• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 10 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 10 ۔ یونی کوڈ

‏tav.8.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر کبیر )جلد سوم( تک
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
تاریخ احمدیت جلد نہم
)رقم فرمودہ مکرم و محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب(
یہ امر میرے لئے باعث خوشی ہے کہ امسال ادارۃ المصنفین کی طرف سے تاریخ احمدیت کی نویں جلد احباب کے سامنے پیش کی جارہی ہے۔ عنوانات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جلد سلسلہ کے بہت ہی اہم واقعات پر مشتمل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جو قومیں اپنی تاریخ کو زندہ رکھتی ہیں ان کی تاریخ انہیں زندہ رکھنے میں ممدومعاون ثابت ہوتی ہے۔ اور اپنے اسلاف کو بھلا دینے والی قومیں رفتہ رفتہ بھولی بسری قوموں کے انبوہ میں شامل ہوکر اپنی انفرادیت کو کھو دیتی ہیں۔ لیکن وہ قومیں جو دنیاوی رشتوں اور بندھنوں سے تالیف پاتی ہیں ان سے کہیں زیادہ مذہبی قوموں کا فرض ہوتا ہے کہ اپنی تاریخ اور اپنے اسلاف کے اعمال اور کردار کو زندہ وپائندہ رکھیں۔
دنیاوی قوموں کی تاریخ تو بسا اوقات یاد رکھنے کے قابل واقعات سے ہی خالی ہوتی ہے بلکہ اکثر وبیشتر ظلم` حق تلفی` خود فراموشی اور خدا فراموشی کے واقعات کی کثرت کے باعث انتہائی بدزیب اور بھیانک نظر آتی ہے اس کے باوجود دنیاوی قومیں اپنے اسلاف کی یادوں کو زندہ رکھنے کے لئے کثیر اموال صرف کرکے اپنی تاریخ کے مٹتے ہوئے باریک نقوش کو محفوظ کرنے میں کوشاں رہتی ہیں۔ پھر کیا مذہبی اقوام کا اس سے کہیں زیادہ یہ فرض نہیں کہ حقائق پر مشتمل اپنی قیمتی تاریخ کو محفوظ کرنے کی پوری کوشش کریں۔
جماعت احمدیہ کی تاریخ کا یہ دور جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا اولین دور ہے اپنی قدروقیمت کے لحاظ سے آنحضرت ~صل۱~ آپ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم تابعین اور تبع تابعین کی تاریخ کے بعد دنیا کی ہر دوسری تاریخ سے زیادہ بلند مرتبہ اور ذی شان ہے۔ اور یقیناً اس لائق ہے کہہ مقدور بھر کوشش کے ساتھ اس کے تمام حسین خدوخال کو علمی اور عملی دونوں لحاط سے زندہ رکھا جائے۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ادارہ المصنفین کو یہ مقدس فریضہ کما حقہ عمدگی اور احتیاط کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر قدم پر ان کارکنان کی راہ نمائی فرمائے جو اس عظیم الشان خدمت پر مامور ہیں۔
جماعت کے تمام ذی استطاعت اصحاب کو چاہئے کہ وہ جلد از جلد اس قیمتی سرمایہ کو اپنے گھروں اور سینوں میں محفوظ کرنے کی کوشش کریں۔ خود بھی اس سے استفادہ کریں اور اپنے اعزاء اور اقرباء کوبھی اس سے استغفار کرنے کی پر زور تحریک کریں۔
موجودہ زمانہ میں اس امر کی شدید ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ ہماری نئی نسل اپنے اسلاف کے کارناموں` اخلاق اور اطوار سے پوری طرح واقف ہو اور ان تمام نیک روایات کو اپنے کردار میں محفوظ کرے جن کے باعث ہمارے بزرگ اسلاف آسمان ہدایت کے روشن ستارے بنے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض کو سمجھنے اور پوری طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔
والسلام
خاکسار محمد ظفر اللہ خان
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پیش لفظ
یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ تاریخ احمدیت کی نویں جلد طبع ہوکر احباب کے ہاتھوں میں پہنچ رہی ہے۔ کئی سالوں سے ہر جلسہ سالانہ کے موقعہ پر ادارہ المصنفین تاریخ احمدیت کی ایک ضخیم جلد احباب کے سامنے پیش کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے۔ تقریباً سات ۷۰۰ صد صفحات پر مشتمل کتاب کا مرتب کرنا اس پر نظر ثانی کرنا` اس کو لکھوانا اور طبع کرانا بہت ہی محنت شاقہ کو چاہتا ہے اور اس کا اندازہ وہی اصحاب کرسکتے ہیں جو تصنیف وطباعت کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مکرم مولوی دوست محمد صاحب شاہد کو جزائے خیر دے اور اپنی برکتوں اور فضلوں سے نوازے کہ وہ نہایت ہی محنت اور جانفشانی سے ہر سال ایک جلد کا مواد اکٹھا کرتے اسے مرتب کرتے اور لکھتے ہیں۔ اور مواد اکٹھا کرنے اور تصاویر حاصل کرنے کے لئے انہیں کئی سفر بھی کرنے پڑتے ہیں ادارہ المصنفین کے عملہ کو تاریخ کی طباعت کے سلسلہ میں بہت جدوجہد کرنی پڑتی ہے ۔ مضمون کو لکھوانا` پروف پڑھنا اور تصاویر کے بلاک بنوا کر چھپوانا کافی تگ ودو چاہتا ہے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری محنت ٹھکانے لگ رہی ہے اور ہر سال ہم اپنی منزل مقصود کے قریب پہنچ رہے ہیں۔
تاریخ احمدیت کی ہر جلد ہی اہم واقعات پر مشتمل ہوتی ہے لیکن یہ جلد اس لحاظ سے خصوصیت رکھتی ہے کہ اس میں تین ایسے اہم واقعات کا ذکر آرہا ہے جو رہتی دنیا تک اثر انداز ہوں گے )۱( سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کا دعویٰ مصلح موعود اور اس کے اثرات )۲( تفسیر کبیر جلد سوم کی تصنیف اور اس کی اشاعت )۳( مجلس انصار اللہ کا قیام یہ تینوں واقعات تاریخ سلسلہ میں بہت ہی اہم واقعات ہیں اور بڑے دور رس نتائج کے حامل ہیں۔ اس جلد میں جس قدر واقعات کا ذکر ہے ان سب کا خاکسار عینی شاہد ہے جب سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق دعویٰ مصلح موعود فرمایا تو وہ دن جماعت کے لئے عید کا دن تھا اور ہر شخص کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی صداقت کا زندہ ثبوت دنیا کے سامنے پیش کردیا۔ وہ پیشگوئی جو طالمود میں ہزاروں سال سے موجود تھی اور پھر اس کو آنحضرت ~صل۱~ نے بیان فرمایا اور پھر اولیائے امت نے اسے لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اس زمانہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے مفصل خبر پاکر لوگوں کو اس کی اطلاع دی۔ وہ پیشگوئی پوری ہورہی تھی۔ دعویٰ مصلح موعود کے بعد ہوشیار پور لاہور` لودھیانہ اور دہلی میں جلسے ہوئے لاہور میں حضور نے تقریر فرماتے ہوئے جب یہ فرمایا کہ اس وقت میں نہیں بول رہا بلکہ خدا میری زبان سے بول رہا ہے۔ آج بھی ان الفاظ کی گونج کانوں میں موجود ہے۔ دعویٰ مصلح موعود کے بعد حضور نے ہر روز مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں بیٹھنا شروع کیا۔ تاکہ آپ لوگوں کا تزکیہ نفوس اور تربیت کرسکیں۔ تقریباً روزانہ یہ مجلس ہوتی۔ گرمیوں میں مسجد مبارک کی چھت پر اور سردیوں میں مسجد مبارک کے اندورنی حصہ میں جب حضور مسند پر رونق افروز ہوتے تو گویا یوں نظر آتے کہ جیسے چاند ستاروں کے درمیان چمک رہا ہو۔ عشاق تکلیف کی پروا کئے بغیر سردیوں اور گرمیوں میں دور دور سے مجلس میں پہنچتے۔ حضور اپنے نکتوں سے نوازتے رویاوکشوف والہامات سناتے۔ قرآن مجید کے معارف بیان فرماتے اور علمی گفتگو سے ایسا محظوظ کرتے کہ وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی جب حضور نے تفسیر کبیر تصنیف فرمائی تو ازراہ شفقت خاکسار کو کتابت وطباعت کے انتظام وانصرام کے لئے منتخب فرمایا خاکسار وقتاً فوقتاً حضور کی خدمت میں مضمون لینے کے لئے حاضر ہوتا۔ بعض اوقات حوالہ جات کے ضمن میں یا اور کوئی بات پوچھنے کے لئے جانا پڑتا تو دیکھا کہ حضور صبح آٹھ بجے سے کام شروع کرکے رات تین چار بجے تک اور بعض اوقات پانچ بجے تک تصنیف کے کام میں مشغول ہوتے اور اس ضمن میں آپ نے اپنی صحت کا بھی خیال نہ رکھا۔ اور اپنی صحت کو خطرے میں ڈال کر آپ نے قرآن مجید کی وہ تفسیر دنیا کے سامنے پیش کردی جو قیامت تک قرآن مجید کی سچائی پر شاہد ناطق ہوگی۔ مجلس علم وعرفان میں بھی انتظام کی سعادت نصیب ہوئی۔ اور ہر روز حضور کے بیٹھنے کے لئے مسندوں کو رکھوانے باہر سے آنے والے احباب کی ملاقات کروانے اور دیگر متعلقہ انتظامات کرنے کا موقعہ ملتا رہا۔ فالحمد للہ علی ذلک
کتاب کے مسودہ پر نظر ثانی بھی کافی محنت چاہتی ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے امسال بھی مسودہ پر نظر ثانی کرنے کی توفیق دی۔ اللہ تعالیٰ مکرم سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآبادی کو جزائے خیر دے کہ انہوں نے قیمتی وقت خرچ کرکے اول سے آخر تک مسودہ کو دیکھا اور مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب اور مکرم شیخ نور احمد صاحب منیر نے مسودہ کے بعض حصوں کو دیکھا اور مکرم قاضی محمد نذیر صاحب ناظر اصلاح وارشاد بھی قابل شکریہ ہیں کہ انہوں نے مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کو مفید اور قیمتی مشوروں سے نوازا مکرم شیخ خورشید احمد صاحب نے کاپیاں پڑھنے اور پروف ریڈنگ کا اہم فریضہ ادا کیا۔ فجراہم اللہ احسن الجزاء ہر سال کوشش کی جاتی ہے کہ کتاب میں بیان ہونے والے واقعات کے ساتھ تعلق رکھنے والی تصاویر بھی محفوظ کردی جائیں۔ ان تصاویر کے حصول کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ امسال مواد اور تصاویر مہیا کرنے میں مندرجہ ذیل اصحاب نے ہمارے ساتھ تعاون فرمایا:۔
۱۔
مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل
۲۔
مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لائل پور
۳۔
مکرم شیخ محمد حنیف صاحب امیر جماعت احمدیہ کوئٹہ
۴۔
الحاج خلیفہ عبدالرحمن صاحب کوئٹہ
۵۔
مکرم میجر سید سعید احمد صاحب لاہور
۶۔
مکرم میاں بشیر احمد صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ وناظم علاقائی انصار اللہ کوئٹہ
۷۔
مکرم عبدالرحمن خاں صاحب کوئٹہ
۸۔
مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب انور فاضل
۹۔
مکرم جناب شیخ بشیر احمد صاحب سابق جج ہائیکورٹ لاہور
۱۰۔
مکرم جناب عزیز احمد صاحب ایزنک سٹوڈیو لاہور
۱۱۔
مکرم پیر خلیل احمد صاحب گولیکی
۱۲۔
مکرم چوہدری غلام حیدر صاحب تعلیم الاسلام کالج ربوہ
۱۳۔
مکرم عبدالرشید صاحب سماٹری ناظم اشاعت خدام الاحمدیہ کراچی
۱۴۔
مکرم قائد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کراچی
مندرجہ ذیل احباب نے مسودہ نقل کرنے میں مدد دی۔
)۱( مکرم قاضی منیراحمد صاحب ادارہ المصنفین۔ )۲( چودہری نذیر احمد صاحب اکونٹنٹ سی ایم اے کرچی )۳( عزیزم منیر الحق صاحب شاہد ایم اے اسی طرح چودھری محمد صدیق صاحب ۔ ایم اے انچارج خلافت لائبریری اور ان کے رفقاء کارمکرم راجہ محمد یعقوب` ملک محمد اکرم صاحب اور مبارک احمد صاحب خاص شکریہ کے مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے مکرم مولانا دوست محمد صاحب کے ساتھ خاص تعاون فرمایا۔ مکرم چوہدری شاہ محمد صاحب اور مکرم محمد اسمٰعیل صاحب کاتب نے نہایت توجہ اور عمدگی سے کتابت کی۔ قاضی منیر احمد صاحب اور لطیف احمد صاحب کارکنان ادارہ نے نہایت محنت اور توجہ سے کتاب کی طباعت کا کام سرانجام دیا۔ الغرض سب احباب جنہوں نے مواد مہیا کیا۔ کتابت عمدگی سے کی۔ کاپیاں اور پروف پڑے۔ کتاب کو عمدگی سے چھاپا۔ سبھی قابل شکریہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنے فضلوں` احسانوں اور برکتوں سے نوازے آمین۔
خاکسار
ابوالمنیر نور الحق مینجنگ ڈائریکٹر
ادارۃ المصنفین ربوہ
بروز جمعتہ المبارک ۱۳ ماہ فتح / ۱۳۴۷ ہش دسمبر۱۹۶۸ء
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
پہلا باب )فصل اول(
][تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے لے کر
تفسیر کبیر )جلد سوم( کی اشاعت تک
خلافت ثانیہ کا ستائیسواں )۲۷( سال
)جنوری ۱۹۴۰ء تا دسمبر ۱۹۴۰ء بمطابق ذیقعدہ ۱۳۵۸ھ تا ذی الحجہ ۱۳۵۹ھ(
صلح ۱۳۱۹ ہش تا فتح ۱۳۱۹ ہش
تاریخ احمدیت کی آٹھویں جلد خلافت جوبلی )منعقدہ دسمبر ۱۹۳۹ء( کے ایمان افروز پر ختم ہوئی تھی۔ اب اس جلد سے ۱۹۴۰ء کے واقعات کا آغاز کیا جارہا ہے۔ یہ سال اپنے اندر بہت سی خصوصیتیں رکھتا ہے جن میں سے درج ذیل تین خصوصیات کو بالخصوص شہرت دوام حاصل رہے گی۔
۱۔
تقویم ہجری شمسی کا اجرا
۲۔
مجلس انصار اللہ کا قیام
۳۔
تفسیر کبیر )جلد سوم( کی اشاعت
علاوہ ازیں اس سال متعدد ایسے اہم واقعات پیش آئے جو مستقبل میں بڑے دور رس نتائج کے حامل ثابت ہوئے اور بالاخر جماعت احمدیہ کی ترقی اور عروج کا موجب بنے۔
۱۹۴۰ء کا ایک نہایت رنجدہ اور تکلیف دہ پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ اس میں حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحبؓ حلالپوری` حضرت ماسٹر عبدالرئوف صاحب بھیروی` حضرت مولوی امام الدین صاحبؓ گولیکی` حضرت میاں معراجدین صاحبؓ عمر اور دوسرے کئی اکابر صحابہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نشانوں کے عینی گواہ تھے ہمیشہ کے لئے داغ مفارقت دے گئے۔
۱۹۴۰ء کے واقعات وحوادث کا نہایت مختصر سا خاکہ پیش کرنے کے بعد اس سال کے تفصیلی امور پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
وما توفیقنا الا باللہ العلے العظیم
خلافت جوبلی سے پیدا شدہ نئی ذمہ داریوں کو پورے اخلاص اورجذبہ کے ساتھ ادا کرنے کی تلقین
جماعت احمدیہ چونکہ ۱۹۳۹ء کی خلافت جوبلی کی عظیم الشان تقریب کے بعد اپنی زندگی کے پہلے پنجاہ سالہ دور سے گزر کر اگلی نصف صدی میں داخل ہوچکی تھی اور ساتھ ہی الٰہی سنت وقانون
کے مطابق نئی ذمہ داریوں اور نئے فرائض کابارگراں بھی اس کے کندھوں پر آن پڑا تھا` اس لئے جونہی یہ پروقار مگر تصنع اور تکلف سے خالی اور اسلامی سادگی کا آئینہ دار روحانی جشن بخیر وخوبی ختم ہوا` قافلہ احمدیت کے اولالعزم سپہ سالار اور آسمانی قائد حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ۱۹۴۰ء کے آغاز میں ۱۲ صلح ۱۳۱۹ھ ہش )بمطابق ۱۲ جنوری ۱۹۴۰ء( کو ایک نہایت پرمعارف اور لطیف خطبہ خاص اس موضوع پر ارشاد فرمایاجس میں جماعت احمدیہ پر عائد ہونے والی نئی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے پہلے تو یہ بتایا کہ:۔
>دنیا میں جب کسی شخص کو کوئی خوشی پہنچتی ہے یا جب کوئی شخص ایسی بات دیکھتا ہے جو اس کے لئے راحت کا موجب ہوتی ہے تو اگر وہ اللہ تعالیٰ پر یقین رکھتا ہے تو وہ ایسے موقعہ پر یہی کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا شکر ہے کہ ہم کو یہ بات حاصل ہوئی اور جب کسی مسلمان کو ایسی خوشی پہنچتی ہے تو وہ اس مفہوم کو عربی زبان میں ادا کرتا ہے اور کہتا ہے الحمد لل¶ہ تو اس جلسہ پر ہماری جماعت نے جو خوشی منائی اس کا اگر خلاصہ بیان کیا جائے تو وہ یہی بنے گا کہ پیغام نبوت اور پیغام خلافت کی کامیابی پر ہماری جماعت نے اس سال الحمد للہ کہا۔ مگر باقی دنیا اور اسلام کی تعلیم میں ایک فرق ہے۔ باقی دنیا الحمد لل¶ہ کو اپنی آخری آواز سمجھتی ہے مگر اسلام الحمد لل¶ہ کو نہ صرف آخری آواز قرار دیتا ہے بلکہ اس کو نئی آواز بھی قرار دیتا ہے<۔۱
اس ایمان افروز تمہید کے بعد حضور نے بتایا کہ:۔
>پس یہ جو خوشی کا جلسہ ہوا اس نے درحقیقت ہماری ذمہ دریوں کو بہت بڑھادیا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک خاص جلسے کے منانے کے معنے ہی یہ ہیں کہ وہ ایک منزل پر پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے اپنے کام میں ایک درجہ کو حاصل کرلیا ہے۔ پس اس کے بعد ایک نئی ولادت کی ضرورت ہے گویا پہلا سلسلہ ختم ہوا اور اب ایک نیا سلسلہ شروع ہوگا۔ جیسے ایک دانہ بویا جاتا ہے تو اس سے مثلاً ستر یا سو دانے نکل آتے ہیں۔ اب ستر اور سو دانوں کا نکل آنا اپنی ذات میں ایک بڑی کامیابی ہے مگر وہ پہلے بیج کا ایک تسلسل ہوتا ہے اور زمیندار اسے کوئی نیا کام نہیں سمجھتا بلکہ وہ سمجھتا ہے میرے پہلے کام کا ہی سلسلہ جاری ہے۔ لیکن جب زمیندار ان نئے دانوں کوپھر زمین میں ڈال دیتا ہے تو اسے یہ احساس ہوتا ہے کہ اب میرے کام کا نیا دور شروع ہوا ۔۔۔۔۔ اسی طرح جب ہماری جماعت نے اس جلسہ کو خوشی کا جلسہ قرار دیا تو بالفاظ دیگر انہوں نے یہ اعلان کیا کہ ہمارا پہلا بیج جو بویا ہواتھا اس کی فصل پک گئی۔ اب ہم نیا بیج بورہے ہیں۔ اور نئی فصل تیار کرنے میں مصروف ہورہے ہیں۔ یہ اقرار بظاہر معمولی نظر آتا ہے لیکن اگر جماعت کی حالت کو دیکھا جائے تو اس اقرار کی اہمیت بہت بڑھ جاتی اور اس پر ایسی ذمہ داری عائد ہوجاتی ہے کہ اگر اس کے افراد رات دن کوشش نہ کریں تو اس ذمہ داری سے کبھی عہدہ برآ نہیں ہوسکتے۔ اس پچاس سالہ دور کے متعلق ہم نے جو خوشی منائی ہمیں غور کرنا چاہئے کہ اس دور کی پہلی فصل کس طرح شروع ہوتی تھی۔ جب ہم اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ اس پہلی فصل کا بیج صرف ایک انسان تھا۔ رات کو دنیا سوئی ساری دنیا اس بات سے ناواقف تھی کہ خدا اس کے لئے کل کیا کرنے والا ہے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ اللہہ تعالیٰ کی مشیت کل کیا ظاہر کرنے والی ہے۔ یہ آج سے پچاس سال پہلے کی بات ہے کہ ایک فرد بھی دنیا کا نہیں تھا جس کو معلوم نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک انقلاب پیدا کرنا چاہتا ہے یک دم بغیر اس کے کہ پہلے کوئی انتباہ ہو بغیر اس کے کہ پہلے کوئی انداز ہو` بغیر اس کے کہ پہلے کوئی انذار ہو۔ بغیر اس کہ پہلے کوئی اعلان ہو` ایک شخص جس کو خود بھی یہ معلوم نہ تھا کہ کیا ہونے والا ہے خدا نے اس کو جگایا اور کہا کہ ہم دنیا میں ایک نئی زمین اور نیا آسمان بنانا چاہتے ہیں اور تم کو اس زمین اور آسمان کے بنانے کے لئے معمار مقرر کرتے ہیں<۔
>نبی کے بلائے جانے کے بعد دنیا میں جو بیج بوئے ہوئے ہوتے ہیں وہ پھر نئی جدوجہد شروع کردیتے ہیں۔ نبوت خلافت کا جامہ پہن لیتی ہے اور خلافت کے ذریعہ پھر خدا کے لئے نئے قلوب کی فتح شروع ہوجاتی ہے۔ یہی اس زمانہ میں ہوا۔ اور جب ہم نے ایک جشن منایا ایک خوشی کی تقریب سرانجام دی تو کسان کی زبان میں ہم نے یہ کہا کہ ہم نے پہلی فصل کاٹ لی۔ مگر کیا جانتے ہو کہ دوسرے لفظوں میں ہم نے کیا کہا؟ دوسرے لفظوں میں ہم نے یہ کہا کہ آج سے پچاس سال پہلے جو ایک بیج بویا گیا تھا` اس بیج کی فصل ہم نے کاٹ لی۔ اب ہم ان بیجوں سے جو پہلی فصل سے تیار ہوئے تھے ایک نئی فصل بونے لگے ہیں۔ اس عظیم الشان کام کے آغاز کے بعد تم سمجھ سکتے ہو کہ تم پر کتنی عظیم الشان ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔ تم نے اب اپنے اوپر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ جس طرح ایک بیج بڑھ کر اتنی بڑی فصل ہوگیا اسی طرح اب تم ان بیجوں کو بڑھائو گے جو اس فصل پر تم نے بوئے ہیں اور اسی رنگ میں بڑھائو گے جس رنگ میں پہلی فصل بڑھی۔ پس ہم نے جشن مسرت منا کر اس بات کا اعلان کیا ہے کہ جس طرح ایک بیج سے لاکھوں نئے بیج پیدا ہوگئے تھے۔ اسی طرح اب ہم ان لاکھوں بیجوں کو ازسر نو زمین میں بوتے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ پچھلے پچیس یا پچاس سال میں جس طرح سلسلہ نے ترقی کی ہے اسی طرح اتنے ہی گنے اگلے پچیس یا پچاس سال میں ہم آج کی جماعت کو بڑھادیں گے۔ یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں جو تم نے اپنے اوپر عائد کی گذشتہ پچاس سال میں ایک بیج سے لاکھوں بیج بنے تھے۔ اب جب تک اگلے پچاس سال میں ان لاکھوں سے کروڑوں نہیں بنیں گے اس وقت تک ہم اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہیں سمجھے جائیں گے ۔۔۔۔۔ غرض اس جشن کے منانے سے ہم نے یہ اعلان کیا ہے کہ ہم نے پہلی فصل کاٹ لی اور نئے سرے سے اس سے حاصل شدہ بیجوں کو زمین میں ڈال دیا میرا تو جسم کا ذرہ ذرہ کانپ جاتا ہے۔ جب مجھے یہ خیال آتا ہے کہ کتنی اہم ذمہ داری ہے جو جماعت نے اپنے اوپر عائد گی۔ اگر ہم پہلی فصل نہ کاٹتے تو ہماری ذمہ داریاں کم رہتیں۔ مگر جب ہم نے اس فصل کو کاٹ کر الحمد للہ کہا تو ایاک نعبدو ایاک نستعین کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا سامان بھی ہمیں مہیا کرنا پڑا۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ اس جلسہ کے نتیجہ میں ہم نے لاکھوں نئے بیج زمین میں بو دیئے ہیں۔ اب ہمارا فرض ہے کہ اگلے پچیس یا پچاس سال میں ہم جماعت میں حیرت انگیز طور پر تغیر پیدا کریں ۔ کیا بہ لحاظ آدمیوں کی تعداد کے اور کیا بہ لحاظ مالی قربانی کے اور کیا بہ لحاظ تبلیغ کے اور کیا بلحاظ تربیت کے اور کیا بلحاظ تعلیم کے ۔ آج سے مثلاً پچیس یا پچاس سال کے بعد اگر ہم نئی فصل کے ویسے ہی شاندر نتائج نہ دکھائیں جیسے پہلی پچاس سالہ فصل کے نتائج نکلے تو ہماری الحمد بے معنی اور ہماری ایاک نعبدو ایک نستعین جھوٹی ہو جاتی ہے۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس جلسہ کے بعد ان کو اپنی نئی ذمہ داریاں بہت جوش اور توجہ کے ساتھ ادا کرنی چاہئیں۔ اب ہماری پہلی فصل کے جو نتائج رونما ہوئے ہیں ہماری کوشش یہ ہونی چاہئے کہ اگر اس سے زیادہ نہیں تو کم سے کم اتنے ہی گنے نتائج نئی فصل کے ضرور رونما کردیں۔ اور اگر پہلے ایک سے لاکھوں ہوئے تو آج سے پچاس سال بعد وہ کروڑوں ضرور ہوجائیں۔ اگر آج سے پچیس سال پہلے جماعت دس بارہ گنے بڑھی تھی` تو اگلے پچیس سال میں کم سے کم دس بارہ گنے ضرور بڑھ جانی چاہئے۔ مگر یہ کیونکر ہوسکتا ہے جب تک ہر احمدی کیا مرد اور کیا عورت اور کیا بچہ اور کیا بوڑھا` اور کیا کمزور اور کیا مضبوط` اپنے ذمہ یہ فرض عائد نہ کرلے کہ میں احمدیت کی ترقی کے لئے اپنے اوقات صرف کروں گا اور اپنی زندگی کا اولین مقصد اشاعت دیں اور اشاعت احمدیت سمجھوں گا۔ اسی طرح علمی طور پر کب ترقی ہوسکتی ہے جب تک ہماری جماعت کا ہر فرد دین سیکھنے اور دینی باتیں سننے اور پڑھنے کی طرف توجہ نہ کرے۔ اسی طرح مالی قربانی میں کب ترقی ہوسکتی ہے جب تک ہماری جماعت نہ صرف قربانیوں میں پیش از پیش ترقی کرے بلکہ اپنے اخراجات میں بھی دیانتداری سے کام لے۔ مال ہمیشہ دونوں طرح سے بڑھتا ہے۔ زیادہ قربانیوں سے بھی بڑھتا ہے اور زیادہ دیانتداری سے خرچ کرنے سے بھی بڑھتا ہے ۔ رسول کریم ~صل۱~ نے ایک دفعہ ایک شخص کو ایک دینار دیا اور فرمایا جاکر قربانی کے لے کوئی عمدہ سا بکرا لادو۔ اس نے کہا بہت اچھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ حاضر ہوا اور کہنے لگا ۔ یارسول اللہ ~صل۱~ یہ بکرا موجود ہے اور ساتھ ہی اس نے دینار بھی رسول کریم ~صل۱~ کو واپس کردیا۔ رسول کریم ~صل۱~ حیران ہوئے اور فرمایا >یہ کس طرح؟< وہ کہنے لگا یارسول اللہ مدینہ میں شہر کی وجہ سے چیزیں گراں ¶ملتی ہیں میں دس بارہ میل باہر نکل گیا وہاں آدھی قیمت پر بکرے فروخت ہو رہے تھے میں نے ایک دینار میں دو بکرے لے لئے اور واپس چل پڑا۔ جب میں آرہا تھا تو رستہ میں ایک شخص مجھے ملا۔ اسے بکرے پسند آئے اور کہنے لگا اگر فروخت کرنا چاہو تو ایک بکرا مجھے دے دو میں نے ایک بکرا ایک دینار میں اسے دیا۔ پس اب بکرا بھی حاضر ہے اور دینار بھی۔ رسول کریم ~صل۱~ اس سے بہت ہی خوش ہوئے اور آپﷺ~ نے اس کے لئے دعا فرمائی کہ >خدا تجھے برکت دے< صحابہ کہتے ہیں کہ اس دعا کے نتیجہ میں اسے ایسی برکت ملی کہ اگر وہ مٹی میں بھی ہاتھ ڈالتا تو وہ سونا بن جاتی اور لوگ بڑے اصرار سے اپنے روپے اسے دیتے اور کہتے کہ یہ روپیہ کہیں تجارت پر لگادو۔ غرض کروڑوں کروڑوں روپیہ اسے آیا۔ تو اچھی طرح خرچ کرنے سے بھی مال بڑھتا ہے۔ مال بڑھنے کی صرف یہی صورت نہیں ہوتی کہ ایک کے دو بن جائیں بلکہ اگر تم ایک روپیہ کا کام اٹھنی میں کرتے ہو اور ایک روپیہ زائد بھی کمالیتے ہوتو تمہارے دو نہیں بلکہ چار بن جائیں گے پس صرف یہی کوشش نہیں ہونی چاہئے کہ مالی قربانیوں میں زیادتی ہوبلکہ اخراجات میں کفایت کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے اور میں کارکنوں کو بالخصوص اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ ایک روپیہ کا کام اٹھنی میں کرنے کی کوشش کیا کریں۔
غرض اب جو ہمارے پاس جماعت موجود ہے اب جو ہمارے پاس روپیہ ہے اب جو ہمارے پاس تبلیغی سامان ہیں اب جو ہمارے دنیا میں مشن قائم ہیں اب جو ہماری تعلیم اور اب جو ہماری تربیت ہے ان سب کو نیا بیج تصور کرکے آئندہ پچاس سال میں جماعت کی ترقی کے لئے سرگرم جدوجہد کرنی چاہئے تاکہ آئندہ پچاس سال میں موجودہ حالت سے ہماری تعداد بھی بڑھ جائے` ہمارا مال بھی بڑھ جائے` ہمارا علم بھی بڑھ جائے` ہماری تبلیغ بھی بڑھ جائے۔ اور اسی نسبت سے بڑھے جس نسبت سے وہ پہلے پچاس سال میں بڑھا۔<
حضرت امیر المومنین نے اپنے اس پرشوکت خطبہ کے آخر میں ارشاد فرمایا کہ:۔
>اگر ہم اس رنگ میں کوشش نہیں کریں گے تو اس وقت تک ہماری نئی فصل کبھی کامیاب نہیں کہلا سکتی۔ مگر یہ کام ویسا ہی ناممکن ہے جیسا آج سے پچاس سال پہلے نظر آتا تھا۔ پھر اس وقت خدا کا ایک نبی کھڑا تھا۔ بے شک اس وقت کوئی احمدی نہ تھا مگر خدا کا نبی دنیا میں موجود تھا جو اس پیغام کو لے کر دنیا میں کھڑا تھا۔ مگر آج وہ نبی ہم میں موجود نہیں اور اس وجہ سے ہماری آواز میں وہ شوکت نہیں جو اس کی آواز میں شوکت تھی۔ پس آج ہمیں اس سے زیادہ آواز بلند کرنی پڑے گی اور ہمیں اس سے زیادہ قربانیاں کرنی پڑیں گی۔ اس کے لئے دعائیں بھی کرو اور اللہ تعالیٰ کے دروازہ کو کھٹکھٹائو اور یاد رکھو کہ جب تک جماعت دعائوں پر یقین رکھے گی۔ جب تک تم ہر بات میں اللہ تعالیٰ سے امداد کے طالب رہو گے اس وقت تک تمہارے کاموں میں برکت رہے گی مگر جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ کام تم نے کیا` جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ نتائج تمہاری محنت سے نکلے اور جس دن تم یہ سمجھو گے کہ یہ ترقی تمہاری کوششوں کا نتیجہ ہے اس دن تمہارے کاموں میں سے برکتیں بھی جاتی رہیں گی۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ آج دنیا میں تم سے بہت زیادہ طاقتور قومیں موجود ہیں مگر ان سے کوئی نہیں ڈرتا اور تم سے سب لوگ ڈرتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ تمہاری مثال اس تار کی سی ہے جس کے پیچھے بجلی کی طاقت ہوتی ہے۔ اب اگر تاریہ خیال کرے کہ لوگ مجھ سے ڈرتے ہیں تو یہ اس کی حماقت ہوگی۔ کیونکہ لوگ تار سے نہیں بلکہ اس بجلی سے ڈرتے ہیں جو اس تار کے پیچھے ہوتی ہے۔ جب تک اس میں بجلی رہتی ہے ایک طاقتور آدمی بھی اگر تار پر ہاتھ رکھے تو وہ اس کے ہاتھ کو جلادے گی۔ لیکن اگر بجلی نہ رہے تو ایک کمزور انسان بھی اس تار کو توڑ پھوڑ سکتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھو اور اس بجلی کو اپنے اندر سے نکلنے نہ دو۔ بلکہ اسے بڑھائو اور ترقی دو۔ تبھی تم کامیابی کو دیکھ سکتے اور نئی فصل زیادہ شاندار اور زیادہ عمدگی کے ساتھ پیدا کرسکتے ہو۔ لیکن اگر یہ بجلی نکل گئی تو پھر تم کچھ بھی نہیں رہو گے۔ ہاں اگر بجلی رہی تو دنیا کی کوئی طاقت تمہارا مقابلہ نہیں کرسکے گی۔ اور اس صورت میں تمہارا یہ عزم کہ تم اگلے پچاس سال میں تمام دنیا پر چھا جائو ` ناممکن نہیں ہوگا کیونکہ کام خدا نے کرنا ہے اور خدا کے لئے کوئی چیز ناممکن نہیں<۔۲
تقویم ہجری وشمسی کا اجراء
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ الثانی اگرچہ اہل مغرب کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کے بہت فکر مند اور اسی وجہ سے ان کے دلی خیر خواہ اور مونس و غمخوار تھے مگر آپ کو فطری طور پر مغربیت سے شدید نفرت تھی اور اس کا اظہار اپنی تقریروں اور تحریروں میں ہمیشہ برملا فرمایا کرتے تھے۔ آپ کی یہ بھی قلبی خواہش تھی کہ جماعت احمدیہ کا ایک ایک فرد مغربیت کی ایک ایک یاد گار کو صفحہ ہستی سے مٹا کر ان کی جگہ اسلامی تہذیب اور اسلامی تعلیم کی شاندار عمارت استوار کرنے میں ہمہ تن مصروف ہوجائے۔
حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی اس سلسلہ میں اپنے زمانہ خلافت کے آغاز ہی سے مختلف عملی اقدامات کرتے آرہے تھے۔ نومبر ۱۹۳۴ء میں حضور نے تحریک جدید کی بنیاد رکھی جس کے متعدد مطالبات میں مغربیت سے بغاوت کی روح نمایاں طور پر کارفرما تھی۔ بعد ازاں حضور نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۷ء کے موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام اور الہامات کی روشنی میں جماعت احمدیہ کے سامنے غلبہ اسلام کا یہ واضح تصور پیش فرمایا کہ:۔
>جس طرح آج باوجود مذاہب کے اختلاف کے مغربی تہذیب دنیا پر غالب آئی ہوئی ہے اسی طرح ہمارا کام ہے کہ ہم اسلامی تمدن اور اسلامی تہذیب کو اس قدر رائج کریں کہ لوگ خواہ عیسائی ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کی تمدن اسلامی ہو۔ لوگ خواہ یہودی ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کا تمدن اسلامی ہو۔ لوگ خواہ مذہباً ہندو ہوں مگر ان کی تہذیب اور ان کا تمدن اسلامی ہو۔ یہ چیز ہے جس کے پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا۔ کہ تہذیب اسلامی کو اتنا رائج کیا جائے اتنا رائج کیا جائے کہ اگر کچھ حصہ دنیا کا اسلام سے باہر بھی رہ جائے پھر بھی اسلامی تہذیب ان کے گھروں میں داخل ہوجائے۔ اور وہ وہی تمدن قبول کریں جو اسلامی تمدن ہو۔ گویا جس طرح آجکل لوگ کہتے ہیں کہ مغربی تمدن بہتر ہے۔ اسی طرح دنیا میں ایسی روچل پڑے کہ ہر شخص یہ کہنے لگ جائے کہ اسلامی تمدن ہی سب سے بہتر ہے۔ ۳
مروجہ عیسوی کیلنڈر
مغربیت کے عالمگیر ورثوں میں سے مروجہ عیسوی سن بھی ہے جو دراصل قدیم رومی کیلنڈر CALENDAR) (ROMAN ہے جسے پہلے اگسٹس (AUGUSTUS) پھر جولین (JULIAN) نے ترمیم کیا اور جولین کیلنڈر کہلانے لگا اس کے بعد بھی کئی بار اس میں ترمیم کی گئی۔ آخری بار مارچ ۱۵۸۲ء میں پایائے گریگوری سیزدہم XIII) GREGORY (POPE کے حکم سے اس میں ترمیم ہوئی جو لین کے چھ سو سال بعد ایک عیسائی راہب ڈینس ایگزیگوس EXIGUUS) (DIONYSIOUS نے اس رومن کیلنڈر سے حضرت مسیح کی پیدائش کے زمانہ سے قبل کے سال خارج کرکے اسے مسیحی سن قرار دے دیا۔۴
سیدنا حضرت عمرؓ کے عہد خلافت میں سن ہجری کی بنیاد
جہاں تک اسلامی کیلنڈر کا تعلق ہے اس کا آغا خلیفہ ثانی سیدنا حضرت عمر فاروق ؓ کے عہد خلافت میں ہوا۔ چنانچہ علامہ شبلی نعمانی نے اپنی مشہور تالیف >الفاروق< میں لکھا ہے:۔
>عام واقعات کے یاد رکھنے کے لئے جاہلیت میں بعض بعض واقعات سے سنہ کا حساب کرتے تھے مثلاً ایک زمانہ تک کعب بن لوئی کی وفات سے سال کا شمار ہوتا تھا۔ پھر عام الفیل قائم ہوا۔ یعنی جس سال ابرہتہ الاشرم نے کعبہ پر حملہ کیا تھا۔پھر عام الفجار اور اس کے بعد اور مختلف سنہ قائم ہوئے۔ حضرت عمرؓ نے ایک مختلف سنہ قائم کیا جو آج تک جاری ہے۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ۱۶ھ میں حضرت عمرؓ کے سامنے ایک چیک پیش ہوئی جس پر شعبان کا لفظ تھا۔ حضرت عمر نے کہا کہ یہ کیونکر معلوم ہوکہ گذشتہ شعبان کا مہینہ مراد ہے یا موجودہ۔ اسی وقت مجلس شوریٰ منعقد کی۔ تمام بڑے بڑے صحابہ جمع ہوئے اور یہ مسئلہ پیش کیا گیا اکثروں نے رائے دی کہ فارسیوں کی تقلید کی جائے چنانچہ ہر مزان جو خوزستان کا بادشاہ تھا اور اسلام لا کر مدینہ منورہ میں مقیم تھا۔ طلب کیا گیا۔ اس نے کہا کہ ہمارے ہاں جو حساب ہے اس کو ماروز کہتے ہیں اور اس میں مہینہ اور تاریخ دونوں کا ذکر ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ بحث پیدا ہوئی کہ سن کی ابتداء کب سے قرار دی جائے۔ حضرت علی نے ہجرت نبوی کی رائے دی اور اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا۔ آنحضرت ~صل۱~ نے ربیع الاول میں ہجرت فرمائی تھی۔ سال میں دو مہینے آٹھ دن گذر چکے تھے۔اس لئے ربیع الاول سے آغاز ہونا چاہئے تھا۔ لیکن چونکہ عرب میں سال محرم سے شروع ہوتا ہے اس لئے دو مہینے آٹھ دن پیچھے ہٹ کر شروع سال سے سن قائم کیا<۔۵
ہجری شمسی تقویم کی ضرورت
ہجری تقویم کی بنیاد چاند کی تاریخوں پر رکھی گئی تھی۔ مگر جیسا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ الشمس والقمر بحسبان۶ یعنی سورج اور چاند دونوں ہی حساب کے لئے مفید ہیں۔ اور عقلی طور پر بھی اگر دیکھا جائے تو ان دونوں میں فوائد نظر آتے ہیں چنانچہ عبادتوں کو شرعی طریق پر چلانے کے لئے چاند مفید ہے۔ چاند کے لحاظ سے موسم بدلتے رہتے ہیں اور انسان سال کے ہر حصہ میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا قرار پاسکتا ہے۔ پس عبادت کو زیادہ وسیع کرنے کے لئے اور اس لئے کہ انسان اپنی زندگی کے ہر لحظہ کے لئے کہہ سکے کہ وہ اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے گذارا ہے۔ عبادت کا انحصار قمری مہینوں پر رکھا گیا ہے لیکن وقت کی صحیح تعین کے لئے سورج مفید ہے اور سال کے اختتام یا اس کے شروع ہونے کے اعتبار سے انسانی دماغ سورج سے ہی تسلی پاتا ہے۔
ہجری شمسی تقویم جاری کرنے کی اسلامی کوششیں][یہی وہ ضرورت تھی جس کی وجہ سے ہجری تقویم کے اجراء کے بعد قرن اول کے مسلمان بادشاہوں میں یہ خیال بڑی شدت سے اٹھاکہ ہجری قمری کی طرح ہجری شمسی بھی ہونی چاہئے۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ خلفائے عباسیہ مثلاً ہشام بن عبدالملک ` ہارون الرشید ` معتضدباللہ متوکل الطائع لل¶ہ نے ہجری شمسی تقویم جاری کرنے کی پے در پے کوششیں کیں ۷ مگر اس میں بعض رکاوٹیں پیدا ہوگئیں۔ ازاں بعد دولت عثمانیہ نے ۱۲۰۹ھ میں تقویم بنائی مگر وہ رائج نہ ہوسکی۔
ہندوستان میں سلطنت خداداد میسور کے آخری تاجدار سلطان ابوالفتح علی ٹیپو رحمتہ اللہ علیہ )۱۷۵۲ء ۔ ۱۷۹۹ء( نے ہجری شمسی تقویم کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے ایک نئی تقویم تیار کی چنانچہ محمود خاں محمود بنگلوری اپنی کتاب >تاریخ سلطنت خداداد< میں لکھتے ہیں۔
>سلطان سے پہلے ملک میں مغلیہ زمانے سے سن ہجری کا رواج چلا آتا تھا۔ اور اس میں یہ نقص تھا کہ لگان کی وصولی میں بہت سی مشکلات پیش آتی تھیں۔ اس لئے کہ لگان فصلوں کی تیاری کے بعد لیا جاتا تھا۔ سن ہجری کے مہینے آگے پیچھے ہوجاتے تھے۔ اس نقص کو محسوس کرتے ہوئے اس نے ایک نئی تقویم بنائی جس کی وجہ سے ہر مہینہ ٹھیک اسی موسم میں آتا تھا` جیسے اگلے موسم میں تھا۔ تقویم بنانے کے بعد اس نے مہینوں کے نام ابجد وابتث کے حساب پر رکھے۔ اس سے سلطان کی مراد یہ تھی کہ حروف تہجی کی ترتیب یا ابجد کے حساب پر اگر نام رکھے جائیں تو لوگوں کو یاد رکھنے میں زیادہ سہولت ہوگی<۔
سلطان شہید~رح~ نے حروف ابجد کے حساب سے بارہ مہینوں کے حسب ذیل نام رکھے۔ احمدی۔ بہاری۔ جعفری۔ دارائی۔ ہاشمی۔ واسعی۔ زبرجدی۔ حیدری۔ طلوعی۔ یوسفی۔ یازوی۔ بیاسی۔ بحساب ابتث انہی مہینوں کو بالترتیب مندرجہ ذیل ناموں سے موسوم کیا۔ احمدی۔ بہاری۔ تقی۔ ثمری۔ جعفری۔ حیدری۔ خسروی۔ دینی۔ ذکری۔ رحمانی۔ راضی۔ ربانی۔۸
سلطان ٹیپو کی شہادت کے بعد یہ تقویم جاری نہ رہ سکی۔ تاہم مسلمان مدبروں کے دلوں میں یہ خیال برابر پرورش پاتا رہا کہ تقویم شمسی ہونی چاہئے چنانچہ مصر کے مشہور عالم السید محب الدین خطیب ے ۱۳۴۶ء میں قاہرہ کے المطبعہ السلفیہ سے تقویمنا الشمسی کے نام سے ایک کتابچہ شائع کیا جس میں ہجری شمسی تقویم کے لئے گذشتہ مسلم سلاطین کی جدوجہد کی تاریخ بیان کی اور آخر میں اس کے اجراء کی ضرورت واہمیت واضح کی۔
حضرت فضل عمرؓ کی توجہ تقویم ہجری شمسی کی طرف
مگر جو سعادت ازل سے حضرت فضل عمرؓ کے عہد زریں کے ساتھ وابستہ تھی اس کی تکمیل کسی اور دور میں کیسے ہوسکتی ۔ واقعہ یہ ہوا کہ سیدنا حضرت خلیفہ الثانی نے ۱۹۳۸ء میں اپنے سیر روحانی< والے مشہور سفر کے دوران جب دہلی میں رصد گاہیں اور جنتر منتر دیکھے تو اسی وقت سے تہہ کرلیا کہ اس بارہ میں کامل تحقیق کرکے عیسوی شمسی سن کی بجائے ہجری شمسی سن جاری کردیا جائے اور آئیندہ کے لئے عیسوی سن کا استعمال چھوڑ دیا جائے خواہ مخواہ عیسائیت کا ایک طوق ہماری گردنوں میں کیوں پڑا رہے ۹
تقویم کے لئے کمیٹی کی تشکیل
چنانچہ حضور نے جنوری ۱۹۳۹ء کے شروع میں تقویم ہجری شمسی کی ترویج سے متعلق ایک کمیٹی قائم فرمادی اور اس کے لئے مندرجہ ذیل ممبر نامزد فرمائے۔
۱۔
حضرت سید محمد اسحاق صاحب فاضل ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ قادیان۔ )صدر کمیٹی(
۲۔
‏ ]ind [tag حضرت صاحبزادہ حافظ میرزا ناصر احمد صاحب فاضل پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان۔
۳۔
حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب حلالپوری )سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان(
۴۔
مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل سابق مبلغ بلاد عربیہ۱۰
چونکہ حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کمیٹی کی تشکیل سے قبل از خود ایک قمری تقویم تیار کررہے تھے اس لئے ارکان کمیٹی کی طرف سے تقویم کا ڈھانچہ تجویز کرنے کا اہم فریضہ آپ ہی کے سپرد کیا گیا۔
‏]0 [stfتقویم کی منظوری اور اجراء
آپ نے اس کا ایک خاکہ کمیٹی کے سامنے رکھ دیا جو کمیٹی نے اپنی رائے کے ساتھ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں پیش کیا ۔ جس کی منظوری حضرت امیر المومنین سیدنا فضل عمرؓ نے جنوری ۱۹۴۰ء کے آغاز میں دے دی۔
حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب جلالپوری نے >الفضل< ۲۶ صلح/جنوری ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء میں یہ تقویم شائع کردی اور جماعت احمدیہ کے اولوالعزم امام ہمام کی برکت اور توجہ سے عالم اسلام کی ایک قدیم ضرورت پوری ہوئی۔ اور ہجری شمسی تقویم جاری ہوگئی۔
تقویم ہجری شمسی کی امتیازی حیثیت
خلافت عثمانیہ نے ۱۲۰۹ء میں جو ہجری شمسی تقویم رائج کی وہ شمسی مہینہ مارچ سے شروع ہوتی تھی ۱۱ مگر موجودہ تقویم مروجہ عیسائی کیلنڈر کے بالکل متوازی چلتی تھی ۔یعنی اس کے ہر نئے سال کا آغاز اور اس کے مہینوں کی تقسیم بالکل رومن کیلنڈر کی طرح تھی۔ دولت عثمانیہ کے ہجری شمسی کیلنڈر میں مہینوں کے نام رومن سے مخلوط سریانی زبان سے اخذ کئے گئے تھے جو یہ تھے۔
مارت` نیسان` مایس` جزیران` تموز` اغسطس` ایلول` تشرین الاول` تشرین الثانی` کانون الاول` کانون الثانی` شباط ۱۲
اس کے مقابل حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کے جاری فرمودہ تقویم ہجری شمسی کی نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مہینوں کے نام ایسے مناسب تجویز کئے گئے جو اسلامی تاریخ کے مشہور واقعات کے لئے بطور یاد گار تھے تا آنحضرت ~صل۱~ کے فیضان اور دنیا کے لئے دین کامل کی یاد قیامت تک ہر لحظہ تازہ ہوتی رہے۔ بالفاظ دیگر ہجری شمسی سال کے بارہ مہینوں میں زمانہ نبوی کے بارہ ایسے ضروری واقعات آنکھوں کے سامنے پھر جاتے تھے جو تاریخ اسلام کا نقطہ مرکزیہ اور پیغمبر خدا ~صل۱~ کی سیرت مقدسہ کی جان ہیں۔ بہر حال حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے تقویم ہجری شمسی کے مہینوں کے مندرجہ ذیل نام تجویز فرمائے۔
)۱( صلح )جنوری( )۲( تبلیغ )فروری( )۳( امان )مارچ(
)۴( شہادت )اپریل( )۵( ہجرت )مئی( )۶( احسان )جون(
)۷( وفا )جولائی( )۸( ظہور )اگست( )۹( تبوک )ستمبر(
)۱۰( اخاء )اکتوبر( )۱۱( نبوت )نومبر( )۱۲( فتح )دسمبر(
ہجری شمسی کی نسبت تفصیلی معلومات حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب کیقلم سے
تقویم ہجری شمسی میں کیا کیا امور مدنظر رکھے گئے اور ہجری شمسی مہینوں کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ نیز اس تقویم کے علم نفاذ کے سال اول کا
کیلنڈر کیا ہے؟ ان سب امور پر حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب جلالپوری کے ایک مضمون میں )جو >الفضل< ۲۶ صلح ۱۳۱۹ ہش مطابق ۲۶ جنوری ۱۹۴۰ء میں شائع ہو چکا ہے( بڑی شرح وبسط سے روشنی پڑتی ہے جسے بجنسہ درج کیا جاتا ہے۔۱۳]2ydob [tag
ہجری شمسی تقویم )کیلنڈر(
)منظور فرمودہ حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ نبصرہ العزیز(
تقویم ہجری شمسی کی ترتیب وتجویز
ہجری شمسی تقویم کے مرتب کرنے کے ساتھ تعلق رکھنے والے ضروری امور پر غور کرکے اس بارے میں رپورٹ پیش کرنے کے لئے حضرت سیدنا وامامنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نبصرہ العزیز نے ۱۹۳۹ء کے اوائل میں ایک کمیٹی مقرر فرمائی اور اس کے چار ممبر متعین فرمائے حضرت سید محمد اسحاق صاحب فاضل ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ قادیان )صدر کمیٹی( حضرت صاحبزادہ حافظ میرزا ناصر احمد صاحب فاضل پرنسپل جامعہ احمدیہ قادیان` مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل مبلغ سلسلہ احمدیہ خاکسار محمد اسمٰعیل )سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ قادیان( اور ارشاد فرمایا کہ اس کیلنڈر کا ڈھانچہ تیار کرکے پیش کیا جائے اور اس میں دوسرے مروجہ شمسی کیلنڈروں کی نسبت مروجہ عیسوی کیلنڈر کو مقدم طور پر سامنے رکھا جائے )جو درحقیقت عیسوی کیلنڈر نہیں بلکہ رومی کیلنڈر ہے جسے عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ سے ۵۲۷ سال بعد صرف اس قدر تبدیلی کے ساتھ کرسچین کیلنڈر بنا لیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے قبل کے سالوں کے اعداد اس میںسے کم کردیئے اور بس( لیکن چونکہ اس کے کئی ایک مہینوں کے نام مشرکانہ ہیں اس لئے مہینوں کے نام کوئی اور تجویز کئے جائیں جو مناسب اور موزوں ہوں اور عیسوی کیلنڈر کی اصلاح کے لئے جو تبدیلی اس میں عیسائیوں نے کی ہے جس کے ماتحت اس کیلنڈر کو اب چلایا جارہا ہے اس مجوزہ کیلنڈر میں شروع سے ہی ملحوظ رکھا جائے۔
چونکہ اس کمیٹی کے ارکان کو معلوم تھا کہ خاکسار راقم ایک قمری تقویم تیار کررہا ہے اس لئے کمیٹی نے قرار دیا کہ ہجری شمسی تقویم کا ڈھانچہ بھی خاکسار ہی تجویز کرے۔ اور اسے کمیٹی کے سامنے پیش کرے۔ چنانچہ میں نے اس کا ایک خاکہ مرتب کرکے کمیٹی کے آگے پیش کیا۔ اور کمیٹی نے اس کے ساتھ اپنی رائے شامل کرکے اسے حضور کی خدمت میں پیش کیا۔ حضور نے اس کے متعلق تمام ممبران کی آراء سن کر حسب ذیل فیصلہ فرمایا:۔
ہجری شمسی سال کا آغاز اور اس کے دنوں کی اس کے مہینوں پر تقسیم۔
مروجہ عیسوی کیلنڈر کا کوئی نیا سال جس روز سے شروع ہوگا اسی روز سے ہجری شمسی سال کا آغاز شمار ہوگا۔ اور سال کے دنوں کی تقسیم بھی مہینوں پر مروجہ عیسوی کیلنڈروں کی طرح ہی ہوگی اور لیپ سال بھی وہی شمار ہوں گے جو مروجہ عیسوی کیلنڈر میں شمار کئے جاتے ہیں۔ اور پہلے ہجری شمسی سال کا آغاز بھی ۶۲۲ء کے آغاز کے وقت سے محسوب ہوگا۔ لیکن چونکہ عیسوی کیلنڈر کے سابقہ طریق شمار میں غلطی سے ہر صدی میں لیپ کے ۲۵ سال گنے جاتے تھے اور ساتویں صدی عیسوی کے آغاز کے وقت تک اس غلطی کی وجہ سے تین دن زائد شمار ہوچکے تھے اس لئے ۱ھش )ہجری شمسی( کے آغاز کے دن کی عیسوی تاریخ یکم جنوری ۶۲۲ء نہیں بلکہ ۲۹۔ دسمبر ۶۲۱ء محسوب ہوگی۔ اور چونکہ اس کے بعد بھی ۱۵۸۲ء تک یہ غلط طریق شمار برابر جاری رہا اس لئے یہ فرق بڑھتا چلا گیا اور سولھویں صدی عیسوی میں دس دن تک پہنچ گیا اور ۱۵۸۲ء میں آکر اس غلطی کی اصلاح کی طرف توجہ کی گئی مگر وہ بھی بیک وقت نہیں بلکہ مختلف ممالک میں ۱۵۸۲ء سے لے کر قریباً ساڑھے تین سو سال کے لمبے عرصہ میں مختلف اوقات میں مختلف طریقوں سے اس کی اصلاح کی گئی حتیٰ کہ بعض اقوام نے اب بیسوی صدی میں آکر اس اصلاح کا اجراء کیا ہے جبکہ یہ فرق تیرہ دن تک پہنچ چکا تھا۔ ہاں اب چونکہ اس فرق کا ازالہ کیا جاچکا ہے اس لئے مروجہ عیسوی کیلنڈر کے کسی سال اور کسی مہینہ کے آغاز کے دن اور اس کے مقابل کے ہجری شمسی سال اور مہینہ کے آغاز کے دن میں اب کوئی فرق نہیں ہوگا اور ۱۳۱۹ ہش کے آغاز کا دن وہی محسوب ہوگا جو ۱۹۴۰ء کے آغاز کا دن تھا۔
ہجری شمسی مہینوں کے نام
ہجری شمسی سنہ کے مہینوں کے نام حضور نے حسب ذیل منظور فرمائے ہیں۔
۱۔ ماہ صلح بمقابل جنوری۔ اس مہینہ میں آنحضرت ~صل۱~ ایک رویا کی بناء پر تین ہزار صحابہ کرام کی معیت میں عمرہ کے لئے بیت اللہ شریف کی طرف روانہ ہوئے مگر کفار قریش مزاحم ہوئے۔ اس وجہ سے حدیبیہ کے مقام سے آپ کو واپس ہونا پڑا۔ لیکن اس موقعہ پر ان لوگوں کے ساتھ آپ کا ایک صلح کا معاہدہ ہوگیا جس کا نام اللہ تعالیٰ نے فتح مبین رکھا ہے۔ اس صلح کے نتیجہ میں لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہونے شروع ہوگئے۔ گویا دریا کا بندٹوٹ گیا۔
۲۔ ماہ تبلیغ بمقابل فروری۔ اس مہینہ میں حضرت رسول کریم ~صل۱~ نے بادشاہوں کی طرف تبلیغی خطوط ارسال فرمائے اور انہیں اسلام کی دعوت پہنچائی۔
۳۔ ماہ امان بمقابل مارچ ۔ اس مہینہ میں حجہ الوداع کے موقع پر آنحضرت ~صل۱~ نے اعلان فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری جانوں ` مالوں اور تمہاری عزت وآبرو کو ویسی حرمت بخشی ہے جیسی کہ اس نے حج کے دن کو` حج کے مہینہ کو اور حج کے مقام مکہ معظمہ کو حرمت عطا کی ہے۔
۴۔ ماہ شہادت بمقابل اپریل۔ اس مہینہ میں دشمنان اسلام نے دھوکہ اور غداری سے کام لے کر اور آنحضرت ~صل۱~ کی خدمت میں یہ درخواست کرکے کہ ہمیں دین اسلام کی تعلیمات سکھانے کے لئے ہمارے ہاں معلم اور مبلغ بھیجے جائیں اور اس طرح اکابر صحابہؓ کو اپنے ہاں بلاکر بے دردی کے ساتھ انہیں شہید کیا اور ایک مہینہ میں دوبار یہ غداری کی۔ ایک تو رجیع کے مقام پر جہاں آپﷺ~ نے چھ یا سات اکابر صحابہ کرام کو بھیجا تھا جن میں سے ایک یا دو کو تو ان لوگوں نے پکڑ کر کفار قریش کے پاس جاکر بیچ دیا اور باقی سب کو شہید کردیا اور دوسرے بئرمعونہ کے مقام پر جہاں آپﷺ~ نے ابوبرآء کلابی رئیس بنی کلاب کے درخواست پر اور اس کی ذمہ داری پر ستر انصار کو جو نہایت مقدس لوگ اور قرآن کریم کے حافظ اور ماہر تھے` ان لوگوں کی تعلیم و تربیت کی غرض سے بھیجا۔ ان لوگوں نے سوائے ایک انصاری کے جسے وہاں کے سردار نے ایک غلام کو آزاد کرنے کے متعلق اپنی ماں کی نذر پوری کرنے کے لئے چھوڑ دیا تھا باقی تمام کو شہید کردیا۔
۵۔ ماہ ہجرت بمقابل مئی۔ اس مہینہ میں آنحضرت ~صل۱~ نے مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ طیبہ میں قیام اختیار فرمایا۔
۶۔ ماہ احسان بمقابل جون۔ اس مہینہ میں آنحضرت ~صل۱~ نے بنی طیٰ کے اسیروں کو حاتم کے ساتھ ان کی قومی نسبت کی وجہ سے ازراہ کرم واحسان آزادی بخشی۔
۷۔ ماہ وفا بمقابل جولائی۔ اس مہینہ میں غزوہ ذات الرقاع ہوا تھا جس میں سفر کی شدت اور سواری کی کمی کی وجہ سے پیدل چلنے کے باعث صحابہ کرام کے پائوں چھلنی ہوگئے اور صحیح بخاری کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابہ کے تو پائوں کے ناخن بھی جھڑ گئے اور انہوں نے اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اور پائوں پر لپیٹ لپیٹ کر اس کا راستہ طے کیا اور اسی وجہ سے اس مہم کا نام ذات الرقاع مشہور ہوگیا۔ اور اسی موقع پر صلٰوۃ الخوف کا حکم نازل ہوا۔ غرض اس جنگ میں بھی صحابہ کرام نے خارق عادت طور پر اپنے صدق ووفا اور تسلیم ورضا کا نمونہ دکھایا تھا۔
۸۔ ماہ ظہور بمقابل اگست۔ اس مہینہ میں جنگ موتہ کے سلسلہ میں آنحضرت ~صل۱~ کے ہاتھ سے اللہ تعالیٰ نے بیرون عرب میں اسلام کی اشاعت اور ظہور یعنی غلبہ کی بنیاد رکھوائی۔ اس واقعہ سے قبل آپ نے ہر قل کے مقرر کردہ امیر بصری کی طرف حضرت حارث ابن عمیرازدیؓ کے ہاتھ ایک تبلیغی خط بھیجا تھا۔ جب وہ موتہ کے مقام پر پہنچے تو شرجیل غسانی نے انہیں باندھ کر قتل کردیا جس پر حضورﷺ~ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زیدبن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی امارت کے ماتحت تین ہزار صحابہ کرام کی فوج وہاں بھیجی۔ اور ارشاد فرمایا کہ اگر زید شہید ہوجائے تو اس کی جگہ جعفر بن ابی طالب لے لے۔ وہ شہید ہوجائے تو عبداللہ بن رواحہؓ اس کی جگہ پر کھڑا ہوجائے اور وہ شہید ہوجائے تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو امیر بنالیں اور اسی ترتیب سے وہ اس جنگ میں شہید ہوئے۔
۹۔ ماہ تبوک بمقابل ستمبر۔ اس مہینہ میں جنگ تبوک کے موقعہ پر مخلصین کے اخلاص کا مختلف صورتوں میں امتحان ہوا۔ اور انہوں نے اپنے اپنے رنگ میں اعلیٰ سے اعلیٰ جوہر ایمان دکھائے۔
۱۰ ۔ ماہ اخاء بمقابل اکتوبر۔ اس مہینہ میں آنحضرت ~صل۱~ نے مہاجرین اور انصار میں سے ایک ایک مہاجر اور ایک ایک انصاری کے درمیان خاص طور پر اخوت کا تعلق قائم کیا جس کے نتیجہ میں مہاجرین اور انصار کے تعلقات سگے بھائیوں سے بھی بڑھ کر ہوگئے۔
۱۱ ماہ نبوت بمقابل نومبر ۔ اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ~صل۱~ کو منصب نبوت ورسالت بخشا۔
۱۲۔ ماہ فتح بمقابل دسمبر۔ اس مہینہ میں آنحضرت ~صل۱~ نے فتح مکہ کے موقعہ پر اپنے خونخوار دشمنوں کو لاتثریب علیکم الیوم کہہ کر عفو عام کا اعلان فرمایا۔
قمری مہینوں کی تعین
ان واقعات کو اس شمسی مہینوں کی طرف منسوب کرتے وقت اس بات کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے کہ حجتہ الوداع کے موقعہ پر جو آنحضرت~صل۱~ نے اعلان فرمایا تھا کہ آئندہ ہر ایک قمری سال بارہ مہینوں کا شمار ہوگا۔ اس سے پہلے عرب میں جو تاریخ شماری کا یہ طریق قریباً دو اڑھائی سو سال سے جاری تھا کہ مہینے قمری گنے جاتے تھے اور سال شمسی۔ ان دونوں شماروں کو ملانے کے لئے ہر آٹھ سال میں تین سال ۱۳۔ ۱۳ ماہ کے شمار کئے جاتے تھے۔ اس کی بناء پر ہجرت کے ابتدائی دس سالوں میں چار سال ۱۳ ۔ ۱۳ مہینوں کے گنے گئے تھے اور وہ اس طور پر کہ نویں اور دسویں ہجری کے درمیان یعنی ان میں سے ایک سال کے اختتام اور دوسرے سال کے آغاز کے موقعہ پر ایک مہینہ زائد شمار کیا گیا۔ جس سے پہلے ساتویں اور آٹھویں سال کے درمیان اور ان سے پہلے` چوتھے اور پانچویں سال کے درمیان اور اس سے قبل پہلے اور دوسرے سال کے درمیان ایک ایک مہینہ زائد شمار کا گیا تھا پس ابتدائی دس ہجری سالوں کا عرصہ ۱۲۰ قمری مہینوں کا نہیں بلکہ۱۲۴ قمری مہینوں کا شمار ہوا تھا۔
تقویم قمری کا اجمالی خاکہ
اس تقویم میں نئے قمری دور کا آغاز ۱۰ ہجری کے شروع سے شمار کیا گیا ہے۔ اور ۳۰ ۔ ۳۰ دنوں کے اور ۲۹۔ ۲۹ دنوں کے قمری مہینوں کی تعین کے لئے قمری مہینہ کی اوسط مقدار کو سامنے رکھا گیا ہے اور تواریخ کی تعین کے لئے ایک طرف اس بات کو پیش نظر رکھا گیا ہے کہ حجتہ الوداع کے دن یعنی ۹ ذوالحجہ ۱۰ ہجری کو جمعہ تھا۔ اور دوسری طرف یہ کہ ابتدائی دس ہجری سالوں میں سے پہلے مہینہ جمعہ کے روز شروع ہوا تھا۔ اور پانچواں مہینہ )جوہر
‏tav.8.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر کبیر )جلد سوم( تک
دائمی ہجری شمسی کیلنڈر
اس پہلے کیلنڈر کے بعدبھی وقتاً فوقتاً مختلف سالوں کے کیلنڈر شائع ہوتے رہے۔ مگر ضرورت اس امر کی تھی کہ سالانہ کیلنڈروں کی اشاعت کے علاوہ پوری تحقیق و تفحص کے ساتھ ایک دائمی شمسی ہجری کیلنڈر بھی تیار کیا جائے۔ اس نہایت کٹھن` دشوار اور محنت طلب کام کا بیڑا جمعدار فضل الدین صاحب کمبوہ ۱۶ نے اٹھایا۔ اور نہایت درجہ محنت شاقہ اور دیدہ ریزی کے بعد ۱۹۶۰ء میں >فضل عمر ہجری شمسی دائمی تقویم< کے نام سے ایک مستقل تقویم شائع کردی۔ جس میں چودہ کیلنڈر ہیں جن کی مدد سے ہزاروں سال قبل اور ہزاروں سال آئندہ کی صحیح تاریخ` دن ` مہینہ اور سال بڑی آسانی سے معلوم کئے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے >مجمع البحرین< کے نام سے اس تقویم کا ایک ضمیمہ بھی شائع کیا۔ جس میں ہجری سال سے عیسوی اور عیسوی سال سے ہجری سال سے ہجری سال معلوم کرنے کا بہترین فارمولا پیش کیا۔۱۷
حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری کی بیعت خلافت
۱۹۴۰ء کا ایک نہایت اہم واقعہ حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری کی بیعت خلافت ہے۔ حضرت مولوی صاحب ۱۷ مئی ۱۸۹۰ء ۱۸ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرکے داخل احمدیت ہوئے اور صوبہ سرحد میں جماعت احمدیہ کے ایک بھاری ستون بن گئے۔ جولائی اگست ۱۸۹۱ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لدھیانہ تشریف لے گئے تو آپ بھی محض زیارت کے لئے حضور کی خدمت میں پہنچے۔ چنانچہ حضور نے >ازالہ اوہام< میں اپنے دوسرے مبائعین ومجبین کا نام بنام ذکر کرتے ہوئے ۳۳ نمبر پر آپ کی نسبت مندرجہ ذیل تعریفی کلمات تحریر فرمائے۔
>حبی فی اللہ مولوی غلام حسن صاحب پشاوری اس وقت لدھیانہ میں میرے پاس موجود ہیں۔ محض ملاقات کی غرض سے پشاور سے تشریف لائے ہیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ وفادار مخلص ہیں اور لایخافون لومہ لائم میں داخل ہیں۔ جوش ہمدردی کی راہ سے دو روپے ماہواری چندہ دیتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ بہت جلدی للہیٰ راہوں اور دینی معارف میں ترقی کریں گے کیونکہ فطرت نورانی رکھتے ہیں۔ ۱۹
جنوری ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ضمیمہ انجام آتھم میں اپنے ۳۱۳ اصحاب کبار کی فہرست شائع فرمائی تو آپ کا نام نمبر اکاون پر درج کیا۔ ۱۹۰۲ء میں آپ کی ایک صاحبزادی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے عقد میں آئیں۔ ۱۹۰۶ء کے اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ کے معتمدین میں شامل فرمایا۔
حضرت مولوی غلام حسین صاحب خلافت اولیٰ کے عہد میں سلسلہ کی خدمات بجالاتے رہے۔ مگر ۱۹۱۴ء کے شروع میں جماعت میں آئندہ نظام خلافت کے خاتمہ کی نسبت مولوی محمد علی صاحب کے خیالات سے متاثر ہوکر ان کے زبردست موید وہمنوا بن گئے چنانچہ جب مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفہ اول کی زندگی کے آخری ایام میں >ایک نہایت ضروری اعلان< کے نام سے براہمن سٹیم پریس لاہور سے جو خفیہ ٹریکٹ شائع کیا تو اس پر آپ کی مندرجہ ذیل مصدقہ عبارت درج تھی کہ۔
>مذکورہ بالا مضمون کی میں تصدیق اور تائید کرتا ہوں اور سلسلہ کی بھلائی اسی پر عامل ہونے میں یقین رکھتا ہوں۔ غلام حسن سب رجسٹرار پشاور<۲۰
حضرت مولوی صاحب ایک لمبے عرصہ تک احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے نہایت ممتاز رکن رہے اور دیانتداری سے سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں مصروف رہے۔ لیکن اپنی فطرت نورانی کے باعث بالاخر لاہوری فریق سے بھی الگ ہوگئے۔
اسی دوران میں ۱۹۳۹ء کا جلسہ قریب آگیا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس تقریب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حضرت مولوی صاحب کو قادیان تشریف لانے کی دعوت دی۔ نیز لکھا کہ پشاور سے قادیان تک آنے کے لئے موٹر وغیرہ کا انتظام بھی ہوجائے گا۔ مگر ان کی طرف سے قریباً نفی میں جواب آیا۔ ایک تو انہوں نے بیماری اور کمزوری کا عذر کیا اور لکھا کہ اب ایسی حالت ہے کہ ڈرتا ہوں کہ کہیں سفر میں ہی پیغام آخرت نہ آجائے۔ دوسری بات انہوں نے جوبلی کی تقریب کے متعلق لکھی کہ یہ ایک بدعت ہے۔۲۱
اس پر حضرت میاں صاحبؓ نے ادب کے طریق پر جواب لکھا اور اس میں جوبلی کی تقریب سے متعلق وضاحت فرمائی ۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ آپ خدا کے فضل وکرم سے قادیان تشریف لے آئے اور اس مبارک جلسہ پر خلافت کے تازہ انوار اور اس کی زندہ برکات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور ۲۲ جنوری ۱۹۴۰ء کو دوبارہ خلافت سے وابستہ ہوگئے اور تبلیغ ۱۳۱۹ھش )فروری ۱۹۴۰ء( کو >میری بیعت< کے عنوان سے ایک مضمون خلافت کے مختصر وجوہ لکھے۔ آپ کا یہ مضمون ۷۔ تبلیغ ۱۳۱۹ھش )۷۔ فروری ۱۹۴۰ء( کو اخبار الفضل میں شائع ہوا جو آپ نے اپنے سارے بیٹوں اور سرکردہ غیر مبائعین کے نام بھجوادیا۔ بیعت نامہ کی اشاعت پر مولوی محمد علی صاحب نے سخت تنقید کی اورپیغام صلح میں مضامین لکھے جس پر حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب نے دوبارہ قلم اٹھایا اور ایک اور مضمون لکھا جس میں اپنی بیعت کے اہم وجوہ پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی اور لکھا کہ۔
>میں نے جو حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ثانی کی بیعت اختیار کی ہے۔ تو جیسا کہ میں اپنے سابقہ مضمون میں تشریح کرچکا ہوں۔ وہ تین وجوہات پر مبنی ہے۔
اول یہ کہ حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صدر انجمن کا انتظام وقتی اور عارضی تھا جو حضرت مسیح موعود نے اس وقت کے حالات کے ماتحت اپنی رائے سے قائم کیا تھا۔ مگر خداتعالیٰ نے اس انتظام کو مٹا کر اس کی جگہ اپنے پسند کردہ نظام خلافت کو قائم کردیا اور ایسا تصرف فرمایا کہ خود ارکان صدر انجمن کے ہاتھ سے ہی یہ تبدیلی عمل میں آئی جس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا احترام بھی قائم رہا اور خدا کی مشیت بھی پوری ہوگئی۔ اس کی تائید میں میں اپنے سابقہ مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دو واضح الہامات جو حقیقتہ الوحی )صفحہ ۱۰۵ طبع دوم( میں بالکل پاس پاس درج ہیں` بیان کرچکا ہوں۔ جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انجمن کے نظام کو مٹا کر اس کی جگہ خلافت کے نظام کو قائم کردیا۔
دوسری دلیل۔ جو مجھے قادیان میں آکر نظر آئی` وہ اس تائید اور نصرت الٰہی سے تعلق رکھتی ہے جو حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کی قیادت میں مرکزی جماعت کو حاصل ہوئی ہے اور ہورہی ہے۔ اور چونکہ مذہبی اختلافات میں سب سے بڑی دلیل خدا تعالیٰ کی عملی اور فعلی شہادت ہوا کرتی ہے` اس لئے میں نے اسی شہادت کو قبول کرکے بیعت اختیار کی۔ مولوی محمد علی صاحب کا یہ فرمانا کہ ان کی انجمن کو قرآن مجید کا ترجمہ چھاپنے اور بعض اور کتب کی اشاعت کی توفیق کی ملی ہے۔ میری اس دلیل کو باطل نہیں کرتا۔ محض بعض کتب کی اشاعت کوئی فیصلہ کن امر نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید کے ترجمے اور تفاسیر تو بعض غیر مسلموں نے بھی شائع کئے ہیں۔ اور دوسری طرف قادیان کی جماعت کی طرف سے بھی نہایت عمدہ لٹریچر شائع ہورہا ہے اور قرآنی علوم کی اشاعت کا سلسلہ جاری ہے اور خدا نے چاہا تو تفسیر کی صورت میں بھی ترجمہ قرآن کریم کی اشاعت ہوجائے گی۔ مگر جس بات کو میں نے لیا ہے وہ خدا کی فعلی شہادت ہے جو نصرت اور تائید الٰہی کی صورت میں ظاہر ہورہی ہے جس کی وجہ سے مولوی محمد علی صاحب کے رفقاء تو اب بھی اسی جگہ کھڑے ہیں جس جگہ وہ آج سے چھبیس سال پہلے کھڑے تھے بلکہ شاید بعض لحاظ سے گر گئے ہیں۔ مگر مرکزی جماعت کو اللہ تعالیٰ ہر رنگ میں ترقی دے رہا ہے اور برومند کررہا ہے۔
تیسری وجہ۔ میری بیعت کی یہ ہوئی ہے کہ میری توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ اسلام کا یہ منشا ہے کہ باوجود اختلاف رکھنے کے انسان کو چاہئے کہ وہ جماعت میں منسلک ہوکر رہے ۔ چنانچہ حضورﷺ~ نے فرمایا ہے اتبعوا سوادالاعظم نیز فرمایا تلزم الجماعہ مولوی محمد علی صاحب کا یہ کہنا کہ میں قادیان میں جاکر کثرت سے مرعوب ہوگیا ہوں` خوش فہمی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ کیونکہ جو دلائل میری بیعت کے ہیں وہ بین اور واضح ہیں۔ جن میں کسی بات سے مرعوب ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ ضمناً میں یہ بات بھی کہنا چاہتا ہوں کہ مولوی محمد علی صاحب نے جو اصول کثرت اور قلت کے متعلق بیان کیا ہے اس میں ان کو سخت غلطی لگی ہے۔ قرآن شریف کے جس اصول کو انہوں نے جماعت کی اندرونی حالت پر لگایا ہے وہ مرسلین کے ماننے والوں اور انکار کرنے والوں کے باہمی مقابلہ سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ ایک مامور کی جماعت کے اندرونی اختلافات سے۔ اگر مولوی صاحب کے اصول کو اس قدر وسعت حاصل ہے جو مولوی صاحب نے بیان کی ہے تو پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ہر حال میں ہر کثرت ہر قلت کے مقابل پر غلطی خوردہ ہوگی ہے جو بالبداہت باطل ہے مثلاً کیا مولوی صاحب اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہیں کہ ان کی انجمن میں ہر فیصلہ قلت رائے سے طے پانا چاہئے۔ یا یہ کہ صحابہ نے جو فیصلہ آنحضرت ~صل۱~ کی وفات پر کثرت رائے سے ایک خلیفہ کے انتخاب کے متعلق کیا۔ اس کے مقابل پر بعض انصار کی یہ قلت رائے درست تھی کہ دو خلیفے ہونے چاہیں؟ مجھے افسوس ہے کہ جو نتیجہ مولوی صاحب نے قرآن شریف کی آیات سے نکالا ہے وہ ایک سطحی خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا< ۲۲
آخر میں جناب مولوی محمد علی صاحب )امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور( کو یہ دردمندانہ تحریک فرمائی کہ اگر ان کو بعض مسائل میں شرح صدر نہیں تو پھر بھی آپ اختلافات کو حوالہ بخدا کرتے ہوئے مرکز کے ساتھ پیوند کرلیں ۔ چنانچہ لکھا:۔
>میں دیانتداری کے ساتھ یہ ظاہر کرچکا ہوں کہ مجھے ابھی تک بعض مسائل میں حضرت خلیفہ ثانی سے اختلاف ہے۔ لیکن باوجود اس قلیل اختلاف کے میں ان کے اصول کے مطابق اور اپنی ضمیر سے ہدایت لینے کے بعد خدا کی قولی اور فعلی شہادت کو دیکھ کر ان کی بیعت میں داخل ہوا ہوں ۔۔۔۔ حضرت خلیفہ ثانی تو مامور نہیں ہیں۔ حضرت مسیح موعود نے بھی جو مامور اور مرسل تھے نواب محمد علی خاں صاحب کو بعض اختلافات کے باوجود بیعت کی اجازت دی تھی حالانکہ نواب صاحب شیعہ خیالات رکھتے تھے۔ ۔۔۔۔۔ تو پھر میرے معاملہ میں یہ صورت کس طرح قابل اعتراض ہوسکتی ہے اور اس کی بناء پر اعتراضات اٹھانا کس طرح جائز سمجھا جاسکتا ہے بلکہ میں بڑی ہمدردی اور خیر خواہی کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب سے بھی تحریک کروں گا کہ اب جبکہ وہ بھی اپنی آخری عمر میں پہنچ رہے ہیں وہ اپنا محاسبہ کرکے اس بات پر غور فرمائیں کہ کیا جماعت کا اتحاد اور وحدت کی برکات اور خدائی نصرتوں سے مستفید ہونے کے مواقع اس قابل نہیں کہ اپنے بعض اختلافی عقائد کے باوجود جماعت کو ایک جھنڈے کے نیچے جمع ہونے دیا جائے۔ مولوی محمد علی صاحب کے جذبات خواہ میرے متعلق کچھ ہوں` میری ہمدردی اور نیک نیتی صرف اسی ایک بات سے ظاہر ہے کہ جب بیعت کے بعد میں نے حضرت خلیفہ ثانی سے پہلی ملاقات کی تو اس ملاقات میں میں نے حضرت خلیفہ صاحب سے مولوی صاحب کی ہدایت کے متعلق خصوصیت کے ساتھ دعا کے لئے عرض کیا تھا اور میں خود بھی دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ مولوی صاحب کو پھر مرکزی سلسلہ کے جھنڈے کے نیچے لے آئے اور الوصیت کے منشا کے ماتحت سب کو مل کر کام کرنے کی توفیق دے ۲۳
قادیان کے قیام کے دوران میں حضرت مولوی صاحب نے بیعت کے بعد انشراح وانبساط کے معاملہ میں بہت جلد جلد ترقی کی۔ خود اپنی خوشی سے وصیت بھی کردی اور اس کے بعد طوعاً چندہ تحریک جدید میں بھی شرکت فرمائی۔ حضرت مولوی صاحب کو یہ بہت خوشی تھی کہ حضرت خلیفہ ثانی کے عہد میں جماعت نے ہر رنگ میں ترقی کی ہے۔ ۲۴
حضرت مصلح موعود کا مکتوب گرامی
مولانا غلام حسن صاحب پشاوری کے نام
مکرمی ومعظمی مولوی صاحب
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ۔ آپ کا بیعت کا خط ملا۔ اللہ تعالیٰ اس بیعت وحدۃ اور اخوۃ کو جو آپ نے کی ہے قبول فرما کر اسے وحدۃ اور اخوۃ کی کئی اور کڑیوں کی زیادتی اور مضبوطی کا موجب بنائے۔
مجھے آپ کی بیعت سے خاصی خوشی اس لئے ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تین چار سال قبل یعنی ۳۵ء یا اس کے قرب کے زمانہ میں مجھے رویا دکھایا کہ میں پشاور گیا ہوں اور ریل شہر کے اندر چلی گئی ہے جس پر میں بہت حیران ہوتا ہوں اور وہ آپ کے مکان کے قریب جاکر ٹھہری ہے اور اس وقت وہ ایک موٹر کی صورت میں تبدیل ہوگئی ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ کچھ احباب میرے استقبال کو آئے ہوئے ہیںاور ان سب کے آگے آپ کھڑے ہیں اور آپ کے چہرے پر بہت بشاشت ہے اور آپ نے بڑھ کر مجھ سے جوش سے مصافحہ کیا ہے پھر اپنے گھر کی طرف لے چلے ہیں۔ یہ رویا میں نے بیسیوں آدمیوں کو اسی وقت سنادیا تھا ان میں سے خان دلاور خان صاحب بھی ہیں۔ چنانچہ ان کی ایک لڑکی مجھے کئی دفعہ یہ لکھ چکی ہے کہ آپ خواب پورا کرنے کے لئے پشاور کب آئیں گے۔ مگر خوابیں تعبیر طلب ہوتی ہیں۔ میرے پشاور جانے کی بجائے آپ قادیان تشریف لے آئے )ممکن ہے دوسرا امر بھی کسی وقت پورا ہوجائے( اور میں نے سنا ہے کہ آپ موٹر میں ہی تشریف لائے ہیں۔ آپ کا بیعت کرنا` مصافحہ کرنے اور اپنے گھر لے جانے میں بتایا گیا تھا۔ سو الحمد لل¶ہ کہ اس نے ایک اور نشان اپنی طاقتوں کا ہمیں دکھایا۔ آپ نے جو اشارہ عقائد کی نسبت فرمایا ہے اس بارہ میں ہی متواتر ظاہر کرچکا ہوں کہ اگر ہمارے عقائد کے اختلافات اس قسم کے ہیں کہ ایک فریق کو کافر بنا دیتے ہیں تب تو اختلافات۲۵ جائز ہوسکتا ہے اگر ایسا نہیں تو بیعت خلافت جو وحدۃ قومی کا ذریعہ ہے باوجود اختلاف کے اس میں کسی احمدی کو تردد نہ ہونا چاہئے کیونکہ جماعت کا اتحاد ایک بہت بڑی برکت ہے جس سے اسلام کو بہت بڑی تقویت پہنچتی ہے سو اس اختلاف کی وجہ سے جس کا فوری طور پر مٹنا۲۵ ناممکن نظر آتا ہے نہ وہ اختلاف ہمارے فتووں کے مطابق کفر کا موجب ہے اسلام کو نقصان پہنچانا کونسی دانائی ہے۔ سوالحمدلل¶ہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس نکتہ کو آپ پر کھولایا۲۵ اور آپ کے سلسلہ سے اخلاص اور محبت کو قبول فرماتے ہوئے آخر سواد اعظم میں لاکر شامل کردیا۔وذالک فضل اللہ یوتیہ من یشاء۔
والسلام ۔ خاکسار
مرزا محمود احمد
حضرت مولوی صاحب کی پشاور کی طرفواپسی اور قادیان کی طرف ہجرت
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا منشا تھا کہ اب حضرت مولوی صاحب قادیان ہی میں رہیں اور وہ بھی یہاں رہنے میں خوش تھے مگر آپ کے
عزیزوں کی طرف سے تقاضا تھا کہ واپس پشاور آجائیں مگر آپ کے مشورہ سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے انہیں لکھ دیا کہ اب انہیں خدمت کا موقعہ ملنا چاہئے۔ >البتہ کبھی مناسب وقت پر حسب ضرورت عارضی طور پر پشاور جانے کا انتظام ہوتو اور بات ہے<۔۲۶ خود حضرت مولوی صاحب نے یہ ارادہ فرمایا کہ محرم کی چھٹیوں میں کچھ عرصہ کے لئے پشاور واپس تشریف لے جائیں اور اسی غرض کے لئے ان کے صاحبزادہ عبدالرحمن صاحب قادیان آگئے اور حضرت مولوی صاحب قریباً دو ماہ تک قادیان کی برکات سے متمتع ہونے کے بعد ۱۸ تبلیغ/فروری ۱۳۱۹ھ ۱۹۴۰ء کو بذریعہ موٹر پشاور روانہ ہوگئے اور اگلے روز بخیریت پشاور پہنچ گئے۔ اس سفر میں صاحبزادہ عبدالرحمان صاحب کے علاوہ محترم ملک محمد عبداللہ صاحب مولوی فاضل بھی آپ کے ہمراہ تھے۔۲۷
حضرت مولوی صاحب نے پشاور پہنچتے ہی یہ جدوجہد شروع کردی کہ کسی طرح دوسرے بچھڑے ہوئے غیر مبائع اصحاب بھی سلسلہ احمدیہ کے اتحاد کی خاطر نظام خلافت سے وابستہ ہوجائیں۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے انہی دنوں قاضی محمد یوسف صاحب کے نام ۲۶ تبلیغ/فروری ۱۳۱۹ھ ۱۹۴۰ء کو ایک مکتوب میں اطلاع دی کہ۔
>جو خط آج میرے نام حضرت مولوی صاحب کا آیا ہے` اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں کامل انشراح ہے۔ اور وہ اپنے دوستوں میں بھی اس بات کی کوشش فرمارہے ہیں کہ ادھر کھینچے آئیں۔ مگر جیسا کہ مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں چھبیس سال کی دوری کی وجہ سے بعض لوگوں کے ذہنوں میں ایک رنگ کی تاریکی آگئی ہے جواب خاص کوشش سے ہی نکلے گی<
حضرت مولوی صاحب نبوت / نومبر ۱۳۲۱ھ ۱۹۴۲ء کے آخر میں مستقل طور پر پشاور سے ہجرت کرکے قادیان آگئے۔ ۲۸ اور بالاخر یکم تبلیغ/فروری ۱۳۲۲ھ/۱۹۴۳ء کو ساڑھے دس بجے شب انتقال کیا ۲۹ جیسا کہ ۱۳۲۲ھ ۱۹۴۳ء کے حالات میں ذکر آئے گا۔
فصل دوم
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا سفر سندھ و دہلی
اس سال کے اہم واقعات میں سے سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا سفر سندھ و دہلی ہے جو حضور نے شروع سال میں اختیار فرمایا۔ حضرت امیر المومنین صلح/جنوری ۱۳۱۹ھ ۱۹۴۰ء کے آخر میں قادیان سے روانہ ہوئے اور ۲۶ صلح /جنوری کو کراچی پہنچے۔ ۳۰
۵ تبلیغ/جنوری کو سندھ سے دہلی تشریف لے گئے اور آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی میں فروکش ہوئے ۳۱ اور دو روزہ قیام کے بعد واپس کراچی تشریف لے آئے۔ واپسی کے قریب دہلی اسٹیشن پر دہلی اور شملہ کے بکثرت احمدی احباب )جن میں آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب چودھری بشیر احمد صاحب سب جج` شیخ اعجاز احمد صاحب سب جج` حافظ عبدالسلام صاحب امیر جماعت احمدیہ شملہ` بابو نذیر احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ دہلی بھی شامل تھے( مشایعت کے لئے موجود تھے۔ حضور نے سب سے مصافحہ فرمایا اور دعا کی۔۳۲
قیام کراچی کے دوران حضور کے اعزاز میں دو پرتکلف دعوتیں دی گئیں۔ پہلی دعوت کپتان سلطان احمد صاحب کھتانہ نے ۱۶ تبلیغ ۱۳۱۹ھ )مطابق ۱۶ فروری ۱۹۴۰ء( کو چار بجے شام دی۔ جن میں دوسرے بہت سے معززین شہر کے علاوہ مندرجہ ذیل احباب بھی شامل ہوئے۔
۱۔ کرنل بگم )ملک معظم جارج ششم کے طبی مشیر(
۲۔ میجر ایس۔وی پامرکمانڈنگ سنسرڈیپارٹمنٹ
۳۔ مسٹر ریورٹ کارنک
۴۔ مسٹر نائیٹین ایجنٹ بحرین پٹرولیم کمپنی
۵۔ مسز نائیٹن
۶۔ مسٹر ہیلی فیکس آئی سی ایس ریٹائرڈ کمشنر
۷۔ مس کریچٹ
۸۔ حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب ناظربیت المال قادیان
۹۔ حضرت نوب محمد عبداللہ خان صاحب آف مالیر کوٹلہ
۱۰۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب )خصوصی طبی مشیر حضرت خلیفہ المسیح الثانی(
۱۱۔ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔اے پرائیویٹ سیکرٹری حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی

۱۲۔ عبدالکریم صاحب ۔ آئی۔ ایم۔ ایس۔ ایم پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ کراچی۔
۱۳۔ محمد نواز صاحب کٹکی سیکرٹری انجمن احمدیہ کراچی۔
۱۴۔ الشیخ کاظم الدجیلی عراق قونصل
۱۵۔ مسٹر رئوف آفندی سیکرٹری عراق قونصل
۱۶۔ مسٹر محمد ابراہیم خاں صاحب
۱۷۔ خاں صاحب محمد اکبر خان صاحب سول سنسر آفیسر
۱۸۔ خان صاحب اللہ بخش خاں صاحب سول سنسر آفیسر
۱۹۔ لیفٹیننٹ خالد حمید سنسر آفیسر
۲۰۔ لیفٹیننٹ غلام سرور سنسر آفیسر
۲۱۔ محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے ایل ایل بی پریذیڈنٹ خوجہ فرقہ
۲۲۔ محمد قاسم خاں صاحب
۲۳۔ نصیر احمد صاحب کھتانہ
‏col3] [tag ۲۴۔ مسٹر ڈی۔ سوزا صاحب
۲۵۔ قریشی محمد یوسف صاحب

چائے نوشی کے بعد کپتان سلطان احمد کھتانہ نے ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے مختصر تقریر فرمائی جس میں دوسری جنگ عظیم میں حکومت سے اہل ہند کے تعاون کی ضرورت واہمیت واضح فرمائی۔ ۳۳
دوسری پارٹی ۲۹ تبلیغ/فروری کو خان بہادر اللہ بخش صاحب وزیر اعظم سندھ کی طرف سے دی گئی مدعوین میں سرغلام حسین ہدایت اللہ صاحب وزیر قانون` پیر الٰہی بخش صاحب وزیرتعلیم` مسٹر حاتم علوی` مسٹر جمشید این آر مہتہ ایم ایل اے` حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحب آف مالیر کوٹلہ` صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب بی۔ اے ` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب` ملک صلاح الدین صاحب ایم اے اور عبدالکریم صاحب پریذیڈنٹ انجمن احمدیہ شامل تھے۔ ۳۴
ناصر آباد میں قیام
پارٹی کے بعد حضور معہ قافلہ کراچی سے روانہ ہوئے اور اگلے روز یکم امان/مارچ کو بذریعہ گاڑی کنجیجی پہنچے اور کنجیجی سے ناصر آباد تشریف لے گئے۔
یکم امان/مارچ کو مسجد ناصر آباد کا افتتاح کرتے ہوئے پہلی نماز جمعہ کی پڑھائی اور ایک لطیف خطبہ ارشاد فرمایا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ۔
مسجد کا حق ہے کہ اسے آباد اور صاف رکھا جائے۔ اس میں بدبو دار چیز کے ساتھ نہیں آنا چاہئے اگر اس بات پر عمل کیا جائے تو ہمارے دیہات میں صفائی پیدا ہوسکتی ہے۔ دیہاتی لوگ اس وقت تک بدن سے کپڑا نہیں اتارتے جب تک پھٹ نہ جائے۔ مگر عرب کے لوگ خواہ امیر ہوں یا غریب کپڑے صاف رکھتے ہیں۔ اب جبکہ مسجد بن گئی ہے اس کا حق ادا کرنا چاہئے ازاں بعد بتایا کہ آنحضرت ~صل۱~ سے ایک نابینا صحابی حضرت عتبان بن مالک نے اجازت چاہی تھی کہ وہ گھر میں نماز پڑھ لیا کریں۔ مسجد آتے وقت ٹھوکریں لگتی ہیں۔ آنحضرتﷺ~ نے فرمایا کہ کیا اذان کی آواز سنائی دیتی ہے۔ عرض کیا۔ ہاں اس پر حضور نے فرمایا پھر گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت نہیں۳۵
یہ حدیث بیان کرنے کے بعد حضور نے فرمایا کہ۔
چونکہ زمینداروں کو باہر جاکر کام کرنا ہوتا ہے اس لئے انہیں وقت مقرر کر لینا چاہئے تاکہ ان کے کام میں حرج نہ ہو اور وہ نماز باجماعت بھی ادا کرسکیں۔ 10] p[۳۶
قادیان میں تشریف آوری
ناصر آباد میں چند روز قیام کے بعد حضور کنجیجی سے بذریعہ گاڑی عازم قادیان ہوئے۔ گاڑی ۱۱ امان/مارچ کو ۶ بجے شام لاہور پہنچی جہاں سے بذریعہ کار پورے سات بجے روانہ ہوئے اور نو بج کر چالیس منٹ پر قادیان میں رونق افروز ہوئے۔ احمدیہ چوک میں بہت سے اصحاب استقبال کے لئے جمع تھے جنہیں حضور نے شرف مصافحہ بخشا ۳۷
دوبارہ روانگی
حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی قادیان میں قریباً دو ماہ کے قیام کے بعد ۵ ہجرت )مئی( ۱۳۱۹ہش / ۱۹۴۰ء کو دوبارہ کراچی تشریف لے گئے۔ ۳۸ اور ۲۵ ہجرت/ مئی ۱۳۱۹ہش /۱۹۴۰ء کو ساڑھے نو بجے شب بخریت قادیان پہنچے۔ ۳۹ اس سفر میں خاندان مسیح موعود میں سے حضرت سیدہ ام متین صاحبہ ۔ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ ` صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ` صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ` صاحبزادی امتہ الودود بیگم صاحبہ اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اور دیگر خدام واحباب میں سے حضرت مولوی فرزند علی خاں صاحب ناظربیت المال` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب` ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے پرائیویٹ سیکرٹری ` منشی فتح دین صاحب` خاں میر صاحب افغان بھی حضور کے ہمرکاب تھے۔ ۴۰
سمندر کی سیر اور عارفانہ کلام
اس سفر میں حضور ایک شب کلفٹن کی سیر کے لئے بھی تشریف لے گئے جہاں سمندر کے کنارے پر چاند کا دلکش نظارہ کرتے ہوئے حضور کی توجہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مشہور شعر کی طرف منعطف ہوگئی کہ۔
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بیکل ہوگیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا
اس شعر کا خیال آتے ہی حضور پر محبوب حقیقی کی یاد میں ایک خاص کیفیت طاری ہوئی اور حضور کے قلب صافی سے عارفانہ کلام جاری ہوگیا۔ چنانچہ حضور خود ہی فرماتے ہیں۔
>سمندر کے کنارے چاند کی سیر نہایت پر لطف ہوتی ہے۔ اس سفر کراچی میں ایک دن ہم رات کو کلفٹن کی سیر کے لئے گئے ۔ میری چھوٹی بیوی صدیقہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ میری تینوں لڑکیاں ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ` امتہ الرشید بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ` امتہ العزیز سلمہا اللہ تعالیٰ` امتہ الودود مرحومہ اور عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ تھے۔ رات کے گیارہ بجے چاند سمندر کی لہروں میں ہلتا ہوا بہت ہی بھلا معلوم دیتا تھا اور اوپر آسمان پر وہ اور بھی اچھا معلوم دیتا تھا۔
جوں جوں ریت کے ہموار کنارہ پر ہم پھرتے تھے لطف بڑھتا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی قدرت نظر آتی تھی۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر ٹہلنے کے بعد ناصرہ بیگم سلمہا اللہ اور صدیقہ بیگم جن دونوں کی طبیعت خراب تھی تھک کر ایک طرف ان چٹائیوں پر بیٹھ گئیں جو ہم ساتھ لے گئے تھے۔ ان کے ساتھ عزیزم منصور احمد سلمہ اللہ تعالیٰ بھی جاکھڑے ہوئے اور پھر عزیزہ امتہ العزیز سلمھا اللہ تعالیٰ بھی وہاں چلی گئیں۔ اب صرف میں عزیزہ امتہ الرشید بیگم سلمھا اللہ تعالیٰ اور عزیزہ امتہ الودود مرحومہ پانی کے کنارے پر کھڑے رہ گئے۔ میری نظر ایک بار پھر آسمان کی طرف اٹھی اور میں نے چاند کو دیکھا جو رات کی تاریکی میں عجیب انداز سے اپنی چمک دکھارہا تھا۔ اس وقت قریباً پچاس سال پہلے کی ایک رات آنکھوں میں پھر گئی جب ایک عارف باللہ محبوب ربانی نے چاند کو دیکھ کر ایک سرد آہ کھینچی تھی۔ اور پھر اس کی یاد میں دوسرے دن دنیا کو یہ پیغام سنایا تھا۔
چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بیکل ہوگیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا
پہلے تو تھوڑی دیر میں یہ شعر پڑھتا رہا۔ پھر میں نے چاند کو مخاطب کرکے اسی جمال یار والے محبوب کی یاد میں کچھ شعر خود کہے۔ ۴۱
اس موقعہ پر حضور نے کل آٹھ اشعار کہے جن کو حضور نے لطیف اور پر معارف تشریح کے ساتھ >چاند میرا چاند< کا عنوان دے کر اخبار >الفضل< )۶ وفا/جولائی ۱۳۱۹ہش / ۱۹۴۰ء میں شائع فرمادیا اور جو بعد کو کلام محمود میں بھی شامل کردیئے گئے۔
بطور نمونہ حضور کے قلم سے اس پاکیزہ کلام کے دو شعر اور ان کی وضاحت درج کی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں:۔
>میری نظر سمندر کی لہروں پر پڑی جن میں چاند کا عکس نظر آتا تھا اور میں اس کے قریب ہوا۔ اور چاند کا عکس اور پرے ہوگیا۔ میں اور بڑھا اور عکس اور دور ہوگیا۔ اور میرے دل میں ایک درد اٹھا اور میں نے کہا۔ بالکل اسی طرح کبھی سالک سے سلوک ہوتا ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے کوشش کرتا ہے۔ مگر بظاہر اس کی کوششیں ناکامی کا منہ دیکھتی ہیں۔ اس کی عبادتیں اس کی قربانیاں اس کا ذکر` اس کی آہیں کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اس کے استقلال کا امتحان لیتا ہے اور سالک اپنی کوششوں کو بے اثر پاتا ہے۔ کئی تھوڑے دل والے مایوس ہوجاتے ہیں اور کئی ہمت والے کوشش میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کی مراد پوری ہو جاتی ہے۔ مگر یہ دن بڑے ابتلاء کے دن ہوتے ہیں اور سالک کا دل ہر لحظہ مرجھایا رہتا ہے اور اس کا حوصلہ پست ہو ہوجاتا ہے۔ چونکہ چاند کے عکس کا اس طرح آگے آگے دوڑتے چلے جانے کا بہترین نظارہ کشتی میں بیٹھ کر نظر آتا ہے جو میلوں کا فاصلہ طے کرتی جاتی ہے مگر چاند کا عکس آگے ہی آگے بھاگا چلا جاتا ہے` اس لئے میں نے کہا۔
بیٹھ کر جب عشق کی کشتی میں آئوں تیرے پاس
آگے آگے چاند کی مانند تو بھاگا نہ کر
میں نے اس شعر کا مفہوم دونوں بچیوں کو سمجھانے کے لئے ان سے کہا کہ آئو ذرا میرے ساتھ سمندر کے پانی میں چلو اور میں انہیں لے کر کوئی پچاس ساٹھ گز سمندر کے پانی میں گیا اور میں نے کہا۔ دیکھو چاند کا عکس کس طرح آگے آگے بھاگا جاتا ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی بندہ کی کوششیں اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے بیکار ہوجاتی ہیں اور وہ جتنا بڑھتا ہے اتنا ہی اللہ تعالیٰ پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ اور اس وقت سوائے اس کے کوئی علاج نہیں ہوتا کہ انسان اللہ تعالیٰ ہی سے رحم کی درخواست کرے اور اسی کے کرم کو چاہے تاکہ وہ اس ابتلاء کے سلسلہ کو بند کردے اور اپنی ملاقات کا شرف اسے عطا کرے۔
اس کے بعد میری نظر چاند کی روشنی پر پڑی ۔ کچھ اور لوگ اس وقت کہ رات کے بارہ بجے تھے سیر کے لئے سمندر پر آگئے۔ ہوا تیز چل رہی تھی۔ لڑکیوں کے برقعوں کی ٹوپیاں ہوا سے اڑی جارہی تھیں۔ اور وہ زور سے ان کو پکڑ کر اپنی جگہ پر رکھ رہی تھیں۔ وہ لوگ گو ہم سے دور تھے مگر میں لڑکیوں کو لے کر اور دور ہوگیا اور مجھے خیال آیا کہ چاند کی روشنی جہاں دلکشی کے سامان رکھتی ہے وہاں پر وہ بھی اٹھادیتی ہے اور میرا خیال اس طرف گیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کبھی بندہ کی کمزوریوں کو بھی ظاہر کردیتے ہیںاور دشمن انہیں دیکھ کر ہنستا ہے اور میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرکے کہا کہ
اے شعاع نور یوں ظاہر نہ کر میرے عیوب
غیر ہیں چاروں طرف ان میں مجھے رسوانہ کر۴۲
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تقریر بمبئی ریڈیو اسٹیشن سے
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ؓ نے آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن بمبئی کے پردازوں کی خواہش پر >میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں کے عنوان سے ایک اردو تقریر لکھی جو ۱۹ تبلیغ/فروری ۱۳۱۹ہش / ۱۹۴۰ء کو ساڑھے آٹھ بجے شام بمبئی نمبر ۱ کے براڈکاسٹنگ اسٹیشن سے نشر کی گئی۔ ریڈیو والوں نے تقریر سے قبل اور بعد یہ معذرت کی کہ بعض مجبوریوں کے باعث حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کی زبان مبارک سے ہم یہ تقریر نہیں سنا سکے بلکہ دوسرے شخص کو پڑھنے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔
قادیان میں حضور کی تقریر سننے کے لئے میاں عبدالغفور خاں صاحب پٹھان نے نظارت تعلیم وتربیت کی اجازت سے اپنا ریڈیو سیٹ لگادیا۔ جہاں مردوں اور عورتوں نے تقریر سنی۔ مستورات کے لئے پردہ کا الگ انتظام موجود تھا۔ ۴۳
حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنی لطیف تقریر کے شروع میں بتایا کہ۔
>چونکہ میں خداتعالیٰ کے فضل سے ان صاحب تجربہ لوگوں میں سے ہوں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کو متعدد بار اور خارق عادت طور پر ظاہر کیا۔ اس لئے میرے لئے اس سے بڑھ کر کہ میں نے اسلام کی سچائی کو خود تجربہ کرکے دیکھ لیا ہے۔ اور کسی دلیل کی ضرورت نہیں<۔
اس تمہید کے بعد حضور نے ان لوگوں کے لئے جنہیں یہ تجربہ حاصل نہیں ہوا۔ اسلام کے دین حق ہونے پر پانچ بنیادی دلائل دیئے جو حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
اول۔ میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ ان تمام مسائل کو جن کا مجموعہ مذہب کہلاتا ہے` مجھ سے زبردستی نہیں منواتا۔ بلکہ ہر امر کے لئے دلیل دیتا ہے۔ خداتعالیٰ کا وجود` اس کی صفات` فرشتے` دعا اور اس کا اثر` قضا` وقدر اور اس کا دائرہ ` عبادت اور اس کی ضرورت` شریعت اور اس کا فائدہ ` الہام اور اس کی اہمیت` بعث مابعدالموت` جنت` دوزخ` ان میں سے کوئی امر بھی ایسا نہیں جس کے متعلق اسلام نے تفصیلی تعلیم نہیں دی۔ اور جسے عقل انسانی کی تسلی کے لئے زبردست دلائل کے ساتھ ثابت نہیں کیا۔ پس اس نے مجھے ایک مذہب ہی نہیں دیا بلکہ ایک یقینی علم بخشا ہے جس سے کہ میری عقل کو تسکین حاصل ہوتی ہے اور وہ مذہب کی ضرورت کو مان لیتی ہے۔
دوم۔ میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام صرف قصوں پر اپنے دعویٰ کی بنیاد نہیں رکھتا۔ بلکہ وہ ہر شخص کو تجربہ کی دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ ہر سچائی کسی نہ کسی رنگ میں اسی دنیا میں پرکھی جاسکتی ہے اور اس طرح وہ میرے دل کو اطمینان بخشتا ہے۔
سوم۔ میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اسلام مجھے یہ سبق دیتا ہے کہ خداتعالیٰ کے کلام اور اس کے کام میں اختلاف نہیں ہوتا اور وہ مجھے سائنس اور مذہب کے جھگڑوں سے آزاد کردیتا ہے۔ وہ مجھے یہ نہیں سکھاتا کہ میں قوانین قدرت کو نظر انداز کردوں اور ان کے خلاف باتوں پر یقین رکھوں۔ بلکہ وہ مجھے قوانین قدرت پر غور کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی تعلیم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ چونکہ کلام نازل کرنے والا بھی خدا ہے اور دنیا کو پدا کرنے والا بھی خدا ہے اس لئے اس کے فعل اور اس کے قول میں اختلاف نہیں ہوسکتا۔ پس چاہئے کہ تو اس کے کلام کو سمجھنے کے لئے اس کے فعل کو دیکھ اور اس کے فعل کو سمجھنے کے لئے اس کے قول کو دیکھ۔ اور اس طرح اسلام میری قوت فکریہ کو تسکین بخشتا ہے۔
چہارم۔ میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ وہ میرے جذبات کو کچلتا نہیں بلکہ ان کی صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ وہ نہ تو میرے جذبات کو مار کر میری انسانیت کو جمادیت سے تبدیل کردیتا ہے اور نہ جذبات اور خواہشات کو بے قید چھوڑکر مجھے حیوان کے مرتبہ پر گرا دیتا ہے۔ بلکہ جس طرح ایک ماہر انجینئر آزاد پانیوں کو قید کرکے نہروں میں تبدیل کردیتا ہے اور بنجر علاقوں کو سرسبز شاداب بنادیتا ہے اسی طرح اسلام بھی میرے جذبات اور میری خواہشات کو مناسب قیود کے ساتھ اعلیٰ اخلاق میں تبدیل کردیتا ہے وہ مجھے یہ نہیں کہتا کہ خداتعالیٰ نے تجھے محبت کرنے والا دل تو دیا ہے مگر ایک رفیق زندگی کے اختیار کرنے سے منع کیا ہے` یا کھانے کے لئے زبان میں لذت اور دل میں خواہش تو پیدا کی ہے مگر عمدہ کھانوں کو تجھ پر حرام کردیا ہے۔ بلکہ وہ کہتا ہے کہ تو محبت کرمگر پاک محبت اور جائز محبت جو تیری نسل کے ذریعہ سے تیرے پاک ارادوں کو ہمیشہ کے لئے دنیا میں محفوظ کردے اور تو بے شک اچھے کھانے کھا مگر حد کے اندر رہ کر۔ تا ایسا نہ ہو کہ تو تو کھائے مگر تیرا ہمسایہ بھوکا رہے۔ غرض وہ تمام طبعی تقاضوں کو مناسب قیود کے ساتھ طبعی تقاضوں کی حد سے نکال کر اعلیٰ اخلاق میں داخل کردیتا ہے اور میری انسانیت کی تسکین کا موجب ہوتا ہے۔
پنجم۔ پھر میں اسلام پر اس لئے یقین رکھتا ہوں کہ اس نے نہ صرف مجھ سے بلکہ سب دنیا ہی سے انصاف بلکہ محبت کا معاملہ کیا ہے۔ اس نے مجھے اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے ہی کا سبق نہیں دیا بلکہ اس نے مجھے دنیا کی ہر چیز سے انصاف کی تلقین کی ہے اور اس کے لئیے میری مناسب رہنمائی کی ہے۔ اس نے اگر ایک طرف ماں باپ کے حقوق بتائے ہیں اور اولاد کو ان سے نیک سلوک کرنے بلکہ انہیں اپنے ورثہ میں حصہ دار قرار دینے کی تعلیم دی ہے تو دوسری طرف انہیں بھی اولاد سے نیک سلوک کرنے` انہیں تعلیم دلانے` اعلیٰ تربیت کرنے` اچھے اخلاق سکھانے اور ان کی صحت کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے اور انہیں اپنے والدین کا ایک خاص حد تک وارث قرار دیا ہے۔ اسی طرح اس نے میاں بیوی کے درمیان بہترین تعلقات قائم کرنے کے لئے احکام دیئے ہیں۔ اور انہیں آپس میں نیک سلوک کرنے اور ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔ وہ کیا ہی زریں فقرہ ہے جو اس بارے میں بانی اسلام نے فرمایا ہہے کہ وہ شخص کس طرح انسانی فطرت کے حسن کو بھول جاتا ہے جو دن کو اپنی بیوی کو مارتا اور رات کو اس سے پیار کرتا ہے۔ اور فرمایا تم میں سے بہتر اخلاق والا وہ شخص ہے جو اپنی بیوی سے اچھا سلوک کرتا ہے اور پھر فرمایا۔ عورت شیشہ کی طرح نازک مزاج ہوتی ہے۔ تم جس طرح نازک شیشہ کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کرتے ہو اسی طرح عورتوں سے معاملہ کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیا کرو۔
پھر اس نے لڑکیوں کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ انہیں تعلیم دلانے پر خاص زور دیا ہے۔ اور فرمایا ہے جو اپنی لڑکی کو اچھی تعلیم دیتا ہے اور اس کی اچھی تربیت کرتا ہے۔ اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔ اور وہ لڑکیوں کو بھی ماں باپ کی جائیداد کا وارث قرار دیتا ہے۔
پھر اس نے حکام سے بھی انصاف کیا ہے اور رعایا سے بھی۔ وہ حاکموں سے کہتا ہے کہ حکومت تمہاری جائیداد نہیں بلکہ ایک امانت ہے پس تم ایک شریف آدمی کی طرح اس امانت کو پوری طرح ادا کرنے کا خیال رکھو۔ اور رعایا کے مشورہ سے کام کیا کرو۔ اور رعایا سے کہتا ہے کہ حکومت خداتعالیٰ نے ایک نعمت کے طور پر تم کو دی ہے۔ اپنے حاکم انہیں چنو جو حکومت کرنے کے اہل ہوں اور پھر ان لوگوں کا انتخاب کرکے ان سے پورا تعاون کرو۔ اور بغاوت نہ کرو ۔ کیونکہ اس طرح تم اپنا گھر بنا کر اپنے ہی ہاتھوں اس کو برباد کرتے ہو۔
اور اس نے مالک اور مزدور کے حقوق کا بھی انصاف سے فیصلہ کیا ہے۔ وہ مالک سے کہتا ہے کہ جب تو کسی کو مزدوری پر لگائے تو اس کا حق پورا دے اور اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے مزدوری اداکر۔ اور جو تیرا دست نگر ہو` اسے ذلیل مت سمجھ کیونکہ وہ تیرا بھائی ہے جس کی نگرانی اللہ تعالیٰ نے تیرے ذمہ لگائی ہے اور اسے تیری تقویت کا موجب بنایا ہے۔ پس تو اپنی طاقت کو نادانی سے آپ ہی نہ توڑ۔ اور مزدور سے کہا ہے کہ جب تو کسی کا کام اجرت پر کرتا ہے تو اس کا حق دیانتداری سے ادا کر اور سستی اور غفلت سے کام نہ لے۔
اور وہ جسمانی صحت اور طاقت کے مالکوں سے کہتا ہے کہ کمزوروں پر ظلم نہ کرو اور جسمانی نقص والوں پر ہنسو نہیں۔ بلکہ شرافت یہ ہے کہ تیرے ہمسایہ کی کمزوری تیرے رحم کو ابھارے نہ کہ تجھے اس پر ہنسائے۔
اور وہ امیروں سے کہتا ہے کہ غریبوں کا خیال رکھو اور اپنے مالوں میں سے چالیسواں حصہ ہر سال حکومت کو دو تا وہ اسے غرباء کی ترقی کے لئے خرچ کرے۔ اور جب کوئی غریب تکلیف میں ہوتو اسے سود پر روپیہ دے کر اس کی مشکلات کو بڑھائو نہیں بلکہ اپنے اموال سے اس کی مدد کرو کیونکہ اس نے تمہں دولت اس لئے نہیں دی کہ تم عیاشی کی زندگی بسر کرو بلکہ اس لئے کہ اس ذریعہ سے دنیا کی ترقی میں حصہ لے کر اپنے لئے ثواب دارین کمائو۔ مگر وہ غریب سے بھی کہتا ہے کہ اپنے سے امیر کے مال پر لالچ اور حرص سے نگاہ نہ ڈال کہ یہ تیرے دل کو سیاہ کردیتا ہے اور صحیح قوتوں کے حصول سے محروم کردیتا ہے بلکہ تم خداتعالیٰ کی مدد سے اپنے اندر وہ قوتیں پیدا کرو جن سے تم کو بھی ہر قسم کی ترقی حاصل ہو۔ اور حکومت کو ہدایت دیتا ہے کہ غربا کی اس جدوجہد میں ان کی مدد کرے۔ اور ایسا نہ ہونے دے کہ مال اور طاقت صرف چند ہاتھوں میں محدود ہوجائے۔ اور وہ ان لوگوں سے جن کے باپ دادوں نے کوئی بڑا کام کرکے عزت حاصل کرلی تھی جس سے ان کی اولاد بھی لوگوں میں معزز ہوگئی` کہتا ہے کہ تمہارے باپ دادوں کو اچھے کاموں سے عزت ملی تھی` تم بھی اچھے کاموں سے اس عزت کو قائم رکھو اور دوسری قوموں کو ذلیل اور ادنیٰ نہ سمجھو کہ خداتعالیٰ نے سب انسانوں کو برابر بنایا ہے۔ اور یاد رکھو کہ جس خدا نے تمہیں عزت دی ہے وہ اس دوسری قوم کو بھی عزت دے سکتا ہے۔ پس اگر تم نے ان پر ظلم کیا تو کل کو وہ قوم تم پر ظلم کرے گی۔ سو دوسروں پر بڑائی جتاکر فخر نہ کو بلکہ دوسروں کو بڑا بناکر فخر کرو۔ کیونکہ بڑا وہی ہے ہو اپنے گرے ہوئے بھائی کو اٹھاتا ہے۔
اور وہ کہتا ہے کہ کوئی ملک دوسرے ملک سے اور کوئی قوم دوسری قوم سے دشمنی نہ کرے۔ اور ایک دوسرے کا حق نہ مارے بلکہ سب مل کر دنیا کی ترقی کے لئے کوشش کریں۔ اور ایسا نہ ہو کہ بعض قومیں اور ملک اور افراد آپس میں مل کر بعض دوسری قوموں اور ملکوں اور افراد کے خلاف منصوبہ کریں۔ بلکہ یوں ہو کہ قومیں اور ملک اور افراد آپس میں یہ معاہدے کریں کہ وہ ایک دوسرے کو ظلم سے روکیں گے اور دوسرے ملکوں اور قوموں اور افراد کو ابھاریں گے۔ ۴۴ حضور نے اسلام کی حقانیت پر مندرجہ بالا دلائل دینے کے بعد آخر میں فرمایا:۔
>غرض میں دیکھتا ہوں کہ اس دنیا کے پردہ پر میں اور میرے پیارے کوئی بھی ہوں` کیا ہوں`اور کچھ بھی ہوں` اسلام ہمارے لئے امن اور آرام کے سامان پیدا کرتا ہے میں اپنے آپ کو جس پوزیشن میں بھی رکھ کر دیکھتا ہوں مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیم کی وجہ سے میں اس پوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی ترقی اور کامیابی کی راہوں سے محروم نہیں ہوجاتا۔ پس چونکہ میرا نفس کہتا ہے کہ اسلام میرے لئے اور میرے عزیزوں کے لئے اور میرے ہمسایوں کے لئے اور اس اجنبی کے لئے جسے میں جانتا تک نہیں` اور عورتوں کے لئے اور مردوں کے لئے اور بزرگوں کے لئے اور خوردوں کے لئے` اور غریبوں کے لئے اور امیروں کے لئے ` اور بڑی قوموں کے لئے اور ادنیٰ قوموں کے لئے اور ان کے لئے بھی جو اتحاد اممم چاہتے ہیں اور حب الوطنی میں سرشاروں کے لئے بھی یکساں مفید اور کارآمد ہے۔ اور میرے اور میرے خدا کے درمیان یقینی رابطہ اور اتحاد پیدا کرتا ہے۔ پس میں اس پر یقین رکھتا ہوں اور ایسی چیز کو چھوڑ کر اور کسی چیز کو میں مان بھی کیونکر سکتا ہوں۔ ۴۵
لیکچر کی اشاعت
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا یہ لیکچر ISLAM> IN BELIEVE I <WHY )میں اسلام کو کیوں مانتا ہوں( کے نام سے پہلی بار صیغہ نشرواشاعت قادیان نے وزیرہند پریس امرتسر سے طبع کروا کر شائع کیا تھا۔
نواب بہادر یا جنگ اور جماعت احمدیہ
نواب بہادر یار جنگ کل ہندشہرت کے ممتاز قائد` مملکت حیدرآباد کی واحد نمائندہ مسلم سیاسی جماعت انجمن >اتحاد المسلمین< کے صدر ہونے کے علاوہ آل انڈیا مسلم لیگ کی شاخ کل ہندریاستی مسلم لیگ کے صدر بھی تھے اور >لسان الامت< کے نام سے یاد کئے جاتے تھے۔ آپ قائداعظم محمد علی جناح کے بہترین اور بے تکلف دوستوں اور گہرے رفقاء میں سے تھے۔ قائداعظم محمد علی جناح کی نظر میں ان کی شخصیت کتنی بلند پایہ تھی اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگ سکتا ہے کہ ایک بار نظام حیدر آباد دکن نے قائداعظم سے ایک ملاقات کے دوران کہا کہ >بہادر یارجنگ حیدرآباد کے ایک جاگیردار اور جمعدار ہیں۔ میں انہیں شہر بدر کرسکتا ہوں` انہیں سزا دے سکتا ہوں>قائداعظم نے اس کے جواب میں فرمایا:۔
>کیا میں اسے آپ کا چیلنج سمجھوں ۔ اگر یہ واقعہ ہے تو میں اسے اپنے اور مسلمانان ہند کی طرف سے قبول کرتا ہوں میں اسے جانتا ہوں کہ یہاں بہادر یار جنگ کی وہی حیثیت ہے جس کیآپ نے ابھی توضیح کی ہے لیکن اس کے سوا بھی ایک مقام ہے جس پر آپ نے غور نہیں کیا۔ وہ نہ صرف حیدآباد بلکہ سارے ہندوستان کے مسلمانوں کے رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ اس لئے ان کے متعلق جو کچھ بھی ہوگا اسے لازما سارے مسلمان انفرادی اور اجتماعی طور پر محسوس کریں گے پھر میں جانتا ہوں کہ جاگیر اور منصب سے زیادہ انہیں قوم کی عظمت اور خود آپ کی سلامتی عزیز ہے تاکہ حیدرآبادی مسلمان اقلیت کی زد میں نہ آجائیں۔ آپ سے جو کچھ کہا گیا ہے وہ نتیجہ ہے اس سازش کا جو حیدرآباد میں قومی تحریک کو کچلنے کے لئے کی جارہی ہے۔ ۴۶
تحریک پاکستان کو برطانوی ہند کے طول وعرض میں پھیلانے اور مقبول بنانے میں قائداعظم کے دوش بدوش جن زعمائے مسلم لیگ نے نمایاں حصہ لیا ان میں نواب بہادر یار جنگ مسلمہ طور پر صف اول میں شمار کئے جاسکتے ہیں۔ جون ۱۹۴۴ء )احسان۱۳۲۳ہش( میں آپ نے انتقال کیا۔ جس پر قائداعظم نے فرمایا کہ ریاستی مسلم لیگ کے صدر کا انتقال نہیں ہوا بلکہ میرا ایک بازو ٹوٹ گیا ہے۔ ۴۷
نواب صاحب کے تاثرات حضرت مصلحموعودؓ کی ذات مبارک کے متعلق
نواب بہادر یار جنگ کو جہاں مسلم لیگ اور تحریک پاکستان سے ازحد محبت تھی وہاں آپ جماعت احمدیہ کی اسلامی تنظیم اور اسلامی
خدمات سے نہایت درجہ متاثر اور حضرت سیدنا خلیفہ المسیح الثانی کے ازحد مداح تھے۔ چنانچہ جناب سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآبادی کا بیان ہے کہ >حضرت مصلح موعود کی آمد حیدرآباد )اکتوبر ۱۹۳۸ء( کے موقع پر نواب بہادر یار جنگ بہادر الہ دین بلڈنگ سکندر آباد پر جہاں حضور فروکش تھے ملاقات کے لئے حاضر ہوئے تھے۔ اور اس موقع پر مسلمانان حیدرآباد کے مسائل پر حضور نے تخلیہ میں طویل گفتگو کی تھی ۔۔۔۔۔ نواب بہادر یار جنگ بہادر مجلس اتحاد المسلمین مملکت اسلامیہ آصفیہ کے صدر تھے ان کے طویل دورصدارت میں راقم الحروف ان کی مجلس عاملہ کا سینئر رکن تھا۔ کئی مرتبہ اپنی مجلس عاملہ کے اجلاسوں میں انہوں نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا تھا۔ کہ وہ اپنی زندگی میں دو شخصیتوں کی سیاسی بصیرت اور اعلیٰ دماغی صلاحیتوں سے متاثر تھے >ایک حضرت امام جماعت احمدیہ< کی دوسری قائداعظم محمد علی جناح کی۔ ان کے اس بیان اور تاثر کے گواہ پاکستان میں ان کے اور میرے قدیم ساتھی اور دوست اور اتحاد المسلمین کی مجلس عاملہ کے رکن احمد عبداللہ السدوسی مصنف >مذاہب عالم اور افریقہ ایک چیلنج< وغیرہ ہیں۔ سال میں مجھ سے مسدوسی صاحب نے حضرت مصلح موعود کی وفات پر نواب بہادر یار جنگ کے مذکورہ بالا تاثر کا ذکر کیا تھا۔ ان کے ذہن میں حضور کے نام کے ساتھ دوسرا نام مفتی اعظم فلسطین سید امین الحسینی کا تھا۔ بہر حال میری اور ان کی یاد داشت میں حضرت امیر المومنین کا نام مشترک ہے۔ ہوسکتا ہے کہ نواب صاحب نے موقعہ پر مفتی اعظم فلسطین کا بھی نام لیا ہو< ۴۸
سیٹھ صاحب مزید لکھتے ہیں کہ:۔
>میں نے اپنی توضیح میں اس امر کا ذکر کیا تھا کہ نواب بہادر یار جنگ نے کئی مرتبہ اس امر کا ذکر کیا تھا کہ وہ دو اصحاب کی سیاسی بصیرت اور اعلیٰ دماغی صلاحیت سے متاثر تھے۔ ایک حضرت امام جماعتاحمدیہ اور دوسری قائداعظم محمد علی جناح کی ذات ۔ حسن اتفاق سے ۲۰ مئی کو مولوی محمد لقمان صاحب پریزیڈنٹ جماعت ۷۲ گ۔ب تحصیل لائل پور جو تقریباً دس سال غالباً ۳۴۔ ۱۹۳۳ء سے ۱۹۴۴ء تک حیدرآباد میں مقیم رہے تھے۔ مجھ سے ملنے یہاں سکندر آباد آئے تھے۔ ۴۹ ان کے قیام حیدرآباد کے زمانے کی باتیں چل نکلیں۔ انہوں نے بغیر میرے ذکر کرنے کے خود کہا کہ وہ ایک مرتبہ نواب بہادر یار جنگ سے ملے تھے اور اس موقعہ پر نواب صاحب موصوف نے ان سے وہی بات کہی تھی جو میں نے اپنے بیان میں کہی ہے۔ دوسری بات جو مولوی صاحب موصوف نے بیان کی وہ یہ تھی کہ نواب صاحب موصوف نے حضرت مصلح موعود ؓ کی تقریر >سیر روحانی<۵۰ کے تعلق میں ان سے کہا تھا کہ وہ اس تقریر سے اس قدر متاثر تھے کہ اس کو انہوں نے تین دفعہ پڑھا تھا۔
۔۔۔۔۔ نواب صاحب موصوف نے غالباً فروری یا مارچ ۱۹۳۹ء میں دہلی میں سرمحمد یعقوب کی ایک دعوت میں چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی زبانی اس تقریر کا خلاصہ سنا تھا۔ چنانچہ حیدر آباد واپس آن کر ایک علمی صحبت میں بہت تفصیل کے ساتھ انہوں نے یہ خلاصہ سنایا تھا )نواب صاحب کا حافظہ ایسا تھا کہ وہ کسی کی گفتگو یا تقریر کو تقریباً لفظ بلفظ سنادیا کرتے تھے۔ خود ان کی اپنی تقریریں شائع شدہ ہیں وہ تقریر کے بعد انہوں نے لفظ بلفظ لکھوائی تھیں ۔۔۔۔( حضرت مصلح موعود کی یہ تقریر >سیرروحانی< جب شائع ہوئی تو محترم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اس کی ایک جلد جس پر انہوں نے نواب صاحب کا نام اور اپنے دستخط فرمائے تھے میرے ذریعے نواب صاحب کو بھجوائی تھی اور نواب صاحب اس کے مطالعہ کے بعد اکثر اپنی مجلسوں میں اس پر بڑے تعریفی کلمات کہا کرتے تھے<۔ ۵۱
جماعت احمدیہ سے گہرے روابط
نواب بہادر یار جنگ کے جماعت احمدیہ سے مراسم کا یہ عالم تھا کہ پروفیسر الیاس برنی )ولادت ۱۸۹۲ء ۔ وفات ۱۹۵۸ء( نے ۲۲ تبلیغ/فروری ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو شاہ حسین میاں پھلواری شریف کے نام ایک خط میں نواب صاحب اور جماعت احمدیہ کے تعلقات پر بڑی تشویش واضطراب کا اظہار کرتے ہوئے لکھا:۔
>یہاں مہدویوں کی اچھی خاصی جماعت ہے ۵۲ جس میں نواب بہادر یار جنگ بھی شامل ہیں۔ یہ جماعت حضرت سید محمد جونپوری کو مہدی مانتی ہے اور اگرچہ شاید صریحاً ان کو نبی نہیں کہتی تاہم عقیدۃ ان کو رسول اللہ کے ہم پلہ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر مانتی ہے اور اپنے طرز پر تاویلات کرتی ہے۔ قادیانیوں سے ملتے جلتے عقائد ہیں۔ البتہ عقائد کی عام اشاعت نہیں کی جاتی بلکہ ایک حد تک عقائد مخفی رکھے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ چونکہ نواب بہادر یارجنگ مسلمانوں کی سیاسیات میں شامل ہوگئے ہیں اور نمایاں حصہ لے رہے ہیں مسلمانوں نے بھی تفریق کو نظر انداز کردیا اور ان کو اپنا سرگروہ بنالیا۔ مولوی ابوالحسن سید علی صاحب کا بھی یہی معاملہ ہے مسلمانوں میں لیڈر مانے جاتے ہیں اور ہر دلعزیز ہیں۔ جب سے قادیانویوں کا بھانڈا پھوٹا` وہ دینیات` اسلامیات اور سیاسیات میں بہت نامور ہوگئے لیکن افسوس ہے کہ مسلمانوں کے علی الرغم نواب بہادر یار جنگ قادیانیوں سے میل جول بڑھا رہے ہیں بلکہ واقف لوگ سازباز کرتے ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں بد دلی پیدا ہورہی ہے توجہ بھی دلائی گئی مگر کچھ اثر نہوا۔ خدا کرے آئندہ سمجھ آئے۔ میں تو سیاسیات سے الگ تھلگ رہتا ہوں تاہم میرا جو علم تھا آپ کو لکھ دیا۔ لیکن یہ بات آپ ہی تک رہے باہر نہ جائے ۔۔۔۔۔ اپنے اثرات اور مسلمانوں کی عدم توجہی سے فائدہ اٹھاکر اسی جماعت نے سرکاری جنتری میں حضرت سید محمد جونپوری کی تعطیل میں لفظ میلاد شریف درج کرالیا ۔۔۔۔۔۔ علی ہذا جو نظم رسول اللہ کی توصیف میں لکھی جاتی ہے وہ نعت کہلاتی ہے لیکن مہدوی لوگ سید محمد جونپوری کی منظوم توصیف کو بھی نعت کہتے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کی اصطلاح میں ایسی نظمیں منقبت کہلاتی ہیں۔ ۵۳`۵۴
مسلم لیگ کے تاریخی اجلاس میں شرکت کے بعد قادیان میں آمد
۲۱۔ ۲۲۔ ۲۳ امان/ مارچ ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو لاہور میں مسلم لیگ کا وہ تاریخی اجلاس منعقد ہوا جس میں قرار داد پاکستان پاس کی گئی۔ اس اجلاس میں شرکت کے لئے نواب بہادر یار جنگ ۱۸ امان/مارچ ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو حیدرآباد سے عازم لاہور ہوئے۔ آپ کے ساتھ مسٹر سید احمد محی الدین ایڈیٹر رہبر دکن` مسٹر ابوالحسن سید علی )مجلس اتحاد المسلمین`( مولانا سید بادشاہ حسین صاحب )سیکرٹری مجلس علمائے دکن( بھی تھے۔ ۵۵
مسلم لیگ کے اجلاس میں سرگرم حصہ لینے اور دوسری متعدد مجالس سے پراثر خطاب ۵۶ کرنے کے بعد حیدر آباد واپس جاتے ہوئے آپ قادیان بھی تشریف لے گئے جہاں چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی کوٹھی میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے مفصل ملاقات ہوئی جس میں چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے علاوہ سیٹھ محمد اعظم صاحب بھی موجود تھے۔ اس اہم ملاقات کے علاوہ آپ نے مرکز احمدیت کے اداروں اور تنظیم کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔ اور اپنے قلم سے لکھ کر شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مدیر >الحکم< کو ارسال فرمائے جو ان کی کتاب >مرکز احمدیت قادیان< کے آخری صفحات میں طبع شدہ ہیں۔
نواب صاحب کے تاثرات قادیان کے متعلق
نواب بہادر یار جنگ صاحب نے اپنے تاثرات میں لکھا کہ:۔
>مارچ ۱۹۴۰ء کے اواخر میں لاہور مسلمانان ہند کا مرکز بنا ہوا تھا۔ ایک تو اس وجہ سے کہ وہاں آل انڈیا مسلم لیگ کا وہ اہم اجلاس منعقد ہورہا تھا جس نے ہندوستان کی سیاسیات میں ایک نئے باب کو کھولا۔ دوسرے اس لئے کہ خاکساروں کی جماعت پر حکومت پنجاب کی بے دردانہ آتشباری نے سارے ہندوستان کے مسلمانوں کو آتش زیرپا کردیا تھا۔ اجلاس مسلم لیگ کے اختتام پر میری تمام توجہ خاکساروں کے مسئلہ پر مرکوز تھی۔ اسی سلسلہ میں ضرورت پیش آئی کہ میں اپنے کرم فرما چوہدری سر ظفر اللہ خاں صاحب سے ملاقات کروں جو اس زمانہ میں وائسرائے کی مجلس وزراء کے اہم ترین رکن تھے اس لئے ۔۔۔۔ مارچ ۱۹۴۰ء میں چند گھنٹوں کے لئے قادیان گیا۔ جہاں چوہدری صاحب مقیم تھے۔ گو میں نے قادیان میں چند گھنٹے بسر کئے لیکن ان چند گھنٹوں کی یاد ابھی تک باقی ہے۔
اسٹیشن پر میرے قدیم کرمفرما مولوی عبدالرحیم صاحب نیر اور مولوی محمد اعظم صاحب نے استقبال کیا۔ مولوی عبدالرحیم صاحب نیر جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے کئی سال تک حیدرآباد میں مقیم رہے ہیں۔ اور ان چند اصحاب میں سے ہیں جنہوں نے مجلس اتحاد المسلمین حیدر آباد کا سنگ بنیاد رکھا۔ مولوی محمد اعظم صاحب حیدر آباد کی مشہور دوکان محمد اعظم معین الدین کے مالک اور مجلس اتحاد المسلمین کی مجلس عاملہ کے قدیم ترین رکن اور میرے رفیق کار ہیں اور ان چند نوجوانوں میں سے ہیں جن کی رفاقت پر میں فخر کرتا ہوں۔ ان دونوں حضرات نے زوال آفتاب تک مجھے قادیان کی ایک ایک گلی میں گھمایا اور جماعت احمدیہ کے ایک ایک ادارہ کی سیر کرائی۔
قادیان پنجاب کے ضلع گورداسپور کی ایک چھوٹی سی آبادی ہے لیکن جماعت کا مرکز ہونے کی وجہ سے آج اس کو بین الاقوامی شہرت حاصل ہے۔ ہر سال ماہ دسمبر میں وہاں اس جماعت کے متوصلین کا کثیر اجتماع ہوتا ہے جس کی خصوصیت مرزا غلام احمد صاحب کے جانشین مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا خطبہ ہے۔ ان خطبات کو احمدی عقائد سے اپنے کامل اختلاف کے باوجود میں التزاماً پڑھا کرتا ہوں تمام ہندوستان کے احمدیوں کی نمائندگی کا دوسرا اجتماع ہر سال ایسٹر کی تعطیلات میں ہوا کرتا ہے جس کو یہ لوگ اپنا بجٹ سشن کہتے ہیں۔ اتفاق سے میں اسی زمانہ میں قادیان پہنچا تھا اور ان نمائندوں میں سے بعض سے مجھے ملاقات کا موقعہ ملا۔
احمدی جماعت کو اپنی بقا واستحکام کے لئے جن شدید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑھا اس نے قدرتاً ان میں ایک مکمل تنظیم پیدا کردی ہے۔ اور چونکہ کوئی تنظیم ایثار کے بغیر نہیں پیدا ہوسکتی۔ اس لئے میں قادیان کے تمام اداروں کے تفصیلی معائنہ کے بعد یہ یقین رکھتا ہوں کہ اس جماعت کے پیرو اپنے اندر اطاعت امیر اور ایثار کے حقیقی جذبات رکھتے ہیں۔
قادیان کا مدرستہ العلوم ` عربی کی درسگاہ` دارالاقامتہ` دارالاشاعت` بین الاقوامی تبلیغ کا مرکز` نوجوان فدائیان احمدیت کا تنظیمی ادارہ` مہمان خانہ` میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امیر جماعت کا دفتر` یہاں تک کہ قبرستان` ان میں سے ہر ایک اپنی باقاعدگی اور خوش سلیقگی کے اعتبار سے کارکنوں کی دلچسپی اور فرض شناسی کا ثبوت دے رہے تھے۔ اور یہ محسوس ہوتاتھا کہ میں کسی جماعت کے تنظیمی اداروں کو نہیں بلکہ کسی حکومت کے مختلف محکمہ جات کا معائنہ کررہا ہوں۔
۔۔۔۔۔۔ خذماصفا کے اصول کے ماتحت میری دلی تمنا ہے کہ میں تمام دنیا کے مسلمانوں کو اس چھوٹی سی جماعت کی طرح منظم اور ایک مرکز کے تحت جو اصول اسلامی کے مطابق ہے حرکت کرتا ہوا دیکھوں۔ اس وجہ سے قادیان کے سفر کو میں اپنی زندگی کے وہ لمحات سمجھتا ہوں جن میں میری نظر ہوشیار نے کچھ دیکھا اور حاصل کیا۔
لال گڑھی )جاگیر( ۲۰ شوال المکرم مطابق ۳۱ اکتوبر ۱۹۴۲ء ۵۷4] [rtf
چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ایک اہم تقریب منعقد ہورہی تھی۔ جس میں تقسیم انعامات کے لئے آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی خدمت میں درخواست کی گئی جسے آپ نے بخوشی قبول فرمایا۔ اور آپ ۹ امان/مارچ ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو دہلی سے بذریعہ کالکا کلکتہ میل سوانو بجے وارد علی گڑھ ہوئے۔ ریلوے اسٹیشن پر معززین نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا جن میں حسب ذیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں:۔
۱۔
‏ind] g[taآنریبل سرشاہ محمد سلیمان صاحب وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی وجج فیڈرل کورٹ دہلی۔
۲۔
مسٹر اے۔ بی ۔ اے حلیم صاحب پروائس چانسلر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔
۳۔ مسٹر اے۔ٹی نقوی آئی سی ایس کلکٹر ضلع علی گڑھ۔
۴۔ ڈاکٹر ہادی حسن صاحب صدر شعبہ فارسی مسلم یونیورسٹی۔
۵۔ کپٹن حیدر خانصاحب صدر شعبہ کیمسٹری مسلم یونیورسٹی۔
۶۔ ڈاکٹر طاہر رضوی صاحب صدر شعبہ جغرافیہ مسلم یونیورسٹی۔
۷۔ خاں بہادر شیخ محمد عبداللہ صاحب۔
۸۔ مسٹر عبداللہ بٹ لیکچرر مسلم یونیورسٹی۔
آنریبل چودھری صاحب اسٹیشن سے بذریعہ کار مسلم یونیورسٹی کی طرف روانہ ہوئے جہاں وکٹوریہ گیٹ پر یونیورسٹی کے رائڈنگ سکواڈ (RIDINGSQUAD) نے آپ کو سلامی دی۔ پھر آنریبل چودھری صاحب نے آنریبل سرشاہ محمد سلیمان صاحب کے ہمراہ تمام یونیورسٹی کا چکر لگایا اور قریباً ہر شعبہ کا معائنہ فرمایا۔ ساڑھے چار بجے بعد دوپہر آپ کے اعزاز میں یونیورسٹی کی طرف سے دعوت چائے دی گئی۔ اس کے بعد کھیلوں کے جلسہ تقسیم انعامات میں جناب چودھری صاحب نے انعامات تقسیم فرمائے۔ اختتام پر مسٹر اے بی اے حلیم صاحب پرو وائس چانسلر مسلم یونیورسٹی نے آپ کا انگریزی میں شکریہ ادا کرتے ہہوئے کہا۔ ہم آنریبل چودھری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے نہایت شکر گزار ہیں۔ جو اپنی گونا گوں مصروفیات کے باوجود اپنے کام کا حرج کرکے یہاں تشریف لائے نیز آپ کی غیر معمولی قابلیت اعلیٰ پایہ کے مدبر` سیاستدان اور پارلیمنٹرین ہونے کا ذکر نہایت شاندار الفاظ میں کیا۔
اس کے جواب میں چودھری صاحب نے سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اردو میں تقریر کی جس میں فرمایا کہ میں آپ لوگوں کا نہایت شکر گزار ہوں کہ آپ نے میری عزت افزائی کی ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ کی تواضع کروں۔ آپ حیران ہوں گے۔ کیونکہ آپ کا خیال ہوگا کہ میں انگریزی میں تقریر کروں گا لیکن میں آج چونکہ ایسے موضوع پر کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کے لئے اردو زبان زیادہ موزوں ہے۔ اس لئے میں اسی سے کام لوں گا۔ آپ نے بارہا سیاست اور دیگر مسائل پر عالمانہ تقریریں سنی ہوں گی لیکن آج میں ایسے موضوع پر کچھ کہنا چاہتا ہوں جو میرے نزدیک سب سے اہم ہے آپ نے حدیث انما الاعمال بالنیات کی تشریح وتفسیر نہایت پراثر اور لطیف پیرایہ میں کی جس میں رسول اللہ ~صل۱~ کی زندگی کے واقعات اور دیگر بزرگوں کے حالات بیان کئے۔
آپ نے فرمایا جو کام کیا جائے اس کے لئے نیت نیک ہونی چاہئے اور وہ کام خدا ہی کے لئے ہونا چاہئے۔ تمہارا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے لئے ہونا چاہئے۔ اور ہر کام کرتے وقت تمہاری نیت نیک ہونی چاہئے۔ اگر کھیلوں کے میدان میں کھیلو تو اس میں بھی خداتعالیٰ کی رضا اور خوشی کو مدنظر رکھ کر کھیلو اس موقعہ پر آپ نے حضرت اسماعیل شہید رحمتہ اللہ علیہ کا واقعہ بیان کیا کہ آپ جب دریائے اٹک پر پہنچے تو آپ کو معلوم ہوا کہ یہاں ایک غیر مسلم ہے جو بہت بڑا تیراک ہے اور کہ کوئی اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس پر آپ کی غیرت نے گوارا نہ کیا کہ وہاں سے آگے بڑھیں۔ وہیں ڈیڑے ڈال دیئے۔ اور تیرنا شروع کردیا۔ آخر اتنی مشق کرلی کہ اس غیر مسلم کو چیلنج دے کر شکست دی۔ ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ ہر کام میں اسلام کی برتری` ترقی اور بہبودی کی کوشش کریں۔
یہ مختصر ذکر ہے اس تقریر کا جو آنریبل چودھری صاحب نے کی۔ سامعین پر اس کا بے حد اثر ہوا۔ طلباء نے دوران تقریر کئی مرتبہ خوشی کے اظہار کے ئے چیئر کیا۔ جلسہ کے اختتام پر طلباء نے جناب چودھری صاحب کو تین دفعہ چیئر کیا اس کے بعد آپ ریلوے سٹیشن پر تشریف لے گئے۔ جہاں آپ کو مسلم یونیورسٹی کے خاکساروں نے سلامی دی اور آپ نے ان کا معائنہ کیا۔ سوا سات بجے شام کی گاڑی کلکتہ میل سے آپ واپس دہلی تشریف لے گئے۔۵۸
قراردادپاکستان کاخاکہ اورچودھری محمد ظفراللہ خاں
صاحب خان عبدالولی خاں کاانکشاف
پاکستان کے صوبہ سرحد کے مشہور سیاسی لیڈر خاں عبدالولی خاں لکھتے ہیں:۔اختیار تو انگریز کا تھا۔ مسلمانوں کے رہنمائوں کا تو یہ حال تھا کہ جیسے فیروز خان نون کو انگریزکی رائے کا علم ہوا کہ وہ ہندوستان کی تقسیم نہیں مانتے )۱۹۳۸ء میں( تو فیروز خان نون نے فوراً کہا کہ اچھا کیا کہ مجھے بتا دیا کہ پھر اس قسم کی کوئی بات منہ سے نہ نکالوں۔ تو دیکھنا یہ کہ انگریز کس چیز کے لئے تیار تھا۔ اور کس منصوبے سے ان کے مقاصد پورے ہوئے تھے۔ آخرجب سکندر حیات خان اور مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی سے بات نہ بنی تو انگریز نے مسلمانوں کے تمام منصوبے نامنظور کردیئے۔ اور وائسرائے کے COUNCIL EXECUTIVE VICROY کے ایک ممبر چوہدری ظفر اللہ کو کہا گیا کہ تم دو ڈومینین کا ایک نقشہ پیش کرو۔ اس کے متعلق وائسرائے لنلتھگو ۴۰۔۳۔۱۲ کو وزیر ہند کو لکھتا ہے:۔
کہ میرے کہنے پر ظفر اللہ نے دو ڈومینین اسٹیٹس کے متعلق ایک یاد داشت لکھی تھی جو میں پہلے بھیج چکا ہوں کہتا ہے کہ میں نے کچھ اور وضاحتیں طلب کی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ تفصیلات میں بعد میں پیش کروں گا لیکن اس کی )ظفر اللہ( یہ خواہش ہے کہ یہ بات کبھی بھی ظاہر نہ ہونے پائے کہ یہ خاکہ اس نے پیش کیا ہے۔ اس نے البتہ مجھے یہ اختیار دیا ہے کہ میں جیسے چاہوں اس دستاویز کو استعمال کروں۔
‏ thirdly you; to copy a sending including it with like I what do may I Hydre Akbar (Sir Hydri to think I and Jinnah to possed been copies that (Sir he, while, that fourthly and Hyderabad) Nizam of Minister authoriship,Prime its admit course of cannot Zaffrullah, Zafrullah) aMohammad with League, Muslim the by adoption for prepared been has document his ۔publicity fullest the given being to view
ترجمہ :۔ >میں اس سلسلہ میں جس طرح چاہوں کرسکتا ہوں۔ ایک کاپی آپ کو بھیجنے کے علاوہ تین کاپیاں ایک مسٹر جناح اور ایک سراکبر حیدری وزیراعظم نظام حیدر آباد کے پاس جائیں گی اور چوتھے ظفر اللہ خاں جو یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس کے نام ظاہر کیا جائے کہ مسودہ اس نے تیار کیا ہے۔ اس کی یہ دستاویز مسلم لیگ کے اپنانے کے لئے تیار کی گئی تاکہ اس کی بھرپور تشہیر کی جائے<۔
وائسرائے وضاحت کرتا ہے کہ مسودہ تو میرے کہنے پر تیار ہوا ہے لیکن ظفر اللہ چونکہ قادیانی ہیے۔ اگر مسلمانوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ منصوبہ ایک قادیانی کا بنایا ہوا ہے تو پھر وہ شک میں پڑیں گے وائسرائے کس تسلی سے کھل کر کہتا ہے کہ اس کی ایک کاپی جناح صاحب کو دی گئی ہے تاکہ مسلم لیگ یہ منصوبہ اپنائے۔ اور اس کی تشہیر کرے۔ یعنی کہ یہ جناح صاحب کی پالیسی اور مسلم لیگ کی سیاست بن جائے۔ سر اکبر حیدری کو ایک کاپی اس غرض سے دی گئی ہے کہ اس کے لئے مالی امداد کی ذمہ داری ان کی تھی۔ ان تاریخوں کو ذرا غور سے دیکھیں یہ خط وائسرائے نے ۴۰/۴/۱۲ کو لکھا ہے۔ منصوبہ تو پہلے ہی بھیجا جاچکا ہے اور مسلم لیگ نے یہی منصوبہ لاہور میں قرار داد پاکستان کے نام سے اپنے سالانہ اجلاس میں منظور کرلیا۔ اور تشہیر کی<۔ )کتاب حقائق` حقائق ہیں< صفحہ ۶۰` ۶۱ ۔ ناشر زاہد خان ۶ لائن ویر ہائوس پشاور روڈ۔ راولپنڈی کینٹ۔ اشاعت مارچ ۱۹۸۸ء(
‏tav.8.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر کبیر )جلد سوم( تک
فصل سوم
غیر مبائعین کو محبت وخلوص سے تبلیغ کرنے کی خاص تحریک اور اسکے اثرات
حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب کی بیعت خلافت نے غیر مبائعین میں بہت جوش وخروش پیدا کردیا۔ جس پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے
۲۹ امان/ ۱۳۱۹ہش/ مارچ ۱۹۴۰ء کو ایک تحریک خاص فرمائی کہ نہایت درد اور اخلاص کے ساتھ اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کی اصلاح کی پور کوشش کی جائے۔ ۵۹ نیز ہدایت فرمائی کہ ہر جماعت میں >سیکرٹری اصلاح مابین< کے نام سے ایک عہدیدار مقرر کیا جائے جس کا یہ فرض ہو کہ وہ غیر مبائعین سے ملے` انہیں تبلیغ کرے۔ پرانا لٹریچر مہیا کرے اور جماعت کو اس لٹریچر سے آگاہ کرے۔ دوسرے یہ حکم دیا کہ جماعتیں غیر مبائعین کی مفصل لسٹیں مرکز میں بھجوائیں تا ان کو مرکز سے بھی تبلیغی لٹریچر بھجوایا جاسکے۔ ساتھ ہی نظارت دعوت وتبلیغ کو توجہ دلائی کہ وہ اس قسم کے علماء اور انگریزی خوانوں کی ایک لسٹ تیار کرے جو غیر مبائعین کے متعلق مفید مضامین لکھ سکتے ہوں۔ اور پھر انہیں اخباروں اور ر سالوں میں مضامین لکھنے کی تحریک کرے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے غیر مبائعین کو تبلیغ کرنے والوں یا ان کی نسبت مضمون لکھنے والوں کو خاص طور پر یہ نصیحت فرمائی کہ
>دوستوں کو محبت اور پیار سے کام لینا چاہئے اور کبھی بھی سختی نہیں کرنی چاہئے۔ یاد رکھو سختی سے تم دوسرے کو چپ کراسکتے ہو۔ سختی سے تم دوسرے کو شرمندہ کرسکتے ہو۔ سختی سے تم دوسرے کو ذلیل کرسکتے ہو مگر سختی سے تم دوسرے کے دل کو فتح نہیں کرسکتے۔ اگر تم دل فتح کرنا چاہتے ہو تو تمہارے اپنے دل میں یہ اخلاص اور درد ہونا چاہئے کہ میرا ایک بھائی گمراہ ہورہا ہے اسے کسی طرح میں ہدایت پر لائوں۔ جب تک یہ احساس اور یہ جذبہ تمہارے اندر نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔ اس وقت تک تمہاری تبلیغ موثر نہیں ہوسکتی چاہے تمہیں بظاہر شاندار معلوم ہو اور چاہے بظاہر جب تم مضمون لکھو تو لوگ کہیں کہ خوب مضمون لکھا۔ کیونکہ کامیابی یہ نہیں کہ لوگ تمہاری تعریف کریں بلکہ کامیابی یہ ہے کہ دوسروں کی ہدایت کا موجب بنو۔ پس جو مضمون لکھنے والے ہیں انہیں بھی میں کہتا ہوں کہ سنجیدگی اور محبت سے مضامین لکھو اور جو زبانی تبلیغ کرنے والے ہوں انہیں بھی میں نصیحت کرتا ہوں کہ سنجیدگی اور محبت سے تبلیغ کرو<۔
اس سلسلہ میں اصلاح مابین کے سیکرٹریوں کو ارشاد فرمایا کہ
>جب انہیں مرکز سے ٹریکٹ وغیرہ بھجوائے جائیں تو وہ محنت سے انہیں غیر مبائعین کے گھروں تک پہنچائیں تا ان میں سے جو سعید لوگ ہیں وہ سلسلہ کی طرف توجہ کریں۔ ۶۰
اس تحریک کے بعد حضور نے ۱۹ شہادت/اپریل ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو ایک اور خطبہ جمعہ بھی اس مضمون پر دیا۔ ۶۱ چنانچہ حضور نے فرمایا :۔
>میں دوستوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ جو مضمون بھی لکھیں نرمی اور محبت سے لکھیں۔ یہ صحیح ہے کہ جہاں کوئی تلخ مضمون آئے گا اس کی کچھ نہ کچھ تلخی تو باقی رہے گی۔ لیکن جہاں تک ہوسکے الفاظ نرم استعمال کرنے چاہئیں ۔۔۔۔۔۔ میں مانتا ہوں کہ پیغامیوں کی طرف سے ہمیشہ سختی کی جاتی ہے۔ اس لئے بعض دوست جواب میں سختی سے کام لیتے ہیں۔ مگر مجھے یہ طریق سخت ناپسند ہے۔ میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ شدید سے شدید دشمن کے متعلق بھی سخت کلامی مجھے پسند نہیں۔ میرے نزدیک مولوی ثناء اللہ صاحب ہمارے اشد ترین دشمن ہیں۔ مگر میں نے کئی بار دل میں غور کیا ہے۔ ان کے متعلق بھی اپنے دل میں کبھی بغض نہیں پایا۔ اور میں سمجھتا ہوں اگر کسی دشمن کے متعلق دل میں بغض رکھا جائے تو اس سے اسلام کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔۔۔ ہر شخص کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے۔ اگر کسی نے سزا دینی ہوتو اس نے اگر کسی نے بخشا ہوتو اس نے میں کیوں اپنے دل میں بغض رکھ کر اسے سیاہ کروں۔ پس دل میں بغض اور کینہ رکھ کر کام نہ کرو بلکہ محبت واخلاص رکھ کر کرو<۔ ۶۲
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اس خاص تحریک پر احمدی جماعتوں نے منظم طریق پر غیر مبائعین تک پیغام حق پہنچانے کی طرف توجہ دی۔ اہل قلم بزرگوں اور دوستوں نے >الفضل< اور >ریویو آف ریلیجنز< میں معلومات افزا مضامین ۲۰۔۱۳۱۹ہش/۴۱۔۱۹۴۰ء کے دوران لکھے۔ تحریک غیر مبائعین سے متعلق لکھنے والوں میں مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل مکرم قاضی محمد نذیر صاحب فاصل لائلپوری` مکرم ملک محمد عبداللہ صاحب` مکرم مولوی سید احمد علی صاحب` حضرت ابوالبرکات مولانا غلام رسول صاحب راجیکی` ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی ۔ اے ایل ایل بی پلیڈر گجرات اور شیخ خورشید احمد صاحب ۶۳ سیکرٹری مجلس خدام الاحمدیہ بھاٹی دروازہ لاہور خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
علاوہ ازیں نظارت دعوت وتبلیغ قادیان نے غیر مبائعین کے لئے مناسب ٹریکٹ اور اشتہارات شائع کئے اور ایک کمیٹی اصلاح مابین کے لئے قائم کردی جس کے فرائض میں سے ایک فرض یہ بھی تھا کہ غیر مبائع اصحاب کے استفسارات کا جواب دیا جائے۔ اس کمیٹی کے سیکرٹری مکرم قاضی محمد نذیر صاحب ` لائلپوری مولوی فاضل مقرر کئے گئے۔ ۶۴ کمیٹی کے پاس متعدد اعتراضات پہنچتے رہے جن کا مدلل جواب علمائے سلسلہ کی طرف سے دیا جاتا رہا۔
ان سب اصلاحی کوششوں کا مجموعی نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں جماعت احمدیہ کے نوجوان خصوصاً اور دوسرے افراد عموماً متنازعہ مسائل کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اصل موقف کو پہلے سے زیادہ عمدہ طریق پر سمجھنے لگے وہاں بعض سعید الفطرت ۶۵ غیر مبائعین کے حلقہ سے نکل کر نظام خلافت سے وابستہ ہوگئے۔
ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس قادیان میں
چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی دعوت پر ۱۴ شہادت/اپریل ۱۳۱۹ہش ۱۹۴۰ء کو ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس مزمارس گوائر کے سی بی۔ کے سی بی ایس آئی اور ان کے فرزند مسٹر جان گوائر ساڑھے نو بجے صبح کی گاڑی سے قادیان تشریف لائے۶۶ اور ۱۶۔ شہادت/اپریل ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو ساڑھے دس بجے بذریعہ کار واپس چلے گئے۔ ۶۷ اس مختصر قیام میں چیف جسٹس صاحب نے ۔۔۔۔ جماعتی اداروں اور مرکزی کارخانوں کا معائنہ کرنے کے علاوہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے وسیع ہال میں چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی زیرصدارت ایک لیکچر بھی دیا اور اپنے تاثرات مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کئے۔
>میں نے دیکھا ہے کہ آپ کی جماعت کے لوگوں میں ایمان کی آگ شعلہ زن ہے اور اس کے سامنے بعض مقاصد اور اصول ہیں جن کے مطابق وہ اپنی زندگیوں کو ڈھالنا چاہتے ہیں۔ میں نے آپس میں مساوات` مختلف قوموں میں مساوات کے عظیم الشان اصول کو یہاں ایک نئی قوت کے ساتھ کام کرتے پایا ہے۔ انسانی اخوت کا یہ اصول انسانی زندگی کا اساس ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ مساوات اور اخوت کی روح آپ کی جماعت میں موجود ہے اور اسی ضمن میں میں سمجھتا ہوں کہ میرے اصول آپ کے اصول سے مشترک ہیں۔۶۸
ایک اندرونی فتنہ
ہجرت/مئی ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء میں یکایک ایک اندرونی فتنہ کا انکشاف ہوا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ محمد اسمٰعیل نامی ایک صاحب نے )جو پہلے صوفی کہلاتے تھے پھر اپنے نام کے ساتھ خواجہ کا لفظ لکھنے لگے( چند سال قبل احمدیہ سپلائی سٹور کے نام سے قادیان میں ایک کمپنی جاری کی جس کا آخر میں دیوالہ نکال دیا گیا ور کمپنی کے حصہ دار اور کمپنی سے لین دین کرنے والے کئی لوگ شکائتیں لئے نظارت امورعامہ کے پاس گئے۔ ۶۹ اور تحقیقات شروع ہوگئی۔ ابھی یہ معاملہ چل ہی رہا تھا کہ ان صاحب نے بونس کارپوریشن کے نام سے اک خفیہ کمپنی بنالی اور ملازمت کے خواہشمند لوگوں سے بعض مالی شرائط پر درخواستیں طلب کیں اور منی آرڈر اور درخواستیں بھی ایک دوسرے شخص کے نام پر منگوانے لگے اور خط وکتابت بھی ایک دوسرے شخص کے پتہ پر کرتے رہے۔ نظارت امور عامہ کو جلد ہی اس کمپنی کا پتہ چل گیا اور شکایات کی تحقیق کرنے پر صاف کھل گیا کہ بونس کارپوریشن کا قیام محض حصول زر کے لئے عمل میں لایا گیا ہے۔ غرض ایک سال سے ان صاحب کی بدمعاملگی` نادہندگی اور کوئی جائز معاش پیدا نہ کرنے کی متعدد شکایات موصول ہوئیں۔ تحقیقات سے ان کے ذمہ مطالبات درست ثابت ہوئے اور انہوں نے تحریری وعدے ان کی ادائیگی کے لئے نظارت سے کئے مگر عملاً ان سے کوئی وصولی نہ ہوئی۔ اسی اثناء میں ان کی اہلیہ صاحبہ نے ۲۶ ستمبر ۱۹۳۹ء کو نظارت سے درخواست کی کہ مجھے خرچ کی بہت تنگی رہتی ہے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کے اخراجات پریشان کرتے رہتے ہیں۔ کوئی معین صورت گزارہ کی نہیں۔ میرے خاوند عرصہ دراز سے بیکار ہیں۔ چاہئے کہ حضرت امیر المومنین یا نظارت امور عامہ کی طرف سے انہیں کوئی روزگار کرنے کے لئے کہا جائے۔ اگر ایسا ہوجائے تو یہ میری صحیح امداد ہوگی۔ ۷۰
ان صاحب کو مختلف طریق اور مختلف مواقع پر سمجھایا گیا کہ بیکار رہنے کی عادت اچھی نہیں لیکن ان پر کوئی نصیحت کارگر نہ ہوئی بلکہ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ انہوں نے قادیان ہی میں انجمن اتحاد عالمین 10] [p۷۱ کے نام سے دعاگوئوں کی ایک خفیہ انجمن قائم کرلی۔ اور اس کا پتہ ایک غیر معروف گائوں دتیال ڈاکخانہ سموال براستہ جہلم ظاہر کرنے لگے۔ انجمن کا نام خفیہ رکھا جاتا۔ اور لوگوں کو اپنی خوابیں بتاتے اور ان سے رقمیں اور نذرانے وصول کرکے دعائیں کی جاتیں۔
یہی نہیں۔ اس پارٹی کے ممبر مسجد کے قریب ہونے کے باوجود لوگوں کو مسجد میں جانے سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ مسجد میں تو رسمی نمازیں پڑھی جاتی ہیں جن سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اپنی بیٹھک ہی کو مسجد کیوں نہ بنائیں اور یہاں لمبی لمبی نمازیں پڑھ کر خداتعالیٰ کا قرب حاصل کریں۔ ۷۲ عبدالواحد خاں صاحب )پسرحافظ ملک محمد صاحب پٹیالوی( کا بیان ہے کہ انہی دنوں خواجہ محمد اسماعیل صاحب نے مجھے بتایا کہ >ہم رات کو اکٹھے ہوکر رات کے ایک بجے تک بعض بعض اوقات ڈھائی بجے تک دعائیں کرتے ہیں۔ ہمیں بڑے بڑے نظارے خداتعالیٰ دکھاتا ہے۔ دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہم صبح کے وقت باہر دور ایک دو میل نکل کر نفل اداکرتے ہیں۔ دعا کرتے ہیں اس لئے آپ آجایا کریں۔ دعائوں میں شامل ہوجایا کریں۔ یہ جو مسجد میں جاکر نماز ادا کی جاتی ہے یہ تو ایک وقت ضائع کرنے والی بات ہے۔ اصل نماز تو وہی ہے جو انسان بالکل الگ پڑھے ۔۔۔۔ ان الفاظ پر فوراً میرے دل نے یہی گواہی دی کہ یہ شخص تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف ایک نئی قسم کا دین بتاتا ہے۔ ۷۳
حضرت امیرالمومنین کا پہلا انتباہ
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خدمت میں یہ اطلاعات پہنچیں تو حضور نے ۳۔ نومبر ۱۹۳۹ء کے خطبہ جمعہ میں انتباہ فرمایاکہ۔
>مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری جماعت میں بعض خواب بینوں نے اپنی خوابوں اور دعائوں کو آمد کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔ اور وہ آنوں بہانوں سے لوگوں سے سوال بھی کرتے رہتے ہیں۔ جس شخص کو اللہ تعالیٰ بندوں سے مانگنے پر مقرر کردیتا ہے وہ تو ایک عذاب ہے۔ ایسے شخص کی خوابیں بھی یقیناً ابتلاء کے ماتحت ہوسکتی ہیں۔ انعام کے طور پر نہیں ہاں یہ جائز ہے کہ دین کے لئے انسان دعا کے پورا ہونے پر خدمت مقرر کرے جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے اپنے نفس کے لئے جائز نہیں اور کامل مومن کی فطرت ہی کے یہ امر خلاف ہے سوائے اس کے کہ الل¶ہ تعالیٰ کسی کی دعا سنے اور پھر جس کے حق میں دعا کی گئی ہے۔ اس کے دل میں تحریک کرے کہ وہ خود اپنی خوشی سے دعا کرنے والے کی خدمت کرے۔ ۷۴
انتباہ کا افسوسناک ردعمل
اس تنبیہ پر بھی خواجہ محمد اسماعیل صاحب اور ان کے ساتھی اپنی روش پر بدستور قائم رہے اور اس بدعت شنیعہ کو ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوئے جب یہ فتنہ بڑھنے لگا تو جماعت احمدیہ کو اس کے اخلاقی` دینی اور مالی نقصانات سے بچانے کے لئے انجمن اتحاد عالمین توڑ دینے کی ہدایت کرنا پڑی۔ ان لوگوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ جس پر ۲ ہجرت/مئی ۱۳۱۹ /ہش /۱۹۴۰ء کو قادیان میں ان کے مقاطعہ کا اعلان کرنا پڑا۔ اعلان کے بعد اس پارٹی نے نظام سلسلہ کے خلاف ضد وتعصب بلکہ باقاعدہ مقابلہ کی صورت اختیار کرلی جس پر یہ لوگ جماعت سے نکال دیئے گئے۔ ۷۵
دعا گو پارٹی کی نسبت حضرت امیر المومنین کا جلالی خطبہ
یہ لوگ ابھی پوشیدہ ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو ایک خواب میں اس فتنہ کے آغاز اور اس کی ناکامی کا نظارہ دکھادیا۔ حضور نے یہ پوری خواب ۷ ہجرت ۱۳۱۹ہش کے خطبہ جمعہ میں سنائی اور نظام خلافت کی موجودگی میں ایسی تحریکوں کو سراسر باطل قرار دیتے ہوئے فرمایا:۔
>یہ خواب جب میں نے دیکھا یہ لوگ ابھی پوشیدہ تھے اور اندر ہی اندر اتحاد عالمین کے نام سے اپنی گدی بنانے کی سکیمیں بنارہے تھے۔ ان کے اندر خود پسندی اور خود ستائی تھی اور اپنی ولایت بگھارتے پھرتے تھے۔ لوگوں سے کہتے تھے ہم سے دعائیں کرائو ۷۶ حالانکہ خلافت کی موجودگی میں اس قسم کی گدیوں والی ولایت کے کوئی معنی ہی نہیں ۔ جیسے گوریلا وار کبھی جنگ کے زمانہ میں نہیں ہوا کرتی۔ چھاپے اسی وقت مارے جاتے ہیں جب باقاعدہ جنگ کا زمانہ نہ ہو۔ خلفاء کے زمانہ میں اس قسم کے دلی نہیں ہوتے۔ نہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانہ میں کوئی ایسا ولی ہوا نہ حضرت عمرؓ یا حضرت عثمانؓ یا حرصت علیؓ کے زمانہ میں ہاں جب خلافت نہ رہی تو اللہ تعالیٰ نے ولی کھڑے کئے کہ جو لوگ ان کے جھنڈے تلے جمع ہوسکیں۔ انہیں جمع کرلیں تا قوم بالکل ہی تتر بتر نہ ہوجائے۔ لیکن جب خلافت قائم ہو اس وقت اس کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے جب منظم فوج موجود ہوتو گوریلا جنگ نہیں کی جاتی۔ پس خلافت کی موجودگی میں ولایت کا وسوسہ دراصل کبر اور بڑائی ہے اس خوب میں جو سانپ میں نے دیکھے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ان میں سے ایک سے مراد اندرونی فتنہ ہے اور ایک سے بیرونی اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں قسم کے فتنے اس وقت مل کر حملہ کررہے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ دونوں کو دور کردے گا اور فرشتوں کے ذریعہ ان کے ہاتھ بند دے گا انسانی ہتھکڑیاں کوئی چیز نہیں اصل وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے لگائی جائیں حکومتیں کسی کو نظر بند کرتی ہیں۔ تو اس کے ساتھی موجود رہتے ہیں جو اس کی آواز کو پہنچاتے رہتے ہیں۔ لیکن خداتعالیٰ کسی کو ہتھکڑی لگائے تو اس کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اس تحریک کو کامیابی نہیں ہوسکتی<۔
اس ضمن میں یہ بھی بتایا کہ
>ایسے فتنے دراصل جماعت کی بیداری کے لئے ہوتے ہیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں ایک طبقہ ایسا ہے جو احمدیت میں داخلہ کے بعد روحانی ترقی کی طرف بہت کم توجہ کرتا ہے وہ اس طرح دنیا کے کاموں میں لگے رہتے ہیں جس طرح احمدیت میں داخلہ سے پہلے تھے۔ اسلام دنیا کے کاموں سے روکتا نہیں بلکہ اجازت دیتا ہے۔ انبیاء بھی یہ کام کرتے رہے ہیں۔ حضرت دائود علیہ السلام کے کام ثابت ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے کام ثابت ہیں۔ وہ زراعت بھی کرتے تھے۔ اولیاء اور صحابہ کا کام کرنا بھی ثابت ہے۔ اسلام جس چیز سے منع کرتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ اسی کام کا ہوجائے۔ بعض لوگ قادیان میں ہجرت کرکے آتے ہیں۔ مگر یہاں آکر دنیا کے کاموں میں ہی لگ جاتے ہیں اور دین کا کام بالکل نہیں کرتے ۔۔۔۔۔ ان کے اندر بیداری پیدا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ایسے فتنے پیدا کرتا رہتا ہے۔ جب کوئی فتنہ اٹھتا ہے تو ایسے کمزور لوگوں میں بھی جوش پیدا ہوجاتا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ ان مخالفوں کا خواب مقابلہ کرنا چاہئے خوب تقریریں ہوں اور رسالے لکھے جائیں حالانکہ اگر وہ پہلے ہی تقریروں ارو رسالوں کا انتظام کرتے تو وہ فتنہ پیدا ہی نہ ہوتا۔ اور اب بھی اگر وہ اپنی اصلاح کرلیں اور اپنے اندر بیداری پیدا کرلیں تو اللہ تعالیٰ فتنوں کے سلسلہ کو روک سکتا ہے۔ یہ فتنے تو محض جگانے کے لئے ہوتے ہیں جب کوئی شخص نیند سے بیدار نہ ہوتو ہم اسے ہلاتے ہیں پھر بھی ہوش میں نہ آئے تو پانی کا چھینٹا دیتے ہیں۔ اور پھر بھی نہ جاگے تو چارپائی الٹا دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بھی اسی طرح کرتا ہے<۔
آخر میں حضور نے نصیحت فرمائی کہ:۔
> جماعت کو چاہئے کہ اپنے اندر بیداری پیدا کرے` تبلیغ میں لگ جائے` نمازوں کی پابند ہو اور ہر لحاظ سے اپنی اصلاح کرے۔ پھر یہ لوگ آپ ہی آپ خاموش ہوجائیں گے۔ ان کی نہ تو علم کے لحاظ سے کوئی حیثیت ہے اور نہ خداتعالیٰ کی طرف سے ان کو کوئی تائید یا نصرت حاصل ہے وہ جانتے بھی نہیں کہ تقویٰ۷۷ کیا ہے۔ ان کو صرف بڑائی کا خیال ہے۔ ۷۸ جماعت کو چاہئے کہ وہ ان کی باتوں کی طرف کوئی دھیان ہی نہ دے۔ وہ آپ ہی آپ جھاگ کی طرح بیٹھ جائیں گے۔ اپنی اصلاح میں لگ جائے دین سیکھنے اور سکھانے کی طرف متوجہ ہو۔ زبان کو پاک رکھا جائے۔ گالی گلوچ نہ کی جائے۔ نمازوں کی پابندی کی جائے کیونکہ ان باتوں کے بغیر خدا تعالیٰ کا فضل حاصل نہیں ہوسکتا۔ اگر جماعت اپنی اصلاح کرے اور تبلیغ میں لگ جائے۔ تو ان لوگوں کے فتنے خود بخود مٹ جائیں گے کیونکہ یہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں اور جھوٹ بولنے والا کامیاب نہیں ہوسکتا<۔ ۷۹
ایک نقص کی اصلاح
جماعت کے بعض دوستوں میں یہ مرض پیدا ہورہا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات یاتو سرے سے پڑھتے ہی نہیں تھے اور اگر پڑھتے تھے تو سارے الہامات کو گذرے ہوئے واقعات پر چسپاں کردیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ جماعت احمدیہ ابتلائوں کے بغیر اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے گی۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ نے ۱۴ ماہ احسان/جون ۱۳۱۹ہش / ۱۹۴۰ء کو ایک خطبہ جمعہ خاص اسی موضوع پر ارشاد فرمایا جس میں اس خطرناک نقص کی اصلاح کرنے کی طرف توجہ دلائی چنانچہ حضور نے فرمایا:۔
>ہماری جماعت کے لوگوں میں یہ وہم ہے کہ وہ خیال کرتے ہیں ہماری جماعت ہمیشہ پھولوں کی سیج پر ترقی کرتی چلی جائے گی ۔۔۔۔۔ میں اس ناواقفیت اور تجاہل کے متعلق کیا کہوں مجھے ہمیشہ تعجب آتا ہے۔ کہ ہماری جماعت کے دوست اس غلط فہمی میں کیوں مبتلا ہیں۔ حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات سے صاف ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ بڑے بڑے ابتلائوں میں سے گذرے گی۔ وہ ابتلا سیاسی بھی ہوں گے۔ وہ ابتلا اقتصادی بھی ہوں گے۔ وہ ابتلا مالی بھی ہوں گے۔ وہ ابتلاء علمی بھی ہوں گے۔ وہ ابتلا قومی بھی ہوں گے غرض ہر قسم کے ابتلائوں کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات میں ہے۔ حکومتوں کی طرف سے تشدد اور جھگڑوں کا بھی ان الہامات میں ذکر ہے۔ اقوام کی طرف سے تشدد اور سختیوں کا بھی ان میں ذکر ہے۔ بعض سیاسی ابتلائوں کا بھی الہامات میں ذکر ہے۔ بعض ہجرتوں کا بھی ذکر ہے اسی طرح قتلوں اور طرح طرح کے دکھوں سے جماعت احمدیہ کے ستائے جانے کا بھی ذکر ہے۔ لیکن باوجود اس کے کہ میں نے بار بار کہا۔ ہماری جماعت کے دوست حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات کو پڑھنے کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے اور جو پڑھتے ہیں ان میں یہ مرض ہے کہ وہ سارے الہامات گذرے ہوئے واقعات پر چسپاں کردیتے ہیں۔ اور یہ ایک نہایت ہی خطرناک نقص ہے۔ ۸۰
صاحبزادی امتہ الودود بیگم صاحب کی وفات کا المناک حادثہ
ماہ احسان ۱۳۱۹ہش )مطابق جون ۱۹۴۰ء( کے آخری عشرہ کی ابتداء میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی لخت جگر صاحبزادی امتہ الودود بیگم صاحبہ کی اچانک وفات کا حادثہ پیش آیا جس نے خاندان مسیح موعود علیہ السلام بلکہ پوری جماعت کو سوگوار کردیا۔
صاحبزدی صاحب ۲۰ جون کی نصف شب تک بظاہر بالکل تندرست تھیں اور چارپائی پر لیٹی ہوئی تھیں۔ کہ یکایک گھبرا کر اٹھیں اور سر درد کی شکایت کی۔ تشنج کا عارضہ بھی لاحق ہوگیا۔ منہ متورم ہوگیا اور بے ہوشی طاری ہوگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد دو دفعہ قے ہوئی۔ ہوش آیا تو سخت سردرد اور سردی کی شکایت کی۔ پھر قے ہوئی جس کی معابعد دوبارہ بے ہوش ہوگئیں۔ اور ساتھی ہی سانس میں رکاوٹ کی تکلیف ہونے لگی۔ علاج کے لئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب ` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب` ڈاکٹر محمد ثناء اللہ صاحب` ڈاکٹر محمد احمد صاحب اور ظفر نور صاحبہ نرس کو بلایا گیا۔ ]4 [stf۸۱ بعض ضروری ادویہ کے ٹیکے کئے گئے لیکن سانس اور بے ہوشی میں کوئی فرق نہ آیا۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے پہلی بار دیکھتے ہی حالت مایوس کن بتلائی اور کہا کہ >یہ موت کا وقت ہے۔ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں<۔ ۸۲
حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے صاحبزادی صاحبہ کی شدید تکلیف دیکھ کر ام المومنین اور سیدنا امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانی کو اطلاع کرائی اور حضور اپنے اہلبیت سمیت فوراً حضرت میاں صاحب کی کوٹھی )واقع محلہ دارالفضل( میں تشریف لے گئے۔ حضور کی موجودگی میں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے لمبر ۸۳ پنکچر کیا یعنی ریڑھ کی ہڈی سے پانی نکالنا چاہا تو پانی کی بجائے خون نکلا جس سے صاف ظاہر ہوگیا کہ دماغ کی رگ پھٹ گئی ہے۔
ڈاکٹر محمد احمد صاحب کا بیان ہے کہ >حضرت میر صاحب نے جب دیکھا کہ خون نکل رہا ہے تو فوراً سوئی (Needle) کو ہڈی سے باہر نکال دیا اور کمرے سے یہ کہتے ہوئے تشریف لے گئے کہ اس کے بچنے کی اب کوئی امید نہیں ہے میں بھی حضرت میر صاحب کے ساتھ باہر کو چلا مگر مجھے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے زور سے آواز دے کر کہا کہ ڈاکٹر محمد احمد ادھر آئو اور جب تک مریض کی نبض چل رہی ہے علاج کرتے جائو۔ چنانچہ میں اپنی سمجھ کے مطابق کچھ انجکشن وغیرہ کرتا رہا<۔ ۸۴
لیکن خدا کی مشیت پوری ہوئی اور صاحبزادی صاحب ساڑھے تین بجے ۸۵ صبح اس جہاں فانی سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئیں۔ فاناللہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے قلم سے بیماری کے حالات
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صاحبزادی امتہ الودود صاحب کی بیماری کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں۔
>کوئی دو بجے کا وقت تھا کہ میری بیوی نے مجھے جگایا اور یہ فقرہ میرے کان میں پڑا کہ >میاں شریف احمد صاحب کی طرف سے اماں جان کے پاس آدمی آیا کہ امتہ الودود کو درد کا دورہ ہوا ہے اور وہ بے ہوش ہوگئی ہے۔ ڈاکٹر جمع ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس کا آخری وقت ہے۔ منہ دیکھنا ہے تو آکر دیکھ لیں< حضرت ام المومنین لاہور تھیں۔ میں گھبراکر اٹھا اور گو بوجہ بیماری چلنا پھرنا منع تھا۔ مگر ایسے وقت میں بیماری کا خیال کیسے رہ سکتا ہے۔ میں انا لل¶ہ پڑھتا ہوا اٹھا۔ اور چونکہ موٹر کوئی موجود نہ تھا۔ ٹانگہ کے لئے آدمی دوڑایا۔ مریم صدیقہ کو جگایا۔ مریم ام طاہر کو اطلاع دی ۔ عزیزہ ناصر بیگم کو جو امتہ الودود کی بھاوج ہے اور دو دن کے لئے ہمارے گھر آئی ہوئی تھی جگایا۔ اور ٹانگہ میں بیٹھ کر میں ناصرہ سلمہا اللہ تعالیٰ ام وسیم اور مریم صدیقہ عزیزم میاں شریف احمد صاحب کے گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ میں اب تک کی رپورٹ سے یہی سمجھ رہا تھا کہ اپنڈے سائٹس کا دورہ ہوا ہوگا۔ یا کبھی خیال آیا تھا کہ جوان لڑکیوں کو بعض دفعہ ایام میں ٹھنڈے پانی کے استعمال سے کچھ روک پیدا ہوکر شدید درد ہوجاتی ہے۔ شاید ایسی ہی کوئی تکلیف ہو۔ میں نے احتیاطاً اپنی ہومیو پیتھک دوائوں کا بکس بھی ساتھ لے لیا۔ لیکن جب وہاں پہنچے تو کمرے میں امتہ الودود لیٹی ہوئی تھی اور لمبے سائنس جن میں بلغم کی خرخراہٹ شامل تھی لے رہی تھی۔ وہ بالکل بیہوش تھی اور آج اس کے >چچا ابا< کی آمد اس کے لئے بالکل کوئی معنے نہ رکھتی تھی۔ باہرڈاکٹر تھے۔ میں نے ان سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ درد کی رپورٹ غلط تھی۔ اس کے دماغ کے رگ سوتے سوتے پھٹ گئی ہے اور طبی معلومات کی رو سے اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں۔ جب حالات دریافت کئے تو معلوم ہوا کہ رات کو بارہ بجے کے قریب لیٹیں اور تھوڑی دیر بعد کراہنے کی آواز آئی۔ اس کے ابا میاں شریف احمد صاحب نے اس کی آواز سنی اور اس کے پاس آئے اور دیکھا کہ بیہوش ہے اور تشنج کے دورے پڑرہے ہیں۔ وہ اس کی چارپائی برآمدے میں لائے اور اس وقت اس نے قے کی اور قے کے بعد اس قدر لفظ کہے کہ میرا سر پھٹا جاتا ہے` سر پکڑو اور خود ہاتھ اٹھا کر سرپکڑ لیا۔ بس یہ ہی اس کی ہوش تھی اور یہ ہی اس کے آخری الفاظ۔ فوراً ڈاکٹروں کو بلوایا گیا اور انہوں نے جو کچھ وہ کرسکتے تھے کیا۔ مگر ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب نے شروع ہی سے کہہ دیا تھا کہ یہ موت کا وقت ہے۔ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں۔ میرے سامنے لمبرپنکچر کیا گیا تاکہ تشخیص مکمل ہوجائے چنانچہ لمبرپنکچر سے بجائے پانی کے خون نکلا۔ جس سے یہ امریقینی طور پر معلوم ہوگیا کہ سرکی رگ پھٹ کر دماغ کو خون نے ڈھانک لیا ہے۔ چند منٹ کے بعد سانس رکنے لگا اور میرے آنے کے نصف گھنٹہ بعد یہ بچی ہم سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ۸۶
تجہیز و تکفین
ساڑھے چھ بجے شام تابوت اٹھایا گیا۔ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی` حضرت مرزا بشیر احمد صاحب` حضرت مرزا شریف احمد صاحب` اور خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے افراد تابوت کو اٹھا کر باہر لائے۔ جہاں ایک جم غفیر انتظار میں موجود تھا۔ بہت سے لوگوں کو باری باری کندھا دینے کا موقع ملا۔ تابوت باغ میں پہنچا تو قریباً سات بجے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے کئی ہزار کے مجمع سمیت نماز جنازہ پڑھائی۔ قبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کی چار دیواری میں کھودی گئی تھی۔ نعش حضرت خلیفہ المسیح الثانی` حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب نے قبر میں رکھی۔ تدفین مکمل ہوچکی تو حضور نے اجتماعی دعا کرائی اور واپس تشریف لے آئے۔ ۸۷
حضرت امیر المومنین کا مفصل مضمون امتہ الودود کی یاد میں
صاحبزادی صاحبہ کا انتقال چونکہ ایک جماعتی المیہ تھا اس لئے اس موقعہ پر نہ صرف بزرگان جماعت کی طرف سے متعدد مضامین شائع ہوئے بلکہ خود حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی نے >امتہ الودود میری بچی< کے عنوان سے ایک مفصل مضمون سپرد قلم فرمایا۔ جس کے شروع میں لکھا کہ:۔
>سب ہی مرتے چلے آئے ہیں۔ کچھ مررہے ہیں اور کچھ مرجائیں گے۔ اور کچھ پیدا ہوں گے پھر وہ بھی مریں گے اگلی نسلیں نئے جذبات لے کر آئیں گی۔ ہمارے فانی جذبات ہمارے ساتھ ختم ہوجائیں گے جو موتیں آج ہمارا دل زخمی کرتی ہیں وہ ان کا ذکر ہنس ہنس کر کریں گے۔ جن موتوں سے وہ ڈررہے ہوں گے ان کا خیال کرکے ہمارے دل میں کوئی حرکت پیدا نہیں ہوتی۔ کیونکہ باوجود ہماری نسلوں میں سے ہونے کے زمانہ کے بعد کی وجہ سے ہم انہیں نہیں جانتے اور وہ ہم میں سے کئی کو نہ جانیں گے۔ مثلاً اگر خدا تعالیٰ نے میری نسل کو قائم رکھا تو چھٹی ساتویں پشت کے کتنے بچے ہوں گے جو اپنی بڑی پھوپھی امتہ الودود کے نام سے بھی واقف ہوں گے مگر باوجود اس کے کہ وہ چھٹی ساتویں نسل کے بچے میری اپنی نسل سے ہوں گے۔ ان کے غموں اور دکھوں کا احساس مجھے آج کس طرح ہوسکتا ہے۔ اور ان کی خوشیوں میں میں کس طرح حصہ لے سکتا ہوں مگر امتہ الودود جسے ہم پیار سے دودی کہا کرتے تھے` جو کل ہم سے جدا ہوئی گو میری بھتیجی تھی` مگر ان میری آئندہ نسلوں کے غم اس کے غم کو کہا پہنچ سکتے ہیں۔ کیونکہ خداتعالیٰ کا یہ ہی قانون ہے کہ زمانہ رشتہ اور تعلق یہ تین چیزں مل کر دلوں میں محبت کے جذبات پیدا کیا کرتی ہیں۔ پھر اگر ان میں سے کوئی ایک چیز زور پکڑجائے تو وہ دوسری چیزوں کو دبادیتی ہے۔ اور جب تینوں جمع ہوجائیں تو جذبات بھی شدید ہوجاتے ہیں۔ دودی میری بھتیجی تو تھی۔ مگر زمانہ کے قرب اور تعلق نے اسے میری دل کے خاص گوشوں میں جگہ دے رکھی تھی۔ بعد کی نسلیں تو الگ رہیں۔ میرے اپنے بچوں میں سے کم ہی ہیں جو مجھے اس کے برابر پیارے تھے ۔۔۔۔۔۔4] fts[۸۸
حضرت امیر المومنین نے اس تمہید کے بعد اپنے اس قیمتی مضمون کے آخری حصہ میں صاحبزادی صاحبہ کے بچپن اور زمانہ تعلیم کے حالات پر روشنی ڈالی اور پھر اپنی آخری ملاقات کا ذکر نہایت درد انگیز پیرایہ میں کیا چنانچہ تحریر فرمایا کہ:۔
>صحت کی درستی کے بعد اسے تعلیم کا شوق پیدا ہوا۔ اور وہ برابر تعلیم میں بڑھتی گئی۔ انٹرنس تک تو مجھے خیال رہا کہ یونہی مدرسہ میں جاتی ہے۔ لیکن جب وہ انٹرنس میں اچھے نمبروں پر پاس ہوئی تو مجھے زیادہ توجہ ہوئی اور جب وہ ملتی میں اس سے اس کی تعلیم کے متعلق بات کرتا۔ پھر ایف اے میں وہ پاس ہوئی اور میں نے زور دیا کہ صدیقہ بیگم اور امتہ الودود بی اے کا امتحان دیں اور دونوں نے تیاری شروع کردی مگر پہلی دفعہ کامیاب نہ ہوئیں۔ پھر دوسری دفعہ پڑھائی کی۔ پھر بھی کامیاب نہ ہوئیں۔ میں نے اصرار کیا کہ امتحان دیتے جائو چنانچہ اس دفعہ پھر تیاری کی۔ جب امتحان کے دن قریب آئے عزیزہ کے منجھلے بھائی عزیزم مرزا ظفر احمد بیرسٹر ایٹ لاء اپنی شادی کے لئے قادیان آئے۔ امتحان کے دنوں میں شادی کی تیاری تھی۔ انہوں نے کہا کہ امتحان نہ دو۔ تم نے پاس تو ہونا نہیں۔ گھر کے اور آدمیوں نے بھی کہا اور اس نے امتحان دینے کا ارادہ ترک کردیا۔ مجھے معلوم ہوا تو میں نے عزیزم میاں شریف احمد صاحب کو کہا کہ یہ ٹھیک نہیں۔ مجھے اس دفعہ ان کے پاس ہونے کی امید ہے اگر صدیقہ پاس ہو گئیں تو امتہ الودود کے لئے اکیلا امتحان دینا مشکل ہوگا چنانچہ انہوں نے جاکر اسے امتحان کے لئے پھرتیار کردیا۔ امتحان کے بعد کراچی سے واپس آکر ایک دن صدیقہ بیگم کو رقعہ لکھا کہ چچا ابا سے کہہ دیں کہ اگر آپ دعا کریں تو میں پاس کیوں نہ ہوجائوں۔ اب کے خود انہوں نے امتحان دلایا ہے۔ اگر میں پاس نہ ہوئی تو میں نہیں مانوں گی کہ انہوں نے دعا کی ہے۔ میں نے کہلا بھیجا کہ میں دعا کر رہا ہوں اور اب کے مجھے یقین ہے کہ تم دونوں پاس ہوجائو گی اور خداتعالیٰ نے دونوں کو پاس کر ہی دیا۔ پاس ہونے کے بعد دونوں سہیلیوں نے مبارکباد کا تبادلہ کیا۔ ہفتہ کی شام کو امتہ الودود صدیقہ کو مبارکباد دینے آئی اور اتوار کو صبح کو صدیقہ اسے مبارکباد دینے گئیں۔ میں اس دن بہت بیمار تھا۔ وہ میرے پاس بیٹھ گئی۔ صدیقہ بیگم پاس تھیں۔ بعد میں اس کی چھوٹی بہن اور میری بڑی لڑکی اس کی بھاوج بھی آگئیں۔ میں نے کہا دودی تم پاس نہیں ہوئیں میں پاس ہوا ہوں کیونکہ تم تو امتحان کا ارادہ چھوڑ بیٹھی تھیں۔ پھر میں نے کہا کہ پڑھائی کے دن تو اب ختم ہوئے اب کام کا وقت آگیا۔ اب تم کو اور صدیقہ کو مضامین کے نوٹ لکھوایا کروں گا اور تم انگریزی میں مضمون تیار کرکے ریویو وغیرہ میں دیا کرو کہنے لگی کہ میں نے تو کبھی مضمون لکھا نہیں۔ چھوٹی آپا کو لکھوایا کریں۔ میں نے کہا تم دونوں ہی نے پہلے مضمون نہیں لکھے۔ اب تم کو کام کرنا چاہئے۔ کہنے لگی اچھا یہ واقعہ میں نے اس لئے بیان کیا کہ مرحومہ میں یہ خوبی تھی کہ باوجود شرمیلی طبیعت کے جب کوئی مفید کام اسے کہا جاتا وہ اس پر کاربند ہونے کے لئے تیار ہوجاتی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں اپنی لڑکیوں سے کہتا تو ان میں سے اکثر شرم کی وجہ سے انکار پر اصرار کرتیں مگر اسے جب میں نے دہراکر کہا کہ اب تم کو اپنے علم سے دنیا کو فائدہ پہنچانا چاہئے تو باوجود ناتجربہ کاری اور حیاء کے اس نے میری بات کو منظور کرلیا۔ تھوڑی دیر کے بعد ناصرہ بیگم سلمہا اللہ تعالیٰ نے کہا کہ چھوٹی بچی دودھ کے لئے رورہی ہوگی میں نے جانا ہے۔ اور ساتھ ہی امتہ الودود بھی اٹھی میری عادت رہی ہے کہ امتہ القیوم اور امتہ الودود جب پاس سے اٹھا کرتیں تو میں کہا کرتا تھا کہ میری بچی اللہ تمہارا حافظ ہو اور پھر پیار کرکے رخصت کیا کرتا تھا۔ اس دن میں نے یہ الفاظ تو کہے مگر اٹھ کر اسے پیار دے کر رخصت نہیں کیا۔ میں نے اس کے چہرے پر کچھ ملال کے آثار دیکھے اور کہا میں آج بیمار ہوں۔ اٹھ نہیں سکتا چوتھے دن اس بیماری کی حالت میں مجھے اس کی بیماری کی وجہ سے جانا پڑا اور میں نے جاتے ہی اس کے ماتھے کو چوما۔ مگر اب وہ بیہوش تھی۔ اب اس کے چچا ابا کا پیار اس کے لئے خوشی کا موجب نہیں ہوسکتا تھا۔ اور اسی بے ہوشی کی حالت میں وہ فوت ہوگئی۔ ہاں وہ بچی جس نے اپنی ساری عمر علم سیکھنے میں خرچ کردی اور باوجود شرمیلی طبیعت کے میرے کہنے پر اس پر آمادہ ہوگئی کہ اپنی جنس کی بہتری کے لئے وہ مضمون لکھا کرے گی۔ جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے ہمیشہ کے لئے خاموش ہوگئی۔ کیونکہ خداتعالیٰ کا منشاء کچھ اور تھا۔ وہ اسے وہاں لے گیا جہاں باتیں نہیں کی جاتیں جہاں کام کیا جاتا ہے جہاں کوئی کسی انسان کی نصیحت کا محتاج نہیں۔ جہاں صرف اللہ ہی ہر ایک کا ہادی ہوتا ہے۔
امتہ الودود جب تم اس دنیا میں تھیں میں تمہاری عارضی رخصت پر نہایت محبت سے کہا کرتا تھا جائو میری بچی تمہار اللہ حافظ ہو۔ اب تو تم دیر کے لئے ہم سے جدا ہورہی ہو۔ اب تو اس سے بھی زیادہ درد کے ساتھ میرے دل سے یہ نکل رہا ہے کہ جائو میری بچی تمہارا اللہ حافظ ہو۔
نادان کہیں گے دیکھو یہ ایک مردہ سے باتیں کرتا ہے۔ مگر مردہ تم نہیں وہ ہے۔ نمازیں پڑھنے والے` اپنے رب سے رو رو کر دعائیں کرنے والے بھی مرا کرتے ہیں؟ اور تم تو بڑی دعائیں کرنے والی اور دعائوں پر یقین رکھنے والی بچی تھیں ۔۔۔۔۔ تو اے بچی! تو جو دنیا کی تکلیف کے احساس سے اپنے رب کے آگے رویا کرتی تھی تجھے اللہ تعالیٰ کب موت دے سکتا ہے یقیناً اللہ تعالیٰ ہماری آوازیں تیرے تک پہنچاتا رہے گا اور تیر آواز ہمارے تک پہنچاتا رہے گا۔ ہماری جدائی عارضی ہے اور تیری نئی جگہ یقیناً پہلی سے اچھی ہے۔ دنیوی خیالات کے ماتحت تیری اس بے وقت موت کو دیکھ کر کوئی کہہ سکتاتھا کہ
پھول تو دو دن بہار جانفزا دکھلا گئے
حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے
اور میرے دل میں بھی ایک دفعہ یہ شعر آیا۔ مگر جب میں نے غور کیا تو یہ شعر تیرے حالات کے بالکل خلاف تھا۔ تو تو اس باغ میںگئی ہے جس پر کبھی خزاں ہی نہیں آتی۔ حی وقیوم خدا کی جنات عدن میں مرجھانے کا کیا ذکر ۔ اے ہمارے باع کے غنچے تو کل سے اللہ تعالیٰ کے باغ کا پھول بن چکا ہے۔ ہمارے دل مرجھا بھی سکتے ہیں غمگین بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر تیرے لئے اب کوئی مرجھانا نہیں۔ اب تیرا کام یہی ہے کہ ہر روز پہلے سے زیادہ سرسبز ہو` پہلے سے زیادہ پررونق ہو۔
جب تیری جان نکلی تو میں ایک کونے میں جاکر سجدہ میںگرگیا تھا اور بعد میں بھی وقتاً فوقتاً دعا کرتا رہا یہاں تک کہ تجھے دفن کرکے واپس آئے۔ اور وہ دعایہ تھی کہ اے اللہ تعالیٰ یہ ناتجربہ کار روح تیرے حضور میں آئی ہے تیرے فرشتے اس کے استقبال کو آئیں کہ اسے تنہائی محسوس نہ ہو۔ اس کے دادا کی روح اسے اپنی گود میں اٹھالے کہ یہ اپنے آپ کو اجنبیوں میں محسوس نہ کرے محمد رسول اللہ ~صل۱~ کا ہاتھ اس کے سر پر ہو کہ وہ بھی اس کے روحانی دادا ہیں۔ اور تیری آنکھوں کے سامنے تیری جنت میں یہ بڑھے۔ یہاں تک کہ تیری بخشش کی چادر اوڑھے ہوئے ہم بھی وہاں آئیں۔ اور اس کے خوش چہرہ کو دیکھ کر مسرور ہوں۔ اس کے ساتھ میں اب بھی تجھے رخصت کرتا ہوں جا میری بچی تیرا اللہ حافظ ہو ۔۔۔۔۔ اللہ حافظ ہو۔
مرزا محمود احمد۔10] [p۸۹
حضرت مسیح موعود کے احاطہ مزار مبارک کی توسیع
اس سال کا ایک قابل ذکر کام یہ بھی ہے کہ اس میں سیدناحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احاطہ مزار مبارک کی مشرق اور شمال دونوں طرف توسیع کی گئی۔ قبل ازیں احاطہ میں بارہ قبریں تھیں مگر نئے اضافے کے نتیجہ میں مزید انیس قبریں اس مقدس حلقہ میں شامل کردی گئیں۔ باہردفن ہونے والے موصیوں کے کتبے ان کے علاوہ تھے۔ یہ توسیع سال کے وسط میں کی گئی تھی۔
حضرت امیر المومنین کی وصیت
‏0] f[rtکئی ماہ سے بعض احمدیوں کو بذریعہ خواب یہ دکھایا جارہا تھا کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی وفات قریب ہے نیز یہ کہ صدقہ سے یہ تقدیر ٹل بھی سکتی ہے۔
اس پر حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی نے جہاں صدقات کا انتظام فرمایا وہاں ۲۳ وفا/جولائی ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو اپنے قلم سے مندرجہ ذیل وصیت لکھی جو >الفضل< ۲۵ وفا/جولائی ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کے پہلے صفحہ پر شائع ہوئی۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
‏yt] ga[t
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
میری وصیت
)حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قلم سے(
برادران : السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کئی ماہ سے دوستوں کی طرف سے مجھے ایسی خوابوں کی اطلاع آرہی ہے جس میں میری وفات کی خبر انہیں معلوم ہوئی ہے۔ بعض خوابوں میں یہ ذکر بھی ہے کہ صدقے سے یہ امر ٹل سکتا ہے۔
چونکہ خواب میں جو بات دکھائی جائے اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اسے پورا کیا جائے۔ میں نے ان خوابوں کی بناء پر اس قسم کے صدقات کا بھی انتظام کیا ہے جو بعض لوگوں کو بتائے گئے ہیں اور عام صدقہ کا بھی انتظام کیا ہے۔ مگر چونکہ آخر ہر انسان نے مرنا ہے میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ تقویٰ` خداتعالیٰ پر توکل اور دین کی اشاعت کے لئے اپنے اندر جوش پیدا کریں۔ اور اتحاد جماعت کو کبھی ترک نہ کریں۔ اگر وہ ان باتوں پر قائم رہیں گے۔ اگر قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑے رکھیں گے۔ اگر وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی آواز پر ہمیشہ کان رکھیں گے اور ان کے پیغام کا جواب اپنے دلوں سے دیتے ہوئے دنیا تک اسے پہنچاتے رہیں گے` تو اللہ تعالیٰ ہمیشہ ان کا حافظ وناصر رہے گا اور کبھی دشمن ان کو ہلاک نہ کرسکے گا بلکہ ان کا قدم ہمیشہ آگے ہی آگے بڑھے گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔
میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ میری نیت ہمیشہ سے یہ رہی ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بغیر وصیت کے مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کا حق دیا ہے اس لئے اس کے شکریہ میں نہ کہ مقبرہ بہشتی کی وصیت کے طور پر اپنی جائداد کا` وہ تھوڑا ہو یا بہت ایک حصہ ان اغراض کے لئے جو مقبرہ بہشتی کے قیام کی ہیں۔ وقف کردوں۔ سو اس کے مطابق میں اعلان کرتا ہوں کہ میری جائیداد جو بھی قرضہ کی ادائیگی کے بعد بچے اس کی آمد کا دسواں حصہ میرے ورثا صدر انجمن احمدیہ کے حوالے کردیا کریں تاکہ وہ اشاعت اسلام کے کام پر خرچ کیا جائے۔ مگر یہ شکریہ بھی کافی نہیں۔ ایک کام جماعت کا اور بھی ہے جو توجہ کا مستحق ہے اور جس کی طرف سے جماعت کے احباب اکثر غافل رہتے ہیں اور وہ اس کے غرباء ہیں۔ سو میں یہ بھی وصیت کرتا ہوں کہ میری جائیداد کا ایک اور دسواں حضہ )جو قرض کے اداکرنے کے بعد بچے( غرباء ` مساکین` یتامیٰ اور بیوائوں کے لئے وقف ہوگا۔ پس میری جائیداد کی جو بھی آمد ہو` کم یا زیادہ اس میں سے دسواں حصہ سلسلہ کے مساکین` غربا` یتامیٰ اور بیوائوں کی امداد کے لئے خرچ کیا جائے۔ اس رقم کو خرچ کرنے کے لئے میں ایک کمیٹی تجویز کرتا ہوں جس میں دو نمائندے میرے ورثا کی طرف سے ہوں اور ایک خلیفہ وقت کی طرف سے۔ وہ باہمی مشورہ سے مذکورہ بالا مستحقین پر اس رقم کو خرچ کریں۔ اگر کبھی اختلاف ہوتو خلیفہ وقت کا فیصلہ اس بارہ میں ناطق ہوگا۔ میں اپنی اولاد سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیوں کو دین کے لئے خرچ کریں گے اور دنیاوی ترقیات کو دین کی ضرورتوں پر قربان کریں گے۔ میرا ارادہ اپنی بقیہ جائیداد کو وقف علی الاولاد کا ہے جس کے لئے میں الگ قواعد مقرر کروں گا اس صورت میں اگر کسی وقت میری اولاد باقی نہ رہے یا میری جائیداد سے فائدہ نہ اٹھا سکے` تو کل جائیداد یا اس کا کوئی جزو جس پر بھی اس کا اثر ہو وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف ہو جائے گی۔
خداتعالیٰ ہمارا انجام بخیر کرے اور ہمیں اپنی رضا پر چلنے کی توفیق دے اور ہمارا مرنا جینا اسی کے لئے ہو۔ آمین اللھم آمین۔
خاکسار مرزا محمود احمد ۲۳ ماہ وفا ۱۳۱۹< ۹۰
اس وصیت کا شائع ہونا ہی تھا کہ پوری جماعت میں درد واضطراب کی ایک زبردست لہر پیدا ہوگئی اور ہر جگہ صدقات اور دعائوں کا ایک وسیع سلسلہ شروع ہوگیا۔ ۹۱
اللہ تعالیٰ نے اپنے کمزور بندوں پر رحم فرمایا اور ان کی دعائوں اور صدقات کو شرف قبولیت بخشتے ہوئے تقدیر بدل دی اور حضرت امیر المومنین ؓ کو اس کے بعد پچیس سال کی کامیابی وکامرانی سے معمور لمبی عمر جماعت کی قیادت کے لئے عطا فرما دی۔ فالحمد للہ علی احسانہ
فصل چہارم
‏head1] ga[tمجلس انصار اللہ کا قیام
سید ناحضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تحریک اور رہنمائی میں دسمبر ۱۹۲۲ء ۹۲ سے عورتوں کی تربیت کے لئے لجنہ اماء اللہ اور جنوری ۱۹۳۸ء۹۳ سے نوجوانوں کی تربیت کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ کی تنظیمیں قائم تھیں اور بہت جوش وخروش سے اپنی تربیتی ذمہ داریاں ادا کررہی تھیں اور ان کی وجہ سے جماعت میں خدمت دیں کا ایک خاص ماحول پیدا ہوچکا تھا۔ مگر ایک تیسرا طبقہ ابھی ایسا باقی تھا جو اپنی پختہ کاری لمبے تجربہ اور فراست کے اعتبار سے اگرچہ سلسلہ احمدیہ کی بہترین خدمات بجا لارہا تھا۔ مگر کسی مستقل تنظیم سے وابستہ نہ ہونے کے باعث قوم کی اجتماعی تربیت میں پورا حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ حالانکہ اپنی عمر اور اپنے تجربہ کے لحاظ سے قومی تربیت کی ذمہ داری براہ راست اسی طربقہ پرپڑتی تھی۔ علاوہ ازیں خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کے اندر خدمت دین کے جوش کا تسلسل قائم رکھنے کے لئے بھی ضروری تھا کہ جب جوانی کے زمانہ کی دینی ٹریننگ کا دور ختم ہواور وہ عمر کے آخری حصہ میں داخل ہوں تو وہ دوبارہ ایک تنظیم ہی کے تحت اپنی زندگی کے بقیہ ایام گزاریں اور زندگی کے آخری سانس تک دین کی نصرت وتائید کے لئے سرگرم عمل رہیں۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو >مجلس خدام الاحمدیہ< کی بنیاد رکھتے وقت بھی اس اہم ضرورت کا شدید احساس تھا مگر حضور چاہتے یہ تھے کہ پہلے مجلس خدام الاحمدیہ کی رضاکارانہ تنظیم کم از کم قادیان میں اپنے پائوں پر کھڑی ہوجائے تو بتدریج کوئی نیا عملی قدم اٹھایا جائے۔ چنانچہ دو ڈھائی سال کے بعد جبکہ یہ مجلس حضور کی تجویز فرمودہ لائنوں پر چل نکلی اور نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پرحضور کے منشاء مبارک کے مطابق کام کرنے کا پوری طرح اہل ثابت کردکھایا تو حضور نے ۲۶ وفا/جولائی ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو اعلان فرمایا کہ
>آج سے قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کام طوعی نہیں بلکہ جبری ہوگا۔ ہر وہ احمدی جس کی پندرہ سے چالیس سال تک عمر ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھا دے۔۹۴ اور خدام الاحمدیہ کو یہ ارشاد فرمایا کہ
>ایک مہینہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو منظم کریں۔ اور اطفال احمدیہ کے نام سے ان کی ایک جماعت بنائی جائے اور میرے ساتھ مشورہ کرکے ان کے لئے مناسب پروگرام تجویز کیا جائے۔
اس اعلان کے ساتھ ہی حضور نے چالیس سال سے اوپر کے احمدیوں کی ایک مستقل تنظیم کی بنیاد رکھی` جس کا نام >مجلس انصار اللہ< تجویز فرمایا اور فی الحال قادیان میں رہنے والے اس عمر کے تمام احمدیوں کی شمولیت اس میں لازمی اور ضروری قرار دی۔ انصار اللہ کی تنظیم کا عارضی پریزیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب کو نامزد فرمایا اور ان کی اعانت کے لئے مندرجہ ذیل تین سیکرٹری مقرر فرمائے۔
۱۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے۔
۲۔ حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم اے۔
۳۔ حضرت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب۔۹۵
اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین نے مجلس انصار اللہ کی نسبت بعض بنیادی ہدایات بھی دیں جن کا تذکرہ حضور ہی کے الفاظ میں کیاجانا چاہئے ۔ حضور نے فرمایا:۔
>چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں۔ ان کے لئے بھی لازمی ہوگا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ ¶خدمت دین کے لئے وقف کریں۔ اگر مناسب سمجھا گیا۔ تو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں ۳ دن یا کم وبیش اکٹھے بھی لئے جاسکتے ہیں۔ مگر بہرحال تمام بچوں` بوڑھوں اور نوجوانوں کا بغیر کسی استثناء کے قادیان میں منظم ہوجانا لازمی ہے
مجلس انصار اللہ کے عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب ہوں گے اور سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینے کے لئے میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد` چودھری فتح محمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو مقرر کرتا ہوں۔ تین سیکرٹری میں نے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ مختلف محلوں میں کام کرنے کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے ان کو فوراً قادیان کے مختلف حصوں میں اپنے آدمی بٹھادینے چاہئیں اور چالیس سال سے اوپر عمر رکھنے والے تمام لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا چاہئے۔ یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ لوگوں کو کس قسم کے کام میں سہولت ہوسکتی ہے۔ اور جوشخص جس کام کے لئے موزوں ہو اس کے لئے اس سے نصف گھنٹہ روزانہ کام لیا جائے۔ یہ نصف گھنٹہ کم سے کم وقت ہے اور ضرورت پر اس سے بھی زیادہ وقت لیا جاسکتا ہے۔ یا یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کسی سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں دوچار دن لے لئے جائیں۔ جس دن وہ اپنے آپ کو منظم کرلیں اسی دن میری منظوری سے نیا پریذیڈنت اور نئے سیکرٹری مقرر کئے جاسکتے ہیں۔ سر دست میں نے جن لوگوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے وہ عارضی انتظام ہے اور اس وقت تک کے لئے ہے جب تک سب لوگ منظم نہ ہوجائیں جب منظم ہوجائیں تو وہ چاہیں تو کسی اور کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بناسکتے ہیں مگر میری منظوری اس کے لئے ضروری ہوگی۔ مرا ان دونوں مجلسوں سے ایسا ہی تعلق ہوگا جیسا مربی کا تعلق ہوتا ہے اور ان کے کام کی آخری نگرانی میرے ذمہ ہوگی یا جو بھی خلیفہ وقت ہو۔ میرا اختیار ہوگا کہ جب بھی مناسب سمجھوں ان دونوں مجلسوں کا اجلاس اپنی صدارت میں بلالوں اور اپنی موجودگی میں ان کو اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لئے کہوں۔
یہ اعلان پہلے صرف قادیان والوں کے لئے ہے اس لئے ان کو میں پھر متنبہ کرتا ہوں کہ کوئی فرد اپنی مرضی سے ان مجالس سے باہر نہیں رہ سکتا۔ سوائے اس کے جو اپنی مرضی سے ہمیں چھوڑ کر الگ ہوجانا چاہتا ہو۔ ہرشخص کو حکماً اس تنظیم میں شامل ہونا پڑے گا۔ اور اس تنظیم کے ذریعہ علاوہ اور کاموں کے اس امر کی بھی نگرانی رکھی جائے گی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو مسجد میں
نماز باجماعت پڑھنے کا پابند نہ ہو
سوائے ان زمینداروں کے جنہیں کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ یا سوائے ان مزدوروں کے جنہیں کام کے لئے باہر جانا پڑتا ہے۔ گو ایسے لوگوں کے لئے بھی میرے نزدیک کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہئے جس کے ماتحت وہ اپنی قریب ترین مسجد میں نماز باجماعت پڑھ سکیں۔
اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتاہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس تو اکثر جگہ قائم ہی ہیں۔ اب انہیں ہر جگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لئے مجالس انصار اللہ قائم کرنی چاہئیں۔ ان مجالس کے وہی قواعد ہوں گے جو قادیان میں مجلس انصار اللہ کے قواعد ہوں گے۔مگر سردست باہر کی جماعتوں میں داخلہ فرض کے طورپر نہیں ہوگا بلکہ ان مجالس میں شامل ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہوگا۔ لیکن جو پریذیڈنٹ یا امیر یا سیکرٹری ہیں ان کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں۔ کوئی امیر نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ کوئی پریذیڈنٹ نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ اور کوئی سیکرٹری نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ اگر اس کی عمر پندرہ سال سے اوپر اور چالیس سال سے کم ہے تو اس کے لئے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری ہوگا اور اگر وہ چالیس سال سے اوپر ہے تو اس کے لئے انصار اللہ کا ممبر ہونا ضروری ہوگا اس طرح ڈیڑھ سال تک دیکھنے کے بعد خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ باہر بھی ان مجالس میں شامل
‏tav.8.4
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر کبیر )جلد سوم( تک
ہونا لازمی کردیا جائے گا۔ کیونکہ احمدیت صحابہ کے نقش قدم پر ہے۔ صحابہ سے جب جہاد کا کام لیا جاتا تھا تو ان کی مرضی کے مطابق نہیں لیا جاتا تھا بلکہ کہا جاتا تھا کہ جائو کام کرو۔ مرضی کے مطابق کام کرنے کا میں نے جو موقعہ دینا تھا وہ قادیان کی جماعت کو میں دے چکا ہوں اور جنہوں نے ثواب حاصل کرنا تھا انہوں نے ثواب حاصل کرلیا ہے۔اب پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا لازمی ہے۔ اور اس لحاظ سے اب وہ ثواب نہیں رہا جو طوعی طور پر کام کرنے کے نتیجے میں ہوسکتاتھا۔ بے شک خدمت کا اب بھی ثواب ہوگا۔ لیکن جو طوعی طور پر داخل ہوئے اور وفا کا نمونہ دکھایا وہ سابق بن گئے البتہ انصار اللہ کی مجلس چونکہ اس شکل میں پہلے قائم نہیں ہوئی اور نہ کسی نے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس لئے اس میں جو بھی شامل ہوگا اسے وہی ثواب ہوگا جو طوعی طور پر نیک تحریکات میں شامل ہونے والوں کو ہوتا ہے<۔۹۶
مجلس انصار اللہ اور دوسری مجالس کے بنیادی اغراض ومقاصد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے پیش نظر مجلس انصار اللہ اور دوسری تنظیموں کے قیام کا مقصد کیا تھا اور حضور کی ان سے کیاتوقعات وابستہ تھیں۔ اس کی وضاحت خود حضور ہی کے الفاظ میں کیا جانا مناسب ہے۔ حضور فرماتے ہیں<۔
>میں نے انصار اللہ` خدام الاحمدیہ اور اطفال احمدیہ تین الگ الگ جماعتیں قائم کی ہیں تاکہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو بچے بچوں کی نقل کریں۔ نوجوان نوجوانوں کی نقل کریں اور بوڑھے بوڑھوں کی نقل کریں جب بچے اور نوجوان اور بوڑھے سب اپنی اپنی جگہ یہ دیکھیں گے کہ ہمارے ہم عمر دین کے متعلق رغبت رکھتے ہیں وہ اسلام کی اشاعت کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اسلامی مسائل کو سیکھنے اور ان کو دنیا میں پھیلانے میں مشغول ہیں۔ وہ نیک کاموں کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں تو ان کے دلوں میں بھی یہ شوق پیدا ہوگا کہ ہم بھی ان نیک کاموں میں حصہ لیں اور اپنے ہم عمروں سے آگے نکلنے کی کوشش کریں۔ دوسرے وہ جو رقابت کی وجہ سے عام طور پر دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے وہ بھی پیدا نہیں ہوگا۔ جب بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے گا` نوجوان نوجوان کو نصیحت کرے گا اور بچہ بچے کو نصیحت کرے گا تو کسی کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوگا کہ مجھے کوئی ایسا شخص نصیحت کررہا ہے جو عمر میں مجھ سے چھوٹایا عمر میں مجھ سے بہت بڑا ہے۔ وہ سمجھے گا کہ میرا ایک ہم عمر جو میرے جیسے خیالات اور میرے جیسے جذبات اپنے اندر رکھتا ہے مجھے سمجھانے کی کوشش کررہا ہے اور اس وجہ سے ان کے دل پر نصیحت کا خاص طور پر اثر ہوگا اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائے گا مگر یہ تغیر اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب جماعت میں یہ نظام پورے طور پر رائج ہوجائے ۔۔۔۔۔ ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ جھکانا ہے۔ تمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے۔ تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک سرانجام نہیں دیا جاسکتا` جب تک ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں` اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کرلیتے اور اس لائحہ عمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے جو ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے ۔۔۔۔ جب ہم تمام جماعت کے افراد کو ایک نظام میں منسلک کرلیں گے تو اس کے بعد ہم بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف کامل طور پر توجہ کرسکیں گے اس اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ` انصار اللہ اور اطفال احمدیہ تین جماعتیں قائم کی ہیں اور یہ تینوں اپنے اس مقصد میں جو ان کے قیام کا اصل باعث ہے اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہیں جب انصار اللہہ` خدام الاحمدیہ اور اطفال احمدیہ اس اصل کو اپنے مدنظر رکھیں جو حیث ماکنتم فولوا وجوھکم شطرہ میں بیان کیا گیا ہے۔ کہ ہر شخص اپنے فرض کو سمجھے اور پھر رات اور دن اس فرض کی ادائیگی میں اس طرح مصروف ہوجائے جس طرح ایک پاگل اور مجنون تمام اطراف سے اپنی توجہ کو ہٹا کر صرف ایک بات کے لئے اپنے تمام اوقات کو صرف کردیتا ہے۔ جب تک رات اور دن انصار اللہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے جب تک رات اور دن خدام الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے جب تک رات اور اطفال الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے تمام اوقات کو صرف نہیں کردیتے اس وقت تک ہم اپنی اندرونی تنظیم مکمل ہیں کرسکتے اور جب تک ہم اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کرلیتے اس وقت تک ہم بیرونی دنیا کی اصلاح اور اس کی خرابیوں کے ازالہ کی طرف بھی پوری طرح توجہ نہیں کرسکتے۔<۹۷
سلسلہ کے روحانی بقاء کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ` انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کی تحریکات جارہی کی ہوئی ہیں اور یہ تینوں نہایت ضروری ہیں۔ ان تحریکات کو معمولی نہ سمجھیں۔ اس زمانہ میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ یہ بہت ضروری ہیں۔ پرانے زمانہ میں اور بات تھی۔ رسول کریم ~صل۱~ کے زمانہ میں آپ کی ٹریننگ سے ہزاروں استاد پیدا ہوگئے تھے جو خود بخود دوسروں کو دین سکھاتے تھے اور دوسرے شوق سے سیکھتے تھے۔ مگر اب حالات ایسے ہیں کہ جب تک دودو تین تین آدمیوں کی علیحدہ علیحدہ نگرانی کا انتظام نہ کیا جائے کام نہیں ہوسکتا۔
ہمیں اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہیں کہ دوسرے ان کا اقرار کرنے پر مجبور ہوں اور پھر تعداد بھی بڑھانی چاہئے۔ اگر گلاب کا ایک ہی پھول ہو اور وہ دوسرا پیدا نہ کرسکے تو اس کی خوبصورتی سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ فتح تو آئندہ زمانہ میں ہونی ہے اور معلوم نہیں کب ہو لیکن ہمیں کم سے کم اتنا تو اطمینان ہوجاناچاہئے کہ ہم نے اپنے آپ کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے کہ دنیا احمدیت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ احمدیت کو دنیا میں پھیلا دنیا ہمارے اختیار کی بات نہیں۔ لیکن ہم اپنی زندگیوں کا نقشہ ایسا خوبصورت بناسکتے ہیں کہ دنیا کے لوگ بظاہر اس کا اقرار کریں یا نہ کریں مگر ان کے دل احمدیت کی خوبی کے معترف ہوجائیں اور اس کے لئے جماعت کے سب طبقات کی تنظیم نہایت ضروری ہے<۔ ۹۸
ایک اور موقعہ پر فرمایا:۔
>عوام سست ہوں تو حکام ان پر نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں اور حکام سست ہوں تو عوام ان پر نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ اسی نکتہ کو مدنظر رکھ کر میں نے جماعت میں خدام خلق اور انصار اللہ دو الگ الگ جماعتیں قائم کیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں ایسا ہوسکتا ہے کہ کبھی >حکومت< کے افراد سست ہوجائیں اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کبھی عوام سست ہوجائیں۔ عوام کی غفلت اور ان کی نیند کو دور کرنے کے لئے جماعت میں ناظر وغیرہ موجود تھے۔ مگر چونکہ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ کبھی ناظر سست ہوجائیں اور وہ اپنے فرائض کو کماحقہ ادا نہ کریں۔ اس لئے ان کی بیداری کے لئے بھی کوئی نہ کوئی جماعتی نظام ہونا چاہئے تھا جو ان کی غفلت کو دور کرتا اور اس غفلت کا بدل جماعت کو مہیا کرنے والا ہوتا۔ چنانچہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور الجنہ اماء اللہ اسی نظام کی دو کڑیاں ہیں اور ان کو اسی لئے قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ نظام کو بیدار رکھنے کا باعث ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اگر عوام اور حکام دونوں اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں تو جماعتی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ایک نہایت ہی مفید اور خوشکن لائحہ عمل ہوگا۔ اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کی قائم مقام ہیں` عوام کو بیدار کرتی رہیں اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور الجنہ اماء اللہ جو عوام کے قائم مقام ہیں نظام کو بیدار کرتے رہیں تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کسی وقت جماعت کلی طور پر گرجائے اور اس کا قدم ترقی کی طرف اٹھنے سے رک جائے۔ جب بھی ایک غافل ہوگا دوسرا اسے جگانے کے لئے تیار ہوگا جب بھی ایک سست ہوگا تو دوسرا اسے ہوشیار کرنے کے لئے آگے نکل آئے گا کیونکہ وہ دونوں ایک ایک حصہ کے نمائندہ ہیں۔< ۹۹
نیز فرمایا:۔
>انصار اللہ کا وجود اپنی جگہ نہایت ضروری ہے کیونکہ تجربہ جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے۔ اسی طرح امنگ اور جوش جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے۔ خدام الاحمدیہ نمائندے ہیں جوش اور امنگ کے` اور انصار اللہ نمائندے ہیں تجربہ اور حکمت کے اور جوش اور امنگ اور تجربہ اور حکمت کے بغیر کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی<۔ ۱۰۰
‏]body [tagاسی سلسلہ میں یہ بھی ارشاد فرمایا:۔
میری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو میں مکمل کردوں۔ ایک دیوار انصار اللہ ہیں` دوسری دیوار خدام الاحمدیہ ہیں اور تیسری دیوار اطفال الاحمدیہ ہیں اور چوتھی دیوار لجنات اماء اللہ ہیں۔ اگر یہ چاروں دیواریں ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ ہوجائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوسکے گی۔ عمارت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کی چاروں دیواریں آپ میں جڑی ہوئی ہوں۔ علیحدہ علیحدہ ہوں تو وہ چاردیواریں ایک دیوار جتنی قیمت بھی نہیں رکھتیں۔ کیونکہ اگر ایک دیوار ہوتو اس کے ساتھ ستون کھڑے کرکے چھت ڈالی جاسکتی ہے کیونکہ اگر ایک دیوار ہوتو اس کے ساتھ ستون کھڑے کرکے چھت ڈالی جاسکتی ہے۔ لیکن اگر ہوں تو چاروں دیواریں` لیکن چاروں علیحدہ علیحدہ کھڑی ہوں تو ان پر چھت نہیں ڈالی جاسکے گی۔ اور اگر اپنی حماقت کی وجہ سے کوئی شخص چھت ڈالے گا تو وہ گرجائے گی۔ کیونکہ کوئی دیوار کسی طرف ہوگی اور کوئی دیوار کسی طرف۔ ایسی حالت میں ایک دیوار کا ہونا زیادہ مفید ہوتا ہے بجائے اس کے کہ چار دیواریں ہوں اور چاروں علیحدہ علیحدہ ہوں۔
پس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ کو تفرقہ اور شقاق کا موجب نہیں بنانا چاہئے۔ اگر کسی حصہ میں شقاق پیدا ہوا تو خداتعالیٰ کے سامنے تو وہ جوابدہ ہوں گے ہی میرے سامنے بھی جوابدہ ہوں گے یا جو بھی امام ہوگا اس کے سامنے انہیں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ کیونکہ ہم نے یہ مواقع ثواب حاصل کرنے کے لئے مہیا کئے ہیں اس لئے مہیا نہیں کئے کہ جماعت کو جو طاقت پہلے سے حاصل ہے اس کو بھی ضائع کردیا جائے<۔۱۰۱
انصار اللہ کی حیثیت جماعتی نظام میں
انصار اللہ کی حیثیت جماعتی نظام میں کیا ہے؟ اس کی وضاحت بھی حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مجلس کی بنیاد کے زمانہ میں فرمادی تھی۔ چنانچہ فرمایا:۔
>انصار اللہ گو تنظیم کے لحاظ سے علیحدہ ہیں مگر بہر حال وہ لوکل انجمن کا ایک حصہ ہیں۔ ان کو بھی کوئی پریذیڈنٹ بحیثیت جماعت حکم نہیں دے سکتا۔ ہاں فرداً فرداً وہ انصار اللہ کے ہر ممبر کو اپنی مدد کے لئے بلاسکتا ہے اور انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجمن کے ہر پریذیڈنٹ کے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں بہرحال کوئی پریزیڈنٹ انصار اللہ کو بحیثیت انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کو بحیثیت خدام الاحمدیہ کو کسی کام کا حکم نہیں دے سکتا۔ وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ چونکہ تم احمدی ہو اس لئے آئو اور فلاں کام کرو۔ مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئو انصار یہ کام کرو یا آئو خدام یہ کام کرو` خدام کو خدام کا زعیم مخاطب کرسکتا ہے اور انصار اللہ کو انصار اللہ کا زعیم مخاطب کرسکتا ہے۔ مگر چونکہ لوکل انجمن ان دونوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ انصار بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور خدام بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اس لئے گووہ بحیثیت جماعت خدام اور انصار کو کوئی حکم نہ دے سکے مگر وہ ہر خادم اور انصار اللہ کے ہرممبر کو ایک احمدی کی حیثیت سے بلا سکتا ہے اور خدام اور انصار دونوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں۔ ۱۰۲
مجلس انصار اللہ کا پہلا دور وفا~/~جولائی ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء تا فتح/دسمبر ۱۳۲۱ہش/۱۹۴۲ء
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ہدایات وارشادات کی روشنی میں مجلس انصار اللہ کی تنظیم قائم کرنے اور اس کے لئے ابتدائی طریق
‏]2ydbo [tagکار تجویز کرنے اور ڈھانچہ بنانے کے لئے ۲۷ وفا/جولائی ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو مسجد مبارک قادیان میں صبح ساڑھے نو بجے ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب آپ کے تینوں سیکرٹری )حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد` حضرت چودھری فتح محمد سیال اور حضرت خان صاحب مولوی فرزندہ علی صاحب شامل ہوئے اور حسب ذیل فیصلے کئے گئے:۔
۱۔
قادیان کے انصار کی مردم شماری اور تجنید کے لئے دوہزار فارم چھپوالیا جائے۔ فارم کا نمونہ حسب ذیل منظور کیاگیا۔
نمبر شمار۔ نام۔ ولدیت۔ عمر۔ تعلیم۔ تربیت۔ پتہ۔ تاریخ۔
)حاشیہ( سابق سکونت۔ تاریخ ہجرت )ان لوگوں کی جو ۱۹۳۰ء کے بعد قادیان آئے(
۲۔
قادیان کو تین حلقوں میں تقسیم کرکے ان کی نگرانی کا کام مندرجہ ذیل طریق سے تینوں سیکرٹریوں کے سپرد کیا گیا۔
نام
حلقہ
حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال
دارالسعتہ مع کھارا` دارالبرکات مع بھینی دارالانور مع قادرآباد۔
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحبؓ درد
مسجد مبارک` مسجد اقصیٰ` مسجد فضل مع دارالصحت` ناصر آباد مع ننگل
حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب
دارالرحمت` دارالعلوم مع احمد آباد` دارالفضل دارالفتوح۔
)۳۰ اخاء/اکتوبر ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو بعض مشکلات کی وجہ سے کھارا` بھینی اور ننگل کے احباب انصار اللہ کی ہدایات کی پابندیوں سے ایک سال کے لئے مستثنیٰ کردیئے گئے تھے(۔
اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ہر حلقہ میں سیکرٹریان اپنے معاون خود مقرر کرلیں گے۔ ]01 [p۱۰۳
اس پہلے اجلاس کے بعد قادیان کے محلوں میں انصار اللہ کی تنظیم کا عملی دور شروع ہوگیا۔ ۱۲ظہور/اگست ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو فیصلہ کیا گیا کہ ہر محلہ میں انصار اللہ کے دس دس افراد کے گروپ بنائے جائیں اور ہر ایک گروپ کا ایک ایک لیڈر ہو۔ اسی دن کے اجلاس میں شرح چندہ کم از کم ایک آنہ ماہوار رکھی گئی اور قرار پایاکہ جو دوست ایک آنہ ماہوار بھی نہ دے سکیں ان کو تخفیف یا معافی دینا سیکرٹری حلقہ کے اختیار میں ہوگا۔
چندہ کی فراہمی کا کام ماہ اخاء/اکتوبر ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء سے شروع ہوا۔ اور اس کے ساتھ ہی انجمن انصار اللہ کے نام سے خزانہ صدر انجمن احمدیہ میں امانت کا حساب کھولا گیا۔ جس کا لین دین صدر مجلس انصار اللہ کے دستخطوں سے ہوتا تھا۔ چندہ کی ایک ایک آنہ کی رسیدیں دینے کی بجائے اس کے ریکارڈ کا یہ محتاط طریق اختیار کیا گیا کہ جو چندہ جمع کیا جاتا وہ فوراً چندہ دینے والے کے سامنے اور اسے دکھاکر رجسٹر میں درج کر دیا جاتا اور وصول شدہ چندہ کی ایک فہرست ہر محلہ کی مسجد میں کسی کی زیرنگرانی نمازوں کے وقت آویزاں کر دی جاتی۔
ماہ نبوت/نومبر ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء میں مجلس انصار الل¶ہ کی تنظیم کو مضبوط تر بنانے کے لئے ہر محلہ میں حلقہ کے سیکرٹری کے تحت ایک زعیم مقرر کیا گیا جو سیکرٹری حلقہ کے سامنے ہر قسم کے کام کی نگرانی کا ذمہ دار تھا اور سیکرٹری حلقہ کو اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی مرضی سے مندرجہ ذیل چھ عہدیدار بطور معاون اپنے حلقہ میں سے چن لے۔
جنرل سیکرٹری۔ ناظم مال۔ ناظم تربیت۔ ناظم تعلیم۔ ناظم تبلیغ۔ ناظم امور دنیا۔
انصار اللہ کے اولین فرائض
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے انصار اللہ کے ذمہ شروع میں پانچ کام لگائے۔
تبلیغ کرنا۔ قرآن شریف پڑھانا۔ شرائع کی حکمتیں بتانا۔ اچھی تربیت کرنا۔ قوم کی دنیوی کمزوریوں کو دور کرکے اسے ترقی کے میدان میں بڑھانا۔ ۱۰۴
بیرونی مقامات کی ابتدائی مجالس
پہلے سال قادیان کے علاوہ جن بیرونی مقامات پر انصار اللہ کی مجالس کا قیام عمل میں آیا ان کے نام یہ ہیں:۔
کلکتہ۔ برہمن بڑیہ )بنگال( گوجرہ )ضلع لائلپور(۔ چک سکندر )ضلع گجرات(۔ رنگون۔ درگانوالی۔ پنڈال۔ پھاگوبیٹے۔ پھاگووال۔ کوٹ کریم بخش )ضلع سیالکوٹ( ۔ کیرنگ )ضلع پوری اڑیسہ( کراچی۔ مالیر کوٹلہ۔ عالم گڑھ۔ )ضلع گجرات( لاہور۔ شاہ مسکین )ضلع شیخوپورہ( شاہدرہ )لاہور(۔ داتا زیدکا )ضلع سیالکوٹ( کوئٹہ۔ کوٹ رحمت خاں )ضلع شیخوپورہ(۔ کپورتھلہ۔ جہلم۔ فیروز پور۔ لالہ موسیٰ۔ چک نمبر۹۹ شمالی )سرگودہا(۔ چوہدریوالہ رکھ )ضلع لائل پور(۔ مٹھیانہ )ضلع ہوشیار پور( ۔ لکھنئو ۔ گجرات۔ بہادر کوٹ )ڈاکخانہ کوہاٹ(۔ لاچی بالا )ضلع کوہاٹ( ۔ گورداسپور ۔ جادر )وسطی ہند(۔ محمد آباد ٹاہلی )سندھ( گولیکی )ضلع گجرات( بمبئی۔ مردان )صوبہ سرحد( کولابہ )بمبئی(۔ سکندر آباد۔ بالا کوٹ )ہزارہ(۔ بانکی پور )پٹنہ(۔ نوشہرہ ککے زئیاں )پسرور(۔ چارکوٹ )ریاست جموں( چک ۳۳۲ ج۔ب )ضلع لائلپور( جبل پور )سی پی(۔ چاہ ڈیڈی )ضلع سمرا(۔ لودھراں )ضلع ملتان(۔ چاہ قادر موضع ٹھڈا۔ ۱۰۵مجلس انصار اللہ نے اپنے قیام کے ابتدائی دو ڈھائی سال خدام الاحمدیہ کے مختلف جماعتی کاموں مثلاً ہفتہ تعلیم وتلقین` وقار عمل اور امتحان کتب مسیح موعود میں اشتراک عمل کی طرف خاص توجہ دی مگر خدام الاحمدیہ کے مقابل اس کی تنظیمی سرگرمیوں کی رفتار نہایت غیر تسلی بخش اور سست رہی۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۳۲۱ہش/۱۹۴۲ء کے موقع پر ارشاد فرمایا:۔
> مجھے افسوس ہے کہ احباب جماعت نے تاحال انصار اللہ کی تنظیم میں وہ کوشش نہیں کی جو کرنی چاہئے تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اس کا ابھی کوئی دفتر وغیرہ بھی نہیں۔ مگر دفتر قائم کرنا کس کا کام تھا بے شک اس کے لئے سرمایہ کی ضرورت تھی۔ مگر سرمایہ مہیا کرنے سے انہیں کس نے روکا تھا۔ شاید وہ کہیں کہ خدام الاحمدیہ کو تحریک جدید سے مدد دی گئی ہے۔ مگر ان کی مدد سے ہم نے کب انکار کیا۔ ان کو بھی چاہئے تھا کہ دفتر بناتے اور چندہ جمع کرتے۔ اب بھی انہیں چاہئے کہ دفتر بنائیں کلرک وغیرہ رکھیں۔ خط وکتابت کریں۔ ساری جماعتوں میں تحریک کرکے انصار اللہ کی مجالس قائم کریں اور چالیس سال سے زیادہ عمر کے سب دوستوں کی تنظیم کریں۔ ۱۰۶
مجلس انصار اللہ کا دوسرا دور
۱۳۲۲ھش/ ۱۹۴۳ء سے مجلس انصار اللہ کی تحریک دوسرے دور میں داخل ہوئی جبکہ باقاعدہ مرکزی دفتر قائم ہوا۔ مقامی سیکرٹریوں کو مستقل شعبے سپرد کئے گئے۔ سالانہ بجٹ تجویز ہوا۔ دستور اساسی مرتب کیا گیا۔ مرکزی قائدین کا تقرر عمل میں لایا گیا۔ مجلس کے آنریری انسپکٹر` آڈیٹر اور نمائندگان مشاورت منتخب کئے گئے۔ سالانہ اجتماعات کا آغاز ہوا۔ اور انصار اللہ کے ارکان قادیان اور بیرونی مقامات پر تبلیغی سرگرمیوں کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ دینے لگے۔
مرکزی دفتر کا قیام
اب تک مجلس انصار اللہ کا کوئی مرکزی دفتر نہیں تھا۔ صدر مجلس )حضرت مولانا شیر علی صاحب ( اور دوسرے تین مرکزی عہدیدار جو مرکزی سیکرٹری کہلاتے تھے` مسجد مبارک میں جمع ہوتے اور مجلس کی تنظیم اور دوسرے امور کے بارہ میں باہمی مشورہ کرتے اور کارروائی باقاعدہ ایک رجسٹر میں محفوظ کرلی جاتی۔ ۱۰۷ دفتری نوعیت کے کام مجلس کے آنریری کارکن شیخ عبدالرحیم صاحب شرما )نومسلم سابق کشن لعل( انجام دیا کرتے تھے۔ لیکن صلح/جنوری ۱۳۲۲ہش/۱۹۴۳ء سے مجلس کا مرکزی دفتر فی الحال گیسٹ ہائوس دارالانوار کے ایک مغربی کمرہ میں قائم کیا گیا اور ساتھ ہی ایک کلرک کی اسامی بیس روپیہ مشاہرہ پر منظور کی گئی جس پر شیخ عبدالرحیم صاحب نومسلم شرماہی مقرر کئے گئے۔]4 [stf۱۰۸
ابتدائی تین سالوں میں دفتر مرکزیہ انصار اللہ کے لئے اپنا کوئی سامان فرنیچر وغیرہ نہیں تھا >مجلس تعلیم< اور >ترجمتہ القرآن< کے دفتر کا فرنیچر مستعار لے کر استعمال کیا جاتا تھا لیکن ۴ ہجرت/مئی ۱۳۲۳ہش/۱۹۴۴ء کو ایک درمیانی میز` چار کرسیاں اور ایک بنچ خریدنے کے لئے مبلغ ساٹھ روپیہ کی منظوری دی گئی۔
اسی روز فیصلہ ہوا کہ مرکزی دفتر گیسٹ ہائوس سے شہر میں منتقل کردیا جائے۔ ۲ فتح/دسمبر ۱۳۲۳ہش/۱۹۴۴ء کو قرار پایا کہ مجلس مرکزیہ کا مستقل دفتر تعمیر کیا جائے اور اخرجات کے لئے پندرہ ہزار روپیہ کا تخمینہ لگایاگیا تعمیر دفتر کے علاوہ نشرواشاعت کی مضبوطی کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ ان ہر دو کاموں کے لئے مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے قائد مال )حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ( کو عطیات کی فراہمی کا اختیا دیا گیا۔ چنانچہ سالانہ اجتماع ۱۳۲۳ہش/۱۹۴۴ء پر اس چندہ کی تحریک کی گئی۔ نیز ایک سب کمیٹی بھی مقرر کی گئی۔ جس کے صدر ماسٹر خیر الدین صاحب )نائب ناظر تعلیم وتربیت( سیکرٹری منشی محمد الدین صاحب مختار عام` نائب سیکرٹری مولوی عطا محمد صاحب ہیڈ کلرک دفتر بہشتی مقبرہ اور ممبر بابو فضل دین صاحب ریڈر ہائیکورٹ اور بابو قاسم دین صاحب گورداسپور تھے۔ ۱۰۹ ۱۳۲۴ہش/۱۹۴۵ء میں ہر دو مدات میں صرف ۱۴۷۶ روپے وصول ہوسکے۔ ان دنوں مجلس کی مالی حالت نہایت درجہ مخدوش تھی` جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۱۳۲۴ہش/۱۹۴۵ء میں مجلس کو چندہ کی آمد صرف مبلغ آٹھ صد نو روپے ایک آنہ چھہ پائی ہوئی۔ ۱۱۰
مرکزی سیکرٹریوں کو شعبوں کی تفویض
ابتدا میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ارشاد بلکہ نامزدگی پر مجلس انصار اللہ کے تین مرکزی سیکرٹری مقرر تھے جن کے سپردقادیان کے کئی کئی محلے تھے جن کو مجموعی طور پر ہر ایک شعبہ )مثلاً تبلیغ۔ تعلیم وتربیت اور چندوں کی فراہمی وغیرہ( کے کام اپنے اپنے حلقوں میں کرنے پڑتے تھے۔ مگر ۱۰ صلح/جنوری۱۳۲۲ہش/۱۹۴۳ء کو سابقہ انتظام بدل دیا گیا اور اس کی بجائے مرکزی سیکرٹریوں کو علیحدہ علیحدہ شعبے تقسیم کردیئے گئے چنانچہ اس نئی تقسیم کے مطابق۔
۱۔ حضرت خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب مہتمم مال اور مہتمم تعلیم وتربیت مقرر کئے گئے۔
۲۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو جنرل سیکرٹری کا فریضہ سپرد ہوا۔ آپ صدر مجلس کی نگرانی میں مرکزی دفتر کے انچارج بھی تھے اور بیرونی مجالس کا کام بھی آپ کے ماتحت تھا۔
۳۔ شعبہ تبلیغ کے مہتمم حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال قرار پائے۔ ۱۱۱
قادیان میں انصار اللہ کی تبلیغی جدوجہد
اگرچہ انصار اللہ کے والنٹیر پہلے دور میں بھی شعبہ مقامی تبلیغ صدر انجمن احمدیہ کی ہدایت پر بیرونی مقامات پر جاتے تھے اور تبلیغی خدمات انجام دیتے تھے۔ مگر منظم رنگ میں اس مہم کا آغاز ۵ تبلیغ/فروری ۱۳۲۲ہش/۱۹۴۳ء کو ہوا اس دن تبلیغی اغراض کے لئے قادیان کو آٹھ حلقوں میں تقسیم کردیا گیا کہ ان میں سے دو حلقوں کی دوکانیں ہر جمعرات کو اور جمعہ کو نماز جمعہ کے اختتام تک بند رہا کریں گی اور دوکاندار ہر جمعرات کو تبلیغ کے لئے باہر چلے جائیں گے اور جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات باہر گذار کر جمعہ کی نماز قادیان آکر ادا کریں گے؟ ۱۱۲
اس فیصلہ کے بعد انصار ایک تنظیم کے ساتھ قادیان کے گردونواح میں تشریف لے جاتے اور پیغام حق پہنچاتے تھے۔ بعد کو قادیان کے علاوہ بیرونی مجالس میں بھی تبلیغی وفود بھجوائے جانے لگے جن کی رپورٹیں اس زمانہ کے >الفضل< میں شائع شدہ موجود ہیں۔
قادیان میں مجلس انصار اللہ کے اجلاسوں کی ابتداء
قبل ازیں مجلس انصار اللہ کے کام سے متعارف کرانے کے لئے محلوں میں کوئی جلسے نہ ہوتے تھے۔نتیجہ یہ تھا کہ اکثر لوگ اس اہم تحریک سے ابھی پوری طرح واقف نہیں تھے اور اس امر کی سخت ضرورت تھی کہ مجلس کے لئے محلہ وار اجلاس کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ چنانچہ ۶ امان/مارچ ۱۳۲۲ہش/۱۹۴۳ء کو فیصلہ کیا گیا کہ تمام انصار اللہ قادیان کا ایک ایک ماہ کے وقفہ کے بعد باری باری اجلاس منعقد ہوا کرے جس میں انصار اللہ کو ان کے کام کی اہمیت سے واقف کرایا جائے اور کام کرنے کا شوق دلاکر بیداری پیدا کی جائے۔ انصار اللہ کی تحریک کو زیادہ سے زیادہ روشناس کرانے کے لئے زعماء انصار اللہ کو یہ بھی ہدایت دی گئی کہ وہ ان مرکزی اجلاسوں کے علاوہ اپنے محلہ میں بھی اجلاس کیا کریں۔
زعماء انصار اللہ اورگروپ لیڈروں کے مشاورتی اجلاس
مجلس کی طرف سے تربیتی اجلاس کے آغاز کے ساتھ ہی یہ لازم قرار دے دیا گیا کہ قادیان کے محلوں کے جملہ زعماء انصار اور گروپ لیڈروں کا بھی ماہوار اجلاس ہوا کرے جن میں پیش آمدہ مشکلات پر غور کرکے اصلاح احوال کی مناسب تجاویز سوچیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا اہم خطبہ انصار اللہ کے متعلق
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۲ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۲ہش/۱۹۴۳ء کے خطبہ جمعہ میں انصار اللہ کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی اور مجلس کی بیداری اور تنظیم کی کامیابی کے لئے بعض نہایت سنہری اصول پیش فرمائے ۔ چنانچہ فرمایا:۔
>میرا مقصد ان جماعتوں کے قیام سے ہر فرد کے اندر ایک بیداری پیدا کرنا تھا ۔۔۔۔۔ مگر جتنی بیداری خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے ذریعہ جماعت میں پیدا ہوئی ہے وہ ہرگز کافی نہیں بلکہ کافی کا ہزارواں حصہ بھی نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ انصار اللہ خصوصیت کے ساتھ اپنے کام کی عمدگی سے نگرانی کریں تاکہ ہرجگہ اور ہر مقام پر ان کا کام نمایاں ہو کر لوگوں کے سامنے آجائے اور وہ محسوس کرنے لگ جائیں کہ یہ ایک زندہ اور کام کرنے والی جماعت ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ جب تک انصار اللہ اپنی ترقی کے لئے صحیح طریق اختیار نہیں کریں گے اس وقت تک انہیں اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہیں ہوگی۔ مثلاً میں نے انہیں توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے کام کی توسیع کے لئے روپیہ جمع کریں اور اسے مناسب اور ضروری کاموں پر خرچ کریں۔ مگر میری اس ہدایت کی طرف انہوں نے کوئی توجہ نہیں کی۔ اب میں دوسری بات انہیں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ گو غالباً میں ایک دفعہ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اگر انہیں مالی مشکلات ہوں تو سلسلہ کی طرف سے کسی حد تک انہیں مالی مدد بھی دی جاسکتی ہے مگر بہرحال پہلے انہیں خود عملی قدم اٹھانا چاہئے اور روپیہ خرچ کرکے اپنے کام کی توسیع کرنی چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ بڑی عمر کے لوگوں کو ضرور یہ احساس اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے کہ وہ شباب کی عمر میں سے گزر کر اب ایک ایسے حصہ عمر میں سے گذر رہے ہیں جس میں دماغ تو سوچنے کے لئے موجود ہوتا ہے مگر زیادہ عمر گذرنے کے بعد ہاتھ پائوں محنت ومشقت کے کام کرنے کے قابل نہیں رہتے اس وجہ سے ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے کاموں کے سرانجام دینے کے لئے کچھ نوجوان سیکرٹریوں )چالیس سال کے اوپر کے مگر زیادہ عمر کے نہ ہوں( مقرر کریں۔ جن کے ہاتھ پائوں میں طاقت ہو۔ اور وہ دوڑنے بھاگنے کا کام آسانی سے کرسکیں۔ تاکہ ان کے کاموں میں سستی اور غفلت کے آثار پیدا نہ ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اگر وہ چالیس سال سے پچپن سال کی عمر تک کے لوگوں پر نظر دوڑاتے تو انہیں ضرور اس عمر کے لوگوں میں سے ایسے لوگ مل جاتے جن کے ہاتھ پائوں بھی ویسے ہی چلتے جیسے ان کے دماغ چلتے ہیں۔ مگر انہوں نے اس طرف توجہ نہ کی اور صرف انہی کو سیکرٹری مقرر کر دیا جن کا نام میں نے ایک دفعہ لیا تھا ۔۔۔۔۔ حالانکہ میں نے وہ نام اس لئے تھے کہ میرے نزدیک وہ اچھا دماغ رکھنے والے تھے۔ ان کی رائے صائب اور سلجھی ہوئی تھی اور وہ مفید مشورہ دینے کی اہلیت رکھتے تھے۔ اس لئے نام نہیں لئے تھے کہ ان میں کام کرنے کی ہمت اور قوت بھی نوجوانوں والی موجود ہے اور وہ دوڑ بھاگ بھی کرسکتے ہیں۔ ان کا کام صرف نگرانی کرنا تھا اور ضروری تھا کہ ان کے ماتحت ایسے نوجوان لگائے جاتے جو دوڑنے بھاگنے کا کام کرسکتے۔ اب بھی اگر وہ اچھا کام کرنا چاہتے ہیں تو انہیں سابق سیکرٹریوں کے ساتھ بعض نوجوان مقرر کردینے چاہئیں۔ چاہے نائب سیکرٹری بناکر یا جائنٹ سیکرٹری بنا کر تاکہ انصار اللہ میں بیداری پیدا ہو اور ان پر غفلت اور جمود کی جو حالت طاری ہوچکی ہے وہ دور ہوجائے۔ ورنہ یاد رکھیں عمر کا تقاصا ایک قدرتی چیز ہے ۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں انصار اللہ پر بہت بری ذمہ داری ہے ۔ وہ اپنی عمر کے آخری حصہ میں سے گذر رہے ہیں اور یہ آخری حصہ وہ ہوتا ہے جب انسان دنیا کو چھوڑ کر اگلے جہان جانے کی فکر میں ہوتا ہے اور جب کوئی انسان اگلے جہان جارہا ہوتو اس وقت اسے اپنے حساب کی صفائی کا بہت زیادہ خیال ہوتا ہے اور وہ ڈرتا ہے کہ کہیں وہ ایسی حالت میں اس دنیا سے کوچ نہ کرجائے کہ اس کا حساب گندہ ہو۔ اس کے اعمال خراب ہوں اور اس کے پاس وہ زادہ راہ نہ ہو جو اگلے جہان میں کام آنے والا ہے۔ جب احمدیت کی غرض یہی ہے کہ بندے اور خدا کا تعلق درست ہوجائے تو ایسی عمر میں اور عمر کے ایسے حصہ میں اس کا جس قدر احساس ایک مومن کو ہونا چاہئے وہ کسی شخص سے مخفی نہیں ہوسکتا۔ نوجوان تو خیال بھی کرسکتے ہیں کہ اگر ہم سے خدمت خلق میں کوتاہی ہوئی تو انصار اللہ اس کام کو ٹھیک کرلیں گے۔ مگر انصار اللہ کس پر انحصار کرسکتے ہیں وہ اگر اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیں گے اور اگر دین کی محبت اپنے نفوس میں اور پھر تمام دنیا کے قلوب میں پیدا کرنے میں کامیاب نہ ہوں گے وہ اگر احمدیت کی اشاعت کو اپنا اولین مقصد قرار نہ دیں گے اور وہ اگر اس حقیقت سے اغماض کرلیں گے کہ انہوں نے اسلام کو دنیا میں پھر زندہ کرنا ہے۔ تو انصار اللہ کی عمر کے بعد اور کونسی عمر ہے جس میں وہ یہ کام کریں گے۔ انصار اللہ کی عمر کے بعد تو پھر ملک الموت کا زمانہ ہے۔ اور ملک الموت اصلاح کے لئے نہیں آتا بلکہ وہ اس مقام پر کھڑا کرنے کے لئے آتا ہے جب کوئی انسان سزا یا انعام کا مستحق ہوجاتا ہے۔
پس میں ایک دفعہ پھر انصار اللہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں ایک دفعہ پہلے بھی میں نے انہیں کہا کہ وہ بھی خدام الاحمدیہ کی طرح سال میں ایک دفعہ خاص طور پر لوگوں کو باہر سے بلوایا کریں تاکہ ان کے ساتھ مل کر اور گفتگو اور بحث وتمحیص کرکے انہیں دوسروں کی مشکلات کا احساس ہو اور وہ پہلے سے زیادہ ترقی کی طرف قدم اٹھاسکیں ۔۔۔۔ مگر اب تک انصار اللہ کا کوئی جلسہ نہیں ہوا ۔۔۔۔ پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کے مخلصین کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے۔
یاد رکھو اگر اصلاح جماعت کا سارا دارومدار نظارتوں پر ہی رہا تو جماعت احمدیہ کی زندگی کبھی لمبی نہیں ہوسکتی۔ یہ خدائی قانون ہے جو کبھی بدل نہیں سکتا۔ ایک حصہ سوئے گا اور ایک حصہ جاگے گا۔ ایک حصہ غافل ہوگا اور ایک حصہ ہوشیار ہوگا۔ خداتعالیٰ نے دنیا کو گول بنا کر فیصلہ کر دیا ہے کہ اس کے قانون میں یہ بات خاص ہے کہ دنیا کا ایک حصہ سوئے اور ایک حصہ جاگے۔ یہی نظام اور عوام کے کام کا تسلسل دنیا میں دکھائی دیتا ہے۔ درحقیقت پرتو ہیں تقدیر اور تدبیر کے کبھی عوام سوتے ہیں اور نظام جاگتا ہے اور کبھی نظام سوتا ہے اور عوام جاگتے ہیں اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ نظام بھی جاگتا ہے اور عوام بھی جاگتے ہیں اور وہ وقت بڑی بھاری کامیابی اور فتوحات کا ہوتا ہے وہ گھڑیاں جب کسی قوم پر آتی ہیں۔ جب نظام بھی بیدار ہوتا ہے اور عوام بھی بیدار ہوتے ہیں تو وہ اس قوم کے لئے فتح کا زمانہ ہوتا ہے۔ وہ اس قوم کے لئے کامیابی کا زمانہ ہوتا ہے وہ اس قوم کے لئے ترقی کا زمانہ ہوتا ہے وہ شیر کی طرح گرجتی اور سیلاب کی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ہر روک جو اس کے راستہ میں حائل ہوتی ہے اسے مٹاڈالتی ہے۔ ہر عمارت جو اس کے سامنے آتی ہے اسے گرادیتی ہے۔ ہر |چیز جو اس کے سامنے آتی ہے اسے بکھیر دیتی ہے اور اس طرح وہ دیکھتے ہی دیکھتے چاروں طرف اس طرف بھی اور اس طرف بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ اور دنیا پر اس طرح چھاجاتی ہے کہ کوئی قوم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ مگر پھر ایک وقت ایسا آجاتا ہے جب نظام سوجاتا ہے اور عوام جاگتے ہیں۔ یا عوام سوجاتے ہیں اور نظام جاگتا ہے۔ اور پھر آخر میں وہ وقت آتا ہے جب نظام بھی سوجاتا ہے اور عوام بھی سوجاتے ہیں۔ تب آسمان سے خداتعالیٰ کا فرشتہ اترتا ہے اور اس قوم کی روح کو قبض کرلیتا ہے یہ قانون ہمارے لئے بھی جاری ہے جاری رہے گا اور کبھی بدل نہیں سکے گا۔ پس اس قانون کو دیکھتے ہوئے ہماری پہلی کوشش یہی ہونی چاہئے کہ ہمارا نظام بھی بیدار رہے اور ہمارے عوام بھی بیدار رہیں۔ اور درحقیقت یہ زمانہ اسی بات کاتقاضا کرتا ہے خدا کا مسیح ہم میں قریب ترین زمانہ میں گذرا ہے اس لئے اس زمانہ کے مناسب حال ہمارا نظام بھی بیدار ہونا چاہئے۔ اور ہمارے عوام بھی بیدار ہونے چاہئیں۔ مگر چونکہ دنیا میں اضمحلال اور قوتوں کا انکسار انسان کے ساتھ ساتھ لگا ہوا ہے اس لئے عوام کی کوشس یہ ہونی چاہئے کہ وہ نظام کو جگاتے رہیں اور نظام کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ وہ عوام کو جگاتا رہے تاخدانخواستہ اگر ان دونوں میں سے کوئی سوجائے غافل ہوجائے اور اپنے فرائص کو بھول جائے تو دوسرا اس کی جگہ لے لے اور اس طرح ہم زیادہ سے زیادہ اس دن کو بعید کردیں جب نظام اور عوام دونوں سوجاتے ہیں اور خدائی تقدیر موت کا فیصلہ صادر کردیتی ہے۔ پس دونوں کو اپنے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ اگر دونوں نہ جاگیں تو کم از کم ایک تو جاگے اور اس طرح وہ دن جو موت کا دن ہے ہم سے زیادہ سے زیادہ دور رہے ۔۔۔۔۔ پس میں اس نصیحت کے ساتھ انصار اللہ کو بھی بیدار کرنا چاہتا ہوں۔ اور خدام الاحمدیہ کو بھی بیدار کرنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ اگر یہ دونوں یعنی خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ مل کر جماعت میں بیداری پیدا کرنے کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ اگر خدانخوستہ کسی وقت ہمارا نظام سوجائے تو یہ لوگ اس کی بیداری کا باعث بن جائیں گے اور اگریہ خود سوجائیں گے تو نظام ان کو بیدار کرتا رہے گا۔۱۱۳
مجلس انصار اللہ کا پہلا دستور اساسی
حضرت امیر المومنین کے اس خطبہ پر عہدیداران مجلس نے پہلاقدم یہ اٹھایا کہ ۲۷ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۲ہش/۱۹۴۳ء کو مجلس کا ایک فوری اجلاس بلایا جس میں حضرت مولانا شیر علی صاحب )صدر مجلس( کے علاوہ حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال` حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب بھی شامل ہوئے۔ صدر مجلس کی درخواست پر قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے بھی شرکت فرمائی۔ اس اجلاس میں انصار اللہ کا پہلا دستور اساسی تیار کیا گیا۔ جس کی منظوری حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بھی عطا فرمادی اور تحریک فرمایا کہ
>منظور ہے عمل کیا جائے<۱۱۴
‏body] ga[tمجلس انصار اللہ کا یہ پہلا دستور اساسی مجلس کی تاریخ میں چونکہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے لہذا اس کا مکمل متن ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
مورخہ ۴۳/۱۰/۲۷ کو مجلس مرکزیہ کا اجلاس منعقد ہوا جس میں مندرجہ ذیل ممبران شریک ہوئے شیر علی چودھری فتح محمد صاحب ` مولوی فرزند علی صاحب۔ ان کے علاوہ میری درخواست پر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی شریک ہوئے یہ اجلاس خصوصیت سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گذشتہ جمعہ کے خطبہ کے ارشادات کی بناء پر منعقد کیا گیا جس میں حضور نے انصار اللہ کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ان کے کام میں ابھی تک زندگی اور چستی کے آثار مفقود ہیں۔ مشورہ کے بعد مندرجہ ذیل فیصلہ جات ہوئے جنہیں بغرض منظوری حضرت امیر المومنین خلیفتہ الثانیؓ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں پیش کیا گیا اور حضور نے منظور فرمالئے۔
)۱( علاوہ صدر کے آئندہ مجلس مرکزیہ کے چار عہدہ دار ہوں گے اول قائدتبلیغ` دوم قائد تعلیم وتربیت` سوم قائدمال ` چہارم قائد عمومی )سابق نام جنرل سیکرٹری( یہ جملہ عہدہ داران اپنے اپنے کام کے نگران اور ذمہ دار ہوں گے اور انصار اللہ کا سارا حلقہ خواہ وہ قادیان میں ہو یا بیرونجات میں ان کی نگرانی اور قیادت کے ماتحت ہوگا۔
)۲( مجلس مرکزی میں تین مزید ممبر بغرض مشورہ مقرر ہوا کریں گے ان کے پاس کوئی صیغہ نہیں ہوگا بلکہ وہ صرف مشورہ کی غرض سے مرکزی مجلس میں شریک ہوا کریں گے۔
)۳( صدربدستور مولوی شیر علی صاحب رہیں گے۔ قائدتبلیغ چوہدری فتح محمد صاحب سیال` قائدتعلیم وتربیت خانصاحب مولوی فرزند علی صاحب` قائدمال میر محمد اسحاق صاحب ۱۱۵ اور قائد عمومی مولوی عبدالرحیم صاحب درد ہوں گے۔ زائد ممبر فی الحال چوہدری سرمحمدظفر اللہ خاں صاحب` حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور خاں بہادر چوہدری ابوالہاشم خاں صاحب ہوں گے۔ ۱۱۶
)۴( الف۔ قائد صاحبان کے ساتھ امداد کے لئے مندرجہ ذیل نائب قائد ہوں گے۔
تبلیغ مولوی ابوالعطاء صاحب
تعلیم وتربیت مولوی قمر الدین صاحب
مال مولوی ظہور حسین صاحب
عمومی مولوی عبدالرحمان صاحب جٹ
)۵( قادیان شریف کے ہر محلہ میں اوربیرون جات کی ہرجماعت میں انصار اللہ کے نظام کے ماتحت سارے کاموں کی عمومی نگرانی کے لئے ایک ایک مقامی عہدہ دار مقرر ہوگا جس کا نام زعیم انصار اللہ ہوگا۔ اسے مقامی نظام میں وہی حیثیت حاصل ہوگی جو مرکزی نظام میں صدر کو۔
)۶( اسی طرح قادیان شریف کے ہر محلہ اور بیرونجات کی ہر جماعت میں ہر شعبہ کی علیحدہ علیحدہ نگرانی کے لئے ایک کارکن ہوگا جو اپنے اپنے شعبہ کے کام کا ذمہ دار ہوگا اور مقامی نظام کے زعیم اور مرکزی نظام کے قائد کی نگرانی کے ماتحت کام کرے گا ایسے عہدہ دار مہتمم تبلیغ` مہتمم تعلیم وتربیت ` مہتمم مال ومہتمم عمومی کہلائیں گے۔
)۷( تمام مہتمم صاحبان کا فرض ہوگا کہ اپنے اپنے کام کے متعلق پندرہ روزہ رپورٹ اپنے اپنے زعیم کی معرفت اپنے اپنے شعبہ کے قائد کے پاس ارسال کریں اور قائد صاحبان کا فرض ہوگا کہ اپنے اپنے شعبہ کی رپورٹ پندرہ روزہ صدر صاحب کے پاس ارسال کریں ۔ جس کا خلاصہ صدر صاحب کی طرف سے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں ارسال کیا جائے گا۔
)ب( ایسی جماعتیں جن کی طرف سے پندرہ روزہ رپورٹ کا آنا غیر ضروری یا دقت طلب ہو۔ ان کے متعلق صدر صاحب کو بمشورہ قائدوزعیم صاحبان مناسب ترمیم یا استثناء کرنے کا اختیار ہوگا۔
)۸( قادیان میں مرکزی مجلس انصار اللہ کا ایک باقاعدہ دفتر مقرر کیا جائے۔ جس میں جملہ ریکارڈ باقاعدہ طور پر رکھا جائے ہر قائد کو دفتر کے عملہ سے اپنے اپنے شعبہ کے تعلق میں کام لینے کا اختیار ہوگا مگر ویسے انتظامی طور پر عملہ دفتر صدر کی ماتحتی میں سمجھا جائے گا۔
)۹( قادیان کے ہر محلہ میں مہینہ میں کم از کم انصار اللہ کا ایک مقامی جلسہ منعقد ہونا ضروری ہوگا اور سال کے کسی مناسب حصہ میں سارے انصار اللہ کا ایک مشترکہ جلسہ منعقد کیا جائے گا جس میں بیرونی عہدہ داران ونمائندگان کو شرکت کی دعوت دی جائے اور اس موقعہ پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھی درخواست کی جایا کرے کہ حضور اس موقعہ پر انصار اللہ کو اپنے روح پرور نصائح سے مستفیض ہونے کا موقعہ عطا فرمادیں۔
)۱۰( جماعت کا ہر فرد جو چالیس سال یا چالیس سے اوپر کا ہے وہ قادیان شریف میں لازمی طور پر انصار اللہ کا رکن سمجھا جائے گا۔ بیرونجات میں مقامی انجمنوں کے عہدہ دار جو اس عمر کے ہوں` وہ بھی لازماً انصا اللہ کے ممبر سمجھے جائیں گے اور باقیوں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بھی انصار اللہ کے ممبر بنیں اور ایسی تحریک ہوتی رہنی چاہئے۔
)۱۱( تمام ممبروں سے کم از کم ایک آنہ ماہوار کے حساب سے چندہ لیا جائے گا جس کا باقاعدہ حساب رکھا جائے گا۔
)نوٹ( :۔ بیرونی انجمنیں اپنے مقامی چندوں کا ۷۵ فیصدی اپنے پاس رکھ کر اپنے طور پر خرچ کرسکتی ہیں۔ باقی مرکز میں آنا چاہئے۔ لیکن حساب کتاب بہرحال باقاعدہ ہونا چاہئے۔
)۱۲( اپنے ممبروں کی علمی اور عملی ترقی کے لئے مرکزی نظام انصار اللہ کی طرف سے سال میں ایک دفعہ کتب سلسلہ کا امتحان مقرر کیا جائے گا جو حتیٰ الوسع سب جگہوں پر منعقد ہوا کرے گا اور نتیجہ اخبار میں شائع کیا جایا کرے گا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اول و دوم و سوم نکلنے والوں کو مناسب انعام دیئے جائیں۔
امتحان کی شرکت کے لئے زیادہ سے زیادہ وسیع پیمانہ پر تحریک کی جائے۔
)۱۳( جن ممبران انصار اللہ کا کام سال کے دوران میں خصوصیت سے نمایاں ہو۔ انہیں جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ہاتھ سے مناسب انعام دلوایا جائے تاکہ کام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہو۔
)۱۴( قائد تبلیغ اور جملہ مہتممان تبلیغ کا فرض ہوگا کہ اپنے اپنے حلقہ میں تبلیغ کا بہترین انتظام کریں ۔ کہ ہر انصار اللہ کے ذریعہ جماعت میں سال بھر میں کم از کم ایک کس احمدی پیدا ہو۔ تبلیغ زیادہ تر انفرادی صورت میں کی جائے اور نامناسب بحث مباحثہ کے رنگ سے احتراز کیا جائے۔ اسی طرح قائدومہتممان تعلیم وتربیت کا یہ کام ہوگا کہ وہ جماعت میں اسلام اور احمدیت کی تعلیم کو زیادہ سے زیادہ وسیع طور پر اور تفصیلی صورت میں جاری کریں اور لوگوں کے اخلاق اور عادات کی نگرانی رکھیں۔ مقامی درسوں اور بڑی عمر کے ناخواندہ اصحاب کی تعلیم کا انتظام بھی مہتمم صاحبان کے سپرد ہوگا۔ قائدو مہتمم صاحب مال کا کام انصار اللہ کے لئے مختلف قسم کے چندہ جات کی وصولی کا انتظام کرنا اور حساب رکھنا ہوگا اور دیگر جملہ قسم کا کام جو کسی دوسرے قائد کے حلقہ کار میں نہیں آتا وہ قائدومہتمم صاحبان عمومی کے حلقہ میں سمجھا جائے گا۔
)۱۴( ۱۱۷صدر کی ہدایت اور نگرانی کے ماتحت قائد عمومی کے یہ کام بھی ہوں گے۔
)الف( ایسی ماتحت انجمنان انصار اللہ کا قیام ہو )جو( ۱۱۸ سارے قائدوں کے حلقہ کار سے یکساں تعلق رکھتی ہوں۔
)ب( قاعدہ نمبر ۹ کے ماتحت انصار اللہ کے ماہوار اور سالانہ جلسوں کا انتظام۔
)ج( مرکزی دفتر کا چارج۔
)نوٹ( : مگر ہر وہ کام جو دوسرے قائدوں کے حلقہ کار سے تعلق رکھتا ہو وہ ان قائدوں کے مشورہ سے سرانجام دیا جائے گا اور بصورت اختلاف صدر کا فیصلہ سب کے لئے واجب القبول ہوگا۔
)۱۵( مرکزی مجلس انصار اللہ اور اس کے عہدہ داروں نیز مقامی مجالس اور مقامی عہدہ داروں کا یہ فرض ہوگا کہ اپنے اپنے حلقہ کار میں صدر انجمن احمدیہ اور اس کے ماتحت مجالس اور اس کے عہدہ داروں اور اسی طرح خدام الاحمدیہ کی مرکزی مجلس اور مقامی مجالس اور عہدہ داروں کے ساتھ پورا پورا تعاون کا طریق اختیار کریں اور ان کے کام سے آگاہ رہنے اور اپنے کام سے ان کو آگاہ رکھنے کی حتیٰ الوسع کوشش کریں۔
)۱۶( مرکزی اور مقامی نظام ہر دو میں ہر بالا افسر کو ہر ماتحت افسر کاکام پڑتال کرنے اور ہدایات جاری کرنے کا اختیار ہوگا<۔ ۱۱۹
زعیم اعلیٰ کا عہدہ
۲۳ امان/مارچ ۱۳۲۳ہش/۱۹۴۴ء کو فیصلہ کیا گیا کہ اگر کسی بڑی جماعت میں کئی زعما انصار اللہ مقرر ہوں تو وہاں ایک زعیم اعلیٰ کا عہدہ بھی ہونا چاہئے جس کا کام زعماء کے کام کی نگرانی ہو۔
پہلے آنریری انسپکٹر
انصار اللہ کا کام چونکہ رفتہ رفتہ بڑھ رہاتھا اس لئے مجلس مرکزیہ کی طرف سے قادیان میں اور حسب ضرورت بیرونی مقامات میں بھی جملہ شعبہ جات کے اعتبار سے اس کا جائزہ لینے اور پڑتال کرنے کے لئے ایک انسپکٹر کی ضرورت بڑی شدت سے محسوس ہورہی تھی چنانچہ ۴ ہجرت/مئی ۱۳۲۳ہش/۱۹۴۴ء کو شیخ نیاز محمد صاحب پنشنر مجلس کے پہلے آنریری انسپکٹر مقرر کئے گئے۔۱۲۰
‏]bsu [tagانصار اللہ کا پہلا عہد
انصار اللہ کے جلسوں میں کوئی عہد نہیں دہرایا جاتا تھا۔ ۳۰ نبوت/نومبر ۱۳۲۳ہش/۱۹۴۴ء کو مجلس کا ماہانہ جلسہ نماز فجر کے بعد زیر صدارت حضرت مولانا شیر علی صاحب منعقد ہوا جس میں حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد قائد عمومی نے اس طرف توجہ دلائی کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ المصلح موعود نے جلسہ جوبلی پر لوائے احمدیت سے متعلق عہد لیا تھا۔ مجالس انصار اللہ کو چاہئے کہ اپنے اجلاسوں میں اس کو دہرایا کریں۔ اس تجویز کے مطابق اسی اجلاس میں مندرجہ ذیل الفاظ میں یہ عہد دہرایا گیا۔
>میں اقرار کرتا ہوں کہ جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے اسلام اور احمدیت کے قیام اس کی مضبوطی اور س کی اشاعت کے لئے آخر دم تک کوشش کرتا رہوں گا اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس امر کے لئے ہر ممکن قربانی پیش کروں گا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام دوسرے سب دینوں اور سلسلوں پر غالب رہے اور اس کا جھنڈا کبھی سرنگوں نہ ہو بلکہ دوسرے سب جھنڈوں سے اونچا اڑتا رہے۔ اللھم آمین۔ اللھم آمین۔ اللھم آمین۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم<۔
‏0] ft[sمجلس انصار اللہ کا پہلا بجٹ
شروع میں مجلس انصار اللہ کا کوئی بجٹ نہیں بنایا جاتا تھا لیکن اس دوسرے دور میں باقاعدہ بجٹ تیار کیا جانے لگا مجلس مرکزیہ کا پہلا بجٹ ۲ فتح/دسمبر ۱۳۲۳ہش/۱۹۴۴ء کو منظور کیا گیا جس کی تفصیل یہ تھی:۔
بجٹ آمد ۲۴۔۱۳۲۳ہش/۴۵۔۱۹۴۴ء
آمد چندہ جات مقامی وبیرونی مجالس
۰ ۰ ۲ ۱
عطیات ازذی ثروت احباب
۰ ۰ ۶
میزان آمد
۰ ۰ ۸ ۱
بجٹ اخراجات
عملہ][۰ ۲ ۷
سائر
۰ ۸ ۲
فرنیچر
۰ ۶
اخراجات غیر معمولی طبع فارم ورپورٹ ولیٹر فارم۔ حاضری نماز کی کاپیوں کی طباعت )برائے قادیان( طباعت قوائد وضوابط انصار اللہ۔ مرکزی قائد صاحبان کے لئے مہر تخمینہ اخراجات برموقعہ جلسہ سالانہ۔
۵ ۷ ۴
میزان کل اخراجات
۵ ۳ ۵ ۱
انصار اللہ کا پہلا سالانہ اجتماع اور حضرت امیر المومنین کی تقریر
انصار اللہ مرکزیہ کے ماہانہ اجلاس تو اکثر ہوتے رہتے تھے مگر قادیان اور بیرونی مقامات کے انصار میں کام کی اجتماعی روح پیدا کرنے
کے لئے کوئی سالانہ اجتماع منعقد نہیں ہوتا تھا۔اس کمی کو پورا کرنے کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے خطبہ جمعہ )۲۲ اخاء/اکتوبر ۱۳۲۲ہش/۱۹۴۳ء میں خاص توجہ دلائی تھی چنانچہ حضور کے منشاء مبارک کی تعمیل میں اس سال ۲۵ فتح/دسمبر ۱۳۲۳ہش/۱۹۴۴ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں ۴ بجے بعد نماز ظہر پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا جس کا افتتاح حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے فرمایا اور ایک مختصر مگر ایمان افروز خطاب فرمایا جو درج ذیل کیا جاتا ہے۔
>سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدفرمایا:۔
میں صرف مجلس انصار اللہ کی خواہش کے مطابق اس جلسہ کے افتتاح کے لئے آیا ہوں اور صرف چند کلمات کہہ کر دعا سے اس جلسہ کا افتتاح کرکے واپس چلا جائوں گا۔ انصار اللہ کی مجلس کے قیام کو کئی سال گذر چکے ہیں۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ اب تک اس مجلس میں زندگی کے آثار پیدا نہیں ہوئے۔ زندگی کے آثار پیدا کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ اول تنظیم کامل ہوجائے۔ دوسرے متواتر حرکت عمل پیدا ہوجائے اور تیسرے اس کے کوئی اچھے نتائج نکلنے شروع ہوجائیں۔ میں ان تینوں باتوں میں مجلس انصار اللہ کو ابھی بہت پیچھے پاتا ہوں۔ انصار اللہ کی تنظیم ابھی ساری جماعتوں میں نہیں ہوئی حرکت عمل ابھی ان میں پیدا ہوتی نظر نہیں آتی۔ نتیجہ تو عرصہ کے بعد نظر آنے والی چیز ہے مگر کسی اعلیٰ درجہ کے نتیجہ کی امید تو ہوتی ہے۔ اور کم از کم اس نتیجہ کے آثار کا ظہور تو شروع ہوجاتا ہے مگر یہاں وہ امید اور آثار بھی نظر نہیں آتے۔ غالباً مجلس انصار اللہ کا یہ پہلا سالانہ اجتماع ہے میں امید کرتا ہوں کہ اس اجتماع میں وہ ان کاموں کی بنیاد قائم کرنیکی کوشس کریں گے اور قادیان کی مجلس انصار اللہ بھی اور بیرونی مجالس بھی اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کریں گی کہ بغیر کامل ہوشیاری اور کامل بیداری کے کبھی قومی زندگی حاصل نہیں ہوسکتی۔ اور ہمسایہ کی اصلاح میں ہی انسان کی اپنی اصلاح بھی ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ اس کے ہمسایہ کا اثر اس پر پڑتا ہے نہ صرف انسان بلکہ دنیا کی ہر ایک چیز اپنے پاس کی چیز سے متاثر ہوتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ پاس پاس کی چیزیں ایک دوسرے کے اثر قبول کرتی ہیں۔ بلکہ سائنس کی موجودہ تحقیق سے تویہاں تک پتہ چلتا ہے کہ جانوروں اور پرندوں وغیرہ کے رنگ ان پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے ہوتے ہیں جہاں وہ رہتے ہیں مچھلیاں پانی میں رہتی ہیں` اس لئے ان کا رنگ پانی کی وجہ سے اور سورج کی شعاعوں کی وجہ سے جو پانی پر پڑتی ہیں سفید اور چمکیلا ہوگیا۔ مینڈک کناروں پر رہتے ہیں اس لئے ان کا رنگ کناروں کی سبز سبز گھاس کی وجہ سے سبزی مائل ہوگیا ریتلے علاقوں میں رہنے والے جانور مٹیالا رنگ کے ہوتے ہیں۔ سبز سبز درختوں پر بسیرا رکھنے والے طوطے سبز رنگ کے ہوگئے جنگلوں اور سوکھی ہوئی جھاڑیوں میں رہنے والے تیتروں وغیرہ کا رنگ سوکھی ہوئی جھاڑیوں کی طرح ہوگیا۔ غرض پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے اور ان کے اثرات قبول کرنے کی وجہ سیے پرندوں کے رنگ بھی اسی قسم کے ہوجاتے ہی۔ پس اگر جانوروں اور پرندوں کے رنگ پاس پاس کی چیزوں کی وجہ سے بدل جاتے ہیں۔ حالانکہ ان میں دماغی قابلیت نہیں ہوتی تو انسان کے رنگ جن میں دماغی قابلیت بھی ہوتی ہے پاس کے لوگوں کو کیوں نہیں بدل سکتے۔ خدا تعالیٰ نے اسی لئے قرآن مجید میں فرمایاہے کہ کونوا مع الصادقین یعنی اگر تم اپنے اندر تقویٰ کا رنگ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس کا گر یہی ہے کہ صادقوں کی مجلس اختیار کرو تاکہ تمہارے اندر بھی تقویٰ کا وہی رنگ تمہارے نیک ہمسایہ کے اثر کے ماتحت پیدا ہوجائے جو اس میں پایا جاتا ہے۔
پس جماعت کی تنظیم اور جماعت کے اندر دینی روح کے قیام اور اس روح کو زندہ رکھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کی اصلاح کی کوشش کرے کیونکہ ہمسایہ کی اصلاح میں اس کی اپنی اصلاح ہے ہر شخص جو اپنے آپ کو اس سے مستغنی سمجھتا ہے وہ اپنی روحانی ترقی کے راستہ میں خود روک بنتا ہے۔ بڑے سے بڑا انسان بھی مزید روحانی ترقی کا محتاج ہوتا ہے رسول کریم ~صل۱~ آخر دم تک اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم کی دعا کرتے رہے۔ پس اگر خدا کاوہ نبی جو پہلوں اور پچھلوں کا سردار ہے جس ی روحانیت کے معیار کے مطابق نہ کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہوگا اور جس نے خداتعالیٰ کا ایسا قرب حاصل کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی اور نہ مل سکتی ہے۔ اگر وہ بھی مدارج پرمدارج حاصل کرنے کے بعد پھر مزید روحانی ترقی کا محتاج ہے اور روزانہ خداتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوکر اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم body] ga[t کہتا ہے اکیلا نہیں بلکہ ساتھیوں کو ساتھ لے کر کہتا ہے تو آج کون ایسا انسان ہوسکتا ہے جو خداتعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوکر اھدناالصراط المستقیم کہنے سے اور جماعت میں کھڑے ہوکر کہنے سے اپنے آپ کو مستغنی قرار دے۔ اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اس سے مستغنی قرار دیتا ہے تو وہ اپنے لئے ایک ایسا مقام تجویز کرتا ہے جو مقام خداتعالیٰ نے کسی انسان کے لئے تجویز نہیں کیا۔ پس جو شخص اپنے لئے ایسا مقام تجویز کرتا ہے وہ ضرور ٹھوکر کھائے گا۔ کیونکہ اس قسم کا استغناء عزت نہیں بلکہ ذلت ہے ایمان کی علامت نہیں بلکہ وہ شخص کفر کے دروازے کی طرف بھاگا جارہا ہے۔
پس تنظیم کے لئے صروی ہے کہ اپنے متعلقات اور اپنے گردوپیش کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ اس سے انسان کی اپنی اصلاح ہوتی ہے۔ اس سے قوم میں زندگی پیدا ہوتی ہے۔ اور کامیابی کا یہی واحد ذریعہ ہے۔
دعائیں بھی وہی قبول ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت کی جائیں۔ خداتعالیٰ نے ہمارے دعا مانگنے کے لئے اھدنا الصراط المستقیم میں جمع کا صیغہ رکھ کر ہمیں بتادیا ہے کہ اگر تم روحانی طور پر زندہ رہنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہوتو تمہارے لئے صرف اپنی اصلاح کرلینا ہی کافی نہیں بلکہ اپنے گردوپیش کی اصلاح کرنا اور مجموعی طور پر اس کے لئے کوشش کرنا اور مل کر خدا سے دعا مانگنا ضروری ہے۔ چنانچہ اسی غرض کے لئے میں نے مجلس انصار اللہ لجنہ اماء اللہ مجلس خدام الاحمدیہ اور مجلس اطفال قائم کی ہیں۔ پس میں امید کرتا ہوں کہ مجلس انصار اللہ مرکزیہ اس اجتماع کے بعد اپنے کام کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ کر پوری تندہی اور محنت کے ساتھ ہرجگہ مجالس انصار اللہ قائم کرنے کی کوشش کرے گی تاکہ ان کی اصلاحی کوششیں صرف اپنے تک ہی محدود نہ ہوں بلکہ گرد وپیش کی اصلاح کے لئے بھی ہوں اور ان کی کوششیں دریا کی طرح بڑھتی چلی جائیں اور دنیا کے کونے کونے کو سیراب کردیں۔
اب میں دعا کے ذریعہ جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں خدا کرے مجلس انصار اللہ کا آج کا اجتماع اور آج کی کوششیں بیج کے طور پر ہوں جن سے آگے خداتعالیٰ ہزاروں گنا اور بیج پیدا کرے اور پھر وہ بیج آگے دوسرے فصلوں کے لئے بیج کا کام دیں یہاں تک کہ خداتعالیٰ کی روحانی بادشاہت اسی طرح دنیا پر قائم ہوجائے جس طرح کہ اس کی مادی بادشاہت دنیا پر قائم ہے۔ آمین<۱۲۱
پہلے اجتماع کے دوسرے مقررین
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مندرجہ بالا افتتاحی خطاب کے بعد دعا فرمائی اور تشریف لے گئے اوراجتماع کی بقیہ کارروائی حضرت مولوی شیر علی صاحب کی صدارت میں شروع ہوئی اور مندرجہ ذیل انصار نے تقریریں فرمائیں۔
۱۔ آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب
)پابندی نظام(
۲۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب
)انصاراللہ کے فرائض(
۳۔ حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب۔
‏col4] gat)[تعلیم وتربیت(
۴۔ جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ امیر جماعت احمدیہ لاہور۔
)اطاعت(
۵۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی۔
)قربانی اور تقویٰ(
۶۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب۔
)تحریک برائے تعمیر دفتر مرکزیہ ونشرواشاعت(
حضرت شاہ صاحب کی تحریک پر کچھ رقم چندہ کی جمع ہوئی۔ زاں بعد یہ پہلا اجتماع دعا کے ساتھ ساڑھے چھ بجے شام برخاست ہوا۔۱۲۲
دور ثانی کے بعد متفرق کوائف
اس مقام پر مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی ابتدائی تاریخ کے بعض متفرق کوائف درج کرنا خالی ازفائدہ نہ ہوگا۔
اول ۔ اس دور کے ابتدائی سالوں میںمجلس مشاورت کے لئے مندرجہ ذیل انصار نے مجلس کی نمائندگی کے فرائض انجام دیئے۔
۱۔ میاں محمد شریف صاحب ای۔ اے۔ سی۔ ۱۲۳
۲۔ شیخ نیاز محمد صاحب )انسپکٹر پولیس(۱۲۴
۳۔ مرزا برکت علی صاحب ۱۲۵
۴۔ ماسٹر خیر الدین صاحب ۱۲۶
دوم۔ ۲۳ شہادت/اپریل ۱۳۲۴ہش/۱۹۴۵ء کو مندرجہ ذیل فیصلے ہوئے۔
)۱( قائدین اور نائب قائدین باری باری ہر دو ماہ میں ایک دفعہ محاسبہ اور تحریک کی غرض سے مختلف محلوں کا دورہ کیا کریں۔
)۲( مرکزی اجلاس مہینہ میں کم از کم ایک بار ضرور منعقد ہوا کرے۔ اگر کوئی قائد کسی مجبوری کی وجہ سے خود نہ آسکیں تو استثنائی حالات میں نائب قائدان کی جگہ بطور قائم مقام شامل ہوں تا اجلاس ملتوی نہ ہوتے رہیں۔
)۳( مقامی اور بیرونی زعماء مجالس میں سے بہترین کام کرنے والے کو حسن کارکردگی کا سرٹیفکیٹ صدر اور قائد متعلقہ کے دستخطوں سے ہر سال سالانہ جلسہ کے موقع پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ المصلح الموعود کے دست مبارک سے دلایا جایا کرے۔
زعماء اور عہدیداران مجالس انصار اللہ کا انتخاب سالانہ ہوا کرے۔
بیرونی مجالس انصار اللہ سے 1~/~4 کی بجائے 1~/~2 شرح سے وصول شدہ چندہ کی رقم مرکز میں بھجوائی جایا کرے مجلس کے حساب کی پڑتال کے لئے فی الحال ملک نادر خاں صاحب کو آڈیٹر مقرر کیا جائے۔ ۱۲۷
سوم۔ فتح/دسمبر ۱۳۲۴ہش/۱۹۴۵ء تک صرف ۲۴۸ بیرونی مجالس کا قیام عمل میں آیا جن میں سے ۱۲۵ شہری اور ۱۲۳ دیہاتی تھیں۔ ۱۲۸
‏tav.8.5
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر )جلد سوم( تک
مجلس انصار اللہ کا دوسرا سالانہ اجتماع
مجلس انصار اللہ کا دوسرا سالانہ اجتماع ۲۵ فتح/دسمبر ۱۳۲۴ہش/۱۹۴۵ء کو مسجد اقصیٰ میں زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ناظردعوۃ وتبلیغ منعقد ہوا۔ ۱۲۹ تلاوت ونظم کے بعد مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری نائب قائد تبلیغ نے تبلیغ کی اہمیت کے متعلق آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے انصار اللہ کے فرائض پر نواب اکبر یار جنگ بہادر حیدر آباد دکن نے انصار اللہ اور توسیع تعلیم کے عنوان پر مولوی قمر الدین صاحب مولوی فاضل نے انصار اللہ اور قیام اسلام و احمدیت پر اور حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر نے تبلیغ وتربیت کے موضوع پر تقریریں کیں۔ اجتماع میں حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد قائد عمومی مجلس انصار اللہ نے مجلس کی مساعی کی عمومی رپورٹ اور حضرت سید زین العابدین ولی الل¶ہ شاہ صاحب قائد مال نے اخراجات سے متعلق رپورٹ پیش فرمائی۔ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا >انصار اللہ کے نام ایک پیغام < کے عنوان سے ایک نہایت ہی مفید اور دلچسپ مقالہ پڑھ کر سنایا۔ آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزاشریف صاحب نے بعض مفید نصائح فرمائیں اور دعا پر اجتماع کی کارروائی اختتام پذیر ہوئی۔۱۳۰
مجلس انصار اللہ کا تیسرا دور
۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء میں ملک بدنظمی اور فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ اور ساتھ ہی مجلس انصار الل¶ہ کے دو سرگرم قائدحضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو بھارتی حکومت نے گرفتار کرلیا اور وہ کئی ماہ تک نظر بند رکھے گئے۔ اس دوران میں مجلس انصار اللہ کے پہلے صدر حضرت مولانا شیر علی صاحب جو مشرقی پنجاب اور قادیان کی کثیر احمدی آبادی کے ساتھ ہجرت کرکے لاہور آگئے تھے۔ ۱۳ نبوت/نومبر ۱۳۲۶ہش/۱۹۴۷ء کو رحلت فرماگئے جس کے بعد برصغیر میں پیدا شدہ حالات کے باعث مجلس انصار اللہ کی تنظیم بھی کچھ عرصہ تک بالکل معطل رہی حضرت چوہدری فتح محمد صاحب شہادت/اپریل ۱۳۲۷ہش/۱۹۴۸ء میں رہا ہو کر پاکستان پہنچے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان کو مجلس کا صدر مقرر فرمایا اور نظارت علیا کے ایک کمرہ میں انصار اللہ کا عارضی دفتر بنایا گیا۔
نبوت/نومبر ۱۳۲۹ہش/۱۹۵۰ء میں حضرت امیر المومنین نے چوہدری صاحب کی بجائے حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ کو صدر مقرر فرمایا۔ علاوہ ازیں اس کی مجلس عاملہ میں کچھ اور بھی تبدیلیاں کی گئیں مثلاً حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل جٹ ۱۳۱ کی بجائے چودھری ظہور احمد صاحب آڈیٹر نائب قائد عمومی مقرر کئے گئے اسی طرح مولانا ابوالعطاء صاحب چودھری فتح محمد صاحب سیال کی جگہ قائد تبلیغ )بعدازاں قائد رشدو اصلاح( اور نائب قائد تبلیغ مولوی احمد خاں صاحب نسیم بنائے گئے۔
مجلس انصار اللہ کی تنظیم کا چوتھا سنہری دور
حضرت میاں عزیز احمد صاحب چار برس تک صدر مجلس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ بالاخر نبوت/نومبر ۱۳۳۳ہش/۱۹۵۴ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس اہم مجلس کی عنان قیادت صاحبزادہ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو سپرد فرمائی اور مجلس کی نشاۃ ثانیہ کا ایک سنہری دور شروع ہوا جس سے نہ صرف زندگی کی زبردست روح پھونکی گئی بلکہ اس کے اندر روحانی واخلاقی اعتبار سے ایک عظیم انقلاب کے آثار نمایاں ہوگئے اور یہ جلد جلد ترقی کی منازل طے کرنے لگی۔
اس اہم دور کی بہت سی خصوصیات ہیں جن میں سے بطور نمونہ چند کا تذکرہ کرنا ضروری ہے۔
۱۔
انصار اللہ مرکزیہ کے روح پرور سالانہ اجتماعات کا آغاز ہوا جن سے نہ صرف انصار اللہ میں بلکہ جماعت کے دوسرے طبقات میں بھی تربیت ` تزکیہ نفس اور نظام خلافت سے وابستگی کے لئے ایک مثالی ماحول میسر آیا۔
۲۔
مجلس کی تنظیم مضبوط اور فعال صورت اختیار کرگئی۔ انصار اللہ کا ضلع وار نظام قائم کیا گیا۔
۳۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے امتحانات کا بابرکت سلسلہ جاری ہوا۔
۴۔
دستور اساسی کی ازسر نو تدوین ہوئی۔
۵۔
مجلس کا مستقل دفتر تعمیر ہوا۔
۶۔
مستعد مجالس کو علم انعامی دیا جانے لگا۔
۷۔
مجلس مرکزیہ نے قابل قدر لٹریچر شائع کیا۔
۸۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعدد صحابہ کرام کے حالات اور ان کی روایات ان کی آواز میں ریکارڈ کی گئیں۔
۹۔
>انصار اللہ< ہی کے نام سے مجلس کا ایک بلند پایہ علمی وتربیتی ماہنامہ اور مرکزی ترجمان جاری گیا گیا۔ مگر اس عہد زریں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے انصار اللہ کی تنظیم جن بنیادوں پر رکھی تھی اس دور میں ٹھیک ٹھیک انہیں بنیادوں پر یہ ازسر نو قائم اور مستحکم ہوئی اور ہورہی ہے جس کی پوری تفصیلات انشاء اللہ اپنے مقام پر آئیں گی۔
حضرت امیر المومنین سے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ اور سٹیٹسمین کے نامہ نگاروں کی ملاقات
مجلس انصار اللہ کی تحریک پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم دوبارہ ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کے بقیہ واقعات کی طرف آتے ہیں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی کی وصیت کے شائع
ہونے کے بعد لاہور کے مشہور نیم سرکاری انگریزی روزنامہ >سول اینڈ ملٹری گزٹ< کے تین نمائندے )مسٹر ایچ۔ آر وہرہ` مسٹر اوم پرکاش کھوسلہ اور ملک محمد یوسف صاحب( بذریعہ کار قادیان آئے اور چھ بجے شام سے قریباً ساڑھے نوبجے تک نماز مغرب کا وقت نکال کر( حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے ملاقات کی۔۱۳۲
اس طویل ملاقات کے تاثرات ومشاہدات اخبار>سول اینڈ ملٹری گزٹ کی یکم ستمبر ۱۹۴۰ء کی اشاعت میں >لاہور ڈائری< کے مستقل کالم کے تحت >مغل خلیفہ سے ملاقات ` خاندان قادیان کی تاریخ ` خوابیں اور پیشگوئیاں< کے عنوان سے شائع ہوئے۔
اخبار کے نامہ نگار نے اپنے تاثرات میں اگرچہ تعصب` سنگدلی اور بیجا قیاس آرائی اور رنگ آمیزی کا خوب مظاہرہ کیا۔ مگر بعض باتیں غیر شعوری طور پر اس کے قلم سے ایسی بھی نکل گئیں جن سے اس اہم ملاقات کے بعض گوشے کسی حد تک اپنی اصلی صورت میں نمایاں ہوگئے مثلاً اس نے لکھا۔ ۱۳۳
>خلیفہ صاحب سے میری ملاقات تین گھنٹے تک رہی۔ اس دوران میں شام کی نماز کا وقفہ بھی پڑا۔ ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے مجھے ان کے حضور میں پہنچایا۔ اس نے سیڑھیوں پر سے بلند آواز کے ساتھ السلام علیکم کہہ کر میری آمد کی اطلاع دی جس کا پرتپاک جواب خلیفہ صاحب کی طرف سے وعلیکم السلام کی صورت میں آیا۔ خلیفہ صاحب کی دلکش آواز ایک اشارہ تھی کہ ہم چلے آئیں<۔
>میں ایک طویل برآمدہ میں داخل ہوا۔ جس میں ایک درجن کے قریب کرسیاں پڑی تھیں۔ خلیفہ صاحب نے اٹھ کر میرا استقبال کیا اور بہت جلد نہایت دلچسپ انٹر ویو شروع ہوگیا۔ گو ماحول غیر دلکش تھا۔ برآمدہ تنگ اور بہت لمبا تھا جسے چلمنوں نے دنیا کی نظروں سے چھپایا ہوا تھا۔ اس پرانی طرز کی عمارت میں ملاقات میرے لئے ایک معمہ ہی رہی۔ میں متوقع تھا کہ ملاقات کسی پرتکلف کمرہ میں کی جائے گی جس میں ایرانی قالین بچھے ہوئے ہوں گے۔<
>جونہی کہ میں خلیفہ صاحب کے مقابل پر بیٹھا تو محویت سے اس انسان کی شکل وصورت دیکھنے لگا جسے دعویٰ ہے کہ اسے تعلق باللہ حاصل ہے۔ میرا پہلا تاثر یہ تھاکہ خلیفہ صاحب ہندوستانی نہیں ہیں۔ ان کی آنکھوں کی بناوٹ سے یوں معلوم دیتا تھا کہ وہ وسط ایشیاء کے رہنے والے ہیں۔ ان کی لمبی ۔۔۔۔ داڑھی میں ابھرے ہوئے رخساروں سے معلوم کیا جاسکتا ہے عجیب طرز کی آنکھیں اور خواب آلود وضع ۔۔۔ سے بخوبی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ ایشیا کے کسی عالی خاندان کا خون ان کی رگوں میں گردش کررہا ہے۔ ۱۳۴
>سول اینڈ ملٹری گزٹ< کے علاوہ ہندوستان کے مشہور انگریزی روزنامہ >سٹیٹس مین< کے بھی ایک نامہ نگار قادیان میں آئے اور حضور سے ملاقات کی جو تاثرات وہ لے کرگئے ان کی نسبت اس نے سٹیٹس مین مورخہ ۳۱ اگست ۱۹۴۰ء میں اپنے الفاظ اور اپنے رنگ میں ایک بیان شائع کیا۔ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی وصیت` جماعت کے صدقہ وخیرات وغیرہ دینے اور بعض دیگر امور کا بھی تذکرہ تھا۔ ۱۳۵
ضلع کانگڑہ میں تبلیغ اسلام کی خاص مہم
علاقہ کانگڑہ کے اچھوت اگرچہ آریہ سماج نے ہندو بنالئے تھے مگر راجپوت زمیندار ان کو اپنے چشموں سے پانی نہیں بھرنے دیتے تھے اچھوتوں نے اس ظلم سے تنگ آکر جلسے کئے اور اعلان کیا کہ وہ پچاس ہزار کی تعداد میں مسلمان ہوجائیں گے اس پر چوٹی کے آریہ اور ہندو لیڈر راجہ نریندر ناتھ اور سرگوکل چندنارنگ کانگڑہ پہنچے اور اچھوتوں کو چشموں سے پانی بھرنے کی جبراً اجازت دلوادی مگر ہندوئوں نے پھر بائیکاٹ کردیا اور پانی لینے کی اجازت نہ دی۔ جس پر اخبارات میں شور اٹھا اور مقدمات شروع ہوگئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر مسلمانوں کی مختلف انجمنوں نے نمائندے بھیجے۔ مرکز احمدیت کی طرف سے تبوک/ستمبر ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء میں مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل )سابق یوگندرپال( اور شیخ محمد سلیم صاحب نو مسلم وہاں بھجوائے گئے۔ دوسری انجمنوں کے علماء تو سب واپس آگئے مگر مہاشہ صاحب نے زیادہ عرصہ تک قیام کی اور اچھوتوں میں آزادی کی سپرٹ قائم رکھنے کے علاوہ مسلمانوں کی حفاظت کا کام بھی کرتے رہے اور ان کے حوصلے اس بروقت امداد سے بلند ہوگئے۔ ۱۳۶
صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ کے مطابق مہاشہ صاحب فتح/دسمبر ۱۳۲۰ہش/۱۹۴۱ء تک کانگڑہ کے دیہات کا دورہ کرکے اچھوتوں کو پیغام اسلام پہنچاتے رہے ]10 [p۱۳۷ مہاشہ صاحب کی کوششوں سے بعض لوگ اسلام لانے پر بھی آمادہ ہوگئے تھے۔
ایک احمدی نوجوان کی امریکہ میں شہرت
مہتہ عبدالخالق صاحب ۱۳۸ )ابن حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی( متحدہ ہندوستان کے پہلے مسلمان تھے جنہیں حکومت ہند نے ۱۹۳۹ء میں تیل اور گیس کی اعلیٰ تعلیم کی تکمیل کے لئے امریکہ بھجوانے کا فیصلہ کیا۔
مہتہ صاحب نے امریکہ ٹیکساس ٹیکنیکل کالج سے ۱۹۴۲ء میں معدنیاتی سائنس]ydob [tag Geology کی اعلیٰ ڈگری امتیازی حیثیت سے حاصل کی اور پھر امریکہ میں ہی مختلف کمپنیوں سے منسلک ہوکر تیل اور گیس کی تفتیش اور کھدائی سے متعلق تجربات کئے اور بھاری مشینری کے ذریعہ تیل اور گیس کی ڈرلنگ کا محنت طلب فن سیکھا۔ ۱۹۴۵ء میں آپ واپس ہندوستان آئے۔
ٹیکساس (Texas) میں حصول تعلیم کے دوران مشہور امریکی اخبار دی آسٹن سٹیٹس مین نے آپ کی تصویر اور حالات شائع کئے جس سے آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ اس سلسلہ میں اخبار >الفضل< قادیان نے ۴ جنوری ۱۹۴۱ء کو لکھا۔
>مہتہ عبدالخالق صاحب قادیانی بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے قابل قدر فرزند ہیں آپ پنجاب گورنمنٹ سے سکالرشپ لے کر امریکہ پٹرول انجنئری کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ یہ نوجوان اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہونہار ہیں۔ جب تک ہندوستان میں رہے اپنے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جہاں بھی تعلیم کے سلسلہ میں انہیں رہنا پڑا اپنی تندہی اور کام کے شوق کے باعث امتیاز حاصل کرتے رہے۔ اور اب امریکہ میں بھی بفضلہ تعالیٰ اس احمدی نوجوان کی شہرت اور عزت بڑھ رہی ہے۔ پہلے وہ کولو ریڈیو اسکول آف مائینس میں تعلیم پاتے تھے اب (Texas) ٹیکساسس یونیورسٹی آسٹن کے طالب علم ہیں۔ >دی آسٹن سٹیسمین< مورخہ ۱۸۔ ستمبر ۱۹۴۰ء میں ان کا بڑا فوٹو دے کر ان کے تفصیلی حالات چھپے ہیں اور ان کے قدوقامت و رنگ کی تصریح کرکے لکھا ہے کہ لوگ اس کو نازی نہ سمجھ لیں۔ یہ ایک ہندوستانی نوجوان ہے جو (Texas) ٹیکساس یونیورسٹی میں گورنمنٹ سکالر شپ لے کر پڑھنے آیا ہے یہ اشاعت سائکل ریس میں اول آنے پر کی گئی ہے۔ ان کے حلیہ کے بیان کے ساتھ ان کی سائیکل کا نقشہ بھی دیا ہے۔ یہ انعام انہوں نے ہزاروں کے مجمع میں ایسی آسانی سے جیتا ہے کہ لوگ کہتے تھے کہ یہ مقابلہ تو بلی اور چوہوں کا مقابلہ ہے۔ لوگ ان کی اس فوقیت پر حیرت زدہ ہوئے اور جوق در جوق ان کو زیادہ قریب سے دیکھنے آتے رہے۔ اخبار نے ان کے پچھلے کارہائے نمایاں کابھی ذکر کیا جس میں سب کالجوں کا نام آیا جہاں وہ پڑھتے رہے اور عراق فلسطین مصر کے سفر کا بھی ذکر کیا جہاں وہ سائیکل ٹور کے لئے گئے تھے۔ لیکن احمدی جماعت کے لئے خوشی کی بات یہ ہے کہ اس نوجوان نے دور دراز اور بالکل اجنبی ملک میں ورزشی انعام لیتے ہوئے بھی اپنے احمدی ہونے کو ¶نمایاں کرنے میں ذرا بھی تامل نہ کیا۔ بلکہ شوق سے اپنے عقیدہ اور قادیان اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذکر کو وہاں بھی بلند کرنے کی کوشش کی۔ چنانچہ آگے چل کر یہی اخبار لکھتا ہے کہ >نوجوان مہتہ جن کی عمر اس وقت ۲۲ سال ہے۔ قادیان صوبہ پنجاب کے رہنے والے ہیں۔ یہ مقام مذہب اسلام میں بہت بڑی شہرت رکھتا ہے۔ کیونکہ انیسویں صدی عیسوی میں وہاں مسیح موعود نے اپنے دعویٰ کا اعلان کرکے عظیم الشان سلسلہ احمدیہ کو قائم کیا۔ مہتہ عبدالخالق بھی انہیں کے مریدوں میں ہیں۔ ان کے والد صاحب اس وقت زندہ ہیں۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابی ہیں۔ اس جماعت کے ممبران حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے وجود میں حضرت مسیح کی آمدثانی یقین کرتے ہیں<۔
>مسٹر مہتہ کہتے ہیں کہ اس ملک )یعنی امریکہ( کے لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان )حضرت( محمد ~صل۱~کی پوجا کرتے ہیں۔ یہ غلط ہے ہم خدا کو ایک مانتے ہیں اور اس کے تمام نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس ملک )امریکہ( میں احمدیہ جماعت کا صدر مقام شکاگو ہے<۔
)الفضل ۶۔ جنوری ۱۹۴۱ء صفحہ ۶(
جناب مہتہ صاحب نے ٹیکساس ٹیکنالوجیکل کالج کے اساتذہ سے سند خوشنودی حاصل کی ایک شعبہ جاتی نوٹ میں یہ تسلیم کیا گیا کہ:۔
‏independent, original, an as abilllity superior showed He) of" agrasp showing facts, geologicall of interpreter and thinker careful a in with met usually not thinking of lucidty and suchwork"principles doing student
‏Rawalpindi) ۔1987 ۔15 Octorber point, (view
یعنی انہوں نے ایک جدت پسند ` خودمختار اور محتاط مفکر اور علم ارضیات کے ترجمان کی حیثیت سے اعلیٰ درجہ کی قابلیت اور اہلیت ظاہر کی۔ انہیں اصولوں پر ایسی گرفت اور سوچ کا ایسا واضح اور روشن انداز حاصل تھا جو ان کے سوا اس کام سے وابستہ دیگر طلبہ میں عموماً نہیں پایا جاتا تھا۔
)فصل پنجم(
کمال یار جنگ ایجوکیشن کمیٹی کا وفد قادیان میں
کلکتہ میں نواب کمال یار جنگ بہادر کی صدارت میں ایک آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس منعقد ہوئی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک کمیشن مقرر کیا جائے جو یہ رپورٹ پیش کرے کہ مسلمانوں کی تعلیمی اصلاح کس طرح ہوسکتی ہے؟ بعد ازاں تبلیغ/ فروری ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء میں فیصلہ کیا گیا کہ ہندوستان کے مسلم اداروں کا معائنہ کرکے مفصل کوائف مرتب کئے جائیں۱۳۹ اور اس غرض کے لئے ایک تعلیمی کمیٹی مقرر کردی گئی جس کے ارکان حسب ذیل تھے۔
۱۔
سرعزیز الحق صاحب سپیکر بنگال لیجسلیٹو اسمبلی وائس چانسلر کلکتہ یونیورسٹی )صدر(
۲۔
مولوی حاجی ابوالحسن صاحب ایم اے` آئی ای ایس ریٹائرڈ سابق ڈائریکٹر آف پبلک انسٹرکشن ریاست کشمیر
۳۔
مولوی کے۔ علی افضل صاحب بی ایس سی )ایڈنبرا( بارایٹ لاء سیکرٹری بنگال لیجسلیٹو اسمبلی۔
۴۔
مسٹر بقا محمد خاں چیف انسپکٹر آف سکولز بہاولپور سٹیٹ
۵۔
مولوی اسدالحق صاحب ایم۔ اے پرسنل اسسٹنٹ ٹو وی چیئر مین۔ ۱۴۰
فیصلہ کے مطابق کمیٹی کے ارکان نے تین ماہ تک جنوبی ہند کے مسلم اداروں کا اس نقطہ نگاہ سے معائنہ کیاکہ مختلف مدرسوں میں دینیات اوراسلام کی تعلیم کس طریق پر دی جارہی ہے۔ ۲۲ تبوک/ستمبر ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو یہ تعلیمی وفد دو ماہ کے لئے شمالی ہند میں آیا جہاں صوبہ کے مختلف اسلامی مدارس کا دورہ کرنے کے بعد ۲۳ اخاء/اکتوبر ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو ساڑھے آٹھ بجے شب کی گاڑی سے قادیان پہنچا۔ ۱۴۱
ارکان کمیٹی نے قادیان میں اپنے مختصر قیام کے دوران نہ صرف مرکزی درسگاہوں کا قریب سے مطالعہ کیا بلکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا اور بہت متاثر ہوئے چنانچہ خان بہادر مولوی عزیز الحق صاحب صدر کمیٹی نے مولوی حاجی ابوالحسن صاحب ایم اے کی موجودگی میں نمائندہ >الفضل< )ماسٹر محمد ابراہیم صاحب بی اے( کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے مقصد میں بہت کامیابی ہوئی ہے ہم نے جماعت احمدیہ کے طریق عمل اور طریقہ تعلیم کا مطالعہ کیا ہے۔ بہت سے دوستوں سے گفتگو کرکے اس کے خیالات کو سنا ہے۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے خیالات سے ہماریے خیالات کو بہت مدد ملی ہے۔ ہم نے قادیان میں بہت کچھ دیکھا اور بہت کچھ سنا۔ اور اس کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ہم قدر اور تعریف کے جذبات سے لبریز ہیں۔
حضرت امیرالمومنین سے ملاقات کے بارے میں ان کے تاثرات یہ تھے کہ
>ہم نے آج ایک گھنٹہ کے قریب امام جماعت احمدیہ سے ملاقات کی اور ہم نے ان سے جو خیالات سنے۔ وہ ہماری کمیٹی کے مقصد کے لئے بہت ہی مفید ہیں۔ ہم نے ان سے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور ہمارے دل فی الحقیقت آپ کی قدر اور تعریف سے پر ہیں< ۱۴۲
سلسلسہ احمدیہ کی تنظیم کی نسبت انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ
>ہم نے جماعتی نظام کا اچھی طرح مطالعہ کیا ہے۔ آپ کی جماعت اسلام کی بہت خدمت کررہی ہے اور آپ کا کام اسلام کے لئے بہت مفید ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مسلمانوں کے ایک حصہ کو آپ کے عقائد سے اختلاف ہے۔ لیکن آپ کا کام واقعی قابل قدر اور لائق تحسین ہے۔ ۱۴۳
نقشہ ماحول قادیان
اس سال حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے نہایت محنت اور عرقریزی سے تبلیغ` تنظیم اور خرید اراضیات کے پیش نظر مرکز احمدیت قادیان کے ماحول کا ایک مفصل نقشہ ظہور/اگست ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء میں شائع فرمایا۔ جس میں قادیان کے اردگرد کا دس دس میل تک کا علاقہ دکھایا گیا تھا اور دیہات کی حدود` اہم راستوں اور نہروں کے علاوہ تھانے` ذیلوں کے صدر مقام` موٹروں کے اڈے` ڈاک بنگلے اور سکول بھی دکھائے گئے تھے۔ نقشہ میں ہر گائوں کے متعلق یہ انداراج بھی تھا کہ اس میں کس قوم کی آبادی ہے۔ یہ نقشہ پشت پر کپڑا لگا کر مجلد کرادیا گیا تھا۔ اور کتاب کی طرز سے جیب میں بھی رکھا جاسکتا تھا۔ ۱۴۴
اکالی کانفرس اور احمدیوں کا امن پسندانہ رویہ
قادیان کا نقشہ محض تبلیغی اور تنظیمی مقاصد کے پیش نظر شائع کیا گیا تھا جس کے پیچھے کوئی سیاسی مصلحت ہر گز کار فرمانہ تھی۔ مگر افسوس کہ احمدیت کی مخالف طاقتوں نے جو برسوں سے مخالفت کا محاذ قائم کئے ہوئے تھیں۔ اس نقشہ کو بھی جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال پھیلانے کا ایک ذریعہ بنا لیا اور سکھوں کو اکسانے کے لئے یہ پراپیگنڈہ کرنا شروع کردیا کہ احمدی حکومت سے گٹھ جوڑ کرکے اپنی ریاست قائم کرنے کے منصوبے باندھ رہے ہیں۔ ۱۴۵
اس سلسلہ میں گور مکھی کا ایک اشتہار بھی شائع کیا گیا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ احمدیوں کی طرف سے حکومت ہند کو یہ تحریک کی جارہی ہے کہ قادیان کے اردگرد دس دس کوس تک ان کی ریاست مان لی جائے جس کے بدلے میں پیسہ اور آدمیوں کے ذریعہ یہ موجودہ گورنمنٹ کی جنگ میں امداد کریں گے۔ اس اشتہار میں ناواقف اور سادہ لوح سکھوں کو بھڑکایا گیا تھا کہ ۱۷۔۱۸ نومبر ۱۹۴۰ء کو صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے قادیان کے قریب بوہڑ صاحب میں جمع ہوجائیں۔ یہ بوہڑ صاحب وہی مقام تھا جہاں ۷ ۔ اگست ۱۹۲۹ء کو سکھوں کے مشتعل ہجوم نے مذبح گرایا تھا۔ ۱۴۶
سکھ وفد قایان میں
یہ پراپیگنڈہ جب یکایک زور پکڑ گیا تو علاقہ کے سکھوں کا ایک وفد حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے قادیان پہنچا۔ تحقیق وتفتیش کے بعد جب یہ سب کہانی من گھڑت نکلی تو وفد مطمئن ہوکر واپس چلا گیا اور اس نے حسب ذیل بیان دیا:۔
>ہم نے بصورت وفد قادیان جاکر چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلیٰ قادیان سے ملاقات کی ہے۔ چودھری صاحب خلیفہ صاحب قادیان کے چیف سیکرٹری بھی ہیں۔ ہم نے ان سے دریافت کیا ہے۔ انہوں نے رجسٹر اخبار نقشہ وغیرہ دکھا کر ہماری پوری طرح تسلی کردی ہے کہہ یہ افواہ کہ مرزا صاحب قادیان والے دس دس کوس تک قادیان کے گرداگرد ریاست بنارہے ہیں یہ بالکل غلط ہے۔ احمدیوں نے اخبار میں بھی اس افواہ کی تردید کردی ہے۔ یہ افواہ احراریوں نے اڑائی ہے۔ اور ان کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ احمدیوں اور سکھوں کے تعلقات کو کشیدہ کردیں ۔۔۔۔ ہم اکالی بھائیوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ اگر وہ کانفرنس کریں تو مذہبی کانفرنس کریں ۔۔۔۔ ایسی افواہ پر سیاسی تقاریر کرکے علاقہ کی فضا کو خراب نہ کریں کیونکہ اس علاقہ میں احمدیوں کے سکھوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور مرزا صاحب قادیان والے ہمیشہ معزز سکھوں سے ہمدردانہ سلوک کرتے رہے ہیں<
دستخط )سردار( نونہال سنگھ ذیلدار کھجالہ )سردار( بخشیش سنگھ آف بھام )سردار( بھگت سنگھ ذیلدار پنڈ اروڑی` )سردار( اندر سنگھ ڈسٹرکٹ درباری ڈلہ ۱۴۷
سکھوں کا جلوس اور اجتماع
اس واضح تردید کے باوجود دشمنان احمدیت نے سکھ عوام کو مشتعل کرکے اجتماع کرنے کی تیاریاں اندر ہی اندر جاری رکھیں۔ اور آخر ان کے جتھے ۱۷ نبوت/نومبر ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو قادیان میں داخل ہوگئے۔۱۴۸ پولیس افسروں نے پہلے خود ہی ایک راستہ ان کے لئے تجویز کیا اور احمدیوں سے کہا کہ وہ ان کے علاقہ سے نہیں گذرے گا مگر جب سکھوں نے احمدی علاقہ سے گذرنے کے لئے اپنا رخ تبدیل کرلیا تو پولیس روکنے کی بجائے ان کے آگے آگے چل پڑی اور اپنا فیصلہ خود ہی رد کردیا۱۴۹
یہ موقعہ انتہائی نازک تھا اور قریب تھا کہ تصادم تک نوبت پہنچ جاتی۔ مگر حضرت خلیفہ ثانی کی بروقت راہنمائی اور صبروتحمل کی تلقین کی بدولت احمدیوں نے حیرت انگیز طور پر اپنے جذبات پر قابو رکھا اور قادیان میں فرقہ وارانہ فساد کرانے کی سب کوششیں ناکام ہوگئیں۔
حکام کے معاندانہ رویہ پر تنقید
حضرت خلیفہ ثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکام کے معاندانہ رویہ پر زبردست تنقید کی اور فرمایا۔
>ہمیں ضلع کے حکام کی طرف سے یقین دلایا گیا تھا کہ سکھوں کے جلوس کے لئے ایک راستہ معین کردیا گیاہے اور یہ کہ وہ اسی راستہ کو اختیار کریں گے دوسرا راستہ اختیار نہیں کریں گے لیکن بطور احتیاط ہم نے دوسرے راستے پر اپنے آدمی کھڑے کردیئے تھے۔ مگر سکھوں نے اپنے معین راستہ کو چھوڑ کر وہ راستہ اختیار کیا جس کے متعلق یقین دلایا گیا تھا کہ وہ اس طرف نہیں جائیں گے اگر احمدی احباب کو یہ ہدایت نہ ہوتی کہ جو سکھ قادیان میں اکٹھے کئے گئے ہیں انہیں اصل حقیقت کا علم نہیں ۔ وہ اگر اس دوسرے راستے سے آرہے ہیں تو انہیں گذرنے دیا جائے۔ تو فساد ہونے کا احتمال غالب تھا لیکن بجائے اس کے کہ )حکام ناقل اس شریفانہ سلوک کی قدر کرتے انہوں نے سمجھا کہ احمدی ڈرگئے۔ ۱۵۰
>وہ حکام جو فتنہ پردازوں کے سامنے جیسا کہ گذشتہ اکالی کانفرنس میں ہوا دب جاتے ہیں اور شرفاء کی شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں وہ ہرگز انتظام حکومت کے قابل نہیں اور وہ اپنے اس قسم کے رویہ سے شرفاء کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ بھی مقابلہ میں شرافت کو چھوڑ کر مفسدہ پردازی کا انسداد جبر اور زور سے کریں۔< ۱۵۱
کانفرنس میں اشتعال انگیز تقریریں
بہر حال جلوس قادیان کی احمدی آبادی میں سے گذرنے کے بعد بسرائوں کے کھلے میدان میں اکالی کانفرنس دو دن جاری رہی ۱۵۲ اور اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور جماعت احمدیہ کے خلاف بہت بے ہودہ سرائی کی گئی۔ اور انتہائی اشتعال انگیز تقریروں کے بعد یہ تجویز پاس کی گئی کہ۔
‏body] ga>[tچونکہ اس علاقہ میں اس خبر کے پھیلنے سے کہ مرزا صاحب دس دس میل تک ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں سخت بے چینی پھیلی ہوئی ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ اس تجویز کو کامیاب نہ ہونے دے ورنہ علاقہ میں سخت اشتعال پھیلے گا جس کے نتائج بھیانک ہوں گے۔< ۱۵۳
اس تجویز کی تائید قادیان کے ملا عنایت اللہ صاحب احراری نے پرجوش انداز میں کی۔ اور یہاں تک کہا کہ >جب تک ہم زندہ ہیں مسلمان زندہ ہیں جب تک گوروگوبند سنگھ کے سنگھ زندہ ہیں ` مرزا نواب نہیں ہوسکتا<۔
کانفرنس میں آخری تقریری سردار تیجا سنگھ صاحب کی تھی۔ جنہوں نے کہا۔
>پرسوں مرزائیوں کا ایک وفد ماسٹر تارا سنگھ صاحب سے ملنے گیا تھا ہم لوگ وہاں نہ تھے۔ ماسٹر صاحب پر ان کی باتوں کا کچھ اثر ہوگیا۔ ہمیں کہنے لگے وہ تو اس خبر کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہم سکھوں کی دل آزاری نہیں کرتے۔ میں نے کہا اس سے زیادہ دل آزاری کیا ہوگی` کہ گرونانک کو مسلمان کہتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں صاحبزادے شہید نہیں ہوئے۔ گورو تیغ بہادر نے خودکشی کی کس قدر ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ہماری ساری اتہاس پر پانی پھیرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اور دل آزاری کیا ہوگی۔ باقی رہی یہ بات کہ ریاست بنانے سے انکار کرتے ہیں میں تو کہتا ہوں کہ تم ریاست بنانے والے کب پیدا ہوئے اگر ریاست قائم ہوتو جو لوگ اکالی دل کی رہنمائی میں قربانیوں کے لئے تیار ہوں وہ ہاتھ اٹھائیں۔<
لوگوں نے یہ سنتے ہی ہاتھ اٹھا دیئے ۱۵۴ اور عہد کیا کہ وہ کٹ مریں گے مگر احمدیوں کی ریاست نہیں قائم ہونے دیں گے۔
قیام امن کے لئے انتظامیہ کمیٹی کی تشکیل
اس موقعہ پر چونکہ قادیان اور اس کے ماحول کی فرقہ وارانہ فضا کے مکدر ہونے کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا اس لئے کانفرنس کے انعقاد سے ایک روز قبل ۱۶ نبوت/نومبر ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو مرکز احمدیت میں امن عامہ کے قیام` مقامات مقدسہ کی حفاظت اور سکھ لیڈروں اور سرکاری افسروں سے گفتگو کرنے اور ان کی مہمان نوازی کے فرائص انجام دینے کے لئے ایک انتظامیہ کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے سیکرٹری اور نگران عمومی حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ مقرر کئے گئے۔ اس کمیٹی کے ممبروں میں صدر انجمن احمدیہ کے ناظر اعلیٰ اور انجمن کے دوسرے ممتاز ممبر شامل تھے۔ سرکاری افسروں کے سامنے جماعت کے موقف کی سیاسی نمائندگی کا فریضہ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم اے اور حضرت خان صاحب` مولوی فرزند علی خان صاحب کے سپرد ہوا۔ سکھوں کے ساتھ گفتگو کے لئے حضرت مولوی عبدالغنی خاں صاحب کا نام تجویز ہوا۔ مہمان نوازی کی خدمت حضرت میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت کے ذمہ لگائی گئی۔ انتظامیہ کمیٹی کے ایک ممبر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بھی تھے جن کے فرائض میں پہرہ داروں کا تقرر اور ان کی نگرانی کا کام تھا۔
اس بروقت اقدام کا یہ فائدہ ہوا کہ اگرچہ سکھ جلوس اصل رستہ چھوڑ کر احمدی آبادی میں سے گذرا اور پھر اس کے مقرروں نے اپنی تقریروں میں جماعت احمدیہ کے خلاف سخت زہر اگلا اور علاقہ میں زبردست اشتعال پھیلانے میں اپناپورا زور صرف کردیا مگر اس کے باوجود ان ایام میں کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔
سکھ اخبار >ریاست< کی طرف سے احمدیوں کی امن پسندی کا اعتراف
جماعت احمدیہ کے نظام اور اس کے صلح کن اصولوں کی یہ عظیم الشان اخلاقی فتح تھی جس کا اعتراف مشہور سکھ اخبار نویس سردار
‏body2] g[taدیوان سنگھ صاحب مفتون نے اپنے اخبار >ریاست< دہلی )۲ دسمبر ۱۹۴۰ء( میں بھی کیا چنانچہ انہوں نے صاف لکھا کہ
مسلمانوں میں غالباً احمدیوں کا ہی ایک ایسا فرقہ ہے جو گورونانک اور سری کرشن وغیرہ وغیرہ مسلم بزرگوں کو پیغمبر سمجھتے ہوئے ان کی عزت کرتا ہے اور قادیان کی احمدی جماعت کا یہ ملک پر بہت بڑا احسان ہے جس نے ہندومسلم اتحاد کی اس راہ کو اختیار کیا۔ احمدیوں کی اس قابل تعریف سپرٹ میں اتفاق پسند حلقوں کے اندر یہ انتہائی افسوس کے ساتھ سنا جائے گا کہ پچھلے ہفتے جب سکھوں نے قادیان سے دو میل کے فاصلہ پر اکالی کانفرنس کی تو سکھوں کے غیر دوستانہ اور تحکمانہ رویہ کے باعث قادیان کے احمدی حضرات نے اپنے بچوں اور عورتوں کو گھروں سے نکلنے کی ممانعت کردی تاکہ فساد نہ ہو اور سکھوں کو اگر احمدیوں کے خلاف کوئی دوسری شکایت نہیں تو اب یہ کہا جارہا ہے کہ احمدی گورونانگ کو مسلمان کہہ کر سکھوں کی توہین کررہے ہیں ہمیں یاد ہے چند برس ہوئے سکھوں نے ایک احمدی کے خلاف اس الزام میں مقدمہ بھی دائر کیا تھا۔ کہ اس نے گورونانگ کو مسلمان کہا۔ اور ہم نے اس مقدمہ پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سکھوں سے پوچھا تھا کہ اگر کسی نیک مسلمان کو کوئی سکھ یہ کہ دے کہ >آپ تو نیکی کے لحاظ سے سکھ ہیں< تو کیا اس مسلمان کی توہین ہوگی اسی طرح ہی ہم سکھوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر احمدی گورونانک سے اظہار محبت کرتے اور اپنا سمجھتے ہوئے گوروصاحب کو مسلمان کہتے ہیں تو اس میں سکھوں کی توہین ہے یا احمدی حضرات کے اخلاص ومحبت کانتہائی ثبوت!
ہمیں افسوس ہے کہ سکھوں کا قادیان کی اکالی کانفرنس میں احمدیوں کے خلاف تحکمانہ رویہ اختیار کرنا یا دوستانہ سپرٹ کا ثبوت نہ دینا اتحاد پسند حلقوں میں برچھا گردی اور وحشیانہ پن قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اشاعت مذہب اور اشاعت خیالات کے لئے ضروری ہے کہ رواداری اور محبت کا اظہار ہوتا کہ لوگ اس سے متاثر ہوسکیں نہ کہ غنڈہ پن کا جس سے کہ لوگ نفرت کریں ۱۵۵
اخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< کی جھوٹی خبر
اکالی اجتماع کے بعد اگرچہ فضا بہت ہی مکدر ہوگئی تھی مگر اس کشیدگی میں لاہور کے نیم سرکاری اخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< نے ۲۸ دسمبر ۱۹۴۰ء کے پرچہ میں یہ غلط خبر شائع کرکے اور بھی اضافہ کردیا کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے حکومت پنجاب کو سالانہ جلسہ ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کے موقعہ پر دھمکی دی ہے کہ جماعت احمدیہ عدم تشدد کی قائل نہیں۔ لہذا اگر اس نے جماعت احمدیہ کے خلاف پالیسی میں تبدیلی نہ کی تو اس کے بد نتائج کے لئے تیار رہے۔
ہندو پریس کی اشتعال انگیزی
اس سراسر بے بنیاد اور غلط خبر کی تردید سالانہ جلسہ کے موقہ پر ۲۸ فتح/دسمبر ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کے اجلاس میں کئی ہزار کے مجمع میں کردی گئی اور پھر ۳۱ فتح/دسمبر ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کے >الفضل< میں بھی شائع کردی گئی مگر ہندوپریس نے اخبار >سول اینڈ ملٹری گزٹ< کی پھیلائی ہوئی خبر کو بڑی اہمیت دی اور اخبار >پرتاپ< )۳۰ دسمبر( نے تو پورے صفحہ کی یہ جلی سرخی قائم کی کہ پنجاب گورنمنٹ اپنی انٹی احمدیہ پالیسی ترک کردے نہیں تو ہم جوابی کارروائی کریں گے< اور اس کے نیچے یہ عنوان دیا >خلیفہ قادیان مرزا بشیر الدین احمد کی حکومت کو دھمکی کہ ہمارا مذہب ہمیں عدم تشدد کی تعلیم نہیں دیتا<۔ ۱۵۶
اخبار>پرتاپ< کے علاوہ اخبار >احسان< بھی اس مہم میں شامل ہوگیا اور اس نے سول اینڈ ملٹری گزٹ اور پرتاپ میں شائع شدہ غلط بیانی کا ایک فقرہ لے کر >قادیانی اور کانگرسں< کے عنوان سے یکم جنوری ۱۹۴۱ء کی اشاعت میں ایک مقالہ افتتاحیہ بھی لکھ دیا۔ ۱۵۷
اخبار >پرتاپ< کی دوبارہ زہر چکانی
اصل حقیقت کھل جانے پر اخبار >پرتاپ< نے جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لئے پھرپہلی افواہ کو پھیلانا شروع کردیا۔ چنانچہ ۷ جنوری ۱۹۴۱ء کے شمارہ میں لکھا:۔
>معلوم ہوتا ہے کہ احمدیہ جماعت قادیان کو ایک ایسی سٹیٹ بنانا چاہتی ہے جس میں ان کی مطلق العنان حکومت ہو جس میں سوائے اس جماعت کے کوئی ¶جماعت یا فرقہ اپنے دھارمک یا مجلسی جلسے بھی منعقد نہ کرسکے۔ مگر قادیانی اصحاب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ایک علیحدہ سٹیٹ بنانے کے متعلق ان کے خواب پورے نہیں ہوسکتے۔ یہ بیسویں صدی ہے اس میں اس قسم کی مطلق العنانی نہیں چل سکتی<۱۵۸
فتنہ دوسری شکل میں
چند ماہ بعد فتنہ نے ایک نئی کروٹ لی۔ ہوا یہ کہ سکھوں کے ایک اخبار >شیر پنجاب< نے ۲۷ اپریل ۱۹۴۱ء کے پرچہ میں >قادیان میں فرقہ وارانہ جنگ کی تیاریاں< کے عنوان سے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی ۱۹۲۹ء کی ایک ذاتی یادداشت کو >گشتی چھٹی< اور >ایک خفیہ سرکلر< کا نام دے کر لکھا کہ جماعت احمدیہ کے ناظر اعلیٰ نے ایک خفیہ سرکلر یا گشتی مراسلہ احمدیوں کو بھی بھیجا ہے جس میں فرقہ وارانہ جنگ کے لئے تیاری کرنے کی تلقین کی گئی ہے منافرت پھیلانے کی یہ ایک خطرناک کوشش تھی جس کا سدباب کرنے کے لئے اخبار >الفضل< نے ۳` ۱۷ ہجرت/مئی ۱۳۲۰ہش/۱۹۴۱ء کی اشاعتوں میں پرزور اداریئے لکھے اور بتایا کہ جماعت احمدیہ کے ناظر اعلیٰ نے ایسا کوئی مراسلہ جاری نہیں کیا اور جو تحریر سرکلر قرار دی جارہی ہے وہ حضرت چوہدری صاحب کیے محض پرائیویٹ اور ذاتی نوٹ تھے جو >حفاظت قادیان< کے عنوان سے اس زمانہ میں لکھے گئے جبکہ سکھوں نے ۷ اگست ۱۹۲۹ء ۱۵۹ کو پولیس کی موجودگی میں مذبح گرادیا تھا اور قادیان پر حملہ کرکے اسے لوٹ لینے کی دھمکیاں دی تھیں چوہدری صاحب نے ازخود چند حفاظتی تجاویز کاغذ کے ایک پرزہ پر لکھیں جو نہ شائع ہوئیں نہ کہیں بھیجی گئیں نہ ان پر کوئی عملدرآمد ہوا کاغذ کا یہ پرزہ کسی طرح مصری پارٹی کے ہاتھ آگیا۔ ۱۶۰ یہ لوگ پہلے تو عام سکھوں کو یہ کاغذ دکھاتے رہے مگر ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ البتہ سکھ اخبار >شیر پنجاب< نے اسے خوب اچھالا اور ہندو اور مسلمان اخباروں میں اس کی بازگشت سنائی دینے لگی۔ ہندو پریس جو ان دنوں جماعت احمدیہ کی مخالفت میں بہت پیش پیش تھا۔ )الفضل کی تردید کے باوجود( برابر اس کی اشاعت کرتا رہا بلکہ اخبار >پرتاپ< )۲۳ مئی ۱۹۴۱ء( نے تو حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے یہاں تک لکھ دیا کہ
>کیا وہ خفیہ سرکلر جو جماعت احمدیہ کے صدر مقام سے احمدیوں کے نام جاری ہوا ہے پنجاب گورنمنٹ کی نظر سے گذرا ہے؟ اور گذرا ہے تو اس نے اس بارہ میں کیا کارروائی کی ہے۔ یہ سرکلر یقیناً اس بات کا مستحق ہے کہ اس کے خلاف ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت کارروائی کی جائے۔< ۱۶۱
اخبار >الفضل< کا چیلنج
اخبار الفضل ۲۴ ہجرت/مئی ۱۳۲۰ہش ۱۹۴۱ء نے اخبار >پرتاپ اور اس کے ہم نوا دوسرے اخباروں کو جو مسلسل تردید کے باوجود غلط بیانی اور مغالطہ انگیزی سے باز نہیں آرہے تھے کھلا انعامی چیلنج کیا کہ اگر وہ اس نام نہاد سرکلر کی کاپیاں مہیا کردیں تو انہیں ہر کاپی پر سو روپیہ انعام دیا جائے گا مگر ایسا کوئی سرکلر تھا ہی نہیں تو وہ کہاں سے لاتے اور جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے وضاحت فرمائی کہ۔
>اگر کوئی ایسا سرکلر بھیجا جاتا تو وہ ناظر امور عامہ کی طرف سے ہونا چاہئے تھا نہ کہ ناظر اعلیٰ کی طرف سے ہمارے نظام کے لحاظ سے اس کا تعلق ناطر امور عامہ سے ہے ناظر اعلیٰ سے نہیں یہ امر بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ ایسا کوئی سرکلر ہے ہی نہیں۔ ناظر اعلیٰ تو آئینی لحاظ سے ایسا سرکلر بھیجنے کا مجاز ہی نہیں ناظر اعلیٰ کی طرف سے ایسے سرکلر کا بھیجا جانا تو ہمارے کانسٹی ٹیوشن کے ہی خلاف ہے اگر ایسا سرکلر بھیجا جاتا تو ناظر امور عامہ کی طرف سے بھیجا جاتا پس یہ بات سرے سے بناوٹی ہے<۔ ۱۶۲
سرکلر کا دوبارہ شاخسانہ
اب حقیقت پوری طرح کھل چکی تھی۔ مگر چونکہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے والے ہندو` سکھ اور کانگرس نواز عناصر کا مقصد جماعت احمدیہ کو بدنام کرکے اسے عوام اور حکومت کی نظروں میں گرانا اور نقصان پہنچانا تھا۔ اس لئے کچھ عرصہ کے بعد اس مفروضہ سرکلر کا شاخسانہ دوبارہ کھڑا کردیاگیا۔ اور اس دفعہ اس پراپیگنڈے کا آغاز حکومت کے ایک آفیسر یعنی سردار بچن سنگھ سب انسپکٹر پولیس بٹالہ کی طرف سے کیا گیا اور حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلیٰ کے خلاف اس زور اور شدت سے افواہیں پھیلائی گئیں کہ حکومت کے بعض وزراء بھی غلط فہمی کا شکار ہوگئے اور جماعت احمدیہ کی نسبت بدگمانیوں کا دروازہ پہلے سے بہت زیادہ وسیع ہوگیا۔
حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال کا وضاحتی بیان
جب صورت حال اس درجہ پیچیدہ ہوگی تو نمائندہ >الفضل< نے چودھری فتح محمد صاحب کا مفصل انٹرویو شائع کیا جس میں اصل واقعات اور ان کے پس منظر پر تفصیلی روشنی ڈالی گئی تھی اس اہم انٹرویو کا ایک حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
>میں گذشتہ پندرہ سال میں متواتر ضلع گورداسپور کے دیہات کا دورہ کرتا رہا ہوں اور مختلف دیہات میں میرے لیکچر ہوتے رہے ہیں جن کی تعداد ایک سال میں اوسطاً پجاس تک رہی ہے لیکن پولیس ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کرسکتی جس سے ثابت ہوکہ میں نے کبھی سکھوں اور مسلمانوں یا سکھوں اور احمدیوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکسایا۔ اس کے برعکس میں نے ہمیشہ انہیں آپس میں پرامن اور محبت سے رہنے کی تلقین کی۔ پولیس میری تقریروں کو نوٹ کرتی رہی ہے۔ اور وہ دیکھ سکتی ہے کہ میں نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جس سے مسلمانوں یا احمدیوں کو سکھوں کے خلاف مشتعل کیا گیا ہو ہاں میں سکھ اور مسلمان دیہاتیوں کو یہ تلقین کرتا رہا ہوں کہ سودی لین دین سے پرہیز کیا جائے اور ساہوکاروں کے پنجے سے بچیں۔ علاوہ ازیں قانون انتقال اراضی کی بعض دفعات کی وضاحت کی جاتی رہی ہے تاعوام اس سے فائدہ اٹھائیں۔
نیز میں عوام کو یہ بھی کہتا رہا ہوں کہ بدمعاشوں کے خلاف پولیس کی امداد کی جائے تاگائوں کے پرامن لوگ نقصانات سے بچ جائیں علاوہ ازیں جنگی امداد کی تحریک کرتا رہا ہوں اور حضرت امام جماعت احمدیہ کے جنگی امداد سے متعلق خطبات کو دیہاتیوں تک پہنچاتا رہا ہوں۔
شرارت کے وجوہ کے ذکر میں جناب چوہدری صاحب نے فرمایامیں سمجھتا ہوں کہ میرے خلاف ایجی ٹیشن پھیلانے والے دوطبقے ہیں۔ اول پولیس کا رشوت خور عنصر اور دوسرے ساہو کار طبقہ ظاہر ہے کہ ان ہر دوگروہوں میں انسانی ہمدردی کا جذبہ بالکل مفقود ہوتا ہے۔ اور اب چونکہ یہ عناصر ختم ہونے پر ہیں اس لئے انہیں گھبراہٹ ہورہی ہے۔
آپ نے فرمایا مجھے اس بات سے سخت رنج ہے کہ میرے سکھ دوستوں میں میرے خلاف پروپیگنڈہ کرکے خطرناک قسم کی بدظنی پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے لیکن میں اس کے متعلق فی الحال صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں اور سکھوں میں جو جاٹ قوم کا حصہ ہے ان کو یقین دلاتا ہوں کہ میری تکالیف کی اصل وجہ زمینداروں کی خیر خواہی ہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا ہندو یا سکھ۔ ان کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ جب کسی غیر زراعت پیشہ سکھ کی طرف سے پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔
اس ضمن میں اس امر کا بھی ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں کہ ۱۹۴۰ء میں اس علاقہ میں زمینداروں نے اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ایک کمیٹی بنائی تھی جس میں علاقہ کے معزز ہندو سکھ اور مسلمان زمیندار شامل تھے۔ ان لوگوں نے بالاتفاق مجھے صدر منتخب کیا تھا اور اس کے متعدد اجلاس موضع بگول۔ قادیان اور دیگر مقامات پر ہوئے۔ اس کمیٹی کی اغراض میں یہ بھی تھا کہ زمینداروں کو ساہوکاروں سے اور رشوت خور افسروں سے بچایا جائے۔ نیز زمینداروں کی فلاح وبہبود کے لئے جو قوانین پاس کئے گئے ہیں ان کی وضاحت مقصود تھی تازمیندار ان سے کماحقہ فائدہ اٹھاسکیں ایک ساہوکار نے اڑتیس سالہ گروی ناموں کو واپس کرکے بعض بے بوقوف زمینداروں سے بیس سالہ یا دس سالہ مستاجری لکھوانی شروع کردی تھی۔ ان جلسوں میں زمینداروں کو بتایا گیا کہ وہ ساہوکاروں کے اس قسم کے ہتھکنڈوں سے بچیں۔ انہی دنوں اسی ساہوکار کی سازش سے میرے خلاف ایک غیر زراعت پیشہ تھانیدار کے زمانہ میں ایک خود غرض اور پولیس کے ہاتھ میں کھیلنے والے زمیندار سے رپورٹیں لکھوائی گئیں اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کی گئی۔ ۱۶۳
مرزا سلیم بیگ صاحب کارکن اعلیٰ ہائیکورٹ حیدرآباد دکن وسیاح بلاداسلامیہ قادیان میں
مرزا سلیم بیگ صاحب کے دادا مرزا عبدالقادر بیگ صاحب اور حضرت ام المومنین کی نانی اماں محترمہ حضرت قادری بیگم صاحبہ دونوں حقیقی بھائی بہن تھے۔ ان خاندانی تعلقات کی
تجدید مرزا سلیم بیگ صاحب کو دوبارہ فتح/دسمبر ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء میں قادیان لے آئی۔ مرزا سلیم بیگ صاحب کی آنکھ نے مرکز احمدیت میں کیا دیکھا؟ اس کی تفصیل خود ان کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں۔
>۱۹۰۹ء کی بات ہے جبکہ میں دہلی میں میاں بشیر الدین محمود احمد )خلیفتہ المسیح( اور آپا نصرت جہاں بیگم )ام المومنین( سے ملا تھا۔ عرصہ تک پھر ملنا نہیں ہوا۔ حالانکہ ڈاکٹر ۔۔۔ محمد اسماعیل صاحب سے بارہا دہلی میں ملتا جلتا رہا۔ حیدر آباد کی ملازمت نے وطن سے دور کردیا۔ بیگانے اپنے ہوگئے اور اپنے بیگانے کنبہ کے بہت سے لوگ نئی پیداوار کے ہیں یہ نہ جانتے ہیں نہ پہنچانتے ہیں۔ اور ان باتوں کا موقع بھی نہیں ملتا۔ دہلی کا کنبہ ہندوستان کے چاروں کھونٹوں میں آباد ہوگیا ہے۔ ہر شخص نے اپنا نیا کنبہ بنا لیا ہے اور نئی جنت بناڈالی ہے۔ میں بھی اپنی دنیا میں بہر حال آباد ہوں اسی طرح قادیان میں ایک کنبہ آباد ہے جو لوگ جانتے ہیں وہ جانتے ہیں زندگی میں دوچار دفعہ ملنا ہوگیا ہے ہم ختم ہوئے اور کنبہ داری کی زنجیر ٹوٹی۔ شجرے کی کسی ٹہنی میں ہمارا بھی نام لٹکا ہوگا۔ گرچہ بسے گذشت کہ نوشیروان نماند۔
اکثر دل چاہتا تھا کہ قادیان جائوں ور ایک دفعہ تو مل آئوں مگر دہلی تک جاکر اتنی دلچسپیاں بڑھ جاتی تھیں کہ رخصت کا مختصر زمانہ دہلی کی جنت میں ختم ہوجاتا اور قادیان جانے کی نوبت نہ آتی۔ تمنا تو ہمیشہ رہی مگر کبھی شرمندہ تعمیل نہ ہوئی۔ بالکل اتفاق تھا کہ ۱۹۳۸ء میں حضرت میاں محمود احمد صاحب حیدرآباد تشریف لائے اور عزیزوں سے ملنے کا انہوں نے خاص انتظام کیا۔ دید اور باز دید ملاقاتوں میں تجدید محبت ہوئی۔ یا یوں کہئے کہ بچھڑے ہوئے اپنی زندگی میں پھر ملے۔ حیدرآباد کی یہ ملاقاتیں میرے قدیم خیال کو تقویت پہنچانے لگیں۔ ۱۹۴۰ء میں کلکتہ گیا تو جنگ کی وجہ سے بازاروں میں سرد بازاری پائی اور طبیعت نے قرار نہ لیا۔ اور قادیان کے ارادہ سے کلکتہ سے دہلی پہنچا اور دہلی سے قادیان۔قادیان اور جماعت احمدیہ کی جوتصویر میں نے ذہن میں تیار کی تھی۔ وہ اس کے خدوخال تازہ کرنا چاہتاتھا کہ علی الصبح گاڑی بدلنے کے لئے امرتسر کے اسٹیشن پر اترنا پڑا۔ پلیٹ فارم پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ بہت سے مسافر قادیان کا ارادہ رکھتے ہیں۔ نماز اور ضروریات سے فارغ ہوکر ایک دوسرے کا پرسان حال ہوا چنانچہ میرا تعارف بھی بہت سے اشخاص سے ہوا۔ اور کرایا گیا ۔۔۔۔۔ ناشتہ کے لئے کئی اصحاب نے مجبور کیا ۔۔۔۔ بعض احباب نے تو اتنا کھلایا کہ میں نے ان کے دسترخوان پر سے اٹھنیے پر اللہ کا شکر ادا کیا۔ کھانا وہ لوگ کھارہے تھے اور میں ہاضمہ کی دوا اور ہیضہ کے انسداد پر غور کررہا تھا گاڑی جب بٹالہ پہنچی تو چائے میں مجھے شریک ہونا پڑا۔ تواضع اور اخلاق کی مشین گن نے ایک پیالی چائے کی گنجائش نکال ہی لی اور قہر درویش برجان درویش شکریہ کے ساتھ چائے پی بٹالہ سے گاڑی بدل کر قادیان جانے والی گاڑی میں سوار ہوگئے۔
لیجئے صاحب میں قادیان پہنچ گیا۔ ڈاکٹر صاحب اور عرفانی صاحب نے اسٹیشن پر ہی گلے لگایا۔ گلے ملتے اور باتیں کرتے ڈاکٹر صاحب کے ہاں پہنچے۔ ہاتھ منہ دھویا چائے اور تکلفات تو یہاں بھی بہت تھے مگر مجھے اپنی سلامتی کی ضرورت تھی محمود احمد صاحب عرفانی کو لے کر نکل گیا۔ یہ وہ شہر ہے جس کا نام برسوں سے سنتا آرہا تھا ہر مکان کو دیکھتا ہر مکین پر نظریں جماتا` بازار کو دیکھتا` اور دوکانداروں کو گھورتا` اس شہر نما قصبہ میں گزرتا رہا` قادیان کی وضع تو پنجاب کے اور قصبوں کی سی ہے مگر جماعت کے اتحاد` اتفاق اور تنظیم نے اس کو چار چاند لگادیئے ہیں بڑے بڑے بنگلہ خانہ باغ` سڑک ` مدرسے` بورڈنگ ہائوس اسپتال بازار اور ساہوکارہ برقی پریس` اطباء یونانی ` ویدک دواخانہ` کارخانے جیسی چیزیں یہاں موجود ہیں۔ یہاں کی آبادی میں حضرت مسیح موعود کے خاندان کے افراد آباد ہیں` جماعت کے کارکن آباد ہیں۔ وہ بھی آباد ہیں جو اعتقاد وایمان سے قربت چاہتے ہیں اور وہ بھی ہیں جو قربت حاصل کرچکے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو ترک وطن کرکے آباد ہوئے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو جماعت کی خاطر مقیم ہیں۔ ایسے طالب علم بھی ہیں جو شوق تبلیغ میں علم حاصل کررہے ہیں۔ ایسے طالب علم بھی ہیں جو مدارس میں ابتدائی تعلیم کے لئے بورڈنگ میں ہیں۔ جماعت کا ہر شعبہ ایک افسر کی نگرانی میں ہے اور اس افسر کا عملہ اور دفتر علیحدہ ہے۔ تمام دنیا کے ڈاک خانوں سے یہاں ڈاک آتی ہے اور جاتی ہے تار آتے ہیں اور جاتے ہیں اس لئے قادیان کو قصبہ کہنا تو غلطی ہے اچھا خاصہ شہر ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ روز بروز اس میں ترقی ہی ہوگی کیونکہ جواں ہمت اور جواں عزم جماعت کام کررہی ہے اور پابند ملت مسلمانوں کی بستی ہے جو بستے بستے بستی ہے۔
عرفانی صاحب کے ساتھ میں جماعت کے مقامات دیکھتا` یادگاروں پر نظر ڈالتا قدیم بستی میں آپا نصرت جہاں بیگم کے پاس پہنچا یہاں جماعت کی طرف سے مسلح پہرہ ہے۔ اطلاع کرائی گئی اور زنانہ میں بلالیا گیا۔ آپا نے بڑھ کر مجھے اپنے کمرہ میں لیا اور نہایت کراری آواز سے سلام علیکم کہا۔ مزاج پوچھا خیریت دریافت کی۔ حالات پوچھے گذرے ہوئوں کا ذکر کیا۔ زندوں کو دعا دی۔ عزیزوں کو نام بنام دریافت کیا اور پھر حاضر ہونے کے وعدہ پر میاں بشیرالدین محمود احمد صاحب سے ملنے باہر چل دیا۔ میاں مجھ سے ایک سال چھوٹے ہیں۔ پنجاب کی آب وہوا میں رہ کر وہ کسب علم اور جماعت کی ضروریات کے انہماک میں رہ کر مجھ سے بڑے معلوم ہوتے ہیں قویٰ مغلوں کے سے ہیں۔ آنکھوں میں چمک ویسی ہی ہے چہرے کی دونوں ہڈیاں ابھری ہوئی ہیں۔ کشادہ پیشانی` بلند قامت ہیں۔ گفتار اور رفتار میں مردانہ وضع ہیں۔ میاں جس مکان میں رہتے ہیں یہ اور بھائیوں کے مکانات سے ملا ہوا ہے۔ حصے جدا جدا ہیں مگر آپس میں سب ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں۔ ان مکانوں تک موٹر آجاتی ہے۔ یہاں سے قریب ہی مسجد اقصیٰ ہے اور اسی مسجد میں مینارۃ المسیح ہیے۔ یہیں نماز جمعہ ہوتی ہے۔ مسجد شاندار نہیں کیونکہ تھوڑی تھوڑی بنی ہے اور ہر حصہ اپنے پہلے حصہ سے جدا معلوم ہوتا ہے۔
قادیان کے قیام میں میرا ناشتہ تو ڈاکٹر صاحب کے ہاں ہوتا ۔ اور وقتوں کے کھانے دعوتوں کی صورت میں ہوتے۔ دعوتوں سے وقت بچتا تو قادیان کے قرب وجوار کے مقامات دیکھنے میں صرف کرتا۔ محمود احمد عرفانی میرے ساتھ تھے۔ اور جدھر مونہہ اٹھتا ادھر نکل جاتے ۔ پنجاب کی آب وہوا دسمبر کا مہینہ` مرغن اور مکلف کھانے کھاتابھی اور ہضم بھی کرجاتا۔ اگر حیدر آباد میں ایک ہفتہ بھی بدپرہیزی کرجاتا تو اپریشن نہیں تو کم از کم تنقیہ معدہ کی ضرورت لاحق ہو جاتی ۔ عزیزوں نے محبت سے کھلایا اور ایک عزیز مسافر نے آنکھیں بند اور دل کھول کر مسافر نوازی کی داد دی۔ میرا قیام تو ڈاکٹر صاحب کے ہاں تھا مگر مہمانی پورے قادیان نے ادا کی۔ ڈاکٹر صاحب اکثر جگہ ساتھ ہوتے مگر وہ نقرس کے مرض سے مجبور ہوگئے ہیں۔ آہستہ چلتے ہیں آہستہ بات کرتے ہیں۔ نہایت متین` سنجیدہ اور حلیم ہیں۔ سب سے محبت سے پیش آتے ہیں۔ سب کی خاطر کرتے ہیں سب سے خوش ہوکر ملتے ہیں۔ دہلی کی قدیم وضع کا مکان ہے جس میں پائین باغ ہے۔ پنشن لے لی ہے اور قادیان میں اطمینان کی زندگی گذار رہے ہیں۔
جب تک میں قادیان میں رہا گویا میں دارالسلام میں رہا۔ نہ تو موسم کی تیزی نے کوئی برا اثر کیا اور نہ میری بدپرہیزی نے میرا کچھ بگاڑا۔ آپا صاحبہ )ام المومنین( کا یہ وطیرہ رہا کہ علی الصبح مرے پاس پہنچ جاتیں اور دروازہ کو کھٹک کر اندر آجاتئیں۔ سلام علیکم کرتیں اور باتیں شروع کردیتیں۔ میں لحاف اوڑھے پلنگ پر بیٹھا ہوتا اور ٹہل ٹہل کر باتیں کرتی جاتیں آواز میں کرارہ پن باتی ہے۔ ہاتھ پائوں تندرست اور سیدھے ہیں۔ آنکھیں کام دیتی ہی۔ قوی میں توانائی اور چستی معلوم ہوتی ہے اور بات کو معقولیت سے سنتی ہیں اور معقولیت سے جواب دیتی ہیں زندگی کے ہر شعبہ پر گفتگو کرتیں ہیںاور بے دھڑک خیالات کا اظہار کرتی ہیں۔ پان کا زیادہ شوق ہے باتیں کرتی جاتی ہیں اور پان کھاتی جاتی ہیں۔ دلی والوں کا سالباس ہے۔ اونی پائتابہ پہن کر گرم رنگین تنگ موری پاجامہ پہنتی ہیں۔ گرم اونی کرتہ پر سویٹر پہن کر کشمیری شال سر سے اس طرح اوڑھتی ہیں کہ سر بھی ڈھک جاتا ہے اور مفلر بھی معلوم ہوتا ہے اوورکوٹ پہن کر ان سب کو ایک جگہ کرلیتی ہیں ایک ہاتھ میں تسبیح اور ایک میں دستانہ ہوتا ہے۔ علی الصبح بعد نماز گھر سے نکلتی ہیں پہلے عزیزوں کے ہاں دوستوں کے ہاں` اخلاص مندوں اور معتقدوں کے ہاں جاتی ہیں ` اس میں مزاج پرسی` دریافت حال ` عیادت اور تیمارداری سب ہی کچھ ہوتا ہے کہیں بچوں کا علاج کرتی ہیں اور کہیں بڑوں کی مزاج پرسی ` کسی جگہ دوابتاتی ہیں اور کہیں دوا خود تیار کرکے دیتی ہیں۔ دلی کی بڑی بوڑھی بیگمات کا یہ طریقہ تھا کہ بچوں کے درد دکھ کا علاج گھر کی بڑی بوڑھی بیگمیں کیا کرتی تھیں۔ وہی آپا صاحبہ کا طریقہ کار ہے اور اس علاج معالجہ میں ان کو اچھی دستگاہ ہے چھوٹے چھوٹے چٹکلے بچوں کے معمولی امراض میں بہت مفید ہوتے ہیں دس گیارہ بجے تک وہ اپنی اس مصروفیت سے فارغ ہوکر گھر پہنچ جاتی ہیں ۔ دوپہر کا کھاناکھا کر آرام کرتی ہیں ظہر اور عصر کی نماز تک گھر میں بہوبیٹیوں سے ملتی رہتی ہیں اور شام کو پھر چہل قدمی کو نکل جاتی ہیں اس پروگرام کی وہ حتی المقدور پابندی کرتی ہیں اس وقت ان کی عمر )۷۵( ۱۶۴ سال ہے مگر ارادہ میں جوان ہیں عمل میں جوان ہیں اپنے عزم میں جوان ہیں۔ ایک بارعب کمانڈر کی طرح قادیان کی آبادی پر اثر ہے جس طرح خلوص اور محبت سے ملتی ہیں۔ اسی طرح رعب اور اثر سے کام لیتی ہیں۔ ان امور میں ان کو دلچسپی ہے اور اسی کو انہوں نے اپنا شغل بنارکھا ہے ۔ جس طرح کنبہ کو ان کی ضرورت ہے۔ اسی طرح قادیان کی آبادی کو ان کی ضرورت ہے۔ یہ بلا لحاظ مذہب وملت ہر ایک سے حسن سلوک کے ساتھ ملتی ہیں جو کچھ ممکن ہوتا ہے اس کی خدمت کرتی ہیں اطمینان اور دلاسہ دیتی ہیں۔
بہرحال برسوں کی آرزو پوری کرکے عزیزوں سے مل کر` قادیان کو دیکھ کے` قادیان سے رخصت ہوگیا۔ جی تو چاہتا ہے کہ ایک دفعہ اور ہو آئوں مگر۔
>اے بسا آرزو کہ خاک شدہ<
اب تک تو یہی ہورہا ہے آئندہ کی خبر خدا جانے ۔ والسلام
سلیم بیگ ۱۶۵
مرزا سلیم بیگ صاحب کا ایک اور تحریری بیان
مرزا سلیم بیگ صاحب نے اپنے سفر قادیان کے تاثرات کا اظہار اپنے ایک دوسرے تحریری بیان میں بھی کیا چنانچہ انہوں نے لکھا:۔
>۱۹۲۴ء میں پہلی مرتبہ مجھے قاہرہ )مصر( جانے کا اتفاق ہوا میں قاہرہ میں ٹھہرگیا۔ اور مرے ہمسفر دوست دو روز قاہرہ میں ٹھہر کر یورپ چلے گئے تقریباً ایک ہفتہ کے بعد مجھے قاہرہ میں محمود احمد صاحب عرفانی سے ملنے کا شرف حاصل ہوا کچھ وطنیت کچھ سلسلہ واقفیت نے ہم دونوں کو اس طرح متحد کیا کہ میرا اکثر وقت محمود احمد صاحب عرفانی کے ساتھ گزرنے لگا۔ عرفانی صاحب قاہرہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مبلغ اسلام تھے اور وہاں اپنے مشن کا کام مصریوں میں نہایت ہی خوبیوں کے ساتھ کررہے تھے اجنبیت اور غیر ملکی ہونے کے باوجود عرفانی صاحب نے مصری شرفاء کی مجلسوں میں اچھا رسوخ پیدا کرلیا تھا نامور اور ذمہ دارر ہستیوں سے مراسم رکھتے تھے۔ اس لئے عرفانی صاحب کی وجہ سے مجھے قاہرہ اور زندگی قاہرہ کے مطالعہ کا کافی موقع ملا۔ اور میں اس مشن کی کوششوں کو بھی دیکھتا رہا جو عرفانی صاحب مبلغ کی حیثیت سے وہاں انجام دے رہے تھے۔ عرفانی صاحب کی ہی رہبری سے فلسطین اور شام میں جماعت احمدیہ کے تبلیغی مشن کی کوششوں کو دیکھا۔ دوسری مرتبہ ۱۹۳۰ء میں قاہرہ جانے کا اتفاق ہوا۔ اوریہ میری خوش نصیبی تھی کہ عرفانی صاحب موجود تھے۔ اور ان کا مشن نہایت کامیابی سے اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔ اس مرتبہ کی ملاقات تجدید اتحاد کا باعث ہوئی اور مشن کی کارگذاری پر مشن کے رسوخ پر مبلغ کے خلوص پر غور کرنے کا بہت زیادہ موقعہ ملا۔ میں ان تاثرات کو لئے ہوئے فلسطین ` شام` استنبول اور برلن وغیرہ گیا یہاں مجھے جماعت احمدیہ کی تنظیم اور کوششوں کا ثبوت ملتاگیا۔ مجھے حقیقتاً نہایت صدقدل سے اس کا اعتراف ہے کہ میں نے ہرجگہ جماعت احمدیہ کے مبلغوں کی کوششوں کے نقوش دیکھے۔ ہرجگہ اسلامی روایات کے ساتھ تنظیم دیکھی۔ ہر جگہ اس جماعت میں خلوص اور نیک نیتی پائی۔ جماعت احمدیہ میں سب سے بڑی خوبی اتحاد عمل اور امام جماعت کے احکام کی پابندی ہے۔ اس لئے اس کے اراکین کہیں اور کسی حال میں شعار اسلام اور احکام اسلام کو نظر اندار نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی اصلی غرض اور فرض سے انجان ہوتے ہیں۔ تقریروں` تحریروں یا ملاقاتوں میں ان کا نقطہ نظر موجود ہوتا ہے اور وہ اشارۃ کنایتہ اپنا کام کئے جاتے ہیں۔ محنت برداشت کرتے ہیں۔ غیر مانوس اور غیر مشرب لوگوں میں رسوخ پیدا کرکے اپنے فرائض کی تکمیل کرتے ہیں۔ اور اپنی تبلیغی حیثیت کو نمایاں رکھتے ہیں۔ محمود احمد صاحب عرفانی نے ۱۹۳۰ء میں قاہرہ سے ایک اخبار >اسلامی دنیا< بھی اردو زبان میں ٹائپ پریس سے شائع کیا تھا۔ یہ اخبار مصور بھی تھا اور اردو میں اسلامی دنیا کی خبریں نہایت شرح وبسط سے شائع ہوتی تھیں۔ افسوس ہے کہ ناگزیر مجبوریوں نے اس اخبار کو جاری نہ رہنے دیا اور اشاعت بند ہوگئی۔ اس اخبار میں کچھ حصہ میرے سفر کا بھی شائع ہوا تھا۔
شام ومصر کی ان ملاقاتوں کا یہ اثر ہوا کہ مجھے جماعت احمدیہ کے صدر مرکز قادیان جانے کا اتفاق ہوا۔ دسمبر ۱۹۴۰ء میں قادیان دارالسلام پہنچا۔ قادیان امرتسر سے تقریباً ۵۰ میل ہے۔ ریل جاتی ہے مگر دوتین جگہ اس کو بدلنا پڑتا ہے۔ یہ ایک گائوں ہے جہاں جماعت احمدیہ کے عروج کے ساتھ اس قصبہ کو بھی عروج ہورہا ہے۔ سڑکیں بن گئیں ہیں۔ مکانات تعمیر ہوگئے ہیں۔ باغ اور کھیلوں کے میدان تیار کئے جارہے ہیں۔ اسپتال` مدارس اور بورڈنگ ہائوس تیار ہیں۔ جہاں اس جماعت کے اساتذہ جماعت کے ہونہار بچوں کی تعلیم وتربیت پر لگے ہوئے ہیں۔ ہسپتال جس کا خرچ جماعت احمدیہ برداشت کرتی ہے۔ منظم اور ایک حد تک آلات وادویات سے آراستہ ہے۔ بورڈنگ ہائوس کی عمارت بہت وسیع اور شاندار شاہجہانی وضع پر تعمیر کی گئی ہے۔ جو ایک پرفضا مقام پر سکول کے متصل ہے۔ اس کے قریب وہ میدان ہے جہاں جماعت کے ضروری اور سالانہ اجلاس ہوتے ہیں میں نے دیکھا ہے کہ سالانہ اجلاس کی تیاری اس میدان میں نہایت وسیع پیمانے پر ہورہی تھی۔ مہمانوں کے قیام` مہمانوں کے طعام وضروریات زندگی کی فراہمی پر اراکین کی سعی بلیغ قابل تحسین وقابل تقلید تھی۔ اوقات واہتمام کی تقسیم جو اس جماعت کی نمایاں خوبی ہے` سرعت وخلوص نیت کے ساتھ کارفرما تھی۔ گو میں سالانہ اجلاس کے وقت تک قیام نہ کرسکا مگر انتظام واہتمام کے نقوش میرے سامنے تھے اور ہر وقت میں ان کی یک جہتی کا قائل اور ان کی مدنیت کا شیدا ہوتا گیا۔
قبر ستان کا اہتمام اور اس میں صف بندی میں نے پہلی مرتبہ قادیان میں دیکھی بغیر کسی آرائش اور لحاظ منصب کے اس قبرستان میں قبور ایک صف میں بنائی گئی ہیں۔ مدفن کی لوح` مدفونوں کی ایک مختصر تاریخ وفات اور وصیت نامہ کے نمبر رجسٹری کے ساتھ کندہ ہوتی ہے۔ ہر قبر پر بالالتزام یہ لوح ہوتی ہے۔ ہر قبر دوسری قبر سے معقول فاصلہ پر ہوتی ہے ہر صف کے آمدورفت کے لئے راستہ چھوڑا جاتا ہے اور ممکن طریقہ پر اس قبرستان کو سایہ دار درختوں سے خوش نما کیا گیا ہے۔ قادیان میں اکثروں نے ترک وطن کرکے سکونت اختیار کرلی ہے۔ یہاں ایک ایسی انجمن بھی ہے جو اپنی جماعت کو قادیان میں تعمیر مکان کے لئے قرضہ دیتی ہے بالاقساط وصول کرتی ہے اس جماعت کے اراکین اپنی املاک جماعت کے لئے وقف کردیتے ہیں اور اس کا انتظام بھی ایک خاص محکمہ کی نگرانی میں ہوتا ہے خزانہ داد وستد` امور مذہبی` نشرواشاعت ` اہتمام ترکہ ووقف کے لئے محکمہ جات قائم ہیں۔ ہر ایک کے لئے مقررہ عملہ اور عہدہ دار ہیں۔ ان سب دفاتر پر خلیفہ ثانی حضرت میاں بشیر الدین محمود صاحب کی نگرانی ہے جو بالذات روزانہ اس کی خدمات کی جانچ کرتے ہیں۔ جس زمانہ میں مجھے قادیان جانے کا اتفاق ہوا حضرت خلیفہ صاحب تفسیر قرآن لکھنے میں مصروف تھے۔ یہ تفسیر قادیان میں شب وروز کی محنت سے بروقت شائع ہوئی اور حضرت صاحب کی عنایت سے اس تفسیر کبیر کی ایک جلد مجھے بھی حیدرآباد میں ملی جس کا میں بے حد ممنون ہوں خداوند تعالیٰ ان کے کام میں برکت دے اور ہمیں احکام قرآنی کے سمجھنیے کی توفیق عطافرمائے آمین ۔ فقط<۱۶۶
مولوی محمد رفیق صاحب مجاہد تحریک جدید کا انتقال
اس سال کا ایک المناک واقعہ مولوی محمد رفیق صاحب مجاہد تحریک جدید کا انتقال ہے جو ترکستان کے مشہور شہر کا شغر میں ہوا۔ مولوی صاحب موصوف چاچڑ ضلع شاہ پور کے رہنے والے تھے۔ تحریک جدید کے دسویں مطالبہ کے تحت وہ تحریک جدید سے صرف زاد راہ لے کر وطن سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ ۱۹۳۶ء میں آپ مولوی )راجہ( عدالت خاں صاحب کی قیادت میں کشمیر پہنچے۔ مولوی عدالت خاں صاحب کو اپنے ضلع سے غیر تسلی بخش رپورٹ آنے پر پاسپورٹ نہ مل سکا مگر آپ کو مل گیا اور آپ کچھ عرصہ سرینگر ٹھہرنے کے بعد گلگت پہنچے ۔ گلگت سے کاشغر تک کا سفر نہایت دشوار گذار ہے۔ راستہ میں سربفلک پہاڑ اور خوفناک برفانی میدان آتے ہیں۔ مولوی محمد رفیق صاحب دو ماہ میں یہ لمبا سفر طے کر کے صحیح وسالم کاشغر پہنچے۔ قیام سرینگر کے دوران آپ نے کجھ چینی زبان سیکھ لی تھی کاشغر پہنچ کر آپ نے درزی کا کام شروع کردیا۔ پھر پارچہ فروشی بھی کرنے لگے۔ روسی حکومت کے حکم سے چند دن نظر بند رہے مگر تبلیغ احمدیت کا کام برابر سرگرمی سے کرتے رہے۔ ترکستان میں احمدیت کا بیج بودیا یعنی حاجی آل احمد صاحب اور حاجی جنود اللہ صاحب معہ خاندان احمدی ہوگئے جیسا کہ جلد ہفتم میں ذکر کیا جاچکا ہے مولوی صاحب موصوف کاشغر میں تبلیغی جہاد میں مصروف تھے کہ یکایک استسقاء کی مہک بیماری میں مبتلا ہوگئے اور اس سال ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کے آخر میں اپنے مولائے حقیقی کو جاملے ۔ فانا للہ وانا الیہ راجعون۔۱۶۷
‏tav.8.6
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر کبیر )جلد سوم( تک
فصل ششم
تفسیر کبیر جلد سوم کی اشاعت
۲۰ فتح/دسمبر ۱۳۱۹ہش ۱۹۴۰ء کا دن سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ہمیشہ یادگار رہے گا۔ کیونکہ یہی وہ مبارک دن ہے جبکہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ؓ کے مقدس ہاتھوں سے >تفسیر کبیر< جلد سوم جیسی معرکتہ الاراء تفسیر کی تالیف کا عظیم الشان کام پایہ تکمیل کو پہنچا۔۱۶۸ اس کے تین روز بعد )یعنی ۲۴ فتح کو( اس کی طباعت کا مرحلہ ختم ہوا۔ اور ۲۴۔۲۵ فتح/دسمبر کی درمیانی شب کو میاں عبداللہ صاحب مالیر کوٹلوی جلد ساز نے اس کی ابتدائی مجلد کاپیاں تیار کیں اور یہ روحانی خزانہ سالانہ جلسہ ۱۳۱۹ہش ۱۹۴۰ء پر پہلے بیرونی احباب کو حاصل ہوا۔ ۱۶۹ اور بعد کو قادیان کے احمدیوں کے ہاتھوں تک پہنچا۔ اس طرح دنیائے تفسیرمیں ایک ایسے انقلاب انگیز دور کا آغاز ہوا۔ جس سے لاکھوں قلوب واذہان میں خدائے عزوجل کے کلام پاک کی نئی شمعیں روشن ہوگئیں۔ اور قرآن مجید کے غیر محدود حقائق ومعارف معلوم کرنے کے لئے بے شمار دریچے کھل گئے۔
۱۹۲۸ء کا مشہور درس القرآن اور اس کے نوٹ
جیسا کہ جلد ششم کی چوتھی فصل )صفحہ ۷۷ تا ۸۳( میں بالتفصیل بتایا جاچکا ہے کہ حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ۸ اگست ۱۹۲۸ء سے لے کر ۸ ستمبر ۱۹۲۸ء تک ایک نہایت روح پرور درس قرآن دیا تھا جو سورہ یونس سے سورہ کہف کے پانچ پاروں پر مشتمل تھا۔ اس درس کے لکھنے کی سعادت حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب` حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب جٹ` مولانا ارجمند خاں صاحب` مولانا غلام احمد صاحب بدوملہوی` مولوی ظہور حسین صاحب )مبلغ بخارا و روس( مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری` حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی` مولانا عبدالغفور صاحب` مولوی محمد یار صاحب عارف` مولوی ظفر الاسلام صاحب اور شیخ چراغ الدین صاحب کو نصیب ہوئی۱۷۰
حضرت امیر المومنین کا ابتداء ہی سے منشاء مبارک تھا کہ درس کے نوٹ نظر ثانی کے بعد کتابی صورت میں شائع کردیئے جائیں تاحضور کے بیان فرمودہ قرآنی معارف محفوظ ہوجائیں۔ حضرت اقدس نے اس غرض کے لئے مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل حلالپوری کو مقرر فرمایا۔ حضرت مولوی صاحب کی نگرانی میں سورہ یونس و سورہ ہود کے تفسیری نوٹ ۲۵۶ صفحات تک طبع ہوئے جس کے بعد عرصہ تک تفسیر کا کام ملتوی رہا۔ البتہ جن دوستوں کو تفسیر کے پڑھنے کا ازحد شوق تھا انہیں تفسیر کے مطبوعہ صفحات ہی دے دیئے گئے۔ ۱۷۱ حضور نے سالانہ جلسہ ۱۹۳۹ء پر قرآن مجید کی تفسیر کے جلد شائع کئے جانے کا اعلان فرمایا اور ارادہ کیا کہ قرآن کریم کی تفسیر کا کام ابتداہی سے شروع کردیں۔ چنانچہ حضور نے ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کے آغاز میں بہت محنت اور عرقریزی سے کئی سو صفحے نوٹوں کے تیار بھی کرلئے مگر پھر خیال آیا کہ اس طریق سے قرآن کریم کی تفسیر کا چھپا ہوا حصہ پڑا رہے گا۔ لیکن اگر درس کے نوٹ ترمیم واصلاح یا اضافہ کے ساتھ شائع کردیئے جائیں تو کاغذ بھی ضائع نہ ہوگا اور کام بھی جلد مکمل ہوجائے گا۔ ۱۷۲ حضور نے اس خیال کے آتے ہی پہلے پارہ کے نوٹ لکھنے بند کردیئے اور اس کی بجائے سورہ یونس تا کہف کی تفسیر مکمل کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ ابھی کام شروع نہیں ہوا تھا کہ حضور ۲۴ صلح کو کراچی تشریف لے گئے حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب حلالپوری بھی حضور کے ہمراہ تھے اور تفسیر کے کام کی خاطر بہت سی کتب اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ دراصل حضور کا منشاء یہ تھا کہ حضرت مولوی صاحب کی صحت بحال ہوجائے اور وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے تازہ دم ہوجائیں۔ لیکن افسوس کراچی جاکر وہ سخت بیمار ہوگئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد سے ۱۴ تبلیغ/فروری کی شام کو کراچی میل سے واپس تشریف لے آئے۔ ]10 [p۱۷۳ قادیان پہنچتے ہی آپ کی حالت اور زیادہ دگرگوں ہوگئی اور آپ ۸ امان/مارچ ۱۳۱۹ہش/۱۹۴۰ء کو انتقال کرگئے۔
ماہ شہادت/اپریل کے شروع میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی نے ارادہ فرمایا کہ جس قدر درس القرآن طبع ہوچکا ہے اس سے آگے مزید کام شروع کرکے اس کو مکمل کردیا جائے۔ اس سلسلہ میں حضور نے مولوی نورالحق صاحب واقف زندگی کو ۱۷۴ قصر خلافت میں یاد فرمایا اور ان کو درس القرآن کے غیر مطبوعہ مسودہ کا ایک حصہ )جو سورہ ہود کی آیت ۱۱۰ سے لے کر سورہ یوسف کی آخری آیت تک کے مضامین پر مشتمل تھا( سپرد فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ منشی عبدالحق صاحب خوشنویس ۱۷۵ سے اس کی کتابت کروائی جائے چنانچہ اس کی تعمیل میں منشی صاحب موصوف نے کتابت شروع کردی۔ اس کے ساتھ ہی حضور نے ہدایت فرمائی کہ سورۃ رعد سے لے کر سورۃ بنی اسرائیل تک کے مرتب شدہ نوٹ دوبارہ نقل کروائے جائیں اور حل لغات درج کرانے اور حوالہ جات لگانے کے بعد حضور کی خدمت میں پیش کئے جائیں۔ چنانچہ مولوی نورالحق صاحب` حافظ قدرت اللہ صاحب ` مولوی محمد صدیق صاحب` مولوی صدر الدین صاحب اور مرزا منور احمد صاحب )واقفین تحریک جدید( نے بقیہ مسودہ صاف اور خوشخط کرکے نقل کیا۔ حل لغات اور حوالوں کے نکالنے کا کام مولوی نور الحق صاحب نے انجام دیا۔ حضرت امیر المومنین نے سورہ رعد اور سورہ ابراہیم کے مسودہ پر ماہ ظہور/اگست میں نظر ثانی فرمائی اور بالترتیب منشی عبدالحق صاحب اور قاضی نور محمد صاحب ۱۷۶ نے اس مضمون کی کتابت کی۔ ماہ تبوک/ستمبر میں حضور انور نے بذریعہ تار سورہ حجر کا مسودہ شملہ منگوایا۔ حضور شملہ سے ۳ اخاء/اکتوبر کو واپس قادیان دارالامان تشریف لائے۔ اس وقت تک تفسیر کے ۴۹۶ صفحات کی کتابت ہوچکی تھی۔ حضور نے فرمایا کہ سالانہ جلسہ تک تفسیر مکمل طور پر تیار ہوجانی چاہئے۔ وقت نہایت تنگ تھا اور صورت یہ تھی کہ سورہ حجر کے بعد کی سورتوں پر نظر ثانی تک کا کام ابھی باقی تھا۔ حضور درحقیقت تقریباً سارا مسودہ دوبارہ ہی اپنے قلم مبارک سے لکھ رہے تھے۔ ۱۷۷ کیونکہ پہلا لکھا ہوا مسودہ بہت ہی مختصر تھا۔ علاوہ ازیں کتابت` طباعت` اور جلد بندی کے مراحل باقی تھے۔ حضور نے کتابت کا کام ¶بروقت مکمل کرانے کے لئے ارشاد فرمایا کہ متعدد کاتب مقرر کردیئے جائیں تانظر ثانی کے ساتھ ساتھ مضمون کی کتابت بھی جاری رہے۔ چنانجہ منشی عبدالحق صاحب اور قاضی نور محمد صاحب کے علاوہ )جو پہلے سے مصروف کتابت تھے( قاضی بشیر احمد صاحب بھٹی ۱۷۸` منشی محمد اسمٰعیل ۱۷۹ اور منشی احمد حسین صاحب ۱۸۰ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ جس سے کام کی رفتار میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوگیا۔ ۱۸۱ ان کاتبوں کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا تھا کہ معرکہ درپیش ہے جس کو سر کرنے کے لئے یہ انتھک سپاہی سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ اسی طرح قادیان کے دونوں پریس ضیاء الاسلام پریس اور اللہ بخش سٹیم پریس شب وروز تفسیر کی چھپائی کے لئے وقف تھے۔ مولوی نورالحق صاحب کا بیان ہے کہ آخری دوماہ کے عرصہ میں روزانہ انہیں چند منٹ کرسی پر اونگھنا ہی نصیب ہوتا تھا۔ کیونکہ ان کے کمرہ ۱۸۲میں حضور کی طرف سے گھنٹی لگی ہوئی تھی اور حضور رات اور دن کے اوقات میں کام کے لئے یاد فرماتے تھے۔ اسی طرح کاپیاں پڑھنا` کاتبوں سے انہیں درست کروانا` پروف دیکھنا یہ سب کام بمشکل ختم ہوتے تھے۔ آخری ایام میں حضور نے مولانا ابوالعطاء صاحب کو بھی پروفوں کے دیکھنے اور حل لغات وغیرہ چیک کرنے کے لئے مقرر فرمادیا۔ چنانچہ آپ نے سورہ بنی اسرائیل اور سورہ کہف کے حوالوں کو بھی چیک کرنے کے علاوہ کاتبوں کی لکھی ہوئی کاپیاں اور پروف بھی پڑھے۔ تاہم اس نوعیت کے کام کی اصل ذمہ داری )ابو المنیر( مولوی نورالحق صاحب پر عائد رہی۔ چنانچہ خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنی ایک تقریر میں ارشاد فرمایا کہ
>تفسیر کبیر جلد سوم ۔۔۔۔ کی لغت` ترجمہ اور تدوین کا اکثر کام ان کے )یعنی مولانا محمد اسماعیل صاحب فاضل ہلالپوری ناقل( کے سپرد کیا گیا تھا۔ گو آخری حصہ کے وقت مولوی صاحب وفات پاچکے تھے۔ تاہم تیسری جلد کی تدوین لغت اور ترجمہ کا بہت کچھ کام انہوں نے ہی کیا ان کی وفات کے بعد مولوی نورالحق صاحب کے سپرد یہ کام کیا گیا باوجود اس کے کہ ان کا علمی پایہ مولوی محمد اسماعیل صاحب جیسا نہیں اور باوجود نوجوان اورناتجربہ کار ہونے کے انہوں نے میرے منشاء کو سمجھا اور خداتعالیٰ نے انہیں میرے منشاء کے مطابق کام کرنے کی توفیق عطا فرمائی< ۱۸۳
حضرت امیر المومنین کا بے مثال مجاہدہ
جب دوسرے خدام کی مصروفیت استغراق اور انہماک کا یہ عالم ہو کہ وہ دن رات خدمت قرآن میں مصروف ہوں تو آقا کی محنت اور عرقریزی کس درجہ پہنچ چکی ہوگی؟ اس کا اندازہ کرنا چنداں مشکل نہیں حق یہ ہے کہ ایک روحانی جرنیل حتی المقدور جس شان سے علمی جہاد میں حصہ لے سکتا ہے اس شان کا حقیقی رنگ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے وجود مبارک میں ان دنوں پوری طرح جلوہ گرتھا۔ حضور کو صبح آٹھ بجے سے لے کر رات کے چار بجے تک منہمک رہنا پڑتا تھا۔ چنانجہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ فرماتی ہیں:۔
>قرآن مجید سے آپ کو جو عشق تھا اور جس طرح آپ نے اس کی تفسیریں لکھ کر اس کی اشاعت کی وہ تاریخ احمدیت کا ایک روشن باب ہے۔ خداتعالیٰ کی آپ کے متعلق پیشگوئی کہ کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر |ظاہر ہواپنی پوری شان کے ساتھ پوری ہوئی۔ جن دنوں میں تفسیر کبیر لکھی نہ آرام کا خیال رہتا تھا نہ سونے کا نہ کھانے کا بس ایک دھن تھی کہ کام ختم ہوجائے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد لکھنے بیٹھے ہیں تو کئی دفعہ ایسا ہوا کہ صبح کی اذان ہوگئی۔ ۱۸۴
دعائے خاص کی تحریک
اگرچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو مسلسل محنت اور جانفشانی سے کام کرنے کی ایک اعجازی طاقت وقوت حاصل تھی۔ مگر ان دنوں حضور پر اتنابوجھ آن پڑا کہ حضور نے ۱۳ ماہ فتح/دسمبر کو تفسیر القرآن کی تکمیل کے لئے خطبہ جمعہ میں خاص طور پر دعائے خاص کی تحریک فرمائی۔ اور اس میں اپنی اور دوسرے کام کرنے والوں کی غیر معمولی محنت ومشقت کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ
‏body] >[tagمیری طبیعت کچھ دنوں سے زیادہ علیل رہتی ہے اور چونکہ قرآن شریف کے ترجمہ اور تفسیر کے کام کا بہت بڑا بوجھ ان دنوں ہے اور جلسہ تک دن بہت تھوڑے رہ گئے ہیں۔ مگر ابھی کوئی ایک سو صفحہ کتاب کا یا چار سو کالم مضمون کا لکھنا باقی ہے اور آج کل اکثر ایام میں رات کے ۳۔ ۴ بلکہ ۵ بجے تک بھی کام کرتا رہتا ہوں۔ اس لئے اس قسم کی جسمانی کمزوری محسوس کرتا ہوں کہ اس قدر بوجھ طبیعت زیادہ دیر تک برداشت نہیں کرسکتی چونکہ جلسہ تک دن تھوڑے رہ گئے ہیں اس لئے دوستوں سے چاہتا ہوں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ خیریت سے اس کام کو پورا کرنے کی توفیق دے۔ وہ لوگ جو میرے ساتھ کام کررہے ہیں اور جن کا کام کتابت` کاپیوں کی تصحیح کرنا اور مضمون صاف کرکے لکھنا وغیرہ ہے وہ بھی بہت محنت سے کام کررہے ہیں۔ اتنی دیر تک روزانہ کام کرنے کی انہیں عادت نہیں پھر بھی ۲۔ ۳ بجے رات تک کام کرتے ہیں۔ ممکن ہے اس سے بھی زیادہ دیر تک کام کرتے ہوں مگر ۲۔ ۳ بجے تک تو کئی دفعہ بات پوچھنے کے لئے میرے پاس آتے رہتے ہیں۔ اسی طرح کاپیاں لکھنے والے کاتب ہیں۔ بے شک وہ اجرت پر کام کرتے ہیں مگر جس قسم کی محنت انہیں کرنی پڑتی ہے اور وہ کررہے ہیں وہ اخلاص کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ روزانہ کام کیا جائے` معمول سے دگنا کیا جائے اور اچھا کیا جائے` یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ کاتب کا کام آنکھوں کا تیل نکالنا ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک منٹ کے لئے بھی آنکھ اوپر نہیں اٹھا سکتا۔ آنکھ کاغذ پر اور قلم ہاتھ میں لے کر بیٹھا رہتا ہے اور بیٹھنا بھی ایک خاص طریق سے ہوتا ہے۔ میں تو اس کام کے متعلق سمجھتا ہوں کہ عمر قید کی سزا ہے اور دیکھا گیا ہے کہ کاتب لوگ بہت جلد بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ کتابت کے کام میں انہیں سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ آنکھیں ہر وقت ایک ہی طرف لگی رہتی ہیں۔ اس وجہ سے ان کی صحت ضائع ہو جاتی ہے۔ ہم لوگ جو تصنیف کا کام کرتے ہیں۔ ان سے زیادہ وقت کام میں دیتے ہیں مگر اس حصہ میں ان کا کام زیادہ مشقت طلب ہوتا ہے۔ ہم تو کبھی پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ کبھی بیٹھ جاتے ہیں۔ کبھی کوئی حوالہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ کبھی لکھنا شروع کردیتے ہیں اور پھر جو کچھ لکھتے ہیں وہ مضمون ہمارے ذہن میں ہوتا ہے۔ اگر ہم آنکھیں بند بھی کرلیں تو لکھ سکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ سطریں ٹیڑھی ہو جائیں گی۔ مگر کاتب بیچارے کو دو طرف نظر رکھنی پڑتی ہے۔ ادھر وہ ہمارے لکھے ہوئے کو دیکھتا ہے اور ادھر کاپی پر نظر جمائے رکھتا ہے۔ پھر ہم تو جو چاہیں لکھتے جائیں لیکن کاتب کو اجازت نہیں ہوتی کہ اپنی طرف سے کچھ کرے اور کاتبوں کا اتنا علم بھی نہیں ہوتا کہ مضمون میں دخل دے سکیں< ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت جو کاتب کام کررہے ہیں ان پر کام کا بڑا بار ہے۔ کاتب اگر اچھا لکھے تو ۶ سے ۸ صفحے روزانہ لکھ سکتا ہے۔ مگر اب کام کی زیادتی کی وجہ سے ۱۲ سے ۱۶ صفحے تک روزانہ ایک ایک کاتب سے لکھوایا جارہا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کریں تو کام جلسہ تک ختم نہ ہوسکے گا اس کے بعد اہم کام چھپوائی کا ہے۔ مگر خداتعالیٰ نے اس کے لئے بہت کچھ سہولت عطا کررکھی ہے۔ ایک وقت تو وہ تھا جب کہ دستی پریس چلانا بھی مشکل تھا۔ مگر اب دو پریس کام کررہے ہیں۱۸۵ اور ایک میں دو مشینیں چل رہی ہیں۔ کجا تو یہ کہ دستی پریس بھی نہ تھا اور کجا یہ کہ مشینیں کام کررہی ہیں اور بجلی سے دو دو پریس چل رہے ہیں۔ پریس والوں نے وعدہ کیا ہے کہ ۴۸ صفحے روزانہ چھاپ کر دیتے رہیں گے۔ اس وقت تک ساڑھے سات سو صفحے چھپ چکے ہیں۔ اور پونے دو سو کے قریب چھپنے باقی ہیں۔ مگر ان کے متعلق کوئی فکر نہیں ہے۔ البتہ کاتبوں کا کام ایسا ہے کہ اگر ایک کی بھی صحت خراب ہوگئی تو کام رک جانے کا اندیشہ ہے۔ پھر جلد سازی کا مرحلہ طے ہونا باقی ہے۔ جلد ساز سے عہد لے لیا گیا ہے کہ تمام کاپیاں چھپ جانے کے بعد کم از کم ۷۵ جلدیں روزانہ کے حساب سے دے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس بہت ہی دعائوں کی ضرورت ہے۔ اس کام کی وجہ سے دو ماہ سے انتہائی بوجھ مجھ پر اور ایک ماہ سے میرے ساتھ دوسرے کام کرنے والوں پر پڑا ہوا ہے۔ یہ بوجھ عام انسانی طاقت سے بڑھا ہوا ہے اور زیادہ دیر تک برداشت کرنا مشکل ہے جب تک خداتعالیٰ کا فضل اور نصرت نہ ہو۔ پس دوست دعا کریں کہ خداتعالیٰ کامیابی عطا کرے<۔۱۸۶
مسودہ پر نظرثانی کی تکمیل
اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو تفسیر قرآن کے لئے دعائوں کی توفیق بھی بخشی اور پھر ان کی قبولیت کا خود ہی یہ سامان کردیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۰۔ فتح/ دسمبر تک یعنی ایک ہفتہ کے اندر تفسیر کے باقی ماندہ مسودہ پر نظر ثانی کرکے کاتبوں کے سپرد کردیا۔ چنانچہ حضور نے اسی روز جماعت کو خطبہ جمعہ کے دوران یہ خوشخبری سنائی اور فرمایا کہ۔
‏]ybod >[tagجہاں تک ان نو سورتوں کا تعلق ہے یعنی سورۃ یونس سے شروع کرکے سورۃ کہف تک پرسوں میں نے کام ختم کردیا ہے اور پرسوں شام تک پریس والے ختم کردیں گے۔ ہم نے ۷۔ ۸ سو صفحات حجم کا اندازہ کیا تھا۔ پھر اندازہ لگانے والوں نے کہا کہ ۸۔ ۹ سو کے درمیان صفحات ہوں گے۔ پھر ۹۔ ۱۰ سو صفحات کا اندازہ کیا گیا اور اب رپورٹ ملی ہے کہ ۱۰۰۶ صفحات ہوجائیں گے۔ جس محنت کے ساتھ کام کیا گیا ہے اس کا لازمی نتیجہ ہے کہ آخری حصہ ایسا اچھا نہیں چھپ سکتا جیسا کہ ارادہ تھا۔ کاتبوں سے دن رات کام لیا گیا ہے۔ اسی طرح پریس والوں سے بھی۔ انسانی طاقت جتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے اسے اٹھانے کا بہت اعلیٰ نمونہ کارکنوں نے دکھایا ہے۔ مگر اس محنت کے باوجود کتابت وغیرہ کی بعض غلطیاں ہوں گی۔ میں دوبارہ تو پروف دیکھ ہی نہیں سکا اور اس لئے مجھے خیال ہے کہ بعض جگہ ضرور غلطیاں رہ گئی ہوں گی۔ لکھتے ہوئے بعض اوقات میں نوٹ دے دیتا ہوں کہ حوالہ دے دیا جائے یا فلاں معنی لغت سے نکال کر لکھ دیئے جائیں۔ عین ممکن ہے ان میں سے کوئی حوالہ لکھنا رہ جائے یا معنے نقل کرنے رہ جائیں۔ بہرحال اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تمام کارکنوں نے بہت محنت اور اخلاص سے کام لیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بعض غلطیاں رہ گئی ہوں گی۔ ہم غلط نامہ کی اشاعت کی بھی کوشش کررہے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں آخری حصہ میں پہلے سے کم غلطیاں ہوں گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولوی محمد اسٰمعیل صاحب عالم تو بہت تھے مگر ان کو کاپی اور پروف دیکھنے کی مشق نہ تھی۔ اس لئے اس حصہ میں بہت غلطیاں رہ گئی ہیں۔ کوئی حصہ کہیں چھوٹ گیا ہے` کوئی غلط جوڑ دیا گیا ہے ہم نے اس کی درستی بھی کی ہے۔ بعض جگہ علیحدہ پرچیاں چھپوا کر لگا دی گئی ہیں۔ غلط نامہ بھی چھپ جائے گا اور اس طرح صحت کی پوری پوری کوشش کی جارہی ہے۔
اب جماعت کا فرض ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائے جیسا کہ میں نے بتایا ہے قرآن کریم کی تفسیر تو کوئی انسان نہیں لکھ سکتا اور اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ قرآنی مطالب سارے یا آدھے یا سواں حصہ بلکہ ہزارواں حصہ بھی بیان کر دیئے گئے ہیں۔ کیونکہ قرآن غیر محدود خدا کا کلام ہے اس لئے اس کے علوم بھی غیر محدود ہیں اور اس نسبت سے ہم اس کے مطالب کا نہ کروڑواں نہ اربواں حصہ بیان کرسکتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس زمانہ کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری باتوں پر روشنی ڈال دی گئی ہے۔ مجھے اس خیال سے شدید ترین نفرت ہے کہ تفاسیر میں سب کچھ بیان ہوچکا ہے۔ ایسا خیال رکھنے والوں کو میں اسلام کا بدترین دشمن خیال کرتا ہوں اور احمق سمجھتا ہوں گو وہ کتنے بڑے بڑے جبے اور پگڑیوں والے کیوں نہ ہوں۔ اور جب میرا دوسری تفسیروں کے متعلق یہ خیال ہے تو میں اپنی تفسیر کی نسبت یہ کیونکر کہہ سکتا ہوں۔ ہم یہ تو کوشش کرسکتے ہیں کہ اپنے زمانے کے علوم ایک حد تک بیان کر دیں مگر یہ کہ قرآن کریم کے اپنے زمانہ کے بھی سارے علوم بیان کردیں۔ اس کا تو میں خیال بھی دل میں نہیں لاسکتا۔ قرآن کریم کے نئے نئے معارف ہمیشہ کھلتے رہتے ہیں۔ آج سے سو سال کے بعد جو لوگ آئیں گے وہ ایسے معارف بیان کرسکتے ہیں جو آج ہمارے ذہن میں بھی نہیں آسکتے۔ اور پھر دو سو سال بعد غور کرنے والوں کو اور معارف ملیں گے۔ بعض نادان خیال کرتے ہیں کہ اس طرح کہنے سے لوگوں کی توجہ تفسیر کی طرف سے ہٹ جائے گی اور بعض دفعہ بعض نادان یہ بھی کہہ دیا کرتے ہیں کہ انہوں نے تو خود کہہ دیا ہے کہ یہ کچھ نہیں۔ مگر میں قرآن کریم کے متعلق سچائی کے بیان کو ہر چیز سے زیادہ ضروری خیال کرتا ہوں۔ لاکھوں کا تفسیر نہ پڑھنا بہت کم نقصان دہ ہے بہ نسبت اس کے کہ ایک بھی شخص ہو جو یہ خیال کرے کہ اس تفسیر میں سب کچھ آچکا ہے۔ اگر دس کروڑ آدمی بھی خیال کرلیں کہ اس میں کچھ نہیں تو کوئی نقصان نہیں بہ نسبت اس کے کہ ایک بھی یہ خیال کرے کہ اس میں سب کچھ آگیا ہے۔ جو یہ خیال کرے گا کہ اس میں کچھ نہیں وہ تو میرے کلام سے محروم رہے گا لیکن یہ سمجھنے والا کہ اس میں سب کچھ آگیا ہے خداتعالیٰ کے کلام سے محروم رہ جائے گا<۔
پھر فرمایا۔
>چونکہ یہ خدائی تائید سے لکھی گئی ہے اس لئے میں کہہ سکتا ہوں کہ اس میں اس زمانہ یا آئندہ زمانہ کے ساتھ تعلق رکھنے والی دینی اور روحانی باتیں جو لکھی گئی ہیں وہ صحیح ہیں۔ ہاں بعض آئندہ ہونے والی باتوں کے متعلق یہ احتمال ضرور ہے کہ ہم ان کے اور معنے کریں اور جب وہ ظاہر ہوں تو صورت اور نکلے۔ پس جہاں تک علوم` اخلاق` روحانیت اور دین کا تعلق ہے میں امید کرتا ہوں کہ یہ بہتوں کے لئے ہدایت کا اور ان کو اور گمراہی سے بچانے کا موجب ہوگی<۔۱۸۷
>تفسیر کبیر< کا نام اور اس کی وجہ سے تسمیہ
اس عظیم الشان تفسیر کا نام سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک خواب کی بناء پر >تفسیر کبیر< رکھا گیا۔
حضرت مسیح موعودؑ کا وہ خواب مندرجہ ذیل ہے۔
>آج ہی۱۸۸ ایک خواب میں دیکھا کہ ایک چوغہ زریں جس پر بہت سنہری کام کیا ہوا ہے۔ مجھے غیب سے دیا گیا ہے۔ ایک چور اس چوغہ کو لے کر بھاگا۔ اس چور کے پیچھے کوئی آدمی بھاگا جس نے چور کو پکڑلیا اور چوغہ واپس لے لیا۔ بعد اس کے وہ چوغہ ایک کتاب کی شکل میں ہوگیا جس کو تفسیر کبیر کہتے ہیں اور معلوم ہوا کہ چور اس کو اس غرض سے لے کر بھاگا تھا کہ اس تفسیر کو نابود کردے۔
فرمایا۔ اس کشف کی تعبیر یہ ہے کہ چور سے مراد شیطان ہے۔ شیطان چاہتا ہے کہ ہمارے ملفوظات لوگوں کی نظر سے غائب کردے۔ مگر ایسا نہیں ہوگا اور تفسیر کبیر جو چوغہ کے رنگ میں دکھائی گئی اس کی یہ تعبیر ہے کہ وہ ہمارے لئے موجب عزت اور زینت ہوگی۔ واللہ اعلم<۔۱۸۹
دیباچہ
تفسیر کبیر کے مسودات پر نظرثانی مکمل۱۹۰ ہوچکی تو حضور نے ۲۰۔ فتح/ دسمبر ہی کو اپنے دست مبارک سے ایک دیباچہ تحریر فرمایا۔ جس میں نہایت اختصار مگر جامعیت کے ساتھ اس تفسیر کے پس منظر` اس کی خصوصیات اور اس کے ماخذوں پر روشنی ڈالی اور ان امور کی نشاندہی فرمائی جو اس کی تصنیف کے وقت حضور کے پیش نظر تھے۔ اس اہم دیباچہ کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ط
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
کچھ >تفسیر کبیر< کے متعلق
سورہ یونس سے سورہ کہف تک کے تفسیری نوٹ شائع ہورہے ہیں۔ میں نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی ہے کہ قرآن کریم کا صحیح مفہوم پیش کروں اور مجھے یقین ہے کہ اس تفسیر کا بہت سا مضمون میرے غور کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے مگر بہرحال چونکہ میرے دماغ نے بھی اس کام میں حصہ لیا ہے اس لئے ممکن ہے کہ کوئی بات اس میں ایسی ہو جو قرآن کریم کے منشاء کو پوری طرح واضح نہ کرتی ہو۔ اس لئے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے کلام کی خوبیوں سے اپنے بندوں کو نفع پہنچائے اور انسانی غلطیوں کے نقصان سے محفوظ رکھے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق عطاء فرمائی تو انشاء اللہ اگلی جلد سورۃ فاتحہ سے شروع کی جائے گی۔ یہ جلد پہلے اس لئے شائع کی گئی ہے کہ ان سورتوں کے متعلق میرے ایک درس کے نوٹ اڑھائی سو صفحات تک چھپ چکے تھے اور ان کے ضائع ہونے کا ڈر تھا۔ پس مناسب سمجھا گیا کہ پہلے سورۃ یونس سے سورۃ کہف تک تفسیری نوٹوں پر مشتمل جلد شائع ہو۔ اور اگر اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو بعد میں قرآن کریم کی بقیہ سورتوں کے تفسیری نوٹ شروع سے ترتیب وار شائع کئے جائیں۔
میں نے تفسیری نوٹوں کو لکھتے ہوئے اس امر کو مدنظر رکھا ہے کہ آیات اور سورتوں کی ترتیب اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے معانی کا ایک سلسلہ پوری ترتیب کے ساتھ پڑھنے والے کی سمجھ میں آجائے گا۔ اور وہ کسی صورت یا کسی آیت کو بے جوڑ نہ سمجھے گا۔ ترتیب کا مضمون ان مضامین میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے مجھے خاص طور پر سمجھائے ہیں۔ ولا یحیط احد بشی من علمہ الا بما شاء وسع کرسیہ السموات والارض۔
رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں قرآن کریم کے سات بطن ہیں اور ہر بطن کے کئی معانی ہیں۔ اس صورت میں قرآن کریم کی کوئی ایسی تفسیر لکھنا جو سب معانی پر مشتمل ہو` ناممکن ہے اور جو شخص کہے کہ اس نے قرآن کریم کی مکمل تفسیر لکھ لی ہے وہ دیوانہ ہے یا جاہل۔ جو شخص میرے نوٹوں کی نسبت کوئی ایسی بات منسوب کرے میں اس سے بری ہوں۔ میرے نزدیک ان نوٹوں کی خوبی یہی بہت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل فرما کر موجودہ زمانہ کی ضرورتوں کے متعلق بہت کچھ انکشاف فرمایا ہے۔ مگر ہر زمانہ کی ضرورت الگ ہوتی ہے اور ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق قرآن کریم میں علوم موجود ہیں جو اپنے موقع پر کھولے جاتے ہیں۔ پہلے مفسرین نے اپنے زمانہ کی ضرورتوں کے مطابق بہت بڑی خدمت قرآن کریم کی کی ہے اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اگر وہ دو غلطیاں نہ کرتے تو ان کی تفاسیر دائمی خوبیاں رکھتیں۔
)۱( منافقوں کی باتوں کو جو انہوں نے مسلمانوں میں مل کر شائع کیں۔ ان تفاسیر میں جگہ دے دی گئی ہے اور اس وجہ سے بعض مضامین اسلام اور آنحضرت~صل۱~ کی ذات کے لئے ہتک کا موجب ہوگئے ہیں۔
)۲( انہوں نے یہودی کتب پر بہت کچھ اعتبار کیا ہے اور ان میں سے بھی مصدقہ بائیبل پر نہیں بلکہ یہود کی روایات پر اور اس طرح دشمنوں کو اعتراص کا موقع دے دیا ہے۔ اگر رسول کریم~صل۱~ کا فرمانا کہ لا تصدقوھم ولا تکذبوھم ان کے ذہن میں رہتا تو یہ مشکل پیش نہ آتی۔ بہرحال ان دو غلطیوں کو چھوڑ کر جو محنت اور خدمت ان لوگوں نے کی ہے اللہ تعالیٰ ہی ان کی جزا ہوسکتا ہے۔
دو اور غلطیاں بھی ان سے ہوئی ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں وہ زمانہ کے اثر کے نیچے تھیں ایک بعض آیات کو منسوخ قرار دے دینا` دوسرے مضامین قرآن کی ترتیب کو خاص اہمیت نہ دینا۔ مگر میرے نزدیک باوجود زمانہ کی رو کے خلاف ہونے کے اس بارہ میں انہوں نے مفید جدوجہد ضرور کی ہے اور بالعموم )گو اصولی طور پر نہیں( آیات زیربحث کو غیر منسوخ ثابت کرنے کے لئے محقق مفسرین نے ضرور کوشش کی ہے۔ اسی طرح مطالب کی ترتیب کے متعلق بھی بہت زور لگایا ہے۔
میرے نزدیک ان محقق مفسرین میں علامہ ابن کثیرؓ` علامہ ابوحیانؓ صاحب محیط اور علامہ زمخشری صاحب کشاف خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ گو آخر الذکر پر اعتزال کا داغ ہے۔ طبری نے تفسیر کے متعلق روایات جمع کرنے میں خاص کام کیا ہے اور علامہ ابوالبقاء نے اعراب قرآن کے متعلق املاء ما من بہ الرحمن کتاب لکھ کر ایک احسان عظیم کیا ہے۔
گزشتہ صدی کی کوششوں میں تفسیر روح المعانی علوم نقلیہ کی جامع کتاب ہے۔ مگر تجربہ سے معلوم ہوا ہے کہ بالعموم وہ روایت کو اپنے الفاظ میں درج کردیتے ہیں۔ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سی تفاسیر کا خلاصہ اس میں آجاتا ہے۔
اب میں ان ماخذوں کا ذکر کرتا ہے جن سے مجھے نفع ہوا ہے اور سب سے پہلے اس ازلی ابدلی ماخذ علوم کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس سے سب علوم نکلتے ہیں اور جس کے باہر کوئی علم نہیں۔ وہ علیم وہ نور ہی سب علم بخشتا ہے۔ اسی نے اپنے فضل سے مجھے قرآن کریم کی سمجھ دی اور اس کے بہت سے علوم مجھ پر کھولے اور کھولتا رہتا ہے۔ جو کچھ ان نوٹوں میں لکھا گیا ہے ان علوم میں سے ایک حصہ ہے۔ سبحان اللہ والحمدللہ ولا حول ولا قوہ الا باللہ۔ دوسرا ماخذ قرآنی علوم کا حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کی ذات ہے آپ پر قرآن نازل ہوا۔ اور آپ نے قرآن کو اپنے نفس پر وارد کیا حتیٰ کہ آپ قرآن مجسم ہوگئے آپ کی ہر حرکت اور آپ کا ہر سکون قرآن کی تفسیر تھے۔ آپ کا ہر خیال اور ہر ارادہ قرآن کی تفسیر تھا۔ آپ کا ہر احساس اور ہر ہر جذبہ قرآن کی تفسیر تھا۔ آپ کی آنکھوں کی چمک میں قرآنی نور کی بجلیاں تھیں اور آپ کے کلمات قرآن کے باغ کے پھول ہوتے تھے۔ ہم نے اس سے مانگا اور اس نے دیا۔ اس کے احسان کے آگے ہماری گردنیں خم ہیں۔ اللھم صل علی محمد وعلی ال محمد وبارک وسلم انک حمید مجید۔
پھر اس زمانہ میں علوم قرآنیہ کا ماخذ حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود کی ذات علیہ الصلٰوۃ والسلام ہے جس نے قرآن کے بلند و بالا درخت کے گرد سے جھوٹی روایات کی آکاس بیل کو کاٹ کر پھینکا اور خدا سے مدد پاکر اس جنتی درخت کو سینچا اور پھر سرسبز و شاداب ہونے کا موقعہ دیا۔ الحمدلل¶ہ ہم نے اس کی رونق کو دوبارہ دیکھا اور اس کے پھل کھائے اور اس کے سائے کے نیچے بیٹھے۔ مبارک وہ جو قرآنی باغ کا باغبان بنا۔ مبارک وہ جس نے اسے پھر سے زندہ کیا اور اس کی خوبیوں کو ظاہر کیا۔ مبارک وہ جو خداتعالیٰ کی طرف سے آیا اور خداتعالیٰ کی طرف چلا گیا۔ اس کا نام زندہ ہے اور زندہ رہے گا۔
مجھے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم سے بہت کچھ دیا ہے اور حق یہ ہے کہ اس میں میرے فکر یا میری کوشش کا دخل نہیں۔ وہ صرف اس کے فضل سے ہے۔ مگر اس فضل کے جذب کرنے میں حضرت استاذی المکرم مولوی نورالدین صاحب خلیفتہ المسیح الاولؓ کا بہت سا حصہ ہے۔ میں چھوٹا تھا اور بیمار رہتا تھا۔ وہ مجھے پکڑ کے اپنے پاس بٹھا لیتے تھے اور اکثر یہ فرماتے تھے کہ میاں تم کو پڑھنے میں تکلیف ہوگی۔ میں پڑھتا جاتا ہوں تم سنتے جائو اور اکثر اوقات خود ہی قرآن پڑھتے خود ہی تفسیر بیان کرتے۔ اس کے علوم کی چاٹ مجھے انہوں نے لگائی اور اس کی محبت کا شکار بانی سلسلہ احمدیہ نے بنایا۔ بہرحال وہ عاشق قرآن تھے اور ان کا دل چاہتا تھا کہ سب قرآن پڑھیں۔ مجھے قرآن کا ترجمہ پڑھایا اور پھر بخاری کا اور فرمانے لگے لو میاں سب دنیا کے علوم آگئے۔ ان کے سوا جو کچھ ہے یا زائد یا ان کی تشریح ہے۔ یہ بات ان کی بڑی سچی تھی جب تک قرآن و حدیث کے متعلق انسان کا یہ یقین نہ ہو علوم قرآنیہ سے حصہ نہیں لے سکتا۔
میں آخر میں ان سب کام کرنے والوں کے لئے جنہوں نے ان نوٹوں کی طباعت میں حصہ لیا ہے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان پر اپنا فضل فرمائے۔ انہوں نے رات دن محنت کرکے اس کام کو تھوڑے سے وقت میں ختم کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کی محنت اور قربانی کا بدلہ اپنے پاس سے دے۔ آمین۔
پھر اے پڑھنے والو! میں آپ سے کہتا ہوں` قرآن پڑھنے پڑھانے اور عمل کرنے کے لئے ہے۔ پس ان نوٹوں میں اگر کوئی خوبی پائو تو انہیں پڑھو پڑھائو اور پھیلائو` عمل کرو عمل کرائو` اور عمل کرنے کی ترغیب دو۔ یہی اور یہی ایک ذریعہ اسلام کے دوبارہ احیاء کا ہے۔ اے اپنی فانی اولاد سے محبت کرنے والو اور خدا تعالیٰ سے ان کی زندگی چاہنے والو! کیا اللہ تعالیٰ کی اس یادگار اور اس تحفہ کی روحانی زندگی کی کوشش میں حصہ نہ لو گے؟ تم اس کو زندہ کرو` وہ تم کو اور تمہاری نسلوں کو ہمیشہ کی زندگی بخشے گا۔ اٹھو کہ ابھی وقت ہے۔ دوڑو کہ خدا کی رحمت کا دروازہ ابھی کھلا ہے۔ اللہ تعالٰی آپ لوگوں پر بھی رحم فرمائے اور مجھ پر بھی کہ ہر طرح بے کس بے بس اور پرشکستہ ہوں اگر مجرم بنے بغیر اس کے دین کی خدمت کا کام کرسکوں تو اس کا بڑا احسان ہوگا۔ یاستار یاغفار ارحمنی یا ارحم الراحمین برحمتک استغیث۔
مرزا محمود احمد
۲۰۔ ماہ/ فتح ۱۳۱۹ہش۔ ۲۰ ذیقعدہ ۱۳۵۹ ہجری
۲۰۔ دسمبر ۱۹۴۰ء
تفسیر کبیر کی پہلی جلد حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں
تفسیر کبیر کی اشاعت کا انتظام مولوی عبدالرحمن صاحب انور )سابق انچارج دفتر تحریک جدید( کے ذمہ تھا۔ ان کا بیان ہے کہ جب >تفسیر کبیر کی سورہ یونس کی تفسیر والی پہلی جلد رات۱۹۱ کو چار بجے کے قریب مکمل ہوئی تو حضور کی ہدایت کے بموجب کہ جونہی کتاب کی پہلی جلد تیار ہو حضور کی خدمت میں فوراً پیش کی جائے۔ جب پیش کرنے کے لئے دستک دی تو حضور فوراً تشریف لے آئے اور تیار شدہ جلد کو ملاحظہ فرما کر بہت خوش ہوئے<۔۱۹۲
تفسیر کبیر جلد سوئم کی اشاعت
تفسیر کبیر جلد سوم۱۹۳ ایک ہزار سات صفحات کی ضخیم کتاب تھی جو تین ہزار کی تعداد میں طبع ہوئی تھی اور اس کا پہلا ایڈیشن ہجرت/ مئی ۱۹۴۱ء/۱۳۲۰ہش تک بالکل ختم ہوگیا۱۹۴ن اور مرکز کو بیرونی مشنوں کے لئے بعض دوسری جماعتوں مثلاً حیدرآباد دکن وغیرہ سے اس کے نسخے خریدنے پڑے۔۱۹۵ دنیا کی احمدی جماعتوں نے تفسیر کبیر کی اشاعت میں کتنا حصہ لیا؟ اس کی تفصیل خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنی زبان مبارک سے سالانہ جلسہ ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش میں بیان فرما دی تھی جو حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ فرمایا۔
>تفسیر کبیر جو چھپوائی گئی تھی وہ ختم ہوچکی ہے بلکہ اب تو ہم بیرونی مشنوں کے لئے بعض جماعتوں سے اس کے نسخے خرید رہے ہیں۔ کچھ حیدرآباد سے خریدے ہیں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے معتدبہ حصہ نے اس کی اشاعت میں حصہ نہیں لیا۔ اس کی اشاعت میں غیر احمدیوں کا بھی کافی حصہ ہے۔ تین ہزار میں سے پانسو سے کچھ زائد غیر احمدیوں نے خریدی ہے اور باقی اڑھائی ہزار احباب جمات نے مجھے افسوس ہے کہ جماعت کے دوستوں نے اس کی اشاعت کی طرف پوری توجہ نہیں کی ۔۔۔۔۔۔۔ ہر احمدی باپ کا فرض تھا کہ اپنی اولاد کے لئے تفسیر کبیر خریدتا۔ میں نے خود اپنی ہر لڑکی اور ہر لڑکے سے دریافت کیا کہ کیا انہوں نے تفسیر خریدی ہے یا نہیں اور جب تک ان سب نے نہیں خریدی مجھے اطمینان نہیں ہوا۔ میں نے تو خود سب سے پہلے اسے خریدا اور حق تصنیف کے طور پر اس کا ایک بھی نسخہ لینا پسند نہیں کیا کیونکہ میں اس پر اپنا کوئی حق نہ سمجھتا تھا۔ میں نے سوچا کہ مجھے علم خداتعالیٰ نے دیا ہے وقت بھی اسی نے دیا ہے اور اسی کی توفیق سے میں یہ کام کرنے کے قابل ہوا۔ پھر میرا اس پر کیا حق ہے اور میرے لئے یہی مناسب ہے کہ خود بھی اسے اسی طرح خریدوں جس طرح دوسرے لوگ خریدتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ افسوس ہے کہ بعض بڑے بڑے شہروں کی جماعتوں نے بھی اس کی طرف بہت کم توجہ کی ہے۔ میں تمام جماعتوں کی خریداری کی فہرست سنا دیتا ہوں۔ اس سے احباب اندازہ کرسکیں گے کہ کس کس نے اس کی اشاعت کی طرف توجہ کی ہے۔ ضلع گورداسپور ۶۰۷۔ اس میں سے قادیان میں ۵۷۲ اور باقی ضلع میں ۳۵ فروخت ہوئیں دہلی ۵۲ امرتسر ۴۶۔ یہ جماعت عام طور پر غرباء کی جماعت ہے اور گو شہر کے لحاظ سے زیادہ چاہئے لیکن جماعت کی حالت کے لحاظ سے یہ تعداد ایسی بری نہیں۔ لائل پور ۵۱` ملتان ۴۹` شہر اور جماعت کی حالت کے لحاظ سے یہ تعداد اچھی ہے۔ شیخوپورہ ۲۰۔ ڈیرہ غازی خاں ۲۷۔ سرگودھا ۳۵۔ گجرات ۳۷۔ سیالکوٹ ۲۷۔ گوجرانوالہ ۱۹۔ جہلم ۸۔ انبالہ ۷۔ جالندھر ۳۔ جھنگ ۷۔ میانوالی ۴۔ فیروزپور ۲۰۔ گوڑگانواں ۸۔ رہتک ۱۔ حصار ۲۔ ریاست کپورتھلہ ۱۔ مالیر کوٹلہ ۲۔ شملہ ۲۔ جے پور ۳۔ جودھ پور ۳۔ حیدرآباد۱۹۶ سکندرآباد ۲۴۱ مگر میرا خیال ہے یہ تعداد ۳۱۰ ہے۔ معلوم نہیں دفتر نے کس طرح غلط رپورٹ کی ہے۔ صوبہ سرحد ۷۶۔ مدراس ۲۔ بہار ۲۳۔ بمبئی ۴۔ یوپی ۱۱۔ رامپور ۴۔ سی پی ۱۴۔ نواں نگر ۱۰۰۔ مانگرول ۲۔ بذریعہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب۱۹۷ ۵۹۶۔ برما ۲۴۔ عراق ۲۔ فلسطین ۸۔ جاوا سماٹرا ۴۔ یہ کل تعداد ۲۹۰۹ ہے۔ اسے دیکھ کر دوست اندازہ کر سکتے ہیں کہ جماعت نے زیادہ کوشش نہیں کی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ جماعت میں ہی یہ تمام بک کر کم سے کم ۳۔ ۴ ہزار کا مطالبہ اور ہوتا۔ مگر ہوا یہ کہ قریباً ۲۴۰۰ جماعت میں فروخت ہوئی اور باقی پانچ سو دوسروں نے لی۔ مجھے امید ہے کہ آیندہ جماعت ایسی غفلت نہ کرے گی ۔۔۔۔۔۔ یہ تفسیر ایک بہترین تحفہ ہے جو دوست دوست کو دے سکتا ہے۔ ایک بہترین تحفہ ہے جو خاوند بیوی کو اور بیوی خاوند کو دے سکتی ہے۔ باپ بیٹے کو دے سکتا ہے۔ بھائی بہن کو دے سکتا ہے۔ یہ بہترین چیز ہے جو لڑکیوں کو دیا جاسکتا ہے<۔۱۹۸
تفسیر کبیر جلد سوم کا ہدیہ
چونکہ تفسیر کبیر کی اشاعت محض قرآنی علوم و انوار کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی غرض سے ہوئی تھی اور کوئی ذاتی مقصد مدنظر نہیں تھا اس لئے حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی نے جنگ کی ہوش ربا گرانی کے باوجود اس کا ھدیہ ابتداً صرف ۵ روپے مقرر فرمایا۔ مگر بعد کو جب حجم اندازہ سے بھی بہت زیادہ بڑھ گیا مزید ایک روپیہ کا اضافہ کر دیا گیا ہاں پیشگی رقم دینے والوں کو پانچ روپے میں ہی کتاب دی گئی۔ تفسیر کبیر بہت جلد نایاب ہوگئی اور پہلے آٹھ دس۱۹۹ پھر پچیس اور بعد ازاں سو سو روپے میں فروخت ہوئی چنانچہ حضور انور نے مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کے دوران خود یہ واقعہ بیان فرمایا کہ۔
>پرسوں۲۰۰ ہی میرے پاس عراق سے ایک خط آیا جسے پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ وہاں ایک احمدی ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھ سے تفسیر کبیر ایک غیر احمدی۲۰۱ ڈاکٹر نے پڑھنے کے لئے لی تھی۔ کچھ عرصہ کے بعد ان کا تبادلہ ہوگیا اور میں نے اپنی کتاب واپس لے لی۔ انہیں معلوم ہوا کہ ایک اور احمدی کے پاس یہ کتاب ہے۔ چنانچہ وہ غیر احمدی ڈاکٹر اس کے پاس گئے اور ایک سو روپیہ میں انہوں نے یہ کتاب اس سے خریدلی<۔۲۰۲
یہی نہیں ایک وقت ایسا بھی آیا جبکہ بعض غیر احمدی شائقین نے ایک سو روپیہ دینے کی پیشکش کی۔ مگر تفسیر کبیر کی قیمت ایک سو پچیس روپیہ تک پہنچ گئی۔ اس تعلق میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا بیان فرمودہ ایک واقعہ درج کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ حضور نے ۲۸۔ فتح/ دسمبر ۱۹۵۵ء۔ ۱۳۳۴ ہش کو اپنی سالانہ جلسہ کی تقریر میں بتایا کہ۔
>سورہ یونس سے سورہ کہف تک جو تفسیر ہے اس کے متعلق ایک غیر احمدی کا مجھے خط آیا کہ ایک احمدی نے مجھے یہ جلد دی تھی جسے وہ واپس مانگ رہا ہے۔ میں سو روپیہ دیتا ہوں مگر وہ تفسیر نہیں دیتا۔ آپ مجھے سو روپیہ پر لے دیں۔ میں نے پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ ابھی اس کی ایک جلد ایک سو پچیس روپیہ میں بکی ہے۔ میں نے کہا تم سو سمجھ کے کہتے ہوگے کہ تم بڑی قربانی کررہے ہو وہ تو ۱۲۵ کو ابھی بکی ہے<۔۲۰۳
تفسیر کبیر )جلد سوم( کی جناب الٰہی میں مقبولیت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۴۱ء۔ ۱۳۲۰ہش کے موقعہ پر ارشاد فرمایا کہ۔
>تفسیر کبیر کا اثر تعلیم یافتہ طبقہ پر بہت اچھا ہے اور بعض لوگ اس سے گہرے طور پر متاثر ہوئے ہیں اور سب سے بڑی چیز تو یہ ہے کہ یہ خداتعالیٰ کے حضور مقبول ہوچکی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ دشمن نے اس کی مخالفت شروع کر دی ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک بزرگ نے ایک کام بڑی نیک نیتی کے ساتھ کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ اس پر بہت خوش تھے کہ اس کی توفیق ملی۔ مگر کچھ عرصہ کے بعد وہ آپ سے ملے اور کہا معلوم ہوتا ہے۔ میری نیت میں ضرور کوئی خرابی تھی کیونکہ میرا یہ کام خداتعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ آپ کی تحریک تو کامیاب ہوئی ہے۔ بہت سے لوگ ممبر بھی ہوگئے ہیں` چندہ بھی آنے لگا ہے۔ پھر آپ کیسے کہتے ہیں کہ مقبول نہیں ہوا۔ اس بزرگ نے جواب دیا کہ خداتعالیٰ کے ہاں کسی نیک کام کی قبولیت کا ثبوت یہ نہیں ہوتا کہ لوگ اس میں مدد کرنے لگیں۔ بلکہ خداتعالیٰ کے ہاں مقبول عمل وہ ہوتا ہے جس کی لوگ مخالفت کریں اور چونکہ میرے اس کام کی مخالفت کسی نے نہیں کی اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ یہ خداتعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہوا اور اس پر وہ بہت افسردہ تھے۔ مگر پھر کچھ دنوں کے بعد ملے تو بہت خوش تھے۔ چہرہ بشاش تھا۔ میں نے اس کی وجہ پوچھی تو جیب سے ایک خط نکال کر دکھایا کہ دیکھو یہ گالیوں کا خط آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کاموں کا مقابلہ شیطان ضرور کرتا ہے اور اس کے کام کے لئے جو آدمی مقرر ہوتے ہیں وہ خواہ علماء سے ہوں یا رئوساء میں سے اور خواہ عام لوگوں میں سے` وہ ضرور اپنا کام کرتے ہیں۔ چنانچہ اس تفسیر پر مولوی ثناء اللہ صاحب نے بھی اعتراض کئے ہیں اور بہت غصہ کا اظہار کیا ہے کہ امام جماعت احمدیہ نے تفسیر بالرائے لکھی ہے اور پھر اس کے جواب کی ضرورت اس قدر محسوس کی ہے کہ لکھا ہے کہ میں اس تفسیر کے مکمل ہونے کا انتظار نہیں کرسکتا کیونکہ ممکن ہے اس وقت تک مر ہی جائوں۔ اس لئے ابھی سے اس کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کردیتا ہوں۔ چنانچہ ایک رسالہ چند اعتراضات پر مبنی شائع بھی کیا ہے۔ پیغامیوں کی طرف سے بھی اس کی مخالفت شروع ہے اور ایک پیغامی مبلغ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ میں اپنی عاقبت کی درستی کے لئے اس تفسیر کا جواب لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ دشمن کو یہ تفسیر بہت چبھی ہے خصوصاً پیغامی صاحبان کے لئے تو یہ بے حد تکلیف اور اذیت کا موجب ہوئی ہے کیونکہ انہوں نے تفسیر کو خاص طور پر جلب زر کا ذریعہ بنا رکھا تھا۔ جب ضرورت ہوتی تحریک شروع کردیتے کہ فلاں جگہ اتنی جلدوں کی ضرورت ہے۔ فلاں ملک میں ایک ہزار جلد بھجوائی جانی چاہئے اور اس طرح فروخت کرکے اس میں سے اپنا حصہ حاصل کرلیتے۔ اس لئے ان کو خاص طور پر دکھ ہوا ہے۔ یہ نبوت وغیرہ کے مسائل اور تقریریں کرنے کے جو سوال اٹھائے جارہے ہیں یہ دراصل تفسیر ہی کی جلن کا اظہار ہے۔ حال میں مجھے ایک دوست نے لکھا ہے کہ ان کے ایک مصنف نے اپنی انجمن کو لکھا ہے کہ اب کمیشن کی آمد بہت کم ہوگئی ہے اس لئے یا تو ۲/۱ ۴ سو روپیہ ماہوار رقم کا انتظام کیا جائے اور یا پھر اتنی رقم مجھے قرض ہی دے دی جایا کرے۔ گویا اس کی آمد پر اس کا اثر پڑا ہے اور اس وجہ سے وہ چیخ اٹھے ہیں۔ یہ مقابلہ جو اب ان کی طرف سے شروع ہوا ہے یہ دراصل تفسیر کا ہے` نبوت وغیرہ کا نہیں۔ بہرحال ان گالیوں سے ہم ناراض نہیں ہیں کیونکہ یہ دراصل ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ کام خداتعالیٰ نے قبول فرما لیا ہے۔
مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر کو شائع ہوئے بہت عرصہ ہوچکا ہے اور ہماری جماعت کے دوست بھی حسب ضرورت اسے خریدتے رہے ہیں۔ کئی دفعہ بعض علاقوں کے احمدیوں نے مجھ سے پوچھا کہ کونسی انگریزی تفسیر خریدیں تو میں نے ان کو کہا کہ سردست مولوی صاحب کی تفسیر خریدلیں۔ لیکن ان کی یہ حالت ہے کہ ابھی ایک ہی جلد شائع ہوئی ہے اور وہ مخالفت پر کھڑے ہوگئے ہیں<۔۲۰۴`۲۰۵
تفسیر کبیر جلد سوم کا انڈیکس
اگرچہ مولوی عبدالرحمن صاحب انوار انچارج تحریک جدید نے تفسیر کبیر جلد سوم کے مضامین کی ایک مختصر سی فہرست اس کے آخر میں شامل کردی تھی مگر ضرورت تھی کہ اس کی مفصل فہرست بھی شائع کی جائے۔ اس اہم خدمت کی تکمیل قاضی محمد اسلم صاحب پرفیسر گورنمنٹ کالج لاہور۲۰۶ کے ذریعہ ہوئی جنہوں نے ماہ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء۔ ۱۳۲۲ہش میں اس کا مفصل انڈیکس۲۰۷ شائع کردیا اور جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بھی پسندیدگی کا اظہار فرمایا۔
>تفسیر کبیر< کی دوسری جلدوں کی اشاعت
تفسیر کبیر جلد سوم کی اشاعت کے بعد حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے قرآن مجید کے تیسویں پارہ کی تفسیر کی طرف توجہ فرمائی اور وفا/ جولائی ۱۹۴۴ء۔ ۱۹۲۳ہش سے اس کے درس کا آغاز فرمایا اور پہلے ڈلہوزی میں سورۃ النبا سے سورہ طارق تک` پھر صلح/ جنوری ۱۹۴۵ء۔ ۱۳۲۴ہش میں قادیان آکر سورہ اعلیٰ سے سورہ قدر تک کا درس دیا۔ ازاں بعد ظہور/ اگست ۱۹۴۵ء۔ ۱۳۲۴ہش میں بمقام ڈلہوزی` سورۃ البینہ سے سورۃ الھمزۃ تک اور ۱۹۴۸ء۔ ۱۳۲۷ہش میں بمقام کوئٹہ سورہ الفیل سے سورہ کوثر تک درس دیا۔۲۰۸
حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ کے یہ سارے درس مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل )انچارج شعبہ زودنویسی( نے قلمبند کئے جو نبوت )نومبر( ۱۹۴۲ء۔ ۱۳۲۱ہش سے حضور کے ارشاد کے ماتحت دفتر >الفضل< قادیان سے تفسیر القرآن کے کام پر منتقل ہوگئے۲۰۹ تھے۔ تاہم حل لغات اور حوالہ جات کی فراہمی کا فریضہ مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب فاضل )پروفیسر جامعہ احمدیہ( ہی کے سپرد رہا اور ان ہی کی زیر نگرانی ان درسوں کی کتابت` پروف ریڈنگ اور طباعت بھی ہوئی۔
حضور کے یہ اہم درس تین جلدوں میں شائع کئے گئے۔
پہلی جلد سورۃ النباء سے سورۃ البلد تک کے معارف پر مشتمل تھی )تعداد تین ہزار ضخامت ۶۲۸ صفحات` تاریخ اشاعت ظہور/ اگست ۱۹۴۵۔ ۱۳۲۴ہش(
دوسری جلد میں سورۃ الشمس سے سورۃ الزلزال تک کے مضامین شائع ہوئے )تعداد تین ہزار ضخامت ۴۷۲ صفحات` تاریخ اشاعت ۲۵ فتح/ دسمبر ۱۹۴۶ء۔ ۱۳۲۵ہش(
تیسری جلد سورۃ العادیات تا سورۃ الکوثر کی تفسیر پر مشتمل تھی۲۱۰ )ضخامت ۵۰۰ صفحات تاریخ اشاعت فتح/ دسمبر ۱۹۵۰ء۔ ۱۳۲۹ہش(۲۱۰
تیسویں پارہ کی آخری اور چوتھی جلد جس میں سورۃ الکافرون سے سورۃ الناس تک کے مطالب موجود تھے` اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۶ء۔ ۱۳۳۵ہش میں شائع ہوئی۔ یہ جلد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے لکھے ہوئے نوٹوں اور حضور کے دیئے ہوئے درسوں سے مرتب کی گئی تھی اور حضورؓ نے ان نوٹوں کو اول سے آخر تک سن کر ان میں ترمیم و تصحیح فرمائی۔۲۱۱ )تعداد اشاعت تین ہزار` ضخامت ۲۱۲ صفحات` سن اشاعت اخاء/ اکتوبر ۱۹۵۶ء۔ ۱۳۳۵ ہش(
آخری پارہ کی تفسیر کے لئے اخراجات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مندرجہ بالا جلدوں کی طبع و اشاعت کے لئے دس ہزار روپے مرحمت فرمائے جیسا کہ حضور نے آخری پارہ کی پہلی جلد کے دیباچہ میں رقم فرمایا کہ۔
>پارہ عم کی تفسیر کی طباعت کے لئے میں نے دس ہزار روپیہ دیا ہے اور یہ پارہ اس رقم سے شائع کیا جائے گا۔ یہ رقم اور اس کا منافع بطور صدقہ جاریہ میری مرحومہ بیوی مریم بیگم ام طاہر غفراللہ لھا و احسن مثواھا کی روح کو ثواب پہنچانے کے لئے وقف رہے گا اور اس کی آمد سے قرآن کریم` احادیث اور سلسلہ احمدیہ کی ایسی کتب جو تائید اسلام کے لئے لکھی جائیں۔ شائع کی جاتی رہیں گی اور اس کا انتظام تحریک جدید کے ماتحت رہے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس صدقہ جاریہ کو مرحومہ کی درجات کی بلندی اور قرب الٰہی کا موجب بنائے<۔۲۱۲4] [rtf
تفسیر کبیر کے مسودات کی حفاظت کا خاص اہتمام
اس جگہ یہ بتانا ضروری ہے کہ متحدہ ہندوستان میں اس کی دو جلدیں ہی شائع ہوئی تھیں اور بقیہ جلدوں کے مسودات )تا سورۃ الھمزۃ( اشاعت کے بغیر پڑے تھے کہ ہندوستان تقسیم ہوگیا جس پر حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ابوالمنیر مولوی نورالحق صاحب کو بتاریخ ۲۵۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۷ء۔ ۱۳۲۶ہش مسودات تفسیر دے کر لاہور بھجوا دیا۔ چنانچہ آپ کا بیان ہے۔
>پاکستان کے قیام پر فسادات کے پیش نظر حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے سب سے پہلا قافلہ ۴۷/۸/۲۱ کو لاہور بھجوایا تھا۔ اس میں حضرت ام المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور
‏tav.8.7
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر کبیر )جلد سوم( تک
خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواتین مبارکہ تھیں اور خاندان کے صرف چند ایک مرد فرد تھے۔ اس قافلہ میں حضور نے مجھے بھی شامل فرمایا اور ہدایت فرمائی کہ تفسیر کبیر کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ سب مسودات لے کر لاہور پہنچوں۔ چنانچہ خاکسار ان سب مسودات کو لے کر لاہور پہنچ گیا۔ حضور نے یہ سب اس لئے کیا۔ تا ایسا نہ ہو کہ مسودات ضائع ہو جائیں<۔
ازاں بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی خود بھی ۳۱۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۷ء۔ ۱۳۲۶ء ہش کو ہجرت کرکے پاکستان تشریف لے آئے۔ یہاں پہنچتے ہی آپ نے جن امور کی طرف فوری توجہ فرمائی ان میں تفسیر کا کام بھی تھا۔ چنانچہ حضرت امیرالمومنین نے مورخہ ۳۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۷ء۔ ۱۳۲۶ء ہش حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ )امیر مقامی قادیان( کے نام حسب ذیل ہدایت جاری فرمائی۔ فرمایا۔
>جو کنوائے آئے گا اس کے ساتھ تفسیر کے تین بکس دفتر سے ضرور بھجوا دیں اور مولوی محمد یعقوب کو` تاکہ دوچار دن میں تفسیر کی آخری جلد مکمل کردوں تا اس طرف سے دلجمعی ہوجائے۔ باقی کام ہوتا رہے گا۔ کون شخص ہے جس نے سارے دنیا کے کام کئے ہوں<۔۲۱۳
اس حکم کی تعمیل میں حضرت میاں صاحبؓ نے تفسیر کے تین بکس بھی لاہور بھجوا دیئے اور مولوی محمد یعقوب صاحب )انچارج شعبہ زودنویسی( کو بھی روانہ کردیا۔
تفسیر کبیر کی دوسری جلدوں کی اشاعت
تیسویں پارہ کی مکمل تفسیر لکھنے کے علاوہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تفسیر کبیر کی مندرجہ ذیل پانچ جلدیں بھی شائع ہوئیں۔
۱۔ تفسیر کبیر جلد اول جز اول۲۱۴ )سورۃ البقرہ کے پہلے نو رکوع پر مشتمل صفحات ۵۴۸` تاریخ اشاعت ۲۳۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۸ء۔ ۱۳۲۷ہش( یہ تفسیر ضیاء الاسلام پریس۲۱۵ قادیان میں چھپی مگر سرورق اتحاد پریس لاہور میں طبع ہوا۔ اس جلد کا مسودہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے اپنے ہاتھوں کا تحریر کیا ہوا ہے۔ اس جلد کی نسبت حضور نے قبل ازیں سالانہ جلسہ ۱۹۴۴ء۔ ۱۳۲۳ہش کے موقعہ پر بتایا۔]>[اردو تفسیر کے متعلق مجھے افسوس ہے کہ وہ شائع نہیں ہوسکی۔ پانسو صفحات سے زیادہ کا مضمون میں دے چکا ہوں اور اس سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ کام ہوا ہے۔ میری صحت بہت خراب رہی ہے ورنہ اس سے بھی زیادہ کام ہوسکتا تھا۔ میری صحت کی خرابی میں دانتوں کا دخل ہے۔ بعض اوقات دانت کا ٹکڑا آپ ہی آپ ٹوٹ کر گر جاتا ہے اور اس وجہ سے میں کھانا وغیرہ چبا کر نہیں کھاسکتا۔ روٹی بہت کم کھاسکتا ہوں۔ بسا اوقات چھٹانک سے بھی کم وزن کا پھلکا ہوتا ہے جو کھاتا ہوں۔ مگر اس کے باوجود پیٹ میں خرابی رہتی ہے۔ خون کم پیدا ہوتا ہے اور پیچش بھی ہو جاتی ہے اور اس وجہ سے ہاتھوں کی انگلیاں بھی پوری طرح کام نہیں کرسکتیں۔ آخر سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ مضمون کاتب کو لکھوا دیا کروں اور خداتعالیٰ کے فضل سے اس میں بڑی کامیابی ہوئی ہے اور بڑی جلدی کام ہونے لگا ہے۔ جنہوں نے دیکھا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس طرح لکھے ہوئے اور میرے ہاتھ کے لکھے ہوئے میں فرق نہیں۔ اس طرح بعض اوقات میں نے ساٹھ ساٹھ کالم مضمون لکھوا دیا ہے اور امید ہے کامیابی ہوگی۔ مشکل یہ ہے کہ مضامین اس طرح الجھتے ہیں کہ جیسے ایک خزانہ کے اندر دوسرا خزانہ مخفی ہو اور آٹھ رکوع میں ہی پانچ سو صفحات ختم ہوگئے ہیں اور اتنا بھی مضامین کا گلا گھونٹ گھونٹ کر کیا گیا ہے۔ پہلے تجویز تھی کہ تین سورتیں پہلی جلد میں ختم ہو جائیں۔ پھر یہ خیال کیا کہ دو سورتیں پہلی جلد میں ختم کی جائیں۔ مگر اب یہ بھی مشکل نظر آتا ہے۔ میں بہت سی باتیں چھوڑتا بھی ہوں۔ مگر چونکہ ابتدائی مضمون ہے اس لئے یہ بھی خیال ہے کہ ممکن ہے تفصیل آگے فائدہ دے اس لئے ہر بات بیان کرنی پڑتی ہے اور اس لئے پانچ سو صفحات میں صرف آٹھ رکوع ختم ہوئے ہیں<۔۲۱۶
تفسیر کبیر کی اس پہلی جلد کے ابتداء میں حضور نے >کلام اللہ< کے عنوان سے حسب ذیل دیباچہ رقم فرمایا۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریمط
کلام اللہ
قرآن کریم ایک ہی کتاب ہے جو کلام اللہ کہلا سکتی ہے۔ دوسری کتب خواہ الہامی بھی ہوں کلام اللہ نہیں۔ کیونکہ ان میں انسانی کلام بھی شامل ہے۔ خالص کلام اللہ الف سے لے کر ی تک بسم اللہ سے لے کر والناس تک صرف قرآن کریم ہے۔
یہ کتاب اس وقت سے کہ نازل ہوئی ہمارے زمانہ تک جوں کی توں ہے۔ نہ ایک لفظ کم نہ ایک لفظ زیادہ` نہ کوئی حکم ناقابل عمل نہ کوئی آیت منسوخ` ہر ایک زبر زیر محفوظ` ہر ایک حرکت و وقف بعینہ۔ پس اس کے سوا اور کوئی کتاب نہیں جسے اس تعیین کے ساتھ اپنے لئے مشعل راہ بنایا جاسکے کہ اس سے کوئی مشتبہ حکم نہ ملے گا۔ مگر افسوس کہ مسلمانوں نے اس قیمتی کتاب کو بھلا دیا ہے۔ وہ اسے
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا مکتوب گرامی شیخ محمد احد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کپورتھلوی کے نام )۱۵۔ دسمبر ۱۹۳۷ء(

عکس کیلئے
حضرت مصلح موعود کے رقم فرمودہ دیباچہ کا عکس مشمولہ تفسیر کبیر جلد اول
جزاول )۲۳۔ مئی ۱۹۳۸ء(
عکس کیلئے
چھوڑ کر دوسری کتب کی طرف متوجہ ہیں اور خداتعالیٰ کی جگہ خود ساختہ لیڈروں کے پیچھے چل رہے ہیں۔ میں نے اس امید کے ساتھ کلام اللہ کی تفسیر لکھی ہے کہ جو لوگ عربی نہیں جانتے یا بدقسمتی سے اس کلام پر غور کرنے کا وقت نہیں پاتے یا جن کے دل میں یہ خواہش پیدا نہیں ہوتی انہیں کلام الل¶ہ سمجھنے کا موقعہ مل جائے اور اس کی اندرونی خوبیوں سے وہ واقف ہو جائیں۔ پہلی جلد تفسیر کی یہ ہے جس کا دیباچہ میں ان سطور کے ذریعے سے لکھ رہا ہوں۔ تین جلدیں درمیانی اور آخری حصہ کے متعلق پہلے چھپ چکی ہیں۔ اللہ تعالیٰ میری حقیر کوشش کو قبول فرمائے اور اس تفسیر کے ذریعہ سے قرآن کریم کے مطالب کو ظاہر و باطن میں پھر زندہ فرمائے اور مجھے بھی اس تفسیر کے مکمل کرنے کی توفیق بخشے۔ )آمین(
میرزا محمود احمد
رتن باغ لاہور ۴۸/۵/۲۳
۲۔ تفسیر کبیر جلد چہارم )مشتمل برسورۃ مریم و سورۃ طٰہ و سورۃ انبیاء( صفحات ۵۸۰` تاریخ اشاعت ۲۰۔ امان/ مارچ ۱۹۵۸ء۔ ۱۳۳۷ہش( یہ جلد حضرت ام طاہر فنڈ کی رقم سے الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ نے شائع کی۔
۳۔ تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ اول )سورۃ الحج` سورۃ المومنون اور سورۃ النور کی تفسیر` صفحات ۴۱۲` تاریخ اشاعت فتح/ دسمبر ۱۹۵۷ء۔ ۱۳۳۶ہش` ناشر الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ(
۴۔ تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ دوم )سورۃ الفرقان اور سورۃ الشعراء کی تفسیر صفحات ۵۰۰` تاریخ اشاعت ۳۰۔ نبوت/ نومبر ۱۹۵۹ء۔ ۱۳۳۸ہش` ناشر الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ(
۵۔ تفسیر کبیر جلد پنجم حصہ سوم )سورۃ النمل` سورۃ القﷺ اور سورۃ العنکبوت کی تفسیر` صفحات ۳۹۰` تاریخ اشاعت ۱۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۶۰ء۔ ۱۳۳۹ہش` ناشر الشرکتہ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ(۲۱۷
تفسیر کبیر کی تالیف کے دوران القاء
جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے تفسیر کبیر جلد سوم کے شروع میں لکھا ہے کہ >اس تفسیر کا بہت سا مضمون میرے غور کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہے< اس خدائی عطیہ کا ایک خصوصی پہلو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفسیر کبیر کی تالیف کے دوران حضور کو بعض مشکل مقامات کا حل یکایک القاء کیا جاتا رہا۔ بطور مثال ایک اہم واقعہ کا بیان کرنا ضروری ہے جو حضور نے سورۃ الفجر کے درس کے آغاز کرتے ہوئے بیان فرمایا کہ۔
>قرآن کریم کی کئی مشکل آیات کے معنی اللہ تعالیٰ نے اپنے القاء اور الہام کے ذریعہ مجھ پر منکشف فرمائے ہیں اور اس قسم کی بہت سی مثالیں میری زندگی میں پائی جاتی ہیں۔ ان ہی مشکل آیات میں سے میرے لئے ایک یہ سورۃ بھی تھی۔ میں جب بھی سوچتا اور غور کرتا مجھے اس کے معانی کے متعلق تسلی نہیں ہوتی تھی بلکہ ہمیشہ دل میں ایک خلش سی پائی جاتی تھی اور مجھے بار بار یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ جو معانی بتائے جاتے ہیں` وہ قلب کو مطمئن کرنے والے نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مفسرین نے بہت سے معانی کئے ہیں جو لوگوں کی نگاہ میں اس سورۃ کو حل کر دیتے ہیں۔ مگر میری اپنی نگاہ میں وہ اطمینان بخش معانی نہیں تھے اور اس لئے ہمیشہ ایک بے چینی سی میرے اندر پائی جاتی تھی۔ میں سوچتا اور غور کرتا مگر جو بھی معنے میرے ذہن میں آتے ان کو مزید غور کے بعد میں خود ہی رد کر دیتا اور کہتا کہ یہ درست نہیں ہیں۔ آخر بڑی مدتوں کے بعد ایک دفعہ جب میں عورتوں میں قرآن کریم کے آخری پارہ کا درس دینے لگا تو اس کا ایک حصہ حل ہوگیا۔مگر پھر بھی جو حل ہوا وہ صرف ایک حصہ ہی تھا۔ مکمل مضمون نہیں تھا۔ جو معنے مجھ پر اس وقت روشن ہوئے ان سے چاروں کھونٹے قائم نہیں ہوتے تھے۔ دو تو بن جاتے تھے مگر دو رہ جاتے تھے۔ یہ حالت چلتی چلی گئی اور مجھے کامل طور پر اس کے معانی کے متعلق اطمینان حاصل نہ ہوا۔
اب جو میں نے درس دینا شروع کیا تو پھر یہ سورۃ میرے سامنے آگئی )یعنی سورۃ الفجر۔ ناقل( اور میں نے اس پر غور کرنا شروع کردیا۔ میں نے آخری پارے کا درس جولائی ۱۹۴۴ء میں شروع کیا تھا۔ اور ڈلہوزی میں اس کی ابتداء کی تھی۔ اس وقت سے لے کر اب تک کئی دفعہ اس سورۃ پر نظر ڈالی اور مجھے سخت فکر ہوا کہ اس سورۃ کا درس تو قریب آرہا ہے مگر ابھی اس کے معانی ترتیب سور کے لحاظ سے مجھ پر روشن نہیں ہوئے- بار بار میں اس سورۃ کو دیکھتا` اس کے مطالب پر غور کرتا اور کوئی مضمون میرے ذہن میں بھی آجاتا۔ مگر پھر سوچتے سوچتے میں اس کو ناکافی قرار دے دیتا۔ غرض بیسیوں دفعہ میں نے اس سورۃ پر نگاہ دوڑائی مگر مجھے اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی یہاں تک کہ سورۃ الغاشیہ کے درس کا وقت آگیا اور میں اس کے نوٹ لکھنے لگا۔ مگر اس وقت بجائے غاشیہ پر نگاہ ڈالنے کے میری نظر بار بار آگے کی طرف نکل جاتی اور سورۃ الفجر میرے سامنے آجاتی۔ غاشیہ کے متعلق میں سمجھتا تھا کہ یہ تو حل شدہ ہی ہے اور اگر کوئی مشکل آیت بھی ہوئی تو ترتیب میں آکر وہ خود بخود حل ہو جائے گی۔ جس طرح ایک انسان جب گیند پھینکتا ہے تو اسے پتہ ہوتا کہ یہ گیند اتنی دور جائے گا` اسی طرح جو شخص قرآن کریم کی تفسیر ترتیب آیات اور ترتیب سور کو مدنظر رکھ کر کرتا ہے وہ سمجھ جاتا ہے کہ اسی ترتیب کے مطابق فلاں آیت کے فلاں معنے بنیں گے مگر اس بات کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی عمر اس فن میں صرف کردی ہو۔ وہی جانتا ہے کہ نہر کا رخ کس طرف ہے اور پانی کا بہائو کدھر ہے۔ دوسرا شخص جسے قرآن پر اس رنگ میں غور کرنے کا موقعہ نہ ملا ہو وہ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ جب میں سورۃ کہف کی تفسیر لکھ رہا تھا تو لاتقولن لشی|ء انی فاعل ذالک غدا الا ان یشاء اللہ )الکہف ۴: ۱۶( کے معنے میری سمجھ میں نہیں آتے تھے مگر تفسیر لکھتے وقت میں نے سمجھا کہ میں صحیح ترتیب پر چل رہا ہوں۔ جب میں اس آیت پر پہنچوں گا تو دیکھوں گا کہ اس کے کیا معنے بنتے ہیں۔ چنانچہ ترتیب آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں تفسیر کرتا چلا گیا یہاں تک کہ جب میں اس آیت پر پہنچا تو اس وقت یہ آیت اپنے معانی کے لحاظ سے یوں واضح ہوگئی کہ میں نے سمجھ لیا کہ اس کے سوا اس آیت کے اور کوئی معنے ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ پہلی آیتیں مجبور کرکے ان معنوں کی طرف لے جارہی تھیں۔ لطیفہ یہ ہوا کہ انگریزی ترجمتہ القرآن کے سلسلہ میں مولوی شیر علی صاحب کے نوٹ جب میرے پاس آئے تو ان میں وہی معنے لکھے ہوئے تھے مگر وہ نوٹ انہوں نے یہاں نہیں لکھے تھے بلکہ ولایت میں لکھے تھے۔ میں نے ملک غلام فرید صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب نے یہ نوٹ اب ٹھیک کئے ہیں یا پہلے سے اسی طرح لکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ ولایت کے لکھے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کہ اگر یہ ولایت کے نوٹ ہیں تو پھر اس آیت کے یہ معنے ولایت میں کس طرح پہنچ گئے؟ میں تو اس آیت پر بڑا غور کرتا رہا تھا مگر اس کے معنے پندرھویں پارہ کی تفسیر لکھتے ہوئے میری سمجھ میں آئے تھے۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ نے جو درس ۱۹۲۲ء ¶میں دیا تھا اس میں یہی معنے بیان کئے تھے اور اس وقت کے نوٹوں سے مولوی صاحب نے یہ معنے درج کئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ۱۹۲۲ء کا درس دیتے وقت جب میں اس آیت پر پہنچا تو خودبخود یہ آیت حل ہوگئی۔ مگر چونکہ عین وقت پر حل ہوئی اس لئے میرے قرآن کریم کے حاشیہ پر وہ معنی نہ لکھے گئے اور کچھ عرصہ بعد مجھے بھول گئے۔ اب گو ان معنوں کو میں بھول چکا تھا مگر جب ترتیب آیات کے لحاظ سے غور کرتے ہوئے میں اس آیت پر پہنچا تو فوراً وہی معنے پھر ذہن میں آگئے۔ تو ترتیب کے لحاظ سے جو شخص آیات کے معنے کرنے کا عادی ہو وہ ادھر ادھر جاہی نہیں سکتا۔ وہ اسی رو اور اسی نالی میں بہہ رہا ہوتا ہے جس کی طرف مضمون زبان حال سے اشارہ کررہا ہوتا ہے۔
غرض جوں جوں سورۃ فجر کا درس نزدیک آتا گیا میرا اضطراب بھی بڑھتا چلا گیا۔ میں نے کہا جب اس سورۃ کے متعلق میری اپنی تسلی ہی نہیں ہوئی تو میں دوسروں کو کیسے مطمن کرسکتا ہوں۔ مفسرین نے جو معنی بیان کئے ہیں وہ میں بیان کرسکتا تھا۔ مگر جو ترتیب گزشتہ سورتوں میں سے بتاتا آرہا ہوں اس کے لحاظ سے چاروں کھونٹے قائم نہیں ہوتے تھے پہلے خیال آیا کہ میں دوسروں کے معانی ہی نقل کردوں کیونکہ یہ درس اب جلد کتابی صورت میں چھپنے والا ہے کب تک میں ان معانی کا انتظار کروں جو ترتیب کے مطابق ہوں۔ شاید ترتیب کے مطابق معنی اللہ تعالیٰ پھر کسی وقت کھول دے۔ آخر پرانے مفسروں نے کوئی نہ کوئی معنے ان آیات کے کئے ہی ہیں۔ رازی نے بھی اس کے معنے لکھے ہیں۔ بحر محیط والوں نے بھی معنے لکھے ہیں۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے بھی معنے کئے ہوئے ہیں اور ان تمام معانی کو ملحوظ رکھ کر کچھ نہ کچھ بات بن ہی جاتی ہے۔ مگر چونکہ میرا دل کہتا تھا کہ ترتیب آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ معانی پوری طرح باہم منطبق نہیں ہوتے۔ مجھے اطمینان نہ ہوا۔ یہاں تک کہ ۱۷۔ ماہ صلح ۱۳۲۴ہش مطابق ۱۷۔ جنوری ۱۹۴۵ء بروز بدھ میں سورۃ غاشیہ کا درس دینے کے لئے مسجد مبارک میں آیا۔ میں نے درس سورۃ غاشیہ کا دینا تھا۔ مگر میں غور سورۃ فجر پر کررہا تھا۔ اس ذہنی کشمکش میں میں نے عصر کی نماز پڑھانی شروع کی اور میرے دل پر ایک بوجھ تھا لیکن خداتعالیٰ کی قدرت ہے کہ جب میں عصر کی نماز کے آخری سجدہ سے سر اٹھا رہا تھا تو ابھی سرزمین سے ایک بالشت بھر اونچا آیا ہوگا کہ ایک آن میں یہ سورۃ مجھ پر حل ہوگئی۔ پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ سجدہ کے وقت خصوصاً نماز کے آخری سجدہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے بعض آیات کو مجھ پر حل کردیا مگر اس دفعہ بہت ہی زبردست تفہیم تھی کیونکہ وہ ایک نہایت مشکل اور نہایت وسیع مضمون پر حاوی تھی۔ چنانچہ جب میں نے عصر کی نماز کا سلام پھیرا تو بے تحاشہ میری زبان سے الحمدلل¶ہ کے الفاظ بلند آواز سے نکل گئے<۔۲۱۸
>تفسیر کبیر< کی بعض اہم خصوصیات
>تفسیر کبیر< کے ذریعہ >کلام اللہ کا مرتبہ< اس شان سے ظاہر ہوا ہے کہ اس کی نظیر خلفاء کی گزشتہ تاریخ میں تلاش کرنا محال ہے۔ یہ تفسیر دنیائے تفسیر کی ایک بے نظیر تفسیر ہے جس نے نہ صرف قرآن کے حسین چہرہ کو صحیح صورت میں دنیا کے سامنے پیش کیا ہے بلکہ زمانہ مستقبل کے مفسرین کے لئے صحیح راستوں کی نشاندہی بھی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ عظیم الشان تفسیر اپنے اندر بے شمار خصوصیات رکھتی ہے جن میں سے بعض کا نہایت مختصر سا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے۔
پہلی خصوصیت
اس تفسیر کی پہلی عظیم خصوصیت یہ ہے کہ اس سے آیتوں اور سورتوں کی ترتیب اور ربط کا محکم قرآنی نظام آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ ترتیب کا یہ مضمون ان مضامین میں سے ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو خاص طور پر عطا فرمائے تھے۔ چنانچہ حضرت اقدس فرماتے ہیں۔
>میرا ترجمہ اور میری تفسیر ہمیشہ آیات اور ترتیب سور کے ماتحت ہوتی ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص اس نکتہ کو مدنظر رکھے گا وہ فوراً یہ نتیجہ نکال لے گا کہ اس ترتیب کے ماتحت فلاں فلاں آیات کے کیا معنی ہیں۔ فرض کرو` ایک نقطہ یہاں ہے اور ایک وہاں اور درمیان میں جگہ خالی ہے تو ہوشیار آدمی دونوں کو دیکھ کر خودبخود درمیانی خلا کو پرکرسکے گا اور وہ سمجھ جائے گا کہ جب یہ نقطہ فلاں بات کی طرف توجہ دلاتا ہے اور وہ نقطہ فلاں بات کی طرف تو درمیان میں جو کچھ ہوگا وہ بہرحال وہی ہوگا جو ان دونوں نقطوں کے مطابق ہو۔ اگر درمیانی مضمون کسی اور طرف چلا جائے تو دائیں بائیں کے مضامین بھی لازماً ادھورے رہ جائیں گے اور سلسلہ مطالب کی کڑی ٹوٹ جائے گی۔
پس میں چونکہ ہمیشہ ترتیب آیات اور ترتیب سور کو ملحوظ رکھ کر تفسیر کیا کرتا ہوں اس لئے اگر کوئی شخص میری ترتیب کو سمجھ لے تو گو میں نے کسی آیت کی کہیں تفسیر کی ہوگی اور کسی آیت کی کہیں۔ درمیانی آیات کا حل کرنا اس کے لئے بالکل آسان ہوگا کیونکہ ترتیب مضمون اسے کسی اور طرف جانے ہی نہیں دے گی اور وہ اس بات پر مجبور ہوگا کہ باقی آیتوں کے وہی معنی کرے جو اس ترتیب کے مطابق ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح میری تفسیر کے نوٹوں سے انسان سارے قرآن کریم کی تفسیر سمجھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ ہوشیار ہو اور قرآن کریم کو سمجھنے کا مادہ اپنے اندر رکھتا ہو<۔۲۱۹
اسی ضمن میں حضورؓ نے سورہ کہف کے درس کے دوران کا ایک واقعہ بھی تفسیر کبیر میں لکھا ہے۔ فرماتے ہیں۔
>میں جب سورہ کہف کا درس دینے لگا او میں نے اس سورۃ پر غور کیا تو اور سورۃ تو سب حل ہوگئی مگر ایک آیت کی مجھے سمجھ نہ آئی۔ میں نے بہت سوچا اور غور کیا مگر وہ آیت مجھے بالکل بے جوڑ معلوم ہوتی تھی۔ آخر میں نے درس دینا شروع کردیا۔ جوں جوں وہ آیت قریب آتی جائے میری گھبراہٹ بڑھتی چلی جائے کہ اب اس آیت کے متعلق کیا ہوگا یہاں تک کہ صرف دو یا تین آیتیں رہ گئیں مگر پھر بھی وہ میری سمجھ میں نہ آئی۔ اس وقت میری گھبراہٹ بہت زیادہ ہوگئی۔ مگر جس وقت میں اس سے پہلی آیت پر پہنچا تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ وہ آیت تو بالکل حل شدہ ہے اور اس کے نہایت صاف اور سیدھے معنے ہیں جن مین کسی قسم کی الجھن نہیں۔
تو حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآن کریم کی ترتیب کو مدنظر رکھا جائے اور اس پر غور اور تدبر کرنے کی عادت ڈالی جائے تو اس کی بہت سی مشکل آیات خود بخود حل ہو جاتی ہیں<۔۲۲۰
دوسری خصوصیت
تفسیر کبیر میں قرآن مجید کی آیات کا ترجمہ اور تفسیر عربی زبان کی مستند لغات )مثلاً تاج العروس` المنجد` کلیات ابو البقاء` اقرب الموارد` ¶مفردات` لسان العرب` قاموس( کی روشنی میں کی گئی اور وہی معنے اختیار کئے گئے جن کی اجازت لغت دیتی ہے۔
تیسری خصوصیت
اس تفیسر کی تیسری اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں الفاظ کے مختلف لغوی معانی بیان کرکے مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے قرآنی حقائق و معارف کا انکشاف کیا گیا ہے۔ یہ وہ علم ہے جو حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر عطا فرمایا گیا۔ حضور خود ہی ارشاد فرماتے ہیں۔
>رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی بطن ہیں۔ ایک بطن تو قرآن کریم کا یہ ہے کہ کسی آیت کے معنی کرتے وقت اس کے سیاق و سباق کی تمام آیات کو دیکھا جاتا ہے اور اس کے معنی سیاق و سباق کو مدنظر رکھ کر کئے جاتے ہیں کیونکہ اگر سیاق و سباق کو مدنظر نہ رکھا جائے تو معنوں میں غلطی کا امکان ہوتا ہے پھر ایک بطن یہ ہے کہ کسی آیت کے معنے کرتے وقت اس کے کچھ آگے آنے والی آیتوں اور کچھ پیچھے آنے والی آیتوں کو دیکھا جاتا ہے اور ان کے معنوں میں تطابق کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ پھر ایک بطن یہ ہے کہ جس آیت کے معنے مطلوب ہوں اس ساری سورۃ کو دیکھا جاتا ہے۔ پھر ایک بطن یہ ہے کہ کئی سورتوں کو ملا کر اس کے معنے اخذ کئے جاتے ہیں۔ پھر ایک بطن یہ ہے کہ سارے قرآن مجید کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے۔ یہ علم اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے عطا فرمایا ہے۔ بعض دفعہ ایک مضمون کا تعلق ابتدائی سورتوں کے ساتھ ہوتا ہے اور بعض دفعہ بعد والی سورتوں کے ساتھ۔ پھر ایک معنے کسی آیت کے منفرداً ہوتے ہیں اور ایک معنے دوسری آیتوں کے ساتھ ملا کر کئے جاتے ہیں<۔۲۲۱
چوتھی خصوصیت
چوتھی خصوصیت تفسیر کبیر کی یہ ہے کہ اس میں روز روشن کی طرح ثابت کردیا گیا ہے کہ قرآن مجید کی بیان فرمودہ موسوی تاریخ ہی مستند ہے اور اس کے مقابلے میں بائیبل پر اعتماد کرنا کسی طرح درست نہیں۔۲۲۲
پانچویں خصوصیت
>تفسیر کبیر< عہد حاضر کی واحد تفسیر ہے جس میں نولڈک تھیوڈر THEODOR (NOLDEK ریورنڈ ویری (REVEREND VERE) جے۔ ایم راڈول RODELL ۔M۔J سرولیم میور MUIR) WILLIAM (SIR اور آرنلڈ (ARNOLD) وغیرہ مستشرقین کے اسلام اور قرآن مجید پر کئے ہوئے اعتراضات کے مسکت اور مدلل جواب دیئے گئے ہیں بلکہ اسلام کے بارے میں ان کی جہالت اور عربی زبان کی باریک خوبیوں سے محرومی بے نقاب کی گئی ہے۔
چھٹی خصوصیت
قرآن مجید چونکہ الہامی کتاب ہے۔ اس میں ہر زمانہ کے متعلق پیشگوئیاں موجود ہیں۔ جو اپنے اپنے وقت پر پوری ہوکر قرآن کریم کی صداقت کا ثبوت بنتی رہیں اور بنتی رہیں گی۔ مگر ہر پیشگوئی کی حقیقت اس کے ظہور سے ہی کھلتی ہے۔ یہ بات پہلے متعدد مفسرین سے اوجھل رہی۔ اور انہوں نے مستقبل سے متعلق تمام قرآنی پیشگوئیوں کو یا قیامت پر چسپاں کردیا یا گزشتہ واقعات پر` مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے تفسیر کبیر میں قرآن شریف کی ایسی بہت سی پیشگوئیوں کی نشاندہی فرمائی جو قرآن مجید میں موجود تھیں اور اب اس زمانہ میں پوری ہوچکی ہیں اور قرآن مجید اور آنحضرت کی صداقت پر زندہ نشان کی حیثیت رکھتی ہیں مثلاً مغربی اقوام اور روس کی ترقی کی پیشگوئی` نہرسویز اور نہرپانامہ کی پیشگوئی` دخانی جہازوں کی پیشگوئی` ریل موٹر اور ہوائی جہازوں کی ایجاد کی پیشگوئی` ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم کی پیشگوئی` کاسمک ریز اور بموں کی پیشگوئی` بادشاہتوں کی تباہی اور جمہوریتوں کے قیام کی پیشگوئی` چڑیا گھروں کے قیام کی پیشگوئی` فرعون موسیٰ کی لاش کی حفاظت کے متعلق پیشگوئی` وحشی اقوام کے متمدن بن جانے کی پیشگوئی` پریس اور کتابوں کی بکثرت اشاعت کی پیشگوئی` علم ہیئت کی ترقی کی پیشگوئی` علم طبقات الارض کی ترقی کی پیشگوئی` چاند اور مریخ کے زمین کے ساتھ وابستہ ہونے کی پیشگوئی` علماء ظواہر کے علم دین سے بے بہرہ ہو جانے کی پیشگوئی وغیرہ سینکڑوں پیشگوئیاں تفسیر کبیر میں ملتی ہیں جن سے قرآن مجید کا زندہ کتاب ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔
ساتویں خصوصیت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے قرآنی آیات کی روشنی میں مستقبل میں آنے والے متعدد انقلابات اور حوادث کا استدلال تفسیر کبیر میں فرمایا ہے جن میں سے بعض اس تفسیر کی اشاعت کے بعد ظاہر ہوچکے ہیں مثلاً فلسطین میں یہود کی حکومت اور مسلمانوں پر دور ابتلاء۲۲۳ جماعت احمدیہ پر ۱۹۵۲ء میں ایک تکلیف دہ دور آنے کی خبر۲۲۴ اور جماعت کے ساتھ تائید خداوندی کی خبر`۲۲۵ اپنی وفات کے وقت جماعت کے نظام خلافت سے بالاتفاق وابستہ ہونے کی پیشگوئی`۲۲۶ مگر بہت سے واقعات ایسے ہیں جن کا ظہور مستقبل میں مقدر ہے مثلاً ایٹم بم سے زیادہ مہلک ہتھیار ایجاد ہونے کی پیشگوئی`۲۲۷ فلسطین پر اسلامی پرچم لہرانے کی پیشگوئی`۲۲۸ چوتھی عالمگیر جنگ کے بعد مغربی اقوام کی مکمل تباہی اور اسلام کے عالمگیر غلبہ کی پیشگوئی`۲۲۹ اردو زبان کے شاندار مستقبل کی نسبت پیشگوئی وغیرہ وغیرہ۔۲۳۰
آٹھویں خصوصیت
تفسیر کبیر کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہ تفسیر عہد حاضر کے جدید علمی و روحانی تقاضوں کو پورا کرتی اور مشرقی اور مغربی دنیا کو قرآن مجید کی پاکیزہ تعلیمات سے روشناس کرانے کی بہترین اور کامیاب ترین کوشش ہے خصوصاً اس لئے کہ اس میں قرآنی صداقتوں کی تائید میں سائنس کے موجودہ انکشافات و نظریات پیش کئے گئے ہیں مثلاً رنگوں کے خواص` ہر چیز کا نر و مادہ ہونا` زمین کا گول اور متحرک ہونا اور سورج کی روشنی کا ذاتی اور چاند کی روشنی کا انعکاسی ہونا` آسمانوں اور ستاروں کا ظاہری ستونوں کے بغیر قیام و بقاء` اجرام فلکی میں حرکت کی نوعیت` اعمال انسانی کی ریکارڈنگ` زمین و آسمان کی تخلیق کا مختلف ادوار میں ہونا` آغاز کائنات کی دخانی حالت وغیرہ انکشافات جن تک سائنس کی موجودہ دنیا ایک لمبے تجربہ کے بعد پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے` قرآن مجید نے نہایت مختصر مگر جامع رنگ میں چودہ سو سال پیشتر فرما دیئے ہیں۔
تفسیر کبیر نے امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس نظریہ کی حقانیت سائنسی اکتشافات سے بھی منوالی ہے کہ مذہب خدا کا کلام اور سائنس خدا کا فعل ہے۔ اس زمانہ میں اگر کوئی محقق اس بارے میں مفصل تحقیق کرنا چاہے تو اس کی معلومات کا بہترین ماخذ >تفسیر کبیر< ہوگی۔
نویں خصوصیت
تفسیر کبیر کی بہت سی اولیات ہیں۔ مثلاً حروف مقطعات کو قرآنی علوم کے سمجھنے کے لئے کلید قرار دینا` اصحاب کہف اور ذوالقرنین کے بارے میں جدید تحقیق` قرآن مجید سے ولادت حضرت عیٰسی کے ایام کی تعیین` وحی کی تفصیلی اقسام` سورۃ التین میں عظیم الشان مذہبی ادوار کا ذکر وغیرہ سینکڑوں تفسیری نکات ہیں جو پہلی بار تفسیر کبیر ہی کے ذریعہ سے پوری تفصیل کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔
یہ چند خصوصیات بطور مثال بیان کی گئی ہیں ورنہ ہر صاحب علم و عرفان اپنے اپنے ذوق اور اپنے اپنے زاویہ نگاہ سے اس کے امتیازات و خصائص پر روشنی ڈال سکتا ہے۔ مفسر` مورخ` فقیہ` سیاستدان` سائنسدان` صوفی` ماہر اخلاق` ماہر نفسیات` ماہر اقتصادیات غرض کہ ہر شخص قرآن مجید کی اس بیش بہاء تفسیر سے برابر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مشہور ادیب جناب اختر اورینوی ایم اے` ڈی لٹ صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی )بہار( تفسیر کبیر کا ذکر کرتے` لکھتے ہیں۔
>حضرت مرزا محمود احمدؓ کے تصنیفی کارناموں میں گل سربد تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر کی تابناک جلدیں ہیں۔ یہ تفسیریں سراج منیر ہیں۔ ان سے قرآن حکیم کی حیات بخش شعاعوں کا انعکاس ہوتا ہے۔ تفسیر قرآنی کی یہ دولت سرمدی دنیا اور عقبیٰ کے لئے لاکھوں سلطنتوں اور ہزاروں ہزار جنتوں سے افضل ہے۔ علوم قرآنی کے گہر ہائے آبد ارکان معانی و معدن عرفان سے نکالے گئے ہیں۔ غواص و معارف پر فدا ہونے کو جی چاہتا ہے۔
ان تفسیروں کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے ایک دفتر چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری ناچیز رائے میں تفسیر کبیر مندرجہ ذیل خوبیوں کی حامل ہے۔ اس میں قرآن کریم کے تسلسل` ربط` تنظیم` ترتیب` تعمیر اور سورتوں کے موضوعات و معنی کی ہم آہنگی کو صاف` روشن و مدلل طور پر ثابت کیا گیا ہے قرآن مجید صرف ایک سلک مروارید نہیں بلکہ یہ ایک روحانی قصر الحمراء ہے۔ ایک زندہ تاج محل ہے۔ اس کے عناصر ترکیبی کے حسن کارانہ نظم و ضبط` اس کے تراشیدہ ایجاز بیان` اس کی معجزانہ صنعت گری` اس کی گہری` وسیع اور بلند معنی آفرینی اور اس کے غیر مختمم خزینہ علم و عرفان کا شعور تفسیر کبیر کے مطالعہ سے حاصل ہونے لگتا ہے۔ قرآن کریم کے اس مقام عظیم کی دریافت دراصل مجدد عصر ظل محمد~صل۱~ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی دریافت ہے۔ انگریز مصنف و ادیب کار لائل نے قرآن مجید کے محاسن کو تسلیم کرنے کے باوجود یہ بات کہہ دی تھی کہ >قرآن ایک خوبصورت مگر بے ربط بیان ہے<۔
‏jargon> beautiful a is <It
حضرت مرزا محمود احمدؓ نے نہایت لطیف و بلیغ انداز میں اس امر کو درجہ یقین تک پہنچا دیا کہ قرآن مجید ایک کتاب عظیم ہے اور اس کے ابواب و عناصر` اس کی سورتیں اور آیات گل دمیدہ کی طرح` حسن یوسف کی مانند` نظام شمسی کی مثال مربوط و منظم` متناسب ہم آہنگ اور حسین ہیں۔
تفسیر کبیر کی یہ خصوصیت بھی ہے کہ اس میں انسانی تقاضوں` ضرورتوں اور مسئلوں سے وابستہ بہ کثرت نئے مضامین` نکتے اور تفصیلیں ملتی ہیں اور ہماری روح اور ذہن کی تشنگی بجھاتی ہیں۔ ہر سورۃ ہر پارہ کی تفسیر میں معارف اور علوم کا دریائے رواں جوش مارتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کے ذریعہ نئے علوم اور نئے مسائل پر گہری تنقیدیں ملتی ہیں اور اسلامی نظریوں کا اتنا تسلی بخش اظہار و بیان ملتا ہے کہ آخر الذکر کی برتری ثابت ہو جاتی ہے۔
تفسیر کبیر میں قﷺ قرآنی کی عارفانہ تعبیریں اور تفصیلیں ملتی ہیں۔ علم و حکمت` روحانیت و عرفان` نکتہ دانی و وضاحت کی تجلیاں شکوک و شبہات کے خس و خاشاک کو دور کرکے تفہیم و تسکین کی راہیں صاف و روشن کر دیتی ہیں۔ تاریخ عالم` قوموں کے عروج و زوال` اسباب زوال` سامان عروج` نفسیات اجتماعی` فرد و جماعت کے روابط اور بندے کے اللہ سے تعلق کی اعلیٰ تحقیق و توضیح ملتی ہے۔
معجزات` پیش گوئیوں` انبیاء اور غیر انبیاء کے خوابوں` رموز استعارات قرآنی و مقطعات کی حقیقی` حکمتی اور ایمان افروز تعبیروں سے تفسیر کبیر کے اوراق تابناک ہیں۔
اس عظیم تفسیر میں تعلیمات اسلامی کا فلسفہ نہایت عمدہ طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دوسرے مذاہب کی تعلیموں اور معروف فلسفوں سے موازنہ و مقابلہ بھی عالمانہ و منصفانہ رنگ میں کیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کی پرشوکت فضیلت سے دل کو طمانیت راحت و تسکین ملتی ہے اور ذہن کو رفعت حاصل ہوتی ہے۔ اس تفسیر کا انداز نظر عصری اور سائنسی بھی ہے۔ فلسفیانہ اور حکمتی بھی اور دجدانی و عرفانی بھی۔
اس تفسیر اکبر کے عالم علم و عرفان کی تجلیات بیان کرنے کے لئے دفتر در دفتر چاہئے۔ یہ تفسیر ملت اسلامیہ کی بے بہا دولت ہے۔ قرآن حکیم کی اس تفسیر سے امت محمدیہ کا مستقبل وابستہ ہے<۔۲۳۱
تفسیر کبیر کے انقلاب انگیز اثرات
بالاخر یہ بتانا از بس ضروری ہے کہ تفسیر کبیر نے علمی اور عملی طور پر دنیا کے قلوب و اذہان پر نہایت گہر اثر ڈالا ہے۔ اس ضمن میں بعض واقعات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
تفسیر کبیر اور علامہ نیاز فتح پوری
اردو کے مایہ ناز محقق اور بلند پایہ نقاد جناب نیاز محمد خاں نیاز فتح پوری مرحوم پر تفسیر کبیر >جلد سوم< کے مطالعہ کا ایسا زبردست اثر ہوا کہ ان کے خیالات و تصورات کی کایا پلٹ گئی اور وہ عمر کے آخری دور میں تحریک احمدیت کے زبردست مداح بن گئے اور اپنے قلم سے احمدیت کی تائید اور دفاع میں متعدد زور دار مضامین اپنے رسالہ >نگار< میں >ملاحظات<۲۳۲ کے زیر عنوان لکھے اور یہ انقلاب نتیجہ تھا۔ تفسیر کبیر کی مافوق العادت تاثیر اور مقناطیسی قوت کا چنانچہ علامہ نیاز نے حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ کی خدمت میں لکھا۔
>تفسیر کبیر جلد سوم آج کل میرے سامنے ہے اور میں اسے بڑی نگاہ غائر سے دیکھ رہا ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیاز اویہ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے۔ آپ کی تبحر علمی۔ آپ کی وسعت نظر` آپ کی غیر معمولی فکر و فراست` آپ کا حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے اور مجھے افسوس ہے کہ میں کیوں اس وقت تک بے خبر رہا۔ کاش کہ میں اس کی تمام جلدیں دیکھ سکتا۔ کل سورۃ ہود کی تفسیر میں حضرت لوط پر آپ کے خیالات معلوم کرکے جی پھڑک گیا اور بے اختیار یہ خط لکھنے پر مجبور ہوگیا۔ آپ نے ھولاء بناتی کی تفسیر کرتے ہوئے مفسرین سے جدا بحث کا جو پہلو اختیار کیا ہے اس کی داد دینا میرے امکان میں نہیں۔ خدا آپ کو تادیر سلامت رکھے<۔۲۳۳
تفسیر کبیر اور نواب بہادر یار جنگ
جناب سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآبادی بیان کرتے ہیں کہ برصغیر ہندو پاکستان کی معروف شخصیت نواب بہادر یار جنگ )جن سے سیٹھ صاحب کے بڑے دوستانہ تعلقات تھے اور سالہا سال ان کے رفیق کار رہے ہیں( جس کمرہ میں سویا کرتے تھے اس کی ایک دیوار پر قرآن کریم رکھنے کے لئے انہوں نے ایک خوبصورت تختہ لگوایا تھا۔ تفسیر کبیر جلد سوم کی اشاعت پر اس کی ایک جلد نواب اکبر یار جنگ بہادر نے سیٹھ صاحب موصوف کے ذریعہ نواب بہادر یار جنگ کو بجھوائی تھی جس کا انہوں نے بالاستیعاب مطالعہ ایک سے زیادہ مرتبہ کیا تھا اور ان کی وفات تک جو جون ۱۹۴۴ء میں واقع ہوئی وہ جلد اس تختہ پر قرآن کریم کے نسخہ کے نیچے رکھی ہوئی سیٹھ صاحب نے دیکھی ہے۔ سیٹھ صاحب کہتے ہیں کہ نواب بہادر یار جنگ اپنی صحبتوں میں تفسیر کبیر کا اکثر ذکر کیا کرتے تھے اور اس کی عظمت کا ہمیشہ اعتراف کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کے بیان کردہ معارف سے انہوں نے بہت استفادہ کیا ہے۔
تفسیر کبیر اور پروفیسر عبدالمنان بیدل سابق صدر شعبہ فارسی پٹنہ کالج
جناب اختر اورینوی ایم اے صدر شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی اپنا ایک چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں کہ۔
>میں نے یکے بعد دیگرے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی تفسیر کبیر کی چند جلدیں پروفیسر عبدالمنان بیدل سابق صدر شعبہ فارسی پٹنہ کالج` پٹنہ و حال پرنسپل شبینہ کالج پٹنہ کی خدمت میں پیش کیں اور وہ ان تفسیروں کو پڑھ کر اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے مدرسہ عربیہ شمس الہدئے پٹنہ کے شیوخ کو بھی تفسیر کی بعض جلدیں پڑھنے کے لئے دیں اور ایک دن کئی شیوخ کو بلوا انہوں نے ان کے خیالات دریافت کئے۔ ایک شیخ نے کہا کہ فارسی تفسیروں میں ایسی تفسیر نہیں ملتی۔ پروفیسر عبدالمنان صاحب نے پوچھا کہ عربی تفسیروں کے متعلق کیا خیال ہے۔ شیوخ خاموش رہے۔ کچھ دیر کے بعد ان میں سے ایک نے کہا۔ پٹنہ میں ساری عربی تفسیریں ملتی نہیں ہیں۔ مصر و شام کی ساری تفاسیر کے مطالعہ کے بعد ہی صحیح رائے قائم کی جاسکتی ہے۔ پروفیسر صاحب نے قدیم عربی تفسیروں کا تذکرہ شروع کیا اور فرمایا۔ مرزا محمود کی تفسیر کے پایہ کی ایک تفسیر بھی کسی زبان میں نہیں ملتی۔ آپ جدید تفسیریں بھی مصر و شام سے منگوا لیجئے اور چند ماہ بعد مجھ سے باتیں کیجئے۔ عربی و فارسی کے علماء مبہوت رہ گئے<۔۲۳۴
تفسیر کبیر اور سید جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ حیدر آبادی
تفسیر کبیر کے مبارک اثرات کا چوتھا واقعہ جناب سید جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ حیدرآبادی کا ہے جو حیدرآباد کی مشہور تنظیم اتحاد المسلمین کے معروف کارکن تھے اور اسی کی پاداش میں ۲۶۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۰ء۔ ۱۳۳۹ہش کو نظر بند کر دیئے گئے۔ سکندرآباد جیل کی تنگ و تاریک کوٹھری میں تفسیر کبیر پڑھنے کا موقعہ ملا۔ جس کے مطالعہ سے اس درجہ متاثر ہوئے کہ جیل کے اندر امان/ مارچ ۱۹۶۱ء۔ ۱۳۴۰ہش میں بیعت کا فارم بھی پر کردیا اور اپنی زندگی بھی اسلام و احمدیت کے لئے وقف کردی۔۲۳۵ ۹۔ احسان/ جون ۱۹۶۱ء۔ ۱۳۴۰ہش کے دن رہا ہوگئے جس کے بعد آپ نے اولین فرصت میں یہ کام کیا کہ اخبار >صدق جدید< کے ایڈیٹر مولانا عبدالماجد صاحب دریابادی کو اپنے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کی اطلاع کے لئے ایک مختصر مکتوب لکھا جو مولانا صاحب نے >صدق جدید< )لکھنو( کے ۲۰۔ اپریل ۱۹۶۲ء کی اشاعت میں >ایک صدق خواں کا قبول احمدیت< کے عنوان سے سے مع تعارفی نوٹ کے شائع کر دیا جس کا متن یہ تھا۔
>دکن کے ایک بی۔ اے` ایل ایل۔ بی ایڈوکیٹ کا جو سالہا سال انجمن اتحاد المسلمین کے بڑے پرجوش رکن رہے اور اسی سلسلہ میں جیل بھی گئے اور صدق سے بھی مخلصانہ تعلق برسوں قائم رکھا` تازہ مکتوب صرف ان کے نام اور سابق مستقر کے حذف کے بعد۔
حیدرآباد دکن ۲۸۔ مارچ ۱۹۶۲ء۔
حضرت قبلہ۔ السلام علیکم
دارالسلام مجلس اتحاد المسلمین کے سلسلے میں گورنمنٹ اندھرا پردیش نے مجھے ۲۶۔ دسمبر ۱۹۶۰ء کو نظر بند کیا اور حال میں میری رہائی ہوئی۔ ان دنوں میرا مستقر ۔۔۔۔۔۔۔۔ تھا۔ جیل لے جانے والے عہدہ داروں سے میں نے درخواست کی کہ )مجھے اسٹیشن پر گرفتار کیا گیا تھا جبکہ میں ایک پیشی کرکے ۔۔۔۔۔ سے واپس ہورہا تھا( مجھے گھر لے جاکر قرآن کریم کے ساتھ لینے کی اجازت دیں۔ پولیس کے عہدیدار بڑے شریف مزاج تھے۔ اپنی حراست میں مجھے گھر لے گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ایک دوست تھے جنہوں نے مجھے حضور خلیفہ صاحب جماعت احمدیہ کی لکھی ہوئی تفسیر کبیر کی جلد دی تھی۔ مجھے پڑھنے کی فرصت نہ ملتی تھی۔ ایک دن دوپہر کے وقت جب میں کھانے کے لئے آفس سے گھر آیا تو بیوی نے دستر خوان چننے میں کچھ دیر کی۔ تفسیر کبیر کی جلد میز پر بازو میں تھی۔ میں نے اٹھالی اور چند اوراق الٹ کر دیکھنے شروع کئے۔ یہ والعادیات ضبحا کی تفسیر کے صفحات تھے۔ میں حیران ہوگیا کہ قرآن مجید میں ایسے مضامین بھی ہیں۔ پھر میں نے قادیان خط لکھا اور تفسیر کبیر کی جملہ جلدیں منگوائیں۔ لیکن پڑھنے کا مجھے وقت نہ ملتا تھا۔ جیل کو روانگی کے وقت میں نے یہ جلدیں ساتھ رکھ لیں اور نو ماہ کے عرصہ میں جب کہ میں جیل میں تھا متعدد بار صرف یہی تفسیر پڑھتا رہا۔ جیل ہی میں میں نے بیعت کرلی اور جماعت احمدیہ کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ آپ بھی دعا فرمائیں<۔۲۳۶
سید جعفر حسین صاحب ایڈووکیٹ نے اس مختصر مکتوب کے بعد ایک مفصل مضمون بھی اخبار >صدق جدید< کو بھجوایا جس میں انہوں نے تفسیر کبیر کے مبارک اثرات اور قبول حق کے حالات پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالی۔ یہ مضمون >صدق جدید< کے دو نمبروں میں قسط وار )۸۔ ۱۵۔ جون ۱۹۶۳ء( شائع ہوا۔ اس اہم مضمون کا متعلقہ حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
>حصول دارالسلام کی جدوجہد میں مجھے جب جیل پہنچایا گیا تو تیسرے دن مجھے وجوہات نظر بندی تحریری شکل میں مہیا کئے گئے۔ جن میں میری گزشتہ تین چار برسوں کی تقریروں کے اقتباسات تھے اور الزام یہ تھا کہ میں ہندوستان کی حکومت کا تختہ الٹ کر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتا ہوں۔ میں حیران تھا کہ مجھ جیسا چھوٹا آدمی اور یہ پہاڑ جیسا الزام۔ لیکن مجھے آہستہ آہستہ محسوس ہوا کہ میری تقریروں سے کچھ ایسا ہی مفہوم اخذ کیا جاسکتا ہے۔ میں نے آپ سے عرض کیا تھا کہ میں بھٹکا ہوا مسافر تھا جس کی منزل تو متعین تھی لیکن راستہ کا پتہ نہ تھا۔ مسلمانوں کی انجمن اتحاد المسلمین ہو یا کوئی اور جماعت ان سب کی حالت یہی ہے۔
دوسرے دن میں نے تفسیر کبیر کا مطالعہ شروع کیا جو میں اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔ تو مجھے اس تفسیر میں زندگی سے معمور اسلام نظر آیا۔ اس میں وہ سب کچھ تھا جس کی مجھ کو تلاش تھی۔ تفسیر کبیر پڑھ کر میں قرآن کریم سے پہلی دفعہ روشناس ہوا جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے۔ اپنا مسلک چھوڑ کر احمدیہ جیسی جماعت میں داخل ہونا جس کو تمام علمائے اسلام نے ایک ہوا بنا رکھا ہے۔ کچھ معمولی بات نہیں لیکن حق کے کھل جانے کے بعد یہاں خطرات کی پروا بھی کسی کو نہ تھی۔ تاہم سجدہ میں گر کر شب و روز میں نے دعائیں شروع کیں کہ یا اللہ مجھے صراط المستقیم دکھا۔ کئی ماہ اسی حالت میں گزر گئے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میری سجدہ کی زمین آنسوئوں سے تر ہو جاتی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ میری دعائیں قبول ہوئیں کیونکہ احمدیت کو سچا سمجھنے کے عقیدے میں مستحکم ہوگیا اور قادیان سے حضرت میاں مرزا وسیم احمد صاحب کی خدمت میں ایک خط کے ذریعہ سے میں نے درخواست کی کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ جواب میں ایک بیعت فارم آیا جو آپ کے ملاحظہ کے لئے منسلک ہے۔
میری قید کا بڑا حصہ سکندرآباد جیل میں گزرا۔ وہاں کے جیلر ایک مسلمان اور علم دوست بھی تھے۔ قیدیوں کی پوری خط و کتابت ان لوگوں کے علم میں رہتی ہے کیونکہ ان کے دستخط کے بعد ہی قیدیوں کے خطوط روانہ یا حوالہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات کچھ اچھی نہ تھی لیکن جرات کی کمی کے باعث میری یہ کوشش رہتی تھی کہ قادیان کو لکھے ہوئے میرے خطوط حکام جیل کے علم میں نہ آنے پائیں۔ مجلس اتحاد المسلمین حیدرآباد ایک بڑی ہی ہر دلعزیز جماعت ہے۔ جیل کا عملہ جمعیت حتیٰ کہ جیل کے سارے ہی قیدی مجھ سے بڑی محبت اور عقیدت سے پیش آتے تھے۔ اگرچہ پہرہ والوں کے سوا مجھ سے کوئی نہ مل سکتا تھا۔ ان وجوہ سے حکام کے علم میں آئے بغیر میرے خطوط قادیان کو پوسٹ ہو جاتے تھے۔ لیکن جو خط قادیان سے آتا تھا وہ بہرصورت جیلر کے علم میں آنا ضروری تھا۔ جب قادیان سے بیعت کا فارم آیا تو جیل میں بڑی گڑبڑ ہوئی۔ راز باقی نہ رہ سکا۔ کمرہ کی صفائی کرنے والے قیدی` کھانا پہنچانے والے` اخبار لانے والے وغیرہ وغیرہ کسی نہ کسی بہانے آتے اور مجھ سے پوچھتے کہ کیا آپ قادیانی ہوگئے ہیں؟ میں انہیں غلط نہ کہہ سکتا تھا لیکن ابھی چونکہ میں نے بیعت نہیں کی تھی اس لئے میں ان سے کہتا کہ یہ بات صحیح نہیں ہے۔ بالاخر جیلر میرے پاس آئے اور میرا خط معہ بیعت فارم کے ان کے پاس تھا مجھ سے بڑی ہی ہمدردانہ گفتگو کی کہ یہ آپ کیا کررہے ہیں۔ قرآن کی اس تفسیر کو چھوڑئے میں آپ کو مولانا ابوالکلام آزاد اور مولانا مودودی کی تفسیر قرآن دیتا ہوں آپ کے خیالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے وہ دونوں تفسیریں لادیں جو اصل میں ترجمہ تھے اور کہیں کہیں تفسیر تھی۔ بیعت کا فارم تکمیل کرکے بھیجنے سے قبل میں نے ان دونوں تفاسیر کا مطالعہ کیا۔ تفسیر کبیر کے طالب علم میں اتنی اہلیت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دیگر تمام تفاسیر پر تنقید کرسکے۔ چنانچہ میں نے جیلر صاحب کو بتلایا کہ ان دونوں تفاسیر میں کون کون سے مقامات مبہم ہیں کہاں کہاں ترجمہ کی غلطی ہے اور کہاں کہاں معنی محدود ہیں۔ مجھے ایسا کرنے میں آسانی اس لئے ہوئی کہ تفسیر کبیر میں لغت قرآن بھی موجود ہے۔ لا یمسہ الا المطھرون صرف مطہر لوگ ہی قرآن کریم کے مطالب کو سمجھ سکیں گے۔
جیلر صاحب ۲۴ گھنٹے اپنے سرکاری فرائض میں مشغول رہتے۔ قرآن کریم کو دیکھنے کا بھی انہیں موقعہ نہ ملتا۔ میری بات میں انہوں نے دلچسپی نہ لی۔ پھر میں نے جیلر صاحب کو تفسیر کبیر کی پہلی جلد دی اور ان سے درخواست کی کہ وہ کم از کم اس میں سے سورۃ فاتحہ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں۔ جو بہ مشکل )۵۰( صفحات پر مشتمل ہے۔ وہ لے گئے لیکن چند دن کے بعد یہ کہہ کر واپس کر گئے کہ مجھے تو پڑھنے کی فرصت نہ ملی۔ البتہ میری خوشد امن صاحبہ یہ کتاب دیکھ چکی ہیں وہ اس کی بڑی تعریف کرتی ہیں میں نے بیعت کا فارم پر کرکے بھیج دیا۔
یہ تفصیل آپ کی خدمت میں اس لئے لکھی کہ مجھ پر سے یہ الزام دور ہو جائے کہ میں نے بیعت میں عجلت کی۔ بیعت کا فارم بھیج کر میں دعائوں میں لگ گیا کہ میری بیعت کے قبول ہونے میں کچھ رکاوٹیں ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو دور فرمائے۔ میرا اندیشہ غلط نہ نکلا۔ میری بیعت قبول کرنے سے پہلے حضور خلیفہ صاحب نے دریافت فرمایا کہ ایک احمدی مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حکومت وقت کا بھی وفادار رہے۔ اور قانون کے اندر رہ کر کام کرے۔ میں نے جواب دیا کہ حضور کی تفسیر نے یہ ساری باتیں میرے دل پر نقش کردی ہیں۔ کچھ دنوں کے بعد جب قادیان سے مجھے معلوم ہوا کہ میری بیعت قبول کرلی گئی تو میں سجدہ میں گر گیا۔
تفسیر کبیر میں ایک مقام پر میں نے پڑھا تھا کہ خلیفہ جو مصلح موعود ہوگا وہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہوگا۔ میں نے حضور سے درخواست کی کہ وہ میری رہائی کے لئے دعا فرمائیں۔ حضور خلیفہ صاحب نے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کی رہائی کے سامان کرے۔ اس کے چند ہی دنوں بعد میں رہا ہوگیا۔ خلیفہ موعود کی نسبت یہ پیشین گوئی کہ وہ اسیروں کی رہائی کا باعث ہوگا میں اس کا زندہ ثبوت ہوں<۔۲۳۷
فصل ہفتم
حضرت امیر المومنینؓ کی طرف سے تصفیہ مسائل کے بعض آسان طریق
۴۱۔ ۱۹۴۰ء` ۲۰۔ ۱۳۱۹ہش کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ ان دو برسوں میں سیدنا حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی~رضی۱~ نے جماعت سے
بچھڑے ہوئے غیر مبائع بھائیوں کو نہ صرف دلائل و براہین کے ذریعہ قریب تر لانے کی انتہائی کوشش کی۔ بلکہ جناب مولوی محمد علی صاحب )امیر احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور( کے سامنے تصفیہ مسائل کے لئے یکے بعد دیگرے پانچ نہایت آسان طریق پیش کرکے مفاہمت کی راہ بالکل صاف کردی۔ اس سلسلہ میں پہلا طریق فیصلہ حضور نے یہ پیش فرمایا کہ۔
>دونوں فریق کی وہ تحریرات جو زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ہیں اکٹھی شائع کردی جائیں اور دونوں ان پر لکھ دیں کہ آج بھی ہمارے عقائد یہی ہیں۔ اس کے بعد دنیا خود فیصلہ کرے گی کہ اس زمانہ میں میرے عقائد اور تھے یا مولوی محمد علی صاحب کے؟ اگر یہ ثابت ہو جائے گا کہ میں نے اب اپنے عقائد بگاڑ لئے ہیں تو میرا اثر جاتا رہے گا اور اگر یہ ثابت ہوگا کہ ان کے عقائد اس زمانہ میں اور تھے تو ان کے ساتھیوں کے لئے یہ بات ہدایت کا موجب ہو جائے گی اور وہ یہ سمجھ جائیں گے کہ مولوی محمد علی صاحب کے زمانہ صحابیت کے عقائد اور تھے اور آج اور ہیں یہ نہایت آسان طریق ہے اور بہترین طریق ہے۔ اگر وہ اس پر متفق ہوں تو فیصلہ نہایت آسان ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا مباحثہ ہوگا جو گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شہادت ساتھ رکھتا ہوگا<۔۲۳۸
اس کے علاوہ حضور نے فیصلہ کے چار اور طریق بھی رکھے جو حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
فیصلہ کا پہلا طریق
>پہلا طریق فیصلہ کا میرے نزدیک یہ ہے کہ نبوت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود ہی غلطیوں کا ازالہ فرما دیا ہے۔ یعنی >ایک غلطی کا ازالہ< لکھ کر ان غلطیوں کو دور فرمایا ہے جو اس بارہ میں اپنوں اور بیگانوں کو لگ رہی تھیں۔ میں تجویز کرتا ہوں کہ آئندہ دونوں فریق نبوت کے متعلق بحث مباحثہ کو بالکل بند کردیں اور صرف یہ کیا جائے کہ میری طرف سے اور آپ کی طرف سے دو چار سطر میں یہ مضمون لکھ کر کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے متعلق ہمارا مذہب وہی ہے جو اس اشتہار میں درج ہے۔ تمام لوگ اسی کو ہمارا مذہب تصور فرمائیں اور اس کے خلاف اگر ہماری کوئی تحریر ہو تو اسے غلط سمجھیں اور ہم دونوں کی اس تحریر کے بعد >ایک غلطی کا ازالہ< اشتہار بغیر کسی حاشیہ کے شائع کر دیا جائے اور ہر سال کم سے کم پچاس ہزار کاپی اس اشتہار کی ملک میں تقسیم کر دی جائے۔ ۳/۲ اس کا خرچ ہم دیں گے اور ۳/۱ اس کا خرچ مولوی صاحب اور ان کے رفقاء دیں۔ اس کے بعد دونوں فریق کے لئے جائز نہ ہوگا کہ اپنی طرف سے کوئی اور مضمون اپنے اخباروں یا رسالوں یا ٹریکٹوں میں لکھیں بلکہ جو اس امر کے متعلق سوال کرے اسے اشتہار کی ایک کاپی دے دی جائے کیونکہ اس میں خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے غلطیوں کا ازالہ کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر پانچ سال تک بھی دونوں فریق اس پر کاربند رہیں تو نزاع بہت کچھ کم ہو جائے گا اور شاید اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ مزید صلح کے راستے کھول دے<۔
فیصلہ کا دوسرا طریق
>دوسرا طریق فیصلہ کا میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف لکھا ہے کہ خداتعالیٰ کی اصطلاح میں )چشمہ معرفت صفحہ ۳۲۵( قرآن کریم کی اصطلاح میں )ایک غلطی کا ازالہ( اسلام کی اصطلاح میں )لیکچر سیالکوٹ صفحہ ۱۷۔ ۱۸ نیز الحکم ۶۔ مئی ۱۹۰۸ء( سابق انبیاء کی اصطلاح میں )الوصیتہ صفحہ ۱۲( اور خداتعالیٰ کے حکم سے میرے نزدیک )تتمہ حقیقتہ الوحی صفحہ ۶۸( اور لغت کی اصطلاح میں )مکتوب مندرجہ اخبار عام ۲۶۔ مئی ۱۹۰۸ء( نبی اسے کہتے ہیں جس پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر کئے جائیں اور اس کو شرف مکالمہ و مخاطبہ حاصل ہو اور یہ کہ ان معنوں کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نبی ہیں اور کسی معنوں میں نہیں۔ پس ایک اشتہار ہم دونوں کے دستخط سے ملک میں شائع کر دیا جائے کہ ہم دونوں فریق اس امر کا اعلان کرتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو صرف خداتعالیٰ کی اصطلاح کے مطابق` اسلام کی اصطلاح کے مطابق` سابق انبیاء کی اصطلاح کے مطابق` حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خداتعالیٰ نے جو حکم دیا تھا اس کے مطابق اور عربی اور عبرانی لغتوں کے مطابق نبی سمجھتے ہیں۔ اس کے سوا کسی اور تعریف کے مطابق نبی نہیں سمجھتے بلکہ دوسری اصطلاحوں کے مطابق ہم صرف استعارۃ آپ کے لئے نبی کے لفظ کا استعمال جائز سمجھتے ہیں۔ حقیقی طور پر نہیں<۔
فیصلہ کا تیسرا طریق
>اگر الحکم کے حوالہ )۱۷۔ اگست ۱۸۹۹ء( کی وجہ سے باوجود لیکچر سیالکوٹ کے حوالہ کے اور الحکم کی ڈائری )۶۔ مئی ۱۹۰۸ء( کے آپ کو ایسی تحریر پر دستخط کرنے پر اعتراض ہو تو میری تیسری تجویز یہ ہے کہ آپ ایک اشتہار اس مضمون کا دے دیں کہ میں صرف اللہ تعالیٰ کی اصطلاح کے مطابق قرآن کریم کی اصطلاح کے مطابق سابق انبیاء کی اصطلاح کے مطابق اور اس حکم کے مطابق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے دیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نبی سمجھتا ہوں۔ باقی اسلام کی اصطلاح کی رو سے میں آپ کو حقیقی نبی نہیں سمجھتا۔ اس اصطلاح کے رو سے آپ کو صرف مجازی نبی یقین کرتا ہوں۔ میں امید کرتا ہوں کہ اگر آپ ایسا اشتہار دے دیں گے تو اس سے بھی دنیا کو بہت کچھ اس مسئلہ کے سمجھنے میں سہولت ہو جائے گی<۔
‏]bus [tagفیصلہ کا چوتھا طریق
>فیصلہ کا چوتھا طریق یہ ہے کہ آپ ایک اشتہار اس مضمون کا دے دیں کہ جو شخص یہ سمجھتا ہو کہ خداتعالیٰ کی اصطلاح میں قرآن کریم کی اصطلاح میں اسلام کی اصطلاح میں سابق انبیاء کی اصطلاح میں اور نبی کے لفظ کے متعلق خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو حکم دیا تھا اس کے مطابق جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ نبی کی یہ تعریف ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ سے کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پاتا ہے وہ نبی ہے وہ غلطی خوردہ ہے اور اسلام کی تعلیم کے خلاف کہتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان طریقوں میں سے آپ کسی طریق کو بھی اختیار کرلیں۔ فیصلہ تک پہنچنا آسان ہوگا۔ وما علینا الا البلاغ المبین<۔۲۳۹
اگر جناب مولوی محمد علی صاحب مندرجہ بالا پانچ طریقوں میں سے کسی ایک طریق ہی کو قبول فرما لیتے تو فریقین میں اختلافات کی خلیج یقیناً بہت کم ہو جاتی اور جماعت کی باہمی طاقتیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کی بجائے بہت حد تک تبلیغ اسلام کے متحدہ مقصد کی تکمیل میں مرکوز ہو جاتیں۔ مگر افسوس آپ اپنی گزشتہ روایات کے مطابق باہمی تصفیہ کی ان سیدھی` صاف اور آسان تجاویز کو بھی مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال گئے۔
مولوی محمد علی صاحب کے ایک مضمون کی معہ جواب >الفضل< میں اشاعت
جناب مولوی محمد علی صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ایک خطبہ جمعہ۲۴۰ )فرمودہ ۶۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش( کی طرف
اشارہ کرتے ہوئے لکھا کہ۔
>میاں صاحب نے جو دلائل حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق دیئے ہیں۔ میں ان تمام کو قارئین پیغام کے سامنے لانے کو تیار ہوں بشرطیکہ جناب میاں صاحب میرے اس جواب کو جو اصل مضمون کے متعلق میں اب لکھتا ہوں اپنے اخبار الفضل میں شائع کرا دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی کہہ دیتا ہوں کہ میاں صاحب اس تجویز کو کبھی منظور نہ کریں گے۔ اس کی وجہ؟ اپنے مخالف کے دلائل کو اپنی جماعت کے سامنے لانے سے وہی شخص ڈرتا ہے جسے یہ خوف ہو کہ اس کی جماعت مخالف کے دلائل سے متاثر ہو کر پھسل جائے گی۔ سو یہی خوف جناب میاں صاحب کے دل میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منہ سے جناب میاں صاحب جس قدر بلند دعا دی چاہیں کریں مگر ان کا طرز عمل یہ بتارہا ہے کہ ان کا دل ہمارے دلائل کی مضبوطی کے خوف سے کانپ رہا ہے اور ان کے نزدیک اس کے سوائے اپنی جماعت کی حفاظت کا اور کوئی طریق نہیں کہ وہ ہمارے دلائل ان کے سامنے نہ آنے دیں<۔۲۴۱
حضرت امیرالمومنین نے اپنے زمانہ خلافت میں کبھی غیر مبائعین کا لٹریچر پڑھنے سے نہیں روکا تھا اور اس وقت تک اخبار >الفضل`< اخبار >فاروق`< >تشحیذ الاذہان`< >ریویو آف ریلیجنز< )اردو( میں بہت سے مضامین شائع ہوچکے تھے جن کے لکھنے والے سینکڑوں افراد تھے جو متفرق مقامات کے رہنے والے تھے اگر حضرت امیرالمومنین کی طرف سے ان کے لٹریچر کا مطالعہ کرنے کی ممانعت کر رکھی تھی تو انہوں نے ان لوگوں کے خلاف قلم کیسے اٹھایا اور اپنے مضامین میں ان کی کتابوں` رسالوں اور پمفلٹوں کے حوالے کیسے درج کر دیئے۔ مگر حضرت امیرالمومنینؓ کی فراخدلی اور وسعت حوصلہ ملاحظہ ہو کہ حضور نے مولوی صاحب کی یہ تجویز بھی مان لی اور فرمایا کہ۔
>میں ان کے مضمون کو >الفضل< میں شائع کرانے کو تیار ہوں بشرطیکہ وہ میرا جواب الجواب بھی >پیغام صلح< میں شائع کرائیں یا اگر وہ پسند کریں تو یہ سب یعنی میرا خطبہ ان کا جواب اور میرا جواب الجواب کتابی صورت میں شائع کر دیا جائے جس پر خرچ دونوں کا آدھا آدھا ہو اور کتابیں بھی آدھی آدھی لے لیں۔ اس سے بڑھ کر میں ان کے لئے ایک اور آسانی کر دیتا ہوں پہلے تو میں نے کہا تھا کہ وہ اگر میری اس تجویز کو مانیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ کی دونوں کی تحریریں اکٹھی شائع کردی جائیں تو میں ان کی اس تجویز کو مان لوں گا۔ مگر ان پر اتمام حجت کے لئے میں یہ بھی مان لیتا ہوں کہ چلو میں اس کو بھی چھوڑ دیتا ہوں بشرطیکہ وہ میری اس تجویز کو مان لیں یعنی میرا جواب الجواب بھی ساتھ شائع ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ ایک اور آسانی ان کے لئے پیدا کردیتا ہوں اور دو یہ کہ اگر وہ میرا جواب الجواب شائع کرنے پر تیار ہوں تو خرچ کے دو حصے ہم دے دیں گے اور صرف ایک حصہ وہ دیں اور دو حصے کتب ہم لے لیں اور ایک حصہ وہ۔ اور میری طرف سے اتنی رعایتوں کے باوجود اگر وہ میری بات ماننے کے لئے تیار نہ ہوں تو ہم سوائے اس کے کیا کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں سچ کو سچ سمجھنے کی توفیق دے اور ان کا وہ غصہ دور ہو جوان کے لئے صداقت کے سمجھنے میں روک ہورہا ہے<۔]4 [stf۲۴۲
اس مخلصانہ پیشکش پر مولوی محمد علی صاحب نے اخبار پیغام صلح ۱۲۔ جولائی ۱۹۴۰ء میں ایک مضمون لکھا جسے حضرت امیرالمومنین کے حکم سے اخبار >الفضل< ۱۳۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش میں چھاب دیا گیا اور اگلے شمارہ میں حضور نے اپنا جواب الجواب ایک مفصل مضمون کی صورت میں شائع کر دیا۔ اب مولوی محمد علی صاحب کو چاہئے تھا کہ وہ حضور کا مضمون اپنے اخبار میں شائع کرا کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‏tav.8.8
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر کبیر )جلد سوم( تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے موقف کے مضبوط اور دلائل کے مستحکم ہونے کا عملی ثبوت دیتے یا حضور کی فراخدلانہ تجویز کے مطابق اسے اپنے مضمون کے ساتھ کتابی صورت میں شائع کر دیتے مگر مولوی صاحب موصوف نے حضور کا مضمون تو شائع کرنا گوارا نہیں کیا البتہ خود ایک اور مضمون >پیغام صلح< ۴۔ ستمبر ۱۹۴۰ء کے پرچہ میں لکھ کر اوپر یہ نوٹ دے دیا کہ >میں امید رکھتا ہوں کہ میاں صاحب اسے اپنے اخبار الفضل میں شائع کر دیں گے<۔
یہی نہیں بلکہ جب >الفضل< میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا مضمون ان کے مضمون کے جواب میں شائع ہوا تو حضرت اقدس اور مولوی محمد علی صاحب دونوں ڈلہوزی میں فروکش تھے۔ حضور نے >الفضل< کا وہ پرچہ دے کر چودھری خلیل احمد صاحب ناصر بی۔ اے مجاہد تحریک جدید اور ایک اور نوجوان کو بھیجا کہ جاکر مولوی صاحب موصوف کے لڑکے کو دے آئیں اور ساتھ یہ بھی کہہ دیا کہ میرا خیال ہے کہ وہ نہیں لے گا۔ وہ لے کر گئے مگر اس نے >الفضل< کا پرچہ لینے سے انکار کر دیا۔۲۴۳
مولوی محمدعلی صاحب کوقادیان آنے اورلیکچر دینے کی دعوت اور انکا افسوسناک مظاہرہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مولوی محمد علی صاحب پر اتمام حجت کرنے اور ان کے اس اہم وہم کا ازالہ کرنے کے لئے کہ گویا
آپ نے اپنے خدام کو غیر مبائعین کی تحریرات پڑھنے سے روک رکھا ہے مولوی صاحب کو قادیان تشریف لانے اور یہاں آکر تین لیکچر دینے کی دعوت دی۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>میں اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ وہ قادیان آجائیں۔ میں یہاں ان کے تین لیکچر اپنی جماعت میں کرا دوں گا اور ان لیکچروں میں وہ دل کھول کر اپنے عقائد اور دلائل بیان کرلیں اور اس بات کی تسلی کرلیں کہ ان کے خیالات اچھی طرح ہماری جماعت تک پہنچ گئے ہیں اور اگر وہ کسی طرح بھی ماننے کو تیار نہ ہوں اور اپنی ہی بات دہراتے چلے جائیں تو اس کا علاج میرے پاس کوئی نہیں۔ اس کا علاج خداتعالیٰ ہی کے پاس ہے<۔۲۴۴
جناب مولوی محمد علی صاحب نے قادیان میں لیکچر دینے کی اس دعوت کو لفظاً منظور کرنے کے باوجود یہ مطالبہ کیا کہ >میں حاضر ہوں مگر اس کے لئے بہترین موقعہ جلسہ سالانہ ہے<۔۲۴۵
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس انوکھے مطالبہ کے جواب میں فرمایا:۔
>جلسہ سالانہ کے موقع پر ہماری جماعت لاکھ ڈیرھ لاکھ کرایہ کا خرچ کرکے اس لئے جمع ہوتی ہے کہ وہ میرے اور دوسرے علماء سلسلہ کے خیالات سنے اور ہمارا اس وقت ان کی مہمانی پر پچیس تیس ہزار روپیہ خرچ ہوتا ہے۔ کیا دوسرے کے خیالات سننے کی اجازت دینے میں یہ اخرجات بھی شامل ہوتے ہیں کہ میں اپنے جلسہ کو اور لاکھوں کے خرچ کو مولوی صاحب کی خاطر برداشت کروں۔ ہاں میں یہ کرسکتا ہوں کہ اگر جلسہ کے موقعہ پر ہی مولوی صاحب کو اپنے خیالات سنانے کا شوق ہو` تو جلسہ کے دو دن اور بڑھا دوں مگر اس شرط پر کہ ان دنوں کی مہمان نوازی کا خرچ مولوی صاحب برداشت کریں جو ان دنوں کے لحاظ سے اوسطاً تین ہزار روپیہ روزانہ ہوگا۔ پس مولوی صاحب چھ ہزار روپیہ اس غرض سے ادا کردیں تو میں جلسہ کے دنوں کے بعد دو دن ان کے لیکچروں کے لئے مقرر کردوں گا اور اعلان کردوں گا کہ جو دوست جانے پر مجبور نہ ہوں` دو دن اور ٹھہر جائیں اور مولوی صاحب کے خیالات سنتے جائیں۔ اگر یہ نہیں تو میں یہ ہزاروں کا خرچ ان کے لئے برداشت کرنے پر تیار نہیں اور نہ جماعت کو جو لاکھ ڈیڑھ لاکھ خرچ کرکے قادیان آتی ہے اسے اس کی خواہش سے محروم کر سکتا ہوں۔ ہاں میری دعوۃ جو قادیان میں لیکچر کے متعلق ہے جس میں مجھے کوئی خاص خرچ کرنا نہیں پڑتا وہ موجود ہے۔ اگر مولوی صاحب کو وہ منظور ہو تو بڑی خوشی سے تشریف لے آئیں<۔۲۴۶
جناب مولوی صاحب نے اس کے جواب میں لکھا کہ۔
>قادیان میں جاکر ہم آپ کے مہمان ہوں گے اور آپ اور آپ کی جماعت کی حیثیت میزبان کی ہوگی اور میزبان کا یہ مطالبہ کہ مہمان اپنا ہی نہیں میزبان کا خرچ بھی ادا کرے مہمان نوازی کے اسلامی خلق کی بالکل ضد ہے<۔۲۴۷
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس >زبردستی کی دعوت< کا جواب یہ دیا کہ۔
>میں نے جو دعوت دی تھی وہ ایسے موقعہ کے لئے تھی جب میرے لئے سہولت ہو۔ مولوی صاحب کا مطالبہ جلسہ سالانہ کے موقعہ پر تقریر کا ہے۔ لیکن جلسہ کے موقعہ پر ہماری جماعت کے لوگ لاکھوں روپیہ خرچ کرکے یہاں پر میری اور میرے ساتھ کام کرنے والوں کی باتیں سننے کے لئے آتے ہیں` مولوی صاحب کی نہیں۔ اگر انہیں ان کی باتوں کا شوق ہوتا تو یہاں نہ آتے بلکہ لاہور جاتے۔ پس جو لوگ لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ کرکے میری اور میرے ساتھ کام کرنے والوں کی باتیں سننے آتے ہیں انہیں میں مولوی صاحب کی خاطر کیوں مایوس کروں اور کیوں تکلیف میں ڈالوں۔ البتہ میں نے یہ کہا تھا کہ اگر وہ اس موقعہ پر باتیں سنانا چاہیں تو ہم جلسہ کی تاریخوں سے آگے یا پیچھے دو دن بڑھا دیں گے اور میں اعلان کردوں گا کہ دوست کوشش کرکے ان دنوں کے لئے ٹھہر جائیں۔ مگر ان مہمانوں کو چونکہ مولوی صاحب کی باتیں سننے کے لئے ہی ٹھہرایا جائے گا اس لئے ان دنوں کا خرچ بھی انہی کو دینا چاہئے۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ میرا یہ مطالبہ کہ >مہمان اپنا ہی نہیں میزبان کا خرچ بھی ادا کرے مہمان نوازی کے اسلامی خلق کی بالکل ضد ہے< لیکن میں کہتا ہوں کہ میزبان تو میں ہوں اور میں نے تو اپنا خرچ نہیں مانگا۔ باہر سے آنے والے تو مہمان ہیں اور جن مہمانوں کو ان کی دعوت پر اور ان کی باتیں سننے کے لئے ٹھہرایا جائے ان کا خرچ تو بہرحال ان ہی پر پڑنا چاہئے اور یہ اسلامی خلق کے بالکل خلاف بات نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر تو مولوی صاحب کہیں کہ میں خود آتا ہوں تو ہم ان کی مہمان نوازی کریں گے لیکن یہ کہ مہمان کہے میرے ساتھ اتنے ہزار آدمیوں کی بھی دعوت کرو اور ان کے لئے بھی کھانے کا انتظام کرو یہ کوئی اسلامی خلق نہیں ہے اور ایسی بات نہ کرسکنے کا نام اسلامی خلق کی ضد میں نے تو کسی جگہ نہیں پڑھا۔ اگر جیسا کہ وہ کہتے ہیں یہی اسلامی خلق ہے تو وہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی اس طرح مہمان نوازی کی دعوت دے دیا کریں اور لکھ دیا کریں کہ آپ اس قدر آدمیوں کی مہمان نوازی کا انتظام کریں۔ ہمارے آدمی آپ کو کچھ باتیں سنانے کے لئے آتے ہیں۔ ہم دیکھیں گے کہ وہ کس طرح اس اسلامی خلق پر عمل کرتے ہیں۔ ہماری تو لاہور کی جماعت ہی خداتعالیٰ کے فضل سے کافی ہے۔ باہر سے بھی لے جانے کی ضرورت نہیں۔ اگر وہی ان کے اس اسلامی خلق کا امتحان کرنے لگے تو ان کو دوچار دفعہ میں ہی پتہ لگ جائے۔
غرض مہمان کا یہ حق نہیں کہ وہ کہے کہ میری تقریر سننے کے لئے بیس پچیس ہزار آدمی جمع کئے جائیں اور ان کو کھانا بھی کھلایا جائے اور ایسا مطالبہ پورا نہ کرسکنے کا نام اسلامی خلق کی ضد رکھنا زبردستی اور دھینگا مشتی ہے۔ اگر مولوی صاحب ثابت کردیں کہ یہ بھی مہمانوازی میں شامل ہے کہ کوئی شخص کہے۔ میں اپنی تقریر سنانے آرہا ہوں اور اسے سننے کے لئے بیس پچیس ہزار آدمی جمع کئے جائیں اور ان کے لئے کھانے وغیرہ کا انتظام کیا جائے تو وہ ایسی آیت اور حدیث جس میں اسے مہان نوازی کا حصہ قرار دیا گیا ہو لکھ کر بھیج دیں تو میں مان لوں گا چاہے مجھے کتنا نقصان ہو۔ میں فوراً تسلیم کرلوں گا۔ لیکن اگر واقعی ان کا یہ عقیدہ ہے کہ اس قسم کی مہمان نوازی اسلامی خلق میں داخل ہے تو اس خلق کا تجربہ ہمیں ایک سال کے لئے کرلینے دیں۔ اس کے بعد ہم سے مطالبہ کریں۔
ہاں مولوی صاحب اگر میری دعوت کے مطابق آنا چاہتے ہیں تو اپنی سہولت کے لحاظ سے جس موقعہ پر انہیں میں دعوت دوں آجائیں۔ لیکن ان کا ہمارے جلسہ کے وقت کو اپنے لئے حاصل کرنے کا مطالبہ کرنا اور یہ کہنا کہ زائد وقت دے کر اپنے بھی اور ان کے بھی ہزاروں آدمیوں کے کھانے کا انتظام کروں یہ کوئی اسلامی خلق میں شامل بات نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ جو جائز صورت تھی وہ تو میں نے خود پیش کر دی تھی اور اس کے لئے میں اب بھی تیار ہوں۔ اس صورت میں میرے لئے صرف اتنا کام ہوتا کہ میں قادیان کے لوگوں کو جمع کر دیتا مگر ان کا یہ مطالبہ کہ جلسہ کے دنوں میں ہم ہزاروں لوگوں کو روکیں اور ان پر خرچ کریں یہ مہمان نوازی کا طریق اسلام کی کسی تعلیم میں میں نے نہیں پڑھا ہاں میری دعوت موجود ہے۔ جلسہ کے موقعہ کے سوا جب وہ آسکیں اور مجھے سہولت ہو وہ تشریف لے آئیں۔ میں قادیان کے لوگوں کو جمع کردوں گا بلکہ باہر بھی اعلان کردگوں گا کہ جو دوست آنا چاہیں آجائیں۔ وہ اپنی باتیں سنا دیں اور میں یا میرا نمائندہ اپنی سنادے گا ۔۔۔۔۔۔۔ مولوی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ ان کے جلسہ پر بھی اتنے آدمی نہیں ہوتے جتنے یہاں عام جمعہ کے دن جمع ہوتے ہیں۔ چنانچہ اس وقت بھی جمعہ کے لئے جتنے لوگ بیٹھے ہیں اتنے کبھی بھی نہیں اپنے جلسہ میں نصیب نہیں ہوتے۔ اگر میں ان کے جلسہ پر جائوں یا میرا نمائندہ جائے۔ فرض کرو مولوی ابوالعطاء صاحب جائیں تو انہیں وہاں اتنے سامعین تو نہیں مل سکتے جتنے یہاں جمعہ میں بیٹھے ہیں۔ پس انہیں اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ اور حق تو یہ ہے کہ باتیں ایک دوسرے کی سننے والے سنتے اور پہنچانے والے پہچانتے ہی رہتے ہیں۔ اس انتظام کی بھی کوئی خاص ضرورت نہ تھی۔ یہ تو ہم نے ان کی خواہش کو پورا کرنے کے لئے بطور احسان دعوت دی تھی مگر انہوں نے اس احسان کی قدر نہ کی اور غیر معقول مطالبات شروع کر دیئے<۔۲۴۸
حضرت امیرالمومنین نے جناب مولوی محمد علی صاحب کو اپنے خیالات قادیان کی مرکزی جماعت کو سنانے کے لئے جو سنہری موقعہ دیا تھا اسے انہوں نے اپنے عقائد کی کمزوری کو بھانپ کر خود ہی ضائع کر دیا۔ مگر اپنے رفقاء کو طفل تسلیاں دیتے ہوئے کہا۔
>ان کی جماعت وہ تو نہیں جو قادیان میں ہے وہ تو ان کے ملازمین اور ایسے لوگ ہیں۔ جن کی ضروریات ان سے وابستہ ہیں۔ جماعت تو وہ چیز ہے جو اس سلسلہ کو قائم رکھنے والی ہے۔ بیرونی لوگ جو جلسہ پر آتے ہیں اصلی جماعت وہ ہے<۔۲۴۹
سیدنا حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی نے حضرت مسیح موعودؑ پر اس نئے حملہ کا پرزور دفاع کرتے ہوئے فرمایا کہ۔
>حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تو قادیان میں رہنے کی تعلیم دی ہے۲۵۰ اور آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص سب کچھ چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا یا کم سے کم یہ تمنا دل میں نہیں رکھتا وہ منافق ہے اور مولوی محمد علی صاحب کے نزدیک جو لوگ قادیان میں آبسے ہیں وہ منافق ہیں۔ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جتنی باتیں بیان فرمائیں تھیں۔ غیر مبائعین کے نزدیک وہ سب بدلتی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض قادیان کے رہنے والوں کے متعلق یہ اتنا بڑا تہام اور بہتان ہے کہ خود مولوی محمد علی صاحب بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے۔ اول تو یہی دیکھ لو کہ قادیان میں انجمن کے ملازم کتنے ہیں۔ قادیان میں دس ہزار احمدی بستے ہیں۔ ان میں سے ملازم زیادہ سے زیادہ سو دو سو ہوں گے۔ اگر ان کے ساتھ ان کے بیوی بچوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو پانچ چھ سو بن جائیں گے۔ ان کے علاوہ چھ سات ہزار وہ لوگ ہیں جو زمیندار ہیں یا پیشہ ور ہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے باپ بھائی یا خاوند وغیرہ گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں اور انہوں نے اپنے بچوں یا دوسرے عزیزوں کو قادیان میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیج دیا ہے۔ ان پر بھلا انجمن کا کیا دبائو ہوسکتا ہے۔ یا میرا ان پر کیا دبائو ہوسکتا ہے۔ وہ تو خود چندے دیتے اور سلسلہ کے لئے قربانیاں کرتے ہیں۔ بہرحال کثرت ان لوگوں کی ہے جو پنشن یافتہ ہیں یا پیشہ ور ہیں یا زمیندار وغیرہ ہیں یا پھر قادیان میں وہ لوگ رہتے ہیں جن کے باپ بھائی وغیرہ گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں اور وہ انہیں تعلیم کے لئے اخراجات بھیج دیتے ہیں ۔ یا اگر وہ پڑھتے نہیں تو ان کا گزارہ بہرحال اپنے باپ یا بھائی کی آمد پر ہے۔ اس قسم کے تمام لوگ کون سے جماعت کے دبائو کے ماتحت ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ خود پیغامیوں میں ایک خاصہ طبقہ ایسے لوگوں کا ہے جو گورنمنٹ کی ملازمت میں ہیں مگر ان کے نزدیک گورنمنٹ کی ملازمت ان کے اعتقادات پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی۔ میاں غلام رسول صاحب تمیم` میاں محمد صادق صاحب` ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب` ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب` ڈاکٹر بشارت احمد صاحب` یہ سب عیسائی حکومت کے ملازم تھے۔ کیا یہ سب ان ایام میں عیسائی ہوگئے تھے یا عیسائیوں کی ہاں میں ہاں ملانے لگ گئے تھے؟ کیا اس وقت جو لوگ انجمن اشاعت اسلام کے ملازم ہیں وہ سب کے سب مولوی صاحب کے تجربہ کے مطابق منافق ہیں کیونکہ وہ مولوی صاحب اور ان کی انجمن کے لڑ لگے ہوئے ہیں۔ اگر مولوی صاحب کے نزدیک یہ لوگ منافق نہیں تو کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ تو انگریزوں یا انجمن اشاعت اسلام کی ملازمت کرکے منافق نہ ہوئے مگر قادیان کے احمدی صدر انجمن احمدیہ کی ملازمت کرکے اپنے ایمان کو سلامت نہ رکھ سکے۔ اگر صدر انجمن احمدیہ کی نوکری کرنے سے عقیدہ بھی بدل جاتا ہے تو پیغامیوں میں جتنے لوگ گورنمنٹ کے ملازم ہیں ان سب کے متعلق یہ سمجھا جانا چاہئے کہ یہ سب عیسائی ہیں۔ کیونکہ مولوی محمد علی صاحب کے اس اصل کے مطابق یہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا کہ گورنمنٹ کے ملازم ہوکر انہوں نے اپنے ایمان کو محفوظ رکھا ہو۔
پھر میں کہتا ہوں مولوی محمد علی صاحب کو اپنا تجربہ بھی یاد ہونا چاہئے۔ اب تو قادیان کی آبادی کا ایک کثیر حصہ ایسا ہے جو صدر انجمن احمدیہ کا ملازم نہیں مگر جب مولوی محمد علی صاحب قادیان میں رہتے تھے تو یہاں کے اسی فی صد انجمن کے نوکر یا ان نوکروں سے تعلق رکھنے والے لوگ تھے اور مولوی محمد علی صاحب کو یاد ہوگا کہ باوجود اس کے کہ وہی سیکرٹری تھے اور باوجود اس کے کہ خزانہ ان کے پاس تھا` قادیان کے لوگوں نے مولوی صاحب کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ جب ایمان کا معاملہ آیا تو انہی قادیان والوں نے جس طرح مکھی کو دودھ سے نکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے` اسی طرح انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کو نکال کر باہر کردیا۔ حالانکہ یہ وہ لوگ تھے جن کے مال اور جن کی جانیں اسی طرح مولوی محمد علی صاحب کے قبضہ میں تھیں جس طرح اب وہ ہمارے متعلق کہتے ہیں کہ ہمارے قبضہ میں لوگوں کے مال اور ان کی جانیں ہیں اگر اس وقت قادیان والوں نے ایمان کے معاملہ میں کسی قسم کی کمزوری نہیں دکھائی تو اب وہ کس طرح خیال کرسکتے ہیں کہ قادیان کے رہنے والے ایمان کے معاملہ میں کمزوری دکھاتے اور منافقت سے کام لیتے ہیں۔ ان کو تجربہ ہے کہ قادیان والوں نے اپنے ایمان کو فروخت نہیں کیا تھا بلکہ جب انہیں معلوم ہوا کہ اب دین اور ایمان کا سوال پیدا ہوگیا ہے تو انہوں نے مقابلہ کیا اور اس بات کی انہوں نے کوئی پروا نہ کی کہ وہ صدر انجمن احمدیہ کے ملازم ہیں۔ پھر میں مولوی محمد علی صاحب سے کہتا ہوں۔ مولوی صاحب! آپ بھی قادیان کی نوکری کرتے رہے ہیں۔ کیا اس وقت آپ کا ایمان بگڑا ہوا تھا یا سلامت تھا۔ آپ تو اس وقت اڑھائی سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے جن پر آپ اعتراض کررہے ہیں ان میں سے اکثر تو بیس` تیس` چالیس لینے والے ہیں مگر آپ اڑھائی سو روپیہ ماہوار وصول کیا کرتے تھے۔ پس آپ بتائیں کہ آپ کے اعقاد کا اس وقت کیا حال تھا؟
پھر ہمارے اعتقادات کے بدلنے کا تو ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں مگر مولوی محمد علی صاحب کے متعلق ہمارے پاس اس بات کا قطعی اور یقینی ثبوت ہے کہ جب تک وہ قادیان سے اڑھائی سو روپیہ ماہوار تنخواہ لیتے رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو نبی کہتے کہتے ان کی زبان خشک ہوتی تھی۔ مگر جب وہ اڑھائی سو روپیہ ماہوار ملنے بند ہوگئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مجدد کہنے لگ گئے۔ جس شخص کے ایمان کا یہ حال ہو کہ وہ اڑھائی سو روپیہ کے بدلے کسی کو نبی کہنے کے لئے تیار ہو جائے اور عدالتوں میں جاکر کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نبی تھے اسے یہ کس طرح زیب دیتا ہے کہ وہ دوسروں پر طعنہ زنی کرے۔ پھر جس شخص کو اس دن کی روٹی بھی اسی ترجمہ کے طفیل ملی ہو جو اس نے قادیان میں بیٹھ کر اور جماعت احمدیہ سے تنخواہ پاکر کیا تھا اس کو کب یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قادیان والوں کی عیب چینی کرے۔ حالانکہ اس نے اس روز صبح کو جو ناشتہ کیا تھا وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل تھا جو اس نے قادیان میں باقاعدہ تنخواہ لے کر کیا اور اس نے اس روز جو روٹی کھائی تھی وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل تھی جو اس نے قادیان میں تنخواہ پر کیا۔ اور اس نے اس روز جو کپڑے پہنے تھے وہ بھی اسی ترجمہ کے طفیل تھے جو اس نے قادیان میں تنخواہ پاکر کیا۔ کیونکہ اس کا کون انکار کرسکتا ہے کہ جس ترجمہ کے کمشن پر مولوی صاحب کا گزارہ ہے وہ ترجمہ مولوی صاحب نے اپنے گھر سے کھاکر نہیں کیا بلکہ صدر انجمن احمدیہ سے تنخواہ لے کر اور اس کی خریدی ہوئی لائبریری کی مدد سے کیا تھا۔ >)جس لائبریری کو وہ بعد میں دھوکا دے کر کہ میں چند روز کے لے لئے جاتا ہوں غصب کر بیٹھے ہیں( ایسا انسان بھلا کس مونہہ سے یہ کہہ سکتا ہے کہ قادیان والے منافق ہیں۔ مولوی صاحب نے شاید سمجھا ہوگا کہ باہر والے اتنے کمزور ہیں کہ جب وہ یہ سنیں گے کہ قادیان والوں کو انہوں نے اصل جماعت احمدیہ قرار نہیں دیا ہے بلکہ اصل جماعت احمدیہ باہر کے رہنے والوں کو قرار دیا ہے تو وہ خوش ہو جائیں گے۔ مگر یہ ان کی غلطی ہے۔ ان سے پہلے اور بھی بعض لوگ اس قسم کی باتوں سے تفرقہ پیدا کرنے کی کوشش کرچکے ہیں۔ چنانچہ مدینہ میں ایک شخص نے ایک دفعہ انصار اور مہاجرین میں تفرقہ پیدا کرنے کے لئے کہہ دیا تھا۔ لا تنفقوا علی من عند رسول اللہ حتی ینفضوا )المنافقون ۱: ۱۳( ارے یہ لوگ روٹیاں کھانے کے لئے یہاں بیٹھے ہیں۔ تم ذرا ان کی روٹیاں تو بند کرو پھر دیکھو گے کہ کس طرح یہ لوگ یہاں سے بھاگ نکلتے ہیں۔ مگر جانتے ہو کہ یہ بات کہنے والے کا کیا حشر ہوا۔ اسی کا بیٹا حضرت رسول اکرمﷺ~ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے باپ کے فعل پر *** ڈالی۔
پس مولوی محمد علی صاحب کو بھی یاد رہے کہ ان کا یہ حملہ جو انہوں نے قادیان کی جماعت احمدیہ پر کیا ہے اس سے باہر کے لوگ خوش نہیں ہوں گے بلکہ باہر کی جماعتیں خود اس حملہ کا جواب دیں گی اور وہ ان کی تائید نہیں کریں گی بلکہ ان کے اس دعویٰ کی پرزور تردید کریں گی۔ کیونکہ ان کا اخلاص اس بات کا تقاضا کرتا ہے اور ان کے دل اس حسرت سے پر ہیں کہ کاش انہیں بھی قادیان میں رہنے کی توفیق ملتی۔ وہ قادیان میں آنے کو نفاق نہیں سمجھتے بلکہ ایمان اور اخلاص کی علامت سمجھے ہیں<۔۲۵۱
یہ اعلان چونکہ بیرونی مخلصین احمدیت کے دلوں کا ترجمان اور ان کی قلبی کیفیت کا آئینہ دار تھا اس لئے جوں ہی حضرت امیرالمومنین کی آواز ان کے کانوں تک پہنچی انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کے رویہ کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا۲۵۲ اور ریزولیوشن پاس کرکے قادیان کے احمدیوں کی فضیلت کا اقرار کیا۔ اس سلسلہ میں انبالہ کی جماعت اول نمبر پر آئی جس نے سب سے پہلے تار دیا کہ وہ مولوی صاحب کے اس حملہ کی بری نظر سے دیکھتے اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اسی طرح مجوکہ ضلع سرگودھا کے ایک احمدی نے حقیقی مومنانہ جذبہ دکھایا اور نہایت معقول رنگ میں جواب دیا۔ انہوں نے لکھا کہ مولوی محمد علی صاحب اس بات پر مصر ہیں کہ میں باہر کی جماعتوں کو اپنی تقریر سنانا چاہتا ہوں۔ ان کے دل میں یہ وہم ہے کہ باہر کے لوگ چونکہ عموماً ناخواندہ ہوتے ہیں اس لئے ممکن ہے قادیانی جماعت کا ساتھ چھوڑ دیں۔ مگر مولوی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے میں موضع مجوکہ ضلع سرگودھا کا رہنے والا ہوں۔ اس علاقہ کی جماعتیں آپ کے عقیدہ سے خوب واقف ہیں۔ میں ان جماعتوں کے متعلق قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ اگر سورج بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع ہونے لگے تو بھی وہ ہرگز ہرگز حضرت امیرالمومنین کا پاک دامن چھوڑنے والی نہیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۴۱ء۔ ۱۳۲۰ہش پر جماعت انبالہ کی اولیت کا ذکر کیا اور مجوکہ کے احمدی کے اس جواب پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا >یہ جواب ہے تو بہت سادہ مگر ایمان کا نہایت عمدہ مظاہرہ ہے<۔۲۵۳
بیرونی جماعتوں نے محض اسی پر اکتفا نہیں کیا کہ باہر سے قراردادیں بھجوا دیں۔ بلکہ انہوں نے سالانہ جلسہ ۱۹۴۱ء۔ ۱۳۲۰ہش کے اجلاس اول )منعقدہ ۲۶۔ فتح/ دسمبر( میں جبکہ وہ ہزاروں کی تعداد میں جمع تھیں حسب ذیل قرارداد پاس کی۔
>مولوی محمد علی صاحب امیر غیر مبائعین کا مطالبہ کہ ان کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر تقریر کرنے کی اجازت دی جائے حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا جائے۔ بیرونی جماعتوں میں سے کوئی بھی ان کا لیکچر سننا نہیں چاہتی۔ چونکہ انہوں نے ہمارے مقدس اور جان سے پیارے امام حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز اور جماعت قادیان دارالامان کی جس کو تمام جماعتیں سب سے بہتر و افضل جماعت یقین کرتی ہیں سخت ہتک کی ہے اس لئے وہ ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کو اس سٹیج پر بولنے کی اجازت دی جائے۔ ہم میں سے کوئی شخص بھی ان کی بات سننے کے لئے تیار نہیں<۔
یہ قرار داد ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی اے` ایل ایل بی نے پیش کی اور متفقہ طور پر پاس کی گئی۔۲۵۴ اب بیرونی احمدی جماعتوں کے جذبات و خیالات کا پوری طرح اظہار ہوچکا تھا اور مولوی محمد علی صاحب کی گہری تدبیر جو انہوں نے ان جماعتوں کو خوش کرکے مرکز احمدیت سے بدظن کرنے کے لئے کی تھی پوری طرح ناکام ہوچکی تھی مگر اس کے باوجود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اگلے دن اپنی تقریر کے دوران دوبارہ تمام حاضرین سے رائے طلب کی کہ۔
>اگر آپ لوگ جلسہ کے موقعہ پر ان کی تقریریں سننا چاہتے ہیں تو بتادیں۔ میں کل کا دن انہیں دے سکتا ہوں اور ابھی تار دے کر ان کو بلا لیتا ہوں<۔۲۵۵
یہ سن کر جلسہ میں شامل سب احباب نے بالاتفاق کہا کہ ہم ان کی کوئی بات نہیں سننا چاہتے۔ اس پر حضرت خلیفتہ المسیح نے فرمایا۔
>اگر جماعت سننا نہیں چاہتی تو ہم نے کونسا ان کا قرض دینا ہے کہ ان کو ضرور موقعہ دیں اور اس طرح سال میں تین دن قادیان میں گزارنے اور میری اور سلسلہ کے علماء کی تقریریں سننے کا جو موقعہ دوستوں کو ملتا ہے وہ ان کی نذر کر دیں<۔
پھر فرمایا۔
>یہ وہی چالاکی ہے جیسے رسول کریم~صل۱~ کے زمانے میں مہاجرین اور انصار کو باہم لڑانے کے لئے منافقین کیا کرتے تھے۔ مولوی صاحب نے سمجھا یہ جماعت بیوقوف ہے۔ جب میں کہوں گا کہ قادیان کی جماعت تو اصل جماعت نہیں تو باہر والے خوش ہوں گے اور کہیں گے کہ مولوی صاحب نے ہماری تو تعریف کردی ہے۔ لیکن انہیں پتہ نہیں کہ جماعت خداتعالیٰ کے فضل سے اس دھوکے میں آنے والی نہیں اور ہمارے دوست انہیں خوب سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ کسی نے کہا ہے۔ ~}~
بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش
من انداز قدت را مے شناسم
یعنی تم خواہ کسی قسم کے لباس پہن کر آئو میں چال سے اور قد کے انداز سے سمجھ جاتا ہوں کہ کون ہوگا<۔۲۵۶
‏sub] g[taسالانہ جلسہ ۱۹۴۰ء` ۱۳۱۹ہش میں حضرت امیرالمومنین کا خطاب
سالانہ جلسہ پر اللہ تعالیٰ کے بہت سے افضال کا نزول ہوا جن میں سے ایک نمایاں فضل یہ تھا کہ اگرچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی صحت بیماری اور کام کی وجہ سے بہت کمزور تھی مگر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف معجزانہ طور پر حضور کو سالانہ جلسہ پر حسب دستور ایمان افروز تقاریر کرنے کی طاقت بخشی بلکہ جہاں گزشتہ سالوں میں ان ایام کی مصروفیات کے باعث کھانسی کا شدید حملہ ہو جاتا تھا وہاں اس سال اس تکلیف میں نمایاں کمی واقع ہوگئی۔ چنانچہ حضور نے ۳۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء۔ ۱۳۲۰ ہش کو خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
>میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے باوجود اس کے کہ میری طبیعت جلسہ سے قبل بیماری اور کام کی زیادتی کی وجہ سے بہت ضعیف تھی اور میں اپنے نفس میں سمجھتا تھا کہ غالباً میں جلسہ کے موقع پر اس حد تک بھی تقریریں نہ کر سکوں گا جس حد تک کہ پہلے کیا کرتا تھا اور دوسرے کاموں میں بھی غالباً کمی کرنی پڑے گی۔ مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کسی کام میں کوئی کمی نہیں کرنی پڑی ببلکہ پہلے جلسوں کے بعد میں جس قدر کوفت محسوس کیا کرتا تھا۔ اس سال اس سے بہت کم کوفت محسوس ہوئی اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا جلسہ آیا ہی نہیں بلکہ کئی لحاظ سے میں اس وقت اپنی طبیعت کو جلسہ سے پہلے کی نسبت بہت بہتر پاتا ہوں۔ گویا ایک قسم کا علاج ہوگیا۔ بے شک جلسہ کے بعد کھانسی ضرور ہوئی ہے مگر یہ کھانسی حلق کی معلوم ہوتی ہے اور اس کھانسی سے ضعف نہیں ہوتا اور پھر پہلے سالوں کی نسبت اس سال کھانسی میں بھی کمی ہی رہی ہے۔ گو دو چار روز قبل کھانسی کچھ زیادہ تھی مگر کل نہیں اٹھی۔ آج کچھ کچھ اٹھ رہی ہے۔ مگر اس دفعہ کا حملہ اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں جو پہلے سالوں میں جلسہ کے بعد ہوا کرتا تھا) پہلے تو جلسہ کے بعد ایسی شدید کھانسی ہوا کرتی تھی کہ مجھے رات کے ایک ایک دو دو بجے تک بستر میں بیٹھ کر وقت گزارنا پڑتا تھا اور نیند نہیں آتی تھی۔ اس سال گو صبح شروع ہوتی ہے مگر دس بجے تک ہٹ جاتی ہے اور پھر شام کو کچھ شروع ہو کر سونے کے وقت تک رک جاتی ہے۔ اس کے علاوہ سردی لگنے کی وجہ سے متلی کی بھی کچھ شکایت ہوئی اور جگر کی خرابی کا کچھ دورہ ہوا۔ مگر مجموعی لحاظ سے اور توقع کے بالکل خلافت میری طبیعت بہت اچھی رہی ہے اور اللہ تعالٰی نے ایسی نصرت کی ہے کہ کام بھی ہوگیا اور طبیعت میں بھی کوئی خرابی نہیں ہوئی بلکہ طبیعت پہلے کی نسبت اچھی ہے۔ اس میں کچھ دخل ایک اور بات کا بھی ہے مگر وہ بھی خدا تعالیٰ کا فضل ہی ہے اور وہ یہ کہ میں ہمیشہ عام طور پر جلسہ کی تقریروں کے نوٹ دوران جلسہ میں لیا کرتا ہوں۔ چونکہ فرصت نہیں ہوتی اس لئے میرا قاعدہ ہے کہ سفید کاغذ تہہ کرکے جیب میں رکھ لیا کرتا ہوں اور دوسرے کاموں کے دوران میں جو وقت مل جائے اس میں کاغذ نکال کر نوٹ کرتا رہتا ہوں۔ مثلاً ڈاک دیکھ رہا ہوں۔ دفتر والے کاغذات پیش کرنے کے لئے لانے گئے اور اس دوران میں میں نوٹ کرنے لگ گیا یا نماز کے لئے تیاری کی۔ سنتیں پڑھیں اور جماعت تک جتنا وقت ملا اس میں نوٹ کرتا رہا۔ اس طرح یہ تیاری پندرہ سولہ ستمبر سے شروع کر دیتا تھا اور قریباً ۲۲۔ ۲۳۔ دسمبر تک کرتا رہتا تھا اور اس کے بعد دوسرے کاموں سے فراعت حاصل کرکے نوٹوں کی تیاری میں لگ جاتا۔ ان کو درست کرکے لکھنے کا کام میں بالعموم ۲۷۔ ۲۸ کو کرتا اور اس کے لئے وقت انہی تاریخوں میں ملتا تھا۔ اس وجہ سے طبیعت میں کچھ فکر بھی رہتا تھا کہ صاف کرکے لکھ بھی سکوں گا یا نہیں لیکن اس دفعہ قرآن کریم کی تفسیر کا کام رہا اور اس کے لئے وقت نہ تھا۔ ۲۲۔ کی شام کو ہم تفسیر کے کام سے فارغ ہوئے۔ ۲۳۔ کو بعض اور کام کرنے تھے وہ کئے۔ ۲۴۔ کی شام کو نوٹوں کا کام شروع کیا اور فکر تھا کہ یہ کس طرح کروں گا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ نوٹوں کی تیاری میں بہت آسانی ہوگئی۔ حوالے وغیرہ بہت جلد جلد ملتے گئے اور ۲۵۔ کی شام کو تینوں لیکچروں کے نوٹوں سے میں فارغ ہوچکا تھا یہ بھی ایک وجہ ہے کہ مجھے زیادہ کوفت نہیں ہوئی کیونکہ زیادہ محنت نہ کرنی پڑی۔ اگر مضمون پیچیدہ ہو جاتا تو مجھے زیادہ محنت کرنی پڑتی اور پھر بوجھ بھی زیادہ محسوس ہوتا اور تکلیف ہوتی مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے بچالیا<۔۲۵۷
حضرت امیرالمومنین کی تقریر کا ذکر اخبار >سٹیٹس مین< میں
دہلی کے مشہور اخبار >سٹیٹس مین< نے اپنی ۲۹۔ دسمبر ۱۹۴۰ء کی اشاعت میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی سالانہ جلسہ کی ایک تقریر )فرمودہ ۲۷۔ دسمبر ۱۹۴۰ء( کی حسب ذیل رپورٹ شائع کی۔
>قادیان ۲۸۔ دسمبر۔ آج جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ نے فرمایا کہ دنیا اس وقت نہایت ہی نازک دور میں سے گزر رہی ہے اور ابھی اور نازک دور آنے والا ہے۔ آپ نے فرمایا۔ انسانیت کی موجودہ مشکلات اور دکھوں میں ایک نیا نظام پیدا ہوگا جو موجودہ نظام سے بہت مختلف اور اس سے بہت بہتر ہوگا۔ تقریر کے دوران میں آپ نے جماعت کی تعمیری سرگرمیوں نیز اندرونی مخالفین کی شرارتوں اور بیرونی دشمنوں کے حملوں پر بھی تبصرہ کیا اور آئندہ سال کے لئے ایک عملی پروگرام جماعت کے سامنے رکھا۔ حکومت کے ساتھ جماعت کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ قادیان میں سکھوں کی کانفرنس کے موقعہ پر جو سلوک ہم سے کیا گیا ہم اسے سخت ناپسند کرتے ہیں۔ آپ نے جماعت کو سادہ زندگی اختیار کرنے کی تاکید فرمائی اور نوجوانان جماعت سے پرزور اپیل کی کہ وہ اسلام کی خدمت کے لئے میدان میں نکلیں۔ آپ نے عورتوں کے جلسہ میں بھی تقریر کی جو لجنہ اماء اللہ کے زیر اہتمام ایک علیحدہ پنڈال میں منعقد ہوا<۔۲۵۸
مختلف مذاہب اور مختلف فرقوں کے معززین کی سالانہ جلسہ ۱۳۱۹ھش/ ۱۹۴۰ء میں شرکت
حسب معمول اس سال بھی غیر احمدی اور غیر مسلم معززین نے سالانہ جلسہ میں شرکت کی۔ ایسے اصحاب کی تعداد دو سو کے قریب تھی۔ اکثر نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے شرف ملاقات
بھی حاصل کیا اور مقامات مقدسہ دیکھے۔ ذیل میں بعض چیدہ اصحاب کے نام درج کئے جاتے ہیں۔
)۱(
مسٹر دلفریڈسی سمتھ آف ٹورنٹوسٹی کینیڈا۔ امریکہ۔ جو سینٹ جان کالج کیمرج انگلستان کے طالب علم تھے اور >اسلام میں نئی مذہبی اور نیم مذہبی تحریکات< پر مضمون تیار کررہے تھے۔
)۲۔۳(
مسٹر دملے جال صاحب آف چیکوسلواکیہ مع اہلیہ صاحبہ
)۴۔۵(
مسٹر بامک صاحب آف چیکوسلواکیہ مع اہلیہ صاحبہ۔
)۶(
رائے صاحب لالہ نتھو لال صاحب پوری۔ پی۔ سی۔ ایس )ریٹائرڈ( وزیر ریاست شاہ پورہ )راجپوتانہ(
)۷(
پنڈت راجندر کشن صاحب کول سب ج درجہ اول لائل پور۔
)۸(
لالہ کرم چند صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی پلیڈر کانگڑہ۔
)۹(
لالہ اوم پرکاش صاحب امپیریل سیکرٹریٹ دہلی۔
)۱۰(
مسٹر انیس احمد صاحب عباسی ایڈیٹر روزنامہ >حقیقت< لکھنو۔
)۱۱(
چودھری عنایت علی صاحب آنریری مجسٹریٹ گوجرانوالہ۔
)۱۲(
خان صاحب میاں مراد بخش صاحب آنریری مجسٹریٹ جلال پور بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ۔
)۱۳(
چودھری محمد نواز خاں صاحب آنریری مجسٹریٹ رسول پور ضلع گوجرانوالہ۔
)۱۴(
پنڈت نگیندر موہن پرشاد صاحب تیوری جج ریاست جے پور۔
)۱۵(
ملک علی بہادر خاں صاحب آف گڑھی آوان ممبر ڈسٹرکٹ بورڈ ضلع گوجرانوالہ۔
)۱۶(
چودھری اکرام اللہ خان صاحب رئیس ایمن آباد۔
)۱۷(
لیفٹیننٹ کرتی سنگھ اہلو والیہ آف پٹھانکوٹ ڈائرکٹر واہ سیمنٹ کمپنی۔
)۱۸(
سردار منظور احمد خان صاحب تمندار و آنریری مجسٹریٹ کوٹ قیصرانی۔ ضلع ڈیرہ غازیخاں۔
)۱۹(
چودھری فیض علی خاں صاحب آنریری مجسٹریٹ و جاگیر دار ضلع گوجرانوالہ۔
ان کے علاوہ بہت سے معزز غیر احمدی اور غیر مسلم اصحاب آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی کوٹھی بیت الظفر میں فروکش تھے جن میں سے بعض کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔
)۲۰(
ملک غلام محمد صاحب کنٹرولر۲۵۹ جنرل پرچیز دہلی۔
)۲۱(
مسٹر زاہد حسین صاحب فنانشل۲۶۰ ایڈوائزر سپلائی ڈیپارٹمنٹ دہلی
)۲۲(
اے۔ کے ملک آئی۔ سی۔ ایس انڈین سٹورز ڈیپارٹمنٹ دہلی۔
)۲۳(
خان بہادر ڈاکٹر عبدالحمید صاحب بٹ اسسٹنٹ ڈائرکٹر پبلک ہیلتھ پنجاب۔
)۲۴(
خاں بہادر راجہ اکبر علی صاحب دہلی۔
)۲۵(
شیخ محمد تیمور صاحب وائس پرنسپل اسلامیہ کالج پشاور۔
)۲۶(
باواجھنڈا سنگھ صاحب ریٹائرڈ سب جج امرتسر۔
)۲۷(
مسٹر فضل الرحمن صاحب شریف امرتسر۔
)۲۸(
مسٹر مظہر شریف صاحب ایم۔ اے امرتسر۔
)۲۹(
خاں بہادر میاں غلام قادر محمد شعبان صاحب ایم۔ ایل۔ اے۔ سنٹرل کراچی۔
)۳۰(
مسٹر شوندر بہادر سہگل حیدرآباد دکن۔
)۳۱(
لالہ کرم چند صاحب ایڈیٹر >پارس< لاہور۔
)۳۲(
مسٹر اے۔ کے مشتاق صاحب حیدرآباد دکن۔
)۳۳(
میاں محمد رشید صاحب آسٹریلین دواخانہ )لاہور(
)۳۴(
بخشی چانن شاہ صاحب لاہور۔
)۳۵(
شیخ لائق علی صاحب سینئر سب جج امرتسر۔
)۳۶(
چودھری عبدالکریم صاحب آنریری مجسٹریٹ لاہور۔
)۳۷(
شیخ عبدالعزیز صاحب امرتسر۔
)۳۸(
شیخ عبدالرشید صاحب امرتسر۔
)۳۹( ][ رفعت پاشا صاحب امرتسر۔۲۶۱
سالانہ جلسہ پر بیعت کرنے والوں کی تعداد
۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش کے سالانہ جلسہ کے موقعہ پر جو اصحاب سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کے دست مبارک پر بیعت کرکے داخل احمدیت ہوئے ان کی تعداد تین سو چھیاسی تھی۔ جن میں ۱۹۹ مرد اور ۱۸۷ خواتین تھیں۔۲۶۲
پہلا باب )فصل ہشتم(
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
اس سال سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے متعدد جلیل القدر صحابہ ہم میں سے ہمیشہ کے لئے جدا ہوگئے۔ ان کے نام مع مختصر حالات کے درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ میاں خیر دین صاحب کھماچوں )ضلع جالندھر( وفات: امان/ مارچ ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش۔۲۶۳
۲۔ حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب حلالپوری۔ )زیارت مسیح موعودؑ: نومبر ۱۹۰۴ء بمقام لاہور۔ بیعت تحریری: ۱۷۔ فروری ۱۹۰۸ء` دستی ۱۳۔ اپریل ۱۹۰۸ء۔ وفات: ۸۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش(
حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب سلسلہ احمدیہ کے ایک بلند پایہ عالم` بہت بڑے محقق` علوم شرقیہ کے ماہر` نہایت منکسر المزاج` طبیعت کے سادہ` دل کے غنی اور محبت و اخلاص کے مجسمہ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے عہد مبارک کے آخری ایام میں قادیان آئے اور حضورؑ کے دست مبارک پر بیعت کرکے واپس چلے گئے۔ پھر ۱۹۰۹ء میں ہجرت کرکے مستقل طور پر قادیان میں رہائش پذیر ہو گئے۔ پہلے مدرسہ احمدیہ میں مدرس ہوئے۔ آخر میں جامعہ احمدیہ کے پروفیسر مقرر ہوکر ۱۹۳۹ء میں ریٹائر ہوئے]01 [p۲۶۴ ریٹائر ہونے کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کے سپرد دو اہم کام کئے۔
۱۔
مجاہدین تحریک جدید کی تعلیم و تربیت
۲۔
ترجمہ قرآن کریم کے لئے لغات کے حوالوں کی تخریج۔۲۶۵
حضرت مولوی صاحب بوڑھے ہوچکے تھے اور مسلول بھی تھے مگر آپ یہ دونوں کام آخر دم تک نہایت خوش اسلوبی سے نبھاتے رہے۔ آپ کی المناک وفات نے جماعت احمدیہ کے افراد کو عموماً اور عملی ذوق رکھنے والی شخصیتوں کو محسوس کرا دیا کہ جماعت سے صرف ایک عالم جدا نہیں ہوا بلکہ علوم کا ایک سورج اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے غروب ہوگیا ہے۔ چنانچہ حضرت میر محمد اسحق صاحب`۲۶۶ حضرت مفتی محمد صادق صاحب`۲۶۷ مولانا ابوالعطاء صاحب۲۶۸ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب۲۶۹ نے آپ کے علم و فضل اور اخلاق و شمائل کی نسبت درد و گداز سے ڈوبے ہوئے مضامین لکھے اور شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ اور حضرت مولانا ذوالفقار علی خاں صاحب گوہر نے آپ کی یاد میں مرثیئے کہے۔۲۷۰
حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب کے شاگردوں کا سلسلہ بہت وسیع تھا۔ آپ نے ایک بیش بہا لٹریچر اپنے پیچھے بطور یادگار چھوڑا۔ آپ کی مشہور تالیفات و تصنیفات حسب ذیل ہیں۔
تنویر الابصار۔ نشان رحمت۔ تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب۔ درود شریف۔ محامد خاتم النبین۔ اہل پیغام کے بعض خاص کارنامے۔ تعلیمات مسیح موعود دربارہ درود شریف۔ میرا عقیدہ دربارہ نبوت مسیح موعود۔ تبدیلی عقیدہ کے جواب الجواب۔ احمدی لڑکی کا رشتہ۔ اہل پیغام کا کچا چٹھا۔۲۷۱
۳۔ قاضی تاج الدین صاحب )وفات ۱۶۔ مارچ ۱۹۴۰ء بعمر ۷۷ سال( حضرت قاضی کرم الٰہی صاحب کے چھوٹے بھائی اور قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔ اے )حال پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ( کے چچا تھے۔۲۷۲
۴۔ حضرت شیخ میاں فقیر علی صاحب برادر حضرت حافظ حامد علی صاحب تھہ غلام نبی۔ )وفات ۲۷۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش بعمر نوے سال(۲۷۳
قدیم صحابہ میں سے تھے۔ پہلی بار آپ ۱۸۹۲ء کے سالانہ جلسہ پر شامل ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے حاضرین جلسہ کی فہرست میں آپ کا نام ۱۵۶ نمبر پر درج فرمایا۔۲۷۴ اس کے علاوہ جلسہ احباب )منعقدہ ۲۰ تا ۲۲۔ جون ۱۸۹۷ء( میں بھی آپ کی شرکت ثابت ہے۔۲۷۵ آپ تھہ غلام نبی میں فوت ہوئے۔ اور موضع بازید چک میں دفن کئے گئے۔۲۷۶
۵۔ مہرا روڑا صاحب سیالکوٹ )وفات ۲۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش بعمر ننانوے سال4]( ft[s۲۷۷
۶۔ حضرت ماسٹر عبدالرئوف صاحب بھیروی )تاریخ پیدائش اپریل ۱۸۷۷ء` بیعت: ۱۸۹۸ء` وفات ۱۰۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش بعمر ۶۳ سال(۲۷۸
مئی ۱۸۹۹ء سے لے کر دسمبر ۱۹۰۲ء تک مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان میں مدرس رہے۔ ۱۹۰۳ء و ۱۹۰۴ء میں پہلے خان صاحب عجب خاں صاحب تحصیلدار کے ہاں اور پھر حضرت سید ناصر شاہ صاحب کے ہاں قیام کیا۔ ۱۹۰۵ء میں واپس قادیان تشریف لے آئے۔ ۱۹۰۶ء کے آغاز سے پھر تعلیم الاسلام سکول کی خدمت پر بطور کلرک دوم اور بالاخر ہیڈ کلرک بن کر ۲۷۔ نومبر ۱۹۲۷ء کو پنشن یاب ہوئے۔۲۷۹
۷۔ ابو اکمل حضرت مولوی امام الدین صاحبؓ گجراتی )ولادت: نومبر ۱۸۵۱ء` بیعت: ۱۸۹۷ء وفات: ۱۳/۱۲ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ ہش بعمر اکانوے سال(۲۸۰
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے آپ کے انتقال پر لکھا کہ
>حضرت مولانا صاحب ایک جید عالم اور عارف تھے اور حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت پر ایک عالمانہ و عارفانہ یقین کے ساتھ نہایت پختگی سے قائم تھے۔ پہلے گولیکی میں رہائش تھی پھر ہجرت کرکے قادیان چلے آئے اور یہاں متفرق کلاس میں اور اس کے علاوہ بھی مولوی فاضل کلاس اور اس کے اوپر دینیات کی جماعت کے طلباء کو پڑھانے میں مصروف رہتے تھے۔ باوجود پیرانہ سالی اور ضعیفی کے ہر نماز باجماعت ادا کرتے اور باقاعدگی سے تہجد پڑھتے۔ آپ صاحب کشف و الہامات تھے<۔۲۸۱
۸۔ چوہدری نواب خاں صاحب آف گھٹیالیاں )ضلع سیالکوٹ( )وفات: ۱۲۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش(۲۸۲
۹۔ چوہدری محمد اسماعیل خان صاحب نمبردار و صدر جماعت احمدیہ بگول ضلع گورداسپور۔ )بیعت: ۱۹۰۴ء۔ وفات ۲۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش(
احمدیت کے شیدائی اور نہایت عابد و زاہد انسان! جن کی تبلیغ سے بگول` پھیروچیچی` گھوڑیواہ` شیں بھٹی` جلال پور اور بھٹیاں میں کئی لوگوں نے احمدیت قبول کی۔ پروفیسر ناصر الدین عبداللہ )وید بھوشنکا ویہ تیرتھ پروفیسر جامعہ احمدیہ کے والد( اوائل عمر میں کٹر عیسائی ہوگئے تھے بلکہ اسلام کے خلاف دوکتابیں بھی لکھیں۔ حتیٰ کہ اپنے بیٹے )ناصر الدین عبداللہ صاحب( کو مشن کالج میں تعلیم دلا کر عیسائیت کا مناد بنانے کا مصمم ارادہ کرچکے تھے۔ چوہدری محمد اسماعیل صاحب کو پتہ چلا تو آپ ناصر الدین عبداللہ صاحب کو )جو تیسری پاس کرچکے تھے( قادیان لے گئے۔ اگلے روز ان کے والد بھی قادیان پہنچ گئے۔ جنہیں چودھری صاحب نے اس رنگ میں تبلیغ کی کہ وہ عیسائیت چھوڑ کر پرجوش احمدی ہوگئے۔
چودھری صاحب موصوف کو تبلیغ کا گویا ایک جنون سا تھا۔ آپ جس افسر کے پاس تشریف لے جاتے` سرکاری کام کرنے کے بعد اسے ضرور حق کا پیغام پہنچاتے تھے۔۲۸۳
۱۰۔ سردار محمد علی صاحب ساکن جوڑہ کرنانہ ضلع گجرات )مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب کے دادا جان کے بھائی( تاریخ بیعت ۲۱۔ اپریل ۱۹۰۲ء` وفات ۲۵۔ امان ۱۳۱۹ ہش/ مارچ ۱۹۴۰ء۔ آپ ۱۹۰۲ء میں فوج میں۲۸۴ وٹرنری آفیسر میرٹھ چھائونی میں ملازم تھے تو کچھ عرصہ چکروتہ پہاڑ پر آپ کو حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب مرحوم کے ساتھ اکٹھا رہنے کا موقعہ ملا اور ان ہی کی بدولت آپ نے احمدیت قبول کی۔ آپ جماعت کی ہر تحریک کے چندہ میں باقاعدہ حصہ لیا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کا نام منارۃ المسیح پر بھی کندہ ہے۔ آپ موصی تھے۔ آپ کی وصیت کا نمبر ۲۹۔ ۶۔ ۱۲/ ۷۹۔۳ ہے۔ آپ کی نعش بعض وجوہات کی بناء پر قادیان نہ لائی جاسکی اور آپ کو اپنے گائوں کے قبرستان میں بطور امانت دفن کر دیا گیا۔ بہشتی مقبرہ قادیان میں آپ کا یادگار کتبہ ۴۲۳ نمبر کے تحت نصب ہے۔ آپ مورخہ یکم اگست ۱۹۲۱ء کو پنشن حاصل کرکے اپنے وطن آگئے اور تاوفات وہیں رہے۔ آپ کے گھر کے سامنے ایک مسجد ہے۔ شروع میں ایک دن ظہر کے وقت آپ اس مسجد میں تشریف لے گئے تو ایک مخالف نے ان سے پانی کا لوٹا چھین لیا اور کہا کہ تم کافر ہو اس مسجد سے چلے جائو۔ چنانچہ اس کے بعد آپ اپنے مکان ہی پر نماز ادا کرنے لگے۔ پنشن پر آنے کے بعد آپ اٹھارہ سال زندہ رہے۔ اس عرصہ میں آپ ہر روز بلاناغہ صبح کی نماز کے بعد دوگھنٹہ تک اپنے دروازہ کے سامنے کھڑے ہوکر بلند آواز میں احمدیت کی تبلیغ کیا کرتے تھے حالانکہ آپ عمر رسیدہ تھے اور قصبہ کے تمام لوگ مخالف تھے۔ آپ کے مکان ہی پر دوسرے احمدی اکٹھے ہو کر نماز پڑھتے اور جمعہ کی نماز ادا کرتے تھے۔ وفات کے وقت عمر ۷۴ سال تھی۔
۱۱۔ چودھری محمد شفیع صاحب بی۔ اے` بی۔ ٹی ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہائی سکول بھیرہ۔۲۸۵ بیعت۔ وفات ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش۔
۱۲۔ حاجی احمد الدین صاحب محلہ ناصر آباد۔ قادیان۔ )وفات: احسان/ جون ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش(۲۸۶
۱۳۔ حضرت حافظ قاری غلام یٰسین صاحب )بیعت: ۱۸۹۷ء` وفات: ۲۲۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۰ء بعمر ۷۲ سال(۲۸۷
۱۴۔ حضرت میاں معراجدین صاحب عمرؓ۔
)بیعت: ۱۶۔ جولائی ۱۸۹۱ء` وفات:۲۸۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش بعمر ۷۵ سال(۲۸۸
مولف >لاہور تاریخ احمدیت< کی تحقیق کے مطابق شہر لاہور کے اصل باشندوں میں سے حضرت میاں چراغ دین صاحبؓ رئیس لاہور کے خاندان نے سب سے پہلے احمدیت قبول کی اور اس خاندان میں جو بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قدموں میں سب سے پہلے آئے وہ حضرت میاں معراجدین صاحب عمرؓ تھے۔ جنہیں حضرت مولوی رحیم اللہ صاحبؓ کے فیض تربیت سے شناخت حق کی توفیق ملی۔۲۸۹ جیسا کہ خود ہی تحریر فرماتے ہیں۔
>خاکسار مولوی رحیم اللہ مرحوم کے حق میں دعا کرتا ہے کہ ان کی صحبت اور تربیت کے طفیل مجھے اس امام سے اس وقت میں بیعت کا شرف نصیب ہوا جبکہ آپ نے ابھی دعویٰ کا اعلان کیا تھا اور اس وقت میری عمر بھی بہت تھوڑی تھی<۔۲۹۰
بیعت کے قدیم ریکارڈ سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ آپ حضرت مولوی رحیم اللہ صاحب سے بھی قریباً ڈیڑھ ماہ پہلے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ چنانچہ اس ریکارڈ میں جہاں آپ کی تاریخ بیعت ۱۶۔ جولائی ۱۸۹۱ء درج ہے وہاں حضرت مولوی رحیم اللہ صاحبؓ کی بیعت کا دن ۳۰۔ اگست ۱۸۹۱ء لکھا ہے۔۲۹۱ واللہ اعلم بالصواب۔
حضرت میاں معراجدین صاحبؓ کی مشہور تالیفات و مطبوعات یہ ہیں۔
)۱(
صداقت مریمیہ
)۲(
واقعہ صلیب کے چشم دید حالات
)۳(
تقویم عمری )۱۷۸۳ء سے ۱۹۰۷ء تک` ایک سو پچیس سال کی جنتری(
علاوہ ازیں آپ نے اپریل ۱۹۰۶ء میں اپنے مطبع بدر لاہور سے براہین احمدیہ کے پہلے چار حصے شائع کئے اور حصہ اولیٰ کے شروع میں اپنے قلم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سوانح عمری بھی لکھی جو اٹھانے صفحات پر مشتمل تھی۔
۲۱۔ مارچ ۱۹۰۵ء کو اخبار >بدر< کے مالک و مدیر حضرت بابو محمد افضل صاحبؓ انتقال فرما گئے۔ تو اخبار حضرت میاں معراجدین صاحب عمرؓ نے خرید لیا جو آپ کے زیر انتظام >بدر< کے نام سے ۱۹۱۳ء تک برابر جاری رہا اور سلسلہ کی نہایت مخلصانہ خدمات انجام دیتا رہا۔
۱۵۔ حاجی میراں بخش صاحب قریشی محلہ فلوت انبالہ شہر
)بیعت: ۱۹۰۴ء` وفات: ۱۴/۱۳ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش(
نہایت نیک طینت اور خوش اخلاق بزرگ تھے۔ جماعت کی ہر تحریک میں حصہ لیتے تھے۔ تبلیغ احمدیت کا بہت شوق تھا۔ مسجد احمدیہ انبالہ۲۹۲ جس کی زمین بابو عبدالرحمن صاحب امیر جماعت احمدیہ انبالہ نے دی تھی آپ ہی کی زیر نگرانی تعمیر ہوئی۔
۱۴/۱۳ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش کی درمیانی شب آپ اور آپ کی اہلیہ صاحبہ نہایت سفاکانہ رنگ میں شہید کر دیئے گئے۔ ملک محمد مستقیم صاحب وکیل نے >الفضل< ۲۰۔ اگست ۱۹۴۰ء۔ ظہور ۱۳۱۹ہش میں اس المناک واقعہ کی تفصیل حسب ذیل الفاظ میں شائع کی۔
>مورخہ ۱۳` ۱۴۔ اگست کی درمیانی شب کے گیارہ بجے جبکہ آپ اور آپ کی اہلیہ اپنے مکان میں سوئے ہوئے تھے۔ آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ پہلے حاجی صاحب مرحوم پر قاتلوں نے تیز چاقو سے حملہ کیا اور پسلی کے قریب ایک گہرا زخم لگایا۔ جس پر حاجی صاحب فوراً ہی جان بحق ہوگئے۔ انا لل¶ہ وانا الیہ راجعون۔ اس ہیبت ناک واقعہ کو دیکھ کر ان کی اہلیہ کی آنکھ کھلی اور وہ شور مچاکر مدد حاصل کرنے کے لئے چھت پر چڑھنے لگی کہ سنگدل قاتلوں نے مرحومہ کو سیڑھیوں سے نیچے گرالیا اور ایک دو وار میں ہی کام ختم کر دیا۔ چھوٹی بچی بعمر دس ماہ ان کی گود میں تھی۔ وہ ان کے نیچے دب گئی اور ان کی لاش تڑپ کر ٹھنڈی ہوگئی۔ بوقت ملاحظہ ۔۔۔۔۔۔ ان کے جسم پر گہرے زخم آئے تھے اور جسم خون میں تر تھا۔ اناللہ و انا الیہ راجعون۔
یہ سنسنی خیز خبر ہوا کی طرح شہر میں پھیل گئی اور صبح تک مردوں اور عورتوں کا تانتا لگ گیا۔ پولیس آگئی اور تفتیش شروع ہوئی۔ لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لئے سول ہسپتال بھیجا گیا اور واپسی پر جماعت احمدیہ نے ان لاشوں کا مطالبہ کیا۔ مگر ان کے نام نہاد رشتہ داروں نے کہا کہ یا تو حاجی صاحب اور ان کی بیوی کی لاش کو فوراً قادیان لے جائو۔ ورنہ ہم ان کو بکس میں بطور امانت دفن نہیں کرنے دیں گے۔ مقامی پولیس نے بھی جماعت احمدیہ کی مدد نہ کی۔ چنانچہ مرحوم و مرحومہ کی لاشوں کو بلا بکس کے ہی سپرد خاک کر دیا<۔4] [stf۲۹۳
۱۶۔ میاں سندھی شاہ صاحب ساکن بنگہ )تحصیل نوانشہر دوآبہ ضلع جالندھر(
)وفات: ۱۹۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش بعمر ۷۵ سال(۲۹۴
۱۷۔ حکیم غلام محمد صاحب قبولہ ضلع منٹگمری۔۲۹۵
۱۸۔ چودھری فضل الدین صاحب پٹواری سیکھوں ضلع گورداسپور۔۲۹۶
۱۹۔ رعایت اللہ صاحب بھونچال کلاس ضلع جہلم۔۲۹۷
۲۰۔ حضرت میاں اللہ بخش صاحب بزدار متوطن بزدار تحصیل سنگھڑ ضلع ڈیرہ غازی خاں۔
)وفات: ۷۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ ہش بعمر قریباً ستر سال(
ڈیرہ غازی خاں کے علاقہ میں سب سے پہلے ۱۹۰۰ء میں حضرت مولوی ابوالحسن صاحب نے قبول احمدیت اور صحابیت کا شرف پایا۔ حضرت مولوی صاحب کی تبلیغ و تحریک پر جن لوگوں کو شناخت حق کی توفیق ملی۔ ان میں بستی بزدار کے حضرت مولوی جندوڈا صاحب اور حضرت میاں اللہ بخش صاحب بھی تھے۔ یہ دونوں بزرگ پہلے تحریری بیعت کے چھ ماہ یا زیادہ سے ایک سال بعد حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کے شوق میں بزدار سے پا پیادہ چل دیئے پہلے موضع کالہ )ضلع ڈیرہ غازی خاں( میں پہنچے جہاں مولوی ہوت۲۹۸ خاں صاحب احمدی مدرس تھے۔ پھر وہاں سے پیدل چل کر ملتان آئے۔ میاں محمد بخش صاحب احمدی چھاپ گرکے ہاں رات بسر کی۔ زاد راہ کم تھا اس لئے صرف ملتان سے لاہور تک گاڑی میں سفر کیا اور پھر پیدل سفر کرتے اور تکلیف اٹھاتے پروانہ وار قادیان پہنچے۔ صبح کی نماز کے وقت حضرت اقدس مسیح زماں مہدی دوراں تشریف لائے۔ حضرت مولوی جندوڈا مرحوم نے اپنے رویاء کی بناء پر حضور کو پہچان لیا۔
حضرت میاں اللہ بخش صاحب فرمایا کرتے تھے۔ میں نے چہرہ مبارک کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو دل باغ باغ ہوگیا۔ دیکھنے سے دل کی سیری نہ ہوتی تھی۔ چاہتے تھے کہ دنیا و مافیہا کو چھوڑ کر آپ کا دیدار کرتے رہیں۔ حضرت اقدس نماز کے بعد تھوڑی دیر تک مسجد میں جلوہ افروز رہے۔ پھر اندرون خانہ تشریف لے گئے ہم نے بیعت کی درخواست کی۔ فرمایا کچھ دن ٹھہرو۔ ہم شنبہ یعنی سنیچر کے دن دارالامان بوقت شام پہنچے۔ اور جمعہ پڑھ کر واپس لوٹے۔ گویا ہمارا قیام دارالامان میں صرف سات دن رہا۔ جمعہ کے دن ہم دونوں نے بیعت کی۔ کچھ اور آدمیوں نے بھی بیعت کی اور ہم واپس لوٹے۔ حضرت اقدس نے ہمارے لئے دعا فرمائی۔ حضرت مولوی نور الدین صاحبؓ سے جب ہم رخصت ہونے لگے تو آپ نے بھی دعا فرمائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے وطن کے حالات بھی دریافت فرمائے اور نہایت ہمدردی سے پیش آئے۔ ہم جمعہ پڑھ کر واپس روانہ ہوئے۔ جب ہم دارالامان سے واپس آگئے تو ہماری سخت مخالفت شروع ہوگئی۔ مولوی جندوڈا صاحب بچوں کو قرآن مجید پڑھاتے تھے۔ بچوں کو ان سے پڑھانا بند کردیا۔ ان کی جو خدمت کرتے تھے اس سے ہاتھ اٹھالیا۔ ان کا اس کے سوا کوئی ذریعہ معاش نہ تھا۔ مگر اس متوکل انسان نے اس کی کوئی پروا نہ کی۔ میرے رشتہ داروں نے قطع تعلق کرلیا۔ ہر طرح ستایا اور میں اکیلا رہ گیا۔ چھ سات سال بعد شیر محمد خاں نمبردار جو ہماری برادری کے معزز فرد تھے۔ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ خلافت میں شامل احمدیت ہوگئے۔ پھر میرے خسر نے بیعت کرلی اور آہستہ آہستہ ایک اچھی جماعت بستی بزدار میں قائم ہوگئی۔۲۹۹
حضرت میاں اللہ بخش صاحبؓ کو حدیث شریف پڑھنے اور سننے کا ازحد شوق تھا۔ قرآن و حدیث یا سیدنا المسیح الموعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کتاب کا مطالعہ کرتے تو آپ کی آنکھیں پرنم ہو جاتیں۔ نمازیں خشوع و خضوع سے ادا فرماتے اور نماز تہجد میں رقت و سوز کا عجیب رنگ پایا جاتا تھا۔ صاحب رویاء تھے۔
۲۱۔ محمد یحییٰ خاں صاحب کارکن دفتر پرائیویٹ سیکرٹری۔
)ولادت: ۱۸۔ جون ۱۸۹۴ء` وفات: ۲۱۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش(۳۰۰
حضرت حکیم مولوی محمد انوار حسین۳۰۱ خان صاحب ساکن شاہ آباد ضلع ہردوئی کے فرزند! ۱۸۹۴ء میں پیدا ہوئے اور ۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زیارت سے فیض یاب ہوئے۔10] [p۳۰۲ آپ قادیان میں اپنی پہلی آمد کا ذکر ان لفظوں میں فرماتے ہیں۔
>۱۹۰۲ء میں میرے بڑے بھائی عبدالغفار خاں کو تعلیم کی غرض سے دارالامان بھیجا۔ اور اس کے بعد ۱۹۰۴ء میں جب بڑے بھائی صاحب گرمی کی رخصتیں ختم کرنے کے بعد واپس آنے لگے مجھے بھی بھیج دیا اور اس کے بعد میرے منجھلے بھائی عبدالستار خاں کو۔ میں جب قادیان آیا اس وقت میری عمر دس سال کی تھی اور بورڈران میں سب سے چھوٹا تھا۔ والد صاحب مرحوم جب کبھی قادیان آتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اطلاع ہوتی تو حضور حافظ حامد علی صاحب مرحوم کو بھیج کر بلوا لیتے۔ میں
عکس کیلئے
بھی والد صاحب کے ہمراہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ ان دنوں اکثر حضور مسجد مبارک کی بغلی کوٹھڑی جہاں ام المومنین ایدہ اللہ کا راستہ ہے یا مسجد میں ملاقات فرمایا کرتے تھے اور وہاں کے علماء اور اعزا کی مخالفت کا حال دریافت فرماتے رہتے<۔۳۰۳
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ایک مکتوب۳۰۴]4 [rtf سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ خلافت ثانیہ کے اوائل میں ایک >احمدیہ ایجنسی< قائم ہوئی تھی جس کے کام کو وسیع کرنے نیز ایک اور تجارتی کام کے لئے حضور انہیں قادیان بلوانا چاہتے تھے۔ مگر اس مکتوب سے یہ ظاہر ہے کہ فی الحال وہ تجاویز عملی صورت اختیار کرنے سے رہ گئیں۔ تاہم اس کے جلد بعد ہی حضور نے انہیں یاد فرمایا اور وہ حضور کے دفتر میں بعض خصوصی خدمات بجالانے لگے۔ حضرت امیرالمومنینؓ کی ذاتی لائبریری کا انتظام` ڈاک کے ضروری کاغذات اور اخبارات کے تراشوں کی حفاظت` حضور کے سفروں کے انتظامات اور بعض دوسرے اہم فرائض آپ کے سپرد ہوتے تھے۔ آپ کا شمار حضرت خلیفہ ثانیؓ کے خاص خدام میں ہوتا تھا جو خلیفہ وقت سے غایت درجہ ادب و احترام کے ساتھ ساتھ نہایت بے تکلفی سے گفتگو کرسکتے تھے اور مجالس کی رونق ہوتے تھے۔
آپ نہایت خوبصورت` وجیہہ و شکیل` باذوق` زندہ دل اور غایت درجہ مستعد اور فرض شناس بزرگ تھے۔
۲۲۔ حضرت حافظ عبدالرحمن صاحب بھیروی )والد ماجد مکرم حافظ مبارک احمد صاحب سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ(
)وفات:۲۳۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش(۳۰۵]ydob [tag
۲۳۔ نواب خاں صاحب ساکن پرانہ تحصیل پنڈی گھیپ ضلع کیمبلپور
)وفات:۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش(۳۰۶
بقول حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ ایک درویش صفت عاشقانہ رنگ کے احمدی تھے۳۰۷ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے ان کی وفات پر لکھا۔
>مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ایک مخلص صحابی تھے۔ سلسلہ اور مرکز سلسلہ قادیان سے ازحد محبت اور عقیدت رکھتے تھے۔ باوجود اپنی غربت اور افلاس کے اخلاص کے ساتھ سال میں ایک دفعہ اور بعض اوقات دو دفعہ ضرور قادیان آتے تھے۔ اپنے دوردراز وطن سے اکثر پیدل ہی قادیان آتے اور پیدل ہی اپنے وطن واپس جاتے تھے۔ کئی دفعہ اپنے بچوں کو بھی ہمراہ لاتے تاکہ اپنے ساتھ اپنے بچوں کو بھی قادیان کی مقدس بستی اور سلسلہ کے ساتھ اخلاص میں ثابت قدم رکھیں۔ مخالفوں میں بھی صداقت کا اظہار کرنے سے کبھی نہ چوکتے تھے۔ ان کے لڑکے نے اطلاع دی ہے کہ انہوں نے وفات کے وقت نزع کی حالت میں بھری مجلس میں جو کہ غیر احمدیوں کی تھی فرمایا کہ >تم سب گواہ رہو کہ میں احمدی ہوں< یہ ان کے آخری الفاظ تھے<۔۳۰۸
۲۴۔ حضرت مولوی فخرالدین صاحبؓ آف گھوگھیاٹ۔ میانی )ضلع شاہ پور( )والد ماجد مولانا محمد یعقوب صاحبؓ فاضل طاہر انچارج شعبہ زود نویسی( ولادت قریباً:۔ ۱۸۸۰ء
)بیعت: ۱۸۹۸ء` وفات: ۱۰۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش بعمر ۵۹ سال(
پنشن لینے کے بعد قادیان میں ہجرت کرکے آگئے تھے۔ تین سال نظارت بیت المال میں ناظر صاحب کے پرسنل اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے رہے۔ کچھ عرصہ نظارت دعوۃ و تبلیغ میں بھی کام کیا اور چھ سال تک سیکرٹری امانت فنڈ تحریک جدید کے فرائض انجام دیئے۔ علاوہ ازیں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اور حضور کے برادران عالی مقام کے مختار عام بھی رہے۔۳۰۹
۲۵۔ میاں مولا بخش صاحب بنگوی )وفات ۲۱۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش(۳۱۰
۲۶۔ بابو غلام نبی صاحب ریٹائرڈ انجینئر ساکن ہریانہ ضلع ہوشیارپور۔ )وفات: ۱۳۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش(۳۱۱
۲۷۔ میاں محمد صاحب مکی متوطن چمکنی ضلع پشاور۔
)بیعت: ۱۹۰۱ء` وفات : ۱۴۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش بعمر ۷۵ سال(
آپ ایک عالم` عمدہ شاعر اور باخبر بزرگ تھے۔ اگرچہ ۱۹۱۴ء میں اختلافات سلسلہ کے دوران غیر مبائعین کا ساتھ دیا مگر وفات سے قبل دوبارہ خلافت سے وابستہ ہوگئے۔۳۱۲
۲۸۔ شیخ عطا محمد صاحب سیالکوٹی۔
)ڈاکٹر سر محمد اقبال کے بڑے بھائی اور شیخ اعجاز احمد صاحب کے والد بزرگوار(
)وفات: فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش(۳۱۳
‏tav.8.9
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر کبیر )جلد سوم( تک
پہلا باب )فصل نہم(
۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں خوشی کی تقاریب
۱۔ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے ہاں ۲۱۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو صاحبزادی امتہ القدوس پیدا ہوئیں۔۳۱۴
۲۔ ۲۲۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مسجد نور میں اپنی صاحبزادی امتہ الرشید بیگم صاحبہ کا نکاح میاں عبدالرحیم احمد۳۱۵ صاحب بھاگلپوری )ابن مولوی علی احمد صاحب ایم۔ اے( سے ایک ہزار مہر پر اور اپنی دوسری صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ کا نکاح مرزا حمید احمد صاحب )خلف الرشید حصرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحبؓ( کے ساتھ ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھا۔۳۱۶
۳۔ ۱۱۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو مرزا ظفر احمد صاحب بی۔ اے کی تقریب شادی منعقد ہوئی۔۳۱۷
۴۔ خان مسعود احمد خاں صاحب بی۔ اے کی شادی ۱۷۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو ہوئی۔۳۱۸
۵۔ حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب )ایدہ اللہ تعالیٰ( کے ہاں ۲۶۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ کی ولادت ہوئی۔۳۱۹
۶۔ ۸۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو بعد نماز عصر حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی صاحبزادی سیدہ بیگم صاحبہ کی تقریب رخصتانہ عمل میں آئی۔ اس تقریب پر حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ نے ایک مفصل مضمون پڑھا۔ جس میں ازدواجی تعلقات کے متعلق اسلام کی تعلیم پیش کی اور میاں بیوی کے حقوق بیان کئے۔ آخر میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مختصر سی تقریر فرمائی اور رشتہ کے بابرکت ہونے کے لئے مجمع سمیت دعا کی۔۳۲۰
اگلے دن شام کو ملک عمر علی صاحب بی۔ اے نے اپنی کوٹھی واقع دارالانوار میں وسیع پیمانہ پر دعوت ولیمہ دی۔ سیدنا حضرت امیرالمومنینؓ نے بھی شرکت فرمائی اور دعا کی۔۳۲۱
اناطولیہ )ترکی( میں ہولناک زلزلہ اور جماعت احمدیہ
ایشیائے کوچک MINOR) (ASIA میں اناطولیہ کے نام سے ایک جزیرہ نما ہے جو آرمینیا اور کردستان کی سطح مرتفع کے جنوب` بحیرہ اسود کے جنوب اور شام و لبنان کے شمال میں مشہور مسلمان ملک ترکی کے حدود سلطنت میں واقع ہے۔
۲۶۔ ۲۷۔ دسمبر ۱۹۳۹ء کی درمیان رات کو اس خطہ میں ایک ہولناک زلزلہ آیا جس کے شدید جھٹکے ۳۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش تک محسوس ہوتے رہے۔ ترکی وزارت داخلہ کے بیان کے مطابق قریباً ۴۵ ہزار نفوس زخمی اور تیس ہزار کے قریب لقمہ اجل ہوگئے۔ ضلع ارزنجان کی کل آبادی ۶۵ ہزار تھی جس میں سے ۳۰ فیصدی ہلاک اور ۲۰ فیصدی مجروح ہوئے۔ ۱۶ صوبائی شہر اور ۹۰ دیہات پیوند زمین ہوئے اور ساٹھ ہزار مربع میل کا علاقہ زلزلہ کی تباہ کاری سے ہسپتال اور قبرستان کا منظر پیش کرنے لگا۔ اس آفت ناگہانی کے علاوہ ترکی کا وسیع علاقہ سیلاب کی زد میں آگیا۔ خصوصاً سمرنا` بروسا اور اڈریا نوپل کے اضلاع میں بے شمار انسان اور مویشی بہہ گئے اور جو لوگ زلزلہ سے بچ گئے وہ بے خانماں ہوکر ادھر ادھر مارے مارے پھرنے لگے اور ناقابل برداشت سردی اور برفباری سے مرنے لگے۔
ترکی کے طول و عرض میں اس زلزلہ سے کہرام مچ گیا اور صف ماتم بچھ گئی اور خصوصاً عالم اسلام کو اس ہولناک اور قیامت خیز زلزلہ سے شدید صدمہ پہنچا۔ قادیان میں جب زلزلہ کی یہ ہوشربا خبر پہنچی تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور خارجہ نے صدر جمہوریہ ترکی عصمت انونو کے نام حسب ذیل تار بھیجا۔
>جماعت احمدیہ اور اس کے امام کو زلزلہ کی مصیبت اور آفت پر سخت صدمہ ہوا ہے۔ مہربانی فرما کر عمیق ہمدردی کا پیغام ترک قوم اور بالخصوص مصیبت زدگان تک پہنچا دیں<۳۲۲
ہمدردی کے اس تار کا جواب جمہوریہ ترکی کی طرف سے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو فرانسیسی زبان میں موصول ہوا جس کا ترجمہ یہ ہے۔
>آپ کے ہمدردانہ پیغام سے ہم بہت ہی متاثر ہوئے ہیں اور صدر جمہوریہ ترکیہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کے متعلق آپ کا شکریہ ادا کروں۔ کمال گیدیلگ جنرل سیکرٹری انقرہ<۳۲۳
مصیبت زدگان ترکی کی حالت زار پر اخبار >الفضل< نے متعدد نوٹ شائع کئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے خاص ارشاد پر ناظر بیت المال قادیان نے ستم رسیدہ ترکوں کے لئے امدادی چندہ کی اپیل شائع کی جس میں لکھا۔
>کسی کی مصیبت میں ہمدردی کرنا ایک عام انسانی جذبہ ہے جس سے کوئی فرد خالی نہیں لیکن سب سے زیادہ اور مناسب اور لازمی طریق پر یہ جذبہ مومنین کی جماعت سے ہی ظاہر ہوتا ہے کیونکہ خدا شناسی کے نور کے باعث شفقت علیٰ خلق اللہ کا رنگ ان پر سب سے زیادہ چڑھا ہوتا ہے۔ اس وجہ سے مجھے یقین ہے کہ ہر احمدی جس نے زلزلہ کی اس تباہی کا کچھ بھی حال سنا ہے۔ وہ مصیبت زدگان کے لئے ہمدردی کا جوش اپنے اندر ضرور رکھتا ہوگا۔ یوں تو بغیر کسی امتیاز مذہب و ملت کے بھی اس قسم کے مصائب و آلام میں اظہار ہمدردی کرنا واجب ہوتا ہے لیکن جس سلطنت اور علاقہ میں یہ تباہی آئی ہے وہ چونکہ اسلام سے نسبت رکھتا ہے اس وجہ سے بھی ان لوگوں سے ہماری ہمدردی دوسروں سے زیادہ ہونی چاہئے۔ پس حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے ماتحت میں اناطولیہ کے مصیبت زدگان کی امداد کے متعلق اپیل کرتا ہوں کہ ہر احمدی اپنی اپنی حیثیت اور حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضرور چندہ دے اور عہدیداران جماعت ہائے احمدیہ اس کا انتظام کریں کہ تمام احمدی افراد سے ان کی حیثیت کے مطابق چندہ جمع کرکے محاسب صدر انجمن احمدیہ قادیان کے نام پر امداد مصیبت زدگان انا طولیہ کی مد میں بھجوا دیں۔ لیکن اس چندہ کی فراہمی اور ترسیل میں جلد کوشش کرنی چاہئے۔ تاحتی الوسع مرکز سے جماعت کی طرف سے یکجائی طور پر بروقت مصیبت زدگان کو معتدبہ رقم امداد کے طور پر بھیجی جاسکے<۔۳۲۴4] [rtf
حضور کی اس اہم تحریک پر جس قدر رقم جماعت کی طرف سے جمع ہوئی وہ ترکی کے مفلوک الحال باشندوں کی بہبودی کے لئے بھجوا دی گئی۔
سناتن دھرم سبھا شام چوراسی میں ایک احمدی مبلغ کی تقریر
۱۰۔ تبلیغ ۱۳۱۹ہش مطابق ۱۰۔ فروری ۱۹۴۰ء کو سناتن دھرم سبھا شام چوراسی کی طرف سے ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی گئی جس میں ماسٹر محمدشفیع صاحب اسلم نے >میرا دھرم مجھے کیوں پیارا ہے< کے مقررہ موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ آپ کی تقریر کے بعد سناتن دھرم پنڈت گوپال مصر صاحب نے کہا کہ۔
>آج سے قبل جن مسلمانوں یا عیسائیوں سے مجھے ملنے کا موقع ملا` انہوں نے یہی کہا کہ ہمارے نبی کے بعد خدا کسی سے کلام نہیں کرتا اور میں یہ کہتا کہ اگر آپ کا خدا کلام نہیں کرتا تو کیا وہ گونگا ہے مگر آج مولوی صاحب کی تقریر سے مجھے اپنا خیال بدلنا پڑا۔ اور مجھے خوشی ہوئی کہ آج بھی مسلمانوں کے اندر ایسے خیال کے لوگ موجود ہیں جو کہتے ہیں کہ خدا بولتا ہے اور اس نے فلاں شخص سے کلام کیا<۔
کانفرنس میں ہر مذہب کے لوگ کثیر تعداد میں موجود تھے سب نے احمدی مبلغ کی تقریر پسند کی۔۳۲۵
فرقہ ست سنگ )بنگال( کے مرکز میں تبلیغ احمدیت
کلکتہ کے ایک ممتاز احمدی محمد شمس الدین صاحب ۱۰۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو ہندوئوں کے مشہور فرقہ >ست سنگ< کے مرکز میں جو >پنبہ شہر سے تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے( گئے۔ اور فرقہ کے بانی شری ٹھاکر انوکل چندرا جی سے ملاقات کرکے ان تک احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ شمس الدین صاحب نے کلکتہ واپس آکر ٹھاکر صاحب کے مطالعہ کے لئے ٹیچنگز آف اسلام` پارہ اول مترجم انگریزی اور پیغام صلح )انگریزی ترجمہ( وغیرہ کتب بھی بھجوا دیں۔۳۲۶
سب سے پہلا احمدی ہواباز
میاں محمد لطیف صاحب )ابن میاں محمد شریف صاحب ای۔ اے۔ سی پنشنر( جو کچھ عرصہ سے لاہور فلائنگ کلب میں ہوا بازی کی ٹریننگ لے رہے تھے۔ انہیں ۱۹۴۰ء کے شروع میں سرکاری طور پر ہوا باز منتخب کرلیا گیا۔۳۲۷ میاں صاحب سب سے پہلے احمدی ہواباز ہیں۔
ونجواں کے احمدیوں پر پولیس کے مظالم
۲۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو بٹالہ صدر پولیس نے پولیس سٹیشن میں علاقہ کے چند بدمعاشوں کو طلب کیا اور ساتھ ہی مخالفین احمدیت کے ایماء سے ونجواں )تحصیل بٹالہ( کے تین احمدیوں کو بلا کر ان میں سے ۲ بے کسوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا یعنی ان غریبوں کو منہ کے بل زمین پر لٹا کر ان کے ہاتھوں پر مضبوط جوان کھڑے کر دیئے اور پھر ان کو برہنہ کرکے ایک سب انسپکٹر نے ان کی کمر پر گھٹنے ٹیک دیئے اور ایک حوالدار نے دوسرے کی گردن اپنے پائوں میں دبالی اور سپاہیوں کو حکم دیا کہ ان کی رانوں اور سرینوں میں جوتے ماریں۔ پھر بدمعاشوں نے ایک ایک طمانچہ پورے زور سے لگایا اور یہ سب کارروائی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور کی موجودگی میں ہوئی۔۳۲۸
احمدی ہواباز کی قادیان پر پرواز
احمدی ہواباز میاں محمد لطیف صاحب ۱۲۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو لاہور سے پرواز کرکے قادیان آئے اور دعا کے لئے بکثرت پرچیاں پھینکتے رہے۔۳۲۹
چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب کا دوبارہ تقرر اور اخبار >انقلاب<
آنریبل چودھری سرمحمد طفراللہ خاں صاحب وائسرائے ہند کی ایگزیکٹو کونسل کے ممبر کی حیثیت سے ملک و قوم کی شاندار خدمت بجا لا
رہے تھے۔ آپ کے اس عہدہ کی میعاد ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ملک معظم نے آپ کا دوبارہ تقریر ایگزیکٹو کونسل وائسرائے ہند کی ممبری کے لئے منظور کرلیا جس پر شمالی ہند کے مشہور مسلم اخبار >انقلاب< نے اپنی ۱۴۔ مارچ ۱۹۴۰ء کی اشاعت میں لکھا۔
>مسلمانان پنجاب بجاطور سے اس امر پر فخر کرسکتے ہیں کہ آج تک وائسرائے کی کونسل میں جتنے پنجابی مسلمان ممبر مقرر ہوئے ہیں` انہوں نے اپنی قابلیت` محنت` ہوشمندی اور تدبر کا بہترین ثبوت دیا ہے اور مجالس وضع قوانین سے ہمیشہ تحسین و اعتراف کا خراج حاصل کیا ہے سر محمد شفیع مرحوم اور سر فضل حسین نے حکومت ہند میں اپنی قابلیت کے روشن نقوش چھوڑے ہیں اور اب سر محمد ظفراللہ خاں کا وجود بھی مسلمانان پنجاب کے لئے افتخار اور نیک نامی کا باعث ہے۔ ہم ان کو توسیع عہدہ۳۳۰ پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں<۔۳۳۱
محلہ دارالانوار کی مسجد کا افتتاح
۲۲۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے قادیان کے محلہ دارالانوار کی مسجد کا افتتاح فرمایا اور مغرب و عشاء کی نمازیں اس میں پڑھائیں۔۳۳۲
ملک غلام محمد صاحب قادیان میں
۲۱۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو ملک غلام محمد۳۳۳ صاحب چیف کنٹرولر آف ریلوے سٹورز قادیان تشریف لائے اور چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب کے ہاں قیام پذیر ہوئے اور مرکزی اداروں اور کارخانوں کا معائنہ کرنے کے بعد حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی ملاقات سے بھی مشرف ہوئے۔۳۳۴
نمائندہ اخبار >لائف< )نیویارک( کی حضرت اقدسؓ سے ملاقات
مسٹر ویبس کرک لینڈ آف شکاگو جو نیو یارک کے مشہور اخبار >لائف< (LIFE)کے نمائندہ تھے۔ ۲۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوئے اور شام کو واپس چلے گئے۔4] fts[۳۳۵
مسجد احمد موسیٰ بنی )بہار( کا افتتاح
۵۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو حضرت الحاج مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ نے مسجد احمدیہ موسیٰ بنی )بہار( کا افتتاح کیا اور سب سے پہلی اذان )ابوالبشارت( مولوی عبدالغفور صاحب نے دی۔۳۳۶
ایک احمدی طالب علم کی شاندار کامیابی
۱۹۴۰ء میں تیس ہزار طلباء پنجاب یونیورسٹی کے میڑک کے امتحان میں شریک ہوئے جن میں سے بائیس ہزار کے قریب پاس ہوئے جن میں سے جھنگ کے ایک احمدی طالب علم عبدالسلام جو چودھری محمد حسین صاحب ہیڈ کلرک سررشتہ تعلیم جھنگ کے صاحبزادے ہیں نہ صرف ۷۶۵ نمبر لے کر پنجاب میں بھر میں اول آئے۔۳۳۷ بلکہ یونیورسٹی کا گزشتہ ریکارڈ توڑ دیا۔ یہی وہ طالب علم ہیں جو آج پروفیسر عبدالسلام کے نام سے دنیائے سائنس میں عالمگیر شہرت رکھتے ہیں اور صدر مملکت پاکستان کے سائنسی مشیر کی حیثیت سے اہم قومی خدمات بجا لارہے ہیں۔
مکان کے سنگ بنیاد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس سال مندرجہ ذیل مکانات کا سنگ بنیاد اپنے دست مبارک سے رکھا۔
۱۔ مرزا احمد بیگ صاحب انکم ٹیکس آفیسر۔ )تاریخ سنگ بنیاد: ۲۳۔ صلح/ جنوری ۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش(۳۳۸ دارالانوار۔
۲۔ ملک عمر علی صاحب بی۔ اے کھوکھر۔ )تاریخ سنگ بنیاد: ۳۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش(۳۳۹ دارالانوار۔
۳۔ چودھری ابوالہاشم خاں صاحب۔ )تاریخ سنگ بنیاد: ۳۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش(۳۴۰ دارالانوار۔
۴۔ ڈاکٹر احمدی صاحب آف افریقہ۔ )تاریخ سنگ بنیاد: ۳۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش(۳۴۱ دارالبرکات۔
بدھوں کے جلسہ میں ایک احمدی کا پیغام احمدیت
نالندہ )بنگال( میں بدھوں کی ایک مشہور قدیم درسگاہ قائم تھی جس کے نام پر ہندوئوں نے نالندہ ودیا بھون کے نام سے ایک ادارہ جاری کیا۔ جس میں بدھسٹ علوم کی ہر شاخ` جین ازم` زمانہ وسطیٰ کی ہندوستانی فلاسفی اور ہندوستان کی قدیم و جدید زبانوں کے مطالعہ کا انتظام کیا جہاں بدھ طلباء بنگال کے علاوہ برما اور سیام سے بھی آتے تھے۔ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش میں اچاریہ جگدیش چندرا چڑجی ہندو اور بدھ علوم کے مشہور سکالر اس کے انچارج تھے۔ اس درسگاہ کے طلباء نے ۱۷۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو ۲/۱ ۵ بجے شام جلسہ کیا جس میں مسٹر پدم راج )مشہور ہندومہا سبھائی لیڈر( کی زیر صدارت اچاریہ جگدیش چندر چڑجی` ڈاکٹر کالیداس ناگ ایم۔ اے ڈی۔ لٹ اور بعض دوسرے اصحاب کے علاوہ احمدیہ ایسوسی ایشن کلکتہ کے سیکرٹری مولوی دولت احمد خاں صاحب خادم نے بھی تقریر کی جس میں بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہی تعلیم ہے کہ دنیا میں کوئی ایسی قوم نہیں جس میں کوئی نہ کوئی نبی اور رسول نہ گزرا ہو۔ اور حضرت بدھ` حضرت کرشن` حضرت زرتشت اور حضرت کنفیوشس تمام اللہ تعالیٰ کے پیغمبر تھے مولوی دولت احمد خاں صاحب نے اپنی تقریر میں یہ بھی بتایا کہ حضرت بدھ نے جو اپنی آمد ثانی کی خبر دی تھی وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور سے پوری ہوچکی ہے۔ نیز آپ نے بدھوں کو احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ کرنے کی تحریک کی۔
ایک اعلیٰ کلاس کے طالب علم نے یہ تقریر سن کر اس رائے کا اظہار کیا کہ اسلام کی یہ تشریح میرے لئے ایک انکشاف جدید ہے کیونکہ میں اسلام کو اس سے قبل ایک محدود اور فرقہ وارانہ مذہب خیال کرتا تھا۔۳۴۲
مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کا ایک دلچسپی مشورہ
اس سال مولوی کرم الٰہی صاحب ظفر مجاہد تحریک جدید کو دہلی سے ۱۳ میل دور رقبہ مہرولی میں دلی کامل حصرت قطب الدین بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر جانے کا اتفاق ہوا جہاں مسلمانوں کی قبرپرستی کا افسوسناک مظاہرہ بچشم خود دیکھا۔ جس کی تفصیل انہوں نے >الفضل< )۲۳۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش( میں شائع کر دی جسے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے اپنے اخبار اہلحدیث مورخہ ۶- ستمبر ۱۹۴۰ء میں نقل کرکے حسب ذیل دلچسپ نوٹ لکھا۔
>برادران توحید! کیا یہ آواز سن کر بھی آپ لوگ بزم توحید قائم کرنے میں غفلت سے کام لیں گے کیا ابھی کچھ اور بھی سننا چاہتے ہیں۔ میری رائے کو کوئی صاحب غلط نہ ٹھہرائیں تو میں یہ کہنے سے نہیں رک سکتا کہ مسلمان قوم آپس میں تقسیم کار کرلے۔ سیاسی مسلمان جن میں مرزائی بھی شامل ہیں۔ بے شک غیر مسلموں میں اسلام کی اشاعت کریں اور ان کو کلمہ پڑھا کر مردم شماری کی حیثیت میں مسلمانوں کی تعداد بڑھاتے جائیں جو ان کی اصلی غرض ہے۔ مگر اہل توحید اصحاب یہ کام اپنے ذمہ لیں کہ مسلمانوں میں جو رسوم شرکیہ رائج ہوچکی ہیں وہ ان کی اصلاح پر توجہ کریں تاکہ وہ لوگ صحیح معنی سے عنداللہ مسلمان ہو جائیں۔ پس دونوں فریق اپنا اپنا کام کرتے جائیں۔ ہمارے مشورہ پر عمل کریں تو دونوں اپنے مقصد میں کامیاب ہوسکتے ہیں<۔۳۴۳
زکیہ صنعتی سکول قادیان
زکیہ خانم صاحبہ بنت شیخ محمد لطیف صاحب نے گرلز سکول قادیان کے نزدیک اپنے سرمایہ سے ایک صنعتی سکول جاری کیا جس کا افتتاح حضرت ام المومنینؓ نے ۱۵۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو فرمایا۔ اس موقعہ پر حضرت ام ناصر احمد صاحب` حضرت ام طاہر احمد` حصرت ام مظفر احمد صاحب اور صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ بھی موجود تھیں۔ خاندان مسیح موعود کی خواتین ہی نے نہیں خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بھی سکول کے صنعتی نمونوں کو پسند فرمایا۔۳۴۴
بچوں کو تیراکی سکھانے کے لئے تالاب کی تعمیر
حضرت مولوی محمد دین صاحب سابق ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کی تحریک اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی مساعی جمیلہ کے نتیجہ میں محلہ دارالعلوم میں بچوں کو تیراکی سکھانے کے لئے ایک تالاب تعمیر کیا گیا۔ جس کا افتتاح ۱۰۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو ہوا۔ اس تقریب پر تلاوت و نظم کے بعد حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے تقریر فرمائی۔ جس میں بتایا کہ۔
>اس کے متعلق سب سے پہلے تحریک مولوی محمد الدین صاحب سابق ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول نے کی تھی اور یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس تحریک کو عملی صورت دی جائے مگر اس کے لئے کوئی فنڈ نہ تھا۔ باوجود اس کے اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع کر دی گئی اور یہ تالاب سکول کے طلباء نے خود کھودا۔ اس وقت یہ خیال تھا کہ کچا تالاب کام دے جائے گا۔ صرف اردگرد کی دیواریں پختہ کرالی جائیں۔ لیکن جب تعمیر شروع ہوئی تو بعض دوستوں نے مشورہ دیا کہ جب تک فرش پختہ نہ ہو تالاب نہانے کے قابل نہ بنے گا۔ اس لئے تعمیر کے وقت دیواروں کے ساتھ ہی فرش بھی پختہ تیار کیا گیا۔ اس وقت اخراجات سپورٹس فنڈ کے چندہ سے اور باقی قرض لے کر پورے کئے گئے۔ لیکن پھر جب دیکھا گیا کہ تالاب کے کنارے کچے ہونے کی وجہ سے مٹی نہانے والوں کے پائوں کے ساتھ لگ کر تالاب میں جاتی ہے اور اردگرد روک نہ ہونے کی وجہ سے بعض بیمار بھی نہاتے ہیں جن کی بیماری سے دوسروں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ تو کوشش کی گئی کہ تالاب کے اردگرد بھی پختہ فرش بنا دیا جائے اور تالاب کے گرد چار دیواری ہو نیز دوسری ضروریات کے لئے بھی انتظام کیا جائے۔ ان حالات میں موجودہ صورت میں اسے تعمیر کیا گیا ہے تاکہ بچے تیرنے کی مفید ورزش کرسکیں اور حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ تیراکی کی ورزش کے متعلق جو ارشاد کئی بار فرماچکے ہیں اس پر عمل کیا جائے۔ اس تعمیر اورپچنگ کے انتظام پر چھ ہزار سے کچھ اوپر رقم خرچ ہوچکی ہے جس میں ۹۵۰ روپے صدر انجمن نے دیئے ہیں۔ کچھ چندہ جمع ہوا اور باقی قرض ہے۔ امید ہے کہ تعلیم الاسلام سکول کے اولڈ بوائز اس قرض کی ادائیگی کی طرف توجہ کریں گے۔ اس موقعہ پر دعا کی جائے کہ یہ کام بابرکت ہو۔ بچوں کی صحت` ایمان اور سلسلہ کے مفاد کے لئے جو بچے اس میں تیرنا سیکھیں انہیں جسمانی طور پر ہی فائدہ نہ ہو بلکہ وہ دین کی خدمت کرنے کے قابل بھی بن سکیں اور کسی ڈوبتے ہوئے کو بچاسکیں<۔۳۴۵body] g[ta
حضرت صاحبزادہ صاحب کے خطاب کے بعد بالترتیب حضرت ملک غلام فرید صاحب ایم اے` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے` حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے اور حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے تقریریں کیں اور بالاخر حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے دعا کرائی۔
ان تقاریر کے بعد تالاب کا عملی افتتاح اس طرح ہوا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب` حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال` حصرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور بعض اور بزرگ تالاب میں تیرتے رہے اور ان کے ساتھ سکول کے بہت سے بچوں نے بھی اس کی مشق کی۔۳۴۶
احمدیہ مسجد سرینگر کی بنیاد
۲۰۔ اخاء ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو دس بجے دن مسجد احمدیہ سرینگر کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس تقریب پر سرینگر اور ناسنور کے احباب جماعت موجود تھے۔ سب سے قبل حضرت مسیح موعودؑ کے قدیم صحابی حضرت خلیفہ نور الدین صاحب جمونی نے دعا کرائی۔ ازاں بعد مولانا ابوالعطاء صاحب نے اللہ تعالیٰ کے اس گھر کا پہلا بنیادی پتھر رکھا پھر سب احباب نے مل کر دعا کی۔۳۴۷
مسجد کا ایک کمرہ اگلے سال ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ء ہش میں تیار ہوا تو اس میں پہلا خطبہ جمعہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب امیر جماعت ہائے احمدیہ صوبہ سرحد نے پڑھایا اور ۱۷۰ افراد کے قریب احمدی احباب نے نماز ادا کی۔۳۴۸
چندہ مسجد کی فراہمی کے سلسلہ میں چودھری عبدالواحد صاحب نے سندھ`۳۴۹ حیدرآباد دکن` بہار` بنگال` اڑیسہ` یوپی اور دہلی کی جماعتوں کا دورہ کیا اور احباب جماعت نے عموماً اور جماعت ٹاٹانگر جمشید پور موسیٰ بنی نے خصوصاً نہایت اخلاص سے تعاون کیا۔ ان دنوں چودھری عبداللہ خاں صاحب ٹاٹانگر کی جماعت احمدیہ کے امیر تھے۔۳۵۰
سناتن دھرم سبھا لاہور کی مذہبی کانفرنس میں احمدی مبلغ کی کامیاب تقریر
۲۹۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو سناتن دھرم سبھا لاہور نے ایک مذہبی کانفرنس منعقد کی۔ مضمون >ایشور اپاسنا< یعنی عبادت الٰہی تھا۔
دوسرے مختلف مذاہب کے نمائندوں کے علاوہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی ۔اے` ایل ایل۔ بی نے بھی تقریر فرمائی اور دس منٹ کے مختصر سے وقت میں نہایت پرفصحات اور پرجوش طریق سے اس موضوع پر اسلام اور احمدیت کے نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ خداتعالیٰ کی کامل اطاعت اس کے نقش کو قبول کرنا اور اس کے صفات کو اپنے اندر پیدا کرنا اصلی عبادت ہے۔ آپ نے یہ بھی واضح کیا کہ اسلام نے عبادت الٰہی کا ایک بہترین طریق نماز کا قائم کیا ہے۔ جس کی ابتداء اللہ اکبر سے ہوتی ہے اور انتہاء اسلامی کی کیفیت پر۔ اسلامی نماز میں صفوں کا قیام دنیا میں مساوات کا بہترین طریق ہے۔ یہ وہ طریق ہے جس سے ایمان کا شجر ہمیشہ سرسبز اور باثمر رہتا ہے جس کا زندہ ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا وجود مبارک ہے۔۳۵۱
انگلستان میں پہلا کامیاب مناظرہ
اگرچہ عالمگیر جنگ چھڑ جانے کی وجہ سے انگلستان کا پورا ملک فضائی حملوں کی زد میں آچکا تھا مگر مولانا جلال الدین شمس مبلغ انگلستان پرائیویٹ ملاقاتوں` لیکچروں اور لٹریچر کی اشاعت اور دوسرے ذرائع سے تبلیغ اسلام کا فریضہ پوری سرفروشی سے بجالارہے تھے۔ خصوصاً ہائیڈپارک میں آپ نے متعدد لیکچر دیئے اور دوسرے لیکچراروں پر بھی سوالات کرتے رہے۔
اس سال کا ایک خاص واقعہ یہ ہے کہ آپ نے ہائیڈپارک میں >حضرت مسیح کی صلیبی موت< کے موضوع پر پہلا کامیاب مناظرہ کیا جو اس سرزمین میں اپنی طرز کا مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پہلا مباحثہ تھا۔ اس دلچسپ مباحثہ کی تفصیل حضرت مولانا شمس صاحب کے الفاظ میں لکھنا زیادہ مناسب ہوگا۔ فرماتے ہیں۔
>متعدد مرتبہ میر عبدالسلام صاحب اور خاکسار نے ہائیڈ پارک میں تقریریں کیں نیز دوسرے لیکچراروں پر سوالات کئے۔ ۳۱۔ جولائی کو میں ابطال الوہیت مسیح کے موضوع پر بولا۔ سوال و جواب کے دوران میں مسیح کی صلیبی موت کا بھی ذکر آیا۔ لیکچر کے بعد ایک پادری نے اس مسئلہ کے متعلق مجھ سے گفتگو کی۔ آخر قرار پایا کہ ۷۔ اگست کو اس موضوع پر مباحثہ کیا جائے۔ چنانچہ وقت مقررہ پر جب میں نے بولنا شروع کیا تو وہ پادری بھی آگیا۔ اس نے وقت مانگا۔ میں نے کہا اپنا پلیٹ فارم لے آئو۔ چنانچہ وہ اپنا پلیٹ فارم لے آئے۔ ۸ بجے سے ۱۰ بجے شام تک دو گھنٹے مباحثہ ہوا۔ دس دس منٹ بولنے کی باری مقرر ہوئی۔ ایک شخص کو ٹائم کیپر مقرر کیا گیا۔ مباحثہ ہوتے دیکھ کر پبلک خوب اکٹھی ہوگئی۔ میں نے اپنی پہلی تقریر میں مسیح کے صلیب پر نہ مرنے کے ثبوت میں انجیل سے مسیح کی دعا پیش کی کہ اے خدا! ہر ایک طاقت تجھ کو ہے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے۔ چنانچہ عبرانیوں ۷/۵ میں لکھا ہے کہ وہ دعا اس کی سنی گئی۔ نیز زبور سے اس دعا کی قبولیت کے لئے پیشگوئیوں کا بھی ذکر کیا اور کہا اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ دعا قبول نہیں ہوئی تھی تو مسیح مطابق یوحنا گناہگار ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے جواب میں عیسائی مناظر نے کہا کہ مسیح کی دعا پوری نہیں پیش گئی۔ اس کے ساتھ ہی لکھا ہے کہ میری مرضی نہیں بلکہ جو تیری مرضی ہے وہی ہو اور وہ اس لئے آیا تھا کہ صلیب پر مر کر لوگوں کے گناہوں کا کفارہ ہو۔ میں نے کہا۔ اگر اس فقرہ کا یہ مطلب ہے کہ اگر تیری مرضی ہے کہ میں صلیب پر مارا جائوں تو پھر مجھے مارا جانا چاہئے تو یہ دعا بے معنی ہوگی کیونکہ اس دعا کا خلاصہ یہ ہوگا کہ اے خدا! ہر ایک طاقت تجھ کو ہے۔ تو یہ موت کا پیالہ مجھ سے ٹال دے۔ پر اگر تو نہیں چاہتا تو نہ ٹال کیا یہ بامعنی دعا کہلا سکتی ہے خدا کی مرضی تو ہوکر ہی رہے گی چاہے کوئی کہے یا نہ کہے۔ دعا صرف اتنی ہوگی کہ اے خدا تو موت کا پیالہ مجھ سے ٹال دے اور اگر یہ درست ہے کہ وہ لوگوں کی خاطر مرنے کے لئے آئے تھے تو پھر انہیں موت کے پیالہ سے بچنے کے لئے دعا کرنا درست نہ تھا۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ پادری صاحبان مسیح کے اس قول کا کہ )اے خدا میری نہیں تیری مرضی پوری ہو( کا مطلب نہیں سمجھے۔ مسیح کی دعا کے الفاظ جیسا کہ مرقس میں لکھا ہے یہ تھے >اے خدا ہر ایک چیز تیرے لئے ممکن ہے سو یہ پیالہ تو مجھ سے ٹال دے لیکن اس لئے نہیں کہ جو میں کہتا ہوں وہ ہو۔ بلکہ اس لئے کہ تا تیری مرضی پوری ہو<۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں جو موت سے بچنے کے لئے دعا کرتا ہوں تو وہ اس لئے نہیں کہ میں تیرے رستے میں اپنی جان دینے سے ڈرتا ہوں۔ میں تو حاضر ہوں لیکن چونکہ میں تیرا رسول ہوں اور تو میری صداقت کو دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے اس لئے اگر میں جیسا کہ میرا دشمن چاہتا ہے مارا گیا تو ان کے نزدیک میں جھوٹا ثابت ہوں گا۔ اس لئے میری یہ درخواست ہے کہ مجھ سے موت کا پیالہ ٹال دیا جائے یہ صرف تیری مرضی اور ارادہ پورا کرنے کے لئے ہے نہ موت کے ڈر سے اور اگر یہ معنی نہ لئے جائیں تو وہ دعا ہی بے معنی ہو جاتی ہے۔ اس کا جواب وہ آخر تک نہ دے سکے۔ اسی طرح دیگر دلائل پر بحث ہوئی دوران بحث میں اس نے بعض سخت الفاظ استعمال کئے اور کہا کہ تم جھوٹ بولتے ہو۔ اگر یہی محمد ~)صل۱(~ نے سکھایا اور قرآن میں لکھا ہے تو یہ جھوٹ سکھایا۔ نیز لوگوں کو اکسانے کے لئے کہا یہ عیسائیت کو تباہ و برباد کرنے کے لئے آئے ہیں۔ ان کی جرات تو دیکھو کہ عیسائیت کے سینٹر میں ہاں لنڈن کے ایک پارک میں عیسائیت کے عقائد کی اس طرح تردید کی جاتی ہے۔ اگر مسیح صلیب پر نہیں مرے تو وہ کفارہ بھی نہیں ہوئے۔ اس سے تو عیسائیت باطل ہو جاتی ہے مگر اس سے بڑھ کر جھوٹ کیا ہوسکتا ہے۔ یہ اس جگہ جہاں سے دنیا میں مشنری بھیجے جاتے ہیں عیسائیت کی تردید کرتے ہیں اور اسلام پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس کے سخت الفاظ پر حاضرین نے شیم شیم کے آوازے کسے۔ میں نے کہا میں اسلام کی تعلیم کے مطابق گالیوں کا جواب گالی سے نہیں دوں گا اور نہ ہی میں اس پر دوسرے انگریزوں کو قیاس کرسکتا ہوں۔ کیونکہ میں نے بہت سے چھوٹے اور بڑوں سے گفتگوئیں کی ہیں لیکن میں نے انہیں نہایت متین اور شریف پایا۔ معلوم ہوتا ہے۔ اس نے ایسے ماحول میں پرورش پائی ہے جس قسم کے اخلاق کا اس نے مظاہرہ کیا ہے۔ میں نے اپنی آخری تقریر میں کہا کہ اسلام سے پہلے یہود نے اس عقیدہ کی بناء پر کہ مسیح مصلوب ہوگئے انہیں *** اور مفتری قرار دیا اور عیسائیوں نے بھی جیسا کہ پولوس نے کہا اسے ملعون تسلیم کیا۔ چنانچہ مناظر نے بھی اقرار کیا کہ ان کی خاطر ملعون ہوا۔ لیکن انہوں نے ملعون پر غور نہیں کیا۔ ایک انسان ملعون اس وقت کہلاتا ہے جب اس کا خدا سے تعلق بالکل منقطع ہو جائے اور وہ اپنے اقوال و اعمال میں شیطان کی مانند ہو جائے۔
اسی لئے شیطان کا نام ملعون ہے اور ایک ملعون شخص دوسرے کو *** سے کیونکر بچاسکتا ہے۔ کیا اندھا اندھے کی راہنمائی کرسکتا ہے۔ پس یہ آنحضرت~صل۱~ کا احسان تھا کہ آپ کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو اس *** کے داغ سے بری قرار دیا اور فرمایا وہ صلیب پر نہیں بلکہ طبعی موت سے مرے اور ہماری تحقیقات کی رو سے صلیب سے بچ کر کشمیر میں آئے اور وہیں وفات پائی۔ چنانچہ ان کی قبر محلہ خانیار سرینگر کشمیر میں موجود ہے۔ اس نے اپنی تقریر میں چونکہ یہ بھی کہا تھا کہ اناجیل میں لکھا ہے مسیح نے اپنی جان دے دی۔ اس کا میں نے تفصیل سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اناجیل میں ایسے اختلاف موجود ہیں جن کے درمیان مطابقت نہیں دی جاسکتی اور یقینی طور پر بعض بیانات غلط ہیں۔ اس لئے میں اپنے مد مقابل کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ آئندہ ۱۴۔ اگست کو اختلافات اناجیل پر مجھ سے مباحثہ کرلے۔ لیکن اس چیلنج کا اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ پبلک پر اچھا اثر ہوا۔ کئی حاضرین نے مجھ سے کہا کہ آپ کے دلائل زبردست تھے اور اس کی سخت کلامی کی مذمت کی۔ ۱۴۔ اگست کو میں نے انجیل سے اختلافات پیش کئے جن پر بعض نے سوالات کئے جن کے میں نے جوابات دیئے۔ ایک اختلاف میں نے یہ پیش کیا تھا کہ مسیح نے جب اپنے بارہ شاگردوں کو تبلیغ کے لئے بھیجنا چاہا تو بعض ہدایات دیں۔ متی کہتا ہے کہ اس نے یہ ہدایت بھی دی کہ وہ اپنے ساتھ سونٹانہ لیں لیکن مرقس کہتا ہے کہ اس نے یہ ہدایت دی تھی کہ وہ سوائے سونٹے کے اور کچھ نہ لیں۔ یہ ایک صریح تناقض ہے جو کسی طرح نہیں اٹھ سکتا۔ ہر ایک عقلمند یہی کہے گا کہ دونوں میں سے ایک نے ضرور غلط بیانی کی ہے کیونکہ دونوں ایک ہی واقعہ کا ذکر کرتے ہیں۔ ایک عورت نے کہا مثلاً جرمن کہتے ہیں کہ آج ہم نے برٹش کے سو ہوائی جہاز گرائے۔ لیکن انگریز کہتے ہیں صرف پچیس گرائے۔ اس اختلاف سے تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کوئی واقعہ ہی نہیں ہوا۔ میں نے کہا کہ میں واقعہ کا تو انکار نہیں کرتا۔ میں تو صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ متی اور مرقس میں سے انگریز کون ہے اور جرمن کون؟ کس کا خلاف واقعہ بیان ہے میرے علم کے مطابق اس طرز کا مباحثہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان پہلا مباحثہ ہے<۔۳۵۲
مولانا رحمت علی صاحب کی جزائر شرق الہند کو روانگی
مولوی رحمت علی صاحب مبلغ انچارج جزائر شرق الہند ۱۴۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو گیارہ بجے صبح کی گاڑی سے چوتھی بار جزائر شرق الہند میں تبلیغ کے لئے روانہ ہوئے۔۳۵۳
مشرقی جاوا کے پہلے احمدی کا انتقال
مسٹر مانکووی آستروجی مشرقی جاوا میں پہلے احمدی تھے۔ ۶۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو ستر سال کی عمر میں انتقال کر گئے مرحوم نہایت مخلص احمدی تھے۔ دن رات تبلیغ میں مصروف رہتے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق تھا۔ مسجد سروبایا کے لئے نہ صرف اپنی زمین وقف کر دی تھی بلکہ اس کی تعمیر کے لئے چندہ بھی دیا۔ جماعتی چندوں میں بھی بہت باقاعدہ اور جماعتی کاموں میں بہت سرگرم تھے۔۳۵۴text] gat[
۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کی نئی مطبوعات
۱۔ >خطبات عیدین< )سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے حقائق و معارف سے لبریز خطبات کا مجموعہ جو ملک فضل حسین صاحب نے مرتب کرکے شائع کیا(
۲۔ >روئداد جلسہ خلافت جوبلی< )مرتبہ مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے سیکرٹری خلافت جوبلی(
۳۔ بہائی تحریک پر تبصرہ< )مولفہ مولوی ابوالعطاء صاحب(
بہائیت کے متعلق تاریخی معلومات کا مستند مجموعہ جس میں بہائی شریعت اقدس کا اصل نسخہ اور اس کا ترجمہ شامل کرنے کے علاوہ اسلامی شریعت سے اس کا موزانہ بھی کیا گیا اور احمدیہ عقائد اور بہائی عقائد کا مقابلہ بھی کیا گیا ہے۔
رسالہ >معارف< )بابت ماہ فروری ۱۹۴۲ء( نے اس پر حسب ذیل ریویو کیا۔
>ابوالعطاء صاحب نے اس کتاب میں خود بہائی لٹریچر اور ان کی کتابوں سے اس تحریک کی تاریخ اور اس کے عقائد پر تبصرہ کرکے اس کی گمراہیوں کو آشکارا کیا ہے۔ بہائیوں کی کتاب اقدس کا عربی متن بھی معہ ترجمہ کے دے دیا ہے۔ کتاب مفید اور دلچسپ ہے لیکن لائق مصنف اپنے فرقہ کی تبلیغ سے نہیں چوکے ہیں<۔
۴۔ >مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے< )مرتبہ جناب رحمت اللہ خاں صاحب شاکر اسسٹنٹ ایڈیٹر >الفضل(< یہ کتاب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی تحریک پر لکھی گئی تھی۔ چنانچہ اس کے دیباچہ میں آپ نے تحریر فرمایا کہ۔
>شاکر صاحب نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے۔ وہ ایک عرصہ دراز سے بلکہ طالب علمی کے زمانے سے میرے مدنظر تھا۔ مجھے خوب یاد ہے کہ جب یہ خاکسار سکول کی نہم اور دہم جماعت میں تعلیم پاتا تھا تو اس وقت ہمیں ایک انگریزی کی کتاب >گولڈن ڈیڈز< پڑھائی جاتی تھی۔ جس میں بعض مغربی بچوں اور نوجوانوں کے سنہری کارناموں کا ذکر درج تھا۔ مجھے اس کتاب کو پڑھ کر یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ایک کتاب اردو میں مسلمان نوجوانوں کے کارناموں کے متعلق لکھی جائے۔ جس میں مسلمان بچوں کے ایسے کارنامے درج کئے جائیں۔ جو مسلمان نونہالوں کی تربیت کے علاوہ دوسری قوموں کے لئے بھی ایک عمدہ سبق ہوں۔ یہ خواہش طالب علمی کے زمانہ سے میرے دل میں قائم ہوچکی تھی۔ اس کے بعد جب میں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا تو یہ خواہش اور بھی ترقی کر گئی کیونکہ میں نے دیکھا کہ جو کارنامے مسلمان نوجوانوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوچکے ہیں۔ وہ ایسے شاندار اور روح پرور ہیں کہ ان کے مقابل مسیحی نوجوانوں کے کارناموں کی کچھ بھی حیثیت نہیں اور میں نے ارادہ کیا کہ جب بھی خدا توفیق دے گا میں اس کام کو کروں گا۔ مگر افسوس ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک میری یہ خواہش عملی جامہ نہ پہن سکی۔ بالاخر گزشتہ سال اللہ تعالیٰ نے اس کی یہ تقریب پیدا کر دی کہ شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر نے مجھ سے مشورہ پوچھا کہ میں آج کل رخصت کی وجہ سے فارغ ہوں۔ مجھے کوئی ایسا مضمون بتایا جائے جس پر میں ایک مختصر کتاب لکھ کر اسلام اور احمدیت کی خدمت کرسکوں۔ اس پر میں نے شاکر صاحب کو اپنی یہ خواہش بتا کر یہ تحریک کی کہ وہ اس موضوع پر مطالعہ کرکے کتاب تیار کریں اور میں نے چند ایسی کتابوں کے نام بھی بتا دیئے جس سے وہ اس مضمون کی تیاری میں مدد لے سکتے تھے اور انتخاب وغیرہ کے متعلق بھی مناسب مشورہ دیا اور مجھے خوشی ہے کہ شاکر صاحب نے مطلوبہ کتاب کے تیار کرنے میں کافی محنت سے کام لے کر ایک اچھا مجموعہ تیار کرلیا ہے۔ میں نے اس سارے مجموعہ کو بالاستیعاب نہیں دیکھا۔ مگر بعض حصے دیکھے ہیں اور بعض جگہ مشورہ دے کر اصلاح بھی کروائی ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ یہ کتاب نوجوانوں کے لئے مفید ثابت ہوگی<۔۳۵۵
۵۔ > گوردگوبند سنگھ کے بچوں کا قتل< )مولفہ گیانی واحد حسین صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ(
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء کے موقعہ پر جماعت کے اہل قلم کو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا تھا کہ۔
>اگر علمی مذاق رکھنے والے لوگ اپنی فرصت کے اوقات میں کوئی کتاب ہی لکھ دیں تو اس میں کیا حرج ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر یہ ضروری بات ہے کہ جو کتاب لکھیں وہ معقول ہو اور علمی رنگ میں لکھی گئی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ مصنف وہ ہوں جو ہوش و حواس قائم رکھتے ہوں اور عقل و فکر سے کام لینے والے ہوں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ کوئی ایسا فلسفہ نکالیں جس سے دنیا میں تہلکہ مچ جائے بلکہ ایسی باتیں لکھی جائیں جو عام سمجھ کر مطابق ہوں اور جن میں اسلام پر جو اعتراضات کئے جاتے ہیں ان کا حل کیا گیا ہو۔ مثلاً مورخین کی کتابیں ہیں ان میں مسلمان بادشاہوں پر سخت مظالم کئے گئے اور ان پر نہایت گندے الزامات لگائے گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مثال کے طور پر کہتا ہوں اورنگ زیب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام مجدد کہا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اورنگ زیب کی شکل تاریخوں میں نہایت ہی تاریک دکھائی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ غرض تاریخوں میں مسلمان بادشاہوں پر بہت سے اعتراضات عائد کئے گئے ہیں۔ ہماری جماعت کے مصنف اس طرف بھی توجہ کریں تو سلسلہ کے لئے مفید لٹریچر مہیا کرسکتے ہیں<۔۳۵۶
گیانی واحد حسین صاحب کا یہ رسالہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے مندرجہ بالا ارشاد کی تعمیل کی ایک کامیاب کوشش تھی۔ جس میں ٹھوس واقعات کی روشنی میں پانچ زبردست دلائل سے اس الزام کو بے بنیاد اور فرضی ثابت کیا گیا کہ حضرت عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کے عہد میں اس کی پالیسی کے ماتحت گوروگوبند صاحب کے دو لڑکے مسلمانوں کے ہاتھوں چمکور میں قتل ہوگئے اور دو اور چھوٹے بچوں کو محض اسلام قبول نہ کرنے کی پاداش میں قلعہ سرہند کی دیواروں میں زندہ چنوا دیا گیا۔ گیانی صاحب نے اس رسالہ میں یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں نے گوردگوبند سنگھ صاحب اور ان کے بچوں پر کبھی ظلم نہیں کیا بلکہ ہمیشہ نرمی و ملاطفت سے پیش آتے رہے۔ تب ہی تو گورو صاحب ہمیشہ حضرت عالمگیر رحمتہ اللہ علیہ کے مدح سرار ہے۔ جیسا کہ ظفر نامہ میں لکھا ہے۔ اس رسالہ کا دیباچہ ملک کے بلند پایہ ادیب مولانا عبدالمجید خاں صاحب سالک ایڈیٹر روزنامہ >انقلاب< نے لکھا۔
۶۔ >احمدیت کی ننھی کتاب< )مولفہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم(
۷۔ >مولوی محمد علی صاحب کا جنگ موعود نبی سے< )مولفہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم سابق امیرالمجاہدین علاقہ ملکانہ(
۸۔ مولوی محمد علی اور اس کی تفسیر بیان القرآن خلاف مذہب امام آخر الزمان< )مولفہ قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی امیر جماعت ہائے احمدیہ سرحد( یہ رسالہ میاں حیات محمد صاحب احمدی بھیروی سب ڈویژنل آفیسر پشاور کی تحریک اور ان کے خلف الرشید میاں محمدانور صاحب کی خاص دلچسپی سے لکھا گیا۔
۹۔ >چشمہ عرفان< )مرتبہ مبارک احمد خاں صاحب ایمن آبادی سابق مدیر جریدہ >عبرت< کلکتہ( یہ کتاب چودھری محمد مالک خان صاحب تسنیم بی۔ اے متعلم لاء کالج رئیس ایمن آباد کی یادگار کے طور پر شائع کی گئی جو مبارک احمد خاں صاحب کی تحریک و تبلیغ سے دسمبر ۱۹۳۸ء میں حلقہ بگوش احمدیت ہوئے اور اپنے اخلاص` سعادت مندی اور دینی ذوق میں جلد جلد ترقی کرنے لگے مگر افسوس کہ زندگی نے وفانہ کی اور تقریباً ایک ماہ تک تپ محرقہ میں مبتلا رہ کر ۱۸۔ جولائی ۱۹۳۹ء کو ۲۳ برس کی عمر میں اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔۳۵۷ >چشمہ عرفان< دینی اور روحانی نکات و مضامین کا ایک مختصر مگر نہایت مفید مجموعہ ہے۔
۱۰۔ >گلدستہ دینیات< )احمدی لڑکوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضور کے خلفاء اور دوسرے بزرگان سلسلہ کی تحریرات پر مشتمل دینی اسباق جو پیر صلاح الدین صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی اور ملک مبارک احمد خاں صاحب نے مرتب کئے۔ رسالہ کے آخر میں بہت سی دلچسپ` مفید اخلاقی و روحانی کہانیاں درج تھیں جو وہ بھی پیشتر انہی عظماء کی بیان فرمودہ تھیں۔
۱۱۔ >غلبہ اسلام بذریعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام< )حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایمان پرور تحریرات کا مجموعہ مرتبہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل(
اندرون ملک کے مشہور مباحثات
‏sub] [tagمباحثہ ایمن آباد )ضلع گوجرانوالہ(
۲۴۔ تبلیغ ۱۳۱۹ہش مطابق ۲۴۔ فروری ۱۹۴۰ء کو ایمن آباد ضلع گوجرانوالہ میں مسئلہ ختم نبوت پر مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد سلیم صاحب اور غیر احمدیوں کی طرف سے سائیں لال حسین صاحب اختر نے بحث کی۔ لال حسین صاحب کو دوبارہ اپنی بدزبانی پر احمدیوں سے معافی مانگنی پڑی اور دو بار حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کے ادھورے اقتباس پیش کرکے اور اعتراض کرکے شرمندگی اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا۔ غیر احمدی شرفاء نے اعتراف کیا کہ ان کا نمائندہ احمدی مناظر کے مقابلہ میں دلائل پیش کرنے سے قاصر رہا۔ ہندو پبلک نے عام طور پر یہ رائے ظاہر کی کہ احمدی مناظر علم` دلائل اور شرافت و متانت میں اپنی نظیر آپ تھے۔۳۵۸
مباحثہ قادیان
۱۰۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو حضرت سید محمد اسحاق صاحب کے زیر اہتمام مولوی ناصر الدین عبداللہ صاحب وید بھوشن مولوی فاضل کا ویہ تیرتھ پروفیسر جامعہ احمدیہ اور پنڈت ترلوک چند صاحب شاستری ٹیچر ڈی۔ اے۔ وی ہائی سکول قادیان کے درمیان نہایت دوستانہ ماحول میں تحریری مناظرہ ہوا۔ مولوی ناصر الدین عبداللہ صاحب کا دعویٰ یہ تھا کہ ہندو دھرم کی مقدس کتاب اتھروویدکانڈ۳۵۹ میں ایک رشی کی آمد کا ذکر ہے جس کی آمد کا مقام قدون اور نام احمد بتایا گیا ہے۔ حسب تجویز مولوی عبداللہ ناصر الدین صاحب پنڈت ترلوک چند صاحب اپنے بعض رفقاء سمیت حضرت میر محمد اسحٰق صاحب کے دفتر میں آگئے اور فریقین نے اپنے اپنے پرچے آپ کی نگرانی میں لکھے۔ پہلا پرچہ مولوی صاحب نے اپنے دعویٰ کے اثبات میں لکھا۔ جس کا جواب پنڈت صاحب نے تحریر کیا۔ اس طرح باری باری چار پرچے مولوی صاحب نے اور تین پرچے پنڈت صاحب نے لکھے۔ اس کے بعد اسی روز ۹ بجے شب مسجد اقصیٰ میں حضرت میر صاحبؓ کی صدارت میں ایک پبلک جلسہ منعقد ہوا۔ جس میں احمدیوں کے علاوہ بہت سے آریہ صاحبان اور احراری بھی شامل ہوئے اور حسب ترتیب ساتوں پرچے باری باری سنائے گئے۔ جلسہ گیارہ بجے ختم ہوا۔۳۶۰`۳۶۱
یہ مناظرہ اسی سال >ویدوں میں احمد اور قادیان< کے نام سے چھپ گیا تھا جس کا دیباچہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے تحریر فرمایا۔4] [stf۳۶۲
مباحثہ گوجرانوالہ
۳۱۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو گوجرانوالہ شہر میں مولانا ابوالعطاء صاحب کا مولوی احمد یار صاحب )غیرمبائع( سے مسئلہ کفر و اسلام اور مسئلہ نبوت پر کامیاب مناظرہ ہوا۔ اگرچہ باہمی فیصلہ کے مطابق >مسئلہ خلافت< پر بھی مباحثہ قرار پایا تھا۔ غیر مبائعین نے کہلا بھیجا کہ وہ اس کے لئے تیار نہیں۔ مجلس مناظرہ میں بعض غیر احمدی بھی شامل ہوئے تھے جنہوں نے مولانا ابوالعطاء صاحب کی علمی قابلیت اور شستہ حاضر جوابی کی تعریف کی اور غیر مبائع مناظر کی بے بسی` بے علمی اور کم حوصلگی پر اظہار ناپسندیدگی کیا۔۳۶۳
مباحثہ کوٹ گورایا )تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور(
موضع دیوانی وال )تحصیل بٹالہ( کے قریب ایک گائوں کوٹ گورایا ہے جہاں دیوانی وال کے بعض احمدی تبلیغ کے لئے گئے۔ تبلیغ شروع ہوئی تو گائوں والے مسانیاں کے ایک مخالف عالم مولوی فیروزالدین صاحب` دو مددگار علماء اور ایک حافظ قرآن اور چالیس پچاس سید صاحبان کو لے آئے۔ احمدیوں نے مسئلہ وفات مسیح پر گفتگو کے لئے کہا مگر انہوں نے جواب دیا کہ ہم نے کوئی حضرت عیٰسیؑ کی وراثت تقسیم کرنی ہے۔ ہمیں حضرت عیٰسیؑ کی موت سے کیا تعلق۔ ہم تو یہ ثابت کرنے آئے ہیں کہ مرزا صاحب مسلمان ہیں یا نہیں۔ آخر لمبی گفتگو کے بعد سامعین کے اصرار پر قرآن مجید کی رو سے مسئلہ ختم نبوت پر مناظرہ کرنے پر رضامند ہوگئے۔ فریقین نے اپنے اپنے صدر مقرر کئے۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی محمد اعظم صاحب مولوی فاضل اور فریق ثانی کی طرف سے مولوی فیروز دین صاحب فاضل مدرسہ عثمانیہ مناظر قرار پائے۔ مولوی محمد اعظم صاحب نے نہایت عمدگی کے ساتھ قرآن مجید سے ثابت کر دیا کہ آنحضرت~صل۱~ کے بعد حضورؑ کی غلامی سے فیض نبوت جاری ہے مگر مدمقابل عالم قرآنی دلائل کا کوئی جواب نہ دے سکے اور خلاف شرط صرف حدیث لا نبی بعدی پر سارا زور صرف کرتے رہے۔ بعد ازاں انہوں نے احمدی مناظر کی تقریر کے دوران شور ڈالنا شروع کر دیا۔ آخرکار قرآن و حدیث سے پیش شدہ دلائل کے سامنے جب بالکل عاجز اور بے بس ہوگئے تو مناظرہ چھوڑ کر میدان مناظرہ میں اپنا جلسہ شروع کر دیا۔ جماعت کی طرف سے اس وقت صدر مناظرہ محمد ملک صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ دیوانی وال تھے۔ انہوں نے درخواست کی کہ احمدی مناظر کو بھی اختتام جلسہ پر جواب دینے کا تھوڑا سا وقت دیا جائے مگر انہوں نے بالکل انکار کر دیا جس پر سب احمدی دوست واپس دیوانی وال آگئے۔۳۶۴
مباحثہ غازی کوٹ )ضلع گورداسپور(
۱۶/ ۱۵۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو گورداسپور سے تین میل کے فاصلہ پر واقع گائوں غازی کوٹ میں تین مناظرے ہوئے۔ طے شدہ شرائط کے مطابق پہلا مناظرہ ختم نبوت پر مولوی ابوالعطاء صاحب اور لال حسین صاحب اختر کے مابین` دوسرا صداقت حضرت مسیح موعودؑ پر مولوی دل محمد صاحب اور اختر صاحب کے مابین اور تیسرا وفات مسیح پر مولوی ابوالعطاء صاحب اور حافظ محمد شفیع صاحب کے مابین ہوا۔ تینوں مناظروں میں احمدی علماء نے قرآن کریم اور حدیث شریف سے واضح استدلال کئے اور اپنی تائید میں بزرگان احناف کے اقوال بھی پیش کئے مگر دوسرے علماء زیادہ تر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بعض تحریروں کو غلط انداز میں پیش کرکے عوام کو مغالطہ دینے کی کوشش کرتے رہے مگر خدا کے فضل و کرم سے اس میں بھی کامیاب نہ ہوسکے۔ دوسرا مناظرہ شروع ہونے سے قبل لال حسین صاحب اختر نے حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کی شان مبارک میں خواہ مخواہ بدزبانی شروع کر دی جس پر احمدیوں نے احتجاج کیا اور صدر جلسہ مولانا ابوالعطاء صاحب نے پورے زور کے ساتھ مجسٹریٹ صاحب علاقہ کو )جو مناظرہ میں موجود تھے( توجہ دلائی کہ اس شخص کو ان الفاظ کے واپس لینے پر مجبور کیا جائے۔ انسپکٹر صاحب پولیس نے شہادت دی کہ واقعی لال حسین صاحب نے سخت ناروا کلمہ کہا ہے اور احمدیوں کی واقعی دلازاری کی گئی ہے۔ اس پر مجسٹریٹ صاحب نے احراری نمائندہ شریف حسین صاحب وکیل کو بلوا کر حکم دیا کہ مولوی لال حسین صاحب یہ الفاظ واپس لیں ورنہ مناظرہ بند کردیا جائے اور آپ لوگ یہاں سے فوراً چلے جائیں۔ اس پر سائیں لال حسین صاحب نے کھڑے ہوکر کہا کہ میں اپنے الفاظ واپس لیتا ہوں۔ اس پر مناظرہ شروع ہوا۔۳۶۵
اس مناظرہ کو سننے کے لئے قادیان دارالامان سے بہت سے احباب تشریف لے گئے۔
‏tav.8.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر کبیر )جلد سوم( تک
مباحثہ پٹھانکوٹ
آریہ سماج پٹھانکوٹ نے اپنے جلسہ کے موقعہ پر اشتہار کے ذریعے تبادلہ خیالات کی عام دعوت دی جسے جماعت احمدیہ دولت پور پٹھانکوٹ نے قبول کرتے ہوئے شرائط مناظرہ طے کیں اور آریوں کا جلسہ ختم ہونے کے دوسرے دن ۱۹۔ اگست کو پہلے پہر اصول آریہ سماج پر اور پچھلے پہر اصول احمدیت پر مناظرہ ہوا۔ ہر مضمون کے لئے سوا تین گھنٹے وقت تھا۔ پہلی تقریریں آدھ آدھ گھنٹہ اور بعد کی تقریریں پندرہ پندرہ منٹ کی تھیں۔ پہلے مضمون میں جماعت احمدیہ کی طرف سے مہاشہ محمد عمر صاحب مولوی فاضل مناظر اور مولوی ظہور حسین صاحب مبلغ بخارا پریذیڈنٹ تھے۔ آریہ مناظر پنڈت شانتی پرکاش صاحب نے اپنی پہلی تقریر میں ویدوں کے متعلق کہا کہ وہ ابتدائے دنیا میں اتارے گئے تھے اور ان میں سائنس کی باتیں ہیں۔ پرمیشور کے متعلق اعلیٰ تعلیم ہے وغیرہ مہاشہ صاحب نے اپنی تقریر میں بتایا کہ پرمیشور کے متعلق ویدک تعلیم یہ ہے کہ وہ مالوں کو چراتا اور چرواتا ہے۔ سوم رس پیتا ہے اور ایسی مثالوں سے بعض نصائح کی گئی ہیں کہ انسان کو بیان کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔ ویدوں کے محرف و مبدل ہونے کے ثبوت میں مختلف مثالیں پیش کیں اور مختلف ایڈشنوں سے دکھایا کہ بعض ویدوں میں سے منتر کے منتر اڑا دیئے گئے ہیں۔ اور بعض جگہ بیس پچیس منتروں تک زائد کر دیئے گئے ہیں۔ ویدوں کی تعداد میں اختلاف ہے۔ پھر اس میں اختلاف ہے کہ کس پر نازل ہوئے اور ویدک تعلیم کے متعلق مثالوں سے بتایا کہ وہ ہرگز قابل عمل نہیں۔ آریہ مناظر نے بہت ہاتھ پائوں مارے لیکن آخر تک مہاشہ صاحب کے اعتراضات کا قطعاً کوئی جواب نہ دے سکا۔ قرآن مجید اور مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر جو اعتراضات پنڈت صاحب نے کئے۔ مہاشہ صاحب مکرم نے ان کے تسلی بخش جواب دیئے اور ایسا اچھا اثر ہوا کہ غیر احمدی مسلمانوں نے بھی تعریف کی۔ دوسرے مناظرہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے چودھری محمد یار صاحب عارف مناظر تھے۔ آپ نے پہلی تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض حوالے جن سے احمدیت اور اسلام کے اصول ایک ہی ثابت ہوتے ہیں سنانے کے بعد دس اصول جماعت احمدیہ کے بیان کئے۔ مثلاً آپ نے بتایا کہ ہم خدا کو ایک مانتے ہیں۔ آریوں کی طرح صرف دعویٰ ہی نیں بلکہ روح و مادہ کو پیدا کرنے والا مان کر اس کی حقیقی توحید کے قائل ہیں۔ پھر یہ کہ ہم زندہ خدا کو ماننے والے ہیں۔ اس کو کامل صفات والا مانتے ہیں۔ ایسی تعلیم دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں جس پر ہر انسان عمل کرسکتا ہے- ایسی الہامی کتاب ماننے کی دعوت دیتے ہیں جس کی زبان زندہ اور جو ہر ضروری دعویٰ خود کرتی اور خود ہی اس کے دلائل دیتی ہے وغیرہ۔ آپ نے ہر بات کے لئے قرآن مجید سے ثبوت دیا اور ساتھ ساتھ آریوں کے پرمیشور اور ویدوں کا اور ویدک تعلیم کا نہایت موثر طریق سے مقابلہ کیا۔ آریہ مناظر نے کھڑے ہوتے ہی کہا کہ یہ مناظرہ مسلمانوں سے نہیں بلکہ احمدیوں سے ہے۔ اس لئے میں بیان کردہ امور کی بجائے حضرت مرزا صاحب )علیہ السلام( کی باتیں پیش کرتا ہوں۔ اس کے بعد اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اعتراضات کئے اور بعد کی تقریروں میں بھی پیشگوئیوں اور الہامات وغیرہ پر اعتراض کرتا رہا۔ عارف صاحب نے جواب میں ستیارتھ پرکاش کے دوچار حوالے پڑھ کر جن میں اسلام پر گندے اعتراضات کئے گئے ہیں بتایا کہ آریہ سماج کے مقابلہ میں سب مسلمان ایک ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بے شک مامور ہونے کا دعویٰ کیا اور اپنا ماننا ضروری قرار دیا لیکن آپ کی بعثت کی غرض تو اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنا تھی۔
پھر پیشگوئیوں اور الہامات پر اعتراضات کے مدلل جواب دیئے بعد کی تقریروں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسلام کا نمائندہ ثابت کیا اور پنڈت لیکھرام کی پیشگوئی اور مقابلہ کا وضاحت سے ذکر کرکے اسلام کی افضلیت ثابت کی۔ آریہ مناظر نے ہرممکن کوشش کی کہ مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے خلاف بھرکائے لیکن احمدی مناظر ایسی عمدگی سے جواب دیتا رہا کہ آریہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ بلکہ دوران مناظرہ میں جب بعض آریہ ہمارے مناظر کے ناقابل تردید مطالبات اور اپنے پنڈت کی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے بول پڑے تو مسلمانوں نے نہایت سختی سے ان کا مقابلہ کیا۔ احمدی مناظر نے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے اپنے بیان کردہ اصول کو بھی بار بار دہرا کر پنڈت شانتی پرکاش صاحب کو چیلنج کیا کہ ان کے مقابلہ میں ویدک اصول کی کمزوری کا جواب دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات پر اعتراض کا جواب دے کر ویدوں کے چالیس پچاس بے معنی منتر پیش کرکے بار بار پوچھا کہ کیا یہی وہ کامل الٰہی کتاب ہے جس کے قبول کرنے کی دعوت آپ مسلمانوں کو دیتے ہیں اور خواب دیکھا کرتے ہیں کہ اوم کا جھنڈا مکہ اور مدینہ میں بھی گاڑا جائے گا۔ لیکن آریہ مناظر آخر دم تک ان مطالبات کا کوئی جواب نہ دے سکا۔ آخری تقریر میں عارف صاحب نے نہایت احسن پیرایہ میں تبلیغ کی اور آریوں کو مخاطب کرکے کہا کہ مذہب کوئی کھیل تماشا نہیں۔ جو باتیں ہم نے پیش کی ہیں ان پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔ خداتعالیٰ کے فضل سے مناظرہ بہت کامیاب رہا۔ آریہ مناظر نے ہرچند کوشش کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور تحریرات پر اعتراض کرکے مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرے اور اس کوشش میں اس نے ویدوں اور بانی آریہ سماج پر ہمارے مناظر کے کئے ہوئے اعتراضات کو بالکل نظر انداز کردیا اور کسی ایک اعتراض کا بھی جواب نہ دیا۔ اس سے جہاں آریہ سماج کے اصولوں کی کمزوری حاضرین پر واضح ہوگئی وہاں جماعت احمدیہ پر عام اعتراضات کے تسلی بخش جوابات دیئے گئے اور ایسے مسلمان جو احمدیت پر محض اعتراص کرنا ہی جانتے ہیں اور جوابات سننا بھی جنہیں گوارا نہیں ان پر ان اعتراضات کی لغویت اچھی طرح واضح کی گئی اور اس طرح غیراحمدیوں کو تبلیغ کرنے کا ایک نہایت ہی اچھا موقع مل گیا اور تقریباً دو ہزار لوگ جو نصف کے قریب مسلمان تھے نہایت اچھا اثر لے کر گئے۔۳۶۶ الحمدلل¶ہ علیٰ ذالک۔
مباحثہ مردان
۱۷۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو بمقام مردان احمدیوں اور غیر احمدیوں کے مابین وفات مسیح اور ختم نبوت کے موضوع پر مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے مناظر مولوی چراغ الدین صاحب مبلغ سلسلہ تھے اور غیراحمدی اصحاب کی طرف سے مولوی مصلح الدین صاحب۔ مناظرہ میں غیر احمدی عالم لاجواب ہوگئے۔۳۶۷
مباحثہ کلثنا )بنگال(
بنگال میں کلثنا اہلحدیث کا مشہور گائوں تھا جہاں قریشی محمد حنیف صاحب قمر سائیکل سیاح کا مولوی نعمت اللہ صاحب اور دیگر چار علماء سے مسئلہ حیات و وفات مسیحؑ پر مباحثہ ہوا۔ پندرہ منٹ کے بعد مولوی نعمت اللہ صاحب مجلس سے فرار کرگئے اور ان کے باقی رفقاء گالیوں پر اتر آئے۔ قریشی صاحب نے جب اہلحدیث کتب خانہ سے بعض کتابیں لے کر انہی سے حوالے دکھانے شروع کئے تو ان سے کتابیں چھین لی گئیں اور کتب خانہ مقفل کردیا۔۳۶۸
مباحثہ مونگ )ضلع گجرات(
جماعت احمدیہ اور جماعت حنفیہ مونگ کے درمیان ۲۹` ۳۰۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو مباحثہ قرار پایا تھا۔ شرائط حسب ذیل تھیں۔
)۱( مبحث تین ہوں گے۔ )۲( وفات مسیح۔ )۳( ختم نبوت۔ )۴( صداقت حضرت مسیح موعود۔
)۲( مابہ الاستدلال قرآن` حدیث` و اقوال اہلسنت و الجماعت و اقوال حضرت مرزا صاحب و بزرگان احمدی۔ )۳( پہلی تقریر بیس بیس منٹ کی اور اس کے بعد ہر تقریر دس منٹ کی۔ مباحثہ تین گھنٹہ دس منٹ ہوگا پہلی اور پچھلی تقریر مدعی کی ہوگی۔ )۴( مباحثہ زبانی ہوگا۔ )۵( ہر فریق کے مناظر دائرہ تہذیب میں رہ کر مناظرہ کریں گے۔ ہر فریق جو بدزبانی کرے یا تالی بجائے شکست خوردہ سمجھا جائے گا۔ )۶( ہر فریق کے تین تین آدمی حفظ امن کے ذمہ دار ہوں گے۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے سید حیدر شاہ صاحب` خان محمد صاحب اور روشن خاں صاحب قرار پائے` فریق مخالف کی طرف سے راجہ مہدی خاں صاحب` مولوی اللہ دتہ صاحب اور راجہ حاکم خاں صاحب۔ )۷( مباحثہ دائرہ راجہ احمد خاں میں ہوگا۔ )۸( حضرت مرزا صاحب کا صرف قول ہی پیش کیا جائے گا تشریح نہیں کرنی ہوگی۔
حسب قرارداد ۲۹۔ اکتوبر کو ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے مناظرہ شروع ہوا۔ سامعین کی تعداد خاصی تھی اور ان میں ہندو اور سکھ بھی شامل تھے۔ پہلے مباحثہ میں جو حیات ممات مسیح پر تھا مدعی لال حسین اختر اور مجیب مولانا محمد یار صاحب عارف تھے۔ مباحثہ نہایت خوش اسلوبی سے ہوا۔ اگرچہ لال حسین صاحب نے لوگوں کو مشتعل کرنے کی کوشش کی۔ مگر عارف صاحب کی تقریر کچھ ایسی موثر ہوئی تھی کہ لوگ لال حسین صاحب کے دھوکے میں نہ آئے۔ میدان مناظرہ میں بالکل سکوت چھایا ہوا تھا۔ مخالفین بھی آپ کی تقریر کے وقت ہمہ تن گوش ہوکر سن رہے تھے۔
دوسرا مباحثہ اسی تاریخ کو زیر صدارت عارف صاحب شیخ عبدالقادر صاحب فاضل نو مسلم نے کیا۔ آپ نے بھی اپنے وقت میں اچھے دلائل دیئے اور ختم نبوت کے مسئلہ کو بہت عمدگی سے واضح کیا۔
تیسرا مباحثہ ۳۰۔ اکتوبر کی صبح کو ۹ بجے شروع ہوا اور ایک بجے ختم ہوا۔ اس مباحثہ میں جو صداقت حضرت مسیح موعودؑ پر تھا ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی۔ اے` ایل ایل۔ بی پلیڈر گجرات کی زیر صدارت منعقد ہوا اور مناظر چودھری محمد یار صاحب عارف تھے۔ اس مباحثہ میں نقض امن کا زیادہ خطرہ تھا مگر قابل صدر کی کوشش سے اور قابل مقرر کی عالمانہ تقریر سے جو درحقیقت خدا کے فضل کے اسباب تھے کوئی ناگوار واقع پیش نہ آیا۔ اگرچہ مخالف احمدیت نے بڑی کوشش کی کہ لوگوں کو مشتعل کرے۔ غلط باتیں پیش کرکے حاضرین کو اکسایا مگر وہ اپنے بدارادہ میں کامیاب نہ ہوا۔۳۶۹
مباحثہ پیرول )بہار(
پیرول صوبہ بہار )انڈیا( کی ایک بستی ہے جہاں ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کے آخر میں ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب فاضل نے ایک غیراحمدی عالم سے ایک گھنٹہ تک مناظرہ کیا۔ جب غیر احمدیوں نے دیکھا کہ ان کے مولوی صاحب احمدیت کے معقول دلائل تسلیم کرچکے ہیں اور بعض سے ساکت آگئے ہیں تو انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا اور سلسلہ گفتگو ختم ہوگیا۔۳۷۰
مباحثہ لاہور
مسجد احمدیہ )بیرون دہلی دروازہ( لاہور میں ۲۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو مسئلہ نبوت پر اور ۱۷۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو مسئلہ کفر و اسلام پر غیر مبائع اصحاب سے نہایت کامیاب مناظرے ہوئے۔ اول الذکر موضوع میں جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے میاں محمد عمر بی۔ ایس۔ سی` ایل ایل۔ بی نے اور فریق لاہور کی طرف سے مولوی احمد یار صاحب نے بحث کی۔ میاں محمد عمر نے اثبات نبوت مسیح موعودؑ میں چار فیصلہ کن دلائل پیش کئے اور ہر دلیل کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی واضح تحریرات پیش کیں اور غیر مبائعین کے غلط استدلال کے دندان شکن جوابات دیئے مگر فریق لاہور کے مناظر صاحب بار بار دو ایک حوالوں کو ہی دہراتے رہے۔۳۷۱
‏0] [stfشیخ روشن دین صاحب تنویر کا قبول احمدیت
اس سال جو خوش نصیب سلسلہ احمدیہ۳۷۲ سے وابستہ ہوئے۔ ان میں شیخ روشن دین صاحب تنویر بی۔ اے` ایل ایل۔ بی سیالکوٹ )حال مدیر >الفضل(< خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آپ نے ۲۰۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو بیعت کا فارم پرکیا۔ شیخ صاحب نے انہی دنوں اپنے قبول احمدیت کے حالات >الفضل< میں بھی شائع کرا دیئے تھے جن کا ایک ضروری حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
>دسمبر ۱۹۳۹ء کے شروع میں میری ایک مربیہ۳۷۳ نے جو نہایت مخلص احمدی ہیں مجھے قادیان دارالامان کی زیارت کی دعوت دی۔ میں نے یونہی کچا پکا وعدہ کرلیا۔ انہی دنوں محترمی محمد نذیر صاحب فاروقی ضلعدار ریاست بہاولپور نے بھی )جو میرے لنگوٹئے یار ہیں( ایک خط میں اسی قسم کی دعوت دی۔ ان کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ دیرینہ مفارقت کے بعد ملاقات کا اچھا موقعہ ہاتھ آجائے گا۔ مزید برآں مرکز سے بھی ایک فارمل دعوت ایک عزیز نے بھجوا دی۔ اس سہ گونہ دعوت کا مقابلہ میری بے پروائی سے نہ ہوسکا۔
۲۴۔ دسمبر ۱۹۳۹ء کی مبارک صبح کو میں قادیان کا واپسی ٹکٹ خرید کر پلیٹ فارم پر گاڑی کی روانگی کے انتظار میں ٹہل رہا تھا کہ اخویم چودھری شاہنواز صاحب ایڈووکیٹ سے مٹھ بھیڑ ہوئی۔ میں نے ان سے قادیان جانے کا تذکرہ کیا مگر ان کو یقین نہ آیا اور آتا بھی کس طرح۔ ان کو خوب معلوم تھا کہ میں احمدیت کا سخت مخالف ہوں۔ جب میں نے ان کو ٹکٹ دکھایا تو وہ حیران رہ گئے۔ انہوں نے فرمایا- قادیان سے تم ضرور احمدی ہو کر پلٹو گے۔ میں نے جواب دیا۔ یہ ناممکن ہے آپ جانتے ہیں مجھ جیسا آزاد منش آدمی ایسی قیدوں میں نہیں سماسکتا۔ میں تو صرف ایک تماشہ دیکھنے جارہا ہوں۔ تعطیلات ہیں` لاہور نہ سہی قادیان سہی۔ اتنے میں روانگی کی سیٹی بجی اور ہم سوار ہوگئے۔ ویرکار ریلوے سٹیشن تبدیلی کے لئے اترنا پڑا۔ پلیٹ فارم پر` احمدی خاندانوں کے خاندن اتر پڑے پلیٹ فارم سوٹ کیسوں` ٹرنکوں اور بستروں سے پٹ گیا۔ اس منظر نے ایک عجیب و غریب اثر میرے دل پر کیا۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ صدیوں کی سوئی ہوئی کوئی چیز میرے رگ و پے میں بھاگ رہی ہے۔ مرد` عورتیں اور بچے` بچے کچھ مائوں کی گودوں میں اور کچھ ننھے ننھے قدم اٹھاتے ہوئے` انگلیاں پکڑے` اس سردی کے موسم میں` کنبوں کے کنبے` گھروں کو تالے لگا کر` کس شوق و ذوق سے آمادہ سفر ہیں۔ پختگی اعتقاد کا ایک مقدس پہاڑ میری نگاہوں میں بلند ہورہا تھا۔ مرد` عورتیں اور بچے` مائوں کی گودوں میں ہمکتے ہوئے بچے چلتے پھرتے بچے` سب میری آنکھوں میں چکا چوند پیدا کررہے تھے۔ میں ایک اور ہی دنیا میں چلا گیا۔ ایسی دنیا میں جو گزشتہ دنیا سے پاکیزہ تر اور ارفع و اعلیٰ تھی۔ جو مقدس اعتقاد کی دنیا ہے۔ جہاں سوائے صفائی قلب اور جذب روحانی کے اور کچھ نہیں۔ یہ اثر تھا جو میری روح پر ہوا۔ یہ پہلا اثر تھا جس نے زیارت قادیان کا جوش پوری طاقت کے ساتھ میرے دل میں پیدا کردیا۔ انتظار کی گھڑیاں مجھے قیامت کی صدیاں معلوم ہونے لگیں۔ خدا خدا کرکے ہماری گاڑی آپہنچی اور میں بڑے اشتیاق کے ساتھ سوار ہوا۔ اگرچہ گاڑی میں اس قدر بھیڑ تھی کہ بہت سے لوگوں کو کھڑے ہونے کے لئے بھی جگہ میسر نہ تھی اور مسافر سخت تنگی میں تھے مگر مجھے اشتیاق قادیان کی وجہ سے اس کھچا کھچی میں بھی ایک لطف آرہا تھا اور میں اپنے آپ کو جنت میں بیٹھا ہوا تصور کرتا تھا۔ گو گاڑی کی رفتار مجھے سست معلوم ہوتی تھی۔ میں چاہتا تھا کہ میری روح اور جسم کی تمام طاقت بھی انجن کی قوت کے ساتھ مل جائے اور گاڑی فوراً قادیان پہنچ جائے۔ غروب آفتاب کے وقت آخر گاڑی قادیان کے سٹیشن پر جاکھڑی ہوئی۔ سٹیشن پر اتنا انبوہ تھا کہ کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ یہ ابھی پہلا روز تھا۔ پچیس تاریخ کو جلسہ کا آغاز ہونا تھا۔ ایک حشر تھا کہ بپا ہوگیا تھا۔ تقدس کا ایک سمندر تھا کہ ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور میں اس کی موجوں کی آغوش میں ہچکولے کھارہا تھا۔ جس مکان میں ہم ٹھہرے وہ محلہ دارالبرکات میں واقع تھا۔ محلوں کے نام سنے تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہم خلد بریں میں آگئے ہیں۔ عزت و تکریم کی لہر میری رگ رگ میں دوڑ گئی اور ایک روحانی بارش میری روح پر برس رہی تھی۔ ایک بیرونی کمرے میں ہم اترے۔ نیچے کماد کا چھلکا بچھا تھا۔ سردی کا موسم تھا۔ نرم گدیلوں میں یہ لطف کہاں۔ آرام و تعیش پر موت وارد ہوچکی تھی۔ سوا تسکین کے اور کوئی بات ہی نہ تھی۔ لنگر سے کھانا منگوایا کھایا اور سورہے۔
صبح اٹھ کر بازار سے ہوتے ہوئے بہشتی مقبرہ کی زیارت کی۔ قبروں کی قطاریں زندہ انسانوں کی صفیں معلوم ہوتی تھیں۔ مردوں کی پاک نفسی قبروں کے گوشوں سے نکل نکل کر میری روح سے ہم آغوش ہوگئی۔ تربتوں کی سادگی نہایت جاذب نظر تھی۔ زندہ مردوںں کی ایک دنیا! ایسے مردے کہ جن کے سامنے مجھ جیسا زندہ ایک مردہ معلوم ہوتا۔ یہ ان عقیدت کیش لوگوں کی آخری آرام گاہ ہے جنہوں نے اپنا تن` من` دھن اسلام کے نام پر قربان کردیا۔ پاک نفسوں کا اتنا بڑا جمگھٹا شاید ہی کسی اور جگہ دیکھنے میں آئے۔ بے اختیار میرے ہاتھ فاتحہ کے لئے اٹھ گئے اور میری روح ان مٹی کی پاک قبروں کے ساتھ لپٹ گئی۔ بعدہ ہم اس چار دیواری میں داخل ہوئے جہاں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا مزار مقدس ہے۔ سادگی پر ہزاروں بناوٹیں قربان ہورہی تھیں۔ خاک کے ذرے ذرے سے صداقت کی آواز اٹھ رہی تھی۔ یہ قبر اس انسان کی تھی جس نے اپنے مسیحائی کے دعوے کی وجہ سے لاکھوں کروڑوں انسانوں کے ساتھ عمر بھر نبرد آزمائی کی۔ جس کی تکفیر کے فتوے لکھے گئے جس پر عیاذاً باللہ صرف عیاشی کے ہی اتہام نہ لگائے گئے بلکہ جس کو قتل کی دھمکیاں بھی دی گئیں اور جس کی اہانت کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا گیا۔ مگر خدا نے اس کو ہر ایک گزند سے بچایا۔ وہی انسان آج اس سادہ سی اورتہی از تکلف مزار کی آغوش میں جاودانی نیند پڑا سورہا ہے۔ اس مٹی کی ڈھیری نے میرے دل میں ایمان کا شعلہ بھڑکا دیا اور میں ایک مضطرب جان لے کر وہاں سے لوٹا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد دوپہر حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی باتیں` انجمن خدام احمدیہ کے جلسہ میں سنیں۔ اس گرانما یہ شخصیت کے متعلق جتنے شکوک میں اپنے دل میں لے کر آیا تھا تمام کے تمام اس طرح مٹ گئے کہ گویا کبھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے۔ اتنا سادہ اور پرزور کلام میں نے پہلے کبھی نہیں سنا۔ تقریر میں کوئی دقیق مسائل نہیں بیان کئے گئے تھے۔ سادہ روزمرہ کی باتیں تھیں۔ مگر انہی سادہ باتوں میں خدا جانے کہاں کی جاذبیت تھی کہ میں نے ایک ایک لفظ ہمہ تن گوش ہوکر سنا۔ اور اپنے آپ کو زندہ سے زندہ تر پایا دوران جلسہ میں حضور کی دیگر تقاریر بھی سنیں جو اپنی سادگی` برجستگی` اور تاثیر کے لحاظ سے بے مثل تھیں۔ باوجود ان تاثرات کے میں پکا غیر احمدی رہا اور مورخہ ۲۹۔ دسمبر ۱۹۳۹ء کو صبح کی گاڑی قادیان سے رخصت ہو کر گھر کو روانہ ہوا۔ میرے ہمراہ اور بھی بہت سے لوگ اس گاڑی پر واپس ہورہے تھے۔ جو عموماً احمدی تھے۔ میرے ڈبے میں ایک شخص کے پاس چند کتب تھیں جو وہ قادیان سے خرید کر لایا تھا۔ میں نے دفع الوقتی کے لئے ایک کتاب ان میں سے اٹھالی اور پڑھنے لگا۔ یہ کتاب حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر >انقلاب حقیقی< تھی۔ اس تقریر کے ختم کرنے تک میں دل میں احمدی ہوچکا تھا۔ زمین تو پہلے تیار تھی۔ صرف بیج ڈالنے کی دیر تھی جو >انقلاب حقیقی< نے ڈال دیا۔ اور خدا کی رحمت یکبارگی مجھ پر نازل ہوگئی۔ پہلے میں نے احمدیہ لٹریچر کا مطالعہ ایک مخالفانہ نکتہ نگاہ سے کیا ہوا تھا۔ وہ تمام مطالعہ اب یکدم مجھ پر کریمانہ انداز سے جھپٹا اور میں شکار ہوگیا۔ مجھے اپنے آپ پر خود یقین نہ آتا تھا۔ میری رگ رگ میں ایک ہیجان بپا تھا اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ ابھی ابھی میری روح میرے جسم کو چھوڑے دے گی۔ جس طرح اچانک کسی ہتھیلی پر جلتا ہوا کوئلہ رکھ دیا جائے اور وہ اس اثر سے تلملانے لگے یہی حال میری روح کا تھا۔ عید قربان کی نماز جامع احمدیہ سیالکوٹ میں ادا کی اور گھر آکر بیعت کا فارم پر کرکے امیر جماعت احمدیہ سیالکوٹ کو بھیج دیا۔ جس کے زیر عنوان مندرجہ ذیل فی البدیہہ رباعی تھی۔~}~
عید قربان ہے آج اے تنویر
مجھ پر ہے فضل رب سبحانی
پیش کرتا ہوں روح و قلب و دماغ
کاش منظور ہو یہ قربانی<۳۷۴4] f[rt
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۲۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو خطبہ جمعہ کے دوران شیخ صاحب موصوف کے شامل احمدیت ہونے کا ذکر بایں الفاظ فرمایا۔
>ابھی سیالکوٹ میں ایک دوست احمدیت میں داخل ہوئے ہیں۔ شیخ روشن الدین صاحب تنویر ان کا نام ہے اور وکیل ہیں۔ جب مجھے ان کی بیعت کا خط آیا تو میں نے سمجھا کہ کالج کے فارغ التحصیل نوجوانوں میں سے کوئی نوجوان ہوں گے مگر اب جو وہ ملنے کے لئے آئے اور شوریٰ کے موقع پر میں نے انہیں دیکھا تو ان کی ڈاڑھی میں سفید بال تھے۔ میں نے چودھری اسداللہ خاں صاحب سے ذکر کیا کہ میں سمجھتا تھا کہ یہ نوجوان ہیں اور ابھی کالج میں سے نکلے ہیں مگر ان کی تو ڈاڑھی میں سفید بال آئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ یہ تو دس بارہ سال سے وکیل ہیں۔ پہلے احمدیت کے سخت مخالف ہوا کرتے تھے مگر احمدی ہو کر تو اللہ تعالیٰ نے ان کی کایا ہی پلٹ دی ہے<۔۳۷۵
پہلا باب
حواشی
۱۔
الفضل ۲۵۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۴۔
۲۔
‏h2] [tag اخبار الفضل قادیان دارلامان مورخہ ۲۵۔ جنوری ۱۹۴۰ء بمطابق ۱۵۔ ذوالحجہ ۱۳۵۸ھ۔
۳۔
انقلاب حقیقی صفحہ ۹۹۔ ۱۰۰۔ )تقریر فرمودہ ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۷ء برموقعہ جلسہ سالانہ قادیان(
۴۔
امریکن پیپل انسائیکلو پیڈیا )زیر لفظ کیلنڈر( بحوالہ تقویم تاریخی صفحہ م۔ ن مرتبہ عبدالقدوس صاحب ہاشمی مرکزی ادارہ تحقیقات اسلامی کراچی نمبر ۵۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مسیحی جغرافیہ نویسوں نے تسلیم کیا ہے کہ مسیحی کیلنڈر میں غلطی ہوگئی ہے چنانچہ آرچ بشپ اشرز h2](USHERS) ga[t نے اپنی کتاب علم تاریخ (CHRONOLGY) میں اور ڈاکٹر کٹو (KITTO) نے اپنی کتاب >ڈیلی بائبل السٹریشنز ILLUSTRATIONS) BIBLE (DAILY میں ثابت کیا ہے کہ جو تاریخی مسیحی کیلنڈر میں واقعہ صلیب کی دی گئی ہے وہ غلط ہے اور یہ غلطی ۵۲۷ میں لگی ہے۔
۵۔
الفاروق جلد دوئم صفحہ ۲۰۳۔ ۲۰۴ )ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز پبلشرز کشمیری بازار لاہور(
۶۔
سورۃ الرحمن آیت ۵ پارہ ۲۷۔
۷۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہوnsk1] g[ta تقویمنا الشمسی )از محب الدین خطیب( صفحہ ۱۰ تا ۱۵۔ )ناشر المطبعہ السلفیہ ومکتبتھا قاہرہ ۱۳۴۶ھ۔
۸۔
تاریخ سلطنت خدادا )میسور( صفحہ ۴۹۹۔ ۵۰۰ مولفہ محمود خاں محمود بنگلوری ناشر پبلشرز یونائیٹڈ لاہور طبع چہارم ۱۹۴۷ء۔
۹۔
سیرروحانی )تقریر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ فرمودہ ۲۸۔ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۹۹` ۱۰۱۔
۱۰۔
الفضل قادیان ۲۶۔ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۱۱۔
تقویمنا الشمسی صفحہ ۱۷ )از محب الدین الخطیب( ناشر المطبعہ السلفیہ و مکتبتھا القارہرہ ۱۳۴۶ھ۔
۱۲۔
تقویمنا الشمسی صفحہ ۱۷۔
۱۳۔
حضرت مولوی صاحبؓ نے ۲۔ ماہ تبلیغ/ فروری ۱۳۱۹ہش/ ۱۹۴۰ء کے الفضل میں اپنے مضمون کے بعض الفاظ کی اصلاح کی تھی جس کے مطابق متن میں بھی ترجیم و تصحیح کر دی گئی ہے۔ )ناقل( سید محمد سرور شاہ صاحب ایم اے بیان کے مطابق حضرت مولوی صاحب نے ان دنوں کئی ضخیم کتابوں سے استفادہ کیا۔ جس کا ذکر حضرت مصلح موعود کی خدمت میں کیا اور حضور نے شرف بار یابی بخشا۔
۱۴۔
ان دنوں خلیفہ صلاح الدین صاحب ناظم نشر و اشاعت تھے۔
۱۵۔
الفضل ۴ ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش۔ الفضل ۵۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش۔
۱۶۔
۸۔ اکتوبر ۱۸۸۳ء کو بمقام حمزہ )تحصیل امرتسر( پیدا ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف خواجہ کمال الدین صاحب کی کوٹھی )واقع برانڈرتھ روڈ لاہور( میں مئی ۱۹۰۸ء میں حاصل کیا۔ اگست ۱۹۱۰ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے دست مارک پر بیعت کی۔
۱۷۔
دونوں کتابچے میسرز فورٹین کیلنڈر پبلشر کوارٹر نمبر ۱۶ بلاک جی ٹمپل روڈ لاہور نے شائع کئے۔ آپ نے ایک معلومات افزا کتاب تطبیقات لدنیہ کے نام سے بھی لکھی ہے جس میں نہایت تحقیق کے ساتھ سن ۱ھ سے ۱۴۰۰ھ کی تقویم سنہ عیسوی کے ساتھ درج کی ہے۔ مگر یہ کتاب ابھی شائع نہیں ہوئی۔
۱۸۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ مبارک کے بیعت رجسٹر میں آپ کا نام ۱۹۲ نمبر پر درج ہے۔
۱۹۔
ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۸۱۲` ۸۱۳۔
۲۰۔
ٹریکٹ ایک نہایت ضروری اعلان صفحہ ۲۱ )شائع کردہ مولوی محمد علی صاحب( مارچ ۱۹۱۴ء۔
۲۱۔
یہ تفصیلات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک مکتوب سے ملتی ہیں جب آپ نے ۱۷۔ دسمبر ۱۹۳۹ء کو قاضی محمد یوسف صاحب )امیر جماعت احمدیہ سابق صوبہ سرحد( کے نام لکھا تھا اور جس میں انہیں تاکید کی تھی کہ وہ مولوی صاحب سے دوبارہ ملیں اور وعدہ یاد دلا کر کوشش فرمائیں کہ آپ تشریف لانے کے لئے تیار ہو جائیں۔
۲۲۔
الفضل ۱۳۔ تبلیغ ۱۳۱۹ ہش/ ۱۳۔ فروری ۱۹۴۰ء۔
‏]1h [tag۲۳۔
الفضل ۱۳۔ تبلیغ ۱۳۱۹ ہش/ ۱۳۔ فروری ۱۹۴۰ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۲۴۔
وادین کے الفاظ تبرکاً حضرت قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ایک مکتوب سے اخذ کئے گئے ہیں )۲۶۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش بنام قاضی محمد یوسف صاحب احمدیہ مسجد پشاور(
۲۵۔
نقل مطابق اصل )اصل مکتوب حضرت سیدہ ام متین صاحبہ کے قلم سے نقل شدہ ہے(
۲۶۔
مکتوب حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بنام قاضی محمد یوسف صاحب پشاور محررہ ۲۷۔ جنوری/ صلح ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش۔
۲۷۔
الفضل ۲۰۔ فروری/ تبلیغ ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔
۲۸۔
الفضل ۲۹۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔ قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی قاضی خیل ہوتی مردان نے تاریخ احمدیہ )سرحد( میں تحریر فرمایا ہے کہ اس دفعہ آپ میری تحریک پر قادیان تشریف لے گئے تھے صفحہ ۲۹۔
۲۹۔
الفضل ۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/۱۳۲۲ہش صفحہ ۳ کالم ۱۔
۳۰۔
الفضل ۲۸۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۰ء۔ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔ اس سفر میں حضرت سیدہ ام ناصر اور صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ بھی حضور کے ہمراہ تھیں۔
۳۱۔
الفضل ۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۲۔
الفضل ۱۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش۔
۳۳۔
الفضل ۲۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۴۔
الفضل ۶۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۵۔
مسند احمد بن حنبل جلد ۴ صفحہ ۴۳ پر حضرت عتبان بن مالک کی یہ روایت درج ہے۔
۳۶۔
الفضل ۶۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔ )کچھ خفیف سے لفظی تغیر کے بعد(
۳۷۔
الفضل ۱۳۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔
۳۸۔
الفضل ۷۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش۔
۳۹۔
الفضل ۲۸۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش۔
۴۰۔
الفضل ۷۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۴۱۔
الفضل ۶۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۲۔
الفضل ۶۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۳۔
الفضل ۲۱۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۴۴۔
ریویو آف ریلیجنز امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۷ تا ۳۱۔
۴۵۔
ریویو آف ریلیجنز امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۳۱۳۔
۴۶۔
کتاب قائداعظم میری نظر میں صفحہ ۲۱۲۔ ۲۱۳۔
۴۷۔
رسالہ نقوش )لاہور( خطوط نمبر ۲ صفحہ ۲۸۱۔ جموں کے ممتاز لیڈر چودھری غلام عباس صاحب نے اپنی کتاب کشمکش میں لکھا ہے کہ جن دنوں نواب بہادر یار جنگ کی وفات ہوئی قائداعظم سرینگر میں فروکش تھے۔ میں نے نواب صاحب کی وفات کے المناک حادثہ کی اطلاع دی تو پانچ منٹ کے بعد قائداعظم نے فرمایا کہ غالباً پہلی دفعہ مجھے کسی کی موت سے اتنا شدید صدمہ ہوا ہے پھر نواب صاحب کی خوبیاں بیان کیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد مرحوم کی بیگم کو بذریعہ تار پیغام تعزیت بھجوایا۔ )کشمکش صفحہ ۲۴۷ ناشر اردو اکیڈیمی لوہاری دروازہ لاہور(
۴۸۔
مکتوب جناب سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآبادی )بنام مولف تاریخ احمدیت( مرقومہ ۱۹۔ ہجرت/ مئی ۱۹۶۶ء/ ۱۳۴۵ہش از سی// ۴۲ ہوزنگ کالونی اسکندرآباد )ضلع میانوالی(
۴۹۔
)ضلع میانوالی(
۵۰۔
اس کا تذکرہ جلد ہشتم میں ہوچکا ہے۔
۵۱۔
مکتوب سیٹھ محمد اعظم صاحب )بنام مولف تاریخ احمدیت( محررہ ۲۵۔ ہجرت/ مئی ۱۹۶۶ء/۱۳۴۵ہش سی/۴۲ ہوزنگ کالونی اسکندرآباد ضلع میانوالی۔
۵۲۔
فرقہ مہدویہ کے تفصیلی حالات و عقائد کے لئے ملاحظہ ہو رود کوثر صفحہ ۱۹ تا ۲۹ مرتبہ جناب شیخ محمد اکرام صاحب ایم۔ اے شائع کردہ فیروزسنز لاہور۔
۵۳۔
اس مراسلہ سے یہ بات بھی پوری طرح واضح ہے کہ تحریک پاکستان کی کامیابی کا سب سے بڑا راز اس میں مضمر تھا کہ قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی زبردست ذہانت اور فراست سے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر ہر قسم کے نقطہ خیال رکھنے والے مسلمانوں کو جمع کر دیا تھا اور آپ سیاسیات کے میدان میں اختلاف عقائد کا لحاظ نہیں کرتے تھے اور ہر مسلمان کہلانے والے کو مسلم لیگ کے سٹیج پر آکر کام کرنے کا موقعہ دیتے تھے۔
۵۴۔
رسالہ نقوش لاہور خطوط نمبر ۱ صفحہ ۴۸۰۔
۵۵۔
روزنامہ انقلاب لاہور ۲۰۔ مارچ ۱۹۴۰ء۔
۵۶۔
ملاحظہ ہو کتاب انجمن )مولفہ فقیر سید وحید الدین مرحوم( ناشر لائن آرٹ پریس )کراچی( لمیٹڈ فریئر روڈ کراچی طبع اول اپریل ۱۹۶۶ء۔
۵۷۔
مرکز احمدیت قادیان صفحہ ۴۵۴ تا ۴۵۶ مصنفہ شیخ محمود احمد عرفانی ایڈیٹر الحکم قادیان۔
۵۸۔
الفضل مورخہ ۱۶۔ مارچ/ امان ۱۹۴۵ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۶۔
۵۹۔
الفضل مورخہ ۵۔ اپریل/ شہادت ۱۹۴۰ء/۱۱۳۱۹ہش صفحہ ۶ و ۷۔
۶۰۔
الفضل ۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۶۔ ۷۔
۶۱۔
اس خطبہ کے چند ایام بعد اخبار الفضل )۳۰۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش( میں ایک مضمون نکلا جس میں لاہوری فریق کی نسبت سخت الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ اس پر حضرت امیرالمومنینؓ نے ناظر صاحب اعلیٰ کو فوری ارشاد فرمایا کہ باوجود ممانعت کے ایسا کیا گیا ہے۔ اس لئے جب تک انجمن مجھے اس امر کی نسبت تسلی نہ دلائے کہ آئندہ سخت الفاظی نہیں ہوگی میں اخبار کی اشاعت بند کرتا ہوں اس کے بعد جب تک صدر انجمن احمدیہ نے مضامین کی اشاعت میں نرم پالیسی اختیار کرنے کا واضح وعدہ نہیں کرلیا۔ حضور نے اخبار کی اشاعت پر پابندی نہیں اٹھائی۔ )ملاحظہ ہو ریکارڈ نظارت علیا رجسٹر صفحہ ۷ ع۔ م ۱۳۱۹ہش(
۶۲۔
الفضل یکم ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۳ کالم ۱۔ ۲۔
۶۳۔
)حال اسسٹنٹ ایڈیٹر الفضل( حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ان کی نسبت خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ ابھی ایک بچہ ان کے رد میں مضامین لکھ رہا ہے جس کا نام خورشید احمد ہے اور اس وقت لاہور میں رہتا ہے۔ اس کے مضمون ایسے اعلیٰ درجہ کے ہوتے ہیں کہ پہلے میں سمجھتا تھا کہ یہ کوئی بڑی عمر کا آدمی ہے۔ مگر بعد میں معلوم ہوا ہے کہ خاں صاحب مولوی فرزند علی صاحب کا نواسہ ہے اور ۱۷۔ ۱۸ سال عمر ہے )الفضل ۲۶۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش(
۶۴۔
الفضل ۲۵۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۶۵۔
مثلاً خان عبدالحمید خاں صاحب پلیڈر )فرزند حضرت مولانا غلام حسن خاں صاحب پشاوری و داماد ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ مرحوم( خان عبدالمجید خاں صاحب اور خان عبدالوحید خاں صاحب )خاں عبدالحمید خاں صاحب پلیڈر کے خلف الرشید( سید ممتاز علی صاحب سابق مہتمم مہمان خانہ احمدیہ بلڈنگس لاہور۔ )الفضل ۲۶۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲` ۴۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش` ۲۴۔ ہجرت/مئی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش(
۶۶۔
الفضل ۱۷۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۔ ۲۔
۶۷۔
الفضل ۱۸۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔
۶۸۔
الفضل ۱۷۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔
۶۹۔
مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ اہم شہادات مرتبہ مہتمم نشرواشاعت نظارت اصلاح و ارشاد ربوہ۔
۷۰۔
الفضل ۱۵۔ ہجرت/مئی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۵۔
۷۱۔
اسی نام کا ایک ٹریکٹ بھی شائع کیا گیا تھا۔
۷۲۔
اہم شہادات صفحہ ۵ )ناشر مہتمم نشر و اشاعت نظارت اصلاح و ارشاد ربوہ(
۷۳۔
اہم شہادات صفحہ ۱۶۔
۷۴۔
الفضل ۸۔ نومبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۸ کالم ۴۔
۷۵۔
الفضل ۱۵۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش۔
۷۶۔
یہ صاحب خود لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں نے اپنی خصوصیت جتانے کے لئے یہ نرالا ڈھنگ اختیار کیا ہے کہ اپنی بعض دعائوں کی قبولیت اور کچھ خوابوں کی بناء پر عوام کو راغب کرکے انہیں اپنا غلام بنالیتے ہیں۔ شخص مذکور کا رسالہ تعلق باللہ صفحہ ۳ و ۴۔
۷۷۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی یہ فراست حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ یہ صاحب کچھ عرصہ بعد انگلستان چلے گئے جہاں انہوں نے شعار اسلامی کو خیرباد کہہ دیا اور ڈاڑھی منڈوا کر اپنے المسیح الموعود ہونے کی علامت بتانے لگے اور پھر >خاتم النبیین< ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ )مقام شہادت صفحہ ۳۸۔ فصل الخطاب صفحہ ۲۵ مصنفہ خواجہ محمد اسمعیل صاحب(
۷۸۔
ایضاً۔
۷۹۔
الفضل ۱۶۔ جون/ احسان ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۴ تا ۶۔
۸۰۔
الفضل ۱۸۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۳ کالم ۱ و ۲۔
۸۱۔
یہ کوائف الفضل ۲۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش میں شائع شدہ ہیں۔ مگر ڈاکٹر محمد احمد صاحب )ابن حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحبؓ( نے اپنی یہ عینی شہادت لکھی ہے کہ علاج معالجہ کے لئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحبؓ۔ والد محترم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحبؓ اور خاکسار ڈاکٹر محمد احمد کو حضرت میاں صاحب کی کوٹھی پر بلایا گیا۔ ہم تینوں ڈاکٹروں کے مشورے سے علاج شروع ہوا۔ )مکتوبر بنام مولف کتاب تاریخ احمدیت محررہ ۲۷۔ ہجرت/ مئی ۱۹۶۸ء/ ۱۳۴۷ہش(
۸۲۔
الفضل ۲۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱ و الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۳ کالم ۱۔
۸۳۔
‏ PUNCTURE LUMBER اس موقعہ پر ڈاکٹر محمد احمد صاحب نے معاون کی خدمت انجام دی۔
۸۴۔
مکتوب ڈاکٹر محمد احمد صاحب بنام مولف کتاب تاریخ احمدیت محررہ ۲۷۔ ہجرت/ مئی ۱۹۶۸ء۔ ۱۳۴۷ہش۔
۸۵۔
الفضل ۲۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱ کالم ۴۔
۸۶۔
الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ ہش صفحہ ۲ تا ۳۔
۸۷۔
الفضل ۲۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۸۸۔
الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۔
۸۹۔
الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۴۔ ۵۔
۹۰۔
الفضل ۲۵۔وفا/ جولائی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش نیز فاروق ۲۸۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش۔
‏tav.8.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر کبیر )جلد سوم( تک
۹۱۔
الفضل ۷۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ صفحہ ۲` ۹۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ صفحہ ۲` ۱۵۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء` ۱۳۱۹ہش صفحہ۲` ۱۷۔ اگست/ ظہور ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔
۹۲۔
تفصیل تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۳۱۳ تا ۳۲۱ میں گزر چکی ہے۔
۹۳۔
دیکھئے تاریخ احمدیت جلد ہشتم صفحہ ۴۴۵ تا ۴۸۰۔
۹۴۔
الفضل یکم ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۶ کالم ۳۔
۹۵۔
الفضل یکم ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۷ کالم ۲۔
۹۶۔
الفضل یکم ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۷۔ ۸۔
۹۷۔
الفضل ۱۱۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/۱۳۲۳ہش۔
۹۸۔
الفضل یکم مارچ ۱۹۴۵ء/ امان ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ کالم ۱` ۲ )تقریر حضرت مصلح موعودؓ برموقعہ جلسہ سالانہ ۱۳۲۱ہش(
۹۹۔
الفضل ۱۷۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳ کالم ۳۔ ۴۔
۱۰۰۔
الفضل ۳۰۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳ کالم ۴۔
۱۰۱۔
الفضل ۳۰۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۵ کالم ۱ و ۲۔
۱۰۲۔
الفضل ۳۰۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔
۱۰۳۔
ریکارڈ مجلس انصاراللہ۔
۱۰۴۔
الفضل ۲۰۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۶۔
۱۰۵۔
الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۶ کالم ۲۔
۱۰۶۔
الفضل یکم امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۰۷۔
یہ رجسٹر اب تک مجلس انصاراللہ مرکزیہ ربوہ کے ریکارڈ میں موجود ہے۔
۱۰۸۔
حضرت شیخ صاحبؓ کا اصل وطن قصبہ بنوڑ ریاست پٹیالہ تھا۔ پیدائش ۸۸۔ ۱۸۸۷ء میں ہوئی۔ وسط ۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا۔ ۲۶۔ دسمبر ۱۹۱۰ء کو مستقل طور پر ہجرت کرکے قادیان آگئے۔ مولوی عبدالکریم صاحب شرما مبلغ افریقہ آپ ہی کے خلف الرشید ہیں۔ اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۴۱ تا ۶۹ )مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے( میں آپ کے خود نوشت حالات شائع شدہ ہیں۔
۱۰۹۔
الفضل ۱۰۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔
۱۱۰۔
الفضل ۱۰۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔
۱۱۱۔
ریکارڈ مجلس انصار اللہ مرکزیہ۔
۱۱۲۔
ریکارڈ مجلس انصار اللہ مرکزیہ۔ قادیان کے ماحول میں انصار اللہ کی تبلیغی مساعی کی رپورٹیں الفضل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش اور ۱۹۴۵ء/۱۳۲۴ہش میں ملتی ہیں۔
۱۱۳۔ ][ الفضل ۱۷۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴ تا ۸۔
۱۱۴۔
الفضل ۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳ کالم ۲۔ ۳۔
۱۱۵۔
حضرت میر صاحبؓ کا ۱۷۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو وصال ہوگیا اور ان کی جگہ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب قائد مال مقرر کئے گئے۔ )مرتب(
۱۱۶۔
تاریخ وفات ۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۔
۱۱۷۔
نقل مطابق اصل ۱۴۔ دو مرتبہ ہی درج شدہ ہے۔ )ناقل(
۱۱۸۔
سہواً رہ گیا ہے۔ )ناقل(
۱۱۹۔
الفضل مورخہ ۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳ کالم ۲ تا صفحہ ۴ کالم ۲۔
۱۲۰۔
ریکارڈ مجلس انصار اللہ مرکزیہ۔
۱۲۱۔
الفضل ۶۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ ہش صفحہ ۱ و ۲۔
۱۲۲۔
الفضل ۲۶۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش۔
۱۲۳۔
ریکارڈ مجلس انصاراللہ مرکزیہ` رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۶۱ کالم ۱۔
۱۲۴۔
ریکارڈ مجلس انصاراللہ مرکزیہ` رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ صفحہ ۱۸۷۔ رپورٹ میں غلطی سے نام نیاز احمد لکھا گیا ہے۔ آپ کا نام مشاورت ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش کے نمائندوں میں بھی درج ہے۔ )صفحہ ۱۷۱(
۱۲۵۔
ایضاً۔
۱۲۶۔
ریکارڈ مجلس انصار اللہ مرکزیہ` رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۱۷۱ کالم ۳۔
۱۲۷۔
ریکارڈ مجلس انصار اللہ مرکزیہ۔
۱۲۸۔
الفضل ۱۰۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش۔ افسوس انصار اللہ کے مرکزی ریکارڈ اور الفضل دونوں سے اس بارہ میں کوئی رہنمائی نہیں ملتی کہ ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش تک ملک میں کل کتنی اور کہاں کہاں مجالس قائم ہوچکی تھیں۔
۱۲۹۔
حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ صدر مجلس اپنی علالت کے باعث شامل اجتماع نہ ہوسکے تھے۔
۱۳۰۔
الفضل ۲۶۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۔ تفصیلی روئداد الفضل ۱۰۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش میں چھپ گئی تھی۔
۱۳۱۔
حال امیر جماعت احمدیہ ہندوستان۔
۱۳۲۔
الفضل ۲۷۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۳۳۔
یہاں یہ وضاحت کرنا از بس ضروری ہے کہ اخبار مذکور سول اینڈ ملٹری گزٹ کا اصل پرچہ ہمارے مطالعہ میں نہیں آسکا۔ نامہ نگار کے مضمون کے بعض حصوں کا ترجمہ اخبار پیغام صلح مجریہ ۲۱۔ ستمبر و ۸۔ اکتوبر ۱۹۴۰ء نے اپنے گمراہ کن اور مخالفانہ تبصرہ کے ساتھ شائع کیا تھا۔ متن میں مندرجہ اقتباسات اسی ترجمہ ہی سے نقل کئے گئے ہیں۔
۱۳۴۔
پیغام صلح لاہور ۲۱۔ ستمبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۲۔
۱۳۵۔
رسالہ ریویو آف ریلیجنز )اردو( صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲۔
۱۳۶۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ ہش تا شہادت/ اپریل ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۷۔
۱۳۷۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش تا شہادت/ اپریل ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۹۔
۱۳۸۔
ولادت اپریل ۱۹۱۸ء میٹرک ۱۹۳۵ء۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا پھر فارمن کرسچن کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی ۱۹۳۸ء میں جبکہ آپ انڈین سکول آف مائنز دھنباد میں زیر تعلیم تھے حکومت پنجاب نے انہیں سلور جوبلی سکالر شپ ایوراڈ دیا۔
‏27 P: 1987 ۔15 OCTOBER POINT VIEW
‏MARQUIS ۔457 P: WHAT AND ۔KNOWS WHO
۔1954 ۔A۔S۔U ۔11 ۔CHICAGO BUILDING PUBLICATIONS
۱۳۹۔
الفضل ۲۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۵۔
۱۴۰۔
الفضل ۲۵۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۴۱۔
الفضل ۲۵۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔ قبل ازیں اس وفد نے ۶۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو سرینگر کا بھی دورہ کیا۔ وفد کا استقبال کرنے والے معززین میں احمدی صحافی مولوی عبدالواحد صاحب ایڈیٹر اخبار اصلاح )و پریذیڈنٹ کشمیر جرنلسٹس ایسوسی ایشن( بھی شامل تھے۔ وفد نے ۹۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو جماعت احمدیہ کے وفد سے بھی ملاقات کی اور ضروری معلومات حاصل کیں۔ )اخبار اصلاح سرینگر ۱۰۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱ کالم ۳(
۱۴۲۔
ان کے انگریزی الفاظ یہ تھے۔
‏HIM" FOR APPRECIATION AND PRAISE OF "FULL
۱۴۳۔
الفضل ۲۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۵ کالم ۱ و ۲۔
۱۴۴۔
الفضل ۶۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔ نقشہ کی ایک کاپی خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۱۴۵۔
الفضل ۲۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۰۔
۱۴۶۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ ۱۶۹- ۱۷۰۔
۱۴۷۔
الفضل ۱۶۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۶ کالم ۱۔
۱۴۸۔
الفضل ۱۹۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۸ کالم ۱۔
۱۴۹۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔ ۲۔
۱۵۰۔
الفضل ۳۱۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۵ کالم ۱۔
۱۵۱۔
ایضاً۔
۱۵۲۔
الفضل ۱۹۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۸ کالم ۱۔
۱۵۳۔
الفضل ۲۰۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۔ ۲۔ اس پرچہ میں اکالی کانفرنس کی مفصل روئداد شائع شدہ ہے۔
۱۵۴۔
الفضل ۲۱۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔ ۸۔
۱۵۵۔
بحوالہ اخبار الفضل ۶۔ فتح دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ ہش صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۵۶۔
بحوالہ الفضل ۲۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش۔
۱۵۷۔
بحوالہ الفضل ۲۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱۔
۱۵۸۔
بحوالہ الفضل ۸۔ صلح؟ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱۔
۱۵۹۔
اس واقعہ کی تفصیل تاریخ احمدیت جلد ششم )صفحہ ۱۶۹۔ ۱۷۱( میں موجود ہے۔
۱۶۰۔
الفضل یکم احسان/ جون ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ ہش صفحہ ۵۔
۱۶۱۔
بحوالہ الفضل ۲۴۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱ کالم ۳۔ ۴۔
۱۶۲۔
الفضل یکم ماہ احسان/ جون ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔ ۴۔
۱۶۳۔
الفضل ۱۹۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴ کالم ۱۔
۱۶۴۔
اصل بیان میں وادین کے درمیان کوئی لفظ نہیں تھا۔ مگر چونکہ حضرت ام المومنین کی ولادت ۱۸۶۵ء میں ہوئی اس لئے یہاں مرتب کی طرف معین عمر لکھ دی گئی ہے۔
۱۶۵۔
سیرۃ حضرت سیدۃ النساء ام المومنین نصرت جہاں بیگم صفحہ ۱۹۶ تا ۱۹۸ )حصہ دوم( ناشر حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی کبیر حیدرآباد دکن۔ تاریخ اشاعت ۲۵۔ جولائی ۱۹۴۵ء )مطبوعہ انتظامی پریس حیدرآباد دکن(
۱۶۶۔
مرکز احمدیت قادیان صفحہ ۴۶۱ تا ۴۶۳ مولفہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم۔
۱۶۷۔
الفضل ۲۰۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔ آپ قیام پاکستان کے بعد سرگودھا میں آباد ہوگئے تھے اور شہر میں ایک اعلیٰ معالج دندان کی حیثیت سے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ ۲۳۔ ظہور/ اگست ۱۹۶۸ء/ ۱۳۴۷ہش کو آپ کا اسی شہر میں انتقال ہوا اور اگلے روز بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کئے گئے۔ آپ نے گیارہ بچے اپنی یادگار چھوڑے ہیں۔ )الفضل مورخہ ۲۵۔ ۲۷۔ ظہور/ اگست ۱۹۶۸ء/ ۱۳۴۷ہش(
۱۶۸۔
الفضل ۲۷۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۴ کالم ۲۔ ۳۔
۱۶۹۔
ایضاً۔
۱۷۰۔
تاریخ احمدیت جلد ششم صفحہ ۷۸۔
۱۷۱۔
الفضل ۲۴۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش۔
۱۷۲۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش مطبوعہ الفضل ۲۴۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۱۷۳۔
الفضل ۲۱۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۵۔
۱۷۴۔
ابو المنیر مولوی نورالحق صاحب حال پروفیسر جامعہ احمدیہ و منیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین مراد ہیں۔
۱۷۵۔
والد ماجد ابوالمنیر مولوی نورالحق صاحب۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی ہیں۔ آپ کی بیعت ۱۸۹۷ء کی ہے۔ آپ کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی متعدد کتب کی کتابت کا موقعہ ملا اور حضورؓ کو آپ کا خط بہت پسند تھا۔ )تاریخ احمدیت جلد سوم میں بھی آپ کا ذکر آچکا ہے(
۱۷۶۔
تفسیر کبیر جز ششم یعنی تیسویں پارہ کی تفسیر کی کتابت کی ان کو سعادت نصیب ہوئی۔ اب وفات پاچکے ہیں۔
۱۷۷۔
ان تاریخی مسودات کا اکثر و بیشتر حصہ اب بھی خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۱۷۸۔
ابن حضرت قاضی عبدالرحیم صاحبؓ بھٹی۔ آج کل آپ راولپنڈی میں رہتے ہیں۔ عربی طرز قاعدہ یسرنا القرآن میں آپ حضرت پیر منظور محمد صاحب کے شاگرد خاص ہیں۔ حضرت پیر صاحب )معذوری کے بعد( آپ ہی سے قرآن مجید لکھوایا کرتے تھے۔
۱۷۹۔
آپ ہجرت ۱۹۴۷ء کے بعد فیروزوالا ضلع گوجرانوالہ میں رہائش پذیر ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کی کتب کا مکمل سیٹ جو الشرکتہ ¶الاسلامیہ ربوہ نے روحانی خزائن نمبر ۱ کے نام پر شائع کیا ہے آپ ہی نے لکھا ہے۔
۱۸۰۔
ولد محمد حسین صاحب )کاتب بدر و الفضل( ۳۔ جنوری ۱۹۳۱ء سے اخبار الفضل میں کتابت کرتے آرہے ہیں۔
۱۸۱۔
مولوی ابوالمنیر صاحب کا بیان ہے کہ کاتبوں کے متعلق حضور کا خاص طور پر ارشاد تھا کہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا جائے تا کسی کی صحت میں نقص پیدا ہو کر کام میں روک نہ پیدا ہو جائے۔ چنانچہ رات دن ان کاتبوں کو ہر وہ چیز مہیا کی جاتی تھی جس کے وہ عادی تھے اور ہر طرح ان کی دلداری کی جاتی تھی۔
۱۸۲۔
یہ کمرہ دفتر تحریک جدید قادیان کی بالائی منزل میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری سے متصل تھا اور اسی کمرہ میں تفیسر لکھنے والے کاتب کام کرتے تھے۔
۱۸۳۔
الفضل ۱۹۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳ کالم ۱۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس اظہار خوشنودی کی ایک عملی صورت یہ بھی فرمائی کہ قصر خلافت میں انہیں خصوصی طور پر شرف بازیابی بخشا اور اپنے مبارک ہاتھوں سے اپنا ایک چوغہ پہنایا جو اب تک ان کے پاس موجود ہے۔
۱۸۴۔
‏h2] ga[t الفضل ۲۵۔ امان/ مارچ ۱۹۶۶ء/ ۱۳۴۵ہش صفحہ ۵ کالم ۱۔
۱۸۵۔
ضیاء الاسلام پریس اور اللہ بخش سٹیم پریس۔
۱۸۶۔
خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۳۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش مطبوعہ الفضل ۱۷۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔
۱۸۷۔
الفضل ۲۷۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۳ و ۴۔
۱۸۸۔
مورخہ ۴۔ ستمبر ۱۹۰۶ء۔
۱۸۹۔
بدر مورخہ ۶۔ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۳` الحکم ۱۰۔ ستمبر ۱۹۰۶ء صفحہ ۱۔
۱۹۰۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ تفسیر کبیر جلد سوم نہایت ہی تنگ وقت اور عجلت میں طبع ہوئی تھی جس کی وجہ سے سورہ کہف کی آیت ثم بعثناھم لنعلم ای الحزبین احصی لما لبثوا امدا کی تفسیر جو اصل مسودہ میں موجود تھی سہو کتابت سے رہ گئی تھی۔ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۳۳ہش میں جبکہ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعود ڈلہوزی میں قیام فرما تھے مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب نے حضور کی خدمت میں اس امر کا ذکر کیا تو حضور نے دوبارہ اس آیت کی مفصل تفسیر لکھوا دی جسے مولوی صاحب موصوف نے الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۵ء/ ۱۳۳۴ہش صفحہ ۳ مین شائع کرا دیا۔
۱۹۱۔
۲۴۔ ۲۵/ دسمبر کی درمیانی شب مراد ہے۔
۱۹۲۔
رسالہ الفرقان ربوہ۔ فضل عمر نمبر شمارہ فتح/ دسمبر ۱۹۶۵ء/ ۱۳۴۴ہش صفحہ ۶۲۔ ۶۳۔
۱۹۳۔
اس کا سرورق حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا تجویز کردہ ہے جس کا اصل کاغذ خلافت لائبریری کے ریکارڈ میں اب تک محفوظ ہے۔
۱۹۴۔
الفضل ۲۰۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۹۵۔
الفضل ۱۶۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔ )تقریر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ(
۱۹۶۔
یاد رہے کہ انفرادی طور پر جن احمدیوں نے تفسیر کبیر کی اشاعت میں نمایاں حصہ لیا ان میں سرفہرست چودھری محمد ظفراللہ خان صاحب اور دوسرے نمبر پر سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآبادی تھے۔
۱۹۷۔
ایضاً۔
۱۹۸۔
الفضل ۱۵۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۹۹۔
الفضل ۱۵۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۰۰۔
مورخہ ۲۸۔ امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش۔
۲۰۱۔
یہ کرنیل بھی تھے )الفضل ۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۵۹ء/ ۱۳۳۸ہش صفحہ ۷ کالم ۱۔
۲۰۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت منعقدہ ۳۰۔ ۳۱۔ مارچ/ امان و یکم شہادت/ اپریل ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳۹۔ ۴۰۔
۲۰۳۔
الفضل ۱۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۵۶ء/ ۱۳۳۵ہش صفحہ ۳ کالم ۴۔
۲۰۴۔
الفضل ۱۶۔ صلح ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲۔ ۳۔
۲۰۵۔
معترضین نے ان دنوں تفسیر کبیر پر اعتراضات شائع کئے۔ ان کے جواب میں مندرجہ ذیل علماء نے قلم اٹھایا اور نہایت مدلل مضامین شائع کئے۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس` مولانا ابوالعطاء صاحب` مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب` مولانا محمد شریف صاحب فاضل مبلغ بلاد عربیہ` مولانا ابوالمنیر صاحب کا جواب الفضل میں کئی قسطوں میں شائع ہوا۔ جس پر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے گھبرا کر یہ تبصرہ کیا کہ قادیانی پارٹی نے اس کے جواب میں ایک سلسلہ مضمون بظاہر ایک نوجوان کے نام سے شروع کیا ہوا ہے۔ )ہفت روزہ اہلحدیث ۲۸۔ نومبر ۱۹۴۱ء صفحہ ۴(
۲۰۶۔
حال پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ و ناظر تعلیم صدر انجمن احمدیہ ربوہ۔
۲۰۷۔
فہرست کا پورا نام تفسیر کیر جلد ۳ تالیف منیف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ کا انڈیکس ناشر جماعت احمدیہ لاہور۔
۲۰۸۔
تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۱۴۵۔ تفسیر کبیر )سورۃ الفجر( صفحہ ۴۸۳۔ ۴۸۴۔
۲۰۹۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ یکم ہجرت/ مئی ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش لغایت۔ ۳۰۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش مرتبہ چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے ناظر اعلیٰ ناشر صدر انجمن احمدیہ قادیان صفحہ ۸۔
۲۱۰۔
ان سب جلدوں کی کتابت مکرم قاضی نور محمد صاحب کاتب مرحوم نے کی۔
۲۱۱۔
ان نوٹوں کے سنانے کی سعادت مکرم ابوالمنیر نورالحق صاحب کو ملی۔
۲۱۲۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں تفسیر کبیر )پارہ عم( کی پہلی تین جلدیں دفتر تحریک جدید نے شائع کیں مگر چوتھی جلد ام طاہرؓ طاہر ٹرسٹ کے لئے الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ کی نگرانی میں طبع ہوئی۔
۲۱۳۔
‏h2] g[ta )اقتباس از مکتوب حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ محررہ ۳۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش۔
۲۱۴۔
اس جلد کی کتابت مکرم منشی عبدالحق صاحب نے کی۔ صرف آخری ایک رکوع مکرم قاضی نور محمد صاحب نے لکھا۔
۲۱۵۔
یہ پریس تحریک جدید نے انجمن سے خرید لیا تھا۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۸۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/۱۳۲۳ہش کی تقریر میں فرمایا۔ دو مہینے کی بات ہے کچھ کاپیاں ایک پریس پر لگائی گئیں تو وہ سب کی سب اڑ گئیں۔ اب میں نے تحریک جدید کی طرف سے ایک پریس خرید لیا ہے ار دس ہزار روپیہ اس پر صرف آیا ہے۔ انشاء اللہ جنوری میں فٹ ہوکر تفسیر کی چھپوائی شروع ہو جائے گی۔ )الفضل ۲۵۔ صلح ۱۳۲۴ہش )۲۵۔ جنوری ۱۹۴۵ء( صفحہ ۲ کالم ۳(
۲۱۶۔
الفضل یکم امان/ مارچ ۱۹۴۵ء/۱۳۲۴ہش صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۱۷۔
تفسیر کبیر کی یہ پانچوں جلدیں )باستثناء سورۃ مریم( حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ کے درسوں اور نوٹوں سے مرتب ہوئیں اور حضور نے مکرم مولوی محمد یعقوب صاحب مرحوم اور ابوالمنیر نورالحق صاحب سے ان نوٹوں کو سنا اور ان میں تصحیح و ترمیم فرمائی۔
۲۱۸۔
تفسیر کبیر جلد ششم جزو چہارم نصف اول سورۃ الفجر صفحہ ۴۸۴۔ ۴۵۸۔
۲۱۹۔
الفضل ۱۱۔ وفا/ جولائی ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش )تقریر فرمودہ سالانہ جلسہ ۱۹۴۵ء/۱۳۲۴ہش(
۲۲۰۔
تفسیر کبیر )سورۃ مریم( صفحہ ۳۲۲۔ ۳۲۳۔
۲۲۱۔
تفسیر کبیر )سورۃ الشعراء( صفحہ ۴۸۳ کالم ۱۔
۲۲۲۔
بطور مثال ملاحظہ ہو سورہ یوسف کی تفسیر۔
۲۲۳۔
تفسیر کبیر جلد سوم۔
۲۲۴۔
تفسیر کبیر )سورۃ الفجر( صفحہ ۵۲۹۔
۲۲۵۔
تفسیر کبیر )سورۃ الفجر( صفحہ ۵۴۸۔
۲۲۶۔
تفسیر کبیر )سورۃ الفلق( صفحہ ۱۸۹ کالم ۲۔
۲۲۷۔
تفسیر کبیر )سورۃ النمل( صفحہ ۱۴۸۔
۲۲۸۔
تفسیر کبیر )سورۃ الانبیاء( صفحہ ۵۷۶ تا ۵۷۹۔
۲۲۹۔
تفسیر کبیر )سورۃ التطفیف( صفحہ ۳۰۷۔
۲۳۰۔
تفسیر کبیر جلد سوم )سورۃ ابراہیم( صفحہ ۴۴۴ کالم ۲۔
۲۳۱۔
مجلتہ الجامعہ ربوہ شمارہ ۹ صفحہ ۶۳۔ ۶۴۔ ۶۵۔
۲۳۲۔
ان لاجواب مضامین کا مجموعہ ملاحظات نیاز فتح پوری کے نام سے اس سال زیر طبع ہے جو مولوی محمد اجمل صاحب ایم اے شاہد مربی سلسلہ احمدیہ کراچی نے مرتب کیا ہے اور ناصر بک سنٹر فیڈرل بازار کراچی نمبر ۳۸ کی طرف سے شائع ہوگا۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔ )یہ سطور ماہ نبوت ۱۳۴۷ہش کے آغاز میں لکھی جارہی ہیں۔ مرتب(
۲۳۳۔
الفضل ۱۷۔ نومبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۳ کالم ۴۔
۲۳۴۔
مجلہ الجامعہ ربوہ شمارہ ۹ صفحہ ۶۳۔ ۶۴۔ ۶۵۔
۲۳۵۔
تاریخ ولادت ۱۵۔ ستمبر ۱۹۱۷ء۔ ۶۵۔ ۱۹۶۴ء/ ۴۴۔ ۱۳۴۳ہش میں عثمانیہ یونیورسٹی سے بی۔ ایڈ کی تکمیل کی۔ ۲۶۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۶۶ء/ ۱۳۴۵ہش کو صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کی تحریک پر مستقل طور پر قادیان ہجرت کرکے آگئے۔ ۳۔ ہجرت/ مئی ۱۹۶۸ء/ ۱۳۴۷ہش کو حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثالث حضرت حافظ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر صدر انجمن احمدیہ کے مشیر قانونی مقرر کئے گئے اور اب تک اسی منصب پر فائز ہیں۔ اس کے علاوہ حضور ایدہ اللہ کی اجازت سے صلح/ جنوری ۱۹۶۸ء/ ۱۳۴۷ہش سے مشرقی پنجاب میں وکالت بھی کررہے ہیں۔
۲۳۶۔
بحوالہ الفضل ۵۔ ہجرت/ مئی ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش۔
۲۳۷۔
بحوالہ الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۶۲ء/ ۱۳۴۱ہش صفحہ ۳ و ۴۔
۲۳۸۔
الفضل ۲۴۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۴۔۵۔
۲۳۹۔
الفضل مورخہ ۱۴۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲۲ و ۲۳۔
۲۴۰۔
خطبہ کا عنوان تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت کے متعلق خداتعالیٰ آنحضرت~صل۱`~ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خود مولوی محمد علی صاحب کی شہادت۔ )الفضل ۱۸۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۳(
۲۴۱۔
پیغام صلح ۱۲۔ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۲۴۲۔
الفضل ۲۶۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۶۔
۲۴۳۔
الفضل ۱۶۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴ کالم ۴۔
۲۴۴۔
الفضل ۲۶۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۶ کالم ۳ و ۴۔
۲۴۵۔
پیغام صلح ۸۔ اگست ۱۹۴۱ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۲۴۶۔
الفضل ۱۴۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲۳۔
۲۴۷۔
اخبار پیغام صلح ۲۱۔ نومبر ۱۹۴۱ء صفحہ ۵ کالم ۱۔
۲۴۸۔
الفضل ۱۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۵۔۶۔
۲۴۹۔
پیغام صلح ۸۔ دسمبر ۱۹۴۱ء صفحہ ۵ کالم ۱۔ ۲۔
۲۵۰۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعودؑ پر قادیان میں ہجرت کرکے آنے والے احمدیوں کی نسبت الہام ہوا اصحاب الصفہ وما ادرک ما اصحاب الصفہ تری اعینھم تفیض من الدمع یصلون علیک اس الہام کی تشریح حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے قلم سے یہ فرمائی کہ خداتعالیٰ نے انہی اصحاب الصفہ کو تمام جماعت میں سے پسند کیا اور جو شخص سب کو چھوڑ کر اس جگہ آکر آباد نہیں ہوتا اور کم سے کم یہ تمنا دل میں نہیں رکھتا اس کی حالت کی نسبت مجھ کو بڑا اندیشہ ہے کہ وہ پاک کرنے والے تعلقات میں ناقص نہ رہے اور یہ ایک پیشگوئی عظیم الشان ہے اور ان لوگوں کی عظمت ظاہر کرتی ہے کہ جو خداتعالیٰ کے علم میں تھے کہ وہ اپنے گھروں اور وطنوں اور املاک کو چھوڑ دیں گے اور میری ہمسائیگی کے لئے قادیان میں آکر بودوباش رکھیں گے۔ )تریاقالقلوب طبع اول صفحہ ۶۰(
۲۵۱۔
الفضل ۲۱۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۵` ۶` ۷۔
۲۵۲۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں۔ مولوی صاحب کے یہ الفاظ جب شائع ہوئے تو یہاں کے لوگوں نے ان کے خلاف احتجاج کے لئے جلسہ کرنا چاہا اور مجھ سے اس کے لئے اجازت طلب کی۔ مگر میں نے کہا۔ ہرگز نہیں یہ حملہ تم پر ہوا ہے۔ پس یہ بات وقار کے خلاف ہے کہ تم ہی اس کا جواب بھی دو۔ رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے کہ مومن مومن بھائی ہوتے ہیں جب ایک پر حملہ ہو تو دوسرے کو تکلیف پہنچتی ہے۔ اس وقت باہر کی جماعتوں کے اخلاص کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس کا جواب دیں اور تم چپ رہو۔ ہاں جب ان پر حملہ ہو تو اس وقت تمہارا فرض ہے کہ جواب دو۔ )الفضل ۱۶۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵(
۲۵۳۔
الفضل ۱۶۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵۔
۲۵۴۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۳۔
۲۵۵۔
الفضل ۱۶۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴۔
۲۵۶۔
الفضل ۱۶۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴۔
۲۵۷۔
الفضل ۱۴۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۵۸۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۴۔
۲۵۹۔
آپ ۱۷۔ اکتوبر ۱۹۵۱ء سے ۶۔ اگست ۱۹۵۵ء تک پاکستان کے گورنر جنرل رہے۔
۲۶۰۔
گورنر بنک دولت پاکستان۔
۲۶۱۔
پہلے سرگودھا ڈویژن کے کمشنر رہے۔ اس کے بعد ملتان ڈویژن کے کمشنر بنے اور اب ریونیو بورڈ حکومت مغربی پاکستان کے ممبر ہیں۔ )روزنامہ الفضل قادیان یکم صلح/ جولائی ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش(
۲۶۲۔
الفضل ۲۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۶۳۔
الفضل ۶۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۔
۲۶۴۔
الفضل ۱۲۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۴۔
۲۶۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۷۸۔
۲۶۶۔
الفضل ۱۲۔ امان/ مارچ ۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۴۔ ۵۔
۲۶۷۔
ایضاً۔
۲۶۸۔
الفضل ۱۵۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۶۔
۲۶۹۔
الفضل ۱۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۳۔
۲۷۰۔
الفضل ۱۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲` الفضل ۲۲۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۴۔
۲۷۱۔
کتابچہ واذ الصحف نشرت صفحہ ۳۳` ۳۴ مرتبہ مکرم عبدالعظیم صاحب درویش قادیان منیجر احمدیہ بکڈپو قادیان۔
۲۷۲۔
الفضل ۱۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۷۳۔
الفضل ۱۰۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۷۴۔
آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۶۲۲۔
۲۷۵۔
ملاحظہ ہو اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بعنوان جلسہ احباب صفحہ ۳۰۶ )روحانی خزائن نمبر ۱ جلد ۱۲( نوٹ۔ تبلیغرسالت جلد ششم میں جلسہ احباب کے مہمانوں کی فہرست حذف کر دی گئی ہے۔
۲۷۶۔
اصحاب احمد جلد سیز دہم صفحہ ۸۸ )مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے(
۲۷۷۔
الفضل ۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۔
۲۷۸۔
الفضل ۱۲۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۷۹۔
مزید تفصیل حضرت ماسٹر عبدالرئوف صاحب کا مضمون ¶مطبوعہ الحکم ۷` ۲۱۔ اپریل ۱۹۳۹ء میں ملاحظہ ہو۔
۲۸۰۔
الفضل ۱۶۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۸۱۔
الفضل ۲۰۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔ تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۷۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۴ تا ۶` نیز الفضل ۱۹۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۲۸۲۔
الفضل ۱۰۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۲۸۳۔
الفضل ۴۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔
۲۸۴۔
الفضل ۵۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۲۸۵۔
الفضل ۳۰۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔
۲۸۶۔
الفضل ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۲۸۷۔
۲۵۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۸۸۔
الفضل ۳۰۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔
۲۸۹۔
لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۸۷ مولفہ مولانا شیخ عبدالقادر صاحبؓ ) فاضل سوداگر مل( طابع و ناشر شیخ عبدالشکور صاحب مسجد احمدیہ بیرون دہلی دروازہ لاہور )حال مکان نمبر ۵ گلی نمبر ۲۰ سلطان پورہ جناح پارک لاہور(
۲۹۰۔
حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام مولف براہین احمدیہ کے مختصر حالات مشمولہ براہین احمدیہ بار چہارم صفحہ ف۔
۲۹۱۔
لاہور تاریخ احمدیت صفحہ ۹۱ پر آپ کی بیعت کا یہ اندازہ درج ہے کہ آپ نے حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغلؓ سے آٹھ دن پہلے کی تھی مگر یہ صحیح نہیں ہے وجہ یہ کہ حضرت میاں عبدالعزیز صاحب مغلؓ کی تاریخ بیعت ۱۰۔ جنوری ۱۸۹۲ء ہے۔ )ملاحظہ ہو بیعت کا قدیم رجسٹر(
۲۹۲۔
یہ مسجد محلہ پختہ باغ کے چوک میں واقع تھی۔
۲۹۳۔
الفضل ۲۰۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۶ کالم ۳۔ ۴۔
۲۹۴۔
الفضل ۲۲۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۹۵۔
الفضل ۸۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۹۶۔
الفضل ۸۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۹۷۔
الفضل ۸۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۹۸۔
ان کی بیعت کا ذکر الحکم ۲۴۔ اگست ۱۹۰۲ء صفحہ ۱۶ کالم ۲ میں موجود ہے۔
۲۹۹۔
الحکم ۷۔ ۲۸۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱۹۔ ۲۰` الحکم ۷۔ ۲۸۔ احسان/ جون ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۸ میں آپ کا مفصل حالات شائع ہوچکے ہیں۔
۳۰۰۔
الفضل ۲۴۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۰۱۔
۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں آپ کا نام نامی ۵۲ نمبر پر درج ہے۔
۳۰۲۔
رجسٹر روایات صحابہ جلد ۳ صفحہ ۱۳۴۔
۳۰۳۔
رجسٹر روایات صحابہ جلد سوم صفحہ ۱۳۵۔
۳۰۴۔
اس خط کا چربہ اگلے صفحہ پر دیا گیا ہے۔
۳۰۵۔
الفضل ۲۴۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۰۶۔
الفضل ۱۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۴۔
۳۰۷۔
الفضل ۲۶۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔
۳۰۸۔
الفضل ۱۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۶۔
۳۰۹۔
الفضل ۱۲۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۱۰۔
الفضل ۲۸۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۱۱۔
الفضل ۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۱۲۔
الفضل ۹۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۱۳۔
۲۵۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔ شیخ عطا محمد صاحب نے تین بیٹے اپنی یادگار چھوڑے۔
)۱( شیخ اعجاز احمد صاحب۔ )۲( شیخ امتیاز احمد صاحب۔ )۳( شیخ مختار احمد صاحب۔
۳۱۴۔
الفضل ۲۵۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۱۵۔
پہلے آپ کا نام عبدالرب تھا جو حضرت خلیفہ ثانیؓ نے ایک رویاء کی بناء پر بدل دیا اور یہ نیا نام رکھا۔ ۰الفضل ۲۴۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱(
۳۱۶۔
الفضل ۲۴۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۳۱۷۔
الفضل ۱۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش۔
۳۱۸۔
الفضل ۱۹۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش۔
۳۱۹۔
الفضل ۲۸۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش۔
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۳۲۰۔
الفضل ۱۰۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۲۱۔
الفضل ۱۴۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۸۔ ۹۔
۳۲۲۔
الفضل ۱۰۔ جنوری/ صلح ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش۔
۳۲۳۔
الفضل ۱۴۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۲۴۔
الفضل ۱۳۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۔
۳۲۵۔
الفضل ۲۵۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔ ۴۔
۳۲۶۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو فاروق ۱۴۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۳۔ ۴۔
۳۲۷۔
الفضل ۲۷۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔
۳۲۸۔
فاروق قادیان ۲۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۸۔
۳۲۹۔
الحکم ۱۴/ ۷ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۳۰۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ یہ توسیع میعاد کی صورت نہیں تھی بلکہ اسی عہدہ پر پانچ سال کے لئے دوبارہ تقرر تھا۔
۳۳۱۔
انقلاب لاہور )۱۴۔ مارچ ۱۹۴۰ء( بحوالہ الفضل ۱۵۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش۔
۳۳۲۔
الفضل ۲۴۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۳۳۳۔
یہ وہی ملک غلام محمد صاحب ہیں جو قیام پاکستان کے بعد پہلے مرکزی حکومت کے وزیر خزانہ رہے پھر گورنر جنرل کے عہدہ پر ممتاز ہوئے۔
۳۳۴۔
فاروق ۲۸۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔
۳۳۵۔
الفضل ۲۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۳۳۶۔
الفضل ۱۲۔ مئی/ ہجرت ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۶۔ یہ مسجد انڈین کارپوریشن لمیٹڈ کے افسروں نے کمپنی کے خرچ پر بنوا کر دی تھی۔
۳۳۷۔
الفضل ۲۱۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲` الفضل ۲۳۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش۔
۳۳۸۔
الفضل ۲۵۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۳۳۹۔
الفضل ۵۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۳۴۰۔
الفضل ۵۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۳۴۱۔
الفضل ۵۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۳۴۲۔
الفضل ۲۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۴ کالم۳۔
۳۴۳۔
اہلحدیث ۳۔ شعبان المعظم ۱۳۵۹ہجری مطابق ۶۔ ستمبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۸۔
۳۴۴۔
الفضل ۱۵۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۴۵۔
الفضل ۱۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۔
۳۴۶۔
الفضل ۱۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۴۷۔
الفضل ۲۹۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۳۴۸۔
الفضل ۶` ۱۶۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۴۹۔
الفضل ۱۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔ )حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب نے خصوصاً بہت معاونت فرمائی(
۳۵۰۔
الفضل ۱۴۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔ ۴۔
۳۵۱۔
الفضل ۳۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۴۔
۳۵۲۔
الفضل ۱۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۵۔
۳۵۳۔
الفضل ۱۶۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۷ کالم ۲۔
۳۵۴۔ ][ الفضل ۱۷۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۵۵۔
دیباچہ مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے صفحہ ۱ و ۲۔
۳۵۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۵۳ و ۱۵۴۔
۳۵۷۔
آپ کی وفات پر جن بزرگان سلسلہ نے تعزیت نامے لکھے۔ ان میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان و امریکہ` حضرت مولوی محمد دین صاحب ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول` ملک خدابخش صاحب جنرل سیکرٹری جماعت احمدیہ لاہور` ملک عبدالرحمن صاحب خادم` پیر اکبر علی صاحب ایم۔ بی۔ ای` ایم۔ ایل۔ اے ایڈووکیٹ فیروزپور اور میر محمد بخش صاحب پلیڈر امیر جماعت احمدیہ گوجرانوالہ کے اسماء قابل ذکر ہیں۔ مرحوم کا جنازہ بھی میر محمد بخش صاحب نے پڑھایا تھا۔
۳۵۸۔
ملاحظہ ہو مضمون ملک مبارک احمد خاں صاحب ایمن آبادی مطبوعہ الفضل ۳۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۷ کالم ۲۔
۳۵۹۔
اتھرووید کانڈ نمبر ۲۰ سوکت ۵۰ منتر ۱۔ ۲ نیز سوکت ۶۷ منتر ۱۔ ۲۔ ۳` سوکت ۱۱۵ منتر ۱` سوکت نمبر ۱۳۷ منتر ۷` سوکت ۹۷ منتر ۳` سوکت نمبر ۷۳ منتر ۶۔
۳۶۰۔
‏]2h [tag الفضل ۱۲۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲۔
۳۶۱۔
بلدیہ گڑھ ضلع پوری اڑیسہ میں بابو بیراگی چرن مصر صاحب نے جلسہ عام میں تسلیم کیا کہ وید میں احمد اور قادیان کا ذکر ہے مگر ساتھ ہی عذر کیا کہ ابھی کلجگ پورا نہیں ہوا تو اوتار کیسے آسکتا ہے۔ )الفضل ۱۲۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۳( پروفیسر عبداللہ ناصر الدین صاحب نے الفضل )۱۸۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش میں یہ جواب دیا کہ حضرت کرشن نے گیتا میں خود ہی فیصلہ فرما دیا ہے کہ لبھوای یگے یگے یعنی کرشن یگ کے دوران میں آتا ہے نہ کہ یگ کے خاتمہ پر! )اس سلسلہ میں پروفیسر صاحب کے ایک اہم مضمون کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۱۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۳ تا ۵(
۳۶۲۔
حضرت میر صاحب نے اپنے دیباچہ میں لکھا میرے نزدیک یہ بحث ہمارے نقطہ نگاہ سے کوئی اصولی بحث نہیں ہے اگر اتھرو وید میں احمد کا نام یا قادیان کا لفظ ثابت نہ ہو تو اس سے ہمیں کوئی نقصان نہیں۔ قادیان کی اہمیت یا احمد کی صداقت خود ان کے وجود سے ظاہر ہورہی ہے۔ اگر اتھرو ویدان کے ذکر سے خالی ہو تو کیا مضائقہ؟ لیکن اگر یہ دونوں نام اتھرووید میں ثابت ہو جائیں تو آریوں پر بے شک یہ بڑی حجت ہے کیونکہ اگر ان کی الہامی کتاب احمد کے ذکر اور قادیان کے نام پر مشتمل ہو تو ان کا فرض ضرور ہے کہ وہ ان کی صداقت کے قائل ہو جائیں۔ )رسالہ ویدوں میں احمد اور قادیان صفحہ ۲۔ ۳(
۳۶۳۔
الفضل ۹۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۶۔
۳۶۴۔
الفضل ۳۱۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۶۔
۳۶۵۔
الفضل ۱۹۔ جون/ احسان ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۲` ایضاً الفضل ۲۶۔ احسان/ جون ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۵۔
۳۶۶۔
‏h2] g[ta الفضل ۲۵۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۶ و ۷۔
۳۶۷۔
الفضل ۱۰۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۵ کالم ۴۔
۳۶۸۔
الفضل ۱۰۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۵ کالم ۱ و ۲۔
۳۶۹۔
الفضل ۹۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۶۔
۳۷۰۔
الفضل ۲۳۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۵ کالم ۲۔ ۳۔
۳۷۱۔
عبدالرحمن صاحب مغل سیکرٹری تبلیغ حلقہ دہلی دروازہ لاہور نے اس مباحثہ کی مفصل روئیداد ۲۹۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش میں شائع کرا دی تھی۔
۳۷۲۔
ولادت ۲۰۔ اپریل ۱۸۹۲ء۔ ۱۶۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش سے اخبار الفضل کی ادارت کے فرائض ادا کررہے ہیں۔ آپ کی تالیفات صور اسرافیل )ابتدائی دینی نظموں کا مجموعہ( >اسلام میں ارتداد کی سزا< اس کے علاوہ >الامام المہدی< اور >الجہاد< کے عنوان سے آپ کے معرکتہ الاراء مضامین رسالہ ریویو آف ریلیجنز اردو میں شائع ہوئے۔
۳۷۳۔
ان کا نام سکینہ بی بی ہے۔
۳۷۴۔
الفضل ۱۵۔ امان/ مارچ ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۴۔ ۵۔
۳۷۵۔
الفضل ۲۱۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش صفحہ ۱۲ کالم ۲۔
‏tav.8.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
اشاعت احمدیت کی خصوصی تحریک سے واقعہ ڈلہوزی تک
دوسرا باب )فصل اول(
اشاعت احمدیت کی خصوصی تحریک سے لے کر
واقعہ ڈلہوزی تک
خلافت ثانیہ کا اٹھائیسواں سال
)ذی الحجہ ۱۳۵۹ھ جنوری ۱۹۴۱ء/ صلح ۱۳۲۰ہش تا ذی الحجہ ۱۳۶۰ھ دسمبر ۱۹۴۱ء/ فتح ۱۳۲۰ہش(
‏]ydob [tag
صحابہ کرام کو اشاعت احمدیت کے لئے سرگرم عمل ہونے کی تحریک
۳۔جنوری ۱۹۴۱ء/ صلح ۱۳۲۰ہش کو سال کا پہلا جمعہ تھا جس کے خطبہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے سال نو کا پروگرام رکھتے ہوئے صحابہ مسیح موعودؑ کو تلقین فرمائی کہ وہ احمدیت کی عمارت کو دنیا میں مضبوط و مستحکم بنانے کے لئے ہر ممکن جدوجہد سے کام لیں۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>ہر دن اور ہر رات ہمیں موت کے قریب کرتی جارہی ہے اور صحابیوں کے بعد جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دیکھا یہ کام تابعین کے ہاتھ میں اور پھر ان کے بعد تبع تابعین کے ہاتھوں میں جائے گا۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ آئندہ احمدی ہونے والے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو نہیں دیکھا وہ یہ تو کہہ سکیں کہ ہم نے آپ کے دیکھنے والوں کو دیکھا یا یہ کہ آپ کے دیکھنے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا۔ پس جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دیکھا ان کی زندگیاں بہت قیمتی ہیں اور جتنا کام وہ کرسکتے ہیں دوسرے نہیں کرسکتے` اس لئے ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ مرنے سے قبل احمدیت کو مضبوط کردیں تا دنیا کو معلوم ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحابہ نے ایسی محنت سے کام کیا کہ احمدیت کو دنیا میں پھیلا کر مرے<۔۱
حضرت امیرالمومنینؓ کا خطاب خدام الاحمدیہ کے تیسرے سالانہ اجتماع پر
خدام الاحمدیہ کا تیسرا سالانہ اجتماع ۶۔ فروری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش کو مسجد اقصیٰ میں منعقد ہوا۔۲ جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے نماز ظہر
کے بعد ایک نہایت ایمان افروز خطاب فرمایا اور نوجوانان احمدیت کوخاص طورپر اسطرف توجہ دلائی کہ۔
>۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے بھیجا ہے کہ اپنی زندگیوں میں اسلامی تعلیم کا کامل نمونہ پیش کرکے` توڑ دو اس تہذیب اور تمدن کی عمارت کو جو اس وقت دنیا میں اسلام کے خلاف کھڑی ہے` ٹکڑے ٹکڑے کردو اس قلعہ کو جو شیطان نے اس میں بنالیا ہے اسے زمین کے ساتھ لگا دو بلکہ اس کی بنیادیں تک اکھیڑ کر پھینک دو اور اس کی جگہ وہ عمارت کھڑی کرو جس کا نقشہ محمد رسول اللہ~صل۱~ نے دنیا کو دیا ہے۔ یہ کام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا تھا اور اس کام کی اہمیت بیان کرنے کے لئے کسی لمبی چوڑی تقریر کی ضرورت نہیں ہر انسان سمجھ سکتا ہے کہ دنیا کے جس گوشہ میں ہم جائیں` دنیا کی جس گلی میں سے ہم گزریں` دنیا کے جس گائوں میں ہم اپنا قدم رکھیں وہاں ہمیں جو کچھ اسلام کے خلاف نظر آتا ہے اپنے نیک نمونہ سے اسے مٹاکر اس کی جگہ ایک ایسی عمارت بنانا جو قرآن کریم کے بنائے ہوئے نقشہ کے مطابق ہو ہمارا کام ہے۔ پس تم سمجھ سکتے ہو کہ تمہارا چلن اور تمہارا طور اور تمہارا طریق ¶اسی وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منشا کو پورا کرنے والا ہوسکتا ہے جبکہ تم دنیا میں خدانما وجود بنو اور اسلام کی اشاعت کے لئے کفر کی ہر طاقت سے ٹکر لینے کے لئے تیار رہو<۔۳
سفر سندھ
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ اس سال بھی سندھ تشریف لے گئے۔ حضور ۲۱۔ اپریل/ شہادت۴ کو روانہ ہوئے اور ۲۱۔ مئی/ ماہ ہجرت کو واپس قادیان دارلامان میں تشریف لائے۔۵ حضور اس سفر کے دوران ۴۔ مئی ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش کو معہ اہل بیت بذریعہ کار ناصرآباد سے کراچی تشریف لے جارہے تھے کہ پتھورو اسٹیشن کے راستہ میں کار کو ایک خطرناک حادثہ پیش آیا۔ مگر حضور معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔۶
حضرت امیرالمومنینؓ کی آل انڈیا ریڈیو سٹیشن سے حالات عراق کی نسبت تقریر
دوسری جنگ عظیم کے دوران مشہور مسلم مملکت عراق کو ایک نئی مصیبت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں شیخ رشید علی جیلانی اور ان کے ساتھیوں
نے شورش برپا کردی جس پر مسلمانان عالم نے سخت نفرت و حقارت کا اظہار کیا۔ شیخ رشید علی کے طرز عمل سے نازی طاقتوں کی حوصلہ افزائی ہوئی اور عالم اسلام کے مقدس ترین مقامات خطرہ میں گھر گئے۔ ان حالات میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خاموش رہنا گوارا نہ فرمایا اور ۲۵۔ مئی ۱۹۹۴۱ء/ ہجرت ۱۳۲۰ہش کو آٹھ بجکر پچاس منٹ پر لاہور ریڈیو سٹیشن سے >عراق کے حالات پر تبصرہ< کے عنوان سے ایک اہم تقریر فرمائی جسے دہلی اور لکھنو کے سٹیشنوں نے بھی نشر کیا۔ اس تقریر کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
‏body] ga>[tعراق کی موجودہ شورش دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے بھی اور ہندوستانیوں کے لئے بھی تشویش کا موجب ہورہی ہے۔ عراق کا دارالخلافہ بغداد اور اس کی بندرگاہ بصرہ اور اس کے تیل کے چشموں کا مرکز موصل ایسے مقامات ہیں جن کے نام سے ایک مسلمان بچپن ہی سے روشناس ہو جاتا ہے۔ بنو عباس کی حکومت علوم و فنون کی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے طبعاً مسلمانوں کے لئے خوشکن یادگار ہے لیکن الف لیلہ جو عربی علوم کی طرف توجہ کرنے والے بچوں کی بہترین دوست ہے اس نے تو بغداد اور بصرہ اور موصل کو ان سے اس طرح روشناس کر رکھا ہے کہ آنکھیں بند کرتے ہی بغداد کے بازار اور بصرہ کی گلیاں اور موصل کی سڑکیں ان کے سامنے اس طرح آکھڑی ہوتی ہیں گویا کہ انہوں نے ساری عمر انہی میں بسر کی ہے۔ میں اپنی نسبت تو یہاں تک کہہ سکتا ہوں کہ بچپن میں بغداد اور بصرہ مجھے لنڈن اور پیرس سے کہیں زیادہ دلکش نظر آیا کرتے تھے کیونکہ اول الذکر میرے علم کی دیواروں کے اندر بند تھے اور ثانی الذکر میری قوت واہمہ کے ساتھ تمام عالم میں پرواز کرتے نظر آتے تھے۔ جب ذرا بڑے ہوئے تو علم حدیث نے امام احمد بن حنبل~رح~ کو فقہ نے امام ابوحنیفہ~رح~ اور امام یوسف~رح~ کو تصوف نے جنید` شبلی اور سید عبدالقادر جیلانی~رح~ کو تاریخ نے` عبدالرحمن بن قیم~رح~ کو علم تدریس نے نظام الدین طوسی~رح~ کو ادب نے` مبرو~رح~۔ سیبویہ~رح~۔ جریر~رح~ اور فرزدق~رح~ کو سیاست نے ہارون۔ مامون اور ملک شاہ جیسے لوگوں کو جو اپنے اپنے دائرہ میں یادگار زمانہ تھے اور ہیں ایک ایک کرکے آنکھوں کے سامنے لاکر اس طرح کھڑا کیا کہ اب تک ان کے کمالات کے مشاہدہ سے دل امید سے پر ہیں اور افکار بلند پروازیوں میں مشغول۔
ان کمالات کے مظہر اور دلکشیوں کے پیدا کرنے والے عراق میں فتنہ کے ظاہر ہونے پر مسلمانوں کے دل دکھے بغیر کس طرح رہ سکتے ہیں` کیا ان ہزاروں بزرگوں کے مقابر جو دینوی نہیں روحانی رشتہ سے ہمارے ساتھ منسلک ہیں ان پر بمباری کا خطرہ ہمیں بے فکر رہنے دے سکتا ہے؟ عراق سنی اور شیعہ دونوں کے بزرگوں کے مقدس مقامات کا جامع ہے۔ وہ مقام کے لحاظ سے بھی اسلامی دنیا کے قلب میں واقع ہے۔ پس اس کا امن ہر مسلمان کا مقصود ہے۔ آج وہ امن خطرہ میں پڑ رہا ہے اور دنیا کے مسلمان اس پر خاموش نہیں رہ سکتے اور خاموش نہیں ہیں۔ دنیا کے ہر گوشہ کے مسلمان اس وقت گھبراہٹ ظاہر کررہے ہیں اور ان کی یہ گھبراہٹ بجا ہے کیونکہ وہ جنگ جس کے تصفیئے کی افریقہ کے صحراء میڈیٹیرینین کے سمندر میں امید کی جاتی تھی اب وہ مسلمانوں کے گھروں میں لڑی جائے گی۔ اب ہماری مساجد کے صحن اور ہمارے بزرگوں کے مقابر کے احاطے اس کی آماجگاہ بنیں گے اور یہ سب کو معلوم ہو ہے کہ جرمنوں نے جن ملکوں پر قبضہ جما رکھا ہے ان کی کیا حالت ہورہی ہے۔ اگر شیخ رشید علی جیلانی اور ان کے ساتھی جرمنی سے ساز باز نہ کرتے تو اسلامی دنیا کے لئے یہ خطرہ پیدا نہ ہوتا۔
اس فتنہ کے نتیجہ میں ٹرکی گر گیا ہے ایران کے دروازہ پر جنگ آگئی ہے` شام جنگ کا راستہ بن گیا ہے` عراق جنگ کی آماجگاہ ہوگیا ہے افغانستان جنگ کے دروازہ پر آکھڑا ہوا ہے اور سب سے بڑا خطرہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ وہ مقامات جو ہمیں ہمارے وطنوں ہماری جانوں اور ہماری عزتوں سے بھی زیادہ عزیز ہیں جنگ ان کی مین سرحد تک آگئی ہے۔ وہ بے فصیلوں کے مقدس مقامات` وہ ظاہری حفاظت کے سامانوں سے خالی جگہیں جن کی دیواروں سے ہمارے دل لٹک رہے ہیں اب بمباروںں اور جھپٹانی طیاروں کی زد میں ہیں اور یہ سب کچھ ہمارے ہی چند بھائیوں کی غلطی سے ہوا ہے کیونکہ ان کی اس غلطی سے پہلے جنگ ان مقامات مقدسہ سے سینکڑوں میل پرے تھی۔
ان حالات میں ہر مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اس فتنہ کو اس کی ابتداء میں ہی دبا دینے کی کوشش کرے۔ ابھی وقت ہے کہ جنگ کو پرے دھکیل دیا جائے کیونکہ ابھی تک عراق اور شام میں جرمنی اور اٹلی کی فوجیں کسی بڑی تعداد میں داخل نہیں ہوئیں۔ اگر خدانخواستہ بڑی تعداد میں فوجیں یہاں داخل ہوگئیں تو یہ کام آسان نہ رہے گا۔ جنگ کی آگ سرعت کے ساتھ عرب کے صحراء میں پھیل جائے گی۔
اس فتنہ کا مقابلہ شیخ رشید علی صاحب یا مفتی یوروشلم کو گالیاں دینے سے نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں غدار کہہ کر ہم اس آگ کو نہیں بجھا سکتے۔ میں شیخ رشید صاحب کو نہیں جانتا لیکن مفتی صاحب کا ذاتی طور پر واقف ہوں۔ میرے نزدیک وہ نیک نیت آدمی ہیں اور ان کی مخالفت کی یہ وجہ نہیں کہ ان کو جرمنی والوں نے خرید لیا ہے بلکہ ان کی مخالفت کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ جنگ عظیم میں جو وعدے اتحادیوں نے عربوں سے کئے تھے وہ پورے نہیں کئے گئے۔ ان لوگوں کو برا کہنے سے صرف یہ نتیجہ نکلے گا کہ ان کے واقف اور دوست اشتعال میں آجائیں گے کیونکہ جب کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اپنے تجربے کی بناء پر دیانتدار سمجھتا ہے تو جب کوئی اس دوسرے شخص پر بددیانتی کا الزام لگائے تو خواہ جس فعل کی وجہ سے بددیانتی کا الزام لگایا گیا ہے برا ہی کیوں نہ ہو چونکہ اس پہلے شخص کے نزدیک وہ فعل بددیانتی کے باعث سے نہیں ہوتا وہ اس الزام کی وجہ سے جسے وہ غلط خیال کرتا ہے اس دوسرے مجرم شخص سے ہمدردی کرنے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے افعال میں شریک ہو جاتا ہے۔ پس ان ہزاروں` لاکھوں لوگوں کو جو عالم اسلامی میں شیخ رشید اور مفتی یوروشلم سے حسن ظنی رکھتے ہیں ٹھوکر اور ابتلاء سے بچانے کے لئے ہمارا فرض ہے کہ اس نازک موقع پر اپنی طبائع کو جوش میں نہ آنے دیں اور جو بات کہیں اس میں صرف اصلاح کا پہلو مدنظر ہو اظہار غصب مقصود نہ ہو تاکہ فتنہ کم ہو بڑھے نہیں۔ یاد رہے کہ اس فتنہ کے بارہ میں اس قدر سمجھ لینا کافی ہے کہ شیخ رشید علی صاحب اور ان کے رفقاء کا یہ فعل اسلامی ملکوں اور اسلامی مقدس مقامات کے امن کو خطرہ میں ڈالنے کا موجب ہوا ہے۔ ہمیں ان کی نیتوں پر حملہ کرنے کا نہ حق ہے اور نہ اس سے کچھ فائدہ ہے۔ اس وقت تو مسلمانوں کو اپنی ساری طاقت اس بات کے لئے خرچ کر دینی چاہئے کہ عراق میں پھر امن ہو جائے اور یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ مسلمان جان اور مال سے انگریزوں کی مدد کریں اور اس فتنہ کے پھیلنے اور بڑھنے سے پہلے ہی اس کے دبانے میں ان کا ہاتھ بٹائیں تاکہ جنگ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ سے دور رہے اور ترکی` ایران` عراق اور شام اور فلسطین اس خطرناک آگ کی لپٹوں سے محفوظ رہیں۔ یہ وقت بحثوں کا نہیں کام کا ہے` اس وقت ہر مسلمان کو چاہئے کہ اپنے ہمسایوں کو اس خطرہ سے آگاہ کرے جو عالم اسلام کو پیش آنے والا ہے تاکہ ہر مسلمان اپنا فرض ادا کرنے کے لئے تیار ہو جائے اور جو قربانی بھی اس سے ممکن ہو اسے پیش کردے۔ جنگ کے قابل آدمی اپنے آپ کو بھرتی کے لئے پیش کریں اور روپیہ والے لوگ روپیہ سے اہل دین` اہل قلم اپنی علمی قوتوں کو اس خدمت میں لگا دیں اور جس سے اور کچھ نہیں ہوسکتا وہ کم سے کم دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس جنگ سے اسلامی ملکوں کو محفوظ رکھے اور ہمارے جن بھائیوں سے غلطی ہوئی ہے ان کی آنکھیں کھول دے کہ وہ خود ہی پشیمان ہو کر اپنی غلطی کا ازالہ کرنے میں لگ جائیں۔
میرے نزدیک عراق کا موجودہ فتنہ صرف مسلمانوں کے لئے تازیانہ تنبیہہ نہیں بلکہ ہندوستان کی تمام اقوام کے لئے تشویش اور فکر کا موجب ہے کیونکہ عراق میں جنگ کا دروازہ کھلنے کی وجہ سے جنگ ہندوستان کے قریب آگئی ہے اور ہندوستان اب اس طرح محفوظ نہیں رہا جس طرح کہ پہلے تھا۔ جو فوج عراق پر قابض ہو عرب یا ایران کی طرف سے آسانی سے ہندوستان کی طرف بڑھ سکتی ہے۔ پس ہندوستان کی تمام اقوام کو اس وقت آپس کے جھگڑے بھلا کر اپنے ملک کی حفاظت کی خاطر برطانوی حکومت کی امداد کرنی چاہئے کہ یہ اپنی ہی امداد ہے۔ شاید شیخ رشید علی جیلانی کا خیال ہو کہ سابق عالمگیر جنگ میں عربوں کو یقین دلایا گیا تھا کہ ایک متحد عرب حکومت کے قیام میں ان کی مدد کی جائے گی مگر ہوا یہ کہ عرب جو پہلے ترکوں کے ماتحت کم سے کم ایک قوم تھے اب چار پانچ ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ بے شک انگریزوں نے عراق کو ایک حد تک آزادی دی ہے مگر عربوں نے بھی سابق جنگ میں کم قربانیاں نہ کی تھیں۔ اگر اس غلطی کے ازالہ کا عہد کرلیا جائے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ سب اسلامی دنیا متحد ہوکر اپنے علاقوں کو جنگ سے آزاد رکھنے کی کوشش کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس جنگ کے بعد پولینڈ اور زیکوسلویکیہ کی آزادی ہی کا سوال حل نہیں ہونا چاہئے بلکہ متحدہ عرب کی آزادی کا بھی سوال حل ہو جانا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شام فلسطین اور عراق کو ایک متحد اور آزاد حکومت کے طور پر ترقی کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ انصاف اس کا تقاضا کرتا ہے<۔۷
اخبار >ریاست< دہلی کا تبصرہ
یہ نشری تقریر ملک کے مختلف حلقوں میں بہت پسند کی گئی۔۸ چنانچہ دہلی کے کے مشہور سکھ اخبار >ریاست< ۲۔ جون ۱۹۴۱ء نے اس پر حسب ذیل الفاظ میں تبصرہ کیا۔
>غلام اقوام اور غلام ممالک کے کیریکٹر کا سب سے کمزور پہلو یہ ہوتا ہے کہ ان کے افراد اخلاقی سچائی اور جرات سے محروم ہو جاتے ہیں اور چاپلوسی جھوٹ خوشامد اور بزدلی کی سپرٹ ان میں نمایاں ہو جاتی ہے۔ عراق کا رشید علی برطانوی حکومت یا برطانوی رعایا کے نقطہ نگاہ سے غلطی پر ہو یا اس کا برطانیہ سے جنگ کرنا غیر مناسب ہو مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ شخص اپنے ملک کی سیاسی آزادی کے لئے لڑرہا ہے اور اس کو کسی قیمت پر بھی اپنے ملک کا غدار یا ٹریٹر قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مگر ہمارے غلام ملک کے والیان ریاست اور لیڈروں کا کیریکٹر دیکھئے جو والی ریاست عراق کے متعلق تقریر کرتا ہے رشید علی کو غدار کہہ کر پکار رہا ہے اور جو لیڈر جنگ کے متعلق بیان دیتا ہے سب سے پہلے وہ رشید علی کو ٹریٹر۹ قرار دیتا ہے اور پھر اپنے بیان کی بسم اللہ کرتا ہے۔ اور ان والیان ریاست اور لیڈروں کا کیریکٹر غلامی کے باعث اس قدر پست ہے کہ یہ غلط خوشامد اور چاپلوسی کو ہی ملک یا حکومت کی خدمت سمجھ رہے ہیں۔ ہمارے والیان ریاست اور لیڈروں کی اس احمقانہ خوشامد کی موجودگی میں قادیان کی احمدی جماعت کے پیشوا کی اخلاقی جرات آپ کا بلند کیریکٹر اور آپ کی صاف بیانی دلچسپی اور مسرت کے ساتھ محسوس کی جائے گی جس کا اظہار آپ نے پچھلے ہفتہ اپنی ریڈیو کی ایک تقریر میں کیا<۔۱۰
دوسرا باب )فصل دوم(
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی کا وصال
۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش میں جن جلیل القدر صحابہ نے انتقال کیا ان میں سب سے ممتاز اور سب سے قدیم اور انتہائی پاک نفس بزرگ حضرت منشی ظفراحمد صاحب کپورتھلوی تھے جنہوں نے ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ کی بیعت اولیٰ کے موقعہ پر حضرت منشی اروڑا صاحب کے بعد بیعت کا شرف حاصل کیا اور ساری عمر سلسلہ احمدیہ کی نہایت درجہ عاشقانہ اور والہانہ خدمات بجالانے کے بعد ۲۰۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ظہور ۱۳۲۰ہش۱۱ کی صبح کو انتقال فرما گئے۔
جماعت احمدیہ کی کوئی تاریخ آپ کے تذکرہ کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی۔۱۲ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۱۳ اصحاب کی فہرست میں آپ کا نام نمبر ۹ پر درج فرمایا۔۱۳ علاوہ ازیں حضور علیہ السلام کی کتب اشتہارات اور مکتوبات میں آپ کا ذکر ملتا ہے۔ مثلاً >ازالہ اوہام< میں آپ کی نسبت حسب ذیل تعریفی کلمات موجود ہیں۔
>حبی۱۴ فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب۔ یہ جوان صالح` کم گو اور خلوص سے بھرا دقیق فہم آدمی ہے` استقامت کے آثار دانوار اس میں ظاہر ہیں۔ وفاداری کی علامات وامارات اس میں پیدا ہیں۔ ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور اس سے لذت اٹھاتا ہے۔ اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب پر تمام مدار حصول فیض کا ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیرتیں ان میں پائی جاتی ہیں۔ جزاھم اللہ خیرالجزاء<۔۱۵
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ دسمبر ۱۹۳۷ء میں بیمار ہوئے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۵۔ دسمبر ۱۹۳۷ء کو ان کے فرزند شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کپورتھلہ۱۶ کو اپنے قلم مبارک سے ایک مکتوب میں لکھا کہ۔
>منشی صاحب کی بیماری کی خبر سے افسوس ہوا` آپ یہ کام ضرور کریں کہ بار بار پوچھ پوچھ کر ان سے ایک کاپی میں سب روایات حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق لکھوا لیں۔ اس میں تاریخی اور واعظانہ امور سب ہی قسم کی ہوں۔ یعنی صرف ملفوظات ہی نہ ہوں بلکہ سلسلہ کی تاریخ اور حضور علیہ السلام کے واقعات تاریخی بھی ہوں۔ یہ آپ کے لئے ثواب اور ان کے لئے بہترین یادگار اور سلسلہ کے لئے ایک کارآمد سامان ہوگا۔ والسلام۔
خاکسار
مرزا محمود احمد )خلیفتہ المسیح الثانی(
۳۷۔ ۱۲۔ ۱۵
محترم شیخ محمد احمد صاحب نے اپنے آقا کے اس ارشاد کی تکمیل میں ۱۶۔ دسمبر ۱۹۳۷ء سے روایات تحریر کرنا شروع کر دیں۔ حضرت منشی صاحبؓ جو واقعات لکھاتے آپ انہی کے الفاظ میں اور اسی ترتیب سے قلمبند کرتے گئے۔ حضرت منشی صاحبؓ نے قریب¶ا سوا سو نہایت روح پرور روایات۱۷ لکھوائیں۔ اس سلسلہ کی آخری روایت یہ تھی کہ-
>حضور میں یہ ایک خاص بات ہم نے دیکھی کہ اگر معترض کے پاس اعتراض کرنے کے لئے کافی الفاظ نہ ہوتے تھے تو حضور اس کو اظہار مدعا میں مدد دیتے تھے۔ حتیٰ کہ معترض سمجھتا کہ اب جواب نہیں ہوسکے گا پھر حضور جب جواب دیتے تو سماں بندھ جاتا<۔
جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر یہ روایت درج کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں کہ۔
>۶۔ اگست ۱۹۴۱ء کو عاجز نے مندرجہ بالا روایات لکھیں اور اس روایت کے بعد کہ >حضور میں یہ ایک خاص بات میں نے دیکھی< عرض کیا کہ کچھ اور لکھوائیں۔ والد صاحب نے نہایت دردمندانہ الفاظ میں آبدیدہ ہوکر فرمایا۔ >محمد احمد! ہمیں خداتعالیٰ کے فضل سے ایسی خاص الخاص خدمات کا موقع ملا ہے کہ ہم تو وہ باتیں اب بیان بھی نہیں کرسکتے<۔ روایات کے متعلق آپ کے یہ آخری الفاظ تھے جو بعد میں مضمون کو ختم کرنے والے ثابت ہوئے کیونکہ اس کے بعد روایات لکھنے کا عاجز کو موقع نہیں ملا۔ ۱۳۔ اگست ۱۹۴۱ء کو آپ بیمار ہوگئے۔ ۱۹۔ اگست ۱۹۴۱ء کو بہت کمزور ہوچکے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۔ اگست ۱۹۴۱ء کو صبح ۴/۱ ۶ بجے آپ اپنے محبوب حقیقی سے جاملے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون<۔
حضرت منشی صاحبؓ کی بیان فرمودہ یہ سب روایات پہلی بار ریویو آف ریلیجنز اردو )جنوری ۱۹۴۲ء/ صلح ۱۳۲۱ہش( میں چھپیں۔ بعد ازاں ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے نے ان کو >اصحاب احمد< کی چوتھی جلد میں بھی شائع کردیا۔
حضرت امیرالمومنینؓ کی زبان مبارک سے حضرت منشی ظفراحمد صاحبؓ اور کپورتھلہ کے دوسرے عشاق احمدیت کامفصل تذکرہ
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی کی رحلت جماعت احمدیہ کے لئے ایک بہت بڑا قومی المیہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۲۔ ماہ ظہور ۱۳۲۰ہش
)۲۲۔ اگست ۱۹۴۱ء( کو ایک مفصل خطبہ ارشاد فرمایا جس کے شروع میں ان کے جنازہ کی نسبت فرمایا کہ۔
>اس ہفتہ جماعت کو ایک نہایت ہی درد پہنچانے والا اور تکلیف میں مبتلا کرنے والا واقع پیش آیا ہے یعنی منشی ظفر احمد صاحبؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ابتدائی صحابہ میں سے ایک تھے وہ اس ہفتہ میں فوت ہوگئے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ میں اس وقت ڈلہوزی میں تھا جب ان کی نعش یہاں لائی گئی اور میں اس جنازہ میں جو ان کی لاش پر پڑھا گیا شامل نہیں ہوسکا۔ مجھے ایسے وقت میں اطلاع ہوئی جبکہ میں کل صبح ہی آسکتا تھا۔ پہلے تو میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ تار دوں کہ جنازہ کو اس وقت تک روک لیا جائے جب تک میں نہ پہنچ جائوں لیکن گرمی کی وجہ سے اور اس خیال سے کہ کہیں اس عرصہ تک روکنے سے نعش کو نقصان نہ پہنچے میں نے تار دینا مناسب نہ سمجھا اور اس بات کو مقامی لوگوں پر چھوڑ دیا کہ اگر نعش رہ سکتی ہے تو وہ میرا انتظار کریں گے کیونکہ انہیں علم ہے کہ میں آنے والا ہوں اور اگر مناسب نہ ہوا تو وہ انتظار نہیں کریں گے۔ چنانچہ جب میں یہاں پہنچا تو مجھے معلوم ہوا کہ پرسوں رات ہی انہیں دفن کیا جاچکا ہے۔ سو میں جمعہ کے بعد ان کا جنازہ پڑھوں گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس حد تک یہاں کے لوگوں کو اس جنازہ کا علم ہوا اور وہ کس حد تک اس میں شامل ہوئے لیکن بہرحال جو لوگ ان کے جنازہ میں شامل نہیں ہوسکے تھے اب ان کو بھی موقع مل جائے گا اور جو لوگ شامل ہوچکے ہیں انہیں دوبارہ دعا کا موقعہ مل جائے گا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں لوگوں کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے ابتدائی ایام میں آپ پر ایمان لائے` آپ سے تعلق پیدا کیا اور ہر قسم کی قربانیاں کرتے ہوئے اس راہ میں انہوں نے ہزاروں مصیبتیں اور تکلیفیں برداشت کیں ان کی وفات جماعت کے لئے کوئی معمولی صدمہ نہیں ہوتا۔ میرے نزدیک ایک مومن کو اپنی بیوی اپنے بچوں اپنے باپ اپنی ماں اور اپنے بھائیوں کی وفات سے ان لوگوں کی وفات کا بہت زیادہ صدمہ ہونا چاہئے اور یہ واقعہ تو ایسا ہے کہ دل اس کا تصور کرکے سخت دردمند ہوتا ہے کیونکہ منشی ظفر احمد صاحبؓ ان آدمیوں میں سے آخری آدمی تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ ابتدائی ایام میں اکٹھے رہے اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ یہ رتبہ پنجاب کی دو ریاستوں کو ہی حاصل ہوا۔ پٹیالہ میں میاں عبداللہ صاحبؓ سنوری کو خداتعالیٰ نے یہ رتبہ دیا اور کپورتھلہ میں منشی اروڑے خان صاحبؓ` عبدالمجید خان صاحب کے والد منشی محمد خان صاحبؓ اور منشی ظفر احمد صاحبؓ کو یہ رتبہ ملا۔ یہ چار آدمی تھے جن کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ دعویٰ ماموریت اور بیعت سے بھی پہلے کے تعلقات تھے اور اس قسم کے خادمانہ تعلقات تھے کہ ایک منٹ کے لئے بھی دور رہنا برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ پس ایسے لوگوں کی وفات ایک بہت بڑا اور اہم مسئلہ ہوتا ہے اور ان لوگوں کے لئے دعا کرنا ان پر احسان کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے اوپر احسان ہوتا ہے<۔۱۸
ازاں بعد حضور نے حضرت منشی عبداللہ صاحبؓ سنوری` حضرت منشی روڑے خان صاحبؓ` حضرت منشی محمد خان صاحبؓ اور حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کے بلند مقام کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے والہانہ اخلاص و فدائیت کے متعدد واقعات بیان کئے۔ چنانچہ فرمایا۔
>وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی زمانہ میں خدمات کی ہیں ایسی ہستیاں ہیں کہ جو دنیا کے لئے ایک تعویذ اور حفاظت کا ذریعہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ جو خداتعالیٰ کے انبیاء کا قرب رکھتے ہیں` خداتعالیٰ کے نبیوں اور اس کے قائم کردہ خلفاء کے بعد دوسرے درجہ پر دنیا کے لئے امن اور سکون کا باعث ہوتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ بڑے لیکچرار ہوں` یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ خطیب ہوں` یہ ضروری نہیں کہ ایسے لوگ پھر پھر کر لوگوں کو تبلیغ کرنے والے ہوں ان کا وجود ہی لوگوں کے لئے برکتوں اور رحمتوں کا موجب ہوتا ہے اور جب کبھی خداتعالیٰ کی طرف سے بندوں کی نافرمانی کی وجہ سے کوئی عذاب نازل ہونے لگتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس عذاب کو روک دیتا ہے اور کہتا ہے ابھی اس قوم پر مت نازل ہو کیونکہ اس میں ہمارا ایسا بندہ موجود ہے جسے اس عذاب کی وجہ سے تکلیف ہوگی۔ پس اس کی خاطر دنیا میں امن اور سکون ہوتا ہے۔ مگر یہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ایمان لائے یہ تو اس عام درجہ سے بھی بالا تھے۔ ان کو خدا نے آخری زمانہ کے مامور اور مرسل کا صحابی اور پھر ابتدائی صحابی بننے کی توفیق عطا فرمائی اور ان کی والہانہ محبت کے نظارے ایسے ہیں کہ دنیا ایسے نظارے صدیوں میں بھی دکھانے سے قاصر رہے گی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے وہ نظارہ نہیں بھولتا اور نہیں بھول سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وفات پر ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ ایک دن باہر سے مجھے کسی نے آواز دے کر بلوایا اور خادمہ یا کسی بچہ نے بتایا کہ دروازہ پر ایک آدمی کھڑا ہے اور وہ آپ کو بلارہا ہے میں باہر نکلا تو منشی روڑے خاں صاحب مرحومؓ کھڑے تھے۔ وہ بڑے تپاک سے آگے بڑھے مجھ سے مصافحہ کیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے اپنی جیب سے دو یا تین پائونڈ نکالے اور مجھے کہا کہ یہ اماں جان کو دے دیں اور یہ کہتے ہی ان پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ وہ چیخیں مار کر رونے لگ گئے اور ان کے رونے کی حالت اس قسم کی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے بکرے کو ذبح کیا جارہا ہے۔ میں کچھ حیران سا رہ گیا کہ یہ رو کیوں رہے ہیں۔ مگر میں خاموش کھڑا رہا۔ انتظار کرتا رہا کہ وہ خاموش ہوں تو ان سے رونے کی وجہ دریافت کروں۔ اس طرح وہ کئی منٹ تک روتے رہے۔ منشی روڑے خاں صاحب مرحومؓ نے بہت ہی معمولی ملازمت سے ترقی کی تھی۔ پہلے کچہری میں وہ چپڑاسی کا کام کرتے تھے` پھر اہل مد کا عہدہ آپ کو مل گیا۔ اس کے بعد نقشہ نویس ہوگئے۔ پھر اور ترقی کی تو سررشتہ دار ہوگئے اس کے بعد ترقی پاکر نائب تحصیلدار ہوگئے اور پھر تحصیلدار بن کر ریٹائر ہوئے۔ ابتداء میں ان کی تنخواہ دس پندرہ روپے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
جب ان کو ذرا صبر آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ روئے کیوں ہیں۔ وہ کہنے لگے۔ میں غریب آدمی تھا۔ مگر جب بھی مجھے چھٹی ملتی قادیان آنے کے لئے چل پڑتا تھا۔ سفر کا بہت سا حصہ میں پیدل ہی طے کرتا تھا تاکہ سلسلہ کی خدمت کے لئے کچھ پیسے بچ جائیں مگر پھر بھی روپیہ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہو جاتا۔ یہاں آکر جب میں امراء کو دیکھتا کہ وہ سلسلہ کی خدمت کے لئے بڑا روپیہ خرچ کررہے ہیں تو میرے دل میں خیال آتا کہ کاش میرے پاس بھی روپیہ ہو اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں چاندی کا تحفہ لانے کی بجائے سونے کا تحفہ پیش کروں۔ آخر میری تنخواہ کچھ زیادہ ہوگئی )اس وقت ان کی تنخواہ شاید بیس پچیس روپیہ تک پہنچ گئی تھی( اور میں نے ہر مہینے کچھ رقم جمع کرنی شروع کر دی اور میں نے اپنے دل میں یہ نیت کی کہ جب یہ رقم اس مقدار تک پہنچ جائے گی جو میں چاہتا ہوں تو میں اسے پونڈوں کی صورت میں تبدیل کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پھر کہنے لگے کہ میرے پاس ایک پونڈ کے برابر رقم جمع ہوگئی۔ پھر وہ رقم دے کر میں نے ایک پونڈ لے لیا۔ پھر دوسرے پونڈ کے لئے رقم جمع کرنی شروع کر دی اور جب کچھ عرصہ کے بعد اس کے لئے رقم جمع ہوگئی تو دوسرا پونڈ لے لیا۔ اس طرح آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کرکے انہیں پونڈوں کی صورت میں تبدیل کرتا رہا اور میرا منشا یہ تھا کہ میں یہ پونڈ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کروں گا۔ مگر جب میرے دل کی آرزو پوری ہوگئی اور پونڈ میرے پاس جمع ہوگئے تو یہاں تک وہ پہنچے تھے کہ پھر ان پر رقت کی حالت طاری ہوگئی اور آخر روتے روتے انہوں نے اس فقرہ کو اس طرح پورا کیا کہ جب پونڈ میرے پاس جمع ہوگئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوگئی۔ یہ اخلاص کا کیسا شاندار نمونہ ہے کہ ایک شخص چندے بھی دیتا ہے قربانیاں بھی کرتا ہے۔ مہینہ میں ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بلکہ تین تین دفعہ جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان پہنچ جاتا ہے۔ سلسلہ کے اخبار اور کتابیں بھی خریدتا ہے۔ ایک معمولی سی تنخواہ ہوتے ہوئے جبکہ آج اس تنخواہ سے بہت زیادہ تنخواہیں وصول کرنے والے اس قربانی کا دسواں بلکہ بیسواں حصہ بھی قربانی نہیں کرتے اس کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ امیر لوگ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سونا پیش کرتے ہیں تو میں ان سے پیچھے کیوں رہوں۔ چنانچہ وہ ایک نہایت ہی قلیل تنخواہ میں سے ماہوار کچھ رقم جمع کرتا اور ایک عرصہ دراز تک جمع کرتا رہتا ہے` نامعلوم اس دوران میں اس نے اپنے گھر میں کیا کیا تنگیاں برداشت کی ہوں گی` کیا کیا تکلیفیں تھیں جو اس نے خوشی سے جھیلی ہوں گی محض اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اشرفیاں پیش کرسکے۔ مگر جب اس کی خواہش پورا کرنے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی حکمت اس کو اس رنگ میں خوشی حاصل کرنے سے محروم کر دیتی ہے جس رنگ میں وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا۔
میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ منشی روڑے خاں صاحب مرحومؓ فرمایا کرتے تھے کہ بعض غیر احمدی دوستوں نے کہا کہ تم ہمیشہ ہمیں تبلیغ کرتے رہتے ہو فلاں جگہ مولوی ثناء اللہ صاحب آئے ہوئے ہیں تم بھی چلو اور ان ¶کی باتوں کا جواب دو۔ منشی روڑے خاں صاحب مرحومؓ کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے۔ دوران ملازمت میں ہی انہیں پڑھنے لکھنے کی جو مشق ہوئی وہی انہیں حاصل تھی۔ وہ کہنے لگے جب ان دوستوں نے اصرار کیا تو میں نے کہا اچھا چلو۔ چنانچہ وہ انہیں جلسہ میں لے گئے۔ مولوی ثناء اللہ صاحب نے احمدیت کے خلاف تقریر کی اور اپنی طرف سے خوب دلائل دیئے۔ جب تقریر کرکے وہ بیٹھ گئے تو منشی روڑے خاں صاحبؓ سے ان کے دوست کہنے لگے کہ بتائیں ان دلائل کا کیا جواب ہے؟ منشی روڑے خاں صاحبؓ فرماتے تھے میں نے ان سے کہا۔ یہ مولوی ہیں میں ان پڑھ آدمی ہوں ان کی دلیلوں کا جواب تو کوئی مولوی ہی دے گا۔ میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں نے مرزا صاحبؑ کی شکل دیکھی ہے وہ جھوٹے نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح ایک دفعہ کسی دوست نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک واقعہ سنایا جس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بھی ہنسے اور مجلس میں بیٹھے ہوئے دوسرے لوگ بھی بہت محظوظ ہوئے۔ منشی روڑے خان صاحبؓ شروع میں قادیان بہت زیادہ آیا کرتے تھے۔ بعد میں چونکہ اہم کام ان کے سپرد ہوگئے اس لئے جلدی چھٹی ملنا ان کے لئے مشکل ہوگیا تھا مگر پھر بھی وہ قادیان اکثر آتے رہتے تھے۔ ہمیں یاد ہے۔ جب ہم چھوٹے بچے ہوا کرتے تھے تو ان کا آنا ایسا ہی ہوا کرتا تھا جیسے کوئی مدتوں کا بچھڑا ہوا بھائی سالہا سال کے بعد اپنے کسی عزیز سے آکر ملے۔ کپورتھلہ کی جماعت میں سے منشی روڑے خاں صاحبؓ` منشی ظفر احمد صاحبؓ اور منشی محمد خان صاحبؓ جب بھی آتے تھے تو ان کے آنے سے ہمیں بڑی خوشی ہوا کرتی تھی۔ غرض اس دوست نے بتایا کہ منشی روڑے خاں صاحبؓ تو ایسے آدمی ہیں کہ یہ مجسٹریٹ کو بھی ڈرا دیتے ہیں۔ پھر اس نے سنایا کہ ایک دفعہ انہوں نے مجسٹریٹ سے کہا میں قادیان جانا چاہتا ہوں مجھے چھٹی دے دیں۔ اس نے انکار کر دیا۔ اس وقت وہ سیشن جج کے دفتر میں لگے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا قادیان میں میں نے ضرور جانا ہے مجھے آپ چھٹی دے دیں۔ وہ کہنے لگا کام بہت ہے اس وقت آپ کو چھٹی نہیں دی جاسکتی۔ وہ کہنے لگے بہت اچھا! آپ کا کام ہوتا رہے میں تو آج ہی بددعا میں لگ جاتا ہوں۔ آپ اگر نہیں جانے دیتے تو نہ جانے دیں۔ آخر اس مجسٹریٹ کو کوئی ایسا نقصان پہنچا کہ وہ سخت ڈر گیا اور جب بھی ہفتہ کا دن آتا وہ عدالت والوں سے کہتا کہ آج کام ذرا جلدی بند کر دینا کیونکہ منشی روڑے خاں صاحب کی گاڑی کا وقت نکل جائے گا۔ اس طرح وہ آپ ہی جب بھی منشی صاحبؓ کا ارادہ قادیان آنے کا ہوتا انہیں چھٹی دے دیتا اور وہ قادیان پہنچ جاتے۔ پھر ان کی محبت کا یہ نقشہ بھی مجھے کبھی نہیں بھولتا جو گو انہوں نے مجھے خود ہی سنایا تھا مگر میری آنکھوں کے سامنے وہ یوں پھرتا رہتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے اس واقعہ کے وقت میں بھی وہیں موجود تھا۔ انہوں نے سنایا کہ۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے ایک دفعہ ہم نے عرض کیا کہ حضور کبھی کپورتھلہ تشریف لائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وعدہ فرمالیا کہ جب فرصت ملی تو آجائوں گا۔ وہ کہتے تھے ایک دن کپورتھلہ میں میں ایک دوکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شدید ترین دشمن اڈے کی طرف سے آیا اور مجھے کہنے لگا لو تمہارا مرزا کپورتھلے آگیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب مہلت ملی وہ اطلاع دینے کا وقت نہ تھااس لئے آپ بغیر اطلاع دیئے ہی چل پڑے۔ منشی روڑے خان صاحب نے یہ خبر سنی تو وہ خوشی میں ننگے سر اور ننگے پائوں اڈے کی طرف بھاگے مگر چونکہ خبر دینے والا شدید ترین مخالف تھا۔ وہ ہمیشہ احمدیت سے تمسخر کرتا رہتا تھا ان کا بیان تھا کہ تھوڑی دور جاکر مجھے خیال آیا کہ یہ بڑا خبیث دشمن ہے اس نے ضرور مجھ سے ہنسی کی ہوگی۔ چنانچہ مجھ پر جنون سا طاری ہوگیا اور یہ خیال کرکے کہ نامعلوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے بھی ہیں یا نہیں۔ میں کھڑا ہوگیا اور میں نے اسے بے تحاشہ برا بھلا کہنا شروع کردیا کہ تو بڑا خبیث اور بدمعاش ہے تو کبھی میرا پیچھا نہیں چھوڑتا اور ہمیشہ ہنسی کرتا رہتا ہے بھلا ہماری قسمت کہاں کہ حضرت صاحب کپورتھلہ تشریف لائیں۔ وہ کہنے لگا کہ آپ ناراض نہ ہوں اور جاکر دیکھ لیں مرزا صاحب واقع میں آئے ہوئے ہیں۔ اس نے یہ کہا تو میں پھر دوڑا مگر پھر خیال آیا کہ اس نے ضرور مجھ سے دھوکہ کیا ہے چنانچہ پھر میں اسے کوسنے لگا کہ تو بڑا جھوٹا ہے ہمیشہ مجھ سے مذاق کرتا رہتا ہے ہماری ایسی قسمت کہاں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام ہمارے ہاں تشریف لائیں۔ مگر اس نے پھر کہا۔ منشی صاحب وقت ضائع نہ کریں مرزا صاحب واقع میں آئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ پھر اسی خیال سے کہ شاید آہی گئے ہوں میں دوڑ پڑا مگر پھر یہ خیال آجاتا ہے کہ کہیں اس نے دھوکا ہی نہ دیا ہو۔ چنانچہ پھر اسے ڈانٹا۔ آخر وہ کہنے لگا۔ مجھے برا بھلا نہ کہو اور جاکر اپنی آنکھوں سے دیکھ لو واقعہ میں مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں۔ غرض میں کبھی دوڑتا اور کبھی یہ خیال کرکے کہ مجھ سے مذاق ہی نہ کیا گیا ہو ٹھہر جاتا۔ میری یہی حالت تھی کہ میں نے سامنے کی طرف جو دیکھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام تشریف لارہے تھے۔ اب یہ والہانہ محبت اور عشق کا رنگ کتنے لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے۔ یقیناً بہت ہی کم لوگوں کے دلوں میں۔ میاں عبداللہ صاحبؓ سنوری بھی اپنے اندر ایسا ہی عشق رکھتے تھے۔ ایک دفعہ وہ قادیان میں آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان سے کوئی کام لے رہے تھے اس لئے جب میاں عبداللہ صاحبؓ سنوری کی چٹھی ختم ہوگئی اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے جانے کے لئے اجازت طلب گی تو حضور نے فرمایا۔ ابھی ٹھہر جائو۔ چنانچہ انہوں نے مزید رخصت کے لئے درخواست بھجوا دی مگر محکمہ کی طرف سے جواب آیا کہ اور چھٹی نہیں مل سکتی تو انہوں نے اس امر کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ذکر کیا تو آپ نے پھر فرمایا کہ ابھی ٹھہرو۔ چنانچہ انہوں نے لکھ دیا کہ میں ابھی نہیں آسکتا۔ اس پر محکمہ والوں نے انہیں ڈس مس کر دیا۔ چار یا چھ مہینے جتنا عرصہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں رہنے کے لئے کہا تھا وہ یہاں ٹھہرے رہے۔ پھر جب واپس گئے تو محکمہ نے یہ سوال اٹھا دیا کہ جس افسر نے انہیں ڈس مس کیا تھا اس افسر کا یہ حق ہی نہیں تھا کہ وہ انہیں ڈس مس کرتا۔ چنانچہ وہ پھر اپنی جگہ پر بحال کئے گئے اور پچھلے مہینوں کی جو قادیان میں گزر گئے تھے تنخواہ بھی مل گئی۔ اسی طرح منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی کے ساتھ واقعہ پیش آیا جو کل ہی ڈلہوزی کے راستہ میں میاں عطاء اللہ صاحب وکیل سلمہ اللہ تعالیٰ نے سنایا۔ یہ واقعہ الحکم ۱۴۔ اپریل ۱۹۳۴ء میں بھی چھپ چکا ہے اس لئے منشی صاحب کے اپنے الفاظ میں اسے بیان کرتا ہوں۔
>میں جب سررشتہ دار ہوگیا اور پیشی میں کام کرتا تھا تو ایک دن مسلیں وغیرہ بند کرکے قادیان چلا آیا۔ تیسرے دن میں نے اجازت چاہی تو فرمایا ابھی ٹھہریں۔ پھر عرض کرنا مناسب نہ سمجھا کہ آپ ہی فرمائیں گے۔ اس پر ایک مہینہ گزر گیا۔ ادھر مسلیں میرے گھر میں تھیں کام بند ہوگیا اور سخت خطوط آنے لگے مگر یہاں یہ حالت تھی کہ ان خطوط کے متعلق وہم بھی نہ آتا تھا۔ حضور کی صحبت میں ایک ایسا لطف اور محویت تھی کہ نہ نوکری جانے کا خیال تھا اور نہ کسی بات پرسی کا اندیشہ آخر ایک نہایت ہی سخت خط وہاں سے آیا۔ میں نے وہ خط حضرت صاحب کے سامنے رکھ دیا۔ پڑھا اور فرمایا لکھ دو ہمارا آنا نہیں ہوتا۔ میں نے وہی فقرہ لکھ دیا۔ اس پر ایک مہینہ اور گزر گیا۔ تو ایک دن فرمایا کتنے دن ہوگئے۔ پھر آپ ہی گننے لگے اور فرمایا اچھا آپ چلے جائیں۔ میں چلا گیا اور کپورتھلہ پہنچ کر لالہ ہرچرن داس مجسٹریٹ کے مکان پر گیا تاکہ معلوم کروں کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا۔ منشی جی! آپ کو مرزا صاحب نے نہیں آنے دیا ہوگا۔ میں نے کہا۔ ہاں۔ تو فرمایا ان کا حکم مقدم ہے<۔
میاں عطاء اللہ صاحب کی روایت میں اس قدر زیادہ ہے کہ منشی صاحب مرحومؓ نے فرمایا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ لکھ دو ہم نہیں آسکتے۔ میں نے وہی الفاظ لکھ کر مجسٹریٹ کو بھجوا دیئے۔ یہ ایک گروہ تھا جس نے عشق کا ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا کہ ہماری آنکھیں اب پچھلی جماعتوں کے آگے نیچی نہیں ہوسکتیں<۔۱۹
جماعت احمدیہ کو نصیحت
حضرت امیرالمومنینؓ نے اپنے خطبہ کے آخر میں احباب جماعت کو نصیحت فرمائی کہ۔
>یہ وہ لوگ ہیں جن کے نقش قدم پر جماعت کے دوستوں کو چلنے کی کوشش کرنی چاہئے کہنے والے کہیں گے کہ یہ شرک کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ جنون کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ پاگل پن کی تعلیم دی جاتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پاگل وہی ہیں جنہوں نے اس رستہ کو نہیں پایا اور اس شخص سے زیادہ عقلمند کوئی نہیں جس نے عشق کے ذریعہ خدا اور اس کے رسولﷺ~ کو پالیا اور جس نے محبت میں محو ہوکر اپنے آپ کو ان کے ساتھ وابستہ کرلیا۔ اب اسے خدا سے اور خدا کو اس سے کوئی چیز جدا نہیں کرسکتی کیونکہ عشق کی گرمی ان دونوں کو آپس میں اس طرح ملا دیتی ہے جس طرح ویلڈنگ کیا جاتا ہے اور دو چیزوں کو جوڑ کر آپس میں بالکل پیوست کر دیا جاتا ہے مگر وہ جسے محض فلسفیانہ ایمان حاصل ہوتا ہے اس کا خدا سے ایسا ہی جوڑ ہوتا ہے جیسے قلعی کا ٹانکہ ہوتا ہے ذرا گرمی لگے تو ٹوٹ جاتا ہے۔ مگر جب ویلڈنگ ہو جاتا ہے تو ایسا ہی ہو جاتا ہے جیسے کسی چیز کا جزو ہو۔ پس اپنے اندر عشق پیدا کرو اور وہ راہ اختیار کرو جو ان لوگوں نے اختیار کی۔ پیشتر اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جو صحابی باقی ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں۔ بے شک ابتدائی گہرا تعلق رکھنے والے لوگوں میں سے منشی ظفر احمد صاحبؓ آخری صحابی تھے مگر ابھی بعض اور پرانے لوگ موجود ہیں گو اتنے پرانے نہیں جتنے منشی ظفر احمد صاحبؓ تھے۔ چنانچہ کوٹلہ میں میر عنایت علی صاحب ابھی زندہ ہیں جنہوں نے ساتویں نمبر پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی مگر پھر بھی یہ جماعت کم ہوتی جارہی ہے اور وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ سے گہرا تعلق اور بے تکلفی رکھتے تھے ان میں سے غالباً منشی ظفر احمد صاحب آخری آدمی تھے۔ کپورتھلہ کی جماعت کو ایک یہ خصوصیت بھی حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس جماعت کو یہ لکھ کر بھیجا تھا کہ مجھے یقین ہے جس طرح خدا نے اس دنیا میں ہمیں اکٹھا رکھا ہے اسی طرح اگلے جہان میں بھی کپورتھلہ کی جماعت کو میرے ساتھ رکھے گا۔ مگر اس سے کپورتھلہ کی جماعت کا ہر فرد مراد نہیں بلکہ صرف وہی لوگ مراد ہیں جنہوں نے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ساتھ دیا جیسے منشی روڑے خان صاحبؓ تھے یا منشی محمد خان صاحبؓ تھے یا منشی ظفر احمد صاحبؓ تھے۔ یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ہزاروں نشانوں کا چلتا پھرتا ریکارڈ تھے۔ نامعلوم لوگوں نے کس حد تک ان ریکارڈوں کو محفوظ کیا مگر بہرحال خداتعالیٰ کے ہزاروں نشانات کے وہ چشم دیدہ گواہ تھے۔ ان ہزاروں نشانات کے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ اور آپ کی زبان اور آپ کے کان اور آپ کے پائوں وغیرہ کے ذریعے ظاہر ہوئے۔ تم صرف وہ نشانات پڑھتے ہو جو الہامات پورے ہوکر نشان قرار پائے مگر ان نشانوں سے ہزاروں گنے زیادہ وہ نشانات ہوتے ہیں جو خداتعالیٰ اپنے بندوں کی زبان ناک کان ہاتھ اور پائوں پر جاری کرتا ہے اور ساتھ رہنے والے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ خدا کے نشانات ظاہر ہورہے ہیں۔ وہ انہیں اتفاق قرار نہیں دیتے کیونکہ وہ نشانات ایسے حالات میں ظاہر ہوتے ہیں جو بالکل مخالف ہوتے ہیں اور جن میں ان باتوں کا پورا ہونا بہت بڑا نشان ہوتا ہے۔ پس ایک ایک صحابی جو فوت ہوتا ہے وہ ہمارے ریکارڈ کا ایک رجسٹر ہوتا ہے جسے ہم زمین میں دفن کر دیتے ہیں۔ اگر ہم نے ان رجسٹروں کی نقلیں کرلی ہیں تو یہ ہمارے لئے خوشی کا مقام ہے اور اگر ہم نے ان کی نقلیں نہیں کیں تو یہ ہمارا بدقسمتی کی علامت ہے۔ بہرحال ان لوگوں کی قدر کرو۔ ان کے نقش قدم پر چلو اور اس بات کو اچھی طرح یاد رکھو کہ فلسفیانہ ایمان انسان کے کسی کام نہیں آتا۔ وہی ایمان کام آسکتا ہے جو مشاہدہ پر مبنی ہو اور مشاہدہ کے بغیر عشق نہیں ہوسکتا۔ جو شخص کہتا ہے کہ بغیر مشاہدہ کے اسے محبت کامل حاصل ہوگئی ہے وہ جھوٹا ہے مشاہدہ ہی ہے جو انسان کو عشق کے رنگ میں رنگین کرتا ہے اور اگر کسی کو یہ بات حاصل نہیں تو وہ سمجھ لے کہ فلسفہ انسان کو محبت کے رنگ میں رنگین نہیں کرسکتا فلسفہ صرف دوئی پیدا کرتا ہے<۔۲۰4] ft[r
فصل سوم
حضرت امیرالمومنینؓ کی طرف سے افغانستان سے حیدرآباد تک پھیلی ہوئی مخلص احمدی جماعتوں کا ذکر
حضرت سیٹھ محمد غوث صاحب حیدرآبادیؓ ایک نہایت مخلص اور سلسلہ کے فدائی بزرگ تھے۔ ۱۴۔ تبوک )ستمبر( کو ان کی چھوٹی لڑکی )امتہ الحی صاحبہ( کی تقریب نکاح تھی جس کا اعلان حضرت
خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے فرمایا۔ حضور نے خطبہ نکاح میں افغانستان سے لیکر حیدرآباد تک پھیلی ہوئی احمدی جماعتوں کا بڑی شرح و بسط سے ذکر کرتے ہوئے بعض مخلصین کی خاص طور پر تعریف کی۔ چنانچہ فرمایا۔
>اللہ تعالیٰ کی سنت کے ماتحت جو قدیم سے ماموروں کے متعلق چلی آتی ہے اس نے ہماری جماعت کو بھی مختلف علاقوں میں پھیلایا ہوا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت ہے کہ الٰہی جماعتیں بطور بیج کے پھینکی جاتی ہیں۔ جس طرح ہم اگر ایک فٹ سے زمین پر دانے پھینکیں تو وہ تھوڑی سی جگہ میں پھیلیں گے لیکن اگر ایک بلند مینار پر سے پھینکیں تو دور دور گریں گے اور کسی بلند پہاڑ پر سے پھینکیں تو اور بھی دور زمین پر پھیلیں گے۔ اسی طرح چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایمان آسمان سے پھینکا جاتا ہے وہ ساری دنیا پر پھیل جاتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی چھینٹے میں مختلف علاقوں میں مختلف مدارج کے لوگ پیدا ہوئے ہیں۔ افغانستان میں سید عبداللطیف صاحبؓ` نعمت اللہ صاحبؓ اور کئی شہداء پیدا ہوئے۔ پھر کئی ان میں سے قادیان آگئے اور ان کے ذریعہ تمام علاقہ میں تبلیغ ہوگئی ورنہ کہاں ہندوستان اور کہاں افغانستان۔ ہمارے لئے تو سرحدوں پر تبلیغ کرنا مشکل تھا مگر یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت تھی کہ وہ ان لوگوں کو سرحدوں سے پار لے گیا تاکہ اس تمام علاقہ میں تبلیغ ہوسکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی کو بہار میں اور کسی کو بنگال میں اور کسی کو یوپی میں بیعت کی توفیق ہوئی` اور ان سب نے اپنی اپنی جگہ پر احمدیت کو پھیلانا شروع کر دیا۔ انہی میں سے ایک حیدرآباد کی جماعت ہے جو یہاں سے قریباً ڈیڑھ ہزار میل دور ہے۔ بیچ میں ایک لمبا علاقہ ہے جہاں نام کو بھی کوئی احمدی نہیں سی پی کا علاقہ بیچ میں ہے اس میں جتنے احمدی ہیں وہ سب ملا کر بھی شاید شہر حیدرآباد کی جماعت کے برابر نہ ہوں۔ یوپی میں بھی بہت کم ہیں اور ان سب علاقوں کو پار کرکے اللہ تعالیٰ نے حیدرآباد میں ایک جماعت پیدا کر دی اور وہاں ایسے مخلص احباب پیدا ہوئے جنہوں نے احمدیت کے لئے بہت قربانیاں کی ہیں اور ایثار سے کام کیا وہاں جماعت مولوی محمد سعید صاحب کے ذریعہ قائم ہوئی۔ اڑیسہ میں ایک گائوں سنبل پور سارے کا سارا احمدی ہے اور وہ بھی دراصل حیدرآباد کی ہی پیدا شدہ جماعت ہے۔ سید عبدالرحیم صاحب وہاں کے رہنے والے حیدرآباد آگئے تھے وہاں وہ مولوی محمد سعید صاحب سے ملے۔ مولوی صاحب نے انہیں تبلیغ کی اور بعض کتابیں بھی دیں جن کے مطالعہ سے وہ احمدی ہوگئے اور پھر ان کے اثر کی وجہ سے یہ گائوں سارے کا سارا احمدی ہوگیا۔ اس وقت میں جن کی لڑکی کے نکاح کا اعلان کرنے والا ہوں وہ حیدرآباد کے رہنے والے سیٹھ محمد غوث ہیں وہ بھی ان مخلصین میں ہیں جن کا دل خدمت سلسلہ کے لئے گداز ہے اور وہ اس کا بہت ہی احساس رکھتے ہیں۔ تو وہ پہلے سے احمدی مگر میرے ساتھ ان کی واقفیت جو ہوئی تو وہ حج کو جاتے ہوئے ۱۹۱۲ء میں ہوئی تھی۔ شاید ان کو علم ہو کہ میں جارہا ہوں یا شاید وہ تجارت کے سلسلے میں وہاں آئے ہوئے تھے۔ بہرحال ان سے میری پہلی ملاقات وہاں ہوئی اور پھر ایسے تعلقات ہوگئے کہ گویا واحد گھر کی صورت پیدا ہو گئی۔ مستورات کے بھی آپس میں تعلقات ہوگئے۔ حج کے موقعہ پر عبدالحی عرب بھی میرے ساتھ تھے وہاں سے روانگی کے وقت سیٹھ صاحب نے ان کو بعض چیزیں دیں جن میں ایک گلاس بھی تھا۔ وہ انہوں نے عبدالحی صاحب کو یہ کہہ کر دیا تھا کہ جب آپ اس میں پانی پئیں گے تو میں یاد آجائوں گا اور اس طرح آپ میرے لئے دعا کی تحریک کرسکیں گے۔ غرض سیٹھ صاحب حیدرآباد کے نہایت مخلص لوگوں میں سے ہیں۔
چندہ کی فراہمی کے لحاظ سے` جماعت میں اتحاد و اتفاق قائم رکھنے کے لحاظ سے انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے اور بغیر اس کے کہ کوئی وقفہ پڑا ہو کیا ہے اور ان کے اخلاص کا ہی نتیجہ ہے کہ ان کو اولاد بھی اللہ تعالیٰ نے مخلص دی ہے۔ بعض لوگ خود تو مخلص ہوتے ہیں مگر ان کی اولاد میں وہ اخلاص نہیں ہوتا مگر سیٹھ صاحب کی اولاد بھی مخلص ہے۔ ان کے بڑے لڑکے محمد اعظم صاحب میں ایسا اخلاص ہے جو کم نوجوانوں میں ہوتا ہے۔ تبلیغ اور تربیت کی طرف انہیں خاص توجہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے ریاستوں میں تبلیغ کرنے سے لوگ عام طور پر ڈرتے ہیں اور کوئی بات ہو بھی تو کوشش کرتے ہیں کہ بڑے بڑے لوگوں کو اس کی اطلاع نہ ہوسکے۔ مگر میں نے دیکھا ہے کہ محمد اعظم صاحب کو شوق ہے کہ ریاست میں کھلی تبلیغ اور اشاعت کی جائے اس کے متعلق وہ مجھ سے بھی مشورے لیتے رہتے ہیں اور وہاں بھی نوجوانوں میں جوش پیدا کرتے رہتے ہیں۔ دوسرے لڑکے معین الدین ہیں وہ بھی بہت اخلاص سے سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتے اور خدام الاحمدیہ کی تحریک میں بہت جدوجہد کرتے ہیں۔ ہاتھ سے کام کرنے کی تحریک کو مقبول بنانے کا بھی انہیں شوق ہے۔ لڑکیوں میں سے ان کی بڑی لڑکیوں کے تعلقات امتہ الحی مرحومہؓ کے ساتھ تھے۔ پھر ان کی چھوٹی لڑکی خلیل کے ساتھ بیاہی گئی جو تحریک جدید کا مجاہد ہے۔ اس لڑکی کے امتہ القیوم کے ساتھ بہنوں جیسے تعلقات ہیں اور شروع سے اب تک اس خاندان نے ایسے اخلاص کے ساتھ تعلق رکھا اور اسے نبھایا ہے کہ اس میں کبھی بھی کمی نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ ایسے مخلصین کے لئے ذرائع بھی خود مہیا کرتا ہے۔ ان کے لڑکوں کی شادیاں بھی ایسے گھرانوں میں ہوئی جو بہت مخلص ہیں۔ محمد اعظم کی شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص اور فدائی صحابی حکیم محمد حسین صاحبؓ قریشی موجد مفرح عنبری کی لڑکی سے ہوئی ہے قریشی صاحب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ابتدائی صحابہ میں سے تھے اور ایسے مخلص تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ابتلاء سے انہیں بچالیا۔ جب پہلے پہلے خلافت کا جھگڑا اٹھا تو خواجہ صاحب اور ان کے ساتھیوں نے لاہور کی جماعت کو جمع کیا اور کہا کہ دیکھو سلسلہ کس طرح تباہ ہونے لگا ہے۔ یہ حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ کی خلافت کا زمانہ تھا جب میر محمد اسحٰق صاحبؓ نے بعض سوالات لکھ کر آپ کو دیئے تھے اور آپ نے جواب کے لئے وہ باہر کی جماعتوں کو بھجوا دیئے۔ اس وقت لاہور کی ساری کی ساری جماعت اس پر متفق ہوگئی تھی کہ دستخط کرکے خلیفہ اولؓ کو بھجوائے جائیں کہ خلافت کا یہ طریق احمدیہ جماعت میں نہیں بلکہ اصل ذمہ دار جماعت کی انجمن ہے۔ جب سب لوگ اس امر کی تصدیق کررہے تھے قریشی صاحب خاموش بیٹھے رہے کہ میں سب سے آخر میں اپنی رائے بتائوں گا۔ آخر پر ان سے پوچھا گیا تو انہوں نے بڑے زور سے اس خیال کی تردید کی اور کہا کہ یہ گستاخی ہے کہ ہم خلیفہ کے اختیارات معین کریں۔ ہم نے ان کی بیعت کی ہے اس لئے ایسی باتیں جائز نہیں۔ وہ آخری آدمی تھے ان سے پہلے سب اپنی اپنی رائے ظاہر کرچکے تھے مگر ان کے اخلاص کا نتیجہ تھا کہ سب لوگوں کی سمجھ میں یہ بات آگئی اور خواجہ صاحب کے موید صرف وہ لوگ رہ گئے جو ان کے ساتھ خاص تعلقات رکھتے تھے۔ اسی طرح میری خلافت کے ابتدائی ایام میں بھی غیر مبائعین سے مقابلہ کرنے میں بڑی تندہی سے حصہ لیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام انہی کی معرفت لاہور سے سامان وغیرہ منگوایا کرتے تھے۔ حضور خط لکھ کر کسی آدمی کو دے دیتے جو اسے حکیم صاحب کے پاس لے جاتا اور وہ سب اشیاء خرید کر دیتے۔ گویا وہ لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ایجنٹ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بھی ان سے بہت محبت رکھتے تھے اور لاہور کی احمدیہ مسجد بھی انہی کا کارنامہ ہے۔ دوسروں کا تو کیا کہنا میں خود بھی اس کا مخالف تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ یہ اتنا بڑا بوجھ ہے کہ جو لاہور کی جماعت سے اٹھایا نہ جاسکے گا مگر انہوں نے پیچھے پڑ کر مجھ سے اجازت لی اور ایک بڑی بھاری رقم کے خرچ سے لاہور میں ایک مرکزی مسجد بنا دی۔ سیٹھ صاحب کے دوسرے لڑکے کی شادی خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحبؓ کی لڑکی سے ہوئی ہے۔ خان صاحب بھی مخلص آدمی ہیں اور گو بہت پرانے
‏tav.8.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
اشاعت احمدیت کی خصوصی تحریک سے واقعہ ڈلہوزی تک
نہیں مگر پیچھے آکر بھی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے اپنے تعلقات مضبوط کئے اور بڑھائے تو ان کے لڑکوں کے رشتے بھی اللہ تعالیٰ نے مخلص گھرانوں میں کرا دیئے۔ لڑکیوں کی شادیاں بھی وہ چاہتے تھے پنجاب میں ہی ہوں۔ غرض امتہ الحفیظ کا نکاح تو خلیل احمد صاحب سے ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چھوٹی لڑکی امتہ الحی کے نکاح کا اعلان میں اس وقت کررہا ہوں جو خان صاحب ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کے ایک قریبی عزیز اور شاید بھانجے محمد یونس صاحب کے ساتھ قرار پایا ہے۔ اس رشتہ میں بھی سیٹھ صاحب نے اخلاص کو مدنظر رکھا ہے۔ تمدن کے اختلاف کی وجہ سے میں ان کو لکھتا تھا کہ حیدرآباد میں ہی رشتہ کریں۔ مگر ان کی خواہش تھی کہ قادیان یا پنجاب میں ہی رشتہ ہو تا قادیان آنے کے لئے ایک اور تحریک ان کے لئے پیدا ہو جائے۔ محمد یونس صاحب ضلع کرنال کے رہنے والے ہیں جو دہلی کے ساتھ لگتا ہے مگر حیدرآباد کی نسبت قادیان سے بہت نزدیک ہے۔ سیٹھ صاحب کا خاندان ایک مخلص خاندان ہے ان کی مستورات کے ہمارے خاندان کی مستورات سے` ان کی لڑکیوں کے میری لڑکیوں سے اور ان کے اور ان کے لڑکوں کے میرے ساتھ ایسے مخلصانہ تعلقات ہیں کہ گویا خانہ واحد والا معاملہ ہے۔ ہم ان سے اور وہ ہم سے بے تکلف ہیں اور ایک دوسرے کی شادی و غمی کو اس طرح محسوس کرتے ہیں جیسے اپنے خاندان کی شادی و غمی کو<۔۲۱
حافظ آباد` گکھڑ` چنیوٹ اورکوئٹہ میں مسجدوں کی تعمیر
۱۳۲۰ہش )۱۹۴۱ء( کے دوران مندرجہ ذیل چار مقامات پر احمدی مساجد تعمیر کی گئیں۔
۱۔ حافظ آباد ۲۔ گکھڑ ۳۔ چنیوٹ ۴۔ کوئٹہ۔
مسجد احمدیہ حافظ آباد
اس مسجد کے لئے قطعہ زمین ناصرالدین صاحب صدیقی تحصیلدار حافظ آباد کی کوشش سے فراہم ہوا اور اس کی بنیادی اینٹ حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی نے ۴۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش کو رکھی۔۲۲
مسجد احمدیہ گکھڑ
اس سال کے آغاز میں ضلع گوجرانوالہ کے قصبہ گکھڑ میں ایک احمدیہ مسجد کی تعمیر ہوئی۔۲۳
مسجد احمدیہ چنیوٹ
چنیوٹ ضلع جھنگ کا ایک مشہور تجارتی شہر ہے۔ جہاں اگست ۱۹۴۱ء/ ظہور ۱۳۲۰ہش میں ایک خوبصورت احمدیہ مسجد پایہ تکمیل کو پہنچی۔۲۴ سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی )کلکتہ( مسجد احمدیہ چنیوٹ کے ابتدائی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>غالباً ۱۹۱۸ء کا ذکر ہے جماعت احمدیہ چنیوٹ کے احباب غیر احمدیوں کی مسجد میں جو بڑے بازار کے عقب میں واقع ہے اور >اندر والی مسجد< کہلاتی ہے جمعہ کی نماز ادا کیا کرتے تھے کیونکہ اس ایریا کے غیر احمدی مسجد ٹاہلی والی میں جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ ایک جمعہ کی نماز کے معاًبعد ان لوگوں کے سرکردہ ممبر ایک حاجی صاحب نے اعلان کیا کہ درست سنتیں پڑھنے کے بعد بیٹھ جائیں کیونکہ >مرزائی< ہماری مسجد میں جمعہ پڑھتے ہیں اس مسجد سے ان کو نکال دینا چاہئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد ازاں یہ قریباً دو تین صد اشخاص کا جم غفیر حاجی صاحب مذکور کی سرکردگی میں >مسجد اندر والی< پہنچا۔ اس وقت احمدیوں کا خطبہ ہورہا تھا۔ ان حاجی صاحب نے آگے بڑھ کر احمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے غصہ اور درشت الفاظ میں کہا کہ >یہ مسجد ہماری ہے۔ تم لوگ یہاں نماز پڑھنے کیوں آتے ہو۔ اگر آئندہ یہ حرکت کی تو نہایت برا سلوک کیا جائے گا<۔ یہ کہہ کر وہ جواب کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔ اس وقت شیخ مولا بخش صاحب مگوں مرحوم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ انہوں نے خطبہ کے دوان ہی میں آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا کہ >خدایا! ہم تو اس مسجد کو تیرا گھر سمجھ کر تیری عبادت کرنے یہاں آیا کرتے تھے۔ اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تیرا گھر نہیں ہے بلکہ ان کا ہے۔ سو ان کے گھر میں تو ہم تیری عبادت کرنے نہیں آئیں گے<۔ اس جواب کو سنکر وہ لوگ چلے گئے۔ ان ایام میں ہی خاکسار کلکتہ سے چنیوٹ گیا ہوا تھا۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے احباب جماعت سے درخواست کی کہ آئندہ سے جمعہ کی نمازیں وہ میرے مکان پر ادا کیا کریں اور اس کے لئے ضروری انتظام بھی کیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس جمعہ سے تین ہفتہ قبل انجمن اسلامیہ چنیوٹ نے اپنی مملوکہ زمین واقعہ محلہ راجن پورہ کو فروخت کرنے کا بذریعہ منادی اعلان کیا۔ زمین کے مختلف پلاٹ بنائے گئے تھے۔ اور مذکورہ حاجی صاحب کو جو اس انجمن کے آنریری نائب منتظم تھے نیلام کنندہ کی ڈیوٹی پر مامور کیا تھا۔ نیلام کے لئے مذکورہ واقعہ والے جمعہ کے بعد آنے والی جمعرات کا دن بعد از نماز عصر مقرر تھا۔ جب نیلامی شروع ہوئی تو میں بھی تماشائی کے طور پر اس مجمع میں ان حاجی صاحب کے بالکل قریب کھڑا تھا۔ جب اس پلاٹ کی باری آئی جس پر اب مسجد احمدیہ بنی ہوئی ہے تو نیلام کنندہ نے سرگوشی کے ساتھ مجھے مخاطب کرتے ہوئے آہستہ سے کہا کہ >تمہارے پاس کوئی مسجد نہیں یہ بہت موقعہ کا چوکور پلاٹ ہے کیوں اسے خرید نہیں لیتا؟< ان کے یہ الفاظ میرے کانوں سے گزر کر اس طرح دل میں اتر گئے جس طرح سوچ کے دبانے سے بجلی کا بلب روشن ہو جاتا ہے۔ اس بارہ میں احباب جماعت سے مشورہ تو الگ رہا سرسری ذکر بھی کبھی نہیں ہوا تھا مگر میں نے توکل بخدا بولی میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ دوسرے خریدار چونکہ دنیاوی اغراض کے لئے اس پلاٹ کے خواہشمند تھے اس لئے وہ قیمت کے بارہ میں محتاط رنگ میں بولی دے رہے تھے مگر میرے دل میں تو خدا کے گھر کی تعمیر کی خاطر ایک خاص جوش پیدا ہوچکا تھا اس لئے میں نے اس بولی میں حصہ لینا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں چھ مرلہ کا یہ ٹکڑا دو سو ستر روپے فی مرلہ کے حساب سے میرے نام پر ختم ہوا۔ گو میں نے نیلام کنندہ کی تحریک کے جواب میں ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہیں نکالا تھا مگر انہی نیلام کنندہ حاجی صاحب نے فی الفور اس مجمع میں اعلان کر دیا کہ >بھائیو! یہاں مرزائیوں کی مسجد بنے گی<۔ خداتعالیٰ کے کیا ہی عجیب تصرفات ہیں کہ جس شخص نے احمدیوں کو اپنی مسجد سے نکالا تھا دوسرا جمعہ آنے سے قبل اسی کی تحریک پر احمدیوں نے مسجد کے لئے زمین خریدی اور خود اسی کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے اس کا اعلان بھی کرا دیا۔ سبحان اللہ العظیم۔ دوسرے دن جمعہ کی نماز کے لئے حسب انتظام جب احمدی احباب میرے مکان پر جمع ہوئے تو میں نے ان کو یہ خوشخبری سنائی اور اسی وقت زمین کی قیمت وغیرہ کے لئے چندہ کی اپیل کی۔ چنیوٹ کے جو احباب کلکتہ لاہور آگرہ وغیرہ مقامات پر تجارت کرتے تھے سب کو تحریک کی گئی مولا کریم کی مہربانی سے سب نے حسب توفیق دل کھول کر چندہ دیا۔ کافی عرصہ تک وہ زمین یونہی پڑی رہی اور غالباً بیس بائیس سال بعد جماعت کے دوستوں کو خداتعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اس خانہ خدا کی تعمیر کریں۔ میرے نہایت ہی واجب الاحترام بزرگ چچا میاں جناب حاجی تاج محمود صاحب مرحوم کی سرپرستی میں اور میرے چھوٹے بھائی میاں محمد یوسف صاحب بانی کی نگرانی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ خوبصورت مسجد تیار ہوگئی۔ چنیوٹ کے اور بھی بعض دوستوں نے اس کی تعمیر میں نمایاں خدمات سرانجام دیں<۔۲۵
مسجد احمدیہ کوئٹہ
اس سال جماعت احمدیہ کی چوتھی مشہور مسجد۲۶ کوئٹہ میں تعمیر ہوئی۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد ۲۴۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش کو رکھا گیا۔ سب سے پہلے امیر جماعت کوئٹہ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا مسجد فضل لنڈن سے متعلق افتتاحی خطاب پڑھ کر سنایا۔ ازاں بعد کوئٹہ میں موجود صحابہ نے مسجد مبارک کی دو اینٹیں )جن پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے دعا فرمائی تھی( ایک رومال میں رکھ کر محراب کی بنیاد تک پہنچائیں اور امیر جماعت نے ان کو نصب کردیا۔۲۷ مسجد کی تعمیر جب تمام مراحل طے کرتی ہوئی چھت تک پہنچی تو احمدیوں نے کنکریٹ کی چھت ڈالنے کے لئے ۱۲۔ اخاء )اکتوبر( کو رمضان شریف کے مبارک مہینہ میں ڈھائی بجے دوپہر سے لیکر نو بجے شب تک نہایت جوش و خروش سے وقار عمل منایا۔۲۸ ۲۸۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش کو نماز جمعہ کے بعد اس کا افتتاح عمل میں آیا۔۲۹ اس مسجد کی تعمیر میں کوئٹہ کے مخلص احمدیوں کے علاوہ سمندرپار کے احمدیوں نے بھی فراخدلی سے چندہ دیا۔۳۰
دوسرا باب )فصل چہارم(
واقعہ ڈلہوزی
حکومت پنجاب کے بعض اعلیٰ افسر سالہا سال سے جماعت احمدیہ کو باغی ثابت کرکے اس کے خلاف جارحانہ اور منتقمانہ کارروائیوں پر تلے ہوئے تھے۔ اس خوفناک منصوبہ نے جو اندر ہی اندر ایک خاص سکیم کے تحت جاری تھا۔ ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش میں یکایک ایک نئی اور بھیانک شکل اختیار کرلی جس کی نسبت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے یہ رائے ظاہر فرمائی کہ سلسلہ کی تاریخ میں ایک نرالا واقعہ ہے۔ ایسا نرالہ کہ میں اسے ۱۹۳۴ء کے اس واقعہ سے بڑھ کر سمجھتا ہوں جبکہ گورنر پنجاب نے مجھ کو رات کے وقت نوٹس بھجوایا تھا کہ تم احمدیہ جماعت کے افراد کو روک دو کہ وہ قادیان میں نہ آئیں اور بعد میں گورنران کونسل نے اس کے متعلق دو دفعہ معذرت کی اور اپنی غلطی کا اقرار کیا۔۳۱ یہ اہم واقعہ ۱۰۔ تبوک ۱۳۲۰ہش )۱۰۔ ستمبر ۱۹۴۱ء( کو پیش آیا۔ جبکہ حضور ڈلہوزی میں تبدیلی آب وہوا کے لئے تشریف فرما تھے۔
واقعہ ڈلہوزی کی تفصیل حضرت امیرالمومنینؓ کے الفاظ میں
یہ واقعہ جسے ہم آئندہ >واقعہ ڈلہوزی< کے نام سے موسوم کریں گے اپنی اہمیت کے لحاظ سے تقاضا کرتا ہے کہ اس کی تفصیلات خود حضرت امیر المومنینؓ کی زبان مبارک سے بیان کی جائیں۔ حضور نے ۱۲۔ تبوک ستمبر ۱۳۲۰ ہش/ ۱۹۴۱ء کو اس واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ۔:
>بارہ بجے کا وقت تھا کہ میرا لڑکا خلیل احمد جس کی عمر اس وقت پونے سترہ سال ہے میرے پاس آیا اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا جو بند تھا۔ وہ پیکٹ گول تھا اس کے باہر ایک کاغذ لپٹا ہوا تھا اور اس کاغذ پر اس کا پتہ لکھا ہوا تھا۔ خلیل احمد نے وہ پیکٹ مجھے دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ پیکٹ کسی نے میرے نام بھجوایا ہے اور گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ میں نے وہ پیکٹ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور چونکہ وہ بند تھا اس لئے طبعاً مجھے خیال پیدا ہوا کہ اسے کیونکر معلوم ہوا کہ یہ پیکٹ گورنمنٹ کے خلاف ہے چنانچہ میں نے اسے کہا یہ پیکٹ تو بند ہے تمہیں کیونکر معلوم ہوا کہ اس میں کوئی ایسے کاغذات ہیں جو گورنمنٹ کے خلاف ہیں۔ اس نے کہا کہ اس پیکٹ کا خول کچھ ڈھیلا سا ہے میں نے بغیر اوپر کا کور پھاڑنے کے اندر سے کاغذات نکال کر دیکھے تو معلوم ہوا کہ اس میں گورنمنٹ کے خلاف باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ اس پر میں نے بھی دیکھا تو واقعہ میں کور کچھ ڈھیلا سا تھا۔ پھر تجربہ کے طور پر میں نے بھی بغیر کور پھاڑنے کے اس میں سے کاغذات نکالے اور مجھے فوراً معلوم ہوگیا کہ خلیل احمد جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہے۔ میں نے وہ اشتہار سب کا سب نہیں پڑھا بلکہ صرف ایک سطر دیکھی اس کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا کہ گورنمنٹ نے بعض ہندوستانی سپاہیوں کو کسی جگہ مروا دیا ہے۔ غرض بغیر اس کے کہ میں اس اشتہار کو پڑھتا صرف ایک سطر دیکھ کر اور خلیل احمد کی بات کو درست پاکر میں نے وہ پلندا کور میں ڈال دیا اور درد صاحب کی طرف آدمی بھجوایا کہ وہ فوراً مجھ سے آکر ملیں۔ درد صاحب ایک دو منٹ بعد ہی سیڑھیوں پر آگئے۔ میں سیڑھیوں میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان کے ہاتھ میں وہ پیکٹ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیکٹ خلیل احمد کے نام آیا ہے اور اس نے مجھے ابھی آکر دیا ہے اس نے مجھے بتایا تھا کہ یہ پیکٹ گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوتا ہے اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ یہ گورنمنٹ کے خلاف ہے تو اس نے بتایا کہ میں نے بغیر کور پھاڑنے کے اندر کے کاغذات نکال کر دیکھے تھے اور مجھے اس کا مضمون گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوا۔ اس پر میں نے بھی بغیر پھاڑنے کے اس میں سے کاغذات نکال کر دیکھے تو وہ آسانی سے باہر آگئے اور اس پر نظر ڈالتے ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ وہ گورنمنٹ کے خلاف ہیں۔ نہ صرف اس لئے کہ ایک سطر جو میں نے پڑھی اس کا مضمون گورنمنٹ کے خلاف تھا بلکہ اس لئے بھی کہ گورنمنٹ کے خلاف جو اشتہارات وغیرہ شائع کئے جاتے ہیں وہ دستی پریس پر چھاپے جاتے ہیں اور وہ کاغذات بھی دستی پریس پر ہی چھپے ہوئے تھے اس پیکٹ کے اوپر جو پتہ لکھا ہوا تھا وہ خوشخط لکھا ہوا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی مسلمان نے لکھا ہے۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اس میں مرزا کا لفظ بھی تھا یا نہیں مگر >صاحبزادہ خلیل احمد< ضرور لکھا ہوا تھا۔ ص کا دائرہ بھی بڑا اچھا تھا اور ح کے گوشے بھی خوب نکالے ہوئے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے پتہ کسی مسلمان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ خیر میں نے وہ پیکٹ درد صاحب کو دیا اور کہا کہ یہ کسی کی شرارت معلوم ہوتی ہے اور چونکہ ممکن ہے کہ اس قسم کے ٹریکٹ تمام پنجاب کے نوجوانوں میں عام طور پر تقسیم کئے جارہے ہیں اس لئے آپ فوراً یہ پیکٹ ہز ایکسی لینسی گورنر صاحب پنجاب کو بھجوا دیں اور انہیں لکھ دیں کہ میرے لڑکے خلیل احمد کے نام ایسا پیکٹ آیا ہے اور چونکہ ممکن ہے کہ اور پنجاب کے نوجوانوں کے نام بھی اس طرح ٹریکٹ اور اشتہارات وغیرہ بھیجے گئے ہوں اس لئے یہ پیکٹ آپ کو بھجوایا جاتا ہے آپ اس کے متعلق جو محکمانہ کارروائی کرنا مناسب سمجھیں کریں۔
میں یہ بات کرکے واپس ہی لوٹا تھا کہ ایک آدمی نیچے سے آیا اور درد صاحب سے کہنے لگا کہ پولیس والے آئے ہیں اور وہ آپ کو بلاتے ہیں۔ میں نے اس آدمی کو نہیں دیکھا کیونکہ وہ سیڑھیوں کے موڑ کے پیچھے تھا۔ یہ بات سن کر میں نے درد صاحب سے کہا کہ آپ جائیں اور جاکر معلوم کریں کہ پولیس والے کیا کہتے ہیں۔ درد صاحب گئے اور تین چار منٹ کے بعد ہی واپس آگئے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ پولیس کے کچھ سپاہی آئے ہوئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے مرزا خلیل احمد صاحب سے ملنا ہے۔ درد صاحب کہنے لگے کہ میں نے انہیں کہا کہ خلیل تو بچہ ہے اس سے آپ نے کیا بات کرنی ہے۔ جو کچھ آپ کہنا چاہتے ہیں وہ مجھے لکھ کر دے دیں۔ مگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ ہم اسی سے بات کرنا چاہتے ہیں اور اس بارے میں ہم کچھ لکھ کر نہیں دے سکتے۔ درد صاحب کچھ اور باتیں بھی کرنا چاہتے تھے مگر میں نے اس خیال سے کہ معمولی بات ہے ان سے کہا۔ کوئی حرج کی بات نہیں میں خلیل کو بھجوا دیتا ہوں۔ چنانچہ میں نے اسی وقت خلیل احمد کو بھجوایا۔ چند منٹ کے بعد ہی خلیل احمد واپس آیا اور اس نے مجھے کہا کہ سپاہیوں نے مجھ سے یہ پوچھا تھا کہ اس قسم کا پیکٹ تمہارے نام آیا ہے اور میں نے کہا کہ ہاں آیا ہے مگر میں نے اپنے ابا کو دے دیا ہے۔ پھر پولیس والوں نے اس پیکٹ کی طرف اشارہ کرکے )جو درد صاحب نیچے لے گئے تھے( کہا کہ یہ پیکٹ اپنے ہاتھ میں لے کر کھول دو مگر میں نے کہا کہ میں اسے نہیں کھول سکتا۔ خلیل احمد سے جب یہ بات میں نے سنی تو میں نے کہا کہ تم نے بہت اچھا کیا جو پیکٹ اپنے ہاتھ سے نہیں کھولا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ہاتھ سے پیکٹ کھلوانے کا منشاء یہ تھا کہ وہ شرارتاً اس طرح اپنی کانشنس کو یہ تسلی دلانا چاہتے تھے کہ انہوں نے خلیل کے ہاتھ سے یہ پیکٹ لیا ہے۔ خیر وہ بات کرکے ہٹا تو اسی وقت درد صاحب نے سیڑھیوں پر سے آواز دی اور میرے جانے پر انہوں نے کہا ان لوگوں نے مجھ سے وہ پیکٹ مانگا تھا مگر میں نے دینے سے انکار کردیا اور ان سے کہا کہ تم مجھے وہ قانون بتائو جس کے ماتحت تم مجھ سے یہ پیکٹ لینا چاہتے ہو۔ پھر میں نے ان سے آپ کا نام لے کر کہا کہ مجھے خلیفتہ المسیح کی طرف سے یہ پیکٹ ایک بڑے افسر کو بھجوانے کے لئے ملا ہے اس لئے میں یہ پیکٹ تمہیں نہیں دے سکتا۔ اس پر انہوں نے وہ پیکٹ مجھ سے چھین کر باہر پھینک دیا اور ایک سپاہی اسے لے کر بھاگ گیا۔ میں نے پھر جلدی میں ان کی پوری بات نہ سنی اور میں سمجھ گیا کہ یہ ہم سے شرارت کی گئی ہے۔ چنانچہ میں نے اوپر آکر گورنر صاحب کو ایک تار لکھا جس میں وہ اہم واقعات جو اس وقت تک ہوئے تھے لکھ دیئے۔ یہ تار لے کر میں پھر سیڑھیوں میں آیا تو اس وقت درد صاحب واپس جاچکے تھے۔ میں نیچے اتر کر بیٹھک میں آیا تو میں نے دیکھا کہ ہماری کوچ اور کرسیوں پر پولیس والے اپنی لاتیں دراز کرکے یوں بیٹھے ہیں کہ گویا ان کا گھر ہے میں جھٹ دروازہ بند کرکے برآمدہ کی طرف سے دفتر کے کمرہ میں آیا تو میں نے دیکھا کہ برآمدہ میں بھی پولیس والے کھڑے ہیں۔ خیر میں نے درد صاحب کو تار دیا اور کہا کہ یہ ابھی گورنر صاحب کو بھجوا دیا جائے۔ پھر میں گورنر صاحب کو ایک مفصل چٹھی لکھنے بیٹھ گیا۔ اس عرصہ میں دو دفعہ مجھے پھر نیچے جانا پڑا۔ ایک دفعہ تو میں درد صاحب کو یہ کہنے کے لئے گیا کہ آپ اس تار کا مضمون پولیس کے سپاہیوں کو بھی سنا دیں اور ان سے پوچھ لیں کہ اس میں کوئی غلط بات تو بیان نہیں کی گئی اور اگر کسی واقعہ کا وہ انکار کریں تو مجھے بتایا جائے تاکہ اگر کسی قسم کی اس میں غلطی ہو تو اس کو دور کر دیا جائے۔
میرے اس کہنے کی وجہ یہ تھی کہ نیچے جو واقعات درد صاحب کو پیش آئے تھے وہ میں نے نہیں دیکھے تھے اور میرا فرض تھا کہ ان واقعات کے بیان کرنے میں دوسروں کو صفائی کا موقعہ دوں اور اگر کوئی خلاف واقعہ بات درج ہوگئی ہو تو اس کی تصحیح کردوں۔ پھر بعد میں مجھے ایک اور بات کی نسبت خیال آیا کہ اس کا لکھنا بھی تار میں ضروری تھا اس لئے میں دوسری دفعہ پھر نیچے اترا اور میں نے درد صاحب کو اس واقعہ کے لکھنے کی بھی ہدایت کی اور ساتھ ہی پھر انہیں کہہ دیا کہ یہ واقعہ بھی ان کو سنا دینا۔ اس وقت بھی پولیس برابر ہمارے مکان کے نچلے حصہ پر قبضہ جمائے بیٹھی رہی۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس دن ہمارے اکثر آدمی باہر کام پر گئے ہوئے تھے۔ عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب جو ڈلہوزی میں ہمارے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے وہ بھی مرزا ناصر احمد کو ملنے کے لئے ان کی کوٹھی پر گئے ہوئے تھے۔ خیر کچھ دیر کے بعد مجھے خیال آیا کہ ہمیں تو قانون کی واقفیت نہیں مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد کو بلوا لیا جائے۔ چنانچہ میں پھر نیچے اترا اور ایک شخص سے کہا کہ درد صاحب سے جاکر کہیں کہ فوری طور پر مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد کو بلوالیا جائے۔ اس وقت مجھے پھر معلوم ہوا کہ ابھی تک پولیس مکان پر قابض تھی۔ خیر اس شخص نے مجھے بتایا کہ درد صاحب پہلے ہی ایک آدمی ان کی طرف بھجوا چکے ہیں۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد دونوں پہنچ گئے اور انہوں نے بتایا کہ پیچھے آرمڈ پولیس رائفلیں لے کر چلی آرہی ہے۔ درد صاحب نے مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر کی طرف بھی آدمی بھجوا دیا اور وہ بھی تھوڑی دیر کے بعد آگئے۔ اس وقت تک بھی پولیس کمرہ اور برآمدہ پر قابض تھی۔ مجھے اس وقت خیال گزرا کہ ¶پولیس والوں نے ضرور تھانہ میں کوئی رقعہ بھیجا ہے اور اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آرمڈ پولیس رائفلیں لے کر ہمارے مکان پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد میں پھر خط لکھنے میں مشغول ہوگیا اور تھوڑی دیر کے بعد میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ مجھے تو قانون کا علم نہیں تم قانون پڑھے ہوئے ہو کیا پولیس کا کسی کے مکان کے اندر داخل ہونا جائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی رو سے یہ بالکل ناجائز ہے میں نے کہا تو پھر تم جائو اور پولیس والوں سے بات کرو۔ اتنے میں مرزا ناصر احمد بھی آگئے اور کہنے لگے کہ پولیس والے ہمارے مکان کے اندر کیوں بیٹھے ہیں اور درد صاحب نے انہیں بیٹھنے کیوں دیا یہ بالکل خلافت قانون حرکت ہے جو پولیس والوں نے کی ہے۔ پولیس والے بغیر اجازت کے کسی کے گھر میں داخل نہیں ہوسکتے اور اگر وہ داخل ہوں تو اس صورت میں انہیں اپنی تلاشی دینی ضروری ہوتی ہے کیونکہ کیا پتہ کہ وہ کوئی ناجائز چیز اندر پھینک جائیں۔ اس لئے قانون یہی کہتا ہے کہ پولیس کی پہلے تلاشی ہونی ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی طرف سے کوئی ناجائز چیز پھینک دے اور گھر والوں کو مجرم بنادے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا پولیس والوں کی تلاشی لے لی گئی تھی۔ میں نے کہا کہ میرے علم میں تو یہ بات نہیں آئی کہ پولیس والوں کی تلاشی لی گئی ہو۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ یہ درد صاحب کا فرض تھا کہ پولیس والوں کو اندر نہ آنے دیتے۔
مرزا ناصر احمد نے چونکہ بیرسٹری کی بھی کچھ تعلیم پائی تھی وہ کچھ قانون سے واقف ہیں۔ میں نے کہا کہ جب پولیس والوں کو قانوناً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے کے مکان میں داخل ہوں تو پھر جائو اور ان کو قائل کرو۔ اس پر وہ نیچے آئے اور پولیس والوں سے اونچی باتیں کرنے لگے۔ مرزا ناصر احمد کی آواز ذرا زیادہ بلند تھی میں نے اس وقت یہ خیال کیا کہ یہ بچہ ہے ابھی پورا تجربہ نہیں ہم اس وقت چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اگر اس نے کوئی بات کی تو ممکن ہے کہ پولیس والے اس پر کوئی الزام لگا دیں کہ اس نے ہم پر دست درازی کی ہے اس لئے میں جلدی سے نیچے اترا اس وقت پولیس والے اندر کمرے سے نکل کر برآمدہ میں آچکے تھے اور مرزا ناصر احمد انہیں یہ کہہ رہے تھے کہ تم جہاں اندر بیٹھے تھے وہیں جابیٹھو میں اسی حالت میں تمہاری تصویر لینا چاہتا ہوں اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہم وہاں نہیں جاتے۔ میں نے جب ان کی یہ باتیں سنیں تو میں نے سپاہیوں سے کہا کہ تم سب پہلے اندر بیٹھے ہوئے تھے اور کئی بھلے مانسں اس کے گواہ ہیں میں نے خود تمہیں اندر بیٹھے دیکھا۔ درد صاحب نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا۔ مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا۔ ہمارے عملہ کے اور کئی آدمیوں نے تم کو اندر بیٹھے دیکھا ہے۔ اب اس میں تمہارا کیا حرج ہے کہ پھر تم وہیں جابیٹھو اور تمہاری اس وقت کی تصویر لے لی جائے۔ اگر تمہارا اندر آنا قانون کے مطابق تھا تو تم اب بھی وہیں بیٹھ سکتے ہو اور اگر تمہارا اندر بیٹھنا قانون کے خلاف تھا تو تم اپنی غلطی کا اقرار کرو۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ ہم تو اندر بیٹھے ہی نہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ تین دفعہ تو میں نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ہے۔ اسی طرح درد صاحب نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ہے۔ خلیل احمد سے جو تم نے باتیں کیں وہ اندر ہی کیں۔ اسی طرح تمہیں مظفر احمد نے اندر دیکھا ناصر احمد نے اندر دیکھا۔ اب تم کس طرح کہہ رہے ہو کہ تم اندر بیٹھے ہی نہیں اور اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہو۔ مگر اس پر بھی انہوں نے یہی کہا کہ ہم اندر بالکل نہیں بیٹھے۔ اتنے میں مرزا مظفر احمد نے کہا کہ میں جب آیا تھا تو اس وقت بھی یہ سپاہی اندر بیٹھے تھے اور نہ صرف اندر بیٹھے ہوئے تھے بلکہ ایک سپاہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ خلاف قانون اپنی پیٹی کھول کر بیٹھا تھا۔ مگر وہ یہی کہتے چلے گئے کہ ہم اندر نہیں گئے۔ اس پر میں نے انہیں کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ آج مجھے ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ ہوا کہ عدالتیں کن جھوٹے آدمیوں کی گواہیوں پر لوگوں کو سزا دیتی ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ تم وہ ہو کہ تمہیں اس بات کا علم ہے کہ میں تمہارے پاس آیا اور میں نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ایک دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ۔ پھر تم نے درد صاحب سے یہاں باتیں کیں۔ تم نے خلیل احمد سے یہاں باتیں کیں۔ تم نے مظفر احمد سے یہاں باتیں کیں۔ تم نے ناصر احمد سے یہاں باتیں کیں اور تم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ درست ہے۔ مگر اتنے گواہوں کے باوجود تم کہہ رہے ہو کہ تم اندر نہیں بیٹھے۔ جس قسم کا جھوٹ تم لوگ بول رہے ہو اس قسم کی گواہیوں پر عدالتوں کی طرف سے لوگوں کو سزائوں کا ملنا یقیناً نہایت ہی افسوسناک اور ظالمانہ فعل ہے۔
اس پر وہ کچھ کھسیانے سے ہوگئے مگر اقرار انہوں نے پھر بھی نہ کیا کہ وہ کمرہ کے اندر بیٹھے تھے۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ اس طرح کھلے طور پر جھوٹ بول رہے ہیں تو میں نے خیال کیا کہ نامعلوم ہمارے متعلق وہ اور کیا باتیں بنالیں۔ شاید وہ یہی کہہ دیں کہ ہم پر انہوں نے حملہ کر دیا تھا اور ہمیں مارنے پیٹنے لگ گئے تھے۔ اس لئے میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ مظفر اس ملک میں احمدیوں کے قول پر کوئی اعتبار نہیں کرتا تم تعلیم یافتہ ہو عہدیدار ہو لیکن پھر بھی اگر کوئی واقعہ ہوا تو تمہاری کسی بات پر اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ اعتبار انہی لوگوں کی بات پر کیا جائے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان واقعات کی شہادت کے لئے کسی اور کو بھی بلا لیا جائے۔ ہمارے ہمسایہ میں ایک غیر احمدی ڈپٹی کمشنر صاحب چھٹی پر آئے ہوئے تھے میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ فوراً ان کی طرف ایک آدمی دوڑا دیا جائے اور کہا جائے کہ ایک ضروری کام ہے آپ مہربانی کرکے تھوڑی دیر کے لئے تشریف لے آئیں۔ میرا منشاء یہ تھا کہ وہ آئیں تو اس واقعہ کے گواہ بن جائیں گے۔ چنانچہ مرزا مظفر احمد نے ان کی طرف ایک آدمی دوڑا دیا کہ ضروری کام ہے آپ جلدی تشریف لائیں۔ اس کے بعد میں پھر اوپر چلا گیا۔ اتنے میں نیچے سے مجھے آوازیں آئیں اور میں نے آواز سے پہچان لیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب آگئے ہیں اور وہ ان سپاہیوں سے بات کررہے تھے اور کہہ رہے تھے تم نے صریحاً خلاف قانون حرکت کی ہے۔ یہ باتیں سن کر میں بھی نیچے اتر آیا اور میں نے ان کے سامنے تمام پہلی باتوں کو دہرانا شروع کیا۔ میں نے کہا اس طرح خلیل احمد کے نام ایک پیکٹ آیا تھا جو میں نے درد صاحب کو اس لئے دیا کہ وہ گورنر صاحب پنجاب کو بھجوا دیں۔ انہوں نے درد صاحب سے وہ پیکٹ چھین لیا اور پھر انہوں نے تھانہ میں کوئی جھوٹی رپورٹ بھیج دی جس پر مسلح پولیس آگئی۔ پھر میں نے ان سپاہیوں سے کہا کہ یہ جو مسلح پولیس آئی ہے یہ ضرور کسی تمہاری رپورٹ کے نتیجہ میں آئی ہے۔ تم نے لکھا ہوگا کہ یہ لوگ ہمیں مارنے اور قتل کرنے کے درپے ہیں۔ یقیناً تم نے ایسا ہی لکھا ہے ورنہ تھانے والوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ مسلح پولیس یہاں بھیج دیتے۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ جب درد صاحب سے تم نے پیکٹ چھینا تھا تو کیا اس سے تمہاری غرض یہ نہیں تھی کہ تم یہ بات بناسکو کہ تم نے یہ پیکٹ خلیل سے لیا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا جس طرح آپ نے کوئی بات بنانی تھی اسی طرح ہم نے بھی کوئی بات بنانی ہی تھی۔ یہ باتیں انہوں نے ان ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے کیں اور میں نے بھی ان سے اس لئے کہلوائیں تاکہ وہ ڈپٹی کمشنر صاحب ان باتوں کے گواہ بن جائیں )گو میں نہیں کہہ سکتا ان باتوں میں سے انہوں نے کتنی سنیں کیونکہ اس وقت مختلف باتیں ہورہی تھیں( اسی طرح ابھی ڈپٹی کمشنر صاحب نہیں آئے تھے کہ مجھے نیچے سے ایک سپاہی کی آواز آئی جو دوسرے سپاہی سے بات کررہا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کوئی سپاہی بدنیتی سے اندر آنا چاہتا تھا کہ ہمارے آدمیوں نے اسے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ اس پر دوسرا سپاہی اسے کہنے لگا۔ >ایدھر آجا اوئے اینہاں دا کی اعتبار ہے جو چاہیں گل بنا لیں<۔
یعنی ان کا کیا اعتبار ہے ان کا جو جی چاہے گا ہمارے خلاف بات بنالیں گے۔ گویا ہمارے سب لوگ جھوٹے تھے اور وہ لوگ جو روزانہ جھوٹی قسمیں کھاتے اور ہمارے سامنے جھوٹ بول رہے تھے وہ سچے تھے۔ خیر ان ڈپٹی کمشنر صاحب نے کچھ دیر ان سے باتیں کرنے کے بعد مجھ سے کہا کہ ان سپاہیوں سے باتیں کرنی فضول ہیں ان میں کوئی افسر نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی اختیار ہے۔ آپ کو چاہئے کہ ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب کی طرف آدمی بھجوا دیں اور انہیں تمام حالات سے اطلاع دیں۔ میں نے کہا اس کا پتہ کراچکا ہوں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس دونوں اس وقت باہر ہیں اسی وجہ سے ہم حیران ہیں کہ کیا کریں۔ انہوں نے کہا کہ پھر یہ جو کانسٹیبل یا ہیڈ کانسٹیبل ہیں ان سے بات کرنی فضول ہے انہیں دیکھ کر تو یہ بھی پتہ نہیں لگتا کہ ان کا افسر کون ہے۔ پھر انہوں نے کہا۔ یہاں مسٹر سلیئر ایس ڈی او ہیں۔ مرزا مظفر احمد صاحب ان کے پاس چلے جائیں۔ میں نے کہا مظفر احمد کا جانا ٹھیک نہیں۔ وہ یہاں گواہ کے طور پر ہیں۔ میں درد صاحب اور مرزا ناصر احمد صاحب کو بھجوا دیتا ہوں۔ چنانچہ میں نے ان دونوں کو مسٹر سلیئر کی طرف بھجوا دیا اور خود ان سپاہیوں سے پوچھا کہ تم میں افسر کون ہے۔ اس پر پہلے تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں پتہ نہیں ہمارا کون افسر ہے۔ پھر جب مزید اصرار کیا تو ان میں سے کوئی کہے کہ یہ افسر ہے اور کوئی کہے وہ افسر ہے۔ آخر ایک طرف اشارہ کرکے وہ کہنے لگے کہ ہم میں سے یہ سب سے بڑا ہے اور وہ بغیر وردی کے تھا۔ اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگا میں وردی میں ہی نہیں فلاں شخص ہے۔ اس نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ بے وردی شخص سینئر ہے میں افسر نہیں۔ جب اسے کہا گیا کہ وہ تو منکر ہے تو اس نے جواب دیا کہ >جیہنوں سمجھ لو<۔ یعنی جسے چاہیں افسر سمجھ لیں۔ آخر ان ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان سے پوچھا کہ تم کو یہ تو بتانا چاہئے تم میں سے بڑا کون ہے۔ اس پر بھی انہوں نے کچھ ایسا ہی جواب دیا۔ غرض اسی قسم کی آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔ خیر انہوں نے کہا۔ مسٹر سلیئر ایس ڈی او ابھی آجائیں گے۔ ان لوگوں سے بات کرنی فضول ہے آپ اندر چل بیٹھیں۔ چنانچہ وہ اور میں اور عزیزم مظفر احمد کمرہ میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں مسٹر سلیئر ناصر احمد کے ساتھ آگئے۔ مسٹر سلیئر نے کوٹ اتارا اور بیٹھتے ہی کہا کہ میں پولیس افسر نہیں۔ میرے پاس تو جب کیس آتا ہے اس وقت اسے سنتا ہوں۔ وہ مجھے ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے۔ یونہی یہ سن کر کہ کوئی شخص باہر سے یہاں چند دنوں کے لئے آیا ہوا ہے اور اسے پولیس والوں کے متعلق کوئی شکایت پیدا ہوئی ہے چلے آئے۔ میں نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا کہ آپ بغیر اس علم کے کہ کیا واقعہ ہوا ہے اور ہم پر کیا گزری ہے تشریف لے آئے ہیں۔ خیر انہیں تمام واقعات بتائے گئے انہوں نے کہا کہ ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت پولیس بغیر وارنٹ دکھائے گرفتار کرسکتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کہنے لگے یہ اختیارات انسپکٹر پولیس یا سب انسپکٹر پولیس کو حاصل ہیں ہر ایک کو حاصل نہیں۔ اس پر مسٹر سلیئر نے بتایا کہ انسپکٹر پولیس بیمار تھا اور تھانہ دار دورہ پر تھا اس وقت انچارج ایک ہیڈ کانسٹیبل ہی ہے اس لئے اسے اختیار حاصل ہے۔ پھر وہ واقعات سنتے رہے اور انہوں نے اس پر افسوس کا بھی اظہار کیا۔ اور کہا کہ کیا آپ کے نزدیک یہ کافی نہ ہوگا کہ میں انسپکٹر کو کہوں کہ وہ ان لوگوں کے متعلق مناسب کارروائی کرے۔ میں نے انہیں کہا کہ میں تو اس کے متعلق گورنر صاحب کو بھی تار دے چکا ہوں۔ اس لئے ان کے فیصلہ کا مجھے انتظار کرنا پڑے گا۔ اسی دوران میں پولیس کے بعض نقائص کو بھی انہوں نے تسلیم کیا اور جب انہیں بتایا گیا کہ وہ بغیر تلاشی لئے اندر آگئے تھے تو انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ میں خلاف قانون حرکت ہے اور انہیں اندر نہیں آنا چاہئے تھا۔ مگر انہوں نے کہا کہ میں مجسٹریٹ ہوں اور صرف اتنا کرسکتا ہوں کہ جب کیس میرے سامنے آئے تو اس کا فیصلہ کردوں۔ پولیس کی کارروائی میں دخل نہیں دے سکتا۔ البتہ لڑکے کی ضمانت ابھی لے لیتا ہوں۔
ڈی سی صاحب نے کہا۔ میں اس بارہ میں تجربہ کار ہوں۔ آپ یہ بات نہ کریں کیونکہ اس طرح آپ خود الزام کے نیچے آجائیں گے۔ پولیس نے ابھی تک آپ کے پاس رپورٹ نہیں کی اور قاعدہ یہ ہے کہ پہلے پولیس رپورٹ کرے اور پھر اس پر کسی قسم کا ایکشن لیا جائے۔ انہوں نے کہا۔ بہت اچھا۔ میں انچارج کو بلا لیتا ہوں۔ انہوں نے اسے بھیجا کہ جاکر تھانیدار انچارج کو بلا لائو۔ اس پر وہی شخص آیا جو بے وردی تھا۔ مسٹر سلیئر نے اس سے پوچھا کہ کیا تم انچارج ہو؟ اس نے کہا میں تو وردی میں نہیں میں کس طرح انچارج ہوسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا اچھا پھر کسی وردی والے کو بلائو۔ اس پر وہ کسی دوسرے کو بلا لایا جو وردی پہنے ہوئے تھا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ کیا تم انچارج ہو؟ تو وہ کہنے لگا میں کس طرح انچارج ہوسکتا ہوں میں تو جونیئر ہوں انچارج تو یہ ہے جو بغیر وردی کے ہے۔ اس پر مسٹر سلیئر بھی حیران ہوئے اور انہوں نے اسی شخص سے جو بغیر وردی کے تھا کہا کہ تم اس کیس کے متعلق میرے پاس رپورٹ کرو۔ پھر میں اس کا فیصلہ کروں گا۔ میں نے اس دوران میں انہیں توجہ دلائی کہ آپ دیکھیں یہ لوگ کس قسم کی حرکات کررہے ہیں کہ اصل انچارج بغیر وردی کے ہے اور جو وردی میں ہے وہ انچارج ہونے سے منکر ہے۔ اس سے وہ بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ انسپکٹر بیمار تھا۔ اگر وہ اچھا ہوتا تو شائد اس طرح واقعات نہ ہوتے۔ خیر وہ بے وردی شخص تو رپورٹ لکھنے کے لئے چلا گیا اور مسٹر سلیئر انتظار کرتے رہے۔ مگر جب دیر ہوگئی ہم نے ان سے کہا کہ آپ تشریف لے جائیے۔ جب رپورٹ آئے گی اور آپ چاہیں گے لڑکے کو آپ کے پاس ضمانت کے لئے پیش کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اس پر رضامند ہوکر چلے گئے۔ اور کہہ گئے کہ ڈی سی بھی شام کو آجائے گا میں نو بجے اطلاع دوں گا۔ اگر ضرورت ہوئی تو مرزا مظفر احمد خلیل احمد کو لے کر آجائیں میں ضمانت لے لوں گا۔ وہ تو چلے گئے مگر پولیس والے برابر ۱۲ بجے سے لیکر سات بجے شام تک رائفلیں لے کر ہمارے مکان کے صحن میں کھڑے رہے۔ پھر میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اب تم ان سے پوچھو کہ یہ کس قانون کے ماتحت یہاں کھڑے ہیں اور ان سے لکھوا لو تاکہ بعد میں یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو اس وقت تک وہاں نہیں ٹھہرے۔ انہوں نے کہا ہم کچھ لکھ کر دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس پر مرزا عبدالحق صاحب نے کہا کہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ جس طرح تم نے آج جھوٹ بولا ہے۔ اسی طرح کل جھوٹ بول دو اور کہہ دو کہ ہم تو وہاں گئے ہی نہیں تھے۔ پھر مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر نے ان سے کہہ دیا کہ اگر لکھ کر نہیں دیتے کہ ہم اس وقت تک بالا افسروں کے حکم سے مکان پر قبضہ کئے ہوئے ہیں تو پھر تمہارا کوئی حق یہاں ٹھہرنے کا نہیں پھر تم نکل جائو۔ میں نے مرزا صاحب سے کہا کہ آپ انہیں یہ نہ کہیں کہ یہاں سے نکل جائو کیونکہ ممکن ہے یہ لوگ جاکر یہ رپورٹ کریں کہ ہمیں مارا گیا ہے اور بات آخر وہی مانی جائے گی جو یہ کہیں گے۔ آج کل چونکہ جنگ ہورہی ہے اس لئے مجسٹریٹوں کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ پولیس والوں کو کیا ضرورت تھی کہ وہ جھوٹ بولتے پس میں نے ان سے کہا آپ یہ نہ کہیں کہ نکل جائو بلکہ کہیں کہ نہیں لکھ کر دیتے تو تمہاری مرضی ہم یہ لکھ لیں گے کہ تم فلاں وقت تک یہاں ٹھہرے ہو اور دوبارہ ان کی تصویر لے لو اور اس تصویر پر وقت بھی لکھ دو کہ اتنے بجے یہ تصویر لی گئی ہے۔ آخر شام کو اطلاع ملی کہ ایس ڈی او صاحب کے حکم کے مطابق جب پولیس نے رپورٹ کی تو معلوم ہوا کہ جس دفعہ کے ماتحت پولیس والوں نے کارروائی کرنی چاہی تھی اس کے ماتحت کارروائی کرنے کا پولیس کو اختیار ہی حاصل نہیں تھا۔ غرض ان کی اور بے ضابطگیوں میں ایک بڑی بے ضابطگی یہ بھی پائی گئی کہ جس دفعہ کے ماتحت انہوں نے کارروائی کرنی چاہی اس دفعہ کے ماتحت مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر کارروائی کا انہیں حق ہی حاصل نہیں تھا۔
سنا گیا ہے کہ اس رپورٹ پر ایس ڈی او صاحب نے انچارج ہیڈ کانسٹیبل کو بلا کر کہا کہ تم نے اس دفعہ کے ماتحت کس طرح کارروائی کی ہے جبکہ کارروائی کرنے کا تمہیں کوئی حق ہی حاصل نہیں تھا مجسٹریٹ نے کہا۔ قانون تمہیں اس بات کا اختیار نہیں دیتا البتہ مجسٹریٹ کے حکم سے تم ایسا کرسکتے ہو۔ اس کے بعد انہوں نے اسی وقت آدمی بھجوا دیا کہ وہاں جو پولیس کھڑی ہے اسے کہہ دیا جائے کہ وہ کوٹھی سے واپس چلے جائیں۔ چنانچہ سات بجے شام کو پولیس وہاں سے ہٹی۔ رات کو ایس ڈی او صاحب کا پھر رقعہ آیا کہ صبح میں مرزا خلیل احمد کے بارہ میں اطلاع دوں گا۔ دوسرے دن حسب وعدہ گیارہ بجے کے قریب ان کا رقعہ آیا کہ آپ خلیل احمد کو بے شک لے جائیں۔ ہماری طرف سے اس میں کسی قسم کی روک نہیں۔ چنانچہ اس پر ہم قادیان آگئے۔ صبح کے شور و شر کے بعد جب مختلف لوگوں کی گواہیاں لینے کے لئے میں نے مرزا عبدالحق صاحب کو مقرر کیا تاکہ تازہ بتازہ شہادت قلمبند ہو جائے تو مجھے معلوم ہوا کہ پولیس ڈاک آنے سے پہلے ہی ڈاک خانہ کے پاس بیٹھی تھی حالانکہ ابھی پیکٹ نہیں آیا تھا۔ اسی طرح وہ سڑکوں پر بھی مختلف جگہوں پر کھڑی تھی۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ پولیس پیکٹ کے منصوبہ میں شامل تھی اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکیہ نے اصرار کرکے خلیل احمد کو پیکٹ دیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب ڈاکیہ پیکٹ لایا تو خلیل احمد وہ پیکٹ درد صاحب کے پاس لایا اور کہنے لگا کہ یہ میرے نام بیرنگ پیکٹ آیا ہے کیا میں لے لوں؟ درد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا ایسا پیکٹ نہیں لینا چاہئے۔ مگر وہ باہر جاکر پھر آیا اور اس نے دو آنہ ڈاکیہ کو دینے کے لئے طلب کئے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا کہ ڈاکیہ اصرار کرنے لگا تھا کہ ضرور پیکٹ لے لیا جائے اور کہنے لگا کہ دو آنے خرچ کرنا کونسی بڑی بات ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ ڈاکیہ کو بھی پولیس نے یہ کہہ کر بھجوایا تھا کہ تم اصرار کرنا تاکہ خلیل احمد اس پیکٹ کو وصول کرلے۔ یہ واقعات ہیں جو میں نے بغیر کسی قسم کی جرح کے اور بغیر اپنے جذبات کو ظاہر کرنے کے بیان کر دیئے ہیں۔ میں نے یہ نہیں بتایا کہ کس کس طرح ان واقعات سے سلسلہ اور ہم پر حرف آیا ہے یا ان واقعات سے اور ان سے جن کو میں نے ظاہر نہیں کیا کس طرح پولیس والوں کی بدنیتی اور ان کی جماعت کو ذلیل کرنے کی کوشش ظاہر ہوتی ہے۔ میں ان امور کو اس وقت تک ملتوی رکھتا ہوں جب تک گورنمنٹ سے اس بارہ میں میں گفتگو نہ کرلوں اور یہ نہ معلوم کرلوں کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے۔ مگر جو چیز مجھے عجیب لگی ہے جو میرے دل میں کھٹکتی ہے اور جس کے بیان کرنے سے میں نہیں رک سکتا وہ یہ ہے کہ اگر اس ایکٹ کا وہی مفہوم ہے جو اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے تو پھر اس ایکٹ کے ماتحت کسی کو بھی کوئی پیکٹ بھجوا کر گرفتار کرا دینا بالکل آسان امر ہے اور اس طرح ہماری جماعت کا کوئی فرد اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ کل ممکن ہے میرے پاس اس طرح کا کوئی پیکٹ آجائے اور پولیس مجھے گرفتار کرلے۔
آخر سوشلسٹوں کے لئے یا پولیس کے لئے اس قسم کا پیکٹ بھجوانا کیا مشکل ہے۔ سوشلسٹوں کے اشتہارات وغیرہ اس کے قبضہ میں آتے ہی رہتے ہیں وہ آسانی سے کسی دوسرے کے نام وہی اشتہارات بصورت پیکٹ بھیج کر اسے گرفتار کرا سکتی ہے۔ گویا تمام معززین کی عزتیں اور جانیں خطرہ میں ہیں اور امن محض سی۔ آئی۔ ڈی کے چند افسروں کے ہاتھ میں رہ گیا ہے۔ میں نے اس خط میں جو ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب کو بھجوایا ہے یہی لکھا ہے اور ان سے پوچھا ہے کہ کیا قانون کا یہی منشاء ہے۔ میں کسی بڑے افسر کا نام ادب کی وجہ سے نہیں لیتا لیکن کیا ان کو اس قسم کا پیکٹ اگر کوئی بھیج دے تو پولیس تین چار منٹ کے بعد ہی ان کو گرفتار کرلے گی۔ حالانکہ تین چار منٹ میں کوئی انسان خواہ کتنا ہی سمجھ دار ہو کتنا ہی طاقتور ہو کتنے ہی وسیع ذرائع رکھنے والا ہو یہ نہیں کرسکتا کہ اس پیکٹ کو ڈپٹی کمشنر یا سپرنٹنڈنٹ پولیس کے پاس بھجوائے۔ آخر وہ کونسا ذریعہ ہے جس کے ماتحت اس قسم کا پیکٹ پہنچنے کے تین چار منٹ بعد ہی انسان اسے کسی ذمہ دار افسر تک پہنچا سکے اور اس طرح اپنی بریت ثابت کرسکے میں سمجھتا ہوں انگریزوں کے جرنیل اور کرنیل بھی یہ طاقت نہیں رکھتے کہ وہ باوجود بڑی طاقت رکھنے کے باوجود ہوائی جہاز رکھنے کے اس قسم کا پیکٹ پہنچنے کے بعد تین چار منٹ کے اندر اندر اس کے متعلق کوئی کارروائی کرسکیں۔ پس اگر اس قانون کا یہی مفہوم ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہندوستان کے ہر شخص کی عزت خطرے میں ہے۔ فرض کرو میں اس وقت وہاں موجود نہ ہوتا تو کیا اس قانون کے ماتحت خلیل احمد مجرم نہیں تھا۔ یا فرض کرو وہ اس کی اہمیت کو نہ سمجھتا اور اس پیکٹ کو کمرہ میں پھینک دیتا تو کیا وہ مجرم نہ بن جاتا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس قانون کا یہ منشاء ہو جو پولیس نے سمجھا لیکن چونکہ میں نے اس کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلائی ہے اس لئے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ گورنمنٹ اس کا کیا جواب دیتی ہے۔ اگر گورنمنٹ کا یہی منشاء ہے تو بغیر مزید تحقیق کئے ابھی سے یہ کہے دیتا ہوں کہ اس کے ماتحت ہندوستان میں کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں اور اگر اس قانون کا یہ منشاء نہیں اور اگر گورنمنٹ نے ایسے اصول تجویز کئے ہیں جن سے اس قسم کے خطرات کا ازالہ ہوسکتا ہے تو یقیناً گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ان لوگوں کو جو اس واقعہ کے ذمہ دار اور اصل مجرم ہیں سزا دے<۔۳۲
‏]0 [stfمخلصین جماعت کا ردعمل
اس واقعہ کا منظر عام پر آنا ہی تھا کہ مخلصین جماعت کے دلوں میں زبردست ہیجان اور جوش پیدا ہوگیا اور انہوں نے حضرت امیرالمومنینؓ کے حضور اپنے نام پیش کرنے شروع کر دیئے کہ اس موقعہ پر ہم سے انفرادی طور پر جس جس قربانی کا مطالبہ کیا جائے گا اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ تاہم جذبات کے حددرجہ مجروح ہونے کے باوجود انہوں نے ہر نوع کے غیر آئینی اقدام سے کلیت¶ہ اجتناب کیا اور صبروتحمل کا بے نظیر نمونہ دکھایا۔
دوسروں کا ردعمل
‏0] ftr[جماعت احمدیہ کی مظلومیت کا یہ نظارہ دیکھ کر ملک کے سنجیدہ اور معزز مسلم و غیر مسلم حلقوں نے بھی پولیس کی ظالمانہ کارروائی کو سخت نفرت و حقارت سے دیکھا اور جماعت سے ہمدردی کا اظہار کیا۔۳۳
اخبارات کا زبردست احتجاج
سب سے عمدہ نمونہ ہندوستان کے پریس نے دکھایا جس نے اس واقعہ کی تفصیلات شائع کرنے کے علاوہ اس پر زوردار احتجاجی نوٹ لکھے۔
اخبار >انقلاب< لاھور
شمالی ہند کے مشہور مسلمان اخبار >انقلاب< )لاہور( نے اپنی ستمبر ۱۹۴۱ء کی اشاعت میں لکھا۔
>قادیانیوں کے متعلق کسی سرکاری یا غیرسرکاری آدمی کو یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ وہ حکومت کے خلاف باغیانہ لٹریچر کی اشاعت میں شریک ہوسکتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ تعاون اور مساعی جنگ کی پرزور حمایت کے باب میں ان کی پالیسی ساری دنیا پر آشکارا ہے` پھر اگر اس گروہ کے امام کا صاحبزادہ بھی ایک ایسے معاملے میں محل شبہات بن سکتا ہے جس سے نظربہ ظاہر اس کا کوئی تعلق نہ تھا تو ان لوگوں کی آزادیاں اور عزتیں کیونکر محفوظ سمجھی جاسکتی ہیں جن کے متعلق حکومت یا عوام کو وفاداری کا ویسا یقین نہیں ہوسکتا جیسا کہ قادیانی اصحاب کے متعلق ہے۔
ہم مرزا صاحب کی اس رائے سے متفق ہیں کہ قانون کا ایسا استعمال اور ان پڑھ یا قریباً ان پڑھ پولیس کے معمولی جوانوں کو مختار بنا دینا یقیناً بے حد خطرناک ہے اور جن حوادث سے مرزا صاحب کو سابقہ پڑا کسی شریف انسان کے لئے بھی اطمینان بخش نہیں ہوسکتے۔
حکومت کا فرض ہے کہ اس قسم کے واقعات کا سختی سے انسداد کرے۔ حکومت کے کاروبار امن و تحفظ سے کوئی آئین پسند انسان اختلاف نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس شخص کے نام کوئی شخص خلاف آئین لٹریچر بھیج دے اسے معاً مجرم سمجھ لیا جائے اور اس کی زندگی کے محکم حقائق کی طرف سے آنکھیں بالکل بند کرلی جائیں۔ یہ طرز عمل سراسر غلط اور دل آزار ہے۔ حکومت پنجاب کا فرض ہے کہ وہ اس واقعہ کی مناسب تلافی کرے اور آئندہ کے لئے قانون کے صحیح استعمال کے متعلق تمام لوگوں کو یقین دلائے گی یہ کم سے کم صورت ہے۔ معاملہ مرزا صاحب یا ان کی جماعت کا نہیں بلکہ ہر ہندوستانی کو اس کے ساتھ گہرا تعلق ہے<۔۳۴
اخبار >پارس< لاھور
لاہور کے ہندو اخبار >پارس< نے >امیر جماعت احمدیہ سے بدسلوکی< کے عنوان سے )۲۷۔ ستمبر ۱۹۴۱ء کو( حسب ذیل اداریہ لکھا۔
>ایک مذہبی پیشوا کی حیثیت سے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو ملک میں جو قابل رشک پوزیشن حاصل ہے اس سے ہر شخص واقف ہے۔ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کے لئے ان کا لفظ حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ ایک ایسی جماعت کے رہبر ہیں جس کے بانی نے بادشاہ وقت کی اطاعت کو ایک اصول کا درجہ دیا۔ حکومت برطانیہ کی وفاداری اور اس سے دوستی کو جماعت مذکور نے اپنا فرض قرار دیا جس کے لئے اسے اپنے ہم وطنوں کے طعن و تشنیع برداشت کرنے پڑے۔ گزشتہ اور موجودہ جنگ میں مرزا صاحب اور ان کے پیروکاروں نے حکومت کی مالی اور بھرتی کے سلسلہ میں جو مدد کی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن ان کے ساتھ حکومت کے کارندوں کی طرف سے جو نامناسب سلوک روا رکھا گیا ہے وہ اس قابل نہیں کہ جسے آسانی سے نظر انداز کیا جائے۔
مرزا صاحب موصوف کو ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے استعمال پر اپنے ساتھ پیش آمدہ مذکورہ بالا واقعہ سے کس قدر ذہنی تکلیف ہوئی ہے اس کا اندازہ ان کے ذیل کے تلخ الفاظ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آپ اپنے خطبہ کے دوران میں فرماتے ہیں۔ )آگے حضور کے خطبہ سے اقتباس دیا گیا ہے۔ ناقل(
جہاں ہمیں اس رنج دہ معاملہ میں خلیفہ صاحب قادیان سے دلی ہمدردی ہے وہاں ہم حکومت کے اس نظام کی خامیوں پر ماتم کئے بغیر نہیں رہ سکتے جس کی رو سے ایک ایسی جماعت کے پیشوا کی توہین ہوئی جو حکومت برطانیہ کی بہت بڑی مددگار اور دوست سمجھی جاتی ہے۔ اگر مرزا صاحب کے خاندان کے کسی فرد پر محض ایک پیکٹ کے وصول ہونے کی وجہ سے سڈیشن۳۵ کا شبہ کیا جاسکتا ہے اور مرزا صاحب ایسی پوزیشن کے بلند مرتبت بزرگ کے ساتھ پولیس کے معمولی سپاہی بدسلوکی سے پیش آسکتے ہیں تو پھر کسی بھی شخص کی عزت محفوظ نہیں سمجھنی چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس معاملہ کو معمولی سمجھ کر ٹال نہ دے بلکہ کسی خاص افسر کے ذریعہ اس کی تحقیقات کروائے اور اس سازش کا پتہ لگا کر جس کے ذریعہ مرزا صاحب کو نقصان پہنچانے کی مذموم حرکت کی گئی۔ سازش کنندگان کو قرار واقعی سزائیں دے تاکہ آئندہ کسی کو اس قسم کی جسارت کی جرات نہ ہوسکے۔ ہماری رائے میں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر جماعت اور ذمہ دار اخبار کو اس واقعہ کی جو مرزا صاحب قادیان کے ساتھ پیش آیا پرزور الفاظ میں مذمت کرنی چاہئے کیونکہ اسے اگر نظرانداز کیا گیا تو اس قسم کے واقعات بڑی سے بڑی پوزیشن کے مذہبی اور سیاسی رہنما کے ساتھ پیش آسکتے ہیں<۔
اخبار >حق< لکھنو
لکھنو کے اخبار >حق< نے ۲۷۔ ستمبر ۱۹۴۱ء کی اشاعت میں >جماعت احمدیہ کی توہین< کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ لکھا۔
>اگر یہ اطلاع صحیح ہے تو ہم گورنمنٹ پنجاب سے یہ پوچھنے کا پورا حق رکھتے ہیں کہ ایک ایسی محترم اور باعث عزت شخصیت کے خلاف کہ جو ایک طاقتور جماعت کا سردار اور امیر ہے اور جس کی شخصی اور جماعتی وفاداری حکومت کے ساتھ ضرب المثل کا درجہ رکھی ہے اس سے پولیس نے اس قسم کا اہانت امیز برتائو کیوں کرکیا اور کس حکم سے اس جماعت کے بارے میں ظاہر ہے کہ یہ شبہ تو ہوہی نہیں سکتا تھا کہ اس کا کوئی فرد چہ جائیکہ اس کا خود امیر حکومت کے خلاف کسی باغیانہ لٹریچر کی نشر و اشاعت کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لئے کہ نہ صرف سابقہ موقعوں پر بلکہ موجودہ جنگ میں بھی ان کا گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ اتحاد عمل اور اتحادی حکومتوں کی تائید میں ان کا پروپیگنڈا ہر ایک کے علم میں ہے اور اگر اس کے باوجود بھی کسی ایسی ممتاز و محترم شخصیت کے ساتھ حکومت پنجاب اس قسم کے طرز عمل کو جائز قرار دے سکتی ہے تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی دوسرے کو اس سے کیا توقع رکھنی چاہئے اور یہ بھی تو دیکھے کہ انصاف اور قانون کے کس ضابطہ اور اصول کے ماتحت ایسے شخص کو کہ جس کا وفاداری کا ریکارڈ اتنا شاندار ہو محض مغویانہ لٹریچر کے ڈاک سے وصول کرنے کی پاداش میں مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر قصور وار کوئی ہوسکتا ہے تو اس کا بھیجنے والا نہ کہ اس کا پانے والا۔ بہرحال ہم اس زبردست مذہبی اور سیاسی اختلافات کے باوجود کہ جو ہمارے اس جماعت سے ہیں پنجاب پولیس کے اس غیر شریفانہ طرز عمل کے خلاف اپنے دلی غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پنجاب سے اس کی تحقیقات اور تلافی اور ائندہ کے لئے اس کے انسداد کی پرزور خواہش کریں گے۔ اگر واقعات وہ نہیں ہیں کہ جو اس سلسلہ میں ہمارے علم میں آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو حکومت پنجاب کا یہ ایک ضروری اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ امیر جماعت احمدیہ کے اس بیان کے جواب میں جو انہوں نے روزنامہ >الفضل< میں اس کے متعلق شائع کیا ہے اپنا جوابی بیان شائع کرکے اپنی پوزیشن کی صفائی پیش کردے تاکہ عام قلوب میں اس کے اس طرز عمل سے جو بے چینی پیدا ہوئی ہے وہ رفع ہو جائے۔ کیا سرسکندر کی حکومت ہمارے اس جائز مطالبہ کو پورا کرنے پر تیار ہوسکتی ہے؟<۳۶
اخبار >سرفراز< لکھنو
شیعہ اصحاب کے جماعتی آرگن روزنامہ >سرفراز< لکھنو نے >جماعت احمدیہ کی ایک قابل لحاظ شکایت< کے عنوان سے ۲۱۔ ستمبر ۱۹۴۱ء کو لکھا۔
>ہم کسی مذہب و ملت کے پیشوا کی توہین پسند نہیں کرتے اس لئے ہمیں یہ سن کر افسوس ہوا کہ جماعت احمدیہ >قادیان< کے موجودہ پیشوا کے ساتھ کوہ ڈلہوزی پر جہاں آپ بغرض تبدیل آب و ہوا معہ اپنے متعلقین کے مقیم تھے پنجاب کی پولیس نے غالباً کسی خفیہ رپورٹ کی بناء پر اتنا زیادہ نامناسب برتائو کیا جس نے خود آپ کو نیز آپ کے معتقدین کو بڑی تکلیف پہنچی۔
ہم کو امید ہے کہ حکومت اس معاملہ کی چھان بین کرکے اس کی مناسب تلافی کرے گی۔ تاکہ ہندوستان کی ہر ملت وقوم کو یہ اطمینان ہوسکے کہ اس کے پیشوا کی عزت سرکاری عمال کے ہاتھوں معرض خطر میں نہیں لائی جائے گی<۔۳۷
اخبار >حقیقت< لکھنو
صوبہ متحدہ کے سنی مسلمانوں کے ترجمان اخبار >حقیقت< نے ۱۹۔ ستمبر کو >جماعت احمدیہ کے پیشوا کی توہین< کی سرخی سے حسب ذیل شذرہ سپرد قلم کیا۔
>معاصر >الفضل< )قادیان( سے ہمیں یہ معلوم کرکے بہت افسوس ہوا کہ امام جماعت احمدیہ قادیان کے ساتھ کوہ ڈلہوزی پر جہاں آپ بغرض تبدیل آب و ہوا معہ اپنے متعلقین کے مقیم تھے۔ پنجاب پولیس کی جانب سے غالباً پنجاب سی۔ آئی۔ ڈی کی کسی رپورٹ کی بناء پر بہت ہی نازیبا اور قابل اعتراض برتائو کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کسی اور جماعت کے لیڈر کے ساتھ ایسا برتائو کیا گیا ہوتا تو ہمارا خیال ہے کہ اس وقت ہندوستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایسی آگ لگ چکی ہوتی جو آسانی سے بجھائی نہیں جاسکتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام مسلمانوں کو احمدی جماعت سے عقائد میں یقیناً اختلاف ہے لیکن اس وقت ہم جس واقعہ کا ذکر کررہے ہیں وہ ان عقاید کے سوال سے بالا ہے اور یہ وہ امور ہیں جن پر سب کو متفق ہو کر پنجاب گورنمنٹ کے اس نازیبا فعل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا چاہئے۔ کیونکہ ایک ایسی حکومت کے لئے جس کا وزیراعظم ایک مسلمان ہو اس قسم کے امور ضرور شرمناک کہے جائیں گے۔ یہ ایسی بات ہے جس کے بارے میں اگر احتجاج نہ کیا گیا تو کسی بڑے سے بڑے ہندوستانی لیڈر کی عزت اور آبرو محفوظ نہ رہے گی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سرسکندر کی حکومت میں ہندوستان کے سب سے زیادہ اطاعت شعار وفادار اور پابند قانون جماعت کے لیڈر کے ساتھ ایسا انسانیت سوز برتائو ہوسکتا ہے تو پھر کانگرسی رہنمائوں سے کیا کچھ
‏tav.8.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
اشاعت احمدیت کی خصوصی تحریک سے واقعہ ڈلہوزی تک
نہیں مگر پیچھے آکر بھی انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے اپنے تعلقات مضبوط کئے اور بڑھائے تو ان کے لڑکوں کے رشتے بھی اللہ تعالیٰ نے مخلص گھرانوں میں کرا دیئے۔ لڑکیوں کی شادیاں بھی وہ چاہتے تھے پنجاب میں ہی ہوں۔ غرض امتہ الحفیظ کا نکاح تو خلیل احمد صاحب سے ہوگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چھوٹی لڑکی امتہ الحی کے نکاح کا اعلان میں اس وقت کررہا ہوں جو خان صاحب ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب کے ایک قریبی عزیز اور شاید بھانجے محمد یونس صاحب کے ساتھ قرار پایا ہے۔ اس رشتہ میں بھی سیٹھ صاحب نے اخلاص کو مدنظر رکھا ہے۔ تمدن کے اختلاف کی وجہ سے میں ان کو لکھتا تھا کہ حیدرآباد میں ہی رشتہ کریں۔ مگر ان کی خواہش تھی کہ قادیان یا پنجاب میں ہی رشتہ ہو تا قادیان آنے کے لئے ایک اور تحریک ان کے لئے پیدا ہو جائے۔ محمد یونس صاحب ضلع کرنال کے رہنے والے ہیں جو دہلی کے ساتھ لگتا ہے مگر حیدرآباد کی نسبت قادیان سے بہت نزدیک ہے۔ سیٹھ صاحب کا خاندان ایک مخلص خاندان ہے ان کی مستورات کے ہمارے خاندان کی مستورات سے` ان کی لڑکیوں کے میری لڑکیوں سے اور ان کے اور ان کے لڑکوں کے میرے ساتھ ایسے مخلصانہ تعلقات ہیں کہ گویا خانہ واحد والا معاملہ ہے۔ ہم ان سے اور وہ ہم سے بے تکلف ہیں اور ایک دوسرے کی شادی و غمی کو اس طرح محسوس کرتے ہیں جیسے اپنے خاندان کی شادی و غمی کو<۔۲۱
حافظ آباد` گکھڑ` چنیوٹ اورکوئٹہ میں مسجدوں کی تعمیر
۱۳۲۰ہش )۱۹۴۱ء( کے دوران مندرجہ ذیل چار مقامات پر احمدی مساجد تعمیر کی گئیں۔
۱۔ حافظ آباد ۲۔ گکھڑ ۳۔ چنیوٹ ۴۔ کوئٹہ۔
مسجد احمدیہ حافظ آباد
اس مسجد کے لئے قطعہ زمین ناصرالدین صاحب صدیقی تحصیلدار حافظ آباد کی کوشش سے فراہم ہوا اور اس کی بنیادی اینٹ حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی نے ۴۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش کو رکھی۔۲۲
مسجد احمدیہ گکھڑ
اس سال کے آغاز میں ضلع گوجرانوالہ کے قصبہ گکھڑ میں ایک احمدیہ مسجد کی تعمیر ہوئی۔۲۳
مسجد احمدیہ چنیوٹ
چنیوٹ ضلع جھنگ کا ایک مشہور تجارتی شہر ہے۔ جہاں اگست ۱۹۴۱ء/ ظہور ۱۳۲۰ہش میں ایک خوبصورت احمدیہ مسجد پایہ تکمیل کو پہنچی۔۲۴ سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی )کلکتہ( مسجد احمدیہ چنیوٹ کے ابتدائی حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>غالباً ۱۹۱۸ء کا ذکر ہے جماعت احمدیہ چنیوٹ کے احباب غیر احمدیوں کی مسجد میں جو بڑے بازار کے عقب میں واقع ہے اور >اندر والی مسجد< کہلاتی ہے جمعہ کی نماز ادا کیا کرتے تھے کیونکہ اس ایریا کے غیر احمدی مسجد ٹاہلی والی میں جمعہ پڑھا کرتے تھے۔ ایک جمعہ کی نماز کے معاًبعد ان لوگوں کے سرکردہ ممبر ایک حاجی صاحب نے اعلان کیا کہ درست سنتیں پڑھنے کے بعد بیٹھ جائیں کیونکہ >مرزائی< ہماری مسجد میں جمعہ پڑھتے ہیں اس مسجد سے ان کو نکال دینا چاہئے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بعد ازاں یہ قریباً دو تین صد اشخاص کا جم غفیر حاجی صاحب مذکور کی سرکردگی میں >مسجد اندر والی< پہنچا۔ اس وقت احمدیوں کا خطبہ ہورہا تھا۔ ان حاجی صاحب نے آگے بڑھ کر احمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے بڑے غصہ اور درشت الفاظ میں کہا کہ >یہ مسجد ہماری ہے۔ تم لوگ یہاں نماز پڑھنے کیوں آتے ہو۔ اگر آئندہ یہ حرکت کی تو نہایت برا سلوک کیا جائے گا<۔ یہ کہہ کر وہ جواب کے انتظار میں کھڑے ہوگئے۔ اس وقت شیخ مولا بخش صاحب مگوں مرحوم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے۔ انہوں نے خطبہ کے دوان ہی میں آسمان کی طرف منہ کرتے ہوئے کہا کہ >خدایا! ہم تو اس مسجد کو تیرا گھر سمجھ کر تیری عبادت کرنے یہاں آیا کرتے تھے۔ اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تیرا گھر نہیں ہے بلکہ ان کا ہے۔ سو ان کے گھر میں تو ہم تیری عبادت کرنے نہیں آئیں گے<۔ اس جواب کو سنکر وہ لوگ چلے گئے۔ ان ایام میں ہی خاکسار کلکتہ سے چنیوٹ گیا ہوا تھا۔ میں نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے احباب جماعت سے درخواست کی کہ آئندہ سے جمعہ کی نمازیں وہ میرے مکان پر ادا کیا کریں اور اس کے لئے ضروری انتظام بھی کیا۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس جمعہ سے تین ہفتہ قبل انجمن اسلامیہ چنیوٹ نے اپنی مملوکہ زمین واقعہ محلہ راجن پورہ کو فروخت کرنے کا بذریعہ منادی اعلان کیا۔ زمین کے مختلف پلاٹ بنائے گئے تھے۔ اور مذکورہ حاجی صاحب کو جو اس انجمن کے آنریری نائب منتظم تھے نیلام کنندہ کی ڈیوٹی پر مامور کیا تھا۔ نیلام کے لئے مذکورہ واقعہ والے جمعہ کے بعد آنے والی جمعرات کا دن بعد از نماز عصر مقرر تھا۔ جب نیلامی شروع ہوئی تو میں بھی تماشائی کے طور پر اس مجمع میں ان حاجی صاحب کے بالکل قریب کھڑا تھا۔ جب اس پلاٹ کی باری آئی جس پر اب مسجد احمدیہ بنی ہوئی ہے تو نیلام کنندہ نے سرگوشی کے ساتھ مجھے مخاطب کرتے ہوئے آہستہ سے کہا کہ >تمہارے پاس کوئی مسجد نہیں یہ بہت موقعہ کا چوکور پلاٹ ہے کیوں اسے خرید نہیں لیتا؟< ان کے یہ الفاظ میرے کانوں سے گزر کر اس طرح دل میں اتر گئے جس طرح سوچ کے دبانے سے بجلی کا بلب روشن ہو جاتا ہے۔ اس بارہ میں احباب جماعت سے مشورہ تو الگ رہا سرسری ذکر بھی کبھی نہیں ہوا تھا مگر میں نے توکل بخدا بولی میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ دوسرے خریدار چونکہ دنیاوی اغراض کے لئے اس پلاٹ کے خواہشمند تھے اس لئے وہ قیمت کے بارہ میں محتاط رنگ میں بولی دے رہے تھے مگر میرے دل میں تو خدا کے گھر کی تعمیر کی خاطر ایک خاص جوش پیدا ہوچکا تھا اس لئے میں نے اس بولی میں حصہ لینا شروع کر دیا جس کے نتیجہ میں چھ مرلہ کا یہ ٹکڑا دو سو ستر روپے فی مرلہ کے حساب سے میرے نام پر ختم ہوا۔ گو میں نے نیلام کنندہ کی تحریک کے جواب میں ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہیں نکالا تھا مگر انہی نیلام کنندہ حاجی صاحب نے فی الفور اس مجمع میں اعلان کر دیا کہ >بھائیو! یہاں مرزائیوں کی مسجد بنے گی<۔ خداتعالیٰ کے کیا ہی عجیب تصرفات ہیں کہ جس شخص نے احمدیوں کو اپنی مسجد سے نکالا تھا دوسرا جمعہ آنے سے قبل اسی کی تحریک پر احمدیوں نے مسجد کے لئے زمین خریدی اور خود اسی کی زبان سے اللہ تعالیٰ نے اس کا اعلان بھی کرا دیا۔ سبحان اللہ العظیم۔ دوسرے دن جمعہ کی نماز کے لئے حسب انتظام جب احمدی احباب میرے مکان پر جمع ہوئے تو میں نے ان کو یہ خوشخبری سنائی اور اسی وقت زمین کی قیمت وغیرہ کے لئے چندہ کی اپیل کی۔ چنیوٹ کے جو احباب کلکتہ لاہور آگرہ وغیرہ مقامات پر تجارت کرتے تھے سب کو تحریک کی گئی مولا کریم کی مہربانی سے سب نے حسب توفیق دل کھول کر چندہ دیا۔ کافی عرصہ تک وہ زمین یونہی پڑی رہی اور غالباً بیس بائیس سال بعد جماعت کے دوستوں کو خداتعالیٰ نے توفیق دی کہ وہ اس خانہ خدا کی تعمیر کریں۔ میرے نہایت ہی واجب الاحترام بزرگ چچا میاں جناب حاجی تاج محمود صاحب مرحوم کی سرپرستی میں اور میرے چھوٹے بھائی میاں محمد یوسف صاحب بانی کی نگرانی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ خوبصورت مسجد تیار ہوگئی۔ چنیوٹ کے اور بھی بعض دوستوں نے اس کی تعمیر میں نمایاں خدمات سرانجام دیں<۔۲۵
مسجد احمدیہ کوئٹہ
اس سال جماعت احمدیہ کی چوتھی مشہور مسجد۲۶ کوئٹہ میں تعمیر ہوئی۔ اس مسجد کا سنگ بنیاد ۲۴۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش کو رکھا گیا۔ سب سے پہلے امیر جماعت کوئٹہ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا مسجد فضل لنڈن سے متعلق افتتاحی خطاب پڑھ کر سنایا۔ ازاں بعد کوئٹہ میں موجود صحابہ نے مسجد مبارک کی دو اینٹیں )جن پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے دعا فرمائی تھی( ایک رومال میں رکھ کر محراب کی بنیاد تک پہنچائیں اور امیر جماعت نے ان کو نصب کردیا۔۲۷ مسجد کی تعمیر جب تمام مراحل طے کرتی ہوئی چھت تک پہنچی تو احمدیوں نے کنکریٹ کی چھت ڈالنے کے لئے ۱۲۔ اخاء )اکتوبر( کو رمضان شریف کے مبارک مہینہ میں ڈھائی بجے دوپہر سے لیکر نو بجے شب تک نہایت جوش و خروش سے وقار عمل منایا۔۲۸ ۲۸۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش کو نماز جمعہ کے بعد اس کا افتتاح عمل میں آیا۔۲۹ اس مسجد کی تعمیر میں کوئٹہ کے مخلص احمدیوں کے علاوہ سمندرپار کے احمدیوں نے بھی فراخدلی سے چندہ دیا۔۳۰
دوسرا باب )فصل چہارم(
واقعہ ڈلہوزی
حکومت پنجاب کے بعض اعلیٰ افسر سالہا سال سے جماعت احمدیہ کو باغی ثابت کرکے اس کے خلاف جارحانہ اور منتقمانہ کارروائیوں پر تلے ہوئے تھے۔ اس خوفناک منصوبہ نے جو اندر ہی اندر ایک خاص سکیم کے تحت جاری تھا۔ ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش میں یکایک ایک نئی اور بھیانک شکل اختیار کرلی جس کی نسبت حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے یہ رائے ظاہر فرمائی کہ سلسلہ کی تاریخ میں ایک نرالا واقعہ ہے۔ ایسا نرالہ کہ میں اسے ۱۹۳۴ء کے اس واقعہ سے بڑھ کر سمجھتا ہوں جبکہ گورنر پنجاب نے مجھ کو رات کے وقت نوٹس بھجوایا تھا کہ تم احمدیہ جماعت کے افراد کو روک دو کہ وہ قادیان میں نہ آئیں اور بعد میں گورنران کونسل نے اس کے متعلق دو دفعہ معذرت کی اور اپنی غلطی کا اقرار کیا۔۳۱ یہ اہم واقعہ ۱۰۔ تبوک ۱۳۲۰ہش )۱۰۔ ستمبر ۱۹۴۱ء( کو پیش آیا۔ جبکہ حضور ڈلہوزی میں تبدیلی آب وہوا کے لئے تشریف فرما تھے۔
واقعہ ڈلہوزی کی تفصیل حضرت امیرالمومنینؓ کے الفاظ میں
یہ واقعہ جسے ہم آئندہ >واقعہ ڈلہوزی< کے نام سے موسوم کریں گے اپنی اہمیت کے لحاظ سے تقاضا کرتا ہے کہ اس کی تفصیلات خود حضرت امیر المومنینؓ کی زبان مبارک سے بیان کی جائیں۔ حضور نے ۱۲۔ تبوک ستمبر ۱۳۲۰ ہش/ ۱۹۴۱ء کو اس واقعہ کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ۔:
>بارہ بجے کا وقت تھا کہ میرا لڑکا خلیل احمد جس کی عمر اس وقت پونے سترہ سال ہے میرے پاس آیا اس کے ہاتھ میں ایک پیکٹ تھا جو بند تھا۔ وہ پیکٹ گول تھا اس کے باہر ایک کاغذ لپٹا ہوا تھا اور اس کاغذ پر اس کا پتہ لکھا ہوا تھا۔ خلیل احمد نے وہ پیکٹ مجھے دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ پیکٹ کسی نے میرے نام بھجوایا ہے اور گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوتا ہے۔ میں نے وہ پیکٹ اس کے ہاتھ سے لے لیا اور چونکہ وہ بند تھا اس لئے طبعاً مجھے خیال پیدا ہوا کہ اسے کیونکر معلوم ہوا کہ یہ پیکٹ گورنمنٹ کے خلاف ہے چنانچہ میں نے اسے کہا یہ پیکٹ تو بند ہے تمہیں کیونکر معلوم ہوا کہ اس میں کوئی ایسے کاغذات ہیں جو گورنمنٹ کے خلاف ہیں۔ اس نے کہا کہ اس پیکٹ کا خول کچھ ڈھیلا سا ہے میں نے بغیر اوپر کا کور پھاڑنے کے اندر سے کاغذات نکال کر دیکھے تو معلوم ہوا کہ اس میں گورنمنٹ کے خلاف باتیں لکھی ہوئی ہیں۔ اس پر میں نے بھی دیکھا تو واقعہ میں کور کچھ ڈھیلا سا تھا۔ پھر تجربہ کے طور پر میں نے بھی بغیر کور پھاڑنے کے اس میں سے کاغذات نکالے اور مجھے فوراً معلوم ہوگیا کہ خلیل احمد جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہے۔ میں نے وہ اشتہار سب کا سب نہیں پڑھا بلکہ صرف ایک سطر دیکھی اس کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا کہ گورنمنٹ نے بعض ہندوستانی سپاہیوں کو کسی جگہ مروا دیا ہے۔ غرض بغیر اس کے کہ میں اس اشتہار کو پڑھتا صرف ایک سطر دیکھ کر اور خلیل احمد کی بات کو درست پاکر میں نے وہ پلندا کور میں ڈال دیا اور درد صاحب کی طرف آدمی بھجوایا کہ وہ فوراً مجھ سے آکر ملیں۔ درد صاحب ایک دو منٹ بعد ہی سیڑھیوں پر آگئے۔ میں سیڑھیوں میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان کے ہاتھ میں وہ پیکٹ دیتے ہوئے کہا کہ یہ پیکٹ خلیل احمد کے نام آیا ہے اور اس نے مجھے ابھی آکر دیا ہے اس نے مجھے بتایا تھا کہ یہ پیکٹ گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوتا ہے اور جب میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ یہ گورنمنٹ کے خلاف ہے تو اس نے بتایا کہ میں نے بغیر کور پھاڑنے کے اندر کے کاغذات نکال کر دیکھے تھے اور مجھے اس کا مضمون گورنمنٹ کے خلاف معلوم ہوا۔ اس پر میں نے بھی بغیر پھاڑنے کے اس میں سے کاغذات نکال کر دیکھے تو وہ آسانی سے باہر آگئے اور اس پر نظر ڈالتے ہی مجھے معلوم ہوگیا کہ وہ گورنمنٹ کے خلاف ہیں۔ نہ صرف اس لئے کہ ایک سطر جو میں نے پڑھی اس کا مضمون گورنمنٹ کے خلاف تھا بلکہ اس لئے بھی کہ گورنمنٹ کے خلاف جو اشتہارات وغیرہ شائع کئے جاتے ہیں وہ دستی پریس پر چھاپے جاتے ہیں اور وہ کاغذات بھی دستی پریس پر ہی چھپے ہوئے تھے اس پیکٹ کے اوپر جو پتہ لکھا ہوا تھا وہ خوشخط لکھا ہوا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی مسلمان نے لکھا ہے۔ یہ تو میں نہیں کہہ سکتا کہ اس میں مرزا کا لفظ بھی تھا یا نہیں مگر >صاحبزادہ خلیل احمد< ضرور لکھا ہوا تھا۔ ص کا دائرہ بھی بڑا اچھا تھا اور ح کے گوشے بھی خوب نکالے ہوئے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا جیسے پتہ کسی مسلمان کے ہاتھ کا لکھا ہوا ہے۔ خیر میں نے وہ پیکٹ درد صاحب کو دیا اور کہا کہ یہ کسی کی شرارت معلوم ہوتی ہے اور چونکہ ممکن ہے کہ اس قسم کے ٹریکٹ تمام پنجاب کے نوجوانوں میں عام طور پر تقسیم کئے جارہے ہیں اس لئے آپ فوراً یہ پیکٹ ہز ایکسی لینسی گورنر صاحب پنجاب کو بھجوا دیں اور انہیں لکھ دیں کہ میرے لڑکے خلیل احمد کے نام ایسا پیکٹ آیا ہے اور چونکہ ممکن ہے کہ اور پنجاب کے نوجوانوں کے نام بھی اس طرح ٹریکٹ اور اشتہارات وغیرہ بھیجے گئے ہوں اس لئے یہ پیکٹ آپ کو بھجوایا جاتا ہے آپ اس کے متعلق جو محکمانہ کارروائی کرنا مناسب سمجھیں کریں۔
میں یہ بات کرکے واپس ہی لوٹا تھا کہ ایک آدمی نیچے سے آیا اور درد صاحب سے کہنے لگا کہ پولیس والے آئے ہیں اور وہ آپ کو بلاتے ہیں۔ میں نے اس آدمی کو نہیں دیکھا کیونکہ وہ سیڑھیوں کے موڑ کے پیچھے تھا۔ یہ بات سن کر میں نے درد صاحب سے کہا کہ آپ جائیں اور جاکر معلوم کریں کہ پولیس والے کیا کہتے ہیں۔ درد صاحب گئے اور تین چار منٹ کے بعد ہی واپس آگئے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ پولیس کے کچھ سپاہی آئے ہوئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم نے مرزا خلیل احمد صاحب سے ملنا ہے۔ درد صاحب کہنے لگے کہ میں نے انہیں کہا کہ خلیل تو بچہ ہے اس سے آپ نے کیا بات کرنی ہے۔ جو کچھ آپ کہنا چاہتے ہیں وہ مجھے لکھ کر دے دیں۔ مگر انہوں نے اصرار کیا اور کہا کہ ہم اسی سے بات کرنا چاہتے ہیں اور اس بارے میں ہم کچھ لکھ کر نہیں دے سکتے۔ درد صاحب کچھ اور باتیں بھی کرنا چاہتے تھے مگر میں نے اس خیال سے کہ معمولی بات ہے ان سے کہا۔ کوئی حرج کی بات نہیں میں خلیل کو بھجوا دیتا ہوں۔ چنانچہ میں نے اسی وقت خلیل احمد کو بھجوایا۔ چند منٹ کے بعد ہی خلیل احمد واپس آیا اور اس نے مجھے کہا کہ سپاہیوں نے مجھ سے یہ پوچھا تھا کہ اس قسم کا پیکٹ تمہارے نام آیا ہے اور میں نے کہا کہ ہاں آیا ہے مگر میں نے اپنے ابا کو دے دیا ہے۔ پھر پولیس والوں نے اس پیکٹ کی طرف اشارہ کرکے )جو درد صاحب نیچے لے گئے تھے( کہا کہ یہ پیکٹ اپنے ہاتھ میں لے کر کھول دو مگر میں نے کہا کہ میں اسے نہیں کھول سکتا۔ خلیل احمد سے جب یہ بات میں نے سنی تو میں نے کہا کہ تم نے بہت اچھا کیا جو پیکٹ اپنے ہاتھ سے نہیں کھولا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ہاتھ سے پیکٹ کھلوانے کا منشاء یہ تھا کہ وہ شرارتاً اس طرح اپنی کانشنس کو یہ تسلی دلانا چاہتے تھے کہ انہوں نے خلیل کے ہاتھ سے یہ پیکٹ لیا ہے۔ خیر وہ بات کرکے ہٹا تو اسی وقت درد صاحب نے سیڑھیوں پر سے آواز دی اور میرے جانے پر انہوں نے کہا ان لوگوں نے مجھ سے وہ پیکٹ مانگا تھا مگر میں نے دینے سے انکار کردیا اور ان سے کہا کہ تم مجھے وہ قانون بتائو جس کے ماتحت تم مجھ سے یہ پیکٹ لینا چاہتے ہو۔ پھر میں نے ان سے آپ کا نام لے کر کہا کہ مجھے خلیفتہ المسیح کی طرف سے یہ پیکٹ ایک بڑے افسر کو بھجوانے کے لئے ملا ہے اس لئے میں یہ پیکٹ تمہیں نہیں دے سکتا۔ اس پر انہوں نے وہ پیکٹ مجھ سے چھین کر باہر پھینک دیا اور ایک سپاہی اسے لے کر بھاگ گیا۔ میں نے پھر جلدی میں ان کی پوری بات نہ سنی اور میں سمجھ گیا کہ یہ ہم سے شرارت کی گئی ہے۔ چنانچہ میں نے اوپر آکر گورنر صاحب کو ایک تار لکھا جس میں وہ اہم واقعات جو اس وقت تک ہوئے تھے لکھ دیئے۔ یہ تار لے کر میں پھر سیڑھیوں میں آیا تو اس وقت درد صاحب واپس جاچکے تھے۔ میں نیچے اتر کر بیٹھک میں آیا تو میں نے دیکھا کہ ہماری کوچ اور کرسیوں پر پولیس والے اپنی لاتیں دراز کرکے یوں بیٹھے ہیں کہ گویا ان کا گھر ہے میں جھٹ دروازہ بند کرکے برآمدہ کی طرف سے دفتر کے کمرہ میں آیا تو میں نے دیکھا کہ برآمدہ میں بھی پولیس والے کھڑے ہیں۔ خیر میں نے درد صاحب کو تار دیا اور کہا کہ یہ ابھی گورنر صاحب کو بھجوا دیا جائے۔ پھر میں گورنر صاحب کو ایک مفصل چٹھی لکھنے بیٹھ گیا۔ اس عرصہ میں دو دفعہ مجھے پھر نیچے جانا پڑا۔ ایک دفعہ تو میں درد صاحب کو یہ کہنے کے لئے گیا کہ آپ اس تار کا مضمون پولیس کے سپاہیوں کو بھی سنا دیں اور ان سے پوچھ لیں کہ اس میں کوئی غلط بات تو بیان نہیں کی گئی اور اگر کسی واقعہ کا وہ انکار کریں تو مجھے بتایا جائے تاکہ اگر کسی قسم کی اس میں غلطی ہو تو اس کو دور کر دیا جائے۔
میرے اس کہنے کی وجہ یہ تھی کہ نیچے جو واقعات درد صاحب کو پیش آئے تھے وہ میں نے نہیں دیکھے تھے اور میرا فرض تھا کہ ان واقعات کے بیان کرنے میں دوسروں کو صفائی کا موقعہ دوں اور اگر کوئی خلاف واقعہ بات درج ہوگئی ہو تو اس کی تصحیح کردوں۔ پھر بعد میں مجھے ایک اور بات کی نسبت خیال آیا کہ اس کا لکھنا بھی تار میں ضروری تھا اس لئے میں دوسری دفعہ پھر نیچے اترا اور میں نے درد صاحب کو اس واقعہ کے لکھنے کی بھی ہدایت کی اور ساتھ ہی پھر انہیں کہہ دیا کہ یہ واقعہ بھی ان کو سنا دینا۔ اس وقت بھی پولیس برابر ہمارے مکان کے نچلے حصہ پر قبضہ جمائے بیٹھی رہی۔ اتفاق کی بات ہے کہ اس دن ہمارے اکثر آدمی باہر کام پر گئے ہوئے تھے۔ عزیزم مرزا مظفر احمد صاحب جو ڈلہوزی میں ہمارے ہاں مہمان آئے ہوئے تھے وہ بھی مرزا ناصر احمد کو ملنے کے لئے ان کی کوٹھی پر گئے ہوئے تھے۔ خیر کچھ دیر کے بعد مجھے خیال آیا کہ ہمیں تو قانون کی واقفیت نہیں مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد کو بلوا لیا جائے۔ چنانچہ میں پھر نیچے اترا اور ایک شخص سے کہا کہ درد صاحب سے جاکر کہیں کہ فوری طور پر مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد کو بلوالیا جائے۔ اس وقت مجھے پھر معلوم ہوا کہ ابھی تک پولیس مکان پر قابض تھی۔ خیر اس شخص نے مجھے بتایا کہ درد صاحب پہلے ہی ایک آدمی ان کی طرف بھجوا چکے ہیں۔ چنانچہ تھوڑی دیر کے بعد مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد دونوں پہنچ گئے اور انہوں نے بتایا کہ پیچھے آرمڈ پولیس رائفلیں لے کر چلی آرہی ہے۔ درد صاحب نے مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر کی طرف بھی آدمی بھجوا دیا اور وہ بھی تھوڑی دیر کے بعد آگئے۔ اس وقت تک بھی پولیس کمرہ اور برآمدہ پر قابض تھی۔ مجھے اس وقت خیال گزرا کہ ¶پولیس والوں نے ضرور تھانہ میں کوئی رقعہ بھیجا ہے اور اس کا یہ نتیجہ ہے کہ آرمڈ پولیس رائفلیں لے کر ہمارے مکان پر پہنچ گئی۔ اس کے بعد میں پھر خط لکھنے میں مشغول ہوگیا اور تھوڑی دیر کے بعد میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ مجھے تو قانون کا علم نہیں تم قانون پڑھے ہوئے ہو کیا پولیس کا کسی کے مکان کے اندر داخل ہونا جائز ہے۔ انہوں نے کہا کہ قانون کی رو سے یہ بالکل ناجائز ہے میں نے کہا تو پھر تم جائو اور پولیس والوں سے بات کرو۔ اتنے میں مرزا ناصر احمد بھی آگئے اور کہنے لگے کہ پولیس والے ہمارے مکان کے اندر کیوں بیٹھے ہیں اور درد صاحب نے انہیں بیٹھنے کیوں دیا یہ بالکل خلافت قانون حرکت ہے جو پولیس والوں نے کی ہے۔ پولیس والے بغیر اجازت کے کسی کے گھر میں داخل نہیں ہوسکتے اور اگر وہ داخل ہوں تو اس صورت میں انہیں اپنی تلاشی دینی ضروری ہوتی ہے کیونکہ کیا پتہ کہ وہ کوئی ناجائز چیز اندر پھینک جائیں۔ اس لئے قانون یہی کہتا ہے کہ پولیس کی پہلے تلاشی ہونی ضروری ہے۔ ایسا نہ ہو کہ وہ اپنی طرف سے کوئی ناجائز چیز پھینک دے اور گھر والوں کو مجرم بنادے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا پولیس والوں کی تلاشی لے لی گئی تھی۔ میں نے کہا کہ میرے علم میں تو یہ بات نہیں آئی کہ پولیس والوں کی تلاشی لی گئی ہو۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ یہ درد صاحب کا فرض تھا کہ پولیس والوں کو اندر نہ آنے دیتے۔
مرزا ناصر احمد نے چونکہ بیرسٹری کی بھی کچھ تعلیم پائی تھی وہ کچھ قانون سے واقف ہیں۔ میں نے کہا کہ جب پولیس والوں کو قانوناً یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی دوسرے کے مکان میں داخل ہوں تو پھر جائو اور ان کو قائل کرو۔ اس پر وہ نیچے آئے اور پولیس والوں سے اونچی باتیں کرنے لگے۔ مرزا ناصر احمد کی آواز ذرا زیادہ بلند تھی میں نے اس وقت یہ خیال کیا کہ یہ بچہ ہے ابھی پورا تجربہ نہیں ہم اس وقت چاروں طرف سے دشمنوں میں گھرے ہوئے ہیں۔ اگر اس نے کوئی بات کی تو ممکن ہے کہ پولیس والے اس پر کوئی الزام لگا دیں کہ اس نے ہم پر دست درازی کی ہے اس لئے میں جلدی سے نیچے اترا اس وقت پولیس والے اندر کمرے سے نکل کر برآمدہ میں آچکے تھے اور مرزا ناصر احمد انہیں یہ کہہ رہے تھے کہ تم جہاں اندر بیٹھے تھے وہیں جابیٹھو میں اسی حالت میں تمہاری تصویر لینا چاہتا ہوں اور وہ کہہ رہے تھے کہ ہم وہاں نہیں جاتے۔ میں نے جب ان کی یہ باتیں سنیں تو میں نے سپاہیوں سے کہا کہ تم سب پہلے اندر بیٹھے ہوئے تھے اور کئی بھلے مانسں اس کے گواہ ہیں میں نے خود تمہیں اندر بیٹھے دیکھا۔ درد صاحب نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا۔ مرزا مظفر احمد اور مرزا ناصر احمد نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا۔ ہمارے عملہ کے اور کئی آدمیوں نے تم کو اندر بیٹھے دیکھا ہے۔ اب اس میں تمہارا کیا حرج ہے کہ پھر تم وہیں جابیٹھو اور تمہاری اس وقت کی تصویر لے لی جائے۔ اگر تمہارا اندر آنا قانون کے مطابق تھا تو تم اب بھی وہیں بیٹھ سکتے ہو اور اگر تمہارا اندر بیٹھنا قانون کے خلاف تھا تو تم اپنی غلطی کا اقرار کرو۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ ہم تو اندر بیٹھے ہی نہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ تین دفعہ تو میں نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ہے۔ اسی طرح درد صاحب نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ہے۔ خلیل احمد سے جو تم نے باتیں کیں وہ اندر ہی کیں۔ اسی طرح تمہیں مظفر احمد نے اندر دیکھا ناصر احمد نے اندر دیکھا۔ اب تم کس طرح کہہ رہے ہو کہ تم اندر بیٹھے ہی نہیں اور اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہو۔ مگر اس پر بھی انہوں نے یہی کہا کہ ہم اندر بالکل نہیں بیٹھے۔ اتنے میں مرزا مظفر احمد نے کہا کہ میں جب آیا تھا تو اس وقت بھی یہ سپاہی اندر بیٹھے تھے اور نہ صرف اندر بیٹھے ہوئے تھے بلکہ ایک سپاہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ خلاف قانون اپنی پیٹی کھول کر بیٹھا تھا۔ مگر وہ یہی کہتے چلے گئے کہ ہم اندر نہیں گئے۔ اس پر میں نے انہیں کہا کہ مجھے افسوس ہے کہ آج مجھے ذاتی طور پر اس بات کا تجربہ ہوا کہ عدالتیں کن جھوٹے آدمیوں کی گواہیوں پر لوگوں کو سزا دیتی ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ تم وہ ہو کہ تمہیں اس بات کا علم ہے کہ میں تمہارے پاس آیا اور میں نے تمہیں اندر بیٹھے دیکھا ایک دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ۔ پھر تم نے درد صاحب سے یہاں باتیں کیں۔ تم نے خلیل احمد سے یہاں باتیں کیں۔ تم نے مظفر احمد سے یہاں باتیں کیں۔ تم نے ناصر احمد سے یہاں باتیں کیں اور تم میں سے ہر شخص جانتا ہے کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں وہ درست ہے۔ مگر اتنے گواہوں کے باوجود تم کہہ رہے ہو کہ تم اندر نہیں بیٹھے۔ جس قسم کا جھوٹ تم لوگ بول رہے ہو اس قسم کی گواہیوں پر عدالتوں کی طرف سے لوگوں کو سزائوں کا ملنا یقیناً نہایت ہی افسوسناک اور ظالمانہ فعل ہے۔
اس پر وہ کچھ کھسیانے سے ہوگئے مگر اقرار انہوں نے پھر بھی نہ کیا کہ وہ کمرہ کے اندر بیٹھے تھے۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ اس طرح کھلے طور پر جھوٹ بول رہے ہیں تو میں نے خیال کیا کہ نامعلوم ہمارے متعلق وہ اور کیا باتیں بنالیں۔ شاید وہ یہی کہہ دیں کہ ہم پر انہوں نے حملہ کر دیا تھا اور ہمیں مارنے پیٹنے لگ گئے تھے۔ اس لئے میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ مظفر اس ملک میں احمدیوں کے قول پر کوئی اعتبار نہیں کرتا تم تعلیم یافتہ ہو عہدیدار ہو لیکن پھر بھی اگر کوئی واقعہ ہوا تو تمہاری کسی بات پر اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ اعتبار انہی لوگوں کی بات پر کیا جائے گا۔ اس لئے بہتر ہے کہ ان واقعات کی شہادت کے لئے کسی اور کو بھی بلا لیا جائے۔ ہمارے ہمسایہ میں ایک غیر احمدی ڈپٹی کمشنر صاحب چھٹی پر آئے ہوئے تھے میں نے مرزا مظفر احمد سے کہا کہ فوراً ان کی طرف ایک آدمی دوڑا دیا جائے اور کہا جائے کہ ایک ضروری کام ہے آپ مہربانی کرکے تھوڑی دیر کے لئے تشریف لے آئیں۔ میرا منشاء یہ تھا کہ وہ آئیں تو اس واقعہ کے گواہ بن جائیں گے۔ چنانچہ مرزا مظفر احمد نے ان کی طرف ایک آدمی دوڑا دیا کہ ضروری کام ہے آپ جلدی تشریف لائیں۔ اس کے بعد میں پھر اوپر چلا گیا۔ اتنے میں نیچے سے مجھے آوازیں آئیں اور میں نے آواز سے پہچان لیا کہ ڈپٹی کمشنر صاحب آگئے ہیں اور وہ ان سپاہیوں سے بات کررہے تھے اور کہہ رہے تھے تم نے صریحاً خلاف قانون حرکت کی ہے۔ یہ باتیں سن کر میں بھی نیچے اتر آیا اور میں نے ان کے سامنے تمام پہلی باتوں کو دہرانا شروع کیا۔ میں نے کہا اس طرح خلیل احمد کے نام ایک پیکٹ آیا تھا جو میں نے درد صاحب کو اس لئے دیا کہ وہ گورنر صاحب پنجاب کو بھجوا دیں۔ انہوں نے درد صاحب سے وہ پیکٹ چھین لیا اور پھر انہوں نے تھانہ میں کوئی جھوٹی رپورٹ بھیج دی جس پر مسلح پولیس آگئی۔ پھر میں نے ان سپاہیوں سے کہا کہ یہ جو مسلح پولیس آئی ہے یہ ضرور کسی تمہاری رپورٹ کے نتیجہ میں آئی ہے۔ تم نے لکھا ہوگا کہ یہ لوگ ہمیں مارنے اور قتل کرنے کے درپے ہیں۔ یقیناً تم نے ایسا ہی لکھا ہے ورنہ تھانے والوں کو کیا پڑی تھی کہ وہ مسلح پولیس یہاں بھیج دیتے۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ جب درد صاحب سے تم نے پیکٹ چھینا تھا تو کیا اس سے تمہاری غرض یہ نہیں تھی کہ تم یہ بات بناسکو کہ تم نے یہ پیکٹ خلیل سے لیا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگا جس طرح آپ نے کوئی بات بنانی تھی اسی طرح ہم نے بھی کوئی بات بنانی ہی تھی۔ یہ باتیں انہوں نے ان ڈپٹی کمشنر صاحب کے سامنے کیں اور میں نے بھی ان سے اس لئے کہلوائیں تاکہ وہ ڈپٹی کمشنر صاحب ان باتوں کے گواہ بن جائیں )گو میں نہیں کہہ سکتا ان باتوں میں سے انہوں نے کتنی سنیں کیونکہ اس وقت مختلف باتیں ہورہی تھیں( اسی طرح ابھی ڈپٹی کمشنر صاحب نہیں آئے تھے کہ مجھے نیچے سے ایک سپاہی کی آواز آئی جو دوسرے سپاہی سے بات کررہا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کوئی سپاہی بدنیتی سے اندر آنا چاہتا تھا کہ ہمارے آدمیوں نے اسے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ اس پر دوسرا سپاہی اسے کہنے لگا۔ >ایدھر آجا اوئے اینہاں دا کی اعتبار ہے جو چاہیں گل بنا لیں<۔
یعنی ان کا کیا اعتبار ہے ان کا جو جی چاہے گا ہمارے خلاف بات بنالیں گے۔ گویا ہمارے سب لوگ جھوٹے تھے اور وہ لوگ جو روزانہ جھوٹی قسمیں کھاتے اور ہمارے سامنے جھوٹ بول رہے تھے وہ سچے تھے۔ خیر ان ڈپٹی کمشنر صاحب نے کچھ دیر ان سے باتیں کرنے کے بعد مجھ سے کہا کہ ان سپاہیوں سے باتیں کرنی فضول ہیں ان میں کوئی افسر نہیں ہے اور نہ ہی ان کا کوئی اختیار ہے۔ آپ کو چاہئے کہ ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب کی طرف آدمی بھجوا دیں اور انہیں تمام حالات سے اطلاع دیں۔ میں نے کہا اس کا پتہ کراچکا ہوں۔ ڈپٹی کمشنر صاحب اور سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس دونوں اس وقت باہر ہیں اسی وجہ سے ہم حیران ہیں کہ کیا کریں۔ انہوں نے کہا کہ پھر یہ جو کانسٹیبل یا ہیڈ کانسٹیبل ہیں ان سے بات کرنی فضول ہے انہیں دیکھ کر تو یہ بھی پتہ نہیں لگتا کہ ان کا افسر کون ہے۔ پھر انہوں نے کہا۔ یہاں مسٹر سلیئر ایس ڈی او ہیں۔ مرزا مظفر احمد صاحب ان کے پاس چلے جائیں۔ میں نے کہا مظفر احمد کا جانا ٹھیک نہیں۔ وہ یہاں گواہ کے طور پر ہیں۔ میں درد صاحب اور مرزا ناصر احمد صاحب کو بھجوا دیتا ہوں۔ چنانچہ میں نے ان دونوں کو مسٹر سلیئر کی طرف بھجوا دیا اور خود ان سپاہیوں سے پوچھا کہ تم میں افسر کون ہے۔ اس پر پہلے تو وہ کہنے لگے کہ ہمیں پتہ نہیں ہمارا کون افسر ہے۔ پھر جب مزید اصرار کیا تو ان میں سے کوئی کہے کہ یہ افسر ہے اور کوئی کہے وہ افسر ہے۔ آخر ایک طرف اشارہ کرکے وہ کہنے لگے کہ ہم میں سے یہ سب سے بڑا ہے اور وہ بغیر وردی کے تھا۔ اس سے پوچھا تو وہ کہنے لگا میں وردی میں ہی نہیں فلاں شخص ہے۔ اس نے اس سے پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ بے وردی شخص سینئر ہے میں افسر نہیں۔ جب اسے کہا گیا کہ وہ تو منکر ہے تو اس نے جواب دیا کہ >جیہنوں سمجھ لو<۔ یعنی جسے چاہیں افسر سمجھ لیں۔ آخر ان ڈپٹی کمشنر صاحب نے ان سے پوچھا کہ تم کو یہ تو بتانا چاہئے تم میں سے بڑا کون ہے۔ اس پر بھی انہوں نے کچھ ایسا ہی جواب دیا۔ غرض اسی قسم کی آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔ خیر انہوں نے کہا۔ مسٹر سلیئر ایس ڈی او ابھی آجائیں گے۔ ان لوگوں سے بات کرنی فضول ہے آپ اندر چل بیٹھیں۔ چنانچہ وہ اور میں اور عزیزم مظفر احمد کمرہ میں بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں مسٹر سلیئر ناصر احمد کے ساتھ آگئے۔ مسٹر سلیئر نے کوٹ اتارا اور بیٹھتے ہی کہا کہ میں پولیس افسر نہیں۔ میرے پاس تو جب کیس آتا ہے اس وقت اسے سنتا ہوں۔ وہ مجھے ذاتی طور پر نہیں جانتے تھے۔ یونہی یہ سن کر کہ کوئی شخص باہر سے یہاں چند دنوں کے لئے آیا ہوا ہے اور اسے پولیس والوں کے متعلق کوئی شکایت پیدا ہوئی ہے چلے آئے۔ میں نے بھی ان کا شکریہ ادا کیا کہ آپ بغیر اس علم کے کہ کیا واقعہ ہوا ہے اور ہم پر کیا گزری ہے تشریف لے آئے ہیں۔ خیر انہیں تمام واقعات بتائے گئے انہوں نے کہا کہ ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت پولیس بغیر وارنٹ دکھائے گرفتار کرسکتی ہے۔ ڈپٹی کمشنر صاحب کہنے لگے یہ اختیارات انسپکٹر پولیس یا سب انسپکٹر پولیس کو حاصل ہیں ہر ایک کو حاصل نہیں۔ اس پر مسٹر سلیئر نے بتایا کہ انسپکٹر پولیس بیمار تھا اور تھانہ دار دورہ پر تھا اس وقت انچارج ایک ہیڈ کانسٹیبل ہی ہے اس لئے اسے اختیار حاصل ہے۔ پھر وہ واقعات سنتے رہے اور انہوں نے اس پر افسوس کا بھی اظہار کیا۔ اور کہا کہ کیا آپ کے نزدیک یہ کافی نہ ہوگا کہ میں انسپکٹر کو کہوں کہ وہ ان لوگوں کے متعلق مناسب کارروائی کرے۔ میں نے انہیں کہا کہ میں تو اس کے متعلق گورنر صاحب کو بھی تار دے چکا ہوں۔ اس لئے ان کے فیصلہ کا مجھے انتظار کرنا پڑے گا۔ اسی دوران میں پولیس کے بعض نقائص کو بھی انہوں نے تسلیم کیا اور جب انہیں بتایا گیا کہ وہ بغیر تلاشی لئے اندر آگئے تھے تو انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ میں خلاف قانون حرکت ہے اور انہیں اندر نہیں آنا چاہئے تھا۔ مگر انہوں نے کہا کہ میں مجسٹریٹ ہوں اور صرف اتنا کرسکتا ہوں کہ جب کیس میرے سامنے آئے تو اس کا فیصلہ کردوں۔ پولیس کی کارروائی میں دخل نہیں دے سکتا۔ البتہ لڑکے کی ضمانت ابھی لے لیتا ہوں۔
ڈی سی صاحب نے کہا۔ میں اس بارہ میں تجربہ کار ہوں۔ آپ یہ بات نہ کریں کیونکہ اس طرح آپ خود الزام کے نیچے آجائیں گے۔ پولیس نے ابھی تک آپ کے پاس رپورٹ نہیں کی اور قاعدہ یہ ہے کہ پہلے پولیس رپورٹ کرے اور پھر اس پر کسی قسم کا ایکشن لیا جائے۔ انہوں نے کہا۔ بہت اچھا۔ میں انچارج کو بلا لیتا ہوں۔ انہوں نے اسے بھیجا کہ جاکر تھانیدار انچارج کو بلا لائو۔ اس پر وہی شخص آیا جو بے وردی تھا۔ مسٹر سلیئر نے اس سے پوچھا کہ کیا تم انچارج ہو؟ اس نے کہا میں تو وردی میں نہیں میں کس طرح انچارج ہوسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا اچھا پھر کسی وردی والے کو بلائو۔ اس پر وہ کسی دوسرے کو بلا لایا جو وردی پہنے ہوئے تھا۔ اس سے جب پوچھا گیا کہ کیا تم انچارج ہو؟ تو وہ کہنے لگا میں کس طرح انچارج ہوسکتا ہوں میں تو جونیئر ہوں انچارج تو یہ ہے جو بغیر وردی کے ہے۔ اس پر مسٹر سلیئر بھی حیران ہوئے اور انہوں نے اسی شخص سے جو بغیر وردی کے تھا کہا کہ تم اس کیس کے متعلق میرے پاس رپورٹ کرو۔ پھر میں اس کا فیصلہ کروں گا۔ میں نے اس دوران میں انہیں توجہ دلائی کہ آپ دیکھیں یہ لوگ کس قسم کی حرکات کررہے ہیں کہ اصل انچارج بغیر وردی کے ہے اور جو وردی میں ہے وہ انچارج ہونے سے منکر ہے۔ اس سے وہ بہت متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ انسپکٹر بیمار تھا۔ اگر وہ اچھا ہوتا تو شائد اس طرح واقعات نہ ہوتے۔ خیر وہ بے وردی شخص تو رپورٹ لکھنے کے لئے چلا گیا اور مسٹر سلیئر انتظار کرتے رہے۔ مگر جب دیر ہوگئی ہم نے ان سے کہا کہ آپ تشریف لے جائیے۔ جب رپورٹ آئے گی اور آپ چاہیں گے لڑکے کو آپ کے پاس ضمانت کے لئے پیش کر دیا جائے گا۔ چنانچہ اس پر رضامند ہوکر چلے گئے۔ اور کہہ گئے کہ ڈی سی بھی شام کو آجائے گا میں نو بجے اطلاع دوں گا۔ اگر ضرورت ہوئی تو مرزا مظفر احمد خلیل احمد کو لے کر آجائیں میں ضمانت لے لوں گا۔ وہ تو چلے گئے مگر پولیس والے برابر ۱۲ بجے سے لیکر سات بجے شام تک رائفلیں لے کر ہمارے مکان کے صحن میں کھڑے رہے۔ پھر میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ اب تم ان سے پوچھو کہ یہ کس قانون کے ماتحت یہاں کھڑے ہیں اور ان سے لکھوا لو تاکہ بعد میں یہ نہ کہہ دیں کہ ہم تو اس وقت تک وہاں نہیں ٹھہرے۔ انہوں نے کہا ہم کچھ لکھ کر دینے کے لئے تیار نہیں۔ اس پر مرزا عبدالحق صاحب نے کہا کہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ جس طرح تم نے آج جھوٹ بولا ہے۔ اسی طرح کل جھوٹ بول دو اور کہہ دو کہ ہم تو وہاں گئے ہی نہیں تھے۔ پھر مرزا عبدالحق صاحب پلیڈر نے ان سے کہہ دیا کہ اگر لکھ کر نہیں دیتے کہ ہم اس وقت تک بالا افسروں کے حکم سے مکان پر قبضہ کئے ہوئے ہیں تو پھر تمہارا کوئی حق یہاں ٹھہرنے کا نہیں پھر تم نکل جائو۔ میں نے مرزا صاحب سے کہا کہ آپ انہیں یہ نہ کہیں کہ یہاں سے نکل جائو کیونکہ ممکن ہے یہ لوگ جاکر یہ رپورٹ کریں کہ ہمیں مارا گیا ہے اور بات آخر وہی مانی جائے گی جو یہ کہیں گے۔ آج کل چونکہ جنگ ہورہی ہے اس لئے مجسٹریٹوں کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ پولیس والوں کو کیا ضرورت تھی کہ وہ جھوٹ بولتے پس میں نے ان سے کہا آپ یہ نہ کہیں کہ نکل جائو بلکہ کہیں کہ نہیں لکھ کر دیتے تو تمہاری مرضی ہم یہ لکھ لیں گے کہ تم فلاں وقت تک یہاں ٹھہرے ہو اور دوبارہ ان کی تصویر لے لو اور اس تصویر پر وقت بھی لکھ دو کہ اتنے بجے یہ تصویر لی گئی ہے۔ آخر شام کو اطلاع ملی کہ ایس ڈی او صاحب کے حکم کے مطابق جب پولیس نے رپورٹ کی تو معلوم ہوا کہ جس دفعہ کے ماتحت پولیس والوں نے کارروائی کرنی چاہی تھی اس کے ماتحت کارروائی کرنے کا پولیس کو اختیار ہی حاصل نہیں تھا۔ غرض ان کی اور بے ضابطگیوں میں ایک بڑی بے ضابطگی یہ بھی پائی گئی کہ جس دفعہ کے ماتحت انہوں نے کارروائی کرنی چاہی اس دفعہ کے ماتحت مجسٹریٹ کے حکم کے بغیر کارروائی کا انہیں حق ہی حاصل نہیں تھا۔
سنا گیا ہے کہ اس رپورٹ پر ایس ڈی او صاحب نے انچارج ہیڈ کانسٹیبل کو بلا کر کہا کہ تم نے اس دفعہ کے ماتحت کس طرح کارروائی کی ہے جبکہ کارروائی کرنے کا تمہیں کوئی حق ہی حاصل نہیں تھا مجسٹریٹ نے کہا۔ قانون تمہیں اس بات کا اختیار نہیں دیتا البتہ مجسٹریٹ کے حکم سے تم ایسا کرسکتے ہو۔ اس کے بعد انہوں نے اسی وقت آدمی بھجوا دیا کہ وہاں جو پولیس کھڑی ہے اسے کہہ دیا جائے کہ وہ کوٹھی سے واپس چلے جائیں۔ چنانچہ سات بجے شام کو پولیس وہاں سے ہٹی۔ رات کو ایس ڈی او صاحب کا پھر رقعہ آیا کہ صبح میں مرزا خلیل احمد کے بارہ میں اطلاع دوں گا۔ دوسرے دن حسب وعدہ گیارہ بجے کے قریب ان کا رقعہ آیا کہ آپ خلیل احمد کو بے شک لے جائیں۔ ہماری طرف سے اس میں کسی قسم کی روک نہیں۔ چنانچہ اس پر ہم قادیان آگئے۔ صبح کے شور و شر کے بعد جب مختلف لوگوں کی گواہیاں لینے کے لئے میں نے مرزا عبدالحق صاحب کو مقرر کیا تاکہ تازہ بتازہ شہادت قلمبند ہو جائے تو مجھے معلوم ہوا کہ پولیس ڈاک آنے سے پہلے ہی ڈاک خانہ کے پاس بیٹھی تھی حالانکہ ابھی پیکٹ نہیں آیا تھا۔ اسی طرح وہ سڑکوں پر بھی مختلف جگہوں پر کھڑی تھی۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ پولیس پیکٹ کے منصوبہ میں شامل تھی اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ ڈاکیہ نے اصرار کرکے خلیل احمد کو پیکٹ دیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب ڈاکیہ پیکٹ لایا تو خلیل احمد وہ پیکٹ درد صاحب کے پاس لایا اور کہنے لگا کہ یہ میرے نام بیرنگ پیکٹ آیا ہے کیا میں لے لوں؟ درد صاحب کہتے ہیں کہ میں نے اس سے کہا ایسا پیکٹ نہیں لینا چاہئے۔ مگر وہ باہر جاکر پھر آیا اور اس نے دو آنہ ڈاکیہ کو دینے کے لئے طلب کئے۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا کہ ڈاکیہ اصرار کرنے لگا تھا کہ ضرور پیکٹ لے لیا جائے اور کہنے لگا کہ دو آنے خرچ کرنا کونسی بڑی بات ہے۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ ڈاکیہ کو بھی پولیس نے یہ کہہ کر بھجوایا تھا کہ تم اصرار کرنا تاکہ خلیل احمد اس پیکٹ کو وصول کرلے۔ یہ واقعات ہیں جو میں نے بغیر کسی قسم کی جرح کے اور بغیر اپنے جذبات کو ظاہر کرنے کے بیان کر دیئے ہیں۔ میں نے یہ نہیں بتایا کہ کس کس طرح ان واقعات سے سلسلہ اور ہم پر حرف آیا ہے یا ان واقعات سے اور ان سے جن کو میں نے ظاہر نہیں کیا کس طرح پولیس والوں کی بدنیتی اور ان کی جماعت کو ذلیل کرنے کی کوشش ظاہر ہوتی ہے۔ میں ان امور کو اس وقت تک ملتوی رکھتا ہوں جب تک گورنمنٹ سے اس بارہ میں میں گفتگو نہ کرلوں اور یہ نہ معلوم کرلوں کہ اس کی ذمہ داری کس پر ہے۔ مگر جو چیز مجھے عجیب لگی ہے جو میرے دل میں کھٹکتی ہے اور جس کے بیان کرنے سے میں نہیں رک سکتا وہ یہ ہے کہ اگر اس ایکٹ کا وہی مفہوم ہے جو اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے تو پھر اس ایکٹ کے ماتحت کسی کو بھی کوئی پیکٹ بھجوا کر گرفتار کرا دینا بالکل آسان امر ہے اور اس طرح ہماری جماعت کا کوئی فرد اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔ کل ممکن ہے میرے پاس اس طرح کا کوئی پیکٹ آجائے اور پولیس مجھے گرفتار کرلے۔
آخر سوشلسٹوں کے لئے یا پولیس کے لئے اس قسم کا پیکٹ بھجوانا کیا مشکل ہے۔ سوشلسٹوں کے اشتہارات وغیرہ اس کے قبضہ میں آتے ہی رہتے ہیں وہ آسانی سے کسی دوسرے کے نام وہی اشتہارات بصورت پیکٹ بھیج کر اسے گرفتار کرا سکتی ہے۔ گویا تمام معززین کی عزتیں اور جانیں خطرہ میں ہیں اور امن محض سی۔ آئی۔ ڈی کے چند افسروں کے ہاتھ میں رہ گیا ہے۔ میں نے اس خط میں جو ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب کو بھجوایا ہے یہی لکھا ہے اور ان سے پوچھا ہے کہ کیا قانون کا یہی منشاء ہے۔ میں کسی بڑے افسر کا نام ادب کی وجہ سے نہیں لیتا لیکن کیا ان کو اس قسم کا پیکٹ اگر کوئی بھیج دے تو پولیس تین چار منٹ کے بعد ہی ان کو گرفتار کرلے گی۔ حالانکہ تین چار منٹ میں کوئی انسان خواہ کتنا ہی سمجھ دار ہو کتنا ہی طاقتور ہو کتنے ہی وسیع ذرائع رکھنے والا ہو یہ نہیں کرسکتا کہ اس پیکٹ کو ڈپٹی کمشنر یا سپرنٹنڈنٹ پولیس کے پاس بھجوائے۔ آخر وہ کونسا ذریعہ ہے جس کے ماتحت اس قسم کا پیکٹ پہنچنے کے تین چار منٹ بعد ہی انسان اسے کسی ذمہ دار افسر تک پہنچا سکے اور اس طرح اپنی بریت ثابت کرسکے میں سمجھتا ہوں انگریزوں کے جرنیل اور کرنیل بھی یہ طاقت نہیں رکھتے کہ وہ باوجود بڑی طاقت رکھنے کے باوجود ہوائی جہاز رکھنے کے اس قسم کا پیکٹ پہنچنے کے بعد تین چار منٹ کے اندر اندر اس کے متعلق کوئی کارروائی کرسکیں۔ پس اگر اس قانون کا یہی مفہوم ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ہندوستان کے ہر شخص کی عزت خطرے میں ہے۔ فرض کرو میں اس وقت وہاں موجود نہ ہوتا تو کیا اس قانون کے ماتحت خلیل احمد مجرم نہیں تھا۔ یا فرض کرو وہ اس کی اہمیت کو نہ سمجھتا اور اس پیکٹ کو کمرہ میں پھینک دیتا تو کیا وہ مجرم نہ بن جاتا۔ میں نہیں سمجھ سکتا کہ اس قانون کا یہ منشاء ہو جو پولیس نے سمجھا لیکن چونکہ میں نے اس کے متعلق گورنمنٹ کو توجہ دلائی ہے اس لئے میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ گورنمنٹ اس کا کیا جواب دیتی ہے۔ اگر گورنمنٹ کا یہی منشاء ہے تو بغیر مزید تحقیق کئے ابھی سے یہ کہے دیتا ہوں کہ اس کے ماتحت ہندوستان میں کسی شخص کی عزت محفوظ نہیں اور اگر اس قانون کا یہ منشاء نہیں اور اگر گورنمنٹ نے ایسے اصول تجویز کئے ہیں جن سے اس قسم کے خطرات کا ازالہ ہوسکتا ہے تو یقیناً گورنمنٹ کا فرض ہے کہ ان لوگوں کو جو اس واقعہ کے ذمہ دار اور اصل مجرم ہیں سزا دے<۔۳۲
‏]0 [stfمخلصین جماعت کا ردعمل
اس واقعہ کا منظر عام پر آنا ہی تھا کہ مخلصین جماعت کے دلوں میں زبردست ہیجان اور جوش پیدا ہوگیا اور انہوں نے حضرت امیرالمومنینؓ کے حضور اپنے نام پیش کرنے شروع کر دیئے کہ اس موقعہ پر ہم سے انفرادی طور پر جس جس قربانی کا مطالبہ کیا جائے گا اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ تاہم جذبات کے حددرجہ مجروح ہونے کے باوجود انہوں نے ہر نوع کے غیر آئینی اقدام سے کلیت¶ہ اجتناب کیا اور صبروتحمل کا بے نظیر نمونہ دکھایا۔
دوسروں کا ردعمل
‏0] ftr[جماعت احمدیہ کی مظلومیت کا یہ نظارہ دیکھ کر ملک کے سنجیدہ اور معزز مسلم و غیر مسلم حلقوں نے بھی پولیس کی ظالمانہ کارروائی کو سخت نفرت و حقارت سے دیکھا اور جماعت سے ہمدردی کا اظہار کیا۔۳۳
اخبارات کا زبردست احتجاج
سب سے عمدہ نمونہ ہندوستان کے پریس نے دکھایا جس نے اس واقعہ کی تفصیلات شائع کرنے کے علاوہ اس پر زوردار احتجاجی نوٹ لکھے۔
اخبار >انقلاب< لاھور
شمالی ہند کے مشہور مسلمان اخبار >انقلاب< )لاہور( نے اپنی ستمبر ۱۹۴۱ء کی اشاعت میں لکھا۔
>قادیانیوں کے متعلق کسی سرکاری یا غیرسرکاری آدمی کو یہ شبہ نہیں ہوسکتا کہ وہ حکومت کے خلاف باغیانہ لٹریچر کی اشاعت میں شریک ہوسکتے ہیں۔ حکومت کے ساتھ تعاون اور مساعی جنگ کی پرزور حمایت کے باب میں ان کی پالیسی ساری دنیا پر آشکارا ہے` پھر اگر اس گروہ کے امام کا صاحبزادہ بھی ایک ایسے معاملے میں محل شبہات بن سکتا ہے جس سے نظربہ ظاہر اس کا کوئی تعلق نہ تھا تو ان لوگوں کی آزادیاں اور عزتیں کیونکر محفوظ سمجھی جاسکتی ہیں جن کے متعلق حکومت یا عوام کو وفاداری کا ویسا یقین نہیں ہوسکتا جیسا کہ قادیانی اصحاب کے متعلق ہے۔
ہم مرزا صاحب کی اس رائے سے متفق ہیں کہ قانون کا ایسا استعمال اور ان پڑھ یا قریباً ان پڑھ پولیس کے معمولی جوانوں کو مختار بنا دینا یقیناً بے حد خطرناک ہے اور جن حوادث سے مرزا صاحب کو سابقہ پڑا کسی شریف انسان کے لئے بھی اطمینان بخش نہیں ہوسکتے۔
حکومت کا فرض ہے کہ اس قسم کے واقعات کا سختی سے انسداد کرے۔ حکومت کے کاروبار امن و تحفظ سے کوئی آئین پسند انسان اختلاف نہیں کرسکتا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس شخص کے نام کوئی شخص خلاف آئین لٹریچر بھیج دے اسے معاً مجرم سمجھ لیا جائے اور اس کی زندگی کے محکم حقائق کی طرف سے آنکھیں بالکل بند کرلی جائیں۔ یہ طرز عمل سراسر غلط اور دل آزار ہے۔ حکومت پنجاب کا فرض ہے کہ وہ اس واقعہ کی مناسب تلافی کرے اور آئندہ کے لئے قانون کے صحیح استعمال کے متعلق تمام لوگوں کو یقین دلائے گی یہ کم سے کم صورت ہے۔ معاملہ مرزا صاحب یا ان کی جماعت کا نہیں بلکہ ہر ہندوستانی کو اس کے ساتھ گہرا تعلق ہے<۔۳۴
اخبار >پارس< لاھور
لاہور کے ہندو اخبار >پارس< نے >امیر جماعت احمدیہ سے بدسلوکی< کے عنوان سے )۲۷۔ ستمبر ۱۹۴۱ء کو( حسب ذیل اداریہ لکھا۔
>ایک مذہبی پیشوا کی حیثیت سے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو ملک میں جو قابل رشک پوزیشن حاصل ہے اس سے ہر شخص واقف ہے۔ جماعت احمدیہ کے ہر فرد کے لئے ان کا لفظ حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ وہ ایک ایسی جماعت کے رہبر ہیں جس کے بانی نے بادشاہ وقت کی اطاعت کو ایک اصول کا درجہ دیا۔ حکومت برطانیہ کی وفاداری اور اس سے دوستی کو جماعت مذکور نے اپنا فرض قرار دیا جس کے لئے اسے اپنے ہم وطنوں کے طعن و تشنیع برداشت کرنے پڑے۔ گزشتہ اور موجودہ جنگ میں مرزا صاحب اور ان کے پیروکاروں نے حکومت کی مالی اور بھرتی کے سلسلہ میں جو مدد کی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن ان کے ساتھ حکومت کے کارندوں کی طرف سے جو نامناسب سلوک روا رکھا گیا ہے وہ اس قابل نہیں کہ جسے آسانی سے نظر انداز کیا جائے۔
مرزا صاحب موصوف کو ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کے استعمال پر اپنے ساتھ پیش آمدہ مذکورہ بالا واقعہ سے کس قدر ذہنی تکلیف ہوئی ہے اس کا اندازہ ان کے ذیل کے تلخ الفاظ سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ آپ اپنے خطبہ کے دوران میں فرماتے ہیں۔ )آگے حضور کے خطبہ سے اقتباس دیا گیا ہے۔ ناقل(
جہاں ہمیں اس رنج دہ معاملہ میں خلیفہ صاحب قادیان سے دلی ہمدردی ہے وہاں ہم حکومت کے اس نظام کی خامیوں پر ماتم کئے بغیر نہیں رہ سکتے جس کی رو سے ایک ایسی جماعت کے پیشوا کی توہین ہوئی جو حکومت برطانیہ کی بہت بڑی مددگار اور دوست سمجھی جاتی ہے۔ اگر مرزا صاحب کے خاندان کے کسی فرد پر محض ایک پیکٹ کے وصول ہونے کی وجہ سے سڈیشن۳۵ کا شبہ کیا جاسکتا ہے اور مرزا صاحب ایسی پوزیشن کے بلند مرتبت بزرگ کے ساتھ پولیس کے معمولی سپاہی بدسلوکی سے پیش آسکتے ہیں تو پھر کسی بھی شخص کی عزت محفوظ نہیں سمجھنی چاہئے۔ حکومت کو چاہئے کہ اس معاملہ کو معمولی سمجھ کر ٹال نہ دے بلکہ کسی خاص افسر کے ذریعہ اس کی تحقیقات کروائے اور اس سازش کا پتہ لگا کر جس کے ذریعہ مرزا صاحب کو نقصان پہنچانے کی مذموم حرکت کی گئی۔ سازش کنندگان کو قرار واقعی سزائیں دے تاکہ آئندہ کسی کو اس قسم کی جسارت کی جرات نہ ہوسکے۔ ہماری رائے میں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر جماعت اور ذمہ دار اخبار کو اس واقعہ کی جو مرزا صاحب قادیان کے ساتھ پیش آیا پرزور الفاظ میں مذمت کرنی چاہئے کیونکہ اسے اگر نظرانداز کیا گیا تو اس قسم کے واقعات بڑی سے بڑی پوزیشن کے مذہبی اور سیاسی رہنما کے ساتھ پیش آسکتے ہیں<۔
اخبار >حق< لکھنو
لکھنو کے اخبار >حق< نے ۲۷۔ ستمبر ۱۹۴۱ء کی اشاعت میں >جماعت احمدیہ کی توہین< کے عنوان سے حسب ذیل نوٹ لکھا۔
>اگر یہ اطلاع صحیح ہے تو ہم گورنمنٹ پنجاب سے یہ پوچھنے کا پورا حق رکھتے ہیں کہ ایک ایسی محترم اور باعث عزت شخصیت کے خلاف کہ جو ایک طاقتور جماعت کا سردار اور امیر ہے اور جس کی شخصی اور جماعتی وفاداری حکومت کے ساتھ ضرب المثل کا درجہ رکھی ہے اس سے پولیس نے اس قسم کا اہانت امیز برتائو کیوں کرکیا اور کس حکم سے اس جماعت کے بارے میں ظاہر ہے کہ یہ شبہ تو ہوہی نہیں سکتا تھا کہ اس کا کوئی فرد چہ جائیکہ اس کا خود امیر حکومت کے خلاف کسی باغیانہ لٹریچر کی نشر و اشاعت کا سبب بن سکتا ہے۔ اس لئے کہ نہ صرف سابقہ موقعوں پر بلکہ موجودہ جنگ میں بھی ان کا گورنمنٹ برطانیہ کے ساتھ اتحاد عمل اور اتحادی حکومتوں کی تائید میں ان کا پروپیگنڈا ہر ایک کے علم میں ہے اور اگر اس کے باوجود بھی کسی ایسی ممتاز و محترم شخصیت کے ساتھ حکومت پنجاب اس قسم کے طرز عمل کو جائز قرار دے سکتی ہے تو ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی دوسرے کو اس سے کیا توقع رکھنی چاہئے اور یہ بھی تو دیکھے کہ انصاف اور قانون کے کس ضابطہ اور اصول کے ماتحت ایسے شخص کو کہ جس کا وفاداری کا ریکارڈ اتنا شاندار ہو محض مغویانہ لٹریچر کے ڈاک سے وصول کرنے کی پاداش میں مجرم قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر قصور وار کوئی ہوسکتا ہے تو اس کا بھیجنے والا نہ کہ اس کا پانے والا۔ بہرحال ہم اس زبردست مذہبی اور سیاسی اختلافات کے باوجود کہ جو ہمارے اس جماعت سے ہیں پنجاب پولیس کے اس غیر شریفانہ طرز عمل کے خلاف اپنے دلی غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے حکومت پنجاب سے اس کی تحقیقات اور تلافی اور ائندہ کے لئے اس کے انسداد کی پرزور خواہش کریں گے۔ اگر واقعات وہ نہیں ہیں کہ جو اس سلسلہ میں ہمارے علم میں آئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو حکومت پنجاب کا یہ ایک ضروری اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ امیر جماعت احمدیہ کے اس بیان کے جواب میں جو انہوں نے روزنامہ >الفضل< میں اس کے متعلق شائع کیا ہے اپنا جوابی بیان شائع کرکے اپنی پوزیشن کی صفائی پیش کردے تاکہ عام قلوب میں اس کے اس طرز عمل سے جو بے چینی پیدا ہوئی ہے وہ رفع ہو جائے۔ کیا سرسکندر کی حکومت ہمارے اس جائز مطالبہ کو پورا کرنے پر تیار ہوسکتی ہے؟<۳۶
اخبار >سرفراز< لکھنو
شیعہ اصحاب کے جماعتی آرگن روزنامہ >سرفراز< لکھنو نے >جماعت احمدیہ کی ایک قابل لحاظ شکایت< کے عنوان سے ۲۱۔ ستمبر ۱۹۴۱ء کو لکھا۔
>ہم کسی مذہب و ملت کے پیشوا کی توہین پسند نہیں کرتے اس لئے ہمیں یہ سن کر افسوس ہوا کہ جماعت احمدیہ >قادیان< کے موجودہ پیشوا کے ساتھ کوہ ڈلہوزی پر جہاں آپ بغرض تبدیل آب و ہوا معہ اپنے متعلقین کے مقیم تھے پنجاب کی پولیس نے غالباً کسی خفیہ رپورٹ کی بناء پر اتنا زیادہ نامناسب برتائو کیا جس نے خود آپ کو نیز آپ کے معتقدین کو بڑی تکلیف پہنچی۔
ہم کو امید ہے کہ حکومت اس معاملہ کی چھان بین کرکے اس کی مناسب تلافی کرے گی۔ تاکہ ہندوستان کی ہر ملت وقوم کو یہ اطمینان ہوسکے کہ اس کے پیشوا کی عزت سرکاری عمال کے ہاتھوں معرض خطر میں نہیں لائی جائے گی<۔۳۷
اخبار >حقیقت< لکھنو
صوبہ متحدہ کے سنی مسلمانوں کے ترجمان اخبار >حقیقت< نے ۱۹۔ ستمبر کو >جماعت احمدیہ کے پیشوا کی توہین< کی سرخی سے حسب ذیل شذرہ سپرد قلم کیا۔
>معاصر >الفضل< )قادیان( سے ہمیں یہ معلوم کرکے بہت افسوس ہوا کہ امام جماعت احمدیہ قادیان کے ساتھ کوہ ڈلہوزی پر جہاں آپ بغرض تبدیل آب و ہوا معہ اپنے متعلقین کے مقیم تھے۔ پنجاب پولیس کی جانب سے غالباً پنجاب سی۔ آئی۔ ڈی کی کسی رپورٹ کی بناء پر بہت ہی نازیبا اور قابل اعتراض برتائو کیا گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کسی اور جماعت کے لیڈر کے ساتھ ایسا برتائو کیا گیا ہوتا تو ہمارا خیال ہے کہ اس وقت ہندوستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایسی آگ لگ چکی ہوتی جو آسانی سے بجھائی نہیں جاسکتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عام مسلمانوں کو احمدی جماعت سے عقائد میں یقیناً اختلاف ہے لیکن اس وقت ہم جس واقعہ کا ذکر کررہے ہیں وہ ان عقاید کے سوال سے بالا ہے اور یہ وہ امور ہیں جن پر سب کو متفق ہو کر پنجاب گورنمنٹ کے اس نازیبا فعل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا چاہئے۔ کیونکہ ایک ایسی حکومت کے لئے جس کا وزیراعظم ایک مسلمان ہو اس قسم کے امور ضرور شرمناک کہے جائیں گے۔ یہ ایسی بات ہے جس کے بارے میں اگر احتجاج نہ کیا گیا تو کسی بڑے سے بڑے ہندوستانی لیڈر کی عزت اور آبرو محفوظ نہ رہے گی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب سرسکندر کی حکومت میں ہندوستان کے سب سے زیادہ اطاعت شعار وفادار اور پابند قانون جماعت کے لیڈر کے ساتھ ایسا انسانیت سوز برتائو ہوسکتا ہے تو پھر کانگرسی رہنمائوں سے کیا کچھ
‏tav.8.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
اشاعت احمدیت کی خصوصی تحریک سے واقعہ ڈلہوزی تک
سلوک نہ ہوتے ہوں گے۔ کاش! اسی واقعہ سے احمدیوں کو اس بات کا احساس ہو جائے کہ اس زمانہ میں حکومت کی وفاداری اور اطاعت شعاری کی نہ تو پبلک میں کچھ قدر ہے اور نہ خود گورنمنٹ کی نظروں میں کچھ وقعت ہے<۔۳۸
>نیشنل ھیرلڈ< لکھنو
][لکھنو کے موقر انگریزی جریدہ >نیشنل ہیرلڈ< نے لکھا۔
>ڈیفنس آف انڈیا رولز کا ایسا غلط استعمال بہت خطرناک ہے اور حکومت کا فرض ہے کہ اس کا انسداد کرے۔ یہ بالکل غلط اصول ہے کہ جس کسی کے نام کوئی باغیانہ لٹریچر ڈاک میں آئے اسے مجرم گردان لیا جائے اور اس کی وفاداری کے گزشتہ ریکارڈ کو بالکل نظر انداز کر دیا جائے۔ یہ بات واضح ہے کہ ڈیفنس آف انڈیا رولز پاس کرتے وقت لیجسلیچر کا منشاء وہ نہ تھا جو پنجاب پولیس لے رہی ہے<۔۳۹
>اودھ اخبار< لکھنو
لکھنو کے >اودھ اخبار< نے ۳۰۔ اکتوبر ۱۹۴۱ء کے پرچہ میں درج ذیل نوٹ لکھا۔
>ابھی چند روز ہوئے کہ ڈلہوزی میں ایک ایسا ناگوار واقعہ پیش آیا جس پر مختلف اخباروں نے احتجاجی مقالے لکھے اور حکومت پنجاب کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ وہ ایسے واقعہ کے متعلق پوری تحقیقات کرے اور اگر یہ واقعہ صحیح ہو تو اس کی تلافی کرے۔ اسی سلسلہ میں واقعہ کی تفصیل پر تبصرہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گزشتہ ستمبر کی کسی تاریخ کو جبکہ ڈلہوزی میں امام جماعت احمدیہ مقیم تھے ایک چٹھی رسان نے ایک پیکٹ امام جماعت احمدیہ کے صاحبزادے خلیل احمد کے نام تقسیم کیا۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ پیکٹ بیرنگ تھا اور اس نے پہلے وصول کرنے سے انکار کردیا لیکن بیان کیا جاتا ہے کہ چٹھی رسان نے صاحبزادہ خلیل احمد صاحب سے اصرار کیا کہ وہ اس پیکٹ کو لے لیں۔ بہرحال انہوں نے اس پیکٹ کو وصول کرلیا اور اس کے فوراً ہی بعد صاحبزادہ موصوف اپنے والد صاحب کے پاس پہنچے اور پیکٹ حوالہ کرتے ہوئے کہا کہ اس پیکٹ میں کوئی باغیانہ لٹریچر ہے۔ چنانچہ امام جماعت احمدیہ نے بھی چونکہ پیکٹ ڈھیلا تھا اس کا لٹریچر نکال کر ملاحظہ کیا تو یہ بات صحیح معلوم ہوئی کہ اس میں کسی انقلابی جماعت کی طرف سے یہ لٹریچر نوجوانوں کے نام روانہ کیا گیا تھا۔ امام جماعت احمدیہ نے فوراً ہی پرائیویٹ سیکرٹری کو بلا کر اس بات کی ہدایت کی کہ وہ اس خبر کو گورنر صاحب پنجاب کو روانہ کر دیں کہ ایسا لٹریچر پیکٹ میں کسی نے شرارتاً ان کے لڑکے کے پاس روانہ کیا ہے ممکن ہے اور نوجوانوں کو بھی بھیجا گیا ہو اس لئے اس کے متعلق فوری کارروائی کی جائے۔ ظاہر ہے کہ امام جماعت احمدیہ کا یہ فعل بربنائے خلوص ہی تھا لیکن ابھی یہ ہدایات دی ہی جارہی تھیں کہ فوراً پولیس کی ایک جماعت بھی امام جماعت احمدیہ کی کوٹھی میں پہنچ گئی اور اس پیکٹ کے متعلق تحقیقات شروع کر دی۔ اس پیکٹ کو بھی چھین لیا اور مکان کے اس ڈرائنگ روم میں داخل ہوگئی جہاں خود امام جماعت احمدیہ کی نشست گاہ تھی اور وہاں پولیس کی جماعت نے نہایت توہین آمیز طریقہ اختیار کیا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اصل واقعات کیا ہیں لیکن اگر یہ واقعہ صحیح ہوسکتا ہے تو ہمیں پنجاب پولیس کے اس رویہ پر سخت افسوس اور تکلیف ہے کہ اس نے ایک جماعت کے پیشوا اور رہنما کے ساتھ توہین آمیز رویہ اختیار کرکے اس جماعت کے وفادارانہ جذبات کو ٹھیس لگائی۔ جماعت احمدیہ کے متعلق یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس جماعت کے پیشوا سے لیکر افراد تک جن کی تعداد ہندوستان اور بیرون ہند میں لاکھوں تک ہے برطانوی حکومت کے ساتھ کس قدر وفادارانہ وابستگی رکھتے ہیں۔ دنیا میں ہزاروں قسم کی سیاسی اور غیر سیاسی تحریکات شروع ہوتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہیں۔ ہزاروں تحریکات ایسی ہوتی ہیں جن کا براہ راست اثر حکومت پر بھی پڑتا ہے لیکن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جس سے یہ اندازہ ہو کہ اس نے کسی ایسی تحریک میں حصہ لیا ہو جو حکومت کی مخالفت میں پیش کی جاسکے بلکہ یہ جماعت ہمیشہ حکومت کی ایک زبردست وفادار جماعت رہی ہے ایسی وفادار کہ جس کی کوئی مثال نہیں پیش کی جاسکتی۔ پھر اس جماعت کے قائد کے ساتھ یہ توہین آمیز رویہ ناجائز اور غیر قانونی ہے جیسا کہ مختلف اخبارات سے ظاہر ہوتا ہے یہ طریقہ اختیار کرنا ہماری سمجھ میں نہیں آتا اور ہم پولیس کے ایسے ناروا طریقہ پر اظہار رنج کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ حکومت پنجاب کا یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ ان واقعات کی تحقیقات خاص طور پر کرائے ورنہ جب پولیس حکومت کے ایک ایسے وفادار دوست کے ساتھ یہ سلوک کرسکتی ہے تو پھر ظاہر ہے کہ اس کی رو سے کسی اور کا دامن کیسے بچ سکتا ہے۔ اصل میں ان لوگوں کی تلاش کرنا چاہئے جو اس قسم کی شرارتیں کرتے ہیں۔ جن کی زندگی ہی ایسے ہنگاموں کے لئے وقف ہے۔ اخبار >الفضل< میں اس واقعہ کی جو تفصیل دی گئی ہے۔ وہ کافی بے چینی پیدا کرنے والی ہے اور اس جماعت کے پیروئوں میں تو یقیناً بہت زیادہ بے چینی ہوگی۔ اس لئے حکومت کو بھی جلد از جلد اس سلسلہ میں اپنی پوزیشن کی وضاحت کر دینا چاہئے<۔۴۰
حکومت پنجاب کی طرف سے کمشنر 0] [stfصاحب لاہور کو معذرت کرنے کی ہدایت
واقعہ ڈلہوزی کی نسبت جماعت احمدیہ اور حکومت کے درمیان نو ماہ تک خط و کتابت جاری رہی حکومت نے تحقیقات بھی کرائی اور پھر
پولیس کے ڈی۔ آئی۔ جی نے بھی تفتیش کی۔۴۱ بعد ازاں شہادت ۱۳۲۱ہش )اپریل ۱۹۴۲ء( میں کمشنر صاحب لاہور کو اس غرض کے لئے مقرر کیا کہ وہ اس معاملہ میں حضرت امام جماعت احمدیہ کے پاس اظہار افسوس کریں۔ چنانچہ کمشنر صاحب لاہور گورداسپور آئے اور ان کی چٹھی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~ کی خدمت میں آئی کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ مجھے یہاں آکر مل سکتے ہیں؟ اگر آپ نہ مل سکتے ہوں تو اپنے کسی رشتہ دار کو ہی بھجوا دیں کیونکہ گورنمنٹ کی طرف سے میں ایک پیغام لایا ہوں جو آپ کو پہنچانا چاہتا ہوں۔ حضور کو قبل از وقت معلوم ہوچکا تھا کہ کمشنر صاحب لاہور اس غرض کے لئے آنے والے ہیں۔ چنانچہ حضور نے انہیں کہلا بھیجا کہ مجھے اگر آپ سے ملاقات کی ضرورت ہوتی تو میں خود آپ کے پاس آتا مگر چونکہ کام آپ کو ہے اس لئے میرے آنے کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اگر کسی افسر کو مجھ سے کوئی کام ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ میرے پاس آئے نہ یہ کہ میں اس کے پاس جائوں۔ باقی مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے آپ کو واقعہ ڈلہوزی پر اظہار افسوس کرنے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ مگر آپ مجھے یہ بتائیں کہ وہ واقعہ گورنمنٹ کی نادانی سے پریس میں آچکا اور سارے ہندوستان میں مشہور ہوچکا ہے۔ اب اگر میں یہ اعلان کردوں کہ گورنمنٹ نے اپنی غلطی کا ازالہ کر دیا ہے اور اس نے اپنے فعل پر اظہار افسوس کیا ہے تو دشمن ہنسے گا اور کہے گا کہ خود ہی ایک بات بنالی گئی ہے ورنہ گورنمنٹ نے اظہار افسوس نہیں کیا۔ جیسے ہماری پنجابی زبان میں ضرب المثل ہے کہ >آپے میں رجی پجی آپے میرے بچے جیون<۔ اگر گورنمنٹ اس فعل پر اظہار ندامت کرنا چاہتی ہے تو اسے چاہئے کہ تحریراً کرے تاکہ دنیا کے سامنے اس تحریر کو رکھا جاسکے<۔
کمشنر صاحب لاہور نے اس پیغام کے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں تو ایسی تحریر نہیں دے سکتا کیونکہ مجھے اجازت نہیں البتہ میں گورنمنٹ کو آپ کی یہ بات پہنچا دوں گا۔۴۲
حکومت پنجاب کا تحریری معذرت نامہ
‏0] f[rtچنانچہ کمشنر صاحب لاہور کی رپورٹ پر حکومت پنجاب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں تحریری طور پر معذرت نامہ بھیجا۔ اس سلسلہ میں حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری )ایف۔ بی ویس( نے جو چٹھی لکھی اس کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
نمبر ۲۹۵۲ ایچ )جی( ۲۶۳۹۵/ ۴۲ منجانب ایف بی ویس۔ سی آئی ای آئی سی ایس
ہوم سیکرٹری حکومت پنجاب
بنام خلیفتہ المسیح حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ
قادیان۔ ضلع گورداسپور
تقدس ماب!
پنجاب گورنمنٹ اس واقعہ کے متعلق جو گزشتہ ستمبر میں ڈلہوزی میں آپ کے گھر پر ہوا تھا اور جس میں پولیس نے ایک ضبط شدہ ٹریکٹ کے متعلق کارروائی کی تھی اس وقت تک تحقیقات کرتی رہی ہے اور اب اس کے متعلق مندرجہ ذیل تحریر بھجواتی ہے۔
بعض اتفاقی واقعات کی وجہ سے جو قابل افسوس ہیں پولیس کا کوئی اعلیٰ افسر اس وقت ڈلہوزی میں موجود نہیں تھا جو اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لیتا۔ مگر یہ بات تحقیقات سے ثابت ہے کہ جونیئر افسر انچارج نے اپنے فرائض کے ادا کرنے میں عقل اور پوری توجہ سے کام نہیں لیا۔ گورنمنٹ نے اس افسر اور ماتحت افسروں کے خلاف جن کا اس واقعہ سے تعلق تھا مناسب کارروائی کی ہے اور مجھے گورنمنٹ پنجاب کی طرف سے ہدایت ہوئی ہے کہ میں اس بارہ میں تحریر کروں کہ گورنمنٹ پنجاب کو اس تکلیف پر جو آپ کو یا آپ کے خاندان کے لوگوں کو پہنچی ہوگی شدید افسوس ہے۔ آخر میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس امر کے اظہار کی ضرورت نہیں۔ اس واقعہ سے کسی قسم کی ہتک یا تحقیر مدنظر نہیں تھی۔ آپ کی ذات کی یا اس مذہبی جماعت کی جس کے آپ معزز سردار ہیں۔۴۳ اس چھٹی کا متن یہ ہے۔:
1942 ۔4 ۔27 Dated 42/26395 (G) H ۔2952 ۔N
‏From
‏Esquire, Wace ۔B۔F
‏to Secretary Home ۔S۔C۔I ,۔E۔I۔C
‏Punjab Government
‏To
‏Masih Khalifatul
‏Ahmad Mahmud Bashiruddin Mirza Hazrat
‏Community Ahmdiyya the of Head
۔Gurdaspur Disst, Qadian`
‏Holiness, Your
‏ in incident the examination under had have Government Punjab The certain when there, residence your at September last Dalhousie unauthorised with connection in police the by taken was action۔sheets snew
‏ police superior no circumstances, unfortunate of achain to Owing this of charge take to Dalhousie, in available was officer in was who officer jjunior the that show to seems enquiry and action out carrying in consideration and tact of lack a displayed charge officer this against taken been has action Suitable ۔duties his great the express to am I and concerned officials subordinate the and inconvenience unnecessary any for Government Punjab the of regret ۔consquence in household ruoy and you to caused been have may which was indignity or insult of kind no that said be hardly need It personally you to intented۔head respected the are you Which of body religious the to or
‏ be to honour the have I
‏holiness Your
‏servent obedient most Your
۔Sd/
‏Wace ۔B۔F
‏to Secretary Home
۔Punjab Government
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا اعلان
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس چٹھی کے پہنچنے پر ۲۲۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۰ہش کے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
>جہاں تک امام جماعت احمدیہ کا سوال ہے گورنمنٹ شروع میں ہی اظہار افسوس کرچکی تھی لیکن ہماری بحث گورنمنٹ سے یہ نہیں تھی کہ امام جماعت احمدیہ سے یہ واقعہ پیش نہیں آنا چاہئے تھا بلکہ ہماری بحث یہ تھی کہ کسی ہندوستانی سے بھی ایسا واقعہ نہیں ہونا چاہئے۔ چنانچہ گورنمنٹ نے جو مجھے اس وقت چٹھی لکھی تھی اس میں اس نے لکھا تھا کہ افسوس ہے ہمیں غلطی لگی اور ہمیں اس وقت یہ معلوم نہیں ہوا کہ امام جماعت احمدیہ کا اس سے کوئی تعلق ہے۔ میں نے اسی وقت اس چٹھی کے جواب میں گورنمنٹ کو لکھ دیا تھا کہ میری اس جواب سے تسلی نہیں ہوسکتی کیونکہ میرا سوال انصاف کے قیام کے متعلق ہے۔ میرا سوال یہ نہیں کہ امام جماعت احمدیہ سے اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آنا چاہئے تھا بلکہ میرا سوال یہ ہے کہ کسی ہندوستان کو بھی ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔ پس اس کا یہ اعتراض کہ جماعت کے نظام کا کوئی فائدہ نہ ہوا بے محل اعتراض تھا کیونکہ جہاں تک امام جماعت احمدیہ کا تعلق تھا گورنمنٹ چند دنوں کے اندر اندر معذرت کا اظہار کرچکی تھی اور میں نے اس معذرت کو قبول نہیں کیا تھا۔ اس لئے کہ میرے نزدیک امام جماعت احمدیہ ہونے کی حیثیت سے حکومت کی معذرت کافی نہ تھی<۔۴۴
اس وضاحت کے بعد حضور نے کمشنر صاحب لاہور کے گورداسپور آنے اور پھر حکومت کے تحریری معذرت نامہ کرنے کا ذکر کرنے کے بعد حکومت پنجاب کے ہوم سیکرٹری کی انگریزی چٹھی اور اس کا ترجمہ سنایا اور پھر اعلان فرمایا۔
>گو اس چٹھی میں ان بعض سوالات کا جو ہم نے اٹھائے ہوئے تھے جواب نہیں دیا گیا مگر بہرحال اس میں گورنمنٹ نے اس طریق کو اختیار نہیں کیا جو پہلے کیا تھا کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ اس میں آپ کا تعلق ہے تو ایسا واقعہ نہ ہوتا۔ بلکہ محض واقعہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ قابل افسوس ہے اور ان افسروں کو سزا دی گئی ہے جو اس کے ذمہ دار ہیں۔ میں نے جنگ کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے گورنمنٹ کے اس اظہار افسوس کو قبول کرلیا اور اسے لکھ دیا ہے کہ ہم اس واقعہ کو اب ختم شدہ سمجھتے ہیں<۔۴۵
واقعہ ڈلہوزی میں حکومت کے اعلیٰ حکام کے ملوث ہونے کا ثبوت
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے گو حکومت پنجاب کی معذرت قبول فرما لینے کا اعلان کردیا مگر ساتھ ہی اس واقعہ کے پس
منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے پوری وضاحت سے بتایا کہ۔
>میں جہاں تک سمجھتا ہوں گو گورنمنٹ کے لئے یہ ماننا مشکل ہے کہ اس واقعہ کی بنیاد بعض اعلیٰ حکام کی سلسلہ احمدیہ سے مخالفت ہے کیونکہ واقعات بتاتے ہیں کہ جن امور کی وجہ سے یہ کارروائی کی گئی ہے وہ ڈیڑھ سال پہلے کے تھے اور اس کی ڈپٹی کمشنر اور سپرنٹنڈنٹ پولیس کو بھی اطلاعیں دی جاچکی تھیں۔ ان مخالف افسروں میں سے مثال میں سی آئی ڈی کے ایک اعلیٰ افسر کا ذکر کرتا ہوں۔ سال سوا سال ہوا انہوں نے ہمارے مبلغ صوفی عبدالقدیر صاحب کو بلایا اور ان سے کہا کہ جاپان کے متعلق مجھے وہ معلومات دو جو تم نے وہاں رہ کر حاصل کی ہیں۔ اور جو کارروائیاں وہاں ہورہی ہیں وہ مجھے بتائو۔ صوفی عبدالقدیر صاحب نے درست طور پر جواب دیا کہ میں جماعت کا ایک فرد ہوں اور اس کی طرف سے میں جاپان میں تبلیغی خدمت پر مقرر رہا ہوں۔ میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا ہوں۔ ایک مبلغ کی حیثیت سے ان کا یہ جواب بالکل صحیح اور درست تھا۔ دنیا کی تمام مہذب گورنمنٹیں پادریوں کو اس قسم کے معاملات میں لپیٹا نہیں کرتیں۔ اور اگر وہ مبلغوں کو بھی اس لپیٹ میں لے لیں تو تبلیغ کرنی مشکل ہو جائے۔ آخر مبلغ دوسرے ملکوں میں تبلیغ کرنے کے لئے جاتا ہے جاسوسی کرنے کے لئے تو نہیں جاتا۔ اگر جاپان اور امریکہ اور روس اور اٹلی اور سپین اور جرمن وغیرہ حکومتوں کو یہ خیال پیدا ہو جائے کہ احمدی مبلغ انگریزوں کے جاسوس ہوتے ہیں تو وہ انہیں تبلیغ کی کہاں اجازت دیں گے۔ ایسی صورت میں تو جب کوئی مبلغ ان کے ملک میں جائے گا وہ اسے پکڑ کر باہر نکال دیں گے۔ پس یہ نہایت ہی نامناسب بات ہے کہ کسی جماعت کے مبلغوں کو اس کام پر مامور کیا جائے۔ اس افسر نے صوفی صاحب سے یہ بھی کہا کہ اگر آپ جاپان کے حالات نہیں بتائیں گے تو ڈیفنس آف انڈیا رولز کے ماتحت آپ کو گرفتار کرلیا جائے گا۔ صوفی صاحب نے کہا کہ اگر آپ نے مجھے گرفتار ہی کرنا ہے تو بے شک کرلیں۔ اس واقعہ کے بعد ہمیں معلوم ہوا ہے کہ انہیں نمبر دس کے بستے میں رکھ لیا گیا۔ چنانچہ اب تک ان کی مخفی نگرانی کی جاتی ہے۔ یوں مخفی تو نہیں کہ کسی کو اس کا پتہ نہیں۔ جس شخص کی نگرانی کی جاتی ہے اسے تو پتہ لگ ہی جاتا ہے۔ البتہ ظاہر میں پولیس ان کے دروازے پر نہیں بیٹھتی۔ اس کے بعد یکدم وہ پرانا واقعہ جو سال ڈیڑھ سال کاتھا اٹھانا شروع کردیا گیا۔ پس ہمارے لئے اس بات کے یقین کرنے کی وجوہ موجود ہیں کہ اس میں بعض اعلیٰ حکام اور بعض سی آئی ڈی کے افسروں کا ہاتھ تھا۔ چنانچہ ہمارے دوسرے مبلغ مولوی عبدالغفور صاحب کو جو مولوی ابوالعطاء صاحب کے بھائی ہیں انہیں بھی دھوکہ دے کر امرتسر بلایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ کیا تم جاپان کے متعلق ہمیں معلومات دے سکتے ہو یا اگر تمہیں جاسوس بنا کر بھیجا جائے تو تم یہ کام کرسکتے ہو۔ حالانکہ جس افسر نے یہ بات کہی اس کا ضلع گورداسپور کے کسی فرد کو گورداسپور کی پولیس کی وساطت کے بغیر بلانے کا کوئی اختیار ہی نہیں تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے یہ دھمکی بھی دی کہ جاپان سے جو لوگ آئے ہیں انہیں گورنمنٹ پکڑرہی ہے اگر تم نے حالات نہ بتائے تو تمہیں بھی پکڑ لیا جائے گا۔ حالانکہ یہ بالکل غلط ہے۔ ہزاروں لوگ ایسے ہیں جو جاپان سے آئے مگر انہیں کسی نے گرفتار نہیں کیا۔ صرف سی آئی ڈی کے بعض افسر معلومات حاصل کرنے کے لئے اس قسم کی دھمکی دے دیتے ہیں۔ پس اگر گورنمنٹ کے معنے وزراء کی باقاعدہ مجلس کے ہیں تو میں مان سکتا ہوں کہ اس واقعہ میں گورنمنٹ کا ہاتھ نہیں تھا۔ لیکن دوسرے بعض حکام اور سی آئی ڈی کے بعض افسروں کا اس میں ہاتھ ضرور تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب یہاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس آئے تو میں نے ان کے سامنے ایسے واقعات رکھے جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ ڈیڑھ سال کا ایک پرانا واقعہ ہے اور میں نے ان سے پوچھا کہ یہ ڈیڑھ سال کا واقعہ نئی صورت کس طرح اختیار کرگیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک عجیب اتفاق ہے مگر دنیا میں عجیب اتفاقات ہو ہی جایا کرتے ہیں پھر میں نے دوسری مثال دی۔ کہنے لگے یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے۔ میں نے کہا یہ سارے عجوبے یہاں کس طرح اکٹھے ہوگئے اور ان پرانے واقعات نے نئی صورت کس طرح اختیار کرلی؟
غرض ہمارے پاس اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ درحقیقت اس واقعہ میں بعض بالا افسروں کا ہاتھ تھا لیکن جو فعل ہوا وہ مقامی آدمیوں سے ہوا۔ گویا وہی لفظ جو اس چٹھی میں استعمال کیا گیا ہے یعنی >ان فارچون<۴۶ وہ اس واقعہ پر پوری طرح منطبق ہوتا ہے کہ بدقسمتی سے بعض اور لوگ مارے گئے۔ حالانکہ اصل مجرم اور تھے۔ میں اس وقت ساری باتیں اپنے خطبہ میں بیان نہیں کرسکتا اور بعض باتیں تو ایسی ہیں جن کا بیان کرنا مناسب بھی نہیں۔ صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاس ایسے یقینی ثبوت ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض بالا افسر اس کارروائی میں شامل تھے۔ میں یہ ماننے کے لئے تیار ہوں کہ قانوناً جس شکل کو گورنمنٹ کہتے ہیں وہ اس واقعہ کی ذمہ دار نہ تھی۔ مگر بعض اور بھی بالا افسر ایسے ہوتے ہیں جو گورنمنٹ کے قائم مقام سمجھے جاتے ہیں اور جب ان کی رائے کسی کے خلاف ہوتی ہے تو ماتحت افسر اسے خود بخود نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں۔ پس بے شک اصطلاحی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ گورنمنٹ کا ہاتھ اس واقعہ میں نہیں تھا مگر حقیقی طور پر گورنمنٹ کے بعض افسروں کا اس میں ہاتھ تھا۔ بہرحال چونکہ گورنمنٹ نے قطع نظر اس سے کہ اس واقعہ کا تعلق امام جماعت احمدیہ سے تھا یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقرار کیا ہے کہ اس کے افسروں نے عقل اور تدبیر سے کام نہیں لیا بلکہ ہتک آمیز طریق اختیار کیا جس پر اس نے اظہار افسوس کرتے ہوئے ان افسروں کے خلاف ایکشن لیا ہے جو اس فعل کے مرتکب ہوئے تھے<۔۴۷
دوسرا باب )فصل پنجم(

قادیان سے ہجرت کرکے پہاڑیوں کے دامن میں نیامرکز تعمیر کرنیکا آسمانی انکشاف
سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش کی ایک عظیم خصوصیت یہ ہے کہ اس سال کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ
پر بذریعہ رئویا انکشاف فرمایا کہ حضور کو مستقبل میں قادیان سے ہجرت کرکے پہاڑیوں کے دامن میں تنظیم کی غرض سے ایک نیامرکز قائم کرنا پڑے گا۔ چنانچہ حضور نے ۱۲۔ فتح ۱۳۲۰ہش )۱۲۔ دسمبر ۱۹۴۱ء( کے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
>ایک رئویا ہوا۔ میں نے دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں۔ جو ہمارے مکانوں سے جنوب کی طرف ہے اور اس میں ایک بڑی بھاری عمارت ہے جو کئی منزلوں میں ہے۔ اس کئی منزلہ عمارت میں میں بھی ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یکدم غنیم حملہ کرکے آگیا ہے اور اس غنیم کے حملہ کے مقابلہ کے لئے ہم سب لوگ تیاری کررہے ہیں۔ میں اس وقت اپنے آپ کو کوئی کام کرتے نہیں دیکھتا مگر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ میں بھی لڑائی میں شامل ہوں۔ یوں اس وقت میں نے نہ توپیں دیکھی ہیں نہ کوئی اور سامان جنگ مگر میں سمجھتا یہی ہوں کہ تمام قسم کے آلات حرب استعمال کئے جارہے ہیں۔ اسی دوران میں میں نے محسوس کیا کہ وہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ نظارہ بدل گیا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے ہم اس مکان سے نکل آئے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دشمن غالب آگیا ہے اور ہمیں وہ جگہ چھوڑنی پڑی ہے۔ باہر نکل کر ہم حیران ہیں کہ کس جگہ جائیں اور کہاں جاکر اپنی حفاظت کا سامان کریں۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں آپ کو ایک جگہ بتاتا ہوں آپ پہاڑوں پر چلیں وہاں ایک اٹلی کے پادری نے گرجا بنایا ہوا ہے اور ساتھ ہی اس نے بعض عمارتیں بھی بنائی ہوئی ہیں۔ جنہیں وہ کرایہ پر مسافروں کو دے دیتا ہے۔ وہاں چلیں وہ مقام سب سے بہتر رہے گا۔ میں کہتا ہوں بہت اچھا۔ چنانچہ میں گائیڈ کو ساتھ لیکر پیدل چل پڑتا ہوں۔ ایک دو دوست اور بھی میرے ساتھ ہیں۔ چلتے چلتے ہم پہاڑوں کی چوٹیوں پر پہنچ گئے مگر وہ ایسی چوٹیاں ہیں جو ہموار ہیں۔ اس طرح نہیں کہ کوئی چوٹی اونچی ہو کوئی نیچی جیسے عام طور پر پہاڑوں کی چوٹیاں ہوتی ہیں بلکہ وہ سب ہموار ہیں جس کے نتیجہ میں پہاڑ پر ایک میدان سا پیدا ہوگیا ہے۔ وہاں میں نے دیکھا کہ ایک پادری کالا سا کوٹ پہنے کھڑا ہے اور پاس ہی ایک چھوٹا سا گرجا ہے۔ اس آدمی نے پادری سے کہا کہ باہر سے کچھ مسافر آئے ہیں انہیں ٹھہرنے کے لئے مکان چاہئے۔ وہاں ایک مکان بنا ہوا نظر آتا ہے وہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ پادری لوگوں کو کرایہ پر جگہ دیتا ہے۔ اس نے ایک آدمی سے کہا کہ انہیں مکان دکھا دیا جائے۔ وہ مجھے مکان دکھانے کے لئے لے گیا۔ ایک دو دوست اور بھی ہیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ کچا مکان ہے اور جیسے فوجی بارکیں سیدھی چلی جاتی ہیں اسی طرح وہ مکان ایک لائن میں سیدھا بنا ہوا ہے۔ مگر کمرے صاف ہیں۔ میں ابھی غور ہی کررہا ہوں کہ جو شخص مجھے کمرے دکھا رہا تھا اس نے خیال کیا کہ کہیں میں یہ نہ کہہ دوں کہ یہ ایک پادری کی جگہ ہے ہم اس میں نہیں رہتے ایسا نہ ہو کہ ہماری عبادت میں کوئی روک پیدا ہو۔ چنانچہ وہ خود ہی کہنے لگا۔ آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ یہاں مسجد بھی ہے۔ میں نے اسے کہا کہ اچھا مجھے مسجد دکھائو اس نے مجھے مسجد دکھائی جو نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی مگر چھوٹی سی تھی مسجد مبارک سے نصف ہوگی لیکن اس میں چٹائیاں اور دریاں وغیرہ بچھی ہوئی تھیں اسی طرح امام کی جگہ ایک صاف قالینی مصلیٰ بھی بچھا ہوا تھا مجھے اس مسجد کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی اور میں نے کہا کہ ہمیں یہ جگہ منظور ہے۔ خواب میں میں نے یہ خیال نہیں کیا کہ مسجد وہاں کس طرح بنائی گئی ہے مگر بہرحال مسجد دیکھ کر مجھے مزید تسلی ہوئی اور میں نے کہا کہ اچھا ہوا مکان بھی مل گیا اور ساتھ ہی مسجد بھی مل گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں باہر نکلا اور میں نے دیکھا کہ اکا دکا احمدی وہاں آرہے ہیں خواب میں میں حیران ہوتا ہوں کہ میں نے تو ان سے یہاں آنے کا ذکر نہیں کیا تھا ان کو میرے یہاں آنے کا کیسے پتہ لگ گیا ہے تو معلوم ہوا کہ یہ کوئی محفوظ جگہ نہیں۔ چاہے یہ دوست ہی ہیں لیکن بہرحال اگر دوست کو ایک مقام کا علم ہوسکتا ہے تو دشمن کو بھی ہوسکتا ہے۔ محفوظ مقام تو نہ رہا۔ چنانچہ خواب میں میں پریشان ہوتا ہوں اور میں کہتا ہوں کہ ہمیں پہاڑوں میں اور زیادہ دور کوئی جگہ تلاش کرنی چاہئے۔ اتنے میں میں نے دیکھا کہ شیخ محمد نصیب صاحب آگئے۔ میں اس وقت مکان کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوں۔ انہوں نے مجھے سلام کیا۔ میں نے ان سے کہا کہ لڑائی کا کیا حال ہے۔ انہوں نے کہا۔ دشمن غالب آگیا ہے۔ میں کہتا ہوں مسجد مبارک کا کیا حال ہے۔ انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑرہا ہے۔ میں نے کہا کہ اگر مسجد مبارک کا حلقہ اب تک لڑرہا ہے تب تو کامیابی کی امید ہے۔ میں اس وقت سمجھتا ہوں کہ ہم تنظیم کے لئے رہیں اور تنظیم کرنے کے بعد دشمن کو پھر شکست دے دیں گے۔
اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ اور دوست بھی وہاں پہنچ گئے ہیں۔ ان کو دیکھ کر مجھے اور پریشانی ہوئی اور میں نے کہا کہ یہ تو بالکل عام جگہ معلوم ہوتی ہے۔ حفاظت کے لئے یہ کوئی خاص مقام نہیں۔ ان دوستوں میں ایک حافظ محمد ابراہیم صاحب بھی ہیں اور لوگوں کو میں پہچانتا نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ احمدی ہیں۔ حافظ صاحب نے مجھ سے مصافحہ کیا اور کہا کہ بڑی تباہی ہے۔ بڑی تباہی ہے۔ پھر ایک شخص نے کہا کہ نیلے گنبد میں ہم داخل ہونے لگے تھے مگر وہاں بھی ہمیں داخل نہیں ہونے دیا گیا۔ میں نے تو نیلا گنبد لاہور کا ہی سنا ہوا ہے۔ واللہ اعلم کوئی اور بھی ہو۔ بہرحال اس وقت میں نہیں کہہ سکتا کہ نیلے گنبد کے لحاظ سے اس کی کیا تعبیر ہوسکتی ہے البتہ اس وقت بات کرتے کرتے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ نیلا سمندر کا رنگ ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد حافظ صاحب نے کوئی واقعہ بیان کرنا شروع کیا اور اسے بڑی لمبی طرز سے بیان کرنے لگے جس طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بات کو جلدی ختم نہیں کرتے بلکہ اسے بلاوجہ طول دیتے چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح حافظ صاحب نے پہلی ایک لمبی تمہید بیان کی اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جالندھر کا کوئی واقعہ بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے اور ایک >منشی< کا جو غیر احمدی ہے اور پٹواری یا گرداور ہے بار بار ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ منشی جی ملے اور انہوں نے بھی اسی طرح کہا۔ میں خواب میں بڑا گھبراتا ہوں کہ یہ موقعہ تو حفاظت کے لئے انتظام کرنے کا ہے اور اس بات کی ضرورت ہے کہ کوئی مرکز تلاش کیا جائے۔ انہوں نے منشی جی کی باتیں شروع کر دی ہیں۔ چنانچہ میں ان سے کہتا ہوں کہ آخر ہوا کیا؟ وہ کہنے لگا منشی جی کہتے تھے کہ ہماری تو آپ کی جماعت پر ہی نظر ہے میں نے کہا بس اتنی ہی بات تھی نہ کہ منشی جی کہتے تھے کہ اب ان کی جماعت احمدیہ پر نظر ہے یہ کہہ کر میں انتظام کرنے کے لئے اٹھا اور چاہا کہ کوئی مرکز تلاش کروں کہ میری آنکھ کھل گئی<۔۴۸
مندرجہ بالا رئویا میں اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل خبریں دیں۔
۱۔
قادیان اور اس کے گردونواح میں دشمن یکدم حملہ کرکے آجائے گا۔
۲۔
دشمن کی طرف سے جنگ خفیہ رنگ میں ہوگی۔
۳۔
قادیان سے جالندھر تک بڑی خوفناک تباہی آئے گی اور لوگ نیلا گنبد یعنی کھلی فضا کے نیچے پناہ گزین ہوں گے۔
۴۔
دشمن قادیان پر بھی غالب آجائے گا۔ مگر مسجد مبارک کا حلقہ استقلال اور پامردی سے ڈٹا رہے گا اور محفوظ رہے گا۔
۵۔
اس تباہی کے دوران حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اپنے خاندان کے علاوہ بعض اپنے جاں نثار خدام کے ساتھ قادیان سے کسی دوسرے ملک میں مرکز کی تلاش میں ہجرت کر آئیں گے۔
۶۔
اور بالاخر پہاڑیوں کے دامن میں جماعت احمدیہ کا ایک نیا مرکز تعمیر کریں گے جہاں پہلے فوجی بارکوں کی طرز پر مکان بنانے پڑیں گے۔
یہاں اس امر کا ذکر نامناسب نہ ہوگا کہ یہ سب واقعات تقسیم ہند کے بعد جماعت احمدیہ کے نئے مرکز ربوہ کی تعمیر سے لفظاً لفظاً پورے ہوئے جیسا کہ اس کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا۔
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی کی وفات کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے اب یہاں ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش میں رحلت کرنے والے دوسرے سترہ جلیل القدر صحابہ کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے۔
۱۔ حضرت شیخ عبدالرشید صاحبؓ پٹیالوی )وفات ۷۔ فروری ۱۹۴۱ء/ تبلیغ ۱۳۲۰ہش(۴۹
۲۔
میاں شمس الدین صاحب سوداگر چرم لاہورؓ )بیعت ۱۹۰۶ء وفات فروری ۱۹۴۰ء/ تبلیغ ۱۳۲۰ہش بعمر ۶۲ سال(
مخیر بزرگ تھے۔ لاہور کی مسجد احمدیہ بیرون دہلی دروازہ کے لئے آپ نے پانچ ہزار روپیہ چندہ دیا۔ تجارتی حلقوں میں آپ ایک نمونہ تھے۔ ہمیشہ عمدہ مال خریدتے اور فروخت کرنے میں بھی نہایت دیانتداری سے کام لیتے۔ حلقہ سلطان پورہ لاہور کے امام الصلٰوۃ تھے۔۵۰
۳۔
بابو وزیر خان صاحب اوورسیرؓ )وفات ۲۸۔ تبلیغ فروری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش(۵۱
۴۔
مولوی محمد عبداللہ صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ پھیروچیچی بیعت ۱۹۰۶ء وفات ۵۔ مارچ ۱۹۴۱ء/ امان ۱۳۲۰ہش(۵۲
۵۔
عبداللہ صاحب~رضی۱~ ساکن داتہ ضلع ہزارہ )وفات ۳۱۔ مارچ ۱۹۴۱ء/ امان ۱۳۲۰ہش(۵۳
۶۔
میاں امام الدین صاحبؓ ساکن قادیان )وفات ۲۱۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش( نہایت سادہ طبع اور محنتی انسان تجھے۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے انہیں ابلے ہوئے چنے فروخت کرکے معاش پیدا کرنے کا ارشاد فرمایا جس پر مرحوم آخر وقت تک کاربند رہے اور خداتعالیٰ نے اس میں بہت برکت ڈالی۔۵۴
۷۔
حضرت میاں امام الدین صاحبؓ سیکھوانی والد ¶ماجد حضرت مولانا جلال الدین صاحبؓ شمس )بیعت ۲۳۔ نومبر ۱۸۸۹ء وفات ۸۔ مئی ۱۹۴۰ء/ ہجرت ۱۳۲۰ہش بعمر تقریباً اسی سال( آپ دعوی مسیحیت سے قبل بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور کھانا اپنے رشتہ داروں کے ہاں کھایا کرتے تھے مگر دعویٰ کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کو ارشاد فرمایا کہ اب سے آپ ہمارے مہمان ہیں چنانچہ اس کے بعد جب قادیان آتے تو اکثر حضرت اقدس کے دستر خوان اور لنگر خانہ سے ہی کھانا کھاتے۔ حضرت میاں امام الدین صاحبؓ اور ان کے دونوں حقیقی بھائی )حضرت میاں جمال الدینؓ صاحب اور حضرت میاں خیر دین صاحبؓ( باوجودیکہ نہایت غریب تھے لیکن ہر حال میں قانع اور خداتعالیٰ کے شکرگزار رہتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہنے اور مالی قربانی میں اپنی طاقت اور بساط سے بڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے جس کا تذکرہ خود حضور علیہ السلام نے بھی اپنی کتب و اشتہارات میں نہایت محبت و پیار کے الفاظ میں فرمایا ہے۔ چنانچہ ضمیمہ انجام آتھم کی ۳۱۳ صحابہ کی فہرست میں میاں امام الدین صاحبؓ کا نام )معہ اہل بیت( نمبر ۳۲ پر اور ان کے بھائیوں کے نام )معہ اہل بیت( ۳۰۔ ۳۱ نمبر پر لکھے۔۵۵ اور تحریر فرمایا۔
>میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیردین اور امام الدین کشمیری میرے گائوں سے قریب رہنے والے ہیں وہ تینوں غریب بھائی ہیں جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں۔ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ وہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے۔ وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہوگا۔ مگر للہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا<۔۵۶
پھر اکتوبر ۱۸۹۹ء کو اپنے اشتہار بعنوان >جلستہ الوداع< میں وفد نصیبین کے اخراجات کے تعلق میں تحریر فرمایا۔
>منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری ساکن اوجلہ ضلع گورداسپورہ نے باوجود قلت سرمایہ کے ایک سو پچیس )۱۲۵( روپے دیئے ہیں۔ میاں جمال الدین کشمیری ساکن سیکھواں ضلع گورداسپورہ اور ان کے دو بردار حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیر دین نے پچاس روپے دیئے ہیں۔ ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں گویا حضرت ابوبکرؓ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو آخرت پر مقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی<۔۵۷
علاوہ ازیں جب حضور علیہ السلام نے یکم جولائی ۱۹۰۰ء کو منارۃ المسیح قادیان کے لئے سو سو روپیہ دینے والے مخلصین کی فہرست شائع فرمائی تو ان تینوں بھائیوں اور ان کے والد محمد صدیق صاحبؓ چاروں کی طرف سے ایک سو روپیہ منظور فرما کر ان کے نام نمبر ۸۴ پر درج فرمائے۔۵۸ المختصر حضرت مولوی امام الدین صاحبؓ` حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت عالی مرتبہ صحابہ میں سے تھے۔
۸۔
۸۔ منشی احمد دین صاحبؓ پنشنر وسن پورہ لاہور )وفات ۵۔ احسان ۱۳۲۰ہش بمطابق ۵۔ جون ۱۹۴۱ء(۵۹
۹۔
بابا علی محمد صاحبؓ ساکن مد ضلع امرتسر )وفات جولائی ۱۹۴۱ء/ وفا ۱۳۲۰ہش بعمر ۷۰ سال(۶۰
۱۰۔
مولوی جان محمد صاحبؓ متوطن ڈسکہ مہاجر محلہ دارالبرکات قادیان )وفات ۲۸۔ جولائی ۱۹۴۱ء/ وفا ۱۳۲۰ہش بعمر ۸۲ سال(۶۱
۱۱۔
محمد حسین صاحبؓ ناظر پنشنر دھرم سالہ )بیعت ۱۸۹۴ء وفات جولائی ۱۹۴۱ء/ وفا ۱۳۲۰ہش(۶۲
۱۲۔
حضرت سید مہدی حسین صاحبؓ موج متوطن سید کھیڑی علاقہ راجپورہ ریاست پٹیالہ )ولادت ۳۰۔ اپریل ۱۸۶۸ء/ ۷۔ محرم الحرام ۱۲۸۵ھ]4 [stf۶۳ بیعت مارچ ۱۸۹۳ء وفات ۳۱۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ظہور ۱۳۲۰ہش بعمر ۷۵ سال(۶۴ ۳۱۳ صحابہ کبار کی فہرست میں آپ کا نام نمبر ۱۶۷ پر درج ہے۔۶۵ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشہور خدام میں سے تھے۔ کتب خانہ مسیح موعود علیہ السلام کے مہتمم بھی رہے۔ >نزول المسیح< آپ ہی کی زیر نگرانی شائع ہوئی۔ کاپیوں کی تصحیح میں آپ کو خاصی دسترس تھی۔ اکتوبر ۱۹۳۴ء میں بغرض تبلیغ ایران تشریف لے گئے اور چھ ماہ تک اعلائے کلمتہ اللہ میں مصروف رہنے کے بعد ۱۲۔ مئی ۱۹۳۵ء کو واپس آئے۔۶۶ حضرت میر صاحبؓ نے اپنی زندگی میں ہی اپنی روایات اور اپنے حالات اخبار الحکم )۲۸۔ اکتوبر۔ ۸۔ دسمبر ۱۹۳۶ء و الحکم ۲۱۔ اگست ۱۹۳۸ء و ۱۴۔ ۲۱۔ ستمبر ۱۹۳۸ء میں شائع کرا دئے تھے۔
۱۳۔
میاں غلام حٰم صاحبؓ )تاریخ وفات ۶۔ ستمبر ۱۹۴۱ء/ ۶۔ تبوک ۱۳۲۰ہش بعمر ۷۷ سال(۶۷
۱۴۔
حاجی مفتی گلزار محمد صاحبؓ بٹالوی )بیعت ۱۹۰۲ء وفات ۱۶۔ ستمبر ۱۹۴۱ء/ تبوک ۱۳۲۰ہش بعمر ۷۶ سال(۶۸
۱۵۔
حضرت سید شفیع احمد صاحب دہلوی وفات اکتوبر ۱۹۴۱ء۶۹
۱۶۔
مولوی غلام حسین صاحبؓ ڈنگوی )وفات ۱۸۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش(۷۰
۱۷۔
میاں احمد بخش صاحبؓ امام مسجد احمدیہ تلونڈی جھنگلاں )وفات نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش(۷۱
۱۸۔
میاں رحمت اللہ صاحبؓ باغانوالہ ساکن بنگہ ضلع جالندھر )وفات ۵۔ ماہ فتح ۱۳۲۰ہش مطابق ۵۔ دسمبر ۱۹۴۱ء(۷۲
۱۹۔
چوہدری محبوب عالم صاحبؓ بقاپوری برادر اصغر مولانا محمد ابراہیم صاحبؓ بقاپوری واعظ مقامی )بیعت ۱۹۰۶ء وفات ۲۷۔ فتح ۱۳۲۰ہش مطابق ۲۷۔ دسمبر ۱۹۴۱ء(۷۳
مندرجہ بالا صحابہ کے علاوہ اس سال حضرت شیخ محمد یعقوب صاحب پانی پتی )والد ماجد شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی( نے بھی وفات پائی۔ آپ حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ خلافت میں احمدیت سے مشرف ہوئے تھے۔۷۴
حضرت امیرالمومنین کی تقریریں سالانہ جلسہ ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش پر
حسب معمول اس سال بھی ۲۶` ۲۷` ۲۸۔ دسمبر/ فتح کو جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا جس میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے تین ایمان افروز تقاریر فرمائیں۔
)۱( افتتاحی تقریر جو >اپنی نیتوں کو درست کرکے خداتعالیٰ کے حضور جھک جانے کی نصیحت< پر مشتمل تھی۔ )۲( مسائل حاضرہ پر تقریر جو پونے تین بجے سے شروع ہوکر پونے سات بجے ختم ہوئی۔ )۳( >سیر روحانی< کے موضوع پر علمی تقریر جو اڑھائی بجے سے شروع ہو کر ساڑھے سات بجے تک مسلسل پانچ گھنٹے جاری رہی۔۷۵
فصل ششم
۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش کے متفرق مگر اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں خوشی کی تقاریب
۱۔ یکم تبلیغ ۱۳۲۰ہش )یکم فروری ۱۹۴۱ء( کو صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب )خلف الرشید حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ( کے ہاں صاحبزادی امتہ المومن صاحبہ کی ولادت ہوئی۔۷۶
۲۔ ۱۲۔ ماہ شہادت )اپریل( کو خان مسعود احمد خان صاحب )ابن حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہؓ( کے ہاں صاحبزادہ میاں مودود احمد خان پیدا ہوئے۔۷۷
۳۔ ۹۔ نبوت )نومبر( کو صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ )بنت حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ( کے رخصتانہ کی تقریب عمل میں آئی۔ صاحبزادی صاحبہ کا نکاح مرزا حمید احمد صاحب )ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ( سے مشاورت ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش میں پڑھا گیا تھا۔ اس مبارک تقریب پر )جو قصر خلافت میں ہوئی( حضرت امیرالمومنینؓ کی طرف سے ڈیڑھ سو کے قریب اصحاب مدعو تھے اور برات میں شامل ہونے والے اصحاب کی تعداد قریباً چالیس تھی۔ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب` صاحبزادہ حضرت مرزا مبارک احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور دیگر افراد خاندان نے برات کا استقبال کیا اور حضور نے اپنے دست مبارک سے مرزا حمید احمد صاحب کے گلے میں پھولوں کا ہار ڈالا اور ساڑھے پانچ بجے مجمع سمیت دعا فرمائی۔۷۸
۴۔ حضرت امیرالمومنین کے فرزند ارجمند صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی برات ۱۴۔ نبوت ۲/۱ ۶ بجے شام کی گاڑی سے مالیر کوٹلہ گئی۔ برات میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ` حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ` حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب` صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب` مرزا منصور احمد صاحب اور مرزا منیر احمد صاحب شریک تھے۔ علاوہ ازیں حضرت سیدہ ام ناصر احمد صاحبہؓ حرم اول حضرت خلیفتہ المسیح اور حضرت سیدہ ام متین صاحبہ حرم رابع حضرت خلیفتہ المسیح بھی ہمراہ تھیں۔ برات ۱۶۔ ماہ نبوت )نومبر( کو دس بجے صبح کی گاڑی سے واپس پہنچی تو مقامی جماعت کے ہزاروں افراد نے اس کا پرتپاک استقبال کیا اور سب سے پہلے سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بعد ازاں بعض اور اصحاب نے صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کے گلے میں ہار ڈالے۔۷۹
مہاراجہ صاحب بہادر آف ریاست پٹیالہ قادیان میں
۱۴۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش کو مہاراجہ یاد وندر سنگھ مہندر بہادر مہاراجہ آف ریاست پٹیالہ ڈیڑھ بجے بعد دوپہر بذریعہ کار قادیان آئے۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ناظر امور عامہ و خارجہ نے احمدیہ کور کے رضاکاروں کے ساتھ خیر مقدم کیا۔ مہاراجہ صاحب نے چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر میں قیام کیا۔ اسی روز عصر کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنی کوٹھی دارالحمد میں دعوت چائے دی۔ جس میں آنریبل چوہدری صاحب اور بعض اور معززین سلسلہ بھی مدعو تھے۔ شام کو آنریبل چوہدری صاحب نے مہاراجہ صاحب کے اعزاز میں دعوت طعام دی جس میں سیدنا حضرت امیرالمومنین نے بھی شرکت فرمائی۔۸۰
اگلے روز )۱۵۔ شہادت کو( مہاراجہ صاحب بہادر نے صدر انجمن احمدیہ کے مختلف ادارے دیکھے اور سردار محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار >نور< کی طرف سے آنحضرت~صل۱~ کی گورمکھی زبان میں مطبوعہ سیرت تحفت¶ہ قبول کی۔ مہاراجہ صاحب بہادر اداروں کے معائنہ کے بعد سوا دس بجے قبل دوپہر قادیان سے روانہ ہوگئے۔۸۱
اس سال مہاراجہ صاحب پٹیالہ کے علاوہ جو لوگ قادیان میں زیارت کے لئے آئے ان میں ڈائریکٹر ڈاکخانہ جات سر فریڈرک جیمز۔۸۲ سیٹھ حسن بھائی لال جی صاحب تاجر بمبئی ورکن مرکزی اسمبلی۸۳ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
عبدالرحمن صاحب سماٹری کی وفات
مولوی ابوبکر صاحب سماٹری کے ایک بھائی عبدالرحمن صاحب جو ۱۹۳۸ء سے مرکز سلسلہ میں آکر دینی تعلیم حاصل کررہے تھے اسی سال کے وسط میں تپ محرقہ میں مبتلا ہوگئے اور ایک ماہ کے بعد ۱۳۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ظہور ۱۳۲۰ہش کو ۲۴۔ ۲۵ سال کی عمر میں رحلت کر گئے۔ آپ جب قادیان تشریف لائے تو اردو سے بالکل ناآشنا تھے مگر بہت جلد اردو سمجھنے اور بولنے لگے اور مدرسہ احمدیہ کی تیسری اور چوتھی جماعت کا امتحان ایک ہی سال میں پاس کرکے چھٹی جماعت میں داخلہ لے لیا۔ آپ اپنی جماعت کے چوٹی کے طلباء میں سے تھے اور صرف و نحو میں ہمیشہ اول رہتے تھے۔ بہت شریف` بہت شرمیلے اور بہت پرجوش احمدی نوجوان تھے۔ آپ اگرچہ موصی نہ تھے مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ارشاد سے مقبرہ بہشتی میں دفن کئے گئے۔۸۴
‏sub] g[taفلسطین کے معمر ترین احمدی کا انتقال
الحاج عبدالقادر عودہ جو جماعت احمدیہ فلسطین کے معمر ترین احمدی تھے۔ اس سال کے آخر میں ۲۲۔ رمضان ۱۳۶۰ھ )اکتوبر ۱۹۴۱ء( کو ایک سو بارہ برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ آپ علامہ جلال الدین صاحب شمس کے قیام فلسطین کے زمانہ میں داخل احمدیت ہوئے اور آخر دم تک نہایت اخلاص جوش اور ایثار سے اپنا عہد بیعت نبھایا۔ آپ سچ مچ ان لوگوں میں سے تھے۔ جنہیں خدا کے کلام میں ابدال الشام کہا گیا ہے۔ دعا ان کا روز و شب کا مشغلہ تھا۔ آخر عمر تک بڑھاپے کے باوجود قیام اللیل کے پابند رہے اور ٹھنڈے پانی سے وضو کرتے تھے۔ بارہا از راہ مذاق کہا کرتے۔ تم جوان میرے ساتھ اب بھی کشتی نہیں کرسکتے۔ حضرت امیرالمومنین کی ذات بابرکات سے تو انہیں والہانہ عشق تھا۔ جب ہندوستان کی ڈاک پہنچتی سارے حالات دریافت فرماتے اور خیریت کا علم ہونے پر خوشی کا اظہار کرتے۔ حضور کی درازی عمر کے لئے ہمیشہ دعا کرتے رہتے۔ ہر شخص کے سامنے اپنے احمدی ہونے کو فخریہ طور پر پیش کرتے اور جب کوئی شخص ملنے کے لئے آتا تو اس سے ضرور یہ سوال کرتے کہ کیا تم احمدی ہو۔ اگر وہ کہتا کہ میں احمدی نہیں ہوں تو کہتے کہ فوراً احمدی ہو جائو۔ یہ دن پھر کہاں نصیب ہوں گے۔ لوگ جب ان سے پوچھتے کہ کیا آپ احمدی ہیں؟ تو زور سے کہتے >انا احمدی غضبا عنکم< تم خواہ کتنے ناراض ہو میں تو بہرحال احمدی ہوں۔ حضرت الحاج عبدالقادر آخری سانس تک ذکر الٰہی کرتے رہے اور آخری پیغام یہ دیا کہ میری طرف سے حضرت امیرالمومنین کی خدمت میں السلام علیکم پہنچا دیا جائے۔ آپ نے اپنے پیچھے ایک مخلص خاندان اور قربانی کرنے والے بیٹے اور پوتے چھوڑے۔ آپ کے پوتے السید محمد صالح العودی پہلے احمدی ہیں جن کو فلسطین کی سرزمین سے وصیت کرنے کی توفیق ملی۔۸۵
بیرونی مبلغین احمدیت کی آمد اور روانگی
۱۔ مولوی محمد الدین صاحب فاضل مجاہد البانیہ و مصر اٹلی البانیہ اور مصر وغیرہ میں قریباً پانچ سال تک تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد ۱۴۔ امان ۱۳۲۰ہش )۱۴۔ مارچ ۱۹۴۱ء( کو ساڑھے نو بجے کی گاڑی سے واپس تشریف لائے۔۸۶
۲۔
چوہدری محمد اسحاق صاحب سیالکوٹی مجاہد ہانگ کانگ )چین( ۸۔ شہادت ۱۳۲۰ہش )۸۔ اپریل ۱۹۴۱ء( کو صبح کی گاڑی سے وارد قادیان ہوئے۔۸۷
۳۔
مولوی عبدالغفور صاحب مولوی فاضل جالندھری مبلغ جاپان ۳۰۔ اخاء ۱۳۲۰ہش )۳۰۔ اکتوبر ۱۹۴۱ء( کو دس بجے کی گاڑی جاپان سے قادیان پہنچے۔۸۸
۴۔
ملک عزیز احمد صاحب مجاہد تحریک جدید )معہ صدر الدین یحییٰ صاحب(۸۹ جاوا کے لئے روانہ ہوئے۔۹۰
بیرونی مشنوں کے ضروری واقعات
گولڈ کوسٹ
اس سال کے شروع میں کماسی )علاقہ اشانٹی( میں مدرسہ احمدیہ کی عمارت پایہ تکمیل تک پہنچی اور ۱۳۔ صلح ۱۳۲۰ہش کو اس کا افتتاح عمل میں آیا۔ اس موقعہ پر شاہ اشانٹی نے اپنے ایک خاص نمائندہ کو اپنا ایک پیغام دے کر بھجوایا اور مولانا نذیر احمد صاحب مبشر مبلغ گولڈ کوسٹ )غانا( نے اسلام کی خوبیوں اور اس کے تعلیمی نظریات پر دو گھنٹہ تک لیکچر دیا۔۹۱
سیلون
مولانا بی عبداللہ صاحب مالاباری ۱۰۔ رمضان )مارچ( کو کولمبو سے کنڈی تشریف لے گئے۔ تین روز وہاں قیام کرکے پیغام حق پہنچایا۔ علاوہ ازیں ایک غیراحمدی عالم سے ایک شب دو گھنٹے اور دوسری رات سات گھنٹے تک اختلافی مسائل پر کامیاب تبادلہ خیالات کیا۔۹۲
جزائر شرق الہند
مولانا رحمت علی صاحب مبلغ جزائر شرق الہند نے اسی سال کے شروع میں جاوا اور سماٹرا کا وسیع تبلیغی دورہ کیا۔ پہلے پندرہ دن سماٹرا کے شہر میدان میں رہے۔ پھر دو ماہ تک پاڈانگ میں قیام کیا اور ۱۶۔ امان ۱۳۲۰ہش )۱۶۔ مارچ ۱۹۴۱ء( کو جاوا میں پہنچے۔ جہاں آپ نے تیس لیکچرز دیئے۔ ان لیکچروں کا پروگرام پہلے سے اخبارات میں شائع کر دیا جاتا تھا۔ جاوا میں آپ یکم ہجرت ۱۳۲۰ہش )یکم مئی ۱۹۴۱ء( تک قیام فرما رہے۔۹۳
مولوی محمد صادق صاحب مبلغ سماٹرا نے وفا ۱۳۲۰ہش )جولائی ۱۹۴۱ء( میں ایک تبلیغی دورہ کیا جس کے دوران آپ نے میدان سے بارہ میل کے فاصلہ پر ایک قصبہ کے راجہ لیبوآن (LABUAN) سے بھی ملاقات کی اور احمدیت سے متعلق ضروری معلومات بہم پہنچائیں۔ راجہ صاحب نے کہا کہ ان کے کئی شکوک کا ازالہ ہوگیا ہے۔ نیز خواہش ظاہر کی کہ مجھے علامات مہدی پر مشتمل احادیث بھی بھجوا دیں اور ان کے پورا ہونے کا ثبوت بھی` میں اپنے علماء سے مزید تحقیق کرائوں گا۔ راجہ صاحب کو >اسلامی اصول کی فلاسفی< )انگریزی( اور >تصدیق المسیح< )سماٹری زبان( دو کتابیں پیش کی گئیں جو انہوں نے بخوشی قبول کیں۔۹۴
‏tav.8.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
اشاعت احمدیت کی خصوصی تحریک سے واقعہ ڈلہوزی تک
مشرقی افریقہ
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے ہز ہائی نس سلطان آف زنجبار سے تین بار ملاقات کرکے ان تک احمدیت کا پیغام پہنچایا جو ہزہائینس نے نہایت خوشی اور شوق سے سنا اور کہا۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ جو کچھ کہتے ہیں درست ہے۔ ایک زمانہ آئے گا کہ ہم سب ایک ہو جائیں گے۔۹۵
نائجیریا
احمدیہ مشن لیگوس کی طرف سے ایک ٹریکٹ >حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودہ جنگ کے متعلق پیشگوئیاں اور حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی کے الہامات< کے عنوان پر ایک ہزار کی تعداد میں شائع کیا گیا۔۹۶
۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش کی نئی مطبوعات
۱۔ >مسئلہ جنازہ کی حقیقت< مولفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے۔
۲۔ >احمدیت<۔ نظارت تعلیم و تربیت قادیان کا شائع کردہ تربیتی چارٹ۔۹۷
۳۔ >علم طب مسیح موعود علیہ السلام<۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے طبی نسخوں کا مجموعہ۔ ناشر محمد یامین صاحب تاجر کتب قادیان۔
اندرون ملک کے بعض مشہور مناظرے
۱۔ مباحثہ فجوپورہ دھاریوال۔ ۱۲۔ جنوری ۱۹۴۱ء/ صلح ۱۳۲۰ہش کو جماعت احمدیہ فجوپورہ دھاریوال اور غیراحمدیوں میں مسئلہ ختم نبوت پر ایک کامیاب مناظرہ ہوا۔ احمدیوں کی طرف سے مولوی ابوالعطاء صاحب اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد حیات صاحب مقرر ہوئے۔ سامعین احمدی مناظر کے بیان کردہ دلائل آیات و احادیث سے بہت متاثر ہوئے۔ دو افراد داخل سلسلہ احمدیہ بھی ہوئے۔ خاتمہ بحث پر احمدی صدر۹۸ نے درخواست کی کہ اسی پرامن طریق سے مسئلہ حیات و وفات مسیح پر بھی بحث کرلی جائے مگر غیراحمدی مناظر نے بالکل انکار کردیا۔۹۹
۲۔ مباحثہ مدرسہ چٹھہ )ضلع گوجرانوالہ( ۳۰۔ صلح ۱۳۲۰ہش )۳۰۔ جنوری ۱۹۴۱ء( کو مدرسہ چٹھہ ضلع گوجرانوالہ میں جماعت احمدیہ اور اہل سنت و الجماعت کے درمیان ایک شاندار مباحثہ ہوا۔ موضوع زیر بحث مسئلہ ختم نبوت تھا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکیؓ اور غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی محمد نذیر صاحب مناظر تھے۔ مناظرہ تین گھنٹہ جاری رہا۔ غیر احمدی مناظر نے آنحضرت~صل۱~ کے بعد فیضان نبوت کے بالکل مسدود ہونے کی تائید میں جس قدر دلائل پیش کئے ان سب کو حضرت مولانا راجیکی صاحب نے دلائل عقلیہ و نقلیہ سے بے بنیاد ثابت کیا۔ نیز سامعین پر واضح کیا کہ ایک طرف تو فریق ثانی کے مناظر یہ دعویٰ پیش کررہے ہیں کہ آیت خاتم النبیین کے معنے ہیں کہ آنحضرت~صل۱~ نے تمام نبیوں کو ختم کردیا بند کر دیا اور دوسری طرف ان کا عقیدہ یہ ہے کہ آنحضرت~صل۱~ کے بعد حضرت مسیحؑ ناصری دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ گویا ان کا اپنا عقیدہ ہی ان کے دعویٰ کو غلط اور بے حقیقت ثابت کررہا ہے۔ غیراحمدی مناظر آخر وقت تک اس کا کچھ جواب نہ دے سکے اور غیر متعلقہ باتیں پیش کرکے پبلک کو غلط فہمی میں ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ مختصر یہ کہ خدا کے فضل سے اس مناظرہ نے احمدیت کے زوردار دلائل کی دھاک بٹھا دی۔۱۰۰
۲۔ مباحثہ روہڑی سکھر۔ ۲۳۔ تبلیغ ۱۳۲۰ہش )۲۳۔ فروری ۱۹۴۱ء( کو انجمن اسلامیہ روہڑی اور جماعت احمدیہ سکھر کے مابین ایک مناظرہ بمقام روہڑی منعقد ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا ابوالعطاء صاحب نے اور اہل سنت و الجماعت کی طرف سے لال حسین صاحب اختر نے مناظرہ کیا۔ پہلا مناظرہ حیات مسیحؑ اور رفع الی السماء پر تھا۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے پندرہ آیات۔ دس احادیث اور اقوال بزرگان سلف اور اجماع صحابہ سے وفات مسیح ثابت کر دکھائی۔ مگر غیراحمدی مناظر ان دلائل کا جواب دینے اور اپنے دعویٰ کو ثابت کرنے کی بجائے ادھر ادھر کی باتوں میں الجھے رہے۔ دوسرا مناظرہ مسئلہ ختم نبوت پر تھا۔ احمدی مناظر نے لغت کی مستند کتاب مفردات القرآن )امام راغب~رح(~ پیش کرکے بتایا کہ خاتم النبیین کے حقیقی معنے کسی چیز کا دوسری چیز میں اپنی تاثیر پیدا کرنا اور اپنے نقوش قائم کر دینے کے ہوتے ہیں۔۱۰۱ ان حقیقی معنوں کی رو سے خاتم النبیین کا مفہوم یہ ہوگا کہ وہ نبی جس کی روحانی توجہ نبی تراش ہو۔ فاضل مناظر نے اپنے موقف کی تائید میں مسئلہ ختم نبوت پر لغوی نکتہ نگاہ سے روشنی ڈالنے کے علاوہ قرآن مجید` احادیث صحیح اور اقوال بزرگان سلف کے متعدد واضح دلائل پیش کئے۔ احمدی مناظر کی برجستہ مدلل اور متین و شائستہ تقریروں کا اہل علم طبقہ پر نہایت ہی عمدہ اثر ہوا۔۱۰۲
۳۔ مباحثہ فجوپورہ دھاریوال ۲۔ فجوپورہ میں پہلے مناظرہ کے ایک ماہ بعد دوسرا مناظرہ >صداقت مسیح موعود علیہ السلام< کے موضوع پر ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ہی مناظر تھے مگر اہل سنت و الجماعت کی طرف سے مولوی عبداللہ معمار صاحب امرتسری پیش ہوئے۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے قرآن مجید کی متعدد آیات` احادیث نبویہ اور معیار ہائے صداقت انبیاء کے رو سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی ثابت کی مگر معمار صاحب نے دوران مباحثہ لاجواب ہوکر مرزا احمد بیگ والی پیشگوئی پر اعتراض شروع کر دیئے اور دعویٰ کیا کہ مرزا احمد بیگ کا چھ ماہ میں مرجانا پیشگوئی کے خلاف ہے کیونکہ اس کے لئے تین سال کی میعاد مقرر تھی۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے جواب دیا کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے اشتہار ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء میں تحریر فرمایا تھا کہ وہ تین برس کے عرصہ تک بلکہ اس سے قریب فوت ہوجائے گا۔۱۰۳ یعنی تین سال پورے ہونے ضروری نہیں۔ معمار صاحب نے جواب میں کہا کہ اگر ایک ہفتہ میں بھی یہ حوالہ دکھا دیں تو میں پچاس روپے انعام دوں گا مگر مولوی ابوالعطاء صاحب کے بار بار مطالبہ کے باوجود کہ وہ چیلنج لکھ کر دے دیں انہیں آخر وقت تک تحریر دینے کی جرات نہ ہوسکی۔ جونہی مناظرہ ختم ہوا وہ چپکے سے احمدیوں کے سٹیج پر آکر کہہ گئے کہ فساد کا اندیشہ ہے اس وقت تحریر کا مطالبہ نہ کریں مولوی ابوالعطاء صاحب نے ایک معزز غیر احمدی بابو عبدالستار صاحب کے ہاتھ مندرجہ ذیل تحریر لکھ بھیجی۔
>میں اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار سے جو تبلیغ رسات میں شائع ہوچکا ہے دکھائوں گا کہ آپ نے لکھا ہے کہ احمد بیگ نکاح کے بعد تین سال بلکہ قریب عرصہ میں مر جائے گا اگر میں کل مورخہ ۳۔ مارچ ۱۹۴۱ء کو موضع فجوپورہ میں نہ دکھا سکا تو اپنے وعدہ میں جھوٹا ہوں گا<۔ خاکسار ابوالعطاء جالندھری ۴۱/۳/۲<
بابو عبدالستار صاحب موصوف یہ رقعہ لے کر معمار صاحب کے پاس پہنچے اور جلد ہی واپس آکر بتایا کہ معمار صاحب اب اس تحریر پر بھی فیصلہ کرنا نہیں چاہتے اور حسب ذیل الفاظ میں اپنا بیان لکھ دیا۔
>یہ اصل میں سید اولاد حسین صاحب اور مولوی عبداللہ صاحب معمار کے پاس لیکر گیا۔ لیکن انہوں نے اسے قبول نہیں کیا اور اس پر فیصلہ کرنا منظور نہیں کیا<۔ دستخط انگریزی۔ بابو عبدالستار۔ ۴۱/۳/۱۰۴۲
۴۔ مباحثہ موضع بیری )ضلع گورداسپور( ۱۳۔ امان ۱۳۲۰ہش )۱۳۔ مارچ ۱۹۴۱ء( کو موضع بیری میں مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل نے وفات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مولوی عبداللہ صاحب معمار سے ایک کامیاب مناظرہ کیا جس میں قادیان سے بھی بکثرت لوگ شامل ہوئے۔۱۰۵
۵۔ مباحثات دہلی:۔ مارچ ۱۹۴۱ء/ امان ۱۳۲۰ہش کا آخری ہفتہ غیر مبائعین سے مناظرات کا مرکز بنا رہا۔ اس ہفتہ تین مناظرے ہوئے اور تینوں میں مولانا ابوالعطاء صاحب مناظر تھے۔
پہلا مناظرہ ۲۲۔ امان )مارچ( کی شب کو ہوا جس میں غیر مبائعین کی طرف سے مولوی اختر حسین صاحب مقرر تھے۔ بحث کا موضوع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ظلی نبوت قرار پایا- جناب مولوی ابوالعطاء صاحب نے پہلے نصف گھنٹہ اس موضوع پر تقریر فرمائی اور اس کے بعد مناظرہ شروع ہوا۔ جو دو گھنٹہ تک جاری رہا۔ فاضل مناظر نے ظلی۔ بروزی اور امتی نبی وغیرہ اصطلاحوں کی حقیقت کو حضرت اقدسؑ کے کلام مبارک سے نہایت احسن طریق پر سامعین کے ذہن نشین کرایا۔ جس کے جواب میں مولوی اختر حسین صاحب اخیر تک کوئی معقول بات پیش نہ کرسکے۔ غیر مبائع مناظر نے اس بات پر زور دیا کہ حضرت اقدسؑ نے کہیں ظلی مجدد یا ظلی محدث کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے ہاں ظلی نبی لکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ حضور اپنے آپ کو مجدد` محدث سمجھتے تھے اس لئے نبی کے لفظ کے ساتھ ظلی کا استعمال فرمایا ہے۔ ہمارے فاضل مناظر نے ان کی اس غلطی کو بھی نہایت عمدہ طریق پر ظاہر کردیا اور >ازالہ اوہام< کے حوالہ سے واضح فرما دیا کہ حضور فرماتے ہیں کہ ہمیں جو کچھ ملتا ہے ظلی طور پر ملتا ہے۔ پس جب سب کچھ ظلی طور پر ملا ہے تو مجددیت یا محدثیت کہاں باہر رہ سکتی ہے اس کا کوئی جواب مولوی اختر حسین صاحب نے باوجود بار بار توجہ دلانے کے نہ دیا۔
دوسرا مناظرہ ۲۳۔ امان )۲۳۔ مارچ( کو ہوا- غیر مبائعین کی طرف سے شیخ عبدالحق صاحب مناظر تھے۔ موضوع مناظرہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی فضیلت بر مسیح ناصری علیہ السلام اور اس کی بنیاد نبوت پر ہے یا نہیں قرار پایا۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے دوران مناظرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے حوالے سنانے کے بعد خاص طور پر >نزول المسیح< کی مندرجہ ذیل عبارت پڑھی کہ۔
>خداتعالیٰ نے اور اس کے پاک رسول نے بھی مسیح موعود کا نام نبی اور رسول رکھا ہے اور تمام خدا تعالیٰ کے نبیوں نے اس کی تعریف کی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس شخص کو خداتعالیٰ بصیرت عطا کرے گا وہ مجھے پہنچان لے گا۔ میں مسیح موعود ہوں۔ میں وہی ہوں جس کا نام سرور انبیاءﷺ~ نے نبی اللہ رکھا ہے اور اس کو سلام کہا ہے<۔۱۰۶ اس حوالہ کا کوئی معقول جواب فریق لاہور کے مناظر سے نہ بن سکا۔
تیسرا مناظرہ ۲۶۔ مارچ )امان( کی شب کو ہوا۔ غیر مبائعین کی طرف سے مولوی اختر حسین صاحب مناظر تھے۔ جناب مولوی ابوالعطاء صاحب نے نصف گھنٹہ تقریر فرمائی اور قرآن مجید اور احادیث صحیحہ نیز لغت محاورات اور بزرگان کے اقوال سے فیضان ختم نبوت کا ثبوت دیا اور نہایت احسن طریق پر ثابت کیا کہ امت محمدیہ میں صرف تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہے۔ یہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے۔ اور یہی بزرگان امت کے اقوال سے ثابت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مناظرے نہایت کامیاب ثابت ہوئے اور سامعین پر ان کا بہت اچھا اثر ہوا۔۱۰۷
۵۔ مباحثہ مکیریاں۔ ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش کے وسط میں مکیریاں )ضلع ہوشیارپور( میں ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب موگا نے مسئلہ ختم نبوت پر اور شیخ عبدالقادر صاحب فاضل )نو مسلم( نے صداقت مسیح موعودؑ مباحثہ کیا۔ ان ہر دو مباحثات میں غیر احمدیوں کی طرف سے لال حسین صاحب اختر نے بحث کی۔۱۰۸
۶۔ مباحثہ داتہ زید کا۔ مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل دیا لگڑھی نے ماہ شہادت ۱۳۲۰ہش )مئی ۱۹۴۱ء( میں عیسائیوں کے ساتھ دو مناظرے کئے ایک >صداقت مسیح موعود< پر اور دوسرا >انجیل کا پیشکردہ مسیح< پر۔ عیسائیوں اور غیر احمدیوں نے احمدیہ علم کلام کی فوقیت تسلیم کی۔۱۰۹
۷۔ مباحثہ لاہور۔ ۲۵۔ احسان )جون( کو چند غیر مبائعین اپنے عقاید خصوصی کی اشاعت کے لئے بھاٹی گیٹ لاہور کے احمدی حلقہ میں آئے۔ ۲۷۔ احسان )جون( کو لمبی دیر تک گفتگو ہوتی رہی جس نے اگلے روز )۲۸۔ احسان کو( باقاعدہ مناظرہ کی صورت اختیار کرلی۔ جس میں جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے میاں محمد عمر صاحب بی۔ ایس۔ سی` ایل۔ ایل۔ بی وکیل اور غیر مبائع اصحاب کی طرف سے مولوی احمد یار صاحب ایم۔ اے مناظر تھے اور موضوع بحث تھا >مسئلہ نبوت مسیح موعود<۔ میاں محمد عمر صاحب نے اپنی اصولی بحث میں ثابت کیا کہ تعریف نبوت حضور علیہ السلام پر منطبق ہوتی ہے نیز واضح کیا کہ )۱( خداتعالیٰ )۲( انبیاء علیہم السلام )۳( اسلام اور )۴( خود حضرت مسیح موعودؑ کے نزدیک بھی نبی کو محدث سے ممتاز کرنے کے لئے صرف ایک شرط ضروری ہے اور وہ ہے۔ بکثرت اظہار امور غیبیہ اور یہ شرط یقیناً حضرت مسیح موعودؑ میں موجود ہے۔ غیر مبائع مناظر دلائل کے جواب دینے سے قاصر رہے اور اس کی تلافی انہوں نے ذاتی حملوں اور غلط بیانیوں سے کی۔ البتہ اپنے نامناسب الفاظ بار بار بلاتامل واپس بھی لے لیتے رہے۔۱۱۰]ydbo [tag
مباحثہ لائل پور۔ ماہ اخاء یا نبوت )اکتوبر۔ نومبر( میں لائل پور کے مشہور غیر مبائع حاجی شیخ میاں محمد صاحب کی کوٹھی کے احاطہ میں جماعت احمدیہ قادیان اور فریق لاہور کا مناظرہ ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری اور فریق ثانی کی طرف سے مولوی اختر حسین صاحب مناظر تھے۔ قاضی محمد نذیر صاحب لائل پوری اور مرزا مظفر بیگ صاحب ساطع نے پریذیڈنٹ کے فرائض انجام دیئے مولانا ابوالعطاء صاحب نے قرآن کریم` احادیث` اقوال بزرگان` کتب مسیح موعود علیہ السلام` لغت عرب سے ثابت کیا کہ آنحضرت~صل۱~ کی غلامی میں فیضان نبوت جاری ہے۔ غیر مبائع مناظر نے نہایت واضح اقتباسات کو نظر انداز کرکے >منن الرحمن< کے ایک حوالہ پر بہت زور دیا لیکن جب اس حوالہ کا ترجمہ نیچے سے پڑھ کر سنایا گیا تو کہنے لگے یہ ترجمہ غلط ہے لہذا حضرت صاحب کا نہیں ہوسکتا۔ پھر کہا کسی غیر احمدی عالم سے دریافت کرلیا جائے کہ آیا ترجمہ غلط ہے یا صحیح۔ جماعت احمدیہ قادیان کی طرف سے کہا گیا کہ ہم ہرگز کسی غیر احمدی عالم کو اس بارہ میں حکم ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس پر غیر مبائع مناظر نے اپنی پارٹی کے ایک مولوی کو کھڑا کرنا چاہا مگر انہوں نے بھی کہہ دیا کہ میں حضرت صاحب کے ترجمہ کو احمدی ہو کر کیسے غلط کہہ سکتا ہوں۔ ازاں بعد غیر مبائع مناظر نے ایک غیر احمدی سے یہ کہلایا کہ یہ ترجمہ غلط ہے۔ فانا للہ وانا الیہ راجعون۔۱۱۱
دوسرا باب
حواشی
۱۔
الفضل ۱۴۔ جنوری ۱۹۴۱ء/ صلح ۱۳۲۰ہش صفحہ ۴ کالم ۱۔
۲۔
اس اجتماع کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں پہلی بار بیرونی خدام نے بھی شرکت کی۔ یہ تقریر الفضل ۲۔ ۴۔ ۶۔ ۷۔ اکتوبر میں باقساط شائع ہوئی۔
۳۔
الفضل ۲۔ اکتوبر ۱۹۶۰ء/ اخاء ۱۳۳۹ہش صفحہ ۴ کالم ۱۔
۴۔
الفضل ۲۳۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۵۔
الفضل ۲۳۔ مئی ۱۹۴۱ء/ ہجرت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۔
الفضل ۷۔ مئی ۱۹۴۱ء/ ہجرت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱ کالم ۳۔ الفضل ۱۵۔ مئی ۱۹۴۱ء/ ہجرت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۷۔
الفضل ۲۷۔ مئی ۱۹۴۱ء/ ہجرت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱ و ۲۔
۸۔
اخبار اصلاح ۲۹۔ مئی ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۔
۹۔
‏ Traitor دغا باز۔
۱۰۔
الفضل ۷۔ جون ۱۹۴۱ء/ احسان ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۱۔
الفضل ۹۔ ستمبر ۱۹۴۱ء/ تبوک ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد چہارم مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان۔
۱۳۔
ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۱ کالم ۱۔
۱۴۔
‏h2] ga[t ایضاً آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۸۲ )حاشیہ(
۱۵۔
ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۸۰۰۔
۱۶۔
حال امیر جماعت ہائے احمدیہ ضلع لائلپور )مغربی پاکستان(
۱۷۔
اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۸۶ تا ۱۴۰ )طبع اول( مرتبہ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان۔
۱۸۔
الفضل ۲۸۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ظہور ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱ و ۲۔
۱۹۔
الفضل ۲۸۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ظہور ۱۳۲۰ہش صفحہ ۳ تا ۶۔
۲۰۔
الفضل ۲۸۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ظہور ۱۳۲۰ہش صفحہ ۷ و ۸۔
۲۱۔
الفضل ۵۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۳ و ۴۔
۲۲۔
الفضل ۱۶۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔
۲۳۔
الفضل ۱۹۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔
۲۴۔
الفضل ۲۷۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ظہور ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۲۵۔
الفضل ۳۰۔ اگست ۱۹۶۴ء/ ظہور ۱۳۴۳ہش صفحہ ۵۔
۲۶۔
پہلی مسجد ۱۹۳۵ء کے زلزلے میں شہید ہوگئی تھی اور احمدی ایک عارضی سی عمارت میں نماز ادا کیا کرتے تھے۔
۲۷۔
ایک اینٹ جو مسجد مبارک کی شمال مغربی کھڑکی کی تھی محراب کے مغربی حصہ میں اور دوسری اینٹ جو مسجد مبارک کی سیڑھیوں کی تھی محراب کے دائیں طرف نصب کی گئی۔ الفضل ۲۹۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ظہور ۱۳۲۰ہش صفحہ ۳ میں مفصل روئیداد موجود ہے۔
۲۸۔
تفصیل الفضل ۵۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۶ پر شائع شدہ ہے۔
۲۹۔
الفضل ۳۔ دسمبر ۱۹۴۱ء/ فتح ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲۔
۳۰۔
تعمیر مسجد میں نمایاں حصہ لینے والوں کا نام مسجد کی شرقی دیوار کے کتبہ پر کندہ ہے۔
۳۱۔
الفضل ۱۴۔ تبوک ۱۳۲۰ہش )ستمبر ۱۹۴۱ء( صفحہ ۱ کالم ۲۔
۳۲۔
الفضل ۱۴۔ تبوک ۱۳۲۰ہش )۱۴۔ ستمبر ۱۹۴۱ء( صفحہ ۲ تا ۷۔
۳۳۔
پورے ملک میں غالباً غیر مبائعین کی ہی واحد پارٹی تھی جس کے ساتھ تعلق رکھنے والے بعض لوگوں نے کھلم کھلا سراسر اخلاق فاضلہ` مومنانہ وقار اور شرافت و انسانیت سے گرا ہوا رویہ اختیار کیا حتیٰ کہ ڈلہوزی میں موجود غیر مبائعین نے پولیس کی کارروائی پر ازحد خوشیاں منائیں اور حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کی ذات اقدس کے لئے نہایت درجہ نازیبا الفاظ استعمال کئے۔ )الفضل ۲۴۔ ستمبر ۱۹۴۱ء/ تبوک ۱۳۲۰ہش۔
۳۴۔
الفضل ۱۹۔ تبوک ۱۳۲۰ہش )۱۹۔ ستمبر ۱۹۴۱ء( صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۵۔
‏ <SEDITION> فساد` بغاوت` بلوہ` حکومت کے خلاف اشتعال انگیزی۔
۳۶۔
بحوالہ اخبار الفضل قادیان مورخہ ۳۔ اکتوبر ۱۹۴۱ء/ اخاء ۱۳۲۰ہش صفحہ ۴۔
۳۷۔
الفضل ۱۵۔ اکتوبر ۱۹۴۱ء/ اخاء ۱۳۲۰ہش صفحہ ۳۔
۳۸۔
الفضل ۱۵۔ اکتوبر ۱۹۴۱ء/ اخاء ۱۳۲۰ہش صفحہ ۳۔
۳۹۔
الفضل ۱۵۔ اخاء ۱۳۲۰ہش )۱۵۔ اکتوبر ۱۹۴۱ء صفحہ ۳(
۴۰۔
الفضل ۲۳۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۵۔
۴۱۔
الفضل ۳۰۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۴۲۔
الفضل ۳۰۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴۔
۴۳۔
الفضل ۳۰۔ مئی ۱۹۴۲ء ہجرت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵۔
۴۴۔
الفضل ۳۰۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ کالم ۳ و ۴۔
۴۵۔
الفضل ۳۰۔ مئی ۱۹۴۲ء ہجرت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵ کالم ۲۔
۴۶۔
‏ UNFORTUNE
۴۷۔
الفضل ۳۰۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵ و ۶۔
۴۸۔
الفضل ۲۱۔ دسمبر ۱۹۴۱ء/ فتح ۱۳۲۰ہش صفحہ ۳۔
۴۹۔
الفضل ۷۔ مئی ۱۹۴۱ء/ ہجرت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲۔
۵۰۔
الفضل ۲۷۔ فروری ۱۹۴۱ء/ تبلیغ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۶ کالم ۱۔
۵۱۔
الفضل ۲۸۔ فروری ۱۹۴۱ء/ تبلیغ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۵۲۔
الفضل ۹۔ ہجرت ۱۳۲۰ہش )۹۔ مئی ۱۹۴۱ء( صفحہ ۵ کالم ۳۔
۵۳۔
الفضل ۲۶۔ شہادت ۱۳۲۰ہش )۲۶۔ اپریل ۱۹۴۱ء( صفحہ ۵۔
۵۴۔
الفضل ۲۴۔ شہادت ۱۳۲۰ہش )۲۴۔ اپریل ۱۹۴۰ء( صفحہ ۲ کالم ۱۔
۵۵۔
ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۱ کالم ۳۔
۵۶۔
ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ صفحہ ۲۹۔ ۳۰۔
۵۷۔
ضمیمہ اشتہار الانصار ۴۔ اکتوبر ۱۸۹۹ء مشمولہ تبلیغ رسات جلد ہشتم صفحہ ۷۶۔
۵۸۔
اشتہار یکم جولائی ۱۹۰۰ء مشمولہ تبلیغ رسات جلد نہم صفحہ ۶۳۔
۵۹۔
الفضل ۷۔ احسان ۱۳۲۰ہش )۷۔ جون ۱۹۴۱ء( صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۰۔
الفضل ۲۲۔ وفا ۱۳۲۰ہش بمطابق ۲۲۔ جولائی ۱۹۴۱ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۱۔
الفضل ۳۰۔ جولائی ۱۹۴۱ء/ وفا ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۲۔
الفضل ۳۰۔ جولائی ۱۹۴۱ء/ وفا ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۳۔
الحکم ۲۱۔ اگست ۱۹۳۸ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۶۴۔
الفضل ۳۔ ستمبر ۱۹۴۱ء/ تبوک ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۵۔
ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۳۔
۶۶۔
تفصیل تاریخ احمدیت جلد ہفتم صفحہ ۲۴۴ تا ۲۵۰ پر گزر چکی ہے۔
۶۷۔
الفضل ۹۔ تبوک )ستمبر( ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱ کالم ۳۔
۶۸۔
الفضل ۱۸۔ تبوک ۱۳۲۰ہش )۱۸۔ ستمبر ۱۹۴۱ء( صفحہ ۱۔
۶۹۔
الفضل ۷۔ نومبر ۱۹۴۱ہش صفحہ ۲۔
۷۰۔
الفضل ۲۰۔ نبوت ۱۳۲۰ہش )۲۰۔ نومبر ۱۹۴۱ء( صفحہ ۱ کالم ۲۔
۷۱۔
الفضل ۱۷۔ نبوت ۱۳۲۰ہش )۱۷۔ نومبر ۱۹۴۱ء( صفحہ ۱ کالم ۲۔
۷۲۔
الفضل ۱۰۔ فتح ۱۳۲۰ہش )۱۰۔ دسمبر ۱۹۴۱ء( صفحہ ۱ کالم ۳۔
۷۳۔
الفضل ۲۰۔ تبلیغ ۱۳۲۱ہش )۲۰۔ فروری ۱۹۴۲ء( صفحہ ۵۔
۷۴۔
تاریخ وفات ۲۸۔ وفا ۱۳۲۰ہش مطابق ۲۸۔ جولائی ۱۹۴۱ء بعمر ۸۰ سال )الفضل ۲۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ۲۔ ظہور ۱۳۲۰ہش( آپ پانی پت کے پہلے احمدی تھے۔ قبول احمدیت کی وجہ سے آپ کی عمر بھر سخت مخالفت جاری رہی۔ شہر کے لوگ ان کو ہمیشہ جانی اور مالی اور جسمانی تکالیف پہنچاتے رہے ایک دفعہ ایک مولوی جودت نامی نے یوپی سے آکر آپ کے خلاف شہر میں آگ سی لگا دی نتیجہ یہ ہوا کہ کنبہ والوں نے متفقہ طور پر ان سے بائیکاٹ کر دیا جو دو اڑھائی سال تک قائم رہا۔ مگر حضرت شیخ صاحب نے ان کی کوئی پروا نہ کی اور ہمیشہ تبلیغ حق اور پیغام احمدیت پھیلانے میں مصروف رہے مخالفت کرنے والوں نے چونکہ دہلی اور پانی پت کے مولویوں سے فتویٰ حاصل کیا کہ یہ مرنے کے بعد مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے نہ پائیں۔ اس لئے ان کی وفات کے بعد جب ان کے آبائی قبرستان میں قبر کھدنے لگی تو روک دی گئی مگر خدا تعالیٰ کا کچھ ایسا تصرف ہوا کہ خود کنبے والے اس ننگ انسانیت فعل کے خلاف اٹھ کھڑے ہوگئے اور خود موقعہ پر پہنچ کر اپنی نگرانی میں قبر کھدوائی۔ تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو جناب شیخ محمد اسمٰعیل صاحب پانی پتی کا مضمون مطبوعہ الفضل ۶۔ نبوت ۱۳۲۰ہش۔
۷۵۔
الفضل یکم ماہ صلح ۱۳۲۱ہش )یکم جنوری ۱۹۴۲ء(
۷۶۔
اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۳۰۲ )مولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان( و الفضل ۴۔ تبلیغ ۱۳۲۰ہش )۴۔ فروری ۱۹۴۱ء( صفحہ ۲ کالم ۱۔
۷۷۔
الفضل ۱۶۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۳۔
۷۸۔
الفضل ۱۱۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱۔
۷۹۔
الفضل ۱۸۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱۔
۸۰۔
الفضل ۱۶۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱۔
۸۱۔
الفضل ۱۷۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۸۲۔
الفضل ۲۵۔ فروری ۱۹۴۱ء/ تبلیغ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ و تاریخ آمد ۲۳۔ فروری ۱۹۴۱ء/ تبلیغ ۱۳۲۰ہش۔
۸۳۔
الفضل ۱۸۔ مارچ ۱۹۴۱ء/ امان ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲ کالم ۳ و تاریخ آمد ۱۶۔ امان ۱۳۲۰ہش۔
۸۴۔
الفضل ۱۵۔ ظہور ۱۳۲۰ہش )۱۵۔ اگست ۱۹۴۱ء( صفحہ ۲۔
۸۵۔
الفضل ۶۔ دسمبر ۱۹۴۱ء/ فتح ۱۳۲۰ہش صفحہ ۵۔
۸۶۔
الفضل ۱۶۔ مارچ ۱۹۴۱ء/ امان ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲۔
۸۷۔
الفضل ۱۰۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱۔
۸۸۔
الفضل ۲۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲۔
۸۹۔
آپ جزیرہ سیلے نیز سے تعلیم دین حاصل کرنے کے لئے قادیان تشریف لائے اور سات سال تک اس کی برکات سے فیض یاب ہونے کے بعد ملک صاحب کے ساتھ عازم وطن ہوئے۔ )الفضل ۲۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲(
۹۰۔
الفضل ۴۔ نبوت ۱۳۲۰ہش )۴۔ نومبر ۱۹۴۱ء( صفحہ ۲۔
۹۱۔
الفضل ۲۔ مارچ ۱۹۴۱ء/ امان ۱۳۲۰ہش صفحہ ۶ کالم ۱ و ۲۔
۹۲۔
الفضل ۲۹۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۵ کالم ۴۔ آپ پینتیس سال تک مالا بار اور سیلون میں نہایت درجہ اخلاص و فدائیت سے تبلیغی جہاد کرنے کے بعد امسال ۹۔ تبوک ۱۲۴۷ہش )۹۔ ستمبر ۱۹۶۸ء( کو انتقال فرما گئے ہیں۔
۹۳۔
الفضل ۴۔ جولائی ۱۹۴۱ء/ وفا ۱۳۲۰ہش صفحہ ۵ کالم ۳۔
۹۴۔
الفضل ۳۱۔ اگست ۱۹۴۱ء/ ظہور ۱۳۲۰ہش صفحہ ۶ کالم ۳ و ۴۔
۹۵۔
الفضل ۸۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔
۹۶۔
الفضل ۸۔ نومبر ۱۹۴۱ء/ نبوت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔
۹۷۔
الفضل ۲۵۔ دسمبر ۱۹۴۱ء/ فتح ۱۳۲۰ہش صفحہ ۳ کالم ۳۔
۹۸۔
مولوی عنایت اللہ صاحب جالندھری۔
۹۹۔
الفضل ۱۵۔ صلح ۱۳۲۰ہش )۱۵۔ جنوری ۱۹۴۱ء( صفحہ ۶ کالم ۳۔
۱۰۰۔
الفضل ۵۔ فروری ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش۔ صفحہ ۷ کالم ۱ و ۲۔
۱۰۱۔
حضرت امام راغب رحمتہ اللہ علیہ کے اصل الفاظ یہ ہیں۔ الختم و الطبع یقال علی وجھین مصدر ختمت و طبعت وھو تاثیر الشی ء کنفش الخاتم و الطابع و الثانی الاثر الحاصل عن النقش۔ )زیر لفظ ختم( یعنی ختم اور طبع کی دو صورتیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ یہ ختمت اور طبعت کا مصدر ہے جس کے معنے ہیں دوسری چیز میں اثرات پیدا کردینا جیسا کہ مہر کا نقش دوسری چیز میں اپنے نقش و اثرات پیدا کرتا ہے اور دوسری صورت اس نقش کی تاثیر کا اثر حاصل ہے۔
۱۰۲۔
الفضل یکم مارچ ۱۹۴۱ء/ امان ۱۳۲۰ہش صفحہ ۲۔
۱۰۳۔
تبلیغ رسات جلد اول صفحہ ۶۱ حاشیہ۔
۱۰۴۔
الفضل ۸۔ امان ۱۳۲۰ہش )۸۔ مارچ ۱۹۴۱ء( صفحہ ۵۔
۱۰۵۔
الفضل ۱۵۔ امان ۱۳۲۰ہش )۱۵۔ مارچ ۱۹۴۱ء( صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۰۶۔
نزول المسیح صفحہ ۴۸۔
۱۰۷۔
الفضل ۱۲۔ اپریل ۱۹۴۱ء/ شہادت ۱۳۲۰ہش صفحہ ۶۔
۱۰۸۔
الفضل ۲۵۔ مئی ۱۹۴۱ء/ ہجرت ۱۳۲۰ہش۔
۱۰۹۔
الفضل ۲۵۔ مئی ۱۹۴۱ء/ ہجرت ۱۳۲۰ہش۔
۱۱۰۔
الفضل ۲۔ وفا ۱۳۲۰ہش )۲۔ جولائی ۱۹۴۱ء( صفحہ ۵۔
۱۱۱۔
الفضل ۱۲۔ نبوت ۱۳۲۰ہش )۱۳۔ نومبر ۱۹۴۱ء( صفحہ ۶۔
‏tav.8.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
رسالہ >فرقان< کے اجراء سے لیکچر >نظام نو< تک
تیسرا باب )فصل اول(
رسالہ >فرقان< کے اجراء سے لے کر
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کے لیکچر >نظام نو< تک
خلافت ثانیہ کا انتیسواں سال
)ذی الحجہ ۱۳۶۰ھ مطابق جنوری ۱۹۴۲ء/ صلح ۱۳۲۱ہش تا ذی الحجہ ۱۳۶۱ھ(])[مطابق دسمبر ۱۹۴۲ء/ فتح ۱۳۲۱ہش(
ماہنامہ >فرقان< کا اجراء
۱۳۲۱ہش )۱۹۴۲ء( کا آغاز قادیان کے ماہنامہ >فرقان< سے ہوتا ہے جو مجلس رفقاء احمد کی طرف سے جاری کیا گیا۔ اس مجلس کے سب ارکان۱ اور عہدیدار آنریری۲ کام کرتے اور حسب توفیق ماہوار چندہ بھی دیتے تھے۔ جس کی کم از کم مقدار چار آنہ مقرر تھی۔۳ چنانچہ اس مجلس نے سب سے پہلے ایک ٹریکٹ کی اشاعت کی۔ بعد ازاں حضرت امیر المومنینؓ کی تحریک پر جنوری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش سے >فرقان< کے نام سے ایک ماہنامہ جاری کردیا۔
رسالہ >فرقان< کے پہلے پرچہ میں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا مندرجہ ذیل ارشاد گرامی شائع ہوا۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
میری تحریک پر بعض نوجوانوں نے لاہور کی انجمن احمدیہ اشاعت اسلام کی طرف سے جو ہماری نسبت اور سلسلہ احمدیہ جس کا مرکز قادیان ہے کے عقائد کی نسبت بدظنیاں پھیلائی جاتی ہیں ان کا جواب دینے کے لئے ایک ماہواری رسالہ کا اجراء کیا ہے۔ میں اس رسالہ کی پہلی اشاعت کے لئے یہ سطور بطور تعارف لکھ کر دے رہا ہوں اور صرف اس قدر کہنا چاہتا ہوں کہ اپنی نیتوں کو نیک کرکے کام کرو۔ کبر` ریاء اور نخوت سے آزاد ہوکر کام کرو۔ خداتعالیٰ پر توکل کرکے کام کرو اس صورت میں خداتعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور تم اس جنگ سے فاتح لوٹو گے۔ خداتعالیٰ تمہاری مدد کرے۔ والسلام۔
خاکسار مرزا محمود احمد
۲۲۔ فتح ۱۳۲۰ہش۔ ۲۲۔ دسمبر ۱۹۴۱ء۔۴
پہلے تین سالہ دور میں رسالہ کی ادارت کے فرائض مولانا ابوالعطاء صاحب نے انجام دیئے اور نائب کے طور پر چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر نے کام کیا۔ ان تین برسوں میں رسالہ نے غیر مبائعین` اصحاب پر نہایت درجہ معقولیت` سنجیدگی اور مدلل طریق سے حجت تمام کر دی۔ جس سے ایک طرف سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں ٹھوس مستند اور قیمتی معلومات کا اضافہ ہوا اور دوسری طرف احمدی نوجوانوں اور دوسرے احمدیوں پر مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے اور ان کے رفقاء کے عقائد و خیالات کی حقیقت بھی خوب واضح ہوئی اور کئی سعید روحیں نظام خلافت سے بھی وابستہ ہوگئیں۔
رسالہ کے دوسرے دور میں میاں عبدالمنان صاحب عمر مدیر تھے اور مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی` ملک عطاء الرحمن صاحب اور مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب نائب مدیر۔ >فرقان< کے دور جدید کا ہر شمارہ غیر مبائعین اور بہائیوں کے متعلق مضامین پر مشتمل ہوتا تھا۔ رسالہ >فرقان< کا آخری ایشوع اگست ۱۹۴۷ء/ ظہور ۱۳۲۶ہش میں شائع ہوا جس کے بعد ہندو مسلم فسادات شروع ہوگئے اور اسے بند کر دینا پڑا۔
یہ رسالہ ایک ہزار کی تعداد میں چھپتا تھا اور کثیر تعداد میں غیر مبائعین اور بہائیوں کو مفت بھیجا جاتا تھا۔۵ حکیم عبداللطیف صاحب منشی فاضل ہر دور میں اس کے طابع و ناشر کے فرائض انجام دیتے رہے۔
مرکزی اسمبلی میں >قاضی بل< اور جماعت احمدیہ کا احتجاج
مارچ ۱۹۴۲ء/ امان ۱۳۲۱ہش کا واقعہ ہے کہ کانگرسی علماء۶ کی کوششوں سے ہندوستان کی مرکزی اسمبلی میں ایک مسودہ قانون >قاضی بل< کے نام سے پیش کیا گیا۔ جس کا مفاد یہ تھا کہ مسلمانوں کا نکاح پڑھنے کے لئے سرکاری طور پر قاضی مقرر کئے جائیں جو شادیوں کا ریکارڈ رکھیں۔ اس بل کی بڑی دفعات یہ تھیں۔
۱۔
صوبائی حکومتیں موزوں اشخاص کو بطور قاضی مقرر کریں گی۔ نامزدگی ڈسٹرکٹ کمیٹیاں کریں گی۔
۲۔
ڈسٹرکٹ کمیٹی مندرجہ ذیل اشخاص پر مشتمل ہوگی۔
ڈسٹرکٹ جج۔ ڈپٹی کمشنر۔ ایک مسلم وکیل۔ میونسپل بورڈ کا ایک مسلم ممبر۔ دو علماء لیجسلیٹو اسمبلی کے مسلمان ممبر جو ضلع کی طرف سے منتخب شدہ ہوں۔ یہ ڈسٹرکٹ کمیٹی ضلع کے لئے قاضیوں کی تعداد اور ان کے ناموں کی لوکل گورنمنٹ سے سفارش کرے گی۔ قاضیوں کے کام کی نگرانی کرے گی اور وقتاً فوقتاً ان کے کام کے متعلق گورنمنٹ کو رپورٹ کرے گی۔
۳۔
قاضی کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ حسب ذیل مدرسوں کا فارغ التحصیل ہو۔
دارالعلوم دیوبند۔ مظہر العلوم سہارن پور۔ مدرسہ خانقاہ امدادیہ تھانہ بھوانی۔ مدرسہ شاہی مراد آباد۔ مدرسہ امروہہ۔ مدرسہ گولائی۔ مدرسہ بدایون۔ مدرسہ بریلی۔ مدرسہ الٰہیات کانپور۔ عربی مدسہ الٰہ آباد۔۷
اس بل میں چونکہ اسلامی نکاحوں پر ناجائز قیود اور بے معنی پابندیاں عائد کرکے مسلمانان ہند کے لئے گوناگوں مشکلات پیدا کی گئی تھیں اور ملک کے تمام مختلف الخیال اسلامی فرقوں کے ایک اہم مذہبی و معاشرتی معاملہ کو سرکاری طور پر چند مخصوص مدرسوں کے فارغ التحصیل علماء کے ہاتھ میں دے دیا گیا تھا اس لئے احمدیہ پریس۸ اور احمدیہ جماعتوں نے اس کے خلاف موثر آواز بلند کی اور آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی اسی کی شدید مخالفت کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ >قاضی بل< اسمبلی میں پاس نہ ہوسکا اور مسلمانان ہند ایک نہایت درجہ ضرر رساں قانون کی زد سے بچ ¶گئے۔
حکومت انگریزی سے شیخ الاسلام مقرر کرانے کی درخواست اور اخبار >الفضل<
ہندوستان کے مشہور و ممتاز عالم مولوی سید محمد سلیمان صاحب ندوی نے ۱۳۲۱ہش )۱۹۴۲ء( کے شروع میں >مسلمانان ہند کا نظام شرعی< کے
عنوان سے ملکی اخبارات میں ایک مضمون شائع کیا جس میں ہندوستانی مسلمانوں کی پراگندگی اور زبون حالی کا دردناک نقشہ کھینچتے ہوئے لکھا۔
>ہندوستان میں مسلمانوں میں مذہبی امور سخت انتشار اور بے ترتیبی کی حالت میں ہیں۔ مسجدیں ویران ہیں۔ اماموں اور موذنوں کی حالت سخت قابل اصلاح ہے۔ مدرسے کسمپرسی میں پڑے ہیں۔ ہندوستان میں جس قدر مذہبی مدارس ہیں ان میں کوئی باہمی نظم و سلسلہ نہیں۔ اوقاف کی حالت سخت قابل افسوس ہے۔ مسلمانوں کی ابتدائی مذہبی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں۔ ملک کے بڑے بڑے رقبے مذہبی جہالت کی بناء پر اسلام اور حکومت دونوں کے لئے خطرناک ہیں۔ طلاق و نکاح فسق و تفریق کے ہزاروں معاملات جو رات دن پیش آتے رہتے ہیں تمام ہندوستان میں مسلمانوں کے لئے ان کا کوئی انتظام نہیں۔ جناب مولوی صاحب موصوف نے مسلمانوں کی اس ناگفتہ بہ حالت کا علاج یہ تجویز کیا کہ حکومت انگریزی ایک مذہبی صیغہ قائم کرے جس کا ناظم اعلیٰ شیخ الاسلام ہو جو مسلمانوں کے انتخاب اور حکومت کی منظوری سے مقرر کیا جائے اور تنخواہ دار ہو۔ چنانچہ انہوں نے لکھا۔ >اسلام کی گزشتہ روایات اور موجودہ رسوم جاریہ کے مطابق مسلمانوں کے لئے ایک مذہبی صیغہ ہندوستان میں قائم کیا جائے جس کا اعلیٰ عہدیدار شیخ الاسلام ہو جس کی عزت اور وقار کا سرکاری طور سے اعتراف کیا جائے اس کو ایک بڑی تنخواہ دے کر اس کے اعزاز کو بڑھایا جائے۔ اس کا تقرر مسلمان جماعتوں کے انتخاب اور گورنمنٹ کی منظوری سے ہو۔ اس کے ماتحت صوبوں میں اور صوبوں کے ماتحت ضلعوں میں اس کے عہدیدار ہوں جو اپنے حدود کے انتظامات کریں<۔
اس مضمون کے آخر میں لکھا۔ >گورنمنٹ کی اعانت کے بغیر یہ کام انجام نہیں پاسکتا<۔۹
اس مضمون کی اشاعت پر اخبار >الفضل< نے )اپنی ۲۴۔ ماہ شہادت ۱۳۲۱ہش )۲۴۔ اپریل ۱۹۴۲ء( کی اشاعت میں` ایک ادارتی نوٹ لکھا جس میں اس تجویز کو غیر معقول اور ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے بتایا کہ۔
>موجودہ غیر مسلم حکومت کی قائم کردہ عدالتیں تو اکثر علماء کے نزدیک اس بات کی مجاز نہیں کہ وہ مسلمانوں کے کسی جھگڑے کا فیصلہ کریں لیکن اس کا مقرر کردہ اور اس کا تنخواہ دار >شیخ الاسلام< مسلمانوں کو دین و دنیا کی برکات سے مالا مال کردے گا۔ ان کی مسجدوں کو آباد کردے گا۔ ان کے اماموں اور موذنوں کی اصلاح کردے گا اور ان کے ہر قسم کے جھگڑے فساد مٹا کر انہیں اسلام کی اصل تعلیم کا پابند بنادے گا۔ یہ سب کچھ سہی مگر سوال یہ ہے کہ ایسا انسان حکومت کہاں سے ڈھونڈ کر لائے گی اگر ایسی قابلیت اور اس قسم کی استعداد رکھنے والا کوئی انسان ہندوستان کی سرزمین میں موجود ہی نہیں جو مسلمانوں کی اصلاح کا بیڑا اٹھا سکے اور ان کی پراگندگی اور انتشار کو دور کرکے ایک مسلک میں منسلک کرسکے۔ انہیں اسلامی تعلیم پرچلا سکے تو حکومت کیونکر مہیا کرے گی۔ لیکن اگر کوئی موجود ہے تو کیا وہ کسی گوشہ تنہائی میں بیٹھا اس بات کا انتظار کررہا ہے کہ گورنمنٹ انگریزی اس کی عزت اور وقار کا سرکاری طور پر اعتراف کرے اور اس کو ایک بڑی تنخواہ دے کر اس کے اعزاز کو بڑھائے تب وہ نمودار ہو اور پھر مسلمانوں کی دینی اصلاح کی طرف متوجہ ہو۔ ظاہر ہے کہ یہ شان کسی دینی مصلح کی نہیں ہوسکتی ہاں ایک خود غرض اور نفس پرست انسان کی ہوسکتی ہے مگر اس سے کسی قسم کی اصلاح کی توقع بالکل فضول ہے۔
افسوس مسلمانوں کی پراگندہ حالی نے ان سے قوت غور و فکر بھی سلب کرلی ہے۔ وہ اول تو اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے اور اگر متوجہ ہوتے ہیں تو اس قسم کی سکیمیں بناتے ہیں اور ایسی تجاویز کے پیچھے پڑتے ہیں جو نہ تو قابل عمل ہوتی ہیں اور نہ ان کا کوئی اچھا نتیجہ نکل سکتا ہے حکومت انگریزی سے تنخواہ دار >شیخ الاسلام< مقرر کرانے کی التجاء بھی ایسی ہی ہے۔ اس سے یہ تو ممکن ہے کہ کسی عالم کہلانے والے کو معقول تنخواہ مل جائے اور وہ اپنے ڈھب کے مولویوں کو اپنے ماتحت عہدیدار مقرر کرکے حکومت کے تنخواہ دار ایجنٹ بنادے۔ لیکن اس طرح مسلمانوں کی دینی لحاظ سے اصلاح ہوسکے اور دینوی لحاظ سے وقار حاصل کرسکیں یہ قطعاً محال ہے۔ کاش مسلمان حکومت برطانیہ سے >شیخ الاسلام< مقرر کرانے کی بجائے خداتعالیٰ کے حضور سچے دل سے التجا کریں کہ الٰہی ہمیں کسی ایسے مصلح کا دامن پکڑنے کی توفیق عطا فرما جسے تو نے ہمارے لئے مقرر کیا ہو اور اس کی اطاعت کے لئے ہمارے دل کھول دے تاکہ ہم تیرا قرب اور تیری رضا حاصل کرسکیں<۔۱۰]ydob [tag
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام کی شاندار فتح شیخ الازہرعلامہ محمود شلتوت کا فتویٰ وفات مسیحؑ
جیسا کہ سلسلہ احمدیہ کی ابتدائی تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعویٰ مسیحیت کے بعد دنیائے اسلام کے سامنے جو مخصوص علم کلام پیش فرمایا اس میں نظریہ وفات
مسیحؑ کو بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۸۹۱ء سے یعنی اس زمانہ سے جبکہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ الہاماً انکشاف ہوا کہ مسیح ابن مریم رسول اللہ فوت ہوچکا ہے اور اس کے رنگ میں ہوکر وعدہ کے موافق آپ آئے ہیں۱۱ مخالف علماء نے نہ صرف آپ پر فتویٰ کفر لگایا بلکہ بڑے زور شور سے مسئلہ حیات مسیح کی تائید کے لئے مناظروں کا بازار گرم کردیا اور اپنے موقف کی تائید میں پے در پے کتابیں اور رسائل شائع کرنے لگے۔ یہ علمی جنگ پوری شدت سے جاری تھی کہ اس سال مشرق وسطیٰ کے بعض مسلم ممالک سے یکایک وفات مسیح کے حق میں ایک مفصل فتویٰ شائع ہوگیا جس نے قائلین حیات مسیح کے کیمپ میں زبردست کھلبلی مچادی۔
‏body] [tagیہ فتویٰ عالم اسلام کی قدیم ترین یونیورسٹی۱۲ جامعہ ازہر کی جماعت >کبار العلماء< کے رکن فضیلتہ الاستاذ علامہ محمود۱۳ شلتوت کا تھا جو قاہرہ کے ہفت روزہ >الرسالہ< کی جلد ۱۰ شمارہ ۴۶۲ مورخہ ۱۱۔ مئی ۱۹۴۲ء میں >رفع عیسیٰ< کے عنوان سے شائع ہوا۔
علامہ محمود شلتوت کے فتویٰ کا مکمل متن
علامہ محمود شلتوت کے اس معرکتہ الاراء فتویٰ کا مکمل متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
)اداریہ( ورد الی مشیخہ الازھر الجلیلہ من حضرہ عبدالکریم خان بالقیادہ العامہ لجیوش الشرق الاوسط سوال جاء فیہ ھل عیسی حی او میت فی نظر القران الکریم والسنہ المطھرہ؟ وما حکم المسلم الذی ینکر انہ حی۔ و ماحکم من لایومن بہ اذا فرض انہ عاد الی الدنیا مرہ اخری؟ وقد حول ھذا السوال الی فضیلہ الاستاذ الکبیر الشیخ محمود شلتوت عضو جماعہ کبار العلماء فکتب مایاتی۔
امابعد فان القران الکریم قد عرض لعیسی علیہ السلام فیھا یتصل بنھایہ شانہ مع قومہ فی ثلاث سور۔
۱۔ فی سورہ ال عمران قولہ تعالی >فلما احس عیسی منھم الکفر قال من انصاری الی اللہ۔ قال الحواریون نحن انصار اللہ امنا باللہ و اشھد بانا مسلمون ربنا امنا بما انزلت و اتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشاھدین و مکروا و مکراللہ واللہ خیر الماکرین۔ اذ قال اللہ یا عیسی انی متوفیک و رافعک الی و مطھرک من الذین کفروا و جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامہ ثم الی مرجعکم فاحکم بینکم فیما کنتم فیہ تختلفون<۔ ۵۳۔ ۵۵۔
۲۔ وفی سورہ النساء قولہ تعالی۔ >و قولھم انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لھم وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وما قتلوہ یقینا۔ بل رفعہ اللہ الیہ وکان اللہ عزیزا حکیما<۔ ۱۵۷` ۱۵۸۔
۳۔ وفی سورہ المائدہ قولہ تعالی۔ >و اذ قال اللہ یا عیسی ابن مریم اانت قلت للناس اتخذونی وامی الھین من دون اللہ قال سبحنک مایکون لی ان اقول مالیس لی بحق ان کنت قلتہ فقد علمتہ تعلم مافی نفسی ولا اعلم ما فی نفسک انک انت علام الغیوب ما قلت لھم الا ما امرتنی بہ ان اعبدو اللہ ربی و ربکم و کنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم و انت علی کل شی ء شھید۔ ۱۱۶۔ ۱۱۷۔
ھذا ھی الایات التی عرض القران فیھا لنھایہ شان عیسی مع قومہ والایات الاخیرہ )ایہ المائدہ( تذکر لنا شانا اخرویا یتعلق بعبادہ قومہ لہ ولامہ فی الدنیا وقد سالہ اللہ عنھا وھی تقرر علی لسان عیسی علیہ السلام انہ لم یقل لھم الا ما امرہ اللہ بہ اعبدوا اللہ ربی ربکم وانہ کاف شھیدا علیھم مدہ اقامتہ بینھم وانہ لا یعلم ماحدث منھم بعد ان توفاہ اللہ۔
وکلمہ توفی قد وردت فی القران کثیرا بمعنی الموت حتی صار ھذا المعنی ھو الغالب علیھا المتبادر منھا ولم تستعمل فی غیر ھذا المعنی الا و بجانبھا مایصرفھا عن ھذا المعنی المتبادر۔
>قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم۔ ان الذین توفھم الملائکہ ظالمی انفسھم۔ ولو تری اذیتو فی الذین کفروا الملائکہ۔ توفتہ رسلنا۔ ومنکم من یتوفی۔ حتی یتوفا ھن الموت۔ توفنی مسلما والحقنی بالصالحین<۔
ومن حق کلمہ توفیتنی فی الایہ ان تحمل علی ھذا المعنی المبادر وھو الاماتہ العادیہ التی یعرفھا الناس و یدرکھا من اللفظ ومن السیاق الناطقون بالضاد و اذن فالایہ لو لم یتصل بھا غیرھا فی تقریر نھایہ عیسی مع قومہ لما کان ھناک مبرر للقول بان عیسی حی لم یمت۔
ولا سبیل الی القول بان الوفاہ ھنا مراد بھا وفاہ عیسی بعد نزولہ من السماء بناء علی زعم من یری انہ حی فی السماء وانہ سینزل منھا اخر الزمان لان الایہ ظاھرہ فی تحدید علاقتہ بقومہ ھولا بالقوم الذین یکونون اخر الزمان وھم قوم محمد باتفاق لا قوم عیسی۔
اما ایہ النساء فانھا تقول >بل رفعہ اللہ الیہ< وقد فسرھا بعض المفسرین بل جمھورھم بالرفع الی السماء و یقولون ان اللہ القی علی غیرہ شبھہ و رفعہ بجسدہ الی السماء فھو حی فیھا و سینزل منھا اخر الزمان فیقتل الخنزیر و یکسر الصلیب و یعتمدون فی ذالک۔
اولا علی روایات تفید نزول عیسی بعد الدجال وھی روایات مضطربہ مختلفہ فی الفاظھا و معانیھا اختلافا لا مجال معہ للجمع بینھا۔ وقد نص علی ذالک علماء الحدیث۔ وھی فوق ذالک من روایہ وھب بن منبہ و کعب الاحبار وھما من اھل الکتاب الذین اعتنقوا الاسلام وقد عرفت درجتھما فی الحدیث عند علماء الجرح و التعدیل۔
وثانیا علی حدیث مروی عن ابی ھریرہ اقتصر فیہ علی الاخبار بنزول عیسی و اذا صح ھذا الحدیث فھو حدیث احاد۔ وقد اجمع العلماء علی ان احادیث الاحاد لا تفید عقیدہ ولا بصح الاعتماد علیھا فی شان المغیبات۔
وثالثا علی ماجاء فی حدیث المعراج من ان محمدا صلی اللہ علیہ وسلم حینما صعد الی السماء واخذ یستفتحھا واحدہ بعد واحدہ فتفتح لہ وید خل رای عیسی علیہ السلام ھو و ابن خالتہ یحی فی السماء الثانیہ ویکفینا فی توھین ھذا المستند ما قررہ کثیر من شراح الحدیث فی شان المعراج وفی شان اجتماع محمد صلی اللہ علیہ وسلم بالانبیاء وانہ کان اجتماعا روحیا لا جسمانیا انظر فتح الباری و زاد المعاد و غیرھما ومن الطریف انھم یستدلون علی ان معنی الرفع فی الایہ ھو رفع عیسی بجسدہ الی السماء بحدیث المعراج بینما تری فریقا منھم یستدل علی ان اجتماع محمد بعیسی فی المعراج کان اجتماعا جسدیا بقولہ تعالی )بل رفعہ اللہ الیہ( و ھکذا ایتخذون الایہ دلیلا علی ما یفھمونہ من الحدیث دلیلا علی ما یفھمونہ من الایہ حین یکونون فی تفسیر الایہ۔
ونحن اذا رجعنا الی قولہ تعالی >انی متوفیک و رافعک الی< فی ایات ال عمران مع قولہ >بل رفعہ اللہ الیہ، فی ایات النساء وجدنا الثانیہ اخبارا عن تحقق الوعد الذی تضمنتہ الاولی وقد کان ھذا الوعد بالتوفیہ و الرفع و التطھیر من الذین کفروا فاذا کانت الایہ الثانیہ قد جاء ت خالیہ من التوفیہ و التطھیر و اقتصرت علی ذکر الرفع الی اللہ فانہ یجب ان یلاحظ فیھا ما ذکر فی الاولی جمعا بین الایتین۔
والمعنی ان اللہ توفی عیسی و رفعہ الیہ و طھرہ من الذین کفروا و قد فسر الالوسی قولہ تعالی )انی متوفیک( بوجوہ منھا و ھو اظھرھا انی مستوفی اجلک و ممیتک حتف انفک لا اسلطعلیک من یقتلک وھو کنایہ عن عصمتہ من الاعداء وما ھم بصددہ من الفتک بہ علیہ السلام لانہ یلزم من استیفاء اللہ اجلہ وموتہ حنف انفہ ذلک ظاھر ان الرفع الذی یکون بعد التوفیہ ھو رفع المکانہ لا رفع الجسد خصوصا وقد جاء بجانبہ قولہ )و مطھرک من الذین کفروا( مما یدل علی ان الامر امر تشریف و تکریم۔ وقد جاء الرفع فی القران کثیرا بھذا المعنی >فی بیوت اذن اللہ ان ترفع<۔ >نرفع درجت من نشاء<۔ >ورفعنا لک ذکرک<۔ >و رفعنہ مکانا علیا<۔ >یرفع اللہ الذین امنوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<الخ
واذن فالتعبیر بقولہ >ورافعک الی< وقولہ >بل رفعہ اللہ الیہ<۔ کالتعبیر فی قولھم >لحق فلان بالرفیق الاعلی۔ وفی >ان اللہ معنا< و فی >عند ملیک مقتدر<۔ وکلھا لا یفھم منھا سوی معنی الرعایہ والحفظ والدخول فی الکنف المقدس۔ فمن این توخذ کلمہ السماء من کلمہ )الیہ(؟ اللھم ان ھذا الظلم للتعبیر القرانی الواضح خضوعا لقﷺ و روایات لم یقم علی الظن بھا فضلا عن الیقین برھان ولا شبہ برھان۔
وبعد فما عیسی الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل ناصبہ قومہ العداء و ظھرت علی وجوھھم بوادر الشر بالنسبہ الیہ فالتجا الی اللہ شان الانبیاء و المرسلین فانقذہ اللہ بعزتہ و حکمتہ و خیب مکر اعدائہ وھذا ھو ما تضمنتہ الایات >فلما احس عیسی منھم الکفر قال من انصاری الی اللہ< الی اخرھا بین اللہ فیھا دقہ مکرہ بالنسبہ الی مکرھم وان مکرھم فی اغتیال عیسی قد ضاع امام مکر اللہ فی حفظہ و عصمتہ >اذ قال اللہ یا عیسی انی متوفیک و رافعک الی و مطھرک من الذین کفروا< فھو یبشرہ بانجائہ من مکرھم ورد کیدھم نی نحورھم وانہ سیستوفی اجلہ حتی یموت حتف انفہ من غیر قتل ولا صلب ثم یرفعہ اللہ الیہ وھذا ھو مایفھمہ القاری للایات الواردہ فی شان نھایہ عیسی مع قومہ متی وقف علی سنہ اللہ مع انبیاء ہ حین یعالب علیھم خصومھم ومتی خلا ذھنہ من تلک الروایات التی لا یبغی ان تحکم فی القران ولست ادری کیف یکون انقاذ عیسی بطریق انتزاعہ من بینھم و رفعہ بجسدہ الی السماء مکرا؟ وکیف یوصف بانہ خیر من مکرھم مع انہ شی لیس فی استطاعتھم ان یقاوموہ شی لیس فی قدرہ البشر الا انہ لا یتحقق مکر فی مقابلہ مکر الا اذ کان جاریا علی اسلوبہ خیر خارج عن مقتضی العادہ فیہ وقد جاء مثل ھذا فی شان محمد صلی اللہ علیہ وسلم >واذ یمکر بک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک و یمکرون و یمکر اللہ و اللہ خیر الماکرین<۔ والخلاصہ من ھذا البحث۔
)۱( انہ لیس فی القران الکریم ولا فی السنہ المطھرہ مستند یصلح لتکوین عقیدہ یطمئن الیھا القلب بان عیسی رفع بجسمہ الی السماء وانہ حی الی الان فیھا و انہ سینزل منھا آخر الزمان الی الارض۔
)۲( ان کل ما تفید الایت الورادہ فی ھذا الشان ھو وعد اللہ عیسی بانہ متوفیہ اجلہ و رافعہ الیہ وعاصمہ من الذین کفروا و ان ھذا الوعد قد تحقق فلم یقتلہ اعداء ہ ولم یصلبوہ ولکن وفاء اللہ اجلہ ورفعہ الیہ۔
)۳( ان من انکر ان عیسی قد رفع بجسمہ الی السماء وانہ فیھا حی الی الان وانہ سینزل منھا اخر الزمان فانہ لا یکون بذالک منکرا لما ثبت بدلیل قطعی فلا یخرج عن اسلامہ و ایمانہ ولا ینبغی ان یحکم علیہ بالردہ بل ھو مسلم مومن اذا مات فھو من المومنین یصلی علیہ کما یصلی علی المومنین و یدفن فی مقابر المومنین ولا شیہ فی ایمانہ عنداللہ واللہ بعبادہ خبیر بصیر-
اما السوال الاخیر فی الاستفتاء وھو )ما حکم من لایومن بہ اذا فرض انہ عاد مرہ اخری الی الدنیا( فلا محل لہ بعد الذی قررناہ ولا یتجہ السوال عنہ- واللہ اعلم<۔
)محمود شلوت(
مندرجہ بالا عربی فتویٰ کا ترجمہ حسب ذیل ہے۔
ترجمہ:۔ ازہر کی سب سے بڑی مجلس کے پاس جناب عبدالکریم خان صاحب۱۴ نے جو ان دنوں مشرق وسطیٰ کی فوجوں کی قیادت عامہ میں شامل ہیں۔ ایک استفسار بھیجا کہ کیا قرآن کریم اور سنت نبویہ سے حضرت عیسیٰؑ فوت شدہ ثابت ہوتے ہیں یا زندہ؟ نیز اس مسلمان کے متعلق کیا فتویٰ ہے جو حیات مسیحؑ کا منکر ہے؟ اور اگر حضرت عیسیٰ کا دوبارہ دنیا میں آنا درست ہو تو جو شخص اس وقت ان پر ایمان نہ لائے گا اس کا کیا حکم ہے؟ یہ اسفسار جواب کے لئے جماعت کبار العلماء کے رکن فضیلتہ الاستاذ علامہ محمود شلتوت کے سپرد کیا گیا۔ جنہوں نے حسب ذیل جواب تحریر کیا ہے۔
امابعد قرآن کریم نے تین سورتوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایسے طور پر ذکر فرمایا ہے جس سے اس انجام کا پتہ لگتا ہے جو ان کا اپنی قوم کے ساتھ ہوا۔
۱۔
سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فلما احس عیسی منھم الکفر )الایتہ(
۲۔
سورۃ النساء میں آتا ہے۔ و قولھم انا قتلنا المسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ۔ )الایتہ(
۳۔
سورۃ المائدہ میں فرمایا۔ واذ قال اللہ یا عیسی ابن مریم )الایہ(
یہی آیات ہیں جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے انجام کو قرآن پاک نے بیان کیا ہے۔ آخری آیت )سورۃ مائدہ والی( اس معاملہ کا ذکر کرتی ہے جو دنیا میں نصاریٰ کے مسیح اور ان کی والدہ کی عبادت کرنے سے متعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں حضرت مسیحؑ سے سوال کیا ہے۔ آیت مذکورہ حضرت مسیحؑ کی زبانی بتاتی ہے کہ انہوں نے لوگوں کو ہمیشہ وہی کہا جس کا اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا تھا یعنی یہ کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا رب ہے نیز آیت بتلاتی ہے کہ جب تک حضرت عیسیٰؑ ان کے درمیان رہے ان کے نگران تھے اور انہیں اپنی توفی کے بعد اپنی قوم میں پیدا ہونے والے واقعات و حالات کا مطلقاً علم نہیں ہے۔
لفظ توفی قرآن مجید میں موت کے معنوں میں بکثرت آیا ہے یہاں تک کہ توفی کے یہ معنے ہی غالب اور متبادر ہوگئے ہیں اور لفظ توفی موت کے معنے کے سوا کسی اور معنی میں صرف اسی وقت استعمال ہوا ہے جبکہ اس کے ساتھ کوئی ایسا قرنیہ پایا جاتا ہو جو اسے متبادر الی الذہن معنوں میں استعمال ہونے سے روکتا ہو۔ آیات ذیل بطور نمونہ یہ ہیں۔
قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم۔ ان الذین توفھم الملائکہ ظلمی انفسھم۔ ولو تری اذ یتوفی الذین کفروا الملائکہ۔ توفتہ رسلنا۔ ومنکم من یتوفی۔ حتی یتوفھن الموت۔ توفنی مسلما و الحقنی بالصالحین۔
اور آیت قرآنی فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم میں لفظ توفیتنی کا حق ہے کہ اسے مذکورہ بالا متبادر معنوں پر ہی محمول کیا جائے اور یہ کہ توفی کے معنے موت کے ہیں۔ اس لفظ کے یہ معنے تمام لوگ جانتے ہیں اور خود لفظ توفی سے نیز آیت کے سیاق سے بھی سب عربی بولنے والے یہی معنی سمجھتے ہیں۔ اندریں صورت اگر اس آیت میں کچھ اور نہ ملایا جائے جس سے مسیحؑ کے انجام کی وضاحت کی جائے تو یہ کہنے کی ہرگز گنجائش نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰؑ فوت نہیں ہوئے یا یہ کہ زندہ ہیں۔ اس آیت میں اس رکیک تاویل کا بھی موقعہ نہیں کہ وفات سے مراد اس جگہ وہ وفات ہے جو آسمان سے اترنے کے بعد واقع ہوگی۔ یہ تاویل وہ لوگ کرتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ آسمان میں زندہ ہیں اور وہی آخری زمانہ میں آسمان سے اتریں گے کیونکہ زیر نظر آیت واضح طور پر اس تعلق کی حد بندی کررہی ہے جو ان کا اپنی قوم سے تھا باقی وہ لوگ جو آخری زمانہ میں ہیں وہ تو بالاتفاق حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم ہیں نہ کہ حضرت عیسیٰؑ کی قوم۔ اس لئے ان سے حضرت عیسیٰؑ کا کیا تعلق؟
سورۃ نساء کی آیت میں >بل رفعہ اللہ الیہ< آیا ہے۔ بعض بلکہ اکثر مفسرین نے اس کی تفسیر آسمان پر اٹھائے جانے کے ساتھ کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے مسیح کی شکل کسی اور پر ڈال دی اور انہیں جسم سمیت آسمان پر اٹھالیا۔ وہ اب آسمان میں زندہ ہیں۔ وہاں سے آخری زمانہ میں اتریں گے۔ سوروں کو قتل کریں گے اور صلیبوں کو توڑیں گے۔ مفسرین اپنے اس عقیدہ کی بنیاد اول تو ان روایات پر رکھتے ہیں جو بتاتی ہیں کہ عیسیٰؑ دجال کے بعد نازل ہوں گے۔ یہ روایات مضطرب ہیں۔ ان کے الفاظ اور معانی میں اتنا شدید اختلاف ہے کہ تطبیق ناممکن ہے خود علماء حدیث نے اس کی تصریح کی ہے۔ علاوہ ازیں یہ وھب بن منبہ اور کعب الاحبار کی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سے مسلمان ہوئے تھے۔ علماء جرح و تعدیل کے نزدیک ان راویوں کا جو درجہ ہے وہ آپ خود جانتے ہیں۔ دوسری بنیاد مفسرین کے نزدیک حضرت ابوہریرہؓ کی وہ روایت ہے جس میں انہوں نے نزول عیسیٰ کی خبر ذکر کرنے پر حصر کیا ہے۔ یہ حدیث اگر صحیح بھی ہو تو بھی حدیث احاد ہے اور علماء کا اس پر اجماع ہے کہ احادیث احاد کسی عقیدہ کی بنیاد نہیں بن سکتیں اور نہ پیشگوئیوں کے سلسلہ میں ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ مفسرین کے دعویٰ کی تیسری بنیاد حدیث معراج ہے جس میں آتا ہے کہ جب آنحضرت~صل۱~ آسمان پر گئے تو یکے بعد دیگرے آسمان کھلتے جاتے تھے اور حضور ان میں داخل ہوتے جاتے تھے اسی اثناء میں حضور نے دوسرے آسمان پر حضرت عیسیٰؑ اور ان کے خالہ زاد بھائی حضرت یحییٰؑ کو دیکھا۔ ہمارے نزدیک اس سند سے اس استدلال کی کمزوری ظاہر کرنے کے لئے یہی کافی ہے کہ اکثر شارحین حدیث نے معراج کے موقعہ پر آنحضرت~صل۱~ کا نبیوں سے ملنا صرف روحانی قرار دیا ہے اور جسمانی ملاقات کی نفی کی ہے ملاحظہ ہو فتح الباری زادلمعاد وغیرہ۔
کتنی عجیب بات ہے کہ مفسرین بل رفعہ اللہ الیہ میں رفع کے معنے حضرت عیسیٰؑ کے آسمان پر لے جانے کا استدلال حدیث معراج سے کرتے ہیں جبکہ ان میں سے ہی ایک گروہ حدیث معراج میں آنحضرت~صل۱~ کی حضرت عیسیٰؑ سے ملاقات کو جسمانی قرار دینے کے لئے آیت بل رفعہ اللہ الیہ سے سند پکڑتا ہے گویا اس طرح جب وہ حدیث کی شرح کرنے لگتے ہیں تو اپنے مفہوم کے لئے آیت کو دلیل گردانتے ہیں اور جب آیت کی تفسیر کرتے ہیں تو اپنے مفہوم کے لئے آیت پر حدیث کو دلیل بنا لیتے ہیں۔
ہم جب سورۃ ال عمران کی آیت انی متوفیک و رافعک الی کو سورۃ نساء کی آیت بل رفعہ اللہ الیہ سے ملاتے ہیں تو معلوم ہوجاتا ہے کہ موخر الذکر آیت میں پہلی آیت کے وعدہ کے ایفاء کی خبر دی گئی ہے اور یہ وعدہ وفات` رفع اور کفار کے الزامات سے تطہیر کا تھا- دوسری آیت >بل رفعہ اللہ الیہ< میں اگرچہ وفات اور تطہیر کا ذکر موجود نہیں صرف رفع الی اللہ کا بیان ہے لیکن ضروری ہے کہ اس آیت کی تفسیر کے وقت دونوں آیتوں کو اکٹھا کرنے کے لئے پہلی آیت میں مذکور جملہ امور کو ملحوظ رکھا جائے۔ پس معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو وفات دی ان کا رفع فرمایا اور کفار سے انہیں تطہیر بخشی۔
علامہ الوسی رحمتہ اللہ تعالیٰ نے انی متوفیک کی تفسیر میں متعدد معانی ذکر کئے ہیں۔ جن میں سے زیادہ واضح اور موزوں تر یہ ہیں کہ اے عیسیٰ! میں تیری مدت حیات کو مکمل کرکے تجھے طبعی موت سے وفات دینے والا ہوں` تجھ پر ان کو مسلط نہ ہونے دوں گا جو تجھے قتل کردیں۔ یہ دشمنوں سے محفوظ رکھنے اور ان کے منصوبہ قتل سے بچانے کے لئے کنایہ ہے کیونکہ خدا کے پوری عمر دینے اور طبعی عمر سے وفات دینے سے یہی لازم آتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جو رفع بعد وفات ہوتا ہے وہ مرتبہ کی بزرگی کے معنوں میں ہی ہوتا ہے نہ کہ جسم کا اٹھانا بالخصوص جبکہ رافعک کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قول و مطھرک من الذین کفروا بھی موجود ہے۔ جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر صرف حضرت مسیحؑ کے اعزاز و تکریم کا معاملہ مذکور ہے۔ لفظ رفع ان معنوں میں قرآن مجید میں بکثرت آیا ہے جیسا کہ آیات ذیل سے ظاہر ہے۔
فی بیوت اذن اللہ ان ترفع۔ نرفع درجت من نشاء۔ ورفعنا لک ذکرک۔ و رفعنا مکانا علیا۔ یرفع اللہ الذین امنوا۔
پس اللہ تعالیٰ کے ارشاد رافعک الی اور بل رفعہ اللہ الیہ میں اسی مطلب کو ظاہر کیا ہے۔ جو عربوں کے قول لحق فلان بالرفیق الاعلی اور آیت ان اللہ معنا۔ نیز عند ملیک مقتدر میں بیان کیا گیا ہے- ان تمام الفاظ سے بجز نگہداشت` نگرانی اور خدائی حفاظت میں داخل ہو جانے کے کچھ اور مراد نہیں ہوتا۔ نامعلوم لفظ الیہ سے آسمان کا لفظ کیسے نکال لیا گیا ہے۔ یقیناً یہ قرآن کریم کی واضح عبارت پر ظلم ہے اور محض ان روایات اور قصوں کو ماننے کی بناء پر یہ ظلم کیا گیا ہے جن کی یقینی صحت تو کجا ظنی صحت پر بھی کوئی دلیل یا آدھی دلیل بھی قائم نہیں ہوتی۔
علاوہ ازیں حضرت عیسیٰؑ محض ایک رسول تھے۔ ان سے پہلے رسول گزر چکے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ کی قوم نے ان سے دشمنی کی اور ان کے متعلق ان کے برے ارادے ظاہر ہوگئے۔ تب وہ جملہ انبیاء و مرسلین کی سنت کے مطابق ذات باری کی طرف ملتجی ہوئے` اللہ تعالیٰ نے اپنے غلبہ و حکمت کے مطابق ان کو دشمنوں کے ہاتھوں سے بچایا اور ان کے منصوبہ کو ناکام کردیا۔ یہی وہ امر ہے جو آیت قرآنیہ فلما احس عیسی منھم الکفر قال من انصاری الی اللہ۔ الخ میں مذکور ہوا ہے۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی تدبیر کی نسبت اپنی تدبیر کے زیادہ مخفی ہونے کا ذکر فرمایا ہے اور یہ کہ انہوں نے حضرت عیسیٰؑ کے تباہ کرنے کے لئے جو مکر کیا تھا اس خدائی تجویز کے سامنے جو حضرت عیسیٰؑ کی حفاظت کے لئے تھی ناکام ہوگیا۔ فرمایا اذ قال اللہ یا عیسی انی متوفیک و رافعک الی و مطھرک من الذین کفروا۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے مسیحؑ کو بشارت دی ہے کہ وہ دشمنوں کی تدبیر کو ناکام کردے گا اور مسیحؑ کو ان کے مکر سے بچائے گا۔ مسیحؑ کو پوری عمر دے گا یہاں تک کہ مسیحؑ قتل و صلب کے بغیر طبعی موت سے فوت ہوگا پھر خدا اس کا رفع کرے گا۔ یہ وہ مفہوم ہے جو ہر پڑھنے والے کو ان آیات سے سمجھ آتا ہے۔ جن میں حضرت عیسیٰؑ کے انجام کی خبر دی گئی ہے بشرطیکہ وہ پڑھنے والا خداتعالیٰ کی اس سنت سے واقف ہو جو وہ نبیوں کے ساتھ اختیار کرتا رہا ہے جبکہ ان کے دشمن ان پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ نیز اس قاری کا ذہن ان روایات سے بھی خالی ہو جو کسی صورت میں قرآن مجید پر حکم نہیں بن سکتیں۔
میری تو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ حضرت عیسیٰؑ کو یہود کے درمیان سے چھین کر آسمان پر لے جانا مکر کیسے کہلا سکتا ہے؟ اور پھر اسے ان کی تدبیر سے بہتر تدبیر کیسے قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ اس کا مقابلہ کرنا یہود کی اور نہ کسی اور کی طاقت میں ہے۔ یاد رکھئے کہ لفظ مکر کا اطلاق اسی وقت ہوسکتا ہے جبکہ وہ بات اسی طریق پر ہو اور عادت سے خارج نہ ہو۔ چنانچہ بالکل اس طرح کی آیت آنحضرت~صل۱~ کے حق میں وارد ہوئی ہے۔ فرمایا۔
واذ یمکربک الذین کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک و یمکرون ویمکراللہ واللہ خیر الماکرین۔
خلاصہ بحث:۔ مندرجہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ۔
)۱( قرآن مجید اور احادیث نبویﷺ~ میں کوئی ایسی سند موجود نہیں جو تسلی بخش طریق پر اس عقیدہ کی بنیاد بن سکے کہ حضرت عیسیٰؑ اپنے جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور وہ اب تک وہاں زندہ ہیں اور وہیں سے کسی وقت زمین پر نازل ہوں گے۔
)۲( اس بارے میں آیت قرآنیہ صرف یہ ثابت کررہی ہیں کہ اللہ تعالٰی نے حضرت عیسیٰؑ سے وعدہ فرمایا کہ وہ ان کی مدت عمر کو پورا کرے گا۔ اور پھر اس کا اپنی طرف رفع کرے گا اور اسے کافروں سے بچائے گا- اور یہ کہ یہ وعدہ پورا ہوچکا۔ دشمن حضرت عیسیٰؑ کو نہ قتل کرسکے نہ صلیب سے مار سکے بلکہ اللہ نے ان کی مدت زندگی کو پورا کرکے ان کو وفات دی اور ان کا رفع کیا۔
)۳( یقیناً جو شخص حضرت عیسیٰؑ کے زندہ جسم سمیت آسمان پر جانے اور آج تک وہاں بیٹھے رہنے اور آخری زمانہ میں اترنے کا منکر ہے وہ کسی ایسی بات کا منکر نہیں جو کسی قطعی دلیل سے ثابت ہو پس ایسا شخص اپنے اسلام و ایمان سے ہرگز خارج نہیں ہوتا اور اس کو مرتد قرار دینا ہرگز مناسب نہیں بلکہ وہ پکا مومن مسلم ہے۔ جب وہ فوت ہوگا تو مومن ہوگا۔ اس کی نماز جنازہ اسی طرح پڑھی جائے گی جس طرح مومنوں کی پڑھی جاتی ہے اور اسے مومنوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔ اللہ کے نزدیک ایسے شخص کے ایمان میں کوئی داغ نہیں ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو جاننے والا اور دیکھنے والا ہے۔
باقی رہا استفتاء میں مندرج آخری سوال کہ اگر حضرت عیسیٰؑ دوبارہ آئیں گے تو ان کے منکر کا کیا حکم ہوگا؟ تو ہمارے مندرجہ بالا بیان کے بعد اس سوال کا کوئی موقعہ ہی نہیں اور یہ سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔ واللہ اعلم۔
محمود شلتوت
فتویٰ کا ردعمل
اس فتویٰ کا منظر عام پر آنا ہی تھا کہ مصر کے قدامت پرست علماء نے علامہ محمود شلتوت کے خلاف مخالفت کا زبردست طوفان کھڑا کردیا اور اخبارات میں سب وشتم اور طعن و تشنیع سے بھرے ہوئے سخت اشتعال انگیز مضامین شائع کئے اور لکھا کہ یہ فتویٰ قادیانیوں کی موافقت میں ہے اور یہی وہ کامیاب ہتھیار ہے جس سے قادیانی ہمارے ساتھ مباحثات و مناظرات کرتے ہیں اور یہ فتویٰ قادیانیت کی عظیم الشان فتح ہے اس لئے ازہر کو چاہئے کہ اس کو واپس لے لے۔
علماء مصر ازہر نے اس فتویٰ پر کس قدر گھبراہٹ اور پریشانی کا اظہار کیا؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے ذیل میں فضیلتہ الاستاذ الشیخ عبداللہ محمد الصدیق االغماری کے ایک مضمون کے بعض اہم اقتباسات۱۵ کا اردو ترجمہ دیا جاتا ہے۔ الشیخ محمد الصدیق الغماری نے لکھا۔
>ایک ہندوستانی عبدالکریم نامی نے ایک سوال مشائخ ازہر کے نام ارسال کیا جس میں یہ دریافت کیا گیا کہ آیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام از روئے قرآن کریم و حدیث زندہ ہیں یا وفات یافتہ۔
یہ اس سوال کا خلاصہ ہے۔ اگر سائل کا مقصد استفادہ اور استرشاد کا ہوتا تو وہ اس سوال کا جواب ان ہندوستانی علماء کی کتب میں دیکھتا جو اس موضوع میں اردو اور عربی زبان میں تحریر کی گئی ہیں۔
لیکن یہ ہندوستانی اس سوال سے مستفید ہونا نہیں چاہتا تھا بلکہ وہ تو اس فتویٰ کو باقاعدہ قانونی طریقہ سے حاصل کرکے اپنے دعاوی کے اثبات میں بطور دلیل اور سہارا بنانا چاہتا تھا۔ اس کا یہ حیلہ کارگر ہوگیا اور دنیا کے عجائبات میں سے ایک عجوبہ ہوگیا بلکہ یہ حیلہ اپنی نوع کے لحاظ سے اول نمبر پر ہے۔
یہ وہ عجوبہ ہے جس سے ایک اندھے ہندوستانی نے ایک عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے چنانچہ الرسالہ و الروایہ کے ۴۶۲ صفحہ میں ایک فتویٰ شیخ محمد شلتوت کے دستخطوں سے شائع ہوا۔ جس کا عنوان ہے >رفع عیسیٰ< اور اس فتویٰ کا مضمون یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام حقیقی موت سے وفات پاچکے ہیں۔ اور آپ کا رفع آسمان کی طرف نہیں ہوا اور نہ ہی وہ آخری زمانہ میں نزول فرمائیں گے اور اس بارہ میں جتنی احادیث وارد ہیں وہ احاد کا درجہ رکھتی ہیں اور عقائد کے بارہ میں احاد کا کوئی درجہ نہیں۔ نیز یہ روایت وہب بن منبہ اور کعب الاحبار کی ہے اور ان دونوں کا درجہ محدثین کے نزدیک معروف ہے یعنی غیر مقبولین اور غیر ثقتین۔
یہ وہ فتویٰ ہے جس نے امت محمدیہ کے اجماع کو پاش پاش کردیا ہے اور احادیث متواترہ کے خلاف ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فتویٰ اس وجہ سے ایک بہت بڑی مصیبت اور ایک اہم واقعہ ہے۔ اس فتویٰ میں پہلی غلطی تو یہ ہے کہ اس کا دینے والد جلد باز معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ جب قاری اس فتویٰ اور غیر مصر کے علماء کی تحقیق کے درمیان موازنہ کرے گا تو وہ مندرجہ ذیل امور پر پہنچے گا کہ جامعہ ازہر کو علم حدیث سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ نتیجہ اس سے نکلتا ہے کہ مفتی نے دعویٰ کیا ہے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام کی حدیث احاد میں سے ہے۔ دوسرے اسے اس حدیث کی صحت میں شک ہے جو کہ بخاری شریف اور مسلم میں موجود ہے۔ سوم وہ مفتی کہتا ہے کہ حدیث نزول وھب اور کعب سے مروی ہے۔ چہارم اس کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ دونوں راوی ضعیف ہیں۔ حالانکہ ان کی احادیث صحیح ہیں اور پنجم یہ کہ احادیث نزول میں اضطراب پایا جاتا ہے۔
دوم۔ ازہر میں کوئی ایسا فرد نہیں پایا جاتا جو اجماع اور خلاف کے مواقع کو جانتا ہو کیونکہ مفتی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع اور نزول سے انکار کیا ہے۔ دوم یہ کہ احاد احادیث عقائد اور مغیبات میں عمل نہیں ہوتا۔ یہ وہ امور ہیں جو قاری کے ذہن میں موازنہ کرنے سے پیدا ہوتے ہیں اور اس فتویٰ کو ازہر کی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ ازہر کے علماء کبار میں سے ایک عالم نے یہ فتویٰ دیا ہے اور لوگ آج کل ظاہری حالات کی طرف دیکھتے ہیں اور وہ جزو کو کل پر محمول کرتے ہیں چاہے وہ صحیح امر کے خلاف ہی ہو۔
قادیانی جماعت نے اس فتویٰ کو اپنے لئے بطور ایک دلیل اور ہتھیار اختیار کرلیا ہے اور اس فتویٰ کو لے کر وہ مسلمانوں کے پاس جاکر ان کو بے وقوف بناتے اور ان کے خیال کو خطا پر محمول کرتے ہیں اور وہ خوش اور مسرور ہیں اور وہ کامیاب اور فتح مند لہجہ میں کہتے ہیں۔ ھاھو ذا الازھر موافقنا و یخالفکم فلیس عیسی بحی ولا ھو مرفوع ولا ھو نازل کما تزعمون فاین تذھبون۔
یہ وہ جامعہ ازہر کا فتویٰ ہے جو ہماری تائید میں ہے اور تمہارے مخالف۔ پس عیسیٰ علیہ السلام نہ تو زندہ ہیں اور نہ ہی ان کو آسمان پر اٹھایا گیا ہے اور نہ ہی وہ تمہارے گمان اور خیال کے مطابق آسمان سے نزول فرمائیں گے تم کس خیال میں گھوم رہے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم نے اس فتویٰ اور ان حالات کو بچشم دید دیکھا اور حضرت مفتی صاحب سے کہہ دیا جو کچھ اس فتویٰ کے متعلق سنا اور دیکھا اور اس کی وجہ سے جو کچھ ہوا اور جو آئندہ ہوگا اس کا بھی ذکر کیا مگر مفتی صاحب نے اس کا یہ جواب دیا انا ابدیت رائی ولا یضرنی ان اوافق القادیانیہ او غیرھم۔ یعنی میں نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے قادیانی جماعت یا غیر کی تائید میں مجھے کوئی ضرر نہیں پہنچا سکتی۔۔۔۔۔۔۔
اسی سلسلہ میں یہ بھی لکھا۔ بعض اوقات مصلحت عامہ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ بعض آراء کو ظاہر نہ کیا جائے اور ان کو زاویہ خمول اور طاق نسیان میں رکھ دیا جائے۔ حضرت مفتی صاحب عالم مریخ میں زندگی بسر نہیں کرتے کہ ان کے متعلق یہ خیال کیا جائے کہ ان کو زمانہ کے حالات کا علم نہیں۔ سرزمین ہند میں ایک گروہ جو قادیانی فرقہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اس کی بحث اور کلام کا نکتہ مرکزی موت عیسیٰؑ اور عدم رفع ہے۔ اس جماعت نے اپنے مبلغین ترکی البانیہ۔ شام۔ مصر۔ امریکہ اور انگلستان وغیرہ میں بھیجے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مفتی صاحب پر یہ واجب تھا کہ وہ اس گروہ کی مخالفت کرکے خدا کا قرب حاصل کرتے اور مسلمانوں کی تائید کرتے۔ اگر وہ اس خیال سے بھی نہ کرتے تو کم از کم ان علماء کبار کی تائید کرتے جنہوں نے اپنی زندگی ان قادیانیوں کے دفاع کی خاطر وقف کر رکھی ہے۔
اے مفتی! تجھے تیرے رب کی ہی قسم ہے دیکھ کہ ہمارے ان ہندوستانی علماء بھائیوں کی کیا حالت ہوگی جنہوں نے کہ نزول عیسیٰ علیہ السلام کو ۷۰ احادیث سے اور حیات عیسیٰ و رفع عیسیٰ کو ثابت کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب ان کو قادیانی جماعت کے ذریعہ سے یہ اطلاع ہوگی کہ ازہر ان کی مخالفت کرتا ہے اور اس کی رائے ہے کہ ان مسائل میں نہ تو کوئی دلیل ہے اور نہ شبہ دلیل۔ خدا کی قسم میں تجھ سے پھر پوچھتا ہوں کہ وہ کیا کہیں گے؟ اور ان کی کیا حالت ہوگی؟ مجھے یقین ہے کہ علماء ہندو و احتمالوں میں مبتلا ہو جائیں گے اور وہ دونوں ہی عار کا باعث ہیں۔ یا تو وہ یہ کہیں گے کہ ازہر علماء سے خالی ہوچکا ہے۔ یا وہ کتب ستہ یعنی صحاح ستہ اور کتب تفاسیر اور ان کی احادیث کی کتب سے جو کہ اہل علم کے درمیان متداول ہیں ان سے ناواقف ہیں۔ یا وہ اس امر کا اظہار کریں گے کہ علماء ازہر میں دینی جرات نہیں ہے جو کہ خصوصاً ایک مومن کے شامل حال ہونی چاہئے۔ چاہے وہ پہلی رائے کا اظہار کریں یا دوسری کا جامعہ ازہر کا رتبہ ان کی آنکھوں سے گر جائے گا اور قلوب سے تعظیم جاتی رہے گی اور علمائے ازہر کے متعلق وہ شاعر کا یہ قول پڑھیں گے۔~}~
واخوانا حسبتموا دروعا
فکالوھا` ولکن للاعادی
اور کئی بھائی ہیں جن کو میں نے اپنے لئے زرہ یعنی بچائو کا ذریعہ خیال کیا تھا۔ بے شک وہ آفات و مصائب سے بچانے کے لئے زرہیں تھیں لیکن حقیقت میں دشمنوں نے ان سے فائدہ اٹھایا۔۱۶
الشیخ نے علامہ شلتوت کو وفات مسیح علیہ السلام کا صاف صاف اقرار کرنے کی پاداش میں برا بھلا کہنے کے علاوہ ان کو نصیحت کرتے ہوئے لکھا۔
)۱( استاذ شلتوت نے اپنی رائے کے اظہار میں غلطی کی ہے۔ مفتی کو چاہئے کہ وہ قواعد افتاء اور اصول سے کماحقہ واقف ہو۔ انہیں چاہئے تھا کہ وہ از روئے علم غور سے دیکھتے اس معاملہ میں جو ان کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور وہ مستفتی )فتویٰ دریافت کرنے والے( کے احوال کا خیال رکھتے ہوئے فتویٰ دیتے۔ نیز یہ خیال کرتے کہ اس سوال کا مقصد کیا تھا۔ کیونکہ بعض اوقات مفتی کے سامنے ایسا واقعہ پیش کرنے سے یہ غرض ہوتی ہے کہ اسے فتنہ برپا کرنے میں بطور جواب استعمال کیا جائے۔ اس لئے مفتی کو چاہئے کہ وہ بیدار اور روشن بصیرت والا ہو اور سوال کے مطابق جواب دے جیسے علماء سابقین کیا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔<
یہ فتویٰ ہمارے ایک ہندوستانی احمدی بھائی بابو عبدالکریم صاحب یوسف زئی نے دریافت کیا تھا ان کے متعلق شیخ الغماری نے تحریر کیا۔
>ایک ہندوستانی فوجی جو کہ چوبیس گھنٹے موت کے منہ کے سامنے کھڑا ہے اور وہ لوگوں میں سے سب سے زیادہ محتاج ہے کہ وہ احکام توبہ پر عمل کرے اور مظالم سے خلاصی کا طریقہ معلوم کرے اور حقوق اللہ و العباد کا علم حاصل کرے۔ کیونکہ ان حالات میں اسے ان باتوں کی معرفت زیادہ ضروری ہے لیکن اسے کیا سوجھتا ہے؟ یہ کہ حضرت عیسیٰؑ زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں` وہ آسمان سے نزول فرمائیں گے یا نہیں؟ اسے یہ کیا خیال آیا اور ان سوالات سے اسے کیا تعلق؟ کیا اس نے تمام عقائد سے واقفیت حاصل کرلی ہے۔ اور اس کے لئے سوائے اس عقیدہ کی تحقیق کے کوئی چیز باقی نہیں رہی؟ کیا اس نے ہر واجب علم حاصل کرلیا ہے؟ کیا احکام الصلٰوۃ والصوم کو اس نے معلوم کرلیا؟ اور سمجھ لیا ہے؟ اگر فاضل استاذ جلدی نہ کرتے اور ان سوالوں پر غور کرتے تو وہ حقیقی راز معلوم کرلیتے جس کی وجہ سے یہ امر دریافت کیا گیا تھا اور پھر اس کو درست جواب دیتے لیکن علامہ شلتوت نے ان امور پر غور نہ کیا اور جلدی سے جواب دے کر ایک بہت بڑی مصیبت خریدلی ہے<۔
علامہ محمود شلتوت کی طرف سے علماء کو مدلل اور مسکت جواب
الغرض الشیخ عبداللہ محمد الصدیق الغماری اور دوسرے مصری علماء نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کہ علامہ شلتوت فتویٰ واپس لے لیں مگر علامہ
موصوف نے قرآن وحدیث کو چھوڑ کر نام ہاد علماء کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے صاف انکار کردیا۔۱۷ اور خم ٹھوک کر میدان مقابلہ میں آگئے اور >الرسالتہ و الروایتہ< کی پانچ اشاعتوں۱۸ میں مخالفین کے چھوٹے بڑے سب اعتراضات کے عالمانہ رنگ اور شستہ اور پاکیزہ زبان میں نہایت درجہ مدلل اور مسکت جوابات دیئے جن سے مسئلہ وفات مسیح کے تمام پہلو بالکل نمایاں ہو کر سامنے آگئے۔
‏0] fts[کتاب >الفتاویٰ< میں اشاعت
علامہ محمود شلتوت نے ایک عرصہ بعد اپنا یہ مکمل فتویٰ اور اس پر اعتراضات کے جوابات کا ملخص اپنی مشہور کتاب >الفتاویٰ<۱۹ میں بھی چھاپ دیا۔ یہ کتاب قاہرہ کے مشہور ادارہ >الادارہ للثقافہ الاسلامیہ< نے جمادی الاخرۃ ۱۳۷۹ھ )دسمبر ۱۹۵۹ء( میں شائع کیا جبکہ علامہ محمود شلتوت شیخ الازہر CAIRO) UNIVERSITY AZHAR ۔AL OF (RECTOR کے منصب جلیلہ پر فائز تھے۔ اس طرح اس فتویٰ۲۰]4 [rtf کو مصری حکومت کے مفتی اعظم کے سرکاری فتویٰ کی حیثیت حاصل ہوگئی۔
تیسرا باب )فصل دوم(
قادیان کے غرباء کے لئے غلہ کی تحریک اور اس کا شاندار اثر
اس سال کے شروع میں ہندوستان کے اندر خطرناک قحط رونما ہوگیا اور غلہ کی سخت قلت ہوگئی۔ اس ہولناک قحط کے آثار ماہ فروری ۱۹۴۲ء/ صلح ۱۳۲۱ہش میںشروع ہوگئے تھے لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جنہیں خدائی بشارتوں میں >یوسف< کے نام سے بھی پکارا گیا تھا سالانہ جلسہ ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش پر احباب جماعت کو توجہ دلائی کہ انہیں غلہ وغیرہ کا انتظام کرنا چاہئے اور اعلان فرمایا کہ جو دوست غلہ خرید سکتے ہیں وہ فوراً خریدلیں۔ بعض نے خریدا مگر بعض نے توجہ نہ دی کہ ہمارے پاس پیسے ہیں جب چاہیں گے لے لیں گے۔ مگر جب آٹا وغیرہ ملنا بند ہوا اور سیاہ دانوں کی گندم ڈپو میں دی جانے لگی تو ان کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس کے بعد جب فصل نکلی تو حضور نے پھر ارشاد فرمایا کہ دوست غلہ جمع کرلیں اور ساتھ ہی زمیندار دوستوں کو یہ ہدایت فرمائی کہ وہ غلہ زیادہ پیدا کریں اور اسے حتی الوسع جمع رکھیں۔۲۱ اس ضمن میں حضور نے ۲۲۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش کو ملک کی سب احمدی جماعتوں کو نصیحت فرمائی کہ وہ ہر جگہ اپنے غریب احمدی بھائیوں کے لئے غلہ کا انتظام کریں نیز خاص طور پر یہ تحریک فرمائی کہ قادیان کے غرباء کے لئے زکٰوۃ کے رنگ میں اپنے غلہ میں سے چالیسواں حصہ بطور چندہ ادا کریں اور جو لوگ غلہ نہ دے سکیں وہ رقم بھجوا دیں کہ ہماری طرف سے اتنا غلہ غرباء کو دے دیا جائے۔ مقصود یہ تھا کہ غرباء کو کم از کم اتنی مقدار میں تو گندم مہیا کردی جائے کہ وہ سال کے آخری پانچ مہینوں۲۲ میں جو گندم کی کمی کے مہینے ہوتے ہیں باسانی گزارہ کرسکیں۔ اور تنگی اور مصیبت کے وقت انہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔ اس غرض کے لئے حضور نے پانچسو من غلے کا مطالبہ جماعت سے فرمایا اور اس میں سے بھی پچاس من خود دینے کا وعدہ کیا۔ چنانچہ فرمایا۔
>مومنوں کے متعلق قرآن کریم میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ وہ بھوک اور تنگی کے وقت غرباء کو اپنے نفس پر ترجیح دیتے ہیں اور درحقیقت ایمان کے لحاط سے یہی مقام ہے جس کے حاصل کرنے کی ہر مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔ مگر موجودہ زمانہ میں ہمیں وہ نمونہ دکھانے کا موقع نہیں ملتا جو صحابہ نے مدینہ میں دکھایا۔ اس لئے ہمیں کم سے کم اس موقعہ پر غرباء کی مدد کرکے اپنے اس فرض کو ادا کرنا چاہئے جو اسلام کی طرف سے ہم پر عائد کیا گیا ہے اور اگر ہم کوشش کریں تو اس مطالبہ کو پورا کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ پانچسو من غلے کا اندازہ بھی درحقیقت کم ہے اور یہ بھی سارے سال کا اندازہ نہیں بلکہ آخری پانچ مہینوں کا اندازہ ہے جبکہ قحط کا خطرہ ہے۔ ممکن ہے اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے آئندہ فصل اچھی کردے اور جوار وغیرہ نکل آنے کی وجہ سے گندم سستی ہو جائے۔ بہرحال ہم میں سے ہر ایک کو سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے غریب بندے خداتعالیٰ کے رزق کے ہم سے کم حصہ دار نہیں۔ خدا کی نامعلوم کس حکمت نے ہم کو رزق دے دیا اور ان کو نہیں دیا شاید خداتعالیٰ کو ہمارا امتحان منظور ہے کہ وہ دیکھے کہ ہم اس رزق کو کس طرح استعمال کرتے ہیں یا شاید بعض کے لئے اس میں سزا کا کوئی پہلو مخفی ہو یا شاید اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ ہمیں ثواب دینا چاہتا ہو کہ چونکہ ان کو رزق نہیں ملا اس لئے تم ان کو رزق دے کر اللہ تعالیٰ سے ثواب حاصل کرو۔ نامعلوم ان تینوں باتوں سے کونسی بات اللہ تعالیٰ کے مدنظر ہے۔ لیکن بہرحال یہ یقینی بات ہے کہ غریب بندے خداتعالیٰ کے رزق میں ہم سے کم حصہ دار نہیں اور ہم میں سے کوئی فرد ایسا نہیں جو بشر ہونے کے لحاظ سے ایک غریب پر فوقیت رکھتا ہو۔ بلکہ بشر ہونے کے لحاظ سے نبی اور کافر بھی برابر ہوتے ہیں۔ قرآن کریم میں بار بار اللہ تعالیٰ رسول کریم~صل۱~ سے فرماتا ہے۔ قل انما انابشر مثلکم۔ یعنی اے رسول! کہہ دے۔ ابوجہل سے کہہ دے` عتبہ سے کہہ دے` شیبہ سے کہہ دے کہ بشر ہونے کے لحاظ سے میں تمہاری طرح ہی ہوں اور مجھ میں اور تم میں کوئی فرق نہیں۔ اگر فرق ہے تو یہ کہ میں نے خداتعالیٰ کے قرب کو پالیا اور تم نے اس کا انکار کرکے اسے ناراض کردیا۔ اگر تم بھی نیکی اور تقویٰ اختیار کرو اور تم بھی قربانیوں میں حصہ لو تو اللہ تعالیٰ تم کو بھی ویسا ہی محبوب بناسکتا ہے جیسے اس نے اور لوگوں کو بنایا۔ آخر خدا نے ابوجہل کو ابوجہل اور ابوبکرؓ کو ابوبکرؓ اس لئے بنایا کہ ابوبکرؓ نے اپنی بشریت کا صحیح استعمال کیا۔ ابوجہل نے صحیح استعمال نہ کیا۔ اگر ابوجہل بھی اپنی بشریت کا صحیح استعمال کرتا تو وہ بھی ابوبکرؓ بن جاتا۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کی حکمتیں ہیں جن کے ماتحت وہ کسی کو رزق دے دیتا ہے اور کسی کو نہیں دیتا۔ یہ بات غلط ہے کہ اگر کوئی عالم ہو تو اسے رزق مل جاتا ہے اور اگر عالم نہ ہو تو رزق نہیں ملتا۔ ہزاروں انٹرنس پاس ہیں جو چار چار سو پانچ پانچ سو روپیہ تنخواہ لے رہے ہیں اور ہزاروں بی۔ اے اور ایم۔ اے ہیں جنہیں بیس بیس تیس تیس روپے کی بھی نوکری نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو عارضی طور پر۔ پس یہ کوئی خدا کی مشیت ہے جس کے ماتحت وہ اپنے بندوں کا امتحان لیتا رہتا ہے۔ ہر شخص کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہو<۔۲۳
‏tav.8.18
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
رسالہ >فرقان< کے اجراء سے لیکچر >نظام نو< تک
کہ میں نے بتایا ہے یہ جنگ اس قسم کی ہے کہ اسلام اور احمدیت پر اس کا بڑا بھاری اثر پڑنے والا ہے اس لئے اسلام اور احمدیت پر اس جنگ کا جو بھی اثر ہو اس کو مٹانے کا ذریعہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کے لوگ زیادہ سے زیادہ فوج میں داخل ہوں تاکہ ان بداثرات کو مٹاسکیں اور اگر ان بداثرات کو نہ مٹاسکیں تو کم سے کم وقت پر اپنی جماعت کی حفاظت تو کرسکیں۔ اگر آج وہ فوجی فنون نہیں سیکھیں گے تو کل وہ ان برکات کو بھی حاصل نہیں کرسکیں گے جو فاتح قوموں کے لئے مقدر ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ موت اور حیات اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے` جو قومیں موت سے ڈرتی ہیں اور اپنے بچوں کی جانوں کی حفاظت کرتی ہیں` اللہ تعالیٰ ان کے بچے دوسرے ذرائع سے ان کے سامنے مار ڈالتا ہے۔ پس میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں خصوصاً ان اضلاع کی جماعتوں کو جن کا ناظر صاحب امور عامہ دورہ کررہے ہیں کہ وہ ہمت اور کوشش کرکے نوجوانوں کو بھرتی کرائیں اور انہیں اس دن کے لئے تیار کریں جس دن احمدیت ان سے قربانی کا مطالبہ کرے گی۔ اگر آج وہ تیار نہیں ہوں گے تو وہ وقت پر کچے دھاگے ثابت ہوں گے اور اسلام اور احمدیت کے لئے قربانی نہیں کرسکیں گے۔
بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ اگر فوج میں بھرتی ہوئے تو جرمنوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر وہ فوج میں بھرتی نہ ہوئے تو کیا جرمن اسی جگہ نہیں آجائیں گے۔ اس صورت میں تو وہ اسی جگہ جرمنوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے اور یہ ایک ذلت کی موت ہوگی جس سے انہیں بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر میں کہتا ہوں مومن تو وہ ہوتا ہے جو سوائے خداتعالیٰ کے کسی سے ڈرتا ہی نہیں۔ آج وہ جرمن سے ڈر گئے ہیں کل جاپان سے ڈر جائیں گے۔ پرسوں کسی اور قوم سے خوف کھاتے پھریں گے۔ پھر وہ فتح کس پر حاصل کریں گے؟ حالانکہ مومن تو وہ ہوتا ہے جو کسی کی پروا ہی نہیں کرتا اور وہ سمجھتا ہے کہ میرے مقابلہ میں کوئی دشمن نہیں ٹھہرسکتا۔ جس مومن کے دل میں یہ یقین پیدا ہو جاتا ہے وہ مقابلہ کے وقت سب پر بھاری ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے جو لوگ بھرتی کے قابل ہیں وہ اپنے آپ کو بھرتی کے لئے پیش کریں۔ ہر شخص بھرتی کے قابل نہیں ہوتا۔ گورنمنٹ نے اس کے لئے صحت کا ایک معیار مقرر کیا ہوا ہے جو دوست اس معیار پر پورے اترتے ہوں انہیں زیادہ سے زیادہ تعداد میں بھرتی ہونا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان فنون جنگ سے آشنا ہوسکیں۔ کسی کو کیا معلوم کہ کب خداتعالیٰ کی طرف سے یہ آواز آنے والی ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کرکے خداتعالیٰ کے دین کے لئے نکل کھڑے ہوں اور یہ کام آسان نہیں بلکہ لڑائی سے بہت زیادہ مشکل ہے۔ لڑائی میں توپیں اور تلواریں ساتھ جاتی ہیں مگر اس لڑائی میں توپ ساتھ ہوتی ہے نہ تلوار ساتھ ہوتی ہے پس کون کہہ سکتا ہے کہ ہمارے ایمان کی آزمائش کا موقعہ کب آنے والا ہے۔ یہ آزمائشیں جو اس وقت ہورہی ہیں یہ تو بالکل ابتدائی ہیں اور ایسی ہی ہیں جیسے معمار اپنی ہتھوڑی سے اینٹ کے کنارے صاف کرتا ہے۔ اینٹ کے کنارے صاف کرنا اس کا اصل کام نہیں ہوتا بلکہ اصل کام وہ ہوتا ہے جب اینٹ دیوار میں لگ جاتی ہے۔ اسی طرح ابھی تو ہمارے کنارے صاف کئے جارہے ہیں پھر وہ وقت آئے گا جب ان اینٹوں کو دیوار میں لگا دیا جائے گا اور سارا بوجھ ان اینٹوں پر آپڑے گا۔ اسی طرح جماعت کے جو کارکن ہیں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں ایسے دوست اپنے نام مجھے یا دفتر امور عامہ میں لکھ کر بھجوا دیں جو اپنے اپنے علاقوں میں اس غرض کے لئے دورہ کرنے اور نوجوانوں کو بھرتی پر آمادہ کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ہمارے خاندان میں سے ایک بچہ فوج میں گیا ہوا ہے۔ باقی بچے اس قابل نہیں۔ کسی کی آنکھیں کمزور ہیں اور کسی کی عمر نہیں۔ ہمارے ایک اور بچے نے تین دفعہ بھرتی ہونے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اس نے اس غرض کے لئے اپنی پڑھائی بھی چھوڑ دی تھی مگر کامیابی نہ ہوئی۔ تو ہمارے خاندان نے اپنا نمونہ پیش کر دیا ہے یہ نہیں کہ ہم نے اپنے بچے چھپا کر رکھے ہوئے ہوں۔ ایک بچہ فوج میں گیا ہوا ہے اور دوسرے نے پوری کوشش کی مگر اسے کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ غرض اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر یقین رکھتے ہوئے آئندہ سلسلہ کی خدمات کے لئے تیار کرنے اور اس وقت جنگی خدمات میں حصہ لینے کے لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہماری جماعت کے نوجوان زیادہ سے زیادہ تعداد میں اپنے آپ کو بھرتی کے لئے پیش کریں۔ اسی طرح مجھے یا ناظر صاحب امور عامہ کو وہ دوست اپنے اپنے نام بھجوا دیں جو اپنے اپنے علاقوں میں اس غرض کے لئے دورہ کرنے کو تیار ہوں۔ ایسے دوستوں کو چاہئے کہ وہ گائوں گائوں میں پھر کر نوجوانوں کو تلقین کریں اور ان میں سے جو قابل ہوں انہیں فوج میں بھرتی کرائیں۔ میں نے جیسا کہ کہا ہے ایک دفعہ پھر اس امر کو واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ موت کا ڈر کسی زندہ قوم کے افراد کے دل میں نہیں ہوسکتا۔ اگر خدانخواستہ تمہارے دلوں میں موت کا ڈر ہے یا جاپانیوں کا ڈر ہے یا جرمنوں کا ڈر ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے دل کا اتنا حصہ ایمان سے خالی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے ایای فارھبون کہ مجھ سے ہی ڈرو۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے تین دفعہ اس بات پر زور دیا ہے کہ صرف خدا سے ہی ڈرنا چاہئے کسی اور سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ چنانچہ ایای سے پہلے فعل محذوف ہے جو ارھبوا ہے یعنی ارھبوا ایای اس کے بعد ایک اور امر محذوف ہے جس پر فا کا حرف دلالت کرتا ہے اور وہ فعل بھی ارھبوا ہے۔ تیسری بار فارھبون کہہ کر پھر تاکید کی گئی ہے گویا اس فقرہ کو اگر پھیلایا جائے تو یوں نے گا کہ ارھبوا ایای۔ ارھبوا فارھبون۔ یعنی مجھ سے ڈرو۔ ڈرو مجھ سے ہی ڈرو۔ یعنی سوائے خدا کے کسی سے نہیں ڈرنا چاہئے۔ یہی مومن کی علامت ہے۔ جو شخص خداتعالیٰ کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتا اس کو کوئی طاقت مغلوب نہیں کرسکتی۔ اسی طرح جب کسی قوم کے دل سے ڈر نکل جائے تو وہ قوم یا تو مر جائے گی یا فاتح ہو کر زندگی بسر کرے گی غلام کی زندگی نہیں بسر کے گی۔ پس اپنے دلوں سے موت کا ڈر نکال دو اور سوائے خدا تعالیٰ کے کسی سے نہ ڈرو۔ پھر دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت بھی تم کو مغلوب نہیں کرسکے گی<۔۴۵
حضرت امیرالمومنینؓ نے مزید فرمایا۔
>تم مت سمجھو کہ احمدیت کی فتح اسی طرح ہوگی کہ ایک احمدی یہاں سے ہوا اور ایک وہاں سے۔ یہ تو ویسی ہی جنگ ہے جیسی بڑی جنگ سے پہلے ہراول دستوں سے چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہو جایا کرتی ہیں۔ ان معمولی ہرادل دستوں کی جنگوں کو بڑی جنگ سمجھنا غلطی ہے۔ ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب احمدیت کو دوسرے تمام مذاہب کے مقابلہ میں ڈٹ کر مقابلہ کرنا پڑے گا۔ تب دنیا کے مستقبل کا فیصلہ ہوگا اور تب دنیا کو معلوم ہوگا کہ کونسا مذہب اس کی نجات کے لئے ضروری ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ تلوار کی جنگ ہوگی مگر میں یہ ضرور کہوں گا کہ یہ مضبوط دلوں کی جنگ ہوگی اور دلوں کی مضبوطی اس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتی جب تک انسان خطرات میں اپنے آپ کو ڈالنے کے لئے تیار نہ ہو جائیں۔ پس ہر جگہ جہاں کوئی شخص ڈوب رہا ہو وہاں ایک احمدی کو سب سے پہلے کودنا چاہئے۔ اس لئے بھی کہ وہ مسلمان یا سکھ یا عیسائی یا ہندو اس کا ایک بھائی ہے جس کو بچانا اس کا فرض ہے اور اس لئے بھی کہ اس کے اندر جرات اور بہادری پیدا ہو۔ ہر جگہ جہاں آگ لگ گئی ہے وہاں ایک احمدی کو اس آگے کے بجھانے کے لئے سب سے پہلے پہنچنا چاہئے۔ اس لئے بھی کہ جس کے گھر کو آگ لگی ہے وہ خواہ مسلمان ہے یا ہندو ہے یا سکھ ہے یا عیسائی ہے بہرحال اس کا ایک بھائی ہے اور اس لئے بھی کہ اس کے نفس کو آگ میں کودنے کی مشق ہو اور جرات اور دلیری اس کے اندر پیدا ہو۔ اسی طرح ہر جنگ جو وطن کی حفاظت کے لئے لڑی جائے اور اس میں ایک احمدی کو سب سے پہلے شامل ہونا چاہئے اس لئے بھی کہ وطن کا حق ہے کہ اس کی حفاظت کے لئے جان دی جائے۔ اور اس لئے بھی کہ اس کے اندر جرات اور بہادری پیدا ہو اور جب شیطان کی جنگ خداتعالیٰ کی فوج کے ساتھ ہو تو اس وقت وہ اس جنگ میں خداتعالیٰ کے لئے اپنی جان کو قربان کرنے والا ہو۔ جو شخص آج اپنے آپ کو اس رنگ میں تیار نہیں کرتا۔ جو شخص آج اپنے نفس کی اس طرح تربیت نہیں کرتا۔ جو شخص آج اپنے اندر یہ جرات اور دلیری پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا کل اس پر کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ وہ کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ جائے گا اور اس کی زبان کے دعوے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے<۔۴۶
جنگ میں بھرتی ہونے کی تحریک کو کامیاب بنانے کے لئے حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ اور سلسلہ کے بعض اور کارکنوں نے ملک کے وسیع دورے کئے جس کے نتیجہ میں قریباً سولہ ہزار احمدی جنگ میں بھرتی ہوئے۔۴۷ جن کا سالانہ چندہ ایک لاکھ کے قریب پہنچ گیا۔ احمدی سپاہیوں نے اندرون ملک اور ملک سے باہر مشرق وسطیٰ` مشرق بعید میں فرض شناسی اور شجاعت بہادری کے خوب جوہر دکھلائے۔ اس دوران میں انہیں ہانگ کانگ۴۸ وغیرہ علاقوں میں ہندوستانی فوجیوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا اور جاپان کی قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنا پڑیں مگر انہوں نے کمال صبر و تحمل کا نمونہ دکھلایا اور نظربندی کے زمانہ میں نمازوں اور دعائوں کا خاص التزام رکھا۴۹ جو احمدیت کی تعلیم کا اعجاز تھا۔
بیرونی مبلغین کیلئے خصوصی دعا کی تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو سلسلہ کے مبلغین سے ازحد محبت تھی اور حضور اپنے بیٹوں سے بڑھ کر ان پر شفقت فرماتے تھے اور خصوصاً باہر جانے والے مبلغوں کی نسبت تو فرمایا کرتے تھے کہ میرے دل میں ان کیلئے جذبات ممنونیت اس درجہ پیدا ہوتے ہیں کہ اگرچہ وہ محض سلسلہ کی خاطر اپنے وطنوں کو خیرباد کہتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ گویا میرے ذاتی کام کیلئے جارہے ہیں۔
جنگ کے ایام میں حضور اپنے ان خدام کے لئے جو اکناف عالم میں مصروفیت تبلیغ تھے اور مصائب و آلام میں گھر گئے تھے بہت مشوش تھے اور ان کی خیریت و سلامتی اور ان کے مقاصد کی تکمیل کے لئے خود بھی دعائیں فرماتے اور سالانہ جلسہ کے موقعہ پر احباب جماعت کو بھی ارشاد فرماتے کہ وہ اپنی دعائوں میں ان مجاہدین کو خاص طور پر یاد رکھیں اس سال کے دوران میں جب رمضان کے مبارک ایام آئے جو دعائوں کی قبولیت کے لئے خصوصیت رکھتے ہیں تو حضور نے ۱۵۔ ماہ ستمبر ۱۹۴۲ء/ تبوک ۱۳۲۱ہش کو اپنے خطبہ جمعہ میں مبلغین کے لئے خصوصی دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا۔
>آچ کل سینکڑوں نہیں ہزاروں احمدی لڑائی میں گئے ہوئے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں بڑی تعداد میں احمدی رہتے ہوں اور وہاں سے کوئی احمدی لڑائی میں نہ گیا ہو۔ پھر بہت سے احمدی ہیں جو لڑائی کی وجہ سے آج کل قید ہیں۔ اسی طرح ہمارے کئی مبلغ قید ہیں یا قید نما حالت میں ہیں۔ ان میں سے دس بارہ تو مشرقی ایشیا میں ہی ہیں۔ مثلاً مولوی رحمت علی صاحب` مولوی شاہ محمد صاحب` ملک عزیز احمد صاحب` مولوی محمد صادق صاحب` مولوی غلام حسین صاحب` ان کے علاوہ کچھ لوکل مبلغ ہیں جو پانچ سات ہیں جن میں سے بعض کو یہاں سے مقرر کیا گیا تھا اور بعض کو وہاں کی جماعتوں نے اپنا مبلغ بنالیا تھا۔ ان تمام مبلغین کے متعلق نہ ہمیں کوئی خبر ہے نہ اطلاع` اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سب کو اپنی اپنی دعائوں میں یاد رکھیں کیونکہ وہ ہماری طرف سے ان ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے بعض باتوں کو فرض کفایہ قرار دیا ہے اور تبلیغ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یعنی اگر قوم میں سے کوئی شخص بھی تبلیغ نہ کرے تو ساری قوم گناہگار اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کے مورد ہوگی لیکن اگر کچھ لوگ تبلیغ کے لئے کھڑے ہوجائیں تو باقی قوم گنہگار نہیں ہوگی۔ پس اگر یہ لوگ تبلیغ کے لئے غیرممالک میں نہ جاتے تو احمدیہ جماعت اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں گناہگار ٹھہرتی اور وہ اس کے عذاب کی مورد بن جاتی کیونکہ وہ کہتا کہ اس قوم نے تبلیغ کو بالکل ترک کر دیا ہے جیسے مسلمانوں کی حالت ہے کہ جب انہوں نے فریضہ تبلیغ کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیا ہے اور ان میں ایسے لوگ نہ رہے جو اپنے وطنوں کو چھوڑ کر اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر اور اپنے آرام و آسائش کے سامانوں کو چھوڑ کر غیرممالک میں جائیں اور لوگوں کو داخل اسلام کریں تو وہ مورد عذاب بن گئے۔ پس جن لوگوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اپنی خاص رحمتوں کا مورد بنایا ہوا ہے` یقیناً ان کا حق ہے کہ ہم انہیں اپنی دعائوں میں یاد رکھیں۔ ان کے لئے دعا کرنا اپنی ذاتی دعائوں پر مقدم سمجھیں اور متواتر الحاح اور عاجزی سے ان کی صحت اور سلامتی کے لئے دعائیں کریں۔ اسی طرح اور بہت سے مبلغ ہیں جن کی قربانیوں کا صحیح اندازہ ہماری جماعت کے دوست نہیں لگاسکتے۔ بالخصوص دو مبلغ تو ایسے ہیں جو شادی کے بہت تھوڑا عرصہ بعد ہی تبلیغ کے لئے چلے گئے اور اب تک باہر ہیں۔ ان میں سے ایک دوست تو نوسال سے تبلیغ کے لئے گئے ہوئے ہیں۔ حکیم فضل الرحمن ان کا نام ہے۔ انہوں نے شادی کی اور شادی کے تھوڑے عرصہ کے بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھجوا دیا گیا۔ وہ ایک نوجوان اور چھوٹی عمر کی بیوی چھوڑ کر گئے تھے مگر اب وہ آئیں گے تو انہیں ادھیڑ عمر کی بیوی ملے گی۔ یہ قربانی کوئی معمولی قربانی نہیں میرے نزدیک تو کوئی نہایت ہی بے شرم اور بے حیا ہی ہوسکتا ہے جو اس قسم کی قربانیوں کی قیمت کو نہ سمجھے اور انہیں نظرانداز کردے۔
اسی طرح مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں انہوں نے بڑی عمر میں شادی کی اور دو تین سال بعد ہی انہیں تبلیغ کے لئے بھیج دیا گیا۔ ان کے ایک بچے نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا اور باپ نہیں جانتا کہ میرا بچ کیسا ہے۔ سوائے اس کے کہ تصویروں سے انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا ہو۔ وہ بھی کئی سال سے باہر ہیں اور اب تو لڑائی کی وجہ سے ان کا آنا اور بھی مشکل ہے۔ قائم مقام ہم بھیج نہیں سکتے اور خود وہ آنہیں سکتے کیونکہ راستے مخدوش ہیں۔ اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کب واپس آئیں گے۔ لڑائی ختم ہو اور حالات اعتدال پر آئیں تو اس کے بعد ان کا آنا ممکن ہے اور نہ معلوم اس میں ابھی اور کتنے سال لگ جائیں۔ ان لوگوں کی ان قربانیوں کا کم سے کم بدلہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کا ہر فرد دعائیں کرے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے اور ان کے اعزہ اور اقرباء پر بھی رحم فرمائے۔ میں تو سمجھتا ہوں جو احمدی ان مبلغین کو اپنی دعائوں میں یاد نہیں رکھتا اس کے ایمان میں ضرور کوئی نقص ہے اور مجھے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے ایمان میں خلل واقع ہوچکا ہے اسی طرح اور بھی کئی مبلغ ہیں جن کی قربانی گو اس حد تک نہیں مگر پھر بھی وہ سالہا سال تک اپنے اعزہ اور رشتہ داروں سے دور ہیں اور قسم قسم کی تکالیف برداشت کررہے ہیں۔ ان مبلغین میں سے مغربی افریقہ کے دو مبلغ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ ایک مولوی نذیر احمد صاحب )ابن بابو فقیر علی صاحب( اور دوسرے مولوی محمد صدیق صاحب۔ یہ لوگ ایسے علاقوں میں ہیں جہاں سواریاں مشکل سے ملتی ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں بھی آسانی سے میسر نہیں آتیں۔ رستہ میں کبھی ستو پھانک کر گزارہ کرلیتے ہیں اور کبھی کوئی پھل کھالیتے ہیں۔ پھر انہیں سینکڑوں میل کے دورے کرنے پڑتے ہیں اور ان دوروں کا اکثر حصہ وہ پیدل طے کرتے ہیں۔ یہ قربانیاں ہیں جو سالہا سال سے یہ لوگ کررہے ہیں۔ چیف اور رئوساء ان کا مقابلہ کرتے ہیں بعض دفعہ )گو ہمیشہ نہیں( گورنمنٹ بھی ان کے راستہ میں روڑے اٹکاتی ہے۔ عام پبلک اور مولوی بھی مقابلہ کرتے رہتے ہیں لیکن ان تمام روکوں کے باوجود وہ مختلف علاقوں میں جماعتیں قام کرتے اور خانہ بدوشوں کی طرح دین کی اشاعت کے لئے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ لوگ ایسے نہیں کہ جماعت ان کی قربانیوں کے واقعات کو تسلیم کرنے سے انکار کرسکے۔ >میں قربانیوں کے واقعات کو تسلیم کرنے> کی بجائے >ان کے احسانات کو تسلیم کرنے< کے الفاظ استعمال کرنے لگا تھا مگر پھر میں نے لفظ احسان اپنی زبان سے نہیں نکالا۔ کیونکہ دین کے لئے قربانی کرنا ہر مومن کا فرض ہے۔ اسی لئے میں نے کہا ہے کہ جماعت ان لوگوں کی قربانیوں کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرسکتی۔ لیکن بہرحال اس میں کیا شبہ ہے کہ جو کام یہ لوگ کررہے ہیں ہیں وہ ساری جماعت کا ہے اور اس لحاظ سے جماعت کے ہر فرد کو اپنی دعائوں میں ان مبلغین کو یاد رکھنا چاہئے۔
اسی طرح اور مبلغ دوسرے مختلف ممالک میں اخلاص اور قربانی سے کام کررہے ہیں۔ صوفی مطیع الرحمٰن صاحب امریکہ میں کام کررہے ہیں اور بعض مشکلات میں ہیں۔ مولوی مبارک احمد صاحب مشرقی افریقہ میں کام کررہے ہیں۔ مولوی رمضان علی صاحب سائوتھ امریکہ میں کام کررہے ہیں چوہدری محمد شریف صاحب فلسطین اور مصر میں کام کررہے ہیں۔ حکیم فضل الرحمن صاحب کا ذکر میں پہلے کرچکا ہوں ان کے علاوہ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر سیالکوٹی آج کل گولڈ کوسٹ میں کام کررہے ہیں۔ یہاں گو جماعتیں پہلے سے قائم ہیں مگر وہ اکیلے کئی ہزار کی جماعت کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ پھر ان کی قربانی اس لحاظ سے بھی خصوصیت رکھتی ہے کہ وہ آنریری طور پر کام کررہے ہیں۔ جماعت ان کی کوئی مدد نہیں کرتی۔ وہ بھی سات آٹھ سال سے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے جدا ہیں بلکہ تبلیغ پر جانے کی وجہ سے وہ اپنی بیوی کا رخصتانہ بھی نہیں کراسکے<۔۵۰
خداتعالیٰ نے محض اپنے فضل اور رحم سے حضرت امیرالمومنینؓ اور احباب کی متضرعانہ دعائوں کو سنا اور مجاہدین کی اعجازی رنگ میں حفاظت فرمائی۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن کی رہائش گاہ کے دائیں اور بائیں جرمن جہازوں نے بمبار کی مگر آپ محفوظ رہے۔ اسی طرح چوہدری محمد شریف صاحب مجاہد اٹلی بھی۔ ملک عزیز احمد خاں صاحب` مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری اور سید شاہ محمد صاحب کو جاوی علماء کی مخبری پر جاپانی حکام نے جیل میں ڈال دیا اور مولوی محمد صادق صاحب کو جاپانی حکومت نے پھانسی دینے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ مگر قبل اس کے کہ اس ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنایا جاتا خدائے ذوالجلال نے اس ظالم حکومت کا تختہ ہی الٹ دیا۔۵۱
مبلغین سلسلہ کو ذکر الٰہی کے لئے اہم تحریک
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے جہاں جماعت کے دوستوں کو بیرونی مبلغین کے لئے دعا کی تحریک فرمائی وہاں خود مبلغوں کو بھی ارشاد فرمایا کہ وہ ہمیشہ ذکر الٰہی میں مصروف رہیں تا ان کی تبلیغ میں جذب و اثر پیدا ہو۔ چنانچہ فرمایا۔
>حقیقت یہی ہے کہ اسی قوم کے دن زندہ ہوتے ہیں جس کی راتیں زندہ ہوں۔ جو لوگ ذکر الٰہی کی قدر و قیمت کو نہیں سمجھتے ان کا مذہب کے ساتھ وابستگی کا دعویٰ محض ایک رسمی چیز ہے۔ کئی نوجوان ایسے ہوتے ہیں جو تبلیغ بڑے جوش سے کرتے ہیں چندوں میں بھی شوق سے حصہ لیتے ہیں مگر ذکر الٰہی کے لئے مساجد میں بیٹھنا اور اخلاق کی درستی کے لئے خاموش بیٹھنا ان پر گراں ہوتا ہے اور جو وقت اس طرح گزرے اسے وہ سمجھتے ہیں کہ ضائع گیا` اسے تبلیغ پر صرف کرنا چاہئے تھا۔ ایسے لوگ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ تلوار اور سامان جنگ کے بغیر لڑائی نہیں جیتی جاسکتی۔ جس طرح لڑائی کے لئے اسلحہ اور سامان جنگ کی ضرورت ہے اسی طرح تبلیغ بھی بغیر سامانوں کے نہیں ہوسکتی۔ تبلیغ کے میدان جنگ کے لئے ذکر الٰہی آرسنل اور فیکٹری ہے اور جو مبلغ ذکر الٰہی نہیں کرتا وہ گویا ایک ایسا سپاہی ہے جس کے پاس تلوار نیزہ یا کوئی اور اسلحہ نہیں۔ ایسا مبلغ جس چیز کو تلوار یا اپنا ہتھیار سمجھتا ہے وہ کرم خوردہ لکڑی کی کوئی چیز ہے جو اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ آخر یہ کیا بات ہے کہ وہی دلیل محمد مصطفیٰ~صل۱~ دیتے تھے اور دل پر اثر کرتی تھی لیکن وہی دلیل دوسرا پیش کرتا ہے لیکن سننے والا ہنس کر گزر جاتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ کیا بے ہودہ باتیں کررہا ہے۔ یہ فرق کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ اس شخص کے پاس جو ہتھیار ہے وہ لکڑی کا کرم خوردہ ہتھیار ہے۔ مگر محمد مصطفیٰ~صل۱~ کے پاس لوہے کی ایسی تیز تلوار تھی جو ذکر الٰہی کے کارخانے سے تازہ ہی بن کر نکلی تھی۔ کیا وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی باتوں میں جو اثر تھا وہ دوسروں کی باتوں میں نہیں۔ ہمارے مبلغوں کی تقریروں میں وہ اثر نہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ جس مبلغ کی تقریر کو ذکر الٰہی نے تلوار نہیں بنایا ہوتا۔ اس کے ہاتھ میں لکڑی کا کرم خوردہ ہتھیار ہے جسے گھن لگا ہوا ہے۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ہاتھ میں جو تلوار تھی وہ ذکر الٰہی کے کارخانہ سے نئی نئی بن کر آئی تھی۔ جسے نہ کوئی زنگ لگا تھا نہ چربی وغیرہ کوئی چیز لگی تھی۔ مبلغ جو تلوار استعمال کرتا ہے وہ کسی پرانی فیکٹری میں بنی ہوئی ہوتی ہے۔ جسے دندانے اور نشان وغیرہ پڑچکے ہیں اور جو پہلے استعمال ہوچکنے کی وجہ سے خراب ہوچکی ہے اور پرانی ہونے کی وجہ سے اس کے ہینڈل کو کیڑا لگا ہوا ہے۔ یہ اسے مارتا ہے تو بجائے دوسرے کو نقصان پہنچانے کے خود ہی ٹوٹ کر گر جاتی ہے۔ دوسرے پر اثر تبلیغ اور دلیل سے ہی نہیں پڑتا بلکہ اس کے پیچھے جو جذبہ ہوتا ہے اس کا اثر ہوتا ہے ایک بزرگ کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جہاں وہ رہتے تھے اس محلہ میں ایک بہت فسادی اور شریر آدمی تھا جو ہر وقت عیاشی میں مصروف رہتا اور دین سے ہمیشہ مذاق کرتا تھا وہ اسے بہت سمجھاتے تھے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا۔ وہ بزرگ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حج کے لئے گیا تو اسے دیکھا کہ نہایت عجز و انکسار کی حالت میں طواف کررہا ہے۔ جب فارغ ہوئے تو اس بزرگ نے اس سے دریافت کیا کہ یہ کیا بات ہے کہ تم حج کے لئے آگئے؟ تم تو دین سے مذاق کیا کرتے تھے اور کسی نصیحت کا تم پر اثر ہی نہ ہوتا تھا۔ اس نے کہا۔ میری ہدایت کا واقعہ یہ ہے کہ ایک دفعہ میں بازار میں جارہا تھا۔ عیاشی کے خیالات میں محو تھا اور عیش و طرب کے مرکز کی طرف ہی جارہا تھا کہ ایک مکان میں کوئی شخص قرآن شریف بلند آواز سے پڑھ رہا تھا کہ آیت الم یان للذین امنوا ان تخشی قلوبھم لذکر اللہ میرے کان میں پڑی۔ یعنی کیا مومنوں کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ جب ان کے دل خداتعالیٰ کے ذکر کے لئے نرم ہو جائیں اور وہ ذکر الٰہی شروع کر دیں۔ اس آواز میں ایسا سوز و گداز اور ایسی محبت تھی کہ مجھے یوں معلوم ہوا کہ وہ دنیا میں سے کسی انسان کی آواز نہ تھی۔ اس آواز کو سنتے ہی میں گویا اڑ کر کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ اسی وقت گھر آیا اور عیش و طرب کے سب سامان توڑ ڈالے اور حج کے لئے روانہ ہوگیا۔ یہ قرآن کی وہی آیت ہے جو کئی لوگ پڑھتے اور سنتے ہیں مگر ان پر کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ لیکن یہی آیت جب ایک ایسے دل سے نکلی جو ذکر الٰہی سے سرسبز اور شاداب تھا تو سننے والے پر ایسا اثر کیا کہ اس کی زندگی میں گویا ایک انقلاب پیدا کردیا۔
اسی طرح ایک اور بزرگ کا واقعہ ہے کہ کسی شہر میں بادشاہ کا کوئی درباری رہتا تھا جس کے ہاں شب و روز گانا بجانا ہوتا اور محلہ والے سخت تنگ آچکے تھے۔ محلہ کے لوگ اس بزرگ کے پاس گئے اور کہا کہ اس طرح رات بھر شور وشر کی وجہ سے عبادت میں خلل پڑتا ہے اگر عبادت کرنا چاہیں تو شور کی وجہ سے نہیں کرسکتے اور اگر سونا چاہیں کہ تہجد کے وقت اٹھیں گے تو شور کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔ ان حالات میں ہم لوگ کیا کریں؟ کئی لوگ اس درباری کو سمجھاتے رہے وہ بزرگ بھی پیغام بھیجتے رہے مگر اس پر کوئی اثر نہ ہونا تھا اور نہ ہوا۔ آخر جب لوگوں نے اس درباری سے کہا کہ اب سختی سے تمہارا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ اس نے جواب دیا کہ تم میرا کیا مقابلہ کرسکتے ہو؟ تم جانتے نہیں کہ میں بادشاہ کا درباری ہوں۔ میں بادشاہ سے کہہ کر کل یہاں پولیس مقرر کرا دوں گا۔ پھر تم کو اچھی طرح پتہ لگ جائے گا۔ اس بزرگ نے کہا کہ تم پولیس مقرر کرالو گے تو ہم بھی مقابلہ کریں گے۔ اس نے جواب دیا کہ بڑے آئے مقابلہ کرنے والے۔ تمہارے پاس کیا رکھا ہے؟ جس سے بادشاہ کی فوجوں کا مقابلہ کرو گے؟ اس بزرگ نے کہا کہ ہم تو راتوں کے تیروں سے مقابلہ کریں گے۔ اس بزرگ کو دعائوں کی طاقت اور اپنی دعائوں کی قبولیت کا جو یقین تھا اس کا یہ اثر ہوا کہ ان کے مونہہ سے یہ بات نکلنے کے ساتھ ہی اس درباری کی چیخیں نکل گئیں۔ اس نے فوراً حکم دیا کہ سارنگیاں وغیرہ توڑ دی جائیں۔ اور اس بزرگ سے کہا کہ راتوں کے تیروں کا مقابلہ ہم واقعی نہیں کرسکتے۔ تو ذکر الٰہی کی طاقت سے بات میں بہت زیادہ اثر پیدا ہو جاتا ہے۔ دیکھو قرآن کریم وہی تھا مگر مسلمان اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے اس لئے کہ ان کے دلوں میں حقیقی ایمان نہ تھا۔ مگر وہی قرآن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ میں آکر کس طرح اسلام کے دشمنوں کو تہس نہس کررہا ہے اور چاروں طرف مردے ہی مردے نظر آتے ہیں۔ یہ اس لئے ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ ذکر الٰہی کی طاقت تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وفات مسیحؑ کے جو دلائل پیش فرمائے ہیں ان میں بیس تیس بلکہ اور سو کا اضافہ بھی بے شک کرلو لیکن اگر ذکر الٰہی نہیں تو ان تمام دلائل اور انہیں بیان کرنے والے مبلغوں کا کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔ اثر زبان نہیں دل کا جذبہ کرتا ہے۔ خالی زبانی باتوں سے کچھ نہیں بنتا۔ اس میں شبہ نہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے عقل دی ہے اور وہ معقول بات کو ہی قبول کرتا ہے لیکن صرف بات کا معقول ہونا ہی اثر نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کے ساتھ محبت اور سنجیدگی نہ ہو۔ بات معقول بھی ہو اور پھر اس کے ساتھ محبت اور سنجیدگی بھی ہو تب اثر ہوتا ہے۔ اخلاص اور محبت کے بغیر کوئی اثر نہیں ہوسکتا۔ اس لئے رسول کریم~صل۱~ نے فرمایا ہے کہ الدین النصح یعنی دین اور اخلاص ایک چیز ہے۔ جب تک اخلاص نہیں دین بھی نہیں اور جب اخلاص مٹے گا دین بھی مٹ جائے گا<۔۵۲
چینی مسلمانوں کے نمائندہ شیخ عثمان صاحب قادیان میں
چین کے مسلمانوں کی ایک مرکزی تنظیم >نیشنل اسلامک سالویشن فیڈریشن<۵۳ کے نام سے قائم تھی جس کے نمائندہ شیخ عثمان صاحب نظارت دعوت و تبلیغ کی تحریک پر لاہور سے یکم اخاء ۱۳۲۱ہش )اکتوبر ۱۹۴۲ء( کو قادیان آئے۔ آنریبل چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب کی کوٹھی بیت الظفر میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ بعض احباب سے انگریزی اور چینی میں گفتگو کی۔ جزائر شرق الہند کے احمدی نوجوانوں سے بھی ملے اور بہت خوش ہوئے۔ اس ملاقات کے بعد آپ نے مرکزی ادارے دیکھے۔ شام کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بیت الظفر میں انہیں اور بعض دوسرے معززین کو دعوت افطاری دی اور دعوت سے قبل انگریزی میں مسلمانان چین کے مذہبی تمدنی اور معاشرتی حالات سے متعلق گفتگو فرماتے رہے۔۵۴
دوسرے روز )۲۔ اخاء کو( آپ نے ۲/۱ ۹ بجے صبح تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال زیر صدارت حضرت مفتی محمد صادق صاحب مسلمانان چین کے کوائف پر لیکچر دیا۔ بعد ازاں آپ قصر خلافت میں آئے جہاں حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے آپ کی درخواست پر الوداعی ملاقات کا شرف بخشا اور آپ ۱۱ بجے واپس لاہور روانہ ہوگئے۔
شیخ عثمان صاحب حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی زیارت سے بہت متاثر تھے چنانچہ انہوں نے خود ہی بعض دوستوں کو بتایا کہ حضور کی شخصیت نے میرے دل پر بہت گہرا اثر کیا ہے` آپ بہت ہی قابل تعریف شخصیت ہیں اور آپ کی معلومات نہایت وسیع ہیں۔ آپ ہر ایک اہم موضوع پر نہایت عمدگی کے ساتھ عالمانہ گفتگو فرماسکتے ہیں اور کئی زبانوں سے واقف ہیں۔۵۵
ہندوستان میں پیغام حق کی منظم اشاعت کیلئے >تبلیغ خاص< کی تحریک
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو دوسری جنگ عظیم کے دوران میں اس طرف توجہ ہوئی کہ اب تک جماعت احمدیہ
انفرادی رنگ میں تبلیغ کرتی رہی ہے۔ اب اسے اجتماعی تبلیغ کا رنگ اختیار کرنا چاہئے اور جنگ کے خاتمہ سے پہلے ہندوستان میں تبلیغ احمدیت کے لئے پورا زور لگا دیا جائے اور جونہی جنگ ختم ہو اور بیرونی رستے کھلیں تو غیر ممالک پر روحانی اور تبلیغی حملہ کر دیا جائے تا دنیا میں جو خلا پیدا ہو وہ احمدیت کے ذریعہ باسانی پورا کیا جاسکے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>گو ہندوستان سے باہر مبلغ نہیں بھیجے جاسکتے مگر جنگ کے بعد بہت ضرورت ہوگی فی الحال ہمیں ہندوستان میں ہی تبلیغ کے کام کو بڑھانا چاہئے اور باہر کا جو رستہ بند ہوچکا ہے اس کا کفارہ یہاں ادا کرنا ضروری ہے۔ پس کیوں نہ ہم یہاں اتنا زور لائیں کہ جماعت میں ترقی کی رفتار سوائی یا ڈیوڑھی ہو جائے اور دو تین سال میں ہی جماعت دوگنی ہو جائے۔ جب تک ترقی کی یہ رفتار نہ ہو کامیابی نہیں ہوسکتی۔ ہمارے سامنے بہت بڑا کام ہے۔ پونے دو ارب مخلوق ہے جس سے ہم نے صداقت کو منوانا ہے اور جب تک باہر کے راستے بند ہیں ہندوستان میں ہی کیوں نہ کوشش زیادہ کی جائے<۔۵۶
اس مقصد کے مدنظر حضور نے ۶۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء/ ماہ اخاء ۱۳۲۱ہش کے خطبہ جمعہ میں ہندوستان کے چپہ چپہ تک پیغام احمدیت پہنچانے کے لئے ایک تبلیغ خاص کی نہایت اہم تحریک فرمائی جس کے دو حصے تھے۔ اول۔ غیر احمدی علماء` امراء اور مشائخ کے نام خطبہ نمبر >الفضل< اور >سن رائز< کے ہزار ہزار پرچے جاری کرائے جائیں۔ دوم۔ ملک کے بااثر اور مقتدر طبقہ کو خطوط کے ذریعہ بھی بار بار تبلیغ کی جائے۔۵۷
تبلیغ خاص کی اس نئی تحریک کی تفصیلات پر حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ میں روشنی ڈالی۔
>انبیاء کی جماعتیں جب حقیقی تبلیغ کے لئے اٹھتی ہیں تو دیوانگی کا رنگ رکھتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں یہ لوگ پاگل ہیں۔ وہ بھی کہتے ہیں کہ ہاں ہم پاگل ہیں۔ مگر اس جنون سے پیاری چیز ہمیں اور کچھ نہیں۔ مگر اس دن کے آنے سے پہلے تبلیغ میں تیزی کی ضرورت ہے سمندر کو ایک دن میں کوئی شخص پار نہیں کرسکتا جو اسے پار کرنا چاہے پہلے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس کے قریب کرے۔ ایک چھلانگ میں ہی کوئی اس تک نہیں پہنچ سکتا پس پہلے اس کے لئے تیاری کی ضرورت ہے۔
اس سلسلہ میں میں نے یہ تجویز کی ہے کہ سردست ضرورت ہے کہ ایک حد تک اس طبقہ میں جو علماء اور رئوساء اور امراء یا پیروں اور گدی نشینوں کا طبقہ ہے اس تک باقاعدہ سلسلہ کا لٹریچر بھیجا جائے >الفضل< کا خطبہ نمبر یا انگریزی دان طبقہ تک >سن رائز< جس میں میرے خطبہ کا انگریزی ترجمہ چھپتا ہے باقاعدہ پہنچایا جائے۔ تمام ایسے لوگوں تک ان کو پہنچایا جائے جو عالم ہیں یا امراء اور رئوساء یا مشائخ میں سے ہیں اور جن کا دوسروں پر اثر و رسوخ ہے اور اس کثرت سے ان کو بھیجیں کہ وہ تنگ آکر یا تو اس طرف توجہ کریں اور یا مخالفت کا بیڑہ اٹھائیں اور اس طرح تبلیغ کے اس طریق کی طرف آئیں جسے آخر ہم نے اختیار کرنا ہے۔ لٹریچر اور >الفضل< کا خطبہ نمبر یا >سن رائز< بھیجنے کے علاوہ ایسے لوگوں کو خطوط کے ذریعہ بھی تبلیغ کی جائے اور بار بار ایسے ذرائع اختیار کرکے ان کو مجبور کر دیں کہ یا تو وہ صداقت کی طرف توجہ کریں اور تحقیق کرنے لگیں۔ اور یا پھر مخالفت شروع کردیں۔ مثلاً ایک چٹھی بھیج دی۔ پھر کچھ دنوں کے بعد اور بھیجی۔ پھر کچھ انتظار کے بعد اور بھیج دی جس طرح کوئی شخص کسی حاکم کے پاس فریاد کرنے کے لئے اسے چٹھی لکھتا ہے مگر جواب نہیں آتا تو اور لکھتا ہے۔ پھر وہ توجہ نہیں کرتا تو ایک اور لکھتا ہے۔ حتیٰ کہ وہ افسر توجہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ پس تکرار کے ساتھ علماء اور امراء و روساء مشائخ نیز راجوں مہاراجوں نوابوں اور بیرونی ممالک کے بادشاہوں کو بھی چٹھیاں لکھی جائیں۔ اگر کوئی شکریہ ادا کرے تو اس پر خوش نہ ہو جائیں اور پھر لکھیں کہ ہمارا مطلب یہ ہے کہ آپ اس کی طرف توجہ کریں۔ جو اب نہ آئے تو پھر چند روز کے بعد اور لکھیں کہ اس طرح آپ کو خط بھیجا گیا تھا مگر آپ کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ پھر کچھ دنوں تک انتظار کے بعد اور لکھیں حتیٰ کہ یا تو وہ بالکل ایسا ڈھیٹ ہو کہ اس کے دل پر مہر لگی ہوئی ہے اور اس کی طرف سے اس کے سیکرٹری کا جواب آئے کہ تم لوگوں کو کچھ تہذب نہیں بار بار دق کرتے ہو۔ راجہ صاحب نے یا پیر صاحب نے خط پڑھ لیا اور وہ جواب دینا نہیں چاہتے اور یا پھر اس کی طرف سے جواب آئے کہ آئو جو سنانا چاہتے ہو سنالو۔ اس رنگ میں تبلیغ کے نتیجہ میں کچھ لوگ غور کے لئے تیار ہو جائیں گے مگر اس وقت تو یہ حالت ہے کہ غور کرتے ہی نہیں۔ پس اب اس رنگ میں کام شروع کرنا چاہئے اس کے لئے ضرورت ہے ایسے مخلص کارکنوں کی جو اپنا وقت اس کام کے لئے دے سکیں۔ بہت سی چٹھیاں لکھنی ہوں گی۔ چٹھیاں چھپی ہوئی بھی ہوسکتی ہیں مگر پھر بھی ان کو بھیجنے کا کام ہوگا۔ اگر جواب آئے تو ان کا پڑھنا اور پھر ان کے جواب میں بعض چٹھیاں دستی بھی لکھنی پڑیں گی۔ بعض چٹھیوں کے مختلف زبانوں میں تراجم کرنے ہوں گے اور یہ کافی کام ہوگا۔ اس کے لئے جن دوستوں کو اللہ تعالیٰ توفیق دے وہ اس کام میں مدد دیں۔ پھر جو دوست >الفضل< کا خطبہ نمبر اور >سن رائز< دوسروں کے نام جاری کراسکیں وہ اس رنگ میں مدد دیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ امداد دینے والے دوست اپنے نام میرے سامنے پیش کریں میں خود تجویز کروں گا کہ کن لوگوں کے نام یہ پرچے جاری کرائے جائیں۔ پھر اس سلسلہ میں اور جو دوست خدمت کے لئے اپنے نام پیش کرنا چاہیں وہ بھی کر دیں۔ ان کے ذمہ کام لگا دیئے جائیں گے۔ مثلاً یہ کہ فلاں قسم کے خطوط فلاں کے پاس جائیں اور ان کے جواب بھی وہ لکھیں۔ اس کام کی ابتداء کرنے کے لئے میں نے ایک خط لکھا ہے جو پہلے اردو اور انگریزی میں اور اگر ضرورت ہوئی تو دوسری زبانوں میں بھی ترجمہ کرا کے دنیا کے بادشاہوں اور ہندوستان کے راجوں مہاراجوں کی طرف بھیجا جائے گا۔ اس قسم کے خطوط بھی وقتاً فوقتاً جاتے رہیں۔ مگر اصل چیز >الفضل< کا خطبہ نمبر یا >سن رائز< ہے جو ہر ہفتہ ان کو پہنچتا رہے اور چونکہ خطبہ کے متعلق مسنون طریق یہی ہے کہ وہ اہم امور پر مشتمل ہو اس لئے اس میں سب مسائل پر بحثیں آجاتی ہیں۔ اس میں سلسلہ کے مسائل بھی ہوتے ہیں۔ جماعت کو قربانی کی طرف بھی توجہ دلائی جاتی ہے اور مخالفوں کا ذکر بھی ہوتا ہے اور اس طرح جس شخص کو ہر ہفتہ یہ خطبہ پہنچتا رہے احمدیت گویا ننگی ہوکر اس کے سامنے آتی رہے گی اور وہ بخوبی اندازہ کرسکتا ہے کہ اس جماعت کی امنگیں اور آرزوئیں کیا ہیں؟ کیا ارادے ہیں؟ یہ کیا کرنا چاہتے ہیں؟ دشمن کیا کہتا ہے اور یہ کس رنگ میں اس کا مقابلہ کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں؟ اگر اس رنگ میں کام شروع کیا جائے تو ایک شور مچ سکتا ہے۔ اگر دو ہزار آدمی بھی ایسے ہوں جن کے پاس ہر ہفتہ سلسلہ کا لٹریچر پہنچتا ہے تو بہت اچھے نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ان لوگوں کو چٹھیاں بھی جاتی رہیں اور ان سے پوچھا جائے کہ آپ ہمارا لٹریچر مطالعہ کرتے ہیں یا نہیں؟ اگر کوئی کہے نہیں تو اس سے پوچھا جائے کیوں نہیں؟ یہ پوچھنے پر بعض لوگ لڑیں گے اور یہی ہماری غرض ہے کہ وہ لڑیں یا سوچیں۔ جب کسی سے پوچھا جائے گا کہ کیوں نہیں پڑھتے؟ تو وہ کہے گا کہ یہ پوچھنے سے تمہارا کیا مطلب ہے؟ تو ہم کہیں گے کہ یہ پوچھنا ضروری ہے کیونکہ یہ خداتعالیٰ کی آواز ہے جو آپ تک پہنچائی جارہی ہے۔ اس پر وہ یا تو کہے گا سنالو اور یا پھر کہے گا کہ میں نہیں مانتا اور جس دن کوئی کہے گا کہ جائو میں نہیں مانتا اسی دن سے وہ خداتعالیٰ کا مدمقابل بن جائے گا اور ہمارے رستہ سے اٹھا لیا جائے گا۔ جن لوگوں تک یہ آواز ہم پہنچائیں گے ان کے لئے دو ہی صورتیں ہوں گی یا تو ہماری جو رحمت کے فرشتے ہیں سنیں اور یا پھر ہماری طرف سے منہ موڑ کر خداتعالیٰ کے عذاب کے فرشتوں کی تلوار کے آگے کھڑے ہو جائیں۔ مگر اب تو یہ صورت ہے کہ نہ وہ ہمارے سامنے ہیں اور نہ ملائکہ عذاب کی تلوار کے سامنے بلکہ آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ نہ تو وہ خداتعالیٰ کی تلوار کے سامنے آتے ہیں کہ وہ انہیں فنا کردے اور نہ اس کی محبت کی آواز کو سنتے ہیں کہ ہدایت پا جائیں۔ اب تو وہ ایک ایسی چیز ہیں جو اپنے مقام پر کھڑی ہے اور وہاں سے ہلتی نہیں۔ لیکن نئی تعمیر کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسے وہاں سے ہلایا جائے۔ یا تو وہ ہماری طرف آئے اور یا اپنی جگہ سے ہٹ جائے<۔۵۸
اسی ضمن میں حضورؓ نے اپنے ایک دوسرے خطبہ میں ان اخبارات کو اور ان کے متعلقہ محکموں کو ہدایت فرمائی کہ وہ اپنے پرچوں کو زیادہ سے زیادہ مکمل اور دلچسپ بنانے کی کوشش کریں اور مواد اس طرح مرتب کریں کہ اسلام اور احمدیت کا صحیح نقشہ پڑھنے والوں کے سامنے آجائے اور ساتھ ہی اہل قلم اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ۔
>وہ مختصرعبارتوں میں ایسے مضامین لکھیں کہ جن سے یہ پرچے زیادہ دلچسپ اور زیادہ مفید بن سکیں اورلوگوں کی توجہ تبلیغ کی طرف کھینچ سکے۔ خالی دلچسپی بھی کوئی چیز نہیں۔ یہ تو بھانڈپن ہی ہے بلکہ دلچسپی کامطلب یہ ہے کہ دین کے معاملات کو ایسی عمدگی اور خوبصورتی سے پیش کیاجائے کہ لوگوں کے دل انکی طرف مائل ہوں۔ قرآن کریم سے زیادہ دلچسپ کتاب اور کوئی نہیں ہوسکتی مگراس میں کھیل تماشے کی کوئی بات نہیں۔ پھربھی کافر یہ کہتے تھے کہ کانوں میں انگلیاں ڈال لو۔ خوب شور مچائو تایہ کلام کانوں میں نہ پڑے اور آنحضرت~صل۱~ کو ساحر اور قرآن کریم کوسحر کہتے تھے۔ یہ دلچسپی کی ہی بات ہے اور اسکا مطلب یہی ہے کہ جو سنے اس پر ضرور اثر ہوتا ہے بشرطیکہ اسکے دل میں خدا کاخوف ہو<۔۵۹
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی دوسری تحریکوں کی طرح یہ تحریک بھی بہت کامیاب رہی اور مخلصین جماعت نے چند ہفتوں کے اندر اندر >الفضل< اور >سن رائز< کے پرچوں کے لئے مطلوبہ رقم پیش کر دی۔۶۰ اسی طرح کئی احمدی خطوط کے ذریعہ تبلیغ کرنے کی مہم میں شامل ہوگئے۔ اس تحریک کے بہت عمدہ اور خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔
حضرت امیرالمومنین سے پروفیسر سید اختر احمد صاحب اورینوی کی ایک اہم ملاقات
اخاء ۱۳۲۱ہش )اکتوبر ۱۹۴۲ء( کا واقعہ ہے کہ پٹنہ کے مشہور ادیب پروفیسر سید اختر احمد صاحب اورینوی کو اشتراکیت اور اشتمالیت کے مطالعہ
کے دوران اسلام کے معاشی نظام کے متعلق بعض الجھنیں پیدا ہوچکی تھیں اور آپ ان کوحل کرنے کے لئے مختلف علماء سے تبادلہ خیالات بھی کرچکے تھے مگر آپ کا ذہن تسلی نہ پاسکا تھا۔ آخر آپ اس پریشانی کے عالم میں اپنے مسائل کی عقدہ کشائی کے لئے حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے حضور نے آدھ گھنٹہ کی گفتگو۶۱ سے ان مسائل پر ایسے موثر انداز میں روشنی ڈالی کہ فکر و خیال کے نئے نئے زاویے کھل گئے اور ان کی ذہنی منزلیں آسان ہوگئیں اور جب حضور کے لیکچر >نظام۶۲ نو< اور >اسلام۶۳ کا اقتصادی نظام< اشاعت پذیر ہوئے تو ان کی بصیرت میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔
اس اہم ملاقات کی تفصیل خود پروفیسر صاحب موصوف کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔ آپ تحریر فرماتے ہیں۔
>اکتوبر ۱۹۴۲ء کی بات ہے میں پٹنہ سے قادیان کے لئے روانہ ہوا۔ علی گڑھ` دہلی اور لاہور ہوتا ہوا دارالامان پہنچا اور مہمان خانہ میں ٹھہرا۔ میرے ذہن و دماغ میں کئی اہم سوالات اضطراب پیدا کررہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ذہن میں جو عقدے تھے اور دل میں جو اضطراب تھا وہ اقتصادی مسائل کے متعلق تھا میں نے گزشتہ سالوں میں معاشی` صنعتی اور سماجی تنظیم کے متعلق اشتراکی اشتمالی` فسطائی اور سرمایہ دارانہ نظریوں کا مطالعہ کیا تھا۔ ۱۹۴۲ء میں فسطائیت نے دنیا کو آگ اور خون کی نذر کررکھا تھا۔ سرمایہ دارانہ جمہوریتیں اور اشتمالی جمہوریت روس جسے ریاستی معاشیاتی آمریت بھی کہہ سکتے ہیں` فسطائیت کا مقابلہ کررہی تھی۔ سرخ فوج کی جرات اور پامردی نے ذہنوں اور تخیل کو گہرے طور پر متاثر کیا تھا میں روس کی اشتمالی تنظیم سے بہت متاثر ہورہا تھا اور یہ محسوس کرنے لگا تھا کہ مذہب دشمنی سے قطع نظر اشتمالیت کی معاشی اور صنعتی تنظیم کا پروگرام فلاکت زدہ انسانیت کے درد کا درماں ہے۔ سرمایہ داری تو بہت ہی رسوا طور پر ناکامیاب ثابت ہوچکی تھی۔ فسطائیت درد کا درماں نہیں بلکہ تجدید درد تھی۔ سرمایہ داری اور فسطائیت دونوں انسانیت آزار اور محبت کش انتہا پسندانہ وطنیت کے شعلوں کو بھڑکارہی تھی مگر اشتمالیت بین القومیت کا خیال پیش کرتی تھی۔ سب کچھ تھا مگر اشتمالیت بے دین خدا دشمن اور دہریت پسند تھی اور فسطائیت بھی بے دین` خدا ناآشنا اور مادیت نہاد تھی اور سرمایہ دارانہ جمہوریت بھی منافقانہ` بے یقین` سطحی` کاروباری مذہبیت کا ڈھونگ رچائے ہوئے تھی اور میں اسلامی اقتصادیات کی واضح شکل نہیں دیکھ سکا تھا اور اس کی روح کو بھی نہیں سمجھ پایا تھا۔ لہذا میں متردد اور متلاشی تھا اور اس آزار جستجو کے درماں آفرین کے پاس پہنچنا چاہتا تھا۔
میں لاہور احمدیہ ہوسٹل میں چند ٹھہرا۔ وہاں خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے بعض نوجوانوں سے ملنے کا موقعہ ملا۔ ان سے میں نے اپنا عندیہ ظاہر کیا۔ سبھوں نے اس موضوع سے دلچسپی لی اور میرے سفر قادیان اور حضرت امام ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے ہدایت جوئی کے ارادہ کو بہت پسند کیا۔ اس وقت تک اسلام کا اقتصادی نظام تفصیلات کے ساتھ جماعت کے سامنے نہیں آیا تھا۔ >احمدیت یعنی حقیقی اسلام< میں خود حضرت امام ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ کو چھیڑا تھا اور اس پر نظر ڈالی تھی لیکن حلقہ جماعت میں عالمی نظام ہائے معاشیات کی روشی میں اس مسئلے پر بحث و نظر نہیں ہوئی تھی۔ احمدیہ علم الکلام نے بہت سے مسائل کے باب میں اغیار کے مقابلہ میں فتحیں حاصل کی تھیں مگر اس میدان میں ابھی کھل کے لڑائی نہیں لڑی گئی تھی۔ متکلمین احمدیت` دانشوران جماعت` اس کے ذہین طبقے اور جمہور احمدی ہنوز اسلام کی معاشیاتی تعلیمات کا مقابلہ و موازنہ دوسرے نظاموں کے اصول سے اچھی طرح نہیں کرپائے تھے۔ دوسری طرف ملک کے تعلیم یافتہ طبقے میں کسان اور مزدوروں کے درمیان معاشی مسئلے چھڑے ہوئے تھے اور دوسری عالمگیر جنگ نے عوام الناس اور دانشوروں کے احساسات و جذبات اور ذہن و ادارک کو اس طرف شدت سے منعطف کر دیا تھا۔
میں نے اس سے پہلے بھی بعض علمائے جماعت سے اپنی تشفی کرنا چاہی تھی مگر مجھے تسلی نہیں ملی تھی۔ قادیان پہنچ کر بھی میں نے بعض علماء سے ملاقاتیں کیں مگر مجھے شرح صدر نہ ہوا میں حضرت امیرالمومنین کے سامنے جاکر تفصیلی سوال کرنے سے جھجک رہا تھا۔ دل میں خلش جستجو بھی تھی اور رعب خلافت بھی عجیب کشاکش کا عالم تھا۔ میں نے اپنی الجھن کا تذکرہ حضرت سید مختار احمد صاحب۔ جناب ملک غلام فرید صاحب اور مولوی علی احمد صاحب پروفیسر سے کیا۔ ان بزرگوں نے مجھے اس بات پر مجبور کر دیا کہ میں حضرت امام سے ضرور مذکورہ مسئلہ کے بارہ میں جماعت کی فلاح کی خاطر رہبری حاصل کروں۔ اس کے باوجود محمود کے سامنے جاکر سرگرم سوال ہونے کی اس ایاز کو جرات نہیں ہورہی تھی۔ میں نے پروفیسر علی احمد صاحب سے درخواست کی کہ وہ بھی میرے ساتھ دربار خلافت میں حاضر ہوں اور مجھے سہارا دیں۔
آخرش ایک روز میں نے باریاب ہونے کی اجازت حاصل کی اور پروفیسر علی احمد صاحب کی معیت میں حضرت امیرالمومنین سے ملنے >قصر خلافت< میں حاضر ہوا۔ غالباً ان دنوں مکرم عبدالرحیم صاحب درد پرائیویٹ سیکرٹری کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ہم لوگوں کی باری آئی اور ہم زینوں پر سے ہوتے ہوئے اوپر کی منزل پر گئے۔ محرابوں اور دروں پر چلمن پڑی ہوئی تھی اور برآمدہ میں مونڈھے اور کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ حضرت محمود ایدہ اللہ ان میں سے ایک کرسی پر رونق افروز تھے۔ جیسے ہی ہم آخری زینے طے کرتے ہوئے بالائی منزل پر پہنچے۔ آپ ہمارے استقبال کے لئے کھڑے ہوگئے اور از راہ محبت و خادم نوازی خندہ پیشانی کے ساتھ آگے پڑھتے چلے آئے۔ ہم نے بھی بڑھ کر دلی جذبات کے ساتھ مصافحہ کیا۔ اللہ اللہ! کتنا کرم تھا` کیسی محبت تھی! کتنی سادگی! امیرالمومنین خلیفتہ المسیحؑ اپنے خادموں کے ساتھ مساوات` اخوت و محبت کا برتائو اس فطری انداز میں کررہے تھے کہ میری جھجک کا فور ہوگئی اور میں اب اس قابل تھا کہ اپنے دل کی گرہیں اور ذہن کے عقدے عقدہ کشا کے سامنے پیش کردوں۔ میں حضرت امیرالمومنین سے جلسہ سالانہ کے دنوں میں ملتا رہا تھا۔ مگر ان موقعوں پر بہار کی جماعت کے ساتھ باریابی ہوا کرتی تھی۔ ہمارا امام جماعتوں کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر شرف ملاقات عطا کرتا تھا۔ وہ دلکش مسکراتا ہوا چہرہ سب کے لئے ابدی مسرت کا سامان ہوتا تھا۔ اجتماعی ملاقاتوں کے علاوہ مجھے اس سے پہلے انفرادی ملاقات کا موقعہ نہیں ملا تھا اور انفرادی ملاقات بھی اس رنگ کی کہ حضرت امیرالمومنین سے ایک نہایت ہی اہم موضوع کے متعلق شرح صدر کے لئے گفتگو کرنے کی جرات کرنی لیکن حضرت امام نے ایسی خوشگوار فضا پیدا کر دی کہ میری ہمت بڑھ گئی اور میرے محبت آمیز اعتماد کو اتنی تقویت پہنچی کہ میں نے حضرت امیرالمومنین سے اشتمالی نظام کے متعلق باتیں شروع کیں۔
میں نے مختصر تمہید کے بعد الجھنیں حضرت امیرالمومنین کے سامنے پیش کیں اور تسلی چاہی حقیقت یہ ہے کہ میں نے اپنی دقتوں کی وضاحت بھی نہیں کی تھی کہ مصلح موعود نے اپنی غیر معمولی خداداد بصیرت کی وجہ سے سب کچھ سمجھ لیا اور ظاہری و باطنی علوم کی مہارت کے سبب اپنی تقریر اس رنگ میں شروع کی اور اس دل نشین انداز میں عقدہ کشائی فرماتے رہے کہ نہ صرف میرے ذہن و دماغ کے پردے اٹھتے چلے گئے بلکہ دل کو بھی نہایت تسکین و طمانیت حاصل ہوئی۔ آدھ گھنٹہ حضور متانت و محبت سے باتیں کرتے رہے اور ہم )میں اور پروفیسر علی احمد صاحب( بیٹھے سنتے رہے۔ مجھے ایسا معلوم ہورہا تھا کہ حضر میرے دل و دماغ سے مرکزی اور بنیادی سوالات چنتے جاتے ہیں اور ان کے جوابات تشفی بخش اور دلکشا طور پر دیتے جاتے ہیں۔
دعائے مسیحؑ اور وعدہ خدائے ذوالجلال کے مطابق مصلح موعود بننے والے فوق فطرت طور پر اس ذہین و فطین شخص نے اشتمالیت اور اسلام کا اصولی مقابلہ و موازنہ تاریخ عالم کی روشنی اور علم النفس کی شہادتوں کے ساتھ کیا۔
حضرت محمود نے اشتمالیت کی دو خصوصیات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اشتمالیت جبر کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کرنا چاہتی ہے۔ وہ جبر سے اہل سرمایہ کی دولت چھین کر سماج پر خرچ کرتی ہے اور اپنے نظام کے قیام کے لئے بھی جبر اور قہر کو عملاً مرکزی اور بنیادی حیثیت دیتی ہے آپ نے فرمایا جبر یہ طریقہ شدید ردعمل پیدا کرتا ہے اور اس کے ظاہرا اچھے نتائج دیرپا نہیں ہوتے۔ آپ نے امریکہ میں جبریہ شراب بندی کی اسکیم کی رسوائے عالم ناکامیابی کی مثال دی اور پھر اسلامی ممانعت خمر کی کامیابی کو پیش کیا۔ اسلام نے پہلے نفسی انقلاب اور اخلاقی اصلاح کی بنیادیں مضبوط کرلیں۔ پھر شراب کو پیش کیا۔ اسلام نے پہلے انقلاب اور اخلاقی اصلاح کی بنیادیں مضبوط کرلیں۔ پھر شراب ممنوع قرار دی۔ تو یہ علت ایسی مٹی کہ تاریخ عالم میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی طرح اسلام دولت یا ذرائع پیداوار پر بالجر قبضہ کرنا پسند نہیں کرتا۔ وہ سرمایہ داری کو جبر و قہر سے مٹانے کے اصول پیش نہیں کرتا بلکہ وہ ایسی تعلیمات دیتا ہے اور معاشرہ کی ایسی روحانی اور اخلاقی اصلاح کرتا ہے کہ طوعی طور پر رفتہ رفتہ مگر یقیناً وہ ساری معاشی برکتیں حاصل ہوجاتی ہیں جن کے حصول کا دعویٰ اشتمالیت کرتی ہے اور اسلامی تعلیم سے انفرادی تخلیقی روح اور قوت مسابقت فنا بھی نہیں ہوتی اور طوعی نیکی کی وجہ سے نیکی کی صلاحیت` سماجی احساس اور انسانی دردمندی کی حس افراد معاشرہ میں بڑھتی جاتی ہے۔ برخلاف اسلام کے امیرالمومنین نے واضح کیا کہ اشتمالیت نادانستہ دماغی قوتوں کو تدریجی طور پر کچلنے کا سامان کرتی ہے۔ اول تو اس طرح کہ اشتمالیت بدنی محنت کی قدر و قیمت سب کچھ بتاتی ہے اور دماغی کام کی قدر و منزلت کو وہ مقام نہیں دیتی جو اس کا حق ہے اور دوم اس طرح کہ جبر اور میکانکی اور یکسانی کے ذریعہ روح مسابقت` دماغ اپچ` قوت ایجاد و اقدام` فیصلہ اور ارادہ کی طاقت کو مٹاتی ہے۔ دیرپا طور پر اس اشتمالی نظام کے برے نتائج ظاہر ہونے لگتے ہیں اور عاجلانہ کامیابی مستقل نامرادی میں بدل جاتی ہے` اسلام نفسیاتی اور فطری` اخلاقی اور روحانی` آزاد اور خود مختارانہ طریقوں سے معاشرہ میں مساوات` اخوت اور حریت پیدا کرتا ہے۔ اسلام نہایت لطیف اور پراثر رنگ میں تقسیم دولت کرکے موزوں معاشی مساوات پیدا کر دیتا ہے اور دماغی صلاحیتوں کی پرورش بھی کرتا ہے۔
امیرالمومنین کی دل میں گھر کرلینے والی تشریحات سے میری روح تسکین پاتی رہی اور جب حضور نے کلام ختم کیا تو میں نے ایک آخری سوال کرنے کی جرات کی۔ میں نے پوچھا اگر بلا جبر و اکراہ معاشی تنظیم کے لئے حکومت اہل محنت اور ذرائع پیداوار کے مالک طبقہ کے درمیان کچھ ایسا سمجھوتہ ہو کہ اقتصادی منصوبہ بندی ECONOMY) (PLANNED ممکن ہوسکے اور متوازی حالات پیدا ہوسکیں تاکہ ملک کی معاشی قوت ضائع نہ ہو تو یہ جائز ہوگا یا نہیں۔ حضور نے فرمایا۔ یہ طریقہ جائز ہوگا۔ اس کے بعد میں نے اور پروفیسر علی احمد صاحب نے اجازت چاہی اور قصر خلافت سے واپس ہونے کے لئے اٹھے۔ ہمارے آقا نے ہمیں نہایت ہی محبت اور خاطر داری کے ساتھ رخصت کیا<۔۶۴
مولوی محمدالدین صاحب مجاہدالبانیہ کی المناک شہادت!
اس سال کے اندوہناک واقعات میں سے مولوی محمد الدین صاحب مبلغ البانیہ و مصر کی المناک شہادت کا سانحہ بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ مولوی صاحب موصوف حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر۶۵ حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ نائجیریا سے چارج لینے کے لئے ۱۶۔ نومبر ۱۹۴۲ء/ نبوت ۱۳۲۱ہش کی شام کو قادیان سے روانہ ہوئے اور بمبئی سے ٹلاوہ نامی جہاز پر سوار ہوگئے۔ مگر بدقسمتی سے یہ جہاز محوریوں کے تارپیڈو سے غرق ہوگیا۔۶۶ اور آپ میدان جہاد میں پہنچنے سے قبل ہی عالم جوانی میں اپنے رب کے حضور سرخرو ہوکر حاضر ہوگئے۔ فانا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت سیدنا خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے ۲۷۔ دسمبر ۱۹۴۴ء/ فتح ۱۳۲۳ہش کو سالانہ جلسہ کے موقعہ پر مولوی محمد الدین صاحبؓ کی یورپ میں تبلیغی مساعی پر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>مولوی محمد الدین صاحب اگرچہ انگریزی علوم سے ناواقف تھے اور ان کو تجربہ بھی نہ تھا مگر یورپ میں تبلیغ کے زمانہ میں ایسا اعلیٰ نمونہ دکھایا کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ وہ پہلے البانیہ گئے اور وہاں تبلیغ شروع کی۔ متعدد لوگ داخل اسلام بھی ہوئے مگر مخالفین نے حکومت کے پاس شکایات کیں کہ یہ شخص مذہب کو بگاڑ رہا ہے۔ البانیہ کی حکومت مسلمان تھی۔ مسلمانوں نے شور کیا اور کنگ زدغو نے آرڈر دے دیا کہ مولوی صاحب کو وہاں سے نکال دیا جائے۔ پولیس ان کو پکڑ کر سرحد پر چھوڑ آئی۔ وہاں سے نکالے جانے پر انہوں نے پہلے یونان میں تبلیغ شروع کر دی اور میرے لکھنے پر وہاں سے یوگوسلاویہ چلے گئے۔ البانیہ کی سرحد یوگوسلاویہ سے ملتی ہے۔ میں نے انہیں لکھا کہ وہاں بھی تبلیغ کرتے رہیں اور ان کی تبلیغ سے بعض ایسے لوگ بھی احمدی ہوئے جو مسلمانوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے اور پارلیمنٹ میں مسلمانوں کے نمائندہ کی حیثیت سے شامل تھے۔ حکومت یوگوسلاویہ کو حکومت البانیہ نے توجہ دلائی اور تحریک کی کہ مولوی صاحب کو وہاں سے بھی نکال دیا جائے۔ چنانچہ انہیں وہاں سے بھی نکال دیا گیا۔ اس پر وہ اٹلی آگئے۔ اور پھر وہاں سے مصر اور وہاں سے ہندوستان واپس آگئے۔ پھر ان کو مغربی افریقہ بھیجا گیا تھا اور وہ وہاں جارہے تھے کہ ان کا جہاز ڈوب گیا<۔۶۷
‏tav.8.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
رسالہ >فرقان< کے اجراء سے لیکچر >نظام نو< تک
فصل چہارم
تحریک جدید کے جاری کرنے کی ایک اہم غرض
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ پر ماہ نبوت ۱۳۲۱ہش )نومبر ۱۹۴۲ء( میں نقرس کا شدید حملہ ہوا۔ جس کی وجہ سے چلنا تو درکنار بیٹھنا بھی قریباً ناممکن تھا۔ سوائے اس کے کہ تکیہ لگا کر اور سہارا لے کر بیٹھیں۔ ان حالات میں حضور نے ارادہ فرمایا کہ اس ماہ تحریک جدید کے سال نہم کا اعلان خطبہ جمعہ کی بجائے ایک مضمون کے ذریعہ کردیں لیکن پھر حضور کے ذہن میں بعض تاریخی واقعات اس قسم کے آئے کہ بعض جرنیلوں نے میدان جنگ میں نقرس کے درد کی حالت میں فوجوں کی کمان کی ہے اور پالکیوں میں لیٹے لیٹے لوگوں کو احکام دیئے اور فتوحات حاصل کی ہیں۔ اس پر حضور نے سوچا کہ >گو یہ ایک تکلیف دہ امر ہے کہ انسان دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر آئے اور بظاہر یہ ایک معیوب سا فعل معلوم ہوتا ہے لیکن بہرحال جب تک ہمارا مقابلہ بھی دشمن سے ایک جنگ کے رنگ میں ہی ہے اگرچہ جسمانی نہیں بلکہ روحانی جنگ ہے اور پہلے انبیاء نے بھی کہا ہے کہ آخری زمانہ میں خداتعالیٰ کے فرشتوں اور شیطان کی آخری جنگ ہوگی تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر دینوی جنگیں نقرس کے حملہ میں پالکیوں میں بیٹھ کر لڑی گئی ہیں تو میں بھی اس رنگ میں شامل نہ ہوں<۔ اس خیال کے آنے پر حضور نے فیصلہ کیا کہ >اس تکلیف کے باوجود میں خود جمعہ کے لئے جائوں اور تحریک جدید کے نئے سال کے لئے اسی رنگ میں تحریک کروں جیسے گزشتہ سالوں میں ہمیشہ تحریک کرتا چلا آیا ہوں<۔۶۸ اس فیصلہ کے مطابق حضور آرام کرسی پر بیٹھ کر )جسے چند دوستوں نے اٹھایا ہوا تھا( مسجد اقصیٰ میں تشریف لائے اور بیٹھ کر ایک نہایت لطیف اور پرجلال خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔۶۹ جس میں تحریک جدید کے سال نہم کا اعلان فرمایا اور تحریک جدید کے بنیادی اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ۔
>تحریک جدید سے میری غرض جماعت میں صرف سادہ زندگی کی عادت پیدا کرنا نہیں بلکہ میری غرض انہیں قربانیوں کے تنور کے پاس کھڑا کرنا ہے تاکہ جب ان کی آنکھوں کے سامنے بعض لوگ اس آگ میں کود جائیں تو ان کے دلوں میں بھی آگ میں کودنے کے لئے جوش پیدا ہو اور وہ بھی اس جوش سے کام لے کر آگ میں کود جائیں اور اپنی جانوں کو اسلام اور احمدیت کے لئے قربان کر دیں۔ اگر ہم اپنی جماعت کے لوگوں کو اس بات کی اجازت دے دیتے کہ وہ باغوں میں آرام سے بیٹھے رہیں تو وہ گرمی میں کام کرنے پر آمادہ نہ ہوسکتے اور بزدلوں کی طرح پیچھے ہٹ کر بیٹھ جاتے۔ مگر اب جماعت کے تمام افراد کو قربانیوں کے تنور کے قریب کھڑا کر دیا گیا ہے تاکہ جب ان سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جائے تو وہ اپنی جان کو قربان کرتے ہوئے آگ میں کود جائیں۔ چنانچہ جب قربانی کا وقت آئے گا اس وقت یہ سوال نہیں رہے گا کہ کوئی مبلغ کب واپس آئے گا۔ اس وقت واپسی کا سوال بالکل عبث ہوگا۔ دیکھ لو عیسائیوں نے جب تبلیغ کی تو اسی رنگ میں کی۔ تاریخوں کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب کوئی حواری یا کوئی اور شخص کسی علاقہ میں تبلیغ کے لئے گیا تو پھر یہ نہیں ہوا کہ وہ واپس آگیا ہو بلکہ ہم تاریخوں میں یہی پڑھتے ہیں کہ فلاں مبلغ کو فلاں جگہ پھانسی دے دی گئی اور فلاں مبلغ کو فلاں جگہ قید کر دیا گیا۔ ہمارے دوست اس بات پر خوش ہوا کرتے ہیں کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہیدؓ نے سلسلہ کے لئے اپنی جان کو قربان کر دیا حالانکہ ایک عبداللطیف نہیں جماعت کو زندہ کرنے کے لئے سینکڑوں عبداللطیف درکار ہیں جو مختلف ملکوں میں جائیں اور اپنی اپنی جانیں اسلام اور احمدیت کے لئے قربان کر دیں۔ جب تک ہر ملک اور ہر علاقہ میں عبداللطیف پیدا نہیں ہو جاتے اس وقت تک احمدیت کا رعب قائم نہیں ہوسکتا احمدیت کا رعب اسی وقت قائم ہوسکتا ہے جب سب لوگوں کو گھروں سے نکال کر ایک میدان میں قربانی کی آگ کے قریب کھڑا کر دیا جائے تاجب پہلی قربانی دینے والے قربانی دیں تو ان کو دیکھ کر خود بخود آگ میں کودنا شروع کردیں اور اسی ماحول کو پیدا کرنے کے لئے میں نے تحریک جدید جاری کی ہے<۔۷۰
ریڈیو کے متعلق حضرت امیرالمومنینؓ کی اہم وصیت
دنیا کی موجودہ بداخلاقی اور عیاشی کے پھیلانے میں جن ایجادوں کا براہ راست عمل دخل ہے ان میں سینما اور ریڈیو خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ سینما کی ایجاد مشہور سائنسدان ایڈیسن نے ۱۸۹۳ء میں کی اور ریڈیو کا موجد مارکونی تھا جس نے ۱۹۰۲ء میں یہ آلہ تیار کیا۔ یہ دونوں ایجادیں اپنی ذات میں بہت مفید تھیں مگر جدید زمانہ کی نام نہاد تہذیب و تمدن نے انہی کو بے حیائی اور فحاشی کا ذریعہ بنا دیا جس کے ہولناک نتائج اب پوری دنیا کے سامنے کھل کر آگئے ہیں۔
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کی دوربین نگاہ نے مدتوں قبل ہی سینما کی بڑھتی ہوئی رو کے عواقب و اثرات بھانپ لئے تھے اسی لئے حضور نے ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کی بنیاد رکھتے ہوئے جماعت سے سینما بینی کو ترک کرنے کا مطالبہ فرمایا جس پر جماعت کی غالب اکثریت نے نہایت شاندار رنگ میں عمل کیا۔
اس سال حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے ۲۷۔ نبوت )نومبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش کے خطبہ جمعہ میں نوجوانوں کو سینما اور ریڈیو دونوں کی نسبت ایک خاص وصیت بھی فرمائی جو حضور ہی کے مقدس الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔ حضور نے فرمایا۔
>بے شک ریڈیو کے ذریعہ بعض اچھی چیزیں بھی نشر کی جاتی ہیں مگر ناچ اور گانا ایسی گندی چیزیں ہیں جنہوں نے ہر گھر کو ڈوم اور میراثی بنا دیا ہے اور ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو اور باقی دنیا کو اس کے ضرر سے بچائے اور اس کا صرف مفید پہلو قائم رکھے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔ لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم )المائدہ ع ۴۔ ۱۴( جب تم ہدایت پر ہو تو تمہیں دوسرے کی گمراہی کی پروا بھی نہیں کرنی چاہئے۔ اگر تم صحیح راستہ پر چل رہے ہو اور دوسرا شخص تمہارے ساتھ یہ شرط کرنا چاہتا ہے کہ تم صحیح راستہ کو چھوڑ کر غلط راستے کو اختیار کرلو تو فرماتا ہے ایسے شخص کو بے شک تم گمراہ ہونے دو مگر صحیح راستے کو ترک نہ کرو۔ تو ان چیزوں کو دنیا سے تم نے مٹانا ہے اور تمہارا فرض ہے کہ خداتعالیٰ تمہیں جب حکومت اور طاقت عطا فرمائے تو جس قدر ڈوم اور میراثی ہیں ان سب کو رخصت کردو اور کہو کہ جاکر حلال کمائی کمائو۔ ہاں جغرافیہ یا تاریخ یا مذہب یا اخلاق کا جو حصہ ہے اس کو بے شک رہنے دو اور اعلان کردو جس کی مرضی ہے ریڈیو سنے اور جس کی مرضی ہے نہ سنے۔ اس وقت ریڈیو والوں نے ایک ہی واقت میں دو نہریں جاری کی ہوئی ہیں۔ ایک نہر میٹھے پانی کی ہے اور دوسری نہر کڑوے پانی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں بھی دو نہروں کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے ایک نہر میں تو میٹھا پانی ہے مگر دوسری نہر میں کڑوا پانی ہے۔ میں جب بھی ریڈو سنتا ہوں تو مجھ پر یہی اثر ہوتا ہے کہ یہی دو نہریں ہیں جن کا قرآن کریم نے ذکر کیا ہے۔ اس سے ایک طرف میٹھا پانی جاری ہوتا ہے اور دوسری طرف کڑوا پانی جاری ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ان کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا اور یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کڑوی نالی کے ہوتے ہوئے میٹھا پانی غالب آجائے۔ میٹھا پانی اسی صورت میں غالب آسکتا ہے جب کڑوے پانی کی نالی کو بالکل بند کر دیا جائے<۔۷۱
سلسلہ احمدیہ کے مصنفوں اور ناشروں کیلئے اہم فرمان
‏text] g[taشروع ماہ فتح ۱۳۲۱ہش )دسمبر ۱۹۴۲ء( کا واقعہ ہے کہ ایک احمدی نوجوان نے >الفضل< )۵۔ فتح ۱۳۲۱ہش( میں >تخت گاہ رسول میں اہل اللہ کا عظیم الشان اجتماع< کے عنوان سے ایک مضمون لکھا چونکہ قرینہ کے بغیر >رسول< کا لفظ نہ صرف رسول اللہ~صل۱~ کی ذات بابرکات کے لئے اور >تخت گاہ رسول< کا لفظ صرف مدینہ منورہ کے لئے مخصوص ہے۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مضمون پڑھتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ اس روز جو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اس میں اس مضمون کو >فتنہ کی بنیاد< قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف پوری قوت و طاقت کے ساتھ آواز بلند کی اور اس ضمن میں احمدیوں کو نصیحت فرمائی کہ جماعت میں کوئی ایسی تحریک نہ اٹھنے دیں جس میں حضرت مسیح موعودؑ اور حضور کے خلفاء کے متعلق غلو سے کام لیا گیا ہو۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>میں جماعت کے تمام مصنفین وغیرہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس قسم کے الفاظ کا استعمال کرنا جائز نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تم قادیان کے متعلق >تخت گاہ رسول کے الفاظ استعمال مت کرو میں یہ کہتا ہوں کہ جب مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے علاوہ دوسرے شہروں کا ذکر آجائے تو اس کے مقابلہ میں قادیان کو >تخت گاہ رسول< کہا جاسکتا ہے۔ مگر جب شہروں کا عام ذکر ہو جن میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بھی شامل ہوں۔ تب قادیان کے متعلق >تخت گاہ رسول< کے الفاظ کا استعمال درست نہیں کیونکہ اس صورت میں >تخت گاہ سول< صرف مدینہ منورہ ہوگا۔ جیسے >بیت اللہ< کا لفظ ہم ہر مسجد کے لئے بول سکتے ہیں مگر اس صورت میں جب کوئی اشارہ اور قرینہ موجود ہو لیکن جب بغیر قرینہ کے >بیت اللہ< کا لفظ استعمال کیا گیا ہو تو اس سے مراد صرف بیت اللہ کی مسجد ہوگی اور کوئی مسجد نہیں ہوگی۔ پس اس بارے میں ہمارے لئے احتیاط بہت ضروری ہے۔ ہمارا کام صرف یہ نہیں کہ ہم پیغامیوں کا مقابلہ کریں بلکہ ہمارا کام یہ بھی ہے کہ ایسی تحریکیں بھی جماعت میں نہ اٹھنے دیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام یا آپ کے خلفاء کے متعلق غلو سے کام لیا گیا ہو۔ میں نے دیکھا ہے حضرت خلیفہ اولؓ کے زمانہ میں بعض لوگ ایسے تھے جنہوں نے آہستہ آہستہ آپ کو ایک مستقل درجہ دینا شروع کر دیا تھا اور اب بھی اگر سلسلہ کے اخبارات کو گہرے غور سے پڑھا جائے جس طرح میں پڑھا کرتا ہوں تو تھوڑے تھوڑے مہینوں کے بعد اس کی لپک سی پیدا ہو جاتی ہے اور صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ بعض لوگ حضرت خلیفہ اولؓ کو مستقل طور پر کوئی الگ درجہ دینا چاہتے ہیں۔ میرے ڈر کی وجہ سے یا سلسلہ کے نظام کے ڈر کی وجہ سے اس قسم کے خیالات ابھرتے نہیں لیکن تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد اس کی لپک سی پیدا ہو جاتی ہے اور مجھے ہمیشہ ایسی باتوں کو پڑھ کر مزا آتا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ایک دفعہ مجھے ہی مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اور شاید اسی لئے فرمایا کہ میں اس کی نگرانی کروں کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک تو وہ ہیں جو حضرت مولوی صاحبؓ کی وجہ سے سلسلہ میں داخل ہوگئے ہیں۔ )حضرت خلیفہ اولؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر مولوی صاحب کہا کرتے تھے( وہ مولوی صاحب کی قدر جانتے ہیں ہماری نہیں۔ چونکہ مولوی صاحب نے ہماری بیعت کرلی ہے اس لئے وہ بھی بیعت میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس سے زیادہ ان کا ایمان نہیں۔ بے شک ان کے دلوں میں ایمان ہے مگر ان کا ایمان واسطے کا ایمان ہے۔ اس کے مقابلہ میں ایک گروہ ہماری جماعت میں ایسا ہے جس نے یہ دیکھا کہ ایک جماعت بن گئی ہے اور اس میں قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا ہوگیا ہے تو قوم کی خدمت کے لئے وہ اس جماعت میں شامل ہوگیا۔ کیونکہ قومی خدمت کے لئے قربانی اور ایثار کرنے والوں کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ سوائے ہماری جماعت کے اور کہیں نہیں مل سکتے۔ ایسے لوگ چاہتے ہیں کہ انجمنیں بنائیں` مدرسے بنائیں۔ دفاتر بنائیں اور دینوی رنگ میں قوم کی بہبودی کے کام کریں۔ ایسے لوگ بے شک ہم کو مانتے ہیں مگر اپنے کاموں کا آلہ کار بنانے کے لئے` ہمارے مقام کو مقدم سمجھ کر نہیں مانتے۔ مگر ان کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے ہم کو سچے دل سے مانا وہ ہمیں خدا کا مامور سمجھتے ہیں اور ان کی نگاہ پہلے ہم پر پڑتی ہے اور ہم سے اتر کر پھر کسی اور پر پڑتی ہے اصل مخلص وہی ہیں باقی جس قدر ہیں وہ ابتلاء اور ٹھوکر کھانے کے خطرہ میں ہیں۔ یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے میرے سامنے بیان کی تھی حالانکہ میری عمر اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ آپ کا اس بات کا میرے سامنے بیان کرنا بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم کے ماتحت آپ اس بات کو جانتے تھے کہ لوگوں کی نگرانی کسی زمانہ میں میرے سپرد ہونے والی ہے اور آپ نے اسی وقت مجھے ہوشیار کردیا۔ چنانچہ ایک ٹکرائو تو میری خلافت کے شروع ہوتے ہی انجمن والوں سے ہوگیا اور وہ قادیان سے نکل گئے۔ باقی جو غلو کرنے والے ہیں وہ بھی ہمیشہ رہتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ان کا سر کچلتے رہیں<۔۷۲
حضرت امیرالمومنینؓ کا لیکچر >نظام نو<
دنیا کی عالمی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش کا سال دنیا کی سب اقوام کے لئے نہایت درجہ پریشانی کا سال تھا۔ جس میں ایک خوفناک مادی جنگ لڑی جارہی تھی اور دوسری طرف سرمایہ داری اور اشتمالیت و اشتراکیت کے نظام ہائے زندگی آپس میں شدید طور پر متصادم ہورہے تھے اور دنیا کا معاشرہ بے شمار سماجی` معاشی اور اقتصادی مصائب میں گھر چکا تھا اور ضرورت تھی کہ کوئی مرد خدا دنیا کی راہنمائی کرے۔ یہ تھے وہ حالات جن میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اقوام عالم کی قیادت کے لئے آگے بڑھے اور حضور نے ۲۷۔ فتح ۱۳۲۱ہش )دسمبر ۱۹۴۲ء( کو )جلسہ سالانہ کے تیسرے دن( >نظام نو کی تعمیر< پر ایک معرکتہ الاراء خطاب فرمایا۔ جس میں پہلے تو عہد حاضر کی ان اہم سیاسی تحریکات )مثلاً جمہوریت` اشتمالیت اور اشتراکیت وغیرہ( پر سیر حاصل روشنی ڈالی جو عام طور پر غریبوں کے حقوق کی علمبردار قرار دی جاتی ہیں اور خصوصاً اشتراکیت کے سات بنیادی نقائص کی نشاندہی کی۔ ازاں بعد غرباء کی حالت سدھارنے کے لئے یہودیت` عیسائیت` ہندو ازم کی پیشکردہ تدابیر کا جائزہ لیا اور آخر میں اسلام کی بے نظیر تعلیم بیان کرکے اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق دنیا کے نئے نظام کا نقشہ ایسے دلکش اور موثر پیرائے میں پیش کیا کہ سننے والے عش عش کر اٹھے۔
اس ضمن میں حضور نے یہ بھی فرمایا کہ قرآن مجید کی عظیم الشان تعلیم کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے خداتعالیٰ کے مامور کے ہاتھوں دسمبر ۱۹۰۵ء میں نظام نو کی بنیاد قادیان میں رکھی گئی جس کو مضبوط کرنے اور قریب تر لانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید جیسی عظیم الشان تحریک کا القاء فرمایا گیا۔ اس عظیم الشان لیکچر کے آخر میں حضور نے پرشوکت الفاظ میں فرمایا۔
>غرض تحریک جدید گو وصیت کے بعد آئی ہے مگر اس کے لئے پیشرو کی حیثیت میں ہے۔ گویا وہ مسیح کے لئے ایک ایلیاء نبی کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا ظہور مسیح موعود کے غلبہ والے ظہور کے لئے بطور ارہاص کے ہے۔ ہر شخص جو تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے میں مدد دیتا ہے اور ہر شخص جو نظام وصیت کو وسیع کرتا ہے وہ نظام نو کی تعمیر میں مدد دیتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ میں نے بتایا ہے کہ وصیت حاوی ہے اس تمام نظام پر جو اسلام نے قائم کیا ہے۔ بعض لوگ غلطی سے یہ خیال کرتے ہیں کہ وصیت کا مال صرف لفظی اشاعت اسلام کے لئے ہے۔ مگر یہ بات درست نہیں وصیت لفظی اشاعت اور عملی اشاعت دونوں کے لئے ہے۔ جس طرح اس میں تبلیغ شامل ہے اسی طرح اس میں اس نئے نظام کی تکمیل بھی شامل ہے جس کے ماتحت ہر فرد بشر کی باعزت روزی کا سامان مہیا کیا جائے۔ جب وصیت کا نظام مکمل ہوگا تو صرف تبلیغ ہی اس سے نہ ہوگی بلکہ اسلام کے منشاء کے ماتحت ہر فرد بشر کی ضرورت کو اس سے پورا کیا جائے گا اور دکھ اور تنگی کو دنیا سے مٹا دیا جائے گا انشاء اللہ۔ یتیم بھیک نہ مانگے گا۔ بیوہ لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے گی۔ بے سامان پریشان نہ پھرے گا۔ کیونکہ وصیت بچوں کی ماں ہوگی۔ جوانوں کی باپ ہوگی۔ عورتوں کا سہاگ ہوگی اور جبر کے بغیر محبت اور دلی خوشی کے ساتھ بھائی بھائی کی اس کے ذریعہ سے مدد کرے گا اور اس کا دینا بے بدلہ نہ ہوگا بلکہ ہر دینے والا خداتعالیٰ سے بہتر بدلہ پائے گا۔ نہ امیر گھاٹے میں رہے گا۔ نہ غریب۔ نہ قوم قوم سے لڑے گی بلکہ اس کا احسان سب دنیا پر وسیع ہوگا۔
پس اے دوستو! دنیا کا نیا نظام نہ مسٹر چرچل بناسکتے ہیں نہ مسٹر روز ویلٹ بناسکتے ہیں۔ یہ اٹلانٹک چارٹر کے دعوے سب ڈھکوسلے ہیں اور اس میں کئی نقائص` کئی عیوب اور کئی خامیاں ہیں۔ نئے نظام وہی لاتے ہیں جو خداتعالیٰ کی طرف سے دنیا میں مبعوث کئے جاتے ہیں۔ جن کے دلوں میں نہ امیر کی دشمنی ہوتی ہے نہ غریب کی بے جا محبت ہوتی ہے جو نہ مشرقی ہوتے ہیں نہ مغربی۔ وہ خداتعالیٰ کے پیغامبر ہوتے ہیں اور وہی تعلیم پیش کرتے ہیں جو امن قائم کرنے کا حقیقی ذریعہ ہوتی ہے۔ پس آج وہی تعلیم امن قائم کرے گی جو حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ آئی ہے اور جس کی بنیاد الوصیتہ کے ذریعہ ۱۹۰۵ء میں رکھ دی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس اے دوستو جنہوں نے وصیت کی ہوئی ہے سمجھ لو کہ آپ لوگوں میں سے جس جس نے اپنی اپنی جگہ وصیت کی ہے اس نے نظام نو کی بنیاد رکھ دی ہے اس نظام نو کی جو اس کی اور اس کے خاندان کی حفاظت کا بنیادی پتھر ہے اور جس جس نے تحریک جدید میں حصہ لیا ہے اور اگر وہ اپنی نادانی کی وجہ سے اس میں حصہ نہیں لے سکا تو وہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے مسلسل دعائیں کرتا ہے اس نے وصیت کے نظام کو وسیع کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ پس اے دوستو! دنیا کا نیا نظام دین کو مٹا کر بنایا جارہا ہے۔ تم تحریک جدید اور وصیت کے ذریعہ سے اس سے بہتر نظام دین کو قائم رکھتے ہوئے تیار کرو۔ مگر جلدی کرو کہ دوڑ میں جو آگے نکل جائے وہی جیتتا ہے۔
پس تم جلد سے جلد وصیت کرو تاکہ جلد سے جلد نظام نو کی تعمیر ہو اور وہ مبارک دن آجائے جبکہ چاروں طرف اسلام اور احمدیت کا جھنڈا لہرانے لگے۔ اس کے ساتھ ہی میں ان سب دوستوں کو مبارک باد دیتا ہوں جنہیں وصیت کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بھی جو ابھی تک اس نظام میں شامل نہیں ہوئے توفیق دے کہ وہ بھی اس میں حصہ لیکر دینی و دینوی برکات سے مالا مال ہوسکیں اور دنیا اس نظام سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھائے کہ آخر اسے تسلیم کرنا پڑے کہ قادیان کی وہ بستی جسے کو ردہ کہا جاتا تھا` جسے جہالت کی بستی کہا جاتا تھا اس میں سے وہ نور نکلا جس نے ساری دنیا کی تاریکیوں کو دور کر دیا۔ جس نے ساری دنیا کی جہالت کو دور کر دیا۔ جس نے ساری دنیا کے دکھوں اور دردوں کو دور کر دیا اور جس نے ہر امیر اور غریب کو` ہر چھوٹے اور بڑے کو محبت اور پیار اور الفت باہمی سے رہنے کی توفیق عطا فرما دی<۔۷۳
اخبار >سٹیٹس مین< میں ذکر
اخبار >سٹیٹس مین< )۳۰۔ دسمبر ۱۹۴۲ء( نے >دنیا کا نظام جدید اسلامی نقطہ نظر< کے عنوان سے اس لیکچر کا خلاصہ جن الفاظ میں شائع کیا ان کا ترجمہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
>جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کے آخری دن کی آخری تقریر میں امام جماعت احمدیہ حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے دنیا کے نئے نظام کا ذکر کیا۔ پہلے آپ نے ان تمدنی` اقتصادی اصولوں کا ذکر کیا جو مختلف طریق سے دنیا میں دولت کی غلط تقسیم کو مٹانے اور دنیا سے افلاس و محتاجی کو دور کرنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں اور فرمایا کہ اب ملوکیت کا زمانہ نہیں رہا۔ امپیرئیلزم کے ظالمانہ برتائو اور بے رحم اقتصادی دبائو اور مختلف طبقوں کے بڑھتے ہوئے باہمی مقابلہ اور تصادم کی مدت اب ختم ہوگئی اور نئے نظام کا وقت آگیا ہے اٹلانٹک چارٹر کی نسبت فرمایا کہ اس سے بھی فائدہ نہ ہوگا۔ نیز فرمایا کہ اگرچہ اصول کے لحاظ سے کمیونزم کا اصول خوشکن معلوم ہوتا ہے کہ ہر شخص سے اس کی مالی حیثیت کے مطابق لے لیا جائے اور ہر شخص کو اس کی ضرورتوں کے مطابق دیا جائے مگر عمل میں یہ کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ یہ ذاتی ملکیت سے محروم کرتا ہے اور اس سے انسان کا جوش عمل ضائع ہو جاتا ہے۔ نیز کمیونزم کے اصول میں یہ بڑا نقص ہے کہ وہ انسان کے وجدان روحانی کو خدا پرستی سے روک کر سخت صدمہ پہنچاتا ہے۔ اس کے ساتھ آپ نے جرمنی` جاپان اور اٹلی کے آمرانہ طریق حکومت پر سخت اعتراض کیا اور کہا کہ یہ وحشیانہ تخیلات ہیں جن میں قومی منافرت` تنگ نظری اور فوجی طاقتوں کا بھیانک مظاہرہ ہوتا ہے۔ موجودہ جنگ ان ہی کے خراب منصوبوں کا نتیجہ ہے۔ جن سے ان کا یہ مقصد تھا کہ تمام دنیا پر غلبہ حاصل کریں اگر یہ کامیاب ہوئے تو انسانی تہذیب و تمدن برباد ہو جائے گا بلکہ مذہب بھی مٹ جائے گا حضرت امام جماعت احمدیہ نے ایک نہایت خوش نما منظر اس نظام کا پیش کیا جس پر بعد جنگ دنیا کی تعمیر ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ حد سے زیاد منافعے نہیں لئے جائیں گے دولت کے ڈھیر سود کے ذریعہ جمع نہ ہوسکیں گے۔ اسلام اپنے قانون وراثت سے دولت کو وسیع حلقہ میں تقسیم کرے گا اور روپیہ چند ہاتھوں میں جمع نہ ہوسکے گا۔
زکٰوۃ ۲/۱ ۲ فیصدی ٹیکس آمدنی پر ہی نہ ہوگی بلکہ اصل اور منافع دونوں پر یہ ٹیکس ہوگا۔ بہت سی صورتوں میں خالص منافع کا پچاس فیصدی تقسیم ہوگا۔ ان کے علاوہ اسلامی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ اور ذرائع سے بھی اپنا خزانہ پر کرے۔
لیکن باوجود اس کے اسلامی حکومت جوش عمل کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے لئے ذاتی ملکیت کو تسلیم کرتی ہے اور اسلام یہ سبق بھی دیتا ہے کہ قدرتی تمام اشیاء تمام انسانوں کی ملکیت ہیں اور ان پر کوئی خاص انسان قبضہ نہیں کرسکتے<۔۷۴
سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کا یہ لیکچر دفتر تحریک جدید کی طرف سے >نظام نو< کے نام سے کتابی شکل میں شائع کر دیا گیا اور بہت مقبول ہوا جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امان ۱۳۲۴ہش )مارچ ۱۹۴۵ء( تک اس کے تین ایڈیشن شائع ہوئے اور ہاتھوں ہاتھ بک گئے۔۷۵
>نظام نو< کو بیرونی دنیا سے روشناس کرانے کے لئے اب تک اس کے عربی` انگریزی اور ترکی زبان میں تراجم بھی شائع ہوچکے ہیں۔
مصر کے مشہور ادیب الاستاذ عباس محمود العقاد۷۶ نے اس عظیم الشان لیکچر کے انگریزی ترجمہ کی اشاعت پر مصر کے مشہور ادبی مجلہ >الرسالتہ< میں حسب ذیل تبصرہ کیا۔
>اس لیکچر کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہے کہ فاضل لیکچرار )حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد( عالمگیر نظام کی توجہ اس طرف پھیرتے ہیں کہ فقر اور غربت کی مصیبت کو دور کیا جائے۔ یا بالفاظ دیگر جمع شدہ اموال کو تمام دنیا کی قوموں اور لوگوں میں بحصہ رسدی تقسیم کیا جائے۔
بلاشک آپ نے )لیکچرار صاحب نے( تمام دنیا کے جملہ نئے نظاموں پر جنہوں نے اس مصیبت اور مشکل کو دور اور حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی فیسی ازم` نازی ازم اور کمیونزم اور بعض دیگر جمہوری نظام اور یہ ظاہر ہے کہ آپ کو ان سب نظاموں کے متعلق ہر جہت سے مکمل اطلاع اور علم حاصل ہے۔
لیکن ساتھ ہی آپ یہ اعتقاد بھی رکھتے ہیں جو بالکل صحیح اعتقاد ہے کہ سیاست دان اور پارٹی لیڈرز اور حکومتیں اس مشکل کو حل نہیں کرسکتیں اس لئے ایسی مشکلات کو حل کرنے کے لئے روحانی قوت کی ضرورت ہے کیونکہ ہر ایسی مشکل جو تمام انسانوں سے تعلق رکھتی ہے اس کا حقیقی حل اور علاج تمام کے تمام انسان مل کر ہی کرسکتے ہیں۔ اس لئے سب سے بڑی چیز جو اطمینان پیدا کرتی ہے اور نیک کاموں اور اصلاح کے لئے دلیری پیدا کرتی ہے یعنی اعتقاد اور ایمان` اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے بعد آپ نے ہندوستان میں موجودہ بڑے بڑے مذاہب پر خصوصاً اور دنیا کے دوسرے مذاہب پر عموماً ایک محققانہ نظر ڈالی ہے تا ان سے وہ علاج دریافت کیا جائے جو وہ اس مشکل کے دور کرنے کے لئے جسے دنیا بری نظر سے دیکھتی ہے وہ پیش کرتے ہیں۔ اور تا ان سے نیا نظام دریافت کیا جائے جو وہ موجودہ نظام کی بجائے پیش کرسکتے ہیں کیونکہ ان کا بھی فرض ہے کہ وہ اس مشکل کو حل کریں اور اس مصیبت کو دور کریں۔
اس کے بعد آپ نے بہت سے دلائل اس بات کے لئے پیش کئے ہیں کہ ان سب مذاہب میں سے صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو اپنے اندر ان مشکلات کو حل کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور تمام اقوام اور تمام لوگ پہلے بھی اس پر عمل کرسکتے تھے اور اب اس موجودہ زمانہ میں بھی عمل کرسکتے ہیں۔ )اس کے بعد الاستاذ عباس محمود العقاد نے >نظام نو< کے اس حصے کا خلاصہ اپنی زبان میں دیا ہے(
موئف یا بالفاظ دیگر فاضل لیکچرار صاحب نے صرف ان مذہبی عقائد کا ہی جن کا ہم نے مذکورہ بالاسطور میں نہایت مختصر طور پر اشارۃ ذکر کیا ہے مقابلہ اور موازنہ کرنے میں ہی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی بلکہ آپ نے خاص طور پر ان پر گہری نظر ڈالی ہے اور خاص اہتمام سے کام لیا ہے کیونکہ صرف عقیدہ ہی جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ ایک ایسی چیز ہے جس سے اصلاح کی امید رکھی جاسکتی ہے اور ساتھ ہی آپ نے ان عقاید کا مقابلہ اور موازنہ کرنے کے علاوہ ان تمام سیاسی اور سوشل نظاموں کا بھی مقابلہ اور موازنہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ سب کے سب عملی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی اپنے مقاصد میں ناکام رہے ہیں )اس کے بعد >نظام نو< کے اس حصہ کا خلاصہ دیا ہے جو سیاسی اور سوشل نظاموں پر مشتمل ہے(
لیکچر کا انگریزی ترجمہ جو مذکورہ بالا خلاصہ کی تفصیلات پر مشتمل ہے متوسط تقطیع کے ایک سو اور کچھ اوپر صفحات پر مشتمل ہے اور ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اگر یہ آواز یورپ اور امریکہ کے انگریزی خوان طبقہ میں پھیلائی جائے بلکہ خود اہل ہندوستان اور اہل مشرق کے درمیان بھی پھیلائی جائے تو یقیناً اپنا اثر دکھلائے گی۔ )ترجمہ(۷۷
تقریر کے نوٹ لکھوانا
>نظام نو< کے تعلق میں بالاخر یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس تقریر کے نوٹ حضرت سیدہ ام متین کو املاء کرائے تھے۔ چنانچہ آپ تحریر فرماتی ہیں۔
>حضور کی تقریروں کے نوٹ سے لے کر خداتعالیٰ کے فضل سے تیز لکھنے کی عادت پڑی اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ کتنا ہی تیزی سے مضمون لکھواتے تھے لکھ لیتی تھی۔ سب سے پہلی دفعہ آپ نے جس تقریر کے نوٹ مجھے املاء کروائے تھے وہ >نظام نو< والی تقریر تھی۔ آپ لکھواتے گئے میں لکھتی گئی۔ جب نوٹ مکمل ہوگئے تو فرمانے لگے کچھ سمجھ آیا؟ میں نے جو کچھ آپ نے لکھوایا تھا وہ بتانا شروع کیا۔ کہنے لگے۔ نہیں! یہ تو تمہیدیں ہیں۔ یہ قرآن مجید اور احادیث کے حوالہ جات ہیں۔ ان سے میں کس مضمون کی طرف آنا چاہتا ہوں؟ میں نے کہا۔ یہ تو سمجھ میں نہیں آئی۔ کہنے لگے۔ یہی تو کمال ہے کہ سارا مضمون اشاروں میں لکھوا گیا مگر تم بتا نہ سکیں کہ کیا موضوع میری تقریر کا ہوگا۔ میں نے کہا۔ پھر بتائیں۔ کہنے لگے۔ نہیں اب جلسہ پر ہی سننا<۔۷۸
فصل پنجم
جلیل القدر صحابہؓ کا انتقال
۱۔ چوہدری حاکم علی صاحب چک پنیار ضلع گجرات۔ )تاریخ وفات ۶۔ ماہ صلح ۱۳۲۱ہش )جنوری ۱۹۴۲ء(۷۹ نہایت قدیم صحابی جو نہایت متقی اور سلسلہ کے ساتھ گہرا اور والہانہ اخلاص رکھنے والے تھے۔
۲۔ بھائی محمد اسمٰعیل صاحب ساکن دیہہ نمبر ۳۰ علاقہ سندھ )بیعت ۱۹۰۷ء وفات ۱۱۔ جنوری ۱۹۴۲ء/ صلح ۱۳۲۱ہش( بہت غیور اور اپنے علاقہ میں احمدیت کا اعلیٰ نمونہ تھے۔۸۰
۳۔ میاں محمد رمضان صاحب پنڈی چری )وفات ۲۱۔ جنوری ۱۹۴۲ء/ صلح ۱۳۲۱ہش(۸۱]ydob [tag
آپ نہایت نیک اور صالح آدمی تھے۔ ایک عرصہ تک جماعت پنڈی چری کے امام الصلٰوۃ بھی رہے۔
۴۔ چوہدری محمد حسین صاحب ریٹائرڈ سٹیشن ماسٹر ساکن محلہ دارالعلوم قادیان۸۲ )وفات ۲۱۔ جنوری ۱۹۴۲ء/ صلح ۱۳۲۱ہش(
۵۔ حکیم سید احمد صاحب ساکن ہیلاں ضلع گجرات خسر مکرم حکیم غلام حسین صاحب لائبریرین قادیان )وفات ۳۰۔ جنوری ۱۹۴۲ء/ صلح ۱۳۲۱ہش(۸۳
۶۔ حضرت مولوی غلام احمد صاحبؓ اختر اوچ شریف ریاست بہاولپور )وفات ماہ تبلیغ فروری( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش(
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی اور فارسی کے متجر عالم تھے۔۸۴ چونکہ ان کے پسماندگان میں سے کوئی احمدی نہیں تھا۔ اس لئے مرکز احمدیت میں ان کی وفات کی اطلاع ماہ وفا یعنی چار ماہ بعد پہنچی۔
۷۔ حضرت حافظ نبی بخش صاحبؓ متوطن فیض اللہ چک ضلع گورداسپور والد ماجد حکیم فضل الرحمن صاحب مجاہد مغربی افریقہ۔ )بیعت ۱۰۔ مارچ ۱۸۹۰ء۔ وفات ۲۳۔ امان )مارچ( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش بعمر ۸۵ سال(
حضرت حافظ صاحبؓ کو ۷۹۔ ۱۸۷۸ء سے حضرت مسیح معود علیہ السلام کی خدمت میں باریابی کا شرف حاصل تھا۔ حضور آپ کو گول کمرہ یا مسجد میں ٹھہرایا کرتے تھے۔ اوائل زمانہ میں آپ کو بیت الفکر میں کئی بار سونے کا بھی شرف حاصل ہوا اور کئی دفعہ حضور کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا کھانے کا موقعہ ملا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عصر کی ایک نماز آپ کی امامت میں بھی ادا فرمائی۔ ۱۹۰۷ء میں آپ کا لڑکا عبدالرحمن جو ہائی سکول قادیان کی ساتویں جماعت میں تعلیم پارہا تھا وفات پاگیا۔ اس حادثہ کے چند دن بعد آپ قادیان آئے اور مسجد مبارک میں پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس وقت محراب میں کھڑکیوں کے درمیان اپنے خدام کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ حضور کی نظر شفقت جونہی آپ پر پڑی حضور نے پاس بلا کر بٹھا لیا اور فرمایا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اپنے بچے کی وفات پر بڑا صبر کیا ہے۔ پھر کمر پر دست شفقت پھیرا اور فرمایا >ہم نے آپ کیلئے بہت دعا کی ہے اور کریں گے<۔ یہ بھی فرمایا کہ >اللہ تعالیٰ نعم البدل دے گا۔ اس دعا کے نتیجہ میں حضرت حافظ صاحبؓ کو جو بچہ نعم البدل کے طور پر عطا ہوا وہ حکیم فضل الرحمن صاحب تھے۔۸۵ جنہوں نے عین جوانی میں سلسلہ کی خدمت کیلئے اپنے تئیں وقف کیا اور قریباً ربع صدی تک مغربی افریقہ میں تبلیغی جہاد میں سرگرم عمل رہے اور ۲۸۔ ظہور )اگست( ۱۹۵۵ء/ ۱۳۳۴ء کو انتقال فرمایا۔ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے ان کی وفات پر ان کی دینی قربانیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ >حکیم فضل الرحمن صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی مغربی افریقہ میں تبلیغ اسلام کیلئے چلے گئے اور تیرہ چودہ سال تک باہر رہے۔ جب وہ واپس آئے تو ان کی بیوی کے بال سفید ہوچکے تھے اور ان کے بچے جوان ہوچکے تھے<۔]4 [stf۸۶
حضرت حافظ صاحبؓ عابد زاہد بزرگ تھے۔ تہجد کا خاص طور پر اہتمام فرماتے۔ اول درجہ کے مہمان نواز تھے اور نہایت صابر و شاکر تھے۔ سلسلہ کے سب اخبارات خریدتے تھے۔ سلسلہ کی تحریکوں میں حتی الوسع حصہ لیتے تھے۔ وصیت کی رقم اور جائیداد کا حصہ زندگی میں ہی ادا فرما دیا تھا۔۸۷ ۱۹۳۵ء میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے اور اس وقت سے مرض الموت تک فریش رہے۔ اس دوران میں اور بعد میں بھی مختلف عوارض کا حملہ آپ پر ہوتا رہا مگر کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لائے۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے اور ہر شخص سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملاقات فرماتے۔
۸۔ حضرت چودھری نظام الدین صاحبؓ والد ماجد حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال۔ ایم۔ اے ناظر اعلیٰ قادیان )بیعت ۱۸۹۵ء وفات ۲۹۔ مارچ ۱۹۴۲ء/ امان ۱۳۲۱ہش بعمر ۸۵ سال(۸۸ آپ فرمایا کرتے تھے کہ میری پیدائش غدر سے کچھ پہلے ہوئی۔ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم شخصیت کا علم پہلے پہل ۱۸۸۴ء میں براہین احمدیہ سے ہوا جو سید عبدالوحید صاحب ڈپٹی کلکٹر نہر کے ذریعہ انہیں ملی۔ اوائل ۱۸۹۹ء میں آپ فریق مخالف کی شرارت سے قتل کے ایک مقدمہ میں ملوث کر دیئے گئے۔ مگر خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دعا کی برکت سے بذریعہ کشف بریت کی قبل از وقت اطلاع دے دی جس کا آپ نے لوگوں میں پہلے ہی اعلان کردیا۔ دشمنوں نے اس کشف پر بہت ہنسی اڑائی مگر خداتعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ بری ہوگئے۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے جون ۱۸۹۹ء میں اپنے بیٹے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو پڑھنے کے لئے قادیان بھیج دیا۔ جہاں آپ تعلیم الاسلام سکول میں داخل ہوگئے۔
حضرت چودھری نظام الدین صاحبؓ کو تبلیغ کا بہت شوق تھا کھریپڑ` لدھیکے نیویں` لدھیکے اونچے لکھیکے` اور علی پور وغیرہ ضلع لاہور کی جماعتیں آپ ہی کے ذریعہ قائم ہوئیں۔۸۹
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے ان کی وفات پر ایک مفصل نوٹ لکھا جس سے ان کے مخلصانہ مقام اور مرتبہ فدائیت کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت عرفانی الکبیرؓ نے لکھا۔
>وہ بیعت سے قبل بھی ایک عام عقیدت کے آغاز میں اس قدر غیور تھے کہ حضرت اقدسؑ کے خلاف کچھ سن نہ سکتے تھے۔ ان ایام میں کثرت سے رکھانوالے آتے اور حضرت اقدسؑ کے اشتہارات اور تصنیفات کو سنتے اور تصدیق کرتے۔ چونکہ اپنے علاقہ میں وہ ایک بااثر اور دلیر معزز رئیس تھے اس لئے کسی کو یہ جرات نہ ہوتی تھی کہ ان کے سامنے سلسلہ کی مخالفت کرے۔ اس عہد جوانی میں باوجود زمیندار ہونے کے میں نے ان کو منہیات شرعیہ سے ہمیشہ مجتنب پایا۔ ان کی طبیعت میں خشونت تھی۔ شاید یہ لفظ ثقیل ہو مگر میں نے اس کو واقعات کی صورت میں لکھا ہے۔ لیکن جیسے حضرت عمرؓ کا غصہ حالت اسلام میں صحیح مقام حاصل کرچکا تھا چوہدری نظام الدین صاحب کی خشونت غیرت دینی کے رنگ میں رنگین ہوگئی۔ وہ بہت صاف دل اور صاف گو تھے۔ دلیری اور جرات قابل تقلید تھی۔ حق کہنے میں وہ کسی کی پروا نہ کرتے تھے۔ ان ایام میں باوجودیکہ ابھی انہوں نے بیعت نہ کی تھی مگر حضرت اقدسؑ کی تحریکات چندہ میں حصہ لیتے تھے اور اشتہارات اور کتابوں کی اشاعت اور تبلیغ میں سرگرمی کا عملی اظہار کرتے تھے۔
چودھری فتح محمد صاحب کو جب قادیان مدرسہ میں داخل کیا تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ شیخ صاحب میں نے تو فتح محمد کو یہاں اس واسطے داخل کیا ہے کہ ہم زمیندار لوگ ہیں بچے جوان ہو جاتے ہیں تو اپنے کاروبار میں لگانا ہم کو عزیز ہوتا ہے۔ میں نے اس کو یہاں بھیج دیا ہے کہ ہم تو اپنی زمینداری کے دھندوں میں پھنسے ہوئے ہیں فتح محمد جوان ہو کر کوئی دین کا کام کرے۔ ورنہ ہمارے پاس قصور میں کیا سکول نہیں۔ اس سے ان کی مخلصانہ نیت کا پتہ لگتا ہے۔ انہوں نے اپنے دل میں چودھری فتح محمد صاحب کو بچپن میں وقف کر دیا تھا۔ اور ان کے صدق نیت اور اخلاص کا نتیجہ ہے کہ آخر فتح محمد سلسلہ کا ایک خادم سپاہی بن گیا۔
چودھری فتح محمد صاحب کی شادی کی تجویز جب مفتی فضل الرحمن صاحب مرحوم کی صاحبزادی ہاجرہ مرحومہ سے ہوئی تو چودھری صاحب مرحوم قادیان آئے۔ ان کا معمول تھا کہ وہ قادیان آتے تو مجھے ضرور ملنے کے لئے آتے اور تمام ضروری باتیں اپنے معاملات کی بھی کرتے۔ وہ اس طرح پر عہد اخوت و مودت کا ایک قابل تقلید نمونہ پیش کرتے تھے۔ غرض میرے پاس آئے اور اس واقعہ کا ذکر کرکے کہنے لگے کہ میں نے تو احمدی ہو کر اپنا ارادہ ختم کر دیا ہے۔ اب جو منشاء یہاں کا ہوتا ہے وہی میرا ہوتا ہے۔ اس معاملہ میں میری رائے کا دخل ہی نہیں اور میں خوش ہوں کہ فتح محمد کے لئے جو میں نے ارادہ کیا تھا خدا اسے پورا کررہا ہے ایسا ہی جب چودھری صاحب کو ولایت بھیجا گیا تو وہ آئے اور مفتی صاحب مرحوم کے حجرہ میں ہی مقیم تھے۔ فرمایا کہ میری ایسی قسمت کہاں تھی کہ میرا بیٹا دین کی خدمت کے لئے لنڈن جائے۔ یہ تو خدا کا محض فضل ہے۔
غرض باوجود ایک زمیندار ہونے کے فہم دقیق رکھتے تھے اور سلسلہ کے لئے ان کے دل میں ہر قسم کی قربانی کا جذبہ تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے اہلبیت کے ساتھ انہیں فدائیانہ محبت تھی<۔۹۰
۹۔ حضرت میر قاسم علی صاحب~رضی۱~ ایڈیٹر >فاروق< قادیان )تاریخ بیعت جولائی ۱۹۰۲ء۔ وفات ۲۱۔ شہادت )اپریل( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش( حضرت میر صاحب جماعت احمدیہ کے ابتدائی مصنفوں میں سے ایک کامیاب مصنف تھے اور سلسلہ احمدیہ کی تاریخ صحافت میں بھی ان کو بلند مقام حاصل تھا انہوں نے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد دہلی میں ایک باقاعدہ تبلیغی مرکز قائم کر دیا اور اپنی انفرادی کوششوں سے بہت سے اشتہارات` ٹریکٹ اور رسالے تائید احمدیت میں شائع کئے۔ حضرت اقدسؑ کی وفات کے بعد خلافت اولیٰ میں جب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی بدزبانی حد سے بڑھ گئی تو آپ نے ۱۹۱۱ء میں دہلی سے رسالہ >احمدی< جاری کیا جس میں مولوی صاحب موصوف کے اعتراضات کے دندان شکن اور قرار واقعی جوابات دیئے جاتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی آریوں کے اسلام پر اعتراضات کے جوابات کے لئے بھی آپ نے دہلی ہی سے ایک ہفتہ وار اخبار >الحق>< جاری کیا۔ جو ہندوستان کے نصف درجن سے زائد آریہ اخبارات کا نوٹس لیتا تھا۔ اور ان کے اسلام کے خلاف زہریلے اثر کو دور کرتا تھا۔ خلافت ثانیہ کے عہد میں آپ نے سلسلہ کے مشہور ہفتہ وار اخبار >فاروق< کی بنیاد ڈالی۔ جس کا سب سے پہلا پرچہ ۷۔ اکتوبر ۱۹۱۵ء کو قادیان دارالامان سے شائع ہوا جو بعض ناگزیر درمیانی وقفوں کے ساتھ اخیر مارچ ۱۹۴۲ء تک جاری رہا۔
ان اخبارات کے علاوہ آپ نے تیس کے قریب چھوٹے بڑے رسالے اور کتابیں تصنیف فرمائیں۔۹۱
جن میں سے بعض مولوی ثناء اللہ صاحب کے جواب میں ہیں اور بعض آریوں کے رد میں۔ غیر مبایعین اور دوسرے اندرونی مخالفین احمدیت کے مقابلہ میں بھی آپ نے قابل قدر خدمات انجام دیں۔ خداتعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکت سے آپ کو ایک زبردست قوت تحریر عطا فرمائی تھی اور دشمن آپ سے مرعوب اور لرزاں و ترساں رہتا تھا۔
فن خطابت اور مناظرہ میں بھی آپ کو ایک خاص مقام حاصل تھا۔ بڑے بڑے جلسوں اور مناظروں میں آپ کی تقریریں مخالفین تک سے داد تحسین حاصل کرتی تھیں۔ آپ کا انداز بیان بہت دلکش ہوتا تھا جب کسی زمانہ میں غیر احمدی علماء مولوی ثناء اللہ صاحب` مولوی مرتضیٰ حسن صاحب دربھنگی اور مولوی انور شاہ صاحب دیوبندی وغیرہ سال بسال قادیان میں جلسہ کرنے آیا کرتے تھے تو جناب میر صاحب مرحوم بڑی دلیری سے ان کا مقابلہ کیا کرتے تھے۔ ۲۳۔ ۱۹۲۲ء میں جب آریہ سماج کے دریدہ دہن مصنفوں اور لیکچراروں نے ہندوستان کے طول و عرض میں آنحضرت~صل۱~ اور اسلام کے خلاف گندے اعتراضات کرکے مسلمانوں کے دل دکھائے اور ہر جگہ مناظرات کا میدان گرم ہوا تو جناب میر صاحب مرحوم نے اسلام کے ایک جری پہلوان کی طرح اس مقدس جنگ میں حصہ لیا اور مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیئے۔ امرتسر اور لاہور وغیرہ مقامات میں آپ کے اس زمانہ کے لیکچروں کی مدتوں تک دھوم تھی۔ ہندوستان کے دور اور نزدیک کے دیگر شہروں سے بھی غیر احمدی اصحاب آریوں کے مقابلہ کے لئے قادیان ہی سے مبلغ بلوایا کرتے تھے اور ان کی طرف سے جناب میر صاحب کو بھجوانے کی خاص طور پر فرمائش ہوتی تھی۔ آپ کی تصنیف >چودھویں صدی کا مہرشی< اس وقت کی فضاء میں آریوں کا بہترین جواب تھی۔ اس کتاب کی اشاعت نے آریوں میں ایک ہلچل ڈال دی اور ان کو معلوم ہوگیا کہ دوسروں کے بزرگوں کی توہین ایک خطرناک کھیل ہے۔ اس کتاب کی ضبطی کے لئے آریوں کی طرف سے کئی مرتبہ کوشش کی گئی لیکن چونکہ یہ کتاب ان کی کئی زہریلی اور گندی کتابوں کے جواب میں شائع ہوئی تھی اس لئے وہ اسے ضبط کرانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے آپ کے وصال پر لکھا۔
>حضرت میر قاسم علی صاحب مرحوم سلسلہ حقہ کے مشہور جرنلسٹ` حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃوالسلام اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے مخلص شیدائی اور پرجوش اور پر محبت خادم تھے۔ مضامین اخبار و رسائل اور تصنیف و تالیف کتب کے ذریعہ سے انہوں نے سلسلہ حقہ احمدیہ کی نہایت قابل قدر خدمات انجام دیں۔ دین اسلام کی تائید میں انہوں نے عیسائیوں اور آریوں کا ایسا مقابلہ کیا کہ خود دشمن بھی ان کے بیان کی خوبی اور ان کے دلائل کی قوت کا قائل تھا۔ مرحوم جب دہلی میں مقیم تھے اس وقت عاجز کو جب کبھی تبلیغی دورے پر جانے کا اتفاق ہوتا تو مرحوم کے مکان پر ہی قیام ہوتا تھا اور دیگر دوست بھی عموماً ان کے ہاں قیام کرتے اور ان کی مہمان نوازی سے بہرہ ور ہوتے۔ اس وقت دہلی کے مسلمان` آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مناظرات کے واسطے میر صاحب مرحوم کو ہی لے جایا کرتے تھے اور ان کا دہلی میں ہونا ایک نعمت غیر مترقبہ یقین کرتے تھے۔
مرحوم کو اس عاجز کے ساتھ محبت کا خاص تعلق تھا۔ اپنی عمر کے آخری سال میں ان کا معمول تھا کہ روزانہ شام کو محلہ مسجد مبارک میں اپنی کتابوں کی دوکان فاروق ایجنسی میں آتے۔ عاجز بھی وہاں ان کے پاس جابیٹھتا اور بعض دیگر احباب بھی آجاتے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ کی باتوں اور کاموں کا ذکر رہتا جو حاضرین کے واسطے موجب ازدیاد ایمان ہوتا۔ ممبران خاندان نبوت کے ساتھ مرحوم کا اخلاص حنیفانہ رنگ اپنے اندر رکھتا تھا۔
مرحوم کی اگرچہ نسبتی اولاد نہ تھی مگر اپنے بعض عزیزوں کے بچوں کو ان کی پیدائش کے زمانہ سے لے کر اس قدر محبت کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کی کہ ان بچوں کو ہمیشہ یہی یقین رہا کہ میر صاحب ہی ان کے باپ اور ان کی مرحومہ بیوی ان کی ماں ہیں اور ان بچوں کو اچھے عہدوں پر ملازم کرایا اور ان میں سے بعض کی اولاد کی بھی پرورش کی<۔۹۲
مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل مدیر >فرقان< نے مندرجہ ذیل الفاظ میں آپ کو خراج تحسین ادا کیا۔
>احمدیت کا پرانا جرنیل` مسیحؑ پاک کا غیور صحابی` خلافت کا وفادار خادم اور دشمنان اسلام و سلسلہ کے سامنے ہمیشہ سینہ سپر ہونے والا سپاہی میر قاسم علی ۲۱۔ اپریل کی شب کو فوت ہوگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
جناب میر صاحب مرحوم کی زندگی میں غیرت دینی کا ایک بہترین نمونہ موجود تھا۔ جس طرح اپنی ذاتی متاع کی حفاظت میں انسان پوری قوت خرچ کردیتا ہے اسی طرح حضرت میر صاحب مقدور بھر اسلام و احمدیت کی خدمت کرتے رہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں تحریر و تقریر میں خاص ملکہ عطا فرمایا تھا۔ اور طبیعت بھی نکتہ رس اور بذلہ سنج تھی۔ تقریر کے وقت حاضرین کو مسحور کرلینا اور تحریر کے قارئین کی دبستگی کو اخیر تک قائم رکھنا ان کا نمایاں وصف تھا۔ بے شک حضرت میر قاسم علی صاحب نے طبعی عمر پائی اور جنت الفردوس کے وارث ہوئے لیکن ان کی وفات ایک جماعتی صدمہ ہے اور ہر مخلص کے لئے رنجدہ حادثہ۔ زمانہ کی گردش ایسے جانباز خادم دین کے ذکر کو دلوں میں تازہ کرتی رہے گی اور رہتی دنیا تک احمدیت کی تاریخ میں میر قاسم علی کا نام عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ مجھے ایام طالب علمی سے ہی میر صاحب سے واقفیت ہے۔ میں نے انہیں ہمیشہ سلسلہ کی عزت کے لئے غیور مومن پایا۔ غلطی انسان سے ہو جاتی ہے لیکن دینی غیرت کے ماتحت غلطی بھی انتظامی حصہ کو مستثنیٰ کرکے ایک خوبصورت فعل ہے۔ میر صاحب کے کارنامے ایک طویل کتاب کے محتاج ہیں۔ خدا جسے توفیق دے گا وہ آسمان احمدیت کے ان یکے بعد دیگرے نظروں سے اوجھل ہونے والے مگر ابد تک درخشندہ ستاروں کی تاریخ مرتب کرسکے گا۔ بہرحال میر صاحب مرحوم کی وفات سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرنور چہرہ کو دیکھنے والا ایک اور وجود کم ہوگیا۔ اے اللہ! تو جناب میر صاحب کے درجات کو بلند فرما۔ اور ان کے پسماندگان پر رحم فرما اور احمدیت کے جانباز سپاہیوں میں اضافہ فرما۔ تا اسلام کا پرچم جلد تر دنیا کے سب ممالک پر لہرائے۔ اللہم آمین<۔۹۳
۱۰۔ حکیم عبدالرحمن صاحب محلہ مسجد فضل قادیان )وفات ۲۵۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش(۹۴
۱۱۔ پیر محمد شاہ صاحب آف شاہ مسکین ضلع شیخوپورہ ۰ولادت ۱۸۷۹ء۔ بیعت ۱۸۹۶ء وفات ۱۳۔ جون ۱۹۴۲ء/ احسان ۱۳۲۱ہش( اپنے ماموں حضرت میاں معراج دین صاحب عمر کی تبلیغ سے احمدیت قبول کی۔ ۱۹۰۴ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور تشریف لائے تو آپ کو دوران قیام حضور کی خدمت کا قیمتی موقعہ میسر آیا۔ جن پرجوش مخلصین نے منٹگمری۹۵ میں جماعت قائم کی ان میں آپ بھی تھے۔ مسجد احمدیہ منٹگمری آپ کی تبلیغی کوششوں اور جماعتی استحکام کی جدوجہد کی ایک عمدہ یادگار ہے۔ منٹگمری کے علاوہ آپ )ملازم محکمہ نہر کی حیثیت سے( کئی اور مقامات میں بھی رہے اور ہر جگہ احمدیت کا ایسا اچھا نمونہ پیش کیا کہ دشمن بھی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے۔۹۶
۱۲۔ حضرت خلیفہ نور الدین صاحبؓ جمونی )ولادت ۱۹۰۸ء بکرمی مطابق ۵۱۔ ۱۸۵۲ء بیعت ۲۷۔ دسمبر ۱۸۹۱ء ۳۱۳ صحابہ کبار میں نمبر ۱۶۴۔ وفات ۲۔ تبوک )ستمبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش(
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب صحابی اور حضرت خلیفہ المسیح الاول مولانا نورالدینؓ کے مایہ ناز شاگرد! حضرت اقدس علیہ السلام دعویٰ مسیحیت سے قبل جب حضرت مولانا نورالدین )خلیفہ اولؓ( کی عیادت کے لئے جموں تشریف لے گئے تو حضور نے آپ ہی کے کمرہ میں قیام فرمایا تھا۔۹۷
حضرت خلیفہ صاحبؓ اپنے حالات زندگی میں لکھتے ہیں۔
>میں ابتدائے جوانی میں گجرات میں رہتا تھا اور اس وقت فرقہ اہل حدیث کا ابتدائی چرچا تھا اور پبلک میں اس کی سخت مخالفت تھی۔ ان کی باتیں معقول پاکر میں بھی اہل حدیث میں شامل ہوگیا۔ ایک دفعہ سیال شریف جاتے ہوئے راستہ میں بھیرہ مولوی سلطان احمد صاحب مرحوم سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے ذکر کیا کہ میرا بھائی نور الدین نام مکہ میں حدیث پڑھ رہا ہے۔ اس طرح پہلی دفعہ میں نے حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ خلیفتہ المسیح الاول کا حال سنا۔ پھر جب میں نے سنا کہ مولوی صاحب مکہ سے واپس بھیرہ آگئے ہیں تو میں انہیں ملنے کے واسطے گیا اور ان کے عقائد اور تحقیقی مسائل سے متفق ہوکر ایک عرصہ ان کے پاس رہا اور پھر ان کے ساتھ ہی جموں آگیا۔ جب حضرت مرزا صاحب کی خبر ملی۔ ان کی ملاقات کے واسطے قادیان گیا۔ ایک عرصہ رہا۔ جب حضرت مرزا صاحب نے بیعت لینی شروع کی تو میں نے بھی بیعت کرنی چاہی مگر حضرت مولوی نورالدینؓ صاحب نے فرمایا کہ ہمارے داماد عبدالواحد )پسر مولوی عبداللہ صاحب غزنوی ثم امرتسری( کو پہلے سمجھانا ضروری ہے۔ وہ بیعت کرنے والوں کی بات کو نہ سنے گا تم ابھی بیعت نہ کرو اور اسے سمجھائو۔ میں اسے سمجھاتا رہا مگر اس نے نہ مانا اور جب حضرت مسیح موعودؑ دہلی سے واپس آئے تو میں نے بیعت کرلی۔ اس وقت >نشان آسمانی< لکھی گئی تھی۔ جب کشمیر میں ایک سخت ہیضہ ہوا اس وقت میں سری نگر میں ملازم تھا۔ میری ڈیوٹی لگی کہ شہر کے مختلف حصوں میں پھرکر لوگوں کو صفائی اور علاج وغیرہ کی طرف متوجہ کروں۔ اس وقت سری نگر کے محلہ خانیار میں مجھے معلوم ہوا کہ یہاں ایک قبر ہے جسے شہزادہ نبی یوز آسف کی قبر کہتے ہیں اور بعض اسے حضرت عیسیٰ نبی کی قبر بھی کہتے ہیں۔ میں نے حضرت مولوی صاحب کے پاس اس بات کی رپورٹ کی وہ سنکر چپ ہورہے۔ اس کے بعد جب حضرت مولوی صاحب قادیان گئے اور ایک دفعہ اتفاقاً اس امر کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہوا تو حضرت صاحب نے مجھے بلوایا اور اس امر کی تحقیقات کے واسطے کشمیر بھیجا<۔۹۸
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے >آئینہ کمالات اسلام< )صفحہ ۶۲۷۔ ۶۳۴( >حجتہ الاسلام< )صفحہ ۵( >آریہ دھرم< )صفحہ ۱۲( >ضمیمہ انجام آتھم< )صفحہ ۴۳( >کتاب البریہ< )صفحہ ۲۶( >تحفہ گولڑویہ< )صفحہ ۲۵۱( >نزول المسیح< )صفحہ ۱۲۲۔ ۲۳۸( اور اشتہار ۴۔ اکتوبر ۱۸۹۹ء )مشمولہ تبلیغ رسالت جلد ہشتم( میں آپ کا ذکر فرمایا ہے اور نہایت تعریفی کلمات سے نوازا ہے۔ چنانچہ تحفہ گولڑویہ میں لکھا ہے۔
>جب میں نے اس قصہ کی تصدیق کے لئے ایک معتبر مرید اپنا جو خلیفہ نور الدین کے نام سے مشہور ہیں کشمیر سری نگر میں بھیجا تو انہوں نے کئی مہینے رہ کر بڑی آہستگی اور تدبیر سے تحقیقات کی۔ آخر ثابت ہوگیا کہ فی الواقعہ صاحب قبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں جو یوز آسف کے نام سے مشہور ہوئے<۔۹۹
اسی طرح اپنے اشتہار ۴۔ اکتوبر ۱۸۹۹ء میں تحریر فرمایا۔
>اور خلیفہ نور الدین صاحب ہیں جو ابھی محض لل¶ہ ایک خدمت پر مامور ہوکر کشمیر بھیجے گئے تھے اور چند روز ہوئے فائز المرام ہوکر واپس آگئے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں اس تحقیقات کے متعلق ایک کتاب تالیف کررہا ہوں جس کا نام ہے >مسیح ہندوستان میں<۔ چنانچہ میں نے اس تحقیق کے لئے مخلصی محبی خلیفہ نور الدین صاحب کو جن کا ابھی ذکر کرآیا ہوں کشمیر میں بھیجا تھا تاکہ وہ موقعہ پر حضرت مسیحؑ کی قبر کی پوری تحقیقات کریں۔ چنانچہ وہ قریباً چار ماہ کشمیر میں رہ کر ہر ایک پہلو سے تحقیقات کرکے اور موقع پر قبر کا ایک نقشہ بناکر اور پانچسو چھپن آدمیوں کی اس پر تصدیق کراکر کہ یہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے جس کو عام لوگ شہزادہ نبی کی قبر اور بعض یوز آسف نبی کی قبر اور بعض عیسیٰ صاحب کی قبر کہتے ہیں۔ ۱۷۔ ستمبر ۱۸۹۹ء کو واپس میرے پاس پہنچ گئے۔ سو کشمیر کا مسئلہ تو خاطر خواہ انفصال پاگیا اور پانچ سو چھپن شہادات سے ثابت ہوگیا کہ درحقیقت یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے جو سری نگر محلہ خانیار کے قریب موجود ہے<۔
)حاشیہ( >خلیفہ نورالدین صاحب کو خداتعالیٰ اجر بخشے کہ اس تمام سفر اور رہائش کشمیر میں انہوں نے اپنا خرچ اٹھایا۔ اپنی جان کو تکلیف میں ڈالا اور اپنے مال سے سفر کیا<۔۱۰۰
حضرت خلیفہ صاحبؓ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض نشانوں کے بھی گواہ تھے۔۱۰۱ بعض الہامات و رئویا میں بھی آپ کا نام ملتا ہے۔۱۰۲ جنگ مقدس کے مباحثہ کی کاروائی آپ نے اور حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی نے قلمبند کی تھی۔
حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحبؓ نو مسلم )سابق مہر سنگھ( کا بیان ہے کہ۔
>میں نے دیکھا کہ ایک ایک وقت میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پانچ پانچ سو روپیہ نذر پیش کیا۔ جب سے آپ نے مخیرانہ طور پر چندہ میں حصہ لینا شروع کیا تب سے آپ کے کاروبار میں بھی خداوند کریم نے ترقی پر ترقی دی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مساعی جمیلہ میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر امداد دیا کرتے تھے اور سیالکوٹ لاہور وغیرہ لیکچروں میں حاضر ہوکر ہر طرح امداد دیا کرتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کی نگرانی طباعت میں اور پروف بینی میں بہت حصہ لیا کرتے تھے۔ درثمین۱۰۳ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار کا مجموعہ ہے سب سے پہلے شائع کرنے کی سعادت کو حضرت خلیفہ صاحب نے ہی حاصل کیا<۔۱۰۴
‏tav.8.19,a
‏3] 2][ha [iwg ]54 sli[]1 wrt[]1 -6][rrw ffo22][l sli-6][ 2][loff g1][il tbl[22] sli[تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
تقویم ہجری شمسی کے اجراء سے تفسیر کبیر )جلد سوم( تک
)جو ہر ایک سال کو بارہ ماہ کا شمار کرنے کی صورت میں ۱ ہجری کا پہلا مہینہ ہوتا ہے( پنجشنبہ کو یعنی جمعرات کے روز اور طول البلد کی رو سے بیت اللہ شریف اور حرمین شریفین کی رویت کو معیار قرار دیا گیا ہے۔
حرمین شریفین کی رویت میں اور ہندوستان کی رویت میں بعض اوقات طول البلد کے اختلاف کی وجہ سے ایک دن کا فرق پیدا ہوسکتا ہے۔ اور ہوجاتا ہے کیونکہ ہندوستان کی نسبت عرب میں سورج کسی قدر دیر سے غروب ہوتا ہے۔ اس لئے وہاں چاند بعض دفعہ ایک دن پہلے نظر آجاتا ہے۔
اب ذیل میں ۱۳۱۹ ہش مطابق ۱۹۴۰ء موافق ۱۳۵۸ھ اور ۱۳۵۹ھ کا کیلنڈر دیا جاتا ہے:۔
ہجری شمسی تقویم )کیلنڈر( بابت ۱۳۱۹ہش مطابق ۱۹۴۰ء
ماہ صلح ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ جنوری ۱۹۴۰ء
ایام ہفتہ
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
یکشنبہ
‏T
۷
۱۴
۲۱
۲۸
اتوار
۲۶ ذیقعدہ
۴ ذوالحجہ
۱۱ ذوالحجہ
۱۸ ذوالحجہ
دو شنبہ
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
سوموار
۲۰ ذیقعدہ
۲۷ ذیقعدہ
۵ ذوالحجہ
۱۲ ذوالحجہ
۱۹ ذوالحجہ
سہ شنبہ
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
منگل
۲۱ ذیقعدہ
۲۸ ذیقعدہ
۶ ذوالحجہ
۱۳ ذوالحجہ
۲۰ ذوالحجہ
چہارشنبہ
۳
۱۰
۱۷
۲۴
‏]0 [stf ۳۱
بدھ
۲۲ ذیقعدہ
۲۹ ذیقعدہ
۷ ذوالحجہ
۱۴ ذوالحجہ
۲۱ ذوالحجہ
پنجشنبہ
۴
۱۱
۱۸
۲۵
‏T
جمعرات
۲۳ ذیقعدہ
یکم ذوالحجہ ۱۳۵۸ھ
۸ ذوالحجہ
۱۵ ذوالحجہ
جمعہ
۵
۱۲
۱۹
۲۶
‏T
جمعہ
۲۴ ذیقعدہ
۲ ذوالحجہ
۹ ذوالحجہ
۱۶ ذوالحجہ
شنبہ
۶
۱۳
۲۰
۲۷
‏T
ہفتہ
۲۵ ذیقعدہ
۳ ذوالحجہ
۱۰ ذوالحجہ
۱۷ ذوالحجہ
ماہ تبلیغ ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ فروری ۱۹۴۰ء
ایام ہفتہ
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
یکشنبہ
‏T
۴
۱۱
۱۸
۲۵
اتوار
‏]2b [tag
۲۵ ذوالحجہ
۲ محرم
۹ محرم
۱۶ محرم
دوشنبہ
‏T
۵
۱۲
۱۹
۲۶
سوموار
۲۶ ذوالحجہ
۳ محرم
۱۰ محرم
۱۷ محرم
سہ شنبہ
‏T
۶
۱۳
۲۰
۲۷
منگل
۲۷ ذوالحجہ
۴ محرم
۱۱ محرم
۱۸ محرم
چہارشنبہ
‏T
۷
۱۴
۲۱
۲۸
بدھ
۲۸ ذوالحجہ
۵ محرم
۱۲ محرم
۱۹ محرم
‏t1] ga[tپنجشنبہ
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
جمعرات
۲۲ ذوالحجہ
۲۹ ذوالحجہ
۶ محرم
۱۳ محرم
۲۰ محرم
جمعہ
۲
۹
۱۶
۲۳
‏T
جمعہ
۲۳ ذوالحجہ
۳۰ ذوالحجہ
۷ محرم
۱۴ محرم
شنبہ
۳
۱۰
۱۷
۲۴
‏T
ہفتہ
۲۴ ذوالحجہ
یکم محرم ۱۳۵۹ھ
۸ محرم
۱۵ محرم

ماہ امان ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ مارچ ۱۹۴۰ء
ایام ہفتہ
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
ہفتہ ششم
یکشنبہ
‏T
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۳۱
اتوار
۲۳ محرم
یکم صفر
۸ صفر
۱۵ صفر
۲۲ صفر
دوشنبہ
‏]2t T[tag
۴
۱۱
۱۸
۲۵
‏T
سوموار
۲۴ محرم
۲ صفر
۹ صفر
۱۶ صفر
سہ شنبہ
‏T
۵
۱۲
۱۹
‏]a6t [tag ۲۶
‏T
منگل
۲۵ محرم
۳ صفر
۱۰ صفر
۱۷ صفر
چہارشنبہ
‏T
۶
۱۳
۲۰
۲۷
‏T
بدھ
۲۶ محرم
۴ صفر
‏]b5a [tag۱۱ صفر
۱۸ صفر
پنجشنبہ
‏T
۷
۱۴
۲۱
۲۸
‏T
جمعرات
۲۷ محرم
۵ صفر
۱۲ صفر
۱۹ صفر
جمعہ
۱
۸
‏]0 [stf ۱۵
۲۲
۲۹
‏T
جمعہ
۲۱ محرم ۱۳۵۹ھ
۲۸ محرم
۶ صفر
۱۳ صفر
۲۰ صفر
شنبہ
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
‏T
ہفتہ
۲۲ محرم
۲۹ محرم
۷ صفر
۱۴ صفر
۲۱ صفر
ماہ شہادت ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ اپریل ۱۹۴۰ء
ایام ہفتہ
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
یکشنبہ
‏T
۷
۱۴
۲۱
۲۸
اتوار
۲۹ صفر
۶ ربیع الاول
۱۳ ربیع الاول
۲۰ ربیع الاول
دوشنبہ
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
سوموار
۲۳ صفر۱۳۵۹ھ
۳۰ صفر
۷ ربیع الاول
۱۴ ربیع الاول
۲۱ ربیع الاول
سہ شنبہ
‏ ۲ 0] [rtf
۹
۱۶
۲۳
۳۰
منگل
۲۴ صفر
یکم ربیع الاول
۸ ربیع الاول
۱۵ ربیع الاول
۲۲ ربیع الاول
چہارشنبہ
۳
۱۰
۱۷
۲۴
‏T
بدھ
۲۵ صفر
۲ ربیع الاول
۹ ربیع الاول
۱۶ ربیع الاول
پنجشنبہ
۴
۱۱
۱۸
۲۵
‏T
جمعرات
۲۶ صفر
۳ ربیع الاول
۱۰ ربیع الاول
۱۷ ربیع الاول
جمعہ
۵
۱۲
۱۹
۲۶
‏T
جمعہ
۲۷ صفر
۴ ربیع الاول
۱۱ ربیع الاول
۱۸ ربیع الاول
شنبہ
۶
۱۳
۲۰
۲۷
‏T
ہفتہ
۲۸ صفر
۵ ربیع الاول
۱۲ ربیع الاول
۱۹ ربیع الاول

ماہ ہجرت ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ مئی ۱۹۴۰ء
ایام ہفتہ
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
یکشنبہ
‏T
۵
۱۲
۱۹
۲۶
اتوار
۲۷ ربیع الاول
۵ ربیع الثانی
۱۲ ربیع الثانی
۱۹ ربیع الثانی
دوشنبہ
‏T
۶
۱۳
۲۰
۲۷
پیر
۲۸ ربیع الاول
۶ ربیع الثانی
۱۳ ربیع الثانی
۲۰ربیع الثانی
سہ شنبہ
‏T
۷
۱۴
۲۱
۲۸
منگل
۲۹ ربیع الاول
۷ ربیع الثانی
۱۴ ربیع الثانی
۲۱ ربیع الثانی
چہارشنبہ
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
بدھ
۲۳ ربیع الاول
یکم ربیع الثانی
۸ ربیع الثانی
۱۵ ربیع الثانی
۲۲ ربیع الثانی
پنجشنبہ
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
جمعرات
۲۴ ربیع الاول
۲ ربیع الثانی
۹ ربیع الثانی
۱۶ ربیع الثانی
۲۳ ربیع الثانی
جمعہ
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۳۱
جمعہ
۲۵ ربیع الاول
۳ ربیع الثانی
۱۰ ربیع الثانی
۱۷ ربیع الثانی
۲۴ ربیع الثانی
شنبہ
۴
۱۱
۱۸
۲۵
‏T
ہفتہ
۲۶ ربیع الاول
۴ ربیع الثانی
۱۱ ربیع الثانی
۱۸ ربیع الثانی
ماہ احسان ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ جون ۱۹۴۰ء
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
ہفتہ ششم
۱
‏T
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰

۲۶ ربیع الثانی
۳ جمادی الاولیٰ
۱۰ جمادی الاولیٰ
۱۷ جمادی الاولیٰ
۲۴ جمادی الاولیٰ
۲
‏T
۳
۱۰
۱۷
۲۴
‏T

۲۷ ربیع الثانی
۴ جمادی الاولیٰ
۱۱ جمادی الاولیٰ
۱۸ جمادی الاولیٰ
۳
‏T
۴
۱۱
۱۸
۲۵
‏T

۲۸ ربیع الثانی
۵ جمادی الاولیٰ
۱۲ جمادی الاولیٰ
۱۹ جمادی الاولیٰ
۴
‏20] T[p
۵
۱۲
۱۹
۲۶
‏T

۲۹ ربیع الثانی
۶ جمادی الاولیٰ
۱۳ جمادی الاولیٰ
۲۰ جمادی الاولیٰ
۵
‏T
۶
۱۳
۲۰
۲۷
‏T

۳۰ ربیع الثانی
۷ جمادی الاولیٰ
۱۴ جمادی الاولیٰ
۲۱ جمادی الاولیٰ
۶
‏T
۷
۱۴
۲۱
۲۸
‏T

یکم|جمادی الاولیٰ
۸ جمادی الاولیٰ
۱۵ جمادی الاولیٰ
۲۲ جمادی الاولیٰ
۷
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
‏T
۲۵ ربیع الثانی
۲ جمادی الاولیٰ
۹ جمادی الاولیٰ
۱۶ جمادی الاولیٰ
۲۳ جمادی الاولیٰ

ماہ وفا ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ جولائی ۱۹۴۰ء
ایام ہفتہ
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
یکشنبہ
‏T
۷
۱۴
۲۱
۲۸
اتوار
۲ جمادی الاخریٰ
۹ جمادی الاخریٰ
۱۶ جمادی الاخریٰ
۲۳ جمادی الاخریٰ
دوشنبہ
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
پیر
۲۵ جمادی الاولیٰ
۳ جمادی الاخریٰ
۱۰ جمادی الاخریٰ
۱۷ جمادی الاخریٰ
۲۴ جمادی الاخریٰ
سہ شنبہ
۲
‏ ۹ 0] ft[r
۱۶
۲۳
۳۰
منگل
۲۶ جمادی الاولیٰ
۴ جمادی الاخریٰ
۱۱ جمادی الاخریٰ
۱۸ جمادی الاخریٰ
۲۵ جمادی الاخریٰ
چہارشنبہ
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۳۱
بدھ
۲۷ جمادی الاولیٰ
۵ جمادی الاخریٰ
۱۲ جمادی الاخریٰ
۱۹ جمادی الاخریٰ
۲۶ جمادی الاخریٰ
پنجشنبہ
۴
۱۱
۱۸
۲۵
‏T
جمعرات
۲۸ جمادی الاولیٰ
۶ جمادی الاخریٰ
۱۳ جمادی الاخریٰ
۲۰ جمادی الاخریٰ
جمعہ
۵
‏ ۱۲ 0] ft[r
۱۹
۲۶
‏T
جمعہ
۲۹ جمادی الاولیٰ
۷ جمادی الاخریٰ
۱۴ جمادی الاخریٰ
۲۱ جمادی الاخریٰ
شنبہ
۶
۱۳
۲۰
۲۷
‏T
ہفتہ
یکم جمادی الاخریٰ
۸ جمادی الاخریٰ
۱۵ جمادی الاخریٰ
۲۲ جمادی الاخریٰ
ماہ ظہور ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ اگست ۱۹۴۰ء
ایام ہفتہ
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
یکشنبہ
‏T
۴
۱۱
۱۸
۲۵
اتوار
‏]2b [tag
۳۰ جمادی الاخریٰ
۷ رجب
۱۴ رجب
۲۱ رجب
دوشنبہ
‏T
۵
۱۲
۱۹
۲۶
پیر
یکم رجب
۸ رجب
۱۵ رجب
۲۲ رجب
سہ شنبہ
‏T
۶
‏ ۱۳ 0] f[rt
۲۰
۲۷
منگل
۲ رجب
۹ رجب
۱۶ رجب
۲۳ رجب
چہارشنبہ
‏T
۷
۱۴
۲۱
۲۸
بدھ
۳ رجب
۱۰ رجب
۱۷ رجب
۲۴ رجب
پنجشنبہ
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
جمعرات
۲۷ جمادی الاخریٰ
۴ رجب
۱۱ رجب
۱۸ رجب
۲۵ رجب
جمعہ
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
جمعہ
۲۸ جمادی الاخریٰ
۵ رجب
‏b4] ga[t۱۲ رجب
۱۹ رجب
۲۶ رجب
شنبہ
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۳۱
ہفتہ
۲۹ جمادی الاخریٰ
۶ رجب
۱۳ رجب
۲۰ رجب
۲۷ رجب
ماہ تبوک ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ ستمبر ۱۹۴۰ء
ایام ہفتہ
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
یکشنبہ
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
اتوار
۲۸ رجب
۶ شعبان
۱۳ شعبان
۲۰ شعبان
۲۷ شعبان
دوشنبہ
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
پیر
۲۹ رجب
۷ شعبان
۱۴ شعبان
۲۱ شعبان
۲۸ شعبان
سہ شنبہ
۳
۱۰
۱۷
۲۴
‏T
منگل
یکم شعبان
۸ شعبان
۱۵ شعبان
۲۲ شعبان
چہارشنبہ
۴
۱۱
۱۸
۲۵
‏T
بدھ
۲ شعبان
۹ شعبان
۱۶ شعبان
۲۳ شعبان
پنجشنبہ
۵
۱۲
۱۹
۲۶
‏T
جمعرات
۳ شعبان
۱۰ شعبان
۱۷ شعبان
‏]b5 [tag۲۴ شعبان
جمعہ
۶
۱۳
۲۰
۲۷
‏T
جمعہ
۴ شعبان
۱۱ شعبان
۱۸ شعبان
۲۵ شعبان
شنبہ
۷
۱۴
۲۱
۲۸
‏]3 T[stf
ہفتہ
۵ شعبان
۱۲ شعبان
۱۹ شعبان
۲۶ شعبان
ماہ اخاء ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ اکتوبر ۱۹۴۰ء
ایام ہفتہ
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
یکشنبہ
‏T
۶
۱۳
۲۰
۲۷
اتوار
۴ رمضان|المبارک
۱۱ رمضان|المبارک
۱۸ رمضان|المبارک
۲۵ رمضان|المبارک
دو شنبہ
‏T
۷
۱۴
۲۱
۲۸
پیر
۵ رمضان|المبارک
۱۲ رمضان|المبارک
۱۹ رمضان|المبارک
۲۶ رمضان|المبارک
سہ شنبہ
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
منگل
۲۹ شعبان
۶ رمضان|المبارک
۱۳ رمضان|المبارک
۲۰ رمضان|المبارک
۲۷ رمضان|المبارک
چہارشنبہ
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
بدھ
۳۰ شعبان
۷ رمضان|المبارک
۱۴ رمضان|المبارک
۲۱ رمضان|المبارک
۲۸ رمضان|المبارک
پنجشنبہ
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۳۱
جمعرات
یکم رمضان|المبارک
۸ رمضان|المبارک][۱۵ رمضان|المبارک
۲۲ رمضان|المبارک
۲۹ رمضان|المبارک
جمعہ
۴
۱۱
۱۸
۲۵
‏T
جمعہ
۲ رمضان|المبارک
۹ رمضان|المبارک
۱۶ رمضان|المبارک
۲۳ رمضان|المبارک
شنبہ
۵
۱۲
۱۹
۲۶
‏T
ہفتہ
۳ رمضان|المبارک
۱۰ رمضان|المبارک
۱۷ رمضان|المبارک
۲۴ رمضان|المبارک

ماہ نبوت ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ نومبر ۱۹۴۰ء
ایام ہفتہ
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
یکشنبہ
‏T
۳
۱۰
۱۷
۲۴
اتوار
۳ شوال
۱۰ شوال
۱۷ شوال
۲۴ شوال
دوشنبہ
‏T
۴
۱۱
۱۸
۲۵
‏]b1 [tagپیر
۴ شوال
۱۱ شوال
۱۸ شوال
۲۵ شوال
سہ شنبہ
‏T
۵
۱۲
۱۹
۲۶
منگل
۵ شوال
۱۲ شوال
۱۹ شوال
۲۶ شوال
چہارشنبہ
‏T
۶
۱۳
۲۰
۲۷
بدھ
۶ شوال
۱۳ شوال
۲۰ شوال
۲۷ شوال
پنجشنبہ
‏T
۷
۱۴
۲۱
۲۸
جمعرات
۷ شوال
۱۴ شوال
۲۱ شوال
۲۸ شوال
جمعہ
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۷ شوال
۱۴ شوال
۲۱ شوال
۲۸ شوال
جمعہ
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
جمعہ
یکم شوال
۸ شوال
۱۵ شوال
۲۲ شوال
۲۹ شوال
شنبہ
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
ہفتہ
۲ شوال
۹ شوال
۱۶ شوال
۲۳ شوال
۳۰ شوال
ماہ فتح ۱۳۱۹ہش مطابق ماہ دسمبر ۱۹۴۰ء
ایام ہفتہ
ہفتہ اول
ہفتہ دوم
ہفتہ سوم
ہفتہ چہارم
ہفتہ پنجم
یکشنبہ
۱
۸
۱۵
۲۲
۲۹
اتوار
یکم ذیقعدہ
۸ ذیقعدہ
۱۵ ذیقعدہ
۲۲ ذیقعدہ
۲۹ ذیقعدہ
دوشنبہ
۲
۹
۱۶
۲۳
۳۰
پیر
۲ ذیقعدہ
۹ ذیقعدہ
۱۶ ذیقعدہ
۲۳ ذیقعدہ
یکم ذوالحجہ
سہ شنبہ
۳
۱۰
۱۷
۲۴
۳۱
منگل
۳ ذیقعدہ
۱۰ ذیقعدہ
۱۷ ذیقعدہ
۲۴ ذیقعدہ
۲ ذوالحجہ
چہار شنبہ
۴
۱۱
۱۸
۲۵
‏T
بدھ
۴ ذیقعدہ
۱۱ ذیقعدہ
۱۸ ذیقعدہ
۲۵ ذیقعدہ
پنجشنبہ
‏]0 [stf ۵
۱۲
۱۹
۲۶
‏T
جمعرات
۵ ذیقعدہ
۱۲ ذیقعدہ
۱۹ ذیقعدہ
۲۶ ذیقعدہ
جمعہ
۶
۱۳
۲۰
۲۷
‏T
جمعہ
۶ ذیقعدہ
۱۳ ذیقعدہ
۲۰ ذیقعدہ
۲۷ ذیقعدہ
شنبہ
۷
۱۴
۲۱
۲۸
‏T
ہفتہ
۷ ذیقعدہ
۱۴ ذیقعدہ
۲۱ ذیقعدہ
۲۸ ذیقعدہ

نشرواشاعت کی طرف سے پہلے کیلنڈر کی اشاعت
ہجری شمسی کا یہ پہلا کیلنڈر جو حضرت مولانا محمد اسمٰعیل صاحب نے شائع کیا۔ اسی سال کے آغاز میں نظارت دعوت وتبلیغ کے شعبہ نشرواشاعت ۱۴ کی طرف سے نہایت خوبصورت اور دیدہ زیب صورت میں شائع کردیا گیا ۔ اس کیلنڈر کی خصوصیات یہ تھیں۔
۱۔
اس میں سن ہجری شمسی` سن ہجری قمری اور سن عیسوی تینوں دیئے گئے تھے۔
۲۔
دن ` مہینے اور سال اردو کے علاوہ انگریزی میں بھی لکھے گئے۔
۳۔
کیلنڈر کے درمیان لوائے احمدیت کا خوشنما بلاک تھا۔
‏in] g[ta۴۔
کیلنڈر اعلیٰ آرٹ پیپر پر چار رنگوں میں شائع کیا گیا اور اس کا سائز ۱۸ انچ x ۲۲ انچ تھا۔ کیلنڈر پر سبز رنگ میں اسلامی تعطیلات` سرخ رنگ میں سرکاری تعطیلات اور سیاہ رنگ میں عام تاریخیں درج تھیں۔ ۱۵
‏tav.8.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
رسالہ >فرقان< کے اجراء سے لیکچر >نظام نو< تک
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آپ کے نام رقم فرمودہ خطوط یا اپنی تالیفات کے بعض قیمتی مسودات اور تبرکات اکثر و بیشتر جموں میں ہی ضائع ہوگئے تھے۔ البتہ دو خط اور کشتی نوح اور نزول المسیح کے بعض قیمتی مسودات جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلم مبارک سے لکھے ہوئے ہیں اب تک ان کے فرزند الحاج خلیفہ عبدالرحمن صاحب کے پاس محفوظ ہیں۔۱۰۵
۱۳۔ حضرت مستری فیض احمد صاحبؓ۔ )ولادت ۶۸۔ ۱۸۶۷ء۔ بیعت ۱۸۹۷ء وفات ۴۔ تبوک ۱۳۲۱ہش )۴۔ ستمبر ۱۹۴۲ء(۱۰۶
میاں محمد ابراہیم صاحب بی۔ اے جمونی۱۰۷ نے ان کی مختصر سوانح ۱۱۔ ستمبر ۱۹۴۲ء/ تبوک ۱۳۲۱ہش کے الفضل میں شائع کرا دی تھی جس کا ایک ضروری حصہ درج ذیل کیا جاتا ہے۔
>ابتدائی تعلیم سیالکوٹ میں حاصل کی۔ مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی اہلحدیث اور حضرت مولوی فیض الدین صاحبؓ کے ساتھ پڑھتے رہے۔ حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کا شاگرد ہونے کا فخر حاصل تھا۔ ابتداء میں اہلحدیثوں کی طرف سے مناظروں میں شریک ہوتے تھے۔ بعد میں حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ کی تحریک پر احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور ۱۸۹۷ء میں بیعت کا شرف حاصل کیا۔ سیالکوٹ میں حکیم حسام الدین صاحب مرحوم اور حضرت میر حامد شاہ صاحب کے خاص مصاحبوں میں سے تھے اور ان کا دینی شغف اور علم انہیں بزرگوں کا رہین منت تھا کاروبار کے سلسلہ میں جموں سکونت اختیار کی تو حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ المسیح الاولؓ کی جو ان دنوں ریاست جموں میں سرکار کے طبیب تھے معیت نصیب ہوئی اور ان سے خاص انس و محبت پیدا ہوگئی۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے شرف ہوچکنے کے بعد اکثر قادیان آتے رہے اور وفات تک یہی معمول رہا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے فیض یاب ہونے کی وجہ سے تقویٰ و روحانیت سے خاص حصہ ملا تھا اور حضور علیہ السلام سے ایک خاص انس و عقیدت تھی۔ باوجود کاروباری آدمی ہونے کے دین کو صحیح معنوں میں دنیا پر مقدم رکھتے تھے۔ تبلیغ مسائل سلسلہ ان کا من بھاتا مشعلہ تھا۔ دن رات یہی دھن لگی رہتی تھی۔ گھر میں اور باہر ہر جگہ یہی چرچا ہوتا تھا۔ گفتگو نہایت موثر اور مدلل ہوتی تھی اور ہر مخالف کو خداداد قابلیت اور جوش ایمان کی وجہ سے شکست دے سکتے تھے۔ ایمان اور عقیدہ اس قدر پختہ تھا اور پھر خود حق پر ہونے کا اس قدر یقین تھا کہ نہ صرف غیراحمدی اور غیر مبائع بلکہ غیر مذاہب کے بڑے بڑے عالم کا بلاخوف و خطر مقابلہ کرتے تھے۔ چنانچہ مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی۔ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری۔ کشمیر کے میر واعظ اور سیر و سیاحت پر کشمیر آنے والے بڑے بڑے آریہ لیڈروں کے ساتھ نہایت کامیاب گفتگو کرتے رہے۔ غیر مبائع کو ہاتھوں ہاتھ لیتے تھے۔ چنانچہ جموں کے غیر مبائع اصحاب نے جہاں تک مجھے یاد ہے یہ فیصلہ کیا ہوا تھا کہ ان سے گفتگو نہ کی جائے۔ ایمان بالرسالت اور خلافت کے مسئلہ پر خاص طود پر عبور تھا اور اہل حدیثوں کی مزعومہ توحید کی مخصوص تشریح فرمایا کرتے تھے اور عام فہم اور معقول دلائل دیتے ہوئے خود فرمایا کرتے تھے۔ اتقوا فراسہ المومن انہ ینظر بنوراللہ۔ گھر میں دینی فضاء پیدا کرنے کا موجب ہونے کے علاوہ جموں کی جماعت کے روح رواں تھے اور جب پیغامیوں کا فتنہ پیدا ہوا اور خواجہ جمال الدین صاحب برادر خواجہ کمال الدین مرحوم انسپکٹر مدارس جموں اور دیگر سرکردہ لوگ جماعت کا ساتھ چھوڑ گئے تو نہایت استقلال اور استقامت کے ساتھ ان کا مقابلہ کرکے جماعت احمدیہ جموں کے قیام کا باعث ہوئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چونکہ خدا کے فضل سے کاروبار کے سلسلہ میں حکام سے واسطہ پڑتا رہتا اس لئے حکام اور عوام میں جماعت ان کے اثر و رسوخ کے طفیل ایک باوقار جماعت سمجھی جاتی تھی۔ مبلغین سلسلہ بلکہ افراد سلسلہ جنہیں جموں یا کشمیر ٹھہرنے یا جانے کا اتفاق ہوا ہے سبھی اس بات کے گواہ ہیں کہ احمدی احباب کی خاطر و مدارت کرنے میں وہ ایک گونہ راحت پاتے تھے۔ اور ان کی خدمت کرنا بلکہ مالی امداد تک کرنا اپنا فرض سمجھتے تھے اور خود کوشش کرکے دوستوں کو اپنے ہاں مہمان ٹھہراتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا کے فضل سے صاحب کشوف و رئویا تھے حتیٰ کہ خواب میں حضرت نبی کریم~صل۱~ کی زیارت بھی کرچکے تھے<۔۱۰۸
۱۴۔ میاں زین العابدین صاحبؓ )برادر خورد حضرت حافظ حامد علی صاحبؓ( ساکن تھہ غلام نبی ضلع گورداسپور )وفات ۲۸۔ تبوک )ستمبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش(۱۰۹
۱۵۔ ڈاکٹر عالم الدین صاحبؓ کڑیانوالہ ضلع گجرات )وفات ۱۲۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء/ اخاء ۱۳۲۱ہش بعمر ۶۷ سال(۱۱۰
۱۶۔ مرزا شریف اللہ خان صاحبؓ موضع مانیری پایاں تحصیل صوابی ضلع مرادن۔
)ولادت ۶۴۔ ۱۸۶۳ء/ ۱۲۸۰ھ۔ بیعت ۱۹۰۱ء وفات ۸۔ نوت )نومبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش(
آپ نے حضرت میاں محمد یوسف صاحبؓ اپیل نویس مردان کی کوشش سے سے احمدیت قبول کی۔ بڑے خلیق۔ مہمان نواز` خوش مزاج` حاضر جواب` متواضع اور جوانمرد انسان تھے۔ تبلیغ کا بہت شوق تھا اور صوبہ سرحد میں اشاعت احمدیت کے لئے بڑی دلچسپی لیتے اور مالی امداد بھی کرتے رہتے تھے۔۱۱۱
۱۷۔ چوہدری غلام حیدر صاحبؓ نمبر دار چک نمبر ۴۳ جنوبی۔ ضلع سرگودھا۔ )وفات ۱۳۔ نومبر ۱۹۴۲ء/ نبوت ۱۳۲۱ہش(۱۱۲
۱۸۔ حافظ محمد امین صاحبؓ تاجر کتب جہلم۔
)وفات فتح )دسمبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش(۱۱۳
حضرت مولانا نورالدین خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ کے رضاعی بھائی تھے۔ آپ کا نام ۳۱۳ اصحاب مسیح موعودؑ میں نمبر ۳۰۰ پر درج ہے۔۱۱۴
مندرجہ بالا صحابہؓ کے علاوہ اس سال اہلیہ صاحبہ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مخلص صحابیہ تھیں ۱۲۔ وفا/ جلائی ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش کو انتقال کر گئیں۔ آپ ۱۸۹۹ء میں بعمر پندرہ سولہ برس ہجرت کرکے قادیان آئیں اور ۱۹۰۰ء میں داخل احمدیت ہوگئیں اور پھر وفات تک یہیں رہیں۔ پابند صوم و صلٰوۃ` شب بیدار اور اپنے واجب التعظیم شوہر کی حد درجہ فرمانبردار خاتون تھیں۔۱۱۵
حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ نے ان کی وفات پر لکھا۔
>مرحومہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی خواتین نہایت محبت کی نگاہ سے دیکھتی تھیں اور یہ اس دیرینہ محبت کا تقاضا تھا کہ حضرت ام المومنین مدظلہا العالی نے مرحومہ کے چہرہ پر اپنے مبارک ہاتھ پھیرے۔ مرحومہ غریبوں پر رحم کرنے والی اور مصیبت زدوں پر ترس کھانے والی تھیں۔ وہ کسی کو بھی خالی واپس کرنا پسند نہ کرتی تھیں۔ نہایت فیاض اور مہمان نواز تھیں۔ میرے لئے تو سراسر مجسمہ رحمت تھیں۔ جو سلوک اور برتائو انہوں نے میرے ساتھ کیا اس کو دیکھ کر ہمیشہ میں یہی سمجھتا تھا کہ خداتعالیٰ نے ان کو خاص میرے لئے ہی بنایا تھا۔ مرحومہ ہمیشہ مجھے نماز کے لئے جگاتی رہیں اور اپنی اس ڈیوٹی کو اپنی بیماری کی شدید ترین حالت میں بھی ادا کرتی رہیں۔ مگر جب ان کی کمزوری اس حد تک پہنچ گئی کہ وہ اپنی آواز مجھ تک پہنچا نہ سکتی تھیں تو وہ اپنی نواسی کو جو ان کے بالکل قریب سوئی ہوتی تھی جگاتیں تاکہ وہ مجھ کو جگا دے۔
ان کو یقین تھا کہ یہ ان کی آخری بیماری ہے۔ اس کے بعد وہ اس دنیا سے رخصت ہونے والی ہیں۔ لیکن وہ نہایت اطمینان کے ساتھ اپنی آخری گھڑی کا انتظار کرتی رہیں۔ اپنے بچوں کو بھی صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتیں کہ رونا نہیں صبر کرنا۔ کسی قسم کا اضطراب یا بے چینی ان کی طبیعت میں نہ پائی جاتی تھی۔ اس دنیا سے اور عزیزان سے آنے والی جدائی کے خیال پر کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ بیمار پرسی کرنے والوں سے ان کی اس کے سوا اور کوئی درخواست نہ تھی کہ میرے نیک خاتمہ اور ایمان کے لئے دعا کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرحومہ کے دادا نے جو ایک صالح انسان تھے غالباً رمضان شریف کے آخری عشرہ کی راتوں میں جبکہ وہ اپنے کھیتوں میں کھڑے پانی دے رہے تھے ایک روشنی دیکھی اور اس روشنی میں دیکھا کہ فرشتے ایک پالکی اٹھائے لئے آرہے ہیں۔ اس نظارہ کے متعلق میرا یہی خیال رہا ہے کہ ان کو دکھایا گیا کہ ان کی اولاد سے ایک خوش قسمت خاتون پیدا ہوگی جن کے لئے یہ مقدر تھا کہ وہ نوعمری کی حالت میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں حاضر ہوئیں اور اپنی ساری عمر مسیحؑ کی بستی میں گزاری اور آخر خدا کے فضل سے حضرت فضل عمر سے نماز جنازہ کا شرف حاصل کرتے ہوئے اور بہت سے بزرگوں اور خواتین کی دعائیں ساتھ لیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قدموں میں پہنچ گئیں اور اس پر اللہ تعالیٰ نے مزید احسان یہ کیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جنازہ کو کندھا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابتدائی زمانہ میں مرحومہ کو دار مسیحؑ موعود میں رہنے کا فخر حاصل ہوا۔ اوائل عمر میں ان کو ہسٹریا کے دورے بھی ہوجایا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک دن سخت دورہ ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اطلاع دی گئی۔ آپ نے دعا بھی کی اور دوا بھی دی۔ مرحومہ کہا کرتی تھیں کہ یہ آخری دورہ تھا جو مجھ کو ہوا اور یہ بات وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃوالسلام کے نشان کے طور پر ذکر کیا کرتی تھیں اس طرح وہ اور نشانات کا ذکر بھی کیا کرتی تھیں<۔۱۱۶
بعض دوسرے مخلصین کی وفات
مندرجہ ذل مخلصین بھی اس سال دار فانی سے رحلت کر گئے۔
۱۔
خواجہ عبدالرحمن صاحب کارکن >الفضل<۱۱۷ )ابن حضرت میاں شادی خان صاحبؓ(
۲۔
صوبیدار خوشحال خان صاحب )شہید( مینی تحصیل صوابی ضلع مردان۔۱۱۸
۳۔
ڈاکٹر احمد خان صاحب شیخ پور ضلع گجرات۔۱۱۹
۴۔
مولوی محمد عثمان صاحب ضلع بستی )یو۔ پی(۱۲۰
۵۔
چوہدری علی محمد صاحب چدھڑ نائب تحصیلدار رودکوہی تونسہ ضلع ڈیرہ غازی خاں متوطن ضلع جھنگ تحصیل چنیوٹ۔۱۲۱
۶۔
محمد ابراہیم صاحب )جنرل سیکرٹری جماعت ہائے احمدیہ برما(۱۲۲
‏]ni [tag۷۔
ملک شیر محمد خان صاحب امیر جماعت احمدیہ کوٹ رحمت خان ضلع شیخوپورہ۔۱۲۳
فصل ششم
۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش کے متفرق اہم واقعات
خاندان مسیح موعودؑ میں پرمسرت تقاریب
۱۔ حضرت صاحبزاد حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کے ہاں ۲۹۔ جنوری ۱۹۴۲ء/ صلح ۱۳۲۱ہش کو صاحبزادی امتہ الحلیم صاحبہ کی ولادت ہوئی۔۱۲۴
۲۔ حضرت خان محمد عبداللہ صاحب کی صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ کی تقریب رخصتانہ ۲۸۔ مارچ ۱۹۴۲ء/ امان ۱۳۲۱ہش کو بعد نماز عصر نہایت سادگی سے ان کی کوٹھی واقع دارالعلوم میں منعقد ہوئی۔ برات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے فرزند صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کی تھی۔ حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ نے جو پہلے سے رونق افروز تھے اپنے دست مبارک سے دولہا میاں کو ہار پہنایا اور مجمع سمیت دعا فرمائی۔۱۲۵ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی طرف سے ۳۰۔ مارچ ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش کو بعد نماز مغرب سابق زنانہ لنگر خانہ کے صحن میں دعوت ولیمہ دی گئی جس میں حضرت امیرالمومنینؓ نے بھی شرکت فرمائی۔
۳۔ حضرت خان محمد عبداللہ خان صاحب کی صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبہ کی تقریب رخصتانہ ۷۔ ماہ مئی ۱۹۴۲ء ہجرت/ ۱۳۲۱ہش کو بعد نماز عصر کوٹھی درالسلام کے باغ میں عمل میں آئی۔ صاحبزادہ مرزا دائود احمد صاحب )ابن حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ( کی برات میں خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے صاحبزادگان کے علاوہ اور بھی بہت سے بزرگ تھے۔ اس موقع پر حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اجتماعی دعا کرائی۔۱۲۶ ۹۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے اپنی کوٹھی پر بعد نماز مغرب دعوت ولیمہ کا اہتمام فرمایا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے بھی شرکت فرمائی اور دعا کرائی۔ مدعوین کی تعداد پانچ سو کے لگ بھگ تھی۔۱۲۷
۴۔ صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب )ابن حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ( کے ہاں ۲۸۔ نومبر ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش کو صاحبزادی امتہ المجیب بیگم صاحبہ کی ولادت ہوئی۔۱۲۸
۵۔ حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے فرزند میاں محمد احمد خان صاحب کے ہاں ۱۷۔ دسمبر ۱۹۴۲ء/ فتح ۱۳۲۱ہش کو میاں حامد احمد خان صاحب کی ولادت ہوئی۔۱۲۹
نامدھاری سکھوں کی اتحاد کانفرنس میں احمدی مبلغین کی شمولیت
نامدھاری سکھوں کے گورو شری پرتاپ سنگھ جی نے اپنے صدر مقام بھینی صاحب ضلع لدھیانہ میں یکم اپریل ۱۹۴۲ء/ شہادت ۱۳۲۱ہش کو ایک اتحاد کانفرنس منعقد کی۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے منتظمین کی خواہش پر مہاشہ محمد عمر صاحب۱۳۰ اور گیانی عباداللہ صاحب اس کانفرنس میں شامل ہوئے۔ احمدی مبلغین کی تقریریں بہت دلچسپی سے سنی گئیں اور بھرے مجمع میں اس بات کا اقرار کیا گیا کہ ہندو سکھ مسلم اتحاد کا سہرا اصل میں جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے سر ہے جنہوں نے آج سے برسوں قبل اپنی جماعت کے ہر فرد کو اس بات کی تلقین فرمائی کہ ہر ایک احمدی کا اولین فرض ہے کہ وہ دنیا کی تمام قوموں کے مذہبی پیشوائوں کی عزت اور عظمت کو دنیا میں قائم کرے۔ ایک صاحب نے اپنی تقریر میں بعض باتیں اسلام کے خلاف بیان کرنے کی کوشش کی مگر منتظمین نے اسے فوراً روک دیا اور وقت سے پہلے ہی اس کی تقریر بندا کرادی اور اس کی اس حرکت پر اظہار نفرت کیا گیا۔ نامدھاری صاحبان کی طرف سے احمدی مبلغین کو سروپا )سر سے پائوں تک کی پوشاک۔ انسائیکلو پیڈیا آف سکھ لٹریچر زیر لفظ سروپا( دیئے گئے جو نہایت محبت بھرے الفاظ میں پیش کئے گئے۔ گورو پرتاپ سنگھ صاحب جلسہ سے اٹھ کر احمدی مبلغین کو الوداع کہنے کے لئے آئے اور بغل گیر ہوئے۔ دوسرے نامدھاری اصحاب نے بھی معانقہ کیا۔]01 [p۱۳۱ اس کانفرنس میں تقریباً چالیس ہزار افراد نے شرکت کی۔
میجک لینٹرن پر تبلیغی لیکچر
اس سال ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم )امیر المجاہدین ملکانہ( نے اپنے ذاتی مصارف سے میجک لینٹرن مہیا کی تھی۔ اس سلسلہ میں آپ نے ایک لیکچر دوسری جنگ عظیم کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پیشگوئیوں پر تیار کیا۔ آپ پہلے حضور علیہ السلام کے الہامات اور نظم و نثر کے اقتباسات دکھاتے پھر جنگ کے ہولناک مناظر پیش کرکے۱۳۲4] [rtf حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام حق پہنچاتے تھے۔ یہ لیکچر بٹھنڈہ۔ لاہور۔ ایمن آباد۔ ڈسکہ۔ بدوملہی اور دوسرے بہت سے مقامات پر دیئے گئے جن سے بلاامتیاز مذہب و ملت ہزاروں لوگ متاثر ہوئے اور بعض نے تو علی الاعلان اقرار کیا کہ حضرت مرزا صاحب کا دعویٰ خواہ کچھ ہی ہو مگر یہ پیشگوئیاں جو آپ نے جنگ کی نسبت کی تھیں وہ حرف بحرف پوری ہورہی ہیں۔ کئی لوگ لیکچر سن کر حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔۱۳۳
سنگ بنیاد
۲۴۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے محلہ دارالانوار میں قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔ اے )پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور( کی کوٹھی کا سنگ بنیاد رکھا۔۱۳۴
آل اڑیسہ احمدیہ کانفرنس سونگڑہ
اس سال ۲۹` ۳۰`۳۱۔ ماہ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش کو سونگڑہ میں آل اڑیسہ احمدیہ کانفرنس منعقد ہوئی۔ جس میں حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی` مہاشہ محمد عمر صاحب۔ گیانی عباداللہ صاحب اور مولوی محمد سلیم صاحب نے شرکت کی۔ ہندو مسلم اتحاد۔ فضائل نبیﷺ~۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام۔ کرشن اوتار کا ظہور۔ صداقت مسیح موعودؑ۔ از روئے سکھ دھرم۔ دنیا کے مہاپرش۔ ختم نبوت کے موضوع پر بہت موثر۔ دلاویز اور پر از حقائق تقاریر فرمائیں۔ یہ کانفرنس بہت کامیاب رہی اور غیر احمدی علماء کے روکنے کے باوجود ہر طبقہ کے لوگ بکثرت شامل جلسہ ہوئے۔ حضرت مولانا راجیکیؓ کی تقاریر سے سامعین ازحد متاثر ہوئے۔ اسی طرح مہاشہ محمد عمر صاحب فاضل کی سنسکرت دانی اور گیانی عباداللہ صاحب کی سکھ لٹریچر سے واقفیت نے غیر مسلموں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔4] [stf۱۳۵
آل انڈیا مسلم گوجر کانفرنس میں احمدی مبلغ کی کامیاب تقریریں
۷` ۸۔ جون ۱۹۴۲ء/ احسان ۱۳۲۱ہش کو دو سو پور جموں میں آل انڈیا مسلم گوجر کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کانفرنس کے سیکرٹری کی درخواست پر نظارت دعوت و تبلیغ کی طرف سے ڈاکٹر عبدالرحمن صاحب موگا مرحوم بھجوائے گئے۔ ڈاکٹر صاحب کی تقریریں قومی ترقی کے وسائل کے موضوع پر تھیں۔ یہ کانفرنس بہت کامیاب رہی اور کارکنان مجلس نے وعدہ کیا کہ وہ ہمیشہ اپنی کانفرنسوں میں احمدی مبلغین کو دعوت دیا کریں گے<۔۱۳۶
طلبائے تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی نمایاں کامیابی
۱۹` ۲۰` ۲۱۔ جون ۱۹۴۲ء/ احسان ۱۳۲۱ہش کو >پنجاب سوئمنگ چمپیئن شپ< کے تحت تیراکی کے مقابلے میڈیکل کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور کے تالاب میں ہوئے۔ جن میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کی آٹھویں جماعت کے طالب علم مصلح الدین صاحب بنگالی نے بارہ سال تک کے لڑکوں میں ۵۰ میٹر الٹا تیرنے اور ۵۰ میٹر چھاتی کے زور سے تیرنے کے گزشتہ ریکارڈ توڑ کر نئے ریکارڈ قائم کئے۔ علاوہ ازیں ۵۰ میٹر سیدھا تیرنے میں بھی اول رہے۔ خان بہادر افضل حسین وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی نے مصلح الدین کو دو نئے ریکارڈ قائم کرنے پر خصوصیت سے شاباش دی۔۱۳۷
آریہ سماج کے متعلق حضرت مسیح موعودؑ کی پیشگوئی اور اخبار >شیر پنجاب<
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آریہ سماج کی نسبت ۱۹۰۳ء میں پیشگوئی فرمائی تھی کہ۔
>جس مذہب میں روحانیت نہیں اور جس مذہب میں خدا کے ساتھ مکالمہ کا تعلق نہیں اور صدق و صفا کی روح نہیں اور آسمانی کشش اس کے ساتھ نہیں اور فوق العادت تبدیلی کا نمونہ اس کے پاس نہیں وہ مذہب مردہ ہے۔ اس سے مت ڈرو۔ ابھی تم میں سے لاکھوں اور کروڑوں انسان زندہ ہوں گے کہ اس مذہب کو نابود ہوتے دیکھ لوگے کیونکہ یہ مذہب آریہ کا زمین سے ہے نہ آسمان سے اور زمین کی باتیں پیش کرتا ہے نہ آسمان کی<۔۱۳۸
جن دنوں یہ پیشگوئی کی گئی آریہ سماجی تحریک پورے زوروں پر تھی۔ مگر کچھ عرصہ بعد ہی یہ زوال پذیر ہونے لگی۔ یہاں تک کہ ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش تک اس کی سرگرمیاں ایسی مدھم پڑ گئیں کہ خود غیر مسلموں نے اس حالت کو سکوت مرگ سے تعبیر کیا۔ چنانچہ سکھ اخبار >شیر پنجاب< )لاہور( نے اپنے ۱۲۔ جولائی ۱۹۴۲ء کے پرچہ میں لکھا۔
>انہی دنوں مرزا غلام احمد قادیانی نے اسلام کا علم بلند کیا۔ وقت کی رفتار کے مطابق انہوں نے دلیل اور عقل سے اسلام کے خلاف اعتراضات کا جواب دینے کے لئے تحریر و تقریر کا سلسلہ جاری رکھا۔ مرزا صاحب کی یہ تحریک اس قدر کامیاب ہوئی کہ انہوں نے پیغمبری کا دعویٰ کیا اور ان کا یہ دعویٰ بھی ایک بڑی جماعت نے صحیح تسلیم کرلیا۔ مسلمانوں میں احمدی` ہندوئوں میں آریہ سماجی مذہبی واقفیت کے اعتبار سے باقی جماعتوں پر فوقیت رکھتے تھے۔ احمدیوں کی تحریک تو اب تک زندہ ہے مگر آریہ سماج کی تحریک ختم ہوچکی ہے۔ سنگھ سبھا کی تحریک کی جگہ اکالی تحریک نے لے لی۔ مگر اب سکھوں میں مذہب کے لئے نہ وہ جوش ہے نہ محبت دھرم سے واقفیت کا نوجوانوں کو کوئی شوق نہیں<۔۱۳۹
سرینگر میں مذاہب کانفرنس
جماعت احمدیہ سری نگر کے زیر اہتمام ۲۷۔ اگست ۱۹۴۲ء/ ظہور ۱۳۲۱ہش کو گول باغ )میونسپل گارڈن( میں ایک عظیم الشان مذاہب کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں اسلام۔ ہندو دھرم اور سکھ ازم کے نمائنوں نے >موجودہ بے چینی کا حل اپنی دینی و مذہبی کتاب اور بانی کی سیرت< کے موضوع پر تقریریں کیں۔ اس کانفرنس کے دو اجلاس تھے۔ پہلے اجلاس کی صدارت حضرت خان بہادر نواب چوہدری محمد الدین صاحب سابق ریونیو منسٹر جودھپور نے فرمائی اور مولوی عبدالواحد صاحب مبلغ سلسلہ احمدیہ` مسٹر صابر مدیر >البرق`< مسٹر ودیا بھوشن )نمائندہ آریہ سماج( چودھری خلیل احمد صاحب ناصر` پنڈت پرمانند صاحب` چودھری اسداللہ خان صاحب۔ ڈاکٹر دولت سنگھ صاحب راجہ نریندر ناتھ صاحب کول اور حضرت نواب محمد الدین صاحب نے خطاب کیا۔ دوسرا اجلاس خواجہ غلام السیدین صاحب دائریکٹر محکمہ تعلیم ریاست جموں و کشمیر کی صدارت میں ہوا اور اس میں پنڈت امرناتھ صاحب کاک ممبر اسمبلی` مولانا ابوالعطاء صاحب` لالہ چرنجیت لال صاحب نے تقریریں کیں۔ بعد ازاں صاحب صدر نے منتظمین کانفرنس کو سراہا۔ یہ کانفرنس توقع سے زیادہ کامیاب رہی۔۱۴۰
بیرونی مشنوں کے بعض اہم واقعات
مشرق بعید کی احمدی جماعتوں اورمبلغوں کیلئے دور ابتلاء
جنگ عظیم کے دوران مشرق بعید کے احمدیوں اور ان کے مبلغین کو نہایت درجہ تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ قید و بند کی زہرہ گداز صعوبتیں برداشت کیں اور جاوا اور سماٹرا کے مبلغین اور دوسرے احمدیوں پر جاپانی حکومت کی طرف سے بڑے بڑے مظالم ڈھائے گئے مگر ان کا پتہ برسوں بعد چلا کیونکہ کئی سال تک مرکز کو ان کے حالات کی کچھ خبر نہیں مل سکی۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۰۔ مارچ ۱۹۴۲ء/ امان ۱۳۲۱ہش کے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
>ملایا کی فوجوں میں بڑے اور چھوٹے افسر اور سپاہی وغیرہ ملا کر سینکڑوں احمدی تھے اور اب وہ سارے ہی قید ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ انہیں تکلیفیں دی جاری ہیں یا نہیں دی جارہی ہیں۔ اور اگر نہیں دی جارہی تو بھی قید بہرحال قید ہے۔ ہمارا ایک مبلغ سنگاپور میں تھا اور ہمارے آٹھ نو مبلغ سماٹر اور جاوا میں تھے اب سب کے متعلق جب تک جنگ کا خاتمہ نہ ہو جائے ہمیں کچھ علم نہیں ہوسکتا کہ ان کا کیا حال ہے<۔۱۴۱
فلسطین مشن
‏]text [tagجماعت احمدیہ فلسطین نے ہجرت )مئی( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش میں وسیع پیمانہ پر یوم تبلیغ منایا) اور اس تقریب پر مبلغ بلاد عربیہ مولوی محمد شریف صاحب نے بیت المقدس۔ بیت لحم و خلیل و نابلس کا سفر کیا جس کی تفصیل مولوی صاحب موصوف کے الفاظ میں درج ذیل کی جاتی ہے۔
>ماہ مئی میں حسب ہدایت نظارت دعوۃ و تبلیغ غیر مسلموں میں یوم التبلیغ منایا گیا۔ اس روز احباب کبابیر و حیفا کے حسب سابق وفود بنائے گئے اور فلسطین کے مندرجہ ذیل مشہور مقامات ناصرہ۔ یافا۔ تل ابیب۔ بیت المقدس۔ بیت لحم۔ خلیل۔ حیفا۔ عکا۔ بصہ۔ کفرکنا میں اسلام کا پیغام پہنچایا اور اس موقعہ پر سات ہزار کے قریب مختلف اشتہارات و کتب تقسیم کیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کو راہ حق کی طرف ہدایت دے اور ہمارے احمدی احباب کو اجر عظیم عطا فرمائے جنہوں نے سخت عدیم الفرصتی کے ایام میں اپنے اپنے اخراجات پر یہ سفر کئے۔ آمین۔ خاکسار نے یوم التبلیغ کے موقع پر بیت المقدس و بیت لحم و خلیل و نابلس کا سفر کیا۔ میرے ہمراہ مکرم مرزا محمد صادق صاحب احمدی ایس ڈی او لاہور نزیل مشرق اوسط بھی تھے۔ اس سفر میں ہم نے زبانی اور بذریعہ اشتہارات حق تبلیغ ادا کیا۔ بازاروں اور چرچوں میں عربی اور انگریزی اشتہارات تقسیم کئے۔ ایک ارمنی چرچ میں جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہاں حضرت مسیح ناصری علیہ السلام واقعہ صلیب سے پہلے قید خانہ میں رکھے گئے تھے )ایسے پانچ قید خانے بیت المقدس میں ہیں( ہم نے پادریوں کو اشتہارات دیئے۔ وہاں ایک مسلم شیخ طریقہ )پیر( الشیخ خلیل بھی موجود تھے جو اس چرچ کے قرب و جوار میں رہنے والے تھے۔ جب انہوں نے ہمارے اشتہارات کو دیکھا اور ان کے ہیڈنگ پڑھے یعنی عیسائیوں وغیرہ کو روحانی مقابلہ کی دعوت۔ مسیحی اور اسلامی تعلیم کا مقابلہ۔ عیسائیوں سے بیس سوالات۔ آنحضرت~صل۱~ کی صداقت کا ثبوت بائیبل سے۔ تو انہوں نے ہمارے متعلق خاص دلچسپی لینا شروع کر دی۔ چنانچہ جب ہم چرچ مذکور کے پادریوں سے فارغ ہوئے تو وہ ہمیں اپنے دولت خانہ پر لے گئے اور حسب دستور عرب قہوہ وغیرہ سے تواضع کی ان سے دو گھنٹہ کے قریب مختلف موضوع سلسلہ عالیہ احمدیہ پر گفتگو ہوئی جس سے وہ خدا کے فضل سے متاثر ہوئے اور اپنے ہاں رات کے لئے بالحاح درخواست کی اور ہمارا مزید لٹریچر پڑھنے کے لئے مزید اشتیاق ظاہر کیا۔ جبل زیتون پر بھی وفات مسیحؑ کے متعلق ایک اجتماع میں گفتگو کی گئی جس میں قریباً سب حاضرین نے جو مسلمان تاجر تھے اس بات کو تسلیم کیا کہ آیت فلما توفیتنی سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فوت شدہ ہیں۔ وہاں جس مقام کے متعلق بعض مجاوروں نے مشہور کر رکھا تھا کہ وہاں سے حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے اور وہاں ایک مصنوعی قدم کا نشان بھی بنا رکھا ہے وہاں بھی یہ گفتگو ہوئی۔ اگرچہ ایک غنڈے نے وہاں شرارت کرنی چاہی مگر الحمدلل¶ہ وہ اپنے مکر میں کامیاب نہ ہوسکا۔ خلیل میں جہاں حضرت ابراہیم و سارہ علیہما السلام اور آپ کے دیگر اعزہ` اسحاق` ربقہ و یعقوب و یوسف علیہم السلام کی قبریں ہیں علاوہ اشتہارات وغیرہ تقسیم کرنے کے افسر اوقاف اسلامیہ الشیخ توفیق طبوب سے بھی خاص طور پر ملاقات کی گئی اور ان کو اشتہارات وغیرہ دیئے گئے۔ جنہیں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئے اور ہماری مساعی کا اچھے رنگ میں بہت سے دیگر علماء کے سامنے اعتراف کیا اور ہماری بہت خاطر و مدارات کی۔ فجزاہ اللہ خیراً آتے وقت خاکسار نے نابلس میں بھی قیام کیا اور دعوت حق پہنچائی وہاں پر حال ہی میں دو نوجوانوں نے بیعت کی ہے۔ انہوں نے خاکسار کی دعوت کی اور اپنے دیگر اعزہ کو پیغام حق پہنچوایا۔ اہالی نابلس کی ذہنیت عجیب واقعہ ہوئی ہے۔ ثورہ میں فتنہ پردازی کا یہی شہر اور اس کے نواحی دیہات مرکزی نقطہ تھے خاکسار کے آنے جانے کے بعد وہاں کے علماء کی طرف سے احمدی احباب کو قتل وغیرہ کی دھمکیاں دی گئیں اور اب بھی ان کی مخالفت زوروں پر ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے احمدی احباب کا حافظ و ناصر ہو اور ان کو ہر قسم کے مکروہات سے محفوظ رکھے۔ الغرض یہ سفر خداتعالیٰ کے فضل سے ہر لحاظ سے بہتر رہا۔ فالحمدلل¶ہ علیٰ ذالک<۔۱۴۲
‏0] ft[sشام مشن
جماعت احمدیہ دمشق کی درخواست پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے مولوی محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین کو شام بھجوایا۔ آپ یکم اخاء )اکتوبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش کو فلسطین سے شام پہنچے۔ شام میں ان دنوں جماعت کے خلاف سخت جوش تھا۔ کئی مشائخ مثلاً الشیخ صابونی اور الشیخ جویجانی وغیرہ۔ مناظرہ کی دعوت دے رہے تھے اور ایک شیخ تو مباہلہ کا چیلنج بھی دے چکا تجھا۔ ماہ تبوک )ستمبر( میں تین دمشقی احمدیوں الاستاذ منیر الحسنی صاحب` الحاج عبدالرئوف الحسنی صاحب اور الاستاذ شفیق شبیب صاحب وغیرہ کو زدو کوب کیا جاچکا تھا۔ الاستاذ شفیق شبیب اور الاستاذ خیر المالکی ابھی داخل سلسلہ ہوئے تھے اس لئے علماء دمشق سخت غصب ناک تھے۔ مولوی محمد شریف صاحب نے یہاں باقاعدہ ایک پروگرام کے ماتحت کام شروع کردیا اور روزانہ انفرادی ملاقاتوں کے ذریعہ اکابر دمشق تک دعوت احمدیت پہنچانے لگے۔ یہ سب اصحاب نہایت حسن سلوک سے پیش آئے اور پیغام حق نہایت توجہ سے سنا۔ ان اکابر میں سے الشیخ عبدالقادر المغربی بھی تھے جنہوں نے ۱۹۲۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ سے دوران نزول دمشق کہا تھا کہ یہاں کوئی شخص احمدیت کو قبول نہیں کرے گا۔ جس پر حضور نے سفر ولایت سے واپسی پر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کو بھیج کر دمشق میں احمدیہ مشن قائم کردیا اور کئی سعادتمند احمدیت میں شامل ہوگئے۔ خود الشیخ عبدالقادر المغربی کے مسئلہ حیات مسیحؑ کے بارے میں خیالات میں انقلاب آگیا اور وہ وفات مسیحؑ کے قائل ہوچکے تھے۔ اور جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات کی تعریف کرتے تھے۔ جماعت کی طرف سے شام میں چونکہ کوئی ٹریکٹ نہیں شائع کیا جاسکتا تھا اس لئے مولوی محمد شریف صاحب نے مشائخ دمشق کو زبانی پیغامات بھجوائے کہ وہ مرد میدان بنیں اور باقاعدہ مناظرہ کرلیں اور مباہلہ بھی۔ بشرطیکہ شام کے پچاس مشاہیر علماء اس میں شامل ہوں تا لوگوں پر حق و باطل واضح ہو جائے۔ مگر کسی غیر احمدی عالم کو یہ چیلنج قبول کرنے کی جرات نہ ہوسکی۔ جس سے دمشق کے احمدیوں خصوصاً نو مبائعین کے ایمانوں میں اور بھی اضافہ ہوا۔ مولوی محمد شریف صاحب دمشق میں تین ہفتہ قیام فرما ہونے کے بعد حمص تشریف لے گئے جہاں ایک ہفتہ تک پیغام احمدیت پہنچاتے رہے۔ ایک پرائیویٹ مناظرہ وفات مسیحؑ پر بھی کیا۔ آپ نے ایک مخالف عالم الشیخ ابوذر نظامی )ہندی( کے گھر جاکر ان سے گفتگو کرنی چاہی مگر وہ کچھ ایسے مرعوب ہوئے کہ تبادلہ خیالات کے لئے آمادہ ہی نہ ہوئے اور یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں خلوت نشین آدمی ہوں مناظر کرنا نہیں چاہتا۔ حالانکہ یہ وہ صاحب تھے جو ابتداء میں زمرہ مکذبین کے سرخیل تجھے۔ حمص میں مولوی محمد شریف صاحب موصوف کی بشپ آرتھوڈکس اور پادری عیسیٰ سے واقعہ صلیب کے موضوع پر گفتگو بھی ہوئی۔ حمص سے ہو کر آپ دوبارہ دس روز کے لئے دمشق میں نزیل ہوئے اور رات دن تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا۔ خطبہ عید الفطر میں جماعت کو قربانیوں کی طرف توجہ دلائی اور جمعہ کے خطبات میں رسالہ >الوصیت< پڑھ کر سنایا۔ جسے سن کر الاستاذ منیر الحصنی صاحب نے دسویں حصہ کی وصیت کی اور اپنی منقولہ جائیداد کے دسویں حصہ کے طور پر دو سو شامی پونڈ نقد پیش کر دیئے۔ مولوی محمد شریف صاحب شام میں ایک ماہ سات دن رہ کر ۶۔ نومبر ۱۹۴۲ء/ نبوت ۱۳۲۱ہش کو واپس فلسطین پہنچ گئے۔۱۴۳
شیخ علی القزق پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ حیفا کی وفات
اس سال کے آخر میں فلسطین کے اولین احمدیوں میں سے ایک ممتاز بزرگ شیخ علی القزق ساٹھ سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ مولوی ابوالعطاء صاحب نے ان کی وفات پر لکھا۔
>آپ ایک نہایت درجہ غیور احمدی تھے۔ سلسلہ کی محبت ان کے رگ و ریشہ میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ سے بہت عقیدت تھی۔ ہمیشہ حضور کی کامیابی کے لئے دعا کرتے تھے۔ جس دن ڈاک ہندوستان سے جاتی تو پہلی خبر یہ پوچھتے کہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی صحت کے متعلق کیا اطلاع ہے؟ نہایت زاہد اور متوکل انسان تھے۔ ریلوے میں ملازم تھے مگر آخر ریٹائر ہوچکے تھے۔ اس وقت ان کی انتہائی خواہش یہ تھی کہ قادیان ہجرت کرکے چلے جائیں۔ مجھ سے بارہا اس نیت کا ذکر کیا۔ چنانچہ جب میں ۱۹۳۶ء میں ہندوستان واپس آنے لگا تو رو کر کہنے لگے کہ وہ دن کب آئے گا جب ہم بھی دارالامان روانہ ہوں گے۔ انہیں جملہ مبلغین و خادمان دین سے للہی محبت تھی۔ میرے قیام فلسطین کے عرصہ میں روزانہ بلا ناغہ تشریف لاتے اور جب کبھی نہ آئیں تو میں سمجھتا کہ بیمار ہوں گے میں ان کے مکان پر پہنچا۔ دوستی اور للہی محبت کو آخر تک نبھانے والے بزرگ تھے۔ خط و کتابت کا سلسلہ برابر جاری رکھا۔ میری بعض مجبوریوں کے باعث انہیں بجا شکوہ تھا کہ آپ کی طرف سے خط دیر سے اور بہت کم آتے ہیں۔ شیخ علی القزقؓ نے سلسلہ کی خدمت کی ہر تحریک میں حصہ لیا اور احمدیت کے نام کو بلند کرنے کے کسی موقعہ کو ہاتھ سے نہیں کھویا۔ مرحوم سن رسیدہ ہونے کے باوجود جفاکش اور شگفتہ دل تھے۔ ان کا ایک برجستہ جواب مجھے ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ ایک مرتبہ میرے پاس نابلس کے چند اساتذہ آئے تھے۔ ان سے وفات مسیحؑ پر سلسلہ گفتگو شروع تھا۔ حضرت شیخ علی مرحوم بھی موجود تھے۔ اساتذہ میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں بتایں کہ حضرت عیسیٰ~ع۱~ کی قبر کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ کشمیر میں اور اس پر دلیل قرآنی واوینا ھما الی ربوہ ذات قرار و معین موجود ہے۔ وہ نوجوان استاد تعجب اور حقارت آمیز لہجہ میں کہنے لگا کہ حضرت عیسیٰؑ فلسطین سے اتنی دور کشمیر میں کیسے چلے گئے؟ میں ابھی جواب دینے نہ پایا تھا کہ مرحوم جلد بول اٹھے اور کہنے لے ھل کانت بلاد الکشامرہ ابعد من السماء کہ کیا کشمیر کا ملک آسمان سے بھی دور ہے؟ اس پر سب ہنس پڑے اور اس شخص کو شرمندہ ہوکر خاموش ہونا پڑا۔ شیخ علی مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے دینی امور میں نہایت عمدہ فراست عطا فرمائی تھی اور جرات اور دلیری سے دین کا پیغام پہنچانا ان کا مرغوب مشغلہ تھا۔ ان کے گھر سے کبابیر اڑھای تین میل کے بلند پہاڑ پر واقع تھا۔ مگر جب مدرسہ احمدیہ وہاں قائم ہوا تو اپنے چھوٹے بچے عبدالوہاب کو وہاں داخل کیا اور خود اس کے ساتھ جاتے تھے۔ احمدیہ مطبع میں اپنے ہاتھ سے کام کرتے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے السید خضر افندی القزق جماعت کے سیکرٹری مال ہیں۔ الشیخ علی القزق کے تینوں بیٹے نہایت مخلص اور سلسلہ کے خادم ہیں۔ ان کا گھر احمدیت کے لئے مرکز کی حیثیت رکھتا ہے<۔۱۴۴
۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش کی نئی مطبوعات
اس سال جماعت کی طرف سے حسب ذیل لٹریچر شائع ہوا۔
۱۔ >مرکز احمدیت قادیان< مولفہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم قادیان( اس کتاب میں مرکز سلسلہ احمدیہ کی تاریخ ایسے موثر اور اچھوتے اور دلچسپ پیرایہ میں لکھی تھی کہ پڑھنے والوں کے سامنے قادیان کے قدیم اور جدید ادوار کا پورا نقشہ کھچ جاتا تھا اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو جاتی تھی کہ وہ ایک بار ضرور قادیان کی زیارت کرے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کتاب پر یہ تبصرہ فرمایا کہ۔
>ایک سرسری نظر میں نے اس کے مضامین پر ڈالی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس میں بہت سے مفید معلومات قادیان اور سلسلہ کے متعلق جمع کر دیئے گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس تنگی کے زمانہ میں انہوں نے اچھے موٹے کاغذ پر خوشخط کتاب چھپوائی ہے۔ جو دوست باہر کی دنیا کو قادیان اور سلسلہ کے حالات سے روشناس کرانا چاہیں اور ان کی یہ بھی خواہش ہو کہ لمبے مضامین نہ ہوں بلکہ ایک مختصر کتاب میں جماعت کے کام اور مرکزی خصوصیات کا ذکر ہو تاکہ اسے خرید کر لوگوں کو اس کے مطالعہ کی تحریک کی جائے تو ایسے دوستوں کے لئے یہ کتاب بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے<۔۱۴۵
۲۔ >اخلاق احمد< )مرتبہ پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ایم۔ اے مہتمم اطفال مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ قادیان( شعبہ اطفال خدام الاحمدیہ قادیان کی طرف سے ہر چھ ماہ کے بعد کتب سلسلہ کے امتحانات کا انتظام کیا جاتا تھا یہ تالیف ماہ شہادت ۱۳۲۲ہش )اپریل ۱۹۴۳ء( کے امتحان کے لئے بطور نصاب مقرر کی گئی۔ صدر مجلس خدام احمدیہ مرکزیہ قادیان حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے قلم مبارک سے اس کا حسب ذیل دیباچہ لکھا۔
>حضرت مسیح موعود علیہ السلام اخلاق محمدی ~)صل۱(~ کے کامل حامل اور آنحضرت ~)صل۱(~ کے بعد بہترین اخلاق کے مالک ہیں۔ آپ کے اخلاق ہمارے لئے نمونہ ہیں جنہیں بڑے اختصار کے ساتھ اس رسالہ میں احمدی بچوں کے سامنے رکھا جارہا ہے تا اس نمونہ کی پیروی کرتے ہوئے ہمارے بچے حقیقی معنی میں اطفال احمدیت بن سکیں اور تا دنیا ان کے نمونہ سے سبق لے اور تا اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقتوں کو بہتر سے بہتر نشوونما دے کر ہمارے بچے اس کی خوشنودی حاصل کرسکیں۔ )اللہم آمین(
اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ انسان کی حقیقی اور کامیاب ترقی کا راز عقل کی پیروی میں ہے نہ جذبات کی پیروی میں۔ حقیقی ترقی تب ہی حاصل ہوتی ہے جب روحانیت کا سورج طلوع ہوکر عقل و جذبات کے حدود کو نمایاں کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو ان حدود میں رہنے کی توفیق عطا فرماتا ہے۔ عقل اور جذبات کے اس صحیح استعمال کے بعد انسان جن عمدہ اخلاق کو اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے اس کی بہترین مثال انبیاء علیہم السلام کے اخلاق ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اخلاق کا نمونہ اپنے بچوں کے سامنے رکھنے سے ہماری یہی غرض ہے کہ تا انہیں معلوم ہوسکے کہ انہیں کیا بننا ہے؟ اور کس راہ پر چل کر وہ ایسا بن سکتے ہیں۔ وباللہ التوفیق خاکسار مرزا ناصر احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ<۱۴۶
۳۔ >چشمہ ہدایت< )بعض اہم عنوانات پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلمات طیبات کا مجموعہ جو مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر نے شائع کیا(
اندرون ملک کے بعض مشہور مناظرے
مباحثہ امرتسر
۱۵ اور ۲۲۔ تبلیغ ۱۳۲۱ہش )۲۲۔ ۱۵۔ فروری ۱۹۴۲ء( کو امرتسر میں مولانا قاضی محمدنذیر صاحب فاضل نے غیر مبائع مبلغ مولوی احمد یار صاحب سے مسئلہ نبوت اور مسئلہ کفر اور اسلام پر کامیاب مناظرے کئے۔۱۴۷
مباحثہ بدوملہی
بدوملہی )ضلع سیالکوٹ( غیر مبائعین کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے۔ اس جگہ ۲۵` ۲۷۔ تبلیغ ۱۳۲۱ہش )۲۵` ۲۷۔ فروری ۱۹۴۲ء( کو مولوی غلام مصطفیٰ صاحب مولوی فاضل نے مسئلہ ختم نبوت اور پیشگوئی مصلح موعود پر مباحثے کئے۔ غیر مبائع اصحاب کی طرف سے مولوی احمد یار صاحب نے بحث کی۔ غیر مبائع مناظر اصل موضوعات کو چھوڑ کر کفر واسلام کے میدان میں گھومتے رہے۔ جس پر ان کے اپنے پریذیڈنٹ نیز ایک اور معزز غیر مبائع دوست نے انہیں توجہ دلائی کہ آپ کیا کر رہے ہیں مگر وہ باز نہ آئے۔۱۴۸
۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش کے قادیان پر ایک اچٹتی نظر
اس سال کے متفرق واقعات بیان کرنے کے بعد مناسب ہوگا کہ ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش کے قادیان کی مادی ترقی پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے تا یہ معلوم ہوسکے کہ قادیان کی گمنام بستی کو خلاف ثانیہ کے بابرکت عہد میں نہ صرف علمی روحانی اور اخلاقی لحاظ سے دنیا بھر میں عروج نصیب ہوا بلکہ خدائی بشارتوں کے مطابق اس نے محض احمدیت کی برکت سے مادی لحاظ سے بھی حیرت انگیز ترقی کی جس کا نقشہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی مرحوم ایڈیٹر الحکم نے اپنی کتاب >مرکز احمدیت قادیان< میں بایں الفاظ کھینچا۔
>وہ قادیان جس کے بازاروں میں خریدنے کے لئے چیزیں دستیاب نہ ہوتی تھیں آج اس کے بازار دنیا کی چیزوں سے بھرے پڑے ہیں۔ وہ بازار جو اجڑے ہوئے تھے آج پررونق اور بھر ہوئے ہیں۔ کئی نئے بازار نکل آئے ہیں جہاں ایک روپیہ ماہوار کو دوکان کرایہ پ نہ چڑھتی تھی اب دس دس بارہ بارہ روپے ماہوار کرایہ دینے والی دوکانیں موجود ہیں۔ تجارت کا مال دنیا کے کونوں کونوں سے آتا ہے۔ ایک وہ زمانہ تھا کہ قادیان میں پان میسر نہ آتا تھا۔ آج یہ وقت ہے کہ قادیان میں پان فروشوں کی متعدد دوکانیں موجود ہیں۔ چند دن ہوئے کہ ایک پان فروش مولوی عبدالواحد نے مجھے بتلایا کہ اس کے پاس پچیس ہزار پان قادیان میں موجود ہیں۔ ایک ایک چیز کی کئی کئی دوکانیں ہیں۔ کپڑے کی دوکانوں کا یہ حال ہے کہ دوکان لالہ ہری رام راجہ رام پرتاپ صاحب کی دوکان میں کم و بیش بیس ہزار کا کپڑا موجود ہے اور ویسے تو ایک درجن سے بھی زیادہ کپڑے کی دوکانیں موجود ہوں گی۔ سینکڑوں من دودھ دس دس میل سے آتا ہے۔ متعدد حلوائیوں کی دوکانیں ہیں جو سب خوب چلتی ہیں۔ جہاں ایک آدھ موچی کام کرتا تھا وہاں بوٹ بنانے والے ایک درجن آدی کام کررہے ہیں۔ دارالصناعت فٹ ویر کا کارخانہ الگ ہے۔ جس میں خاصی مقدار میں مال تیار ہوتا ہے۔ جہاں حجاموں کی یہ حالت تھی کہ وہ عید وغیرہ پر انعام ملنے کی امید پر کام کرتے تھے وہاں اب اعلیٰ درجہ کی ہیئر کٹنگ سیلون بنے ہوئے ہیں۔
دواخانے
ہر قسم کے ڈاکٹر یونانی۔ ویدک۔ ڈاکٹری۔ ہومیوپیتھی۔ طب جدید وغیرہ کے ماہر موجود ہیں۔ خون۔ تھوک۔ بلغم۔ پیشاب۔ پاخانہ وغیرہ ٹسٹ کرنے کے لئے ڈاکٹر کڑک جیسے تجربہ کار ڈاکٹر کی لیبارٹری موجود ہے۔ دانتوں کے لئے ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب ڈینٹل سرجن۔ ڈاکٹر حاجی جنود اللہ صاحب ڈینٹل سرجن ہمدرد خلیق اور دلسوزی سے کام کرنے والے موجود ہیں۔ آنکھوں کے لئے ڈاکٹر محمد عبداللہ صاحب دہلی والے نہایت محبت سے علاج کرتے ہیں۔ ان کے پاس ہر قسم کی عنکیں میسر آسکتی ہیں۔
طبی عجائبات کے لئے دواخانہ خدمت خلق۔ ایڈیٹر صاحب >نور< کا دواخانہ۔ حکیم نظام جان صاحب کا دواخانہ۔ طبیہ عجائب گھر۔ کاغانی صاحب کا دواخانہ۔ ویدک یونانی دواخانہ دواخانہ نورالدینؓ۔ دواخانہ رفیق حیات۔ دواخانہ فاروقی وغیرہ اچھا کام کررہے ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد انگریزی ڈسپنسریاں اور میڈیکل ہال کھلے ہوئے ہیں۔
کارخانے
>سٹار ہوزری<۔ ایک بہت بڑا کارخانہ ہے۔ ایک ہزار کے قریب مرد اور عورتیں اس کارخانے کے ذریعے اپنی زندگی کے ایام بخوبی بسر کررہے ہیں۔ اس کارخانے کے طفیل متعدد گھروں میں مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ کہیں درزی کام کررہے ہیں` کہیں عورتیں گھروں پر لاکر کام کررہی ہیں۔ یہ کارخانہ بابو اکبر علی صاحب جیسے لائق اور قابل انسان کے ہاتھ میں ترقی کررہا ہے۔
>میک ورکس<۔ قادیان کا قابل صد رشک کارخانہ ہے جس کی وہ سے قادیان کی صنعتی شہرت دور دور کے شہروں تک پھیلی ہوئی ہے۔
اس کے علاوہ اکبر علی اینڈ سنز۔ جنرل سروس۔ احمد برادرز۔ پیر ورکس۔ میکنیکل انڈسٹریز۔ آئرن سٹل میٹل وغیرہ کارخانے لوہے کا کام کررہے ہیں۔ جگہ جگہ بھٹیاں جل رہی ہیں۔ لوہے پگھل رہے ہیں۔ مختلف اشیاء ڈھل رہی ہیں۔ کہیں آٹا پیسنے کی مشینیں ہیں۔ کہیں روئی دھننے کی کلیں کام کررہی ہیں اور کہیں لکڑی چیرنے کی مشنیں چل رہی ہیں۔ موسم گرما میں متعد سوڈا واٹر فکٹریاں کام کرتی ہیں۔ عطریات کے لئے پرفیومری کا کارخانہ ہے شیشہ کا کارخانہ ہے۔ غرض ہر طرف کارخانوں کی شان نظر آرہی ہے۔
سیمنٹ کی ایجنسیاں` لکڑی اور کوئلے کی متعدد دوکانیں ہیں۔ اینٹوں کے لئے بھٹے کام کررہے ہیں۔ بجلی لگی ہوئی ہے۔ کئی مکانات میں الیکڑک واٹر پمپ کام کررہے ہیں عمدہ عمدہ باغات بن رہے ہیں۔ وسیع کوٹھیاں اور بنگلے بن رہے ہیں۔ سڑکیں اور راستے تیار ہورہے ہیں۔
ڈاک خانہ
ڈاک خانہ کا ایسا اعلیٰ انتظام ہے۔ تار۔ رجسٹری۔۔ منی آرڈر۔ پارسل۔ وی پی وغیرہ کے لئے الگ کھڑکیاں ہیں متعدد پوسٹ مین کام کرتے ہیں۔ بابو لوگ معقول تنخواہیں لے رہے ہیں۔ ہزارہا روپیہ کا کاروبار اور ساری دنیا کے ملکوں سے خط و کتابت ہوتی ہے۔ قادیان کے ڈاکخانہ میں سب سے پرانا آدمی منشی جان محمد صاحب پوسٹ مین ہے جو حضرت مسیح موعودؑ کا صحابی ہے۔
تار و ٹیلیفون
احمدیت کے طفیل یہاں تار اور ٹیلیفون کے محکمے بھی کھل گئے ہیں۔ قادیان بیٹھ کر جس ملک سے چاہو منٹوں میں ٹیلیفون پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔ یہ ایک بہت بڑی سہولت ہے۔ جو خدا نے قادیان کو مہیا کر دی۔
ریلوے اسٹیشن
ریلوے ہونے کی وجہ سے قادیان تک سفر بہت آسان ہوگیا ہے۔ دنیا بھر کے ملکوں سے ریلیں مہمانوں کو لے کر قادیان اسٹیشن پر آتی ہیں اور مبلغین کو لے کر دنیا کے ملکوں میں جاتی ہیں۔
ٹائون کمیٹی
یہاں ایک عرصہ سے ٹائون کمیٹی بھی قائم ہے جس کی وہ سے صفائی کا اچھا انتظام ہورہا ہے۔ بجلی کی روشنی ہے۔ اس وقت ملک مولا بخش صاحب پنشنر کمیٹی کے پریذیڈنٹ ہیں اور مرزا اسلم بیگ صاحب سیکرٹری ہیں۔ اس ماہ نومبر سے محکمہ چونگی بھی قائم ہوگیا ہے۔
پولیس اسٹیشن
عرصہ سے قادیان کی حفاظت کے لئے پولیس کی چوکی قائم ہے۔ اس وقت پولیس چوکی سرکاری عمارت میں ہے اور اس وقت چوہدری رادھاکرشن صاحب اسسٹنٹ سب انسپکٹر انچارج چوکی ہیں۔
ڈے۔ اے۔ وی ہائی سکول
مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول۔ مدرسہ احمدیہ۔ جامعہ احمدیہ اور نصرت گرلز ہائی سکول کے علاوہ ایک آریہ سماج کی طرف سے ڈی۔ اے۔ وی ہائی سکول بھی چل رہا ہے اور لڑکیوں کے لئے ایک پتری پاٹھ شالہ بھی ہے۔
الغرض ریل` تار` ٹیلیفون` ڈاک خانہ` شفاخانہ` ہر قسم کے کارخانے` بازار` تجارت کی فراوانی آج کی قادیان میں موجود ہیں اور یہ اس جدید قادیان کی مادی ترقی ہے۔
دارالانوار کی شاندار کوٹھیاں` دارالحمد` بیت الظفر` بیت الحکمت` گیسٹ ہائوس` سیٹھ عبداللہ بھائی کی کوٹھی` بیت النصرت` میر محمد اسحاق صاحب` مولانا درد صاحب` سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کی کوٹھیاں۔ یہ سب کوٹھیاں قابل دید ہیں اس لئے یہ سب سلسلہ کی صداقت کی منہ بولتی تصویریں ہیں<۔۱۴۹
تیسرا باب
حواشی
۱۔
مجلس کے ابتدائی ارکان۔ ۱۔ مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری سابق مبلغ بلاد عربیہ۔ ۲۔ مولانا قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائل پوری۔ ۳۔ شیخ ناصر احمد صاحب۔ ۴۔ مولوی عبدالغفور صاحب فاضل۔ ۵۔ مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی۔ ۶۔ مولوی محمد سلیم صاحب۔ ۷۔ شیخ عبدالقادر صاحب۔ ۸۔ مولوی ظہور حسین صاحب فاضل۔ ۹۔ مولوی تاج الدین صاحب لائلپوری۔ ۱۰۔ صاحبزادہ ۱عبدالمنان ایم۔ اے۔ ۱۱۔ حافظ قدرت اللہ صاحب مولوی فاضل۔ ۱۲۔ مولوی محمد عبداللہ صاحب اعجاز۔ ۱۳۔ مرزا منور احمد صاحب مولوی فاضل۔ ۱۴۔ محمد سعید احمد صاحب فاروقی۔ ۱۵۔ قریشی محمد نذیر صاحب ملتانی۔ ۱۶۔ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر۔ ۱۷۔ مولوی محمد یار صاحب عارف۔ ۱۸۔ ملک محمد عبداللہ صاحب۔ ۱۹۔ مولوی علی محمد صاحب اجمیری۔ ۲۰۔ مولوی احمد خان صاحب نسیم۔ ۲۱۔ حافظ عبدالغفور صاحب جالندھری۔ ۲۲۔ چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ۔ ۲۳۔ ملک عطاء الرحمن صاحب۔ ۲۴۔ سید اعجاز احمد صاحب مولوی فاضل۔ ۲۵۔ چوہدری محمد شریف صاحب بی۔ اے۔ ۲۶۔ مرزا محمد یعقوب صاحب۔ ۲۷۔ صوفی عبدالقدیر صاحب بی۔ اے۔ ۲۸۔ مولوی قمر الدین صاحب۔ ۲۹۔ حکیم عبداللطیف صاحب گجراتی۔ ۳۰۔ مولوی محمد صدیق صاحب۔ ۳۱۔ مولوی محمد دین صاحب مجاہد۔ ۳۲۔ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر۔ ۳۳۔ چوہدری غلام یٰسین صاحب بی۔ اے۔ ۳۴۔ ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے۔ ۳۵۔ مولوی عبدالرحمن صاحب انور۔ ۳۶۔ چوہدری عبداللطیف صاحب۔ ۳۷۔ مولوی صدر الدین صاحب فاضل۔ ۳۸۔ میاں عبدالحی صاحب۔ ۳۹۔ چوہدری محمد اسٰمعیل صاحب خالد۔ ۴۰۔ ملک سیف الرحمن صاحب مولوی فاضل۔ )فرقان صلح ۱۳۲۱ہش جنوری ۱۹۴۲ء صفحہ ۳۲(
۲۔
الفضل )۲۔ صلح ۱۳۲۲ہش( )۲۰۔ جنوری ۱۹۴۳ء( صفحہ ۲ کالم ۲۔
۳۔
رسالہ فرقان جنوری ۱۹۴۲ء/ صلح ۱۳۲۱ہش صفحہ ۳۲۔
۴۔
رسالہ فرقان جنوری ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۳۔
۵۔
رسالہ فرقان امان ۱۳۲۶ء ہش )مارچ ۱۹۴۷ء( صفحہ ۳۶۔
۶۔
پمفلٹ مسلم لیگ کے شاندار اسلامی کارنامے صفحہ ۲۔ )مرتبہ جمعیتہ العلماء صوبہ دہلی۔ ناشر سید انظار الدین قاسمی( جمعیتہ العلماء کی طرف سے اس بل کا بظاہر یہ مقصد بتایا گیا کہ مسلمانوں کو ان کے شرعی معاملات میں سہولتیں حاصل ہوجائیں گی۔ )ایضاً صفحہ ۲(
۷۔
الفضل ۱۲۔ مارچ ۱۹۴۲ء/ امان ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱۔
۸۔
ملاحظہ ہو الفضل ۱۳` ۲۰` ۲۵۔ مارچ/ امان و ۲۔ شہادت )اپریل( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش۔
۹۔
بحوالہ الفضل ۲۴۔ شہادت ۱۳۲۱ہش )۲۴۔ اپریل ۱۹۴۲ء( صفحہ ۱۔
۱۰۔
الفضل ۲۴۔ اپریل ۱۹۴۲ء/ شہادت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱۔
۱۱۔
ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۵۶۱۔ ۵۶۲۔
۱۲۔
مولانا محی الدین الالوائی ایم۔ اے فاضل الازہر اپنی کتاب عرب دنیا میں لکھتے ہیں۔ یہ یونیورسٹی دنیا کی سب سے قدیم ترین یونیورسٹی ہے۔ جامعہ ازہر ۳۶۱ھ سے علمی ادبی اور مذہبی خدمات انجام دے رہا ہے۔ جامعہ ازہر اپنے پیچھے ایک عظیم تاریخ رکھتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جامعہ ازہر قاہرہ میں ہے اور قاہرہ شہر کے بانی المعزلدین اللہ الفاطمی نے اس کو قائم کیا تھا۔ )صفحہ ۳۸۔ ۳۹ ناشر مکتبہ برہان اردو بازار جامع مسجد دہلی(
۱۳۔
علامہ محمود شلتوت ۲۳۔ اپریل ۱۸۹۳ء کو شہر منسبہ بنی منصورہ )بحیرہ( میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۱۸ء میں عالمیہ نظامیہ کی ڈگری حاصل کی۔ ۱۹۲۷ء میں قاہرہ میں اعلیٰ تعلیم کے استاذ بنے۔ ۱۹۲۸ء میں جب الشیخ مراغی شیخ الازہر مقرر ہوئے تو آپ نے ازہر کی اصلاح و تجدید میں ان کا ہاتھ بٹایا۔ ۱۹۳۵ء میں آپ کو کلیہ شریعتہ الاسلامیہ کی وکالت سپرد ہوئی۔ ۱۹۴۱ء میں آپ علماء کبار کی جماعت کے رکن تجویز کئے گئے۔ ۱۹۴۲ء میں آپ نے وفات مسیحؑ سے متعلق معرکتہ الاراء فتویٰ دیا۔ ۱۹۵۷ء میں آپ موتمر اسلامی کے مشیر مقرر کئے گئے۔ ۲۱۔ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو منصب شیخ الازہر پر فائز کئے گئے اور دسمبر ۱۹۶۳ء میں انتقال فرما گئے۔ علامہ محمود شلتوت نے نہایت قابل قدر لٹریچر اپنے پیچھے علمی یادگار کے طور پر چھوڑا ہے۔ )مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مجلتہ الازہر جلد ۳۰ شمارہ ۴۔ ۵۔ ربیع الاخر و جمادی الاولیٰ ۱۳۷۸ھ(
۱۴۔
عبدالکریم خان صاحب یوسف زئی نومبر ۱۹۰۶ء میں بمقام کرلوپ )جموں( پیدا ہوئے اور غالباً ۸۔ جون ۱۹۳۳ء کو تحریری بیعت کرکے حلقہ بگوش احمدیت ہوئے۔ )الحکم ۲۸۔ جولائی ۱۹۳۵ء صفحہ ۹۔ ۱۰( دوسری جنگ عظیم کے دوران آپ مشرق وسطیٰ میں مقیم تھے اور اسی زمانہ میں آپ نے علماء مصر سے یہ فتویٰ طلب کیا تھا۔ جس پر مخالفین نے پوری کوشش کی۔ کہ آپ کو مصری عدالت میں گھسیٹا جائے مگر ناکام رہے۔ افسوس!! ۱۳۲۶ہش )۱۹۴۷ء( میں پونچھ میں شہید کر دیئے گئے۔ )الفضل ۳۔ ظہور ۱۳۲۲ہش( ایضاً تاریخ احمدیت جموں صفحہ ۲۵۰۔ ۲۵۱ )مولفہ مولانا محمد اسد اللہ صاحب قریشی مربی سلسلہ (اشاعت ۱۹۷۳ء۔
۱۵۔
جناب شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ کے ایک مفصل مضمون )مطبوعہ الفضل ۸` ۹۰۔ وفا ۱۳۲۵ہش ۸` ۹۔ جولائی ۱۹۴۶ء( سے ماخوذ۔
۱۶۔
بحوالہ الفضل ۸۔ وفا ۱۳۲۵ہش )۸۔ جولائی ۱۹۴۶ء( صفحہ ۴ و ۵۔
۱۷۔
الفضل ۹۔ وفا ۱۳۲۵ہش )۹۔ جولائی ۱۹۴۶ء( صفحہ ۴۔
۱۸۔
ملاحظہ ہو الرسالتہ جلد ۱۱ شمارہ ۵۱۴` ۵۱۶` ۱۷`۵` ۵۱۸` ۵۱۹ )ایضاً الفتاویٰ صفحہ ۵۹۔ ۷۵۔ ناشر الادارۃ العامتہ للثقافہ الاسلامیہ جمادی الاخرہ ۱۳۷۹ھ )دسمبر ۱۹۵۹ء(
۱۹۔
علامہ محمود شلتوت نے یہ کتاب شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ کو بطور تحفہ دی تھی جو آج تک ان کے پاس موجود ہے۔
۲۰۔
مجلتہ الازہر فروری ۱۹۶۰ء میں بھی یہ فتویٰ انگریزی زبان میں چھپ چکا ہے جس کا اردو ترجمہ مہتمم نشر و اشاعت صدر انجمن احمدیہ ربوہ )پاکستان( نے رفع عیسی علیہ السلام کے نام سے شائع کر دیا ہے۔
۲۱۔
تقریر فرمودہ جلسہ سالنہ ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش )مطبوعہ الفضل ۲۸۔ فروری ۱۹۴۵ء/ تبلیغ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳ کالم ۴(
۲۲۔
یعنی دسمبر سے اپریل تک کے مہینے۔
۲۳۔
الفضل ۳۰۔ ہجرت ۱۳۲۱ہش )۳۰۔ مئی ۱۹۴۲ء( صفحہ ۷ و ۸۔
‏]1h [tag۲۴۔
الفضل ۵۔ جون ۱۹۴۲ء/ احسان ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ و ۲ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۹۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش(
۲۵۔
الفضل ۲۴۔ ہجرت ۱۳۲۱ہش )۲۴۔ مئی ۱۹۴۲ء( صفحہ ۲۔
۲۶۔
الفضل ۵۔ جون ۱۹۴۲ء/ احسان ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۲۷۔
الفضل ۲۔ دسمبر ۱۹۴۲ء/ فتح ۱۳۱۲ہش۔
۲۸۔
الفضل ۲۸۔ فروری ۱۹۴۵ء/ تبلیغ ۱۳۲۴ہش صفحہ ۴۔
۲۹۔
الفضل ۲۰۔ شہادت ۱۳۲۲ہش )۲۰۔ اپریل ۱۹۴۳ء( صفحہ ۲ و ۳۔
۳۰۔
الفضل ۲۱۔ ہجرت ۱۳۲۱ہش )۲۱۔ مئی ۱۹۴۲ء( صفحہ ۱۔
۳۱۔
الفضل ۲۱۔ ۲۶۔ ہجرت ۱۳۲۱ہش )۲۱` ۲۶۔ مئی ۱۹۴۲ء( صفحہ ۱۔
۳۲۔
ملاحظہ ہو ریویو آف ریلیجنز اردو جون/ احسان` جولائی/ وفا` ظہور/ اگست ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش و جنوری/ صلح ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش۔
۳۳۔
الفضل ۷۔ احسان ۱۳۲۱ہش )۷۔ جون ۱۹۴۲ء( صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۴۔
الفضل ۳۰۔ جون ۱۹۴۲ء/ احسان ۱۳۲۱ہش صفحہ ۳` ۵` ۶۔
۳۵۔
الفضل ۳۔ جون ۱۹۴۲ء/ وفا ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ و ۳۔
۳۶۔
‏h2] [tag الفضل ۳۔ جولائی ۱۹۴۲ء/ وفا ۱۳۲۱ہش صفحہ ۳ و ۴۔
۳۷۔
الفضل ۳۔ جولائی ۱۹۴۲ء/ وفا ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴ و ۵۔
۳۸۔
الفضل ۳۔ جولائی ۱۹۴۲ء/ وفا ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵۔
۳۹۔
تاریخ اقوام عالم صفحہ ۷۳۸ )مولفہ مرتضیٰ احمد خان( ناشر مجلس ترقی ادب۔ ۲۔ نرسنگھ داس گارڈن کلب روڈ لاہور )سن اشاعت ۱۹۵۸ء(
۴۰۔
بحوالہ اخبار الفضل ۲۲۔ وفا ۱۳۲۱ہش )۲۲۔ جولائی ۱۹۴۲ء( صفحہ ۱ کالم ۴۔
۴۱۔
الفضل ۱۸۔ ستمبر ۱۹۴۵ء/ تبوک ۱۳۲۴ہش صفحہ ۳۔
۴۲۔
الفضل ۵۔ تبوک ۱۳۲۱ہش )۵۔ ستمبر ۱۹۴۳ء( صفحہ ۵۔
۴۳۔
تفسیر کبیر )سورۃ التطفیف( صفحہ ۳۰۷ کالم ۱ )مطبوعہ اگست ۱۹۴۵ء/ ظہور ۱۳۲۴ہش(
۴۴۔
الفضل ۱۷۔ وفا ۱۳۲۱ہش )۱۷۔ جولائی ۱۹۴۲ء( صفحہ ۵ )خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۰۔+ جولائی ۱۹۴۲ء/ وفا ۱۳۲۱ہش(
۴۵۔
الفضل ۹۔ وفا ۱۳۲۱ہش )۹۔ جولائی ۱۹۴۲ء( صفحہ ۳ تا ۹۔
۴۶۔
الفضل ۲۴۔ وفا ۱۳۲۱ہش )۲۴۔ جولائی ۱۹۴۲ء( صفحہ ۶ و ۷۔
۴۷۔
الفضل ۱۱۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ اخاء ۱۳۲۴ہش صفحہ ۵ کالم ۱ )خطبہ جمعہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ فرمودہ ۵۔ اخاء ۱۳۲۴ہش )۵۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء(
۴۸۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ قادیان ۴۰۔ ۱۹۴۱ء/ ۱۹۔ ۱۳۲۰ہش صفحہ ۱۵۹۔
۴۹۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو محمد نصیب صاحب عارف )پسر بابو محمد شریف صاحب مرحوم محلہ دارالرحمت قادیان( کے مضامین مطبوعہ الفضل ۲۹۔ اکتوبر ۱۹۴۵ء/ اخاء ۱۳۲۴ہش صفحہ ۵ و ۶ و الفضل ۱۹۔ دسمبر/ فتح ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش و الفضل ۲۹۔ جنوری/ صلح ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش و ۱۷۔ فروری ۱۹۴۶ء/ تبلیغ ۱۳۲۵ہش۔
۵۰۔
الفضل یکم اخاء ۱۳۲۱ہش )یکم اکتوبر ۱۹۴۲ء( صفحہ ۲ و ۳۔
۵۱۔
ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد پنجم ۵۱۹۔ ۵۲۱۔
۵۲۔
الفضل ۶۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء/ اخاء ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ و ۳۔
۵۳۔
الفضل ۲۵۔ احسان ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵۔
۵۴۔
الفضل ۳۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء/ اخاء ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱۔
۵۵۔
الفضل ۴۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء/ اخاء ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱۔
۵۶۔
الفضل ۱۰۔ فروری ۱۹۴۲ء/ تبلیغ ۱۳۲۲۱ہش صفحہ ۲ )تقریر فرمودہ جلسہ سالانہ ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۰ہش(
۵۷۔
الفضل ۲۲۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء/ اخا ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴۔ ان دنوں الفضل کے خطبہ نمبر کا سالانہ چندہ اڑھائی روپے اور سن رائز کا )ہندوستان کے لئے( چار روپے۔
۵۸۔
الفضل ۲۲۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء/ اخاء ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴ و ۵۔
۵۹۔
الفضل ۵۔ نومبر ۱۹۴۲ء/ نبوت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴۔
۶۰۔
الفضل ۲۔ دسمبر ۱۹۴۲ء/ فتح ۱۳۲۱ہش صفحہ ۷ کالم ۲۔
۶۱۔
رسالہ مجلتہ الجامعہ ربوہ جلد ۳ شمارہ ۱ ماہ جنوری` فروری` مارچ ۱۹۶۶ء۔
۶۲۔
ان کا ذکر آگے آرہا ہے۔
۶۳۔
ایضاً۔
۶۴۔
ماہنامہ درویش فروری ۱۹۵۲ء/ تبلیغ ۱۳۳۱ہش صفحہ ۲۱ تا ۲۴ و صفحہ ۱۵۔
۶۵۔
رجسٹر ریزولیوشن صدر انجمن احمدیہ )مورخہ ۴۔ فروری ۱۹۴۲ء/ تبلیغ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲۱۴(
۶۶۔
الفضل ۲۰۔ دسمبر ۱۹۴۲ء/ فتح ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱۔ مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ الفرقان ربوہ جون ۱۹۶۳ء/ احسان ۱۳۴۲ہش صفحہ ۱۰۔
۶۷۔
‏]2h [tag غیر مطبوعہ۔
۶۸۔
الفضل ۲۔ دسمبر ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ تا ۳۔
۶۹۔
الفضل ۲۹۔ نومبر ۱۹۴۲ء/ نبوت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵۔
۷۰۔
الفضل ۲۔ فتح ۱۳۲۱ہش )۲۔ دسمبر ۱۹۴۲ء( صفحہ ۵۔
۷۱۔
الفضل ۲۔ فتح ۱۳۲۱ہش )۲۔ دسمبر ۱۹۴۲ء( صفحہ ۸ و ۹۔
۷۲۔
الفضل ۱۰۔ فتح ۱۳۲۱ہش )۱۰۔ دسمبر ۱۹۴۲ء( صفحہ ۲ و ۳۔
۷۳۔
نظام نو صفحہ ۱۱۲ تا ۱۱۴۔
۷۴۔
بحوالہ اخبار الفضل ۳۔ صلح )جنوری( ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔ ۵۔
۷۵۔
پہلا ایڈیشن ۲۷۔ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش اور دوسرا ایڈیشن ۴۔ شہادت )اپریل( ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں تیسرا ایڈیشن ۲۹۔ مارچ ۱۹۴۵ء/ امان ۱۳۲۴ہش کو شائع ہوا۔ تیسرے ایڈیشن کی طباعت میں حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشر احمد صاحبؓ ایم۔ اے۔ ابوالمنیر مولوی نورالحق صاحب واقف زندگی۔ حافظ بشیر الدین صاحب واقف زندگی اور چوہدری محفوظ الحق صاحب واقف زندگی نے معاونت کی۔
۷۶۔
عباس محمود العقاد دنیائے عرب کی ایک مشہور ادبی شخصیت تھے جن کا شمار اس صدی کے گنے چنے عرب مولفین و مصنفین میں ہوتا ہے۔ آپ کی تالیفات و تصنیات کی تعداد پچاسی سے متجاوز ہے۔ ہر کتاب اپنے موضوع اور مواد کے اعتبار سے منفرد ہے۔
۷۷۔
الفضل ۱۶۔ فتح ۱۳۲۵ہش )۱۶۔ دسمبر ۱۹۴۶ء( صفحہ ۴۔ متن کے لئے ملاحظہ ہو۔ رسالہ البشری )حیفا( جلد ۱۳ نمبر ۱۔ ۲ صفحہ ۱۸۔
۷۸۔
الفضل ۲۵۔ امان ۱۳۴۵ہش )مارچ ۱۹۶۶ء( صفحہ ۳ کالم ۲۔
۷۹۔
الفضل ۸۔ جنوری ۱۹۴۲ء/ ۸۔ صلح ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔ )مزید تفصیل کے لئے دیکھئے آپ کی سوانح مرتبہ مولانا نسیم احمد صاحب باجوہ مبلغ انگلستان(
۸۰۔
الفضل ۱۲۔ فروری ۱۹۴۲ء/ تبلیغ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔ ۴۔
۸۱۔
الفضل ۱۷۔ تبلیغ ۱۳۲۱ہش )۱۷۔ فروری ۱۹۴۲ء( صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۲۔
الفضل ۲۳۔ ماہ صلح ۱۳۲۱ہش )۲۳۔ جنوری ۱۹۴۲ء( صفحہ ۱۔
۸۳۔
الفضل یکم ماہ تبلیغ ۱۳۲۱ہش )یکم فروری ۱۹۴۲ء( صفحہ ۱ کالم ۲۔
۸۴۔
الفضل ۸۔ جولائی ۱۹۴۲ء/ وفا ۱۳۱۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔ ڈپٹی بشیر احمد صاحب اوچ شریف آپ ہی کے صاحبزادے تھے۔][۸۵۔
الفضل ۶۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ ہش صفحہ ۴۔
۸۶۔
الفضل ۲۲۔ اکتوبر ۱۹۵۵ء/ اخاء ۱۳۳۴ہش صفحہ ۳ کالم ۴۔
۸۷۔
الفضل ۲۲۔ شہادت )اپریل( ۱۹۴۱ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴۔ ۵ )مضمون حکیم فضل الرحمن صاحبؓ مبلغ نائجیریا(
۸۸۔
الفضل یکم اپریل ۱۹۴۲ء/ شہادت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴۔
۸۹۔
الفضل ۵۔ اپریل ۱۹۴۲ء/ شہادت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵ )مضمون چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے( ایضاً ۱۰۔ شہادت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴۔ ۵۔
۹۰۔
الفضل ۱۵۔ شہادت ۱۳۲۱ہش )۱۵۔ اپریل ۱۹۴۲ء( صفحہ ۴۔
۹۱۔
فہرست۔ فیصلہ خدائی برمسلمات ثنائی۔ چھوت چھات۔ پچپن سوالات۔ دھرمپال کا کچا چٹھا۔ بھجن مقبول ازہاق باطل۔ چھوت کا بھوت۔ انیسویں صدی کا بلیدان۔ بطالوی کا انجام۔ صاعقہ ذوالجلال حصہ اول و دوم۔ ہدیہ قاسم منظوم مشین گن۔ تار پیڈو۔ ذوالفقار علی برگردن دیوشقی۔ شدھی کی اشدھی انعامی۔ دین الحق یا ہمارا مذہب۔ علمائے خلف۔ تصدیق الامام۔ بلعم ثانی۔ النبوۃ فی غیر الامتہ۔ ثنائی ہرزہ سرائی۔ ثنائی فرار اور مباہلہ سے انکار۔ فیصلہ الٰہی۔ ثنائی روسیاہی۔ فیصلہ خدائی برمسلمات ثنائی۔ تحفہ مستریان مباہلہ۔ مرقع ثنائی۔ انیسویں صدی کامہرشی۔ مباحثہ منصوری۔ خلافت محمود و مصلح موعود۔ )و کتابچہ واذا الصحت نشرت مرتبہ میاں عبدالعظیم صاحب پروپرائیٹر احمدیہ بکڈپو قادیان دارلامان( حضرت میر صاحبؓ کا ایک ناقابل فراموش کارنامہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے سب اشتہارات تبلیغ رسالت کے نام سے شائع کرکے اگلی نسلوں کے لئے محفوظ کر دیئے۔
۹۲۔
الفضل ۳۰۔ شہادت ۱۳۲۱ہش )۳۰۔ اپریل ۱۹۴۲ء( صفحہ ۵۔
۹۳۔
‏]h2 [tag رسالہ فرقان ہجرت ۱۳۲۱ہش )مئی ۱۹۴۲ء( صفحہ ۳۴۔
۹۴۔
الفضل ۲۸۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۹۵۔
اب اس کا نام ساہیوال ہے۔
۹۶۔
الفضل ۲۸۔ جون ۱۹۴۲ء/ احسان ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵ )ملخصاً مضمون سلطان محمود صاحب شاہد بی۔ ایس۔ سی حال پروفیسر تعلیم الاسلام کالج ربوہ(
۹۷۔
الحکم ۷` ۱۴۔ نومبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۵۔ ۶۔ اس پرچہ میں آپ کو املاء کردہ سوانح حیات درج ہے۔
۹۸۔
>تحقیق جدید متعلق قبر مسیح< مولفہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ناشر۔ بکڈپو تالیف و اشاعت قادیان طبع اول اکتوبر ۱۹۳۶ء۔ اس کتاب کے صفحہ ۷۲ پر آپ کا اور حضرت مستری فیض احمد صاحب جمونی کا فوٹو بھی موجود ہے۔
۹۹۔
تحفہ گولڑویہ۔
۱۰۰۔
تبلیغ رسات جلد ہشتم صفحہ ۷۰ تا ۷۳۔
۱۰۱۔
ملاحظہ ہو نزول المسیح۔
۱۰۲۔
ملاحظہ ہو نزول مسیح صفحہ ۲۱۱ )تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۲۹۔ ۴۳۰( البدر ۲۸۔ نومبر و ۵۔ دسمبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۵ و الحکم ۲۴۔ نومبر ۱۹۰۲ء صفحہ ۴ )تذکرہ طبع دوم صفحہ ۴۵۴(
۱۰۳۔
درثمین کا یہ پہلا ایڈیشن جو ۱۸۹۶ء میں شائع ہوا اب نایاب ہے۔ یاد رہے درثمین کا دوسرا ایڈیشن حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی نے ۱۸۹۶ء میں اور تیسرا ایڈیشن حضرت خلیفہ نور الدین صاحب ہی نے درثمین کامل کے نام سے رجب ۱۳۱۹ھ مطابق اکتوبر ۱۹۰۱ء میں شائع کیا تھا۔
۱۰۴۔
الفضل ۱۵۔ تبوک ۱۳۲۱ہش )۱۵۔ ستمبر ۱۹۴۲ء( صفحہ ۴ کالم ۳ و ۴۔
۱۰۵۔
حضرت خلیفہ صاحبؓ کی اولاد۔ ۱۔ غلام فاطمہ صاحبہ زوجہ حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب نو مسلم۔ ۲۔ حضرت خلیفہ عبدالرحیم صاحب )ولادت ۱۲۔ دسمبر ۱۸۹۳ء( آپ کی پیدائش حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خاص دعائوں کا نتیجہ تھا۔ ۳۔ امتہ اللہ بیگم صاحبہ زوجہ حضرت مستری فیض احمد صاحب جمونی۔ ۴۔ الحاج حضرت خلیفہ عبدالرحمن صاحب )ولادت مارچ ۱۹۱۰ء( آپ قریباً تین سال تک جماعت احمدیہ سری نگر کے پریذیڈنٹ بھی رہے ہیں۔ ان دنوں کوئٹہ میں مقیم ہیں۔
۱۰۶۔
الفضل ۶۔ تبوک )ستمبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۰۷۔
حال ہیڈماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوہ۔ محترم میاں صاحب موصوف آپ کے ہمشیرہ زاد بھائی ہیں جنہیں حضرت مستری صاحب نے آپ کے والد ماجد کی زندگی میں ہی اپنی تربیت میں لے لیا اور پھر آپ کی تعلیم پر اس قدر بے دریغ روپیہ خرچ کیا کہ بہت سے لوگ آپ کو حضرت مستری صاحب کا حقیقی بیٹا سمجھنے لگے۔
۱۰۸۔
الفضل ۱۱۔ ستمبر ۱۹۴۲ء/ تبوک ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵۔
۱۰۹۔
الفضل ۳۰۔ ستمبر ۱۹۴۲ء/ تبوک ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۱۰۔
الفضل ۱۰۔ اکتوبر ۱۹۴۲ء/ اخاء ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۴۔
۱۱۱۔
الفضل ۸۔ دسمبر ۱۹۴۲ء/ فتح ۱۳۲۱ہش صفحہ ۶۔
۱۱۲۔
الفضل ۲۸۔ نومبر ۱۹۴۲ء/ نبوت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۱۳۔
الفضل ۲۔ جنوری ۱۹۴۳ء/ صلح ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۱۴۔
ضمیمہ انجام آتھم صفحہ ۴۴ کالم ۳۔
۱۱۵۔
الفضل ۱۴۔ جولائی ۱۹۴۲ء/ وفا ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔ مزید حالات کے لئے ملاحظہ ہو سیرت حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ صفحہ ۸۳۔ ۹۳ )مولفہ ڈاکٹر ملک نذیر احمد صاحب ریاض(
۱۱۶۔
لفضل ۲۶۔ تبوک )ستمبر ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴ و ۵۔
۱۱۷۔
وفات ۱۳۔ ہجرت )مئی( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش بعمر ۵۲ سال )الفضل ۱۶۔ ہجرت )مئی( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۳(
۱۱۸۔
تاریخ شہادت ۲۹۔ ماہ ہجرت )مئی( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش )الفضل ۷۔ احسان )جون( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۳( ایضاً >الفضل انٹرنیشنل< لندن ۲۲۔ دسمبر ۱۹۹۵ء صفحہ ۱۰ )مضمون صوبیدار عبدالغفور صاحب پشاور(
۱۱۹۔
وفات ۲۴۔ ظہور )اگست( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش بعمر ۷۴ سال )الفضل ۷۔ اخاء )اکتوبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۶(
۱۲۰۔
تاریخ وفات ۲۸۔ تبوک )ستمبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش )الفضل ۱۰۔ ماہ اخاء )اکتوبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲۔
۱۲۱۔
وفات ۱۰۔ اخاء )اکتوبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش )الفضل ۳۔ نبوت )نومبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۷۔
۱۲۲۔
وفا ۶۔ اخاء )اکتوبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش )الفضل ۱۸۔ اخاء )اکتوبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۶۔
۱۲۳۔
وفات یکم نومبر )نومبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش )الفضل ۲۲۔ نبوت )نومبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۶ کالم ۳۔
۱۲۴۔
الضل ۲۹۔ جنوری ۱۹۴۲ء/ صلح ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔][۱۲۵۔
الفضل یکم اپریل ۱۹۴۲ء/ شہادت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۳۔
۱۲۶۔
الفضل ۹۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۲۷۔
الفضل ۱۲۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۱۲۸۔
الفضل ۲۔ دسمبر ۱۹۴۲ء/ فتح۱۳۲۱ہش صفحہ ۴ کالم ۳۔
۱۲۹۔
الفضل ۲۳۔ دسمبر ۱۹۴۲ء/ فتح ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲۔
۱۳۰۔
تاریخ وفات ۲۔ ستمبر ۱۹۶۸ء/ تبوک ۱۳۴۷ہش۔
۱۳۱۔
الفضل ۵۔ اپریل ۱۹۴۲ء/ شہادت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۳۲۔
الفضل ۱۲۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۳۳۔
الفضل ۲۶۔ جون ۱۹۴۲ء/ احسان ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵۔
۱۳۴۔
الفضل ۲۶۔ مئی ۱۹۴۲ء/ ہجرت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۳۵۔
سید عبدالسلام صاحب پراونشل سیکرٹری تبلیغ اڑیسہ سونگڑہ کی رپورٹ )الفضل ۱۲۔ احسان ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵( سے ملخصاً۔
۱۳۶۔
الفضل ۱۶۔ جون ۱۹۴۲ء/ احسان ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۱۳۷۔
الفضل ۲۵۔ جون ۱۹۴۲ء/ احسان ۱۳۲۱ہش صفحہ ۷۔
۱۳۸۔
تذکرۃ الشہادتین صفحہ ۶۶ طبع اول۔
۱۳۹۔
الفضل ۲۱۔ جولائی ۱۹۴۲ء/ وفا ۱۳۲۱ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۴۰۔
الفضل ۱۵۔ تبوک )۵۔ ستمبر( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۴۔
۱۴۱۔
الفضل ۲۹۔ امان )۹۔ مارچ( ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱۔
۱۴۲۔
الفضل ۵۔ ظہور ۱۳۲۱ہش )۵۔ اگست ۱۹۴۲ء( صفحہ ۶ و ۷۔
۱۴۳۔
الفضل ۱۷۔ فتح ۱۳۲۱ہش )۱۷۔ دسمبر ۱۹۴۲ء( صفحہ ۵۔
۱۴۴۔
الفضل ۲۴۔ فتح ۱۳۲۱ہش )۲۴۔ دسمبر ۱۹۴۲ء( صفحہ ۴۔
۱۴۵۔
الفضل ۲۰۔ صلح ۱۳۲۲ہش )۲۰۔ جولائی ۱۹۴۳ء( صفحہ ۱۔ ۷۔
۱۴۶۔
اخلاق احمد نومبر ۱۹۴۲ء/ نبوت ۱۳۲۱ہش صفحہ ۱۔
۱۴۷۔
الفضل ۲۳۔ شہادت۔ ۲۵۔ شہادت۔ ۶۔ ہجرت۔ ۱۰۔ احسان ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش میں ان مباحثات کی مفصل روئیداد چھپی ہوئی موجود ہے۔
۱۴۸۔
الفضل ۵۔ مارچ ۱۹۴۲ء/ امان ۱۳۲۱ہش صفحہ ۵۔
۱۴۹۔
مرکز احمدیت قادیان صفحہ ۴۱۵ تا ۴۱۹۔
‏tav.8.21
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
ترکی وفد سے متعلق وضاحتی خطبہ سے لیکچر >اسوہ حسنہ< تک
چوتھا باب )فصل اول(
ترکی وفد سے متعلق حضرت خلیفہ~ن۲~المسیح الثانیؓ
کے وضاحتی خطبہ سے لے کر
سالانہ جلسہ کے لیکچر >اسوہ حسنہ< تک
خلافت ثانیہ کا تیسواں سال
)محرم ۱۳۶۳ھ مطابق جنوری ۱۹۴۳ء/ صلح ۱۳۲۲ہش تا محرم ۱۳۶۴ھ(
)مطابق دسمبر ۱۹۴۳ء/ فتح ۱۳۲۲ہش(
ترکی وفد سے متعلق حضرت امیرالمومنین کا وضاحتی خطبہ
اس سال کے شروع میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس نے ہندوستان میں ایک ہیجان پیدا کر دیا۔ تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ان دنوں ترک اخبار نویسوں کا ایک وفد دورہ کرتے ہوئے لاہور پہنچا تو اس کے لیڈر موسیو عطائی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم پہلے ترک ہیں پھر مسلمان۔ نیز کہا کہ سفر میں روزانہ نماز کی ضرورت نہیں ہے۔ علاوہ ازیں بعض جوابات انہوں نے ایسے دیئے یا ہندوستانی پریس نے ان کی طرف منسوب کرکے شائع کئے۱ جو مسلمانان ہند کے ایک حصہ کے لئے افسوس اور دوسرے حصہ کے لئے پریشانی کا باعث بنے۔ چنانچہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مدیر >اہلحدیث< )امرتسر( نے لکھا۔
>لاہور میں اخبار نویسوں کی طرف سے ترکی وفد کو ٹی پارٹی )دعوت چائے( دی گئی جس میں رئیس وفد نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ >ہم پہلے ترک ہیں پھر مسلمان<۔ اس فقرہ سے ہم نے ترکوں کی اسلامی عقیدت کا جو نکتہ پایا ہے اس سے ہمیں سخت صدمہ ہوا۔ اس فقرے کا واضح اور صاف مطلب یہ ہے کہ ترکی قوم کی رسوم معاشرت اور سیاست ان کے نزدیک اسلامی رسوم اور معاشرت سے مقدم ہیں۔ مثلاً بعض جرائم پر جو سزائیں شرع شریف میں آئی ہیں ترکی قوانین کے خلاف ہوں تو ان کے ملکی قوانین ان کے نزدیک مقدم ہیں اور اسلامی احکام موخر۔ ایسا کہنا اور کرنا اسلام کے صریح خلاف ہے۔ ارشاد ہے۔ وما کان لمومن ولا مومنہ اذا قضی اللہ و رسولہ امرا ان یکون لھم الخیرہ من امرھم خدا اور رسول کے حکم کے سامنے کسی مومن کو بجز تسلیم کے کوئی اختیار نہیں ہے۔ ترکوں کی سلطنت کو اور قومیت کو یورپ نے سخت نقصان پہنایا ہے۔ اس پر بھی وہ یورپ کی تقلید سے نہیں ہٹے۔ ہندوستانی مسلمان ترکوں کی ہر مصیبت میں شرک غم رہے مگر ترکوں نے آخر یہی جواب دیا جو ان کے منقولہ مقولہ سے پایا جاتا ہے<۔۲
اس موقعہ پر خصوصاً ہندو پریس نے ان جوابات کو بہت اچھالا اور یہ نتیجہ نکالا کہ ترک اسلام سے بیزار ہیں۔ اور مسلمانان ہند کی سیاست سے ان کو اختلاف ہے۔ انہوں نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ ترکوں نے فیصلہ کر دیا کہ قومیت پہلے ہے اور مذہب بعد میں۔ اسی طرح ہندوستان میں قومیت کو مقدم رکھنا چاہئے اور مذہب کو موخر سمجھنا چاہئے۔ چنانچہ اخبار >ملاپ< )۳۔ فروری ۱۹۴۳ء( نے لکھا۔
>ترک اخبار نویسوں کے وفد سے پنجاب کے مسلم لیگیوں کو خصوصاً اور ہندوستان کے مسلم لیگیوں کو عموماً جو خفت اٹھانی پڑی ہے اسے شاید وہ ایک عرصہ تک فراموش نہ کرسکیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان باتوں نے مسلم لیگ کے اس سارے تخلیل کو مٹی میں ملا کر رکھ دیا ہے جس پر وہ اپنی تمام سرگرمیوں کا محل کھڑا کرہے تھے<۔
قبل ازیں ۳۱۔ جولائی ۱۹۴۳ء کی اشاعت میں لکھا۔
>ترک اخبار نویسوں نے ان کے مونہہ پر ایک ایسی چپت لگائی ہے جسے وہ عمر بھر یاد رکھیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ چپت اتنی کراری اور زبردست ہے کہ کسی وضاحت کی ضرورت نہیں<۔۳
اخبار >پربھات< )یکم فروری ۱۹۴۳ء( نے لکھا۔
>ترک جرنلسٹوں نے ہندی مسلمانوں اور ترک مسلمانوں کی بھائی بندی کا بھانڈا چوراہے میں پھوڑ دیا۔۴
ان حالات میں ملک بھر میں صرف قادیان میں ہی ایک مقدس بستی تھی جہاں سے ایک ایسی آواز اٹھی جس نے ہندوئوں کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا اور مسلمانان ہند کو اسلام کے شاندار مستقبل کی خبر دے کر ان کے حوصلوں کو اور ان کے عزائم کو مستحکم کیا اور ان کے ولولوں کو حیات نو بخشی۔ یہ آواز امام جماعت احمدیہ خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی آواز تھی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۵۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو قادیان کی مسجد اقصیٰ کے منبر سے ترکی وفد کے جوابات کی نسبت ایک خاص خطبہ ارشاد فرمایا جس میں ترکی وفد کے اس جواب کے بارے میں کہ وہ >ترک پہلے اور پھر مسلمان ہیں< نہایت لطیف وضاحت کی کہ۔
>اس کا مفہوم محض یہ تھا کہ ہمیں باقی مسلمان قوموں سے بے شک ہمدردی ہے۔ لیکن اگر ہم کسی وقت دیکھیں گے کہ ہماری قوم کو نقصان پہنچنے والا ہے تو اس وقت ہم اپنی جان پہلے بچائیں گے اور دوسروں کا فکر بعد میں کریں گے۔ یہ معنی نہیں تھے کہ ہم ترکی نسل کو مقدم کریں گے اسلام کو مقدم نہیں کریں گے۔ کیونکہ وہاں تو کوئی اختلاف ہے ہی نہیں۔ سب لوگ مسلمان ہیں۔ یہ اختلاف تو ہندوستان میں ہی پایا جاتا ہے کیونکہ یہاں مختلف مذاہب کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ترک تو سب کے سب مسلمان کہلاتے ہیں۔ ان کا ذہن ان معنوں کی طرف جاہی کس طرح سکتا ہے۔ کہ ہم قومیت کو مقدم کریں گے اور مذہب کو موخر کریں گے۔ پس ان کا جواب سیاسی جواب ہے اور یہ سیاسی جواب نیا تو نہیں جب ان میں خلافت قائم تھی۔ اس وقت بھی ان کی طرف سے یہی بات پیش کی جاتی تھی اور آج بھی یہی بات پیش کی جاتی ہے<۔
جہاں تک ترکی وفد کے اس جواب کا تعلق تھا کہ سفر میں نماز کیا پڑھنی ہے حضورؓ نے اس کو بہت اہمیت دی اور فرمایا کہ۔
>اگر وہ سچ ہے تو واقعہ میں افسوسناک ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جواب بتاتا ہے کہ اگر یہ بات سچی ہے تو ترکوں کا وہ وفد جو ہندوستان میں آیا اس کے دل میں اسلام کی تعلیم نے پوری طرح گھر نہیں کیا۔ ہم اس سے یہ نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ ساری ترک قوم ایسی ہے کیونکہ بہرحال یہ چند افراد کا جواب ہے ہے اور وہ اپنے فعل کے آپ ذمہ دار ہیں۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ وہ ترکوں کے منتخب نمائندے ہیں۔ پس بے شک ان کا فعل ایک قوم کا فعل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مگر چونکہ ترکوں نے انہیں اپنا نمائندہ منتخب کرکے بھیجا ہے۔ اس لئے یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ ترکوں کی طرف سے جو نمائندے چن کر بھیجے گئے ہیں ان کے دلوں میں نماز کی جو اسلام کے ارکان میں سے ایک بہت بڑا رکن ہے کوئی عظمت نہیں<۔
اس ضمن میں ہندوئوں کی نسبت حضور نے فرمایا۔
>مگر میرے نزدیک اس میں بھی ہندوئوں کے لئے خوش ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ میں نے خود ایک دفعہ ایک ہندو اخبار میں یہ لکھا ہوا دیکھا تھا کہ ہمارے ہاں سندھیا )یعنی صبح کی عبادت( کا جو طریق رائج ہے اس کا ہم میں سے ایک بھی پابند نہیں۔۵ پس جس قوم کی اپنی یہ حالت ہو اور جس قوم کا ایک فرد بھی عبادت کا پابند نہ ہو اسے اس بات پر کیا خوشی ہوسکتی ہے کہ دو کروڑ ترکوں میں سے چھ ترک ایسے ہیں جو سفر کی حالت میں نماز نہیں پڑھتے<۔
حضور نے اس الزامی جواب پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے مزید فرمایا کہ۔
>یہ اعتراض بھی تب ہوتا جب یہ تسلیم کیا جاتا کہ اسلام اپنی عملی صورت میں اس وقت دنیا میں موجود ہے مگر جہاں تک غیر احمدیوں کا سوال ہے وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ اسلام اپنی اصل شکل میں دنیا موجود ہے اور احمدیوں کا تو سوال ہی نہیں۔ ہمارے تو دعویٰ کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں بھیجا ہے تاکہ آپ اسلام کو اس کی اس شکل و صورت میں پھر قائم کریں۔ پس اگر ترکوں نے یہ کہا کہ سفر میں نماز کیا پڑھنی ہے تو اس کے معنے صرف اتنے ہیں کہ انہوں نے اپنے اس جواب سے ایک اور تصدیق اس امر کی بہم پہنچا دی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا کی اصلاح کے لئے ضرور کوئی مامور مبعوث ہونا چاہئے کیونکہ آج خود مسلمانوں کی یہ حالت ہورہی ہے کہ وہ اسلامی تعلیم پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ پس مسلمانوں کو اس جواب پر پریشان ہونے اور گھبرانے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج سے پچاس سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ تمام نقشہ کھینچ کر رکھ دیا تھا۔ ترکی وفد نے کونسی نئی بات بتائی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا تھا۔ ع
ہر کسے درکار خود بادین احمد کارنیست
ہر شخص کو اپنے اپنے کام سے تعلق ہے مگر رسول کریم~صل۱~ کے دین سے کسی کو کوئی واسطہ نہیں۔ اس طرح آپ نے فرمایا تھا۔ ع
بے کسے شد دین احمد ہیچ خویش ویار نیست
دین اسلام بے کس ہوگیا ہے اور کوئی اس کا دوست و مددگار نہیں رہا۔ یہ وہ چیز ہے جسے سلسلہ احمدیہ پچاس سال سے پیش کررہا ہے اور ہم تسلیم کرچکے ہیں کہ آج مسلمانوں کی یہی حالت ہورہی ہے۔ پھر اس کو اسلام کی ایک نئی شکست کیونکر قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہ بیماری تو وہ ہے جس کا اعلان آج سے پچاس سال پہلے بلکہ اس سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے کر دیا تھا۔ پس یہ کوئی نئی بیماری نہیں جو ہمارے سامنے پیش کی جائے۔ دشمنان اسلام کو جو کچھ دیکھنا چاہئے وہ یہ ہے کہ کیا اس بیماری کے علاج کا کوئی شفاخانہ دنیا میں قائم ہوچکا ہے یا نہیں۔ اگر دنیا میں اس بیماری کے علاج کا شفاخانہ قائم ہوچکا ہے تو پھر اس میں ان کے لئے خوشی کا کونسا موقعہ ہے۔ آج دوبارہ اسلام کی ترقی کے سامان خداتعالیٰ نے پیدا کر دیئے ہیں اور دوبارہ اسلام کی بنیادوں کی تعمیر کے لئے قادیان میں اس نے اپنا ایک انجینئر بھیج دیا ہے۔ اس انجینئر نے اسلامی بنیادوں کو مضبوط کرکے اس پر اسلام کے رفیع الشان محل کی عمارت کو کھڑا کرنا شروع کر دیا ہے۔ پس اگر کوئی دشمن اسلام` اسلام کی اس گرتی ہوئی بنیاد کو دیکھ رہا ہے تو وہ ان اٹھتی ہوئی بنیادوں کو بھی دیکھے جس کے عظیم الشان محل میں دنیا کی تمام پاکیزہ روحوں کو لاکر اکٹھا کر دیا جائے گا۔ ان کو وہ چھ شکست خوردہ ذہنیت کے مالک مسلمان نظر آتے ہیں مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ ان کے گھروں کے سامنے خداتعالیٰ کی یہ آواز بلند کی جارہی ہے کہ >میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا< کیا یہ آواز ان کے کانوں میں نہیں آتی۔ وہ محل جس کے دیواریں ایک طرف گررہی ہیں اور دوسری طرف اس کی نئی اور مضبوط دیواریں کھڑی کی جارہی ہوں۔ اس محل کی دیواریں گرنے پر کسی دشمن کو کیا خوشی ہوسکتی ہے۔ اگر ایک طرف اسلام کی کوئی دیوار گررہی ہے تو دوسری طرف اس کی نئی اور مضبوط دیواریں خداتعالیٰ کے فضل سے کھڑی کی جارہی ہیں۔ پس دشمن کے لئے خوشی کا کوئی موقعہ نہیں۔ بے شک یہ ایک کمزوری ہے اور ہم اس کمزوری کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر ہمارے لئے یہ کمزوری کوئی نئی چیز نہیں۔ آج سے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم~صل۱~ نے اس کی خبر دے دی تھی اور آپ بتاچکے تھے کہ ایک زمانہ میں مسلمانوں کی کیا حالت ہو جائے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو دشمن کے لئے خوش ہونے کا کوئی موقع نہیں۔ اسلام کی دیواریں اگر ایک طرف گررہی ہیں تو ساتھ ہی ایک نئی بنیاد اسلام کی ترقی کے لئے اٹھائی جارہی ہے۔ اگر دشمن یہ دیکھتا ہے کہ محمد~صل۱~ کے قلعہ میں سے آپ کے نام کی طرف منسوب ہونے والے چند شکست خوردہ لوگ ایک دروازہ سے نکلتے ہوئے اپنے ہتھیار پھینک رہے ہیں تو وہ آنکھیں اٹھا کر دیکھے کہ دوسری طرف ایک اور قوم جس کی رگوں میں جوانی` امید اور امنگوں کا خون تیزی سے دورہ کررہا ہے فتح کے جھنڈے اڑاتی ہوئی محمد~صل۱~ کے نام کو بلند کرنے اور اس کی حکومت کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے دروازے سے محمدی قلعہ میں داخل بھی ہورہی ہے<۔۶
حضرت امیرالمومنینؓ کا خطاب سندھ کی صوبائی انجمن احمدیہ کے سالانہ اجلاس میں
۱۲۔ امان/ مارچ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو ناصر آباد )سندھ( میں صوبائی انجمن احمدیہ کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں قرب و جوار کی احمدی
جماعتوں کے صدر اور کراچی` روہڑی` باڈا` کمال ڈیرہ اور ضلع حیدرآباد کے قریباً اسی نمائندے شامل ہوئے۔
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے نماز مغرب و عشاء کے بعد اس نمائندہ اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ >ہمارا سندھ میں آنا اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت کے ماتحت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں ایک وسیع رقبہ عطا فرمایا ہے جس کی وسعت تیس میل تک پھیلی ہوئی ہے اور اس میں احمدی آبادیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے احمدیت اور اسلام کی اشاعت کے لئے پنجاب کو مرکز بنایا ہے اور سندھ کو ایک طرف پنجاب اور دوسری طرف سمندر سے ملا کر اسے دوسری دنیا کے لئے پنجاب کی ڈیوڑھی بنایا ہے۔ اس لئے سندھ میں سلسلہ احمدیہ کا استحکام باہر کی تبلیغ کا ایک اہم اور بنیادی حصہ ہے۔
حضور نے فرمایا کہ >دوستوں کو سندھ میں تبلیغ کو بہت وسعت دینی چاہئے اور دیوانہ وار تبلیغ میں لگ جانا چاہئے۔ ایک دھن ہو اور ایک آگ سی لگی ہوئی ہو۔ مجلس منتظمہ کو بار بار اجلاس بلا کر اپنی مشکلات کو دور کرنا اور کارآمد اور مفید تجاویز پر غور کرکے ان پر عمل کرتے رہنا چاہئے۔ مبلغ سندھ کو چاہئے کہ وہ سندھی مبلغ تیار کرے۔
حضور نے فرمایا۔ >جب تک سندھی لوگ عقیدہ میں ہمارے ساتھ متفق نہیں ہوتے اس وقت تک پنجاب کام نہیں کرسکتا۔ سندھ کے ہمارے ساتھ شامل ہو جانے سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے آنے جانے کی سب دقتیں دور ہوکر آسانیاں پیدا ہو جائیں گی۔ اس وقت جو حالات پیدا ہورہے ہیں وہ اسلام کے لئے نازک ہیں۔ اسلام کی ان حالات سے حفاظت کرنے اور اسے ترقی دینے کے لئے ہمیں اپنی کوششوں کو وسیع اور ہمتوں کو بلند کرنا چاہئے اور اپنا عملی نمونہ ایسا اعلیٰ درجہ کا بنانا چاہئے کہ لوگوں کے دلوں میں احمدیت کو قبول کرنے کی کشش پیدا کرسکے<۔۷
ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی گرفتاری اور رہائی
۳۱۔ امان/ مارچ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش۸ کا دن جماعت احمدیہ کے لئے ایک نہایت وحشت ناک خبر لے کر آیا اور وہ یہ کہ جماعت کے ممتاز مناظر اور عالم دین ملک عبدالرحمن صاحب خادم بی۔ اے۔ ایل ایل۔ بی ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ )زیر دفعہ ۱۲۹( کے تحت گرفتار کئے گئے۔ یہ ظالمانہ کارروائی گجرات کے ہندو ڈپٹی کمشنر مسٹر گریوال کے خلاف شائع شدہ ایک نظم کی بناء پر کی گئی۔ حالانکہ جیسا کہ ملک صاحب نے حلفاًبیان دیا کہ ان کا اس نظم کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں تھا حتیٰ کہ علم بھی نہیں تھا کہ یہ کس نے لکھی ہے۔۹
جماعت احمدیہ کے سب ہی حلقے اس نظر بندی پر تڑپ اٹھے اور انہوں نے ملک صاحب کے محترم والدین اور دیگر عزیزوں سے گہری ہمدردی کا اظہار کیا اور نہایت درد دل سے ان کی باعزت بریت کے لئے دعائیں کیں۔۱۰ احمدیہ پریس نے اس صریح دھاندلی پر جو مخالفین کی ریشہ دوانیوں کے نتیجہ میں مچائی گئی تھی` زبردست احتجاج کیا۔ اور مرکز سلسلہ نے حکومت کی مشینری کو اس ظلم کی طرف بار بار توجہ دلائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت نے ملک صاحب کو دو ہفتہ کے بعد رہا کردیا۔۱۱
مخلوط تعلیم کی ممانعت اور اسلامی پردہ کی ترویج کے متعلق پرشوکت پیشگوئی
اس سال کی مجلس مشاورت )منعقدہ ۲۳` ۲۴` ۲۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کے دوران مخلوط تعلیم کا معاملہ پیش ہوا تو حضرت
خلیفتہ المسیح الثانی~رضی۱~ نے فرمایا کہ۔
>مخلوط تعلیم کسی صورت میں بھی درست نہیں سمجھی جاسکتی۔ نظارت تعلیم و تربیت کو اس کے انسداد کے متعلق جماعت میں ایک عام اعلان کرنا چاہئے تاکہ ہر شخص کو علم ہو جائے کہ مرکز اس بارہ میں کیا رائے رکھتا ہے اس کے بعد جو لوگ اس جرم کے مرتکب ہوں ان سے جواب طلبی کی جائے اور انہیں اصلاح کی طرف توجہ دلائی جائے۔ اگر اس تنبیہ کے باوجود ان کی اصلاح نہ ہو تو انہیں سزا دی جائے جس کی حد اخراج از جماعت تک ہوسکتی ہے<۔۱۲
اس فیصلہ کا اعلان کرنے کے بعد حضور نے اسلامی پردہ کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی اور مستقبل میں برپا ہونے والے اسلامی انقلاب کی نسبت پیشگوئی کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>اچھی طرح یاد رکھو کہ پردہ اسلام کا اہم ترین حکم ہے۔ جو شخص پردہ کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ اسلام کی ہتک کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مغربیت کی رو دلوں میں اباحت پیدا کررہی ہے اور بعض احمدی بھی کہتے سنائی دیتے ہیں کہ اب پردہ دنیا میں قائم رہتا نظر نہیں آتا۔ مگر میں ان سے کہتا ہوں تمہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا وجود بھی دنیا میں قائم ہوتا نظر نہیں آتا تھا پھر آج کیا یہ نظارہ تم اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہے کہ دنیا کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پھیل چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح اب جو لوگ کہتے ہیں کہ پردہ قائم رہتا نظر نہیں آتا۔ میں ان سے کہتا ہوں کہ تمہیں تو پردہ قائم ہوتا نظر نہیں آتا۔ اگر دنیا ہمارے وعظ و نصیحت سے متاثر ہوکر بے پردگی سے باز نہیں آئے گی تو کیا تم سمجھتے ہو اس زمین کو چکر دینا خدا کے اختیار سے باہر ہے۔ یہ بگڑی ہوئی دنیا جو آج تمہیں دکھائی دے رہی ہے خدا اسے ایک ایسا چکر دے گا کہ یہ مجبور ہوگی اس بات پر کہ اسلام کے احکام پر عمل کرے اور ہر قسم کی غلط آزادی کو خیرباد کہ دے۔ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے بڑے اہم تغیرات مقدر ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ آدمی رات کو مومن سوئے گا اور صبح کو کافر اٹھے گا۔ صبح کو کافر ہوگا اور رات اس پر ایسی حالت میں آئے گی جبکہ وہ مومن ہوگا۔ اس میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اس زمانہ میں جلد جلد تغیرات رونما ہوں گے اور ایسے ایسے انقلابات پیدا ہوں گے جو انسانی قیاسات سے بالکل بالا ہوں گے ایک شخص مومن ہونے کی حالت میں سوئے گا اور دہریہ بن کر اٹھے گا اور ایک دوسرا شخص دہریہ ہونے کی حالت میں صبح کرے گا اور شام کو وہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے حلقہ غلامی میں آچکا ہوگا۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم خدا کے حکم کے مطابق چلتے چلے جائیں اور اپنی اطاعت اور وفاداری کا نمونہ دکھا کر خداتعالیٰ کے سچے سپاہی بنیں۔ اگر ایک فوج کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دے تو سپاہیوں کا یہ کام نہیں ہوتا کہ وہ اعتراض کریں اور کہیں کہ ہم سمندر میں اپنے گھوڑے کیوں ڈالیں۔ ہماری جانوں کا اس میں خطرہ ہے۔ ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ بے دھڑک سمندر میں کود جائیں اور اپنے افسر کے حکم کو بجالائیں۔ اسی طرح ہمیں اگر روحانی فوج میں داخل ہونے کے بعد بعض ناقابل عبور سمندر نظر آتے ہیں یا وہ گڑھے نظر آتے ہیں جن میں گر کر ہماری پسلیاں چور چور ہوسکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ ہم سمندر کو عبور کرجائیں اور گڑھوں پر سے چھلانگ لگا کر گزر جائیں تو اگر خدا کا منشاء یہ ہوگا کہ وہ ہمیں زندہ رکھے اور ہمارے ذریعہ سے دنیا کے احیاء کے سامان پیدا فرمائے تو پیشتر اس کے کہ ہم ان گڑھوں میں گریں خداتعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اتر کر ان کو پر کردیں گے اور جب ہم پہنچیں گے وہ ہمیں گڑھے نہیں بلکہ ہموار اور سیدھا اور کھلا راستہ نظر آئے گا۔
پس ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھیں بند کرکے چلتے چلے جائیں اور اس امر کی پروا نہ کریں کہ دنیا ہمارے متعلق کیا کہتی ہے۔ جس خندق کو عبور کرنے کا خدا نے حکم دیا ہے وہ بہرحال عبور کی جائے گی۔ اگر ہمارے لئے یہ مقدر ہے کہ ہم اس میں گر کر مر جائیں تو اس موت سے زیادہ ہمارے لئے خوشی کی چیز اور کوئی نہیں ہوسکتی اور اگر ہمارے لئے بچنا مقدر ہے تو کوئی خطرہ ہمارے ارادوں کو پست اور ہماری ہمتوں کو کوتاہ نہیں کرسکتا لیکن میں کہتا ہوں یہ خیال ہی غط ہے کہ ہمارے راستے میں وہ گڑھے آنے والے ہیں جو ہمیں ہلاک کر دیں گے۔ ان گڑھوں کو خدا کے رشتے ہمارے پہنچنے سے پہلے پہلے ہی پر کر دیں گے اور ہم سلامتی کے ساتھ دنیا میں امن کا جھنڈا قائم کرکے رہیں گے۔ یہ خدا کی تقدیر ہے جسے کوئی بدل نہیں سکتا۔ یہ عرش پر خدا کا وہ فیصلہ ہے جسے بدلنے کی کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا۔ ہمارا کام دین کی عظمت اور اس کے جلال کو دنیا میں قائم کرنا ہے۔ ہمارا کام محمد رسول اللہ~صل۱~ کے نام کو دنیا میں بلند کرنا ہے۔ ہمیں نہیں چاہئے کہ ہم کوئی ایسا کام کریں جو دشمنوں کی نظر میں اسلام کو بدنام کرنے والا اور ان کو دین کے متعلق اور زیادہ شبہات میں مبتلا کرنے والا ہو۔ مجھے خداتعالیٰ کے فضل سے کامل یقین ہے کہ یہ حالات جو بے پردگی وغیرہ کے سلسلہ میں دنیا میں نظر آرہے ہیں چونکہ خداتعالیٰ کے دین کے خلاف ہیں اس لئے اب دنیا میں قائم نہیں رہ سکتے۔ بے پردگی مٹ جائے گی۔ مرد اور عورت کا آزادانہ میل جول جاتا رہے گا۔ مغربیت اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہی ہے جس میں وہ ایک دن ہمیشہ کی نیند سلا دی جائے گی اور اسلام اپنی پوری شان اور اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا کے ہر گوشہ میں بلکہ ایک ایک گھر اور ایک ایک دل میں جلوہ نما ہوگا۔ اگر خدا ہمیں کل ہی حکومت دے دے اور ہم وائسرائے کی طرح ایک آرڈیننس جاری کر دیں کہ جو عورتیں پردہ نہیں کریں گی انہیں قید کر دیا جائے گا` تو تم دیکھو گے کہ دوسرے ہی دن وہ عورتیں جو آج کھلے منہ سڑکوں اور بازاروں میں گھومتی دکھائی دیتی ہیں دوڑی دوڑی جائیں گی اور گھروں میں سے نہیں نکلیں گی جب تک انہوں نے برقع پہنا ہوا نہ ہوگا۔ پھر یہ سوال تو رہ جائے گا کہ برقع کا سرخ رنگ ہونا چاہئے یا سبز ہونا چاہئے` سیاہ ہونا چاہئے یا سفید ہونا چاہئے۔ کوئی طبقہ کسی رنگ کو پسند کرے گا اور کوئی کسی رنگ کو۔ مگر یہ نہیں ہوگا کہ کوئی ایک عورت بھی بے پرد نظر آئے۔ پس ہمارے لئے گھبرانے کی کوئی وجہ نہیں۔ آسمان پر فرشتے اسلام کی تائید کے لئے کڑے ہیں اور وہ زمین پر اترنے والے ہیں۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم نڈر ہوکر کام کرتے چلے جائیں اور اسلام کی اصل شکل میں ایک خفیف سے خفیف تبدیلی بھی کبھی برداشت نہ کریں<۔۱۳
یہ انقلاب آہستہ آہستہ کیوں ہورہا ہے؟ اس کا فلسفہ بھی حضور نے اسی مجلس مشاورت میں بیان کیا۔ چنانچہ فرمایا۔
>میں سمجھتا ہوں لڑائی کا یہ سلسلہ جو اس وقت جاری ہے زیاہ عرصہ تک نہیں رہ سکتا۔ ۴۵ء کے پہلے نصف حصہ میں یا تو جنگ بالکل ختم ہو جائے گی یا ایسی صورت اختیار کرلے گی کہ انسان اطمینان کے ساتھ یہ کہہ سکے گا کہ اس لڑائی کا کیا انجام ہوگا اور اس کی بنیاد اسی سال یعنی ۴۳ء میں پڑے گی۔ مگر یہ فتنے ابھی ختم نہیں ہوں گے اور اللہ تعالیٰ ان فتنوں کو لمبا کرے گا اور لمبا کرتا چلا جائے گا تاکہ وہ قوم اس عرصہ میں تیار ہو جائے جس نے آئندہ دنیا کی حکومتیں اپنے ہاتھ میں لینی ہیں۔ سورہ کہف میں ذکر آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے ساتھی کے ساتھ جارہے تھے کہ انہوں نے ایک دیوار دیکھی جو گررہی تھی۔ انہوں نے دیوار کو بغیر کسی اجرت کے دوبارہ کھڑا کر دیا اور اسے گرنے سے محفوظ کردیا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں یہ بتاتا ہے کہ دیوار کو مضبوط بنانے میں حکمت یہ تھی کہ اس کے نیچے دو یتیم بچوں کا خزانہ تھا اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ جب تک وہ چے جوان نہ ہو جائیں ان کا خزانہ دیوار کے نیچے محفوظ رہے۔ جن کی موجودہ حالت بھی ایسی ہی ہے۔ مگر وہاں تو دیوار بنانے سے خزانہ محفوظ رہا تھا اور یہاں دیواریں گرانے سے خزانہ محفوظ رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خداتعالیٰ ان دینوی عمارتوں کو گرا رہا ہے مگر بجائے اس کے کہ وہ یکدم سب عمارتوں کو گرائے ان کو آہستہ آہستہ گرا رہا ہے کیونکہ وہ لوگ جن کے سپرد اس عمارت کی نئی تعمیر ہے وہ خداتعالیٰ کے انجینئرنگ کالج میں اس وقت پڑھ رہے ہیں اور ابھی اپنی تعلیم سے فارغ نہیں ہوئے۔ پس اگر آج تمام عمارتیں یکدم گر جائیں تو چونکہ وہ لوگ جنہوں نے کئی عمارتیں کھڑی کرنی ہیں` ابھی اپنی تعلیم کی تکمیل نہیں کرسکے۔ اس لئے خلا رہ جائے گا۔ اسی وجہ سے خداتعالیٰ آہستہ آہستہ ان دیواروں اور مکانات کو گرا رہا ہے۔ آج ایک دیوار کو گراتا ہے۔ تو کل دوسری دیوار کو گرا دیتا ہے۔ آج ایک چھت اڑاتا ہے تو کل دوسری چھت کو اڑا دیتا ہے۔ آج ایک کمرہ کو گراتا ہے تو کل دوسرے کمرے کو گرا دیتا ہے۔ اسی طرح وہ آہستہ آہستہ اور قدم بقدم دنیا کی تمام عمارتوں` دنیا کے تمام مکانوں اور دنیا کے تمام سامان کو گرا رہا مٹارہا اور تباہ و برباد کررہا ہے۔ اور اس کا منشاء یہ ہے کہ وہ اس وقت تک ان عمارتوں کو مکمل طور پر برباد نہ کرے جب تک خداتعالیٰ کے کالج میں جو لوگ تعلیم حاصل کررہے ہیں وہ اس کالج سے تعلیم حاصل کرکے فارغ نہ ہو جائیں اور ان پر قبضہ کرنے کے لئے تیار نہ ہو جائیں۔ پس یہ رستہ ہے جو خداتعالیٰ کی طرف سے ہماری جماعت کی ترقی کے لئے کھولا گیا ہے۔ یہ تغیر ایک دن ہوگا اور ضرور ہوگا مگر آہستگی سے اس لئے ہورہا ہے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے اس پر قبضہ کرنا ہے پوری طرح تیار ہو جائیں اور خداتعالیٰ کے کالج میں تعلیم حاصل کرلیں<۔۱۴
مغربی نظام کی تباہی اور اسلام کی عالمگیر حکومت کی نسبت دوبارہ پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا۔
>میں نے پہلے بھی بارہا کہا ہے اور اب پھر بڑے زور سے کہتا ہوں کہ دنیا میں مغربیت نے کافی حکومت کرلی۔ اب خداتعالیٰ کا منشاء ہے کہ وہ مغربیت کو کچل کر رکھ دے۔ جو لوگ ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مغربیت کا مقابلہ کس طرح ہوسکتا ہے؟ پردہ قائم رہتا ہوا نظر نہیں آتا۔ مردوں اور عورتوں کے آزادانہ میل جول کو کس طرح روکا جاسکتا ہے۔ یہ چیزیں ضروری ہیں اور اگر ہم ان امور میں مغربیت کی پیروی نہ کریں تو کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ وہ لوگ یاد رکھیں کہ وہ اپنے ان افعال سے اسلام اور احمدیت کی کامیابی کے راستہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں۔ یہ چیزیں مٹنے والی ہیں۔ مٹ رہی ہیں اور مٹ جائیں گی ابھی تم میں سے کئی لوگ زندہ ہوں گے کہ تم مغربیت کے درودیوار اور اس کی چھتوں کو گرتا ہوا دیکھو گے اور مغربیت کے ان کھنڈرات پر اسلام کے محلات کی نئی تعمیر مشاہدہ کرو گے۔ یہ کسی انسان کی باتیں نہیں بلکہ زمین و آسمان کے خدا کا فیصلہ ہے اور کوئی نہیں جو اس فیصلہ کو بدل سکے۔ پس ہماری طاقت کا سوال نہیں نہ ہم نے پہلے کبھی کہا کہ یہ تغیر ہماری طاقت سے ہوگا اور نہ آئندہ کبھی کہہ سکتے ہیں۔ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس تغیر کا خدا نے وعدہ کیا ہے اور خداتعالیٰ کے وعدوں کے اٹل ہونے کا ہم اپنی زندگی میں بارہا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ پس کوئی وجہ نہیں کہ اس مشاہدہ کے بعد ہمارے ایمانوں میں تزلزل پیدا ہو۔ ہمارے اعتقادات میں کمزوری رونما ہو۔ یقیناً دنیا گھٹنوں کے بل گرگر عاجزی کرتی اور دانت پیستی ہوئی ہمارے سامنے آئے گی اور اسے اپنے لئے قبول کرنا پڑے گا۔ تم مت ڈرو کہ اگر ہم نے پردہ یا مخلوط تعلیم کے خلاف آواز بلند کی تو لڑکیاں بغاوت کردیں گی یا لڑکیوں کے ماں باپ بغاوت کردیں گے۔ ان لڑکیوں اور ان کے ماں باپ کا تو کیا ذکر ہے۔ وہ لوگ جو ان خیالات کے بانی ہیں وہ خود گھٹنوں کے بل گر کر ہم سے معافی مانگنے والے ہیں۔ پس یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ کہ ہماری عورتیں بے پردہوں اور ہمیں ان کے مقابلہ میں ندامت اور شرمندگی حاصل ہو۔ بلکہ وہ خود ہزار ندامت اور پشیمانی سے اپنی گردنیں جھکائے ہوئے ہمارے سامنے حاضر ہوں گے اور انہیں اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ غلط راستہ پر چل رہے تھے۔ صحیح راستہ وہی ہے جو اسلام نے پیش کیا۔ یہ خدا کا فیصلہ ہے اور اس فیصلہ کے نفاذ کو دنیا کی کوئی طاقت دنیا کی کوئی حکومت اور دنیا کی کوئی بادشاہت روک نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ان تغیرات کے لئے اپنے آپ کو تیار کرو اور الل¶ہ تعالیٰ سے ہر وقت دعائیں کرتے رہیں اور اپنے اندر یقین اور وثوق پیدا کرو۔ جس دن تمہارے اندر پیدا ہوگیا اس دن تمہارے سارے شک سارے شبہات اور سارے وساوس آپ ہی آپ دور ہوجائیں گے اور تم اپنے آپ کو ترقی کے ایک مضبوط اور بلند تر مینار پر کھڑا دیکھو گے<۔۱۵
مشقی مباحثات پر اظہار ناپسندیدگی
قادیان میں کئی سال قبل مختلف اداروں اور مجالس میں مشقی مباحثات نے زور پکڑلیا اور ان میں گہری دلچسپی لی جانے لگی تھی۔ ابتداًء بچوں میں >قلم و ¶تلوار< اور >علم و دولت< اور >صنعت و حرفت اور ملازمت< کے موضوع زیر بحث آئے۔ رفتہ رفتہ یہ شوق بڑوں میں بھی سرایت کرگیا۔ حتیٰ کہ نوبت یہاں تک جاپہنچی کہ معمولی مسائل کی بجائے سنجیدہ امور بھی زیر بحث لائے جانے لگے۔ چنانچہ ایک بار مخلوط اور جداگانہ انتخاب پر بھی مبادلہ افکار ہوا۔ جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اپنے خطبہ جمعہ )فرمودہ ۱۰۔ فروری ۱۹۳۹ء( میں اس قسم کے بحث مباحثہ کو آوارگی سے تعبیر کیا۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>اچھے انداز میں گفتگو کرنا بھی ایک خاص فن ہے۔ ایسی مجلسوں میں علمی اور دینی باتیں ہوں لیکن بحث مباحثہ نہ ہو۔ اس چیز کو بھی میں آوارگی سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک یہ بات سب سے زیادہ دل پر زنگ لگانے والی ہے۔ مباحثہ کرنے والوں کے مدنظر تقویٰ نہیں بلکہ مدمقابل کو چپ کرانا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ میں ہمیشہ مباحثات سے بچتا ہوں اور میری تو یہ عادت ہے کہ اگر کوئی مباحثانہ رنگ میں سوال کرے تو ابتداء میں ایسا جواب دیتا ہوں کہ کئی لوگوں نے کہا ہے کہ انہوں نے کسی سوال پر پہلے پہل میرا جواب سن کر یہ خیال کیا کہ شاید میں جواب نہیں دے سکتا۔ اور دراصل ٹالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر جب کوئی پیچھے ہی پڑ جائے تو میں جاب کی ضرورت محسوس کرتا ہوں اور پھر خداتعالیٰ کے فضل سے ایسا جواب دیتا ہوں کہ وہ بھی اپنی غلطی محسوس کرلیتا ہے۔ یاد رکھو۔ سچائی کے لئے کسی بحث کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں نے ہمیشہ ایسی باتوں سے روکا ہے۔ ڈیبیٹنگ کلبیں بھی میرے نزدیک آوارگی کی ایک شاخ ہے اور میں اس سے ہمیشہ روکتا رہتا ہوں لیکن یہ چیز بھی کچھ ایسی راسخ ہوچکی ہے کہ برابر جاری ہے۔ حالانکہ اس سے دل پر سخت زنگ لگ جاتا ہے۔ ایک شخص کسی چیز کو مانتا نہیں مگر اس کی تائید میں دلائل دیتا جاتا ہے تو اس سے دل پر زنگ لگنا لازمی امر ہے۔ مجھے اک واقعہ یاد ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریق ایمان کو خراب کرنے والا ہے۔ مولوی محمد احسن صاحب امروہوی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سنایا کہ مولوی بشیر صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بہت موید اور میں مخالف تھا۔ مولوی بشیر صاحب ہمیشہ دوسرے کو براہین احمدیہ پڑھنے کی تلقین کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ شخص مجدد ہے۔ آخر میں نے ان سے کہا کہ آئو مباحثہ کرلیتے ہیں۔ مگر آپ تو چونکہ موید ہیں آپ مخالفانہ نقطہ نگاہ سے کتابیں پڑھیں اور میں مخالف ہوں اس لئے موافقانہ نقطہ نگاہ سے پڑھوں گا۔ سات آٹھ دن کتابوں کے مطالعہ کے لئے مقرر ہوگئے اور دونوں نے کتابوں کا مطالعہ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ میں جو مخالف تھا احمدی ہوگا اور وہ جو قریب تھے بالکل دور چلے گئے۔ ان کی سمجھ میں بات آگئی اور ان کے دل سے ایمان جاتا رہا تو علم النفس کی رو سے ڈیبیٹیں کرنا سخت مضر ہے اور بعض اوقات سخت نقصان کا موجب ہوجاتا ہے۔ یہ ایسے باریک مسائل ہیں جن کو سمجھنے کی ہر مدرس اہلیت نہیں رکھتا۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہوا۔ یہاں ایک ڈیبیٹ ہوئی اور جس کی شکایت مجھ تک بھی پہنچی تھی۔ اس میں اس امر پر بحث تھی کہ ہندوستان کے لئے مخلوط انتخاب چاہئے یا جداگانہ۔ حالانکہ میں اس کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرچکا ہوں اور یہ سوء ادبی ہے کہ اس بات کا علم ہونے کے باوجود کہ میں اس امر کے متعلق اپنی رائے ظاہر کرچکا ہوں پھر اس کو زیر بحث لایا جائے۔
جن امور میں خداتعالیٰ یا اس کے رسول یا اس کے خلفاء اظہار رائے کرچکے ہوں ان کے متعلق بحث کرنا گستاخی اور بے ادبی میں داخل ہے۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تو محض کھیل ہے لیکن کیا کوئی کھیل کے طور پر اپنے باپ کے سر میں جوتیاں مارسکتا ہے تو ڈیبٹیس سے زیادہ حماقت کی کوئی بات نہیں۔ ہر احمدی وفات مسیح کا قائل ہے مگر ڈیبیٹ کے لئے بعض حیات مسیح کے دلائل دینے لگتے ہیں۔ میں تو ایسے شخص سے یہی کہوں گا کہ بے حیا۔ خدا تعالیٰ نے تجھے ایمان دیا تھا مگر تو کفر کی چادر اوڑھنا چاہتا ہے۔ پس یہ ڈیبیٹس بھی آوارگی میں داخل ہیں۔ اگر خداتعالیٰ نے تمہیں یہ توفیق دی ہے کہ حق بات کو تم نے مان لیا تو اس کا شکریہ ادا کرو نہ کہ خواہ مخوا اس کی تردید کرو۔ بعض نادان کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس سے عقل بڑھتی ہے لیکن اس عقل کے بڑھانے کو کیا کرنا ہے جس سے ایمان جاتا رہے۔ دونوں باتوں کا موازنہ کرنا چاہئے۔ اگر ساری دنیا کی عقل مل جائے اور ایمان کے پہاڑ میں سے ایک ذرہ بھی کم ہو جائے تو اس عقل کو کیا کرنا ہے۔ یہ کوئی نفع نہیں بلکہ سراسر خسران اور تباہی ہے۔ پس یہ بھی آوارگی میں داخل ہے اور میں نے کئی دفعہ اس سے روکا ہے۔ مگر پھر بھی ڈیبیٹیں ہوتی رہتی ہیں۔ جس طرح کوڑھی کو خارش ہوتی ہے اور وہ رہ نہیں سکتا۔ اسی طرح ان لوگوں کو بھی کچھ ایسی خارش ہوتی ہے کہ جب تک ڈیبیٹ نہ کرالیں چین نہیں آتا اور پھر دینی اور مذہبی مسائل کے متعلق بھی ڈیبیٹیں ہوتی رہتی ہیں حالانکہ وہ تمام مسائل جن کی صداقتوں کے ہم قائل ہیں یا جن میں سلسلہ اظہار رائے کرچکا ہے ان پر بحث کرنا دماغی آوارگی ہے اور حقیقی ذہانت کے لئے سخت مضر ہے۔ میں نے سو دفعہ بتایا ہے کہ اگر اس کے بجائے یہ کیا جائے کہ دوست اپنی اپنی جگہ مطالعہ کرکے آئیں اور پھر ایک مجلس میں جمع ہوکر یہ بتائیں کہ فلاں مخالف نے یہ اعتراض کیا ہے بجائے اس کے کہ یہ کہیں کہ میں یہ اعتراض فلاں مسئلہ پر کرتا ہوں۔ اگر مولوی ثناء اللہ صاحب یا مولوی ابراہیم صاحب یا کسی اور مخالف کے اعتراض پیش کئے جائیں اور پھر سب مل کر جواب دیں اور خود اعتراض پیش کرنے والا بھی جواب دے تو یہ طریق بہت مفید ہوسکتا ہے۔ مگر ایسا نہیں کیا جاتا بلکہ ڈیبیٹوں کو ضروری سمجھا جاتا ہے اور انگریزوں کی نقل کی جاتی ہے کہ >ہائوس< یہ کہتا ہے۔ ہماری مجلس شوریٰ میں بھی یہ >ہائوس< کا لفظ داخل ہوگیا تھا مگر میں نے تنبیہ کی۔ اس پر وہاں سے تو نکل گیا ہے مگر مدرسوں میں رواج پکڑرہا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کہنے سے اس بات میں کونسا سرخاب کا پرلگ جاتا ہے۔ سیدھی طرح کیوں نہیں کہہ دیا جاتا کہ جماعت کی یہ رائے ہے۔ اس کے یہ معنے ہیں کہ دماغ کو کفر کی کا سہ لیسی میں لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے<۔۱۶
حضور کے اس خطبہ کے بعد بعض مخلصین جماعت نے تقریری مقابلوں ہی کو سراسر ناجائز قرار دے لیا۔ بعض لوگ یہ سمجھے کہ حضرت اقدس کی مباحثات سے مراد صرف ایسے مباحثات ہیں جن میں مذہبی مسائل زیر بحث لائے جائیں۔ دیگر مسائل پر مشتمل مباحثات قبیح اور ناپسندیدہ نہیں ہیں۔
اس پر پروفیسر محبوب عالم صاحب خالد ایم۔ اے نے مزید وضاحت و راہ نمائی کے لئے حضرت امیرالمومنینؓ کی خدمت اقدس میں حسب ذیل عریضہ تحریر کیا۔
>پیارے آقا! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ جامعہ احمدیہ کی طرف سے ایسے تقریری مقابلے کروائے جانے کا پروگرام مرتب کیا جارہا ہے جس کے ماتحت مختلف اداروں سے مقرر ایک ہی موضوع پر تقریر کریں مثلاً دیانت و امانت موضوع رکھ دیا جائے جس پر تقریروں کے لئے مختلف اداروں کو دعوت دی جائے۔ چونکہ اس میں ایک پہلو پر تقریریں ہوں گی اس لئے اس میں مناظرہ کی صورت نہیں ہوگی۔
بعض اصحاب کا خیال ہے کہ حضور کے ایک گزشتہ خطبہ جمعہ کی روشنی میں ایسے مقابلوں کی بھی اجازت نہیں اس لئے حضور کی خدمت میں عاجزانہ درخواست ہے کہ حضور مطلع فرماویں کہ اس قسم کے مقابلے حضور کے منشاء کے خلاف تو نہیں؟ بعض حلقوں میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضور کی مراد تو فقط مذہبی امور میں مناظروں کو بند کرنے سے ہے۔ سیاسی امور پر مناظرے حضور ناپسند نہیں فرماتے۔ بصد ادب عرض ہے کہ از راہ شفقت اس پہلو پر بھی روشنی فرماویں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔
حضور کا ادنیٰ غلام خاکسار خالد ۳۹/۲/۱۸<
اس پر حضور نے اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل عبارت تحریر فرمائی۔
>دونوں باتیں ایسی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ مختلف لوگوں کے ایک موضوع کی تائید میں مضمون لکھنا مباحثہ کس طرح ہوسکتا ہے اور جبکہ میں نے مثال ہی سیاسی مباحثہ کی دی تھی یعنی مخلوط انتخاب کی تو یہ کہنا کہ میری مراد سیاسی مباحثات سے نہیں ہے کسی احمق کا ہی خیال ہوسکتا ہے۔
مرزا محمود احمد<۱۷
فصل دوم
حادثہ بھامڑی
اس سال کے آغاز میں حادثہ بھامڑی پیش آیا جس کے تفصیلی حالات حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ )ناظر ضیافت و ہیڈماسٹر مدرسہ احمدیہ( کے قلم سے درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ حضرت میر صاحب نے تحریر فرمایا کہ۔
>شعبہ تبلیغ مقامی جماعت احمدیہ کا جب سے قیام ہوا ہے۔ اس کے افراد قانون رائج الوقت کی ہدایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے عقائد کی تبلیغ کرتے چلے آئے ہیں۔ کیونکہ احمدی جماعت ایک تبلیغی جماعت ہے اور اس سلسلہ کی تاریخ انفرادی اور اجتماعی تبلیغی تقریبوں سے بھری پڑی ہے۔ احمدی جماعت کی تبلیغی مساعی کا ایک حصہ مقامی تبلیغ کے نام سے موسوم ہے۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو علاقہ مرکز سلسلہ کے اردگرد واقع ہے اس کا حق ہے کہ اسے خصوصیت سے تبلیغ کی جائے۔ اس کام کے انچارج جناب چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے اور نائب انچارج مولوی دل محمد صاحب مولوی فاضل ہیں۔ اس ادارہ نے علاوہ انفرادی تبلیغ کے اس سال کے لئے یہ سکیم تجویز کی کہ کم سے کم ہر ماہ کسی ایک گائوں میں تبلیغی جلسہ ہو جایا کرے۔ چنانچہ ۱۹۴۳ء کے شروع سے اس سکیم کو عملی جامہ پہنایا گیا اور مجھ سے فرمائش کی گئی کہ میں ان جلسوں کی صدارت کروں چنانچہ میری صدارت میں ستکوہا` گھوڑیواہ` جاگووال` کھوکھر` اٹھوال اور قلعہ لال سنگھ میں جلسے ہوچکے ہیں۔ ایسے جلسوں کے انعقاد سے قبل اخبار >الفضل< میں ہمیشہ اعلان کردیا جاتا رہا ہے کہ فلاں تاریخ فلاں جگہ جلسہ ہوگا۔ احباب اس میں شامل ہوں۔
بھامڑی کا جلسہ اور مخالفین کی مزاحمت
اس سکیم کے ماتحت ایک تبلیغی جلسہ موضع بھامڑی میں جو ایک بہت بڑا گائوں قادیان سے پانچ میل کے فاصلہ پر جانب مشرق سری گوبند پور کے تھانہ میں واقعہ ہے تجویز کیا گیا۔ اس گائوں میں ایک مخلص اور اہل علم احمدی گھرانہ ہے اور یہ گائوں سکھوں اور مسلمان جاٹوں کی قریباً برابر آبادی پر مشتمل ہے اس جلسہ کے متعلق ۱۶۔ جون کے اخبار >الفضل< میں جو ۱۵۔ جون کو شائع ہوا تھا اعلان موجود ہے کہ ۱۷۔ جون کو یہ جلسہ ہوگا۔ چونکہ یہ موضع قادیان سے قریب ہے اور چونکہ مدرسہ احمدیہ دینی تعلیم کے لئے مقرر ہے اور طلباء کو تبلیغ کی عملی مشق کرانا بھی ہمارا فرض ہے۔ اس لئے میں نے بحیثیت ہیڈماسٹر مدرسہ احمدیہ کی آرڈر بک میں درج کرکے یہ آرڈر جاری کیا کہ ہر طالب علم کے لئے اس جلسہ میں شمولیت ضروری ہے اور غیرحاضر طالب علم کو ۱۲ آنے جرمانہ کیا جائے گا۔ چنانچہ ۱۷۔ جون کو صبح ۷ بجے مدرسہ کی گھنٹی بجائی گئی اور حاضری لے کر ہر جماعت کو ایک ایک استاد کی نگرانی میں قطار دار موضع مذکور کی طرف روانہ کیا گیا۔ جب سب طلباء روانہ ہوگئے اور ان میں کثرت کے ساتھ چھوٹے بچے اور حافظ کلاس کے نابینا بچے بھی شامل تھے تو میں خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب اور اپنے بچوں کو لے کر ٹانگہ میں سوار ہوکر روانہ ہوا اور طلباء کے ساتھ آملا۔ اس وقت طلباء کی پہلی قطاروں کی طرف سے ایک طالب علم سائیکل پر آیا اور مجھے کہا کہ ہرچووال کے نہر والے پل پر موضع بھامڑی کے بہت سے آدمی راستہ روکے کھڑے ہیں اور طلباء کو آگے جانے سے روکتے ہیں۔ میں نے اس طالب علم کو کہا کہ تم ابھی جاکر جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب کو اس واقعہ کی اطلاع دو اور یہ کہہ کر میں ٹانگہ سے اتر پڑا اور میں نے آگے بڑھ کر دیکھا کہ ہمارے طلباء پل پر رکے کھڑے تھے اور پل کے سامنے راستہ روک کر موضع بھامڑی کے ۳۰۔ ۴۰ آدمی لاٹھیاں لے کر مشتعل صورت بنائے ہوئے اونچی اونچی آواز سے کہہ رہے تھے کہ ہم نے بھامڑی میں جلسہ نہیں ہونے دینا۔ اس مجمع میں بھامڑی کے مولوی محمد یعقوب اور اس کے بھائی محمد ابراہیم اور حاجی محمد حسین اور اس کا بھتیجا یحییٰ بھی موجود تھے جو سب مخالفین سلسلہ میں سے ہیں۔ میں خاموشی سے آگے بڑھا اور لڑکوں کو کہا کہ تمام طلباء چار چار افراد کی قطار میں ہوکر خاموشی اور امن کے ساتھ بھامڑی کی طرف چل پڑو۔ یہ دیکھ کر مجمع کے لوگ اعلان کے طور پر کہنے لگے کہ اچھا چلو گائوں چلتے ہیں وہاں جاکر دیکھتے ہیں کہ یہ جلسہ کس طرح کرتے ہیں۔ اب فساد ہی ہوگا۔ یہ کہہ کر وہ مختلف فقروں میں فساد کا لفظ دہراتے ہوئے موضع بھامڑی کی طرف بجائے راستہ پر جانے کے کھیتوں میں سے ہوتے ہوئے چل پڑے اور میں طلباء کو لے کر راستہ پر چل پڑا۔ میں نے علاوہ خاموش رہنے کی ہدایت کے یہ بھی حکم دیا تھا کہ کوئی طالب علم کسی شخص کی طرف نہ دیکھے اور ہم سب نظریں سامنے رکھ کر چل پڑے۔ چنانچہ قطار دار آہستہ آہستہ طلباء روانہ ہوئے جب ہم موضع بھامڑی میں پہنچے تو گائوں سے باہر کھڑے ہوکر میری اقتداء میں سب نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی کہ اے خدا ہمیں خیر و عافیت اور عزت اور امن و سلامتی سے توفیق دے کہ ہم تیرا پیغام اس گائوں تک پہنچا سکیں۔ دعا کے بعد پھر ہم گائوں کے اندر داخل ہوئے۔ راستہ میں گائوں کے ساتھ ایک سایہ دار افتادہ کھلی جگہ میں ایک بڑا مشتعل گروہ کھڑا تھا جو کہ ہمارے راستے کے عین دائیں طرف تھا۔ گزرتے وقت طلباء نے اس مجمع کی طرف عجوبہ کے رنگ میں نظر کی تو میں نے سختی سے کہا کہ خبردار کسی شخص کی طرف نظر نہ کرو۔ یہ گروہ جو ان لوگوں پر مشتمل تھا جنہوں نے ہم کو نہر پر روکا تھا اونچی اونچی آواز سے کہہ رہا تھا کہ ہم نے جلسہ نہیں ہونے دینا۔ نہیں ہونے دینا۔ ہم وہاں سے گزر کر اس مکان میں داخل ہوئے جہاں جلسہ تجویز ہوا تھا۔
جلسہ کے انعقاد میں روکاوٹیں
یہ مکان ایک غیراحمدی کا تھا جو اس احمدی گھرانے کے قریبی رشتہ داروں میں تھا جو موضع بھامڑی میں رہتا اور وہاں کا باشندہ ہے۔ ہمارے والنٹیرز نے اس مکان کی چھت پر سائبان لگایا۔ میز اور کرسیاں رکھیں اور قریب تھا کہ میں تلاوت اور نظم کے بعد جلسہ کی کارروائی شروع کرتا کہ میں نے دیکھا کہ اردگرد متصل چھتوں پر غیر احمدی نوجوان چڑھنے شروع ہوئے ہیں اور ان کی طرف سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ ہم کو گھیرنا چاہتے ہیں اور جلسہ میں مزاحم ہونا چاہتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس مکان کے مالک کو بلا کر دھمکایا گیا۔ وہ شخص باوجود اس کے کہ وہ ایک احمدی کا بھتیجا تھا گائوں والوں سے ڈر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس نے آکر مجھے کہا کہ آپ یہاں جلسہ نہ کریں۔ میں نے کہا کہ تم نے خود ہمیں اجازت دی تھی اب یہ اجازت واپس کیوں لیتے ہو۔ وہ کہنے لگا کہ کیا کروں مجھے طاقت نہیں کہ گائوں والوں کا مقابلہ کروں۔ میں نے کہا کہ بہت اچھا۔ یہ کہہ کر میں نے طلباء سے کہا کہ یہاں سے سائبان اکھیڑ لو۔ میز اور کرسیاں اور صفیں لے چلو۔ اس کے بعد ہم اس احمدی گھر میں گئے جو اکیلا اس گائوں میں تھا۔ یہ مکان بہت تنگ تھا مگر مجبوراً اس میں جلسہ کیا گیا چھت پر سائبان لگایا گیا اور نیچے سخت گرمی میں ہمارے آدمی بیٹھ گئے اور جلسہ شروع ہوا۔ یہاں پہنچ کر مجھے رپورٹ دی گئی کہ صبح کو ہم سے پہلے بھی دو موقعوں پر گائوں والوں نے جلسہ کے منتظمین سے مزاحمت کی۔ ایک اس وقت جبکہ مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب مولوی فاضل ٹانگہ میں بیٹھ کر اور سائبان وغیرہ سامان لے کر بھامڑی روانہ ہوئے تو ہرچووال کے پل پر اس مجمع نے جس نے ہم کو روکا تھا ان کے ٹانگہ کو بھی روکنا چاہا۔ مگر وہ کسی نہ کسی طرح ان سے چھوٹ کر گائوں میں داخل ہوگئے۔ اسی طرح جب وہاں کے احمدی خاندان نے ایک مقامی باورچی کو کھانا پکانے پر مقرر کیا تو گائوں والوں نے اسے اس کام سے روک دیا۔ پھر جب لنگر خانہ کے باورچی میاں مولا بخش صاحب کام کرنے لگے تو گائوں والوں نے انہیں مارنا چاہا۔ انہوں نے اپنی ٹوپی اتار کر اپنا سر ان کی طرف کر دیا کہ لو مار لو مگر مجھے کھانا پکانے دو۔ بلکہ یہاں تک سنا گیا کہ جب صبح کے وقت ایک کنسٹیبل جس کا نام احمد حسین بتایا جاتا ہے بغیر وردی کے ہرچووال کے پل پر سے گزرنے لگا تو اسے بھی احمدی سمجھ کر روکا گیا مگر جب اس نے اپنی اصلیت ظاہر کی تب وہ گزر سکا۔ غرض مزاحمت کا سلسلہ صبح سے شروع تھا بلکہ جیسا کہ آگے چل کر ظاہر ہوگا اس سے بھی پہلے سے۔
ہمارے جلسہ کے مخالف مخالفین کا جلسہ
بالاخر جب ہم نے مقامی احمدیوں کے مکان پر جلسہ شروع کیا اور تلاوت قرآن کریم اور نظم کے بعد میں نے افتتاحی تقریر کی کہ مذہبی جماعتوں کو کبھی ہمت نہ ہارنی چاہئے اگر کسی جلسہ میں ایک شخص بھی تقریر سننے کے لئے نہ آئے تو یہ نہ سمجھا جائے کہ جلسہ ناکام رہا۔ کیونکہ کامیابی اور ناکامی کا معیار یہ ہے کہ ہم نے نیک نیتی اور حسن عمل کے ساتھ کام کیا ہے یا نہیں۔ اگر ہم نیت نیک رکھیں اور اپنی طرف سے کلمہ حق سنانے میں کوشاں رہیں تو ہم کامیاب ہیں۔ خواہ کوئی سنے یا نہ سنے۔ پس ہم نیک نیتی سے آئے اور حسن عمل کرتے ہوئے آئے۔ ہمدردی سے آئے۔ محض گائوں والوں کی خیرخواہی سے` اور جب ایک جگہ جلسہ کرنے لگے تو ہمیں لوگوں نے روک دیا۔ ہم تمام سامان وغیرہ لے کر یہاں آگئے۔ اب ہم جلسہ شروع کرتے ہیں۔ خواہ کوئی سنے یا نہ سنے۔ اس پر جلسہ شروع ہوا۔ شروع میں میرے لڑکے محمود احمد نے تقریر کی اور پھر مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر نے تقریر کی۔ ابھی وہ پندرہ بیس منٹ ہی بول سکے تھے کہ یکدم ہماری چھت کے بالکل متصل چھت پر چند غیر احمدی چڑھنے شروع ہوگئے اور مولوی محمد یعقوب بھامڑی والا ایک سائبان لے کر آیا اور جلدی سے سب نے مل کر سائبان لگایا اور میز اور کرسی لگا کر فیض اللہ سنار صدر بنا اور ایک شخص نے تلاوت قرآن مجید شروع کی۔ اس پر باوجود اس کے کہ ہمارے لئے شرعاً ایسا کرنا ضروری نہ تھا۔ میرے کہنے سے مولوی مبشر صاحب نے تلاوت کے احترام میں تقریر بند کردی اور اونچی آواز سے کہا کہ قرآن مجید پڑھا جارہا ہے اس لئے میں تقریر بند کرتا ہوں۔ غیر احمدی تلاوت کنندہ دیر تک تلاوت کرتا رہا۔ جب وہ تلاوت ختم کرچکا تو ہمارے ایک آدمی نے تلاوت شروع کی اور پھر نظم شروع کی گئی۔ اور جب پھر مولوی صاحب تقریر شروع کرنے لگے تو غیر احمدیوں نے نعرے لگانے شروع کئے اور چونکہ وہ بالکل متصل چھت پر تھے اور دونوں چھتوں کے درمیان کوئی منڈیر بھی نہ تھی اس لئے ان نعروں کی وجہ سے ہماری تقریر کا ایک لفظ بھی سنا نہ جاسکتا تھا۔ اس پر جلسہ کی کارروائی بند ہوگئی اور ہمارے دوست صل علی محمد وغیرہ وغیرہ نظمیں پڑھنے اور اللہ اکبر وغیرہ نعرے لگانے لگے۔
پولیس افسر کا عجیب فیصلہ
اتنے میں سنایا گیا کہ سری گوبندپور کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس موقع پر پہنچ گئے ہیں )دو پولیس کانسٹیبل پہلے پہنچ چکے تھے( اس عرصہ میں قادیان سے جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ بھی تشریف لے آئے۔ انہوں نے اس پولیس افسر کی طرف رقعہ لکھا کہ ہمارا جلسہ شروع تھا اور وہ بھی احمدی کے مکان پر۔ مگر غیر احمدیوں نے بالکل متصل جلسہ شروع کرکے ہماری کارروائی کو بند کردیا ہے۔ اس کا انسداد کیا جائے۔ اس درخواست کی دو کاپیاں تھیں کہ ایک پر رسیدی دستخط کرکے واپس کر دی جائے۔ مگر اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب نے ہمارا رقعہ تو لے لیا مگر رسید دینے سے انکار کیا۔ پھر دوبارہ رقعہ لکھ بھیجا اور پھر تیسرا رقعہ بھیجا گیا جس میں چند مفسدین کے سرغنوں کے نام بھی تھے۔ اس وقت سب اسسٹنٹ انسپکٹر ہمارے جلسہ میں تشریف لائے اور ایک کرسی پر بیٹھ گئے اور غیراحمدیوں کو بلایا جس پر ان کے چند آدمی آئے جن میں ایک نام کشمیری سکنہ قادیان بھی تھا جو کہ ایک مقدمہ میں زیر ضمانت ہے۔ اسسٹنٹ سب انسپکٹر نے کہا کہ احمدیوں کا جلسہ پہلے سے شروع ہے پھر تم یہاں کیوں جلسہ کرتے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ان کا جلسہ یہاں نہیں ہونے دینا۔ غرض دیر تک بحث اور ردو کد ہوتا رہا۔ آخر ان کا اصرار اور ضد دیکھ کر اور ہماری شرافت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب نے ہمیں کہا کہ آپ ہی کسی اور جگہ جلسہ کرلیں۔ حالانکہ ہمارا جلسہ پہلے سے شروع ہوچکا تھا اور جس مکان پر ہم جلسہ کررہے تھے وہ ایک احمدی کا مکان تھا اور سائبان وغیرہ لگانے کی زحمت ہم برداشت کرچکے تھے اور جلسہ شروع تھا۔ مگر پھر بھی ہم نے اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب سے کہا کہ بہت اچھا آپ ہمیں کوئی اور جگہ دے دیں ہم وہاں جلسہ کرلیں گے۔ اس پر وہ اٹھ کر جگہ کی تلاش میں گئے اور مخالف بدستور نعرے لگاتے رہے۔ جن میں احمدیت مردہ باد کے نعرے بھی تھے۔ اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب کے ساتھ مولوی دل محمد صاحب گئے۔ پہلے اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب نے ایک ایسی جگہ دکھلائی جو گندی اور گوبر سے اٹی پڑی تھی۔ پھر جب ایک سکھ نے بطور خود کہا کہ ہمارے گوردوارہ کے پاس بڑ کے نیچے جلسہ کرلیا جائے تو سب انسپکٹر صاحب نے اس کی تائید کی جس پر مولوی دل محمد صاحب نے وہ جگہ صاف کروائی اور ہم کو اطلاع دی۔ ہم نے اپنا سامان صفوں وغیرہ کو اٹھالیا اور اس بڑ کے نیچے جو گوردوارہ کے پاس تھا جلسہ شروع کیا۔
جب ہم اپنا سامان لے کر نئی جگہ جانے لگے تو مخالفوں نے تالیاں بجائیں اور نعرے لگائے کہ گویا احمدی شکست کھا کر یہاں سے جارہے ہیں۔ گوردوارہ میں جو کنواں تھا ہم اس سے پانی لینے لگے تو ہمیں پانی لینے سے روک دیا گیا اور غیر احمدیوں کی دھمکی سے گوردوارہ والے بھی متاثر ہوئے۔ اتنے میں ایک ہندو پرشوتم داس نے جو ڈی۔ اے۔ وی سکول قادیان کا طالب علم رہ چکا تھا اور ہمارے مدرسہ کے طلباء سے میچ وغیرہ کھیلنے کے سلسلہ میں ملاقات کی راہ و رسم رکھتا تھا کہا کہ آپ ہمارے کنوئیں سے پانی لے سکتے ہیں۔ مگر بالاخر بعض لوگوں کے زور دینے پر گوردوارہ سے پانی ملنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد پھر گائوں والوں نے گوردوارہ والوں پر زور ڈالنا شروع کیا کہ یہاں جلسہ نہ کرنے دیا جائے۔ چنانچہ سکھوں کی دو پارٹیاں ہوگئیں اور وہ آپس میں جھگڑنے لگے۔ مگر اکثریت ہمارے مخالفوں کی تھی۔ یہاں تک کہ
‏tav.8.22
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
ترکی وفد سے متعلق وضاحتی خطبہ سے لیکچر >اسوہ حسنہ< تک
گوردوارہ والوں نے ڈر کر اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب سے کہا کہ ہمیں لوگ تنگ کرتے ہیں اس لئے ہم جلسہ نہیں ہونے دیں گے۔ مگر چونکہ وہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر کے سامنے جگہ دے چکے تھے اس لئے اس نے کسی طرح انہیں تسلی دی اور جلسہ شروع رہا۔ جلسہ کے دوران میں لوگ اٹھ کر باری باری کھانا کھانے لگے اور تقریریں جاری رہیں۔ اس عرصہ میں ناظر صاحب امور عامہ اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب` سیٹھ پرشوتم داس کی دعوت پر اس کے ہاں چائے پینے چلے گئے۔
جلسہ کا اختتام اور بعد کے واقعات
پانچ بجے کے قریب جب جلسہ ختم ہوا تو میں نے اعلان کیا کہ ہم ہرچووال کی نہر پر پہنچ کر اکٹھے نماز پڑھیں گے۔ اس پر لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور ایک راستہ کی طرف رخ کیا۔ اس وقت جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے بعض مقامی لوگوں نے ہمارے بعض آدمیوں سے کہا کہ اس راستہ سے نہ جائیں بلکہ دوسرے راستہ سے جائیں۔ جس پر ہمارے لوگوں نے اس مشورہ کو نیک نیتی کا مشورہ سمجھ کر اسے اختیار کرلیا۔ مگر یہ راستہ لمبا اور پیچیدہ ثابت ہوا اور ہمیں بالاخر حاجیوں کی حویلی کے سامنے لے آیا۔ جہاں بہت سے مخالفین بدنیتی کے ساتھ جمع تھے۔ روانہ ہونے سے پہلے میں اپنا سامان درست کروانے لگا تاکہ سامان ٹانگہ پر رکھا جائے۔ اتنے میں بہت سا حصہ لوگوں کا روانہ ہوچکا تھا کہ میں بھی روانہ ہوا۔ میرے پیچھے چالیس پچاس لوگ ہوں گے باقی سب آگے تھے۔ راستہ میں سیٹھ پرشوتم داس کا مکان تھا۔ وہاں سے خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب اور سید ولی اللہ شاہ صاحب بھی ساتھ ہولئے اور ہم باتیں کرتے ہوئے اطمینان سے واپس چلنے لگے۔ ہمارے آگے پیچھے سے صل علی محمد وغیرہ کی آوازیں آرہی تھیں اور لوگ اطمینان سے واپس آرہے تھے۔ اس جگہ میں ایک نقشہ دیتا ہوں جس سے احباب معلوم کرلیں گے کہ بعد کے واقعات کس طرح رونما ہوئے۔
عکس کیلئے

مخالفین کے ہجوم کی طرف سے شدید خشت باری
ہمارے لوگوں کا اگلا حصہ الف نام گلی سے نکل کر کھلے راستہ میں ہوکر ڈھاب اور ج کے درمیان سے گزر کر د سے گزرا اور و سے ہوتا ہوا ح تک جو کہ قادیان کی طرف جانے کا راستہ ہے پہنچ گیا۔ اگلے حصہ میں دیہات کے مضبوط اور صحتور آدمی تھے۔ مولوی دل محمد صاحب بھی اس حصہ میں جارہے تھے۔ جب ہمارے لوگوں کا پچھلا حصہ جس میں زیادہ تر چھوٹے لڑکے اور قادیان کے مدارس کے طالب علم اور بوڑھے اور کمزور لوگ تھے ج نام حویلی کے سامنے جو حاجیوں کی حویلی کہلاتی ہے` قریب پہنچا۔ تو وہاں دو سو کے قریب مخالفین جمع تھے۔ چونکہ یہ مکان زیر تعمیر ہے اس لئے کم سے کم پانچ چھ ہزار کچی اینٹیں وہاں ڈھیر کی صورت میں رکھی تھیں۔ یہ لوگ احمدیت مردہ باد کے نعرے لگارہے تھے کہ اتنے میں محمد حسین نامی حاجی نے جو بھامڑی کے مخالفوں کا سرغنہ ہے تالی بجائی اور ہجوم نے سامنے راستہ پر چلنے والے احمدیوں پر اچانک خشت باری شروع کر دی۔ میں اس وقت الف مقام پر نہیں پہنچا تھا۔ اس لئے خشت باری کی ابتداء میں نے نہیں دیکھی۔ مگر جب میں الف کے مقام پر پہنچا تو میں نے دیکھا کہ حویلی ج سے ایک وقت میں سو سو اینٹیں سڑک پر ہمارے لوگوں پر پڑرہی ہیں۔ خشت باری کیا تھی` اینٹوں کی موسلادھار بارش تھی اور ٹڈی دل کی صورت میں فضا غبار آلود ہورہی تھی۔ میرے ساتھ خان صاحب فرزند علی صاحب تھے۔ میرا لڑکا محمود احمد جس کی عمر ۱۳ سال ہے ذرا آگے تھا۔ سید ولی اللہ شاہ صاحب ذرا اور پیچھے تھے۔ میں نے جب اینٹوں کی بارش دیکھی تو میں دوڑ کر اینٹوں کی بوچھاڑ میں سے گزرتا ہوا حویلی ج کے کوٹھے کے سامنے کھڑا ہوگیا اور ایک لکیر کھینچ کر بڑے زور دارانہ لہجہ میں آگے گزرے ہوئے لوگوں کو واپس لوٹنے سے روک کر کہا کہ خبردار کوئی احمدی اس لکیر سے آگے نہ بڑھے۔ میرے ہاتھ میں چھتری تھی مجھے دیکھ کر مخالوں نے خشت باری زیادہ کردی اور چھت پر بھی چند آدمی چڑھ گئے اور مکان کے نوتعمیر ہونے کی وجہ سے جو ملبہ وہاں پڑا تھا وہ اوپر سے مجھ پر پھینکنے لگے۔ چنانچہ ایک شکستہ گھڑا مجھ پر پھینکا گیا۔ مگر خدا کا فضل رہا کہ مجھے باوجود اس کے کہ میں عین نیچے کھڑا تھا ایک ٹکڑا بھی نہیں لگا۔ حالانکہ میرے پاس جو لوگ کھڑے تھے وہ زخمی ہوئے۔ وہاں پہنچ کر جو نظارہ میں نے دیکھا وہ یہ تھا کہ اس وقت مجھے مخالف اور ان کی اینٹیں یوں معلوم ہوتی تھیں کہ جیسے مکھیاں بھنک رہی ہوں۔ یہ کیوں؟ اس لئے کہ میں اس وقت اپنی ذاتی حیثیت میںنہ تھا بلکہ من اطام امیری فقد اطاعنی۔ میں اس وقت خلیفہ حق کا نمائندہ اور اس کی جماعت کا امیر تھا۔ غرض میں نے تمام مجمع کو واپس لوٹنے سے روک کر اپنی جگہ کھڑا کردیا۔ اب مجھے فکر ہوئی کہ شاہ صاحب اور خان صاحب کہاں ہیں؟ یہاں پر احباب نقشہ کو دیکھیں اور غور فرمائیں۔ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں کہ میں راستہ چلنے والے احباب کے پچھلے حصہ میں تھا۔ میرے پیچھے چالیس پچاس کے قریب دوست ہوں گے جب یہ لوگ الف مقام پر پہنچے تو انہوں نے )ج( کے سامنے خشت باری دیکھی تو وہ بجائے اس کے کہ خشت باری کے سامنے سے گزر کر ہمارے پاس آجاتے وہ سامنے اینٹوں کی بارش دیکھ کر اور پہلو میں ایک کھلا میدان ایک طرف ہوکر نکل جانے کاپاکر اپنے بائیں جانب مڑ کر )ب( کی طرف گھوم گئے اور غالباً گھبراہٹ سے بجائے اکٹھے چلنے کے منتشر صورت میں چلنے لگے۔
چونکہ دشمنوں کا مقام )ج( سے اینٹیں مارنے کا بڑا مقصد بھی یہ تھا کہ وہ ہمارے پچھلے حصہ کو ہم سے جدا کردیں اس لئے جب ہمارے پیچھے یہ چالیس کے قریب لوگ بائیں طرف مڑے اور خشت باری کے مقام سے کترا گئے اور ہم سے کٹ گئے تو مخالفین فوراً حویلی میں سے باہر کود کر نکل آئے اور لاٹھیوں کرپانوں اور تلواروں سے ان کو گھیر کر بری طرح زخمی کیا۔ چنانچہ میرے بالکل پیچھے جناب خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب تھے۔ یہ جب خشت باری دیکھ کر میرے پیچھے پیچھے آنے لگے تو انہیں دو اینٹیں لگیں۔ اس پر یہ بائیں جانب مڑ کر اور کھیتوں میں سے ہوتے ہوئے )ح( کی طرف جاکر ٹانگوں تک پہنچ گئے۔ ان کے پیچھے جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب تھے۔ جب وہ الف کے مقام پر پہنچے تو آگے اینٹوں کی بارش دیکھ کر مقام )ب( کی طرف مڑے۔ ان کے ہمراہ ان کا تیرہ سالہ لڑکا بھی تھا۔ شاہ صاحب نہایت ثبات قلب کے ساتھ آہستہ آہستہ جارہے تھے کہ گائوں والوں نے انہیں گھیرلیا اور ڈانگوں سے حملہ کر دیا۔ پہلے تو شاہ صاحب ہاتھوں پر روکتے رہے مگر جب کندھوں اور کمر پر لاٹھیوں سے زور سے چوٹیں لگیں تو بے ہوش ہوکر گر پڑے۔ مگر ان کے گر جانے پر بھی لوگ مارتے رہے۔ شاہ صاحب کے جسم پر ایک نشان تلوار کی ضرب کا بھی معلوم ہوتا ہے گو خدا کے فضل سے اس نے کاٹا نہیں۔ ان کے بچے کو بھی چوٹ لگی اور وہ بھی شاہ صاحب پر گرکر رونے لگا۔ اسی طرح بقیہ لوگ جب منتشر ہوکر بجائے اس کے کہ ہم کو آملے بائیں طرف مڑے تو گائوں والوں نے انہیں الگ الگ اور منتشر پاکر کسی کو کرپان تلواروں سے کسی کو ڈانگوں سے غرض مختلف طریقوں سے سخت زخمی کیا۔ مگر اس سارے عرصہ میں ہم کو جو کہ مقام )ج( اور مقام )د( کے سامنے کھڑے تھے بالکل معلوم نہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے کیونکہ وہ ہماری نظروں سے اوجھل تھے لیکن جب میں نے اپنے احمدیوں کو پرسکون مجمع کی صورت میں کھڑا کرلیا تو اب شاہ صاحب اور خاں صاحب کا خیال آیا۔ اتنے میں اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس بھی میرے پاس آپہنچا۔ میں نے اسے غصہ سے کہا کہ دیکھو اتنے لوگ کھڑے ہیں اور ہم پر اتنا ظلم ہوا ہے۔ یہ لوگ اگر دفاع کرتے تو ان مخالفوں کو ٹکڑے ٹکڑے کردیتے مگر میں نے ان کو روک رکھا ہے لیکن آپ نے گائوں والوں کو روکا تک نہیں۔ وہ شرمندگی کے لہجہ میں کہنے لگے کہ میں کیا کروں۔ میرے پاس سپاہی نہیں صرف تین چار آدمی ہیں۔ میں کس طرح اس مجمع کو روک سکتا تھا۔ اتنے میں شاہ صاحب اور خان صاحب کی تلاش کے لئے میں خود چل پڑا کہ مجھے جامعہ احمدیہ کے طلبہ نے گھیرا ڈال کر روک لیا کہ آپ نہ جائیں۔ اس پر اسسٹنٹ سب انسپکٹر نے کہا کہ میں شاہ صاحب کا پتہ لیتا ہوں۔ یہ وہ وقت تھا کہ ہمارے گروہ کے پچھلے لوگ بسبب منتشر ہو جانے کے گائوں والوں کے ہاتھوں سے پٹ رہے تھے۔ نقشہ میں جو کھیتوں اور مقام ب کے پیچھے نقطے دیئے گئے ہیں یہ وہ احمدی لوگ ہیں جو منتشر ہونے کی وجہ سے گائوں والوں نے گھیر کر زخمی کر دیئے۔ یہ حالت جاری تھی اور ہمارے آدمی پٹ رہے تھے اور ہم کو معلوم نہ تھا کہ یکدم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک جاوی طالب علم احمد رشدی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے شور مچا کر کہا کہ ہمارے آدمیوں کو گائوں والوں نے گھیر لیا ہے اور انہیں مار رہے ہیں۔ اس پر ہمارا مجمع جسے میں نے روکا ہوا تھا قریباً ڈیڑھ سو آدمی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے آدمیوں کی حفاظت کے لئے بے تحاشا کھیتوں میں پہنچا۔ ان کو دیکھ کر وہ مخالف جو احمدیوں کا تعاقب کرکے انہیں زخمی کررہے تھے مقام ب کی طرف واپس بھاگے۔ یہ دیکھ کر اور یہ خیال کرتے ہوئے کہ شاید یہ افواہ غلط ہو کہ ہمارے آدمی زخمی ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بلند آواز سے لوگوں کو واپس بلانا شروع کیا کہ واپس آئو۔ واپس آئو۔ اس پر اس مجمع سے مختلف احمدی میرا نام لے کر احمدیوں کو بلانے لگے کہ میر صاحب بلاتے ہیں۔ واپس آئو۔ واپس آئو۔ غرض بڑے زور سے میں نے مجمع کو واپس بلایا جو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے پاس پہنچ گئے۔ اس وقت معلوم ہوا کہ ہمارے بعض آدمی اپنے زخمیوں کو اٹھا کر مقام ح میں موٹر اور ٹانگوں کے پاس لے آئے۔ ان زخمیوں میں سے دو شخصوں کے سائیکل بھی مخالف چھین کر لے گئے۔ جب مجھے یہ معلوم ہوا کہ شاہ صاحب کو چوٹ لگی ہے اور وہ بے ہوش ہوگئے تھے مگر اب ہوش میں ہیں اور ہمارے لوگ ان کو مقام ح تک لے آئے ہیں تو میں مقام ح تک تمام مجمع کو لے آیا۔ یہاں پر تمام زخمی موٹر اور ٹانگہ میں بٹھا دیئے گئے اور ہم مقام ح سے چل کر قادیان روانہ ہوئے۔
اس وقت اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ مقام ب سے چار پانچ سو آدمیوں کا مجمع جو کہ سب کا سب لاٹھیوں` ٹکوئوں` چھویوں اور تلواروں سے مسلح تھا اور جس میں مسلمانوں کے علاوہ سکھ بھی تھے نہایت تیزی سے ہماری طرف نعرے لگاتے اور چیلنج کرتا ہوا بڑھ رہا تھا۔ یہ گویا دوسرا حملہ تھا۔ یہ مجمع ایسا خوفناک تھا کہ میں نے دیکھ کر اس وقت یہ یقین کرلیا کہ ہم وہاں سے زندہ بچ کر نہیں جاسکتے کیونکہ ہمارا مجمع غیر مسلح تھا۔ صرف تین یا چار فیصدی کے پاس لاٹھیاں تھیں۔ باقی سب نہتے تھے۔ مجمع میں نہایت خورد سال عمر کے بہت سے بچے تھے حتیٰ کہ آٹھ نو نابینا بچے بھی تھے۔ بوڑھے اور معذور اور کمزور لوگ بھی تھے۔ یہ مجمع دیکھ کر ہمارے بعض نوجوان بالخصوص جامعہ احمدیہ کے طالب علم دفاع کے خیال سے آگے بڑھے اور خدا نے انہیں قوت بخشی کہ وہ موت کے منہ میں جانے کے لئے تیار ہوئے۔ مگر میں نے آگے بڑھ کر ان کو روکا اور واپس لے آیا۔ اس وقت میرے پاس اسسٹنٹ سب انسپکٹر پولیس آیا کہ آپ اپنے آدمیوں کو راستہ راستہ لے چلیں۔ میں اس مجمع کو روکتا ہوں۔ میں نے آواز دے کر سب کو واپس چلنے کو کہا اور سب کو لے چلا اور جب مڑ کر میں نے دیکھا تو یہ نظارہ نظر آیا کہ اسسٹنٹ سب انسپکٹر صاحب معہ سپاہیوں کے مخالفوں کے مجمع کی طرف آگے بڑھا ہے اور جیسا کہ بعض لوگوں نے مجھے بتایا ہے کہ اس موقع پر پولیس نے مخالفین پر لاٹھی چارج بھی کیا۔ بہرحال میں نے دیکھا کہ لوگ واپس بھاگ رہے ہیں۔ اب معلوم نہیں کہ یہ لاٹھی چارج کا نتیجہ تھا یا یہ کہ کوئی اور بات تھی۔ بہرحال میں اپنے سب آدمیوں کو لے کر واپس قادیان روانہ ہوا۔ اور زخمیوں کو ہرچووال کی ڈسپنسری میں بھیج دیا۔ نہر پر پہنچ کر مولوی دل محمد صاحب کو کہا کہ آپ تمام مجمع کو نماز پڑھا کر قادیان لے جائیں اور خود موٹر میں جو مجھے ہاسپیٹل سے شاہ صاحب نے بلانے کے لئے بھیجی تھی بیٹھ کر ہرچووال کی ڈسپنسری میں پہنچا۔ وہاں ڈاکٹر انچارج موجود نہ تھا۔ ایک کمپائونڈر تھا جس نے ایک مضروب احمد دین کی پٹی کی۔ باقیوں کو موٹر اور ٹانگہ میں واپس قادیان لے آیا اور نور ہسپتال میں داخل کرا دیا۔
پولیس کی کارروائی اور بعد کے حالات
اسی رات قادیان میں پولیس پہنچی اور صبح کے چار بجے کے بعد نور ہاسپیٹل میں زخمیوں کے بیانات لئے گئے۔ دوپہر کو سپرنٹنڈنٹ پولیس اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس بھی پہنچ گئے۔ اور قادیان کی پولیس چوکی میں خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے اور میرے بیانات ہوئے۔ پھر ہم موضع بھامڑی سپرنٹنڈنٹ صاحب کے ساتھ گئے اور انہیں موقع دکھلایا۔ وہاں بھی مخالف پارٹی کے تین اشخاص کے بیان قلمبند کئے گئے۔ پھر مورخہ ۴۳/۶/۲۵ کو سری گوبندپور کے تھانہ دار صاحب نے قادیان آکر مجھ سمیت سولہ اشخاص کے چالان کی غرض سے حاضری عدالت کی ضمانتیں لیں۔
یہ ہیں مختصر سے کوائف اس جلسہ کے۔ اب معاملہ بظاہر عدالت انگریزی کے ہاتھ میں اور بباطن عدالت عالیہ سماویہ کے قبضہ میں ہے۔ وہی کچھ ہوگا جو آسمان پر مقدر ہے کیونکہ والقدر خیرہ و شرہ پر ہم ایمان لانے والے ہیں۔ ہماری دعا یہی ہے کہ ہمارے لئے وہی ہو جو ہمارے حق میں خیر اور بہتر ہو۔ ان مسلسل واقعات کی لڑی کے علاوہ بعض اور باتیں احباب کی واقفیت کے لئے بیان کر دیتا ہوں۔
)۱( جب ۱۷۔ جون کو ہمیں ہرچووال کی نہر کے پل پر بھامڑی والوں نے جانے سے روکنے کی کوشش کی تو میں نے ناظر صاحب امور عامہ کو اطلاع کے لئے دو سائیکلسٹ یکے بعد دیگرے بھیجے تو ناظر صاحب امور عامہ نے ایک تار گورداسپور میں دن کے دس بجکر دس منٹ پر سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس اور ایک خط سائیکلسٹ کے ہاتھ سری گوبندپور کے تھانیدار صاحب کو بھیجا کہ وہاں کے لوگ فساد پر آمادہ ہیں انہیں روکا جاوے۔
)۲( اس سے قبل نے ہمارے جلسہ کا اعلان الفضل میں پڑھنے کے بعد ۱۶۔ جون کو اپنے بورڈ پر قادیان میں اعلان کیا کہ بھامڑی میں ہم بھی ۱۷۔ جون کو جلسہ کریں گے۔
)۳( جلسہ سے ایک روز قبل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے بورڈ کی اطلاع پاکر جناب چودھری فتح محمد صاحب انچارج مقامی تبلیغ نے مولوی احمد خان صاحب نسیم کو اور مولوی عبدالعزیز صاحب سکنہ بھامڑی کو سری گوبندپور کے تھانیدار کے پاس رپورٹ دینے کے لئے بھیجا کہ بھامڑی والے فساد پر آمادہ ہیں مگر افسوس کہ تھانیدار صاحب نے یہ رپورٹ روزنامچہ میں درج نہیں کی۔
)۴( جب میں سپرنٹنڈنٹ صاحب کے سامنے بیان دے چکا تو ڈی۔ ایس۔ پی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ میر صاحب آپ یہ فرماویں کہ جب آپ کا جلسہ ختم ہوچکا تو بھامڑی والوں نے فساد کیوں کیا؟ اگر ان کی فساد کی نیت ہوتی تو جلسہ کے دوران میں کرتے۔ میں نے کہا کہ یہی موقعہ تو فساد کا تھا کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہم جلسہ کرسکیں اور ہمارے جلسہ کو روکنا چاہتے تھے۔ مگر جب ہم جلسہ کرنے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں اپنی ناکامی کی وجہ سے اشتعال پیدا ہوا اور انہوں نے اس کا انتقام فساد کے ذریعہ لیا۔
)۵( ایک بات میں نے سپرنٹنڈنٹ صاحب اور ڈی۔ ایس۔ پی صاحب کو یہ کہی تھی کہ آپ یہ نقطہ خیال کبھی نہ بھولیں کہ اگر ہماری طرف سے اشتعال دلایا گیا اور فساد ہوا تو عجیب بات ہے کہ ہم لوگ ایک لمبا فاصلہ گائوں کے اندر طے کرتے رہے مگر انہیں اشتعال نہ آیا۔ مگر جب ہمارے لوگ اور وہ بھی طالب علم اور بچے اس حویلی کے پاس سے گزرے جہاں پر بہت سی اینٹیں ڈھیر کی صورت میں جمع تھیں اور جہاں ہمارے مخالفین دو سو کی تعداد میں جمع تھے وہاں کیوں اشتعال آگیا۔ میں نے کہا۔ آپ یہ سوچیں کہ ہمارے مخالف اور کسی حویلی میں کیوں نہیں جمع ہوئے۔ کیوں حاجیوں کی حویلی میں جمع تھے۔ جہاں اینٹیں جمع تھیں۔ کیا یہ دونوں اجتماع اتفاق ہوگئے علاوہ اس کے بعد میں معلوم ہوا کہ وہاں مخالفوں نے لاٹھیاں بھی جمع کر رکھی تھیں اور زیر تعمیر عمارت کے بالے وغیرہ بھی پڑے تھے۔
)۶( میں نے اپنے بیان میں یہ بھی لکھایا تھا کہ اگر ہماری نیت فساد کی تھی تو کیا وجہ ہے کہ۔
)الف( مدرسہ احمدیہ کے چھوٹے سے چھوٹے طالب علم بھی میں جلسہ میں لایا۔ )ب( میں اپنے تینوں لڑکوں کو ہمراہ لایا۔ )ج( حافظ کلاس کے آٹھ کم عمر اندھوں کو ہمراہ لایا۔ )د( ہم لوگ کثرت کے ساتھ بغیر لاٹھی کے آئے اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہم فساد کی نیت سے نہیں آئے۔
)۷( میں اور خان صاحب اور مولوی فرزند علی صاحب اور مولوی دل محمد صاحب فساد کے دوسرے روز سپرنٹنڈنٹ صاحب کے ساتھ موقعہ دکھانے کے لئے گئے تو اسسٹنٹ سب انسپکٹر نے جو ہمارے جلسہ کے انتظام کے لئے بھامڑی میں مقرر تھا سپرنٹنڈنٹ صاحب سے کہا کہ جب میں خشت باری کے موقعہ پر پہنچا تو میر صاحب اپنے لوگوں کو روک رہے تھے اور میں نے بھامڑی والوں کو روکا۔ مگر مجھے معلوم نہیں کہ تحریری طور پر اسسٹنٹ سب انسپکٹر نے کیا نوٹ درج کیا ہے؟ البتہ سنا گیا ہے کہ ہمارے خلاف پولیس ہی کے بیان پر کارروائی کا آغاز ہوا ہے۔ گو مخالفین کے خلاف ہماری رپورٹ پر کارروائی کی گئی ہے۔
)۸( آخری بات میں احباب کی واقفیت کے لئے یہ کہتا ہوں کہ ہمارے گروہ میں اینٹوں کے ذریعہ جو لوگ زخمی ہوئے ہیں ان کے زخم خفیف ہیں اور گو اینٹوں کی وجہ سے ۴۰۔ ۵۰ کے قریب اشخاص کو معمولی چوٹیں آئی ہیں مگر جس قدر اشخاص شدید زخمی ہوئے ہیں وہ ڈانگوں` تلواروں اور کرپانوں وغیرہ سے ہوئے ہیں اور یہ سب وہ لوگ ہیں جو خشت باری دیکھ کر بجائے آگے بڑھ کر خشت باری کے مقام سے گزر کر ہمارے بڑے مجمع میں آملنے کے بائیں طرف مقام ب کی طرف مڑ گئے اور مڑے بھی الگ الگ یعنی خان صاحب اکیلے شاہ صاحب اکیلے اور باقی احباب بھی اکیلے اکیلے اور اس طرح دشمن خشت باری کرکے اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگیا کہ اس نے احمدیوں کے پچھلے حصہ کو اگلے حصہ سے الگ کرکے ایک ایک کو گھیر کر مار مار کر بے ہوش کر دیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اس میں ہم کو ایک سبق ملتا ہے کہ کبھی ہم لوگوں کو ایک دوسرے سے جدا نہ ہونا چاہئے بلکہ خواہ مصیبت ہو یا کیسی سخت آفت ہو سب کو مل کر اکٹھے رہنا چاہئے۔
اس موقعہ پر میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ جب مخالف خشت باری کررہے تھے ہمارے بعض نوجوان ان کے مظام کو دیکھ کر ایسے جوش میں تھے کہ اگر میں انہیں آگے بڑھنے کی اجازت دیتا تو یقیناً وہ مخالفوں کو اس شرارت کا مزا چکھا دیتے۔ مگر میں نے باوجود مظلوم ہونے کے باوجود حق دفاع رکھنے کے باوجود قانون کی اجازت کے دوستوں کو روکے رکھا اور دوستوں نے بھی مجھے امیر جلسہ سمجھ کر میرے احکام کی تعمیل کی اور اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑے حادثہ سے ہم کو بچالیا اور ایک دفعہ پھر دنیا پر ثابت کردیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء نے ایک ایسی ¶جماعت تیار کی ہے جس سے بڑھ کر امن پسند اور عافیت پسند دنیا میں اور کوئی جماعت نہیں۔ مجھے میرے ساتھیوں میں سے بعض نے غصہ سے طعنہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر سچی بات یہ ہے کہ مجھے اس وقت صرف یہ خیال تھا کہ اگر میں باوجود قانون کی اجازت کے اپنے آدمیوں کو دفاع کی اجازت دوں تو قادیان میں جاکر حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ کو کیا مونہہ دکھائوں گا۔ اور میں نے اپنے دل میں یہ فیصلہ کیا کہ حضرت صاحب کا یہ عتاب برداشت کرلوں گا کہ تم نے اپنے آدمیوں کو خشت باری سے )کیونکہ اس وقت مجھے لاٹھیوں کے حملہ کا علم نہیں تھا( پٹوایا۔ مگر دفاع کی اجازت نہ دی۔ مگر یہ دوسری جہت کا عتاب میری طاقت سے باہر ہے کہ تم نے مار کیوں نہ کھائی اور لڑائی سے دوستوں کو باز کیوں نہ رکھا؟ یہ عتاب میری برداشت سے باہر تھا۔ واخر دعونا ان الحمدللہ رب العلمین۔
)نوٹ( اوپر کے مضمون میں میں نے صرف جلسہ و حادثہ بھامڑی کے متعلق اپنے چشمدید قریب سے سنے ہوئے حالات درج کئے ہیں اور مخالفین ظاہری و مخفی کی ان کارروائیوں کا ذکر نہیں کیا جو جلسہ سے باہر یا بعد میں ہوئی ہیں اور نہ دوسری زاید باتوں کا ذکر کیا ہے<۔۱۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا پیغام جماعت احمدیہ کے نام
بھامڑی کے تشویشناک حالات کی اطلاع سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں پہنچی تو حضور نے جماعت کے نام حسب ذیل پیغام دیا۔
>برادران جماعت احمدیہ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ` ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت جماعت پر اس کے دشمنوں نے ایک سخت حملہ کیا ہے اور حکومت کے کچھ کل پرزے بھی اس میں شامل معلوم ہوتے ہیں۔ احمدیت کے لئے پھر ایک ابتلاء کی صورت پیدا ہورہی ہے۔ گورنمنٹ کے دلی دشمن جو اس کے ملازموں میں شامل ہیں` انہیں ہماری جنگی خدمات نہیں بھائیں اور چونکہ کھلا مقابلہ وہ نہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے دوسرے اوچھے ہتھیاروں سے کام لینا شروع کیا ہے۔ چند دنوں تک حقیقت واضح ہو جائے گی۔ میں زندہ رہوں یا مروں` جماعت کی عزت کی حفاظت کے لئے آپ لوگوں کا ہر قربانی کرنا فرض ہے۔ کیا پچاس سال شکست کھاکر دشمن اب غالب آجائے گا۔ کیا آج احمدیت کا ایمان جماعت کو گزشتہ قربانیوں سے زیادہ قربانیاں پیش کرنے کے لئے آمادہ نہ کرے گا۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ میں سے ہر شخص کہے گا کہ ضرور ضرور اور آسمان آپ کی آواز پر تصدیق کرے گا اور احمدیت کے پوشیدہ دشمن ایک دفعہ پھر منہ کی کھائیں گے۔ اچھا خدا حافظ آج بھی اور ہمیشہ ہی۔ اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی بہادر بنو اور کسی انسان سے نہ ڈرو سوائے خدا کے۔ والسلام۔
خاکسار مرزا محمود احمد ۴۳/۶/۲۰<۱۹
ملکی پریس میں ذکر
اس واقعہ کی خبر ملکی پریس نے نہایت گمراہ کن اور مسخ شدہ صورت میں شائع کی۔ البتہ شمالی ہند کے مشہور مسلمان اخبار >انقلاب< نے اپنے ایک شذرہ میں اس کے صحیح واقعات بیان کرنے کے بعد لکھا۔
>یہ واقعات نہایت افسوسناک ہیں۔ ہمیں فریقین میں سے کسی کے ساتھ بھی کوئی خصوصی تعلق نہیں لیکن آزادی تقریر کے اس دور میں کسی جماعت کے جلسہ کو بزور تشدد روکنا کسی اعتبار سے بھی جائز نہیں قرار دیا جاسکتا اور جس حالت میں جلسہ ہوچکا تھا اور قادیانی وہاں سے جارہے تھے اس وقت ان پر حملہ کرنا صریح بلوہ و فساد تھا جو کسی حالت میں حق بجانب نہیں ہوسکتا<۔۲۰
مظلوم احمدیوں کے خلاف مقدمہ کا تکلیف دہ سلسلہ
بھامڑی میں معاندین نے حملہ بھی کیا اور بعد میں جماعت احمدیہ کے بزرگوں اور جلسہ میں شامل ہونے والے دوسرے احمدیوں کے خلاف پولیس میں جھوٹی رپورٹ بھی دے دی۔ جس پر پولیس نے ہر دو فریق کے آدمیوں کا چالان کردیا اور پندرہ سولہ مظلوم احمدی جن میں حضرت میر محمد اسحٰق` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل جٹ جیسے بلند پایہ بزرگ بھی شامل تھے` مستغاث علیہ گردان کر مقدمہ کے ایک نہایت تکلیف دہ سلسلہ میں الجھا دیئے گئے۔
مقدمہ بھامڑی کی عدالتی کارروائی کا باقاعدہ آغاز ۱۳۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو یعنی اصل واقعہ کے قریباً دو ماہ بعد ہوا۔۲۱ چودھری محمد اسحٰق صاحب ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے اس مقدمہ کی سماعت کی۔ ۹۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو عدالت نے زیر دفعات ۱۴۸` ۱۴۹` ۳۲۳` ۳۲۵ مندرجہ ذیل تیرہ احمدی اصحاب پر فرد جرم لگا دیا۔
۱۔
حضرت میر محمد اسحاق صاحب ناظر ضیافت۔
۲۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ناظر امور عامہ۔
۳۔
حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل )جٹ( جنرل پریذیڈنٹ قادیان۔
۴۔
مولوی دل محمد صاحب مہتمم تبلیغ
۵۔
چودھری محمد نذیر صاحب لاہور ہائوس قادیان۔
۶۔
چودھری محمد لطیف صاحب لاہور ہائوس قادیان۔
۷۔
ٹھیکیدار علی احمد صاحب قادیان۔
۸۔
چودھری بڈھا صاحب ساکن بسرا۔
۹۔
چودھری امیر احمد صاحب بسراواں۔
۱۰۔
‏ind] gat[ چودھری فضل الدین صاحب عمرا۔
۱۱۔
مولوی محمد ابراہیم صاحب فاضل بھامڑی۔
۱۲۔
مولوی عبدالعزیز صاحب بھامڑی۔
۱۳۔
چودھری محمد شفیع صاحب بگول۔۲۲
اس مقدمہ میں سماعت دھاریوال` بٹالہ یا گورداسپور میں ہوتی تھی۔ تقریباً پچاس سے زائد پیشیاں بھگتنی پڑیں۲۳ اور جماعت احمدیہ کی طرف سے وقتاً فوقتاً مندرجہ ذیل وکلاء پیش ہوئے۔
مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ گورداسپور` میر محمد بخش صاحب ایڈووکیٹ گوجرانوالہ۔
شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کپورتھلہ` مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر
چودھری اسداللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء لاہور` شیخ ارشد علی صاحب پلیڈر۔
حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کا مقدمہ بھامڑی میں مبارک طرز عمل
مقدمہ بھامڑی میں حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ امیر قافلہ ہوتے تھے۔ آپ نے اس مقدمہ کے دوران عدالت سے باہر اور عدالت کے اندر
جو مبارک طرز عمل اختیار فرمایا وہ ایک مثالی چیز ہے جس کا تذکرہ ہمیشہ سنہری حروف میں کیا جائے گا۔ بطور مثال اس جگہ تین اہم بیانات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل )جٹ( مقدمہ بھامڑی کے حالات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔
>اس مقدمہ کی تاریخ کے لئے ہمیں گورداسپور اور دھاریوال جانا پڑتا تھا۔ ہم صبح کی گاڑی قادیان سے چل کر بٹالہ اتر جاتے اور اور پٹھانکوٹ کی گاڑی کے لئے اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹی سی مسجد میں آرام کرتے جو بابو محمد شریف صاحب احمدی مرحوم کے آبائو اجداد نے بنوائی ہوئی تھی۔ اسی جگہ صبح کا ناشتہ بھی کرتے۔ ان دنوں قادیان سے یہ گاڑی منہ اندھیرے ہی روانہ ہوتی تھی۔ اس لئے ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ مسجد میں حضرت میر صاحبؓ نے جو امیر قافلہ ہوتے تھے آنے والوں کی گنتی کی تو معلوم ہوا کہ چار پانچ آدمی زیادہ آئے ہیں۔ اس پر آپ نے مجھے حکم دیا کہ اسٹیشن سے اتنے ٹکٹ بٹالہ تا قادیان لائے جائیں۔ چنانچہ ٹکٹ آنے پر آپ نے ان کو اپنے ہاتھ سے پھاڑ دیا اور فرمایا چونکہ یہ دوست گاڑی میں سواری کرچکے ہیں اور محکمہ ریل نے پوچھا نہیں مگر سرکار کو اس کا حق ملنا چاہئے !!
اسی مقدمہ کے دوران میں ایک دفعہ جبکہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کی شہادت ہمارے فریق مخالف کے خلاف ہورہی تھی تو ایک ایسی بات جس سے فریق ثانی پر حرف آتا تھا وکیل مخالف کے سوال کرنے پر حضرت میر صاحبؓ نے بتائی۔ تب فریق مخالف کے وکیل نے آپ پر جرح کی کہ یہ بیان آپ نے پولیس میں کیوں نہیں دیا تھا؟ کیونکہ آپ کے پولیس کے بیانوں میں یہ نہیں ہے جواب میں آپ نے فرمایا۔ میں تو اب بھی عدالت میں یہ بیان دینے کے لئے تیار نہ تھا لیکن آپ لوگوں نے پوچھا ہے تو مجھے مجبوراً جواب دینا پڑا ورنہ میں قطعاً بیان نہ کرتا<۔۲۴
۲۔ مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ گورداسپور۲۵ کا بیان ہے کہ۔
>شہادت استغاثہ کے ختم ہونے کے بعد ہماری طرف سے شہادت صفائی پیش ہوئی۔ محترم خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب مرحوم ہمارے گواہ صفائی تھے۔ آپ نے اپنے بیان میں حضرت میر صاحبؓ کے متعلق فرمایا کہ آپ ایک نہایت معزز سید خاندان سے ہیں۔ عالم قرآن و حدیث ہیں اور بعض اور وجاہت کے پہلو بھی بیان فرمائے۔ حضرت میر صاحبؓ اس وقت میرے پاس ہی کرسی پر بیٹھے تھے باوجود ملزم ہونے کے عدالت آپ کو ہمیشہ کرسی دیتی تھی۔ جب محترم خان صاحب مرحوم یہ بیان دے رہے تھے تو حضرت میر صاحبؓ کے آنسو رواں ہوگئے۔ آپ نے رومال نکال کر اپنی آنکھوں پر رکھ لیا اور آہستہ سے نہایت رقت سے مجھے فرمانے لگے۔ مرزا صاحب! ان چیزوں سے انسان بخشا نہیں جاتا۔ مومن اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخشا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے آپ کے الفاظ تو مجھے پورے طور پر یاد نہیں۔ لیکن ان کا مفہوم وہی ہے جو میں نے لکھا ہے۔ آپ کی آواز میں خاص دردانگیز رقت تھی اور آپ کے آنسو بہہ رہے تھے۔
اسی کیس میں جس روز آپ کا بیان ہوا آپ میرے پاس ہی میرے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے۔ مجھے اندر سے بلا کر اپنے ساتھ چارپائی پر بٹھا لیا اور بڑی رقت کے ساتھ فرمانے لگے کہ مجھ سے کوئی نادانستہ غلط بیانی تو نہیں ہوگئی۔ میں نے تسلی دی لیکن آپ کے آنسو بہنے لگ گئے۔ اور آپ فرماتے رہے۔ یااللہ! اگر کوئی غلطی ہوگئی ہو تو مجھے معاف فرمانا۔ آپ کا بیان واقعات کے بالکل مطابق تھا۔ لیکن تقویٰ کا یہ حال تھا کہ ہر حال میں خدا سے ڈرتے<۔۲۶
۳۔ شیخ محمد احمد صاحب مظہر کپورتھلوی۲۷ ایڈووکیٹ کا بیان ہے کہ۔
)>الف( ہم چند وکلاء مقدمہ کی پیروی کرتے تھے۔ دھاریوال یا گورداسپور میں پیشی ہوتی تھی۔ دوران مقدمہ میں رمضان شریف آگیا۔ میر صاحبؓ فجر کی نماز کے بعد مسجد اقصیٰ قادیان میں درس دے کر بذریعہ موٹر دھاریوال پہنچ جاتے۔ باوجود مقدمہ کی پیشی کے آپ نے درس میں ناغہ نہ ہونے دیا۔
)ب( چونکہ میر صاحبؓ کی واپسی قادیان کو ہر روز ہو جاتی تھی۔ اس لئے آپ خود روزہ رکھتے تھے اور احمدی وکلاء کے لئے جو بوجہ مسافرت روزہ نہ رکھ سکتے تھے قادیان سے دوپہر کا کھانا پکوا کر اپنے ہمراہ لاتے تھے۔
)ج( فریق مخالف کے بعض اشخاص کو میر صاحبؓ بڑی مہربانی سے عدالت سے باہر اپنے پاس بٹھاتے۔ انہیں تبلیغ و تلقین کرتے اور کسی قسم کا بغض و کینہ آپ کی طبیعت میں نہ تھا۔
)د( فریق ثانی کے وکیل نے میر صاحبؓ پر جرح کی اور یہ سوال بھی کیا کہ بھامڑی والوں نے آپ کے جلسے میں مزاحمت کی اس لئے آپ کے دل میں ان کے خلاف غم و غصہ ضرور پیدا ہوا ہوگا؟
میر صاحبؓ نے برجستہ جاب دیا کہ غم و غصہ نہیں بلکہ رحم و ہمدردی کے جذبات میرے دل میں آپ کے موکلوں کے لئے پیدا ہوئے۔ اس جواب سے مجسٹریٹ متبسم اور محظوظ ہوا اور وکیل فریق ثانی شرمسار۔
)ہ( مجسٹریٹ میر صاحبؓ سے باادب پیش آتا تھا۔ لیکن خاکسار نے دیکھا کہ میر صاحبؓ جب عدالت کے کمراہ میں داخل ہوتے تو تین چار منٹ تک ملزمان کے کٹہرے میں اکیلے اور غمزدہ سے ہوکر کھڑے رہتے۔ ہم سب بھی تعظیماً کھڑے رہتے۔ حتیٰ کہ میر صاحبؓ کٹہرے سے باہر نکلتے اور پھر ہم سب کرسیوں پر بیٹھ جاتے۔ یہ ماجرا میں نے کئی بار دیکھا لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ میر صاحبؓ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آخر ایک دن میں نے میر صاحبؓ سے اس کا سبب دریافت کیا۔ آپ چشم پر آب ہوگئے۔ فرمانے لگے کہ آتما رام مجسٹریٹ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عدالت میں کھڑا رہنے پر مجبور کیا۔ اس لئے جب کبھی مجھے عدالت میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد میں چند منٹ میں بھی اسی طرح کھڑا رہتا ہوں۔
میر صاحبؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عزیز تھے اور آپ نے حضورؑ کے دامن تربیت میں پرورش پائی تھی اور نہایت قریب سے حضورؑ کو دیکھا تھا۔ اس واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت میر صاحبؓ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کس قدر عشق و محبت اور والہیت تھی۔ ~}~
ذوق ایں بادہ نیابی بخدا تا پخشی<۲۸
سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور کا مخالفانہ رویہ
مقدمہ بھامڑی کے معاملہ میں پولیس نے جماعت احمدیہ کے خلاف انتہائی معاندانہ رویہ اختیار کیا اور سپرنٹنڈنٹ پولیس گورداسپور سردار وریام سنگھ صاحب نے تو خاص طور پر مخالفین کی پرزور حمایت کی۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ:۔
>مقدمہ بھامڑی میں جو جھگڑا ہوا تھا اس میں ایک سکھ سپرنٹنڈنٹ پولیس سردار وریام سنگھ صاحب نے جو ان دنوں ضلع گورداسپور میں متعین تھے ظاہر طور پر ہماری جماعت کے خلاف حصہ لیا تھا۔ ہماری جماعت کے خلاف ان کے دل میں سخت غصہ تھا۔ ایک دفعہ چوہدری فتح محمد صاحب سیال ان سے ملے تاکہ ان کو جماعت کے متعلق صحیح معلومات بہم پہنچائیں تو انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کی جماعت سے بہت شکوہ ہے کیونکہ آپ کی جماعت سکھوں کی دشمن ہے۔ بھامڑی کے کیس میں باوجود اس کے کہ جو حالات ہماری جماعت نے پیش کئے وہی صحیح تھے اور ہمارے مقابل پر جو باتیں فریق مخالف نے پیش کیں وہ صریحاً غلط تھیں۔ ان سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس نے فریق مخالف کی باتوں کو درست تسلیم کیا اور ہماری باتوں کو غلط سمجھا۔ بہرحال ہماری طبیعت پر ان کے متعلق برااثر تھا اور ان کو گورداسپور سے تبدیل کرانے میں بہت کچھ حصہ ہمارا بھی تھا۔ ان کے ایک ماتحت افسر نے خلاف قانون کام کیا۔ سردار وریام سنگھ صاحب نے اپنے ماتحت افسر کی حمایت کی۔ ہماری جماعت نے اس معاملہ میں ان کی مخالف کی اور افسران بالا کو صحیح حالات سے آگاہ کردیا۔ سردار وریام سنگھ صاحب یہ سمجھے کہ مجھے ذلیل کرنے کے لئے جماعت نے یہ سب کچھ کیا ہے۔ جب ڈپٹی کمشنر صاحب کو صحیح حالات پہنچائے گئے تو انہوں نے اس تھانیدار کو سزا دینی چاہی۔ اس بات پر سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس اور ڈپٹی کمشنر صاحب میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ پہلے تو حکومت کی طرف سے ڈپٹی کمشنر صاحب کو بدلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لیکن جب صحیح حالات حکومت کے سامنے رکھے گئے تو اس نے سپرنٹنڈنٹ صاحب پولیس کو تبدیل کر دیا<۔۲۹
دشمنان احمدیت کی ناکامی
پولیس نے جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔ مگر خداتعالیٰ نے اپنا خاص فضل فرمایا اور عدالت نے سب احمدی احباب کو بری قرار دے دیا۔ اس ضمن میں گورداسپور پولیس نے مقدمہ کے دوران چوبیس احمدی احباب کے خلاف ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کی دفعات ۵۴` ۵۶` ۱۲۱ کے تحت ایک الگ مقدمہ بھی کھڑا کیا اور اس میں ان تیرہ افراد کے علاوہ جن پر مقدمہ بھامڑی کے دوران فرد جرم عائد کی گئی تھی حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ` ماسٹر فضل داد صاحب وغیرہ گیارہ دوسرے احمدیوں کا بھی چالان کیا گیا اور ان کو ضمانتیں داخل عدالت کرنا پڑیں۔۳۰ مگر پولیس کو اس منصوبہ میں بھی ناکامی ہوئی اور حکومت کو شروع ۱۳۲۳ہش/ ۱۹۴۴ء میں مقدمہ واپس لینا پڑا۔۳۱ اور جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۲۰۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو اپنے پیغام میں صریحاً خبر دی تھی کہ >احمدیت کے پوشیدہ دشمن ایک دفعہ پھر منہ کی کھائیں گے< معاندین احمدیت کو فی الواقعہ شکست فاش ہوئی اور وہ اپنے ناپاک عزائم میں ہر طرح ناکام و نامراد رہے۔
فصل سوم
سفر ڈلہوزی
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ چونکہ پچھلے سال )۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش میں( کئی ماہ تک صاحب فراش رہے اس لئے حضور نے اس سال ڈاکٹری مشورہ پر بحالی صحت کے لئے ڈلہوزی میں قیام فرمایا۔ حضور ۲۰۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو قادیان سے روانہ ہوئے۳۲ اور چار ماہ بعد ۱۸۔ اکتوبر ۱۹۴۳ء کو واپس تشریف لائے۔۳۳ اس دوران میں حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ نے امیر مقامی اور حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ نے امام الصلٰوۃ کے فرائض انجام دیئے۔۳۴ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ اس سفر کا ایک گھریلو واقع حسب ذیل الفاظ میں بیان فرماتے ہیں۔
>حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ چونکہ گزشتہ سال ایک لمبی بیماری سے اٹھے تھے۔ اس لئے قیام ڈلہوزی کے آخری ایام میں حضور نے صحت کے خیال سے بعض تفریحی سیروں کا انتظام فرمایا تھا۔ ان سیروں میں سے آخری سیر کالا ٹوپ پہاڑ تک کی تھی جو ڈلہوزی سے قریباً چھ سات میل چنبہ کی جانب واقع ہے۔ اس ٹرپ میں یہ خاکسار بھی ساتھ تھا۔ مستورات کے لئے عموماً گھوڑوں کا انتظام تھا اور مرد پیدل تھے اور ٹرپ کا اہتمام بدستور سیدہ ام طاہر احمد کے ہاتھ میں تھا۔ چونکہ سیدہ موصوفہ نے انتظام وغیرہ کی رو سے سب سے آخر میں آنا تھا۔ اس لئے میں نے دیکھا کہ جب ہم اپنے گھروں سے ایک میل نکل آئے تو سیدہ مرحومہ والے گھوڑے پر ان کی بجائے ہماری بڑی ممانی آرہی ہیں۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ یہ کیا بات ہے اور میں نے اس کا ذکر حضرت امیرالمومنین سے بھی کیا۔ اس پر میں نے دیکھا کہ حضور کے چہرے پر کس قدر فکر اور اس کے ساتھ ہی رنج کے آثار ظاہر ہوئے۔ فکر اس لئے کہ سیدہ ام طاہر کی غیر موجودگی میں کہیں انتظام میں کوئی دقت نہ ہو اور رنج اس لئے کہ ٹرپ کو رونق دینے والی رفیقہ حیات پیچھے رہ گئیں۔ مگر حضور نے زبان سے صرف اس قدر فرمایا کہ سارا انتظام ام طاہر نے ہی کیا ہوا ہے اور انہیں ہی معلوم ہے کہ کونسی چیز کہاں ہے اور کونسی کہاں؟ کسی اور کو تو کچھ خبر نہیں۔ میں نے اشارہ سمجھ کر جلدی سے ایک شخص کو آگے بھگا دیا کہ ڈاک خانہ کے چوک کے پاس جاکر کوئی گھوڑا تلاش کرو اور اگر مل جائے تو فوراً لے کر چلے آئو اور سیدہ ام طاہر کو لے آئو اور خدا کا شکر ہے کہ گھوڑا فوراً مل گیا مگر ابھی یہ گھوڑا واپس جاہی رہا ¶تھا کہ کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ایک خادمہ کو لے کر پیدل ہی چلی آرہی ہیں۔ حالانکہ پیدل چلنے سے انہیں سخت تکلیف ہو جایا کرتی تھی۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ انہیں دیکھ کر گویا حضرت صاحب کا فکر اور رنج سب دور ہوگیا اور ہم خوشی خوشی آگے روانہ ہوگئے۔ ان کے پیچھے رہنے کی یہ وجہ معلوم ہوئی کہ جب وہ گھوڑے پر چڑھ کر روانہ ہورہی تھیں تو حضرت ام المومنین اطال اللہ ظلہا نے انہیں دیکھ کر فرمایا کہ شوکت )ہماری بڑی ممانی صاحبہ( نے ضرور جانا ہے۔ ان کے لئے ضرور انتظام کردو۔ سیدہ موصوفہ جنہیں حضرت اماں جان سے انتہائی محبت اور اخلاص تھا۔ فوراً اپنے گھوڑے سے اتر آئیں اور ممانی جان کو اپنا گھوڑا دے کر روانہ کر دیا اور آپ پیدل چل پڑیں<۔۳۵
احمدیہ لائبریری یادگیر
حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحبؓ جماعت احمدیہ یادگیر کے روح رواں اور بہت مخیر اور بلند پایہ بزرگ تھے۔ آپ نے اپنی ذاتی کوشش سے یادگیر میں ایک شاندار احمدیہ لائبریری قائم کی اور اس کا افتتاح ۱۱۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو عمل میں آیا اور مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل وکیل اس کے پہلے ناظم مقرر ہوئے۔۳۶ یہ لائبریری آج تک قائم ہے اور اس علاقہ میں جماعت احمدیہ کی ایک بہت بڑی علمی ضرورت کو پورا کررہی ہے۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ )عرفانی الکبیر( نے >حیات حسن< میں اس لائبریری کا تذکرہ مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے۔
>سلسلہ کی اشاعت اور عوام میں مذہبی اور علمی مذاق پیدا کرنے کے لئے حضرت حسنؓ نے ۶۔ مہر ۱۳۴۳ کو یادگیر بازار میں احمدیہ لائبریری کو قائم کیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ ایک شخص جو بذات خود عرفی دولت علم سے آشنا نہیں وہ اشاعت علم کا کس قدر جوش اپنے دل میں رکھتا ہے اور نہ صرف جوش بلکہ وہ خوب سمجھتا ہے کہ لوگوں کے معلومات میں کس طرح اضافہ کیا جاسکتا ہے اور کس طرح ان میں علمی مذاق پیدا ہوسکتا ہے۔ غرض ایک نیک مقصد کے پیش نظر یہ لائبریری قائم کی گئی اور ایک فرد واحد کی طرف سے یہ پہلی لائبریری تھی۔ اس لائبریری کے قیام اور اس کے ابتدائی اخراجات تو خود حسن اور اس کے خاندان کے افراد نے اپنے ذمہ لئے۔ پھر حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی نے گرانقدر امداد دی اور اس کے جاریہ اخراجات کے لئے سالانہ اعانت مقرر کی تھی۔ وہ لائیبریری جو چند کتابوں سے شروع ہوئی۔ آج اس میں چار ہزار کتابیں موجود ہیں جو تفسیر` حدیث` فقہ` سیرۃ و سوانح` تاریخ` کتب سلسلہ احمدیہ جو خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام اور خلفاء سلسلہ کے علاوہ علمائے سلسلہ کی تصانیف پر مشتمل ہیں اور ان کے علاوہ مذاہب مختلفہ` ہر قسم کی اخلاقی کہانیاں` اخلاقی ناول )انگریزی` اردو( گویا ہر مذاق کے لوگوں کے لئے ایک ذخیرہ جمع کر دیا گیا اور عام ملکی اور غیر ملکی اخبارات کے علاوہ سلسلہ کے اخبارات و رسائل موجود رہتے ہیں۔ ماہانہ اوسطاً ۶۰۰ افراد اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ گویا ۸ ہزار کے قریب افراد دارالمطالعہ میں آتے ہیں۔ ایک ہزار روپیہ سالانہ اس پر خرچ ہوتا ہے اور خرید مکتب و اخبارات ملا کر تین ہزار سالانہ خرچ ہے۔
اس لائیبریری سے ہر طبقہ کے شوقین اور علم دوست لوگ استفادہ کرتے ہیں۔ اس کا باقاعدہ انتظام سیکرٹری بیت المال جماعت احمدیہ یادگیر کے سپرد ہے۔ مستقبل ممبروں کے لئے قواعد و ضوابط ہیں۔ غرض یہ لائبریری اپنی طرز کی تعلقہ یادگیر میں ایک ہی ہے اور ہر روز ترقی کرتی جاتی ہے` کیا کتابوں کے ذخیرہ کی وجہ سے اور کیا دارالمطالعہ میں آکر استفادہ کرنے والوں کی تعداد ¶کے لحاظ سے۔
یہ حسنؓ کی ان مساعی جمیلہ میں سے ایک ہے جو اس نے اشاعت علوم اور مذہب سے دلچسپی پیدا کرنے کے لئے کی ہیں۔ اس قسم کی لائیبریری ہر شخص قائم نہیں کرسکتا۔ یہ حکومت کا کام ہے مگر حسنؓ جس کے دل میں ملک اور قوم کی خدمت کا بے پناہ جذبہ تھا اور جو چاہتا تھا کہ گرے ہوئے انسانوں کو اٹھائے` ان میں علمی مذاق پیدا ہو` ان کی معاشی حالت درست ہو اور ان کے اندر اخلاق فاضلہ پیدا ہوں۔ اس نے اس ضرورت کو اپنی ذاتی ضرورتوں پر مقدم کرلیا۔ اپنی ضروریات زندگی میں کفایت اور سادگی پیدا کرکے دوسروں کو جو اٹھ نہ سکتے تھے اپنے اموال کو ان کے اٹھانے پر خرچ کردیا اور آج اس کے وفات پاجانے پر بھی یہ سلسلہ بدستور قائم ہے۔ الحمدلل¶ہ علیٰ ذالک<۳۷
بنگال اور اڑیسہ کے قحط زدگان کی امداد
اس سال بنگال میں انتہائی ہولناک قحط رونما ہوا جس میں ہزاروں لوگ روزانہ فاقہ کشی` بیماری اور قسم قسم کے دوسرے وبائی امراض کا شکار ہوگئے۔ معصوم اور شیر خوار بچے دودھ نہ ملنے کی وجہ سے اپنی مائوں کی گود میں سسک سسک کر مر گئے۔ خاوند تنگ آکر اپنی بیویوں اور بال بچوں کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مائیں اپنے جگر گوشوں اور بچوں کو بازاروں اور گلیوں میں آوارہ چھوڑ گئیں۔ کئی جگہ والدین نے اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں دریا برو کرکے خود کشی کرلی۔ ایسے بیسیوں روح فرسا نظارے دیکھنے میں آئے کہ ماں بھوک کی وجہ سے مرچکی ہے مگر اس کا شیرخوار بچہ اس کی خشک چھاتیاں چوس رہا ہے۔۳۸
ان ہوشربا ایام میں جماعت احمدیہ کلکتہ کے امیر جناب شیخ دوست محمد صاحب شمس۳۹ اور مبلغ کلکتہ مولوی ظل الرحمٰن صاحب بنگالی تھے۔ علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پوتے اور حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے فرزند صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب بھی ان دنوں کلکتہ میں مقیم اور ایک معزز عہدہ پر فائز تھے۔ جونہی صوبہ میں قحط شروع ہوا۔ ان اصحاب نے جماعت احمدیہ کلکتہ کے دوسرے مخلص احمدیوں مثلاً میاں محمد حسین صاحب آف کینسٹل موٹر ہائوس` میاں محمد حسین صاحب` میاں نذر محمد صاحب` بہاء الحق صاحب` سید ہمایوں جاہ صاحب` مولوی ظفر احمد صاحب )معتمد خدام الاحمدیہ کلکتہ( کے تعاون سے قحط زدگان کو کھانا کھلانے کا کام شروع کردیا۔۴۰ مگر یہ ایک مختصر اور چھوٹے پیمانہ کی کوشش تھی جس میں وسعت اس وقت ہوئی جب حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ ناظر ضیافت قادیان نے ۳۱۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو بذریعہ >الفضل< کلکتہ کے احمدی دوستوں سے خطاب< کے عنوان سے اپیل کی کہ۔
>میرا دل چاہتا ہے کہ عزیزم مرزا ظفر احمد صاحب سلمہ اللہ جو کلکتہ میں ایک معزز عہدہ پر فائز ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے ہیں جب دفتر سے فرصت پائیں سب آرام اور آسائش چھوڑ کر ڈبل روٹی اور دودھ کی ¶بولتیں لے کر گلیوں میں دیوانہ وار پھریں اور سڑک پر گرے ہوئوں کے پاس جاویں اور انہیں کہیں کہ میرے مقدس دادا کو اس کے پاک و برتر خدا نے حکم دیا تھا۔ یا ایھا النبی اطعموا الجائع والمعتر۔ یعنی اے خدا کے نبی بھوکوں اور محتاجوں کو کھلانا کھلا۔ میرا دادا اب اس دنیا میں نہیں اس لئے میں تمہارے پاس اس کا قائم مقام ہوکر آیا ہوں۔ منہ کھولو۔ میں تمہارے منہ میں دودھ ڈالوں۔ پھر دودھ پی کر بیٹھ جائو۔ میں تم کو کھانا کھلائوں اور آئو میرے ساتھ چلو۔ میں تم کو ٹریم کار میں بٹھا کر ایسی جگہ پہنچا دوں کہ تم وہاں آرام سے زندگی بسر کرسکو۔ یہی خواہش میری کلکتہ کے دوسرے احمدی دوستوں سے ہے کہ وہ فرصت نکالیں اور کھانے کی چیزیں بالخصوص دودھ ضرور لیں کیونکہ یہ بھوک اور پیاس دونوں کا علاج ہے اور خالی معدہ والوں کے لئے نہایت زندگی بخش غذا ہے۔ وہ سڑکوں پر گھومیں اور غیر احمدیوں سے بڑھ کر` ہندوئوں سے بڑھ کر` سرکاری افسروں سے بڑھ کر` سیوا سمتی والوں سے بڑھ کر` غرض دنیا کے ہر کارکن سے بڑھ کر` محنت سے` مشقت سے` تکلیف سے مگر شوق اور محبت سے` بھوکوں` قحط زدہ لوگوں` سڑکوں پر مرنے والوں کو دودھ پلاویں اور کھانا کھلاویں اور پھر ان کے بہترین مستقبل کا انتظام کر دیں کیونکہ دنیا کے لوگ شہرت کے لئے یا تنخواہ کے لئے یا قومی ہمدردی سے یا طبعی اور فطری رافت کی وجہ سے یہ کام کرتے ہیں۔ مگر تم خدا ہاں زندہ خدا کے لئے یہ کام کرتے ہو۔ پس تمہارا کام دوسروں سے بڑھ کر ہونا چاہئے<۔۴۱
اس اپیل پر نہ صرف کلکتہ کے احمدیوں نے اپنی امدادی سرگرمیاں تیز کردیں بلکہ کلکتہ کے علاوہ بعض دوسرے مقامات کے احمدیوں نے بھی ان کا ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ چنانچہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور ان کی اہلبیت اور دیگر اعزہ نے ایک گرانقدر رقم بطور چندہ بھجوائی۔ علاوہ ازیں متعدد اور مخلصین نے قحط زدگان کے لئے امدادی رقوم دیں۔۴۲ اسی طرح خدام الاحمدیہ محمد آباد سندھ نے بھی مالی امداد کی۴۳ اور صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب کی خاص جدوجہد کے نتیجہ میں ۲۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش سے بلا تفریق مذہب و ملت روانہ ایک سو افراد۴۴ کو کھانا کھلانے کا بندوبست ہوگیا جو کئی ہفتوں تک جاری رہا۔
پاک سرکس ایریا میں صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب علی الصبح عبدالسلام صاحب مہتہ` مصلح الدین صاحب سعدی اور چودھری ظفر احمد صاحب کو ساتھ لے کر بھوکے اور شیر خوار بچوں کو تلاش کرکے ان کو دودھ تقسیم کرتے تھے۔ احمدی مستورات میں سے محترمہ بلقیس بیگم صاحبہ اہلیہ مہتہ عبدالقادر صاحب اور اہلیہ صاحبہ چودھری انور احمد صاحب کاہلوں نے خاص طور پر مصیبت زدہ مستورات اور بچوں کی دیکھ بھال کی خدمت نہایت اخلاص سے انجام دی۔۴۵
بنگال کے علاوہ اڑیسہ کے بعض اضلاع میں بھی قحط نے بڑی تباہی مچائی اور بعض ساحلی خطوں میں لوگ دانہ دانہ کے محتاج ہوگئے۔ زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار ہوکر گھاس اور درختوں کے پتوں اور جڑوں پر گزارہ کرکے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئے۔ اڑیسہ کے ان فلاکت زدہ لوگوں کے لئے حکومت اور عوام کی متحدہ کوششوں سے قریباً ایک درجن لنگر خانے جاری کئے گئے۔ اس کارخیر میں حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب )سکندر آباد دکن`( نواب احمد جنگ بہادر )سکندر آباد`( زینب حسن صاحبہ اور سیکرٹری لجنہ اماء اللہ سکندر آباد نے نمایاں حصہ لیا۔۴۶
مدراس یونیورسٹی میں ظہور اسلام پر کامیاب لیکچر
مدراس یونیورسٹی کے ماتحت پرنسپل ملر آنجہانی کی یادگار میں عرصہ سے ہر سال کچھ لیکچر دیئے جاتے تھے۔ جن کا موضوع مقصد حیات اور تاریخ عالم کا کوئی معنی خیز حصہ ہوتا تھا۔ اس سال یونیورسٹی کی طرف سے پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب )گورنمنٹ کالج لاہور( کو >ظہور اسلام< کے موضوع پر لیکر دینے کا موقعہ دیا گیا۔ یہ لیکچر ۲۵` ۲۷` ۲۸۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو ہوئے۴۷ اور بہت کامیاب رہے۔ قاضی صاحب موصوف نے پہلے لیکچر میں صداقت اسلام کے دلائل بیان کئے۔ دوسرے لیکچر میں ماہرین علم النفس میں سے بعض کی ظہور اسلام سے متعلق غلط توجیہات کا رد کیا اور تیسرے لیکچر میں اقتصادی` جغرافیائی اور سیاسی توجیہات کا رد پیش کرکے ثابت کیا کہ اسلام ایک عالمگیر روحانی تحریک ہے جو بنی نوع انسان کی روحانی تاریخ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے خداتعالیٰ کی طرف سے جاری ہوئی اور جس کا دور ثانی ہمارے موجودہ زمانہ میں شروع ہوا۔ پہلے لیکچر میں مدراس یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر لکشمن سوامی مدالیار نے صدارت
‏tav.8.23
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
ترکی وفد سے متعلق وضاحتی خطبہ سے لیکچر >اسوہ حسنہ< تک
کے فرائض انجام دیئے اور دوسرے اور تیسرے لیکچر کے صدر` صدر یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مہادیون تھے۔ لیکچروں میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے اساتذہ طلباء اور مدراس کے اہل علم اصحاب نیز احمدی دوست بھی شامل ہوئے اور گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔۴۸
‏0] ft[sتبلیغ اسلام کے جہاد کی خاص تحریک اور مباحثات سے ممانعت
یکم ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو عیدالفطر تھی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس روز ایک نہایت ایمان افروز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں احمدیوں کو تبلیغ اسلام میں دیوانہ وار منہمک ہو جانے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا۔
>حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کو دعوۃ و تبلیغ سے وابستہ قرار دیا ہے یعنی صرف ممانعت جہاد۴۹ کا آپ نے اعلان نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی آپ نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اب اسلام کی اشاعت اور اس کی ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کو تبلیغ کی جائے اور انہیں اسلام کی طرف کھینچا جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی ممانعت جہاد والی نظم کے خاتمہ پر فرماتے ہیں۔ ~}~
تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار
اب اس کا فرض ہے کہ وہ دل کرکے استوار
لوگوں کو یہ بتائے کہ وقت مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے۵۰۔۵۱
یعنی یہ نہیں کہ میں تم کو صرف جنگ سے روکتا ہوں بلکہ اس کے ساتھ ہی تمہیں یہ بھی کہتا ہوں کہ اسلام کی فتح کا راستہ اور ہے اور اسی راستہ پر چلانے کے لئے خداتعالیٰ نے مجھ کو بھیجا ہے۔ پس میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ اب تلوار کے ذریعہ تم کامیاب نہیں ہوسکتے بلکہ اگر تم دشمنوں پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہو۔ تم اسلام کو دوسرے تمام ادیان پر غالب اور برتر کرنا چاہتے ہو تو تم میری تعلیم اور میرے لائے ہوئے براہین کو لوگوں کے سامنے پیش کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح اسلام دنیا پر غالب آتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جہاد کی ممانعت کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں میں مایوسی پیدا نہیں کی بلکہ جہاد کے غلط راستہ پر چلنے سے روک کر تبلیغ کا راستہ ان کے سامنے کھول دیا اور اس طرح ان کے دلوں میں اسلام کی فتح اور اس کی کامیابی کے متعلق ایک غیر متزلزل یقین اور ایمان پیدا کر دیا۔ آج زمانہ کے حالات نے بھی بتا دیا ہے کہ اب اسلام کے احیاء اور اس کی تبلیغ و اشاعت کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ تبلیغ سے دوسرے ادیان پر فتح پانا ہے۔ پس ہر وہ شخص جس کے دل میں دین کا درد ہے جو اپنے اندر سچا ایمان اور سچا اخلاص رکھتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ ¶مسیح آگیا ہے۔ وہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچائے کہ اسلام کا خدا سچا خدا ہے۔ محمد رسول اللہﷺ~ اس کے سچے رسول ہیں اور قرآن اس کی سچی کتاب ہے تاکہ اگر کوئی شخص مقابلہ کرے تو وہ اسلام کے نشانات و معجزات کی تلوار سے کاٹا جائے اور فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار اس کے سر پر پڑے۔ آخر ہوائی جہاز کیوں غالب آتے ہیں اسی لئے کہ وہ اوپر ہوتے ہیں اور لوگ نیچے ہوتے ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ بھی فرماتے ہیں۔ ید العلیا خیر من ید السفلی۔ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز چونکہ اوپر ہوتے ہیں اور لوگ نیچے ہوتے ہیں اس لئے وہ بمباری کرکے لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں لیکن خداوند تعالیٰ کے فرشتے تو ہوائی جہازوں سے بھی اوپر ہوتے ہیں۔ پس جب کوئی خداتعالیٰ کے دین کا مقابلہ کرتا ہے تو آسمان کی بلندیوں سے اس پر گولے برسائے جاتے ہیں اور کسی شخص کی طاقت میں نہیں ہوتا کہ ان کا مقابلہ کرسکے کیونکہ ہوائی جہاز بھی نیچے رہ جاتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی نیچے رہ جاتے ہیں مگر فرشتے اوپر سے ان پر گولے برساتے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانہ کے حالات کے ذریعہ ہمیں بتادیا ہے کہ اسلحہ کے ذریعہ دشمنوں کا کبھی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دجالی طاقتوں کے کچلنے اور اسلام کو غالب کرنے کا ایک یہی ذریعہ ہے کہ ہر شخص تبلیغ میں منہمک ہو جائے اور لوگوں تک خدا تعالیٰ کی وہ آواز پہنچائے جو اس کے کانوں میں پڑی اور جسے قبول کرنے کی اسے سعادت حاصل ہوئی۔ یہ ایسا ذریعہ ہے کہ انسان بعض دفعہ یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ تلوار دوسرے کی بجائے وہ خود اپنے اوپر چلا رہا ہے۔ وہ تبلیغ کرتا ہے اور مہینوں نہیں سالوں تبلیغ کرتا چلا جاتا ہے مگر اس کا اثر کوئی نہیں دیکھتا لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ تلوار بے حقیقت ہے یا تبلیغ اپنے اندر کوئی اثر نہیں رکھتی کیونکہ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک مدت کے بعد جب تبلیغ کا اثر ہونے لگتا ہے تو لوگ یوں جوق در جوق حق کو قبول کرنے لگ جاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دریا نے بڑی تیزی سے کناروں کو گرانا شروع کر دیا ہے۔ غلطی یہ ہے کہ صحیح طور پر تبلیغ نہیں کی جاتی اور استقلال سے تبلیغ نہیں کی جاتی۔ رسول کریم~صل۱~ نے تیرہ سال تبلیغ کی مگر مکہ میں صرف اسی آدمیوں نے آپ کو قبول کیا۔ اس کے بعد آپ مدینہ تشریف لے گئے تو پانچویں سال کے آخر میں ہی قوموں کی قومیں` علاقوں کے علاقے اور قبیلوں کے قبیلے اسلام میں داخل ہونے لگ گئے اور وہ آپ کے پائوں پر عقیدت کے پھول نچھاور کرنے لگے۔ غرض اس جنگ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس زمانہ میں جہاد کا۵۲ رستہ بند ہے تو تبلیغ کا رستہ پہلے سے زیادہ کھلا ہوا ہے۔ میں نے جو کہا ہے کہ اس زمانہ میں تبلیغ کا رستہ پہلے سے زیادہ کھلا ہوا ہے تو اس کی میرے پاس دلیل بھی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے واذا الجنہ ازلفت کہ آخری زمانہ میں جنت قریب کر دی جائے گی جس کے معنی یہ ہیں کہ تبلیغ کا راستہ پہلے کی نسبت زیادہ کھل جائے گا کیونکہ جنت تب ہی قریب ہوسکتی ہے جب بغیر کسی خاص مشقت کے جنت میں داخل ہونے کے سامان میسر آجائیں۔ چنانچہ موجودہ زمانہ میں ایسے ہی حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ اب لوگوں کے دل خودبخود موجودہ دینوں سے متنفر ہورہے ہیں جس طرح یورپین لوگوں کے دل ایشیائیوں کی حقارت سے پر ہیں اسی طرح ان کے دل اپنے مذہب کی تحقیر سے بھی لبریز ہیں۔ پس اگر ایک طرف وہ ہمارا مٹی کا گھر توڑنے کی فکر میں ہیں تو دوسری طرف وہ اپنے روحانی گھر کو بھی توڑ رہے ہیں۔ پس یہ کیسا ہی اچھا موقعہ ہے کہ جب وہ ہمارے مٹی کے گھر کو توڑ رہے ہوں ہم انہیں تبلیغ کے ذریعہ اپنے روحانی گھر میں لے آئیں۔ اس کے بعد خانہ واحد کا معاملہ ہوجائے گا اور ہمارا نقصان ان کا نقصان اور ہمارا فائدہ ان کا فائدہ ہو جائے گا۔ غرض یہ ایک ایسی آنکھیں کھولنے والی بات ہے کہ اگر اس کو دیکھتے ہوئے بھی کسی شخص کے دل میں تبلیغ کے متعلق بیداری پیدا نہ ہو اور وہ یہ عہد صمیم کرکے نہ اٹھے کہ میں اردگرد کے رہنے والوں کو اور اپنے ہمسائیوں کو اور جہاں جہاں میں پہنچ سکتا ہوں وہاں تک رہنے والوں کو اسلام کی تبلیغ کروں گا تو اس سے زیادہ بدقسمت انسان اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
آج اسلام کی ترقی کے لئے چاروں طرف تلوار کا راستہ بند ہے اور مسدود ہوچکا ہے۔ اسلام کی ترقی کے لئے بندوق کا راستہ بند اور مسدود ہوچکا ہے۔ اسلام کی ترقی کے لئے توپ کا راستہ بند اور مسدود ہوچکا ہے۔ اسلام کی ترقی کے لئے جہازوں اور ہوائی جہازوں کا راستہ بند اور مسدود ہوچکا ہے ایک ایک قلعہ جو محمد رسول اللہ~صل۱~ کے صحابہؓ نے اپنے خون کو بہا کر قائم کیا تھا آج مسمار ہوتا نظر آرہا ہے اور تلواروں` بندوقوں` توپوں اور ہوائی جہازوں سے ان قلعوں کو محفوظ رکھنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لیکن اسی دنیا کے پردے پر ایک احمدیہ جماعت ایسی ہے جو اپنے دل میں یقین اور ایمان رکھتی ہے کہ توپوں کے ذریعہ سے نہیں` تلواروں کے ذریعہ سے نہیں` بندوقوں کے ذریعہ سے نہیں` ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے نہیں بلکہ تبلیغ اور تعلیم اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ سے پھر دوبارہ ان گرتے ہوئے قلعوں کی تعمیر کی جائے گی۔ پھر دوبارہ اسلام کے احیاء کی کوشش کی جائے گی۔ پھر دوبارہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے جھنڈے کو کسی چوٹی پر نہیں` کسی پہاڑ پر نہیں` کسی قلعہ پر نہیں بلکہ دنیا کے قلوب پر گاڑا جائے گا۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ دلوں پر گاڑا ہوا جھنڈا اس جھنڈے سے بہت زیادہ بلند اور بہت زیادہ مضبوط اور بہت زیادہ پائیدار ہوتا ہے` جسے کسی پہاڑ کی چوٹی یا قلعہ پر گاڑ دیا جائے۔
پس آج اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ میں لگ جائے۔ اور غیر احمدیوں کو بھی تلقین کرے کہ وہ دوسرے مذاہب والوں کو تبلیغ کیا کریں کیونکہ گو احمدیت اور عام مسلمانوں کے عقائد میں بہت بڑا فرق ہے۔ مگر پھر بھی مشترکہ مسائل ایسے ہیں جن میں ہمارا اور ان کا یکساں عقیدہ ہے۔ پس اگر غیر احمدی بھی تبلیغ کرنے لگ جائیں اور وہ غیر مذاہب والوں کو داخل اسلام کریں تو گو وہ حقیقی اسلام سے پھر بھی دور ہوں گے مگر ہمارے نقطہ نگاہ سے وہ پہلے کی نسبت اسلام سے بہت زیادہ قریب ہو جائیں گے۔ آخر ہر جگہ ہم ہندوئوں میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ہر جگہ ہم سکھوں میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ہر جگہ ہم جینیوں میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ہر جگہ ہم زرتشتیوں میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ہر جگہ ہم بدھوں میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ بلکہ سینکڑوں ایسے مقامات ہیں جہاں ایک بھی احمدی نہیں۔ پس اگر ہم ہی تبلیغ کریں تو ایک وسیع میدان تبلیغ سے خالی پڑا رہے گا لیکن اگر ہم ہر غیراحمدی کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جب جہاد۵۳ سے منع کیا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم اپنے ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جائو اور اسلام کی ترقی کے لئے کوئی کوشش نہ کرو بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ محمد~صل۱~ کے لائے ہوئے دین کو بجائے تلوار کے ذریعہ پھیلانے کے دلائل و براہین اور تبلیغ کے ذریعہ پھیلائو اور اس لحاظ سے اب تمہارا بھی فرض ہے کہ تم یہی ہتھیار لے کر گھر سے نکلو اور ہر غیر مسلم کو تبلیغ کے ذریعہ اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کرو تو اس کے بعد جو لوگ ان غیر احمدیوں کے ذریعہ اسلام میں داخل ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ حقیقی اسلام کے پہلے کی نسبت بہت زیادہ قریب ہو جائیں گے۔ پس صرف خود ہی تبلیغ نہ کرو بلکہ ہر غیر احمدی کو جو تمہیں ملتا ہے` سمجھائو اور اسے بتائو کہ آج اسلام کی ترقی کا صرف یہی ایک حربہ رہ گیا ہے اس کے سوا اور کوئی ذریعہ اسلام کی ترقی کا نہیں۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ تم میں سے جسے دین سے پیار ہے جسے دیانت سے پیار ہے جس کے اندر نور ایمان اور نور اخلاص پایا جاتا ہے اب اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے دل کو استوار کرکے ~}~
لوگوں کو یہ بتائے کہ وقت مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے
اب اس کا یہی فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کر دے اور لوگوں کو بتائے کہ یہ وقت مسیح ہے۔ جنگ و جدل کا زمانہ گزر گیا۔ اب تلوار کا زمانہ نہیں بلکہ تبلیغ کا زمانہ ہے پس ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ دن کو بھی تبلیغ کرے اور رات کو بھی تبلیغ کرے۔ صبح کو بھی تبلیغ کرے اور شام کو بھی تبلیغ کرے اور جب عملی رنگ` میں تبلیغ نہ کررہا ہو تو دماغی رنگ میں تبلیغ کے ذرائع پر غور کرتا رہے۔ گویا اس کا کوئی وقت تبلیغ سے فارغ نہ ہو اور وہ رات اور دن اسی کام میں مصروف رہے<۔۵۴
اس ارشاد کے ساتھ ہی حضور نے بحث و مباحثہ کو پوری قوت سے کچل ڈالنے کی بھی ہدایت کی۔ چنانچہ فرمایا۔
>یاد رکھو۔ تبلیغ وہی ہے جو حقیقی معنوں میں تبلیغ ہو۔ بحث مباحثہ کا نام تبلیغ نہیں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح تم اس سانپ کے مارنے کی فکر میں لگ جاتے ہو۔ جو تمہارے گھر میں نکلے۔ اسی طرح اگر تمہارے دلوں میں نور ایمان پایا جاتا ہے تو تم بحث مباحثہ کو اس طرح کچل دو۔ جس طرح سانپ کا سر کچلا جاتا ہے۔ جب تک تم میں بحث و مباحثہ رہے گا۔ اس وقت تک تمہاری تبلیغ بالکل محدود رہے گی اور تمہارا مشن ناکام رہے گا۔ اگر تم اپنی تبلیغ کو وسیع کرنا چاہتے ہو۔ اگر تم اپنے مشن میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تم بحث مباحثہ کو ترک کردو۔ جس دن تبلیغ کے لئے صحیح معنوں میں نکلو گے اور اپنے دلوں میں لوگوں کے لئے درد اور سوز بھر کر ان تک پہنچو گے وہی دن تمہاری کامیابی کا دن ہوگا اور اسی دن تم صحیح معنوں میں تبلیغ کرنے والے قرار پاسکو گے۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تمہارے سامنے خداتعالیٰ نے جو راستہ کھولا ہے اس پر چل پڑو اور اپنے دائیں بائیں مت دیکھو کہ مومن جب ایک صحیح راستہ پر چل پڑتا ہے تو اپنے ایمان اور اخلاص کے لحاظ سے وہ کسی اور طرف دیکھنے سے اندھا ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرا کام یہی ہے کہ میں اس راستہ پر چلتا چلا جائوں اور درمیان میں آنے والی کسی روک کی پروا نہ کروں۔ وہ بہادر اور نڈر ہوکر سچائی دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور بحث مباحثہ کو ترک کر دیتا ہے۔
میرے پاس ایک دفعہ ایک انگریز آیا اور مجھے کہنے لگا۔ آپ کس طرح کہتے ہیں کہ اسلام سچا مذہب ہے۔ میں نے اسے اسلام کی سچائی کے متعلق کئی دلائل بتائے۔ مگر ہر دلیل جب میں پیش کرتا وہ اس کے مقابلہ میں انجیل کی کوئی آیت پڑھ دیتا اور کہتا۔ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ انجیل میں تو یہ لکھا ہے۔ میں نے اسے کئی دلائل دیئے۔ مگر جب بھی کوئی دلیل دوں وہ ایسے رحم کے ساتھ کہ گویا میں پاگل ہوگیا ہوں` میری طرف دیکھتا تھا اور کہتا تھا۔ آپ کو یہ غلطی لگی ہے انجیل میں تو یہ لکھا ہے۔ میں نے اس وقت اپنے دل میں کہا کہ گو یہ ایک غلط راستہ پر ہی ہے مگر اپنے غلط مذہب سے ایسا اخلاص رکھتا ہے جو قابل رشک ہے۔ اگر وہ عیسائی ایک منسوخ اور غلط کتاب پر اتنا یقین رکھتا تھا کہ اس کے مقابلہ میں وہ کسی دلیل کو سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ تو کیا ہم سچی کتاب اپنے پاس رکھتے ہوئے یہ پسند کرسکتے ہیں کہ ہم عقلی بخشوں میں پڑے رہیں اور اس کے دلائل لوگوں کے سامنے پیش نہ کریں۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں سے بعض کی یہ حالت ہے کہ وہ سچی کتاب اپنے پاس رکھتے ہوئے عقلی بخشوں میں پڑ جاتے ہیں اور درد اور سوز کے ساتھ تبلیغ کرنے سے کتراتے ہیں۔ حالانکہ سچا دعویٰ خود اپنی ذات میں ایسا زبردست اثر رکھنے والا ہوتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی دلیل نہ ہو تو اس کا صرف تکرار ہی لوگوں پر اثر ڈالنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ تم اگر توحید کے دلائل پیش نہ کرو اور صرف اتنا ہی کہنا شروع کر دو کہ خدا ایک ہے۔ اس کی نافرمانی کرنا اور اس کے مقابلہ میں بتوں کو کھڑا کرنا اچھی بات نہیں تو گو اس دعویٰ کے ساتھ کوئی دلیل نہ ہو۔ چونکہ یہ ایک صداقت ہے اور صداقت خود اپنی ذات میں ایک شہادت رکھتی ہے۔ اس لئے یہی بات دل پر اثر کر جائے گی اور دوسرا شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔
پس بحث مباحثہ کو ترک کردو کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔ بحث مباحثہ میں انسان کبھی مذاق کر بیٹھتا ہے۔ کبھی چبھتا ہوا کوئی فقرہ کہہ دتا ہے۔ کبھی کسی بات پر اعتراض کر دیتا ہے اور اس طرح بحث مباحثہ بجائے ہدایت دینے کے دوسرے کے دل کو اور بھی زیادہ سخت کر دیتا ہے اور تمہارا اپنا ایمان بھی اس کے نتیجہ میں کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ جب تم مذاق کرتے ہو یا کوئی چبھتا ہوا فقرہ کہہ دیتے ہو تو تمہارے اپنے دل پر بھی زنگ لگ جاتا ہے اور تمہارا ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔ جب تک تم یہ تبدیلی اپنے اندر نہیں کرتے۔ اس وقت تک تم تبلیغ کے کبھی صحیح نتائج نہیں دیکھ سکتے۔ پس بحث مباحثہ کا سر کچلو اور تبلیغ کی تلوار لے کر کھڑے ہو جائو<۔۵۵
حضرت امیرالمومنین کی خفگی ایک غیراسلامی حرکت پر اورمجلس خدام الاحمدیہ کا ریزولیوشن
۲۴۔ اخاء/ اکتوبر کو مجلس خدام الاحمدیہ کے پانچویں مرکزی سالانہ اجتماع کا تیسرا دن تھا۔ اس روز حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ
مقام اجتماع )دارالشکر کے شمالی میدان( میں بارہ بج کر پانچ منٹ پر تشریف لائے اور کبڈی کا فائنل میچ شروع ہوا۔ میچ کے دوران میں بعض ناتربیت یافتہ خدام اور اطفال نے تالیاں بجائیں۔ جس پر حضور نے میچ بند کرا دیا اور فرمایا۔ چونکہ اسلامی تعلیم کے خلاف عمل کیا گیا ہے اس لئے جلسہ برخواست کیا جاتا ہے۔ یہ کہہ کر حضور اسی وقت واپس تشریف لے گئے اور ساڑھے چار بجے پیغام بھیجا کہ خدام قصر خلافت میں آجائیں تو میں ملاقات کرلوں گا۔ پانچ بجے خدام تنظیم کے ساتھ قصر خلافت میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور نے شرف مصافحہ بخشا۔ خدام پھر اپنے کیمپ میں لوٹے اور آٹھ بجے کے قریب اجتماع کی بقیہ کارروائی اختتام پذیر ہوئی۔۵۶
چونکہ یہ نازیبا اور غیر اسلامی حرکت حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کی شدید خفگی کا موجب تھی اور اس کی اولین ذمہ داری مجلس عاملہ مرکزیہ اور قائدین و زعماء مجلس پر عائد ہوتی تھی۔ اس لئے مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے فوراً ایک اجلاس خصوصی منعقد کیا جس میں حسب ذیل قرارداد پاس کی۔
>ہم میں سے بعض ناتربیت یافتہ خدام و اطفال کی طرف سے ایک آداب اسلامی کے خلاف سرزد ہونے والی حرکت کے باعث سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہم سے ناراض ہیں۔
آنحضرت~صل۱~ کے زمانہ مبارک کے تاریخی حالات سے ثابت ہے کہ جب بعض اوقات حضورﷺ~ کے بعض صحابہ کی طرف سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہوگئی جس کا نتیجہ حضور علیہ السلام کی ناراضگی ہوئی تو ان اصحاب رسول نے اس لغزش کی پاداش میں اپنے پر کوئی سزا وارد کرلی۔ جو سزا ان کی توبہ اور اصلاح کا موجب ہوئی۔ صحابہ کرامؓ کا اسوہ حسنہ ہم نوجوانان احمدیت کے لئے مشعل راہ ہے۔ چنانچہ اس اسوہ کی روشنی میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا یہ اجلاس قرار دیتا ہے کہ چونکہ اس کی اولین ذمہ داری مجلس عاملہ مرکزیہ اور قائدین و زعماء پر ہے۔ اس لئے وہ سب پانچ روزے رکھیں۔ روزہ ہر اتوار کے روز رکھا جائے۔ دیگر اراکین تین روزے رکھیں اور اس حرکت کے قصوروار خدام کے لئے یہ اضافہ ہے کہ علاوہ تین روزوں کے وہ پہلے روزہ میں اعتکاف بیٹھیں اور ہر ہفتہ کی مغرب )۳۰۔ اخاء( سے اتوار کی مغرب تک وقت مسجد میں گزاریں۔ روزوں میں سب خدام خداتعالیٰ کے حضور پوری توجہ اور الحاح کے ساتھ استغفار کریں۔ یہ اجلاس قرار دیتا ہے کہ اس ریزولیوشن کی تعمیل ہر مقام کی ہر مجلس کے ہر خادم کے لئے لازمی اور ضروری ہے اور جملہ قائدین` زعماء اور قصوروار خدام انفرادی طور پر تعمیل کے بعد دفتر مرکزیہ کو رپورٹ کریں۔
قرار پایا کہ اس قرار داد کی نقول حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز` صدر مجلس انصار اللہ اور >الفضل< کو بھجوائی جائیں<۔۵۷
چوتھا باب )فصل چہارم(
حضرت امیرالمومنینؓ کی ایک اہم نصیحت
کچھ عرصہ )خصوصاً ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کے آغاز( سے حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کی صحت بے حد دماغی کام کرنے اور دوسری علمی مصروفیات میں دن رات منہمک رہنے کی وجہ سے گرتی جارہی تھی اور حالت یہ ہوگئی تھی کہ مہینہ میں ایک دن ایسا آتا تھا جس میں حضور اپنے تئیں تندرست کہہ سکتے تھے اور پندرہ بیس دن ایسے ہوتے تھے کہ جو نیم بیماری اور نیم تندرستی کے دن کہلا سکتے تھے اور یہ علالت دراصل تفسیر کبیر جلد سوم کے زمانہ کی محنت شاقہ کا طبعی ردعمل تھی۔ جیسا کہ حضور نے ۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کے خطبہ جمعہ میں خود بتایا کہ۔
>تفسیر کبیر کا جو کام ۱۹۴۰ء میں میں نے کیا اور جس میں راتوں کو بعض اوقات تین تین چار چار بجے تک کام کرنا پڑتا۔ اس میں روزانہ ۱۷۔ ۱۸ گھنٹے کام کرنے کا عمل میری جدوجہد والی زندگی کا آخری دور ثابت ہوا اور اس کے بعد قویٰ مضمحل ہوگئے<۔۵۸
پہلے نقرس کا عارضہ تھا۔ پھر ایگزیما` کھانسی اور نزلہ کے عوارض بھی لاحق ہوگئے۔ عمر مبارک بھی چون سال تک پہنچ گئی۔ مگر احمدی دوستوں خصوصاً قادیان کے احباب کو ابھی تک یہ احساس نہ ہوسکا کہ اعلانات نکاح اور ولیمہ کی دعوتوں میں حضور کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ آخر بادل ناخواستہ حضور کو خود ہی اعلان کرنا پڑا کہ میں ایک سال تک نہ کوئی نکاح پڑھائوں گا اور نہ کسی دعوت میں شریک ہوں گا۔ مگر بعض دوستوں کی طرف سے کہا جانے لگا کہ ہم استثناء کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور اعلان کے بعد استثنیٰ کے طور پر بیس پچیس نکاح پڑھانے اور دس پندرہ دعوتوں میں شریک ہونے کی درخواستیں آگئیں اور اس طرح بعض دوستوں نے بیماری میں بھی اپنے آقا پر زائد بوجھ ڈالنے سے گریز نہیں کیا۔
ان حالات۵۹ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا کہ پوری جماعت کے سامنے صورت حال رکھ دیں۔ چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر حضور نے ۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو ایک خاص اور اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ جس میں اپنی خرابی صحت کی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ۔
>تم سے بہت زیادہ مخلص رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں گزرے ہیں اور مجھ سے بے انتہاء شان کا زیادہ آدمی ان میں موجود تھا۔ مگر ان کے اخلاص کا یہ رنگ نہ تھا اور نہ وہ لوگ آنحضرت~صل۱~ سے اس قربانی کا مطالبہ کرتے تھے جس کا مجھ سے کیا جاتا ہے۔ میں اسے اخلاص نہیں بلکہ عدم علم اور دین کی ناواقفیت سمجھتا ہوں۔ رسول کریم~صل۱~ کے پڑھے ہوئے نکاح بہت ہی محدود ہیں۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ذہنیت یہ ہورہی ہے کہ اسلام زندہ رہے یا مرے` اسلامی علوم پر کتابیں لکھی جاسکیں یا نہ لکھی جاسکیں مگر یہ ضروری ہے کہ ہمارا نکاح خلیفہ پڑھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواہ کتنا ضروری کام کیوں نہ ہو` خلیفہ کی صحت اجازت دے یا نہ دے` خرابی صحت کی وجہ سے اس کی عمر ۱۰ سال کم ہوتی ہے تو ہو جائے مگر یہ ضروری ہے کہ اسے ولیمہ کی دعوت میں آنا چاہئے۔ ایک وقت تک میں نے اس بات کو برداشت بھی کیا جبکہ میرا ایسا کرنا اسلام کی خدمت کے راستہ میں روک نہ بن سکتا تھا۔ مگر اب میری صحت ایسی نہیں رہی کہ سوائے اس کام کے جو خدمت اسلام کا میرے ذمہ ہے یا کسی ایسے کام کے جو صحت کو درست کرنے والا ہو کوئی اور کام کرسکوں۔ اگر میں ایسا کروں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ میں اس کے لئے اسلام کے کام کو قربان کروں اور اس کے لئے میں تیار نہیں ہوں۔ مجھ سے جب بھی صحت کے متعلق کوئی سوال کرتا ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ تین جواب ہی میں دے سکتا ہوں۔ یا کہوں گا اچھا ہوں یا بیمار ہوں اور یا یہ کہ نیم بیمار اور نیم تندرست ہوں۔ مگر جب میں کہتا ہوں کہ اچھا ہوں تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں جیسے چراغ سحری ٹمٹاتا ہے۔ اگر ایک دن بیچ میں حالت اچھی ہو جاتی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں کہ میں تندرست ہوگیا ہوں۔ مردہ بھی تو مرنے سے پہلے سانس لے لیتا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ اگر ایک دن طبیعت اچھی رہتی ہے تو دوسرے دن پھر خراب ہو جاتی ہے۔ مومن کا کام ہے کہ ایک دن کے لئے بھی تکلیف میں کمی ہو۔ تو کہے الحمدلل¶ہ اچھا ہوں۔ مگر حالت یہ ہے کہ ایک دوست آتے ہیں۔ پوچھتے ہیں۔ کیا حال ہے۔ میں کہہ دیتا ہوں الحمدلل¶ہ اچھا ہوں۔ تو وہ جھٹ کہہ دیں گے اچھا پھر شام کو دعوت ہمارے ہاں ہے۔ یا اگر میری حالت کچھ اچھی ہے تو میں کہتا ہوں۔ الحمدلل¶ہ پہلے سے اچھا ہوں۔ تو وہ کہیں گے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا کل تک بالکل صحت ہو جائے گی اور کل دوپہر ہمارے ہاں آپ دعوت قبول فرمائیں۔ ایک حصہ دوستوں کا بے شک ایسا ہے کہ اگر میں بیمار ہوں اور کہوں کہ بیمار ہوں تو افسردگی کا اظہار کرکے خاموش ہو جاتا ہے۔ مگر ایک حصہ تو ایسا ہے کہ جب میں کہوں` میں بیمار ہوں تو کہتے ہیں کہ کوئی ہرج نہیں ہم سواری کا انتظام کرکے لے چلیں گے اور آپ کو ہرگز کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ گویا وہ اپنی دعوت کو نماز سے بھی زیادہ ضروری سمجھتے ہیں۔ میں بعض اوقات کہتا ہوں کہ نماز تو مجھے ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے مسجد میں جاکر ادا کرنا معاف کردیا ہے مگر آپ کی دعوت معاف نہیں ہوسکتی<۔۶۰
یہ تمام تفصیلات بیان کرنے کے بعد فرمایا۔
>پس میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی اسلام کے بہت سے کام کرنے والے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بہت سے صحابہ فوت ہوچکے ہیں۔ اب بہت تھوڑے باقی ہیں اور ان میں سے بھی وہ جن کو حضور علیہ السلام کی صحبت نصیب ہوئی اور جن کو حضور علیہ السلام کی دعائوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم` حدیث اور اسلامی علوم عطا کئے وہ تو اب بہت ہی تھوڑے ہیں۔ مخالفن نے اسلام کے ہر پہلو پر اور نئے نئے رنگ میں اعتراضات کئے ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ اسلام کے تمام پہلوئوں پر نئے سرے سے روشنی ڈالی جائے۔ ورنہ خطرہ ہے کہ پھر وہی گمراہی دنیا میں نہ پھیل جائے جسے دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام دنیا میں تشریف لائے۔ پس ان کاموں سے جو دوست مجھ سے ہی کروانا ضروری سمجھتے ہیں` بہت بڑا کام باقی ہے اور شاید اس کام کا ابھی چوتھا حصہ بھی مکمل نہیں ہوا اور ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم میں سے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحبت یافتہ ہیں اور جنہوں نے حضور کی دعائوں سے حصہ وافر پایا ہے یا جن پر آپ کا علم بذریعہ الہام اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے` ان کی موجودگی میں یہ کام مکمل کرسکیں تا آئندہ صدیاں اسلام سے قریب تر ہوں` دور تر نہ ہوں۔ یہ اس کام کے کرنے کا زمانہ ہے۔ مگر موجودہ حالت یہ ہے کہ میں اس سال کا اکثر حصہ بیمار رہا ہوں اور کوئی کام نہیں کرسکا۔ لیٹے لیٹے ڈاک دیکھ لی یا بعض خطوط کے جواب نوٹ کرا دیئے تو یہ کوئی کام نہیں ہے۔ اصل کام اسلام کی اس روشنی میں توضیح و تشریح ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذریعہ نازل فرمائی اور یہ میں اس سال خطبات میں بھی بیان نہیں کرسکا۔
سال میں چھ ماہ میں بیمار رہا ہوں اور چھ ماہ نیم بیمار۔ گویا آدھا وقت تو یوں ضائع ہوگیا اور اب تو صحت بھی ایسی ہوتی ہے کہ پورا کام نہیں ہوسکتا۔ پہلے جہاں ۱۷۔ ۱۸ گھنٹے کام کرلیتا تھا۔ اب چھ سات گھنٹے بھی نہیں کرسکتا اور اس طرح سال کے تین ماہ ہی رہ جاتے ہیں اور وہ بھی نیم بیمار کے اور اس قلیل وقت میں سے بھی اگر اور ضائع ہو تو کام کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ اسلام پر ایسا دور آنے والا ہے جب اسلام کفر سے آخری ٹکر لے گا اور یہ زمانہ ان سامانوں کے جمع کرنے کا ہے جن سے عیسائیت اور دوسرے مذاہب کو پاش پاش کر دیا جائے۔ اگر یہ سامان جمع نہ ہوئے تو لڑائی کا یہ پہلو نمایاں طور پر کمزور رہ جائے گا۔ گو اللہ تعالیٰ معجزانہ فتح دے دے تو اور بات ہے۔ پس اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جس جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی جتنی جتنی سمجھ دی ہے۔ اس کے مطابق اسلامی علوم کو محفوظ کر دیا جائے۔ ورنہ جو جو لغویات اسلام کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ ان سے بہت زیادہ گمراہی پھیلنے کا اندیشہ ہے اور آنے والی نسلیں اس صداقت سے محروم رہ جائیں گی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ظاہر کی ہے۔ پس میں پھر ایک دفعہ احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اب یہ حالت ہے کہ میرا نصف سے زیادہ وقت بیماری میں ضائع ہو جاتا ہے اور جو نصف وقت رہتا ہے اس میں کمزوری کی وجہ سے زیادہ کام نہیں کرسکتا۔ اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ ان باتوں میں عقل و خرد سے کام لیں اور اسلام سے محبت کا ثبوت دیں اور میرے وقت کو خواہ مخواہ ضائع ہونے سے بچائیں۔ ورنہ یہ مت سمجھیں کہ یہ باتیں برکت دینے والی ہیں۔ ایسی باتیں برکت دینے والی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو جایا کرتی ہیں۔ یہ میرے ساتھ محبت کا اظہار نہیں بلکہ تکلیف دینے والی باتیں ہیں<۔۶۱
حضرت امیر المومنینؓ کی طرف سے سلسلہ کی تاریخ محفوظ کرنے والے تین بزرگوں کو خراج تحسین
سلسلہ احمدیہ کے پہلے مورخ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے اگر اخبار >الحکم< اور متعدد تالیفات کے ذریعہ سے تاریخ احمدیت محفوظ کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا تو حضرت
مفتی محمد صادق صاحبؓ کو اخبار >بدر< کے مدیر کی حیثیت سے اس عہد مقدس کے حالات محفوظ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ علاوہ ازیں حضرت مفتی صاحبؓ نے دسمبر ۱۹۳۶ء میں >ذکر حبیب< کے نام سے ۴۴۰ صفحات پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز کتاب شائع فرمائی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک زمانہ کے اہم واقعات درج کئے جو سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کا ذکر ہے کہ سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں یہ اطلاع پہنچی کہ کسی نوجوان سے ایک مجلس میں یہ سوال کیا گیا کہ کتاب >ذکر حبیب< کے بارہ میں اس کی کیا رائے ہے` اور حضرت مفتی صاحبؓ کو ایک مورخ کی حیثیت سے وہ کیا سمجھتا ہے؟ اس پر اس نے جواب دیا کہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ایک مورخ کی حیثیت سے سند نہیں مانتا۔ ان کا حافظہ اس قسم کا نہیں کہ کسی کے سوانح لکھنے کے وہ قابل ہوں۔۶۲
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۹۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو ایک مفصل خطبہ جمعہ میں اس حرکت پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ` حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ اور حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ کو اس عظیم خدمت پر خراج تحسین ادا کیا کہ انہوں نے سلسلہ احمدیہ کی تاریخ محفوظ کرکے جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>اس وقت صرف چند لوگ ایسے ہیں جن کے ذریعہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی باتیں مل سکتی ہیں۔ مفتی صاحبؓ ہیں۔ شیخ یعقوب علی صاحبؓ ہیں۔ بڑے بڑے تو یہی ہیں۔ جو ایڈیٹر بھی تھے اور جن کو کثرت سے آپ کی باتیں سننے کا موقع ملا۔ تیسرے پیر سراج الحق صاحب مرحومؓ تھے۔ ان کو بھی خوب باتیں یاد تھیں۔ مفتی صاحبؓ اور شیخ یعقوب علی صاحبؓ بدر اور الحکم کے ایڈیٹر تھے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان پر بعض دفعہ ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ یہ تو ہمارے لئے اس طرح ہیں جس طرح مردہ کے لئے منکر نکیر ہوتے ہیں۔ ہم یونہی بات کرتے ہیں اور یہ چھاپ دیتے ہیں اور دشمن پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے آپ ان کی بہت قدر کرتے تھے۔ مفتی صاحبؓ کو تو آپ اپنے خاص صحابہؓ میں شمار کیا کرتے تھے۔ اسی طرح شیخ یعقوب علی صاحبؓ بھی آپ کے بڑے مقرب اور پیارے تھے۔ پس ان لوگوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ غیر مستند ہیں علم تاریخ سے ناواقفی کی بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بعض اوقات انسان بات کا مطلب غلط سمجھ لیتا ہے مگر اس وجہ سے اسے غیر مستند نہیں کہا جاسکتا۔ غیر مستند اور ناقابل اعتبار اسے کہا جاتا ہے جو غلط طریق اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل اور سمجھ دی ہے۔ اگر کوئی ایسی بات کسی روایت میں ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چلن اور کیریکٹر کے خلاف ہو` آپ کی عام تعلیم کے خلاف ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ راوی کو غلطی لگی ہے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ غیر مستند ہے۔
تو انسان کو اس علم کے بارے میں جسے وہ جانتا نہیں بات کرتے وقت بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ ایسی بات کرنے والا شخص علم تاریخ سے قطعاً ناواقف ہے۔ تاریخ کا علم بڑا پیچیدہ علم ہے۔ کسی تاریخی بات کو سمجھنے کے لئے ¶اس زنجیر کو سمجھنا بھی ضروری ہوتا ہے جس سے وہ بات چلتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے علم میں دسترس رکھتا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ تاریخ کے علم کا بھی ماہر ہے۔ ایک بڑے سے بڑے فلاسفر کا ڈاکٹری کے علم میں ماہر ہونا ضروری نہیں۔ اسی طرح ایک بڑے سے بڑا ڈاکٹر لازماً فلاسفر نہیں ہوسکتا اور جس علم سے واقفیت نہ ہو اس میں دخل دینا غلط طریق ہے اور ایسی باتیں کرنا آداب کے خلاف ہے۔ میں بھی یہ مانتا ہوں کہ مفتی صاحب کی روایات میں غلطی ہوسکتی ہے اور اگر کہنے والے کے علم میں ایک بات غلط ہے تو ممکن ہے میرے نزدیک دس باتیں غلط ہوں لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کی خدمات اور اس احسان میں جو تاریخ لکھ کر انہوں نے جماعت پر کیا ہے` کوئی فرق نہیں آسکتا۔ غلطیاں شاید میں دوسروں سے زیاد جانتا ہوں۔ مگر ان کی بناء پر ان کو ناقابل اعتبار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جس طرح میں نے بتایا ہے کہ پرانے مفسرین کی کسی غلط بات کی بنیاد پر ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بعض نادان مجھ سے یہ بات سن کر کہ پرانے مفسرین نے فلاں بات لکھی ہے` کہہ دیا کرتے ہیں کہ ان تفسیروں میں کیا رکھا ہے۔ مگر میں جس سے کسی غلط بات کا علم حاصل کرکے وہ یہ الفاظ کہتے ہیں ان کے احسان کو مانتا ہوں اور میری گردن ان کے بار احسان سے اٹھ نہیں سکتی۔ اگر وہ لوگ لغوی` صرفی` نحوی بحثیں نہ کرتے اور وہ ذخائر جمع نہ کرجاتے` اگر وہ اس قدر وقت صرف نہ کرتے تو آج ان باتوں پر ہمیں وقت لگانا پڑتا۔ پھر اگر ہم ان کے ممنون نہ ہوں تو یہ غداری اور ناشکری ہوگی۔ انہوں نے قرآن کریم کی ایسی خدمت کی ہے کہ اگر وہ آج ہوتے تو بے شک وہ اس احسان کی بھی قدر کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ کیا ہے۔ مگر اس حصہ میں جو خدمت قرآن میں ان کا ہے ہم بھی ان کی شاگردی سے دریغ نہ کرتے۔
پس ہمارے نوجوانوں کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓکی عزت و احترام میں فرق نہ لانا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جو کچھ کہیں اسے مان لیں۔ میں خود بھی ہر بات کو نہیں مانتا۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ناقابل اعتبار ہیں۔ اگر کوئی بات غلط ہے تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ممکن ہے اس وقت راوی کی توجہ کسی اور طرف ہو۔ ممکن ہے۔ اس نے ساری بات سنی ہی نہ ہو۔ پھر یہ بھی ممکن ہے` ساری بات سنی تو ہو مگر غلط سمجھی ہو۔ مگر اس کی وجہ سے اسے ناقابل اعتبار نہیں کہا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں کو انبیاء کی صحبت حاصل ہوتی ہے ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ مگر وہ اتفاقی ہوتی ہے اور غلطی کے امکان کے باوجود یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں۔ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہی نہیں۔ اسے اگر کہا جائے کہ آپ کے زمانہ کی تاریخ لکھو تو وہ کیا لکھ سکتا ہے۔ وہ بھی لازماً ان لوگوں کے پاس ہی جانے پر مجبور ہوگا۔ پس کسی بات کی وجہ سے انہیں غیر مستند اور ناقابل اعتبار قرار دینا درست نہیں۔ غلطی کا ہونا اور بات ہے اور غلط کار ہونا اور بات ہے۔ ہم کسی بڑے سے بڑے موقع کے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کفر کی بات ہے مگر اس کی وجہ سے اسے کافر نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح کسی بات کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقعات اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ مصنف ناقابل اعتبار اور غیر مستند ہے<۔۶۳
افتاء کمیٹی کا قیام
اس سال کے آخر میں فقہ اسلامی کے مختلف مسائل پر غور و فکر کرنے کے لئے نظارت تعلیم و تربیت کی درخواست اور حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر >افتاء کمیٹی< کے نام سے ایک نیا ادارہ معرض وجود میں آیا۔ جس کے ابتداء میں حسب ذیل ممبران حضور کے حکم سے نامزد کئے گئے۔
۱۔
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ )مفتی سلسلہ(
۲۔
حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ
۳۔
مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری۶۴
حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ اگلے سال ۱۷۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو انتقال فرما گئے۔ جس پر حضور نے ممبران افتاء کمیٹی میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ اور مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل )جٹ( کا اضافہ فرما دیا اور کمیٹی کے صدر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور سیکرٹری مولانا ابوالعطاء صاحب مقرر کئے گئے۔۶۵
۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کا وصال ہوگیا اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے حکم سے ملک سیف الرحمن صاحب واقف زندگی تحریک جدید اس اہم منصب پر ممتاز ہوئے اور اب تک مفتی سلسلہ کے فرائض بجا لارہے ہیں۔
ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ کی رپورٹ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش میں افتاء کمیٹی کا ازسر نو قیام >مجلس افتاء< کے نام سے فرمایا۔ جس کے ابتدائی فرائض و قواعد یہ قرار پائے۔
۱۔
فتویٰ کی غرض سے دفتر افتاء میں آمدہ اہم مسائل کے بارہ میں مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو مشورہ دینا۔
۲۔
فقہ اسلامیہ کے اہم اختلافی مسائل کے متعلق آئمہ فقہ کی آراء اور ان کے دلائل سے واقفیت حاصل کرنا۔
اس سلسلہ میں ہر ممبر کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے مطالعہ کے نتائج سے اور اس بارہ میں اپنی ذاتی رائے سے دفتر افتاء کو وقتاً فوقتاً مطلع کرتا رہے۔
۳۔
سیاسی` تمدنی اور تاریخی حالات کی روشنی میں >علم الخلاف< کا مطالعہ خصوصی۔
۴۔
دفتر افتاء کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ ہر اہم فتویٰ کے متعلق مجلس کے کم از کم تین ممبران کا مشورہ حاصل کرے۔ لیکن مفتی سلسلہ اس مشورہ کو قبول کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے۔ البتہ اگر مجلس کے تمام ممبران متفق الرائے ہوں اور مفتی سلسلہ کو پھر بھی اس سے اختلاف ہو۔ تو اس صورت میں دفتر افتاء پر واجب ہوگا کہ وہ تمام حالات حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح کی خدمت اقدس میں تحریر کرکے اس کے متعلق آخری فیصلہ حاصل کرے۔۶۶
حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے مجلس افتاء کے اولین ممبر مندرجہ ذیل علماء سلسلہ کو مقرر فرمایا۔
۱۔
مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر تالیف و تصنیف۔
۲۔
مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعہ احمدیہ احمد نگر۔
۳۔
مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب واقف زندگی تحریک جدید۔
۴۔
مولوی محمد احمد صاحب ثاقب واقف زندگی تحریک جدید۔
۵۔
مولوی خورشید احمد صاحب واقف زندگی تحریک جدید۔
۶۔
مولوی محمد احمد صاحب جلیل واقف زندگی تحریک جدید۔
فرائڈ کے نظریات سے متعلق حضرت مصلح موعود کا مفصل مکتوب
اس سال پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب )گورنمنٹ کالج لاہور( نے مشہور فلاسفر اور نامور سائنسدان سگمنڈ فرائڈ۶۷]text [tag FREUD) (SIGMUND کے مخصوص نظریات کی روشنی میں بارہ سوالات حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت اقدس میں بھجوائے اور رہنمائی کی درخواست کی۔ حضور نے اس کے جواب میں ابوالمنیر نور الحق صاحب کو حسب ذیل نوٹس لکھوائے جو موصوف کو پہنچا دیئے گئے۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
مکرمی! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
آپ۶۸نے جو سوالات لکھے ہیں ان کا تو یہ مطلب ہے کہ فرائڈ کی ساری تھیوری پر بحث کی جائے اور اتنا لمبا کام خود تو میں ابھی کر ہی نہیں سکتا۔ لکھوانا بھی بڑا مشکل کام ہے کیونکہ گلے کی تکلیف ہے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ بعض مجانین کے جنون کی وجہ ان کے بعض بچپن کے دبائے ہوئے خیالات ہیں۔ میں فرضی طور پر فرائڈ کی تھیوری کو مان سکتا ہوں لیکن جہاں تک ABNORMAL کے لفظ کا تعلق ہے۔ میری سمجھ میں اس کی تھیوری نہیں آتی کیونکہ ABNORMAL کے معنے اگر تو جنون کے ہی ہیں۔ تو پھر تو یہ بات پہلی شق میں داخل ہو جاتی ہے اور اگر ABNORMAL کے معنے ذہانت اور غیر معمولی سمجھ کے ہیں تو پھر فرائڈ کی تھیوری کے معنے یہ بنتے ہیں کہ عقل مند انسان وہی ہے جو اوسط درجہ کی یا ادنیٰ درجہ کی ذہانت رکھتا ہو اور ہر وہ شخص جو ذہین یا سمجھدار ہو۔ بچپن کے کسی دبائے ہوئے جذبہ کے نتیجہ میں جنون کا شکار ہے۔ اگر یہ نتیجہ صحیح نہیں تو پھر دو قسم کے ذہنوں میں فرق کرنے کی کیا دلیل ہے۔ اگر یہ نظریہ صحیح سمجھا جائے تو انسانی ترقی کی جڑھ کاٹی جاتی ہے اور اگر یہ نظریہ صحیح ہے تو کیوں نہ ہم یہ سمجھیں کہ فرائڈ اور اس کے ساتھی درحقیقت اس قسم کے جذبات سے متاثر تھے وہ اپنی مائوں` بہنوں` بیٹیوں کے عشق میں مبتلا تھے اور چونکہ وہ اپنے جذبات کو علی الاعلان ظاہر نہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے دوسرے آدمیوں کی طرف ان جذبات کو منسوب کرکے اپنے دلی جوش کو ٹھنڈا کیا۔ یونیورسٹیاں ذہین اور ہوشیار طالب علموں کو انعام دیتی ہیں۔ گورنمنٹیں انہیں خطاب اور تمغے عطا کرتی ہیں۔ ملک اپنی عقیدت کے پھول ان پر برساتا ہے لیکن فرائڈ کی اور اس کے ساتھیوں کی تھیوری کے مطابق تو سب قابل دار ہیں۔ ہر ذہین طالب علم` ہر ہوشیار ڈاکٹر` ہر قابل پروفیسر` ہر ذہین وکیل ہر سمجھدار جرنیل` ہر عقل مند انجینئر ایک زہریلا کیڑا ہے سوسائٹی کے لئے` ملک کے لئے کیونکہ اس کی ذہانت نتیجہ ہے اس کی ماں سے عشق کا یا بیٹی سے عشق کا یا بہن سے عشق کا یا باپ اور دادا کے قتل کرنے کی دبی ہوئی خواہش کا اور صحیح اور عقل مند دنیا وہی ہے جو ادنیٰ بے کار اور ناسمجھ آدمیوں پر مشتمل ہے اور یا پھر وہ لوگ قابل دار ہیں جنہوں نے ایسے گندے اور خبیث خیال کو پھیلانے کی کوشش کی اور وہ ناپاک خواہشیں تھیں۔ ان کو مقدس وجودوں کی طرف منسوب کیا میں اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہوں کہ بعض جنونی مریض فرائڈ کی تھیوری کے ماتحت علاج کے ساتھ درست ہوگئے لیکن میں اس امر کو باور کرنے کے لئے تیار نہیں کہ یہ امر فرائڈ کی تھیوری کی سچائی کی علامت ہے۔ ایک اعصاب کے ماہر کے لئے یہ بات سمجھنی مشکل نہیں کہ اعصابی مریض قوت واہمہ کا شکار ہوتا ہے۔ ہم اس کی قوت واہمہ کو غلط خیالات سے درستی کی طرف لاکر یا صدمہ پہنچا کر ٹھیک کرسکتے ہیں۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس کے خیالات بھی ٹھیک تھے جن کی میں نے اصلاح کی ہے۔
ایک عورت جو ہسٹیریا کا شکار ہو ہم اس کو یہ خبر پہنچا کر کہ اس کا لڑکا مکان کی چھت سے گرنے والا ہے۔ اس کی مدد کرسکتے ہیں۔ اس میں کہ وہ اپنے دورے کو دبا لے لیکن کیا اس کے معنے یہ ہیں کہ کیا اس کا لڑکا بھی ضرور چھت سے گررہا تھا۔ کیا ہم ایک جھوٹ بول کر اس کو اپنے نفس پر قابو پانے کی ایک وجہ مہیا نہیں کر دیتے۔ اسی طرح ایک وہمی کے دل میں یہ شبہ پیدا کرکے کہ اس کے خیالات ایک گندے جذبہ کے نتیجے میں ہیں۔ ہم کیوں اس کے دل میں نیکی نہیں پیدا کرسکتے۔ کیونکہ سوال یہ نہیں کہ اس کی بیماری کا موجب کیا تھا۔ اس کے علاج کے لئے صرف اتنی بات اہمیت رکھتی ہے کہ ہم اس کے دل میں خیال پیدا کر دیں کہ اس کی بیماری کا موجب فلاں فلاں گندے خیالات ہیں اور چونکہ وہ اپنے نفس میں شریف ہے اس لئے وہ اپنی بیماری کو دبانے کی کوشش شروع کر دے کہ درحقیقت وہ گندے خیالات کا نتیجہ ہے۔ اس علاج سے اگر کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو یہ کہ انسانی نفس بالذات اپنے اندر شرافت کا مادہ رکھتا ہے۔ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جو گندے خیالات ہم اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ وہ بھی صحیح ہیں۔ بعض PSYCHOLOGIST کہتے ہیں کہ نبض پر ہاتھ رکھ کے اور بعض الفاظ بول کر ہم ان جذبات کو معلوم کرسکتے ہیں۔ جو اس شخص کے دماغ کے پیچھے کام کررہے ہیں اور وہ اس طرح کہ ان خیالات کے بیان کرنے پر نبض دھڑکنے لگ جاتی ہے۔ یہ بھی کوئی دلیل نہیں۔ نبض ایک غیر طبعی خیال سن کر بھی دھڑکنی شروع ہو جاتی ہے اور ایک طبعی اور صحیح جذبہ پر بھی۔ ایک شخص جس کو اپنی بیوی سے محبت ہو۔ اس کے نام کو سن کر بھی نبض دھڑک سکتی ہے۔ ایک شخص جس کو اپنی ماں یا باپ سے سچی محبت ہو۔ ان کے نام پر بھی اس کی نبض دھڑک سکتی ہے۔ نبض کے دھڑکنے سے یہ کیونکر معلوم ہوا کہ ضرور اس لفظ کے حامل کے ساتھ اس شخص کی ناجائز تعلقات وابستہ تھے۔ نبض کا دھڑکنا تو صرف جذبات کی قوت پر دلالت کرتا ہے۔ خواہ وہ مستقل ہوں یا عارضی مثلاً ایک شخص کا ایک لڑکا بیمار ہے۔ خواہ وہ لڑکا اس کو اپنے سب لڑکوں سے کم پیارا ہو مگر نیم بے ہوشی کی حالت میں اس لڑکے کے نام پر اس کی نبض دھڑکنے لگے گی۔ اس لئے نہیں کہ اس لڑکے سے اسے کوئی ناجائز محبت ہے۔ نہ اس لئے کہ اس لڑکے سے اس کو سب سے زیادہ محبت ہے بلکہ اس لئے کہ اس لڑکے کی نسبت دل میں خطرے کے خیالات پیدا تھے اور اس لڑکے کا نام طبعی طور پر اسے وہ خطرات یاد دلا دیتا ہے۔ غرض استدلال باطل ہے کہ چونکہ بعض مریضوں کی اصلاح ANALYSIS PSYCHOAN سے ہوگئی ہے۔ اس لئے ANALYSIS PSYCHOAN کی تھیوری درست ہے۔ اسی طرح یہ بات اور بھی زیادہ باطل ہے کہ ذہین اور غیر معمولی طور پر ہوشیار کے کام درحقیقت اس کے بچپن کے دبے ہوئے جذبات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ جس کے دلائل میں اوپر دے آیا ہوں۔
)۲( کہا جاتا ہے کہ گو بچہ باپ کے احسانوں تلے ہوتا ہے لیکن باپ کو ماں کے معاملے میں رقیب سمجھتا ہے اور ہر بچہ باپ کے خلاف نفرت اور انتقام کے جذبات رکھتا ہے۔ اس کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ سامعین سے پوچھا جائے کہ تم میں سے کتنے اپنے باپ سے نفرت رکھتے ہیں اور اس سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ اس کا جواب تو ہر شخص اپنے نفس میں خود ہی دے سکتا ہے اور شاید ۹۹ فیصدی آدمی یہ کہیں گے کہ فرائڈ ایک جھوٹا اور کذاب آدمی ہے۔ ایک عام باپ )ظالم باپ اور ظالم ماں مستثنیٰ ہیں لیکن وہ شاذ و نادر ہوتے ہیں( کے خلاف اگر کوئی وجہ کسی بیٹے کو کوئی ناراضگی کی ہوتی ہے تو صرف یہ کہ وہ ماں کی نسبت بیٹے کی اصلاح کی زیادہ فکر کرتا ہے۔ ماں بہت زیادہ طبعی محبت سے متاثر ہوتی ہے اور باپ کی طبعی محبت کو اس کی عقلی خواہش نے اس کی عقل سے متاثر کیا ہوتا ہے اور شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ماں کی عزت کا تسلسل اس کے بیٹے سے نہیں لیکن اس کے باپ کی عزت کا تسلسل اس کے بیٹے سے ہے۔ اسے جائز کہو یا ناجائز بیٹا باپ کے نام سے مشہور ہوتا ہے۔ ماں کے نام سے نہیں۔ پس ہوسکتا ہے کہ بیٹے کے اخلاق کی درستی کا شدید جذبہ باپ میں نہ صرف بیٹے کی اصلاح کی غرض سے بلکہ خود اپنی نیک نامی کی خواہش کے ماتحت پیدا ہوتا ہے مگر بہرحال باپ اپنے بیٹے کی اصلاح میں زیادہ تعاہد اور تقید سے کام لیتا ہے۔ نیک سمجھدار بیٹے اس کی اس خدمت کو جو بسا اوقات اپنے محبت کے جذبات کو قربان کرنے سے ادا کی جاتی ہے۔ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن بعض بدفطرت یا ناسمجھ لڑکے اسے ظلم قرار دے کر اس سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں۔ مگر یہ لڑکے تو مریض ہیں اور شاذ و نادر دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ لڑکے جو باپوں سے محبت کرنے والے ان کے فرمانبردار` ان کے مطیع بلکہ ان کے لئے جان کو قربان کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ ہیں اسی سلسلہ میں آپ نے لکھا ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کو چونکہ دادا نے پالا تھا اس لئے دشمن کے نزدیک آپ کے جذبات دادا کے مذہب کے خلاف ظاہر ہوئے۔ میں حیران ہوں کہ اس قول کے بیان کرنے والے کو پاگل کہوں` احمق کہوں` خبیث کہوں کیا کہوں۔ کیا رسول اللہ~صل۱~ کی ماں کا مذہب اور تھا کہ اس کے مقابل دادا کے مذہب کے خلاف جہاد کے جذبات آپ کے دل میں پیدا ہوئے۔ اور کیا دادا اسی مکان میں رہتے تھے۔ جہاں ان کی والدہ رہتی تھیں کہ کسی رقابت کا خیال پیدا ہوتا۔ باپ تو ماں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہے۔ رات دن کھانے پینے پہننے اور لوگوں سے برتائو کرنے اور بچے کی تربیت کے متعلق اس کا بیوی سے اختلاف ہوتا رہنا ممکن ہے لیکن دادا جو دوسرے گھر میں بستا ہے۔ جو کبھی کبھار اپنے پوتے کو کھلانے کے لئے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اس کے متعلق رقابت کے جذبات پیدا ہونے کا امکان ہو ہی کس طرح سکتا ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ وہ مذہب جو محمد رسول اللہ~صل۱~ کے دادا کا تھا۔ اور اس کی وہ جزئیات جس کے خلاف انہوں نے جہاد کیا۔ کیا وہ بری تھیں یا اچھی تھیں۔ اگر وہ بری تھیں تو کیا ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ صحیح الدماغ وہ ہوتا ہے جو بری چیزوں کو اچھا سمجھے یا یہ کہ صحیح الدماغ بری چیزوں کو برا تو سمجھتا ہے لیکن اس کے خلاف جہاد نہیں کرتا اگر کوئی شخص بری چیزوں کا مقابلہ کرتا ہے تو صرف وہی کہ جس کو اپنی ماں سے ناجائز عشق ہو۔ اس نتیجہ کے سوا اور کسی بات سے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور یہ نتیجہ صاف بتاتا ہے کہ اس اصول کا موجد خود پاگل ہے۔ یا اسی مرض کا شکار ہے جس کا الزام دوسروں پر لگاتا ہے۔ مگر جہاں تک رسول کریم~صل۱~ کی ذات کا سوال ہے۔ میں ایک اور بات بھی پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کے دادا توحید کے قائل تھے۔ مکے پر ابرھہ کے حملے کے وقت میں جو آپ نے ابرھہ سے گفتگو کی وہ آپ کے ایمان بالتوحید
‏tav.8.23
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
ترکی وفد سے متعلق وضاحتی خطبہ سے لیکچر >اسوہ حسنہ< تک
کے فرائض انجام دیئے اور دوسرے اور تیسرے لیکچر کے صدر` صدر یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر مہادیون تھے۔ لیکچروں میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں کے اساتذہ طلباء اور مدراس کے اہل علم اصحاب نیز احمدی دوست بھی شامل ہوئے اور گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔۴۸
‏0] ft[sتبلیغ اسلام کے جہاد کی خاص تحریک اور مباحثات سے ممانعت
یکم ماہ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو عیدالفطر تھی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس روز ایک نہایت ایمان افروز خطبہ ارشاد فرمایا جس میں احمدیوں کو تبلیغ اسلام میں دیوانہ وار منہمک ہو جانے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا۔
>حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جہاد کو دعوۃ و تبلیغ سے وابستہ قرار دیا ہے یعنی صرف ممانعت جہاد۴۹ کا آپ نے اعلان نہیں کیا بلکہ اس کے ساتھ ہی آپ نے اس طرف بھی توجہ دلائی ہے کہ اب اسلام کی اشاعت اور اس کی ترقی کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ لوگوں کو تبلیغ کی جائے اور انہیں اسلام کی طرف کھینچا جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی ممانعت جہاد والی نظم کے خاتمہ پر فرماتے ہیں۔ ~}~
تم میں سے جس کو دین و دیانت سے ہے پیار
اب اس کا فرض ہے کہ وہ دل کرکے استوار
لوگوں کو یہ بتائے کہ وقت مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے۵۰۔۵۱
یعنی یہ نہیں کہ میں تم کو صرف جنگ سے روکتا ہوں بلکہ اس کے ساتھ ہی تمہیں یہ بھی کہتا ہوں کہ اسلام کی فتح کا راستہ اور ہے اور اسی راستہ پر چلانے کے لئے خداتعالیٰ نے مجھ کو بھیجا ہے۔ پس میں تمہیں یہ بتاتا ہوں کہ اب تلوار کے ذریعہ تم کامیاب نہیں ہوسکتے بلکہ اگر تم دشمنوں پر فتح حاصل کرنا چاہتے ہو۔ تم اسلام کو دوسرے تمام ادیان پر غالب اور برتر کرنا چاہتے ہو تو تم میری تعلیم اور میرے لائے ہوئے براہین کو لوگوں کے سامنے پیش کرو اور پھر دیکھو کہ کس طرح اسلام دنیا پر غالب آتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جہاد کی ممانعت کے ذریعہ مسلمانوں کے دلوں میں مایوسی پیدا نہیں کی بلکہ جہاد کے غلط راستہ پر چلنے سے روک کر تبلیغ کا راستہ ان کے سامنے کھول دیا اور اس طرح ان کے دلوں میں اسلام کی فتح اور اس کی کامیابی کے متعلق ایک غیر متزلزل یقین اور ایمان پیدا کر دیا۔ آج زمانہ کے حالات نے بھی بتا دیا ہے کہ اب اسلام کے احیاء اور اس کی تبلیغ و اشاعت کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ تبلیغ سے دوسرے ادیان پر فتح پانا ہے۔ پس ہر وہ شخص جس کے دل میں دین کا درد ہے جو اپنے اندر سچا ایمان اور سچا اخلاص رکھتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ ¶مسیح آگیا ہے۔ وہ لوگوں کو یہ پیغام پہنچائے کہ اسلام کا خدا سچا خدا ہے۔ محمد رسول اللہﷺ~ اس کے سچے رسول ہیں اور قرآن اس کی سچی کتاب ہے تاکہ اگر کوئی شخص مقابلہ کرے تو وہ اسلام کے نشانات و معجزات کی تلوار سے کاٹا جائے اور فرشتوں کی کھینچی ہوئی تلوار اس کے سر پر پڑے۔ آخر ہوائی جہاز کیوں غالب آتے ہیں اسی لئے کہ وہ اوپر ہوتے ہیں اور لوگ نیچے ہوتے ہیں۔ رسول کریم~صل۱~ بھی فرماتے ہیں۔ ید العلیا خیر من ید السفلی۔ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔ ہوائی جہاز چونکہ اوپر ہوتے ہیں اور لوگ نیچے ہوتے ہیں اس لئے وہ بمباری کرکے لوگوں کو تباہ کر دیتے ہیں لیکن خداوند تعالیٰ کے فرشتے تو ہوائی جہازوں سے بھی اوپر ہوتے ہیں۔ پس جب کوئی خداتعالیٰ کے دین کا مقابلہ کرتا ہے تو آسمان کی بلندیوں سے اس پر گولے برسائے جاتے ہیں اور کسی شخص کی طاقت میں نہیں ہوتا کہ ان کا مقابلہ کرسکے کیونکہ ہوائی جہاز بھی نیچے رہ جاتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی نیچے رہ جاتے ہیں مگر فرشتے اوپر سے ان پر گولے برساتے ہیں۔
تو اللہ تعالیٰ نے موجودہ زمانہ کے حالات کے ذریعہ ہمیں بتادیا ہے کہ اسلحہ کے ذریعہ دشمنوں کا کبھی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دجالی طاقتوں کے کچلنے اور اسلام کو غالب کرنے کا ایک یہی ذریعہ ہے کہ ہر شخص تبلیغ میں منہمک ہو جائے اور لوگوں تک خدا تعالیٰ کی وہ آواز پہنچائے جو اس کے کانوں میں پڑی اور جسے قبول کرنے کی اسے سعادت حاصل ہوئی۔ یہ ایسا ذریعہ ہے کہ انسان بعض دفعہ یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ تلوار دوسرے کی بجائے وہ خود اپنے اوپر چلا رہا ہے۔ وہ تبلیغ کرتا ہے اور مہینوں نہیں سالوں تبلیغ کرتا چلا جاتا ہے مگر اس کا اثر کوئی نہیں دیکھتا لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ یہ تلوار بے حقیقت ہے یا تبلیغ اپنے اندر کوئی اثر نہیں رکھتی کیونکہ اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی نظارہ نظر آتا ہے کہ ایک مدت کے بعد جب تبلیغ کا اثر ہونے لگتا ہے تو لوگ یوں جوق در جوق حق کو قبول کرنے لگ جاتے ہیں کہ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے دریا نے بڑی تیزی سے کناروں کو گرانا شروع کر دیا ہے۔ غلطی یہ ہے کہ صحیح طور پر تبلیغ نہیں کی جاتی اور استقلال سے تبلیغ نہیں کی جاتی۔ رسول کریم~صل۱~ نے تیرہ سال تبلیغ کی مگر مکہ میں صرف اسی آدمیوں نے آپ کو قبول کیا۔ اس کے بعد آپ مدینہ تشریف لے گئے تو پانچویں سال کے آخر میں ہی قوموں کی قومیں` علاقوں کے علاقے اور قبیلوں کے قبیلے اسلام میں داخل ہونے لگ گئے اور وہ آپ کے پائوں پر عقیدت کے پھول نچھاور کرنے لگے۔ غرض اس جنگ نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ اس زمانہ میں جہاد کا۵۲ رستہ بند ہے تو تبلیغ کا رستہ پہلے سے زیادہ کھلا ہوا ہے۔ میں نے جو کہا ہے کہ اس زمانہ میں تبلیغ کا رستہ پہلے سے زیادہ کھلا ہوا ہے تو اس کی میرے پاس دلیل بھی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے واذا الجنہ ازلفت کہ آخری زمانہ میں جنت قریب کر دی جائے گی جس کے معنی یہ ہیں کہ تبلیغ کا راستہ پہلے کی نسبت زیادہ کھل جائے گا کیونکہ جنت تب ہی قریب ہوسکتی ہے جب بغیر کسی خاص مشقت کے جنت میں داخل ہونے کے سامان میسر آجائیں۔ چنانچہ موجودہ زمانہ میں ایسے ہی حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ اب لوگوں کے دل خودبخود موجودہ دینوں سے متنفر ہورہے ہیں جس طرح یورپین لوگوں کے دل ایشیائیوں کی حقارت سے پر ہیں اسی طرح ان کے دل اپنے مذہب کی تحقیر سے بھی لبریز ہیں۔ پس اگر ایک طرف وہ ہمارا مٹی کا گھر توڑنے کی فکر میں ہیں تو دوسری طرف وہ اپنے روحانی گھر کو بھی توڑ رہے ہیں۔ پس یہ کیسا ہی اچھا موقعہ ہے کہ جب وہ ہمارے مٹی کے گھر کو توڑ رہے ہوں ہم انہیں تبلیغ کے ذریعہ اپنے روحانی گھر میں لے آئیں۔ اس کے بعد خانہ واحد کا معاملہ ہوجائے گا اور ہمارا نقصان ان کا نقصان اور ہمارا فائدہ ان کا فائدہ ہو جائے گا۔ غرض یہ ایک ایسی آنکھیں کھولنے والی بات ہے کہ اگر اس کو دیکھتے ہوئے بھی کسی شخص کے دل میں تبلیغ کے متعلق بیداری پیدا نہ ہو اور وہ یہ عہد صمیم کرکے نہ اٹھے کہ میں اردگرد کے رہنے والوں کو اور اپنے ہمسائیوں کو اور جہاں جہاں میں پہنچ سکتا ہوں وہاں تک رہنے والوں کو اسلام کی تبلیغ کروں گا تو اس سے زیادہ بدقسمت انسان اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
آج اسلام کی ترقی کے لئے چاروں طرف تلوار کا راستہ بند ہے اور مسدود ہوچکا ہے۔ اسلام کی ترقی کے لئے بندوق کا راستہ بند اور مسدود ہوچکا ہے۔ اسلام کی ترقی کے لئے توپ کا راستہ بند اور مسدود ہوچکا ہے۔ اسلام کی ترقی کے لئے جہازوں اور ہوائی جہازوں کا راستہ بند اور مسدود ہوچکا ہے ایک ایک قلعہ جو محمد رسول اللہ~صل۱~ کے صحابہؓ نے اپنے خون کو بہا کر قائم کیا تھا آج مسمار ہوتا نظر آرہا ہے اور تلواروں` بندوقوں` توپوں اور ہوائی جہازوں سے ان قلعوں کو محفوظ رکھنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ لیکن اسی دنیا کے پردے پر ایک احمدیہ جماعت ایسی ہے جو اپنے دل میں یقین اور ایمان رکھتی ہے کہ توپوں کے ذریعہ سے نہیں` تلواروں کے ذریعہ سے نہیں` بندوقوں کے ذریعہ سے نہیں` ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے نہیں بلکہ تبلیغ اور تعلیم اور وعظ و نصیحت کے ذریعہ سے پھر دوبارہ ان گرتے ہوئے قلعوں کی تعمیر کی جائے گی۔ پھر دوبارہ اسلام کے احیاء کی کوشش کی جائے گی۔ پھر دوبارہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے جھنڈے کو کسی چوٹی پر نہیں` کسی پہاڑ پر نہیں` کسی قلعہ پر نہیں بلکہ دنیا کے قلوب پر گاڑا جائے گا۔ اور اس میں کیا شبہ ہے کہ دلوں پر گاڑا ہوا جھنڈا اس جھنڈے سے بہت زیادہ بلند اور بہت زیادہ مضبوط اور بہت زیادہ پائیدار ہوتا ہے` جسے کسی پہاڑ کی چوٹی یا قلعہ پر گاڑ دیا جائے۔
پس آج اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ تبلیغ میں لگ جائے۔ اور غیر احمدیوں کو بھی تلقین کرے کہ وہ دوسرے مذاہب والوں کو تبلیغ کیا کریں کیونکہ گو احمدیت اور عام مسلمانوں کے عقائد میں بہت بڑا فرق ہے۔ مگر پھر بھی مشترکہ مسائل ایسے ہیں جن میں ہمارا اور ان کا یکساں عقیدہ ہے۔ پس اگر غیر احمدی بھی تبلیغ کرنے لگ جائیں اور وہ غیر مذاہب والوں کو داخل اسلام کریں تو گو وہ حقیقی اسلام سے پھر بھی دور ہوں گے مگر ہمارے نقطہ نگاہ سے وہ پہلے کی نسبت اسلام سے بہت زیادہ قریب ہو جائیں گے۔ آخر ہر جگہ ہم ہندوئوں میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ہر جگہ ہم سکھوں میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ہر جگہ ہم جینیوں میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ہر جگہ ہم زرتشتیوں میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ ہر جگہ ہم بدھوں میں تبلیغ نہیں کرسکتے۔ بلکہ سینکڑوں ایسے مقامات ہیں جہاں ایک بھی احمدی نہیں۔ پس اگر ہم ہی تبلیغ کریں تو ایک وسیع میدان تبلیغ سے خالی پڑا رہے گا لیکن اگر ہم ہر غیراحمدی کو سمجھانے کی کوشش کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جب جہاد۵۳ سے منع کیا تھا تو اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم اپنے ہاتھ پائوں توڑ کر بیٹھ جائو اور اسلام کی ترقی کے لئے کوئی کوشش نہ کرو بلکہ اس کا مطلب یہ تھا کہ محمد~صل۱~ کے لائے ہوئے دین کو بجائے تلوار کے ذریعہ پھیلانے کے دلائل و براہین اور تبلیغ کے ذریعہ پھیلائو اور اس لحاظ سے اب تمہارا بھی فرض ہے کہ تم یہی ہتھیار لے کر گھر سے نکلو اور ہر غیر مسلم کو تبلیغ کے ذریعہ اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کرو تو اس کے بعد جو لوگ ان غیر احمدیوں کے ذریعہ اسلام میں داخل ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ حقیقی اسلام کے پہلے کی نسبت بہت زیادہ قریب ہو جائیں گے۔ پس صرف خود ہی تبلیغ نہ کرو بلکہ ہر غیر احمدی کو جو تمہیں ملتا ہے` سمجھائو اور اسے بتائو کہ آج اسلام کی ترقی کا صرف یہی ایک حربہ رہ گیا ہے اس کے سوا اور کوئی ذریعہ اسلام کی ترقی کا نہیں۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا کہ تم میں سے جسے دین سے پیار ہے جسے دیانت سے پیار ہے جس کے اندر نور ایمان اور نور اخلاص پایا جاتا ہے اب اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے دل کو استوار کرکے ~}~
لوگوں کو یہ بتائے کہ وقت مسیح ہے
اب جنگ اور جہاد حرام اور قبیح ہے
اب اس کا یہی فرض ہے کہ وہ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کر دے اور لوگوں کو بتائے کہ یہ وقت مسیح ہے۔ جنگ و جدل کا زمانہ گزر گیا۔ اب تلوار کا زمانہ نہیں بلکہ تبلیغ کا زمانہ ہے پس ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ دن کو بھی تبلیغ کرے اور رات کو بھی تبلیغ کرے۔ صبح کو بھی تبلیغ کرے اور شام کو بھی تبلیغ کرے اور جب عملی رنگ` میں تبلیغ نہ کررہا ہو تو دماغی رنگ میں تبلیغ کے ذرائع پر غور کرتا رہے۔ گویا اس کا کوئی وقت تبلیغ سے فارغ نہ ہو اور وہ رات اور دن اسی کام میں مصروف رہے<۔۵۴
اس ارشاد کے ساتھ ہی حضور نے بحث و مباحثہ کو پوری قوت سے کچل ڈالنے کی بھی ہدایت کی۔ چنانچہ فرمایا۔
>یاد رکھو۔ تبلیغ وہی ہے جو حقیقی معنوں میں تبلیغ ہو۔ بحث مباحثہ کا نام تبلیغ نہیں۔ میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح تم اس سانپ کے مارنے کی فکر میں لگ جاتے ہو۔ جو تمہارے گھر میں نکلے۔ اسی طرح اگر تمہارے دلوں میں نور ایمان پایا جاتا ہے تو تم بحث مباحثہ کو اس طرح کچل دو۔ جس طرح سانپ کا سر کچلا جاتا ہے۔ جب تک تم میں بحث و مباحثہ رہے گا۔ اس وقت تک تمہاری تبلیغ بالکل محدود رہے گی اور تمہارا مشن ناکام رہے گا۔ اگر تم اپنی تبلیغ کو وسیع کرنا چاہتے ہو۔ اگر تم اپنے مشن میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو تم بحث مباحثہ کو ترک کردو۔ جس دن تبلیغ کے لئے صحیح معنوں میں نکلو گے اور اپنے دلوں میں لوگوں کے لئے درد اور سوز بھر کر ان تک پہنچو گے وہی دن تمہاری کامیابی کا دن ہوگا اور اسی دن تم صحیح معنوں میں تبلیغ کرنے والے قرار پاسکو گے۔ تمہارا کام یہ ہے کہ تمہارے سامنے خداتعالیٰ نے جو راستہ کھولا ہے اس پر چل پڑو اور اپنے دائیں بائیں مت دیکھو کہ مومن جب ایک صحیح راستہ پر چل پڑتا ہے تو اپنے ایمان اور اخلاص کے لحاظ سے وہ کسی اور طرف دیکھنے سے اندھا ہو جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میرا کام یہی ہے کہ میں اس راستہ پر چلتا چلا جائوں اور درمیان میں آنے والی کسی روک کی پروا نہ کروں۔ وہ بہادر اور نڈر ہوکر سچائی دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور بحث مباحثہ کو ترک کر دیتا ہے۔
میرے پاس ایک دفعہ ایک انگریز آیا اور مجھے کہنے لگا۔ آپ کس طرح کہتے ہیں کہ اسلام سچا مذہب ہے۔ میں نے اسے اسلام کی سچائی کے متعلق کئی دلائل بتائے۔ مگر ہر دلیل جب میں پیش کرتا وہ اس کے مقابلہ میں انجیل کی کوئی آیت پڑھ دیتا اور کہتا۔ آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ انجیل میں تو یہ لکھا ہے۔ میں نے اسے کئی دلائل دیئے۔ مگر جب بھی کوئی دلیل دوں وہ ایسے رحم کے ساتھ کہ گویا میں پاگل ہوگیا ہوں` میری طرف دیکھتا تھا اور کہتا تھا۔ آپ کو یہ غلطی لگی ہے انجیل میں تو یہ لکھا ہے۔ میں نے اس وقت اپنے دل میں کہا کہ گو یہ ایک غلط راستہ پر ہی ہے مگر اپنے غلط مذہب سے ایسا اخلاص رکھتا ہے جو قابل رشک ہے۔ اگر وہ عیسائی ایک منسوخ اور غلط کتاب پر اتنا یقین رکھتا تھا کہ اس کے مقابلہ میں وہ کسی دلیل کو سننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ تو کیا ہم سچی کتاب اپنے پاس رکھتے ہوئے یہ پسند کرسکتے ہیں کہ ہم عقلی بخشوں میں پڑے رہیں اور اس کے دلائل لوگوں کے سامنے پیش نہ کریں۔ لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم میں سے بعض کی یہ حالت ہے کہ وہ سچی کتاب اپنے پاس رکھتے ہوئے عقلی بخشوں میں پڑ جاتے ہیں اور درد اور سوز کے ساتھ تبلیغ کرنے سے کتراتے ہیں۔ حالانکہ سچا دعویٰ خود اپنی ذات میں ایسا زبردست اثر رکھنے والا ہوتا ہے کہ اگر اس کے ساتھ کوئی دلیل نہ ہو تو اس کا صرف تکرار ہی لوگوں پر اثر ڈالنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ تم اگر توحید کے دلائل پیش نہ کرو اور صرف اتنا ہی کہنا شروع کر دو کہ خدا ایک ہے۔ اس کی نافرمانی کرنا اور اس کے مقابلہ میں بتوں کو کھڑا کرنا اچھی بات نہیں تو گو اس دعویٰ کے ساتھ کوئی دلیل نہ ہو۔ چونکہ یہ ایک صداقت ہے اور صداقت خود اپنی ذات میں ایک شہادت رکھتی ہے۔ اس لئے یہی بات دل پر اثر کر جائے گی اور دوسرا شخص متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گا۔
پس بحث مباحثہ کو ترک کردو کہ اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلتا۔ بحث مباحثہ میں انسان کبھی مذاق کر بیٹھتا ہے۔ کبھی چبھتا ہوا کوئی فقرہ کہہ دتا ہے۔ کبھی کسی بات پر اعتراض کر دیتا ہے اور اس طرح بحث مباحثہ بجائے ہدایت دینے کے دوسرے کے دل کو اور بھی زیادہ سخت کر دیتا ہے اور تمہارا اپنا ایمان بھی اس کے نتیجہ میں کمزور ہو جاتا ہے کیونکہ جب تم مذاق کرتے ہو یا کوئی چبھتا ہوا فقرہ کہہ دیتے ہو تو تمہارے اپنے دل پر بھی زنگ لگ جاتا ہے اور تمہارا ایمان کمزور ہو جاتا ہے۔ جب تک تم یہ تبدیلی اپنے اندر نہیں کرتے۔ اس وقت تک تم تبلیغ کے کبھی صحیح نتائج نہیں دیکھ سکتے۔ پس بحث مباحثہ کا سر کچلو اور تبلیغ کی تلوار لے کر کھڑے ہو جائو<۔۵۵
حضرت امیرالمومنین کی خفگی ایک غیراسلامی حرکت پر اورمجلس خدام الاحمدیہ کا ریزولیوشن
۲۴۔ اخاء/ اکتوبر کو مجلس خدام الاحمدیہ کے پانچویں مرکزی سالانہ اجتماع کا تیسرا دن تھا۔ اس روز حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ
مقام اجتماع )دارالشکر کے شمالی میدان( میں بارہ بج کر پانچ منٹ پر تشریف لائے اور کبڈی کا فائنل میچ شروع ہوا۔ میچ کے دوران میں بعض ناتربیت یافتہ خدام اور اطفال نے تالیاں بجائیں۔ جس پر حضور نے میچ بند کرا دیا اور فرمایا۔ چونکہ اسلامی تعلیم کے خلاف عمل کیا گیا ہے اس لئے جلسہ برخواست کیا جاتا ہے۔ یہ کہہ کر حضور اسی وقت واپس تشریف لے گئے اور ساڑھے چار بجے پیغام بھیجا کہ خدام قصر خلافت میں آجائیں تو میں ملاقات کرلوں گا۔ پانچ بجے خدام تنظیم کے ساتھ قصر خلافت میں حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضور نے شرف مصافحہ بخشا۔ خدام پھر اپنے کیمپ میں لوٹے اور آٹھ بجے کے قریب اجتماع کی بقیہ کارروائی اختتام پذیر ہوئی۔۵۶
چونکہ یہ نازیبا اور غیر اسلامی حرکت حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کی شدید خفگی کا موجب تھی اور اس کی اولین ذمہ داری مجلس عاملہ مرکزیہ اور قائدین و زعماء مجلس پر عائد ہوتی تھی۔ اس لئے مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے فوراً ایک اجلاس خصوصی منعقد کیا جس میں حسب ذیل قرارداد پاس کی۔
>ہم میں سے بعض ناتربیت یافتہ خدام و اطفال کی طرف سے ایک آداب اسلامی کے خلاف سرزد ہونے والی حرکت کے باعث سیدنا حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہم سے ناراض ہیں۔
آنحضرت~صل۱~ کے زمانہ مبارک کے تاریخی حالات سے ثابت ہے کہ جب بعض اوقات حضورﷺ~ کے بعض صحابہ کی طرف سے کوئی ایسی غلطی سرزد ہوگئی جس کا نتیجہ حضور علیہ السلام کی ناراضگی ہوئی تو ان اصحاب رسول نے اس لغزش کی پاداش میں اپنے پر کوئی سزا وارد کرلی۔ جو سزا ان کی توبہ اور اصلاح کا موجب ہوئی۔ صحابہ کرامؓ کا اسوہ حسنہ ہم نوجوانان احمدیت کے لئے مشعل راہ ہے۔ چنانچہ اس اسوہ کی روشنی میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کا یہ اجلاس قرار دیتا ہے کہ چونکہ اس کی اولین ذمہ داری مجلس عاملہ مرکزیہ اور قائدین و زعماء پر ہے۔ اس لئے وہ سب پانچ روزے رکھیں۔ روزہ ہر اتوار کے روز رکھا جائے۔ دیگر اراکین تین روزے رکھیں اور اس حرکت کے قصوروار خدام کے لئے یہ اضافہ ہے کہ علاوہ تین روزوں کے وہ پہلے روزہ میں اعتکاف بیٹھیں اور ہر ہفتہ کی مغرب )۳۰۔ اخاء( سے اتوار کی مغرب تک وقت مسجد میں گزاریں۔ روزوں میں سب خدام خداتعالیٰ کے حضور پوری توجہ اور الحاح کے ساتھ استغفار کریں۔ یہ اجلاس قرار دیتا ہے کہ اس ریزولیوشن کی تعمیل ہر مقام کی ہر مجلس کے ہر خادم کے لئے لازمی اور ضروری ہے اور جملہ قائدین` زعماء اور قصوروار خدام انفرادی طور پر تعمیل کے بعد دفتر مرکزیہ کو رپورٹ کریں۔
قرار پایا کہ اس قرار داد کی نقول حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ بنصرہ العزیز` صدر مجلس انصار اللہ اور >الفضل< کو بھجوائی جائیں<۔۵۷
چوتھا باب )فصل چہارم(
حضرت امیرالمومنینؓ کی ایک اہم نصیحت
کچھ عرصہ )خصوصاً ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کے آغاز( سے حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کی صحت بے حد دماغی کام کرنے اور دوسری علمی مصروفیات میں دن رات منہمک رہنے کی وجہ سے گرتی جارہی تھی اور حالت یہ ہوگئی تھی کہ مہینہ میں ایک دن ایسا آتا تھا جس میں حضور اپنے تئیں تندرست کہہ سکتے تھے اور پندرہ بیس دن ایسے ہوتے تھے کہ جو نیم بیماری اور نیم تندرستی کے دن کہلا سکتے تھے اور یہ علالت دراصل تفسیر کبیر جلد سوم کے زمانہ کی محنت شاقہ کا طبعی ردعمل تھی۔ جیسا کہ حضور نے ۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کے خطبہ جمعہ میں خود بتایا کہ۔
>تفسیر کبیر کا جو کام ۱۹۴۰ء میں میں نے کیا اور جس میں راتوں کو بعض اوقات تین تین چار چار بجے تک کام کرنا پڑتا۔ اس میں روزانہ ۱۷۔ ۱۸ گھنٹے کام کرنے کا عمل میری جدوجہد والی زندگی کا آخری دور ثابت ہوا اور اس کے بعد قویٰ مضمحل ہوگئے<۔۵۸
پہلے نقرس کا عارضہ تھا۔ پھر ایگزیما` کھانسی اور نزلہ کے عوارض بھی لاحق ہوگئے۔ عمر مبارک بھی چون سال تک پہنچ گئی۔ مگر احمدی دوستوں خصوصاً قادیان کے احباب کو ابھی تک یہ احساس نہ ہوسکا کہ اعلانات نکاح اور ولیمہ کی دعوتوں میں حضور کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ آخر بادل ناخواستہ حضور کو خود ہی اعلان کرنا پڑا کہ میں ایک سال تک نہ کوئی نکاح پڑھائوں گا اور نہ کسی دعوت میں شریک ہوں گا۔ مگر بعض دوستوں کی طرف سے کہا جانے لگا کہ ہم استثناء کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں اور اعلان کے بعد استثنیٰ کے طور پر بیس پچیس نکاح پڑھانے اور دس پندرہ دعوتوں میں شریک ہونے کی درخواستیں آگئیں اور اس طرح بعض دوستوں نے بیماری میں بھی اپنے آقا پر زائد بوجھ ڈالنے سے گریز نہیں کیا۔
ان حالات۵۹ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہ رہا کہ پوری جماعت کے سامنے صورت حال رکھ دیں۔ چنانچہ اسی مقصد کے پیش نظر حضور نے ۵۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو ایک خاص اور اہم خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ جس میں اپنی خرابی صحت کی کیفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ۔
>تم سے بہت زیادہ مخلص رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں گزرے ہیں اور مجھ سے بے انتہاء شان کا زیادہ آدمی ان میں موجود تھا۔ مگر ان کے اخلاص کا یہ رنگ نہ تھا اور نہ وہ لوگ آنحضرت~صل۱~ سے اس قربانی کا مطالبہ کرتے تھے جس کا مجھ سے کیا جاتا ہے۔ میں اسے اخلاص نہیں بلکہ عدم علم اور دین کی ناواقفیت سمجھتا ہوں۔ رسول کریم~صل۱~ کے پڑھے ہوئے نکاح بہت ہی محدود ہیں۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ذہنیت یہ ہورہی ہے کہ اسلام زندہ رہے یا مرے` اسلامی علوم پر کتابیں لکھی جاسکیں یا نہ لکھی جاسکیں مگر یہ ضروری ہے کہ ہمارا نکاح خلیفہ پڑھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خواہ کتنا ضروری کام کیوں نہ ہو` خلیفہ کی صحت اجازت دے یا نہ دے` خرابی صحت کی وجہ سے اس کی عمر ۱۰ سال کم ہوتی ہے تو ہو جائے مگر یہ ضروری ہے کہ اسے ولیمہ کی دعوت میں آنا چاہئے۔ ایک وقت تک میں نے اس بات کو برداشت بھی کیا جبکہ میرا ایسا کرنا اسلام کی خدمت کے راستہ میں روک نہ بن سکتا تھا۔ مگر اب میری صحت ایسی نہیں رہی کہ سوائے اس کام کے جو خدمت اسلام کا میرے ذمہ ہے یا کسی ایسے کام کے جو صحت کو درست کرنے والا ہو کوئی اور کام کرسکوں۔ اگر میں ایسا کروں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ میں اس کے لئے اسلام کے کام کو قربان کروں اور اس کے لئے میں تیار نہیں ہوں۔ مجھ سے جب بھی صحت کے متعلق کوئی سوال کرتا ہے تو ۔۔۔۔۔۔۔۔ تین جواب ہی میں دے سکتا ہوں۔ یا کہوں گا اچھا ہوں یا بیمار ہوں اور یا یہ کہ نیم بیمار اور نیم تندرست ہوں۔ مگر جب میں کہتا ہوں کہ اچھا ہوں تو اس کے معنے یہی ہوتے ہیں جیسے چراغ سحری ٹمٹاتا ہے۔ اگر ایک دن بیچ میں حالت اچھی ہو جاتی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں کہ میں تندرست ہوگیا ہوں۔ مردہ بھی تو مرنے سے پہلے سانس لے لیتا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ اگر ایک دن طبیعت اچھی رہتی ہے تو دوسرے دن پھر خراب ہو جاتی ہے۔ مومن کا کام ہے کہ ایک دن کے لئے بھی تکلیف میں کمی ہو۔ تو کہے الحمدلل¶ہ اچھا ہوں۔ مگر حالت یہ ہے کہ ایک دوست آتے ہیں۔ پوچھتے ہیں۔ کیا حال ہے۔ میں کہہ دیتا ہوں الحمدلل¶ہ اچھا ہوں۔ تو وہ جھٹ کہہ دیں گے اچھا پھر شام کو دعوت ہمارے ہاں ہے۔ یا اگر میری حالت کچھ اچھی ہے تو میں کہتا ہوں۔ الحمدلل¶ہ پہلے سے اچھا ہوں۔ تو وہ کہیں گے۔ اللہ تعالیٰ فضل کرے گا کل تک بالکل صحت ہو جائے گی اور کل دوپہر ہمارے ہاں آپ دعوت قبول فرمائیں۔ ایک حصہ دوستوں کا بے شک ایسا ہے کہ اگر میں بیمار ہوں اور کہوں کہ بیمار ہوں تو افسردگی کا اظہار کرکے خاموش ہو جاتا ہے۔ مگر ایک حصہ تو ایسا ہے کہ جب میں کہوں` میں بیمار ہوں تو کہتے ہیں کہ کوئی ہرج نہیں ہم سواری کا انتظام کرکے لے چلیں گے اور آپ کو ہرگز کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ گویا وہ اپنی دعوت کو نماز سے بھی زیادہ ضروری سمجھتے ہیں۔ میں بعض اوقات کہتا ہوں کہ نماز تو مجھے ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ نے مسجد میں جاکر ادا کرنا معاف کردیا ہے مگر آپ کی دعوت معاف نہیں ہوسکتی<۔۶۰
یہ تمام تفصیلات بیان کرنے کے بعد فرمایا۔
>پس میں جماعت کے دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی اسلام کے بہت سے کام کرنے والے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بہت سے صحابہ فوت ہوچکے ہیں۔ اب بہت تھوڑے باقی ہیں اور ان میں سے بھی وہ جن کو حضور علیہ السلام کی صحبت نصیب ہوئی اور جن کو حضور علیہ السلام کی دعائوں کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم` حدیث اور اسلامی علوم عطا کئے وہ تو اب بہت ہی تھوڑے ہیں۔ مخالفن نے اسلام کے ہر پہلو پر اور نئے نئے رنگ میں اعتراضات کئے ہیں۔ اس لئے ضرورت ہے کہ اسلام کے تمام پہلوئوں پر نئے سرے سے روشنی ڈالی جائے۔ ورنہ خطرہ ہے کہ پھر وہی گمراہی دنیا میں نہ پھیل جائے جسے دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام دنیا میں تشریف لائے۔ پس ان کاموں سے جو دوست مجھ سے ہی کروانا ضروری سمجھتے ہیں` بہت بڑا کام باقی ہے اور شاید اس کام کا ابھی چوتھا حصہ بھی مکمل نہیں ہوا اور ضرورت ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم میں سے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے صحبت یافتہ ہیں اور جنہوں نے حضور کی دعائوں سے حصہ وافر پایا ہے یا جن پر آپ کا علم بذریعہ الہام اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے` ان کی موجودگی میں یہ کام مکمل کرسکیں تا آئندہ صدیاں اسلام سے قریب تر ہوں` دور تر نہ ہوں۔ یہ اس کام کے کرنے کا زمانہ ہے۔ مگر موجودہ حالت یہ ہے کہ میں اس سال کا اکثر حصہ بیمار رہا ہوں اور کوئی کام نہیں کرسکا۔ لیٹے لیٹے ڈاک دیکھ لی یا بعض خطوط کے جواب نوٹ کرا دیئے تو یہ کوئی کام نہیں ہے۔ اصل کام اسلام کی اس روشنی میں توضیح و تشریح ہے۔ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذریعہ نازل فرمائی اور یہ میں اس سال خطبات میں بھی بیان نہیں کرسکا۔
سال میں چھ ماہ میں بیمار رہا ہوں اور چھ ماہ نیم بیمار۔ گویا آدھا وقت تو یوں ضائع ہوگیا اور اب تو صحت بھی ایسی ہوتی ہے کہ پورا کام نہیں ہوسکتا۔ پہلے جہاں ۱۷۔ ۱۸ گھنٹے کام کرلیتا تھا۔ اب چھ سات گھنٹے بھی نہیں کرسکتا اور اس طرح سال کے تین ماہ ہی رہ جاتے ہیں اور وہ بھی نیم بیمار کے اور اس قلیل وقت میں سے بھی اگر اور ضائع ہو تو کام کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔ اچھی طرح یاد رکھو کہ اسلام پر ایسا دور آنے والا ہے جب اسلام کفر سے آخری ٹکر لے گا اور یہ زمانہ ان سامانوں کے جمع کرنے کا ہے جن سے عیسائیت اور دوسرے مذاہب کو پاش پاش کر دیا جائے۔ اگر یہ سامان جمع نہ ہوئے تو لڑائی کا یہ پہلو نمایاں طور پر کمزور رہ جائے گا۔ گو اللہ تعالیٰ معجزانہ فتح دے دے تو اور بات ہے۔ پس اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ جس جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام کی جتنی جتنی سمجھ دی ہے۔ اس کے مطابق اسلامی علوم کو محفوظ کر دیا جائے۔ ورنہ جو جو لغویات اسلام کی طرف منسوب کی گئی ہیں۔ ان سے بہت زیادہ گمراہی پھیلنے کا اندیشہ ہے اور آنے والی نسلیں اس صداقت سے محروم رہ جائیں گی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ظاہر کی ہے۔ پس میں پھر ایک دفعہ احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اب یہ حالت ہے کہ میرا نصف سے زیادہ وقت بیماری میں ضائع ہو جاتا ہے اور جو نصف وقت رہتا ہے اس میں کمزوری کی وجہ سے زیادہ کام نہیں کرسکتا۔ اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ ان باتوں میں عقل و خرد سے کام لیں اور اسلام سے محبت کا ثبوت دیں اور میرے وقت کو خواہ مخواہ ضائع ہونے سے بچائیں۔ ورنہ یہ مت سمجھیں کہ یہ باتیں برکت دینے والی ہیں۔ ایسی باتیں برکت دینے والی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہو جایا کرتی ہیں۔ یہ میرے ساتھ محبت کا اظہار نہیں بلکہ تکلیف دینے والی باتیں ہیں<۔۶۱
حضرت امیر المومنینؓ کی طرف سے سلسلہ کی تاریخ محفوظ کرنے والے تین بزرگوں کو خراج تحسین
سلسلہ احمدیہ کے پہلے مورخ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ نے اگر اخبار >الحکم< اور متعدد تالیفات کے ذریعہ سے تاریخ احمدیت محفوظ کرنے کا عظیم کارنامہ انجام دیا تو حضرت
مفتی محمد صادق صاحبؓ کو اخبار >بدر< کے مدیر کی حیثیت سے اس عہد مقدس کے حالات محفوظ کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ علاوہ ازیں حضرت مفتی صاحبؓ نے دسمبر ۱۹۳۶ء میں >ذکر حبیب< کے نام سے ۴۴۰ صفحات پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز کتاب شائع فرمائی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک زمانہ کے اہم واقعات درج کئے جو سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کا ذکر ہے کہ سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں یہ اطلاع پہنچی کہ کسی نوجوان سے ایک مجلس میں یہ سوال کیا گیا کہ کتاب >ذکر حبیب< کے بارہ میں اس کی کیا رائے ہے` اور حضرت مفتی صاحبؓ کو ایک مورخ کی حیثیت سے وہ کیا سمجھتا ہے؟ اس پر اس نے جواب دیا کہ میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو ایک مورخ کی حیثیت سے سند نہیں مانتا۔ ان کا حافظہ اس قسم کا نہیں کہ کسی کے سوانح لکھنے کے وہ قابل ہوں۔۶۲
حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے ۱۹۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو ایک مفصل خطبہ جمعہ میں اس حرکت پر سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ` حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ اور حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ کو اس عظیم خدمت پر خراج تحسین ادا کیا کہ انہوں نے سلسلہ احمدیہ کی تاریخ محفوظ کرکے جماعت احمدیہ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>اس وقت صرف چند لوگ ایسے ہیں جن کے ذریعہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی باتیں مل سکتی ہیں۔ مفتی صاحبؓ ہیں۔ شیخ یعقوب علی صاحبؓ ہیں۔ بڑے بڑے تو یہی ہیں۔ جو ایڈیٹر بھی تھے اور جن کو کثرت سے آپ کی باتیں سننے کا موقع ملا۔ تیسرے پیر سراج الحق صاحب مرحومؓ تھے۔ ان کو بھی خوب باتیں یاد تھیں۔ مفتی صاحبؓ اور شیخ یعقوب علی صاحبؓ بدر اور الحکم کے ایڈیٹر تھے اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان پر بعض دفعہ ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا کرتے تھے۔ آپ فرماتے تھے کہ یہ تو ہمارے لئے اس طرح ہیں جس طرح مردہ کے لئے منکر نکیر ہوتے ہیں۔ ہم یونہی بات کرتے ہیں اور یہ چھاپ دیتے ہیں اور دشمن پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ مگر باوجود اس کے آپ ان کی بہت قدر کرتے تھے۔ مفتی صاحبؓ کو تو آپ اپنے خاص صحابہؓ میں شمار کیا کرتے تھے۔ اسی طرح شیخ یعقوب علی صاحبؓ بھی آپ کے بڑے مقرب اور پیارے تھے۔ پس ان لوگوں کے متعلق یہ کہنا کہ یہ غیر مستند ہیں علم تاریخ سے ناواقفی کی بات ہے ۔۔۔۔۔۔۔ بعض اوقات انسان بات کا مطلب غلط سمجھ لیتا ہے مگر اس وجہ سے اسے غیر مستند نہیں کہا جاسکتا۔ غیر مستند اور ناقابل اعتبار اسے کہا جاتا ہے جو غلط طریق اختیار کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عقل اور سمجھ دی ہے۔ اگر کوئی ایسی بات کسی روایت میں ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چلن اور کیریکٹر کے خلاف ہو` آپ کی عام تعلیم کے خلاف ہو تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ راوی کو غلطی لگی ہے۔ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ غیر مستند ہے۔
تو انسان کو اس علم کے بارے میں جسے وہ جانتا نہیں بات کرتے وقت بہت احتیاط کرنی چاہئے۔ ایسی بات کرنے والا شخص علم تاریخ سے قطعاً ناواقف ہے۔ تاریخ کا علم بڑا پیچیدہ علم ہے۔ کسی تاریخی بات کو سمجھنے کے لئے ¶اس زنجیر کو سمجھنا بھی ضروری ہوتا ہے جس سے وہ بات چلتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی دوسرے علم میں دسترس رکھتا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ تاریخ کے علم کا بھی ماہر ہے۔ ایک بڑے سے بڑے فلاسفر کا ڈاکٹری کے علم میں ماہر ہونا ضروری نہیں۔ اسی طرح ایک بڑے سے بڑا ڈاکٹر لازماً فلاسفر نہیں ہوسکتا اور جس علم سے واقفیت نہ ہو اس میں دخل دینا غلط طریق ہے اور ایسی باتیں کرنا آداب کے خلاف ہے۔ میں بھی یہ مانتا ہوں کہ مفتی صاحب کی روایات میں غلطی ہوسکتی ہے اور اگر کہنے والے کے علم میں ایک بات غلط ہے تو ممکن ہے میرے نزدیک دس باتیں غلط ہوں لیکن اس کے باوجود ان لوگوں کی خدمات اور اس احسان میں جو تاریخ لکھ کر انہوں نے جماعت پر کیا ہے` کوئی فرق نہیں آسکتا۔ غلطیاں شاید میں دوسروں سے زیاد جانتا ہوں۔ مگر ان کی بناء پر ان کو ناقابل اعتبار قرار نہیں دیا جاسکتا۔ جس طرح میں نے بتایا ہے کہ پرانے مفسرین کی کسی غلط بات کی بنیاد پر ان کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ بعض نادان مجھ سے یہ بات سن کر کہ پرانے مفسرین نے فلاں بات لکھی ہے` کہہ دیا کرتے ہیں کہ ان تفسیروں میں کیا رکھا ہے۔ مگر میں جس سے کسی غلط بات کا علم حاصل کرکے وہ یہ الفاظ کہتے ہیں ان کے احسان کو مانتا ہوں اور میری گردن ان کے بار احسان سے اٹھ نہیں سکتی۔ اگر وہ لوگ لغوی` صرفی` نحوی بحثیں نہ کرتے اور وہ ذخائر جمع نہ کرجاتے` اگر وہ اس قدر وقت صرف نہ کرتے تو آج ان باتوں پر ہمیں وقت لگانا پڑتا۔ پھر اگر ہم ان کے ممنون نہ ہوں تو یہ غداری اور ناشکری ہوگی۔ انہوں نے قرآن کریم کی ایسی خدمت کی ہے کہ اگر وہ آج ہوتے تو بے شک وہ اس احسان کی بھی قدر کرتے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ کیا ہے۔ مگر اس حصہ میں جو خدمت قرآن میں ان کا ہے ہم بھی ان کی شاگردی سے دریغ نہ کرتے۔
پس ہمارے نوجوانوں کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہؓکی عزت و احترام میں فرق نہ لانا چاہئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جو کچھ کہیں اسے مان لیں۔ میں خود بھی ہر بات کو نہیں مانتا۔ مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ ناقابل اعتبار ہیں۔ اگر کوئی بات غلط ہے تو اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ممکن ہے اس وقت راوی کی توجہ کسی اور طرف ہو۔ ممکن ہے۔ اس نے ساری بات سنی ہی نہ ہو۔ پھر یہ بھی ممکن ہے` ساری بات سنی تو ہو مگر غلط سمجھی ہو۔ مگر اس کی وجہ سے اسے ناقابل اعتبار نہیں کہا جاسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن لوگوں کو انبیاء کی صحبت حاصل ہوتی ہے ان سے بھی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ مگر وہ اتفاقی ہوتی ہے اور غلطی کے امکان کے باوجود یہ کام وہی لوگ کرسکتے ہیں۔ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا ہی نہیں۔ اسے اگر کہا جائے کہ آپ کے زمانہ کی تاریخ لکھو تو وہ کیا لکھ سکتا ہے۔ وہ بھی لازماً ان لوگوں کے پاس ہی جانے پر مجبور ہوگا۔ پس کسی بات کی وجہ سے انہیں غیر مستند اور ناقابل اعتبار قرار دینا درست نہیں۔ غلطی کا ہونا اور بات ہے اور غلط کار ہونا اور بات ہے۔ ہم کسی بڑے سے بڑے موقع کے متعلق بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ کفر کی بات ہے مگر اس کی وجہ سے اسے کافر نہیں کہہ سکتے۔ اسی طرح کسی بات کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقعات اس کی تصدیق نہیں کرتے۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ مصنف ناقابل اعتبار اور غیر مستند ہے<۔۶۳
افتاء کمیٹی کا قیام
اس سال کے آخر میں فقہ اسلامی کے مختلف مسائل پر غور و فکر کرنے کے لئے نظارت تعلیم و تربیت کی درخواست اور حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر >افتاء کمیٹی< کے نام سے ایک نیا ادارہ معرض وجود میں آیا۔ جس کے ابتداء میں حسب ذیل ممبران حضور کے حکم سے نامزد کئے گئے۔
۱۔
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ )مفتی سلسلہ(
۲۔
حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ ہیڈ ماسٹر مدرسہ احمدیہ
۳۔
مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری۶۴
حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ اگلے سال ۱۷۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو انتقال فرما گئے۔ جس پر حضور نے ممبران افتاء کمیٹی میں حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ اور مولانا عبدالرحمن صاحب فاضل )جٹ( کا اضافہ فرما دیا اور کمیٹی کے صدر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور سیکرٹری مولانا ابوالعطاء صاحب مقرر کئے گئے۔۶۵
۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۷ء/ ۱۳۲۶ہش کو حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحبؓ کا وصال ہوگیا اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے حکم سے ملک سیف الرحمن صاحب واقف زندگی تحریک جدید اس اہم منصب پر ممتاز ہوئے اور اب تک مفتی سلسلہ کے فرائض بجا لارہے ہیں۔
ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ کی رپورٹ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش میں افتاء کمیٹی کا ازسر نو قیام >مجلس افتاء< کے نام سے فرمایا۔ جس کے ابتدائی فرائض و قواعد یہ قرار پائے۔
۱۔
فتویٰ کی غرض سے دفتر افتاء میں آمدہ اہم مسائل کے بارہ میں مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو مشورہ دینا۔
۲۔
فقہ اسلامیہ کے اہم اختلافی مسائل کے متعلق آئمہ فقہ کی آراء اور ان کے دلائل سے واقفیت حاصل کرنا۔
اس سلسلہ میں ہر ممبر کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ اپنے مطالعہ کے نتائج سے اور اس بارہ میں اپنی ذاتی رائے سے دفتر افتاء کو وقتاً فوقتاً مطلع کرتا رہے۔
۳۔
سیاسی` تمدنی اور تاریخی حالات کی روشنی میں >علم الخلاف< کا مطالعہ خصوصی۔
۴۔
دفتر افتاء کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ ہر اہم فتویٰ کے متعلق مجلس کے کم از کم تین ممبران کا مشورہ حاصل کرے۔ لیکن مفتی سلسلہ اس مشورہ کو قبول کرنے پر مجبور نہیں ہوں گے۔ البتہ اگر مجلس کے تمام ممبران متفق الرائے ہوں اور مفتی سلسلہ کو پھر بھی اس سے اختلاف ہو۔ تو اس صورت میں دفتر افتاء پر واجب ہوگا کہ وہ تمام حالات حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح کی خدمت اقدس میں تحریر کرکے اس کے متعلق آخری فیصلہ حاصل کرے۔۶۶
حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے مجلس افتاء کے اولین ممبر مندرجہ ذیل علماء سلسلہ کو مقرر فرمایا۔
۱۔
مولانا جلال الدین صاحب شمس ناظر تالیف و تصنیف۔
۲۔
مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری پرنسپل جامعہ احمدیہ احمد نگر۔
۳۔
مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب واقف زندگی تحریک جدید۔
۴۔
مولوی محمد احمد صاحب ثاقب واقف زندگی تحریک جدید۔
۵۔
مولوی خورشید احمد صاحب واقف زندگی تحریک جدید۔
۶۔
مولوی محمد احمد صاحب جلیل واقف زندگی تحریک جدید۔
فرائڈ کے نظریات سے متعلق حضرت مصلح موعود کا مفصل مکتوب
اس سال پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب )گورنمنٹ کالج لاہور( نے مشہور فلاسفر اور نامور سائنسدان سگمنڈ فرائڈ۶۷]text [tag FREUD) (SIGMUND کے مخصوص نظریات کی روشنی میں بارہ سوالات حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت اقدس میں بھجوائے اور رہنمائی کی درخواست کی۔ حضور نے اس کے جواب میں ابوالمنیر نور الحق صاحب کو حسب ذیل نوٹس لکھوائے جو موصوف کو پہنچا دیئے گئے۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
وعلی عبدہ المسیح الموعود
مکرمی! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
آپ۶۸نے جو سوالات لکھے ہیں ان کا تو یہ مطلب ہے کہ فرائڈ کی ساری تھیوری پر بحث کی جائے اور اتنا لمبا کام خود تو میں ابھی کر ہی نہیں سکتا۔ لکھوانا بھی بڑا مشکل کام ہے کیونکہ گلے کی تکلیف ہے۔
جہاں تک میں سمجھتا ہوں اور جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ بعض مجانین کے جنون کی وجہ ان کے بعض بچپن کے دبائے ہوئے خیالات ہیں۔ میں فرضی طور پر فرائڈ کی تھیوری کو مان سکتا ہوں لیکن جہاں تک ABNORMAL کے لفظ کا تعلق ہے۔ میری سمجھ میں اس کی تھیوری نہیں آتی کیونکہ ABNORMAL کے معنے اگر تو جنون کے ہی ہیں۔ تو پھر تو یہ بات پہلی شق میں داخل ہو جاتی ہے اور اگر ABNORMAL کے معنے ذہانت اور غیر معمولی سمجھ کے ہیں تو پھر فرائڈ کی تھیوری کے معنے یہ بنتے ہیں کہ عقل مند انسان وہی ہے جو اوسط درجہ کی یا ادنیٰ درجہ کی ذہانت رکھتا ہو اور ہر وہ شخص جو ذہین یا سمجھدار ہو۔ بچپن کے کسی دبائے ہوئے جذبہ کے نتیجہ میں جنون کا شکار ہے۔ اگر یہ نتیجہ صحیح نہیں تو پھر دو قسم کے ذہنوں میں فرق کرنے کی کیا دلیل ہے۔ اگر یہ نظریہ صحیح سمجھا جائے تو انسانی ترقی کی جڑھ کاٹی جاتی ہے اور اگر یہ نظریہ صحیح ہے تو کیوں نہ ہم یہ سمجھیں کہ فرائڈ اور اس کے ساتھی درحقیقت اس قسم کے جذبات سے متاثر تھے وہ اپنی مائوں` بہنوں` بیٹیوں کے عشق میں مبتلا تھے اور چونکہ وہ اپنے جذبات کو علی الاعلان ظاہر نہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے دوسرے آدمیوں کی طرف ان جذبات کو منسوب کرکے اپنے دلی جوش کو ٹھنڈا کیا۔ یونیورسٹیاں ذہین اور ہوشیار طالب علموں کو انعام دیتی ہیں۔ گورنمنٹیں انہیں خطاب اور تمغے عطا کرتی ہیں۔ ملک اپنی عقیدت کے پھول ان پر برساتا ہے لیکن فرائڈ کی اور اس کے ساتھیوں کی تھیوری کے مطابق تو سب قابل دار ہیں۔ ہر ذہین طالب علم` ہر ہوشیار ڈاکٹر` ہر قابل پروفیسر` ہر ذہین وکیل ہر سمجھدار جرنیل` ہر عقل مند انجینئر ایک زہریلا کیڑا ہے سوسائٹی کے لئے` ملک کے لئے کیونکہ اس کی ذہانت نتیجہ ہے اس کی ماں سے عشق کا یا بیٹی سے عشق کا یا بہن سے عشق کا یا باپ اور دادا کے قتل کرنے کی دبی ہوئی خواہش کا اور صحیح اور عقل مند دنیا وہی ہے جو ادنیٰ بے کار اور ناسمجھ آدمیوں پر مشتمل ہے اور یا پھر وہ لوگ قابل دار ہیں جنہوں نے ایسے گندے اور خبیث خیال کو پھیلانے کی کوشش کی اور وہ ناپاک خواہشیں تھیں۔ ان کو مقدس وجودوں کی طرف منسوب کیا میں اس بات کو ماننے کے لئے تیار ہوں کہ بعض جنونی مریض فرائڈ کی تھیوری کے ماتحت علاج کے ساتھ درست ہوگئے لیکن میں اس امر کو باور کرنے کے لئے تیار نہیں کہ یہ امر فرائڈ کی تھیوری کی سچائی کی علامت ہے۔ ایک اعصاب کے ماہر کے لئے یہ بات سمجھنی مشکل نہیں کہ اعصابی مریض قوت واہمہ کا شکار ہوتا ہے۔ ہم اس کی قوت واہمہ کو غلط خیالات سے درستی کی طرف لاکر یا صدمہ پہنچا کر ٹھیک کرسکتے ہیں۔ مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ اس کے خیالات بھی ٹھیک تھے جن کی میں نے اصلاح کی ہے۔
ایک عورت جو ہسٹیریا کا شکار ہو ہم اس کو یہ خبر پہنچا کر کہ اس کا لڑکا مکان کی چھت سے گرنے والا ہے۔ اس کی مدد کرسکتے ہیں۔ اس میں کہ وہ اپنے دورے کو دبا لے لیکن کیا اس کے معنے یہ ہیں کہ کیا اس کا لڑکا بھی ضرور چھت سے گررہا تھا۔ کیا ہم ایک جھوٹ بول کر اس کو اپنے نفس پر قابو پانے کی ایک وجہ مہیا نہیں کر دیتے۔ اسی طرح ایک وہمی کے دل میں یہ شبہ پیدا کرکے کہ اس کے خیالات ایک گندے جذبہ کے نتیجے میں ہیں۔ ہم کیوں اس کے دل میں نیکی نہیں پیدا کرسکتے۔ کیونکہ سوال یہ نہیں کہ اس کی بیماری کا موجب کیا تھا۔ اس کے علاج کے لئے صرف اتنی بات اہمیت رکھتی ہے کہ ہم اس کے دل میں خیال پیدا کر دیں کہ اس کی بیماری کا موجب فلاں فلاں گندے خیالات ہیں اور چونکہ وہ اپنے نفس میں شریف ہے اس لئے وہ اپنی بیماری کو دبانے کی کوشش شروع کر دے کہ درحقیقت وہ گندے خیالات کا نتیجہ ہے۔ اس علاج سے اگر کوئی بات ثابت ہوتی ہے تو یہ کہ انسانی نفس بالذات اپنے اندر شرافت کا مادہ رکھتا ہے۔ یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جو گندے خیالات ہم اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ وہ بھی صحیح ہیں۔ بعض PSYCHOLOGIST کہتے ہیں کہ نبض پر ہاتھ رکھ کے اور بعض الفاظ بول کر ہم ان جذبات کو معلوم کرسکتے ہیں۔ جو اس شخص کے دماغ کے پیچھے کام کررہے ہیں اور وہ اس طرح کہ ان خیالات کے بیان کرنے پر نبض دھڑکنے لگ جاتی ہے۔ یہ بھی کوئی دلیل نہیں۔ نبض ایک غیر طبعی خیال سن کر بھی دھڑکنی شروع ہو جاتی ہے اور ایک طبعی اور صحیح جذبہ پر بھی۔ ایک شخص جس کو اپنی بیوی سے محبت ہو۔ اس کے نام کو سن کر بھی نبض دھڑک سکتی ہے۔ ایک شخص جس کو اپنی ماں یا باپ سے سچی محبت ہو۔ ان کے نام پر بھی اس کی نبض دھڑک سکتی ہے۔ نبض کے دھڑکنے سے یہ کیونکر معلوم ہوا کہ ضرور اس لفظ کے حامل کے ساتھ اس شخص کی ناجائز تعلقات وابستہ تھے۔ نبض کا دھڑکنا تو صرف جذبات کی قوت پر دلالت کرتا ہے۔ خواہ وہ مستقل ہوں یا عارضی مثلاً ایک شخص کا ایک لڑکا بیمار ہے۔ خواہ وہ لڑکا اس کو اپنے سب لڑکوں سے کم پیارا ہو مگر نیم بے ہوشی کی حالت میں اس لڑکے کے نام پر اس کی نبض دھڑکنے لگے گی۔ اس لئے نہیں کہ اس لڑکے سے اسے کوئی ناجائز محبت ہے۔ نہ اس لئے کہ اس لڑکے سے اس کو سب سے زیادہ محبت ہے بلکہ اس لئے کہ اس لڑکے کی نسبت دل میں خطرے کے خیالات پیدا تھے اور اس لڑکے کا نام طبعی طور پر اسے وہ خطرات یاد دلا دیتا ہے۔ غرض استدلال باطل ہے کہ چونکہ بعض مریضوں کی اصلاح ANALYSIS PSYCHOAN سے ہوگئی ہے۔ اس لئے ANALYSIS PSYCHOAN کی تھیوری درست ہے۔ اسی طرح یہ بات اور بھی زیادہ باطل ہے کہ ذہین اور غیر معمولی طور پر ہوشیار کے کام درحقیقت اس کے بچپن کے دبے ہوئے جذبات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ جس کے دلائل میں اوپر دے آیا ہوں۔
)۲( کہا جاتا ہے کہ گو بچہ باپ کے احسانوں تلے ہوتا ہے لیکن باپ کو ماں کے معاملے میں رقیب سمجھتا ہے اور ہر بچہ باپ کے خلاف نفرت اور انتقام کے جذبات رکھتا ہے۔ اس کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہوسکتا ہے کہ سامعین سے پوچھا جائے کہ تم میں سے کتنے اپنے باپ سے نفرت رکھتے ہیں اور اس سے انتقام لینا چاہتے ہیں۔ اس کا جواب تو ہر شخص اپنے نفس میں خود ہی دے سکتا ہے اور شاید ۹۹ فیصدی آدمی یہ کہیں گے کہ فرائڈ ایک جھوٹا اور کذاب آدمی ہے۔ ایک عام باپ )ظالم باپ اور ظالم ماں مستثنیٰ ہیں لیکن وہ شاذ و نادر ہوتے ہیں( کے خلاف اگر کوئی وجہ کسی بیٹے کو کوئی ناراضگی کی ہوتی ہے تو صرف یہ کہ وہ ماں کی نسبت بیٹے کی اصلاح کی زیادہ فکر کرتا ہے۔ ماں بہت زیادہ طبعی محبت سے متاثر ہوتی ہے اور باپ کی طبعی محبت کو اس کی عقلی خواہش نے اس کی عقل سے متاثر کیا ہوتا ہے اور شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ ماں کی عزت کا تسلسل اس کے بیٹے سے نہیں لیکن اس کے باپ کی عزت کا تسلسل اس کے بیٹے سے ہے۔ اسے جائز کہو یا ناجائز بیٹا باپ کے نام سے مشہور ہوتا ہے۔ ماں کے نام سے نہیں۔ پس ہوسکتا ہے کہ بیٹے کے اخلاق کی درستی کا شدید جذبہ باپ میں نہ صرف بیٹے کی اصلاح کی غرض سے بلکہ خود اپنی نیک نامی کی خواہش کے ماتحت پیدا ہوتا ہے مگر بہرحال باپ اپنے بیٹے کی اصلاح میں زیادہ تعاہد اور تقید سے کام لیتا ہے۔ نیک سمجھدار بیٹے اس کی اس خدمت کو جو بسا اوقات اپنے محبت کے جذبات کو قربان کرنے سے ادا کی جاتی ہے۔ قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے لیکن بعض بدفطرت یا ناسمجھ لڑکے اسے ظلم قرار دے کر اس سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں۔ مگر یہ لڑکے تو مریض ہیں اور شاذ و نادر دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف وہ لڑکے جو باپوں سے محبت کرنے والے ان کے فرمانبردار` ان کے مطیع بلکہ ان کے لئے جان کو قربان کرنے والے ہوتے ہیں۔ وہ زیادہ ہیں اسی سلسلہ میں آپ نے لکھا ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کو چونکہ دادا نے پالا تھا اس لئے دشمن کے نزدیک آپ کے جذبات دادا کے مذہب کے خلاف ظاہر ہوئے۔ میں حیران ہوں کہ اس قول کے بیان کرنے والے کو پاگل کہوں` احمق کہوں` خبیث کہوں کیا کہوں۔ کیا رسول اللہ~صل۱~ کی ماں کا مذہب اور تھا کہ اس کے مقابل دادا کے مذہب کے خلاف جہاد کے جذبات آپ کے دل میں پیدا ہوئے۔ اور کیا دادا اسی مکان میں رہتے تھے۔ جہاں ان کی والدہ رہتی تھیں کہ کسی رقابت کا خیال پیدا ہوتا۔ باپ تو ماں کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتا ہے۔ رات دن کھانے پینے پہننے اور لوگوں سے برتائو کرنے اور بچے کی تربیت کے متعلق اس کا بیوی سے اختلاف ہوتا رہنا ممکن ہے لیکن دادا جو دوسرے گھر میں بستا ہے۔ جو کبھی کبھار اپنے پوتے کو کھلانے کے لئے اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اس کے متعلق رقابت کے جذبات پیدا ہونے کا امکان ہو ہی کس طرح سکتا ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ وہ مذہب جو محمد رسول اللہ~صل۱~ کے دادا کا تھا۔ اور اس کی وہ جزئیات جس کے خلاف انہوں نے جہاد کیا۔ کیا وہ بری تھیں یا اچھی تھیں۔ اگر وہ بری تھیں تو کیا ہم یہ نتیجہ نکالیں کہ صحیح الدماغ وہ ہوتا ہے جو بری چیزوں کو اچھا سمجھے یا یہ کہ صحیح الدماغ بری چیزوں کو برا تو سمجھتا ہے لیکن اس کے خلاف جہاد نہیں کرتا اگر کوئی شخص بری چیزوں کا مقابلہ کرتا ہے تو صرف وہی کہ جس کو اپنی ماں سے ناجائز عشق ہو۔ اس نتیجہ کے سوا اور کسی بات سے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور یہ نتیجہ صاف بتاتا ہے کہ اس اصول کا موجد خود پاگل ہے۔ یا اسی مرض کا شکار ہے جس کا الزام دوسروں پر لگاتا ہے۔ مگر جہاں تک رسول کریم~صل۱~ کی ذات کا سوال ہے۔ میں ایک اور بات بھی پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم~صل۱~ کے دادا توحید کے قائل تھے۔ مکے پر ابرھہ کے حملے کے وقت میں جو آپ نے ابرھہ سے گفتگو کی وہ آپ کے ایمان بالتوحید
‏tav.8.24
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
ترکی وفد سے متعلق وضاحتی خطبہ سے لیکچر >اسوہ حسنہ< تک
پر دلالت کرتی ہے۔ میں مانتا ہوں کہ توحید کامل نہ تھی۔ لیکن وہ ایک رنگ کی توحید تھی۔ مگر آپ کی تو ساری زندگی شرک کے خلاف جہاد میں خرچ ہوئی۔ اگر یہ بات صحیح تھی تو پھر آپ کو تو چاہئے تھا کہ توحید کے خلاف لڑتے۔
)۳( اس کی تفصیلات کے متعلق کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔ وہ بار بار میرے مضمونوں میں آچکے ہیں۔ سورۃ نجم کے متعلق بھی اور کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کے متعلق بھی۔ خود آپ نے بھی اس کی کوئی خاص اہمیت قرار نہیں دی۔ قومی سرداروں` والدین اور اولی الامر کی اطاعت کے متعلق یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ صحیح الدماغ انسان کون ہے۔ کیا وہ جو ان کی اطاعت کا حکم دے یا کیا وہ جو ان کی اطاعت کا حکم نہ دے۔ یا وہ جو کہے کہ ان کی اطاعت کرو یا نہ کرو۔ میرے لئے برابر ہے۔ اگر وہی صحیح الدماغ انسان ہوتا ہے۔ جو یا تو غلط بات کی تعلیم دے یا صحیح بات پر زور نہ دے۔ تو اس دنیا پر خدا ہی رحم کرے پھر تو یہ دنیا ظالموں` مجرموں` فاسقوں کی دنیا ہو جائے گی۔
)۴( چوتھے سوال کا جواب بالکل واضح ہے۔ ہم تو خدا کے خیال کے قائل ہی نہیں۔ ایسے خیالی خدا کو تو ہم دور سے سلام کہتے ہیں۔ ہم تو اس خدا کے قائل ہیں جو دیکھا جاتا` سنا جاتا اور محسوس کیا جاتا ہے۔ اس خدا کے متعلق خیالی کا لفظ بولنا اور اسے کسی اور جذبے کا نتیجہ قرار دینا تو خود جنون ہے۔
)۵( یہ کہنا کہ عیسائیت خدا کو باپ کہتی ہے۔ یہ ثبوت ہے کہ خدا کو زمینی باپ کا قائم مقام قرار دیا جائے۔ یہ تو خود اپنے خیال کی تردید کرتا ہے۔ اگر باپ رقیب ہے تو باپ سے ایک بڑا رقیب بنانے کے معنے کیا ہوئے۔ بہرحال بڑی چیز ماں کی توجہ کو اپنی طرف زیادہ کھینچے گی۔ کم تو نہیں کھینچے گی اور یہ جو کہا گیا ہے کہ اسلام میں باپ نہیں کہا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام میں باپ سے زیادہ نفرت تھی۔ یہ صرف ایک لطیفہ ہے عیسیٰ کا باپ جو کم سے کم ظاہر باپ تو یوسف نجار تھا۔ جس سے مسیح کو اتنی نفرت تھی کہ اس نے اس کے بیٹوں کو کہا کہ یہ نہیں میرے بھائی اور جس کی محبت کا ذکر کوئی انجیل میں نہیں۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے باپ تو پیدائش سے پہلے فوت ہوچکے تھے۔ ان سے نفرت کا کوئی سوال نہ تھا۔ باقی رہے دادا۔ ان کی محبت کے تذکرے حدیثوں میں موجود ہیں۔ یہ کون احمق خیال کرسکتا ہے کہ عیسیٰ کو تو یوسف نجار سے کم نفرت تھی اور محمد رسول اللہ~صل۱~ کو اپنے دادا سے زیادہ۔ یہ جو لکھا ہے کہ عام بچے باپ سے نفرت کو کسی اور ہیرو کو اپنا ذہنی باپ بنا کر پورا کرلیتے ہیں۔ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ قوم کے نوجوانوں کو کسی اپنے ملکی رہبر اور محسن کی قدر نہ کرنی چاہئے۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ محسن کی قدر ایک طبعی امر ہے اور محسن کی قدر نہ کرنا یہ ایک جنون ہے۔ یا یہ کہ فرائڈ اور اس کے ساتھیوں کا یہ خیال ہے کہ باپ سب سے بڑا محسن ہے اور اس لئے اس کے مقابلے میں کسی اور ہیرو کی قدر نہ ہونی چاہئے۔ اگر یہ خیال صحیح ہے تو پھر اس کے یہ معنے ہیں کہ فرائڈ اور اس کے ساتھیوں کے نزدیک شخصی ضرورتیں قومی ضرورتوں پر مقدم ہیں کیونکہ باپ کا احسان شخصی ہوتا ہے اور ہیرو کا قومی اگر یہ خیال درست ہے تو پھر تمام تمدنی نظام پارہ پارہ ہو جاتا ہے۔ اور یا یہ ہے کہ فرائڈ کے نزدیک قومی ہیرو کوئی ہوتے ہی نہیں۔ یہ بات بھی بالبداہت باطل ہے۔ گزشتہ زمانوں کے قومی ہیروں کو ایک خیالی وجود قرار دے لو۔ لیکن موجودہ زمانہ کے قومی محسنوں کو کوئی کیا کہے گا۔ کیا ہر ملک اور ہر قوم میں آج بھی ایسے آدمی نہیں پائے جاتے جو اپنی جسم اور جان کو قوم کے لئے ہلاک کررہے ہیں۔ اگر ان کی قدر درحقیقت بعض گندے جذبات کا نتیجہ ہے تو پھر قومی اور مدنی زندگی بھی ایک ناپاک اور گندی چیز ہے۔ اب آخری حصہ کہ آنحضرت~صل۱~ ایک خیالی خدا کی طرف متوجہ رہے۔ اس کا جو اب اوپر آچکا ہے۔
)۶( چھٹے سوال کا جواب یہ ہے کہ اگر شدید محبت یا شدید خوف کی صورت میں لرزہ براندام ہونا اعصابی بیماری کی علامت ہے تو رسول کریم~صل۱~ واقعہ میں اعصابی بیمار تھے لیکن اگر یہ پاک اور مقدس جذبات کی علامت ہے تو پھر اس سے وہ استدلال کرنا جو دشمنان اسلام نے کیا ہے۔ کسی صورت میں درست نہیں ہوسکتا۔ یہ معترض صحیح جذبات تو رکھتے ہی نہیں کہ میں ان کے جذبات کی صحت کی طرف سے اپیل کروں۔ مگر میں مثال کے طور پر ایک ایسے شخص کو پیش کرتا ہوں۔ جسے شاید وہ بھی مجنون نہیں کہتے اور وہ ابراہیم لنکن ایک سابق صدر امریکہ ہے۔ جب جنوبی علاقوں کو شکست ہوئی اور ابراہیم ایک فاتح کی مانند اپنے دشمن کے دارالامارت میں داخل ہوا تو اس کے افسروں نے چاہا کہ اس کا ایک شاندار استقبال اس شہر میں کیا جائے مگر ابراہیم لنکن نے حقارت سے ان کی تجاویز کو ٹھکرا دیا۔ اکیلا ننگے سر اس شہر میں داخل ہوا اور اپنے رقیب کے ڈیسک پر اپنا سر اوندھا کرکے بیٹھ گیا۔ جب اس نے سراٹھایا تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور اس نے کہا۔ مجھے اس میں کیا خوشی ہوسکتی ہے کہ امریکہ کے ایک ہاتھ نے اپنے دوسرے ہاتھ کو کاٹا۔ اگر کوئی خدا ہے اور وہ اسلام کے نزدیک ضرور ہے تو اس کی ملاقات کے وقت ایک صادق محب کے دل میں جو جذبات پیدا ہوسکتے ہیں اس کا اندازہ صرف ایک صحیح الدماغ انسان ہی کرسکتا ہے۔ وہ شخص جو خدا کو مانتا ہی نہیں۔ اس نے اس کا اندازہ کیا کرنا ہے۔ اس کا یہ تو حق ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں خدا کو نہیں مانتا۔ مگر وہ پاگل نہیں تو اس کا یہ حق نہیں کہ یہ کہے کہ خدا کے ماننے والے کو اگر خدا مل جائے تو اس کے جسم اور اس کی روح پر غیرمعمولی اثر نہیں پڑنا چاہئے۔
)۷( نمبر سات کا جو کچھ آپ نے لکھا ہے۔ جو باتیں آپ نے نہیں لکھیں۔ ان کا میں جواب کیا لکھوں جو لکھی ہیں ان کا جواب یہ ہے۔
>یہ کہنا کہ رسول کریم~صل۱~ نے پچیس سال کی عمر تک شادی نہیں کی قومی رواج کے خلاف تھی۔ اس کا ثبوت انہوں نے کیا دیا۔ ہم نے تو کہیں یہ قومی رواج پڑھا نہیں۔ دولت مند بے شک ایک یا ایک سے زیادہ شادیاں کرتے تھے۔ مگر رسول کریم~صل۱~ تو دولت مند نہ تھے۔ پھر اس بات سے استدلال کہ آپ نے بڑی عمر کی عورت سے شادی کی اول درجہ احمقانہ ہے۔ کیونکہ درخواست اس عورت نے کی تھی۔ آپ نے تو نہ کی تھی` اگر ان احمقوں کو اتنی تاریخ معلوم نہیں۔ تو عالموں کی مجلسوں میں ان کو منہ کھولنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ فرائڈ کی تھیوری کو صحیح ماننے والے یہ بکواس تو کرسکتے ہیں کہ SONFIXATION کی مرضی تھی۔ اس سے یہ نتیجہ کیونکر نکلا کہ مرد میں MOYHERFIXRTION کی مرضی تھی۔ جب یہ وجہ موجود ہے کہ اس عورت نے آپ کے اخلاق دیکھے اور اس کے بعد شادی کی درخواست کی تو اس کے بعد کسی اور نتیجہ کا نکالنا تو محض ایک عداوت ہے۔ اس کے بعد جو آپ نے دوسری بڑی عمر والی سے شادی کی تو اس کی وجہ بھی موجود ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے تھے۔ ان کی پرورش کا سوال تھا۔ اور آپ نے خود یہ وجہ بیان کی کیا یہ ایک غیر طبعی وجہ ہے کہ اس کی وجہ کوئی اور وجہ کہی جائے۔ اگر یہ وجہ طبعی ہے تو غیر طبعی وجہ نکالنے والا پاگل ہے۔
)ب( کا جواب پہلے آہی چکا ہے۔
)ج( کے متعلق جواب یہ ہے کہ کیا طبعی آدمی وہ ہوا کرتا ہے جو اپنی دائیوں سے نیک سلوک نہ کرے۔ اگر یہ طبعی ہونے کی علامت نہیں تو دائیوں سے نیک سلوک کرنے سے کوئی اور نتیجہ نکالنا کس طرح درست ہے۔ کیا اگر رسول کریم~صل۱~ اپنی دائی سے نیک سلوک نہ کرتے۔ اس سے سختی سے پیش آتے تو آپ کے طبعی اور نیک ہونے کی علامت ہوتی۔
)د( کا بھی یہی جواب ہے کہ کیا بیوائوں سے جو بدسلوکی کرے وہ شریف الطبع ہوتا ہے اور کیا اس تعلیم میں بیوائوں اور مائوں سے بدسلوکی کا حکم نہیں پایا جاتا اور کیا مائوں سے نیک سلوک پر اعتراض کرنے والے کے متعلق ہم یہ بات کہنے پر حق بجانب نہ ہوں گے کہ وہ FIXATION FATHER میں مبتلا تھا۔ یا یہ کہ وہ اپنے باپ سے SODOMY کا مرتکب ہوا کرتا تھا۔ حضرت عائشہ سے شادی اور حضرت زینب سے شادی پر جو اعتراض ہے۔ اس کے متعلق اس کا جواب یہ ہے کہ رسول کریم~صل۱~ نے تین قسم کی عورتوں سے شادی کی ہے۔ اپنے سے بڑی عمر والیوں سے بھی برابر عمر والیوں سے بھی اور اپنے سے چھوٹی والیوں سے بھی۔ بڑی عمر والی حضرت خدیجہ تھیں۔ اور برابر عمر والی سلمہ تھیں۔ پھر علیٰ قدر مراتب تیسری قسم والی بیویاں تھیں۔ دشمن نے پہلی پر بھی اعتراض کیا۔ دوسری پر بھی۔ تیسری پر بھی۔ پہلی پر یہ اعتراض کیا کہ وہ آپ سے بڑی عمر والی تھیں۔ دوسری پر اس لئے اعتراض کیا کہ وہ خود بڑی عمر کی تھیں۔ گو آپ سے بڑی نہ تھیں۔ تیسری قسم پر یہ اعتراض کیا کہ وہ آپ سے چھوٹی عمر والی تھیں۔ یہ اعتراض ہی بتاتا ہے کہ کسی علم کی بناء پر نہیں بلکہ خباثت اور دشمنی کر بناء پر ہے۔ جب بڑی عمر والی سے شادی قابل اعتراض ہے اور اپنی عمر کے برابر اور کچھ چھوٹی عمر والی سے شادی قابل اعتراض ہے اور اپنے سے زیادہ چھوٹی عمر والیوں سے شادی بھی قابل اعتراض ہے تو یہ پلید دشمن بتائے کہ مرد کس سے شادی کرے۔ ہم یہ بات کہنے کے حق بجانب ہوں گے کہ یہ شخص شادیوں ہی کے خلاف ہے اور ناجائز تعلقات رکھنا ہی ان آدمیوں کا اصل مقصود ہے۔
)۸( آٹھویں بات کا جواب یہ ہے کہ حرام رشتوں کے متعلق رسول کریم~صل۱~ کی تعلیم میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ اس لئے یہ ایک خود بیماری کی علامت ہے۔ اصلی جواب تو اس کا یہ ہے کہ جتنی قوم میں خرابی ہوتی ہے۔ اتنا ہی زور دیا جاتا ہے۔ عربوں میں مائوں سے شادیاں ہوتی تھیں اور زرشتیوں میں بہنوں اور بیٹیوں سے تعلقات رکھے جاتے تھے۔ خود مصریوں میں بہنوں سے شادیوں کا رواج تھا۔ ان وجوہ سے جتنا زور ان باتوں پر دیا گیا عین مطابق تھا۔ لیکن معترض کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارا یہ سوال ہے کہ اس کے اعتراض کے تو یہ معنے ہوئے کہ کسی بری بات پر اعتراض کرنا گندگی کی علامت ہے یا باوجود خرابی کے خلاف جہاد کرنا بری بات ہے اس کے تو یہی معنے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی خرابی ہو۔ اس کو پھیلنے دینا چاہئے۔ اگر اس کے خلاف جہاد کیا تو انسان ان معترضین کے اعتراضوں کا نشانہ بن جاوے گا۔ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ یہ معترضین شیطانی تحریکوں کے ایجنٹ ہیں اور درحقیقت اپنے دلوں میں مادر پدر آزادی کے خواہاں ہیں۔
)۹( نمر ۹ بات کا جواب کہ بہشت کا بیان مکی زندگی میں عورتوں سے بھرا ہوا ہے۔
مدنی زندگی والا ایسا نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے مکی آیتوں میں ابتدائی ہونے کی وجہ سے بہشت کا ذکر زیادہ ہے اور مدنی میں بوجہ انتظام کے قائم ہونے کے انتظام اور مدنی زندگی کا ذکر زیادہ ہے۔ یہ ایک طبعی بات ہے کہ جس چیز کا ذکر زیادہ ہوگا اس کی تفصیلات زیادہ آئیں گی۔ دوسرے مکی زندگی تک اسلام کی تشریح پوری نہ ہوئی تھی۔ اس لئے اس میں تمثیلی بیان زیادہ ہوتا تھا۔ تیرہ سال کی تعلیم کے بعد لوگ آسمانی باتوں کے سمجھنے کے زیادہ قابل ہوگئے تھے۔ اس لئے اس وقت تمثیل کم کر دی گئی اور حقیقت کو زیادہ نمایاں کر دیا گیا۔ بیویوں کو ماتحت رکھنے اور مارنے کے متعلق جو کہا گیا ہے۔ یہ تو اسلامی تعلیم ہی نہیں۔ اسلام نے تو صرف نشوز کی صورت میں گواہوں کی گواہی کے ساتھ عورت کا جرم ثابت ہو جانے پر طلاق سے پہلا قدم مارنے کا بتایا ہے۔ اور وہ بھی ایسی مار جس کا جسم پر اثر نہ پڑے۔ اور ساتھ اس کے عورت کو خلع کا بھی حق دے دیا ہے۔ یہ کہ اگر عورت سمجھتی ہو کہ میں مجرم نہیں ہوں تو قاضی سے جاکر خلع کا مطالبہ کرے۔ مار کا سوال خود ہی اٹھ جائے گا۔
)۱۰( دسویں بات کا جواب یہ ہے کہ کیا یوروپین قوم کے لوگ دوسری قوم کے ماتحت رہنا پسند کرتے ہیں۔ اگر وہ غلامی کو پسند کرتے ہیں۔ تو وہ جرمنی سے کیوں لڑتے ہیں۔ اگر ایشیاء کی قوموں کی آزادی کی تحریکوں میں حصہ لینا HATRED FATHER پر دلالت کرتا ہے۔ تو جرمن اور جاپانیوں کی طاقت کی خواہش حاصل کرنا اور یوروپین دوسری اقوام کا ان کا مقابلہ کرنا بھی۔ )کیا اسی( پر دلالت کرتا ہے؟
)۱۱( گیارھویں سوال کا جواب یہ ہے کہ صحیح ہے کہ بخاری میں لکھا ہے کہ آنحضرت پر کسی یہودی نے جادو کرکے ایک کنویں میں تاگے پھینکنے تھے۔ لیکن ایک یہودی کے اعتقاد کا ہم پر کیا اثر ہے۔ رسول کریم~صل۱~ بیمار ہوئے اور بعض چھوٹی چھوٹی باتیں آپ کو بھول جاتی تھیں۔ )چھوٹی باتوں کے بھولنے کا یہ ثبوت ہے کہ نماز آپ باقاعدہ پڑھاتے رہے اور قرآن مجید کے بھولنے کا ثبوت نہیں ملتا۔ قضاء کا کام اور دوسرے قومی کام آپ کرتے رہے۔ پس بھولنا صرف اسی حد تک محدود تھا کہ بعض روزمرہ کی باتیں آپ کو بھول جاتی تھیں۔ جیسے کھانے کے وقت کا خیال نہ رہا اور وضو کیا اور خیال نہ رہا کہ میں نے وضو کیا تھا۔ ایسا ہر انسان سے ہوتا رہتا ہے۔ رسول کریم کے متعلق اس لئے یہ بات عجیب تھی کہ آپ سے پہلے ایسا بھی نہ ہوتا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں کوئی بھی کام کرنے والا ایسا انسان نہیں جس کے ایسے واقعات نہ ہوتے ہوں( آپ کی اس بیماری کو سن کر کسی خبیث یہودی نے سمجھا کہ اب آپ پر جاود کرنے کا موقع ہے۔ اس کے نزدیک جادو سے آپ کی بیماری کے بڑھ جانے اور ہلاک ہو جانے کا امکان تھا۔ اس لئے آپ پر جادو کیا۔ رسول کریم~صل۱~ کو خدا تعالیٰ نے اطلاع دے دی آپ نے اس کے جادو کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ رسول کریم~صل۱~ کا کوئی فقرہ ایسا نہیں یا کسی الہام میں یہ بات نہیں کہ آپ اس جادو سے بیمار ہوگئے تھے۔ آپ کی بات سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ کسی یہودی نے آپ پر آپ کی بیماری کے ایام میں جادو کیا تھا۔ یہ یہودی کا ایمان ہے۔ اس سے اسلام پر کیا اثر۔ بے شک حضرت عائشہ کا قول ہے کہ اس جادو سے آپ کا حافظہ کمزور ہے۔ مگر عائشہ کا قول عائشہ کا ہی قول ہے۔ ہم اس کے پابند نہیں ہیں۔
بارھویں سوال کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے تو مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کی ہے اور تاجروں پر بڑے بڑے زبردست ٹیکس لگائے ہیں۔ غلاموں کی آزادی کی تحریک کی ہے اور غلاموں کو بڑے بڑے عہدوں پر مقرر کیا ہے۔ پس یہ نتیجہ نکالنا کہ تاجروں کی تائید میں ایک تحریک تھی۔ غلط بات ہے کیا اسلام سے پہلے تاجروں کا اثر مکے میں کم تھا کہ انہوں نے تحریک جاری کی۔ مکے کے سب حاکم تو بڑے بڑے تاجر ہی تھے۔ اگر اسلام نے ان کے زور کو توڑا تو اس کو تاجروں کی تحریک کیونکر کہا جاسکتا ہے۔ اسلام کے ظاہر کرنے والے تو محمد رسول اللہ~صل۱~ ہیں۔ انہوں نے تو تجارت سے جائز کمایا ہوا مال بھی اپنے اختیار میں آنے کے بعد لٹا دیا اور خدیجہ~رضی۱~ کے غلاموں کو آزاد کر دیا۔ باقی یہ کہ قریش کے بڑے تاجر ہی بعد میں اسلامی بڑے عہدوں پر مقرر ہوئے اس کے معنی تو صرف یہ ہیں کہ ان لوگوں نے ذاتی طور پر اپنے سابق رسوخ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رسول کریم~صل۱~ کی وفات کے بعد ایک ناجائز قبضہ کرلیا۔ اسلام یا اسلام کی تحریک سے اس کا کیا تعلق ہے۔
نوٹ:۔ میں آپ کا مضمون اور اس کے جوابات بھجوا رہا ہوں۔ اس وقت دوبارہ دیکھنے کی فرصت نہیں۔ اگر کوئی غلطی ہو تو عبارت کو دوبارہ پڑھیں مفہوم کو سیاق و سباق سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ لیکچروں کے بعد سوالات اور جوابات کی کاپی بھجوا دیں۔ کیونکہ یہ نیا مضمون ہے۔
بیماری کے باوجود حضرت امیرالمومنین کی شاندار تقاریر سالانہ جلسہ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش
حضور پر ۳۰۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو دن کے ڈیڑھ بجے کے قریب گردے کے مقام پر شدید درد کا حملہ ہوا اور متلی اور قے کی
وجہ سے دل میں بھی بہت تکلیف شروع ہوگئی۶۹ اور پھر بخار بھی ہوگیا۔۷۰ ۷۔ فتح کو نقرس اور کھانسی کی تکلیف بڑھ گئی۔۷۱ مگر خدا کے فضل سے بعد کو بتدریج ان سب عوارض میں افاقہ ہونے لگا اور ۱۳۔ فتح کو نقرس سے بھی آرام آگیا اور حضور چلنے پھرنے لگے۔۷۲ تاہم نقاہت بہت ہوگئی اور اسی بناء پر حضور نے احباب جماعت کو قبل از وقت آگاہ بھی فرما دیا کہ۔
>میری اپنی طبیعت بھی بہت کمزور ہے۔ پھر بڑے زور کا حملہ نزلہ اور کھانسی کا مجھ پر ہوا ہوا ہے اور سینہ میں درد اور گلے میں سخت خراش ہے۔ متواتر بیماریوں کی وجہ سے میں بہت کمزور ہوچکا ہوں۔ اس لئے ملاقاتوں اور تقریروں کے وقت میں معتدبہ کمی کرنی ضروری ہوگی۔ اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ قربانی کرکے مجھے اس مالایطاق بوجھ سے بچائیں۔ غالباً اگر مجھے بولنے کی توفیق ملی تو گھنٹہ دو گھنٹہ سے زیادہ میں نہ بول سکوں گا اور ملاقاتیں رات کے وقت اگر کلی طور پر بند نہ کی گئیں تو بہت حد تک محدود ضرور ہوں گی<۔۷۳
پھر حضور کی توجہ کو بٹانے والی اور بہت بڑی تشویش کا موجب حضرت سیدہ ام طاہر احمد کی تشویشناک علالت تھی جنہیں حضور بے حد نازک حالت میں علاج کے لئے ۱۷۔ ماہ فتح/ دسمبر۷۴ کو لاہور لے گئے تھے اور وہاں لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں داخل کرانے کے بعد محض سالانہ جلسہ پر آنے والے دوستوں کی خاطر ۲۲۔ ماہ فتح/ دسمبر۷۵ کو واپس قادیان تشریف لے آئے۔ ۲۶۔ فتح/ دسمبر تک ان کی حالت میں کوئی افاقہ نہیں ہوا تھا بلکہ اس دن حضور کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپریشن کے سوا علاج کی اور کوئی صورت نہیں اور بدھ کے دن )۲۹۔ ماہ فتح( اپریشن کرنا تجویز کیا گیا ہے۔
لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے عاجز بندوں کی دردمندانہ التجائیں قبول فرماتے ہوئے ایک طرف حضرت سیدہ ام طاہر کو قدرے افاقہ بخشا اور اپریشن کی فوری ضرورت نہ رہی۔ دوسری طرف حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو ان ایام میں غیر معمولی طور پر ایسی طاقت اور توانائی عطا فرمائی کہ حضور نے حسب معمول سالانہ جلسہ پر ملاقاتیں بھی کیں اور پانچ تقریریں بھی۔ جن میں سے ۲۷۔ اور ۲۸۔ فتح کی دو تقریریں لمبی تھیں۔۷۶ موخر الذکر تقریر >اسوہ حسنہ< کے موضوع پر تھی اور جو بعد کو کتابی شکل میں بھی شائع ہوگئی۔
حضرت امیرالمومنینؓ نے اپنی اس آخری معرکتہ الاراء تقریر میں بڑے دلنشین انداز میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی کہ ہمیں اپنے ہر قول` ہر فعل اور ہر حرکت و سکون میں یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ ہمارا یہ کام محمد رسول اللہ~صل۱~ کے طریق عمل کے مطابق ہے یا نہیں؟ کیونکہ ہماری نجات اسی میں ہے کہ ہم حضورؑ کی کامل متابعت اختیار کرکے نقوش محمدیﷺ~ اپنے آئینہ قلب میں پیدا کرلیں۔
اسی تعلق میں حضور نے فرمایا۔
>لوگ کہتے ہیں۔ اسلام نے تصویر بنانا منع کرکے آرٹ کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ اسلام تو ہر مسلمان کو آرٹسٹ بناتا ہے۔ وہ تصویر بنانے سے نہیں روکتا بلکہ ادنیٰ اور بے نفع تصویریں بنانے سے روکتا ہے اور وہ تصویر بنانے کا حکم دیتا ہے جو اس دنیا میں بھی انسان کے کام آنے والی ہے اور آخرت میں بھی انسان کے کام آنے والی ہے۔
لوگ تصویریں بناتے ہیں تو کیا کرتے ہیں۔ وہ برش لے کر کبھی کتے کی تصویر بناتے ہیں۔ کبھی گدھے کی تصویر بناتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے کتے یا گدھے کی تصویر بنالی۔ مگر اسلام کہتا ہے۔ اے مسلمانو! تم میں سے ہر شخص رات اور دن` صبح اور شام` بچپن اور جوانی اور بڑھاپے میں عقل اور فہم کا برش لیکر محمد رسول اللہ~صل۱~ کی تصویر کھینچتا رہے جو ہماری تصویر ہے۔
پس اس تصویر کو کھینچو اور بار بار کھینچو یہاں تک کہ تم بھی محمدﷺ~ بن جائو اور چونکہ محمدﷺ~ ہماری تصویر ہے اس لئے جب تم محمدﷺ~ بنو گے تو محمد رسول اللہ~صل۱~ کی طرح تم بھی ہمارے قرب میں آجائو گے۔
پس ہر مسلمان آرٹسٹ ہے۔ ہر مسلمان مصور ہے۔ مگر وہ اس قیمتی چیز کی تصویر بناتا ہے جو دنیا کے لئے بھی مفید ہے اور آخرت کے لئے بھی مفید ہے۔ وہ لغو چیزیں نہیں بناتا جن سے بہتر تصویریں نیچر نے پہلے ہی تیار کی ہوئی ہیں۔ ورنہ اسلام ہر مسلمان کو حکم دیتا ہے کہ جلوہ الٰہی قلب محمدﷺ~ پر پڑ رہا ہے۔ اس نے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرکے اس کی تصویر اپنے دل پر کھینچ لی ہے مگر تم میں سے ہر شخص کو خداتعالیٰ سے اس قدر قریب ہونے کی توفیق نہیں ہے اس لئے تم محمد رسول اللہﷺ~ کے دل کی تصویر اپنے دلوں پر کھینچو۔ اس طرح اصل کو دیکھ نہ سکو تو اس کی تصویر سے تم ایک اور تصویر کھینچ سکو گے۔
غرض تمام انسان محمدی تصویر سے جمال الٰہی کی تصویر کھینچنے کے قابل ہیں۔ صرف ہمت کی ضرورت ہے اور کوشش کی ضرورت ہے ورنہ راستہ کھلا ہے اور ہمیشہ کھلا رہے گا<۔۷۷
فصل پنجم
جلیل القدر صحابہ کا انتقال
اس سال کئی مقتدر اور بلند پایہ صحابہ نے وفات پائی۔ ان کے مختصر کوائف درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
۱۔ چودھری رکن الدین صاحب لدھیانوی )وفات: ۴۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش(۷۸
۲۔ عبدالغنی خاں صاحب سنوری
)بیعت: ۱۹۰۳ء وفات: ۶۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش بعمر ۸۰ سال(۷۹
بیعت سے پہلے آپ کے گھر میں محرم کی مجالس ہوا کرتی تھیں۔ مگر جب سے بیعت کی گھر کا رنگ ہی بدل گیا اور مجالس محرم کی جگہ درثمین کے اشعار نے لے لی۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمات بجالانے کا بہت شوق تھا۔ سالانہ جلسہ کے علاوہ بار بار نہ صرف خود قادیان حاضر ہوتے رہتے بلکہ اپنے عزیزوں کو بھی بھیجتے۔ آپ نے اپنے اکلوتے بیٹے عبدالغفور خاں معہ اس کی والدہ کے` اسی طرح اپنے بھانجے سید علی احمد صاحب ساکن رجاولی )انبالہ( کو تحصیل علم کے لئے لڑکپن ہی میں قادیان بھجوا دیا تھا۔ اور اپنے بیٹے اور نواسے اور پوتی اور نواسی کے رشتے قادیان ہی میں کئے۔ یہیں زمین خریدی اور پانچ چھ سو روپیہ لگا کر کنواں لگوایا۔ حضرت قاضی ظہور الدین صاحب اکملؓ نے ان سے پوچھا کہ آپ اسے اتنا مستحکم کیوں کررہے ہیں؟ جواب دیا کہ پشتوں تک کام دے۔ فالج کا حملہ ہوا تو بالاصرار قادیان میں آگئے۔ مگر پھر کچھ عرصہ بعد واپس جانا پرا اور پٹیالہ میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ قادیان کے قطعہ صحابہ میں دفن کئے گئے۔۸۰
۳۔ حافظ غلام محمد صاحبؓ ساکن دھیر کے کلاں ضلع گجرات۔ )برادر خورد ابوعبید اللہ حضرت حافظ مولوی غلام رسول صاحب وزیرآبادیؓ(
)وفات: ماہ صلح/ جنوری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش بعمر ۸۲ سال(۸۱
۴۔ حضرت مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوریؓ )ولادت: ۱۲۶۸ھ یا ۱۸۵۲ء۸۲
)بیعت: ۱۷۔ مئی ۱۸۹۰ء وفات: یکم تبلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش(۸۳
حضرت مولوی صاحبؓ کی سلسلہ احمدیہ سے وابستگی` فدائیت اور بیعت خلافت ثانیہ کی تفصیل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش میں گزر چکی ہے جس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ نظام خلافت سے دوبارہ وابستہ ہونے کے بعد آپ نبوت/ نومبر ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۱ہش سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں قیام پذیر تھے۔ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے آپ کا جنازہ ۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو ایک بھاری مجمع کے ساتھ بہشتی مقبرہ سے متصل باغ میں پڑھایا۔ نعش کو کندھا دیا اور صحابہ کے قطعہ خاص میں تدفین کے بعد آپ کی قبر پر دعا کرائی۔۸۴
آپ کی وفات پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشر احمد صاحبؓ نے >ایک بزرگ صحابی کا وصال< کے عنوان سے ایک لطیف مضمون تحریر فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں آپ کے مقام` آپ کی خدمات اور آپ کے خداتعالیٰ کی تقدیر خاص سے بیعت خلافت سے مشرف ہونے اور خلافت ثانیہ کی تائید میں مضامین لکھنے اور بالاخر بہشتی مقبرہ میں سپرد خاک کئے جانے پر نہایت موثر اور پرزور پیرایہ میں روشنی ڈالی اور اس کے آخر میں غیر مبائعین کے ایک معزز رکن مولوی محمد یعقوب خاں صاحب ایڈیٹر اخبار >لائٹ< کا ایک مبارک و مبشر خواب بھی درج فرمایا` جو یہ تھا۔
>میں نے )حضرت مولانا مرحوم کی وفات سے چند دن قبل( رویاء میں دیکھا کہ آپ ہی کے مکان میں مولانا چارپائی پر پڑے ہیں اور بیماری کی حالت میں ہیں۔ اس چارپائی کے ساتھ ساتھ بڑے موٹے موٹے انار لگے ہوئے ہیں جیسے ایک درخت کے ساتھ۔ مگر ہر ایک انار کٹا کٹایا ہے اور اس کے موٹے موٹے دانے ایسی چمک اور کشش رکھتے تھے کہ کھانے کو دل للچاتا تھا۔ اور جب میں نے بھی ہاتھ بڑھا کر اسکے دو چار دانے کھائے تو خیال گزرا کہ یہ تو مولانا کی چیز ہے اور ساتھ ہی یہ سمجھ آئی کہ یہ جنت کا وہ نقشہ ہے جو قطو فھا دانیہ میں کھینچا گیا ہے<۔۸۵
یہ رویاء جہاں ایک طرف حضرت مولوی صاحب مرحوم کے نہایت نیک انجام کی طرف اشارہ کرتی تھی۔ وہاں دوسری طرف ہمارے غیر مبائعین اصحاب کے لئے بھی ایک زبردست حجت تھی۔
۵۔ حضرت مفتی چراغ الدین صاحب بٹالویؓ سابق ملازم ریاست کپورتھلہ )وفات: ۲۵۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش بعمر قریباً سو سال(۸۶
آپ کی بیان فرمودہ روایات الحکم ۱۴` ۲۱۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش میں شائع شدہ ہیں۔
۶۔ گلاب خاں صاحب سب ڈویژنل آفیسر ملٹری ورکس سیالکوٹ۔
)وفات: ۲۹۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش(
آپ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ کے خاص دوستوں میں سے تھے اور ان ہی کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہوئے تھے۔ نمازوں اور دعائوں کا خاص شغف تھا اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فدائی تھے۔۸۷
۷۔ حضرت چوہدری غلام احمد صاحبؓ امیر جماعت احمدیہ کریام )تحصیل نواں شہر دوآبہ ضلع جالندھر(
)ولادت; ۷۶۔ ۱۸۷۵ء` بیعت: جنوری/ فروری ۱۹۰۳ء` وفات: ۳۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ¶۱۳۲۲ہش(
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نہایت مخلص اور فدائی صحابہ میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ شب بیدار` مستجاب الدعوات اور صاحب رویاء و کشف بزرگ تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی بیعت لینے کے بعد فرمایا >اللہ تعالیٰ جلد جماعت پیدا کر دے گا< چنانچہ یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور چھ ماہ کے اندر کریام میں مضبوط جماعت بن گئی جو ۲۹۔ نومبر ۱۹۳۷ء کو تین سو پندرہ نفوس تک اور ۱۹۴۷ء میں قریباً پانچ سو تک پہنچ گئی۔۸۸ آپ نے گردونواح میں بھی تبلیغ کا حق ادا کردیا۔ آپ کو قصبہ راہوں کے چودھری فیروز خاں صاحب اور کاٹھ گڑھ کے مولوی عبدالسلام صاحب جیسے پرجوش رفقاء مل گئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی کے مبارک زمانہ میں کریام` راہوں` کاٹھ گڑھ` سڑوعہ` لنگڑوعہ` کریم پور` بنگہ` پنام` مکندپور` بکھلور اور لنگیری وغیرہ مقامات پر مخلص احمدی جماعتیں قائم ہوگئیں۔۸۹
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تتمہ حقیقتہ الوحی صفحہ ۹۶ پر اپنے ایک عظیم الشان نشان کے گواہوں میں آپ کا نام پچاسویں نمبر پر درج فرمایا ہے۔ آپ ان سابقوں الاولون میں سے تھے جنہوں نے حضورؑ کے عہد مبارک میں )۲۹۔ دسمبر ۱۹۰۷ء کو( وصیت کرکے اپنا حصہ جائداد بحق صدر انجمن احمدیہ قادیان ہبہ کرکے قبضہ بھی دے دیا تھا۔۹۰
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ نے کئی بار اپنے خطوط میں آپ کو لکھا کہ >مجھے آپ سے بہت محبت ہے<۔ ایک بار موضع کریم پور )ضلع جالندھر( کے احباب حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے ان کو نصیحت فرمائی کہ آپ لوگ بار بار قادیان آتے رہیں تا ایمان تازہ رہے۔ انہوں نے اپنی مجبوریاں پیش کیں۔ اس پر فرمایا۔ >اچھا اگر قادیان نہ آسکو تو حاجی غلام احمد صاحب کے پاس کریام ہو آیا کرو<۔۹۱
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کے ساتھ غایت درجہ محبت تھی اور حضور کی ہر تحریک پر ابتداء ہی میں پرجوش رنگ میں شمولیت سے انہیں خاص روحانی سرور حاصل ہوتا تھا۔ فرض اور طوعی ہر قسم کے چندوں میں نمایاں حصہ لیتے اور مالی اور جانی قربانیوں میں پیش پیش رہتے تھے اور اغراض سلسلہ کی تکمیل کے لئے شبانہ روز مصروف رہتے۔ تبلیغ میں انہماک کا یہ عالم تھا کہ آپ نے جماعت کریام کو دس حصوں میں تقسیم کرکے ان کے امیر وفد مقرر کر رکھے تھے۔ ہر گروہ آپ کی زیر نگرانی تبلیغ کے لئے باہر جاتا تھا۔ حلقہ تبلیغ اردگرد کا پانچ میل تک کا علاقہ ہوتا تھا۔ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر خود بھی سال بھر میں نئے احمدی بنانے کی تحریک میں حصہ لیتے اور دوسروں سے بھی وعدے لیتے۔۹۲ آپ نے ضلع جالندھر اور ہوشیارپور میں مبلغین احمدیت کے ساتھ کئی بار طویل دورے کئے۔ ۱۹۲۳ء میں جن مجاہدوں نے علاقہ ارتداد ملکانہ میں تبلیغی جہاد کیا۔ ان میں آپ بھی شامل تھے ۳۶۔ ۱۹۳۵ء میں علاقہ مکیریاں کی تبلیغی مہم میں شرکت کی اور ایک ایک ماہ وقف کرکے پہلے سال موضع عمراپور میں اور دوسرے سال خاص مکیریاں میں بطور امیرالمجاہدین کام کیا۔ جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خوشنودی کے سرٹیفکیٹ عطا فرمائے۔
ابتداء میں کریام اور کریہا۹۳ کے احمدی آپ کے مکان کی بیٹھک میں نمازیں پڑھتے تھے۔ ۱۹۱۵ء میں حضرت حاجی صاحبؓ نے ایک فراخ اور عمدہ مسجد تعمیر کرائی جس کے اکثر اخراجات آپ نے برداشت کئے۔ تعمیر مسجد کے بعد اگلے سال آپ نے ۳۔ جون ۱۹۱۶ء سے ایک پرائمری سکول جاری فرمایا اور ابتداء میں اس کا پورا خرچ اپنی گرہ سے ادا کیا۔ بعد کو اگرچہ حکومت اور مرکز سلسلہ کی طرف سے بھی امداد ملنے لگی۔ مگر جب بھی گرانٹ بند ہو جاتی۔ آپ مدرسہ کی مالی ضروریات از خود پوری کردیتے۔ اس مدرسہ کے نگران اور مینجر کے فرائض ہمیشہ خود انجام دیتے اور بعض اوقات طلبہ کو خود بھی پڑھاتے تھے۔۹۴
حضرت حاجی صاحبؓ کی دیانتداری اور راست بازی ہر دوست دشمن کو مسلم تھی۔ ایک شخص )رام لال پروہت ساکن راہوں( نے پچاس گھمائوں اراضی آپ کے نام بغیر اطلاع دیئے کرادی۔ عدالتیں آپ کو ثالث بناتیں اور کبھی کسی فریق کو ان کے فیصلے پر اعتراض نہ ہوتا تھا۔۹۵ کہتے ہیں ایک بار آپ کے گائوں میں ایک مجسٹریٹ نے موقع دیکھتے وقت مدعی فریق سے کہا کہ اگر اس جگہ کوئی سچ بولنے والا ہو تو پیش کرو۔ اس نے حضرت حاجی صاحبؓ کا نام لیا۔ آپ کو طلب کیا گیا۔ حاکم نے عزت سے بٹھایا اور اصل حقیقت دریافت کی۔ آپ نے سچی بات کہہ دی۔ حاکم نے حاجی صاحبؓ کی شہادت کی بناء پر مدعی فریق کے حق میں فیصلہ کر دیا۔ مدعا علیہ فریق احمدی تھا۔ اس نے مسجد میں آنا جانا بند کر دیا۔ حضرت حاجی صاحبؓ نے اپنے بعض دوستوں کی معیت میں جاکر اسے سمجھایا کہ اگر ظالم میں تھا تو ترک نماز مجھے کرنا چاہئے تھی۔ مگر آپ اپنے تئیں مظلوم سمجھ کر نماز چھوڑ بیٹھے۔ نیز کہا۔ میں نے تو خدا کے حکم کے مطابق سچی شہادت دی ہے۔ آپ کو ناراض نہیں ہونا چاہئے تھا۔ الغرض منت سماجت کرکے اسے مسجد میں لے آئے اور نماز شروع کرا دی۔۹۶` ۹۷
۸۔ مرزا غلام سرور صاحب ساکن کوٹلہ مغلاں ضلع ڈیرہ غازی خاں ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر ورنیکلر مڈل سکول۔ )وفات: ۲۱۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش(۹۸
اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے مگر سب سے بہت مشفقانہ اور ہمدردانہ سلوک کرتے۔ ان کی ہمدردی اور امداد کا دروازہ ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کے لئے کھلا رہتا تھا۔ طبیعت کے حلیم اور ملنسار تھے۔ اخوند محمد افضل خاں صاحبؓ سابق پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ڈیرہ غازی خاں کی اکلوتی بیٹی ان کے عقد میں تھی۔۹۹
۹۔ حضرت سید میر عنایت علی شاہ صاحب لدھیانویؓ )ولادت: ۱۸۵۸ء` بیعت: بموقعہ بیعت اولیٰ ۲۳۔ مارچ ۱۸۸۹ء نمبر ۹ پر` وفات: ۳۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش(۱۰۰
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب لدھیانہ میں بیعت اولیٰ کا آغاز فرمایا تو اگرچہ اپنی باری کے اعتبار سے آپ کا تیسرا نمبر تھا۔ مگر آپ کو حضرت قاضی خواجہ علی صاحبؓ کو بلانے کے لئے جانا پڑا۔ جس کے دوران پانچ احباب نے بیعت کرلی۔ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاص دوستوں میں سے تھے۔ آپ کی شادی اوائل عمری میں سید میر عباس علی شاہ صاحب کے ہاں ہوئی اور انہی کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ مگر جب میر عباس علی صاحب کو ٹھوکر لگی تو مرحوم کے پائے ثبات میں کوئی لغرش نہ آئی اور اپنے قابل تعظیم چچا اور خسر کی پروا نہ کرتے ہوئے سچائی کا ساتھ دیا۔ حضرت خان نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے محاسب اور مصاحب کی حیثیت سے بھی کام کرتے رہے۔ بڑے عبادت گزار تھے۔ جب سے ہوش سنبھالا` نماز روزہ تو درکنار تہجد بھی بہت کم قضاء کی۔ ایمانداری` وفاداری اور صبر کی خوبیاں خاص طور پر نمایاں تھیں جن کی وجہ سے مرحوم مخالفین کی نظروں میں بھی عزیز تھے۔ دینی امور میں نہایت صفائی` صدق اور جوش سے کام کرتے تھے۔ لدھیانہ کی ایک خانقاہ کے ساتھ کافی زمین تھی اور آپ بھی اس کے وارثوں اور سجادہ نشینوں میں سے تھے مگر آپ کبھی وہاں جاکر کھڑے بھی نہ ہوتے یہاں تک کہ جو لوگ وہاں جاروب کش تھے وہ مالک بن بیٹھے۔ پھر بھی کبھی خیال نہ کیا۔ مریدوں سے فرمایا کرتے کہ ہم تو اصلی سرکار کے خود مرید ہیں۔ رشتہ داروں نے ۱۹۲۶ء میں دعویٰ دخل یابی ان کی طرف سے کردیا اور عدالت نے بھی ان کا حق ملکیت تسلیم کرلیا لیکن مخالف نے ایک سوال یہ اٹھا دیا کہ یہ تو مرزائی ہیں اور خانقاہوں کو مانتے نہیں۔ انہوں نے سوائے بے حرمتی کے وہاں کیا کرنا ہے۔ جس پر جج نے آپ سے سوال کیا کہ کیا آپ مرزائی ہیں؟ اس وقت جو لوگ عدالت میں موجود تھے بتاتے ہیں کہ جوش کی وجہ سے مرحوم کی آواز بلند ہوگئی۔ کھڑے ہوکر فرمایا۔ کہ >ہاں میں احمدی ہوں< چنانچہ فیصلہ آپ کے خلاف ہوگیا۔ آپ کو دینی کتب کا بے حد شوق تھا۔ بہت سی پرانی کتب و رسالہ جات آپ نے جمع کئے تھے۔ جوانی میں ان کا مطالعہ آپ برابری جاری رکھتے۔ چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ تبلیغ کا شوق اتنا کہ لوگوں میں مشہور تھا کہ میر صاحب تو چھوڑتے نہیں۔ غیرت اور محبت اتنی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام` خلفاء اور احمدیت کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہ کرسکتے۔ اخیر میں نظر کمزور ہوگئی تو عینک کے استعمال کے باوجود لکھ پڑھ نہ سکتے۔ اس لئے بیٹھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں پڑھتے اور تلاوت قرآن مجید کرتے رہتے۔ بڑے مستجاب الدعوات تھے۔ حتیٰ کہ غیر احمدی دعائیں کرواتے۔ صاحب کشف تھے۔ کثرت سے ایسی خوابیں دیکھتے جو اپنے وقت پر پوری ہوتیں۔ صحت شروع ہی سے بہت اچھی تھی اور آخر وقت تک ہوش و حواس صحیح سالم رہے۔ ہمیشہ اپنے ہاتھ سے کام کرتے۔ بازار سے سودا سلف خود لاتے۔ ایک ماہ پیشتر اپنے بڑے لڑکے سید محمد عبدالرحیم صاحب کے ہمراہ قادیان تشریف لائے اور حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ سے ملاقات کرکے ہشاش بشاش واپس ہوئے۔ معمولی بخار ہوا۔ جو تیسرے دن اتر گیا مگر کمزوری غالب آگئی۔ ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب ریٹائرڈ ڈی۔ ایم۔ او برما نے علاج میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔ آخری بلاوا آن پہنچا۔ مگر اس وقت بھی نہایت اطمینان سے لیٹے تھے۔ کوئی گھبراہٹ یا اضطراب نہ تھا۔ آہستہ آہستہ سانس میں کمی آنے لگی۔ یہاں تک کہ ۲۔ رمضان المبارک )مطابق ۳۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش( کو بروز جمعہ ۳ بجکر ۴۵ منٹ پر آخری سانس لیا۔ جنازہ دوسرے دن قادیان پہنچایا گیا۔ جس وقت گھر سے جنازہ اٹھا۔ بے شمار خلقت موجود تھی۔ سٹیشن قادیان پر حضرت نواب محمد عبداللہ خاں صاحبؓ آف مالیر کوٹلہ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے نے انتظام خاص سے اہتمام کیا۔ نماز جنازہ ایک جم غفیر نے باغ میں حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے اقتداء میں پڑھی صاحبزادگان خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اکثر بزرگوں نے کندھا دیا۔ خود حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے ڈلہوزی سے ٹیلیفون پر افسوس کا اظہار فرمایا اور آپ قطعہ خاص صحابہ میں دفن کئے گئے۔۱۰۱
۱۰۔ سید محمد زاہد صاحبؓ سونگڑہ ضلع کٹک )وفات: ۴۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش(
مرحوم اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ سلسلہ میں داخل ہوتے ہی آپ کے والد صاحب کی طرف سے سختی شروع کر دی گئی مگر بالاخر آپ کے نیک نمونہ سے وہ بہت متاثر ہوئے اور اکثر کہتے >زاہد زاہد ہی ہے< آپ ایک عرصہ تک جماعت سونگڑہ کے سیکرٹری تعلیم و تربیت کے فرائض بجالاتے رہے۔ ایک حلقہ کے محصل مقرر ہوئے تو آپ کا حلقہ چندہ کی ادائیگی میں سبقت لے گیا۔ نہایت خوش خصال` صوفی منش اور صاحب کشف بزرگ تھے۔۱۰۲
۱۱۔ قاسم خاں صاحب گھٹیالیاں )وفات: ۸۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش(۱۰۳
دوسرے وفات یافتہ مخلصین
مندرہ بالا صحابہ کے علاوہ مندرجہ ذیل احمدی مخلصین نے بھی اسی سال وفات پائی۔
۱۔
قاضی عبدالمجید صاحب۱۰۴ )برادر قاضی محمد اسلم صاحب ایم۔ اے حال پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ(
۲۔
اخوند زادہ محمد شاہ صاحب ساکن دوبیاں تحصیل صوابی ضلع مردان۔۱۰۵
۳۔
مرزا ناصر علی صاحب امیر جماعت احمدیہ فیروزپور۔۱۰۶
۴۔
شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے۔۱۰۷
۵۔
خان بہادر چودھری نعمت اللہ خان صاحب آنریری مجسٹریٹ ساکن مدار ضلع جالندھر۔۱۰۸
‏in] g[ta۶۔
بابو محمد عالم خان صاحب۱۰۹ پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ ممباسہ )مشرقی افریقہ(
۷۔
خان صاحب نعمت اللہ خان صاحب برج انجینئر )ریلوے( بیاس۔۱۱۰
۸۔
بابو اکبر علی صاحب۔۱۱۱
۹۔
عبدالقیوم خان صاحب بٹالوی۔۱۱۲
فصل ششم
۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کے بعض متفرق مگر اہم واقعات
خاندان حضرت مسیح موعودؑ میں خوشی کی تقاریب
۱۔ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے ہاں ۱۱/ ۱۰ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کی درمیانی شب میاں مصطفیٰ احمد خاں صاحب پیدا ہوئے۔۱۱۳
۲۔ صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب )خلف الرشید حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ( کے ہاں مورخہ ۲۶۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو صاحبزادی امتہ الصمد کی پیدائش ہوئی۔۱۱۴
۳۔ میاں عبدالرحیم احمد صاحب کے ہاں ۱۵۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو صاحبزادی امتہ النور صاحبہ کی ولادت ہوئی۔۱۱۵
مرکزی مبلغین کا تبلیغی وفد صوبہ یو۔ پی میں
مبلغین سلسلہ کے ایک وفد نے جو مہاشہ محمد عمر صاحب` گیانی عباداللہ صاحب اور مولوی عبدالمالک خان صاحب پر مشتمل تھا ۶۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش سے لے کر ۱۲۔ احسان/جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش تک صوبہ یو۔ پی کا نہایت کامیاب تبلیغی دورہ کیا اور سہارنپور` دیوبند` میرٹھ` متھرا` بندرابن` ریاست الور` باندی کوئی` ساندھن` کانپور` لکھنو` ڈیرہ دون` ایودھیا` مسکرا ہمیرپور` رائے بریلی` شاہجہانپور` بریلی اور کٹیا وغیرہ اہم مقامات میں پبلک جلسوں` پرائیویٹ مجالس اور لٹریچر کے ذریعہ مسلم اور غیر مسلم طبقوں تک پیغام اسلام و احمدیت پہنچایا۔۱۱۶
سید ارشد علی صاحب لکھنوی نے )جو کئی شہروں میں شریک وفد تھے( اس وفد کی نسبت اپنے ذاتی تاثرات حسب ذیل الفاظ میں شائع کئے۔
>اس وفد کے ذریعہ خدا کے فضل سے یو۔ پی میں دس نئے افراد نے بیعت کی۔ یو۔ پی کے رئوساء کو سلسلہ کے حالات اور تحریک احمدیت اس رنگ میں پہنچائی گئی ہے کہ اس سے ایک خاص دلچسپی پیدا ہوگئی ہے عام طور پر ہمارے مخالفین نے جو غلط اور بے بنیاد باتیں ہماری جماعت کے متعلق پھیلا رکھی ہیں ایک حد تک خدا کے فضل سے ان کا بھی ازالہ ہوگیا ہے۔ یو۔ پی کے اہل علم طبقہ میں سلسلہ کا وقار قائم ہوگیا ہے مقامی جماعتوں میں بھی وفد نے بہت کچھ روح عمل پیدا کی۔ ڈیرہ دون میں وفد نے جو کام کیا ہے انشاء اللہ وقت آنے پر اس کے اظہار پر مسرت ہوگی۔ اس مختصر تفصیل کے بعد بعض دلچسپ واقعات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔
بنارس میں ہمارا وفد جناب پنڈت مدن موہن صاحب مالوی سے ملنے گیا۔ پنڈت صاحب ہندوستان میں جس شخصیت کے مالک ہیں اس کے لحاظ سے ہمارا وفد کوئی ظاہری توجہ کے اسباب اپنے اندر نہیں رکھتا تھا۔ لیکن محض خدا کے فضل سے ہمارے وفد کے علمی معیار نے موصوف کو متحیر کردیا۔ ارکان وفد کے امیر صاحب نے سلسلہ کے پورے حالات سنائے اور حضرت کرشن کی آمد ثانی کے متعلق ہندو کتب سے سنسکرت میں جو حوالے پڑھ کر سنائے اس سے ممدوح کو تعجب ہوا اور ان کی سنسکرت دانی نے ان پر بہت اثر کیا۔ وہ وفد سے بڑی محبت اور عقیدت سے پیش آئے اور سلسلہ کی کتب پڑھنے کا وعدہ فرمایا۔
اجودھیا میں حضرت کرشن کی آمد کی خبر سناتے ہوئے ہمارے دوست اسی مضمون کا ایک رسالہ ہندی میں تقسیم کرتے رہے کہ ایک ہندو خاتون جن کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا۔ جب ایک تبلیغی رسالہ اس خاتون کی خدمت میں پیش کیا گیا تو اس بچہ نے اپنی ماں کے ہاتھ سے وہ رسالہ لے لیا اور سرورق پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام پڑھ کر اپنی ماں سے کہنے لگا کہ >ماتا یہ تو کسی مسلمان کا نام ہے۔ یہ اوتار کیسے ہوسکتا ہے؟< بچہ کے سوال کے جواب میں اس ہندو دیوی نے بڑی متانت سے کہا کہ >بیٹا اوتار کے لئے ہندو مسلمان کی کوئی قید نہیں< اس حیرت انگیز جواب سے قلب کو جو سرور حاصل ہوا وہ ظاہر ہے<۔۱۱۷
بیرونی مشنوں کی تبلیغی سرگرمیاں
نائیجیریا مشن:۔ نائیجیریا مشن کی تاریخ میں ۱۲۔ امان/ مارچ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کا دن بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس روز آنریبل چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنے سفر امریکہ و انگلستان سے واپسی پر لیگوس کی پہلی احمدیہ مسجد کا سنگ بنیاد بعد نماز عصر رکھا۔4] ft[s۱۱۸ مبلغ نائیجیریا حکیم فضل الرحمن صاحب نے ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں چودھری صاحب نے روحانیت سے لبریز تقریر فرمائی۔۱۱۹ اس تقریب پر نائیجیریا کی سب مشہور جماعتوں نے اپنے نمائندے بھیجے۔ ہز ایکسیلنسی گورنر` چیف سیکرٹری اور دوسرے معزز حکام اور غیر سرکاری یورپین اور افریقن نیز سر عزیز الحق صاحب اور بمبئی کے نامزد گورنر ہز ایکسی لنسی سر جان کالول بھی موجود تھے اور غیر معمولی طور پر بہت بڑا مجمع تھا۔ سامعین حضرت چودھری صاحب کے خطاب سے بہت متاثر ہوئے اور پریس نے اس کی وسیع پیمانہ پر اشاعت کی۔۱۲۰
ہندوستان کے اخباروں میں سے اخبار >سٹیٹسمین< )کلکتہ(۱۲۱ نے اپنی ۱۴۔ مارچ ۱۹۴۳ء کی اشاعت میں حسب ذیل خبر دی۔
>جمعہ کے روز سر ظفر اللہ خاں صاحب نے لیگوس میں پہلی مرکزی احمدیہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا۔ اس تقریب میں گورنر نیز سر عزیز الحق صاحب ہائی کمشنر برائے ہند )لنڈن( بھی موجود تھے۔ نائیجیریا کے احمدی مسلمان اپنے مرکز کے ساتھ گہرا اور عقیدت مندانہ تعلق رکھتے ہیں۔ مرکز نے نئی مسجد کی تعمیر کے لئے پانچ ہزار روپیہ کی گرانقدر امداد دی ہے<۔ )ترجمہ(۱۲۲
لیگوس کی پہلی عالیشان مسجد قریباً ساڑھے پانچ ماہ میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے اس کا نام >مسجد فضل< رکھا اور فرمایا کہ لنڈن کی پہلی مسجد کا نام بھی >مسجد فضل< ہے۔ اس کا نام بھی >مسجد فضل< رکھا جائے۔ اس مسجد پر جو حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ نائیجیریا کی نگرانی میں تعمیر ہوئی قریباً ایک ہزار پونڈ خرچ ہوئے۔ لیگوس کے احمدیوں نے جن میں مرد` خواتین اور بچے بھی شامل تھے` مسجد کی زمین کا ملبہ اٹھانے` بنیادیں کھودنے` بنیادیں بھرنے اور فرش لگانے کا کام خود کیا۔
مسجد لیگوس کا افتتاح ۲۷۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو جمعہ ہی کے دن ہوا جس کی خبر نائیجیریا پریس نے بھی شائع کی۔۱۲۳
مشرقی افریقہ مشن:
مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ مشرقی افریقہ ایک عرصہ سے قرآن مجید کا سواحیلی زبان میں ترجمہ کررہے تھے جو ۳۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۳ء/۱۳۲۲ ہش کو خدا کے فضل سے مکمل ہوگیا۔۱۲۴
فلسطین مشن:
فلسطین میں یہ قانون تھا کہ مسلمانوں کا نکاح عدالت شرعیہ کی اجازت کے بعد رجسٹرڈ نکاح خوان ہی پڑھ سکتا تھا۔ برسوں سے احمدیوں کے نکاح بھی اسی طرح پڑھے جاتے تھے۔ اس سال فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش میں احمدی فریقین کی طرف سے سرکاری شرعی فارم پر کرکے عدالت شرعیہ حیفا میں پیش کیا گیا۔ مگر عدالت شرعیہ نے اجازت دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک تم >مسلمان< نہ بن جائو۔ تمہارا نکاح نہیں پڑھا جاسکتا۔
اس پر چودھری محمد شریف صاحب مبلغ بلاد عربیہ نے ڈسٹرکٹ کمشنر حیفا سے ملاقات اور المجلس الاسلامی الاعلیٰ سے خط و کتابت کی۔ آخر آٹھ ماہ کی مراسلت اور ڈسٹرکٹ کمشنر سے دو تین ملاقاتوں کے بعد مسلم سپریم کونسل نے قاضی شرعی حیفا کا حکم کالعدم قرار دے دیا اور یہ فیصلہ صادر کیا کہ احمدی مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ ہیں۔ اس لئے حسب دستور سابق احمدیوں کے نکاح پڑھے جایا کریں۔ چنانچہ وہ نکاح جس کا انعقاد آٹھ ماہ سے رکا ہوا تھا۔ اس فیصلہ کے بعد قاضی شرعی حیفا کے حکم سے پڑھا گیا۔۱۲۵]ybod [tag
اس سال فلسطین مشن کو ایک رنجدہ واقعہ بھی پیش آیا۔ اور وہ یہ کہ چودھری محمد شریف صاحب مبلغ فلسطین کی اہلیہ صاحبہ ۲۷۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو کبابیر میں وفات پاگئیں۔۱۲۶ مرحومہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر اپنے شوہر کے ہمراہ بلاد عربیہ میں خدمت دین کے لئے گئیں اور وہیں خدمت کرتے کرتے حیفا کے قبرستان میں سپرد خدا کر دی گئیں۔ دیار غیر میں وفات پانے والی یہ پہلی مہاجرہ احمدی خاتون تھیں۔ مرحومہ جب پہلے پہل اس ملک میں گئیں تو عربی زبان میں کلام نہ کرسکتی تھیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے رو رو کر دعائیں مانگنا شروع کیں۔ آخر چندہ ماہ میں ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مرحومہ کی زبان کھول دی اور وہ عربی بولنے لگیں اور ڈیڑھ دو سال تک مدرسہ احمدیہ کبابیر میں بچیوں کی تین جماعتوں کو تعلیم دیتی رہیں۔ رسالہ البشریٰ کی تیاری اور ترسیل میں بھی خاص مدد کیا کرتی تھیں۔۱۲۷
انگلستان مشن:
ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش میں اتحادیوں کو افریقہ میں نمایاں فتح حاصل ہوئی تھی۔ اس موقع پر مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ امام مسجد لنڈن نے ایک پمفلٹ شائع کیا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے بعض اہم رویا درج کئے جن میں برطانیہ کی ابتدائی کمزور حالت کے بعد چھ ماہ کے اندر اندر رفتہ رفتہ طاقت پکڑنے` شاہ لیوپولڈ کی تخت سے دستبرداری اور پھر شمالی افریقہ میں جنگ کے تغیرات اور بالاخر دشمن کی شکست کے نظارے دکھائے گئے تھے اور جو حیرت انگیز رنگ میں پورے ہوگئے۔۱۲۸ صداقت اسلام اور احمدیت کے اس زندہ نشان کا انگلستان کے اہل علم طبقہ پر بہت گہرا اثر ہوا۔
ذیل میں اس کے متعلق بعض معزز اصحاب کی آراء اختصاراً درج کی جاتی ہیں۔
۱۔
لارڈ برڈوڈ )سابق کمانڈر انچیف انڈیا( >بہت ہی دلچسپ رویاء جو ہوبہو پوری ہوئیں<۔
۲۔
مسٹر آئی۔ ایس۔ ایمری )وزیر ہند`( >نہایت دلچسپ مطبوعہ ملفوف ہے جس سے امام جماعت احمدیہ کی روحانیت اور دوربین نگاہ کا پتہ چلتا ہے<۔
۳۔
سرجیفرے ڈی۔ مونٹ مورنسی )سابق گورنر پنجاب( >مجھے رویاء کی تفصیل اور جس طرح وہ پوری ہوئیں ان کے متعلق بہت دلچسپی ہے،۔
۴۔
سر لوئی ڈین۔ >میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی پاکیزہ خواہشات کا ہم کو شکر گزار ہونا چاہئے<۔
‏tav.8.25
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
ترکی وفد سے متعلق وضاحتی خطبہ سے لیکچر >اسوہ حسنہ< تک
۵۔
سرفرینک برائون )آنریری سیکرٹری آف ایسٹ انڈیا ایسوسی ایشن( >پمفلٹ کے ارسال کرنے پر بہت بہت شکریہ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی رویاء جو پیشگوئیوں پر مشتمل تھیں کس طرح لفظ بلفظ پوری ہوئیں۔ یہ بات قابل غور ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ کی پیشگوی اتحادیوں کی فتح کی نسبت اس وقت کی گئی تھی جبکہ اتحادیوں کی حالت ۴۰ء کے موسم گرما میں بہت کمزور تھی اور سلطنت برطانیہ تنہا محوریوں کے مقابلہ میں کھڑی تھی۔ جب آپ حضرت کی خدمت میں تحریر کریں تو میری طرف سے بھی سلام اور پیشگوئیوں کے پورا ہونے پر مبارک باد دیں<۔
۶۔
کرنل جے۔ ایچ سائیکس )کمانڈنگ انڈین کنٹنجنٹ(۔ >یہ پمفلٹ بڑا ہی دلچسپ ہے اور رویاء بھی نہایت عجیب<۔
ان اصحاب کے علاوہ لارڈ سیموئیل` سرسٹیفورڈ کرپس وغیرہ نے بھی یہ پمفلٹ بہت دلچسپی سے پڑھا۔۱۲۹4] [rtf
اسی سال انگلستان مشن نے مولوی جلال الدین صاحب شمسؓ کا ایک کتابچہ بعنوان >اسلام< دو ہزار کی تعداد میں شائع کیا۔۱۳۰
جاوا` ہانگ کانگ` سنگاپور اور اٹلی کے مجاہدین کی نسبت اطلاعات
دوسری جنگ عظیم کے دوران مشرق بعید کے مجاہدین احمدیت کا رابطہ مرکز سے کٹ چکا تھا اور کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ وہ کس حال میں ہیں۔ یہ پہلا سوال تھا جس میں خداتعالیٰ کے فضل و کرم سے ان کی خیریت کی اطلاعات مرکز میں پہنچیں۔
۱۔ چنانچہ ریڈ کراس کمشنر شملہ کی طرف سے ۱۲۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو بذریعہ تار اطلاع ملی کہ دشمن کے ذرائع سے حاصل شدہ اطلاع مظہر ہے کہ مولوی رحمت علی صاحب )مبلغ جاوا( زندہ اور بخیریت ہیں۔۱۳۱
۲۔ ماہ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کے پہلے عشرہ میں ریڈکراس شملہ نے دشمن کے ملک سے ریڈیو کا پیغام سنا اور اس کی اطلاع جماعت احمدیہ کو دی کہ مولوی غلام حسین صاحب ایاز مبلغ سنگاپور اور وہاں کے دوسرے احمدی صحیح سالم ہیں۔۱۳۲
۳۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے ۱۸۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو بذریعہ تار اطلاع دی کہ مولوی محمد شریف صاحب مبلغ اٹلی کے بخیریت ہونے کا خط موصول ہوا ہے۔۱۳۳
۴۔ اس ماہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں انٹرنیشنل ریڈکراس سوسائٹی جنیوا کی طرف سے ہانگ کانگ کے احمدیوں محمد یوسف۔ غلام احمد۔ رحمت خاں۔ محمود کی خیریت کی خبر بھی پہنچی۔۱۳۴
نئی مطبوعات سلسلہ
۱۔ >گزشتہ و موجود جنگ کے متعلق پیشگوئیاں< مولانا جلال الدین صاحب شمس امام مسجد لنڈن کے اہم مضامین کا مجموعہ جو رسالہ >ریویو آف ریلیجنز< )اردو( کے بعض نمبروں میں شائع ہوئے اور مکتبہ احمدیہ قادیان نے انہیں یکجائی طور پر چھاپ دیا۔ ان مضامین میں نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے ظہور پذیر ہونے کی مستند معلومات فراہم کی گئیں جن کا تعلق پہلی عالمگیر جنگ سے تھا بلکہ دوسری جنگ کی نسبت سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی پیشگوئیاں بھی درج کی گئیں اور جنگ کے بارہ میں سپرچولسٹوں اور نجومیوں کی پیشگوئیوں کا ازروئے واقعات غلط ہونا بھی بالبداہت ثابت کیا گیا تھا۔
۲۔ >سیرت مسیح موعودؑ< حصہ پنجم۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے شمائل و اخلاق پر مشتمل ایک مفید اور مستند کتاب جو سلسلہ احمدیہ کے پہلے مورخ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے مرتب فرمائی۔
۳۔ >تاریخ اندلس< )مصنفہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد سابق امام مسجد لنڈن( یہ ایک مختصر مگر عالمانہ کتاب تھی جس میں سپین کی اسلامی حکومت کے قیام اور اس کے عروج و زوال پر ٹھوس معلومات جمع کی گئیں۔ فاضل مصنف نے قام انگلستان کے زمانہ میں سپین کا سفر کیا اور پھر آکسفورڈ` کیمرج اور لنڈن یونیورسٹیوں کی طرف سے >مسلم سپین< کے موضوع پر لیکچر دینے کی دعوت پر تاریخ اندلس کا گہرا مطالعہ کیا اور نوٹ لکھے۔ یہ کتاب ان سب معلومات کا نچوڑ اور خلاصہ تھی۔
۴۔ >سیرت حضرت ام المومنین< حصہ اول )مرتبہ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر اخبار >الحکم< قادیان سابق مبلغ بلاد عربیہ( حضرت ام المومنین سیدہ نصرت جہاں بیگم رضی اللہ عنہا کی یہ پہلی اور مستند سوانحعمری تھی جو خاص اہتمام سے مرتب ہوئی اور شائع کی گئی۔ فاضل مولف کئی سال سے مریض چلے آرہے تھے اور مختلف اوقاف میں مرض کے خطرناک حملے ہوئے۔ کتاب کی تالیف کے دوران بھی ایک بار پھر بیماری کا حملہ ہوا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس نہایت قیمتی کتاب کے پہلے حصہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سعادت عطا کی۔ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے اس کے مسودہ پر نظرثانی فرمائی اور یہ رائے دی کہ >میری رائے میں یہ کتاب ایک اوریجنل (ORIGINAL) تصنیف ہے اور اکثر احباب تو ¶اسے اول سے آخر تک بالکل نئی معلومات کا مجموعہ پائیں گے جو نہ صرف ان کے لئے بلکہ ان کی بیویوں اور لڑکیوں کے لئے سراسر رحمت اور برکت کا موجب ہوگی اور قرآن کریم حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد یہ وہ کتاب ہوگی جسے احمدی آئندہ اپنی لڑکیوں کو التزاماً جہیز میں دیا کیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ مصنف کو جزائے خیر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کا خیال بھی خدا کی طرف سے ان کے دل میں ڈالا گیا ہے<۔۱۳۵
اس اہم تالیف سے جماعت کی ایک بہت بڑی ضرورت پوری ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس کو یہ قبولیت بھی بخشی کہ طبع ہونے سے پہلے تین ہزار کتاب فروخت ہوگئی۔ کتاب کی اشاعت میں سب سے زیادہ نمایاں حصہ الحاج حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحبؓ آف سکندر آباد نے لیا اور انہی کے نام نامی سے یہ کتاب معنون و منتسب ہوئی۔
۵۔ >قیام شریعت< حصہ اول۔ )مولفہ مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر مولوی فاضل( یہ کتاب انسانی زندگی کے دور اول یعنی پیدائش سے لیکر بلوغت تک کے ضروری اسلامی مسائل پر مشتمل تھی۔
۶۔ >انعامات خداوند کریم< )نہایت قیمتی نصائح کا مجموعہ جو حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ لدھیانوی نے مرتب فرمایا(۱۳۶
۷۔ >شمائل احمد< )مرتبہ چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی۔ اے` ایل ایل۔ بی مہتمم شعبہ اطفال خدام الاحمدیہ مرکزیہ قادیان( خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے شعبہ اطفال کی طرف سے بچوں کی تربیت کے سلسلہ میں پہلی کتاب >اخلاق احمد< چھپی تھی۔ اب دوسری کتاب >شمائل احمد< کے نام سے شائع کی گئی۔ اس تالیف کا نام حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے تجویز کیا اور اس کے تعارف میں لکھا۔
>مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ارکان ایک مجموعہ >شمائل احمد< کے نام سے شائع کررہے ہیں۔ اس مجموعہ کے مسودہ کو میں نے سرسری نظر سے دیکھا ہے اور کہیں کہیں مشورہ کے رنگ میں بعض اصلاحات کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ غلطی کا تو ہر انسانی کام میں امکان ہوتا ہے۔ لیکن یہ مجموعہ زیادہ تر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شائع شدہ روایات پر مبنی ہے اور کارکنوں کی نیت بھی خدا کے فضل سے صالح ہے۔ اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ یہ مختصر مجموعہ جو بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کی غرض سے شائع کیا جارہا ہے انشاء اللہ مفید ثابت ہوگا۔ کیونکہ یہ ناممکن ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے شمائل کی تصویر صحیح طور پر پیش کی جائے تو وہ نیک اثر پیدا کرنے سے قاصر رہے۔ اس مجموعہ میں ایک اور بھی خوبی ہے اور وہ یہ کہ بوجہ اس کے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے بارے میں چشم دید حالات پر مبنی ہے جو روایات کے رنگ میں بیان کئے گئے ہیں۔ وہ نصیحت اور اسوہ دونوں کا کام دیتا ہے اور یہی دو چیزیں تربیت کی جان ہیں یعنی یہ کہ اچھی نصیحت کے ساتھ ساتھ اچھا اسوہ بھی آنکھوں کے سامنے رہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ دوست اس مجموعہ کی اشاعت سے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
خاکسار مرزا بشیر احمد ۱۱۔ دسمبر ۴۳ء مطابق ۱۱۔ فتح ۱۳۲۲ہش<۱۳۷
مباحثہ ہیزم
اس سال اندرون ملک میں مباحثہ ہیزم کے سوا کوئی قابل ذکر مناظرہ نہیں ہوا۔ ہیزم ہوشیارپور کے ضلع میں ایک قصبہ ہے جہاں ۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو غیراحمدیوں اور احمدیوں کے مابین مناظرہ کی شرائط طے ہوچکی تھیں۔ بموجب شرائط ہر فریق کے لئے لازم تھا کہ وہ سند یافتہ مولوی فاضل مناظر پیش کرے۔ بصورت دیگر مبلغ پچاس روپیہ جرمانہ فریق ثانی کو ادا کرنا ضروری تھا۔ غیر احمدی اصحاب چونکہ یہ شرط پوری نہ کرسکے اس لئے طویل بحث و تمحیص کے بعد انہوں نے پبلک میں اپنی معذوری پر ندامت کا اظہار کیا۔ جس پر >وفات و حیات مسیحؑ< اور مسئلہ >ختم نبوت< پر مناظرہ کا آغاز ہوا۔
پہلا مناظرہ ۱۱ بجے شروع ہوا۔ غیر احمدیوں کی طرف سے مولوی عبداللہ صاحب معمار امرتسری اور جماعت احمدیہ کی طرف سے مولوی سید احمد علی صاحب مولوی فاضل مناظر تھے۔ جماعت احمدیہ کے مناظر نے قرآن مجید` احادیث اور بزرگان سلف کے اقوال کی رو سے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی وفات پر بحث کی۔
دوسرا مناظرہ سوا چار بجے بعد دوپہر شروع ہوا۔ جماعت احمدیہ کی طرف سے مولانا قاضی محمد نذیر صاحب لائلپوری مولوی فاضل اور غیراحمدیوں کی طرف سے مولوی عبداللہ صاحب مناظر تھے۔ جناب قاضی صاحب نے ازروئے قرآن مجید اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنا دیا کہ حضرت نبی کریم~صل۱~ کی شان اس قدر اعلیٰ اور ارفع ہے کہ آپ کی اتباع کامل سے انسان نبوت کے انعام سے بھی فیض یاب ہوسکتا ہے۔ غیر احمدی مناظر اس کا کوئی معقول جواب نہ دے سکے اور اپنی عادت کے مطابق گالیوں اور بدزبانی کے اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے۔ اس دوسرے مناظرہ کا ابھی نصف وقت بھی نہ گزرا تھا کہ پولیس نے مداخلت بے جا کرکے مناظرہ ختم کروا دیا۔ غیراحمدی علماء پولیس کی بات سنتے ہی سٹیج چھوڑ کر چلے گئے۔ خداتعالیٰ کے فضل سے مناظرہ نہایت کامیاب رہا۔ پبلک نے نہایت اچھا اثر لیا۔ احمدی احباب مناظرہ سننے کے لئے دور دور سے آئے ہوئے تھے۔ لاہور سے جناب چودھری اسداللہ خان صاحب بارایٹ لاء اور میاں غلام محمد صاحب اختر مع دیگر احباب پہنچ گئے تھے اور قادیان سے بہت سے احباب نے سائیکلوں پر اور پیدل چل کر مناظرہ میں شمولیت کی۔۱۳۸
چوتھا باب
حواشی
۱۔
الفضل ۳۱۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۔ میں >پربھارت< کے حوالہ سے ان جوابات کی تفصیل شائع شدہ ہے۔
۲۔
اخبار اہلحدیث امرتسر مورخہ ۵۔ فروری ۱۹۴۳ء صفحہ ۹۔
۳۔
الفضل مورخہ ۶۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۔
۴۔
ایضاً۔ ایضاً۔
۵۔
ملک فضل حسین صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے اس خطبہ کی تائید میں نہایت تحقیق کرکے ایک مضمون الفضل ۳۔ امان/ مارچ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کی اشاعت میں لکھا اور اس میں متعدد مشہور آریہ سماجی لیڈروں اور اخباروں کے حوالے دیئے۔
۶۔
الفضل ۲۸۔ بلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳ و ۴۔
۷۔
الفضل ۲۵۔ امان/ مارچ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳۔
۸۔
الفضل ۷۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۹۔
الفضل ۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۳۔ ۴۔
۱۰۔
الفضل ۲۱۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۱۱۔
الفضل ۲۷۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۲ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۶۔
۱۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۵۴ تا ۵۶۔
۱۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۴۸۔ ۱۴۹۔
۱۵۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۵۰ تا ۱۵۲۔
۱۶۔
الفضل ۱۱۔ مارچ ۱۹۳۹ء صفحہ ۸۔
۱۷۔
الفضل ۱۶۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۵۔
۱۸۔
الفضل ۳۰۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ تا ۵۔
۱۹۔
الفضل ۲۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۔
۲۰۔
انقلاب جون ۱۹۴۳ء بحوالہ الفضل ۲۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۱۔
الفضل ۱۵۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۲۲۔
الفضل ۱۱۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۵ کالم ۱۔
۲۳۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۵۔ ۱۹۴۴ء/ ۲۴۔۱۳۲۳ء ہش صفحہ ۳۴۔
۲۴۔
الفرقان میر محمد اسحاق نمبر ستمبر۔ اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۴۵۔
۲۵۔
حال مقیم سرگودھا۔ امیر صوبائی جماعت ہائے احمدیہ مغربی پاکستان۔
۲۶۔
الفرقان حضرت میر محمد اسحاقؓ نمبر ماہ ستمبر و اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۲۶۔ ۲۷۔
۲۷۔
حال امیر جماعت ہائے احمدیہ شہر و ضلع لائل پور۔
۲۸۔
الفرقان حضرت میر محمد اسحاقؓ نمبر ستمبر و اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۵۳۔
۲۹۔
الفضل ۵۔ احسان/ جون ۱۹۴۶ء/ ۱۳۲۵ہش صفحہ ۱۔
۳۰۔
الفضل ۱۹۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۳۔
۳۱۔
الفضل ۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۔
۳۲۔
الفضل ۲۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۳۳۔
الفضل ۷۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۔
۳۴۔
‏]2h [tag الفضل ۲۲۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۳۵۔
تابعین اصحاب احمد حصہ سوم صفحہ ۳۰۰۔ ۳۰۲ )مرتبہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان ناشر احمدیہ بکڈپو ربوہ پاکستان( طبع اول دسمبر ۱۹۶۳ء۔
۳۶۔
الفضل ۲۸۔ ظہور ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۳۷۔
حیات حسن )احمدی( مرتبہ عرفانی الکبیرؓ صفحہ ۵۶ تا ۵۷۔
۳۸۔
مضمون سید اعجاز احمد صاحب مبلغ سلسلہ برہمن بڑیہ۔ مطبوعہ الفضل ۲۳۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴( سے ماخوذ۔
۳۹۔
حال لائلپور۔
۴۰۔
الفضل ۱۲۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش نیز الفضل ۲۱۔ ۲۲ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۵۔
۴۱۔
۳۱۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲۔
۴۲۔
الفضل ۸۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۴۔
۴۳۔
الفضل ۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۴۴۔
الفضل ۱۰۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۴۔
۴۵۔
‏h2] gat[ الفضل ۲۶۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳ نیز الفضل ۱۲۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۴۶۔
الفضل ۱۴۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳ کالم ۲۔
۴۷۔
الفضل ۷۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴ کالم ۱۔
۴۸۔
الفضل ۹۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۴۹۔
صرف جہاد بالسیف مراد ہے۔ جیسا کہ جنگ اور تلوار کے لفظوں سے ظاہر ہے۔ )ناقل(
۵۰۔
ایضاً۔
۵۱۔
ایضاً۔
۵۲۔
یعنی جہاد بالسیف )ناقل(
۵۳۔
یعنی جہاد بالسیف۔ )ناقل(
۵۴۔
الفضل قادیان ۱۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۶۔ ۷۔
۵۵۔
الفضل قادیان ۱۲۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۸ کالم ۱۔ ۲۔
۵۶۔
الفضل ۲۶۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۵۷۔
الفضل ۲۹۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۵۸۔
الفضل ۱۴۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۔
۵۹۔
ایضاً ایضاً صفحہ ۲۔ ۳ )خطبہ جمعہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ(
۶۰۔
الفضل ۱۴۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲۔
۶۱۔
الفضل قادیان ۱۴۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳۔
۶۲۔
الفضل ۲۴۔ ظہور/ اگست ۱۹۶۰ء/ ۱۳۳۹ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۶۳۔
الفضل ۲۴۔ ظہور/ اگست ۱۹۶۰ء/ ۱۳۳۹ہش صفحہ ۳ تا ۵۔
۶۴۔
الفضل ۳۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۶۵۔
الفضل ۲۴۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۔
۶۶۔
الفصل ۷۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۸ء/ ۱۳۲۷ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۶۷۔
ولادت ۱۸۵۶ء۔ وفات ۱۹۳۹ء۔
۶۸۔
)نوٹ( خط ملتے ہی بذریعہ تار اطلاع دیں کہ NOTES مل گئے ہیں۔
۶۹۔
الفضل ۲۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۷۰۔
الفضل ۳۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۷۱۔
الفضل ۸۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
‏h1] g[ta۷۲۔
الفضل ۱۵۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۷۳۔
الفضل ۱۹۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۷۴۔
الفضل ۱۹۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۷۵۔
الفضل ۲۴۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۷۶۔
الفضل یکم صلح/ جنوری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش صفحہ ۱۔
۷۷۔
اسوہ حسنہ صفحہ ۱۲۹ تا ۱۳۳ )لیکچر حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ(
۷۸۔
الفضل ۷۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۔
۷۹۔
الفضل ۹۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۸۰۔
الفضل ۲۷۔ امان/ مارچ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۸۱۔
الفضل ۲۰۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ کالم ۲۔
۸۲۔
الفضل ۱۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳ )مختصر سوانح مرتبہ حضرت قاضی محمد یوسف صاحب آف مردان(
۸۳۔
الفضل ۳۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۸۴۔
الفضل ۵۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲۔
۸۵۔
الفضل ۱۸۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۳۔
۸۶۔
الفضل ۱۴۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔
۸۷۔
الفضل ۲۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۵۔
۸۸۔
اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۹۶ )مولفہ جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان(
۸۹۔
الفضل ۲۳۔ جون ۱۹۳۸ء صفحہ ۷ )روایات حضرت حاجی صاحبؓ(
۹۰۔
اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۹۹ حاشیہ و صفحہ ۱۲۴۔
۹۱۔
اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۱۲۷ )حاشیہ(
۹۲۔
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو میاں عطاء اللہ صاحب پلیڈر امرتسر )حال کینیڈا( کا مفصل مضمون مطبوعہ الفضل مورخہ ۳۱۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۹۳۔
کریام سے دو اڑھائی میل کے فاصلہ پر ایک گائوں جو مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کا وطن مالوف ہے اور جہاں آپ کے والد ماجد حضرت منشی امام الدین صاحبؓ قیام فرما تھے اور جمعہ کی نماز کے لئے ہمیشہ باالتزام کریام تشریف لے جایا کرتے تھے اور جب نہ پہنچ سکتے تو حضرت حاجی صاحبؓ اور کریام کے دوسرے احمدی سمجھتے کہ آپ بیمار ہوگئے ہوں گے۔ حضرت منشی صاحبؓ ۱۹۰۲ء کے قریب صحابہ کے زمرہ میں شامل ہوئے۔ اپنے گائوں میں اکیلے احمدی تھے۔ قبول احمدیت پر آپ کے والد اور کریہا کے دوسرے لوگوں کی طرف سے سخت تکالیف دی گئیں اور ہر طرح ظلم و ستم کا نشانہ بنائے گئے مگر آپ ثابت قدم رہے۔ تبلیغ کا ازحد شوق رکھتے تھے۔ استسقاء کی مرض سے بیمار ہوئے۔ علاج کے لئے قادیان آگئے مگر جانبر نہ ہوسکے۔ ۷۔ دسمبر ۱۹۲۷ء کو انتقال کیا اور بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے۔ )الفضل ۱۳۔ دسمبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۱ و الفضل ۶۔ جنوری ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۰ کالم ۳۔ )مضمون حضرت حاجی غلام احمد صاحب(
۹۴۔
اصحاب احمد جلد دہم صفحہ ۹۶۔
۹۵۔
ایضاً صفحہ ۱۲۷۔
۹۶۔
الفضل ۱۸۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۶ کالم ۱۔
۹۷۔
حضرت حاجی صاحبؓ کی پہلی شادی سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ دوسری شادی میں خداتعالیٰ نے ایک لڑکی اور تین لڑکے عطا کئے۔ لڑکی صغر سنی میں فوت ہوگئی۔ بڑا لڑکا ظہور الدین ۱۹۵۰ء میں ۲۶ سال کی عمر میں انتقال کر گیا۔ منجھلے صاحبزادے احمد الدین صاحب بی۔ اے لائل پور میں بینک آفیسر ہیں۔ اور مقامی جماعت کے سرگرم رکن ہیں۔ تیسرے اور چھوٹے صاحبزادے نورالدین صاحب ایم۔ ایس۔ سی لاہور میں ریسرچ آفیسر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ حضرت حاجی صاحبؓ کے مزید تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے کی تالیف اصحاب احمد جلد دہم۔
۹۸۔
الفضل ۳۱۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴ کالم ۱۔
۹۹۔
الفضل ۲۸۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۱۰۰۔
الفضل ۸۔ تبوک ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴ کالم ۱۔
۱۰۱۔
الفضل ۲۱۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳۔
۱۰۲۔
الفضل ۱۲۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۱۰۳۔
الفضل ۱۷۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲۔
۱۰۴۔
الفضل ۱۳۔ صلح/ جنوری ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۔ مرحوم محکمہ نمک کے معزز عہدوں پر کھیوڑہ اور کالا باغ میں ملازم رہے اور اپنے نیک نمونہ سے احمدیت کی خوبیاں نقش کر دیں۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ساتھ ان کی موانست و محبت طالب علمی کے زمانہ سے تھی۔ )الفضل ۲۷۔ اپریل/ شہادت ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳(
۱۰۵۔
وفات ۲۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش۔ ۱۹۲۱ء میں بیعت کی۔ ۱۹۲۲ء سے ۱۹۴۳ء تک مسجد احمدیہ پشاور میں مقیم رہے اور سلسلہ احمدیہ کی خدمات بجالاتے رہے۔ )الفضل ۱۳۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۳(
۱۰۶۔
وفات ۳۰۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش پیر اکبر علی صاحب ایم۔ ایل۔ اے کے خسر اور سر مرزا ظفر علی صاحب ریٹائرڈ جج ہائیکورٹ کے بھائی ۱۹۱۰ء میں داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔ سالہا سال تک جماعت فیروزپور کے کامیاب امیر رہے۔ )الفضل ۶۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش و الفضل ۱۰۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۵(
۱۰۷۔
تاریخ وفات ۲۷۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش بعمر ۴۵ سال۔ مرحوم سلسلہ کے ازحد مخلص اور انتھک کارکنوں میں سے تھے ۱۹۲۳ء سے لیکر ۱۹۲۵ء تک علاقہ ملکانہ میں مصروف جہاد رہے۔ ازاں بعد حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے آپ کو لاہور کے احمدیہ ہوسٹل کا سپرنٹنڈنٹ مقرر فرمایا۔ مارچ یا اپریل ۱۹۲۶ء تک آپ اس کام پر مامور رہے۔ اسی اثناء میں حضرت امیرالمومنینؓ کی نگاہ انتخاب پرائیویٹ سیکرٹری کے عہدہ کے لئے آپ پر پڑی )الفضل ۲۰۔ ظہور ۱۳۲۳ہش صفحہ ۴( اور آپ کئی سال تک حضور کے ارشاد سے پرائیویٹ سیکرٹری کے اہم فرائض بجا لاتے رہے۔ نیز ایک عرصہ تک پہلے نائب ناظر امور عامہ پھر نائب ناظر تعلیم و تربیت کی حیثیت سے کام کیا۔ غرض کہ پوری عمر خدمت سلسلہ میں گزاری۔ )الفضل ۲۹۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۱(
۱۰۸۔
سیدنا المسیح الموعودؑ کے قدیم صحابی حضرت چودھری رستم علی صاحبؓ کورٹ انسپکٹر کے قریبی رشتہ دار۔ جو اپنے گائوں میں اکیلے احمدی تھے اور نہایت سادہ مزاج` خوش خلق اور غریب پرور بزرگ تھے۔ )تاریخ وفات ۳۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش( )الفضل ۱۱۔ وفا ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔ ۲(
۱۰۹۔
تاریخ وفات ۳۱۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش )الفضل یکم ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴ کالم ۱( جماعت احمدیہ ممباسہ کے ایک ستون اور احمدیت کا بہت ہی عمدہ نمونہ تھے۔ خدمت دین اور تبلیغ کا بے حد جوش رکھتے تھے۔ گفتگو نہایت مدلل اور پراثر کرتے تھے جہیر الصوت تھے۔ ایسے جذبے سے کلام کرتے کہ معترض ساکت ہوکے رہ جاتا۔ تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ نہایت متشرع اور تہجد گزار تھے۔ دین کے لئے بہت غیرتمند اور قرآن مجید کے عاشق صادق تھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کا ذکر آتے ہی آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے۔ طبیعت میں ہمدردی اور خدمت خلق کا جذبہ کمال تک پہنچا ہوا تھا۔ )الفضل یکم ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کالم ۱ صفحہ ۴(
۱۱۰۔
تاریخ وفات ۴۔ ظہور اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش )الفضل ۶۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۱( حالات الفضل ۱۶/ ۱۳۔ مئی ۱۹۴۷ء اگست میں شائع شدہ ہیں۔
۱۱۱۔
تاریخ وفات ۳۰۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش )الفضل ۳۱۔ ظہور ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱ نیز الفضل یکم اخاء ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش( حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے مرحوم کی وفات پر حسب ذیل نوٹ لکھا۔ بابو صاحب میرے پرانے دوستوں میں سے تھے۔ جب میں اخبار بدر کی ایڈیٹری پر متعین تھا تو بابو صاحب جب قادیان آیا کرتے بمع اہل و عیال میرے ہی غریب خانہ پر قیام کرتے۔ میرے سفر ولایت اور امریکہ کے زمانہ میں بھی ان کے ساتھ سلسلہ خط و کتابت جاری رہا اور امریکہ سے واپسی پر جب میں عہدہ نظارت پر مامور ہوا اور سلسلہ کی ضروریات کے لئے دہلی جانے کی ضرورت ہوئی تو اس وقت بابو صاحب دہلی میں ریلوے کے انسپکٹر تھے اور میں ان کے ہاں ہی عموماً قیام کرتا۔ بابو صاحب نہایت مہمان نواز دوستوں کے سچے خیر خواہ اور سلسلہ حقہ کے دلی خادم تھے۔ سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوکر انہوں نے قادیان میں مستقل رہائش اختیار کی۔ اپنا شاندار مکان بنوایا۔ گلاس فیکٹری اور ہوزری کا انتظام کیا اور سلسلہ کے محکمہ انجینئری کے کئی کام سرانجام دیئے۔ غریبوں کی ہمیشہ امداد کرتے کبھی کسی سائل کو محروم نہ بھیجتے۔ نظام سلسلہ کی طرف سے قاضی مقرر ہوکر انہوں نے بہت سے مقدمات کا فیصلہ کیا اور بہتوں کی آپس میں مصالحت کرا دی۔ غرض بابو صاحب موصوف بہت سی خوبیوں کا مجموعہ تھے۔ )الفضل ۷۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴(
۱۱۲۔
تاریخ وفات ۱۳۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش تبلیغ کا خاص ولولہ رکھتے تھے۔ ایک بار سفر میں سید عطا اللہ شاہ صاحب بخاری سے گفتگو کرنے کا موقعہ ملا اور اپنے مخصوص طرز کلام سے ان کو لاجواب کر دیا۔ شاہ صاحب کہنے لگے کہ اگر ان جیسے سب احمدیوں کے اخلاق اور دماغ ہوں تو احمدیت کی اشاعت کو کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ )الفضل ۹۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴(
۱۱۳۔
الفضل ۱۳۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲۔
۱۱۴۔
الفضل ۲۸۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۱۵۔
الفضل ۱۷۔ ظہور/ اگست ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۱۶۔
وفد کی تبلیغ رپورٹیں ۲۵۔ تبلیغ/ فروری ۱۰۔ امان/ مارچ` ۲۴۔ امان/ مارچ` ۱۰۔ شہادت/ اپریل` ۵۔ ہجرت/ مئی` ۲۸۔ ہجرت/ مئی` ۶۔ احسان/ جون` ۱۹۔ احسان/ جون` ۱۳۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کے الفضل میں شائع شدہ ہیں۔
۱۱۷۔
الفضل یکم ہجرت/ مئی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۱۱۸۔
رپورٹ سالانہ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ ۴۴۔۱۹۴۳ء/ ۲۳۔۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۶۔
۱۱۹۔
ایڈریس اور اس کا جواب الفضل ۴۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش میں شائع شدہ ہے۔
۱۲۰۔
الفضل ۱۹۔ امان/ مارچ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۱۔
۱۲۱۔
اب یہ اخبار دہلی سے نکلتا ہے۔
۱۲۲۔
بحوالہ اخبار الفضل ۱۸۔ امان/ مارچ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ کالم ۲۔ حکیم فضل الرحمن صاحب مبلغ نائیجیریا نے اپنے ایڈریس میں بتایا اس مسجد کے لئے پانچ ہزار روپیہ تو مرکزی بیت المال نے دیا ہے اور ایک ہزار پونڈ کے قریب نائیجیریا کے احمدیوں نے جمع کیا ہے۔ نائیجیریا کے اطراف و اکناف سے جو عطیئے موصول ہوئے ہیں وہ اس کے علاوہ ہیں۔ )الفضل ۴۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش(
۱۲۳۔
الفضل ۲۴۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۱۲۴۔
الفضل ۶۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳۔
۱۲۵۔
الفضل ۲۶۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش۔
۱۲۶۔
الفضل ۳۔ مارچ/ امان ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲۔
۱۲۷۔
الفضل ۲۱۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۲ از ملخصاً از مضمون چودھری محمد شریف صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ و حال مبلغ گیمبیا(
۱۲۸۔
اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کو جنگ عظیم کے آغاز سے اختتام تک بہت سی غیبی خبریں بتائی گئیں جو پوری شان سے ظہور پذیر ہوئیں جن کا تذکرہ خاتمہ جنگ کے حالات میں کیا جائے گا۔
۱۲۹۔
الفضل ۱۲۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۔
۱۳۰۔
الفضل ۳۱۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۳ کالم ۱۔
۱۳۱۔
الفضل ۱۵۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۔
۱۳۲۔
الفضل ۱۳۔ وفا/ جولائی ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۱۔
۱۳۳۔
الفضل ۱۱۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۱۳۴۔
الفضل ۱۱۔ تبوک/ ستمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
۱۳۵۔
الفضل ۲۱۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۵۔
۱۳۶۔
کتاب کا یہ پہلا ایڈشن ناتمام صورت میں تھا۔
۱۳۷۔
شمائل احمد صفحہ ۱۔
۱۳۸۔
الفضل ۶۔ احسان/ جون ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش صفحہ ۴۔
‏tav.8.26
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
دعویٰ مصلح موعود سے لیکر مجلس علم و عرفان کے قیام تک
پانچواں باب )فصل اول(
حضرت امیر المومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی کے دعویٰ
مصلح موعود سے لیکر مجلس علم و عرفان کے قیام تک
خلافت ثانیہ کا اکتیسواں )۳۱( سال
)محرم ۱۳۶۳ھ مطابق جنوری ۱۹۴۴ء/ صلح ۱۳۲۳ہش تا محرم ۱۳۶۴ھ(
)مطابق دسمبر ۱۹۴۴ء/ فتح ۱۳۲۳ہش(
پیشگوئی متعلق مصلح موعود کے مصداق ہونے کا اعلان اور جماعت احمدیہ کے لئے ایک نئے اور مبارک دور کا آغاز
پیشگوئی مصلح موعود کا پس منظر
دنیا کی قدیم مذہبی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ مصلح موعود کی آمد کی پیشگوئی اصولی اور بنیادی اعتبار سے سب سے پہلے بنی اسرائیل کے سامنے منکشف کی گئی اور بتایا گیا کہ مسیح موعود کے انتقال کے بعد اس کا فرزند اور اس کا پوتا اس کی آسمانی بادشاہت کا وارث ہوگا۔ چنانچہ طالمود میں لکھا ہے:۔ ۱
‏ HIS TO DESCEND KINGDOM HIS AND DIE, SHALL HE THAT SAID ALSO IS <IT۔GRANDSON> AND SON
ترجمہ:۔ >یہ بھی ایک روایت ہے کہ مسیح )موعود( کے وفات پانے کے بعد اس کی بادشاہت )یعنی آسمانی بادشاہت( اس کے فرزند اور پھر اس کے پوتے کو ملے گی<۔
اس ابتدائی خبر کے بعد آنحضرت~صل۱~ نے اپنی حدیث >فیتزوج ویولد لہ<۲ میں امت مسلمہ کو دوبارہ مصلح موعود کی بشارت دی اور پانچویں صدی ہجری کے شامی بزرگ حضرت امام یحییٰ بن عقب رحمتہ اللہ علیہ نے خدا سے اطلاع پاکر کھلے لفظوں میں پسر موعود کے نام تک کی خبر دے دی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں۔
و محمود سیظھر بعد ھذا
ویملک الشام بلا قتال۳
یعنی مسیح موعود اور ایک عربی النسل انسان کے بعد محمود ظاہر ہوگا اور ملک شام کو کسی )مادی( جنگ کے بغیر فتح کرے گا۔
اس شامی بزرگ کے علاوہ ہندوستان کے مشہور ولی حضرت نعمت اللہ ولی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے شہرہ آفاق الہامی قصیدہ میں پیشگوئی فرمائی کہ ~}~
دور او چوں شود تمام بکام
پسرش یادگار مے بینم۴
یعنی >جب مسیح موعود کا زمانہ کامیابی کے ساتھ گزر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا لڑکا یادگار رہ جائے گا۔ یعنی مقدریوں ہے کہ خدائے تعالیٰ اس کو ایک لڑکا پارسا دے گا جو اس کے نمونہ پر ہوگا اور اس کے رنگ میں رنگین ہو جائے گا اور وہ اس کے بعد اس کا یادگار ہوگا<۔۵
سفر ہوشیارپور
اب چونکہ ان خدائی نوشتوں کے ظہور کا وقت آپہنچا تھا اس لئے جناب الٰہی کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو جنوری ۱۸۸۶ء میں حصول نشان کے لئے ہوشیاپور میں خلوت گزیں ہوکر دعائیں کرنے کا حکم ملا اور الہام ہوا کہ >تمہاری عقدہ کشائی ہوشیارپور میں ہوگی<۔۶ جس پر حضور نے حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ سنوری۷ کو قادیان بلوا لیا اور شیخ مہر علی شاہ صاحب رئیس ہوشیارپور کے نام خط لکھا کہ میں دو ماہ کے لئے ہوشیارپور آنا چاہتا ہوں۔ کسی ایسے مکان کا انتظام کر دیں جو شہر کے کنارے پر ہو اور اس میں بالاخانہ بھی ہو۔ علاوہ ازیں ۱۳۔ جنوری ۱۸۸۶ء کو اپنے مخلص مرید چودھری رستم علی صاحب )مدار ضلع جالندھر( کو اطلاع دی کہ۔
>اس خاکسار نے حسب ایماء خداوند کریم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس شرط سے سفر کا ارادہ کیا ہے کہ شب و روز تنہا ہی رہے اور کسی کی ملاقات نہ ہو اور خداوند کریم جلشانہ نے اس شہر کا نام بتا دیا ہے جس میں کچھ مدت بطور خلوت رہنا چاہئے اور وہ ہوشیارپور ہے۔ آپ کسی پر ظاہر نہ کریں کہ بجز چند دوستوں کے اور کسی پر ظاہر نہیں کیا گیا ہے<۔
چنانچہ اس پروگرام کے مطابق سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بہلی میں بیٹھ کر دریائے بیاس کے رستے ۲۲۔ جنوری ۱۸۸۶ء۸ )مطابق ۱۵۔ ربیع ثانی ۱۳۰۳ھ( بروز جمعہ ہوشیارپور تشریف لے گئے۔ اس مقدس سفر میں حضرت اقدسؑ کے ساتھ حضور کے مخلص مریدوں میں سے حضرت مولوی عبداللہ صاحبؓ سنوری اور حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ کے علاوہ ایک صاحب فتح خان )ساکن رسول پور متصل ٹانڈہ ضلع ہوشیارپور( بھی تھے۔
ہوشیارپور میں حضرت اقدس طویلہ شیخ مہر علی صاحب کے ایک بالاخانہ پرفروکش ہوئے اور پوری خلوت نشینی اختیار فرماتے ہوئے چلہ کشی کی۔ چنانچہ حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوریؓ کا بیان ہے کہ۔
>ہم راستہ میں فتح خاں کے گائوں میں قیام کرتے ہوئے دوسرے دن ہوشیارپور پہنچے۔ وہاں جاتے ہی حضرت صاحب نے طویلہ کے بالاخانہ میں قیام فرمایا اور اس غرض سے کہ ہمارا آپس میں کوئی جھگڑا نہ ہو` ہم تینوں کے الگ الگ کام مقرر فرما دیئے۔ چنانچہ میرے سپرد کھانا پکانے کا کام ہوا۔ فتح خاں کی یہ ڈیوٹی لگائی کہ وہ بازار سے سودا وغیرہ لایا کرے۔ شیخ حامد علی کا یہ کام مقرر ہوا کہ گھر کا بالائی کام اور آنے جانے والے کی مہمان نوازی کرے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ نے بذریعہ دستی اشتہارات اعلان کردیا کہ چالیس دن تک مجھے کوئی صاحب ملنے نہ آویں اور نہ کوئی صاحب مجھے دعوت کے لئے بلائیں۔ ان چالیس دن کے گزرنے کے بعد میں یہاں بیس دن اور ٹھہروں گا۔ ان بیس دنوں میں ملنے والے ملیں۔ دعوت کا ارادہ رکھنے والے دعوت کرسکتے ہیں اور سوال و جواب کرنے والے سوال جواب کرلیں اور حضرت صاحب نے ہم کو بھی حکم دے دیا کہ ڈیوڑھی کے اندر کی زنجیر ہروقت لگی رہے اور گھر میں بھی کوئی شخص مجھے نہ بلائے۔ میں اگر کسی کو بلائوں تو وہ اسی حد تک میری بات کا جواب دے جس حد تک کہ ضروری ہے اور نہ اوپر بالا خانہ میں کوئی میرے پاس آوے۔ میرا کھانا اوپر پہنچا دیا جاوے۔ مگر اس کا انتظار نہ کیا جاوے کہ میں کھانا کھالوں۔ خالی برتن پھر دوسرے وقت لے جایا کریں۔ نماز میں اوپر الگ پڑھا کروں گا۔ تم نیچے پڑھ لیا کرو۔ جمعہ کے لئے حضرت صاحب نے فرمایا کہ کوئی ویران سی مسجد تلاش کرو جو شہر کے ایک طرف ہو جہاں ہم علیحدگی میں نماز ادا کرسکیں۔ چنانچہ شہر کے باہر ایک باغ تھا۔ اس میں ایک چھوٹی سی ویران مسجد تھی۔ وہاں جمعہ کے دن حضور تشریف لے جایا کرتے تھے اور ہم کو نماز پڑھاتے تھے اور خطبہ بھی خود پڑھتے تھے<۔۹
یہ چلہ کشی اور ریاضت شاقہ اول سے آخر تک چونکہ خدائے عزوجل و قادر و توانا کے خاص اذن اور اسی کی راہ نمائی سے تھی اس لئے حضور نے اس کے دوران ۱۱۔ فروری ۱۸۸۶ء کو چودھری رستم علی صاحب کو خط لکھا کہ >ابھی تک مجھ کو کچھ خبر نہیں کہ کب تک اس شہر میں رہوں اور کس راہ سے جائوں۔ یہ سب باتیں جناب الٰہی کے اختیار میں ہیں۔ افوض امری الی اللہ ھو نعم المولی و نعم النصیر<۱۰
اس عظیم مجاہد کے دوران اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور پر آسمانی افضال و انوار کے بے شمار دروازے کھولے گئے اور بار بار مکالمات و مخاطبات سے نوازا گیا۔ چنانچہ حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوریؓ کی روایت ہے کہ >میں کھانا چھوڑنے اوپر جایا کرتا تھا اور حضور سے کوئی بات نہیں کرتا تھا مگر کبھی حضور مجھ سے خود کوئی بات کرتے تھے تو جواب دے دیتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا۔ میاں عبداللہ! ان دنوں میں مجھ پر بڑے بڑے خداتعالیٰ کے فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض اوقات دیر دیر تک خداتعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے۔ اگر ان کو لکھا جاوے تو کئی ورق ہوجاویں۔۱۱
مصلح موعود کے عطا کئے جانے کی بشارت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چلہ کشی کے دوران اسلام کی آسمانی فتح کے لئے اپنے محبوب حقیقی کی بارگاہ میں ایک رحمت کے نشان کے لئے نہایت تضرع اور ابتہال کے ساتھ جو دعائیں کیں وہ قبول ہوگئیں اور اللہ تعالیٰ نے اس مجاہدہ عظیم کے خاتمہ پر آپ کو بذریعہ الہامات نہ صرف خود حضورؑ کی ذات` حضورؑ کی ذریت طیبہ اور مستقبل میں پیدا ہونے والی حضور کی جماعت کی نسبت بھاری بشارتیں دیں بلکہ آپ کی ذریت و نسل اور تخم سے پیدا ہونے والے ایک پسر موعود اور مصلح موعود کی خبر دی۔ نیز بتایا گیا کہ اس کا وجود دنیا بھر میں خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول حضرت محمد مصطفیٰ~صل۱~ کے منکروں اور مکذبوں پر حجت قاطعہ کی حیثیت رکھے گا جس کے ذریعہ سے دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوگا۔
علاوہ ازیں بذریعہ وحی خفی یہ بھی خبر دی گئی کہ۔
>ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی نو برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا<۔۱۲
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
>یہ صرف پیشگوئی ہی نہیں بلکہ ایک عظیم الشان نشان آسمانی ہے جس کو خدائے کریم جلشانہ نے ہمارے نبی کریم رئوف و رحیم محمد مصطفیٰ~صل۱~ کی صداقت و عظمت ظاہر کرنے کے لئے ظاہر فرمایا ہے اور درحقیقت یہ نشان ایک مردہ کے زندہ کرنے سے صدہا درجہ اعلیٰ و اولیٰ و اکمل و افضل و اتم ہے<۔۱۳4] ftr[
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصلح موعود سے متعلق عظیم الشان نشان رحمت کی الہامی تفصیل ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء کے اشتہار میں درج فرمائی جو پہلی بار اخبار ریاض ہند امرتسر مورخہ یکم مارچ ۱۸۸۶ء میں بطور ضمیمہ شائع ہوا اور جس کا متن یہ تھا۔
>پہلی پیشگوئی بالہام اللہ تعالیٰ و اعلامہ عزوجل خدائے رحیم و کریم بزرگ و برتر نے جو ہر یک چیز پر قادر ہے )جل شانہ و عزاسمہ( مجھ کو اپنے الہام سے مخاطب کرکے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔ اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعائوں کو اپنی رحمت سے بپایہ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو )جو ہوشیارپور اور لدھیانہ کا سفر ہے( تیرے لئے مبارک کردیا۔ سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے۔ فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوتا ہے اور فتح اور ظفر کی کلید تجھے ملتی ہے۔ اے مظفر تجھ پر سلام۔ خدا نے یہ کہا۔ تاوہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجہ سے نجات پاویں اور وہ جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں اور تادین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو اور تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور تا لوگ یہ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں اور تاوہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا کے دین اور اس کی کتاب اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰﷺ~ کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کا راہ ظاہر ہو جائے۔ سو تجھے بشارت ہوکہ ایک وجہیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ ایک زکی غلام )لڑکا( تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے۔ وہ نوراللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا )اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے( دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مظہر الاول و الاخر مظہر الحق والعلاء کان اللہ نزل من السماء۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نورآتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سرپر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وکان امرا مقضیا<۔۱۴
پنڈت لیکھرام کا اشتہار
اس پیشگوئی کی اشاعت پر پنڈت لیکھرام نے ۱۸۔ مارچ ۱۸۸۶ء کو اشتہار دیا کہ۔
>آپ کی ذریت بہت جلد منقطع ہو جائے گی۔ غائت درجہ تین سال تک شہرت رہے گی<۔
>ہمارا الہام یہ کہتا ہے کہ لڑکا کیا تین سال کے اندر اندر آپ کا خاتمہ ہو جائے گا اور آپ کی ذریت سے کوئی باقی نہ رہے گا<۔۱۵
مصلح موعود کی نسبت مزید انکشافات
اس اشتہار کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مصلح موعود کے بارے میں مزید انکشافات کے لئے آستانہ احدیت کی طرف توجہ کی تو اللہ جلشانہ کی طرف سے ۸۔ اپریل ۱۸۸۶ء کو یہ کھلا کہ۔
>ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل سے تجاوز نہیں کرسکتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں۔ لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اب پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہوگا<۔۱۶
بشیر اول پیشگوئی کے اس حصہ کے مطابق کہ >ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے< ۷۔ اگست ۱۸۸۷ء کو پیدا ہوئے اور ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء واکی پیشگوئی >خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے< کی آسمانی خبر کو پورا کرتے ہوئے ۴۔ نومبر ۱۸۸۸ء۱۷ کو فوت ہوگئے جس پر مخالفین اسلام نے شور مچا دیا کہ مصلح موعود والی پیشگوئی جھوٹی نکلی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انہیں الہاماً کبھی پسر موعود قرار نہیں دیا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نو سالہ میعاد میں ایک مزید تعیین کی تصریح ہوگئی۔ یعنی اطلاع دی گئی کہ اب بشیرثانی یا مصلح موعود بلاتوقف پیدا ہوگا۔ یہ تعیین اگرچہ اشتہار ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء کے مندرجہ ذیل الہام میں موجود تھی کہ >اس )یعنی بشیر اول ناقل( کے ساتھ فضل )یعنی بشیر ثانی یا مصلح موعود۔ ناقل( ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا< لیکن بشیر اول کی وفات سے جہاں دشمنان اسلام کی اندرونی کیفیت بے نقاب ہوگئی وہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مزید تسلی کے طور پر دوبارہ صراحتاً یہی خبر دی گئی۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بشیر اول کی وفات پر یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو سبز اشتہار شائع کیا کہ۔
)ا(
>بشیر اول جو فوت ہوگیا ہے بشیر ثانی کے لئے بطور ارہاس تھا اس لئے دونوں کا ایک ہی پیشگوئی میں ذکر کیا گیا<۔۱۸
)ب(
>ظلمت اور روشنی دونوں اس لڑکے )بشیر اول۔ ناقل( کے قدموں کے نیچے ہیں۔ یعنی اس کے قدم اٹھانے کے بعد جو موت سے مراد ہے ان کا آنا ضرور ہے۔ سو اے وے لوگو جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا۔ حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی<۔۱۹
)ج(
>دوسرا لڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے۔ وہ اگرچہ اب تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا۔ زمین۔ آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔ نادان اس کے الہامات پر ہنستا ہے اور احمق اس کی پاک بشارتوں پر ٹھٹھا کرتا ہے کیونکہ آخری دن اس کی نظر سے پوشیدہ ہے اور انجا مکار اس کی آنکھوں سے چھپا ہوا ہے<۔۲۰
سبز اشتہار کے موعود کی ولادت
سبز اشتہار کی اشاعت کے قریباً ڈیڑھ ماہ بعد ۱۲۔ جنوری ۱۸۸۹ء کو بشیر ثانی محمود المصلح الموعود کی ولادت باسعادت ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اسی دن ایک اشتہار بعنوان >تکمیل تبلیغ< شائع فرمایا جس میں دس شرائط بیعت شائع کرتے ہوئے اطلاع دی کہ۔
>خدائے عزوجل نے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے لطف و کرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اول کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہوگا ۔۔۔۔۔۔۔ سو آج ۱۲۔ جنوری ۱۸۸۹ء میں مطابق ۹۔ جمادی الاول ۱۳۰۶ھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہوگیا ہے۔ جس کا نام بالفعل محض تفائول کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی<۔۲۱
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اس وعدہ کے مطابق بعد میں شائع ہونے والی متعدد تصانیف مثلاً سراج۲۲ منیر` سرالخلافہ`۲۳ ضمیمہ انجام۲۴ آتھم` تریاق۲۵ القلوب اور حقیقتہ۲۶ الوحی میں پرزور طریق سے دنیا بھر کو یہ اطلاع دے دی کہ ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء کا وہ موعود فرزند جسے وعدہ الٰہی کے مطابق نو سالہ میعاد کے اندر بشر اول کے بعد بلا توقف پیدا ہونا تھا اور جس کو سبز اشتہار میں بشیرثانی اور محمود اور مصلح موعود کے الہامی ناموں سے یاد کیا گیا تھا پیدا ہوچکا ہے اور خدا کی پیشگوئی حرف بحرف صحیح نکلی ہے۔ چنانچہ حضور نے >حقیقتہ الوحی< میں تحریر فرمایا کہ۔
>میرے سبز اشتہار کے ساتویں صفحہ میں اس دوسرے لڑکے کے پیدا ہونے کے بارے میں یہ بشارت ہے۔ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے۔ وہ اگرچہ اب تک جو یکم ستمبر ۱۸۸۷ء ہے پیدا نہیں ہوا۔ مگر خداتعالیٰ کے وعدہ کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا۔ زمین آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ٹلنا ممکن نہیں۔ یہ ہے عبارت اشتہار سبز کے صفحہ سات کی جس کے مطابق جنوری ۱۸۸۹ء میں لڑکا پیدا ہوا۔ جس کا نام محمود رکھا گیا اور اب تک بفضلہ تعالیٰ زندہ موجود ہے اور سترھویں سال میں ہے<۔]01 [p۲۷
بزرگان سلسلہ کا مسلک
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس فیصلہ کن ارشاد کی وجہ سے سلسلہ احمدیہ کے مقتدر بزرگ شروع ہی سے حضرت سیدنا محمودؓ کو مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق یقین کرتے تھے چنانچہ حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہیؓ نے سالانہ جلسہ ۱۹۱۰ء کے موقعہ پر اپنی تقریر کے دوران واضح لفظوں میں اعلان کیا کہ۔
>ایک یہ بھی الہام تھا کہ انا نبشرک بغلام مظھر الحق والعلاءbody] ga[t الخ جو اس حدیث کی پیشینگوئی کے مطابق تھا جو مسیح موعود کے بارے میں ہے یتزوج و یولدلہ یعنی آپ کے ہاں ولد صالح عظیم الشان پیدا ہوگا چنانچہ حضرت مرزا بشر الدین محمود احمد صاحب موجود ہیں<۔۲۸
اسی طرح حضرت مولانا نورالدین خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ نے اپنے عہد خلافت میں اس عقیدہ و مسلک کا برملا اظہار فرمایا کہ پسر موعود میاں صاحب )یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد( ہی ہیں۔ چنانچہ پیر منظور محمد صاحب نے ۱۰۔ ستمبر ۱۹۱۳ء کو حضرت خلیفہ اولؓ سے عرض کیا کہ >مجھے آج حضرت اقدسؑ کے اشتہارات کو پڑھ کر پتہ مل گیا ہے کہ پسر موعود میاں صاحب ہی ہیں< اس پر حضور نے ارشاد فرمایا۔
>ہمیں تو پہلے ہی سے معلوم ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ ہم میاں صاحب کے ساتھ کس خاص طرز سے ملا کرتے ہیں اور ان کا ادب کرتے ہیں<۔
حضرت پیر صاحب موصوفؓ نے یہی الفاظ لکھ کر تصدیق کے لئے پیش کئے تو حضرت خلیفہ اولؓ نے اپنے دست مبارک سے رقم فرمایا۔
عکس کیلئے
یہ لفظ میں نے برادرم پیر منظور محمد سے کہے ہیں۔
نورالدین ۱۰۔ ستمبر ۱۳ء
حضرت پیر صاحبؓ نے خلافت ثانیہ کے ابتدائی ایام میں حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کے مصلح موعود ہونے کے ثبوت میں >پسر موعود< کے نام سے ایک لاجواب رسالہ شائع کیا جس میں حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ کی اس تحریر کا چربہ بھی چھاپ دیا۔
غیر مبائع اصحاب کا مطالبہ
اس مرحلہ پر غیر مبائع اصحاب نے اس رائے کا اظہار کیا کہ اگر حضرت صاحبزادہ صاحب الہامی دعویٰ اور حلفیہ بیان دے دیں تو وہ بلا تامل آپ کو مصلح موعود مان لیں گے۔ چنانچہ اخبار >پیغام صلح< نے لکھا۔
>ہمیں حضرت صاحبزادہ میرزا محمود احمد صاحب کے موعود لڑکا ماننے میں کوئی بھی عذر نہیں اور نہ ہمیں مسیح موعود کے لڑکوں میں سے کسی لڑکے کی جانشینی کا کوئی سوال ہے۔ صرف اس موعود لڑکے کے متعلق حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں یہ علامت بتلائی کہ وہ قرب اور وحی کے ساتھ مخصوص کیا جائے گا۔ سو وحی اور مامور ہونے کا ہمیں انتظار ہے کسی بات سے انکار نہیں<۔۲۹
اسی طرح جناب خواجہ کمال الدین صاحب نے اپنے رسالہ >اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب< میں حلفیہ بیان کا مطالبہ کرتے ہوئے تحریر کیا۔
>آخری التماس حضرت میاں صاحب کی خدمت میں یہ بھی کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ الہاماً مامور ہیں تو بروئے حلف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعلان کریں کہ میں الہاماً کھڑا کیا گیا اور میں وہی ہوں جس کا وصیت میں ذکر ہے اور مجھے الہاماً اطلاع دی گئی ہے کہ قدرت ثانی کا میں مظہر ہوں۔ چشم ماروشن دل ماشاد۔ کون چاہتا ہے کہ وہ دن قریب نہ آویں۔ کم از کم میں اپنے متعلق فیصلہ کرنا چاہتا ہوں۔ اس حلف کے بعد مجھ پر حرام ہوگا کہ میں حضرت میاں صاحب کے عقائد کے خلاف کچھ لکھوں یا ۔۔۔۔۔۔۔۔ قبول کرلوں گا یا میں دعائوں میں لگ جائوں گا۔ بہرحال میں خاموش ہو جائوں گا ۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ مصلح موعود ہیں تو پھر وہ حلفاًیہ بیان کریں کہ آیا الہاماً ان کو اطلاع ملی کہ وہ وہی فرزند ہیں جس کا اشارہ سبز اشتہار میں ہے۔ اگر وہ الہاماً نہیں تو پھر اپنے مریدوں کو روکیں کیونکہ وہ آپ کو مصلح موعود یا پسر موعود بنارہے ہیں۔ آپ کیوں خاموش ہورہے ہیں؟ یہ خاموشی نہایت خطرناک ہے۔ آپ کے مبائعین میں سے ایک نے مصلح موعود آپ کو بنایا اور ایک رسالہ میں لکھا۔ الخ<۳۰]4 [rtf
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کا موقف
اس مطالبہ کے جواب میں سیدنا حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ نے یہ موقف اختیار فرمایا کہ میں مصلح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا نہ دعویٰ کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ بطور نمونہ چند تحریرات ملاحظہ ہوں۔
پہلی تحریر
حضور نے ۱۹۱۶ء میں فرمایا۔
>مصلح موعود کے لئے نہ تو دعویٰ وحی سے ضرور ہے اور )نہ(۳۱ بلاوحی کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہوسکتا ہے کہ وہ دعویٰ بھی نہ کرے۔ آنحضرت~صل۱~ نے کئی پیشگوئیاں امت کے بڑے بڑے آدمیوں کی نسبت فرمائیں۔ بعض نے ان کے مستحق ہونے کا دعویٰ بھی نہ کیا۔ ہاں لوگوں نے سمجھ کر ان پر چسپاں کیں۔ مثلاً محمد مہدی فاتح قسطنطنیہ کی نسبت پیشگوئی موجود ہے اس کا دعویٰ ثابت نہیں اور بھی ہیں۔ پس میں مصلح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کرتا۔ اگر میں ہوں تو الحمدلل¶ہ۔ دعویٰ سے فائدہ نہیں۔ اگر میں نہیں تو اس احتیاط سے میں ایک غلطی سے محفوظ ہوگیا۔ بعض لوگ مجھے وہ موعود سمجھتے ہیں۔ میں ان کو بھی نہیں روکتا ہر ایک شخص کا اپنا خیال و تحقیق ہے اور خلاف شریعت نہیں<۔۳۲
دوسری تحریر
پھر وسط جون ۱۹۳۷ء کی بات ہے کہ راولپنڈی میں غیر مبائعین سے ایک تحریری مناظرہ طے پایا۔ ایک موضوع >مصلح موعود< بھی مقرر تھا اور مناظر مولانا ابوالعطاء صاحب قرار پائے۔ آپ جب قادیان سے روانہ ہونے لگے تو حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب فاضل حلالپوریؓ نے فرمایا کہ اگر غیرمبائعین نے یہ کہا کہ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ تو دعویٰ نہیں کرتے اور آپ لوگ اپنی طرف سے انہیں مصلح موعود کہے جارہے ہیں تو کیا جواب ہوگا؟ مولانا ابوالعطاء صاحب نے یہی سوال حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کے سامنے رکھ دیا۔ اس پر حضور نے اپنے قلم سے حسب ذیل تحریر لکھ دی۔
یہاں پر خط کا عکس آئے گا۔


مکری مولوی ابوالعطاء صاحب
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ اول۔ میرے نزدیک مصلح موعود بہرحال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی موجودہ اولاد میں سے ایک لڑکا ہے نہ کہ آئندہ زمانہ میں آنے والا کوئی فرد۔
دوم۔ میرے نزدیک جس حد تک میں نے اس پیشگوئی کا مطالعہ کیا ہے۔ اس کی نوے فیصدی باتیں میرے زمانہ خلافت کے کاموں سے مطابق ہیں۔
سوم۔ چونکہ میں اس پیشگوئی کے موعود کے لئے دعویٰ کو شرط قرار نہیں دیتا۔ اس لئے میرے نزدیک میرے لئے دعویٰ کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں میں سمجھتا ہوں کہ اس پیشگوئی کی جو غرض ہے وہ بڑی حد تک خداتعالیٰ نے میرے ذریعہ سے پوری کر دی ہے۔ لیکن میں اس میں تعجب کی بات نہیں دیکھتا۔ اگر میرے بھائیوں میں سے کسی دوسرے کے ذریعہ سے بھی اسی قسم کے کام یا ان سے بڑھ کر کام خداتعالیٰ کروائے۔
خاکسار
مرزا محمود احمد
خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی
۳۷/۶/۱۸
تیسری تحریر
اس تحریر کے تین برس بعد حضور نے ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش میں خطبہ جمعہ کے دوران ارشاد فرمایا۔ >لوگوں نے کوشش بھی کی ہے کہ مجھ سے دعویٰ کرائیں کہ میں مصلح موعود ہوں۔ مگر میں نے کبھی اس کی ضرورت نہیں سمجھی۔ مخالف کہتے ہیں۔ آپ کے مرید آپ کو مصلح موعود کہتے ہیں۔ مگر آپ خود دعویٰ نہیں کرتے۔ مگر میں کہتا ہوں کہ مجھے دعویٰ کی ضرورت کیا ہے؟ اگر میں مصلح موعود ہوں تو میرے دعویٰ نہ کرنے سے میری پوزیشن میں کوئی فرق نہیں آسکتا۔ جب میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو پیشگوئی غیرمامور کے متعلق ہو اس کے لئے دعویٰ کرنا ضروری نہیں ہوتا۔ تو پھر دعوے کی مجھے کیا ضرورت ہے؟ رسول کریم~صل۱~ نے ریل کے متعلق پیشگوئی فرمائی تھی۔ کیا ضروری ہے کہ ریل دعویٰ کرے ۔۔۔۔۔۔۔ امت مسلمہ میں مجددین کی جو فہرست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دکھانے کے بعد شائع ہوئی ہے` ان میں سے کتنے ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا ہو؟ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ مجھے تو اورنگ زیب بھی اپنے زمانہ کا مجدد نظر آتا ہے۔ مگر کیا اس نے کوئی دعوی کیا؟ عمر بن عبدالعزیزؓ کو مجدد کہا جاتا ہے کیا ان کا کوئی دعویٰ ہے؟ پس غیرمامور کے لئے دعویٰ ضروری نہیں۔ دعویٰ صرف مامورین کے متعلق پیشگوئیوں میں ضروری ہے۔ غیرمامور کے صرف کام کو دیکھنا چاہئے۔ اگر کام پورا ہوتا نظر آجائے تو پھر اس کے دعویٰ کی کیا ضرورت ہے۔ اس صورت میں تو وہ انکار بھی کرتا جائے تو ہم کہیں گے کہ وہی اس پیشگوئی کا مصداق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس میری طرف سے مصلح موعود ہونے کے دعویٰ کی کوئی ضرورت نہیں<۔۳۳
خداتعالیٰ کی طرف سے حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی پر انکشاف
الغرض حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اپنے عہد خلافت کے ابتدائی اٹھائیس انتیس برس تک مسلسل اور متواتر اسی موقف پر قائم رہے۔ اس عرصہ میں بڑے بڑے انقلابات آئے اور پیشگوئی مصلح موعود سے متعلق ایک ایک قریباً سب علامات آپ کے وجود مبارک میں نہایت خارق عادت طریق سے پوری ہوگئیں۔ خداتعالیٰ کی اس فعلی شہادت کے مدنظر اگرچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے علیٰ وجہ البصیرت اپنی اس رائے کا اظہار فرما دیا کہ۔
>سبز اشتہار میں جو )مصلح موعود( کی پیشگوئی ہے اس میں مجھے کوئی شبہ نہیں کہ وہ میرے ہی متعلق ہے<۳۴ بایں ہمہ مصلح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا یہاں تک کہ آپ کی عمر مبارک پچپن سال کے لگ بھگ پہنچ گئی اور ۱۹۴۴ء/ ۱۳۳۳ہش کا سال شروع ہوگیا۔
حضرت امیرالمومنینؓ کا جسم مبارک مسلسل بیماریوں اور دماغی محنتوں کی وجہ سے نڈھال ہوچکا تھا اور صحت روز بروز گرتی جارہی تھی اور بار بار بیماریوں میں مبتلا ہورہے تھے۔ اسی حالت میں حضور نے سالانہ جلسہ ۱۹۴۳ء/ ۱۳۲۲ہش کو خطاب فرمایا۔ پھر جلدی ہی حضرت سیدہ ام طاہر کی تشویشناک علالت کے باعث لاہور تشریف لے آئے جہاں حضرت سیدہ موصوفہ لیڈی ولنگڈن ہسپتال میں داخل تھیں۔ اس سفر میں حضور کا قیام مکرم شیخ بشیر احمد صاحب بی۔ اے` ایل ایل۔ بی ایڈووکیٹ کی کوٹھی واقع ۱۳ ٹمپل روڈ میں تھا۔ خداتعالیٰ نے آپ کے قیام لاہور کے دوران )غالباً( ۵۔ ۶۔ صلح/ جنوری۳۵ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کی درمیانی شب کو ایک عظیم الشان رویاء کے ذریعہ آپ پر یہ انکشاف فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء کو جس موعود بیٹے کی پیدائش کا اعلان ہوشیارپور کی سرزمین سے فرمایا تھا اور جس کے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ وہ مسیحی نفس ہوگا` جلد جلد بڑھے گا` علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا اور وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی وغیرہ وغیرہ۔ اس پیشگوئی کے مصداق آپ ہی ہیں۔
عجیب مشابہتیں
عجیب بات یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سفر ہوشیارپور کے دوران مصلح موعود کے متعلق الہامات ہوئے۔ حضرت خلیفہ المسیح الثانیؓ کو بھی یہ کشف سفر میں ہی ہوا۔ مزید تحقیق کرنے پر یہ بھی علم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام شیخ مہر علی صاحب رئیس ہوشیارپور کے بالاخانہ میں ٹھہرے تھے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ شیخ بشیر احمد صاحب کے جس مکان میں قیام فرما تھے وہ شیخ مہر علی صاحب ہوشیارپوری کی برادری ہی کے ایک فرد شیخ نیاز محمد مرحوم پلیڈر کا تھا۔۳۶
سیدنا المصلح الموعود کا پرشوکت دعویٰ کہ میں ہی پیشگوئی مصلح موعود کا مصداق ہوں
خدائے ذوالعرش کے اس انکشاف کے بعد حضور انور مورخہ ۲۷۔ ماہ صلح/ جنوری۳۷ قادیان تشریف لائے اور اگلے روز ۲۸۔ ماہ صلح/
جنوری کو مسجد اقصیٰ قادیان کے منبر پر رونق افروز ہوکر ایک مفصل خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ جس میں پہلے تو اپنی تازہ رویاء بالتفصیل بیان فرمائی اور پھر یہ پرشوکت اعلان فرمایا کہ میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں۔
چنانچہ حضور نے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا۔
>آج میں ایک ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جس کا بیان کرنا میری طبیعت کے لحاظ سے مجھ پر گراں گزرتا ہے۔ لیکن چونکہ بعض نبوتیں اور الٰہی تقدیریں اس بات کے بیان کرنے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اس لئے میں اس کے بیان کرنے سے باوجود اپنی طبیعت کے انقباض کے رک بھی نہیں سکتا۔
جنوری کے پہلے ہفتہ میں غالباً بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات کو )میں نے غالباً کا لفظ اس لئے استعمال کیا ہے کہ میں اندازہ سے کہہ رہا ہوں کہ وہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات تھی( میں نے ایک عجیب رئویا دیکھا۔ میں نے جیسا کہ بارہا بیان کیا ہے۔ غیر مامورین کا اپنے کسی رویاء کو بیان کرنا ضروری نہیں ہوتا اور میں خود تو سوائے پچھلے ایام کے جبکہ اس جنگ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بعض اہم خبریں مجھے دیں۔ بہت کم ہی رویاء بتایا کرتا ہوں بلکہ )اللہ بہتر جانتا ہے۔ یہ طریق درست ہے یا نہیں( میں اپنے رویاء و کشوف اور الہامات لکھتا بھی نہیں اور اس طرح وہ خود بھی کچھ عرصہ کے بعد میری نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ابھی لاہور میں مجھے چوھدری ظفر اللہ خاں صاحب نے ایک امر کے سلسلہ میں ایک بیس پچیس سال کا پرانا رئویا یاد کرایا۔ پہلے تو وہ میرے ذہن میں ہی نہ آیا۔ مگر بعد میں جب انہوں نے اس کی بعض تفصیلات بیان کیں تو اس وقت مجھے یاد آگیا۔ تو میری یہ عادت نہیں ہے کہ میں رویاء و کشوف بیان کروں لیکن چونکہ اس رویاء کا تعلق بعض اہم امور سے ہے` نہ صرف اسے امور سے جو کہ میری ذات سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ایسے امور سے بھی جو بعض سابق انبیاء کی ذات اور ان کی پیشگوئیوں سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ صرف وہ بعض سابق انبیاء کی ذات اور ان کی پیشگوئیوں سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ آئندہ رونما ہونے والے دنیا کے اہم حالات سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے میں مجبور ہوں کہ اس رویاء کا اعلان کروں اور میں نے اس کے اعلان سے پہلے خداتعالیٰ سے اس بارہ میں دعا بھی کی ہے اور استخارہ بھی کیا ہے تاکہ اس معاملہ میں مجھ سے کوئی بات خداتعالیٰ کے منشاء اور اس کی رضاء کے خلاف نہ ہو۔
وہ رئویا یہ تھا کہ میں نے دیکھا۔ میں ایک مقام پر ہوں جہاں جنگ ہورہی ہے۔ وہاں کچھ عمارتیں ہیں۔ نہ معلوم وہ گڑھیاں ہیں یا ٹرنچز ہیں۔ بہرحال وہ جنگ کے ساتھ تعلق رکھنے والی کچھ عمارتیں ہیں۔ وہاں کچھ لوگ ہیں جن کے متعلق میں نہیں جانتا کہ آیا وہ ہماری جماعت کے لوگ ہیں یا یونہی مجھے ان سے تعلق ہے۔ میں ان کے پاس ہوں۔ اتنے میں مجھے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جرمن فوج نے جو اس فوج سے جس کے پاس میں ہوں برسر پیکار ہے` یہ معلوم کرلیا ہے کہ میں وہاں ہوں اور اس نے اس مقام پر حملہ کر دیا ہے اور وہ حملہ اتنا شدید ہے کہ اس جگہ کی فوج نے پسپا ہونا شروع کر دیا۔ یہ کہ وہ انگریزی فوج تھی یا امریکن فوج یا کوئی اور فوج تھی۔ اس کا مجھے اس وقت کوئی خیال نہیں آیا۔ بہرحال وہاں جو فوج تھی اس کو جرمنوں سے دبنا پڑا۔ اور اس مقام کو چھوڑ کر وہ پیچھے ہٹ گئی۔ جب وہ فوج پیچھے ہٹی تو جرمن اس عمارت میں داخل ہوگئے جس میں میں تھا۔ تب میں خواب میں کہتا ہوں۔ دشمن کی جگہ پر رہنا درست نہیں اور یہ مناسب نہیں کہ اب اس جگہ ٹھہرا جائے۔ یہاں سے ہمیں بھاگ چلنا چاہئے۔ اس وقت میں رویاء میں صرف یہی نہیں کہ تیزی سے چلتا ہوں بلکہ دوڑتا ہوں۔ میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی ہیں اور وہ بھی میرے ساتھ ہی دوڑتے ہیں اور جب میں نے دوڑنا شروع کیا تو رویاء میں مجھے یوں معلوم ہوا۔ جیسے میں انسانی مقدرت سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑ رہا ہوں اور کوئی ایسی زبردست طاقت مجھے تیزی سے لے جارہی ہے کہ میلوں میل میں ایک آن میں طے کرتا جارہا ہوں۔ اس وقت میرے ساتھیوں کو بھی دوڑنے کی ایسی ہی طاقت دی گئی مگر پھر بھی وہ مجھ سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور میرے پیچھے ہی جرمن فوج کے سپاہی میری گرفتاری کے لئے دوڑتے آرہے ہیں۔ مگر شاید ایک منٹ بھی نہیں گزرا ہوگا کہ مجھے رویاء میں یوں معلوم ہوتا ہے کہ جرمن سپاہی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں چلتا چلا جاتا ہوں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین میرے پیروں کے نیچے سمٹتی چلی جارہی ہے۔ یہاں تک کہ میں ایک ایسے علاقہ میں پہنچا جو دامن کوہ کہلانے کا مستحق ہے۔ ہاں جس وقت جرمن فوج نے حملہ کیا ہے رویاء میں مجھے یاد آتا ہے کہ کسی سابق نبی کی کوئی پیشگوئی ہے یا خود میری کوئی پیشگوئی ہے۔ اس میں اس واقعہ کی خبر پہلے سے دی گئی تھی اور تمام نقشہ بھی بتایا گیا تھا کہ جب وہ موعود اس مقام سے دوڑے گا تو اس اس طرح دوڑے گا اور پھر فلاں جگہ جائے گا۔ چنانچہ رویاء میں جہاں میں پہنچا ہوں وہ مقام اس پیشگوئی کے عین مطابق ہے اور مجھے معلوم ہوتا ہے کہ پیشینگوئی میں اس امر کا بھی ذکر ہے کہ ایک خاص رستہ ہے جسے میں اختیار کروں گا اور اس راستہ کے اختیار کرنے کی وجہ سے دنیا میں بہت اہم تغیرات ہوں گے اور دشمن مجھے گرفتار کرنے میں ناکام رہے گا۔ چنانچہ جب میں یہ خیال کرتا ہوں تو اس مقام پر ¶مجھے کئی ایک پگ ڈنڈیاں نظر آتی ہیں جن میں سے کوئی کسی طرف جاتی ہے اور کوئی کسی طرف۔ میں ان پگ ڈنڈیوں کے بالمقابل دوڑتا چلا گیا ہوں تامعلوم کروں کہ پیشگوئی کے مطابق مجھے کس کس راستہ پر جانا چاہئے اور میں اپنے دل میں یہ خیال کرتا ہوں کہ مجھے تو یہ معلوم نہیں کہ میں نے کس راستہ سے جانا ہے اور میرا کس راستہ سے جانا خدائی پیشگوئی کے مطابق ہے۔ ایسا نہ ہو میں غلطی سے کوئی ایسا راستہ اختیار کرلوں جس کا پیشگوئی میں ذکر نہیں۔ اس وقت میں اس سڑک کی طرف جارہا ہوں جو سب کے آخر میں بائیں طرف ہے۔ اس وقت میں دیکھتا ہوں کہ مجھ سے کچھ فاصلہ پر میرا ایک اور ساتھی ہے اور وہ مجھے آواز دے کر کہتا ہے کہ اس سڑک پر نہیں دوسری سڑک پر جائیں۔ اور میں اس کے کہنے پر اس سڑک کی طرف جو بہت دور ہٹ کر ہے واپس لوٹتا ہوں وہ جس سڑک کی طرف مجھے آوازیں دے رہا ہے انتہائی دائیں طرف ہے اور جس سڑک کو میں نے اختیار کیا تھا وہ انتہائی بائیں طرف تھی۔ پس چونکہ میں انتہائی بائیں طرف تھا اور جس طرف وہ مجھے بلارہا تھا وہ انتہائی دائیں طرف تھی۔ اس لئے میں لوٹ کر اس سڑک کی طرف چلا۔ مگر جس وقت میں پیچھے کی طرف واپس ہٹا۔ ایسا معلوم ہوا کہ میں کسی زبردست طاقت کے قبضہ میں ہوں اور اس زبردست طاقت نے مجھے پکڑ کر درمیان میں سے گزرنے والی ایک پگ ڈنڈی پر چلا دیا۔ میرا ساتھی مجھے آوازیں دیتا چلا جاتا ہے کہ اس طرف نہیں اس طرف` اس طرف نہیں اس طرف۔ مگر میں اپنے آپ کو بالکل بے بس پاتا ہوں اور درمیانی پگ ڈنڈی پر بھاگتا چلا جاتا ہوں )اس جگہ کی شکل رویاء کے مطابق اس طرح بنتی ہے(

یہاں پر نقشہ بنے گا۔

جب میں تھوڑی دور چلا تو مجھے وہ نشانات نظر آنے لگے جو پیشگوئی میں بیان کئے گئے تھے اور میں کہتا ہوں۔ میں اسی استہ پر آگیا جو خداتعالیٰ نے پیشگوئی میں بیان فرمایا تھا۔ اس وقت رویاء میں میں اس کی کچھ توجیہہ بھی کرتا ہوں کہ میں درمیانی پگ ڈنڈی پر جو چلا ہوں تو اس کا کیا مطلب ہے۔ چنانچہ جس وقت میری آنکھ کھلی معاً مجھے خیال آیا کہ دایاں اور بایاں راستہ جو رویاء میں دکھایا گیا ہے اس میں بائیں راستہ سے مراد خالص دینوی کوششیں اور تدبیریں ہیں اور دائیں راستہ سے مراد خالص دینی طریق دعا اور عبادتیں وغیرہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ ہماری جماعت کی ترقی درمیانی راستہ پر چلنے سے ہوگی۔ یعنی کچھ تدبیریں اور کوششیں ہوں گی اور کچھ دعائیں اور تقدیریں ہوں گی اور پھر یہ بھی میرے ذہن میں آیا کہ دیکھو قرآن شریف نے امت محمدیہ کو امت¶ہ وسطاً قرار دیا ہے۔ اس وسطی راستہ پر چلنے کے یہی معنے ہیں کہ یہ امت اسلام کا کامل نمونہ ہوگی اور چھوٹی پگ ڈنڈی کی یہ تعبیر ہے کہ راستہ گو درست راستہ ہے مگر اس میں مشکلات بھی ہوتی ہیں۔ غرض میں اس راستہ پر چلنا شروع ہوا اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ دشمن بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اتنی دور کہ نہ اس کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی ہے اور نہ اس کے آنے کا کوئی امکان پایا جاتا ہے مگر ساتھ ہی میرے ساتھیوں کے پیروں کی آہٹیں بھی کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں مگر میں دوڑتا چلا جاتا ہوں اور زمین میرے پائوں کے نیچے سمٹتی چلی جارہی ہے۔ اس وقت میں کہتا ہوں کہ اس واقعہ کے متعلق جو پیشگوئی تھی اس میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اس رستہ کے بعد پانی آئے گا اور اس پانی کو عبور کرنا بہت مشکل ہوگا۔ اس وقت میں رستے پر چلتا تو چلا جاتا ہوں مگر ساتھ ہی کہتا ہوں۔ وہ پانی کہاں ہے؟ جب میں نے یہ کہا۔ وہ پانی کہاں ہے۔ تو یکدم میں نے دیکھا کہ میں ایک بہت بڑی جھیل کے کنارے پر کھڑا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس جھیل کے پار ہوجانا پیشگوئی کے مطابق ضروری ہے۔ میں نے اس وقت دیکھا کہ جھیل پر کچھ چیزیں تیر رہی ہیں۔ وہ ایسی لمبی ہیں جیسے سانپ ہوتے ہیں اور ایسی باریک اور ہلکی چیزوں سے بنی ہوئی ہیں جیسے بئے وغیرہ کے گھونسلے نہایت باریک تنکوں کے ہوتے ہیں وہ اوپر سے گول ہیں جیسے اژدھا کی پیٹھ ہوتی ہے اور رنگ ایسا ہے جیسے بئے کے گھونسلے سے سفیدی زردی اور خاکی رنگ ملا ہوا۔ وہ پانی پر تیر رہی ہیں اور ان کے اوپر کچھ لوگ سوار ہیں جو ان کو چلارہے ہیں۔ خواب میں میں سمجھتا ہوں۔ یہ بت پرست قوم ہے۔ اور یہ چیز جن پر یہ لوگ سوار ہیں۔ ان کے بت ہیں اور یہ سال میں ایک دفعہ اپنے بتوں کو نہلاتے ہیں اور اب بھی یہ لوگ اپنے بتوں کو نہلانے کی غرض سے مقررہ گھاٹ کی طرف لے جارہے ہیں اور جب مجھے اور کوئی چیز پار لے جانے کے لئے نظر نہ آئی تو میں نے زور سے چھلانگ لگائی اور ایک بت پرست سوار ہوگیا۔ تب میں نے سنا۔ بتوں کے پچاری زور زور سے مشرکانہ عقائد کا اظہار منتروں اور گیتوں کے ذریعہ سے کرنے لگے۔ اس پر میں نے دل میں کہا کہ اس وقت خاموش رہنا غیرت کے خلاف ہے اور بڑے زور زور سے میں نے توحید کی دعوت ان لوگوں کو دینی شروع کی اور شرک کی برائیاں بیان کرنے لگا۔ تقریر کرتے ہوئے مجھے یوں معلوم ہوا کہ میری زبان اردو نہیں بلکہ عربی ہے۔ چنانچہ میں عربی میں بول رہا ہوں اور بڑے زور سے تقریر کررہا ہوں۔ رویاء میں ہی مجھے خیال آتا ہے کہ ان لوگوں کی زبان تو عربی نہیں۔ یہ میری باتیں کس طرح سمجھیں گے۔ مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ گو ان کی زبان کوئی اور ہے مگر یہ میری باتوں کو خوب سمجھتے ہیں۔ چنانچہ میں اسی طرح ان کے سامنے عربی میں تقریر کررہا ہوں اور تقریر کرتے کرتے بڑے زور سے ان کو کہتا ہوں کہ تمہارے یہ بت اس پانی میں غرق کئے جائیں گے اور خدائے واحد کی حکومت دنیا میں قائم کی جائے گی۔ ابھی میں یہ تقریر کرہی رہا تھا کہ مجھے معلوم ہوا کہ اس کشتی نما بت والا جس پر میں سوار ہوں یا اس کے ساتھ کے بت والا بت پرستی چھوڑ کر میری باتوں پر ایمان لے آیا ہے اور موحد ہوگیا ہے۔ اس کے بعد اثر بڑھنا شروع ہوا اور ایک کے بعد دوسرا` اور دوسرے کے بعد تیسرا` اور تیسرے کے بعد چوتھا اور چوتھے کے بعد پانچواں شخص میری باتوں پر ایمان لاتا` مشرکانہ باتوں کو ترک کرتا اور مسلمان ہوتا چلا جاتا ہے۔ اتنے میں ہم جھیل پار کرکے دوسری طرف پہنچ گئے۔ جب ہم جھیل کے دوسری طرف پہنچ گئے تو میں حکم دیتا ہوں کہ ان بتوں کو جیسا کہ پیشگوئی میں بیان کیا گیا تھا` پانی میں غرق کر دیا جائے۔
اس پر جو لوگ موحد ہوچکے ہیں وہ بھی اور جو ابھی موحد تو نہیں ہوئے مگر ڈھیلے پڑ گئے ہیں` میرے سامنے جاتے ہیں اور میرے حکم کی تعمیل میں اپنے بتوں کو جھیل میں غرق کردیتے ہیں اور میں خواب میں حیران ہوں کہ یہ تو کسی تیرنے والے مادے کے بنے ہوئے تھے یہ اس آسمانی سے جھیل کی تہہ میں کس طرح چلے گئے۔ صرف پجاری پکڑ کر ان کو پانی میں غوطہ دیتے ہیں اور وہ پانی کی گہرائی میں جاکر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد میں کھڑا ہوگیا اور پھر انہیں تبلیغ کرنے لگ گیا۔ کچھ لوگ تو ایمان لاچکے تھے مگر باقی قوم جو ساحل پر تھی۔ ابھی ایمان نہیں لائی تھی۔ اس لئے میں نے ان کو تبلیغ کرنی شروع کردی۔ یہ تبلیغ میں ان کو عربی زبان میں ہی کرتا ہوں۔ جب میں انہیں تبلیغ کررہا ہوں تاکہ باقی لوگ بھی اسلام لے آئیں تو یکدم میری حالت میں تغیر پیدا ہوتا ہے اور مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب میں نہیں بول رہا بلکہ خداتعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر میری زبان پر باتیں کی جارہی ہیں` جیسے خطبہ الہامیہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا۔ غرض میرا کلام اس وقت بند ہو جاتا ہے اور خداتعالیٰ میری زبان سے بولنا شروع ہو جاتا ہے۔ بولتے بولتے میں بڑے زور سے ایک شخص کو جو غالباً سب سے پہلے ایمان لایا تھا۔ غالباً کا لفظ میں نے اس لئے کہا کہ مجھے یقین نہیں کہ وہی شخص پہلے ایمان لایا ہو۔ ہاں غالب گمان یہی ہے کہ وہی شخص پہلا ایمان لانے والا یا پہلے ایمان لانے والوں میں سے بااثر اور مفید وجود تھا۔ بہرحال میں یہی سمجھتا ہوں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے ہے اور میں نے اس کا اسلامی نام عبدالشکور رکھا ہے۔ میں اس کو مخاطب کرکے بڑے زور سے کہتا ہوں کہ جیسا کہ پیشگوئیوں میں بیان کیا گیا ہے میں اب آگے جائوں گا اس لئے اے عبدالشکور! تجھ کو میں اس قوم میں اپنا نائب مقرر کرتا ہوں۔ تیرا فرض ہوگا کہ میری واپسی تک اپنی قوم میں توحید کو قائم کرے اور شرک کو مٹادے اور تیرا فرض ہوگا کہ اپنی قوم کو اسلام کی تعلیم پر عامل بنائے۔ میں واپس آکر تجھ سے حساب لوں گا اور دیکھوں گا کہ تجھے میں نے جن فرائض کی سرانجام دہی کے لئے مقرر کیا ہے ان کو تو نے کہاں تک ادا کیا ہے۔ اس کے بعد وہی الہامی حالت جاری رہتی ہے اور میں اسلام کی تعلیم کے اہم امور کی طرف اسے توجہ دلاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ تیرا فرض ہوگا کہ ان لوگوں کو سکھائے کہ اللہ ایک ہے اور محمدﷺ~ اس کے بندہ اور اس کے رسول ہیں اور کلمہ پڑھتا ہوں اور اس کے سکھانے کا اسے حکم دیتا ہوں۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ایمان لانے کی اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے اور سب لوگوں کو اس ایمان کی طرف بلانے کی تلقین کرتا ہوں۔ جس وقت میں یہ تقریر کررہا ہوں )جو خود الہامی ہے( تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ نے خود رسول اللہ~صل۱~ کو میری زبان سے بولنے کی توفیق دی ہے اور آپ فرماتے ہیں انا محمد عبدہ و رسولہ۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ذکر پر بھی ایسا ہی ہوتا ہے اور آپؑ فرماتے ہیں انا المسیح الموعود اس کے بعد میں ان کو اپنی طرف توجہ دلاتا ہوں چنانچہ اس وقت میری زبان پر جو فقرہ جاری ہوا وہ یہ ہے۔ وانا المسیح الموعود مثیلہ و خلیفتہ اور میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اس کا مثیل اور اس کا خلیفہ ہوں۔
تب خواب میں ہی مجھ پر ایک رعشہ کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے اور میں کہتا ہوں کہ میری زبان پر کیا جاری ہوا؟ اور اس کا کیا مطلب ہے کہ میں مسیح موعود ہوں؟ اس وقت معاً میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ اس کے آگے جو الفاظ ہیں کہ مثیلہ میں اس کا نظیر ہوں و خلیفتہ اور اس کا خلیفہ ہوں۔ یہ الفاظ اس سوال کو حل کر دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام کہ وہ حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا اس کے مطابق اور اسے پورا کرنے کے لئے یہ فقرہ میری زبان پر جاری ہوا ہے اور مطلب یہ ہے کہ اس کا مثیل ہونے اور اس کا خلیفہ ہونے کے لحاظ سے ایک رنگ میں بھی مسیح موعود ہی ہوں کیونکہ جو کسی کا نظیر ہوگا اور اس کے اخلاق کو اپنے اندر لے لے گا وہ ایک رنگ میں اس کا نام پانے کا مستحق بھی ہوگا۔ پھر میں تقریر کرتے ہوئے کہتا ہوں۔ وہ میں ہوں جس کے ظہور کے لئے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی ہیں۔ اور جب میں کہتا ہوں >میں وہ ہوں جس کے لئے انیس سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کررہی تھیں< تو میں نے دیکھا کہ کچھ نوجوان عورتیں اور جو سات یا نو ہیں۔ جن کے لباس صاف ستھرے ہیں۔ دوڑتی ہوئی میری طرف آتی ہیں۔ مجھے السلام علیکم کہتی اور ان میں سے بعض برکت حاصل کرنے کے لئے میرے کپڑوں پر ہاتھ پھیرتی جاتی ہیں اور کہتی ہیں >ہاں ہاں ہم تصدیق کرتی ہیں کہ ہم انیس سو سال سے آپ کا انتظار کررہی تھیں< اس کے بعد میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ میں وہ ہوں جسے علوم اسلام اور علوم عربی اور اس زبان کا فلسفہ ماں کی گود میں اس کی دونوں چھاتیوں سے دودھ کے ساتھ پلائے گئے تھے۔ رویاء میں جو ایک سابق پیشگوئی کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تھی۔ اس میں یہ بھی خبر تھی کہ جب وہ موعود بھاگے گا تو ایک ایسے علاقہ میں پہنچے گا جہاں ایک جھیل ہوگی اور جب وہ اس جھیل کو پار کرکے دوسری طرف جائے گا تو وہاں ایک قوم ہوگی جس کو وہ تبلیغ کرے گا اور وہ اس کی تبلیغ سے متاثر ہوکر مسلمان ہو جائے گی تب وہ دشمن جس سے وہ موعود بھاگے گا اس قوم سے مطالبہ کرے گا کہ اس شخص کو ہمارے حوالے کیا جائے مگر وہ قوم انکار کردے گی اور کہے گی ہم لڑ کر مر جائیں گے مگر اسے تمہارے حوالے نہیں کریں گے چنانچہ خواب میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جرمن قوم کی طرف سے مطالبہ ہوتا ہے کہ تم ان کو ہمارے حوالے کردو۔ اس وقت میں خواب میں کہتا ہوں۔ یہ تو بہت تھوڑے ہیں اور دشمن بہت زیادہ ہے۔ مگر وہ قوم باوجود اس کے کہ ابھی ایک حصہ اس کا ایمان نہیں لایا` بڑے زور سے اعلان کرتی ہے کہ ہم ہرگز ان کو تمہارے حوالے کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ہم لڑکر فنا ہو جائیں گے مگر تمہارے اس مطالبہ کو تسلیم نہیں
‏tav.8.27
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
دعویٰ مصلح موعود سے لیکر مجلس عرفان کے قیام تک
کریں گے۔ تب میں کہتا ہوں دیکھو وہ پیشگوئی بھی پوری ہوگئی۔
اس کے بعد میں پھر ان کو ہدایتیں دے کر اور بار بار توحید قبول کرنے پر زور دے کر اور اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی بسر کرنے کی تلقین کرکے آگے کسی اور مقام کی طرف روانہ ہوگیا ہوں۔ اس وقت میں سمجھتا ہوں کہ اس قوم میں سے اور لوگ بھی جلدی جلدی ایمان لانے والے ہیں۔ چنانچہ اس لئے میں اس شخص سے جسے میں نے اس قوم میں اپنا خلیفہ مقرر کیا ہے` کہتا ہوں۔ جب میں واپس آئوں گا تو اے عبدالشکور! میں دیکھوں گا کہ تیری قوم شرک چھوڑ چکی ہے` موحد ہوچکی ہے اور اسلام کے تمام احکام پر کاربند ہوچکی ہے۔
یہ وہ رویاء ہے جو میں نے جنوری ۱۹۴۴ء مطابق صلح ۱۳۲۳ہش۳۸ میں دیکھی اور جو غالباً پانچ اور چھ کی درمیانی شب بدھ اور جمعرات کی درمیانی رات میں ظاہر کی گئی۔ جب میری آنکھ کھلی تو میری نیند بالکل اڑ گئی اور مجھے سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کیونکہ آنکھ کھلنے پر مجھے یوں محسوس ہوتا تھا گویا میں اردو بالکل بھول چکا ہوں اور صرف عربی ہی جانتا ہوں۔ چنانچہ کوئی گھنٹہ بھر تک میں اس رئویا پر غور کرتا اور اور سوچتا رہا مگر میں نے دیکھا کہ میں عربی میں ہی غور کرتا تھا اور اسی میں سوال و جواب میرے دل میں آتے تھے۔۳۹
اس رویاء میں تین پیشگوئیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ ایک پیشگوئی تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا میں نے ہی کی ہے یا کسی سابق غیرمعروف نبی نے۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کس نبی کی پیشگوئی ہے اور آیا دنیا کے سامنے اس رنگ میں یہ پیشگوئی پیش بھی ہوچکی ہے یا نہیں؟ لیکن اس کے علاوہ دو اور پیشگوئیوں کی طرف اس میں اشارہ کیا گیا ہے۔ پہلی پیشگوئی جس میں یہ ذکر ہے کہ انیس سو سال سے کنواریاں میرا انتظار کررہی تھیں۔ وہ درحقیقت حضرت عیٰسی علیہ السلام کی ایک پیشگوئی ہے جس کا انجیل میں ذکر آتا ہے۔ حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں؟ جب میں دوبارہ دنیا میں آئوں گا تو بعض قومیں مجھے مان لیں گی اور بعض قومیں انکار کریں گی۔ آپ ان اقوام کا تمثیلی رنگ میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسے کچھ کنواریاں اپنی اپنی مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کو نکلیں وہ دولہا کے انتظار میں بیٹھی رہیں` بیٹھی رہیں اور بیٹھی رہیں مگر دولہا نے آنے میں بہت دیر لگائی۔ جو عقلمند تھیں انہوں نے تو اپنی مشعلوں کے ساتھ تیل بھی لے لیا تھا مگر جو بے وقوف تھیں انہوں نے مشعلیں تو لے لیں مگر تیل اپنے ساتھ نہ لیا۔ جب دولہا نے بہت دیر لگائی تو سب اونگھنے لگیں۔ تب وہ جو بے احتیاط عورتیں تھیں انہوں نے معلوم کیا کہ ان کا تیل ختم ہورہا ہے اور انہوں نے دوسری عورتوں سے کہا اپنے تیل میں سے کچھ ہمیں بھی دے دو کیونکہ ہماری مشعلیں بجھی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا۔ ہم تمہیں تیل نہیں دے سکتیں۔ اگر دے دیں تو شاید ہمارا تیل بھی ختم ہو جائے۔ تم بازار میں جائو شاید تمہیں وہاں سے تیل مل جائے۔ جب وہ مول لینے کے لئے بازار گئیں تو پیچھے سے دولہا آپہنچا اور وہ جو تیار تھیں اس کو ساتھ لے کر قلعہ میں چلی گئیں اور دروازہ بند کر دیا گیا۔ کچھ دیر کے بعد وہ بے احتیاط عورتیں بھی آئیں اور دروازے کو کھٹکھٹا کر کہنے لگیں ہمارے لئے بھی دروازہ کھولا جائے۔ ہم اندر آنا چاہتی ہیں۔ مگر دولہا نے جواب دیا۔ تم نے میرا انتظار نہ کیا۔ تم نے پوری طرح احتیاط نہ برتی۔ اس لئے اب صرف ان ہی کو حصہ ملے گا جو چوکس تھیں۔ تمہارے لئے دروازہ نہیں کھولا جاسکتا۔ یہ درحقیقت حضرت مسیح ناصری کی اپنی بعثت ثانیہ کے متعلق ایک پیشگوئی تھی جو انجیل میں پائی جاتی ہے۔ پس رویاء میں میں نے جو یہ کہا کہ۔
>میں وہ ہوں جس کے لئے ۱۹ سو سال سے کنواریاں اس سمندر کے کنارے پر انتظار کررہی تھیں<۔
اس سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ خداتعالیٰ میرے زمانہ میں یا میری تبلیغ سے یا ان علوم کے ذریعہ سے جو اللہ تعالیٰ نے میری زبان اور قلم سے ظاہر فرمائے ہیں ان قوموں کو جن کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ایمان لانا مقدر ہے اور جو حضرت مسیح ناصریؑ کی زبان میں کنواریاں قرار دی گئی ہیں۔ ہدایت عطا فرمائے گا اور اس طرح خداتعالیٰ کے فضل سے وہ میرے ہی ذریعہ سے ایمان لانے والی سمجھی جائیں گی اور یہ جو فرمایا کہ مثیلہ و خلیفتہ اس خدائی الہام نے وہ بات جو ہمیشہ میرے سامنے پیش کی جاتی تھی اور جس کا جواب دینے سے ہمیشہ میری طبیعت انقباض محسوس کیا کرتی تھی آج میرے لئے بالکل حل کر دی ہے۔ یعنی اس الہام الٰہی سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیشگوئی جو مصلح موعود کے متعلق تھی خداتعالیٰ نے میری ہی ذات کے لئے مقدر کی ہوئی تھی۔ لوگوں نے کہا اور بار بار کہا کہ آپ کی ان پیشگوئیوں کے بارہ میں کیا رائے ہے؟ مگر میری یہ حالت تھی کہ میں نے کبھی سنجیدگی سے ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کی بھی کوشش نہیں کی تھی اس خیال سے کہ میرا نفس مجھے کوئی دھوکا نہ دے اور میں اپنے متعلق کوئی ایسا خیال نہ کرلوں جو واقعہ کے خلاف ہو۔
حضرت خلیفہ اولؓ نے ایک دفعہ مجھے ایک خط دیا اور فرمایا۔ میاں یہ خط جو تمہاری پیدائش کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے مجھے لکھا` اس خط کو >تشحیذ الاذھان< میں چھاپ دو۔ یہ بڑے کام کی چیز ہے۔ میں نے اس وقت ان کے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ خط لے لیا اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اسے تشحیذ میں شائع کرا دیا مگر اللہ بہتر جانتا ہے میں نے اس وقت بھی اس خط کو غور سے نہیں پڑھا۔ صرف سرسری طور پر پڑھا اور اشاعت کے لئے دے دیا۔ لوگوں نے اس وقت بھی کئی قسم کی باتیں کیں مگر میں خاموش رہا۔ اس کے بعد بھی بار بار یہ سوال میرے سامنے لایا گیا مگر ہمیشہ میں نے یہی جواب دیا کہ اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ جس شخص کے متعلق یہ خبریں ہیں اسے بتایا بھی جائے کہ تمہارے متعلق خبریں ہیں۔ یا ہرگز یہ ضروری نہیں کہ جس شخص کے متعلق یہ پیشگوئیاں ہیں وہ دعویٰ بھی کرے کہ میں ان پیشگوئیوں کا مصداق ہوں بلکہ مثال کے طور پر میں نے بعض دفعہ بیان کیا ہے کہ ریل کے متعلق رسول کریم~صل۱~ نے پیشگوئی فرمائی تھی۔ ماننے والے مانتے ہیں کہ پیشگوئی پوری ہوگئی۔ کیونکہ وہ واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ ضروری نہیں کہ ریل خود دعویٰ بھی کرے کہ میں رسول کریم~صل۱~ کی فلاں پیشگوئی کی مصداق ہوں۔ ہماری جماعت کے دوستوں نے یہ اور اسی قسم کی دوسری پیشگویاں بارہا میرے سامنے رکھیں اور اصرار کیا کہ میں ان کا اپنے آپ کو مصداق ظاہر کروں۔ مگر میں نے انہیں ہمیشہ یہی کہا کہ کہ پیشگوئی اپنے مصداق کو آپ ظاہر کیا کرتی ہے۔ اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں تو زمانہ خود بخود گواہی دے دے گا کہ ان پیشگوئیوں کا میں مصداق ہوں اور اگر میرے متعلق نہیں تو زمانہ کی گواہی میرے خلاف ہوگی۔ دونوں صورتوں میں مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اگر یہ پیشگوئیاں میرے متعلق نہیں تو میں یہ کہہ کر کیوں گنہگار بنوں کہ یہ پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں۔ اور اگر میرے ہی متعلق ہیں تو مجھے جلد بازی کی کیا ضرورت ہے؟ وقت خود بخود حقیقت ظاہر کردے گا۔ غرض جیسے الہام الٰہی میں کہا گیا تھا۔
>انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں<
)تذکرہ صفحہ ۱۴۶(
دنیا نے یہ سوال اتنی دفعہ کیا۔ اتنی دفعہ کیا کہ اس پر ایک لمبا عرصہ گزر گیا۔ اس لمبے عرصہ کے متعلق بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے الہامات میں خبر موجود ہے۔ مثلاً حضرت یعقوب علیہ السلام کے متعلق حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے یہ کہا تھا کہ تو اسی طرح یوسف کی باتیں کرتا رہے گا یہاں تک کہ قریب المرگ ہو جائے گا یا ہلاک ہو جائے گا اور یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا۔ )تذکرہ صفحہ ۱۶۵( اسی طرح یہ الہام کہ یوسف کی خوشبو مجھے آرہی ہے )تذکرہ صفحہ ۴۸۵( بتاتا تھا کہ خداتعالیٰ کی مشیت کے ماتحت یہ چیز ایک لمبے عرصہ کے بعد ظاہر ہوگی۔
میں اب بھی اس یقین پر قائم ہوں کہ اگر ان پیشگوئیوں کے متعلق مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کے قریب وقت تک یہ علم نہ دیا جاتا کہ یہ میرے متعلق ہیں بلکہ موت تک مجھے علم نہ دیا جاتا اور واقعات خود بخود ظاہر کر دیتے کہ چونکہ یہ پیشگوئیاں میرے زمانہ میں اور میرے ہاتھ سے پوری ہوئی ہیں اس لئے میں ہی ان کا مصداق ہوں تو اس میں کئی حرج نہ تھا۔ کسی کشف یا الہام کا تائیدی طور پر ہونا ایک زائد امر ہوتا ہے۔ لیکن خداتعالیٰ نے اپنی مشیت کے ماتحت آخر اس امر کو ظاہر کر دیا اور مجھے اپنی طرف سے علم بھی دے دیا کہ مصلح موعود سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیاں میرے متعلق ہیں۔ چنانچہ آج میں نے پہلی دفعہ وہ تمام پیشگوئیاں منگوا کر اس نیت کے ساتھ دیکھیں کہ میں ان پیشگوئیوں کی حقیقت سمجھوں اور دیکھوں کہ اللہ تعالیٰ نے ان نے ان میں کیا کچھ بیان فرمایا ہے۔ ہماری جماعت کے دوست چونکہ میری طرف ان پیشگوئیوں کو منسوب کیا کرتے تھے اس لئے میں ہمیشہ ان پیشگوئیوں کو غور سے پڑھنے سے بچتا تھا اور ڈرتا تھا کہ کوئی غلط خیال قائم نہ ہو جائے۔ مگر آج پہلی دفعہ میں نے وہ تمام پیشگوئیاں پڑھیں اور اب ان پیشگوئیوں کو پڑھنے کے بعد میں خداتعالیٰ کے فضل سے یقین اور وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ خداتعالیٰ نے یہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے ہی پوری کی ہے۔
میں اس کے متعلق اس وقت تفصیل سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ مگر یہ جو آتا ہے کہ >وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا< اس کے متعلق ہمیشہ سوال کیا جاتا ہے کہ اس کے کیا معنی ہیں؟ اسی طرح >دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ< کے متعلق سوال کیا جاتا ہے۔ سو یہ جو الہام ہے کہ >وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا< حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ وہ تین بیٹوں کو چار کرنے والا ہوگا یعنی وہ چوتھا بیٹا ہوگا۔ اگر یہ مفہوم لے لیا جائے تو چوتھے بیٹے کے لحاظ سے بھی بات بالکل صاف ہے۔ مجھ سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب` مرزا فضل احمد صاحب اور مرزا بشیر احمد )اول( پیدا ہوئے اور چوتھا میں ہوا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مجھ سے پہلے ہماری والدہ سے تین بچے ہوئے۔ اس طرح بھی میں تین کو چار کرنے والا تھا۔ اسی طرح میرے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین بیٹے ہوئے۔ اس لحاظ سے بھی تین کو چار کرنے والا ہوا۔ پھر میری خلافت کے ایام میں اللہ تعالیٰ نے مرزا سلطان احمد صاحب کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق دی۔ اس طرح بھی میں تین کو چار کرنے والا ہوا۔ گویا تین کو چار کرنے والا میں تین۴۰ طرح ہوں۔ اول و دوم اس طرح
عکس کیلئے
][
سوم۔ مرزا سلطان احمد۔ مرزا بشیر احمد۔ مرزا شریف احمد۔ مرزا محمود احمد۔ اس طرح میں نے تین کو چار کردیا۔ لیکن میرا ذہن خداتعالیٰ نے اس طرف بھی منتقل کیا ہے کہ الہامی طور پر یہ نہیں کہا گیا تھا کہ وہ تین بیٹوں کو چار کرنے والا ہوگا۔ الہام میں صرف یہ بتایا گیا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا۔
پس میرے نزدیک یہ اس کی پیدائش کی تاریخ بتائی گئی ہے۔ یہ پیشگوئی ابتداًء ۱۸۸۶ء میں کی گئی تھی۔ پس ۱۸۸۶` ۱۸۸۷` ۱۸۸۸تین سال ہوئے۔ ان تین سالوں کو چار کونسا سال کرتا ہے؟ ۱۸۸۹ء کرتا ہے اور یہی میری پیدائش کا سال ہے۔ پس تین کو چار کرنے والی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ اس کی پیدائش چوتھے سال میں ہوگی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
اور یہ جو آتا ہے >دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ< اس کے اور معنی بھی ہوسکتے ہیں۔ مگر میرے نزدیک اس کی ایک واضح تشریح یہ ہے کہ دو شنبہ ہفتے کا تیسرا دن ہوتا ہے۔ شنبہ پہلا` یک شنبہ دوسرا اور دو شنبہ تیسرا۔ دوسری طرف روحانی سلسلوں میں انبیاء اور ان کے خلفاء کا الگ الگ دور ہوتا ہے اور جس طرح نبی کا زمانہ اپنی ذات میں ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح خلیفہ کا زمانہ اپنی ذات میں ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے غور کرکے دیکھو۔ پہلا دور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوہوالسلام کا تھا۔ دوسرا دور حضرت خلیفہ اولؓ کا تھا اور تیسرا دور میرا ہے۔ ادھر اللہ تعالیٰ کا ایک اور الہام اس تشریح کی تصدیق کررہا ہے اور وہ الہام ہے >فضل عمر< )تذکرہ حاشیہ صفحہ ۱۴۱( حضرت عمرؓ بھی رسول کریم~صل۱~ سے تیسرے مقام پر ہی خلیفہ تھے۔ پس >دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ< سے یہ مراد نہیں کہ کوئی خاص دن خاص برکات کا موجب ہوگا۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اس کے زمانہ کی مثال احمدیت کے دور میں ایسی ہی ہوگی جیسے دو شنبہ کی ہوتی ہے۔ یعنی اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خدمت دین کے لئے جو آدمی کھڑے کئے جائیں گے ان میں وہ تیسرے نمبر پر ہوگا۔ >فضل عمر< کے الہامی نام میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔ گویا کلام اللہ یفسر بعضہ بعضا کے مطابق >فضل عمر< کے لفظ نے >دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ< کی تفسیر کردی۔
مگر اس الہام میں ایک اور خبر بھی ہے اور خداتعالیٰ مبارک دو شنبہ اب ایک ایسے ذریعہ سے بھی لانے والا ہے جو میرے اختیار میں نہیں تھا اور کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ میں نے اپنے ارادہ سے اور جان بوجھ کر اس کا اجراء کیا۔
میں نے ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کو ایسے حالات میں جاری کیا جو ہرگز میرے اختیار میں نہیں تھے۔ گورنمنٹ کے ایک فعل اور احرار کی فتنہ انگیزی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس تحریک کا القاء فرمایا اور اس تحریک کے پہلے دور کی تکمیل کے لئے میں نے دس سال میعاد مقرر کی۔ ہر انسان جب کوئی قربانی کرتا ہے تو اس قربانی کے بعد اس پر ایک عید کا دن آتا ہے۔ چنانچہ دیکھ لو۔ رمضان کے مہینہ میں لوگ روزے رکھتے اور تکلیف برداشت کرتے ہیں مگر جب رمضان گزر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ مومنوں کے لئے اک عید کا دن لاتا ہے۔ اسی طرح ہماری دس سالہ تحریک جدید جب ختم ہوگی تو اس سے اگلا سال ہمارے لئے عید کا سال ہوگا۔ دوست جانتے ہیں تحریک جدید کا پہلا دس سالہ دور اسی سال یعنی ۴۴ء میں ختم ہوتا ہے۔ اور یہ عجیب بات ہے کہ ۴۵ء جو ہمارے لئے عید کا سال ہے پیر کے دن سے شروع ہوتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں یہ خبر بھی دی تھی کہ ایک زمانہ میں اسلام کی نہایت کمزور حالت میں اس کی اشاعت کے لئے ایک اہم تبلیغی ادارہ کی بنیاد رکھی جائے گی اور جب اس کا پہلا کامیابی سے دور ختم ہوگا تو یہ جماعت کے لئے ایک مبارک وقت ہوگا۔ اس لئے وہ سال جب مومن اس عہد و قربانی کو پورا کرچکیں گے جو وہ اپنے ذمہ لیں گے تو ایک مبارک بنیاد ہوگی اور اس سے اگلے سال سے خداتعالیٰ ان کے لئے برکت کا بیج بوئے گا اور خوشی کا دن ان کو دکھائے گا اور جس سال میں یہ وقوع میں آئے گا اس کا پہلا دن پیر یا دو شنبہ ہوگا۔ پس وہ سال بھی مبارک اور وہ دن بھی مبارک۔ پس >دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ< مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس کے ایک معنے یہ بھی ہیں کہ مصلح موعود اس سلسلہ کی تیسری کڑی ہوگا۔ بعض دفعہ ایک چیز کی کسی اور چیز سے مشابہت دے دی جاتی ہے۔ مگر ضروری نہیں ہوتا کہ اس سے مراد وہی ہے۔ پس میرے نزدیک اس کے معنے بالکل واضح ہیں اور >فضل عمر< جو الہامی نام ہے وہ ان معنوں کی تائید کرتا ہے۔
میں اس امر کا بھی ذکر کردینا چاہتا ہوں کہ جب رویاء کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں اس مسئلہ پر سوچتا رہا اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے۔ عربی میں ہی سوچتا رہا۔ سوچتے سوچتے میرے دماغ میں جو الفاظ آئے اور میں جس نتیجہ پر پہنچا۔ وہ یہ تھا کہ اب تو خدا نے بالکل فیصلہ کر دیا ہے۔ جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ آج جب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا اشتہار پڑھ رہا تھا تو اس میں مجھے یہی الفاظ نظر آئے کہ حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آگیا اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ گیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میرے لئے` میں یہ نہیں کہتا کہ دوسروں کے لئے بھی` کیونکہ کوئی دوسرا شخص کسی غیرمامور کے کشف کو ماننے کا مکلف نہیں۔ لیکن بہرحال میرے لئے خداتعالیٰ نے حقیقت کو کھول دیا ہے۔ اور اب میں بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہہ سکتا ہوں کہ خداتعالیٰ کی یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور خداتعالیٰ نے ایک ایسی بنیاد تحریک جدید کے ذریعہ سے رکھی دی ہے جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح ناصریؑ کی وہ پیشگوئی کہ کنواریاں دولہا کے ساتھ قلعہ میں داخل ہوں گی۔ ایک دن بہت بڑی شان اور عظمت کے ساتھ پوری ہوگی۔ مثیل مسیحؑ ان کنواریوں کو اللہ تعالیٰ کے حضور لے جائے گا اور وہ قومیں جو اس سے برکت پائیں گی خوشی سے پکار اٹھیں گی کہ ہوشعنا۔ ہوشعنا۔ اس وقت انہیں محمد~صل۱~ پر ایمان لانا نصیب ہوگا اور اسی وقت انہیں حقیقی رنگ میں مسیح اولؑ پر سچا ایمان نصیب ہوگا۔ اب تو وہ قومیں انہیں خداتعالیٰ کا بیٹا قرار دے کر درحقیقت گالیاں دے رہی ہیں۔ لیکن مقدر یہی ہے کہ میرے بوئے ہوئے بیج سے ایک دن ایسا درخت پیدا ہوگا کہ یہی عیسائی اقوام مثیل مسیحؑ سے برکت حاصل کرنے کے لئے اس کے نیچے بسیرا کریں گی اور خداتعالیٰ کی بادہشات میں داخل ہو جائیں گی اور جیسے خدا کی بادشاہت آسمان پر ہے ویسے ہی زمین پر آجائے گی<۔۴۱`۴۲
قادیان میں جشن مسرت و شادمانی
حضور کی زبان مبارک سے یہ اعلان سن کر خطبہ میں موجود سب احمدیوں کے دل نہایت درجہ خوشی` مسرت اور شادمانی سے بھر گئے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں مصلح موعود کا مبارک دور دیکھنے کی سعادت عطا فرمائی ہے اور انہوں نے نماز جمعہ کے بعد ایک دوسرے کو مبارک باد دی۔۴۳ اگرچہ سب سامعین پر اس نشان کا اثر تھا مگر حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ پر تو خطبہ جمعہ کے دوران ہی وجد کی ایک خاص کیفیت طاری ہوگئی۔۴۴
اگلے روز اس نئے اور مبارک دور کے آغاز پر قادیان میں >یوم مصلح موعود< منایا گیا۔۴۵ اور تین بجے بعد نماز ظہر چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے ناظر اعلیٰ کی زیر صدارت مسجد اقصیٰ میں نہایت تزک و احتشام سے ایک جلسہ عام منعقد کیا گیا جس میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ` قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری` حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرؓ` حضرت خان صاحب منشی برکت علی صاحبؓ` حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب نو مسلمؓ` حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ` مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے ایمان افروز تقریریں کیں۔ آخر میں حسب ذیل عرضداشت پاس کی گئی کہ۔
‏body] ga>[tہم تمام افراد جماعت احمدیہ قادیان جو اس جلسہ میں شریک ہیں` حضور کی خدمت میں پیشگوئی مصلح موعود کے بارے میں خداتعالیٰ کی طرف سے کامل انکشاف پر خادمانہ طور پر اجتماعی رنگ میں مبارکباد عرض کرتے ہیں۔ ہم سب ناچیز خدام اس شاندار موقعہ پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے حضور کی خدمت میں اظہار عقیدت پیش کرتے ہیں کہ ہم اپنی جان` مال` عزت` حضور کے حکم پر ہر وقت نثار کرنے کو تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے۔ ہم خادم حضور سے درخواست کرتے ہیں کہ حضور اپنی خاص وقت قدسیہ سے جو خداتعالیٰ نے حضور کو عطا فرمائی ہے ہمارے لئے بھی دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں کو دور فرمائے اور حضور کے ارشادات و ہدایات کے ماتحت خدمت دین کی توفیق دے<۔
اس عرضداشت کے بعد حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیالؓ نے تقریر فرمائی اور جلسہ ۶ بجے شام ختم ہوا۔۴۶
بیرونی جماعتوں کو اطلاع اور مبارکباد کے خطوط اور تاریں
حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود نے ۲۸۔ صلح/ جنوری کو اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا تھا۔ اخبار >الفضل< نے پہلی بار ۳۰۔ صلح/ جنوری کی اشاعت میں بیرونی جماعتوں کو خوشخبری پہنچائی کہ حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے خداتعالیٰ کے انکشاف کی بناء پر مصلح موعود ہونے کا اعلان فرما دیا ہے۔ اس پرچہ میں خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر >الفضل< کے ادارتی نوٹ کے علاوہ جو >مبارک صد مبارک` جماعت احمدیہ کے لئے ایک عظیم الشان خوشخبری< کے دوہرے عنوان سے صفحہ اول و دوم پر چھپا۔ مولوی محمد یعقوب صاحب مولوی فاضل اسسٹنٹ ایڈیٹر >الفضل< اور مولانا ابوالعطاء صاحب کے مضامین بھی شائع ہوئے۔
>الفضل< کے اس پرچہ کے معاًبعد اگلے شمارہ میں حضرت امیرالمومنین کا معرکتہ الاراء خطبہ جمعہ بھی شائع کر دیا گیا۔ جونہی یہ دونوں پرچے بیرونی جماعتوں میں پہنچے` دنیا کے گوشہ گوشہ سے مبارکباد کے بکثرت خطوط اور تار حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی خدمت اقدس میں پہنچنا شروع ہوگئے۔
انکشاف کے متعلق مخلصین جماعت کی خوابیں
ان خطوط کے ذریعہ خداتعالیٰ کے ایک عجیب اور حیرت انگیز تصرف کا بھی پتہ چلا اور وہ یہ کہ احمدیوں کی طرف سے ایسی رویاء بھی بڑی کثرت سے موصول ہوئیں جن میں انہیں قبل از وقت بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور پرنور کو ایک نئے اور عالی منصب پر سرفراز کیا جارہا ہے۔ سب سے عجیب رویاء منصف خاں صاحب اسسٹنٹ سٹیشن ماسٹر کا تھا جس میں حضرت مصلح موعودؓ کے خطبہ اور اس میں بیان فرمودہ خواب کا سارا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا گیا تھا اور جس کا ذکر خود حضرت مصلح موعودؓ نے ۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو خطبہ جمعہ میں اپنی زبان مبارک سے یوں فرمایا کہ۔
>وہ لکھتے ہیں کہ ۳۰ اور ۳۱ کی درمیانی شب کو میں نے یہ رویاء دیکھا ہے خطبہ میں نے ۲۸۔ جنوری کو پڑھا تھا اور یقیناً یہ خطبہ خواب دیکھنے کے وقت تک ان کو نہیں ملا۔ >الفضل< میں اس بارہ میں پہلی خبر ۳۰۔ جنوری کے پرچہ میں شائع ہوئی ہے اور >الفضل< کا یہ پرچہ ان کو ۳۱۔ جنوری کو مل سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے ۳۰ اور ۳۱۔ جنوری کی درمیانی رات کو یہ خواب دیکھا اور پھر ان کے خط میں بھی اس امر کا کوئی ذکر نہیں کہ اخبار میں انہوں نے یہ خبر پڑھ لی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ رویاء ان کو ایسے حالات میں ہوئی ہے جبکہ انہیں اس بات کا کوئی علم نہ تھا کہ میں نے اپنے خطبہ میں اس پیش گوئی کے مصداق ہونے کا اعلان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ رویاء میں میں نے دکھا کہ احمدیوں کا ایک بہت بڑا ہجوم ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کا کوئی عظیم الشان نشان ظاہر ہوا ہے جس پر وہ خداتعالیٰ کی حمد اور اس کی تسبیح و تحمید کررہے ہیں اور بڑے جوش سے ان کے منہ سے تسبیح کی آوازیں نکل رہی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔ رویاء میں میں نے دیکھا کہ اور لوگوں پر بھی اس کا اثر ہے۔ لیکن مفتی محمد صادق صاحبؓ پر تو وجد کی حالت طاری ہے۔ اب دیکھو۔ پچھلے خطبہ میں تمام احمدیوں پر اللہ تعالیٰ کے اس نشان کا اثر تھا۔ مگر مفتی صاحب پر تو ایسا اثر ہوا کہ وہ خطبہ جمعہ میں ہی بول پڑے۔ وہ لکھتے ہیں۔ میں حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہے۔ اس کے بعد مجھے ایک کمرہ نظر آیا۔ جس میں شیشے کی تین چوکھٹیں لگی ہوئی ہیں اور ان پر نہایت اعلیٰ پالش کیا ہوا ہے تاکہ ان پر تصویر آسکے۔ اس کے بعد میں کیا دیکھتا ہوں کہ ان پر دو تصویریں نمودار ہوگئی ہیں۔ ایک تصویر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ہے اور ایک آپ کی ہے اور یہ دونوں تصویریں اکٹھی کمرہ کے اندر چکر کھارہی ہیں اور ان کو دیکھ کر لوگ خوش ہورہے اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کررہے ہیں۔ انہوں نے تیسری تصویر کا ذکر نہیں کیا۔ یعنی محمد رسول اللہ~صل۱~ کی تصویر کو انہوں نے نہیں دیکھا یا شاید دیکھا تو ہو مگر چونکہ رسول کریم~صل۱~ کی شکل انہوں نے نے دکھی ہوئی نہیں تھی اور آپ کی تصویر بھی دنیا میں کوئی موجود نہیں۔ اس لئے وہ نہ سمجھ سکے ہوں کہ یہ کس کی تصویر ہے؟ لیکن رویاء میں انہوں نے شیشے تین ہی دیکھے ہیں اور میری رویاء میں بھی تین وجودوں کے بولنے کا ذکر آتا ہے۔ پہلے رسول کریم~صل۱~ آئے اور میری زبان سے بولے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام آئے اور میری زبان سے بولے اور پھر میں خود بولا۔ پھر وہ لکھتے ہیں خواب میں عربی زبان میں کچھ باتیں ہورہی ہیں جنہیں میں سمجھ نہیں سکا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نزول السماء۔ نزول السماء کہا جارہا ہے۔ اس میں درحقیقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اس الہام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو آنے والے موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے اشتہار میں پایا جاتا ہے کہ کان اللہ نزل من السماء۔ چونکہ وہ عربی سے ناواقف ہیں۔ اس لئے کہتے ہیں۔ مجھے اور تو کچھ یاد نہیں رہا۔ صرف اتنا یاد رہا کہ عربی میں کچھ باتیں ہورہی ہیں۔ جن میں نزول السماء کے الفاظ ہیں۔ تو دیکھو کس طرح خداتعالیٰ نے انہیں رویاء میں خطبہ کے وقت کی کیفیت بتادی اور کس طرح اس رویاء کا نقشہ بھی بتا دیا جو میں نے دیکھی تھی۔ حالانکہ اس وقت تک انہیں میرے اس اعلان کا کوئی علم نہیں تھا۔ اسی طرح اور لوگوں کو بھی ان ایام میں ایسی خوابیں دکھائی گئی ہیں<۔۴۷
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی رویاء مصلح موعود سے متعلق
ان سینکڑوں خوابوں میں سے جو جماعت کے کثیر التعداد دوستوں کو دعویٰ مصلح موعود سے قبل آئیں اور مومنوں کے ازدیاد ایمان کا باعث
بنیں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی خواب بھی خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ حضرت صاحبزادہ صاحب ہمیشہ اپنی خوابوں کے اظہار سے طبعاً گریز کرتے تھے۔ مگر اس موقعہ پر آپ نے خاموش رہنا گوارا نہ فرمایا اور مرکز احمدیت سے روٹھے ہوئے بھائیوں کی ہدایت کی غرض سے اسے شائع بھی کر دیا۔ اس ایمان افروز خواب کی تفصیل حضرت صاحبزادہ صاحبؓ کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔ فرمایا۔
>قریباً دو سال یا شاید سوا دو سال کا عرصہ ہوا جبکہ ابھی حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ کی طرف سے مصلح موعود کے بارے میں کوئی معین اعلان نہیں ہوا تھا اور نہ آپ پر اس بارے میں خدا کی طرف سے کوئی انکشاف ہی ہوا تھا اور میرے وہم و گمان میں بھی مصلح موعود والی پیشگوئی کا مضمون نہیں تھا کہ میں نے ایک خواب دیکھی۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے مکان کے صحن میں کھڑا ہوں اور اسی صحن کے شرقی جانب جو مکان حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کا ہے جس میں آج کل حضور کی حرم اول سیدہ ام ناصر احمد صاحبہ رہتی ہیں اس کے سب سے بالائی حصہ میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک علیحدہ خانگی مسجد سی بنا رکھی تھی ایک خوبصورت نوجوان کھڑا ہوا ہمارے صحن کی طرف جھانک رہا ہے۔ اس نوجوان کا رنگ شفاف اور سفید تھا جو اپنی سفیدی کی وجہ سے گویا چمک رہا تھا۔ میں نے جب اس نوجوان کی طرف نظر اٹھائی تو اشارے کے ساتھ اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اس نے اس کے جواب میں مجھے آہستہ سے کہا >خلیفہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ الدین< یعنی خلیفہ کے لفظ کے بعد کوئی لفظ بولا جو میں سمجھ نہ سکا۔ اور آخری لفظ الدین تھا۔ اس پر میں نے تصریح کے خیال سے سوالیہ رنگ میں کہا۔ >خلیفہ ناصر الدین؟< اس نے غالباً سر ہلا کر جواب دیا کہ نہیں بلکہ میرا نام کچھ اور ہے۔ جس پر میں نے کہا >خلیفہ صلاح الدین؟< اس پر اس نے آہستگی کے ساتھ گویا اس بات کو مخفی رکھ کر بتا رہا ہے` عربی میں جواب دیا >نعم< پھر میں قدم بڑھا کر اپنے کمرہ کی طرف جانے لگا تو جب میں دروازہ کے قریب پہنچا تو یہ نوجوان نہایت آہستگی اور وقار کے ساتھ ہوا میں اترتا ہوا میرے دائیں کندھے پر اس طرح آبیٹھا کہ اس کی ایک ٹانگ میرے سامنے کی طرف آگئی اور ایک پیچھے کی طرف پیٹھ کے ساتھ رہی اور منہ میری طرف تھا۔ جونہی کہ یہ نوجوان میرے کندھے پر اترا۔ میں نے اس کی ٹانگوں کو سہارا دینے کے رنگ میں اپنے ہاتھوں کے ساتھ تھام لیا اور اسے آہستگی کے ساتھ کہا >بڑی دیر سے آئے< اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور صبح اٹھنے پر مجھے اس کی کوئی تعبیر تو کچھ سمجھ میں نہیں آئی۔ البتہ میں نے اسے ایک عجیب سی خواب سمجھ کر اس کا ذکر اپنے کئی عزیزوں کے ساتھ کیا اور اس کے بعد میں اس خواب کو بھول گیا اور دو سال تک بالکل بھولا رہا۔ آخر جب حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ نے گزشتہ ایام میں ایک رویاء کی بناء پر اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا تو اس وقت مجھے میری لڑکی عزیزہ امتہ الحمید بیگم اور میری بھانجی محمودہ بیگم سلمہا اللہ نے یاد کرایا کہ دو سال ہوئے آپ نے یہ خواب دیکھی تھی اور ساتھ ہی کہا کہ ہمارے خیال میں یہ خواب حضرت صاحب کے دعویٰ مصلح موعود پر چسپاں ہوتی ہے۔ تب میں سمجھا کہ واقعی یہ خواب اسی امر کے متعلق تھی۔ چنانچہ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ اس خواب میں کئی باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ مثلاً۔
)۱( اس نوجوان کا حضرت خلیفہ المسیح ایدہ اللہ کے مکان پر اس کے بلند ترین حصہ میں نظر آنا جس میں حضرت امیرالمومنین ایدہ الل¶ہ تعالیٰ کے وجود کی طرف اشارہ تھا۔
)۲( اس کا اپنا نام >خلیفہ صلاح الدین< ظاہر کرنا جو ان الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے کہ وہ مصلح موعود جو حضرت مسیح موعود کا خلیفہ بھی ہے۔ اور سب جانتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا بعینہ یہی دعویٰ ہے۔
)۳( اس کا آہستگی اور اخفاء کے رنگ میں بولنا گویا کہ ابھی پورے انکشاف اور اعلان کا وقت نہیں آیا تھا۔
)۴( اس کا میرے سوال کے جواب میں عربی زبان میں >نعم< کہنا جو عین حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح ایدہ اللہ کے اس رویاء کے مطابق ہے جس میں آپ نے اپنے آپ کو عربی میں گفتگو فرماتے دیکھا ہے۔
)۵( میرا اسے یہ الفاظ کہنا کہ >بڑی دیر سے آئے< جو مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان الہامی الفاظ کا لفظی ترجمہ ہے کہ >دیر آمدہ<۔
پس یہ ایک واضح خواب تھی جو خداتعالیٰ نے مجھے آج سے قریباً دو سال قبل دکھائی اور اس خواب کی شہادت اس بات سے اور بھی زیادہ قوی ہو جاتی ہے کہ جب میں نے یہ خواب دیکھی اس وقت نہ میرے خیال میں یہ آیا کہ یہ خواب مصلح موعود کے متعلق ہے اور نہ ہی ان لوگوں کا خیال اس طرف گیا جنہیں میں نے یہ خواب سنائی۔ بلکہ مجھے تو یہ خواب بھی بھولی ہوئی تھی جو دو سال بعد بعض عزیزوں کے یاد دلانے سے یاد آئی۔ مگر میں خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں نے آج سے دو یا سوا دو سال قبل یہ خواب دیکھی اور گو اس کا کوئی لفظ حافظہ کی غلطی سے بدل گیا ہو مگر مفہوم اور حقیقت بالکل یہی تھے اور اہم الفاظ بھی یہی تھے<۔۴۸
اہل قلم بزرگوں کی خدمات
جماعت احمدیہ کے اہل قلم بزرگوں اور دوستوں نے اس نئے مرحلہ پر جبکہ جماعت احمدیہ ایک انقلابی دور میں داخل ہورہی تھی` پیشگوئی مصلح موعود کے مختلف پہلوئوں پر بہت قیمتی اور عمدہ اور سیرحاصل مضامین لکھے جو اخبار >الفضل`< رسالہ >فرقان< اور رسالہ >ریویو آف ریلیجنز< میں شائع ہوئے۔ ان مضامین سے جماعت کے ہر طبقہ کو اس پیشگوئی کے پس منظر` اس کی عظمت و اہمیت اور مقاصد کے سمجھنے میں بھاری مدد ملی۔ بعض مضمون نگار بزرگوں اور دوستوں کے اسماء گرامی درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ` حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب` مولانا ابوالعطاء صاحب` خواجہ غلام نبی صاحب` حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بی ۔ اے` حضرت میر محمد اسمعیل صاحبؓ` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحبؓ` چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب` مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ امام مسجد لنڈن` ملک عبدالرحمان صاحب خادمؓ` مولوی شریف احمد صاحب امینی مولوی فاضل مدرس مدرسہ احمدیہ` مولوی محمد یعقوب صاحب فاضل طاہر اسٹنٹ ایڈیٹر >الفضل`< ملک محمد عبداللہ صاحب` پروفیسر قاضی محمد اسلم صاحب۔ حضرت پیر منظور محمد صاحب ۔ چودھری علی محمد صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی` چودھری خلیل احمد صاحب ناصر` قاضی محمد نذیر صاحب` حضرت حکیم محمد حسین صاحبؓ مرہم|عیسیٰ` حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ` چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ` خواجہ خورشید احمد صاحب مجاہد سیالکوٹی` سید احمد علی صاحب` مرزا منور احمد صاحب واقف زندگی` مولوی محمد صدیق صاحب واقف زندگی` سید غلام حسین صاحب ویٹرنری آفیسر ریاست بھوپال۔ اخوند فیاض احمد صاحب`
علاوہ ازیں حضرت میر محمد اسمعیل صاحبؓ` حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکملؓ` حضرت خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب گوہر` شیخ محمد احمد مظہر ایڈووکیٹ کپورتھلہ` مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانوی` جناب محمد صدیق صاحب ثاقب زیروی` شیخ روشن دین صاحب تنویر` جناب نسیم سیفی صاحب` عبدالمنان صاحب ناہید سیالکوٹی وغیرہ شعرائے احمدیت نے دور مصلح موعود کی آمد پر نہایت پرزور نظمیں کہیں۔
رسالہ >فرقان< کا مصلح موعود نمبر
اگرچہ اس موقعہ پر پیشگوئی مصلح موعود کے پس منظر` اس کی تفصیلات اور اہمیت کے سلسلہ میں اخبار >الفضل< کا ایک خاص شمارہ ۲۰۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو شائع ہوا۔ مگر پیشگوئی پر مفصل روشنی ڈالنے کا حق صحیح معنوں میں رسالہ >فرقان< نے ادا کیا۔ جس نے ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش میں ضخیم >مصلح موعود< نمبر نکالا۔ اس نمبر میں دیگر مشہور اور نامور بزرگان اور اہل قلم حضرات کے نہایت قیمتی اور بلند پایہ مضامین کے علاوہ )مدیر فرقان( مولانا ابوالعطاء صاحب کے قلم سے ایک مبسوط مقابلہ بھی شامل اشاعت تھا۔
>فرقان< کے اس خصوصی شمارہ کو دو اور اہم خصوصیات بھی حاصل تھیں۔
اول۔ اس رسالہ میں پہلی بار ہوشیارپور کے جلسہ۴۹ مصلح موعود کی تصاویر کی اشاعت ہوئی۔
دوم۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے دعویٰ مصلح موعود کے بعد جو پہلی نظم کہی وہ اسی میں شائع ہوئی۔ حضور کے اپنے دست مبارک سے تحریر شدہ اس نظم کا چربہ اگلے صفحہ پر ملاحظہ ہو۔
ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلاء ہو
راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو
سینہ میں جوش غیرت اور آنکھ میں حیا ہو
لب پر ہو ذکر تیرا دل میں تری وفا ہو
مٹ جائوں میں تو اسکی پروا نہیں ہے کچھ بھی
میری فنا سے حاصل گر دین کو بقا ہو
شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں سے
حاکم تمام دنیا پہ میرا مصطفیٰﷺ~ ہو
محمود عمر میری کٹ جائے کاش یونہی
ہو روح میری سجدہ میں سامنے خدا ہو
اس پرمعارف نظم کی تقریب یہ پیدا ہوئی کی مکرم مولوی ابوالعطاء صاحب نے ۱۵۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو حضرت امیر المومنینؓ کی خدمت میں مسجد مبارک کی سیڑھیوں کے پاس عرض کیا کہ حضور >فرقان< کے لئے کوئی تازہ نظم عطا فرمائیں۔ تھوڑی دیر کے بعد حضور انور گھر سے واپس تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے یہ تازہ کلام عنایت فرمایا۔
کتاب >ظہور مصلح موعود<
‏0] ft[rاعلان مصلح موعود کے معاًبعد اعتبار سے ایک اہم ترین ضرورت یہ محسوس کی گئی کہ مصلح موعود کے تازہ نشان رحمت کے متعلق مرکز کی طرف سے ضروری لٹریچر شائع کیا جائے۔ اس تعلق میں سب سے پہلی کتاب مولوی شریف احمد صاحب امینی۵۰ مدرس مدرسہ احمدیہ قادیان نے >ظہور مصلح موعود< کے نام سے شائع کی جس کا دیباچہ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ نے لکھا اور نظرثانی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے فرمائی۔
سیدنا المصلح الموعود کے قلم مبارک سے لکھے ہوئے اشعار کا چربہ

عکس کیلئے
حضرت خلیفہ اولؓ کی ایک حیرت انگیز پیشگوئی کا انکشاف میاں عبدالمنان صاحب عمر کے ذریعہ سے
حضرت مصلح موعودؓ کے دعویٰ کے بعد حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ کی اس عظیم الشان پیشگوئی کا انکشاف ہوا کہ مصلح موعود یکم دسمبر ۱۹۱۲ء سے تیس سال بعد ظاہر ہوگا۔ یہ اہم شہادت
سلسلہ احمدیہ کے لٹریچر میں سب سے پہلے جناب میاں عبدالمنان صاحب عمر ایم۔ اے نے شائع کی چنانچہ انہوں نے سالہ >فرقان< )ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش( میں >نشان صداقت< کے عنوان سے ایک مفصل اداریہ سپرد قلم کیا جس میں لکھا۔
>حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ نے یکم دسمبر ۱۹۱۲ء کو بعد نماز عصر سورہ اعراف کی آیت ولقد اخذنا ال فرعون بالسنین ۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ کا درس دیتے ہوئے فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰؑ سے فتوحات کے وعدے کئے تھے لیکن قوم کی نافرمانی کی وجہ سے وہ چالیس برس پیچھے ڈال دیئے گئے اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے بھی اللہ تعالیٰ نے وعدے کئے ہیں۔ اور ضرور ہے کہ وہ پورے ہوں۔ لیکن افسوس ہے کہ تم لوگوں کی گستاخیوں کی وجہ سے ان میں التوا ہورہا ہے اور جس طرح حضرت موسیٰؑ کے وقت ان وعدوں کے پورا ہونے کا زمانہ چالیس برس پیچھے ڈال دیا گیا۔ اسی طرح تمہاری گستاخیوں کی وجہ سے احمدیت کی فتوحات کا زمانہ بھی پیچھے ڈال دیا گیا ہے۔ لیکن آج سے تیس سال بعد مظہر قدرت ثانیہ ظاہر ہوگا اور اس طرح اللہ تعالیٰ اس بندہ کے ذریعہ اس بند کئے ہوئے دروازہ کو کھولنے کا سامان کردے گا۔ اس موقعہ پر حضور~رضی۱~ کے جو الفاظ قلمبند کئے گئے وہ میں ذیل میں درج کرتا ہوں۔
عکس کیلئے
۵۱
یہ الفاظ بالکل صاف اور ان کا مفہوم بالکل واضح ہے۔ حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ سے جو وعدے کئے تھے وہ ہم میں سے بعض لوگوں کی غلطی سے معرض التوا میں پڑ گئے ہیں اور اب سے تیس سال بعد اللہ تعالیٰ کے ایک موعودہ بندہ جو قوم کی تجدید کرے گا اور مظہر قدرت ثانیہ ہوگا` ظاہر ہوگا اور پھر اس کے ہاتھ سے وہ وعدے پورے کئے جائیں گے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیحؑ سے کئے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و احسان ہے کہ اس نے ان الفاظ کے کہے جانے کی تاریخ سے تیس سال بعد ہی حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی مظہر قدرت ثانیہ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز پر پیشگوئی مصلح موعود کے مصداق ہونے کا انکشاف کردیا اور آپ نے الٰہی الہام کی بناء اپنے مصلح موعود ہونے کا دعویٰ فرما دیا۔
احادیث میں آتا ہے۔ ایک جنگ کے موقعہ پر حضرت مقدادؓ نے نبی کریم~صل۱~ سے عرض کی کہ حضور ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی` آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی اور جس طرح یہود نے حضرت موسیٰؑ سے کہا تھا ہم آپ سے نہیں کہیں گے اذھب انت و ربک فقاتلا انا ھھنا قاعدون۔ اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ کس طرح گزری ہوئی اقوام کے ان واقعات سے جو قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں عبرت و بصیرت حاصل کرتے تھے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اخرین منھم کی جماعت کس طرح عبرت و موعظت حاصل کرتی ہے اور اب تو خدا کے ایک صدیق بندے نے ہمیں اس طرف متوجہ بھی کر دیا ہے۔ مبارک ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور مصلح موعود کے قدموں میں اپنے تئیں لا ڈالتے ہیں کہ وہ الٰہی خوشنودی کو حاصل کریں گے اور فتوحات کے ان وعدوں کی تکمیل میں شریک ہوکر دین و دنیا کی سرخروائی پانے والے بنیں گے۔
بنی اسرائیل کو جس قوم کے خلاف جنگ کرنے کا حکم دیا گیا تھا اور جس سے انہوں نے انکار کر دیا وہ بت پرست قوم تھی اور اس رویاء میں جو مصلح موعود کی پیشگوئی کا انکشاف کرنے والی ہے اس میں بھی آپ ایک بت پرست قوم ہی میں وعظ و تلقین فرماتے ہیں۔ گویا جس قوم کی سزا یا اصلاح کے فرض ¶سے بنی اسرائیل نے پہلوتہی کی اور فتوحات سے محروم رہ گئے تھے۔ اب اس فرض کو مصلح موعود نے ادا کرکے فتوحات کے بند کئے ہوئے دروازہ کو کھولنے کا سامان پیدا کر دیئے ہیں۔
سیدنا حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ نے تیس سال کے بعد موعود مجدد )قدرت ثانیہ( کے ظہور کی جس امید کا اظہار فرمایا ہے اس کی بنیاد دراصل باریک الٰہی اشارہ کے ماتحت اس واقعہ پر ہے کہ حضرت موسیٰؑ کی قوم سے بھی جو وعدے تھے وہ قوم کی گستاخیوں کی وجہ سے چالیس سال تک معرض التوا میں پڑگئے۔ اسی طرح مسیح موعودؑ سے جو وعدے اللہ تعالیٰ نے فرمائے ہیں ان کی تکمیل بھی متاخر کردی گئی اور اب قوم کو تیس سال مزید انتظار کرنا چاہئے۔ اس پر میرے ذہن میں خلجان تھا کہ اصل بنیاد اربعین سنہ یعنی چالیس سال کے الفاظ پر معلوم ہوتی ہے۔ لیکن حضرت خلیفہ اولؓ تعیین چالیس سال کی بجائے تیس سال کی فرماتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ چنانچہ جب میں نے یہ حوالہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ الودود کے سامنے پیش کیا تو حضور نے فرمایا >بہت لطیف حوالہ ہے< اور ساتھ ہی میری اس مشکل کو بھی حل فرما دیا کہ چالیس سال کی مدت اس طرح بنتی ہے کہ بعض لوگوں نے دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی ہی میں لنگرخانہ وغیرہ کے انتظامات پر اعتراضات شروع کر دیئے تھے اور اس طرح اس وقت سے لے کر پیشگوئی مصلح موعود کے الٰہی انکشاف کے وقت تک جو ۱۹۴۴ء میں ہوا پورے چالیس سال بنتے ہیں<۔۵۲
بعض سعید الفطرت غیر مبایعین کا قبول حق
حضرت امیرالمومنین خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانیؓ کے دعویٰ مصلح موعود سے جہاں اہل حق کے ہاتھ میں اسلام کی صداقت کے لئے ایک زبردست ہتھیار مل گیا وہاں غیر مبائعین پر خدا کی حجت ملزمہ قائم ہوگئی۔ اور اب ان کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا تھا کہ یا تو وہ خدا ترسی کا ثبوت دیتے ہوئے خلافت ثانیہ کے ساتھ وابستہ ہوجائیں یا سیدنا المصلح الموعود کی ذات مبارک کے بارے میں کامل خاموشی اور سکوت اختیار کرلیں۔
چنانچہ غیر مبائعین میں سے جو طبقہ سنجیدہ اور سعید فطرت رکھتا تھا اور خدا کی جناب میں فی الفور ہدایت پاجانے کا مستحق قرار پاچکا تھا وہ آسمانی منادی کی آواز پر لبیک کہتا ہوا آگے بڑھا اور خلافت ثانیہ کی بیعت میں شامل ہوگیا۔ چنانچہ انجمن احمدیہ اشاعت اسلام لاہور کے حسب ذیل پانچ ممتاز ارکان کو دعویٰ مصلح موعود کے تھوڑے دنوں بعد نظام خلافت سے وابستہ ہونے کی توفیق ملی۔
۱۔
حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب )احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے آڈیٹر اور مولوی محمد علی صاحب کے امام الصلٰوۃ(۵۳
۲۔
خان بہادر میاں محمد صادق صاحب لاہور ریٹائرڈ ڈی۔ ایس۔ پی )آنریری جنرل سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعت۵۴4] [rtf اسلام لاہور(
۳۔
سید امجد علی شاہ صاحب سیالکوٹ )آنریری جنرل سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور(۵۵
۴۔
کیپٹن سید محمد اسلم صاحب ایم بی بی ایس )زیر تجویز مبلغ سپین احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور(۵۶
۵۔
ڈاکٹر محمد شریف خاں صاحب ریٹائرڈ سول سرجن بٹالہ۔۵۷`۵۸
۶۔
نعمت اللہ صاحب صدیقی )بمبئی( ابن ماسٹر فقیر اللہ صاحب۔۵۹
مولوی محمد علی صاحب اور ان کے بعض دوسرے رفقاء کا ناروا طرز عمل
زندہ خدا کے زندہ کلام کا نزول` اس کی پیشگوئی کا پورا ہونا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی صداقت پر ایک عظیم الشان آسمانی
نشان کا ظہور مومنوں کے لئے انتہائی مسرت و شادمانی کا موقعہ تھا اور یقیناً یہ روحانی عید تھی۔ چنانچہ اس انکشاف الٰہی پر جماعت احمدیہ کا ہرفرد اللہ تعالیٰ کے حضور سجدات شکر بجالایا۔ اس کا فضل دیکھ کر ان کے دل خوشی سے بھر گئے اور وہ بے ساختہ پکار اٹھے مبارک صد مبارک۔ دور کے اصحاب نے بذریعہ تار اس تہنیت میں شرکت کی اور مبارک باد اور خوشیوں سے معمور یہ تقریب بھی ایک لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس واضح ارشاد کی تعمیل ہی میں تھی کہ۔
>اے وے لوگو جنہوں نے ظلمت کو دیکھ لیا حیرانی میں مت پڑو بلکہ خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ اس کے بعد اب روشنی آئے گی<۔۶۰
یہی نہیں خود اللہ تعالیٰ نے ایک موعود فرزند کے ملنے پر اپنے مسیح موعود کو الہام فرمایا۔
>ساقیا آمدن عید مبارک بادت<۶۱
یعنی اے ساقی! عید کا آنا تجھے مبارک ہو
لیکن مولوی محمد علی صاحب )امیر احمدیہ جماعت انجمن اشاعت اسلام لاہور( نے نشان رحمت کے ایمان افزا اعلان کو >بے موسم کی عید< قرار دیتے ہوئے لکھا۔
>ان ایام میں قادیان میں ایک بے موسم کی عید آگئی ہے۔ تاریں چل رہی ہیں` مبارکبادیں دی جارہی ہیں سکول اور دفاتر بند ہورہے ہیں اور جلسے منعقد ہورہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر کوئی مصلح موعود ہو بھی گیا تو یہ خوشی اور تاروں کا کونسا موقعہ ہے؟<۶۲
پھر لکھا۔
>حدیث میں وعدہ ہے کہ ہر صدی کے سر پر مجدد آئے گا۔ اس کے علاوہ سب چیزوں کو فضول سمجھو۔۶۳ اور صدی کے سر کا انتظار کرو۔ شاید اللہ تعالیٰ کسی کو کھڑا کر دے۔ ابھی بڑا وقت باقی ہے۔ چالیس سال باقی ہیں<۔۶۴
مولوی صاحب موصوف کا یہ موقف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات کی روشنی میں کہاں تک حق بجانب قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کا قطعی فیصلہ کرنے کے لئے اتنا بتا دینا کافی ہوگا کہ اشتہار ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء اور سبز اشتہار میں مصلح موعود کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صلبی اولاد میں سے اور بشیر اول کے بعد بلا توقف پیدا ہونے والا فرزند قرار دیا گیا تھا نہ کہ آئندہ کسی اور صدی کے سر پر ظاہر ہونے والا۔ اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ وضاحت بھی موجود تھی کہ۔
>یہ امام جو خداتعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدد صدی بھی ہے اور مجدد الف آخر بھی<۶۵
پھر فرمایا۔
>یہ بھی اہلسنت میں متفق علیہ امر ہے کہ آخری مجدد اس امت کا مسیح موعود ہے<۶۶
جناب مولوی صاحب موصوف نے دعویٰ مصلح موعود کا مذاق اڑاتے ہوئے اور بھی بہت کچھ خامہ فرسائی کی چنانچہ لکھا۔
۱۔
>اگر اس فساد کی اصلاح کی ضرورت ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ لاہور کا ایک ایک آدمی مصلح موعود ہے اور وہ ایسا دعویٰ کریں تو حق بجانب ہیں<۔۶۷
۲۔
>اس )رویاء( میں موعود کا لفظ کہیں نہیں نہ مصلح موعود نہ پسر موعود۔ رہا یہ کہ مثیل اور خلیفہ کہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تو خلیفے سینکڑوں اور ہزاروں ہوسکتے ہیں<۔۶۸
۳۔
>اس زمانہ میں خوابیں بھی لمبی آتی ہیں جبکہ لکھنے اور پراپیگنڈا کے سامان بہت ہیں<۔۶۹
۴۔
>ان خوابوں کی بناء پر خلافت بنی۔ اب خوابوں کی بناء پر مصلح موعود بن رہے ہیں<۔۷۰
۵۔
>مریدوں نے گواہی دے دی کہ کچھ ہوگیا ہے اور اوپر سے اللہ تعالیٰ نے بھی ایک ناواقف بادشاہ کی طرح ایک خطاب دے دیا<۔۷۱
جناب مولوی محمد علی صاحب کے علاوہ ان کے ساتھیوں میں سے ایک صاحب نے اخبار >پیغام صلح< )۱۶` ۹۔ فروری ۱۹۴۴ء( میں ایک طویل مضمون شائع کرایا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی رویاء کے اس حصہ سے جس میں آپ کے دائیں اور بائیں راستہ کی بجائے وسطی راستہ پر چلنے کا ذکر ہے` یہ نتیجہ نکالا کہ مولوی محمد علی صاحب اصحاب الیمین میں سے ہیں اور )معاذ اللہ( حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ اصحاب الشمال میں سے۔ حالانکہ آنحضرت~صل۱~ نے درمیانی راہ ہی کو صراط مستقیم قرار دیا ہے چنانچہ مسند احمد` نسائی اور دارمی میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی یہ حدیث ہے کہ۔
>عن عبداللہ بن مسعود قال خط لنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطا ثم قال ھذا سبیل اللہ ثم خط خطوطا عن یمینہ وعن شمالہ و قال ھذہ سبل علی کل سبیل منہا شیطان یدعوا الیہ وقرء وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ الایہ<۷۲
یعنی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ آنحضرت~صل۱~ نے ایک بار ہمارے سامنے ایک خط کھینچا اور ارشاد فرمایا کہ یہ الل¶ہ کی راہ ہے۔ پھر حضور علیہ السلام نے اس خط کے دائیں اور بائیں بہت سے خطوط کھینچے اور فرمایا کہ یہ ایسے راستے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک راستہ پر شیطان بیٹھا ہوا لوگوں کو اپنی طرف بلارہا ہے۔ یہ فرما کر حضورؑ نے آیت وان ھذا صراطی مستقیما کی تلاوت فرمائی۔
مولوی عزیزبخش صاحب کی چٹھی اورحضرت سیدنا المصلح الموعود کا روح پرور جواب
قصہ مختصر >پیغام صلح< میں یہ لمبا چوڑا مضمون شائع ہوا تو مولوی محمد علی صاحب کے بڑے بھائی مولوی عزیز بخش صاحب نے اسے حضرت خلیفتہ
المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کو رجسٹری کرکے بھیج دیا اور ساتھ ہی حسب ذیل مکتوب لکھا۔
~۹~بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مکرم و معظم صاحبزادہ میاں بشیر الدین محمود احمد صاحب قادیانی! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
آج بذریعہ رجسٹرڈ بک پوسٹ ایک پرچہ اخبار پیغام صلح ۹۔ فروری ۱۹۴۴ء آپ کی خدمات میں ارسال ہے۔ اس کے صفحہ ۹` ۱۰ پر آپ کے خواب کی صحیح تعبیر دی گئی ہے۔ للل¶ہ اسے غور سے پڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اپنے فضل و کرم سے آپ کو دائیں طرف والے راستہ پر آجانے کی توفیق عطا فرمائے جو احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کا مسلک ہے۔ میں بھی دعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ قبول فرماوے۔ آمین۔ والسلام۔
خاکسار عزیز بخش خادم مسیح موعود آنریری جائنٹ سیکرٹری احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور۔ ۴۴/۲/۱۰<
اس کے جواب میں حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے لفافہ کی پشت پر ہی تحریر فرمایا۔
>پرچہ مل گیا۔ میں نے جو اعلان کیا ہے۔ بڑی دعائوں کے بعد کیا ہے اور اللہ تعالیٰ پر جھوٹ نہیں بولا۔ باقی آپ جو مولوی عبدالرحمن صاحب مصری کی تعبیر کی طرف اشارہ کررہے ہیں اس کا جواب رسول کریم~صل۱~ کی حدیث میں موجود ہے جب شائع ہوگا۔۷۳ آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ درمیانی راستہ پر جانے والا غلطی پر ہے یا ان تعبیروں کے مرتکب اور خداتعالیٰ کے دین پر ہنسی کرنے والے! آپ کی دعائوں کا بہت بہت شکریہ۔ مگر یہ سمجھ میں نہ آیا کہ آپ کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عمر بھر کی دعائیں آپ کی اولاد کے حق میں رد گئیں تو آپ کی ایک دعا سے کیا بنے گا؟ آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائوں کو جس امر کے بارہ میں بیکار قرار دیتے ہیں تو اپنی دعائوں کو اس بارے میں کیا اور کیوں وقعت دیتے ہیں؟<۷۴
‏tav.8.28
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
دعویٰ مصلح موعود سے لیکر مجلس عرفان کے قیام تک
فصل دوم
حضرت ام طاہر سیدہ مریم بیگمؓ اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی المناک وفات
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو مصلح موعود کی نسبت یہ پراسرار اور ذوالوجوہ الہام ہوا کہ۔
‏nsk] g[ta >انا ارسلنہ شاھدا و مبشرا و نذیرا۔ کصیب من السماء فیہ ظلمت و رعد و برق۔ کل شی ء تحت قدمیہ<۷۵
>یعنی ہم نے اس بچہ کو شاہد اور مبشر اور نذیر ہونے کی حالت میں بھیجا ہے اور یہ اس بڑے مینہ کی مانند ہے جس میں طرح طرح کی تاریکیاں ہوں اور رعد اور برق بھی ہو۔ یہ سب چیزیں اس کے دونوں قدموں کے نیچے ہیں<۔۷۶
اس الہام کے عین مطابق مصلح موعود سے متعلق انکشاف کے ساتھ ہی جہاں اسلام اور احمدیت کی شاندار ترقیات اور عظیم الشان فتوحات کے نئے سے نئے دروازے کھول دیئے گئے وہاں حوصلہ شکن حوادث اور صبرآزما ابتلائوں کا ایک متوازی سلسلہ بھی جاری ہوگیا۔
اس تعلق میں انکشاف مصلح موعود کے معاًبعد جماعت احمدیہ کو حضرت سیدہ مریم بیگمؓ )ام طاہر( اور حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کی مفارقت کے پے در پے اور انتہائی تکلیف دہ اور زہرہ گداز صدمات سہنے پڑے۔ ان مقدس اور مبارک اور محسن وجودوں کی وفات جماعت احمدیہ کے ہر طبقہ کے لئے ایک قیامت صغریٰ اور حشر کا نمونہ تھی۔ ہر آنکھ اشکبار تھی اور ہر دل غمزدہ اور زخم رسیدہ!
حضرت ام طاہرؓ کے انتقال نے اگر جماعت کے غریبوں` یتیموں اور مسکینوں کو محسوس کرا دیا کہ ان کی ایک شفیق اور مہربان ماں کا سایہ اٹھ گیا تو حضرت میر صاحبؓ کی جدائی پردہ فرط غم سے کہہ اٹھے کہ ہمارا باپ بھی آج رخصت ہوا۔
حضرت سیدہ ام طاہرؓ کے جنازہ اور تجہیز و تکفین کے رقت انگیز حالات
حضرت سیدہ ام طاہرؓ گنگارام ہسپتال لاہور میں زیرعلاج تھیں کہ آپ کی مبارک و مطہر روح ۵۔ امان/ مارچ۷۷ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو
بارگاہ الٰہی میں پہنچ گئی۔ اس حادث عظمیٰ کی دردناک اطلاع اسی روز تین بجے دوپہر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی طرف سے بذریعہ فون امیر مقامی حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کے نام ان الفاظ میں پہنچی کہ۔
>ہمشیرہ سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ کو اڑھائی بجے اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس بلا لیا۔ انا لل¶ہ وانا الیہ راجعون<۷۸
ازاں بعد گیارہ بجے شب کے قریب حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ اور دیگر افراد خاندان حضرت سیدہؓ کی نعش مبارک لے کر قادیان پہنچ گئے۔ اس وقت ایک بہت بڑا مجمع دو میل سے زیادہ لمبی سڑک پر بٹالہ کے موڑ سے لے کر مسجد مبارک تک پھیلا ہوا تھا اور حد نگاہ تک خلقت ہی خلقت نظر آتی تھی۔ لاری احمدیہ چوک میں پہنچی و نعش چارپائی پر رکھ کر ان کے مکان میں لے جائی گئی۔ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ بھی چارپائی اٹھانے والوں میں شامل تھے۔
حضرت سیدہ مرحومہؓ کو وفات کے بعد لاہور ہی میں غسل دے دیا گیا تھا اور جناب شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ کی کوٹھی )واقع ٹمپل روڈ لاہور( کے زنانہ صحن میں روانگی سے قبل حضور نے لاہور کی جماعت کے ساتھ نماز جنازہ پڑھائی۔ قادیان پہنچ کر رات کو احتیاطاً مرحومہ مغفورہ کی چارپائی کے نیچے اور ساتھ برف رکھ دی گئی اور رات کو مستورات کے ذریعہ پہرہ کا بھی انتظام کرا دیا گیا۔
دن چڑھتے ہی مستورات زیارت کے لئے آنا شروع ہوگئیں اور دس بجے سے لے کر تین بجے بعد دوپہر تک نہ صرف قادیان اور بیرونجات سے آئی ہوئی خواتین بلکہ اردگرد کے دور دور کے دیہات تک کی ہزاروں خواتین نے لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے زیرانتظام نہایت ہی اخلاص اور محبت سے اپنی بزرگ خاتون کی آخری زیارت کی۔ اس وقت تک لاہور` لدھیانہ` فیروزپور` کپورتھلہ` امرتسر` سیالکوٹ` گورداسپور وغیرہ مقامات کے بہت سے احباب بھی جنازہ میں شرکت کے لئے پہنچ چکے تھے اور مسجد مبارک کے چوک سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے باغ تک ہزارہا افراد کا اجتماع ہوچکا تھا۔
۵ بجے کے قریب حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے افراد نیز حضرت سیدہ مرحومہ مغفورہ کے برادران حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ و حضرت میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب نے جنازہ اٹھایا۔ نماز جنازہ کا انتظام حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے باغ میں جانب مغرب کیا گیا تھا۔ جہاں سیدھی صفیں باندھنے کے لئے زمین پر سفیدی سے خط کھینچ دیئے گئے تھے۔ احمدیہ چوک میں جنازہ کے پہنچنے پر جماعت کے دوسرے احباب کو اٹھانے کا موقعہ دیا گیا اور جنازہ گاہ تک ہزاروں افراد نے چارپائی کو کندھا دینے یا کم از کم درد بھری دعائوں کے ساتھ ہاتھ لگانے کا ثواب حاصل کیا۔ صفیں کھڑے ہونے کے بعد اندازہ لگایا گیا تو سات اور آٹھ ہزار کے درمیان صرف مردوں کی تعداد تھی۔ جو خواتین از خود باغ میں پہنچ گئی تھیں وہ اس کے علاوہ تھیں۔ ان کی تعداد بھی دو ڈیڑھ ہزار سے کم نہ ہوگی۔ نماز جنازہ میں شامل ہونے والوں کی اتنی بڑی تعداد یہاں پہلے نہیں دیکھی گئی۔
نماز جنازہ شروع کرنے سے قبل حضرت امیرالمومنینؓ نے حاضرین کو مخاطب کرکے فرمایا۔ پہلی تکبیر کے بعد سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے۔ دوسری تکبیر کے بعد درود شریف اور تیسری تکبیر کے بعد میت کے لئے دعا کی جاتی ہے۔ چونکہ یہ آخری امداد ہے جو ایک بھائی اپنے بھائی کی یا ایک بھائی اپنی بہن کی کرتا ہے سوائے قریبی تعلق والوں کے کہ وہ فوت ہونے والوں کو پھر بھی یاد رکھتے اور ان کے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ اس لئے چاہئے کہ آج جو اس قسم کی دعائوں کا خاص موقعہ ہے خشوع و خضوع کے ساتھ دعائیں کی جائیں۔ اس کے بعد حضور نے نماز جنازہ پڑھائی اور نماز کے بعض حصوں میں کسی قدر اونچی آواز سے جسے صرف قریب کے چند افراد سن سکتے تھے` نہایت تضرع اور رقت کے ساتھ مسنون دعائیں کیں جنہیں سننے والوں کی چیخیں نکل گئیں۔ یوں بھی تمام مجمع نے نہایت خشیت اور رقت کے ساتھ مرحومہ مغفورہ کے واسطے دعائیں کیں۔
نماز جنازہ کے بعد جنازہ مقبرہ بہشتی کے اس خاص احاطہ میں لے جایا گیا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا مزار ہے۔ قبر کی جگہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے صبح ہی حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو بہشتی مقبرہ میں بھجوا کر معین فرما دی تھی جو حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہ مرحومہ مغفورہ اور حضرت سیدہ سارہ بیگم مرحومہ مغفورہ کی قبروں کے ساتھ جانب مشرق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریباً قدموں میں تھی۔ میت کو لحد میں اتارنے کے لئے حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ` جناب میجر سید حبیب اللہ شاہ صاحب` صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب )حضرت سیدہ مرحومہ کے اکلوتے بیٹے( اور صاحبزاد مرزا خلیل احمد صاحب اترے اور چارپائی پر سے خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دوسرے صاحبزادگان نے میت کو اٹھایا۔ لحد میں رکھنے اور لحد پر اینٹیں چننے کے دوران میں حضرت امیرالمومنینؓ نہایت ہی درد بھری آواز سے )جو بعض دفعہ شدت رقت و غم کی وجہ سے بالکل مدھم ہو جاتی تھی( مسنون دعائیں کرتے رہے۔ جب لحد تیار ہوچکی تو حضور نے دعائیں کرتے ہوئے قبر میں تین دفعہ مٹی ڈالی۔ پھر دوسرے احباب کو مٹی ڈالنے کا موقعہ دیا گیا۔ اس کے بعد حضور نے سیدہ مرحومہ مغفورہ کی قبر پر تمام مجمع سمیت نہایت رقت کے ساتھ کسی قدر اونچی آواز میں دعا فرمائی اور پیاری رفیقہ حیات کو اپنے آسمانی بادشاہ کی سپردگی میں دے دیا۔
چونکہ سورج غروب ہونے میں تھوڑا ہی وقت تھا اس لئے حضور نے باغ میں اسی جگہ جہاں جنازہ پڑھا گیا تھا عصر کی نماز پڑھائی۔ اس کے بعد حضور پھر سیدہ مرحومہ کی قبر پر تشریف لائے اور السلام علیکم کہہ کر اور پھر اسے دوہرا کر واپس تشریف لے آئے۔۷۹
سیدنا المصلح الموعودؓ کی طرف سے جماعت کو رضاء بالقضاء کی تلقین
سیدہ ام طاہرؓ کی وفات اگرچہ پوری جماعت کے لئے المیہ کی حیثیت رکھتی تھی مگر طبعی طور پر اس کا سب سے زیادہ صدمہ خود سیدنا المصلح الموعودؓ
کو پہنچا۔ لیکن حضور نے اس موقعہ پر نہ صرف بیمثال رضا بالقضاء کا نمونہ دکھایا بلکہ پوری زخم رسیدہ جماعت کو صبر کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ ۱۰۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
>اس ہفتے جو میرے گھر میں ایک واقعہ ہوا ہے یعنی میری بیوی ام طاہر فوت ہوئی ہیں اس کے متعلق میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں بہت بڑا درد پایا جاتا ہے خصوصاً عورتیں بہت زیادہ اس درد کو محسوس کرتی ہیں کیونکہ میری یہ بیوی جو فوت ہوئی ہے ان کے دل میں غرباء کا خیال رکھنے کا مادہ بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ ان کی بیماری کے لمبے عرصہ میں جماعت نے جس قسم کی محبت اور ہمدردی کا اظہار کیا ہے وہ ایک ایسی ایمان بڑھانے والی بات ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ مومن واقعہ میں ایک ہی جسم کے ٹکڑے ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ ہمارے گھر کے حالات جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ مجھے ان سے شدید محبت تھی۔ لیکن باوجود اس کے جو خداتعالیٰ کا فعل ہے اس پر کسی قسم کے شکوہ کا ہمارے دل میں پیدا ہونا ایمان کے بالکل منافی ہوگا۔ ہر چیز اللہ تعالیٰ ہی کی ہے۔ ہمیں رسول کریم~صل۱~ نے یہی تعلیم دی ہے جب کوئی شخص وفات پاجائے ہمارا اصل کام یہی ہوتا ہے کہ ہم کہہ دیں انا للہ وانا الیہ راجعون۔ یہ کیسی لطیف تعزیت ہے ہمارے رب کی طرف سے! اس سے بڑھ کر بندہ بھلا کیا تعزیت کرسکتا ہے؟<
اس کے بعد اس خدائی تعزیت کی نہایت لطیف تشریح کی اور فرمایا۔
>یہ زمانہ اسلام کی فتوحات کا ہے۔ بادشاہ کا کوئی نوکر یہ جرات نہیں کرسکتا کہ جس وقت اس کا بادشاہ کامیابی حاصل کرکے واپس آرہا ہو اور فتح کا جشن منارہا ہو تو وہ اس کے سامنے کسی قسم کے غم کا اظہار کرے خواہ اس دن اس کا باپ مر گیا ہو۔ اس کا بیٹا مر گیا ہو۔ اس کی بہن مر گئی ہو۔ اس کی بیوی مر گئی ہو۔ وہ اپنی آنکھوں کو پونچھتا اور اپنی کمر کو سیدھی رکھتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ آج میرے آقا کی خوشی کا دن ہے۔ آج میرے لئے غم کا اظہار کرنا جائز نہیں۔ اسی طرح آج ہمارے لئے خوشی کا دن ہے۔ آج ہمارے لئے مسرت و شادمانی کا دن ہے کہ ۱۳۰۰ سال کے لمبے عرصہ اور ہزار سال فیج اعوج کے بعد خدا نے پھر چاہا کہ اس کے بندے اس کی طرف واپس آئیں۔ خدا نے پھر چاہا کہ محمد~صل۱~ کا نام دنیا میں پھیلے۔ خدا نے پھر چاہا کہ توحید کو دنیا میں قائم کرے۔ خدا نے پھر چاہا کہ شیطان کو آخری شکست دے کر دین کو ہمیشہ کے لئے زندہ کردے۔ پس آج جبکہ ہمارے رب کے لئے خوشی کا دن ہے ہمارے رنج اس کی خوشی پر قربان۔ ہم اس کی خوشی کے دن منحوس باتیں کرنے والے کون ہیں۔ جتنے احسانات اللہ تعالیٰ نے ہم پر کئے ہیں واقعہ یہ ہے کہ اگر ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اور اگر ہماری بیویوں اور ہمارے بچوں کا ذرہ ذرہ آروں سے چیر دیا جائے تب بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے اس کے احسانوں کا کوئی بھی شکریہ ادا کیا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ میں یا تم میں سے سارے اس مقام پر ہیں۔ مجھ میں بھی کمزوریاں ہیں اور تم میں ھی۔ لیکن سچی بات یہی ہے اور جتنی بات اس کے خلاف ہے وہ یقیناً ہمارے نفس کا دھوکا ہے۔ آج آسمان پر خدا کی فوجوں کی فتح کے نقارے بج رہے ہیں۔ آج دنیا کو خدا کی طرف لانے کے سامان کئے جارہے ہیں۔ آج خدا کے فرشتے اس کی حمد کے گیت گارہے ہیں اور ہم بھی اس گیت میں ان فرشتوں کے ہمنوا اور شریک ہیں۔ اگر ہم جسمانی طور پر غمزدہ ہیں اور ہمارے دل زخم خوردہ ہیں تب بھی مومنانہ طور پر ہمارا یہی فرض ہے کہ ہم اپنے رب کی فتح اور اس کے نام کی بلندی کی خوشی میں شریک ہوں تا اس کی بخشش کے مستحق ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے اور ہمارے غموں کو خود ہلکا کرے روح اس کے آستانہ پر جھکی ہوئی مگر گوشت پوست کا دل دکھ محسوس کرتا ہے<۔۸۰
حضرت مصلح موعودؓ کے قلم مبارک سے حضرت سیدہ ام طاہرؓ کا ذکر خیر
حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح المصلح الموعودؓ نے قریباً ساڑھے تین ماہ تک حضرت سیدہ ام طاہرؓ کی نسبت کچھ نہیں لکھا۔
ازاں بعد ارشاد نبویﷺ~ اذکروا محاسن موتاکم۸۱ کے مطابق ایک مضمون رقم فرمایا جس میں حضور نے بڑی تفصیل سے حضرت سیدہ کے سوانح` ان کی خصائل و عادات` ان کے کارناموں اور بالاخر آخری بیماری کے الم انگیز حالات بیان فرمائے۔ اس اہم مضمون کے بعض جستہ جستہ مقامات درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
>۳۶ سال کے قریب ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی لڑکی مریم بیگم کا نکاح ہمارے مرحوم بھائی مبارک احمد صاحب سے پڑھوایا۔ اس نکاح کے پڑھوانے کا موجب غالباً بعض خوابیں تھیں جن کو ظاہری شکل میں پورا کرنے سے ان کے انذاری پہلو کو بدلنا مقصود تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوئی اور مبارک احمد مرحوم اللہ تعالیٰ سے جاملا اور وہ لڑکی جو ابھی شادی اور بیاہ کی حقیقت سے ناواقف تھی بیوہ کہلانے لگی۔ اس وقت مریم کی عمر دو اڑھائی سال کی تھی اور وہ ان کی ہمشیرہ زادی عزیزہ نصیرہ اکٹھی گول کمرہ سے جس میں اس وقت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ مرحوم ٹھہرے ہوئے تھے` کھیلنے کے لئے اوپر آجایا کرتی تھیں اور کبھی کبھی گھبرا کر جب منہ بسورنے لگتیں تو میں کبھی مریم کو اٹھا کر کبھی نصیرہ کو اٹھا کر گول کمرہ میں چھوڑ آیا کرتا تھا۔ اس وقت مجھے یہ خیال بھی نہ آسکتا تھا کہ وہ بچی جسے میں اٹھا کر نیچے لے جایا کرتا ہوں` کبھی میری بیوی بننے والی ہے اور یہ خیال تو اور بھی بعید از قیاس تھا کہ کبھی وہ وقت بھی آئے گا کہ میں پھر اس کو اٹھا کر نیچے لے جائوں گا۔ مگر گول کمرہ کی طرف نہیں۔ بلکہ قبر کی لحد کی طرف۔ اس خیال سے نہیں کہ کل پھر اس کا چہرہ دیکھوں گا بلکہ اس یقین کے ساتھ کہ قبر کے اس کنارہ پر پھر اس کی شکل کو جسمانی آنکھوں سے دیکھنا یا اس سے بات کرنا میرے نصیب میں نہ ہوگا۔
عزیز مبارک احمد فوت ہوگیا اور ڈاکٹر صاحب کی رخصت ختم ہوگئی۔ وہ بھی واپس اپنی ملازمت پر رعیہ ضلع سیالکوٹ چلے گئے۔ سید ولی اللہ شاہ صاحب اور ڈاکٹر سید حبیب اللہ شاہ صاحب اس وقت سکول میں پڑھا کرتے تھے۔ دونوں میرے دوست تھے مگر ڈاکٹر حبیب عام دوستوں سے زیادہ تھے۔ ہم یک جان و دو قالب تھے۔ مگر اس وقت کبھی وہم بھی نہ آتا تھا کہ ان کی بہن پھر کبھی ہمارے گھر میں آئے گی۔ ان کی دوستی خود ان کی وجہ سے تھی۔ اس کا باعث یہ نہ تھا کہ ان کی ایک بہن ہمارے ایک بھائی سے چند دن کے لئے بیاہی گئی تھی۔ دن کے بعد دن اور سالوں کے بعد سال گزر گئے اور مریم کا نام بھی ہمارے دماغوں سے مٹ گیا مگر حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ کی وفات کے بعد ایک دن شاید ۱۹۱۷ء یا ۱۹۱۸ء تھا کہ میں امتہ الحی مرحومہ کے گھر میں بیت الخلاء سے نکل کر کمرہ کی طرف آرہا تھا۔ راستہ میں ایک چھوٹا سا صحن تھا۔ اس کے ایک طرف لکڑی کی دیوار تھی۔ میں نے دیکھا کہ ایک دبلی پتلی سفید کپڑوں میں ملبوس لڑکی مجھے دیکھ کر اس لکڑی کی دیوار سے چمٹ گئی اور اپنا سارا لباس سمٹالیا۔ میں نے کمرہ میں جاکر امتہ الحی مرحومہ سے پوچھا۔ امتہ الحی! یہ لڑکی باہر کون کھڑی ہے؟ انہوں نے کہا۔ آپ نے پہچانا نہیں۔ ڈاکٹر عبدالستار صاحب کی لڑکی مریم ہے۔ میں نے کہا۔ اس نے تو پردہ کیا تھا۔ اگر سامنے بھی ہوتی تو میں اسے کب پہچان سکتا تھا۔ ۱۹۰۷ء کے بعد اس طرح مریم دوبارہ میرے ذہن میں آئی۔
اب میں نے دریافت کرنا شروع کیا کہ کیا مریم کی شادی کی بھی کہیں تجویز ہے۔ جس کا جواب مجھے یہ ملا کہ ہم سادات ہیں ہمارے ہاں بیوہ کا نکاح نہیں ہوتا۔ اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں کسی جگہ شادی ہوگئی تو کر دیں گے ورنہ لڑکی اسی طرح بیٹھی رہے گی۔ میرے لئے یہ سخت صدمہ کی بات تھی۔ میں نے بہت کوشش کی کہ مریم کا نکاح کسی اور جگہ ہو جائے مگر ناکامی کے سوا کچھ نتیجہ نہ نکلا۔ آخر میں نے مختلف ذرائع سے اپنے بھائیوں سے تحریک کی کہ اس طرح اس کی عمر ضائع نہ ہونی چاہئے ان میں سے کوئی مریم سے نکاح کرلے۔ لیکن اس کا جواب بھی نفی میں ملا۔ تب میں نے اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فعل کسی جان کی تباہی کا موجب نہ ہونا چاہئے اور اس وجہ سے کہ ان کے دو بھائیوں سید حبیب اللہ شاہ صاحب اور سید محمود اللہ شاہ صاحب سے مجھے بہت محبت تھی۔ میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں مریم سے خود نکاح کرلوں گا۔ اور ۱۹۲۰ء میں ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب مرحوم سے میں نے درخواست کر دی۔ جو انہوں نے منظور کرلی اور ۷۔ فروری ۱۹۲۱ء کو ہمارا نکاح مسجد مبارک کے قدیم حصہ میں ہوگیا۔ وہ نکاح کیا تھا ایک ماتم کدہ تھا۔ دعائوں میں سب کی چیخیں نکل رہی تھیں اور گریہ و زاری سے سب کے رخسار تر تھے۔ آخر ۲۱۔ فروری ۱۹۲۰ء کو نہایت سادگی سے جاکر میں مریم کو اپنے گھر لے آیا اور حضرت ام المومنین کے گھر میں ان کو اتارا جنہوں نے ایک کمرہ ان کو دے دیا۔ جس میں ان کی باری میں ہم رہتے تھے۔ وہی کمرہ جس میں اب مریم صدیقہ رہتی ہیں وہاں پانچ سال تک رہیں اور وہیں ان کے ہاں پہلا بچہ پیدا ہوا یعنی طاہر احمد )اول( مرحوم۔ اور اس کے چلے میں وہ سخت بیمار ہوئیں جو بیماری بڑھتے بڑھتے ایک دن ان کی موت کا موجب ثابت ہوئی<۔
>مریم کو احمدیت پر سچا ایمان حاصل تھا۔ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر قربان تھیں۔ ان کو قرآن کریم سے محبت تھی اور اس کی تلاوت نہایت خوش الحانی سے کرتی تھیں۔ انہوں نے قرآن کریم ایک حافظ سے پڑھا تھا۔ اس لئے ط۔ ق خوب بلکہ ضرورت سے زیادہ زور سے ادا کرتی تھیں۔ علمی باتیں نہ کرسکتی تھیں مگر علمی باتوں کا مزہ خوب لیتی تھیں۔ جمعہ کے دن اگر کسی خاص مضمون پر خطبہ کا موقعہ ہوتا تھا تو واپسی میں اس یقین سے گھر میں گھستا کہ مریم کا چہرہ چمک رہا ہوگا اور وہ جاتے ہی تعریفوں کے پل باندھ دیں گی اور کہیں گی کہ آج بہت مزہ آیا اور یہ میرا قیاس شاذہی غلط ہوتا تھا۔ میں دروازے پر انہیں منتظر پاتا۔ خوشی سے ان کے جسم کے اندر ایک تھرتھراہٹ پیدا ہورہی ہوتی تھی۔
مریم ایک بہادر دل کی عورت تھیں۔ جب کوئی نازک موقع آتا میں یقین کے ساتھ ان پر اعتبار کرسکتا تھا۔ ان کی نسوانی کمزوری اس وقت دب جاتی۔ چہرہ پر استقلال اور عزم کے آثار پائے جاتے اور دیکھنے والا کہہ سکتا تھا کہ اب موت یا کامیابی کے سوا اس عورت کے سامنے کوئی تیسری چیز نہیں۔ یہ مرجائے گی مگر کام سے پیچھے نہ ہٹے گی۔ ضرورت کے وقت راتوں اس میری محبوبہ نے میرے ساتھ کام کیا ہے اور تھکان کی شکایت نہیں کی۔ انہیں صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ یہ سلسلہ کا کام ہے یا سلسلہ کے لئے کوئی خطرہ یا بدنامی ہے اور وہ شیرنی کی طرح لپک کر کھڑی ہو جاتیں اور بھول جاتیں اپنے آپ کو` بھول جاتیں کھانے پینے کو` بھول جاتیں اپنے بچوں کو بلکہ بھول جاتی تھیں مجھ کو بھی` اور انہیں صرف وہ کام ہی یاد رہ جاتا تھا۔ اور اس کے بعد جب کام ختم ہو جاتا۔ تو وہ ہوتیں یا گرم پانی کی بوتلیں جن میں لپٹی ہوئی وہ اس طرح اپنے درد کرنے والے جسم اور متورم پیٹ کو چاروں طرف سے ڈھانپے ہوئے لیٹ جاتیں کہ دیکھنے والا سمجھتا یہ عورت ابھی کوئی بڑا اپریشن کروا کر ہسپتال سے آئی ہے۔ اور وہ کام ان کے بیمار جسم کے لئے واقعہ میں بڑا اپریشن ہی ہوتا تھا<۔
>مہمان نواز انتہا درجہ کی تھیں۔ ہر ایک کو اپنے گھر میں جگہ دینے کی کوشش کرتیں اور حتی الوسع جلسہ کے موقع پر بھی گھر میں ٹھہرنے والے مہمانوں کا لنگر سے کھانا نہ منگواتیں۔ خود تکلیف اٹھاتیں` بچوں کو تکلیف دیتیں لیکن مہمان کو خوش کرنے کی کوشش کرتیں۔ بعض دفعہ اپنے پر اس قدر بوجھ لاد لیتیں کہ میں بھی خفا ہوتا کہ آخر لنگر خانہ کا عملہ اسی غرض کے لئے ہے تم کیوں اس قدر تکلیف میں اپنے آپ کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ڈال کر اپنی صحت برباد کرتی ہو۔ آخر تمہاری بیماری کی تکلیف مجھے ہی اٹھانی پڑتی ہے۔ مگر اس بارہ میں کسی نصیحت کا ان پر اثر نہ ہوتا۔ کاش اب جبکہ وہ اپنے رب کی مہمان ہیں ان کی یہ مہمان نوازیاں ان کے کام آجائیں اور وہ کریم میزبان اس وادی غربت میں بھٹکنے والی روح کو اپنی جنت الفردوس میں مہمان کرکے لے جائے۔
امتہ الحی مرحومہ کی وفات پر لڑکیوں میں تعلیم کا رواج پیدا کرنے کے لئے میں نے ایک تعلیمی کلاس جاری کی۔ اس میں مریم بھی داخل ہوگئیں مگر ان کا دل کتاب میں نہیں کام میں تھا۔ وہ اس بوجھ کو اٹھا نہ سکیں اور کسی نہ کسی بہانہ سے چند ماہ بعد تعلیم کو چھوڑ دیا مگر حافظہ اس بلا کا تھا کہ اس وقت کی پڑھی ہوئی بعض عربی کی نظمیں اب تک انہیں یاد تھیں۔ اب چند ماہ ہوئے نہایت خوش الحانی سے ایک عربی نظم مجھے سنائی تھی۔
جب میں نے تعلیم نسواں کے خیال سے سارہ بیگم مرحومہ سے شادی کی تو مرحومہ نے خوشی سے ان کو اپنے ساتھ رکھنے کا وعدہ کیا مگر اس وعدہ کو نباہ نہ سکیں اور آخر الگ الگ انتظام کرنا پڑا۔ یہ باہمی رقابت سارہ بیگم کی وفات تک رہی مگر بعد میں ان کے بچوں سے ایسا پیار کیا کہ وہ بچے ان کو اپنی ماں کی طرح عزیز سمجھتے تھے<۔
>مریم بیگم کو پہلے بچہ کی پیدائش پر ہی اندرونی بیماری لگ گئی تھی جو ہر بچہ کی پیدائش پر بڑھ جاتی تھی اور جب بھی کوئی محنت کا کام کرنا پڑتا تو اس سے اور بھی بڑھ جاتی تھی۔ میں نے اس کے لئے ہر چند علاج کروایا مگر فائدہ نہ ہوا۔ دو دفعہ ایچی سن ہاسپیٹل میں داخل کروا کر علاج کروایا۔ ایک دفعہ لاہور چھائونی میں رکھ کر علاج کروایا۔ کرنل نلسن` کرنل ہیز` کرنل کاکس وغیرہ چوٹی کے ڈاکٹروں سے مشورے بھی لئے` علاج بھی کروائے۔ مگر مرض میں ایسی کمی نہیں آئی کہ صحت عود کر آئے بلکہ صرف عارضی افاقہ ہوتا تھا۔ چونکہ طبیعت حساس تھی کی بات کی برداشت نہ تھی۔ کئی دفعہ ناراضگی میں بے ہوشی کے دورے ہو جاتے تھے اور اندرونی اعضاء کو اور صدمہ پہنچ جاتا تھا۔ آخر میں نے دل پر پتھر رکھ کے ان سے کہہ دیا کہ پھر دورہ ہوا تو علاج کے لئے پاس نہ آئوں گا۔ چونکہ دورے ہسٹیریا کے تھے۔ میں جانتا تھا کہ اس سے فائدہ ہوگا۔ اس کے بعد صرف ایک دورہ ہوا اور میں ڈاکٹر صاحب کو بلا کر فوراً چلا گیا۔ اس وجہ سے آئندہ انہوں نے اپنے نفس کو روکنا شروع کر دیا۔ اور عمر کے آخری تین چار سالوں میں دورہ نہیں ہوا۔
میں نے اوپر لکھا کہ ان کا دل کام میں تھا کتاب میں نہیں۔ جب سارہ بیگم فوت ہوئیں تو مریم کے کام کی روح ابھری اور انہوں نے لجنہ کے کام کو خود سنبھالا۔ جماعت کی مستورات اس امر کی گواہ ہیں کہ انہوں نے باوجود علم کی کمی کے اس کام کو کیسا سنبھالا۔ انہوں نے لجنہ میں جان ڈال دی۔ آج کی لجنہ وہ لجنہ نہیں جو امتہ الحی مرحومہ یا سارہ بیگم مرحومہ کے زمانہ کی تھی۔ آج وہ ایک منظم جماعت ہے جس میں ترقی کرنے کی بے انتہاء قابلیت موجود ہے انہوں نے کئی کو ناراض بھی کیا مگر بہتوں کو خوش کیا۔ بیوائوں کی خبر گیری` یتامیٰ کی پرورش` کمزوروں کی پرسش` جلسہ کا انتظام` باہر سے آنے والی مستورات کی مہمان نوازی اور خاطر مدارات غرض ہر بات میں انتظام کو آگے سے بہت ترقی دی اور جب یہ دیکھا جائے کہ اس انتظام کا اکثر حصہ گرم پانی سے بھری ہوئی ربڑ کی بوتلوں کے درمیان چارپائی پر لیٹے ہوئے کیا جاتا تھا تو احسان شناس کا دل اس کمزور ہستی کی محبت اور قدر سے بھر جاتا ہے۔ اے میرے رب! تو اس پر رحم کر اور مجھ پر بھی۔
۱۹۴۲ء میں سندھ میں تھا کہ مرحومہ سخت بیمار ہوئیں اور دل کی حالت خراب ہوگئی۔ مجھے تار گئی کہ دل کی حالت خراب ہے۔ میں نے پوچھا کہ کیا میں آجائوں تو جواب گیا کہ نہیں۔ اب طبیعت سنبھل گئی ہے۔ یہ دورہ مہینوں تک چلا اور کہیں جون جولائی میں جاکر افاقہ ہوا۔ اس سال انہی دنوں میں ام ناصر کو بھی دل کے دورے ہوئے۔ نہ معلوم اس کا کیا سبب تھا۔ ۱۹۴۳ء کے مئی میں میں ان کو دہلی لے گیا کہ ان کا علاج حکیموں سے کروائوں حکیم محمود احمد خان صاحب کے صاحب زادے کو دکھایا اور علاج تجویز کروایا۔ مگر مرحومہ علاج صرف اپنی مرضی کا کراسکتی تھیں۔ چناچنہ وہ علاج انہیں پسند نہ آیا اور انہوں نے پوری طرح کیا نہیں۔ وہاں بھی چھوٹا سا ایک دورہ اندرونی تکالیف کا ہوا۔ مگر جلدی آرام آگیا۔ اس بیماری میں بھی جاتے آتے آپ ریل میں فرش پر لیٹتیں اور میری دوسری بیویوں کے بچوں کو سیٹوں پر لٹوایا۔
دہلی سے واپسی کے معاًبعد مجھے سخت دورہ کھانسی بخار کا ہوا۔ جس میں مرحومہ نے حد سے زیادہ خدمت کی۔ ان گرمی کے ایام میں رات اور دن میرے پاس رہتیں اور اکثر پاخانہ کے برتن خود اٹھاتیں اور خود صاف کرتیں۔ کھانا بھی پکاتیں۔ حتیٰ کہ پائوں کے تلوے ان کے گھس گئے۔ میں جاگتا تو ساری ساری رات جاگتیں۔ سو جاتا اور کھانسی اٹھتی تو سب سے پہلے وہ میرے پاس پہنچ چکی ہوتی تھیں۔ جب کچھ افاقہ ہوا اور ہم ڈلہوزی آئے تو وہاں بھی باورچی خانہ کا انتظام پہلے انہوں نے لیا اور کوٹھی کو باقرینہ سجایا۔ یہاں ان کو پھر شدید دورہ بیماری کا ہوا۔ مگر میری بیماری کی وجہ سے زیادہ تکلیف کا اظہار نہ کیا۔
جب مجھے ذرا اور افاقہ اور میں چنبہ گیا تو باوجود بیمار ہونے کے اصرار کے ساتھ وہاں گئیں اور گھوڑے کی سواری کی کیونکہ کچھ عرصہ سفر میں ڈانڈی نہ ملی تھی۔ میں نے سمجھایا کہ اس طرح جانا مناسب نہیں۔ مگر حسب دستور یہی جواب دیا کہ آپ چاہتے ہیں کہ میں سیر نہ کروں۔ میں ضرور جائوں گی۔ آخر ان کی بیماری کی وجہ سے میں نے دوسروں کو روکا اور ان کو ساتھ لے گیا۔
اس کے بعد رمضان آگیا اور ہندوستانی عادت کے ماتحت قافلہ کے لوگوں نے غذا کے بارہ میں شکایات شروع کیں۔ اور ملازم آخر ملازم ہوتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مرحومہ نے اس جان لیوا بیماری میں رات کو اٹھ اٹھ کر تین تین چار چار سیر کے پراٹھے سحری کے وقت پکا کر لوگوں کے لئے بھیجے۔ جس سے بیماری کے مقابلہ کی طاقت جسم سے بالکل جاتی رہی۔ میں تو کمزور تھا۔ روزے نہ رکھتا تھا۔ جب مجھے علم ہوا میں نے ان کو روکا۔ مگر اس کا جواب انہوں نے یہی دیا کہ کیا معلوم پھر ثواب کمانے کا موقعہ ملے یا نہ ملے اور اس عمل سے نہ روکیں۔
ہم واپس آئے تو ان کی صحت ابھی کمزور ہی تھی۔ تین چار ہفتوں کے بعد ہی پھر شدید دور ہوگیا۔ میں اس وقت گردے کے درد سے بیمار پڑا ہوا تھا۔ اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ دورہ ایسا سخت ہے کہ بچنے کی امید نہیں۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ مریم کی موت میری آنکھوں کے سامنے آئی۔ میں ہل تو نہ سکتا تھا۔ اس لئے جب میرا کمرہ خالی ہوا۔ چارپائی پر اوندھا گر کر میں نے اپنے رب سے عاجزی اور انکسار کے ساتھ ان کے لئے دعائیں کیں اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور اس وقت موت ٹل گئی اور میں اچھا ہوکر وہاں جانے لگ گیا۔
کچھ دنوں بعد مجھے پھر نقرس کا دورہ ہوا اور پھر وہاں جانا چھٹ گیا۔ اس وقت ڈاکٹروں کی غلطی سے ایک ایسا ٹیکہ لگایا گیا جس کے خلاف مریم بیگم نے بہت شور کیا کہ یہ ٹیکہ مجھے موافق نہیں ہوتا۔ اس کے بعد اس ٹیکہ کے متعلق مجھے لاہور کے قیام میں بڑے بڑے ڈاکٹروں سے معلوم ہوا کہ مرحومہ کے مخصوص حالات میں وہ ٹیکہ واقع میں مضر تھا۔ اس ٹیکہ کا یہ اثر ہوا کہ ان کا پیٹ یکدم پھول گیا اور اتنا پھولا کہ موٹے سے موٹے آدمی کا اتنا پیٹ نہیں ہوتا۔ میں بیماری میں لنگڑاتا ہوا وہاں پہنچا اور ان کی حالت زیادہ خطرناک پاکر لاہور سے کرنل ہیز کو اور امرت سر سے لیڈی ڈاکٹر وائن کو بلایا۔ دوسرے دن یہ لوگ پہنچے اور مشورہ ہوا کہ انہیں لاہور پہنچایا جائے جہاں سترہ دسمبر ۱۹۴۳ء کو موٹر کے ذریعہ انہیں بلایا۔ کرنل کی رائے تھی کہ کچھ علاج کرکے کوشش کروں گا کہ دوائوں سے ہی فائدہ ہو جائے۔ چنانچہ ۱۷۔ دسمبر سے آٹھ نو جنوری تک وہ اس کی کوشش کرتے رہے۔
مگر آخر یہ فیصلہ کیا گیا کہ اپریشن کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔ ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیل صاحب کی رائے اس کے خلاف تھی۔ مگر اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہ آتا تھا۔ اس لئے میں نے مرحومہ سے ہی پوچھا کہ یہ حالات ہیں۔ تمہارا جو منشاء ہو اس پر عمل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اپریشن کرواہی لیں۔ گو مجھے اس طرح محفوظ الفاظ میں مشورہ دیا مگر ان کے ساتھ رہنے والی خاتون نے بعد میں مجھ سے ذکر کیا کہ وہ مجھ سے کہتی رہتی تھیں کہ دعا کرو کہ وقت پر حضرت صاحب کا دل اپریشن سے ڈر نہ جائے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے نزدیک اپریشن کو ضروری سمجھتی تھی۔ بہرحال چودہ جنوری کو ان کا اپریشن ہوا۔ اس وقت ان کی طاقت کا پورا خیال نہ رکھا گیا اور پندرہ جنوری کو ان کے دل کی حالت خراب ہونی شروع ہوگئی۔ اس وقت ڈاکٹروں نے توجہ کی اور انسانی خون بھی جسم میں پہنچایا گیا اور حالت اچھی ہوگئی اور اچھی ہوتی گئی۔
یہاں تک کہ ۲۵۔ تاریخ کو مجھے کہا گیا کہ اب چند دن تک ان کو ہسپتال سے رخصت کر دیا جائے اور اجازت لے کر چند دن کے لئے قادیان آگیا۔ میرے قادیان جانے کے بعد ہی ان کی حالت خراب ہوگئی اور زخم جسے مندمل بتایا جاتا تھا پھر دوبارہ پورا کا پورا کھول دا گیا مگر مجھے اس سے غافل رکھا گیا اور اس وجہ سے میں متواتر ہفتہ بھر قادیان ٹھہرا رہا۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ نے ان کی بیماری میں بہت خدمت کی۔ جزاہم اللہ احسن الجزاء۔ انہوں نے متواتر تاروں اور فون سے تسلی دلائی اور کہا کہ مجھے جلدی کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن جمعرات کی رات کو شیخ بشیر احمد صاحب کا فون ملا کر برادرم سید حبیب اللہ شاہ صاحب کہتے ہیں کہ ہمشیرہ مریم کی حالت خراب ہے آپ کو فوراً آنا چاہئے۔ جس پر میں جمعہ کو واپس لاہور گیا اور ان کو سخت کمزور پایا۔ یہ کمزوری ایسی تھی کہ اس کے بعد تندرستی کی حالت ان پر پھر نہیں آئی۔
دو نرسیں ان پر رات اور دن پہرہ کے لئے رکھی جاتی تھیں اور چونکہ ان کا خرچ پچاس ساٹھ روپے روزانہ ہوتا تھا مجھے معلوم ہوا کہ اس کا ان کے دل پر بہت بوجھ ہے اور وہ بعض سہیلیوں سے کہتی ہیں کہ میری وجہ سے ان پر اس قدر بوجھ پڑا ہوا ہے۔ مجھے کسی طرح یہ بات معلوم ہوئی تو میں نے ان کو تسلی دلائی کہ مریم اس کی بالکل فکر نہ کرو۔ میں یہ خرچ تمہارے آرام کے لئے کررہا ہوں تم کو تکلیف دینے کے لئے نہیں۔ اور ان کی بعض سہیلیوں سے بھی کہا کہ ان کو سمجھائو کہ یہ خرچ میرے لئے عین خوشی کا موجب ہے اور میرا خدا جانتا ہے کہ ایسا ہی تھا۔ یہاں تک کہ ان کی بیماری کے لمبا ہونے پر میرے دل میں خیال آیا کہ خرچ بہت ہورہا ہے روپیہ کا انتظام کس طرح ہوگا تو دل میں بغیر ادنیٰ انقباض محسوس کئے میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں کوٹھی دارالحمد اور اس کا ملحقہ باغ فروخت کردوں گا۔ میں نے دل میں کہا کہ اس کی موجودہ قیمت تو بہت زیادہ ہے لیکن ضرورت کے وقت اگر اسے اونے پونے بھی فروخت کیا جائے تو پچتر ہزار کو وہ ضرور فروخت ہو جائے گی اور اس طرح اگر ایک سال بھی مریم کے لئے خرچ کرنا پڑا تو چھ ہزار روپیہ ماہوار کے حساب سے ایک سال تک ان کے خرچ کی طرف سے بے فکری ہو جائے گی اور یہی نہیں` میرا نفس مریم بیگم کے لئے اپنی جائداد کا ہر حصہ فروخت کرنے کے لئے تیار تھا تاکہ کسی طرح وہ زندہ رہیں خواہ بیماری ہی کی حالت میں۔
مگر کچھ دنوں کے بعد میں نے محسوس کیا کہ وہ بیماری سے سخت اذیت محسوس کررہی ہیں جو زخم کے درد کی وجہ سے ناقابل برداشت ہے۔ تو میں نے اپنے رب سے درخواست کرنی شروع کی۔ اے میرے رب! تیرے پاس صحت بھی ہے پس تجھ سے میری پہلی درخواست تو یہ ہے کہ تو مریم بیگم کو صحت دے۔ لیکن اگر کسی وجہ سے تو سمجھتا ہے کہ اب مریم بیگم کا اس دنیا میں رہنا اس کے اور میرے دین و دنیا کے لئے بہتر نہیں تو اے میرے رب پھر اسے اس تکلیف سے بچالے جو اس کے دین کو صدمہ پہنچائے۔
اس دعا کے بعد جو ان کی وفات سے کوئی آٹھ نو دن پہلے کی گئی تھی میں نے دیکھا کہ ان کی درد کی تکلیف کم ہونی شروع ہوگئی مگر ان کے ضعف اور دل کے دوروں کی تکلیف بڑھنے لگی۔ ظاہری سبب یہی پیدا ہوا کہ ڈاکٹر بڑوچہ نے جن کے علاج کے لئے اب ہم انہیں سرگنگا رام ہسپتال میں لے آئے تھے انہیں افیون بھی دینی شروع کردی تھی۔
بہرحال اب انجام قریب آرہا تھا۔ مگر اللہ تعالیٰ پر امید قائم تھی` میری بھی اور ان کی بھی۔ وفات سے پہلے دن ان کی حالت نازک دیکھ کر اقبال بیگم )جو ان کی خدمت کے لئے ہسپتال میں اڑھائی ماہ رہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں دونوں جہان میں بڑے مدراج عطا فرمائے( رونے لگیں۔ ان کا بیان ہے کہ مجھے ¶روتے دیکھ کر مریم بیگم محبت سے بولیں۔ پگلی روتی کیوں ہو۔ اللہ تعالیٰ میں سب طاقت ہے۔ دعا کرو وہ مجھے شفا دے سکتا ہے۔ چار مارچ کی رات کو میر محمد اسمٰعیل صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ اب دل کی حالت بہت نازک ہوچکی تھی۔ اب وہ دوائی کا اثر ذرا بھی قبول نہیں کرتا اس لئے میں دیر تک وہاں رہا۔ پھر جب انہیں کچھ سکون ہوا تو شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پر سونے کے لئے چلا گیا۔ کوئی چار بجے آدمی دوڑا ہوا آیا کہ جلد چلیں حالت نازک ہے۔ اس وقت میرے دل میں یہ یقین پیدا ہوگیا کہ اب میری پیاری مجھ سے رخصت ہونے کو ہے اور میں نے خداتعالیٰ سے اپنے اور اس کے ایمان کے لئے دعا کرنی شروع کردی۔ اب دل کی حرکت کمزور سے کمزور تر ہوتی جارہی تھی اور میرے دل کی ٹھنڈک دارالاخرت کی طرف اڑنے کے لئے پرتول رہی تھی۔
کوئی دس بجے کے قریب میں پھر ایک دفعہ جب پاس کے کمرہ میں سے جہاں میں معالجین کے پاس بیٹھا ہوا تھا ان کے پاس گیا تو ٹھنڈے پسینے آرہے تھے اور شدید ضعف کے آثار ظاہر ہورہے تھے مگر ابھی بول سکتی تھیں۔ کوئی بات انہوں نے کی جس پر میں نے انہیں نصیحت کی۔ انہوں نے اس سے سمجھا کہ گویا میں نے یہ کہا ہے کہ تم نے روحانی کمزوری دکھائی ہے۔ رحم کو ابھارنے والی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ میرے پیارے آقا! مجھے کافر کرکے نہ ماریں۔ یعنی اگر میں نے غلطی کی ہے تو مجھ پر ناراض نہ ہوں مجھے صحیح بات بتا دیں۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ موت تیزی سے ان کی طرف آرہی ہے۔ میرا حساس دل اب میرے قابو سے نکلا جارہا تھا۔ میری طاقت مجھے جواب دے رہی تھی۔ مگر میں سمجھتا تھا کہ خداتعالیٰ اور مرحومہ سے وفاداری چاہتی ہے کہ اس وقت میں انہیں ذکر الٰہی کی تلقین کرتا جائوں اور اپنی تکلیف کو بھول جائوں۔ میں نے اپنے دل کو سنبھالا اور ٹانگوں کو زور سے قائم کیا اور مریم کے پہلو میں جھک کر کہا۔ تم خداتعالیٰ پر بدظنی نہ کرو۔ وہ محمد رسول اللہ~صل۱~ کی نواسی )وہ سید تھیں( اور مسیح موعودؑ کی بہو کو کافر کرکے نہیں مارے گا۔
اس وقت میرا دل چاہتا تھا کہ ابھی چونکہ زبان اور کان کام کرتے ہیں میں ان سے کچھ محبت کی باتیں کرلوں مگر میں نے فیصلہ کیا کہ اب یہ اس جہان کی روح نہیں اس جہان کی ہے۔ اب ہمارا تعلق اس سے ختم ہے۔ اب صرف اپنے رب سے اس کا واسطہ ہے۔ اس واسطہ میں خلل ڈالنا اس کے تقدس میں خلل ڈالنا ہے اور میں نے چاہا کہ انہیں بھی آخری وقت کی طرف توجہ دلائوں تاکہ وہ ذکر الٰہی میں مشغول ہو جائیں۔ مگر صاف طور پر کہنے سے بھی ڈرتا تھا کہ ان کا کمزور دل کہیں ذکر الٰہی کا موقعہ پانے سے پہلے ہی بیٹھ نہ جائے۔ آخر سوچ کر میں نے ان سے اس طرح کہا کہ مریم مرنا تو ہر ایک نے ہے دیکھو اگر میں پہلے مر جائوں تو میں اللہ تعالیٰ سے درخواست کروں گا کہ وہ کبھی کبھی مجھ کو تمہاری ملاقات کے لئے اجازت دیا کرے اور اگر تم پہلے فوت ہوگئیں تو پھر تم اللہ تعالیٰ سے درخواست کرنا کہ وہ تمہاری روح کو کبھی کبھی مجھ سے ملنے کی اجازت دے دیا کرے اور مریم اس صورت میں تم میرا آنحضرت~صل۱~ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سلام کہنا۔
اس کے بعد میں نے کہا۔ مریم تم بیماری کی وجہ سے قرآن کریم نہیں پڑھ سکتیں۔ آئو میں تم کو قرآن کریم پڑھ کر سنائوں۔ پھر میں نے سورہ رحمن جو ان کو بہت پیاری تھی پڑھ کر سنانی شروع کی )مجھے اس کا علم نہ تھا بعد میں ان کی بعض سہیلیوں نے بتلایا کہ ایسا تھا( اور ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ بھی سنانا شروع کیا۔ جب میں سورۃ پڑھ چکا تو انہوں نے آہستہ آواز میں کہا کہ اور پڑھیں۔ تب میں نے سمجھ لیا کہ وہ اپنے آخری وقت کا احساس کرچکی ہیں اور اب میں نے سورۃ یٰسین پڑھنی شروع کردی۔
اس کے بعد چونکہ اب اپنے آخری وقت کا انکشاف ہوچکا تھا۔ کسی بات پر جو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میرے پیارے۔ تو میں نے ان سے کہا۔ اب وہ وقت ہے کہ تم کو میرا پیار بھی بھول جانا چاہئے۔ اب صرف اسی کو یاد کرو جو میرا بھی اور تمہارا بھی پیارا ہے۔ مریم! اسی پیارے کو یاد کرنے کا یہ وقت ہے اور میں نے کبھی لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین اور کبھی رب انی ظلمت نفسی فاغفرلی ذنوبی انہ لا یغفر الذنوب الا انت اور کبھی برحمتک استغیث یا ارحم الرحمین شروع کیا اور ان سے کہا کہ وہ اسے دہراتی جائیں۔ کچھ عرصہ کے بعد میں نے دیکھا کہ ان کی زبان اب خودبخود اذکار پر چل پڑی ہے۔ چہرہ پر عجیب قسم کی ملائمت پیدا ہوگئی اور علامات سے ظاہر ہونے لگا جیسے کہ خداتعالیٰ کو سامنے دیکھ کر ناز سے اس کے رحم کی درخواست کررہی ہیں۔ نہایت میٹھی اور پیاری اور نرم آواز سے انہوں نے بار بار یاحی یا قیوم برحمتک استغیث کہنا شروع کیا۔ یہ الفاظ وہ اس انداز سے کہتیں اور استغیث]ybod [tag کہتے وقت ان کے ہونٹ اس طرح گول ہو جاتے کہ معلوم ہوتا تھا اپنے رب پر پورا یقین رکھتے ہوئے اس سے ناز کررہی ہیں اور صرف عبادت کے طور پر یہ الفاظ کہہ رہی ہیں ورنہ ان کی روح اس سے کہہ رہی ہے کہ میرے رب مجھے معلوم ہے تو مجھے معاف کرہی دے گا۔ اس کے بعد میں نے ڈاکٹر محمد اسمٰعیل صاحب کو بلوایا کہ اب مجھ میں برداشت نہیں آپ تلقین کرتے رہیں۔ چنانچہ انہوں نے کچھ دیر تلاوت اور اذکار کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس کے بعد کچھ دیر کے لئے پھر میں آگیا۔ پھر میر صاحب تشریف لے آئے۔ باری باری ہم تلقین کرتے رہے۔ اب ان کی آواز رک گئی تھی مگر ہونٹ ہل رہے تھے اور زبان بھی حرکت کررہی تھی۔ اس وقت ڈاکٹر لطیف صاحب دہلی سے تشریف لے آئے اور انہوں نے کہا کہ بیماری کی وجہ سے سانس پر دبائو ہے اور ڈر ہے کہ جان کندن کی تکلیف زیادہ سخت نہ ہو اس لئے آکسیجن گیس سنگھانی چاہئے۔ چنانچہ وہ لائی گئی اور اس کے سنگھانے سے سانس آرام سے چلنے لگ گیا مگر آہستہ ہوتا گیا لیکن ہونٹوں میں اب تک ذکر کی حرکت تھی۔
آخر دو بجکر دس منٹ پر جبکہ میں گھبرا کر باہر نکل گیا تھا۔ عزیزم میاں بشیر احمد صاحب نے باہر نکل کر مجھے اشارہ کیا کہ آپ اندر چلے جائیں۔ اس اشارہ کے معنی یہ تھی کہ خداتعالیٰ کا فیصلہ صادر ہوچکا ہے۔ میں اندر گیا اور مریم کو بے حس و حرکت پڑا ہوا پایا۔ مگر چہرہ پر خوشی اور اطمینان کے آثار تھے۔ ان کی لمبی تکلیف اور طبیعت کے چڑچڑاپن کی وجہ سے ڈر تھا کہ وفات کے وقت کہیں کسی بے صبری کا اظہار نہ کر بیٹھیں۔ اس لئے ان کے شاندار اور مومنانہ انجام پر میرے منہ سے بے اختیار الحمدللہ نکلا اور میں ان کی چارپائی کے پاس قبلہ رخ ہوکر سجدہ میں گر گیا اور دیر تک خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتا رہا کہ اس نے ان کو ابتلا سے بچایا اور شکرگزاری کی حالت میں ان کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد ہم نے ان کے قادیان لے جانے کی تیاری کی اور شیخ بشیر احمد صاحب کے گھرلاکر انہیں غسل دیا گیا۔ پھر موٹروں اور لاریوں کا انتظام کرکے قادیان خدا کے مسیح کے گھر ان کو لے آئے۔ ایک دن ان کو انہی کے مکان کی نچلی منزل میں رکھا اور دوسرے دن عصر کے بعد بہشتی مقبرہ میں ان کو خدا کے مسیح کے قدموں میں ہمیشہ کی جسمانی آرامگاہ میں خود میں نے سر کے پاس سہارا دے کر اتار اور لحد میں لٹا دیا۔ اللھم ارحمہا و ارحمنی۔
مرحومہ کی اولاد چار بچے ہیں۔ تین لڑکیاں اور ایک لڑکا۔ یعنی امتہ الحکیم۔ امتہ الباسط۔ طاہر احمد اور امتہ الجمیل۔ سلمہم اللہ تعالیٰ وکان معھم فی الدنیا والاخرہ۔ جب مرحومہ کو لے کر ہم شیخ بشیر احمد صاحب کے گھر پہنچے تو چھوٹی لڑکی امتہ الجمیل جو ان کی اور میری بہت لاڈلی تھی اور کل سات برس کی عمر کی ہے۔ اسے میں نے دیکھا کہ ہائے امی ہائے امی کہہ کر چیخیں مار کر رو رہی ہے۔ میں اس بچی کے پاس گیا اور اسے کہا جمی )ہم اسے جمی کہتے ہیں( امی اللہ میاں کے گھر گئی ہیں۔ وہاں ان کو زیادہ آرام ملے گا۔ اور اللہ میاں کی یہی مرضی تھی کہ اب وہ وہاں چلی جائیں۔ دیکھو رسول اللہ~صل۱~ فوت ہوگئے` تمہارے دادا جان فوت ہوگئے۔ کیا تمہاری امی ان سے بڑھ کر تھی؟ میرے خدا کا سایہ اس بچی سے ایک منٹ کے لئے بھی جدا نہ ہو۔ میرے اس فقرہ کے بعد اس نے ماں کے لئے آج تک کوئی چیخ نہیں ماری اور یہ فقرہ سنتے ہی بالکل خاموش ہوگئی بلکہ دوسرے دن جنازہ کے وقت جب اس کی بڑی بہن جو کچھ بیمار ہے صدمہ سے چیخ مار کر بے ہوش ہوگئی تو میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ کے پاس جاکر میری جمی ان سے کہنے لگی۔ چھوٹی آپا )انہیں بچے چھوٹی آپا کہتے ہیں( باجی کتنی پاگل ہے۔ ابا جان کہتے ہیں۔ امی کے مرنے میں اللہ کی مرضی تھی۔ یہ پھر بھی روتی ہے۔ اے میرے رب! اے میرے رب!! جس کی چھوٹی بچی نے تیری رضا کے لئے اپنی ماں کی موت پر غم نہ کیا۔ کیا تو اسے اگلے جہاں میں ہر غم سے محفوظ نہ رکھے گا۔ اے میرے رحیم خدا! تجھ سے ایسی امید رکھنا تیرے بندوں کا حق ہے اور اس امید کو پورا کرنا تیرے شایان شان ہے<۔
اس درد بھرے مضمون کے آخر میں حضور نے تیمارداری کرنے والوں کا ذکر کرکے ان کے لئے جناب الٰہی میں دعائیں کیں۔ چنانچہ فرمایا۔
>مریم بیگم کی بیماری میں سب سے زیادہ شیر محمد خان صاحب آسٹریلیا والوں کی بیوی اقبال بیگم نے خدمت کی۔ اڑھائی مہینہ اس نیک بخت عورت نے اپنے بچوں کو اور گھر کو بھلا کر رات اور دن اس طرح خدمت کی کہ مجھے وہم ہونے لگ گیا تھا کہ کہیں یہ پاگل نہ ہو جائیں۔ اللہ تعالیٰ ان پر اور ان کے سارے خاندان پر اپنے فضل کا سایہ رکھے۔ پھر ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ہیں جن کو ان کی بہت لمبی اور متواتر خدمت کا موقعہ ملا۔ شیخ بشیر احمد صاحب نے کئی ماہ تک ہماری مہمان نوازی کی اور دوسرے کاموں میں امداد کی۔ میاں احسان اللہ صاحب۸۲]4 [rtf لاہوری نے دن رات خدمت کی یہاں تک کہ میرے دل سے دعا نکلی کہ اللہ تعالیٰ ان کا خاتمہ بالخیر کرے۔ حکیم سراجدین صاحب بھاٹی دروازہ والوں نے برابر ان کی ہمراہی عورت کا اڑھائی ماہ تک کھانا پہنچایا اور خود بھی اکثر ہسپتال میں آتے رہے۔ ڈاکٹر معراج دین صاحب کو رعشہ کا مرض ہے اور بوڑھے آدمی ہیں۔ اس حالت میں کانپتے اور ہانپتے اور لرزتے ہوئے جب ہسپتال میں آکر کھڑے ہوجاتے کہ میں نکلوں تو مجھ سے مریضہ کا حال پوچھیں تو کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو دیکھ کر کہ مجھ ناکارہ کی محبت اس نے کس طرح لوگوں کے دلوں میں پیدا کر دی ہے میری آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ لاہور کے اور بہت سے احباب نے نہایت اخلاص کا نمونہ دکھایا اور بہت سی خدمات ادا کیں۔ سیٹھ محمد غوث صاحب حیدرآبادی کے خاندان نے اخلاص کا ایسا بے نظیر نمونہ دکھایا کہ حقیقی بھائیوں میں بھی اس کی مثال کم ملتی ہے۔ حیدرآباد ایسے دور دراز مقام سے پہلے ان کی بہو اور بیٹیاں دیر تک قادیان رہیں اور بار بار لاہور جاکر خبر پوچھتی رہیں۔ آخر جب وہ وطن واپس گئیں تو عزیزیم سیٹھ محمد اعظم اپنا کاروبار چھوڑ کر حیدرآباد سے لاہور آبیٹھے اور مرحومہ کی وفات کے عرصہ بعد واپس آگئے۔ ڈاکٹر لطیف صاحب کئی دفعہ دہلی سے دیکھنے آئے۔ میرے خاندان کے بہت سے افراد نے بھی محبت سے قربانیاں کیں۔ مگر ان پر تو حق تھا۔ میں ان لوگوں کو سوائے دعا کے اور کیا بدلہ دے سکتا ہوں۔ اے میرے رب! تو ان سب پر اور ان سب پر جن کے نام میں نہیں لکھ سکا یا جن کا مجھے علم بھی نہیں اپنی برکتیں اور فضل نازل کر۔
مریم بیگم کی وفات پر جس اخلاص کا اظہار جماعت نے کیا وہ ایمان کو نہایت ہی بڑھانے والا تھا۔ محمد رسول اللہ~صل۱~ اور مسیح موعود علیہ السلام کی برکت ہی ہے جس نے جماعت میں ایسا اخلاص پیدا کردیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے اخلاص کو قبول کرے۔ ان کی غلطیوں کو دور کرے اور نیکیوں کو بڑھائے اور ان کی آئندہ نسلوں کی اپنے ہاتھوں سے تربیت فرمائے۔ اللہم آمین<۸۳
حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کا المناک وصال
حضرت ام طاہر رضی اللہ عنہا کی دردناک موت کے زخم ابھی تازہ ہی تھے کہ صرف بارہ روز بعد ۱۷۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو جماعت احمدیہ کے فقید المثال محدث اور عظیم المرتبت عالم و منتظم حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ بھی رحلت فرما گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت میر صاحبؓ کے خود نوشت سوانح حیات
قبل اس کے کہ اس انتہائی المناک سانحہ پر روشنی ڈالی جائے` مناسب معلوم ہوتا ہے کہ حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے ابتدائی سوانح حیات کا تذکرہ آپ ہی کے اپنے مبارک الفاظ میں کر دیا جائے۔ حضرت میر صاحب نے دسمبر ۱۹۳۰ء میں تحریر فرمایا کہ۔
>میری پیدائش ۸۔ ستمبر ۱۸۹۰ء کو بمقام لدھیانہ ہوئی۔ حضرت والد صاحب۸۴4] f[rt مرحوم سرکاری ملازم تھے۔ غالباً ۱۸۹۴ء کے بعد سے مستقل سکونت قادیان میں ہے۔ قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کے دار میں تھا بچپن سے ۱۸ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعودؑ کے روز و شب کے حالات مشاہدہ میں آئے اور اب تک قریباً اسی طرح ذہن میں محفوظ ہیں۔ گورداسپور` بٹالہ` لاہور` سیالکوٹ اور دہلی کے سفروں میں ہمرکاب ہونے کا فخر حاصل ہے۔ آخر بیماری کی ابتداء سے وصال تک حضرت جری اللہ فی حلل الانبیاء کے پاس رہا۔ حضور نے متعدد مرتبہ مجھ سے لوگوں کے خطوط کے جوابات لکھوائے۔ حقیقتہ الوحی کا مسود مختلف جگہ سے فرماتے گئے اور میں لکھتا گیا۔ روزانہ سیر میں آپ کے ساتھ جاتا اور جانے کے اہتمام مثلاً قضاء حاجت و وضو کا انصرام اور ہاتھ میں رکھنے کی چھڑی تلاش کرکے دینے سے سینکڑوں دفعہ مشرف ہوا۔ آپ کی کتابوں میں بیسیوں جگہ میرا ذکر ہے۔ آپ کے بہت سے نشانوں کا عینی گواہ ہوں اور بہت سے نشانوں کا مورد بھی ہوں۔ جن دنوں حضور باہر مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے دونوں وقت میں بھی شریک ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے ہم عربی میں اسقنی الماء کہہ کر پانی مانگا کرتے تھے بچپن میں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ حضور نے مغرب و عشاء اندر عورتوں کو جماعت سے پڑھائیں اور میں آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا۔ عورتیں پیچھے کھڑی ہوتیں۔ غالباً میں پیدائشی احمدی ہوں۔ نہایت چھوٹی عمر سے اب تک حضورؑ کے دعاوی پر ایمان ہے۔ آپ کے وصال کے بعد حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ کو دل سے صدیق اکبر اور سچا خلیفہ تسلیم کیا۔ حضرت خلیفہ اول سے بچپن سے نہایت بے تکلفی اور محبت و پیار کا تعلق تھا۔ ان کی وفات پر سچے دل سے صاحبزادہ محمود احمد صاحب کو خلیفہ ثانی سمجھا اور سمجھتا ہوں باقاعدہ اور بے قاعدہ مولوی عبدالکریم صاحب`
‏tav.8.29
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
دعویٰ مصلح موعود سے لیکر مجلس عرفان کے قیام تک
حافظ روشن علی صاحب` مولوی سرور شاہ صاحب` مولوی محمد اسمٰعیل صاحب اور حضرت خلیفہ اولؓ سے عربی علوم کے پڑھنے کی کوشش کی۔ ۱۹۱۰ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۱۲ء میں صدر انجمن احمدیہ قادیان کی ملازمت میں داخل ہوا۔ جامعہ احمدیہ کے قیام سے قبل مدرسہ احمدیہ میں مدرس تھا۔ اب جامعہ احمدیہ میں پڑھاتا ہوں۔ اس ملازمت کے علاوہ بعض اور کام بھی خلافت ثانیہ میں سلسلہ کے سرانجام دینے کی کوشش کرتا رہتا ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے وجود سے جو شرف حاصل ہوئے وہ اس لئے لکھے ہیں کہ ابتداء ایسی اچھی ہے۔ پڑھنے والے دعا کریں کہ انتہاء بھی ایسی ہی اچھی ہو کہ۔ ~}~
عروسی بود نوبت ماتمت
اگر برنکوئی بود خاتمت<۸۵
حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی۱۹۴۰ء/۱۳۱۹ ہش میں علالت اور وصیت
حضرت میر صاحبؓ ۱۹۳۷ء کے نصف اول تک جامعہ احمدیہ کے پروفیسر کی حیثیت سے اپنے فرائض بجالاتے رہے۔ بعد ازاں آپ کو
مدرسہ احمدیہ جیسی مرکزی درسگاہ کی قیادت سپرد ہوئی۔ اس اہم فریضہ کی ادائیگی کے علاوہ نظارت ضیافت` دارالشیوخ اور دوسرے جماعتی شعبوں کو جماعت میں مقبول اور محبوب بنانے میں آپ نے دن رات ایک کر دیا۔ حضرت میر صاحب نہایت قلیل گزارہ پر نہایت تنگی کی حالت میں بسر اوقات کرتے تھے اور آپ کی زندگی سر تا پا جہاد تھی۔
۸` ۹۔ ماہ شہادت/ اپریل ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کا واقعہ ہے کہ حضرت میر صاحبؓ یکایک بیمار ہوگئے اور ناک کے دائیں نتھنے سے نیلے پانی کے قطرے گرنے لگی اور آنکھوں میں سخت آشوب کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ دماغ کھوکھلا معلوم ہونے لگا اور نظر میں زبردست کمی آنے لگی۔۸۶
بیماری جب شدت اختیار کر گئی تو لاہور تشریف لے گئے اور ۵۔ ماہ ہجرت/ مئی کو خان بہادر ڈاکٹر محمد بشیر صاحب سے معائنہ کرایا۔۸۷ اور گو علاج تجویز ہوا مگر بیماری کی کوئی خاص تشخیص بھی نہ ہوسکی۔ لہذا قیام لاہور کے دوران آپ نے ۱۰۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو اپنے قلم سے حسب ذیل وصیت لکھی۔
عکس کیلئے





)>وصیت( الحمدلل¶ہ اس وقت میرے ہوش و حواس قائم ہیں۔
اشھدان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھدان محمدا عبدہ و رسولہ۔مجھے دلی یقین کے ساتھ زبان سے اس امر کا اقرار ہے کہ اس وقت صرف مذہب اسلام موجب نجات ہے۔ میں چھ ارکان پر ایمان رکھتا ہوں۔ پانچ بناء اسلام کا قائل ہوں۔ میں سنی ہوں۔ شیعہ یا خوارج میں سے نہیں۔ غیرمقلد ہوں۔ آئمہ اربعہ میں سے کسی کا مقلد نہیں گو چاروں کا خاکپا ہوں۔ اول قرآن پھر تواتر پھر حدیث کو حجت سمجھتا ہوں۔ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے تمام دعاوی پر ایمان رکھتا ہوں۔ مبائع ہوں` غیر مبائع ہوں۔ نورالدین کو ابوبکرؓ کا اور موجودہ امام جماعت احمدیہ کو عمرؓ کا مثیل سمجھتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہماری جماعت تب ہی صحیح معنوں میں احمدی رہ سکتی ہے جبکہ وہ ایک واجب الاطاعت امام کے ہاتھ پر بیعت کرے۔ خلیفہ وقت کے ماتحت ایک انجمن ضرور انتظامی اور مالی معاملات کے لئے ہونی چاہئے۔ قادیان کو خدا کے رسول کا پایہ تخت اور احمدیت کا ابدی مرکز یقین کرتا ہوں بہشتی مقبرہ کو واقع میں بغیر کسی تاویل کے یقینی بہشتیوں کا مدفن سمجھتا ہوں۔ میں موصی ہوں۔ تمام حساب صاف ہے۔ میرے پچھتر روپے سپرنٹنڈنٹ احمدیہ ہوسٹل کے پاس جمع ہیں۔ اگر میں یہاں فوت ہو جائوں میری نعش ضرور اس پاک مقام پر پہنچا دی جائے جسے بہشتی مقبرہ کہتے ہیں اور یہی میری واحد خواہش ہے اے میرے اللہ تو میرا انجام بخیر فرما۔
سید محمد اسحٰق مسافر لاہور ۴۰/۵/۱۰
نوٹ:۔ اگر میں فوت ہو جائوں تو حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ اور حضرت ام المومنین سلمہا اللہ کو میرا سلام پہنچا دیں<۔۸۸
حضرت میر صاحبؓ لاہور میں چند روز قیام کے بعد ۱۴۔ ماہ ہجرت/ مئی ۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کو واپس قادیان تشریف لے آئے۸۹
حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے نہایت ہی قیمتی اور گرانمایہ وجود تھے جو نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقدس خاندان سے نہایت ہی قریبی تعلق رکھنے کی وجہ سے بلکہ اپنی ذاتی صفات کے لحاظ سے ایک نہایت ممتاز شخصیت اور دینی علوم و معارف کا بجز بیکراں تھے۔ ایسے بلند پایہ بزرگ کی بیماری سے جماعت کے ہر فرد کا مشوش ہونا طبعی امر تھا۔ جماعتوں تک جونہی آپ کی علالت کی خبر پہنچی انہں نے اجتماعی دعائیں شروع کر دیں۔ بیمار پرسی کے بکثرت خطوط لکھے۔ کثیر التعداد افراد نے آپ کی خدمت میں خود حاضر ہوکر اظہار محبت کیا۔ بعض نے نسخے تجویز کئے اور بعض نے بذریعہ پارسل ادویہ بھی ارسال کردیں اسی طرح بعض نے صدقے بھی دیئے۔
آپ قادیان میں حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ کے زیر علاج تھے اور ان کی ہدایت کے ماتحت تمام کاموں سے فارغ ہوکر ہر وقت بستر پر لیٹے رہتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیماری اپنی جگہ رک گئی اور ٹیکوں کی وجہ سے بدن اور سر میں آہستہ آہستہ طاقت محسوس ہونے لگی۔۹۰ جب اس عارضہ سے ذرا افاقہ ہوا تو آپ دوبارہ مفوضہ خدمات بجالانے لگے۔
درس حدیث کا دوبارہ اجراء
جس طرح عشق قرآن میں حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الاولؓ ضرب المثل تھے۔ اسی طرح عشق رسولﷺ~ کے باب میں حضرت میر صاحبؓ کا مقام تھا۔ یہی وجہ ہے۔ حضرت میر صاحب~رضی۱~ نے بیماری سے اٹھنے کے معاًبعد سب سے پہلا کام یہی کیا کہ مسجد اقصیٰ میں بخاری کا درس دوبارہ شروع کردیا۔ جو آپ کی زندگی کا محبوب اور مقدس ترین مشغلہ تھا۔ چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں۔
>مجھے خدا کی بزرگ کتاب قرآن مجید کے بعد حضور رسول مقبول~صل۱~ کی احادیث سے عشق ہے اور سرور کائناتﷺ~ کا کلام میرے لئے بطور غذا کے ہے کہ جس طرح روزانہ اچھی غذا ملنے کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا۔ اسی طرح بغیر سید کونینﷺ~ کے کلام کو ایک دو دفعہ پڑھنے کے میری طبیعت بے چین رہتی ہے۔ جب کبھی میری طبیعت گھبراتی ہے تو بجائے اس کے کہ میں باہر سیر کے لئے کسی باغ کی طرف نکل جائوں۔ میں بخاری یا حدیث کی کوئی اور کتاب نکال کے پڑھنے لگتا ہوں اور مجھے اپنے پیارے آقاؑ کے کلام کو پڑھ کر خدا کی قسم وہی تفریح حاصل ہوتی ہے جو ایک غمزدہ گھر میں بند رہنے والے کو کسی خوشبودار پھولوں والے باغ میں سیر کرکے ہوسکتی ہے اور میری تو یہ حالت ہے کہ ~}~
باع احمد سے ہم نے پھل کھایا
میرا بستاں کلام احمد ہے
اور واقعہ میں میرے آقاؑ کا کلام ایسا پاکیزہ` ایسا پیارا` ایسا دلفریب اور ایسا دلربا ہے کہ کاش دنیا اسے پڑھے اور پھر اسے معلوم ہو کہ میرے بادشاہ کا منہ ایسے پھول برساتا تھا کہ جن کی خوشبو اگر ایک دفعہ کوئی سونگھ لے۔ پھر اسے دنیا کی کوئی خوشبو` کوئی عطر اور کوئی پھول اپنی طرف مائل نہیں کرسکتا۔ اور میری ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ لوگ میرے آقا کا کلام پڑھیں اور سنیں۔ اسی لئے میں بخاری شریف کی حدیثیں لوگوں کو سناتا رہتا ہوں<۔۹۱
بیماری کا آخری شدید حملہ اور وفات
۱۹۴۰ء/ ۱۳۱۹ہش کے بعد آپ کئی بار پہلی بیماری میں مبتلا ہوئے مگر برابر خدمت دین میں مصروف رہے یہاں تک کہ وسط امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو اس کا ایسا سخت حملہ ہوا کہ جانبر نہ ہوسکے۔ چنانچہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ فرماتے ہیں۔
>میر صاحبؓ کو کئی سال سے ایک بیماری تھی جو عود کر کرکے آتی تھی یعنی ان کے دماغ کا مصفا پانی ناک کے راستے ٹپکنا شروع ہو جاتا اور پھر خود ہی بند ہو جایا کرتا تھا۔ یہ ایک بہت شاذ بیماری ہے جس کا کوئی علاج اب تک معلوم نہیں ہوا۔ ہر حملہ کے بعد مرحوم بہت کمزور ہو جاتے تھے اور اہل خانہ سے اسے چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ تاکہ وہ گھبرا نہ جائیں۔ لاہور کے جلسہ مصلح موعود۹۲ سے واپس تشریف لائے تو نزلہ ہوگیا بخار آنے لگا اور ناک میں سے پانی گرنا پھر شروع ہوگیا۔ ۱۴۔ مارچ کو مجھے بلایا۔ میں نے نسخہ تجویز کیا۔ اشارہ سے کہا کہ والد دائود کو اس پانی کے گرنے کی خبر نہ ہو۔ ۱۶۔ مارچ کی شام کو ۵ بجے شیخ احسان علی صاحب کی دوکان کے آگے ملے۔ فرمایا کہ سر میں شدید درد ہے۔ کئی ٹکیاں اسپرین کی کھاچکا ہوں۔ اب گھر جارہا ہوں۔ )گیسٹ ہائوس میں مقیم تھے( میں یہ سن کر مسجد مبارک میں عصر کی نماز پڑھنے چلا گیا۔ نماز سے فارغ ہوا تھا کہ کسی نے کہا کہ میر صاحب دارالشیوخ میں بڑ کے درخت کے نیچے پڑے ہیں اور گر کر بے ہوش ہوگئے ہیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ لڑکے انہیں دبا رہے تھے اور پیر جھس رہے تھے۔ میاں عبدالمنان صاحب بھی پاس تھے۔ فرمایا کہ ناقابل برداشت درد میرے سر میں ہے اور بغیر مارفیا کے کسی چیز سے فائدہ نہ ہوگا۔ میں نے شیخ احسان علی صاحب کے ہاں سے مارفیا انجکشن تیار کراکے منگائی اور لگادی۔ تھوڑی دیر کے بعد قدرے سکون ہوگیا۔ اتنے میں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے گیسٹ ہائوس تک جانے کے لئے اپنی موٹر بھیج دی۔ تھوڑی دیر میں لیٹے لیٹے چارپائی پر بیٹھ گئے اور نہایت جوش سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں )یا تم گواہ رہو( کہ اللہ تعالیٰ وحدہ لا شریک ہے۔ اس کے بعد ہم نے کہا کہ موٹر احاطہ سے باہر کھڑی ہے اس پر سوار ہو جائیں۔ فرمانے لگے۔ میرے لئے اب یہ بھی ناممکن ہے اس پر کئی لڑکوں نے ان کی چارپائی اٹھالی اور باہر موٹر کے پاس لے گئے۔ فرمانے لگے یونہی گھر لے چلو مجھے اور مولوی عبدالمنان صاحب کے فرمایا کہ گھر تک ہمراہ رہیں۔ گھر میں جاکر لٹایا گیا۔ بیوی سامنے آئیں تو ہاتھ اٹھاکر فرمانے لگے۔ بالکل فکر نہ کرو۔ میں اچھا ہوں۔ مجھے کچھ تکلیف نہیں ہے اور اس طرح ان کی تسلی کی۔ اتنے میں انیما تیار کیا گیا اور کئی دفعہ کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی۔ بعدہ دن کے کھانے کی قے آئی۔ پھر جلد جلد غنودگی بڑھنے لگی مگر قے جاری رہی۔ سخت درد سر قے اور غفلت کی وجہ سے نصف شب کے قریب خیال ہوا کہ یہ یوریمیا (UREMIA) ہے۔ پیشاب ربڑ کی نلکی سے نکالا گیا تو اس میں کافی البیومن (ALBUMIN) تھا۔ مگر بعض اور علامات سے رات کے دو بجے یہ فیصلہ کیا گیا کہ دماغ کا پانی یعنی SPINALFLUID)۔(CEREBRO کمر میں سوراخ نکالا جائے۔ وہ نکالا گیا تو بہت زور سے دھار باندھ کر اور دودھ کی طرح سفید یعنی پیپ سے ملا ہوا نکلا جس میں خوردبینی امتحان کرنے پر ہر قسم کی پیپ کے جراثیم پائے گئے۔ معلوم ہوا کہ وہ پانی جو ہمیشہ ناک سے نکلا کرتا تھا اور دماغ کے اندر اور پردوں میں اس کا منبع تھا وہ سپٹک (SEPTIC) ہوگیا ہے اور سرسامی کیفیت` غفلت` تشنج` قے اور آنکھوں کا ایک طرف کو پھرجانا اور پتلیوں کا سکڑ جانا سب اسی وجہ سے ہے۔ اور صورت ورم دماغ (MENINGITIS) کی قائم ہوگئی ہے۔ ایک دفعہ بے ہوش ہوکر پھر ہوش نہیں آیا۔ تیز بخار اس دوران میں برابر چڑھا رہا۔ ان چوبیس گھنٹوں میں انسان دعا اور دوا سے کوشش اور جدوجہد کرتے رہے مگر تقدیر الٰہی انکار کرتی رہی<۔۹۳
حضرت میر صاحب کے آخری لمحات
۱۶۔ امان/ مارچ کی شب اور ۱۷۔ امان/ مارچ کا دن نہایت تشویش میں گزرا۔ اعلان عام کے ذریعہ سب احمدیوں تک آپ کی علالت کی اطلاع پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ سب نے نہایت ہی درد اور کرب کے ساتھ دعا کی۔ علاج معالجہ میں بھی ہرممکن کوشش کی گئی۔ مگر چھ بجے شام کے بعد نبض بہت زیادہ کمزور ہوگئی اور خطرہ بہت بڑھ گیا۔ حافظ محمد رمضان صاحب بلند آواز سے قرآن کریم کی دعائیں پڑھنے لگے۔ نیز سورہ یٰسین کی تلاوت کرتے رہے۔ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ بھی دوسرے صحن میں قرآن کریم پڑھتے رہے۔ پھر حضور اس کمرہ میں تشریف لے آئے جہاں حضرت میر صاحبؓ تھے اور ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بہت دیر تک رقت بھری آواز میں قرآن کریم کی دعائیں فرماتے رہے۔ یہ نظارہ نہایت ہی رقت انگیز تھا۔ کمرہ کے اندر اور باہر لوگوں کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ اس وقت حضور نے فرمایا۔ اگر تو یہ رونا دعا کا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ گناہ ہے۔ حضور پھر باہر تشریف لے آئے چونکہ نماز مغرب کا وقت ہوچکا تھا حضور نے نماز کی تیاری کرنے کا ارشاد فرمایا۔ ابھی نماز شروع نہ ہوئی تھی۹۴ کہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ پر عالم نزع طاری ہوگیا۔ حافظ محمد رمضان صاحب حضرت میر صاحبؓ کی چارپائی کے پاس بیٹھے پہلے دوسری قرآنی دعائیں پڑھ چکے تھے اور اب سورہ یٰسین کی تلاوت کررہے تھے۔ جب حافظ صاحب موصوف سلام قولا من رب رحیم )یٰسین آیت ۵۸( پر پہنچے تو حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحبؓ نے زور سے یہ آیت دہرائی اور ساتھ ہی حافظ صاحب سے کہا کہ یہ آیت پھر پڑھئے۔ چنانچہ انہوں نے بھی اور دوسرے احباب نے بھی چار پانچ بار یہ آیت رقت بھری آواز میں دوہرائی۔
حافظ محمد رمضان صاحب سورہ یٰسین اور قرآن کریم کے اور حصوں اور دعائوں کی تلاوت ختم کرچکے تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے حافظ قدرت اللہ صاحب کو بلوایا۔ جنہوں نے پھر سورہ یٰسین کی تلاوت شروع کی۔ جب آپ آیت سلام قولا من رب رحیم پر پہنچے تو انہوں نے بھی یہ آیت بار بار پڑھی۔ اسی دوران میں حضرت میر صاحبؓ نے آخری سانس لیا۔ حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ اس وقت برآمدہ میں تشریف فرما تھے اور نماز مغرب پڑھانے کے لئے کھڑے ہونے والے ہی تھے کہ حضور کو حضرت میر صاحبؓ کے المناک انتقال کی اطلاع دی گئی جس پر حضور فوراً اس کمرہ میں تشریف لائے جہاں احمدیت کے اس بطل جلیل کی نعش رکھی تھی۔ جس کی زندگی کا ایک ایک سانس اسلام اور احمدیت کی خدمت اور آنحضرت~صل۱~ کے مقدس کلمات کو پرنم آنکھوں سے پہنچانے کے لئے وقف رہا۔ جس کا وجود شوکت اسلام کا نشان اور جس کی زباں شمشیر برآں تھی اور جس کے دل و دماغ سے عشق رسول کے دریا رواں تھے۔
حضرت خلیفہ~ن۲~ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ حضرت میر صاحبؓ کی نعش مبارک دیکھ کر رقت سے بھر گئے اور پرنم آنکھوں سے باہر تشریف لائے اور مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھائیں۔۹۵
حضرت امیرالمومنینؓ کی دردانگیز تقریر
نماز کے بعد حضرت امیرالمومنینؓ نے ایک دردانگیز تقریر کی جس میں فرمایا۔
>جب رسول کریم~صل۱~ کا وصال ہوا تو صحابہ کرامؓ کے لئے وہ ایک موت کا دن تھا۔ مگر جب حضرت ابوبکرؓ فوت ہوئے تو وہ تابعین جنہوں نے رسول کریم~صل۱~ کو نہ دیکھا تھا اور اسلام حضرت ابوبکرؓ سے ہی سیکھا تھا ان کو اس وفات کا شدید ترین صدمہ ہوا۔ ویسا ہی صدمہ جیسا کہ صحابہؓ کو آنحضرت~صل۱~ کی وفات کا ہوا تھا۔ اسی طرح ایک کے بعد ایک زمانہ کے لوگ گزرتے چلے گئے اور جب سارے گزر گئے تو کسی وقت عالم اسلامی کے لئے حسن بصری~رح~ یا جنید بغدادی~رح~ کی وفات ایسے ہی صدمہ کا باعث تھی جیسی صحابہ کے لئے آنحضرت~صل۱~ کی وفات۔ مگر یہ احساس نتیجہ تھا اس بات کا کہ حسن بصری~رح~ اور جنید بغدادی~رح~ جیسے لوگ مسلمانوں میں بہت شاذ پیدا ہوتے تھے۔ اگر ساری امت ہی حسن~رح~ اور جنید~رح~ ہوتی تو وہ درد اور وہ چبھن جو ان بزرگوں کی وفات پر بلند ہوئیں یوں بلند نہ ہوتیں۔ بدقسمتی سے اکثر لوگ رونا بھی جانتے ہیں۔ اظہار غم کرنا بھی جانتے ہیں۔ مگر اکثر لوگ خداتعالیٰ کے لئے زندگی وقف کرنا اور کام کرنا نہیں جانتے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا پر حزن و غم کی چادر پڑی رہتی ہے۔ اگر سب کے سب لوگ دین کی خدمت کرتے اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی میں لگے ہوتے تو دنیا کا عرفان اور علم ایسے بلند معیار پر آجاتا کہ کسی قابل قدر خادم اسلام کی وفات پر جو یہ احساس پیدا ہوتا ہے اور یہ فکر لاحق ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے یہ کبھی نہ ہوتا۔
میر محمد اسحاق صاحبؓ خدمات سلسلہ کے لحاظ سے غیر معمولی وجود تھے۔ درحقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر اگر کسی کو تھا تو ان کو۔ رات دن قرآن و حدیث لوگوں کو پڑھانا ان کا مشغلہ تھا وہ زندگی کے آخری دور میں کئی بار موت کے منہ سے بچے۔ جلسہ سالانہ پر وہ ایسا اندھا دھند کام کرتے کہ کئی بار ان پر نمونیہ کا حملہ ہوا۔ ایسے شخص کی وفات پر طبعاً لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے؟ لیکن اگر ہماری جماعت کا ہر شخص ویسا ہی بننے کی کوشش کرتا تو آج یہ احساس نہ پیدا ہوتا۔ جب ہر شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھتا ہو تو کسی کارکن کی وفات پر یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ اب ہم کیا کریں گے؟ بلکہ ہر شخص جانتا ہے کہ ہم سب یہی کررہے ہیں۔ عزیز اور دوست کی جدائی کا غم تو ضرور ہوتا ہے مگر یہ احساس نہیں ہوتا کہ اب اس کا کام کون سنبھالے گا۔ موت کا رنج تو لازمی بات ہے مگر یہ رنج مایوسی پیدا نہیں کرتا بلکہ ہر شخص ایسے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے کہ اس نے وقت پر چاروں کونوں کو سنبھال لیا تھا۔ احباب کی اس غلطی کی وجہ سے ہر ایک نے وقت پر اپنے آپ کو سلسلہ کا واحد نمائندہ تصور نہ کیا اور اس کے لئے کوشش نہ کی۔ آج میر صاحب کی وفات ایسا بڑا نقصان ہے کہ نظر آرہا ہے کہ اس نقصان کو پورا کرنا آسان نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحومؓ اس طرز کے آدمی تھے۔ ان کے بعد حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے اور تیسرے اس رنگ میں میر صاحبؓ رنگین تھے اور ان کی وفات کا بڑا صدمہ اس وجہ سے بھی ہے کہ ان جیسے اور لوگ جماعت میں موجود نہیں ہیں۔ اگر اور لوگ بھی ایسے ہوتے تو بے شک ان کی وفات کا صدمہ ہوتا۔ ویسا ہی صدمہ جیسا ایک عزیز کی وفات ہوتا ہے مگر جماعتی پہلو محفوظ ہوتا اور یہ دیکھ کر کہ اگر ایک آدمی فوت ہوگیا ہے تو خواہ وہ کسی رنگ کا تھا اس کی جگہ لینے والے کئی اور موجود ہیں۔ جماعت کے لوگ مایوس نہ ہوتے اور وہ سمجھتے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت نے ایک آدمی ہم سے لے لیا ہے تو اس کے کئی قائم مقام موجود ہیں۔ مگر قحط الرجال ایسی چیز ہے کہ جو لوگوں کے دلوں میں مایوسی پیدا کردیتی ہے اور جب کام کا ایک آدمی فوت ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ اب کیا ہوگا اور دشمن بھی کہا ہے کہ اب یہ جماعت تباہ ہو جائے گی۔ اب اس کا کام چلانے والا کوئی نہیں لیکن اگر ایک کے بعد کام کرنے والے کئی موجود ہوں تو پھر نہ اپنوں میں کوئی مایوسی پیدا ہوتی ہے اور نہ دشمن کو خوش ہونے کا موقعہ مل سکتا ہے۔ پس اگر جماعت کے دوست اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھتے تو آج جو یہ گھبراہٹ پائی جاتی ہے نہ ہوتی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے بروقت سمجھ دی اور میں نے نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کی جس کے ماتحت آج نوجوان تعلیم حاصل کررہے ہیں لیکن ہمارا کام بہت وسیع ہے۔ ہم نے دنیا کو صحیح علوم سے آگاہ کرنا ہے اور اس کے لئے ہزارہا علماء درکار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی سنت تھی کہ جب کبھی سلسلہ کے لئے غم کا کوئی موقعہ ہوتا۔ آپ دوستوں سے فرماتے کہ دعائیں کرو اور استخارے کرو۔ تا اللہ تعالیٰ دلوں سے گھبراہٹ دور کردے اور بشارات دے کر دلوں کو مضبوط کردے۔ پس آپ لوگ بھی آئندہ چند دنوں تک متواتر دعائیں کریں۔ خصوصاً آج کی رات بہت دعائیں کی جائیں کہ اگر جماعت کے لئے کوئی اور ابتلاء مقدر ہوں تو اللہ تعالیٰ انہیں ٹال دے اور اگر تمہارا خیال غلط ہو تو دلوں سے دہشت کو دور کردے اور اپنے فضل سے ایسی سچی بشارتیں عطا کرے کہ جن سے دل مضبوط ہوں اور کمزور لوگ ٹھوکر سے بچ جائیں۔ پس خوب دعائیں کرو اور اگر کسی کو خواب آئے تو بتائے۔ خصوصاً صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے افراد بہت دعائیں کریں۔ وہ لوگ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ پایا اور انہیں موقعہ ملا کہ وہ حضور علیہ السلام کی پاک صحبت میں رہے` خاص طور پر میرے مخاطب ہیں۔ وہ آج رات بھی اور آئندہ بھی بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ایسے واقعات اور ابتلائوں سے بچائے جو کمزوروں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوسکتے ہیں اور جن سے افسردگی پیدا ہوتی ہے کہ یہ دین کی فتح کے دن ہیں اور ان دنوں میں افسردگی نہیں ہونی چاہئے بلکہ دلوں میں ایسا عزم صمیم ہونا چاہئے کہ جس کے ماتحت دوست بڑھ بڑھ کر قربانیاں کرسکیں<۔۹۶
حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے یہ تقریر اس رقت اور سوز سے فرمائی کہ حضور کی آواز رک رک جاتی تھی اور سننے والوں کی چیخیں نکل رہی تھیں۔ تقریر کے بعد حضور نے نہایت خشوع و خضوع سے دعا کرائی۔ اس تقریر کے بعد حضرت میر صاحبؓ کو غسل دینے کا انتظام کیا گیا۔ غسل دینے اور کفن پہنانے کے بعد گیسٹ ہائوس کے بیرونی حصہ میں جنازہ لایا گیا اور رات بھر کے لئے پہرہ دار مقرر کر دیئے گئے اور حضور رات ۱۲ بجے کے قریب واپس تشریف لائے۔
بیرونی جماعتوں کو حادثہ کی اطلاع
اس حادثہ کی اطلاع جماعت ہائے احمدیہ لاہور` امرتسر` جالندھر` لدھیانہ` گوجرانوالہ` لائل پور` منٹگمری` سیالکوٹ` گجرات وغیرہ کو بذریعہ تار راتوں رات دے دی گئی۔۹۷
تدفین کا روح فرسا اور دلخراش منظر
اگلے روز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ پانچ بجے کے قریب نماز عصر مسجد مبارک میں پڑھا کر گیسٹ ہائوس میں تشریف لائے جہاں حضرت میر صاحبؓ کی نعش مبارک رکھی تھی۔ اس وقت آخری بار اس مقدس اور خدانما انسان کی زیارت کرائی گئی۔ چہرہ دیکھنے سے یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ فوت ہوچکے ہیں بلکہ اس طرح نظر آتا تھا کہ نہایت آرام اور اطمینان کی نیند سورہے ہیں۔ ہلکی سی مسکراہٹ` جو ہر وقت آپ کے چہرہ مبارک پر رہتی تھی اس وقت بھی موجود تھی۔ آخر حضرت امیرالمومنینؓ اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دوسرے ارکان نے جنازہ اٹھایا اور تھوڑی دور لے جانے کے بعد باغ تک احباب جماعت نہایت اخلاص و محبت کے جذبات کے ساتھ کندھا دیتے اور باری باری ثواب حاصل کرتے گئے۔ نماز جنازہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے حضرت مسیح موعودؑ کے باغ میں اسی جگہ پڑھائی جہاں چند روز قبل حضرت سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ رضی اللہ عنہا کی نماز جنازہ پڑھائی تھی اور جہاں ابھی سفیدی کے وہ خطوط موجود تھے جو خود حضرت میر صاحبؓ نے ہی صفیں سیدھی باندھنے کے لئے لگوائے تھے۔ صفیں کھڑی ہونے کے بعد تعداد کا اندازہ لگایا گیا تو مردوں کی تعداد ساڑھے چار ہزار معلوم ہوئی۔ نماز جنازہ نہایت رقت اور سوز کے ساتھ پڑھی گئی اور پھر جنازہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے احاطہ میں شرقی سڑک کی جانب سے لے جایا گیا۔ قبر حضرت نانی اماں صاحبہؓ )والدہ ماجدہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ( اور حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحبؓ )والد ماجد حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ( کے پہلو میں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں کھودی گئی۔ میت کو لحد میں رکھنے کے لئے حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ` حضرت میر محمد اسمعیل صاحبؓ` حضرت مرزا عزیز احمد صاحب` سید دائود احمد صاحب )حضرت میر صاحبؓ کے سب سے بڑے فرزند( اترے۔ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دوسرے افراد نے میت اٹھا کر ان کے ہاتھوں پر رکھ دی اور جب وہ مقام پر پہنچا کر باہر آگئے تو لحد پر اینٹیں چنی گئیں۔ اس کام میں مولوی عبدالمنان صاحب عمر خلف حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ شریک رہے۔ لحد میں رکھنے کے وقت سے مٹی ڈالنے تک حضرت امیرالمومنینؓ نہایت رقت سے مسنون دعائیں فرماتے رہے اور دعائیں کرتے ہوئے حضور نے تین مٹھی مٹی ڈالی۔ پھر دوسرے احباب کو اس کا موقعہ دیا گیا۔ قبر مکمل ہو جانے کے بعد حضور نے تمام مجمع سمیت دعا فرمائی۔ لاہور` امرتسر` گورداسپور` جالندھر` کپورتھلہ` فیروزپور وغیرہ کے بہت سے احباب نماز جنازہ میں شریک ہونے کے لئے پہنچ چکے تھے۔ نیز اردگرد کی جماعتوں کے احباب بھی بکثرت شریک ہوئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مزار کے احاطہ میں جنازہ کے ساتھ داخل ہونے پر اول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہوالسلام کے مزار پر حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ نے دعا فرمائی اور پھر حضرت سیدہ ام طاہر احمد صاحبہؓ کے مزار پر۔ آخر واپسی سے قبل ایک بار پھر تمام مجمع سمیت مزار حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر دعا فرمائی اور واپس تشریف لے آئے۔ دوسرے سب لوگ بھی اس محبوب اور خادم اسلام کو جس نے ساری عمر اور اپنی ساری طاقتیں سلسلہ کی خدمت میں صرف کردیں` سپردخاک اور حوالہ بخدا کرکے واپس آگئے۔۹۸
حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کے شمائل و اخلاق
حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ بے شمار خوبیوں کے حامل` خدانما شخصیت اور خدمت دین میں محویت کا ایک کامل نمونہ تھے دن رات خدا اور اس کے پاک رسول~صل۱~ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ان کا شغل تھا۔ صدر انجمن احمدیہ کے نہایت اہم صیغہ ضیافت کے ناظر اور دارالشیوخ کے ناظم اعلیٰ` جماعت احمدیہ کے قاضی` مجلس افتاء کے رکن` مدرسہ احمدیہ کے ہیڈماسٹر` مجلس تعلیم کے ممبر` مجلس ارشاد کے صدر کے فرائض باحسن وجوہ ادا کرنے کے علاوہ مسجد اقصیٰ میں روزانہ بخاری شریف کا درس دیتے تھے جس میں ایسی محبت اور رقت سے رسول کریم~صل۱~ کا ذکر فرماتے کہ دل گداز ہو جاتے۔ تبلیغی اجتماعات اور جلسوں کے روح رواں ہوتے تھے۔ اور نوجوانوں کو دین کے سیکھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی دلکش اور نہایت موثر پیرایہ میں تلقین فرماتے تھے۔ باطل کے خلاف حق کی شمشیر برہنہ تھے۔ مگر حلیمی و فروتنی` عجز و انکسار اور مروت و ملنساری میں بھی آپ عدیم المثال وجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قوت افہام و تفہیم اور بیان میں ایسا ملکہ عطا فرمایا تھا کہ بدترین معاند بھی قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ اخلاق ایسے اعلیٰ کہ دشمن بھی تعریف میں رطب اللسان ھے۔
حضرت میر صاحبؓ کی بلند پایہ اور انقلاب انگیز تصانیف و تالیفات
حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ نے حسب ذیل لٹریچر بطور یادگار چھوڑا۔خصوصیات اسلام۔ ادعیتہ القرآن۔ چہل حدیث۔ اسلامی اخلاق۔
ندائے حق۔ رسالہ کسر صلیب۔ رسالتہ النحو۔ خلاصتہ النحو۔ ختم نبوت۔ گوشت خوری۔ رد تناسخ۔ نقشہ وفات مسیح۔ خمسین احادیث مترجم۔ دلائل ہستی بار تعالیٰ۔ انسان کامل۔ مباحثہ سرگودھا۔ ازدواج۔ مباحثہ بمبئی۔ اسلام اور بدھ مذہب۔ حدوث روح و مادہ۔۹۹
حضرت میر صاحبؓ کے بعد بعض متبادل انتظامات
حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی وفات سے جماعت میں ایک زبردست خلاء پیدا ہوگیا تھا۔ اس قومی نقصان کی تلافی تو ممکن نہ تھی البتہ جو بھی وقتی یا متبادل انتظامات ممکن تھے حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانیؓ کی منظوری سے فی الفور وہ کر دیئے گئے۔ درس الحدیث کی اہم خدمت مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل کے سپرد ہوئی۔ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب قائم مقام ناظر ضیافت تجویز ہوئے۔ حضرت مولوی عبدالرحمن صاحب فاضل جٹ مدرسہ احمدیہ کے ہیڈماسٹر بنا دئے گئے۔ دارالشیوخ چلانے کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی۔ اسی طرح دوسرے شعبوں میں بھی حضرت میر صاحب کی بجائے دوسرے ممبروں کی نامزدگی ہوگئی۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ حضرت میر صاحبؓ جس سرفروشی للہیت اور فدائیت کے ساتھ تنہا یہ تمام خدمات بجالاتے تھے۔ اس کا رنگ نہ اجتماعی نہ انفرادی صورت میں کسی سے پھر پیدا نہ ہوسکا۔ )لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا(
فصل سوم
سیدنا المصلح الموعود کی جاری فرمودہ مبارک تحریکیں
حضرت امیرالمومنینؓ کے وجود میں حیرت انگیز تغیر
>مصلح موعود< کی آسمانی خلعت سے متفخر ہوتے ہی سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفہ المسیح الثانیؓ کے وجود مبارک میں یکایک ایک انقلاب عظیم برپا ہوگیا۔ تقریر میں جلال و جمال اور تحریر میں جذب و تاثیر کے رنگ ہی بدل گئے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بیماریوں سے نڈھال اور بڑھاپے میں مضمحل ہونے کے باوجود خدائے قادر و توانا کی طرف سے آپ پر سچ مچ انوار شباب پلٹ آئے اور پھر سے عزم جواں عطا ہوا اور آپ اس یقین سے لبریز ہوگئے کہ اس نئے منصب پر فائز ہونے کے بعد خداتعالیٰ کی طرف سے احیاء اسلام اور اشاعت دین کی اہم ذمہ داری اب براہ راست آپ کو سپرد کی گئی ہے اس لئے آپ نے فرمایا کہ جماعت کو اپنے سب جذبات و احساسات بکلی ترک کرکے صرف انہی راہوں پر چلنا ہوگا جو خداتعالیٰ کی طرف سے آپ پر کھولی جائیں گی۔ چنانچہ حضور نے اس دور جدید کی پہلی مجلس مشاورت۱۰۰ کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
>میں نے ایک عرصہ تک جماعت کے جذبات اور اس کے احساسات کا خیال رکھا اور باوجود دوستوں کی ناتجربہ کاری` ان کی سیاست سے ناواقفیت اور دینی جماعتوں کے اصول سے لاعلم ہونے کے ہمیشہ ان کے مشوروں کو قبول کیا۔ اور اگر اپنی کوتاہ نظری سے گردوپیش کے حالات سے غلط طور پر متاثر ہوکر انہوں نے بعض مشورے دیئے تو میں نے ان کو بھی رد نہیں کیا۔ مگر اب وقت آگیا ہے کہ میں ایسے مشوروں کو قبول نہ کروں اور دوستوں کے جذبات اور ان کے احساسات کا خیال رکھے بغیر ان کو کھلے طور پر کردوں۔ میں جانتا ہوں کہ درحقیقت بات یہی ہے کہ اب جو کچھ میں کہوں گا اسی پر جماعت کا چلنا مفید اور بابرکت ہوگا نہ اس راہ پر چلنا جس کو وہ خود اپنے لئے تجویز کرے۔ اگر خدا نے مجھ پر یہ انکشاف کیا ہے کہ میں حسن و احسان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نظیر ہوں تو درحقیقت اس کے یہی معنیٰ ہیں کہ اب تمہاری ذمہ داری بحیثیت ایک شخص کے ہے۔ بحیثیت جماعت جو ذمہ داری سمجھی جاتی تھی وہ ختم ہوگئی ہے۔ اب میں خداتعالیٰ کے سامنے اس کے دین کی اشاعت اور اسلام کے احیاء کے لئے ذاتی طور پر ذمہ دار ہوں اس لئے اب مجھے جماعت کے مشوروں کی زیادہ پروا نہیں ہوگی۔ اگر کسی معاملہ میں جماعت کی شدید رائے کو بھی رد کرنا پڑا تو میں اسے کھلے طور پر رد کردوں گا اور اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کروں گا کہ یہ وہ مشورہ ہے جو جماعت نے متفقہ طور پر دیا ہے۔ اب خدا کے سامنے میں صرف اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتا ہوں اور میں اللہ تعالیٰ کے الہامات اور اس کی تائید کی روشنی میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ رسول کریم~صل۱~ کا کیا منشاء تھا؟ یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃوالسلام کس تعلیم کو لے کر دنیا میں مبعوث ہوئے؟ پس آئندہ میں صرف اس آواز کو سنوں گا جو خداتعالیٰ کی ہوگی۔ دوسرا کوئی لفظ میرے کان برداشت نہیں کرسکتے۔ میرا فرض ہے کہ اب میں اس کی طرف بڑھتا چلا جائوں اور خواہ میرے سامنے کوئی بات کیسی ہی خوبصورت شکل میں پیش کی جائے اس کی پروا نہ کروں جبکہ میرا دل یہ گواہی دے رہا ہو کہ میں وہی کام کررہا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا کام تھا اور میں وہی کام کررہا ہوں جو رسول کریم~صل۱~ کا کام تھا۔ درحقیقت رسول کریم~صل۱~ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو میری زبان پر تصرف دینے کے معنی یہی تھے کہ تم اس آواز کو سنو جو براہ راست رسول کریم~صل۱~ تمہیں کہیں اور تم اس آواز کو سنو جو براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام تمہیں کہیں۔
کوئی شخص اس کے یہ معنیٰ نہ سمجھے کہ باوجود خداتعالیٰ کے کلام اور اس کی نصوص صریحہ کے میں کوئی ایسا کام بھی کرسکتا ہوں جو اس کی تعلیم کے خلاف ہو۔ میرے اس بیان کے یہ معنیٰ نہیں ہیں بلکہ میرے قول کا مفہوم یہ ہے کہ تمام نصوص صریحہ سچائی کی طرف جاتی ہیں اور غلطی کی طرف وہ بات جاتی ہے جو خدا اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہوتی ہے۔ پس یہ نہیں کہ جو کچھ میں کہوں گا وہ خدا اور اس کے رسول کے منشاء کے خلاف ہوسکتا ہے بلکہ جو کچھ میں کہوں گا وہی خدا اور اس کے رسول کے منشاء کے مطابق ہوگا اور میرے مقابلہ میں جو کچھ دوسرا سمجھے گا وہ خدا اور اس کے رسول کے منشاء کے خلاف ہوگا مگر یہ چیزیں ساری کی ساری قیاسی اور وہمی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنی پاک جماعت کو ہمیشہ ایسی ٹھوکروں سے بچا لیتا ہے جو اس کے ایمان کو ضائع کرنے والی ہوں۔ جب میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی جماعت میں شامل ہیں اور اس زمانہ کے لوگ ہیں جن کو خدا تباہ نہیں کیا کرتا اور جبکہ میں یقین رکھتا ہوں کہ باوجود اپنی ساری کمزوریوں اور نالائقیوں کے محمد رسول اللہ~صل۱~ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی لائی ہوئی تعلیم کی اشاعت کی ذمہ داری میرے کمزور کندھوں پر ڈالی گئی ہے تو میں یہ بھی یقین رکھتا ہوں کہ وہ مجھ سے کوئی بات ایسی نہیں کہلوائے گا جو خدا اور اس کے رسول کے منشاء کے خلاف ہو اور میں یقین رکھتا ہوں کہ خدا تم سے بھی کبھی اس بات کا انکار نہیں کراے گا جو خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق ہو۔ آخر میں بھی اس کے قبضہ میں ہوں اور آپ لوگ بھی اس کے قبضہ میں ہیں<۔۱۰۱
جماعت کوعظیم الشان قربانیوں کیلئے تیار ہوجانے کاارشاد
خدائی سلسلوں پر ہونے والا ہر انعام خداوندی اپنے ساتھ نئی ذمہ داریاں لاتا اور نئی قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی دائمی سنت کے مطابق سیدنا المصلح الموعود نے جماعت کو شروع ہی سے متنبہ فرما دیا کہ اب احمدیوں کو عظیم الشان قربانیوں کے لئے تیار ہو جانا چاہئے۔ چنانچہ حضور نے ارشاد فرمایا۔
>جلد جلد ترقی کی طرف اپنے قدموں کو بڑھائو۔ میں نہیں جانتا کہ جب خدا نے میرے متعلق یہ کہا ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میری موت جلد آنے والی ہے۔ یا یہ مطلب ہے کہ میں جلد جلد ترقی کی منازل طے کرتا چلا جائوں گا۔ تم ان دو میں سے کوئی بھی پہلو لے لو۔ بہرحال اس امر کو اچھی طرح یاد رکھو کہ اب جماعت میں سے وہی شخص اپنے ایمان کو سلامت رکھ سکے گا اور وہی شخص باایمان مرسکے گا جو خداتعالیٰ کے دین کی اشاعت اور اس کے سلسلہ کی ترقی کے لئے جلد جلد قدم اٹھائے گا۔ اگر تمہارا جرنیل دشمن کی فوج پر حملہ کر دے اور تم آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھے رہو تو کون تمہیں وفادار کہہ سکتا ہے؟ کون تمہاری اطاعت کا قائل ہوسکتا ہے؟ کون تمہیں عزت کی نگاہ سے دیکھ سکتا ہے؟ جب خدا نے مجھے کہا کہ میں جلد جلد قدم اٹھائوں گا اور جب خدا نے مجھے یہ نظارہ دکھایا کہ میں بھاگتا چلا جارہا ہوں اور زمین میرے پائوں کے نیچے سمٹتی چلی جارہی ہے تو درحقیقت خدا نے تم کو کہا کہ تم جلد جلد بڑھو اور جلد زمینوں کو طے کرتے چلو۔ جب ایک شخص کو افسر مقرر کیا جاتا ہے تو اس افسر کو حکم دینے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ماتحتوں کو اس کے واسطہ سے حکم دیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ آدم کو سجدہ کرو اور ڈانٹتا شیطان کو ہے کہ تم نے کیوں سجدہ نہ کیا؟ شیطان میں نفسانیت سہی` ہزاروں گناہ سہی` مگر اس میں اتنی عقل ضرور تھی کہ اس نے یہ نہیں کہا کہ اے خدا تو نے مجھے کب حکم دیا تھا؟ تو نے تو فرشتوں کو حکم دیا تھا۔ مجھے تو حکم دیا ہی نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا کہ فرشتوں کو جب حکم دیا گیا تو اس کے معنے یہی تھے کہ میں بھی اتباع کروں۔ پس وہ نادان جو کہتا ہے کہ یہ تو مصلح موعود کے متعلق کہا گیا ہے کہ وہ جلد جلد بڑھے گا۔ میرے متعلق نہیں کہا گیا کہ میں جلد جلد بڑھوں گا۔ وہ شیطان سے بھی اپنے آپ کو زیادہ احمق قرار دیتا ہے۔ شیطان نے تو تسلیم کرلیا تھا کہ جب فرشتوں کو حکم دیا گیا تو درحقیقت ان کے واسطہ سے مجھے بھی حکم دیا گیا۔ مگر یہ تسلیم نہیں کرتا کہ مصلح موعود کو جو حکم دیا گیا ہے اس کے ماتحت وہ خود بھی آتا ہے۔
پس ہر احمدی کو سمجھا لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے الہام پاکر میرے متعلق جو یہ خبر دی ہے کہ میں جلد جلد بڑھوں گا اس کے معنے یہ نہ تھے کہ دشمنوں کی صفوں کے بالمقابل میں اکیلا کھڑا ہوں گا۔ بلکہ یہ تھے کہ کام کی اہمیت کے پیش نظر میرا فرض ہوگا کہ میں تیزی اور سرعت کے ساتھ اپنے قدم کو بڑھاتا چلا جائوں اور جب میں دشمن کے مقابلہ میں جلد جلد قدم بڑھائوں گا تو خداتعالیٰ ان لوگوں کو بھی جو مجھ پر ایمان لائیں گے اس بات کی توفیق عطا فرما دے گا کہ وہ جلد جلد اپنے قدم بڑھائیں۔ اسی طرح جب خدا نے مجھے خبر دی کہ زمین میرے پائوں کے نیچے سمٹتی چلی جارہی ہے اور میں تیزی کے ساتھ بھاگتا چلا جارہا ہوں تو اس کے معنے بھی درحقیقت یہی تھے کہ جب میں تیزی کے ساتھ بھاگوں گا اور زمین میرے قدموں کے نیچے سمٹنی شروع ہوگی تو اللہ تعالیٰ ان سچے مخلصوں کو بھی جنہیں میرے ساتھ وابستگی حاصل ہوگی اس امر کی توفیق عطا فرما دے گا کہ وہ زمین کو جلد جلد طے کریں اور آناً فاناً دور دراز فاصلوں کو طے کرتے ہوئے دنیا کے کناروں تک پہنچ جائیں۔ پس اپنے اندر ایک غیر معمولی تغیر پیدا کرو اور جلد سے جلد عظیم الشان قربانیوں کے لئے تیار ہو جائو۔ اب تم زیادہ انتظار مت کرو۔ پیشگوئیوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ وقت اب آگیا ہے جب زیادہ انتظار نہیں کیا جائے گا جب تمہیں دیر تک منتظر نہیں رہنا پڑے گا۔ رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں کہ میں اور قیامت اس طرح اکٹھے ہیں جس طرح انگشت شہادت کے ساتھ دوسری انگلی ملی ہوئی ہوتی ہے۔ پس بہت بڑے تغیرات ہیں جو دنیا میں رونما ہونے والے ہیں اور خداتعالیٰ کے نزدیک یہ تغیرات بہت بھاری اہمیت رکھتے ہیں۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ اب کیا ہو جائے گا مگر اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ کسی عظیم الشان تغیر یا بہت بڑے عظیم الشان تغیرات کی بنیادیں جلد سے جلد رکھ دی جائیں گی اور وہ شخص جو ان مہمات میں میرا ساتھ نہیں دے گا` وہ شخص جو جلد جلد اپنے قدم کو نہیں بڑھائے گا اس کے دل پر زنگ لگ جائے گا اور وہ اس خطرہ میں ہوگا کہ اپنے پہلے ایمان کو بھی کھو بیٹھے<۔۱۰۲
الغرض حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے ایک آسمانی جرنیل کی حیثیت سے جماعت کو اطلاع دی کہ اسلام کی فتح اور اس کی کامیابی کے لئے جو جنگ ہونے والی ہے وہ اب قریب آرہی ہے اور ہمیں اس کی خاطر قربانیاں کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے اور اسی تیاری کے جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اپنے دعویٰ مصلح موعود کے بعد اپنی مقدس زندگی میں بہت سی تحریکیں فرمائیں جن پر خداتعالیٰ کے فضل و کرم اور اسی کی دی ہوئی توفیق سے جماعت احمدیہ نے اپنی گزشتہ روایات کے مطابق نہایت شاندار طریق سے لبیک کہا اور اس کا قدم المصلح الموعودؓ کی قیادت میں نہایت تیزی سے آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔
ان سب تحریکات کا ذکر اپنے اپنے موقعہ پر آئے گا۔ مگر اس فصل میں ان سولہ نہایت اہم اور بنیادی تحریکوں کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو حضور نے دعویٰ مصلح موعود کے پہلے سال جاری فرمائیں اور جو اپنے اندر مستقل افادیت کی دائمی شان رکھتی ہیں۔
خاندان مسیح موعودؑ کو خدمت دین کے لئے وقف ہو جانے کی تحریک
۱۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کی قربانیوں کے مطالبات کے سلسلہ میں نئے اور مبارک دور کی پہلی تحریک خاندان مسیح
موعودؑ سے متعلق تھی اور وہ یہ کہ ابنائے فارس اپنی تمام زندگی خداتعالیٰ کے لئے وقف کر دیں۔ چنانچہ حضور نے ۱۰۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
>دیکھو ہمارے اوپر اللہ تعالیٰ کے اس قدر احسانات ہیں کہ اگر سجدوں میں ہمارے ناک گھس جائیں` ہمارے ہاتھوں کی ہڈیاں گھس جائیں تب بھی ہم اس کے احسانات کا شکر ادا نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری موعود کی نسل میں ہمیں پیدا کیا ہے اور اس فخر کے لئے اس نے اپنے فضل سے ہمیں چن لیا ہے پس ہم پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے۔ دنیا کے لوگوں کے لئے دنیا کے اور بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں مگر ہماری زندگی تو کلیت¶ہ دین کی خدمت اور اسلام کے احیاء کے لئے وقف ہونی چاہئے<۔۱۰۳
اس تحریک وقف پر سب سے پہلے حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے لبیک کہا۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے انہی دنوں فرمایا۔
>سب سے پہلے ہمارے خاندان میں سے عزیزم مرزا ناصر احمد نے اپنے آپ کو وقف کیا تھا<۔۱۰۴
تحریک وقف جائیداد
۲۔ دوسری تحریک۔ حضرت سیدنا المصلح الموعود نے اسی تاریخ کو یہ تحریک فرمائی کہ >ہم میں سے کچھ لوگ جن کو خداتعالیٰ توفیق دے اپنی جائیدادوں کو اس صورت میں دین کے لئے وقف کردیں کہ جب سلسلہ کی طرف سے ان سے مطالبہ کیا جائے گا۔ انہیں وہ جائیداد اسلام کی اشاعت کے لئے پیش کرنے میں قطعاً کوئی عذر نہیں ہوگا<۔
اس تحریک کے اعلان سے قبل پہلے خود حضور نے پھر چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی جائیدادیں اسلام و احمدیت کے لئے پیش کر دی تھیں۔ ازاں بعد جب حضور نے اپنی زبان مبارک سے پہلی بار خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی تو قادیان کے دوسرے دوستوں نے بھی چند گھنٹوں کے اندر اندر قریباً چالیس لاکھ روپے کی جائیدادیں وقف کردیں۔۱۰۵ جس پر حضرت نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا۔
>میں نے جائیداد وقف کرنے کی تحریک کی تھی۔ قادیان کے دوستوں نے اس کے جواب میں شاندار نمونہ دکھایا اور اس تحریک کا استقبال کیا ہے۔ بہت سے دوستوں نے اپنی جائیدادیں وقف کر دی ہیں<۔۱۰۶
قادیان کے بعد بیرونی مخلص جماعتوں نے بھی اس قربانی میں گوئے سبقت لے جانے کی مخلصانہ جدوجہد کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وقف ہونے والی جائیدادوں کی مالیت چند دنوں کے اندر اندر کروڑ تک جاپہنچی۔۱۰۷ ان دنوں جوش کا یہ عالم تھا کہ جو احمدی ذاتی جائیدادیں نہ رکھتے تھے وہ اپنی ماہوار یا سال بھر کی آمدنیاںوقف کرکے دیوانہ وار اس مالی جہاد میں شامل ہوگئے۔
تحریک وقف زندگی
۳۔ حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے ۲۴۔ امان/ مارچ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو تیسری اہم تحریک یہ فرمائی کہ ہر قابلیت کے نوجوان خدمت دین کے لئے زندگیاں وقف کریں۔ چنانچہ فرمایا۔
>جسمانی کام ایک ایک آدمی سے بھی چل سکتے ہیں کیونکہ جسم کا فتح کرنا آسان ہے مگر روحانی کاموں کے لئے بہت آدمیوں کی ضرورت ہوا کرتی ہے کیونکہ دلوں کا فتح کرنا بہت مشکل کام ہے۔ اس لئے ضرورت ہے کہ ہمارے پاس اتنے معلم ہوں کہ ہم انہیں تمام جماعت میں پھیلا سکیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ضروری ہے کہ ہماری جماعت کا ہر زمیندار` تاجر` پیشہ ور` وکیل` بیرسٹر` ڈاکٹر` انجینئر ایک خاص حد تک قرآن` حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا علم رکھتا ہو مگر یہ نہیں ہوسکتا جب تک ہمارے پاس علماء کی کثرت نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسلام کے نزدیک ہر شخص اگر خدمت دین کرے تو وہ معزز اور سردار ہے مگر ان قوموں کے لئے جو سیاسی طور پر معزز سمجھی جاتی ہیں` بہت شرم کی بات ہوگی اگر وہ قربانیوں میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے گر جائیں اور سیاسی طور پر ادنیٰ سمجھی جانے والی قومیں آگے آجائیں۔ پس میں تحریک کرتا ہوں کہ سیاسی طور پر معزز سمجھی جانے والی اقوام کے لوگ اپنے کو اور اپنی اولادوں کو دین کے لئے وقف کریں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کام کی وسعت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر سال ایک سو نہیں بلکہ دو سو مبلغ رکھے جائیں۔
پس میں ایک تحریک تو یہ کرتا ہوں کہ دوست مدرسہ احمدیہ میں اپنے بچوں کو بھیجیں تا انہیں خدمت دین کے لئے تیار کیا جاسکے اور دوسری تحریک انجمن کو یہ کرتا ہوں کہ پڑھائی کی سکیم ایسی ہو کہ تھوڑے سے تھوڑے عرصہ میں زیادہ سے زیادہ دینی تعلیم حاصل ہوسکے اور اس رستہ میں جو چیز بھی حائل ہو اسے نکال دیا جائے۔ مولوی فاضل بنانا ضروری نہیں۔ جس نے ڈگری حاصل کرنی ہو وہ باہر چلا جائے۔ اس دوغلا پن کو دور کرنا ضروری ہے۔ دو کشتیوں میں پائوں رکھنے والا کبھی ساحل پر نہیں پہنچا کرتا۔ پس تعلیم کا انتظام ایسے رنگ میں کیا جائے کہ جلد سے جلد مکمل علماء ہمیں مل سکیں۔ فقہ` تفسیر` حدیث` تصوف اور کلام وغیرہ علوم میں ایسی دسترس حاصل کرسکیں کہ چوٹی کے علماء میں ان کا شمار ہو بلکہ دنیا میں صرف وہی علماء سمجھے جائیں۔ اور اسلام کے ہر فرقہ اور ہر ملک کے لوگ اختلاف عقائد کے باوجود یہ تسلیم کریں کہ اگر ہم نے ان علوم کو سیکھنا ہے تو احمدی علماء سے ہی سیکھنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے نوجوان بھی اپنی زندگیاں وقف کریں۔ جنہوں نے سائنس میں میٹرک پاس کیا ہو یا اس سال پاس ہونے کی امید ہو۔ اسی طرح گریجوایٹ وغیرہ۔ تا جو ڈاکٹری کے لئے مناسب ہوں انہیں ڈاکٹری تعلیم دلوا کر ادنیٰ اقوام میں جن تک ابھی اسلام کا نور نہیں پہنچا` تبلیغ کے لئے بھیجا جاسکے۔ اور جو دوسرے کاموں کے لئے مناسب ہوں انہیں دوسرے کاموں کے لئے تعلیم دلائی جائے۔ ہندو ان لوگوں کو ابھی تک ذلیل سمجھتے ہیں۔ ان سے چھوت چھات کرتے ہیں۔ ان غریبوں کو غلام قرار دے رکھا ہے۔ اس لئے جب ہمدردی سے ان کی خدمت کی جائے اور احسن رنگ میں اسلامی تعلیم ان کے سامنے پیش کی جائے تو عیسائیوں کی نسبت کئی گناہ زیادہ کامیابی ہوسکتی ہے۔ پس یہ راستہ بھی بند نہیں دینوی تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان بھی اپنے آپ کو وقف کرسکتے ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھایا جاسکتا ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ تعلیم اور کام کے متعلق ان کا کوئی دخل نہ ہوگا۔ یہ کام ہمارا ہوگا کہ ہم فیصلہ کریں کہ کس سے کیا کام لیا جائے گا؟ بعض لوگ حماقت سے سمجھتے ہیں کہ جو تقریر اور تحریر کرے وہی مبلغ ہے۔ حالانکہ اسلام تو ایک محیط کل مذہب ہے۔ اس کے احکام کی تکمیل کے لئے ہمیں ہر قسم کے آدمیوں کی ضرورت ہے۔ وہی مبلغ نہیں جو تبلیغ کے لئے باہر جاتا ہے۔ جو سلسلہ کی جائیدادوں کا انتظام تندہی اور اخلاص سے کرتا ہے اور باہر جانے والے مبلغوں کے لئے اور سلسلہ کے لٹریچر کے لئے روپیہ زیادہ سے زیادہ مقدار میں کماتا ہے وہ اس سے کم نہیں اور خداتعالیٰ کے نزدیک مبلغوں میں شامل ہے۔ جو سلسلہ کی عمارتوں کی اخلاص سے نگرانی کرتا ہے وہ بھی مبلغ ہے جو سلسلہ کے لئے تجارت کرتا ہے وہ بھی مبلغ ہے۔ جو سلسلہ کا کارخانہ چلاتا ہے وہ بھی مبلغ ہے۔ جو زندگی وقف کرتا ہے اور اسے سلسلہ کے خزانہ کا پہرہ دار مقرر کیا جاتا ہے وہ بھی مبلغ ہے۔ کسی کام کی نوعیت کا خیال دل سے نکال دو اور اپنے آپ کو سلسلہ کے ہاتھ میں دے دو۔ پھر جہاں تم کو مقرر کیا جائے گا وہی مقام تمہاری نجات اور برکت کا مقام ہوگا<۔۱۰۸
اس عظیم الشان تحریک پر بھی مخلصین جماعت نے شاندار جوش و خروش کا مظاہرہ کیا اور ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر قادیان اور بیرونی مقامات کے ۳۳۵ مخلصین نے )جن میں ہر طبقہ` ہر عمر اور ہر قابلیت کے
‏tav.8.30
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
دعویٰ مصلح موعود سے لیکر مجلس عرفان کے قیام تک
افراد شامل تھے( اپنے آقا کے حضور وقف زندگی کی درخواستیں پیش کردیں۔۱۰۹ علاوہ ازیں حضور کے ارشاد مبارک کی تعمیل میں مدرسہ احمدیہ کے نصاب میں بھی مناسب تبدیلی کردی گئی۔
تعلیم الاسلام کالج کے لئے ڈیڑھ لاکھ چندہ کی تحریک
‏]txet [tag۴۔ دعویٰ مصلح موعود کے بعد چوتھی تحریک تعلیم الاسلام کالج جیسے اہم ادارہ کے قیام و احیاء کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیہ چندہ کی تھی جو حضور نے ۲۴۔ امان/ مارچ کو جماعت کے سامنے رکھی۔۱۱۰ کالج فنڈ میں سب سے پہلے نمبر پر خدا کے موعود خلیفہ سیدنا المصلح الموعودؓ نے حصہ لیا اور گیارہ ہزار روپیہ کی رقم کالج فنڈ میں مرحمت فرمائی جس میں سے پانچ ہزار روپیہ اپنی طرف سے اور ایک ایک ہزار حضرت سیدہ امتہ الحی صاحبہؓ` حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہؓ` حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہؓ` حضرت سیدہ ام وسیمؓ اور حضرت سیدہ ام متینؓ کی طرف سے تھا۔ علاوہ ازیں حضرت سیدہ ام وسیم صاحبہ نے بیس روپئے اور حضرت سیدہ ام متین صاحبہ نے اپنی طرف سے از خود پچاس روپے چندہ بھی دیا تھا۔ علاوہ ازیں حضور نے اپنی دو صاحبزادیوں )سیدہ امتہ الحکیم صاحبہ اور سیدہ امتہ الباسط صاحبہ( کی طرف سے بھی چالیس روپے عطا فرمائے۔۱۱۱
حضرت مصلح موعودؓ اور حضور کے اہل بیت کے علاوہ خاندان مسیح موعودؑ اور جماعت کے دوسرے بہت سے مخلص اور مخیر دوستوں نے بھی نہایت فیاضی سے چندہ دیا۔۱۱۲`۱۱۳
جماعت کو ماہرین علوم پیدا کرنے کی تحریک
حضرت میر محمد اسحٰق صاحبؓ کی المناک وفات کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے سیدنا المصلح الموعودؓ کی توجہ اس طرف مبذول فرمائی کہ جماعت میں جلد سے جلد علماء اور علوم اسلامیہ کے ماہرین پیدا کرنے ضروری ہیں تا پہلے بزرگوں کے قائم مقام ہوسکیں اور جماعت کے لئے من حیث الجماعت اپنے علمی مقام سے گرنے کا امکان باقی نہ رہے۔ چنانچہ حضور نے مجلس مشاورت ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے دوران فرمایا۔
>خدا تعالیٰ کی مشیت پوری ہوئی اور میر صاحبؓ وفات پاگئے۔ ان کے انتقال سے جماعت کو اس لحاظ سے شدید صدمہ پہنچا ہے کہ وہ سلسلہ کے لئے ایک نہایت مفید وجود تھے۔ مگر یاد رکھو مومن بہادر ہوتا ہے اور بہادر انسان کا یہ کام نہیں ہوتا کہ جب کوئی ابتلاء آئے تو وہ رونے لگ جائے یا اس پر افسوس کرنے بیٹھ جائے۔ بہادر آدمی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ فوراً اپنی غلطی کو درست کرنا شروع کر دیتا ہے۔ اور نقصان کو پورا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ وہ شخص جو رونے لگ جاتا ہے مگر اپنی غلطی کی اصلاح نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا۔ کامیاب ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو ابتلاء کے بعد اپنے آپ کو ایسے رنگ میں تیار کرنا شروع کر دیتا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط اور باہمت ہو جاتا ہے۔ ہمارے لئے جو ابتلاء آئے ہیں یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑا تازیانہ ہیں کہ تم کیوں ایسی حالت میں بیٹھے ہوئے ہو کہ جب کوئی شخص چلا جاتا ہے تو تم کہتے ہو۔ اب کیا ہوگا؟ تم کیوں اپنے آپ کو اس حالت میں تبدیل نہیں کرلیتے کہ جب کوئی شخص مشیت ایزدی کے ماتحت فوت ہو جائے تو تمہیں ذرا بھی یہ فکر محسوس نہ ہو کہ اب سلسلہ کا کام کس طرح چلے گا بلکہ تم میں سینکڑوں لوگ اس جیسا کام کرنے والے موجود ہوں۔ ایک غریب شخص جس کے پاس ایک ہی کوٹ ہو۔ اگر اس کا کوٹ ضائع ہو جائے تو اسے سخت صدمہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر ایک امیر شخص جس کے پاس پچاس کوٹ ہوں۔ اس کا اگر ایک کوٹ ضائع بھی ہو جائے تو اسے خاص صدمہ نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ جانتا ہے میرے پاس انچاس کوٹ اور موجود ہیں۔ اسی طرح ہماری جماعت اگر روحانی طور پر نہایت مالدار بن جائے تو اسے کسی شخص کی موت پر کوئی گھبراہٹ لاحق نہیں ہوسکتی۔ تم اپنے آپ کو روحانی لحاظ سے مالدار بنانے کی کوشش کرو۔ تم میں سینکڑوں فقیہہ ہونے چاہئیں۔ تم میں سینکڑوں محدث ہونے چاہئیں۔ تم میں سینکڑوں مفسر ہونے چاہئیں۔ تم میں سینکڑوں علم کلام کے ماہر ہونے چاہئیں۔ تم میں سینکڑوں علم اخلاق کے ماہر ہونے چاہئیں۔ تم میں سینکڑوں علم تصوف کے ماہر ہونے چاہئیں۔ تم میں سینکڑوں منطق اور فلسفہ اور فقہ اور لغت کے ماہر ہونے چاہئیں تم میں سینکڑوں دنیا کے ہر علم کے ماہر ہونے چاہئیں۔ تاکہ جب ان سینکڑوں میں سے کوئی شخص فوت ہوجائے تو تمہارے پاس ہر علم اور ہر فن کے ۴۹۹ عالم موجود ہوں اور تمہاری توجہ اس طرف پھرنے ہی نہ پائے کہ اب کیا ہوگا۔ جو چیز ہر جگہ اور ہر زمانہ میں مل سکتی ہو اس کے کسی حصہ کے ضائع ہونے پر انسان کو صدمہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ایسی سینکڑوں چیزیں میرے پاس موجود ہیں اسی طرح اگر ہم میں سے ہر شخص علوم و فنون کا ماہر ہو تو کسی کو خیال بھی نہیں آسکتا کہ فلاں عالم تو مر گیا اب کیا ہوگا۔ یہ خیال اسی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ ہم اپنے وجودوں کو نادر بننے دیتے ہیں اور ان جیسے سینکڑوں نہیں ہزاروں وجود اور پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ اگر ان کے نادر ہونے کا احساس جاتا رہے جس کی سوائے اس کے اور کوئی صورت نہیں ہوسکتی کہ ان کے قائم مقام ہزاروں کی تعداد میں ہمارے اندر موجود ہوں تو کبھی بھی جماعت کو یہ خیال پیدا نہ ہو کہ فلاں شخص تو فوت ہوگیا۔ اب کیا ہوگا؟
دیکھو۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ فاستبقوا الخیرات۔ تم نیکی کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ اگر ہم قرآن کریم کے اس حکم کے مطابق یہ اشتیاق رکھتے کہ ہم دوسروں سے آگے بڑھ کر رہیں۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اشتیاق کی روح کو اپنے اندر قائم رکھتا تو آج ہم میں سے ہر شخص بڑے سے بڑا محدث ہوتا۔ بڑے سے بڑا مفسر قرآن ہوتا۔ بڑے سے بڑا عالم دین ہوتا اور کسی کے دل میں یہ احساس تک پیدا نہ ہوتا کہ اب جماعت کا کیا بنے گا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے لئے یہ خطرہ کی بات نہیں ہے کہ حضرت خلیفہ اولؓ بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہوگئے یا مولوی عبدالکریم صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہوگئے۔ یا مولوی برھان الدین صاحب بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہوگئے۔ یا حافظ روشن علی صاحبؓ بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہوگئے یا قاضی امیر حسین صاحبؓ بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہوگئے یا میر محمد اسحاق صاحبؓ بہت بڑے عالم تھے جو فوت ہوگئے۔ بلکہ ہمارے لئے خطرہ کی بات یہ ہے کہ جماعت کسی وقت بحیثیت جماعت مر جائے اور ایک عالم کی جگہ دوسرا عالم ہمیں اپنی جماعت میں دکھائی نہ دے<۱۱۴
اس پانچویں تحریک کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور سیدنا المصلح الموعودؓ کی خصوصی توجہ سے نئے اور نوجوان علماء کی ایک کثیر تعداد پیدا ہوگئی۔ جس کے نتیجہ میں سلسلہ میں پیدا شدہ خلاء کو پر کرنے میں بھاری مدد ملی۔
حفاظ پیدا کرنے کی تحریک
۶۔ ۲۴۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے چھٹی تحریک جماعت میں حفاظ پیدا کرنے کی فرمائی۔۱۱۵ جس کا اثر یہ ہوا کہ جماعت کے اندر اس مقدس فریضہ کی تکمیل کے لئے پہلے سے زیادہ توجہ پیدا ہو گئی۔
رضاکارانہ تبلیغ کرنے کی ولولہ انگیز تحریک
۷۔ سیدنا المصلح الموعودؓ نے یکم ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو جماعت کے سامنے ساتویں اہم تحریک یہ فرمائی کہ دنیا میں تبلیغ اسلام کے لئے ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے۔ یہ ضرورت صرف اس طرح پوری ہوسکتی ہے کہ احمدی بدھ بھکشوئوں اور حضرت مسیحؑ کے حواریوں کی طرح قریہ قریہ` بستی بستی میں نکل کھڑے ہوں۔ چنانچہ فرمایا۔
>دنیا میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں ہزاروں مبلغوں کی ضرورت ہے مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مبلغ کہاں سے آئیں اور ان کے اخراجات کون برداشت کرے۔ میں نے بہت سوچا ہے۔ مگر بڑے غور و فکر کے بعد سوائے اس کے اور کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا کہ جب تک وہی طریق اختیار نہیں کیا جائے گا جو پہلے زمانوں میں اختیار کیا گیا تھا اس وقت تک ہم کامیاب نہیں ہوسکتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیحؑ ناصری نے اپنے حواریوں سے کہا کہ تم دنیا میں نکل جائو اور تبلیغ کرو۔ جب رات کا وقت آئے تو جس بستی میں تمہیں ٹھہرنا پڑے اس بستی کے رہنے والوں سے کھانا کھائو اور پھر آگے چل دو۔
رسول کریم~صل۱~ نے بھی بڑی حکمت سے یہ بات امت کو سکھائی ہے۔ آپ نے فرمایا۔ ہر بستی پر باہر سے آنے والے کی مہمان نوازی تین دن فرض ہے۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ اگر بستی والے کھانا نہ کھلائیں تو کیا کیا جائے؟ آپ نے فرمایا۔ تم زبردستی ان سے لے لو۔ گویا ہمارا حق ہے کہ ہم تین دن ٹھہریں اور بستی والوں کا فرض ہے کہ وہ تین دن کھانا کھلائیں۔ میں سمجھتا ہوں اس میں رسول کریم~صل۱~ نے تبلیغ کے طریق کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے۔ اگر تم کسی بستی سے تین دن کھانا کھاتے ہو تو یہ بھیک نہیں۔ ہاں اگر تین دن سے زائد ٹھہر کر تم ان سے کھانا مانگتے ہو تو یہ بھیک ہوگی۔
اگر ہماری جماعت کے دوست بھی اسی طرح کریں کہ وہ گھروں سے تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوں۔ ایک ایک گائوں اور ایک ایک بستی اور ایک ایک شہر میں تین تین دن ٹھہرتے جائیں اور تبلیغ کرتے جائیں۔ اگر کسی گائوں والے لڑیں تو جیسے مسیح ناصری~ع۱~نے کہا تھا وہ اپنے پائوں سے خاک جھاڑ کر آگے نکل جائیں تو میں سمجھتا ہں۔ تبلیغ کا سوال ایک دن میں حل ہو جائے<۔۱۱۶
تسبیح و تحمید اور درود شریف پڑھنے کی اہم تحریک
۸۔ مالی تحریکوں کے ساتھ ساتھ جماعت میں روحانی انقلاب برپا کرنے کے لئے حضور نے بعض اخلاقی اور روحانی رنگ کی تحریکیں بھی فرمائیں مثلاً ۱۲۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو یہ آٹھویں تحریک فرمائی کہ احمدی نمازیں سنوار کر اور باجماعت پڑھیں اور روزانہ کم از کم بارہ دفعہ تسبیح و تحمید اور درود شریف پڑھنے کا التزام کریں۔ چنانچہ فرمایا۔
>رسول کریم~صل۱~ فرماتے ہیں۔ کلمتان حبیبتان الی الرحمن خفیفتان علی اللسان ثقیلتان فی المیزان سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم۔ فرماتے ہیں۔ دو کلمے ایسے ہیں کہ رحمن کو بہت پیارے ہیں۔ خفیفتان علی اللسان۔ زبان پر بڑے ہلکے ہیں۔ عالم` جاہل` عورت` مرد` بوڑھا` بچہ ہر شخص ان کلمات کو آسانی سے ادا کرسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں رسول کریم~صل۱~ نے تسبیح و تحمید اور تکبیر کی طرف توجہ دلائی ہے۔ وہاں تسبیحوں میں سے یہ تسبیح آپ نے بڑی اہم قرار دی ہے۔ پس میں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ ہر احمدی کم سے کم بارہ دفعہ دن میں یہ تسبیح روزانہ پڑھ لیا کرے۔ وہ چاہے تو سوتے وقت پڑھ لے۔ چاہے تو ظہر کے وقت پڑھ لے۔چاہے تو عصر کے وقت پڑھ لے۔ چاہے تو مغرب کے وقت پڑھ لے۔ چاہے تو عشاء کے وقت پڑھ لے۔ چاہے تو فجر کے وقت پڑھ لے۔ بہرحال ہر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ روزانہ بارہ دفعہ سبحان اللہ و بحمدہ سبحان اللہ العظیم پڑھ لیا کرے گا۔ اسی طرح دوسری چیز جو اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے وہ رسول کریم~صل۱~ کی برکات اور آپ کے فیوض کا دنیا میں وسیع ہونا ہے اور ان برکات اور فیوض کو پھیلانے کا بڑا ذریعہ درود ہے۔ بے شک ہر نماز کے وقت تشہد کے وقت درود پڑھا جاتا ہے مگر وہ جبری درود ہے اور جبری درود اتنا فائدہ نہیں دیتا جتنا اپنی مرضی سے پڑھا ہوا درود انسان کو فائدہ دیتا ہے۔ وہ درود بے شک نفس کی ابتدائی صفائی کے لئے ضروری ہے لیکن تقرب الی اللہ کے حصول کے لئے اس کے علاوہ بھی درود پڑھنا چاہئے۔ پس میں دوسری تحریک یہ کرتا ہوں کہ ہر شخص کم از کم بارہ دفعہ روزانہ درود پڑھنا اپنے اوپر فرض قرار دے لے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس جو لوگ محبت اور اخلاص کے ساتھ درود پڑھیں گے وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اللہ تعالیٰ کی برکات سے حصہ پائیں گے۔ ان کے گھر رحمتوں سے بھر دیئے جائیں گے۔ ان کے دل اللہ تعالیٰ کے انوار کا جلوہ گاہ ہو جائیں گے اور نہ صرف ان روحانی نعماء سے وہ لذت اندوز ہوں گے بلکہ محمد~صل۱~ کی محبت کی وجہ سے چونکہ ان کی خواہش ہوگی کہ اسلام پھیلے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نام اکناف عالم تک پہنچے۔ اس لئے وہ اپنے اس ایمانی جوش اور دردمندانہ دعائوں کے نتیجہ میں اسلام کے غلبہ کا دن بھی دیکھ لیں گے اور سچی بات تو یہ ہے کہ دعائیں ہی ہیں جن سے یہ عظیم الشان کام ہوسکتا ہے۔ دینوی کوششیں تو محض سہارے اور ہمارے اخلاص کے امتحان کا ذریعہ ہیں ورنہ قلوب کا تغیر محض خدا کے فضل سے ہوگا اور اس فضل کے نازل ہونے میں ہماری وہ دعائیں ممد ہوں گی جو ہم عاجزانہ طور پر اس سے کرتے رہیں گے<۔۱۱۷
اصلاح نسواں کے لئے الہامی تحریک
۹۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ کو الہاماً یہ بھی بتایا گیا۔
>اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہو جائے گی<۔۱۱۸
اس الہام پر حضور نے جماعت کو اور خصوصاً لجنات کو توجہ دلائی کہ وہ اصلاح کریں۔ یہ اس مبارک دور کی نویں اہم تحریک تھی۔
بھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک
۱۰۔ ۳۰۔ ہجرت/ مئی ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ نے جماعت احمدیہ کو عموماً اور اہل قادیان کو خصوصاً یہ اہم دسویں تحریک فرمائی۔
>ہر شخص کو اپنے اپنے محلہ میں اپنے ہمسائیوں کے متعلق اس امر کی نگرانی رکھنی چاہئے کہ کوئی شخص بھوکا تو نہیں اور اگر کسی ہمسایہ کے متعلق اسے معلوم ہو کہ وہ بھوکا ہے تو اس وقت تک اسے روٹی نہیں کھانی چاہئے جب تک وہ اس بھوکے کو کھانا نہ کھلا لے<۔۱۱۹
تحریک حلف الفضول
۱۱۔ >حلف۱۲۰ الفضول< ایک معاہدہ تھا جو حضرت رسول کریم~صل۱~ کے زمانہ میں بعثت سے قبل ہوا جس میں زیادہ جوش کے ساتھ حصہ لینے والے تین فضل]4 [stf۱۲۱ نام کے آدمی تھے اور اسی لئے اس کو حلف الفضول کہتے ہیں۔ یہ معاہدہ عبداللہ بن جدعان کے مکان میں ہوا۔ اس کے اولین اور پرجوش داعی آنحضرت~صل۱~ کے چچا اور خاندان کے سربراہ زبیر بن مطلب تھے اور طے پایا کہ ہم مظلوموں کو ان کے حقوق دلوانے میں مدد کیا کریں گے اور اگر کوئی ظلم کرے گا تو اس کو روکیں گے اور اس بات میں ایک دوسرے کی تائید کریں گے۔ آنحضرت~صل۱~ نے حمایت مظلوم کی اس تحریک میں بنفس نفیس شرکت فرمائی۔ حضورﷺ~ عہد نبوت میں بھی فرمایا کرتے تھے کہ میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدہ میں شریک ہوا تھا کہ اگر آج اسلام کے زمانہ میں بھی مجھے کوئی اس کی طرف بلائے تو میں اس پر لبیک کہوں۔۱۲۲ سیدنا المصلح الموعودؓ کے قلب مبارک پر القاء کیا گیا کہ اگر اسی قسم کا ایک معاہدہ آپ کی اولاد بھی کرے اور پھر اس کو پورا کرنے کی کوشش کرے تو خدا تعالیٰ ان کو ضائع نہیں کرے گا بلکہ ان پر اپنا فضل نازل فرمائے گا۔۱۲۳ اس الہام ربانی کی بناء پر حضور نے ۴۔ ماہ وفا/ جولائی کے خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ جماعت احمدیہ کے بعض افراد معاملات کی صفائی اور مظلوم کی امداد اور دیانت و امانت اور عدل و انصاف کے قیام کے لئے باقاعدہ عہد کریں۔
حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے >حلف الفضول< کی مبارک تحریک میں شمولیت کے لئے یہ شرائط تجویز فرمائیں کہ۔
>جو لوگ اس میں شامل ہونا چاہیں ان کے لئے لازمی ہے کہ سات دن تک متواتر اور بلاناغہ استخارہ کریں۔ عشاء کی نماز میں یا نماز کے بعد دو نفل الگ پڑھ کر دعا کریں کہ اے خدا اگر میں اس کو نباہ سکوں گا تو مجھے اس میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرما۔ ایک اور شرط یہ ہوگی کہ ایسا شخص خواہ امام الصلٰوۃ کے ساتھ اسے ذاتی طور پر کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو مرکزی حکم کے بغیر اس کے پیچھے نماز پڑھنا ترک نہیں کرے گا اور اپنے کسی بھائی سے خواہ اسے شدید تکلیف بھی کیوں نہ پہنچی ہو اس سے بات چیت کرنا ترک نہ کرے گا اور اگر وہ دعوت کرے تو اسے رد نہ کرے گا۔ ایک اور شرط یہ ہے کہ سلسلہ کی طرف سے اسے جو سزا دی جائے گی اسے بخوشی برداشت کرے گا اور ایک یہ کہ اس کام میں نفسانیت اور ذاتی نفع نقصان کے خیالات کو نظر انداز کر دے گا<۔۱۲۴
اس دعوت پر وسط ۱۹۴۵ء/ ۱۳۲۴ہش تک جو دوست شریک معاہدہ ہوئے ان کی تعداد ۱۷۷ تھی۔۱۲۵
نوجوانان احمدیت کو بالالتزام نماز تہجد پڑھنے کی تحریک
۱۲۔ سیدنا المصلح الموعودؓ نے ۲۳۔ احسان/ جون ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ ہش کے خطبہ جمعہ میں بارھویں تحریک یہ فرمائی کہ۔
>خدام کا فرض ہے کہ کوشش کریں سو فیصدی نوجوان نماز تہجد کے عادی ہوں یہ ان کا اصل کام ہوگا جس سے سمجھا جائے گا کہ دینی روح ہمارے نوجوانوں میں پیدا ہوگئی ہے۔ قرآن کریم نے تہجد کے بارے میں اشد وطا فرمایا ہے یعنی یہ نفس کو مارنے کا بڑا کارگر حربہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باقاعدہ تہجد پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ سو فیصدی تہجد گزار ہوں الا ماشاء اللہ سوائے ایسی کسی صورت کے کہ وہ مجبوری کی وجہ سے ادا نہ کرسکیں اور خدا تعالیٰ کے حضور ایسے معذور ہوں کہ اگر فرض نماز بھی جماعت کے ساتھ ادا نہ کرسکیں تو قابل معافی ہوں گے<۔۱۲۶
ہندوستان میں سات مراکز بنانے کی تحریک
۱۳۔ حضرت سیدنا المصلح الموعود~رضی۱~ نے ملک میں تبلیغ اسلام کو وسیع پیمانے پر شروع کرنے کے لئے ۲۱۔ وفا )جولائی( کو تحریک فرمائی کہ ہندوستان کے سات مقامات یعنی پشاور` کراچی` مدراس` بمبئی` کلکتہ` دہلی اور لاہور میں تبلیغی مراکز قائم کئے جائیں۔۱۲۷ اس تحریک کے مطابق چند ماہ کے اندر اندر بمبئی` کلکتہ اور کراچی میں باقاعدہ مشن کھول دیئے گئے۔
حضور نے ان مقامات پر قیام مساجد کی تحریک بھی فرمائی۔ کراچی میں عرصہ ہوا کہ حضور پہلے ہی چار کنال زمین خرید چکے تھے۔ اس تحریک کے مطابق پہلے ہی سال دہلی کی جماعت نے تیس ہزار کے وعدے پیش کئے۔۱۲۸
بیویوں میں عدل و انصاف کرنے کی تحریک
۱۴۔ حضرت امیرالمومنینؓ کو رئویا میں دکھایا گیا کہ کسی احمدی کی دو بیویاں ہیں مگر وہ ان میں سے ایک کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا۔ اس پر آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے >آئو اس ظلم کو مٹا دیں<
حضور نے ۸۔ ظہور/ اگست کو مجلس علم و عرفان کے دوران میں یہ رویاء سنائی اور پھر تحریک فرمائی کہ >ہماری جماعت کے دوستوں کو اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ جہاں انہیں کوئی ایسا واقع نظر آئے اور دیکھیں کہ ظلم ہورہا ہے تو اس آدمی کو مجبور کریں کہ وہ انصاف کرے یا جائز طور پر ایک کو طلاق دے دے اور یا پھر اسے جماعت کا عضو معطل سمجھا جائے۔ جو شخص احکام شریعت کی اس طرح اعلانیہ خلاف ورزی کرتا ہے وہ قیامت کے دن آدھا اٹھایا جائے گا۔ وہ جماعت کو کیا فائدہ دے سکتا ہے؟<۱۲۹
دنیا کی مشہور زبانوں میں تراجم قرآن اور دوسرا تبلیغی لٹریچر شائع کرنے کی تحریک
۱۵۔ جوں جوں دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کا وقت قریب آرہا تھا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کی توجہ دنیا بھر میں دینی جنگ کے
آغاز کی مختلف سکیموں پر بڑھتی جارہی تھی۔ اس سلسلہ میں حضور نے ۲۰۔ اخاء/ اکتوبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو دنیا کی سات مشہور زبانوں انگریزی` روسی` جرمن فرانسیسی` اطالوی` ڈچ` ہسپانوی اور پرتگیزی زبان میں قرآن مجید کے تراجم کی عظیم الشان تحریک کی۔۱۳۰ اور پھر اپنے عہد خلافت میں اس کی تکمیل کے لئے کامیاب جدوجہد فرمائی جیسا کہ >تاریخ احمدیت< جلد ہشتم )صفحہ ۱۸۱( میں ذکر کیا جاچکا ہے۔
اس اہم اور اس دور کی پندرھویں تحریک کو عملی جامہ پہنانے اور ضروری اخراجات مہیا کرنے کے لئے حضور نے شروع میں یہ اعلان فرمایا کہ >اطالوی زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا خرچ میں ادا کروں گا<۔
یہ انتخاب خدا تعالیٰ کے القاء کے تحت تھا۔ چنانچہ خود ہی فرمایا۔
>خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ چونکہ پہلے مسیح کا خلیفہ کہلانے والا اٹلی میں رہتا ہے۔ اس مناسبت سے قرآن مجید کا جو ترجمہ اطالوی زبان میں شائع ہو وہ مسیح محمدی کے خلیفہ کی طرف سے ہونا چاہئے<۔۱۳۱
اس اعلان کے ساتھ ہی حضور نے جرمن ترجمہ کا خرچ ہندوستان کی لجنہ اماء اللہ کے ذمہ اور ایک ترجمہ قرآن کی رقم جماعت احمدیہ قادیان کے ذمہ ڈالی اور باقی چار تراجم قرآن کے متعلق فیصلہ فرمایا کہ ان کے اخراجات چار شہروں کی جماعتیں یا افراد پیش کریں۔
تراجم قرآن مجید کے علاوہ غیر ملکی آٹھ۱۳۲ زبانوں میں حضور نے تبلیغی لٹریچر کی اشاعت کا پروگرام بھی رکھا اور وہ یہ کہ ۱۔ اسلامی اصول کی فلاسفی` ۲۔ مسیح ہندوستان میں` ۳۔ احمدیت یعنی حقیقی اسلام` ۴۔ رسول کریم~صل۱~ کی سوانح عمری` ۵۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سوانح عمری` ۶۔ رسول کریم~صل۱~ کے متعلق پیشگوئیاں` ۷۔ ترجمہ احادیث` ۸۔ پرانے اور نئے عہدنامہ کی روشنی میں توحید` ۹۔ نظام نو اور تین اور اہم مضامین پر مشتمل بارہ کتب کا سیٹ شائع کیا جائے۔
عربی ممالک کے لئے کتابوں کا الگ سیٹ تجویز ہونا چاہئے۔
۲۔ عربی سمیت دنیا کی مشہور نو زبانوں میں چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہار چھپوائے جائیں جو چار چار صفحے سے لے کر سولہ سولہ صفحہ تک کے ہوں تاکہ کثرت کے ساتھ ان کی اشاعت ہوسکے اور ہر آدمی کے ہاتھ میں پہنچائے جاسکیں۔۱۳۳
خطبہ کے بعد چودھری محمد ظفراللہ خاں صاحب اور آپ کے چند اور رفقاء نے ایک ترجمہ کا خرچ اپنے ذمہ لیا اب باقی صرف تین تراجم رہ گئے جو حضور نے پوری جماعت پر چھوڑ دیئے اور فرمایا۔
>جو فرد اکیلا ایک ترجمہ کی رقم اٹھانا چاہے وہ اکیلا اٹھالے۔ جو چند دوستوں کے ساتھ مل کر یہ بوجھ اٹھانا چاہتا ہو وہ ایسا کرلے۔ جو جماعت مل کر ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے وہ جماعت اس کا وعدہ کرلے۔ جو صوبہ ایک ترجمہ کی رقم دینا چاہے وہ صوبہ اس کا وعدہ کرلے<۔۱۳۴
اس تحریک کو اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز اور خارق عادت رنگ میں قبولیت بخشی اور تحریک کی اشاعت کے چھ دن کے اندر اندر تین کی بجائے پانچ تراجم کے وعدہ جات حضرت اقدس کے حضور پہنچ گئے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ ادھر بات منہ سے نکلتی ہے اور ادھر پوری ہو جاتی ہے۔ باوجود خطبہ کے دیر سے شائع ہونے کے ۶ دن کے اندر سات زبانوں کے تراجم کے اخراجات کے وعدے آگئے۔ خطبہ کے باہر پہنچنے کے چند گھنٹے کے اندر اندر اختر صاحب۱۳۵ نے دہلی سے بذریعہ تار اطلاع دی کہ ایک ترجمہ کے اخراجات وہ مع اپنے دوستوں کے دیں گے۔ ایک تار لاہور سے آیا۔ کلکتہ کی جماعت نے یہ اطلاع دی ہے کہ ایک زبان کے ترجمہ کی اشاعت کے اخراجات وہ دے گی۔ ایک تار قصور سے ملک عبدالرحمن صاحب کا آیا تو ۹ تراجم کے اخراجات کے وعدے آچکے ہیں۔ گویا جتنی زبانوں میں شائع کرنے کا ارادہ ہے ان سے دو کے زائد۔ زائد کے لئے چندہ تو نہیں لیا جائے گا مگر یہ خدا کا کتنا بڑا فضل اور انعام ہے کہ جماعت کے ایک تھوڑے سے حصہ نے نہایت قلیل عرصہ میں مطالبہ سے بڑھ کر وعدے پیش کر دیئے۔ خاص کر قادیان کی غریب جماعت نے اس تحریک میں بہت بڑا حصہ لیا<۔۱۳۶
خدا تعالیٰ نے سیدنا المصلح الموعودؓ کو فدائیوں` شیدائیوں اور سرفروشوں کی بے مثال جماعت بخشی تھی۔ جس نے اس موقعہ پر روح مسابقت اور جذبہ اخلاص کے اس نمونہ پر قانع و مطمئن ہونا گوارا نہیں کیا بلکہ نو تراجم کے وعدوں کے بعد مزید درخواستوں کا تانتا بندھ گیا اور یہ نیا مسئلہ پیدا ہوگیا کہ اب تراجم کی تقسیم کی صورت کیا ہو؟ چنانچہ سیدنا المصلح الموعودؓ نے ۳۔ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے خطبہ جمعہ میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
>میں نے پچھلے خطبہ سے پہلے خطبہ میں )۲۰۔ اکتوبر کو( قرآن مجید کے سات تراجم کے متعلق تحریک کی تھی۔ جہاں تک اس کی کامیابی کا سوال تھا مجھے اس میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ اس وقت تک خدا تعالیٰ کا میرے ساتھ ہمیشہ یہ معاملہ رہا ہے کہ وہ جب کبھی میرے منہ سے کوئی بات نکلواتا ہے تو اس کی کامیابی کے سامان بھی کر دیتا ہے۔ لیکن اس میں ایک نئی بات پیدا ہوگئی ہے کہ اس تحریک کے بعد جو درخواستیں آئی ہیں وہ ہمارے مطالبہ سے بہت زیادہ ہیں۔ ہمارا مطالبہ تھا سات تراجم کے اخراجات کا اور درخواستیں آئی ہیں بارہ تراجم کے اخراجات کے لئے۔ اور ابھی بیرونجات سے چٹھیاں آرہی ہیں کہ وہ اس چندہ میں حصہ لینا چاہتے ہیں۔ جہاں تک وسیع علاقوں کا تعلق ہے اور جہاں جماعتیں پھیلی ہوئی ہیں وہ علاقے چونکہ سب کے مشورہ کے بغیر کوئی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے اس لئے ان درخواستوں میں وہ شامل نہیں کیونکہ وہ جلدی مشورہ کرکے اتنے وقت کے اندر اطلاع نہیں دے سکتی تھیں۔ یہ درخواستیں صرف ان جماعتوں کی طرف سے ہیں جو اپنی ذمہ داری پر اس بوجھ کو اٹھا سکتی تھیں یا افراد کی طرف سے ہیں۔ مثلاً چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب اور ان کے بعض دوستوں کی طرف سے` میاں غلام محمد صاحب اختر اور ان کے دوستوں کی طرف سے` لاہور کی جماعت کی طرف سے` کلکتہ کی جماعت کی طرف سے اور میاں محمد صدیق اور محمد یوسف صاحبان تاجران کلکتہ کی طرف سے` ملک عبدالرحمن صاحب مل اونر قصور کی طرف سے اور سیٹھ عبداللہ بھائی سکندر آباد کی طرف سے۔ یہ سب درخواستیں ان جماعتوں کی ہیں جہاں یا افراد زیادہ ہیں اور وہ اس ذمہ داری کا بوجھ بغیر دوسری جماعتوں سے مشورہ کرنے کے خود اٹھا سکتی ہیں یا ان افراد کی طرف سے ہیں جو صاحب توفیق ہیں اور یہ بوجھ اٹھا سکتے ہیں۔ قادیان کی جماعت کے متعلق مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ ایک ترجمہ کی جگہ وہ دو کا خرچ اپنے ذمہ لے گی اور لجنہ کا بھی جس رنگ میں چندہ ہورہا ہے اس رنگ میں دو کا بھی سوال نہیں بلکہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا چندہ دو سے بھی بہت زیادہ ہوگا کیونکہ اس وقت تک لجنہ قادیان کی طرف سے چھ ہزار تین سو کے وعدے آچکے ہیں اور ابھی ہزار بارہ سو روپیہ کے وعدوں کی اور امید ہے )خطبہ صاف کرتے وقت آٹھ ہزار سے زائد کے وعدے ہوچکے ہیں( گو میں نے سارے ہندوستان کی لجنہ کے ذمہ جو ایک ترجمہ کا خرچ لگایا تھا۔ اس سے زیادہ کے وعدے قادیان سے ہی ہوچکے ہیں اور ابھی باہر کی ساری لجنائیں باقی ہیں۔ اسی طرح قادیان کی جماعت کے علاوہ صدر انجمن کے کارکنوں نے بھی ایک ترجمہ کا خرچ اپنے ذمہ لیا ہے۔ کارکنوں کے علاو دوسروں کے چندہ کا وعدہ ایک ترجمہ سے زیادہ کا ہوچکا ہے اور ابھی ہورہا ہے۔ اب ان جماعتوں یا افراد کی طرف سے جن کا حصہ نہیں لیا جاسکا` الحاح کی چٹھیاں آرہی ہیں اور وہ اصرار کے ساتھ لکھ رہی ہیں کہ ہمیں بھی اس چندہ میں حصہ لینے کا موقعہ دیجئے<۔۱۳۷
حضور کو مخلصین صاحب کی بے تابی دیکھ کر سات تراجم اور بارہ بارہ کتابوں کے مکمل سیٹ کی ازسر نو تقسیم کا اعلان کرنا پڑا۔ جس کے مطابق ایک ایک ترجمہ قرآن اور ایک ایک کتاب کی اشاعت کا خرچ طوعی اور اختیاری رنگ میں مندرجہ ذیل سات حلقوں پر تقسیم کر دیا گیا۔
)۱( لجنہ اماء اللہ ہندوستان )۲( قادیان )۳( جماعت ہائے لاہور` امرتسر` شیخوپورہ` گوجرانوالہ` فیروزپور )۴( جماعت ہائے دہلی` بہار` یوپی` لدھیانہ` ضلع انبالہ` ریاست پٹیالہ )۵( کلکتہ )۶( حیدرآباد دکن` میسور` بمبئی` مدراس اور اس کے ساتھ ملحقہ ریاستیں )۷( صوبہ سرحد و صوبہ سندھ۱۳۸
اس نئی تقسیم کے اعلان پر جماعت کے ان مخلصین کی طرف سے بھی جنہوں نے پورے ترجمہ کے اخراجات کی پیشکش کی تھی اور ان افراد اور جماعتوں کی طرف سے بھی جو اس چندہ میں شمولیت کا ارادہ رکھتی تھیں اور ان کو اس میں شامل ہونے سے محروم کر دیا گیا`۱۳۹ اپنے آقا کے حضور التجائوں اور درخواستوں کے پے در پے خطوط بھجے گئے۔ جن میں حددرجہ اضطراب اور انتہائی گھبراہٹ کا اظہار کیا گیا کہ ہمیں اس ثواب میں شامل ہونے کا موقعہ نہیں دیا اور یہ امر ان کے لئے انتہائی کرب اور دکھ کا موجب ہے۔۱۴۰
حضرت امیرالمومنینؓ کی خدمت میں جب اس نوعیت کے مسلسل اور پے در پے خطوط پہنچے تو حضورؓ نے )۱۰۔ ماہ نبوت/ نومبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو( مخلصین جماعت کی التجائوں پر اپنی تجویز فرمودہ پہلی تقسیم بھی کالعدم قرار دے دی اور اس کی بجائے نئی تقسیم کا اعلان فرما دیا جس سے پوری جماعت کے لئے ثواب میں شریک ہونے کا موقعہ فراہم ہوگیا۔4] [stf۱۴۱ حضور نے سالانہ جلسہ ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش پر اس تحریک کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
>جو حلقے میں نے مقرر کئے تھے انہوں نے بہت اچھا نمونہ دکھایا ہے<۔۱۴۲
اسی طرح لجنہ اماء اللہ کی مساعی کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا کہ۔
>ہماری جماعت کی عورتوں نے اپنی قدیم روایتوں کو قائم رکھا ہے اور اس وقت تک چونتیس ہزار روپے کے وعدے ہوچکے ہیں<۔۱۴۳
کمیونسٹ تحریک کامطالعہ کرنے اوراس کا ردسوچنے کی تحریک
۱۶۔ ۲۱۔ فتح/ دسمبر ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے ۲۱۔ ۱۹۲۰ء کی اپنی ایک رویاء کی بناء پر اس سال کی آخری اور سولھویں تحریک یہ فرمائی کہ جماعت کے علماء` فقہاء` اساتذہ` پروفیسر` واقفین زندگی` طلبہ مدرسہ احمدیہ اور جامعہ احمدیہ سب کمیونسٹ تحریک کا خوب اچھی طرح ناقدانہ نظر سے مطالعہ کریں کیونکہ مستقبل میں اسلام کے خلاف سب سے بڑی جنگ اشتراکیت ہی سے لڑے جانے والی ہے۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
>جماعت کے علماء اور واقفین اور مدرسہ اور جامعہ کے طلبہ بھی اچھی طرح کمیونسٹ تحریک کا مطالعہ کریں اور ان کے جوابات سوچ چھوڑیں اور اگر کسی امر کے متعلق تسلی نہ ہو تو میرے ساتھ بات کرلیں۔ اسی طرح کالجوں کے پروفیسروں اور سکولوں کے اساتذہ کو چاہئے کہ کمیونسٹ تحریک کے متعلق اپنا مطالعہ وسیع کریں اور اگر کوئی کمی رہ جائے تو مجھ سے مل کر ہدایات لے لیں اور اس رنگ میں اس تحریک کے متعلق جوابات سوچ رکھیں کہ ان کا پوری طرح سے رد کرسکیں۔ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ زیادہ مقابلہ ہمارا کمیونسٹوں سے ہی ہے۔ انہوں نے دہریت کو مذہب کے طور پر بنالیا ہے۔ خدا تعالیٰ سے یہاں تک ہنسی اور تمسخر کیا جاتا ہے اور ایسے ڈرامے کھیلے جاتے ہیں جن میں خدا تعالیٰ کو نعوذباللہ مجرم کی حیثیت سے پیش کیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے نعوذ باللہ دنیا میں سب فساد اور خرابی پیدا ہوئی اور پھر کمیونسٹ جج خدا تعالیٰ کو نعوذ باللہ پھانسی کی سزا دیتا ہے کہ میں اس پتلے کو پھانسی کی سزا دیتا ہوں کیونکہ اس کے وجود کے خیال کی وجہ سے دنیا میں تمام خرابی پیدا ہوئی ہے۔
پس یہ ایسی تحریک ہے جس نے دہریت کو ۔۔۔۔۔۔۔ مذہب کے طور پر پیش کیا ہے اور جو اندر ہی اندر فتنہ اور فساد پیدا کرنے والی اور امن کو برباد کرنے والی تحریک ہے اور اس کی تمام کامیابی عارضی اور سطحی ہے۔ موجودہ جنگ کے بعد اس تحریک کا کلی طور پر دنیا کو مقابلہ کرنا ہوگا اور یہی وہ آخری لڑائی ہوگی۔ جو ظاہری لحاظ سے سیاسی وجوہ کی بناء پر لڑی جائے گی۔ مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک وہ لڑائی مذہب کی تائید کے لئے ہوگی۔ پس کمیونسٹوں کا بعض دوسری حکومتوں کے ساتھ جو اتحاد ہے یہ ہمیشہ کے لئے نہیں چل سکتا۔ اس جنگ کے بعد جلد یا بدیر اس تحریک کے ساتھ گو بظاہر سیاسی وجوہ کی بناء پر لڑائی ہوگی مگر وہ لڑائی ایسی ہوگی کہ خدا تعالیٰ دوسروں کو آگے کرکے مذہب کے لئے راستہ کھول دے گا۔
غرض یہ جنگ تو بہرحال ہونی ہی ہے۔ مگر اس وقت تک کہ خدا تعالیٰ کوئی ایسی صورت پیدا کرے ہمیں ہوشیار ہوجانا چاہئے۔ جو لوگ مسائل سے اچھی طرح واقف نہیں ہوتے یا نئے اور کچے ہوتے ہیں اس قسم کے دھوکہ میں آجاتے ہیں۔ پس جماعت کے علماء فقہاء` اساتذہ اور پروفیسروں کو چاہئے کہ اس قسم کی تحریکات کی تفصیلات سے پوری طرح واقف ہوں تاکہ نوجوانوں کی صحیح راہنمائی کرسکیں<۔۱۴۴
خدا تعالیٰ کا پیغام جماعت احمدیہ کے نام >روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے<
اگرچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ تازہ انکشاف کے بعد جماعت کو عظیم الشان قربانیوں کے لئے تیار کرنے کے لئے نہایت
اہم تحریکات فرما رہے تھے اور جماعت ان پر دیوانہ وار لبیک بھی کہہ رہی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ کا منشاء مبارک یہ تھا کہ احمدی اپنا قدم اور زیادہ تیز اور اپنی قربانیوں کے معیار کو اور زیادہ بلند کردیں تا اسلام کی فتوحات کا زمانہ قریب سے قریب تر آجائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے الہاماً فرمایا۔
>روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے<
حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے ۱۴۔ شہادت/ اپریل ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے خطبہ جمعہ میں خدا تعالیٰ کا یہ پیغام سناتے ہوئے فرمایا۔>مجھ پر ایک الہام نازل ہوا جس نے میرے ہوش اڑا دیئے۔ وہ الہام یہ تھا جو خود ایک مصرعہ کی شکل میں ہے کہ ع
>روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے<
بڑے زور سے یہ الہام مجھ پر نازل ہوا اور بار بار اس کو دہرایا گیا۔ اس الہام کے اور معنی بھی ہو سکتے ہیں۔ مگر میں نے اس وقت جو الہام کے معنے سمجھے وہ یہ ہیں کہ وہ تغیرات عظیمہ جن کا پیشگوئیوں میں ذکر کیا گیا تھا اور وہ اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے ایام جن کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی تھی بالکل قریب آپہنچے ہی۔ روز جزا اب سر پر کھڑا ہے۔ قدرت کا زبردست ہاتھ اس دن کو اب قریب تر لارہا ہے مگر رہ بعید ہے۔ جماعت نے اس آنے والے دن کے لئے ابھی وہ تیاری نہیں کی جو اسے کرنی چاہئے تھی اور ابھی اس نے وہ مقام حاصل نہیں کیا جو اس عظیم الشان یوم جزا کے انعامات کا اسے مستحق بنانے والا ہو۔ اس کے لئے ابھی بہت بڑا لمبا راستہ پڑا ہے جسے اسے طے کرنا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روز جزا قریب ہے یعنی وہ جو ہمارا کام تھا ہم نے اسے پورا کر دیا اور ہم نے اس دن کو تمہارے سامنے لاکر رکھ دیا جو تمہاری کامیابی اور تمہاری فتح اور تمہارے غلبہ کا دن ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ اس الہام کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو مخاطب کرتا اور اسے فرماتا ہے کہ اے احمدی جماعت! جو ہمارا حصہ تھا ہم نے اسے پورا کر دیا۔ جتنے سامان یوم جزا کو قریب تر لانے کے لئے ضروری تھے وہ ہم نے سب مہیا کر دیئے اور اسلام اور احمدیت کی فتح کے سامان ہم نے جمع کرلئے۔ پس اب قریب ترین زمانہ میں اس فتح کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے۔ قریب ترین زمانہ میں اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے راستے دنیا میں کھل جائیں گے مگر رہ بعید ہے۔ وہ راستہ جو ابھی تم نے طے کرنا ہے اور جس پر چل کر تم نے اس روز جزا سے فائدہ اٹھانا ہے وہ ابھی بہت بعید ہے۔ تم میں سے کئی ہیں جنہوں نے ابھی اس راستہ پر چلنا بھی شروع نہیں کیا اور کئی ایسے ہیں جو اس راستہ پر چل تو پڑے ہیں مگر انہوں نے سفر ابھی بہت کم طے کیا ہے۔ گویا ہم نے تو اپنا حصہ پورا کر دیا مگر تم نے اپنے حصہ کو پورا نہیں کیا۔ اب دیکھو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے دو شخص آپس میں ٹھیکہ کریں اور ایک شخص دوسرے سے سمجھوتہ کرے کہ تم امرتسر سے دس میل کے فاصلہ پر اتنے لاکھ من سونا پہنچا دو۔ وہاں تک سونا پہنچانا تمہارا کام ہے۔ اس کے بعد میرا کام شروع ہوگا اور میں اس سونے کو اٹھا کر اپنے گھر لے آئوں گا۔ اب اگر دوسرا شخص اس معاہدہ کے مطابق ٹھیک مقررہ تاریخ کو امرتسر سے دس میل کے فاصلے پر سونا لاکر رکھ دے مگر یہ شخص ابھی قادیان سے ایک میل کے فاصلے پر ہی ہو تو جانتے ہو۔ اس کا کیا نتیجہ ہوگا؟ یہی ہوگا کہ چور آئیں گے اور اس سونے کو اٹھا کر لے جائیں گے۔ ڈاکو آئیں گے اور اس سونے پر قبضہ کرلیں گے اور جب یہ شخص وہاں سونا لینے کے لئے پہنچے گا تو اس جگہ کو بالکل خالی پائے گا۔
اللہ تعالیٰ بھی اس الہام میں اسی امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم نے ابھی اس راستہ کو طے ہی نہیں کیا جس پر چل کر ان انعامات کے تم مستحق بن سکتے ہو۔ مگر ہماری حالت یہ ہے کہ ہم اس دن کو جو تمہاری فتح اور کامیابی کا دن ہے` تمہارے قریب لاچکے ہیں۔ پس >روز جزا قریب ہے اور رہ بعید ہے< میری طرف سے جو کچھ ظاہر ہونا تھا اس کی تیاریاں آسمان پر مکمل ہوچکی ہیں۔ مگر تم نے جو کچھ کرنا تھا اس کے لئے ابھی کئی منزلیں طے کرنی باقی ہیں۔
مجھے جب یہ الہام ہوا تو میں نے اس وقت سوچا کہ گو میں جماعت کو جلدی جلدی آگے کی طرف اپنا قدم بڑھانے کی تحریکات کررہا ہوں جس سے بعض لوگ ابھی سے گھبرا اٹھے ہیں کہ کتنی جلدی جلدی نئی سے نئی تحریکیں کی جارہی ہیں۔ کبھی وقف جائیداد کی تحریک کی جاتی ہے` کبھی وقف زندگی کی تحریک کی جاتی ہے کبھی کالج کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی جاتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کو بھی ناکافی قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے تمہارا رہ بعید ہے۔ یعنی ابھی تم نے کچھ بھی نہیں کیا۔ سفر ابھی بہت باقی ہے اور تمہارا قدم خطرناک طور پر سست ہے۔ حالانکہ میں نے جو کام کرنا تھا وہ کرلیا۔ میرا ٹھیکہ پورا ہوگیا اور جو چیز میں نے تم کو دینی تھی وہ دے دی۔ مگر تم ابھی اپنے کام کے لئے تیار نظر نہیں آتے۔
اس مفہوم کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اس الہام کا ایک اور امر کی طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے گو نزول الہام کے وقت میں نے اس کے وہی معنی سمجھے جو میں نے ابھی بیان کئے ہیں لیکن پھر بھی اس الہام کا ایک اور مطلب بھی ہوسکتا ہے لیکن وہ بھی اپنی ذات میں کوئی خوشکن نہیں یعنی اس الہام کا ایک یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ہر شخص جو تم میں سے اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے کوشش کررہا ہے اس کی یہ کوشش اتنی تھوڑی اور اس قدر کم ہے کہ اس کی اس کوشش اور جدوجہد کے مقابلہ میں اس کی زندگی کے جس قدر ایام ہیں ان میں ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ گویا تم میں سے ہر شخص جو کوشش آج اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے لئے کررہا ہے اگر مرتے دم تک وہ اسی رنگ میں کوشش اور جدوجہد کرتا رہے اور اپنا قدم تیز نہ کرے تو یہ کوششیں اس قدر کم ہیں کہ تمہارا یہ خیال کرنا کہ ان کوششوں کے نتیجہ میں تم اسلام کا غلبہ اپنی آنکھوں سے دیکھ سکو گے یہ ناممکن ہے۔ اگر تمہاری کوشش اور جدوجہد کی یہی رفتار رہی تو تم اپنی زندگی میں یوم جزاء کو نہیں دیکھ سکو گے۔ یہ معنی اگر لئے جائیں تو یہ بھی کوئی خوشکن معنے نہیں۔ مگر جو معنے اس وقت میں نے سمجھے وہ یہی تھے کہ >روز جزا قریب ہے< کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے تم سے اسلام اور احمدیت کے غلبہ کے متعلق جو وعدے فرمائے ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت آگیا۔ آسمان پر فرشتوں کی فوجیں اس دن کو لانے کے لئے تیار کھڑی ہیں۔ مگر جو کوشش تم کررہے ہو وہ بہت ہی حقیر اور بہت ادنیٰ اور معمولی ہے۔ جب ہم نے اپنے فضل کا دروازہ کھول دیا۔ جب آسمان سے فرشتوں کی فوجیں زمین میں تغیر پیدا کرنے کے لئے نازل ہوگئیں۔ جب کفر کی بربادی کا وقت آپہنچا۔ جب اسلام کے غلبہ کی گھڑی قریب آگئی تو اس وقت تم اگر پوری طرح تیار نہیں ہوگے` تم نے اپنے اندر کامل تغیر پیدا نہیں کیا ہوگا` تم نے اپنی اصلاح کی طرف پوری توجہ نہیں کی ہوگی تو نتیجہ یہ ہوگا کہ تم اس دن سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جائو گے اور اسلام کی دائمی ترقی میں روک بن جائو گے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ جس پانی کو سنبھالا نہ جائے وہ بجائے فائدہ پہنچانے کے لوگوں کو تباہ کر دیتا ہے۔ جس دودھ کو محفوظ نہ رکھا جائے وہ پھٹ جاتا ہے۔ وہی پانی فائدہ پہنچایا ہے جس کو سنبھالا جائے اور وہی دودھ انسان کو طاقت بخشتا ہے جس کو پھٹنے سے محفوظ رکھا جائے۔ پھٹا ہوا دودھ کس کام آسکتا ہے؟ گرا ہو سالن کون استعمال کرتا ہے؟ کتے کے آگے پڑی ہوئی روٹی کون کھا سکتا ہے؟ اسی طرح اگر ہم نے اس دودھ کو محفوظ نہ رکھا جو خدا نے ہمارے لئے نازل کیا ہے` اگر ہم نے اس کھانے کی حفاظت نہ کی جو خدا نے ہمیں دیا ہے۔ اگر ہم نے اس پانی کو نہ سنبھالا جو خدا نے آسمان سے اتار ہے تو یہ پانی اور یہ دودھ اور یہ کھانا ہمارے لئے ایک طعنہ کا موجب بن جائے گا کیونکہ ہمیں چیز تو ملی مگر ہم نے اس کی قدر نہ کی۔
پس میں آج پھر خدا تعالیٰ کے اس پیغام کو جماعت تک پہنچاتا ہوں۔ پہلے میری طرف سے ہی گھبراہٹ تھی اور میں جماعت کو بار بار کہتا تھا کہ جلد جلد بڑھو۔ جلد جلد اپنا قدم آگے کی طرف بڑھائو۔ مگر اب خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی یہ گھبرا دینے والا پیغام آگیا ہے کہ۔
>روز جزاء قریب ہے اور رہ بعید ہے<۔
جزاء کا دن بہت قریب ہے مگر تمہاری رہ بہت بعید ہے<۔۱۴۵
فصل چہارم
ہوشیارپور` لاہور` لدھیانہ اور دہلی میں عظیم الشان جلسوں کا انعقاد
مصلح موعود کا ظہور مذہبی دنیا میں زبردست تہلکہ مچا دینے والا واقعہ تھا۔ اس نشان رحمت کی یہ عظمت و اہمیت تقاضا کرتی تھی کہ بیرونی دنیا میں عموماً اور سرزمین ہند کے اکناف میں خصوصاً پورے زور سے یہ آواز بند کر دی جائے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پاکر ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء کو جس پسر موعود کی بشارت دی تھی۔ وہ ظاہر ہوچکا ہے۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کے شروع میں ہوشیارپور` لدھیانہ اور دہلی میں پبلک جلسے منعقد کئے گئے۔
یہ چاروں جلسے الگ الگ شان کے حامل اور نہایت درجہ روح پرور` ایمان افروز اور کامیاب جلسے تھے جن میں خود حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے بنفس نفیس اپنی پرشوکت تقریروں میں اپنے دعویٰ مصلح موعود کا حلفیہ اور پرجلال اعلان فرمایا اور اہل ہند پر حجت تمام کر دی۔
جلسہ ہوشیارپور
اعلان مصلح موعود کے سلسلہ میں پہلا جلسہ عام ۲۰۔ فروری ۱۹۴۴ء )۲۰۔ تبلیغ ۱۳۲۳ہش( کو ہوشیاپور میں منعقد ہوا جلسوں کا یہ سلسلہ چونکہ خالص اعلائے کلمتہ اللہ اور خدا کے ایک زندہ و تابندہ نشان کے لئے جاری کیا جارہا تھا اس لئے حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۴۔ تبلیغ/ فروری ۱۹۴۴ء/ ۱۳۲۳ہش کو جماعت کے نام حسب ذیل پیغام۱۴۶ دیا۔
>برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ`
آپ ہوشیارپور کے جلسہ کی نسبت اعلان پڑھ چکے ہیں۔ اس جلسہ کی عرض صرف یہ ہے کہ جس جگہ دینوی حالات کے خلاف ہوتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک رحمت کے نشان کی خبر دی تھی جس کے ذریعہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچے گا اسی جگہ آج یہ اعلان کیا جائے کہ وہ پیشگوئی نہایت شان کے ساتھ پوری ہوگئی ہے۔
پس یہ موقعہ خشیت اور تقویٰ اللہ کے اظہار کا ہے نہ کہ دینوی تقریبوں پر جس طرح مظاہرے کئے جاتے ہیں` اس کا۔ پس میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ صرف وہی لوگ اس جلسہ میں شامل ہوں جو دعائیں کرنے والے` استغفار کرنے والے` حمد کرنے والے اور ذکر کرنے والے ہیں اور اس جگہ پر جب تک رہیں اس امر کا تعہد کریں کہ نہ بلاوجہ بات کریں` نہ ہنسی مذاق کریں` نہ ہنسی تمسخر سے کام لیں بلکہ تمام وقت سنجیدہ رہیں اور دعائوں اور استغفار میں مشغول رہیں۔
پس اس بات کا خیال رہے کہ لڑکے اور چھوٹی عمر کے نوجوان وہاں نہ جائیں نہ وہ جو اپنی طبیعتوں پر قابو نہیں رکھ سکتے` نہ وہ جو تھوڑی دیر خاموش بیٹھنا پڑے تو گھبرا جاتے ہیں۔ بلکہ وہ جائیں جو اس ارادہ کے ساتھ گھر سے نکلیں کہ کلی طور پر خاموشی سے شمولیت کریں گے اور سب وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر میں گزاریں گے یا ایسے کاموں میں جو ان کے سپرد کئے جائیں گے۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ میں ام طاہر احمد کی بیماری کی وجہ سے خود شامل ہوسکوں گا یا نہیں۔ مگر ممکن ہوا تو شامل ہوں گا۔ انشاء اللہ تعالیٰ پس جو شامل ہونے والے ہیں۔ انہیں میں ابھی سے نصیحت کرتا ہوں کہ اگر آپ نے میری نصیحت پر عمل کیا تو یہ عمل آپ کا مقبول بارگاہ الٰہی ہوگا۔ ورنہ آپ اپنے عمل کو ضائع کر لیں گے اور شاید بعض غضب الٰہی کو بھڑکا لیں۔
خاکسار
مرزا محمود احمد از لاہور<۱۴۷
پیغام کا غیرمعمولی اثر
اس پیغام نے جلسہ ہوشیارپور میں شامل ہونے والوں پر نہایت گہرا اثر ڈالا۔ قریباً دو اڑھائی ہزار احمدی۱۴۸ جو اس تقریب پر دوسرے مقامات سے ہوشیارپور پہنچے` ان کی ہر حرکت و سکون سے خاص وقار اور خشیت اللہ کا اظہار ہوتا تھا۔ تسبیح و تحمید ان کی زبانوں پر تھی اور وہ متانت و سنجیدگی کے پیکر معلوم ہوتے تھے۔ اس روحانی کیفیت کا حال پڑھ کر مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری مدیر >اہلحدیث< نے لکھا۔
>ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا صحابہ کرام کی فوج مکہ فتح کرنے جارہی ہے<۔]4 [stf۱۴۹
قادیان سے ہوشیاپور جانے والوں کا پہلا قافلہ
قادیان سے ہوشیارپور جانے والوں کا پہلا قافلہ ۱۹۔ تبلیغ )فروری( کو شام کی گاڑی سے حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ کی زیر امارت روانہ ہوا۔ اس قافلہ کے لئے بڑی کوشش سے صرف ایک تیسرے درجہ کی بوگی مخصوص کرائی جاسکی جو مسافروں کی تعداد کے لحاظ سے بالکل ناکافی تھی اور اس میں صرف ان اصحاب کو بمشکل جگہ مل سکی جو آمدورفت کا کرایہ منتظمین کے پاس پیشگی جمع کراچکے تھے۔ باقی اصحاب دوسرے ڈبوں میں سوار ہوئے۔ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے روانگی سے قبل >چند معروضات< کے نام سے ایک ہینڈ بل چھپوا کر جانے والوں میں تقسیم کرا دیا جس میں لکھا تھا۔
>اگر خدائے بزرگ و توانا کی مرضی مبارک ہوئی تو قادیان دارالامان سے بروز ہفتہ مورخہ ۴۴/۲/۱۹ کو شام ساڑھے ۶ بجے گاڑی سے جلسہ ہوشیارپور میں شمولیت کے لئے احمدی قافلہ روانہ ہوگا۔ جناب ناظر صاحب دعوۃ۱۵۰ و تبلیغ نے جو اس مہم کے افسر اعلیٰ ہیں۔ خاکسار کو قافلہ کا خادم مقرر فرمایا ہے اس لئے یہ خادم اہل قافلہ کی خدمت میں چند ضروری امور پیش کرنا چاہتا ہے جو یہ ہیں۔
)۱( اگر خدا تعالیٰ کے فضل سے ریزروگاڑی کا انتظام ہوگیا تو ہر ڈبہ میں صرف اتنے مسافر بٹھائے جائیں گے جتنے ریلوے قوانین کے مطابق بٹھائے جاسکتے ہیں ورنہ وقت پر مناسب طریق اختیار کیا جائے گا۔
)۲( ریزرو ہونے کی صورت میں ہر مسافر ہر ڈبے میں نہیں بیٹھ سکتا۔ بلکہ میرے مقرر کردہ منتظمین کی ہدایات کے ماتحت بیٹھنا ہوگا۔
)۳( جیسا کہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کا ارشاد >الفضل< میں شائع ہوچکا ہے نہایت ضروری ہوگا کہ قادیان سے روانگی کے وقت سے ہی تمام اہل قافلہ کو خاموشی` متانت` خشوع و خضوع اور دعائوں میں لگے رہنے کی عادت سے متصف ہو جانا ضروری ہے۔ قادیان سے روانہ ہوکر صرف امرتسر پہنچنے پر گاڑی سے باہر نکلا جاسکتا ہے۔ امرتسر انشاء اللہ مغرب و عشاء کی نماز باجماعت ہوگی۔ اگر کوئی شخص نماز جماعت سے غیرحاضر رہا تو اسے امرتسر سے آگے جانے کی اجازت نہ ہوگی۔ اسی طرح نماز تہجد کا بھی انتظام ہوگا اور نماز فجر باجماعت کا بھی۔ راستہ میں کسی شخص کو نعرہ لگانے یا اشعار پڑھنے کی اجازت نہ ہوگی۔ ہر ڈبے میں ایک ایک شخص امیر ہوگا۔ اس کی اطاعت ضروری ہوگی۔ کھانا کھا کر دوست قادیان سے روانہ ہوں یا اپنے ہمراہ کھانے لے جائیں۔ کھانے کا انتظام مرکز کی طرف سے نہ ہوگا۔ چونکہ گاڑی میں ہی غالباً ساری رات بسر ہوگی۔ اس لئے گاڑی میں بستر بچھانے کی گنجائش نہ ہوگی۔ بدیں وجہ دوست کافی گرم کپڑا اوڑھ کر بیٹھیں۔ جو شخص کسی قسم کی ناشائستہ حرکت کا مرتکب ہوگا` علاوہ اس کے کہ وہ گاڑی سے فوراً کسی اسٹیشن سے اتار دیا جائے گا` اس کا معاملہ حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کے حضور پیش کیا جائے گا۔
غرض یہ سفر نہایت تہذیب` متانت` شرافت` تقویٰ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ہونا چاہئے اس موقعہ پر میں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر مطلق خدا! تو ہمیں دنیاداروں` فیشن پرستوں اور ظاہر پرستوں کی طرح تمام خرابیوں سے بچا کر اس طرح اس سفر پر لے جا کہ تیری نظر میں عام لوگوں کی طرح نہیں بلکہ ہم فرشتوں کی ایک جماعت ہوں جو محض تیری تسبیح و تہلیل کا پانی پیتے ہوئے اور تیری تمجید و تقدیس کی غذا کھاتے ہوئے اور تیری تحمید و تکبیر کی ہوا میں سانس لیتے ہوئے قادیان سے ہوشیارپور اور ہوشیارپور سے قادیان کا سفر کریں۔ آمین یارب العالمین۔
سید محمد اسحٰق خادم قافلہ ہوشیارپور<
قادیان سے جالندھر
اس قافلہ میں جو قریباً اڑھائی سو افراد پر مشتمل تھا` حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ` حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ` حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ اور خان صاحب حضرت مولوی فرزند علی صاحبؓ بھی شامل تھے۔ جب گاڑی روانہ ہوئی تو سب نے مل کر دعا کی۔ امرتسر کے اسٹیشن پر اور بھی بہت سے اصحاب شریک قافلہ ہوگئے۔ مغرب اور عشاء کی نمازوں کے لئے اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر اذان کہی گئی اور دونوں نمازیں جمع کرکے حضرت میر صاحب~رضی۱~ نے پڑھائیں۔ گیارہ بجے کے قریب ڈیرہ دون پسنجر کے ساتھ ریزرو بوگی لگائی گئی اور دوسرے اصحاب نے گاڑی میں سوار ہونے کی کوشش کی لیکن باوجود انتہائی کوشش کے ان میں سے بہت سے رہ گئے۔ اور وہ دوسری گاڑی سے جالندھر پہنچے۔ جالندھر شہر کے اسٹیشن پر گاڑی ڈیڑھ بجے کے قریب پہنچی اور بقیہ رات اسٹیشن پر گاڑیوں میں اور پلیٹ فارم پر گزاری گئی۔ عمر رسیدہ اور بزرگ اصحاب کا سخت سردی میں زمین پر یا گاڑیوں کے تنگ تختوں پر رات گزارنا اگرچہ کٹھن بات تھی۔ لیکن ہر خوردو کلاں اور ہر بوڑھا اور جوان کچھ ایسے روحانی سرور اور لذت میں مست تھا کہ کسی کو تکلیف کا خیال تک نہ رہا۔ سحری کے وقت اکثر لوگ خود بخود تہجد کی نماز کے لئے اٹھے اور جو نہ اٹھ سکے وہ جگائے گئے صبح کی اذان پلیٹ فارم پر دی گئی اور نماز فجر حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ نے پڑھائی۔
جالندھر سے ہوشیارپور
گاڑی سات بجے کے قریب ہوشیارپور کے لئے روانہ ہوئی۔ اس وقت تک وہ اصحاب بھی پہنچ چکے تھے جو امرتسر کے اسٹیشن پر قافلہ کے ساتھ آنے سے رہ گئے تھے بلکہ ان کے علاو اور بھی بہت سے احباب شامل ہوگئے جو لاہور یا دہلی کی طرف سے آئے تھے۔ نو بجے کے قریب گاڑی ہوشیارپور کے اسٹیشن پر پہنچی۔ جہاں حضرت مولوی عبدالمغنی خاں صاحبؓ ناظر دعوۃ و تبلیغ کی قیادت میں بعض اصحاب پہلے سے موجود تھے۔ اسٹیشن پر سے پانچ پانچ کی قطار میں قافلہ روانہ ہوا اور جائے قیام تک جو شہر کے درمیان گرلز سکول کی عمارت تھی` اسی ترتیب سے گیا۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کیطرف سے جلسہ گاہ کے انتظامات کی نگرانی
وہاں پہنچ کر حضرت میر صاحبؓ نے موقعہ کے لحاظ سے مختصر تقریر فرمائی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ انتظامات جلسہ اور مقام دعا
‏tav.8.31
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۸
دعویٰ مصلح موعود سے لیکر مجلس عرفان کے قیام تک
کا ملاحظہ فرمانے کے لئے تشریف لے گئے۔ چنانچہ ایک روز قبل بارش ہوچکی تھی اس لئے کنک منڈی کے وسیع احاطہ میں )جسے جلسہ کے لئے تجویز کیا گیا تھا اور جو اس مکان کے قرب کی وجہ سے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے چلہ کشی فرمائی تھی بہترین جگہ تھی( کیچڑ تھا اور اس پر مٹی ڈالی جارہی تھی لیکن جس رفتار سے کام ہورہا تھا اسے کافی نہ خیال کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے زیادہ سرگرمی سے کام کرنے کا ارشاد فرمایا اور امداد دینے کے لئے جتنے آدمیوں کی ضرورت کام کرنے والوں نے سمجھی وہ قادیان سے آنے والے قافلے میں سے بھجوا دیئے میونسپلٹی کے ملازمین کے علاوہ ملک نادر خاں صاحب افسر مال لدھیانہ اور میجر حبیب اللہ خان صاحب نے بھی ہر قسم کا انتظام مکمل کرنے میں پوری مستعدی دکھائی اور حضرت امیرالمومنین المصلح الموعود کی تشریف آوری سے قبل خدا تعالیٰ کے فضل سے سب انتظامات مکمل ہوگئے۔
دوسرا قافلہ
ایک بجے کی گاڑی سے قادیان کا دوسرا قافلہ جو مولانا ابوالعطاء صاحب کی قیادت میں ۲۰۔ تبلیغ/ فروری کی صبح کو قادیان سے روانہ ہوا تھا` پہنچ گیا اور باسانی جلسہ میں شریک ہوگیا۔۱۵۱
حضرت مصلح موعود کی ہوشیارپور میں تشریف آوری
حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ پونے دو بجے کے قریب لاہور سے بذریعہ کار ہوشیارپور پہنچ گئے۔ حضور کے ہمراہ کار میں حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد` حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحبؓ` شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ اور سیٹھ محمد اعظم صاحب حیدرآبادی بھی تھے۔۱۵۲ حضور موٹر سے اترتے ہی جلسہ گاہ میں تشریف لائے اور ظہر و عصر کی نمازیں نہایت خشوع و خضوع سے جمع کرکے پڑھائیں۔
جلسہ گاہ میں یہ الہامی فقرے موٹے حروف میں لکھ کر نمایاں جگہ پر آویزاں کر دیئے گئے تھے۔
>خدا تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا<۔
>وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی<۔
کارروائی آغاز
نماز کے بعد تین بجے جلسہ کی کارروائی شروع ہوئی۔ سب سے قبل حضرت صاحبزاد حافظ مرزا ناصر احمد صاحب نے تلاوت قرآن کریم فرمائی اور سورہ بنی اسرائیل کا رکوع ۹ پڑھا جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ یہ آیات قرآنیہ چونکہ موقع کے عین مطابق تھیں اس لئے مومنین کے قلوب ان آیات قرآنیہ کے سننے سے خاص طور پر متاثر ہوئے۔ تلاوت قرآن کریم کے بعد حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد )سابق امام مسجد لنڈن( پرائیویٹ سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح الثانیؓ نے حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوریؓ کے قریبی رشتہ دار ہونے کی حیثیت سے ایک مختصر سی تقریر کی۔۱۵۳
حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ کی تقریر
درد صاحب کے بعد سیدنا حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ تقریر کے لئے کھڑے ہوئے اور تشہد و تعوذ کے بعد حضور نے سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی۔ حضور جب اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم کے قرآنی الفاظ پر پہنچے تو حضور نے دوبارہ انہی بابرکت الفاظ کو نہایت سوز` تضرع اور ابتہال کے ساتھ اللھم یا رب >اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم۔ کہہ کر دوہرایا۔ ان الفاظ میں اور حضور کی آواز میں جو اس وقت الٰہی تصرف کے ماتحت معلوم ہتی تھی ایسا درد بھرا ہوا تھا کہ سننے والوں کی آنکھوں اشکبار ہوگئیں۔ ان کے قلوب درد سے بھر گئے` رقت غالب آگئی اور گریہ و زاری کا عالم طاری ہوگیا اور انہوں نے بھی اپنے دل میں انہی الفاظ کو نہایت عجز و انکسار کے ساتھ دہرایا۔][ازاں بعد حضور نے مندرجہ ذیل ادعیہ ماثورہ پڑھیں۔ جنہیں جماعت کے احباب نے بھی حضور کی آواز کے ساتھ ساتھ نہایت رقت اور سوز سے دہرایا۔
۱۔
ربنا لاتواخذنا ان نسینا او اخطانا ربنا ولا تحمل علینا اصرا کما حملتہ علی الذین من قبلنا ربنا ولا تحملنا مالا طاقہ لنابہ واعف عنا واغفرلنا وارحمنا انت مولنا فانصرنا علی القوم الکافرین )بقرہ رکوع: ۴۰(
۲۔
ربنا امنا بما انزلت و اتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشاھدین۔]ind [tag )آل عمران ع: ۸(
۳۔
ربنا اغفرلنا ذنوبنا و اسرافنا فی امرنا و ثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین۔ )آل عمران ع: ۱۵(
۴۔
ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان ان امنوا بربکم فامنا ربنا فاغفرلنا ذنوبنا وکفر عنا سیاتنا و توفنا مع الابرار۔ ربنا واتنا ما وعدتنا علے رسلک و لاتخزنا یوم القیامہ انک لا تخلف المیعاد۔ )آل عمران ع: ۲(
۵۔
ربنا لا تزع قلوبنا بعد اذھدیتنا وھب لنا من لدنک رحمہ انک انت الوھاب۔ آل عمران ع: ۱(
یہ دعائیں حضور کی زبان مبارک سے کچھ ایسے درد اور سوز کے ساتھ بلند ہوئیں کہ تمام مجمع کی آنکھیں آنسوئوں سے لبریز ہوگئیں۔ دل اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کی محبت سے بھر گئے اور آہ و بکا کی آواز ہر طرف سنائی دینے لگی۔
حضور نے دعائیں پڑھنے کے بعد فرمایا۔
>یہ اللہ تعالیٰ کی وہ دعائیں ہیں جن میں انبیاء اور ان کی ابتدائی جماعتوں کے لئے خدا نے ایک طریق راہ بیان فرمایا ہے۔ اس کے بعد میں قرآنی الفاظ میں ہی اپنے رب کو مخاطب کرکے اس کے حضور نذر عقیدت پیش کرتا ہوں۔ دوست بھی ان الفاظ کو دہراتے جائیں<۔
چنانچہ حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ اپنی زبان مبارک سے ادا فرمائے۔
امنا باللہ وما انزل الینا وما انزل الی ابراھیم و اسمعیل و اسحاق و یعقوب و الاسباط وما اوتی موسی و عیسی وما اوتی النبیون من ربہم لانفرق بین احد منھم و نحن لہ مسلمون۔ )آل عمران ع: ۹(
تمام مجمع نے ایک بار پھر اشکبار آنکھوں اور دردمندانہ قلوب کے ساتھ ان الفاظ کو دہرایا اور اس وقت یوں محسوس ہوا کہ آسمان سے انوار الہیٰہ کا نزول ہورہا ہے اور فرشتے دلوں کو ہر قسم کی میل کچیل سے صاف کرکے انہیں پاکیزہ و مطہر بنارہے ہیں۔۱۵۴
سیدنا المصلح الموعود کا پرشوکت خطاب اہل ہوشیارپور کو
ان دعائوں اور جناب باری تعالیٰ کے حضور اظہار عقیدت کے بعد سیدنا المصلح الموعودؓ نے ایک نہایت وجد آفرین اور پرشوکت تقریر فرمائی۔ جس میں پیشگوئی مصلح موعود کے پس منظر پر روشنی ڈالنے کے بعد بتایا کہ یہ پیشگوئی کس طرح نہایت مخالف حالات کے باوجود خارق عادت رنگ میں ظہور پذیر ہوچکی ہے۔ اس سلسلہ میں حضور نے اس انکشاف سے متعلق اپنی تازہ رئویا بھی بڑی شرح و بسط سے بیان کی اور پھر فرمایا۔
>میں آج اسی واحد اور قہار خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ و تصرف میں میری جان ہے کہ میں نے جو رویاء بتائی ہے وہ مجھے اسی طرح آئی ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ کوئی خفیف سا فرق بیان کرنے میں ہوگیا ہو تو علیٰحدہ بات ہے۔ میں خدا کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے کشفی حالات میں کہا انا المسیح الموعود مثیلہ و خلیفتہ۔ اور میں نے اس کشف میں خدا کے حکم سے یہ کہا کہ میںوہ ہوں جس کے ظہور کے لئے انیس سو سال سے کنواریاں منتظر بیٹھی تھیں۔ پس میں خدا کے حکم کے ماتحت قسم کھا کر یہ اعلان کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق آپ کا وہ موعود بیٹا قرار دیا ہے جس نے زمین کے کناروں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا نام پہنچانا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ میں ہی موعود ہوں اور کوئی موعود قیامت تک نہیں آئے گا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پیشگوئیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اور موعود بھی آئیں گے اور بعض ایسے موعود بھی ہوں گے جو صدیوں کے بعد پیدا ہوں گے بلکہ خدا نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ایک زمانہ میں خود مجھ کو دوبارہ دنیا میں بھیجے گا اور میں پھر کسی شرک کے زمانہ میں دنیا کی اصلاح کے لئے آئوں گا۔ جس کے معنے یہ ہیں کہ میری روح ایک زمانہ میں کسی اور شخص پر جو میرے جیسی طاقتیں رکھتا ہوگا` نازل ہوگی اور وہ میرے نقش قدم پر چل کر دنیا کی اصلاح کرے گا۔ پس آنے والے آئیں گے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اپنے اپنے وقت پر آئیں گے۔
میں جو کچھ کہتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر اس شہر ہوشیارپور میں سامنے والے مکان میں نازل ہوئی۔ جس کا اعلان آپ نے اس شہر سے فرمایا اور جس کے متعلق فرمایا کہ وہ نو سال کے عرصہ میں پیدا ہوگا۔ وہ پیشگوئی میرے ذریعہ سے پوری ہوچکی ہے اور اب کوئی نہیں جو اس پیشگوئی کا مصداق ہوسکے<۔۱۵۵
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کی اس پہلی پرمعارف تقریر کے بعد مبلغین سلسلہ کی باری باری مختصر تقریریں ہوئیں۱۵۶ جن میں اس امر پر روشنی ڈالی ئی کہ ۲۰۔ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی میں جو یہ بشارت دی گئی تھی کہ
>خدا تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا<۔
سیدنا امیرالمومنین خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعودؓ کے ذریعہ وہ بڑی شان و عظمت کے ساتھ پوری ہوچکی ہے۔
اس تقریب پر جن اصحاب نے تقریریں کیں` ان کے نام یہ ہیں۔
۱۔
حضرت چودھری فتح محمد صاحبؓ سیال ایم۔ اے )انگلستان(
۲۔
حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ ایم۔ اے )جرمنی(
۳۔
جناب محمد ابراہیم صاحب ناصر بی۔ اے` بی۔ ٹی )ہنگری(
۴۔
حضرت مولوی محمد دین صاحب )شمالی امریکہ(
۵۔
مولوی عبدالرحمن صاحب انور )انچارج تحریک جدید( )برائے مولوی رمضان علی صاحب ارجنٹائن جنوبی امریکہ` ملک عزیز احمد صاحب سروبایا` سید شاہ محمد صاحب جاوا` مولوی غلام حسین صاحب ایاز ملایا(
۶۔
حضرت مولو عبدالرحیم صاحب نیرؓ )سیرالیون گولڈ کوسٹ۔ نائجیریا(
۷۔
مولوی محمد سلیم صاحب مولوی فاضل )مصر(
۸۔
حضرت مولوی عبدالمغنی صاحبؓ )برائے شیخ مبارک احمد صاحب مولوی فاضل مشرقی افریقہ` مولوی رحمت علی صاحب` مولوی محمد صادق صاحب` مولوی عبدالواحد صاحب مبلغین جاوا سماٹرا(
۹۔
حضرت صوفی حافظ غلام محمد صاحبؓ بی۔ اے )ماریشس(
۱۰۔
مولوی ابوالعطاء صاحب جالندھری۱۵۷ )فلسطین(
۱۱۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ )شام(
۱۲۔
مولوی ظہور حسین صاحب )روس(
۱۳۔
حکیم مولوی عبدالطیف صاحب )برائے محمد رفیق صاحب مرحوم مجاہد تحریک جدید کاشغر(
۱۴۔
حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ )برائے حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحبؓ شہید )ایران(
۱۵۔
جناب عبدالاحد خاں صاحب افغان )کابل(
۱۶۔
جناب محمد زہدی صاحب )سٹریٹ سٹلمنٹ(
۱۷۔
مولوی عبدالواحد صاحب )چین(
۱۸۔
صوفی عبدالقدیر صاحب )جاپان(
‏]ydbo [tagان تقریروں کے دوران جب کسی ملک میں تبلیغ اسلام اور اشاعت احمدیت کے واقعات بیان کئے جاتے تو ساتھ ہی اس ملک کا نام بھی جلی حروف میں احباب کے سامنے لٹکا دیا جاتا۔۱۵۸
حضرت سیدنا المصلح الموعود کی تقریر کا تتمہ
ان تقریروں کے بعد حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ نے آخری خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
>اس وقت مختلف ممالک کے مبلغین نے آپ لوگوں کو بتایا ہے کہ کس طرح دنیا کے کناروں تک میرے زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام اور احمدیت کا نام پہنچایا۔ مغرب کے انتہائی کناروں یعنی شمالی امریکہ وغیرہ سے لے کر مشرق کے انتہائی کناروں یعنی چین اور جاپان وغیرہ تک اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام کا نام اور اس کی تعلیم پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی۔ اسی طرح ایشیاء اور یورپ کے مختلف علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے میرے بھیجے ہوئے مبلغین کے ذریعہ لوگوں کو اسلام اور احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ >میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا< اور ساتھ ہی آپ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ میرا ایک لڑکا ہوگا جو زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا جس کے معنے یہ تھے کہ وہ پہلی پیشگوئی جو زمین کے کناروں تک تبلیغ پہنچنے کے ساتھ تعلق رکھتی ہے وہ میرے اس لڑکے کے ذریعہ پوری ہوگی جس نے زمین کے کناروں تک شہرت حاصل کرنی ہے۔ اب ہر شخص غور کرکے دیکھ لے کہ وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچانے کا فیصلہ کیا؟ وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے اس تبلیغ کو اس وقت تک دنیا کے کناروں تک پہنچنے سے روکے رکھا جب تک وہ لڑکا ظاہر نہ ہوگیا؟ اور پھر وہ کونسا ہاتھ تھا جس نے میرے مبلغوں کے ذریعہ جاپان سے لے کر شمالی امریکہ تک تمام دنیا میں اس سلسلہ کو پھیلانا شروع کردیا بلکہ ہر ملک کے افراد کو اس میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرمائی۔ ان میں ہزاروں ایسے لوگ ہیں جو محمد رسول اللہ~صل۱~ کا نام سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے مگر اب وہ آپؑ پر درود اور سلام بھیجتے ہیں اور صبح شام آپﷺ~ کے مدارج کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے ہیں ہزاروں ایسے ہیں جو خدا تعالیٰ کے نام تک سے ناآشنا تھے مگر خدا تعالیٰ میرے ذریعہ سے ان لوگوں کو اپنے آستانہ پر لے آیا۔ صرف خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے تمام روکوں کو دور کیا اور صرف خدا کا ہی ہاتھ تھا جس نے اپنے کلام کو پورا کرنے کے لئے زمین کے کناروں تک اسلام اور احمدیت کا نام میرے ذریعہ سے پہنچا۔ پس یہ پیشگوئی جس مقام سے کی گئی تھی اسی مقام کے سامنے کھڑے ہوکر یہ اعلان آپ لوگوں کے سامنے کر دیا گیا ہے تاکہ آپ لوگ گواہ رہیں کہ خدا کی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی<۔۱۵۹
نیز فرمایا۔
میں ان لوگوں کو جو ابھی جماعت میں شامل نہیں توجہ دلاتا ہوں کہ مغرب کے کناروں سے مشرق کے انتہائی کناروں تک ہم اسلام کی تبلیغ کررہے ہیں۔ ہم لوگ چاہتے ہیں کہ آپ بھی اس سلسلہ کی حقیقت پر غور کریں اور خدا تعالیٰ کے ان نشانات سے فائدہ اٹھائیں جو دنیا میں ظاہر ہوچکے ہیں اور اگر آپ لوگ ابھی اس سلسلہ کی صداقت پ غور نہیں کرسکتے تو کم از کم خدا تعالیٰ کا اتنا خوف اپنے دل میں ضرور پیدا کریں کہ جب اس جماعت کے افراد اسلام کی تبلیغ کے لئے نکلیں تو اس وقت ان کی مخالفت کرنے سے احتراز کریں اور سمجھ لیں کہ یہ وار ان پر نہیں بلکہ خدا کے دین پر ہوگا اور اس کا نقصان افراد کو نہیں بلکہ مذہب اور اسلام کو ہوگا۔ اسی طرح میں ان لوگوں سے بھی جو ابھی اسلام کی صداقت کے قائل نہیں` کہتا ہوں کہ ہم مبلغ ہیں۔ تبلیغ ہمارا کام ہے اور یہ کام ہم نے ہمیشہ کرنا ہے خواہ کوئی ہندو ہو سکھ ہو عیسائی ہو۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے تبلیغ کریں اور اسلام کی تعلیم اس کے کانوں تک پہنچائیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تبلیغ کرنا صرف ہمارا حق ہے۔ ان کا بھی حق ہے کہ وہ ہمیں تبلیغ کریں۔ ہمیں اس پر کوئی گلہ نہیں ہوسکتا۔ لیکن اس کے مقابلہ میں یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہماری تبلیغ پر چڑیں نہیں۔ ہم مجبور ہیں کہ ہم نرمی اور پیار اور محبت سے ان کو تبلیغ کریں اور جب ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی مرضی یہی ہے کہ لوگ اس دین کو اختیار کریں تو پھر چاہے لوگ ہمیں ماریں پیٹیں گالیاں دیں ہم مجبور ہیں کہ ان کو اسلام کی تبلیغ کرتے چلے جائیں۔ کسی کا بچہ کنوئیں میں گررہا ہو تو دوسرا شخص اسے دیکھ کر چپ نہیں رہ سکتا۔ کسی جگہ آگ لگ رہی ہو تو کوئی شخص اس آگ کو دیکھ کر آرام سے بیٹھ نہیں سکتا۔ پھر جبکہ ہم کو بھی ان سے ویسی ہی محبت ہے جیسے ایک باپ کو اپنے بیٹوں سے ہوتی ہے یا بھائی کو اپنے بھائی سے ہوتی ہے اور جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ جو لوگ اسلام میں داخل نہیں وہ ایک آگ میں گرے ہوئے ہیں تو پھر ہم پورا زور لگائیں کہ وہ اس آگ سے بچ جائیں۔ خواہ اس جدوجہد میں ہماری اپنی جان بھی کیوں نہ چلی جائے۔
پس تبلیغ کے لئے کوشش کرنا ہمارا فرض ہے اور ہم اپنے اس فرض کو ہمیشہ ادا کرتے رہیں گے لیکن آپ لوگ مت سمجھیں کہ آپ خدا کی تقدیر کو پورا ہونے سے روک سکتے ہیں۔ خدا کی تقدیر ایک دن پوری ہوکر رہے گی اور یہ سلسلہ تمام زمین پر پھیل جائے گا۔ کوئی نہیں جو اس سلسلہ کو پھیلنے سے روک سکے۔ میں آسمان کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں۔ میں زمین کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں۔ میں ہوشیارپور کی ایک ایک اینٹ کو گواہ رکھ کر کہتا ہوں کہ یہ سلسلہ دنیا میں پھیل کر رہے گا۔ اگر لوگوں کے دل سخت ہوں گے تو فرشتے ان کو اپنے ہاتھ سے ملیں گے یہاں تک کہ وہ نرم ہو جائیں گے اور ان کے لئے احمدیت میں داخل ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا<۔۱۶۰
مقدس کمرہ میں اجتماعی دعا
حضرت سیدنا المصلح الموعودؓ اس پراثر خطاب کے بعد چلہ کشی والے مقدس و مبارک کمرہ میں تشریف لے گئے جو ان دنوں ایک معزز ہندو سیٹھ ہرکشن داس کی ملکیت تھا۔ جنہوں نے اسے شیخ مہر علی صاحب سے خرید کر اس پر ایک مکان تعمیر کرکے اس کے بالائی حصہ پر سبز رنگ کردیا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی چلہ کشی والا بالاخانہ اپنی اصل شکل میں موجود نہیں تھا۔ لیکن اسی موقعہ اور انہیں بنیادوں پر ایک کمرہ تعمیر شدہ تھا جہاں سیٹھ صاحب نے بڑی خوشی سے دعا کرنے کی اجازت دی بلکہ حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب ناظر دعوۃ و تبلیغ کے ذریعہ خواہش کی کہ اگر حضرت مرزا صاحب یہاں تشریف لائیں تو میری بڑی خوش قسمتی ہوگی۔ چنانچہ جب حضور مکان پر تشریف لے گئے تو جناب سیٹھ صاحب اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد نے نہایت عزت و احترام کے ساتھ استقبال کیا اور ایک بڑے آراستہ کمرہ میں جو مکان کے دوسرے کونے میں واقعہ تھا` حضور کو بٹھایا اور حضور کی خدمت میں پھل پیش کئے اور اپنے خاندان کے افراد کا تعارف کرایا۔ اس کے بعد حضور مقدس کمرہ میں تشریف لے گئے اور قبلہ رخ دو زانو بیٹھ کر تسبیح و تحمید کرنے لگے اس کمرہ میں اس وقت کے لئے فرش کا انتظام جماعت کی طرف سے کیا گیا تھا۔
جگہ کی تنگی کی وجہ سے حضرت امیرالمومنین المصلح الموعودؓ کے علاوہ حسب ذیل پینتیس احباب اس کمرہ میں تشریف لے گئے جنہیں حضرت صاحبزادہ مزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک ایک کرکے انتظام کے ساتھ اندر بھجوایا۔
۱۔ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ

۲۔ حضرت صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب

۳۔ صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب

۴۔ صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب

۵۔ صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب

‏]col3 [tag۶۔ صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب

۷۔ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب

۸۔ صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب

۹۔ صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب

۱۰۔ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب

۱۱۔ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب

۱۲۔ حضرت خان محمد عبداللہ خاں صاحبؓ

۱۳۔ صاحبزادہ مسعود احمد خاں صاحب
 
Top