ہے؟
پس سوال یہ نہیں کہ اسلامی ممالک کی آزادی اچھی چیز ہے یا نہیں؟ سوال یہ ہے کہ اگر وہ آزادی ان کو حاصل ہو جائے تو پھر ہم کیا بن جاتے ہیں؟ ایک غریب آدمی جس کے گھر میں آٹا بھی نہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ اسے آٹا نہ ملے،مگر آٹا مل جانے سے کیا اس کی دنیا میں کوئی پوزیشن قائم ہو سکتی ہے؟اگر سیر بھر آٹے کا اس کے لئے انتظام بھی ہو جائے تب بھی وہ جن کے پاس کئی کئی کروڑ روپیہ ہے ان کے مقابلہ میں اُس کی کوئی حیثیت نہیں ہو سکتی۔ پس ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمان حکومتوں کو آزادی حاصل نہ ہو۔ہم چاہتے ہیں مسلمان ممالک آزاد ہوں ،ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان حکومتیں طاقتور ہوںلیکن جو سوال ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ اِس آزادی کے بعد دنیا میں ہماری پوزیشن کیا بنتی ہے؟مسلمان اِس بات کا مدعی ہے کہ وہ ساٹھ کروڑہے۔عیسائیوں نے جو تازہ جغرافیہ لکھا ہے اِس میں اُنہوں نے مسلمانوں کی تعداد اڑتالیس کروڑ بیس لاکھ مان لی ہے لیکن دنیا کی آباد ی دو ارب چالیس کروڑ ہے دو ارب چالیس کروڑ ہی میں اڑتالیس کروڑ بیس لاکھ تمام آبادی کا چوتھا حصّہ بنتے ہیں ۔گویا اگر سارے مسلمان آزاد ہو جائیں،اگر ہر اسلامی مُلک میں اُتنی ہی دولت ہو جتنی امریکہ میں پائی جاتی ہے ،اُتنا ہی اسلحہ ہو جتنا امریکہ میں پایا جاتا ہے،اُتنی ہی تجارت ہو جتنی امریکہ میں پائی جاتی ہے پھر بھی روپیہ میں سے چونی انہیں حاصل ہو گی۔اب تم خود ہی بتائو کہ ۱۲ آنے بڑے ہوتے ہیں یا چونی بڑی ہوتی ہے؟چونی بہر حال چھوٹی ہوتی ہے اور ۱۲ آنے بڑے ہوتے ہیں۔وہ ہندو جس کو ہمارے آدمی تحقیر کے طور پر کراڑ کراڑ کہا کرتے تھے وہ بھی آزادی کے بعد بتیس کروڑ آبادی کا مالک بن چُکا ہے۔ پھر چین کو دیکھ لو اس کی آبادی اور رقبہ کو لے لواِس کی آبادی پچاس کروڑ ہے ۔اگر مسلمان اڑتالیس کروڑ ہی ہوں تو خالی چین کے لوگوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔پس سوال یہ ہے کہ اگر ایسا بھی ہو جائے تو یہ کونسا مقصد ہے جو ہر مسلمان کے سامنے رہنا چاہئے؟
مَیں نے بتایا ہے کہ اگر کوئی آدمی مر رہا ہو تو ہماری خواہش ہو گی کہ خدا کرے وہ بچ جائے لیکن کیا جو شخص مرنے سے بچ جائے وہ بادشاہ ہو جایا کرتا ہے؟ یا کوئی بڑا عالم ہو جایا کرتا ہے؟مسلمانوں کی آزادی کے لئے جدوجہد کے معنے صرف اتنے ہیں کہ مسلم باڈی پالیٹکس میں مرض پیدا ہو چُکا ہے اور وہ اس مرض کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ہماری خواہش ہو گی کہ وہ مرض دُور ہو جائے بلکہ ہماری دعا ہو گی کہ وہ مرض دُور ہو جائے لیکن اگر یہ مرض دُور ہو جائے تب بھی دنیا کی قوموں میں بیٹھتے وقت ایک مسلمان کی کیا پوزیشن ہو گی؟اگر ایران بھی آزاد ہو جائے،اگر مصر کے مسائل بھی حل ہو جائیں،اگر فلسطین اور شام اور لبنان بھی آزاد ہو جائیں، اگر سوڈان بھی آزاد ہو جائے، اگر تمام اسلامی ممالک ے جھگڑے ختم ہو جائیں،اُن کی طاقت بڑھ جائے، اُن کا روپیہ زیادہ ہو جائے،اُن کی عظمت ترقی کر جائے،دولت اُن کے ہاتھ میں آجائے،تمام تجارت جو اِس وقت امریکہ کے پاس ہے اِن پر اُن کا قبضہ ہو جائے پھر بھی ۱۲ آنے کے مقابلہ میں وہ چار آنے کے مالک رہتے ہیں اور جب ان کی حالت یہ ہو گی کہ چونی ان کے پاس ہو گی اور ۱۲ آنے غیر کے پاس ہوں گے تو اسلام کسی طرح غالب آیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کسی طرح قائم ہوئی ۔
غرض جو شخص بھی اِس مسئلہ پر اِس رنگ میں غور کرے گا اور عقل سے کام لے گا وہ بعثتِ محمدیہ کی یہ غرض قرار دیتا کہ سیاسی لحاظ سے ایران آزاد ہو جائے، مصر آزاد ہو جائے، شام اور فلسطین آزاد ہو جائیں، لبنان آزاد ہو جائے، سوڈان آزاد ہو جائے، پاکستان مضبوط ہو جائے اپنی انتہائی پَست خیالی تصور کرے گا وہ شرمائے گا کہ میں یہ کیا کہہ رہا ہوں اور کونسا مقصد ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی طرف منسوب کر رہا ہوں۔ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے آئے تھے کہ یہ چھوٹے چھوٹے علاقے آزاد ہوجائیں؟ کیا محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لئے آئے تھے کہ مسلمان دنیا میں ایک چونی کی حیثیت حاصل کر لیں۔مَیں تو سمجھتا ہوں اگر میرے واہمہ اور خیال میں بھی ایسا نظر یہ آئے تو میرا ہارٹ فیل ہو جائے کہ میں کتنا پَست نظر یہ اُس عظیم الشان اور مقدس انسان کی بعثت کے متعلق رکھ رہا ہوں جسے خدا نے اوّلین و آخرین کا سردار بنایا۔ مَیں تو سمجھوں گا میرے جیسا جھوٹا انسان دنیا میں اور کوئی نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسے عظیم الشان رسول کی طرف اِتنا چھوٹا،اِتنا معمولی اور اِتنا ادنیٰ درجہ کا خیال منسوب کررہا ہو کہ اتنا بڑا رسول اس لئے آیا تھا کہ ایران کے تیل کے چشمے آزاد ہو جائیں، اِس لئے آیا تھا کہ مصر آزاد ہو جائے،اِس لئے آیا تھا کہ فلسطین اور شام اور لبنان کے جھگڑے دُور ہو جائیں۔میں جانتا ہوں کہ مخالف یہ کہیں گے کہ دیکھا! ہم نہیں کہتے تھے یہ لوگ مسلمانوں کے دُشمن ہیںاِنہیں اسلامی ممالک کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن مَیں ان کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کرتا ۔میں جانتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آ پ کی شان کیا ہے۔میں جانتا ہوں کہ اِس عظمت اور شان کے مقابلہ میں اِس ادنیٰ ترین مقصد پر آکر ٹھہر جانا قطعی طور پر اپنی نابینا ئی کا اظہار کرنا ہے ۔اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ایران کے تیل کے چشموں کے آزاد ہونے سے قائم ہوتی ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت مصر سے انگریزی فوجوں کے نکل جانے سے قائم ہوتی ہے تو پھر جب انگریزوں نے ایک ایک مُلک سے مسلمانوں کو کان پکڑ کر نکال دیا تھا تو تمہیں کہنا چاہئے تھا کہ عیسیٰ ؑکی عظمت ظاہر ہو گئی بلکہ عیسائیت کی موجودہ طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہیں اب بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ عیسائیت اسلام پر بازی لے گئی لیکن ہر باشعور انسان جو حقیقت کو جانتا ہے او ر سمجھ سکتا ہے کہ مُلکوں کی آزادی بالکل اَور چیز ہے اور مذہب کا غلبہ ایک دوسری چیز ہے ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا میں آکر یہ اصو ل پیش فرمایا کہ تمہارا یہ مطمح نظر نہایت ادنیٰ ہے تمہیں اپنے افکار کو بلند کرنا چاہئے۔تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تمہارا کیا منصب ہے اور کونسا کام جو خدا تعالیٰ نے تمہارے سپرد کیا ہے۔بے شک سیاست کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کی اصلاح ضروری ہے۔بے شک دولت کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کو ترقی کی ضرورت ہے،بے شک تمدن کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کو اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی ضرورت ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض یہ بھی تھی کہ اسلام کو روحانی طور پر دنیا میں غالب کیا جائے۔ اب اِس کی تشریح کرو تو اِس عظیم الشان مقصد کے یہ معنے بن جاتے ہیں کہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے دلائل اِتنی طاقت پکڑ جائیں کہ مسلمانوں کے ساتھ باتیں کرتے وقت وہ کنّی کترانے لگیں۔ آج یورپ میں جو بھی لٹریچر شائع ہوتاہے اس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اسلام میں فلاں نقص ہے اور اسلام میں فلاں خرابی ہے،لیکن کل اسلام کو ایسا غلبہ حاصل ہو کہ یورپ کے رہنے والے اپنی کتابوں میں یہ لکھیں کہ اسلام میں فلاں بات بہت اعلیٰ ہے مگر عیسائیت بھی اس سے بالکل خالی نہیں۔مسیح ؑ کی فلاں بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی دنیا کے سامنے یہی بات پیش کی تھی ،آج کا یورپ زدہ مسلمان یورپ کی ڈیماکریسی کو دیکھ کر کہتا ہے کہ قرآن سے بھی کچھ کچھ ایسے ہی اصول ثابت ہوتے ہیں اور یہ خوبی ہمارے اندر بھی پائی جاتی ہے۔ یہ اپالوجی (Apology)ہے جو آج کا مسلمان پیش کر رہا ہے اور یہ اسلام کے لئے فخر کا دن نہیں ۔اسلام کے لئے فخر کا دن وہ ہو گا،جب یورپ اور امریکہ میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اسلامی پردہ جو مسلمان پیش کرتے ہیں اس کی کچھ کچھ انجیل سے بھی تائید ہوتی ہے اور ہمارے مسیح ؑ نے بھی جو فلاں بات کہی ہے،اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس قسم کا پردہ ہونا چاہئے ۔اسلام کے لئے فخر کا دن وہ ہو گا جب یورپ اور امریکہ کا عیسائی اپنی تقریروں میں یہ کہے گا کہ کثرتِ ازدواج کا مسئلہ جو مسلمان پیش کرتے ہیں بے شک یہ بڑا اچھا مسئلہ ہے اور عیسائیوں نے کسی زمانہ میں اس کے مخالف بھی کہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پوری طرح غور نہیں کیا تھا۔
اصل بات یہ ہے کہ عیسائیت کے وہ بزرگ جو پہلی صدی میں گزرے ہیں انہوں نے بھی دو دو تین تین شادیاں کی ہیں ،پس کثرتِ از دواج کی خوبی صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ عیسائیت میں بھی پائی جاتی ہے۔جس دن یورپ اور امریکہ کے گرجوں میں کھڑے ہو کر ایک پادری اپنے مذہب کی اس رنگ میں خوبیاں بیان کرے گا وہ دن ہوگا،جب ہم کہیں گے کہ آج اسلام دنیا پر غالب آگیا۔اب ہمیں اپالوجی (Apology) کی ضرورت نہیں۔ اب دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خوبیاں ان کے اندر بھی پائی جاتی ہیں یہ ہو گا اسلام کا غلبہ اور یہ ہو گا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا دن۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا وہ دن ہو گا جب دو ارب چالیس کروڑ کی دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان نہیں ہو گا بلکہ دو ارب مسلمان ہو گا اور چالیس کروڑ غیر مذاہب کا پیرو ہوگا۔مگر یہ نظریہ کس نے پیش کیا؟ یہ صرف حضرت مرزا صاحب نے پیش کیا اور یہی وہ چیز ہے جس پر آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور کہا گیا کہ اسلام کے غلبہ کا یہ کونسا طریق ہے۔ اسلام تو اس طرح غالب آ سکتا ہے کہ تلوار ہاتھ میں لی جائے اور کفار کو تہہِ تیغ کر دیا جائے۔ مگر غور کر کے دیکھ لو کہ کونسا نظریہ ہے جو اسلام کی عظمت کو قائم کرنے والا ہے اور کونسا مطمح نظر ہے جس پر ایک سچا مسلمان تسلی پاسکتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ مطمح نظر پیش کیا ہے کہ اسلام کو روحانی غلبہ سب دنیا پر حاصل ہو گا اور روحانی غلبہ کے معنے یہ ہیں کہ دنیا کے سیاسی اور اخلاقی اور مذہبی معیاروں کو بدل دیا جائے گا ۔آج یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام قابلِ اعتراض نہیں کیونکہ یورپین تہذیب کی فلاں فلاں بات کی وہ تائید کرتا ہے یا وہ ڈیما کرسی جو آ ج یورپ پیش کرتا ہے بڑی اچھی چیز ہے مگر اسلام نے بھی اس ڈیما کرسی کی تائید کی ہے۔ یہ طریق جو آج مسلمانوں نے اختیار کر رکھا ہے یہ ہر گز اسلام کے لئے کسی عزت کی بات نہیں ۔ہم تو اُس دن کے منتظر ہیں جب امریکہ کے منبروں پر کھڑے ہو کر عیسائی پادری یہ کہا کریں گے کہ وہ اسلامی حُریت اور آزادی جس کو قرآن پیش کرتا ہے ہماری قوم بھی اس سے بالکل خالی نہیں اور ہم اس کی تائیدمیں اپنی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہیں یا وہ اخلاقی، مذہبی اور سیاسی معیار جو اسلام پیش کرتا ہے اُسی سے ملتے جُلتے معیار ہماری کتابوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔
غرض آجکل کا مسلمان آزادی کا تو دعویٰ کرتا ہے مگر ذہنی غلامی اختیار کرتے ہوئے وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی مغربی تہذیب کے اچھے نقالوں میں سے بن جائے وہ انہی کے نام پر اُن کی نقل کرنے میں عزت محسوس کرتا ہے او راگر وہ آزادی ظاہر کرتا ہے تو صرف اتنی کہ کسی میں مغربی تہذیب کا نقّال بننا چاہتا ہے اور کسی میں کمیونسٹ نظریہ کا نقّال بننا چاہتا ہے اور نقل خواہ دس متفرق آدمیوں کی کی جائے بہر حال نقل ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کے سامنے یہ مطمح نظر رکھا کہ کسی دن یورپ بھی میرا نقّال ہو گا اور امریکہ بھی میرا نقّال ہو گا۔ اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے جو بات کہی کہ دنیا کا سیاسی اور اخلاقی اور مذہبی نقطہ نظر بدل کر اُن کو مسلمان بنا لینا اور پھر اسلام کے مطابق اُن کے اعمال کو ڈھال دینا یہ مطمح نظر ہے جو تمہیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ اِس کا قرآن کریم سے بھی ثبوت ملتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۱۲؎ خداہی ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا ہے ہدایت دے کر اور دین حق دے کر ۔تلوار دے کر اور ڈنڈا دے کر نہیں تاکہ وہ سارے دینوں پر اُسے غالب کرے۔ سارے مُلکوں پر نہیں کیونکہ مُلکوں پر قبضہ کر لینا کرئی بڑی بات نہیں،بڑی بات یہی ہے کہ دلوں پر قبضہ ہو ۔
اب دیکھو اِس آیت میں دہی چیز بیان کی گئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا یہ مقصد نہیں کہ ایران کے تیل کے چشمے آزاد ہو جائیں، مصر سے انگریزی فوجیں نکل جائیں،شام اور فلسطین آزاد ہو جائیں یہ باتیں ہو ں گی اور ضرور ہوں گی مگر بہر حال یہ ابتدائی چیزیں ہیں مسلمان اس کے لئے جدوجہد کر رہا ہے اور وہ ایک دن اپنی غلامی کا جامہ چاک چاک کر کے پھینک دے گالیکن یہ آزادی اُس کا مقصد نہیں ۔جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتاہے تو وہ اُس کا ناک بھی پُونچھتا ہے مگر اُس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ بچہ پیدا ہو تو میں اُس کا ناک پُونچھا کروں گا۔مقصد اُس کا یہی ہوتا ہے کہ وہ بڑا عالم فاضل ہو عقل بھی یہی کہتی ہے کہ چند ریاستوں پر کسی کا قبضہ کر لینا کوئی بڑی بات نہیں۔دلوں کو بدل دینا اور اُن کو فتح کر لینا بڑی بات ہے۔
فرض کرو پاکستان کسی وقت اِتنی طاقت پکڑ جائے کہ وہ حملہ کرے اور سارے امریکہ کو فتح کرلے اور امریکہ کے لوگ ہمیں ٹیکس دینے لگ جائیں لیکن امریکہ کا آدمی اسلام اور قرآن پر لعنتیں ڈالتا ہو تو یہ بڑی فتح ہو گی یا امریکہ آزاد رہے لیکن امریکہ کے ہر گھر میں رات کو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر سونے والے لوگ پیدا ہوجائیں تو یہ بڑی بات ہو گی؟پس عقل بھی یہی کہتی ہے کہ یہی مقصد سب سے بالا ہے۔ یا مثلاً پاکستان کی ہندوستان سے کسی وقت لڑائی ہو جائے اور پاکستان ہندوستان کو فتح کرلے تو پھر بھی یہ کونسی فتح ہے۔پہلے بھی یہی کہا گیا تھا ہندوستان کو فتح کر لیا گیا لیکن پھر وہ فتح کس طرح بے حقیقت بن کر رہ گئی اور کس طرح مسلمان سخت ذلّت کے ساتھ وہاں سے نکلے کہ ہر شخص بزبانِ حال یہ کہہ رہا تھا کہ :-
بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچہ سے ہم نکلے
لیکن اگر پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بتائے ہوئے مقصد کواپنے سامنے رکھتے ہوئے مسلمان کھڑا ہو اور وہ پھر ہندوستان میں داخل ہو تلوار کے زور سے نہیں بلکہ قرآن کے زور سے، بندوق کے زور سے نہیں بلکہ سچائی کے زور سے۔شام لال ہندو عبد اللہ بن جائے،سندر داس ہندو عبد الرحمن بن جائے، ویدوں کی جگہ قرآن پڑھا جانے لگے تو آج تو تم اِس طرح نکلے ہو کہ وہ تمھیں نکال کر خوش ہوئے ہیںلیکن اگر تم یہ فتححاصل کر لو اور تم کسی دن اُن سے یہ کہو کہ اب ہمارا کام ہندوستان میں ختم ہو چُکا ہے اب ہم چین کو جاتے ہیں تو تم دیکھو گے کہ اُس دن سارے ہندوستان میں کُہرام مچ جائے گا اور ہر شخص رونے لگ جائے گا اور کہے گا خدا کے لئے ہمیں چھوڑ کر نہ جائو تم ہمارے لئے خیر اور برکت کا مؤجب ہو۔یہ چیز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائی اور اِسی کی قرآن بھی تائید کرتا ہے اور عقل بھی تائید کرتی ہے اور جذباتِ صحیحہ بھی تائید کرتے ہیں کیونکہ جذباتِ صحیحہ اِس بات کو کبھی تسلم نہیں کرتے کہ کسی کو مُکّا مارکر اُس سے یہ کہا جائے کہ تو مجھے پیار کر لیکن محبت اور پیار کے ساتھ اسے اپنا غلام بنا لو تو پھر تم اُسے کہو بھی کہ خدمت نہ کر و تو وہ کہے گا مجھے ثواب لینے دیں اپنی خدمت سے محروم کیوں کرتے ہیں۔
میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ سندھ میں جب مجھے گھوڑے پر سورا ہو کر کہیں جانا پڑتا ہے تو ساتھ ساتھ کوئی مخلص احمدی بعض دفعہ عمر کے لحاظ سے بڑھاپے میں قدم رکھ رہا ہوتا ہے وہ دَوڑتا چلا جاتا ہے۔ اُسے منع بھی کرو تو وہ رکتا نہیں اور سا تھ ساتھ دَوڑتا چلا جاتا ہے اور جب میں گھوڑے سے اترتا ہوں تو وہ پیر دبانے لگ جاتا ہے کہ آپ تھک گئے ہوں گے۔ اسے بہتیرا کہا جاتا ہے کہ میاں! مَیں گھوڑے پر سوار رہا اور تم پیدل چلتے آئے تھکامیں ہوں یا تم؟ مگر وہ یہی کہتا چلا جاتا ہے کہ نہیں آپ تھک گئے ہوں گے مجھے پیر دبانے دیں۔ یہ غلامی ہے جو محبت کی غلامی ہے اور جس میں انسان اپنی عزت محسوس کرتا ہے۔ لیکن اس کی بجائے اگر کسی بڈھے کو مار مار کر ہم کہیں کہ آئو اور ہمارے پیر دبا ئو تو سب لوگ کہنے لگ جائیں گے کہ دیکھو! یہ مذہبی لیڈر بنے پھرتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ ایک بڈھے کو مار رہے ہیں لیکن اب سوار ہم ہوتے ہیں اور پیدل وہ چلا آتا ہے لیکن گھوڑے سے اُترتے ہی وہ ہمارے پیر دبانے لگ جاتا ہے دیکھنے والا دیکھتا ہے اور حیران ہوتا ہے بلکہ اسے منع بھی کرو تو وہ کہتا ہے تم مجھے منع کرنے والے کون ہو میں تو ثواب حاصل کر رہا ہوں۔
چوتھا اصول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ پیش فرمایا کہ الہامِ الٰہی کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اِس کے مقابلہ میں غیر احمدیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ الہامِ الٰہی کا دروازہ بند ہو چُکا ہے۔ اب دیکھ لو حضرت مرزا صاحب نے جو کچھ کہا نقل اس کے مطابق ہے۔چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۱۳؎ یعنی وہ لوگ جو سچے دل سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور پھر مخالفتوں کے باوجود اپنے اِس ایمان پر قائم رہتے ہیں اور صبر اور استقامت سے کام لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان پر اُترتے ہیں اور وہ اُنہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم اپنے گزشتہ مصائب پر کسی قسم کا خوف مت کھائو اور نہ آئندہ کے لئے کوئی غم کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تمہاری مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں ۔پھر اِسی دنیا کا سوال نہیں بلکہ ہم تم کو یہ بھی خبر دیتے ہیں کہ اگر اِن کشمکش اور تکلیف کے دنوں میںتمہیں موت آگئی تو تمہاری موت بھی بڑی خوشی کا موجب ہو گی اور تم جنت میں داخل کئے جائوگے۔
اب دیکھو قرآن مجید نے صاف طور پر یہ بیان فرمایا ہے کہ مومنوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیںجو مصائب میں اُنہیںتسلی دیتے ہیں اور مشکلات میں اُن کی ڈھارس بند ھاتے ہیں اور آئندہ کے لئے انہیں بشارتیں دیتے ہیں اوراِسی چیز کو وحی اور الہام کہا جاتا ہے۔ پُرانے بزرگوں نے اس پیغام کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے وحی کی بجائے الہام کہنا شروع کر دیا تھا اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اُن کا لحاظ کرتے ہوئے اِسے الہام ہی قرار دیا ورنہ وحی اور الہام میں کوئی فرق نہیں۔ بہر حال نام کچھ رکھ لو واقعہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتاہے اور ان پر اپنی مرضی کو ظاہر فرماتا ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو دعویٰ فرمایا وہ بے ثبوت نہیں بلکہ نقل اِس کی تائید میں ہے۔ پھر حدثیوں سے بھی یہی ثابت ہوتاہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہلَمْ یَبْقَ مِنَ النُّبُوَّۃِ اِلَّا الْمُبَشِّرَات۔۱۴؎ یعنی اب صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں اور مبشرات اِسی کو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو بشارت دے اور اُن سے ہمکلام ہو ۔پھر عقل بھی یہی کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے الہام کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری رہنا چاہئے کیونکہ بولنا اور کلام کرنا اُس کی صفت ہے اور جب خداتعالیٰ کی اَور تمام صفات کام کر رہی ہیں تو کلام کرنے کی صفت اُس کی کیوں باطل ہوگئی۔ جب لوگوں سے پوچھا جائے کہ کیوں جی اللہ تعالیٰ دعائیں سنتا ہے؟ تو کہیں گے جی ہاں کیوںنہیں سنتا وہ سمیعُ الدعاء ہے۔ پوچھا جائے کیا خدا دیکھتا ہے؟کہیں گے کیوں نہیں خدابصیر ہے ۔پوچھا جائے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے؟ کہیں گے کیوں نہیں ۱۵؎ اﷲ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے۔پھر پوچھا جائے کیا خدا بات کرتا ہے؟ کہیں گے نہیں جی کسی پُرانے زمانہ میں وہ بات کیا کرتا تھا اب تو نہیں کرتا۔ گویا اللہ تعالیٰ کی ننانوے صفات جو بیان کی جاتی ہیں اُن میں سے تو سب صفات سلامت ہیں ایک بولنے والی صفات میں کچھ خرابی پیدا ہوگئی ہے۔ گویا اُس کی زبان کے نروز(Nerves) نعوذباللہ مفلوج ہو گئے ہیں اور اب وہ اپنے بندوںسے کلام نہیں کر سکتا۔ دنیا میں تو گو نگا بھی اشارے کر لیتا ہے مگر اِس زمانہ میں لوگ جس خدا کو پیش کرتے ہیں وہ اشارے بھی نہیں کرسکتا۔
پھر جذباتِ صحیحہ کو لو تو وہ بھی اِس کی تائید کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان کو جو تعلق ہے اس کی بنیاد محض محبت پر ہے اور جذباتِ محبت پر ہے اور جذباتِ محبت بغیر معشوق سے ملنے کے کبھی تسلی نہیں پاسکتے ۔اگر تم اپنے کسی محبوب کے پاس جائو اور اس کے پاس گھنٹوں بیٹھے رہو مگر وہ تم سے بات تک نہ کرے اور تمہاری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے تو اپنے ایمان سے کہو کہ تم وہاں سے روتے ہوئے آئو گے یا ہنستے ہوئے آئو گے؟ وہ تم سے بولتا ہے تو تمہارا دل خوش ہوتا ہے اور اگر بات نہیں کرتا تو تم پر موت آجاتی ہے۔ پس جذباتِ صحیحہ بھی اسی اصول کی تائید کرتے ہیں وہ شخص جو یہ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ خدا نہیں بولتا وہ اگر یہ کہتا ہے کہ میں خدا سے محبت کرتا ہوں تو وہ جھوٹ بولتا ہے۔ ایک گونگے سے انسان پھر بھی محبت کر سکتا ہے کیونکہ سمجھتا ہے کہ اس کی زبان نہیں لیکن اگر زبان ہو اور پھر بھی کوئی شخص نہ بولے تو اس سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔
پانچویں بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش کی وہ یہ ہے کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے مگر غیر احمدیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن میں جو کچھ لکھا ہؤا ہے وہ ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے مگر اس کی بہت سی آیتیں منسوخ ہیں یعنی وہ قرآن میں تو لکھی ہوئی ہیں مگر واجبُ العمل نہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں اس کے مطالب بہت محدود ہیں۔ امام رازی تک تو اس کے علوم کا انکشاف ہوتا رہا مگر اس کے بعد اس کے روحانی معارف کا انکشاف لوگوں پر بند ہو گیا۔گویا قرآن اس چشمہ کی مانند ہے جو خشک ہو چُکا ہے یا نعوذباللہ وہ ایک اندھا کنواں ہے جو لوگوں کی تشنگی کو فرو کرنے کے لئے اپنے اندر پانی کا ذخیر ہ نہیں رکھتا کسی زمانہ میں تو لوگ اس قرآنی چشمہ سے سیرا ب ہوتے تھے اور اس آسمانی کنوئیں سے اپنی پیاس بجھاتے تھے لیکن اب وہ اس قرآن سے نئے معارف اور نئے حقائق اور نئے علوم حاصل نہیں کرسکتے۔ یہ سلسلہ انکشاف صرف امام رازی تک جاری رہا ہے اس کے بعد یہ کان ختم ہو گئی اور اب اس میں سے کوئی نئی دولت حاصل نہیں کی جاسکتی۔
پھر وہ کہتے ہیں قرآن ہے تو خدا کی کتاب مگر یہ خدا سے مِلا نہیں سکتی۔ تعلق بِاللہ پیدا کرنا جو ہر الٰہی کتاب کا خاصہ ہؤ اکرتا ہے وہ کام اب قرآن سے نہیں لیا جا سکتا ہے۔ حالانکہ اگر یہ کتاب تعلق باللہ والا کام نہیں کرتی تو اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ قیامت تک کے لوگو ں کے لئے ہدایت نامہ نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب اسی لئے آتی ہے کہ وہ لوگوں کو خدا سے ملائے جو کتاب بندوں کو خدا سے نہیں ملاتی اُس کتاب کو لے کر ہم نے کرنا کیا ہے اور اگر وہ نہیں ملاتی تو اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ وہ الہٰی کتاب نہیں۔ اب اگر وہ دنیا میں رہے تب بھی بیکار ہے اور اگر نہ رہے تب بھی حرج نہیں۔لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بِالکل غلط عقیدہ ہے قرآن وہ کتاب ہے جو انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا کر کے اُس کو خدا کی طرف لے جاتی ہے اور انسان کی جتنی طبعی اور روحانی ضرورتیں ہیں اُن کو پورا کرتی ہے۔ چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۱۶؎ ہم نے اس قرآن میں پھیر پھیر کر اور چکر دے دے کر اور نئے نئے اُسلوب سے اور نئی نئی طرزوں سے نئی نئی فطرتوں کے لئے مضامین بیان کئے ہیں اور پھر ہر قسم کے مضامین بیان کئے ہیں۔
دو ہی چیزیں ہوتی ہیں جو کسی تعلیم کی برتری کو ثابت کرتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر قسم کے مضامین اُس میں بیان ہوں اور دوسرے یہ کہ مختلف طبقات میں سے ہر طبقہ کے لیے اُس میں مضامین بیان ہوں اور یہ دونوں خصوصیتیں قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں۔ گویا کوئی انسان نہیں رہا جو قرآن کا مخاطب نہ ہو اور کوئی بات نہیں رہی جو قرآن نے بیان نہ کی ہو۔ جب ہر بات اِس میں بیان کر دی گئی ہے اور ہر قسم کے لوگوں کی فطرت کو ملحوظ رکھ کر اُس میں تعلیم نازل کی گئی ہے تو پھر بنی نوع انسان کو اپنے خدا کی محبت اور اس کا پیار کیوں حاصل نہ ہو ۔بے شک پُرانے زمانہ میں موسٰی ؑ اور عیسٰی ؑ اور دوسرے نبیوں کو خدا ملا اور ہم اِس پر ایمان رکھتے ہیںلیکن ہمارا دل اس سے تسلی نہیں پاتا۔ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی خدا کی محبت حاصل ہو۔ اور زندہ کتاب وہی کہلاسکتی ہے جو زندہ خدا سے ہمارا تعلق پیدا کر دے ۔اگر وہ ہمیں اپنے خدا سے نہیں ملاتی تو اِس کتاب کا وجود اور عدم ہمارے لئے برابر ہے ۔قرآن کہتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کی روحانی ضرورتوں کے پورا کرنے کے سامان اس کتاب میں رکھ دیئے ہیں جو بھی سچے دل سے اس پر عمل کرے گا وہ اپنے خدا کو پالے گا۔ اسی طرح فرماتا ہے۱۷؎ دیکھو قرآن میری طرف اِس لئے وحی کیا گیا ہے کہ مَیں اِس کے ذریعہ تمہیں بھی فائدہ پہنچائوں اور وہ تمام لوگ جن کے کانوں تک اس کتاب کی آواز پہنچے اُن کو بھی فائدہ پہنچائوں اور وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں ۔غرض ایک طرف قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس میں ہر قسم کے مضامین بیان کئے گئے ہیں اور ہر قسم کے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور دوسری طرف اِس نے یہ کہا ہے کہ جس کے ہاتھ میں بھی قرآن ہو گا اُس کو فائدہ پہنچے گاکیونکہ یہ اِسی لئے نازل کیا گیا ہے کہ وہ سب لوگ جن کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے اُن کو فائدہ پہنچائے ۔پس جب قرآن قیامت تک کے لئے ہے اور جب قرآن سب دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لئے نازل کیا گیا ہے تو یہ کہنا کہ اب نئے معارف اس کتاب میں سے نہیں نکل سکتے یا خدا سے انسان مل نہیں سکتا دونوں غلط عقیدے ثابت ہوئے۔
اِسی طرح مَیں نے بتایا ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی کئی آیتیں منسوخ ہیں لیکن جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں یہ آیت نظر آتی ہے کہ ۱۸؎ محکمات اور متشابہات کے کیا معنے ہیں؟میں اِس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا اِن کے معنے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھ پر حل کر دیئے ہیں،میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضاحتاً یہ بات بیان فرمائی ہے کہ قرآن کریم میں صرف دو قسم کی آیات ہیں کچھ آیات محکم ہیں اور کچھ متشابہہ ۔اب کوئی بھی مفسّر ایسا نہیں جو متشابہہ کے معنے منسوخ کے کرتا ہو وہ متشابہہ کے کوئی نہ کوئی معنے کرتا ہے ،مگریہ نہیں کرتا کہ اس کے معنے منسوخ آیات کے ہیں۔ اور جب قرآن کہتا ہے کہ میرے اندر صرف دو ہی قسم کی آیات ہیں یا محکم ہیں یا متشابہہ اور متشابہہ کے معنے منسوخ کے نہیں تو منسوخ آیات کہاں سے آگئیں؟یا تو قرآن ہی کہتا کہ میرے اندر بعض آیات منسوخ بھی ہیں مگر وہ تو کہتا ہے کہ اِس کتاب میں صرف دو ہی قسم کی آیات ہیں محکمات یا متشابہات اور متشابہات کے معنے منسوخ کے نہیں پھر یہ تیسری قسم کی آیات کہاں سے آگئیں جن کو منسوخ کہا جاتا ہے۔
عقل بھی یہی کہتی ہے کہ جو کتاب آخر زمانہ تک کے لئے ہو وہ لازماً کامل ہونی چاہئے اور جب کوئی کتاب کامل ہو گی تو لازماً وہ زندہ بھی رہے گی۔ یہ کسی طرح ہو سکتا ہے کہ کامل کتاب نازل ہو اور پھر اُس کی برکات کا سلسلہ معدوم ہو جائے اور اُس کے پاکیزہ اثرات جاتے رہیں ۔اِسی طرح جو کتاب شِفَائٌ لِّلنَّاسِ ہو گی وہ منسوخ ہونے کے شُبہ سے کُلّیتہً پاک ہو گی۔ میں تو سمجھتا ہوں قرآن کریم کو شِفَائٌ لِّلنَّاسِ اسی لئے کہا گیا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں یہ غلط عقیدہ پیدا ہونے والا تھا کہ قرآن کریم کی کئی آیات منسوخ ہیں۔ اللہ تعالیٰ اسے شفاء قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اِس میں کسی منسوخ آیت کے ہونے کا احتمال ہی نہیںہو سکتا یہ کتاب تو علاج کے لئے نازل کی گئی ہے اور دوا میں اگر کسی قسم کی بھی غلط آمیزش کا شُبہ ہو تو اُسے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ دیکھ لو وہی شخص جو کہتا ہے کہ قرآن میں کچھ آیتیں منسوخ ہیں اُسی سے پوچھو کہ کیا کسی جو شاندہ میں اگر تھوڑا سا سنکھیا ملا ہؤا ہو تو تم اسے استعمال کر لوگے؟ وہ کبھی ایسے جوشاندہ کو نہیں پئے گا کیونکہ ڈر ے گا کہ اگر اس میں سنکھیا ہؤ ا تو میں مر جائوںگا۔ اِسی طرح اگر قرآن میں کچھ منسوخ آیات بھی ہیں تو کسی نے عمل کیوں کرنا ہے وہ تو کہے گا معلوم نہیں یہ آیت منسوخ ہے یا وہ آیت منسوخ ہے پس شِفَائٌ لِّلنَّاسِ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ انسان سب سے زیادہ دوا کی حفاظت کرتا ہے کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے احتیاط نہ کی تو علاج کرتے کرتے مر جائوں گا۔پھر جب تم اپنے متعلق یہ احتیاط کرتے ہو کہ تمہاری دوا میں کوئی زہر نہ ملی ہوئی ہو تو جس کتاب کو خدا تعالیٰ نے لوگوں کی امراضِ روحانیہ کا نُسخہ قرار دیا ہے اُس کے متعلق تم یہ عقیدہ کسی طرح رکھ سکتے ہو کہ اِس میں غیر اجزاء بھی پڑے ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ سنکھیا ہے یا بیش ہے یا پارہ ہے یا کیا چیز ہے گویا بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے کسی جو شاندہ میں کوئی زہر ملا دیا گیا ہو ایسی صورت میں قرآن کا کیا اعتبار رہا ۔
پھرجس کتاب کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ وہ قیامت کے لئے ہے اُس کے متعلق مسلمانوں نے یہ عقیدہ رکھ لیا کہ رازی تک جس قدر نکتے کھل سکتے تھے کھل گئے اب تمام نکات اور معارف کا سلسلہ ختم ہو چُکا ہے اب کوئی نیا نکتہ اس کتاب میں سے نہیں نکل سکتا اور جب اس کتاب میں سے نہیں نکل سکتا جب اس کتاب کے متعلق یہ عقیدہ رکھ لیا جائے تو پھر کسی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ قرآن شریف پڑھا کرے وہ تو پھر رازی کی کتاب ہی پڑھا کرے گا۔جیسے لوگ بڑے شوق سے انگور کھاتے ہیں لیکن انہی انگوروں کا اگر شربت بنا لیا جائے تو پھر لوگ شربت کی بوتل رکھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب انگورلے کر ہم نے کیا کرنا ہے۔ اسی طرح جب امام رازی تک قرآن کا نچوڑ تمام تفسیروںمیں آگیا تو مسلمانوں کو کوئی ضرورت نہ رہی کہ وہ قرآن پڑھا کریں اسی لئے قرآن جاننے والے مسلمان بہت کم پائے جاتے ہیں لیکن تفسیریں پڑھے ہوئے مسلمان کافی تعداد میں مل جاتے ہیں،صرف مولوی عبید اللہ صاحب سندھی نے مسلمانوں میں درسِ قرآن کا کچھ رواج ڈالا ہے اور وہ بھی ہم سے سیکھ کر کیونکہ وہ حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں قادیان آتے رہے ہیں ورنہ صدیوں تک مسلمان جلالین اور دوسری تفسیریں ہی پڑھتے رہے ہیں ۔قرآن کی طرف اُنہوں نے توجہ نہیں کی کیونکہ جب اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ افشردۂ انگور۱۹؎ہم نے لے لیا ہے تو پھر باقی جو کچھ رہ گیا وہ ان کی نگاہ میں صرف چھلکے کی حیثیت ہی رکھ سکتا تھا،اس کو لے کر انہوں نے کیا کرنا تھا۔
چھٹی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام نے یہ پیش فرمائی کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنی قدرتوں کو ظاہر کرتا رہتا ہے۔غیر احمدی کہتے ہیں کہ اب خدا تعالیٰ معجزات ظاہر نہیں کرتا گو اُنہی میں سے ایک طبقہ اس بارہ میں اُن سے اختلاف بھی رکھتا ہے اور وہ معجزات کا قائل ہے مگر جو معجزات ماننے والے ہیں وہ ایسے ایسے معجزات مانتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ ایک شخص نے ہمارئے خلاف ایک دفعہ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مرزا صاحب اپنا بڑا معجزہ یہ بیان کرتے ہیں کہ لیکھرام اُنکی پیشگوئی کے مطابق مارا گیایا فلاں کے ہاں بیٹا پیدا ہو گیا۔بھلا یہ بھی کوئی معجزہ ہے۔ معجزہ تو یہ ہوتا ہے کہ سید عبد القادر صاحب جیلانی کے پاس ایک دفعہ ان کا ایک مرید آیا اور اس نے پوچھا کہ حضور کبھی مُردے بھی زندہ ہوتے ہیں یا نہیں؟کہنے لگے کیوں نہیں،میںابھی دکھا دیتا ہوں وہ اُس وقت مرغا کھا رہے تھے۔پہلے تو خوب مزے لے لے کر اس کی بوٹیاں کھائیں جب کھا کر فارغ ہوئے تو کہنے لگے،ارے! اِس کی ہڈیاں جمع کر کے لانا۔ہڈیاں جمع کرکے لائی گئیں تو انہوں نے اوپر ہاتھ رکھا اور اُسی وقت کُڑ کُڑ کُڑ کُڑ کرتا ہؤا مُرغ نکل آیا۔ وہ کہنے لگا یہ ہوتا ہے معجزہ۔ بھلا یہ کیا معجزہ ہے کہ فلاں آدمی مر جائے گا اور فلاں کے ہاں بیٹا پیدا ہو جائے گا۔پس یا تو وہ یہ کہیں گے کہ معجزہ ہوتا ہی نہیں اور یا پھر کُڑ کُڑ کُڑ کُڑ کرتا ہؤا معجزہ مانگیں گے درمیان میں کوئی مقام ہی نہیں ہوتا جہاں وہ ٹھہر سکیں۔لیکن دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۲۰؎ تمہارا خدا وہ ہے جو ہر وقت ایک نئی قدرت دکھاتا ہے۔یہ کہنا کہ کسی وقت اُس کی قدرت ظاہر نہیں ہو سکتی درست نہیں بلکہ ہر وقت ہی اللہ تعالیٰ اپنی نئی قدرت اور نیا جلوہ دکھاتا ہے۔دیکھی ہو ئی چیز کو دوبارہ دیکھنا لُطف نہیں دیتا انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جدّت کا مادہ رکھا ہؤا ہے۔چنانچہ جب ریل گاڑی جاری ہوئی تو شروع شروع میں لوگ اُسے عجوبہ سمجھتے ہوئے اس پر پھولوں کے ہار ڈالتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کا جوش ختم ہو گیا۔پھر ہوائی جہاز اور دوسری سواریاں نکلیں تو اُن کی طرف متوجہ ہوگئے ۔غرض فطرتِ انسانی کو ہمیشہ نئی چیزوں سے لُطف آتا ہے اور وہ نئی نئی چیزوں سے تسلی پاتی ہے۔مجھے قرآن پڑھ کر بڑا مزہ آتا ہے لیکن جب کبھی رات کو خدا میرے کان میں کوئی بات کہتا ہے تو کچھ نہ پوچھو کہ اس کا کیا مزہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک نئی چیز ہوتی ہے ۔غرض قرآن یہ کہتا ہے کہ خدا ہر گھڑی ایک نئی قدرت دکھاتا ہے ۔مگر مسلمان اس کا انکار کرتے ہیں۔
عقل بھی یہی کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرتیں دکھائے کیونکہ جب خدا دیکھتا ہے اوراس کے دیکھنے کی صفت معطل نہیں، جب وہ سُنتا ہے او ر اُس کے سُننے کی صفت معطّل نہیں۔ جب وہ پیدا کرتا ہے اور اس کے پیدا کرنے کی صفت معطل نہیں تو اُس کی قدرت کی صفت کیوں ظاہر نہیں ہو سکتی۔جس طرح وہ سمیع ہے اور بصیر ہے اور خالق ہے اور یہ صفات ہمیشہ ظاہر ہوتی ہیں اِسی طرح ضروری ہے کہ اُس کی قدرت کی صفت بھی ہمیشہ ظاہر ہو۔
جذباتِ صحیحہ بھی یہی کہتے ہیں کیونکہ جذباتِ صحیحہ ایک مفید تغیر کی ہمیشہ خواہش رکھتے ہیں اور یہ بات انسانی فطرت میں پائی جاتی ہے ۔چنانچہ اِسی فطرت کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موسم بدلتے ہیں اور نئے نئے پھل پیدا ہوتے ہیں اور انسان بھی کبھی اپنے لباس میں تغیر کرتا ہے اور کبھی مکان میں اور کبھی نئے نئے کھانے تیار کرتا ہے کیونکہ نئی چیز سے فطرت تسکین پاتی اور ایک لطیف حظ محسوس کرتی ہے۔ تم تو شاید اِسے بچوں والی بات کہو گے لیکن عاشق ہر بات کو اپنے عشق کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے، حدیثوں میں آتا ہے جب بادل آتا،بوندیں برسنے لگتیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر صحن میں نکلتے اور اپنی زبان پر بارش کا قطرہ لیتے اور فرماتے یہ میرے رب کی تازہ نعمت کا مزہ ہے۔۲۱؎ تمہارے لئے تین دن برابر بارش برستی رہے تب بھی تمہارے دل میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کے ایک تازہ قطرہ کو بھی دیکھتے تو اُسے اپنی زبان پر لیتے گویا قطرہ کیا آیا خدا تعالیٰ کی طرف سے پانی کا ایک ٹھنڈا اور شیریں گلاس آگیا۔یہ ہے سچا عشق اور اِسی کی ہر مومن سے امید کی جاتی ہے۔وہ شخص عاشق ہی کسی طرح کہلا سکتا ہے جس میں یہ جذبہ نہ ہو کہ میرا خدا میرے لئے نئی نئی قدرتیں ظاہر کرے۔
ساتویں بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پیش فرمائی وہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیاد اخلاق پر ہے۔ اِسی زمانہ کے علمائے سُوء غیر مسلموں سے بد سلو کی جائز سمجھتے ہیں،وہ قتل مرتد کو ضروری سمجھتے ہیں، امن پسند غیر مسلم سے لڑنے کو ثواب سمجھتے ہیں،جو مسلمان کو غلام نہ بنائے اُسے بھی غلام بنانا جائز سمجھتے ہیں، جو اختلاف رکھتا ہو اُسے تنگ کرنا جائز سمجھتے ہیں اور دوسرے مذاہب کے بزرگوں کی تحقیر جائز سمجھتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آکر یہ اصول پیش کیا کہ مذہب پر افراد سے زیادہ اخلاق کی پابندی ضروری ہے اس لئے غیر مسلموں سے بد سلوکی مت کرو۔ اور آپ نے فرمایا جہاد کے معنے یہ ہیں کہ جب دُشمن اسلام کو مٹانے کے لئے حملہ کرے تو اُس کے حملہ کا جواب دو ۔اگر وہ تمہارے آدمیوں کو جنگ میں پکڑ کر غلام بناتا ہو تو تم بھی اُس کے آدمیوںکو پکڑ کر غلام بنانے کے حقدار ہو لیکن بغیر جنگ کے وہ غلام بناتا ہو تب تم اُس کی نقل نہ کرو کہ بغیر جنگ کے غلام بنالو کیونکہ جنگ کی ذمہ داری قوم پر ہوتی ہے۔اس لئے اگر جنگ کے نتیجہ میں کوئی فعل خراب نکلتا ہے تو قوم جواب دِہ ہے،لیکن اگر فرد کے کسی فعل کے نتیجہ میں کام خراب ہوتا ہے تو قوم جواب دہ نہیں ہو سکتی۔ پس اگر جنگ کے نتیجہ میں وہ تمہارے آدمیوں کو پکڑکر غلام بنالیتے ہیں تو تم بھی بنالو،لیکن اگر فرد تمہارے آدمی کو پکڑ کر لے جاتا ہے تو تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم اُس کے آدمی پکڑ کر لے آئو کیونکہ وہ ایک فرد کا فعل ہے۔اختلافِ مذاہب یا عقیدہ پر چِڑنادرست نہیں کہ حُریت انسان کا پیدائشی حق ہے۔سمجھانا اور تبلیغ کرنا تمہارا کام ہے لڑنا اور فساد کرنا تمہارا کام نہیں ۔اِسی طرح فرمایا غیرقوموں کے بزرگوں کو گالیاں دینا تمہارا کام نہیں تمہارا فرض ہے کہ اُن کا ادب اور احترام کرو ۔چنانچہ قرآن کریم میں یہ آیتیں موجود ہیں:-
(۱) ۲۲؎ یعنی کافر عورتوں کے ننگ و ناموس کو اپنے قبضہ میں نہ رکھو۔
اس میں یہ اصو ل بتایا گیا ہے کہ غیر قوم کا حق مارنا جائز نہیں۔بے شک وہ کافر ہوں گی۔لیکن بوجہ کافر ہونے کے انہیں قتل نہیں کرنا بلکہ آرام سے اُنہیں اپنے کافرماں باپ کے پاس ان کے گھر پُہنچادینا۔
(۲) پھر فرماتا ہے۔۲۳؎ دین میں کو ئی جبر نہیں چاہے تمہارے خلاف ہی کوئی شخص عقیدہ رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتاہے۔
(۳) پھر فرمایا ہے ۔۲۴؎ جن کے ساتھ لڑائی کی جاتی ہے اُن کو اجازت ہے کہ وہ لڑیں۔دوسرے جن کے ساتھ لڑائی نہیں کی جاتی اُن کو اجازت نہیں۔
۴- پھر فرمایا ہے۔۲۵؎ بغیر خطر ناک جنگ کے غلام بنانا جائز نہیں ،جنگ ہو اور سخت جنگ ہو اِس کے بعد غلام بنانا جائز ہے ورنہ بغیر جنگ کے ناجائز۔
(۵) پھر فرمایا ہے۔۲۶؎ جن لوگوں کو یہ خدا کے سِوا معبود بناتے ہیں وہ خواہ اُن کو خدا بنا دیتے ہیں تب بھی تم ان کو گالیاں مت دو ورنہ وہ تمہارے خدا کو بُرا بھلا کہنے لگ جائیں گے ۔یہ اصول جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں انسانی فطرت کے مطابق ہیں۔
عقل بھی یہی کہتی ہے کہ کسی کا عقیدہ جھوٹ ہو یا سچ اکثریت اپنے نزدیک اسے ویسا ہی سچا سمجھتی ہے جیسے اسلام کی اکثریت اپنے مذہب کو سچا سمجھتی ہے۔ عیسائیت جھوٹی ہے مگر سوال یہ ہے کہ دنیا کا اکثر عیسائی، عیسائیت کو کیا سمجھتا ہے؟ سچا سمجھتا ہے ۔ہندو مذہب جھوٹا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ دنیا کا اکثر ہندواپنے مذہب کو کیا سمجھتا ہے؟ سچا سمجھتا ہے۔ یہودی مذہب یقینا جھوٹا ہے۔ مَیں جھوٹے کا لفظ بولتا ہوں تو اِس کا یہ مطلب ہے کہ اِس زمانہ میں وہ مذہب ختم ہو چُکا ہے ورنہ ابتداء کے لحاظ سے نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہودیوں کا اکثر حصّہ یہودیت کو کیا سمجھتا ہے؟سچا سمجھتا ہے۔اگر اِس بات پر کسی کو قتل کرنا جائز ہے،اِس بات پر کسی کو لوٹ لینا جائز ہے،اس بات پر کسی کو مار دینا جائز ہے کہ میں سمجھتا ہوں میرا مذہب سچا ہے تو پھر عیسائیت کو کیوں یہ حق حاصل نہیں۔چھ سَو سال تک عیسائیت نے دنیا پر غلبہ حاصل کیا ہے اب بھی اُس کو غلبہ حاصل ہے ۔اگر عیسائیت انسانیت کو چھوڑدے، اگر روس کا کانٹا اُس کے اند ر سے نکل جائے تو آج بھی عیسائی مسلمان مُلکوں کو تباہ کر سکتا ہے لیکن وہ نہیں کرتا۔اِس لئے کہ اُس نے اپنے جھوٹے مذہب میں بھی اس اصول کوتسلیم کیا ہے کہ مذہب کی خاطر کسی کو نہیں مارنا۔ پہلے کرتے رہے ہیںسارا فلپائن مسلمان تھا ۔اِسے عیسائی کر لیا گیا گو ان کو انہوں نے عیسائی بنا لیالیکن اب وہ نہیں کرتے ۔پس اگر یہ عقیدہ درست ہو کہ جب ایک قوم کی اکثریت ہو اور اکثریت کو کسی اقلیت سے اختلاف ہو تو اُس کا حق ہے کہ وہ زبردستی دوسروں سے اُن کا مذہب بدلوائے،اُنہیں مارے پیٹے تو پھر عیسائی کو یہ کیوں حق حاصل نہیں؟ہندؤوں کو کیوںیہ حق حاصل نہیں کہ ہندوستان میں مسلمان کو ہندو بنا لیں۔چین میں کنفیوشس مذہب کے پیرئووں کو کیوں یہ حق نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل کر لیں۔فلپائن میں جہاں اب بھی پندر ہ بیس ہزار مسلمان پڑا ہے عیسائیوں کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبراً مسلمانوں کو عیسائی بنا لیں ۔امریکہ کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبراً اُن مسلمانوں کو جو اُس کے مُلک میں رہتے ہیں عیسائی بنا لے۔روس کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبراً سب کو عیسائی بنا لے یا جبراً سب کو کمیونسٹ بنا لے۔
اگر تمہارا حق ہے اور تم دوسروں کو جبراً اپنے عقیدہ پر لا سکتے ہو تو ویسا ہی عقلاً دوسروں کو بھی حق حاصل ہے لیکن اِس حق کو جاری کر کے دنیا میں کبھی امن قائم رہ سکتا ہے،اِس حق کو جاری کر کے کیا تم اپنے بیٹے کو بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ مسئلہ ٹھیک ہے؟ بیوی کو بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ مسئلہ ٹھیک ہے کہ عیسائیوں کا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کو زبردستی عیسائی بنا لیں؟ مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ عیسائیوں کو زبردستی مسلمان بنا لیں؟ احمدیوں کی حکومت ہو تو اس کا حق ہے کہ وہ غیر احمدیوں کو احمدی بنا لے؟ ایران والوں کا حق ہے کہ وہ سب حنفیوں کو زبردستی شیعہ بنا لیں؟اگر ایسا ہو تو کیا سارا پاکستان بڑی خوشی سے کہے گا کہ اَلْحَمْدُ ِﷲِ جَزَاکَ اﷲُکیا اچھا کام کیا ہے؟غرض یہ ایسی عقل کے خلاف بات ہے کہ کوئی عقل بھی اِس کو تسلیم نہیں کرتی۔
جذباتِ صحیحہ بھی اِس کے خلاف ہیں کیونکہ ہر ایسے شخص کو جو دیانت داری سے اختلاف رکھتا ہے سزا دینا انسانی فطرت پسند نہیں کرتی۔واقعات کو بھی دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ کرتے تھے کیونکہ آپ ؐ کا عقیدہ تھا۔مکّہ والے آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے مگر وہ کہتے تھے کہ ہم ڈنڈے سے سیدھا کریں گے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ دیتے تھے ۔
ایک دفعہ خانہ کعبہ سے باہر ایک پتھر کی چٹان پر صفا میں آپ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ سوچ رہے تھے۔ چہرہ پر آپ نے ہاتھ رکھا ہؤا تھا اور سہارا لے کر سوچ رہے تھے کہ ابوجہل نے دیکھا اور اُس نے آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں ۔مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُسی طرح بیٹھے رہے۔پھر اُس کمبخت نے زور سے آپ کو تھپڑ مارا کہ ہمارے بزرگوں کی ہتک کرتا ہے؟رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس پر صرف آنکھ اُٹھائی اور کہا کہ آخر تم لوگ مجھے کیوں دکھ دیتے ہو اور کیوں میرے ساتھ دُشمنی کرتے ہو؟ میرا سوائے اِس کے کیا قصور ہے کہ میں کہتا ہوں کہ تمہارا خدا جو تمہیں پیدا کرنے والا ہے اُس کو مان لو ۔ابوجہل اس فقرہ کو سُن کر چلا گیا۔پاس ہی حضرت حمزہ ؓ کا مکان تھا ۔حمزہ ؓ اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے۔اُن کی ایک لونڈی اُس وقت دروازہ پر کھڑی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی۔غلام غلام ہی ہوتا ہے لیکن دیر تک رہنے کی وجہ سے وہ بھی خاندان کا جُزدہو جاتا ہے۔یہ دیکھ کر اُس کا دل برداشت نہ کرسکا اور وہ سارا دن کُڑھتی رہی۔حمزہ ؓ اپنی عادت کے مطابق شکار کو گئے ہوئے تھے شام کے وقت ترکش گردن میں ڈالی ہوئی اور کمان پکڑی ہوئی بڑے اکڑتے ہوئے جیسے شکاری ہوتے ہیں غرورسے گھر میں داخل ہوئے۔اُن کو اِس حالت میں دیکھتے ہی اِس لونڈی کو غصہ آ گیا،وہ تھی لَونڈی مگر پُرانی تھی اور اپنا حق سمجھتی تھی دیکھ کر کہنے لگی بڑا اوپچیبنا پھرتاہے تُو اور کمان لگائی ہوئی ہے آخر یہ کس بات کے لئے ہے؟آج میں نے دیکھا کہ تیرا بھتیجا باہر پتھر پر بیٹھا ہؤ ا تھا مَیں دروازہ پر کھڑی تھی خدا کی قسم! میں نے یہ سُنا اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔اور پھر ابوجہل نے آکر اُس کو تھپڑ مارا۔یہ فقرہ حمزہؓ نے سُنا وہ حمزہ ؓ جو روز قرآن سنتا تھامگر اسلام لانے کی جرأت نہیں کرتا تھاجب اُس کے سامنے ننگے طور پر یہ بات پیش کی گئی کہ ایک شخص عقیدہ پیش کرتا ہے اور ایک ظالم اُٹھ کر اُسے مارتا ہے تو حمزہؓ سے برداشت نہ ہو سکا۔وہ اُسی وقت گھر سے نکلے خانہ کعبہ میں ابوجہل اور اُس کے ساتھی رئووسا بیٹھے ہوئے تھے اور مجلس میں گپّیں لگ رہی تھیں۔حمزہؓ نے پہنچتے ہی اپنی کمان اُٹھا کر اُ س کے مُنہ پر ماری اور کہا محمد تیرے آگے جواب نہیں دیتااس لئے تُو دلیر بنتا ہے۔اب میں نے تیرے مُنہ پر کمان ماری ہے اور سارے مکّہ والوں کے سامنے تیری ہتک کی ہے اُٹھ! اگر تیرے اندر طاقت ہے تو جواب دے۔وہ امراء جو اُس کے ساتھ بیٹھے تھے کھڑے ہوگئے اور اُنہوں نے چاہا کہ بدلہ لیںلیکن حق کا رُعب ہوتا ہے۔ ابوجہل نے سمجھا اِس وقت مار لیا تو آدھا مکّہ اِس کی طرف سے کھڑا ہو جائے گااس لئے اُس نے کہا آج مجھ سے ہی کچھ غلطی ہو گئی تھی میں نے بلا وجہ آج محمد کو مارا تھا اور اُس نے اپنے ساتھیوں کو ٹھنڈا کر دیا لیکن آگ سُلگ چکی تھی۔ حمزہؓ وہاں گئے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھا کرتے تھے اور عرض کیا ! یَارَسُوْلَ اﷲ! میں مسلمان ہونے کے لئے آیا ہوں اور اسلام لے آئے۔۲۷؎ یہ تھی حق کی مظلومیت۔
مظلومیت خود اپنے اندر طاقت رکھتی ہے تم ظلم کرتے چلے جائو سعید فطرتیں ہمیشہ اس کے خلاف مقابلہ میں پروٹسٹ کریں گی، ہمیشہ اس کے خلاف احتجاج کریں گی مجھے اپنی زندگی کا ایک واقعہ یاد ہے۔سیالکوٹ میں مَیں نے لیکچر دیا،کشمیر موومنٹ کے سلسلہ میں جلسہ تھا۔مخالفین نے حملہ کر دیا۔چنانچہ بیس ہزار آدمی ہجوم کرتے ہوئے اُس جگہ جو قلعہ کہلاتا ہے جمع ہو گئے اُنہوں نے پہلے سے منصوبہ کیا ہؤا تھا،پتھر اُن کی جھولیوں میں بھرے تھے اور وہ برابر ایک گھنٹہ اور پانچ منٹ تک پتھر برساتے گئے ۔لوگ مجھ سے بہتیری خواہش کرتے کہ لیکچر بند کیجئے مگر میں نے کہا نہیںلیکچر بند نہیں ہو سکتا ۔چنانچہ وہ برابر پتھر مارتے رہے۔آخر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور وہ بھاگ گئے۔میں نے غیر احمدیوں سے کہا کہ آپ لوگوں کے لئے یہ پتھر نہیں مار رہے ہمارے لئے مار رہے ہیں یہ ہمارا تحفہ ہے پاس ہی کوٹھی تھی میں نے کہا آپ اِس میں چلے جائیں، گھر جانا ہے تو گھر چلے جائیں۔کچھ لوگ اُٹھے مگر باقی بد ستور بیٹھے رہے اور انہوںنے کہا کہ یہ آپ پر جو پتھر پڑ رہا ہے ناجائز پڑ رہا ہے اور ہم بھی اس میں آپ کے شریک ہیں۔احمدیوں سے میں نے کہا کہ کروٹ نہیں بدلنا ۔جس وقت کوئی ڈھیر ہو جائے اُس وقت دوسرے لوگ اُسے اُٹھا کر لے جائیں۔چنانچہ پچیس آدمی ہمارے زخمی ہوئے اور ایک کا تو ہاتھ ہی مارا گیا مگر کوئی احمدی ہِلا نہیں۔
پیغامیوں کے ایک مبلّغ ہوتے تھے جو ہمارے شدید مخالف تھے اب وہ فوت ہو چکے ہیں اِس لئے نام بتانے میں کوئی حرج نہیں یعنی مولوی عصمت اللہ صاحب۔ وہ ہمارے سخت مخالف تھے لیکن رات کے ایک بجے وہ اُس کوٹھی پر پہنچے جہاں میں ٹھہرا ہؤا تھا۔لوگوں نے بتایا کہ عصمت اللہ صاحب آئے ہیں اوروہ کہتے ہیں کہ خواہ ایک منٹ ہی ملاقات کا موقع دیا جائے میں ضرور ملنا چاہتا ہوں۔جب وہ آئے تو میں نے کہا فرمائیے اِس وقت کیوں آئے؟کہنے لگے میں اس وقت جلسہ گاہ سے آ رہا ہوں۔ہمارے اور آپ کے درمیان اختلاف ہے،سب کچھ ہے لیکن خدا کی قسم! آج میرا دل گواہی دیتاہے کہ یا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے زمانہ میں یہ نظارہ نظر آیا تھا اور یا آج یہ نظارہ نظر آیا ہے۔پس بیشک ظلم ہوتے ہیںلیکن سوال یہ ہے کہ جذباتِ صحیحہ ہمارئے ساتھ ہیں ۔
دیکھو ہر شخص جانتا ہے کہ ایمان کے بغیر نجات نہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایمان اس کو کہتے ہیں جو غیر متزلزل ہو۔اور غیر متزلزل یقین ہو ہی نہیں سکتاجب تک کہ نقلِ صحیح اور عقلِ صحیح اور جذباتِ صحیحہ اس کے ساتھ نہ ہوں۔ اور میں نے بتایا ہے کہ ہمارے سارے کے سارے مسائل میں نقل صحیح ہمارے ساتھ ہے،عقلِ صحیح ہمارے ساتھ ہے اور جذباتِ صحیحہ ہمارے ساتھ ہیں اس لئے جہاں تک عقل کا سوال ہے کوئی احمدی متزلزل نہیں ہو سکتا۔لالچ میں آسکتا ہے ،ڈر سکتا ہے اور جہاں تک واقعات کا اور عقل کا سوال ہے دنیا کا کوئی انسان بھی ہم سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
بعض لوگ کانوں میں اُنگلیاں ڈال ڈال کر ہم سے بچنا چاہتے ہیںاسی لئے وہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کی مجلسوں میں نہ جائو ان کے جلسوں کو نہ سنو،تقریریں ہوں تو شور مچائو۔ قرآن میں بھی یہی لکھا ہے کہ مخالف کہتے ہیں کہ قرآن نہ سنو کہیں اِس کی آواز تمہارے کان میں نہ پڑ جائے ۲۸؎ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی جگہ بھی عقل داخل ہوئی تو ہم مر گئے، کسی جگہ نقل داخل ہوئی تو ہم تباہ ہو گئے،کسی جگہ جذباتِ صحیحہ داخل ہوئے تو ہم گئے۔اِسی لئے وہ اپنے کانوں میں رُوئیاں ٹھونستے ہیں۔مگر تم وہ ہو جن کو ہم کہتے ہیں کہ ہر مجلس میں جائو اور کان کھول کر جائو،تمہیں کوئی ڈر نہیں۔اور تمہارا مخالف تمہاری مجلس میں آنے سے پہلے اپنے کانوں میں رُوئی ڈالتا ہے تاکہ اُس کا ایمان بچ جائے مگر آخرکب تک وہ رُوئی ڈالے گا۔کسی دن اُس کی رُوئی گِرے گی،کسی دن تمہاری آواز اُس کے کان میں پڑے گی اور وہ متأثر ہو کر تمہارے ساتھ شامل ہو جائے گا۔‘‘ وَاٰخِرُدَعْوٰنَا اَنِ الْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ ( الفضل ۲۱؍مارچ ۱۹۶۲ئ)
۱؎ العصر: ۲ تا ۴
۲؎ سیرت ابن ہشام جلد۳ صفحہ ۱۰۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳؎ مسلم کتاب الایمان باب بیان خصال من اتَّصف بِھِنَّ (الخ)
۴؎ بخاری کتاب الاکراہ باب مَنْ اِخْتَارَ الضَّرْبَ (الخ)
۵؎ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۳۳۹،۳۴۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۶؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کَیْفَ کَانَ بدء الوحی اِلٰی رَسُوْلِ اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم(الخ)
۷؎ یوسف: ۱۰۸ ۸؎ النسائ: ۱۵۸ ۹؎ فاطر: ۲۵
۱۰؎ الاحزاب: ۴۱ ۱۱؎ الکوثر: ۲ تا آخر ۱۲؎ الصف: ۱۰
۱۳؎ حٰمٓ السجدۃ:۳۱
۱۴؎ بخاری کتاب التعبیرباب المبشرات
۱۵؎ البقرہ: ۱۱۰ ۱۶؎ بنی اسرائیل: ۹۰ ۱۷؎ الانعام: ۲۰
۱۸؎ اٰل عمران: ۸
۱۹؎ افشردۂ انگور: انگور کا شربت
۲۰؎ الرحمٰن: ۳۰،۳۱
۲۱؎ ابوداؤد کتاب الادب باب فی المطر
۲۲؎ الممتحنۃ: ۱۱ ۲۳؎ البقرۃ:۲۵۷ ۲۴؎ الحج:۴۰
۲۵؎ الانفال:۶۸ ۲۶؎ الانعام:۱۰۹
۲۷؎ سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۳۱۱، ۳۱۲۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۸؎ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِھٰذَالْقُرْاٰنِ۔ (حٰمٓ السجدۃ:۲۷)



سیر روحانی (۶)




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیر روحانی (۶)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر۱۹۵۱ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ)
عالَمِ روحانی کا دیوانِ خاص
تشہّد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
’’مَیں نے گزشتہ سال اسلام کے دیوانِ عام کے متعلق تقریر کی تھی اور بتایا تھا کہ دلّی کی سیر میں ہم نے دیوانِ عام دیکھے جو آج اُجڑے ہوئے نظر آتے تھے۔ جہاں انگریزوں کے چپڑاسی تو بڑی شان سے پھرتے تھے اور مُغلوں کی نسلیں چُھپتی پِھرتی اور نظریں بچاتی پِھرتی تھیں اور مَیں نے بیان کیا تھا کہ قرآن کریم میں ایک دیوانِ عام کا ذکرآتا ہے جو کبھی غیر آباد نہیںہوتا،جو کبھی دشمن کے قبضہ میں نہیں جاتا اور جس کو دیکھ کر مؤمنوں کے دلوں میں کبھی بھی حسرت پیدا نہیں ہوتی۔ آج میں اس مضمون کے تسلسل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام نے دیوانِ عام ہی نہیں بلکہ ایک دیوانِ خاص بھی پیش کیا ہے اور اسلام کے دیوانِ خاص کے مقابلہ میں ان بادشاہوں کے بنائے ہوئے دیوانِ خاص اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتے جتنی ایک زندہ ہاتھی کے مقابلہ میں اُن مٹّی کے بنے ہوئے ہاتھیوں کی حیثیت ہوتی ہے جنہیںکھلونوں کے طور پر خانہ بدوش عورتیں بیچتی پھرتی ہیں۔
دیوانِ خاص کی اغراض
دیوانِ خاص کیا چیز تھی؟ دیوانِ خاص شاہی قلعوں میںایک نہایت اعلیٰ درجہ کی عمارت یا
وسیع ہال ہؤا کرتا تھا جوگویا خاص ملاقات کا کمر ہ ہوتا تھا اس میں بادشاہ بیٹھتے تھے، شہزادے بیٹھتے تھے اور وہ وزرائ، امراء جن سے امورِ مملکت کے متعلق مشورے لئے جاتے تھے بیٹھتے تھے عام لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی۔ اِسی طرح بادشاہ اگر کسی کو گورنر مقرر کرتے یا کمانڈر اِنچیف مقرر کرتے یا اَور کسی بڑے عُہدہ پر مقرر کرتے تو ان کو وہاںبُلوایا جاتا تھا اور بادشاہ کی طرف سے وزراء اور امراء کے سامنے اعلان کیا جاتا تھا کہ ہم فلاں شخص کو گورنر مقرر کرتے ہیں یا کمانڈر اِنچیف مقرر کرتے ہیں یا جرنیل مقرر کرتے ہیں یا فلاں بڑے عُہدہ پر مقرر کرتے ہیں۔یا اگر کوئی خادمِ قوم یا خادمِ مُلک کوئی بڑی بھاری خدمت بجالاتا تو اُس کو بلایا جاتا اور اِن سب وزراء اورا مراء کے سامنے اُس کا اعزاز واِکرام کیا جاتا اور کہا جاتا کہ اس کو یہ خلعت دی جاتی ہے یا اس کی عزت افزائی میں اسے یہ انعام دیا جاتا ہے ۔ یا اہم ملکی مسائل پیش ہوتے اور بادشاہ ضروری سمجھتا کہ وزراء سے مشورہ لینا چاہئے تو اس مجلس میں جو لوگ مقر رہ اوقات پر جمع ہوتے تھے اُن کے سامنے ان امور کو پیش کیا جاتا اور درباری اپنی اپنی رائے اور مشورہ دیتے یا جس جس سے پوچھا جاتا وہ رائے دیتا اور اس کے بعد بادشاہ کی طرف سے ایک فیصلہ صادر ہو جاتا ۔
گویا’’دیوانِ خاص کے قیام کی چار اہم اغراض ہؤا کرتی تھیں۔
اوّل بادشاہ کااپنے وزراء کو اپنے قُرب میںجگہ دینا اور ان کا اعزاز کرنا یا مختلف مناصب پر اُن کا تقرر کرنا یا انہیں برطرف کرنا۔
دوم بادشاہ کا ان سے خاص امور کے بارہ میں مشورہ لینا اور خاص امور کے بارہ میں مشورہ دینا جن سے وہ اپنے فرائض کو عمدگی سے ادا کر سکیں۔
سوم اپنی مشکلات میںان سے مدد لینا اور اُن کی مشکلات میں اُن کو مدد دینے کے وعدے کرنا۔
چہارم ان کے اچھے کاموں پر انعام واکرام دینا اور بُرے کامو ں پر سرزنش کرنا۔ یہ وہ چار اغراض ہیں جن کے ماتحت ’’دیوان خاص‘‘ قائم کئے جاتے ہیں۔
دُنیوی بادشاہوں میں حقیقی محبت کا فُقدان
مگر مَیں نے دیکھا کہ بادشاہ جب اپنے
درباریوں کو کوئی اعزاز دیتے تھے تو ان کا اعزاز محض قانونی ہوتا تھا۔ چنانچہ پہلی بات تو یہی ہے کہ بادشاہ اپنی محبت کا اور اپنے تعلقات کا اور اپنے اخلاص کا تو اظہار کرتا تھا لیکن بادشاہ کو ان لوگوں سے حقیقی محبت نہیںہوتی تھی اس کی اصل محبت اپنے بیوی بچوں سے ہوتی تھی۔ یہ کبھی بھی نہیں ہوتا تھا کہ کسی شخص نے بڑی قربانی کی ہو اور اس نے اپنا تخت اُس کے سپرد کر دیا ہو یا اپنے اختیارات جو نیابت کے ہیں اُس کے سپرد کر دئیے ہوں۔ اس کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ میں اپنی اولاد کی طاقت کو مضبوط کروں اور اُن کے لئے راستہ صاف کروں گویا یہ خدمت کرنے والے لوگ ایک قسم کے اجیر ہوتے تھے۔
نمائشی انعامات اور خطابات
(۲) پھر بسا اوقات جو انعام ملتے تھے محض نمائشی ہوتے تھے اور خدمت کے مقابلہ
میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی۔مثلاً اپنے زمانہ کو ہی لے لو۔ ابھی انگریزوں کی یاد تازہ ہے وہ کہتے تھے کہ فلاں کو خطاب دیا جاتا ہے اب وہ ’’خان صاحب ‘‘ ہو گئے ہیں اور فلاں ’’خان بہادر ‘‘ ہو گئے ہیں ا ور حقیقت یہ ہوتی تھی کہ بسا اوقات خان بہادر صاحب کی چارپائی کے نیچے چُوہا بھی ہلے تو اُن کی جان نکل جاتی تھی لیکن وہ خان بھی تھے اور بہادر بھی تھے۔ گویا بادشاہ اُن کو ’’خان بہادر‘‘ تو بنا دیتا تھا لیکن حقیقتاً نہ وہ خان بنتے تھے اور نہ بہادر ہوتے تھے۔ یا مثلاً آجکل پٹھان بھی خان کہلاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے زمانہء حکومت میں انہوں نے بڑے بڑے کام کئے تھے جن سے دنیا میں اُن کا شُہرہ ہؤا اور اُنہیں خطابِ عزّت کے طورپر خان صاحب کا نام دے دیاگیا۔چنانچہ اُس زمانہ میں جو بادشاہ ہوتے تھے یا نواب اور امراء ہوتے تھے اُن کی عظمت کی وجہ سے انہیں خان ہی کہا جاتاتھا۔ مغل بھی اپنے ابتدائی زمانہ میںخان کہلاتے تھے بلکہ بچپن میں جب مَیں اپنے شجرئہ نسب کو سُنتا تو میں حیران ہوتا تھا کہ پہلے کہا جاتا ہے فلاں خان، فلاں خان، فلاںخان۔ اور پھر شروع ہو جاتا ہے فلاں بیگ، فلاں بیگ، فلاں بیگ۔ مَیں حیران ہوتا تھا کہ یہ خان کہاں سے آ گیا۔ بعد میں معلوم ہؤا کہ خان ایک اعزاز کا لفظ تھا مگر آہستہ آہستہ اتنی کثرت سے قوم میں بڑے لوگ پیدا ہو ئے کہ اُن کی کثرت کی وجہ سے ساری قوم ہی خان کہلانے لگ گئی اور اب تک کہلاتی ہے۔ہر پٹھان جب تمہیں نظر آئے گا تم کہو گے خان صاحب! بیٹھئے، خان صاحب! تشریف لائیے، خان صاحب! آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ غرض وہ خان کہلاتا ہے مگر وہ تو محض ایک تسلسل کے طور پر خان بن گیا ہے درحقیقت خوداُس نے کوئی بڑا کام نہیں کیا، نہ اُس نے ذاتی طور پر کوئی ایسی قابلیت حاصل کی ہے جس کی وجہ سے اُسے کوئی خاص مقامِ عزّت حاصل ہوتا لیکن انگریز کا بنایا ہؤا’’خان صاحب‘‘ بسا اوقات کسی جولاہے کی بیٹی مانگتا تو وہ کہتا تھا نہیں، ہم کُذاتوں کو نہیں دے سکتے۔ انگریز اُسے خان صاحب کہتا تھا اور ہمارے ملک کا جولاہا اسے کُذات کہتا تھا۔ یا اگر کوئی خان صاحب سید یا مغل یا پٹھان ہوتے تو وہ خان صاحب یا خان بہادر سمجھ کر اسے عزت نہیں دیتا تھا بلکہ سیدیا مغل یا پٹھان ہونے کی وجہ سے عزت دیتا تھا۔ گویا لوگ اس نسل کی وجہ سے یا اس رشتہ داری کی وجہ سے توعزت کرتے تھے جو اسے اپنے باپ دادا کی وجہ سے حاصل ہوتی تھی لیکن اس عزت کی وجہ سے جو اسے گورنرجنرل کی طرف سے ملتی تھی اسے اپنے خاندان کا حصہ بنانے کے لئے تیار نہیں تھے۔
انگریزی خطابات حاصل کرنے والوں کی کیفیت
پھر بعض کو اُس زمانہ میں ’’سر‘‘ کا خطاب دیا جاتا تھا اب’’سر‘‘کے معنے جناب کے ہیں لیکن حقیقتاً بعض ’’سر‘‘ایسے ذلیل ہوتے تھے اور ایسی
پاجیانہ حرکتیں کرتے تھے کہ لوگ انہیںگالیاں دیتے تھے۔ پھر انگریز کے زمانہ میں خطاب ہوتے تھے سٹار آف انڈیا (Star of India) یا گرینڈ کراس آف انڈین ایمپائر (Grand Cross of Indian Empire) یعنی بڑی صلیب دیدی گئی لیکن بڑی صلیب لینے والے جو لوگ تھے ان میں سے کئی صلیب کے شدید دشمن ہوتے تھے۔کئی مسلمان جن کے دلوں میں غیرت ہوتی تھی اُن کا جی چاہتا تھا کہ موقع ملے تو صلیب کو توڑ ڈالیں۔ کہلاتے تھے وہ بڑی صلیب کے حامل لیکن ان کے دل میں یہ ہوتا تھا کہ ہم چھوٹی صلیب کے بھی حامل نہیں ۔ یہ خطاب کیا ہؤا کہ جس کو خطاب دیا جاتا ہے وہ اس کو ذلیل سمجھتا ہے، وہ اس کو حقیر سمجھتا ہے، وہ اس کو ناقابلِ اعتناء سمجھتا ہے، وہ اس کو قابلِ ہلاکت سمجھتا ہے۔ مغلوں کے زمانہ میں اعتمادُ الدولہ اورنظامُ الملک کے خطاب ملتے تھے لیکن وہی اعتمادُ الدولہ اور نظامُ الملک دوسرے دن فوج لے کر بادشاہ کے خلاف لڑنے کے لئے آ جاتے تھے۔ نہ دولت کا ان پرکوئی اعتماد ہوتا تھا نہ ملک کے نظام کے ساتھ ان کی کوئی وابستگی ہوتی تھی۔ دیکھ لو نظام حیدر آباد کو نظامُ الملک کا خطاب حاصل تھا لیکن اورنگ زیب کے بعد اس نے ملک کی آزادی کا اعلان کر دیا اور بعد میں انگریزوں کے ساتھ مل گیا۔ اب بھی موجودہ نظام نے شروع میں ہندوئوں سے لڑنے کے لئے اپنی قوم کو اُبھارا اور اُکسایا جب قوم لڑنے کے لئے کھڑی ہو گئی تو اُس نے حکومت کو چٹھّی لکھ دی کہ بندہ تو حضور کا غلام ہے یہ لوگ باغی ہو کر لڑائی کر رہے ہیں جس طرح ارشاد ہو کیا جائے گا۔
شہزادوں کی غدّاری
اِسی طرح ان بادشاہوں کی اولاد بسا اوقات خوداپنے باپ کی وفات کی متمنی ہوتی تھی۔ باپ صاحب بیٹھے
ہوئے اپنے وزیروں سے کہتے تھے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہمارے خاندان کے وفادار ثابت ہوں گے اور ہماری اور ہماری نسل کی بہی خواہی کریں گے۔ اور بیٹا پاس بیٹھا ہؤا اِس امید میں ہوتا تھا کہ رات کو موقع ملے تو کسی کی معرفت یا خود اُسے قتل کر کے تخت پر بیٹھ جائے۔
درباریوں کی سازشیں
پھر اِسی دربار میں جہاں بادشاہ کی طرف سے اعزازمل رہا ہوتا تھا بسا اوقات جس کو اعزاز مل رہا
ہوتا تھا وہ کسی بیگم یا شہزادہ یا شہزادی سے مل کر بادشاہ کے خلاف منصوبہ کر رہا ہوتا تھا۔اِدھر اعزاز مل رہا ہوتاتھا اور اُدھر ساز باز جاری ہوتی تھی کہ اِس کو مٹا دیا جائے۔
ایک ہندو اخبار تھا اُس کایہ طریق تھا کہ وہ بڑے بڑے لوگوں کے راز معلوم کر کے پھر کہانی کے طور پراُن کو شائع کیا کرتا تھا اور اِس سلسلہ کا نام اُس نے ’’چُوں چُوں کا مربہ‘‘ رکھا ہؤا تھا۔ یہ سلسلہ مضامین اخبارِ عام میں بھی چھپتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس یہ اخبار آیا کرتا تھا۔ اس میں ایک ریاست کا واقعہ لکھا تھا اُس وقت تو مجھے معلوم نہیں تھا بعد میں پتہ چلا کہ یہ کپور تھلہ کی ریاست کا واقعہ تھا۔کپور تھلہ کا راجہ جو پارٹیشن کے وقت تک زندہ تھا اب سُنا ہے فوت ہو چکاہے کہا جاتا ہے کہ وہ راجہ کی اولاد میں سے نہیں تھا بلکہ اُس کا باپ ایک جج تھا جس کو مَیں نے بھی دیکھا ہے (اصل راز کو اللہ بہتر جانتا ہے)۔ میںایک دفعہ کپور تھلہ گیا تو دوستوں نے مجھے دکھایا تھا وہ اُس وقت کسی کام کیلئے پیلس میںآیا ہؤا تھادوستوں نے بتایا کہ یہ شخص جو پِھر رہا ہے راجہ کا باپ ہے۔ مَیں نے پوچھا کہ باپ جب دربار میں آتا ہے تو راجہ کی کیا حالت ہوتی ہے؟کہنے لگے وہ ہمیشہ کتراتا ہے اور جب بھی کوئی ایسا موقع آئے وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتا ہے اور ملنے میں شرم اور ذلّت محسوس کرتا ہے۔
بہرحال اِس اخبارمیں یہ واقعہ لکھا تھا کہ پہلے زمانہ میں کپور تھلہ کے راجہ کی دو رانیاں تھیں اور دونوں کے اولاد نہیںتھی وہ دونوں ایک دوسری سے رقابت رکھتی تھیں۔ کچھ درباری ایک طرف تھے اور کچھ دوسری طرف ۔ جس نے ایک کی غیبت کرنی ہو وہ دوسری کے پاس چلا جاتا اور جس نے دوسری کی غیبت کرنی ہو وہ اس کے پاس آ جاتا۔ یہ جھگڑے بڑھ گئے تو آخر ایک پارٹی کے لوگوں نے سوچا کہ کب تک راجہ اور کب تک رانیاں، یہ مرا تو خبر نہیں انگریز کس کو لا کر بٹھا دیں، اس لئے کوئی ایسی تدبیر کرنی چاہئے کہ مستقل طور پر ہمارا دبدبہ قائم رہے۔ یہ سوچ کر اُنہوں نے ایک رانی کو اپنے ساتھ ملایا اور اُسے سکھایا کہ وہ مشہور کر دے کہ مجھے حمل ہے۔ چنانچہ وہ اِس بات پر راضی ہو گئی اور تجویز یہ ہوئی کہ نویں مہینہ مشہور کر دیا جائے گا کہ بچہ پیدا ہو گیا ہے ادھر دو تین جگہ سے جن کے ہاں اُنہی دنوں میں بچے پیدا ہونے والے تھے وعدے لے لئے گئے کہ جس کے ہاں لڑکا پیدا ہؤا وہ اپنا لڑکا دے دیگا۔ انہوں نے انتظام یہ کیا ہؤا تھا کہ جس دن بچہ پیدا ہو رانی فوراًبیمار بن کر بیٹھ جائے گی اور اُس کی گود میں بچہ ڈال کر سب کو دکھا دیاجائے گا کہ رانی کے ہاں بچہ پیدا ہؤا ہے۔اتفاقاً اُسی شخص کا جو اُس وقت سرِشتہ دار تھا اور بعد میں ہائی کورٹ کا جج بن گیا بچہ پیدا ہؤ ا جو راجہ کا بیٹا قرار دیدیا گیا۔ انہوں نے یہ منصوبہ کر کے تمام شہرمیں مشہور کر دیا کہ رانی حاملہ ہے۔ راجہ محسوس کرتا تھا کہ یہ بات غلط ہے اس کی بڑی عمر ہو چکی تھی اور وہ سمجھتا تھا کہ میرے ہاں اولاد نہیں ہو سکتی۔ اُس کے دل میںشُبہ پیدا ہؤا اور اُس نے ناراضگی کا اظہار شروع کر دیا کہ یہ بڑی غیر معقول بات ہے یہ دھوکا اور فریب ہے جو مجھ سے کیا جا رہا ہے۔اس سے دوسری رانی کوموقع مل گیا اور اس نے کہا یہ دھوکا فلاںفلاں وزیر کر رہا ہے۔ راجہ نے ان کے خلاف باتیں کرنی شروع کر دیں اور ادھر گورنمنٹ کو لکھ دیا کہ کہا جاتا ہے کہ رانی حاملہ ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے، رانی ہرگز حاملہ نہیں۔ مگر جہاں حکومت کا ایک بڑا حصہ سازش میںشریک ہو وہاں کسی لیڈی ڈاکٹر کا خریدلینا کونسی مشکل بات تھی۔ چنانچہ معائنہ کرایا گیا اور لیڈی ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ رانی حاملہ ہے۔ جب یہ جھگڑا بڑھا توگورنمنٹ کے پاس رپورٹ کی گئی۔ اُس وقت راجے وائسرائے کے ماتحت نہیںہوتے تھے بلکہ پنجاب کے، پنجاب کے گورنر کے ماتحت اور یو، پی کے یو،پی کے گورنر کے ماتحت ہوتے تھے اور پھر آگے ان کا براہِ راست تعلق کمشنر کے ساتھ ہوتا تھا۔ جب رپورٹ کی گئی تو پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر نے کمشنر کو لکھا کہ تحقیقات کر کے فیصلہ کروجھگڑا لمبا ہو رہا ہے۔ ادھر سے اُس پارٹی کے افراد نے رپورٹ کرنی شروع کر دی کہ راجہ پاگل ہو گیا ہے تا کہ راجہ کی باتوں کا ازالہ ہو آخر دونوں طرف کی رپورٹوں پر کمشنر ایک دن سِول سرجن کو ساتھ لے کر چلا۔ چونکہ دوسرے فریق نے خود اس بات کو مشہور کیا تھا اِس لئے اسے بھی خیال تھا کہ کمشنر آ جائے گا۔ انہوںنے پہلے سے ایسا انتظام کیا ہؤا تھا کہ دفتر سے پتہ لگ جائے کہ کمشنر کب چلا ہے۔ چنانچہ انہیں پتہ لگ گیا کہ کمشنر فلاں دن آ رہا ہے انہوں نے آدمی مقرر کر دئیے کہ جب اس کی سواری قریب پہنچے تو اشارہ کر دیا جائے کہ کمشنر آ رہا ہے اور پھر اندر بھی انہوں نے انتظام کیا ہؤا تھا۔ راجہ تخت پر بیٹھا ہؤا اپنے دبدبہ اور شان کا اظہار کر رہا تھا کہ میں تم لوگوں کو سیدھا کر وں گا اورتمیں یوں سزادوں گا۔ اور اُدھر انہوں نے اُس چپڑاسی کو جو چَوری ۱؎ جھل رہا تھا اپنے ساتھ ملایا ہؤ اتھا اور اُس کو سکھایا ہؤا تھا کہ جونہی ہم اشارہ کریں تو کان میں جُھک کر راجہ کو ایک بڑی گندی گالی دے دینا۔ بس اِدھر اُنہوں نے اشارہ کیا کہ کمشنر صاحب آ رہے ہیں اور اُدھر اُس چَوری بردار نے جُھک کر ایک بڑی گندی گالی راجہ کے کان میں دے دی۔ تم سمجھ لو کہ ایک چپڑاسی چَوری بردار ایسی حرکت کر ے تو راجہ کی کیا حالت ہو گی وہ واقعہ میں پاگل ہوجا ئے گا چنانچہ وہ بے تحاشا اُٹھا اور اُس نے ہاتھ اور پائوں سے اُسے مارنا شروع کردیا۔دوسرے لوگ توچاہتے تھے کہ اس نظارہ کو وسیع کریں چنانچہ دوسری پارٹی میںجو لوگ شامل تھے وہ آگے بڑھے اور انہوں نے کہا حضور! اِس کا کوئی قصور نہیں، حضور! اس پر ایسی سختی نہیںکرنی چاہئے۔اُسے اَور غصہ آیا اور اُس نے اُن کو بھی مارنا شروع کر دیا۔ اتنے میں کمشنر اور سِول سرجن اندر داخل ہوئے اور سارے درباری ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے کہ حضور! رو ز ہمارے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے، چنانچہ رپورٹ ہو گئی کہ راجہ پاگل ہو گیا ہے اور اُس کا بیٹا قبول کرلیا گیا جو بڑا ہو کر ریاست کا حکمران بنا غرض یہ یہ کارروائیاں دربارِ خاص میں ہوتی تھیں۔
بیگمات کے جوڑ توڑ
پھر دُنیوی بادشاہوں کے دربارِ خاص میںجوڑتوڑ کے جونتائج پیدا ہوتے تھے وہ زیادہ تر شہزادوں اور بیگمات
کی وجہ سے پیدا ہوتیتھے کیونکہ اُس زمانہ کے لحاظ سے شہزادے اور بیگمات حکومت کے حق دار سمجھے جاتے تھے بلکہ بہت سے مُلکوں میں تو بیگمات کو اب بھی حکومت میں حصہ دار سمجھا جاتا ہے۔ آج تک انگلستان میں ملکہ تخت نشینی کے وقت بادشاہ کے ساتھ بیٹھتی ہے اور اُس کو ملک کا حصہ دار سمجھا جاتا ہے اور شہزادوں میںسے ہر شہزادہ خود بادشاہت حاصل کرنے کا خواہشمند ہوتا تھا۔ ایک کہتا تھا کہ میرا بڑا بھائی جو اتفاقاً مجھ سے بارہ مہینے پہلے پیدا ہؤا ہے بادشاہ بن جائے گا۔ اگر بارہ (۱۲)مہینے پہلے مَیں پیدا ہو تا تو مَیں بادشاہ بن جاتا ، چنانچہ وہ کہتا ہے اس کومارو میں بادشاہ ہو جاتا ہوں۔ اگلا کہتا ہے اس کو مارو میں ہو جاتا ہوں۔ شاہجہان کے زمانہ میںاِس کی زندگی میں ہی بیٹوں نے کہا کہ یہ تو نہ معلوم کب مرے پہلے اپنے لئے میدان تیار کرو۔ چنانچہ داراؔ اور مرادؔ اور شجاعؔ اور اورنگ زیبؔ نے لڑ لڑا کر اپنے باپ کی حکومت کو ختم کر دیا۔ بادشاہ کی تخت نشینی کی جو ساری مدت بتائی جاتی ہے اس میںسے پچاس فیصدی زمانہ ایسا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بادشاہ سلامت اتنا عرصہ قید رہے۔
قرآنی دربارِ خاص کی نرالی شان
ان دُنیوی بادشاہوں کے دربارِخاص کے مقابلہ میں مَیں نے قرآنی دربارِ خاص
کو دیکھا تو مجھے اِس کی شان ہی اور نظر آئی۔ مَیں نے دیکھا کہ یہ بادشاہ جوقرآنی دربارِ خاص کا مالک تھا اولاد اور بیویوں سے بالکل آزاد تھا اس لئے یہاں اِس قسم کے جوڑتوڑ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ نہ اِس بات کا کوئی سوال تھا کہ درباریوں کی محبت اور درباریوں کے اخلاص کو بانٹنے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور نہ اس بات کا کوئی سوال تھا کہ وہ بیٹھا ہؤا مخاطب ہم سے ہے اور غرض یہ ہے کہ ہم سے کام لے کر اپنے بیٹے کی عزّت بڑھائے۔ اِس دربار میں وہ جو بھی عزّت دیتا تھا وہ ہمارے لئے ہی ہوتی تھی کوئی اور اُس کو نہیں چھین سکتا تھا۔ چنانچہ قرآن کریم اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے ؎۲
خداتعالیٰ کی وحدانیت
اور حمد کاگہرا تعلق
دیکھو شِرک ایک بڑی اہم چیز ہے اور تمام اسلام کی بنیاد اِس کے ردّپر ہے، تمام مذاہب کی بنیاد اس کے ردّپر ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ شرک کی تردید
کے ساتھ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کا کیا تعلق ہے؟ الْحَمَدُ لِلّٰہِ تو انسان اسی صورت میں کہہ سکتا ہے جب اس کا نتیجہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتا ہو۔ اگر ایک خدا ہونے سے ہمیں کوئی خاص فائدہ پہنچتا ہے تو پھر بے شک ہم کہیں گے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ خدا ایک ہے ورنہ جہاں تک خدا کے ایک ہونے کا سوال ہے یہ ایک صداقت ہے جسے ماننا پڑتا ہے مثلاً سورج ایک ہے کہنا پڑتا ہے کہ ایک ہے۔ سامنے پہاڑ ہو ماننا پڑے گا کہ پہاڑ ہے مگر یہ تو نہیں کہیں گے کہ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ یہ پہاڑ ہے کیونکہ ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن اگر ہمیں گرمی لگ رہی ہو اور اُس وقت ٹھنڈی ہوا چل پڑے تو ہم کہیں گے اَلْحَمْدُلِلّٰہِ اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہم خالی ہوا کے چلنے پر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہہ رہے ہیں بلکہ ہم ہوا کے اُس اثرپر اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہتے ہیں جو ہم پر پڑتا ہے۔ اِسی طرح یہاں فرماتا ہے۔ ۔ شکر ہے کہ خدا کا جس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیوی، نہیں تو ہمارے دربارِ خاص کا بھی وہی حال ہوتا جو دُنیوی درباروں کا ہوتا ہے کہ قربانیاں ہم کرتے اور بادشاہ کہتا کہ بیٹے صاحب کو تخت دے دیا جائے یا بیوی صاحبہ کی خوشامد کرنی پڑتی جیسے کسی شاعر نے کہا ہے ۔ ؎
تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں
مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا
بادشاہوں کے لئے اپنی جانیں
قربان کرنیوالوں کا حسرت ناک انجام
دربایوں کو ہر وقت یہی مصیبت رہتی تھی کہ اِدھر بیویوں کو خوش کرو اور اُدھر شہزادوں کو خوش کرو گویا
قربانیاں کرنے والے اَور، مرنے والے اَور ، جہاد کرنے والے اَور، اپنے مال اور جائدادیں لُٹانے والے اَور، اور بادشاہت کرنے والے شہزادے اور بیگمات۔ تو فرماتا ہے دنیا میں قاعدہ یہ ہے کہ جو بادشاہ ہوتے ہیں ان کی اولادیں اور ان کی بیویاں سارا حق لے جاتی ہیں اور قربانیاں کرنے والے ہمیشہ وفادار غلام کہلاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو کہہ دے میں اُس بادشاہ کا غلام ہوں کہ جس کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ اُس کا کوئی بیٹا ہے۔ اس لئے نہ تو اس کی محبت مجھ میں اور ان میں تقسیم ہے، نہ مجھے دو مالکوں کے خوش کرنے کی ضرورت ہے ایک ہی خدا ہے جس سے میرا واسطہ ہے اور اُس کی محبت کسی اور کے ساتھ بٹی ہوئی نہیں خالص میرے لئے ہے۔ پھر درباریوں میںسے بعض لوگ بڑی بڑی عزتیں پاجاتے ہیں اور وہ دربار میں خاص عزّت پا جانے کی وجہ سے بادشاہ پر ایسے حاوی ہو جاتے ہیں کہ بادشاہ سمجھتا ہے کہ بغیر ان کی مدد کے میرا کام نہیں چل سکتا لیکن ہمارا بادشاہ اِس قسم کانہیں اس کے دربار میں کوئی شخص ایسا نہیں کہ ہمارا خدا اس بات کی احتیاج رکھتا ہو کہ وہ اس کی مدد کرے اِسی لئے فرماتا ہے اب تُو نڈر ہو کر خدائے واحد کی تکبیر کر کیونکہ اور کوئی شریک نہیں جو تجھ سے مطالبہ کر ے کہ تھوڑی سی تکبیر میری بھی کرلیا کر۔ اس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی اور نہ کوئی شریک ہے۔ وہاں تو ڈرتے ہیں کہ بادشاہ کی تعریف کی تو ولیعہد ناراض ہو جائے گا ولیعہد کی تعریف کی تو چھوٹا شہزاد ہ ناراض ہو جائے گا یہ ایک ہی دربار ہے جو اِن سارے جھگڑوں سے آزاد ہے۔
خوشامد، جھوٹ اور مداہنت کے اڈّے
حقیقت یہ ہے کہ دُنیوی بادشاہوں کے دیوانِ خاص میں
یہ تین لہریں ہی پسِ پردہ چلتی ہیں، بیٹے اپنا رُسوخ چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ بِلااستحقاق حکومت ان کی ہو اور قربانی دوسروں کی۔ بیویاں علاوہ اپنے نفوذ کے اپنی اپنی اولاد کی تائیدمیں امراء کو کرنا چاہتی ہیں۔ ایک کہتی ہے امراء میرے بیٹے کی طرف ہوجائیں اور دوسری کہتی ہے کہ میرے بیٹے کی طرف ہو جائیں۔ غدر کا سارا جھگڑا اِسی وجہ سے ہؤا کہ بعض بیگمات کہتی تھیں ہمارا بیٹا تخت نشین ہو جائے اور دوسری کہتی تھیں ہمارا ہوجائے۔ ظاہر میں بادشاہ کی خدمت کادعویٰ ہوتا تھا لیکن باطن میںکسی خاص شہزادہ یاملکہ کی امداد کا دم بھر رہے ہوتے تھے اور پھر ایک دوسرے کے خلاف بادشاہ کے کان بھرتے تھے۔ قربانی اور اخلاص کی قدر نہیں ہوتی تھی خوشامد اور جھوٹ کی قدر ہوتی تھی۔ یابعض دفعہ کوئی جابر امیر بادشاہ پر حاوی ہو جاتا تھا اور درباریوں کو اُسے خوش کرنے کی فکر رہتی۔ لیکن قرآن کے دربارِ خاص میں یہ باتیں نہیں۔ وہاں نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیوی، نہ کوئی جابر حاکم ہے بلکہ خالص خدا ہے جس کی نہ چُغلی کی جا سکتی ہے نہ غیبت کی جا سکتی ہے نہ کسی اَور کو خوش کرنے کے لئے اس سے مداہنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا بادشاہ
پھر دُنیوی بادشاہوں کی اولاد ان کی موت کی متمنی ہو تی تھی
اور چاہتی تھی کہ یہ مریں تو ہم بادشاہ ہو جائیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بادشاہ ایک شخص کو کوئی عُہدہ دیتا تھا لیکن دوسرے دن بادشاہ فوت ہو جاتا۔ اس کے بعد ا س کا بیٹاتخت نشین ہوتا اور وہ اسے ذلیل کر دیتا، لیکن ہمارے دربارِ خاص میں بیٹھنے والا بادشاہ فرماتا ہے۔ ۳؎ تمہارا بادشاہ وہ ہے جو زندہ ہے کبھی مرنے والا نہیں اس لئے تم کو ڈرنا نہیں چاہئے اس کی طرف سے جو رُتبہ تمہیں ملے گا اُسے کوئی چھینے گا نہیں۔
دُنیوی خطابات کا انجام
دیکھو انگریزوں نے لوگوں کو خطابات دیئے تھے مگر اب ہندوستان اور پاکستان میں روزانہ اعلان
ہوتے ہیں کہ ہم ان خطابات کو چھوڑتے ہیں۔ صرف چند ڈھیٹ ابھی تک ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی ایسے ہیں جو اِن خطابوں سے چمٹے بیٹھے ہیں ورنہ باقی سب اپنی اپنی قوم کو خوش کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ مَیں نے ’’خان بہادر ‘‘ کا خطاب چھوڑا، مَیں نے فلاں خطاب چھوڑا،میں نے ’’جی۔سی۔آئی۔ای‘‘ کاخطاب چھوڑا، مَیں نے فلاں خطاب چھوڑا یہ سب *** چیزیں ہیں۔پہلے اِنہی خطابوں کے لئے خوشامدیں کرتے پِھرتے تھے اور اب *** چیزیں بن گئیں کیونکہ بادشاہت بدل گئی یا بادشاہ کی جگہ اُس کا بیٹا آ گیا تو پھر بیٹے کی پارٹی برسرِ اقتدار آ جاتی ہے اور باپ کی پارٹی رہ جاتی ہے۔لیکن کہنے والا فرماتا ہے تمہیں گھبراہٹ کیوںہو، تمہیں خطرہ کیوں گزرے ، تمہارا دل کیوں دھڑکے، تمہارا جس بادشاہ سے تعلق ہے وہ جو خطاب بھی تمہیں دے گا وہ چلتا چلا جائے گا اس کو کوئی دوسرا بادشاہ بدلنے والا نہیں کیونکہ کوئی نئی حکومت نہیں آئے گی۔
بادشاہوں کے خلاف
دربارِ خاص میں منصوبے
پھر درباروں میںسازشوں کی وجہ سے یہ بھی ہوتاتھا کہ لوگ چوری چُھپے باتیں کرتے رہتے تھے یعنی بادشاہ کے سامنے تو قصیدے پڑھے
جارہے ہوتے تھے اور گھروں میں یا مجلسوں میں یہ کہا جاتا تھا کہ دیکھو! بادشاہ نے فلاں بات کی ہے اور ہمارے حقوق اس نے تلف کر دئیے ہیں اب اِس اِس طرح ہم کو فریب کرنا چاہئے، یہ یہ چالاکیاں کرنی چاہئیں یہ دُنیوی بادشاہوں کے دربارِ خاص کے نقائص ہؤا کرتے تھے۔ اس دربارِ خاص کو میں نے دیکھا تو اس کے متعلق لکھا تھا ۴؎ فرماتا ہے اِس قرآنی دربارِ خاص کابادشاہ عالم الغیب ہے۔ اس کا دیا ہؤا انعام راستہ میںکہیں غائب نہیں ہو سکتا۔ یہاں تو یہ تھا کہ بادشاہ نے خلعت پہنایا اور گھر پہنچنے سے پہلے پہلے راستہ میں کسی نے خنجر ما ر دیا گویا انعام تو ملا مگر انعام سے وہ فائدہ نہ اُٹھا سکا مگر یہ وہ بادشاہ ہے کہ چونکہ یہ عالم الغیب ہے اِس لئے جس شخص کو یہ انعام دیتا ہے اُس کی نگرانی بھی کرتا ہے کہ انعام اُس کو پہنچ جائے اور خواہ کوئی کتنا زور لگالے، کتنی ہی طاقت خرچ کر لے وہ اس خطاب سے محروم نہیں ہو سکتاوہ خدا کی دی ہوئی چیز ہے اُس کو کون لے سکتا ہے مگر دُنیوی بادشاہوں کی دی ہوئی چیز تو بسا اوقات ضائع ہو جاتی ہے بلکہ بعض دفعہ وہ آپ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں کو ذلیل کر دیتے ہیں۔
ایک مشہور تاریخی واقعہ
ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے شبلیؒ ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں یہ امیر گھرانے کے تھے اور
بغداد کے بادشاہ کے گورنر تھے۔ وہ کسی کام کے متعلق بادشاہ سے مشورہ کرنے کے لئے اپنے صوبہ سے دارالحکومت میںآئے۔ اُنہی دنوں ایک کمانڈر اِنچیف ایران کی طرف سے ایک ایسے دشمن کے مقابلہ میں بھیجا گیا تھا جس سے کئی فوجیں پہلے شکست کھا چکی تھیں اُس نے دشمن کو شکست دی اور ملک کو دوبارہ مملکت میں شامل کیا۔ جب وہ واپس آیا تو بغداد میں اس کا بڑا بھاری استقبال کیا گیا اور بادشاہ نے بھی ایک دربارِ خاص منعقد کیا تاکہ اُسے انعام دیا جائے اور اُس کے لئے ایک خلعت تجویز کیا جو اُس کے کارناموں کے بدلہ میں اُسے دیا جانا تھا مگر بدقسمتی سے سفر سے آتے ہوئے اُسے نزلہ ہو گیا دوسری بدقسمتی یہ ہوئی کہ گھر سے آتے ہوئے وہ رومال لانا بھُول گیا ۔ جب اُس کو خلعت دیا گیا تو دستور کے مطابق اس کے بعد اُس نے تقریر کرنی تھی کہ مَیں آپ کا بڑا ممنون ہوں آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے اور میری تو اولاد دراولاد اس چار گز کپڑے کے بدلے میں آپ کی غلام رہے گی۔ مگر جب وہ تقریر کے لئے آمادہ ہو رہا تھا تو یکدم اُسے چھینک آئی اور ناک سے بلغم ٹپک پڑا۔ بلغم کے ساتھ اگر وہ تقریر کرتا تو شاید قتل ہی کر دیا جاتا اُس نے گھبراہٹ میںاِدھر اُدھر ہاتھ مارا جب دیکھا کہ رومال نہیں ملا تو نظر بچا کر اُسی جُبہّ سے اُس نے ناک پونچھ لی۔ بادشاہ نے اسے دیکھ لیا وہ کہنے لگا اُتار لو اِس خبیث کا خلعت۔ یہ ہماری خلعت کی ہتک کرتا ہے اور ہمارے دئیے ہوئے تحفہ سے ناک پُونچھتا ہے۔ اس نے یہ کہا اور شبلیؒ نے اپنی کُرسی پر چیخ ماری اور رونا شروع کر دیا چونکہ دل میںنیکی تھی اور تقویٰ تھا، خد نے اُن کی ہدایت کے لئے ایک موقع رکھا ہؤا تھا انہوں نے چیخ ماری تو بادشاہ نے کہا خفا ہم اِس پر ہوئے ہیں تم کیوں روتے ہو؟ وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا بادشاہ میں اَپنا استعفاء پیش کرتا ہوں ۔ بادشاہ نے کہایہ کیا بے وقت کی راگنی ہے کیا ہؤا تم کو اور کیو ں تم استعفاء پیش کرتے ہو؟ انہوں نے کہا بادشاہ میں یہ کا م نہیں کرسکتا۔ اس نے کہا آخر ہؤا کیا؟ انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ یہ شخص آج سے دو سال پہلے اس جگہ سے نکلا تھا اور ایک ایسی مُہم پر بھیجا گیا تھا جس میں ملک کے بڑے بڑے بہادر جرنیل شکست کھا کر آئے تھے اور ایک ایسے علاقہ کی طرف بھیجا گیاتھا جس کا دوبارہ فتح کرنا بالکل ناممکن سمجھا جاتا تھا یہ دو سال باہر رہا۔ یہ جنگلوں میں گیا، یہ پہاڑوں میںگیا اور اِس نے دشمن سے متواتر لڑائیاں کیں، یہ ہر روز مرتا تھا، ہر صبح مرتاتھا، اور ہر شام مرتا تھا، ہرشام اِس کی بیوی سوچتی تھی کہ صبح میں بیوہ ہو کر اُٹھوں گی اور ہر صبح جب وہ اُٹھتی تھی تو خیال کرتی تھی کہ شام مجھ پر بیوگی کی حالت میں آئے گی، ہر شام اس کے بچے سوتے تھے تو سمجھتے تھے کہ صبح ہم یتیم ہوں گے اور ہر صبح اس کے بچے اُٹھتے تھے تو وہ خیال کرتے تھے کہ شام کو ہم یتیم ہوں گے،ایک متواتر قربانی کے بعد اس نے اتنا بڑا ملک فتح کیا اور آپ کی مملکت میں لا کر شامل کیا اس کے بدلہ میںآپ نے اس کو چند گز کپڑادیا جس کی حیثیت ہی کیا تھی مگر محض اس لئے کہ اس نے مجبوراً اس خلعت سے ناک پونچھ لیا آپ اس پر اتنا خفا ہوئے۔ پھر میں کیا جواب دوں گا اُس خدا کے سامنے جس نے مجھے یہ جسم ایسا دیا ہے جس کو کوئی بادشاہ بھی نہیں بنا سکتا، جس نے مجھے یہ خلعت دی ہے اور میں اس کو تیری خاطر گندہ کر رہا ہوں مَیں اس کے متعلق اپنے خدا کو کیا جواب دونگا؟ یہ کہہ کر وہ دربار سے نکل گئے مگر وہ اتنے ظالم اور جابر تھے کہ جب مسجد میں گئے اور انہوں نے کہا کہ میں تو بہ کرنا چاہتا ہوں تو ہر ایک نے یہی کہا کہ کم بخت! کیا شیطانوں کی توبہ بھی کہیں قبول ہو سکتی ہے نکل جا یہاں سے۔
توبہ کی قبولیت
انہوں نے ہر جگہ پھرنا شروع کیامگر کسی کو یہ جرأت نہیں ہوتی تھی کہ ان کی توبہ قبول کرے۔ آخر وہ جنید بغدادیؒ کے پاس پہنچے کہ
اِس اِس طر ح مجھ سے قصور ہوئے ہیںاور اب میں توبہ کرنا چاہتا ہوں کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں قبول ہو سکتی ہے مگر ایک شرط پر۔ پہلے اسے مانو۔ شبلی نے کہا مجھے وہ شرط بتائیں میں ہر شرط ماننے کے لئے تیار ہوں۔ انہوں نے کہا اُس شہر میںجائو جہاں تم گورنر رہے ہو اور ہر گھر پر دستک دے کر کہو کہ میں تم سے معافی مانگتا ہوںاور جو جو ظلم تم نے کئے تھے ان کی لوگوں سے معافی لو۔ انہوں نے کہا منظور ہے۔ چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے ہر دروازہ پر دستک دینی شروع کر دی جب لوگ نکلتے وہ کہتے کہ مَیں شبلی ہوں جو یہاں کا گورنر تھا مَیں قصور کرتا رہا ہوں، خطائیں کرتا رہا ہوں اور تم لوگوں پر ظلم کرتا رہا ہوں اب میںاس کی معافی طلب کرتا ہوں۔ لوگ کہہ دیتے کہ اچھا ہم نے معاف کر دیالیکن نیکی کا بیج ہمیشہ بڑھتا اور رنگ لاتا ہے دس بیس گھروں سے گزرے تو سارے شہرمیں آگ کی طرح یہ بات پھیل گئی کہ وہ گورنر جوکَل تک اتنا ظالم مشہور تھا وہ آج ہر دروازہ پر جا جا کر معافیاں مانگ رہا ہے اور لوگوں کے دلوںمیں روحانیت کا چشمہ پُھوٹا اور انہوں نے کہا ہمارا خدا کتنا زبردست ہے کہ ایسے ایسے ظالموں کو بھی نیکی اور توبہ کی توفیق عطا فرمادیتا ہے۔ چنانچہ پھر تو یہ ہؤا کہ شبلیؒ جنیدؒ کے کہنے کے ماتحت ننگے پائوں ہر دروازہ پر جا کر دستک دیتے تھے لیکن بجائے اس کے کہ دروازہ کُھل کر شکوہ اور شکایت کا دروازہ کُھلتا اندر سے روتے ہوئے لوگ نکلتے اور کہتے تھے کہ آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں آپ تو ہمارے لئے قابلِ قدر وجود ہیں اور ہمارے روحانی بزرگ ہیں آپ ہمیں اس طرح شرمندہ نہ کریں۔ غرض سارے شہر سے انہوں نے معافی لی اور پھر وہ جنیدؒ کے پاس آئے اور انہوں نے توبہ قبول کی اور انہیں اپنے شاگردوں میں شامل کیا اور اب وہ مسلمانوں کے بڑے بڑے اولیاء میںسے سمجھے جاتے ہیں۔
خداتعالیٰ کے عطیہ کی بے حُرمتی
تو دیکھو! شبلی کو کس بات سے ہدایت ملی؟ اس بات سے کہ خدا نے ہم کو کیا
کچھ دیا ہے جس کو ہم گندہ اور ناپاک کر رہے ہیں مگر بادشاہ اس دربارِ خاص میں چند گزریشم کاٹکڑا چند سنہری تاگے لگے ہوئے یا چند موتی اور ہیرے جڑے ہوئے دیتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ لوگ خود چاہیں تو اس سے بہتر خلعت بنا سکتے ہیں مگر اس لئے کہ ان کی ہتک ہو گئی وہ انہیں ذلیل کر دیتا ہے۔ غرض ان خدمات کے بدلہ میں جو کچھ ملتا تھا وہ اتنا حقیر ہوتا تھا کہ اس کا خیال کر کے بھی انسان حیران ہو جاتا ہے کہ کیا انسان اتنا بھی ذلیل ہو جاتا ہے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے دَوڑتا پھرے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات ملتے ہیں ان میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ کبھی واپس نہیں ہو سکتے اور جس کو انعام ملتا ہے اس کی طاقت نہیںہوتی کہ وہ اس کی ہتک کرے بلکہ وہ ہمیشہ اس کی عزت کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے غیر متبدّل انعامات
دنیا میںکوئی ایک لاکھ بیس ہزار نبی جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
سے مروی ہے گزرا ہے ۵؎ اور معلوم نہیںکتنی دنیائیں ہیں اور کتنے اور نبی ہوں گے۔درجنوں پیغمبروں کے حالات تو ہمیں بھی معلوم ہیں مگر کیا تم نے کبھی سُنا کہ فلاں وقت میںفلاں پیغمبر صاحب کے مستعفی ہونے کا وقت آ گیا اور انہیں کہا گیا کہ آپ اب استعفاء دیدیں؟ یا کبھی تم نے سُنا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی پر خفا ہو کر کہاکہ اُتار لو اس کا خلعتِ پیغمبری اور اُس نے اسے چھوڑ دیا ہو؟ اس دربار میں سے جس کو ملتا ہے ہمیشہ کے لئے ملتا ہے اور جس کو ملتا ہے اس کے دل میںاپنے اس عُہدہ کو اتنی عظمت ہوتی ہے اور اتنی قدر ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کی قدر کرنے میں اس کی اس طرح مددکرتا ہے کہ وہ اس عُہدہ کو کبھی نہیں چھوڑتا اور نہ اس کی ہتک کرتا ہے۔
الٰہی دربار میں کسی چھوٹے سے چھوٹے
درباری کی ہتک بھی برداشت نہیں کی جا سکتی
پھر مَیں نے دیکھا کہ دُنیوی بادشاہوں کے دیوانِ خاص میں جو امراء ہوتے ہیں
ان میں باہم رقابتیں اوربُغض اور کینے پائے جاتے ہیںاور وہ ایک دوسرے کوگِرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس الٰہی دربار میںاگر کوئی بڑا ہے تو بڑے نے چھوٹے پرکیا حسد کرنا ہے وہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کسی چھوٹے کی ہتک ہو جائے یا اس کی کسی رنگ میں تنقیص کی جائے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جن کے مقابلہ میں موسیٰ ؑ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے، جن کے مقابلہ میں ابراہیم ؑ کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے، جن کے مقابلہ میں نوحؑ کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، ان موسیٰ ؑ اور ابراہیم ؑ اور نوحؑ سے کم درجہ رکھنے والوں اور موسیٰ ؑکے ماتحت نبیوں میںسے ایک یونس ؑ نبی ہیں کوئی یہودی کسی جھگڑے میں کہہ دیتا ہے کہ یونس ؑ بڑا آدمی تھامسلمان آگے سے کہہ دیتا ہے محمد رسول اللہ کے مقابلہ میں یونس ؑ کی کیاحقیقت ہے۔ اب بجائے اس کے کہ دربارِ خاص کا آدمی خوش ہو کہ میری عزت کی گئی ہے جب اس کو خبر پہنچتی ہے تو اس کا چہرہ سُرخ ہو جاتا ہے اور وہ کہتا ہے لَاتُفَضِّلُوْنِیْ عَلٰی یُوْنُسَ ابْنِ مَتّٰی۶؎ یونس ابن متّٰی پرمجھے فضیلت نہ دیا کرو۔ حالانکہ فضیلت ہے لیکن کسی درباری کی وہ ہتک برداشت نہیں کرتا وہ کہتا ہے چاہے وہ چھوٹا ہی سہی پر تم نے کیوں اس کو چھوٹا کہا؟ تمہارا کام یہی ہے کہ اس کی عزّت کرو کیونکہ وہ خدا کے درباریوں میںسے ہے۔
ابو البشر آدم کی پیدائش پر
دربارِ خاص کا انعقاد
اب میں ایک دربارِخاص کا ذکر کرتا ہوں جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
۷؎ فرمایا دربارِ شاہی لگا اور ملائکہ جمع ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقام ایک شخص کو عطا کیا تھا جس کی توثیق کی جانی تھی اور جس کے متعلق اس دربار میں آخری اعلان کرنا تھا۔ وہ مقام ابوالبشر آدم کے لئے تجویز کیا گیا تھا جسے عالَمِ انسانی میںجلوئہ الٰہی کی ایک نئی تجلی کے ظاہر کرنے کے لئے مقررکیا گیا تھا۔ ملائکہ نے اس بات کی ابتدائی خبر سن کر کہا کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اس انسان کی ضرورت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم تمہیں اس کی ضرورت عملی طور پر دکھا دینگے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے وہ تمام تجلیات جن کو وہ نئی شکل میں دکھانا چاہتا تھا آدم کے اندر ودیعت کر دیں اور پھر آدم کو ان کے سامنے بُلایا اور وہ تجلیات اس میںسے ظاہر ہوئیں۔ جس طرح فلم چلتی اور اس میں سے تصویریں نکلتی ہیں اسی طرح آدم کے وجود سے ان تجلّیات کا ظہور شروع ہؤا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے فرمایا کہ اگر تمہارا دعویٰ صحیح تھا تو تم مجھے بتائو کہ کیا تم ان تجلّیات کی پوری کیفیت بیان کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا اے خدا! تُو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی آتا ہے جتنا تُو نے ہمارے اندر رکھا ہے تُو سب کچھ جانتا ہے اور تیرے سارے کام حکمت پر مبنی ہیں جس کے سپرد تو کوئی کام کرتا ہے اُس کی طاقتیں بھی اس کے اندر ودیعت کر دیتا ہے۔ پھر فرمایا اے آدم! ہم نے جو علم تیرے اندر رکھے ہیں اور جو تجلیات تم سے ظاہر ہونے والی ہیں اُن کو ظاہر کرو۔ چنانچہ آدم نے ان تجلیاتِ مخفیہ کو اور ان صفاتِ انسانیہ کو جو اس کے لئے مخصوص تھیں ظاہر کیا پھر فرمایا میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ مجھے زمین وآسمان کی وہ باریک باتیں معلوم ہیں جو تم معلوم نہیں کر سکتے اور ایک ایسے نئے وجود کی ضرورت ہے جو میرے ان علوم کو ظاہر کر سکے جو تم پر ظاہر نہیں ہو سکتے۔
آدم کی اہلیت کا اعلان
یہ ایک دربار ہے جو اللہ تعالیٰ نے لگایا اس دربار کی غرض آدم کو مقامِ انسانیت پرفائز کرنا یعنی
اسے ابوالبشر بنانا تھا گویا یہ نہایت ہی اعلیٰ درباروں میںسے ایک دربار ہے گورنر کا تقرر ہو رہا ہے، بادشاہ بیٹھا ہے اور بتایا جارہا ہے کہ اس پریہ یہ ذمہ داریاں عائدکی گئی ہیں اور پھر بتایا جا رہا ہے کہ یہ ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے قابل ہے۔ دنیا کے درباروں میں تو جب کوئی کمانڈر مقرر کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہمیں تمہاری وفاداری سے امید ہے کہ تم ہماری خواہشوں کوپورا کروگے لیکن یہاں کہا جاتا ہے ہم نے اس کو مقر رکیا ہے اور ہم نے اس کا انتخاب غلط نہیں کیا جو کام ہم نے اس کے سپرد کیا ہے اس کا یہ اہل ہے اور یہ اسے کر کے دکھا دیگا۔
ظرفِ صحیح کے انتخاب کی اہمیّت
گویا خلاصہ اس دربا ر کا یہ تھا کہ ایک نیا گورنر مقرر ہو رہا تھا
دوسرے درباری اس انتخاب کی وجہ سمجھنا چاہتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سب علم ہماری طرف سے آتا ہے مگر اسے حاصل ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق کرتا ہے اور اگر ایک چوکونہ برتن ہو گا تو اس کے اندر جو پانی ہو گا وہ چوکونہ ہو گا، اگر ایک گو ل برتن ہو گا تو اس کے اندر پڑا ہؤا پانی بھی گول ہو جائے گا، اگر ہم پانی کو چوکونہ شکل میں دیکھنا چاہتے ہیںتو گول شکلوں والے کتنے بھی برتن ہمارے پاس لائے جائیں ہم کہیں گے یہ اس قابل نہیں کیونکہ ہم نے اس کو چوکونہ شکل دینی ہے۔ یا اگر فرض کرو کسی ایسی شکل میںہم اس کو دیکھنا چاہتے ہیں جیسے تکون ہوتی ہے تو بے شک چار گوشیہ برتن لائے جائیں اور کہا جائے کہ ان میں پانی پڑ سکتا ہے ہم کہیں گے پڑ سکتا ہے مگر ہم نے اس کو دیکھنا سہ گوشہ ہے۔ یا اگر ہماری غرض یہ ہے کہ جیسے ایک سینگ ہوتا ہے اسی طرح سینگ کی شکل میں پانی کو دیکھیںتو ا س غرض کے لئے ہم اسی قسم کے برتن کو پسند کریں گے جو سینگ کی شکل کا ہو گا۔یا اگر قُلفی جمانی ہو تو اب قُلفی کی شکل چاہے قُلفی کی ہو چاہے جُوتی کی مزہ ایک جیسا ہی رہے گا مگر ہمارے ملک میںقُلفی کی شکل کا رواج ہے اب اگر قُلفی بنانی ہو اور کوئی کہے کہ ٹِفن کیرئیر میںقُلفی جما لوتو دوسرا شخص کبھی نہیں بنائے گا وہ کہے گا قلفی لائو۔ مَیں اس بحث میںنہیں پڑتا کہ اس کی کیا حکمت ہے؟ بہرحال جس نے کام کرنا ہو وہ جس شکل کو پسند کرتا ہے اس قسم کا ظَرف لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ یہاں سوال ظرف کا ہے ہم جن صفات کو دُنیا میں ظاہر کرنا چاہتے ہیں وہ ظرف فرشتوں کا نہیں بلکہ آدم کا ہے۔
پھر انسان چیز بھی اپنے ظرف کے مطابق حاصل کرتا ہے اگر دو سیر والا ظرف ہو گا تو دو سیر چیز آئے گی، اگر چھ چھٹانک والا ظرف ہو گا تو چھ چھٹانک آئے گی، اگر ایک تولہ والا ظرف ہو گا تو ایک تولہ آئے گی۔ اِس نقطہ نگاہ سے بھی فرمایا کہ جس علم اور قانون کی اِس وقت ضرورت ہے اس کا ظرفِ صحیح یہی آدم ہے چنانچہ دیکھو! اس شخص کو ہم نے سکھایا اور سیکھ گیا یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ شخص قابل تھا اور فرشتے اِس جواب کو سن کر فوراً سر تسلیم خم کر دیتے ہیں اور سب کی تسلی ہو جاتی ہے۔ پھر انہیں حُکم دیا جاتا ہے کہ اب گورنر کے احکامات کو رائج کرو چنانچہ فَسَجَدُوْا ؎۸ سارے کے سارے تعمیلِ حکم میںلگ گئے اور سب نے اس حکم پر لَبَّیْکَ کہا اور فرمانبرداری اور امداد شروع کر دی۔
ایک اعتراض کا جواب
بعض لوگ فرشتوں کے ہمدرد بن کر اس آیت پر یہ اعتراض کیا کرتے ہیںکہ خداتعالیٰ نے آدم کو
سکھایا تو وہ سیکھ گیا فرشتوں کو نہ سکھایا وہ نہ سیکھے اس میںفرشتوں کا قصور کیا ہؤا ؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اصل سوال یہ تھا کہ خداتعالیٰ کی مختلف تجلّیات کے لئے مختلف آئینوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک تجلی کا آئینہ آدم ہے۔ فرشتے معلوم کرنا چاہتے تھے کہ وہ نئی تجلی کیا ہو گی جو کہ آدم کے ذریعہ ہی ظاہر ہوسکتی ہے؟ خداتعالیٰ نے وہ تجلی آدم پر ڈالی اور اس نے اسے صحیح طو ر پر اخذ کرلیا اور پھر اس کو اپنے جسم سے ظاہر کردیا فرشتے خاموش ہو گئے اور کہا کہ ہم سمجھ گئے ۔اصل مضمون نہیں بلکہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ اس تجلی کا حامل آدم ہی ہو سکتا تھا ہم نہیں ہو سکتے تھے۔
آدم کا کام اَور ہے اور
فرشتوں کا کام اَور
اصل حقیقت تو وہ اب بھی نہیں سمجھے جس دن اصل حقیقت سمجھنے لگ جائیں گے، اس دن وہ آدمی بن جائیں گے آج بھی فرشتہ اصل حقیقت کو نہیں سمجھا مگر
فرشتہ اتنا سمجھ گیا ہے کہ آدم کا کام اَور ہے اور میرا کام اَور ۔اگر فرشتے اسے نئی تجلی نہ سمجھتے تھے اور اگر وہ یہی سمجھتے تھے کہ آدم کو سکھایا تو وہ سیکھ گیا تو مَیں ان دانائوں سے جو فرشتوں کے وکیل بنتے ہیں پوچھتا ہوں کہ ا ن کی عقل کیوں ماری گئی۔اگر سوال یہی تھا کہ اس کو سکھایا وہ سیکھ گیا تو فرشتے کیوںنہ بولے وہ چُپ کیوں ہو گئے؟ ان کو کہنا چاہئے تھا کہ اس کو سکھایا یہ سیکھ گیا ہمیں سکھاتے تو ہم سیکھ جاتے مگر ان کی تو تسلی ہو گئی اور اس معترض کی ابھی تک تسلی نہیںہوئی اور پچاس ساٹھ ہزار سال سے جوا سے شبہ پیدا ہؤا ہے وہ ابھی دُور نہیں ہؤا ۔
آدم سے مختلف تجلّیات کا ظہور
اصل سوال کرنے والوں کا بیان ہے کہ ان کے لئے یہ سوال حل ہو گیا
کیونکہ وہ آگے سے نہیں بولے اور اسی لئے نہیں بولے کہ درحقیقت وہ احمق ہے جو سمجھتا ہے کہ یہاں انسانیت کے سمجھنے کا سوال تھا۔ انسانیت کے سمجھنے کا سوال نہیںتھا بلکہ فرشتوں کا سوال یہ تھا کہ وہ تجلّی جو آپ ظاہر کرنا چاہتے ہیں آیا ہم اس کے حامل نہیں ہو سکتے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں ہم تمہیں عملاً تجلّی کر کے دکھادیتے ہیں اس تجلّی کے بعد تم خود فیصلہ کر لینا کہ تم اسے ظاہر کر سکتے ہو یا نہیں۔ چنانچہ آدم سے مختلف تجلّیات کا ظہور ہؤا مثلاً ایک تجلی تو یہی ظاہر ہوئی کہ انسان دوزخ میںڈالا گیا فرشتہ دوزخ میں جا ہی نہیں سکتا۔آخر ابوجہل وغیرہ دوزخ میں گئے ہیں یا نہیں فرشتہ اس تجلی کو برداشت ہی نہیں کر سکتا یہ قہری تجلّی تھی جس کو برداشت کرنے کی صرف آدم میں طاقت رکھی گئی فرشتہ اس تجلی کا حامل ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ملائکہ سے تعلق رکھنے والی تجلیات اَور رنگ کی ہیں ان تجلیات کو ہم نہیں اُٹھا سکتے وہ فرشتوں کے لئے مخصوص ہیںاور ہمارے لئے انسان کی تجلیات مخصوص ہیں۔
پس فرشتوں کا یہ سوال ہی نہیں تھا کہ وہ کونسی تجلّی ہے جس کے اظہار کے لئے آدم پیداکیا گیا ہے بلکہ ان کا سوال یہ تھا کہ ایسی کونسی تجلّی ہے جو آدم ہی اُٹھا سکتا ہے ہم نہیںاُٹھا سکتے؟ جب آدم نے مختلف قسم کے افعال کا ارتکاب شروع کیا کسی نے خدا کو گالیاں دینی شروع کیں، کسی نے اس سے کھیل اور تمسخر شروع کیا، کسی نے نماز کا انکار کیا، کسی نے روزہ کاانکار کیا،کسی نے حج کا انکار کیا، کسی نے زکوٰۃ کا انکار کیا، کسی نے چوری کی، کسی نے ڈاکہ ڈالا تو فرشتوں نے کانوں پرہاتھ رکھے اور کہا کہ اس کے لئے یہ آدم ہی موزوں ہے ہم اس کے اہل نہیں اسی لئے قرآن کریم میںانسان کے متعلق ہی ۹؎کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، فرشتوں نے کہا ہم نہیں بن سکتے یہ آدمی ہی کی ہمّت ہے وہ بیشک بنتا پھرے۔
پس سوال یہ نہیںتھا کہ وہ نئی تجلی کیا ہے جس کا آدم کے ساتھ تعلق ہے بلکہ سوال یہ تھا کہ آیا انسان ہی اس تجلّی کا حامل ہو سکتا ہے؟ فرشتے نہیں ہو سکتے؟ خدا تعالیٰ نے عملاً تجلّی ظاہر کر کے دکھادی اور فرشتوں نے مان لیا کہ ہم میںاس کی اہلیت نہیں لیکن آج ہزاروں سال کے بعد ایک انسان اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ فرشتے بیوقوف تھے اُن بیوقوفوں کو سوال کرنا آیا تھا جو اب سمجھنا نہیں آیا حالانکہ فرشتوں کا چُپ ہو جانابتاتا ہے کہ فرشتوں کایہ سوال تھا ہی نہیں کہ آپ ہمیں سکھاتے تو ہم بھی سیکھ جاتے بلکہ فرشتوں کا سوال یہ تھا کہ وہ کونسی تجلّی ہے جس کا حامل انسان ہو سکتا تھا ہم نہیں ہو سکتے تھے۔ خدا کے بتانے یا نہ بتانے کا ذکر نہیں تھا بلکہ اس تجلی کے قابل وجود کا ذکر تھا۔
روحانی دربارِ خاص کی
بعض مخصوص کیفیات
اب میں اس دربار کی بعض مخصوص کیفیات کا ذکر کرتا ہوں۔
اوّل اس دربار میں بھی بادشاہ کے گِرد کچھ درباری یعنی ملائکہ نظر آتے ہیں۔
دوم وہ درباری کُلی طور پر بادشاہ کے کمالِ علم کے قائل ہیں دُنیوی دربارِ خاص میں تو بسااوقات کمانڈر سمجھتا ہے کہ بادشاہ اگر چھوٹی سے چھوٹی لڑائی کے لئے بھی جائے گا توہار جائیگا مگر اس دربار میں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ بادشاہ جانتا ہے وہ میں نہیں جانتا۔
سوم وہ اس سے زیادتی علم کے لئے بھی سوال کرتے رہتے ہیں گویا وہ صرف یہی نہیں جانتے کہ یہ ہر بات جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے بلکہ ان کے دل میں تڑپ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرتے جائیں اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنے آپ کو مقامِ تکمیل تک پہنچائیں۔ فرشتہ اپنی ملکیت کے لحاظ سے کامل ہونا چاہتا ہے اور انسان اپنی انسانیت کے لحاظ سے کامل ہونا چاہتا ہے مگر ترقی بہرحال موجود ہے کیونکہ استاد موجود ہے جب تک استاد موجود رہے گا شاگرد اس سے نئی نئی چیزیںسیکھتا رہے گا۔
چہارم باد شاہ ڈنڈے سے ان کو سیدھا نہیں کرتا جیسے دنیا میںکیا جاتا ہے بلکہ ان پر حقیقت کو واضح کرتا ہے اور ان کے سینوں کو روشنی بخشتا ہے۔
پنجم جب کسی نئے کام پر کسی کو مقرر کیا جاتا ہے تو تمام سامان اسے مہیا کر کے دئیے جاتے ہیں۔ دنیا میں تو یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بادشاہ کی طرف سے کسی کو مقرر کیا جاتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اب فوج بھرتی کرو یا لڑائی کے لئے سامان مہیاکرو مگر وہاں ساری چیزیںوہ خود مہیا کرکے دیتا ہے۔
ششم اس دربار کے درباری ایسے ہیں کہ بجائے رقابت میں مبتلاء ہونے کے وہ افسر مقررہ کی پوری طرح اعانت کرتے ہیںاور اس سے مخلصانہ تعاون کرتے ہیں چنانچہ فرشتوں کے متعلق فرماتا ہے کہ فَسَجَدْوْا جب انہیں تعاون کے لئے کہا گیا تو انہوں نے تعاون کرنا شروع کر دیا اور جس نے تعاون نہ کیا اُس کو خود بادشاہ نے سزادی اور اُس کی شرارت کو بے ضرر کر دیا۔
قرآن کریم میںایک
اور دربارِ خاص کا ذکر
اب میں ایک اور روحانی دربارِ خاص کا ذکر کرتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتاہے:-
۱۰؎
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی
بعثتِ عظمیٰ کا دربارِ خاص میں اعلان
اس جگہ پھر ایک آدم کی پیدائش کا ذکرکیا گیا ہے مگر جیسا کہ سیاق وسباق سے ظاہر ہے یہ آیات قطعی طور پر
ثابت کرتی ہیں کہ یہاں وہ آدم مراد نہیں جس سے نسلِ بشر کا آغاز ہؤا بلکہ اس جگہ آدم سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے چنانچہ دیکھو ان آیات کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ۔تُو ان سے کہہ دے کہ مَیں خدا کی طرف سے ایک تنبیہہ کرنے والے کی حیثیت سے آیا ہوں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد اور قہّار ہے۔ اس کے بعد فرماتا ہے وہ آسمان اور زمین کا ربّ ہے اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی ربّ ہے اور وہ بڑا غالب اور بخشنے والا ہے۔ تُو کہہ دے کہ یہ ایک عظیم الشان چیز ہے جس سے تم اِعراض کر رہے ہو اور مجھے کیا خبر ہے کہ فرشتے آسمان پر کس کے تقرر کے بارہ میں بحثیں کر رہے تھے مجھے آسمان سے وحی آ گئی اور پتہ لگ گیا کہ مَیں خدا کی طرف سے نذیر ہوں۔ دیکھو! جب خدا نے فرشتوں کو بُلایا اور ان سے کہاکہ میں ایک بہت بڑے انسان کو مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں جب میں اس کو پیدا کر لوں اور وہ اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جائے اور کلامِ الٰہی اس پر نازل ہو جائے تو تم فوراً اُس کی مدد کرنے لگ جائو۔
اب دیکھو یہاں کسی پہلے آدم کا یا پیدائشِ عام کا ذکر نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ان کی بعثت کا ذکر ہے اور پھر جہاں یہ ذکر ختم ہوتا ہے وہاں بھی ان باتوں کو بیان کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یعنی خدا نے کہا اور میں مقرر ہو گیا۔مَیں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں۔ اگر ابوالبشر آدم کا یہاں ذکر ہوتا تو آدم کو کہنا چاہئے تھا کہ خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے مگر بنایا آدم کو اور کہہ رہے ہیںمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اِن دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہؤا۔ اِس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آدم سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
قرآنی اصطلاح میںآدم سے مراد
درحقیقت قرآن کریم میںآدم کا جو لفظ استعمال ہؤا ہے وہ
خالی ایک نام نہیں بلکہ آدم ایک عُہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کیا جاتا ہے۔ اِس عُہدہ کے لحاظ سے جو آدمی بھی اِس پر مقرر ہو جائے وہ آدم کہلاتا ہے اور قرآن کریم کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عُہدہ اُس شخص کو دیا جاتا ہے جس سے کسی چیز کی ابتداء ہو۔ جب کوئی ایسا سلسلہ قائم کیا جائے کہ جس نے قیامت تک جاری رہنا ہو اور اس سے متواتر تنوّع پیدا ہونا ہو اور نئی نسلیں پیدا ہونی ہوںتو اُس کا نام آدم رکھا جاتا ہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
بھی ایک عظیم الشان آدم ہیں
آدمِ اوّل دورِ بشری کا آدم تھا جس سے نسلِ انسانی چلی اور کروڑوں کروڑ آدمی اِس دنیا میںپھیل گئے۔ اِس طرح محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک آدمؑ تھے جن سے ایک روحانی نسل کا آغاز ہؤا۔ جس طرح آدمؑ کے پیدا ہونے کے بعد جِنّ اور بُھوت وغیرہ سب غائب ہو گئے اور انسانی نسل چل پڑی اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے کے بعد پہلے سارے نبیوں کی نسلیں ختم ہو گئیں اور وہ بے اولاد ہو گئے گویا بعینہٖ اِسی طرح ہؤا جس طرح وہاں ہؤا تھا۔ جس طرح وہاں صرف آدم کی نسل چلی اسی طرح یہاں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی نسل چلی اور باقی نسلیں منقطع ہو گئیں۔ ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے آدمی تو دنیا میں کروڑوں کروڑ پھرتے ہیں ، ان کی نسلیں منقطع کس طرح ہوئیں؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ آدمی وہ ہوتے ہیں جو زندہ ہوں۔ جن کے اندر روحانیت نہیں، جن کے اندر خدا کا خوف نہیں، جن کا خداتعالیٰ سے تعلق نہیں، جن کو خداتعالیٰ کا قُرب حاصل نہیں حالانکہ یہی باتیں انسان کی پیدائش کامقصد ہیںوہ آدمی کہاں ہیں۔ اب آدمی وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے کیونکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میںسے ہے، باقی صرف جانوروں کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ خدا سے دُور ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السّلام
کو آدم قرار دینے میں حکمت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی جو آدم کانام دیا گیا ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ آپ کو خداتعالیٰ کی طرف سے خَاتَمُ الخلفاء
قرار دیا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اب جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکپہنچنا چاہے اُس کے لئے آپ کی غلامی اختیارکرنا ضروری ہے۔ جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص خدا تک پہنچنا چاہے تو وہ نہیںپہنچ سکتا جب تک وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے کیونکہ اب وہی نسل سمجھی جاتی ہے باقیوں کے متعلق سمجھاجاتا ہے کہ وہ ہیں ہی نہیں اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد وہی محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سچے متبع سمجھے جائیں گے جو مسیح موعود کو مانتے ہیں اسی لئے آپ کا نام بھی آدم رکھا گیا۔
بہرحال ان آیات میںبتایا گیا ہے کہ مَیں خدا کا رسول ہوں اورمیرے ساتھ بہت بڑے واقعات وابستہ ہیں۔ مَیں عالَمِ روحانی کی مکمل سکیم کے ماتحت پیدا کیا گیا ہوں اور جب دربارِ خاص میں فرشتے بحث کر رہے تھے تو میں اُس وقت موجود نہ تھا۔ اس دربار میںمجھے چُنا گیا اور آسمانی بادشاہت کے دشمنوں کے خلاف مجھے نذیر یعنی کمانڈر اِنچیف مقرر کیا گیا۔
مَلَأِاعلیٰ کے فرائض
اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سعید روحوںکے اثرات آسمان پر جمع ہونے شروع ہوتے ہیں اور الٰہی احکام کے
نازل ہونے سے پہلے ملائکہ بھی فطرتاً ایک معیّن وجود کی طرف مائل ہونے شروع ہو جاتے ہیںاور خداتعالیٰ سے دعا کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے ہدایت کے کام کو آسان کرنے کے لئے اِس وجود کو مقرر فرما۔گویا ملائکہ کے جہاں اَور کام ہیںوہاں جیسے فون میں تم نے دیکھا ہو گا کہ جب کسی کو فون کیا جاتا ہے تو درمیان میں کنٹیکٹ (CONTACT) کرنے والے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ کنکشن کو فون کرنے والے کے ریسیور (RECEIVER) سے ملا دیتے ہیں جس سے دونوں کا آپس میں تعلق قائم ہو جاتا ہے اِسی طرح قرآن کریم کی اِن آیتوں سے پتہ لگتا ہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک واسطہ ہے اور اِس کنکشن بورڈ (CONNECTION BOARD) کانام مَلَأِاعلیٰ ہے۔ خداتعالیٰ جب کوئی بات بندوں تک پہنچانا چاہتا ہے تو بخاری میں آتا ہے کہ خداتعالیٰ پہلے وہ بات جبرئیل کو بتاتا ہے پھر وہ نچلے فرشتوں کو بتاتا ہے ، پھر وہ اس سے نچلے فرشتوں کو بتاتے ہیں یہاں تک کہ وہ زمین تک پہنچ جاتی ہے گویا خدا جب کوئی بات دنیا میں پھیلاناچاہتا ہے تو پہلے وہ مَلَأِاعلیٰ کو بتاتا ہے۔ اِسی طرح زمین سے آسمان پر جب کوئی بات جاتی ہے تو پہلے وہ مَلَأِ اعلیٰ میںجاتی ہے اور پھر وہ خدا کے سامنے پیش ہو کر آخری فیصلہ ہوتا ہے۔
خداتعالیٰ کا انتخاب ہمیشہ
قابلیّت کی بناء پرہوتا ہے
اِسی نُکتہ سے ہم کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ جو لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یونہی اندھا دُھند نبی بنا دیتا ہے یہ بات غلط ہے۔ بعض لوگ کہتے ہی کہ
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نَعُوْذُ بِاللّٰہِ خدا عاشق ہو گیا تھا۔ پنجابی شعرپڑھو تو ان میں یہی مضمون ہوتا ہے کہ ’’او کملی والیا تیرے تے رب عاشق ہو گیا‘‘۔ حالانکہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں جب خرابی پیدا ہوتی ہے تو فرشتے انسانی روحوں کے ساتھ چھُونا شروع کرتے ہیں اور چُھو کر محسوس کرتے ہیں کہ کس روح میں کیا قابلیت ہے؟ پھر وہ مختلف اثرات لے کر ریکارڈروم میںجمع ہوتے ہیں اور اس میںان کی توجہ ایک روح کی طرف مرکوز ہو تی چلی جاتی ہے اور آخر تمام روحوں میں سے جو مکمل روح انہیں نظر آتی ہے اُس کے چُنے جانے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور ایک وجود پر ان کا اتحاد ہو جاتا ہے کہ یہ روح ہے جس سے ہماری روحیں ملتی جُلتی ہیں۔ جب وہ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُس شخص کو خدمت کے لئے مقرر کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ تو عالمُ الغیب ہے اسے ضرورت نہیں کہ وہ ایسا کرے لیکن چونکہ اُس نے فرشتوں سے خدمت لینی ہوتی ہے اِس لئے ان کے اندر بشاشت پیدا کرنے اور محبت پیدا کرنے اور ہمدردی پیداکرنے کے لئے اُس نے یہ طریق رکھا ہے کہ وہ پہلے فرشتوں کو غور کرنے کا موقع دیتا ہے تا کہ و ہ سجھیں کہ ان کا بھی انتخاب میںحصہ ہے اس کے بعد حکم نازل ہوتا ہے اور وہ چونکہ ان کے منشاء کے ماتحت ہوتا ہے اس لئے ان کی تسلی ہو جاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ثُمَّ یُوْضَعُ لَہُ الْقُبُوْلُ فِی اْلاَرْضِ۱۱؎ پِھر ایسے انسان کی قبولیت دنیامیں پھیلا دی جاتی ہے اور لوگ اس کو ماننے لگ جاتے ہیں۔اِ س سے پتہ لگ گیا کہ درحقیقت وہ قابلیت کی بناء پر ہی نبی ہوتا ہے اگر قابلیت کی بناء پر نہ ہوتا تومَلَأِاعلیٰ کے دنیا سے معلومات حاصل کرنے کے کیا معنے؟ پھر تو خدا آسمان پر بیٹھا ہؤا کہہ دیتا فلاں نبی بن جائے اور وہ بن جاتا۔
بہرحال ان آیات سے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ پیدائشِ انسانی کے بعد کاتھا اور سلسلۂ نبوت کے جاری ہونے کے بعد کا تھاکیونکہ اِس آیت میںفرشتوں کا جوسوال تھا اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا۔ جہاں آدم اوّل کی پیدائش کا ذکر ہے وہاں اس سوال کا بھی ذکر ہے کہ آپ کیوںپیدا کرنا چاہتے ہیں مگر یہاں یہ وہ سوال نہیںکرتے کیونکہ وہ سوال ایک دفعہ ہو چکااورحل ہو چکااب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر کوئی وجہ نہیں تھی کہ پھر دوبارہ وہی سوال کیا جاتا کیونکہ ملائکہ کا رُجحان خود وجودِ محمدؐی کی طرف آپ کی بعثت سے پہلے ہو چکا تھا۔ اب خدا نے بتا دیا کہ ہم اِس شخص کو نبی بنانے لگے ہیںجب ہم نبی بنائیں اور یہ اُس عمر کوپہنچ جائے کہ خدا کی وحی اس پر نازل ہونے لگے تو فوراً اس کے کام میں مدد دینے کے لئے کھڑے ہوجانا اوروہ کہتے ہیں اٰمَنَّا وَصَدَّقْنَا۔
ملائکہ کا شیطانی عنصر سے اختصام
یہاںیہ سوال رہ جاتا ہے کہ فرشتوں کے متعلق یَخْتَصِمُوْنَ کا لفظ کیوں آتا ہے۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ کیا جھگڑا کرتے تھے؟ صوفیاء نے اس پر بحث کی ہے کہ اختصام کیا تھامگر وہ اس مضمون کو اس طرح بیان نہیں کرتے جس طرح میں نے بیان کیا ہے ورنہ شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی اس مضمون کو لیا ہے اور پُرانے صوفیاء نے بھی ۔ وہ کہتے ہیں کہ فرشتوں میںیہ سوال اُٹھتا ہے تو و ہ یہ بحثیںکرتے ہیں کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں ؟ مگر میرے نزدیک یہ غلط ہے جھگڑا تب ہوتا جب اختلاف ہوتا یا ووٹنگ والا سسٹم ہوتا مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں فرشتے تأثرات کو قبول کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کی توجہ ایک روح پر مرکوز ہو جاتی ہے اور چونکہ الٰہی منشاء بھی وہی ہوتا ہے اس لئے الٰہی حکم صادر ہو جاتا ہے اور وہ دنیا میں نافذ ہو جاتا ہے مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یَخْتَصِمُوْنَ کا لفظ کیوں آیا ہے؟
سو یا د رکھنا چاہئے کہ میرے نزدیک یہاں یَخْتَصِمُوْنَ کا ذکر اس رسول کے متعلق نہیں یعنی یہ نہیں کہ فرشتے اس رسول کے متعلق جھگڑ رہے تھے کہ یہ رسول بنے یا وہ بنے بلکہ وہ اس شیطانی عنصر کے سا تھ جھگڑر ہے تھے جس نے اس رسول کی مخالفت کرنی تھی گویا فرشتوں نے جب وجودِ محمدؐ ی میں نورِا لٰہی دیکھنا شروع کیا تو فوراً شیطانی طاقتیں جو راستہ میں حائل ہونے کے لئے جمع ہو رہی تھیں ان سے انہوں نے جھگڑنا شروع کر دیا پس یَخْتَصِمُوْنَ کا لفظ رسالت کے متعلق نہیں بلکہ یہ اختصام شیطانوں کے متعلق ہے اور انہی کے ساتھ ان کا سارا جھگڑا ہے۔
پس یَخْتَصِمُوْنَ کے معنے یہ ہیں کہ جُوں جُوں اُنہیں پتہ لگتا چلا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس عُہدہ کے قابل ہے شیطانی طاقتیں جو مقابل میں کھڑی ہوتی ہیں ان سے لڑائی شرو ع کر دیتی ہیں یہاں تک کہ خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت آخری جنگ میںشیطانی طاقتیں شکست کھا جاتی ہیںاور خداتعالیٰ کی حکومت دنیامیںقائم ہو جاتی ہے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کا الٰہی دربار میں شاندار اعزاز
اب ہم اس دربارِ خاص کا ذکر کرتے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز کے لئے منعقد ہؤا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے
آپ کے انتہائی قُرب کے مقام کو ظاہر کیا اور بتایا کہ آپ کو دوسرے درباریوں پرکیا فضیلت حاصل ہے۔ پہلے اُس دربار کا ذکر کیا گیا تھا جس میں آپ کا انتخاب عمل میں لایا جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہم آپ کو اس منصب پر مقرر کر رہے ہیںاب اسی دربار کے دوسرے حصہ میں یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کا کتنا بڑا اعزاز کیا گیا۔
محبت اور اتحاد کا کمال
اللہ تعالیٰ سورہ نجم میں فرماتا ہے
۱۲؎ یعنی بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا اور پھر وہ درباری اس کے قریب ہؤا جس کے بعد بادشاہ اپنے عرش سے اُتر کر اُ س کے پاس آ گیا اور اتنا اُس کے قریب ہو گیا کہ یوں نظر آتا تھا جیسے دو قَوسیں آپس میں ملا کر کھڑی کر دی گئی ہیں۔گویا دربار لگا بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا اور اُس نے اپنے اس درباری کو بلایا جس کے لئے دربارِ خاص منعقد کیا گیا تھا اور حکم بھیجا کہ ہمارے دربار میںحاضر ہو جائو ہم تمہارا اعزاز کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں تک تو باقی بادشاہوں سے بات ملتی ہے لیکن دنیا کے درباروں میںکبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کو کسی عُہدے پرمقرر کیا جاتا ہے وہ کھِسک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں اس کا اہل نہیں۔
لیکن اِس دربار کے متعلق فرماتا ہے کہ خدائی حکم کے ملتے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خداتعالیٰ کے قریب ہو گئے اور دوسرے درباروں کے خلاف جن میں بادشاہ اپنی جگہ سے کھِسکتا نہیں خداتعالیٰ عرشِ عظیم سے اُتر کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا اور اتنا قریب ہؤا کہ یوں نظر آتا تھا گویا دو قَوسیں آپس میںملا کر کھڑی کر دی گئی ہیں۔
دوسری جگہ عام انسانوں کے متعلق بھی خداتعالیٰ کا یہ فعل موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے ۱۳؎ اَبصَار خدا تک نہیں پہنچتیںکیونکہ وہ ناکام رہ جاتی ہیں مگر خدا خود لوگوں کی آنکھوں تک پہنچ جاتا ہے۔
قَابَ قَوْسَیْنِِ کا نظارہ
غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا اور آپؐ اس کی خدمت میںحاضر ہونے کے لئے
چلے مگر جب چلے تو اللہ تعالیٰ اپنی محبت کے جذبہ میںاپنی جگہ پر نہ ـٹھہرا بلکہ آپ نیچے اُتر آیا۔ اور اُس نے اُتر کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم تجھے اپنا گورنر بنانا چاہتے ہیں مگر ہماری گورنری ایسی نہیں ہوتی جیسی دنیا کی گورنریاں ہوتی ہیں ہم تجھے گورنر بھی بنانا چاہتے ہیں اور اپنا دوست بھی بنانا چاہتے ہیں۔ اب ہم دونوں کی قَوسیں ایک ہو گئی ہیں۔ اے محمد! (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کچھ تیرے بھی دشمن ہوں گے اور کچھ میرے بھی دشمن ہونگے آخر ہرایک کے دشمن ہوتے ہیں کچھ میرے بھی دشمن ہیں یعنی توحید کے منکر اور کچھ تیرے بھی دشمن ہیں یعنی انسانیت اور اخلاق اورشرافت کے دشمن ۔ تجھے بھی ضرورت ہے ان پر تیر چلانے کی اور مجھے بھی ضرورت ہے اپنے دشمنوں پرتِیر چلانے کی۔ پس آ! ہم دوست بنتے ہیں اب ہم دونوں اپنی کمانیں جوڑ لیتے ہیں اور ان دونوں کمانوں کاایک ہی وتر ہوگا یعنی وہ تار جو کمان میں ہوتی ہے ایک ہو گی اور پھر تیرا تیر بھی اور میرا تیر بھی اکٹھا ایک ہی طرف چلے گا، یہ کتنی دوستی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اظہار فرمایا۔
مقام محمدؐیت کی بلندی
پھر فرماتا ہے ۔ عربی زبان میں یا کے معنے بھی دیتا ہے اور ترقی کے
معنی بھی دیتا ہے گویا پہلے توتیرا تیر بھی اورمیرا تیر بھی ایک طرف چلتا تھا مگرپھر اس سے بھی ترقی ہوئی اور وہ ترقی یہ ہے کہ پہلے تو دوقَوسیں تھیں اور دشمن بھی دو ہی تھے یعنی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادشمن اور خدا کا دشمن۔ بیشک تیراکٹھا چلتا تھا مگر دشمن دو تھے پھر وہ دونوں ایک ہو گئے یعنی قَوسیں بھی ایک بن گئیں اور ہاتھ بھی ایک بن گیاتیر بھی ایک بن گیا اور دشمن بھی ایک بن گیا۔
اِسی کی طرف دوسری جگہ قرآن کریم میںاس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ ۱۴؎ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم اورتُو دونوں اس طرح اکٹھے ہو چکے ہیں کہ تُو نے جو بدر کی جنگ میںپتھر پھینکے تھے وہ تُو نے نہیں پھینکے بلکہ ہمارا ہاتھ تھا جو ان کو پھینک رہا تھا۔ گو یا پہلا اتحاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا کے درمیان یہ ہؤا کہ دو قَوسوں سے ایک تیرچلنا شروع ہؤا اور پھر آخری اتحاد قوسوں کا آپس میں مدغم ہو جانا اور پھر ہاتھوں کا بھی آپس میں مدغم ہو جانا تھا گویاہاتھ بھی ایک ہو گئے، قَوس بھی ایک ہو گئی، دشمن بھی ایک ہو گیا اور تیر بھی ایک ہو گیا۔
عجیب دربار
یہ کیسا عجیب دربار ہے کہ ابھی کام شروع بھی نہیں کیا اور پہلے ہی دوستانہ تعلق اور پیار ہو گیاکیوں؟ اس لئے کہ دُنیوی بادشاہ جب کسی
کو جرنیل مقرر کرتے ہیںتو کہتے ہیں معلوم نہیں وہ شکست کھا کر آتا ہے یا فتح حاصل کر کے؟ پہلے پتہ تو کر لینے دو۔ مگر یہ دربار ایسا ہے جس میں بادشاہ کو پہلے ہی پتہ ہوتا ہے کہ میرا جرنیل جیت کر آئے گا اس لئے اگر اسے پہلے سے ہی انعام دے دیں تو اس میںکوئی حرج نہیں، بہرحال اِسی نے جیتنا ہے۔
بادشاہوں کے خلاف
درباریوں کی سرگوشیاں
پھر ہم دُنیوی بادشاہوں کے دربار میں جا کر دیکھتے ہیں تو وہاں بعض دفعہ عجیب تماشہ نظر آتا ہے۔بادشاہ بیٹھا ہؤا ہوتا ہے اور دُورکناروں پر لوگ آپس میں
کُھسر پُھسر کر رہے ہوتے ہیں کہ فلاں جس کو بادشاہ نے مُنہ چڑھایا ہؤا ہے بڑا خبیث آدمی ہے۔ دیکھنا کسی دن بادشاہسے دھوکا کر کے رہے گا۔ یہ فلاں شہزادہ کا دشمن ہے، فلاں بیوی پر اِس کو بدظنی ہے خبر نہیں کیا کرے گا غرض اِدھر دربار لگا ہؤا ہوتا ہے اور اُدھر سرگوشیاں ہو رہی ہوتی ہیں۔اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دربار لگا ہؤا ہے بادشاہ آیا اور اُس نے کسی کو خلعت دیا جب اسے خلعت دے کر رُخصت کیا تو کسی درباری نے کہا حضور! اگر یہ طاقت پکڑ گیا تو آپ کے خلاف کھڑا ہو جائے گا اور آپ کونقصان پہنچائے گا۔ بادشاہ جواب دیتا ہے مَیں خوب جانتا ہوں لیکن موقع دیکھ رہا ہوں موقع پر گردن پکڑلونگا۔
آسمانی دربار کی ایک سیر
ہم اس آسمانی دربار کو بھی جا کر دیکھتے ہیں کہ کیا یہاں بھی وہی کچھ ہے کہ اِدھر گورنری دی جا رہی ہے اور
اُدھر سازشیں اور شکایتیں ہو رہی ہیں اور گورنروں کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں؟ سو قرآن کریم کی اجازت سے میں تم کو اس دربارِ خاص میں لے جاتا ہوں ورنہ اس دربار میں ہر ایک کو جانے کی اجازت نہیں۔ ہم اس دربار میںجاتے ہیں،دروازہ کھولتے ہیں اور اندر سَر ڈال کر دیکھتے ہیں کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ کیا گورنروں کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں، ان پر جرح وقدح ہو رہی ہے یا ان کے نقائص بیان کئے جا رہے ہیں یا تعریفیں ہو رہی ہیں؟ ہم جب اندر سر ڈالتے ہیںاور دیکھتے ہیںکہ کیا ہو رہا ہے تو ہمارے سر ڈالتے ہی ہمارے کان میں ایک آواز آتی ہے کہ آ جائو بے شک آئو کوئی حرج نہیں ہم جو کام کر رہے ہیںوہ تم کو بھی بتاتے ہیں تم بھی وہی کام کرو۔۱۵؎
اس دربار میں بجائے گورنر کی شکائتیں ہونے کے، بجائے اس پر الزام قائم کرنے کے بجائے، اس کے متعلق شبہات پیدا کرنے کے ہم جو دیکھتے ہیں تو بادشاہ بھی اُس پر برکات نازل کرنے میںلگا ہؤا ہے اور درباری بھی اس کے لئے دعائیں کر رہے ہیں اور ہم جو چوری چھُپے دیکھنے جاتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم بھی درود پڑھو اور سلام بھیجو۔
اخلاص اور محبت کے نظارے
کیا اخلاص اور کیسی سچی محبت اورکیسے سچے تعلق کا دربا ر ہے کہ جس پرہر شخص
اعتبار کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یہاں نہ میرے ساتھ غداری کی جائے گی ، نہ میرے دوستوں کے ساتھ غداری کی جائے گی، نہ میرے ساتھیوں کے ساتھ غداری کی جائے گی، اس دربار میں خالص سکّہ ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کام کر رہی ہے۔ دوسرا حصہ درباریوں کی برطرفی کا ہوتا ہے وہ مَیں بتا چکا ہوںکہ برطرفی اِس دربار میں ہوتی ہی نہیں۔ درباری ختم بھی ہو گیا مر گیا نوحؑ کسی زمانہ میں پیدا ہؤ ا اور ختم ہو گیا، اس کی نسل کا بھی پتہ نہیں، اس کی حکومت کوئی نہیں ، مذہب کوئی نہیں، تعلیم کوئی نہیں لیکن مجال ہے جو نوحؑ کو کوئی گالی دے سکے، جھٹ خدا کے فرشتے اُس کی گردن پکڑ لیتے ہیں کہ خدا کے گورنر کو گالی دی جا رہی ہے!!
دربارِ خاص کی دوسری غرض
دوسری غرض دربارِ خاص کی یہ ہوتی ہے کہ بادشاہ اپنے وزراء اور امراء کو خاص امور کے بار ہ میں
مشورہ دے اور بتائے کہ انہوں نے اِن اِن ہدایتوں کے ماتحت کام کرنا ہے تا کہ وہ اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کر سکیں۔ چنانچہ اب اس دربار کاذکر کیا جاتا ہے جس میں عُہدئہ رسالت کی تفویض کے احکام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دئیے گئے اور بتایا گیا کہ آپ نے دنیا میںکیا کرنا ہے اور کس طرح اپنے فرائض کو سرانجام دینا ہے۔
دُنیوی بادشاہوں کے مشوروں کی حقیقت
ہم دیکھتے ہیں کہ دُنیوی درباروں میں اوّل تو بادشاہ خود
مشورہ کا محتاج ہوتا ہے اور پھر جو وہ مشورے دیتا ہے بِالعموم غلط بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات اُن مشوروں سے وزراء کو اتفاق نہیں ہوتا اور بعض دفعہ وہ اُن پر عمل ہی نہیں کر سکتے اور سب کا م خراب ہو جاتا ہے مگر یہ ایسا دربار ہے جس کا بادشاہ کسی کے مشورہ کا محتاج نہیں۔
کامیابی کے متعلق تذبذب کی کیفیت
پھر دُنیوی دربارِ خاص میں بادشاہ ایک افسر کو بلاتا ہے تو اس سے کہتا
ہے کہ ہم تمہاری وفاداری پر یقین کرکے تم کو فلاں عُہدہ پر مقرر کرتے ہیں امید ہے تم ہمارے اعتبار کے اہل ثابت ہو گے تم فلاں فلاں کام دیانتداری سے کرو اور اگر تم اس میںکامیاب ہو جائو گے تو ہم تم سے بہت خوش ہونگے۔ مَیں پہلے بتا چکا ہوں کہ وہ خوشی کتنی حقیر ہوتی ہے مگر بہرحال یہی سہی لیکن ان کلمات میں بھی کتنی کمزوری پائی جاتی ہے۔ اوّل بادشاہ کہتا ہے ہم تم کو چُنتے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ تم کامیاب ہو گے گویا بادشاہ اُس کو ایک تخمین(یعنی اندازہ) سے چُنتا ہے اور پھر اس شک میں رہتا ہے کہ معلوم نہیں وہ کامیاب بھی ہو گا یا نہیں۔ لیکن اِس الٰہی دربار میں کوئی شک نہیں ہر شخص کو یقین کے ساتھ چُنا جاتا ہے اور یقین کیا جاتا ہے کہ وہ کامیاب ہو گا اور یقین کے ساتھ کہاجاتا ہے کہ وہ کیوں کامیاب نہیں ہو گا جب کہ ہم اس کے ساتھ ہیں۔
بڑے بڑے جرنیلوں کی ناکامی
دنیا میں بسا اوقات بڑے بڑے جرنیل بڑے نکمّے ثابت ہوتے ہیں چنانچہ دیکھ لو
پچھلی جنگِ عظیم میں کس طرح جرنیل بدلے گئے۔ پہلی جنگ عظیم میںتین جرنیل یکے بعد دیگرے بدلے گئے تھے دوسری جنگ عظیم میں بھی ایسا ہی ہؤا۔ ابھی تازہ واقعہ دیکھ لو میکارؔتھر نے کوریا کی جنگ میں کتنا بڑا شُہر ہ حاصل کیا تھا لیکن ٹرومین سے اس کا اختلاف ہو گیااور لوگوں نے اس کے کان بھرنے شروع کر دئیے کہ اگلی پریذیڈنٹی کے لئے یہ کھڑا ہو نا چاہتا ہے اور آپ کا مدِّمقابل بننا چاہتا ہے چنانچہ جھٹ فساد کی تاریں چھُوٹنی شروع ہوئیں ا ور اُسے نکال کر باہر پھینک دیا اب اُسے کوئی پوچھتا بھی نہیں۔
دوسرے دنیا میںجب کسی جرنیل پر بھروسہ کیا جاتا ہے تو وہ بھروسہ خیالی اور شکّی ہوتا ہے جو آگے چل کر غلط ہو جاتا ہے اور بعض جگہ وہ شکست کھا جاتا ہے یا بعض جگہ وہ کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اتنا نتیجہ نہیںنکلتا جتنے نتیجہ کی امید کی جاتی ہے۔ اور بعض دفعہ وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو خود بادشاہ کے خلاف لڑنا شرو ع کر دیتا ہے۔دوسری قوموں کو جانے دو مسٹر چرچل کو ہی دیکھ لو۔ اس نے گزشتہ جنگ میںکتنی بڑی قربانی کی مگر چندمہینوں کے اندر اندر اس کے ملک نے اسے ایسی خطرناک شکست دی کہ پارلیمنٹ میںاس کی اور اس کے ساتھیوں کی پارٹی نہایت ہی قلیل رہ گئی۔ پھر ہندوستان میں گاندھی جی نے کہا کہ مجھے اندر سے آواز آتی ہے اور لگے نبیوں کے سے دعوے کرنے آخر انہی کے ایک چیلے نے اُٹھ کر انہیں پستول مار دیا۔
قرآنی دربارِ خاص میں
گورنر جنرل کی ہدایات
لیکن اب قرآنی دربار کی سُن لو یہاں ایک بڑے بھاری جرنیل کا تقرر ہو تا ہے اسے دربارِ خاص میںبُلایا جاتا ہے اور اعلان پڑھا جاتا ہے کہ
ہم نے آپ کو مقرر کیا اب ہم آپ کو ہدائتیں دیتے ہیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے کس طرح کرنا ہے اور کس کس طریق سے اِس کام کو سرانجام دینا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے ۱۶؎
میلاد النبیؐ کے وعظ
یہ آیات تو قرآن کریم میںتیرہ سَوسال سے موجود ہیں اور علماء نے اِن آیات کی تفسیریں بھی لکھی ہیں لیکن آجکل
کل کے مولویوں کے وعظ خصوصاً میلادالنبی ؐ کے تم نے سنے ہی ہوں گے ، جب وہ ان آیات کی تفسیر شروع کرتے ہیں تو کہتے ہیں۔
؎ او کملی والیا! اے زُلفاں والیا !اے کملی والیا!
ایک ہندو وکیل سے گفتگو
مَیں ایک دفعہ فیروز پور گیاوہاں ایک ہندو وکیل جو اچھا ہوشیار اور آریہ سماج کا سیکرٹری تھامجھ سے ملنے
کے لئے آیا اور کہنے لگا آپ کہتے ہیں ہندو مسلمان لڑتے رہتے ہیں مگر کیا آپ نے کبھی بتایا بھی کہ اسلام کیا چیز ہے؟ مَیں نے کہا تمہیں کیا بتائیں؟ کہنے لگے، میلادالنبیؐ کا جلسہ ہوتا ہے تو ہم بھی جاتے ہیں کہ وہاں چل کر پتہ لگائیں گے کہ اسلام کیا ہوتا ہے مگروہاںہمیں یہ سنایا جاتا ہے کہ اے کملی والیا! اے زُلفاں والیا! کہنے لگا ہم زُلفیں دیکھنا نہیںچاہتے ہم کملی دیکھنا نہیں چاہتے ہم تو تعلیم سُننا چاہتے ہیں مگر بجائے یہ بتانے کے کہ رسول اللہ کی تعلیم کیا تھی، آپ ؐ کے کیا کام تھے اورآپ کی کیا خدمات تھیں ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ آپ کی زُلفیں ایسی تھیں اور آپ کی کملی ایسی تھی ہم عشقِ مجازی تو نہیں کرنا چاہتے کہ ہمیں یہ باتیں بتائی جاتی ہیں۔ شرمندگی تو بہت ہوئی مگر خیر مَیں نے کہا لوگ غلطی کرتے ہیں ہمارا نقطہ نگاہ بھی آپ کبھی سُن لیں۔ کہنے لگا میں نے آپ کی ایک تقریر سُنی ہے اور اس سے مَیں سمجھتا ہوں کہ آپ کاطرز اَور ہے مگر میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے اس کے بعد یہ خواہش کرنا کہ ہم مسلمان ہو جائیں اور ہم سے اس کی امید رکھنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کیا کملی دیکھ کر کوئی مسلمان ہو سکتا ہے یا زُلفیں دیکھ کر کوئی مسلمان ہو سکتا ہے؟
دربارِ خاص کا نقشہ دوسرے مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے
پس غیر احمدی بھی اس دربار کا نقشہ کھینچتے ہیںلیکن ان کا نقشہ میںپہلے سُنا دیتا ہوں کہ کیا ہوتا ہے ۔ وہ کہتے ہیں دربارِ خاص لگاہؤا ہے ،
بادشاہِ خلق وکون کی آمد آمد ہے، چھوٹے چھوٹے درباروں کے اہلکار تو ایسے موقع پر ہمہ تن مصروفِ عمل ہوتے ہیں،بھاگ دَوڑ ہو رہی ہوتی ہے، افسر قرینہ سے کھڑے ہوتے ہیںاورمنتظر ہوتے ہیں کہ بادشاہ آئے تو فوراً اس کا استقبال کریںاور اس کا اعزاز کریں اور اس کی تعریف کریں۔لیکن ہمارے بادشاہ کے دربار کا یہ حال بتایا جاتا ہے کہ بادشاہ سلامت تشریف لاتے ہیں، تمام دربار میں خاموشی طاری ہو جاتی ہے اور جس کی خاطر دربارِ خاص لگایا گیا تھا وہ ایک کمبل اوڑھ کر ایک گوشے میںسویا پڑا ہے اب بادشاہ اس کے پاس پہنچتا ہے ، اُس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، گُھٹنے گُھٹنے تک اس کے جسم پر میل چڑھی ہوئی ہے، بادشاہ سلامت آ کر اُسے جگاتے ہیں کہ اُٹھ میاں! یہ سونے کا وقت ہے۔ تجھے کام پر بھیجنا تھا تیری خاطر دربار خاص لگایا تھا اور تُو کمبل لے کر سو رہا ہے، اُٹھ! اُٹھ کے کمبل اُتار، کپڑے دھو، غسل کر ،شرک چھوڑ دے، سُود خوری نہ کر اور مصیبتیں برداشت کر۔ یہ دربار ہے جس کانقشہ ہمارے سامنے کھینچا جاتا ہے۔ بھلا جو معمولی معمولی ریاستیں ہیں مثلاً شملہ کی ریاستیں جو پانچ پانچ سات سات ہزار آبادی کی ہیں کیا تم نے کبھی وہاں بھی ایسا دربار دیکھا کہ راجہ نے کسی کو بُلایا ہو اور جس کے اعزاز میں دربار منعقد کیا گیا ہو اُس کی یہ حالت ہو کہ وہ کمبل میں سو رہا ہے اور اتنی میل چڑھی ہوئی ہے کہ حدنہیں۔ کپڑوں سے بدبُو آ رہی ہے، پاجامے سے بد بُو آ رہی ہے، راجہ آکر جگا تا ہے اور جگانے کے بعد کچھ ملامت کرتا ہے اور ملامت کر کے کہتا ہے تیرے سپرد فلاں کام کیا جاتا ہے مگر ایسے گند میں باہر جانا بھی ٹھیک نہیں پہلے کپڑے دھولے، غسل کر لے اور پھر جا کر یہ کام کر۔ یہ دربار ہے جو غیراحمدی پیش کرتے ہیں۔
حقیقی دربار کی جھلک
اب میں وہ دربار پیش کرتا ہوں جو حقیقتاً قرآن کا دربار ہے اور جو خداتعالیٰ نے قرآن کریم سے ہمیں سمجھایا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دِثَار کے ایک معنی عربی زبان میں اُس کپڑے کے ہوتے ہیں جو سوتے وقت اوپر لیا جاتا ہے۱۷؎ مثلاً کمبل ، لوئی یا لحاف وغیرہ اور لوگوں نے یہاں یہی معنے مراد لئے ہیں۔مگر جب مدّثّر کہا جائے گا تولغت کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہونگے کہ وہ کمبل یا لوئی اوڑھ کر بھی سو رہا ہے۔ کئی لوگ لوئیاں لے کر تو یہاں بھی بیٹھے ہیںمگر وہ جاگ رہے ہیں۔ مدّثّر تب کہا جائیگا جب کوئی لوئی لے کر سو رہا ہو۔ لیکن آجکل کے مولوی کی یہ حالت ہے کہ اِدھر تو ہمیںکفر کا فتویٰ دینے کے لئے ہروقت تیار رہتا ہے اور اُدھر قرآن میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی لفظ استعمال ہو تو یہ ہمیشہ اس کے بُرے معنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لیتا ہے اور عیسیٰ ؑکی نسبت وہی لفظ آجائے تو خیر۔ معلوم نہیں عیسیٰ ؑاس کا کیا لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس کے اچھے معنے کرتا ہے اور پھر بھی وہ مولوی کہلاتا ہے۔
مُدَّثِّرکے معنی
یہ درست ہے کہ مدثرؔ کے ایک معنی کمبل اوڑھ کر سونے والے کے بھی ہیں مگر مدّثّر کے ایک اور معنی بھی ہیں جو اچھے ہیںاور اس کو
محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ نہیں سُوجھتے اور وہ معنے ہیں:کپڑے پہن کر تیار ہو جانے والا اور گھوڑے کے پاس کھڑا ہونے والا کہ حکم ملتے ہی فوراً چھلانگ مار کر اس پر سوار ہو جائے۔۱۸؎ یہ بھی لغت میںلکھے ہوئے ہیں۔چنانچہ دِثَار کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں اَلثَّوْبُ الَّذِیْ فَوْقَ الشّعَارِ ۱۹؎ یعنی دِثَار اس کپڑے کو کہتے ہیں جو کُرتا وغیرہ کے اوپر پہنا جائے۔جب انسان نے باہر جانا ہوتا ہے تو وہ خالی کُرتا نہیںپہنتا بلکہ کوٹ پہنتا ہے۔ یا فوج والے لڑنے کے لئے جاتے ہیں تو وردی پہن لیتے ہیں، پس اس کے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے وردی پہنی ہوئی ہے۔
ان مُفسّرین کو یہ تو نظر آتا ہے کہ مدّثّر کے معنے کمبل اوڑھ کر سونے والے کے ہیں مگر یہ نظر نہیں آتا کہ اس کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ اے وردی پہن کر کھڑے ہونے والے انسان! ۔اِسی طرح اس کے دوسرے معنے گھوڑے پر چھلانگ لگا کر چڑھنے والے کے ہیں۲۰؎ گویا وہ اس بات کے انتظار میں کھڑا ہے کہ حکم ملے تو گھوڑے پر چھلانگ لگا کر سوار ہوجائوں اور کام کے لئے دوڑ پڑوں۔
اب ان معنوں کو دیکھو اور کمبل اوڑھ کر سو رہنے والے معنوں کو دیکھو کیا اِن دونوںمیں کوئی بھی نسبت ہے؟ کیا وہ دربار معلوم ہوتا ہے اور دربار بھی وہ جو محمدرسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے تقرر کے لئے منعقد ہؤ ا۔ پیچھے مایوسی ہو جائے تو اور بات ہے لیکن یہاں تو ابتداء میں ہی نَعُوْذُ بِاللّٰہِ گالیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ اوسونے والے! تیری کام کی طرف توجہ ہی نہیں، میل سے بھرا ہؤا ہے اُٹھ! اور تیار ہو اور اپنے کام کی طرف جا اور ہر قسم کے سُستی اور شرک وغیرہ کو چھوڑ۔
قُمْ فَاَنْذِرْکی تشریح
آگے آتا ہے اِ س کے معنے وہ یہ کرتے ہیں کہ کھڑا ہو جا اور اِنذار کر۔حالانکہ جو کمبل لے کر سویا
پڑا ہے اُس کے سپرد کوئی عقلمند کام ہی کیوں کرے گا۔ وہ تو کہے گا کہ اگر وہ سویا ہؤا ہے تو سویا ہی رہے کے الفاظ تو بتا رہے ہیں کہ جس کے سپرد کام کیا جاتا ہے وہ اپنے اندر کوئی شان رکھتا ہے، وہ اپنے اندر کوئی عزم رکھتا ہے، وہ اپنے اندر کوئی پختہ ارادہ رکھتا ہے۔ وہ کا لفظ لے لیتے ہیںاور سمجھتے ہیں کہ اس کے معنے کھڑے ہو جانے کے ہیں حالانکہ جس طرح مدّثّر کے دو معنے ہیں اِسی طرح عربی زبان میں کے بھی دو معنے ہیں۔ کے معنے کھڑے ہونے کے بھی ہیں اور ْکے معنے کسی بات پر ہمیشہ کے لئے قائم ہوجانے کے بھی ہیں۔ انہوں نے پہلے کمبل کے معنے کئے پھر کہا اوسونے والے! کھڑا ہو جا۔ ہم نے یہ معنے کئے ہیں کہ اے وہ شخص جو عُہدہ کے مطابق وردی پہنے تیار کھڑا ہے کہ حکم ملتے ہی گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے کام پر چلا جائوں قُمْ ہمیشہ کے لئے اپنے کام پر لگ جا اور کبھی بھی اپنے کام میں سُستی مت دکھائیو اور کبھی بھی اپنے کام سے غفلت مت کیجیؤ۔ اب ہمیشہ ہمیش کے لئے اِنذار کا مقام اور نبوت کا کام تیرے سپرد کر دیا گیا ہے اب کوئی پنشن نہیں،کوئی چھُٹی نہیں، ساری عمر کے لئے یہ کام تیرے سپرد کر دیا گیا ہے۔
رَبََّکَ فَکَبِّرْ کا
پہلی آیات سے تعلق
تیسری آیت ہے اور اپنے رب کی بڑائی کا دنیا میں ڈھنڈوراپیٹ۔ اب اس آیت کو ذرا پہلی آیت سے ملائو کہ ارے سوئے ہوئے! ارے کمبل اوڑھ کر لیٹے
ہوئے! ارے نیند کے ماتے اُٹھ! ڈھنڈوراپیٹ ۔ بھلا نیند والے نے کیا ڈھنڈوراپیٹنا ہے محض بے جوڑ معنے ہیں جن کا پہلی آیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ لیکن مَیں نے جو معنے کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ اے وردی پہن کر کھڑے ہونے والے! اے حُکم ملتے ہی گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر دنیا میں دَوڑ جانیوالے! اب ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا کا پیغام پہنچانا تیرے سپرد کیا گیا ہے تُو دنیا کو بتا کہ اگر مانو گے تو بچو گے نہیں مانو گے تو تباہ ہو جائو گے۔
ثِیَا بَکَ فَطَھِّرْ
کی مضحکہ خیز تفسیر
چوتھی آیت ہے وَثِیَا بَکَ فَطَھِّرْ۔مولوی اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ اپنے کپڑے پاک کر۔ وہ کہتے ہیں نماز جو پڑھنی تھی کپڑے پاک کرنا ضروری تھا گویا صرف نماز
کے لئے کپڑے صاف کئے جاتے ہیں۔ انگریزوں نے کبھی کپڑے پاک نہیں رکھے، امریکنوں نے کبھی کپڑے پاک نہیں رکھے جب سے نما ز شروع ہوئی ہے اُس وقت سے کپڑے پاک رکھے جانے شروع ہوئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ ان کے نزدیک پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صفائی کی طرف کوئی رغبت نہیں تھی نماز کا حکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کپڑے صاف رکھو۔
پھر سوچو کہ ان آیات کا آپس میں جوڑ کیا ہؤا ؟ پہلے معنے کئے اوسونے والے اُٹھ! پھر کہا اُٹھ اور دنیا میں جا کر اِنذار کر۔ پھر ساتھ ہی کہہ دیا جااور کپڑے دھو۔ اب وہ کپڑے دھوئے کہ اِنذار کرے۔ دونوں میں جوڑ کیا ہؤا؟ اب یہ مولوی فیصلہ کر لیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے ؟کپڑے دھونے لگتے تھے یا باہر جا کر تبلیغ کرتے تھے؟ غرض ایسی بے جوڑ باتیں کرتے ہیںاور اس قسم کی ہتک آمیز باتیں کرتے ہیں کہ درحقیقت اگر وہ غور کریںتو ان کو معلوم ہو کہ اسلام کے ساتھ ان باتوں کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ایسی ایسی غیر معقول باتیں کرتے ہیں کہ ہر بُری بات محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ بھلا کوئی سمجھائے کہ کا اِس جگہ جوڑ کیا بنتا ہے۔ اگر پہلی آیت کے یہ معنے ہیں کہ اے کمبل لے کر سونے والے! تو یہ اگلے معنے نہیں لگتے کہ اُٹھ اور دنیا میں شور مچا دے۔ کمبل لے کر سونے والے نے شور کیا مچانا ہے وہ تو پھر سو جائے گا۔ مگر تھوڑی دیر کے لئے یہ بھی مان لیا کہ اُسے ہِلایا، پانی کے چھینٹے دئیے اور وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا مگر جب وہ تبلیغ کرنے کے لئے نکلا تو ہم نے کہا ٹھہر جا ٹھہر جاکپڑے دھولے تیرے کپڑے بہت میلے ہیں۔لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّابِاللّٰہِ۔تبلیغ بھی رہ گئی۔ گویا محمد رسول اللہ علیہ وسلم جیسا پاکیزہ نفس انسان جن کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود ایسا ہے کہ اگر اس پر خدائی نور نہ بھی گرتا تب بھی یہ روشن نظر آتا یعنی محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم قرآن کے بغیر بھی پاکیزہ تھے اس مقدس انسان کے متعلق یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جیسے کوئی پہاڑی گڈریا ہوتا ہے کہ مہینوں اُس کو کپڑے دھونے کی توفیق نہیں ملتی محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی شکل بھی نَعُوْذُبِاللّٰہِ ویسی ہی تھی۔ پہلے تبلیغ کا حکم دیا پھر خیال آیا کہ بڑی شرمندگی ہو گی لوگوں کو خیال آئے گا کہ کیسے آدمی کو بھیج دیا اس لئے کہہ دیا کہ کپڑے دھولے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رشتہ داروں
اور دوستوں کو تبلیغ کرنے کا ارشاد
اب ہم بتاتے ہیں کہ اس کے کیا معنے ہیں۔ لیکن میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں
کہ یہ خالص میرے معنے نہیں بلکہ بعض پہلے صوفیاء نے بھی اس حصہکے یہ معنے لکھے ہیں پہلے نہیں لکھے لیکن یہ معنے لکھے ہیں ثِیَاب عربی زبان میں لُغۃً تو کپڑوں اور دل کو کہتے ہیں۔۲۱؎ لیکن محاورہ میں ثیاب اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے انسان کی حفاظت ہوتی ہے، اس کے عیب چھُپتے ہیں اور وہ اس کے گرد لِپٹے ہوئے ہوتے ہیں جیسے کپڑا لِپٹتا ہے ۔ پس استعارہ اور مجاز کے طور پر جیسے لوگ کہتے ہیں فلاں سکندر ہے، حاتم ہے مجازاً اور استعارۃً ثیاب کے معنے ،دوست، رشتہ دار اور قریبی لوگوں کے ہوتے ہیں اور لُغۃً اس کے معنے کپڑے اور دل کے ہیں۔ دل کے معنے مَیں اِس جگہ نہیں لگاتا لیکن مَیں کہتا ہوں کہ جو معنے بھی لگائو سیاق وسباق کو مدنظر رکھو۔
میرے نزدیک سیاق وسباق کو مدّنظر رکھتے ہوئے اِس کے جو معنے بنتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اے محمد رسول اللہ! تُو پہلے اپنے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو سمجھا، پھر اپنے قریبی دوستوں کو سمجھا، پھر اپنی قوم والوں کو سمجھا اور ان کو دین اسلام کی تعلیم کی طرف لا ۔اب دیکھو یہ معنے یہاں چسپاں ہو جاتے ہیںاور آیات کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اے تقررِ گورنری کی خبر سنتے ہی وردی پہن کر کھڑے ہونے والے! اور اس بات کی امید رکھنے والے کہ حکم ملتے ہی مَیں گھوڑے پر چڑھ جائوں تیار ہو اور ہمیشہ کے لئے اس کام میں مشغول ہو جا جو ہم نے تیرے سپردکیا ہے اور سب سے پہلے یہ اِنذار اپنے گھر سے ، اپنی بیوی سے اور اپنے رشتہ داروں اور بچوں سے شروع کر۔
اب دیکھ لو یہاں کپڑے دھونے اور اِنذار کرنے میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ یہ کپڑے دھونا اِنذار کی تشریح ہے اور سے اِنذار ختم نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے صابن کے کُھت کُھت کرنے سے تو اِنذار ختم ہوجاتا ہے لیکن اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو تبلیغ کرنے سے اِنذار ہوتاہے ختم نہیں ہوتا۔ پس یہ تضاد نہیں بلکہ عین وہی چیز ہے۔
قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کے عمل سے ثیاب کے معنوں کی تصدیق
۔ تُو اُٹھ اور جا کر اپنی قوم کو سمجھا اپنے رشتہ داروں کو سمجھا، اپنے
دوستوں اور عزیزوں کو سمجھا، چنانچہ ہم قرآن کریم میں اس کی تصدیق دیکھتے ہیں مثلاً بیویوں کے متعلق قرآن کریم میںآتا ہے ۔۲۲؎ عورتیں تمہارا لباس ہیں۔ اب دیکھ لو ان کو ثِیَاب بتایا گیا ہے پھر اِسی آیت میں طَھِّرْ کا لفظ آتا ہے اور قرآن محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے متعلق یہی لفظ استعمال کرتا ہے، فرماتا ہے ۲۳؎
ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نبوت سے کہہ دیا تھا کہ جا اور اپنے خاندان کو پاک کر۔ اب ہم تجھ کو کہتے ہیں کہ وہ جو ہم نے حکم دیا تھا اس کا ہم بھی پکّا ارادہ کر چکے ہیںاور تیر ے اہل وعیال کو پاکیزگی کے اعلیٰ مقام پر پہنچا کر چھوڑیں گے۔ گویا وہ خبر اِس جگہ آ کر بیان ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ ہم نے کہا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا لیکن ہم اسے خود پورا کرینگے کیونکہ ہم نبی کو جو کچھ کہا کرتے ہیں اس کی ذمہ داری ہم پر ہوتی ہے اسی طرح سورہ شعراء میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا کہ ۲۴؎ یعنی اے محمد رسول اللہ !تُو اپنے قبیلہ میں سے قریبی رشتہ داروں کو جا کر ہوشیار کر۔پس ثیاب سے مراد اِس جگہ وہی لوگ ہیںجو کپڑوں کی طرح ساتھ لپٹے ہوئے ہوتے ہیں اور سورۃ شعراء میں اِسی لفظ کو دوسرے رنگ میں ادا کر کے اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کے مجازاً ہونے کی تشریح کر دی اور بتا دیا کہ ہماری اس سے یہی مراد ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو اِنذارِ قرآن پہنچا دے۔
پِھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پر غور کرنے سے بھی انہی معنوں کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ بخاری کو نکال لو دوسری حدیثوں کونکا ل لو، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلا الہام نازل ہؤا تو سب سے پہلے آپ اپنے گھر گئے اور حضرت خدیجہؓ کو خبردی کیونکہ ثِیَابَکَ فَطَھِّرْ کا حکم تھا کہ پہلے اسلام کی تعلیم اپنی بیوی اور رشتہ داروں کو دو پھر حضرت علی کو بتایا۔ چنانچہ تاریخِ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والی اور سب سے پہلے طہارت کوقبول کرنے والی عورتوں میں سے حضرت خدیجہؓ تھیں۔ نابالغ جوانوں میں سے حضرت علیؓ تھے اور بالغ جوانوں میں سے حضرت زیدؓ تھے وہ بھی لوگوں میں آپ کے بیٹے کے طور پر مشہور تھے اِسی طرح بڑی عمر کے لوگوں میں سے ابوبکرؓ تھے جو آپ کے جانی اور جوانی کی عمر کے دوست تھے۔ گویا جس طرح ثِیَابَکَ فَطَھِّرْ کہا گیا تھا عملاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل اُسی طرح کیا ۔لیکن کوئی حدیث نکال کر دکھا دو، ضعیف سے ضعیف نکال کر دکھا دو، منافقوں کی بیان کردہ حدیث نکال کر دکھا دو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس الہام کے بعد فوراً بازار گئے ہوں اور ریٹھے خریدنے شروع کر دئیے ہوں اور پھر کپڑوں کو ریٹھے اور صابن مَل مَل کر کُوٹنے لگ گئے ہوں لیکن ہمارے پاس ثبوت موجود ہے، حدیث موجود ہے جو بتاتی ہے کہ آپ نے پہلے حضرت خدیجہؓ کو خداتعالیٰ کی بات بتائی ، پھر زیدؓ کو بتائی، پھر علیؓ کو بتائی، پھر ابوبکرؓ کو بتائی غرض جس طرح آپ نے عمل کیا وہ حدیثوں میں موجود ہے۔ پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریٹھے لے کر اور پھٹہ لے کر کپڑے کُوٹنے شروع کر دئیے تھے یا خدیجہؓ اور علیؓ اور زیدؓ اور ابوبکرؓ کو مسلمان بنانے لگ گئے تھے؟ اور اگر آپ اپنے قریبیوں کو مسلمان بنانے لگ گئے تھے تو یہ اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ کے یہی معنے ہیں کہ تُو اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو قرآن کی تعلیم دے اور ان کو اسلام کی طرف لا۔
وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْکی غلط تفسیر
کپڑوں کی گندگی توخیر کچھ برداشت بھی ہو جاتی ہے آگے آتا ہے وَالرُّجْزَ
فَاھْجُرْ اس کے مولوی یہ معنے کرتے ہیں کہ تُو گندگی ٔ جسمانی کو دُور کر۔ گویا کپڑے ہی غلیظ نہیں تھے بلکہ آپ خود بھی (نَعُوْذَبِاللّٰہِ) میلے تھے اب یہ اور بھی لمبا کام ہو گیا۔ انذار بیچارہ تو انتظار ہی کرتا رہے گا پہلے کپڑے دھوئے جائیں گے، حمام میں غسل کئے جائیں گے، میلیں اُتاری جائیں گی اور خبر نہیں کتنی دیر میں یہ کام پورا ہو اِنذار تو ختم ہو گیا لیکن ہم جو معنے کرتے ہیںاس کے لحاظ سے کوئی دقّت ہی پیش نہیں آتی کیونکہ رُجْز کے ایک معنے نہیں بلکہ کئی ہیں اور فَاھْجُرْ کے بھی ایک معنے نہیں بلکہ کئی ہیں ہمیں سارے معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ پچھلی آیتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کونسے معنے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے لحاظ سے تسلیم کئے جا سکتے ہیں۔ یہاں آپ کو گورنری پر مقرر کیا جا رہا ہے کوئی قیدی مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں ہو رہا جس کو جھاڑ پلائی جا رہی ہوبلکہ اعلیٰ درجہ کے عہدہ اور خاتم النّبییّن کے منصب پر ایک شخص مقررہو رہا ہے اور بات اس طرح شروع کی جاتی ہے جس طرح کوئی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ مجرم کو جھاڑ رہا ہے۔
رُجْز اور ھَجْرکے متعدد معانی
بیشک رُجز کے معنے عربی زبان میں غلاظت اور میل کچیل کے بھی
ہیں۲۵؎ لیکن اس کے ایک معنیاَلْعَذَابُکے ہیں۲۶؎ اور ایک معنی عِبَادَۃُ الْاَوْثَانِ۲۷؎ یعنی بُتوں کی پرستش کے ہیں۔ اسی طرح ھَجْرٌ کے بھی کئی معنی ہیں ھَجْرٌ کے ایک معنی ہیں چھوڑ دینا اور اعراض کرنا۲۸؎، دوسرے معنی ہیں کسی چیز کو پوری طرح کاٹ دینا۲۹؎ اور تیسرے معنی ہیں اونٹ کے پیر میںرسّی باندھ کر وہی رسّی اس کی گردن سے باندھ دینا تاکہ پھندا پڑ جائے اور وہ نکلنا بھی چاہے تو نکل نہ سکے اور اس کی حرکت زیادہ سے زیادہ محدود رہ جائے۔۳۰؎ پس وہ تو یہ معنی کرتے ہیں کہ اپنے جسم کی گندگی دُور کر یعنی کپڑے بھی دھو اور جسم کی گندگی بھی دُو ر کر، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ان معنوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
ایک شبہ کا ازالہ
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کے متعلق یہ تسلیم شُدہ بات ہے کہ بعض دفعہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جاتا
ہے اور مراد اُمت ہوتی ہے۔ اس طرح ہم رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچائو کر سکتے ہیںاور کہہ سکتے ہیں کہ گندگی اور غلاظت دُور کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد آپ کی اُمت ہے لیکن اس جگہ یہ معنے نہیں ہو سکتے اس لئے کہ یہ تو گورنر کے تقرر کا اعلان ہے جب اُس کی اُمت کوئی تھی ہی نہیں، جب اُمت تھی ہی نہیں اور آپ کو خاتم النّبییّن کے عُہدہ پر قائم کیا جا رہا تھا تو اُس وقت اِس کاکیا ذکر تھا کہ تیرے مرید کپڑے بھی دھوئیں اور جسم کی غلاظت بھی دُور کریں اُس وقت بہرحال کلام مخصوص تھا محمدرسول اللہ ؐسے۔ اُس وقت میںدوسرے لوگوں کی شرکت کا کوئی سوال نہیں تھا۔ پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اِن معنوں کا سیاق وسباق سے بھی کوئی جوڑ نہیں۔ پہلے کہا جاتا ہے ساری دنیا کو تبلیغ کر۔ پھر کہتا ہے ٹھہر جا پہلے کپڑے دھولے۔ پھر کہتا ہے کپڑے بھی ابھی رہنے دے پہلے نہالے۔ غرض بالکل غیر متعلق باتیں ہیں اور کسی اعلیٰ درجہ کے کلام میںان کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی۔
اب میں بتاتا ہوں کہ اس آیت کے اصل معنے کیا ہیں اور ہر معنی کے لحاظ سے اس آیت سے کتنے بڑے معارف نکلتے ہیں۔ مَیں نے بتایا کہ رُجْزٌ کے تین معنے ہیں گندگی ، عذاب اور شرک۔ اور ھَجْرٌ کے معنے چھوڑنے کے بھی ہیں، کاٹنے کے بھی ہیں اور گلے اور پیر میں رسّہ باندھ کر حرکت کو محدود کرنے کے ہیں۔ اِن معنوں کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق جو معنے بنتے ہیں وہ یہ ہیں۔
دنیا میں غلاظت اور
گندگی مٹادینے کا حکم
اوّلؔ ، اے رسول! گندگی کو مٹادے ، گندگی کو چھوڑ دے نہیں! چھوڑنے کے یہ معنے ہیں کہ گندہ ہے اور مٹانے کے یہ معنے ہیں کہ لوگ گندے ہیںتو ان
کی گندگی کو دُور کر ۔ اور ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے جب ھَجْرٌکے معنے کاٹ دینے کے بھی پائے جاتے ہیں، جب ھَجْرٌ کے معنے مٹا دینے کے بھی پائے جاتے ہیں، جب ھَجْرٌکے معنے توڑ دینے کے بھی پائے جاتے ہیںتو تم محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کوغلاظت میںکیوں پھنسانا چاہتے ہو۔ حقیقت تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے عیبوںپر پردہ ڈالتے ہیں، لوگ کہتے ہیں یہ ہمارا دوست ہے یہ ہمارے عیبوں کو چھُپاتا ہے مگر یہ مولوی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمتی بنے پھرتے ہیں اور پھر جھوٹے عیب آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جب ھَجْرٌکے معنے کاٹ دینے کے بھی ہیںتو وہ کیوں ایسے معنے نہیں لیتے جو محمد رسول اللہ ؐکی شان کے مطابق ہیں کہ اے محمد رسول اللہؐ! تُو گندگی کو کاٹ ڈال یعنی دنیا سے اس کا نام ونشان مٹا دے اور یہ بالکل ٹھیک ہے ساری دنیا گندی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیاگیا کہ اِس گندگی کو مٹا دے اور تاریخ اِس بات پر شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس پر کس طرح عمل کیا۔ جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے تاریخ میں یہ کہیں ذکر نہیں آتا کہ آپ نے حضرت خدیجہؓ سے یہ کہا ہو کہ صابن لایا جائے اور آپ نے صابن مَل مَل کر میل اُتارنی شروع کر دی ہو اور پھر حدیثوں میںاِس کی تفصیل آتی ہو مگر جوکچھ میںکہتا ہوں وہ کتبِ اسلام میں لفظاً لفظاً موجود ہے۔
رِجْزٌ کے معنے ہوتے ہیں گندگی۔ لیکن گندگی سے مراد صرف میل نہیں بلکہ رِجْز کے معنے ہیں اشیائے ماحول کی گندگی، جسم کی گندگی ، دماغ کی گندگی، دل کی گندگی، خیالات کی گندگی، زبان کی گندگی ، یہ ساری باتیں رِجْزٌ کے اندر شامل ہیں اب یہ کتنا شاندار کام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا ہے اگر محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی نسبت یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے یہ کام کیا ہے تو آپ کی کتنی شان بلند ہو جاتی ہے، کوئی نبی ہے ہی نہیں جس نے یہ کام کیا ہو، انجیل لائو، توریت لائو، صُحفِ انبیاء لائو، آپ کے مقابلہ میں کوئی نبی ٹھہر ہی نہیں سکتا۔
اسلام سے پہلے گندگی کو
بزرگی کی علامت سمجھا جاتا تھا
اسلام سے پہلے دین کے یہ معنے سمجھے جاتے تھے کہ گندے رہو۔ عیسائی تاریخوں کونکال کر دیکھ لو مَیں نے پڑھا ہے بعض پادری بڑے بزرگ
سمجھے جاتے تھے اور ان کی بزرگی کی علامت یہ سمجھی جاتی تھی کہ چالیس سال سے انہوں نے غسل نہیں کیا اور ناخن اتنے بڑھے کہ کئی کئی انچ لمبے ناخن ہو گئے، گویا ان کے ہاں بزرگوں کا نشان یہی سمجھا جاتا تھا۔ مسلمانوں نے بھی کچھ کمی نہیں کی، انہوں نے ایک زیارت گاہ بنائی ہوئی ہے کہتے ہیں کہ ایک بزرگ وہاں بیٹھے تھے چالیس سال تک انہوں نے سر نہیں اُٹھایا اور دیوار میں بیٹھے بیٹھے گڑھا پڑ گیا گویا پیشاب اور پاخانہ بھی پاجامہ میںہی کرتے رہے۔ اس میںعزّت کیا ہے؟ آخر سوچنا چاہئے کہ جو شخص بیٹھا رہا اور ہِلانہیں اور وہیں اس کے جسم کا نشان پڑ گیا اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے نہ نماز پڑھی، نہ روزہ رکھا، نہ دین کا کوئی کام کیا، نہ کھانا کھایا، نہ نہایا، نہ پیشاب کیا، نہ پاخانہ کیا، مگر وہ تو ضروری ہے پھر یہی صورت ہو سکتی ہے کہ وہ پیشاب ، پاخانہ پاجامہ میں ہی کر ڈالتے ہونگے اور ان کا نام انہوں نے زیارت گاہ رکھا ہؤا ہے۔
ہندوئوں میں دیکھ لو ان میں بھی بزرگی کے یہی معنے سمجھے جاتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا بزرگ ہے کہ کوئی اس کو پرواہ ہی نہیں۔ جب سے پیدا ہؤا ہے نہایا نہیں۔ بُدھ جی کے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ اتنے بزرگ تھے کہ انہوں نے دیوار کے پاس بیٹھ کر عبادت کرنی شروع کی نیچے سے بانس کادرخت نکلا اور ان کے پیٹ میںسے ہوتے ہوئے سَر میں سے پار نکل گیا مگر وہ ہِلے ہی نہیں۔
غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت دنیامیں آئے جب کہ ساری دنیا غلاظت کا پوٹلا بنی ہوئی تھی جب کہ مذہب اور روحانیت کے معنے یہ سمجھے جاتے تھے کہ انسان غلیظ اور گندہ ہو۔ اِس دنیامیںمحمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کا وجود پیدا ہوتا ہے اور ایسے خلافِ ماحول میں اس کو خداتعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ! یہ جو تجھے اِردگرد نظر آتا ہے کہ گندگی کانام مذہب اور غلاظت کانام نیکی رکھا جا رہا ہے یہ سب جھوٹ ہے اِن خیالات کو دنیا سے نیست ونابود کر دے۔
جسم کی صفائی کے متعلق رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات
چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جمعہ کو آئو تو غسل کر کے آئو ، مسجد میں آئو تو پیاز کھا کر یا لہسن کھا کر
نہ آئو تا کہ تمہارے مُنہ سے بدبُو نہ آئے۔ عطر لگا کر آئو۔ پھر انسان کے ساتھ شہوت لگی ہوئی ہے اسلام نے حکم دیا ہے کہ اس کے بعد غسل کیا جائے لوگ پوچھتے ہیں کہ غسلِ جنابت کا فائدہ کیا ہے؟ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ غسلِ جنابت ہی ہے جو تمہیں پاکیزہ رکھتا ہے۔ اب تم مجبور ہو جاتے ہو کہ غسل کرو اور اگر غسلِ جنابت نہیں کرتے تو بے دین سمجھے جاتے ہو۔
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر دنیا کی کایاپلٹ دی، مذہب کا نام غلاظت سمجھا جاتا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب کا نام صفائی رکھ دیا۔ اِسی طرح لباس کی صفائی کے متعلق آپ نے احکام دئیے کہ جمعہ کے دن نئے کپڑے یا دُھلے ہوئے کپڑے پہن کر آئو، عیدوں پر تمہارے کپڑے دُھلے ہوئے ہوں، غرض جسمانی صفائی پرآپ نے اتنازور دیا کہ دنیا میںروحانیت کاجو نقشہ تھا اُس کو بالکل بدل دیا۔پہلے گندے اور غلیظ آدمی کے متعلق کہتے تھے کہ یہ نیک ہے اب صاف اور پاکیزہ آدمی کونیک کہتے ہیں کتنا بڑا تغیر ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا۔
حضرت خلیفہ اوّل کا ایک واقعہ
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو چونکہ سر میں چکر آنے کی مرض تھی آپ
بادام روغن اور مشک کا استعمال فرمایا کرتے تھے۔حضرت خلیفہ اول سناتے تھے کہ ایک دفعہ مَیںدرس دے کر واپس آ رہا تھا کہ ایک ہندو جس کے مکانات میں بعد میں صدرانجمن احمدیہ کے دفتر بن گئے(کیونکہ ہم نے وہ مکان خریدلیا تھا) اور جو ریٹائرڈ ڈپٹی تھا اپنے صحن میں بیٹھا ہؤا تھا مجھے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیااور کہنے لگا حکیم صاحب! ایک بات پوچھنی ہے آپ خفا تو نہیں ہونگے؟ سنا ہے کہ مرزا صاحب پلائو اور بادام روغن کھا لیتے ہیں؟ مَیں نے کہا ٹھیک ہے کھا لیتے ہیں۔ حیران ہو کر کہنے لگا کیا یہ ٹھیک بات ہے؟ مَیں نے کہا ڈپٹی صاحب! ہمارے مذہب میں پلائو اور بادام روغن جائز ہے۔ کہنے لگا کیا فقراء کے لئے بھی جائز ہے؟ میں نے کہا ہاں ہمارے مذہب میں فقراء کو بھی پاک چیزیں کھانے کا حکم ہے۔ اس پر وہ ’’اچّھا‘‘!کہہ کر واپس چلا گیا گویا جو طیّب چیزیںکھائے وہ ان کی نگاہ میں بزرگ نہیں ہو سکتا تھا۔
یہ تو حضرت خلیفہ اوّل کا واقعہ ہے جو تہذیب سے بات کرتے تھے ہمارے ایک اور دوست تیز زبان تھے اور مذاقیہ طبیعت کے تھے امرتسر کے رہنے والے تھے ان کے جواب ہمیشہ اِسی طرز کے ہؤا کرتے تھے۔ ان کو کوئی ہندو مجسٹریٹ مل گیا اور کہنے لگا کیا ہے تمہارا مرزا تم کہتے ہو وہ خدا کامأ مور ہے اور یہ ہے اور وہ ہے ہم نے سنا ہے کہ وہ بادام اور پستہ اور مُرغ سب چیزیں کھا لیتا ہے۔ وہ کہنے لگے آپ مرزا صاحب کوچِڑانے کے لئے پاخانہ کھا یا کریں مجھے اِس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔غرض اس نے اپنے رنگ میں جیسے اس کا اپنا مذاق اور علم تھا جواب دیدیا تو بات یہ ہے کہ دنیا میں بزرگی کانقشہ یہی کچھ رہ گیا تھا کہ انسان غلیظ اورگندہ ہو۔
مکان کی صفائی کے متعلق ارشادات
اسی طرح مکان کی صفائی بھی کوئی ضروری نہیں سمجھی جاتی تھی۔ رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم نے مکان کی صفائی کا بھی حکم دیا۳۱؎ چنانچہ آپ نے مسجد کی صفائی کے متعلق کئی احکام دئیے (اصل مکان جو آپ کے قبضہ میںتھا وہ وہی تھا) آپ نے فرمایا مسجد کو صاف رکھو، اس میں جھاڑو دیا کرو، اس میں خوشبو ئیںجلایا کرو تا کہ وہ صاف رہے۔۳۲؎
راستوں کی صفائی کا حکم
اسی طرح راستوں کی صفائی کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا آپ نے فرمایا اس شخص کو ثواب
ملتا ہے جو راستہ میں سے پتھر وغیرہ اُٹھا دے۔۳۳؎ پاخانہ کے متعلق فرمایا کہ جو شخص راستہ میں پاخانہ پھرتا ہے اس پر خداتعالیٰ کی *** ہے،۳۴؎ جو شخص کھڑے پانی میںپیشاب کرتا ہے اس پر خداتعالیٰ کی *** ہے۔ جو شخص راستہ سے پتھر یاکانٹوں کو ہٹا دیتا ہے یا گندی چیزوں کو ہٹا دیتا ہے اسے ثواب ملتا ہے۔ اگر کوئی مسجد میں تھُوک بیٹھے تو فرمایا وہ اسے وہاں سے اُٹھا کر مٹی میں دفن کر دے۔۳۵؎ غرض اتنے احکام ہیںصفائی کے کہ اس تہذیب یافتہ زمانہ میں بھی ہمارا ملک کم سے کم ان پر عمل نہیں کر رہا۔ یہ طہارت اور نظافت کے احکام ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں قائم ہوئے۔
افکار کی صفائی کے متعلق ہدایات
پھر آپ نے کہا کہ افکار کی صفائی بھی ضروری ہے گویا آپ نے ہر ایک چیز کی
صفائی کا حکم دیا ہے صرف جسم کو مل مل کر دھونے کا حکم نہیں مثلاً فکر ہے اس کی صفائی کا بھی آپ نے حکم دیا فرمایا بدظنی نہیںکرنی،۳۶؎ بُغض اور کینہ دل میں نہیں رکھنا۳۷؎ گویا دماغ اور خیالات کی پاکیزگی بھی آپ نے قائم کی اور حکم دیا کہ کسی قسم کے بدخیالات اور بدارادے تم نے نہیں رکھنے۔
قلب کی صفائی کا حکم
پھرقلب کی صفائی کو مدّنظر رکھتے ہوئے آپ نے محبت خالص کا حکم دیا، نِفاق سے روکا، سچے تعلقات اور وفاداری
پر زور دیا۔۳۸؎
زبان کی صفائی کا حکم
پھر زبان کی صفائی کا حکم دیا فرمایا گالی گلوچ نہیں کرنی ، سخت الفاظ نہیں بولنے، دوسرے سے محبت کے ساتھ
پیش آنا ہے۔۳۹؎
مُنہ کی صفائی کا حکم
پھر مُنہ کی صفائی ہے مُنہ کی صفائی کے لئے مسواک کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ فرشتے نے مُنہ کی صفائی کے متعلق اتنازور
دیا کہ میں نے سمجھا شاید فرض ہو جائے۔ پھر فرمایا میں ہر نماز کے لئے مسواک اس لئے ضروری قرار نہیں دیتا کہ کہیں میرے حکم کے بعد خدا اس کو فرض قرار نہ دیدے۔۴۰؎
عظیم الشان تغیر
یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہؤا۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی دنیا دیکھو،
پہلی تاریخیں پڑھو، ہندوئوں کی تاریخیں پڑھو، عیسائیوں کی تاریخیں پڑھو، یہودیوں کی تاریخیں پڑھووہ غلاظت کا ٹوکرا معلوم ہوتی ہیں۔ اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو دیکھو یہاں بڑا بزرگ تو الگ رہا جو چھوٹے سے چھوٹا بزرگ تھا وہ بھی پاکیزہ اور صاف سُتھرا اور نہایا دھویا ہؤا نظر آتا ہے۔
گندگی اور غلاظت کے ساتھ خدا نہیں ملتا
اب ان معنوں کے لحاظ سے وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ وَالرُّجْزَ
فَاھْجُرْ کے یہ معنے بنتے ہیں کہ اے ہمارے گورنر! جو یہ پتہ لگتے ہی کہ ہم اس کو ایک اہم کام سپرد کرنے لگے ہیں وردی پہن کر گھوڑے کے پاس تیار کھڑا ہو گیا ہے کہ چھلانگ لگا کر سوار ہو جائوں دائمی طور پر اپنے کام میں لگ جا اور دنیا کو ہوشیار کر اور پہلے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی اصلاح کر ، پھر باقی دنیا کی اصلاح کا فرض سرا نجام دے اور ہر قسم کی صفائی دنیامیںقائم کر اور لوگوں کو بتا کہ گندگی اور غلاظت کے ساتھ خدا نہیں ملتا بلکہ انسان کا ذہن کُند ہو جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے دُور ہو جاتا ہے۔
رُجْز کے دو سرے معنوں
کے لحاظ سے آیت کی تشریح
اب ہم اس آیت کو دوسرے معنوں کے لحاظ سے لیتے ہیں۔ دوسرے معنے رُجْز کے عذاب کے تھے اس کے لحاظ سے آیت کے یہ معنے بن
جائیں گے کہ تُو عذاب کو دنیا سے مٹا دے۔ ان معنوں کے رو سے مندرجہ ذیل مطالب اس آیت کے نکلتے ہیں۔
تعذیبِ نفس کی ممانعت
اوّل اسلام سے پہلے مختلف ادیان میںتعذیبِ نفس کو روحانیت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا مثلاً کہتے تھے کہ
بیٹے کی قربانی خدا کے قریب کر دیتی ہے۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ شادی نہ کرنا، رہبانیت اختیار کرنا اور اپنے نفس کا بیکار کر دینا یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔ ہتھیار کے ساتھ اپنے آپ کو ہیجڑا بنالینا یہ بڑی نیکی ہے۔ اپنے آپ کو اُلٹا لٹکائے رکھنا یعنی سر نیچے اور ٹانگیں اوپر کر لینا، یہ بڑی نیکی ہے۔ ٹھنڈے موسم میںدریا میں بیٹھے رہنا یہ بڑی نیکی ہے، گرمی کے موسم میں دھوپ میں بیٹھ رہنا یہ بڑی نیکی ہے ، جسم پر کوڑے لگانا یہ بڑی نیکی ہے۔ اچھی اور پاکیزہ چیزیں نہ کھانا یہ بڑی نیکی ہے۔
پس فرماتا ہے ہم نے ان تمام باتوں کی تیرے ذریعہ سے اصلاح کر دی ہے اور ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ وہ تمام احکام جن کو دین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، جن کو روحانیت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، جن میں انسان کے دل کو یا جسم کو یا دماغ کو عذاب دیا جاتا تھا وہ ساری کی ساری چیزیں منسوخ کی جاتی ہیں۔ خدا سے ملنے کے لئے اس کی کوئی ضرورت نہیںکہ کسی کا ناک کاٹا جائے یا کسی کو اُلٹا لٹکایا جائے۔ خدا کے ملنے کے لئے روحانی ذرائع ہیں یہ غلط طریق تھے جو دنیا نے جاری کئے ہوئے تھے۔ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! جا اور ان کو منسوخ کر اور دنیا کو بتا دے کہ یہ غلط طریق تھے جو اس نے اختیار کرلئے تھے۔
عورتوں کو مُعَلَّقہ چھوڑنے اور
آگ کا عذاب دینے کی ممانعت
اِسی طرح عورتوں کو مُعَلَّقَہ چھوڑا جاتا تھا یہ بھی تہذیب تھی، آگ کا عذاب دیا جاتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا تمہیں کسی کو آگ کاعذاب دینے کی اجازت نہیں یہ خدا کا حق ہے کہ وہ جہنّم میں ڈالتا ہے تمہیں حق نہیںکہ ایسا کرو۔
غلامی کی ممانعت
اِسی طرح دنیا میںغلامی کا رواج تھا انسان کی آزادی کو چھین لیا جاتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ
نے حکم دیا کہ یہ عذاب بند کیا جاتا ہے اب کوئی غلامی نہیں۔۴۱؎
جانوروں کو دُکھ دینے کی ممانعت
جانوروں کے مُنہ پر لوگ ٹھپّے لگاتے تھے اور اس طرح جانوروں کی مختلف
قِسمیں بناتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح جانور کو تکلیف ہوتی ہے اگر تم نے نشان ہی لگانا ہو تو جانوروں کی پیٹھ پر لگائو تا کہ انہیں کم سے کم تکلیف ہو۔۴۲؎ جانوروں کے متعلق لوگ سمجھتے تھے کہ وہ حقیر اور ذلیل چیز ہیںاور ان کے احساسات کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک عورت کو محض اس لئے عذاب دیا گیا کہ اُس نے بلّی کو باندھ رکھا اور اُسے کھانے پینے کو کچھ نہ دیا نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ مر گئی پس اُسے دوزخ میں داخل کیا گیا۔۴۳؎ اور فرمایا ایک عورت کو اس لئے جنت میں داخل کیا گیا کہ اس نے ایک کُتّے کو جو پیاسا تھا وہ اپنا جُوتا لے کے کنویں میںاُتری اور اس میں پانی بھر کر اُسے پلایا اِس وجہ سے خدا نے اسے جنت میں داخل کر دیا۔ ۴۴؎
ہر حصّۂ زندگی سے تعذیب کا اخراج
یہ تعلیم بتا رہی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا
سے کس طرح عذاب کو مٹایا گیااور عذاب دینے کو بُرا اور ناپسند قرار دیا گیا حالانکہ اس سے پہلے یہ باتیں ضروری سمجھی جاتی تھیں۔وہاں روحانیت کی ترقی کے لئے لوگ اپنے جسم پر کوڑے مارتے تھے اور یہاں ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر آئے توآپ نے دیکھا کہ ایک رسّی لٹکی ہوئی ہے آپ نے اپنی بیوی سے پوچھا یہ رسّی کس لئے لٹکائی ہے؟ اس نے کہا یَا رَسُوْ لَ اللہ! جب میں عبادت کرتے کرتے تھک جاتی ہوں تو رسّی پکڑ لیتی ہوں تا کہ مجھے نیند نہ آئے۔ آپ نے فرمایا خدا کو تمہارے نفس کوتکلیف میںڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں جب تک تمہارا نفس برداشت کر سکتا ہو عباد ت کرو اور جب نہ کرے نہ کرو۴۵؎ تو دیکھو تعذیب کو کس طرح ہر حصّہ و زندگی سے مٹا دیا گیا ہے۔ پس فرماتا ہے وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!دنیا میںروحانیت کی ترقی کے لئے غلط معیار قائم ہو گئے ہیں لوگ کہتے ہیں روحانیت کی ترقی اور نفوس کی اصلاح کے لئے ہیجڑے بن جائو، پلائو کے اندر مٹی ملائو یا اس میںتیل ملائو یا سردیوں میں اُلٹے لٹک جائو، گرمیوں میں آگ کے سامنے بیٹھو یہ سب لغو باتیں ہیں ہم ان کو منسوخ کرتے ہیں خدا کو ان غلاظتوں اور تکلیفوں سے کوئی تعلق نہیں۔ خدا تو تم کو آرام پہنچانا چاہتا ہے خدا تم کو عذاب میںنہیںڈالنا چاہتا۔ خدا نے اپنے تک پہنچنے کے راستے اور قسم کے بنائے ہیں جن سے بغیر نفس کی ذلّت کے ، بغیر کسی نفس کو توڑ دینے کے ، بغیر جذبات کو مار دینے کے خدا تک انسان پہنچ سکتا ہے خدا کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ان باتوں کو رائج کرے۔
رُجْزکے تیسرے معنے
تیسرے معنے اَلْرُّجْز کے شرک کے ہیں۴۶؎ اس لحاظ سے وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ کے یہ معنے ہوں گے کہ تُو
شرک مٹا دے۔ دیکھو شرک کو چھوڑ دے اور شرک کو مٹا دے میں فرق ہے۔ مولویوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ تُوشرک چھوڑ دے حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک پہلے ہی چھوڑا ہؤا تھا ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ مَیں نے کبھی شرک نہیںکیا۔۴۷؎ پس یہ معنے کرنا کہ ’’شرک چھوڑ دے‘‘ محمد رسول اللہؐ کی ہتک ہے اور یہ معنے کرنا کہ’’شرک کو مٹا دے‘‘ یہ رسول اللہ ؐکا اصل کام ہے۔ خدا فرماتا ہے تو شرک کو توڑ دے کیونکہ ھَجْرٌ کے معنے تو ڑ دینے اور مٹا دینے کے بھی ہیں۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی اتنی اعلیٰ تعلیم دی کہ شرک کی جڑاُکھیڑ کر رکھ دی۔
انسانیت کی تذلیل کا ایک بھیانک نظارہ
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوئے تھے
بھلا سو چو تو سہی کہ اُس وقت کیسا بھیانک نظارہ نظر آتا تھا کہ ابوجہل جیسا انسان جو باتیں کرتا تھا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کے بڑے بڑے عقلمندوں میںسے ہے۔ ابوسفیان جس کا اسلام لانے کے بعد بھی عرب پر سکّہ جما ہؤا تھا اور لوگ اُس کی عزّت کرتے تھے اُن کی یہ حالت تھی کہ اپنے سامنے مٹی کا بنا ہؤا بُت رکھتے ہیںاور اُس کے آگے گِر جاتے ہیں اِس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی ذلّت تک انسانی دماغ پہنچا ہؤا تھا۔
بُتوں کی بے بسی
ایک صحابیؓ کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم دینی شروع کی تو میری سمجھ میںیہ بات نہیں آتی
تھی کیونکہ ماںباپ سے سُناہؤا تھا کہ بُتوں میںطاقت ہوتی ہے ہماری عادت تھی کہ جب ہم باہر کسی کام کے لئے جاتے تو ایک چھوٹا سا پتھر کا بنا ہؤا بُت اپنے ساتھ لے جاتے تا کہ اُس کی برکت سے ہم مصیبتوں سے بچے رہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ مَیںسفر پر گیا اور بُت کو اپنے ساتھ لے لیا ایک جگہ پہنچ کر مجھے ایک ضروری کام پیش آیا مَیں نے اسباب رکھا اور بُت کو پاس بٹھا کر کہا حضور والا! آپ ذرا میرے اسباب کا خیا ل رکھئیے مَیں ایک ضروری کام کے لئے جا رہا ہوں یہ کہہ کر مَیں چلا گیا۔ وہ کہنے لگے کام کر کے جب میں واپس آ رہا تھا تو مَیں نے دیکھا کہ گیدڑ نے اُس کے سر پر پیر رکھا ہؤا ہے اور پیشاب کر رہا ہے۔ گیدڑ اور کُتّے کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ٹانگ اُٹھا کر اور کوئی سہارا ہو تو اُس پر رکھ کر پیشاب کرتا ہے میں نے آتے ہی اُسے اُٹھا کر پرے پھینک دیا اور مَیں نے کہا اپنے آپ کو تو پیشاب سے بچا نہیں سکتا میرے سامان کو تُو نے کیابچانا ہے اور میں آ کر مسلمان ہو گیا۴۸؎ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تعلیم شرک کے خلاف پیش کی وہ ایسی نفسوں میں گڑ گئی کہ جو بھی سنتا تھا وہ اس پر فریفتہ ہو جاتا تھا اس سے باہر نکلنے کی اس میں جرأت ہی نہیںتھی۔
ہندہ کا اعترافِ توحید
ہندہ کا واقعہ مشہور ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو مسلمانوں کو جولوگ دُکھ دینے والے
تھے، جنہوں نے مسلمانوں پر بعض دفعہ انسانیت سوز مظالم کئے تھے یعنی ان کے ناک کان وغیرہ کاٹے تھے ان میں ہندہ بھی تھی۔ ایسے لوگوں کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ ان کو معافی نہیںہو گی بلکہ ان کو پکڑ کر سزا دی جائے گی ہندہ کے متعلق بھی یہی احکام تھے مگر ہندہ بڑی ہوشیار عورت تھی چُھپ گئی اُسے تلاش کیا گیا مگر نہ ملی مسلمانوں نے سمجھا کہ کہیں بھاگ گئی ہے۔ درمیانی طرز کے لوگ جو غور کر رہے تھے اور اس لڑائی کا انجام دیکھنا چاہتے تھے جب مکہ فتح ہو گیا تو انہوں نے سمجھا کہ اسلام سچا ہے ان کے لئے آپ نے بیعت کا اعلان کر دیا۔ عورتوں کے لئے بھی اعلان ہؤا چنانچہ سینکڑوں عورتیں بیعت کے لئے آئیں اور ان میں ہندہ بھی چُھپ کر آ گئی۔ بیعت کے وقت جو الفاظ دُہرائے جاتے تھے ان میںیہ الفاظ بھی آتے تھے کہ ہم شرک نہیں کریں گی، باقی الفاظ تو وہ دُہراتی چلی گئی جب آپ ان الفاظ پر پہنچے کہ کہو ہم شرک نہیں کریں گی تو چونکہ ہندہ کی طبیعت بڑی تیز تھی فوراً مجلس میں بول اُٹھی کہ کیا اب بھی ہم شرک کریں گی؟ تم اکیلے تھے اور ہم سارے تم کو مارنے کے لئے اکٹھے ہوئے، تم کمزور تھے اور ہم طاقتور تھے، ہم نے ساری قوم کا زور صَرف کیا مگر تمہارا خدا جیتا اور ہم ہارے کیا اب بھی ہم شرک کریں گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،ہندہ ہے؟ جس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے لئے تو سزا تجویز ہے، اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اب آپ کو مجھ پر کوئی اختیار نہیں ، اب مَیں مسلمان ہو چکی ہوں۔۴۹؎ تو دیکھو یہ توحید کی تعلیم تھی جس نے دلوں کو اس طرح صاف کر دیا کہ دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ سب لغو اور عبث باتیں ہیں بھلا شرک کوئی مان سکتا ہے۔
مشرکانہ عقائد کے پَیرو بھی
آج توحید کو ہی درست سمجھتے ہیں
پھر جُوں جُوں تعلیم پھیلی شرک مِٹتا گیا۔ یورپ میںاب بھی ایسے گرجے موجود ہیں جن میں حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ
کی تصویر لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور جن کے آگے وہ سجدے کیا کرتے تھے۔ ہندوئوں میںبھی لاکھوں دیوتا تسلیم کئے جاتے تھے مگر اب دیکھو ہندوئوں میں جتنے نئے فرقے نکلے ہیں سب توحید پیش کرتے ہیں آخر ہزاروں لاکھوں بُت جو ایجاد ہوئے ہیں تو ہر زمانہ میںایجاد ہوتے رہے ہیں مگر اب کوئی نئی موومنٹ بتا دو جس میں کوئی نیا بُت ایجاد کیا گیا ہو۔ اب آریہ سماجی نکلے، بنگال کی برہموسماج نکلی،اِسی طرح بنگال کی دیویکانند۵۰؎ کی سوسائٹی ہے۔ ٹیگور۵۱؎ تھا، غرض جتنے نکلے سب نے توحید پیش کی اور کہا کہ ہمارے مذہب میں بُت ہیں ہی نہیں۔ یہ سب باتیں ہیں یہ نتیجہ تھا اسلام کی تعلیم کا۔ ادھر عیسائیت جو مسیح اور مریم کی خدائی کو پیش کیا کرتی تھی اب جس عیسائی سے پوچھو وہ کہتا ہے یہ تو ظہور ہیں۔ ایک ظہور کا نام باپ رکھ دیا، ایک ظہور کا نام بیٹا رکھ دیا، ایک ظہور کا نام روح القدس رکھ دیا، ورنہ خدا تو ایک ہی ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے۔
غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خداتعالیٰ نے فرمایا کہ جا اور شرک کو دنیا سے اُکھیڑ کر پھینک دے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کر دکھایا۔ کہاں ہیں ہُبل اور لات اور عُزّیٰ؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھوڑے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ دلوں سے شرک کو نکال پھینکا اور وَالرُّجْزَ فَاھْجُر ْکے حکم کو ایسے طور پر پورا کیا کہ آج کسی شریف آدمی کو مجلس میںیہ کہنے کی جرأت نہیں کہ خدا کے سِوا کوئی اور بھی اُس کاشریک ہے۔
یہ کتنا عظیم الشان تغیرہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا اور جس کی مثال دنیا کے کسی نبی کی زندگی میں بھی نہیں ملتی۔ پس مبارک ہے وہ جس نے اپنے گورنر جنرل کے لئے یہ پروگرام تجویز کیا اور مبارک ہے خداتعالیٰ کا یہ گورنر جنرل جس نے اس پروگرام کواس طرح پورا کیا کہ جس طرح اسے پورا کرنے کا حق تھا۔
شرک کو باندھ رکھنے کا حکم
چوتھے معنے اس کے یہ بنتے ہیں کہ تُو شرک کو باندھ دے یعنی باوجود اس کے کہ تُو توحید کی تعلیم
د ے گا لوگ مسلمان ہونگے اور شرک چھوڑتیچلے جائیں گے پھر بھی شرک دنیامیں قائم رہے گاکیونکہ شرک نفس کو عیاشی پرقائم رکھنے کی درمیانی سٹیج ہے۔ جب تک انسانی نفس کے اندر کمزوری رہے گی وہ جھوٹے یا سچے طور پر شرک کا قائل رہے گا۔
نفسِ گنہگار کی تسلّی کے لئے
شرک ایک ضروری چیز ہے
مسلمان یُوں تو اللہ اللہ کرتے ہیں لیکن جب ان کا دل چاہتا ہے کہ اسلامی احکام کو توڑ دیں توتوڑ دیتے ہیں مگر ساتھ ہی اُن کا دل پھر
یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ جنت میں بھی جائیں اِس لئے کہتے ہیں فلاں بزرگ کی قبر پر چڑھاوا چڑھا دیا تو جنت میںچلے گئے، فلاں کی بیعت کر لی تو چلو جنت مل گئی۔ پس شرک نفسِ گنہگار کو تسلّی دینے کاایک ذریعہ لوگوں نے بنایا ہؤا ہے جب تک نفسِ گنہگار باقی رہے گا شرک کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے گا۔ حضرت خلیفہ اوّل سنایا کرتے تھے کہ ہماری ایک بہن تھیںجو کسی پِیر صاحب کی مرید تھیں ایک دفعہ قادیان مجھے ملنے کے لئے آئیں تو مَیں نے کہا بہن! تم احمدی نہیں ہوتیں اس کی وجہ کیا ہے؟ کہنے لگیں ہم نے پِیر پکڑ لیا ہے اور پِیر صاحب کی بیعت کر لی ہے اب ہمیں کسی اَور کی ضرورت نہیں۔ مَیں نے کہا پِیر صاحب کی بیعت نے تمہیں فائدہ کیا دیا ہے کہنے لگی فائدہ یہ دیا ہے کہ وہ کہتے ہیں اب تم نے ہماری بیعت کر لی ہے اس لئے اب تمہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں جو تمہاری مرضی ہو کرو تمہارے گناہ ہم نے اُٹھا لئے ہیں اور اب تمہارے سب گناہوں کے ہم جوابدہ ہیں۔ مَیں نے کہا اچھا بہن اب جائو گی تو اُن سے پوچھنا کہ ایک ایک گنا ہ کے بدلہ میں جو لوگوں کو اتنی جُوتیاں قیامت کے دن پڑنی ہیں جن کی حد نہیں تو جب آپ نے ہم سب کے گناہ اُٹھا لئے ہیں تو آپ کو کتنی جُوتیاں پڑیں گی؟ چنانچہ وہ گئی اور پھر واپس آئی تو مَیں نے کہا پوچھا تھا؟ کہنے لگی ہاں پوچھا تھامگر وہ سوال تو پِیر صاحب نے حل کر دیا۔ میں نے کہا کس طرح؟ کہنے لگی پِیرصاحب نے کہا دیکھو جب تم پُل صراط پر جائو گی اور فرشتے پوچھیں گے کہ تمہارے یہ یہ گناہ ہیں تو تم کہہ دینا ہمیں کچھ پتہ نہیں یہ پِیر صاحب کھڑے ہیں اِن سے پُوچھو۔ جیسے ریلوے سفر میںایک ایک کے پاس ٹکٹ ہوتے ہیں اور ریل والے پوچھتے ہیں کہ ٹکٹ کہاں ہے تو اُن سے کہا جاتا ہے کہ فلاں سے لے لو اسی طرح وہاں ہوگا۔ کہنے لگی اچھا پیر صاحب! جب وہ آپ سے پوچھیں گے تو آپ کیا کہیں گے؟کہنے لگے جب فرشتوں نے ہم سے پوچھا تو ہم آنکھیں سُرخ کر کے کہیں گے شرم نہیں آتی کربلا میں ہمارے دادا نے جو قربانی دی تھی کیا اِس کے بعد ہم سے پوچھنے کی کوئی ضرورت رہ گئی ہے؟ اور فرشتے شرمندہ ہو کر ایک طرف ہو جائیں گے اور ہم دگڑ دگڑ کر کے جنت میں پہلے جائیں گے۔تودرحقیقت شرک جہاں ایک گندی چیز ہے، شرک جہاں ایک ناپاک چیز ہے وہاں وہ نفسِ گنہگار کے لئے ایک ضروری چیز بھی ہے جس کے بغیر اس کا گزارہ نہیں ہو سکتا۔ جس طرح مسلمان گنہگار کا شفاعت کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا، اسی طرح غیر مسلمان کا شرک کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا مسلمان بھی یہی کہتا ہے ۔
؎ مستحق شفاعت گنہگار انم
چلو چھُٹّی ہو گئی۔ شفاعت کے ہوتے ہوئے اب کسی عمل کی کیا ضرورت ہے ؟ پس اِس قسم کی شفاعت اور اِس قسم کا کفارہ دنیا سے مٹے گا نہیں، تھوڑا بہت قیامت تک ضرور رہے گاورنہ گنہگار کا ہارٹ نہ فیل ہو جائے ۔ اس کے دل کو تسلّی دلانے اور اُس کی زندگی کوقائم رکھنے کے لئے یہ لازمی چیز ہے کہ کوئی نہ کوئی سہارا ہو۔ جس طرح انسان بیہوش ہونے لگے تو پتھر پر سہارا لے لیتا ہے اِسی طرح مسلمان شفاعت کے پتھر پر ہاتھ رکھ کر سہارالے لیتا ہے اور عیسائی کفارہ کے پتھر پر سہارا لے لیتا ہے۔
شرک کی مضرّتوں سے
دنیاکو محفوظ رکھنے کا حکم
پس چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے توشرک کو مٹائے گا اور وہ بہت کچھ مٹے گا لیکن پھر بھی کسی نہ کسی شکل میں وہ دنیا میں قائم رہے گا
کیونکہ شرک ایک لازمی چیز ہے پھر اس کے لئے کیا کرنا چاہئے۔ اس کے لئے فرماتا ہے تو شرک کو باندھ دے یعنی جب ایک ضررنے موجود رہنا ہے اور خداتعالیٰ نے دنیا کوایسی شکل میں پیدا کیا ہے کہ گنہگار کے ساتھ شرک نے قائم رہنا ہے تو پھر مؤمنوں کو اُس کے ضرر سے کس طرح بچایا جائے۔ اس کا طریق یہی ہے کہ جس چیز نے قائم رہنا ہو اس کے ضررکوکم کر دیا جاتا ہے مثلاً بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیں انہوں نے ہٹنا نہیں۔ ایسی بیماریوں کا علاج یہ ہوتا ہے کہ انہیں کسی دوا سے دبا دیا جاتا ہے مثلاً کھانسی آتی ہے تو اوپیم دے دی بلغم دبا رہا۔ شرک کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرک بیشک مٹے گا مگر جو باقی رہے گا اسے اس طرح باندھ دو کہ وہ دَوڑ کُود کر دنیا میں پھیل نہ سکے اور اس کی مضرّت باقی نہ رہے۔
ایک داعی اِلَی الْخیر جماعت
اس کا طریق یہ بتایا کہ مؤمنوں کی جماعت اسلام میںقائم رہے جو شرک کے خلاف لوگوں
کو کہتی رہے اوردلائل دیتی رہے تاکہ لوگجب شرک کی طرف مائل ہونے لگیں تو اِنذار وتخویف اور حقیقت کے بیان کے ساتھ اور وعظ اور نصیحت کے ساتھ نیک طبیعتیں رُک جائیں جس طرح جانور کے پَیر کو گردن سے باندھتے ہیں تو وہ دَوڑ نہیں سکتا اسی طرح شرک دَوڑنے کے قابل نہ رہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۵۲؎ یعنی چاہئے کہ تم میںسے ایک جماعت ایسی ہو جو نیکی اور تقویٰ اور اسلام کی طرف لوگوں کو بُلائے اور انہیں نیک باتوں کا حکم دے اور بُری باتوں سے روکے اور جس قوم میں یہ بات پائی جاتی ہے وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے کیونکہ وہ شرارت کو دبائے رکھتی ہے بڑھنے نہیں دیتی۔ جیسے جنگل میں کہیںگندہ بیج پڑ جائے تو وہ مٹتا نہیںبلکہ پھیل جاتا ہے لیکن اگر کوئی اعلیٰ درجہ کی کھیتی ہو تو زمیندار جانتا ہے کہ ا س میںبھی بعض دفعہ دب گھاس نکل آئے گی، بعض دفعہ تھوہریں نکل آئیں گی، بعض دفعہ بکولیاں پیدا ہو جائیں گی، بعض دفعہ آک نکل آئے گا۔ اُس وقت ضرر سے بچنے کا کیا طریق ہوتا ہے؟ یہی ہوتا ہے کہ زمیندار ہل چلاتے ہیں بیشک وہ پھر بھی نکلتی ہیں لیکن کمزور ہو جاتی ہیںاور کھیت کو نقصان نہیںپہنچا سکتیں۔
پس تم ایسے مبلّغ مقرر کرتے رہو اور مسلمانوں میںسے ایک ایسی جماعت کو مخصوص کرو جو دین کی خدمت میںلگی رہے جس کی وجہ سے اس قسم کے شرر آمیز اور نقصان دہ مادوں کا ہَل کے ساتھ قلع قمع ہوتا رہے بیشک شرّکا بیج پھر بھی موجود رہے گا لیکن وہ کمزور ہوجائے گا اور اصل فصل کونقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
مسلمانوں کا تبلیغِ اسلام سے تغافل
مسلمانوں نے اِس پر ایک زمانہ میں عمل کیا لیکن افسوس ہے کہ بعد میں
مسلمان اپنے اس فرض کو بُھول گئے اب صرف احمدی جماعت ہی ہے جو ہَل چلا چلا کر دب، گھاسوں اور جڑی بُوٹیوں کو دُور کر رہی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے فائدہ کے لئے یہ کام ہو رہا ہے وہ اِسی کا نام انکارِ جہاد رکھتے ہیں، اصل جہاد احمدی کر رہے ہیں اور مولوی کہتا ہے کہ چھوڑ دو یہ ہَل چلانے آک نکلنے دو، تھوہریں نکلنے دو، بکولیاں پیدا ہونے دو، کھیتوں کو برباد ہونے دو، مسلمانوں کو بھُوکا مرنے دو، تم تو بے ایمان ہو گئے ہو جو مسلمانوں کے لئے روٹی مہیّا کر رہے ہو۔
وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُکی تشریح
آگے فرماتا ہے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ غیر احمدی مولوی اس کے یہ معنے کرتا
ہے کہ لوگوں پراس نیت سے احسان نہ کر کہ تجھے اس کے بدلہ میں کچھ زیادہ ملے۔ اِسی کا ترجمہ میں نے پہلے یہ کر دیا تھا کہ سُود خوری نہ کر۔ لوگوں کو اس لئے پیسے نہ دیا کر کہ اس کے بدلے میںتجھے زیادہ ملے لیکن دوسری شکل ہمارے ملک میںایک اور بھی ہوتی ہے جسے ڈھویادینا کہتے ہیں اور اُردو میںڈالی دینا کہتے ہیں۔ بعض باغبان گلدستے بنا لیتے ہیں کچھ پھُول لے لئے،کچھ تریں لے لیں، کچھ ترکاری لے لی اور کسی امیر آدمی کے گھر لے گئے کہ مَیں ڈالی لایا ہوں آگے اُس کی طرف سے جو بدلہ ملتا تھا وہ قیمت میںنہیںہوتا تھا۔ مثلاً یہ نہیں ہوتا تھا کہ دوآنے کی چیز ہوئی تو اس نے دو آنے ہی دے دئیے بلکہ کبھی دس کبھی بیس کبھی پچاس اور کبھی سَو روپے دے دیتا تھا۔
بنو اُمیّہ کے ایک بادشاہ کا لطیفہ
عربوں میں اس کا بڑا رواج تھا خصوصاً بنو امیّہ کے خلفاء کے پاس بڑے بڑے تحفے آتے
تھے۔ لطیفہ مشہور ہے کہ بنو امیّہ کا ایک بادشاہ ایک دفعہ شکار کے لئے گیا اور جنگل میںاکیلا رہ گیا اُسے ایک شخص ملا جو گدھا ہانک رہا تھا اور اُس پر اُس نے کھیرے رکھے ہوئے تھے۔بادشاہ نے کہا میاں! کہا ں جا رہے ہو؟ اس نے کہا دمشق جا رہا ہوں۔ کہنے لگا کہ کس لئے ؟اس نے اِسی بادشاہ کا نام لیا کہ اس کے حضور میں پیش کرنے کے لئے یہ لے چلا ہوں۔ کہنے لگا کیوں؟ اس نے کہا اس لئے کہ وہ مجھے انعام دیگا۔ اس نے کہا ان چیزوں کا بھلا کیا انعام ہو سکتا ہے یہ تو بہت معمولی چیزیں ہیں اچھا تم کیا امید رکھتے ہو؟ اس نے کہا میں تو امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے تین سَو اشرفی انعام دیگا۔ اُس نے کہا تین سَو اشرفی! یہ تو ایک اشرفی کی بھی چیز نہیں تمہیں تین سَو اشرفی کون دیگا؟ کہنے لگا تین سَو نہ سہی اڑھائی سَو لے لونگا۔ اُس نے کہا اڑھائی سَو بھی بہت زیادہ ہے۔ کہنے لگا تو پھر دو سَو سہی۔ اس نے کہا دو سَو بھی بہت زیادہ ہے۔ کہنے لگا نہ مانے گا تو ڈیڑھ سَو سہی اس نے ڈیڑھ سَو کو زیادہ بتایا تو کہنے لگا سَو سہی۔اُس نے کہا کون بے وقوف ہے جو تمہیں سَو اشرفی دے دیگا۔ وہ بیچارا مایوس ہو کر اِسی طرح قیمت گراتا چلا گیا اور آخر کہنے لگا کہ میں دس اشرفی تو ضرور لوں گا۔ اُس نے کہا یہ تو دس اشرفی کی بھی چیز نہیں۔ کہنے لگا اگر اس نے دس سے بھی کم دیںتو میں گدھا اُس کی ڈیوڑھی میں باندھ دونگا اور آپ چلا آئونگا۔ اُس نے کہا اچھا!اِس گفتگو کے بعد وہ گھوڑے پر سوار ہو کر واپس آ گیا اور اُس نے سپاہیوں کو حکم دیدیا کہ اگر اس اس طرح کا کوئی آدمی آئے تو خیال رکھنا اور اسے میرے پاس بھیج دینا۔ اس نے پتہ نہ لگنے دیا کہ مَیں بادشاہ ہوں۔جب وہ آیا تو سپاہیوں نے اسے اندر بھجوادیا۔ وہاں بادشاہی جلال تھا اور تمام درباری ادب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اس کی شکل پہچانی نہیںجاتی تھی کیونکہ جنگل میں وہ سادہ لباس میں گھوڑے پراکیلا سوار تھا اُس جنگلی کو دیکھ کربادشاہ کہنے لگا کس طرح آنا ہؤا؟ اُس نے کہا حضور! آپ کے لئے ایک نیا تحفہ لایا ہوں کہنے لگا کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تریں اور کھیرے ہیں۔ کہنے لگا کیا بے قیمت چیز ہے، اس نے کہا حضور نئی چیز ہے کسی نے اب تک کھائی نہیں اُس نے پوچھا اچھا تو پھر تم مجھ سے کیا امید رکھتے ہو؟ کہنے لگا تین سَو اشرفی۔ اُس نے کہا کیا تم مجھے پاگل سمجھتے ہو کہ اِن کھیروں اور تروں کے بدلہ میں تمہیں تین سَو اشرفی دیددں گا۔ اُس نے کہا تین سَو نہیں تواڑھائی سَو دے دیجئے۔ کہنے لگا اڑھائی سَو بھی کون دے سکتا ہے۔ اس نے کہا اڑھائی سَو نہیں تو دوسَو دے دیجئے ۔ کہنے لگا د وسَو بھی زیادہ ہے۔ اس نے کہا تو پھر سَو اشرفی لایئے۔ وہ کہنے لگا سَو بھی بہت زیادہ ہے غرض اسی طرح وہ قیمت گھٹاتا چلا گیا جب دس پر پہنچا تو بادشاہ نے کہا دس اشرفی بھی بہت زیادہ ہے۔ اس پر وہ بے اختیار کہنے لگا وہ کم بخت منحوس جو مجھے راستہ میں ملا تھا جس طرح اُس نے کہا تھا ویسا ہی ہؤا ہے اور یہ کہہ کر وہ لَوٹا۔ بادشاہ ہنس پڑا اور اس نے اسے واپس بُلایا اور کہا گھبرائو نہیںاور پھر اس نے حکم دیا کہ جتنی رقمیں ہوئی ہیں وہ سب جمع کر کے اسے دیدی جائیں یعنی ۳۰۰+۲۵۰+۲۰۰+۱۵۰+۱۰۰+۹۰ اس طرح کئی سَو روپے بن گئے جو اُسے دے کر اس نے رخصت کیا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک
یہ ڈھوئے اور ڈالی کا طریق ہؤا کرتا تھا چونکہ یہ سُود خوری سے کم ہے
اس لئے وہ اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ اے محمد رَسُوْل اللہؐ! تُو ڈھوئے لے کر لوگوں کے پاس نہ جایا کر اے محمد رَسُوْل اللہ! تُو ڈالیاں لے لیکر ڈپٹی کمشنر کے پاس نہ جایا کر۔ لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ۔خدا کا گورنر جنرل اور اُس کا جرنیل آیا ہے اس کو ڈھوئے اور ڈالیوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ خدا تو اس سے یہ کہتا ہے کہ ہم تجھے اپنے پاس سے رزق دینگے اور بے حساب دینگے خدا تو اسے یہ کہتا ہے کہ لَوْلَاکَ لَمَاخَلَقْتُ الْاَ فْلَاکَ۵۳؎ اے محمد رسول اللہ! اگر تو دنیامیں نہ آیا ہوتا تو یہ سونے اورچاندیاں اور لوہے اورپیتل اور زمرّد اور ہیرے اور دریا اور پہاڑ غرض کچھ بھی نہ ہوتا یہ سب کچھ تیری خاطر پیدا کئے گئے ہیں۔ وہ شخص جس کی جُوتیوں کی خاک ہیںیہ چیزیں بلکہ جس کی جُوتیوں کی خاک سے ادنیٰ ہیں اس کے متعلق مولوی یہ کہتے ہیں کہ وہ زیادہ لینے کے لئے لوگوں کوڈھوئے دیتا پھرتا تھا کہ میں دس روپے کی چیز دیتا ہوں وہ مجھے پندرہ دے دے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ یہ بھی اسی طرح ان کی غلطی ہے جس طرح کہ پہلی غلطیاں تھیں اور یہاں بھی وہی نادانی کام کر رہی ہے کہ ہر بُرے معنے محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف اور ہر اچھے معنے اپنے عیسٰی ؑ کی طرف منسوب کئے جائیں۔
لُغت کے لحاظ سے وَلَا
تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ کے صحیح معنے
اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیت کے صحیح معنے کیاہیں؟اس غرض کے لئے ہم پھر لغت کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مَنّ کبھی
صلہ کے ساتھ آتا ہے اور کبھی بغیر صلہ کے۔ جب یہ صلہ کے ساتھ آئے تو اس کا صلہ علیٰ ہوتا ہے چنانچہ مَنَّ عَلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیںاس پر احسان کیا یا اس پر احسان جتایا ۵۴؎ ا ور بغیر صلہ کے مَنّ آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں کسی کو روکنا یا کاٹنا۵۵؎ اور اِسْتَکْثَرَ کے معنے ہوتے ہیں زیادہ لینا۔۵۶؎ اس میں روپیہ کی شرط نہیں جو چیز بھی ہم زیادہ لیںاس کے معنے اِسْتِکْثَار کے ہو جائیں گے۔
پہلے دو معنوں کے متعلق مَیں بتا چکا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں او رآپ کی شان کے بِالکل خلاف ہیں اور پھر سیاق وسباق کے ساتھ بھی ان کا کوئی جوڑ نہیں۔ذکر ہو رہا ہے اِنذار کا اور کہا جا رہا ہے کپڑے دھو، ریٹھے لا، صابن خرید، حمام میں جا اور پھرسُو د خوری نہ کر۔ ان گندے معنوں کے ساتھ بھی اس کاکوئی جوڑ نہیں بنتا لیکن ہم جو معنے بتاتے ہیں وہ سارے کے سارے ان آیتوں پرچسپاں ہو جاتے ہیں۔
مشرکوں کو قتل کرنے یا ان کی آزادی
پر پابندیاں عائد کرنے کی ممانعت
اب ہمارے نقطہ نگاہ سے اس کے یہ معنے بن جائیں گے کہ اے محمد رسول اللہ! ہم نے تجھے شرک کے مٹانے کا حکم
دیا ہے پہلے حکم آچکا ہے کہ وَالرُّجْزَفَاھْجُرْ شرک کو مٹادیے۔پس ہم نے شرک کے مٹانے کا حکم دیا ہے لیکن اس سے ایک غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے ہم اس غلط فہمی کی تشریح کر دیتے ہیں کہ کہیں تم یا تمہارے مُرید اس حکم کے یہ معنے نہ کرلو کہ مشرکوں کو مارو اور اُن کی آزادی پر پابندی عائد کرو اور اس طرح اسلام کو ترقی دو۔ کیونکہ مٹانے کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ جس طرح وہ کہتے ہیں کہ جو مسلمان ہیںان کو خوب مارو، ان پر خوب سختی کرو، انہیںخوب ذلیل کرو اِسی طرح جو لوگ تم سے اختلاف عقیدہ رکھتے ہیں تم بھی ان سے یہی سلوک کرنے لگ جائو۔ خداتعالیٰ نے سمجھایا کہ مسلمانوں کے دماغ بھی کبھی خراب ہو سکتے ہیں اور ایسا ہو سکتا ہے کہ مسلمان بھی غیر مسلموں پر سختی کرنے لگ جائیں اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم نے یہ حکم دیا ہے کہ شرک کو مٹا دے تو ہمارا یہ مطلب نہیںکہ تم مشرکوں پر پابندیاں عائد کرو یا مشرکوں کو قتل کرو یہ اسلام میںمنع ہے پس اِس جگہ مَنّ کے معنے روکنے اور کاٹنے کے ہیں فَلا تَمْنُنْ پس مت کاٹ وہ شرک جس کے متعلق ہم نے کہا ہے کہ اسے مٹادے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تو مشرکوں کو مارنے لگ جائے اور اس طرح تَسْتَکْثِرُ مسلمانوں کی جمعیت اور ان کی شوکت کو بڑھادے۔ پس اس جگہ آدمی بڑھانے کا ذکر ہے روپیہ بڑھانے کا ذکر نہیں یعنی مشرکوں کو مت کاٹ، مشرکوں پر قیود مت لگا اس طرح سے کہ مسلمانوں کی طاقت بڑھے اور مسلمان زیادہ ہوجائیں۔ ہم نے اسلام کی ترقی کا ذریعہ تبلیغ رکھی ہے، ہم نے اسلام کی ترقی کا ذریعہ روحانی تعلیمات رکھی ہیں، ہم نے اسلام کی ترقی کاذریعہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق رکھے ہیں ان ذرائع سے اسلام کو بڑھا ئو، مشرکوں پر پابندیاں لگا کر یا ان کو مار کر یا ان پر قیدیں لگالگا کر اسلام بڑھانے کا حکم نہیں دیا۔ اب دیکھو یہ معنے کتنے اعلیٰ اور اسلام کی خوبی ثابت کرنے والے ہیں۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے مقام صبر کی عظمت
پھر فرما تا ہے َولِرَبِّک فَاصْبِرْ یعنی اگر مشکلا ت آئیں تو ان پر صبرکیجیؤ مگر وَلِرَبِّکَ۔ صبر دو طرح کا ہوتا ہے ایک
ہوتاہے صبرِ مجبوری۔ ،بڑے آدمی کا بیٹا ہو تا ہے وہ کسی کو مارتا ہے تو لو گ کہتے ہیں کہ کیا کریں بو ل نہیں سکتے ۔ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے بڑا آدمی ظلم کر رہا ہو تو غریب آدمی کی ماں اُلٹا اپنے بچے کو ما رتی ہے۔ یا اگر اُس نے کسی عورت کے خا وند کو ما را ہو تو وہ الگ بیٹھ کر روتے ہیں سامنے روبھی نہیں سکتے۔ یہ بیچارگی کا صبر ہے مگر فرما تا ہے اے محمد رسول اللہ! ہم تیرے جیسے بزرگ شان والے انسان سے یہ امید نہیں کر تے کہ تو بزدلی والا صبر کر یگا بلکہ وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ تُو وہا ں صبر کرجہا ں تجھے نظر آتا ہو کہ میرا یہاں صبر کرنا خدا تعالیٰ کی خو شنودی کا موجب ہو گایہ نہیں کہ اس لئے صبر کرو کہ اگر میَں نے صبر نہ کیا تو ظا لم ظلم میں بڑھ جا ئے گا یا میَں اس کا مقا بلہ کس طرح کر سکتا ہوںوہ طاقتور ہے اور میں کمزور ہوں تُو صبر کر یگا ہماری خوشنودی کے لئے اور ہمیں راضی کر نے کے لئے۔
دوسرے معنے صبر کے ایک کام پرلگ جا نے کے ہیں۵۷؎ پس اس کے معنے یہ ہو نگے کہ آج سے دوسرے سب کام چھوڑ کر تُوصرف اپنے رب کی خدمت میں لگ جا۔
اب دیکھو یہ دربار کیسا شاندار ہے گورنر جنرل کے تقرر پر دربارِ خاص لگتا ہے، گورنرجنرل پیش ہو تا ہے اور اسے کہا جا تا ہے کہ سب سے پہلے ہم خوشی کا اظہا ر کرتے ہیںکہ تقررِعُہدہ کے وقت سے (جو سورئہ اقراء میں ہے) تم وردی پہن کر اور گھوڑالے کر کھڑے ہو کہ حکم ملتے ہی تم کام کے لئے نکل کھڑے ہو گے اب ہم ہمیشہ کے لئے یہ عُہدہ تمہا رے سُپرد کر تے ہیں ، کوئی ماں کابچہ ایسا نہیں جو تم کو اِس عُہدہ سے الگ کر سکے ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ عُہدہ تمہارے سُپرد کیا جا تا ہے۔ خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچانا تمہارا فرض ہوگا کمزور کو بیدا ر کرنا تمہارے ذمہ ہو گا اور اپنے رب کی سچّی شان کو قائم کرنا تمہارا کام ہو گا اور سب سے پہلے یہ کام اپنے اہل وعیا ل اور اپنے دوستوں اور اپنی قوم کے لو گوں سے شروع کر۔ پھر دائرہ وسیع کرتا چلا جا اور لباس اور جسم اور دماغ اور دل اور مکا ن اور ملک کی صفائی کو قائم کر اور ہر قسم کے گند کو مٹا دے اور آئندہ کے لئے تعذیبِ نفس اور تعذیبِ انسان اور تعذیبِ اَفکار کو دنیا سے ختم کر دے کہ خدا تعالیٰ کو اپنا قُرب دینے کے لئے ان طریقوں کی ضرورت نہیں اور شرک کا قلع قمع کردے اور ایسے سامان کر کہ مشرک شرک کو دنیا میں پھیلا نہ سکیں، موحّدین دنیا میں غالب ہوجائیں مگر یہ غلبہ مشرکوں پر پابندیاں لگا کر یا انہیں قتل کر کے حاصل نہ کیا جا ئے بلکہ تبلیغ اور قربانی اور ایثار سے ایسا کیا جائے اور آفات و مصائب میں برداشت کے ذریعہ سے یہ بات حاصل کی جائے مگر بُزدلانہ صبر نہیں بلکہ دلیر انہ صبر کہ جس میں باوجود طاقت کے برداشت اور عفو سے کام لیا جائے اور صرف خدا کو خوش کرنے کے لئے یہ کام کیا جائے اوراپنے اعلان کے آخر میں ہم پھر کہتے ہیں کہ یہ کام تیرے سپرد چند دن کے لئے نہیں کیا جا تا، چند سال کے لئے نہیں کیا جا تااب تُو ہی ہمارا ہو کر رہے گا اور ہمیشہ کیلئے اس عُہدہ پر قائم رکھا جائے گا۔
دیوانِ خاص کی تیسری غرض
(۳) دیو انِ خاص کی تیسری غرض یہ ہو تی ہے کہ با دشاہ اپنے درباریوں کے کام میں سہولت
پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کی تدابیر اختیا ر کرتا اور اُن کی مشکلات کے بارہ میں علاج تجویز کرتا ہے اور پھر انہیں مدد دینے کے وعدے کرتا ہے جس سے ان کے اندر کا م کرنے کی ایک نئی روح پیدا ہو جاتی ہے۔
دُنیوی بادشاہوں کاطریقِ کار
میں نے دیکھا کہ دُنیوی بادشاہ ایسا کرتے ہیں مگر اوّل تو وہ ہمیشہ ہی صحیح
علاج بتانے میں کا میا ب نہیں ہو تے۔ دوسرے کئی دفعہ بادشاہ علاج بتانے کی جگہ خود اپنے درباریوں سے علاج پو چھتے ہیں اور اُن کی مشکلا ت میں مدد دینا تو الگ رہا خود اپنی مشکلات میں اُن سے مدد لینے کے محتاج ہوتے ہیں اور پھر جو وعدے کرتے ہیں ان کو بھی بسا اوقات وہ پورا نہیں کرتے۔
قرآنی دیوانِ خاص کا نرالا طریق
مگر اس ’’دیوانِ خاص ‘‘میں میَں نے اس بارہ میں بھی نرالا طریق دیکھا۔ میَں نے
دیکھا کہ بادشاہ خود ہی سب علاج بتاتا ہے اور خود ہی سب کچھ مہیّا کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ہر وعدہ کووہ پورا بھی کرتا ہے۔ چنانچہ میَں نے قرآنی دربارِخاص کا مطا لعہ کیا تو مجھے عجیب حُسن نظر آیا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی حفاظتِ خاص کا وعدہ
میَں نے دیکھا کہ بادشاہ جب وزراء اور افسرمقرر کرتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ وہ بادشاہ اور اس کے خاندان کی حفاظت
کرینگے مگر میں نے اس دربارِ خاص کا یہ طریق دیکھا کہ جب اس دربار میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گورنر جنرل مقرر کیا گیا تو ساتھ ہی کہدیا گیا کہ ۵۸؎ یعنی اے ہما رے رسول! ہم نے تیری طرف جو کچھ نا زل کیا ہے تُو اسے لو گوں تک پہنچا دے اور اگر توُ ایسا نہیں کریگا تو تیری رسالت کا کا م نا تمام رہے گا بیشک اس کا م میں تجھے مشکلات پیش آئیں گی، اپنے اور بیگا نے تیری مخالفت میں کھڑے ہو جا ئینگے اور وہ کوشش کرینگے کہ تجھے کُچل کر رکھ دیں اور تیرے نام کو صفحہء ہستی سے معدوم کر دیں مگر خدا اُن کو ناکام کریگا اور وہ تجھے لوگوں کے تمام حملوں سے محفوظ رکھے گا۔ یہ کیسا ’’دیوانِ خاص ‘‘ ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات الگ بھی کی جا تی ہے اور پھر دیوانِ عام میں سُنانے کا حکم دیا جا تا ہے اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہا جا تا ہے کہ اس اعلان کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے تو ہم ذمہ دار ہیں۔
دشمنوں کی عبرت ناک نا کا می کا مرقّع
دنیا نے اس اعلان کو سُنا تو وہ حقارت کے ساتھ ہنسی اوراُس نے سمجھا کہ
وہ اپنی کوششوں سے اس گورنر جنر ل کے غلبہ اور اقتدار کو روک سکے گی اور اسے تباہ وبرباد کر دیگی مگر واقعات بتاتے ہیں کہ دشمنوں کی ہر تدبیر نا کام ہو ئی اور خدا تعالیٰ کی حفاظت ہمیشہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاملِ حال رہی۔
حضرت عمر ؓ کاارادئہ قتل
چنانچہ دیکھ لو جب مکہ میں اسلا م نے ترقی کرنی شروع کی اور کفار کی تمام تدابیر کے باوجود مسلمانوں
کی تعداد میں زیا دتی ہوتی چلی گئی تو حضرت عمرؓ جو ابھی اسلا م نہیں لا ئے تھے انہوں نے جوش میں آکر ایک دن تلوار ہاتھ میں لی او ر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور جا تے ہوئے کہہ گئے کہ اچھامیَں خود ہی اِس روز روز کے جھگڑے کو ختم کئے دیتا ہوں ۔ابھی وہ گھر سے تھوڑی دُور ہی گئے تھے کہ انہیں راستہ میں اپنا ایک دوست ملا اُس نے پو چھا عمر! اتنے جو ش میں تلوار ننگی لٹکا ئے کہا ں جا رہے ہو؟ عمر نے کہا آج میَں نے ارادہ کیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا سرلے کر ہی واپس لَو ٹوں گا تاکہ یہ روز روز کے جھگڑے ختم ہو جا ئیں ۔اُس دوست نے کہا عمر! تم محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارنے جا رہے ہو پہلے اپنے گھر کی توخبر لو۔ عمر نے کہا میرے گھر میں کیا ہؤا ہے؟ دوست نے کہا تمہاری بہن اور تمہارابہنوئی محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)کے دین میں داخل ہو چکے ہیں۔ یہ سُن کر حضرت عمرؓ نے بڑے غصّہ میں اپنی بہن کے گھر کا راستہ لیا جب گھر کے قریب پہنچے تو انہیں قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سُنائی دی۔ قرآن کریم پڑھنے کی آواز سُن کر انہیں اَور بھی جو ش آیا اور جھٹ دروازہ کے اندر داخل ہو گئے۔ ان کی آہٹ پاکر حضرت خبابؓ جو ایک حبشی غلام تھے اور وہی اس وقت عمر ؓ کی بہن اور بہنوئی کو قرآن پڑھا رہے تھے کہیں چُھپ گئے اور اُن کی بہن نے قرآن کریم کے اَوراق اِدھر اُدھر چُھپا دئیے۔
بہنوئی پر حملہ
حضرت عمر ؓ نے اندر آتے ہی نہا یت جو ش اور غصّہ کے ساتھ کہا میَں نے سُنا ہے تم دونوںاپنے دین سے پھر گئے ہو اور تم نے
محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی اختیار کر لی ہے!! یہ کہتے ہی وہ اپنے بہنوئی پر جھپٹ پڑے اورانہیں مارنا شروع کر دیا۔ یہ دیکھ کر اُن کی بہن اپنے خاوند کو بچانے کے لئے آگے بڑھی مگر حضرت عمر ؓ کاہا تھ جو اُٹھ چکا تھا اُسے روکنا مشکل تھا چنانچہ ایک مُکّہ ان کی بہن کو بھی جا لگا اور اُن کے جسم میں سے خون بہنے لگا۔
بہن کو زخمی دیکھ کر حضرت عمر ؓ
کی ندامت و شرمندگی
یوں تو عرب لو گ اپنی بیویوں کو مارنا کو ئی عیب نہ سمجھتے تھے مگر کسی دوسری عورت پر ہاتھ اُ ٹھا نا وہ اپنی مردانگی کے خلا ف خیا ل
کرتے تھے حضرت عمرؓ کااپنی بہن کو زخمی کرنا بِالارادہ نہ تھا چونکہ وہ اپنا ہا تھا اُٹھا چکے تھے اس لئے اب اُس کا رُکنا مشکل ہو گیا تھا جب انہوں نے اپنی بہن کو زخمی اور خون میں تربتر دیکھا تواُن کے دل میں ندامت اور شرمندگی پیدا ہوئی اور انہیں گھبراہٹ کے عالَم میں اور کچھ نہ سُوجھا اپنی بہن سے کہنے لگے اچھا ان باتوں کو جانے دو یہ بتائو کہ تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ یہ سُن کر بہن کو بھی سخت غصّہ آیا، کہنے لگی میں تمہیں ہر گز وہ اوراق نہیں دکھائونگی کیو نکہ مجھے خطرہ ہے کہ تم اُن کو ضائع کر دوگے۔ حضرت عمرؓ نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسا نہیں کرونگا بلکہ دیکھ کر تمہیں واپس دیدونگا۔ بہن نے کہا تم جب تک غسل نہ کرلو تم ان اَوراق کو ہا تھ نہیں لگا سکتے چنانچہ حضرت عمرؓ غسل کرنے کے لئے چلے گئے جب غسل سے فارغ ہوئے تو بہن نے قرآن کریم کے وہ اَوراق نکال کر ان کے سامنے رکھ دیئے۔
حضرت عمرؓ پر قرآن کریم کا معجزانہ اثر
حضرت عمرؓ کے دل میں بہن کے زخمی کرنے سے اتنی ندامت
پیدا ہو چکی تھی کہ ضد اور تعصّب اور عداوت کا وہ پردہ جس کی وجہ سے وہ قرآن کریم کو سُننا تک گوارانہ کرسکتے تھے اب ہٹ چکا تھا۔ جب بہن نے قرآن کریم کے اَوراق ان کے سامنے رکھے تو انہوں نے انہیں پڑھنا شروع کیا وہ آیا ت سورہ طٰہٰ کی تھیں جُو ںجُو ں وہ ان آیا ت کو پڑھتے جا تے ایک ایک لفظ ان کے سینے میں نقش ہو تا چلا جا تا۔ پڑھتے پڑھتے حضرت عمرؓ کی حا لت بِالکل بد ل گئی ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور قرآن کریم کی آیا ت نے اُن کی فطری سعادت کو بیدار کر دیا قرآن کریم کا ایک ایک لفظ ان کے سینے کی گہرائیوں میں جا گزیں ہو گیا۔ اب عمر ؓ وہ عمر نہیں رہا تھا جو مسلمانوں کو ان کے اسلام کی وجہ سے دُکھ دیا کرتا تھا، اب عمرؓ وہ عمر نہیں رہا تھا جو اپنی لونڈی کو اسلام لا نے کی وجہ سے ہمیشہ زدوکوب کیا کرتا تھا، اب عمرؓوہ عمر نہیں رہا تھا جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ عہد کر کے نکلا تھا کہ آج مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے ہی واپس لَو ٹو نگا، اب عمرؓ اپنی اس اصل حالت پر آچکا تھا جو اُس کے لئے ازل سے مقدر تھی، اب عمرؓاس رنگ میں رنگین ہو چکا تھا جس میں خدا تعالیٰ اُسے رنگنا چاہتا تھا، اب عمرؓ کی سنگدلی کی جگہ ایمانِ کا مل نے لے لی تھی حضرت عمرؓ نے جب یہ آیت پڑھی۔ ۵۹؎ تو وہ بے اختیا ر ہو کر بولے یہ کیسا عجیب اور پا ک کلام ہے۔ یہ سُنکر حضرت خباب ؓ جو ان سے ڈر کر چُھپے بیٹھے تھے باہر نکل آئے۔
حضرت عمر ؓ کی دارِارقم کو روانگی
حضرت عمرؓ نے جنہیں اب ایمان نے بیقرار کر دیا تھا بیتابی کے ساتھ خبابؓ سے پو چھا
مجھے جلد بتائو محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہیں ؟میں اُن سے ملنا چا ہتا ہوں۔ خباب ؓ نے بتا دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم فلاں جگہ ہیں مگر چونکہ حضرت عمرؓ نے ابھی تک اپنی تلوار اسی طرح کھینچ رکھی تھی جس سے یہ خطرہ محسوس ہو تا تھا کہ ان کے ارادے نیک نہیں اس لئے ان کی بہن اس خیا ل سے کہ خدانخواستہ ان کی نیت خراب ہی نہ ہو آگے بڑھی اور ان کے گلے میں ہا تھ ڈال کر کہنے لگی خدا کی قسم! میں تمہیں ہر گز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھ سے اقرار نہ کر و کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دُکھ نہیں پہنچائو گے۔ حضرت عمرؓ نے کہا نہیں نہیں بہن! ایسا نہیں ہو سکتا مجھ پر اسلام کا گہرااثر ہو چکا ہے۔ یہ سنکر بہن نے انہیں چھوڑدیا اور حضرت عمرؓ دارِارقم کی طرف روانہ ہو گئے جہا ں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن دنوں مقیم تھے۔
حضرت عمرؓ کا رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی غلا می میں داخل ہو نا
حضرت عمر ؓ نے دروازے پر پہنچ کر دستک دی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت صحابہؓ کو قرآن کریم کی تعلیم دے رہے
تھے۔ صحابہ ؓ نے جب دروازے کی دراڑ میں سے دیکھا کہ عمر ننگی تلوار لئے دروازے میںکھڑے ہیں تو انہوں نے سمجھا آج عمر کے ارادے نیک نہیں ہیں اس لئے انہوں نے درواز ہ کھولنے میں تأمّل کیا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دروازہ کھول دو۔ حضرت حمزہؓ جو ابھی نئے ایمان لائے تھے جو ش کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے دروازہ کھو ل دواگر تو عمرکسی نیک ارادہ کے ساتھ آیا ہے تو بہتر ورنہ کیا عمرؓ کو تلوار چلا نی آتی ہے ہمیں تلوار چلانی نہیں آتی۔ صحابہ ؓ نے دروازہ کھولا اور حضرت عمرؓ اُسی طرح ننگی تلوار لئے اندر داخل ہو ئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا عمر!تم کس ارادے سے آئے ہو؟ حضرت عمرؓ نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میں تو آپ کے خادموں میں داخل ہونے کے لئے حاضر ہؤاہوں۔
نعرہ ہا ئے تکبیر
یہ سُنکر آپؐ نے خوشی کے جوش میں اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہا اور ساتھ ہی صحابہؓ نے بڑے زور کے ساتھ اَللّٰہُ اَکْبَرُ کا نعرہ لگایا یہاں
تک کہ مکّہ کی پہاڑیاں بھی گونج اُٹھیں۔۶۰؎
خدا ئی حفاظت کا غیر معمولی نشان
اب دیکھو عمرؓ تو اس ارادہ کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے تھے کہ آج میں
محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو ما ر کر ہی واپس لَو ٹوں گا اُس وقت جبکہ عمر ؓاپنی تلوار سونت کر گھر سے نکلے ہو نگے مکہ والے کتنے خوش ہو نگے کہ آج عمرؓ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کئے بغیر واپس نہ آئیگا، مکہ کے لو گ بیتابی کے ساتھ انتظار کر رہے ہو نگے کہ کب انہیں خوشخبری ملتی ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دیا گیا ہے، وہ لوگ ایڑیا ں اُٹھا اُٹھا کر حضرت عمرؓ کی راہ تک رہے ہو نگے کہ کب وہ پہنچ کر اپنی کامیابی کی اطلاع دیتے ہیں، وہ لوگ خوش ہونگے کہ آج عمرؓ اِس جھگڑے کو ختم کر کے ہی واپس آئے گا۔ عمرؓ اپنی جگہ خوش تھے او رگھر سے تلوار سَونت کر نکلتے وقت کہہ رہے ہو نگے کہ میرے جیسا بہا در بھلا فیصلہ کئے بغیر لَوٹ سکتا ہے؟غرض حضرت عمر ؓ اپنی جگہ خوش تھے اور مکّہ والے اپنی جگہ پر خوش تھے اِس بات پر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ضرور قتل ہو جائینگے مگر خدا تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہؤا اُن کی نادانی پر ہنس رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) کیا ہم نے تجھ سے یہ نہیں کہا کہ ۶۱؎ خداتعالیٰ تجھے خودلو گو ں کے حملہ سے بچائے گا چنا نچہ اُس نے حضرت عمر ؓکواِس طرح پکڑا کہ کوئی انسان اس طرح پکڑ نہیں سکتا۔ انسان کی گرفت زیا دہ سے زیادہ یہ ہو سکتی تھی کہ کوئی مسلمان حضرت عمرؓ کے مقابلہ میں کھڑا ہوجا تا اور اُن کو ما ر دیتا، انسان کی گرفت زیا دہ سے زیادہ یہ ہو سکتی تھی کہ حضرت عمر ؓ کی بہن یا ان کا بہنوئی اور ان کا حبشی غلام انہیں راستہ میں پکڑ لیتے اور انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ جا نے دیتے، انسان کی گرفت یہ ہو سکتی تھی کہ حضرت حمزہؓ یا کوئی اور صحابی حضرت عمر ؓ کے مقابلہ پر کھڑے ہو جا تے اور انہیں قتل کر دیتے مگرخداتعالیٰ نے حضرت عمرؓ کو اِس طرح پکڑا کہ وہی عمر جو آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا آپ کے پاس پہنچ کر خود قتل ہو گیا۔ جسم کی موت بھلا کیا حقیقت رکھتی ہے اصل موت تو وہ ہو تی ہے جب کوئی شخص کسی کی غلامی میں داخل ہو جا تا ہے۔ حضرت عمرؓ گئے تو اِس نیت کے ساتھ تھے کہ وہ آپؐ کو ما ردینگے لیکن اِسی عمر ؓکو خدا نے ایسا مارا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تلوار لے کر کھڑ ا ہو گیا اور اُس نے کہا کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہؐ فوت ہو گئے ہیں تو میَں اُس کی گردن کاٹ دونگا۔۶۲؎
واقعہ ء ہجرت
پھر واقعہء ہجرت پر غور کر و اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی معجزانہ رنگ میں حفاظت فرمائی۔ مکّہ کے
صنا د ید آپس میں مشورہ کرکے فیصلہکرتے ہیں کہ مختلف قبائل کے مسلّح نوجوان رات کو آپؐ کے مکان کے اِردگِرد گھیرا ڈال لیں او ر جب آپ باہر تشریف لائیں تو سب مل کر آپؐ کو قتل کریں تا کہ یہ خون قریش کے متفرق قبائل پر تقسیم ہو جائے اور بنو ہا شم انتقام لینے کی جرأت نہ کر سکیں۔ اِدھر انہوں نے یہ فیصلہ کیا اور اُدھراُ سی خدا نے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہؤا تھا محمد رسول اللہ علیہ وسلم کو کفار کے اس بدارادہ کی اطلاع د ے دی اور آپؐ کو مکہ سے ہجرت کا حکم دے دیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اپنے گھر سے ایسی حالت میں نکلتے ہیں جب قریش کے مسلّح نوجوان آپ کے قتل کے ارادہ سے آپ کے مکان کے اِرد گِرد گھیراڈالے ہوئے ہیں مگر آپ کے دل میں کوئی گھبراہٹ پید انہیں، آپ کے بدن میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہو تا، آپ کے جسم پر کپکپی طاری نہیں ہو تی، آپ کے حواس پراگندہ نہیں ہوتے، آپ بڑے اطمینان کے ساتھ اُن سفّاک اور خونخوار بھیڑیوں کے درمیان سے خراماں خراماں نکل جا تے ہیں اور کوئی آنکھ آپ کو بد اِرادہ سے نہیں دیکھ سکتی، کوئی ہا تھ آپؐ پر وار کرنے کے لئے نہیں اُٹھ سکتا، کوئی تلوار اپنی میان سے باہر نہیں آسکتی، زمین وآسمان کے خدا نے اُن کی آنکھوں کو اندھا کردیا، اُن کے ہا تھوں کو شل کر دیا او رمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحفا ظت وہا ں سے نکا ل لیا کیونکہ خدا نے یہ فرمایا تھا کہ ۔
غارِ ثور تک پہنچ کر بھی دشمن رسول کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی گرفتاری میں کامیا ب نہ ہو سکا
جب دشمن نے دیکھا کہ اس کا یہ تیر بھی خالی چلا گیا تو اپنی ندامت اور شرمندگی
مٹانے کے لئے اُس نے مکّہ کے ہو شیا ر او ر فنکا ر کھوجیوں کی مدد سے آپؐ کے پا ئوں کے نشانات دیکھتے ہوئے غارِ ثور تک آپ کا تعاقب کیا اور دشمن اِس قدر قریب پہنچ گیا کہ حضرت ابوبکر ؓ جو اس ہجرت میں آپ کے ساتھ شامل تھے گھبرا اُٹھے اور انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللہ! دشمن اِس قدر قریب پہنچ چکا ہے کہ اگر وہ ذرا آگے بڑھ کر غار کے اندر جھا نکے تو ہمیں پکڑ نے میں کامیا ب ہو سکتا ہے۔ مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اطمینان سے فرماتے ہیں کہ اے ابوبکر! گھبراتے کیوں ہو خدا ہما رے ساتھ ہے۔۶۳؎ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ ہمیں پکڑ نے میں کا میاب ہو سکیں۔ چنا نچہ مکہ کے صنا د ید جس طرح رات کی تاریکی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے میں نا کام ونا مراد رہے ہیں اِسی طرح وہ دن کی روشنی میں بھی آپ کی گرفتاری میں کامیا ب نہ ہو سکے اور خدا نے بتا دیا کہ میَں رات اور دن اس انسان کے ساتھ ہوں۔ ممکن ہے اُن مکّہ کے نوجوانوں میں بعض یہ خیال کرتے ہوں کہ چونکہ رات تھی اِس لئے محمد رسول اللہ نکلنے میں کا میا ب ہو گئے، خدا اُن کو دن کے وقت غارِثور کے منہ پر لا یا اور پھر اُن کی آنکھوں میں نابینائی پیدا کر کے بتادیا کہ اس کا اصل باعث یہ نہیں کہ محمد رسول اللہ رات کی تاریکی میں نکل آئے تھے بلکہ اس کا اصل باعث یہ ہے کہ میَں اس کا محا فظ ہو ں ورنہ دن کی روشنی میں اپنے کھو جیوں کی نشان دہی کے باوجود تم اسے پکڑ نے میں کیو ں کا میا ب نہ ہو سکے۔
سُراقہ کا تعاقب
پھر جب آپ مدینہ جا رہے تھے ایک دشمن آپ کے سر پر پہنچ گیا مگر الٰہی تصرف کے ماتحت اُ س کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی او ر
وہ گُھٹنوں تک زمین میں دھنس گیا۔ وہ پھر آگے بڑھا تو دوبارہ اُس کے گھو ڑے نے ٹھو کر کھا ئی او روہ پیٹ تک زمین میں دھنس گیا۔ اِس پر وہ گھبرا اُٹھا اور اُس نے سمجھا کہ یہ بِلاوجہ نہیں ہو سکتا چنا نچہ یا تو وہ آپ کی گرفتاری کے ارادہ سے باہر نکلا تھا یا عجز اور انکسار کے ساتھ وہ آپ سے معافی کا طالب ہؤا اور اُس نے کہا کہ آپ خداتعالیٰ کے سچے نبی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آ پ ایک دن ضرور غالب آکر رہیں گے۔ ۶۴؎
اِس واقعہ پر غور کر و اور دیکھو کہ کس طرح قدم قدم پر خدا تعالیٰ نے آپ کی معجزانہ رنگ میں حفا ظت فرمائی اور دشمن کو اپنے نا پاک عزائم میں ناکام رکھا۔
الٰہی تصرّف کے ما تحت دشمن
کے ہا تھ سے تلوار گِر جا نا
اِسی طرح غزوہ غطفان سے واپسی کے موقع پر جبکہ آپ ایک درخت کے نیچے سو رہے تھے ایک دشمن آپؐ کو قتل کرنے کے ارادہ سے آپ
کے پاس جا پہنچااو راُس نے آپ کی ہی تلوار سونت کر آپ کو جگا یا اور پوچھا کہ اب آپ کو کو ن بچا سکتا ہے؟ آپؐ نے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان کے ساتھ فرمایا کہ اَللّٰہُ۔اِن الفا ظ کا اُس پر ایسا ہیبت ناک اثر ہؤا کہ اُس کے ہاتھ کا نپ گئے اور تلوار اس کے ہا تھ سے گر گئی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً وہ تلوار اپنے ہا تھ میں پکڑی اور اُس سے پو چھا کہ بتااب تجھے مجھ سے کون بچاسکتا ہے؟ اُس نے کہا آپ ہی رحم کریںتو کریں ورنہ میری نجا ت کا اور کو ئی ذریعہ نہیں۔۶۵؎
جنگِ اُحد میں ـخدائی تصرّف
پھر جنگ اُحد میں ایک وقت ایسا آیا جب بعض صحابہؓ کی غلطی کی وجہ سے اسلامی لشکر تِتّر بِتّر
ہو گیااو ر آپؐ کے اِرد گِرد صرف چند صحابہؓ رہ گئے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ آپ اکیلے نرغہء اعداء میں گھِر گئے۔ ایسے خطر نا ک مو قع پر اگر خدا کی حفا ظت آپ کے شاملِ حال نہ ہو تی تو دشمن کے لئے آپؐ کو جا نی نقصان پہنچانا کوئی بڑی بات نہ تھی۔ ہزاروں مسلّح سپاہیوں کے سامنے کسی ایک شخص کی کیا حیثیت ہو تی ہے مگر ان نا زک گھڑیوں میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے سامنے میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی وہا ں سے ہٹ جا نے یا خود حفا ظتی کے لئے کسی پتھر کے پیچھے چُھپ جا نے کا خیا ل بھی آ پ کے دل میں پیدا نہیں ہؤا۔ دشمن آگے بڑھا اور اُس نے آپ پر شدید حملہ کر دیا یہاں تک کہ آپؐ کے دندانِ مبارک بھی شہید ہو گئے اور آپ بیہوش ہو کر گڑھے میں گِر گئے۔ دشمن نے سمجھا کہ وہ آپ کو مارنے میں کامیاب ہو گیا ہے مگر جب جنگ کے بادل پھٹے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ میں سورج کی طرح دمکتے دیکھا اور یہ خبر اُن پر بجلی بن کر گِری کہ آج بھی وہ ہزاروں کا لشکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے میں کا میا ب نہیں ہو سکا۶۶؎ اور کیوں ایسا نہ ہو تا جبکہ اِس گورنر جنر ل کے متعلق دربارِ خاص میں یہ اعلان کردیا گیا تھا کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! خداتجھے لو گوں کے حملوں سے بچائے گا۔
جنگِ حنین میں محمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کا دشمن کی طرف بڑھتے چلے جا نا
اِسی طرح حنین کی جنگ میں جب صرف بارہ(۱۲) آدمی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد رہ
گئے تھے او ر دشمن کے چار ہزار تیر انداز تیروں کی بارش برسا رہے تھے بعض صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہا اور کہا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! اِس وقت آگے بڑھنا ہلاکت کے منہ میں جا نا ہے مگر آپ نے بڑے جوش سے فرمایا میرے گھوڑے کی باگ چھوڑدومَیں پیچھے نہیں ہٹ سکتااور خوددشمن کی طرف یہ کہتے ہوئے آپ نے بڑھنا شروع کردیاکہ:۔
اَنَا النَّبِیُّ لَاکَذِبْ
اَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ۶۷؎
مَیں خداتعالیٰ کا سچا نبی ہوں اُس کی طرف جھوٹی بات منسوب نہیں کررہا لیکن میری اس وقت کی کیفیت کو دیکھ کر تم یہ خیا ل نہ کر لینا کہ میرے اندر کو ئی خدائی طاقت پا ئی جا تی ہے میں ایک انسان ہوں اور عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔ غرض اُن نازک گھڑیوں میں بھی جب اسلام کے جا نباز سپاہی جو سارے عرب کوشکست دے چکے تھے بارہ(۱۲) ہزار کی تعداد میں ہوتے ہوئے ایک غیر متوقع حملہ کی تاب نہ لا کر اپنے پائے ثبات میںجُنبش محسوس کررہے تھے اور اُن کی سواریاں میدانِ جنگ سے بھا گ رہی تھیں،جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اِرد گِرد صرف چند آدمی رہ گئے تھے، جب ہر طرف سے دشمن بارش کی طرح تیر برسا رہے تھے آپ آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے کیونکہ آپؐ کو یقین تھا میرا خدا میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے خود دشمن کے حملہ سے بچائے گا۔
ایک حیرت انگیز واقعہ
پھر اِسی جنگ کا ایک اور حیرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ مکّہ کا ایک شخص جس کا نام شیبہ تھا اِس جنگ میںصرف
اِس نیت اور ارادہ کے ساتھ شامل ہؤا کہ مو قع ملنے پر مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دونگا۔ جب لڑا ئی تیز ہوئی تو وہ خود کہتا ہے کہ میں نے تلو ار سونت لی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادہ سے میَں نے آپؐ کے قریب ہو نا شروع کیا۔ اُس وقت مجھے یو ں معلوم ہؤا کہ میرے اور آپؐ کے درمیان آگ کا ایک شُعلہ اُٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے جلا کر بھسم کر دے مگر پھر بھی میں آگے بڑھتا چلا گیا اُس وقت اچانک مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دی کہ شیبہ! میرے پاس آئو جب میں آ پ کے قریب پہنچا تو آپؐ نے میرے سینہ پر اپنا ہا تھ پھیرا اور فرما یا اے خدا! شیبہ کو شیطانی خیالات سے نجا ت دے۔ شیبہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا تھاکہ یکدم میری تمام دشمنی دُور ہو گئی اور میرا دل آپ کی محبت اور پیا ر کے جذبات سے اِس قدر لبریز ہو گیا کہ اُس وقت میرے دل میں سوائے اِس کے اور کوئی خواہش نہ رہی کہ میَں اپنی جان آپ کے لئے قربان کردوں۔۶۸؎
شاہِ ایران کا محمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی گرفتاری کا حُکم دینا
پھر کسریٰ شاہِ ایران جو آدھی دنیا کا ما لک تھا اُس نے یہود کے اشتعال دلانے پر اپنے گورنرِ یمن کو لکھا کہ عرب کے اس
مدعیٔ نبوت کو گرفتار کر کے میرے پا س بھجوا دیا جا ئے یہ شخص اپنے دعووں میں بہت بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ گورنر یمن نے اس حکم کے ملتے ہی ایک فوجی افسر کو اِس ڈیو ٹی پر مقرر کیا اور وہ ایک سپا ہی کو اپنے ساتھ لیکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے مدینہ منورہ میں پہنچا اور اُس نے آپ سے کہا کہ کسریٰ نے گورنرِ یمن کو حکم بھجوایا ہے کہ آ پ کو گرفتار کرکے اُس کی خدمت میں حا ضر کیا جا ئے اور ہم اس غرض کے لئے یہاں آئے ہیں آپ ہما رے ساتھ چلیں ورنہ کسریٰ کو زیادہ غصّہ آیا تو وہ آپ کو بھی ہلا ک کر دیگا اور آپ کی قوم اور ملک کو بھی برباد کر دے گا۔
شاہ ِ ایران کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم آج رات ٹھہرو
کل میں تمہیں اس کا جواب دونگا۔ رات کو آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا کی تو خداتعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو بتایا گیا کہ کسریٰ کی اِس گستاخی کی سزا میں آج رات ہم نے اس کے بیٹے کو اس پر مسلّط کر دیا ہے اور اُس نے اپنے باپ کو قتل کر دیا ہے۔ جب صبح ہو ئی اور گورنرِ یمن کے ایلچی دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہو ئے تو آپ نے فرمایا جا ئو اور اپنے گورنر سے جا کر کہہ دو کہ آج رات میرے خدا نے تمہا رے خداوندکو ما ر دیا ہے ۔
گورنرِ یمن کا استعجا ب
جب گورنرِ یمن کو یہ اطلا ع پہنچی تو اس نے کہا اگر یہ شخص واقعہ میں خداتعالیٰ کی طرف سے ہے تو ایسا
ہی ہؤا ہو گا لیکن اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تو پھر کسریٰ اسے بھی تباہ کر دیگا اور اس کے ملک کو بھی برباد کر دے گا بہر حال اُس نے حیرت اور استعجاب کے ساتھ اس خبر کو سُنا اور اُس نے ایران سے آنے والی اطلا عات کا انتظار کرنا شروع کیا ۔
گورنرِیمن کا اقرار کہ مدینہ
کے نبی نے سچ کہا تھا
تھو ڑے ہی دن گزرے تھے کہ یمن کی بند رگاہ پر ایران کا ایک جہا ز لنگر انداز ہؤا اور اس میں ایک شاہی ایلچی نے گورنرِ یمن کو بادشاہ کا ایک خط دیا۔
اُس پر چونکہ ایک نئے بادشاہ کی مُہر تھی اس لئے خط کو دیکھتے ہی گورنر یمن کہہ اُٹھا کہ مدینہ کے نبی نے سچ کہاتھا۔ پھر اُس نے خط کھو لا تو اُس میں کسریٰ کے بیٹے (شیرویہ) نے لکھا ہؤا تھا کہ میَں نے اپنے باپ کو اس کے مظالم کی وجہ سے قتل کر دیا ہے اور اب میَں اُس کی جگہ تختِ حکومت پر متمکن ہوں تم تما م افسروں سے میری اطاعت کا اقرار لو اور یہ بھی یا د رکھو کہ میرے باپ نے عرب کے ایک نبی کی گرفتاری کا جو حکم بھیجا تھا اُس کو مَیں منسوخ کرتا ہوں کیو نکہ وہ نہایت ظالمانہ حکم تھا۔ گورنر یمن اس خط کو پڑھ کر اِس قدر متأثر ہؤا کہ وہ اوراُس کے کئی ساتھی اُسی وقت اسلام میں داخل ہو گئے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام میں داخل ہونے کی اطلاع بھجوادی۔۶۹؎
اِس واقعہ پر غو ر کرو اور دیکھو کہ کس طرح قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائیداو ر اُس کی نصرت آپؐ کے شاملِ حال رہی۔ دشمن نے آپ کو قتل کرنے کے لئے کئی منصوبے کئے مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دفعہ اس کو اپنے منصوبوں میں نا کام رکھا ۔
یہود کی متواتر نا کامی
مدینہ منو رہ میں اسلام اور مسلمانو ں کے سب سے بڑے دشمن یہو د تھے جو مخالفت کا کوئی موقع اپنے ہا تھ سے نہیں
جانے دیتے تھے۔ ایک دفعہانہی کے ایک قبیلہ بنو نضیر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض امور پر گفتگو کرنے کے لئے بُلوایا۔ لیکن در پردہ سازش کی کہ ایک شخص چپکے سے چھت پر چڑھ کر ایک بڑا وزنی پتھر آپ پر گِرادے جس سے آپ ہلا ک ہو جائیں او ر بعد میں یہ مشہو ر کر دیا جائے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ ہو گیا ہے۔ مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اِس کی خبر دیدی اور آپ وہا ں سے اُٹھ کر واپس آگئے۔۷۰؎
اِسی طرح غزوئہ خیبر میں ایک یہودی عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملادیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا لُقمہ ہی اُٹھا یا تھا کہ آپ کو اس کا علم ہو گیا کہ کھا نے میں زہر ملایا گیا ہے او ر آپ اسے چھو ڑ کر کھڑے ہوگئے۔۷۱؎
غرض اس دربار میں خدائی گورنر جنرل کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا تاریخی واقعات اِس بات پر گواہ ہیں کہ وہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پوار ہؤا۔
اچھے ہتھیا روںاور اچھے
معاونوں کی ضرورت
پھر ایک افسر تبھی کا میا ب ہو تاہے جب اسے اچھے ہتھیا ر اور اچھے معاون ملیں۔دُنیوی بادشاہ افسر مقرر کر کے یہ چاہتے ہیں کہ اب وہ اچھے ہتھیا ر
اور اچھے معاون خود تلاش کریں مگراس دربار میں میَں نے یہ عجیب بات معلوم کی کہ گورنرجنر ل کے مقرر ہوتے ہی یہ اعلان کیا جا تا ہے کہ اسے بہترین ہتھیا ر اور بہترین معاون ہم خود دینگے اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی چنا نچہ اس خدائی گورنر جنر ل کے متعلق یہ اعلان کیا گیا کہ ۷۲؎
قرآنی اسلحہ
اے لو گو سنو!ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کا روحانی حاکم مقرر فرما دیا ہے اور اسے ایک ایسے ہتھیا ر کے ساتھ مسلّح کیا ہے جس کی
بڑی خوبی یہ ہیکہ وہ جسموں کو نہیں بلکہ دلوں اور دماغوں کو فتح کرتا ہے۔ پھر یہ ہتھیا ر ایسا نہیں جس کی چوٹ کھا کر لو گ زخموں سے تڑپنے اور تلملانے لگ جا ئیں بلکہ لو گ اس ہتھیا ر کی چوٹ کھانے او ر اس کا شکا ر ہو نے میں ایک لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں۔ یہ روحانی ہتھیار میں ہے یعنی پہلی الہا می کتب کی تما م اعلیٰ درجہ کی اخلا قی اور روحانی تعلیموں کو اس میں جمع کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ اسے اپنے سروں پر اُٹھا ئے پِھریں گے اور کو ئی نقص اس میں نہیں پائیں گے۔
حاملینِ قرآن کی عظمت
یہ ہتھیا ر ہو گا یعنی ایسے سپاہیوں کے ہا تھوں میں دیا جا ئیگا جو مسافر بھی ہونگے اور لکھنے
والے بھی ہونگے یعنی ایک طرف وہ اپنے زمانہ کے لو گوں کے دلوں کو فتح کر نے کے لئے دُور دُور کا سفر کرینگے جیسے صحابہؓ قرآن کریم کو اپنے ہا تھ میں لے کر ہندوستانؔ، ایر انؔ، عراقؔ، مصرؔ ، بربرؔاور رومؔ وغیر ہ تک چلے گئے اور دوسری طرف آئندہ زمانہ کے لوگوں کے دل فتح کرنے کے لئے وہ اِس کتاب کو لکھ لکھ کر پھیلا دینگے تاکہ ہر زمانہ کے لو گ اِس سے فا ئدہ اُٹھا ئیں۔ وہ دنیا کو اِس ہتھیا ر سے فتح کرنے کی وجہ سے ہو جا ئیں گے لیکن معزّز ہو نے کی وجہ سے وہ مغرور نہ ہو نگے بلکہ ہوں گے یعنی دوسروں پر احسان کرنے والے اور اُن کے غمخوار اور اپنی ترقی کو ذاتی بڑائی کا موجب نہیں بنائیںگے بلکہ اُسے محتاجوں کی تکلیفیں اور غرباء کی مشکلات دُور کرنے کا موجب بنائیںگے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور
آپؐ کے صحابہؓ کی غرباء پر وری
چنا نچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے صحابہ کی زندگی کے حا لات پر نگا ہ ڈالی جائے تو ہر شخص کو یہ اقرار کرنے پر مجبور
ہونا پڑیگاکہ ان میں یہ خوبی نہا یت نمایاں طور پر پائی جا تی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو بڑی شان عطا فرمائی مگر ہر قسم کی طاقت اور شوکت رکھنے کے باوجود انہوں نے غرباء اور مساکین کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھا اور اُنکی تکا لیف کو دُور کرنے کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا ۔
حلف الفضول میں شمولیت
رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مبعوث نہیں ہوئے تھے کہ مکّہ کے بعض شرفاء نے ایک سوسائٹی
بنائی جس کا کام یہ تھا کہ جو لو گ مظلوم ہوں اُن کی امداد کی جا ئے اِس سوسائٹی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوئے اور چونکہ اِس کے بانیوں میں سے اکثر کے نام میں فضل آتاتھا اِس لئے اِس کا نام حلف الفضول رکھا گیا۔ اِس واقعہ پر سالہا سال گزرنے کے بعد ایک دفعہ صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریا فت کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! یہ کیسی سوسائٹی تھی جس میں آپ بھی شریک ہو ئے تھے؟ غا لباً صحابہ کا منشاء یہ تھا کہ آپ تو نبی ہو نے والے تھے آپ ایک انجمن کے ممبر کس طرح ہو گئے جس میں دوسروں کے ماتحت ہو کر کام کرنا پڑتا تھا۔ آپ نے فرمایا یہ تحریک مجھے ایسی پیا ری تھی کہ اگر آج بھی مجھے کوئی اس کی طرف بُلائے تومیں اس میں شامل ہونے کے لئے تیا رہوں۔۷۳؎ گویا غرباء کی امداد کے لئے آپکو دوسروں کی ماتحتی میں بھی کوئی عار نہیں تھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مظلوم
شخص کے متعلق ابو جہل سے مطالبہ
پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک ثبوت بھی انہی دنوں بہم پہنچا دیا۔ مکّہ کے قریب کا ایک
شخص تھا جس کا ابوجہل کے ذمہ کچھ قرض تھا اُس نے ابوجہل سے اپنے روپے کا مطالبہ شروع کردیا مگر ابوجہل اس کی ادائیگی میں لیت ولعل کرتا رہا۔ آخر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ابوجہل نے میرا اتنا روپیہ مارا ہؤا ہے آپ مجھے میرا حق دلادیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ابو جہل آپ کے قتل کا فتویٰ دے چکا تھا اور مکّہ کا ہر شخص آپ کا جانی دشمن تھا۔جب آپ باہر نکلتے تو لوگ آپ پر پتھر اور مٹی پھینکتے، بیہودہ آوازے کستے اور ہنسی اور تمسخر کرتے مگر آپ نے ان باتوں کی کوئی پر وا ہ نہ کی اور فوراً اُس آدمی کو ساتھ لے کر ابوجہل کے مکا ن پر پہنچے اور دروازہ پر دستک دی۔ ابوجہل نے دروازہ کھو لا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شحص جس کا میں اِس قدر دشمن ہوں آج میرے مکان پر چل کر آگیا ہے۔ اُس نے پوچھا آپ کس طرح آئے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس شخص کا کوئی روپیہ دینا ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر دے دو۔ ابوجہل خاموشی سے اندر گیا اور روپیہ لا کر اس کے حوالے کردیا ۔۷۴؎
قدرت کا ایک عجیب نشان
جب یہ خبر مکّہ میں مشہور ہو ئی تو لو گوں نے ابوجہل کا مذاق اُڑانا شروع کردیا کہ تم تو کہتے تھے کہ
محمد (صلے اللہ علیہ وسلم ) کو جتنا دُکھ دیا جا ئے اتنا ہی اچھا ہے او ر خود اُن سے اتنا ڈر گئے کہ اُن کے کہتے ہی چُپ کر کے روپیہ لا کر دیدیا۔ ابو جہل کہنے لگا تم نہیں جا نتے جب میں نے دروازہ کھو لا تو مجھے ایسا معلوم ہؤاکہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے دائیں اور بائیں دو دیوانے اونٹ کھڑے ہیں اور اگر مَیں نے ذرا بھی انکار کیا تووہ مجھے نوچ کر کھا جائینگے۔۷۵؎ غرض ایک غریب کا حق دلوانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا اور اس طرح اپنے عمل سے بتا دیا کہ انسان کے اندر غرباء کی امداد کا کس قدر احساس ہو نا چاہئے۔
صدقہ کا ایک دینا ر تقسیم نہ ہو نے پر
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ
اِسی طرح ایک دفعہ صدقات کا کچھ روپیہ آیا تو اُن کو تقسیم کرتے ہوئے ایک دینار کسی کونے میں گِر گیا اور
آپ کو اُٹھا نے کا خیال نہ رہا۔ نماز پڑھا نے کے بعد آپ کو یاد آیا تو لوگوں کے اوپر سے پھا ندتے ہوئے آپ جلدی سے اندر تشریف لے گئے۔ صحابہؓ حیران ہوئے کہ آج کیا بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی گھبراہٹ میں گھر تشریف لے گئے ہیں۔ جب آپ واپس آئے تو آپ نے فرمایا صدقہ کا ایک دینا ر گھر میں رہ گیا تھا میں نے چاہا کہ جس قدر جلدی ممکن ہو اِسے غرباء میں تقسیم کردوں۔۷۶؎
حضرت عائشہ ؓ کی سخاوت
اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گو خود نہیں کماتی تھیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت
اور آپ کے تعلق کی وجہ سے صحابہ آپ کی خدمت میںاکثر ھدایا بھجواتے رہتے تھے لیکن وہ بھی اپنا اکثر روپیہ غرباء اور مساکین میں تقسیم فرما دیا کرتی تھیں۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ ایک ایک دن میں ہزار ہا روپیہ آپ کے پاس آیا مگر آپ نے وہ سب کا سب شام تک تقسیم کر دیا اور ایک پائی بھی اپنے پاس نہ رکھی۔ اِس پر ایک سہیلی نے کہا آپ روزہ سے تھیں افطاری کے لئے چار آنے تو رکھ لیتیں آپ نے فرمایا تم نے پہلے کیو ں نہ یاد دلایا۔۷۷؎
حضرت عائشہ کی اپنے
بھا نجے سے نا راضگی
ان کی عادت کو دیکھ کر ایک دفعہ ان کے بھا نجے نے جس نے اُن کے مال کا وارث ہو نا تھاکہیں کہہ دیا کہ حضرت عائشہ تو اپنا سارا مال لُٹا دیتی ہیں۔ یہ خبر جب
حضرت عائشہ کو پہنچی تو آپ نے اپنے گھر میں اُس کا آنا جا نا بند کر دیا اور قسم کھا ئی کہ اگر میَں نے اسے اپنے گھر میں آنے کی اجا زت دی تو مَیں اس کا کفارہ اداکروںگی۔کچھ عرصہ کے بعد صحابہؓ نے درخواست کی کہ آپ اس کا قصور معاف فرمادیں۔ چنانچہ اُن کے زور دینے پر حضرت عائشہ ؓنے اسے معاف کر دیا مگر فرمایا کہ چونکہ مَیں نے یہ عہد کیا تھا کہ اگرمیں اسے معاف کروں گی تو کفارہ ادا کروںگی اس لئے میں اس کا کفارہ یہ قراردیتی ہوں کہ آئندہ میرے پاس جو دولت بھی آئیگی وہ مَیں سب کی سب غرباء اور یتامیٰ ومساکین کی بہبودی کے لئے تقسیم کردیا کر ونگی۔۷۸؎
حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کی
کثرتِ ما ل کے باوجود انتہا ئی سادہ زندگی
اِسی طرح صحابہؓ میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف لا کھو ں روپیہ کی جا ئداد کے مالک تھے
چنا نچہ جب آپ فوت ہوئے تو اڑھا ئی لا کھ دینا ر اُن کے گھر سے نکلا۷۹؎ مگر اتنی دولت رکھنے کے باوجود تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ نہا یت سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے اموال کا اکثر حصّہ غرباء کی ترقی کے لئے خرچ دیاکرتے تھے۔۸۰؎ غرض صحابہ نے مال و دولت کو کبھی ذاتی بڑائی کے حصول کاذریعہ نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ اُسے بنی نوع انسان کی بہبودی کے لئے خرچ کیا ہے۔
ایک صحابی کا اپنے تما م قرض معاف کر دینا
یہ خوبی صحابہ میںاس قدر نمایا ں پائی جا تی تھی کہ
اسلامی تاریخ میں ایک مشہور صحابی حضرت قیس کے متعلق جنہیں فتح مکّہ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر کا کمانڈر مقرر فرمایا تھاروایت آتی ہے کہ جب وہ مرضُ الْموت میں مبتلاء ہوئے تو ایک دن انہوں نے اپنے بعض دوستوں سے پو چھا کہ میری بیماری کی خبر تو سب لو گو ں میں مشہور ہو چکی ہے مگر میری عیا دت کو بہت کم لوگ آئے ہیں اِس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا بات دراصل یہ ہے کہ آپ بڑے مخیر آدمی ہیںآپ نے سینکڑوں لو گو ں کو قرض دیا ہؤا ہے اب وہ آ پ کے پاس آتے ہوئے شرماتے ہیں کہ مبادا آپ روپیہ کا تقاضانہ کردیں۔ آپ نے فرمایا! اوہو میرے دوستوں کو بڑی تکلیف ہوئی جا ئو اور سارے شہر میں منا دی کردو کہ ہر شخص جس کے ذمہ قیس کا کو ئی قرض ہے وہ اُسے معاف کر دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ اِس اعلان پراِس قدر لوگ ان کی عیا دت کے لئے آئے کہ ان کی سیڑھیا ں ٹُوٹ گئیں۔۸۱؎ یہ وہ تھے جو محمد رسول اللہ علیہ وسلم کے فیضِ صُحبت سے تیا ر ہوئے جنہوں نے اپنی جا نوں اور اپنے اموال کو ایک حقیر چیز کی طرح محض اِس لئے لُٹا دیا کہ بنی نوع انسان کو ترقی حا صل ہو۔
تمام مشکلات کو دُور کرنے کا وعدہ
پھر دنیا میں حکومتوں پر جب مشکلا ت کے اوقات آتے ہیں تو بادشاہ اُن کا
حوالہ دیکر کہتے ہیں کہ ہم امید کرتے ہیں کہ تم ثابت قدم رہو گے اور ہماری حکومت کے ہواخواہ ثابت ہو گے او ر ہمارے درجہ کی بلندی کا موجب ثابت ہو گے مگر اِس دربار میں میَں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ تمام مشکلا ت کے حل کرنے کا بادشاہ خود وعدہ کرتا ہے۔
ترکِ وطن کے صدمہ پر
مکّہ میں واپسی کی بشارت
مثلاً سب سے بڑا صدمہ اس روحانی گورنر جنرل کو اپنے آبائی وطن کے چھو ڑنے کا پیش آنے والا تھا سو اِس کی اُس نے پہلے خبر دے دی کہ
عارضی طور پر ہماری مصلحت کے ما تحت تمہارے دشمن تم پر غالب آئیں گے اور تم کو اپنا وطن چھوڑنا پڑیگا لیکن ہم تجھے پھر اپنے وطن میں واپس لائیں گے چنا نچہ فرماتا ہے۔۸۲؎ ہم جس نے تجھ پر قرآن کی حکومت قائم کی ہے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب دشمن تجھے تیرے وطن سے نکا ل دیگا جس کی طرف دنیا حج او ر عمرہ کے لئے باربار آتی ہے تو ہم پھر تجھے واپس تیرے وطن میں لے آئیں گے۔غور کر و اور دیکھو کہ کتنی بڑی تشفی ہے۔
اوّل مصیبت کے آنے کی خبر دی۔
دوم اس مصیبت کے وقت میں پیشگوئی پورا ہو نے کی خوشی پہنچائی۔
سوم واپس آنے کی خوشخبری دی اور
چہارم عملاً واپس لا کر دل کو تیسری خوشی پہنچائی۔ کیا دنیا کاکوئی دربارِ خاص اس روحانی دربار کا مقابلہ کر سکتا ہے؟
دربارِ خاص میںمحمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی دائمی حکومت کا اعلان
پھر سب حکومتیں ایک عرصہ کے بعد کمزور ہو کر مٹ جا تی ہیں کوئی حکومت دائمی نہیں ہوتی۔ انگریزوں
ہی کو دیکھ لو اُن کی حکومت اب ہندوستان میں کہا ں ہے؟ سیلون میں کہاں ہے؟ برما میں کہاں ہے؟ پرانی زبردست حکومتیں کہا ں ہیں؟ نہ بادشاہ باقی رہے نہ اُن کے اُمراء اور وزراء باقی رہے، نہ مشکلات میں مشورے دینے والے کا م آئے نہ دوسروں کی مشکلات میں مدد دینے کا وعدہ کرنیوالے اپنے وعدوں کا ایفاء کرسکے مگر میَں نے اس دربارِخاص میں دیکھا کہ گورنر جنرل کو یہ بتایا جا رہاتھاکہ تم کو ہمیشہ کی حکومت دنیا پر دی جا تی ہے چنا نچہ فرمایا۔ ۸۳؎ اے ہمارے رسول! ہم نے تجھے کسی ایک قوم یا ایک ملک کی طرف نہیں بھیجا، کسی ایک صدی یا ایک زمانہ کے لوگوںکی طرف مبعوث نہیں کیا بلکہ دنیا کی ہر قوم اور قیامت تک آنے والا ہر زمانہ تیرا مخاطب ہے اور ہر فرد کے لئے تیری غلا می لا زمی ہے گویا تیری حکومت دُنیوی بادشاہوں کی طرح عارضی اور فانی نہیں بلکہ دائمی حکومت تجھے عطاکی جا تی ہے اور ہمیشہ کی سرفرازی تجھ کو بخشی جا تی ہے اب کوئی ماں ایسا بچہ نہیں جَن سکتی جو تیرے مقابل میں کھڑاہو سکے۔ یہ کیسا شاندارمقام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا اور کیسا عظیم الشان دربار ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز کے لئے منعقد ہؤا۔
دیوانِ خاص کی چوتھی غرض
(۴)چوتھی غرض دیوانِ خاص کی یہ ہو تی ہے کہ بادشاہ اپنے درباریوں کو اُن کے اچھے کاموں
پر خطاب دیتا اور انعام بخشتا ہے مگر دنیا کے درباروں میں میَں نے دیکھا کہ خطاب ہے تو بے معنی او ر انعام ہے تو فانی، حکومتیں ’’خان بہا در‘‘ اور ’’خان صاحب‘‘ کا خطاب دیتی ہیں مگر حقیقتاً نہ وہ خان ہو تے ہیں نہ بہادر۔ پھر انعام دیتی ہیں تو بسا اوقات وہ انعام عارضی ثابت ہوتے ہیں اور دوسری حکومت چھِین لیتی ہے۔ کبھی انعام ملنے سے پہلے ہی وہ صاحب ختم ہو جا تے اور کبھی اُن سے فا ئدہ اُٹھانے کی توفیق ہی نہیں ملتی۔ کھا نا ملتا ہے تو معدہ خراب ہو جا تا ہے، کپڑا ملتا ہے تو جسم پر خارش یا کوڑھ ہو جا تا ہے اور انسان نہ اس کھانے سے فائدہ اُٹھاسکتا ہے نہ کپڑے سے۔ کبھی انعام لینے والے خود حکومت کے دشمن ہو جا تے ہیں جیسے بعض انگریز کے خوشامدی او ر اس سے انعام واکرام لینے والے آج ہم سے اِس لئے نا خوش ہیں کہ یہ انگریز کی اطاعت کرتے تھے اُس وقت ان کی تعریف سے ان کے لب خشک ہو تے تھے اور بڑی بڑی کوششوں اور اِلتجا ئوں کے بعد انعام لیتے تھے اور اب ہم پر جنھوں نے کبھی کچھ نہیں لیا آنکھیں نکالتے ہیں کہ تم نے اُن کے اچھے کاموںکی تعریف کیوں کی۔ غرض دُنیوی درباروں کا نہ خطاب حقیقت کے مطابق ہوتا ہے نہ انعام مستقل اورپائدار ہو تا ہے اور نہ انعام لینے والے حکومت کے سچے وفادار ہوتے ہیں۔
صحابہ کرامؓ کو رَضِیَ ا للّٰہُ عَنْھُمْ
وَرَضُوْاعَنْہُکا خطاب
مگر میَں نے دیکھا کہ اِس دربار کا خطاب بالکل سچا او رانعام ہمیشہ کے لئے رہنے والا ہے چنا نچہ دیکھ لو صحابہ ؓکواللہ تعالیٰ خطاب
دیتیہوئے فرما تا ہے کہ ۸۴؎ یعنی مہا جرین اورانصار میںسے وہ لوگ جو سابق بِالایمان ہیں اور اِسی طرح وہ لوگ جنھوں نے نیکی اور تقویٰ میں ان کے نمونہ کی اتباع کی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اُس سے راضی ہو گئے یہ وہ عظیم الشان خطاب ہے جو صحابہ کرام ؓ کو ملا اور عَلٰی رُؤُوْسِ الْاَشْہَادِ اِس کا اعلان کیا گیا۔ دنیا میں ہزاروں انقلابات آئے، حکومتیں بدلیں، حوادث رونما ہوئے مگر اس الٰہی دربار سے کا جو خطاب صحابہ کرام ؓ کو ملا تھا وہ بدل نہ سکا۔ آج بھی جب صحابہ ؓ کا کو ئی ذکر کرتا ہے تو ایک مخلص کا دِل محبت اور پیا ر کے جذبات سے لبریز ہوجا تا ہے اور وہکہے بغیر نہیں رہتااور قیامت تک ایسا ہی ہوتا چلا جائے گا۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں دنیا میں لوگ نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں اور پھر اُن قربانیوں کے بعد جو بدلہ اُنہیں ملتا ہے وہ نہا یت ہی ذلیل اور ادنیٰ قسم کا ہو تا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے انعاما ت اتنے اہم ہو تے ہیں اور اُن کا دائرہ اتنا وسیع ہو تا ہے کہ اُن کے مقابلہ میں دنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں مثلاً یہی بات دیکھ لو تیرہ سَو سال کا زما نہ گزر نے کے باوجود آج بھی صحابہؓ کا ذکرآئے تو ہمکہے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اب یہ بھی ایک خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ایسا ہی جیسے خاںؔصاحب یا خاںؔ بہا در یا سرؔیا ڈیوکؔ یاما رکوئس ؔیا ارلؔ وغیر ہ ہیں مگر سوچو تو سہی کتنے خان بہا دؔر یا سر ؔیا ڈیوک ؔ یا مارکوئس ؔیا ارلؔ ہیں جن کا نام دنیا جا نتی ہے یا کتنے بادشاہ ہیں جن کا نام دنیا خطاب سمیت لیتی ہے؟ بڑے بڑے بادشاہ دنیا میں گزرے ہیں مگر آج لوگ اُن کا نام نہا یت بے پر وائی سے لیتے ہیں ۔
سکندر،دارا،اورتیمور کا انجام
سکندر کتنا بڑابادشاہ تھا یو نان سے وہ چلتا ہے اور ہندوستان تک فتح کرتا چلا آتا ہے اور
بڑی بڑی زبر دست حکومتوں کو راستہ میں شکست دیتا ہے مگر آج ایک غریب اور معمولی مزدور بھی سکندر کا نام نہا یت بے پروائی سے لیتا ہے۔ بچے بھی سکندر سکندر کہتے پِھرتے ہیں اور کوئی ادب کا لفظ اُس کے لئے استعمال نہیں کرتا۔
داراؔ بھی ایک عظیم الشان بادشاہ تھا اور گو اسے سکندر کے مقابلہ میں شکست ہوئی مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بھی زبردست سلطنت کا مالک تھا اور چین تک اس کی حکومت پھیلی ہوئی تھی مگر آج لو گ اسے داراؔ داراؔ کہتے پھر تے ہیں بادشاہ کا لفظ بھی اُس کے متعلق استعمال نہیں کرتے۔
تیمور جو ایک زمانہ میں دنیا کے لئے قیا مت بن گیا تھا آج اسے ساری دنیا تیمور لنگ یعنی لنگڑا تیمور کہتی ہے حا لانکہ اپنے زمانہ میں اُس کی اتنی ہیبت تھی کہ جب وہ حملہ کرتا تو کُشتوں کے پُشتے لگا دیتا اور بعض جگہ تو لو گوں کوما ر مار کر اُن کی لا شوں کو جمع کرتا اور مینا ر کھڑا کر دیتا۔ بعض مؤرخ کہتے ہیں کہ اُس نے کئی لا کھ آدمی قتل کیا ہے مگر اب ایک ذلیل سے ذلیل انسان بھی جب تیمور کا ذکر کرتا ہے تو کہتا ہے ’’لنگڑا تیمور‘‘ حا لانکہ اُس کے زمانہ میںکسی کو یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ اسے لنگڑا تیمور کہے وہ شہنشاہ کہلاتا تھا اور بڑے بڑے حکمران اُس کے خوف سے کا نپتے تھے۔
صحابہ ؓ کی بے مثال عظمت
غرض وہ بادشاہ جن کی اپنے زمانہ میں بڑی ہیبت تھی جن کا نام سُنکر ہزاروں میل پر لوگ کا نپ اُٹھتے
اُن کا نا م آج انتہا ئی لا پر وائی کے ساتھ ایک معمولی اور بے حیثیت آدمی بھی لے لیتا ہے اور کئی تو ایسے ہیں جن کا نام بھی آج کوئی نہیںجا نتا مگر وہ غریب بکریا ں اور اونٹ چرانے والے صحابہؓ جنہوں نے غربت میں اپنی عمر یں گزاردیںآج ان کا نام آتا ہے تو کہے بغیر ایک مسلما ن کا دل مطمئن ہی نہیں ہوتا۔
حضرت ابوہریرہؓ کی فاقہ کشی
حضرت ابو ہریرہ ؓکو ہی دیکھ لو وہ اپنے متعلق کہتے ہیں کہ مجھے سات سات وقت کا فاقہ ہو
جاتا تھا اور جب میں شدتِ ضُعف سے بیہوش ہو جاتا تھا تو لوگ میرے سر پر جُوتے مارتے اور سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دَورہ ہو گیا ہے پِھر حضرت ابوہریرہؓ کسی اعلیٰ خاندان میںسے نہ تھے کوئی نا مور لیڈر یا مشہور ادیب نہ تھے، کو ئی فوجی ما ہر یا سیا سی نفوذ رکھنے والے انسان نہ تھے مگر آج بھی ہماری یہ کیفیت ہے کہ ابوہریرہ کا نام آتا ہے تو کہے بغیر دل کو چَین ہی نہیں آتا۔
حضرت ابو بکر کا بلند مقام
اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جو حالت تھی
وہ خود ان کے باپ کی شہادت سے ظاہر ہیحضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے باپ کا نام ابوقحافہ تھا جب حضرت ابو بکر ؓ خلیفہ ہوئے تو اُس وقت ابو قحافہ مکہ میں تھے کسی شخص نے وہاں جا کر ذکر کیا کہ ابو بکر ؓ عرب کا بادشاہ ہو گیا ہے۔ ابو قحافہ مجلس میں بیٹھے تھے کہنے لگے کونسا ابوبکر؟ اُس نے کہا وہی ابو بکر قریشی۔ کہنے لگے کونسا قریشی؟ اُس نے کہا وہی جو تمہارا بیٹا ہے اور کون۔ وہ کہنے لگے واہ! ابو قحافہ کے بیٹے کو عرب اپنا بادشاہ مان لیں یہ کیسے ہوسکتا ہے توُ بھی عجیب باتیں کرتا ہے۔ غرض ابوقحافہ کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے متعلق یہ مان ہی نہیں سکتے تھے کہ سارا عرب اُنہیں بادشاہ تسلیم کرلے گا مگر اسلام کی خدمت اور دین کے لئے قربانیاں کرنے کی وجہ سے آج حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جو عظمت حا صل ہے وہ دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں آج دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اتنی عظمت حاصل ہو جتنی حضرت ابو بکر ؓکو حاصل ہے بلکہ حضرت ابوبکر ؓ تو الگ رہے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو اتنی عظمت حا صل نہیں جتنی مسلمانوں کے نزدیک ابو بکر ؓ کے نو کروں کو حاصل ہے اس لئے کہ اُس نے ہمارے ربّ کے دروازہ پر سجدہ کیا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَر کا غلام ہو گیا اب یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اِس عظمت کو ہمارے دلوں سے محو کر سکے اور اُس خطاب کو چھین سکے جو اس نے اپنے دربار میں صحابہ کرام ؓکو دیا۔ آج صحابہ کے زمانہ پر تیرہ سَوسال سے زیا دہ عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی وہ خطاب جو خدا نے اُن کو دیا تھا قائم ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہیگا۔
رقابت اور عِناد سے پاک دربار
پھر دُنیوی بادشاہوں کے ’’دیوانِ خاص‘‘ میں بار یا ب ہونے والوں کو خطا بات
ملتے ہیں تو باہم رقابت اور دشمنی اور لڑا ئی شروع ہو جا تی ہے لیکن اس دیوانِ خاص میںشریک ہونے والوں کے دلوں میں کو ئی رقابت، کو ئی دشمنی اور کو ئی لڑائی نہیں ہوتی بلکہ ان کے دل ایک دوسرے کی محبت اور پیا ر کے جذبات سے لبریز ہو تے ہیں فرما تا ہے۔ ۸۵؎ یعنی بعد میں آنے والے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا ئیں کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے ربّ! تُو ہمیں بھی بخش اور ہمارے اُن بھا ئیوں کو بھی بخش جو ہم سے ایمان لانے میں سبقت اختیار کرچکے ہیں اور ہما رے دلوں کو اُن کے متعلق ہر قسم کے کینہ اور بُغض سے صاف کر دے۔ اے ہما رے ربّ! تُو بڑا مہر بان اور بڑا رحم کرنیوالا ہے۔
تعلقات کی خرابی کی تین وجوہ
دنیا میں تعلقات کی تمام تر خرابی حسدؔ، رقابتؔ اور آئندہ کے خطرات کے نتیجہ میں
پیدا ہوتی ہے۔ حسد پہلوں سے ہو تا ہے رقابت ہمعصروں سے ہو تی ہے اور خطرہ بعد میں آنے والوں سے ہو تا ہے لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکہہ کر ایک سچا مؤمن اِن تینوں نقائص سے اپنا دل صاف رکھنے کی خواہش کر تا ہے گویا اس کا دل ایسا پا کیزہ ہو تاہے کہ اس میں نہ پہلوں کا حسد ہو تاہے نہ ہمعصروں کی رقابت ہو تی ہے اور نہ بعد میں آنے والوں کے متعلق کو ئی بد ظنی ہو تی ہے۔
ہر قسم کے بُغض اور کینہ سے مبرا وجود
اسی طرح اللہ تعالیٰ اس ’’دیوانِ خاص‘‘ والے دربایوں کی نسبت فرما تا ہے کہ
۸۶؎ یعنی متقی لو گ با غا ت اور چشموں والے مقاما ت میں ہو نگے اور انہیں کہا جا ئیگا کہ تم سلامتی کے ساتھ ان میں داخل ہو جا ئو اور ان کے سینوں کو ہر قسم کے بُغض اور کینہ اور حسد سے پاک کر دیا جا ئیگا اور وہ بھائی بھائی بن کر جنت میں رہیں گے۔
الٰہی خطابات کو چھیننے کی
کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا
غرض اس دربار میں خطابات تقسیم ہوتے ہیں تو باہم چپقلش اوررقابت شروع نہیں ہو جا تی او ر پھر خطابات ملتے ہیں تو وہ نہ صرف حقیقت کے
مطابق ہو تے ہیں بلکہ دنیا لا کھ کو شش کرے وہ اُن کو چھیننے کی طاقت نہیں رکھتی۔ اِس دربار سے اگر کسی کو نبی کا خطاب دیا گیا تو وہ نبی فوت ہو چکا اور ہزار ہا برس اُس کی وفات پرگزر گئے مگر نبی کا خطاب موجود ہے او راگر اس سے کوئی منکر ہو تا ہے تو فوراً باغیوں میں شریک ہو جا تا ہے۔ حکومت بدل گئی،گورنر کے بعد گورنرتبدیل ہوئے مگرمجال ہے کہ پُرانے گورنر کی کوئی ہتک کر سکے اور اُس کے درجہ کو کم کر سکے!
غرض یہ وہ دربار ہے جس میں درباری کو جو خطاب دیا جا تا ہے اُس کے چھیننے کی کسی میں طاقت نہیں ہو تی اور پھر جو خطاب دیا جا تا ہے وہ بالکل سچّا اور حقیقت کے مطابق ہوتا ہے۔ اگر کسی کو بہا در کہتا ہے تو وہ بہا در ہی ہوتا ہے یہ نہیں ہو تا کہ حکومت اسے ’’خان بہادر‘‘ کہے اور وہ ایک چُوہے سے بھی ڈرتا رہے۔
محمد رسو ل اللہ اور صحابہ کرام ؓ کو ایک اور عظیم الشّان خطاب
پھر ہم نے دیکھا کہ اِسی قسم کا ایک اَور اعلان بھی اس دربار سے ہو رہا تھا اور دربارِخاص کا مالک اپنے گورنر جنرل کے متعلق کہہ رہا تھا کہ
۸۷؎ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور وہ لوگ جو اُن پر ایمان لا کر ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں کفار کے لئے بڑے سخت واقع ہو ئے ہیں مگر ان کا آپس میں سلوک انتہا ئی رحم اور شفقت پر مبنی ہے۔ توُ انہیں دیکھے گا کہ وہ رات اور دن خدا تعالیٰ کے حضور رکوع وسجود میں بسر کرتے اور اُس کا فضل تلا ش کر تے ہیں اور اُس کی رضا کے حصول کے لئے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں اور اُنکی اِس پا کیزہ زندگی کا نشان خود ان کے چہروں سے عیا ں ہو گیا ہے۔
قوتِ مؤثرہ اور قوتِ متأثرہ کے کرشمے
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنا یا ہے کہ وہ ایک
طرف تو اپنے گِردوپیش کے اثرات کو قبول کرنے کے لئے بڑی شدت سے مائل رہتا ہے اور دوسری طرف اس میں یہ بھی طاقت ہے کہ اگر چاہے تووہ ایسے اثرات کو قبول کرنے سے انکا ر کردے۔ گویا ایک طرف تو وہ ایک مضبوط چٹان ہے کہ جس سے سمندر کی تیز لہریں ٹکراکر واپس لَو ٹ جاتی ہیں اور اُس پر ذرا بھی نشان پیدا کرنے کے قابل نہیں ہو تیں اور دوسری طرف وہ ایک اسفنج کے ٹکڑے کی طرح یا نرم موم کی طرح ہے کہ اُس پر ہا تھ ڈالتے ہی ایسا معلوم ہو تا ہے کہ اس میں طاقتِ مقابلہ ہے ہی نہیں اور یہی دونوں چیزیں انسان کے تمام اعما ل کی جڑ ہیں یعنی کسی جگہ پر اثر قبول کرنا اور کسی جگہ پر اُس کو ردّ کر دینا ۔
اچھے اثرات کو قبول کرنے اور
بُرے اثرات کو ردّ کرنے کی خوبی
اس جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اتباع کے متعلق یہ بیا ن کیا گیا ہے کہ وہ اور
ہیں یعنی یہ نہیں کہ وہ ہر اثر کو قبول کرنے والے ہیں کیو نکہ اگر ایسا ہو تا تو وہ شیطان کا اثر بھی قبول کر لیتے۔ اور یہ بھی نہیں کہ کسی کا اثر قبول نہ کریں کیونکہ اس صورت میں وہ فرشتوں کے اثر کو بھی ردّ کردیتے بلکہ اُن کے اندر یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ان میں یہ بھی طاقت ہے کہ خواہ کتنے ہی تکلیف دِہ نتائج ہوں پھر بھی وہ کسی غلط اثر کو قبول نہیں کرتے اور یہ بھی طاقت ہے کہ خواہ حالات کتنے مخالف ہو ں وہ اچھی چیز کے اثر کو ردّ نہیں کرتے۔ جب کسی ایسی چیز کا سوال ہو جو مذہب اور دین کے خلاف ہو تو وہ ایک ایسے پہاڑ کی مانند بن جاتے ہیں جس پر کو ئی چیز اثر نہیں کر سکتی لیکن جہا ں تقویٰ اور باہمی اخوت اور برادرانہ تعلّقات کا سوال ہو وہا ں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ تصویر لینے کا ایک شیشہ ہیں اور فوراً اس کے عکس کو قبول کر لیتے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
اور آپ کے صحابہؓ کا نمونہ
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کی زندگی میں یہ دونوں باتیں نہایت نمایا ں طور پر پائی جاتی تھیں یعنی ایک طرف
تو غیرت میں اِس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ دین کے خلا ف کو ئی بات سُننا تک برداشت نہیں کر سکتے تھے اور دوسری طرف وہ محبت میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ اپنے بھا ئیوں کا کوئی قصور اُنہیں نظر ہی نہیں آتا تھا۔ چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دشمنوں نے کئی مواقع پر چاہا کہ آپ ان کے بارہ میں نرمی سے کام لیں اور اُن کے بُتوں کی تنقیص نہ کریں مگر آپ نے کسی مرحلہ پر بھی اُن کے آگے سر نہیںجُھکا یا حالانکہ آپ جا نتے تھے کہ اس انکار کے نتیجہ میں ان لو گوں کی آتشِ غضب اَور بھی بھڑک اُٹھے گی اور یہ پہلے سے زیا دہ جوش اور انتقامی قوت کے ساتھ اسلام کو مٹانے کے لئے کمر بستہ ہو جائینگے مگر آپ نے اپنی یا اپنے عزیزوں اور ساتھیوں کی مشکلا ت کی کوئی پرواہ نہ کی اور ہمیشہ انہیں یہی کہا کہ خدا نے جس پیغام کے پہنچانے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے میں اس کے پہنچانے میں اپنے آخری سانس تک کوشش کرتا چلا جائوں گااور کبھی اس میں غفلت اور کوتاہی سے کام نہ لو نگا۔
عمائدِ قریش کے آنے پر رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے چچا کو جواب
جب مکّہ میں اسلام نے پھیلنا شروع کیا اور قریش کو نظر آنے لگا کہ ان کی کوششیں ناکامی کا رنگ اختیار کرتی
جا رہی ہیں تو انہوں نے اپنا ایک وفد ابو طالب کے پاس بھیجا جس میں ابوجہل، ابوسفیان اور عتبہ وغیر ہ قریش کے بڑے بڑے رئوساء شامل تھے۔ انہوں نے ابوطالب کے پا س آکر کہا کہ آپ ہما ری قوم میں معزز ہیں اس لئے ہم آپ سے یہ درخواست کرنے آئے ہیں کہ اب بات حد سے بڑھ چکی ہے ہم نے آج تک بہت صبر کیا ہے مگر اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ ہمارے بُتوں کو بُرا بھلا کہنا چھوڑ دے اور اگر وہ نہ مانے تو اس کی حمایت سے دستبردار ہو جا ئیں ہم خود اس سے نپٹ لینگے۔ او ر اگر آپ اپنے بھتیجے کو بھی نہ سمجھائیں اور اس کی حمایت سے بھی دستبردا ر نہ ہوں تو ہم آپ کا بھی مقابلہ کرینگے اور آپ کو اپنی لیڈری سے الگ کردینگے۔ ابوطالب کے لئے یہ ایک نہایت ہی نازک موقع تھا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلا یا اور کہا اے میرے بھتیجے! آج تیری قوم کے معزّزین کا ایک وفد میرے پاس آیا تھا وہ تیری باتوں سے سخت مشتعل ہو چکے ہیں اور قریب ہے کہ وہ لوگ کوئی سخت قدم اُٹھا ئیں اور مجھے بھی تکلیف پہنچائیں۔ میں محض تیری خیر خواہی کے لئے کہتا ہوں کہ اِن باتوں کو چھوڑ دے ورنہ میں اکیلا ساری قوم کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔میں سمجھتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افسردگی کی گھڑیوں میں سے یہ سخت ترین گھڑی تھی۔ ایک طرف وہ شخص تھا جس نے نہایت محبت سے آپ کو پالا تھا اور جس کے پائوں میں کا نٹا چُبھنابھی آپ گوارہ نہ کر سکتے تھے اُسے ساری قوم دُکھ دینے اورنقصان پہنچانے کی دھمکی دے رہی تھی اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی صداقت کا اظہا رتھا۔ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے کہا۔ اے میرے چچا! آپ بیشک میر ا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم کے ساتھا مل جائیں۔ خدا کی قسم! اَگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدائے واحد کی توحید کے اعلان سے نہیں رُک سکتا۸۸؎ کیو نکہ یہی وہ کا م ہے جس کے لئے میں اِس دنیا میں بھیجا گیا ہوں۔ آپ ؐکا انتہا ئی مشکلا ت اور مصائب کے اوقات میں جبکہ ابوطالب کے قدم بھی لڑکھڑاگئے تھے یہ دلیرانہ جواب اِس لئے تھا کہ آپ کی صفت کے حامل تھے اور دین کے لئے اتنی غیرت رکھتے تھے کہ کفر کی ہر طاقت کے مقابلہ میں ایک مضبوط چٹان کی طرح ڈٹ جاتے تھے اور کسی بڑی سے بڑی مصیبت کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے۔
مسیلمہ کذّاب کی ناکام واپسی
اِسی طرح ایک دفعہ مسیلمہ کذّاب آپ کے پا س آیا اور اُس نے کہا اگر آپ مجھے اپنے
بعد خلیفہ مقرر کر دیں تو میری ساری قوم آپ پر ایمان لانے کے لئے تیا ر ہے۔ اُس وقت اُس کی قوم کا ایک لا کھ سپاہی اُس کی پُشت پر تھا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اتنا چاہتا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد اُسے حکومت دیدی جا ئے مگر محمّد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں خدانے کی صفت کا حامل بنایا تھا انہوں نے جب اس بات کو سُنا تو آپ نے کھجور کی شاخ کے ایک تنکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو اُس وقت آپؐ کے ہاتھ میں تھی فرمایاتم تو خلا فت کہتے ہو میں تو تمہیں یہ تنکہ بھی دینے کے لئے تیا ر نہیں۔ یہ جواب ایساتھا جس پر وہ غصہ اور نا راضگی کی حالت میں واپس چلا گیا۸۹؎ اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تووہ اپنے ایک لاکھ سپاہیوں کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہؤا او ر اُس نے ایسا شدید حملہ کیا جس کی مثال کسی پہلے حملہ میں نہیں ملتی مگر باوجو د اس کے کہ مسیلمہ اوراس کی قوم کی طرف سے حقیقی خطرہ کا امکا ن تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطالبہ کو ردّ کر دیا اور اِس بات کی ذرہ بھی پرواہ نہ کی کہ اِس کے نتیجہ میں کیا مشکلات آسکتی ہیں۔
ایک صحابی کی درخواست پر رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے اپنی چادر دے دینا
مگر جہا ں رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے مقابلہ میں ایک ایسے پہاڑ کی حیثیت رکھتے تھے
جس سے ٹکڑا کر انسان کا سر پاش پاش ہو جا تا ہے مگر پہاڑ اپنی جگہ سے نہیں ہِل سکتا وہاں اپنے ماننے والوں کے متعلق آپ کے دل میں اِس قدر محبت اور پیا ر کے جذبات پائے جاتے تھے کہ احادیث میں لکھا ہے ایک دفعہ ایک مخلص عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خو بصورت چادر پیش کی جو اس نے اپنے ہا تھ سے بُنی تھی او ر اس خواہش کا اظہا ر کیا کہ آپؐ اسے اپنی ذات کے لئے استعمال فرمائیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ چادر پہن کر باہر تشریف لائے تو ایک شخص آگے بڑھا اور ا ُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! یہ چادر مجھے دے دیجئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس چادر کی خود ضرورت تھی مگر آپ نے اُس کے سوال کو ردّ کرنا منا سب نہ سمجھا اور فوراً واپس آکر اُسے چادر بھجوادی۔ لو گوں نے اسے ملامت کی کہ تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر کیوں مانگ لی؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس کی خود ضرورت تھی۔ اُس نے کہا میَں نے یہ چادر اپنے کفن کے لئے لی ہے چنا نچہ راوی کہتا ہے کہ بعد میں وہی چادر اُس کا کفن بنی۔۹۰؎
غرباء کی دلداری
اِسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میںتشریف لے جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک غریب
صحابی جو اتفاقی طور پر بدصورت بھی تھے سخت گرمی کے موسم میں اسباب اُٹھا رہے ہیں اور اُن کا تمام جسم پسینہ اور گردوغبار سے اَٹا ہؤا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے ان کے پیچھے چلے گئے اور جس طرح بچے کھیل میں چوری چُھپے دوسرے کی آنکھو ں پر ہا تھ رکھ کر کہتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ وہ اندازہ سے بتائے کہ کس نے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھاہے اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی سے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے۔ اُس نے آپ کے ملا ئم ہاتھوں کو ٹٹول کر سمجھ لیاکہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو محبت کے جوش میں اُس نے اپنا پسینہ سے بھر ا ہؤا جسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے ساتھ مَلنا شروع کردیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے اور آخر آپ نے فرمایا میرے پا س ایک غلام ہے کیا اِس کا کوئی خریدار ہے؟ اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میر ا ٰخریدار دنیا میں کون ہوسکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ایسا مت کہو خدا کے حضور تمہا ری بڑی قیمت ہے۔۹۱؎
عورتوں کی تکلیف کا احساس
ایک دفعہ آپ نے فرمایا جب میں نماز پڑھاتاہوں تو بعض دفعہ میرا جی چاہتا ہے کہ
میَں نماز کو لمبا کروں مگر اچانک میرے کا نو ں میں کسی بچہ کے رونے کی آواز آجا تی ہے اِس پر میَں جلدی جلدی نماز پڑھا دیتا ہوں تاکہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو۔۹۲؎ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہمیں دونوں قسم کے نظارے نظر آتے ہیں۔ وہ نظارے بھی جن میں آپ دشمن کے سامنے ایک ننگی تلوار کی طرح کھڑے ہوگئے اور نہ اس کی دھمکیوں سے مرعوب ہوئے نہ اس کی خوشامد سے متأ ثر ہوئے۔ اور وہ نظارے بھی جن میںآپ نے اپنے ماننے والوں سے ایسی شفقت اور محبت کا سلوک کیا کہ کوئی ماں بھی اپنے بچوں سے اس شفقت کا اظہا ر نہیں کرتی۔
جنگِ بدرمیں صحابہؓ کا دشمن کیلئے
پیغام موت بن کر ظاہر ہونا
پھرہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے متبعین میں بھی یہ دونوں اوصاف پیدا فرما دیئے تھے اور وہ بھی اگر ایک طرف
کی صفت کے حامل تھے تودوسری طرف ماننے والوں کے لئے مجسمہء رحم واُلفت تھے۔ چنا نچہ تاریخ سے معلوم ہو تاہے کہ جب بدر کی جنگ ہوئی تو اس جنگ میں صرف ۳۱۳ آدمی مسلمانوں کی طرف سے شریک ہوئے اور وہ بھی بالکل بے سروسامان اور نا تجربہ کا ر تھے لیکن دشمن کا ایک ہزار سپاہی تھا اور پھر وہ سارے کا سارا تجربہ کا ر آدمیوں پر مشتمل تھا اور اسلحہ کی بھی بڑی بھا ری مقدار اُن کے پاس موجود تھی ابھی جنگ شروع نہیں ہو ئی تھی کہ ابو جہل نے ایک عرب سردار سے کہا کہ تم جا ئو او ر یہ اندازہ کرکے آئو کہ مسلمانوںکی کتنی تعداد ہے؟ جب وہ اسلامی لشکر کا جا ئزہ لینے کے بعد واپس گیا تو اُس نے کہا میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سَو او رسَواتین سَو کے درمیان ہیں۔ ابو جہل اس پر بہت خوش ہؤااور کہنے لگا کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہم نے میدان مارلیا۔ اُس نے کہااے میری! قوم بیشک مسلمان تھوڑے ہیں لیکن میرامشورہ یہی ہے کہ مسلمانوں سے لڑائی نہ کرو۔ انہوںنے کہا توُ بڑابزدل ہے آج ہی یہ لو گ قابو آئے ہیں اور آج ہی تُو ہمیں ایسا بُزدلانہ مشورہ دے رہا ہے۔ اُس نے کہا یہ درست ہے مگر پھر بھی میں تمہیں یہی مشورہ دُونگا کہ جنگ نہ کروکیونکہ اے میری قوم! میَں نے اُونٹوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں۹۳؎ یعنی میَں نے جس شخص کو بھی دیکھااُس کا چہرہ بتارہا تھا کہ وہ اس نیت اور ارادہ کے ساتھ میدانِ جنگ میں آیا ہے کہ آج مر جاناہے یا مار دینا ہے اس کے سِوا اور کوئی جذبہ اُن کے دلوں میں نہیں پایا جا تا تھا۔ یہ فدائیت کا بے مثال جذبہ مسلمانوںمیں اسی لئے پیدا ہؤا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں صفت کا حامل بنایا تھا اور وہ تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی بڑے بھاری تجربہ کا ر اور مسلّح لشکر کے مقابلہ میں پیغامِ موت بن کر نمودار ہوتے تھے۔
اہلِ عرب کے ارتداد پر حضرت
ابوبکرؓ کی حیرت انگیز جرأت
اس طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو سارا عرب مرتد ہو گیا اور حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ جیسے بہادر انسان
بھی اِس فتنہ کو دیکھ کر گھبراگئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب ایک لشکر رومی علا قہ پر حملہ کرنے کے لئے تیا ر کیا تھا اور حضرت اسامہؓ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا۔ یہ لشکر ابھی روانہ نہیں ہؤا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور آپ کی وفات پر جب عرب مرتد ہوگیا تو صحابہؓ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہؓ کا لشکر ابھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے مرد او ر بچے اور عورتیں رہ جا ئیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں رہے گا چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ اکابر صحابہ ؓ کا ایک وفد حضرت ابو بکر ؓ کی خدمت میں جا ئے اوراُن سے درخواست کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں۔ چنانچہ حضرت عمرؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہؓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ درخواست پیش کی۔ حضرت ابوبکرؓ نے جب یہ بات سُنی تو انہوں نے نہایت غصّہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابوقحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کا م یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اُسے روک لے؟ پھر آپ نے فرمایا خداکی قسم! اگر دشمن کی فوجیں مدینہ میں گھس آئیں او رکُتّے مسلمان عورتوں کی لا شیں گھسیٹتے پِھریں تب بھی میَں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا۹۴؎ یہ جرأت اور دلیری حضرت ابو بکرؓ میں اِسی وجہ سے پیدا ہو ئی کہ خدا نے یہ فرمایا کہ ۔جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جا ئے تو اس میں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کے نتیجہ میں آپؐ کے ماننے والے بھی کے مصداق بن گئے۔
حضرت ابو بکر ؓ کی اسلام کیلئے
غیرت اور جذ بہء فدائیت
اِسی طرح ایک دفعہ باتو ں باتوں میں حضرت ابوبکرؓ کے ایک بیٹے نے جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے کہا اباجان! فلاں جنگ میں جب
آپ بدرؔ مقام سے گزرے تھے تو اُس وقت میَں ایک پتھر کے پیچھے چُھپا ہؤا تھا میَں اگر چاہتا تو آپ کو قتل کر سکتا تھا مگر میَں نے کہا باپ کو مارنا درست نہیں۔حضرت ابوبکر ؓ نے جواب دیا خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اِس لئے تُو بچ گیا ورنہ خداکی قسم! اگر میَں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا۔۹۵؎
عبداللہ بن اُبی بن سلول
کے بیٹے کا اخلاص
ایک جنگ کے مواقع پر انصار اور مہاجرین میں جھگڑا پیدا ہو گیا۔ اُس وقت عبداللہ بن اُبی بن سلول جو ایک دیر ینہ منافق تھا اُس نے سمجھا کہ یہ انصار کو بھڑکا نے
کا اچھا موقع ہے وہ آگے بڑھا اور اُس نے کہا اے انصار! یہ تمہاری غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ تم نے مہا جرین کو سر چڑھا لیا اب مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر دیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی نَعُوْذُبِاللّٰہِ وہ خود مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی یعنی نَعُوْذبِاللّٰہِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کووہاں سے نکال دیگا۔ عبداللہ کا بیٹا ایک سچا مسلمان تھا جب اُس نے اپنے باپ کی یہ بات سُنی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہؤا او ر اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میرے باپ نے جو با ت کہی ہے اُس کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہو سکتی اورمیں یقین رکھتا ہوں کہ آپ اسے یہی سزا دینگے لیکن اگر آپ نے کسی اَور مسلمان کو کہا اور اُس نے میرے باپ کوقتل کردیا تو ممکن ہے اُس کو دیکھ کر میرے دل میں کبھی خیا ل آجائے کہ یہ میرے باپ کا قاتل ہے اور میَں جوش میںآکر اُس پر حملہ کر بیٹھوں اِس لئے یَا رَسُوْ لَ اللّٰہ! آپ مجھے حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہا تھوں سے قتل کروں تاکہ کسی مسلمان کا بُغض میرے دل میں پیدا نہ ہو۔۹۶؎ یہ واقعہ کس طرح اُن دونوں اوصاف کو ظاہر کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحابہء کرام میں ودیعت کردئیے تھے یعنی ایک طرف وہ کفر کے لئے ایک ننگی تلوار تھے اور دوسری طرف اپنے بھائیوں کے جذبات کا انہیں اتنا احساس تھا کہ عبداللہ کے بیٹے نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر درخواست کی کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! اگر آپ میرے باپ کے متعلق قتل کا حکم صادر فرمائیں تو پھر یہ کام میرے سپرد کیا جا ئے تاکہ کسی اور مسلمان کا بُغض میرے دل میں پیدا نہ ہو۔
ایک معمولی شکر رنجی کے موقع پر
حضرت ابوبکر ؓ کے پا کیزہ جذبات
اِسی طرح ایک دفعہ حضرت ابو بکر ؓاور حضرت عمر ؓ میں کسی بات پر شکر رنجی ہو گئی۔ غلطی حضرت عمرؓ کی تھی مگر جب
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر ؓ پر نا راض ہونے لگے تو حضرت ابوبکر ؓ آگے بڑھے اور کہنے لگے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! میر اقصور تھا عمرؓ کا کوئی قصور نہیں تھا۔۹۷ ؎ گویا جس طرح ایک ماں اپنے بچے کے متعلق اُستاد سے شکا یت کرتی ہے لیکن جب وہ ڈانٹتا ہے تو سب سے زیا دہ دُکھ بھی ماں کو ہی ہو تا ہے یہی حال صحابہ کا تھا اُن کے دلوں میں اپنے بھا ئیوں کی اتنی محبت پائی جا تی تھی کہ وہ ان کی معمولی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے۔
حضرت عمرؓ کا ایک بدوی عورت
کے بچوں کے فاقہ پر تِلملا اُٹھنا
حضرت عمرؓ کو دیکھ لو اُن کے رُعب اور دبدبہ سے ایک طرف دنیا کے بڑے بڑے بادشا ہ کا نپتے تھے، قیصر وکسریٰ
کی حکومتیں تک لرزہ براندام رہتی تھیں مگر دوسری طرف اندھیری رات میں ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھُوکا دیکھ کر عمرؓ جیسا عظیمُ الْمرتبت انسان تِلملا اُٹھا او روہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لا دکر اور گھی کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں اُٹھا کر اُن کے پاس پہنچا اور اُس وقت تک واپس نہیں لَوٹا جب تک کہ اُس نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر اُن بچوں کو نہ کھِلا لیا اور وہ اطمینان سے سو نہ گئے۔۹۸؎
عبادتِ الٰہی میں رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کا استغراق
عبادت الٰہی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استغراق صرف اور ہی نہیں بلکہ کے بھی
مصداق ہیں چنا نچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خوبی بھی اُن میں نمایا ں طور پر پا ئی جا تی تھی ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث سے ثابت ہے کہ آپ رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور اتنی اتنی دیر عبادت میں کھڑے رہتے تھے کہ آپؐ کے پائوں سُوج جاتے۔۹۹؎
ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپ اِس قدر عبادت کیوںکرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مغفرت کا وعدہ فرمایا ہؤا ہے۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ! کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟۱۰۰؎
میدانِ جنگ میں بھی
نمازوں کی بِالالتزام ادائیگی
اسی طرح صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ میدانِ جنگ میں بھی وہ نمازوں کی ادائیگی کا التزام رکھتے تھے اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور
سربسجود رہتے اور دعائوں اور ذکرالٰہی میں اپنا وقت گزارتے۔
غرض دُنیوی درباروں میں بادشاہوں کی طرف سے جو خطابات دیئے جا تے ہیں وہ بسااوقات حقیقت کے بر عکس ہوتے ہیں مگر یہ عجیب دربار ہے کہ اس میں بادشاہ کی طرف سے جو خطاب دیا جا تا ہے وہ حقیقت کے عین مطابق ہو تا ہے اور پھر وہ خطاب چلتا چلا جاتا ہے دنیا لاکھ کوشش کرے زمانہ میں ہزاروں انقلاب آئیں اُس خطاب کو کوئی طاقت بدل نہیں سکتی ۔
دربارِ خاص میں انعامات کا اعلان
اب میں اُ ن بعض انعامات کا ذکر کرتا ہوں جو اس الٰہی دربار میں خدا تعالیٰ
نے اپنے گورنر جنرل کو عطا کئے اور جن کی نظیر دنیا کے درباروں میں اور کہیں نظر نہیں آسکتی۔اللہ تعالیٰ نے اپنے ’’دربارِ خاص‘‘ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُلایا اور اُن کے لئے اپنے خاص انعامات کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ ۱۰۱؎
یعنی اے ہمارے گورنر جنرل! ہم نے تجھے کوثر عطاکیا ہے پس تُو اِس نعمتِ عظیمہ کی شکر گزاری کے طور پر اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہو جا اور قربانیوں پر زور دے یقینا تیرا دشمن ہی ابتر رہے گا۔
کوثر کے معنے
کوثر کے معنے عربی زبان میں ہر قسم کی خیر اور برکت اور بھلا ئی کی کثرت کے ہوتے ہیں۱۰۲؎ گویا کوئی خیر نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو حاصل نہیں ہوئی اور کوئی برکت نہیں جو آپ کو نہیں ملے گی اور پھر وہ خیر اور برکت اتنی کثرت کے ساتھ ملے گی کہ اس کثرت میں بھی دنیا کا کوئی انسان آپ کا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔
سورئہ کوثر کے نزول کے وقت رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے صحابہ ؓ کی حالت
جس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اس انعام کا اعلان کیا گیا
آپؐ کی اور آپ کے ساتھیوں کی یہ حالت تھی کہ باہر نکل کر نماز بھی ادا نہیں کر سکتے تھے اور آپ کے پیغام کو ماننے والے صرف چند افراد تھے جو اُنگلیوں پر گِنے جا سکتے تھے۔ تاریخوں سے معلوم ہو تا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اُس وقت تک مکہ کے کُل بیاسی آدمی آپ پر ایمان لائے تھے۱۰۳؎ مگر یہ تو آخری دنوں کی بات ہے اس سے پہلے یہ حالت تھی کہ صرف چند آدمی جن کی تعداد دس پندرہ سے زیا دہ نہیں تھی آپ پر ایمان لائے۔ مکہ کی آبادی اُس وقت آٹھ دس ہزار کی تھی اور آٹھ دس ہزار کی آبادی میںسے ایک دودرجن کے قریب آدمیوں کاساتھ ہونا اور سارے شہر کے لو گوں کا مخالف ہونا اور ایسا مخالف ہو نا کہ ہر وقت ان کامسلمانوں کی جان لینے کی فکر میں رہنا بتاتاہے کہ مسلمانوںکی اُس وقت کیسی نازک حالت تھی۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کا گلا گھونٹنے کی کوشش
خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ گو آپکو خانہ کعبہ میں جا کر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں تھی مگر کبھی کبھی آپ محبتِ الٰہی
کے جوش میںوہاں چلے جا تے اور نماز ادافرماتے۔ ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ شہر کے غُنڈے اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے آپ کو پیٹنا شروع کر دیا اور پھر آپ کے گلے میں پٹکا ڈال کر اُسے گھونٹنے لگے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اِس کی اطلا ع ملی تو آپ دَوڑے دَوڑے وہاں آئے اور انہیں ہٹانا شروع کیا۔ اُس وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون پُو نچھتے جا تے تھے اور یہ کہتے جا تے تھے کہ اے میری قوم! تم کو کیا ہو گیا کہ تم ایک ایسے شخص کو مارتے ہو جس کا قصور سوائے اِس کے اور کوئی نہیں کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے۔۱۰۴؎ اِسی طرح آپ پر ایمان لانے والوں کو طرح طرح کے دُکھ دیئے جاتے۔
حضرت عثمان بن مظعون ؓ کا واقعہ
حضرت عثمان بن مظعونؓ ایک بہت بڑے رئیس کی اولاد میں سے تھے۔
ہجرتِ اولیٰ کے وقت وہ ایبے سینیا کی طرف چلے گئے تھے مگر بعد میں کفار نے یہ خبر اُڑادی کہ مکہ کے تما م لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اس پر بعض لوگ حبشہ سے واپس آگئے جن میں حضرت عثما ن بن مظعونؓ بھی شامل تھے۔جب انہیں معلوم ہؤا کہ یہ خبر جھوٹی تھی تو انہوں نے دوبارہ ایبے سینیا جانے کا ارادہ کیا۔ اس پر مکہ کا ایک رئیس جو اُن کے باپ کا گہرا دوست تھا اُن سے ملا اور اُس نے کہا تم واپس نہ جا ئو میں تمہیں اپنی پنا ہ میں لے لیتا ہوں۔ چنا نچہ مروّجہ دستور کے مطابق وہ اُنہیں خانہ کعبہ میں لے گیا اور وہاں اُس نے اعلان کر دیاکہ عثمان بن مظعون ؓ میری حفاظت میں ہے اب کوئی شخص اسے تکلیف نہ پہنچائے۔ اس اعلان کے نتیجہ میں عثمان بن مظعونؓ کُھلے بندوں مکہ میں پھر نے لگے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ لو گ دوسرے مسلمانوں کو مارتے پیٹتے ہیں تو اُن کی غیرت جوش میں آئی اور وہ اُس رئیس کے پاس آکر کہنے لگے کہ میں آپ کی پنا ہ میں نہیں رہنا چاہتا کیونکہ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا کہ میں توآرام سے پِھروں اور دوسرے مسلمان تکلیفیں اُٹھا ئیں۔ اُس نے بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے اور آخر اُس نے اپنی پناہ کے واپس لینے کا اعلان کر دیا۔
ایک دن عرب کے مشہور شاعر لبیدؔ جو بعد میں اسلام بھی لے آئے تھے مکہ میں آئے اور انہوں نے رئوساء کی محفل میں اپنے اشعار سنانے شروع کردیئے۔ سناتے سناتے انہوں نے یہ مصرعہ پڑھا کہ:
اَلا کُلُّ شَیْئٍ مَا خَلَا اللّٰہَ بَاطِلٗ
اے لو گو سنو کہ خد اکے سوا ہر چیز فنا ہو نے والی ہے۔ حضرت عثمان بن مظعون ؓ یہ مصرعہ سنتے ہی بول اُٹھے کہ خوب کہا تم نے بڑی سچّی بات کہی ہے۔ اب گوانہوں نے لبید کے مصرعہ کی داددی تھی مگر لبید ایک نوجوان کی تعریف بھی برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے اسے تعریض سمجھتے ہوئے شعر پڑھنے بند کر دیئے اور کہا اے مکہ والو! کیا تم میں اب کوئی شریف آدمی نہیں رہا کہ یہ کل کا بچہ مجھے داد دیتا ہے۔ اِس پر لو گو ں نے معذرت کی اور حضرت عثمان بن مظعون کو ڈانٹا کہ خاموش رہو۔ اِس کے بعد لبید نے دوسرا مصرعہ پڑھا جو یہ تھا کہ:
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَامُحَالَۃَزَائِلٗ
یعنی ہر نعمت آخر تباہ ہونے والی ہے۔ حضرت عثمان ؓ پھر بول اُٹھے کہ یہ بِالکل غلط ہے جنت کی نعمتیں کبھی تباہ نہیں ہو نگی۔ ان کا یہ کہناتھا کہ لبید غصّہ میں آگیا او رانہوں نے کہامیری ہتک کی گئی ہے ا ب میں اپنا کلا م نہیں سنائو ںگا۔ یہ دیکھ کر ایک شخص اُٹھا اور اُس نے اِس زور سے اُن کی آنکھ پر مُکّہ ما ر اکہ ان کا ایک ڈیلا باہر نکل آیا۔ یہ دیکھ کر مکّہ کا وہی رئیس جس نے انہیں پناہ دی تھی حسرت کے ساتھ آگے بڑھا اور کہنے لگا کیا میَں نہیں کہتا تھا کہ میری پنا ہ نہ چھوڑ!! وہ کہنے لگے تم تو یہ کہتے ہو خدا کی قسم! میری تو دوسری آنکھ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلنے کے لئے تیا ر ہے۔۱۰۵؎
نرینہ اولاد نہ ہونے پر دشمن کی طعنہ زنی
غرض یہ و ہ حالت تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
اور آپ کے صحابہ پر گزر رہی تھی اور چونکہ آپ کے ہا ں کوئی نرینہ اولاد بھی نہیں تھی اِس لئے دشمن اپنی نا بینائی کی وجہ سے کہتا کہ یہ نَعُوْذُبِاللّٰہِ ’’ اونترانکھترا‘‘(پنجا بی ) یعنی بے نسل ہے نہ روحانی لحاظ سے اس کی کوئی جمعیت ہے اور نہ جسمانی لحاظ سے اِس کی کو ئی نرینہ اولاد ہے۔ ایسے حالات میں خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور اُس نے کہا اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم تجھے خیر کثیر عطا کرنے والے ہیں اور تیرے ان مخالفوں کو جو آج تجھے مٹانے پر کمر بستہ ہیں ابتر بنانے والے ہیں ۔
محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
زیادہ سے زیادہ خیرِ کثیر ملتی چلی گئی
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کلام پر جُوں جُوں دن گزرتے چلے گئے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو
زیادہ سے زیا دہ خیر اور برکت ملتی چلی گئی اور آپؐ کے مخالفوں کے حصہ میں زیادہ سے زیادہ ناکامی اور نا مرادی آتی گئی اور آخر و ہ دن آیا کہ وہی شخص جسے اندھیری رات میں مکّہ سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا تھا، جس کے قتل کے منصوبے کئے گئے تھے، جس کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا تھا، دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہؤا اور اُس نے تمام مکّہ کے لو گو ں کو ایک میدان میںجمع کرکے پوچھا کہ بتائو اب تمہا رے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ انہوں نے کہا ہم آپ سے اسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ آپ نے فرمایا جا ئو میَں نے تم سب کو معاف کردیا۔۱۰۶؎
ابو سفیان کا اقرار کہ محمد رسول اللہ صلی اﷲ
علیہ وسلم دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے
مکّہ کے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اکیلا شخص کب تک اپنے مشن کو قائم رکھ سکتا ہے یہ آج
نہیں تو کل تباہ ہو جا ئیگا مگر خدا اسے کو ثر دینے کا وعدہ فرما چکا تھا۔ اُس نے آپؐ کے ماننے والوں میں اتنی کثرت پیدا کی کہ ابو سفیان نے جب فتح مکہ کے مو قع پر اسلا می لشکر کو دیکھا تو بے اختیار وہ حضرت عباسؓ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا عباس! تمہارے بھائی کا بیٹا آج دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے۔۱۰۷؎
کفار کے بیٹے محمد رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کی غلا می میں آگئے
پھر ان لو گو ں کو اپنے بیٹوں پر بڑا نا ز تھا، مگر خدائی نشان دیکھ کر وہی عاص بن وائل جو بڑے تکبّر سے اپنا تہہ بند لٹکا ئے پِھر تا
اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہا کرتا تھااُس کا اپنا بیٹا مسلمان ہو گیا، وہی ولید جو رات اور دن اسلام کے مٹانے پر کمر بستہ رہتا تھا اُس کا اپنا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو گیا، وہی ابوجہل جو تما م کفا ر کا لیڈر تھا اور جس کی زندگی کی ایک ایک گھڑی اسلام کی مخالفت میں گزری اُس کا اپنا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد میں شامل ہو گیا۔ یہ ایک خطرناک قسم کی آگ تھی جو خدا نے اُن کے دلوں میںپیدا کردی اور جس کے شُعلے اُنہیں ہر وقت جلا کر خا کستر بنا تے رہتے تھے اور اُنہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اِس آگ کے بجھا نے کا کیا انتظام کریں۔ وہ خود اسلام کے دشمن تھے مگر اُن کی اولا دوں نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالنا شروع کر دیا اور وہ اپنے باپوں اور بھا ئیوں کے خلاف تلواریں چلا نے لگ گئے۔ یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا جس میں وہ رات اور دن مبتلاء رہتے تھے کہ جس مذہب کو مِٹانے کے لئے اُنہوں نے اپنی عمریں صَرف کر دیں وہی مذہب اُ ن کے گھروں میں داخل ہو گیا اور اُس نے اُنہی کے بیٹوں کو اُس کا شکا ر بنا لیا۔
کون ابتر ثابت ہؤا؟
جب محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکّہ میں فا تحانہ طور پر داخل ہو ئے تو اُس
وقت گو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اُنہیں کچھ نہیںکہہ رہی تھی مگر مکّہ کی گلیوں کی وہ زمین جس پر اُن قدوسیوں کے قدم پڑرہے تھے اُن دشمنوں کو مخا طب کر کے کہہ رہی تھی کہ اے ابو جہل! عتبہ، شیبہ اور ولید کہا ں ہے؟ وہ تمہا ری اولا د جس پر تم فخر کرتے ہوئے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہا کرتے تھے وہ ابتر ہے یا آج تم ابتر ثابت ہو رہے ہو؟ تمہا ری اولا د وں نے جن پر تمہیں ناز تھا تمہیں چھو ڑدیا اور وہ تمہاری آنکھو ں کے سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلا می میں چلی گئیں۔
محمدؐ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی آج بھی دنیا میں روحانی اولا د موجو د ہے
اسی طرح آج تیرہ سَو برس گزر گئے مگر دنیامیں کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ میں ابوجہل کا بیٹا ہو ں یا عتبہ اور شیبہ کا
بیٹا ہوں مگر آج لا کھو ں مسلمان یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں کیو نکہ خدا نے یہ کہا تھا کہ اے محمدؐ رسول اللہ! ہم تجھے کو ثر عطاکریں گے او ر تیر ے دشمن کو ابتر رکھیں گے۔
تمام الہا می کتب سے افضل الہامی کتا ب
محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دی گئی
پھر آپ کو اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میںبھی کو ثر عطا کیا کہ آپ کو وہ کتا ب ملی جس کی
خیر اور برکت کا مقابلہ دنیا کی کوئی کتا ب نہیں کرسکتی۔ وہ تمام الہامی کتابوں میں سے ایک زندہ الہامی کتاب ہے۔ وہ علوم اور معارف میں ایک نا پیدا کِنا ر سمندر ہے۔ وہ دنیا کی تمام اخلا قی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کر نے والی کتا ب ہے۔ دنیا کے علوم خواہ کتنے بھی ترقی کر جا ئیں، زمانہ خواہ کتنی کروٹیں بدل لے یہ کتا ب قیا مت تک اُن کے لئے ایک کا مل راہنما کا کام دیتی چلی جا ئے گی۔
محمد رسو ل اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کا
مقامِ خاتم النّبیّین اور آپ کی عالمگیر بعثت
پھر آپ کو درجہ ملا تو خاتم النّبییّن کا جس میںکوئی نبی بھی آپ کا شریک نہیں۔ پھر سب انبیاء ایک
ایک قوم کی طرف مبعوث ہو تے رہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رَحْمَۃٌ لِّلْعَالَمِیْنَ بنا کر بھیجا گیا اور آپ کی برکا ت کا دائرہ اتنا وسیع کر دیا گیا کہ دنیا کی کو ئی قوم آپ کی غلامی سے باہر نہ رہی۔ کرشن اور رام چندر کی تعلیم صرف ہندوستان کے لئے تھی، زرتشت کی تعلیم صرف ایران کے لئے تھی، حضرت موسیٰ سے لے کر حضرت مسیحؑ تک تمام انبیا ء کی تعلیم بنی اسرائیل کے لئے تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعا لیٰ نے ہر أَسْوَد وأَحْمَر کی طرف مبعوث فرمایا اور آپ نے یہ اعلان کیا کہ بُعِثْتُ اِلَی النَّاسِ کَا فَّۃً الْاَحْمَرَ وَالْاَسْوَدَ۔۱۰۸؎ وَمَآاَرْسَلْنکَ اِلَّا کَا فَّۃً لِّلنَّاسِ۔یعنی خداتعالیٰ نے مجھے تمام عالَمِ انسانی کی طرف مبعوث فرمایا اور ہر أَسْوَد وأَحْمَر میرا مخاطب ہے۔ اب خواہ ایشیا کے رہنے والے ہوں یا افریقہ کے، یورپ کے رہنے والے ہوں یا جزائر کے، پہا ڑوں میں رہنے والے ہوں یا میدانوں میں، گائوںمیں رہنے والے ہوں یا شہروں میں، سب پر آپ کی اطاعت فرض ہے اور کوئی شخص بھی آپ کی غلامی کا جُؤا اُٹھائے بغیر روحانی عمارت کی اینٹ نہیں بن سکتا۔
ہر قسم کے خدّام کا عطا کیا جا نا
پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اِس لحاظ سے بھی خیرِکثیر عطا کیا کہ اس نے ہر قسم کے انسان آپ
کو عطا کئے۔ اگر جرنیلوں کی ضرورت تھی تو اس نے آپ کو ایسے جرنیل عطا کئے جن کے تدبّر کا آج یورپ تک معترف ہے، اگر مبلّغوں کی ضرورت تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے مبلّغ عطا فرمائے جو قرآن ہا تھ میں لے کر ساری دنیا میں نکل گئے اور انہوں نے ہز اروں لو گوں کو اسلام میں داخل کیا، اگر جا ں نثار اور فدا کا ر غلا موں کی ضرورت تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے مخلص جاں نثار عطا فرمائے جنہوں نے بھیڑ بکریوں کی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنے سر کٹا دیئے، اگر کسی جگہ عورتوں کی فدائیت کی ضرورت پیش آئی تو عورتیں آگے آگئیں، اگر کسی جگہ نو جو انوں کا خون قوم کو درکار تھا تو نوجو ان آگے نکل آئے، اگر قوم کی ترقی کے لئے عابد و زاہد لو گو ں کی ضرورت تھی تواللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑے بڑے شب بیدار اور عابد وزاہد نفوس عطافرمائے غرض کونسی ضرورت تھی جو خدا تعالیٰ نے پوری نہ کی۔
اخلاص اور فدائیت میں
صحابہؓ کی امتیا زی شان
پھر اخلاص اور فدائیت کولو تو اِس میں بھی جو برکت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو ملی وہ کسی اور نبی کے متبعین کو نہیں ملی۔ موسیٰ کے ساتھیوں
نے ایک نہایت ہی نازک موقع پر یہ کہہ دیا کہ ۱۰۹؎ اے موسیٰ تُو اورتیرا رب جاکر لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں مگر محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ جا ں نثار عطا فرمائے جنہوں نے بڑی دلیری سے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لا شوں کو رَوندتا ہؤا نہ گزرے۔۱۱۰؎
غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کوہر خیر اور برکت کی کثرت عطاکی۔ اُس نے روحانی لحاظ سے ایک طرف سے آپ کو وہ شریعت عطافرمائی جو قیامت تک منسوخ نہیں ہو سکتی او ر دوسری طرف آپ کو وہ بلند مقام بخشا کہ اب قیامت تک کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قُرب حاصل نہیں کرسکتا جب تک وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں شامل نہ ہو۔ اور جسمانی لحاظ سے اُس نے آپ کو خدام کی اِتنی کثرت بخشی کہ سارا مکہ آپ کی زندگی میں آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا۔
مال ودولت اور رُعب ودبدبہ
اِسی طرح مال ودولت کے لحاظ سے اِس قدر کثرت بخشی کہ قیصر وکسریٰ کے خزائن
مسلمانوں میں تقسیم ہوئے، رُعب او ر دبدبہ اِس قدر عطافرمایا کہ محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سُنکر گھر بیٹھے دشمن کا دل لرز جا تا اور اُس کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا۔ غرض ہر خیر اور برکت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی اور اِس کثرت کے ساتھ دی گئی کہ اس کی مثال نہ موسٰی ؑ کی زندگی میںمل سکتی ہے نہ عیسیٰ کی زندگی میں مل سکتی ہے نہ دائود ؑ اور سلیمان ؑ کی زندگی میں مل سکتی ہے اَور نہ کسی اور نبی کی زندگی میں مل سکتی ہے۔
محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی بعثت کی چار اغراض
پھر تفصیلی طور پر دیکھا جائے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی چار اغراض بتلائی گئی تھیں تلا وت ِآیا ت، تعلیمِ کتاب، تعلیمِ حکمت
اور تزکیہء نفوس چنا نچہ اللہ تعالیٰ فرما تا ہے ۱۱۱؎یعنی اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں پر یہ بڑا بھا ری احسان کیا کہ اُس نے اُن میں ایک ایسا رسو ل مبعوث فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی آیا ت سے انہیں روشنا س کرتا ہے اُن کا تزکیہء نفس کرتا ہے اور انہیں کتا ب اور حکمت سکھاتا ہے او ر یقینا وہ اس سے پہلے ایک کُھلی گمراہی میں مبتلا تھے۔
ہر کما ل میں محمد رسو ل اللہ
صلی اﷲ علیہ وسلم کا منفردہونا
اس آیت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار کا م بتلائے گئے ہیں اور درحقیقت ہر نبی انہی چاروں امور کی سر انجا م دہی کے لئے آیا
کرتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت حا صل ہے کہ آپ نے دنیا کے ہر نبی سے تلاوتِ آیا ت بھی زیا دہ کی، تعلیمِ کتاب بھی زیا دہ دی، تعلیمِ حکمت بھی زیا دہ پیش کی اور تزکیہء نفوس بھی زیا دہ کیا۔ گویا ہر کمال میں آپ کو کو ثر عطاکیا گیا اور ہر خوبی میںآپ کو منفرد رکھا گیا ۔
امورِغیبیہ کے متعلق محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی
عربی زبان میں اٰیَۃ کے جہا ں اَور بہت سے معنی ہیں وہاں اِس کے ایک معنی اس چیز کے بھی ہو تے ہیں جو کسی دوسری چیز کی
طرف راہنمائی کرے چنا نچہ قرآن کریم میں نازل شُدہ فقرات کو بھی اسی لئے آیا ت کہا جاتا ہے کہ اس کا ہر فقرہ دوسرے فقرہ کے معانی کے لئے بطور دلیل ہو تا ہے جس کو مدِّ نظر رکھنے کے بغیر اس کا مفہوم پوری طرح واضح نہیںہو تا ۔پس میںیہ بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کی ایسے امور کی طرف راہنمائی کرتے ہیں جن کو وہ خود اپنی عقل کے زو ر سے معلوم کرنے سے قاصر تھے اور چونکہ امورِغیبیہ ہی ایک ایسی چیز ہیں جن کو کوئی انسان اپنی عقل اور فکر کے ساتھ معلوم نہیں کر سکتا اس لئے تلا وتِ آیا ت کا کا م اِسی صورت میںمکمل ہو سکتا تھا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کو ایسی باتیں بتاتے جو اُن کے لئے امورِغیبیہ پر ایمان لانے کی محرک ہوتیں اور انہیں آپ کی راہنمائی میں وہ روحانی دولت ملتی جو اس سے پہلے ان کے پاس نہیں تھی۔
ہستی باری تعالیٰ
اِس نقطئہ نگاہ سے اگر غور کیا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ امو رِ غیبیہ میں سب سے پہلی اوراہم خیر خدا تعالیٰ کا وجود ہے کیونکہ وراء الورٰی ہستی
ہے اور کوئی انسان اپنے علم اور اِدراک کے زور سے اُس تک نہیں پہنچ سکتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے وجود کو بنی نوع انسان کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ اس وراء الورٰی ہستی کی عظمت اور اس کی جبروت کا تصوّر بھی قائم رہا اور بنی نوع انسان کے قلوب میں یہ یقین بھی پیدا ہو گیا کہ ہمارا خدا اپنی مخلوق کو اعلیٰ درجہ کے مقامات پر پہنچانے کی خواہش رکھتا ہے اور وہ انہیں ہر وقت اپنے قُرب میں جگہ دینے کے لئے تیا ر ہے۔اِس غرض کے لئے سب سے پہلی اور اہم خبر صفاتِ الٰہیہ ہیں کیو نکہ غیر محدود ہو نے کی وجہ سے و ہ صرف اپنی صفات کے ذریعہ ہی پہچانا جا سکتا ہے۔ بیشک صفاتِ الٰہیہ پر اور مذاہب نے بھی روشنی ڈالی ہے مگر اوّل تو جس تفصیل کے ساتھ اسلام نے ان صفات کو بیان کیا ہے اس تفصیل کے ساتھ دنیا کے اور کسی مذہب نے صفاتِ الٰہیہ پر روشنی نہیں ڈالی یہاں تک کہ یہودیت بھی جو اسلام سے پہلے آنے والے مذاہب میں سے ایک بہت بڑا مذہب تھا اور جسے تورات جیسی کتا ب دی گئی تھی اُس میں بھی بہت کم صفاتِ الٰہیہ کا بیا ن ہؤا ہے۔
بائیبل میں خدا تعالیٰ کی صفات کی تنقیص
اور پھر ان مذاہب نے خدا تعالیٰ کی طرف کئی ایسے نقائص اور
عیوب بھی منسوب کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے اُس کی صفا ت کی تنقیص ہو تی ہے مثلاً بائیبل میں ہی لکھا ہے کہ:
’’چھ دن میں خداوند نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا او ر ساتویں دن آرام کیا او ر تازہ دم ہؤا۔‘‘۱۱۲؎
گویا خدا تعالیٰ چھ دن کام کرنے کی وجہ سے نَعُوْذُبِاللّٰہِ تھک گیا اور اُسے ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ آرام کر ے اور تازہ دم ہوجا ئے، مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ خداتعالیٰ کے متعلق یہ تصور بالکل غلط ہے اس لئے کہ وہ کوئی مادی وجود نہیں جو کام کا بوجھ برداشت نہ کرسکے او ر تھکا ن او رکوفت محسوس کرے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۱۱۳؎ یعنی زمین وآسمان کی پیدائش سے ہمیں کوئی تھکا ن محسوس نہیں ہوئی ۔پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ زمین وآسمان کی پیدائش سے تھک گیااور ساتویں دن اُس نے آرام کی احتیاج محسوس کی۔
اِسی طرح مسیحیت نے خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر حملہ کیا اور مسیحؑ اور روح القدس کو بھی اُس کی الوہیت میں شریک قرار دے دیا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خداتعالیٰ کو تمام مادی قیدوں اور ظہو روں سے پاک قرار دیا۔ اور پھر آپ نے اس امر پر بھی زور دیا کہ انسان اگر خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پید اکرنے کی کوشش کرے تو وہ خدا تعالیٰ کی محبت کو حا صل کر سکتا اوراس کے قُرب میں بڑھ سکتا ہے۔ چنا نچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میَں نے جِنّ واِنس کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا نقش اپنے دل پر پیداکریں۔۱۱۴؎
اِسی طرح وہ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے ۔اے انسانو!اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تم کو اِس دنیا میں اپنا نمائندہ بنا کر کھڑاکیا ہے اگر تم میں سے کوئی شخص اس مقام کا انکا ر کرے گا تو اُس کا نتیجہ اُس کو بھُگتنا پڑے گا۱۱۵؎ یعنی اس عزت کے مقام کو چھوڑ کر وہ خود ہی نقصان اُٹھائے گا خداتعالیٰ کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
اسی طرح ایک اور جگہ اس نے فرمایا ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں ہم یقینا انہیں اپنی بارگاہ تک پہنچنے کے راستے بتادیتے ہیں۔۱۱۶؎
پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی عظمت اور اُس کے جا ہ وجلا ل کو بھی قائم کیا اور بنی نوع انسان کو بھی اِس امر کا یقین دلایا کہ وہ خداتعالیٰ کے مقرب بن سکتے ہیں ۔
ملائکۃ اللہ
اسی طرح ملائکہ بھی ایک مخفی وجود ہیں جن کی حقیقت کا علم بغیر کسی ایسے انسان کی راہنمائی کے حاصل نہیں ہو سکتا جسے خدا خود اپنے
غیب سے حصّہ د ے او ربتائے کہ ملا ئکہ کی کیا حقیقت ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد چونکہ اللہ تعالیٰ نے تلا وتِ آیا ت کا کا م کیا تھا اس لئے آپؐ نے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت ان کے متعلق بھی بنی نوع انسان کی صحیح راہنمائی فرمائی اور بتایا کہ ملا ئکہ نظامِ عالَم کے روحانی اور جسمانی سلسلہ کی اُسی طرح ایک اہم کڑی ہیں جس طرح دوسرے نظر آنے والے اسباب مادی دنیا میں مختلف کاموں کی کڑیا ں ہیں۔ وہ صرف خدائی دربار کی رونق کا سامان نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے تکوینی احکام کی پہلی کڑی ہیں اور ان کے بغیر اس کا ئنات کا وجودادھورا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اِسی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کچھ تو وہ ملائکہ ہیں جو عرش کو اُٹھا ئے ہو ئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو عرش کے اِردگِرد رہتے ہیں۱۱۷؎ یعنی ایک تو وہ فرشتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرنے والے ہیں اور جن کے ذریعہ دنیا میں احکامِ الٰہیہ کا اجراء ہو تا ہے اور ایک وہ ہیں جو اُن احکام کو نچلے طبقہ تک لے جا نے والے ہیں پس ملا ئکہ کا وجود اس عالَم کا ایک اہم ضروری حصّہ ہے۔
رسالت اور کلام الٰہی کی ضرورت
آپؐ نے رسالت اور کلا مِ الٰہی کی ضرورت کو بھی واضح کیا اور بتا یا کہ
جس طرح مادی دنیا میں خدا تعا لیٰ نے صرف آنکھ پیدا نہیں کی بلکہ لا کھو ں میل کے فاصلہ پر ایک سورج بھی پیداکر دیا ہے تاکہ آنکھ اس کی روشنی سے فائدہ اُٹھا ئے اِسی طرح روحانی عالَم میں بھی خدا تعالیٰ نے سورج اور چاند اور ستارے بنا ئے ہیں۔ جو شخص روحانی دنیا کے سورج یا روحانی دنیا کے چاند یا روحانی دنیا کے ستاروں کی ضرورت کا انکا ر کرتا ہے وہ قانونِ قدرت سے اپنی آنکھیں بند کرتا اور حقائق سے رُوگردانی اختیا ر کر تا ہے چنانچہ اسلام نے اِسی حقیقت کی طرف توجہ دلا تے ہوئے فرمایا ہے۔کہ ہم تمہا رے سامنے اس آسمان کو شہا دت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو مختلف بروج والا ہے۱۱۸؎ یعنی جس طرح تمہیں اِس مادی دنیا کے آسمان میں سورج اور چاند اور ستارے دکھا ئی دیتے ہیں اِسی طرح خدا تعالیٰ نے روحانی عالَم میں بھی ظلمتوں کو دُور کرنے کے لئے سورج اور چاند اور ستارے بنا ئے ہیں جو لوگوں کو اپنے نو ر سے منور کرتے رہتے ہیں۔
بعث بعد الْمَوت
آپ نے اسی سلسلہ میں بعث بعد الْمَوت پر بھی روشنی ڈالی کیونکہ اس کے متعلق بھی کوئی انسان اپنی ذاتی کدّوکا وش سے معلومات
حاصل نہیں کرسکتا تھاآپ نے ایک طرف تو جزاء وسزا کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور دوسری طرف یہ بتایا کہ اس جزاء کا مخفی رکھا جانا بھی ضروری ہے ورنہ انسانی اعمال غیر اختیا ری ہوجا ئیں اور جزاء ایک بے معنی لفظ بن کر رہ جائے چنا نچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص نہیں جا نتا کہ اُس کے لئے عالَمِ آخرت میں آنکھوں کی ٹھنڈک کاکیا کیا سامان مخفی رکھا گیا ہے کیونکہ یہ انعام تمہا رے اعمال کی جزاء میں ملنے والا ہے۱۱۹؎ اگر اس کو ظاہر کر دیا جائے تو حقیقت کے منکشف ہونے پر ایمان لا نا کوئی خوبی نہ رہے اور انسان کسی جزاء کا مستحق نہ ہو ۔
آپؐ نے اس امر کی تصریح فرمائی کہ عالَمِ آخرت درحقیقت اِسی دنیا کا ایک تسلسل ہے جس میں اپنے اپنے اعمال کے مطابق مادیت کے بوجھ سے آزاد ہو کر انسا نی روح اُس راستہ پر گامزن ہو جا تی ہے جو اُس نے خود اپنی دُنیوی زندگی میںاختیا ر کیا ہو تا ہے چنانچہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اِس دنیا میں روحانی لحاظ سے نا بینا ئی رکھتا ہو گا وہ عالَمِ آخرت میں بھی اس نابینائی کو لے کر اُٹھے گا او ر خدا ئی قُرب کے دروازے اُس پر نہیں کھلیں گے۔۱۲۰؎ غرض ہر وہ مخفی مسئلہ جس پر مذہب اور روحانیت کی بنیا د تھی محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کھول کر بیا ن کیا کہ انسانی عقول تسلّی پا گئیں اور ان کا رسمی ایمان مشاہدہ اور بصیرت کا رنگ اختیا ر کر گیا ۔
شریعت *** نہیں بلکہ خدا تعالیٰ
کا بڑا بھاری فضل ہے
آپؐ کا دوسرا اہم کا م تعلیم کتا ب تھا اس کا م کو بھی آپ نے ایسے رنگ میں پورا کیاکہ اس کی مثال اور کسی وجود میں نہیں ملتی
آپؐ کی بعثت سے پہلے دنیا میں بعض ایسے مذاہب تھے جو اپنی نا دانی سے شریعت کو *** قرار دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ ایک ایسا بوجھ ہے جو انسان کی کمر کو توڑ دینے والا ہے آپؐ نے بتایا کہ یہ نظر یہ صحیح نہیں، شریعت اللہ تعالیٰ کا ایک بڑابھاری فضل ہے کیونکہ انسان جب اس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے تووہ اپنی عقل سے خدا تعالیٰ کی مرضی کو کس طرح معلوم کر سکتا ہے۔ یہ مرحلہ تو اسی صورت میں طے ہو سکتا ہے جب خدا تعالیٰ خود بتائے کہ میری رضا کس امر میں ہے اور شریعت اِس چیز کا نام ہے کہ خداتعالیٰ کی رضا مندی کی راہوں کو خدا تعالیٰ کی زبان سے ہی معلوم کیا جائے۔ پس شریعت خدا تعالیٰ کی ایک بڑی بھاری رحمت ہے اس وجہ سے قرآن کریم کو مختلف مقامات میں رحمت قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ قرآن بنی نوع انسان کو تکلیف میں ڈالنے کے لئے نہیں بلکہ آسانیاںپیداکرنے کے لئے آیا ہے۔۱۲۱؎
شریعت کا فائدہ
پھر آپ نے اِس امر کی بھی وضاحت فرمائی کہ شریعت اس لئے نازل نہیں ہوتی کہ اُس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی شان
بڑھتی ہے بلکہ اِس لئے نا زل کی جا تی ہیکہ بنی نوع انسان اُس کے احکام پر عمل کرکے ترقی کریں کیونکہ اس کا ہر حکم انفرادی او ر قومی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، خدا تعالیٰ کواُن احکام پر عمل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔ چنا نچہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلا تے ہو ئے فرماتا ہے کہ تم میں سے جو شخص نیکی کرے گا وہ اپنے نفس کے لئے کریگا اور جو شخص بدی کا ارتکا ب کرے گا اُس کا وبا ل بھی اس کی جان پر پڑے گا، خداتعالیٰ اپنے بندوں پر کوئی ظلم نہیں کرتا۔۱۲۲؎
قرآن کریم کی کامل تعلیم
پھر تعلیم کتا ب کے لحاظ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تعلیم پیش کی جو اپنے ہر پہلو کے لحاظ سے
کامل ہے آپ نے بتایا کہ انسان پر اُس کے ماں باپ کے کیا حقوق ہیں؟ بھائی بہنوں کے کیا حقوق ہیں؟ بیوی کے خاوند پر اور خاوند کے بیوی پر کیا حقوق ہیں؟ ہمسائیوں کے کیا حقوق ہیں؟ یتامیٰ ومساکین کے کیا حقوق ہیں ؟بیوائوں کے کیا حقوق ہیں؟ دوستوں کے کیا حقوق ہیں؟ اِسی طرح آپ نے سیا ستِ مُلکی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ سرحدوں کی حفاظت کیا کرو، لڑائیوں کے متعلق متعدد احکام دیئے، معاہدات کی پابندی کی تلقین کی، اقوامِ عالَم کے جھگڑوں کے تصفیہ کے قواعد بیا ن کئے غرض انفرادی مسائل یا قومی زندگی میں جن مشکلا ت کا سامنا ہو سکتا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر روشنی ڈالی اور ان کاکامیاب حل بتایا۔ پھر اس کیساتھ ہی آپ نے اس امر کی صراحت فرمادی کہ گو اس کتا ب میں وہ تمام ضروری امور بیان کردیئے گئے ہیں جن کا مذہبی یا روحانی یا اخلاقی ترقی کیساتھ تعلق ہے مگر انسانی دماغ کی ترقی کے لئے اجتہا د او ر غور اور فکر کا بھی سلسلہ جاری رکھا گیا ہے تاکہ انسانی دماغ کُند ہو کر نہ رہ جائے او ر وہ اندھی تقلید کا شکا ر نہ ہوجائے۔
تعلیم حکمت
محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیسرا عظیم الشان کام تعلیمِ حکمت تھا اِس لحاظ سے آپ نے ایک بے مثا ل معلّم کے فرائض سر انجام دیئے۔
پہلی تمام کتب کو دیکھ لو وہ صرف اتنا کہتی ہیں کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو، مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتا یا کہ ایسا کیو ں کرو اور کیو ں نہ کرو۔ وہ شراب اور جُوئے سے روکتا ہے تو اس کی حکمت بھی بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ ان چیزوں کے نقصا نا ت ان کے فوائد سے زیادہ ہیں۱۲۳؎ وہ نماز اور روزے کا حکم دیتا ہے تو ان کے فوائد بھی بیا ن کرتا ہے او ربتاتا ہے کہ نماز تما م فحش او ر نا پسند یدہ کا موں سے انسان کو بچاتی ہے۱۲۴؎ اور روزوں کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔۱۲۵؎
غرض اسلام احکام کے ساتھ حکمتیں بھی بیان کر تا ہے او ر یہ اسلام کی اتنی بڑی فضیلت ہے جس کا مقابلہ دنیا کا اور کوئی مذہب نہیں کر سکتا۔آپؐ نے بتایا کہ خدا تعالیٰ حکیم بھی ہے وہ کوئی حکم بغیر کسی حکمت کے نہیں دیتا پس خدائی تعلیم کے یہ معنے نہیں کہ اُس کے احکام حکمتوں سے خالی ہو ں اور محض جبر کے طور پر کچھ باتیں منوانے کی کو شش کی گئی ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف کسی بات کا منسوب ہو نا تقاضا کر تا ہے کہ وہ بات لا زمی طور پر مختلف قسم کی حکمتوں سے پُر ہو، تاکہ انسانی دل انقباض محسوس نہ کر ے بلکہ وہ خوش ہو کہ جس حکم پر میں عمل کر رہا ہوں اُس میں میر ا بھی فائدہ ہے اور دوسرے بنی نوع انسان کا بھی فائدہ ہے۔
تزکیہ ٔ نفوس
چوتھا اور اہم کام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا تھا وہ تزکیۂ نفوس ہے یعنی لو گوں کے دلوں میں ایسی پا کیزگی پیدا کرنا
کہ وہ خداتعالیٰ کے قریب ہو جائیں اور اُس کی قدرتوں کا جلوہ گاہ بن جائیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کو بھی ایسے احسن طریق سے پورا کیا ہے کہ دوست ہی نہیں دشمن بھی اس بات کے معترف ہیں کہ آپ نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا ۔
آپؐ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں اُس زمانہ میں مذہب ہی نہیں انسانیت بھی مرچکی تھی اور شرافت دنیا سے مفقود ہو چکی تھی۔ ہر قسم کا فسق وفجور لو گوں میں پا یا جا تا تھا اورہر قسم کی نیکی عنقاتھی یہاں تک کہ بدی کا احساس بھی لو گوں کے قلوب سے مٹ چکا تھا اور وہ ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے کی بجا ئے بدیوں کے ارتکاب پر فخر محسوس کرتے تھے۔ ایسے خطرناک زمانہ میں آپ نے تزکیۂ نفوس کاکا م شروع کیا اور ہر قسم کی روکوں اور انتہائی مظالم کے باوجود اس کام کو جا ری رکھا یہاں تک کہ وہ دن آگیا کہ صدیوں کے مُردوں نے اپنے اندر زندگی کی روح محسوس کی، قبروں میں دبے پڑے لوگ باہر نکل آئے، اندھوں نے بینائی حاصل کی، لُولے اور لنگڑے چلنے لگے، کمزوروں نے اپنے اندر طاقت کی ایک لہردَوڑتی ہوئی پائی، بیماروں نے صحت کے آثار محسوس کئے اور جہا لت کی جگہ علم نے، جمود کی جگہ سعیِ عمل نے، شیطنت کی جگہ روحا نیت نے اور بدی کی جگہ نیکی نے لے لی۔ برسوں کے مسخ شدہ انسان آپ کے فیضِ صُحبت سے ایسے پاک ہوئے کہ اُن کی کایا پلٹ گئی، وہ خدا ئے واحد کے آستانہ کی طرف کھینچے گئے اور دنیا کی ہدایت کے لئے ایک ایسا مینار بن گئے کہ آج بھی اُن کی روشنی نیند کے ماتوں کو بیدار کرنے اور انہیں چاق و چوبند بنانے کے کام آرہی ہے۔
غرض اِس روحانی گورنر جنر ل کوخدائے واحد کی طرف سے جس انعام کا وعدہ دیاگیا تھا وہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہؤا۔ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے کَوْثَرْ عطا کیا اور ہر رنگ میں اتنی برکا ت اور انعامات کے ساتھ نوازا کہ انسان کے لئے اُن کا شمار کرنا بھی مشکل ہے۔
ایک کثیر الخیر روحانی فرزند
کے پیدا ہونے کی پیشگوئی
پھر کَوْثَرْ کے ایک معنیاَلرَّجُلُ کَثِیْرُالْعَطَائِ وَالْخَیْرِ۱۲۶؎ کے بھی ہیں یعنی ایساانسان جو بڑا سخی ہو اور دنیا میں کثرت سے نیکی پھیلانے
والا ہو۔ اِس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں یہ بیان فرمایا تھا کہ اے محمدؐ رسول اللہ! ہم اب بھی تجھے ہر قسم کی نعمتوں کی کثرت دینگے اور آئندہ زمانہ میںبھی تجھے ایک بہت بڑا روحانی فرزند عطا کریں گے جو کثیرالخیر ہو گا اور کثرت سے قرآن کریم کے علوم اور اس کے معارف دنیا میں پھیلائے گا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مفہوم میں یہ پیشگوئی فرمائی کہ یُفِیْضُ الْمَالَ۔۱۲۷؎ یعنی آنے والا مسیح کثرت کے ساتھ لوگوںمیں روحانی دولت تقسیم کریگا مگر اس کے ساتھ ہی قرآن کریم نے میں اِس طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے کہ آنے والا مسیح اُمتِ محمدیہ کا ایک فرد ہو گا کیو نکہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جا ئے گا اور اس کا وجود ثابت کر دیگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابتر نہیں، پس وہ آپؐ کا ہی روحانی بیٹا ہو گا، باہر کا کوئی آدمی نہیں ہو گا۔
تمام مخالف اقوام ابتر ہو کر رہ گئیں
اِس جگہ پہلے معنوں کے لحا ظ سے دشمنوں سے مراد ابو جہل، عتبہ او رشیبہ
وغیرہ ہیں، مگر دوسرے معنوں کے لحاظ سے سے وہ تمام قومیں مراد ہیں جو آج اسلام پر حملہ کر رہی ہیں چنانچہ دیکھ لو جب اسلام ضعیف ہو گیا، مسلمانوںکی طاقتیں کمزور ہوگئیں اور عیسائی مصنّفوں نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ اب اسلام ترقی نہیں کر سکتا اور خود مسلمان مصنّفین نے بھی دشمن کے مقابلہ میں معذرتیں شروع کردیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپؐ نے دنیا کو چیلنج کیا کہ مَیں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی بیٹا ہوں اور مَیں اس بات کا ایک زندہ ثبوت ہوں کہ آج محمدی چشمہ کے سِوا باقی تمام چشمے سُوکھ گئے ہیں اور میَں اس چشمہ کا پانی پی کرزندہ ہؤا ہوں۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ تم بھی کسی زندہ مذہب کے پیرو ہو تو تم میرے سامنے وہ زندہ شخص پیش کرو جس پر خدا تعالیٰ کا تازہ کلام اُترتا ہو۔ مگر واقعات بتارہے ہیں کہ اس چیلنج کے مقابلہ میں دنیا کی ساری قومیں ابتر ہوکر رہ گئیں او روہ اسلام کے پہلوان کے مقابلہ میں اپنا کوئی پہلوان پیش نہ کرسکیں۔ ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزرچکا ہے مگر نہ ہندو کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں نہ عیسائی کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں نہ یہودی کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں، نہ بدھ یا کنفیوشس مذہب کے پیرو کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں، نہ یو رپ کا فلسفہ کوئی بیٹا پیش کرسکا ہے۔ ساٹھ سال سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی بیٹے کا چیلنج موجو د ہے کہ اگر تمہارے اندر کو ئی نور اور صداقت ہے توتم میرے مقابلہ میں وہ شخص پیش کر و جس نے تمہارے مذہب پر چل کر خدا تعالیٰ کے مکالمات کا شرف حاصل کیا ہو اور اس کی تازہ وحی اور نشانات کا مورد ہؤا ہو مگر کوئی مذہب اپنا روحانی بیٹا پیش نہیں کرسکا۔
پس جس طرح آج سے تیرہ سَوسال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس انعام کو پورا کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی نعماء سے حصّہ عطافرمایا اِسی طرح اُس نے تیرہ سَوسال کے بعد ایک بار پھر دنیا پر یہ ثابت کردیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی صاحبِ اولاد ہیں اور آپؐکے دشمن ہی ابتر ہیں۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کو مقام محمود کی بشارت
پھر اسی دربار خاص میں ایک اور عظیم الشان انعام بھی اس خدائی گورنر جنر ل کو عطا کیاگیااور کہا گیا کہ
۱۲۸؎ یعنی اے محمد رسول اللہ! عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ ہر دوست اور دشمن تیری تعریف میں رطبُ الّلسان ہو گا اور ہر مقام پر تیرے بلند اخلاق اور اعلیٰ درجہ کے کردار کا چرچا ہو گا۔ اِس انعام کا اعلان بھی ایسی حالت میں کیا گیا جب دنیا اپنی نابینا ئی کی وجہ سے اس خدائی گورنر جنرل کا حُسن دیکھنے سے عاری تھی اور وہ اپنی مخالفت کے جو ش میں اسے محمد کہنے کی بجائے مذمّم کہہ کر پُکا را کرتی تھی مگر ابھی ایسی مخالفت پر کچھ زیادہ عرصہ گزرنے نہیں پایا تھا کہ اُس کا روحانی حُسن ظاہر ہو نا شروع ہؤا اور لو گوں کو محسوس ہؤا کہ انہوں نے سونے کو پیتل اور ہیرے کو کوئلہ قرار دیکر ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی کا ارتکا ب کیا ہے۔
ہر وصف میں یکتا اور بے نظیر نبی
انہوں نے تعصّب کی پٹی اپنی آنکھو ں سے اُتا ر کر اس کے اخلاقِ فاضلہ کو دیکھا تو
انہیں بے مثال پایا اور اس کے زندگی بخش کلام کو سُنا تو اُسے تمام کلاموں سے افضل پایا، اس کے علم کو دیکھا تو دنیا کے بڑے بڑے عالموں کو ا س کے سامنے جا ہل پایا، اس کی معرفت کو دیکھا تو بڑے بڑے عارفین کو اُس کے آگے زانوئے تلمّذتہہ کرتے دیکھا، اس کی محبت اور تعلق بِاللہ کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا ویسا عاشق اور سچاعبادت گزار انہیں ساری دنیا میں نظر نہ آیا، انہوں نے اس کے دلائل وبیّنات کا جا ئزہ لیا تو اُنکا ردّ کرنے کی دُنیا کے کسی مذہب میں طاقت نہ پائی، اس کی دعائوں کی قبولیت کو دیکھا تو انہیں بے نظیر پایا، اس کے فیوض وبرکات اور اس کی تعلیمات کامشاہد ہ کیا تو دنیا میں اُن کاکوئی ثانی نہ دیکھا، اس کی پیشگوئیوں پر انہوں نے نظر دَوڑائی تو انہیں آپ کی صداقت اور راستبازی کا ایک بڑا نشان دیکھا۔ غرض جس پہلو سے بھی انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اُسے مجسمہء حُسن واحسان پایا اور وہ آپ کے ایسے والہ وشیدا ہو ئے کہ تمام دُنیوی علائق کو توڑ کر وہ آپ سے ایسے وابستہ ہو گئے اور اس عہدِوفا کو انہوں نے مرتے دم تک اس خوبی سے نباہا کہ پہلی امتیں اس کی مثا ل پیش کرنے سے قاصر ہیں۔
زبانوں پر حمد کے ترانے
یہی وہ چیزتھی جس کی خد ا تعالیٰ کی طرف سے ان الفاظ میں خبر دی گئی تھی کہ
یعنی اے محمدؐ رسو ل اللہ! آج لو گ تیرا حُسن دیکھنے سے قاصر ہیں وہ تجھے ایسی گٹھلی سمجھتے ہیں جو پا ئوں تلے رَوندی جا ئیگی، ایک ایسا بیج خیا ل کرتے ہیں جسے پرندے اُچک کر لے جا ئیں گے مگر ہم نے تیرے اندر ایسی خوبیا ں ودیعت کردی ہیں کہ جُوں جُوں اُن خوبیوں کا ظہور ہو تا جائے گا تیری حمد کے ترانے لو گو ں کی زبا نوں پر جا ری ہوتے جائیں گئے اورمذمّم کہنے والے تجھ پر درود اور سلام بھیجیں گے چنانچہ ہم دیکھتے ہیںکہ اسلام کے وہ تمام مسائل جن پر یو رپ کے مد بّر ین اور بڑے بڑے فلا سفر بھی اعتراض کیا کرتے تھے آج دنیا اُن کی معقولیت کی قائل ہو رہی ہے اوروہ تسلیم کرتی ہے کہ دنیا کی مشکلا ت کا صحیح حل صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کر دہ تعلیم میں ہی ہے۔
اسلامی تعلیم کی برتری کا اعتراف
ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب توحید کے اعلان پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
اور آپ کے ساتھیوں کو انتہا ئی مصائب کا نشانہ بنایا گیا مگر آج ساری دنیا خدائے واحد کے آستانہ پر سر جُھکائے ہوئے ہے بلکہ وہ لوگ جو مذہباً تثلیث کے قائل ہیں یا مذہباً سینکڑوںدیو تائوں کو تسلیم کرتے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خدا تو ایک ہی ہے باقی سب اُس کے ظہو ر ہیں۔ پھر شراب کو اچھا سمجھا جا تا تھا، اسلام کے مسئلہ طلاق پر اعتراض کیاجاتا تھا، تعدد ازدواج کو عورتوں کے لئے شدید ظلم قرار دیا جا تا تھا، سُودکو تجارت کا ایک لازمی جُزو سمجھتے ہوئے بڑا مفید خیا ل کیا جا تا تھا، پردہ کو بُرا قرار دیاجا تا تھا، ورثہ کے مسائل کو درست نہیں سمجھاجا تا تھا مگر آج دنیا ٹھو کریں کھاکر اس تعلیم کی طرف آرہی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی کیونکہ خدا نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ وہ آپ کو مقامِ محمود عطا کریگا اور دنیا آپؐ کے اخلاق اور آپ کی تعلیم کی برتری کی وجہ سے اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ کی تعریف کریگی۔
دشمنوں کے منہ سے محمد رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف
حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام فضائلِ حَسنہ سے اس طرح متّصف کر کے مبعوث فرمایا
ہے کہ کو ئی خوبی نہیں جو آپؐ میں نہ پائی جا تی ہو اور کوئی کما ل نہیں جو آپ کے اندر نہ دکھائی دیتا ہو اور پھر ہر کما ل اپنے اپنے دائرہ میں ایسی امتیازی شان کے ساتھ آپؐکے اندر پا یا جا تا ہے کہ دوست تو الگ رہے، دشمن بھی آپؐ کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں اور وہ آپؐ کے اخلا ق کی بلندی اور آپؐ کے کردار کی پا کیزگی کے معترف ہیں۔
سرولیم میور کا اقرار کہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ وسلمنے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے
سر ولیم میور اسلام کا ایک شدید ترین دشمن ہے مگر اس نے بھی جب اُس انقلاب پر نگاہ دَوڑائی جو محمد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کی سرزمین میں پیدا کیاتو وہ بھی یہ الفاظ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ:
’’یہ کہنا کہ اسلام کی صورت عرب کے حالات کا ایک لا زمی نتیجہ تھی ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ ریشم کے باریک تاگوں میں سے آپ ہی ایک عالیشان کپڑا تیا ر ہو گیا ہے یایہ کہنا کہ جنگل کی بے تراشی لکڑیوں سے ایک شاندار جہا ز تیا ر ہو گیا ہے یا پھر یہ کہنا کہ کُھردری چٹان کے پتھروں میں سے ایک خوبصورت محل تیا ر ہو گیا ہے اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے ابتدائی عقائد پر پختہ رہتے ہوئے عیسائیت اور یہودیت کی سچائی کی راہنمائی کو قبول کرتے چلے جا تے اور اپنے متبعین کو اِن دونوں مذاہب کی سادہ تعلیم پر کا ربند رہنے کا حکم دیتے تو دنیا میں شاید ایک ولی محمد یا ممکن ہے کہ ایک شہید محمد پیدا ہو جا تا جو عرب کے گرجا کی بنیاد رکھنے والا قرار پاتا، لیکن جہا ں تک انسانی عقل کا م دیتی ہے کہا جا سکتا ہے کہ اس صورت میں آپ کی تعلیم عرب کے دل کی گہرائیوں میں تلا طم پیدا نہ کر سکتی اور سارا عرب تو الگ رہا اس کا کو ئی معقول حصّہ بھی آپ کے دین میں داخل نہ ہوتا، لیکن باوجودان تمام باتوں کے آپؐ نے اپنے انتہا ئی کما ل کے ساتھ ایک ایسی کَل ایجا د کی کہ جسکی موقع کے منا سب ڈھل جا نیوالی قوت کے ساتھ آپ نے آہستہ آہستہ عرب قوم کی پر اگندہ اور شکستہ چٹانوں کو ایک متناسب محل کی شکل میںبدل دیا اور ایک ایسی قوم بنا دیا جس کے خون میں زندگی اور طاقت کی لہریں دوڑ رہی تھیں۔ ایک عیسائی کو وہ عیسائی نظر آتے تھے، ایک یہودی کی نگاہ میں وہ ایک یہودی تھے، ایک مکّہ کے بُت پرست کی آنکھ میں وہ کعبہ کے اصلاح یا فتہ عبادت گزار تھے اور اس طرح ایک لاثانی ہنراور ایک بے مثال دماغی قابلیّت کے ساتھ انہوں نے سارے عرب کو خواہ کو ئی بُت پر ست تھا، یہودی تھا کہ عیسائی تھا مجبورکر دیا کہ وہ ان کے قدموں کے پیچھے ایک سچے مطیع کے طور پر جس کے دل سے ہر قسم کی مخالفت کا خیال نکل چکا ہو چل پڑے۔ یہ فعل اُس صنّاع کا ہو تا ہے جو اپنا مصالح آپ تیا ر کر تا ہے او ر یہاں اس مصالح کی مثا ل چسپاں نہیں ہو تی جوکہ آپ ہی آپ بن جا تا ہے اور اس مصالح کے ساتھ تو اس کو بالکل ہی کوئی مشابہت نہیں جو اپنے صنّاع کو خود تیا ر کرتا ہے یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ذات تھی جس نے اسلام بنایا یہ اسلام نہیں تھا اور نہ کوئی اور پہلے سے موجود اسلا می روح تھی جس نے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کو بنا یا ۔‘‘۱۲۹؎
سر ولیم میو ر چونکہ اسلام کا شدید مخالف تھا اس لئے گو اُس نے یہ کہا کہ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تیا ر کر دہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس صداقت کا بھی اُس نے کھلے بندوں اقرار کیا کہ دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہیں کیا بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے اور یہ کا م یقینا خدا تعالیٰ کے فرستادوں کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا۔
پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خد ا تعالیٰ نے وہ مقامِ محمود عطاکیا کہ آپؐ کا حُسن کبھی دشمن کی آنکھوں میں بھی عرفان کی ایک جھلک پیدا کر دیتا ہے اور وہ بھی آپ کی ستائش کرنے پر مجبور ہو جا تاہے۔
اخلاقِ فاضلہ کے لحاظ سے محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کا بلند مقام
پھر اخلاقِ فاضلہ کو لو تو کوئی خُلق نہیں جس میں آپ نے دنیا کے لئے ایک بے مثال نمونہ نہ چھوڑا ہو
اور ہر شخص آپ کے اُن اخلا ق کو دیکھ کر آپ کی تعریف کرنے پر مجبور نہ ہو۔ مثال کے طور پر بہا دری کو لے لو، استقلال کو لے لو، سخاوت کو لے لو، حیا کو لے لو، انصاف کو لے لو، رحم کو لے لو، دوستوں اور دشمنوں سے آپؐ کے معاملات کو دیکھ لو، جنگ میں آپ کی ہوشیاری کو دیکھ لو، عورتوں اور بچوں سے معاملات کو لے لو، آپؐ کے تنظیمی کا رناموں پر نظر ڈالو، آپ کی جرنیلی شان کو ملا حظہ کر و، تمہیں دکھا ئی دیگاکہ ہر پہلو کے لحاظ سے آپ کو مقامِ محمود حاصل ہے اور ہر معاملہ میں دنیا آپؐ کی اقتداء کرنے پر مجبور ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری
آپ کی بہا دری کی یہ کیفیت تھی کہ مدینہ میںایک دفعہ باہر جنگل
کی طرف سے شور کی آواز آئی، اُن دنو ں یہ خبریں مشہور ہو رہی تھیں کہ روما کی حکومت مدینہ پر حملہ کرنیوالی ہے، اس شور کی آواز پر تمام مسلمانوں میں گھبراہٹ پیدا ہو گئی اور وہ اس ارادہ کے ساتھ مسجد میںجمع ہوئے کہ مشورہ کے بعد کچھ لوگوں کو باہر بھجوا دیا جائے جو دیکھیں کہ یہ کیسا شور ہے مگر ابھی وہ جمع ہی ہو رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے باہر سے تشریف لا رہے ہیں، آپ نے آتے ہی فرمایا میَں شور کی آواز سنکر فوراً باہر چلا گیا تھا اور میَں نے چکر لگا کر دیکھ لیا ہے خطرہ کی کوئی بات نہیں، اطمینا ن سے اپنے اپنے گھروں کو چلے جائو۔۱۳۰؎
صبرواستقلال
صبرواستقلال آپ کے اندر اِس قدر پا یا جا تا تھا کہ مکّی زندگی میںکفار کی طرف سے آپ کو سخت سے سخت تکا لیف دی گئیں،
آپ کو بُرا بھلا کہاگیا،آپؐ کو شعبِ ابی طالب میں ایک لمبے عرصہ تک محصور رکھا گیا،آپؐ کا مقاطعہ کیا گیا، آپؐکے گلے میں پٹکا ڈال کر اِسقدر گھونٹا گیا کہ آپؐ کی آنکھیں باہر نکل آئیں، آپ پر پتھروں کی اسقدر بوچھاڑ کی گئی کہ طائف سے آتے وقت آپؐ سر سے پاؤں تک لہو لہا ن ہو گئے۱۳۱؎ مگر ان تمام تکالیف کے باوجود آپؐ جس پیغام کو لیکر کھڑے ہوئے تھے اُسے اُٹھتے بیٹھتے، سوتے اورجا گتے آپؐ نے لو گوں تک پہنچایا اور ایک لمحہ کے لئے بھی آپؐ کے پائے ثبات میں جُنبش نہیں آئی۔
سخاوت
سخاوت آپؐ کے اندر اس قدر پائی جا تی تھی کہ اگر آپؐسے کو ئی چیز مانگی جاتی اور وہ آپ ؐ کے پاس موجود ہو تی تو آپؐاس کے دینے میں کبھی دریغ
نہ فرماتے اور یہ سخاوت عمر بھر آپؐ کا معمول رہی مگر صحابہؓ کہتے ہیں کہ رمضان المبارک کے ایام آتے تو اُن دنوں آپؐ کی سخاوت کا دائرہ غیر معمولی طور پر وسعت اختیار کرلیتا،۱۳۲؎ اِسی سخاوت کا یہ نتیجہ تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو آپؐ کے گھر میں کوئی درہم اور دینار موجود نہیں تھا حالانکہ آپؐ اُس وقت عرب کے بادشاہ بن چکے تھے۔
رحم دلی
حیا آپؐ کے اندر اسقدر پایا جا تا تھاکہ صحابہؓ کہتے ہیں آپؐ ایک کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا دار تھے۔۱۳۳؎ رحم آپؐ کے اندر اس قدر پایا جاتا تھا کہ
آپؐ اکثر فرمایاکرتے تھے کہ جو شخص رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی اُس پر رحم نہیں کیا جا تا۱۳۴؎ آپؐ کا ایک نواسہ ایک دفعہ بیمار ہؤا اور اُس کی حالت نازک ہو گئی۔ آپؐ کی بیٹی نے آپؐ کی طرف پیغام بھیجا، آپؐ تشریف لا ئے اور بچے کو دیکھا توآپؐ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ ایک صحابی کہنے لگے یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! آپؐ بھی روتے ہیں آپؐ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے سخت دل نہیںبنایا۔۱۳۵؎
عدل و انصاف
انصاف آپؐ کے اندر اس قدر پا یا جا تا تھا کہ ایک دفعہ کسی بڑے خاندان کی عورت نے چوری کی او روہ پکڑی گئی اس پر بعض لوگوں
نے چاہا کہ اسکے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میںدرخواست کی جائے کہ اسے کوئی سزا نہ دی جائے کیونکہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے اس غرض کے لئے انہوں نے حضرت اسامہؓ کو تیا ر کیا۔ اسامہؓ نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے متعلق سفارش کی توآپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا خدا کی قسم! اگر میری بیٹی فا طمہ بھی اس قسم کا جُرم کرے تو میں اُسکے بھی ہا تھ کا ٹ دوں۔ ۱۳۶؎
بدر کی جنگ میںجن کفارکو مسلمانوںنے قید کرلیاتھااُن میں حضرت عباس بھی شامل تھے اور چونکہ وہ نازونعمت میں پلے ہو ئے تھے اس لئے جب انہیں رسیوں سے جکڑا گیا تو انہوں نے شدّتِ تکلیف کی وجہ سے کراہنا شروع کردیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں ان کے کراہنے کی آواز پہنچتی تو آپ بے چینی میں باربارکروٹیںبدلتے مگرزبان سے کچھ نہیں فرماتے تھے۔ صحابہؓ نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت دیکھی تو وہ سمجھ گئے کہ اِس کی وجہ حضرت عباس کا کراہنا ہے وہ چُپکے سے اُٹھے اور انہوں نے حضرت عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیں اور اُن کے کراہنے کی آوازبندہو گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد جب آپ کے کا نوں میں حضرت عباس کے کراہنے کی آواز نہ آئی توآپؐ نے صحابہؓ سے فرمایا عباس کے کراہنے کی آواز کیوں نہیں آرہی؟ انہوں نے کہا یَارَسُوْلَ اللہ! ہم نے آپؐ کی تکلیف کے خیال سے اُن کی رسیاں ڈھیلی کردی ہیں آپؐ نے فرمایا یہ انصاف کے خلاف ہے کہ باقی قیدیوں کو سختی سے جکڑا جا ئے او رعباس کی رسیاں ڈھیلی کردی جا ئیں۔ جائو اور یا تو عباس کی رسیاں بھی کَس دواور یا پھرباقی قیدیوں کی رسیاں بھی ڈھیلی کردو۔ ۱۳۷؎
قیصرِ روما کے دربار میں
ابوسفیان کا اقرار
غرض جس پہلوکے لحاظ سے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جا ئے آپ ؐ تعریف ہی تعریف کے قابل دکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب قیصرِ روما
نے ابو سفیان سے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مختلف سوالات کئے تو ہر سوال کے جواب میں اُسے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبی اور آپ کے کما ل کا اعتراف کرنا پڑا۔ جب اس نے پوچھا کہ اس شخص کا خاندان کیسا ہے؟ تو ابوسفیان نے کہا کہ وہ ایک نہا یت معزز خاندان میں سے ہے۔ جب اُس نے پوچھا کہ کیا دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی اسے کسی بُرائی میں مبتلاء دیکھا؟ تواُس نے کہا ہر گز نہیں۔ جب اُس نے پوچھا کہ اس کی عقل اور اصابتِ رائے کاکیا حال ہے؟ تو ابوسفیان کو یہی کہنا پڑا کہ ہم نے اُس کی عقل اور رائے میں کبھی کوئی عیب نہیں دیکھا۔ جب اُس نے پوچھا کہ کیا اُس نے کبھی بدعہدی بھی کی ہے؟ تو ابوسفیان نے کہا کہ اس نے آج تک کوئی بدعہدی نہیںکی۔ جب اُس نے پوچھاکہ وہ تمہیںکِن باتوں کی تعلیم دیتا ہے۔ تو ابوسفیان نے کہا کہ ہمیں یہی کہتا ہے کہ ہم سچ بولا کریں، خدائے واحد کی عبادت کیاکریں، وفائے عہد سے کام لیں، امانت اور دیانت کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں اور ہر قسم کے ناپاک او ر گندے کاموں سے بچیں۔۱۳۸؎ غرض باوجود مخالفت کے اُسے ہر سوال کے جواب میں آپؐ کی طہا رت اورپاکیزگی کا اقرار کرنا پڑااور قیصرروما کے بھرے دربار میں اُسے آپؐ کے مناقب کا ترانہ گانا پڑا کیونکہ خدا نے کہا تھا کہ ہم تجھے مقامِ محمود عطاکرنے والے ہیں۔ آج مکہ والے تجھے بیشک مذمّم کہہ لیں، بیشک ہر قسم کا جھوٹ بول کر تجھے بُرا بھلا کہتے پھریں مگر ہم یہ فیصلہ کر چکے ہیںکہ تیری تعریف قائم کی جا ئے اور زبانوں اور دلوں پر تیری حمد جاری کی جا ئے چنا نچہ خداتعالیٰ کی تقدیر ابوسفیان کو قیصر روماکے دربار میں کھینچ کر لے گئی اور شاہی دربار میں اُسے اقرار کرنا پڑ اکہ مکہ کے لوگ جھوٹ بولتے ہیںمحمدرسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم حقیقتاً تعریف کے قابل ہیں اور کوئی عیب اُن میں نہیں پایا جا تا۔
موجودہ زمانہ میں
مقام محمود کی تجلّیات
پھر اللہ تعالیٰ نے اِسی مقامِ محمود کی تجلّیا ت کو اور زیادہ روشن اور نمایا ں کرنے کے لئے اِس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اور آپ کے بعد مجھے پیدا کیا اور
ہم سے اُس نے آپ کے حُسن کی وہ تعریف کروائی کہ آج اپنے تو الگ رہے بیگانے بھی آپ کی تعریف کررہے ہیں اور یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے لو گ پیدا ہو رہے ہیں جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجتے ہیںمگر یہ تغیر کیوں ہؤا؟ اسی لئے کہ اس روحانی دربارِخاص کا بادشاہ جس انعام کا اعلان کرتا ہے وہ انعام چلتا چلاجا تا ہے او ر کوئی انسان اس کو چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا۔ جب اُس نے اپنے دربار میں یہ اعلان کیا کہ اے ہمارے گورنرجنرل! ہم تجھے ایسے مقام پر پہنچانے والے ہیں کہ دنیا تیری تعریف کر نے پرمجبور ہو گی تو کون شخص تھا جو خداتعالیٰ کے اس پر وگرام میں حائل ہو سکتا۔ اس نے محمدی انوار کی تجلّیا ت کو روشن کرنا شروع کیا او ر اُس کے حُسن کو اتنا بڑھایا کہ دنیا کی تما م خوبصورتیاں اس حسین چہرہ کے سامنے ماند پڑگئیں او ردوست اور دشمن سب کے سب یک زبان ہو کر پکار اُٹھے کہ محمّدؐ حقیقتاً محمدؐ اور قابلِ تعریف ہے صلی اللہ علیہ وسلم۔
عظیم الشان دربار
غرض یہ کیسا عظیم دربار ہے کہ اس میں بادشاہ کی طرف سے اپنے درباری کو جو انعام دیاگیا وہ دنیا کی شدید مخالفت کے
باوجود قائم رہا، قائم ہے اور قائم رہے گا۔ حکومتیں اس روحانی گورنر جنرل کے مقابلہ میںکھڑی ہوئیںتو وہ مٹادی گئیں، سلطنتوں نے اس کو تِرچھی نگاہ سے دیکھا تو وہ تہہ وبالا کردی گئیں، بڑے بڑے جا بر بادشاہوں نے اس کا مقابلہ کیا تو وہ مچھر کی طرح مَسل دیئے گئے کیونکہ اس دربارِخاص کا بادشاہ یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ اُس کے مقررکردہ گورنر جنرل کی کوئی ہتک کرے یا اس کے پہنائے ہوئے جُبّہ کو کوئی اُتارنے کی کوشش کرے۔ وہ اپنے درباریوں کے لئے بڑاغیور ہے اورسب سے بڑھ کر وہ اِس درباری کے لئے غیرت مندہے جس کا مبارک نام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے خداتعالیٰ کی اس پر لاکھوں برکتیں اور کروڑوں سلام ہوں۔ اٰمِیْنَ یَارَبَّ الْعٰلَمِیْنَ۔
۱؎ چَوری: سراگائیں جن کی دُم کی چَوریاں بادشاہوں اور امیروں کے سر پر ہلاتے ہیں، ایک پنکھا نقرئی
۲؎ بنی اسرائیل:۱۱۲ ۳؎ البقرۃ:۲۵۶ ۴؎ سبا:۴
۵؎ مسند احمدبن حنبل جلد۵ صفحہ۲۶۶۔المکتب الاسلامی بیروت
۶؎ الشفا۔القاضی ابی الفضل عیاض الجزء الاول صفحہ۷۷ مطبوعہ ملتان
۷؎ البقرۃ:۳۲ تا۳۴ ۸؎ الاعراف:۱۲ ۹؎ الاحزاب:۷۳
۱۰؎ ص:۶۶تا۷۹
۱۱؎ مسلم کتاب البروالصلۃ باب اذااحب اﷲ عبدا احبہٗ لعبادہ
۱۲؎ النجم:۸تا۱۰ ۱۳؎ الانعام:۱۰۴ ۱۴؎ الانفال:۱۸
۱۵؎ الاحزاب:۵۷ ۱۶؎ المدثر:۲تا۸
۱۷؎ المنجدعربی اُردو صفحہ۱۱ ۳مطبوعہ کراچی۱۹۷۵ء
۱۸تا۲۰ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ۳۱۹ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۲۱؎ تاج العروس الجزء الاول صفحہ۱۸۲ مطبوعہ مصر۱۲۸۵ھ
۲۲؎ البقرۃ:۱۸۸ ۲۳؎ الاحزاب:۳۴ ۲۴؎ الشعرائ:۲۱۵
۲۵؎تا۲۷؎ لسان العرب المجلد الخامس صفحہ۱۴۶مطبوعہ بیروت۱۹۸۸ء
۲۸؎تا۳۰؎ لسان العرب جلد۱۵۔ صفحہ۳۱تا۳۳ مطبوعہ بیروت۱۹۸۸ء
۳۱؎ ترمذی کتاب الادب باب ماجاء فی النّظّافَۃ
۳۲؎ ابوداؤد کتاب الصلٰوۃ باب اتّخاذالمساجد فی الدُّوَرِ
۳۳؎ بخاری کتاب الطھارۃ باب فَضْلِ التَّھْجِیْراِلٰی الظُّھْرِ
۳۴؎ مسلم کتاب الطھارۃ باب النھی عنِ التخلی فی الطریق
۳۵؎ بخاری کتاب الصلٰوۃ باب کفَّارَۃ البزاق فی المسجد
۳۶،۳۷ بخاری کتاب الادب باب مَایُنھٰی عَنِ التَّحَاسُد
۳۸ ؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الناس و البھائم
۳۹؎ بخاری کتاب الادب باب لایسبّ الرجُّلُ وَالدَیْہِ ،بخاری کتاب الادب باب ماینھی
من السباب واللعن
۴۰؎ بخاری کتاب الجمعۃ باب السّوَاک یومَ الجمعۃ
۴۱؎ بخاری کتاب العتق باب فی العتقِ وفضلہٖ
۴۲؎
۴۳؎ بخاری کتاب المساقاۃ۔ باب فضل سقی المائ
۴۴؎ بخاری کتاب الانبیاء باب حدیث الغار
۴۵؎ بخاری کتاب الایمان باب اَحَبُّ الدِّیْنِ اِلٰی اللّٰہ اَدْوَمہٗ
۴۶؎ لسان العرب جلد۵ صفحہ۱۴۶۔ مطبوعہ بیروت۱۹۸۸ء
۴۷؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۱ صفحہ۱۴۶،۱۴۷ مطبوعہ مطبع ازھریہ مصر ۱۹۳۲ئ۔
۴۸؎ مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ کتاب الدعوات باب الاستعاذۃ
۴۹؎ تفسیر کبیر فخر الدین رازی جلد ۲۹ صفحہ ۳۰۷ مطبوعہ طہران ۱۳۲۸ ھ
۵۰؎ ویویکانند: ویویکانند اوائلِ عمر میں برہمو سماج کا رکن بنا۔ وہ ہمالیہ میںکئی برس تک ریاضت کرنے کے بعد جدید دنیا میں پہلا ہندو مبلّغ بننے کے لئے روانہ ہؤا۔ ویویکانند نے طویل سفر کئے اورویدانت ہندومت کے فضائل پر لیکچر دئیے۔ اس نے ۱۸۹۳ء میں بمقام شکاگو ۔ ’’مذاہب کی پارلیمنٹ‘‘ میں ہندومت کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک زبردست تأثر قائم کیا۔ خدا کی وحدانیت کا یہ ترجمان جہاں بھی گیا سامعین کے ذہن پر چھا گیا اور اپنے پیروکار بنائے۔(مذاہبِ عالَم کا انسا ئیکلوپیڈیا صفحہ۱۹۹۔ لیوس مور مطبوعہ لاہور ۲۰۰۲ئ)
۵۱؎ ٹیگور: اس کا پورا نام دیوندر ناتھ ٹیگور تھا۔ ٹیگور نے ۱۸۴۲ء میں برہمو سماج میں شامل ہو کر ہندوازم کی تجدید کی اور جماعت کی قیادت سنبھالی۔ انہوں نے اس تحریک کی خدمت کے لئے ایک مطبع اور رسالہ جاری کیا اس کی پرورش فرقہ وارانہ ماحول میں نہیں ہوئی اس لئے یہ تنگ نظر نہیں تھا۔(مذا ہبِ عالَم کا تقابلی مطالعہ مؤلفہ غلام رسول مہر صفحہ ۲۱۴۔ مطبوعہ لاہور جنوری ۱۹۸۳ئ)
۵۲؎ اٰل عمران:۱۰۵
۵۳؎ موضوعات ملاعلی قاری صفحہ۵۹ مطبع مجتبائی دھلی۱۳۴۶ھ
۵۴۔۵۵؎ لسان العرب جلد۱۳صفحہ۱۹۷۔بیروت۱۹۸۸ء
۵۶؎ اقرب الموارد جلد ۲ صفحہ ۱۰۶۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۵۷؎
۵۸؎ المائدۃ:۶۸ ۵۹؎ طٰہٰ:۱۵،۱۶
۶۰؎ السیرۃ الحلبیۃ۔الجزء الاول صفحہ۳۶۸۔مطبوعہ مصر۱۹۳۲ء
۶۱؎ المائدۃ:۶۸
۶۲؎ اسد الغابۃ جلد ۳ صفحہ ۲۲۱ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ ھ
۶۳؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النّبیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم باب مناقب المھاجرین و فضلھم
۶۴؎ سیرت ابن ھشام جلد۲صفحہ ۱۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۶۵؎ بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ ذات الرقاع ،شرح مواھب اللّدنیہ جلد۲
صفحہ۵۳۰ دارالکتب العلمیۃ بیروت۱۹۹۶ء
۶۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۸۴ مطبوعہ ۱۲۹۵ ھ مصر
۶۷؎ مسلم کتاب الجھاد و السیرباب غزوۃ حنین
۶۸؎ تاریخ طبری جلد دوم حصّہ اوّل اُردو صفحہ ۳۵۴ ناشر دار الاشاعت کراچی ۲۰۰۳ء
۶۹؎ تاریخ طبری الجزء الثالث صفحہ۲۴۷تا۲۴۹۔ دارالفکربیروت۱۹۸۷ء
۷۰؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۱۲۸،۱۲۹ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۷۱؎ سیرت ابن ہشام جلد۲صفحہ۱۸۹ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۷۲؎ عبس:۱۲تا۱۷
۷۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۱صفحہ۴۶۔ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۷۴،۷۵؎ سیرت ابن ہشام۔ الجزء الاول صفحہ۱۳۵،۱۳۶۔مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۷۶؎ بخاری کتاب الزّکوٰۃ باب من احب تعجیل الصدقۃ من یومھا
۷۷؎ مستدرک حاکم جلد ۴ صفحہ ۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء
۷۸؎ بخاری کتاب المناقب باب مناقب قریش
۷۹۔۸۰؎ اسد الغابۃ جلد۳ صفحہ۳۱۳تا۳۱۷۔مطبوعہ ریاض۱۲۸۶ھ
۸۱؎
۸۲؎ القصص:۸۶ ۸۳؎ سبا:۲۹ ۸۴؎ التوبۃ:۱۰۰
۸۵؎ الحشر:۱۱ ۸۶؎ الحجر:۴۶تا۴۸ ۸۷؎ الفتح:۳۰
۸۸؎ سیرت ابن ہشام الجزء الاول صفحہ۲۸۴ مطبوعہ مصر۱۹۳۶ء
۸۹؎ بخاری کتاب المغازی باب قصّہ الاسود العنسی
۹۰؎ بخاری کتاب الجنائز باب من استعد الکفن فی زمن النبی صلی اللہ علیہ وسلم
۹۱؎ شمائل الترمذی باب ماجاء فی صفۃ مزاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
۹۲؎ بخاری کتاب الاذان باب انتظار الناس۔ قیام الامام العالم
۹۳؎ سیرت ابن ہشام الجزء الثانی صفحہ۱۶ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۹۴؎ تاریخ الخلفاء للسیوطی صفحہ۵۱۔مطبوعہ لاہور۱۸۹۲ء
۹۵؎ کنز العمال جلد ۱۰ صفحہ ۱۹۳ کتاب الغزوات باب غزوۃ احد الطبعۃ الاولیٰ ۱۹۹۸ء مطبع
دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان
۹۶؎ سیرت ابن ہشام الجزء الثانی صفحہ ۱۶۹ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۹۷؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اﷲ
علیہ وسلم لَوْکُنت مُتَّخِذًا خَلِیْلًا
۹۸؎
۹۹،۱۰۰؎ بخاری کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ الفتح باب قولہٖ لِیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَاتَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ
۱۰۱؎ الکوثر:۲تا۴
۱۰۲؎ لسان العرب جلد۱۲ صفحہ۳۷۔مطبوعہ بیروت۱۹۸۸ء
۱۰۳؎
۱۰۴؎ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اﷲ
علیہ وسلّم لوکنت متخذًا خلیلًا
۱۰۵؎ اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ جلد۳ صفحہ۳۸۵،۳۸۶مطبوعہ بیروت۱۲۸۶ھ
۱۰۶؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ ۲۱۹مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۱۰۷؎ سیرت ابن ہشام جلد۲ صفحہ۲۱۵ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۱۰۸؎ مسند احمد بن حنبل جلد۳ صفحہ۳۰۴ بیروت۱۹۲۸ء
۱۰۹؎ المائدۃ:۲۵
۱۱۰؎ بخاری کتاب المغازی باب قصۃ غزوۃ بدر
۱۱۱؎ اٰل عمران:۱۶۵
۱۱۲؎ خروج باب۳۱ آیت۱۷برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ء (مفہوماً)
۱۱۳؎ ق:۳۹
۱۱۴؎ وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَاْلِانْسَ اِلّالِیَعْبُدُوْنِ (الذّٰریٰت:۵۷)
۱۱۵؎ ھُوَالَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰئِفَ فِی الْاَرْضِ فَمَنْ کَفَرَ فَعَلَیْہِ کُفْرُہٗ(فاطر:۴۰)
۱۱۶؎ وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَالَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا(العنکبوت:۷۰)
۱۱۷؎ اَلَّذِیْنَ یَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَہٗ(المؤمن:۸)
۱۱۸؎ وَالسَّمَائِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ (البروج:۲)
۱۱۹؎ فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّآ اُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَائً بِمَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(السجدۃ:۱۸)
۱۲۰؎ وَمَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی وَاَضَلُّ سَبِیْلا (بنی اسرائیل:۷۳)
۱۲۱؎ مَآاَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰی۔اِلَّا تَذْکِرَۃً لِّمَنْ یَّخْشٰی(طٰہٰ:۳،۴)
۱۲۲؎ مَنْ عَمِلَ صَالِحًافَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَائَ فَعَلَیْھَا وَمَارَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ(حٰم السجدۃ:۴۷)
۱۲۳؎ اِثْمُھُمَآاَکْبَرُمِنْ نَّفْعِھِمَا(البقرۃ:۲۲۰)
۱۲۴؎ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ(العنکبوت:۴۶)
۱۲۵؎ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ:۱۸۴)
۱۲۶؎ لسان العرب جلد۱۲ صفحہ۳۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء
۱۲۷؎ بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیْسٰی ابْنِ مریم
۱۲۸؎ بنی اسرائیل:۸۰
۱۲۹؎
۱۳۰؎ بخاری کتاب الجہاد باب السرعۃ والرکض فی الفزع
۱۳۱؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد ۱ صفحہ ۳۹۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء
۱۳۲؎ بخاری کتاب الصوم باب۔ اَجْوَدُمَاکان النَّبیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَکُوْنَ فِی رمضان
۱۳۳؎ بخاری کتاب الادب باب الحیائ
۱۳۴؎ بخاری کتاب الادب باب رحمۃ الولدو تقبیلہٖ ومعانقتہٖ
۱۳۵؎ بخاری کتاب الجنائز باب قول النَّبی صلی اللہ علیہ وسلم یُعَذّبُ المیت ببعض بکاء اھلہٖ
۱۳۶؎ بخاری کتاب الحدود باب کراہیۃ الشفاعۃ فی الحد
۱۳۷؎ اسد الغابۃ جلد ۳ صفحہ ۱۰۹ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ء
۱۳۸؎ بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف کان بدء الوحی اِلٰی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
اتحاد المسلمین





از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اتحاد المسلمین
(فرمودہ ۲۵؍مارچ ۱۹۵۲ء بمقام حیدر آباد سندھ)
تشہّد ، تعوّذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’میری آج کی تقریر کا موضوع ’’اتحاد المسلمین‘‘ ہے جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں۔ اس کے ایک معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مسلمانوں کا اتحاد کن بنیادوں پر قائم ہے اور اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ مسلمانوں کا اتحاد کن بنیادوں پر قائم کرنا چاہئے یعنی ایک صورت میں اس عنوان کا یہ مفہوم لیا جائے گا کہ تقریر کرنے والا تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد پایا جاتا ہے اور وہ صرف اس اتحاد کی کیفیت بیان کرنا چاہتا ہے اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس عنوان کا یہ مفہوم ہو جائے گا کہ مسلمانوں میں اتحاد کی کمی ہے اور ہم نے اسے پیدا کرنا ہے لیکن اسے پیدا کرنے کے لئے وہ کون سے ذرائع ہیں جنہیں اختیار کیا جائے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص جس نے اسلامی دُنیا کا مطالعہ کیا ہے یا ہر گروہ جس نے مسلمانوں کے حالات کو سوچا ہے، دیکھا ہے اور جانچا ہے وہ یقینا اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ مسلمانوں میں کسی نہ کسی قسم کے اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ مسلمان موجودہ زمانہ میں اتحاد کی ان بنیادوں سے دور جا پڑے ہیں جو مستحکم عمارت کے لئے ضروری ہیں۔ آخر مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے والا اور مسلمانوں سے رشتہ جوڑنے والا شخص اگر اسلام کے اصولوں سے تھوڑی بہت محبت رکھتا ہے تو وہ یہ ضرور دیکھتا ہے کہ اس کے آبائُ اجداد کون تھے، اسلام کہاں سے آیا، اسلام کن بنیادوں سے اُٹھا اور کس طرح دُنیا میں پھیلا۔ یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نہ سندھ میں پیدا ہوئے اور نہ سندھ میں تشریف لائے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نہ ہندوستان میں پیدا ہوئے اور نہ ہندوستان تشریف لائے، اسی طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اَتْباع اور صحابہ بھی نہ سندھ میں پیدا ہوئے اور نہ یہاں تشریف لائے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ بعض صحابہ کے متعلق پتہ لگتا ہے کہ وہ یہاں آئے اور یہیں فوت ہوئے لیکن یہ تاریخی بات نہیں بہرحال اگر ایک یا دو صحابہ کا یہاں آجانا ثابت بھی ہو تو یہ ایک استثنائی امر ہے۔ پھر یہ بات بھی ثابت نہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں سندھ کے لوگ مکّہ یا مدینہ گئے ہوں، آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوں اور اُنہوں نے آپ کے ارشادات سے استفادہ کیا ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں اسلام آیا اور اکثریت نے اسے قبول کیا۔ یہ چیز بتاتی ہے کہ اسلام پر کبھی روشن زمانہ بھی آیا ہے، اس پر فتوحات کا زمانہ بھی آیا ہے، وہ عزت سے یہاں آیا اور پھر سندھ سے نکل کر یو پی، سی پی، بہار اور بنگال تک پھیل گیا اور پھر آگے چین تک نکل گیا۔ پھر شمالی سرحدوں سے نکل کر بخارا اور چینی ترکستان اور کاکیشیا سے نکل کر پولینڈ تک چلا گیا، پولینڈ میں آج تک مسلمانوں کے آثار پائے جاتے ہیں۔ غرض اسلام جو دُنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا ہے اس کی عظمت کا ہر شخص کو علم ہے مگر آج اس عظمت کے آثارکہاں پائے جاتے ہیں؟ خدا خدا کر کے یہ ہؤا کہ بعض اسلامی علاقوں نے آزادی کا سانس لیا ہے لیکن یہ آزادی سیاسی طور پر ہے ورنہ جہاں تک عظمت کا سوال ہے ابھی تمام اسلامی علاقے اس سے بہت دُور ہیں۔ مثلاً بڑائی اور طاقت کے یہ معنے ہیں کہ اگر کوئی مُلک کسی علاقہ پر حملہ کرے تو اُس علاقہ کے رہنے والے یہ یقین اور وثوق رکھیں کہ کیا بلحاظ ظاہری سامان کے اور کیا بلحاظ اخلاقی طاقت کے وہ اس قابل ہیں کہ دُشمن کا مُنہ توڑ جواب دے سکیں اور نہ صرف دُشمن کو اپنی سرحدات سے باہر نکال دیں بلکہ خود اس کی سرحدوں میں جاکر اسے مزا چکھا سکیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا اسلامی مُلک نہیں جو دُشمن کی سرحدوں میں جاکر اُسے مزا چکھانا تو الگ رہا کسی دوسرے مُلک کی مدد کے بغیر اپنا دفاع بھی کرسکے۔ ہر اسلامی مُلک سہارے کے لئے امریکہ، برطانیہ یا کسی اور یورپین طاقت سے مدد مانگنے پر مجبور ہوتا ہے۔
ایک بھی تو اسلامی مُلک ایسا نہیں جس نے جنگی سامان پیدا کیا ہو۔ جنگی سامان سے یہ مراد نہیں کہ اس نے رائفلیں مرمت کر لی ہوں یا رائفلیں بنا لی ہوں۔ رائفل کو اِس زمانہ میں کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ جنگی سامان بڑی بڑی توپیں ہیں، اینٹی ایر کرافٹ گنیں ہیں، ڈسٹرائر ہیں، آبدوز کشتیاں ہیں، ہوائی جہاز ہیں، کروزر ہیں یہ جنگی سامان کسی اسلامی مُلک میں بھی تیار نہیں کیا جاتا بلکہ اگر جھگڑا ہؤا ہے تو اسی بات پر کہ امریکہ اور برطانیہ ہمیں جنگی سامان نہیں دیتے۔ اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ ہم جنگ کے لئے تیار نہیں۔ ہاں اگر تم ہماری مدد کرو تو ہم اپنی حفاظت کر سکتے ہیں۔ بہرحال اب تک جو کچھ ملا ہے اس پر ہم خدا تعالیٰ کا جتنا شُکر ادا کریں کم ہے ۔ خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ ۱؎ اگر تم میرا شُکر ادا کرو گے تو مَیں تم پر اور احسان کروں گا۔ اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہمیں جو کچھ ملا ہے اس پر خدا تعالیٰ کا شُکر ادا کریں اور پھر یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم محسوس کریں کہ ہم نے ابھی اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جس کے حصول کے بغیر ہم نہ تو جرأت اور دلیری کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور نہ کسی مُلک کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ مثلاً اس زمانہ میں روس کی طاقت ہے، امریکہ کی طاقت ہے، برطانیہ کی طاقت ہے، پھر ان سے اُتر کر فرانس، اٹلی اور جرمنی کی طاقتیں ہیں۔ نو آبادیات کے لحاظ سے آسٹریلیا اور کینیڈا کی طاقتیں ہیں۔ جاپان بھی سر اُٹھا رہا ہے مگر کیا روپیہ جنگی سامان، تجارت اور صنعت وغیرہ کے لحاظ سے کوئی اسلامی مُلک یا اسلامی ممالک کا جتّھہ ہے جسے ہم ان طاقتوں کے مقابلہ میں پیش کر سکیں۔ کیا کوئی ایسا اسلامی مُلک ہے جو یہ کہہ سکے کہ اگر ان مُمالک کے پاس اتنی توپیں ہیں تو میرے پاس بھی اتنی توپیں ہیں، اگر ان کے پاس گولہ بارود ہے تو میرے پاس بھی گولہ بارود ہے، اگر ان کے پاس جنگی سامان ہے تو میرے پاس بھی جنگی سامان ہے، اگر ان کے پاس کارخانے ہیں تو میرے پاس بھی کارخانے ہیں، اگر ان کی تجارت وسیع ہے تو میری تجارت بھی وسیع ہے۔ مسلمانوں کی طاقت ان مُمالک کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ پس یہ تو صاف بات ہے کہ اتحاد المسلمین کے موضوع پر تقریر کرنے کے لئے اس بات کے متعلق سوچنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد کیسے پیدا کیا جاسکتا ہے تاکہ وہ طاقتور بن جائیں اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔ اتحاد عربی لفظ ہے اور وحدت سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں یکجہتی اختیار کر لینا۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ بہت سی چیزیں ہیں اور اُنہوں نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کو کھو کر اجتماعیت اختیار کریں گی۔ عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مطالب کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ ایک لفظ کے اندر سارا فلسفہ بیان کر دیا جاتا ہے۔ اتحاد نے اُردو زبان میں آکر اپنے معنے کھو دئے ہیں لیکن عربی زبان میں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے فلسفہ کو جاننے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ بولنے والا کئی باتیں تسلیم کرتا ہے۔ وہ تسلیم کرتا ہے کہ اسلام میں کئی گروہ ہیں اور وہ الگ الگ ہیں۔ پھر وہ گروہ ارادہ اور عزم کے ساتھ بعض مقاصد کے لئے ایک ہو جاتے ہیں۔ پس جب ایک شخص یہ کہے گا کہ مسلمانوں میں اتحاد ہو تو وہ تسلیم کرے گا کہ مسلمانوں کے حکومتوں اور افراد کے لحاظ سے مختلف اجزاء ہیں اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اِن اجزاء اور افراد کو اکٹھا کریں گے۔ گویا اتحاد کے معنی ہیں تمدّن کی بنیاد رکھنا۔ یہی معنے مدنیت کے ہیں۔ مدنیت کے معنے ہیں ایک جگہ رہنا اور بعض قیود اور پابندیوں کو اپنے اُوپر عائد کر لینا۔ اگر ہم کہیں انسان مدنی الطبع ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ کُتوں، سُؤروں اور بلیّوں میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنے انفرادی حقوق کو چھوڑ کر قومی حقوق کو ترجیح دیں لیکن انسان کے اندر یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ بعض اوقات قومی حقوق کی خاطر انفرادی حقوق کو نظر انداز کر دیتا ہے اور یہی چیز اتحاد ہوتی ہے۔ اتحاد ساری باتوں میں ناممکن ہے۔ اتحاد صرف بعض باتوں میں ہو سکتا ہے اور بعض باتوں میں نہیں ہو سکتا۔ نہ ہر بات میں اتحاد ہو سکتا ہے اور نہ ہر بات میں اتحاد ہونا مفید ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مَیں یہ سوال پیش کرتا ہوں کہ کیا ہر جہت سے ایک ہو جانا مُمکن ہے؟ کیا تمام اختلافات مٹائے جاسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کے بعد ہی ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم دعویٰ کریں کہ ہم آپس میں اتحاد پیدا کر سکتے ہیں۔ پھر اگر ہم اتحاد پیدا کر سکتے ہیں تو کن اصول کے لحاظ سے پیدا کر سکتے ہیں اور کن اصول کے لحاظ سے نہیں کر سکتے۔
سب سے پہلے ہمیں اختلافات کو دیکھنا پڑے گا جن کی وجہ سے انسان مختلف کہلاتا ہے اور اگر ہم کُلّی طور پر اتحاد کر لیں تو ہمیں یہ بات بھی دیکھنی پڑے گی کہ کن کن طاقتوں کو ہمیں مٹانا پڑے گا اور ان طاقتوں کو مٹا کر ہمیں کیا طاقت حاصل ہو گی۔
کسی قوم کے قدرتی موٹے موٹے اختلاف یہ ہیں ۔ اوّل ۔ مرد و عورت کا اختلاف۔ یہ اختلاف ہر جگہ ہوتا ہے۔ مرد کا کام اور ہے اور عورت کا کام اور ہے۔ مرد کی خصوصیات اور ہیں اور عورت کی خصوصیات اور ہیں۔ عورت کے ذمہ بچہ جننا لگایا گیا ہے اور مرد کے سپرد ضروریات زندگی کو مہیّا کرنا ہے۔ عورت کے ذمہ بچہ پالنے کا کام ہے اور مرد کے ذمہ باہر کی نگرانی ہے۔ غرض عورت اور مرد کے قویٰ اور طاقتیں مختلف ہیں اور ان میں اتحاد نہیں ہو سکتا اور اگر یہ بات ممکن بھی ہوتی کہ اس اختلاف کو مٹا دیا جاتا تو انسان اسے کبھی پسند نہ کرتا۔ اس اختلاف کو مٹانا خود کشی کے مترادف ہے۔ مرد اورعورت کے درمیان جو اختلاف ہے وہ بہرحال قائم رہے گا۔ خدا تعالیٰ قرآن کریم میںفرماتا ہے کہ ہم نے تم پر یہ احسان کیا ہے کہ ہم نے مرد اور عورت کو پیدا کیا اور ان دونوں سے ہم نے نسل چلائی تاکہ انسان نیکی اور تقویٰ کا مظاہرہ کرے اور پھر ہم نے ان کے اندر اپنی صفات پیدا کی ہیں۔ پھر قدوقامت کا فرق ہے۔ بعض مُلکوں میں لوگ بڑے قدکے ہوتے ہیں اور بعض مُلکوں میں چھوٹے قد و قامت کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ پھر جسامت کا فرق ہے۔ بعض لوگ دُبلے ہوتے ہیں اور بعض موٹے ہوتے ہیں۔ پھر رنگ و روغن میں فرق ہے۔ بعض لوگ بھُورے رنگ کے ہوتے ہیں، بعض سفید رنگ کے ہوتے ہیں۔ بعض زرد رنگ کے ہوتے ہیں اور بعض سُرخ رنگ کے ہوتے ہیں۔ حبشیوں میں چلے جاؤ تو وہاں کالے رنگ کے لوگ ملیں گے۔ ہندوستان میں رہنے والے گندمی رنگ کے ہوتے ہیں۔ چین میں زرد رنگ کے لوگ ہوتے ہیں اور عرب میں شُتر مرغ کے انڈے والے رنگ کے لوگ پائے جاتے ہیں اور یورپ میں سفید رنگ والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ پھر نقش و نگار میں بھی فرق ہے۔ کسی کی ٹھوڑی لٹکی ہوئی ہوتی ہے، کسی کی اُبھری ہوئی ہوتی ہے، کسی کی ایک ذقن ہوتی ہے اور کسی کی دو ذقن ہوتی ہیں۔ پھر کوئی بڑا مضبوط جوان ہوتا ہے اور کوئی دُبلا پتلا ہوتا ہے۔ پھر طاقت میں بھی فرق ہوتا ہے۔ کوئی زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور کوئی کمزور ہوتا ہے۔ پھر خوبصورتی اور بد صورتی میں بھی فرق ہوتا ہے۔ عقل اور دانش میں بھی فرق ہوتا ہے۔ کسی میں عقل و دانش زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں کم۔ کسی کا حافظہ زیادہ اچھا ہوتا ہے اور کسی کا کم۔ پھر حواس خمسہ کا فرق ہے۔ ظاہری نظر کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عینک لگاتے ہیں تو کسی کو ایک نمبر کی عینک لگاتے ہیں اور کسی کو دو نمبر کی عینک لگاتے ہیں اور کسی کو دور نظر کی عینک لگاتے ہیں اور کسی کو قریب سے دیکھنے کی عینک لگاتے ہیں۔ پھر ذائقہ میں بھی فرق ہوتا ہے۔ بعض لوگ باریک سے باریک ذائقہ کا بھی پتہ لگا لیتے ہیں۔ انگریزوں میں یہ چیز کثرت سے پائی جاتی ہے۔ وہاں ذائقہ کی مشق کی جاتی ہے۔ شراب کا وہاں عام رواج ہے اور وہ ایسے شخص کو جو یہ بتا دے کہ یہ شراب کس سنۂ کے انگوروں سے بنی ہے پانچ پانچ ہزار روپے انعام دے دیتے ہیں۔ اسلام میں چونکہ اعتدال کا حُکم دیا گیا ہے اس لئے مسلمانوں میں اتنا غلو نہیں ہوتا کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں کے لئے پانچ پانچ ہزار روپے کے انعام دے دیں لیکن یورپ میں کھانے پینے کی چیزوں کے لئے ہزاروں روپے کے انعام دے دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح ناک کے ذریعہ مختلف خوشبوؤں میں امتیاز کرنے کے لحاظ سے بھی فرق ہے۔ پھر آواز میں فرق ہے۔ کوئی شخص گلے میں بولتا ہے تو کوئی ناک میں بولتا ہے۔ کوئی شخص اتنی موٹی آواز میں بولتا ہے کہ کسی جگہ لوچ نظر نہیں آتا۔ تو کوئی اتنی باریک آواز میں بولتا ہے کہ اس میں ترنم اور سوز پایا جاتا ہے۔ پھر بوجھ اُٹھانے اور جانچنے کی طاقت میں فرق ہے۔ کوئی من بوجھ اُٹھا سکتا ہے تو کوئی دو من بوجھ اُٹھا سکتا ہے۔ پھر وزن اور فاصلہ کا اندازہ لگانے میں فرق ہے۔ ایک سپاہی آنکھ سے دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ یہ فاصلہ ایک فٹ کا ہے یا دو فٹ کا۔ پیمانے تو اب نکلے ہیں۔ پہلے افسروں کو فاصلہ جانچنے کی مشق کرائی جاتی تھی اور صرف آنکھ کے اندازے سے فوج کام کرتی تھی۔ افسر آنکھ سے اندازہ لگا کر بتا تا تھا کہ اب کتنے فاصلہ پر گولہ پھینکنے کی ضرورت ہے اور توپیں کتنے فاصلہ سے گولہ پھینکتی تھیں۔ پہلے زمانہ میں بڑی بڑی جنگیں محض آنکھ کے ذریعہ فاصلہ کا اندازہ لگا لینے کے تجربہ سے فتح ہوئی ہیں لیکن بعض لوگوں کو اس کا کچھ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ آنکھ کے ذریعہ کس طرح اندازہ لگایا جاتا ہے۔ یونہی اُوٹ پٹانگ بتا دیتے ہیں۔
ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک راجہ سے کوئی گناہ ہو گیا۔ پنڈتوں نے کہا کہ یہ گناہ مٹ نہیں سکتا۔ ہاں فلاں قسم کے برہمن کو اتنا دان دیں تو اس کا اثر دور ہو سکتا ہے۔ راجہ بڑا پریشان تھا لیکن جس قسم کے برہمن کی تلاش تھی اس قسم کا برہمن اس علاقہ میں نہیں تھا۔ بادشاہ نے وزیروں کو حُکم دیا کہ وہ اس قسم کے برہمن کو تلاش کریں چنانچہ ایک وزیر نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں اس قسم کے برہمن کی تلاش کروں۔ بادشاہ نے اسے اجازت دے دی چنانچہ وہ سڑک پر کھڑا ہو گیا ، تا آنے جانے والوں کو جانچ کر پتہ لگا سکے کہ ان میں سے کون برہمن ہے۔ جب رعایا کو پتہ لگا کہ راجہ کو ایک برہمن کی تلاش ہے لیکن وہ مل نہیں رہا تو اُنہوں نے جھوٹ بولنا شروع کر دیا اور اپنے آپ کو برہمن ظاہر کرنا شروع کر دیا۔ کوئی شودر ہوتا لیکن وہ اپنے آپ کو برہمن ظاہر کرتا۔ کوئی کھتری ہوتا، ویش ہوتا یا کسی اور گوت کا ہوتا تو وہ بھی اپنے آپ کو برہمن ظاہر کرتا تاکہ کسی طرح اس کو دان مل سکے۔ وہ وزیر سڑک پر کھڑے ہو کر آنے جانے والوں کی جانچ کر رہا تھا کہ دو آدمی گزرے۔ اس نے خیال کیا کہ شاید ان میں سے ایک برہمن ہو۔ چنانچہ اس نے انہیں بُلا کر دریافت کیا کہ آیا ان میں سے کوئی برہمن ہے؟ ان میں سے ایک شخص جو بنیا تھا کہنے لگا کہ مَیں برہمن ہوں اور دوسرے شخص نے بھی جو درحقیقت برہمن تھا کہا مَیں برہمن ہوں۔ وزیر نے حُکم دیا کہ ان دونوں کو میرے پاس لایا جائے اور ان سے بیان لئے جائیں۔ اس نے بنیئے سے دریافت کیا کہ درخت کتنا اُونچا ہوتا ہے۔ اس نے کہا درخت ۴۴،۴۵ فٹ اُونچا ہوتا ہے۔ پھر اس نے برہمن سے مخاطب ہو کر کہا تم بتاؤ درخت کتنا اُونچا ہوتا ہے۔ اس نے کہا درخت چار پانچ فٹ اُونچا ہوتا ہے۔ اس پر وزیر نے کہا یہی برہمن ہے۔ چونکہ یہ لوگ مفت خور ہوتے ہیں اور بے کار رہتے ہیں اس لئے یہ لوگ خود غور کرتے نہیں محض سُنی سُنائی بات پر یقین کر لیتے ہیں۔ بہرحال وزیر نے اس شخص کی بیوقوفی سے اسے پہچان لیا اور کہا یہی شخص برہمن ہے اسے دان دے دو۔
پس بعض لوگ غلط اندازہ لگانے والے ہوتے ہیں اور بعض لوگ اندازہ لگانے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں۔ پھر بعض لوگ کان کے ذریعہ فاصلہ کا اندازہ لگالیتے ہیں۔ امریکہ میں ریڈانڈین لوگ پائے جاتے ہیں ۔ وہ زمین پر کان رکھ کر اس کے اندر سے آواز سُن کر یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ دُشمن اتنے میل کے فاصلہ پر ہے اور وہ فلاں جہت سے آرہا ہے۔ کوئی گھوڑا آرہا ہوتا ہے تو وہ زمین پر کان رکھ کر معلوم کر لیتے ہیں کہ کوئی سوار آرہا ہے۔ جنگوں میں وہ اسی طرح اپنی حفاظت کر لیتے ہیں۔ جب کوئی خطرہ ہو وہ کان زمین پر رکھتے ہیں اور بتا دیتے ہیں کہ اتنے فاصلہ پر سوار آرہے ہیں اورپھر وہ فلاں جہت سے آرہے ہیں، پھر تیل کے چشمے ہیں۔ کئی لوگ ایسے ہیں جو ناک سے مٹی سونگھ کر یہ بتا دیتے ہیں کہ اس جگہ تیل پایا جاتا ہے۔ پاکستان نے بھی اس قسم کا ایک آدمی رکھا تھا جو ناک سے سونگھ کر بتا دیتا تھا کہ اس جگہ تیل پایا جاتا ہے۔ اس فن کے ماہر لوگوں نے شکایت کی تھی کہ اس میں ہماری ہتک ہے لیکن حکومت نے یہی کہا تھا کہ اسے تجربہ ہے۔ میرے پاس کوئٹہ میں کچھ ماہرین آئے اور اُنہوں نے کہا کہ حکومت نے ایسا شخص جس نے اس فن کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ملازم رکھ کر ہماری ہتک کی ہے تو مَیں نے انہیں یہی کہا تھا کہ تم لوگ تھیوری جانتے ہو لیکن وہ فن جانتا ہے۔ حکومت کیا کرے۔ حکومت کے پاس ایکسپرٹ جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص اس فن کا ماہر ہے اس لئے وہ اس کو ملازم رکھنے پر مجبور ہے۔ مَیں نے کہا کہ آپ لوگوں کا یہ کہنا کہ اس میں ہماری ہتک ہے۔ حماقت ہے۔ کیونکہ دُنیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے اندازے غیر معمولی طور پر صحیح ہوتے ہیں۔
پھر جذبات کا فرق ہے۔ ایک شخص میں غصّہ پایا جاتا ہے تو دوسرے میں محبت کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔ کسی میں وقار کم ہوتا ہے تو کسی میں زیادہ۔ کسی میں قربانی کا مادہ زیادہ ہوتا ہے تو کسی میں کم۔ کسی میں ایثار کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے تو کسی میں کم۔ کسی میں رحم کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے تو کسی میں کم۔ کسی میں حقانیت پائی جاتی ہے ،کسی میں دیانت پائی جاتی ہے، ایک شخص کو ہزاروں روپے دئے جاتے ہیں اور وہ پورے کے پورے واپس کر دیتا ہے لیکن دوسرے کو دو پیسے بھی دئے جائیں تو وہ اُن میں خیانت کر جاتا ہے۔ کسی کو آدھی روٹی دے دی جائے تو وہ گزارہ کر لیتا ہے، کسی کو چار روٹیاں دی جاتی ہیں لیکن وہ پھر بھی کھانا کم ملنے کی شکایت کرتا ہے۔ کوئی دال اور معمولی سالن پر گزارہ کر لیتا ہے تو کوئی زردہ اور پلاؤ کی خواہش کرتا ہے۔ پھر میلان کا فرق ہے۔ اپنے بچوں کو پوچھ کر دیکھ لو۔ کوئی وکالت کا پیشہ پسند کرتا ہے تو کوئی سپاہ گری کو پسند کرتا ہے۔ کوئی کہتا ہے میں کلرکی کروں گا تو کوئی کسی اور کام کی طرف مائل ہوتا ہے۔ اگر زور دے کر انہیں کوئی خاص پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے تو بغاوت ہو جاتی ہے اور کئی بچے اسی لئے بھاگ جاتے ہیں کہ وہ کسی پیشہ کی طرف مائل ہوتے ہیں لیکن ماں باپ انہیں کسی اور پیشے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ میرے اپنے عزیزوں سے ایک بڑے افسر ہیں۔ وہ ڈاکٹری کی طرف مائل تھے لیکن ان کے ماں باپ انہیں انجینئر بنانا چاہتے تھے۔ اب گو وہ بڑے افسر ہیں لیکن اس وقت وہ صرف اس اختلاف کی وجہ سے گھر سے بھاگ گئے تھے وہ یہی کہتے تھے کہ مَیں ڈاکٹر بنوں گا۔ یہ مثالیں مَیں نے ایسی چیزوں کی دی ہیں جو قدرتی اور طبعی ہوتی ہیں لیکن بعض چیزیں اکتسابی بھی ہیں مثلاً علم کی کمی اور زیادتی ہے۔ کوئی بڑا عالم ہوتا ہے تو کوئی معمولی لکھا پڑھا ہوتا ہے۔ کوئی عربی میں بولتا ہے تو کوئی ترکی میں کلام کرتا ہے ، کوئی فارسی میں بولتا ہے تو کوئی پشتومیں بولتا ہے۔ کوئی ہندی میں بولتا ہے تو کوئی چینی میں بولتا ہے۔ پھر جائے رہائش کا فرق ہے۔ کوئی ٹھنڈے مُلک کا رہنے والا ہوتا ہے ، کوئی گرم مُلک کا رہنے والا ہوتا ہے اور کوئی درمیانی آب و ہوا والے مُلک کا رہنے والا ہوتا ہے۔ کوئی ایسے مُلک کا رہنے والا ہوتا ہے جہاں ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں کوئی لُو والے مُلک کا رہنے والا ہوتا ہے۔ پھر سامان معیشت کا فرق ہے، خوراک کا فرق ہے۔ کوئی چاول کھاتا ہے، کوئی گندم کھاتا ہے اور کوئی باجرا کھاتا ہے۔ یہاں ہمارے مُلک میں ہی اتنا اختلاف پایا جاتا ہے کہ حیرت آتی ہے حالانکہ مُلک ایک ہے۔ مَیں جب شروع شروع میں یہاں آیا تو مجھے زمینداروں نے بتایا کہ ہم نے مزارعین کے لئے باجرہ کی بجائے گندم رکھی تو وہ ناراض ہو گئے لیکن ہمارے ہاں انہیں باجرا دو تو وہ ناراض ہوتے ہیں۔ بنگال کے رہنے والے چاول کھاتے ہیں۔ انہیں روٹی دو تو وہ بیمار ہو جاتے ہیں۔ ربوہ میںسندھ کے بعض طالب علم بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان میں سے ایک طالب علم کو جوگریجویٹ ہے پیچش ہو گئی۔ مَیں نے کہا تمہیں پیچش کیوں ہوئی ہے؟ اس نے بتایا کہ ہمارے علاقہ کی خوراک اور اس علاقہ کی خوراک میں فرق ہے۔ اس لئے مجھے پیچش ہو گئی ہے۔ پھر لباس کا اختلاف ہے۔ ہمارے ہاں تو کھچڑی سی پکی ہوئی ہے لیکن دوسرے مُلکوں میں جاؤ تو اُن کا ایک لباس ہوتا ہے۔ ایک انگریز ایک امریکن کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ وہ امریکن ہے اسی طرح ایک امریکن ایک انگریز کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ وہ انگریز ہے۔ چین کا لباس اور ہے، عرب کا لباس اور ہے۔ پھر پیشوں کا اختلاف ہے۔ کوئی ڈاکٹر ہے ، کوئی وکیل ہے، کوئی انجینئر ہے، کوئی لوہار ہے، کوئی دھوبی ہے، کوئی ترکھان ہے ہر ایک شخص اپنے اپنے مذاق کے مطابق کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کر لیتا ہے۔ پھر اعمال کا فرق ہے کوئی محنت کرتا ہے اور کوئی سُست ہوتا ہے، کوئی ہاتھ سے کام کرنا پسند کرتا ہے تو کوئی دماغ سے کام کرنا پسند کرتا ہے۔ پھر عقائد کا اختلاف ہے۔ مسلمانوں کو ہی دیکھ لو باوجود اس کے کہ وہ سب ایک خدا اور ایک رسول کو مانتے ہیں لیکن پھر بھی ان میں کئی فرقے پائے جاتے ہیں اور ان کے عقائد میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ پھر سیاست کا اختلاف ہے۔ پاکستان میں بھی ہم اکثر سُنتے ہیں کہ حزب مخالف کے بغیر کوئی حکومت مُلک کے لئے مفید نہیں ہو سکتی۔ بہرحال سیاست میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔ یہ کتنے اختلاف ہیں جو پائے جاتے ہیں انہیں دیکھ کر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بعض اختلاف ایسے ہیں جن کا مٹانا ناممکن ہے۔ ان میں اتحاد ہو ہی نہیں سکتا۔ مثلاً گورے اور کالے کے فرق کو کون مٹا سکتا ہے، پھر زرد اور بھُورے کو کون مٹا سکتا ہے، لمبے اور چھوٹے قد کو کون مٹا سکتا ہے، موٹے اور دُبلے کو کون مٹا سکتا ہے اِسی طرح اور اختلافات ہیں اگر انہیں مٹانے کی کوشش کی جائے تو بغاوت ہو جائے۔ یہ سب اختلافات تقدیر الٰہی کے مطابق ہیں جو خدا تعالیٰ نے نازل کر دی ہے ہم انہیں مٹا نہیں سکتے۔ پھر بعض اختلافات انسانی زندگی کا ایک ضروری حصّہ ہیں اگر انہیں مٹا دیا جائے تو زندگی بے کیف بن جاتی ہے۔ مثلاً عورت اور مرد کا اختلاف ہے یہ ایسا اختلاف ہے کہ اسے مٹایا نہیں جاسکتا۔ فرض کرو خدا تعالیٰ مرد کو طاقت دے دے اور کہے تم جو چاہو کرو تو وہ سکون اور آرام نہیں رہے گا جس سے دُنیا چل رہی ہے۔ اگر تم اختلاف کو دُور کر دو تو انسانی زندگی بے کیف اور بے لذت ہو جائے اور دُنیا میں رہنا مُشکل ہو جائے۔ کسی شاعر نے کہا ہے ؎
ہر گُلے را رنگ و بوئے دیگر است
یعنی ہر رنگ اور ہر بومفید ہے اور اس کے بغیر کوئی لذت اور راحت نہیں۔
پھر بعض اختلافات ایسے ہیں جو نہایت ضروری ہیں۔ اگر انہیں مٹا دیا جائے تو دُنیا پر تباہی آجائے مثلاً ایک بچہ چوری کرتا ہے۔ باپ کہتا ہے تم نے چوری کیوں کی؟ اب اگر کوئی کہے کہ تم اسے کچھ نہ کہو اور آپس میں اتحاد کر لو تو دُنیا پر تباہی آجائے یا بچہ نماز نہیں پڑھتا۔ باپ کہتا ہے تم نماز پڑھو۔ یہ بھی ایک اختلاف ہے جو نہایت ضروری ہے۔ اب اگر تم کہو کہ آپس میں اتحاد ضروری ہے اس لئے تم اسے نماز کے لئے نہ کہو تو دُنیا پر تباہی آجائے۔ اسی طرح شرارت سے منع کرنا، جھوٹ سے منع کرنا، غرض ہزاروں اختلافات ایسے ہیں جن کا مٹانا دُنیا کے لئے تباہی کا موجب ہے اور ان کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر تم کوئی بُری چیز دیکھو اور تم میں اس کو دُور کرنے کی طاقت ہو تو تم اسے ہاتھ سے دُور کر دو اور اگر تمہیں ہاتھ سے دُور کرنے کی طاقت حاصل نہیں لیکن تم زبان سے اُسے بُرا کہہ سکتے ہو تو اُسے زبان سے بُرا کہو۔ پھر فرمایا اگر تم میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ تم کوئی بُری چیز دیکھ کر اُسے زبان سے بُرا کہو مثلاً دوسرا حاکم ہے اور یہ غریب آدمی ہے اگر یہ زبان سے اُسے کچھ کہے گا تو وہ شاید اسے کچھ تکلیف دے اس لئے فرمایا کہ تم کم از کم دل میں بُرا مناؤ۔ ۲؎ اب دیکھ لو خود رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اختلاف کو جائز قرار دیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اگر تم میں طاقت ہے اور تمہیں اختیار حاصل ہے تو تم جو بُری چیز دیکھو اُسے ہاتھ سے دُور کر دو اور اگر تم میں طاقت نہیں یا تمہیں اختیار حاصل نہیں لیکن تم زبان سے اُسے بُرا کہہ سکتے ہو تو اسے زبان سے بُرا کہو اور اگر تم زبان سے بھی بُرا نہیں کہہ سکتے تو دل میں اُسے بُرا مناؤ۔
ایک بزرگ کا قصّہ مشہور ہے کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو سارنگی بجا رہا تھا۔ آپ نے اس کی سارنگی لی اور اُسے توڑ دیا۔ وہ بادشاہ کا درباری تھا۔ اس نے بادشاہ کے پاس شکایت کی کہ فلاں بزرگ نے میری سارنگی توڑ دی ہے اور اس طرح اُنہوں نے میری ہتک کی ہے۔ بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں بُلایا۔ جب وہ دربار میں آئے تو بادشاہ خود سارنگی بجانے لگا وہ بزرگ بیٹھ گئے اور بادشاہ کی طرف دیکھتے رہے اور وہ سارنگی بجاتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد بادشاہ اس بزرگ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کیا تم فلاں دن فلاں جگہ سے گزرے تھے؟ اُنہوں نے کہا ہاں۔ پھر کہا کیا تم نے فلاں درباری کی سارنگی توڑ دی تھی؟ اُنہوں نے کہا ہاں۔ بادشاہ نے کہا تم نے وہ سارنگی کیوں توڑی تھی؟ اس بزرگ نے کہا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تو کوئی بُری بات دیکھو اور تم میں طاقت ہو اور تمہیں اختیار حاصل ہو تو اسے ہاتھ سے دُور کر دو چنانچہ مَیں نے اسے سارنگی بجاتے دیکھا تو مجھے یہ بات بُری لگی مَیں سمجھتا تھا کہ اگر مَیں سارنگی توڑ دوں تو یہ مجھے کچھ نہیں کہے گا اس لئے مَیں نے سارنگی توڑ دی۔ بادشاہ نے کہا پھر تم نے میری سارنگی کیوں نہیں توڑی؟ اس بزرگ نے کہا رسول کریم صلی اﷲ علیہہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تمہیں اختیار حاصل نہ ہو تو تم زبان سے منع کرو۔ بادشاہ نے کہا آپ نے تو زبان سے بھی بُرا نہیں منایا۔ اُنہوں نے کہا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم زبان سے بھی بُرا نہ منا سکو تو دل میں ہی بُرا مانو اور خدا کی قسم جب سے مَیں دربار میں آیا ہوں مَیں اسے بُرا منا رہا ہوں۔۳؎ پس یہ بھی ایک اختلاف ہے جو قائم رہا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم حُکم دیتے ہیں کہ میرا اختلاف قائم رہنا چاہئے۔ قرآن کریم بھی اختلاف کو تسلیم کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتا ہے ۴؎ فرمایا! دیکھو خدا تعالیٰ کس کس رنگ میں اپنے جلوہ کو ظاہر کرتا ہے۔ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ اب کیا یہ ایک چیز کا نام ہیں۔ آسمانوں کو دیکھ لو وہاں تمہیں کچھ سیارے نظر آئیں گے، کچھ ستارے ہوں گے۔ پھر ان میں کوئی اپنے محور کے گرد گھوم رہا ہو گا اور بعض ایک دوسرے کے ارد گرد گھوم رہے ہوں گے۔ پھر زمین کی طرف دیکھو وہاں باغ، درخت، بُوٹیاں اور جانور نظر آتے ہیں ایک ہی پانی ہو گا لیکن کوئی پھل کھٹا ہوتا ہے کوئی میٹھا ہوتا ہے اور کوئی کڑوا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک اختلاف ہے اور یہ اختلاف ہر جگہ نظر آرہا ہے۔ پھر بولیاں دیکھ لو بھانت بھانت کی بولی بولی جاتی ہے۔ پھر رنگوں کا اختلاف ہے کوئی زرد نظر آتا ہے تو کوئی سُرخ نظر آتا ہے ، کوئی کالا نظر آتا ہے تو کوئی سفید نظر آتا ہے۔ فرمایا یہ سب نشانات ہیں اگر تم ان پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ اس کا جلوہ ذرّہ ذرّہ میں ظاہر ہو رہا ہے۔ پھر کئی اختلاف بہت باریک ہوتے ہیں۔ انہیں پہچانا نہیں جاتا۔ دو بھائی ہوتے ہیں آپ کہتے ہیں کہ ایک بھائی کا نام غلام قادر ہے اور دوسرے کا نام غلام رسول ہے لیکن اگر آپ کا امتحان لیا جائے کہ بتاؤ ان دونوں میں کیا فرق ہے تو تم اسے بیان نہیں کر سکو گے۔ ان دونوں کے درمیان جو فرق ہے اسے آنکھ محسوس کرتی ہے زبان سے اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔
پھر آواز کا فرق ہے۔ کان آواز سُن کر پہچان لیتا ہے کہ یہ فلاں کی آواز ہے۔ ہال میں کتنے آدمی بیٹھے ہیں۔ اب ہال کے باہر کوئی آدمی کھڑا ہو اور ہال کے اندر کوئی دو آدمی آپس میں بات کریں تو وہ کہہ دے گا کہ یہ آواز دوسری آواز سے مختلف ہے۔ غرض بعض اختلاف ایسے ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ کان ، ناک اور آنکھ اس اختلاف کو ظاہر کر سکتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قد و قامت ، رنگوں ، بوٹیوں ، درختوں ، پہاڑوں اور دریاؤں وغیرہ میں جو فرق ہے یہ اﷲ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان ہے۔ رنگوں کو لے لو ایک ایک رنگ کئی قسم کا ہوتا ہے۔ عورتیں بازار میں جاتی ہیں اور بزّاز انہیں سُرخ رنگ کا کوئی تھان دکھاتا ہے تو وہ کہتی ہیں یہ سُرخ نہیں ذرا گہرا سُرخ رنگ والا کپڑا دو۔ پھر وہ ایک اور کپڑا جس کا رنگ سُرخ ہوتا ہے دکھاتا ہے تو وہ کہتی ہیں یہ نہیں اس سے ذرا ہلکے رنگ کا کپڑا ہمیں چاہئے۔ گویا ایک ایک رنگ سے آگے بیسیوں قسمیں نکل آتی ہیں۔ پھر سبز رنگ ہے، زرد رنگ ہے، ان سب کی بیسیوں اقسام ہیں۔ غرض دُنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو ممتاز نہیں۔ فرمایا یہ اختلاف اور امتیاز نشان ہے جاننے اور سمجھنے والوں کے لئے۔ ایک شخص جنگل میں جاتا ہے تو کہتا ہے درخت ہیں اور کیا ہے لیکن ایک فاریسٹ آفیسر جنگل میں جاتا ہے تو وہ کہے گا وہاں اتنی قسم کی بوٹیاں ہیں، فلاں میں کیمیکل اتنا ہے اور فلاں میں اتنا ہے۔ پھر اتنی قسم کے درخت ہیں جو فلاں فلاں کام آسکتے ہیں لیکن ایک عام آدمی جنگل میں سے گزرے تو وہ سوائے اس کے کہ بتائے یہ جنگل ہے اور کچھ نہیں بتا سکے گا۔ ایک ماہی گیر دریا پر جائے تو وہ کہے گا اس دریا میں اتنی مچھلی ہے اور فلاں فلاں قسم کی مچھلی ہے وہ یہ بھی بتائے گا کہ فلاں فلاں قسم کی مچھلی میں کانٹا ہے، فلاں مچھلی کے پکوڑے اچھے تَلے جاسکتے ہیں اور فلاں قسم کی مچھلی پکانے میں مزیدار ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک تو وہ محض ایک دریا ہوتا ہے لیکن ایک ماہی گیر اسی دریا کے متعلق بیسیوں باتیں بتا دے گا۔ غرض ہر فن کا واقف جب کوئی چیز دیکھے گا تو وہ اپنے فن کے مطابق اس میں اتنے اختلاف بیان کرے گا کہ دوسرا آدمی ایسا نہیں کر سکتا۔
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے یہ اختلاف ایک جاہل شخص کو نظر نہیں آتے لیکن عالموں کو لاؤ ، ماہرین کو لاؤ، رنگوں کے ماہرین کو لاؤ، ڈاکٹروں کو لاؤ، فارسٹ افسروں کو لاؤ، نباتات کے ماہرین کو لاؤ پھر میری مخلوق کو ان کے سامنے پیش کرو تو وہ اس کی بیسیوں قسمیں بتائیں گے اور تمہیں ہر چیز میں اختلاف ماننا پڑے گا اور یہ اس خدا نے پیدا کیا ہے جس نے متنوّع اور رنگ دار زندگی کو پیدا کیا ہے۔ اس آیت میں خدا تعالیٰ نے قدرتی اور ضروری اختلافات کی مثالیں بیان کر دی ہیں اگر ان اختلافات کو مٹایا جائے تو زندگی بے کیف ہو جاتی ہے۔ پھر مَیں نے بتایا ہے کہ بعض اختلافات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو مٹانا تباہی کا موجب ہوتا ہے ۔ قرآن کریم میں آتا ہے: ۵؎ بعض جگہ اختلاف ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جو جھوٹ کی طرف لے جاتے ہیں یا سچائی کی طرف لے جاتے ہیں خدا تعالیٰ ان لوگوں کو کامیابی کا رستہ دکھاتا ہے جو اختلاف کرتے ہیں گویا یہ بات اتنی اچھی ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا کرنے والے کو کامیابی بخشتا ہے۔ اس لئے نہیں کہ اس نے اتحاد کر لیا بلکہ اس لئے کہ اس نے اختلاف کیا۔ پھر فرمایا اس نے حق کی خاطر اختلاف کیا۔ پھر اپنی مرضی سے اختلاف نہیں خدا کے حُکم کے مطابق اس نے اختلاف کیا ہے۔ گویا اﷲ تعالیٰ نے اختلاف کے باوجود ایک شخص کو عزت اور رُتبہ دیا ہے لیکن دوسرا شخص ویسا ہی کام کر رہا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے عذاب میں مُبتلا کر دیتا ہے اس لئے کہ وہ حق کی خاطر اختلاف نہیں کر رہا ہوتا بلکہ باطل کی خاطر اختلاف کر رہا ہوتا ہے۔ کفّار کی طرف سے بھی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہمیں آپس میں متحد رہنا چاہئے لیکن قرآن کریم نے فرمایا ہے یہ اتحاد اچھا نہیں۔ کفّار اعتراض کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے آکر اختلاف پیدا کر دیا ہے۔ ہم سب اپنے آباؤ اجداد کے مذہب پر چل رہے تھے آپ نے ایک علیحدہ مذہب پیش کر کے ہمیں اختلاف کی دعوت دی ہے گویا کفّار اتحاد کا واسطہ دیتے تھے لیکن خدا تعالیٰ اختلاف کو جائز قرار دیتا ہے۔ قرآن کریم میں آتا ہے: ۶؎ یعنی جب انہیں کہا جاتا ہے کہ یہ پُرانی چیزیں ہیں تم اُنہیں ترک کر دو اور جو خدا تعالیٰ نے نازل کیا ہے اسے مان لو تو وہ کہتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا ہم اپنے آباؤ اجداد کے مذہب پر چلیں گے کیونکہ اس میں اتحادپایا جاتا ہے تمہاری خاطر ہم اس مذہب کو کیسے چھوڑ دیں۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے یہ کیا بودی دلیل ہے کہ ہم اپنے آباؤاجداد کے مذہب پر چلیں گے۔ تمہاری بات مان کر ہم ان سے اختلاف نہیں کریں گے لیکن اگر وہ بے عقل بھی تھے تب بھی یہ لوگ ان کے پیچھے چلیں گے۔ اگر وہ بے علم تھے اور انہیں ہدایت نہیں ملی تھی تب بھی یہ لوگ ان کے پیچھے چلیں گے اتحاد تو ان چیزوں میں ہوتا ہے جن کے ساتھ علم ہو ، ہدایت ہو، عقل ہو، اگر ان کے ساتھ علم نہیں، ہدایت نہیں، عقل نہیں تو اتحاد کیسا۔ تمہارا ان کے ساتھ رہنا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا مثلاً یہ اتحاد ہے کہ دو آدمی غرق ہونے لگے ہوں اور انہیں ایک شہتیر مل جائے اور وہ دونوں اسے پکڑ لیں لیکن یہ اتحاد نہیں کہ ایک بل میں سانپ ہو اور زید اس میں ہاتھ ڈال دے تو بکر بھی اس میں ہاتھ ڈال دے ۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ اتحاد اس کے لئے مُہلک ہو گا۔ گویا ہر اتحاد اچھا نہیں ایک موقع پر اتحاد اچھا ہے اور اختلاف بُرا ہے اور ایک موقع پر اختلاف بُرا ہے اور اتحاد اچھا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ جب بعض اختلافات قدرتی ہیں اور بعض انسانی زندگی کے لئے ضروری تو کیا اسلام میں انفرادیت سکھائی گئی ہے اجتماعیت نہیں سکھائی گئی؟ یہ تو انفرادیت ہے کہ اپنے ذاتی فائدہ کی چیزیں قبول کر لو اور باقی ترک کر دو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ اسلام انفرادیت کی بھی تعلیم دیتا ہے لیکن اجتماعیت اور ملّت کا جو احساس اسلام نے پیدا کیاہے وہ کسی اور مذہب نے پیدانہیں کیا۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو اجتماعیت کی طرف توجہ دلائی ہے مثلاً اسلام میں ایک کلمہ ہے جو ہر مسلمان کے لئے ماننا ضروری ہے۔ بے شک اسلامی فرقوں میں اختلاف پایا جاتا ہے مثلاً ہماری جماعت کو بھی دوسرے فرقوں سے اختلاف ہے لیکن کوئی احمدی ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ مَیں کلمہ طیبہ نہیں مانتا۔ پھر شیعوں کو سُنّیوں سے اختلاف ہے اور سنّیوں کو شیعوں سے اختلاف ہے لیکن سُنّی یا شیعہ کو یہ جرأت نہیں کہ کلمہ سے انکار کر دے۔ تم کسی اسلامی فرقہ میں چلے جاؤ اور ان سے پوچھ لو وہ کلمہ سے باہر نہیں جائیں گے۔ ہر ایک مسلمان یہ کہے گا کہ ہمارا ایک کلمہ ہے اور وہ لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اﷲِ ہے۔ ہر شخص جو مسلمان ہو گا وہ اس بارہ میں دوسرے مسلمانوں سے متحد ہو گا۔ شیعہ سُنّیوں سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلمہ کے بارے میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہو گا۔ سُنّی شیعہ سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلمہ میں دونوں متحد ہوں گے اور یہ کلمہ صرف مسلمانوں میں ہے اور کسی مذہب میں نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک عیسائی کو لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کہنا نہیں آتا۔ ایک عیسائی بھی لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کہہ سکتا ہے لیکن ان کا اپنا کوئی ایسا کلمہ نہیں جس میں بتایا گیا ہو کہ خدا تین ہیں تم کسی مشن میں چلے جاؤ اور عیسائیوں سے پوچھو کہ کیا تمہارا بھی کوئی کلمہ ہے تو وہ یہی جواب دیں گے کہ ہمارا کوئی کلمہ نہیں۔ وہ یہ کہہ ہی نہیں سکتے کہ ہمارا کوئی کلمہ ہے کیونکہ ان کے ہاں مذہب کا ضروری حصّہ وہ لوگ بھی ہیں جو تین خدا مانتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو باوجود عیسائی ہونے کے ایک خدا کے قائل ہیں لیکن ہمارا ہر شخص لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ میں دوسرے مسلمانوں سے اتحاد رکھتا ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ کے خلاف کسی تعلیم کو مانتا ہو اور وہ اسلام میں بھی رہے۔ پھر عیسائیوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جو انہیں ایک بزرگ اور نبی خیال کرتے ہیں۔ پس وہ ایک کلمہ بنا ہی نہیں سکتے۔ پھر ہندو مذہب کو لے لو۔ ہندو بھی اپنے مذہب کے متعلق بہت غیرت رکھتے ہیں اور وہ اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کا مذہب بہت پرانا ہے لیکن ان سے پوچھو کہ کیا ہندوؤں کے پاس کوئی کلمہ ہے جسے ہم ہندو مذہب کا خلاصہ کہہ سکیں تو وہ اس کا کوئی جواب نہیں دے سکیں گے۔ وٹ از ہندو ازم (What is Hinduism) ایک کتاب چھپی ہے۔ اس میں بڑے بڑے ہندو لیڈروں گوکھلےؔ، مالویہؔ، اور تملک وغیرہ کے مضامین ہیں لیکن سارے مضامین کا یہی خلاصہ ہے کہ ہندو مذہب کوئی چیز نہیں۔ وہ ہندو مذہب کی کوئی تشریح نہیں کر سکتے۔ بعض کے نزدیک ہندو وہ ہے جو وید مانتا ہے لیکن جو ہندو وید نہیں مانتا لیکن ہندو کہلاتا ہے کیا وہ ہندو نہیں؟ مثلاً مدراسی لوگ وید نہیں مانتے۔ پھر بعض کہتے ہیں جو شخص پران مانتا ہے وہ ہندو ہے لیکن آریہ لوگ پران نہیں مانتے۔ پھر بعض نے یہ کہا ہے کہ جو بت پرستی کرے وہ ہندو ہے لیکن ودیکانند والے بتوں کی پوجا نہیں کرتے۔ پھر بعض کہتے ہیں کہ ہندو وہ ہوتے ہیں جو گائے نہیں کھاتے لیکن ساتھ ہی دوسرا مضمون نگار یہ لکھتا ہے کہ بمبئی میں ایسے ہندو پائے جاتے ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں۔ پھر بعض نے کہا ہے کہ اصل میں ہندو وہ ہے جو ہندوستان میں پیدا ہؤا ہو لیکن اس کے یہ تو معنے بنتے ہیں کہ جو مسلمان ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں وہ بھی ہندو ہیں۔ ہندو کہتے ہیں ہمارا مذہب سب سے پُرانا ہے لیکن وہ ابھی اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ ہمارا کلمہ کیا ہے لیکن ہمارے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ۱۳۷۰ سال قبل فرما دیا تھا کہ ہمارا کلمہ لَااِلٰہَ اِلَّا اﷲُ ہے اور اس میں اسلام کا خلاصہ آگیا ہے۔ باقی لوگ ابھی ٹکریں مار رہے ہیں کہ ہمارا کلمہ کیا ہے۔ اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے مسلمانوں کے سوا دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں۔
پھر اسلام میں ایک قبلہ پایا جاتا ہے لیکن اسلام کے سوا کسی مذہب میں قبلہ نہیں پایا جاتا۔ بے شک ہندوؤں کے پاس سومناتھ کا مندر موجود ہے لیکن یہ ایسی چیز نہیں جس پر سارے ہندو جمع ہو جائیں۔ عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی کوئی قبلہ نہیں۔ وہ یروشلم کی مسجد کو بطور قبلہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پانچ سَو سال بعد حضرت داؤد علیہ السلام نے بنائی تھی۔۷؎ حضرت داؤد علیہ السلام سے پانچ سَو سال قبل یہودیوں کے پاس کون سا قبلہ تھا؟ ہمارے پاس پہلے سے قبلہ ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب ظاہر ہوئے تو آپ نے بتادیا کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے اور اس طرح مسلمانوں پر کوئی دن ایسا نہیں آیا جب اُن کے پاس کوئی قبلہ نہ ہو۔ یہ نہیں کہ ایک سال دو سال یا دس سال کے بعد قبلے کا حُکم ہؤا ہو بلکہ پہلے دن سے بتا دیا گیا ہے کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے۔ اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے جو دوسرے مذہب والوں کو حاصل نہیں۔
پھر نماز باجماعت ہے۔ اسلامی نماز بھی انفرادی نماز نہیں بلکہ ایک قومی نماز ہے۔ پہلے صفوں میں سیدھے کھڑے ہو جاؤ، قبلہ رُخ ہو ، اقامت ہو، پھر ایک امام ہو، امام کھڑا ہو تو مقتدی کھڑا ہو، امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجدہ میں چلا جائے۔ یہ خصوصیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے اور مذاہب میں نہیں۔ نہ عیسائیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے اور نہ یہودیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے۔ عیسائی اور یہودی اکٹھے تو ہو جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے لئے اکٹھا ہونے کا کہاں حُکم ہے۔ ساری تورات میں اکٹھے ہو کر عبادت کرنے کا حُکم نہیں ملتا۔ تورات میں یہی آتا ہے کہ کامل عبادت یہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے لئے قربانی پیش کرو۔ باقی یہ کہ عبادت کے لئے تم اکٹھے ہو جاؤ ایسا کوئی حُکم نہ پُرانوں اور ویدوں میں موجود ہے اور نہ ایسا حُکم تورات اور انجیل میں پایا جاتا ہے۔ صرف اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو کہتا ہے پہلے اذان دو، پھر اس طرح مسجد میں آؤ، سیدھی صفوں میں کھڑے ہو جاؤ، پھر قبلہ کی طرف مُنہ کرو، سامنے ایک امام ہو جو حرکت امام کرے وہی حرکت مقتدی بھی کرے، امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجدہ میں چلے جائیں، امام کھڑا ہو تو مقتدی بھی کھڑے ہو جائیں، اس طرح ساری قوم امام کے تابع ہو جاتی ہے اور یہ طاقت ہٹلر میں بھی نہیں تھی کہ اس کے اشارے سے سارے لوگ جھُک جائیں لیکن یہاں یہ بات پائی جاتی ہے کہ امام رکوع میں جاتا ہے تو سارے مقتدی رکوع میں چلے جاتے ہیں۔ امام سجدہ میں جاتا ہے تو سارے لوگ سجدہ میں چلے جاتے ہیں۔ گویا خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت بخشی ہے جس نے اجتماعیت کی ایسی مستحکم روح قائم کر دی ہے جس کی مثال اور کسی مذہب میں نہیں ملتی۔
پھر حج ہے۔ یہ خصوصیت بھی صرف اسلام میں ہے۔ بیشک ہندو لوگ یاترا کے لئے جاتے ہیں لیکن یاترائیں بیسیوں ہیں ۔ کوئی شخصی یاترا نہیں اور نہ ایسی تعلیم ہے کہ جس شخص کے پاس سرمایہ ہو پھر امن ہو، اس کے لئے کوئی روک نہ ہو ایسا شخص اگر حج نہیں کرتا تو وہ گنہگار ہے۔ یہ اجتماعیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے۔ باقی لوگ یاترا گئے تب بھی بزرگ ہیں اور اگر یاترا کو نہ گئے تب بھی بزرگ ہیں۔
پھر زکوٰۃ ہے۔ اسلام میں جیسی زکوٰۃ پائی جاتی ہے۔ وہ کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی۔ بیشک یہودیوں میں بھی زکوٰۃ پائی جاتی ہے لیکن اس میں اتنی باریکیاں نہیں پائی جاتیں جتنی باریکیاں اسلامی زکوٰۃ میں پائی جاتی ہیں۔ اسلامی زکوٰۃ کے اخراجات کو نہایت وسیع طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس میں قومی ترقی کی ہر چیز آجاتی ہے۔ اس میں کلّیت کا رنگ پایا جاتا ہے اور یہ بات یہودی زکوٰۃ میں نہیں پائی جاتی۔ اسلامی زکوٰۃ میں ہر قسم کے غرباء کا حق مقررکر دیا گیا ہے مثلاً ایک شخص کے پاس تجارت کے لئے سرمایہ نہیں تو اسلام کہتا ہے اسے کچھ سرمایہ دے دو۔ ایک درزی ہے وہ درزی کا کام جانتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی مشین نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکوٰۃ میں سے کچھ اسے بھی دے دو۔ ایک شخص کو یکّہ چلانا آتا ہے لیکن اس کے پاس روپیہ نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکوٰۃ میں اسے بھی کچھ دے دو۔ اسی طرح ایک مسافر آتا ہے وہ مالدار ہوتا ہے لیکن وہ شہر میں جاتا ہے اور اس کا مال چوری ہو جاتا ہے اور وہ گھر سے بھی روپیہ منگوا نہیں سکتا تو اسلام کہتا ہے کہ زکوٰۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ ایک غریب آدمی قید ہو جاتا ہے اس کے بچوں کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تو اسلام کہتا ہے زکوٰۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو۔ گویا اسلام نے زکوٰۃ کے نظام کو اس قدر وسیع کیا ہے اور اتنا نرم رکھا ہے کہ ہر قوم اور ہر گروہ کے لوگ اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں کہ کسی کا سر بھی نیچا نہ ہو کیونکہ بڑی زکوٰۃ حکومت خود دے گی مثلاً زمین ہے۔ زمین کی زکوٰۃ مَیں ذاتی طور پر نہیں دے سکتا بلکہ یہ زکوٰۃ گورنمنٹ کے پاس جمع کرائی جائے گی اور وہ آگے مستحقین میں تقسیم کرے گی۔ اگر حکومت اس رقم میں سے کچھ میرے ہمسایہ کو دیتی ہے تو اگرچہ وہ میری رقم ہو گی لیکن میرا ہمسایہ اسے گورنمنٹ سے حاصل کرے گا اس طرح وہ میرا ممنون نہیں ہو گا اور میرے سامنے نظریں نیچی نہیں کرے گا۔ گویا زکوٰۃ لینے کے نتیجہ میں جو تحقیر پیدا ہوتی ہے وہ پیدا نہیں ہو گی۔ غرض اسلامی زکوٰۃ میں اس امر کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ غریب کی نظر نیچی نہ ہو اور باوجود مدد لینے کے وہ امیر ہمسایہ کو کہہ سکے کہ میں نے تجھ سے مدد نہیں لی۔
پھر قضاء ہے۔ یہ بھی اسلام کی ہی ایک خصوصیت ہے اور یہ خصوصیت بھی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ اسلام اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے۔ ایک فرد اگر کسی کو ڈنڈا مارے تو قضاء اسے کہے گی کہ تم قاضی کے پاس جاؤ وہ اسے ڈنڈا مارے گا۔ یہاں تک کہ اسلام میں بدکاری کی سزا سخت ہے لیکن اس کے لئے بھی اسلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ تم سزا کو اپنے ہاتھ میں نہ لو بلکہ معاملہ قاضی کے پاس لے جاؤ۔ وہ سزا دے گا۔
ایک شخص رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اس وقت یہودی سزا پر عمل کیا جاتا تھا۔ اس شخص نے عرض کیا یا رسول اﷲ اگر خاوند دیکھے کہ اس کی بیوی بدکاری کر رہی ہے تو کیا اُسے حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مار ڈالے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اسے خود سزا دینے کا حق نہیں۔ موسوی شریعت میں زنا کی سزا قتل تھی۸؎ اور اس وقت تک اس بارہ میں موسوی شریعت کے مطابق ہی عمل کیا جاتا تھا۔ اس شخص نے عرض کیا جب زنا کی سزا قتل ہے تو خاوند جب اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو بدکاری کرتے دیکھے تو کیوں نہ اسے قتل کر دے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا اسے سزا دینے کا حق نہیں۔ سزا دینے کا حق قاضی کو ہے۔ اگر وہ اپنی بیوی کو بدکاری کرتے دیکھتا ہے اور اسے قتل کر دیتا ہے تو اسے قاتل سمجھ کر موت کی سزا دی جائے گی۔۹؎ اب دیکھو اسلام اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اسلام یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کہیں بدلہ لینے میں جلد بازی سے کام تو نہیں لیا گیا۔ کیا جرم کی تحقیق کے سامان پوری طرح مہیا کئے گئے ہیں اور یہ باتیں قاضی دیکھ سکتا ہے۔ دوسرا نہیں۔ اگرچہ یہ انفرادی حق ہے لیکن کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے لے۔ مجرم کو سزا صرف حکومت کے ذریعہ ہی دلائی جاسکتی ہے۔
پھر فرضیت جہاد ہے۔ جہاد بھی اکیلا شخص نہیں کر سکتا بلکہ جب جہاد فرض ہو گا تو ساری قوم لڑے گی۔ پس جہاد بھی ایک اجتماعی چیز ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ جب امام کہے کہ اب جہاد کا موقع ہے تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فریضہ کو پورا کرے اور اگر کوئی مسلمان اس فرض کو پورا نہیں کرتا تو وہ شریعت اور قانون کا مجرم ہے۔ یہ ایک اجتماعی حُکم ہے پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام انفرادی مذہب ہے وہ غلطی پر ہے۔ اسلام انفرادی مذہب نہیں بلکہ اجتماعی مذہب ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام ایک طرف تو انفرادیت کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے اور نہ صرف تسلیم کرتا بلکہ اسے ضروری قرار دیتا ہے اور دوسری طرف وہ اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں اکٹھی کیسے ہو سکتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مدد گار ہیں۔ ان دونوں کو جمع کئے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی۔ جس مذہب نے صرف انفرادیت کی تعلیم دی ہے وہ بھی تباہ ہؤا ہے۔ کوئی مذہب اور کوئی حکومت اپنے لئے ترقی کا راستہ نہیں کھول سکتی جب تک کہ وہ ان دونوں چیزوں پر بیک وقت عمل نہ کر رہی ہو۔ اگلے زمانہ میں خدا تعالیٰ سے تعلق محض انفرادیت کے طور پر ہوتا تھا لیکن صحیح راستہ انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان ہے جیسے اگلے جہاں میں ایک پل صراط ہو گی۔ یہ اس دُنیا کی پُل صراط ہے۔ اسلام دونوں چیزوں کو ایک وقت میں بیان کرتا ہے۔ ایک طرف وہ انسان کو اتنا بلند کرتا ہے کہ اسے عرش پر پہنچا دیتا ہے اور اس کے درمیان اور خدا تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ باقی نہیں رہتا اور دوسری طرف جس طرح یونانی جب لڑتے ہیں تو وہ آپس میں ایک کو دوسرے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں تا اگر وہ مریں تو اکٹھے مریں۔ اسی طرح اسلام بھی ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ باندھ دیتا ہے۔ پس حقیقت یہی ہے کہ اتحاد موجودہ حالات اور افراد سے اتحاد کا نام ہے۔ اتحاد اس بات کا نام ہے کہ موجودہ حالات اور افراد سے کام لیا جائے اور ترقی کے معنے یہ ہیں کہ موجودہ حالات اور افراد میں اختلاف پیدا کیا جائے۔ جب تک تجربہ اور تھیوری سے اختلاف نہیں کیا جاتا اس وقت تک ترقی نہیں ہو سکتی۔ غرض انفرادیت کے بغیر ترقی مُشکل ہے اور اتحاد کے بغیر امن قائم رکھنا مشکل ہے۔ قرآن کریم نے ان دونوں کو تسلیم کیا ہے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۱۰؎ اے مسلمانو! تم آپس میں اختلاف نہ کرو۔ اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے تو کمزور ہو جاؤ گے اور دُشمن سے شکست کھا جاؤ گے۔ تم ہمیشہ اکٹھے رہنا اور ایک دوسرے کے مدد گار رہنا اور چونکہ اکٹھے رہنے میں تمہیں کئی مُشکلات پیش آئیں گی اس لئے تمہیں صبر سے کام لینا ہو گا۔ جب تم اجتماعیت کی طرف آؤگے تو کئی جھگڑے پیدا ہوں گے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی شکوہ پیدا ہو جایا کرتاتھا۔ ایک دفعہ آپ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے ایک شخص نے کہا۔ اس تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا جارہا۔ اس پر رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرمایا۔ اے شخص اگر مَیں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا؟ حضرت عمر ؓ بھی وہاں موجود تھے۔ آپ نے تلوار نکال لی اور عرض کیا یَا رَسُوْلَ اﷲ! آپ اجازت دیں تو مَیں اس کی گردن کاٹ دوں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا جانے دو۔ اس شخص نے بے شک غلطی کی ہے لیکن اگر اس کی گردن کاٹ دی گئی تو لوگ کہیں گے محمد (صلی اﷲ علیہ وسلم) اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتا ہے۔۱۱؎ پس اگر اُس زمانہ کے لوگ بھی شکوہ کر دیتے تھے اور اختلاف کا اظہار کر دیتے تھے تو پاکستان اور شام اور عراق اور اُردن کے لوگ کیوں نہیں کر سکتے؟ غلطیاں ہو جاتی ہیں اور لوگ شکوہ بھی کرتے ہیں پھر تم کیا کرو۔ فرمایا۔ واصبروا۔ تم صبر کرو اور مجھ پر اُمید رکھو۔ مَیں خود اس کا بدلہ دوں گا۔ پھر فرماتا ہے ۱۲؎ اے مسلمانو! تم سارے مل کر اﷲ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو۔ اگر تم نے تفرقہ کیا تو اس کے نتیجہ میں تمہاری طاقت زائل ہو جائے گی۔ یہ اجتماعی اتحاد کی دعوت ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے مذہب کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں وہ بے دین ہیں۔ گویا قرآن کریم اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کرتا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے کلام میں بھی اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں اِخْتِلَافُ اُمَّتِیْ رَحْمَۃٌ۔ ۱۳؎میری اُمت کا اختلاف رحمت ہے۔ اب دیکھو رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم اختلاف کو بجائے عذاب کے رحمت قرار دیتے ہیں اور اختلاف کرنے والے دونوں فریق کو اپنی اُمت قرار دیتے ہیں لیکن دوسری طرف آپ ؐ فرماتے ہیں۔ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْراً فَلَیْسَ مِنَّا۱۴؎ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہؤا وہ ہم میں سے نہیں۔ گویا آپ نے ایک طرف یہ کہا کہ اختلاف رحمت ہے اور دوسری طرف یہ کہا کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہو گا وہ ہم میں سے نہیں۔ یعنی وہ مسلمان نہیں رہے گا۔ ایک صحابی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا ۔ یَا رَسَوْلَ اﷲ! جب تفرقہ ہو گا تو مَیں کیا کروں۔ کیا مَیں تلوار لوں اور لوگوں کا مقابلہ کروں۔ آپ نے فرمایا نہیں۔ اُس صحابی نے عرض کیا۔ یَا رَسَوْلَ اﷲ! پھر مَیں کیا کروں؟ تو آپ نے فرمایا۔ عَلَیْکَ بِالْجَمَاعَۃِ۔۱۵؎ جس طرف جماعت ہو اسی طرف تم چلے جاؤ۔ گویا آپ نے ایک طرف انفرادیت پر اس قدر زور دیا ہے کہ اختلافِ اُمت کو رحمت قرار دے دیا اور دوسری طرف یہ شدت ہے کہ اگر تم پر ظلم بھی کیا جائے تب بھی تم اختلاف نہ کرو بلکہ جماعت کا ساتھ دو۔ غرض رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن کریم دونوں نے اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سے اصول ہیں جنہیں اختیار کر کے ہم اتحاد اور انفرادیت کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ۱۶؎ اﷲ تعالیٰ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے کہتا ہے۔ اے میرے رسول! تم عیسائیوں اور یہودیوں سے کہہ دو کہ ہم میں اور تم میں جو نقطۂ مرکزی ہے مَیں اس پر تمہیں متحد ہو جانے کی دعوت دیتا ہوں۔ وہ نقطۂ مرکزی کیا ہے؟ وہ نقطۂ مرکزی یہ ہے کہ تم بھی کہتے ہو خدا ایک ہے اور ہم بھی کہتے ہیں خدا ایک ہے۔ آؤ ہم اسی بات پر اکٹھے ہو جائیں۔ بے شک تم بیت المقدس کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھو اور مَیں قبلہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھوں گا لیکن یہ نقطہ ہم دونو میں مشترک ہے۔ آؤ ہم اس پر اکٹھے ہو جائیں اور عہد کر لیں کہ ہم خدا کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کریں گے۔ تم بے شک صرف سجدہ کرو اور ہم رکوع اور سجدہ کریں۔ تم ہفتہ میں ایک دن عبادت کرو اور ہم ساتوں دن عبادت کریں۔ ہم جمعہ کو اکٹھے ہوں اور تم اتوار کو اکٹھے ہو جاؤ لیکن ہم اس بات پر اتحاد کر لیں کہ ہم صرف خدا تعالیٰ کا نام لیں گے اور کسی کو اس کا شریک قرار نہیں دیں گے۔ اب دیکھو یہودیت اور عیسائیت الگ مذاہب ہیں لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ ان دونوں میں ایک نقطۂ مرکزی ہے اور وہ توحید ہے۔ آؤ ہم اس پر اکٹھے ہو جائیں اور باقی اختلافات کو رہنے دیں۔ گویا پہلا گُر اتحاد کا یہ معلوم ہؤا کہ اگر تم صحیح طور پر اتحاد چاہتے ہو تو پہلے اختلاف کو تسلیم کرو۔ جو شخص یہ کہے گا کہ مَیں اختلافات مٹا کر اتحاد کروں گا وہ کامیاب نہیں ہو گا۔ وہی شخص کامیاب ہو گا جو جزوی اختلافات کو چھوڑ دے۔ لائڈ جارج کا ایک مشہور مقولہ ہے جب برطانیہ کو فرانس اور جرمنی سے خطرہ پیدا ہؤا تو لائڈجارج فرانس گئے اور اُنہوں نے حکومت فرانس سے بات چیت کی۔ جب واپس آئے تو لوگوں نے کہا۔ کیا تمہیں کامیابی حاصل ہو گئی ہے اور کیا برطانیہ اور فرانس کا اتحاد ہو گیا ہے؟ لائڈ جارج نے کہا ہم نے اس بات پر اتحاد کر لیا ہے کہ آپس میں اختلاف کو قائم رکھیں۔۱۷؎ اس اتحاد کی وجہ سے وہ محفوظ ہو گئے۔ اُنہوں نے اس بات پر اتحاد کیا تھا کہ ہم آپس کے اختلاف کو تسلیم کرتے ہیں لیکن باوجود اس اختلاف کے ہم اکٹھے رہیں گے اور دُشمن کا مل کر مقابلہ کریں گے۔ لائڈ جارج نے تو یہ بات آج کہی ہے لیکن اسلام نے ساڑھے سترہ سَو سال قبل یہ بات کہی تھی کہ اے عیسائیو اور یہودیو! تم ہم سے کیوں جھگڑتے ہو کیا تم میں اور ہم میں اتحاد کا کوئی پوائنٹ موجود ہے یا نہیں؟ اور اگر اتحاد کا کوئی پوائنٹ موجود ہے تو آؤ پہلے اسی کو لے لو اور اس پر متحد ہو جاؤ۔ پس اتحاد المسلمین کے لئے ضروری ہے کہ باہمی اختلافات کو چھوڑدیا جائے اور اتحاد کے جو ممکن پہلو ہوں انہیں لے لیا جائے۔ اگر کوئی کہے کہ اگر تم صرف اتحاد کے پہلو لے لو تو اختلاف والی باتوں میں کیا کرو گے تو اس کا حل بھی قرآن کریم نے بتا دیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے جن باتوں میں تمہارا اختلاف ہے ان میں تم اپنی اپنی کتاب اور تعلیم کے مطابق چلو اور اس کے مطابق اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کرو۔ فرمایا یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس انجیل اور تورات ہے وہ ان پر عمل کر سکتے ہیں جیسے فرمایا ۱۸؎ پس ایک طرف تو یہ کہا کہ یہودی اور عیسائی اپنی اپنی تعلیم پر چلیں اگر وہ اپنی تعلیم پر نہیں چلیں گے تو وہ خائن ہوں گے اور دوسری طرف یہ کہا کہ تم اکٹھے ہو جاؤ یعنی دونوں پوائنٹ کو لیا ہے کہ اختلاف قائم کرو اور اتحاد کے پوائنٹ کو لے کر جو تم دونوں کے درمیان مشترک ہو اکٹھے ہو جاؤ۔
پھر یہ قدرتی بات ہے کہ اگر ہم اکٹھے ہو کر بیٹھ جائیں گے تو آہستہ آہستہ اتحاد کی کئی صورتیں نکل آئیں گی۔ فلاں مردہ باد اور فلاں زندہ باد کے نعروں سے کچھ نہیں بنتا۔ اگر کوئی نقطۂ مرکزی ایسا ہے جس پر اتحاد ہو سکتا ہے تو اس کو لے لو کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ اختلافات قائم رکھو بلکہ بعض دفعہ یہاں تک کہتا ہے کہ ہم اختلافات رکھنے میں تمہاری مدد کریں گے۔ پھر یہ بیوقوفی کی بات ہے کہ ہم ان اختلافات کی وجہ سے اتحاد کو چھوڑ دیں۔ مَیں نے عملی طور پر بھی اس کا تجربہ کیا ہے۔
جب تحریکِ خلافت کا جھگڑا شروع ہؤا اور مولانا محمد علی اور شوکت علی نے یہ تحریک شروع کی کہ انگریزوں کو کہا جائے کہ وہ سلطان ترکی کو جسے ہم مسلمان خلیفہ تسلیم کرتے ہیں کچھ نہ کہیں ورنہ ہم سب مسلمان مِل کر ان کا مقابلہ کریں گے تو اُنہوں نے باقی مسلمانوں کو بھی دعوت دی کہ وہ اس تحریک میں ان کے ساتھ شامل ہوں۔ اور اس کے تعلق میں لکھنؤ میں ایک جلسہ کیا گیا۔ مَیں نے جب اس بات پر غور کیا تو مَیں نے دیکھا کہ شیعہ اور اہل حدیث سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے اور نہ خوارج اسے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں اور پھر ہم احمدی بھی اس بات کے خلاف ہیں۔ ہمارا ہیڈ خود خلیفہ ہوتا ہے۔ مَیں نے خیال کیا کہ یہ سارے لوگ یہ بات کیوں کہیں گے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ مانتے ہیں اس لئے اگر تم نے اس پر ہاتھ ڈالا تو ہم سب متحد ہو کر اس کی امداد کریں گے۔ مَیں نے جلسہ میں شرکت کے لئے ایک وفد لکھنؤ بھیجا اور انہیں تحریری پیغام بھجوایا کہ اگر تم اس صورت میں انگریزوں کے پاس جاؤ گے تو وہ کہیں گے کہ خوارج، اہل حدیث اور شیعہ مسلمان عبدالحمید کو اپنا خلیفہ نہیں مانتے تم کیسے کہتے ہو کہ وہ سب مسلمانوں کا خلیفہ ہے۔ مَیں نے کہا تم یوں کہو کہ سلطان ترکی جسے مسلمانوں کی اکثریت خلیفہ تسلیم کرتی ہے اور باقی مسلمان بھی ان کا احترام کرتے ہیں اگر تم نے اسے کچھ کہا تو ہم سب مسلمان مِل کر تمہارا مقابلہ کریں گے اگر تم یوں کہو گے تو کام بن جائے گا۔ کسی احمدی، شیعہ یا اہل حدیث کو یہ جرأت نہیں ہو سکے گی کہ وہ کہے سلطان عبدالحمید کو مار دو۔ وہ دل میں بے شک کہے لیکن اس کا زبان سے اظہار نہیں کرے گا۔ مولانا شوکت علی کی طبیعت جوشیلی تھی۔ جب وفد میرا خط لے کر گیا تو اُنہوں نے کہا یہ تفرقہ کی بات ہے۔
پندرہ دن کے بعد اہلِ حدیث کی طرف سے اعلان شائع ہؤا کہ ہم سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے، شیعوں کی طرف سے بھی اس قسم کا اعلان شائع ہؤا اور پھر سر پھٹول شروع ہو گئی۔ خوارج اس مُلک میں موجود نہیں تھے ورنہ وہ بھی اس قسم کا اعلان کر دیتے اور پھر سال ڈیڑھ سال کے بعد خود تُرکوں نے بھی اُسے جواب دے دیا تین چار سال کے بعد شملہ میں ہم سب ملے تو مولانا محمد علی نے کہا کتنا اچھا کام تھا لیکن آخر ہم اس میں ناکام ہو گئے مسلمانوں میں تفرقہ ہو گیا اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ مَیں نے کہا مولانا مَیں نے مشورہ دے دیا تھا کہ یہ نہ لکھا جائے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو خلیفہ مانتے ہیں کیونکہ اہلِ حدیث ، خوارج ، شیعہ اور ہم احمدی اسے خلیفہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ کہا جائے کہ سلطان ترکی جس کو مسلمانوں میں سے اکثریت خلیفہ مانتی ہے اور جو خلیفہ نہیں مانتے وہ بھی ان کا احترام کرتے ہیں، اگر میری بات مان لی جاتی تو یہ ناکامی نہ ہوتی۔ اُنہوں نے کہا آپ نے یہ مشورہ ہمیں دیا ہی نہیں۔ مَیں نے کہا آپ کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کو دیا تھا مگر اُنہوں نے کوئی توجہ نہ کی۔ مَیں نے کہا اگر آپ میرا مشورہ مان لیتے تو اہلِ حدیث ، خوارج اور شیعہ کو شکایت پیدا نہ ہوتی۔ آپ یہ لکھتے کہ اکثریت مسلمانوں کی سلطان ترکی کو خلیفہ مانتی ہے اور اقلّیت اسے اپنے اقتدار کا نشان مانتی ہے۔ وہ افسوس کرنے لگے کہ مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ پس شیعہ سُنّی اور حنفی وہابی اور احمدی غیر احمدی کے اختلافات کو چھوڑ دیا جائے اور ان کی اتحاد کی باتوں کو لے لیا جائے۔ یہی اتحاد کا اصول ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے عیسائیوں اور یہودیوں کو اس بات کی دعوت دی تھی۔
پھر دوسرا اصول اتحاد کا یہ ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کر دیا جائے۔ اگر تم دیکھتے ہو کہ ہر بات میں اتحاد نہیں ہو سکتا تو تم چھوٹی باتوں کو چھوڑ دو اور بڑی باتوں کو لے لو۔ دیکھو قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ جہاں توحید کا ذکر کرتا ہے وہاں ماں باپ کا بھی ذکر کرتا ہے اور ان کی اطاعت اور فرمانبرداری پر زور دیتا ہے لیکن جب انبیاء دُنیا میں آئے اور ان کی قوم نے یہ کہا کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے تو خدا تعالیٰ نے یہاں تک کہہ دیا کہ کیا تم جاہلوں کی بات مانتے ہو۔ باپ دادے کی عزت بے شک بڑی ہے لیکن جب ان کا مقابلہ خدا تعالیٰ سے ہو جائے تو انہیں چھوڑ دو۔پس اتحاد کا دوسرا گُر یہ ہے کہ تم چھوٹی باتوں کو بڑی باتوں پر قربان کرنے کی روح پیدا کرو۔ سچائی کو ہر گز نہ چھوڑو وہاں قومی رسم و رواج کو چھوڑنا پڑے تو کوئی بات نہیں۔
پس ان دونوں باتوں پر عمل کیا جائے تو اتحاد ہو سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان ، لبنان، عراق، اُردن، شام، مصر، لیبیا، ایران، افغانستان، انڈونیشیا اور سعودی عرب یہ گیارہ مُسلم مُمالک ہیں جو آزاد ہیں اور ان سب میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اگر انہوں نے آپس میں اتحاد کرنا ہے تو پھر اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے ان کا فرض ہے کہ وہ سوچیں اور غور کریں کہ کیا کوئی ایسا پوائنٹ بھی ہے جس پر وہ متحد ہو سکتے ہیں اور اگر کوئی ایسا پوائنٹ مل جائے تو وہ اس پر اکٹھے ہو جائیں اور کہیں کہ ہم یہ بات نہیں ہونے دیں گے۔ مثلاً یہ سب مُمالک اس بات پر اتحاد کر لیں کہ ہم کسی مُسلم مُلک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور بجائے اس کے کہ اس بات کا انتظار کریں کہ پہلے ہمارے آپس کے اختلافات دُور ہو جائیں وہ سب مِل کر اس بات پر اتحاد کرلیں کہ وہ کسی مُلک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور سب مِل کر اس کی آزادی کی جدوجہد کریں گے جس طرح رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دی تھی کہ آؤ ہم توحید پر جو ہم سب میں مشترک ہے متحد ہو جائیں اسی طرح ہم سب مسلمان اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ ہم کسی کو غلام نہیں رہنے دیں گے۔ اختلافات بعد میں دیکھے جائیں گے۔ اسی طرح پاکستان کے مسلمانوں کے آپس کے جھگڑے ہیں اور ان میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن ان سب ممالک میں کوئی چیز مشترک بھی ہے وہ اس پر متحد ہو سکتے ہیں مثلاً یہی بات لے لو کہ ہم نے پاکستان کو ہندوؤں سے بچانا ہے یا کشمیر حاصل کرنا ہے تم ان چیزوں کو لے لو اور بجائے آپس میں اختلاف کرنے کے ان چیزوں پر متحد ہو جاؤ بعد میں ملنے ملانے سے دوسرے اختلافات بھی دُور ہو جائیں گے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ اختلاف کو لے لیا جاتا ہے اور اتحاد کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ ہر فرقہ دوسرے فرقہ کو جس سے اُسے اختلاف ہو واجبُ الْقتل قرار دے دیتا ہے حالانکہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔ کیا یہ لوگ حضرت رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے زیادہ مومن ہیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم تو عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی کہتے ہیں کہ آؤ ہم توحید پر جو ہم سب میں مشترک ہے اکٹھے ہو جائیں لیکن تم ایسا نہیں کرتے اور وِینَس کے تاجر کی طرح جب تک تم دوسرے کا گوشت نہ کاٹ لو اپنی جگہ سے نہیں ہٹتے۔ عالم اسلامی کا اتحاد بھی اسی طرح ہو گا ۔ اگر مسلم ممالک آپس میں اتحاد کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ اختلاف کے باوجود ہم دُشمن سے اکٹھے ہو کر لڑیں گے۔ آؤ ہم بھی اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ باہمی اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے سے لڑیں گے نہیں۔
میری طبیعت خراب تھی اور خیال تھا کہ مَیں تھوڑی دیر تقریر کر سکوں گا لیکن خدا تعالیٰ نے توفیق دے دی اور مَیں اتنی دیر بول سکا ہوں۔ اب اذان ہو رہی ہے اس لئے مَیں تقریر کوختم کرتا ہوں۔
اسلام پر ایک نازک زمانہ آرہا ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور خطرات کو دیکھیں اور کم از کم اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ذکر مٹنے نہیں دیں گے۔‘‘ (الفضل ربوہ ۱۲، ۱۹؍دسمبر ۱۹۶۲ئ)
۱؎ ابراہیم: ۸
۲؎ مسلم کتاب الایمان باب بیان کون النہی عن المنکرمن الایمان (الخ)
۳؎
۴؎ الروم: ۲۳ ۵؎ البقرۃ: ۱۴ ۶؎ البقرۃ:۱۷۱
۷؎ اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۵۵۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء
۸؎ استثناء باب ۲۲ آیت ۲۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ء
۹؎
۱۰؎ الانفال: ۴۷
۱۱؎ بخاری کتاب الامناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام
۱۲؎ اٰل عمران: ۱۰۴
۱۳؎ موضوعات مُلّا علی قاری صفحہ ۱۷ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ ھ
۱۴؎ مسلم کتاب الامارۃ باب الامر بلزوم الجماعۃ عند ظہورالفِتَنِمیں
’’مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَۃَ شِبْرًا فَمَاتَ فَمِیْتَۃٌ جَاھِلِیَّۃٌ‘‘ کے الفاظ ہیں۔
۱۵؎ ابن ماجہ کتاب الفتن باب الْعُزْلَۃُ (مفہوماً)
۱۶؎ اٰل عمران: ۶۵
۱۷؎
۱۸؎ المائدۃ: ۴۵



سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو
(فرمودہ ۲۱؍اکتوبر۱۹۵۰ء برموقع افتتاح سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ بمقام ربوہ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :-
’’دنیا میں جب بھی کوئی اجتماع ہوتا ہے تو ہمیشہ اُسے ایک مناسب صورت دی جاتی ہے اوراسلام نے بھی اِس کو ملحوظ رکھا ہے۔ مثلاً ہماراروزانہ کا اجتماع نماز ہے ۔نماز کو ہمارے خدانے شروع ہی سے ایک ایسی شکل دی ہے جوسارے مسلمانوں میں یکساں نظر آتی ہے۔ یعنی سب مسلمانوںکا ایک طرف منہ کرنا ،پھر ایک خاص وقت میں خاص قسم کی حرکات کرنا یعنی نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اوپر اُٹھانا، پھر سینہ پر ہاتھ باندھنا،منہ قبلہ رُخ کرنا، رکوع کرتے وقت سب کا گھٹنوں پرہاتھ رکھ کر جھک جانا، سجدہ میں منہ اورناک زمین پر لگانا اوراسی طرح کی اَور مختلف حرکات کرنا اور اِن سب باتوں کاایک ہی وقت میں تمام کے تمام مسلمانوں میں جاری ہونا اس میں اس طرف اشارہ کیا گیاہے کہ وحدتِ کامل وحدتِ صوری کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ لیکن میں دیکھتاہوں کہ خدام میں وہ وحدتِ صوری پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی ۔کچھ خدام تو ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اورکچھ ہاتھ لٹکائے کھڑے ہیں۔کچھ خدام ایک طرف دیکھ رہے ہیں توکچھ دوسری طرف دیکھ رہے ہیں گویا اِس تھوڑے سے وقت میں بھی خدام اِس تنظیم کو جو درحقیقت اسلام نے ہی قائم کی ہے لیکن مسلمانوں نے اِسے بھُلا دیا ہے قائم نہیں رکھ سکے۔ دوسرے صفیں ٹیڑھی ہیں ۔کوئی خادم آگے کھڑا ہے تو کوئی پیچھے کھڑا ہے ۔بیشک خیمے لگے ہوئے ہیںاور خدام ان کے آگے کھڑے ہیں لیکن جہاں خیمے ترتیب کے ساتھ ایک لائن میں لگائے گئے ہیں وہاں چاہئے تھاکہ صفیں بھی ترتیب کیساتھ لگائی جاتیں۔
پس میری پہلی ہدایت تویہ ہے کہ آئندہ اگر خیمے لگائے جائیں تو وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک ہی لائن اورایک ہی صف میں ہوں ۔
دوسرے چونکہ خدام نے ایک خاص وقت میں صف میں کھڑا ہوناہوتاہے اِس لئے خیموں کے آگے ایک لائن لگا دی جائے جس پر تمام خدام ایڑیاں رکھ کرکھڑے ہوں۔ صف بندی ہمیشہ ایڑیوں کے ساتھ ہوتی ہے اُنگلیوں کے ساتھ نہیں ہوتی ۔اگر صف بندی اُنگلیوں کے لحاظ سے کی جائے گی تو کسی کا پاؤں چھوٹا ہوتا ہے اور کسی کا بڑا اِس لئے کسی کا پائوں آگے ہوجائے گا اورکسی کا پیچھے ۔پس صرف ایڑی ہی ایسی چیز ہے جس پر صف بندی کی بنیاد رکھی جاتی ہے اِس لئے آئندہ کے لئے یہ بات نوٹ کرلی جائے کہ ہرخیمے کے آگے ایک لائن کھینچ دی جایا کرے تا اُس پر خدام سیدھی ایڑیاں رکھ کر کھڑے ہوجایا کریں۔ اِس کے علاوہ صف بندی کی خاص طورپر مشق کرانی چاہئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نمازمیں جس کی صف سیدھی نہیں اُس کادل ٹیڑھا ہے۔۱؎ ہمیں جب عید کے موقع پر یا کسی جنازہ کے لئے کھلے میدان میں صفیں بندھوانی پڑتی ہیں۔ توباوجود پوری کوشش کے وہ ہمیشہ خراب رہتی ہیںکیونکہ مسجدوں میں دیواروں اورصفوں کی وجہ سے صفیں سیدھی باندھی جاسکتی ہیں لیکن کھلے میدان میں ایسا مشکل ہوتاہے۔اِس کی وجہ یہ ہے کہ جوانی میں صف سیدھی رکھنے کی عادت نہیں ڈالی جاتی۔ پس خدام کو ہدایت دینی چاہئے کہ وہ صف بندی کی مشق کریں اور پھر اپنی اپنی جگہوں پرجاکر باقی خدام کو صف بندی کی مشق کرائیں۔
فوجیوں کودیکھ لو ان کی صفیں ہمیشہ سیدھی ہوتی ہیں۔ ہمارے لوگ صف سیدھی کرنے کے لئے نیچے جھک کر دیکھتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتے۔ فوجیوں میں صف سیدھی کرنے کا طریق یہ ہے کہ وہ سیدھے چھاتی نکال کر کھڑے ہوجاتے ہیں اورکندھے کے ساتھ کندھا ملا لیتے ہیں۔ پھر آنکھ کو دائیں پھیر کر دیکھتے ہیں کہ کہیں صف ٹیڑھی تونہیں۔ اگر صف ٹیڑھی معلوم ہوتو وہ فوراً سیدھی کرلیتے ہیں۔ پس جہاں سالانہ اجتماع کے موقع پر مختلف قسم کی مشقیں کرائی جائیں وہاں خدام کو صف بندی کی بھی عادت ڈالی جائے اوریہ کام اِسی اجلاس سے شروع کردینا چاہئے۔ قائد اورزعماء جو یہاں موجودہیں، اِنہیں صف بندی کے اصول بتا ئے جائیں جب آخری دن آئے گا یعنی پرسوں صبح تو کوئی وقت نکال کر میںآپ کو اکٹھا کروںگا اور کھڑاکرکے دیکھوں گا کہ آیا آپ صحیح طورپر اپنی صفیں سیدھی کرسکتے ہیںاور آیا قائدین اورزعماء کووہ طریق یاد ہوگیا ہے جسے ملحوظ رکھ کرخدام کوصفیں سیدھی رکھنے کی مشق کرائی جائے گی۔
تیسری بات مَیں یہ بتانا چاہتاہوں کہ جب ایسے کام کئے جائیں تو صحیح طریق یہ ہوتاہے کہ خدام سیدھے کھڑے ہوجائیں اوراپنی نظریں سامنے رکھیں ۔اورخواہ کتنی ہی اہم بات کیوں پیدانہ ہو وہ اپنی نظریں سامنے سے نہ ہٹائیں ۔یہ چیز بھی اسلام میں جاری کی گئی ہے ۔نماز میں یہ حکم ہے کہ نمازی اپنی نظر اپنی سجدہ گاہ پررکھے ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز میں جو شخص دائیں یا بائیں دیکھتاہے یا اس کی نظر نیچے اور اوپر پھرتی ہے قریب ہے کہ خداتعالیٰ اُس کی بینائی کواُچک لے ۔اب دیکھ لو یہ کتنا خطرناک وعید ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا کرنیوالے کو اندھا کردے گا ۔غرض وہ سارے احکام جو اَب تنظیم کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اسلام میں پہلے سے موجود ہیں۔ ہمیں یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ صرف نماز میں ہی نہیں بلکہ تنظیم کے جو مواقع بھی پیش آئیں اُن میں ہمیں اِنہی اصولوں پر کاربند رہنا چاہئے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تمام خدام جو کھڑے ہیں ان میں سے کچھ دائیں طرف دیکھ رہے ہیں تو کچھ بائیں۔ کچھ اوپر دیکھ رہے ہیں اور کچھ نیچے حالانکہ اسلامی اصول کے مطابق چاہئے تھا کہ آپ سب سامنے دیکھتے۔ میرا خطیب ہونے کے لحاظ سے یہ کام ہے کہ چاروں طرف دیکھوں میں دیکھتا ہوں کہ اِس وقت جب میں سامنے دیکھنے کی نصیحت کررہاہوں اِس وقت بھی خدام دائیں اور بائیں اور اوپر اورنیچے دیکھ رہے ہیں۔ انسان کو کم از کم نصیحت کے وقت تواِس پر عمل کرلینا چاہئے۔ بدقسمت ہے وہ شخص جو تنظیم کے وقت اپنا کام بھول جاتاہے لیکن کم از کم وہ کمزوری جو ناقابلِ معافی ہے اور حیرت انگیز ہے وہ یہ ہے کہ انسان اُسی وقت جبکہ نصیحت ہورہی ہو اُس کی خلاف ورزی کرے۔
اِس کے بعد مَیں آپ لوگوں کو بتانا چاہتاہوں، اخبارات پڑھنے والے جانتے ہیں اور جن جماعتوں میں میں گیا ہوں وہ بھی جانتی ہیں کہ میں اڑھائی ماہ سے شدید کھانسی میں مبتلا ہوں اور میرا گلا بیٹھا ہؤا ہے یہاں آکر کچھ آرام آگیا تھا لیکن خطبہ سے دوبارہ تکلیف شروع ہوگئی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں گرد اُڑتی ہے اور گرد کھانسی کے لئے مُہلک ہوتی ہے اس لئے باوجود اس خواہش کے کہ میں اکثر وقت یہاں گزاروں مَیں ایسا نہیں کرسکوں گا ۔نائب صدر میری جگہ پر کام کریں گے سوائے اُن وقتوں کے جن میں مَیں یہاں ٹھہرنے کا فیصلہ کروں یا میری صحت مجھے ٹھہرنے کی اجازت دے اِس لئے میں خدام کو یہ نصیحت کرتاہوں کہ جب وہ کوئی کام کررہے ہوں اور وہ مجھے یہاں آتا دیکھیں وہ اپنی آنکھیں اُسی طرح بند کرلیں گے کہ گویا اُنہوں نے مجھے دیکھاہی نہیں۔ اگروہ مجھے دیکھ کر میری طرف بھاگیں گے تواِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گرداُڑے گی اورمیں بیمار ہوجائوں گا اور آئندہ اجتماع میں شریک نہ ہوسکوں گا ۔سوائے دو تین اشخاص کے جو میرے ساتھ آنے اور جانے کے لئے مقرر ہیں ۔دوسرے خدام کو میرے ساتھ نہیں چلنا چاہئے۔ بلکہ اگر مخصوص عملہ کے سوا کوئی اَورشخص میرے ساتھ آرہاہو تواُنہیں چاہئے کہ وہ اُسے الگ کرکے سمجھا دیں کہ اُس کا اِس طرح میرے ساتھ جانامنع ہے۔ اور پرائیویٹ سیکریٹری کو چاہئے کہ وہ میرے ساتھ آنے والے مخصوص عملہ پر مخصوص لیبل لگا دیں تاکہ ان کے علاوہ اگر کوئی اَورشخص میرے ساتھ آرہاہو تو کارکن اُس کو ہٹاسکیں۔
اس کے بعد مَیں خدام الاحمدیہ کو ان کے ان مستقل فرائض کی طرف توجہ دلانا چاہتاہوں جو اسلام کی ابتداء سے ان پر عائد ہوتے ہیں بلکہ دنیا کی پیدائش سے ان پر عائد ہوتے ہیں لیکن مختلف وقتوں میں لوگ اُنہیں بھول جاتے رہے ہیں اور اُنہیں یاد کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں مبعوث ہوتے رہے ہیں ۔نمازوں کے طریق بدلتے رہے ہیں، اعمال کی تفصیلات بدلتی رہی ہیں۔ روزوں کے طریق بدلتے رہے ہیں، حج کی جگہیں بھی بدلتی رہی ہیں ، حج کی کیفیتیں بھی بدلتی رہی ہیں، زکوٰۃ کے طریق بھی بدلتے رہے ہیںاور زکوٰۃ کے نصاب بھی بدلتے رہے ہیں لیکن بعض ایمانی، اعتقادی اورعملی اصول ایسے ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ابھی تک ایک ہی رہے ہیں اورقیامت تک ایک ہی رہیں گے۔ نہ حضرت آدم علیہ السلام نے ان کے خلاف کیا، نہ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کے سوا کوئی اورتعلیم دی، نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے انحراف کیا نہ حضرت موسیٰ اورحضرت عیسیٰ علیھما السلام نے ان سے الگ ہوکرتعلیم دی اورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جُداگانہ تعلیم دی ۔ حضرت آدم علیہ السلام سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر قیامت تک وہ اصول ایک ہی رہے ہیں، ایک ہی ہیں اورایک ہی رہیں گے۔ لیکن بعض زمانے ایسے آتے ہیں جب لوگ ان اصولوں کو بھول جاتے ہیں اوربعض زمانے ایسے آئے ہیں جب مؤمنوں کوبڑے تعہد اور سختی کے ساتھ اُن پر عمل کرنیکی ضرورت ہوتی ہے۔
ان اصولوں میں سے پہلی چیز ایمان ہے ۔
ایمان کی اسلامی تشریح تویہ ہے کہ ایمان اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ کے فارمولہ پر جس کو عربی میں کلمہ کہتے ہیں یقین اورایمان رکھے۔ لیکن دیکھ لو جب یہ کہا جاتاہے کہ ایمان کیا چیز ہے یا اسلام کیا چیز ہے؟ توتم کلمہ شہادت پڑھتے ہواورکہتے ہو اِس پرایمان اوریقین رکھنا۔ جس سے معلوم ہؤا کہ ایمان اورچیز ہے اورکلمہ شہادت اورچیز ہے۔ ایمان درحقیقت وہ قوتِ محرکہ ہے جو صداقتوں کو ماننے اور صداقتوں کو دنیا میں پھیلانے کے پیچھے عمل کررہی ہوتی ہے اَشْہَدُ اَنْ لاَّاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ وہ کلمہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور پھر اس کے بعد کے لوگوں میں قوتِ محرکہ کے طورپر رہاہے یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اِس دنیامیں موجود تھے اُس وقت بھی یہ کلمہ قوتِ محرکہ کے طورپر تھا اورآپ کے بعد کے زمانہ میں بھی یہی قوتِ محرکہ کے طورپر ہے ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت میں کوئی کلمہ نہیں تھا بلکہ یہ عقیدہ رکھناکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خداتعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں تاوہ اپنی قوم کی اصلاح کریں اوراُن کے اعمال درست کریں اِسی کو قوتِ محرکہ قراردیاگیاتھا۔ اِس سے قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام پرایمان لانا اور ان کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرنا قوتِ محرکہ قراردیاگیا تھا ۔گویا اسلام سب جگہوں پر موجود تھا لیکن اس کی شکلیں بدل گئی تھیں اِسی طرح ایمان ہر جگہ تھا لیکن قوتِ محرکہ بدلتی رہتی تھی۔
ایمان صرف کلمہ کانام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس یقین اوراس اعتماد کا جو صداقت اور اصولِ صداقت پرہو جو انسانی اعمال اورزندگی کو اسکے تابع کردے۔ بے شک کسی وقت اِس کا جزو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پرایمان لانا تھا، کسی وقت اِس کا جزو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا تھا، کسی وقت اس کا جزو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لانا تھا لیکن اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان لانا اِس کا جزو ہے ۔پس پہلی چیز جس سے کوئی قوم بنتی ہے وہ ایمان ہے ۔یہ تومذہبی چیز ہے لیکن جب ہم قوموں کی طرف جاتے ہیں توان کے اندر ایمان ایک الگ رنگ میں ہوتاہے جسے نیشنل سپرٹ یا قومی روح کہا جاتاہے۔ گویا قومی روح سیاسی ایمان ہے۔ ایک انگریز کا ایمان یہ ہے کہ حکومت کو جو مشکل بنتی ہے اُس کی حفاظت اورقیام کے لئے وہ ہمیشہ فعال رہے گا۔ ایک امریکن کا ایمان یہ ہے کہ امریکہ اور اُس کے ماتحت علاقوں کو جومشکل حاصل ہے اُس کی حفاظت اورترقی کے لئے وہ ہمیشہ کوشاں رہے گا۔ یہ سیاسی ایمان بھی اسی طرح کا ہے جس طرح کا مذہبی ایمان ہے کہ مذہب کی تما م صداقتوں پرایمان لایا جائے اوراس کے جو اصول ہیں اُن کی حفاظت اوراشاعت کے لئے اپنی ساری زندگی لگا دی جائے۔ اورجس وقت کوئی شخص یہ پختہ ارادہ کرلیتاہے کہ میں اِن صداقتوں اور اِن اصولوں پر قائم رہوں گا اوردوسروں کو بھی اِن کی طرف لائوں گا تواِسے ایمان کہتے ہیں۔
اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کا دوبارہ احیاء کیا گیا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ اسلام زندہ ہی ہے لیکن موجودہ لوگوں کا یقین اوراعتماد جو بیکار ہوچکا تھا اورخدااوراُس کا رسول اِس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اِسے دوبارہ زندہ کرنے کیلئے اِس دنیا میں تشریف لائے۔ پس احمدیت میں داخل ہونے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جس اصول صداقت کو اسلام نے پیش کیا ہے یعنی اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ اِس کو وہ صحیح سمجھتاہو ،اس کے اندر یہ یقین پایا جاتاہو کہ وہ عقیدہ جس پر اُسے قائم کیا گیا ہے وہ لفظاًلفظاً اپنے تمام اجزاء سمیت اور اپنے مجموعی معانی کے مطابق بالکل صحیح اوردرست ہے اوریہ ضروری چیز ہے کہ وہ اسے دل میں قائم رکھے اور اسے دنیا میں پھیلائے ۔یہ اِس زمانہ کا اُسی طرح کا ایمان ہے جس طرح یہ اُس زمانہ کا ایمان تھا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیامیں ظاہر ہوئے تھے۔
میں ہمیشہ دیکھتاہوں کہ اکثر لوگ ایمان کے یہ معنے سمجھتے ہیں کہ وہ ان الفاظ کو دُہرادیں جو کلمہ میں پائے جاتے ہیں یعنی اَشْہَدُ اَنْ لاَّاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ یہ کوئی لمبا فقرہ نہیں، کوئی لمبی سورۃ اورکتاب نہیں جس کو کوئی ہندو، سکھ یاعیسائی یادنہ کرسکے بلکہ یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے جس کو ایک ہندو، ایک عیسائی ،ایک سکھ ،ایک زردشتی یا شنٹوازم کا قائل بھی ایک دو منٹ کے بعد دُہرا سکتاہے۔پس اگر اِس میں کوئی جادو ہے اوریہی الفاظ انسان کو کچھ کا کچھ بنا دینے کے قابل ہیں تو ہزاروں ہزار منکرین اسلام جو قرآن مجید کو محض اسکی تکذیب کرنے کے لئے پڑھتے ہیں وہ بھی مسلمان ہوجاتے۔ لیکن حال یہ ہے کہ ہزاروں ہزار اشخاص نے ہزارہادفعہ اَشْہَدُ اَنْ لاَّاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ پڑھااوروہ پھر بھی کافر کے کافر رہے بلکہ وہ ان لوگوں سے زیادہ کافر تھے جنہوںنے اسے بغیر پڑھے ردّ کیا ۔کیونکہ ان لوگوں نے کلمہ کے الفاظ کو پڑھ کر اور اس کا مفہوم سمجھ کر اس کو ردّکیا جبکہ دوسروں نے اسے بغیر پڑھے ردّکردیا۔ پس ایمان کلمہ پڑھنے کا نام نہیں بلکہ اُن باتوں کو یاد رکھنے اوران پر عمل کرنے کانام ہے جو اِس میں بیان کی گئی ہیں ۔اور اس یقین کا نام ہے جو عمل پیدا کرتاہے اور اُس قوتِ محرکہ کا نام ہے جو عقیدہ کوعمل کی صورت میں تبدیل کرتی چلی جاتی ہے۔
اس کی مثال کے طورپر مَیں بیلنا پیش کرتاہوں ۔بیلنا اُس چیزکا نام ہے جس میں گنّے پیلے جاتے ہیں اورا ن سے رس نکالا جاتاہے ۔خالی بیلنا مفید نہیں ہوسکتا۔اگر بیلنے لگادیئے جائیں اور ان کو خالی چلاتے رہیں تو ملک کو نہ رس ملے گا اور نہ شکر۔ بیلنے سے رس اُس وقت پیداہوگی جب اُس میں گنّے ڈالے جائیں گے اورپھراُس رس سے شکر بنائی جائے گی۔پس کلمہ کے الفاظ پر خالی یقین کرلینے کی مثال آپ وہ بیلنا سمجھ لیں جس میں گنّے نہ ڈالے جائیں ۔اورقوتِ محرکہ ایسی ہی ہے جیسے بیلنے میںگنیّ ڈال کر اُسے حرکت دی جاتی ہے۔ جس طرح بیلنے کے اندر ایک ایسی مشین ہے جوگنّے کو حرکت دیتی ہے اور اُس سے رس نکلتی ہے اِسی طرح عقیدہ کے اندر جب تک قوتِ محرکہ نہ پائی جائے اِس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔کلمہ کے الفاظ کوخالی ماننا کوئی مفید چیز نہیں۔ کلمہ کے الفاظ کو اس حد تک ماننا چاہئے کہ وہ انسان کے اندر حرکت کرکے نئے اعمال پیدا کردے اوراُسی وقت اسے ایمان کہتے ہیں ۔اس سے پہلے وہ صرف عقیدہ ہے ایمان نہیں۔
عقیدہ کا لفظ عربی میں اس بات کو کہتے ہیں جس کو ہم مانتے ہیں۔ ایمان کا لفظ اس وقت بولا جاتاہے جب ہم اس سے فائدہ حاصل کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ایمان کے معنی ہیں امن دینا، فائدہ اور راحت دینا۔ اوریہ ظاہر ہے کہ محض عقیدہ سے دنیا میں امن قائم نہیں ہوتا۔دنیا میں امن اُن اعمال سے پیدا ہوتاہے جو ہم عقیدہ کے نتیجہ میں بجا لاتے ہیں۔ گویا ایمان، عقیدہ اور قوتِ محرکہ کے مجموعہ کانام ہے ۔جب عقیدہ اتنا پختہ ہوجاتاہے کہ انسان اپنے اندر اُس کے ذریعہ تبدیلی پیداکرے تو اُس کو مومن کہتے ہیں۔
جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے دنیا میں ہزاروں ہزاراَن پڑھ لوگ بھی ایسے ملیں گے جو کہیں گے کہ اللہ ایک ہے اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں۔گائوں کی ایک بڑھیا عورت سے بھی پوچھو وہ کہے گی یہ بات سچ ہے کہ اللہ ایک ہے اورمحمد ؐ اس کے رسول ہیں۔ بعض اوقات یہ لوگ مربھی جائیں گے مگر یہی کہیں گے کہ یہ بات سچ ہے لیکن باوجود اِس کے وہ اسلام کی اشاعت کے لئے کوئی فکر اور کوئی تدبیر نہیں کررہے ہوتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر عقیدہ توہوتاہے ایمان نہیں ہوتا ۔وہ یہ تومانتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور محمد اُس کے رسول ہیں لیکن یہ ماننے کامقام اتنا ترقی نہیں کرتا کہ یہ بات ان کے فکر، عقل اور جذبات کاایک حصہ بن جائے۔ اِس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک سفید رنگ کا آدمی کا لاکپڑا اوڑھ لے۔ اب وہ کالاکپڑا اوڑھ لینے سے کالانہیں بن جاتا ہاں وہ دور سے ایک کالی چیز نظر آتاہے۔ لیکن ایک کالے رنگ کاآدمی ہوتوجہاں تک جِلد کا تعلق ہوتا ہے وہ اندرسے بھی کالا ہوتاہے اورباہر سے بھی کالاہوتاہے۔ یا مثلاً سیاہی جسم پر مل لینے کی وجہ سے کوئی شخص کالا نہیں ہوجاتا وہ توصرف کوٹنگ (COATING)ہوگی یہ عقیدہ کی مثال ہے ۔لیکن ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی چیز واقع میں سیاہ ہو،کوئی چیز واقع میں سفید ہو،کوئی چیز واقع میں سرخ ہو،کوئی چیز واقع میں زردرنگ کی ہو۔
غرض احمدیت میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے جو چیز اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے وہ ایمان ہے ۔عقیدہ اِس کا ایک حصہ ہے یعنی ایمان دوچیزوں کا نام ہے اوروہ عقیدہ اورقوتِ محرکہ ہیں۔ اورعقیدہ ایک چیز کا نام ہے یعنی کسی چیز کو سچا سمجھنا ۔پھر ایک شخص میں کام کاجوش ہوتاہے ایک میں نہیں یعنی عقیدہ اورقوتِ محرکہ الگ الگ بھی پائی جاتی ہیں۔ ہزاروں ہزار آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو عقیدہ رکھتے ہیں لیکن ان میں قوتِ محرکہ نہیں پائی جاتی۔ اِسی طرح ہزاروں ہزار آدمی ایسے ہوتے ہیں جن میں عقیدہ نہیں پایا جاتا صرف قوتِ محرکہ پائی جاتی ہے۔ وہ کام کرتے ہیں لیکن کوئی مقصد اپنے سامنے نہیں رکھتے۔ گویا عقیدہ مقصد پر دلالت کرتاہے اورایمان مقصد اوراس کے مطابق عمل پر دلالت کرتاہے۔ دنیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جومقصد رکھتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے اوردنیامیں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو عمل کرتے ہیں لیکن کوئی مقصد نہیں رکھتے۔لیکن مومن وہ ہے جو مقصد اورعمل دونوں کا مجموعہ ہوتاہے۔
دوسری چیز جو احمدیت میں داخل ہوکر انسان کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے وہ عمل ہے۔ ایمان کے بعد عمل کا مقام آتاہے اوریہ وہ مقام ہے جہاں قوت ِمحرکہ عمل میں آجاتی ہے ۔مثلاً بیلنا ہے۔بیلنے میں اگر گنّا ڈالاجائے جوقوتِ محرکہ کا قائم مقام ہے اورپھر بیلنا حرکت کرے تو اس سے رس ٹپکنے لگتی ہے ۔اِسی طرح انسان کے اندر جب عقیدہ پیداہوتاہے ۔اورقوتِ محرکہ بھی پیداہوتی ہے توقوتِ محرکہ مقصد کے ساتھ مل کر رس پیدا کرتی ہے ۔جس طرح بیلنا ہومگراُس میںگنا نہ ڈالا جائے تو بیلنے کو حرکت دینے سے رس نہیں ٹپکتی ۔اس طرح اگر صرف عقیدہ ہی عقیدہ ہوقوتِ محرکہ نہ ہوتو اس سے انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کرسکتا ۔جس طرح بیلنے کو جب تک حرکت نہ دی جائے اوراس میں گنّا نہ ڈالا جائے انسان رس حاصل نہیں کرسکتا ۔ رس نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیلنا میں گنّے ڈالے اورپھر اسے حرکت دے ۔اِسی طرح کوئی مقصد معیّن ہوتا ہے اورپھر انسان کے اندر ایک جوش ہوتاہے کہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے کچھ کرنا چاہئے اورپھر انسان وہ کام کرنے لگ جائے تواِس کو عمل کہتے ہیں،عمل کے بغیر بھی انسان صحیح نتیجہ پیدانہیں کرسکتا۔ میں نے بتایا ہے کہ خالی بیلنا حرکت کرتارہے اس میں گنّا نہ ڈالاجائے تورس حاصل نہیں ہوسکتا اسی طرح عقیدہ ہولیکن قوت ِمحرکہ صحیح طورپر کام نہ کرے توایمان بیکار ہے۔ اسی طرح اگر عمل ہوایمان نہ ہو تووہ عمل بھی بیکار ہے اس کا کوئی مفید نتیجہ حاصل نہیں ہوگا۔ یورپ والے کتنا عمل کررہے ہیں لیکن چونکہ وہ عمل ایمان کے تابع نہیں اِس لئے وہ روحانیت سے دورہیں۔
دراصل عمل ایمان کا لباس ہے اورایمان مخفی چیز ہے ۔جب ہم لباس کو دیکھتے ہیں تواس سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی آدمی ہے ۔فرض کرو دورسے کوئی آدمی آرہاہے ہم اس کے کپڑے دیکھتے ہیں توان کپڑوںسے سمجھ لیتے ہیں کہ وہ آدمی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتاہے کہ وہ محض کپڑے ہی ہوتے ہیں کوئی آدمی وہاں نہیں ہوتا جیسے کوئی کپڑے دھوکر سکھانے کیلئے دیوار یا کسی درخت پر لٹکا دے ۔لیکن عام طورپر یہی ہوتاہے کہ جب کپڑے نظر آئیں تو اس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی آدمی ہے۔ اگر کوئی قمیص ہل رہی ہے اور ایک شخص دوسرے سے کہتا کہ دیکھو وہ کوئی آدمی آرہا ہے تو وہ اسے جھٹلائے گا نہیں یہ نہیں کہے گاکہ تم جھوٹ کہتے ہو۔ دس لاکھ میں سے نو لاکھ ننانوے ہزار نو سَو ننانوے حالات میں وہ آدمی ہوتاہے خالی قمیص نہیں ہوتی ۔لیکن کبھی کبھی خالی قمیص بھی لٹکی ہوئی ہوتی ہے اوریہ استثنائی چیز ہے ۔ورنہ عام حالات میں قمیص اورآدمی دونوں اکٹھے ہوںگے۔ اسی طرح جب عمل نہیں ہوگا ہم ایمان کو نہیں مانیں گے اورعمل ایمان کے بغیر پیدا نہیں ہوتا۔ عمل گواہی دیتاہے ایمان پر اورایمان پیدا کرتا ہے عمل کو۔
تیسری چیز جو احمدیت میںداخل ہونے والے کے لئے اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے وہ راست بازی ہے ۔یہ خُلق بھی کام کے لئے ایک اصولی خُلق ہے۔ راست بازی اپنی ذات میں ایک طبعی چیز ہے مثلاً کوئی شخص آپ کے سامنے بُوٹ رکھے اور کہے یہ کیا ہے؟ توآپ کہیں گے یہ بُوٹ ہے۔ اوراگر وہ شخص یہ کہے کہ تم اسے بُو ٹ نہ کہو توتم کہوگے اورکیا کہوں یہ ہے ہی بُوٹ۔ غرض راست بازی ایک طبعی چیز ہے اور انسان مجبور ہوتاہے کہ وہ سچ کہے ۔لیکن جب مصلحتاً وہ اُسے بدلنا چاہتاہے تووہ ایک غیرطبعی چیز بن جاتی ہے۔ راست بازی مذہبی چیز نہیں، راست بازی انسان کا طبعی حصہ ہے۔ جب تم سچ بولنے سے انکار کرتے ہو تو گویا فطرت کا انکار کرتے ہو۔راست بازی کس چیز کا نام ہے؟ فرض کرو تمہارے سامنے پہاڑ کا ایک ٹیلہ ہے توتم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ ایک گدھا ہے، تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ ریل ہے ،تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ لنڈن ہے، تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ نیویارک ہے ،تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ دہلی ہے، تم یہ بھی کہہ سکتے ہوکہ یہ دریا ہے، تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ ایک خیمہ ہے، تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ ایک خادم ہے جو پہرہ دے رہاہے ۔تم یہ سب کچھ کہہ سکتے ہو لیکن جو شخص تمہارے ساتھ سازش میں شریک نہیں ہوگا اُسے جب تم کہوگے کہ یہ پہاڑی ہے تووہ کہے گا ٹھیک ہے۔ لیکن جب تم کہوگے کہ یہ خیمہ ہے تو وہ کہے گایہ جھوٹ ہے تم پاگل ہوگئے ہو ۔جب تم کہوگے یہ لنڈن ہے تووہ کہے گا لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ، اگر تم کہوگے کہ یہ نیو یارک ہے تووہ کہے گاپاگل خانہ میں جاکر علاج کروائو۔ غرض جھوٹ یاسازش میں جو شریک نہ ہو اس کے سامنے جب کسی چیز کا وہ نام لو جو اُس کااصلی نام نہیں توتین کنڈیشنز ہوں گی۔ یاتووہ کہے گا یہ تمسخر کررہاہے۔ یا کہے گا کہنے والا احمق ہے۔ یا کہے گایہ جھوٹ ہے۔ اِن تین حالتوں کے سوا اورکوئی صورت نہیں ہوسکتی۔
غرض راست بازی ایک طبعی خُلق ہے اور اِس کی علامت یہ ہے کہ جب کسی کے سامنے تم ایک چیز کاوہی نام لوگے جواُس کا اصلی نام ہے تووہ اُس کی تصدیق کرے گا اورجب کوئی اورنام لوگے تووہ تمہاری تکذیب کریگا ۔ تم اپنی بیوی، بیٹے، ماں باپ اوربھائی کے سامنے بھی کوئی اورنام لے کر اُنہیں یقین دلانے کی کوشش کروگے تو وہ تمہاری تکذیب کریں گے ۔تم اگر اپنے بچہ کے سامنے بھی اِس پہاڑی کے متعلق یہ کہوگے کہ کراچی سے ایک خادم آیا ہے اوروہ پہرہ دے رہاہے تووہ کہے گا باپ مذاق کررہاہے۔ تم اگر زیادہ زوردوگے توہوسکتاہے وہ مان جائیں اورکہیں زیادہ نہ چڑائو کہیں جنون بڑھ نہ جائے ۔پس راست بازی باہر سے نہیں آتی بلکہ انسان کے اندر سے پیداہوتی ہے ۔ باہر سے اسے مٹایا جاتاہے ۔مثلاً تم اپنے کسی دوست سے مذاق کرنا چاہتے ہو ۔تم ایک بانس پرشلوار اورقمیص لٹکا کر کہوگے کہ یہ آدمی کھڑا ہے تویہ بات باہرسے پیدا ہوئی ہے ۔تمہارا دل یہ کہہ رہاہوگا کہ یہ ایک بانس ہے اوراِس پر شلوار اورقمیص لٹکائی ہوئی ہے ۔
راست بازی جہاں ایک فطری اورطبعی خُلق ہے وہاں دین کو بھی اِس کی ضرورت ہوتی ہے۔ قطع نظر اِس کے کہ راست بازی چھوڑ کر تم آدمیت کے دائرہ سے نکل جاتے ہو کیونکہ آدمی نام ہے دل کا ۔آدمی اُس فیصلہ کا نام نہیں جو تم طبعی حالات میں کرتے ہو۔ آدمی نام ہے اُن صحیح جذبات اورصحیح افکار کا جو انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں ۔آدمی نام ہے صحیح عزائم اورصحیح اِرادوںکا جو انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں ۔جب صحیح جذبات، صحیح افکار اورصحیح عزائم اَورصحیح ارادوں کے خلاف تمہاری ظاہری اغراض اورخارجی ضرورتیں تمہیں کوئی اَوربات کہنے پر مجبور کرتی ہیں تو وہ غیر طبعی چیز بن جاتی ہے راست بازی نہیں رہتی۔ مگر جہاں آکر آدمیت کا تعلق ہوتا ہے تم اُسے کچل رہے ہوتے ہو۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی راست بازی کی مذہب کو بھی ضرورت ہوتی ہے اِس لئے کہ مذہب خود ایک سچائی ہے۔ اِس لئے کہ خداتعالیٰ کاایک نام حق بھی ہے یعنی خداتعالیٰ ایک ایسی چیز ہے جو خلافِ واقعہ نہیں بلکہ وہ اُسی طرح ہے جس طرح کہا گیاہے۔ اورخداتعالیٰ وہ بات کہتاہے جوراست ہوتی ہے ۔خداتعالیٰ پہاڑ کو دریا نہیں کہتا اورنہ دریا کو پہاڑ کہتاہے وہ پہاڑ کو پہاڑ اوردریا کو دریا کہتاہے۔ وہ آدمی کو جنگل نہیں کہتااورنہ جنگل کو آدمی کہتاہے۔ وہ آدمی کو آدمی اورجنگل کوجنگل کہتاہے ۔پھر خداتعالیٰ کی طرف سے ہرآنے والی چیز راست اور درست ہوتی ہے اورچونکہ مذہب راست بازی ہے اس لئے جواس پر عمل کرے گا وہ راست بازہوگا۔ بازی کے معنی ہیں عمل کرنا، کھیلنا۔ بازی فارسی کا ایک لفظ ہے اوراس کے معنی کھیلنے کے ہوتے ہیں۔ اور راست بازی کے معنی ہیں راستی کے ساتھ کھیلنا سچائی پیش کرنا۔ سچائی کومقصود قراردے لینا۔ گویا انسان جس طرف بھی حرکت کرے اُس کا مقصود راستی ہو۔جس طرح یہ کہا جاتاہے کہ فلاں شخص دولت میں کھیل رہاہے تواِس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اُس کے اِردگرد دولت ہی دولت ہے ۔اِسی طرح راست بازی کے معنے یہ ہیں کہ سچائی اُس کے اِردگرد جلوہ گر ہوتی ہے ۔چونکہ خداتعالیٰ کی طرف سے آنے والے دلائل ،تعلیمات اورعقائدہمیشہ سچے ہوتے ہیںاِس لئے جو شخص اِن کے مطابق اپنی زندگی بنا لیتاہے وہ راست باز ہوتاہے۔ اوراگر کوئی شخص راست باز نہ رہے تووہ ان احکام کو جوخداتعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اپنا نہیں سکتا۔ وہ انہیں اپنی زندگی کا مقصد قرارنہیں دے سکتا کیونکہ یہ امر محال ہے کہ ایک شخص خداتعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے والا بھی ہو اوروہ جھوٹ کا عادی بھی ہو۔ گویا دوسرے لفظوں میں مذہب نام ہے راست بازی کا۔ اور سچا مذہب نام ہے اِس بات کا کہ وہ تمہارے سونے جاگنے، اُٹھنے بیٹھنے اورکھانے پینے پر بلکہ تمہاری ہرحرکت پر حاوی ہو۔ وہ تمہاری ہر شعبہ زندگی میں راہ نمائی کرتا ہو۔ اوراگر مذہب نام ہے راست بازی کا تواِس کے معنی یہ ہوں گے کہ مذہب پر چلنے والا شخص سچائی کواپنے ہرشعبۂ زندگی میں داخل کرتاہے ۔ اوراگر کوئی شخص جھوٹ کاعادی ہوگا تواِس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ جہاں بھی جھوٹ بولے گا مذہب کو پَرے دھکیل دیگا۔ مثلاً تمہاراایک دوست ہے اُسے یہ علم نہیں کہ تم چور ہوتمہیں علم ہے کہ اگر اُسے پتہ لگ گیا کہ تم چور ہو تووہ تمہیں چھوڑدے گا۔ تم اگر دونوں اکٹھے جارہے ہو اورتمہیں پتہ لگتاہے کہ رستہ میں مال پڑاہے اورتم اُسے چرانا چاہتے ہو توتم اُس دوست کو اِس کا علم نہ ہونے دوگے بلکہ بہانہ بنا کر اُس سے الگ ہوجائو گے کیونکہ تم جانتے ہو کہ وہ دوست تمہارے رستہ میں حائل ہوگا۔ پس اگر مذہب کانام راستی ہے اورتمہیں ذرابھی جھوٹ بولنے کی عادت ہے توتم جہاں بھی جھوٹ کی طرف مائل ہوگے وہاں تم مذہب چھوڑنے پر مجبور ہوجائوگے۔پس جھوٹ اورمذہب دونوں الگ الگ چیزیں ہیں اوردونوں ایک وقت میں نہیں چل سکتے ۔ چونکہ مذہب ایک سچادوست ہے وہ دنیا میں تمہیں پار گزار تاہے اوراگلے جہاں میں تمہیں جنت میں لے جاتاہے۔ وہ ایک دوست ہے جو تمہارے ساتھ چوری، فریب اورلُوٹ میں شریک ہونے کے لئے تیارنہیں اِس لئے یا تو اس کے ساتھ فریب کررہے ہو گے یا تم اُسے چھوڑدوگے تاوہ تمہیں چوری اوردوسرے خلافِ شریعت اُمورسے باز نہ رکھ سکے۔ پس راست بازی جہاں انسانیت کاتقاضا ہے ،وہاں وہ مذہب کا تقاضا بھی ہے مذہب اورجھوٹ اسی طرح جمع نہیں ہوسکتے جس طرح کفر اورمذہب دونوں جمع نہیں ہوسکتے۔ یہ تین باتیں ہیں جو میں نے تم سے کہی ہیں۔ اجتماع کے دوران میں جوں جوں موقع نکلے گا مَیں یہاں آئوں گا اورکچھ اَورباتیں بھی کہوںگا۔ مگریہ خوب یا درکھنا کہ جب تم مجھے دیکھو میرے اِرد گرد جمع نہ ہونا کیونکہ اِس طرح مٹی اُڑے گی اورمیری کھانسی اوربڑھ جائے گی اوراِس صورت میں میں باوجود خواہش کے اجتماع میں شریک نہ ہو سکوں گا۔ ‘‘
(الفضل ۱۹،۲۰؍اکتوبر ۱۹۶۱ ئ)
۱؎ سنن ابی داؤد کتاب الصلوٰۃ باب تسویۃ الصفوف




ا قرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولوگے




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اقرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے
(فرمودہ ۲۲ ؍اکتوبر۱۹۵۰ء برموقع (دوسرا دن) سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ
بوقت ۱۰ بجے صبح بمقام ربوہ)
تشہّد ،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:۔
’’ایک نقص مَیں نے گھر سے یہاں آتے ہوئے یہ دیکھا ہے کہ بعض حصے کا م کے ایسے ہیں جن میں خدام الا حمدیہ کی یہ نگرانی نہیں کی جاتی کہ وہ تمام کے تمام اس میں مشغول ہیں یا نہیں۔ مثلاً فٹ بال کا میچ ہو رہا تھا تو ضروری نہیں سمجھا گیا کہ اس امر کی نگہداشت کی جائے کہ آیا سارے خدام میچ دیکھ رہے ہیں یا نہیں۔میں نے دیکھا کہ کچھ خدام میچ دیکھ رہے تھے اور کچھ اِدھر اُدھرکھڑے تھے اِس طرح یہ غرض کہ خدام سالانہ اجتماع کے دو تین دن اِس مشق میں گزاریں کہ ہر وقت کام میں مشغول رہیں باطل ہو گئی کیونکہ ان دو تین دنو ں میں بھی بعض حصے ایسے ہیں جن میں بعض خدام مشغول ہیں اور بعض مشغول نہیں اِس لئے مَیں مجلس انتظامیہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوراًاس بارہ میں قانون بنا کرآئندہ اِس کی تعمیل کرائے اور دیکھے کہ آیا تمام کے تمام خدام کام میں لگے رہتے ہیںیا نہیں۔مثلاًمیچ دیکھنا بھی کام ہے اور یہ ضروری امر ہے کہ جب کھیلیں ہو رہی ہو ں تو باقی خدام دیکھ رہے ہوں۔یہ نہ ہو کہ بعض خدام کھیلیں دیکھ رہے ہوں اور بعض اِدھر اُدھر پھر رہے ہوں ۔اگر ایک وقت میں چار پانچ کھیلیں ہو رہی ہوں تو منتظم خدام سے پوچھ لیں کہ وہ کونسی کھیل دیکھنا چاہتے ہیںاور ہر ایک کو حکم دے دیں کہ وہ کوئی نہ کوئی کھیل ضرور دیکھے تا آوارگی کی عادت نہ ہو۔دنیا کے لوگ تو ساری عمر کام میں لگے رہتے ہیںہمارے نوجوانوں کو بھی اِس کی عادت ہونی چاہئے اور کم از کم دوتین دن تک انہیں ہر وقت کام میںمشغول رہنا چاہئے۔رستہ میں مجھے سینکڑوں ایسے خدام ملے ہیںجو اِدھر اُدھر کھڑے تھے یا پھر رہے تھے اس طرح وہ غرض پوری نہیں ہوتی جس کیلئے یہ اجتماع مقرر کیا گیا ہے۔
دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ خدام سے عہد لینا پڑتا ہے لیکن ابھی تک میرے سامنے کوئی ایسا طریق نہیں لایا گیاکہ وہ عہد کیسے لیا جائے اس کیلئے ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی لفظ ایسا تجویز کیا جائے کہ جب عہد لیا جائے تو خدام اسے دُہرا سکیں ۔دنیا کے تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد کے الفاظ میں خاص شان ہونی چاہئے۔عہد میں ہمیشہ ایسے الفاظ استعمال کئے جانے چاہئیں جن کو اونچی آوازمیںبولا جا سکے۔مثلاً یورپ میں جب ایسا کیا جاتا ہے تو وہ اسے اے (Aye) کہتے ہیں یس (Yes) نہیں کہتے۔کیونکہ یس(Yes)پورے زور سے ادا نہیں ہوتی اور اے (Aye) میں زور آجاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ’ہاں ‘ کا لفظ ہے لیکن اس لفظ کا استعمال مہذب نہیں سمجھا جاتا ۔مہذب لوگ اِس کی جگہ ’جی‘ کا لفظ استعمال کرنے لگ گئے ہیں۔لیکن ’جی‘ اپنے اندر کوئی شان نہیںرکھتا بلکہ اس میں لجاجت والا رنگ پایا جاتا ہے۔عربی میںایک لفظ ہے جس سے ’اے‘ نکلا ہے اور وہ لفظ ای ہے ای کو ایسا زور دار سمجھا جاتا ہے کہ عرب کہتے ہیں ۔ اِیْ وَاللّٰہِ ہاں خدا تعالیٰ کی قسم ۔عرب لوگ نَعَمْ بھی کہیں گے لیکن نَعَمْ کے بعد قَسم کا لفظ لگانا پسند نہیں کیا جاتا۔لیکن ای کے بعد مرجح ہے کہ قَسم کا لفظ لگایا جائے۔جب کوئی عرب اِیْ کہے گاتو عام حالات میں اس سے امید کی جائے گی کہ وہ اس کے بعد وَاللّٰہِ کہے یعنی خداکی قَسم ۔پس میں تجویز کرتا ہوں کہ جب کوئی عہد لیا جائے تو خدام بلند آواز سے کہیں اِیْ اور پھر عام آواز میں وَاللّٰہِ کہیں۔ وَاللّٰہِ کا لفظ اونچی زبان میں کہنے کی ضرورت نہیں۔
اب میں تم سے اسی سلسلہ میں ایک عہد لیتا ہوں ۔میں نے قاعدہ بتادیا ہے اس کے مطابق تم وہی الفاظ دُہراتے جاؤ۔یعنی تم زوردار الفاظ میں ایک دفعہ ای کہو گے پھر ذرا کم آواز میں وَاللّٰہِ کہو گے۔گویا اِس کے یہ معنی ہوں گے کہ میں ایسا عہد کرتا ہوںخدا کی قسم۔
مَیں نے جیسا کہ کل بیان کیا تھااسلام کی جان یا مذہب کی جان یا انسانیت کی جان سچ ہوتا ہے جو شخص سچ نہیں بولتا وہ قوم کو تباہ کرنے والا ہوتا ہے ۔جب تک ہم سچائی کو قائم نہیں کریں گے ہم دنیا میںکامیابی حاصل کرنے کی کوئی بڑی امید نہیںکر سکتے۔مثلاًتم اپنی زندگی وقف کرتے ہو۔اب اگر تم سچ بولتے ہو تو دین کیلئے جان کی ضرورت پڑی تو تم اپنی جان دے دو گے۔یا مثلاًہم کوئی کام تمہارتے سپرد کرتے ہیں۔اگر تم سچ بولتے ہوتو خواہ تمہاری جان بھی چلی جائے تم اُس کام کو پورا کر کے چھوڑو گے۔ لیکن اگر تم جماعت میں داخل ہوتے ہو اور تم میں سچ بولنے کی عادت نہیں تو تم ہر کا م میںکمزوری دکھا ؤ گے،تم ہر کام میںغداری کرو گے اور تم جماعت کے لئے کوئی مفید وجود نہیں بن سکو گے۔پس یہ پہلا کام ہے کہ جماعت میںسچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کبھی تم سے گواہی لی جائے تو تم سچی گواہی دو۔سچ بولنا ایسا اہم کام ہے کہ اس کے نتیجہ میں خواہ تمہارے بیوی بچوں کی جانیں بھی چلی جائیں تمہارے ماں باپ اور بہن بھائی مأخوذ ہو جائیںتب بھی تم ہمیشہ سچ بولو،اور ہمیشہ سچی گواہی دو۔۱؎
پس ایک پروگرام مَیں خدام کے لئے اِس سال یہ تجویز کرتا ہو ں کہ جب تم سے کوئی گواہی لی جائے یا کوئی عہد لیا جائے تو تم اس کیلئے کوئی عذر یا بہانہ نہیں بناؤ گے چاہے اس کے پورا کرنے میں تمہاری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔اگر جماعت اس نقطہ پر مضبوطی سے قائم ہو جائے تو دوسری قوموں میں اِس کی بہت بڑی عزت قائم ہو جائے گی۔ پس تمہیں یہ عہد کر لینا چاہئے کہ خواہ کتنی رُسوائی اور ذلت تمہیں برداشت کرنی پڑے تم ہمیشہ سچ بولو گے مگر ایسا سچ جو شریعت کے مطابق ہو۔بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر وہ بتا دی جائیں تو انہیں سچ نہیں کہتے۔مثلاًایک بچہ کوکوئی چور مل جاتا ہے اور اُس سے پوچھتا ہے بتاؤ زیورات والا صندوق کہاں ہے؟ اب اگر وہ اسے بتا دیتا ہے کہ زیورات والا صندوق فلاں جگہ ہے تو یہ سچ نہیں ہوگا۔ شریعت نے صرف مجسٹریٹ کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ہر بات پوچھ سکتا ہے لیکن یہ سچ نہیں کہ خواہ کوئی بات بھی ہو تم ٹھیک ٹھیک بتا دو۔سچ وہ ہے جس کا قرآن کریم یا قانون حکم دیتا ہے۔ عدالت میں اگر کوئی ایسی بات پوچھی جاتی ہے جو تم بتانا نہیں چاہتے تو تم خود یا تمہارا وکیل عدالت میں یہ کہہ سکتا ہے کہ قانوناًایسا سوال جائز نہیں لیکن جب جج یہ فیصلہ کر دے کہ ایسا سوال قانوناً جائز ہے تو وہاں سچ بولنا ضروری ہوتاہے۔ ذاتی معاملات میں ضروری نہیں کہ تم سچ بولوتم کہہ سکتے ہو کہ میںیہ بات بتانا نہیں چاہتا۔ غرض سچ بولنے کے یہ معنے نہیں کہ تم ہر بات بیا ن کرو۔سچ بولنے کے یہ معنی ہیں کہ جہاں سچ بولنا چاہئے وہاں سچ بولو۔یا جہاں قرآن کریم اور قانون تمہیں سچ بولنے پر مجبور کرتے ہیں وہاں سچ بولو۔
اب مَیں تم سب سے یہ عہد لیتا ہوں کہ خواہ کیسے بھی حالات ہوں تم سچ بولو۔تم سب کھڑے ہوجاؤ۔کیونکہ بیٹھے ہوئے آواز زور سے نہیں نکلتی لیکن میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم ظاہری طور پر یہ عہد کر لیتے ہو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے لیکن دل سے تم اس کا عہدنہیں کرتے تو تمہارا یہ پہلاجھوٹ ہوگا۔
’’کیا خدام الاحمدیہ اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ خواہ کیسے ہی خطرناک حالات ہوں یا اُنہیں کیسی ہی مشکلات میں سے گزرنا پڑے وہ قرآن کریم کی ہدایات اور اس کی شرائط کے مطابق ہمیشہ سچ بولیں گے۔‘‘
(سب خدام نے بیک آواز کہا۔اِ یْ وَاللّٰہِ! حضور نے یہ الفاظ تین بار دُہرائے سب خدام نے ہر با ر بیک آواز اِیْ وَاللّٰہِ کہہ کر اقرار کیا)۔
(رسالہ خالد ربوہ اکتوبر ۱۹۶۲ئ)
۱؎ النسائ: ۱۳۶



مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میںنوجوانوں کو ضروری ہدایات



از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں
نوجوانوں کو ضروری ہدایات
(فرمودہ ۲۲ ؍اکتوبر۱۹۵۰ء برموقع (دوسرا دن) سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ
بوقت شب بمقام ربوہ)
’’پہلی بات تو مَیں یہ کہنا چاہتا ہو ں کہ خدام کو یہ دن کام میں گزارنے چاہئیں۔ ابھی میں جب گھر سے آیا ہوں تو کچھ خدام باہر کھڑے ہوئے تھے پھر یہاں سے بھی بعض خدام اُٹھ کر جاتے رہے اِس کے یہ معنی ہیں کہ یہاں انہیں کام پر لگائے رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ۔یہ تربیت اور نظا م کے مظاہرے کے دن ہیں اس لئے اگر کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جو نظام کے خلاف ہے تو جس غرض کیلئے یہ اجتماع کیا گیا ہے وہ اس کی روح کو کچلنے والی ہوگی اس لئے مرکزی معتمدین اور زعماء یہ بات نوٹ کرلیں کہ آئندہ جو خدام یہاں بیٹھیں وہ خیموں کے نظام کے مطابق بیٹھیں یعنی ہر جماعت اکٹھی بیٹھے کیونکہ یہ بات تو یہا ں نہیں کہ انہوں نے متفرق جگہو ں سے آناہے یا انہوں نے متفرق کاموں سے آنا ہے یہاں جگہ بھی ایک ہے اور سارے دن کا پروگرام بھی مقرر ہے۔ جس وقت جلسہ ہوگا خدام کسی نہ کسی کام میں مصروف ہوںگے اور اس کام کو چھوڑ کر انہوں نے یہاں آجانا ہوگا۔مثلاً کھانا ہے وہ بھی خدام اکٹھا کھاتے ہیں۔یعنی کھانے کا بھی ایک خاص وقت مقرر ہے، پھر رہائش کی جگہ بھی ایک ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ جلسہ میں خدام الگ الگ بیٹھیں ۔آئندہ کیلئے یہ انتظام ہونا چاہئے کہ خدام جماعت وار بیٹھیں اور ایک خاص وقت مقرر ہونا چاہئے کہ وہ اُس وقت کے اندر اندریہان جلسہ گاہ میں آکر بیٹھ جائیں ۔پھر اُنہیں جماعت وار بٹھایا جائے اور دیکھا جائے کہ آیاتمام خدام حاضر ہیں۔ اور زعیم اعلان کرے کہ میری مجلس کے سب خدام حاضر ہیں ۔پھر وہ زعماء اس بات کے ذمہ دار ہونگے کہ ان کی مجالس کے ارکان اپنی اپنی جگہ پر بیٹھیں رہیں۔اگر کسی خادم کو کوئی ایسی ضرورت پیش آ جائے کہ وہ جانا چاہے تو وہ اپنے زعیم سے اجازت لے کر مجلس سے اُٹھے اور وہ زعیم اِس بات کا ذمہ دار ہو کہ وقت پر بتائے کہ فلاں فلاں خادم میری اجازت سے باہر گئے ہیں۔
دوسری بات میں لیکچراروں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں ۔عام طور پر یہ خیا ل کیا جاتا ہے کہ جلدی جلدی اور زور کے ساتھ بولا جائے تو تقریر زیادہ مؤثر ہوتی ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے نہ جلدی جلدی بولنا تقریر کے اندر اثر پید کرتا ہے اورنہ زور سے بولنا تقریر کے اندر اثر پیدا کرتا ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی تقریر میں بے موقع زورسے بولتا ہے تو تقریر کا اثر کم ہو جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ گلے سے اوپر بول رہا ہے دل سے نہیں بول رہا۔اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ پندرہ سولہ منٹ کے بعد ہی گویائی سے محروم ہوجاتا ہے ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ لیکچر لکھاجو آریوں کی مجلس میں پڑھا گیااور جس کے نتیجہ میں چشمۂ معرفت کتاب لکھی گئی۔ اُس وقت مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہو چکے تھے ان جیسی آواز والا جماعت میں اَور کوئی شخص موجودنہ تھا اور یہ سوال درپیش تھا کہ یہ تقریر کون پڑھے۔تجویز یہ ہوئی کہ مقابلہ کر کے دیکھا جائے کہ کون شخص زیادہ موزوں ہے کہ اسے تقریر پڑھنے کیلئے کہا جائے۔مختلف لوگوں نے وہ تقریر پڑھی بڑے بڑے لوگوں میں سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل، مرزا یعقوب بیگ صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تھے۔ان کے علاوہ اَور لوگ بھی تھے۔میری عمر اُس وقت چھوٹی تھی لیکن میں یہ خیال کرتا ہوں (شاید یہ اندازہ اب موجودہ عمر کے لحاظ سے ہو) کہ اگر میں وہ تقریر پڑھتا تو غالباً اچھی پڑھتا ۔لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی آواز زیادہ بلند نہ تھی اگرچہ آہستہ آہستہ زور پکڑ کر وہ مؤثر ہو جایا کرتی تھی لیکن وہ اس مقام پر نہیں پہنچتی تھی جہاں تقریر کرنے والا جوش کے ساتھ سامعین کو اپنے ساتھ بہا لے جایا کرتا ہے۔ یوں تقریر کے لحاظ سے آپ کی آواز میں بڑاا ثر تھا اور مضمون سامعین کے ذہن نشین ہوجاتا تھااور ان کے دل کی گہرائیوں میں اُتر جاتا تھا لیکن پڑھنے میں یہ طریق کامیاب نہیں ہوتا۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے وہ مضمون تو پڑھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپ کے پڑھنے کے طریق پر مطمئن نہ ہوئے۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے بعد مرزا یعقوب بیگ صاحب نے مضمون پڑھنا شروع کیا ۔ اُن کی آواز باریک تھی دوسرے وہ عربی سے ناواقف تھے اور مضمون میں چونکہ اکثر قرآنی آیات تھیں نتیجہ یہ ہؤ ا کہ اُنہوں نے غلط پڑھنا شروع کر دیااور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔یہ بھی موزوں نہیں ۔اِس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے پڑھنا شروع کیا ۔اُنہوں نے یہ خیا ل کیاکہ پہلے دونوں کی آواز میں چونکہ بلندی اور گرج نہیں تھی اِس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کا طریقِ بیان پسند نہیں فرمایاچنانچہ انہوں نے بڑے زور کے ساتھ گرج کی سی آواز میں پڑھنا شروع کیا مگر اِس کا نتیجہ یہ ہؤ ا کہ ان کی آواز جلدی بیٹھ گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاتشریف رکھیں ۔غرض مضمون کو آہستگی سے اور ایسے رنگ میں پڑھنا چاہئے کہ سامعین پڑھنے والے کی آواز میں سموئے جائیں۔ جب تک سامعین پڑھنے والے کی آواز میںسموئے نہیں جاتے اور جب تک ان کا پڑھنے والے کی آواز کے ساتھ اشتراک پیدا نہیں ہوتااُس وقت تک تقریر میںزور پیدا کرنااُن کو قریب کرنے کی بجائے دور کرنا ہے۔
پھر تقریر کرنے والے کو اپنا مضمون اس طرز سے بیان کرنا چاہئے کہ اسے سارے مضمون کے سارے پہلو مد نظر ہوں۔بعض دفعہ تقریر کرنے والااپنا مضمون ایسے طور سے بیان کرتا ہے کہ وہ خیا ل کرتا ہے کہ اس کا طریقِ بیان درست ہے لیکن جن شقوں کی وجہ سے وہ اسے واضح محسوس کرتا ہے وہ سامعین کو معلوم نہیں ہوتیں اس لئے اس کی تقریر بیکار ہوجاتی ہے ۔مثلاًآج ہی بعض مقررین نے کہا ہے کہ یہ بات تو واضح ہے لیکن یہ فقرہ وہاں کہا جاتا ہے جہاں تقریر کرنے والاکسی منطقی نکتہ کی طرف پہلے اشارہ کردیتا ہے۔ مثلاً ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر عقل اور سمجھ رکھی ہے۔ پھر ہم کہتے ہیں یہ بات با لکل واضح ہے کہ جب ایک انسان کے سامنے کوئی غیر معمولی بات پیش کی جائے تو وہ اسے ماننے کے لئے تیا ر نہیں ہوگا۔چونکہ ہم نے ایسی بات پیش کی ہے جس کو دنیا کے سب لوگ جانتے ہیںاور پھر یہ بات پیش کی کہ اگر انسان کے سامنے کوئی غیر معقول بات رکھی جائے تو وہ اسے ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتاتو یہ بات سج جائے گی۔ لیکن اگرہم کہیں گے کہ یہ بات واضح ہے کہ اِس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ظہور ہونا چاہئے تھا تو یہ بات ہمارے لئے تو واضح ہو گی کہ دنیا کے حالات اِس قسم کے ہیں کہ وہ تقاضا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور مبعوث ہو لیکن ایک مخالف تو یہ بات نہیں مانتا۔پس ہر بات کہتے وقت یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ آیا سننے والااسے سمجھ سکے گایا نہیں ۔
اِس کے بعد مَیں اِس مجلس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔میرے نزدیک تقریریں کرانے کا یہ طریق جو نکالا گیا ہے غلط ہے۔بعض تقریریں کرنے والوں نے ایسے مضامین منتخب کئے ہیںجو بہت ہی اہم ہیں لیکن وہ دو منٹ کے بعد چپ ہوگئے۔دو منٹ میں مضمون کی ماہیت کو بیان کرنا بھی مشکل ہے اِس لئے یہ طریق غلط ہے۔ پھر یہ کہنا کہ تقریر کیلئے نام لکھا دویہ طریق بھی غلط ہے۔ یہ علم کے مظاہرہ کا موقع ہے یہ اجلاس عام انجمنوں کا اجلاس نہیں۔یہ وہ اجلاس ہے جس میں یہ مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے نوجوانوں کو اتنی مشق کرائی ہے ۔مثلاً جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کے لئے بعض دفعہ بڑے بڑے عالموں کا بھی نام آ جاتا ہے لیکن میںوہ نام کاٹ دیتا ہوںاور کہتا ہوں کہ انہیںپہلے باہر مشق کرالو۔اسی طرح یہ خدام الاحمدیہ کا اسٹیج ہے یہاں یہ مظاہرہ کیا جاتاہے کہ ہم نے اپنے خدام کو تقریر کرنے کی کتنی مشق کروائی ہے اور ان کے ذہنوں میں کتنی جلاء پیدا کردی ہے۔ پس ایسے موقع پر یہ کہنا کہ تقریروں کے لئے نام لکھو ا دو غلط ہے۔ کچھ مضامین پہلے چُن لینے چاہئیں اور انہیںباہر بھجوا دینا چاہئے اور بعض ایسے سرکل بنا دینے چاہئیں جن میں سے ایک ایک نمائندہ لے لیا جائے۔پھر اُنہیں اختیا ر دیا جائے کہ وہ اپنی میٹنگ کریں اور اُس موضوع پر جس پر اُن کے نمائندہ نے اجتماع کے موقع پر تقریر کرنی ہے خوب بحث کریں اور دلائل بیان کریں۔پھر جو نمائندہ منتخب ہو وہ اُن دلائل میںسے کچھ دلائل چُن لے اور نوٹ لکھ لے ۔یہاں تقریر زبانی ہو لیکن تقریر کرنے والے کو یہ اختیا ر دینا چاہئے کہ وہ اِس کیلئے بعض نوٹ لکھ لے۔پھر ان لیکچراروں کو کم از کم بیس منٹ ملنے چاہئیں۔ اس طرح دو گھنٹے میں چھ لیکچر ہو جائیں گے۔
جہاں تک تحریری مضامین کا سوال ہے اِس بات کی ضرورت نہیں کہ یہاں یہ کہا جائے کہ دوست اِس امتحان میں شامل ہونے کیلئے اپنا نام لکھوا دیںبلکہ پرچے بنا کر باہر بھجوا دینے چاہئیں۔خدام ان پرچوں کی تیاری کریں اور جب یہاں آئیں تو وہ امتحان کیلئے اپنا نام لکھوا دیں۔یہاں سپروائزروں کے سامنے بیٹھ کر وہ مضامین لکھیں اور ہر سال ایسا کریں۔ جو گروپ قابل ہو جائیں اُن کی جگہ دوسرے گروپ لے لئے جائیں۔ اس طرح قدم بہ قدم تمام جماعتوں کے سرکل مقرر کر کے مضامین لکھواؤ۔اگر آپ لوگوں نے مضمون نویسی کی مشق کرانی ہے تو بیشک امتحان میں شامل ہونے والے کتابیں بھی ساتھ لے آئیں۔ اُنہیں یہ اختیا ر دیا جائے کہ وہ ضروری کتابیں دیکھ سکیںلیکن کسی سے مشورہ نہ لیں۔ بہر حال انہیں یہ موقع دینا چاہئے کہ وہ مختلف کتابوں سے استنباط کر کے مضامین لکھیں۔آخر ہم مضامین لکھتے ہیں تو کیا فرشتے ہمیں آ کر نوٹ لکھواتے ہیں؟ ہم بھی دوسری کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان سے مسائل اخذ کر کے مضامین لکھتے ہیں۔ہمارا یہ مقصد نہیںہونا چاہئے کہ انہیں موجد بنائیںبلکہ ہمارا ان امتحانوں سے یہ مقصد ہونا چاہئے کہ ہمارے نوجوان علومِ مروّجہ کو استعمال کرنا زیادہ سے زیادہ جانتے ہوں جس طرح کتابوں کا امتحان ہوتاہے ایک امتحان اس قسم کابھی ہو لیکن ضروری ہے کہ ایک مضمون مقرر کر دیا جائے۔مثلاًوفاتِ مسیح کا مضمون ہے ۔ایک سال کیلئے یہ مضمون مقرر کر دیا جائے۔بے شک آپ بعض سوالات بھی دیدیں۔ مثلاً کسی نے نئے رنگ میں کوئی اعتراض کیا ہے ۔یا کوئی پرانا اعتراض زیادہ اہم ہوگیاہے تو آپ کہہ سکتے ہیںکہ ان سوالا ت کو مد نظر رکھ کر مضمون لکھا جائے۔صرف شرط یہ ہوگی کہ مضمون اس جگہ لکھنا ہوگااور سپر وائزر کی نگرانی میں لکھنا ہوگاتا معلوم ہو کہ مضمون لکھنے والا وہی ہے۔ہمارا اصل مقصد یہ نہیںکہ خدام کی ذہانت کا امتحا ن لیا جائے بلکہ ہم نے ان کے علم کا امتحان لینا ہے اور علم کتابوں کے مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے۔پس آئندہ یہ طریق بند کیا جائے اور علاقے اور سرکل مقرر کردیئے جائیں اور ان سے ایک ایک نمائندہ اس امتحان میں شمولیت کیلئے لیا جائے۔انہیں مضمون پہلے بتا دیا جائے اور یہ اجازت دی جائے کہ لوکل مجلس کے تمام خدام اپنی ایک میٹنگ منعقد کریںاور اپنے نمائندہ کو دلائل لکھوائیں۔اِس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ساری کی ساری جماعت اِس مضمون کی تیاری میں شامل ہوگی اور ہر خادم یہ کوشش کرے گا کہ اُس کی دلیل زیادہ اعلیٰ ہو۔پھر کتابوں کا مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے صرف دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس نے مقررہ وقت میں مضمون لکھ لیا ہے؟ صَاحِبُ الْقلم اُسی کو کہتے ہیں جو کسی مضمون کو مقررہ وقت میں لکھ سکے اور صَاحِبُ الْقلم پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے۔پھرتقریر ی امتحان بھی اسی طرح کا ہونا چاہئے۔
ایک اَور چیز بھی ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ یہاں ایسا کوئی انتظام نہیں کہ اگر مضمون میں کوئی غلطی ہو جائے تو اُس کی اصلاح کر دی جائے۔مثلاً یہی مضمون کہ پاکستان کو کس بلاک میں شامل ہونا چاہئے یہ مضمون طلباء کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا ۔اگر کوئی لیکچرار کوئی ایسی بات کہہ دے جو سلسلہ کی پالیسی کے خلاف ہو اور اُس کی بعدمیں تردید نہ کی جائے تو سننے والاوہی خیال ساتھ لے جائیگا اور کہے گامیں خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر گیا تھا اور وہاں سے یہ بات سن کر آیا ہوں۔پس اس موقع پر ایسا انتظام بھی ہونا چاہئے کہ کوئی شخص کسی قسم کا کوئی غلط خیال اپنے ساتھ لے کر نہ جائے۔میں بعد میں کوئی ایسا طریق مقرر کردوں گا جس سے غلط خیالات کی تردید ہوسکے اور خدام اپنے ساتھ غلط خیالات لے کر نہ جائیں۔
یہ ہدایتیں میں آئندہ اجتماع کے متعلق دیتا ہوں تحریری اور تقریری مقابلوں کیلئے مجالس کو پہلے لکھا جائے اوروہ اپنی میٹنگ بلائیں اور اپنے اپنے نمائندہ کو نوٹ لکھوائیں۔ نمائندہ اپنی اپنی مجلس کے ارکان سے دلائل سن کر آئے اور اگر یہ پتہ لگ جائے کہ بعض اچھے جوان تیا ر ہوگئے ہیں تو اُنہیں سٹیج پر بولنے کیلئے زائد وقت بھی دیا جاسکتا ہے مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوائے ایک دو نوجوانوں کے کسی نے کوئی خاص بات بیان نہیں کی اور نہ ہی کسی نے یہ خیال کیا ہے کہ جو دو منٹ وقت ملا ہے اس میں کوئی اچھی بات بیان کر وں۔‘‘
(رسالہ خالد ربوہ اکتوبر ۱۹۶۲ئ)




مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۵۰ء کے آخری اجلاس میں
بعض اہم ہدایات


از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۵۰ء کے آخری اجلاس میں بعض اہم ہدایات
(فرمودہ ۲۳؍اکتوبر ۱۹۵۰ ء برموقع اختتامی اجلاس سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ بمقام ربوہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا ۔
’’ چونکہ اب مَیں محسوس کررہاہوں کہ مجھے ضعف زیادہ ہے اِس لئے میں انہی تقریروں پر بَس کروںگاجو مَیںکل سے کرتاچلاآرہاہوں البتہ انعامات کی تقسیم کے متعلق میں ایک بات کہنا چاہتاہوں ۔چاہئے تھا کہ نوجوانوں کی ایسے رنگ میں تربیت کی جاتی کہ انہیں معلوم ہوتاکہ اس موقع پر انہیں کس طرح کام کرنا چاہئے ۔ جب کسی نوجوان کو انعام دیا جاتاہے تواس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دوسرے نوجوانوں کے دلوں میں بھی تحریک پیدا ہوکہ وہ بھی ویسے ہی کام کریں اوردوسروں کے دلوں میں تحریک کاثبوت اس طرح مل سکتاہے کہ وہ اس میں دلچسپی لیں۔ یوں تو انعام دینے والا ،دوسرے کے لئے دل میں بھی دعا کرسکتاہے مگر میں نے جو طریق جاری کیاتھا کہ دوسرے بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْہِکہیں تواِس کی غرض یہ تھی کہ دوسروں کے دل میں ایسے کاموں کی رغبت پیدا ہو۔مگر انعامات کی تقسیم کے وقت باقی سب لوگ خاموش رہے ہیں جس سے معلوم ہوتاہے کہ میری یہ ہدایت ا ُنہیں فراموش ہوچکی ہے ۔اُن کا فرض تھاکہ کسی کوانعام ملتا تووہ بلند آواز سے بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْہِکہتے ۔
دوسری عجیب بات مَیں نے یہ دیکھی ہے کہ انعام لینے والوں کو بھی یہ معلوم نہیں کہ انہیں کیا کہنا چاہئے ان میں سے بھی بعض نے بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْہِکہہ دیا حالانکہ انعام دینے والا کہتاہے بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْہِخدا تجھے برکت دے اور اس انعام کوتیرے لئے فائدہ مند بنائے اوریہ انعام تیری آئندہ ترقیات کا پیش خیمہ ہو۔ اور انعام لینے والا کہتاہے جَزَاکُمُ اللّٰہُ کیونکہ انعام دینے والے نے اس کو انعام بھی دیا اوردعابھی دی۔ پس یہ اُس کے شکریہ میں دعا کرتاہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے اِس نیکی کی جزاِ عطا فرمائے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے شریعت نے یہ سکھایا ہے کہ جب کوئی شخص کھانا کھائے توفارغ ہونے پر کہے کہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ۔ اب یہ عقل کے بالکل خلاف بات ہوگی اگر کھانا کھلانے والا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ کہے اور کھانے والا خاموش رہے ۔پس انعام دینے والے کے لئے مناسب فقرہ یہ ہے کہ بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْہِ اور انعام لینے والے کے لئے مناسب فقرہ یہ ہے کہ جَزَاکُمُ اللّٰہ یعنی جنہوں نے انعام دیا ہے اللہ تعالیٰ ان کی اِس نیکی کو قبول کرے اور اُنہیں اِس کا نیک بدلہ دے۔ پس آئندہ کے لئے یاد رکھو کہ جب انعام دینے والا بَارَکَ اللّٰہُ لَکَ فِیْہِ کہے تو دوسرے بھی یہی فقرہ زور سے کہیں تا انعام لینے والے کو محسوس ہو کہ سب نے اس کے کام کو پسند کیا ہے اوروہ بھی اس کی خوشی میں شریک ہیں اورلینے والا جَزَاکُمُ اللّٰہُ کہے تااس کے دل میں شکر گزاری کا مادہ پیدا ہو۔
اب مَیں آپ لوگوں کو چند فقرات کہنے کے بعد دعا کے ساتھ رخصت کرتا ہوں۔ سب سے پہلی بات تومیں یہ کہنا چاہتاہوں کہ آپ لوگوں نے یہاں سے جوکچھ سیکھا ہے اسے یاد رکھئے اور دوسروں تک پہنچائیے ۔جو جو نمائندے یہاں آئے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ واپس جاکر اپنی اپنی مجالس کا اجلاس کریں اوران کے سامنے وہ ساری کیفیت بیان کریں جو انہوں نے دیکھی ہے اور ان باتوں کا خلاصہ بیان کریں جو میں نے کہی ہیں اور ان فیصلوں کا ذکر کریں جو آپ لوگوں کے مشورہ کے بعد میں نے کئے ہیں اورانہیں یہ تحریک کریں کہ وہ ان تمام باتوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں۔ اِسی طرح جو عہد مَیں نے کل لیا تھا یا آج لیا ہے وہ عہد تما م خدام سے میٹنگ کرکے لیں اورانہیں سکھائیں کہ جب عہد لیا جائے تو اِیْ زور سے کہیں اور وَاللّٰہِ نسبتاً آہستہ آواز میں کہاجائے۔ بہرحال اِیْ وَاللّٰہِ کہنے کی اس طرح مشق کرائیں کہ اُس کی آواز سے میدان گونج اُٹھے ابھی اِیْاپنی ذات میں جتنی بلند ہوجاتی ہے اتنی ہی ہوتی ہے اُس کے پیچھے مشق نہیں ہوتی۔ میں نے بتایا ہے کہ اِیْ کا لفظ خود بخود اپنی ذات میں طاقت رکھتاہے اورمشق سے یہ طاقت دوگنی تگنی بڑھائی جاسکتی ہے۔ صحیح طریق یہ ہے کہ جب یہ الفاظ کوئی شخص کہنا چاہئے توپہلے اپنے سانس کوکھینچ لے۔ نکلے ہوئے سانس پر جب کوئی بلند آواز سے اِیْ وَاللّٰہِ کہنا چاہے تو وہ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن جب سانس اندر کھینچا ہوتو ایک تواس کے اعصاب آواز کو بلند کرتے ہیں دوسرے جو منہ سے ہوا نکلتی ہے وہ اُسے اَوراونچا کردیتی ہے ۔میرا گلا بیٹھا ہؤا ہے مگر مَیں نے تجربہ کے بعد اِس راز کو معلوم کرلیا ہے اورتقریر کے وقت اپنے سانس کو کچھ دیر کے لئے روک لیتاہوں جس سے آواز بلند ہوجاتی ہے ۔یوں میں کہیں سے گزر رہاہوں اورمجھے کوئی اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے تو بعض دفعہ پاس کا آدمی بھی وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُکی آواز نہیں سن سکتا۔ گلے میں ہی آواز رہ جاتی ہے آجکل کئی عزیز اوربچے میرے پاس آتے ہیں اور اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہتے ہیں توتھوڑی دیر کے بعد وہ دریافت کرتے ہیں کہ آپ خفا تو نہیں ہم نے اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہاتھا مگر آپ نے جواب نہیں دیا؟ میں کہا کرتاہوں کہ ہم نے تو وَعَلَیْکُمُ السَّلَامُکہاتھا مگر تم نے سنا نہیں۔ اس گُر کے ماتحت میں نے اس وقت تقریر کرلی ہے۔ بیشک بیمار گلے کی صورت میں یہ چیز بعد میں گلے کے لئے مُضِر ثابت ہوجاتی ہے کیونکہ جومائوف گلا ہو اُسے اس طرح تکلیف پہنچتی ہے لیکن ضرورت کے وقت گزارہ ہوجاتاہے ۔پس اِیْ کہنے سے پہلے اپنے سانس کو تھوڑی دیر کے لئے روک لیا کرو۔ جب ایسا کروگے تو اِیْ کہنے کیساتھ صرف اِیْ کی آواز ہی نہیں نکلے گی بلکہ ساتھ ہوابھی نکلے گی اور وہ اُس آواز کو اَوربھی بلند کردیگی ۔پس آئندہ کے لئے اس طرح مشق کرو کہ اِیْ کہنے والے خواہ چند افراد ہی ہوںان کی آواز فضامیں ایک گونج پیداکردے۔ اس کے علاوہ تین چھوٹی چھوٹی اَوربھی باتیں ہیں۔ خدام الاحمدیہ کی تنظیم جب جاری کی گئی تھی تومَیں نے تیرنے اورسواری کی مشق کی طرف خاص طورپر توجہ دلائی تھی۔ کل ہی شیخوپورہ کے دوستوں نے ایک واقعہ سنایا جس سے معلوم ہوتاہے کہ اگر خدام میری ہدایت پر عمل کرتے تو وہ حادثہ نہ ہوتا ۔وہ واقعہ یہ ہے کہ جب سیلاب آیا تو شیخوپورہ کاایک احمدی لڑکا اَورلڑکوں کے ساتھ مل کر سیلاب زدگان کو بچانے کیلئے گیا۔ پھَٹوں کی کشتی پر وہ سوار تھے راستہ میں کشتی اُلٹ گئی۔باقی توبچ گئے لیکن وہ چونکہ تیرنا نہیں جانتاتھا اس لئے ڈوب گیا۔میں نے خدام کو توجہ دلائی کہ سب سے اہم چیز تیرناہے۔ زمین پر جو مصیبتیں آتی ہیں ان سے انسان اپنی کوشش سے بچ نکلتاہے لیکن پانی میں جو مصیبتیں آتی ہیںان سے بغیر تیرنے کے رہائی نہیں مل سکتی اسی لئے میں نے نوجوانوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی مگرمعلوم ہوتاہے خدام نے اس فن کی طرف جو نہایت شریف فن ہے توجہ نہیں کی۔ یہ ظاہر ہے کہ تم تیراکی کا فن خشکی پر نہیں سیکھ سکتے۔ اس لئے بہرحال تمہیں پانی میں داخل ہونا پڑے گا۔ کوئی افیونی یہ سمجھ لے کہ وہ خشکی پر بھی تیر سکتاہے تواَوربات ہے ۔ ورنہ کوئی عقل مند ایسا خیال نہیں کرسکتا۔
کہتے ہیں کوئی افیونی چاند کی چاندنی میں رات کے وقت زمین پر پیٹ کے بل چل رہاتھا ۔ کسی نے اُس سے پوچھا کہ کیا کررہے ہو؟ اُس نے کہا میں دریا میں تیر رہاہوں حالانکہ وہاں کوئی دریا نہیں تھا بلکہ خشکی تھی اور چاند کی روشنی اُس پر پھیلی ہوئی تھی۔ توافیونی توخشکی پر تیر سکتاہے لیکن عقل مند نہیں تیر سکتا ۔عقل مند اگر تیرنا سیکھنا چاہے تواُس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ نہر یا دریا پر جائے اورتیرنا سیکھے۔ عرب لوگ پانی سے بہت ڈرتے تھے اورتیراکی کافن سیکھنے کی طرف اُن کی توجہ نہیں تھی اِس کانتیجہ یہ ہوا کہ اسلام پر جو سب سے بڑی آفت آئی وہ تیرنا نہ جاننے کی وجہ سے ہی آئی ۔ سب سے بڑی اورہولناک شکست جو اسلام کو پیش آئی وہ جنگ جسر تھی۔ ایرانیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کازبردست لشکر گیا۔ایرانی سپہ سالار نے دریا پار اپنے مورچے بنائے اوران کا انتظار کیا ۔ اسلامی لشکر نے جوش میں بڑھ کر ان پر حملہ کیا اوردھکیلتے ہوئے آگے نکل گئے مگر یہ ایرانی کمانڈر کی چال تھی۔ اس نے ایک فوج بازوسے بھیج کر پُل پر قبضہ کرلیا اورتازہ حملہ مسلمانوں پر کردیا۔ مسلمان مصلحتاً پیچھے لوٹے مگر دیکھا کہ پُل پر دشمن کا قبضہ ہے گھبرا کر دوسری طرف ہوئے تودشمن نے شدید حملہ کردیا اورمسلمانوںکی بڑی تعداد دریامیں کودنے پر مجبور ہوگئی اورہلاک بھی ہوگئی۔ مسلمانوں کایہ نقصان ایسا خطرناک تھا کہ مدینہ تک اِس سے ہل گیا۔۱؎ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ والوں کو جمع کیا اورفرمایا اب مدینہ اورایران کے درمیان کوئی روک باقی نہیں۔ مدینہ بالکل ننگاہے اور ممکن ہے کہ دشمن چند دنوں تک یہاں پہنچ جائے اِس لئے میںخود کمانڈر بن کر جانا چاہتاہوں ۔باقی لوگوں نے تواِس تجویز کو پسند کیا مگر حضرت علیؓ نے کہاکہ اگر خدانخواستہ آپ کام آگئے تومسلمان تتر بتر ہوجائیں گے اوران کا شیرازہ بالکل منتشر ہوجائے گا اِس لئے کسی اَورکو بھیجنا چاہئے آپ خود تشریف نہ لے جائیں۔ اس پر حضرت عمرؓ نے حضرت سعدؓ کو جو شام میں رومیوں سے جنگ میں مصروف تھے لکھا کہ تم جتنا لشکر بھیج سکتے ہوبھیج دو کیونکہ اِس وقت مدینہ بالکل ننگا ہوچکاہے اوراگر دشمن کو فوری طورپر نہ روکا گیا تووہ مدینہ پر قابض ہوجائے گا۔۲؎ یہ خطرناک نقصان جو مسلمانوں کو پہنچا محض تیرنا نہ جاننے کا نتیجہ تھا۔
پس تیرنا نہایت ضروری اور اہم چیزہے۔میں سمجھتاہوں کہ ہمیں عورتوں کو بھی تیرنا سکھانا چاہئے۔ قادیان میں ہم کبھی نہر پر جاتے تو اپنی عورتوں اورلڑکیوں کو بھی ساتھ لے جاتے اوراُنہیں تیرنا سکھاتے تھے۔ لوگ اعتراض کرتے تھے مگر میں نے تواُسوقت اپنی عورتوں اورلڑکیوں کو تیرنا سکھا دیاتھا۔ اب بھی ربوہ میں تالاب بننے چاہئیں اورلڑکوں اورلڑکیوںکو تیرنا سکھانا چاہئے۔
تیرنا انسانی زندگی کا ایک ضروری حصہ ہے اگر جہاز میں انسان سوارہو اورجہاز ڈوبنے لگے تواسے تیرنے کا فن اتنا توآنا چاہئے کہ وہ دس بیس منٹ یا دوچار گھنٹے پانی میں تیرسکے تاکہ اگر اُس کو کوئی مدد پہنچ سکتی ہوتواِس عرصہ میں اسے پہنچ جائے۔ یہ تونہ ہوکہ اِدھر پانی میں گرے اوراُدھر ڈوب جائے۔
میں تما م خدام سے کہتاہوں کہ ان میں سے جو تیرنا جانتے ہوں وہ کھڑے ہوجائیں (اس پر ستّر فیصدی خدام کھڑے ہوئے حضور نے فرمایا) کوشش کرو کہ یہ ستّر فیصدی سَوفیصدی بن جائیں۔ گواس تعدادکو دیکھ کر یہ پتہ نہیں لگتاکہ یہ ستر فیصدی کتنا تیرنا جانتے ہیں ممکن ہے پانچ پانچ ہاتھ تیر کے ہی یہ ستر فیصدی ختم ہوجائیں۔ تیرنے کی طاقت دوسری طاقتوں سے مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً میرے ہاتھ بچپن سے کمزورہیں پائوں مضبوط ہیں لیکن ہاتھ اتنے کمزور ہیں کہ میں چھوٹے سے چھوٹا ڈمبل بھی نہیں دبا سکتا لیکن فٹ بال کا میں کھلاڑی رہاہوں لوگ عام طورپر ہاتھ باہر نکال کر تیرتے ہیں مگر میں نے صرف تیرنا سیکھا ہواہے جسے ہمارے ملک میں لوگوں نے نہایت ہی گندہ نام دیاہؤا ہے ۔بیس سال کے بعد میں ایک دفعہ نہرمیں تیرا ۔ ۳۰،۴۰ لڑکے میرے ساتھ تھے مگر وہ قریباً سارے کے سارے رہ گئے اورمیں سَوا دومیل تک تیرتا چلاگیا۔ صرف ایک لڑکا آخر تک میرے ساتھ رہا۔ غرض لمبے تیرنے کی بھی مشق کرنی چاہئے ۔ میں تالاب اورنہر میں تو تیرتاہوں مگر دریا میں تیرنے کا مجھے موقع نہیں ملا۔ تیرنے کے لئے ہمیشہ گروپ کی صورت میں جانا چاہئے اورپھر قاعدہ یہ ہے کہ دریا میں چونکہ چکر آجاتے ہیں اس لئے گروپ کے افراد ہمیشہ اپنے ساتھ ایک رسّی رکھتے ہیں جس کے ساتھ کچھ بوجھ بندھا ہوا ہوتا ہے اگر کوئی شخص چکر میں آجائے تو اُس کے ساتھی زورسے اُس کی طرف رسّی پھینکتے ہیںجس سے پتھر وغیرہ بندھا ہؤاہوتاہے اورجس کی وجہ سے وہ دُور تک پہنچ جاتی ہے۔ جب اُس رسّی کو وہ شخص پکڑ لیتاہے تووہ اُسے کھینچ لیتے ہیں۔
ایک اَوربات جس کی طرف میں نے پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلائی ہے مگر اب تک توجہ نہیں کی گئی یہ ہے کہ ہرخادم کو کوئی نہ کوئی ہنر آنا چاہئے۔ پڑھنا لکھنا غیر طبعی چیز ہے اورہنر ایک طبعی چیز ہے جو ہر جگہ کام آسکتی ہے۔ مثلاً معماری ہے، لوہاری ہے، نجاری ہے یا اِسی قسم کے اَورپیشے ہیں۔ پیشہ ورہرجگہ اپنے گزارے کی صورت پیداکرلیتاہے اور لوگ اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آپ کو اگر اچھی عربی آتی ہے اورآپ افغانستان چلے جائیں توآپ کی کوئی قیمت نہیں لیکن اگر آپ لوہار کا یا نجار کا کام جانتے ہیں یاآپ درزی ہیں یا آپ جوتا بنانا جانتے ہیں توآپ کی بڑی قیمت ہے۔ اسی طرح آپ کو اچھی انگریزی آتی ہے اورآپ آزاد علاقے میں چلے جائیں توآپ کی کوئی قیمت نہیں لیکن اگر آپ لوہاراکام جانتے ہیں یا اچھے بڑھئی ہیں تووہ آپ کو سر پر اُٹھا لیں گے۔ یہی حال جرمنی اور فرانس کا ہے وہاں بھی محض علم کی کوئی قیمت نہیںلیکن اگر آپ کوکوئی پیشہ آتاہے تو آپ کی بڑی قیمت ہے ۔اسی طرح آپ وحشی قبائل میں چلے جائیں تو وہاں بھی پیشے کی بڑی قدر ہوتی ہے لیکن فلسفہ کسی کام نہیں آسکتا۔
میں نے کہا تھا کہ ایسی جماعتیں جن کو ہروقت خطرات درپیش ہوں اُن کو اِس بات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ وہ مختلف قسم کے پیشے اورہنر سیکھیںمگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خدام نے اس طرف بھی توجہ نہیں کی۔سب سے زیادہ ملزم اِس بارہ میں مرکزی عُہدیدار ہیں میں نے تو ایک صنعتی سکول بھی کھولا تھااور چاہاتھا کہ جماعت کے نوجوان مختلف قسم کے پیشے اور ہنر سیکھ کر باعزت طورپر اپنی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں مگر اس کی طرف بھی توجہ نہ کی گئی اوروہ مدرسہ بند کرنا پڑا۔ بہرحال جماعت کے نوجوانوں کوکسی نہ کسی پیشہ کے سیکھنے کی طرف توجہ ضرور کرنی چاہئے۔
اس کے بعد حضور نے فرمایاخدام میں سے جو درزی کا کام کرتے ہیں یا لوہار کا کام کرتے ہیں یا بڑھئی کا کام کرتے ہیں ان کو مستثنیٰ کرتے ہوئے جو دوسرے خدام ہیں ان میں سے جنہوں نے کوئی اورفن بھی سیکھا ہؤاہووہ کھڑے ہوجائیں۔
(اس پر بعض خدام کھڑے ہوئے اورحضور ان سے دریافت فرماتے رہے کہ وہ اِس وقت کیا کام کرتے ہیں اور انہوں نے موجود ہ کام کے علاوہ کونساہنر سیکھا ہؤا ہے۔ اس کے بعد حضور نے پھر سلسلۂ تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ )
’’مختلف قسم کے پیشے اورہنر جاننا غیر ملکوں میں جانے کے لئے بڑی سہولت پیداکرنے والی چیز ہے اوران کے ذریعہ وہاں آسانی سے روزی کمائی جاسکتی ہے ۔اِس کے علاوہ ہماری جماعت کی ترقی میں بھی اِن پیشوں کا بہت حدتک دخل ہے۔ ایک علاقہ ایساہے جس میں لوہار کے کام، بڑھئی کے کام اوردرزی کے کام جاننے والوں کی بہت ضرورت ہے اگر ہمارا سَودو سَو آدمی وہاں پہنچ جائے تو وہاں کی جماعت بہت مضبوط اورقوی ہوسکتی ہے۔
میں اس سلسلہ میں یہ بھی بتانا چاہتاہوں کہ طالب علم عموماً تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد نوکریاں کرنے لگ جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں کچھ عرصہ تک توگریجوایٹوں کو جگہ مل جائے گی کیونکہ ہندو چلا گیا ہے اور اُس کی جگہ پُر کرنے کے لئے ابھی گریجوایٹوں کی کافی ضرورت ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہ گنجائش بھی جاتی رہے گی بہرحال اِس وقت سب سے زیادہ گنجائش تعلیمی ڈگریاں رکھنے والوں کے لئے ہے۔ اگر پاکستان نے ترقی کرنا ہے تولازماً تعلیم کے ساتھ ترقی کرنی ہے اس لئے بی اے بی ٹی کی ڈگریاں رکھنے والوں کی بہت زیادہ کھپت ہوسکتی ہے۔ بعض علاقوں میں ایسے لوگوں کی بہت زیادہ مانگ ہے اوروہاں تنخواہیں بھی اچھی ملتی ہیں۔ مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ پچھلے دنوں باربار اعلان کرنے کے باوجود ہمیں باہر بھجوانے کے لئے صرف دونوجوان ملے حالانکہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ طالب علموں پر اسُتاد کا بھاری اثر ہوتاہے اگرہمارے تعلیم یافتہ نوجوان اچھے ذہین ہوں اوروہ دینی مسائل کو سمجھ کر بیرونی ممالک میں جائیں تو بہت بڑی کامیابی حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ جو خوبیاں ایک سچے احمدی میں ہو سکتی ہیں وہ کسی دوسرے میں نہیں ہوسکتیں۔ پس ایک تونوجوانوں کو تعلیمی ڈگریوں کی طرف توجہ کرنی چایئے اوردوسرے انہیں کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا چاہئے تیسرے میں اِس امر کی طرف بھی توجہ دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ عام طورپر ہماری جماعت کے دوستوں میں اورشاید باقی لوگوں میں بھی منہ کو صاف رکھنے کی عادت نہیں پائی جاتی اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب وہ بات کرتے ہیں توان کے منہ سے اتنی شدید بُو آتی ہے کہ سردرد شروع ہو جاتاہے۔ حالانکہ دانتوں کی صفائی سے معدہ اچھا رہتاہے اورمعدہ کی مضبوطی سے انسانی صحت اچھی رہتی ہے۔
پس میں خدام الاحمدیہ کو ہدایت کرتاہوں کہ وہ مہینہ میں ایک دفعہ اِس کا امتحان لیا کریں۔ جس کا طریق یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ناک کے پاس آکر اپنا سانس چھوڑو تاکہ دوسرا بتائے کہ تمہارے تنفّس سے بُو آتی ہے یا نہیں ۔گھریلو تعلقات پر اِس چیز کابڑا اثر ہوتاہے۔ قریب ترین تعلق میاں بیوی کا ہوتاہے۔ اِس کے آپس میں کئی دفعہ جھگڑ ے ہوتے رہے ہیں اوربالکل ممکن ہے کہ وہ اپنی ذات میں یہ سمجھتے ہوں کہ اِن جھگڑوں کی فلاں فلاں وجوہ ہیں لیکن درحقیقت اس کی وجہ یہ ہوکہ مرد کے لئے عورت کے منہ کی بُو ناقابلِ برداشت ہو۔وہ اس بات کوظاہر نہیں کرے گالیکن آہستہ آہستہ اُس کے دل میں یہ خیالات پیداہونے شروع ہوجائیں گے کہ اگر میں اپنی بیوی کوچھوڑدوںاورکسی اَورسے شادی کرلوں تواچھاہے۔پس یہ ایک نہایت ہی اہم چیز ہے مگر اِس کی طرف توجہ بہت کم کی جاتی ہے حالانکہ یہ زندگی کے اہم ترین امورمیں سے ہے۔صحت کا اس سے تعلق ہے، سوشل تعلقات پراس کا اثر پڑتاہے اور مذہب نے بھی اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس پر اتنا زور دیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں اگر کوئی شخص پیاز کھا کر مسجد میں آجاتاہے یا لہسن کھاکر مسجد میں آجاتاہے توفرشتے اُس کے پاس نہیں آتے۔۳؎ اب فرشتے توہر جگہ ہیں پاخانہ میںانسان جاتاہے تواُس وقت بھی فرشتے ساتھ ہوتے ہیں۔ لہسن کے کھیت میں بھی فرشتے ہوتے ہیں پیازکے کھیت میںبھی فرشتے ہوتے ہیں، پھر اس حدیث کے معنی کیا ہوئے؟ درحقیقت اِس جگہ فرشتہ سے مراد آسمان کا فرشتہ نہیں وہ توپاخانہ میں بھی جاتاہے، لہسن کے کھیت میں بھی جاتاہے، پیاز کے کھیت میںبھی جاتاہے۔ اِس جگہ فرشتہ سے مراد شریفُ الطبع اور نازک مزاج انسان ہیں جن کے لئے بُوناقابلِ برداشت ہوتی ہے اور جو اِس سے دُور بھاگتے ہیں اِس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مجالس میں آئو توعطر وغیر ہ لگاکر آئو تاکہ لوگوں کے اجتماع کی وجہ سے بُو پیدا نہ ہو‘‘۔
(الفضل یکم اگست ۱۹۶۲ئ)
۱؎ تاریخ طبری جلد ۴ صفحہ ۹۴ تا ۹۷ مطبع دارالفکر بیروت لبنان مطبوعہ ۲۰۰۲ئ
۲؎ تاریخ طبری جلد ۴ صفحہ ۱۱۱ تا ۱۱۲ مطبع دارالفکر بیروت لبنان مطبوعہ ۲۰۰۲ء
۲؎ مسلم کتاب المساجد باب نھی من أکل ثوماً او بَصَلاً (الخ)



تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب
(فرمودہ ۷؍ نومبر ۱۹۵۰ء بمقام ربوہ)
تشہّد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:۔
’’نام جو مَیں نے پڑھوائے تھے اُس کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ دیکھوںتربیت کا کس حد تک اثر ہؤ اہے۔پچاس خدام میں سے ۱۲ ایسے تھے جو کھڑے ہونے سے پہلے اِس کیلئے تیار نہیں تھے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن پر تربیتی کلاس کا کوئی اثر نہیںہؤا لیکن اکثریت ایسی تھی جس نے اپنا مقصد سمجھاتھا۔یعنی پچاس میں سے اڑتیس کا کھڑا ہونا ظاہر کرتا تھا کہ وہ انتظار میں تھے کہ آواز آئے اور وہ اُٹھ کھڑے ہوںلیکن بارہ ایسے تھے جو مُردوں کی طرح کھڑے ہوئے۔اُن کو دیکھ کر یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ کسی تربیتی کیمپ میں رہ چکے ہیں بلکہ یوں معلوم ہوتا تھاجیسے وہ کسی مسجد کے ملاّ ں کے شاگردوں میں سے ہیں۔ مولوی محمد صدیق صاحب نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے کہ اکثر مجالس سے نمائندگان نہیں آئے ۔
جہاں تک انسانی نفس کا تعلق ہے نئی بات لوگ آہستہ آہستہ اختیار کرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ کے لوگ آجکل کے لوگوں سے تقویٰ میں بہت بڑھے ہوئے تھے لیکن جب آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ ہر احمدی ہر تین ماہ کے بعد ایک پائی فی روپیہ کے حساب سے چندہ دے تو بعض دوستوں نے یہ کہا کہ اِس طرح تو احمدیت میں داخل ہونے میں مشکل پیداہوجائے گی۔ اِس میں کوئی شُبہ نہیں کہ کئی لوگ ایسے بھی تھے جو ایک پائی فی روپیہ فی سہ ماہی سے کئی گنا زیادہ چندہ دیتے تھے مگر اس شرح کے مقرر ہوجانے سے بعض نے خیال کرلیا کہ اس طرح احمدیت قبول کرنے میں لوگ ہچکچاہٹ محسوس کریں گے۔ لیکن اب کئی لوگ ایسے ہیں جو اپنی آمد کا تیس چالیس فیصدی چندہ دیتے ہیں حالانکہ اِن میں سے بعض ایمان میں اتنے پختہ نہیں جتنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہ ؓ ایمان میں پختہ تھے لیکن اُس زمانہ میں لوگ ایک پائی فی روپیہ فی سہ ماہی شرح چندہ مقرر ہونے سے گھبراتے تھے ۔
پس ابتداء میں ہمیشہ دِقتیں پیش آتی ہیں لیکن جب کام چلے گا، خدام میں اِس کی اہمیت پیدا ہوتی چلی جائے گی۔ بڑی بات یہ ہے کہ کورس میں شامل ہونے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر خدام کی تنظیم کریں۔ میں سمجھتاہوں کہ ابھی خدام کی دس فیصدی تنظیم ہوئی ہے نوے فیصدی تنظیم ابھی باقی ہے۔ آپ کو چاہئے کہ اپنی اپنی جگہوں پر جاکر خدام کی تنظیم کریں ۔ اِسی طرح اِرد گرد کے علاقہ میں پِھر پِھر کر مجالس میں تحریک کریں کہ اگلے سال اِس کورس میں شامل ہونے کے لئے خدام زیادہ تعداد میں آئیں۔ بعض جگہوں پر مشکلات بھی ہیں مثلاًکراچی کی جماعت کے اکثر خدام ملازم پیشہ ہیں اسی لئے اُنہیں چھٹیاں ملنی مشکل ہوں گی لیکن یہ ہوسکتاہے کہ سال میں دوتین خدام اِس کورس میں شامل ہوجائیں اور وہ وہاں جاکر باقی خدام کو ٹریننگ دیں کیونکہ اِس انتظام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جو خدام اِس تربیتی کورس میں شامل ہوں وہ واپس جا کردوسرے خدام کو ٹریننگ دیں ۔
یا د رکھیں کہ اِس کورس سے ہمارایہ مقصد نہیں تھا کہ ہم تیس چالیس خدام کو ٹرینڈ کریں یا ہمیں صرف تیس چالیس خدام کی ضرورت ہے بلکہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ جس خادم کو اِس کے لئے بلایا جائے وہ آگے دوسروں کوسکھائے اور کوشش کرے کہ آئندہ سال زیادہ خدام اِس کورس میں حصہ لیں۔ آپ میں سے ہرایک دوچار، پانچ چھ اَور خدام کو ٹریننگ دیں ۔ اِسی طرح وہ خدام آگے اَورخدام کو ٹریننگ دیں اس طرح پچاس خدام کوتربیت دینے کی وجہ سے ہزاروں تک یہ تربیت پہنچ جائے گی۔
میں نے اساتذہ سے کہا تھا کہ اس کورس میں موٹی موٹی باتیں سکھائی جائیں، پیچیدگیوں میں نہ پڑا جائے اِس لئے بطور امتحان میں ایک دوباتیں پوچھتا ہوں۔ انڈرٹریننگ (زیر تربیت) خدام سب کھڑے ہوجائیں۔ جو سوال میں کروں گا اُس کا جواب نہیں دینا بلکہ صرف ہاتھ کھڑا کرناہے جس سے معلوم ہو کہ تمہیں جواب آتاہے اورمیں جس سے چاہوں گا جواب پوچھ لوں گا۔ مثلاً میں ایک فقرہ بولتاہوں ،اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے اوریہ خیال کرتے ہیں کہ آپ اِس کی اصلاح کرلیں گے توہاتھ کھڑا کریں۔اس میں مولوی فاضل یا مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل خدام میرے مخاطب نہیں۔ مثلاًمیں یہ فقرہ بولتاہوں اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَالْمُوْمِنُوْنَ اَنْ یُّصَلُّوْنَ۔ بولویہ صحیح ہے یا غلط؟ (اِس پر متعدد خدام نے ہاتھ کھڑے کئے اورحضور نے ایک خادم سے دریافت فرمایا کہ اِس میں کیا غلطی ہے؟ اُنہوں نے دوغلطیوں کی تصحیح کی۔ یعنی انہوں نے بتایا کہ ’’اللّٰہ‘‘ اسمِ ’’اِنَّ‘‘ ہے اِس لئے اِس پر بجائے کسرہ کے فتح آئے گی کیونکہ ’’اِنََّ‘‘ اپنے مابعد کو فتح دیتاہے اور ’’اَلْمُؤْمِنُوْنَ‘‘ مفعول بِہٖ ہونے کی وجہ سے منسوب ہوگا۔ یعنی اَلْمُؤْمِنِیْنَ پڑھا جائے گا۔ آخری غلطی کی وہ تصحیح نہ کرسکے ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے دوسرے خدام سے دریافت فرمایا کہ بتائیں کیا اَوربھی کوئی غلطی ہے یانہیں؟ مگر کوئی خادم جواب نہ دے سکا۔ توحضور نے فرمایا کہ اِس فقرہ میں یُصَلُّوْنَ نہیں چاہئے بلکہ صرف یُصَلُّوْا چاہئے ۔
دوسراسوال حضور نے یہ کیا کہ ـ:۔ فاَعِلٌ ـــکے آخر میں جو حرکت آتی ہے وہ کیا ہے؟ جو خدام اِس سوال کا جواب بتاسکتے ہیںوہ ہاتھ کھڑاکریں۔ ‘‘
(اس پر متعدد خدام نے ہاتھ کھڑے کئے ۔ حضور کے دریافت کرنے پر ایک خادم نے بتایا کہ فَاعِلٌ کے آخر میں رفع آتاہے ۔اِس کے بعد حضور نے فرمایا :)
’’آپ لوگوں نے جوکچھ پڑھا ہے میں امید کرتاہوں کہ وہ لکھابھی ہوگا۔ ‘‘
(اس کے بعد حضور نے اساتذہ کرام سے سوال کیا کہ وہ جوکچھ پڑھایا کرتے تھے آیا وہ لکھوایا بھی کرتے تھے یا نہیں؟ اورخدام اپنی جگہوں پر واپس جاکر اِن اسباق کویاد کرنا چاہیں تووہ کرسکتے ہیں یانہیں؟ اس پر حضور کوبتایا گیا کہ سوائے اَن پڑھ خدام کے جو لکھنا نہیں جانتے باقی خدام نے اسباق نوٹ کرلئے ہیں اور واپس جاکر وہ اگر یاد کرنا چاہیں توایسا کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد حضور نے فرمایا:۔)
’’رپورٹ میں ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ افسوس ہے کہ کورس پورا نہیں ہوسکا کیونکہ جو خدام کورس میں شامل ہوئے اُن میں سے بعض کی علمی قابلیت اپنے ساتھیوں کی نسبت بہت کم تھی ۔ میں نے شروع میں ہی یہ ہدایت کی تھی کہ جو خدام تعلیم یافتہ نہیں ہیں اُن کو الگ تو نہیں پڑھانا چاہئے لیکن اِس کایہ اثر بھی نہیں پڑنا چاہئے کہ کورس خراب ہوجائے کیونکہ اگر یہ غلطی کی جائے تو نافرض شناسی کی ایسی عادت پڑجائے گی کہ اس کاروکنا مشکل ہوگا۔ ہر طالب علم کے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ اُستاد اپنے فرض کو ادا کر رہا ہے اور یہ اُسی صورت میں ہوسکتاہے جب اُستاد اپنے پہلے فرض یعنی کورس کو پورا کرے۔ میں امید کرتاہوں کہ آئندہ یہ غلطی سرزد نہیں ہوگی پڑھانے کے لئے بیشک آسان الفاظ استعمال کرلو لیکن کورس پورا کردینا چاہئے۔ میں نے مولوی سیف الرحمن صاحب کو جن کے سپرد عربی کی ابتدائی تعلیم تھی یہ ہدایت کی تھی کہ صرف ونحو کی لمبی باتوں میں نہ پڑو،صرف ایسی موٹی موٹی باتیں بتادوجن سے خدام کے اندر قرآن وحدیث پڑھنے کیلئے دلیری پیدا ہوجائے اوراس طرح اگر ایک گھنٹہ روزانہ بھی پڑھائی کی جاتی تو اِس قدر عربی چھ سات دن میں پڑھائی جاسکتی تھی ۔ یعنی عنوان بتادیئے جاتے تاکہ کوئی شخص عربی لفظ بول کر انہیں ڈرا نہ سکے۔
بہرحال آئندہ یہ احتیاط ہونی چاہئے کہ کورس پورا ہوجائے ۔اگر کورس پورا نہیں ہوگا تو نہ توطالب علم اپنے مقصد کو حاصل کرسکیں گے اورنہ استادوں کے متعلق وہ اچھا امپریشن (IMPRESSION)لے کر جائیں گے،یہ تو صاف بات ہے کہ اگرایک ڈاکٹر اپنے شاگرد کو آدھی ڈاکٹری پڑھا دے تو وہ لوگوں کو مارنے والا بنے گاجلانے والانہیں بنے گا۔ اسی طرح وہ کورس جو مقرر کیا گیا ہے اگر پورانہ ہوتو لازماً اس کااچھا اثر نہیں پڑسکتا۔
بڑی بھاری چیز جو تمہاری آنکھوںکے سامنے رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم نے احمدیت کے ذریعہ سے اس عہد کو پورا کرناہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خداتعالیٰ سے کیا۔ ہمارافرض تھاکہ ہم یہ عہد آپ کے ذہن نشین کرائیں اوراساتذہ کا فرض تھا کہ ہمارا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے آپ کو پڑھائیں۔ اگر نمائندہ خدام اس بات کو سمجھ لیں اورانہیں اس کا یقین ہوجائے اورساتھ ہی وہ اِس کو آگے پھیلانے کی کوشش کریں تاوہ اُس عہد کو تازہ کریں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خداتعالیٰ کی خاطر ہم سے لیا توہمیں بہت جلد کامیابی حاصل ہوسکتی ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عہد اپنی ذات کے لئے نہیں لیا تھابلکہ آپ نے یہ عہد خداتعالیٰ کی خاطرلیا تھا۔ ہم اگر اِس کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تو اِس لئے تا اِس عہد کو جو آج سے چودہ سَوسال قبل لیا گیا تھادوبارہ زندہ کریں۔ دوسروں کو یاد دلائیں اور اِسے لوگوں میں قائم کرنے کی کوشش کریں ۔اگر یہ بات پختہ ہوجائے توہم اِس فرض کو اداکریں گے جو ہمارے ذمہ لگایاگیاتھا۔ ایک ماں جو قربانی کرسکتی ہے وہ ہرشخص جانتاہے۔ آپ میں سے وہ کون سا شخص ہے جوماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہؤا۔ بیشک بعض لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا ہوگا یا جنہوں نے ماں کی تربیت اپنی ہوش میں حاصل نہیں کی ہوگی لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں نوے فیصدی لوگ ایسے نکلیں گے جنہوں نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہوگا یا اُس کی نگرانی میں دودھ پیا ہوگایا جنہوں نے بچپن میں تربیت اپنی ماں کی نگرانی میںحاصل کی ہوگی وہ جانتے ہیں کہ مائیں کتنی قربانی کرتی ہیں۔ مائیں قربانی کرنے میں بعض دفعہ اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ انسان اندازہ نہیں کرسکتا۔ وہ بسااوقات یہ جانتے ہوئے کہ ان کی قربانی بچہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکتی قربانی پیش کردیتی ہیں۔
مثلاً سینکڑوں ہزاروں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک عورت جو پانی سے خوف کھاتی تھی جب اُس کا بچہ پانی میں گر گیا تو باوجود یہ جاننے کے کہ وہ تیرنا نہیں جانتی یا یہ جانتے ہوئے کہ وہ پانی میں کود کر بچہ کو بچانہیں سکتی پانی میں چھلانگ لگا دیتی ہے اور وہ خیال نہیں کرتی کہ میںمر جاؤں گی۔ یا کسی ماں کا بچہ چوری ہو گیا ہو اور وہ اتنی دیر کے بعداسے دیکھے کہ اسے پہچاننا مشکل ہو مثلاً وہ بچہ ڈاکو اُٹھا کر لے گئے ہوں اور انہوں نے اس کو ڈاکہ زنی کی تربیت دی ہو، وہ چوری کیلئے باہر نکلے اور اپنی ماں کے ہاں چوری کرے، ماں نے پولیس کو رپورٹ کی ہو اور اُس نے اُسے گرفتار کر لیا ہواور ماں کو بطور گواہ پیش کیا ہو ایسے موقع پر ماں گواہی دے دے گی لیکن اس لئے کہ وہ جانتی نہیںکہ وہ اس کا اپنا بیٹا ہے مجسٹریٹ کے سامنے اقرار کر لینے کے بعد کہ اس نے چوری کی ہے اور اِس علم کے بعد اگر وہ انکار کردے تو وہ سزا کی مستحق ہوگی اگر اسے یہ پتہ لگ جائے کہ چور اس کا اپنا بیٹا ہے تو وہ فوراً کہہ دے گی کہ چور یہ نہیں تھامیں نے جھوٹ بولاہے۔ وہ اپنے آپ کو قید میں ڈال دے گی لیکن اُس کے خلاف گواہی نہیں دے گی سوائے اِس کے کہ وہ مؤمنہ ہو۔ یہی حال اُن لوگوں کا ہوتاہے جو سچے مذہب میں داخل ہوتے ہیں لیکن پھر دُور جاپڑتے ہیں۔ اُن کے دلوں میں یہ خیال اور تصور تو ہوتاہے کہ وہ سچے مذہب میں داخل ہیںلیکن وہ صرف ناموں سے محبت کرتے ہیںحقیقت کو پہچاننے کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے۔ اگر کسی وقت اُنہیں معلوم ہوگا کہ وہ عملی طور پر اُسی مذہب کی مخالفت کررہے ہیںجس کی سچائی کے وہ زبان سے قائل ہیں تو وہ فوراًاپنے اندر تبدیلی پیدا کر لیں گے۔ مثلاً آجکل مسلمان لفظِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تو محبت کرتے ہیںلیکن آپ کی روحانی شکل سے نفرت کرتے ہیں لیکن اگر اُنہیں کسی وقت یہ پتہ لگ جائے کہ وہ شکل جس کو اب تک غیر کی شکل سمجھ رہے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل ہے تو وہ اپنے خیال کوفوراًبدل دیں گے اور مخالفت ایک ساعت میںبدل جائے گی۔صحابہؓ کو دیکھوان میں سے بعض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدیدترین دشمن تھے لیکن جب انہیں یہ سمجھ آ گیاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو آناً فاناً اُن کی نفرت محبت میںبدل گئی۔
عکرمہ ؓ جو ابو جہل کا بیٹا تھا ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا رہا۔ جب مکہ فتح ہؤا تو بُغض کی وجہ سے مکہ چھوڑ کر بھاگ گیاکیونکہ وہ آپ کی حکومت کے ماتحت رہنے کیلئے تیار نہیں تھا۔اُس کی بیوی دل سے مسلمان تھی۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عکرمہؓ کے متعلق یہ احکام صادر فرمائے تھے کہ اگر وہ پکڑا جائے تو اُسے سزا دی جائے۔ اُس کی بیوی نے جب یہ احکام سنے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور عرض کیا یَارَسُوْلَ اللّٰہ! میں دل سے مسلمان ہو ں۔عکرمہ ؓ کو بعض غلط فہمیاں ہیں جن کی بناء پر وہ آپ کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اب اِسی مخالفت کی وجہ سے مکہ چھوڑ کر باہرچلا گیا ہے۔ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! وہ اسلام کی اس لئے مخالفت کر رہاہے کہ وہ سمجھتا ہے یہ دین جھوٹا ہے۔ کیا یہ بہتر ہو گا کہ آپ کا ایک رشتہ دار غیروں میں دھکّے کھاتا پھرے یا یہ بہتر ہو گا کہ وہ آپ کیلئے قربانیا ں کرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عکرمہ ؓ کو معاف کرنے کاوعدہ فرمایا۔عکرمہ ؓکی بیوی نے دوبارہ عرض کیا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ!عکرمہؓ اسلام سے اتنا متنفر ہے کہ اگر آپ نے فرمایا کہ اُسے یہاں آ کر مسلمان ہونا پڑے گا تو وہ نہیں آئے گا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم اُسے مسلمان ہونے کیلئے نہیں کہیں گے۔ عکرمہ ؓ حبشہ کی طرف بھاگ رہا تھا اور قریب تھا کشتی میں سوارہوجائے کہ اُس کی بیوی وہاں پہنچی۔ اُس نے یہ کہا میرے خاوند !تم مکہ کے وِرچول رولر (VIRTUAL RULER) کے بیٹے تھے اور اب غیروں میں دھکے کھاؤ گے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ تم غیروں میں دھکے کھانے کی بجائے اپنے ایک رشتہ دار کی اطاعت کرلو؟ عکرمہؓ نے جواب دیا میں اسلام کادشمن ہوں اور ساری عمر دشمنی کرتا رہا ہوں اب جب مسلمانوں کو فتح ہو گئی ہے وہ میرے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ہم اُن کے ساتھ کیا کرتے تھے۔اُس کی بیوی نے کہامیں یہ بات کر آئی ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم واپس چلے آؤتو آپ معاف فرمادیںگے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ جی چاہے تو مسلمان ہو جائے ورنہ اُسے مجبور نہیںکیا جائے گا۔عکرمہؓ نے تعجب سے کہا کیایہ بات سچی ہے؟اُس کی بیوی نے کہامیں نے دُو بدُو باتیں کی ہیں ۔چنانچہ وہ واپس آگیااور کہا مجھے محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس لے چلو۔چنانچہ وہ اُسے آپ کے پاس لے گئی۔عکرمہؓ نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے مجھے معاف کردیا ہے کیا یہ ٹھیک ہے ؟آپ نے فرمایا ہاں اِس نے ٹھیک کہاہے ۔عکرمہؓ نے کہامیری بیوی نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ مجھے اپنے مذہب میں داخل ہونے کیلئے مجبور نہیں کریں گے کیا یہ ٹھیک ہے آپ نے فرمایا،ہاں اِس نے ٹھیک کہا ہے ۔یہ سنتے ہی عکرمہؓ کی آنکھیں کھل گئیں اور اس نے کہا۔ اَشْھَدُاَنْ لَآاِلٰہَ اِلاَّاللّٰہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس سے حیرت ہوئی۔ عکرمہ ؓ نے کہاکہ وہ شخص جو میرے جیسے دشمن کو معاف کرنے کیلئے تیا ر ہوگیاہے اور وہ یہ بھی نہیںکہتا کہ میں اپنا مذہب تبدیل کر کے اس کے مذہب میں داخل ہو جاؤں وہ عام انسان نہیں ہو سکتا وہ یقینا خدا کا رسول ہے اس لئے میں آپ پر ایمان لاتا ہوں۔۱؎ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاعکرمہ ؓ! میں نے تمہیںصرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اگر تمہاری کوئی خواہش ہو تو بیان کرو! اگر وہ ہماری طاقت میں ہوئی تو ہم اسے پوراکریں گے۔ لیکن وہ شخص دنیاوی وجاہت کیلئے اپنی ساری عمر لڑتا رہاکہنے لگا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں آپ دعا فر مائیں کہ خداتعالیٰ میرے تمام گناہ معاف کردے۔۲؎
یہ کتنا بڑا تغیر ہے جو عکرمہؓ میں پیدا ہؤا۔پس مخالفت گوراستی سے دُور لے جانے والی ہے لیکن یہ بعض اوقات راستی کی طرف لانے کا موجب بھی بن جاتی ہے۔ دنیا احمدیت کی مخالفت اِس لئے نہیںکرتی کہ یہ سچی ہے بلکہ وہ اِس لئے مخالفت کرتی ہے کہ وہ یہ سمجھتی ہے یہ جھوٹ ہے۔ہاں کچھ صاحبِ اغراض بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے احمدیت کو قبول کر لیا تو ہماری نمبر داریاں اور حکومتیں جاتی رہیں گی لیکن مخالفین کا اکثر حصہ یہ سمجھتاہے کہ ہم خدا اور اس کے رسولؐ کے مخالف ہیں ۔آپ سمجھتے ہیں کہ اِن لوگوں کا ایمان لانا بھی آسان ہے اور ان کا قابلِ رحم ہونا بھی یقینی ہے۔اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ ہم خدا اور اس کے رسولؐ کے مخالف نہیں تو اُن کی مخالفت عقیدت سے بدل جائے گی اور اُن کی حالت قابلِ رحم اِس لیے ہے کہ وہ ہماری اِس لئے مخالفت نہیں کرتے کہ ہم ان کے خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں بلکہ وہ اِس غلط فہمی میںمبتلا ہیںکہ ہم ان کے خدا اور رسولؐ کی مخالفت کرتے ہیں ۔گویا وہ خدا اور اُس کے رسول کی خاطر ہماری مخالفت کر رہے ہیں اور جو خدا اور اُس کے رسول کی خاطر ہماری مخالفت کر رہاہے وہ ایک حد تک ہمارے لئے قابلِ عزت بھی ہے کیونکہ اُس کا جذبہ نیک ہے۔پس یہاں سے فارغ ہو کر اپنے اپنے علاقہ میں جاؤاور خدام الاحمدیہ کی تنظیم کرو،تبلیغ کرو اور کوشش کرو کہ مرکز کی آواز کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے۔ہمارے نوجوان ابھی بہت پیچھے ہیں۔ہمارے ہر نوجوان کے اندر یہ آگ ہونی چاہئے کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو قائم کردے۔اگر یہ آگ پیدا نہ ہو تو وہ سلسلہ کیلئے کوئی مفید وجود نہیں ۔
پس اپنے اندر ایک آگ پیدا کرو،اپنے اندر ایک سوزش اور جلن پیدا کروجس کے نتیجہ میں تم میںسے ہر ایک مالی قربانی اور تبلیغ کے لئے تیارہو جائے۔تمہارے یہاں پڑھنے کا فائدہ تبھی ہو سکتا ہے جب تم باہر جا کر یہی اَسباق دوسروں کو سکھاؤ۔ ان کو خود بھی یاد رکھو، اِن پر عمل کرواور دوسروں کو بھی سمجھاؤاور اُن سے عمل کروانے کی کوشش کرو۔اور پھر ایسے نئے آدمی پیدا کرو جو تمہارے ساتھ مل کر احمدیت کی اشاعت میں حصہ لیں۔ پھر کوشش کرو کہ وہ بھی اِن پر عمل کریں اور اَور نئے افراد پیدا کریں اور اُن سے عمل کروائیں۔وہ احمدیت میں داخل ہو کر اِس کے احکام کے پابند ہوںاور اِس کو آگے پھیلائیںاور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے ایک دن ساری دنیا میں پھیل جائے۔یہی کام ہے جس کیلئے تم بلائے گئے ہواور یہی وہ کام ہے جس کو تمہیں ہر وقت مدّنظر رکھنا چاہئے۔اگر تم نے یہ کام کیاتو تم خدا تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو جاؤ گے اور اگر نہ کیاتو اُس کی ناراضگی کا موجب بنو گے کیونکہ جتنے دن تم یہاں رہے تم نے محض ایک تھیٹر دیکھا، ایک سینما دیکھا اور تم ایسی باتوں میں شامل رہے جن میںتمہاری روح شامل نہیںتھی۔ تم نے اپنے دن بھی ضائع کئے اور اپنے استادوں کے دن بھی ضائع کئے۔ تمہاری مثال اُس گدھے کی سی ہو گی جس کی پیٹھ پرکتابیں لدی ہوئی ہوں وہ خود اُن سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا لیکن دوسرے لوگ اُن سے فائدہ حاصل کرتے ہیں۔‘‘
(اِس کے بعد حضور نے تمام نمائند گان سے جنہوں نے تربیتی کورس پاس کیا تھا مندرجہ ذیل عہد لیا تھا:۔)
’’کیا آپ لوگ اِس بات کا عہد کرتے ہیں کہ جو باتیں آپ نے یہاںسیکھی ہیں اِن پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنی اپنی جماعتوں میںاِن اَسباق اور تعلیموں کو پھیلانے کی کوشش کریں گے اور زیادہ سے زیادہ اخلاص خود بھی دکھائیں گے اور دوسروں میںبھی اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کریں گے‘‘۔
سب نمائندگان نے بیک زبان کہا:۔ ’’اِیْ وَاللّٰہِ ‘‘
یہ عہد حضور نے تین دفعہ لیااِس کے بعد حضور نے لمبی دعا کروائی اور پھر تمام خدام کو حضور نے شرفِ مصافحہ بخشا۔
(الفضل ۲۸؍ اپریل ۱۹۶۷ئ)
۱؎ ، ۲؎ السیرۃ الحلبیۃ جلد۳ صفحہ۱۰۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء



بھیرہ کی سرزمین میں
ایک نہایت ایمان افروز تقریر




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
بھیرہ کی سرزمین میںایک نہایت ایمان افروز تقریر
(فرمودہ ۲۶؍نومبر ۱۹۵۰ء بمقام بیت احمدیہ بھیرہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:
’’ایک رُبع صدی سے زیادہ عرصہ ہؤا یعنی تقریباً ۳۰ سال ہوئے جب سے میرے دل میں اِس شہر میں آنے کا شوق تھا۔ بھیرہ، بھیرہ والوں کے لئے اینٹوںاورگارے یا اینٹوں اور چُونے سے بنا ہؤا ایک شہر ہے مگر میرے لئے یہ اینٹوںاورگارے یا اینٹوں اور چُونے کا بنا ہؤا شہر نہیں تھا بلکہ میرے اُستاد جنہوں نے مجھے نہایت محبت اور شفقت سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا اور بخاری کا بھی ترجمہ پڑھایا ان کامَوْلَدومَسْکَنْ تھا۔ بھیرہ والوں نے بھیرہ کی رہنے والی ماؤں کی چھاتیوں سے دودھ پیالیکن مَیں نے بھیرہ کی ایک بزرگ ہستی کی زبان سے قرآن کریم اور حدیث کا دودھ پیا۔پس بھیرہ والوںکی نگاہ میں جو قدر بھیرہ شہرکی ہے میری نگاہ میں اس کی اس سے بہت زیادہ قدر ہے۔
میری صحت بچپن سے ہی کمزور تھی اور مَیں اکثر بیمار رہتا تھا جس کی وجہ سے مَیں پڑھائی میں سخت کمزور تھا۔میری آنکھوں میں ککرے تھے اور گلے میں سوزش رہتی تھی اِس لئے نہ تو مَیں پڑھ سکتا تھا اورنہ اچھی طرح دیکھ سکتا تھا۔اُن دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل مولوی نور الدین صاحب جو بھیرہ کے رہنے والے تھے اُنہوں نے مجھے بُلا کر کہا کہ میاں! تم مُجھ سے قرآن کریم پڑھا کرو۔تمہیں نہ دیکھنے کی تکلیف ہو گی اور نہ پڑھنے کی تکلیف ہوگی مَیں خود ہی بولا کروں گا اور مَیں ہی کتاب دیکھا کروں گا۔چنانچہ مَیں نے آپ سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا۔مَیں قرآن کریم کھول کر سامنے رکھ لیتا اور مولوی صاحب پڑھتے بھی جاتے اور ترجمہ بھی کرتے جاتے۔ مَیںنہیں کہہ سکتا کہ آیا یہ میری ذہانت کا نتیجہ تھا یا اُن کے اخلاص اور محنت کا کہ ۱۴،۱۵ سال کی عمر میں ۶ ماہ کے اندر اندر تھوڑاتھوڑا وقت پڑھنے کے بعد قرآن کریم کا ترجمہ ختم ہو گیا۔پھر جب میری عمر ۲۰،۲۲ سال کی ہوئی تو آپ نے مجھے بُلایا اور فرمایا میاں! تم مُجھ سے بخاری بھی پڑھ لو چنانچہ مَیں نے بخاری شریف پڑھنی شروع کر دی۔ گلے کی سوزش کی وجہ سے مُجھ سے پڑھا نہیں جاتا تھا اور آنکھوں میں ککروں کی وجہ سے مَیں کتاب کو دیکھ نہیں سکتا تھا آپ خود ہی بخاری کا ایک پارہ اپنے سامنے رکھ لیتے اور روزانہ نصف پارہ مجھے پڑھادیا کرتے۔ آپ خود ہی پڑھتے جاتے تھے اور خود ہی ترجمہ کرتے جاتے تھے ۔ اِس طرح دو اَڑھائی ماہ میں چھُٹیاں وغیرہ نکال کر مَیں نے بخاری کا ترجمہ ختم کر لیا۔پھر عربی کے کچھ ابتدائی رسالے بھی مَیںنے آپ سے پڑھے۔
یہ علم تھا جو آپ نے مجھے سکھایا اور جس کی وجہ سے میرے اندرمزید مطالعہ کا شوق پیدا ہؤا۔ آپ جو کچھ مناسب سمجھتے تھے تشریح کے طور پر خود ہی بیان کر دیتے تھے اور اگر مَیں کوئی سوال کرتا تو مجھے روک دیتے تھے ۔ ہمارے ایک ہم جماعت تھے۔ تھے تو وہ بڑی عمر کے لیکن دو بارہ کلاس میں شامل ہوئے تھے اُن کا نام حافظ روشن علی تھا ۔ آپ حضرت نوشہ صاحب کے خاندان میں سے تھے جن کا مزار’’رن مل‘‘ضلع گجرات میں ہے اور گدی کے مالکوں میں سے تھے۔انہی کے داماد (حافظ مبارک احمد صاحب)نے ابھی قرآن کریم کی تلاوت کی ہے ۔جب مولوی صاحب کوئی تشریح بیان فرماتے تو چونکہ حافظ روشن علی صاحب اعتراض کرنا شروع کر دیتے اور کہتے کہ ان معنوں پر یہ یہ اعتراض پڑتا ہے۔ میری عمر اُس وقت ۲۰۔۲۱ سال کی تھی۔مَیں نے حافظ صاحب کو اعتراض کرتے دیکھا تو ایک دن میرے دل میں بھی گُدگُدی سی اُٹھی اور مَیں بھی اعتراض کرنے لگا۔ مولوی صاحب کو مُجھ سے بہت محبت تھی۔ ایک دو دن تک تو آپ نے برداشت کیا ۔ لیکن پھر جو مَیں نے سوال کیا تو فرمایا میاں! تمہارا معاملہ اَور ہے اور حافظ صاحب کا معاملہ اَور ہے۔یہ مولوی ہیں اور ان کا طریق بال کی کھال نکالنا ہوتا ہے لیکن تم مولوی نہیں تم نے تو دین حاصل کرنا ہے۔پھر فرمایا میاں! یہ تو دیکھو مجھے تم سے کتنا عشق ہے ۔اگر مَیں ان معنوں سے جو بیان کرتا ہوں زیادہ معنے جانوں تو کیا تمہیں بتا نہ دوں؟اگر مجھے کوئی اور معنے معلوم ہوتے تو مَیں تمہیں ضرور بتا دیتا۔ پس اگر مَیں نے تمہیں کوئی اَور معنے نہیں بتائے تو اس کایہی مطلب ہے کہ مجھے ـصرف اتنے ہی معنے آتے ہیں ۔ پھر فرمایامیاں! اتنا تو سوچو کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے اللہ تعالیٰ کا بندہ صرف مَیںہی ہوں یا تم بھی ہو؟ کیا یہ میرا ہی فرض ہے کہ اسلام پر جو اعتراض پڑ تا ہے اُس کا جواب دوں یا تمہارا بھی فرض ہے کہ تم خود سوچو اور اسلام پر پڑنے والے تمام اعتراضات کا جواب دو؟ تم سوال نہ کیا کرو بلکہ خود سوچا کرو اور ان اعتراضات کے خود جوابات دیا کرو۔
آپ نے مجھے جو کچھ پڑھایا مَیں اُس کی بھی قدر کرتا ہوں لیکن جو آپ نے مجھے نہیں پڑھایا وہ میرے لئے بہت زیادہ قیمتی ہے کیونکہ جونہی یہ آواز میرے کانوں میں پڑی کہ کیا صرف میرا ہی فرض ہے کہ اسلام پر پڑنے والے شبہات کا جواب دوں یا تمہارا بھی فرض ہے کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے صرف مَیں ہی اللہ کا بندہ ہوں یا تم بھی اللہ کے بندے ہو؟اِس آواز نے میرے اندر ایک آگ لگا دی اور مَیںنے سمجھا کہ گویا اسرافیل فرشتے نے صور پھُونکا۔ اس کے بعد مَیں نے پوچھنا بند کردیااور سوچنا شروع کر دیا۔اِس کا نتیجہ یہ ہؤا کہ خداتعالیٰ نے مجھے علم کے سمندر سکھا دیئے۔اب اگر کوئی اسلام کادُشمن اسلا م پر کتنے بھی اعتراض کرے مَیں انہیں خداتعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم سے ہی ردّ کر سکتا ہوں۔
چونکہ بھیرہ آنے کا شوق مجھے مدت سے تھا اِس لئے یہاںآکر مَیں خوش بھی ہوں کہ میری ایک دیرینہ خواہش پُوری ہوئی ۔مگر بھیرہ کی دیواروںمیں داخل ہونے کے بعدمیرے دل کے زخم دوبارہ ہرے ہو گئے۔بھیرے کی ہی ایک لڑکی امۃ الحی سے جو حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل کی بیٹی تھیں ،میری شادی ہوئی۔ہم دونوں میں بہت محبت تھی۔ بیوقوف لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید اسلام اور روحانیت کے یہ معنے ہیں کہ میاں کو بیوی سے محبت نہ ہو اور بیوی کو میاں سے محبت نہ ہو لیکن جو لوگ اسلام اور روحانیت کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی ایک مذہب ہے جو خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے محبت کرنے کاحکم دیتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیںرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ جس گلاس میں مَیں پانی پیتی اُسی گلاس میں اُسی جگہ ہونٹ رکھ کر پانی پیتے اور فرماتے مَیں یہ بتانے کے لئے ایسا کرتا ہوں کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے۔۱؎پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیںایک دفعہ میرے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔آپؐ نے فرمایا عائشہ صبر کرو۔ لوگ بیمار ہؤا ہی کرتے ہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں۔شدتِ درد سے مجھے تکلیف ہو رہی تھی اور مَیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو جو مجھے دین سکھانے کے لئے تھی سمجھ نہ سکی ۔مجھے غصہ آ گیا کہ مجھے سر درد ہو رہا ہے اور بجائے اِس کے کہ آپ مُجھ سے ہمدردی کا اظہار کریں آپ کہتے ہیں کہ صبر کرو لوگ بیمار ہؤا ہی کرتے ہیں۔مَیں نے غصہ سے کہا آپ کو کیا مَیں مر جاؤں گی تو آپ دوسری شادی کر لیں گے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اُس وقت تکلیف میں کہہ رہی تھیں ہائے مَیں۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات سُن کر فرمایا اچھا عائشہ اگر یہ بات ہے تو ہائے تُو نہیں ہائے مَیں ۲؎ اورچند دنوں کے بعد آپؐ بیمار ہو کر فوت ہوگئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاجب تک زندہ رہیں ہمیشہ ہی اِس بات پر افسوس کیا کرتی تھیں کہ مَیں نے یہ فقرہ کیوں کہا جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صدمہ پہنچا۔ گویا مَیں نے آپـ کی محبت پر شُبہ کیا۔ کاش! مَیں یہ فقرہ نہ کہتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مَر جاتی تا یہ صدمہ نہ دیکھتی۔
غرض ناواقف اور جاہل لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ایک مسلمان کے معنی یہ ہیں کہ وہ کوئی پتھر دل کا انسان ہے اور مسلمان وہ ہے جس میں محبت اور وفا کے جذبات نہیں پائے جاتے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم محبت اور وفا کا مجسمہ تھے ۔ایک دفعہ آپ ایک مجلس میں بیٹھے صحابہ سے باتیں کر رہے تھے ایک شخص آیا اور اُس نے کہا یَارَسُوْلَ اللہ! آپ کی بیٹی آپ کو بُلا رہی ہے کیونکہ اس کا لڑکا بیمار ہے ۔ آپؐ باتو ں میں مشغول تھے فرمایا اچھا آتا ہو ں اور پھر باتوں میں بھُول گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ایک شخص آیا اور اُس نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللہ! آپ کی بیٹی یاد فرماتی ہیں لڑکے کی حالت زیادہ خراب ہے۔آپ نے فرمایا اچھا آتا ہوں۔تھوڑی دیر کے بعد تیسراشخص آیا اور اُس نے عرض کی یَارَسُوْلَ اللہ! جلدی تشریف لائیے لڑکے کی حالت زیادہ خراب ہو گئی ہے ۔آپ تشریف لے گئے اور اپنے نواسہ کو گود میں لے لیا ۔تھوڑی دیر میں اُس کی جان نکل گئی ۔اُس وقت آپؐ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔آپ ؐکے پاس ایک انصاری کھڑے تھے ۔ انہوں نے کہا آپ خدا تعالیٰ کے رسول ہیں اور رو رہے ہیں ! جس کے معنی یہ تھے کہ بھلا رسول کو جذبات سے کیا تعلق؟ آـپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر خواہ وہ رسول ہو یا غیر رسول محبت کے جذبات پیدا کئے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں محبت کے جذبات سے محروم رکھا ہے تو میرے پاس اِس کا کیا علاج ہے؟۳؎
غرض آج سے چھبیس ستائیس یا اٹھائیس سال پہلے امۃ الحی مرحومہ سے جب ہم دونوں باتیں کیا کرتے تھے مَیں نے کہا کہ مَیں تمہیں تمہارے ابّا کے وطن لے جاؤں گا پھر اللہ تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت میں یہاں نہ آ سکا اور امۃ الحی مرحومہ فوت ہو گئیں اور جب مجھے بھیرہ آنے کا موقع ملا تو ان کی وفات پر ۲۶ سال گزر رہے ہیں ۔پس جونہی مَیں بھیرہ میں داخل ہؤا وہ باتیں مجھے یاد آگئیں کہ مَیں نے امۃ الحی مر حومہ سے ان کے ابّا کا وطن دکھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن خدا تعالیٰ کی مشیّت کے ماتحت جب تک وہ زندہ رہیں مجھے یہاں ـآنے کا موقع نہ ملا اور جب مجھے یہاں آنے کا موقع ملا تو بھیرے کی بیٹی اور میری بیوی امۃ الحی مرحومہ فوت ہو چُکی تھیں۔ بہرحال جیسے اللہ تعالیٰ کی مشیّت ہوتی ہے اسی طرح ہوتا ہے۔ مَیں امۃ الحی مرحومہ کو بھیرہ لا سکا یا نہ لا سکایہ سب رسمی باتیں ہیں انسان کے اندر محبت کے جذبات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہوتی ہے لیکن اگر فلسفیانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ کوئی بات نہیں ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر کی جنگ میں تشریف لے گئے تو جو لوگ قید ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اُن میں آپ کا ایک داماد بھی تھا جس کو کفار جبراً جنگ کے لئے ساتھ لے گئے تھے آپ نے قیدیوں سے کہاتم فدیہ دو اور رہائی حاصل کر لو۔ آپ کے دامادنے کہا میرے ہاں توکچھ بھی نہیں ہاں مکّہ جاکر کچھ انتظام کر دوں گا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا۔ یہ نوجوان ایک شریف الطبع انسان تھا باوجود اِس کے کہ لوگ اسے کہتے تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو دُکھ دو مگر وہ دُکھ نہ دیتا وہ کہتا تھا مَیں مسلمان نہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عقیدت نہیں رکھتا لیکن پھر بھی مَیں ان کی لڑکی کو کیوں ماروں۔چنانچہ وہ باوجود دوسروں کے اُکسانے کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو دُکھ نہیں دیتا تھا۔جب وہ واپس مکّے گیا تو گھر میں کوئی چیزنہ تھی جو فدیہ کے طور پر دی جاتی۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے پاس ایک سونے کا ہار تھا جو شادی کے موقع پر والدہ کی طرف سے اُسے دیا گیا تھا۔اُس نے اپنے خاوند کو وہ ہار دے کر کہا یہ ہار لے لو اور اِسے فدیہ کے طورپر بھجوادو۔ مسجد میں جاکر جب دوسرے لوگوں نے فدیے پیش کرنے شروع کئے تو ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے عرض کیا کہ یَارَسُوْلَ اللہ! آپ کے داماد نے یہ ہار بطورفدیہ بھجوایا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہار پر سے کپڑا اُٹھایا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے آپ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اگرآپ لوگ خوشی سے منظور کر لیں کہ یہ ہار واپس کر دیا جائے تو مَیں اِس کی سفارش کرتا ہوں۔ ہار تو ہار ہی ہے مگر اس میں اتنا فرق ہے کہ یہ ہار میری مرحومہ بیوی خدیجہ ؓکے ہاتھ کا تحفہ ہے جو اُس نے اپنی بیٹی کو دیا تھا اور میری بیٹی کے پاس بس یہی ہار اپنی والدہ کی ایک یادگار ہے اِس کے سوا اور کوئی یادگار نہیںمجھے یہ ہار دیکھ کرصدمہ ہؤا کہ خاوند کی جان بچانے کے لئے میری بیٹی نے ایک ہی چیز جو اُس کے پاس اپنی والدہ کی یادگار تھی اُس نے بطور فدیہ بھیج دی ہے ۔اگر آپ لوگ خوشی سے اسے معاف کر دیں تو مَیں یہ ہار واپس کر دوں۔ صحابہ کرام ؓتو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جانیں قربان کرنے کے لئے تیار تھے ہار کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی ۔ صحابہ ؓنے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللہ! اس سے زیادہ خوشی ہمارے لئے اور کیا ہو گی کہ ہم اِس ہار کو جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بیٹی کو بطور تحفہ دیا تھا اُسے واپس کر دیں چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہار واپس کر دیا۔۴؎
اب دیکھو سونے میں کیا رکھا تھا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وطن چھوڑا، جائدادیں چھوڑیں، مکان چھوڑے اور مشیّتِ الٰہی کے مقابلہ میں ان کی کچھ بھی پرواہ نہ کی۔ پھر آپ کی شان تو بڑی تھی صحابہ ؓنے بھی اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی خاطرقربان کردیا لیکن سونے کے اس ہار کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صدمہ پہنچا اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ کا دیا ہؤا ہار تھا۔ سونے کا سوال نہیں اگر وہ مٹی کا بھی بنا ہؤا ہوتا تو آپ کو تکلیف ہوتی کیونکہ اس کا جذبات کے ساتھ تعلق تھا۔ پس امۃ الحی نے فوت ہونا تھا اور وہ فوت ہو گئیں مَیں پہلے مرجاتا یا وہ پہلے مر گئیں اِس میں کوئی فرق نہیں یہ خدا تعالیٰ کا قانون تھا جو پورا ہؤا لیکن یہ جذبات کی چیز ہے کہ جب ہم دونوں باتیں کیا کرتے تھے تو مَیں اُن سے وعدہ کیا کرتا تھا کہ مَیں تمہیں تمہارے ابّا کا وطن دکھاؤں گا لیکن جب وہ وقت آیا کہ مَیں نے بھیرہ دیکھا تو وہ ہستی جس سے مَیں وعدہ کیا کرتا تھا کہ مَیں اُسے اُس کے ابّا کا وطن دکھاؤں گا اِس دنیا سے گزر چُکی تھی ۔
جب کہ مَیں بتا چُکا ہوں مجھے یہاں آنے کی دیرینہ خواہش تھی مقامی جماعت کے بعض دوست ڈرتے تھے کہ کہیں دوسرے لوگ شورش نہ کریں اور اُنہوں نے چاہا کہ مَیںبھیرہ نہ جاؤں لیکن میری سمجھ میںیہ بات نہیں آئی کہ آخر یہاں کے لوگ میری وجہ سے شورش کیوں کریں گے۔ ـآخر کوئی کسی کے خلاف ہوتا ہے تو وہ اِس لئے کہ وہ اس کا کام بگاڑتا ہے مَیں نے اِن کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ میرے خلاف ہوں گے۔ اگر کوئی شخص میرے یہاں آنے کی وجہ سے شورش کرے گا تو وہ غلط فہمی کی بناء پر ہو گی۔ وہ اِس خیال سے شورش کرے گا کہ مَیں (نعوذباللہ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دُشمن ہوں مُجھ کو تو یہ مخالفت بھی اچھی لگتی ہے کہ یہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ہے۔ آخردیکھنا یہ ہے کہ کیا یہاں کسی سے میرا زمین کا جھگڑا ہے یا مکان کا جھگڑا ہے یا کسی عُہدے کا جھگڑا ہے ۔ مَیں گورداسپور کا رہنے والا ہوں اور ہجرت کے بعد ضلع جھنگ میں مقیم ہوں۔ اور جہاں تک جائداد کا سوال ہے یہاں کے کسی رہنے والے کو مُجھ پر شکوہ نہیں ہو سکتا اگر کسی کو مُجھ پر کوئی شکوہ ہے تو کسی جائداد کے جھگڑے کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ شکوہ مخالفوں کی اِن باتوں کی وجہ سے ہے کہ مَیں (نعوذباللہ)محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہوں اور آپ کے دین کو بگاڑتا ہوں ۔یہ سب باتیں ہیں تو جھوٹی لیکن بہرحال جو شخص مجھے گالیاں دیتا ہے، مجھے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے یا مُجھ پر پتھراؤ کرنے کا ارادہ کرتا ہے وہ اِس لئے ایسا کرتا ہے کہ وہ اپنی غلط محبت کی وجہ سے مجھے رسول کریم ـصلی اللہ علیہ وسلم کا دُشمن تصور کرتا ہے ۔ میرے لئے تو یہ امر بھی خوشی کا موجب ہے کہ لوگ میری مخالفت کی وجہ سے شورش کرتے ہیں جو انہوں نے عملاً نہیں کی یا وہ مُجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں جو عملاً انھوں نے نہیں کیا۔ اگر وہ عملاً بھی ایسا کرتے تب بھی مَیں خوش ہوتا کہ ان کے اندر میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تو ہے۔ آخر مَیں بھی توحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کے اتباع میں سے ہوں آپ کو شعر کی صورت میں ایک الہام ہؤا۔ اُس کے الفاظ مَیں پہلے سُنا دیتا ہوں اور پھر اُس کا ترجمہ کروں گا۔ اُس وقت لوگ بڑی مخالفت کرتے تھے ۔مَیں ابھی بچہ ہی تھا لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام ایک دعوت سے واپس تشریف لارہے تھے آپ جب بازار میں سے گزررہے تھے تو لوگ چھتوں پر کھڑے ہو کر آپ کو گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مرزا دَوڑگیا مرزا دَوڑ گیا۔ اسی اثناء میں مَیں نے ایک بڈھے کو دیکھا جس کا ایک ہاتھ کٹا ہؤا تھا اور اُس پرتازہ تازہ ہلدی لگی ہوئی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ہاتھ کٹے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی ۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ بڈھا اپنا تندرست ہاتھ کٹے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہہ رہا تھا مرزا نَٹھ گیا مرزا نَٹھ گیا۔مَیں حیران تھا کہ آخر یہ کیوں کہتا ہے مرزا نَٹھ گیا۔ اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ ولسلام ایک دفعہ لاہور شہر میں جارہے تھے اورپیچھے سے کسی نے حملہ کیا اور آپ گر گئے۔ اِسی طرح لوگوںکو پتھراؤکرتے بھی ہم نے دیکھا۔
غرض اُن دنوں مخالفت بڑی زور وں پر تھی اور قدرتی طور پر جماعت کے بعض دوستوں کو بھی غصہ آجاتا تھا کہ آخر یہ لوگ بِلاوجہ ایسا کیوں کرتے ہیںاُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہؤا ؎
اے دل تُو نیز خاطر ایناں نگہدار
کآخر کنند دعویٰ حُبِّ پیمبرم
یعنی اے ہمارے مأمور! یہ مسلمان جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں تُو پھر بھی ان کا لحاظ کر آخر یہ تمہیں کیوں گالیاں دیتے ہیں؟ تمہیں مارنے کیوں دَوڑتے ہیں اور تم پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں؟ یہ لوگ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہی تمہیں مارتے اور گالیاں دیتے ہیں اِس لئے اِن کا لحاظ رکھنا بڑا ضروری ہے۔ غرض ہماری جو مخالفت ہوتی ہے تمہیں دیکھنا چاہئے کہ اِس کے پیچھے کیا بات ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ لوگ جو تمہیں گالیاں دیتے اور کہتے ہیں کہ تمہاری چائے بھی شراب سے بدترہے شراب پینا جائز ہو سکتا ہے لیکن تمہاری چائے پینی جائز نہیں اگر انہیں پتہ لگ جائے کہ میرے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا جوشعلہ جل رہا ہے وہ ان کے لاکھوں لاکھ کے اندر بھی نہیں جل رہا تو وہ فوراً تمہارے قدموں میں گِر جائیں۔یہ لوگ مخالفت اِسی لئے کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مَیں اور میرے ساتھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں ۔یہ مخالفت بعض غلط فہمیوں کے نتیجہ میں ہے اِسی لئے جب مَیں نے سُنا کہ لوگ میرے آنے پرشورش کریںگے تو مجھے غصّہ نہیں آیا مجھے یہ سُن کر کہ لوگ میری مخالفت کی وجہ سے شورش کریں گے خوشی ہوئی کہ ابھی میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی چنگاری ان کے اندر سُلگ رہی ہے اگرچہ وہ کسی غلط فہمی کی بِناء پر ایسا کر رہے ہیں لیکن اِس کا موجب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی ہے اِس لئے ہمیں بجائے غصہ میں آنے کے اِن کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے ۔اگر کسی شخص کا بھائی بیمار ہو جاتا ہے تو وہ اُسے زہر دے کر مارا نہیںکرتا، وہ گلاگھونٹ کر ہلاک نہیں کرتا بلکہ اُس کا علاج کرتا ہے اِسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم بجائے ناراض ہونے کے اِس مخالفت کو رفع کرنے کی تدبیر کریں۔اگر لوگ مخالفتیں کرتے ہیں اور مجھے یابانی ٔ سلسلہ احمدیہ کو یا تمہیں بُرا بھلا کہتے ہیں تو جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اور کسی غلط فہمی میں مُبتلا ہیں پس تم بجائے ناراض ہونے کے دعائیںکرو اور ان مخالفت کرنے والوں کو اصل حقیقت سے واقف کرو جب تم انہیں اصل حقیقت سے واقف کر دو گے تو انہیں پتہ لگ جائے گا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دُشمن نہیں بلکہ آپؐ کے سچے عاشق ہیں اور وہی لوگ جو تمہیں مارنے پر آمادہ ہیں تمہاری خاطر مرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ آخر مکّہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی مخالفت کی تھی؟ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اِس لئے کرتے تھے کہ وہ سمجھتے تھے یہ شخص دینِ حقّہ یعنی ان کے آباؤ اجداد کے دین کی مخالفت کرتا ہے اور اسے بگاڑ تا ہے لیکن جب انہیں پتہ لگ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دینِ حقّہ لائے ہیں تو وہی مکّہ والے جو آپ کو مارنے کے درپے تھے آپ کی خاطر قربانیاں کرنے اور اپنی جانیں دینے کے لئے تیار ہو گئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشد ترین دُشمن عتبہ، شیبہ، ولید، عاص اور ابوجہل تھے اور ان کے ساتھ چمٹا ہؤا ابوسفیان تھا یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء سے مخالفت کی اور ایسی شدید مخالفت کی جس کی شان دنیا کے پردہ پر نظر نہیں آتی ۔ ابو جہل کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک چٹان پر بیٹھے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے صبح کا وقت تھا کہ ابوجہل پاس سے گزرا۔ اُس نے جب آپ کو چٹان پر اِس طرح خاموش بیٹھے دیکھا تو شیطان نے اُس کے دل میں شرارت پیدا کی اُس نے آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں، بُرا بھلا کہا اور پھر آپ کو ایک تھپڑ مارا اور کہا تُو باز نہیں آتا اپنی باتوں سے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے کوئی بات سوچ رہے تھے جب ابو جہل نے آپ کو تھپڑ مارا تو آپ نے صرف اتنا کہا کہ مَیں نے آپ لوگوں کا کیا بگاڑا ہے کہ میرے ساتھ اتنی دُشمنی کی جاتی ہے ،مَیں نے تو آپ لوگوں کو صرف خدا تعالیٰ کا پیغام سُنایا ہے ۔آپؐ نے یہ فرمایا اور پھر چٹان پر بیٹھ گئے۔
حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے،آپ نہایت دلیر بہادر اور مضبوط پہلوان تھے آپ ہر وقت شکار میں مشغول رہتے تھے اور دین کے متعلق سوچنے کا کبھی آپ کو خیال بھی نہیں آتا تھا۔ جب ابو جہل نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارا تو حمزہ ؓکی ایک پرانی لونڈی اِس واقعہ کو دیکھ رہی تھی ۔پرانی لونڈیاں اور خادم بھی گھر کے فرد بن جاتے ہیں اِس لونڈی نے جب یہ نظارہ دیکھا تو اسے بہت دکھ ہؤا وہ مسلمان تو تھی نہیں سارا دن کام کرتی جاتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے دوسرے بزرگوں کو یاد کر کے بڑبڑاتی جاتی کہ آمنہ کے بچے نے اِن کا کیا بگاڑاہے کہ وہ یونہی اسے مارتے ہیں اور وہ انہیں کچھ بھی تو نہیں کہتا۔سارا دن اُس کے سینہ کے اندر ایک آگ لگی رہی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پتھر پر سے اُٹھے اور اپنے گھر تشریف لے گئے۔ حضرت حمزہ ؓ شکار کے لئے باہر گئے ہوئے تھے شام کو وہ اوپچی ۵؎بنے نیزہ اور تلوار لٹکائے ہوئے تیر کمان پکڑے اور ہاتھ میں شکار لٹکائے گھر واپس تشریف لائے ۔حضرت حمزہ ؓ کا گھر میں داخل ہونا تھا کہ وہ لونڈی کھڑی ہو گئی اور اُس نے کہا تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو، ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج صبح ابو جہل نے تمہارے بھتیجے سے کیا کِیا ؟ حضرت حمزہ ؓ نے کہا کیا بات ہے؟ یہ سوال سُن کر وہ لونڈی رو پڑی اور اس نے کہا آج مَیں دروازہ میں کھڑی تھی کہ مَیں نے دیکھا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پتھرپر چُپ کر کے بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو جہل (ابوجہل کا اصل نام ابوالحکم تھا)پاس سے گزرا اور بغیر کچھ کہے اُس نے آپ کے منہ پر تھپڑ مارا اوربُرابھلا کہا۔ آپ نے صرف اتنا کہا کہ اے لوگو! مَیں نے تمہاراکیا بگاڑا ہے کہ تم مجھے مارتے ہو مَیں تو صرف خداتعالیٰ کا پیغام تمہیں سُناتا ہوں۔ پھر وہ لونڈی غصہ میں آکر کہنے لگی خدا کی قسم!محمد نے ابوجہل کو کچھ بھی تو نہیں کہا تھا۔ ایک جاہل عورت کی زبان سے یہ بات سُن کرحضرت حمزہ ؓکو غیرت آگئی اور وہ فوراً واپس لَوٹے۔شام کاوقت تھا ابوجہل بیتُ اللہ میں بیٹھا تھا اور اس کے اِردگِرددوسرے سردارانِ مکّہ بیٹھے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدگوئیاں ہورہی تھیں۔ حضرت حمزہ ؓ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور سیدھے اُس جگہ پر پہنچے جہاں ابوجہل دوسرے سرداروں کے ساتھ بیٹھا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدگوئیاں کررہا تھا ہاتھ میں تیرکمان تھی آپ نے اُ س کا ایک سِرا پکڑ کر ابو جہل کے منہ پر دے مارااور کہا تُو بڑا بہادر بنا پھرتا ہے میری لونڈی نے مجھے بتایا ہے کہ میرا بھتیجا (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) آج صبح جب ایک پتھر پر بیٹھا تھا تو تُو نے اُسے تھپڑمارا ور اس نے تمہیں کوئی جواب نہ دیا اب مَیں تمہیں مارتا ہوں اگر تم بہادر ہو تو میری مار کا جواب دو۔۶؎
یہ واقعہ ایسا اچانک ہؤا کہ ابوجہل گھبراگیا اُس کے ساتھی جوش سے کھڑے ہوئے اور حضرت حمزہ ؓکے ساتھ لڑنے کو اٹھے مگر ابوجہل پر صداقت کا اثر تھا وہ کہنے لگا جانے دومُجھ سے ہی صبح غلطی ہو گئی تھی۔ حضرت حمزہ ؓ واپس آئے اور اُس مکان کا پتہ لے کر جہاں اُن دنوں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقیم تھے پہنچے اور عرض کیا کہ مَیں مسلمان ہوتا ہوں ۔
غرض ابوجہل کی دُشمنی کا یہ حال تھا کہ وہ بِلا وجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دُشمنی کیا کرتاتھا اگر یہ ہوتا کہ آپ توحید کا وعظ کر رہے ہوتے تو ہم کہتے ابوجہل پاس سے گزرا اور آپ کا وعظ سُن کر وہ غصہ میں آگیا لیکن آپ خاموش پتھر پر بیٹھے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے۔ یہ ابوجہل کی مخالفت کی حالت تھی اُس کا بیٹا عکرمہ ؓ بھی اُس کے نقشِ قدم پر چلتا تھا اور وہ آپ کی دُشمنی میں انتہا کو پہنچا ہؤاتھا بیسیوں مسلمانوں کو اس نے مارا اور قتل کیا یہاںتک کہ خداتعالیٰ نے اسلام کو فتح دی اوررسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت میں مکّہ میں داخل ہوئے اور آپ نے چند افراد کو جو تعداد میں سات کے قریب تھے اور جنہوں نے مسلمانوں کو مارا اورانسانیت کے خلاف جرائم کئے تھے قتل کر دینے کا حکم دے دیا ۔ یورپ والوں نے بھی بعض لوگوں کو اِسی جُرم کی بناء پر قتل کیا یا پھانسی پر لٹکایا ہے۔ گزشتہ جنگ کے اختتام پر بھی جب بعض سر کردہ جرمن لیڈروں پر مقدمہ چلایا گیا تو یہ کہا گیا کہ اُنہیں جنگ کے بدلہ میں نہیں بلکہ انسانیت سوز جرائم کے بدلہ میں پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے جو اِن سے سرزد ہوئے۔ اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فتح مکّہ کے بعد ان سات اشخاص کے متعلق یہ احکام جاری کئے کہ انہیں قتل کر دیا جائے ان سات افراد میں عکرمہ ؓ بھی تھا۔ اس کی بیوی دل سے مسلمان ہو چکی تھی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اُس نے عرض کیا یَارَسُوْلَ اللہ! مَیں دل سے مسلمان ہوںمگر میرا خاوند مکّہ چھوڑکر بھاگ گیا ہے وہ اسلام کا کتنا دُشمن ہی سہی لیکن پھر بھی آپ کا بھائی ہے کیا یہ بہتر ہے کہ وہ کسی اَور مُلک میں جا کر کسی غیر کے ماتحت رہے اور وہاں دھکّے کھاتا پھرے یا یہ بہتر ہے کہ آپ اسے معاف کر دیں اور وہ آپ کے زیرِسایہ زندگی بسر کرے؟آپ نے فرمایا اچھا ہم اسے معاف کرتے ہیں وہ واپس آجائے ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے۔ اس کی بیوی نے پھر عرض کیا یَارَسُوْلَ اللہ! وہ بڑا غیرت مند شخص ہے اگر آپ یہ کہیں گے کہ وہ مسلمان ہو کر یہاں رہے تو وہ یہاں نہیں رہے گا۔ ہاں اگر آپ اجازت دیں کہ وہ کافر ہوتے ہوئے بھی یہاں رہ سکتا ہے تو وہ واپس آجائے گا۔آپ نے فرمایا بہت اچھا ہم اسے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہیں گے وہ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے۔عکرمہ ؓکی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد لے کر عکرمہ ؓکی تلاش میں گئی عکرمہ ؓ حبشہ کی طرف بھاگا جارہا تھا وہ کشتی میں سوار ہونے کو تیار تھا کہ اُس کی بیوی وہاں پہنچی اور اُس نے خاوند سے کہا تم کہاں جارہے ہو یہاں اپنا بھائی حاکم ہے کیا یہ بہتر ہے کہ تم اس کے ماتحت رہو یا یہ بہتر ہے کہ تم غیر کی غلامی کرو ؟عکرمہ ؓ نے کہا کیا تجھے معلوم نہیں کہ مجھے قتل کر دینے کے احکام جاری ہو چکے ہیں ؟اُس نے کہاتم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جانتے تمہارے سینہ میں کُفر کی آگ بھڑک رہی ہے مَیں جانتی ہوں کہ جو کچھ اُنہوں نے مُجھ سے کہا ہے سچ کہا ہے۔ اُنہوں نے کہا ہے کہ اگر عکرمہ ؓ مکّہ واپس آجائے تو مَیں اسے معاف کردوں گا۔ عکرمہ ؓنے کہا اچھا انہوں نے اگر معاف بھی کر دیا تو وہ مجھے مسلمان ہونے کے لئے کہیں گے لیکن مَیں تو مسلمان نہیں ہوں گا۔بیوی نے کہا نہیں انہوں نے کہا ہے کہ وہ تمہیں مسلمان ہونے کے لئے بھی نہیں کہیں گے تم اپنے مذہب پر قائم رہ کر مکّہ میں رہ سکتے ہو ۔ عکرمہ ؓ نے کہا کیا یہ سچ ہے؟ بیوی نے کہا ہاں یہ بالکل سچ ہے ، مَیںنے خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کر لی ہے ۔ عکرمہؓ نے کہا اچھا مَیں چلتا ہوں لیکن مَیں محمد رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وسلم ) کے منہ سے یہ باتیں سنوں گا تب مانوں گا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں بیٹھے تھے کہ عکرمہ کی بیوی اُسے ساتھ لئے حاضر ہوئی۔ عکرمہ ؓ نے کہامحمد!(عکرمہ ابھی ایمان نہیں لایا تھا۔اور وہ آپ کو اِسی نام سے پکارتا تھا)میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے۔ عکرمہ ؓنے کہامیری بیوی نے ایک اور بات بھی کہی ہے اور وہ یہ ہے کہ مَیں مکّہ میںاپنے مذہب کو مانتے ہوئے بھی رہ سکتا ہوں مجھے اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا؟آپ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے۔عکرمہؓ نے کہا اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا عکرمہ !مَیں نے تجھے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہا۔عکرمہ ؓ نے کہا اتنا بلند حوصلہ اور ایثار خداتعالیٰ کے رسول کے سوا کسی میں نہیں ہو سکتا۔ جب مَیں نے اپنے کانوں سے یہ بات سُن لی کہ آپ نے مُجھ جیسے شدید دُشمن کو بھی معاف کر دیا ہے تو مَیں آپ کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں ۔اب آگے دیکھو۔ عکرمہ ؓ میں کتنی جلدی فرق پڑتا ہے۔وہ دنیا دار عکرمہ جو اپنی عزت اور وجاہت کی خاطر آپ سے لڑائیاں لڑا کرتا تھاجب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ عکرمہ ؓ ہم صرف تمہارے قصوروں کو ہی نظر انداز نہیں کرتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ تم کچھ مانگ لو۔اگر ہماری طاقت میں ہؤاتو ہم تمہاری خواہش کو پورا کر دیں گے تواُس کے منہ سے یہ بات سجتی تھی کہ مجھے دو سَواونٹ دے دیں،میرے مکان مجھے واپس دے دیںلیکن وہ کلمہ پڑھتے ہی بدل چُکا تھا۔ اُس نے عرض کیا ۔یَارَسُوْلَ اللہ! مَیں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ مَیں نے آپ سے لڑائیاں کر کے جو گناہ سہیڑے ہیں خدا تعالیٰ وہ گناہ مجھے معاف کر دے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااور کچھ؟عکرمہ ؓ نے عرض کیا ۔یَارَسُوْلَ اللہ! اس سے بڑی چیز اور کیا ہو سکتی ہے۔۷؎
پھر اِسی عکرمہ ؓ نے مسلمان ہونے کے بعد وہ قربانی دکھائی جس کی نظیر نہیں ملتی۔ جب حضرت عمر ؓ کے زمانہ میں اسلامی فوجیں قیصر کی فوجوں سے لڑنے کے لئے گئیں تو ایک جگہ دُشمن کو زور حاصل ہو گیا دُشمن نے ایک ٹیلہ پر عرب تیر انداز بٹھا دیئے جو صحابہ ؓ کو پہچانتے تھے اور انہیں ہدایت تھی کہ صحابہ ؓکو چُن چُن کر ان کی آنکھوں پر تیر ماریں۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیااوراکثر صحابہ ؓ کی آنکھیں ضائع ہوگئیں۔ مسلمانوں کو فکر پڑی کہ صحابہ ؓ کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں ۔حضرت عکرمہ ؓ حضرت ابو عبیدہ ؓکے پاس گئے(حضرت ابو عبیدہؓ اسلامی فوج کے کمانڈر تھے) اور کہا ۔صحابہ کی یہ حالت مُجھ سے دیکھی نہیں جاتی۔دُشمن کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ جب تک ہم اچانک حملہ کر کے انہیں خوفزدہ نہیں کریں گے یہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔آپ مجھے اجازت دیں کہ مَیں ۳۰ آدمی ساتھ لے کر کفار کے لشکر کے قلب پر حملہ کردوں تا کہ وہ تِتَّربِتَّر ہو جائے ۔حضرت ابوعبیدہ ؓنے کہا ۔یہ بات خلافِ عقل ہے کہ ۶۰ ہزار دُشمن کے مقابلہ پر تیس آدمی جائیں۔ حضرت عکرمہؓنے کہا ۔آخر ہم مر ہی جائیں گے اور کیا ہو گا۔حضرت ابو عبیدہ ؓنے کہا مَیں اتنی بڑی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ حضرت ابوعبیدہ ؓ نے حضرت خالد ؓبن ولید کو بلایا اور ان سے کہا۔عکرمہ یوں کہتا ہے ۔ خالدرضی اللہ عنہ نے کہا ۔عکرمہ ؓنے ٹھیک کہا ہے۔جب تک دُشمن پر ہمارا رُعب نہیں پڑے گا وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔ حضرت ابو عبیدہ ؓنے کہا ۔اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ مَیں تیس مسلمان مروا دوں۔خالد رضی اللہ عنہ نے کہا ۔آخر آدمی مرا ہی کرتے ہیں۔ تب حضرت ابو عبیدہ ؓنے عکرمہ ؓکی بات مان لی ۔ہاںاتنا کر دیا کہ تیس آدمیوں کی بجائے ساٹھ آدمی ان کے ساتھ کر دئے تا کہ دُشمن کے ہر ہزار کے مقابلہ میں ایک مسلمان ہو جائے۔ دوسرے دن ان ساٹھ افراد نے اپنے گھوڑوں کی باگیں اُٹھائیں اور ساٹھ ہزار دُشمن میں گُھس گئے۔ پہلی صف والے ابھی تلواریں ہی اُٹھاتے رہے کہ یہ آگے گزر گئے۔ جب دوسری صف والے تلواریں اُٹھانے لگے تو یہ تیسری صف میں پہنچ چُکے تھے۔ دُشمن فوج کا کمانڈر جس سے قیصر نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر اس نے مسلمانوں کے مقابلہ میںفتح حاصل کی تو وہ اُسے اپنی لڑکی بیاہ دے گاوہ تخت پر بیٹھا ہؤا تھا ۔یہ وہاں پہنچے ۔ اُس وقت تک لشکر کو بھی ہوش آچکی تھی۔ یہ مرتے گئے لیکن پیچھے نہ ہٹے۔جب یہ عین اُسی جگہ پہنچے جہاں کمانڈر بیٹھا تھا تو وہ گھبرا کر بھاگ اُٹھا لیکن یہ ساٹھ کے ساٹھ یا تو زخمی ہو گئے یا مر گئے۔۸؎ اتنے میں جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ان کے ساٹھ جانباز سپاہی لڑ رہے ہیں تو انہوں نے بھی دُشمن پر حملہ کر دیااور دُشمن کو جب خبر پہنچی کہ ان کا کمانڈر بھاگ گیا ہے تو وہ بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔فتح کے بعد جب تلاش کیا گیا تو سوائے چند کے جو شدید زخمی تھے باقی سب مر چُکے تھے۔گرمی کا موسم تھا شدتِ پیاس کی وجہ سے زخمیوں کی زبانیں باہر نکل رہی تھیں،بعض سپاہی پانی کی کُپیاں لے کر وہاں پہنچے۔ جب وہ حضرت عکرمہ ؓ کے پاس گئے تو آپ کو سخت پیاس لگی ہوئی تھی اُنہیں پانی پینے کے لئے کہا گیا۔جب وہ پانی پینے لگے تو ان کی نظر اپنی داہنی طرف پڑی ۔ آپ نے دیکھا کہ حضرت فضل رضی اللہ عنہ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بھائی ) شدتِ پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں۔آپ نے اُن کی طرف اشارہ کیا اور کہا۔ پہلے اُنہیں پانی دو۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں نے اپنے پہلو میں ایک اور زخمی دیکھا جو شدتِ پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا تھا۔انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیاکہ پہلے اسے پانی پلاؤ۔ دس آدمی زخمی پڑے ہوئے تھے ۔اِن دسوں کے پاس جب آدمی چھاگل لے کر گیا تو اُنہوں نے دوسرے کی طرف بھیج دیا تا کہ اُسے پہلے پانی پلایا جائے۔جب وہ آدمی دسویں کے پاس پانی لے کرگیا تو وہ مر چُکا تھا ۔ نویںکے پاس گیا تو وہ بھی مر چُکا تھا۔آٹھویںکے پاس گیا تو وہ بھی مر چُکا تھا۔اِسی طرح وہ ہر ایک کے پاس سے ہوتا ہؤادوبارہ عکرمہ ؓ کے پاس گیا تو وہ بھی مر چکے تھے۔ ۹؎ا ب دیکھو ۔کُجا یہ کہ ابوجہل کی دُشمنی کی یہ حالت تھی کہ اس نے انتہائی مخالفت کی ۔اور کُجا یہ کہ جب اس کے بیٹے عکرمہ ؓ کو پتہ لگ گیا کہ اس کے باپ نے غلطی کی تھی تو وہی عکرمہ ؓ جو اپنی ذاتی عزت اور وجاہت کی خاطر اپنے باپ کے نقشِ قدم پر چلتا ہؤا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائیاں کیا کرتا تھا،اُس نے اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اِس طرح قربان کیا کہ اِس کی نظیر کم ملتی ہے۔
خالدبن ولید ؓکو دیکھ لو مسلمان ان کا نام لیتے تھکتے نہیں لیکن وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشد ترین دُشمن تھا ۔عمروبن العاص ؓ کی بھی مسلمان تعریف کرتے ہیں کہ وہ بہترین جرنیل تھے لیکن وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشد ترین دُشمن تھے۔ ان کودیکھو اور ان کی اولادوں کو دیکھو۔اُحد کے واقعات کو دیکھو۔وہ شخص جس کی وجہ سے فتح مبدّل بہ شکست ہو گئی تھی وہ خالدؓبن ولید ہی تھا۔وہ حملہ جس کی وجہ سے مسلمان لشکر میں کُہرام مچ گیا تھا، وہ خالدؓ بن ولید کا ہی کیا ہؤا تھا۔اور خالدرضی اللہ عنہ ہی ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سَیْفٌ مِنْ سُیُوْفِ اﷲِ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ۔ ۱۰؎ وہی خالدؓ اسلام کی لڑائیوں میں اتنا دزخمی ہؤا کہ جب وہ مرنے لگا تو اُس نے کہا میرے سر سے لے کر پاؤں تک کوئی ایسی جگہ نہیں جہاںتلوار کا نشان نہ ہو۔یہ وہی خالدؓ تھا جس نے اسلامی لشکر کو پسپا کردیا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کر دیا تھا۔دوسراجرنیل جس نے خالدؓ کے ساتھ مل کر مسلمان لشکر پر حملہ کیا وہ عمروبن العاص تھا جس نے بعد میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میںمصر فتح کیا لیکن جنگِ اُحد کے وقت یہی دونوں تھے جنہوں نے صحابہ ؓ کو زخمی کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینک دیا اور آپ کو بھی زخمی کر دیا ۔حضرت عمرو بن العاص ؓکے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمروؓ آپ سے پہلے مسلمان ہو چُکے تھے جو لوگ حدیث سے واقف نہیں وہ عبداللہ بن عمروؓ اور عبد اللہ بن عمرؓ میں فرق نہیں کرتے۔درحقیقت یہ دونوں الگ الگ شخصیتیں ہیں ۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے بہت سی روایات مروی ہیں۔
حضرت عمرو بن العاص ؓ جب فوت ہونے لگے تو آپ رو رہے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر و ؓنے کہا۔باپ! کیا آپ اب بھی روتے ہیں؟اگر آپ کفر کی حالت میں مرتے تب تو کوئی بات تھی خدا تعالیٰ نے آپ کواسلام نصیب کیا ہے اب تو آپ کے لئے بشارت ہی بشارت ہے۔حضرت عمرو بن العاص ؓ نے کہا ۔بیٹا تمہیں معلوم نہیں۔ اسلام کے ساتھ میری دو کیفیتیں رہی ہیں ۔جب تک مَیں مسلمان نہیں ہؤا تھارسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھے اتنا بُغض اور اسلام کے ساتھ مجھے اتنی دُشمنی تھی کہ مَیں نے کبھی آنکھ اُٹھا کر آپ کی شکل تک نہیں دیکھی ۔اگر مَیں اُس وقت مرتا اور کوئی شخص مُجھ سے یہ پوچھتا کہ آپ کی شکل کیسی تھی تو مَیں آپ کی شکل نہ بتا سکتا۔پھر جب اسلام لایا تو مجھے آپ سے اتنا عشق پیداہؤا اور میرے اندر آپ کی اس قدر محبت جا گزیں ہوئی کہ مَیں آپ کے رُعب کی وجہ سے آپ کی طرف نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتا تھا اور اگر اب مُجھ سے کوئی پوچھے کہ آپ کی شکل کیسی تھی تو مَیں نہیں بتا سکتا۔کفر کی حالت میں بُغض کی وجہ سے مَیں نے آپ کی شکل نہ دیکھی اور اسلام کی حالت میں محبت اور عشق کی وجہ سے آپ کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا ۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مَیں اگر فوت ہو جاتاتو کوئی فکر نہ تھا لیکن آپؐ کی وفات کے بعد کئی غلطیاںمُجھ سے سر زد ہوگئی ہیں ۔ مَیں نہیں جانتا ان غلطیوں کی وجہ سے قیامت کے دن بھی آپؐ کا دیدار نصیب ہو یانہ ہو اور یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگ گئے۔ ۱۱؎
ہماری جماعت کے بعض لوگ مخالفت سے گھبراتے اور غصہ میں آجاتے ہیں لیکن مخالفت کی وجہ سے گھبرانے اور غصہ میں آجانے کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ لوگ مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ یہ لوگ اِس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں اورنعوذباللہ آپ کو گالیاں دیتے اور اسلام کو بگاڑتے ہیں۔گویا وہ مخالفت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اِس غلط فہمی کے نتیجہ میں کرتے ہیں کہ ہم اسلام کے دُشمن ہیں۔ ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کرنی چاہئے ۔آخر ہم ان کی غلط فہمیوں کو کیوں دور نہیں کرتے ۔اگر ایک شخص ہمارے متعلق یہ کہتا ہے کہ ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ہتک کرتے ہیں تو تم نے کیوں لوگوں کویہ نہیںبتایا کہ ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ہتک نہیں کرتے بلکہ ان کی تم سے بھی زیادہ عزت کرتے ہیں۔ اگر تم نے انہیں یہ بتایا ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو یہ کہا ہے کہ: ؎
خاکم نثار کوچۂ آلِ محمدؐ است
تووہ حقیقت سمجھ جاتے اور لوگوں سے کہتے کہ کیا یہ فقرہ کہنے والا شخص حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا دُشمن یا ہتک کرنے والا ہو سکتا ہے لیکن تم گھروں میںبیٹھے رہے اور گھر بیٹھے بیٹھے تم نے سمجھ لیا کہ لوگوں نے اس کے معنے سمجھ لئے ہیں ۔پھر فرض کرو اگر مخالف یہ کہتا ہے کہ مرزاصاحب (علیہ الصلوٰۃ والسلام)نے مولویوں کو گالیاں وی ہیں تو تم ان کے سامنے گالیوں کی ایک فہرست رکھ دیتے کہ یہ گالیاں مولویوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دی ہیں یہ سب گالیاں کتابوں میں چھپی ہوئی ہیں تم وہ کتابیں نکال کر ان کے سامنے رکھ دیتے اور انہیں بتاتے کہ کیا یہ مولویوں کا کام ہے۔تو ساری بات ان کی سمجھ میں آجاتی۔ مثلاً اگر کوئی کسی کو حرام زادہ کہے اور وہ اُسے کہے بے ایمان! یہ بات مت کہو اور پہلا شخص جس نے اسے حرامزادہ کہا ہے اس سے لڑنے لگ پڑے تو اگر تیسرا شخص پاس سے گذرتا ہے اور وہ ا س سے دریافت کرتا ہے میاں! تم لڑتے کیوں ہو؟ اور وہ کہتا ہے اس نے مجھے بے ایمان کہا ہے تو اگر پہلا شخص اسے یہ بتا دیتا ہے کہ اس نے مجھے حرام زادہ کہا تھا اور قرآن و حدیث نے ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے تو وہ کہے گا یہ تو قرآن اور حدیث کی بات کہتا ہے ۔یہ گالی نہیں۔گالی وہ ہے جو تم نے دی۔پس اگر تم لوگوں کے پاس جاتے ہو اور انہیں بتاتے ہو کہ مخالفوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور ان کے جواب میں آپ نے انہیںیہ کہا ہے کہ قرآن کریم نے ان سے منع فرمایا ہے تو وہ مخالفین کے پاس جاتے اور انہیں کہتے مرزا صاحب کو تم نے یہ یہ گالیاں دی ہیں اب اگر انہوں نے اِس کے جواب میں کچھ کہا ہے تو شریعت میں اس کا نام گالی نہیں ۔اِس پر مخالف یا تو یہ کہہ دیتے کہ یہ ہماری کتابیں نہیں اور یا یہ فتویٰ دیتے کہ ہمارے ماں باپ جھوٹے تھے لیکن یہ صاف بات ہے کہ وہ یہ فتویٰ ہر گز نہیں دیں گے کہ ہمارے ماں باپ جھوٹے تھے۔اگر ایک اہلِ حدیث تمہارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے مخالفین کو گالیاں دی ہیں تو تم جھٹ انہی کی کتابیں ان کے سامنے رکھ دو اور کہو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دوسرے علمائے اہلِ حدیث نے مرزا صاحب کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور مرزاصاحب نے انہیں گالیوں سے منع فرمایاہے لیکن جب ایک شخص یونہی شور مچادیتاہے کہ مرزا صاحب نے مخالفین کو گالیاں دی ہیں تو لوگوںکو چونکہ پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے باپوں نے مرزا صاحب کو کیا کچھ کہا ہے اس لئے وہ مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں۔تم ان کے پاس جاؤ۔اور ان کے سامنے ان کی کتابیں رکھ دو اور بتاؤ کہ تمہارے علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ اوالسلام کو یہ یہ گالیاں دی ہیں۔کیا یہ اسلام کی تعلیم کے مطابق ہیں؟بعض غیر اسلامی گالیاں ہیں اوربعض غیر اسلامی نہیں۔مثلاً احمق ہے کسی کو احمق کہنا شرافت کے تو خلاف ہے لیکن اسلام کے خلاف نہیں ۔لیکن اگر کوئی حرامزادہ کہہ دیتا ہے تو یہ اسلام کے خلاف ہے۔اسلام نے ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ پھر اس قسم کی احادیث موجود ہیں کہ اگر کوئی کسی کے متعلق کوئی بُرا کلمہ کہتا ہے تو وہ اس کی طرف لَوٹ آتا ہے ۔اب یا تو یہ باتیں احادیث سے نکال دو ۔اور اگر انہیں احادیث سے نہیں نکالتے تو پھر غصہ میں کیوں آتے ہو ۔محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جو کسی مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے۔۲؎۱اگر کوئی کسی کو کافر کہتا ہے اور وہ اسے کافر کہہ دیتا ہے تو یہ کوئی گالی نہیں ۔اسلام خود کہتا ہے اگر کوئی دوسرے مسلمان کو کافر کہتا ہے تو وہ خود کافر ہے ۔اب یا تو یہ حدیث کاٹ دو اور یا ہماری بات مانو۔
ہم کوئی نیا فتویٰ نہیں دیتے آج سے چودہ سَو سال قبل سے یہ باتیں کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں ۔ہم تو ـآج پیدا ہوئے۔ہم امام مسلم ؒ کے ساتھ تو نہیں بیٹھے تھے۔ ہم امام بخاری ؒ کے ساتھ تو نہیں بیٹھے تھے۔ ہم ابوداؤدؒ اورترمذیؒ کے ساتھ تو نہیں بیٹھے تھے ہم نسائی ؒ اور ابن ماجہ ؒ کے پاس تو نہیں بیٹھے تھے لیکن ان بزرگوں نے اپنی اپنی کتابوں میں یہ باتیں لکھی ہیں اور وہ اب تک موجود ہیں۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہودی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اسے جھوٹا کس طرح کہہ سکتے ہو؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں جو پیش گوئیاں اِس کے متعلق پائی جاتی ہیں اور وہ اِس کے حق میں پوری ہو گئی ہیں کیا وہ پیشگوئیاں اس نے موسیٰ علیہ السلا م کو لکھوا دی تھیں؟۱۳؎ اگر آج سے کئی سَو سال قبل کی لکھی ہوئی باتیں اس شخص کے حق میں پوری ہو جاتی ہیں تو یہ شخص یقیناً سچا ہے۔اگر یہ جھوٹا ہوتاتو خدا تعالیٰ اتنے سَو سال قبل کہی ہوئی باتیں اس کی ذات میں کیوں پوری کرتا۔ غرض جو بات مسلمان عیسائیوں اور یہودیوں کے اعتراضات کے جواب میں کہتے ہیں وہی بات ہم کہتے ہیں ۔مسلم اوربخاری میںیہ باتیں لکھی ہیں۔ ہم تو اُس وقت موجود نہیں تھے کہ ہم نے خود یہ باتیں لکھوا دیں۔اگر تم کہو کہ مَیں مسلم ؒ اوربخاری ؒکے وقت میں موجود تھا تو تمہیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ مَیںفرشتہ ہوں اور اگر مَیں فرشتہ ہوں تو تم فرشتے کی کیوں مخالفت کرتے ہو اور اگر مَیں انسان ہو ں تو صاف بات ہے کہ یہ باتیںمَیں نے مسلم ؒاور بخاری ؒکو نہیں لکھوائیں ۔پھر اگر انہوں نے یہ سب باتیں خداتعالیٰ کے رسول کی طرف منسوب کر کے لکھی ہیں تو اگر مَیں خدا اور اُس کے رسول کا دُشمن تھا تو یہ باتیں میرے ساتھ کیسے پوری ہو گئیں ۔آخر اِس کی بھی تو کوئی دلیل ہونی چاہئے۔مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آنے والا مسیح شادی کرے گا اور اس کے نتیجہ میںاس کی اولاد بھی ہوگی۔۱۴؎ اب سیدھی بات ہے کہ خالی شادی کوئی اہم بات نہیں۔لوگ شادیاں کرتے ہی ہیں۔ مان لیا کہ حضرت مرزا صاحب جھوٹے ہیں لیکن یہ تو بتائیے کہ اگر آپ جھوٹے تھے تو خداتعالیٰ یہ بات پوری نہ ہونے دیتا ۔اوّل تو آپ شادی ہی نہ کرتے یا اگر شادی کرتے تو آپ کی بیوی مر جاتی یا وہ اچھے خاندان میںسے نہ ہوتی یا اس کے ہاں اولاد نہ ہوتی یااولاد پیداہوتی تو وہ مر جاتی لیکن وجہ کیا ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر افتراء بھی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتیں اُس کی ذات میںپوری کر دیتا ہے۔ یا مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آنے والے مسیح اور مہدی کے زمانہ میں سورج اور چاند کو گرہن لگے گا ۱۵؎ اور فرمایا یہ ایک ایسی آیتA-۱۵؎ ہے کہ یہ کسی اَور مدعی نبوت پر پوری نہیں ہوئی۔یہ بات شیعوں اور سُنیوں سب کی کتابوں میںلکھی ہوئی ہے اور یہ ۱۸۹۴ء میں پوری ہوئی۔
گجرات کا واقعہ ہے کہ ایک مولوی کہتا رہتا تھا مرزا سچا کیسے ہو سکتا ہے۔حدیث میں لکھا ہے کہ جب مسیح آئے گاسورج اور چاند کو گرہن لگے گا اور ایسا گرہن اس سے قبل کسی مدعی نبوت کے زمانہ میں نہیںلگا ہو گا۔جب یہ گرہن لگا تو اس مولوی کے ہمسایہ میں ایک احمدی رہتا تھا اُس نے بتایا کہ وہ مولوی کوٹھے پر کھڑ ا ہؤاسورج گرہن دیکھتاجاتا اور کہتا جاتا اب لوگ گمراہ ہو جائیںگے اب لوگ گمراہ ہو جائیںگے۔یہ نہیں کہ یہ خداتعالیٰ کا ایک نشان ہے جس کے نتیجہ میں لوگ ہدایت پا جائیں گے بلکہ وہ کہتا تھا کہ اس کے نتیجہ میں لوگ گمراہ ہو جائیں گے۔اب سوال یہ ہے کہ جو جھوٹا ہوتاہے اُس پر سچوں والی علامتیں کیسے پوری ہو سکتی ہیں ۔مثلاًحکومت ہے وہ افسر مقرر کرتی ہے او ر اس کی علامتیں مقرر کرتی ہے۔وہ گزٹ شائع کرتی ہے کہ فلاںافسر فلاں جگہ مقرر کیا گیا ہے۔مثلاً ایک ڈپٹی کمشنر ہے۔حکومت کہتی ہے فلاں شخص کو فلاں ضلع میں ڈپٹی کمشنر مقررکیا جاتا ہے سب محکمے اس کے ماتحت ہوں گے۔تحصیلدار،ضلعدار،گرداور اورپٹواری سب اس کے تابع ہوں گے۔اس کے بعد ایک شخص آتا ہے۔گزٹ میں اُس کا نام چھپ جاتا ہے۔سب محکمے اُس کی اطاعت کرتے ہیں لیکن لوگ کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے۔بھلا گورنمنٹ ایسا کرنے دیتی ہے ؟اگر کوئی شخص جعلی طورپر اپنے آپ کو افسر ظاہر کرے گا تو وہ فوراً اُسے گرفتار کر لے گی۔اور اگر کوئی حکومت ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تو کیا خدا تعالیٰ اتنا ہی کمزور ہے کہ ایک شخص اُس پر الزام لگاتا ہے اور افتراء کرتا ہے کہ خداتعالیٰ اُسے وحی کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سب پیشگوئیاں اُس کی ذات میںپوری کر دیتا ہے۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اُس زمانہ میں عیسائیوں کا زور ہو گا اور عیسائیوں کا زور ہو جاتا ہے۔خدا تعالیٰ فرماتا ہے ۔اُس زمانہ میں یاجوج اورماجوج چاروں طر ف سے پہاڑوں کی چوٹیوں اور سمندروں کی لہروں پر سے گزر کر دنیا پر قابض ہو جائیں گے اور وہ قابض ہو جاتے ہیں لیکن لوگ کہہ دیتے ہیں یہ شخص جھوٹا ہے۔یہ بالکل وہی بات ہے کہ کسی بُزدل کو فوج میں بھرتی کر لیا گیا ۔لڑائی میں اسے ایک تیر آلگا اور اس کے جسم سے خون بہنے لگا۔وہ بُزدل تو تھا ہی۔تیر لگنے کے بعد وہ میدان میں کیسے ٹھہر سکتا تھا ۔وہ بے ساختہ پیچھے کو بھاگا۔وہ دَوڑتا چلا جاتا تھا اور کہتا چلا جاتا تھایا اللہ! یہ خواب ہی ہو۔یا اللہ! یہ خواب ہی ہو۔تیر تو جسم میں لگ چُکا تھا اور خون بہہ رہا تھا ۔اب اس کے کہنے سے کہ یا اللہ! یہ خواب ہی ہو،خواب کیسے بن سکتا تھا۔یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ ایک شخص پر سب علامات پوری ہو چکی ہوں لیکن لوگ کہیں یا اللہ! یہ جھوٹاہی ہو۔ یا اللہ! یہ جھوٹاہی ہو۔یہ باتیں بھَلا ہو سکتی ہیں؟مومن توخوش ہوتاہے کہ یہ باتیں پوری ہو جائیں۔ پس جاؤ اور لوگوں کو بتاؤ کہ بخاری ؒاور مسلم ؒیہ یہ کہتے ہیں اوریہ سب کچھ پورا ہو گیا ہے۔اب کیا ہم اُس وقت موجود تھے کہ ہم نے خود یہ باتیں انہیں لکھوادیں؟اور اگرہم اُس وقت موجود نہ تھے تو پھر آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے میں انکار کیا ہے؟خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ۱۶؎یاجوج اور ماجوج پہاڑی رستہ سے بھی آئیں گے اور نشیب کے رستہ سے بھی ۔وہ سمندر کے رستہ سے بھی آئیں گے اور خشکی کے رستہ سے بھی۔اور ساری دنیا پر چھا جائیں گے۔بائیبل میں لکھا ہے:
’’دیکھو اے جُوج ،روش اورمسکہ اور توبل کے فرماںروا! مَیں تیرا مخالف ہوں اور مَیں تجھے پِھرا دوں گااور تجھے لئے پھروں گا۔اور شمال کی دُور اطراف سے چڑھا لاؤں گا۔‘‘۱۷؎
یہ سب باتیں پہلے سے لکھی ہیں ۔اگر ان میں سے ایک بات پوری ہو گئی تو یقیناً دوسری بات بھی ٹھیک ہے۔ اگر روس کا ذکر آ گیا تو یقیناً دوسرا فریق برطانیہ اور امریکہ ہے۔
یہ حزقیل علیہ السلام کی پیشگوئی ہے اورقرآن کریم فرماتا ہے کہ یأ جوج اور مأجوج تمام دنیا پر چھا جائیں گے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب باتیں پوری ہو گئی ہیں ۔آج سے سَو سال قبل کیا کسی کے وہم میں بھی آ سکتا تھا کہ روس اِس طرح ترقی کر جائے گا ۔مَیں اس صدی والوں کو کہتا ہوں کہ ۱۹۰۴ء میں جاپان نے روس کو کس طرح گرایا تھا ۔اُس وقت کیا کوئی خیال بھی کر سکتا تھا کہ ایک دن روس اتنا زور پکڑ جائے گا کہ دوسری حکومتیں اس سے لرزنے لگ جائیں گی ۔لیکن نوشتوں میں لکھا تھا کہ تُو دنیا میں پھیلے گا اورمَیں تجھے تباہ کروں گا اور ادھر یاجوج کے متعلق لکھا ہے کہ وہ سمندروں کی لہروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے گزر کر دنیا میںچھا جائے گا۔یہ کتنی صاف پیشگوئی ہے۔کیا تم اسے قرآن کریم سے نکال دو گے؟ یا تو تم کہو یہ غلط ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے تو غلط کیسے ہو سکتی ہے۔یہ تو وہی بُزدل والی بات ہے کہ یا اللہ! یہ خواب ہی ہو۔یا اللہ! یہ ٰخواب ہی ہو ۔ایک قوم جس کا نام بائبل میں آتا ہے وہ دنیا میں پھیل گئی ۔پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میںخبر دی اور وہ پوری ہو گئی۔اب کیا تم یہ کہو گے کہ قرآن کریم اور بائیبل جھوٹے ہیں اس لئے کہ مرزا صاحب جھوٹے ثابت ہو جائیں ۔اسلامی طریق تو یہ تھا کہ تم کہتے۔مرزا صاحب سچے ہی سہی کیونکہ اس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سچے ثابت ہوتے ہیں۔
ایک راجہ نے ایک دن دربار میں ذکر کیا کہ مَیں نے بینگن کھائے ہیں مجھے بہت مزہ آیا۔بینگن بڑی لذیذ سبزی ہے ۔ایک درباری کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا ۔ہاں ہاں۔ حضور! بینگن بڑی لذیذ چیز ہے ۔وہ طب بھی پڑھا ہؤا تھا۔اُس نے کہا اِس میں یہ یہ خوبیاں ہیں ۔پھر کہا حضور! اس کی شکل دیکھیں ۔تو بالکل یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی صوفی سبز جُبہ پہنے نماز کے لئے کھڑا ہو۔چنددنوں کے بعد راجہ نے دربامیں کہا مَیں نے بینگن کھائے تومجھے بواسیر ہو گئی۔ مَیں سمجھتا تھا کہ یہ بہت اچھی چیز ہے لیکن اب معلوم ہؤا ہے کہ یہ بڑی ناقص چیز ہے۔اب ہر چیز میںبُرائیاں بھی ہوتی ہیں اور خوبیاں بھی۔سنکھیا کو دیکھ لو سنکھیا مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے۔اِسی طرح دوسری چیزوں کا حال ہے۔لیکن جب راجہ نے کہا کہ مَیں نے بینگن کھائے تو مجھے تکلیف ہو گئی یہ بہت ناقص سبزی ہے تو وہی درباری اُٹھا اور اُس نے کہا ۔ہاں ہاں حضور! یہ بڑی ناقص چیز ہے اِس میں یہ یہ بُرائیاں ہیں اور پھر یہ بیل پر لٹکا ہؤا بالکل یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی چور کا منہ کالا کر کے اُسے سُولی پر لٹکا دیا جائے ۔لوگوں نے پوچھا یہ کیا بات ہے؟اگلے دن تو تُو نے بینگن کی اِتنی تعریف کی تھی کہ حد نہ رہی اور آج اتنی مذمت کی کہ گویااِس جیسی خراب چیز دنیا میں کوئی نہیں۔اُس نے کہا مَیں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نہیں۔ اِسی طرح مَیں کہتا ہوں۔ اے بھائیو! تمہیں اِس سے کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلا م آئیں گے یا نہیں ؟ تم تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہو۔حضرت مسیح موعودعلیہ السلام پر آج تم یہ اعتراض کرتے ہو کہ آپ حدیث اور سُنت کے خلاف جاتے ہیں حالانکہ آپ ؑ حدیث وسُنت سے اپنے دعویٰ کے ثبوت میں دلائل دیتے تھے۔ پھر آپ حنفیوں میں پیداہوئے اس طرح آپ ان کے عقیدوں سے واقف تھے۔اُن دنوں مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی بڑے عالم سمجھے جاتے تھے۔وہ اعتراض کرتے وقت کہتے تھے کہ قرآن کریم میںیہ لکھا ہے، حدیث میں یہ لکھا ہے،سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے اورحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام قرآن و حدیث سے ہی ان اعتراضات کے جوابات دیتے تھے۔
حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفۃ المسیح الاوّل ایک دفعہ اتفاق سے قادیان آئے اور کسی کام کے لئے لاہور ٹھہر گئے۔مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لاہور آئے ہوئے تھے۔اُنہوں نے خیال کیا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب ہیںان سے مباحثہ ہو جائے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب نے اشتہار بازی شروع کر دی ۔حضرت مولوی صاحب کی دو ماہ کی رُخصت تھی اوروہ لاہور میں ہی ختم ہو گئی۔ مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی کہتے تھے کہ احادیث سے حیات و وفاتِ مسیح پر بحث ہونی چاہئے اور حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ قرآن سے بحث ہو۔آخر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے تنگ آکر اِتنی بات مان لی کہ اِس بحث میں بخاری کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے۔
ایک دوست نظام الدین تھے اُنہیں حج کرنے کا بڑا شوق تھا۔ اُنہوں نے دس حج کئے تھے۔ وہ بمبئی تک پیدل جاتے اور آگے جہاز کے ذریعہ سفر کرتے۔ انہوں نے براہین احمدیہ پڑھی ہوئی تھی اور اُنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی دونوں سے عقیدت تھی۔ جب لوگ یہ شور مچاتے کہ مرزا صاحب کہتے ہیں قرآن کریم کی رو سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں تو یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی کہ مرزا صاحب قرآن و حدیث کے بلند پایہ عالم ہو کر اِتنی بڑی غلطی کے کس طرح مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک دفعہ وہ حج کے لئے گئے تھے۔ جب واپس لَوٹے تو کسی شخص نے اُن سے اِس بات کا ذکر کر دیا کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور یہ امر قرآن کریم سے ثابت ہے۔ انہوں نے کہا مرزاصاحب میرے دوست ہیں مَیں جانتا ہوں کہ وہ بہت بڑے عالم ہیں اور قرآن و حدیث کے مسائل سے واقف ہیں، وہ ایسا نہیں کہہ سکتے۔ وہ کہنے لگے یا تو مرزا صاحب نے یہ کہا نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے اور اگر کہا ہے تو مَیں اُن کے پاس جاؤں گا اور اُنہیں کہوں گا کہ وہ ایسا دعویٰ نہ کریں اور وہ مان لیں گے۔ چنانچہ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے۔ مَیں حج پر گیا ہؤا تھا جب واپس آیا تو مَیں نے یہ عجیب بات سُنی کہ آپ نے فرمایا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں مَیں نے یہ بات کہی ہے۔ انہوں نے کہا مَیں تو لوگوں سے کہہ آیا ہوں کہ مَیں مرزا صاحب سے کہوں گا کہ آپ یہ دعویٰ نہ کریں اور اگر وہ نہ مانے تو مَیں کہوں گا کہ اگر یہ امر قرآن کریم سے ثابت نہ ہو سکے تو آپ لاہور یا دہلی کی کسی مسجد میں تو بہ کا اعلان کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں اگر یہ امر قرآن کریم سے ثابت نہ ہؤا تو مَیں ایسا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اُنہوں نے کہا اچھا میری تسلی ہو گئی ہے۔ مَیں نے مولویوں سے کہا ہے کہ وہ قرآن کی تین سَو آیات سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ثابت کر کے دکھائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا تین سَو آیات کی کیا ضرورت ہے اِس کے لئے تو ایک آیت بھی کافی ہے۔ میاں نظام الدین صاحب کو شُبہ پڑا کہ شاید قرآن کریم میں حیاتِ مسیح کے متعلق تین سَو آیات نہ ہوں۔ اس لئے انہوں نے کہا اچھا دو سَو آیات سے ہی وہ حیاتِ مسیح ثابت کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر فرمایا کہ اس کے لئے ایک آیت بھی کافی ہے دو سَو کی ضرورت نہیں۔ اِنہیں پھر شُبہ پڑا کہ شاید قرآن کریم میں حیاتِ مسیح کو ثابت کرنے کے لئے دو سَو آیات بھی نہ ہوں اس لئے انہوں نے کہا۔ اچھا وہ ایک سَو آیات سے حیات مسیح ثابت کریں۔ آپ نے فرمایا نہیں اس کے لئے ایک آیت ہی کافی ہے۔ پھر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح نیچے اُترتے گئے۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے لوط علیہ السلام کی بستی کے متعلق فرمایا تھا کہ خدایا! اگر اس میں اتنے لوگ تُجھ پر یقین رکھنے والے ہوں تو کیا پھر بھی تُو اِسے تباہ کر دے گا۔ تو خدا تعالیٰ نے کہا اگر اتنے لوگ ہوں تو مَیں انہیں ضرور معاف کر دوں گا۔ اس سے آپؑ کو شُبہ ہؤا کہ شاید اس بستی میں اتنے مومن نہ ہوں۔ اس لئے آپ آہستہ آہستہ نیچے اُترتے گئے یہاں تک کہ آپ دس تک آگئے اور خدا تعالیٰ نے کہا ابراہیم! اگر اس میں دس مومن بھی ہوں تب بھی مَیں اس بستی کو تباہ نہیں کروں گا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہؤا کہ اس بستی میں دس مومن بھی نہیں تو آپ نے دُعا کرنی چھوڑ دی اِسی طرح میاں نظام الدین صاحب بھی دس آیات پر آگئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ نہیں دس آیات کا کیا سوال ہے وہ ایک سے ہی حیاتِ مسیح ثابت کر دیں تو وہ کہنے لگے آخر قرآن کریم میں حیات مسیح کو ثابت کرنے والی اتنی کم آیات تو نہیں ہوں گی۔ بہرحال وہ خوشی خوشی لاہور پہنچے۔ مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی چینیاں والی مسجد میں بیٹھے تھے اور وہ دن وہ تھا جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے اُن کی یہ بات مان لی تھی کہ قرآن کریم کے علاوہ آپ بخاری بھی پیش کر سکتے ہیں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بہت خوش تھے کہ وہ بِالآخر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کو احادیث کی طرف لے ہی آئے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو خودنمائی کا بڑا شوق تھا وہ اپنے شاگردوں کو بتا رہے تھے کہ مولوی نور الدین مرزاصاحب کا شاگرد ہے اور بہت بڑا طبیب ہے۔ مَیں نے اُسے یُوں رگیدا اور یُوں لتاڑا اور آخر وہ احادیث کی طرف آہی گیا۔ اتنے میں میاں نظام الدین صاحب جاپہنچے اور اُنہوں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ آپ یونہی کام خراب کر دیتے ہیں۔ مرزا صاحب تو سیدھے سادھے آدمی ہیں اور وہ قرآن کریم کو مانتے ہیں۔ مَیں انہیں ابھی منوا آیا ہوں کہ اگر قرآن کریم میں سے ہم دس آیات بھی حیاتِ مسیح کی نکال دیں تو وہ دہلی یا لاہور کی کسی مسجد میں وفاتِ مسیح کے عقیدہ سے توبہ کر لیں گے اور یہ دس آیات بھی مَیں نے ہی کہی ہیں ورنہ وہ تو کہتے تھے کہ تم حیاتِ مسیح کی ایک ہی آیت قرآن کریم سے نکال دو۔ آپ مولوی نور الدین صاحب سے جھگڑا کرنا چھوڑ دیں اور دس آیات حیات مسیح کی مجھے بتادیں۔ مَیں ابھی مرزا صاحب سے توبہ کروا لیتا ہوں۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی غصہ میں آکر کہنے لگے تمہیں کس نے کہا تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتے۔ مَیں مولوی نور الدین کو گھسیٹ کر حدیث کی طرف لایا ہوں اور تم پھر بحث کے لئے قرآن کریم کو بیچ میں لے آئے ہو۔ میاں نظام الدین صاحب اس صدمہ میں چند منٹ تک بالکل خاموش بیٹھے رہے پھر کہنے لگے۔ اچھا مولوی صاحب! اگر یہ بات ہے تو پھر جدھر قرآن ہے اُدھر مَیں۔ اور اس کے بعد قادیان جاکر اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر لی۔
پس حقیقت یہی ہے کہ جو مسلمان محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عقیدت رکھتا ہے اُس کے دل میں یہی ہے کہ جدھر محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ہیں اُدھر ہی مَیں ہوں۔ تم جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ لوگ تمہیں دھوکا دیتے ہیں اور تم دھوکا میں آکر ہماری مخالفت کرتے ہو۔ تم ان کے سامنے قرآن کریم رکھو اور کہو ہم پر کیا الزام رکھتے ہو۔ قرآن کریم میں سب کچھ لکھا ہے اسے پڑھو اور پھر اس پر عمل کرو۔ ان کے سامنے احادیث رکھو اور کہو کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ سب احادیث میں پہلے سے موجود ہے ہم نے اپنے پاس سے یہ عقیدہ نہیں گھڑلیا بلکہ آج سے کئی سَو سال پہلے یہ بات احادیث میں لکھی ہوئی موجود تھی۔ اس طرح ایک شخص جس کے اندر کفراور ارتداد پیدا نہیں ہؤا وہ جب دیکھے گا کہ خدا تعالیٰ اور محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اِسی طریق کے اختیار کرنے پر خوش ہیں تو اُس کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا جس طرح میاں نظام الدین صاحب نے کہا تھا کہ جدھر قرآن اُدھر مَیں۔ اِسی طرح یہ لوگ بھی کہیں گے کہ جدھر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اُدھر ہم۔ اور تم دیکھو گے کہ جو لوگ آج قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہاری چائے نہیں پئیں گے، تمہیں ماریں گے اور تمہارا بائیکاٹ کریں گے ، وہ تمہارے ساتھ چمٹ جائیں گے اور کہیں گے جدھر قرآن اُدھر ہم۔ انہیں محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن کریم سے دُشمنی نہیں۔ انہیں یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ تم محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے دُشمن ہو۔ تم ان پر یہ ثابت کر دو کہ ہم محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے دُشمن نہیں، دوست ہیں۔ پھر ان کے دل صاف ہو جائیں۔ ابھی مسلمانوں کے اندر محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی محبت کی چنگاری موجود ہے تم اِسے ٹھنڈا کرنے کی بجائے گرم ہوا دو، یہ مخالفت خود بخود ہٹ جائے گی۔
مَیں یہاں آیا تو بیماری کی حالت میں ہوں اور جب کہ آپ دوستوں کو محسوس ہو رہا ہو گا کہ میرا گلہ بیٹھ رہا ہے اور مَیں بولنا نہیں چاہتا تھا لیکن جبکہ مَیں نے بتایا ہے مَیں مدتوں کے انتظار کے بعد اِس بستی میں آیا ہوں ۔ اس بستی سے مجھے روحانی اور جسمانی تعلق ہے۔ اس بستی کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی میری بیوی تھی اور اس بیوی سے میری اولاد بھی ہے۔ پھر اِس بستی کے ایک معزز شخص سے مَیں نے قرآن کریم پڑھا۔ بخاری پڑھی اور دینی علوم سیکھے۔ پس اِس بستی سے مجھے روحانی اور جسمانی نسبت ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ جس بات کو مَیں سچا سمجھتا ہوں اُس کو یہاں رہنے والے لوگ بھی سچا سمجھنے لگ جائیں اور جس طرح ان کا حق ہے کہ وہ مجھے کہیں تم غلطی پر ہو ، ہم سچ کہتے ہیں اِسی طرح میرا بھی حق ہے کہ مَیں انہیں کہوں مَیں حق پر ہوں، تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ یہ ناپسندیدہ امر ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو کہے کہ مجھے تو تمہیں غلطی میں مُبتلا سمجھنے کا حق ہے لیکن تمہیں ایسا کرنے کا حق حاصل نہیں۔ کوئی مذہب ایسا نہیں جس کا تم نام لو اور مَیں نے اُس کی کتابیں نہ پڑھی ہوں۔ ایک شخص جو پاگل ہے وہ مولوی محمد علی صاحب کی جماعت سے تعلق رکھتا ہے وہ کبھی کبھی مجھے بھی خط لکھ دیتا ہے اور اُس کی نقل مولوی محمد علی صاحب کو بھیج دیتا ہے اور کبھی مولوی محمد علی صاحب کو خط لکھتا ہے اور اس کی نقل مجھے بھیج دیتا ہے۔ ایک دن وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کیا آپ میرے خطوط پڑھتے ہیں؟ مَیں نے کہا ہاں۔ اُس نے کہا اچھا آپ میرے خطوط پڑھتے ہیں؟ مَیں نے کہا جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے خداتعالیٰ نے یوں کہا ہے تو مَیں اس کے خط کیوں نہ پڑھوں۔ وہ حق پر ہو یا نہ ہو لیکن میرا فرض ہے کہ وہ چیز جسے وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے، ضرور پڑھوں۔ وہ مولوی محمدعلی صاحب کے پاس گیا اور اُنہیں کہنے لگا آپ بڑے تنگ دل واقع ہوئے ہیں۔ مَیں آپ کا مرید تھا لیکن آپ میرے خطوط نہیں پڑھتے اور جس کا مَیں مرید نہیں تھا وہ کہتا ہے کہ مَیں تمہارے خطوط پڑھتا ہوں۔
غرض مَیں نے دنیا کے ہر مذہب کا لٹریچر پڑھا ہے۔ مَیں نے سُنّیوں کا لٹریچر پڑھا ہے، مَیں نے شیعوں کا لٹریچر پڑھا ہے، مَیں نے خارجیوں کا لٹریچر پڑھا ہے، ہندوؤں ، زرتشتیوں اور عیسائیوں کا لٹریچرمَیں نے پڑھا ہے۔ مجھے جب خدا تعالیٰ کہے گا بتاؤ تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سچے ہیں تو مَیں کہوں گا مَیں نے ہر مذہب کی کُتب کا مطالعہ کیا ہے اور ان سے مجھے یہی معلوم ہؤا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو کچھ کہا ہے وہ ٹھیک ہے لیکن جس نے دوسرے مذاہب کا لٹریچر نہیں پڑھا وہ خداتعالیٰ کو کیا جواب دے گا۔ خدا تعالیٰ کہے گا مان لیا سُنّی مذہب سچا ہے لیکن جب تم نے بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر شائع کردہ نہیں پڑھا تو تمہیں یہ کس طرح پتہ لگا کہ وہ اپنے دعویٰ میں سچے نہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب وعظ فرماتے تو ابو جہل اور اس کے ساتھی شور مچاتے جاتے تھے اور آپ کی بات نہیں سُنتے تھے۔ اب خواہ وہ اپنے خیال میں سچے بھی ہوں ، پھر بھی وہ خداتعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ جب انہوں نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بات کو سُنا ہی نہیں اور اُس پر غور نہیں کیا۔ پس مَیں جھوٹا سہی ، احمدیت جھوٹی سہی لیکن خدا تعالیٰ کے سامنے تم کیا جواب دو گے؟ اگر تم نے احمدیت کا لٹریچر پڑھا تھا اور پھر تم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ماننے میں غلطی ہو جاتی تو تم کہہ سکتے تھے خدایا! ہم نے اُن کے عقائد کو بغور پڑھا تو تھا لیکن ہم نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ یہ جھوٹے ہیں۔ خدا تعالیٰ کہے گا اچھا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے اور یہ بات قابلِ معافی ہے لیکن ایک شخص اگر یہ کہے کہ میرے پاس ایک شخص آیا تھا اور اُس نے کہا تھا کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں لیکن مَیں نے اُسے پرے دھکیل دیا اور کہا تم جھوٹ بولتے ہو تو خدا تعالیٰ کہے گا تم نے میری ہتک کی۔ ایک شخص نے تمہارے سامنے یہ کہا کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے یوں کہا ہے لیکن تم نے اس کی بات کو نہ سُنا اور اُسے ردّ کر دیا۔ ایک شخص اگر ایسی بات کہتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ یہ محض افتراء ہے تو تم اسے سمجھا دو کہ میاں! یہ بات درست نہیں لیکن اس کی بات تو سُن لو۔ کیونکہ اگر تم اس کی بات سنتے ہی نہیں تو خدا تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دو گے کہ اسے ہم نے کیوں ردّ کر دیا تھا۔
محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جب وعظ فرمایا کرتے تھے تو مکّہ والوں نے لوگوں کو یہ سکھادیا تھا کہ جب یہ وعظ کرے تو تم وہاں سے چلے جاؤ یا کانوں میں اُنگلیاں ڈال لو اور اس کی بات نہ سُنو۔ ۱۳ سال تک آپ نے تبلیغ کی اور مصائب اور تکالیف کا مقابلہ کیا۔ ایک دفعہ حج کے موقع پر جب لوگ کثرت سے مکّہ میں جمع ہو گئے تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے اُنہیں تبلیغ کرنے لگ جاتے۔ بعض لوگ آپ کی بات سُنتے اور حیرت کا اظہار کر کے علیحدہ ہو جاتے اور بعض لوگ باتیں سُن رہے ہوتے تو مکّہ والے اُن کو ہٹا دیتے اور بعض لوگ جو مکّہ والوں سے آپ کی باتیں سُن چُکے ہوتے وہ ہنسی اُڑا کر آپ سے جُدا ہو جاتے۔اِسی دوران میں آپ کی نظر مدینہ کے سات افراد پر پڑی۔ مکّہ والے اِرد گرد بھاگتے پِھرتے تھے اور جس طرح ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ احمدیوں کی چائے شراب سے بدتر ہے وہ بھی لوگوں کو آپ کے خلاف بہکاتے تھے اور آپ کی باتیں سُننے سے منع کرتے تھے۔ سب لوگوں نے آپ کو ردّ کر دیا لیکن جب آپ مدینہ والوں کے پاس گئے تو اُنہوں نے آپ کی باتیں سُننے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اُنہوں نے آپ کی باتیں سُنیں اور متأثر ہوئے اور کہا اِس سال ہم تھوڑی تعداد میں آئے ہیں اگلے سال ہم زیادہ تعداد میں آئیں گے اور آپ کی باتیں سُنیں گے۔ چنانچہ اگلے سال بارہ(۱۲) آدمی آئے۔ آپ کی باتیں اُن کے دلوں میں گھر کر گئیں اور وہ آپ کی بیعت کر کے واپس چلے گئے اور اگلے سال اِس سے بھی زیادہ تعداد میں آنے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ اگلے سال ایک بڑا قافلہ آیا جس میں عورتیں اور بچے بھی تھے لیکن مخالفت کا اتنا جوش تھا کہ مشرکینِ مکّہ چونکہ لوگوں کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتیں نہیں سُننے دیتے تھے اِس لئے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے وادیٔ عقبہ میں مدینہ سے آنے والوں سے رات کے بارہ(۱۲) بجے ملاقات فرمائی۔ مدینہ والوں نے جب آپ کی باتیں سُنیں تو اُنہوں نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اﷲ! آپ نے جو کچھ بیان کیا وہ سب ٹھیک ہے ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اُن کی بیعت لے لی۔ حضرت عباس ؓکو بھی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ساتھ لے گئے تھے۔ حضرت عباس ؓ آپ سے دو سال بڑے تھے اور دل سے آپ پر ایمان لا چُکے تھے۔ جب وہ لوگ بیعت کر چُکے تو اُنہوں نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اﷲ! اِس بستی نے آپ کو قبول نہیں کیا آپ ہماری بستی میں آجائیں۔ حضرت عباس ؓ نے کہا یہ آسان بات نہیں۔ مکّہ والوں کو پتہ لگا کہ محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے ہیں تو وہ مدینہ پر حملہ کر دیں گے۔ تم پہلے سوچ سمجھ لو ایسا نہ ہو کہ پھر مقابلہ سے گریز کرو۔ اُنہوں نے کہا ہم نے خوب سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے۔ ہم بہرحال رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ حضرت عباس نے کہا اچھا معاہدہ کر لو۔ چنانچہ ایک معاہدہ ہؤا کہ اگر مدینہ میں آپؐ پر یا مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپؐ کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ کے باہر کوئی لڑائی ہوئی تو ہم مدافعت کے ذمہ دار نہیں ہوں گے کیونکہ سارے عرب سے لڑائی مول لینا ہمارے بس کی بات نہیں۔ اتنے میں کسی نے کفار مکّہ کو یہ خبر دے دی کہ مدینہ سے ایک قافلہ آیا ہے اور وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہا ہے، ان کا جلدی کوئی انتظام کرنا چاہئے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھی یہ بات پہنچ گئی اور آپ نے خیال کیا ایسا نہ ہو کہ وہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچائیں اس لئے آپ نے فرمایا اب گفتگو ختم کر دینا چاہئے اور یہاں سے چلے جانا چاہئے لیکن مدینہ والے اب ایمان لا چُکے تھے اور موت اُن کی نظروں میں حقیر ہو چکی تھی۔ اُنہوں نے کہا ہم کمزور نہیں ہم بھی عرب ہیں اگر مشرکینِ مکّہ نے ہمیں کوئی نقصان پہنچانا چاہا تو ہم ان کا مقابلہ کریں گے اور آپ پر جو اُنہوں نے ظلم کئے ہیں ان کا بدلہ لیں گے۔ جب آپ مدینہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ کے بعد آپ ؐ جنگ بدر کے لئے باہر نکلے تو خدا تعالیٰ نے الہاماً آپ کو یہ خبر دی کہ آپ کا مقابلہ قافلہ سے نہیں ہو گا بلکہ مکّہ سے آنے والے لشکر کے ساتھ ہو گا۔ اُس وقت آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ اب قافلہ کا کوئی سوال نہیں صرف فوج ہی کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ کیا آپ لوگ اس کے لئے تیار ہیں؟ اِس پر ایک کے بعد دوسرا مہاجر کھڑا ہؤا اور اُس نے کہا یَا رَسُوْلَ اﷲ! اگر دُشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا ہے تو ہم اس سے ڈرتے نہیں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں۔ مگر ہر ایک کا جواب سُن کر آپ یہی فرماتے کہ اے لوگو! مجھے مشورہ دو۔ مدینہ کے لوگ اُس وقت تک خاموش بیٹھے تھے۔ جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے عرض کیا یَا رَسُوْلَ اﷲ! مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپؐ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم باشندگانِ مدینہ سے ہے۔ آپ نے فرمایا ہاں۔ اس نے عرض کیا۔ یَا رَسُوْلَ اﷲ! شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب فرما رہے ہیں کہ آپؐ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہؤا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپؐ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ کے باہر کوئی لڑائی ہوئی تو ہم اس میں حصّہ لینے کے پابند نہیں ہوں گے۔ آپ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اﷲ! جس وقت یہ معاہدہ ہؤا تھا ، اُس وقت ہم پر آپؐ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب جبکہ ہم نے آپ کے معجزات اور نشانات دیکھ لئے ہیں ہم پر آپؐ کا مرتبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے، یَا رَسُوْلَ اﷲ! اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال نہیں۔ ہم موسیٰ علیہ السلام کے ساتھیوں کی طرح آپ کو یہ نہیں کہیں گے کہ ۱۸؎ کہ جا تُو اور تیرا رب دُشمن سے لڑتے پھرو۔ ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور یَا رَسُوْلَ اﷲ! دُشمن آپ ؐ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو رَوندتا ہؤا نہ آئے۔ پھر اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اﷲ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے۔ یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے۔ آپ ہمیں حکم دیں کہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دو تو ہم بِلادریغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے۔ یہ کتنا بڑا تغیر ہے جو اسلام میں داخل ہونے کے بعد صحابہ ؓ کے اندر پیدا ہو گیا۔
پس حقیقت یہ ہے کہ لوگ احمدیت سے نا واقف ہیں اُنہیں یہ معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ نے اُن پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اِس تاریک زمانہ میں اُس نے اپنا ایک مأمور بھیجا تاکہ وہ اسلام کو باقی ادیان پر غالب کر دے۔ ان لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ مان لیا ہم قرآن کریم کے منکر ہیں، رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے مخالف ہیں لیکن یہ تو بتاؤ کہ ہم نے امریکہ اور لنڈن میں مسجد یں بنائی ہیں کیا مسجد یں کافر بناتے ہیں؟ پھر یہ بتاؤ کہ دوسرے فرقوں کے نوجوان لہوو لعب میں اپنا وقت بسر کر رہے ہیں لیکن ہمارے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے محض خدا تعالیٰ کی خاطر باہر نکل گئے ہیں اور وہ کافروں کو مسلمان بنا رہے ہیں کیا یہ کام کافر کرتے ہیں؟ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا صرف کافر کو ہی محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے عشق ہے، مومن کو آپؐ سے عشق نہیں؟
مَیں نے ایک دفعہ مخالفین کو یہ دعوت دی تھی کہ تم بھی تبلیغ کی غرض سے باہر نکل کھڑے ہو اور ہم بھی تبلیغ کے لئے باہر نکل آتے ہیں پھر دیکھیں گے کہ کس کی کوشش کے نتیجہ میں اسلام پھیلتا ہے لیکن اس چیلنج کا جواب موصول نہیں ہؤا۔ اگر ان کے پاس سچائی ہے تو وہ میدان میں کیوں نہیں آئے؟ یہ سیدھی بات ہے کہ جو لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں اور عشقِ رسول کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی اسلام کی اشاعت کے لئے باہر نکل کھڑے ہوں، ہم بھی باہر نکلتے ہیں۔ اگر ہم جھوٹے بھی ہوئے تب بھی اسلام کے لئے بہرحال یہ طریق مفید ہو گا اور دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ اسلام کے لئے اور محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے کون قربانی کرتا ہے اور محض زبانی دعوؤںپر کون اکتفا کرتا ہے لیکن ہوتا کیا ہے کہ بجائے اِس کے کہ یہ لوگ میرا چیلنج قبول کرتے، ہمارے خلاف جلسے کرتے ہیں اور تقریروں میں یہ فتوے صادر کرتے ہیں کہ احمدیوں کی چائے شراب سے بھی بدتر ہے۔ شراب پی جاسکتی ہے لیکن اِن کی چائے پینا جائز نہیں۔ کیا اِن فتوؤں سے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم اور اسلام کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟
اسلام کو اگر فائدہ پہنچ سکتا ہے تو اِس طرح کہ میرا مبلّغ اگر دس مسلمان بناتا ہے تو یہ بیس مسلمان بنائیں۔ میرا مبلّغ اگر ایک روٹی کھا کر گزارہ کرتا ہے تو یہ آدھی روٹی کھائیں۔ اگر وہ ایسا کریں تو کیا میری آنکھیں کُھل نہ جائیں۔ یہ کتنا بڑا نشان ہو گا تمہاری صداقت کا اور اِس سے اسلام کو کتنا بڑا فائدہ پہنچے گا۔ ہماری لڑائی بھی ختم ہو جائے گی اور مقابلہ بھی ہو جائے گا۔ مثلاً یہ تو شاندار مقابلہ ہو گا کہ دریا کا بند ٹُوٹ جائے تو کون دریا کا بند باندھتا ہے لیکن اگر ہم بند بنانے سے پہلے آپس میں لڑ پڑیں اور لوگ پانی کی رَو میں آکر تباہ و برباد ہو جائیں تو کیا یہ خدمتِ خلق ہو گی؟
غرض اگر یہ لوگ اپنے دعوؤں میں سچے ہیں تو یہ بھی تبلیغ کے لئے باہر نکل جائیں اور ہم بھی تبلیغ کے لئے باہر جاتے ہیں۔ پھر جو فریق جیت جائے اُسے حق ہو گا کہ وہ دوسرے کو جھوٹا کہہ سکے اور لوگ بھی سمجھ لیں گے کہ کون جیتا اور کون ہارا۔ اور اِس سے اسلام کو بھی فائدہ پہنچ جائے گا لیکن گالیاں دینے اور اس قسم کے فتوے دینے میں کیا رکھا ہے۔ کیا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ ؓکو پتھر نہیں پڑے تھے؟
ایک دفعہ مولوی ثناء اﷲ صاحب قادیان آئے اور اُنہوں نے ایک لیکچر دیا اور لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کی کہ میاں محمود احمد بھی کلکتہ جائیں اور مَیں بھی کلکتہ جاتا ہوں پھر دیکھیں گے کہ کس پر پتھر پڑتے ہیں اور کس پر پُھول برستے ہیں بلکہ اس چیز کا پتہ امرتسر کے اسٹیشن پر ہی لگ جائے گا۔ لوگ اِس بات کو سُن کر نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنے لگے۔ اُن کی اِس بات کا جواب مَیں نے اُسی دن عصر کے وقت دیا کہ مولوی صاحب نے خود ہی اِس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ہے مجھے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ مولوی صاحب نے کہا ہے کہ کلکتہ تک جاکر ہم دیکھتے ہیں کہ پتھر کس پر پڑتے ہیں اور پُھول کس پر برسائے جاتے ہیں۔ آپ عالم آدمی ہیں تاریخ نکال کر دیکھیں کہ مکّہ والے پتھر کس کو مارتے تھے اور پُھول کس پر پھینکتے تھے۔ اگر پتھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو پڑتے تھے اور پھول ابو جہل پر پھینکے جاتے تھے تو مَیں سچا اور یہ جھوٹے۔ لیکن اگر پُھول رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر پھینکے جاتے تھے اور پتھر ابو جہل کو مارے جاتے تھے تو مَیں جھوٹا اور یہ سچے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب تبلیغ کے لئے طائف تشریف لے گئے تو طائف والوں نے لڑکوں کو اُکسایا اُنہوں نے آپ پر پتھر پھینکنے شروع کئے اور کُتّے آپ کے پیچھے لگا دیئے۔ آپ وہاں سے چلے آئے اور راستہ میں ایک باغ میں پناہ گزین ہوئے۔ آپ کے ساتھ حضرت زیدؓ بھی تھے اور وہ بھی زخمی تھے۔ آپ ؐ کے پاؤں سے لہو بہہ رہا تھا۔ وہ باغ اتفاقاً آپؐ کے ایک شدید دُشمن کا تھا۔ مکّہ میں زراعت نہیں ہوتی تھی اس لئے بعض لوگوں نے مکّہ سے باہر زمین خرید کر باغات لگائے ہوئے تھے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اس باغ کے کنارے پر بیٹھ گئے اِس لئے کہ اگر آپ اس کے اندر گئے تو باغ کا مالک کیا کہے گا؟ ایسے موقع پر ایک شدید سے شدیددُشمن میں بھی شرافت کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ جب اُس باغ کے مالک نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی حضرت زیدؓ کی یہ حالت دیکھی تو اُس نے کہا ان پر بڑا ظلم ہؤا ہے۔ خود تو اُس سے جرأت نہ ہوئی، اُس نے اپنے ایک غلام کو جو نینوا شہر کا رہنے والا تھا حکم دیا کہ ان کو اچھے اچھے انگور کھِلاؤ۔ وہ غلام انگور لے کر آپ کے پاس گیا۔ اُس نے جب آپ کو سر سے پاؤں تک زخمی دیکھا تو وہ حیران ہؤا اور آپ سے دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہؤا ہے؟ آپ نے فرمایا۔ مَیں لوگوں سے کہتا ہوں کہ مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور وہ مجھے پتھر مارتے ہیں۔ وہ غلام عیسائی تھا۔ جب اُس نے آپ سے تمام قصہ سُنا تو عیسائیت کی یاد اُس کے دل میں پھر تازہ ہو گئی۔ اُس نے محسوس کیا کہ اس کے سامنے خدا تعالیٰ کا ایک رسول بیٹھا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اُس غلام سے کہا اے میرے بھائی! یونس بن متّی کے بیٹے! میں تمہیں خدا تعالیٰ کی باتیں سُنانا چاہتا ہوں۔ چنانچہ آپ نے اسے تبلیغ شروع کی اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اجنبی غلام آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے لپٹ گیا اور آپ کے سر، ہاتھوں اور پَیروں کو بوسہ دینے لگا۔ باغ کے مالک نے پہلے تو ترس کھا کر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے لئے انگور بھیجے تھے۔ جب اُس نے دیکھا کہ اُس کا غلام عقیدت مندانہ طور پر آپ کے پاس بیٹھا ہے تو وہ غضبناک ہو گیا اور اپنے غلام کو بُلا کر کہنے لگا یہ شخص میرا رشتہ دار ہے؟ مَیں جانتا ہوں کہ یہ مجنون ہے۔ اُس غلام نے کہا یہ نہیں ہو سکتا۔ اِس کی باتیں تو نبیوں والی معلوم ہوتی ہیں۔
لوگ کہتے ہیں’’ جب اُوکھلی میں سر دیا تو موہلوں کا کیا ڈر‘‘۔۱۹؎ اگر کوئی صداقت کی مخالفت کرتا ہے تو کرے مومن کو مخالفت سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو جب شہید کیا جارہا تھا تو دیکھنے والوں نے شہادت دی ہے کہ جب آپ پر پتھر برسائے جاتے تھے تو آپ فرماتے تھے اے اﷲ! تُو اِن لوگوں پر رحم فرما۔ دراصل ان کو پتہ نہیں کہ مَیں کون ہوں۔ یہ مجھے جھوٹا اور مرتد خیال کرتے ہیں اور اپنے خیال میں ایک نیکی کا کام کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جس کے اندر سچائی ہوتی ہے وہ کہتا ہے اچھا جتنا ستانا ہے ستالو۔ ہاں اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس سچائی نہیں تو وہ بے شک ڈرے گا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس نجران کے عیسائیوں کا جب وفد آیا تو مسجد میں بیٹھ کر گفتگو شروع ہوئی اور گفتگو لمبی ہو گئی۔ وہ باتیں سُنتے رہے۔ آخر اُنہوں نے کہا ہماری نماز کا وقت ہو گیا ہے ہم باہر جاکر نماز ادا کر آئیں۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا باہر جانے کی کیا ضرورت ہے ہماری مسجد میں ہی اپنی نماز ادا کر لیں۔ آخر ہماری مسجد خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہی بنائی گئی ہے۲۰؎ لیکن اب یہ رواداری لوگوں میں باقی نہیں۔ یہاں تک کہ اس زمانہ میں بعض مساجد پر یہاں تک لکھ دیا گیا ہے کہ اِس مسجد میں کوئی وہابی یا مرزائی داخل نہ ہو۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جن کی اِتباع کا یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں وہ تو عیسائیوں سے بھی فرماتے ہیں کہ تم اپنی عبادت ہماری مسجد میں ہی کر لو لیکن یہ لوگ مسلمانوں کو بھی مسجد میں عبادت کرنے سے منع کرتے ہیں۔ اب یہ حدیث میری بنائی ہوئی نہیں۔ مَیں تو اُس وقت موجود ہی نہیں تھا جب بخاری اور مسلم لکھی گئی تھیں بلکہ اُنہیں تو پتہ بھی نہ تھا کہ مَیں کسی زمانہ میں پیدا ہوں گا۔
جب مکّہ فتح ہؤا تو رسول کریم صلی اﷲعلیہ وسلم نے چند شدید معاندین کے متعلق یہ احکام نافذ فرمائے کہ وہ جہاں کہیں ملیں قتل کر دیئے جائیں ان لوگوں میں ایک عکرمہ بھی تھے جو ابو جہل کے بیٹے تھے وہ ڈر کے مارے مکّہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے ایبے سینیا جانے کا ارادہ کر لیا۔ یہ دیکھ کر عکرمہ کی بیوی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا کہ یَا رَسُوْلَ اﷲ! آپ میرے خاوند کو قتل کرنے کے احکام واپس لے لیں اور اُسے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے مکّہ میں رہنے کی اجازت عطا فرماویں۔ آپ نے فرمایا۔ اچھا اگر وہ یہاں آجائے تو ہم اسے صرف معاف ہی نہیں کریں گے بلکہ اُس کے مذہب میں مداخلت بھی نہیں کریں گے۔ یہ تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا طریق تھا۔ مگر ہمارے مخالف کہتے تو یہ ہیں کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہمارے آقا اور سردار ہیں لیکن جو کام یہ لوگ کرتے ہیں وہ آپ کے رویہ کے خلاف ہیں۔ اگر یہ سب لوگ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم والے کام کرنے لگ جائیں تو دُشمن کس طرح اسلام سے باہر جاسکتا ہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا۔ آپ نے اسے کھانا وغیرہ کھلایا اور رات کو وہ وہیں سو گیا لیکن جاتے ہوئے وہ بستر پر پاخانہ کر گیا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب دیکھا تو فرمایا تم نے اپنے مہمان پر ظلم کیا کہ اسے پاخانہ کرنے کی جگہ نہ بتائی۔ چونکہ اسے پاخانہ کرنے کی جگہ کا پتہ نہیں لگا اس لئے وہ بستر پر ہی پاخانہ پھر گیا۔ اس کے بعد آپ ؐ نے ایک عورت کو بُلایا اور اُسے فرمایا تم پانی ڈالتی جاؤ اور مَیں خود کپڑا دھوتا ہوں۔ اُس عورت نے پانی ڈالتے ہوئے کہا کہ خدا تعالیٰ اِس شخص کو غارت کرے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا گالی مت دو پتہ نہیں اُسے کتنی تکلیف ہوئی ہو۔ یہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا ہی نتیجہ تھا کہ لوگ آپ کے پاس آتے اور مسلمان ہوتے جاتے۔ جب نورِ قلب پیدا ہو جائے ، جب وسعتِ قلب نصیب ہو جائے، جب روحانیت دکھائی جائے تو کیا کسی کی عقل ماری گئی ہے کہ وہ جہنم میں جائے۔ تنور میں جان بوجھ کر کوئی نہیں پڑتا۔ جتنے لوگ جہنم میں جائیں گے غلط فہمی کی بناء پر ہی جائیں گے۔
پس تم ان کے پاس جاؤ اور انہیں سمجھاؤ ۔ جب ان کے اندر نورِ ایمان پیدا ہو جائے گا ، جب ان کی محبت تیز ہو جائے گی تو جو لوگ آج تمہیں مارنے کا فتویٰ دیتے ہیں اگر کوئی تمہیں پتھر مارے گا تو وہ خود اپنے سینہ پر لیں گے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے متعلق ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص نے بظاہر اسلام قبول کر لیا اور وہ جنگِ حنین میں شریک ہؤا لیکن اُس کی نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو مَیں موقع پاکر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو شہید کر دوں گا۔ جب لڑائی تیز ہوئی تو اس شخص نے تلوار کھینچ لی۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اُس وقت اکیلے تھے صرف حضرت عباس ؓ ساتھ تھے۔ اس شخص نے موقع غنیمت جانا اور آگے بڑھ کر وار کرنا چاہا۔ خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو الہاماً بتا دیا کہ اس شخص کے اندر کپٹ۲۱؎ہے۔ وہ شخص خود ذکر کرتا ہے کہ مَیں آپ کی طرف بڑھتا گیا اور مَیں خیال کرتا تھا کہ اب میری تلوار آپ کی گردن اُڑا دے گی لیکن جب مَیں آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور سینہ پر رکھ کر فرمایا۔ اے خدا! تُو اس کو شیطانی خیالات سے نجات دے اور اس کے بُغض کو دور کر دے۔ وہ شخص کہتا ہے مجھے یکدم یوں محسوس ہؤا کہ آپ سے زیادہ پیاری چیز اور کوئی نہیں۔ اِس کے بعد رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا آگے بڑھو اور لڑو۔ مَیں نے تلوار سونت لی اور خدا کی قسم! اگر اُس وقت میرا باپ بھی زندہ ہوتا اور وہ میرے سامنے آجاتا تو مَیں اپنی تلوار اِس کے سینہ میں بھونک دینے سے بھی دریغ نہ کرتا۔ ۲۲؎یہ محبت ہے جس نے اُس کی دُشمنی کو دُور کر دیا۔
پس تم تبلیغ کرو اور نرمی سے سمجھاؤ اور دُعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کے اندر بھی محبت پیدا کرے ۔ ان کی دنیاداری بُغض اور کینہ و فساد کی آگ کو مٹادے۔ اِنہیں ایمان بخشے۔ اِنہیں اسلام کی محبت بخشے۔ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ بخشے اور بجائے اِس کے کہ یہ ہمیں مارتے پِھریں یہ بھی آگے بڑھیں اور عیسائیت کے سینے میں خنجر بھونک دیں۔ (الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۲ئ)
۱؎ : ابو داؤدکتاب الطہارۃ باب مؤاکلۃ الحائض و مجامعتھا
۲؎ : بخاری کتاب المرضٰی باب مَا رُخِّصَ لِلْمَرِیْضِ اَنْ یَقُوْلَ اِنِّی وَجعٌ
۳؎؎ : بخاری کتاب الجنائز باب یعذب المیت ببعض بکاء اھلہٖ
۴؎؎ : السیرۃ الحلبیۃ جلد ۲ صفحہ ۲۰۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۵؎؎ : اوپچی: ہتھیار بند، سر سے پاؤں تک ہتھیاروں سے سجا ہؤا، بانکا سپاہی
۶؎؎ : سیرت ابن ہشام جلد ۱ صفحہ ۳۱۱، ۳۱۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۷؎؎ : السیرۃ الحلبیۃ جلد ۳ صفحہ ۱۰۶، ۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۸؎؎ : تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحہ ۴۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء (مفہوماً)
۹؎؎ : الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد ۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء
۱۰؎؎ : بخاری کتاب المغازی باب غزوۃ موتۃ مِنْ اَرض الشام
۱۱؎؎ : مسلم کتاب الایمان باب کون الاسلام یہدم مَا قَبلہ (الخ)
۱۲؎؎ : مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۲۳ مطبوعہ بیروت۱۹۷۸ء
۱۳؎؎ : وَمِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوْسٰی اِمَامًا وَّ رَحْمَۃً (الاحقاف:۱۳)
۱۴؎؎ : مشکوٰۃصفحہ ۴۸۰ مطبوعہ کراچی ۱۳۶۸ ھ
۱۵؎؎ : الدار قطنی جلد ۲ صفحہ ۶۵ ۔ مطبوعہ لاہور باب صفۃ صلاۃ الکسوف
‏A-۱۵؎؎ : آیت: نشان
۱۶؎؎ : الانبیاء : ۹۷
۱۷؎؎ : حزقیل باب ۳۸ آیت ۲ تا ۴ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی ۱۸۸۷ء ۔ لنڈن
۱۸؎؎ : المائدۃ : ۲۵
۱۹؎؎ : سیرت ابن ھشام جلد ۲ صفحہ ۶۰ تا ۶۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۲۰؎؎ : السیرۃ الحلبیۃ جلد ۳ صفحہ ۲۳۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء
۲۱؎؎ : کپٹ : کینہ، دشمنی
۲۲؎؎ : السیرۃ الحلبیۃ جلد ۳ صفحہ ۱۲۷، ۱۲۸۔ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء










ہم خدا تعالیٰ کو
کسی صورت بھی نہیں چھوڑ سکتے




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
ہم خدا تعالیٰ کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے
(فرمودہ ۲۶؍دسمبر ۱۹۵۰ء برموقع افتتاح جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہّد ، تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: -
’’مَیں اِس وقت دعا کے ساتھ جلسہ کا افتتاح کرنے آیا ہوں لیکن افتتاح سے پہلے جیسا کہ یہ اصول چلا آیا ہے مَیں کچھ باتیں بھی کہا کرتا ہوںتاوہ جلسہ میں آنے والوں کے لئے ہدایت کا موجب بنیںاور تاکہ دعا کرتے وقت وہ دعا کرنے والوں کے لئے مُمِدّ و مُعین ثابت ہوں۔
سب سے پہلے تو میں ایک رُقعہ کے متعلق جو کسی دوست نے بھجوایا ہے کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ وہ رُقعہ یہ ہے کہ تمام دوستوں کی خواہش ہے کہ ’’یَامَسِیْحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا ‘‘ ۱؎ کی اپیلیں جو سامنے لٹکائی ہوئی ہیں وہ ہٹائی جائیںکیونکہ اس صورت میں نصف کے قریب سامعین لیکچرار کو نہیں دیکھ سکتے۔ میرے نزدیک یہ بات معقول ہے اسٹیج کے سامنے کوئی ایسی چیز نہیں لٹکانی چاہئے جو سامعین اور لیکچراروں کے درمیان روک بنے۔جن لوگوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہے اُنہوں نے میری ان ہدایتوں کو سُننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی جو مَیں نے دی تھیں ۔ چنانچہ آج صبح ہی جب مُجھ سے پوچھا گیا کہ ہم اِس طرح سٹیج کے اِردگرد یَامَسِیْحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا کی اپیلیں لٹکانا چاہتے ہیں تو مَیں نے منع کیا اور کہا کہ یہاں اپیلیں نہ لٹکائی جائیں مگر جب مَیں آیا تو مجھے تعجب ہؤا کہ میری ہدایت کے خلاف اِن کو یہاں لٹکایا گیا ہے۔ اس لئے مَیں ہدایت دیتا ہوں کہ جب مَیں دعا کے بعد یہاں سے جائوں گا تو اِن آویزوں کو فوراً یہاں سے ہٹا دیا جائے اور انہیں ایسی جگہ میں لٹکایا جائے کہ یہ جلسہ میں مُخِلّنہ ہوں۔ اصل اور مقدم چیز تو جلسہ ہے اور ایسی چیز جو اِس میں مُخِلّہو یا تقریروں کے اثر میں روک بننے والی ہووہ کسی صورت میں جائز نہیں ہو سکتی ایسا کرنے کا کسی کو حق نہیں۔
بات دراصل یہ ہے کہ نوجوانوں کو بات سمجھنے کی عادت نہیں مَیں نے کہا تھا کہ آویزے سٹیج پر فلاں جگہ لگائیں لیکن انہوں نے میری پوری بات سُنی نہیں صرف سٹیج کا لفظ سُن لیا اور آویزے موجودہ صورت میں لگا دیئے۔ جب یہ سوال میرے پاس پہنچا تو مَیں اُس وقت ناشتہ کر رہا تھالیکن مَیں نے اُس وقت دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں جواب بھجوا دیا کہ ایسا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں۔
اِس کے بعد سب سے پہلے مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ تمام دوستوں کو معلوم ہے کہ میرا یہ سارا سال بیماری میں گزرا ہے ۔گزشتہ جلسہ کے بعد مجھے کھانسی اور نزلہ ہؤا پھر آواز بیٹھ گئی اور کئی دن تک بغیر آواز کے گویا جیسے پھسپھساہٹ ہوتی ہے مَیں بولتا تھا ایک لمبے عرصہ کے بعد مجھے اِس بیماری سے افاقہ ہؤا لیکن دو ماہ کے بعد کوئٹہ میں نقرس کا دَورہ ہو گیا جو دو ماہ تک رہا پھر کھانسی کا دَورہ ہؤا جو چارہ ماہ تک رہا پھر کچھ عرصہ آرام رہا لیکن پچھلے دنوں بخار کا شدید دَورہ ہؤا لیکن اب پھر کھانسی اور زکام ہے اِن بیماریوںکی وجہ سے مُجھ میں اِتنی طاقت نہیں کہ میں اتنا بوجھ اُٹھا سکوں جتنا بوجھ مَیں پہلے اُٹھایا کرتا تھا پس احباب کو انتظام کے ماتحت اگر کچھ قربانی کرنی پڑے اور اُنہیں ملاقات کا اُتنا وقت نہ ملے جتنا پہلے ملا کرتا تھا تو اُنہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ اشد ضرورت کی وجہ سے کیا گیا ہے اور اُنہیں اس پابندی کو قبول کرنا چاہئے۔ اب بھی مَیں بول رہا ہوں تو بڑے زور سے چند الفاظ کہہ رہا ہوں اور مَیں نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ تقریریں میں کس طرح کروں گا۔ کل تک مجھے آرام تھا لیکن رات کو تقریروں کے لئے نوٹ لکھنے کی وجہ سے مجھے زیادہ دیر تک جاگنا پڑا۔ پہلے تو مَیں رات کو کام کرنے کا عادی تھا اور تین تین چار چار بجے تک کام کرتا رہتا تھا لیکن اب بیماری کی وجہ سے مَیں سردی میں کام نہیں کر سکتا۔ آٹھ بجے ہی بسترمیں داخل ہو جاتا ہوں لیکن کل نوٹوں کی وجہ سے گیارہ بجے رات تک کام کرتا رہا جس کی وجہ سے میرا گلا بیٹھ گیا ہے اور نزلہ کے آثار پیدا ہو گئے ہیں۔ خیر کل کی بات تو کل کی رہی اِس وقت مجھے گلے میں شدید درد ہے اور اس کے ساتھ سر میں بھی درد ہو رہا ہے ناک اور کن پٹیوں میں بھی درد ہے جس کی وجہ سے مَیں خیال کرتا ہوں کہ میرے لئے تقاریر کو نبھانا مشکل ہو گا اِس وجہ سے احباب کو اَور بھی احتیاط کرنی چاہئے اس لئے مَیں پیدل چل کر نہیں آیا بلکہ کار پر آیا ہوں اور آئندہ بھی کار پر ہی آیا کروں گا کیونکہ گرد اُڑنے کی وجہ سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اِسی طرح احباب ملاقات کے وقت بھی یہ احتیاط رکھیں کہ وہ اس طرح قدم رکھیں کہ گرد نہ اُڑ ے۔
ایک بات مَیں سٹیج کے افسروں سے بھی کہنا چاہتا ہوں جو تکلیف مجھے محسوس ہوئی ہے وہ دوسرے لیکچراروں کو بھی محسوس ہو گی اور وہ تکلیف یہ ہے کہ مائیکرو فون عین منہ کے سامنے رکھا ہؤا ہے اور یہ اتنا موٹا ہے کہ اِس کی وجہ سے آدھے آدمی نظر نہیں آتے۔ اِس سے سُننے والوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور تقریر کرنے والوں کو بھی۔ اِسے ایسی جگہ پر رکھنا چاہئے کہ یہ منہ سے نیچے رہے تا سامعین تقریر کرنے والے کو دیکھ سکیں اور تقریر کرنے والے سامعین کو دیکھ سکیں۔
اِس کے بعد مَیں دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے لئے جس قسم کی مشکلات ہیں اور جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں یہ مشکلات اور حالات کسی دوسری قوم کو پیش نہیں آ رہے ۔ ہماری حالت اُس یتیم کی سی ہے جس کے نہ صرف ماں باپ ہی فوت ہوگئے ہیں بلکہ اُس کا کوئی عزیز بھی دنیا میں باقی نہیں رہا۔ صحابہ کرام کا جو حال تھا وہی ہمارا ہے دنیا کی کوئی قوم ہم سے منہ لگانے کے لئے تیار نہیں۔ دنیا کی کوئی قوم ہم سے خوش خلقی سے پیش آنے کے لئے تیار نہیں، دنیا کی کوئی قوم ہمارے ساتھ محبت سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں اور ہم جب بھی سوچتے ہیں ہمیںکوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے یہ عداوت کی جاتی ہے اورجس کی وجہ سے بُغض و کینہ ہم سے روا رکھا جاتا ہے۔ ہم نے کسی کا مال نہیں مارا جب دوسرے لوگ مال لُوٹتے ہیں ہم دوسروں کی خدمت کرتے ہیں، جب دوسرے لوگ ظلم کرتے ہیں ہماری جماعت کے لوگ اِلَّا مَاشَائَ اﷲُ رحم سے کام لیتے ہیں، جب دوسرے لوگ بُغض اور کینہ دکھاتے ہیں ہماری جماعت کے لوگ محبت اور پیار کا سلوک کرتے ہیں اور جب دوسرے لوگ قوم اور مُلک سے سچی ہمدردی نہیں رکھتے بلکہ ظاہر داری سے کام لیتے ہیں ہماری جماعت کے لوگ قوم، مُلک، ہم مذہبوں اور تمام بنی نوع انسان سے خواہ وہ اسلام سے نسبت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں ہمدردی کرتے ہیں اور باوجود اِس کے کہ دنیا ہمیں کشتنی اور گردن زدنی سمجھتی ہے ہمیں سب کی بھلائی مدنظر رہتی ہے۔ دنیا ہمیں اِس لئے نہیں دھتکارتی کہ ہم نے اس کا کچھ بگاڑا ہے، وہ ہم سے اِس لئے تعلق نہیں توڑتی کہ ہم نے کسی پر ظلم کیا ہے بلکہ وہ اس لئے ہمیں منہ نہیں لگاتی کہ ہم نے اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے آقا سے منہ لگایا لیا ہے لیکن ہم اسے کسی وجہ سے چھوڑ نہیں سکتے۔ یہ وہ چیز ہے جس پر ہم اپنے عزیز ترین وجودوں کو بھی قربان کر سکتے ہیں۔ ہم اسے نہ حکومت کی خاطر چھوڑ سکتے ہیں نہ مُلک و قوم کی خاطر چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہم کسی عقیدہ کی خاطر اسے چھوڑ سکتے ہیں۔ ہم خدا تعالیٰ کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے دُشمنوں کو سوائے اِس کے ہمارے ساتھ اور کوئی دُشمنی نہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی آواز کو سُن لیا اور یہ ایسی چیز نہیں جس کا ہمارے پاس کوئی علاج ہو۔ اگر مال کا سوال ہوتا تو ہم کہتے چلو اِس سے ہمیں کیا غرض اسے چھوڑ دو، اگر مُلک کا سوال ہوتا تو ہم کہتے کہ اسے چھوڑ دو ہمیں ساری دنیا سے عداوت مول لینے کی کیا ضرورت ہے اگر عزت کا سوال ہوتا تو ہم کہتے ہمیں ساری دنیا سے لڑائی سہیڑنے سے کیا غرض اسے چھوڑ دو۔ یہ لوگ ہم سے اُس چیز کو چھُڑانا چاہتے ہیں جسے چھوڑ کر نہ ہمارا دنیا میں کچھ رہتا ہے اور نہ آخرت میں ۔ یہ لوگ ہم سے خدا چھُڑوانا چاہتے ہیں اور اس کا ہمارے پاس ایک ہی جواب ہے کہ تم ہم سے مُلک لے لو، تم ہماری آزادیاں لے لو، تم ہماری عزتیں لے لو، تم ہمارے مالوں پر قبضہ کر لو، ہم اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں۔
پس ہماری حالت اس قسم کی ہے جس کو لاعلاج مرض کہتے ہیں۔ ہماری مرض وہ ہے جس کے دور کرنے کا خیال بھی ہمارے جسموں پر کپکپی طاری کر دیتا ہے۔ اگر خدا تعالیٰ سے محبت کرنا مرض ہے، اگر اُس کی باتوں کو ماننا مرض ہے اور یہ ایسی متعدی بیماری ہے جس سے دنیا ڈرتی ہے کہ یہ اُسے نہ لگ جائے تو ہم کہیں گے کہ خواہ اس کے بدلے میں ہمارے جسم کی ایک ایک بوٹی بھی جُدا ہو جائے، خواہ اِس کے بدلے میں ہماری جان اورمال تباہ ہو جائیں لیکن ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے۔ اَور بیماریاں تو قابلِ علاج ہیں لیکن اِس مرض کا کوئی علاج نہیں اور نہ صرف اِس کا کوئی علاج ہی نہیں بلکہ اِس میں مُبتلا رہنے کو ہم فخر سمجھتے ہیں اور اس کے علاج کو عذاب سمجھتے ہیں۔ اِس مرض کی دوا اور دارو سوائے خداتعالیٰ کے اور کسی کے ہاتھ میں نہیں۔
پس آئوہم اپنے رب کے حضور میں عرض کریں کہ اے ہمارے رب! ابھی تو ہم نے اپنے مونہوں سے کہا ہے کہ ہم تیرے ہو گئے ہیں اور دنیا ہم سے عداوت کرنے لگی ہے۔ اے ہمارے رب! اگر ہماری موتیں اِسی حالت میں ہو جائیں تو نہ ہم دنیا کے رہتے ہیں اور نہ دین کے۔ دنیا کے لوگ ہم سے منہ نہیں لگاتے کہ ہم نے تجھ سے منہ لگایا ہے لیکن ہم تیرے بندے اب تک نہیں بنے کیونکہ ہم نے مونہوں سے کہا ہے کہ ہم تیرے ہو گئے لیکن ہم نے اپنے دعویٰ کے مطابق عمل نہیں کیا ہمارے اعمال میں ابھی خامیاں ہیں۔ پس اے خدا! تُو ہمارے اندر ایسی تبدیلی پیدا کر دے کہ دنیا ہماری مخالفت کرتی ہے تو کرتی چلی جائے لیکن ہم نے تیری محبت کا جو دعویٰ کیا ہے ہم اس میں سَو فیصدی صادق ثابت ہوں اور خالص طور پر تیرے بن جائیں۔ پھر تمام عداوتیں ہمارے لئے راحتیں بن جائیں گی۔ دنیا جس چیز کو دوزخ سمجھتی ہے ہم اسے جنت قرار دیں گے کیونکہ جسے تُو مل گیا اسے سب کچھ مل گیا۔ تیرے لئے گالیا ں سننا ساری دنیاکی تعریفوں سے بہتر ہے ۔ اے خدا! تُو ہمارے اس دعویٰ کو حقیقی بنا دے، تُو ہمارے اندر اپنا عشق پیدا کر دے، تُو ہمارے اندر اپنا لگائو پیدا کردے، تیرے وجود کے سوا باقی ساری دنیا ہماری نظر وں سے غائب ہو جائے۔ بجائے اِس کے کہ ہم دنیا کی طرف نظر اُٹھائیں دنیا ہمیں خود ہی نظر نہ آئے صرف تیرا ہی چہر ہ ہمارے سامنے رہے۔ دنیا کی ہر چیز بے شک ہم سے چھینی جا سکتی ہے لیکن تُو ہم سے چِھینا نہ جاسکے ۔
پس آئو ہم خدا تعالیٰ سے مدد کے لئے عرض کریں کہ ہم ہزاروں جو تیرے نام پر یہاں جمع ہو ئے ہیں تُو ہمیں اپنا لے اور ہمارے ساتھ باقی ساری دنیا کو بھی اپنا لے۔ دُشمن بے شک ہمارے ساتھ دُشمنی کرتا ہے لیکن ہماری اُس کے ساتھ کوئی دُشمنی نہیں۔ لوگ بے شک ہمارے مخالف ہیں لیکن ہماری ان سے کوئی مخالفت نہیں۔ ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ تیرا چہرہ اُنہیں بھی نظر آئے اور اُن کے دلوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا ہو جائے تا وہ اپنی سُستیوں اور غفلتوں سے ہٹ کر دین کی خدمت میں لگ جائیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا پر پھر اُسی طرح قائم ہو جائے جس طرح وہ تیرہ سَو سال پہلے قائم ہوئی تھی۔ پس تُوہم پر بھی رحم فرما اور ہمارے مخالفوں پر بھی رحم فرما ۔ آمین (الفضل لاہور ۱۳ ؍جنوری ۱۹۵۱ء )
۱؎ : تذکرۃ صفحہ ۴۲۳۔ ایڈیشن چہارم








اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے
اس کے مطابق اپنے فرائض ادا کرو




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے
اس کے مطابق اپنے فرائض ادا کرو
(مستورات سے خطاب)
(فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۵۰ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’میری عورتوں میں تقریر یاد گارہے اُس زمانہ کی جب ابھی مائیکروفون نہیںہؤا کرتے تھے اور جب لائوڈ سپیکر مردانہ جلسہ کی تقریر کو عورتوں تک نہیں پہنچا سکتے تھے اُس وقت ضرورت ہؤا کرتی تھی کہ مَیں عورتوں میں الگ تقریر کروں اس لئے عام حالات میں اب عورتوں میں الگ تقریر کرنے کی مائیکروفون اور لائوڈ سپیکر کی ایجاد کے بعد خاص ضروت نہیں رہی لیکن اِس طریق کو قائم اِس لئے رکھا گیاہے کہ بعض باتیں عورتوںکے ساتھ خصوصاً تعلق رکھتی ہیں اور وہ مردوںکی تقریر کا حصّہ نہیں بن سکتیں اس لئے ایسی باتوں کو پہنچانے کے لئے اور عورتوں کے مخصوص معاملات کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے ایک تقریر ایسی رکھ دی جاتی ہے جو عورتوں کے جلسہ میں الگ ہو مگر ظاہر ہے کہ اب اِس تقریر کی اہمیت نہیں رہی اور اب اس کے لئے اتنا وقت دینے کی ضرورت نہیں رہی جتنا پہلے دیا جاتا تھا۔ مثلاً ابھی آج مَیں یہاں سے فارغ ہو کر اور نماز پڑھا کر مردانہ جلسہ میں تقریر کروں گا تو آپ کے لائوڈ سپیکروں کا تعلق مردانہ جلسہ کے مائیکرو فون سے کر دیا جائے گا اور جس طرح مرد میری تقریر سُنیں گے اسی طرح مستورات بھی یہاں بیٹھی ہوئی میری تقریر سُن سکیں گیں۔
اس سال تو خصوصیت کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ گزشتہ سال کے جلسہ کے بعد سے مَیں متواتر بیمار چلا آ یا ہوں اور خصوصیت کے ساتھ چھ مہینے تک بلکہ اس سے بھی زیادہ گلے کی بیماری رہی ہے۔ بعض اوقات توآواز بالکل بند ہو جاتی تھی اور محض ہونٹوں سے ہوا نکل سکتی تھی۔ اب بھی میرے گلے کی حالت ایسی ہے کہ مَیں بولتے وقت تکلیف محسوس کرتاہوں۔ دو دن سے نزلہ دوبارہ میرے کان پر اور ناک پر اور گلے پر گر رہا ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ گلے کی حفاظت جہاں تک ہو سکے کی جائے اور اگر یہ خیال مَیں نہ رکھوں تو شاید باقی تقریریں کرنی بھی میرے لئے مشکل ہو جائیںبلکہ بظاہر حالات اب بھی مشکل نظر آتا ہے کہ مَیں دونوں دنوں کی تقریریں کر سکوں پس مَیں اِسی نیت سے آیا ہوں کہ صرف چند باتیں آپ کے سامنے کروں یہی وجہ تھی کہ مَیں جان بُوجھ کر وقت سے دیر کر کے آیا ہوں کیونکہ اگر مَیں وقت پر آتا تو مجبوراً مَیں تقریریں بھی زیادہ کرتا۔ اب یہاں سے جاکر مَیں نے نمازیں پڑھانی ہیں اور پھر تقریر شروع کرنی ہے پس مَیں نے مناسب سمجھا کہ دیر سے جائوں اور صرف چند منٹ بولوں، نماز پڑھائوں اور پھر دوسری تقریر کروں جو اگر لائوڈ سپیکر خراب نہ ہؤاتو انشاء اللہ آپ کو اِسی طرح پہنچے گی جس طرح مردوں کو پہنچ رہی ہو گی۔
مَیں آج احمدی خواتین کی توجہ اس امر کی طرف منعطف کرانا چاہتا ہوںکہ ’’ہر سخن وقتے و ہر نکتہ مقامے دارد ‘‘ ہر زمانے کے ساتھ انسان کا طَورو طریق بدلتا چلا جاتا ہے۔ ایک زمانہ ایسا تھا کہ احمدیت بہت ہی کمزور تھی چند افراد احمدیت میںداخل تھے اور عام طور پر لوگ خیال کرتے تھے کہ یہ چند دن کے مہمان ہیں ایک کھیل ہے جو کھیلا جارہا ہے جیسے کسی شخص کو جُوں کاٹ لیتی ہے یا پسّو کاٹ لیتا ہے یا مچھر کاٹ لیتا ہے اِسی طرح وہ سمجھتے تھے کہ چند احمدیوں کی حیثیت ایک جُوں یا ایک مچھر یا ایک پسّو سے زیادہ نہیں اسی لئے ان کی مخالفت کا رنگ بھی نرالا تھا ۔ ایک مخالف مولوی سمجھتا تھا کہ اگر مَیں نے قلم اُٹھا کر لکھ دیا کہ احمدی کافر ہیں تو یہ اُسی وقت ختم ہو جائیں گے اور تمام دنیا میرے فتوے کے نیچے ان سے ملنا جُلنا چھوڑ دے گی اور یہ ڈر کے مارے ہم سے مل جائیں گے لیکن ان کے فتوے بیکار گئے۔ جنہوں نے احمدیت کا لُطف اُٹھایا اور جنہوں نے احمدیت کی باتوں پر غور کیا وہ سمجھ گئے کہ اگر روحانی چاشنی اور روحانی لذت کہیں سے مل سکتی ہے تو احمدیت سے ہی مل سکتی ہے اس لئے کفر کے فتوے اور اعلان ان لوگوں کے لئے بیکار ثابت ہوئے اور وہ جماعت میں شامل ہونا شروع ہوئے ۔
سورج اور چاند کو گرہن لگا اور اُسی طرح لگا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا۔ طاعون پھیلی اور شہروں کے شہر اور قبیلوں کے قبیلے صاف ہو گئے اور سینکڑوں نے نہیں بلکہ ہزاروں نے محسوس کیا کہ اب آسمان زمین پر تغیر چاہتا ہے اب خدا کچھ کرکے دکھانا چاہتا ہے تب کچھ یہاں سے اور کچھ وہاں سے، کچھ اِس جگہ سے کچھ اُس جگہ سے، کچھ اِس بستی سے اور کچھ اُس بستی سے، کچھ اِس شہر سے اور کچھ اُس شہر سے احمدیت میں داخل ہونے شروع ہوئے اور سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئے۔ جب جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی گئی ہے اُس وقت پہلے جلسہ میں تین سَو سے کچھ اوپر لوگ شامل ہوئے اور ان تین سَو میں سے بعض آٹھ آٹھ ،نونو سال کے بچے بھی تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالانہ ہؤا اُس پر ساڑھے سات سَو آدمی جمع تھا اور اس ساڑھے سات سَو آدمی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود ؑ کی طبیعت پر اتنا اثر ہؤا کہ آپ نے فرمایا معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے مُجھ سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا اور اب میری وفات کا وقت قریب ہے چنانچہ چند ماہ کے بعد ہی آپ فوت ہو گئے۔ اب ایک ایک شہر میں اِس سے بہت زیادہ جماعت پائی جاتی ہے بلکہ بعض شہروں میں تو پانچ پانچ، سات سات بلکہ آٹھ آٹھ ہزار افراد پائے جاتے ہیں۔
اب کُجا وہ زمانہ کہ ساڑھے سات سَو آدمی کے آنے کو بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا اور کُجا یہ زمانہ کہ ایک ایک شہر میں اس سے بہت زیادہ افراد پائے جاتے ہیں۔
حضرت خلیفہ اوّل کی زندگی میںجو آخری جلسہ ہؤا اُس میں اٹھارہ سَو آدمی تھا اوریہ سمجھا جاتا تھا کہ اب جماعت بہت زیادہ پھیل گئی ہے اور پہلے سے کئی گُنا طاقتور ہوگئی ہے۔
اس کے مقابلہ میں قادیان کے آخری جلسہ میں چالیس ہزار سے اوپر احمدی شامل تھا اور اب بھی کل شام کے کھانے کی جو رپورٹ ملی ہے اِس سے ظاہر ہو تا ہے کہ چوبیس ہزار مرد و عورت نے کل شام کا کھانا کھایا ہے ۔ ۲۶ کی شام سے ۲۷ کی شام کی حاضری عام طور پر زیادہ ہؤا کرتی ہے پس کوئی بعید بات نہیں کہ چھبیس ستائیس ہزار کی حاضری ہو جائے۔ اب کُجا سات سَو کُجا اٹھارہ سَو اور کُجا ستائیس ہزار آدمی کاجلسہ پر جمع ہو جانا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سوائے افغانستان کے باہر کے کسی مُلک میں احمدی جماعت نہیں تھی مگر اب احمدیت انڈونیشیا میں ،ایران میں ، شام میں، لبنان میں، مصر میں، سوڈان میں ، ایبے سینیا میں،کینیا میں، یوگنڈامیں، ٹانگا نیکا میں، سیرا لیون میں، گولڈکوسٹ میں، نائیجیریا میں، انگلینڈ میں، سپین میں، ہالینڈ میں ، جرمنی میں، سوئٹزر لینڈ میں، یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں، نارتھ امریکہ میں، ماریشس میں، ملایا میں،بورنیو میں، سیلون میں، برما میں اور اِسی طرح اور کئی علاقوں میں قائم ہے جو شاید اِس وقت مجھے یاد بھی نہ ہوں اور بعض جگہ تو اتنی بڑی تعداد میں جماعت پائی جاتی ہے کہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ، ہزار آدمی وہاں احمدی ہو چُکا ہے۔
پس جو کیفیت آج سے پچاس سال پہلے تھی اور جو اُس وقت کے لحاظ سے ہمارے لئے کافی سمجھی جا سکتی تھی وہ آج کافی نہیں ہو سکتی۔ بچپن میں جو کپڑے پہنے جاتے ہیں وہ بڑی عمر ہونے پر نہ قد کے لحاظ سے کافی ہو تے ہیں اور نہ قسم کے لحاظ سے کافی ہوتے ہیں۔ چھوٹے بچے کو جس قسم کا کپڑا پہنایاجاتا ہے وہ جوان عمر والے کو نہیں پہنایا جاتا اور پھر جتنا کپڑا چھوٹے بچے کے لئے کافی ہوتا ہے اُتنا کپڑا جوان عمر والے کے لئے کافی نہیں ہو سکتا پس وہ زمانہ اَور تھا اور یہ زمانہ اور ہے ۔اب ضرورت ہے کہ جماعت کا ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے مرد بھی اور عورت بھی، بڑا بھی اور چھوٹا بھی، تاجر بھی اور صنّاع بھی، وکیل بھی اور ڈاکٹر بھی ، عالم بھی اور ان پڑھ بھی، پروفیسر بھی اور شاگرد بھی، زمیندار بھی اور غیر زمیندار بھی۔
مَیں دیکھتا ہوں کہ سب سے بڑی مشکل ہمارے راستہ میں عورتیں ہیں۔ مَیں نے کوئٹہ میں ایک تقریر کی بعض لوگ جو اُس تقریر میں شامل تھے بہت متأثر ہوئے اور انہوں نے جاتے ہوئے اِس خیال کا اظہار کیا کہ ہم اس تقریر سے اتنے متأثر ہوئے ہیں کہ شاید مطالعہ کے بعد ہم احمدی ہی ہو جائیں۔ جب وہ گھر گئے اور ان کی بیویوں نے یہ بات سُنی تو انہوں نے صاف طور پر اُن سے کہہ دیا کہ اگر تمہاری یہی نیت ہے اور آئندہ بھی تم نے ان کے جلسوں میں جانا اور ان کی تقریریں سُننا اور ان کی کتابوں کو پڑھنا ہے توہمیں اپنے ماں باپ کے گھر بھیج دو ہم یہاں رہنے کے لئے تیار نہیں اور چونکہ ایمان ابھی ان کے دل میں پیدا نہیں ہؤا تھا اور چونکہ ان کا مطالعہ بھی ابھی کافی نہیں تھا وہ یہ سُن کر ڈر گئے اور انہوں نے احمدیوں سے ملنا جُلنا ترک کر دیا۔ یہ ایک مثال نہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسی مثالیں ہیں کہ مرد احمدیت کی طرف آتے آتے اِس لئے رُک گئے کہ عورتوں نے مخالفت کی اور انہوں نے مردوں کو اس سے باز رکھا ۔
آخر اِس کی کیا وجہ ہے ؟ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ عورت کا دماغ ادنیٰ ہوتا ہے؟ بحیثیت ایک عورت ہونے کے تمہیں یہ خیال کبھی بھی نہیں کرنا چاہئے۔ مَیں بھی اس بات کا قائل نہیں کہ عورت کا دماغ ادنیٰ درجہ کا ہوتا ہے۔ گو اِس وجہ سے کہ عورتوں کو تعلیم پانے کا موقع کم ملتا ہے اِس کا لازمی نتیجہ پیدا ہؤا ہے کہ وہ عملی میدان میں بھی کم نکلتی ہیں لیکن جہاں خداتعالیٰ کے دین کا سوال ہے عورت کا دماغ مرد سے ادنیٰ نہیں اور اس کا ثبوت ہر زمانہ میں سیاست میں بھی اور مذہب میں بھی ملتا چلا آیا ہے۔ فرعون کی بیوی کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے جس نے فرعون جیسے دُشمن کے پاس رہتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت بھی کی اور مدد بھی کی۔ اسی طرح قرآن کریم میں حضرت مریم ؑ کا ذکر آتا ہے وہ بھی ایک عورت ہی تھیں جنہوںنے اپنے بچے کی ایسی پرورش کی کہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا انسان ثابت ہؤا۔اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہؓ نے دعویٰ نبوت کے وقت جو نمونہ دکھایا اور جس عقل اور شعور سے کام لیا وہ اسلامی تاریخ کا ایک بے بہا جوہر ہے جِسے ہر قسم کے دُشمن کے سامنے پیش کر کے ہم فخر کر سکتے ہیں ۔ ہم تو خیر دُور زمانہ کے ہیں اور واقعات سے ہم جتنا اندازہ لگا سکتے ہیں وہ اتنا گہرا نہیں ہو سکتا جتنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہؓ کی صُحبت میں اندازہ لگایا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کافر کہنے والے لوگ موجود ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بے دین کہنے والے لوگ موجود ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا اور جھوٹا مذہب بنانے والا کہنے والے لوگ موجود ہیں اور عیسائیوں کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں لیکن شدید سے شدید دُشمن بھی یہ اقرار کرنے پر مجبور ہے کہ وہ نہایت ہی ذہین آدمی تھا۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمجھدار نہیں تھے۔ وہ ان کے دین پر حملہ کرتا ہے ، وہ ان کی خیانت پر حملہ کرتا ہے مگر ان کی عقل پر حملہ کرنے والا کوئی نہیں ۔ ایسے عقل مند انسان نے جو رائے حضرت خدیجہؓ کے متعلق قائم کی اور جو گہرا اثر ان کے دماغ پر حضرت خدیجہؓ کا پڑا ہے اِس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ ہم جو دُور سے اندازہ لگا رہے ہیں ہمارے اندازے کتنے چھوٹے ہوں گے اور خدیجہؓ ان سے کتنی بالا ہوں گی کیونکہ ہم سینکڑوں سال بعد میں اندازہ لگا رہے ہیں۔ ہمارے سامنے خدیجہؓ کی ساری تاریخ نہیں ہمیں صرف چند واقعات کا علم ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر میں رہتے تھے اوررات دن آپ کا معاملہ حضرت خدیجہؓ سے پڑتا تھا اِس وجہ سے رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے ہزاروں واقعات دیکھے ہوں گے۔ پس آپ نے جو واقعات دیکھے ان کے ماتحت جو اندازہ حضرت خدیجہ ؓکا آپ لگا سکتے تھے وہ ہم نہیں لگا سکتے۔ چنانچہ اتنی بڑی عقل والا انسان جس کی دانش اور عقل اور بے دار مغزی کا شدید ترین دُشمن بھی قائل ہے اُس پر حضرت خدیجہؓ کا جو اثر تھا اِس کا آپ لوگ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیںکہ حضرت خدیجہ فوت ہو گئیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم مکّہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لے گئے آپ کی اس کے بعد ۹ شادیاں ہوئیں اور گیارہ یا بارہ سال حضرت خدیجہؓ کو فوت ہوئے بھی ہو گئے ایک دن رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے غالباً حضرت عائشہؓ کے ہاں ہی تھے کہ کسی عورت کے بولنے کی آواز آئی یہ ذہین اور بے دار مغز انسا ن جسے اگر کوئی سب سے بڑا نبی نہیں مانتا تو اس کودنیا کا عقل مند ترین انسان ماننے پر مجبور ہے بے اختیار ہو کر اُٹھ بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ آہ! میری خدیجہؓ، آہ! میری خدیجہؓ ۱؎زندہ ہوتیں تو اس فقرے کے کوئی معنی نہ تھے۔ ہم سمجھ سکتے تھے کہ ایک عورت کی آواز حضرت خدیجہؓ کی آواز سے ملتی تھی اس لئے آپ کو دھوکا لگا۔ آپ نے سمجھا کہ خدیجہ ؓ آ گئیں ہیں لیکن خدیجہ ؓکو فوت ہوئے بارہ سال ہو چکے ہیں اور آپ کی کئی دوسری شادیاں ہو چکی تھیں جن میں سے بعض سے آپ ان کی دینی خدمات کی وجہ سے اورقومی خدمات کی وجہ سے اور محبتِ الٰہی کی وجہ سے بہت خوش تھے مگر باوجود اس کے ایک سکتہ آپ پر طاری ہو گیا۔ آپ بھُول جاتے ہیں اِس بات کو کہ خدیجہؓ فوت ہو گئیں ہیں، آپ بھول جاتے ہیں اِس بات کو کہ اس کی وفات پر ۱۲ سال گزر چکے ہیں، آپ بھُول جاتے ہیں اِس بات کو کہ میں خدیجہؓ کے بعد اور کئی شادیاں کر چُکا ہوں ، آپ بھُول جاتے ہیں اِس بات کو کہ ان میں سے کئی ایسی ہیں جو دینی خدمات میں پیش پیش ہیںاور عورتوں میں میری سیکرٹری کا کام کر رہی ہیں ۔ آپ ان تمام واقعات کو بھُول جاتے ہیں اور بے اختیار ہو کر کہتے ہیں ’’آہ! میری خدیجہ ۔ آہ! میری خدیجہ‘‘ آنے والی خدیجہؓ کی بہن تھی اور بہنوں کی آواز آپس میں ملتی ہے مگر اس آواز کو سُن کر آپ بے تاب ہو گئے اور اپنے خیال میں آپ نے یوں محسوس کیا کہ خدیجہؓ فوت ہی نہیں ہوئیں اور وہ پھر اپنے گھر میں آ گئی ہیں۔ یہ بات بتاتی ہے کہ وہ عورت معمولی عورت نہیں تھی وہ عورت اپنی ذہنی اور مذہبی کیفیتوں میں ایسی شان رکھتی تھی کہ محمدرسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم جیسا دانا اور ہوشیار اور عقلمند انسان بھی اُس کی عقل اور دانش سے متأثر تھا اور اس کا نام بھی اِس کے دل میں گُد گُدیاں پیدا کر دیتا تھا۔ پھر حضرت عائشہؓ بھی ایک عورت ہی تھیں جن کے متعلق رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ آدھا دین تم عائشہ سے سیکھ سکتے ہو۔۲؎ اگر عائشہؓ نے واقع میں اسلام کا مطالعہ نہ کیا ہوتا، اگر عائشہؓ نے واقع میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعلیم کو یاد نہ رکھا ہوتا تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جیسا صاف گو انسان کیا عائشہؓ کی خاطر یہ کہہ سکتا تھا کہ آدھادین تم عائشہؓ سے سیکھ سکتے ہو۔
پھر اسلام میں اور بھی بہت سی عورتیں گزری ہیں۔رابعہ بصری ؒایک مشہور صوفی عورت تھیں۔ اِس طرح کئی بادشاہ گزری ہیں، کئی عالم عورتیں گزری ہیں جنہوںنے دین کی بڑی بڑی خدمتیں کی ہیں۔ تو عورت اور مرد میں دماغ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں جوکچھ ایک مرد سیکھ سکتا ہے وہ ایک عورت بھی سیکھ سکتی ہے۔ گو پہلی نسل اتنی ذہین نہیں ہو گی جتنے ذہین مرد ہوتے ہیں کیونکہ مردوں کی ذہانت میں نسلی تجربہ بھی شامل ہوتا ہے مگر یہ کام تم شروع کر کے ہی سیکھ سکتی ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ مردوں میں باوجود جاہل ہونے کے یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ مسائل بیان کر سکیں گے لیکن عورت اچھی تعلیم یافتہ بھی ہو تو وہ پہلے شرمائے گی پھر مسکرائے گی پھر سر نیچے ڈال دے گی اور پھر ہنسنے لگے گی اور کہے گی اچھا مَیں بھی مسئلہ بیان کر سکتی ہوں لیکن مردوںمیں کسی جاہل سے جاہل سے بھی کہو کہ مسئلہ بیان کرو تو وہ مسئلہ بیان کرنا شروع کر دے گا چاہے اُس کو کچھ بھی نہ آتا ہو۔ یہ فرق کیوں ہے؟ اِسی لئے کہ مرد نسلاً بعد نسلاً مسائل بیان کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کے اہل ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو نا اہل ہوتے ہیں وہ بھی سمجھتے ہیںکہ ہم اہل ہیں اور عورت جو اہل ہوتی ہے وہ بھی اپنے آپ کو نااہل سمجھتی ہے۔ یہ ذہنیت کا فرق ہے عقل یا علم کا فرق نہیں۔ یہ عادت تمہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ اب عورتوں کی حکومت کا زمانہ ہے ملکہ وکٹوریہ کے عہد سے عورتوں نے سرنکالنا شروع کیا اور پھر مغربیت کے اثر کے نیچے ان میں اور زیادہ بیداری پیدا ہوئی او ر اب تو یہ حال ہے کہ تھوڑے ہی دن ہوئے اخبارات میں ایک لطیفہ شائع ہؤا۔
نوابزادہ لیاقت علی خان اور ان کی بیگم کی بنگال میں ایک دعوت ہوئی۔ اِس موقع پر کوئی شخص عورتوں کے متعلق نوابزادہ لیاقت علی خان سے باتیں کر رہا تھا۔ باتوں باتوں میں مسٹر لیاقت علی خان اسے کہنے لگے کہ میاں تم یہ طریقہ اختیار کرو کہ بیوی کچھ کرے اسے مان لیا کرو مگر کِیا وہ کچھ کرو جو تمہارا جی چاہے؟ اس پر بیوی بول اُٹھی کہ جو کچھ جی میں آیا کرو گے تو پھرگھر میں بھی آئو گے یا نہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ کچھ تو ردِ عمل ہے اُن مظالم کا جوپُرانے زمانے میں عورتوں پر کئے جاتے تھے۔ پُرانے زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ عورت جُوتی سے سیدھی ہوتی ہے اور عام طور پر یہ کہا بھی جاتا تھا کہ عورت تو جُوتی کی طرح ہے ایک پیر نکال دیا اوردوسرا لے لیا اور شاید جُوتی تو وہ اب بھی ہے مگر اب اپنے ہی مرد کے سر پر پڑنے لگ گئی ہے۔
یورپ نے دنیا میں جو خیالات پھیلائے ہیں کچھ ان سے متأثر ہو کر اور کچھ علم اور عقل کی روشنی کی وجہ سے اب لوگ پُرانے ظلموں کا جواب کسی قدر دلداری سے دینے لگے ہیں اور یہ دلداری اب تعلیم یافتہ لوگوں سے ہٹ کر نچلے طبقہ میں بھی آ رہی ہے۔ پہلے ہمارے مُلک کا زمیندار عورت سے محبت کرنا جانتا ہی نہیں تھا وہ سمجھتا تھا کہ عورت کا اتنا ہی کام ہے کہ اُس کے لئے روٹی پکاوے مگر اب اس کے دل میں بھی اپنی بیوی سے محبت کا احساس پیدا ہو رہا ہے۔ آج ہی میری بیوی نے ایک واقعہ سُنایا کہ عورتوں کی بیرکوں کے پاس ایک مرد آیا اور اس نے سوراخ میں سے گُڑ نکال کر اندر دیا اور کہا کہ یہ راجو کو دے دو۔ انہوں نے کہا کہ کون راجو؟ مگر وہ یہی کہتا چلا گیاکہ راجو کو دے دو ۔ آخر بڑی مصیبت سے اُسے سمجھایا کہ یہاں تو بیسیوں راجو ہیں تم کس راجوکو گُڑ دینا چاہتے ہو؟ انہوں نے تو یہ واقعہ اس انداز سے سُنایا کہ دیکھیں وہ اپنی بیوی کو گُڑ دینے آیا تھا جو ایک نہایت معمولی اور حقیر سی چیز تھی مگر مَیں اِس واقعہ کو سُن کر اس خیال سے گھنٹوں حظّ اُٹھاتا رہا کہ وہ نہایت ریفائنڈ اور اعلیٰ درجہ کا جذبہ جو تعلیم یافتہ لوگوں میں پیدا ہو چُکا تھا وہ اب نچلے طبقہ میں بھی پیدا ہو رہا ہے اور وہ بھی عورت کی قدرومنزلت کو سمجھنے لگا ہے ۔ مردکے ہاتھ میں گُڑ آیا تو اس نے سمجھا کہ بغیر راجو کے اس کے کھانے کا مزہ نہیں آئے گا۔ یہ جذبہ جب اس طرح نیچے پھیلنا شروع ہؤا تو تم سمجھ سکتی ہو کہ مُلک کی کیا حالت ہو جائے گی اور عورت کتنا بلند مقام حاصل کرلے گی۔ بہر حال مُلک کے گوشہ گوشہ میں یا تو مغربی تعلیم کے اثر کے نیچے اور یا اس ردّ عمل کے نتیجہ میں جو مسلمانوں نے قرآن کریم کی تعلیم کو بھُلا کر اختیار کیا تھا عورت اب بھی ایک نمایاں حیثیت اختیار کر رہی ہے اور یا پھر یہ سمجھ لو کہ جب علم پھیلا اور جہالت دُور ہوئی تو لوگوںکو خود بخود شرم آئی کہ ہم نے عورت کو کیسی ذلّت میں رکھا ہؤا تھاحالانکہ وہ بھی ہماری طرح اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے بہر حال کسی نہ کسی وجہ سے یورپین خیالات کی وجہ سے یا پُرانے مظالم کے ردّعمل کی وجہ سے یا علم پھیلنے کی وجہ سے عورت کی حکومت اب پھر قائم ہو رہی ہے۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ حکومت قائم کی تھی مگر بعد میں مسلمانوں نے اِس کو بھُلا دیا۔ حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیویوں نے کوئی ایسی بات کی جو آپ کو پسند نہ تھی اور جس سے فتنہ پید اہو سکتا تھا اس پر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ ہم الگ رہیں گے۔ چنانچہ آپ نے باریاں چھوڑ دیں مسجد میںخیمہ لگا کر سب سے الگ تھلگ رہنا شروع کر دیا اور لوگوں نے جب یہ بات سُنی تو ان میں یہ مشہور ہو گیا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی بیویوںکو طلاق دے دی ہے۔ حضرت عمر ؓ کو اپنی رہائش کے لئے چونکہ شہر میں جگہ نہیں ملی تھی اِس لئے آپ مدینہ سے باہر رہتے تھے ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ایک ایک انصاری اور مہاجر کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا تھا۔ حضرت عمر کا جو انصاری بھائی تھا ایک دن وہ شہر میں آتا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی باتیں سُنتا اور دوسرے دن حضرت عمرؓ آتے اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی صُحبت سے مستفیض ہوتے۔ جس دن یہ واقعہ ہؤا ہے اُس دن حضرت عمر کی نہیں بلکہ ان کے انصاری بھائی کی مسجد میں آنے کی باری تھی۔ شام کے وقت وہ گھبرایا ہؤا واپس گیااور جاتے ہی حضرت عمر سے کہنے لگا عمر! اندھیر ہوگیا۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی سب بیویوںکو طلاق دے دی ہے۔ حضرت عمر بھی یہ سنتے ہی گھبرائے ہوئے اندر گئے اور جا کر اپنی بیوی سے کہنے لگے آخر وہی ہؤا جس سے مَیں ڈرتا تھا۔ ارے مَیں تجھے سمجھایا کرتا تھا کہ مردوں کے مقابلہ میں باتیں نہیں کرنا چاہئیں اور تُو ہمیشہ کہتی تھی مَیں کیوں نہ بولوں جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی بیویاں بھی آپ کے سامنے بولتی ہیں اور آپؐ انہیں منع نہیں فرماتے تو تم مجھے منع کرنے والے کون ہو۔ اور مَیں تجھے ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا اور کسی دن انہیں طلاق مل جائے گی چنانچہ وہی ہؤا جس سے مَیں ڈرتا تھا ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی ساری بیویوں کو طلاق دے دی ہے اس کے بعد اِسی گھبراہٹ میں آپ مدینہ تشریف لائے اور سب سے پہلے اپنی بیٹی حفصہؓ کے پاس گئے دیکھا کہ وہ رورہی تھی آپ نے فرمایا کہ کیا ہؤا؟ کیا رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے روتے ہوئے کہا کچھ پتہ نہیں مجھے صرف اتنا معلوم ہؤا ہے کہ آپ ہم سے خفا ہو گئے ہیں اور مسجد میں چلے گئے ہیں۔ آپ نے فرمایا دیکھ! مَیں تیری ماں کو یہی کہا کرتا تھا کہ ایک دن تیری بیٹی کو طلاق مل جائے گی کیونکہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے باتیں کرتی ہے اس کے بعد آپ مسجد میں گئے وہاں خیمہ لگا ہؤا تھا اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے جس کے نشانات آپ کے جسم پر نظر آ رہے تھے ۔ حضرت عمر ؓ چاہتے تھے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے اس بارہ میں گفتگو کریں مگر ڈرتے بھی تھے کہ کہیں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اَور ناراضگی پیدا نہ ہو آخر انہوں نے گفتگو کا یہ ذریعہ نکالا کہ جاتے ہی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ کہنے لگے کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! صلی اﷲ علیہ وسلم آپ خدا کے نبی ہیں خدا کے پیارے اور اس کے مقرب ہیں اور یہ خبیث قیصر اور کسریٰ دین سے بے بہرہ اور خدا اور رسول کو چھوڑنے والے ہیں مگر وہ لوگ تو اعلیٰ درجے کے محلّات میں رہتے ہیں اور آپ خداکے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم ہو کر ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں۔ ان کا منشاء یہ تھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جو غصّہ آیا ہؤا تھا وہ کسی طرح دور ہو جائے چنانچہ جب انہوں نے یہ بات کی تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے وہ تو ظالم بادشاہ ہیں اور ہم خدا تعالیٰ کے نبی ہیں۔ میرا دنیا کی ان چیزوں سے کیا کام ہے مجھے تو اللہ تعالیٰ نے کسی اور مقصد کے لئے بھجوایا ہے ۔ جب انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ہنس پڑے ہیں اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کاغصہ فرو ہو گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ یَا رَسُوْلَ اللہ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مَیں نے تو طلاق نہیں دی۔ آپ نے کہا اَلْحَمْدُ ِﷲِ آپ نے طلاق نہیں دی مگر یَا رَسُوْلَ اللہ! عورتوں کی یہ حالت ہے کہ مَیں جب گھر میں جائوں اور کوئی بات کروں تو میری بیوی مجھے مشورے دینا شروع کر دیتی ہے کہ یوں کرو اور یوں نہ کرو ۔ مکّہ والوں میں یہ رواج تھا کہ وہ عور توںکو بولنے نہیں دیتے تھے اور یہی اثرحضرت عمرؓ پر بھی تھا چنانچہ وہ کہنے لگے یَا رَسُوْلَ اللہ! مَیں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا کہ تم مجھے مشورے دیتی ہو تمہاری کیا حیثیت ہے کہ تم اس قسم کی باتیں کرو۔ اس پر وہ کہنے لگی حفصہؓ تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو جواب دے لیتی ہے تم مجھے روکتے ہو تمہارا کیا حق ہے تم مجھے روکو، جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی بیویوںکو منع نہیں فرماتے۔ مَیں نے کہا کہ اگریہ بات درست ہے تو کسی دن تمہاری بیٹی کو طلاق مل جائے گی۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پھر ہنسے اور آپ فرمانے لگے کہ مَیں نے تو طلاق نہیں دی۔ اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانہ میں کس قدر عورتیں اپنے مردوںکو مشورے دیتیں اور ان پر ایک رنگ کی حکومت رکھتی تھیں۔۳؎ پرانی طرز کے لوگ جیسے حضرت عمرؓ تھے اپنی بیویوں کو ڈراتے بھی تھے کہ اگر تم نے یہی طریق جاری رکھا تو تمہیں طلاق دینی پڑے گی لیکن بہر حال اسلام نے عورت کا درجہ قائم کیا۔ اگر واقعہ میں عورت قابل نہ ہوتی تو کیا خدا عورتوں سے ڈرتا تھا وہ سیدھی طرح کہہ دیتا کہ عورتوںکو گھروں میں بٹھائو۔ نہ انہیں علم سکھائواور نہ انہیں دین کے مسائل سمجھائوصرف روٹیاں پکانے میں انہیں مشغول رکھو۔ مگر جب خدا نے کہا کہ عورت کو دین سکھائو اور جب رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے اور انہیں علم سکھائے تو اُس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے ۴؎ تو اس کے معنی یہ تھے عورت بھی ویسا ہی دماغ رکھتی ہے جیسا کہ مرد رکھتے ہیں اور عورت بھی ویسے ہی ترقی کر سکتی ہے جیسے مرد کر سکتے ہیں۔ اگر عورت کا دماغ اس قابل نہیں تھا کہ وہ دین کو سمجھ سکتا ،اگر عورت کا دماغ اس قابل نہیں تھا کہ وہ علوم کو اخذ کر سکتا تو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم ایسا کیوں فرماتے۔ پس دماغ تو ہے مگر عورت کو ا س سے کام لینا نہیں آتا کیونکہ اسے کام کی طرف توجہ نہیں۔ اِس وقت ہزاروں عورتیں یہاں بیٹھی ہیں اِس سال کچھ تو جلسہ گاہ بڑی بنا دی گئی ہے اور کچھ سردی کی وجہ سے عورتیں کم آئی ہیں لیکن پھر بھی کل دوپہر کو پانچ ہزار عورت شمار کی گئی تھی ۔ ممکن ہے آج اس سے بھی زیادہ ہوں یا کم از کم کل جتنی ہی ہوں چونکہ ہمارے جلسہ گاہ میں غیراحمدی عورتیں بھی آتیں ہیں اور وہ بھی اس تعداد میں شامل ہوتی ہیں اس لئے اگر غیراحمدی مستورات پانچ سَو بھی فرض کی جائیں اور ان کو اس مقدار سے نکال دیا جائے تب بھی ساڑھے چار ہزار احمدی عورت اِس وقت یہاں موجود ہے۔ اگر تم اپنے فرض کو ادا کرتیں اور ہر عورت سمجھتی کہ مَیں نے کم از کم ایک عورت کو اسلامی نور سے منور کرنا ہے تو اب تک احمدیت کتنی ترقی کر چکی ہوتی۔
پھر ہماری جماعت میں صرف اتنی ہی عورتیں نہیں جتنی اِس وقت یہاں موجود ہیں بلکہ ہماری جماعت میں ایک لاکھ سے زیادہ عورتیں ہیں۔ اگر وہ ساری کی ساری اپنے فرض کو ادا کریں تو کتنی جلدی احمدیت ترقی کر سکتی ہے اور وہ مخالفت جو محض عورتوں کی وجہ سے ہے کتنی جلدی ختم ہو سکتی ہے۔ پس ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنی تعلیم کو استعمال کرنا سیکھو ۔ہماری جماعت کی عورتوں میں تعلیم بہت ہے مگر وہ اس تعلیم کو استعمال کرنا نہیں جانتیں اور اپنے وقت کو اِدھر اُدھر کی باتوں میں ضائع کر دیتی ہیں۔ مردوں میں بھی یہ نقص ہے مگر عورتوں میں نسبتاً زیادہ ہے ۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم جب کسی مسجد میں بیٹھتے تو ساٹھ دفعہ استغفار کرتے تھے۔۵؎ اس زمانہ میں مردوں میں بھی یہ رواج کم ہے اور عورتوں میں تو ساٹھ دفعہ استغفار کی بجائے ساٹھ قہقہے ضرور بلند ہوتے ہیں۔ جہاں عورتیں بیٹھتی ہیں وہ ساٹھ دفعہ ہاہا ،ہوہوضرور کرتی ہیں۔ اگر ہاہا، ہو ہو کرنے کی بجائے وہ ساٹھ دلیلیں بیان کریں، اگر ہا ہا ، کرنے کی بجائے وہ ساٹھ دفعہ استغفار کریں، اگر ہا ہا کرنے کی بجائے وہ ساٹھ معقول باتیں بیان کر دیں تو اِس سے کتنی اصلاح ہو سکتی ۔
مذہبی تعلیم ہی نہیں دُنیوی تعلیم میں بھی دوسری عورتیں ہماری عورتوں سے پیچھے ہیں بلکہ ہماری اعلیٰ تعلیم کو اگر مدنظر رکھا جائے تو ہماری عورتیں دوسری عورتوں سے سَو گُنے زیادہ ہیں۔ ان میں سے سَو میں سے ایک بھی نہیں جس نے اعلیٰ دُنیوی تعلیم حاصل کی ہوئی ہو اور ہماری جماعت میں کئی ہیں۔ تو تعلیم کے لحاظ سے خواہ دُنیوی تعلیم کو بھی لیا جائے ہماری جماعت میں بہت زیادہ تعلیم پائی جاتی ہے اور ہماری عورتیں نسبتِ تعلیم کے لحاظ سے دوسروں سے پانچ چھ گُنا بڑھ کر ہیں اور اگر دینی تعلیم کو لیا جائے تو ہماری عورتوں کے مقابلہ میں وہ بالکل صفر ہیں۔ ہماری جماعت میں سینکڑوں عورت ایسی ہے جوقرآن کریم کا ترجمہ جانتی اور دوسروں کو پڑھاسکتی ہے۔ سینکڑوں عورت ایسی ہے جوحدیث کا ترجمہ جانتی اور دوسروں کو پڑھا سکتی ہے لیکن باوجود اِس تعلیم کے تم نے اپنی ذمہ داری کبھی سمجھی ہی نہیں۔ تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یہ مردوںکا کام ہے حالانکہ پھنسی ہوئی کشتی اور پھنسی ہوئی گاڑی بغیر دونوں طرف چپو چلانے کے اور بغیر دونوں بیلوں کے زور لگانے کے نہیں نکل سکتی۔ ہماری کشتی بھی اِس وقت بھنور میں پھنسی ہوئی ہے جب تک دونوں چپو نہیں چلائیں گے مرد بھی اور عورت بھی اور جب تک اس گاڑی کو مرد بھی نہیں کھینچیں گے اور عورتیں بھی اُس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔
پس مَیںلجنہ اماء اللہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ایک کورس جاری کریں جس میں وہ تمام مسائل آجائیں جو بِالعموم ہمیں پیش آتے ہیںاور پھر جیسے خدام کا پندرہ روزہ تربیتی کورس ہوتا ہے اِسی طرح عورتوں میں تحریک کی جائے کہ مختلف مقامات سے اِس غرض کے لئے احمدی عورتیں آئیں اور دینی مسائل سیکھیں۔ یہاں آنے پر ان کو مختلف مسائل کے متعلق نوٹ لکھوائے جائیں۔ سوال و جواب کے ذریعہ ان کی معلومات کو بڑھایا جائے اور ان کے سامنے ایسی تقریریں کی جائیں جو اِن کی عملی استعداد میں اضافہ کرنے والی ہوں۔ ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم عورتوں کی تعلیم کو اَور زیادہ وسیع کریں۔اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو اَور بھی اعلیٰ درجے کی تعلیم دلائیں اِس کے لئے مَیں نے فیصلہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اِس سال یعنی ۱۹۵۱ء میں یہاں زنانہ کالج قائم کر دیا جائے۔جگہ ہم نے تجویز کر دی ہے ۔ میری بیوی اُمِّ متین مریم صدیقہ جو ایم، اے ہیں وہ اِس کی نگران ہو سکتی ہیں۔ فرخندہ بیگم بی،اے ۔بی ،ٹی ہیں وہ اب جلدی ہی ایم ، اے کر لیں گیں وہ پروفیسر مقرر ہوں گی۔ اِسی طرح ایک دو اور عورتیں باہر سے لے کر ہم کام شروع کر دیں گے اور کچھ مرد پردہ کے پیچھے بیٹھ کر پڑھا دیں گے۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ اِس وقت جو دینیات کلاس ہے اسے ختم کر دیا جائے۔ مدرسہ میں جتنی عربی اور قرآن کریم اور دینیات کی تعلیم ہے اُسی پر اکتفاء کیا جائے اور اس کے بعد کالج میں ان کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جائے تاکہ ہماری جماعت میں زیادہ سے زیادہ عورتیں بی، اے اور ایم،اے ہوں۔ تا کہ انہی میں سے وہ ہوں جو دینی خدمات کے لئے وقف ہوں، انہی میں سے وہ ہوں جو ڈاکٹری وغیرہ کا پیشہ اختیار کرنے والی ہوں اور انہی میں سے وہ ہوں جو اپنے گھر بار کا کام کریں اور اپنے خاندان اور علاقہ کی تعلیم کا انتظام کریں۔ اس سال سے ایف، اے کی جماعت شروع کردی جائے گی۔ اگلے سال تک کورس اور پروفیسروں کے انتظام کے ساتھ انشاء اللہ دوسری جماعت ایف، اے کی اور پہلی جماعت بی، اے کی شروع کر دی جائے گی اور تیسرے سال کے شروع میں سارے بی، اے کی جماعت کھول دی جائے گی اور اگر خدا تعالیٰ پروفیسر مہیا کرد ے تو ایم، اے کی کلاسز بھی کھل جائیں گی۔
پس ایک تو مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کی تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لئے ہم نے کالج کھولنے کا ارادہ کیا ہے اِس کے ساتھ بورڈنگ بھی ہو گا۔ جنہوں نے اپنی لڑکیوں کو کالج میں تعلیم دلانی ہو جیسا کہ لجنہ کی طرف سے بار بار اعلان ہو رہا ہے وہ اطلاع دیں یہاں رہنے والی لڑکیوںکو اپنے گھروں میں ہی رکھیں گے مگر جن کا یہاں کوئی رشتہ دار نہیں ان کے لئے ایک چھوٹا سا بورڈنگ بنا دیا جائے گا اور وہ اُس میں رہیں گی۔ اس ذریعہ سے انشاء اللہ عورتیں بہت جلد اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیں گی اور ہمارا علمی معیار بہت اونچا ہوجائے گا۔ ایک کالج آسانی کے ساتھ ایک سَو شاگرد ایک جماعت میںلے سکتا ہے۔ اگر ہر سال ایک سَو بی، اے یا ایک سَو ایم، اے عورتیں ہمارے کالج سے نکلنا شروع ہو جائیں تو دس سال کے اندر اندر سارے مغربی پنجاب کی تعلیم اور سارے مغربی پنجاب کی عقلی اور ذہنی ترقی کا معیار بہت بلند ہو سکتا ہے اور نسبت کے لحاظ سے ہماری تعلیم بہت بڑھ جائے گی۔دوسری لڑکیوں کا بہت ساوقت مشاعروں میں یا پارٹیوں میں یا سینمائوں میں ضائع چلا جاتا ہے۔ مگر ہمارے کالج کی لڑکیاں ان باتوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کریں گی اور وہ بہت جلد علمی ترقی حاصل کر لیں گی۔ لڑکوں کی تعلیم میں بھی ہم نے یہی دیکھا ہے چونکہ احمدی لڑکے محنت زیادہ کرتے اور اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچاتے ہیں اِس لئے وہ اعلیٰ نمبروں میں پاس ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے لڑکے سینما میں وقت ضائع کرتے ہیں اور ہمارے لڑکے دوسروںکو بھی ان باتوںسے منع کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے لڑکے زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں اور زیادہ اچھے نمبروں پر کامیاب ہوتے ہیں۔ پھر ان کو اخلاقی تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے عام طور پر ان میںدیانتدار زیادہ ہوتے ہیں۔
غرض احمدیوں کے لئے ترقی کا بہت بڑا میدان ہے کیونکہ ہماری بنیاد مذہب اور اخلاق پر ہے اور دوسروں کی بنیاد ضیاعِ وقت پر ہے اور یہ سیدھی بات ہے کہ بِالآخر مذہب اور اخلاق ہی جیتیں گے۔ دنیا میں جب بھی کوئی شخص مذہبی نشان دکھاتا ہے یا اخلاقی نشان دکھاتا ہے تو چاہے کسی وجہ سے دکھائے وہ جیت جاتا ہے۔
مجھے یاد ہے مَیں بچہ تھا کہ مَیں نے ایک کشتی منگوائی۔ مَیں نے اور بعض اَور رشتہ داروں نے چندہ ڈالا اور قادیان کے اردگرد جو جوہڑ تھا اُس میں کشتی ڈال دی۔ ہم حتّٰی الوسع اس کی حفاظت کرتے تھے پھر بھی بعض دفعہ جب تالا کُھلا رہ جاتا تو گائوںکے لڑکے آتے اور اسے کھول کر پانی میں لے جاتے اس میں صرف پانچ آدمیوںکی گنجائش تھی مگر وہ دس دس پندرہ پندرہ اس میں بیٹھ جاتے۔ اور پھر خوب کُودتے اور چھلانگیں لگاتے نتیجہ یہ ہؤا کہ وہ کشتی خراب ہو گئی۔ مَیں نے ایک لڑکے سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ دوسرے وقت میں گائوں کے بعض لڑکے آتے ہیں اور وہ اس کشتی کو پانی میں لے جا کر خرا ب کر دیتے ہیں۔ مَیں نے کہا کہ اس دفعہ لے جائیں تو مجھے بتانا چنانچہ ایک دن گائوں کے دس بیس لڑکے آئے اور وہ اس کشتی کو پانی میں لے جا کر خوب کُودنے اور چھلانگیں لگانے لگے۔ وہ لڑکا بھاگا بھاگا میرے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ چلیں لڑکے کشتی لے گئے ہیں اور وہ اسے خراب کر رہے ہیں۔ میری عمر اُس وقت ساڑھے تیرہ سال کی تھی مَیں دَوڑا دَوڑا وہاں پہنچا دیکھا تو واقعہ میں وہ اسے خراب کر رہے تھے۔ لڑکوں نے مجھے دیکھ لیا اور چونکہ وہ گائوںکے تھے اور ہم گائوں کے مالک تھے وہ ہم سے ڈرتے بھی تھے اُنہوں نے جب مجھے آتے دیکھا تو یکدم اُنہوں نے تالاب میں چھلانگیں مار دیں اور بھاگ گئے لیکن اُن کا رِنگ لیڈر چھلانگ لگانے کے بعد گھبراہٹ میں بجائے دوسرے ساحل کی طرف جانے کے اُسی طرف آگیا جس طرف میں کھڑا تھا اور کچھ دُور فاصلہ سے نکل کر اُس نے بھاگنا چاہا میں نکڑ سے بھاگ کر اُس کی طرف پہنچا اور ابھی وہ جوہڑ سے نکل ہی رہاتھا کہ میں نے اسے پکڑ لیا اور بڑے غصہ سے اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا۔ اُس نے بھی سمجھ لیا کہ مَیں اب مار سے بچ نہیں سکتا چونکہ وہ ایک مزدور پیشہ لڑکا تھا اُس میں یہ جرأت تو نہیں تھی کہ وہ مجھے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھا سکے اور پھر وہ مجرم بھی تھا ورنہ وہ مُجھ سے دُگنا طاقتور تھا اور اگر وہ مجھے مارنا چاہتا تو خوب کُوٹ سکتا تھا۔ بہر حال میں نے اسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا اس پر بے اختیار اس نے بھی اپنا ہاتھ اُٹھا لیا۔ مارنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ جب مار پڑے تو وہ اسے روک لے مگر پھر اسے خیال آیا کہ فائدہ کوئی نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انہیں اَور زیادہ غصہ آئے گا اور یہ مجھے اَور ماریں گے۔ بہر حال جب اُس نے ہاتھ اُٹھایا تو مجھے طبعی طور پر اَور زیادہ غصہ آیا اور مَیں بڑے زور سے اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف لے گیاتا کہ پوری طاقت کے ساتھ اسے ماروں مگر معاً اس کے دل میں خیال پیدا ہؤا کہ ہاتھ اُٹھانے کا کیا فائدہ؟ اورا ِس خیال کے آتے ہی اُس نے اپنا ہاتھ نیچے گرا دیا اور اپنا منہ آگے کر کے کہا کہ لو جی مار لو۔ مَیں تھا تو بچہ مگر آخر بچہ کے سر میں بھی دماغ ہوتا ہے جب اُس نے کہا کہ لو جی مار لو تو مجھے یوںمحسوس ہؤا جیسے اُس نے مجھے ڈنڈا مارا ہے میرا ہاتھ گِر گیا اور مَیں شرم کے مارے پانی پانی ہو گیا اِس لئے کہ اس نے اعلیٰ اخلاق کامظاہرہ کیا۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ جب ہم جُدا ہوئے تو اُس کا سر اونچا تھافخر سے اور میرا سر نیچا تھا شرمندگی سے۔ تو گالی دینے والا بے شک گالی دیتا ہے لیکن فوراً اس کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ یہ ذلیل آدمی ہے اور وہ بھی اپنی ذات میں شرمندہ ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مَیں نے بہت بُری حرکت کی۔ غرض اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ اخلاق سے جو کام لیا جاسکتا ہے وہ گالی گلوچ سے نہیں لیا جا سکتا اور یہ ہتھیار خدا تعالیٰ نے ہمیں بخشا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تم عزم کر لو کہ آئندہ اپنی تعلیم کو استعمال کرو گی۔ اگر تم اپنی تعلیم کا استعمال سیکھ لو اور اگر اخلاق کے متعلق جو اسلام کی تعلیم ہے اس کو یاد کر لو اور عورتوں کے سامنے پیش کر و تو لازماً عورتوںکے دل نرم ہو جائیں گے۔ بے شک کچھ مرد ایسے بھی ہوں گے جو کہیں گے خبردار! آئندہ احمدی عورتوں سے ہر گز نہ ملنا۔ مگر کچھ ایسے بھی ہونگے جو کہیں گے کہ ان کا لڑیچر لائو تا کہ ہم بھی اس کا مطالعہ کریں۔ تو عورتوں میں تعلیم پھیلانا اور انہیں مسائل سکھانا لجنہ کا آئندہ پروگرام ہونا چاہئے جس کی ایک شاخ مَیں نے یہ بتائی ہے کہ ہم نے یہاں کالج کھولنے کا ارادہ کیا ہے۔
دوسری چیز جس کی طرف عورتوںکو خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ مسجدہالینڈ ہے۔ مَیں نے عورتوں کے چندہ سے اس مسجد کے بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہالینڈ ایک چھوٹا سا مُلک ہے شاید ساری آبادی اِس کی پچاس لاکھ سے زیادہ نہیں مگر وہ ایسا مُلک ہے جس نے انگریزوںکی طرح بعض دوسرے مُلکوں پر قبضہ کیا ہؤا ہے ۔ انڈونیشیا جس کے بڑے بڑے جزائر سماٹرا، جاوا اور بورینو وغیرہ ہیں اور جس کی آبادی آٹھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ یہ سارا مُلک پہلے ہالینڈ کے ماتحت تھا۔ گویا انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے برابر ہے لیکن مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان سے بڑا ہے کیونکہ پاکستان میں ڈیڑھ دو کروڑ ہندو ہیں اور وہاں ہندو اور دوسری قومیں چالیس پچاس لاکھ سے زیادہ نہیں ۔ اس مُلک پر پہلے ہالینڈ کا قبضہ تھا ۔ مُلک کا نام ہالینڈ ہے لیکن قوم کا نام ڈچ ہے جو انڈونیشیا پر حکومت کر رہی تھی۔ اب جس طرح پاکستا ن آزاد ہؤا ہے اِسی طرح انڈونیشیا میں پاکستان کے قیام کے بعد نئی اسلامی حکومت قائم ہوئی ہے جس کی آبادی مسلمانوں کے لحاظ سے سارے اسلامی ممالک سے زیادہ ہے لیکن جس طرح پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی انگریزوں کے ساتھ تعلق ہے اسی طرح انڈونیشیا گو آزاد ہو گیا ہے لیکن چونکہ اس کا تعلق ایک لمبے عرصہ تک ہالینڈ سے رہا ہے ڈچ کی کمپنیاں وہاں کُھلی ہوئی ہیں ۔ ڈچ زبان بولنے والے وہاں پائے جاتے ہیں۔ ڈچ زبان میں ڈگریاں ان کو حاصل ہوتی ہیں اِس لئے باوجود آزاد ہونے کے ڈچ کا ان پر اثر ہے۔ اورانڈونیشیا کا ڈچ پر اثر ہے۔ پھر انڈونیشیا کو ایک اَور خصوصیت حاصل ہے کہ مشرقی ممالک میں سے وہ مُلک جس نے سب سے زیادہ احمدیت کو قبول کیاہے وہ انڈونیشیا ہی ہے۔ یہاں دس ہزار احمدی ہیں اور احمدی بھی اچھے تعلیم یافتہ ہیں۔ گویا صرف تعداد کے لحاظ سے وہ زیادہ نہیں بلکہ رسوخ کے لحاظ سے بھی زیادہ ہیں۔ انڈونیشیا کے کئی وزراء ایسے ہیں جن کی رشتہ داریاں احمدیوں کے ساتھ ہیں اورکئی احمدی بڑے بڑے عُہدوں پر فائز ہیں۔ چنانچہ انڈو نیشیا کی آزادی کے بعد ان کی طرف سے جو سفیر پاکستان میں مقرر ہو کر آیا اُس کا سیکرٹری ایک احمدی اور قادیان کا تعلیم یافتہ ہے اور سیکرٹری کی حیثیت ایک کمشنر کی سی ہوتی ہے۔ اِسی طرح ایک پہلا سیکرٹری جو بیمار ہو کر واپس چلا گیا وہ بھی احمدی تھا ۔
پس مَیں نے عورتوں کو یہ خوشی کاموقع دینا چاہا کہ وہ اپنے چندہ سے ایسی جگہ مسجد بنائیں جس کا اثر سب سے زیادہ انڈونیشا پر پڑے گا۔ ڈچ لوگوں میں جتنی بھی احمدیت پھیلے گی انڈونیشیا پر اس کا ردِعمل ضرور پیدا ہو گا۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس اہمیت کو عورتوں نے سمجھا نہیں۔ تیس ہز ار روپیہ تو صرف زمین پر خرچ ہو چُکا ہے اور اسّی ہزار روپیہ کا عمارت کے لیے اندازہ ہے اور ایسی جگہ جہاں بڑے بڑے امراء پائے جاتے ہیں اور جہاں ہمارے مُلک کے مقابلے میں نہایت گراں مزدوریاں ہیں۔ عمارت پر اسّی ہزار روپیہ کا خرچ کوئی بڑی چیز نہیں۔ کراچی میں ابھی حال ہی میں وہاں کی جماعت نے مسجد بنائی ہے جس پر ان کا ایک لاکھ روپیہ خرچ ہؤا ہے اور ہالینڈ کا دار الخلافہ ہیگ تو کراچی سے بہت گراں ہے اور پھر یورپ میں مزدوریاں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں پس وہاں کے اسّی ہزار کے معنے درحقیت چالیس ہزار ہی کے ہیں ۔ مَیں نے آج سے اٹھائیس سال پہلے جرمنی کی مسجد کے لئے عورتوں کو تحریک کی تھی۔ اُس وقت احمدی عورتیں موجودہ تعداد سے دس حصّہ کم تھیں اب تو اٹھائیس سال میں ہم بہت زیادہ بڑھ گئے ہیں اور ہماری حیثیتیں بھی بہت بڑھ گئی ہیں مَیں سمجھتا ہوں کہ آجکل دو تین شہروں مثلاً کراچی اور لاہور وغیرہ کو ملا کر ہماری جتنی آمدنی ہے اتنی آمدنی پہلے ساری جماعت کی نہیں تھی۔ مگر اُس وقت عورتوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور میرے اعلان پر ایک مہینہ کے اندر اندر انہوں نے اسّی ہزار روپیہ جمع کر دیا۔ مگر بعد میں جرمنی حکومت نے چونکہ ایسی پابندیاں لگا دیں جن کے ماتحت چھ سات ماہ کے اندر مسجد کی تعمیر مکمل ہو جانی چاہئے تھی اور ہمارے لئے ان پابندیوں کے مطابق مسجد بنانا ممکن نہیں تھا اس لئے ہم نے وہ روپیہ لندن کی مسجد میں لگا دیا اور عورتوں کے روپیہ سے وہ مسجد بن گئی۔ بہر حال ہماری جماعت کی عورتوں کی تعداد اب دس گُنا زیادہ ہے اگر اس مسجد کی بھی وہ وہی اہمیت محسوس کرتیں اور اسی اُخلاص کا نمونہ دکھاتیں جو اُنہوں نے برلن کی مسجد کے متعلق دکھایا تھا تو اب تک آٹھ لاکھ روپیہ جمع ہو جانا چاہئے تھا مگر ہؤا تیس ہزار ہے۔ اب گورنمنٹ کی طرف سے مطالبہ ہو رہا ہے کہ جلدی مسجد بنائی جائے اور جن شرطوں کے مطابق ہمیں اس مسجد کے بنانے کی اجازت ملی ہے ان کے لحاظ سے بھی ہمیں جلد سے جلد یہ مسجد بنا لینی چاہئے۔ پس مَیں احمدی خواتین کو ایک بار پھر تحریک کرتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اِس مسجد کے لئے روپیہ جمع کریں۔ زمین خرید لی گئی ہے اور اگر چھ مہینے کے اندر اندر ہم عمارت شروع نہیں کریں گے تو معاہدہ کے مطابق یہ زمین ضبط ہو جائے گی۔ لجنہ اماء اللہ کو چاہئے کہ وہ مختلف جماعتوں پر ان کی تعداد کے لحاظ سے چندہ معیّن کر کے تقسیم کردے اور اُن کا فرض قرار دے کہ وہ اِس چندہ کوجلد سے جلد جمع کر کے مرکز میں ارسال کریں۔ مردوں پر امریکہ کی مسجد کا خرچ ڈالا گیا ہے جس پر ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہو چُکا ہے اور ابھی عمارت کی مرمت اور درستی پر اَور روپیہ بھی خرچ ہو گا۔ عورتوں میں مسجد ہالینڈ کے چندہ کی تحریک اگرچہ پیچھے ہوئی ہے مگر تمہارے لئے ایک یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ مردوں کا چندہ تمہارے چندہ سے بھی کم ہے حالانکہ مرد اگر قربانی کرتے تو ایک ایک شہر کے لوگ اتنا روپیہ جمع کر سکتے تھے مگر ان کاچندہ صرف چھبیس ہزار ہؤا ہے۔ پس تمہارے لئے یہ امر مزید خوشی کا موجب ہے کہ باوجود اس کے کہ تمہاری آمدنیں مردوں سے بہت کم ہوتی ہیں پھر بھی تم اُن سے پہلے چندہ ادا کر دیتی ہو۔ ابھی گزشتہ دنوں یہاں خدام کا اجتماع ہؤا تو ان میںسے ایک نے کھڑے ہو کر کہا کہ عورتوں کی اِس میں کیا خوبی ہے آخر وہ ہم سے لے کر ہی دیتی ہیں دوسرے نے جواب دیا کہ لے تو لیتی ہیں۔
آخر میں مَیںتمہیں اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ لجنہ کے دفتر کی بنیاد یہاں قائم کر دی گئی ہے شاید عورتوں نے وہ جگہ دیکھی ہو گی۔اس میں بارہ کمرے ہوں گے اور ایک بڑا ہال ہو گا ایک لمبی بلڈنگ لائبریری کے لئے بنائی جائے گی تا کہ عورتوں میں مطالعہ کا شوق پیدا ہو۔ کمروں میں میز لگے ہوئے ہوں گے کُرسیاں بچھی ہوئی ہوں گی اور مطالعہ کا شوق رکھنے والی عورتیں مختلف علوم و فنون کی کتابیں وہاں بیٹھ کر مطالعہ کریں گی اور جو نوٹ لکھنا چاہیں گی وہ نوٹ لکھیں گی۔ اِسی طرح ہال میں مختلف مضامین پر لیکچر بھی ہوں گے اور عام مطالعہ کرنے والی مستورات وہاں بیٹھ کر مطالعہ بھی کریں گی۔ اس کے ساتھ لجنہ کے دفاتر بھی ہوں گے اور پھر آہستہ آہستہ ایسی عمارتیں بھی بنائی جائیں گی جن میں آنے والی مستورات کو ٹھہرایا جا سکے اب بھی اس کا احاطہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں کئی ہزار عورت آسکتی ہے لیکن پھر یہ فخر بھی صرف تم کو ہی حاصل ہے کہ تمہارا اٹھائیس ہزار روپیہ اِس غرض کے لئے پہلے سے جمع ہے صرف چوبیس ، پچیس ہزار روپیہ اَور ہو تو کام ہو جاتا ہے یہ کام بھی آپ لوگوں نے ہی کرنا ہے۔ یہ عمارت اب جلدی ملنے والی ہے اور چونکہ اس میںلائبریری بھی ہو گی اور لجنہ کا دفتر بھی اس لئے اس عمارت کے مکمل ہونے پر عورتیں اس میں اطمینان سے اپنے اجلاس بھی کر سکیں گی اور ان کی رہائش کا بھی اس میں انتظام ہو گا۔ یہ کام بھی ہے جس کی طرف مَیں نے توجہ دلا دی ہے گو لجنہ یہ کام کریں گی جس کی طرف مَیںنے توجہ دلا دی ہے کیونکہ یہ کام ایسا ہے جو عورتوں کے اعزاز کو قائم کرنے اور ان کی پوزیشن کو نمایاں کرنے والا ہے اور عورتوں کا اس طرف توجہ کرنا نہایت ضروری ہے۔ میرا ارادہ تو صرف دس منٹ بولنے کا تھا مگر تقریر ایک گھنٹہ کی ہو گئی ہے۔ اب مَیں مختصر دعا کے بعد یہاں سے جائوں گا اور نماز کے بعد مردوں میں تقریر کروں گا جو یہاں بھی سُنی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو موجودہ دَور کی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ ایمان اور اخلاص اور فدائیت آپ میں پیدا کرے جو صحابیاتؓ کے اندر پائی جاتی تھیں تا کہ اس زمانہ میںاحمدیت کی اشاعت کا جو فریضہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد کیا گیاہے اس میں آپ کا حصّہ مردوں سے کم نہ ہو۔‘‘ (الفضل ربوہ ۱۹ ؍جولائی ۱۹۶۲ء )
۱؎ : مسلم کتاب فضائل الصحابۃ باب مِنْ فضائل خدیجۃ ؓ
۲؎ : موضوعات مُلّا علی قاری صفحہ ۳۷ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ
۳؎ : بخاری کتاب المظالم باب الْغُرْفۃِ وَالْحُلّیَّۃِ (الخ)
۴؎ : ترمذی ابواب البرّوالصلۃ باب ما جاء فی النفقۃ علی البنات
۵؎ : ابن ماجہ کتاب الادب باب الاستغفار











متفرق امور




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
متفرق امور
(فرمودہ ۲۷؍دسمبر ۱۹۵۰ء برموقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:-
’’احباب کو معلوم ہے کہ میرا یہ سارا سال زیادہ تر کھانسی اور نزلہ کی تکلیف میں ہی گزرا ہے اور لمبی بیماری کی وجہ سے میرے جسم میں اب وہ تاب و توانائی نہیں ہے کہ میں زیادہ بول سکوں۔ سردی میں اُٹھنے بیٹھنے سے میرے جسم میں دردیں شروع ہو جاتی ہیں اور میرے لئے بیٹھنا یا کھڑا ہونا مشکل ہو جاتا ہے اسی لئے مَیں نے احباب سے یہ خواہش کی تھی کہ جہاں تک ہو سکے گَرد اُڑانے سے پرہیز کریں اور اگر ان کی ملاقاتوں پر کوئی پابندی لگائی جائے تو وہ اُسے خوشی سے قبول کریں کیونکہ یہ پابندی اُنہی کے فائدہ کے لئے ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ جو دوست ملاقات کے لئے آتے رہے ہیں اُنہوں نے اس کا لحاظ رکھا ہے اور اِس دفعہ ملاقات کے دوران میں گَرد نہیں اُڑی۔ اِسی طرح جب کبھی مَیں نماز کے لئے جلسہ گاہ میں آیا ہوں تو میرے کانوں میں یہ آوازیں بھی پڑتی رہی ہیں کہ دوست گَرد نہ اُڑائیں۔ بہرحال یہ اقدام تو آئندہ کی احتیاط کے لئے ہے ورنہ جو بیماری ہے وہ بدستور موجود ہے اور میرا گلا بیٹھا ہؤا ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ عورتوں میں صرف دس پندرہ منٹ تقریر کروں تاکہ گلا محفوظ رہے لیکن جب مَیں نے تقریر شروع کی تو گلے کا خیال نہ رہا اور وہ تقریر ایک گھنٹہ کے قریب رہی۔ چنانچہ مَیں دیکھتا ہوں کہ اس کا میرے گلے پر اِس وقت اثر ہے لیکن بہرحال جب تک مجھے طاقت ہے اُس وقت تک میرا یہی کام ہے کہ مَیں اپنے اُس فرض کو ادا کرتا چلا جاؤں جو میرے پیدا کرنے والے نے میرے ذمہ لگایا ہے۔ غالب کہتا ہے ؎
گو ہاتھ میں جُنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے
اگر غالب اپنے ساغر و مینا کو موت کی آخری گھڑیوں سے پہلے اپنے سامنے سے اُٹھنے نہیں دیتا تو مَیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اہم کام کے لئے مقرر ہوں جب تک میری زبان میں جُنبش ہے خدا تعالیٰ کے کلام کو لوگوں تک پہنچانے میں کس طرح دریغ کر سکتا ہوں۔
مَیں نے باوجود کمزوری کے اِس سال یہ ارادہ کیا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو کل کسی علمی موضوع پر تقریر کروں۔ ۱۹۴۵ء سے برابر دوسرے دن کی علمی تقریر نہیں ہو رہی (سوائے مارچ ۱۹۴۸ء کے جلسہ کے جو لاہور میں ہؤا تھا)۔ ۱۹۴۵ء میں مَیں سخت بیمار ہو گیا تھا۔ ۱۹۴۶ء پر بارش ہو گئی اور دوسرے دن کی تقریر نہ ہو سکی۔ ۱۹۴۷ء میں ہمیں قادیان سے نکلنا پڑا اور ۱۹۴۸ء میں یہ جلسہ ایک عارضی رنگ میں ہؤا۔ ۱۹۴۹ء میں ہم قریب ترین عرصہ میں یہاں آئے تھے اور مجھے اتنی فُرصت نہیں تھی کہ اس طرف توجہ کرتا۔ اب بھی بوجہ بیماری کے اتنی طاقت تو نہیں کہ مَیں کوئی لمبی تقریر کر سکوں لیکن مَیں نے ارادہ کر لیا ہے کہ ایک کام جو ادھورا پڑا ہے اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو مَیں اسے مکمل کر سکوں تو وہ آئندہ نسلوں کی تربیت کے کام آئے گا اور اس سے فائدہ اُٹھانے والوں کی دُعائیں مجھے ملتی رہیں گی۔ چنانچہ مَیں نے اِس سال سے ارادہ کیا ہے کہ دوسرے دن کی تقریر کسی علمی موضوع پر ہؤا کرے اور اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو کل انشاء اﷲ مَیں کسی علمی موضوع پر تقریر کروں۔
آج مَیں حسبِ عادت متفرق امور کے متعلق کچھ کہوں گا مگر اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے کل کی ایک تقریر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے یہ شکایت پہنچی ہے کہ کل ایک ایسی تقریر ہوئی ہے جو مقررہ موضوع سے الگ تھلگ تھی۔ اِس میں بعض باتیں ایسی کہی گئی ہیں جو نا مناسب تھیں یہ تقریر مولوی عبدالغفور صاحب کی تھی جس کا عنوان تھا:
’’نا محرم مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط اسلام نے کیوں منع قرار دیا ہے۔‘‘
بعد میں تو اور لوگوں نے بھی شکایت کی ہے لیکن جس شخص نے اِس چیز کا مُجھ سے پہلے ذکر کیا اُس نے مجھے بتایا کہ اصل مضمون کا کوئی پہلو بھی تقریر میں بیان نہیں کیا گیا بلکہ بعض باتیں اِس میں ایسی کہی گئی ہیں جو قطعی طور پر نا مناسب تھیں۔ اِس تقریر کے دوران میں لاؤڈ سپیکر کا کنکشن چونکہ عورتوں کی طرف دیا گیا تھا اِس لئے وہ باتیں نہیں کہنی چاہئے تھیں گو میرے خیال میں تو وہ باتیں مردوں میں بھی نہیں کہنی چاہئے تھیں مگر شکایت کرنے والے نے کہا ہے کہ چونکہ تقریر عورتوں کی طرف بھی سُنی جارہی تھی اِس لئے ایسی باتیں انہیں نہیں کہنی چاہئے تھیں لیکن جب اس دوست نے شکایت کی تو مَیں نے کہا اِس میں مولوی صاحب کا کوئی قصور نہیں کیونکہ اُن کی پچھلی تقریریں جیسا کہ مَیں نے سُنا ہے اچھی ہوتی رہی ہیں اور مجھے بیرون جات سے خطوط آتے رہے ہیں کہ ان کی تقریروں کو جلد شائع کیا جائے۔ پھر حاضری کی جو رپورٹیں ملتی رہی ہیں اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ حاضری انہی کی تقریر کے وقت میں تھی یہ بات بتاتی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں پر پچھلی روایات کا اثر تھا کہ ان کی تقریر عموماً کامیاب ہؤا کرتی ہیں۔ جس طرح بعض لوگ میلوں میں شامل ہوتے ہیں اِسی طرح ہماری جماعت کے بعض افراد کو بھی جلسہ چھوڑ کر بازار وغیرہ میں پھرنے کی عادت ہے لیکن مولوی عبدالغفور صاحب کی تقریر کے دوران میں اکثر لوگ دُکانیں چھوڑ کر جلسہ گاہ میں آگئے تھے اُن کی یہ قربانی بتاتی ہے کہ اُن پر اِس بات کا اثر تھا کہ مولوی صاحب کی پچھلی تقریریں کامیاب رہی ہیں ورنہ وہ کوئی پُرانے لیڈر تو ہیں نہیں کہ ان کی تقریر سُننے کے لئے لوگ اپنی عادت کی بھی پرواہ نہ کریں اور جلسہ گاہ میں جمع ہو جائیں۔ غرض مَیں نے شکایت کرنے والے کو بتایا کہ اِس میں مولوی عبدالغفور صاحب کا کوئی قصور نہیں قصور آپ کے بھائی سیّد ولی اﷲ شاہ صاحب کا ہے۔ اُنہوں نے کہا اِس میں سیّد ولی اﷲ شاہ صاحب کا کیا قصور ہے؟ مَیں نے کہا یہ کہ انہوں نے اِس مضمون کے لئے صحیح انتخاب نہیں کیا ۔یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص نسخہ لکھوانے کے لئے وکیل کے پاس جائے یا مقدمہ کا مشورہ کرنے کے لئے انجینئر کے پاس جائے۔ دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہؤا کہ سارے علوم کسی ایک شخص کو آتے ہوں اور جب کوئی شخص کسی غلط جگہ پر جائے گاتو لازماً اُسے غلط مشورہ ہی ملے گا۔ مولوی صاحب کا بھی اگر یہ مضمون رکھا جاتا کہ خدا تعالیٰ نے اِس بارہ میں کیا کہا ہے تو آپ لوگ دیکھتے کہ وہ کس طرح دُھواں دھار تقریر کرتے اور قرآن کریم کی آیتیں اور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی حدیثیں دھڑا دھڑ پیش کرتے چلے جاتے مگر مضمون یہ تھا کہ مرد اور عورت کا آزادانہ اختلاط کیوں ممنوع قرار دیا گیا ہے اور کیوں کا جواب ہمارے مولوی کو نہیں آتا۔ تم کسی مولوی سے پوچھو کہ اِس بارہ میں خدا تعالیٰ نے کیا کہا ہے تو دیکھو وہ کیسی دُھواں دھار تقریر کرنی شروع کر دے گا مگر یہ پوچھو کہ خدا تعالیٰ نے ایسا کیوں کہا ہے؟ تو وہ خاموش ہوجائے گا کیونکہ ’’کیوں‘‘ سائیکالوجی کا مضمون ہے اور یہ مولوی کو نہیں آتا وہ یہ تو بتا سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے، حدیث میں یوں آتا ہے مگر یہ نہیں بتاسکتے کہ ایسا کیوں ہے۔ پس اصل سوال یہ نہیں کہ مولوی صاحب نے ایسی غیر محتاط باتیں کیوں کہیں، سوال یہ ہے کہ آجکل کے مولویوں کی تعلیم کِن بنیادوں پر قائم کی گئی ہے۔ اگر تعلیم کی بنیاد روایات اور نقل پر ہے تو وہ کیوں کا جواب نہیں دے سکتا۔ اِس کا جواب علمُ النفس کا کوئی ماہر ہی دے گا۔ میری ایک بیوی مُجھ سے اپنی تقریر کے متعلق مشورہ کرنے آئیں اور مجھے کہا کہ اِس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر مَیں نے فلاں مضمون لیا ہے اُس کے متعلق مجھے نوٹ لکھوا دیں۔ مَیں کئی لوگوں کو نوٹ لکھوایا کرتا ہوں۔ چوہدری ظفراﷲ خاں صاحب بھی بعض دفعہ مختلف مضامین کے متعلق میرے پاس مشورہ کے لئے آتے ہیں۔ قاضی اسلم صاحب بھی مشورہ کے لئے آتے ہیں۔ اِس سال چوہدری مشتاق احمد صاحب بھی اپنے مضمون کے متعلق مشورہ لینے آئے لیکن جب میری بیوی نے کہا مجھے فلاں مضمون کے متعلق کچھ نوٹ لکھوا دیں تو مَیں نے اُسے کہا کہ مَیں اِس مضمون کے متعلق نوٹ نہیں لکھواؤں گا کیونکہ تم نے انتخاب غلط کیا ہے۔ مَیں نے کہا مضمون تو بڑا اچھا ہے اگر مَیں یہ مضمون لوں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے مَیں وہ وہ مطالب بیان کروں کہ سُننے والوں کی آنکھیں کُھل جائیں لیکن تمہیں ابتدائی مشق ہے تمہیں وہ مضمون لینا چاہئے جو کُھلے استدلال کا ہو۔ اِس مضمون کے متعلق تمہیں نوٹ لکھوانے کے یہ معنے ہیں کہ مَیں مضمون خراب کر دوں۔ اِسی طرح مولوی عبدالغفور صاحب کا مضمون یہ تھا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں فرمایا ہے، حدیث میں یوں آیا ہے۔ یہ مضمون نہیں تھا کہ ایسا کیوں فرمایا گیا ہے۔
اگر آپ مولوی صاحب سے یہ پوچھتے کہ مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط اسلام نے جائز رکھا ہے یا نہیں؟ تو دیکھتے کہ مولوی صاحب کس طرح حدیثیں اور آیاتِ قرآنیہ نکال نکال کر آپ لوگوں کے سامنے رکھتے کہ آپ کہتے سُبْحَانَ اﷲِ۔ لیکن اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ مرد و عورت کا آزانہ اختلاط اسلام نے کیوں منع کیا ہے اور ’’کیوں‘‘ کا جواب ہمارے مولوی کے بس کی بات نہیں۔ اگر اِس مضمون کے لئے قاضی اسلم صاحب یا ناصراحمد صاحب کو مقرر کیا جاتا یا ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ خود اِسے بیان کرتے یا شمس صاحب (مولانا جلال الدین صاحب شمس) کو یہ مضمون دیا جاتا جو ولایت میں رہ چکے ہیں تو یہ انتخاب موزوں ہوتا۔
لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کو ہر فن آنا چاہئے گویا اسے ہر فن مولا ہونا چاہئے۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ ’’کیوں‘‘ بھی علم کا حصّہ ہے اور ہمارے آقا کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ ۱؎یعنی وہ رسول لوگوں کو یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم نے کیا کہا اور وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کیوں کہا گویا سائیکالوجی اور علمُ النفس بھی شریعت کا ایک حصّہ ہے لیکن ہم اس کو کیا کریں کہ مدارس میں ہم یُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ تو کرتے ہیں اور الْحِکْمَۃَ کو چھوڑ جاتے ہیں اور جب ہم الْحِکْمَۃَ کو چھوڑ جاتے ہیں تو ہم اپنے مولویوں سے یہ کس طرح اُمید رکھ سکتے ہیں کہ وہ یہ بھی بیان کریں کہ خدا تعالیٰ نے ایسا کیوں کہا؟ ہمیں کوشش تو کرنی چاہئے کہ اس پہلو کو بھی سیکھیں لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہمارا عالم یہ پہلو بیان کر سکے۔
بہر حال یہ اعتراض مولوی عبدالغفور صاحب پر نہیں پڑتا کیونکہ یہ حصّہ ان کا موضوع نہیں یہ قصور انتخاب کرنے والے کا ہے۔ اس مضمون کو بیان کرنے کے لئے علمُ النفس کے ماہر آنے چاہئیں یا وہ مبلّغ آنے چاہئیں جو تبلیغ کے لئے مغربی ممالک میں گئے اور اُن پر اِس قسم کے اعتراضات ہوئے یہ کُنہ تو مغربی ممالک کی نکالی ہوئی ہے تم اگر مسلمان کو کہو گے کہ اسلام نے ایسا کیوں کہا ہے تو وہ کہے گا ایسا کہنے والا کافر ہے۔ ’’اسلام نے ایسا کیوں کہا ہے؟‘‘ یہ اعتراض مغربی ممالک کی طرف سے کیا گیا ہے اس لئے جو مبلغ مغربی ممالک میں رہ چکے ہیں وہ ان باتوں کو بیان کر سکتے ہیں اور جو مبلغ مغربی ممالک میں تبلیغ کے لئے نہیں گئے اور اُن پر اِس قسم کے اعتراضات نہیں ہوئے وہ اس مضمون کو بیان نہیں کر سکتے۔
دوسری بات مَیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ربوہ میں زمینوں کے ایک بڑے حصّہ پر حکومت کی ہدایات کے ماتحت نشاندہی ہو چُکی ہے۔ اِس لئے جن دوستوں نے زمین خریدی ہوئی ہے اُنہیں چاہئے کہ وہ جلد سے جلد مکان بنانا شروع کر دیں۔ اگر مکان بن جائیں تو ہمیں جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی سہولت ہو سکتی ہے۔ ۳۰ ہزار روپیہ خرچ کر کے بیرکس بنوائی گئی ہیں اور وہ بھی یونہی اینٹوں کو کھڑا کر دیا گیا ہے اور پھر اینٹیں بھی سُوکھی نہیں۔ بیرکوں کی یہ حالت ہے کہ اُن میں آدمی سو بھی نہیں سکتے۔ اگر لوگوں نے مکان بنائے ہوتے تو بہت سے لوگ ان مکانوں میں رہ سکتے تھے۔ بہرحال جن لوگوں نے زمین خریدی ہوئی ہے اُنہیں چاہئے کہ وہ جلد سے جلد مکان بنائیں۔ نظامت جائداد کا کام ہے کہ وہ جلد اینٹیں تیار کروائے۔ بعض لوگوں کی خواہش بھی ہے کہ وہ جلدی مکان بنوائیں لیکن اُنہیں اینٹیں نہیں مل رہیں۔ میرے نزدیک اِس دقّت کو دیکھتے ہوئے شروع شروع میں مکان بنانے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ صرف باہر کی دیواریں پکی بنالیں اور اندر کی دیوار کچی رکھیں اِس طرح پکی اینٹوں کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا۔ بڑے بڑے شہروں میں بھی پکی اینٹ میسّر نہیں آرہی۔ یہاں تو صرف ایک سال ہؤا کہ ہم آکر بسے ہیں۔ ایک وجہ اینٹ تیار نہ ہونے کی یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کے سپرد بھٹہ کا کام کیا گیا تھا وہ نا تجربہ کار تھے اُنہوں نے سال میں صرف دو بھٹے نکالے ہیں اور مَیں نے تجربہ کاروں سے سُنا ہے کہ کوشش کی جائے تو سال میں گیارہ بھٹے نکل سکتے ہیں۔
اِس سال پانی کی بھی دقّت ہے۔ کل تو روٹی بھی تیار نہیں ہو سکتی تھی اگر خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل سے کوئی صورت پیدا نہ کرتا۔ جماعت کی مخالفت آجکل زیادہ ہے۔ واٹرٹینکس (water tanks) کے لئے ہم جس محکمہ میں بھی گئے وہاں کوئی نہ کوئی احراری ٹائپ کا آدمی تھا جس نے اس میں رُکاوٹ پیدا کر دی۔ اگر حالات یہی رہتے تو آج میرا مضمون یہ بھی ہوتا کہ ۱۳۰۰ سالوں تک مسلمانوں نے بغیر پانی اور بغیر لنگر کے حج کیا ہے۔ اگر ہم بغیر پانی اور بغیر لنگر کے ایک جلسہ پر گزارہ کرلیں تو کون سی بڑی بات ہے لیکن چونکہ روٹی پک گئی اور پانی کا ایک حد تک انتظام ہو گیا اس لئے مَیں نے یہ مضمون بیان نہیں کیا۔
جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے ہم جس محکمہ میں بھی گئے وہاں کوئی نہ کوئی احراری ٹائپ آدمی موجود تھا اور اُس نے ہمارے کام میں کوئی نہ کوئی روک پیدا کر دی۔ جب چاروں طرف سے انکار ہو گیا اور جب آٹا گوندھنے کے لئے بھی لنگر خانہ میں پانی موجود نہیں تھا اُس وقت آدمی پھر لاہور بھیجے گئے وہاں جاکر معلوم ہؤا کہ ملتان کی میونسپلٹی نے اپنی ضرورتوں کے لئے ایک ٹرک بنوایا ہے جس میں ۹۰۰ گیلن پانی کی گنجائش ہے۔ وہ ٹرک ابھی بنا ہے اور ملتان جانے والا ہے۔ ملتان میونسپلٹی کے پریذیڈنٹ کو فون کیا گیا کہ وہ جلسہ سالانہ کے موقع پر یہ ٹرک ہمیں دے دیں چنانچہ اُس نے اجازت دے دی اور وہ ٹرک یہاں پہنچ گیا اور ہماری تکلیف رفع ہو گئی۔ مجھے خوشی ہوئی ہے کہ یہ خدمت ملتان نے کی ہے۔ پنجاب میں اسلام کی پہلی مدد بھی ملتان سے ہوئی کہ اس علاقہ کے رہنے والوں نے اسلام کو پہلے قبول کیا اور ہمارے جلسہ میں بھی مدد کی توفیق ملتان کو ہی ملی۔ اگرچہ پریذیڈنٹ ملتان میونسپلٹی نے گو ٹرک ہمیں کرایہ پر دیا تھا لیکن جب کرایہ کی ضرورت نہ ہو اُس وقت کسی چیز کا کرایہ پر دے دینا بھی دینے والے کی شرافت کا ثبوت ہے۔
بہرحال ابھی تک ہمارا انتظام ایسا نہیں کہ اسے مکمل کیا جاسکے یا جس کے ہوتے ہوئے ہر تکلیف رفع ہو سکے اور سردی بھی ایسی شدید پڑ رہی ہے کہ پارہ انجماد کے درجہ کے قریب پہنچا ہؤا ہے اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور سردی میں باہر زیادہ نہ پِھریں کیونکہ مومن کی جان قیمتی ہوتی ہے۔ دیکھو کتنی دیر کے بعد ایک احمدی ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کا پیدا کیا ہؤا بچہ ۹ ماہ کے بعد پیدا ہو جاتا ہے لیکن بعض جگہوں پر دس دس سال متواتر تبلیغ کرنے کے بعد ایک احمدی ہوتا ہے۔ اگر دوست اس حقیقت کو مدّنظر رکھیں تو انہیں محسوس ہو کہ مومن کی جان کتنی قیمتی ہوتی ہے۔
ایک بات مَیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انگریزی ترجمۃ القرآن اور تفسیر کبیر کی ایک ایک اور جلد شائع ہو چُکی ہے۔تفسیر کبیر کی جو جلد پچھلے سال شائع ہوئی ہے۔ اُس کے ایک ہزار نسخے ابھی قابلِ فروخت ہیں اور اس سے پچھلی جلد کے بھی کچھ نسخے پڑے ہیں۔ دوست کچھ تو گزشتہ مصائب کی وجہ سے مہاجر بن گئے اور کچھ یہ وجہ ہو گئی کہ ہندوستان اب کوئی چیز نہیں جاسکتی اور کچھ وجہ یہ بھی ہو گئی ہے کہ بعض لوگ ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہیں اچھا لے لیں گے، اچھا لے لیں گے۔ سورۃ یونس کے بغیر کھف والی تفسیر پچاس پچاس روپیہ پر لوگوں نے خریدی ہے اور بعض لوگوں نے تو سَو سَو روپیہ میں ایک ایک جلد خریدی ہے۔ بیرونی ممالک کی لائبریریوں میں رکھنے کے لئے ہم نے کچھ کاپیاں ریزرو کی ہوئی ہیں لیکن سال میں پندرہ بیس ایسی چِٹھیاں ضرور آجاتی ہیں کہ ہمیں ریزرو کتابوں میں سے ہی ایک جلد دے دی جائے بے شک ہم سے قیمت زیادہ لے لی جائے۔ لیکن میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ یہاں قیمت کا سوال نہیں ایک پبلک کی قیمت ایک فرد سے بہرحال زیادہ ہے اس لئے دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے یہ نہ ہو کہ یہ کاپیاں بھی ختم ہو جائیں اور بعد میں اِنہیں اس سے کئی گُنا زیادہ قیمت پر بھی یہ تفسیر نہ مل سکے۔ سورۃ کھف والی جلد اور پارہ کا پہلا حصّہ بالکل ختم ہو چُکا ہے اور دوسرا حصّہ بھی تھوڑی تعداد میں ہے اور اب تیسرا حصّہ شائع ہو گیا ہے۔ قرآن کریم تو ایسی چیز ہے کہ اس کی تفسیر کا ہر جگہ پر ہونا ضروری ہے لوگ پڑھیں گے اور اِس پر عمل کریں گے تو فائدہ اُٹھائیں گے۔ ہمارا یہی ہتھیار ہے جس سے ہم نے دُنیا فتح کرنی ہے۔ اگر ہم نے اس ہتھیار کو استعمال نہ کیا تو پھر فتح مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اس تفسیر کے چھپنے کے بعد بڑے بڑے شدید دُشمنوں کے خیالات بدل گئے ہیں۔ چوہدری ظفراﷲ خاں صاحب نے مجھے بتایا کہ میرے امرتسر کے ایک دوست تھے مَیں نے انہیں کہا آپ کو تفسیر کبیر ضرور خریدنی چاہئے لیکن اس نے کہا اگرچہ تم میرے دوست ہو لیکن پھر بھی مَیں احمدیوں کا لٹریچر نہیں خریدتا۔ مَیں نے اُسے کہا تم میری خاطر تفسیر خرید لو چنانچہ اُس نے تفسیر خرید لی۔ چوہدری صاحب نے بتایا کہ دوسری دفعہ جب وہ قادیان آیا تو اُس نے کہا ظفراﷲ! تم قیمت پہلے لے لو اور آئندہ جو جلد شائع ہو وہ مجھے بھیج دو۔ مَیں نے اُسے کہا تم تو کہتے تھے کہ مَیں یہ تفسیر ہر گز نہیں خریدوں گا مگر اب قیمت پیشگی جمع کرا رہے ہو۔ اُس نے کہا مَیں پہلے کہتا تھا کہ مَیں نہیں خریدوں گا لیکن اب جب آپ کی وجہ سے مَیں نے یہ کتاب خرید لی اور اِسے پڑھا تو معلوم ہؤا کہ اِس کا ہر مسلمان کے پاس ہونا ضروری ہے۔ مَیں نے اکثر دیکھا ہے کہ بعض دوستوں نے اپنے غیر احمدی دوستوں کو پڑھنے کے لئے تفسیر دی اور ایک عرصہ کے بعد اُنہوں نے بجائے کتاب واپس کرنے کے قیمت دے دی۔ ایک دوست نے مجھے بتایا کہ مَیں نے ایک دوست کو پڑھنے کے لئے تفسیر دی لیکن کچھ دنوں کے بعد انہوں نے قیمت مجھے دے دی اور کہا کہ مَیں یہ کتاب نہیں دوں گا۔ آخر بڑی مشکل سے مَیں نے وہ کتاب اُن سے واپس لی۔ لاہور کے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ایک ہندو نے تفسیر کبیر خریدی ہمیں اس کتاب کی ضرورت پڑی تو ہم نے کہا چلو اُس ہندو سے لے لیتے ہیں۔ چنانچہ ہم اُس ہندو کے پاس گئے اور اُسے کہا کہ یہ کتاب تمہارے کام کی تو ہے نہیں ہمیں اِس کی ضرورت ہے تم قیمت لے لو اور ہمیں یہ کتاب دے دو۔ مگر اُس نے کہا مَیں کسی قیمت پر بھی یہ کتاب نہیں دیتا۔ ہم نے کہا اچھا زیادہ قیمت لے لو اور کتاب دے دو لیکن وہ پھر بھی نہ مانا۔ پس اس کتاب کا ہر گھر میں موجود ہونا ضروری ہے اور اسے ابھی سے خرید لینا چاہئے دیر نہیں کرنی چاہئے۔ پیچھے جاکر جو پچھتانا پڑتا ہے تو تم پہلے ہی لے لو۔ مَیں نے بعض جلدیں اپنے چھوٹے بچوں کے لئے بھی خرید رکھی ہیں تاکہ وہ بڑے ہو کر یہ نہ کہیں کہ ہمارے پاس یہ تفسیر نہیں۔
آخری پارہ کی چوتھی جِلد بھی جَلد شروع ہو جائے گی اور ۱۹۵۱ء میںانشاء اﷲ شائع ہو جائے گی۔ اِسی طرح انگریزی ترجمۃ القرآن کی تیسری جلد بھی ۱۹۵۱ء میں شائع ہوجائے گی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہم کتب کی اشاعت کا انتظام بھی ہو گیا ہے۔ ہمارا سارا سٹاک قادیان رہ گیا تھا۔ پہلے تو قادیان والے کتابیں بھجواتے رہے لیکن اب وہ نہیں بھیجتے وہ کہتے ہیں ہمارے پاس تو پریس نہیں کہ دوبارہ شائع کر لیں۔ آپ کے پاس تو پریس ہے اس لئے یہ کتابیں ہمارے پاس ہی رہنے دیں۔ سَو اب یہاں اہم کتب کی اشاعت کا انتظام ہو گیا ہے۔ حقیقۃ الوحی چھپ گئی ہے۔ ابھی نظارت تالیف و تصنیف نے میرے ہاتھ میں ایک کاپی دی ہے۔ ہلکے کاغذ والی کتاب کی قیمت ۶ روپے اور اعلیٰ کاغذ والی کتاب کی قیمت ۸ روپے ہے۔ ابھی اَور کتابیں بھی شائع ہو رہی ہیں اور اگلے سال سے انشاء اﷲ برابر چھپنی شروع ہو جائیں گی اور کُتب کا ذخیرہ یہاں قائم ہو جائے گا۔
ایک بات مَیں اور کہنا چاہتا ہوں ۔ گزشتہ خطباتِ جمعہ میں بھی مَیں نے اس طرف توجہ دلائی تھی اور اتنی توجہ دلائی ہے کہ بعض دُشمنانِ احمدیت نے مجھے لکھا۔ دیکھا اب لگا ہے سلسلہ ختم ہونے لیکن یہ ان کی حماقت ہے۔ آخر جماعتوں پر کوئی وقت ایسا بھی آیا کرتا ہے جب ان میں جوش پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو دیکھ لو جنگ حنین کے موقع پر اسلامی لشکر پیچھے ہٹ گیا اور رسول کریم ؐکو ان مسلمانوں میں جوش پیدا کرنے کے لئے کہنا پڑا کہ اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بُلاتا ہے۔۲؎ یہ فقرہ مخفی طور پر مہاجرین پر ایک چوٹ تھی چنانچہ اُس نے ایک طرف تو انصار کے اندر ایک جوش پیدا کر دیا کہ اب ہمیں بُلایا جاتا ہے مہاجرین کو نہیں بُلایا جاتا اور دوسری طرف مہاجرین یہ سُن کر کٹ گئے کہ ہمیں نہیں بُلایا گیا اور نتیجہ یہ ہؤا کہ مہاجرین و انصار نے آگے بڑھ کر قربانی کا ایک بے مثال نمونہ دکھایا اور جنگ کا نقشہ پلٹ گیا۔ پس ایسی جماعتیں مرتی نہیں ہاں بعض اوقات وہ سو جاتی ہیں اور اُن کو بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ میری اِس تحریک سے پہلے دفتر اوّل کے دو لاکھ ۷۵ ہزار کے وعدے تھے ان میں سے صرف ایک لاکھ چھتیس ہزار کی وصولی ہوئی تھی۔ نومبر کے شروع میں مَیں نے تحریک کی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان کو ملا کر دو لاکھ چودہ ہزار پانچ سَو چار کی وصولی ہو گئی۔ گویا اس تحریک کے بعد جماعت احمدیہ پاکستان نے ۵۱ ہزار روپیہ ادا کیا اور دس بارہ ہزار روپیہ قادیان میں وصول ہؤا اور اب موجودہ رقم میں سے صرف ۶۳ ہزار روپیہ باقی ہے اور چونکہ دوستوں نے دوبارہ یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ بقایا اپریل ۱۹۵۱ء تک ادا کر دیں گے اس لئے یہ ۶۳ ہزار روپیہ بھی جلد ادا ہو جائے گا۔ اب ہم دیکھیں گے کہ دُشمن کیا کہتا ہے۔ پہلے اس نے کہا جماعت مر گئی۔ اب وہ یہ کہے گا کہ جماعت دوبارہ زندہ ہو گئی۔ انصاف تو یہ ہے کہ وہ کہے اس اعلان پر احمدی دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں۔ بہرحال جماعت نے اخلاص کا نہایت اچھا نمونہ دکھایا ہے۔ اس سال پنجاب میں سیلابوں کی وجہ سے بڑی خطرناک تباہی آئی اور سندھ میں بیماری کی وجہ سے ۲۵ سے چالیس فیصدی تک فصلیں مر گئیں۔ اتنی تباہی کے ایّام میں اگر جماعت نے اتنی سُستی دکھائی تو یہ ختم ہونے کی علامت نہیں۔ کچھ تو سیلاب کی وجہ سے چندہ ادا نہ کیا جاسکا اور کچھ اس خیال سے سُستی ہو گئی کہ مَیں نے چندہ نہیں دیا تو کیا ہے میرا دوسرا بھائی دے دے گا لیکن میری تحریک کا یہ اثر ہؤا کہ یا تو ۵۰ فیصدی سے بھی کم چندہ آیا تھا اور یا اب ۸۵ فیصدی چندہ آچُکا ہے اور مَیں اُمید کرتا ہوں کہ احباب اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے باقی رقم کو بھی جلد پورا کریں گے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ
تحریک جدید دفتر دوم کے وعدے ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے کے تھے اور ابھی ان میں سے ۷۹ ہزار روپیہ وصول ہؤا ہے گویا نصف کے قریب آمد ہوئی ہے۔ یہ چیز مجھے خطرناک نظر آتی ہے۔ کیونکہ اس میں زیادہ تر ہمارے نوجوان شامل ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ نوجوان، بوڑھوں سے زیادہ قربانی کریں کیونکہ ایک تو نوجوان بوڑھوں سے زیادہ کھاتے پیتے ہیں دوسرے ان پر بیوی بچوں کی پرورش، نوجوان بچوں کی تعلیم اور شادی کا اتنا بوجھ نہیں ہوتا جتنا بوڑھوں پر ہوتا ہے۔ پس نوجوانوں کو چاہئے کہ جس طرح بھی ہو وہ زور لگا کر اِس کمی کو پوراکریں خصوصاً خدام الاحمدیہ کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور دفتر دوم میں دفتر اوّل سے زیادہ چندے آنے چاہئیں۔ نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ دفتر دوم کے لئے وعدہ کریں اور اگر پہلے وعدہ کم ہؤا ہے تو اس میں زیادتی کریں اور پھر اسے جلد سے جلد پورا کریں۔ اب تو مَیں نے شرائط اتنی ہلکی کر دی ہیں کہ سوائے کنگال کے ہر ایک شخص اس میں حصّہ لے سکتا ہے۔ ہماری جماعت لاکھوں کی ہے۔ اگر اس میں سے ۶۰-۷۰ ہزار افراد بھی تحریک جدید میں حصّہ لیں تو چھ لاکھ روپیہ جمع ہو سکتا ہے۔ اِس وقت وعدوں کی میزان ۷۲۷،۲۷ روپے کی ہے۔ پہلے ۲۰ ہزار تھی۔ نوجوانوں کو فکر کرنی چاہئے اور انہیں اپنی کوششوں کو زیادہ تیز کرنا چاہئے۔
اب مَیں دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آنے والے ایّام بہت نازک ہیں۔ بہت سے کام ہمارے ذمہ ہیں۔ ہم نے سکول بنانا ہے، عورتوں کا کالج بنانا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ کالج اِسی سال یعنی ۱۹۵۱ء میں ہی کُھل جائے۔ اس کالج کے ساتھ بورڈنگ ہاؤس بھی ہو گا۔ پھر مردانہ کالج بھی یہاں لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے مخالف حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ جس عمارت میں آجکل ہمارا کالج ہے اس سے ہمیں نکال دیا جائے لیکن بجائے اس کے کہ کوئی ہمیں وہاں سے نکالے بہتر یہی ہے کہ ہم خود اُس کو چھوڑ کر یہاں آجائیں۔ مومن غیرت مند ہوتا ہے۔ اگر پاکستان کے بعض لوگ تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان امتیاز پیدا کرتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اُنہیں کہہ دیں کہ ’’مُلکِ خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست‘‘۔ ہمارے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان خدا تعالیٰ کا مُلک وسیع ہے اور فقیر کے بھی پاؤں ہیں۔ اگر کسی خاص جگہ پر لوگ اُسے رہنے نہیں دیتے تو وہ دوسری جگہ پر چلا جاتا ہے اور اگر ایک فقیر اور سائل کا بھی اتنا حوصلہ ہوتا ہے کہ جب اسے ایک گھر سے دھتکارا جائے تو وہ کہتا ہے مَیں خدا تعالیٰ کے مُلک میں رہتا ہوں اور اس کا مُلک تمہارے گھر سے وسیع ہے اور پھر میرے پاؤں بھی لنگڑے نہیں۔ تو الٰہی جماعت میں کیوں غیرت نہ ہو اُسے بھی ان لوگوں کے جواب میں یہ کہنا چاہئے کہ’’ مُلکِ خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست‘‘۔ اگر لوگ ہمیںاس عمارت میں جہاں آجکل ہمارا کالج ہے نہیں رہنے دیتے تو ہم بھی اپنا کالج بنائیں گے اور کسی دوسرے کا احسان نہیں لیں گے۔
یہ مالی قربانیاں ہمیں آئندہ چند سال میں کرنی پڑیں گی۔ علاوہ ان عمارتوں کے دفاتر بھی بنیں گے، کارکنوں کی رہائش کے لئے مکان بھی بنیں گے پھر دوست خود بھی یہاں مکان بنائیں گے اِس کے علاوہ میں نے مسجد امریکہ اور مسجد ہالینڈ کی بھی تحریک کی ہوئی ہے۔ امریکہ میں ہمارا ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہؤا ہے۔ اس مکان پر مسجد کی طرح مینارے تو ابھی نہیں بنے۔ یہ جگہ ابھی تک مکان کی ہی صورت میں ہے لیکن یہ مکان نہایت اہم جگہ پر واقع ہے۔ اس کے قریب غیر مُلکی سفارت خانے ہیں۔ پاکستان کا سفارت خانہ بھی قریب ہی ہے۔ پھر پریذیڈنٹ کا گھر بھی اس جگہ کے قریب واقع ہے۔ ایسی عمارت ڈیڑھ لاکھ روپیہ میں ملنی بہت سَستا سَودا ہے۔ پھر یہ معمولی مکان نہیں۔ دو منزلہ عمارت ہے۔ بہرحال یہ مکان خریدلیا گیا ہے لیکن اس کے لئے چندہ صرف ۲۲ ہزار روپیہ آیا ہے۔ باقی کچھ روپیہ اشاعتِ قرآن کی مد سے بطور قرض لیا گیا ہے اور کچھ دوسری مدات سے بطور قرض حاصل کیا گیا ہے ۔ اگر یہ روپیہ جمع نہ ہؤا تو آئندہ بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ جب لندن میں مسجد بنانے کی تحریک ہوئی تو عورتوں نے ساٹھ ستّر ہزار روپے جمع کر دیئے تھے۔ اِس وقت جماعت کی تعداد موجودہ تعداد سے دسواں حصّہ تھی۔ پھر عورت کی آمد مرد کی آمد سے آدھی تو ضرور سمجھنی چاہئے بلکہ اس سے بھی کم ہوتی ہے۔ اب جبکہ ہماری تعداد اُس وقت کی تعداد سے دس گُنا زیادہ ہے اور مسجد ایک اہم مُلک اور پھر اس کے مرکز میں بنائی جارہی ہے تو ہم اس میں سُستی کیوں کریں۔ لوگ وہاں اپنے کاموں کے لئے آئیں گے تو ہم سے بھی شناسا ہو جائیں گے۔ موجودہ وقت میں ہماری جماعت کا دو اڑھائی سَو آدمی ایسا ہے جن کی آمد ایک ہزار روپیہ سے زائد ہے ان میں سے آدھے لوگ بھی اپنی ایک ایک ماہ کی آمد اِس مسجد کے لئے دے دیں تو یہ رقم پوری ہو جائے گی لیکن جماعت نے اس کی اہمیت کو سمجھا نہیں۔ پس مَیں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں۔ ہمیں سب مُلکوں میں مسجدیں بنانی پڑیں گی۔ اگر سب ممالک میں مساجد بن جائیں تو جو دُنیا ہمارے متعلق یہ کہتی ہے کہ ہم مسلمان نہیں، کافر ہیں ہم اُسے بتا سکتے ہیں کہ کیا کافر ہی سب مُلکوں میں مساجد بنا رہے ہیں۔ پس مسجد ہماری تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ جن لوگوں کی آمدنیں زیادہ ہیں وہ اِس طرف توجہ کریں ۔ اگر ایک سال تکالیف اُٹھا کر وہ اپنی ماہوار آمد کا پچاس فیصدی بھی دے دیں تو یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے۔ ہم نے حفاظتِ مرکز کے لئے ایک فیصدی کے حساب سے جماعت کی جگہ کی قیمت کا اندازہ لگایا تو ۱۵ لاکھ کی رقم بن گئی تھی لیکن بعض ناہندہ اور مقروض بھی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں تک میری آواز نہ پہنچے اس لئے جن کی حیثیتیں زیادہ ہیں وہ اپنے اُوپر بوجھ ڈال کر اگر ایک ایک ماہ کی نصف آمد اس مد میں دے دیں تو ہمارا بوجھ ہلکا ہو جائے گا اور کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں جن کی ماہوار آمد ہزار ہزار روپیہ ہو اور وہ ہزار ہزار روپیہ اس مد میں لکھا دیں۔
چندہ نہ آنے کی وجہ سے بہت سی اہم مدّات کا روپیہ اِس مد میں پھنس گیا ہے اور لوگ اب وہ قرض مانگ رہے ہیں۔ ایک قرضہ کا تو اتنا تقاضا ہؤا کہ مَیں نے کہہ دیا مکان رہن رکھ کر یہ روپیہ ادا کر دو۔ آج مَیں نے عورتوں کو بھی توجہ دلائی ہے اور مردوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہزار روپیہ ماہوار یا اِس سے زیادہ اوپر آمد والے ایک ایک ہزار لکھا دیں اور جن کی آمدنیں اِس سے کم ہیں وہ پچاس فیصدی یا ۲۵ فیصدی ماہوار آمد کا دیں اورجو سَو روپیہ ماہوار سے کم آمد والے ہیں وہ اپنی آمد کا ۵ فیصدی دے دیں یا پانچ پانچ دس دس روپے دے دیں تو یہ کوئی زیادہ بوجھ نہیں۔ اتنا چندہ بآسانی دیا جاسکتا ہے۔ (اس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ ڈاکٹر فرزند علی صاحب نے لکھا ہے میری امانت تحریک جدید میں سے کالج کے لئے پانچ صد روپیہ لے لیا جائے اور چیک لکھ کے دے دیا ہے۔ اسی طرح بابو سراجدین صاحب لاہور والے بھی اس مد میں ایک سو روپیہ کا وعدہ کرتے ہیں۔ جَزَاکُمُ اﷲُ اَحْسَنَ الْجَزَائِ۔اِس کے بعد فرمایا)
اب مَیں ایک ایسے اہم معاملہ کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اِن دنوں بہت اہم ہو گیا ہے اور وہ ہماری مخالفت کی عام رَو ہے جو مختلف جماعتوں اور فرقوں میں پیدا ہو گئی ہے۔ جب ہم قادیان سے آئے اُس وقت چونکہ صرف قادیان ہی سکھوں سے مقابلہ کر رہا تھا اس لئے کیا زمیندار اور کیا دوسرے مخالف اخبار سب ہی یہ لکھ رہے تھے کہ قادیان والے خوب مقابلہ کر رہے ہیں لیکن وہی اخبار جو اُس وقت ہماری تعریفیں کر رہے تھے اب ہماری مخالفت میں پیش پیش ہیں۔ اُس وقت مَیں نے جماعت سے کہا تھا کہ یہ وقت بہت اچھا ہے تم تبلیغ کرو لیکن کئی لوگ ایسے تھے جنہوں نے مجھے کہا کہ آپ کچھ دن ٹھہر جائیں۔ اِس وقت لوگ ہم پر بہت خوش ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ناراض ہو جائیں لیکن مَیں سمجھتا تھا اگر تم نے اس موقع سے فائدہ نہ اُٹھایا تو کچھ عرصہ کے بعد انہی لوگوں کا رویہ تمہارے خلاف ہو جائے گا اور یہی لوگ تمہارا گلا کاٹنے کو دَوڑیں گے لیکن جماعت نے اِس طرف توجہ نہ کی۔ اور اب جب شورش پیدا ہو گئی ہے تو کہتے ہیں ذرا ٹھہرجانا چاہئے۔ ابھی ان لوگوں کو تبلیغ نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ہمارے خلاف ہیں۔ گویا تبلیغ نہ تو امن میں ہو سکتی ہیں اور نہ فساد میں ۔ پھر تبلیغ ہو گی کس وقت؟ بہرحال جماعت نے پہلے غلطی کی ہے اور اب اس کی اصلاح اِسی طرح ہو سکتی ہے کہ وہ موجودہ شورش کی پرواہ نہ کریں اور زیادہ سے زیادہ وقت تبلیغ میں صَرف کریں۔
جو جماعتیں ہماری مخالفت میں زیادہ سرگرم ہیں وہ احرار، اسلامی جماعت اور علامہ عنایت اللہ مشرقی کی اسلام لیگ ہیں۔ مجلس احرار نے متواتر تقاریرمیں احمدیوں کے قتل کی تحریک کی ہے۔ جہاں جہاں مجلس احرار کے لیڈروں کی تقاریر ہوئی ہیں جماعت کے لوگوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے کھلے بندوں یہ کہا کہ احمدیوں کو قتل کر دو۔ منٹگمری میں انہوں نے یہاں تک کہا کہ احمدیوں کے مکانوں پر پہلے نشان لگا دو اور پھر ایک رات سب کو قتل کر دو۔ یہ نشان لگانے کی ترکیب نرالی ہے نئی نہیں۔ پُرانے زمانہ میں بھی جب ڈاکو حملہ کرنے والے ہوتے تھے تو وہ جس مکان پر اُنہوں نے حملہ کرنا ہوتا تھا اُس پر پہلے نشان لگا دیتے تھے۔ کہتے ہیں ایک دفعہ ایک گھر پر حملہ کرنے کے لئے دو ڈاکوؤں نے نشان لگایا۔ اُس گھر میں ایک ہوشیار لَونڈی تھی وہ باہر آئی اتفاقاً اُس کی نظر اُس نشان پر پڑ گئی۔ وہ گھبرا گئی لیکن کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے اپنے مکان کے اِرد گرد کچھ اور مکانوں پر بھی وہی نشان لگا دیا۔ ڈاکو آئے تواُنہیں اس مکان کا پتہ نہ لگ سکا۔ مَیں جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ ایسی ذہانت سے کام لینا چاہئے۔ تم اگر اپنے مکانوں پر کوئی نشان لگا ہؤا دیکھو تو ویسا ہی نشان تم اپنے اِرد گرد کے اور مکانوں پر بھی لگا دو۔ پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ خواہ وہ تمہارے گھر کے افراد کو ماردیں یا سب گھروں پر حملہ کر کے ان کے بسنے والوں کو قتل کر دیں۔ بہرحال یہ تحریک ہوئی اور کئی شکلوں میں ہوئی ہے۔ بعض دفعہ گورنمنٹ کو توجہ دلاتے ہیں کہ احمدیوں کو اقلّیت قرار دے دیا جائے اور انہیں مسلمانوں سے الگ سمجھا جائے۔ ان کا یہ توجہ دلانا بالکل ویسا ہی ہے جیسے ایک مشہور واقعہ ہے کہ کوئی ظالم خاوند تھا وہ ہمیشہ مال دار عورتوں سے شادی کر کے اُن کی دولت پر قبضہ کر لیتا اور اس کے بعد کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر اُنہیں طلاق دے دیتا۔ ایک دفعہ اس نے ایک عورت سے شادی کی وہ عورت نہایت ہوشیار تھی۔ اسے پتہ لگا کہ اس کا خاوند ظالم ہے اور کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر مال و دولت پر قبضہ کرنے کے بعد وہ اُسے طلاق دے دے گا۔ اس نے بڑی عمدگی سے کام کیا اور خاوند کو اعتراض کا کوئی موقع نہ ملا۔ جب اُس نے دیکھا کہ یہ عورت تو الگ ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ ہو سکتا ہے کہ مَیں مَر جاؤں اور یہ میرے مال و دولت پر قبضہ کر لے تو اُسے طلاق دینے کا کوئی بہانہ سوچنے لگا۔ ایک دن اُس نے اپنی بیوی سے کہا مَیں باورچی خانہ میں بیٹھ کر کھانا کھاؤں گا۔ بیوی نے بہتیرا کہا کہ وہاں دُھواں ہو گا اور تکلیف ہو گی مگر وہ نہ مانا اور اپنی اس بات پر اصرار کرتا رہا۔ چنانچہ وہ باورچی خانہ میں بیٹھ گیا۔ اس کی بیوی روٹیاں پکا رہی تھی وہ جھَٹ غصّہ سے اُٹھا اور اپنی بیوی کے سر پر جُوتی مار کر کہنے لگا کمبخت! روٹیاں تو تُو ہاتھ سے پکاتی ہے تیری کُہنیاں کیوں ہلتی ہیں؟ عورت بڑی ہوشیار تھی وہ کہنے لگی۔ آپ غصّہ میں آگئے ہیں اور غصّہ میں کھانا ہضم نہیں ہوتا۔ آپ مجھے مارنا ہی چاہتے ہیں توکھانا کھا کر مارلیں۔ چنانچہ بیوی نے کھانا اُس کے سامنے رکھ دیا۔ جب وہ کھانا کھا رہا تھا تو اُس نے خاوند کی داڑھی پکڑ لی اور اُسے جُوتا مار کر کہا۔ کمبخت! کھانا تو تُو مُنہ سے کھاتا ہے تیری داڑھی کیوں ہلتی ہے؟ اسی طرح ہماری مخالفت کرنے والے کر رہے ہیں۔ ایک جگہ انہوں نے ہمارے خلاف بہت شور مچایا کہ کیا اسلامی حکومت کو اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ احمدیوں کو ان کے تبلیغی کام سے روک دے اور بات صرف اتنی تھی کہ غیر احمدیوں کا کوئی جلسہ ہؤا تھا اور ایک احمدی لڑکا باہراشتہار بانٹ رہا تھا۔ اتنی سی بات پر انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کیا احمدیوں کو اسلامی حکومت میں رہتے ہوئے اتنی جرأت ہو سکتی ہے حالانکہ یہ ویسی ہی بات ہے کہ کھانا تو تم مُنہ سے کھاتے ہو تمہاری داڑھی کیوں ہلتی ہے۔ گویا ہم پر جو چاہے اعتراض کرے اور جتنے اعتراض چاہے کرے ہمیں جواب دینے کی بھی اجازت نہیں۔ ہمارے مخالف جو چاہیں ہمارے خلاف کہتے پھریں لیکن چونکہ پاکستان کی حکومت اسلامی حکومت ہے اس لئے ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم اتنا بھی کہہ سکیں کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو یہ غلط کہہ رہے ہو۔ گویا احمدی یہ سمجھیں کہ جو گالیاں اُنہیں دی جارہی ہیں وہ گالیاں نہیں بلکہ اُن کی عزت افزائی ہو رہی ہے۔ ایک جگہ کے متعلق مجھے رپورٹ ملی کہ ایک پیر اپنے مریدوں کو اکٹھا کر کے انہیں کہہ رہا ہے کہ تم بندوق چلانے کی مشق کر لو اِس کے بعد ہم ربوہ پر حملہ کریں گے اور اُسے تباہ کر دیں گے۔ ڈپٹی کمشنر کے پاس جب اُس کی رپورٹ کی گئی تو اُس نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ شخص پاگل ہے حالانکہ یہ رپورٹ ایسی نہیں تھی کہ کہنے والے کو پاگل کہہ کر ٹال دیا جاتا۔ اگر وہ پیر فی الواقعہ پاگل ہے تو پھر تو بہت زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ایسا اقدام عموماً پاگل ہی کیا کرتے ہیں۔
اسی طرح ایک جگہ پر کہا گیا کہ ڈپٹی احمدی ہے اسے مار دو۔ اِسی طرح میرے متعلق بھی کہا گیا کہ اسے مار دیا جائے۔ مجسٹریٹ علاقہ اس جلسہ میں موجود تھا۔ اُس نے اپنی رپورٹ میں اِس امر کا ذکر کیا لیکن پولیس کی رپورٹ میں اس کا ذکر نہیں تھا۔ جب پولیس کو ڈی ۔سی نے اِس طرف توجہ دلائی تو یہ کہہ دیا گیا کہ جس شخص نے یہ بات کہی ہے وہ پاگل ہے حالانکہ کھلے بندوں احمدیوں کے قتل کی تحریک کی گئی اور ایک آدمی کھڑا ہؤا اور اُس نے کہا مَیں یہ کام کروں گا لیکن جب سپرنٹنڈنٹ پولیس سے اِس کا ذکر کیا گیا تو اُس نے کہہ دیا کہ وہ پاگل تھا گویا یہ کام بڑے بڑے عقل مند کیا کرتے ہیں۔
پھر ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں حالانکہ اگر کوئی جماعت ایسی ہے جو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے عشق میں گداز ہے اور آپ ؐ کے نام کو دنیا میں عزت کے ساتھ قائم کرنے والی ہے تووہ صرف ہماری ہی جماعت ہے ۔ جب ہمارے سلسلہ کی بنیاد ہی اسی امر پر ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا نور ہمیشہ قائم رہے گااور جب ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اسلام کے تنزل کے دور میں رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ہی ایک غلام اسے دوبارہ دنیا میں قائم کرے گا اس کے احیا ء کیلئے باہر سے کوئی نبی نہیں آئے گاتو کوئی شخص یہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ یہ فرقہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہے یہ تو واقعاتی لحاظ سے محال ہے لیکن دوسری طرف یہ عقلی طور پر بھی محال ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے شاگرد اور غلام بھی کہتے ہوں اور پھر وہ آپؐ کی ہتک بھی کرتے ہوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص یہ کہے کہ میں افلاطون کا شاگرد ہوں اور پھر کہے کہ افلاطون بڑا جاہل ہے ۔اگر وہ واقعی افلاطون کا شاگرد ہے تو وہ اُسکی تعریف کرے گا مذمت نہیں کرے گا۔اِسی طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے آپ کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا شاگرد اور غلام کہتے ہیں تو وہ آپ کی تعریف ہی کریں گے مذمت نہیں کریں گے ورنہ وہ اپنے آپ کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا شاگرد کیسے کہہ سکتے ہیں۔
پھر کسی جگہ یہ الزام لگا یا جاتا ہے کہ ہم انگریزوں کے خوشامدی ہیں چنانچہ راولپنڈی میں تقریر کرتے ہوئے بڑے فخر سے اِس چیز کو پیش کیا گیا کہ میں نے فلاں کمشنر کو بہکایا اور بعض حوالجات بھی دکھائے جس پر وہ احمدیوں کے خلاف ہو گئے۔میں نے تحقیقات کی تو معلوم ہؤا کہ یہ درست ہے ۔اُس کے خیالات ہمارے متعلق پہلے ہمدردانہ تھے لیکن اب وہ مخالف ہے۔ اسی طرح ایک ریلوے افیسر کو بھی یہ بات کہی گئی وہ ایک احمدی کے پاس آیا اور اُس نے کہا میں پہلے آپ لوگوں کے خلاف نہیں تھالیکن اب معلوم ہؤا ہے کہ آپ لوگ تو انگریزوں کے ایجنٹ ہیں ۔غرض افسروں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اِس مخالفت سے متاثر ہو گیا ہے۔میں نے درد صاحب کو ایک ضروری کام کیلئے کراچی بھیجا ۔وہاں انہیں پاکستان سیکریٹریٹ کے ایک انڈر سیکرٹری ملے وہ احمدیوں کے ممنونِ احسان تھے ۔ایک احمدی دوست نے اُنہیں تعلیم دلوائی تھی ۔انہوں نے درد صاحب سے کہا کہ لوگوں میں آپ کی مخالفت عام ہورہی ہے اور یہ میں صرف آ پ کے فائدہ کیلئے کہتا ہوں کہ آپ اس طرف توجہ کریں۔ایک صوبہ کے گورنر نے ایک بڑے شہر میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ احمدی بھائی مجھے معاف کریں اگر میں یہ کہوں کہ انگریزوںکی عادت تفرقہ ڈال کر حکومت کرنا تھی اور اپنی اِسی عادت کے مطابق انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے احمدیوں کو کھڑا کیا اور بہائیوں کو روس نے کھڑاکیا۔ وہ گورنر احمدیوں کا ملنے والا ہے لیکن مخالفت سے وہ بھی متأثر ہو گیا۔اگر افسروں پر یہ اثر غالب ہو کہ ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہیں تو ان سے انصاف کی بہت کم امید ہو سکتی ہے۔مجھے تعجب آتا ہے کہ تعلیم یافتہ آدمی بِلاتحقیق کس طرح ایک رائے قائم کر سکتا ہے۔آخر جو لوگ بڑے عُہدوں پر پہنچے ہیں وہ بڑے تجربہ کے بعد پہنچے ہیں لیکن عجیب بات یہ کہ جب ہمارا معاملہ آتا ہے تو وہ ایک فریق کی بات سُن کر متأثر ہو جاتے ہیں۔اسکی وجہ یہ ہے کہ ہماری مخالفت کا ان کے دماغ پر اتنا اثر پڑا ہے کہ اب وہ کسی تحقیقات کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے حالانکہ اگر وہ سوچتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہی مولوی پہلے کہا کرتے تھے کہ ہم انگریزوں کے خلاف ہیں۔علماء کی کتابیں موجود ہیں ۔ان میں صاف لکھا ہے کہ انگریزی حکومت کو فکر کرنی چاہئے ۔ مرزاصاحب حکومت کے باغی ہیں اگر ابھی اس کی اصلاح نہ کی گئی تو کسی وقت حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔حضرت مسیح موعود ؑ کے دعویٰ کے پانچ سات سال بعد کی کتب میں جو مخالف علماء کی طرف سے لکھی گئی تھیں یہ نظر نہیں آتا کہ مرزاصاحب انگریزوں کے ایجنٹ ہیں ۔بلکہ ساری کتب میں یہ لکھا ہے کہ مرزا صاحب حکومت کے مخالف اور اس کے باغی ہیں ۔لیکن اب احراری علماء یہ کہہ رہے ہیں کہ احمدی انگریزوں کے ایجنٹ ہیں ۔اگر یہ لوگ علم کی بناء پر ہماری مخالفت کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ یا تو اس وقت کے علماء جھوٹے تھے یا موجودہ علماء جھوٹ بول رہے ہیں ۔مولوی محمد حسین صاحب اور لدھیانے والے مولویوں کی کتابیں موجود ہیں اُن میں صاف لکھا ہے کہ مرزا صاحب حکومت کے باغی ہیں۔اِن باتوںکے ہوتے ہوئے ایک عقل مند دیانت دار اور تجربہ کار افسر دھوکا میں کس طرح آسکتا ہے۔یہی لوگ جواَب کہتے ہیں کہ احمدی انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اِنہوں نے دعویٰ کے پہلے آٹھ دس سال میں یہ کہہ کر جماعت احمدیہ کی مخالفت کیوں کی تھی کہ مرزا صاحب انگریزوں کے خلاف ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا جو غالباً ۱۸۹۳ء میں ہؤا اُس کے الفاظ یہ ہیں۔’’سلطنت برطانیہ تاہشت سال۔بعد ازاں ایام ضُعف واختلال‘‘۳؎ بعض روایات میں ’’ایام ضُعف و اختلال‘‘ کے الفاظ بھی آتے ہیں لیکن مجھے یہ الہام اِسی طرح یاد ہے۔ جب یہ الہام ہؤا تو بعض مصلحتوں کی بناء پر اِسے شائع نہ کیا گیا لیکن مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی جو ہر وقت اِس ٹوہ میں رہتے تھے کہ کوئی قابلِ اعتراض بات مل جائے۔انہوں نے یہ الہام کسی احمدی سے سُن لیا اور فوراً مضمون لکھا کہ کیا میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ شخص (حضرت مسیح موعود ؑ) حکومت کا باغی ہے ۔اب اِسے یہ الہام بھی ہونے لگا ہے کہ حکومتِ برطانیہ صرف چند سال تک ہی ہے ۔اگر حضرت مسیح موعود ؑ فی الْواقعہ انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اور جماعت احمدیہ انگریزوں کی قائم کردہ ہے تو آپ ؑکو انگریزوں کے خلاف الہامات کیوں ہوئے؟ یہ تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکو انگریزوں نے قائم کیا مگر کیا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ انہی کے خلاف اپنے الہامات شائع کریں اور پھر وہ پورے بھی ہو جائیں۔آپؑ کو الہام ۱۸۹۳ ء میں ہؤا اور ۱۹۰۰ء کے بعد سے انگریزوں کی حکومت میں ضُعف و اختلال شروع ہو گیا۔ملکہ وکٹوریہ فوت ہوئی اور آہستہ آہستہ کینیڈا ،آسٹریلیا اور ہندوستان میں بیداری پیدا ہوئی اور اُنہوں نے آزادی حاصل کر لی۔پس یہ چیز عقلی طورپر محال ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑکو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا جائے۔اگر آپ ؑ کو انگریزوں نے قائم کیا تھا تو چائیے تھا کہ وہ آپ ؑکو ایسی باتیں سکھاتے جو اُنکی تائید کرنے والی ہوتیںکیونکہ جہاں یہ لوگ سیاست میں بڑھے ہوئے ہیں وہاں یہ مذہبی تعصّب میں بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ پرنس آف ویلز کا ایک عورت سے تعلق تھا وہ باقاعدہ سب مجلسوں میں آتی تھی وہ بادشاہ کے گھر میں ٹھہرتی تھی۔دعوتوں اور ناچ گانوں میں شامل ہوتی تھی اور ان محفلوں میں سب وزراء بھی شامل ہوتے تھے لیکن کسی وزیرنے میل جول پر اعتراض نہیں کیا۔مسٹر بالڈونہ جس نے بعد میں اعتراض کیا وہ کئی دفعہ ان ناچ گانوں میں شامل ہوچکا تھا جس میں یہ عورت پرنس آف ویلز کے ساتھ شریک تھی ۔ بدقسمتی سے ایڈورڈہشتم نے ایک دفعہ آرچ بشپ آف کنڑبری کی دعوت کی اور اُس عورت کو بھی بُلالیا۔آرچ بشپ آف کنٹربری ناراض ہو گیا اور اس نے بادشاہ سے فوراً استعفیٰ دلوا دیا۔یہ دلیل ہے اس بات کی کہ انگریز مذہب کے بارہ میں نہایت متعصب واقع ہوئے ہیں اور بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا۔
برطانیہ کے وزیر اعظم مسڑاٹیلی کی بہن سخت کٹر پادری تھی جو ابھی فوت ہوئی ہے۔ ہمارے مشن میں بھی وہ آیا کرتی تھی ۔وہ سائوتھ افریقہ میں بطور مشنری کام کرتی تھی۔پس انگریز خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ان میں اسلام کے خلاف اور عیسائیت کی تائید میں شدید جذبہ پایا جاتا ہے۔میں جب انگلستان گیا تو ایک دہریہ ڈاکٹر سے میرا تبادلہ خیالات ہؤا۔اس سے جب میری گفتگو ہوئی تو اُس نے دو چار فقرات کے بعد ہی رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر حملہ کر دیا۔میں نے کہا آپ تو دہریہ ہیں ۔اُس نے پھر اعتراض کیا تو میں نے کہا آپ تو دہریہ ہیں لیکن جب اُس نے پھر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تو میں نے حضرت مسیح علیہ السلام پر اعتراض کر دیا۔اِس پر وہ کہنے لگامیں مسیح کے متعلق کوئی بات سُننے کیلئے تیار نہیں۔ میں نے کہا اگر تم مسیح کے متعلق کوئی بات سننے کیلئے تیار نہیں تو کیامیں ہی ایسابے غیرت ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق اعتراضات سنتا چلا جائوں اور خاموش رہوں۔غرض برطانیہ کے ایک دہریہ کو بھی عیسائیت سے محبت ہے ۔عیسائیت کی محبت میں برطانیہ اور امریکہ سب سے زیادہ بڑھے ہوئے ہیں اور یہ دونوں مُلک جتنا روپیہ مشنوں پر خرچ کر رہے ہیں ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ آمد اس کا چوتھا حصّہ نہیں ۔ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ آمد چھ ارب روپیہ یعنی ۶۵کروڑ پائونڈ ہے لیکن برطانیہ اور امریکہ دونوں مشنوں پر جو خرچ کر رہے ہیں وہ ایک ارب پائونڈ سالانہ سے زیادہ ہے۔گویا عیسائی مشنوں کے اخراجات ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ آمد سے بھی زیادہ ہیں اور یہ روپیہ برطانیہ اور امریکہ دیتے ہیں۔چھوٹے حکام سے لے کر وائسرائے اور بادشاہ تک گر جا میں جاتے ہیں۔
پھر عجیب بات یہ ہے کہ احراریوں کے خیال کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا انگریزوں نے کیا مگر اسے کہا یہ کہ تم کہو عیسیٰ مر گیا ہے ۔یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم احمق ہیں انگریز بھی ویسے ہی احمق ہیں جو حکومت اربوں روپیہ عیسائیت کی اشاعت کیلئے خرچ کر رہی ہے۔ جس کی بنیاد ہی مسیح کی الُوہیت پر ہے، جس کے پادریوں میں اتنی طاقت ہے کہ انکی مخالفت کی وجہ سے ایک بادشاہ بھی استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے کیا اُس نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کیلئے یہی کہلوانا تھا کہ عیسیٰ مر گیا ہے۔ جس وقت ہم کچھ بھی نہ تھے اُس وقت انگریز اتنا خطرناک حربہ چلا کر پہلے کیا فائدہ اُٹھا سکتا تھا ۔آج تو اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم اتنی قلیل تعداد میںہیں کہ تم خیال کرتے ہو کہ چاہیں تو ہم سب کو ایک رات میں ہلاک کر دیں ۔پھر وہ کون سی طاقت تھی جس سے انگریز اُس وقت فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھاجب ہم موجودہ حالات سے کئی گُنا کمزور تھے۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جب سیالکوٹ میں تقریر ہوئی تو علماء نے آپ پر کفر کے فتوئے لگائے اور ان میں سب سے پیش پیش پِیر جماعت علی صاحب تھے۔ ڈھنڈورے پیٹے گئے اور اشتہاروں اور اعلانوں کے ذریعہ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ جو شخص مرزا صاحب کی تقریر سننے جائے گا اُس کا نکاح ٹُوٹ جائے گا ۔آپ کی تقریر ایک سرائے میں ہوئی تھی۔لوگ باوجود اِن فتوئوں کے تقریر سننے کیلئے گئے۔مولوی اشتہار بانٹتے تھے اور لوگوں کو پکڑ پکڑ کر کہتے تھے کہ دیکھو اس میں کیا لکھا ہے تو لوگ یہ کہہ کر آگے چلے جاتے کہ نکاح کا کیا ہے نکاح تو پھر دوبارہ کسی مولوی کو سوا روپیہ دے کر پڑھا لیں گے لیکن مرزاصاحب شاید دوبارہ یہاں نہ آئیں ۔جب تقریر شروع ہوئی تو بعض لوگوں نے شور مچا دیا۔اُن دنوں سیالکوٹ میں ایک انگریز لیفٹیننٹ سپر نٹنڈنٹ پولیس تھا جس کا نام Belti تھا وہ دیوار پر چڑھ گیا اور اُس نے کہا مسلمانو!تم بہت بے وقوف ہو یہ ہمارے خدا کو مار رہا ہے لیکن مَیں خاموش کھڑا تقریر سُن رہا ہوں اور تمہارے مذہب کو جِلا رہا ہوں اور تم شور مچا رہے ہو ۔مثل مشہور ہے کہ ’’میں نے کیا تیری ماں ماری ہے‘‘ہم نے عیسائیوں کا خدا مار دیا لیکن پھر ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اور یہ لوگ ان کے خدا کو زندہ آسمان پر بٹھائے ہوئے ہیں اور پھر بھی انکے مخالف ہیں مَاشَآئَ اﷲ کتنی عقل کی بات ہے۔
مَیں بتا چُکا ہوں کہ یہ بات عقلی طور پر محال ہے کہ ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ کہا جاسکے۔اب مَیں واقعاتی مثالیں لیتا ہوں ۔اگر احمدیوں کو فی الْواقعہ انگریزوں نے قائم کیا ہوتا تو ضروری تھا کہ پادری لوگ جوواقعہ میں عیسائیت کے ایجنٹ ہیں اور جن کی وجہ سے عیسائیت ہر مُلک میں پھیل رہی ہے وہ ان کے دوست ہوتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہؤا۔سب سے پہلے جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخالفت کی وہ پادری ہی تھے۔امرتسر میں پادری رلیا رام کا ایک مشہور پریس تھا۔حضرت مسیح موعود ؑ جب بھی کوئی مضمون چھپوایا کرتے تو اِ سی پر یس سے چھپوایا کرتے۔ایک دفعہ آپ نے ایک مسودہ چھَپنے کیلئے بھجوایا اور مسودہ کے ساتھ ایک خط بھی بھیج دیا جس میں طباعت کے متعلق ہدایات درج تھیں۔اُس وقت مسودہ میں کوئی دوسرا کاغذ بھیجنا سرکاری جُرم تھا۔ اب تو صرف اتنا قانون ہے کہ وہ چِٹھی بیرنگ ہو جاتی ہے لیکن اُن دنوں یہ بڑا جُرم سمجھا جاتا تھا۔آپ ؑ رلیا رام کے کسٹومر(CUSTUMER)تھے اور دُکاندار اپنے گاہک سے کوئی بُرا سلوک نہیں کرتا لیکن رلیا رام نے ایک انگریز سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات کی مدد سے آپ ؑ پر مقدمہ چلا دیا۔مقدمہ میں خود سپرنٹنڈنٹ پیش ہؤا۔وکیل نے آپؑ سے دریافت کیا کہ آپؑ نے مسودہ میں ایک دوسرا رُقعہ ڈالا ہے یا نہیں؟آپؑ نے کہا ہاں میں نے مسودہ کے ساتھ ایک اَور رُقعہ بھی بھیجا تھا۔آپ ؑ کی اِس سچائی کا مجسٹریٹ پر نہایت گہرا اثر ہؤا۔سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات نے بہتیرا زور لگایا کہ آپ ؑکو کسی طرح سزا ہوجائے لیکن مجسٹریٹ نے کہا نہیں۔ سچ بولنے والے کو سزا نہیں دے سکتا اور اُس نے آپ ؑ کو بر ی کر دیا۔غرض حضرت مسیح موعود ؑ کی سب سے پہلے عیسائی پادریوں نے ہی مخالفت کی ۔
پھر حضرت مسیح موعود ؑ کا مشہور مخالف پادری ٹھاکر داس تھا ۔اس نے اسلام اور احمدیت کے خلاف ’’ریویو براہین احمدیہ‘‘،’’ازالۃ المزار قادیانی‘‘،’’ذنوب محمدیہ‘‘ اور ’’انجیل یا قرآن‘‘ چار کتابیں لکھی ہیں۔پھر پادری ایس پی جیکب (S.P. Jacob) تھا اُس نے آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی جس کا نام ’’مسیح موعود ؑ‘‘ تھا۔ڈاکٹر گرس وولڈ (THE REV. H.D. GRISWOLD, PH.D.)نے ’’مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی ۔پھر مشہور پادریوں فتح مسیح،وارث مسیح،محی الدین، سراج الدین،عبد اللہ آتھم اور ہنری مارٹن کلارک نے آپ کی مخالفت کی۔ عجیب بات یہ ہے کہ عبداللہ آتھم سرکاری ملازم تھا اور ڈپٹی کے عُہدہ پر فائز تھا۔اگر انگریزوں نے ہی حضرت مسیح موعود ؑکو کھڑا کیا تھا تو کیا اُنہوں نے اپنے ایک اعلیٰ افسر سے کہنا تھا کہ وہ آپکی مخالفت کرے پھر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے آپ ؑ پر مقدمہ چلایا۔ امرتسر کے ڈی سی اے ای مارٹینو نے آپ کے نام خلافِ قاعدہ وارنٹ گرفتاری جاری کیا یہ ایجنٹوں والا سلوک تھا جو آپ سے کیا گیا؟پِھر قادیان جانے والے ہر احمدی کا نام نوٹ کیا جاتا تھا۔کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ احمدیت انگریزوں کی قائم کی ہوئی ہے؟ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ ابھی و ہ احمدی نہیں ہوئے تھے کہ وہ ڈی سی جالندھر کو کسی کام کے سلسلہ میں ملنے کیلئے گئے۔اُس نے کہا مجھے یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنے باپ والا عقیدہ نہیں رکھتے۔مرزا صاحب گو احمدی نہیں تھے لیکن ان میں غیرت پائی جاتی تھی ۔انہوں نے ڈی سی کو کہا ۔کون حرام زادہ ہے جس نے مجھے حرامزادہ قرار دیا ہے؟ اُس نے کہا آپ کو حرامزادہ کس نے کہا ہے؟ مرزا صاحب نے جواب دیا جو شخص اپنے باپ کا مخالف ہوتا ہے وہ حرام زادہ ہوتا ہے اِس پر اُس نے معذرت کی کہ مُجھ سے غلطی ہو گئی ہے۔
عیسائیوں میں حضرت مسیح موعود ؑ کی اتنی مخالفت پائی جاتی تھی کہ ایک عیسائی ڈی سی مرزا سلطان احمد صاحب کو اپنے باپ کی جماعت میں شامل نہ ہونے پر مبارک باد دیتا ہے۔ قادیان جانے والوں پر پہرہ اُس وقت تک قائم رہا جب تک آپ ؑ کی وفات سے دوسال قبل پیش نہ آیا۔اُس نے یہ سوال اُٹھا یا کہ یہ پہرہ کیوں ہے؟ جب اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مرزا صاحب نے حکومت کے خلاف کوئی اقدام کیا ہو ۔وہ ایک مذہبی آدمی ہیں پھر یو نہی اِتنے آدمی رستوں پر کیوں بٹھائے گئے ہیںاور اتنا روپیہ کیوں خرچ کیا جارہا ہے؟ چنانچہ اُس کے آنے پر خفیہ پولیس کی ڈائریوں کا سلسلہ ختم ہؤا ۔اگر ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہوتے تو ہنری مارٹن کلارک ہماری مدد کرتالیکن اس نے ہماری مخالفت کی اور اس کی تائید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کی۔مولوی محمد حسین صاحب نے کہا مَیں بھی یہی کہوں گا کہ مرزا صاحب نے مسمّی عبد الحمید کو آپ کے قتل کیلئے بھیجا تھا۔
سر ڈگلس جب گورداسپور آیا تو پادری نے اسے بار بار کہا کہ مرزا غلام احمد (علیہ السلام) ہمارے دین کی ہتک کرتا ہے اِسے کسی نہ کسی طرح ضرور سزا ملنی چاہئے۔مسٹرڈگلس اب بھی زندہ ہے۔اسکی عمر ۸۰سال ہے اور ہمارے لندن مشن میں آتا رہتا ہے۔امرتسر کے ڈسی اے ای مارٹینو نے اُسے لکھا کہ میں نے غلطی سے مرزا غلام حمد صاحب قادیانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے ہیں مَیں اس معاملہ کو آپ پر چھوڑتا ہوں۔آپ چاہیں تو انہیں گرفتار کر لیں اور چاہیں تو نہ کریں۔انگریز آفیسر عموماً اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر لیتے ہیں ۔اُس نے دوسرے افسروں کو بُلا کر مشورہ لیا۔مسلمان افسروں نے کہا مرزا غلام احمد صاحب مذہبی آدمی ہیں اور ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یہ مناسب نہیں کہ ان کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کیا جائے۔اگر اُنہیں بلانا ضروری ہے تو کوئی آدمی بھیج کر اُنہیں بُلا لیا جائے ۔اُس نے یہ مشورہ مان لیا اور پولیس کے ایک افسر جلال الدین کو قادیان بھیجا تاکہ وہ حضرت مسیح موعود ؑ کو بُلا لائے ۔جب آپ عدالت میں پیش ہوئے تو آپ ؑ کو دیکھتے ہی اُس کے دل کی کایا پلٹ گئی اور اُس نے عدالت کے چبوترے پر کُرسی بچھا کر آپؑ کو بٹھایا۔
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو اِس بات کے حریص تھے کہ آپ ؑکو ہتھکڑی لگی ہوئی دیکھیں۔ان کا خیال تھا کہ مقدمہ کرنے والا انگریز ہے فیصلہ کرنے والا انگریز ہے اور میں اہلحدیث کا ایڈووکیٹ بطور گواہ جارہا ہوں اب تو مرزاصاحب کو ضرور پھانسی کی سزا ہوگی۔وہ اُس دن ایک بڑا جُبّہ پہن کر عالمانہ شان میں آئے اور سمجھتے تھے کہ مرزا صاحب کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہوں گی اور میں انہیں دیکھ کر مسکرائوں گا ۔مگر جب عدالت میں آئے تو حضرت مسیح موعود ؑکو بجائے ہتھکڑی لگنے کے اعزاز کے ساتھ مجسٹریٹ کے پاس کُرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔مولوی صاحب آپ کا یہ اعزاز دیکھ کر جل گئے۔(یہ مولوی جو عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے کیلئے عدالت میں آیا تھا اُسے تو انگریزوں کا دُشمن کہا جاتا ہے اور مرزا صاحب جن پر انگریزوں نے قتل کا مقدمہ کھڑا کیا تھا اُنہیں انگریزوں کا دوست قرار دیا جاتا ہے۔کیا کوئی عقل اِسے مان سکتی ہے؟)مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے عدالت میں آتے ہی جھٹ آگے بڑھ کر مجسٹریٹ سے کہا مجھے بھی کُرسی دی جائے۔ ڈپٹی کمشنر حیران ہؤا کہ کیا یہ ملاقات کا کمرہ ہے کہ کُرسی مانگی جا رہی ہے۔اُس نے کہا تم کو ن ہو؟مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کہا میں اہلِ حدیث کا ایڈووکیٹ ہوں اور مشہور مولوی ہوں۔ڈپٹی کمشنر نے کہا تم گواہی دینے آئے ہو ملاقات کرنے نہیں آئے۔پھر کُرسی کا مطالبہ کیسا؟مولوی محمد حسین صاحب نے کہا اگر عدالت میں مجھے کُرسی نہیں مل سکتی تو مرزا صاحب کو کیوں کُرسی دی گئی ہے؟ڈپٹی کمشنر نے کہا ان کا نام خاندانی کُرسی نشینوں میں ہے مولوی صاحب نے کہا مجھے بھی کُرسی ملتی ہے اور میرے باپ کو بھی کُرسی ملتی تھی۔ مَیں جب لاٹ صاحب کو ملنے جاتا ہوں تو وہ مجھے کُرسی دیتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر نے کہا ’’بک بک مت کر پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جایہ سنتے ہی اردلی آیا اور اُس نے مولوی صاحب کو کمرہ سے باہر کر دیا۔مولوی صاحب وہاں سے نکلے تو خیال کیا کہ اگر یہ بات باہر نکل گئی تو بد نامی ہو گی اِس لئے اندر کے معاملہ کی چشم پوشی کے لئے ایک کُرسی پر جو باہر برآمدہ میں پڑی تھی اُس پر بیٹھ گئے۔اردلیوں کو یہ معلوم ہو چُکا تھا کہ کُرسی کی درخواست پر اسے جھاڑ پڑی ہے۔اُنہوں نے خیال کیا ایسا نہ ہو کہ مولوی صاحب کو یہاں بیٹھے دیکھ کر صاحب ہم پر ناراض ہو ۔اُنہوں نے اُس کُرسی پر سے بھی انہیں جھڑک کر اُٹھا دیا۔مولوی صاحب وہاں سے بھی ذلت کے ساتھ اُٹھ کر باہر چلے گئے۔عدالت کے باہر ہزاروں آدمی فیصلہ کا اعلان سُننے کے لئے کھڑے تھے۔اُن میں سے بعض تو یہ دعائیں کر رہے تھے کہ اے خدا! اسلام کے پہلوان کو عیسائیوں کی طرف سے دائر شُدہ مقدمہ میں بَری کر دے اور کچھ لوگ مخافت کی وجہ سے وہاں جمع تھے تا جب حضرت مسیح موعود ؑ سزا پا کر باہر نکلیں تو وہ خوشی کے شادیانے بجائیں ۔اِن لوگوں میں سے بعض تو زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ چادریں بچھا کر اُن پر بیٹھے ہوئے تھے۔ مولوی صاحب نے اپنی سُبکی کو چُھپانے کیلئے مناسب سمجھا کہ کسی چادر پر ہی بیٹھ جائیں تاکہ باہر کے لوگ یہ کہیں کہ انہیں اندر بھی کُرسی ملی ہوگی۔انہوں نے ایک چادر کا کنارہ کھینچا اور اُس پر بیٹھ گئے لیکن اُن کا بیٹھنا ہی تھا کہ چادر کے مالک نے کہا ۔اُٹھ اُٹھ! تُو نے میری چادر پلید کر دی ہے مسلمان ہوکر اسلام کے ایک سپاہی کے خلاف عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے آیا ہے۔الغرض عیسائیوں کی مخالفت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی لیکن پھر بھی ہم تو انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اور یہ ان کے مخالف۔ یہ مربعوں کی درخواستیں دیں اور ملازمتیں حاصل کرنے کیلئے انگریزوں کی خوشامدیں کرتے پِھریں تو پھر بھی انگریزوں کے مخالف ہیں لیکن ہم جن پر انگریزوں نے مقدمات کئے ان کے ایجنٹ ہیں ۔غرض جتنے انگریز افسر آئے وہ سارے کے سارے ہمارے خلاف رہے۔صرف میرے زمانہ میں ایڈوائر پر یہ اثر ہؤا کہ احمدیوں سے جو برتائو کیا جارہا ہے وہ کسی غلط فہمی کی بناء پر ہے۔وہ ہمیشہ ہمیں عزت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا۔میاں عزیز احمد صاحب کو نوکری نہیں ملتی تھی۔بعض لوگوں نے انہیں کہا اپنے بھائی سے کہو وہ ایڈوائر کو کہہ دیں اور آپ کو کوئی نوکری مل جائے۔ایڈوائر ہر مجلس میں یہ کہتا تھا کہ احمدیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہ درست نہیں ۔لیکن ایمرسن کے زمانہ میں پھر سارے حکام ہمارئے خلاف ہو گئے جو جنکنسن تک جاری رہے۔ آخر یہ تو بتائو وہ کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ کہا جاتا ہے احرار کہتے ہیں ہم انگریزوں کے دُشمن ہیںاور احمدی ان کے دوست ہیں کیا یہ ہماری انگریز دوستی کی علامت ہے کہ ۱۹۳۴ء میں کریمینل لاء امنڈمنٹ ایکٹ کے ماتحت مجھے نوٹس دیا گیا کہ احمدی ان دنوں قادیان میں نہ آئیں اور یہ نوٹس مجھے گیارہ بجے رات کو دیا گیا۔اور پھر چار پانچ سَو پولیس افسر دو سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ایک ڈپٹی کمشنر اس لئے قادیان بھیجے گئے تاکہ تلواروں کی نوکوں کے نیچے مولوی عطاء اللہ صاحب بخاری تقر یر کریں۔اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ کیا یہ کہ انگریز احمدیوں کا دوست تھا یا احرار کا؟پِھر جب لاہور میں مسجد شہید گنج کو گرایا گیا اُس وقت گورنر کے اے ڈے سی کے نام برابر یہ فون آتے تھے کہ خبردار! احرار کو تکلیف نہ ہو۔ کیا یہ ہماری انگریز دوستی اور انکی انگریز دُشمنی کی علامت ہے؟
پھر احرار کہتے ہیں کہ کشمیر کے معاملہ میں احمدیوں نے مُلک سے غداری کی ہے چنانچہ لاہور میں ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے سردار آفتاب احمدخاں صاحب جنرل سیکرٹری مسلم کشمیر کانفرنس نے کہا احمدیوں نے غداری کے طور پر کشمیر کے محاذ پر فرقان فورس بھیجی ہے۔یہ لوگ خفیہ خبریں ہندوستان تک پہنچاتے ہیں اور دُشمن کے ہوائی جہاز ان سے فائدہ اُٹھا کر پاکستانی فوج کی پوزیشنوں پر حملہ کرتے ہیں ۔یہ بیان پنجاب کے مشہور اخبارات میں چھَپا۔ہم نے اِس کے خلاف حکومت کے پاس شکایت کی کہ ہم تو مُلک کی خدمت کر رہے ہیں اور اِس خدمت کا ہمیں یہ صلہ ملا ہے کہ ہمیں قوم کا غدار کہا جارہا ہے۔اگر ہم واقعی غدار ہیں تو آپ نے ہمیں دو سال تک محاذ پر کیوں بٹھائے رکھا۔اگر ہم غدار تھے اور سزا کے مستحق تھے تو کیوں قوم نے ہمیں گولیوں کا مستحق نہ بنا دیا؟ اگر اس نے ہمیں نہیں مارا تو یہ اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہم مُلک کے غدار نہیں۔ چنانچہ تحقیقات ہوئی اور حکومت کی طرف سے سردار آفتاب احمد صاحب کو کہا گیا کہ وہ اپنے اس بیان کی تردید کرے، کشمیر منسٹری کی طرف سے ایک مسودہ تیار کیا گیا اور وہ کراچی بھیجا گیا کہ سردار صاحب ان الفاظ میں اپنے بیان کی تردید کریں گے لیکن ہؤا کیا؟ سردار آفتاب احمد صاحب کا بیان تو مُلک کے کئی مشہور اخبارات میں شائع ہؤا لیکن اِسکی تردید راولپنڈی کے ایک قلیلُ الاشاعت اخبار’’ تعمیر مؤرخہ ۸؍جون۱۹۵۰ء میں کی گئی اور وہ بھی اُن الفاظ میں نہیں کی گئی جن الفاظ میں تردید کرنے کے متعلق حکومت کو اطلاع دی گئی تھی جو مسودہ کراچی بھیجا گیا وہ یہ ہے:
’’ گزشتہ دنوں اپنی ایک تقریر میں مَیں نے فرقان بٹالین کے کام اور رویہ کے متعلق نکتہ چینی کی تھی جس کا اقتباس ایک اخبار میں شائع ہو گیا ۔جب میری توجہ اِس جانب دلائی گئی اور میں نے تحقیقات کی تو معلوم ہؤا کہ جن اطلاعات کی بناء پر میں نے اعتراضا ت کئے تھے وہ صحیح نہیں تھیں۔مجھے افسوس ہے کہ یہ غلطی ان رضا کاروں میں سے بعض کی دل شکنی کا موجب ہوئی جنہوں نے جہاد کشمیر میں حصّہ لیا۔
ہم ان تما م اصحاب کی خدمات کے دل سے معترف ہیں جنہوں نے کشمیر کی جنگِ آزادی میں جانی و مالی قربانیاںدیں۔اور ظلم و استبداد کے خلاف ہمارے شانہ بہ شانہ نبرد آزما ہوئے۔
مَیں اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں کہ حقیقتِ حال معلوم ہونے پر میں اپنی غلطی کا اعتراف کروں اور اِس کیلئے اظہار افسوس کروں‘‘
آفتاب احمد خان
۸؍جون ۱۹۵۰ء
لیکن عملی طور پر جن الفاظ میں تردید کی گئی وہ یہ ہیں:-
’’چند یوم ہوئے میں نے فرقان بٹالین کے بارہ میں اظہار خیال کیا تھا لیکن بعد میں معلوم ہؤا کہ اِس بارہ میں میری اطلاع تمام کی تمام درست نہ تھی۔
جہاد کشمیر میں ہر شخص اور ہر گروہ نے بز عم خویش اپنی توفیق ،ہمت اور اعتقادات کے مطابق پوری سرگرمی سے حصّہ لیاہے۔البتہ یہ الگ بات ہے کہ کسی نے اس سلسلہ میں اپنا مخصوص جماعتی اور مذہبی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی ہو۔ہم جہاد کشمیر میں دیانت اور اخلاص سے حصّہ لینے والے سب کے شکر گزار ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ سب کو سچے طور پر خدمتِ اسلام بجالانے کی توفیق اور ہدایت عطا کرے اور ہمیں خاتم النّبیین ؐ حضور سرور کائنات، فخر موجودات کی اطاعت پر پورے طور پر قائم رکھے۔
آفتاب احمد‘‘
(اخبار روزنامۂ تعمیر راولپنڈی مؤرخہ ۸؍جون۱۹۵۰ء زیر عنوان ’’شکریہ)
لیکن جب وہ وقت گزر گیاتو پھر سردار آفتاب احمد خاں نے دوبارہ وہی اعتراض شائع کر دیاحالانکہ اُس وقت انہوں نے مان لیا تھا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔مگر اُن کو جھوٹا ثابت کرنے کے خداتعالیٰ نے اور سامان پیدا کر دئیے۔سر ڈکسن آگئے اور یہ ضرورت پیش آئی کہ والنٹیئر فوجیں پیچھے ہٹالی جائیں۔گورنمنٹ ایسا کرنے کا وعدہ کرچکی تھی چنانچہ فرقان فورس کو بھی ڈس بیند (DISBAND)کر دیا گیا۔وہ فوج جس کے متعلق سردارآفتاب احمد صاحب اور احراری کہتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے ایجنٹ تھے اور اُنکی وجہ سے حکومت پاکستان کو بہت نقصان ہؤا۔اُس کے متعلق پاکستانی فوج کا کمانڈر انچیف یہ اعلان کرتا ہے۔ یعنی:-
’’کشمیر کی جنگِ آزادی میں لڑنے کیلئے جون ۱۹۴۸ء میں ایک والنٹیئر فوج مہیا کرنے کی تمہاری پیشکش شکریہ کے ساتھ منظور کی گئی اور فرقان فورس ظہور میں آئی۔تھوڑے ہی عرصہ کی ٹریننگ کے بعد ۱۹۴۸ء کے موسمِ گرما میں تم عملی طور ر میدانِ جنگ میں جانے کیلئے تیار ہو گئے اور ستمبر ۱۹۴۸ء میں تمہیں مالف (MALF)کمان کے ماتحت کر دیا گیا۔
تمہاری بٹالین تمام کی تمام والنٹیئروں پر مشتمل تھی جو ہر قسم کے پیشوں سے آئے تھے۔تم میں نوجوان کسان بھی تھے،تم میں طالب علم بھی تھے،استاد بھی تھے،ہنر مند لوگ بھی تھے اور یہ سارے کے سارے مُلکی خدمت کی روح سے بھرے ہوئے تھے۔ تم نے اپنی خدمت کے بدلہ میں کوئی عوضانہ اور شُہرت نہ چاہی۔تمہارا کام نہایت شریفانہ تھا۔تم سب نے اپنے اِس جذبہ سے کام سیکھا ،ہم سب کو متأثر کیا اور جس جوش کے ساتھ تم آئے تھے اُس نے بھی ہمیں بہت متأثر کیا۔ہر نئی فوج کیلئے جو مشکلات ہوتی ہیں تم نے جلد سے جلد ان پر قابو پالیا۔
کشمیر میں بہت ہی اہم علاقہ تمہارے سپرد کیا گیا تھا اور تم نے بہت جلد ثابت کر دیا کہ تم پر جو اعتبار کیا گیا تھا وہ درست تھا اور تم نے نہایت بہادری کے ساتھ دُشمن کے خلاف اپنے فرض کو ادا کیا۔ تم پر زمین سے بھی دُشمن حملہ کر رہا تھااور آسمان سے بھی لیکن دو سال کے عرصہ میں تم نے ایک انچ زمین بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دی ۔
تمہارا شریفانہ رویہ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اور تمہارا نظم اعلیٰ درجہ کا تھا ۔چونکہ اب تمہارا کام ختم ہو چُکا ہے اور بٹالین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو چلی جائے میں چاہتا ہوں کہ اِس موقع پر تم میں سے ہر ایک کا اُس خدمت کی وجہ سے جو اُس نے پاکستان کی کی۔شکریہ ادا کروں۔خدا حافظ۔‘‘
یہ وہ اعلان ہے جو پاکستانی افواج کے کمانڈر اِنچیف نے کیا اور احراری اب تک دُہرا رہے ہیں کہ احمدیوںنے کشمیر کی جنگِ آزادی میں مُلک سے غداری کی۔اور وہ سردار آفتاب احمد جس نے حکومت کے حکم کے ماتحت اپنے بیان کی تردید کی تھی اب پھر وہی اعتراض کرتے ہیں ۔حکومت ہماری خدمات سے کس طرح متأثر تھی اِس کا اندازہ ایک اور اعلیٰ افسر کے بیان سے بھی لگ سکتا ہے وہ کہتا ہے کہ فرقان فورس پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے لیکن جہاں تک میرا علم ہے میں یہ کہہ سکتا ہیں کہ فرقان فورس نے نہایت ہی شاندار خدمات سرا انجام دی ہیں اور ان خدمات کے عوض میں ہم سے کسی چیز کی بھی خواہش نہیں کی۔پھر اس سے بھی ایک اعلیٰ افسر لکھتا ہے کہ کوئی شخص کمانڈر اِنچیف کے خلاف بات نہیں کر سکتا ۔وہ اِس بارہ میں زیادہ تجربہ کار ہیں لیکن مَیں ذاتی علم کی بناء پر بھی کہہ سکتا ہوں کہ سوائے تعریف کے میں نے فرقان فورس کے خلاف کچھ نہیں سُنا ۔مجھے افسوس ہے کہ سردار آفتاب احمد نے جو بیان شائع کیا ہے وہ نہایت ہی غیرشریفانہ ہے۔
یہ تو اعلیٰ افسروں اور اُس ڈیپارٹمنٹ کی رائے ہے جس کے ماتحت فرقان فورس کام کر رہی تھی ۔پھر کمانڈر اِنچیف کا بیان ہے جس کو صرف غیر جانبدار اخباروں نے شائع کیا ہے ہمارے دُشمنوں نے شائع نہیں کیا۔اب ظاہر ہے کہ کشمیر کے ساتھ پاکستان کے عوام کو خاصی دلچسپی ہے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص نے کشمیر کے معاملہ میں مخالف رویہ اختیار کیا ہے تو لوگ اس کے خلاف بھٹک اُٹھیں گے اِسی وجہ سے ہماری مخالفت کی جا تی ہے اور یہ سب کام کرنے کے بعد بھی یہ لوگ دیانتدار کہلاتے ہیں۔ہمارے جلسہ پر سینکڑوں غیراحمدی احباب بھی آتے ہیں میں اُنہیں کہوں گا کہ اِس قدر افتراء کرنے والے مولوی اگر حکومت میں برسرِاقتدار آگئے تو تم دنیا کو کیا منہ دکھائو گے؟اتنے بے ایمان لوگ اگر تمہارئے لیڈر بن گئے تو تمہاری خیر نہیں۔
اسی طرح سے احرار نے عوام کو بھڑکا نے کیلئے یہ جھوٹا الزام تراشا کہ چوہدری ظفراللہ خاں صاحب نے بائونڈری کمیشن کے موقع پر مُلک سے غداری کی۔چنانچہ ’’آزاد‘‘ ۹؍دسمبر ۱۹۴۹ء لکھتا ہے :
’’ اگلے دن سکھوں نے اپنا کیس پیش کیا کہ ننکانہ ہماری زیارت گاہ ہے اُسے کُھلا شہر قرار دیا جائے۔ہمارے ظفر اللہ صاحب بھی آن موجود ہوئے کہ آج میں پھر پیش ہونا چاہتا ہوں مجھے بھی اجازت دی جائے۔آج میں نے مسلمانوں کا کیس پیش نہیں کرنا بلکہ جماعت احمدیہ کا کیس سکھوں کے مقابلہ میں پیش کرنا ہے تا کہ قادیان بھی کُھلا شہر قرار دیا جائے۔ستیلواڈ نے اعتراض کیا کہ اِس نام کی کوئی اقلّیت مُلک میںموجود نہیں۔ظفر اللہ نے کہا ہم اقلیت ہیں ہم تمام مسلمانوں سے علیحدہ ہیں۔‘‘ ۴؎
یہ آزاد اخبار کا بیان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو شریعت کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں۔ ختمِ نبوت کے محافظ کہلاتے ہیں جن کا لیڈر یہ کہا کرتا ہے کہ میں آل رسول ہوں اِس جھوٹ کے بعد اِنہیں پتہ لگا کہ احمدیوں کی طرف سے میمورنڈم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے پیش ہی نہیں کیا بلکہ شیخ بشیر احمد صاحب نے پیش کیا تھا۔اِس پر سِول اینڈ ملٹری گزٹ میں انہوں نے یہ نوٹ شائع کر دیا کہ:-
’’ شیخ بشیر احمد نے جو لاہور کی جماعت احمدیہ کے امیر ہیں بائونڈری کمیشن کے سامنے اپنی جماعت کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضلع گورداسپور جو اُس وقت تک ۳؍مارچ۱۹۴۷ء کی ابتدائی سکیم کے مطابق پاکستان کا حصّہ تھاضرور اِس سے علیحدہ کر دیا جائے اور قادیانیوں کی ایک علیحدہ اور آزاد ریاست بنا دی جائے۔ اس نے اپنے دعویٰ کی بنیاد اس بات پر رکھی تھی کہ چونکہ قادیانی مسلمانوں کا حصّہ نہیں ہیں اس لئے ان کو علیحدہ وحدت تسلیم کیا جائے‘‘ ۵؎
ظاہرہے کہ اِس چیز کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ جن لوگوں کو واقعات کا صحیح علم نہیں وہ کہیں گے آخر مولوی بالکل جھوٹ تو نہیں بولتے کچھ نہ کچھ تو اس نے ضرور کہا ہو گا۔مگر بعد میں انہیں پتہ لگا کہ یہ بات غلط ثابت نہیں ہو سکتی اس پر انہوں نے دوسری طرف رُخ بدلا اور کہا:
’’جب تین مارچ ۱۹۴۷ء کے بیان میں ضلع گورداسپور کے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ ہو چُکا تھا اور جب وہ مسلم اکثریت کا ضلع تسلیم کر لیا گیا تھا اور جب قادیان بھی اِس ضلع میں شامل تھا اور اِسی طرح قادیان کو پاکستان میں شامل ہونا تھا تو پھر آپ کو کیا ضروت محسوس ہوئی تھی کہ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت سے علیحدہ اپنا محضر پیش کرتے اور آپ کے اِس جواب کے کیا معنے کہ ہم نے محضر اِس لئے پیش کیا تھا کہ قادیان پاکستان میں شامل ہو جائے جبکہ اس کا پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ ایک عرصہ پہلے ہی ہو چُکا تھا اور جب اِس فیصلہ پر ہندوستان کو بھی اعتراض نہ تھا۔ہم الفضل اور ان کے وکیل شیخ بشیر احمد کو چیلنج کرتے ہیں کہ اِس محضر کو جو آپ نے مسلمانوں سے جُدا جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا تھا من و عن شائع کرو ۔تاکہ ملتِ اسلامیہ کو معلوم ہو سکے کہ تم نے ہم سے جُدا کیا بات چیت کی تھی اور ۳؍مارچ کے واضح بیان کے بعد گورداسپور ہم سے کیوں چِھن گیا؟‘‘ ۶؎
یہ وہ الزامات ہیں جو عام مسلمانوں کو بھڑکانے کیلئے احمدیوں پر لگائے گئے اور یہ صاف بات ہے کہ اگر عوام کو یہ پتہ لگ جائے کہ احمدیوں نے ضلع گورداسپور کو جُدا کرنے کیلئے کوشش کی اور جو خون ریزی ہوئی ہے وہ محض احمدیوں کی وجہ سے ہوئی ہے تو لازماً ان کے اندر جوش پیدا ہو گا۔چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے متعلق جب یہ بات کہی گئی کہ انہوں نے گورداسپور کو پاکستان سے علیحدہ کرانے کی کوشش کی تو چونکہ وہ حکومت کے رُکن ہیں اِس لئے حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اِسکی تردید کرے چنانچہ حکومت نے اعلان شائع کیا کہ:
’’یہ کہا گیا ہے کہ جولائی ۱۹۴۹ء میں بائونڈری کمیشن کے رُو برو آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب (موجودہ وزیر خارجہ پاکستان) نے مسلم لیگ کی طرف سے کیس پیش کرتے ہوئے اِس بات پر اِصرار کیا کہ انہیں جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی بحث کرنے کی اجازت دی جائے۔اور پھر بحث کے دوران میں انہوں نے کمیشن سے کہا کہ ’’قادیان‘‘ کو کھلا شہر قرار دیا جائے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے دوران بحث میں اِس بات پر زور دیا کہ احمدیہ جماعت عام مسلمانوں سے ایک علیحدہ امتیازی حیثیت کی مالک ہے پھر اِن مفروضہ بیانات کی بناء پر یہ بحث کی جاتی ہے کہ آنر یبل چوہدری صاحب کی اس بحث نے کہ جماعت احمدیہ ایک علیحدہ فرقہ ہے گورداسپور کے مسلمانوں کی عام آبادی کے تناسب کو کم کر دیا اور کمیشن نے اِس جماعت کی علیحدہ حیثیت کی وجہ سے گورداسپور کے مسلم اکثریت والے ضلع کو مسلم اقلّیت کا ضلع قرار دے کر پاکستان کی حدود سے نکال دیا۔ایوارڈ کی رُو سے اِسے پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھا۔
حکومت کو یہ اعتراضات سُن کر سخت تعجب اور حیرت ہوئی ہے کیونکہ اِسے پہلے ہی یہ علم تھا کہ اِن اعتراضات میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ اصل واقعات کے بالکل خلاف ہیں لیکن اِس کے باوجود حکومت نے اِن اعتراضات کی پوری پوری تحقیقات کی جس نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ الزامات اور اعتراضات کُلیۃً بے بنیاد،خلافِ واقعہ اور جھوٹے ہیں۔
آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ہر گز جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش نہیں ہوئے نہ آپ نے اُنکی طرف سے کسی کیس کی وکالت کی اور نہ انہوں نے کبھی بحث کے دَوران میں وہ باتیں کہیں جو ان کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔‘‘
جب گورنمنٹ کی طرف سے یہ اعلان ہؤا تو احراریوں کو لگے پِسّو پڑ نے کہ جو حکومت سُنیوں کی تھی جب وہ بھی کہہ رہی ہے کہ مولوی جھوٹے ہیں تو کیا کریں ۔چنانچہ انہوں نے اپنا رُخ بدلا۔اب دیکھیئے کیا ہی نرم الفاظ میں اعلان کیا گیا ہے۔آزاد لکھتا ہے :
’’ بر سیبلِ تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سرظفراللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سرظفر اللہ کی ذات‘‘ ۷؎
اب ذرا اِس کو پہلے بیان کے ساتھ ملا کر دیکھو۔ کیا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا نام ضمناً آتا رہا ہے؟پہلے کہا تھا’’ہمارے ظفر اللہ بھی آن موجود ہوئے کہ آج میں پھر پیش ہونا چاہتا ہوں‘‘ مگر احرار کے نزدیک یہ واقعات کا ذکر نہیں صرف خطابت اور تقریر کی روانی کا جوش ہے۔پھر کہا تھا۔’’آج میں نے مسلمانوں کا کیس پیش نہیں کرنا بلکہ جماعت احمدیہ کا کیس سکھوں کے مقابلہ میں پیش کرنا ہے‘‘ یہ بھی جوش خطابت ہے اور چوہدری محمدظفر اللہ خاں کا ذکر ضمناً آ رہا ہے۔دراصل مخاطب جماعت احمدیہ ہے۔گویا ظفر اللہ اصطلاح ہے اور مراد اِس سے جماعت احمدیہ ہے۔یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو انہوں نے بولا۔پہلے کہا چوہدری ظفر اللہ خاں نے یوں کہا پھر وہی مولوی کہتے ہیں ظفر اللہ کا کون کم بخت نام لیتا ہے وہ تو یوں ہی پاس سے گزرے تھے اور ان کا نام آگیا۔اس کے بعد آزاد نے مندرجہ ذیل مضمون لکھا جو مَیں سارا سُناتا ہوں۔پہلے میں نے تھوڑا سا سُنایا تھا۔
’’حکومت نے اِس بیان سے عوام کو جہلِ مرکّب میں ڈالنے اورغلط فہمی میں مُبتلا کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ انتہائی مذموم ہے (اس لئے کہ مولوی صاحبان کے جھوٹ کو ظاہر کیا گیا ہے اور ایسا کرنا سخت غلطی ہے) اِس بیان کا مقصد محض قادیانی جماعت پر عائد شُدہ الزامات کو سر ظفر اللہ پر منطبق کر کے عوام کے ذہنوں سے اُس اثر اور دلوں سے اُن تأثرات کو دُور کرنا ہے جو کہ مرزائی جماعت کے متعلق اُن کے دلوں میں موجود ہیں… بر سبیلِ تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سر ظفر اللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سر ظفر اللہ کی ذات ‘‘
(حالانکہ دیکھ لو اِس میں سارا الزام چوہدری ظفر اللہ خاں پر ہی لگایا گیا ہے جماعت کا تو یہاں نام ہی نہیں)
پھر لکھا ہے:
’’ہمارا الزام سر ظفر اللہ کی ذات پر نہیں بلکہ قادیانی جماعت پر ہے (گویا جہاں ہم نے ظفر اللہ کہا ہے وہاں قادیانی جماعت سمجھو) وہ جماعت کہ سر ظفر اللہ جس کا نفسِ ناطقہ ہے(یعنی ہم نے خلاصتہً جماعت احمدیہ نہیں لکھا ظفر اللہ لکھ دیا ہے)اوروہ الزام یہ نہیں کہ گورداسپور کیوں گیا(یہاں گورداسپور کا سوال ہی نہیں) بلکہ وہ الزام یہ ہے کہ جب مسلم لیگ تمام مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی تو مرزائیوں نے مسلم لیگ کے نمائندے سے الگ اپنا وکیل کیوں پیش کیا اور جب انتخابات کے ذریعہ یہ فیصلہ ہو چُکا تھا کہ حقِ نمائندگی صرف مسلم لیگ کو ہی حاصل ہے تو مرزائی وکیل کو بائونڈری کمیشن کے سامنے یہ کہنے کا کیا حق تھا کہ ’’قادیان بَیْنَ الْاَقوامی یونٹ بن چُکا ہے اور اسے حق ہے کہ ہندوستان میں رہے یا پاکستان میں ‘‘اور یہ سب کچھ اُس وقت کیا گیا جب سر ظفراللہ مسلم لیگ کے نمائندہ کی حیثیت سے موجود تھے اور جب تما م مسلمان اُنہیں اپنا نمائندہ تسلیم کرتے تھے۔ اُنہوں نے بشیر احمد کو جُدا پیش ہونے سے کیوں نہ روکااور کیوں قادیانیوں کی جُدا پیشی کے خلاف احتجاج نہ کیا ۔اصل بات،اصل مسئلہ،اصل ملزم،اصل مجرم قادیانی جماعت ہے کہ جس نے جُدا نمائندہ اور الگ محضرپیش کیا اور مسلم لیگ کو نمائندہ تسلیم کرنے سے عملاً انکار کردیا۔حکومت نے سر ظفر اللہ کے متعلق تحقیقات تو فرمائی اور اِس کی تردید بھی کی تاکہ کسی طرح قادیانی جماعت کا چہرہ دُھل سکے کیا حکومتِ پاکستان اِس بات کی تحقیقات کو بھی تیار ہے کہ قادیانی جماعت نے وزارتی کمیشن سے کیا مطالبہ کیا تھا اور بائونڈری کمیشن کے سامنے کیا بحث کی تھی؟‘‘ ۸؎
اِس بیان میں مندرجہ ذیل دعوے کئے گئے ہیں اوّل حکومت نے اس بیان سے عوام کو جہلِ مرکّب میں ڈالنے اور غلط فہمی میں مُبتلا کرنے کی جو ناکام کوشش کی ہے وہ انتہائی مذموم ہے۔اِس بیان کا مقصد محض قادیانی جماعت پر عائد شُدہ الزامات کو سر ظفر اللہ پر منطبق کر کے عوام کے ذہنوں سے اُس اثر او ردلوں سے اُن تاثرات کو دور کرنا ہے جو کہ مرزائی جماعت کے متعلق ان کے دلوں میں موجود ہیں‘‘۔
آخر میںلکھا ہے ’’برسبیلِ تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سر ظفر اللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سر ظفر اللہ کی ذات ‘‘
مَیں نے اصل مضمون پڑھ دیا ہے اِس میں جماعت کا کہیں ذکر نہیں صرف چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا ذکر ہے ۔ اب مَیں یہ بتاتا ہوں کہ اِس بیان میں جتنی باتیں بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب جھوٹی ہیں کیونکہ یہ طبقہ جو احرار سے تعلق رکھتا ہے ایک فیصدی بھی سچ نہیں بولتا ۔ پہلی بات تو مَیں نے بتا دی ہے کہ یہ جھوٹ ہے کہ الزام چوہدری ظفراللہ خان صاحب پر تھا جماعت پر نہیں تھا۔ اب مَیں دوسری بات لیتا ہوں۔
دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ جب مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی تو مرزائیوں نے مسلم لیگ کے نمائندہ سے الگ اپنا وکیل کیوں پیش کیا؟ میرا جواب یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے الگ میمورنڈم پیش کرنے کی وجہ احرار اور اُن کے ہم خیال تھے اگر وہ نہ ہوتے تو نہ ہم کو لیگ سے علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کی ضرورت تھی اور نہ مسلم لیگ کو ہم سے علیحدہ میمورنڈم پیش کرانے کی ضرورت تھی ۔ واقعہ یہ ہے کہ جب بائونڈری کمیشن مقرر ہؤا تو طبعاً ہر جماعت نے خدمتِ قوم کے خیال سے اپنے اپنے میمورنڈم تیار کئے اور یہ خیال کیا گیا کہ جتنے زیادہ میمورنڈم دیں گے اُتنا ہی کمیشن پر زیادہ اثر ہو گا۔ زمیندار بھی کہیں گے کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں، تاجر بھی کہیں گے کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اِسی طرح دوسرے لوگ بھی۔ ہندوئوں کی طرف سے بھی بیسیوں انجمنوں نے میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ کیا ۔ اِسی خیال کے ماتحت جماعت احمدیہ نے بھی الگ میمورنڈم تیار کیا اور غالباً گورداسپور مسلم لیگ کی طرف سے بھی ایک میمورنڈم تیار کیا گیا اور وہ لوگ جنہوں نے یہ میمورنڈم تیار کیا تھا ابھی زندہ موجود ہیں اِن میں غلام فرید صاحب ایم ایل اے، شیخ کبیر الدین صاحب، شیخ شریف حسین صاحب وکیل جو احراریوں کے لیڈر تھے، مولوی محبوب عالم صاحب جو اِس وقت اوکاڑہ میں احراریوں کے لیڈر بنے ہوئے ہیں اور مرزا عبد الحق صاحب وکیل۔ کیا یہ لوگ مسلم لیگ کو مسلمانوں کا واحد نمائندہ خیال نہیں کرتے تھے؟ اِسی طرح امرتسر کی ایک انجمن نے بھی علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ کیا اور بعض انجمنوں نے جالندھر اور ہوشیار پور سے بھی یہی ارادہ کیا کہ علیحدہ میمورنڈم پیش کیا جائے ۔حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک کے اندر ایک خاص جوش تھا کہ کسی طرح پاکستان کی طرف سے زیادہ سے زیادہ میمورنڈم بنائیں اور یہ کہیں کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اِس کا حکومت پر اثر ہوگا۔ گویا صرف قادیانیوں نے ہی علیحدہ میمورنڈم پیش نہیں کیا تھا مسلم لیگ کی بھی ایک شاخ نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا اور جنہوں نے علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ نہیں کیا وہ وہی تھے جو کہتے تھے کہ ہم پاکستان کی ’’پ‘‘ بھی نہیں بننے دیں گے اِس لئے نہیں کہ وہ مسلمانوں کے نمائندہ تھے بلکہ اس لئے کہ وہ پاکستان کا وجود ہی گوارہ نہیں کرتے تھے ورنہ خود لیگیوں نے بھی علیحدہ میمورنڈم تیار کئے تھے تا کہ لیگ کو مضبوطی حاصل ہو۔
جب میمورنڈم پیش کرنے کا وقت قریب آیا اور چوہدری صاحب مسلم لیگ کی طرف سے نمائندہ مقرر ہوئے تو انہوں نے جماعت کو اطلاع دی کہ فیصلہ یہ ہؤا ہے کہ دونوں فریق کی طرف سے صرف کانگرس اور لیگ کے میمورنڈم پیش ہوں کیونکہ دو ہی نکتہ نگاہ ہیں اور یہ دونوں انجمنیں دو مخالف خیالات کی نمائندگی کرتی ہیں اِس پر ہر جماعت نے اپنے میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا( یاد رہے کہ احمدیہ میمورنڈم تیار کر کے لیگ کو بھجوا دیا گیا تھاتا کہ کوئی اعتراض ہو تو وہ بتا دیں مگر انہوں نے اِس پر کوئی اعتراض نہیں کیا)۔ اِس کے بعد کانگرس نے کسی مصلحت کے ماتحت اپنے وقت میں سے کچھ وقت سکھوں کو دیا اوراِسی طرح احمدیوںکو بھی۔ شاید ان کا یہ مطلب ہو کہ سکھوں کے مطالبات تو یہی ہیں جو کانگرس کے ہیں لیکن یہ اُجڈ قوم ہے۔ کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ جب تک سردار جی نہ بولیں گے ہم راضی نہیں ہوں گے اور جب سکھ بولے تو شاید اچھوتوں میں بھی یہ خیال پیدا نہ ہوجائے اس لئے ان کو بھی وقت دو۔ ( پہلے فیصلہ کے مطابق وقت صرف لیگ اور کانگرس میں تقسیم تھا اگر لیگ یا کانگرس اجازت نہ دیتی تو کوئی اَور میمورنڈم پیش نہ ہوسکتا) جب اِس فیصلہ کا علم مسلم لیگ کو ہؤا تو اِس خیال سے کہ ہندوئوں کی طرف سے بعض دوسری قوموں کے لیڈر بھی پیش ہوں گے شاید اس کا بھی کوئی اثر پڑ جائے لیگ نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی ایک دو علیحدہ میمورنڈم پیش کر دیں چنانچہ لیگ کی طرف سے ہمیں اور عیسائیوںکو ہدایت ملی کہ علیحدہ علیحدہ میمورنڈم پیش کرو ورنہ ہم پہلے ایسا کرنے کا ارادہ چھوڑ چکے تھے۔
کوئی کہہ سکتا ہے کہ صرف احمدیوںکو ہی علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کی اجازت کیوں دی گئی گورداسپور کی مسلم لیگ کو اجازت کیوں نہ دی گئی،اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم لیگ گورداسپور بہر حال مسلم لیگ کہلاتی تھی اور کوئی عقلمند نہیں کہہ سکتا کہ وہ مرکزی مسلم لیگ کے ساتھ متفق نہیں ہو گی لیکن احراریوں نے یہ پروپیگنڈا کیا ہؤا تھا کہ احمدی مسلمان نہیں اور شُبہ تھا کہ ہندو سکھ ریڈ کلف کو یہ نہ کہہ دیں کہ مسلمان ،احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اِس لئے اِن کی آبادی کو نکال کر دیکھا جائے کہ آیا گورداسپور میں مسلم اکثریت ہے یا غیرمسلم اکثریت۔ ضلع گورداسپور میں ساٹھ ہزار احمدی تھے اور انہیں ملا کر مسلمان %۱۴۔۵۱ تھے جس کے یہ معنی تھے کہ اگر احمدیوں کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ کر دیا جاتا تو مسلمان %۶۹۔۴۵ رہ جاتے اور غیر مسلم زیادہ ہو جاتے تھے ۔ پس احراریوں نے جو یہ شرارت کی کہ احمدیوںکو باقی مسلمانوں سے علیحدہ سمجھا جائے اِس کی وجہ سے مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ ہم علیحدہ میمورنڈم پیش کریں ورنہ ہندو کہہ دیں گے کہ یہ مسلما ن نہیں اور ثبوت میں احراریوں کا فتویٰ پیش کر دیں گے ۔ گویا احمدی اِس لئے الگ پیش نہیں ہوئے کہ وہ اپنے آپ کو الگ سمجھتے تھے بلکہ ان کے الگ پیش ہونے کی ضرورت اس لئے سمجھی گئی کہ احراریوں نے یہ اعلان کیا ہؤا تھا کہ احمدی مسلمان نہیں اگر ان سے علیحدہ پاکستان کی حمایت میں میمورنڈم پیش نہ کرایا جاتا تو ضلع گورداسپور میں مسلمان بڑی نمایاں اقلّیت ہوجاتے تھے۔ بعد میں سر تیجا سنگھ کی جرح نے ثابت کر دیا کہ احرار اور سکھوں اور ہندوئوںکی سکیم کا کس طرح احمدیہ میمورنڈم نے خاتمہ کر دیا۔ سر تیجا سنگھ نے احمدی میمورنڈم کے پیش ہونے پر سٹ پٹا کر کہا کہ ’’ احمدیہ موومنٹ کا اسلام میں مؤقف کیا ہے‘‘ یعنی آپ لوگ تو مسلمانوں میں ہیں ہی نہیں آپ ان کی طرف سے کس طرح بول رہے ہیں؟ شیخ بشیر احمد صاحب نے جو احمدیوں کی طرف سے میمورنڈم پیش کر رہے تھے جواب دیا کہ ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم اوّل سے آخر تک مسلمان ہیں ہم اسلام کا ایک حصّہ ہیں اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوئوں اور سکھوںکا یہ منصوبہ تھا کہ وہ کہیں احمدی مسلمان نہیں اِنہیں نکال کر معلوم کرو کہ آیا ضلع گورداسپور میں اقلّیت میں ہیں یا اکثریت میں؟ لیگ اسے بھانپ گئی اور اِس نے پاکستان کی حمایت میں احمدیوں سے علیحدہ محضر پیش کروادیا۔
دیکھو! یہ احراری جھوٹے ہیں پہلے انہوں نے کہا میمورنڈم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے پیش کیا تھا اور اس لئے علیحدہ میمورنڈم پیش کیا گیا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میمورنڈم شیخ بشیر احمد صاحب نے پیش کیا اور سر تیجا سنگھ کے اس سوال کے جواب میں کہ’’ احمدیوں کا مؤقف کیا ہے‘‘ شیخ بشیر احمد صاحب نے کہا ہم شروع سے آخر تک مسلمان ہیں اور اپنے آپ کو اسلام کا ایک حصّہ سمجھتے ہیں مگر احرار جھوٹ بول کر کہتے ہیں کہ ہم نے بائونڈری کمیشن کے سامنے یہ کہا کہ ہم مسلمان نہیں ہم مسلمانوں سے الگ ہیں کسی شاعر کا شعر ہے
ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
یہ لوگ کتنا بھی جھوٹ بولیں انہیںکوئی کچھ نہیںکہتا لیکن بدنام ہم ہیں ہم کہتے ہیںکہ ہم مسلمانوں کا ایک حصّہ ہیں لیکن وہ کہتے ہیں اِنہوںنے کہا تھا کہ ہم مسلمان نہیں ’’ہے‘‘ کو ’’نہیں‘‘ کہہ دینا کیا چھوٹی سی بات ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ احمدیوںکا الگ میمورنڈم پیش کرنا احرار کی اس شرارت کو ختم کرنے کے لئے تھا کہ احمدی مسلمان نہیں کیونکہ اگر اس کا جواب احمدیہ میمورنڈم میں دوسرے مسلمانوںکی حمایت کر کے نہ دیا جاتا تو گورداسپورمیں مسلمانوں کی اکثریت کو ہندو اور سکھ اعداد و شمار سے غلط ثابت کر سکتے تھے۔
یاد رہے کہ بٹالہ تحصیل میں مسلمانوں کی تعداد تین لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب تھی اور احمدی ووٹ پچپن ہزار ووٹ میں سے پانچ ہزار سے اوپر تھا اور تحصیل گورداسپور، شکرگڑھ اور پٹھان کوٹ میں دوہزار سے زائد تھا پس ووٹوں کے لحاظ سے احمدیوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر بنتی ہے مگر چونکہ احمدیوں میں تعلیم زیادہ تھی اِس لئے تعلیم کی وجہ سے ان کے ووٹ ساٹھ ہزار میں سے اتنے بن گئے ۔ صرف قادیان میں احمدی بارہ ہزار سے زائد تھے اور اِردگرد کے پانچ چھ دیہات میں مزید پانچ ہزار تھے گویا صرف قادیان اور اس کے اِردگر دکے دو دومیل کہ حلقہ میں احمدی سترہ ہزار تھے۔ %۵۔۱۴ سارے ضلع کی آبادی کے ۔ اگر قادیان کے علاوہ کوئی احمدی نہ ہوتا تب بھی احمدیوں کے نکالنے سے مسلمان اقلّیت میں آ جاتے تھے۔ پس احمدیوں سے علیحدہ محضر پیش کروانا مسلمانوں کے مفاد کے لئے نہایت ضروری تھا اور لیگ نے جو فیصلہ کیا وہ بالکل درست تھا۔
دوسری بات یہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ فیصلہ کے مطابق وقت صرف مسلم لیگ اور کانگرس کو ملنا تھا اگر مسلم لیگ ہمیں اجازت نہ دیتی تو احمدی میمورنڈم پیش نہ ہو سکتا تھا۔ خان افتخار حسین خان صاحب ممدوٹ، خواجہ عبد الرحیم صاحب سابق کمشنرچوہدری اکبر علی صاحب اور دوسرے مسلم لیگی لیڈر اِس بات کے گواہ ہیں کہ وقت صرف مسلم لیگ کو دیا گیا تھا ہمیں براہ راست وقت نہیں ملا ۔ مسلم لیگ نے اپنے وقت میں سے ہمیں کچھ وقت دیا ورنہ ہم الگ محضر پیش ہی نہیں کر سکتے تھے۔ پھر کمیشن کے دونوں مسلمان جج جسٹس محمد منیر اور سابق مسٹر جسٹس حا ل ِہزایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب گورنر سندھ بھی اِس کے گواہ ہیں ان لوگوںکو معلوم ہے کہ اِس میمورنڈم کے پیش کرنے میں برابر ان مسلمان ججوں سے مشورہ کیا جاتا رہا کیونکہ اِن ججوں کے متعلق فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ قوم کے نمائندے ہیں۔ مَیں خود مسٹرجسٹس منیر کی کوٹھی پر گیا ہز ایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب گورنر سندھ بھی وہاں آ گئے تھے اِسی طرح چوہدری نذیر احمد صاحب ممبر پبلک سروس کمیشن بھی اتفاقاً آ گئے میرے ساتھ شیخ بشیر احمد صاحب اور درد صاحب بھی تھے۔ ہم نے اس میمورنڈم پر قانونی طور پر ڈسکس کی اور اِس کی کاپیاں ہم نے ان میں سے اکثر کو الگ بھی دے دی تھیں۔ پس یہ سوال نہیں کہ ہم نے مسلم لیگ سے الگ محضر کیوں پیش کیا بلکہ سوال یہ ہے کہ الگ محضر پیش کرایا گیا اور اِس کی وجہ مَیں بتا چُکا ہوں کہ احرار کی یہ شرارت تھی کہ احمدی مسلمان نہیں اور اِس کا انہوں نے پروپیگنڈا کیا ہؤا تھا۔ اگر ہم علیحدہ پیش نہ ہوتے تو ریڈ کلف کو اِدھر اُدھر کے بہانے بنانے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ وہ احراریوںکا فتویٰ پیش کر کے کہہ سکتا تھا کہ چونکہ احمدی مسلمان نہیں اِس لئے ان کو نکال دیا جائے تو مسلم آبادی ۴۵ فیصد ہی رہ جاتی ہے اس لئے یہ ضلع ہندوستان میں شامل ہونا چاہئے۔ اِس میمورنڈم کو پیش کرنے کا فائدہ یہ ہؤا کہ ریڈ کلف کو بہانے تلاش کرنے پڑے جس کی وجہ سے ہم آج تک انگریزوں کو بدنام کر رہے ہیں۔ اُس وقت مسلم لیگ احراریوںکی شرارت کو بھانپ گئی اور اِس نے دھوکا نہیں کھایا۔ اب انگریزوں کا اس فیصلہ کو درست ثابت کرنے کے سِوا کوئی وجہِ جواز نہیں چنانچہ جب کوئی انگریز ہمارے پاس آتا ہے وہ شرمندہ ہو جاتا ہے۔ ان لوگوںکے ہندوستان سے تعلقات میں ہندوستان کو پاکستان کے مقابلہ میں جو زک پہنچی اس کا اثر زائل کرنے کے لیے یہ شرارتیں کروائی جارہی ہیں اور یہ پروپیگنڈا کروایا جارہا ہے کہ ضلع گورداسپور کا پاکستان سے الگ ہونا احمدیوں کی وجہ سے تھا حالانکہ ہم نے میمورنڈم صرف اِس لئے پیش کیا تھا کہ احراری چونکہ ہمیں مسلمانوں سے خارج کہتے ہیں اِس لئے تم ہمیں مسلم سمجھو یا غیر مسلم ہم بہر حال پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور ہم مسلم لیگ کے ساتھ ہیں۔
تیسرا ’’آزاد‘‘ نے اپنے ۲؍ جون کے اخبار میں حکومت کے اعلان پر اعتراض کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ مرزائی وکیل کو بائونڈری کمیشن کے سامنے یہ کہنے کا کیا حق تھا کہ قادیانی بَیْنَ الْاقوامی یونٹ بن چُکا ہے اور ا سے حق ہے کہ ہندوستان میں رہے یا پاکستان میں۔ یہ فقرہ جس خلاصہ سے لیا گیا ہے وہ بے شک الفضل میں چھپاہے لیکن یہ خلاصہ کسی اَور اخبار یا رپورٹر نے لکھا ہے جو قطعاً غلط ہے ۔ یہ ہمارے میمورنڈم میں ہرگز موجود نہیں بلکہ اِس عبارت کا میمورنڈم سے دُور کا بھی تعلق نہیں۔ اگر یہ عبارت ہمارے میمورنڈم میں احرار دکھا دیں تو مَیں اُنہیں دو ہزار روپیہ انعام دوں گا اور اِس کافیصلہ مَیں بائونڈری کمیشن کے ایک ہز ایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب گورنر سندھ پر چھوڑتا ہوں جو احمدی نہیں اگر وہ ہمارا میمورنڈم پڑھ کر کہہ دیں کہ ہمارے میمورنڈم میں یہ فقرہ موجود ہے تو مَیں بِلاچون چراں دو ہزار کا چیک میمورنڈم کے ساتھ ہز ایکسی لینسی کو بھجوا دوں گا۔ اگر یہ فقرہ ہمارے میمورنڈم میں ہو یا اس کے ہم معنی کوئی فقرہ ہمارے میمورنڈم میں ہو تو وہ ہمارے خلاف فیصلہ کرا کے اور وہ فقرہ نقل کر کے ہمیں بھجوا دیں اور دو ہزار کا چیک احرار کو دے دیں۔
(اس موقع پر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے گئے تو حضور نے نعروں کے متعلق ہدایات دیتے ہونے فرمایا کہ)
مَیں نے آخری دو تین سالوں میں دوستوں کو ہدایات دی تھیںکہ نعرہ نہ لگایا جائے لیکن اب چونکہ دُشمن کہتا ہے کہ ہم نے احمدیوںکو مار ڈالا ہے۔ اِس لئے اب وہ وقت گزر گیا ہے اب نعرہ لگانے کی ممانعت نہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صلح حدیبیہ کے اگلے سال حج کے لئے مکّہ تشریف لے گئے تو معاہدہ یہ تھا کہ مکّہ والے اس سال جبلِ ابو القیس پر چلے جائیں گے اور مکّہ کی گلیاں خالی کر دیں گے تا کہ مسلمان اطمینان سے خانہ کعبہ کا طواف کر سکیں۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس سال مدینہ میں ملیریا کا زور تھا اور اس کی وجہ سے صحابہ ؓ سے چلا نہیں جاتا تھا، ان کے پائوں لڑکھڑاتے تھے اور وہ کُبڑے ہو کر چلتے تھے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابیؓ کو دیکھا کہ جب وہ جبلِ ابو القیس کے سامنے آتے تو اکڑ کر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے دریافت کیا کہ جب تم اس پہاڑی کے سامنے آتے ہو تو اتنا اکڑ کر کیوں چلتے ہو؟ اس پر صحابی ؓ نے عرض کیا کہ یَارَسُوْلُ اﷲ!مَیں اُنہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اگرچہ ہمیں بخار ہے لیکن تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے ہم میں اب بھی طاقت پائی جاتی ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تکبر خدا تعالیٰ کو بہت ہی نا پسند ہے لیکن اِس شخص کی حرکت خدا تعالیٰ کو عرش پر بھی پسند آئی ہے۔۹؎ اِسی طرح مَیں کہتا ہوں کہ دُشمن کو اپنی زندگی جتانے کے لئے نعرہ لگانا جائزہے۔ اب جو نعرہ لگا تھا وہ تو کچھ اچھا لگا تھا لیکن اس سے پہلے کا نعرہ بخار والوںکا نعرہ تھا حالانکہ جن کی نقل میں یہ نعرہ لگایا گیا ہے وہ بخار میں بھی اکڑ کر چلتے تھے دُشمن کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں ماردیا ہے لیکن تم نے انہیں بتانا ہے کہ ہم مرنے والے نہیں۔
اب مَیں میمورنڈم کے وہ پیرا گراف پڑھ کر سُناتا ہوں جن کی وجہ سے احمدیوں پر اعتراض کیا گیاہے۔ ہمارے میمورنڈم میں جماعت احمدیہ کے انٹرنیشنل ہونے کا ذکر صفحہ ۱۰،۱۱ پر آتا ہے اور اس کا ہیڈنگ نمبر (۱) ہے۔ اس پیرا کا مضمون یہ ہے کہ :-
’’سکھ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں جگہ پر ہمارے گردوارے واقع ہیں اور اس اہمیت کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ خیال نہ کیا جائے کہ ان علاقوں میں مسلمان زیادہ ہیں بلکہ اس اہمیت کی وجہ سے کہ ان میں گردوارے ہیں وہ علاقے ہمیں دیئے جائیں۔‘‘
ہم نے میمورنڈم میں ثابت کیاہے کہ سکھوں کے نزدیک مذہبی طور پر جتنی اہمیت ان جگہوںکو حاصل ہے اس سے بہت زیادہ اہمیت قادیان کو حاصل ہے سکھوں نے یہ متبرک مقامات خود مقرر کئے ہیں لیکن اس چیز کا کہ قادیان ہمارا مذہبی مرکزہے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں ذکر ہے پس احمدیہ مرکز اس عقیدہ کی رو سے الہامی مرکز ہے ۔ چنانچہ اس میں لکھا ہے:
‏ The Holy Founder of the Ahmadiyya Movement laid it down that the Headquarters of the Ahmadiyya Community should always be at Qadian. It is not possible, therefore, for the community or its present Head to transfer the Headquarters of the Community from Qadian to any other place.
’’یعنی بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خود اپنی تحریرات میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جماعت کا مرکز ہمیشہ قادیان رہے ۔ اس لئے جماعت یا جماعت کے موجودہ امام کے لئے ممکن نہیں کہ وہ جماعت کے مرکزکو قادیان کے سِوا کسی اَورجگہ تبدیل کرے۔
پھر میمورنڈم میں بتایا گیا تھا کہ سکھ تو ایک مقامی جماعت ہیں اِس کی دوسرے ممالک میں کوئی شاخیں قائم نہیں لیکن جماعت احمدیہ میں مختلف ممالک کے لوگ شامل ہیں اور اگر مذہب کو کوئی اہمیت دی جاسکتی ہے تو وہ اہمیت احمدیوں کو دینی چاہئے چنانچہ ہمارے میمورنڈم میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ :-
‏ People from all parts of the world come here for religious and spiritual training. True, that Hindus number about 300 millions and sikhs about 5 millions but there are no conversions among them from outside India. Branches of the Ahmadiyya Community are established in the U.S.A., Canada, Argentine, England, France, Spain, Italy, Syria, Palestine, Iran, Afghanistan, China, Ceylon; Mauritious, Burma, Malaya, Indonesia, Kenya, Tanganyika, Uganda, Abyssinia, the Sudan, Nigeria, Gold Coast, and Sierraleone. In some of the foreign countries there are hundreds of local branches. In the U.S.A. thousands of American citizens owe allegiance to the Ahmadiyya Creed. Even at the present time there is a British ex. Lieutenant and a Syrian barriester staying at Qadian for religious instruction. A German ex-Military officer is also expected in Qadian shortly to get training as a Muslim Missionary. Similarly, converts from the U.S.A. as well as the Sudan and Iran intend to come to Qadian for religious instruction. Before this, students from Indonesia, Afghanistan, China and parts of Africa have visited our Headquarters. Hence the position of Qadian among religious centers is very high. If shrines are included in 'other factors' Qadian
‏undoubtedly takes the first place.
یعنی دنیا کے تمام حصوں سے یہاں مذ ہبی ٹریننگ حاصل کرنے کے لئے لوگ آتے ہیں یہ بات سچ ہے کہ ہندوئوں کی آبادی تیس کروڑ کی ہے اور سکھ قریباً پچاس لاکھ ہیں لیکن ان کے مذاہب میں بیرونی ممالک کے لوگ شامل نہیں ہوئے اس کے برعکس جماعت احمدیہ کی شاخیں یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ ، کینیڈا، ارجنٹائن، انگلینڈ، فرانس، سپین، اٹلی، شام، فلسطین ، ایران ، افغانستان، چین، سیلون، ماریشس، برما، ملایا، انڈونیشیا، کینیا، ٹانگانیگا، یوگنڈا، ایبے سینیا، سوڈان، نائیجیریا، گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں قائم ہیں۔ بعض ممالک میں سینکڑوں مقامی شاخیں پائی جاتی ہیں۔ یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں ہزاروں لوگ اِس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس وقت بھی ایک انگریز سابق لیفٹیننٹ اور سیریا کا ایک بیرسٹر قادیان آئے ہوئے ہیں اور مذہبی ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں اور پھر جرمن کا ایک سابق فوجی افسر بھی بہت جلد قادیان آنے والا ہے ( یہ مسٹر کنزے ہیں جو تقسیمِ مُلک سے پہلے قادیان نہ پہنچ سکے تھے یہ اب پاکستان کے قیام کے بعد یہاں پہنچے ہیں)اِسی طرح U.S.A، ایران اور سوڈان سے بھی بعض لوگ یہاں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں( قیامِ پاکستان کے بعد U.S.Aسے مسٹر رشید احمد یہاں آ چکے ہیں اور سوڈان سے مسٹر عباس ابراہیم آئے ہیں۔ ایران سے ابھی تک کوئی نہیں آیا )اِس سے قبل افغانستان، انڈونیشیا، افریقہ اور چین سے بھی بعض لوگ یہاں آ رہے ہیں اس لئے مذہبی مراکز میں سے جو پوزیشن قادیان کو حاصل ہے وہ نہایت اعلیٰ ہے۔ تقسیمِ مُلک کی شرائط میں یہ چیز بھی شامل تھی کہ بعض اَور امور کی بناء پر مُلک کے کسی حصّہ کو پاکستان یا ہندوستان میں شامل کیا جاسکتا ہے) اگر دیگر امور میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی علاقہ کو بعض مذہبی وجوہ کی بناء پر بھی ہندوستان یا پاکستان میں شامل کیا جا سکتا ہے تو سب سے اہم جگہ قادیان کو پیش کرنی پڑے گی۔
پھر بتایا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ کی کُل سات سَو پنتالیس انجمنیں ہیں جس میںسے %۷۴ مغربی پنجاب اور پاکستان میں شامل ہیں اس لئے قادیان کو مغربی پنجاب یعنی پاکستان سے علیحدہ کرنا جماعت احمدیہ کے مستقبل کے لئے سخت نقصان دِہ ہو گا۔
اب دیکھو میمورنڈم میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں مگر احراری کہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا نہیں چاہتے تھے۔یہ کتنا بڑا جھوٹ اور افتراء ہے۔ ہر شخص کے دماغ میں کوئی نقص نہ ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس میں نہ تو کسی الگ یونٹ ہونے کا ذکر ہے اور نہ یہ سوال ہے کہ قادیان کو خود یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ آیا وہ ہندوستان میں شامل ہو یا پاکستان میں بلکہ محض یہ ذکر ہے کہ قادیان ایک اہم مذہبی مرکز ہے اور اس کے پاکستان کے ساتھ ایسے تعلقات ہیں کہ اس کو اس سے علیحدہ کرنا نہایت نقصان دِہ ہو گا ۔
پِھر اگر یہ کہا جائے کہ ہم اس میمورنڈم کو نہیں لیتے الفضل میں جو خلاصہ شائع ہؤا ہے ہم اسے لیتے ہیں اُس میں یہ لکھا ہے کہ
’’ قادیان بَیْنَ الْاَقْوامی یونٹ بن چُکا ہے اور اس یونٹ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں‘‘۔
مَیں یہ کہتا ہوں کہ اگر اس غلط خلاصہ کو بھی لیا جائے جو الفضل ۳۱؍دسمبر ۱۹۴۹ء میں شائع ہو چُکا ہے تب بھی آزاد کا جھوٹ ثابت ہے۔ آزاد لکھتا ہے کہ احمدی نمائندہ کو کیا حق تھا کہ وہ کہتا ہے قادیان بَیْنَ الْاَقْوامی یونٹ بن چُکا ہے اور اسے حق ہے کہ ہندوستان میں رہے یا پاکستان میں ــــــ‘‘۔۱۰؎
یہ سراسر جھوٹا اور دھوکا دینے والا فقرہ ہے۔ الفضل کے شائع کردہ غلط خلاصہ میں بھی یہ امر بیان نہیں ۔آزاد کے نقل کردہ فقرہ کا یہ مفہوم ہے کہ قادیان عام دنیا کا ایک یونٹ ہے۔ دوم اُسے حق حاصل ہے کہ خواہ ہندوستان میں رہے یا پاکستان میں۔ اور یہ کہ وہ اس حق کو کس طرح استعمال کرنا چاہتا ہے اس طرف سے خاموشی ہے ۔مگر الفضل کا فقرہ یہ ہے کہ
ـ’’قادیان اسلامی دنیا کی ایک بَیْنَ الْاَقْوامی تحریک بن چُکا ہے اِس لئے اِس یونٹ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا وہ ہند یونین میں آنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں ۔سو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم پاکستان میں آنا چاہتے ہیں۔۱۱؎
دیکھو اِن احرار کے علماء نے کس صداقت سے کام لیا ہے ’’قادیان اسلامی دنیا کا ایک بَیْنَ الْاَقْوامی یونٹ بن گیاہے‘‘ کے فقرہ کو نقل کرتے ہوئے ’’اسلامی‘‘ کا لفظ بیچ میں سے اُڑا دیا ہے۔تاکہ لوگ سمجھیں کہ احمدی اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ قرار دے رہے تھے اور آخری فقرہ کہ ’’ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستان میں آناچاہتے ہیں‘‘ اِس کو بھی اُڑا دیا ہے تا کہ آزاد کے خریدار یہ سمجھیں کہ احمدیوں نے اپنا فیصلہ کرنے کا حق تو بتایا لیکن یہ بات نہ کہی کہ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں اوراِس طرح مسلمانوں کے معاملہ کو کمزورکر دیا لَعْنَتُ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
غرض اس اقتباس سے واضح ہے کہ احرار کا الزام خالص دھوکا بازی اور سراسر جھوٹ ہے۔الفضل کے شائع کردہ غلط خلاصہ میں بھی اِس کا ذکر نہیں۔احرار نے یہ الزام لگایا ہے کہ احمدیوں نے اپنے میمورنڈم میں کہا کہ قادیان بَیْنَ الْاَقْوامی یونٹ بن چُکاہے اور اِس یونٹ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں۔ حالانکہ خلاصہ میں یہ تھا کہ ’’قادیان اسلامی دنیا کی ایک بَیْنَ الْاَقْوامی یونٹ بن چُکا ہے اس لئے اس یونٹ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا وہ ہندیونین میں آنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں ‘‘۔احراریوں نے ‘‘اسلامی دنیا ــ‘‘ کے الفاظ حذف کر دئیے اور کہہ دیا ’’قادیان بَیْنَ الْاَقْوامی یونٹ بن چُکا ہے ۔‘‘پھر اِس کا اگلا فقرہ کہ ’’سو ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستان میں آنا چاہتے ہیں ‘‘اِس کو بھی حذف کر دیا ۔یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے اور پھر بھی یہ مولوی سچے کے سچے ہیں۔ اگر ایک عیسائی یہ اعتراض کر دے کہ قرآن کریم میں لکھا ہے ۔ ۔۱۲؎ تو یہ لوگ شور مچادیں گے کہ اگلا فقرہ کیوں نہیں پڑھا آگے صاف لکھاہے ۔۱۳؎ اِسی طرح یہاں اگلا فقرہ یہ تھا ’’سو ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستان میں آنا چاہتے ہیں ‘‘مگر اِس کو اُڑا دیا ۔ اور پہلے فقرہ سے ’’اسلامی دنیا‘‘ کے الفاظ حذف کر کے یہ کہہ دیا کہ گویا ہم نے کہا ہے ’’قادیان بَیْنَ الْاَقْوامی یونٹ بن چُکا ہے اور اس یونٹ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ پاکستان میںرہنا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں‘‘ اور ان کی تفاصیل سے ظاہر ہے کہ ’’آزاد ‘‘ کے معنے جھوٹ اور تعصّب سے آزاد نہیں بلکہ اس کے معنے ’’ما درپدر آزاد ‘‘ کے ہیں۔ اتنا بڑا جھوٹ ان مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے بولا جاتا ہے جنہوں نے سچ کی خاطر کسی زمانہ میں اپنی جانیں دیں۔ یہ اُن مسلمانوں کے ایمان کو برباد کرنے کے لئے جھوٹ بولا جاتا رہا جن کے ماں باپ نے سچائی کو قائم کرنے کے لئے عظیم الشان قربانیاں دیں۔پھر یہ جھوٹ کو شِیر مادر سمجھنے والے لوگ تو صادقوں کے سردار محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوست ہیں اور احمدی سچ بولنے والے احرار کے جھوٹوں اور افتراؤں کا شکار محمد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم کے دُشمن ہیں لَعْنَت اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
مَیں پھر دو ہزار روپیہ انعام مقر ر کرتا ہوںاور ہزایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب کو جو اِس کمشن کے ممبر تھے جس کی نسبت یہ جھگڑا ہے جج ماننے کے لئے تیار ہوں کہ کیا الفضل کے شائع شدہ غلط خلاصہ میں ’’اسلامی ‘‘ کا لفظ ہے یا نہیں؟ اور کیا اِس فقرہ کے آخر میں پاکستان میں شامل رہنے کا مطالبہ کیا ہے یا نہیں؟ اگر یہ دونوںباتیں غلط ہوںتو اُن کے فیصلہ کر دینے پر مَیں دو ہزار روپیہ فوراً احرار کو دے دوںگا۔لیکن اگر ہزایکسی لینسی شیخ دین محمد بوجہ اپنے موجودہ عُہدے کے یہ سمجھیں کہ اُن کے لئے یہ ثالثی مناسب یا جائز نہیں تو اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ اُوپر کے دونوں اُمور کے متعلق پانچ پانچ آدمی جو جج رہے ہوں یا دس سالہ پریکٹس والے وکیل یا بیرسٹر ہوں مرکزی احرار کی طرف سے اور صدرانجمن احمد یہ کی طرف سے مقرر ہو جائیںاور پھر اُن کے نام کے قرعے ڈال کر پانچ آدمی منتخب کرنے چاہئیں۔یہ قرعہ سے نکلے ہوئے پانچ آدمی مؤکّد بعذاب قسم کھا کر جو فیصلہ کریں مجھے وہ منظور ہو گا ۔اور اگر یہ فیصلہ میرے خلاف ہو ٔا تو مَیں دودوہزار کی رقم ہر امر کے بارہ میں جس کا فیصلہ میرے دعویٰ کے خلاف ہو احرار کو ادا کرونگا ۔ہز ایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب گورنر سندھ کا نام صرف اِس لئے تجویز کیا ہے کہ وہ باؤنڈری کمیشنکے ممبر تھے اور اِس وقت جج کا کام نہیں کر رہے لیکن اگر ان کے لئے یہ کام جائز نہ ہو یا جائز ہو مگر وہ پسند نہ کریں تو پھر دوسری تدبیر اختیار کرنے پر بھی مجھے اعتراض نہ ہوگا۔
اب مَیں احمدیہ جماعت کی اُن خدمات کا ذکر کرتا ہوں جو اس نے پاکستان کی تائید میںاُس وقت کیں ۔باؤنڈری کمیشن کا کام ایک نادر چیز ہے۔ہندوؤں کو بھی اس کے قواعد معلوم نہیں تھے اور نہ تازہ لٹریچر دستیاب ہو سکتا تھا۔مَیںنے فوراً سینکڑوں روپے خرچ کر کے امریکہ اور برطانیہ سے تازہ لٹریچر منگوایا پھر ڈاکٹر سپیٹ کو جو لندن میں سکول آف اکنامکس کے پروفیسر تھے اور جغرافیہ کے ماہر تھے یہاں منگوایا اور کئی ہزار روپیہ خرچ کر کے اُن کی مدد سے نقشے تیارکر کے کمیشن کے سامنے پیش کئے اور پھر اس نے لندن میں جا کر تائید کی ۔مَیں حیران ہوں کہ پاکستان کے ذمہ دارافسر ہماری ان خدمات کو بُھول گئے ہیں اور ان لوگوں کو منہ لگا رہے ہیں جو تقسیمِ مُلک سے پہلے یہ کہتے تھے کہ ہم پاکستان کی ’’ پ‘‘ بھی نہیں بننے دیںگے۔
احرار نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر احمدیوں کی بات سچی ہے تو میمورنڈم پیش کریں سو یہ میمورنڈم ہے(حضور نے میمورنڈم اپنے ہاتھ میںپکڑا ہؤا تھا)جس کا سردست مَیں خلاصہ سُناتا ہوں۔اس میںلکھا ہے:
‏ ''There is no doubt that at the press conference the Viceroy said that this district Muslims had a majority only of 0.8% and that therefore parts of Gurdaspur would necessarily have non-Muslim majorities. We submit ,however, that the Viceroy is not correctly informed on the point.In the 1941 census report, The Muslims population of the district of Gurdaspur is 51.14% of the total. This
‏gives it an excess of 2.8% and not 0.8% over the rest.
‏ 2. We must also remember that if the Muslim majority in the district of Gurdaspur is slight it is because one of its tehsils viz.Pathankot,has a Muslim population of only 38.88%.If we look at the other three tehsils,we find that the tehsil Batala has 55.07% Muslims,tehsil Gurdaspur 52.15% and tehsil shakargarh 53.14%: Census Report ,1941".According to these figures ,it is evident that even if we bracket Batala tehsil christians with Hindus and Sikhs ,Muslims in tehsil Batala have an excess of 10.14%, in tehsil Gurdaspur an excess of 4.30%,in tehsil Shakargarh an excess of 6.28%. If the number of Christians is added to the number of Muslims then those who wish to live in Pakistan in tehsil Batala have a majority of 60.53%,the percentage of those wishing to go into Hindustan is reduced to 39.47. In tehsil Gurdaspur ,the collective Muslim-Christian population acquires a majority of 59.24%and the rest become reduced to a minority of 40.76%. In the tehsil Shakargarh, muslim-Christian population rises to 54.84% and the rest drop to 45.16%. If we keep these figures in view and leave Pathankot out of consideration for the present, it becomes obvious that there can be no question of separating any part of the remainder of Gurdaspur and joining it on to Eastern Punjab.Taking the three tehsils together the Muslim-Christian popualtion has a majority of 532. It follows that according to the Vicory's declaration none of the three tehsils (Batala, Gurdaspur and Shakargarh)can be separated from western Punjab and joined on the Eastern Punjab. It would be
‏utterly unjust and unconstitutional to do so.
پھر صفحہ نمبر۱۰پر لکھا ہے:
‏ In our opinion several 'other factors' can be cited in support of our
‏contention that Qadian should remain a part of Western Punjab.
یعنی بہت سے اور دلائل بھی پیش کئے جا سکتے ہیں جو ثابت کر سکتے ہیںکہ ہمارا یہ دعویٰ درست ہے کہ قادیان کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے۔
پھر لکھتا ہے :
‏ To separate Qadian from Western Punjab, therefore, would be
‏highly prejudicial for its future.
‏ If Qadian is joined on to the Eastern Punjab it would mean one of two things: either Qadian will continue to cultivate and Promote urdu among Ahmadies and thus to deprive its youth from obtaining employment under the Government and its enterprising members progressing in trade and comerce;or,Qadian will drop the use of Urdu which is the language in wich the religious literature of Ahmadies has been written and thus commit suicide in terms of its religious
‏future.
‏ The only college of the Ahmadiyya community is situated in Qadian. If Qadian is joined on to Eastern Punjab, it would mean that majority of students belonging to one Dominion will have to Study in a College Situated in another Dominion. It will be very injurious and might prove positively detrimental to the interests of the students and
‏of the institution.
یعنی اگر قادیان کو مشرقی پنجاب کے ساتھ ملایا جائے تو دو باتوں میں سے ایک ضروری ہو گی۔ اِس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہندوستان والے گور مکھی اور دیگر زبانیں چلائیں گے اور ہم اُردو میں تعلیم دیں گے اِس طرح ہم اپنے نوجوانوں کو سرکاری ملازمتوں سے محروم کر دیں گے۔ اِسی طرح احمدی تاجر اور پیشہ ور اپنی تجارتوں اور پیشوں کو فروغ نہیں دیں سکیں گے۔اور یا قادیان اُردو کا استعمال چھوڑ دے اور اُردو وہ زبان ہے جس میں جماعت کا سارا مذہبی لٹریچر شائع ہؤا ہے اور یہ اِس کی خود کشی کے مترادف ہوگا۔
جماعت احمدیہ کا صرف ایک ہی کالج ہے اور وہ قادیان میں واقع ہے اگر قادیان کو مشرقی پنجاب کے ساتھ ملا دیا جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ طلباء کی اکثریت جو ایک نَو آبادی سے تعلق رکھتی ہو گی اسے ایک ایسے کالج میں تعلیم حاصل کرنی پڑے گی جو دوسری نَو آبادی میں ہو گا۔ یعنی جماعت کا اکثر حصّہ پاکستان میں ہے اس لئے تعلیم حاصل کرنے والے بھی زیادہ ترپاکستان والے ہی ہوں گے اور انہیں ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔
پھر لکھا ہے:-
‏ About 90%of the property of the community is situated in western Punjab and Pakistan.If Qadian is joined on to Eastern Punjab the financial resources of the Ahmadiyya Centre will very materially
‏suffer.
یعنی جماعت کی ۹۰فیصدی جائیداد مغربی پنجاب اور پاکستان میں واقع ہے۔ اگر قادیان کو مشرقی پنجاب کے ساتھ ملایا گیا تو جماعت کو اِس جائیداد سے فائدہ اُٹھانے سے محروم کر دیا جائے گا۔
پھر لکھا ہے:
‏ It is being said in certain official circles that keeping in view the economic life of this District and its means of communication, Gurdaspur should be placed in Eastern Punjab. This view,however,is not correct,for,to overlook the basic factor of majority Popoulation is beyond the scope and authority of the boundary commission.This commission has not been appointed as a guardian over backword populations to decide what are their proper needs: it has been appointed to demarcate the boundary line by ascertaining contiguous majority areas of Muslims and non-Muslims. If this results in any inconvenience to the people of the district it is for the majority community in Gurdaspur District to decide whether they are prepared to put up with the inconvenience involved in having its arteries of communications passing through foreign territory. In case they are prepared to put up with it,no one else has any right to object,or to deny their right to be placed where they desire to be placed. Besides, this is by no means an insurmountable difficulty,as has been demonstrated in a number of countries where it has been successfully
‏overcome.
یعنی تم یہ دلائل پیش کرتے ہو کہ گورداسپور کو جانے والی ریل امرتسر کے علاقہ میں سے گزرے گی جو ہندوستانی علاقہ ہوگا۔ یہ تکلیف بے شک ہمیں ہو گی لیکن ہم اس کے باوجود پاکستان میں جانا چاہتے ہیں۔جب ضلع کے باشندے ان تکلیفوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیںتو تم کون ہو جو ہمیں پاکستان سے الگ کرکے ہندوستان سے ملا دو۔
پھر آگے لکھا ہے کہ اگر قادیان پاکستان سے الگ کر دیا گیا تو پاکستان کا ڈیفنس کمزور ہو جائے گا۔
چنانچہ لکھا ہے:
‏ Of course both Hindustan and Pakistan are proclaiming their intention to live like peaceful neighbours; but there can be no guarantee against future complications between the two. The possibility of war between them should not ,therefore ,be ignored or overlooked. If Gurdaspur District, or any portion of it, be apportioned to Eastern Punjab, then, in the case of hostilities between the two,Amritsar would be a big centre of military activity;and the tip of its territory being about 18 miles from the capital of Western Punjab ,it would be admirably placed for exerting pressure against Western Punjab.For the proper defence of Lahore from this point of view and of Western Punjab of which this town is the capital,it is necessary that Gurdaspur District should be placed in Western Punjab. Should Gurdaspur belong to Western Punjab,portions of Eastern Punjab lying this side of the Beas would not be left free to attack Western Punjab any time they liked. But the situation would change radically from the military point of view if Eastern Punjab should also hold Gurdaspur District in addition to Amristar.In that case not only would Eastern Punjab be able to maintain strong garrisons almost at the throat of Lahore, and therefore of the whole of Western Punjab,but also have elbow room for them in the adjoining territory of Gurdaspur District;and this would constitute a military threat to Western Punjab which would be well able to paralyse its entire defensive system.Therefore, Gurdaspur being a Muslim majority district (and this majority is desirous of being included inWestern Punjab) Western Punjab has a right to insist upon getting this territory which is essential for its
‏defensive system against an attack from the east.
پھر اَور بعض دلائل ہم نے دئیے ہیں۔مثلاًلکھا ہے:
‏ Among the Gurdaspur Muslims,the majority are jats,of which tribe the greater portion lives in the Western districts like Sialkot, Sheikhupura,Lyallpur and Lahore. Gurdaspur Muslims therefore should not be cut off from areas inhabited by the larger body of the tribe to which these Muslims belong. Jats are no doubt to be found in the Ambala Division as well, but,for the greater part,they are Hindu jats; and they have,moreover, no connection with the jats of the Gurdaspur district. Thus,to cut off Gurdaspur from Western Punjab would raise insurmountable difficulties in the social life of the
‏Gurdaspur Muslims.
پھر بتایا گیا کہ گورداسپور میں جو زبان بولی جاتی ہے وہ لاہور اور مغربی پنجاب کے ضلعوں سے بہ نسبت جالندھر،ہوشیار پور کے زیادہ ملتی ہے ۔ چنانچہ لکھاہے:
‏ The dialect spoken in Gurdaspur closely remembers the one spoken in Lahore, Sialkot and adjoining parts of Sheikhupura and Gujranwala districts; while it does not at all resemble the one spoken in the eastern districts. As the larger number of people using this dialect would be living in Western punjab, the Gurdaspur Muslims
‏too should be apportioned to the same side.
یہ وہ میمورنڈم ہے جس کے مِن وعن شائع کرنے کے لئے ــ’’آزاد‘‘ نے مطالبہ کیا تھا اور جس کی وجہ سے احمدیوں پر غداری کا الزام لگایا جاتاہے اس جھوٹے پراپیگنڈے کی وجہ سے کہ احمدی پاکستان کے دُشمن ہیںاور رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں۔ اوکاڑہ اور راولپنڈی میں دو احمدی شہید کئے گئے ہیںاور ایک جگہ احمدیوں کا منہ کالا کر کے اُن کو سڑکوں پر پِھرایا گیا ہے۔ اور مختلف جگہوں سے شرارت کی خبریں آرہی ہیں مگر حکومت خاموش ہے بلکہ مسلم لیگ نے تو احرار سے سمجھوتہ یا سمجھوتہ کے مشابہہ کوئی گفت و شنید کی ہے ۔ مسلم لیگ سے متعلق بعض اخبار برابر یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ احمدی جناح لیگ والوں سے مل گئے ہیں تا عوام میں اپنے ساتھ ہمدردی پیدا کریں حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے ۔ ہم نے اِس دفعہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم مرکز سے الیکشنوں میں دخل نہیں دیں گے بلکہ انتخابی حلقہ کے احمدی باہم مشورہ سے فیصلہ کریں گے ۔ظاہر ہے کہ اس اصل کے فیصلہ کے بعد کوئی سمجھوتہ کسی انجمن سے نہیں ہو سکتا۔ذاتی طور پر جو لوگ مُجھ سے ملے ہیں احمدی یا غیر احمدی مَیں نے اُن کو یہی مشورہ دیاہے کہ یہ تفرقہ کا وقت نہیں تم کو چاہئے کہ لیگ کی کوئی غلطی ہے تو اندر رہ کر اصلاح کرو اِس وقت الگ الگ پارٹیاں نہ بناؤ مگر میرے اِس رویہ کا بدلہ یہ ہے کہ جو پنجاب کے بعض لیگی لیڈر یا لیگی راہنما دے رہے ہیں۔ انسان کی تو طینت یہ ہے کہ وہ محسن اور خیر خواہ کی قدر کرتا ہے مگر پنجاب کے یہ کارکن شاید اپنے آپ کو انسانیت سے بھی بالا سمجھتے ہیں۔ مَیں دوستوں کو اس کے باوجود اصولی مشورہ دوں گا تفصیلی نہیں دے سکتاکہ فیصلہ کے خلاف ہے، کہ احرار اور احرار کے دوست جو چاہیںکریں،انہیں اپنے فرض کو نہیں بولنا چاہئے ۔انہیں چاہئے کہ پاکستان کے فائدہ کے لئے فساد اور اختلاف کو کم کرنے کی ہر جگہ کوشش کریں اور دلوں کو ملانے کی کوشش کریں اور ہر ایک کو نصیحت کریں کہ یہ وقت اختلاف کا نہیں ۔پاکستان کے مفاد کو پارٹی بازی کے مفاد سے مقدم رکھو اور مل کر مُلک کی پھنسی ہو ئی کشتی نکالنے کی کوشش کرو۔
مَیں جناح لیگ والوںسے کہتا ہوں کہ آپ کے اخبارات نے زیادہ شرافت سے کام لیا ہے اور اس وجہ سے یقینامیرا یہ مشورہ آپ کے لئے تکلیف دہ ہو گا۔ لیکن پاکستان ذاتی فوائد سے مقدم ہے ۔مجھے معاف کریں کہ باوجود آپ کے نیک سلوک اور شرافت کے مَیں آپ کے حق میں رائے نہیں دے سکتا۔ اگر پاکستان کے لئے خطرہ نہ ہوتا تو اِس فتنہ انگیزی کے بعد میں آپ کی تائید کا اعلان کرتا مگر زمانہ کے حالات مجھے مجبور کرتے ہیں کہ مَیں صلح اور اتحاد پر ہی زور دوں ۔ہاں میر ے دل پرجہاں آپ کے اس فعل کا بُرا اثر ہے کہ آپ نے اپنے جذبات کو قربان کر کے اتحا د کو قائم کیوں نہ رکھا۔وہاں اس بات کا اچھا اثر ہے کہ ایسی شُہرت کا موقع کہ احمدیت پر جھوٹ بول کر آپ لوگوں میں مقبول ہوسکتے تھے آپ نے ہاتھ سے جانے دیا اور ظلم کے ارتکاب کو پسند نہ کیا ۔ مَیں آپ کے اس فعل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتاہوں اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو صحیح راستہ پر چلائے اور مُلک کا سچا خادم بنائے ۔ (غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبیری)
۱؎ الجمعۃ : ۳
۲؎ سیرت ابن ھشام جلد ۴ صفحہ ۸۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
۳؎ تذکرہ صفحہ ۷۶۶۔ ایڈیشن چہارم
۴؎ آزاد۔ ۹؍دسمبر ۱۹۴۹ء
۵؎ آر۔ اے سِول اینڈ ملٹری گزٹ
۶؎ آزاد۔ یکم جنوری ۱۹۴۹ء
۷؎، ۸؎ آزاد۔ ۲؍جون ۱۹۵۰ء
۹؎ تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۵۱۱ مطبوعہ مصر ۱۹۶۱ء میں جنگ احد کے حالات میں اس سے
مشابہہ واقعہ کا ذکر آتا ہے۔
۱۰؎ آزاد۔ ۲؍جون ۱۹۵۰ء
۱۱؎ الفضل ۳۱؍دسمبر ۱۹۴۹ء
۱۲؎،۱۳؎ النساء : ۴۴



سیر روحانی (۵)




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
سیر روحانی (۵)
(تقریر فرمودہ مؤرخہ ۲۸ دسمبر۱۹۵۰ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ)
عالَمِ رُوحانی کا دیوانِ عام
تشہّد،تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:-
سیر روحانی کے مضمون کا محرّک
’’جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ۱۹۳۸ء میں مَیں اپنے بعض کاموں کے سلسلہ میں سندھ
گیا اورپھر وہاں سے کراچی چلا گیا میرا گلا اُن دنوں بہت خراب تھا اور ڈاکٹر بتاتے تھے کہ گلے کی خرابی کے لئے سمندر کی ہوابہت مفید ہوتی ہے اور تجربہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے چنانچہ جب سمندر کی سیر کا موقع ملا تو اس کے بعد ایک لمبے عرصہ تک مجھے گلے کی تکلیف نہیں ہوئی اِسی نقطہ نگاہ کے ماتحت میںکراچی گیا اور ارادہ کیا کہ ہم جہاز میں سوارہو کر بمبئی جائیں اور پھر حیدرآباد دکن کی جماعت سے بھی مل آئیں کیونکہ حیدرآباد کی جماعت دیر سے یہ اصرار کرتی چلی آرہی تھی کہ کبھی موقع ملے تو میں وہاں ضرور آئوں۔ چنانچہ میں کراچی سے بمبئی اور بمبئی سے حیدرآباد گیا۔ اس سفر میں مَیں نے بہت سی چیزیں دیکھیں۔ مُغلیہ زمانہ کی بھی اور اس سے پہلے پٹھانوں کے زمانہ کی بھی۔ اِسی طرح گولکنڈہ کا قلعہ دیکھا، پھر آگرہ میں آئے تو ہم نے آگرہ کا تاج محل اور فتح پور سیکری وغیرہ دیکھا۔ اس کے بعد دلّی آئے اور وہاں کے تاریخی مقامات دیکھے۔ اسی تسلسل میں جب ہم دلّی پہنچے اور ہم نے وہاں غیاث الدین تغلق کا قلعہ دیکھا تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا جو میرے اِس مضمون کا محرّک ہؤا۔ میں نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی پہلی تقریر میں بیان کیا تھا مَیں اُس جگہ پر پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور پہلے تو اس عبرت ناک نظارہ پر غور کرتا رہا کہ یہ بلند ترین عمارت جو دہلی پر بطور پہرہ دارکھڑی ہے اس کے بنانے والے کہاں چلے گئے۔ وہ کس قدر اولوالعزم، کس قدر باہمت اور کس قدر طاقت و قوت رکھنے والے بادشاہ تھے جنہوں نے ایسی یادگاریں قائم کیں۔ وہ کس شان کے ساتھ ہندوستان میں آئے اورکس شان کے ساتھ مرے مگر آج ان کی اولادوں کا کیا حال ہے۔ کوئی ان میں سے بڑھئی ہے، کوئی لوہار ہے، کوئی معمار ہے، کوئی موچی ہے اورکوئی میراثی ہے۔ میں انہی خیالات میں تھاکہ میرے خیالات میرے قابو سے باہر نکل گئے اورمَیں کہیں کا کہیں جا پہنچا۔ سب عجائباتِ سفر جو سفر میں مَیں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے۔ دہلی کا یہ وسیع نظارہ جو میری آنکھوں کے سامنے تھا میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا اور آگرہ اور حیدرآباد اور سمندر کے نظارے ایک ایک کرکے سامنے سے گزرنے لگے آخر وہ سب ایک اور نظارہ کی طرف اشارہ کرکے خود غائب ہو گئے۔ میں اسی محویت کے عالَم میں کھڑا رہا اورکھڑا رہا اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اس کو کیا ہو گیا یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی کہ ابّا جان دیر ہو گئی ہے۔ مَیں اِس آواز کو سنکر پھر واپس اِسی مادی دنیا میں آگیا مگر میرا دل اُس وقت رقّت انگیز جذبات سے پُر تھا۔ نہیں وہ خون ہو رہا تھا اور خون کے قطرے اس سے ٹپک رہے تھے مگر اس زخم میں ایک لذت بھی تھی اور وہ غم سرور سے ملا ہؤا تھا۔ میں نے افسوس سے اس دنیا کو دیکھا اورکہا کہ ’’میں نے پالیا میں نے پالیا‘‘۔ جب مَیں نے کہا ’’میں نے پالیا میں نے پالیا‘‘ تو اُس وقت میری وہی کیفیت تھی جس طرح آج سے دو ہزار سال پہلے گیاؔ کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے گوتم بدھ کی تھی جبکہ وہ خداتعالیٰ کا قُرب اور اُس کا وصال حاصل کرنے کے لئے بیٹھا اوربیٹھا رہا اور بیٹھا رہا یہاں تک کہ بُدھ مذہب کی روایات میں لکھا ہے کہ بانس کا درخت اُس کے نیچے سے نکلا اور اُس کے سر کے پار ہو گیا مگر محویت کی وجہ سے اُس کو کچھ پتہ نہ چلا۔ یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں لوگوں نے بنا لیا اصل بات یہ ہے کہ بُدھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھااور وہ دنیا کے راز کو سوچنے لگا یہاں تک کہ خداتعالیٰ نے یہ راز اُس پر کھول دیا تب گوتم بُدھ نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا ’’میں نے پالیا میں نے پالیا‘‘۔ میری کیفیت بھی اُس وقت یہی تھی جب میں اِس مادی دنیا کی طرف واپس لَوٹا تو بے اختیار میں نے کہا ’’میں نے پالیا میں نے پالیا‘‘۔ اُس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امۃ القیوم بیگم کھڑی تھی اُس نے کہا ابّا جان! آپ نے کیا پالیا؟ مَیں نے کہا میں نے بہت کچھ پا لیا مگرمیں اِس وقت تم کو نہیں بتا سکتا اگر اللہ نے چاہا تو میں جلسہ سالانہ پر بتائوں گا کہ میں نے کیا پایا اُس وقت تم بھی سن لینا۔
سولہ۱۶ عجائباتِ سفر
میں نے جو چیزیں وہاں دیکھیں اورجو اپنے لیکچر میں مَیں نے گِنی بھی ہیں وہ سولہ بڑی بڑی چیزیں تھیں۔
اوّل قلعے، دوم بادشاہوں کے مقابر، سوم مساجد، چوتھے ایک وسیع اوربلند تر مینار، پانچویں نَوبت خانے، چھٹے باغات، ساتویں دیوانِ عام، آٹھویں دیوانِ خاص، نویں نہریں، دسویں لنگرخانے، گیارہویں دفاتر، بارہویں کتب خانے، تیرھویں مِینا بازار، چودھویں جنترمنتر، پندرھویں سمندر، سولہویں آثارِ قدیمہ۔
عبرت کا مقام
یہ سولہ چیزیں تھیں جن کا میری طبیعت پر خاص اثر ہؤا مَیں نے جب ان کے متعلق غور کیا تومیں نے دیکھا کہ سمندر کے علاوہ کہ
وہ خداتعالیٰ کی پیدا کردہ چیز ہے اور سب کی سب تباہ و برباد ہو گئیں۔ نہریں سُوکھ گئیں، مینار ٹوٹ پھوٹ گئے اور مسجدیں بہت سی برباد اور بہت سی غیر آباد ہو گئیں، کتب خانوں کی خبرگیری کرنے والے کوئی نہ رہے، جنتر منتر تماشا بن کر رہ گئے غرض تمام یادگاریں جو اپنے زمانہ میں دنیا کو محوِ حیرت بنا دیتی تھیں آج ویران ہو چکی تھیں، برباد ہو چکی تھیں، تباہ وخستہ حال ہو چکی تھیں اور اپنے بنانے والوں کے انجام پر رو رہی تھیں۔ جب میں نے یہ دیکھا تو مَیں نے اپنے دل میں کہا یہ دنیا کیسی عبرت کی جگہ ہے کہ انسان جتنا اونچا ہوتاہے اُتنا ہی گِرتا ہے۔ ایک چُوڑھے کا بچہ آج سے ہزار سال پہلے بھی چوڑھا تھا اور اب بھی وہ چُوڑھا ہے آج اُس کا چُوڑھا ہونا اُس پر گراں نہیں گزرتا کیونکہ وہ جیسا پہلے تھا ویسا ہی آج بھی ہے۔ مگر یہاں یہ کیفیت ہے کہ آج سے پانچ یا چھ پُشت پہلے ایک شخص ہندوستان کا بادشاہ ہے اور آج وہ پانی بھرتا یا سڑکوں کی صفائی کرتا ہے۔ اگر وہ نسلاً بَعْدَ نسلٍ سقّے کا کام کر رہا ہوتا تو اس پر کوئی گراں نہ گزرتا مگر وہ ایک ایک قدم پر آہیں بھرتاہے، وہ ایک ایک سانس پر حسرت اور اندوہ کے جذبات میں بہہ جاتا ہے، وہ حیران ہوتا ہے اپنے ماضی پر اور افسوس کرتا ہے اپنے حال پر۔ میں نے خود اپنی آنکھ سے دِلّی میں بعض شاہی گھرانوں کے شہزادوں کو مشکیں اُٹھائے لوگوں کو پانی پلاتے دیکھا ہے۔ میں چھوٹا تھا کہ ایکدفعہ میں دلّی گیا میرا ایک عزیز مجھے کہنے لگا چلو تم کو ایک تماشا دکھائوں۔ وہ مجھے جامع مسجد کے پاس لے گیا وہاں سقّے مشکیں اُٹھائے آنے جانے والوں کو پانی پِلارہے تھے۔ وہ مجھے ایک سقّے کے پاس لے گیا جوکٹورا ہاتھ میں لئے اسی طرح پانی تقسیم کر رہا تھا۔ میرے ساتھی نے اُس سے کہا کہ ہمیں پانی پلائو اُس نے کٹورا بھر کر دیا اورجب ہم پانی پی چکے تو وہ خاموشی کے ساتھ سیدھا کھڑا ہو گیا اور تھوڑے توقّف کے بعد چلا گیا۔ میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ کیا تماشا ہؤا؟ اُس نے کہا، باقی سقّوں کو دیکھو سقّے پانی پلانے کے بعد اپنا ہاتھ بڑھا دیتے ہیں کہ لائو ہمیں کچھ معاوضہ دو اورپانی پینے والے انہیں پیسہ، دو پیسے یا دھیلہ دے دیتے ہیں اور یہ کچھ نہیں کرتا، پانی پلاتا ہے اور پھر اکڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے اورکچھ دیر توقّف کے بعد منہ پھیر کر چلا جاتا ہے مانگتا کچھ نہیں کیونکہ یہ شہزادہ ہے اور گو یہ اب لوگوں کو پانی پلاتا ہے مگر اِس کی آن اَب بھی قائم ہے اگر کوئی دیدے تو لے لیتا ہے اور نہ دے توچُپ کرکے واپس چلا جاتا ہے۔ چنانچہ بعدمیں ہم نے اُسے کچھ دیا بھی مگر یہ نظارہ بتاتاہے کہ ان شہزادوں کی کیا سے کیا حالت ہو چکی ہے۔ یہ ساری کیفیت میری آنکھوں کے سامنے آگئی۔
مسلمانوں کے شاندار عہدِ ماضی کی یاد
آخر سات سَو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی۔ راس کماری سے
ہمالیہ کی چوٹیوںتک اور پشاور سے لیکر مشرقی پاکستان کے کناروںتک مسلمان حاکم تھا۔ مسلمان قوتِ فعّال تھا، مسلمان ہی کے پاس فوج تھی، مسلمان ہی کے پاس تجارت تھی، مسلمان ہی کے پاس زراعت تھی، مسلمان ہی کے پاس علم تھا، مسلمان ہی کے پاس یونیورسٹیاں تھیں، مسلمان ہی کے پاس ہسپتال اور شفاخانے تھے اور مسلمان ہی کے پاس حکومت تھی مگر جس وقت مَیں تغلق کے قلعہ کی چوٹی پر کھڑا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا مَیں نے دیکھا کہ اب انگریز حاکم تھا، ہندو تمام محکموں پر قابض، تجارت پارسیوں اورمیواڑیوںکے ہاتھ میںتھی، یونیورسٹیاں ہندوئوں اورانگریزوں کے ہاتھ میں تھیں اورمسلمان ہر جگہ دسترخوان کے گِرے ہوئے ٹُکڑوںکا محتاج تھا۔ اگر کسی نے کچھ ڈال دیا تو ڈال دیا ورنہ اُس کا کسی چیز میں حق نہیں تھا۔ گھروں میں بیٹھے ہوئے بھی یہ گزشتہ تاریخ انسان کے دل کو کپکپا دیتی ہے مگر تغلق کے قلعہ پر جو ایسی جگہ بنا ہؤا تھا جہاں ساری دلّی پر نگاہ دَوڑائی جاسکتی تھی، یہ تاریخ تجسّمکا رنگ اختیار کرکے میری آنکھوں کے سامنے آگئی۔ میں نے سوچااور غور کیا کہ جہاں قدم قدم پراسلام کی شان بلند ہوتی تھی، جہاں قدم قدم پر نعرۂ ہائے تکبیر بلند کئے جاتے تھے، جہاں قدم قدم پر مسلمانوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمین رَوندی جاتی تھی اور بڑی بڑی طاقتیں ان سے ٹکر کھانے سے گھبراتی تھیں آج مسلمان کس ذلّت میں ہے، کس مصیبت اورکسمپرسی کی حالت میں ہے؟ یہ زخم تھاجو تغلق کے قلعہ پر مجھے لگا اور میں نے سوچا کہ کیا کوئی مرہم ایسا بھی ہے جو میں اپنے دل پر لگا سکوں اورجس سے یہ دردناک تکلیف دور ہو سکے چنانچہ میں اس چیز میں کھویا گیا اور کھویا گیا اورکھویا گیا کہ ہماری کیا حالت تھی اور اب ہم کس حالت کو پہنچ گئے۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کااصل مقصد مسلمانوں نے فراموش کر دیا
تب معاًمیری توجہ اِس بات کی طرف پِھری کہ اے بندۂ خدا! اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جس
عظیم الشان نعمت سے سرفراز کرکے بھیجا تھا اُس کو وہ بھُول گئے اور یہ چیزیںجو اُن کی شوکت کا محض عارضی نشان تھیں ان کی طرف متوجہ ہو گئے۔ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ بڑے بڑے قلعے بناتے۔ اگر وہ اس لئے آتے تو مدینہ منورہ میں کوئی بڑا قلعہ بھی ہوتا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ نہریں بنائیں اگر وہ اس لئے آتے تو مدینہ منورہ میں نہریں بھی ہوتیں۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ بڑے بڑے مقبرے بنائیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توپکی قبر بنانے سے بھی منع فرمایا، اِسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بُھول بھلیاں بنانے کے لئے آئے تھے نہ مینا بازار بنانے کیلئے آئے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ پیغام لے کر آئے تھے کہ آئو میں تمہیں خداتعالیٰ سے ملا دوں۔ بیشک باقی چیزیں بھی مسلمانوںکو ملیں مگر وہ تابع تھیں اصل مقصود اور مطلوب نہیں تھیں۔ بعض چیزیںایسی ہوتی ہیں جو اپنی ذات میں مقصود ہوتی ہیں اور بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو توابع کے طور پر ملتی ہیں اور تابع چیزوں کو اپنے مدنظر رکھنا اور اُن کو اپنا مقصود قرار دے لینا نہایت شرمناک ہوتا ہے۔ ہم اپنے دوست کے گھر جاتے ہیں تو ہماری اصل خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنے دوست سے ملیں مگر ہمارا دوست ہمارے لئے پلائو بھی پکاتاہے، مرغ بھی پکاتا ہے، کوفتے بھی پکاتا ہے، چائے بھی رکھتا ہے۔ اگر ہم اپنے دوست سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہاں ہمیں پلائو ملے گا، چائے ملے گی یا کوفتے ملیں گے تو ہم کتنے کمینے ہوں گے۔ اگر آپ لوگ اپنی ماں سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہ آپ کی خاطر تواضع کرے گی تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے ہیں۔ اگر آپ اپنے باپ سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہ آپ کو اچھے اچھے کھانے کھلائے گا تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے ہیں۔ اگر آپ اپنے دوست سے اس لئے ملنے جاتے ہیں کہ وہ آپ کو پلائو کھلائے گا یامُرغ آپ کے لئے ذبح کریگا تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے ہیں۔ لیکن اگر آپ اپنی ماںسے ملنے کے لئے جائیں گے تو وہ آپ کے لئے چائے ضرور پکائے گی، آپ کے لئے پراٹھے ضرور تیار کرے گی۔ اگر آپ اپنے باپ کو ملنے جائیں گے تو وہ کچھ نہ کچھ کھانا ضرور پکائے گا۔ اگر آپ اپنے دوست کو ملنے جائیں گے تو وہ آپ کی کچھ نہ کچھ تواضع ضرور کریگا۔ تو دیکھو بات وہی بن جاتی ہے لیکن طریق مختلف ہو جاتا ہے۔ ایک صورت میں پلائو بھی ملے گا اور کمینے بھی بن جائو گے۔ لیکن اگر تم اپنے دوست کے پاس محض اس سے ملنے کے لئے جائو تو پلائو پھر بھی ملے گا مگر تم نہایت شریف الطبع اور بااخلاق انسان کہلائو گے۔ تو اسلام وہ طریق بتاتاہے جس پر چلنے سے دُنیوی حکومتیں اور اُس کی نعمتیں خود بخودآجاتی ہیں۔ اسلام کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِتّباع کرو تو یہ چیزیں تمہیں خود بخود مل جائیں گی مگر وہ ان چیزوں کو مقصود قرار نہیں دیتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو وہ نعمتیں ملیں کہ دنیا حیران رہ گئی۔
شہنشاہِ ایران کا رومال حضرت ابوہریرہ ؓ کے قبضہ میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ہی دیکھ لو وہ آخری زمانہ میںرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے صرف تین سال پہلے ایمان لائے
تھے۔ انہوں نے جب دیکھاکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اب بڑی عمر ہو چکی ہے اور آپ کی زندگی کے دن اب بظاہر تھوڑے رہ گئے ہیں تو انہوں نے قسم کھائی کہ اب میں آپ سے جُدا نہیں ہوں گا چنانچہ اسی کایہ نتیجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ انہیں صرف تین سال ملے سب سے زیادہ حدیثیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہیں۔ چونکہ یہ غریب آدمی تھے اور سارا دن مسجد میں بیٹھے رہتے تھے اس لئے بعض دفعہ سات سات وقت کا انہیں فاقہ ہو جاتا تھا اور شدّتِ بھوک کی وجہ سے وہ بیہوش ہو کر گِر پڑتے تھے۔ جب اسلام کی فتوحات کا دَور آیا اور قیصروکسریٰ کے خزانے اسلامی تصرف میں آئے تو کسریٰ شہنشاہِ ایران کا ایک خاص ریشمی رومال جو تخت پر بیٹھنے کے وقت وہ اپنے ہاتھ میں رکھاکرتا تھا مالِ غنیمت میں تقسیم ہو کر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آیا۔ ایک دفعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو نزلہ کی شکایت تھی کہ بیٹھے بیٹھے اُنہیں کھانسی آگئی اور انہوں نے شہنشاہِ ایران کے اس رومال میں تُھوک دیا اور پھر کہا بخِ بخِ ابوہریرہ یعنی واہ واہ! تیری بھی کیا شان ہے کبھی تو سر میں جُوتیاں پڑا کرتی تھیں اور آج یہ حالت ہے کہ تُو کسریٰ شہنشاہِ ایران کے رومال میں تُھوکتا ہے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کہا؟ اِس پر انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ مَیں آخری زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور مَیں نے قسم کھالی کہ اب میں رات اور دن آپ کے پاس رہوں گا اور آپ کی باتیں سنوں گا اور چونکہ میں ہر وقت وہیں بیٹھا رہتا تھا، اسلئے بعض دفعہ سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور میں بیہوش ہو کر گر جاتا تھا۔ لوگ سمجھتے تھے کہ مجھے مرگی ہو گئی ہے اور عربوں میں رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دَورہ ہوتا تو اس کے سر پر جُوتیاں مارا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا علاج ہے۔ انہوں نے کہا اِدھر میں فاقہ سے مر رہا ہوتا تھا اور اُدھر میرے سر پر جُوتیاں پڑنے لگ جاتیں حالانکہ اُس وقت مجھے اندر سے ہوش ہوتا تھا مگر میری زبان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی تھی کہ مَیں انہیں منع کر سکوں پس یا تو میرا وہ حال تھا اور یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبردای کا یہ نتیجہ ہے کہ اب مَیں اُس رومال میں جسے بادشاہ اپنی شان دکھانے کے لئے تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا تھُوک رہا ہوں۔ تو یہ چیزیں ملتی ہیں اور اسلام بھی ہمیں وہ چیزیں دیتا ہے جو دنیا کے پیچھے چلنے سے حاصل ہوتی ہیں مگر اسلام زیادہ شاندار طور پر یہ چیزیں دیتا ہے اور وہ لوگ ذلّت کے طور پر ان چیزوں کو حاصل کرتے ہیں ۔ لوگ کہتے ہیں کہ تم اپنے باپ کے پاس جائو مگر اس لئے کہ تمہیں حلوہ کھانے کو مل جائے، ماں کے پاس جائو مگر اس لئے کہ تمہیں پراٹھے کھانے کو ملیں۔ جب ہم اِس نیت اور اس ارادہ سے جاتے ہیں تو گو یہ چیزیں ہمیں مل جاتی ہیں مگر ہم ذلیل اور کمینے بھی قرار پاتے ہیں۔ اسلام کہتا ہے تم ماں کے پاس جائو مگر ماں کے پیار کے لئے، دوست کے پاس جائو مگر دوست کی محبت کے لئے۔ حلوہ تمہیں پھر بھی ملے گا، پراٹھے تمہیں پھر بھی ملیں گے، پلائو پھر بھی تمہیں ملے گا مگر تم شریف اور بااخلاق کہلائو گے۔ یہ فرق ہے جو اسلامی تعلیم پر عمل کرنے اور دُنیوی طریقوں کو اختیار کرنے میں ہے اور اسی کی طرف میرا آج کا مضمون اشارہ کرتا ہے۔
اسلامی نظا ِم حکومت کا ایک اجمالی نقشہ
میرا یہ مضمون درحقیقت اسلامی طریقِ حکومت کی ایک تصویر ہے
یا اسلام دنیا میں جو اصلاح پیدا کرنا چاہتا ہے اُس کا ایک اجمالی نقشہ اِس مضمون میں کھینچا گیا ہے۔ آجکل پاکستان میں اِس بات پر بڑا زور دیا جاتا ہے کہ اسلامی نظامِ حکومت قائم ہونا چاہئے مگر عملی طور پر وہ اس کو قائم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اسلام جو کچھ بتاتاہے اُس پر عمل کرنے کے لئے وہ لوگ تیار نہیں ہوتے۔ میں آج کے مضمون کے ذریعہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہے وہ اسلامی حکومت جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قائم کی اور یہ ہے وہ نظام جس کے متعلق قرآن کریم ہماری راہنمائی فرماتا ہے۔ اسلام نے نہریں بھی بنائی ہیں، قلعے بھی بنائے ہیں، مساجد بھی بنائی ہیں،مینار بھی بنائے ہیں، باغات بھی بنائے ہیں، بازار بھی بنائے ہیں۔ دیوانِ عام بھی بنائے ہیں اور دیوانِ خاص بھی بنائے ہیں مگر ان کے طریق اَور رکھے ہیں۔ آج میں اِنہی میں سے ایک چیز کو اس موقع پر بیان کرنا چاہتاہوں۔
دیوانِ عام کے قیام کی اغراض
میں نے بتایا تھاکہ میں نے اپنے سفر میں دیوانِ عام بھی دیکھے جن میں بادشاہ اپنا
دربار لگایا کرتے تھے اور عوام الناس آتے اور اپنی شکایات وغیرہ پیش کرتے۔ میں نے سوچا کہ یہ دیوانِ عام کیوں بنایا گیا تھا اور اس کی اغراض اورمقاصد کیا تھیں؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ:۔
۱- دیوانِ عام کے قیام کی پہلی غرض یہ ہؤا کرتی تھی کہ اس دیوان میں بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کیا جائے جب بادشاہوں نے اپنی رعایا کے سامنے بڑے بڑے اعلان کرنے ہوتے تھے تو ہمیشہ دیوانِ عام میں ہی کیا کرتے تھے پس دیوانِ عام کی پہلی غرض بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کرنا ہوتی تھی۔
۲- اس کی دوسری غرض یہ ہؤا کرتی تھی کہ بادشاہ لوگوں کے سامنے آئے اور انہیں اپنا دیدار کرنے کا موقع دے اور ان کے متعلق انعام و اکرام کا اعلان کرے۔
۳- دیوانِ عام کی تیسری غرض یہ ہؤا کرتی تھی کہ عوام کو فریاد پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور ان کے مظالم کا اِنسداد کیا جائے۔
۴- دیوانِ عام کی چوتھی غرض یہ ہؤا کرتی تھی کہ عوام کو اپنے مطالبات پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور بادشاہ ان کی ضرورتیں پوری کرے۔ طریق یہ ہوتا تھا کہ بادشاہ دربارِ عام میں بیٹھتا تھا اور وزیراعظم اُس کے اعلان سناتا تھا۔
دُنیوی دیوانِ عام اغیار کے قبضہ میں
میں نے دیکھا کہ وہ دیوانِ عام جو بادشاہوں کابنایا ہؤا تھا وہ اب
ویران اور برباد ہے اس کی عمارت موجود تھی مگر انگریزوں کے قبضہ میں تھی۔ خود ان بادشاہوں کی اولاد موجود تھی مگر اسے ٹکٹ حاصل کئے بغیر دیوانِ عام کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ تھی وہ مارے مارے پھر رہے تھے اور کوئی انہیں پوچھتا تک نہیں تھا۔ اب بھی بعض شہزادے ایسے ہیں جو نہایت تکلیف کے ساتھ اپنی زندگی کے دن بسر کر رہے ہیں حکومت موجود ہے مگر وہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتی۔
قرآنی دیوانِ عام کی خصوصیت
پس میں نے سوچا کہ آیا اس کے مقابلہ میں قرآن کریم نے بھی کوئی دیوانِ عام پیش
کیا ہے یا نہیں؟اور اگر کیا ہے تو وہ کیا ہے؟ جب اس نقطہ نگاہ سے میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ ہمارے خدا نے بھی ایک دیوانِ عام بنایا ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کوئی دشمن اس پر قبضہ نہیں کر سکتا وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہے اور اسی کے قبضہ اور تصرف میں ہے۔ پہلے بادشاہوں کے دیوانِ عام ان کے ہاتھوں سے چھینے گئے، غیر قومیں آئیں اور ان پر قابض ہو گئیں پہلے یہ دیوان عام انگریزوں کے پاس گئے اور اب ہندو حکومت قائم ہوئی تو اس کے پاس چلے گئے۔ گویا جن مزدوروں نے یہ دیوانِ عام بنایا تھا وہ اب حاکم ہیں اور حاکم مزدور۔ لیکن قرآن کریم جس دیوانِ عام کو پیش کرتا ہے اس میں نہ کوئی تبدیلی کر سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی مخالفانہ قبضہ کر سکتا ہے۔
محمد رسول اللہ کے تقرّرپر قرآنی دیوانِ عام سے اعلان
پھر میں نے دیکھا کہ مغل بادشاہ اور پٹھان بادشاہ اور دوسرے بادشاہ جب دیوانِ عام میں بیٹھتے تو وہ مثلاً یہ اعلان کرتے کہ ہم فلاں
کو وزیر مقررکرتے ہیں، فلاں کو گورنر مقرر کرتے ہیں، فلاں کو اپنا نائب مقرر کرتے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ کہتے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ وفاداری سے حکومت کی خدمت بجالائے گا اور ہماری حکومت کو مضبوط اورمستحکم کرنے کے لئے اپنا تمام زور صَرف کر دیگا لیکن میں نے دیکھا کہ قرآن کریم جس دیوانِ عام کو پیش کرتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی گورنر یا خلیفۃُاللہ کے تقرر کا اعلان ہوتا ہے تو بجائے یہ کہنے کے کہ ہم امید کرتے ہیں تم ہماری حکومت کومستحکم کرو گے اور ہماری طاقت بڑھانے میں حصہ لوگے بادشاہ یہ کہتا ہے کہ ہم تمہیں طاقت دیں گے، ہم تمہیں مستحکم کریں گے، ہم تمہارے رُعب کو قائم کریں گے۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ پُرانے زمانہ کے بادشاہوں کے مقابلہ میں قرآن کریم میں بھی ایک دیوانِ عام لگایا گیا اور تمام پبلک کو مخاطب کرکے کہا گیا ۱؎
اعلان ہوتا ہے کہ ہم اِس دنیا میں ایک خلیفہ مقرر کر رہے ہیں اور اعلان ان الفاظ میں ہوتاہے کہ ہم تمہاری طرف ایک رسول بناکر بھیج رہے ہیں جو تم پر نگران رہے گا اور دیکھے گا کہ تم ہماری مرضی کے مطابق چلتے ہو یا نہیں۔اور یاد رکھو کہ ہمارا اِس کو گورنر بنا کر بھیجنا کوئی نئی چیز نہیں بلکہ پہلے بھی ہم اپنے گورنر بھیجتے رہے ہیں اور لوگ غلطی سے ان کا انکار کرتے رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی وہی غلطی کرو اور اُس انجام کو دیکھو جو پہلے لوگوں نے دیکھا اُس وقت کے حاکم اور بادشاہ فرعون نے تکبر کیا اورموسٰی ؑکے ماننے سے اُس نے انکار کیا۔ اِس پر ہم نے اُس کو پکڑ کر تباہ و برباد کر دیا پس جس طرح ہم نے فرعون کو تباہ کیا ہے اگر تم ہمارے گورنر جنرل کی مخالفت کروگے اور اس کے مقابلہ پر فرعون والا طریق اختیار کروگے تو تم بھی تباہ کر دیئے جائو گے۔ اگر تم نے بھی انکار کیا جس طرح فرعون نے موسیٰ کا انکار کیا تھا تو تم کس طرح یہ خیال کر سکتے ہو کہ تم ہمارے عذاب سے بچ جائو گے۔ تم اُس دن سے ڈرو جو جوانوں کو بوڑھا کر دے گا۔ وہ دُنیوی بادشاہوں کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہم اپنے گورنر سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ ہماری بادشاہت کو مضبوط کرے گا بلکہ فرماتا ہے کہ ہم اس کی بادشاہت کو خود قائم کریں گے اگر تم اس کی مخالفت کرو گے تو ہم تم پر عذاب نازل کریں گے کہ جس سے آسمان بھی پھٹنا شروع ہو جائے گا۔ دُنیوی بادشاہ ڈرتے ہیں کہ اگرہماری مخالفت ہوئی تو ہم کیا کریں گے مگر یہاں فرماتا ہے کہ یہ وہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو بدل نہیں سکتی۔
زمین و آسمان کا فرق
کتنا زمین و آسمان کا فرق اُس دیوانِ عام اور اِس دیوانِ عام میں ہے وہاں بادشاہ یہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کو
اپنا نائب مقرر کرتے ہیں اس لئے کہ وہ ہماری حکومت کو مستحکم کرے، اس لئے کہ وہ ہماری طاقت کو مضبوط کرے، اس لئے کہ وہ ہماری جڑیں لگائے مگر یہاں دیوانِ عام میں یہ اعلان ہوتا ہے کہ اے لوگو سنو! ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گورنر مقرر کرکے بھجواتے ہیں اگر تم اس کی فرمانبرداری نہیں کرو گے تو ہم خود اِس کو طاقت بخشیں گے اور خود اِس کو قوت بخشیں گے اور اگر اِس کا مقابلہ کرو گے تو ہم تمہیں ایسی سزا دیں گے کہ زمین تو زمین آسمان کا کلیجہ بھی شَق ہو جائے گا (ٖ) اور کوئی طاقت نہیں جو ہمارا مقابلہ کر سکے۔
قرآنی گورنر جنرل کا دائرہ حکومت
اس کے ساتھ ہی یہ اعلان ہوتاہے کہ یہ گورنر ہے کس جگہ کے لئے؟
دُنیوی گورنر مقرر ہوتے ہیں تو ایک آدھ ملک کے لئے مگر فرماتا ہے کہ یہ گورنر سب دنیا کے لئے ہے گویا یہ گورنر نہیں بلکہ گورنر جنرلوں کے بھی اوپر گورنر جنرل ہے۔ چنانچہ دربار عام میں اعلان ہوتا ہے ۲؎ اے یہودی مذہب کے ماننے والو سُنو! یہ شخص جس کو ہم نے بھجوایا ہے موسیٰ کی طرح صرف مصر کے لوگوں کے لئے نہیں۔ اے اسرائیلی انبیاء کے ماننے والو! یہ شخص صرف بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح کسی ایک قوم کی طرف نہیں۔ اے مسیح کے ماننے والوسُنو! مسیح کی طرح فلسطین کی طرف نہیں۔ اے کرشن اور رامچندر کے ماننے والو! یہ اس طرح نہیں آیا جس طرح رامچندر اور کرشن ہندوستان کی طرف آئے تھے۔ اے زرتشت کے ماننے والو سنو! یہ اس طرح نہیں آیا جس طرح زرتشت ایران کی طرف آیا تھا۔ اے تمام دوسری اقوام اور مملکتوں اور برِّاعظموں میں رہنے والو سنو! یہ اس طرح نہیں بھیجا گیا جس طرح انبیاء ایک ایک قوم اور ایک ایک بستی کی طرف بھیجے جاتے تھے بلکہاے تمام انسانو! خواہ تم روئے زمین کے کسی علاقہ میں رہتے ہو، اے برطانیہ کے رہنے والو! اے فرانس کے رہنے والو! اے جرمنی کے رہنے والو! اے امریکہ کے رہنے والو! اے یورپ کے رہنے والو! اے جزائر کے رہنے والو! اے افریقہ کے رہنے والو! اے دنیا کے کسی گوشے اور خطہ میں رہنے والو! اسے تم پر افسر بنا کر بھیجا گیا ہے یہ ہمارا گورنر جنرل ہے جس کی حکومت سے کوئی شخص باہر نہیں۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائمی حکومت کا اعلان
(۲) پھر یہ تو اپنے زمانہ کی گورنری کے متعلق اعلانِ عام تھا اور گو اس میں سارے مُلکوں کو شامل کر لیا گیا تھا مگر یہ شُبہ باقی رہتا
تھا کہ ممکن ہے یہ سب دنیا کے لئے تو ہو لیکن سب زمانوں کے لئے نہ ہو۔ دنیا میں گورنر اوروائسرائے مقرر ہوکر آتے ہیں تو پانچ سال کے بعد بدل جاتے ہیں اور پھر وہ انہی گلیوں میں عام لوگوں کی طرح پِھرتے نظر آتے ہیں جن گلیوں میں شاہانہ شوکت کے ساتھ پِھرا کرتے تھے۔ پس چونکہ یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا اس لئے پہلے اعلان کے ساتھ ہی خدائی دربارِ عام میں یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ یہ گورنر جنرل قیامت تک کے لئے ہے۔ یہ پانچ سال کے لئے یا دس سال کے لئے یا سَو سال کے لئے یا دو سَو سال کے لئے یا ہزار سال کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے جب تک انسان تباہ نہیں ہو جاتا، جب تک ایک انسان بھی اِس دنیا میں زندہ ہے اُس وقت تک یہی گورنر جنرل رہے گا فرماتا ہے ۳؎ فرماتا ہے اے بنی نوع انسان! سن رکھو اس رسول کو ہم نے کہہ دیا ہے کہ وہ صرف اس زمانہ کے لئے نہیں بلکہ انسان کی تعریف کے نیچے جتنے انسان آتے ہیں ان سب کو یہ جمع کرنیوالا ہے خواہ وہ اِس صدی کے ہوں یا اگلی صدیوں کے قیامت تک اس کا راج قائم ہے اور کوئی شخص اس کی حکومت سے باہر نہیں نکل سکتا۔ دنیا میں اصول یہ ہے کہ جب بادشاہت بدلتی ہے تو آنے والی حکومت کسی کو گِرا دیتی ہے اور کسی کو اونچا کر دیتی ہے کا بھی یہی مفہوم ہے کہ جو لوگ اس کے قانون کی پابندی کرنے والے ہوں گے اُن کو یہ بلند کریگا اور جو لوگ اس کے قانون کی نافرمانی کرنے والے ہوں گے اُن کو یہ گِرا دے گا۔ گویا فرمایا کہ اے ہمارے رسول! دونوں طاقتیں تجھ کو دی جاتی ہیں، تیرے ہی ذریعہ سے لوگوں کو بلند کیا جائے گا اور تیرے ہی ذریعہ سے لوگوں کو گرایا جائے گا، تیرے ہی ذریعہ سے ملزم سزا پائیں گے اور تیرے ہی ذریعہ سے متبعین انعام حاصل کریں گے۔ لیکن اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا۔ کیونکہ اس سے پہلے جس قدر انبیاء گزرے ہیں ان میں سے کسی نبی کی نبوت سَو سال کے بعد ختم ہو گئی تھی اور کسی کی دو سَو سال کے بعد۔ ان کے لئے یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ کوئی ایسا نبی بھی آسکتا ہے جس کی نبوت قیامت تک چلتی چلی جائے اور کبھی ختم ہونے میں نہ آئے چنانچہ فرمایا وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ یہ ہمیشہ ہمیش کے لئے نبی ہے اس کا ثبوت کیا ہے اس طرح تو ایک جھوٹا نبی بھی کہہ سکتا ہے کہ میری نبوت کبھی ختم نہیںہوگی بہرحال کوئی نہ کوئی ایسی دلیل ہونی چاہئے جس سے ہم یہ اندازہ لگا سکیں کہ ہمارے سامنے جو دعویٰ پیش کیا جارہا ہے اس میں سچائی پائی جاتی ہے اور یہ ہمیشہ کے لئے ہے۔ فرماتا ہے فرمایا اِس کا پتہ تم کو ایک ہزار سال میں لگے گا۔ بڑی سے بڑی نبوت جو آج تک چلی ہے وہ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہی۔ آدم علیہ السلام کا زمانہ لے لو، نوح علیہ السلام کا زمانہ لے لو، موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ لے لو، کوئی زمانہ بھی ہزار سال سے زیادہ لمبا نہیں رہا۔ موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ بظاہر دو ہزار سال کا نظر آتا ہے لیکن وہاں تیرہ سَو سال کے بعد جو نبی آیا اُس نے آتے ہی یہ کہہ دیا کہ اب موسیٰ علیہ السلام کی نبوت ختم ہونے والی ہے اور وہ نبی دنیا میں ظاہر ہونے والا ہے جس کے متعلق تمام انبیاء اپنے اپنے زمانہ میں پیشگویاں کرتے چلے آئے ہیں۔ گویا مسیح علیہ السلام نے آمد کے ساتھ سلسلہ موسویہ کے امتداد کی خبر نہیں دی بلکہ ایک نئے دَور کے آغاز کی خبر دیدی اور بتایا کہ پہلا سلسلہ ختم ہونے والا ہے۔
مسلمانوں کے ہزار سالہ دورِتنزّلکی قرآن کریم میں خبر
غرض ہزار سال وہ میعاد ہوتی ہے جس میں کسی قوم کو یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ اب پُرانی نبوت ختم ہو گئی ہے اور
نئی نبوت کا دَور شروع ہونے والا ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے ۔یہاں دن سے مراد ہزار سالہ زمانہ ہے چنانچہ قرآن کریم خود اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے۔ ۴؎
فرمایا ہم اِس دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرینگے اور آسمان سے زمین پر اپنے انوار کی بارش برسائیں گے مگر پھر آہستہ آہستہ وہ نظام کمزور ہوتا چلا جائے گا اور دنیا یہ سمجھے گی کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت اب ختم ہو گئی ہے۔ دنیا یہ سمجھے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اب ختم ہو گئی ہے اوریہ دَور ِتنزّل تمہاری گنتی کے لحاظ سے ایک ہزار سال تک چلتا چلا جائے گا۔
بہائیوں کا ایک غلط استدلال
بہائی لوگ قرآن کریم کی اس آیت سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر کہتے ہیں کہ گویا ہزار سال
کے بعد نَعُوْذُ بِاللّٰہ شریعتِ اسلاممنسوخ ہو جائے گی حالانکہ شریعتِ اسلام تو تب منسوخ ہو سکتی تھی جب کہ یکدم قرآن خراب ہو جاتا اور وہ دنیا کے لئے ناقابلِ عمل ہو جاتا، لیکن اس آیت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یکدم قرآن خراب ہو جائے گا بلکہ اس میں یہ بتایا گیا کہ آہستہ آہستہ ایک ہزار سال میں ایمان اوپر چڑھ جائے گا۔ پس اِس کے معنے سوائے اِس کے اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ اسلام اور قرآن کا اثر آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں سے کم ہونا شروع ہو گا اور اِس پر ایک ہزار سال کا عرصہ صَرف ہوگا۔ اگر کتاب نے منسوخ ہونا ہوتا تو کتاب کی منسوخی تو یکدم ہوتی ہے ہزار سال میں آہستہ آہستہ نہیں ہوتی۔ پس ہزار سال میں آہستہ آہستہ اسلام کے اُٹھ جانے کے یہی معنی تھے کہ اُس کا اثر لوگوں پر سے کم ہوجائے گا اور جب اثر کم ہو جائے تو اُس وقت کتاب منسوخ نہیں بلکہ ایک نیا معلّم بھیجا جاتا ہے جو اُس کتاب کی تعلیم کو دنیا میں پھر قائم کر دیتا ہے۔ پس بہائیت اس آیت سے بالکل ناجائز فائدہ اُٹھاتی اور لوگوں کو دھوکا میں مبتلاء کرتی ہے۔
بہرحال اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہزار سال میں ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کے تین سَو سال کو مبارک زمانہ قرار دیا ہے جس میں اسلام کے متعلق یہ مقدر تھا کہ وہ دنیا میں ترقی کرتا جائے گا اور دَورِ تنزّل قرآن کریم نے ہزار سال بتایاہے اس لئے ہزار سال میں پہلے تین سَو سال جمع کئے جائیں تو یہ تیرہ سَو سال کا عرصہ بن جاتا ہے پس قُلْ لَّکُمْ مِّیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْ خِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّ لَا تَسْتَقْدِمُوْنَ کے یہ معنے ہوئے کہ تم اسلام کے دَورِ تنزّل کو دیکھ کر اِس واہمہ میں مبتلاء ہو سکتے ہو کہ شاید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ختم ہو گئی، لیکن تیرہ سَو سال کے بعد تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ اس کی حکومت ختم نہیں ہوئی بلکہ قیامت تک کے لئے ہے۔
احیائے اسلام کے لئے مسیح موعود کی بعثت
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عین تیرہ سَو سال کے ختم ہونے
پر اُمتِ محمدؐیہ میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ مَیں مسیح موعود ہوں اور مجھے خداتعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے بھیجا ہے جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تیرہ سَو سال پہلے فرمائی تھیں۔ میں اس لئے نہیں آیا کہ کوئی نیا مذہب قائم کروں، مَیں اس لئے نہیں آیا کہ موسوی مذہب کو قائم کروں، میں اس لئے نہیں آیا کہ عیسوی مذہب کو قائم کروں بلکہ میں اس لئے آیا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو دوبارہ دنیا میں قائم کروں۔ گویا تیرہ سَو سال کے بعد جو تغیر ہؤا وہ یہی تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قیامت تک ہے اور اس میں کوئی وقفہ نہیں۔ دُنیا کی تمام تاریخیں بتاتی ہیں کہ تیرہ سَو سال کے بعد کوئی نبوت نہیں چلی۔ موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سَو سال بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئے مگر انہوں نے یہ نہیںکہا کہ اب موسوی سلسلہ ہی قیامت تک قائم رہے گا بلکہ انہوں نے کہا تو یہ کہ:-
’’دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر ہرگز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے۔‘‘ ۵؎
لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سَو سال کے بعد جو شخص آیا اُس نے کہا مَیں اس لئے آیا ہوں تا قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گورنر جنرل ہونے کا اعلان کروں۔
دُنیاوی حکومتوں کی ناپائیداری
دنیا میں بادشاہ اپنی حکومت کا اعلان کرتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ ان کی حکومت
ایک لمبے عرصہ تک قائم رہے گی لیکن چند سال کے بعد ہی ایک نیا انقلاب پیدا ہو جاتا ہے اور اُن کی جگہ کوئی اَور حکومت مُلک پر قابض ہو جاتی ہے۔ دیکھو ۱۹۱۱ء میں جارج پنجم نے دلّی میں ایک بہت بڑا دربار منعقد کیا اور اِس بات پر بڑی خوشی کا اظہار کیاگیا کہ اب انگریزی حکومت ہندوستان میں مستحکم ہو گئی ہے لیکن اس اعلان پر ابھی چھتیس سال گزرے تھے کہ ۱۹۴۷ ء میں انگریز اپنا بوریا بستر باندھ کر یہاں سے چلے گئے۔ یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو چند سال میں ہی رونما ہو گیا۔ لیکن یہاں تیرہ سَو سال پہلے اعلان ہوتا ہے کہ محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قیامت تک قائم رہے گی اور تیرہ سَو سال کے بعد کوئی سیّد نہیں، قریش نہیں بلکہ اُس قوم کا ایک فرد جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کافر تھی جو اسلام کو جانتی تک نہ تھی اور اُس نے بعد میں اسلام اور مسلمانوں کو مِٹانے کے لئے خون کی ندیاں تک بہا دیں اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس لئے بھیجا گیا ہے کہ میں اسلام کو دنیا کے تمام دوسرے اَدیان پر غالب کروں اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کا جھنڈا دنیا میں گاڑ دوں۔ خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس آنے والے موعود کی خبر دیتے ہوئے سلمان فارسی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ اگر ایمان ثریّا پر بھی چلا گیا تو اس کی قوم میں سے ایک فارسی الاصل شخص اُٹھے گا جو ایمان کو پھر لوگوں کے قلوب میں زندہ کر دیگا۔۶؎
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی
جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے دوبارہ عروج کی یہ بشارت دی اُس وقت وہ قوم جس میں سے اِس
عظیم الشان انسان نے کھڑا ہونا تھاکافر تھی، وہ بے دین اور لامذہب تھی وہ جانتی تک نہ تھی کہ اسلام کس چیز کا نام ہے مگر صدیوں بعد چین اور تبّت اور ترکستان کے پہاڑوں سے یہ قوم اُٹھتی ہے اور دیوانہ وار تمام پہاڑوں اور دریائوں اور صحرائوں کو عبور کرتے ہوئے اسلامی حکومت کو تباہ کر دیتی ہے۔ بغداد جو اسلام کا ایک عظیم الشان مرکز تھااُس پر یہ قوم حملہ آور ہوتی ہے اور اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کو نہایت بیدردی کے ساتھ قتل کر دیتی ہے۔ مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ وہی ہلاکو جس نے بغداد میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا اس کی نسل میں سے ایک مُغل شہزادہ مسلمان ہو جاتاہے اور وہی قوم جس کی تلوار نے مسلمانوں کو مٹایا تھا خود اسلام کی تلوار کا شکار بن کر رہ جاتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق تیرہ سَو سال بعد ایک مغل اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے اور مَیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرکے رہونگا۔ یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے اور کتنے عظیم الشان طریق پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدے کا ایفاء کیا جو اُس نے اپنے دربار میں کیا تھا۔ کیا دنیا کا کوئی دیوانِ عام اس کی مثال پیش کر سکتا ہے؟
دربارِ عام کا ایک اور مقصد
دربارِ عام کا ایک مقصد جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کرنا ہوتا ہے۔
دلّی میں شاہی دربار منعقد ہؤا تو اس کی غرض یہ تھی کہ بادشاہ بنگال کی تقسیم کی منسوخی کا اعلان کرے مگر یہ غرض کتنی چھوٹی اور کتنی حقیر تھی اور پھرکتنی عجیب بات ہے کہ وہی تقسیم جو ۱۹۱۱ء میں منسوخ کی گئی تھی چھتیس سال کے بعد دوبارہ ظہور میں آگئی۔ اگر اُس وقت جارج پنجم کو یہ پتہ لگ جاتا کہ چھتیس سال کے بعد بنگال کی پھر تقسیم ہو جائے گی اور اس وقت دو صوبے ہی نہیں بلکہ دو الگ الگ حکومتیں بن جائیں گی تو شاید اُسے یہ اعلان کرتے ہوئے ہنسی آجاتی اور وہ سوچتا کہ میں کیا حماقت کر رہا ہوں۔
قرآنی آئین کا اعلان اوراس کی اہم خصوصیات
یہاں بھی ایک قانون کا اعلان ہوتا ہے مگر
وہ قانون کس قسم کا ہے فرماتا ہے ۷؎ فرماتا ہے ہم ایک نیا آئین جاری کرتے ہیں (جیسے انگریز آئے تو انہوں نے تعزیراتِ ہند کا نِفاذ کیا) ہم ایک نیا گورنر جنرل قیامت تک کے لئے مقرر کرتے ہیں اور اس کے ساتھ دنیا کی ہدایت اور اس کی راہنمائی کے لئے ایک قانون بھی نازل کرتے ہیں مگر تمہارے قانونوں اور اس قانون میں بہت بڑا فرق ہے۔ تمہارے قانون کی فرمانبرداری لوگ ڈر سے کرتے ہیں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے بغاوت کی تو پولیس انہیں گرفتار کر لے گی ورنہ ان قوانین کی تائید کرنے والے بھی بعض دفعہ اپنے دلوں میں سمجھتے ہیں کہ یہ قوانین غلط ہیں اور جب انہیں اختیار ملتا ہے تو وہ ان کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہمارا قانون اپنی ذات میں ایسی خوبیاں رکھتاہے کہ جس سے کوئی سوچنے والا انسان انکار نہیں کر سکتا۔
اَحْسَنَ الْحدیث
نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ ہم ایک قانون جاری کر رہے ہیں مگر وہ کوئی جبری قانون نہیں وہ محض اپنی بادشاہت منوانے کے لئے
نہیں بلکہ بہتر سے بہتر بات جو کہی جاسکتی ہے خواہ دینی رنگ میں یا دُنیوی رنگ میں، خواہ عقل سے خواہ نقل سے، خواہ روایت سے خواہ درایت سے، خواہ چھوٹوں کے لئے خواہ بڑوں کے لئے، خواہ مَردوں کے لئے، خواہ عورتوں کے لئے، ان تمام بہترین باتوں کو اِس قانون میں جمع کر دیا گیا ہے اور اب قیامت تک یہ قانون منسوخ نہیں ہو سکتا۔ دُنیوی حکومتیں بعض دفعہ بڑی سوچ بچار کے بعد قانون بناتی ہیں مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی انہیں اپنا قانون اپنے ہاتھوں سے منسوخ کرنا پڑتا ہے۔ امریکہ نے بڑا زور لگایا کہ وہ کسی طرح شراب کے استعمال کو روک دے اور اُس نے اِس پر قانونی پابندیاں بھی لگائیں مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی امریکہ کو پھر شراب نوشی کی اجازت دینی پڑی اور شراب کی ممانعت کا قانون اسے منسوخ کرنا پڑا۔
مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم جس قانون کے نِفاذ کا اعلان کر رہے ہیں وہ اَحْسَنَ الْحَدِیْث پر مشتمل ہے ہر بہتر سے بہتر بات اس میں موجود ہے اور وہ انتہائی طور پر پاک اور بے لوث قانون ہے جس میں بنی نوع انسان کی تمام ضرورتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ وہ ایسا قانون نہیں جو آج سے سَو یا ہزار سال کے بعد منسوخ ہو سکے یا جس میں ردّو بدل کی گنجائش نکل سکے۔
ایک مکمل قانون
اس کے بعد وہ اور زیادہ تشریح کرتا ہے اور بتاتاہے کہ وہ قانون کیا ہے؟ فرماتا ہے کِتَابًا وہ قانون ایک مکمل کتاب ہے۔
جب بادشاہ نے دلّی میں اعلان کے لئے دربار منعقد کیا تو اس نے تعزیراتِ ہند کا اعلان نہیں کیا، اس نے اپنے تمام قوانین کو پیش نہیں کیا، بلکہ صرف تقسیم بنگال کے منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ مگر قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا ہے کہ ہم تمہارے سامنے ایک ٹکڑا پیش نہیں کرتے بلکہ کامل شریعت پیش کرتے ہیں۔ ایک ٹکڑا بعض دفعہ انسان بھی اچھے سے اچھا بنا سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہزار یا دو ہزار سال تک قائم رہے۔ سوال سارے قانون کاہے کہ وہ شروع سے لیکر آخر تک مکمل ہو اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہو سکتی ہو۔ یہ کمال کسی اور کلام کو حاصل نہیں۔ پس فرماتا ہے کہ ہم جس قانون کو پیش کرتے ہیں:-
اوّل وہ اَحْسَنَ الْحَدِیْثہے یعنی اس میں بہتر سے بہتر اور پختہ سے پختہ باتیں بیان کی گئی ہیں اور وہ ایک خوبصورت اور بے عیب قانون ہے۔
دوم وہ کوئی ایک ٹکڑا نہیں بلکہ تمام قسم کے قانونوں پر حاوی ہے۔
انگلستان میں چند بہائی عورتوں سے گفتگو
میں جب انگلستان گیا تو وہاں ایک دن کچھ بہائی عورتیں مجھ
سے ملنے کے لئے آئیں۔ بہائی لوگ بہاء اللہ کو خدا سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کو منسوخ قرار دیتے ہیں مگر مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ہماری دشمنی کی وجہ سے بہائیوں کو تو اچھا سمجھتے ہیں اور ہمارے سلسلہ کے خلاف شور مچاتے رہتے ہیں۔ کراچی کے بعض اخبارات میں صفحوں کے صفحے بہاء اللہ کی تعریف میں شائع کئے جاتے ہیں حالانکہ وہ خدائی کا دعویدار تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اُس کا یہ عقیدہ تھا کہ آپ کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور اب نئی شریعت کی دنیا کو ضرورت ہے۔ بہرحال وہ عورتیں مجھ سے ملنے کے لئے آئیں ان عورتوں میں سے ایک تو شنگھائی بنک کے مینیجنگ ڈائریکٹر کی بیوی تھی دوسری امریکہ کی رہنے والے تھی اور تیسری ایک احمدی بیرسٹر کی بیوی تھی جو ایرانی اور بہائی تھی۔ ان کے ساتھ عبداللہ کوئلم تھے جو انگلستان کے سب سے پہلے نَومسلم تھے اور جنہیں ٹرکی نے شیخ الاسلام کا خطاب دیا تھا۔ ان عورتوں نے آتے ہی مجھ سے سوال کیا کہ آپ بہاء اللہ کو کیوں نہیں مانتے؟ میں نے کہا اس لئے نہیں مانتا کہ مَیں قرآن کریم کو مانتا ہوں ۔ وہ کہنے لگیں آپ قرآن کو کیوں مانتے ہیں کیا یہ کتاب منسوخ نہیں ہو سکتی؟ میں نے کہا یہ تو بحث ہی نہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں کئی چیزیں ہو سکتی ہیں مگر ہوتی نہیں۔ میں نے کہا تم مر سکتی ہو یا نہیں؟ اگر مر سکتی ہو تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ تم مر چکی ہو؟ تم نے یقینا ایک دن مرنا ہے مگر اس وقت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ تم مر چکی ہو۔ پس یہ سوال جانے دو کہ کوئی کتاب منسوخ ہو سکتی ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت قرآن کریم منسوخ ہے یا نہیں؟ تم مجھے کوئی ایک بات بتادو جو قابلِ عمل ہو مگر قرآن کریم میں نہ ہو یا بہاء اللہ کی کوئی ایک بات ہی مجھے بتادو جو سب سے اچھی ہو اور وہ قرآن کریم میں بیان نہ ہوئی ہو۔ وہ کہنے لگی کہ بہاء اللہ نے علم سیکھنے کا حکم دیا ہے یہ کتنی اچھی بات ہے۔ میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اِس حکم پر اتنا زور دیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ اُن کو اچھی تعلیم دلائے اور نیک تربیت کرے تو اُس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے۔ اِس پر وہ کہنے لگی بہاء اللہ نے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا حرام قرار دیا ہے لیکن قرآن اِس کی تعلیم دیتا ہے۔ امریکہ اور انگلستان اور یورپ اسلام کی اس تعلیم کو نہیں مان سکتا اور دنیا اِس ظلم کو کبھی برداشت نہیں کر سکتی۔ میں نے کہا میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ دنیا اس ظلم کو برداشت کر سکتی ہے یا نہیں تم پہلے مجھے یقینی طور پر بتا دو کہ بہاء اللہ نے ایک سے زیادہ شادیاں منع کی ہیں؟ اُس نے کہا ہاں بالکل منع ہے۔ وہ ایرانی عورت جو ان کے ساتھ تھی وہ عبدالبہاء کے پاس چھ ماہ رہ کر آئی تھی اور اُس نے ان سے خاص تعلیم پائی تھی۔ میں نے کہا اس سے پوچھو کہ آیا بہاء اللہ کی اپنی دو بیویاں تھیں یا نہیں؟ تم تو کہتی ہو کہ ایک سے زیادہ شادیاں منع ہیں اور بہاء اللہ نے آپ دوشادیاں کی ہیں۔ کہنے لگی آپ بِالکل الزام لگا رہے ہیں بہاء اللہ نے ہرگز دو شادیاں نہیں کیں۔ میں نے کہا اِس ایرانی عورت سے پوچھو۔ اُس سے پوچھا تو وہ کہنے لگی اجی مجھے اس جھگڑے میں کیوں گھسیٹتے ہیں آپ آپس میں بات کیجئے اور مجھے رہنے دیجئے۔ میں نے کہا اس میں گواہی کا سوال ہے آپ سچی گواہی کیوں چُھپاتی ہیں جو واقعہ ہو وہ آپ بتادیں۔ کہنے لگی کہ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ دو شادیاں دعویٰ سے پہلے کی تھیں۔ اس پر پہلی عورت نے شور مچا دیا کہ بس جواب ہو گیا یہ دعویٰ سے پہلے کی شادیاں تھیں۔ میں نے کہا تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ امام اپنی پیدائش کے وقت سے علمِ غیب رکھتا ہے جب اسے پتہ تھا کہ ایک سے زیادہ شادیاں ردّ کی جائیں گی تو پھر اُس نے خود کیوں ایک سے زیادہ شادیاں کیں؟ یا تو یہ کہو کہ وہ علمِ غیب نہیں رکھتا تھا اور یا یہ کہو کہ اس نے خداتعالیٰ کے حکم کے خلاف فعل کیا۔ اور اگر وہ علمِ غیب نہیں رکھتا تھا تب بھی اس کی خدائی باطل ہے اور اگر خداتعالیٰ کے حکم کے خلاف اس نے فعل کیا تب بھی وہ قابلِ اعتراض ٹھہرتا ہے۔ اور پھرسوال یہ ہے کہ اگر یہ حکم بعد میں نازل ہؤا تھا تو اُس نے دوسری بیوی رکھی کیوں؟ اسے اس نے طلاق کیوں نہ دیدی؟ اِس پر وہ کہنے لگی کہ ایک کو اس نے اپنی بہن قرار دیدیا تھا۔ میں نے کہا کہ اس پر اوّل تو پھر وہی اعتراض ہے کہ جب وہ عالم الغیب تھا اور جانتا تھا کہ مجھے اسے بہن قرار دینا پڑے گا تو اس نے پہلے اسے بیوی کیوں بنایا؟ لیکن اِس کو بھی جانے دو سوال یہ ہے کہ آیا بہن سے شادی تمہارے نزدیک جائز ہے؟ وہ کہنے لگی آپ تو گالیاں دیتے ہیں۔ میں نے کہا اِسی ایرانی بہن سے پوچھو۔ اُس نے پہلے تو بڑا زور لگایا کہ کسی طرح وہ اس بحث میں نہ پڑے اور بار بار کہے کہ میرا اِس سے کیا تعلق ہے میں تو یونہی آگئی تھی لیکن آخر میرے اصرار پر اُسے ماننا ہی پڑا کہ واقعہ میں بہاء اللہ کے ہاں اس سے اولاد بھی ہوئی ہے۔
قیامت تک قائم رہنے والا لائحہ عمل
غرض کہنے کو تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کس طرح مانیں کہ قرآن کریم منسوخ
نہیں ہو سکتا جب کہ پہلی کتابیںہمیشہ سے منسوخ ہوتی چلی آئی ہیں لیکن وہ کوئی ایسی بات بھی نہیں بتا سکتے جو دنیا کے لئے قابلِ عمل ہو اور قرآن کریم میں موجود نہ ہو یا قرآن کریم نے کوئی حُکم دیا ہو اور اس پر عمل نہ ہو سکتا ہو۔ تیرہ سَو سال ہو چکے دُنیا اس کے کسی حکم کو قابلِ تبدیل قرار نہیں دے سکی اور آئندہ کے متعلق بھی ہم اسی پر قیاس کر کے کہہ سکتے ہیں کہ وہ قیامت تک کے لئے ایک زندہ اور قائم رہنے والا لائحہ عمل ہے کیونکہ تیرہ سَو سال کے گزرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو مأمور آیا اُس نے دنیا میں پھر یہ اعلان کر دیا کہ یہ کتاب قیامت تک قائم رہنے والی ہے اور اِس کا قانون ایک اٹل صداقت ہے دنیا ہزاروں تغیرات میں سے گزرتی چلی جائے اس کا کوئی قانون بدل نہیں سکتا، اس کی کوئی تعلیم تبدیل نہیں کی جاسکتی۔
فطرتِ انسانی سے مطابقت رکھنے والی تعلیم
پھر فرماتا ہے مُتَشَابِھًا اِس کامل کتاب کی ایک یہ بھی خوبی
ہے کہ یہ متشابہہ ہے۔ متشابہہ کے دومعنے ہیں جن میں سے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ فطرت کے متشابہہ ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم جو تمہارے ہاتھوں میں ہے یہ ۸؎ ایک کتابِ مکنون میں ہے یعنی اس کا ایک ورق تو یہ لکھی ہوئی کتاب ہے اور اِس کا دوسرا ورق ہر انسان کی فطرت پر لکھا ہؤا ہے۔ گویا دو قرآن ہیں ایک قرآن فطرتِ انسانی میں ہے اور ایک قرآن اس کتاب میں ہے۔ کوئی شخص ایسی چیز نہیں پیش کر سکتا جو قرآن کریم میں تو ہو مگر اس کا فطرتِ صحیحہ انکار کرتی ہو اور کوئی بات فطرتِ صحیحہ میں ایسی نہیں ہو سکتی جو قرآن کریم میں موجود نہ ہو۔ یہ دلیل ہے اس بات کی کہ قرآن کریم قیامت تک قائم رہنے والی کتاب ہے کیونکہ جب یہ فطرت کے مطابق ہے تو جس طرح فطرت نہیں بدل سکتی اسی طرح قرآن کریم بھی بدل نہیں سکتا۔ وہ لوگ جو قرآن کریم کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں ہمارا اُن سے یہ سوال ہے کہ کیا انسانی فطرت کبھی بدل سکتی ہے؟ اگر بدل نہیں سکتی تو پھر قرآن کریم بھی بدل نہیں سکتا۔ گویا صرف یہی نہیں کہ یہ کتاب اب تک نہیں بدلی بلکہ متشابہ کہہ کر اِس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ کتاب کبھی بدل ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ فطرت کے مطابق ہے اور فطرت اس کے مطابق۔ جب تک انسان کی فطرت ِصحیحہ قائم رہے گی یہ قرآن بھی قائم رہے گا۔
سابق الہامی کتب کی تمام اعلیٰ تعلیمیں قرآن کریم میں جمع ہیں
دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ پہلی الہامی کتابوں کی اعلیٰ تعلیم کو پیش کرتا ہے گویا یہ متشابہہ ہے موسیٰ کی کتاب سے اور یہ متشابہہ
ہے زرتشت کی کتاب سے اور یہ متشابہہ ہے رام اور کرشن کی کتاب سے۔ اَحْسَنَ الْحَدِیْث میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ قرآن کریم میں اچھی سے اچھی اور بہتر سے بہتر باتیں بیان کی گئی ہیں اور متشابہہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم سے پہلے جو الہامی کتب نازل ہو چکی ہیں ان تمام کتابوں کی اچھی سے اچھی اور بہتر سے بہتر باتیں اس میں موجود ہیں۔ تورات کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں، وید کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں، ژنداَوِستا کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں۔ جب ساری اچھی باتیں اس میں موجود ہیں تو ہمیں اس بات کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ ہم دوسری کتابوں کی طرف رجوع کریں۔
عیسائیوں کا ایک اعتراض
عیسائی اعتراض کیا کرتے ہیں اور انہوں نے ینابیع ُالاسلام وغیرہ بعض کتابیں بھی اِس موضوع پر
لکھی ہیں کہ قرآن کریمنے فلاں بات فلاں جگہ سے نقل کی ہے اور فلاں، فلاں جگہ سے۔ حالانکہ قرآن کریم تو آپ کہتا ہے کہ میں نے ان باتوں کو نقل کیا ہے مگر قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ میں نے ان کی ردّی باتیں چھوڑ دی ہیں۔اگر اس میں ساری اچھی باتیں نہیں آئیں تو پھر جو قرآن کریم نے اچھی باتیں چھوڑ دی ہیں تم ان کی نقل کر دو اور کہو کہ یہ باتیں قرآن کریم سے رہ گئی ہیں لیکن اگر باقی صرف پھوگ ہی رہ گیا ہے تو ہم نے اس پھوگ کو کیا کرنا ہے۔ گائے بھینس چارہ کھاتی ہے اور دودھ دیتی ہے تو اس دودھ کو دیکھ کر کہہ سکتے ہو کہ یہ وہی چارہ ہے جو ہم نے کھلایا تھا مگر پیتے دودھ ہی ہو چارہ نہیں کھاتے۔ قرآن کریم نے بھی بعض باتوں کی نقل ہی کی ہے مگر انہیں نقل کرکے اس نے دودھ بنا دیا ہے جسے ہم پی رہے ہیں۔ بائیبل صرف ایک گھاس کے مشابہ ہے، زرتشتی کتابیں صرف ایک گھاس کے مشابہ ہیں، وید صرف گھاس کے مشابہ ہے لیکن قرآن کریم انہی باتوں کو نقل کرکے جس طرح گائے اور بھینس گھاس کھا کر دودھ دیتی ہیں ان کو گھاس سے دودھ کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے۔
پس بیشک قرآن کریم میں بعض باتیں ایسی ہیں جو انجیل کے مطابق ہیں، بعض باتیں ایسی ہیں جو تورات کے مطابق ہیں اور بعض باتیں ایسی ہیں جو دوسری کتب کے مطابق ہیں مگر اس نے ان تعلیموں کو نہایت ادنیٰ حالت سے لیکر اعلیٰ حالت تک پہنچا دیا ہے۔ ہمارے مخالفوں کو گھاس کھانا ہی اچھا لگتا ہے تو وہ بے شک گھاس کھائیں ہم تو دودھ ہی پئیں گے۔
قرآن کریم کی افضلیت
پھر فرماتا ہے کہ یہ قرآن مَثَانِیْ ہے۔ مَثَانِیْ کے متعلق ہم عربی لغت میں دیکھتے ہیں کہ اس کے کیا معنی
ہیں۔ وہاں مَثَانِیْ کے کئی معنے لکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مَابَعْدَ الْاَوَّلِ مِنْ اَوْتَارِا لْعُوْدِ۹؎ یعنی مزامیر اور سرنگی کی تاروں میں سے پہلی تار کے بعد جو دوسری تاریں آتی ہیں اُن کو مَثَانِیْ کہتے ہیں۔ پس قرآن کریم کو مَثَانِیْ قرار دینے کے یہ معنے ہوئے کہ یہ پہلی تاروں کے بعد دوسری تار ہے۔ قرآن کریم یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں دنیا میں پہلی الہامی کتاب ہوں جیسے ویدوں کا دعویٰ ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں ان کتابوں کے پیچھے آیا ہوں اور پھر اوپر کی چوٹی پر ہوں تاکہ کوئی اعتراض نہ کرے کہ قرآن کریم پہلی کتابوںسے اُتر کر دوسرے درجہ کی کتاب ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ مَیں ہوں تو دوسری کتاب مگر پہلی کتابوں سے زیادہ شاندار ہوں۔ اگر ایک ڈاکٹر اپنے فن میں بڑا مشہور ہو اور اُس کے بعد کوئی دوسرا ڈاکٹر آکر اپنے آپ کو اُس سے بڑھا کر دکھادے تو وہ چھوٹا سمجھا جاتا ہے یا بڑا سمجھا جاتا ہے؟ اگر ایک بیرسٹر بڑی کامیاب پریکٹس کرتا ہو اور اس کے بعد ایک دوسرا بیرسٹر آجائے جو اپنے کام میں اتنا شُہرہ حاصل کر لے کہ تمام لوگ پہلے بیرسٹر کوچھوڑ دیں اور اُس کے پاس آجائیں تو کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دوسرا بیرسٹر ہے اِس کو پہلے بیرسٹر پر کیا فضیلت حاصل ہے؟ پہلے کی موجودگی میں اپنے درجہ کو قائم کر لینا اور اپنی دھاک بٹھا لینا ایک فخر کی بات ہوتی ہے ورنہ جہاں عالِم نہیں ہوتے وہاں بعض دفعہ جاہل بھی آکر عالِم بن جاتے ہیں اور وہ جو کچھ اُوٹ پٹانگ کہہ دیں لوگ سُبْحَانَ اللّٰہِ سُبْحَانَ اللّٰہِ کہنے لگ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ بڑے عالم ہیں۔
ایک لطیفہ
اِسی قسم کے مسخرے کا ایک لطیفہ ہے۔ لوگ اُس سے مسئلے پوچھنے آتے تو کبھی وہ عقل کی بات کہہ دیتا اور کبھی بے وقوفی کی۔ ایک دفعہ عیسائی آئے
اور انہوں نے کہا بتائو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر گئے تھے تو کِس سیڑھی سے گئے تھے؟ اُس نے کہا حضرت عیسیٰ علیہ السلام جب آسمان پر گئے تھے تو لوگ سیڑھی اُٹھانی بُھول گئے تھے اُس پر چڑھ کر چلے گئے تھے۔ یہ تو معقول بات کہہ دی چاہے مذاق کی تھی، مگر اس کے بعد ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا کہ جب چاند نکلتا ہے تو پہلے وہ نہایت باریک ہوتا ہے اور پھر ذرا موٹا ہوتا ہے پھر اَور بڑاہوتا ہے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے پورا چاند بن جاتا ہے اور پھر تھوڑے دنوں کے بعد ہی غائب ہو جاتا ہے وہ چاند جاتا کہاں ہے؟ کہنے لگا اس کو کاٹ کر ستارے بنا لئے جاتے ہیں چونکہ قوم میں کوئی اور عالم نہیں تھا اِس لئے لوگ اُسی کو بڑا عالم سمجھتے تھے۔
قرآن کریم کا کمال
تو پہلے پہل اگر کوئی شخص آجائے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی دوسرا ڈاکٹر یا مقنّن یا انجینئر نہ ہو تو ایک معمولی
آدمی بھی لوگوں پر اپنی حکومت جما لیتا ہے لیکن پہلوںکے مقابل پر آکر کامیاب ہونا بہت بڑی ہمت چاہتا ہے۔ قرآن کریم اِسی مضمون کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہم پہلوں کی موجودگی میں آکر کامیاب ہوئے ہیں۔ تم اپنی طرح یہ نہ سمجھ لو کہ مُلک میں کوئی حکومت نہ تھی، کوئی قانون نہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے آکر ایک تعلیم دی اور لوگوں نے اسے مان لیا، ایران میں کوئی قانون نہ تھا زرتشت آئے اور انہوں نے اپنا اقتدار قائم کر لیا، اکیلے اکیلے میدان مار لینا اور بات ہے اور مقابلہ میں آکر میدان جیتنا اور بات ہے۔ ہم بعد میں آئے اور پھران کی چھاتیوں پر مُونگ دَل رہے ہیں۔ عیسائیوں کی کتابیں موجود ہیں ، یہودیوں کی کتابیں موجود ہیں، زرتشتیوں کی کتابیں موجود ہیں، ہندوؤں کی کتابیں موجود ہیں مگر پھر ہم ان سب کے سامنے آکر میدان مار رہے ہیں۔
خداتعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے والی کتاب
مَثَانِیْ کے دوسرے معنے مَعَاطِفُ الْوَادِیْ۱۰؎ کے ہیں
چلتے چلتے جب وادی ایک طرف مُڑتی ہے تو اُس کے موڑ کو بھی مَثَانِیْ کہتے ہیں۔ پس قرآن کریم کی دوسری خوبی اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ بنی نوع انسان کو موڑ کر ان کا رُخ ایک دوسری طرف پھیرنے والی کتاب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بنی نوع انسان جب علوم میں ترقی کرتے ہیں تو ان کا نقطۂ نگاہ صرف دنیا کا حصول ہوتا ہے وہ جغرافیہ میں یا سائنس یا تاریخ میں جب دسترس پیدا کرتے ہیں تو ان کا نقطۂ نظر صرف مادی ہوتا ہے اور وہ اُسی مادی راستے پر چلتے چلے جاتے ہیں۔ قرآن کریم نے ان راستوں سے بنی نوع انسان کو روکا نہیں۔ وہ حساب کی بھی تصدیق کرتا ہے جُغرافیہ کی بھی تصدیق کرتا ہے، وہ سائنس کی بھی تصدیق کرتا ہے، وہ تاریخ کی بھی تصدیق کرتا ہے، مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ایک اور طرف بھی ہے جس طرف تمہیں توجہ پھیرنے کی ضرورت ہے اور وہ موڑ وہ ہے جس کے پیچھے خداتعالیٰ بیٹھا ہے۔ بے شک سائنس بھی اپنی ذات میں ایک مفید چیز ہے، جغرافیہ، حساب اور تاریخ بھی اپنی ذات میں مفید علوم ہیں مگر ان علوم کی وادی چلتے چلتے ایک طرف خم کھاتی ہے اور اس کے موڑ کے پیچھے خداتعالیٰ کا وجود رونما ہوتا ہے۔ تم بے شک ان علوم میں ترقی کرو مگر یہ بھی دیکھو کہ اس مادی دنیا کے علاوہ خداتعالیٰ کی بھی ایک ذات ہے جس کا حصول تمہارا سب سے بڑا مقصد ہونا چاہئے۔ پس قرآن کریم انسانی عقلوں کو موڑ کر انہیں خداتعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے والی کتاب ہے اور یہی بات مَثَانِیْ میں بیان کی گئی ہے۔
قرآنی تعلیم کے ذریعہ
غیر معمولی طاقت کا حصول
مَثَانِیْ کے تیسرے معنے قُوَّۃَ الشَّیْئِ وَ طَاقَتُہٗ ۱۱؎ کے ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کی قوت اور اس کی طاقت۔ فرماتاہے قرآن کریم کی آیتیں اور قرآن کریم
کی تعلیم تمہاری قوت اور طاقت کا موجب ہیں یعنی قرآن کریم پر عمل کرنے والے ہمیشہ دُنیا پر غالب رہیں گے اور کسی جگہ نیچا نہیں دیکھیںگے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ سچ بولو۔ دنیا میں کبھی سچ بولنے والے ذلیل نہیں ہوسکتے۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ علم سیکھو دنیا میں کبھی علم سیکھنے والا ذلیل نہیں ہو سکتا۔قرآن کریم کہتا ہے کہ دھوکا مت دو۔ دھوکا اور فریب سے بچنے والا دُنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہوسکتا۔ قرآن کریم کہتاہے کہ تم علومِ طبیعیات پر غور کرو اور قدرت کے رازوں کی جستجو کرو۔ علومِ طبیعیات پر غور کرنے والا اور قدرت کے رازوں کی جستجو کرنے والا دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہو سکتا۔ غرض جو کچھ قرآن کریم کہتا ہے وہ انسان کی طاقت کا موجب ہوتا ہے اُس کی کمزوری کا موجب نہیں ہوتا۔ یہی وہ چیز ہے جس کا قرآن کریم ایک اور جگہ ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے ۱۲؎؎ کہ کافر بھی بعض دفعہ کہہ اُٹھتا ہے کہ کاش! مجھے اسلام کا نام نہ ملتا تو اس کی تعلیم ہی مل جاتی۔
یہود کا اعترافِ عجز
ایک دفعہ بعض یہودی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا آپ کے قرآن میں ایک ایسی آیت
موجود ہے کہ اگر وہ ہماری کتاب میں ہوتی تو ہم اس آیت کے نازل ہونے والے دن کو عید مناتے۔ آپ نے پوچھا وہ کونسی آیت ہے؟ انہوں نے کہا ۱۳؎ یہ آیت اگر ہماری بائیبل میں ہوتی تو ہم اس خوشی میں عید مناتے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا، تم کیا جانو جس دن یہ آیت اُتری ہے اُس دن ہمارے لئے دو عیدیں جمع تھیں، یہ حج کے دن نازل ہوئی ہے اور حج کے دن پہلے سے عید چلی آرہی ہے اور پھر وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ بھی ہمارے لئے عید کا دن ہے۔ ۱۴؎
تعدّدِ اَزواج پر بعض
انگریزوں سے گفتگو
حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی تعلیم ایسی نہیں ہے جس پر چل کر انسان ذلیل ہوسکے۔ وہ چیزیں جن پر دنیا اعتراض کرتی ہے وہ بھی ایسی ہیں کہ اگر ان کو لوگ
صحیح طور پر سمجھ جائیں تو ان کے اعتراضات بند ہو جائیں۔ میں جب ولایت گیا تو ایک دفعہ بعض انگریز مجھ سے ملنے کے لئے آئے۔ چونکہ انگریزوں میں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ اسلام میں عورتوں پر بہت ظلم کیا جاتا ہے اور اِس کی ایک وجہ وہ تعدّدِ اَزواج کو بھی قرار دیتے ہیں اس لئے انہوں نے اس موضوع پر مجھ سے گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی گئی ہے جو بڑی خطرناک بات ہے اور کوئی فطرت اسے برداشت نہیں کر سکتی۔ میں نے کہا کیا یہ بہت بُری تعلیم ہے؟ انہوں نے کہا بہت بُری تعلیم ہے۔ میں نے کہا میری اِس وقت تین بیویاں ہیں (اُس وقت میری تین بیویاں تھیں) کہنے لگے آپ کی تین بیویاں ہیں؟ آپ تو بڑے روشن خیال آدمی ہیں آپ نے یہ کیا کِیا؟ میں نے کہا جب آپ مجھے روشن خیال تسلیم کرتے ہیں تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ میں نے کوئی ظلم نہیں کیا۔ پھر میں نے انہیں بتایا کہ اسلام نے بے شک بعض حالات میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے مگر اسلام نے اس کے ساتھ کئی قسم کی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں جن کی موجودگی میں کوئی شخص محض عیاشی کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں نہیں کر سکتا۔ اسلام کہتا ہے اگر تم ایک سے زیادہ شادیاں کرو تو ہر ایک کو برابر کی باری دو، اسلام کہتا ہے کہ جتنا خرچ تم ایک بیوی کو دو اُتنا ہی خرچ دوسری بیوی کو دو، اسلام کہتا ہے کہ جس طرح تم ایک بیوی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہو اُسی طرح تم دوسری بیوی کی ضرورتوں کو بھی پورا کرو۔ اِن احکام کی موجودگی میں اگر کوئی شخص دو شادیاں کرتا ہے یا چار کرتا ہے تو آخر وہ کیوں کرتا ہے؟ بڑی وجہ اس کی یہی سمجھی جا سکتی ہے کہ اسے اپنی پہلی بیوی سے محبت نہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اسے اپنی پہلی بیوی سے محبت نہیں تو کتنا جبر ہے جو شریعت اس پر کرتی ہے۔ وہ چوبیس گھنٹے اپنی اس بیوی کے پاس گزارتا ہے جس سے اُسے محبت ہے تو شریعت کہتی ہے اُٹھائو اپنا بستر اور جائو دوسری بیوی کے پاس اور اس کے پاس بھی اسی طرح چوبیس گھنٹے گزارو۔ وہ اپنی نئی بیوی کے لئے جس سے اسے محبت ہوتی ہے کوئی زیور یا کپڑا تیار کرکے لاتا ہے تو شریعت کہتی ہے اب جائو اور اِسی قسم کا کپڑا اور اسی قِسم کا زیور اپنی دوسری بیوی کو دے آئو۔ غرض قدم قدم پر شریعت اس کے جذبات پر ایسا جبر کرتی ہے کہ اس کے بعد یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا کہ دوسری شادی کرنے والا عیاشی کا ارتکاب کرتا ہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی ایک بیوی جنہیں ہم بچپن میں مولویانی کہا کرتے تھے وہ ایک دفعہ ہمارے ہاں آئیں۔ میں اُن دنوں شدید بیمار تھا اور مجھ سے اُٹھا بھی نہیں جاتا تھا، پھر بھی میں سہارا لے کر دوسری بیوی کے گھرگیا۔ وہ مجھے دیکھ کر کہنے لگیں یہ کیسی قابلِ رحم حالت ہے کہ اُٹھا جاتا نہیں مگر دوسری بیوی کے گھر جا رہے ہیں۔ اب بتائو اِس میں عیاشی کی کونسی بات ہے، عیاشی تو تب ہو جب وہ صرف ایک بیوی سے تعلق رکھے اور دوسری کو نظر انداز کر دے۔ میری یہ بات سنکر وہ کہنے لگے کہ آپ کی اَور بات ہے۔ میں نے کہا اگر میرے جیسا بن جانے سے یہ بات قابلِ اعتراض نہیں رہتی تو آپ بھی اچھے آدمی بن جائیں بُرے کیوں بنے ہوئے ہیں۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
کی شادیوں میں حکمت
پھر میں نے انہیں کہا جب ہم ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں تو اس کی وجوہات ہوتی ہیں۔ مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی شادیاں
کیں مگر اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ کے سپرد تمام عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام تھا اور یہ اتنا بڑا کام تھا کہ آپ اکیلے اسے سنبھال نہیں سکتے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ زیادہ شادیاں کرتے تا زیادہ سے زیادہ تعداد میں ایسی عورتیں تیار ہو سکتیں جو اسلام میں داخل ہونے والی مستورات کی نگرانی کرتیں اور ان کی تعلیم و تربیت کا کام سرانجام دیتیں۔ میں بھی ایک قوم کا لیڈر ہوں میرے پاس سینکڑوں عورتیں آتی ہیں اور وہ اپنی مصیبتیں اور مشکلات بیان کرتی ہیں ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا، ان کی تعلیم کا انتظام کرنا اور ان کی تنظیم کو مکمل کرنا یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو کوئی غیر عورت نہیں کر سکتی۔ یہ کام اِسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ میں اپنی بیویوں کو تعلیم دوں اور وہ دوسری عورتوں کو تعلیم دیں اور ان کی تنظیم کا کام سرانجام دیں۔ اِس پر اُنہیں خاموش ہونا پڑا۔
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال نمونہ
غرض اسلام کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس
نے ہر ضرورت کے متعلق احکام نازل کئے ہیں اگر اسلام نے اس قسم کے احکام نہ دیئے ہوتے تو ہمیں دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا مگر اب ہمارا سر اونچا رہتا ہے اور دشمن کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ جب بیمار ہوئے تو باوجود سخت کمزوری کے ایک ہاتھ علی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر اور دوسرا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے کندھے پر رکھ کر ایک گھر سے دوسرے گھر میں جاتے اور بعض دفعہ تو ایسی صورت ہوتی تھی کہ آپ کے پائوں شدتِ کمزوری کی وجہ سے زمین کے ساتھ گھسٹتے چلے جاتے تھے۔ بیویوں نے جب یہ حالت دیکھی تو اُن سب نے مشورہ کیا کہ ایسی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک گھر سے دوسرے گھر میں جانا مناسب نہیں۔ آپ کو کسی ایک ہی بیوی کے گھر میں ٹھہرنا چاہئے۔ چنانچہ سب نے متفقہ طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی کہ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب تک آپ اچھے نہیں ہو جاتے آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ٹھہریں وہ آپ کی سب سے زیادہ خدمت کر سکتی ہیں چنانچہ آپؐ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہے اور وہیں آپ نے وفات پائی۔
مسلمانوں کے تحفّظ اور
ان کی بقاء کا صحیح طریق
غرض اسلام کے احکام پر عمل کرنا ایک بہت بڑا مجاہدہ ہے۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم بغیر کسی حقیقی ضرورت کے ایک سے زیادہ شادیاں کرو۔ وہ
ضرورتِ حقّہ کے ساتھ اِس کی اجازت کو مشروط قرار دیتا ہے اور جب ضرورتِ حقّہ پیدا ہو جائے تو پھر ایک سے زیادہ شادیوں پر اعتراض کرنا درست نہیں۔ جب بہار میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہؤا تو وہاں کے کچھ لوگ قادیان آئے اور انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ اب ہمارے بچائو کا کیا طریق ہے؟ میں نے کہا قرآن کریم نے دو علاج بتائے تھے مگر وہ دونوں تم نے چھوڑ دیئے ہیں۔ قرآن کریم نے کہا تھا کہ تبلیغ کرو مگر تم نے تبلیغ ترک کر دی اگر سارے مسلمان تبلیغ پر زور دیتے تو آج انہیں ایک ہندو بھی ہندوستان میں نظر نہ آتا۔ دوسرا علاج اسلام نے یہ بتایا تھا کہ تم چار چار شادیاں کرو تم ایک ہی نسل میں آٹھ گُنا ہو جائو گے دوسری نسل میں سولہ گُنا ہو جائو گے اور تیسری نسل میں بتیس گُنا ہو جائو گے۔ میں نے کہا اِس وقت کئی اچھوت اقوام موجود ہیں اگر تم اُن کی بیٹیاں لینی شروع کردو تو وہ شوق سے اپنی لڑکیاں تمہارے ساتھ بیاہ دیں گے اور ہر عورت کم سے کم چاربچے جنے گی نتیجہ یہ ہوگا کہ پچاس سال کے بعد تم آٹھ سے بتیس کروڑ ہو جائو گے۔
غرض خداتعالیٰ نے علاج تو بتایا ہے لیکن اگر تم عمل نہ کرو تو کیا کِیا جائے۔ گزشتہ جنگ کے بعد کئی یورپین قوموں میں یہ تحریک پیدا ہوئی ہے کہ اگر وہ اپنی تعداد کو بڑھانا چاہتی ہیں تو انہیں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہونی چاہئے۔
اقلّیت کے لئے طاقت حاصل کرنیکا نسخہ
غرض ایک سے زیادہ شادیاں اقلیت کے لئے طاقت حاصل
کرنے کا ایک زبردست ذریعہ ہے۔دو نسلیں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال لیں تو مسلمانوں کی تمام مشکلات دُور ہو سکتی ہیں اور وہ مغلوب ہونے کی بجائے ایک غالب قوم کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہماری اولاد ہوئی تو وہ کھائے گی کہاں سے؟ حالانکہ یہی تو وہ حکمت ہے جس کو وہ نہیں سمجھتے، تم بچے پیدا کرو اور کرتے چلے جائو، وہ بے شک بھوکے رہیں گے، وہ بیشک پیاسے رہیں گے ، وہ بے شک ننگے رہیں گے، لیکن جس وقت بتیس کروڑ بھوکے اور پیاسے اور ننگے اُٹھے، وہ بم کی طرح پھٹیں گے اور سارے مُلک پر قبضہ کر لیں گے۔ کھاتے پیتے لوگ تو عیاشیاں کیا کرتے ہیں یہ بھوکے مرنے والے لوگ ہی ہیں جو قوموں کو تخت و تاج کا وارث بنایا کرتے ہیں۔
مسلمانوں کے اندر حرکت
اور بیداری پیدا کرنیکا ذریعہ
مَثَانِیْ کے چوتھے معنے مفاصل یا جوڑ کے ہیں۱۵؎ جوڑسے حرکت پیدا ہوتی ہے، کمر کا جوڑ بند ہو جائے تو تم چل نہیں سکتے، گُھٹنے کا جوڑ
بند ہو جائے تو تم حرکت نہیں کر سکتے، ہاتھ کا جوڑ بند ہو جائے تو تم کسی چیز کو ایک جگہ سے ہٹاکر دوسری جگہ پر نہیں رکھ سکتے، گویا جوڑ حرکت کا ایک ذریعہ ہوتا ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ اس کی آیتیں مسلمانوں کے لئے مفاصل ثابت ہو نگی ان کے اندرایک حرکت اور بیداری پیدا کر دیں گی اور انہیں آناً فاناً کہیں سے کہیں پہنچا دیں گی۔
آٹھ خوبیوں والا کلام
یہ آٹھ خوبیاں اُس قانون کی بتائی گئی ہیں جو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا اور جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے
دربارِ عام میں اعلان کیا۔ دُنیوی حکومتوں کی تعزیرات میں تو سزائیں ہی سزائیں ہوتی ہیں مگر یہ قانون بشارات پر بھی مشتمل ہے اور اِنذار پر بھی مشتمل ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تمہارے سامنے ایک ایسی چیز پیش کر رہے ہیں جو آٹھ خوبیاں اپنے اندر رکھنے والی ہے وہ اَحْسَنَ الْحَدِیْث ہے وہ کِتَاب ہے وہ مُتَشَابِہ ہے یعنی فطرت کے مطابق ہے اور نیز پہلی کتابوں کی تعلیم کے مقابلہ میں برتر تعلیم دیتی ہے اور پھر وہ مَثَانِیْ ہے اور مَثَانِیْ کے چار معنے بتائے جاچکے ہیں گویا یہ آٹھ خوبیوں والا قانون ہے جس کے نِفاذ کا ہم اپنے دیوانِ عام میں اعلان کرتے ہیں۔
الٰہی عظمت اورمحبت کا پُرکیف نظارہ
پھر فرماتا ہے
۔ یہ ایسی عجیب تعلیم ہے کہ جس وقت انسان اسے پڑھتا ہے تو پہلے اس کے رَونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ کانپنے لگ جاتا ہے مگر پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کے پیار کا مشاہدہ کرتا ہے تو اُسے یُوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی سزائیں بھی محبت اور پیار کا رنگ رکھتی ہیں ۔ وہ سزا دیتا ہے تب بھی پیار کے طور پر اوراگر ڈانٹتا ہے تب بھی پیار کے طور پر۔ جب مؤمن اس بات کو سوچتے ہیں تو ان کی جلدیں نرم ہو جاتی ہیں اور ان کے دل اللہ تعالیٰ کی طرف اس طرح کِھچے چلے جاتے ہیں کہ وہ سیدھے خداتعالیٰ کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں اے ہمارے ربّ! تیری مار بھی پیاری ہے اور تیرا پیار بھی پیارا ہے۔ یہ کتنا عظیم الشان اعلان ہے جو اسلام کے دیوانِ عام سے کیا گیا ہے کیا دنیا کی کوئی حکومت اس اعلان کا مقابلہ کر سکتی ہے؟
قانونِ الٰہی کی اتباع کرنے
اور نہ کرنے والوں سے سلوک
پھر وہ بتاتا ہے کہ جو لوگ ہمارے اس قانون پر عمل کریں گے اُن سے ہمارا کیا سلوک ہوگا فرماتا ہے
۱۶؎ دُنیوی گورنمنٹیں دربارِ عام سے اعلان کرتی ہیں تو کہتی ہیں کہ دیکھو تم ہمارے قانون کی پابندی کرو گے تو جیل خانوں سے بچ جائو گے، تمہیں بڑے بڑے خطاب دیئے جائیںگے، تمہیں زمین اور مال ملے گا اور ہم تمہاری حفاظت کریں گے۔ مگر یہاں ایک عجیب منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ خدائی دیوانِ عام میں بادشاہ یہ اعلان کرتا نظرآتا ہے کہ اے لوگو! اگر تم ہمارے قانون کی پابندی نہیں کرو گے تب بھی تم حکومت کے منافع سے محروم نہیں کئے جائو گے فرماتا ہے ۱۷؎ یعنی تم اگر کافر بھی ہو گئے تب بھی ہم تمہیں اپنے رزق سے محروم نہیں کریں گے اور تمہاری کوششوں کے نتائج پیدا کرتے چلے جائیں گے۔ یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے جو دُنیوی حکومتوں اور الٰہی حکومت میں نظر آتا ہے۔ دُنیوی حکومتیں اپنے قانون کے خلاف ورزی کرنیوالوں کو سزائیں دیتی ہیں اور اُنہیں جیل خانوں میں بند کر دیتی ہیں مگر خدائی گورنمنٹ یہ اعلان کرتی ہے کہ اگر تم ہمارے قانون کے ماننے سے انکار بھی کرو گے تب بھی ہم تمہیں رزق دیتے چلے جائیں گے اور تمہیں اُن فوائد سے محروم نہیں کریں گے جو ہماری حکومت سے سب لوگوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ اوراگر تم ہمارے قوانین کو تسلیم کروگے تو تم بادشاہ کے محبوب بن جائو گے فرماتا ہے اے ہمارے رسول! تُو لوگوں میں یہ اعلان کر دے کہ میں تو اس قرآن پر عمل کرکے اور اس کی تعلیم کو مان کر خداتعالیٰ کا پیارا بن گیا ہوں اگر تم بھی چاہتے ہو کہ خداتعالیٰ کے محبوب بنو تو تم میرے نقشِ قدم پر چل پڑو خداتعالیٰ تم سے بھی محبت کرنے لگ جائے گا اور تمہیں بھی اپنا محبوب بنا لے گا۔
دُنیوی بادشاہوں کا طریقِ عمل
دُنیوی بادشاہ جب کسی قانون کا اعلان کرتے ہیں تو اس قانون کی فرمانبرداری
کرنے والوں کو کبھی کوئی انعام نہیں ملتا۔ کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کسی شخص کو اس لئے انعام ملا ہو کہ اُس نے چوری نہیں کی، یا کسی شخص کو اِس بات پر انعام ملا ہو کہ وہ سڑک کے بائیں طرف اپنا موٹر چلایا کرتا تھا؟ ہاں یہ نظارہ دیکھنے میں ضرور آتا ہے کہ کسی کو ذیلدار بنا دیا گیا محض اِس لئے کہ جب ڈپٹی صاحب دَورے پر آتے ہیں تو وہ لوگوں کی مُرغیاں چُرا چُرا کر انہیں کِھلاتا ہے۔ پھر جو خطاب ملتے ہیں اُن کا حقیقت کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا۔ خطاب ملتا ہے خان بہادر اور خان بہادر صاحب کی اپنی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر چُوہا بھی چِیں کرے تو اُن کی جان نکل جاتی ہے۔ گویا خطاب ملتے ہیں تو جھوٹے اورخطاب ملتے ہیں تو انصاف کے خلاف۔ نہ خطاب کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ انصاف کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے۔ جتنے خطاب لینے والے ہوتے ہیں اگر ان کے حالات پر غور کرکے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہیں خطاب محض اس وجہ سے دیئے گئے ہیں کہ وہ افسروں کو شکار کھِلاتے رہے ہیں یا مُرغابیاں مار مار کر ان کے لئے لاتے رہے ہیں۔
ایک ذیلدار کا واقعہ
مجھے یاد ہے ہمارے ہاں ایک ڈپٹی کمشنر آیا وہ کچھ پاگل سا تھا مگر اُسے شکار کا بہت شوق تھا۔ ذیلدار صاحب اسے اپنے
ساتھ شکار کے لئے لے گئے۔ چلتے چلتے اسے دور سے کچھ بطخیں نظر آئیں جو تالاب میں پِھر رہی تھیں اس نے سمجھا کہ مرغابیاں ہیں ذیلدار سے کہنے لگا کہ دیکھو! وہ کیسی اچھی مرغابیاں ہیں۔ ذیلدار کو معلوم تھا کہ یہ مرغابیاں نہیں بطخیں ہیں مگر ڈپٹی کمشنر کے کہنے پر اُس نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ بڑی اچھی مُرغابیاں ہیں۔ اُس نے فائر کیا جس سے ایک بطخ مرگئی۔ اب وہ شخص جس کی بطخ ماری گئی تھی وہ بھی ساتھ تھا مگر ڈر کے مارے وہ بھی اس کی تعریف کرتا چلا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ صاحب! ایسی مرغابی تو بہت کم آتی ہے۔ کچھ دیر کے بعد وہ خود بھی سمجھ گیا کہ یہ مُرغابی نہیں بطخ تھی اور اُس نے پانچ روپے نکال کر بطخ والے کو دیئے کہ یہ لے لو مگر وہ بار بار یہی کہتا چلا جاتا تھا کہ آپ پانچ روپے کیوں دیتے ہیں یہ مرغابی ہی تھی۔ یہ تو خطاب لینے والوں کا حال تھا کہ اوّل تو جو انہیں خطاب ملتے تھے وہ انصاف کے خلاف ہوتے تھے یعنی محض خوشامد یا افسروں کی تعریفیں کرنے پر اُنہیں خطاب مل جاتے تھے اور پھر خطاب جھوٹے ہوتے تھے ان کا حقیقت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہوتا تھا۔ اِسی طرح اگر زمین ملتی تھی تو وہ عارضی ہوتی تھی اور اگر مال ملتا تھا تو وہ کھویا جانے والا ہوتا تھا مگر یہاں یہ اعلان ہوتا ہے کہ اگر تم اس گورنر کی اطاعت کرو گے تو بادشاہ کے محبوب بن جائو گے فرماتا ہے کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اور میری ’’اتباع‘‘ کے یہ معنے ہیں کہ جس شخص کی اتباع کرنی ہے وہ ۱۸؎ کا مصداق ہے۔ تمام عظیم الشان اخلاق اور تمام اعلیٰ قسم کی خوبیاں اور کیریکٹر اس میں موجود ہیں۔ پسکے یہ معنے ہوئے کہ تم بھی تمام اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور خوبیاں اپنے اندر پیدا کرو، تب خداتعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا۔
بغاوت کرنے والوں کے متعلق اعلان
(۵) پھر دُنیوی بادشاہ یہ بھی اعلان کیا کرتے ہیں کہ جو لوگ
بغاوت کریں گے اور حکومت کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے اُن کو یہ یہ سزائیں دی جائیں گی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ آیا اِس روحانی دربارِ عام میں بھی کوئی ایسا اعلان کیا گیا ہے یا نہیں؟ اِس نقطہ نگاہ سے جب ہم اس دربارِ عام پر نظر دَوڑاتے ہیں تو ہمیں باغیوں کے بارہ میں یہ اعلان سنائی دیتا ہے کہ۱۹؎ فرماتا ہے ہمارے دشمن دُنیوی طور پر بڑی بڑی طاقتیں رکھتے ہیں اور ہم نے ان کی طاقتیں چِھینی بھی نہیں کیونکہ ہم نے کہدیا ہے کہ۔ یعنی ہمارا قانون یہ ہے کہ ہم اِس مادی دنیا میں مؤمنوں کی بھی مدد کیا کرتے ہیں اور کافروں کی بھی مدد کیا کرتے ہیں لیکن باوجود اِس کے ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ ہم نے اِن بغاوت کرنے والوں کو تباہ و برباد کر دینا ہے وہ ہماری مخالفت میں لوگوں کو بیشک اُکسائیں، بیشک ان کو اشتعال دلائیں، بیشک ان کے خیالات کو بگاڑنے کی کوشش کریں نتیجہ یہی ہوگا کہ یہ مخالفت کرنیوالے مٹ جائیں گے اور دُنیا پر ہماری تعلیم غالب ہو کر رہے گی۔
مخالف تدابیر کرنیوالے
ہلاک کئے جائیںگے
اسی طرح فرماتا ہے
۲۰؎ یہ بڑے بڑے دشمن جو ہماری حکومت کے مخالف ہیں قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس خداتعالیٰ کا کوئی رسول آجائے تو وہ پہلی قوموں یعنی موسوی اور عیسوی سلسلہ سے بھی بہتر ہو جائیں گےمگر جب خداتعالیٰ کا ایک نذیران کے پاس آگیا تو اب یہ اس کی مخالفت پر آمادہ ہوگئے اور اس کی حکومت کا جُؤا اُٹھانے کے لئے تیار نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے نمبرداریاں سنبھالی ہوئی تھیں اور اعلیٰ اور بلند اخلاق کے عادی نہیں تھے۔مگر ہمیں اِس بارہ میں کسی دوسرے کی مدد کی ضرورت نہیں بدی خود اُس کے سر پر پڑا کرتی ہے جو اس میں مبتلاء ہوتاہے ہماری طاقت اس میں ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ باتیں بتائی ہیں جو نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں اور جنہیں ہر فطرتِ صحیحہ قبول کرتی ہے ان کے لئے نہ کسی فوج کی ضرورت ہے نہ دشمن سے لڑائی کی ضرورت ہے یہ لوگ آپ ہی تباہ و برباد ہوجائیں گے۔
اسلام کی اشاعت اِس کی اعلیٰ
درجہ کی تعلیم کی وجہ سے ہوئی ہے
چنانچہ دیکھ لو اسلام نے تلوار کے زور سے فتح نہیں پائی بلکہ اسلام نے اس اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ فتح پائی ہے جو دلوں میں اُتر
جاتی تھی اور اخلاق میں ایک اعلیٰ درجہ کا تغیر پیدا کر دیتی تھی۔ ایک صحابی کہتے ہیں میرے مسلمان ہونے کی وجہ محض یہ ہوئی کہ مَیں اُس قوم میںمہمان ٹھہرا ہؤا تھا جس نے غداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے ستّر قاری شہید کر دیئے تھے جب انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو کچھ تو اونچے ٹیلے پر چڑھ گئے اورکچھ ان کے مقابلہ میں کھڑے رہے۔ چونکہ دشمن بہت بڑی تعداد میں تھا اور مسلمان بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی نہتے اور بے سروسامان اِس لئے انہوں نے ایک ایک کرکے تمام مسلمانوں کو شہید کر دیا۔ آخر میں صرف ایک صحابی رہ گئے جو ہجرت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے ان کا نام عامر بن فہیرہ ؓ تھا۔ بہت سے لوگوں نے مل کر ان کو پکڑ لیا اورایک شخص نے زور سے نیزہ ان کے سینہ میں مارا۔ نیزے کا لگنا تھا کہ اُن کی زبان سے بے اختیار یہ فقرہ نکلا کہ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ کعبہ کے رب کی قسم! میں کامیاب ہو گیا۔ جب میں نے ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا تو میں حیران ہؤا اور میں نے کہا یہ شخص اپنے رشتہ داروں سے دُور، اپنے بیوی بچوں سے دُور، اتنی بڑی مصیبت میں مبتلاء ہؤا اور نیزہ اِس کے سینہ میں مارا گیا مگر اِس نے مرتے ہوئے اگر کچھ کہا تو صرف یہ کہ ’’کعبہ کے رب کی قسم! مَیں کامیاب ہو گیا‘‘ ۔ کیا یہ شخص پاگل تو نہیں؟ چنانچہ مَیں نے بعض اور لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے اور اس کے منہ سے ایسا فقرہ کیوں نکلا؟ انہوں نے کہا تم نہیں جانتے یہ مسلمان لوگ واقعہ میں پاگل ہیں جب یہ خداتعالیٰ کی راہ میں مرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ خداتعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور انہوں نے کامیابی حاصل کر لی۔ میری طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہؤا کہ مَیں نے فیصلہ کر لیا کہ میں ان لوگوں کا مرکز جا کر دیکھوں گا اور خود ان لوگوں کے مذہب کا مطالعہ کروں گا۔ چنانچہ مَیں مدینہ پہنچا اور مسلمان ہو گیا۔ صحابہؓ کہتے ہیں کہ اِس واقعہ کا کہ ایک شخص کے سینہ میں نیزہ مارا جاتا ہے اور وہ وطن سے کوسوں دُور ہے، اُس کاکوئی عزیز اور رشتہ دار اس کے پاس نہیں اور اس کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِ اس کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ جب وہ یہ واقعہ سنایا کرتا اور فُزْتُ وَ رَبِّ الْکَعْبَۃِکے الفاظ پر پہنچتا تو اِس واقعہ کی ہیبت کی وجہ سے یکدم اس کا جسم کانپنے لگ جاتا اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے۲۱؎ تو اسلام اپنی خوبیوں کی وجہ سے پھیلا ہے زور سے نہیں۔
مسلمانوں کی تمام جنگیں مدافعانہ تھیں
اللہ تعالیٰ اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کیا تم یہ
خیال کرتے ہو کہ آسمان سے لشکر اُتریگا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو کامیاب کریگا؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں کو لڑائیاں بھی لڑنی پڑیں مگر جتنی بھی لڑائیاں ہوئی ہیں ان میں ابتداء کُفار کی طرف سے ہوئی ہے۔ کفار نے آپ حملہ کیا اور مسلمانوں کو ان کے دفاع کے لئے میدانِ جنگ میں اُترنا پڑا۔ پس سوال یہ نہیں کہ مسلمانوں نے جنگیں کی ہیں یا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا اسلام نے یہ کہا تھا کہ اگر کفار کی طرف سے حملہ ہؤا تب تم جیتو گے ورنہ نہیں؟ اسلام نے تو یہ کہا تھا کہ میں خود جیتوں گا اور وہ اسی طرح جیتا کہ جو لوگ اسلامی تعلیم کا مطالعہ کرتے یا مسلمانوں کی قربانی کا نظارہ دیکھتے اُن کے دل مرعوب ہو جاتے اور وہ اسلامی تعلیم کے حُسن اور اس کی صداقت کا اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے ۔
کامیابی توپوں کے ساتھ نہیں
بلکہ قرآن کے ساتھ وابستہ ہے
افسوس کہ آج کے مسلمان توپ و تفنگ کی طرف دیکھ رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل کریں،
اخلاقِ فاضلہ پر زور دیں، دعا، نماز اور ذکرِ الٰہی کی طرف توجہ کریں وہ یورپ کی طرف آنکھ اُٹھائے اِس اُمید میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ کب یہ لوگ انہیں توپیں اور تلواریں دیتے ہیں جن کے زور سے وہ دنیا کو فتح کریں۔ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی طرف نہیں دیکھتے وہ کافر کی تو پ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں حالانکہ کامیابی توپوں کے ساتھ نہیں بلکہ اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کے ساتھ وابستہ ہے۔
کُفر کی مجموعی طاقت کے
متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ
(۶) اب میں یہ بتاتاہوں کہ طاقتِ مخالفانہ کے بارہ میں اس نے کیا حکم دیا ہے؟ طاقتِ مخالفانہ اور انفرادی مخالفت یہ دو الگ الگ چیزیں
ہیں۔ مخالفوں اور باغیوں کے متعلق اُس نے جو حکم دیا ہے اس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اب کفر کی مجموعی طاقت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ فرمایا ہے اُس کا ذکر کیاجاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۲۲؎ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تُو ان لوگوں سے کہہ دے کہ قرآن آگیا اب کُفر ِاس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا۔ یہ کتنا عظیم الشان دعویٰ ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے۔ کیا دنیا کی کوئی طاقت ایسی مثال پیش کر سکتی ہے؟ امریکہ اور انگلستان نے سائنس میں کتنی عظیم الشان ترقی کر لی ہے مگر کیا کوئی امریکن سائنسدان یا انگلستان کا مُقنِّن یہ کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے ایسا مکمل اور جامع قانون تیار کر لیا ہے کہ ساری حکومتیں اس کی اِتباع پر مجبور ہونگی۔ باوجود ایک بے مثال ترقی کر لینے کے امریکہ اور انگلستان ایسا دعویٰ نہیں کر سکتے، لیکن قرآن کریم تمام دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کرتا ہے کہ میرا قانون ایسا مکمل اور اتنا جامع ہے کہ قیامت تک یہ اپنی موجودہ شکل میں ہی قائم رہیگا۔یہ ایسا دعویٰ ہے کہ اِس کی مثال دنیا کی کسی حکومت میں نہیں مل سکتی قرآن کریم کہتاہے حق آگیا جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے ایسی حکومت بھیج دی ہے جس کے مقابلہ میں کوئی اور حکومت ٹھہر ہی نہیں سکتی۔
ایک شُبہ کا ازالہ
لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس دعوٰی کو کیاکریں؟ قرآن کریم کے مقابلہ میں اور کئی حکومتیں ٹھہری ہوئی ہیں، ہندو موجود
ہیں، عیسائی موجود ہیں، زرتشتی موجود ہیں اور ان کی کتابیں بھی موجود ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا دنیامیں آج اسلام پر عمل کیا جاتا ہے یا ہندو اور عیسائی اور زرتشتی مذہب پر عمل کیا جاتا ہے؟ کیا اسلام کے سِوا دنیا میں کوئی ایک مذہب بھی ایسا ہے جس کے پیرو اپنے مذہب پر عمل کر رہے ہوں؟ وہ کہتے یہی ہیں کہ ہم عیسائیت پر عمل کرتے ہیں یا ہندو مذہب پر عمل کرتے ہیں یا زرتشتی مذہب پر عمل کرتے ہیں لیکن شروع سے لے کر آخر تک وہ اسلامی تعلیم کو اپنا رہے ہیں۔ ان کا عمل انجیل پر نہیں، ان کا عمل ژنداَوِستا پر نہیں، ان کا عمل وید پر نہیں، ان کا عمل اسلام پر ہے۔ چنانچہ دیکھ لو عیسائیت کی تعلیم کی رو سے شراب پینا جائز ہے خود حضرت مسیح ناصری نے بھی انجیل کے مطابق (گو ہم مسلمان اِس کے قائل نہیں) شراب کامعجزہ دکھایا مگر آج سارے یورپ میں ایسی سوسائٹیاں بنی ہوئی ہیں جو اِس بات پر زور دے رہی ہیں کہ شراب پینی بند کر دی جائے اور سارے یورپ کے ڈاکٹر شور مچا رہے ہیں کہ شراب ایک زہر ہے جس کا پینا انسانی جسم کے لئے مُہلک ہے اِس تمام جدوجہد میں کس مذہب کی فتح ہے؟ عیسائیت کی یا اسلام کی؟ اسلام نے کہا حق آگیا اب باطل اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا قرآن کریم نے شراب کو حرام قرار دیا تھا اب دنیا مجبور ہو رہی ہے کہ شراب کو ناجائز قرار دے۔
قرآن کریم کی پیش کردہ توحید کی فتح
پھر جب قرآن کریم آیا اُس وقت دنیا کے چپے چپے پر لوگوں نے بُت
بٹھائے ہوئے تھے مگر آج دنیا کا تعلیم یافتہ انسان بُت کے آگے سر جُھکانے کے لئے تیارنہیں۔ دنیا کے چپے چپے پر سے بُت اُٹھ گئے اور وہی توحید دنیا میں قائم ہو گئی جو قرآن کریم نے پیش کی تھی۔ اِسی طرح اور ہزاروں امور میں تعلیماتِ اسلامیہ کے فائق ہونے کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ لوگوں نے ابھی ان حقائق کو نہیں مانا کیونکہ کَافَّۃً لِّلنَّاس کا اسلامی تعلیم پر برتری کو تسلیم کرنا مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ وابستہ تھا اور اب یہ کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے شروع ہو چکا ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی سمجھدار انسان انکار نہیںکر سکتا کہ اسلام نے ہر معاملہ میں جو تعلیم پیش کی ہے اس کا مقابلہ دنیاکا کوئی اورمذہب نہیں کر سکتا۔
قضاء کے بارہ میں
اسلام کی شاندار تعلیم
انصاف اور قضاء کو ہی لے لو۔ بادشاہ قاضی مقرر کرتے ہیں تو ان قاضیوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی خواہش اور منشاء کے مطابق فیصلے کئے جائیں۔ آج بھی پاکستان
میں یہ بحث شروع ہے کہ گورنر جنرل کسی قانون کے ماتحت آسکتا ہے یا نہیں آسکتا؟ پاکستان کی دستور ساز کمیٹی نے جو رپورٹ تیار کی ہے اور جسے رائے عامہ کے لئے مُشتہر کیا گیا ہے اس میں ایک شِق یہ رکھی گئی ہے کہ:-
’’ جب تک صدر حکومت یا صدر صوبہ اپنے عُہدہ پر فائز رہیں، ان کے خلاف کسی قسم کی فوجداری نالش کسی عدالت میں دائر نہ ہونا چاہئے اور نہ جاری رہنا چاہئے۔‘‘
حالانکہ اسلامی تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نالش ہوئی۔ اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ پر نالش ہوئی اور وہ عدالت میں پیش ہوئے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جن کو ہم معصوم سمجھتے ہیں بلکہ میرا یہ کہنا کہ ہم ان کو معصوم سمجھتے ہیں ایک بے وقوفی کا فقرہ ہے وہ معصوم تھا اور یقینا تھا میرے سمجھنے یا نہ سمجھنے کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ انسان جس کو خداتعالیٰ نے اپنا گورنر جنرل مقرر کرکے بھیجا، وہ انسان جسے اس نے اس دنیا میں خلیفۃ اللہ بنا کر بھیجا اور ایسا خلیفۃ اللہ بنا کر بھیجا ہے جس پر اُس نے وہ کامل قانون نازل کیا جس کے متعلق وہ خود کہتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس قانون کی مثال تیار کرنے پر قادر نہیں ہو سکتی اور ایسا آئین نازل کیا جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، اتنے بلند ترین مقام کا انسان اپنی وفات کے قریب صحابہ ؓ سے کہتا ہے کہ خداتعالیٰ نے مجھے دنیا میں انصاف قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا میں نے اِس دنیا میں اُس کی رضا اور خوشنودی کے لئے اُس کے احکام کو جاری کیا ہے لیکن ممکن ہے اِس جدوجہد میں مجھ سے کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو اور میں نے دوسرے کا حق مار لیا ہو اے میرے صحابہؓ! تمہاری وفاداری یہ ہوگی کہ اگر مَیں نے غلطی سے کسی کا حق مار لیا ہے تو وہ اپنا بدلہ آج مجھ سے لے لے تا قیامت کے دن خداتعالیٰ مجھ سے اس غلطی کا بدلہ نہ لے۔ کیا دنیا کا کوئی گورنر جنرل ایسا ہے؟ کیا دنیا میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا یا آپ کے برابر ہی ہو؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے مجھ سے کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو اور اگر ایسا ہو گیا ہو تو مجھ سے بدلہ لے سکتے ہو۔
دردناک منظر
تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ عُشّاق، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فریفتہ اور شیدائی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پائوں کی
خاک بھی اپنے لئے اکسیر سمجھتے تھے اُن کا اِس فقرہ کو سُنکر کیا حال ہؤا ہوگا اور اُن کے دل پر اُس وقت کیا گزری ہوگی۔ تم اپنی حیثیت پر قیاس کرتے ہوئے اندازہ لگا سکتے ہو کہ ان کے دل پھٹ گئے ہوں گے، ان کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا ہوگا کہ ہمارا وہ آقا جو کُند تلوار سے بھی اگر ہماری گردنیں کاٹ ڈالے تو ہم یہ سمجھیں گے کہ اس سے زیادہ ہم پر کوئی احسان نہیں وہ کہتا ہے کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو آج مجھ سے بدلہ لے لو۔ مجمع پر خاموشی طاری تھی کہ ایک صحابیؓ اُٹھے اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! مجھے آپ سے ایک تکلیف پہنچی ہے فلاں لڑائی کے موقع پر جب آپ صفیں ٹھیک کر رہے تھے ایک صف کو چِیر کر آپ آگے آئے تو اُس وقت آپؐ کی کُہنی میری پیٹھ پر لگی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم مجھے کُہنی مار کر اس کا بدلہ لے لو۔ تم سمجھ سکتے ہو کہ اُس وقت صحابہ کرام کا کیا حال ہؤا ہوگا۔ یقینا اُن کی تلواریں میانوں سے نکل رہی ہوں گی یقینا وہ اُس کی تکّہ بوٹی کر دینے کے لئے تیار ہوں گے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رُعب انہیں کچھ کرنے نہیں دیتا تھا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آئو اور مجھے کُہنی مار لو۔ اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب آپ کی کُہنی مجھے لگی تھی تو اُس وقت میرے جسم پر پورا کپڑا نہیں تھا اورمیری پیٹھ ننگی تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا دو تاکہ میری ننگی پیٹھ پر یہ شخص کُہنی مار کر مجھ سے بدلہ لے لے۔ صحابہ کرام ؓ کا دل تو اُس وقت یہی چاہتا ہوگا کہ اس شخص کی زبان کاٹ ڈالیں لیکن محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے نتیجہ میں وہ مجبور تھے۔ انہوں نے آپ کی پیٹھ ننگی کی اور اُسے کہا کہ وہ آئے اور کُہنی مار لے۔ وہ شخص آگے بڑھا اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اُس نے ادب کے ساتھ اپنا سر جُھکاتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ کو چُوم لیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا؟ اس نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کس کم بخت کے دل میں یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ وہ آپکو کُہنی مارے، یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! جب آپ نے ذکر فرمایا کہ میری موت اب قریب ہے تو میرے دل میں خیال آیا کہ میں اِس بہانے سے آپ کو پیار تو کر لوں۔۲۳؎
اسلامی کانسٹی ٹیوشن
یہ ہے اسلامی کانسٹی ٹیوشن۔ بے شک اسلامی قانون کے ماتحت خلیفہ یا امام پر اپنے قانون کے نِفاذ میں کوئی
مقدمہ نہیں چلایاجا سکتا چنانچہ تاریخ میں اس امر کی کوئی مثال نہیں ملے گی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس لئے کوئی مقدمہ دائر کیا گیا ہو کہ فلاں گورنر کیوں بنایا گیا؟ یا فلاں سکیم کیوں بنائی گئی؟ لیکن ذاتی معاملات میں امام یا خلیفہ پر نالش کی جاسکتی ہے اور اس کے بغیر دنیا میں کہیں انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح اسلام اِس امر پر بھی زور دیتا ہے کہ دلیل دے کر کسی شخص کو مُجرم بنایا جائے یہ اسلامی کانسٹی ٹیوشن کی ہی خوبی ہے کہ وہ دوسرے کو دلیل کی بناء پر مُجرم بنانے کا فیصلہ کرتا ہے قرآن کریم فرماتا ہے ۲۴؎ یعنی ہم نے قرآن کریم نازل کر دیا ہے اب دنیامیں ہمارا قانون یہ ہوگا کہ وہی شخص زندہ رکھا جائیگا جس کو دلیل زندہ رکھے گی اور وہی شخص تباہ ہوگا جس کو دلیل تباہ کرے گی گویا غلبہ بھی دلیل کے ساتھ ہوگا اور شکست بھی دلیل کے ساتھ ہوگی۔
دلائل کے زور سے کُفر کی شکست
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
ہم تلوار کے وار سے نہیں بلکہ دلیل کے زور سے کفر کو مٹائیں گے اور کُفر اس لئے شکست کھائے گا کہ صداقت روشن ہو جائے گی اور جب صداقت روشن ہو جائے تو کُفر اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا جیسے دنیا میں جب سورج چڑھتا ہے تو ڈنڈے مار مار کرظلمت کو دُور نہیں کیا جاتا بلکہ سورج کی شُعاعیں ظلمت کو آپ ہی آپ دور کر دیتی ہیں۔
قیدیوں کی آزادی کے اعلانات
(۷) پھر دُنیوی گورنمنٹوں کی طرف سے بعض دفعہ اعلانات کئے جاتے ہیں کہ بادشاہ
کے ہاں بیٹا پیدا ہؤا ہے اِس خوشیمیں اتنے قیدی رہا کئے جاتے ہیں یا فلاں شہزادہ کی شادی ہوئی ہے اس خوشی میں اتنے مُجرموں کو رہا کیا جاتا ہے یا فلاں جشنِ مسرت منایا جا رہا ہے ، اِس خوشی میں اتنے قیدی آزاد کئے جاتے ہیں۔
مَیں نے سوچا کہ کیا ہمارے دربار میں بھی کوئی قیدی آزاد کئے جاتے ہیں یانہیں؟ جب مَیں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ دُنیوی گورنمنٹوں کی طرف سے تو صرف بعض قیدی چھوڑے جاتے ہیں لیکن اِس دربارِ عام میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گورنر جنرل مقرر کرتے ہیں اور اسے اختیار دیتے ہیں کہ وہ ہماری طرف سے تمام گُنہگاروں اور قیدیوں کی آزادی کا اعلان کر دے وہ فرماتا ہے ۲۵؎ یعنی اے محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے تم کو اس دنیا کا گورنر جنرل مقرر فرمایا ہے تم جائو اور ہماری طرف سے یہ اعلان کر دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے گُناہوں کوکمال تک پہنچا دیایعنی کوئی گناہ نہیں جو انہوں نے چھوڑ ا ہو تمہارا بادشاہِ حقیقی جس نے مجھے گورنر جنرل مقرر کرکے بھیجا ہے اُس کی رحمت بہت وسیع ہے پس تمہارے لئے اُس کی رحمت سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں گورنمنٹیں تو یہ اعلان کرتی ہیں کہ دو مہینے یا چھ مہینے یا سال تک کی جن لوگوں کو سزا دی گئی ہے اُن کی قید معاف کی جاتی ہے یا وہ مُجرم جو اخلاقی ہیں اُن کو معاف کیاجاتا ہے یا بعض پولٹیکل مجرموں کو معاف کیا جاتا ہے مگرہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ تمہارا خدا تمام قسم کے گُناہوں کو چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے لیکر بڑے سے بڑے گناہ تک خواہ وہ اخلاقی ہوں یا مذہبی ہوں یا سیاسی ہوں سب کو معاف کر سکتا ہے پس تمہارے لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں۔ یہ کتنا عظیم الشان اعلان ہے جو اسلام نے دنیا کے سامنے کیا ہے۔
کیا توبہ سے گناہ بڑھتے
ہیں یا کم ہوتے ہیں؟
عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام نے گناہ بڑھا دیا ہے کیونکہ اسلام اِس تعلیم کا حامل ہے کہ توبہ سے انسان کے گُناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ عیسائیت خود کہتی ہے
کہ خدا محبت ہے اور عیسائیت خود کہتی ہے کہ محبت سے دل صاف ہوتے ہیں۔ جب محبت اور پیار سے دل صاف ہوتا ہے تو توبہ سے گناہ کس طرح بڑھ سکتا ہے؟
احادیث میں آتا ہے قیامت کے دن خداتعالیٰ کے سامنے ایک مُجرم پیش ہوگا اُس سے کچھ سوالات کئے جائیں گے جن کا وہ جواب نہیں دے سکے گا مگر آخر اُس کے دل کی کسی مخفی نیکی کی وجہ سے خداتعالیٰ اسے معاف کر دیگا اور اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ دیکھو! میرے اس بندے نے فلاں گناہ کیا تھا اُس کے بدلہ میں اسے یہ انعام ملے۔ اس سے فلاں قصور سرزد ہؤا تھا اس کے بدلہ میں اسے یہ انعام دیا جائے۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کا ذکر نہیں کرے گا صرف چھوٹے چھوٹے گناہوں کے ذکر پر ہی اکتفا کرے گا۔ جب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ دیکھو! اس نے فلاں موقع پر پتھر مارا تھا اس کے بدلہ میں اسے یہ انعام دو۔ اس نے فلاں گالی دی تھی اس کے بدلہ میں یہ انعام دو۔ اور اللہ تعالیٰ اس کے بعد خاموش ہو جائیگا تو وہ شخص ادب کے ساتھ کہے گا کہ حضور! میری ایک عرض ہے میرے سارے گناہ ابھی آپ نے بیان نہیں کئے صرف چھوٹے چھوٹے گناہوں کا آپ نے ذکر فرمایا ہے بڑے بڑے گناہ تو ابھی رہتے ہیں۔۲۶؎ غور کرو ہمارا خدا کتنی محبت کرنے والا ہے اور اس کی درگاہ کتنی پیاری ہے وہ تو دل کی صفائی چاہتا ہے اُسے مارنے اور سزا دینے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ تم اپنے دل کو صاف کر لو تو تمہارے تمام گناہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیگا اور اِس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریگا کہ وہ گُناہ کتنے ہیبت ناک تھے۔
مصیبت زدوں کی امداد کے اعلانات
پھر کئی مصیبت زدہ ہوتے ہیں ان کے لئے بھی دربارِ عام میں یہ اعلان کیا جاتا
ہے کہ ہم تمہیں اِس اِس رنگ میں مدد دیں گے مثلاً گزشتہ دنوں سیلاب آیا تو گورنمنٹ نے یہ اعلان کیا کہ ہم زمینداروں کو بیج مہیا کرکے دیں گے لیکن ساتھ ہی اس نے یہ کہہ دیا کہ یہ بطور تقاوی ہو گا اور اس پر تمہیں اتنا سُود دینا پڑے گا۔ غرض گورنمنٹیں ناگہانی مصائب اور آفات کے مواقع پر مصیبت زدوں کی ہمیشہ مدد کرتی ہیں مگر قسم قسم کی تدابیر سے بجائے کچھ دینے کے خود فائدہ اُٹھا لیتی ہیں۔ پھر اگر انہیں یہ پتہ لگ جائے کہ فلاں شخص جو امدادکے لئے آیا ہے وہ مثلاً باغی ہے یا باغی رہ چکا ہے تو وہ اُس کی امداد کے لئے اُس وقت تک تیار نہیں ہوتیں جب تک وہ اُن سے معافی نہ مانگے اور اِس بات کا اقرار نہ کرے کہ آئندہ وہ ہر قسم کی بغاوت سے مجتنب رہے گا۔ اخباروں والے ہی جب گورنمنٹ کے خلاف کوئی مضمون لکھتے ہیں اور وہ پکڑے جاتے ہیں تو پریس والوں کو یہ لکھ کر دینا پڑتا ہے کہ آئندہ وہ احتیاط سے کام لیں گے۔ سیاسی مُجرم پکڑے جاتے ہیں تو وہ بھی جب تک گورنمنٹ کو یہ لکھ کر نہ دیں کہ ہم آئندہ محتاط رہیںگے اورگورنمنٹ کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے اُس وقت تک انہیں رِہا نہیں کیا جاتا۔
الٰہی دربارِ عام سے ایک عجیب اعلان
لیکن اس دربارِ عام سے مَیں نے ایک عجیب اعلان ہوتے دیکھا،
مَیںنے سنا کہ اس دربارِ عام میں یہ اعلان کیا جاتا ہے ۲۷؎ فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! تُو دنیا میں اعلان کر اور لوگوں سے کہہ کہ تمہارا خدا ہر مصیبت میں تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہے۔ فرماتا ہے کون ہے جو تمہیں سمندر کی مصیبتوں اور خشکی کی مصیبتوں سے نجات دلاتا ہے؟ جب مصیبتیں آتی ہیں تم روتے ہوئے دعائیں کرتے ہو کہ وہ مصیبتیں تم سے ٹل جائیں مگر چونکہ تم اپنی قوم کو نہیں چھوڑ سکتے اِس لئے تم دعائیں چوری چوری کرتے ہو اونچی آواز سے نہیں کرتے تا ایسا نہ ہو کہ تمہاری قوم یہ سمجھ لے کہ اب تم بُتوں کو چھوڑنے لگے ہو اور تم بار بار یہ کہتے ہو کہ حضور! اب ہم کو چھوڑ دیجئے تو ہم توحید پر ایسا عمل کریں گے اور آپ کی ایسی فرمانبرداری اور اطاعت کریں گے کہ آپ بھی ہم پر لٹّو ہو جاہیں گے۔ فرماتا ہے تُو کہہ دے کہ خداتعالیٰ تم کو اِس مصیبت سے بھی بچائے گا اور آئندہ آنے والی مصیبتوں سے بھی بچائے گا مگر تم نے کبھی یہ بھی سوچا ہے کہ آج تو تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہم توحید پر ایمان رکھیں گے مگر کَل اِس مصیبت سے چُھٹکارا پانے کے بعد تم پھر شرک میں مبتلاء ہو جائو گے۔ لوگ بعض دفعہ سچے دل سے توبہ کرتے ہیں مگر پھر اپنے نفس کی کمزوری کی وجہ سے گُناہوں میں ملوث ہو جاتے ہیں مگر یہاں اُن کی اِس کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم آج تو توبہ کرتے ہیں مگر کَل جھوٹ بولنا شروع کر دیں گے۔ آج تو ہم توبہ کر رہے ہیں مگر کل پھر شرک میں ملوث ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ بھی اُن کی اِس حالت کو جانتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ لوگ منافقت سے کام لے رہے ہیں، مگر اُس کا رحم بے انتہاء وسیع ہے وہ کہتا ہے اگر کَل یہ شرک کریں گے تو دیکھاجائے گا اِس وقت تو یہ توبہ کر رہے ہیں چلو ان کو معاف کردو۔ کیا دنیا کی کوئی ایسی حکومت ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے مُجرموں کو اس طرح معاف کر دے؟
نظامِ آسمانی میں دخل
دینے والوں سے سلوک
(۸) پھر نظامِ سماوی میں دخل دینے والے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:-

۲۸؎ فرماتا ہے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قانون شکنی کی کوشش کرتے ہیں وہ قانون کو بگاڑ کراس کی اصل شکل کو مسخ کر دیتے ہیں اور اس طرح قانون کی غرض کو ضائع کر دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے اس قانون کے خلاف بھی لوگ کوششیں کریں گے اور اِس کوبگاڑنے کے لئے ہر قسم کی تدابیر سے کام لیں گے مگر ہم تمہیں پہلے سے بتا دیتے ہیں کہ ہمارے قانون کو کوئی بگاڑ نہیں سکتا کیونکہ ہم نے اپنے روحانی آسمان کو کواکب کے ساتھ مزیّن کیا ہے۔
اِس جگہ روحانی آسمان سے مرادمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کواکب سے مراد صحابہ کرام کی جماعت ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی ایسے رنگ میں حفاظت کی کہ جس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں مل سکتی۔
سمائِ روحانی کی کواکب سے حفاطت
اِسی حقیقت کی طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اس حدیث میں
اشارہ فرمایا ہے کہ اَصْحَابِیْ کَالنُّجُوْمِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ ۲۹؎
میرے سب صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جائو گے۔ پس ستارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سماء دنیا ہے اس کی حفاظت کے لئے ہم نے کواکب مقرر کر دیئے ہیں۔ اگر کوئی شخص اس کے لائے ہوئے قانون کو بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو یہ ستارے اس پر ٹوٹ پڑیں گے اور اس کے ہاتھوں کو شل کر دیں گے۔ چنانچہ دیکھ لو قرآن کریم کے خلاف دشمنانِ اسلام نے کس قدر منصوبے کئے اورکس طرح اسلام کو مٹانے کے لئے انہوں نے اپنی کوششیں صَرف کیں مگرپھر کس طرح صحابہ کرام ؓ نے اس دین کی حفاظت کی اور اپنی جانیں قربان کرکے دنیا میں اس کو قائم کیا۔ مگر فرماتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئیگا جب مسلمانوں میں غفلت اور سُستی پیدا ہو جائے گی اور لوگ پھر اِس دین کو بگاڑنے کی کوشش کریں گے۔ جب دنیا میں وہ وقت آئے گا کہ مسلمان سو جائے گا، صحابہ کرام فوت ہو جائیں گے اور اسلام کو مٹانے والے لوگ پیدا ہو جائیں گے تو اُس وقت خداتعالیٰ ایک شہاب پیدا کریگا جو آسمان سے گِرے گا اور ایسے لوگوںکو کُچل کر رکھ دے یعنی مسیح موعود (علیہ الصلوٰۃ والسلام) کا ظہور ہو گا اور اسلام کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا۔
حکومتوں کی طرف سے تعلیم کا انتظام
(۹) پھر دنیا میں جو حکومتیں قائم ہوتی ہیں وہ اس بات کی کوشش
کیا کرتی ہیں کہ مدرسے جاری کریں، سکول اور کالج کھولیں اور رعایا کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کریں۔ اور تو اور معمولی معمولی ریاستوں میں بھی لوگوں کی تعلیم کا خیال رکھا جاتا ہے اور بعض دفعہ ان کی طرف سے ایسا اعلان سُننے میں آجاتا ہے کہ ہم اپنی رعایا کے بڑے خیر خواہ ہیںہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ریاست میں ایک مڈل سکول جاری کیا جائے مگر اسلام جس حکومت کو قائم کرتا ہے اس کا رنگ بالکل اَور ہے اور اس کی تعلیم کا دستور بالکل نرالا ہے۔ سکول میں آخر وہی جائے گا جو فیس دے سکتا ہے، جو کتابیں خرید سکتا ہے ، جو تعلیمی اخراجات کو برداشت کر سکتا ہے، جو مضبوط قویٰ اور اچھا دماغ رکھتا ہے مگر اِس دربارِ عام سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم علومِ روحانیہ کی جو یونیورسٹی قائم کر رہے ہیں اس کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے تمہیں گھر سے نکلنے کی بھی ضرورت نہیں، تمہیں چارپائی سے بھی اُٹھنے کی ضرورت نہیں، تمہیں ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ ۳۰؎ اور وہ لوگ جو اپنے دل میں ہمارا عشق رکھیں گے، جو ہماری طرف محبت اور پیار کے ساتھ رجوع کریںگے ہم اپنے علم کے دروازے اُن پر کھول دیں گے، نہ اس میں کتابیں خریدنے کی ضرورت ہے نہ قلم اور دوات کی ضرورت ہے، نہ کاغذ کی ضرورت ہے نہ مدرسوں کی ضرورت ہے نہ محنت و خوشامد کی ضرورت ہے، نہ فیس دینے کی ضرورت ہے نہ گھر سے باہر جانے کی ضرورت ہے۔ ہر دل میں ایک یونیورسٹی بنا دی گئی ہے، ہر قلب میں علوم کے چشمے پھوڑ دیئے گئے ہیں۔ تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ تم ہماری طرف متوجہ ہو کر یہ کہو کہ الٰہی! مجھے فلاں فلاں چیز کی ضرورت ہے اور ہم وہ چیزیں تمہیں دے دیں گے۔
ایک بزرگ کا واقعہ
ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ اُن کی طرف سرکاری سمن آیا جس میں یہ لکھا تھا کہ آپ پر بعض لوگوں
کی طرف سے ایک الزام لگایا گیا ہے اس کی جواب دہی کے لئے آپ فوراً حکومت کے سامنے حاضر ہوں۔ وہ یہ سُن کر حیران رہ گئے کیونکہ وہ ہمیشہ ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتے تھے مگرچونکہ سرکاری سمن تھا وہ چل پڑے۔ دس بیس میل گئے ہوں گے کہ آندھی آئی، اندھیرا چھا گیا، آسمان پر بادل اُمڈ آئے اور بارش شروع ہو گئی، وہ اُس وقت ایک جنگل میں سے گزر رہے تھے جس میں دُور دُور تک آبادی کا کوئی نشان تک نہ تھا۔ صرف چند جھونپڑیاں اُس جنگل میں نظر آئیں وہ ایک جھونپڑی کے قریب پہنچے اور آواز دی کہ اگر اجازت ہو تو اندر آجائوں۔ اندر سے آواز آئی کہ آجایئے۔ انہوں نے گھوڑا باہر باندھا اور اندر چلے گئے۔ دیکھا تو ایک اپاہج شخص چارپائی پر پڑا ہے اُس نے محبت اور پیار کے ساتھ انہیں اپنے پاس بِٹھا لیا اور پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے اور آپ کس جگہ سے تشریف لا رہے ہیں؟ انہوں نے اپنا نام بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ بادشاہ کی طرف سے مجھے ایک سمن پہنچا ہے جس کی تعمیل کے لئے مَیں جا رہا ہوں اور میں حیران ہوں کہ مجھے یہ سمن کیوں آیاکیونکہ میں نے کبھی دُنیوی جھگڑوں میں دخل نہیں دیا۔ وہ یہ واقعہ سُن کر کہنے لگاکہ آپ گھبرائیں نہیں، یہ سامان اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے پاس پہنچانے کے لئے کیا ہے۔ میں اپاہج ہوں، رات دن چارپائی پر پڑا رہتا ہوں، مجھ میں چلنے کی طاقت نہیں لیکن مَیں نے اپنے دوستوں سے آپ کا کئی بار ذکر سُنا اور آپ کی بزرگی کی شُہرت میرے کانوں تک پہنچی۔ مَیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کیا کرتا تھا کہ یا اللہ! قسمت والے تو وہاں چلے جاتے ہیں مَیں غریب، مسکین اور عاجز انسان اس بزرگ کے قدموں تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں تُو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما کہ میری ان سے ملاقات ہو جائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس سمن کے بہانے اللہ تعالیٰ آپ کو محض میرے لئے یہاں لایا ہے۔ ابھی وہ یہ باتیںہی کر رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی بارش ہو رہی ہے اگر اجازت ہو تو اندر آجائوں۔ انہوں نے دروازہ کھولا اور ایک شخص اندر آیا۔ یہ سرکاری پیادہ تھا۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ آپ اِس وقت کہاں جارہے ہیں؟ وہ کہنے لگا بادشاہ کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ فلاں بزرگ کے پاس جائوں اور اُن سے کہوں کہ آپ کو بُلانے میں غلطی ہو گئی ہے دراصل وہ کسی اَور کے نام سمن جاری ہونا چاہئے تھا مگر نام کی مشابہت کی وجہ سے وہ آپ کے نام جاری ہو گیا اِس لئے آپ کے آنے کی ضرورت نہیں۔ یہ بات سُن کر وہ اپاہج مُسکرایا اور اُس نے کہا دیکھا میںنے نہیں کہا تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ محض میرے لئے یہاں لایا ہے سمن محض ایک ذریعہ تھا جس کی وجہ سے آپ میرے پاس پہنچے یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ جو لوگ ہم میں ہو کر اور ہم سے مدد مانگتے ہوئے اپنے مقاصد کے لئے جدوجہد کرتے ہیں ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ان پر دروازے کھول دیتے ہیں۔
رؤیا و کشوف میں رسول کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت
دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوچکے ہیں اور اب آپ ؐ کے اور ہمارے درمیان چودہ سو سال کا لمبا عرصہ حائل ہو چکا ہے۔ صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپؐ کی باتوں کو اپنے کانوں سے سُنا لیکن عشق ہمارے دلوں میں بھی گُدگُدیاں پیدا کرتا ہے۔ ہم زمانہ کے لحاظ سے پیچھے ہیں لیکن عشق کے لحاظ سے پیچھے نہیں چنانچہ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ پر صدیاں گزر چکی ہیں پھر بھی خداتعالیٰ ہمیںخوابوں اور کشوف کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار تک پہنچا دیتا ہے اور ہم بھی اس کیف اورسرور سے اپنے عشق کے مطابق حصہ پا لیتے ہیں جس کیف اور سرور سے صحابہ کرام ؓ نے حصہ پایا۔ خود مَیں نے متعدد بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور کئی دفعہ تو آپ ایسی محبت سے آئے ہیں کہ اسے دیکھ کر تمام جسمانی کوفت دُور ہو جاتی رہی ہے۔
جن دنوں مصری فتنہ زوروں پر تھا میں ایک رات سخت بے قراری کی حالت میں اپنی چارپائی پر لَوٹتا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں اس کا کیا علاج کروں۔ مَیں اسی حالت میں تھا کہ یکدم جاگتے جاگتے مَیں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ بچوں کی طرح دَوڑتا ہؤا آیا اور وہ میرے کندھے ہِلا کر کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں یہ سُنکر میرے دل میں عجیب کیفیت ہو گئی کہ میرے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی یہ حالت ہے کہ آپ میری تکلیف کا حال سُن کر برداشت نہیں کر سکے اور آپ خود میری دِلجوئی کے لئے تشریف لائے ہیں۔ تب میں نے کہا یہ فتنہ لغو ہے اور میں آرام سے سو گیا۔ غرض اللہ تعالیٰ کے دروازے ہر شخص کے لئے کُھلے ہیں اور جو بھی چاہے وہ ان دروازوں سے گزر کر اپنے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے۔
روحانی اور مادی علوم
کے متلاشیوں کو خوشخبری
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو دیدارِ الٰہی کے رستوں کا ذکر ہے ظاہری اور باطنی علوم کے عطا کئے جانے کا اللہ تعالیٰ نے کہاں وعدہ کیا ہے؟سو یاد
رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف روحانی علوم کے متلاشیوں کو ہی سیر نہیں کیا بلکہ وہ علومِ جسمانی اور روحانی دونوں کے متلاشیوں کو خوشخبری دیتا ہے کہ میرے دربار میں آئو اور اپنے دامن کو گوہرِ مقصود سے بھر لو وہ فرماتا ہے ۳۱؎ ہم نے انسان کے لئے دونوں علوم کے راستے کھول دیئے ہیں۔ ہم نے خداتعالیٰ تک پہنچنے کا رستہ بھی اس کے لئے کھول رکھا ہے اور ہم نے علومِ جسمانی میں کمال حاصل کرنے کا رستہ بھی اس کے لئے کھول رکھا ہے۔
یہ الگ سوال ہے کہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو اس راستہ پر چل کر علوم حاصل کرتے ہیں۔ اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے راستہ کھول دیا ہے اور ہر انسان کے لئے ان علوم کے حاصل کرنے کا موقع موجود ہے اگر وہ حاصل نہیں کرتے تو اس میں ان کا اپنا قصور ہے۔ دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ سب لوگ کتابیں ایک جیسی پڑھتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ سکولوں اورکالجوں میں بعض لڑکوں کو اَور کتابیں پڑھائی جاتی ہوں اور بعض کو اَور۔ مگر ایک تو سائنس میں ترقی کرتے کرتے انتہائی کمال حاصل کر لیتا ہے اور دوسرا ابھی سائنس کے دروازے پر ہی بیٹھا ہوتا ہے۔ ایک اپنی زندگی میں سینکڑوں مُفید ایجادات کر لیتا ہے اور دنیا میں چاروں طرف شور مچ جاتا ہے کہ ایڈیسن بڑا موجد ہے مگر دوسرا کوئی ایک چیز بھی ایجاد نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے میں جس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خداتعالیٰ کی طرف سے قابلیتیں تمام انسانوں میں پیدا کر دی گئی ہیں اگر وہ ان قابلیتوں سے کام لیں تو وہ علومِ ظاہری اور باطنی دونوں میںکمال حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی اپنی قابلیت سے کام نہ لے تو اس میںخداتعالیٰ کا قصور نہیں۔ جیسے یونیورسٹی ہر طالب علم کے لئے اپنے دروازے کھول دیتی ہے لیکن یونیورسٹی کا ہر آدمی آئین سٹائن نہیں بنتا، یونیورسٹی کا ہر آدمی نیوٹن نہیں بنتا۔ آئین سٹائن اور نیوٹن وہی بنتا ہے جو اپنی دماغی قابلیتوں کو کام میں لاتا ہے۔ اسی طرح یہ روحانی یونیورسٹی سکھاتی تو ہر شخص کو ہے مگر سیکھتا وہی ہے جو اپنی استعدادوں کو کام میں لاتا ہے اور ان سے فائدہ اُٹھاتا ہے۔
تمام مخلوق کی جسمانی ضروریات
پوری کرنے کا وعدہ
(۱۰) پھر تمام مخلوق کی جسمانی ضروریات کے متعلق اعلان فرماتا ہے
۳۲؎
دنیا کی حکومتیں فوڈ ڈیپارٹمنٹ (FOOD DEPARTMENT) قائم کرتی ہیں جس کے سپرد مُلک کی غذائی حالت کی نگرانی ہوتی ہے اِسی طرح جب کسی دوسرے ملک میں قحط پڑتا ہے یا ناگہانی حوادث سے اُس کی غذائی حالت خراب ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں بھی یہی ڈیپارٹمنٹ اس ضرورت کو پورا کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے۔ مگر دُنیوی حکومتوں کے فوڈڈیپارٹمنٹ کیا کرتے ہیں؟ وہ ایک طرف سے بہت ہی سستے داموں پر ایک چیز خریدتے ہیں اور دوسری طرف بہت بڑے نفع کے ساتھ اسے فروخت کر دیتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ملک میں ہی چھ روپے من گندم مل رہی ہے لیکن چھ روپے من گندم لے کر ہمارا فوڈ ڈیپارٹمنٹ سولہ روپے میں ہندوستان کو دے رہا ہے۔ اسی طرح انگریزی زمانہ میں اڑھائی اڑھائی تین تین کروڑ روپیہ سالانہ حکومت اس ذریعہ سے کماتی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہتی چلی جاتی تھی کہ ہم بنی نوع انسان کی کتنی خدمت کر رہے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آسمانی حکومت کا بھی یہی طریق ہے یا اس میں کوئی اور طریق رائج ہے؟ اِس بارہ میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیںمعلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت میں دُنیوی حکومتوں کے برعکس یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر جاندار کو کھانا کھِلانا ہمارے ذمّہ ہے وہ فرماتا ہے کوئی حرکت کرنے والی زندہ اور جاندار چیز ایسی نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری خداتعالیٰ کی ذات پر نہ ہو۔ اور کیوں نہ ہو، جب ہم نے ایک مخلوق کو پیدا کیا ہے تو اس مخلوق کو کھانا کھلانا بھی ہمارا ہی فرض ہے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے اور کس طرح یہ مانا جا سکتا ہے کہ ہر جاندار کو خداتعالیٰ خود رزق دیتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بندے کا دینا اور طرح کا ہوتا ہے اور خداتعالیٰ کا دینا اور طرح کا ہے۔ تم اپنے ہاتھ سے کپڑے بُنتے ہو مگر روئی خداتعالیٰ پیدا کرتا ہے، روٹی تم اپنے ہاتھ سے پکاتے ہو مگر گندم خداتعالیٰ پیدا کرتا ہے۔ اِسی طرح خداتعالیٰ نے اپنی مخلوق کو رزق دینے کی جو تراکیب رکھی ہیں وہ اتنی عجیب ہیں کہ اُن کو دیکھ کر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے محض اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہو رہا ہے۔ زمیندار جانتے ہیں کہ وہ گندم بوتے ہیں اور انہیں اس کے لئے بہت بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، وہ زمین میں ہل چلاتے ہیں، بیج ڈالتے ہیں، پانی دیتے ہیں اور مہینوں اس فصل کی دیکھ بھال اورنگرانی کرتے ہیں۔ راتوں کی نیند اور دن کا آرام انہیں اس غرض کے لئے قربان کرنا پڑتا ہے وہ خود بھی تکلیف اُٹھاتے ہیں اوراپنے بیوی بچوں کوبھی اس قربانی میں اپنے ساتھ شریک کرتے ہیں۔ اتنی بڑی محنت کے بعد اگر گندم ہی گندم انہیں مل جاتی جس کے ساتھ بھوسے کا کوئی حصہ نہ ہوتا تو کیا وہ دیانتداری کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی گندم میں سے بیل کو ایک دانہ دینے کے لئے بھی تیار ہوتے؟ وہ ساری کی ساری فصل اُٹھا کر اپنے گھر لے آتے اور بیل بُھوکے مر جاتے مگر چونکہ بیلوں کا رزق خداتعالیٰ کے ذمہ ہے اس لئے وہ دانے تھوڑے پیداکرتا ہے اور بُھوسہ زیادہ پیدا کرتا ہے، دانے تم اُٹھا کر اپنے گھر لے آتے ہو اور بُھوسہ اپنے جانوروں کے لئے رکھ لیتے ہو۔ یہ خدائی فعل ہے جو بتا رہا ہے کہ کس طرح اُس نے اپنی مخلوق کے رزق کا انتظام کیا ہے۔ تم صرف دانے کھا سکتے ہو بُھوسہ نہیں کھا سکتے اس لئے تم مجبور ہو کہ تم بھُوسہ جانوروں کو دو۔ اگر تمہارے اختیار میں ہوتا تو یا تو تمہارے جانور مر جاتے اور یا پھر تم انہیں دوسروں کی فصل میں چھوڑ دیتے۔
سندھی مزارعین کی کیفیت
میں ایک دفعہ سندھ گیا وہاں سلسلہ کی زمینیں ہیں اور کچھ میری بھی زمینیں ہیں۔ ہم نے ان زمینوں
پر مینیجر وغیرہ مقرر کئے ہوئے ہیں مگر مزارع اکثر سندھی ہیں۔ وہاں کے عملہ نے میرے پاس شکایت کی کہ سندھی مزارع کھیتوں میں اپنے جانور چھوڑ دیتے ہیں اور فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے آپ انہیں نصیحت کیجئے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ چنانچہ میں نے ان کو بُلوایا اور اُنہیں نصیحت کی کہ یہ جتنی جائیداد ہے سب انجمن کی ہے اوراس میں سے جتنی بھی آمد ہوتی ہے اس میں ایک پیسہ بھی کسی کو نفع کے طور پر نہیں ملتا بلکہ سب کا سب خداتعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیا جاتا ہے اس لئے اگر آپ لوگ بھی دیانتداری سے کام لیں اور اپنے جانوروں کو فصلیں کھانے نہ دیں تو اِس ثواب میں برابر کے شریک ہو سکتے ہیں اور خداتعالیٰ کی رضا آپ کو حاصل ہو سکتی ہے۔ میں نے اِس موضوع پر ان کے سامنے پندرہ بیس منٹ تقریر کی اور میں نے دیکھا کہ ان سندھیوں کا لیڈر جو چانڈیہ قوم کے ساتھ تعلق رکھتا تھا سر ہِلاتا چلا جاتا تھا جس سے میں نے یہ سمجھا کہ اس پر خوب اثر ہو رہا ہے مگر پندرہ بیس منٹ کے بعد جب میں تقریر ختم کر چکا تو ان سندھیوں کا سردار کہنے لگا سائیں! جے ڈھور ڈنگر نے کھیتی نہیں کھانی تے پھر بنّی پوکھنی ہی کیوں ہے؟ یعنی اگر جانوروں نے فصل نہیں کھانی تو پھر ہمیں فصل بونے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ اگر ان کی روزی انسان پر چھوڑ دیتا تو انہوں نے تو مر جانا تھا ا س لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا رزق اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ اس نے دیکھا کہ جانور کی محنت زیادہ ہے اور تمہاری کم ہے، اُن کا پیٹ بڑا ہے اور تمہارا پیٹ چھوٹا ہے اس لئے اس نے تمہارے لئے تو دانے بنائے اور ان کے لئے بھُوسہ بنا دیا۔ دانے اس نے کم بنائے اوربھُوسہ اس نے زیادہ بنایا کیونکہ ان جانوروں کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ تھا۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر قسم کے رزق کی فراوانی
پھر بنی نوع انسان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
۳۳؎ یعنی تمہارا خدا وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے ٹھہرنے کی جگہ اور آسمان کو تمہارے لئے چھت کے طور پر بنایا ہے پھر اس نے تم کو کام کرنے کی قابلیت عطا فرمائی ہے اور قابلیت بھی بہت اعلیٰ درجہ کی پیدا کی ہے۔ اس جگہ صورت کے معنی ناک، کان، مُنہ اور آنکھیں وغیرہ نہیں کیونکہ جب خداتعالیٰ نے انسان کو بنایا تو تمام اعضاء اُس نے اُسی وقت بنا دیئے تھے۔ اِس جگہ صورت سے مراد وہ قوتیں اور قابلیتیں ہیں جو بنی نوع انسان میں رکھی گئیں اور جن سے وہ دنیا میں بہت بڑی ترقیات حاصل کرتا ہے۔ پھر اُس نے نہایت اعلیٰ درجہ کی چیزیں جو تمہارے جسم کے مناسبِ حال ہیں تمہارے لئے پیدا کیں۔مثلاً زبان خواہش رکھتی ہے کہ وہ میٹھا کھائے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے میٹھا پیدا کر دیا یا زبان چاہتی ہے کہ اسے نمک مرچ اور کباب ملیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے نمک مرچ اور کباب پیدا کر دیئے۔ یا مثلاً زبان چاہتی ہے کہ اسے کھانے کے لئے چاول ملیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے چاول پیداکر دیئے۔ غرض جو بھی خواہشیں اور قوتیں انسان کے اندر پیدا کی گئی ہیں ویسی ہی چیزیں اللہ تعالیٰ نے اِس دنیا میں پیدا کر دی ہیں اور یہ ثبوت ہے اِس بات کا کہ اِس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے کیونکہ انسان میں جو طاقتیں رکھی گئی ہیں ویسی ہی چیزیں دنیا میں بنا دی گئی ہیں۔ ان چیزوں کی پیدائش کو ہم اتفاقی نہیں کہہ سکتے یہ اتفاقی معاملہ تب ہوتا جب بنی نوع انسان کی کوئی ایسی طاقت ہوتی جس کا جواب قانونِ قدرت میں نہ ہوتا مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ ہر طاقت اور ہر قابلیت کا جواب خداتعالیٰ کے قانون میں موجود ہے۔ اگر تمہارا منہ نرم نرم اور پلپلی سی چیز کو چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے چاول بنا دیئے ہیں۔ اگر تمہارے دانت سخت چیز کے چبانے کی طاقت رکھتے ہیں تو اس نے ہڈیاں اور دانے وغیرہ بنا دیئے ہیں۔ اگر تمہارا معدہ لذیذ اور شیریں چیزوں کا محتاج ہے تو اس نے تمہارے لئے شکر پیدا کر دی ہے۔ بچپن میں دانت نہیں ہوتے تو ماں کی چھاتیوں میں دودھ پیدا کر دیتا ہے غرض تمام چیزیں جن کی عمر بھر کسی وقت بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے ان سب کا کائناتِ عالَم میں موجود ہونا دلالت کرتا ہے کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جس نے بِالارادہ اور حکمت کے ماتحت اس دنیا کو پیدا کیا ہے۔
بنی نوع انسان پر عظیم الشان احسان
پھر فرماتا ہے
۳۴؎ فرماتا ہے وہ خدا ہی ہے جو (۱) پیدا کرتا ہے (۲) پھر وہ تراشتا ہے یعنی نقائص کو دُور کرتا ہے (۳) پھر وہ تصویر دیتا ہے یعنی کام کے مناسب حال قوتیں بخشتا ہے (۴) اِس کے علاوہ وہ اَور بھی بہت سے نیک تغیرات پیدا کرتا ہے۔ مثلاً طاقتوں کے مطابق باہر سامان پیدا کرتا ہے جس کی طرف اُس کی صفتِ رَحْمٰن اشارہ کرتی ہے۔ اور پھر کام کرنے پر اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کے سامان مہیا کرتا ہے جس کی طرف اس کی صفتِ رَحِیْم اشارہ کرتی ہے۔ مثلاً ہر کام دنیا میں ایک اچھا یا بُرا اثر چھوڑتا ہے وہ وہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ تم ہاتھ ہِلاتے ہو تو ہاتھ ہِلانے سے تمہارا کام ختم نہیں ہو جاتا بلکہ اس سے دوسری دفعہ تمہارے اندر ہاتھ ہِلانے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے یا مثلاً بچہ کو دیکھ لو وہ اپنے ہاتھ پائوں ہِلاتا ہے اور آخر کچھ عرصہ کے بعد اُس کے پائوں میں کھڑا ہونے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے۔ اُس کا اپنے پائوں پر کھڑا ہونا کسی ایک حرکت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی پہلی تمام حرکتوں کا ایک مجموعی نتیجہ ہوتا ہے۔
انسانی دماغ کی حیرت انگیز وُسعت
یہی حال حافظہ کی قوت کا ہے ہم ایک بچہ کو بتاتے ہیں کہ یہ چیز جو
تم کھا رہے ہو اسے روٹی کہتے ہیں۔ اب اگر دس سال کے بعد بھی اس سے پوچھو کہ اس چیز کا کیا نام ہے تو وہ فوراً کہہ دیگا کہ روٹی۔ یہ چیز اس کے دماغ میں کس نے محفوظ رکھی ہے صرف اللہ تعالیٰ نے اور پھر یہ دماغ کے اندر کتنی بڑی لائبریری ہے جس میں لاکھوں لاکھ الفاظ سالہا سال سے محفوظ چلے آتے ہیں اور جب بھی کسی لفظ کی ہمیں ضرورت محسوس ہوتی ہے، ہمارے دماغ کا لائبریرین فوراً اس لفظ کو نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ برٹش میوزیم (BRITISH MUSEUM)میں تین لاکھ کتابیں محفوظ ہیں اور وہ اس میوزیم کی تعریف کرتے نہیں تھکتے لیکن اللہ تعالیٰ کے انعامات کی طرف دیکھو کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ اور جاہل سے جاہل انسان کے دماغ میں بھی اُس نے پچاس لاکھ سوراخ بنا رکھے ہیں جن میں ہر فقرہ اور ہر لفظ اور ہر زبر اورہر زیر کو محفوظ رکھنے کی الگ الگ الماری ہے اور جب بھی کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے فوراً بِلا کسی توقّف اور تأخیر کے وہ چیز ہمارے سامنے لا کر پیش کر دیتا ہے۔ دنیا کی لائبریریوں میں تو ایک ایک الماری میں سینکڑوں کتابیں ہوتی ہیں مگر یہاں ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ کے لئے ایک ایک سیل موجود ہے۔ وہ جب بھی کوئی لفظ سیکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے فوراً اُٹھا کر دماغ کی کوٹھڑی میں محفوظ کر دیتاہے۔ پھر باہر تو لائبریریوں میں جو کام کرنے والے رکھے جاتے ہیں اُن کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی ہیں مگریہاں خداتعالیٰ کی طرف سے مقررکئے ہوئے نوکر موجود ہیں جو تم سے کوئی تنخواہ طلب نہیں کرتے۔ تمہارے سامنے روٹی آتی ہے تو جھٹ لائبریرین تمہارے دماغ کے سوراخ میں سے روٹی کا لفظ نکال کرتمہارے سامنے رکھ دیتا ہے۔ پانی آتا ہے تو پانی کا لفظ تمہارے سامنے آجاتا ہے اِسی طرح ایک ایک فقرہ اور ایک ایک لفظ جو تمہاری زبان پر جاری ہوتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے مقررکردہ فرشتے رات اور دن مسلسل کام کر رہے ہیں۔ گویا ساری حکومتِ امریکہ کا اتنا انتظام نہیں جتنا ایک جاہل سے جاہل آدمی کے دماغ میں خداتعالیٰ نے انتظام قائم کیا ہؤا ہے۔
دُنیوی حکومتوں کی احسان فراموشی
پھر دُنیوی حکومتیں وقت پر خدمت لے لیتی ہیں لیکن بعد میں بھُول جاتی ہیں اور
انہیں خیال بھی نہیں رہتا کہ فلاں شخص نے مصیبت اور تکلیف میں ہماری خدمت سرانجام دی تھی۔
ہمارے ایک دوست ہیں مجھے ہمیشہ ان پر ہنسی آیا کرتی ہے لیکن ان کے استقلال کو دیکھ کر تعجب بھی آتا ہے۔ انہوں نے گزشتہ جنگ میں کچھ رنگروٹ دیئے تھے افسروں نے انہیں خوب شاباش دی اور انہیں یہ امید پیدا ہو گئی کہ جنگ کے خاتمہ پر میری اِس خدمت کے بدلہ مجھے انعام کے طور پر کوئی زمین دیدی جائے گی جب جنگ ختم ہو گئی اور وہ کسی افسر سے ملنے کے لئے جاتے تو بعض دفعہ پیغام آجاتا کہ ہمیں ملنے کی فُرصت نہیں اور بعض دفعہ یہ کہدیا جاتا کہ صاحب بہادر اندر نہیں ہیں۔ مگر آدمی ہمت والے تھے انہوں نے چِٹھیاں لکھتے لکھتے وائسرائے تک معاملہ پہنچا دیا۔ وائسرائے نے اُن کی درخواست پر لکھا ڈیفنس سیکرٹری فوراً کارروائی کرے۔ ڈیفنس سیکرٹری نے وہ درخواست گورنر کو بھجوا دی۔ گورنر نے کمشنر کے پاس بھجوا دی کمشنر نے ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچا دی۔ ڈپٹی کمشنر نے ریوینیو آفیسر کے پاس پہنچا دی اور معاملہ پھر وہیں کا وہیں رہا۔ انہوں نے پھر اپنی درخواستیں نیچے سے اوپر پہنچانی شروع کیں اور افسروں نے پھر اسی طرح ان کی درخواستیں اوپر سے نیچے بھجوانی شروع کر دیں۔ غرض اِسی تگ و دو میں ان کے کئی سال گزر گئے مگر انہیں مربع آج تک نہیں ملا بلکہ سیب کا مربّہ بھی نہیں ملا۔ مگر اِس گورنمنٹ کو دیکھو کہ یہ بُھولتی نہیں۔ بچپن میں ایک لفظ سیکھا جاتا ہے اور بڑے ہو کر برابر وہ سیکھا ہؤا یاد رہتا ہے یہ کبھی نہیں ہؤا کہ کوئی چیز سیکھی ہوئی ہو اور پھر وہ دماغ کے کسی گوشے میں محفوظ نہ رہے بلکہ اس حفاظت کا یہ حال ہے کہ فرانس میں ایک دفعہ ایک لڑکی کو دَورے پڑنے شروع ہوئے جب اُسے دَورہ پڑتا تو وہ جرمن زبان میں بعض مذہبی دعائیں پڑھنا شروع کر دیتی۔ وہ فرانسیسی لڑکی تھی اور جرمن زبان کا ایک حرف بھی نہیں جانتی تھی۔ جب دَورے میں اس نے جرمن زبان میں باتیں شروع کیں تو ڈاکٹروں نے شور مچا دیا کہ اب تو جِنّ ثابت ہو گئے۔ یہ لڑکی تو جرمن زبان نہیں جانتی یہ جو جرمن زبان بول رہی ہے تو ضرور اس کے سر پر جِنّ سوار ہے۔ آخر ایک ڈاکٹر نے اس کے متعلق تحقیقات شروع کی وہ حافظہ کا بہت بڑا ماہر تھا۔ جب اُس نے تحقیق کی تو اسے معلوم ہؤا کہ جب یہ لڑکی دواڑھائی سال کی تھی تو اُس وقت اس کی ماں ایک جرمن پادری کے پاس ملازم تھی۔ جب وہ پادری جرمن زبان میں سرمن پڑھتا تھا تو یہ لڑکی اُس وقت پنگھوڑے میں پڑی ہوتی تھی۔ جب اُسے یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اس جرمن پادری کی تلاش میں نکلا اُسے معلوم ہؤا کہ وہ جرمن پادری اِس وقت سپین میں ہے۔ سپین پہنچنے پر اسے معلوم ہؤا کہ وہ پادری ریٹائر ہو کر جرمنی چلا گیا ہے اس کی تلاش میں جرمنی پہنچا، وہاں پہنچ کر معلوم ہؤا کہ وہ پادری مر گیا ہے۔ مگر اس نے اپنی کوشش نہ چھوڑی اور اس نے گھر والوں سے کہا کہ اگر اس پادری کے کوئی پُرانے کاغذات ہوں تو وہ مجھے دکھائے جائیں۔ گھر والوں نے تلاش کرکے اسے بعض کاغذات دیئے اور جب اس نے ان کاغذات کو دیکھا تو اسے معلوم ہؤا کہ وہ دعائیں جو بیہوشی کی حالت میں وہ لڑکی پڑھا کرتی تھی وہ وہی اس پادری کی سرمن تھی۔ اب دیکھو! دو اڑھائی سال کی عمر میں ایک پادری نے اس کے سامنے بعض باتیں کیں جو اس کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے محفوظ کر دیں۔
بچہ کے کان میں اذان اور
اقامت کہنے کی حکمت
یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کے گھر میں بچہ پیدا ہو تو فوراً اُس کے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان
میں اقامت کہو۔۳۵؎ یورپ کے مدبّرین نے تو آج یہ معلوم کیا ہے کہ انسانی دماغ میں سالہا سال کی پُرانی چیزیں محفوظ رہتی ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سَو سال پہلے اِس نکتہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تم اس کے کان میں اذان کہو کیونکہ اب وہ دنیا میں آگیا ہے اور اس کا دماغ اس قابل ہے کہ وہ تمہاری باتوں کو محفوظ رکھے۔
دنیا کا ذرّہ ذرّہ خداتعالیٰ
کی تسبیح کر رہا ہے
پھر فرماتا ہے دنیا کا ذرّہ ذرّہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔
بے شک بادی النظر میں بعض چیزیں قابلِ اعتراض نظر آئیں گی لیکن جب بھی غور کیا جائے گا انسان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام بے عیب اور پُرحکمت ہے۔
لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی مُلّا دماغ کا آدمی ایک دفعہ باغ میں گیا اور اس نے دیکھا کہ آم کے درخت پر تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہیں اور ایک معمولی سی بیل کے ساتھ بڑا سا حلوہ کدّو لگا ہؤا ہے۔ وہ دیکھ کر یہ کہنے لگا کہ لوگ کہتے ہیں کہ خداتعالیٰ بڑا حکیم ہے مگر مجھے تو اس میں کوئی حکمت نظر نہیں آتی کہ اتنے بڑے درخت کے ساتھ تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہوں اور اتنی نازک سی بیل کے ساتھ اتنا بڑا حلوہ کدّو لگا ہؤا ہو۔ اس کے بعد وہ آرام کرنے کے لئے اُسی آم کے درخت کے نیچے سو گیا۔ سویا ہؤا تھا کہ اچانک ایک آم ٹُوٹا اور زور سے اُس کے سر پر آلگا۔ وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھا اور کہنے لگا خدایا! مجھے معاف فرما اب تیری حکمت میری سمجھ میں آگئی ہے اگر اتنی دُور سے حلوہ کدّو میرے سر پر پڑتا تو میں تو مر ہی جاتا۔ غرض اس عالَم کا ذرّہ ذرّہ گواہی دے رہا ہے کہ اُس نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے۔ دنیا میں ہزاروں نہیں لاکھوں قسم کے جراثیم پائے جاتے ہیں اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کیڑوں کو بِلا وجہ پیدا کر دیا ہے مگر سائنس کی ترقی پر ثابت ہؤا ہے کہ دنیا کا ہر کیڑا کسی اور کیڑے کے زہر کو مارنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور کوئی کیڑا بھی ایسا نہیں جو مفید کام نہ کر رہاہو۔ کئی لاکھ کیڑوں کے متعلق یہ تحقیق کی جاچکی ہے اور علمِ حیوانات والوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہر کیڑا کوئی نہ کوئی مفید کا م کر رہا ہے اور کسی نہ کسی زہریلے مادے کو تباہ کر نے میں اس کا دخل ہے۔
پھر فرماتا ہے وہ خدا غالب ہے اس کے فیصلہ کو کوئی ردّ نہیں کر سکتا۔ دُنیوی بادشاہتیں بدل جاتی ہیں تو ساتھ ہی ان کے فیصلے بھی بدل جاتے ہیں اور لوگوں کی گزشتہ خدمات پر پانی پِھر جاتا ہے۔ انگریزوں نے اپنی حکومت کے دَوران میں لوگوں کو مربعے دیئے تھے مگر اب ایجیٹیشن(AGITATION ) شروع ہے کہ بڑی بڑی زمینیں اور جاگیریں واپس لے لینی چاہئیں۔ اُس وقت لوگ سمجھتے تھے کہ شاید قیامت تک یہ سلسلہ اِسی طرح قائم رہے گا مگر حکومت بدلی تو ساتھ ہی اس کے فیصلے بھی بدل گئے وہاں جَفَّ الْقَلَمُ بِمَاھُوَکَائِنٌ۳۶؎ کا قانون ہے کہ جو کچھ خداتعالیٰ نے کہہ دیا سو کہہ دیا وہ قیامت تک بدل نہیں سکتا۔ پھر وہ حکیم ہے اور اُس کے ہرحُکم میں کوئی نہ کوئی حکمت کام کر رہی ہے کوئی امر چٹّی کا موجب نہیں جیسا کہ دُنیوی حکومتوں میں ہوتا ہے۔
آسمانی علوم تقویٰ کے ساتھ وابستہ ہیں
پھر فرماتا ہے
۳۷؎ دنیا میں تو کہا جاتا ہے کہ نوکری ملنے کے لئے بی۔اے ہونا ضروری ہے یا بی۔ایس۔سی ہونا ضروری ہے یا ایم۔اے ہو تب ہم اسے ملازم رکھ سکتے ہیں، یاایم۔ایس۔سی کی ڈگری ضروری ہے مگر یہاں یہ بات نہیں، فرماتا ہے تم تقویٰ اختیار کرو ہم اُسی وقت تمہیں اپنے پاس سے علوم سکھانے شروع کر دیں گے۔ دنیا کے ملاز موں کو تو علم سیکھ کر نوکری ملتی ہے بی۔ایس۔سی کی ڈگری حاصل کرنا پہلے ضروری ہے اور اس کے بعد ملازمت ملتی ہے وہ بھی اپنے اندر محدود ترقی رکھتی ہے مگر یہ الٰہی گورنمنٹ ساتھ ہی ساتھ ہر ترقی پر مزید علم بخشتی ہے اور جب بھی کوئی شخص تقویٰ میں آگے قدم بڑھاتا ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات بھی اُس پر پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ نازل ہونے شروع ہوجاتے ہیں گویا اس علم کے لئے بی۔ایس۔سی ہونا ضروری نہیں صرف تقویٰ میں ترقی کرنا ضروری ہے۔ جُوں جُوں کوئی شخص تقویٰ میں ترقی کرتا جاتا ہے اُس کا علم بڑھتا چلا جاتا ہے اور اُسے پہلے سے زیادہ ڈگریاں ملنی شروع ہو جاتی ہیں۔
عالَمِ روحانی میں سب سے بڑی ڈگری
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی
چنانچہ دیکھ لو اِس عالَمِ روحانی میں سب سے بڑی ڈگری اس شخص کو ملی جس کے متعلق خود خداتعالیٰ
قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وہ اُمّی اور اَن پڑھ ہے۔۳۸؎ دُنیوی حکومتوں میں ایک اُمّی کاکوئی مقام نہیں مگر خداتعالیٰ کا دربار دیکھو کہ اُس نے دنیا کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ایک اُمّی کا ہی انتخاب کیا اور فرمایا کہ ہم اِس کو وہ علم سکھائیں گے کہ دنیا کے بڑے بڑے آدمی بھی اس کے سامنے اپنے گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے۔
دیدارِ عام کی دعوت
دیوانِ عام کی دوسری غرض لوگوں کو بادشاہ کا دیدارِ عام دینا ہوتی ہے۔ بادشاہ دربار میں آکر بیٹھتے ہیں اور لوگ اُن کے
دیدار سے لُطف اندوز ہوتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کو بادشاہ کے دیکھنے سے کیا مل جاتا ہے؟ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ وہ دیکھتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔ مگر اِس دربارِ عام میں جو دیدارِ عام کرایا جاتا ہے اِس میں یہ خوبی ہے کہ اِدھر انسان کو دیدار حاصل ہؤا اور اُدھر اس پر چودہ طبق کُھل گئے۔ اور پھر یہ دیدار وہ ہے جس سے ہر شخص حصہ لے سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ ۳۹؎ فرماتا ہے ہم یہ جانتے ہیں کہ تمہارے دلوں میں ہمارے دیدار کی ایک نہ مٹنے والی خواہش پائی جاتی ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تم میں یہ طاقت نہیں کہ اپنی کوشش اور جدوجہد سے ہمارے دیدار سے فیضیاب ہو سکو اس لئے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے خود تم پر جلوہ گر ہوتے ہیں تاکہ تم میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ رہے جو ہمارا دیدار نہ کر سکے۔
دُنیوی درباروں کے ناقص انتظامات
دنیا میں تو جب دیوانِ عام منعقد کیا جاتا ہے تو اوّل تو سب لوگوں کو اس
دربار میں بیٹھنے کے لئے جگہ ہی نہیں ملتی صرف چند سَو آدمی اندر بیٹھ سکتے ہیں مثلاً دہلی میں درِبار عام منعقد ہؤا تو دہلی کے رہنے والے لاکھوں کی تعداد میں تھے مگر دربار کے اندر بیٹھنے والے چار پانچ سَو سے زیادہ نہ تھے۔
دوسرا طریق بادشاہوں نے یہ مقرر کیا ہؤا ہوتا ہے کہ وہ جھروکے میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ اِردگِردکے میدانوں میں جمع ہوکر اُن کا دیدار کرتے ہیں مگر اس طرح بھی زیادہ سے زیادہ چالیس پچاس ہزار آدمی دیدار کر سکتے ہیں اور چالیس پچاس ہزار آدمی جو ان کو دیکھنے کے لئے جمع ہوتا تھا وہ بھی ایسا ہوتا تھا جو اچھا تندرست اور مضبوط ہو ورنہ اس دیدارِ عام کے باوجود بیمار وہاں نہیں جاسکتا تھا۔ لُولا، لنگڑا وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا۔ پولیس والا جو کسی چوراہے پر آن ڈیوٹی ہوتا تھا وہ وہاں نہیں جا سکتا تھا اور پھر اگر شہر والے وہاں چلے بھی جاتے تو دو دو چار چار سَو میل کے علاقہ میں رہنے والے لوگ وہاں نہیں پہنچ سکتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہاری اِس خواہش کو دیکھا اور ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم تمہاری اِس خواہش کو ضرور پورا کریں گے چنانچہ گو تمہاری آنکھیں خداتعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتیں مگر خدا خود چل کر تمہاری آنکھوں کے سامنے آئے گا۔ اور وہ کیوں ایسا کرے گا؟ اس لئے کہ ُ لطیف کے ایک معنی باریک اور پوشیدہ ہونے کے اور اَلْبَرُّ بِعِبَادِہٖ اَلْمُحْسِنُ اِلٰی خُلْقِہٖ۴۰؎ کے بھی ہیں یعنی اپنے بندوں سے بہت نیکی کرنے والا اور ان کی ضرورتوں کے مطابق سامان مہیا کرنے والا۔ فرماتا ہے ہم کیوں تمہارے پاس چل کر آئیں گے؟ اس لئے آئیں گے کہ ہم بادشاہ ہیں اور ہم اپنے بندوں کے ساتھ نیکی کرنے والے ہیں اور اس لئے ہماری صفت یہ ہے کہ ہم اپنے بندوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرتے ہیں اور ان پر اپنے احسانات کی بارش نازل کرتے ہیں اور پھر اس لئے ہم خود چل کر تمہارے پاس آئیں گے کہ ہم خَبِیْرٌ ہیں یعنی ہم اس بات سے واقف ہیں کہ تم خود اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ وہ دیدار ہے جس کے مقابلہ میں دُنیوی بادشاہوں کے دیدار کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے۔
صفاتِ الٰہیہ پر بحث
پھر عملاً صفاتِ الٰہیہ کو جس طرح قرآن کریم نے ظاہر کیا ہے دنیا کی کسی اور کتاب نے ظاہر نہیں کیا، اس نے صفاتِ الٰہیہ
پر ایسی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ کو اس نے انسان کے سامنے لاکر کھڑا کر دیا ہے۔ مسئلہ توحید کو ہی لے لو اِس سبق کو اس نے اس طرح ننگا کرکے رکھ دیا ہے کہ آج ساری دنیا اِس بات پر مجبور ہے کہ خواہ وہ عملاً شرک ہی کا ارتکاب کر رہی ہو پھر بھی زبان سے وہ یہی کہے کہ خدا ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں۔
خدا اور اُس کے بندے کے
درمیان کوئی واسطہ نہیں
دیوانِ عام کی تیسری غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنی فریاد بادشاہ تک براہِ راست پہنچا سکیں۔ اس نقطۂ نگاہ سے بھی جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں
معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دیوانِ عام کی اِس غرض کو پورا کیا ۔ تمام مذاہب کہتے ہیں کہ خدا اور اس کے بندے میں کوئی نہ کوئی واسطہ ہونا چاہئے مگر اسلام کہتا ہے کہ خدا اور اس کے بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں۔ نبی کتنی بڑی شان رکھنے والا وجود ہوتا ہے مگر خواہ کوئی بڑے سے بڑا نبی ہو پھر بھی وہ خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ نہیں بن سکتا۔
احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ یَارَسُوْلَ اللّٰہ! احسان کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تُو نماز اس یقین اور وثوق کے ساتھ پڑھے کہ گویا تُو خداتعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ مقام تمہیں حاصل نہیں تو تمہیں کم سے کم یہ یقین رکھنا چاہئے کہ خدا تم کو دیکھ رہا ہے ۴۱؎ اور جب کسی بندے کو خدا دیکھ رہا ہو تو اُس کی فریاد کے پہنچنے میں کوئی روک ہی کیا ہو سکتی ہے۔ غرض تمام مذاہب ایک واسطہ کے قائل ہیں مگر اسلام اس چیز کا قائل نہیں۔ چنانچہ دیکھ لو وہ ایک طرف تو محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس قدر تعریف کرتا ہے کہ فرماتا ہے یہ قیامت تک کے لئے گورنر جنرل مقرر کئے گئے ہیں مگر دوسری طرف جہاں واسطے کا سوال آتا ہے وہاں فرماتا ہے ۴۲؎ یعنی تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں توتمہاری طرح ایک انسان ہوں۔ بشر ہونے کے لحاظ سے مجھ میںاور تم میں کوئی فرق نہیں۔ پس اسلام کے نزدیک کسی کو خدا اور بندہ کے درمیان کھڑے ہونے کا حق حاصل نہیں۔
الٰہی دربار میں مظلوموں
کی فریاد سننے کا طریق
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے فریاد سننے کا طریق کیا مقرر کیا ہؤا ہے وہ فرماتا ہے ۴۳؎ یعنی
ان سے پوچھو کہ کیا کوئی ہمارے جیسا دربار منعقد کرنے والا دنیا میں کوئی بادشاہ ہے؟ حکومتیں دربارِ عام منعقد کرتی ہیں تو بادشاہ اعلان کرتے ہیں کہ جس شخص پر کوئی ظلم ہؤا ہو وہ آئے اور ہمارے دربار میں فریاد کرے مگر دنیا میں لوگ اگر فریاد کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے افسر اُن سے کہتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے خلاف شکایت کی تو ہم تمہاری زبان گُدّی سے کھینچ لیں گے۔ وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے فریاد کی تو بعد میں وہی افسر مجھے اور رنگ میں مصیبتوں میں مبتلاء کر دیں گے۔ مگر یہاں یہ حالت ہے کہ رات کی تاریکی سایہ ڈالے ہوئے ہے، مصیبت زدہ بندہ اپنے لحاف میں پڑا آہیں بھر رہا ہے، دنیا کا کوئی فرد نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے یا کیا کہہ رہا ہے۔ کوئی افسر اسے دھمکا نہیں سکتا، کوئی افسر اسے فریاد سے روک نہیں سکتا وہ لحاف میں لیٹے لیٹے خداتعالیٰ کے دربار میں اپنی آواز بلند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا! فلاں نے مجھ پر ظلم کیا ہے تُو میری طرف سے آپ اس کا بدلہ لے۔ ظالم نہیں جانتا کہ اس کے خلاف بادشاہ تک شکایت پہنچ چکی ہے، وہ نہ سنتا ہے نہ دیکھتا نہ اُس کے دل پر کوئی خیال گزرتا ہے مگر مظلوم کی فریاد خداتعالیٰ کے عرش کو ہِلا دیتی ہے۔ وہ فرماتا ہے جب وہ اکیلے خداتعالیٰ کے حضور مضطر ہو کر فریاد کرتا ہے۔ جب کوئی اس کے پاس نہیں ہوتا اُس وقت کون اس کی مدد کے لئے آتا ہے؟ دنیا غافل ہوتی ہے مگر خدا اپنے بندے کی مدد سے غافل نہیں ہوتا وہ خود آتا ہے اور کہتا ہے اے میرے بندے! میں تیری مدد کو آگیا ہوں اور پھر اس سے ایسی محبت اور پیار کا سلوک کرتا ہے کہ اُس کا ہر دکھ دُور ہو جاتا ہے۔
خداتعالیٰ کی عطا کا بے مثال نمونہ
دیوانِ عام کی چوتھی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ بادشاہ کے سامنے اپنے مطالبات
پیش کریں مگر ظاہر ہے کہ ہر شخص نہ دربارِ عام میں پہنچ سکتا ہے اور نہ بادشاہ اتنا وقت دے سکتا ہے۔ دس بیس کروڑ رعایا ہو تو بادشاہ کے پاس اتنا وقت کہاں ہو سکتا ہے کہ وہ ہر ایک کے مطالبہ کو سُنے اور اس کے بارہ میں ضروری کارروائی کرے۔ پھر اگر مطالبات پیش کرنے کا موقع بھی ملے تو جو کچھ دل میں ہوتاہے وہ سب کچھ انسان مانگ نہیں سکتا۔ اول تو وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں افسر خفا نہ ہو جائے اور پھر انہیں یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر ہم نے اپنے دل کی بات کہہ دی تو نہ معلوم بادشاہ اس کو مانے یا نہ مانے۔ مگر اِس الٰہی دربار کی عجیب شان ہے اس دربارِ عام کے بارہ میں فرماتاہے ۴۴؎
فرماتا ہے آسمان کا رہنے والا ہو یا زمین کا رہنے والا ہر ایک اپنی ضرورت خداتعالیٰ سے مانگتا ہے۔یہاں سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ کیا آدمی کی ہر ضرورت پوری ہو جاتی ہے؟ اس کے متعلق فرماتا ہے نہ صرف ہر مانگنے والے کی ضرورت کو پورا کرتا ہے بلکہ ہر روز وہ نئی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ایک نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہے۔ پہلے بندہ کہتا ہے خدایا! مجھے فلاں چیز چاہئے اور خداتعالیٰ اسے وہ چیز دے دیتا ہے۔ پھر وہ اَور چیز مانگتا ہے اور خداتعالیٰ اسے وہ چیز بھی دے دیتا ہے اس طرح وہ مانگتا چلا جاتا ہے اور خداتعالیٰ اسے دیتا چلا جاتا ہے۔
خداتعالیٰ کی ہر روز ایک
نئی شان سے جلوہ گری
آخر مانگتے مانگتے اسے خیال آتا ہے کہ اب میں کیا مانگوں؟ میں نے تو اس سے بہت کچھ مانگ لیا ہے اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتا ہے اور فرماتا ہے آج تو
ہم ایک نئی شان میں تمہارے سامنے جلوہ گر ہوئے ہیں پچھلی ضرورتوں کا خیال جانے دو اب ہم سے اَور مانگو ہم تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں۔ پہلے تم نے اُس شان کو دیکھا تھاجو گزر چکی اب تم ہماری اِس نئی شان کا مشاہدہ کرو اور جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مجھے سے مانگو۔ غرض یہ دربارِ عام وہ ہے جس میں سب مانگتے ہیں، ہر روز مانگتے ہیں اور ہر روز انہیں نئے انعام ملتے ہیں دُنیوی اور اُخروی ترقیات کا ایک تسلسل جاری ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا۔
علومِ قرآنیہ کے انکشاف کا
دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا
کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم تو یہ کہتاہے کہ خداتعالیٰ ہر روز ایک نئی شان میں دنیا کے سامنے آتا ہے اور ہر روز وہ نیا احسان دنیا پر کرنے
کے لئے تیار ہوتا ہے مگر آج وہی مسلمان جن کی کتاب میں یہ تعلیم موجود تھی جو دنیا کی کسی اَورکتاب میں موجود نہیں اِس قرآن کو ماننے والا مولوی یہ کہتاہے کہ رازیؒ کے بعد اب کوئی نئی تفسیر نہیں ہو سکتی، ابن حیان جو مضمون بیان کر چکا اس پر اب اور کوئی مضمون بڑھایا نہیں جاسکتا جس کے معنی یہ ہیں کہ ان بزرگوں کی وفات کے بعد اب نَعُوْذُبِاللّٰہ خداتعالیٰ کا خزانہ خالی ہو چکا ہے جو معارف اورعلوم وہ دے چکا سو دے چکا اب معرفت کی کوئی نئی بات بنی نوع انسان پر نہیں کُھل سکتی، روحانیت کا کوئی نیا راز بنی نوع انسان پر منکشف نہیں ہو سکتا۔ گویا وہ دروازہ جسے خداتعالیٰ نے کُھلا قرار دیا تھا اُسے اِن مولویوں نے بند سمجھ لیا اور وہ روحانی انعامات جن کے متواتر نزول کی اُس نے بشارت دی تھی ان کے متعلق انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ ختم ہو چکے ہیں حالانکہ خداتعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ ہم توہر روز ایک نئے روپ میں آتے ہیں اور نئی شان کے ساتھ نئے انعامات بنی نوع انسان پر نازل کرتے ہیں۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جس قرآن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے اسی قرآن کے ماننے والے یہ کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن کریم کی کوئی نئی تفسیر کرتا ہے وہ کُفر اور اِلحاد کا ارتکاب کرتا ہے حالانکہ یہ کُفر نہیں بلکہ یہ خداتعالیٰ کی کتاب کو ایک زندہ کتاب ثابت کرنے والی خوبی ہے۔ یہ اس دعویٰ کا ایک عملی ثبوت ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا کہ ہم ہر روز ایک نئی شان میں دنیا پر جلوہ گر ہوتے ہیں۔
قرآن ایک زندہ کتاب ہے
حقیقت یہ ہے کہ اِس وقت جبکہ دُنیوی انعامات بہت بڑھ چکے ہیں ضرورت تھی کہ اسی طرح
روحانی انعامات کی بھی بارش ہوتی تاکہ دنیا کی طرف راغب لوگ دین داروں کو شرمندہ نہ کرسکتے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ انہی وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اِس زمانہ میں پھر ہمارے اِس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور ہم دنیا میں یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے۔ ہماری کتاب ایک زندہ کتاب ہے اور وہ اب بھی اپنے روحانی انعامات جس کو چاہے دے سکتا ہے ضرورت اِس بات کی ہے کہ لوگ اُس سے مانگیں۔ دینے والا نہیں تھکا تو مانگنے والے اس سے کیوں مایوس ہوں۔
بارگاہِ رب العزّت میں پُکار
اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ مجھے بھی اور آپ لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے کی
توفیق عطا فرمائے تاکہ وہ نور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم نے پایا ہے وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلے اور ہم اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھ کر اِس بات پر فخر کر سکیں کہ ہم نے شیطان کی حکومت مٹا کر دنیا میں خدا اور اُس کے رسول کی حکومت قائم کر دی ہے۔ اِسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہماری جماعت کے بیسیوں مبلّغین اِس وقت غیر ممالک میں کام کر رہے ہیں اور وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کی کامیابی کے لئے دُعائیں کی جائیں۔ نہ صرف اِس لئے کہ وہ اسلام کی اشاعت کا فرض ادا کر رہے ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی ملک کہلاتا ہے۔ ہم سے لوگ خواہ کتنے بھی اختلاف رکھتے ہوں وہ منہ سے یہی کہتے ہیں کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اورمنہ سے یہی کہتے ہیں کہ اسلامی احکام پر ہی عمل کرنا چاہئے۔ لیکن اِن مبلّغین کے اِردگِرد وہ لوگ بستے ہیں جو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے قائل نہیں ساری طرف سے انہیں یہی آوازیں آتی ہیں کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ قرآن جھوٹا ہے ، اسلام جھوٹا ہے اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیں پس ذہنی لحاظ سے جو اطمینان کی کیفیت آپ لوگوں کو میسّر ہے وہ ان مبلغوں کو میسّر نہیں۔ پس اُن کا حق ہے کہ آپ لوگ انہیں اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ میں ان کی غفلتوں کا انکار نہیں کرتا لیکن اُن کی قربانیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بعض دفعہ ان کے جانے کے بعد اُن کے گھروں میں بچے پیدا ہوئے ہیں اور وہ بڑے ہو کر اپنی مائوں سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے ابّا کی شکل کیسی ہے؟ اتنی بڑی قربانی کے بعد آپ لوگ خود ہی غور کریں کہ اُنکا ہم پر کتنا بڑا حق ہے پس چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ وہ ہر جگہ اسلام کی اشاعت کے راستے کھولے اور انہیں اپنے مقصد میں کامیاب فرمائے۔ اس طرح ہماری جماعت کے باقی افرادکے قلوب کو بھی اِس کام کی اہمیت سمجھنے کیلئے کھول دے اور تبلیغ کے متعلق اُن کے اندر ایک نئی زندگی اور بیداری پیدا فرمائے۔ اب دنیا پر ایسا وقت آچکا ہے کہ ہماری جماعت کے ایک ایک فرد کو بیدار ہو جانا چاہئے اور ایسی کوشش کرنی چاہئے کہ لاکھوں لاکھ لوگ اسلام میں داخل ہونے شروع ہو جائیں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے دوستوں کو تبلیغ کا ایسا جوش عطا فرمائے جو کبھی مِٹنے والا نہ ہو اور ایسا جنون بخشے جو کبھی دبنے والا نہ ہو اور جس کے نتیجہ میںفوج در فوج لوگ اسلام اور احمدیت میں داخل ہونے شروع ہو جائیں۔
دُعائیں کرو کہ خداتعالیٰ تمہیں
اپنا قُرب نصیب کرے
اِسی طرح ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اپنا قُرب نصیب فرمائے کیونکہ یہی ایک غرض ہے
جس کے لئے ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر ہمیں ذاتی طور پر خداتعالیٰ کا قُرب حاصل نہیں تو ہمیں اِس سے کیا کہ اِس زمانہ میں اُس نے اپنے قُرب کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خواہ کتنا بڑا مسیح اور مہدی ہمارے لئے بھیج دیا ہو، خواہ کتنے بڑے مدارج کے دروازے اُس نے ہمارے لئے کھول دیئے ہوں اگر ہم خود اِن دروازوں کے اندر داخل نہیں ہوئے تو ہماری کیا زندگی ہے۔ اگر واقعہ میں اُس نے اپنے قُرب کے دروازے کھول دیئے ہیں اور اپنی برکتیں نازل کر دی ہیں تو ہماری اِس سے زیادہ اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ دروازے تو کُھلے ہوں مگرہم اس کے قُرب سے محروم رہیں۔
پس دعائیں کرو کہ خداتعالیٰ کی محبت اور اُس کا عشق ہمارے دلوں میں اتنا پیدا ہو کہ دنیا کی کوئی چیز اسکو چُھپا نہ سکے۔ ہم خدا کے ہو جائیں اور خداہمارا ہو جائے۔ ہم خدا میں ہو جائیں اور خدا ہم میں ہو جائے۔ ہم خدا کو دیکھیں اور دنیا ہم میں خدا کو دیکھے۔ یہی چیزیں ہیں جو نبیوں کی جماعتوں کو حاصل ہؤا کرتی ہیں اگر یہ چیز نہیں تو پھر ہماری زندگی زندگی نہیں بلکہ ہم ۴۵؎ کے مصداق ہیں۔ پس آئو ان باتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں ، اپنی کمزوریوں کے دُورہونے کے لئے، اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کے لئے اور دشمنوں کی ہدایت اور ان کی راہنمائی کے لئے اور یہ کہ اگر ہمارا اُس کی راہ میں مرنا ہی ضروری ہے تو وہ اپنے فضل سے ہمارے د لوں کو وہ طاقت بخشے کہ دنیا کی ساری مصیبتیں اور تکلیفیں خداتعالیٰ کے راستہ میں ہمیں ایسی ہی خوبصورت نظر آئیں جیسے گلاب کا پُھول۔ ہماری زندگیاں بدل جائیں ہم میں جوشِ عمل پیداہو جائے اورہمارا رسمی ایمان حقیقی ایمان کی شکل اختیار کر لے۔ خدا تعالیٰ ہمارے ایمان کو مضبوط کرے اور ہمیں وہ قوتِ عمل عطا کرے جس سے دنیا کا نقشہ بدل جائے۔ وہ آپ آسمان سے اُتر آئے اورہمیں اپنی گود میں اُٹھا لے اور ہمیں اپنی رحمت اور شفقت کے دامن میں چھُپا لے اور ہمیں اپنی رضا کا وارث کرے۔
دُعائیں کرو کہ تثلیث کا بُت ہمارے
ہاتھوں سے پاش پاش ہو جائے
اِسی طرح قادیان اور ہندوستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کی ہمتوں کو بلند کرے اور
ہمارا خدا اُن کا آپ حافظ و ناصر ہو اور اُن کو ایسی ترقی عطا فرمائے کہ وہ لاکھوں لاکھ اور کروڑوں کروڑ ہو جائیں۔ گویا اِدھر ہم ترقی کر رہے ہوں اور اُدھر وہ ترقی کر رہے ہوں اور جیسے نوحؑ کے زمانہ میں ہؤاکہ آسمان سے بھی پانی برسا اور زمین سے بھی چشمے پُھوٹ پڑے اور پھر دونوں پانی آپس میں مل گئے اورکُفرو شیطنت کی دنیا ان پانیوں سے تباہ ہو گئی اس طرح خدا اِدھر ہمیں ترقی عطا فرمائے اور اُدھر اُن کو ترقی دیتا چلا جائے اور پھر یہ ترقیات ساری دنیا پر اس طرح چھا جائیں کہ اسلام اور احمدیت کو غلبہ میسّر آجائے۔ عیسائیت نے بہت لمبی عمر پائی ہے اب ہمیں خدا سے دُعا کرنی چاہئے کہ وہ اِس ضلالت کو ہمارے ہاتھوں سے تباہ کرے اور یہ بُت ہمارے ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے جس طرح سومنات کا بُت محمود غزنوی کے ہاتھ سے توڑا گیا تھا اِسی طرح خدا اب تثلیث کا بُت میرے ہاتھوں سے پاش پاش کرے اور وہ دنیا میں دوبارہ کبھی غلبہ اور عروج حاصل نہ کرے۔ اَللّٰہُمَّ امِیْنَ۔
۱؎ المزّمّل: ۱۶ تا ۱۹ ۲؎ الاعراف : ۱۵۹ ۳؎ سبا : ۲۹ تا ۳۱
۴؎ السّجدۃ : ۶
۵؎ لوقا باب۱۳ آیت۳۵ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ ء (مفہوماً)
۶؎ بخاری کتاب التفسیر تفسیرسورۃ الجمعۃ باب قولہٖ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ … الخ
۷؎ الزمر : ۲۴ ۸؎ الواقعۃ :۷۹
۹؎ اقرب الموارد الجزء الاول صفحہ۹۶ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۱۰؎ اَلْمَثَانِی مِنَ الْوَادِیْ: مُعَاطِفُہٗ۔ اقرب الموارد جلد ۱ صفحہ ۱۲۔ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۱۱؎ مثانی الشیٔ ۔ قواہُ وَطَاقَاتُہٗ ۔اقرب الموارد جلد ۱ صفحہ ۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء
۱۲؎ الحجر : ۳ ۱۳؎ المائدہ : ۴
۱۴؎ بخا ری کتاب التفسیر تفسیرسورۃ المائدہ باب قولِہٖ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔
۱۵؎ لسان العرب زیر لفظ ثنی دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان مطبوعہ ۲۰۰۵ء
۱۶؎ اٰل عمران : ۳۲ ۱۷؎ بنی اسرائیل : ۲۱ ۱۸؎ القلم :۵
۱۹؎ اٰل عمران : ۱۹۷،۱۹۸ ۲۰؎ فاطر : ۴۳،۴۴
۲۱؎ بخاری کتاب الجھاد والسیرباب مَنْ ینکب اویطعن فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ، سیرت ابن ہشام
جلد۲ صفحہ۱۲۷ مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۲۲؎ بنی اسرائیل : ۸۲
۲۳؎ سیرت ابن ہشام جلد۲صفحہ۱۷مطبوعہ مصر۱۲۹۵ھ
۲۴؎ الانفال : ۴۳ ۲۵؎ الزمر : ۵۴،۵۵
۲۶؎ مسلم کتاب الایمان باب اَدْنٰی اَھلِ الْجَنَّۃِ منزلۃ فِیْھَا
۲۷؎ الانعام:۶۴،۶۵ ۲۸؎ الصّٰفّٰت : ۷ تا ۱۱
۲۹؎ مشکوٰۃ کتاب الفتن باب مناقب الصحابۃ
۳۰؎ العنکبوت : ۷۰ ۳۱؎ البلد : ۱۱ ۳۲؎ ھود : ۷
۳۳؎ المؤمن : ۶۵ ۳۴؎ الحشر : ۲۵
۳۵؎ مجمح الزوائد جُز ۴ صفحہ ۹۵کتاب الصید و الذبائح باب الاذان فی أُذَنِ المولود
مطبع دارالفکر بیروت لبنان مطبوعہ ۱۹۹۴ء
۳۶؎ المعجم الکبیرجلد۱۱صفحہ۲۲۳ مطبوعہ بغداد ۱۹۸۰ء
۳۷؎ البقرہ : ۲۸۳ ۳۸؎ الاعراف:۱۵۸ ۳۹؎ الانعام:۱۰۴
۴۰؎ اقرب الموارد جلد۲ صفحہ۱۱۴۴ مطبوعہ بیروت۱۸۸۹ء
۴۱؎ بخاری کتاب الایمان باب سُؤال جبریل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم عَنِ الْاِیْمَان (الخ)
۴۲؎ الکھف : ۱۱۱ ۴۳؎ النمل : ۶۳ ۴۴؎ الرحمٰن : ۳۰،۳۱
۴۵؎ بنی اسرائیل : ۷۳




اپنے اندر سچائی، محنت اور ایثار کے
اوصاف پیدا کرو




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اپنے اندر سچائی، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو
مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ سے خطاب
(فرمودہ ۱۲؍فروری ۱۹۵۱ء بمقام ربوہ)
تشہّد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’سال دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ سال ہوتا ہے جو کسی جماعت کی ابتداء یا کسی کام کے جاری ہونے کے وقت سے بارہ مہینے گزرنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ایک وہ سال ہوتا ہے جو شمسی یا قمری سالوں کے اصول پر شروع ہوتا ہے۔ قمری سال تو بدلتا رہتا ہے لیکن شمسی سال ہمیشہ یکم جنوری کو شروع ہوتا ہے۔ آج جب مجھ سے خواہش کی گئی کہ مَیں خدام الاحمدیہ کو سالِ رواں کے متعلق بعض ہدایات دوں تو مَیں نے یہ بات مان تو لی لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ یہ کونسا سالِ رواں ہے جس کے متعلق مجھ سے بعض نصائح اور ہدایات حاصل کرنے کی خواہش کی گئی ہے اِس پر مجھے بتایا گیا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام چونکہ ۴؍فروری کو ہؤا تھا اس لئے اِس مہینہ سے مجلس خدام الاحمدیہ کے نئے سال کی ابتدا ہوتی ہے۔ ورنہ شمسی یا قمری اصول کے مطابق یہ کوئی نیا سال شروع نہیں ہؤا۔
نصیحت ہمیشہ اس شخص کے لئے مفید اور کار آمد ہوتی ہے جو اُسے قبول کرتا اور اُس پر عمل کرتا ہے۔ باقی لوگوں کے لئے اس کاعدم اور وجود برابر ہوتا ہے۔ چند ماہ ہوئے خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع ہؤا تھا اور اُس موقع پر مَیں نے جماعت کے نوجوانوں کو بہت سی مفید باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی چونکہ میرے پاس امتحان کا کوئی ذریعہ موجود نہیں اِس لئے مَیں نہیں جانتا کہ میری نصائح کا کیا اثر ہؤا اور عمل میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی اور جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ پہلی نصائح کا کیا اثر ہؤا اور ان کے نتیجہ میں اعمال میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی۔ اُس وقت تک مزید نصائح کی طرف انسان کی توجہ کم ہوتی ہے اور مزید نصائح چنداں مفید بھی نہیں ہوتیں بلکہ بسا اوقات نصائح کی زیادتی قوم کی سُستی اور غفلت کا موجب ہو جاتی ہے۔ کیونکہ جو چیز بار بار سامنے آتی ہے، جہاں وہ بار بار بیداری پیدا کرنے کا موجب ہو جاتی ہے وہاں بعض دفعہ وہ اپنی کثرت کی وجہ سے غفلت کا موجب بھی ہو جاتی ہے۔ پس مَیں نہیں سمجھتا کہ نوجوانوں میں نئی نصائح کے متعلق کیا کیفیت پیدا ہوئی ہے۔ کیونکہ مَیں اِس حقیقت سے ناواقف ہوں کہ میری پہلی نصائح نے کیا اثر کیا تھا۔
بہرحال نتیجہ کا پیدا نہ ہونا جہاں ایک صحیح رائے قائم کرنے سے انسان کو محروم کر دیتا ہے وہاں اِس بات کا کافی موجب نہیں ہوتا کہ نصائح کے سلسلہ کو ترک کر دیا جائے۔ اس لئے مَیں نئے سال کے لئے جماعت کے نوجوانوں کو اختصار کے ساتھ چند امور کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں۔
جو نصائح کی جاسکتی ہیں وہ تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہوں گی اور پھروہ مختلف حالات میں بدلتی بھی رہتی ہیں مگر اِس زمانہ میں سب سے بڑی ضرورت سچائی کی ہے۔ انبیاء نے اس پر خاص زور دیا ہے اور انسانی اخلاق کا یہ ایک بنیادی حصّہ ہے۔ سچائی اور راستی پر کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب اِس کی ضرورت نہ سمجھی گئی ہو بلکہ کفّار کے نزدیک بھی یہ چیز بڑی قیمتی سمجھی جاتی تھی اور شاید ہی کسی زمانہ میں اِسے ترک کرنا جماعتی اور سیاسی طور پر تسلیم کیا گیا ہو۔ مگر اِس زمانہ میں سیاسی اور قومی مفاد کے لئے جھوٹ کو جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ اسے ایک نہایت ضروری چیز قرار دیا جاتا ہے۔ اور یہ مرض اس قدر پھیل گیا ہے کہ ہمارے مُلک میں لوگ بڑے اطمینان کے ساتھ قسمیں کھا کھا کر جھوٹ بولتے ہیں اور ساتھ ہی اِس بات پر ناراض بھی ہوتے ہیں کہ ہمارے اِس جھوٹ کو سچ تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا۔ عدالتوں میں پہلے یہ رواج تھا کہ گواہ کے ہاتھ میں قرآن کریم دے کر اُس سے قسم لیتے تھے اور اِس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ قرآن کریم میں جو وعید نازل ہوئے ہیں اُنہیں مد نظر رکھتے ہوئے مَیں قَسم کھاتا ہوں اور اگر میری قسم جھوٹی ہو تو مذکورہ وعید اور سزائیں مجھے ملیں لیکن اِن گواہوں میں سے کئی ایسے ہوتے تھے جو قسم کھا کر بھی جھوٹ بولتے تھے۔
مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم جو ہمارے بڑے بھائی تھے اور ای۔اے سی تھے وہ اپنا تجربہ سُنایا کرتے تھے کہ جتنا کوئی قرآن کریم ہاتھ میں لے کر جوش سے گواہی دیتا تھا میرے تجربہ میں اُتنا ہی وہ جھوٹا ہوتا تھا۔ وہ ایک لطیفہ سُنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو میرا اچھا واقف تھا اُس کا مقدمہ میرے سامنے پیش ہؤا۔ وہ کہنے لگا مجھے کوئی اور تاریخ دی جاہے کیونکہ جو گواہ مَیں نے پیش کرنے تھے ، وہ فلاں فلاں وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتے۔ مَیں نے ہنس کر کہا مَیں تو تمہیں عقل مند اور ہوشیار آدمی خیال کرتا تھا لیکن اب میری طبیعت پر یہ اثر ہؤا ہے کہ تم بے وقوف ہو۔ وہ کہنے لگا کیوں؟ مَیں نے کہا گواہوں کے لئے جگہ اور وقت کی کیا ضرورت ہے۔ اگر تمہاری جیب میں کچھ ہے تو روپیہ اٹھنّی دے کر بعض آدمی گواہی کے لئے لے آؤ۔ چنانچہ وہ باہر چلا گیا اور عملی طور پر تھوڑی دیر میں ہی کچھ گواہ لے آیا۔ گواہی لیتے ہوئے مَیں ہنستا بھی جاؤں اور مذاق بھی کرتا جاؤں۔ وہ لوگ قرآن کریم سر پر رکھ کر اور قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ واقعہ یُوں ہؤا ہے۔ حالانکہ تھوڑی دیر ہوئی مَیں نے خود مدعی کو اِس غرض کے لئے باہر بھیجا تھا کہ وہ کچھ دے دلا کر چند گواہ لے آئے۔ جب وہ گواہی دے چُکے تو مَیں نے اُنہیں پکڑا اور کہا تم بڑے کذاب ہو، تمہیں واقعہ کا علم ہی نہیں لیکن محض چند ٹکوں کی وجہ سے تم اتنا جھوٹ بول رہے ہو کہ قرآن کریم کی بھی پرواہ نہیں کرتے۔ اب جس قوم کی یہ حالت ہو اُس کا یہ کہنا کہ ہم کامیاب کیوں نہیں ہوتے بالکل غلط بات ہے۔ دُنیا میں وہی قومیں جیتا کرتی ہیں جن میں صداقت ہوتی ہے۔ مَیں عیسائی دُنیا کو دیکھتا ہوں کہ اُنہوں نے مشق کے ساتھ اپنے اندر سچائی کی اِتنی عادت پیدا کر لی ہے کہ جہاں حکومت کی خاطر وہ ہر قسم کا جھوٹ بول لیتے ہیں وہاں جب ذاتیات کا سوال آتا ہے تو وہ جھوٹ نہیں بولتے۔ امریکہ کا کیریکٹر زیادہ اچھا ثابت نہیں ہؤا۔ امریکہ کا کیریکٹر کمزور ہے۔ کیونکہ اُنہوں نے جلد ترقی کی ہے اِس لئے وہ اپنا کیریکٹر نہیں بنا سکا لیکن یورپ نے آہستہ آہستہ ترقی کی ہے اور اِس نے اپنا کیریکٹر بنا لیا ہے۔ اسی طرح کسی زمانہ میں ایک مسلمان کا کیریکٹر ایسا تھا کہ وہ جو بات کہتا تھا ٹھیک ہوتی تھی اور جب تک ہماری جماعت بڑھی نہیں تھی اُس وقت تک اِس کا بھی یہی حال تھا۔ احمدی کوئی بات کہہ دے لوگ اسے صحیح تسلیم کر لیتے تھے اور کہتے تھے احمدی جھوٹ نہیں بولتے تھے ۔
جھنگ کا ہی ایک واقعہ ہے یہاں ایک دوست احمدی ہوئے تھے جن کا نام مغلہ تھا۔ ان کے تمام رشتہ دار اُن کے سخت مخالف ہو گئے۔ اِس علاقہ کے لوگ چوری کو ایک فن سمجھتے ہیں اور پھر اِس پر فخر کرتے ہیں۔ چنانچہ جتنا بڑا کوئی چور ہو گا اُتنا ہی وہ چوروں میں معزز ہو گا۔ مثلاً کہا جائے گا فلاں آدمی بڑا معزز ہے اِس لئے کہ فلاں موقع پر اِس نے اتنی بھینسیں نکال لیں یا فلاں آدمی بہت معزز ہے اِس لئے کہ اُس نے اتنی گائیں نکال لیں اور پھر چوروں میں اِس حد تک نظام قائم ہوتا ہے کہ ہر علاقہ میں جو چند ضلعوں یا چندتحصیلوں پر مشتمل ہوتا ہے، علاقہ کے سب چور اُس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور مالِ مسروقہ میں سے اُس کا حصّہ نکالتے ہیں۔ مغلہ ایسے ہی بالادستوں میں سے ایک تھے جو بعد میں احمدی ہو گئے اور چوری سے اُنہوں نے تو بہ کر لی۔ اُنہوں نے بتایا کہ علاقہ کے چور مال مسروقہ کا پانچواں دسواں یا بارہواں حصّہ میرے گھر پر لاتے تھے اور وہ سُنایا کرتے تھے کہ چوروں کے اندر ایسا نظام موجود ہے کہ بعض چوری کی ہوئی چیزوں کو دو دو تین تین سَو میل تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ ہر ایک جگہ کا اڈہ مقرر ہوتا ہے اور پہلے سے ہی یہ طے ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسروقہ چیز مشرق کے کسی علاقہ کی طرف نکالنی ہے تو اتنے میل پر فلاں آدمی کو دے آؤ اور اگر مغرب کو مال نکالنا ہے تو چھ سات میل پر ایک دوسرے آدمی کو دے آؤ۔ اِسی طرح شمال اور جنوب میں ایک ایک آدمی مقرر ہوتا ہے۔ چور مخصوص حالات کے مطابق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مال فلاں طرف نکالا جائے۔ مثلاً اگر وہ دیکھتا ہے کہ جس کے ہاں چوری کی ہے اُس کی رشتہ داریاں مشرق میں ہیں تو وہ مسروقہ مال مغرب کی طرف بھیج دے گا اور اگر رشتہ داریاں مغرب میں ہیں تو وہ اسے مشرق کی طرف بھیج دیتا ہے۔ اِسی طرح اگر اس کی رشتہ داریاں شمال کی طرف ہیں تو وہ مال جنوب کی طرف بھیج دے گا اور اگر رشتہ داریاں جنوب کی طرف ہیں تو وہ مال شمال کی طرف بھیج دے گا مثلاً بیکانیر گورداسپور سے کتنی دُور تھا لیکن ہمارے علاقہ کا مسروقہ مال بیکانیر تک جاتا تھا۔
پھر چوروں میں اِس قسم کا نظام ہوتا ہے کہ مثلاً ایک شخص اگر کوئی جانور چوری کرتا ہے تو وہ حالات کے مطابق اُسے دس بارہ میل پر کسی مقررہ اڈے پر پہنچا دے گا اور اُسے مثلاً دسواں حصّہ قیمت کا مل جاہے گا۔ پھر دوسرا آدمی اُسے دوسرے اڈے تک پہنچا دے گا اور اُسے دسواں حصّہ قیمت کا مل جائے گا۔ اِس طرح وہ ایک عام اندازہ لگا کر قیمت کے حصّے کرتے جائیں گے اور آخری وقت اُسے بیچ کر اپنا حصّہ پورا کرے گا۔
ایک دفعہ سکھوں نے میری کچھ گھوڑیاں چُرا لیں اور پولیس نے میرے خیال میں اُنہیں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن چونکہ پولیس والے ایسے معاملات میں مجرموں سے کچھ لے کر کھا پی بھی لیتے ہیں اِس لئے وہ سفارش لے آئے کہ اُنہیں معاف کر دیں اور اپنی رپورٹ واپس لے لیں یہ لوگ گھوڑیاں واپس دے دیںگے۔ اِن کا خیال تھا کہ اگر انہوں نے معاف کر دیا اور پولیس سے اپنی رپورٹ واپس لے لی تو بعد میں گھوڑیاں غائب کر دی جائیں گی۔ مَیں نے کہا مَیں ایسا نہیں کروں گا۔ ہمارے وہ دوست میرے پاس پہنچے اور اُنہوں نے کہا مَیں نے سُنا ہے کہ سکھوں نے آپ کی گھوڑیاں چُرا لی ہیں۔ یہ لوگ سیدھی طرح تو گھوڑیاں واپس نہیں کریں گے آپ اجازت دیں کہ مَیں ان کی گھوڑیاں چوری کروا دوں اِس طرح وہ آپ کی گھوڑیاں واپس کر دیں گے۔ مَیں نے کہا آپ نے توبہ کی ہوئی ہے آپ اپنی توبہ پر قائم رہیں گھوڑیوں کی خیر ہے۔ اتفاقاً وہی چور جنہوں نے میری گھوڑیاں چُرائی تھیں ایک اَور مقدمہ میں گورداسپور عدالت میں پیش ہوئے۔ مسٹر اوگلی ڈی سی کی عدالت میں وہ چور پیش ہوئے ۔ وہ احمدیوں کے اخلاق کے بہت مداح تھے۔ کسی شخص نے اُنہیں بتایا کہ یہ لوگ بہت سخت ہیں۔ اُنہوں نے قادیان کے مرزا صاحب کی گھوڑیاں بھی چُرالی تھیں۔ جس مقدمہ میں وہ چور عدالت میں پیش ہؤا تھا اُس کی سزا دو سال سے سات سال تک ہو سکتی تھی لیکن ڈی۔سی نے مجرم کو مخاطب کر کے کہا تمہارے جُرم اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے مَیں تمہیں دو سال کی سزا دیتا ہوں اور پانچ سال مرزا صاحب کی گھوڑیاں چُرانے کی سزا دیتا ہوں لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ سزا بھی کم تھی۔ سات سال کی قید کے بعد جب وہ چور رہا ہو کر گھر آیا تو اُس کی غیرحاضری میں اُس کی بیوی آوارہ ہو چکی تھی۔ اُس نے اُسے قتل کر دیا اور خود پھانسی پر چڑھ گیا۔
غرض جب کوئی شخص سچائی کے ساتھ کام کرتا ہے تو خدا تعالیٰ خود اُس کا بدلہ لیتا ہے۔ مُغلہ جب احمدی ہوئے تو اُنہوں نے قومی عادت یعنی چوری کو ترک کر دیا اور جھوٹ بولنا بھی چھوڑ دیا کیونکہ یہ ابتدائی جُرم ہوتا ہے۔ اُن کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مُغلہ کافر ہو گیا ہے لیکن بعد میں پتہ لگا کہ اُن کا لڑکا کافر ہو کر سچ بولنے لگ گیا ہے اور چوری بھی اُس نے چھوڑ دی ہے۔ چور چوریاں کرتے تھے اور پولیس اور دوسرے لوگ ان کا تعاقب کرتے تھے۔ عدالتوں میں بات اَور ہوتی ہے اور انسان وہاں جھوٹ بول کر گزارہ کر لیتا ہے لیکن برادری یا پنچائت میں یہ بات مشکل ہوتی ہے کہ کوئی اپنا قصور چُھپالے۔ عدالتوں میں بتانے والے لوگ نہیں ہوتے اس لئے مجرم جو چاہے بیان دے دے۔ لیکن برادری اور پنچایت میں وہ اگر جھوٹ بولے گا تو فوراً بعض واقف لوگ کھڑے ہو جائیں گے جو اُس کا جھوٹ ظاہر کردیں گے۔
غرض جب چور چوریاں کر کے گھروں میں واپس آتے تو تعاقب کرنے والے بھی پہنچ جاتے اور کہتے تم نے ہمارا مال چُرایا ہے لیکن وہ کہتے نہیں اور اکثر قرآن کریم بھی اُٹھا لیتے۔ لوگ چونی اٹھنّی پر قسمیں کھا لیتے ہیں پھر بھینس یا گائے پر وہ قرآن کریم کیوں نہ اُٹھاتے۔ تعاقب کرنے والے چوروں کی قسم پر اعتبار نہ کرتے اور کہتے لاؤ مُغلے کو۔ اگر وہ کہہ دے کہ تم نے مال چوری نہیں کیا تو ہم مان لیں گے۔ وہ وہاں پہنچتے اور مُغلے سے کہتے تم گواہی دو کہ ہم نے ان کا مال نہیں چُرایا ۔ وہ کہتے ہیں کیسے کہوں کہ تم نے مال نہیں چُرایا کیا تم فلاں مال چُرا کر نہیں لائے؟ اُن کے بھائی کہتے ۔ کیا تم ہمارے بھائی ہو یا ان کے بھائی وہ کہتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تم میرے بھائی ہو لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مَیںجھوٹی گواہی دوں۔وہ انہیں مارتے، پیٹتے اور سمجھتے کہ اب مار کھا کر اسے عقل آگئی ہو گی لیکن وہ دوبارہ یہی کہہ دیتے کہ تم نے چوری کی ہے۔
میاں مُغلہ سُنایا کرتے تھے کہ جب کوئی چوری کا معاملہ میرے سامنے آتا تو مَیں خیال کرتا کہ اگر سچ بولا تو میرے بھائی اور دوسرے رشتہ دار مجھے ماریں گے اور اگر جھوٹ بولا تو گناہ گار ہو جاؤں گا اس لئے مَیں کہہ دیتا مَیں تو آپ کے نزدیک کافر ہوں پھر آپ میری گواہی کیوں لیتے ہیں؟ وہ کہتے تم کافر تو ہو لیکن بولتے سچ ہو۔ پھر مَیں کہتا میرا اِس معاملہ میں کیا واسطہ ہے ؟لیکن وہ میرا پیچھا نہ چھوڑتے۔ میرے بھائی اور رشتہ دار مجھے چٹکیاں کاٹتے اور مجبور کرتے کہ میں جھوٹ بول دوں لیکن مَیں کہتا تم لائے تو تھے فلاں بھینس پھر مَیں جھوٹ کیسے بولوں۔نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ مجھے خوب مارتے۔ وہ دوست تنگ آکر قادیان آگئے اور ایک احمدی انجینئر خان بہادر نعمت اللہ خاں صاحب مرحوم نے جنہوں نے ربوہ کے قریب دریائے چناب پر پُل بنایا تھا انہیں ملازم کرا دیا۔
غرض بعض ایسی عادات ہوتی ہیں جن کا ترک کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جس طرح جھنگ کے لوگوں میں چوری کی عادت ہے نوجوان بعض دفعہ جھوٹ کی پرواہ نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر جھوٹ بول لیا تو کیا ہؤا۔ حالانکہ جھوٹ فطرت کے خلاف ہے۔ جھوٹ اِس چیز کا نام ہے کہ کان سے جو کچھ سُنا ہو اس کے متعلق کہہ دیا جائے کہ مَیں نے نہیں سُنا۔ آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہو اِس کے متعلق کہہ دیا جاہے کہ مَیں نے نہیں دیکھا۔ ہاتھ نے ایک چیز اُٹھائی ہو لیکن انسان کہہ دے کہ میرے ہاتھ نے فلاں چیز نہیں اُٹھائی۔ ایک شخص کے پاؤں ایک طرف چلیں لیکن وہ کہہ دے کہ میرے پاؤں اِس طرف نہیں چلے۔ گویا انسان کسی غیر کی نہیں بلکہ اپنی تردید آپ کرتا ہے۔ جو چیز اُس نے خود دیکھی ہے اُس کے متعلق کہہ دیتا ہے کہ مَیں نے نہیں دیکھی۔ جو چیز اس نے خود سُنی ہے اس کے متعلق کہہ دیتا ہے کہ مَیں نے نہیں سُنی۔ جو چیز وہ خود چکھتا ہے اس کے متعلق وہ کہہ دیتا ہے کہ فلاں چیز مَیں نے نہیں چکھی۔ اُس کے ہاتھوں نے ایک چیز اُٹھائی ہوتی ہے لیکن وہ کہہ دیتا ہے کہ مَیں نے فلاں چیز نہیں اُٹھائی۔ گویا وہ اپنی تردید آپ کرتا ہے اور اس سے زیادہ فطرت کے خلاف اور کیا چیز ہو گی۔ شُبہ ایسی چیز پر ہو سکتا ہے جس میں قیاس کا دخل ہو حواسِ خمسہ کے افعال پر شُبہ نہیں کیا جاسکتا اور حواسِ خمسہ کے افعال کے خلاف بات کہنے کو جھوٹ کہتے ہیں۔ جو شخص حواسِ خمسہ کی تردید کرتا ہے وہ گویا اپنی زبان، ہاتھ ، ناک اور کان کی تردید کرتا ہے اور پھر وہ اِس میں سب سے زیادہ لذت محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے خلاف آپ گواہی دے رہا ہے۔ ایک انسان کے ہاتھ ایک چیز پکڑتے ہیں اور وہ کہتا ہے مَیں نے فلاں چیز نہیں پکڑی تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو کہتا ہے کہ تم نے فلاں چیز نہیں پکڑی۔ ایک چیز اُس کی زبان چکھتی ہے لیکن وہ کہتا ہے مَیں نے فلاں چیز نہیں چکھی تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے کہتا ہے کہ تم نے فلاں چیز نہیں چکھی۔ یا اُس کے کان ایک بات سُنتے ہیں اور وہ اس کا انکار کر دیتا ہے تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کانوں سے کہتا ہے کہ تم نے فلاں بات نہیں سُنی۔ اب یہ کتنی مضحکہ خیز اور عجیب بات ہے مگر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے اور واقعہ آنے پر جھوٹ بول دیتے ہیں۔ اب اگر مَیں یہ کہوں کہ تم جھوٹ بولتے ہو یا نہیں؟ تو تم یہ بات نہیں سمجھ سکو گے۔ لیکن مَیں یہ سوال اور طرح کرتا ہوں۔
(اس موقع پر حضور نے خدام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خادم کھڑے ہوجائیں جو یہ سمجھتے ہوں کہ میرے سارے دوست سچ بولتے ہیں۔ مگر اِس پر کوئی نوجوان کھڑا نہ ہؤا۔ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:)
دیکھو یہ مرض اتنا پھیل چُکا ہے کہ تم مَیں سے ایک خادم بھی ایسا کھڑا نہیں ہؤا جو کہہ سکے کہ میرے سارے دوست سچ بولتے ہیں حالانکہ اِس کا علاج آسان تھا کہ جب تمہارا کوئی دوست جھوٹ بولتا تو اُسے کہتے کہ آج سے مَیں تمہارا دوست نہیں اور آج سے مَیں تمہارے ساتھ کلام نہیں کروں گا۔ نتیجہ یہ ہوتا کہ آج تم بڑی دلیری سے کھڑے ہو جاتے اور کہتے میرے سب دوست سچ بولتے ہیں کیونکہ جب تمہارے کسی دوست نے جھوٹ بولا تھا اُس وقت سے وہ تمہارا دوست نہیں رہا تھا۔ اگر تم ایسا کرتے تو تم خود بھی اور تمہارا وہ دوست بھی سچ بولنے لگ جاتا ۔ اگر تمہاری دوستی کی اُس کے نزدیک کوئی قیمت ہوتی تو وہ کہتا مَیں اِس کا دوست رہنا چاہتا ہوں اس لئے مَیں آئندہ ہمیشہ سچ بولوں گا اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ تم بھی سچ بولنے لگ جاتے کیونکہ جب تم اپنے دوست سے سچ بُلواتے تو پھر وہ دوست بھی تمہیں مجبور کرتا کہ تم سچ بولو اور اس طرح تمہیں وہ قیمت مل جاتی جس کا ہیرے جواہرات بھی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ بہرحال اگر تم نے پہلے اِس طریق پر عمل نہیں کیا تو اب اِس پر عمل کرنا شروع کر دو۔ یہ کہنا فضول ہو گا کہ تم جھوٹ نہ بولو کیونکہ اگر مَیں ایسا کہوں تو تمہارے لئے آگے قدم اُٹھانا مشکل ہو جائے گا۔ مَیں کہتا ہوں جھوٹ بولنے والا تمہارا دوست نہ ہو اِس طرح تم خود سچ بولنے لگ جاؤ گے۔ تم اگر ایک دوست کو یہ کہو گے کہ اگر تم نے جھوٹ بولا تو میری تمہاری دوستی ٹُوٹ جائے گی تو لازماً تمہارا دوست بھی یہ فیصلہ کرلے گا کہ اگر تم نے جھوٹ بولا تو اُس کی دوستی بھی ٹوٹ جائے گی اور جب بھی تم جھوٹ بو لو گے تو وہ کہے گا میاں! تم کیا کر رہے ہو؟
غرض سچ ایک قیمتی چیز ہے اور پھر کوئی مشکل بھی نہیں آسان ترین ہے جو کام ہاتھ نے کیا ہے اِس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ ہاتھ سے یہ کام کیا ہے اِس میں بوجھ کیاہے۔ آنکھ نے جو کچھ دیکھا اُس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ آنکھ نے فلاں چیز دیکھی ہے اِس میں کونسی مشکل ہے۔ کانوں نے ایک بات سُنی ہے۔ اب اس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ کانوں نے فلاں بات سُنی ہے اور اِس کو دُہرا دینا کون سی مشکل بات ہے۔ یہاں کوئی فقرہ نہیں بنانا صرف ایک بات کو دُہرا دینا ہے مثلاً عربی زبان ہے آپ لوگ اسے بڑی مشکل سے سیکھ سکتے ہیں لیکن ایک دو سال کے بچے کو بھی کہو ذَھَبْتُ تو وہ اِسے دُہرا دے گا۔ گویا جو فقرہ بنانا تم ساتویں، آٹھویں جماعت میں سیکھو گے وہ تم ایک سال کے بچہ سے بھی بن سکتے ہو۔ تم کہو گے ذَھَبْتُ تو وہ فوراً دُہرادے گا۔ اِسی طرح سچ نقل کرنے کو کہتے ہیں یعنی جب تم سچ بولتے ہو تو ایک بات کو دُہرا دیتے ہو۔ ہاتھ سے ایک کام کرتے ہو تو تم کہتے ہوہاتھ فلاں کام کرتے ہیں۔ آنکھیں دیکھتی ہیں تو تم کہتے ہو آنکھیں دیکھتی ہیں۔ کان سُنتے ہیں تو تم کہتے ہو کان سُنتے ہیں۔ زبان چکھتی ہے تو تم کہتے ہو زبان چکھتی ہے اور اِسی کو سچ کہتے ہیں لیکن یاد رکھو سچ کے یہ معنے نہیں کہ آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہے وہ تم ضرور کہہ دو۔ قرآن کریم بعض باتوں کے بیان کرنے سے منع کرتا ہے۔ پس اگر کوئی شخص ان کو بیان کرتا ہے تو وہ سچ نہیں بولتا بلکہ فتنہ و فساد پھیلاتا ہے۔ سچ کے معنی صرف یہ ہیں کہ اگر تم کوئی بات کہو تو ضرور سچ کہو یہ نہیں کہ تم وہ بات ضرور کہو۔ فرض کرو تم نے ایک لڑکے کو کسی دوسرے لڑکے کو مارتے دیکھا۔ اب اگر ہیڈ ماسٹر تمہیں بُلا کر پوچھتا ہے کہ کیا اس لڑکے نے فلاں لڑکے کو مارا تھا؟ تو تم سچی بات بتا دو خواہ مارنے والا تمہارا گہرا دوست ہی ہو۔ لیکن اگر تم خود ہیڈماسٹر کے پاس چلے جاتے ہو اور اُسے کہتے ہو کہ مَیں نے فلاں لڑکے کو مارتے ہوئے دیکھا ہے تو یہ سچ نہیں بلکہ فتنہ اور شرارت ہے۔ جب ہیڈ ماسٹر خود بُلا کر پوچھے اور تم کہو مَیں نے فلاں لڑکے کو مارتے ہوئے دیکھا ہے تو یہ سچ ہو گا لیکن اگر تم خود ہیڈ ماسٹر کے پاس چلے جاتے ہو اور کہتے ہو مَیں نے فلاں لڑکے کو مارتے ہوئے دیکھا ہے تو یہ فتنہ ہو گا اور اسلام اس سے منع کرتا ہے۔ ہر نیکی کسی عمل پر گناہ بن جاتی ہے اور ہر بدی کسی عمل پر نیکی بن جاتی ہے۔ مثلاً عفو کرنا بھی اسلام نے جائز رکھا ہے۔ فرض کرو اس لڑکے نے واقعی طور پر کسی لڑکے کو مارا تھا لیکن بعد میں مار کھانے والا مارنے والے کو معاف کر دیتا ہے اور اپنے والدین یا بہن بھائیوں کو نہیں بتاتا تو یہ بہت بڑی نیکی ہے۔ اب اگر تم اس کے والدین کے پاس چلے جاتے ہو اور کہتے ہو فلاں لڑکے نے تمہارے لڑکے کو مارا ہے تو گو اس طرح تم ایک حقیقت بیان کرتے ہو لیکن تمہارا یہ حقیقت بیان کرنا فتنہ کا موجب بن جائے گا۔ وہ لڑکا مارنے والے کو معاف کر آیا تھا لیکن اس کے والدین یا اُستاد اگر تم ان کے پاس رپورٹ کرتے ہو تو اُسے سزا دیں گے۔
پس سچ اِس چیز کا نام نہیں کہ تم جو کچھ دیکھو وہ بیان کردو۔ سچ اِس چیز کا نام ہے کہ جب تم سے گواہی لی جائے تو تم وہی بیان کرو جو واقع ہؤا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حکم دیا ہے کہ گواہی صرف قاضی لے کیونکہ بعض جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں شریعت کہتی ہے کہ گواہی نہ لو۔ اب اگر گواہی لینے والا قاضی نہ ہو تو ہو سکتا ہے وہ کوئی ایسی بات پوچھ لے جس کے پوچھنے کی شریعت نے اجازت نہیں دی اور اس طرح فتنہ پھیل جائے۔ مثلاً ایک شخص کسی دوسرے شخص پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے چوری کی تو اب چوری کرنا بے شک جُرم ہے لیکن قاضی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اس کی بات مان لے اور فیصلہ کر دے کہ اس نے فی الْواقعہ چوری کی ہے۔ قاضی کو فیصلہ کرنے کا اُسی وقت اختیار ہے جب الزام لگانے والا الزام کو گواہیوں سے ثابت کر دے۔ شریعت نے توبہ کا دروازہ کُھلارکھا ہے اور توبہ کا دروازہ اُسی وقت کُھلا رہ سکتا ہے جب اِخفاء کا دروازہ کُھلا رہے۔ جب کسی جُرم کو چُھپانے کی اجازت نہیں تو پھر توبہ کا دروازہ بھی کُھلا نہیں۔ مثلاً اگر کسی نے دوسرے شخص کا کھانا اُٹھا لیا تو ہو سکتا ہے وہ ایسا کرنے میں معذور ہو اور خدا تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا ہو یا ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ مالک کو اپنے پاس سے بدلہ دے دے یا ہو سکتا ہے کہ کھانا کھا لینے کے بعد اسے یہ خیال آئے کہ مَیں نے بڑی غلطی کی ہے۔ اگر دو وقت کا پہلے فاقہ تھا تو ایک وقت کا فاقہ اور برداشت کر لیتا۔ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑائے اور کہے خدایا! مَیں نے غلطی کی ہے تُو مجھے معاف کر دے اور خدا تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا ہو اور جس شخص کا کھانا اُس نے کھایا ہے وہ بھی صبر کر لے۔ لیکن اگر اسے کھانا کھاتے ہوئے کوئی دیکھ لیتا ہے اور وہ مالک کو کہہ دیتا ہے کہ فلاں نے تمہاری چوری کی ہے تو یہ سچ نہیں بلکہ فتنہ اور شرارت ہے ۔ اس قسم کی شکایت اگر قاضی کے پاس جائے تو چونکہ وہ شریعت کا واقف ہو گا ۔ وہ کہے گا دو گواہ لاؤ۔ اور اگر دو گواہ مل جاتے ہیں تو پتہ لگا کہ خداتعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی نہیں کی لیکن اگر وہ بغیر گواہوں کے اس کی بات کو مان لیتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی پردہ پوشی کو توڑتا ہے۔ پس سچ کے یہ معنے نہیں کہ جو کچھ تم دیکھو اُسے ضرور بیان کرو اور نہ سچ کے یہ معنے ہیں کہ تم جو کچھ دیکھو اُسے ہر ایک کے سامنے بیان کرو۔ اگر غیر قاضی تم سے سوال کرتا ہے تو تم کہہ دو مَیں نہیں بتاتا۔ اِسی طرح اگر تم کسی شخص کو کوئی جُرم کرتے دیکھتے ہو تو تمہارا اُس پر پردہ ڈال دینا سچ کے خلاف نہیں۔ تمہارا سچ کے خلاف فعل اُس وقت متصور ہو گا جب قاضی یا قائمقام قاضی جسے شریعت نے اپنے دائرہ میں گواہی لینے کا حق دیا ہے ، تم سے دریافت کرے اور تم سچ نہ بولو۔ مثلاً تم سکول کے ساتھ تعلق رکھتے ہو تو اگر کسی لڑکے نے دوسرے لڑکے کو مارا یا اُس نے گالی دی یاسکول کی کوئی چیز اُٹھا لی تو مجسٹریٹ ہیڈ ماسٹر ہے۔ اگر وہ تمہیں بُلائے اور تم سے دریافت کرے کہ فلاں بات کیسے ہوئی تو تم ٹھیک ٹھیک واقعہ بیان کردو لیکن اگر وہ تمہیں گواہی کے لئے نہ بُلائے تو خواہ وہ بات درست ہی ہو اس کا چُھپانا سچ کے خلاف نہیں بلکہ اس طرح تم صلح پسند بنتے ہو اور فتنہ سے دُور رہتے ہو۔
دوسری چیز محنت ہے یہ خُلق بھی ہمارے مُلک میں بہت کم پایا جاتا ہے اور مسلمانوں کی تباہی کا زیادہ تر موجب یہی تھا کہ اُن میں محنت کی عادت جاتی رہی تھی۔ جتنے وقت میں ہمارے نوجوان ایک چھوٹا اور ادنیٰ علم سیکھ سکتے ہیں وہ درحقیقت دُنیا میں چوٹی پر پہنچنے کا زمانہ ہوتا ہے۔ ہمارے نوجوان ۲۵،۲۶ سال کی عمر میں کالج سے فارغ ہوتے ہیں لیکن دُنیا کے دوسرے ممالک کے لوگ اِس عمر میں چوٹی تک پہنچ جاتے ہیں۔ جس وقت ہمارے نوجوان کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں دوسرے ممالک کے لوگ اس وقت تک مُلک میں کافی شُہرت حاصل کر لیتے ہیں۔ اُن کے کام کا زمانہ پندرہ سولہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے لیکن ہمارے نوجوان ۲۵،۲۵ سال کی عمر تک ماں باپ کی کمائی پر پلتے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر محنت کی عادت نہیں پائی جاتی۔ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ بزرگوں کا فرض ہے کہ وہ ہمیں کھِلائیں۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا بھی کوئی فرض ہے۔
کہتے ہیں ایک بوڑھا شخص کوئی ایسا درخت لگا رہا تھا جو دیر سے پھل دیا کرتا ہے۔ ایران کا بادشاہ اس بوڑھے کے پاس سے گزرا اور اس سے دریافت کیا۔ بوڑھے تم ۷۰،۸۰ سال کے ہو چکے ہو اور یہ درخت جب پھل دے گا اُس وقت تک تم مر چکے ہوگے تم یہ درخت کیوں لگا رہے ہو؟ بوڑھے نے جواب دیا۔ بادشاہ سلامت! آپ کیا کہہ رہے ہیں اگر یہی خیال ہمارے بزرگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا اور وہ یہ درخت نہ لگاتے تو ہم پھل کہاں سے کھاتے؟ اُنہوں نے درخت لگائے اور ہم نے پھل کھایا اب ہم یہ درخت لگائیں گے تو آنے والی نسل اِس کا پھل کھائے گی۔ اس بادشاہ کی عادت تھی کہ جب اسے کوئی بات پسند آتی تو وہ کہتا ’’زِہ‘‘ اور خزانچی کو حکم تھا کہ جب وہ کسی کا م پر ’’زِہ‘‘ کہے تو وہ تین ہزار دینار کی تھیلی بطور انعام اسے دے دے۔ بادشاہ نے اس بوڑھے کے جواب پر کہا ’’زِہ‘‘ اور خزانچی نے تین ہزار دینار کی تھیلی فوراً بوڑھے کے سامنے رکھ دی اور کہا بادشاہ سلامت کو آپ کی بات بہت پسند آئی ہے اور اُنہوں نے آپ کو یہ رقم بطور انعام دی ہے۔ بوڑھے نے ہنس کر کہا۔ بادشاہ سلامت! آپ نے تو کہا تھا ۔ بوڑھے تم کیا کر رہے ہو اس کا تمہیں کیا فائدہ؟ لوگ جلدی جلدی پھل دینے والے درختوں کا پھل بھی ایک عرصہ کے بعد کھاتے ہیں لیکن مَیں نے تو اس درخت کا پھل اسے لگاتے ہی کھالیا۔ بادشاہ کو یہ بات پھر پسند آئی اور اس نے کہا ’’زِہ‘‘ اور خزانچی نے تین ہزار دینار کی ایک اور تھیلی اس بوڑھے کے سامنے رکھ دی۔ بوڑھا ہنسا اور اس نے کہا بادشاہ سلامت! اَور لوگ تو جلد سے جلد پھل دینے والے درخت کا پھل سال میں ایک دفعہ کھاتے ہیں اور مَیں نے اِس درخت کا پھل چند منٹوں میں دو دفعہ کھا لیا۔ بادشاہ نے کہا ’’زِہ‘‘ اور خزانچی نے تین ہزار دینار کی ایک اَور تھیلی اس بوڑھے کے سامنے رکھ دی۔ پھر بادشاہ نے خزانچی سے کہا یہاں سے جلدی چلو ورنہ یہ بوڑھا تو ہمارا سارا خزانہ لُوٹ لے گا۔
دُنیا میں یہی طریق ہوتا ہے کہ اگلا شخص نیچے کی طرف حرکت کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔ نوجوان جونکوں کی طرح والدین کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں۔ انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ خود کمائیں۔ اپنے والدین کو کھِلائیں اور اپنی اگلی نسل کا خیال رکھیں۔ اس کے بِالمقابل یورپ کے لوگ پندرہ پندرہ سولہ سولہ سال کی عمر میں اپنی زندگیاں بدل لیتے ہیں۔
ایک دفعہ چوہدری ظفراﷲ خاں صاحب نے مجھے سُنایا کہ مَیں امریکہ گیا۔ اُن دنوں صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مرحوم وہاں تھے۔ اُنہوں نے ایک لڑکے کو میرے ساتھ لگا دیا کہ وہ میرے ساتھ ساتھ رہے۔ اِس لڑکے کی عمر ۱۳،۱۴ سال کی تھی۔ ایک دن جب مَیں سیر کے لئے باہر گیا تو مَیں نے اِس لڑکے سے اِس کے والد کا نام پوچھا ۔ اِس نے ایک بڑے بنکر (Banker) کا نام لیا جو بہت مالدار تھا۔ تعلیم کے متعلق مَیں پہلے پوچھ چُکا تھا کہ وہ مڈل یا انٹرنس جو وہاں کی ابتدائی تعلیم ہوتی ہے پاس ہے۔ مَیں نے اِس لڑکے سے کہا۔ تمہارا باپ بہت امیر ہے تم کالج میں کیوں تعلیم حاصل نہیں کرتے جب سامان میسر ہیں تو تم نے اپنی تعلیم بیچ میں کیوں چھوڑ دی؟ وہ لڑکا غصّہ سے کہنے لگا مَیں اتنا بے غیرت نہیں کہ اپنے ماں باپ سے خرچ لے کر مزید تعلیم حاصل کروں۔ میرا والد مزید تعلیم کے لئے مجھے اخراجات دیتا تھا لیکن مَیں نے کہا مَیں نے پڑھنا ہو گا تو خُود محنت کر کے پڑھوں گا باپ کا احسان نہیں اُٹھاؤں گا لیکن ہمارے مُلک میں لڑکے کئی سال تک فیل ہوتے چلے جاتے ہیں اور اِنہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اپنے والدین پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ فیل ہونے پر وہ کہہ دیتے ہیں ہم نے تو بڑی محنت کی تھی اور اپنی کلاس میں ہوشیار تھے لیکن فلاں اُستاد کی جُوتی کو ایک دفعہ ہم نے ٹیڑھی نظر سے دیکھ لیا تھا اِس لئے اُستاد کی ہم سے دُشمنی ہو گئی اور اُس نے ہمیں فیل کر دیا۔
ایک دفعہ ایک احمدی دوست نے مجھے خط لکھا کہ میرا لڑکا قادیان میں پڑھتا ہے۔ عربی میں وہ اچھا ہوشیار تھا لیکن اُستاد نے اسے فیل کر دیا ہے۔ اگر وہ کمزور ہوتا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن وہ عربی میں اچھا ہوشیار تھا مگر اُستاد نے پھر بھی اسے فیل کر دیا یہ بڑے ظلم کی بات ہے اور پھر اس قسم کی حرکتیں قادیان میں کی جاتی ہیں آپ اس طرف توجہ کریں۔ مَیں نے اِس لڑکے کے پرچے منگوائے تو یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے ۵۰ یا سَو نمبروں میں سے صرف دو یا اڑھائی نمبر حاصل کئے تھے اور یہ نمبر بھی اُستاد کے رحم و کرم کی وجہ سے اُس نے حاصل کر لئے تھے ورنہ میرے نزدیک وہ صفر کا مستحق تھا۔ مَیں نے اس دوست کو لکھا۔ افسوس ہے کہ آپ نے اس بارہ میں تقویٰ سے کام نہیں لیا۔ آپ کہتے ہیں میرا لڑکا اچھا ہوشیار تھا مَیں نے اس کے پرچے منگوائے ہیں اور خود دیکھے ہیں اِس کو زیرو (0) ملنا چاہئے تھا لیکن پتہ نہیں کہ اُستاد کے اس کے ساتھ کیسے تعلقات تھے کہ اس نے اُسے دو یا اڑھائی نمبر دے دیئے۔
غرض ہمارے مُلک کے لڑکے خود محنت نہیں کرتے اور جب فیل ہو جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو کلاس میں ہوشیار تھے اور محنت بھی خوب کی لیکن اُستاد کو ہم سے دُشمنی تھی اس لئے اس نے ہمیں فیل کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا وہ حصّہ جو انہوں نے عملی رنگ میں گزارنا تھا حصولِ تعلیم میں گزر جاتا ہے۔ ہمارے مُلک میں اوسط عمر ۳۵ سال ہے۔ یورپ میں اوسط عمر ۴۵ سال ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے بڑی عمر نہیں ہو سکتی۔ بعض ۷۰،۸۰ سال کی عمر کو بھی پہنچ جاتے ہیں لیکن جب اوسط نکالی جائے تو وہ یہی ۳۵ سال بنتی ہے اور اگر ۲۵،۲۶ سال پڑھنے میں ہی لگا دہے تو باقی کیا رہ گیا۔ حالانکہ ہر نوجوان کے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ جلد سے جلد تیاری کو ختم کرے اور پھر اپنی قوم اور مُلک کی خاطر کوئی کام کرے۔
پس تم زیادہ سے زیادہ محنت کی عادت ڈالو۔ جب تک تم محنت کی عادت نہیں ڈالو گے اس وقت تک یہ اُمید کرنا کہ تم کوئی مفید کام کر سکو گے، غلط ہے۔ کوئی مفید کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زندگی کے عملی حصّے کو کام میں لگایا جائے۔ طاقت کا زمانہ یہی ہوتا ہے جس کو ہمارے نوجوان حصولِ تعلیم میں ضائع کر دیتے ہیں۔ عورتوں کے متعلق مشہور ہے۔ بیسی گھیسی یعنی عورت بیس سال کی ہوئی تو بوڑھی ہوئی۔ مرد کے کام کا وقت بھی بیس سے چالیس سال تک کا ہوتا ہے اور اگر اس میں سے ۲۵،۲۶ سال تیاری پر لگا دیئے جائیں تو پھر آدھا کام ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ پڑھائی میں یا سکول میں اتنا وقت خرچ کر دیتے ہیں اُن کے ذہن کُند ہو جاتے ہیں اور کسی بڑے کام کرنے کی اُن میں طاقت ہی نہیں رہتی۔ جب کسی بڑے کام کے کرنے کا وقت آتا ہے تو ان کی طاقت کمزور ہو جاتی ہے۔ جن لوگوں نے کام کرنا ہوتا ہے وہ علم سے کام لیتے ہیں اور تھوڑے سے سرمایہ سے زیادہ کام کرنا جانتے ہیں۔ انہیں محنت کی عادت ہوتی ہے وہ جب کوئی بڑا کام کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو پھر علم اور دولت کا خیال نہیں کرتے کہ وہ کس قدر ہیں بلکہ وہ کام پر لگ جاتے ہیں اور دُنیا میں اپنا نام پیدا کر لیتے ہیں۔
جہاں تک مدرسہ کی تعلیم کا سوال ہے مَیں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ مَیں پرائمری کے امتحان میں بھی فیل ہؤا۔ مڈل کے امتحان میں بھی فیل ہؤا۔ پھر انٹرنس کا امتحان دیا تو اس میں بھی فیل ہؤا لیکن میری عمر ابھی ۱۷ سال کی تھی جب مَیں نے تشحیذ الاذہان جاری کیا اُس وقت یہ رسالہ سہ ماہی نکلتا تھا۔ بعد میں ماہوار کر دیا گیا یعنی ایک سال تک رسالہ سہ ماہی رہا اگلے سال ماہوار کر دیا گیا۔ لیکن تم میں کتنے خدام ہیں جن کو ۱۷ سال کی عمر میں کام کا احساس ہو چُکا ہو اور اُنہوں نے کوئی کام شروع کر دیا ہو۔ اگر کوئی ایسا نوجوان ہے جس نے ۱۷ سال کی عمر میں کام شروع کر دیا تھا تو کم از کم اسے اتنی تسلی ضرورہو گی کہ وہ اگر ۳۰سال کی عمر میں بھی فوت ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے سامنے وہ یہ کہہ سکے گا کہ مَیں نے ۱۳سال تو کام کر لیا لیکن اگر تم پڑھتے چلے جاتے ہو اور کام کرنے کا احساس تمہارے اندر پیدا نہیں ہوتا تو خدا تعالیٰ کے سامنے کیا کہو گے۔ اگر ۳۰ سال کی عمر میں تم میں سے کوئی خادم فوت ہو جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے کیا کہے گا کہ اس کی قوم نے اس سے کیا فائدہ اُٹھایا۔ ماں باپ نے اس سے کیا فائدہ اُٹھایا۔ مذہب نے اس سے کیا فائدہ اُٹھایا۔ مُلک نے اس سے کیا فائدہ اُٹھایا۔ کیا وہ خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہے گا کہ مَیں ساری عمر’’ ڈی او جی۔ ڈاگ (Dog) ڈاگ معنے کُتّا‘‘ کا سبق دُہراتا رہا۔ خدا تعالیٰ سوال کرے گا کہ تم نے دُنیا میں کیا کام کیا ؟تو کیا تم یہ کہو گے’’ ڈی او جی ڈاگ (Dog) ڈاگ معنے کُتّا ‘‘۔ یہ کوئی زندگی ہے۔ تم دُنیا میں پیدا ہوئے اور پھر مر گئے اور خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہنے لگے کہ مَیں ساری عمر یہی سبق دُہراتا رہا۔ خدا تعالیٰ کہے گا کہ تم بھی کُتّے ہی ہو اور کُتّے سے بھی بدتر ہو۔
یاد رکھو جلدی جلدی پڑھنا ہتھیار کا کام دیتا ہے لیکن ہمارے مُلک کے نوجوانوں کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس کے گھر پر ڈاکو آئے اور اُنہوں نے گھر کی عورتوں پر ہاتھ ڈالا لیکن وہ ا بھی چُھری تیار کر رہا تھا۔بعد میں وہ چُھری تیار کر کے لے بھی آیا تو اُسے کیا فائدہ ہو گا۔
غرض تھوڑی سے تھوڑی مدت میں علم کو ختم کرنا اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ ہمارا ایک انٹرنس پاس لڑکا یا مولوی فاضل تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اِس قابل نہیں ہوتا کہ وہ انگریزی یا عربی بول سکے حالانکہ اُسے بہت سے ایسے مواقع میسّر آتے ہیں جن سے اگر وہ چاہے تو فائدہ اُٹھاسکتا ہے۔ کسی زمانہ میں عربی کے بڑے سے بڑے عالم بھی عربی نہیں بول سکتے تھے کیونکہ انہیں عربی بولنے کے مواقع میسّر نہیں آتے تھے۔ لیکن اب تو ہمارے پانچ سات آدمی ایسے ہوں گے جو عرب ممالک سے ہو آئے ہیں اور پھر عربی بولنے والے طالب علم بھی آتے رہتے ہیں انہیں ان سے گفتگو کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔ انگریزی دانوں کو تو انگریزی بولنے کے مواقع کثرت سے ملتے ہیں لیکن عربی دانوں کو اگر عربی زبان میں کچھ بولنے کا موقع ملے تو ان کی حالت اُس شخص کی سی ہو گی جو ایک وزنی ٹرنک سر پر اُٹھائے جارہا ہو۔ وہ اُس وقت پسینہ پسینہ ہورہے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں عربی بولنے کی عادت نہیں ہوتی۔ پس تمہیں علم سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مثلاً عربی دانوں کو لے لو۔ جتنے طلباء ہمارے جامعۃ المبشرین میں پڑھتے ہیں۔ جہاں تک کورس کی تعلیم کا سوال ہے ان میں سے ایک بھی نہیں جس کی تعلیم مجھ سے دس گُنا زیادہ نہ ہو لیکن جتنا قرآن کریم کو مَیں سمجھتا ہوں اور اس کے معانی اور معارف بیان کر سکتا ہوں وہ اس کا ۱۰-۱ فیصدی بھی بیان نہیں کر سکتے۔ گویا ان کی تعلیم مجھ سے دس گُنا زیادہ ہے لیکن علم ۱۰۰-۱ سے بھی کم ہے کیونکہ وہ پڑھنے کے لئے علم سیکھتے ہیں استعمال کے لئے نہیں کتاب کا علم علم نہیں علم کتابیں پڑھنے کے بعد آتا ہے۔ ہم کتابیں پڑھتے ہیں اور بعد میں ان پر غور کرتے ہیں اور نتائج نکالتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کتاب کے باغیچہ یا وادی میں گھاس یا پُھول نکلا ہے وہ گھاس یا پُھول اپنی جگہ پر قیمتی نہیں بلکہ ان کی قیمت اُس وقت بڑھتی ہے جب مالی ان سے ہار تیار کرتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مالی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم وادی کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں۔ ہم پڑھتے رہتے ہیں لیکن علم کا ’’انیلسز‘‘ اور استعمال نہیں سیکھتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری معلومات خراب ہوتی ہیں، ہماری دلیل ناقص ہوتی ہے۔ جو بات ہم دس بار بھی پڑھ چکے ہوں اُسے موقع پر چسپاں کرنا نہیں آتا اور وقت پر پتہ نہیں لگتا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ۱۷،۱۸ سال ہوگئے کہ ہم وفاتِ مسیح پر زور دے رہے ہیں لیکن ابھی تک جماعت کے بعض لوگ یہ نہیں سمجھے کہ یہ کیا مسئلہ ہے۔ وہ وفات مسیح کی ایک آیت لے لیں گے لیکن بیان کرتے وقت اُلٹ دلیل دے دیں گے مثلاً آپ فرماتے ہیں کہ ۱؎کی آیت سے لوگ اِس بحث میں پڑے رہتے ہیں کہ توفّی کے کیا معنے ہیں حالانکہ یہاں توفّی کے معنوں کا سوال نہیں۔ سوال مقام کا ہے۔ کوئی مقام سمجھ لو سوائے وفات کے معنوں کے اور کوئی معنے لگ نہیں سکتے۔ اَور معنے کرنے میں ہمیں آیت کے الفاظ کو آگے پیچھے کرنا پڑے گا۔ ہمارے دعویٰ کی بنیاد ایک تو یہ آیت ہے اور ایک آیت سورہ مائدہ کے آخر میں آتی ہے لیکن جو لوگ علم سے فائدہ نہیں اُٹھاتے۔ وہ لفظی معنوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔
ہمارے ایک عالم تھے جو غیر احمدیوں میں بھی بڑے عالم سمجھے جاتے تھے لیکن انہیں علم کو استعمال کرنا نہیں آتا تھا۔ ایک جگہ وفات مسیح پر بحث ہو گئی۔ دوست انہیں لے گئے دوسرے عالم نے کہا قرآن کریم سے وفات مسیح ثابت نہیں ہوتی تو اُنہوں نے کہا قرآن کریم میں تیس آیات ہیں جن سے وفات مسیح ثابت ہوتی ہے۔ اُس نے کہا پھر ثابت کرو۔ اُنہوں نے ایک آیت پڑھی۔ مخالف نے اس پر اعتراض کیا بجائے اس کے کہ وہ اس اعتراض کا جواب دیتے اُنہوں نے کہا اچھا اسے چھوڑودوسری آیت لو۔ پھر دوسری آیت پڑھی۔ مخالف مولوی نے اس پر بھی اعتراض کیا تو اُنہوں نے کہا اچھا اسے بھی چھوڑدو یہاں تک کہ ۳۰ کی ۳۰ آیات ختم ہو گئیں۔
حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ جو لاہور کے ایک پرانے احمدی خاندان کے فرد ہیں جن کے گھروں کے پاس اب ہماری جامع مسجد بنی ہوئی ہے شروع شروع میں غیرمبائع ہو گئے۔ ان کے والد بہت پرانے احمدی تھے۔ میری عقیقے پر بھی وہ قادیان آئے تھے۔ گو بارش کی وجہ سے وہ قادیان پہنچ نہ سکے۔ گویا اُس وقت سے ان کے والد کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے تعلقات تھے۔ مرہمِ عیسیٰ صاحب پیغامی تو ہوگئے لیکن اُن کو مجھ سے ہمیشہ اُنس رہا۔ اعتراضات بھی کرتے تھے لیکن پرانی محبت کی وجہ سے انہوں نے تعلقات میں فرق نہیں آنے دیا۔ میں سفر پر کہیںجاتا تو عموماً یہ میرے ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ ایک دفعہ فیروز پور میں میری تقریر ہوئی ۔ مرہمِ عیسیٰ صاحب بھی وہاں آ پہنچے۔ وہ مولوی صاحب جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں وہ بھی وہیں تھے۔ میری طبیعت خراب تھی۔ جو نظارہ مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ مَیں لیٹا ہؤا تھا کہ مرہمِ عیسیٰ صاحب نے اعتراضات کرنے شروع کر دیئے۔ مَیں نے اُنہیں کہا مولوی صاحب سے بات کریں۔ مرہمِ عیسیٰ صاحب نے اعتراض کیا۔ مولوی صاحب نے جواب دیا۔ انہوں نے پھر اعتراض کیا جس کا مولوی صاحب نے کچھ جواب دیا لیکن مرہمِ عیسیٰ صاحب نے پھر اعتراض کیا۔ اِس کا جواب دینے پر وہ مولوی صاحب کہنے لگے’’ تُو بڑا چالاک ہے تینوں گلّاں بڑیاں آندیاں ہیں‘‘ ۔ آخر اِس کام کو مجھے خود سنبھالنا پڑا اور مَیں نے مرہمِ عیسیٰ صاحب سے کہا کہ آپ ادھر آئیں اور مجھ سے بات کریں۔ پس اگر علم آتا ہے تو اس کااستعمال کرنا بھی ضروری ہے اور اِستعمال کا وقت ۱۵، ۱۶ سال کی عمر میں شروع ہو جاتا ہے لیکن جو طریق اب جاری ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم ۲۵، ۳۰ سال کی عمر میں میدانِ عمل میں کُودے۔ جنگ میں ۱۵، ۱۶ سال کا ایک ریکروٹ لیا جاتا ہے لیکن ہمارا نوجوان ۲۵، ۳۰ سال کی عمر میں جاکر اگر سپاہی بنے گا تو اِس نے لڑنا کیا ہے۔
تیسری چیز ایثار ہے۔ پہلی وہ چیزیں ایسی تھیں جو ذاتی خوبیاں تھیں لیکن جب قومی طور پر کام کرنا پڑتا ہے اُس وقت اگر وہ ایسا نہ بنے کہ اِرد گِرد کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کر سکے تو اِس کے لئے دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے اور وہ قوم کے لئے مفید وجود نہیں بن سکتا۔ اگر گاڑی کے دو گھوڑے اکٹھا زور نہ لگائیں بلکہ ان میں سے ایک ایک طرف زور لگائے اور دوسرا دوسری طرف تو گاڑی چل نہیں سکتی بلکہ گاڑی ٹوٹ جائے گی۔ گاڑی کو چلانے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں جانور ایک ساتھ زور لگائیں اور پر ایک ہی سمت کو چلیں۔ اسی طرح وہی افراد قومی حصہ بن سکتے ہیں جن کے اندر قومی کیریکٹر پایا جائے اور بہترین قومی کیریکٹر ایثار ہے۔ ایثار کے معنی ہیں دوسروں کو اپنے اوپر مقدم کرنا۔ جب کسی قوم کے افراد دوسروں کو اپنے اوپر مقدم کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قوم کے لئے مفید وجود بن جاتے ہیں۔ اور جب کوئی فرد صرف اپنے حق کے حصول میں لگا رہے اور دوسرے کے لئے اپنے حق کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہو تو وہ قوم کے لئے مفید وجود نہیں بن سکتا۔
رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے لفظِ ایثار استعمال کر کے مسلمانوں کو ایک غیر متناہی جھگڑے سے بچالیا ہے۔ اگر آپ یہ فرماتے کہ تم دوسروں کا حق نہ مارو ہاں اپنے حق کو حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرو تو بہت سے لوگ لُوٹ کھسوٹ کا نام ہی حق سمجھ لیتے اور کہتے کہ یہ ہمارا حق ہے اس لئے ہم اسے حاصل کر کے رہیں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی ہوشیاری سے دوسرے کا حق مار لیتے۔ ایک جلسہ پر میں نماز پڑھانے لگا۔ عموماً لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ نماز میں میرے ساتھ کھڑے ہوں۔ سیٹھ غلام غوث صاحب مرحوم جو حیدر آباد دکن کے رہنے والے تھے نہایت مخلص احمدی تھے۔ ان کے بیٹے سیٹھ محمداعظم صاحب بھی نہایت مخلص نوجوان ہیں اور جماعت حیدر آباد دکن کے سیکرٹری مال ہیں۔ سارا خاندان ہی مخلص ہے۔ ان کا وطن قادیان سے ہزار بارہ سَو میل کے فیصلہ پر ہے۔ وہ جب جلسہ پر آتے تو نماز میں میرے ساتھ کھڑے ہوتے تاکہ انہیں دعائیں کرنے کا زیادہ موقع مل سکے۔ اِس جلسہ کے موقع پر بھی وہ میرے ساتھ کھڑے تھے کہ گجرات کے ایک احمدی آگے بڑھے اور اُنہیں پیچھے دھکیل کر کہنے لگے آپ لوگوں کو تو یہ موقع روز ملتا ہے ہم لوگ دُور سے آتے ہیں ہمیں بھی حضور کے ساتھ کھڑا ہونے کا موقع دیں۔ اب گجرات قادیان سے ۷۰، ۸۰ میل پر واقع ہے اور حیدر آباد (دکن) اور قادیان کے درمیان ہزار بارہ سَو میل کا فاصلہ ہے لیکن اُنہوں نے بغیر تحقیقات کے اسے اپنا حق سمجھ لیا ۔
پس اگر رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم یہ فرماتے کہ اپنا حق لو، دوسرے کا حق نہ لو تو سارے لوگ یہ کہتے کہ یہی حق ہمارا ہے۔ اس لئے آپ نے فرمایا دوسرے کے لئے اپنا حق قربان کر دیا کرو اور جب اکثر لوگ ایثار کریں گے تو وہ ظلم ے بچے رہیں گے۔ سَو میں سے ایک آدھ آدمی ایسا ہو گا جس کو اپنا حق دوسرے کے لئے چھوڑنا پڑے۔ باقی سب ایسے ہی ہوں گے جن کا حق نہیں ہو گا اور وہ دوسرے کا حق غصب کرنے سے بچ جائیں گے۔
قوم کا مفید وجود بننے کے لئے یہ روح نہایت ضروی ہے اور جو شخص قوم کا مفید وجود بننا چاہتا ہے ضروری ہے کہ وہ ایثار سے کام لے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں آخری زمانہ میں ایک عظیم الشان فتنہ برپا ہو گا جو سب لوگوں پر چھا جائے گا۔ اُس وقت مومن وہی ہو گا جو ایثار کرے گا اور سمجھے گا کہ قوم کی اصلاح کے لئے ضروی ہے کہ میں اپنا حق چھوڑدوں اور خلوت اختیار کر لوں۔۲؎ اصل بات یہ ہے کہ جب انسانی اخلاق میں تنزل پیدا ہو جاتا ہے تو عام طور پر انسان خواہ مخواہ ہر چیز کو اپنا حق تصور کر لیتا ہے اور ایثار کا لفظ کہہ کر اُسے اِس قسم کی حرکات سے روکا گیا ہے۔ اگر کسی قوم کے افراد میں ایثار کا مادہ نہیں پایا جاتا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔ جب حضرت معاویہ ؓ سے یہ غلطی ہوئی کہ اُنہوں نے اپنے بیٹے یزید کی خلافت کا اعلان کیا تو اُنہوں نے لوگوں کو مدینہ میں اکٹھا کیا اور یزید کے متعلق کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے بعد میرا بیٹا میرا جانشین ہو کیونکہ ایک ایسے خاندان کا فرد ہے جو عرب میں معزز سمجھا جاتا ہے اور پھر اسے خدمت کا موقع مِلا ہے۔ اس لئے ان کا حق ہے کہ خلافت اِنہی کو ملے۔ تمہاری کیا رائے ہے؟ آپ کا یہ مطلب تھا کہ یہ لوگ میری تائید کردیں گے تردید نہیں کریں گے اور میں یزید کی خلافت کا اعلان کر دوں گا۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ جو اُس وقت ایمان لائے تھے جب حضرت معاویہ ؓ کا باپ ابوسفیان کفر کی سرداری کر رہا تھا بلکہ حضرت عمر ؓ بھی ابھی ایمان نہیں لائے تھے آپ اُس مجلس میں موجود تھے۔ آپ فرماتے ہیںمَیں پٹکا باندھے بیٹھا تھا جب معاویہ نے کہاہمارے خاندان کا حق ہے کہ اسے خلافت ملے اور میرا بیٹا مستحق ہے کہ وہ میرے بعد خلیفہ ہو تو مَیں نے چاہا کہ پٹکا کھولوں اور کھڑا ہو کر کہوں کہ بادشاہت کا حق دار وہ ہے جو اسلام کی تائید میں اُس وقت تلوار چلا رہا تھا جب تمہارا باپ کفر کی سرداری کر رہا تھا لیکن مجھے خیال آیا کہ اس طرح فتنہ کا دروازہ کھل جائے گا اِس لئے میں نے دوبارہ پٹکا باندھ لیا اور خاموش رہنا ہی بہتر خیال کیا۔
یہ ایثار ہے جو حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ نے یزید کے مقابلہ میں دکھایا۔ آپ کے مقابلہ میں یزید تو کوئی نسبت ہی نہیں رکھتا تھا۔ وہ تو ایک خبیث انسان تھا۔ آپ کے مقابلہ میں ابوسفیانؓ اور حضرت معاویہ ؓ کی بھی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ وہ ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے تھے اور اُس وقت ایمان لائے تھے جب حضرت عمر ؓ بھی ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ آپ جب ایمان لائے تو آپ کی عمر ۱۵ سال کی تھی اور اپنے باپ سے کئی سال قبل آپ ایمان لے آئے تھے۔ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے آپ کو اِس قدر عشق تھا کہ بعض اوقات حضرت عمر ؓ فرماتے تھے فلاں بات عبداﷲ ؓ سے پوچھ لو۔ کیونکہ وہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے اقوال کو زیادہ جانتا ہے۔ یعنی آپ کی فضیلت کو حضرت عمر ؓ بھی تسلیم کرتے تھے۔ یزید کے مقابلہ میں ان کا حق تو مسلّم تھا لیکن انہوں نے اپنا حق چھوڑ دیا اور کہا میں لوگو ںکو فتنہ میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ یزید خلیفہ بنتا ہے تو بننے دو میں کیوں فتنہ کا موجب بنوں۔ لیکن میں کہتا ہوں کاش! حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ اِس موقع پر خاموش نہ رہتے بلکہ بول پڑتے۔ وہ حکومت کے یقینا حقدار تھے۔ اگر وہ حکومت حاصل کر لیتے تو یقینا اسلامی حکومت میں جو فوراً تنزّل شروع ہو گیا تھا وہ نہ آتا اور اسلام کی ترقی کا دَور لمبا ہو جاتا۔ ہم حضرت معاویہ ؓ کی خلافت کے قائل نہیں۔ وہ ایک بادشاہ تھے اور بادشاہ ہونے کے لحاظ سے ایک اچھے بادشاہ تھے۔ اُخروی لحاظ سے وہ صحابی اور نیک آدمی تھے لیکن خلیفہ نہیں تھے۔ اُن کے پاس خلافت آئی نہیں۔ خلافت دو ہی صورتوں میں اُن کے پاس آسکتی تھی یا تو خدا تعالیٰ اُنہیں خلیفہ مقرر کر دیتا یا مسلمان جمہور اُنہیں خلیفہ منتخب کر لیتے۔ اگر اُنہیں خلیفہ سمجھا جائے تو سوال پیدا ہو گا کہ ان کے پاس خلافت کہاں سے آئی؟ ظاہر ہے کہ نہ اُنہیں خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا تھا اور نہ جمہور مسلمانوں نے اُنہیں خلیفہ منتخب کیا۔ اس لئے وہ خلیفہ نہیں کہلا سکتے۔غرض حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ نے سوچا کہ بنیادی بادشاہت تو ایک جسمانی چیز ہے روحانی چیز نہیں۔ خدا تعالیٰ نے مجھے روحانی مرتبہ دیا ہے وہ چھوڑ کر مَیں ایک جسمانی چیز کے پیچھے کیوں پڑوں؟ اگر حضرت عبداﷲ بن عمر ؓ خلافت کی بجائے اِس چیز کو دیکھتے کہ مسلمانوں کی گردنیں کس ہاتھ میں جارہی ہیں تو وہ اِس بارہ میں ایثار نہ دکھاتے اور یہ امر مسلمانوں کے لئے یقینا خوش قسمتی کا موجب ہوتا۔
دنیا میں یزید کو سب کچھ کہا گیا ہے اور شیعوں نے تو اسے اتنی گالیاں دی ہیں کہ زمین اور آسمان ہِلا دیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑی گالی وہ تھی جو خود اس کے بیٹے سے اسے ملی اور وہ اس کا وہ فعل تھا جو اس نے یزید کی وفات کے بعد خلافت قبول نہ کرنے کے بارہ میں کیا۔ میرے نزدیک اِس کا خلافت کو قبول نہ کرنا ایک بہترین گواہی تھی اس امر پر کہ معاویہ ؓ کا یہ فیصلہ غلط تھا کہ یزید بادشاہت کا مستحق ہے۔ میں حیران ہوں کہ مسلمانوں نے یزید کے بیٹے کی وہ قدر کیوں نہیں کی جس کا وہ حقدار تھا۔ وہ اسلامی شعار کو قائم رکھنے والی اہم ہستیوں میں سے ایک تھا۔ یزید کے بعد شاہی خاندان کے افراد نے اُسے بادشاہ بنا دیا اور اعلان کر دیا کہ یزید کے بعد اُس کا بیٹا خلیفہ ہو گا۔ یہ لوگ اگرچہ بادشاہ ہوتے تھے لیکن کہلاتے خلیفہ ہی تھے۔ بادشاہ بنانے کے بعد وہ اُسے ایک خاص جگہ لے گئے تا وہ اپنی خلافت کا اعلان کرے اور یہ اعلان کر دیا کہ تمام رؤسا اور خاندان کے لوگ اُس کی بیعت کریں۔ وہ اُسے پبلک میں لے آئے اور اُسے اعلان کرنے کے لئے کہا۔ اُس نے ممبر پر کھڑے ہو کر جو اعلان کیا وہ یہ تھا کہ اے لوگو ! خدا تعالیٰ نے بادشاہت کا حق تمہیں دیا ہے اور اسلام نے بھی تمہیں اختیار دیا ہے کہ جسے چاہو بادشاہ بنا لو لیکن اِن لوگوں نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ رسّی میرے گلے ڈال دی ہے اور جن کا حق تھا اُنہیں پوچھا ہی نہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ اِس مجلس میں وہ لوگ موجود ہیں جو اپنی ذات میں مجھ سے اچھے ہیں، جن کے باپ میرے باپ سے اچھے ہیں اور جن کے دادے میرے دادا سے اچھے ہیں اُن کی موجودگی میں میرا بادشاہت کو قبول کرنا مشکل امر ہے اِس لئے میں یہ رسّی گلے سے اُتار کر پھینکتا ہوں۔ تمہارا حق ہے جن کو چاہو بادشاہ بنا لو۔۳؎ اُس کی ماں کو جب یہ اطلاع ملی تو اس نے منہ پر تھپڑ مار کر کہا کہ کم بخت! آج تُو نے اپنے باپ دادا کی ناک کاٹ دی ہے۔ اُس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا ماں! میں نے اپنے باپ دادا کی ناک کاٹی نہیں بلکہ کٹی ہوئی ناک جوڑ دی ہے۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا اور ایک کمرہ میں داخل ہو گیا اور اُس کا دروازہ بند کر دیا۔ سارا خاندان اُس کا دشمن ہو گیا۔ وہ اُس کمرہ سے باہر نہ نکلا یہاں تک کہ ۴۰ دن بعد اُسی کمرہ میں وہ فوت ہو گیا۔ وہ اسلامی تاریخ کا ایک شاہکار تھا۔ وہ اسلامی تأثیر کا ایک جوہر تھا جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ لوگ بادشاہت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ذلیل ہوتے ہیں لیکن اُس نے بادشاہت کو چھوڑا اور ذلیل ہؤا۔ وہ اِس لئے ذلیل ہؤا کہ جو مال اُس کے باپ نے چُرایا ہؤا تھا اُسے پھینکنے کے لئے اُس نے لڑائی کی۔
غرض ایثار بہت بڑی چیز ہے اور اس کے بغیر قومیں نہیں بنتیں۔ جن لوگوں میں ایثار نہیں پایا جاتا اور وہ ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ یہ میرا حق تھا، یہ میرا حق تھا وہ اکثر جھوٹے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ قوم نہیں بناتے۔ قوم وہ لوگ بناتے ہیں جنہیں یقین ہو جاتا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے لیکن پھر بھی اپنا حق دوسرے کے لئے چھوڑدیتے ہیں۔ مگر یاد رکھو عزتِ نفس بھی ضروری چیز ہے۔ دوسرے کے سمانے لجاجت کرنا اور اُس کی منت خوشامد کرنا نیکی پیدا نہیں کرتا۔ نیکی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب دشمن دیکھتا ہے کہ ہم میں غیرت موجود ہے اور غیرت کی وجہ سے ہم اُس کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں لیکن پھر بھی ہم اپنا حق چھوڑ دیتے ہیں اِس سے وہ متأثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ لیکن اگر تم اصرار کرتے ہو تو وہ سمجھے گا یہ ایثار نہیں بلکہ اِس میں اِس کا کوئی فائدہ مخفی ہے۔
چوتھی چیز اخلاق میں مطمحِ نظر کا اونچا کرنا اور اسے اونچا کرتے چلے جانا ہے۔ جب کبھی انسان کسی کام کے لئے اُٹھتا ہے تو اُس کی دو حالتیں ہوتی ہیں۔ یا تو وہ کامیاب ہوتا ہے یا ناکام ہوتا ہے۔ جب وہ ناکام ہوتا ہے تو اس کا کام باقی ہوتا ہے اور وہ اس کو پورا کرنے کے لئے دوبارہ کوشش کرتا ہے۔ اگر وہ پھر ناکام ہوتا ہے تو وہ سہ بارہ کوشش کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اپنی جگہ پر پہنچ جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ساکن ہو جاتا ہے اور جب وہ ساکن ہو جاتا ہے تو تنزّل کی طرف چلا جاتا ہے۔ گویا جو فیل ہو جاتا ہے وہ کوشش کرتا ہے تا دوبارہ کامیاب ہو جائے لیکن جو کامیاب ہو جاتا ہے وہ ساکن ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ اس کے سامنے تگ و دَو کا میدان نہیں رہتا۔ اسلام اسے جائز قرار نہیں دیتا۔ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کے لئے غیرمتناہی ترقیات کا سلسلہ کھلا رکھا ہے اور جب اﷲ تعالیٰ نے انسان کے لئے غیر متناہی ترقیات کا سلسلہ کھلا رکھا ہے تو کوئی ترقی ایسی نہیں ہو سکتی جس کے آگے ترقی کرنے کا مقام نہ ہو۔ انسان کو ہمیشہ اپنا پروگرام بدلتے رہنا چاہئے۔ جوہڑ کے پانی کی طرح ساکن ہو جانا قوم کے لئے مفید نہیں ہوتا۔ کھڑا پانی سڑ جاتا ہے اور اُس میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے۔اِسی طرح اگر کسی قوم کے افراد ایک جگہ پر پہنچ کر ساکن ہو جاتے ہیں تو وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی۔
پس مطمحِ نظر کا اونچا کرتے چلے جانا قومی ترقی کے لئے نہایت اہم ہے۔ حضرت عمر ؓ فرماتے ہیں نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ ۴؎ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن اپنے اندر ایک بہت بڑا مُدعا لئے ہوئے ہے۔ مومن کی نیت ہمیشہ اُس کے عمل سے بہتر ہو گی۔ اِس کے دو معنے ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ انسان کی نیت بھی اچھی ہو اور اُس کے اعمال بھی اچھے ہوں لیکن اُس کا ارادہ یہ ہو کہ وہ پہلے سے بڑھ کر نیک اعمال کرے گا۔ دوسرے یہ کہ اُس کی نیت اچھی ہو لیکن اعمال بُرے ہوں اور ارادہ یہ ہو کہ وہ اپنی اصلاح کرے گا اور پھر جُوں جُوں وہ کام کرتا جائے اپنی نیت کو بھی بلند کرتا جائے۔ جب وہ ایک روزہ رکھتا ہے تو اس کے بعد دوسرا روزہ رکھتا ہے، پھر تیسرا روزہ رکھتا ہے۔ جب وہ ایک دن روزہ رکھتا ہے اور اُس کی شام قریب آتی ہے تو وہ دوسرے روزے کی نیت کرتا ہے اور جب تیسرے روزے کی شام قریب آتی ہے تو وہ چوتھا روزہ رکھتا ہے اور یہ ارادہ رکھتا ہے کہ کوئی دوسری نیکی کروں۔ مثلاً صدقہ دوں اور جب وہ صدقہ کرتا ہے تو کسی اَور نیکی کی نیت کر لیتا ہے اِس طرح اُس کی نیت عمل پر سبقت لے جاتی ہے۔
غرض انسان کا ارتقائی پروگرام ہونا چاہئے جو اونچے سے اونچا ہوتا چلا جائے۔ خداتعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ پہلے ایک چھوٹا پہاڑ ہوتا ہے پھر اُس سے بڑا پہاڑ ہوتا ہے ، پھر اُس سے بڑا پہاڑ ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ انسان اُس کی چوٹی پر چلا جاتا ہے۔ تم کبھی یہ نہیں دیکھو گے کہ انسان ایک ہی دفعہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائے۔ یہی وہ انسان سے امید رکھتا ہے کہ جب وہ ایک نیکی کرے تو پھر اس سے بڑی نیکی کرے، پھر اس سے بڑی نیکی کرے۔ اور کامیاب وہی انسان ہوتا ہے جو ایک جگہ پر ساکن نہ ہو جائے بلکہ جب وہ ایک مقصد کو حاصل کرلے تو اُس سے بڑے مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنے لگ جائے۔ وہ ایک چھوٹی نیکی کر کے ٹھہر نہیں جاتا بلکہ وہ ہر روز ایک نیا پروگرام تیار کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ پہلے سے آگے نکل جاؤں۔ اور جب کوئی انسان اِس قسم کا پروگرام تیار کرتا ہے تو یقینا اُس کا فکر ترقی کرتا ہے، اُس کا عمل وسیع ہوتا ہے اور ہر کامیابی پر اُس کا حوصلہ بھی وسیع ہوتا ہے۔ اِس وقت میں ان چار نصائح پر تقریر ختم کرتا ہوں۔ نصائح تو اَور بھی ہیں لیکن بہرحال میں نے اپنی تقریر ختم کرنی ہے۔ چاہئے کہ تم یہ چاروں باتیں ہمیشہ اپنے مدنظر رکھو۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ تم سچ بولو بلکہ میں نے کہا ہے کہ تم ایسے دوست بناؤ جو ہمیشہ سچ بولیں۔ میں نے کہا ہے کہ تم محنت کی عادت ڈالو۔ اپنے اندر قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کرو۔ اپنے مطمحِ نظر کو اونچا رکھو۔ یہاں تک کہ مطمحِ نظر ہمیشہ بلند سے بلند تر ہوتا چلاجائے۔ ‘‘ (روزنامہ الفضل ربوہ مؤرخہ ۲۷،۲۸،۲۹؍اپریل ۱۹۶۱ئ)
۱؎ آل عمران : ۵۴
۲؎ المعجم الکبیر جلد ۶ صفحہ ۶۰ مکتبۃ العلوم و الحکم الطبعۃ الثانیہْ ۱۹۸۳ء
۳؎ تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحہ ۱۳۰۔ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء
۴؎ المعجم الکبیر جلد ۶ صفحہ ۲۲۸ مطبوعہ بغداد ۱۹۷۹ء کے مطابق یہ حدیث ضعیف ہے۔





اصلاح اور تربیت کے لئے
اپنا نیک نمونہ پیش کرو




از
سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد
خلیفۃ المسیح الثانی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ
اصلاح اور تربیت کے لئے
اپنا نیک نمونہ پیش کرو
(تربیتی کلاس سے خطاب فرمودہ ۲۱؍ اپریل ۱۹۵۱ء بمقام ربوہ )
تشہّد ،تعوّذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
’’آج چودہ دن کے اجتماع کے بعد جو خدام باہر سے آئے تھے اُن کے فارغ ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ میرے پائوں میں جو درد ہے اور جمعہ پڑھانے کے بعد تکلیف زیادہ ہوگئی ہے اِس لئے کھڑے ہونے کی بجائے بیٹھے بیٹھے ہی چند باتیں بیان کرتا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ جو چیز دل سے نکلتی ہے وہی دوسروں پر اثر کرتی ہے اور اسی چیز کا نام تبلیغ اور تعلیم و تربیت ہے۔ دُنیا میں ہزاروں کتابیں ہوتے ہوئے بھی انسان اپنے اصل مقام سے پِھر جاتا ہے اور ایسی غلطیوں میں مُبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ صحیح راستہ اختیار نہیں کرتا۔ ورنہ صداقتیں ابتدائے عالَم سے ہی موجود ہیں۔
پچھلے خطبوں میں مَیں یہ مضمون بیان کرتا آیا ہوںکہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی ترکیب اور ’’گُر‘‘ بتائیے جس سے محبتِ الہیٰ پیدا ہو حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ دُنیا میں ہر شخص جانتا ہے کہ ماں باپ سے کیسے محبت کی جاتی ہے، اولاد اور بہن بھائیوں سے کیسے محبت کی جاتی ہے اور اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔ پھر خدا تعالیٰ کے لئے کونسی نئی چیز پیدا ہو گئی ہے جس کے لئے لوگ بھاگتے پھرتے ہیں۔ جن ذرائع سے ماں باپ کی محبت پیدا ہوتی ہے انہی ذرائع سے خدا تعالیٰ کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے ۔ پھر خدا تعالیٰ کی محبت کے لئے کونسا گُر تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض نوجوانوں کو مَیں نے دیکھا ہے کہ وہ ہاتھوں میں کاپیاں لئے پھرتے ہیں اور جب مجھ سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس کاپی میں کوئی نصیحت لکھ دیں ۔ بسا اوقات مَیں لکھ بھی دیتا ہوں لیکن مَیں سوچتا ہوں جب انہوں نے قرآن کریم سے فائدہ نہیں اُٹھایا، اُمتِ محمدیہ کے اولیاء اور صوفیاء سے فائدہ نہیں اُٹھایا، میری کتابوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا۔ اِسی طرح سلسلہ کے علماء کی کتابوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا تومیری کوئی نصیحت اُنہیں کو کیا فائدہ دے گی؟
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے پاس بعض لوگ آتے اور کہتے کہ آپ ہمیں کوئی معجزہ دکھائیں۔ آپ فرمایا کرتے کہ تم نے پہلے معجزوں سے کیا فائدہ اُٹھایا کہ ایک اور معجزہ کے طالب ہو۔ بے شک کسی چیز کی وقتی طور ضرورت پیش آجاتی ہے لیکن وہ حقائق میں سے کوئی نئی چیز نہیں۔ کیا کوئی ایسا وقت آیا ہے کہ جب ظلم کو بُرا نہ سمجھا جاتا ہو؟ یا کوئی ایسا وقت آیا ہے کہ جب جھوٹ کو برُا نہ سمجھا جاتا ہو؟ ہر وقت اور ہر زمانہ میں یہ حقائق موجود ہوتے ہیں لیکن جب لوگوں کی توجہ اِن سے کُلّیتہً پھر جاتی ہے تو کسی نئے مصلح اور ریفارمر کی ضرورت ہوتی ہے۔ غرض جن صداقتوں اور حقائق کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے وہ دُنیا میں پہلے سے موجود ہیں۔ ہاں اُلجھنیں نئی ہو سکتی ہیں۔ مثلاً انسان شروع سے پیروں سے چلتا چلا آیا ہے یہ کوئی نئی چیز نہیں۔ ہاں اس میں یہ اُلجھن پیدا ہو سکتی ہے کہ انسان رستہ بھُول جائے اور پوچھے کہ صحیح راستہ کون سا ہے۔ اب جہاں تک چلنے کا سوال ہے وہی پائوں ہیں جن سے حضرت آدم ؑ کے وقت سے لوگ چلتے آئے ہیں۔ جہاں تک دیکھنے کا سوال ہے وہی آنکھیں موجود ہیں جن سے لوگ حضرت آدمؑ کے وقت سے دیکھتے آئے ہیں۔ جہاں تک سوچنے کا سوال ہے وہی دماغ موجود ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے چلا آیا ہے۔ غرض جہاں تک حقائق کا سوال ہے یہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے ایک ہی صورت میں چلے آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ انسان ارادہ کرے کہ اس نے ان پر عمل کرنا ہے۔ مثلاً سچ بولنا ہے اس کے متعلق یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیوں سچ بولنا چاہئے۔ ضرورت صرف اِس بات کی ہے کہ انسان یہ فیصلہ کر لے اس نے سچ بولنا ہے۔ پھر اِس بات کی ضرورت نہیں کہ بتایا جائے کہ دوسروں پر ظلم نہ کرو۔ اِس بات پر غور و فکر کی ضروت نہیں کہ کہ امانت سے کام لینا چاہئے اس امر کی تحقیقات کی ضرورت نہیں کہ چوری نہیں کرنی چاہئے۔ صرف ارادہ کی ضرورت ہے ۔ پس جہاں تک ظلم نہ کرنے، دیانت سے کام لینے، سچ بولنے اور چوری نہ کرنے کا سوال ہے ان کاحضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے ہی فیصلہ ہو چُکا ہے۔ ان صداقتوں کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے مبعوث کرنے کی ضروت نہیں تھی کیونکہ یہ صداقتیں شروع سے ایک ہی چلی آتی ہیں صرف لوگوں کی تربیت کے لئے ان کی ضرورت پیش آئی ہے تا کہ لوگ اپنا نیک نمونہ پیش کریں اور ان کے نمونہ سے دُنیا میں ایک نئی حرکت، نیا جوش اور نیا عزم پیدا ہو جائے اور لوگ ان صداقتوں پر عمل کرنے لگ جائیں۔ مثلاً سچ کی تعلیم ہے یہ تعلیم حضرت دائود، حضرت یحییٰ، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام دوسرے انبیاء نے دی ہے۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُمت کے دوسرے بزرگوں نے بھی سچ کی تعلیم دی ہے اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ اِن کی ضروت اس لئے پیش آئی کہ لوگوں کے سامنے پیش کریں کہ سچ بولا جاسکتا ہے تا اِس سے لوگوں کے اندر حرکت پیدا ہو اور وہ اِس تعلیم پر عمل کرنے لگ جائیں ورنہ سچ وہی تھا جو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں تھا کوئی نئی چیز نہیں تھی۔
پس اصل چیز یہی ہے کہ اپنے اندر ایک جوش اور عزم پیدا کیا جائے ۔ وعظ و نصیحت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ انسان پر بوجھ ہوتی چلی جاتی ہے۔ قرآن کریم کے ایک چھوٹی سی کتاب ہونے میں بھی ایک حکمت تھی کہ لوگ اسے بار بار پڑھیں اور عمل کریں۔ اسے بوجھ سمجھ کر اس کی طرف سے توجہ نہ ہٹالیں۔ اگر یہ بڑی کتاب ہوتی تو لوگ اسے دیکھ کر گھبرا جاتے اور چاہتے کہ کسی طرح اس کا خلاصہ نکال لیا جائے کیونکہ بڑی کتابوںکو کوئی نہیں پڑھتا اور جب کوئی پڑھے گا نہیں تو عمل کیسے کرے گا ۔ میرے خطبوںکو ہی لے لو اگر اِنہیں اگر جمع کیا جائے تو کئی جلدیں تیار ہو سکتی ہیں لیکن لوگ اِن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے سوائے اس کے کہ انہیں سُن لیا یا اخبار میں پڑھ لیا۔ یہ نہیںکہ بعد میں بھی اِنہیں پڑھ کر ان سے فائدہ اُٹھائیں۔ پس کسی چیز کی طوالت فائدہ نہیں دیتی بلکہ عزم فائدہ دیتا ہے۔ تم لوگوں نے یہاں آکر تعلیم حاصل کی ہے اگر تم غور کرو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ جن اصولی باتوں کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے وہ گھر میں موجود ہیں۔ یہاں آکر ان باتوںکو سیکھنے کا یہی فائدہ ہے کہ انسان دوسرے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھتا ہے ان سے ملتا جُلتا ہے جس سے دل میں ایک نیا جوش اور نیاعزم پیدا ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے ۱؎اسی طرح کہا جاتا ہے کہ:
صحبتِ صالح ترا صالح کنند
صحبتِ طالع ترا طالع کنند
انسان جب کسی دوسرے کی صُحبت میں بیٹھتا ہے تو اُس کے اندر نیکی کا جوش پیدا ہوجاتا ہے۔ تم بھی ایک نیا جوش اور نیا عزم لے کر یہاں سے جائو اور واپس جا کر اسے دوسرے لوگوں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرو۔
مجھے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے کہ مَیں نے ہوائی بندوق خریدی اور ہم چند بچے اکھٹے ہو کر باہر شکار کو نکلے۔ بچوں کے لئے ہوائی بندوق رائفل سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے۔ ہوائی بندوق سے دو چار گز کے فاصلہ سے ہی شکار کیا جا سکتا ہے زیادہ فاصلہ سے شکار نہیں کیا جاسکتا۔ قادیان میں چونکہ اَور بندوقیں بھی تھیں اور لوگ بِالْعموم شکار کے لئے باہر جاتے تھے اِس لئے جانور قریب پہنچنے سے پہلے اُڑ جاتا تھا اور دُور سے فائر کرنا مفید نہیں تھا اِس لئے ہم چاہتے تھے کہ کچھ فاختائیں چھاتی تان کر درخت پر بیٹھی رہیں اور ہم قریب پہنچ کر اُنہیں شکار کر لیں۔ چنانچہ ہم دیہات کی طرف نکل گئے اور ہمارے اِرد گرد بچے جمع ہوگئے ہر ایک بچہ یہ کہتا تھا کہ تم ہمارے گائوں چلو وہاں ایک ایک درخت پر ساٹھ ساٹھ فاختائیں بیٹھتی ہیں۔ آخر کار ان میں سے ایک لڑکا راہنما بن کر جوش سے ہمارے آگے چل پڑا اور کہاکہ یہ بندوق شکار مار بھی لیتی ہے؟ ہم نے کہا ہاں مار لیتی ہے۔ برات کی شکل میں ہم ان کے گائوں جانکلے ۔ اس لڑکے کی ماں باہر نکلی سکھ مرد تو گوشت کو کھا لیتے ہیں لیکن سکھ عورتیں ہندوئوں کی طرح گوشت استعمال نہیں کرتیں اس نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم جیو ہتیا کرتے ہو اور مُسلوں کو ساتھ لے آئے ہو!! اس پر وہی لڑکا جو ہمیں اصرار کے ساتھ لایا تھا سب سے زیادہ اُس کی آنکھیں سُرخ ہو گئیں اور وہ ناچنے لگااور کہنے لگا تم کیوں جیو ہتیا کرتے ہو اور یہاں شکار مارنے کیوں آتے ہو؟ مَیں حیران تھا کہ کیا ہؤا یہ لڑکا ہمیں خود ساتھ لایا ہے اور یہاں آ کر اِس طرح آنکھیں نکالنے لگا۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ دوسرے کو دیکھ کر ان میں جوش پیدا ہو جاتا ہے ۔ وہ لڑکا شکار کو بُرا نہیں سمجھتا تھا اور جیو ہتیا کو نہیں جانتا تھا لیکن جب ماں نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم جیو ہتیا کرتے ہو تو یہ سُن کر جھٹ اس کے اندر جوش پیدا ہو گیا اور وہ ہمیں گھورنے لگا۔
پس یہی ہے کہ آپس میں ملنے جُلنے سے انسان کے اندر جوش اور عزم پیدا ہوتا ہے اور انسان اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے پس آپ اپنی اپنی جگہوں پر واپس جا کر اپنا نیک نمونہ پیش کریں۔ لوگوں کے سامنے نئی رُوح اور نئی زندگی پیش کریں اور دو چار دس آدمیوں میں وہی جو ش اور وہی عزم پیدا کر دیں جو آپ نے چند دن یہاں رہ کر اپنے اندر پیدا کیا ہے۔ پھر وہ لوگ دوسروں کے پاس جائیں اور ان کے اندر جوش اور عزم پیدا کر دیں۔ جب لوگ دیکھیں گے کہ یہ لڑکا آوارہ تھا ربوہ میں چند دن تربیت حاصل کرنے کے بعد واپس آیا ہے تو اِس نے آوارگی چھوڑ دی ہے وہ دین کی خدمت کر رہا ہے اور خدمتِ خلق مشغول ہے تو پانچ سات آدمی ضرور اس کے گرد جمع ہو جائیں گے۔
پس اگر تم نے ان چند دنوں سے فائدہ اُٹھایا اور یہ روح اپنے اندر پیدا کرلی تواچھی بات ہے اور تم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا۔ لیکن اگر تم نے صرف کاپیوں میں اَسباق کے نوٹ لئے ہیں تو یہ دن تم نے ضائع کئے اس سے زیادہ باتیں قرآن کریم ، توریت ، انجیل ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب، میری کتب، حضرت خلیفہ اوّل کی کتب اور علمائے سلسلہ کی کتب میں موجود تھیں اور یہ کام تم گھر بیٹھ کر کر سکتے تھے۔ صرف میری کتابوں میں بھی اتنا مصالحہ موجود ہے کہ اس کے سامنے یہ نوٹ تمہیں حقیر نظر آئیں گے۔ لیکن اگر تم نے ان چند دن کی صُحبت سے فائدہ اُٹھا لیا تو یہ چیز تمہارے کام آئے گی۔ خلوت میں اگر کتابیں پڑھی جائیں تو بعض اوقات مشوّش دماغ ان سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کر سکتا لیکن دوسروںکے ساتھ بیٹھ کر جو باتیں سُنی جائیں وہ مفید ہو جاتی ہیں۔
پس آج مَیں صرف اتنی نصیحت کرتا ہوں کہ تم عمل کی طرف توجہ دو ۔ باہر سے جو رپورٹیں آتی ہیں ان میں بتانا چاہئے کہ خدام کی کیا حالت ہے لیکن جو عہدیدار یہ لکھتا ہے کہ کوئی شخص ہماری بات نہیں مانتا مَیں اُسے پاگل سمجھتا ہوں۔ ہر ایک شخص کے کان ہیں پھر وہ تمہاری بات کیوں نہیں سُنتا۔ گاندھی جی کھڑے ہوئے تو لوگ اُن کے گِرد جمع ہو گئے اور یہ محض اِس لئے تھا کہ انہوں نے اپنا نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کیا۔ تم بھی اپنا نمونہ پیش کرو لوگ تمہاری بات ماننے لگ جائیں گے۔ یہ کہنا کہ لوگ ہماری بات نہیں سنتے انسانیت اور ہمسایوں پر بدظنی ہوتی ہے اور اس شخص سے زیادہ ذلیل اورقوم کا دُشمن اور کوئی نہیں ہوتا جو یہ کہتا ہے کہ کوئی شخص میری بات نہیں مانتا۔ وہ یا تو اوّل درجہ کا متکبر ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے سوا اور کوئی کام نہیں کر سکتا اور یا وہ اپنے سوا کسی کو نیک نہیں سمجھتا۔ اگر کسی کو دس آدمیوں کی موجودگی میں اپنی تعریف کرانی مقصود ہوتو ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان دس آدمیوں سے افضل ثابت کرے اور اس کے لئے اسے کام کرنا پڑے گا کسی کی بڑائی اور زندگی کا یہی ثبوت ہوتا ہے کہ وہ باقیوںکو کمتر دکھا دے لیکن جو لوگ اپنی بڑائی چاہتے ہیں اور کام کرنا نہیں چاہتے وہ اپنے آپ کو اونچا کرنے کی بجائے باقیوںکو ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ بُرا طریق ہے اس سے بچنا چاہئے۔ میرا یہ مطلب نہیں کہ نوجوانوں کی سُستی اور غفلت سے مرکز کو مطلع نہ کیا جائے ایسا ضرور کریں لیکن ایسی بات لکھتے وقت یہ دیکھ لینا چاہئے کہ کہیں یہ بات اپنے آپ کو بڑھانے اور دوسروں کو ذلیل کرنے کے لئے تو نہیں۔ پس ماننے والے موجود ہیں، سُننے والے موجود ہیں بشرطیکہ کوئی منوانے والا اور سُنوانے والا ہو۔ ہٹلر کو دیکھ لو کہ وہ کس طرح اپنی قوم کو ساتھ لے کر نکلا۔
انسان کے اندر روح ہونی چاہئے۔ اُسے پُر امید ہونا چاہئے اور اچھا نمونہ دکھانا چاہئے۔ لوگ خود بخود تمہاری بات مانیں گے ، سُنیں گے اور اس پر عمل کریں گے۔ لوگ قربانی کرنے سے ڈرتے ہیں۔ تم قربانی کر کے ان کا ڈر اُتار دو مگر مرکز کو واقف کرنے کے لئے مفصّل اطلاع دو۔ مثلاً کسی جگہ دس خدام ہیں اور ان میں سے آٹھ خدام نماز نہیں پڑھتے تو تم کہو کہ صرف دو آدمی نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آتے ہیں۔ اس سے مرکز خود نتیجہ نکال لے گا کہ باقی آٹھ خدام نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں نہیں آئے اور مرکز انہیں ہدایت دے گا لیکن تم خدا تعالیٰ اور بنی نوع انسان کے سامنے کسی دوسرے پر الزام نہیں لگائو گے۔
تم لکھو تو مرکز کو تحریر کرو کہ فلاں شخص چندہ نہیں دیتا یہ مت لکھو کہ کوئی چندہ نہیں دیتا یہ چیز تکبر اور بے ایمانی پر دلالت کرتی ہے۔ تم یہ لکھو کہ فلاں نے چندہ نہیں دیا میں اس کے پاس فلاں وقت گیا لیکن معلوم ہوتا ہے وہ مالی مشکلات میں ہے مَیں پھر کسی وقت جائوں گا اور اُسے اِس طرف توجہ دلائوں گا۔ پس تم امید کبھی ختم نہ کرو نہ ذہن سے نہ زبان سے اور نہ قلم سے۔ کیونکہ جس وقت تم امید ختم کرو گے اُس وقت واقعہ میں ان کے اندر اور اپنے اندر تم موت پیدا کر لو گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ قَالَ ھَلَکَ الْقَوْمُ فَھُوَاَ ھْلَکَھُمْ ۲؎ جو شخص کہتا ہے کہ لوگ مر گئے وہ قوم کا دُشمن ہے اور وہ ایسا کہہ کر اپنی قوم کی موت کا باعث بنتا ہے پس تم کبھی بھی ایسی بات زبان پر مت لائو۔ جب کوئی شخص ایسی بات زبان پر لاتا ہے اور کہتا ہے کہ لوگ مر گئے تو تم سمجھ لو کہ وہ غلطی پر ہے تم اسے اس بات سے روکو اور بجائے اس کے کہ تم اس کی تصدیق کر و کہ میرا بھی یہی تجربہ ہے تم یہ کہو کہ بعض مشکلات ہوتی ہیں اور کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں ہمارا یہ کام نہیں کہ ہم ناامید ہو جائیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم انہیں اُٹھائیں اور سمجھائیں اگر کوئی گونگا ہے تو اسے اشارے سے سکھائیں جاہل ہے تو اسے علم سکھائیں دوسرے پر فتویٰ نہیں لگانہ چاہئے بلکہ خود کام کرنا چاہئے۔ جب کسی کو بُرا کہہ دیا جاتا ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ چلو میں بُرا ہوں تو بُرا ہی سہی ۔ پس تم میرا بیان کردہ طریق اختیار کرو اور یہ مت کہو کہ فلاں کام نہیں کرتا اور اس کی اصلاح سے مایوس مت ہو جائو۔ مَیں نتیجہ نکالنے سے منع کرتا ہوں واقعات بیان کرنے سے منع نہیں کرتا۔ واقعات بیان کرنا نہایت ضروری چیز ہے لیکن یہ مت کہو کہ لوگ ایسے ہو گئے ہیں۔ اگر ایک شخص نے جھوٹ بولا تو یہ مت کہو کہ سارے جھوٹ بولتے ہیں بلکہ یہ کہو کہ فلاں نے جھوٹ بولا ہے ۔ ہم سچ بولنے کی اہمیت کو جانتے ہیں اس لئے ہم اسے سمجھائیں گے کہ وہ جھوٹ نہ بولے ۔ یا ایک شخص نے خیانت کی ہو تو یہ مت کہو کہ سب خائن ہو گئے بلکہ یہ کہو کہ ایک شخص نے خیانت کی ہے ہم سب مل کر اس کی اصلاح کی کوشش کریں گے۔ میرا اپنا تجربہ ہے کہ جب کوئی کہتا ہے کہ لوگ مر گئے ہیں یا لوگ خائن ہو گئے ہیں تو اس میں بہت حد تک جھوٹ ہوتا ہے اور پھر یہ بے اصولے پن کی بھی علامت ہوتی ہے کہ یا تو انسان ایک ہی جھاڑو سے سب کو گندے گڑھے میں ڈال دیتا ہے اور یاپھر سب کو عرش پر پہنچا دیتا ہے۔ اگر وہ کوئی تقریر کرے اور لوگ سُبْحَانَ اﷲِ کہ دیں تو وہ خوشی سے باہر نکلتا ہے اور کہتا ہے کہ سب لوگ اچھے ہیں لیکن اگر کوئی اُس پر اعتراض کردے تو کہہ دیتا ہے کہ سب لوگ خراب ہیں ۔ پس جس خادم سے کوئی غلطی سر زد ہو تم اُس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرو اور مرکز کو اطلاع دو لیکن یہ نہ کرو کہ لکھ دو کہ سب خراب ہیں وہ ہماری بات نہیں سُنتے۔ یہ لغو طریق ہے اسے اختیار نہیں کرنا چاہئے۔
پُرانے لوگوں نے لطیفے کے طور پر بیان کیا ہے کہ ایک نائی تھا وہ عموماً درباریوں کی حجامت بنایا کرتا تھا۔ کسی درباری نے خوش ہو کر اُسے پانچ سَو اشرفیاں دے دیں۔ جب اسے اِس قدر نقدی ملی تو بجائے اس کے کہ وہ اُسے کہیں سنبھال کر رکھے وہ اسے اپنے ساتھ اُٹھائے پھرتا تھا۔ وہ امراء کی حجامتیں بنانے جاتا تو تھیلی ساتھ اُٹھا لیتا آہستہ آہستہ یہ ایک مذاق بن گیا۔ کوئی پوچھتا کہ یہ کیا ہے؟ تو وہ کہتا یہ پانچ سَو اشرفیاں ہیں۔ ایک دن ایک امیرنے اُس سے پوچھا بتائو شہر کا کیا حال ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ کیا حال پوچھتے ہو جناب! دھن برستا ہے اور کوئی کمبخت ایسا نہیں ہو گا جس کے پاس پانچ سَو اشرفیاں بھی نہ ہوں ۔ چونکہ وہ عموماً امراء کے پاس جایا کرتا تھا اِس لئے وہ زیادہ احتیاط نہیں کرتا تھا۔ ایک دن مزاقاً بعض امراء نے مشورہ کیا کہ اِس کی تھیلی اُٹھا لو چنانچہ وہ تھیلی اُٹھالی گئی۔ دُوسرے دن جب وہ حجامت بنانے آیا تو اُس کا رنگ اُڑا ہؤا تھا وہ بول نہیں سکتا تھا۔ کسی شخص نے اُس سے دریافت کیا بتائو میاں! آج شہر کا کیا حال ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ شہر کا کیا کہوں سارا شہر بُھوکا مر رہا ہے۔ اُس امیر نے اپنے نوکر سے کہا تھیلی اُٹھا لائو اور وہ تھیلی نائی کو دیکر کہنے لگا میاں! تم تھیلی لے لو لیکن شہر کو بُھوکا نہ مارو۔ یہ کتنی گندی ذہنیت ہے ایسا انسان یا تو سویپنگ (SWEEPING) ریمارکس دے دیتا ہے اور یا پھر سب کو عرش پر بٹھا دیتا ہے۔ میرے ساتھ ہر روز یہی ہوتا ہے کئی لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سارے لوگ ایسے ہیں مَیں کہتا ہوں کوئی مثال دو پھر وہ کہتے ہیںکہ سب تو ایسے نہیں۔ جب مَیں پھر دُہراتا ہوں کہ کوئی مثال دو تو یہ تعداد اور کم ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ ایک آدمی رہ جاتا ہے غرض یہ طریق غلط ہے۔
تم اپنی اصلاح کرو اور دوسروں کی بھی اصلاح کرو اور یہ نہ کہو کہ سب بُرے ہیں یا لوگ ہماری بات نہیں سُنتے یہ بگاڑنے کا طریق ہے اصلاح کرنے کا نہیں۔ اگردس خدام ہیں اور وہ تمام کے تمام نماز میں شامل نہیں ہوتے تو ہو سکتا ہے کہ ان میں سے آٹھ کے پاس کوئی حقیقی معزوری ہو جس کی وجہ سے وہ مسجد میں نہیں آسکتے۔ پس تمہیں اس طریق کو توڑنا چاہئے اور مرکز میں سچی رپورٹیں بجھوانی چاہیئں۔ تنظیم کے معنی ہی یہ ہیں کہ آپ لوگ مرکز سے وابستہ ہوں اگر آپ مرکز سے وابستہ نہیں تو کوئی تنظیم حقیقی تنظیم نہیں کہلاسکتی۔ (روزنامہ الفضل ۲۵؍جولائی ۱۹۶۲ئ)
۱؎ التوبۃ : ۱۱۹
۲؎ مسلم کتاب البروالصلۃباب النھی عَنْ قول ھلکَ الناس میں یہ الفاظ ہیں:
’’اِذَا قاَلَ الرَّجُلُ۔ ھَلَکَ النَّاسُ فَھُوَ اَھْلَکَھُمْ‘‘
 
Top