• السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اس فورم کا مقصد باہم گفت و شنید کا دروازہ کھول کر مزہبی مخالفت کو احسن طریق سے سلجھانے کی ایک مخلص کوشش ہے ۔ اللہ ہم سب کو ھدایت دے اور تا حیات خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کا تابع بنائے رکھے ۔ آمین
  • [IMG]
  • السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ مہربانی فرما کر اخلاق حسنہ کا مظاہرہ فرمائیں۔ اگر ایک فریق دوسرے کو گمراہ سمجھتا ہے تو اس کو احسن طریقے سے سمجھا کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرے۔ جزاک اللہ

تاریخ احمدیت ۔ جلد 5 ۔ یونی کوڈ

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
تاریخ احمدیت ۔ جلد 5 ۔ یونی کوڈ

‏rov.5.1
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت

سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی
المصلح الموعود کے
سوانح قبل از خلافت
پہلا باب (فصل اول)
آسمانی نوشتوں کے مطابق ولادت‘پاکیزہ بچپن‘حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رفاقت میں ابتدائی سفر اور بعض دوسرے دلچسپ واقعات
(۱۳۰۶ھ ۔ ۱۳۱۲ھ)
(جنوری ۱۸۸۹ء سے دسمبر ۱۸۹۴ء تک)
سیدنا و امامنا و مرشدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز و اطال اللہ بقاہ) کا دور خلافت سلسلہ خلفاء کی تاریخ میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اللہ تعالیٰ نے جس رنگ میں اس خلافت کو نوازا ہے اور اس کے ہر پہلو کو اپنی برکت کے ہاتھ سے ممسوح کیا ہے اور اس کے ساتھ غیر معمولی برکتوں اور حیرت انگیز ترقیوں اور مافوق العادت کامیابیوں کو وابستہ فرمایا ہے۔ وہ اپنی نظیر آپ ہیں !!!
جہاں تک خلافت ثانیہ کے روحانی و مذہبی اثر و نفوذ کی وسعت کا تعلق ہے اسے ایک عالمگیر حیثیت حاصل ہے۔ چنانچہ حضور خود ہی فرماتے ہیں۔
’’میں خلیفہ ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اور اس لئے خلیفہ ہوں افغانستان کے لوگوں کے لئے عرب‘ایران‘چین‘جاپان‘یورپ‘امریکہ‘افریقہ‘سماٹرا‘جاوا‘اور خود انگلستان کے لئے غرضکہ کل جہان کے لوگوں کے لئے میں خلیفہ ہوں۔ اس بارے میں اہل انگلستان بھی میرے تابع ہیں۔ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں جس پر میری مذہبی حکومت نہیں سب کے لئے یہی حکم ہے کہ میری بیعت کرکے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہوں‘‘۱۔
اس ’’عالمگیر خلافت‘‘ اور ’’مذہبی حکومت‘‘ کے ساتھ ہی حال و مستقبل میں اسلام کی ترقی اور سربلندی وابستہ ہے جیسا کہ حضور نے لکھا ہے کہ
’’اس وقت اسلام کی ترقی خدا تعالیٰ نے میرے ساتھ وابستہ کر دی ہے جیسا کہ ہمیشہ وہ اپنے دین کی ترقی خلفاء کے ساتھ وابستہ کیا کرتا ہے۔ پس جو میری سنے گا وہ جیتے گا۔ اور جو میری نہیں سنے گا وہ ہارے گا جو میرے پیچھے چلے گا خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس پر مکمل کھولے جائیں گے۔ اور جو میرے راستہ سے الگ ہو جائے گا۔ خدا تعالیٰ کی رحمت کے دروازے اس پر بند کر دئے جائیں گے‘‘۲۔حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور دوسرے خلفاء میں ایک بھاری فرق ہے۔ یہ فرق حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ میں یہ ہے کہ
’’جہاں تک خلافت کا تعلق میرے ساتھ ہے اور جہاں تک اس خلافت کا ان خلفاء کے ساتھ تعلق ہے جو فوت ہو چکے ہیں۔ ان دونوں میں ایک امتیاز اور فرق ہے۔ ان کے ساتھ تو خلافت کی بحث کا علمی تعلق ہے اور میرے ساتھ نشانات خلافت کا معجزاتی تعلق ہے پس میرے لئے خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات اور اس کے زندہ معجزات اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ مجھے خدا نے خلیفہ بنایا ہے‘‘۳۔ان آسمانی نشانات و معجزات میں خدائی تائید و نصرت کا نشان ایسا کھلا اور واضح نشان ہے جو آج تک حضور کی زندگی کے ہر گوشہ میں ہمیشہ جلوہ فرما نظر آتا ہے۔ خلافت ثانیہ کی تاریخ ابتداء ہی سے مخالفتوں کے ہجوم میں گھری ہوئی ہے مگر اس مقدس سالار کی قیادت میں احمدیت کا قافلہ فتح و ظفر کا پرچم لہراتا ہوا اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے اور آئندہ سے متعلق بھی خدائی فیصلہ یہی ہے کہ حضور کی سرکردگی میں جماعت احمدیہ کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ چنانچہ حضور نے ایک عرصہ ہوا یہ ارشاد فرمایا تھا۔
’’میرے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت کے لئے غلبہ اور ترقی اور کامیابی ہی مقدر ہے اور کوئی اس الٰہی تقدیر کو بدلنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس بات پر خواہ کوئی ناراض ہو۔ شور مچائے۔ گالیاں دے یا برا بھلا کہے اس سے خدائی فیصلہ میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ یہ تقدیر مبرم ہے جس کا خدا آسمان پر فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ میری زندگی کے آخری لمحات اور میرے جسم کے آخری سانس تک جماعت کا قدم ترقی کی طرف بڑھاتا چلا جائے گا۔ جس طرح خدا کی بادشاہت کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا اسی طرح خدا تعالیٰ کے کلام اور اس کے وعدہ کو بھی کوئی شخص بدلنے کی طاقت نہیں رکھتا یہ زمین و آسمان کے خدا کا وعدہ ہے کہ بہرحال میری زندگی میں جماعت کا قدم آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے گا۔ میں نہیں جانتا کہ میرے بعد کیا ہو گا۔ مگر بہرحال یہ خدائی فیصلہ ہے میری زندگی میں کوئی انسانی طاقت اس سلسلہ کی ترقی کو روک نہیں سکتی‘‘۴۔خلافت ثانیہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ خلافت موعودہ ہے جس کے قیام کی بشارتیں اور پیشگوئیاں صدیوں اور قرنوں سے ہوتی چلی آرہی تھیں چنانچہ (یہود کی قدیم روایات کی کتاب) طالمود (جوزف بارکلے) میں لکھا ہے۔
‏descend kingdom his and die shall Messiuh( )The he that said also is ’’‘‘It۔grandson and son his to
(طالمود بائی جوزف بارکلے باب پنجم صفحہ ۳۷ مطبوعہ لنڈن ۱۸۷۸ء)
ترجمہ:۔ یہ بھی روایت ہے کہ مسیح (موعود) وفات پا جائیں گے اور ان کی بادشاہت ان کے بیٹے اور پوتے کو ملے گی۔
ازاں بعد جہاں خدا تعالیٰ نے آنحضرت~صل۱~ کی زبان مبارک سے یہ خبر دی کہ آخری زمانہ میں ایک عظیم الشان روحانی مصلح مسیح موعود کے نام سے مبعوث ہو گا وہاں آپ ہی کے ذریعہ سے اس بات کا بھی اعلان کیا گیا کہ یتزوج و یولد لہ۵۔ یعنی (جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تشریح فرمائی) آنے والا مصلح اکیلا اور تنہا نہیں آئے گا۔ بلکہ خدائی منشاء کے مطابق اس کی ایک خاص شادی ہو گی۔ اور اس شادی سے خدا اسے اولاد عطا کرے گا۔ جن میں سے ایک بیٹا ایک خاص شان کا نکلے گا۔ اس کے کام کو بہت ترقی حاصل ہو گی۔ اس طرح گویا خدا نے مسیح موعود کی بعثت کے ساتھ ہی آپ کے ایک موعود فرزند کی روحانی خلافت کی بھی داغ بیل ڈال دی۔
آنحضرت~صل۱~ کے بعد امت محمدیہ کے بعض اولیاء و صلحاء مثلاً حضرت نعمت اللہ ولی اور حضرت امام یحییٰ بن عقب رحمتہ اللہ علیہما پر بھی یہ انکشاف ہوا کہ مسیح موعود کے بعد اس کا ایک صاحب عظمت و شوکت فرزند تخت خلافت پر متمکن ہو گا۔
ان اولیاء کے بعد جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ آیا اور اس موعود فرزند کے ظہور کا وقت بھی قریب آپہنچا تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ پر اس پیشگوئی کی مزید تفصیلات ظاہر فرمائیں چنانچہ دعویٰ ماموریت کے چوتھے سال ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء کو پیدائش مصلح موعود کی بڑی صراحت سے بشارت دی گئی اور پسر موعود کی پوری زندگی اور اس کے عہد خلافت کی تاریخ کا نہایت جامع و مانع نقشہ کھینچ دیا گیا۔ یہ بشارت ان لفظوں میں تھی۔
’’تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت و نسل ہو گا خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے۔ اور وہ رجس سے پاک ہے۔ وہ نور اللہ ہے مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔
اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا۔ وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا وہ کلمتہ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا۔ (اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ فرزند دلبند گرامی ارجمند مظھر الاول و الاخر مظھر الحق و العلاء کان اللہ نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہو گا نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے۔ اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہو گا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا۔ اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔ اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا و کان امرا مقضیا‘‘۶۔
اس پیشگوئی کے بارے میں جناب الہیٰ کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر دو مزید انکشافات ہوئے۔
اول۔ یہ کہ ایسا موعود فرزند نو برس کے اندر اندر ضرور پیدا ہو جائے گا۔ چنانچہ حضور نے اشتہار ۲۲/ مارچ ۱۸۸۶ء میں تحریر فرمایا۔
’’اس عاجز کے اشتہار مورخہ ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں ایک پیشگوئی دربارہ تولد ایک فرزند صالح ہے جو بصفات مندرجہ اشتہار پیدا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا لڑکا بموجب وعدہ الہی نو برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہو گا۔ خواہ جلد ہو خواہ دیر سے بہرحال اس عرصہ کے اندر پیدا ہو جائے گا‘‘۷۔
دوم۔ حضرت اقدس نے ’’سبز اشتہار‘‘ میں تحریر فرمایا کہ۔
’’اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی۔ اور اس عبارت تک کہ ’’مبارک وہ جو آسمان سے آتا
‏rov.5.2
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت
ایک شاہی خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے آپ میں شروع ہی سے اولوالعزمی اور جلال کا رنگ بہت نمایاں تھا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک نہایت قدیمی اور مخلص صحابی حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب شاہ جہاں پوری اپنا ایک چشم دید واقعہ تحریر فرماتے ہیں کہ۔
’’اپریل یا مئی ۱۸۹۳ء کا ذکر ہے کہ میں ایک روز نماز عصر کے لئے مسجد کی طرف جارہا تھا۔ جب اس جگہ پہنچا جہاں حضرت سید احمد نور کابلی رضی اللہ عنہ کی دکان تھی۔ تو میں نے دیکھا۔ کہ اس سے شمال کی طرف چند قدم کے فاصلہ پر حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جو اس زمانہ میں میاں صاحب یا میاں محمود کہلاتے تھے چند بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ میں آپ کو دیکھ ہی رہا تھا کہ سیدنا و مولانا حضرت مولوی نور الدینؓ بھی تشریف لے آئے اگرچہ آنجناب زمین پر اکڑو بیٹھنے کو پسند نہیں فرماتے تھے تاہم میاں صاحب کے قریب پہنچ کر اکڑو زمین پر بیٹھ گئے۔ اور آپ کو اپنے ہاتھوں کے حلقہ میں لے لیا۔ اور بڑی محبت کی نظروں سے آپ کو دیکھتے ہوئے پیار کے لہجہ میں فرمایا۔ ’’میاں آپ کھیل رہے ہیں۔‘‘ میاں نے معصومانہ نظروں سے حضرت مولوی صاحب کی طرف دیکھا اور جس لہجہ میں آپ سے سوال کیا گیا تھا بالکل اسی لہجہ میں بڑی تیزی سے جواب دیا کہ ’’بڑے ہوں گے تو ہم بھی کام کریں گے۔‘‘ سیدنا حضرت مولوی صاحبؓ نے یہ جواب سن کر فرمایا کہ ’’خیال تو تمہارے پیو کا بھی یہی ہے۔ اور نور الدین کا بھی واللہ اعلم بالصواب۔‘‘ مجھے ’’پیو‘‘ کے معنے معلوم نہیں تھے اس لئے میں یہ سمجھ نہیں سکا کہ سیدنا حضرت مولوی صاحب کس امر میں کس سے متحد الخیال ہیں۔ جب سیدنا حضرت مولوی صاحب مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو ہمراہیوں میں سے کسی سے پوچھا کہ پیو کسے کہتے ہیں تو معلوم ہوا کہ باپ کو مگر یہ معلوم ہو جانے کے بعد بھی متحد الخیال ہونے والی بات میں اس وقت نہیں سمجھا تھا وہ سیدنا حضرت مولانا نور الدینؓ کے زمانہ خلافت میں مجھے معلوم ہوئی۔ فالحمدللہ
جس زمانے کی یہ بات ہے اس زمانے میں حضرت امیر المومنین کی عمر چار سال یا اس سے کچھ تھوڑی ہی زیادہ معلوم ہوتی تھی۔ مجھے آج بھی جب اس واقعہ کا خیال آتا ہے تو میں حیران ہو جاتا ہوں کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اتنی چھوٹی عمر میں حضرت مولوی صاحب کا سوال کیسے سمجھا اور اس کا اتنا چیدہ و سنجیدہ اور پسندیدہ و برجستہ جواب کس طرح دیا تھا‘‘۵۱۔
ہمارے ملک کے بچوں میں ایک دلچسپ کھیل رائج ہے۔ کہ ایک لڑکا بیٹھ جاتا ہے اور باقی سب لڑکے اس کے سر پر اوپر نیچے مٹھیاں بند کرکے رکھتے چلے جاتے ہیں آپ بھی بچپن میں یہ کھیل کھیلا کرتے تھے۔ مگر یہ بالکل ابتدائی عمر کی بات ہے ورنہ تعلیمی دور اور اس کے بعد آپ کی پسندیدہ کھیل بیڈمنٹن۵۳ اور فٹ بال تھی۔ جو اپنے زمانہ خلافت سے قبل آپ ایک عرصہ تک کھیلتے رہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی زندگی کے آخری دنوں میں تو آپ نے موگریاں بھی رکھی ہوئیں تھیں۵۴۔
ان ورزشی کھیلوں کے علاوہ شکار سے بھی آپ کو رغبت تھی جس کی وجہ خود اپنے قلم سے لکھتے ہیں کہ ’’میں ابتدائی ایام سے بندوق چلانے کا شائق رہا ہوں۔ بچپن میں ہی مجھے شکار کھیلنے کا شوق تھا۔ میں شکار خود نہیں کھاتا تھا۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو لا کر دے دیتا تھا۔ آپ چونکہ دماغی کام کرتے تھے اس لئے شکار کا گوشت آپ کے لئے مفید ہوتا۔ اور آپ اسے پسند بھی فرماتے تھے۔ اس وقت مجھے اتنی مشق تھی کہ میں پانچ چھ چھرے لے جاتا اور ہوائی بندوق سے چار پانچ پرندے مار لاتا تھا۔ حالانکہ وہ بندوق بھی معمولی قسم کی ہوائی بندوق ہوتی تھی‘‘۵۵۔
آپ کشتی رانی اور تیراکی بھی کرتے تھے۔ چنانچہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک چھوٹی کشتی بھی جہلم سے منگوا کر دی تھی اور آپ کو تیرنا سکھانے کے لئے ابو سعید عرب مقرر ہوئے تھے۔ اس زمانہ میں ڈھاب بڑی وسیع تھی مگر بعد میں ڈھاب پر کرکے اکثر جگہ مکانات بن گئے۵۶۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب جو پہلی مرتبہ ۱۹۰۵ء میں قادیان آئے تو انہوں نے اپنی آنکھوں سے حضور کو ڈھاب میں کشتی چلاتے دیکھا ہے۵۷۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی حیات طیبہ کے آخری زمانہ میں غالباً ۱۹۰۶ء کے قریب آپ کی سواری کے لئے ایک گھوڑی بھی خریدی جو نہایت عمدہ نسل اور عمدہ قد کی جوان بچھیری تھی۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خان عبدالمجید خاں صاحب ریٹائرڈ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کپورتھلہ (فرزند اکبر حضرت منشی محمد خان صاحبؓ) کو خط لکھا کہ یہ چالاک گھوڑی ہے اس کی بجائے کوئی اور گھوڑی بھجوائی جائے یا اس کو بیچ کر کوئی اور عمدہ گھوڑی بھجوا دیں۔ حضرت شیخ عرفانی الکبیرؓ نے مکتوبات احمدیہ حصہ پنجم میں حضور کا پورا خط نقل کرنے کے بعد لکھا ہے۔ ’’اس مکتوب سے ظاہر ہے ۔۔۔۔۔ کہ حضور نے بچپن ہی سے صاحبزادوں کی تربیت ایک ایسے رنگ میں فرمائی جو ان کی آئندہ زندگی کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتا ہے۔ خصوصیت سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ کی تربیت میں آپ کو خاص شغف تھا یہ گھوڑی حضرت امیر المومنین ہی کی سواری کے لئے لی گئی تھی۔ اور حضرت امیر المومنین ایک عمدہ شاہسوار ہیں‘‘۵۸۔
سیدنا حضرت محمود بچپن میں ٹوپی پہنا کرتے تھے لیکن ایک دفعہ عید کے روز آپ نے ٹوپی پہن رکھی تھی کہ حضور نے آپ کو دیکھ کر فرمایا۔ میاں تم نے عید کے دن بھی ٹوپی پہنی ہے آپ نے اسی وقت ٹوپی اتار دی اور پگڑی باندھ لی اور کچھ عرصہ بعد ٹوپی کا استعمال ہمیشہ کے لئے ترک کر دیا۵۹۔
آپ کا لباس ابتداء ہی سے نہایت سادہ رہا ہے۔ شروع شروع میں آپ پرانے دستور کے مطابق پاجامہ پہنا کرتے تھے۔ جو شلوار کے رواج سے پہلے عام طور پر سکولوں میں رائج تھا۔ اور شرعی پاجامہ کہلاتا تھا۔ لیکن طالب علمی کی زندگی میں آپ نے شلوار کا استعمال شروع کر دیا۔ اس تبدیلی کی بھی ایک بڑی پر لطف سرگزشت ہے جس کی تفصیل خود آپ ہی کے الفاظ میں درج کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔ فرماتے ہیں۔
’’بعض لڑکوں نے مجھے کہا میں شلوار پہنا کروں۔ چنانچہ میں نے شلوار بنائی۔ مجھے خوب یاد ہے جب پہن کر میں گھر سے باہر آیا۔ تو میں نہیں سمجھتا کوئی چور یا ڈاکو بھی کوئی واردات کرکے اتنی ندامت اور شرمساری محسوس کرتا ہو گا جتنی کہ مجھے اس وقت شلوار پہننے سے محسوس ہوئی۔ میں آنکھیں نیچی کئے ہوئے بمشکل اس مکان تک جو پہلے شفا خانہ تھا اور جس میں اس وقت ڈاکٹر عبداللہ صاحب بیٹھا کرتے تھے آیا۔ بھائی عبدالرحیم صاحب اور بعض دوسرے استادوں نے اس بات کی تائید بھی کی کہ شلوار اچھی لگتی ہے۔ مگر مجھے اتنی شرم آئی کہ واپس جا کر میں نے اسے اتار دیا‘‘۶۰۔
ایک خاص اور نمایاں وصف جو ابتدائے عمر سے آپ میں پوری شان کے ساتھ نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے زبردست محبت و عقیدت تھی کہ حد بیان سے باہر ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ رات کے وقت صحن میں سو رہے تھے کہ بادل زور شور سے گھر آئے اور بجلی نہایت زور سے کڑکی۔ وہ کڑک اس قدر شدید تھی کہ ہر شخص نے یہی سمجھا کہ گویا بالکل اس کے پاس گری ہے ۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام جو صحن میں سو رہے تھے چارپائی سے اٹھ کر کمرہ کی طرف جانے لگے دروازہ کے قریب پہنچے کہ بجلی زور سے کڑکی۔ میں اس وقت آپ کے پیچھے تھا۔ میں نے اسی وقت اپنے دونوں ہاتھ اٹھا کر آپ کے سر پر رکھ دئے اس خیال سے کہ اگر بجلی گرے تو مجھ پر گرے آپ پر نہ گرے۔ اب یہ ایک جہالت کی بات تھی بجلیاں جس خدا کے ہاتھ میں ہیں اس کا تعلق میری نسبت آپ سے زیادہ تھا۔ بلکہ آپ کے طفیل میں بھی بجلی سے بچ سکتا تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ہاتھوں سے بجلی کو نہیں روکا جا سکتا۔ مگر عشق کی وجہ سے مجھے ان باتوں میں سے کوئی بات بھی یاد نہ رہی۔ محبت کے وفور کی وجہ سے یہ سب باتیں میری نظر سے اوجھل ہو گئیں اور میں نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دیا‘‘۶۱۔
آپ کا جذبہ عقیدت و فدائیت اور ادب و اطاعت محض اس لئے نہیں تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے والد ماجد تھے۔ بلکہ اس لئے کہ حضور اللہ تعالیٰ کے مامور ہیں اور اس نے اپنے حکم سے آپ کو بھیجا ہے چنانچہ سیدنا حضرت امیر المومنین نے بچپن کا ایک واقعہ اس طرح بیان فرمایا ہے۔
’’میری عمر جب ۹ یا دس برس کی تھی میں اور ایک اور طالب علم ہمارے گھر میں کھیل رہے تھے وہیں ایک الماری میں ایک کتاب پڑی تھی جس پر نیلا جزدان تھا۔ وہ ہمارے دادا صاحب کے وقت کی تھی نئے نئے ہم پڑھنے لگے تھے اس کتاب کو جو کھولا تو اس میں لکھا تھا کہ اب جبرئیل نازل نہیں ہوتا۔ میں نے کہا یہ غلط ہے میرے ابا پر تو نازل ہوتا ہے مگر اس لڑکے نے کہا کہ جبرئیل نہیں آتا کیونکہ اس کتاب میں لکھا ہے ہم میں بحث ہو گئی۔ آخر ہم دونوں حضرت صاحب کے پاس گئے اور دونوں نے اپنا اپنا بیان پیش کیا۔ آ نے فرمایا۔ کہ کتاب میں غلط لکھا ہے جبرائیل اب بھی آتا ہے‘‘۶۲۔
آپ کا ایک اور واقعہ بھی اس حقیقت کو واضح کرتا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
’’ایک دفعہ حضرت صاحب کچھ بیمار تھے۔ اس لئے جمعہ کے لئے مسجد میں نہ جا سکے۔ میں اس وقت بالغ نہیں تھا۔ کہ بلوغت والے احکام مجھ پر جاری ہوں۔ تاہم میں جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد کو آرہا تھا۔ کہ ایک شخص مجھے ملا۔ اس وقت کی عمر کے لحاظ سے تو شکل اس وقت تک یاد نہیں رہ سکتی۔ مگر اس واقعہ کا اثر مجھ پر ایسا ہوا کہ اب تک مجھے اس شخص کی صورت یاد ہے۔ محمد بخش ان کا نام ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ان سے پوچھا آپ واپس آرہے ہیں کیا نماز ہو گئی ہے؟ انہوں نے کہا آدمی بہت ہیں مسجد میں جگہ نہیں تھی۔ میں واپس آگیا۔ میں یہ جواب سن کر واپس آگیا اور گھر میں آکر نماز پڑھ لی۔ حضرت صاحب نے یہ دیکھ کر مجھ سے پوچھا۔ مسجد میں نماز پڑھنے کیوں نہیں گئے۔ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں بچپن سے ہی حضرت صاحب کا ادب ان کے نبی ہونے کی حیثیت سے کرتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ کے پوچھنے میں ایک سختی تھی اور آپ کے چہرہ سے غصہ ظاہر ہوتا تھا۔ آپ کے اس رنگ میں پوچھنے کا مجھ پر بہت ہی اثر ہوا۔ جواب میں میں نے کہا کہ میں گیا تو تھا لیکن جگہ نہ ہونے کی وجہ سے واپس آگیا آپ یہ سن کر خاموش ہو گئے۔ لیکن اب جس وقت جمعہ پڑھ کر مولوی عبدالکریم صاحب آپ کی طبیعت کا حال پوچھنے کے لئے آئے تو سب سے پہلی بات جو حضرت مسیح موعودؑ نے آپ سے دریافت کی وہ یہ تھی۔ کہ آج لوگ مسجد میں زیادہ تھے؟ اس وقت میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی۔ کیونکہ میں خود تو مسجد میں گیا نہیں تھا۔ معلوم نہیں بتانے والے کو غلطی لگی یا مجھے اس کی بات سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ان کی بات سے یہ سمجھا تھا کہ مسجد میں جگہ نہیں۔ مجھے فکر یہ ہوئی کہ اگر مجھے غلط فہمی ہوئی ہے یا بتانے والے کو ہوئی ہے دونوں صورتوں میں الزام مجھ پر آئے گا۔ کہ میں نے جھوٹ بولا۔ مولوی عبدالکریم صاحب نے جواب دیا۔ ہاں حضور آج واقعہ میں بہت لوگ تھے۔ میں اب بھی نہیں جانتا کہ اصلیت کیا تھی خدا نے میری بریت کے لئے یہ سامان کر دیا کہ مولوی صاحب کی زبان سے بھی اس کی تصدیق کرا دی یا فی الواقعہ اس دن غیر معمولی طور پر زیادہ لوگ آئے تھے۔ بہرحال یہ ایک واقعہ ہے جس کا آج تک میرے قلب پر ایک گہرا اثر ہے‘‘۶۳body] gat[۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا آپ کے دل میں جس قدر ادب و احترام تھا اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی ذاتی ضرورت کے لئے حضور سے کبھی کوئی مطالبہ اپنی زبان سے نہیں کیا۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔ کہ۔
ذاتی ضرورت کے لئے میں نے کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی کچھ نہیں مانگا مجھے جب کوئی ضرورت پیش آتی میں خاموش پاس کھڑا ہو جایا کرتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سمجھ جاتے کہ اسے کوئی ضرورت ہے چنانچہ آپ ہماری والدہ صاحبہ سے کہتے کہ اسے کوئی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ پتہ لو یہ کیا چاہتا ہے۶۴۔
اسی ضمن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’میری عمر بہت چھوٹی تھی مگر یہ خدا کا فضل تھا کہ باجودیکہ لکھنے پڑھنے کی طرف توجہ نہ تھی جب سے ہوش سنبھالا حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کامل یقین اور ایمان تھا اگر اس وقت والدہ صاحبہ کوئی ایسی بات کرتیں جو میرے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی شان کے شایاں نہ ہوتی تو میں یہ نہ دیکھتا کہ ان کا میاں بیوی کا تعلق ہے اور میرا ان کا ماں بچہ کا تعلق ہے ۔۔۔۔۔۔۔ حالانکہ میں کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کچھ نہ مانگتا تھا۔ والدہ صاحبہ ہی میری تمام ضروریات کا خیال رکھتی تھیں۔ باوجود اس کے والدہ صاحبہ کی طرف سے اگر کوئی بات ہوتی تو مجھے گراں گزرتی۔ مثلاً خدا کے کسی فضل کا ذکر ہوتا تو والدہ صاحبہ کہتیں میرے آنے پر ہی خدا کی یہ برکت نازل ہوئی ہے اس قسم کا فقرہ میں نے والدہ صاحبہ کے منہ سے کم از کم سات آٹھ دفعہ سنا اور جب بھی سنتا گراں گزرتا۔ میں اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بے ادبی سمجھتا تھا۔ لیکن اب درست معلوم ہوتا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بھی اس فقرہ سے لذت پاتے تھے۔ کیونکہ وہ برکت اس الہام کے ماتحت ہوئی کہ یادم اسکن انت و زوجک‘‘۶۵۔
آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہر حکم کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری کیا کرتے تھے اور آپ کے اشاروں کو بھی ابتدا ہی سے خوب سمجھتے۔ چنانچہ حضرت سید فضل شاہ صاحب کا واقعہ ہے کہ۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ چوبارے کے صحن میں بیٹھے تھے اور بادام آگے رکھے تھے ۔۔۔۔۔۔ میں بادام توڑ رہا تھا کہ اتنے میں حضرت میاں بشیر الدین جن کی عمر اس وقت چار یا پانچ سال کی ہو گی۔ تشریف لائے اور سب بادام اٹھا کر جھولی میں ڈال لئے۔ حضرت اقدس نے یہ دیکھ کر فرمایا یہ میاں بہت اچھا ہے یہ زیادہ نہیں لے گا۔ صرف ایک یا دو لے گا۔ باقی سب ڈال دے گا جب حضرت صاحب نے یہ فرمایا۔ میاں نے جھٹ بادام میرے آگے رکھ دئے اور صرف ایک یا دو بادام لے کر چلے گئے۶۶۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر زندہ ایمان ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ حضور کی ہر بات صدق دل سے تسلیم کرتے تھے۔ اور اسی کی تلقین دوسروں کو بھی فرماتے۔ چنانچہ بطور مثال آپ کے قلم سے لکھا ہوا ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ایک دفعہ فرمایا۔ کہ بعض دفعہ ہم تسبیح کہتے ہیں تو ایک ہی دفعہ کی تسبیح پر ہمیں خدا تعالیٰ کا اس قدر قرب حاصل ہو جاتا ہے کہ دوسرا انسان ہزاروں ہزار ویسی تسبیح کرکے بھی اس سے اتنا فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ میں اس مجلس میں نہیں تھا کسی ہمارے ہم عمر نے یہ بات سن لی۔ وہ مجھے ملے تو انہوں نے تعجب سے کہا۔ پتہ نہیں اس میں کیا راز ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے معلوم نہیں کس تسبیح کا ذکر کیا۔ اس نے مجھ سے ذکر کیا تو یہ بات فوراً میرے ذہن میں آگئی کہ ایک تسبیح دل سے نکلتی ہے اور ایک تسبیح زبان سے نکلتی ہے۔ جب تسبیح دل سے نکلتی ہے تو یکدم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انسان کہیں سے کہیں پہنچ گیا ہے اور جو تسبیح زبان سے نکلتی ہے وہ خواہ کوئی انسان ہزاروں دفعہ دہرائے وہ وہیں کا وہیں بیٹھا رہتا ہے میں نے اسے کہا میں سمجھ گیا ہوں جو تسبیح دل سے نکلتی ہے اس کا اثر فوراً ظاہر ہو جاتا ہے اور جو صرف زبان سے نکلتی ہے اس کا کوئی اثر پیدا نہیں ہوتا‘‘۶۷۔
وہ بزرگ جنہوں نے آپ کو انتہائی بچپن کے زمانہ سے دیکھا ہے بالاتفاق یہ گواہی دیتے ہیں کہ چھوٹی عمر سے ہی آپ کو دینی باتوں سے خاص شغف اور دلچسپی رہی ہے اور اگرچہ آپ ابتداء سے بہت کمزور اور دبلے پتلے ہوتے تھے اور اکثر صحت خراب رہتی تھی مگر اس زمانہ میں بھی مذہبی باتوں میں آپ ہمیشہ بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتے تھے۔ اگرچہ وہ باتیں شروع شروع میں آپ کی سمجھ میں نہیں آتی تھیں اور نہ آسکتی تھیں تاہم آپ کو ان سے طبعاً ایک دلی لگائو اور گہرا تعلق تھا اسی تعلق کے باعث آپ نے بالکل چھوٹی عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں جانا شروع کر دیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آپ کو نہایت محبت کے ساتھ اپنے شہ نشین پر دائیں طرف بٹھاتے تھے۶۸۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں۔
’’صداقت ہمارے پاس ہے اور ہمارے کانوں میں ابھی تک وہ آوازیں گونج رہی ہیں جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے براہ راست سنیں میں چھوٹا تھا مگر میرا مشغلہ یہی تھا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی مجلس میں بیٹھا رہتا اور آپ کی باتیں سنتا ۔۔۔۔۔ ہم نے اس قدر مسائل سنے ہوئے ہیں کہ جب آپ کی کتابوں کو پڑھا جاتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ تمام باتیں ہم نے پہلے سنی ہوئی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو عادت تھی کہ آپ دن کو جو کچھ لکھتے دن اور شام کی مجلس میں آکر بیان کر دیتے اس لئے آپ کی تمام کتابیں ہم کو حفظ ہیں اور ہم ان مطالب کو خوب سمجھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی منشا اور آپ کی تعلیم کے مطابق ہوں‘‘۶۹۔
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیلؓ سے مروی ہے کہ ’’حضرت صاحب ایک دفعہ سالانہ جلسہ پر تقریر کرکے واپس گھر تشریف لائے تو حضرت میاں صاحب (خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) سے جن کی عمر اس وقت ۱۰۔ ۱۲ سال کی ہو گی پوچھا کہ میاں یاد بھی ہے کہ آج میں نے کیا تقریر کی تھی۔ میاں صاحب نے اس تقریر کو اپنی سمجھ اور حافظہ کے موافق دہرایا۔ تو حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے خوب یاد رکھا ہے‘‘۷۰۔
آپ کے عہد طفولیت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ نظر آتی ہے کہ آپ کو چھوٹی عمر سے ہی نماز پڑھنے اور لمبی لمبی دعائیں کرنے کا بے حد شوق تھا۔ دراصل آپ روزانہ اپنی آنکھوں سے قبولیت دعا کے تازہ بتازہ نشانات اور معجزات مشاہدہ کرتے تھے جنہوں نے آپ کو رفتہ رفتہ معرفت‘بصیرت‘اور یقین و ایمان کی مستحکم چٹان پر کھڑا کر دیا تھا۔ خود فرماتے ہیں۔
’’ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعائوں کی قبولیت کے ایسے نشان دیکھے ہیں کہ ان کے دیکھنے کے بعد خدا تعالیٰ کے وجود میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔ پھر خود اپنی ذات میں بھی اس نشان کا مشاہدہ کیا ہے اور بارہا حیرت انگیز ذرائع سے دعائوں کو قبول ہوتے دیکھا ہے‘‘]01 [p۷۱۔
اس سلسلہ میں بطور نمونہ بچپن کے تین واقعات ذیل میں لکھے جاتے ہیں۔
۱۔ حضرت مفتی محمد صادقؓ کی چشم دید شہادت ہے کہ۔
’’چونکہ عاجز نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بیعت ۱۸۹۰ء کے اخیر میں کر لی تھی۔ اور اس وقت سے ہمیشہ آمدورفت کا سلسلہ متواتر جاری رہا۔ میں حضرت اولوالعزم مرزا بشیر الدین محمود احمد ایدہ اللہ تعالیٰ کو ان کے بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ کس طرح ہمیشہ ان کی عادت حیا اور شرافت اور صداقت اور دین کی طرف متوجہ ہونے کی تھی۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دینی کاموں میں بچپن سے ہی ان کو شوق تھا نمازوں میں اکثر حضرت مسیح موعودؑ کے ساتھ جامع مسجد میں جاتے اور خطبہ سنتے۔ ایک دفعہ مجھے یاد ہے جب آپ کی عمر دس سال کے قریب ہو گی آپ مسجد اقصیٰ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نماز میں کھڑے تھے اور پھر سجدہ میں بہت رو رہے تھے بچپن سے ہی آپ کو فطرتاً اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ خاص تعلق محبت تھا‘‘۷۲۔
۲۔
اسی نوعیت کا ایک ایمان افروز واقعہ حضرت شیخ غلام احمد واعظ بھی بیان فرمایا کرتے تھے کہ۔
’’ایک دفعہ میں نے یہ ارادہ کیا کہ آچ کی رات مسجد مبارک میں گزاروں گا۔ اور تنہائی میں اپنے مولیٰ سے جو چاہوں گا مانگوں گا۔ مگر جب میں مسجد میں پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ کوئی شخص سجدے میں پڑا ہوا ہے اور الحاح سے دعا کر رہا ہے۔ اس کے اس الحاح کی وجہ سے میں نماز بھی نہ پڑھ سکا۔ اور اس شخص کی دعا کا اثر مجھ پر بھی طاری ہو گیا۔ اور میں بھی دعا میں محو ہو گیا اور میں نے یہ دعا کی کہ یا الٰہی یہ شخص جو تیرے حضور سے جو کچھ مانگ رہا ہے وہ اس کو دے دے اور میں کھڑا کھڑا تھک گیا۔ کہ یہ شخص سر اٹھائے تو معلوم کروں کہ کون ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ مجھ سے پہلے وہ کتنی دیر سے آئے ہوئے تھے۔ مگر جب آپ نے سر اٹھایا۔ تو کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں محمود احمد صاحب ہیں۔ میں نے السلام علیکم کی اور مصافحہ کیا۔ اور پوچھا میاں آج اللہ تعالیٰ سے کیا کچھ لے لیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو یہی مانگا ہے کہ الٰہی مجھے میری آنکھوں سے اسلام کو زندہ کرکے دکھا۔ اور یہ کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے‘‘۷۳۔
۳۔ حضرت شیخ محمد اسمعیل سرسادیؓ۷۴ کا بیان ہے کہ۔
ہم نے اپنی آنکھوں سے آپ کے بچپن کو دیکھا اور پھر اسی بچپن میں آپ کے ایثار اور آپ کی نیکی اور تقویٰ کو خوب دیکھا۔ ہم نے دیکھا کہ آپ کے قلب میں دین کا ایک جوش موجزن تھا۔ اور بچپن ہی سے آپ دعائوں میں اس قدر محو اور غرق ہوتے تھے کہ ہم تعجب سے دیکھا کرتے تھے کہ یہ جوش ہم میں کیوں نہیں۔ آپ بعض وقت دعا میں ایسے محو ہوتے تھے کہ ہم ہاتھ اٹھائے اٹھائے تھک جاتے تھے لیکن آپ کو اپنی محویت میں اس قدر بھی معلوم نہ رہتا کہ کس قدر وقت گزر گیا ہے چنانچہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سورج گرہن کی نماز پڑھنے کے لئے ہم مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے نماز مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے پڑھائی اور نماز کے بعد مولوی صاحب نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے عرض کی کہ ’’میاں آپ دعا شروع کریں۔‘‘ آپ نے دعا شروع فرمائی۔ مگر آپ اس دعا میں ایسے محو ہوئے کہ آپ کو یہ خبر ہی نہ رہی کہ میرے ساتھ اور لوگ بھی دعا میں شریک ہیں دعا میں جس قدر لوگ شامل تھے ان کے ہاتھ اٹھے اٹھے اس قدر تھک گئے کہ وہ شل ہونے کے قریب ہو گئے۔ اور کئی کمزور صحت۷۵4] [rtf کے لوگ تو پریشان ہو گئے۔ تب مولوی محمد احسن صاحب نے جو خود بھی تھک چکے تھے دعا کے خاتمہ کے الفاظ بلند آواز میں کہنے شروع کئے جسے سن کر آپ نے دعا ختم فرمائی۷۶۔
حضرت شیخ محمد اسمعیلؓ نے اپنے اس بیان میں مزید یہ لکھا ہے کہ۔
’’ہم نے بارہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے سنا ہے۔ ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بار سنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ وہ لڑکا جس کا پیشگوئی میں ذکر ہے وہ میاں محمود ہی ہیں اور ہم نے آپ سے یہ بھی سنا کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ’’میاں محمود میں اس قدر دینی جوش پایا جاتا ہے کہ میں بعض اوقات ان کے لئے خاص طور پر دعا کرتا ہوں‘‘۷۷۔
حضرت مسیح موعودؑ کی بعض ابتدائی کتابوں میں آپ کا ذکر مبارک سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی عمر بمشکل دو سال کی ہو گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۱ء کے آغاز میں دعویٰ مسیحیت کا اعلان فرمایا۔ حضور نے اسی سال سے جہاں اپنے دعاوی کے ثبوت میں دوسرے زبردست نشانات پبلک کے سامنے رکھنے شروع کئے وہاں آپ نے التزام کے ساتھ پیشگوئی متعلقہ پسر موعود کی بھی بار بار منادی کرنا شروع کر دی۔ اور اپنی کتابوں میں بڑے زور شور سے تمام لوگوں کو توجہ دلانے لگے کہ پسر موعود سے متعلق آسمانی نشان کو بھی یاد رکھیں کہ یہ آپ کی سچائی اسلام کی سچائی اور محمد رسول اللہﷺ~ کی سچائی پر ایک عظیم الشان برہان ہے۔ چنانچہ ۱۸۹۱ء سے ۱۸۹۴ء تک کے زمانے میں آپ نے جو کتابیں تصنیف فرمائیں ان میں سے ’’ازالہ اوہام‘‘۔ ’’نشان آسمانی‘‘۔ ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ اور ’’سر الخلافہ‘‘۷۸ میں پسر موعود کا ذکر بھی بڑی وضاحت سے موجود ہے۔
چنانچہ ’’ازالہ اوہام‘‘ میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا۔
’’خدا تعالیٰ نے ایک قطعی اور یقینی پیشگوئی میں میرے پر ظاہر کر رکھا ہے کہ میری ہی ذریت سے ایک شخص پیدا ہو گا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہو گی۔ وہ آسمان سے اترے گا۔ اور زمین والوں کی راہ سیدھی کر دے گا۔ وہ اسیروں کو رستگاری بخشے گا۔ اور ان کو جو شبہات کے زنجیروں میں مقید ہیں رہائی دے گا۔ فرزند دلبند گرامی اراجمند مظہر الحق والعلاء کان اللہ نزل من السماء لیکن یہ عاجز ایک خاص پیشگوئی کے مطابق جو خدا تعالیٰ کی مقدس کتابوں میں پائی جاتی ہے مسیح موعود کے نام پر آیا ہے۔ واللہ اعلم و علمہ احکم‘‘۷۹۔
’’نشان آسمانی‘‘ میں حضرت نعمت اللہ ولی~رح~ کے قصیدہ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا۔
دور اوچوں شود تمام بکام
پسرش یادگار مے بینم
یعنی جب اس کا زمانہ کامیابی کے ساتھ گزر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا لڑکا یادگار رہ جائے گا یعنی مقدریوں ہے کہ خدا تعالیٰ اس کو ایک لڑکا پارسا دے گا جو اس کے نمونہ پر ہو گا اور اسی کے رنگ سے رنگین ہو جائے گا۔ اور وہ اس کے بعد اس کا یادگار ہو گا۔ یہ درحقیقت اس عاجز کی اس پیشگوئی کے مطابق ہے جو ایک لڑکے کے بارے میں کی گئی ہے‘‘۸۰۔
’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ (تصنیف ۱۸۹۲ء) میں حضور نے صرف ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء کا مکمل اشتہار شامل کر دیا بلکہ پیشگوئی متعلقہ مصلح موعود کا عربی ترجمہ بھی شائع فرمایا تا دنیائے عرب تک بھی اصل پیشگوئی کے الفاظ پہنچ جائیں۔ اور اتمام حجت ہو۔ چنانچہ حضور نے اس کتاب میں عربی میں پیشگوئی کے الفاظ لکھنے کے بعد تحریر فرمایا۔
’’قد اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان المسیح الموعود یتزوج ویولدلہ ففی ھذا اشارہ الی ان اللہ یعطیہ ولدا صالحا یشابہ اباہ ولا یا باہ و یکون من عباداللہ المکرمین والسر فی ذلک ان اللہ لا یبشر الانبیاء و الاولیاء بذریہ الا اذا قدر تولید الصالحین وھذہ ھی البشارہ التی قد بشرت بھا من سنین ومن قبل ھذہ الدعوی لیعر فنی اللہ بھذا العلم فی اعین الذین یستشرفون و کانوا للمسیح کالمجلوذین۔‘‘
ترجمہ: رسول اللہ~صل۱~ نے خبر دی ہے کہ مسیح موعود شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی اور اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے نیک لڑکا عطا کرے گا جو اپنے باپ کے مشابہ ہو گا۔ اور (کسی بات میں) اس کی نافرمانی نہیں کرے گا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے معزز بندوں میں سے ہو گا۔ اور اس میں بھید یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انبیاء اور اولیاء کو بشارت نہیں دیتا مگر جبکہ اس نے نیکوں کو پیدا کرنا مقدر کیا ہو۔ اور یہ وہ بشارت ہے جو مجھے اس دعویٰ سے کئی سال پہلے دی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ مجھے اس علم کے ساتھ ان لوگوں کے سامنے (جو انتظار کرتے تھے اور مسیح کے جلدی ظہور کے لئے چشم براہ تھے) متعارف کرا دے۸۱۔
‏rov.5.3
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے سوانح قبل از خلافت
پہلا باب (فصل دوم)
تعلیم قرآن اور آمین ’’مدرسہ تعلیم الاسلام‘‘ میں ظاہری تعلیم‘پہلی شادی ’’انجمن ہمدردان اسلام‘‘ ’’تشحیذ الاذہان‘‘ اور شعر و سخن کا آغاز
(۱۳۱۲ ھ ۔ ۱۳۲۲ھ)
(۱۸۹۵ء سے ۱۹۰۴ء تک)
تعلیم قرآن ۱۸۹۵ء
سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تعلیم قرآن کی ابتدا ۱۸۹۵ء میں ہوئی۸۲۔ حافظ احمد اللہ صاحب ناگپوری کو یہ سعادت حاصل ہوئی۔ کہ انہوں نے آپ کو (سادہ) قرآن شریف پڑھایا۸۳۔
’’انجام آتھم‘‘ میں ذکرحضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ۱۸۹۷ء میں ’’انجام آتھم‘‘ بھی شائع فرمایا تو اس کے ضمیمہ میں امیر المومنین حضرت سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی پیدائش کو سبز اشتہار کی پیشگوئی کے عین مطابق ہونے کی وجہ سے نشان قرار دیتے ہوئے تحریر فرمایا۔
’’محمود جو بڑا لڑکا ہے اس کی پیدائش کی نسبت اس سبز اشتہار میں صریح پیشگوئی معہ محمود کے نام کے موجود ہے پہلے لڑکے کی وفات کے بارے میں شائع کیا گیا تھا جو رسالہ کی طرح کئی ورق کا اشتہار سبز رنگ کے ورقوں پر ہے‘‘۸۴۔
’’سراج منیر‘‘ میں ذکر
اسی سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’سراج منیر‘‘ میں بھی سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کو سبز اشتہار کا موعود قرار دیا۔ اور علماء و خواص مسلم و غیر مسلم دنیا کو توجہ دلائی۔
’’پانچویں پیشگوئی میں نے اپنے لڑکے محمود کی پیدائش کی نسبت کی تھی کہ وہ اب پیدا ہو گا۔ اور اس کا نام محمود رکھا جائے گا اور اس پیشگوئی کی اشاعت کے لئے سبز ورق کے اشتہار شائع کئے گئے تھے جو اب تک موجود ہیں اور ہزاروں آدمیوں میں تقسیم ہوئے تھے۔ چنانچہ وہ لڑکا پیشگوئی کی میعاد میں پیدا ہوا۔ اور اب نویں سال میں ہے‘‘۸۵۔
اور حاشیہ میں تحریر فرمایا۔
’’ہاں سبز اشتہار میں صریح لفظوں میں بلا توقف لڑکا پیدا ہونے کا وعدہ تھا سو محمود پیدا ہو گیا۔ کس قدر یہ پیشگوئی عظیم الشان ہے۔ اگر خدا کا خوف ہے تو پاک دل کے ساتھ سوچو۔‘‘۸۶
’’محمود کی آمین‘‘
۷/ جون ۱۸۹۷ء کا دن نہ صرف سیدنا محمود کی زندگی میں بلکہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک یادگار دن ہے کیونکہ اس دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے ختم قرآن مجید کی فرحت خیز و مسرت انگیز تقریب بڑے وقار اور دعائوں کے ماحول میں منائی اس اجتماع میں جماعت کے بہت سے دوستوں نے شرکت کی چنانچہ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ء میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے۔ ’’دوسرا جلسہ حضور کے لخت جگر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد سلمہ اللہ کے ختم قرآن کی تقریب پر ہوا۔ اس جلسہ پر بھی بہت سے احباب تشریف لائے‘‘۸۷۔
حضرت حافظ احمد اللہ خان صاحب ناگپوری فرماتے تھے کہ ختم قرآن کی تقریب پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے ڈیڑھ سو روپیہ عنایت فرمایا تھا۸۸۔
اس موقعہ کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک منظوم ’’آمین‘‘ لکھی جس میں اپنی تمام مبشر اولاد کے لئے عموماً اور حضرت محمود (ایدہ اللہ تعالیٰ) کے لئے خصوصاً نہایت درد و سوز اور الحاح و زاری سے دعائیں کیں اور اس فضل ربانی پر جو ختم قرآن کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اپنے آسمانی آقا کا تہ دل سے شکر ادا کیا اور اس کی حمد و ثنا کے خوب گیت گائے۔ جیسا کہ محمود کی آمین کے مندرجہ ذیل اشعار سے ظاہر ہے۔
کیونکر ہو شکر تیرا تیرا ہے جو ہے میرا
تو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا
جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
تو نے یہ دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا
دل دیکھ کر یہ احسان تیری ثنائیں گایا
صد شکر ہے خدایا صد شکر ہے خدایا
یہ روزکر مبارک سبحان من یرانی
ہو شکر تیرا کیونکر اے میرے بندہ پرور
تو نے مجھے دئیے ہیں یہ تین تیرے چاکر
تیراہوں میں سراسر تو میرا رب اکبر
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی۸۹
سن میرے پیارے باری میری دعائیں ساری
رحمت سے ان کو رکھنا میں تیرے منہ کے واری
اپنی پنہ میں رکھیو سن کر یہ میری زاری
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے واحدیگانہ اے خالق زمانہ!
میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ
تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
فکروں میں دل حزیں ہے جاں درد سے قریں ہے
جو صبر کی تھی طاقت اب مجھ میں وہ نہیں ہے
ہر غم سے دور رکھنا تو رب عالمیں ہے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی۹۰
یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے
کر ان سے دور یا رب دنیا کے سارے پھندے
چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے میرے دل کے پیارے اے مہرباں ہمارے
کر ان کے نام روشن جیسے کہ ہیں ستارے
یہ فضل کر کہ ہویں نیکو گہر یہ سارے
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
اے میری جاں کے جانی اے شاہ دو جہانی
کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہووے ثانی
دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
میری دعائیں ساری کریو قبول باری
میں جائوں تیرے واری کر تو مدد ہماری
ہم تیرے در پہ آئے لے کر امید بھاری
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی
لخت جگر ہے میرا محمود بندہ تیرا
دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا
دن ہوں مرادوں والے پر نور ہو سویرا
یہ روز کر مبارک سبحان من یرانی۹۱
مقدمہ مارٹن کلارک سے بریت کی بشارت
سیدنا حضرت محمود فرماتے ہیں۔ ’’جن دنوں کلارک کا مقدمہ تھا ۔۔۔۔۔ حضرت مسیح موعودؑ نے جب اوروں کے لئے کہا تو مجھے بھی کہا کہ دعا اور استخارہ کرو۔ میں نے اس وقت رئویا میں دیکھا کہ ہمارے گھر کے اردگرد پہرے لگے ہوئے ہیں۔ میں اندر گیا جہاں سیڑھیاں ہیں وہاں ایک تہہ خانہ ہوتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کو وہاں کھڑا کرکے آگے اپلے چن دئیے گئے ہیں اور ان پر مٹی کا تیل ڈال کر کوشش کی جارہی ہے کہ آگ لگا دیں۔ مگر جب دیا سلائی سے آگ لگاتے ہیں تو آگ نہیں لگتی۔ وہ بار بار آگ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر کامیاب نہیں ہوتے۔ میں اس سے بہت گھبرایا۔ لیکن جب میں نے اس دروازہ کی چوکھٹ کی طرف دیکھا تو وہاں لکھا تھا کہ ’’جو خدا کے بندے ہوتے ہیں ان کو کوئی آگ نہیں جلا سکتی‘‘۹۲۔
چنانچہ اس خواب کے عین مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاف بری کر دئے گئے۹۳۔
سفر ملتان
آخر ۱۸۹۷ء میں سیدنا حضرت محمود سلمہ الودود نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ملتان کا سفر فرمایا۔ اس سفر کے صرف دو واقعات آپ کو یاد ہیں جن کی تفصیل خود آپ ہی کے الفاظ میں یہ ہے۔
’’پہلی بات تو یہ ہے کہ واپسی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام لاہور میں ٹھہرے۔ وہاں ان دنوں مومی تصویریں دکھائی جا رہی تھیں۔ جن سے مختلف بادشاہوں اور ان کے درباروں کے حالات بتائے جاتے تھے۔ شیخ رحمت اللہ صاحب مالک انگلش دیر ہائوس ۔۔۔۔۔۔ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے عرض کیا کہ یہ ایک علمی چیز ہے آپ اسے دیکھنے کے لئے تشریف لے چلیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے انکار کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ پر زور دینا شروع کر دیا۔ کہ میں چل کر وہ مومی مجسمے دیکھوں۔ میں چونکہ بچہ تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پیچھے پڑ گیا۔ کہ مجھے یہ مجسمے دکھائے جائیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام میرے اصرار پر مجھے اپنے ساتھ لے گئے۔ مختلف بادشاہوں کے حالات تصویروں کے ذریعہ دکھائے گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرا واقعہ جو مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی لاہور کے اندر کسی نے دعوت کی اور آپ اس میں شامل ہونے کے لئے تشریف لے گئے۔ کچھ اثر میرے دل پر یہ بھی ہے کہ دعوت نہیں تھی۔ بلکہ مفتی محمد صادق یا ان کا کوئی بچہ بیمار تھا۔ اور آپ انہیں دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے تھے۹۴۔ بہرحال شہر کے اندر سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام واپس آرہے تھے کہ سنہری مسجد کی سیڑھیوں کے پاس میں نے ایک بہت بڑا ہجوم دیکھا جو گالیاں دے رہا تھا ایک شخص ان کے درمیان کھڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی گاڑی پاس سے گزری۔ تو ہجوم کو دیکھ کر میں نے سمجھا کہ یہ بھی کوئی میلہ ہے چنانچہ میں نے نظارہ دیکھنے کے لئے گاڑی سے اپنا سر باہر نکالا۔ اس وقت کا یہ واقعہ مجھے آج تک نہیں بھولا۔ کہ میں نے دیکھا کہ ایک شخص جس کا ہاتھ کٹا ہوا تھا اور جس پر ہلدی کی پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ بڑے جوش سے اپنے ٹنڈے ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار مار کر کہتا جا رہا تھا۔ ’’مرزا دوڑ گیا۔ مرزا دوڑ گیا۔‘‘ اب دیکھو ایک شخص زخمی ہے اس کے ہاتھ پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ مگر وہ مخالفت کے جوش میں یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے ٹنڈے ہاتھ سے ہی نعوذ باللہ احمدیت کو دفن کر آئوں گا‘‘۹۵۔
تعلیم الاسلام سکول میں داخلہ
۱۸۹۸ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا افتتاح ہوا۔ اور حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ ایڈیٹر الحکم اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے۔ آپ بھی اس مدرسہ میں داخل ہو گئے۔ اس سے پہلے آپ کچھ عرصہ تک ڈسٹرکٹ بورڈ کے لوئر پرائمری سکول میں بھی پڑھتے رہے تھے۹۶۔ یہ سکول غالباً ۴۱۔ ۱۹۴۰ء تک قائم رہا پھر توڑ دیا گیا۔ مگر اس کی شکستہ عمارت جس کی چار دیواری گر چکی ہے ابھی تک ریتی چھلہ کے قریب موجود ہے۔ اس سکول میں ابتداًء حضرت پیر افتخار احمد صاحب لدھیانوی بھی مدرس رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ارشاد تھا کہ ’’میاں کو بھی سکول لے جایا کرو‘‘۔ اور حضرت پیر صاحب اس ارشاد کی تعمیل میں آپ کو اسکول لے جایا کرتے تھے۹۷۔
تعلیم الاسلام سکول کا افتتاح کس رنگ سے ہوا۔ اور اس کی ابتدائی حالت کیا تھی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’مجھے یاد ہے ہمارا وہ ہائی سکول جس کی اب ایسی عظیم الشان عمارت کھڑی ہے کہ معائنہ کرنے والے انسپکٹر کہتے ہیں پنجاب بلکہ ہندوستان میں کسی سکول کی ایسی عمارت نہیں اس کا جب پہلے دن افتتاح ہوا۔ تو مرزا نظام الدین صاحب کے کوئیں کے پاس ٹاٹ بچھا کر لڑکے بٹھائے گئے۔ پھر کچھ دنوں تک لڑکے مہمان خانہ میں بٹھائے گئے۔ پھر ایک کچا مکان بنایا گیا تھا‘‘۹۸۔
ہم مکتب
سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کے بعض ہم مکتب یہ ہیں۔
حافظ عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلہؓ۔ قاضی نور محمد صاحبؓ۔ محمد علی صاحب اشرفؓ (حکیم)۔ دین محمد صاحب پنشنر اکائونٹنٹ۹۹۔ شیخ محمد حسین صاحب چنیوٹی۔
اساتذہ کرام
’’مدرسہ تعلیم الاسلام‘‘ کے زمانہ تعلیم میں آپ نے جن اساتذہ سے پڑھا۔ ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔
۱۔ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانیؓ۱۰۰۔ (۲) حضرت قاضی سید امیر حسینؓ۱۰۱۔ (۳) حضرت مولانا سید محمد سرور شاہؓ۱۰۲۔ (۴) حضرت مولانا شیر علیؓ۱۰۳۔ (۵) حضرت ماسٹر عبدالرحمن نو مسلم ؓ۱۰۴۔ (۶) مفتی محمد صادقؓ۱۰۵۔ (۷) ماسٹر فقیر اللہ صاحب۱۰۶۔ (۸) قاضی یار محمد صاحب پلیڈر۔
دور تعلیم سے متعلق حضرت مولانا سید محمد سرور شاہؓ صاحب کے تاثرات
آپ کا دور تعلیم کیسا پاکیزہ اور اخلاق و روحانیت سے کتنا معمور تھا؟ یہ معلوم کرنے کے لئے آپ کے بعض اساتذہ کے تاثرات معلوم ہوناضروری امر ہے۔
حضرت مولانا سید محمد سرور شاہؓ صاحب کا بیان ہے کہ جب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ مجھ سے پڑھا کرتے تھے۔ تو ایک دن میں نے کہا کہ میاں! آپ کے والد صاحب کو تو کثرت سے الہام ہوتے ہیں کیا آپ کو بھی الہام ہوتا اور خوابیں وغیرہ آتی ہیں؟ تو میاں صاحب نے فرمایا کہ مولوی صاحب! خوابیں تو بہت آتی ہیں۔ اور میں ایک خواب تو تقریباً روز ہی دیکھتا ہوں اور جونہی میں تکیہ پر سر رکھتا ہوں اس وقت سے لے کر صبح کو اٹھنے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے جس کی میں کمان کر رہا ہوں اور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جا کر حریف کا مقابلہ کر رہا ہوں اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اگر میں نے پار گزرنے کے لئے اور کوئی چیز نہیں پائی۔ تو سر کنڈے وغیرہ سے کشتی بنا کر اور اس کے ذریعہ پار ہو کر حملہ آور ہو گیا ہوں میں نے جس وقت یہ خواب آپ سے سنا اسی وقت سے میرے دل میں یہ بات گڑی ہوئی ہے کہ یہ شخص کسی وقت ¶یقیناً جماعت کی قیادت کرے گا۔ اور میں نے اسی وجہ سے کلاس میں کرسی پر بیٹھ کر آپ کو پڑھانا چھوڑ دیا۔ آپ کو اپنی کرسی پر بٹھاتا اور خود آپ کی جگہ بیٹھ کر آپ کو پڑھاتا اور میں نے خواب سن کر آپ سے یہ بھی عرض کر دیا تھا کہ ’’میاں آپ بڑے ہو کر مجھے بھلا نہ دیں۔ اور مجھ پر بھی نظر شفقت رکھیں‘‘۔۱۰۷ (بروایت حضرت حافظ مختار احمد صاحب)
حضرت مولانا شیر علیؓ کے تاثرات
اس سلسلہ میں حضرت مولانا مولوی شیر علیؓ کے تاثرات جو آپ نے ایک مفضل مضمون کی شکل میں شائع فرمائے تھے خاص اہمیت رکھتے ہیں اور ان سے سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی سیرت و شمائل اور اخلاق و عادات پر گہری روشنی پڑتی ہے یہ تاثرات ایسے مقدس بزرگ و حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے جلیل القدر صحابی کے ہیں جنہیں سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کے بچپن اور جوانی کے اکثر حالات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ و ملاحظہ کرنے اور بہت قریب سے آپ کی عظیم شخصیت کے مطالعہ کرنے کا موقعہ ملا تھا۔ حضرت مولوی صاحب تحریر فرماتے ہیں۔
’’مئی ۱۸۹۹ء میں مدرسہ تعلیم الاسلام کا چارج لینے کے بعد جلدی ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوہ والسلام کے ارشاد کے ماتحت حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس وقت جبکہ آپ کی عمر ۱۰ سال کی تھی بندہ کے پاس انگریزی پڑھنی شروع کی پہلے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مکان میں جو دارالمسیح الموعود کے متصل اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل نواب صاحب کا مکان ہے رہتا تھا جب تک میں اس مکان میں رہا حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ اس مکان میں پڑھنے کے لئے تشریف لاتے رہے اس کے بعد میں خود حضور کی خدمت میں حاضر ہوتا رہا اور یہ خدمت بندہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے آخری دس سال میں برابر ادا کرتا رہا۔ اور حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد یہ سلسلہ حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کے شش سالہ دور خلافت میں بھی جاری رہا …گویا حضور کا سارا بڑھنا اور پھولنا اور بابرگ و بار ہونا میری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ آپ ایک نازک پتیوں والے چھوٹے پودے کی طرح تھے جبکہ میں نے پہلی دفعہ حضور کو دیکھا اور یہ پودا میرے دیکھتے دیکھتے جلد جلد بڑھا اور پھول پھل لایا۔ اور وہ حیرت انگیز ترقی کی جس کو دیکھ کر آنکھیں چندھیا جاتی اور انسان کی عقل دنگ ہو جاتی ہے اگر کوئی قابل انشاء پرداز ہوتا تو وہ شاید اس حیرت انگیز ترقی کا نقشہ کھینچنے کی کچھ کوشش کرتا۔ لیکن میں تو اس سے زیادہ نہیں کر سکتا۔ کہ اس بات کی شہادت دوں کہ جو کچھ خدا تعالیٰ کے پاک کلام میں آپ کی نسبت پہلے سے خبر دی گئی تھی۔ اس کو میں نے اپنی آنکھوں سے لفظ بلفظ پورا ہوتا دیکھ لیا مجھے اپنی زبان کی کمزوری اور قلم کی ناتوانی پر افسوس آتا ہے جو صحیح نقشہ ناظرین کے سامنے پیش کرنے سے عاجز ہوں لیکن میں اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کچھ بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ و ھو الموفق۔
’’میں نے بچپن سے ہی حضور میں سوائے اوصاف حمیدہ اور خصائل محمودہ کے کچھ نہیں دیکھا۔ ابتداء میں ہی آپ میں نیکی کے انوار اور تقویٰ کے آثار پائے جاتے تھے۔ جو آپ کی عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اور زیادہ نمایاں ہوتے گئے۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص میرے اس بیان کو خوش اعتقادی پر محمول کرے اس لئے میں آپ کے بچپن کی ایک بات کا ذکر کرتا ہوں جس سے ناظرین خود حقیقت کا کچھ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ آپ کو بچپن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے یہ ہدایت فرمائی تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے پینے کی چیز نہ لینا۔ یہ ایک ہدایت تھی جو حضرت اقدس علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنے بچہ کو دی۔ اب دیکھئے کہ وہ خورد سال بچہ حضرت اقدسؑ کی اس ہدایت کی کس طرح تعمیل کرتا ہے۔ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ابتداء میں حضور بندہ کے مکان پر پڑھنے کے لئے تشریف لاتے تھے اور وہ مکان حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ہی مکان تھا جو حضور کے رہائشی مکان کے بالکل متصل بلکہ حضور کے گھر کے ساتھ ملحق تھا۔ ہم غالباً ۳ سال اس مکان میں رہے اور اس تمام عرصہ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بندہ کے پاس پڑھنے کے لئے تشریف لاتے اور جب کبھی آپ کو پیاس لگتی۔ تو آپ اٹھ کر اپنے گھر تشریف لے جاتے اور اپنے گھر سے پانی پی کر پھر واپس تشریف لاتے۔ خواہ کیسا ہی مصفا پانی کیسے ہی صاف ستھرے برتن میں بھی آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا آپ اسے نہ پیتے۔ صرف اس لئے کہ حضرت اقدس علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرف سے آپ کو ہدایت تھی کہ کسی کے ہاتھ سے کوئی کھانے پینے کی چیز نہ لینا اب بظاہر تو یہ ایک چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ ایک چھوٹا سا آئینہ ہے جس میں ہمیں حضور کی اس وقت کی شکل صحیح رنگ میں نظر آسکتی ہے۔ اول دیکھئے کہ حضور اس بچپن کے زمانے میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی کیسی کامل اطاعت کرتے اور کبھی بھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتے۔ دوسرے دیکھئے کہ وہ اس اطاعت میں کس درجہ کی احتیاط سے کام لیتے۔ بظاہر حضرت اقدسؑ نے جب فرمایا کہ کسی کے ہاتھ سے کھانے پینے کی چیز نہ لینا۔ تو حضرت اقدسؑ کی مراد ایسی چیزوں سے تھی جو لوگ بچوں کو اپنی محبت اور پیار کے اظہار کے لئے دیتے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ مطلب ہرگز نہیں تھا کہ کسی کے برتن سے پانی بھی نہ پینا۔ مگر آپ کی احتیاط اس درجہ کی تھی کہ آپ اپنے گھر کے سوا قادیان میں کسی اور گھر سے کسی گھڑے یا صراحی سے پانی لے کر پینا بھی حضرت اقدس علیہ السلام کے حکم کی خلاف ورزی ہی سمجھتے تھے۔ یہی حد درجہ کی احتیاط ہے۔ جسے دوسرے لفظوں میں تقویٰ کہتے ہیں۔ پس آپ کے اسی عمل سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ آپ بچپن میں ہی اطاعت اور تقویٰ کی باریک راہوں پر گامزن تھے۔ اور یہی بیج تھا جو آپ کی عمر کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا گیا اور زیادہ واضح اور زیادہ نمایاں شکل میں کمال کے آخری مرتبہ تک پہنچ گیا۔ یہ پانی کا واقعہ ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ ہوا۔ اور حضور ہمیشہ اطاعت کے اصول پر مضبوطی سے قائم رہے۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ خیال کرے کہ شاید حجاب کی وجہ سے آپ ہمارے گھر سے پانی پینے سے اجتناب فرماتے مگر ایسا نہیں تھا۔ آپ بے تکلفی سے ہمارے گھر میں رہتے اور حضور کی خوش خلقی اور خوش طبعی کی باتیں اس وقت تک بندہ کے گھر سے نہایت محبت کے ساتھ یاد کرتی ہیں۔ اور جب حضور کے منصب خلافت پر سرفراز ہونے کے بعد بندہ کے گھر سے بیعت کے لئے حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور نے اس وقت کے بچپن کے واقعات ان کو یاد دلائے۔ کیونکہ حضور کا حافظہ بہت مضبوط ہے‘‘۱۰۸۔
’’حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طالب علمی کا ایک اور واقعہ لکھتا ہوں اس سے بھی آپ کی قلبی کیفیت پر روشنی پڑتی ہے۔ ایک دن کچھ بارش ہو رہی تھی۔ مگر زیادہ نہ تھی۔ بندہ وقت مقررہ پر حضور کی خدمت میں حاضر ہوا۔ سیڑھیوں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ حضور نے دروازہ کھولا بندہ اندر آکر برآمدہ میں ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔ آپ کمرہ میں تشریف لے گئے میں نے سمجھا کہ کتاب لے کر باہر برآمدہ میں تشریف لائیں گے۔ مگر جب آپ کے باہر تشریف لانے میں کچھ دیر ہو گئی۔ تو میں نے اندر کی طرف دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ آپ فرش پر سجدہ میں پڑے ہوئے ہیں میں نے خیال کیا کہ آج بارش کی وجہ سے شاید آپ سمجھتے تھے کہ میں حاضر نہیں ہوں گا اور جب میں آگیا ہوں تو آپ کے دل میں خاکسار کے لئے دعا کی تحریک ہوئی ہے اور آپ بندہ کے لئے دعا فرما رہے ہیں۔ آپ بہت دیر تک سجدہ میں پڑے رہے اور دعا فرماتے رہے‘‘۱۰۹۔
صحت کی خرابی کا اثر زمانہ تعلیم پر
اس اہتمام کے باوجود جو آپ کی ابتدائی دینوی تعلیم کے لئے کیا گیا چونکہ آپ کی صحت شروع ہی سے بہت کمزور تھی اور آپ بچپن ہی سے بیمار چلے آرہے تھے۔ اس لئے آپ اپنے اساتذہ کی توجہ اور شفقت کے باوجود کوئی خاص فائدہ نہ اٹھا سکے۔ چنانچہ حضور خود ہی فرماتے ہیں۔
’’میری تعلیم جس رنگ میں ہوئی ہے وہ اپنی ذات میں ظاہر کرتی ہے کہ انسانی ہاتھ میری تعلیم میں نہیں تھا بچپن میں میری آنکھ میں سخت ککرے پڑ گئے تھے اور متواتر تین چار سال تک میری آنکھیں دکھتی رہیں۔ اور ایسی شدید تکلیف ککروں کی وجہ سے پیدا ہو گئی کہ ڈاکٹروں نے کہا اس کی بینائی ضائع ہو جائے گی۔ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے میری صحت کے متعلق خاص طور پر دعائیں کرنی شروع کر دیں۔ اور ساتھ ہی آپ نے روزے رکھنے بھی شروع کر دئیے۔ مجھے اس وقت یاد نہیں کہ آپ نے کتنے روزے رکھے بہرحال تین یا سات روزے آپ نے رکھے۔ جب آخری روزے کی آپ افطاری کرنے لگے۔ اور روزہ کھولنے کے لئے مونہہ میں کوئی چیز ڈالی تو یکدم میں نے آنکھیں کھول دیں اور میں نے آواز دی۔ کہ مجھے نظر آنے لگ گیا ہے۔ لیکن اس بیماری کی شدت اور اس کے متواتر حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری ایک آنکھ کی بینائی ماری گئی۔ چنانچہ میری بائیں آنکھ میں بینائی نہیں ہے میں رستہ تو دیکھ سکتا ہوں مگر کتاب نہیں پڑھ سکتا۔ دو چار فٹ پر اگر کوئی ایسا آدمی بیٹھا ہو جو میرا پہچانا ہوا ہو تو میں اس کو دیکھ کر پہچان سکتا ہوں لیکن اگر کوئی بے پہچانا بیٹھا ہو تو مجھے اس کی شکل نظر نہیں آسکتی۔ صرف دائیں آنکھ کام کرتی ہے۔ مگر اس میں بھی ککرے پڑ گئے۔ اور وہ ایسے شدید ہو گئے کہ کئی کئی راتیں میں جگ کر کاٹا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے میرے استادوں سے کہہ دیا تھا کہ اس کی پڑھائی اس کی مرضی پر ہو گی۔ یہ جتنا پڑھنا چاہے پڑھے اور اگر نہ پڑھے تو اس پر زور نہ دیا جائے۔ کیونکہ اس کی صحت اس قابل نہیں کہ یہ پڑھائی کا بوجھ برداشت کر سکے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام بارہا مجھے صرف یہی فرماتے کہ تم قرآن کا ترجمہ اور بخاری حضرت مولوی صاحب سے پڑھ لیا کرلو۔ اس کے علاوہ آپ نے مجھے کچھ اور پڑھنے کے لئے کبھی کچھ نہیں کہا۔ ہاں آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ کچھ طب بھی پڑھ لو۔ کیونکہ یہ ہمارا خاندانی فن ہے۔ ماسٹر فقیر اللہ صاحب جن کو خدا تعالیٰ نے اسی سال ہمارے ساتھ ملنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ وہ ہمارے حساب کے استاد تھے۔ اور لڑکوں کو سمجھانے کے لئے بورڈ پر سوالات حل کیا کرتے تھے۔ لیکن مجھے اپنی نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ دکھائی نہیں دیتے تھے۔ کیونکہ جتنی دور بورڈ تھا اتنی دور تک میری بینائی کام نہیں دے سکتی تھی۔ اور پھر زیادہ دیر تک میں بورڈ کی طرف یوں بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔ کیونکہ نظر تھک جاتی۔ اس وجہ سے میں کلاس میں بیٹھنا فضول سمجھا کرتا تھا۔ کبھی جی چاہتا۔ تو چلا جاتا اور کبھی نہ جاتا۔ ماسٹر فقیر اللہہ صاحب نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس میرے متعلق شکایت کی کہ حضور یہ کچھ پڑھتا نہیں۔ کبھی مدرسہ میں آجاتا ہے اور کبھی نہیں آتا۔ مجھے یاد ہے جب ماسٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس یہ شکایت کی تو میں ڈر کے مارے چھپ گیا کہ معلوم نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کس قدر ناراض ہوں۔ لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب یہ بات سنی تو آپ نے فرمایا۔ آپ کی بڑی مہربانی ہے جو آپ بچے کا خیال رکھتے ہیں اور مجھے آپ کی یہ بات سن کر بڑی خوشی ہوئی کہ یہ کبھی کبھی مدرسے چلا جاتا ہے۔ ورنہ میرے نزدیک تو اس کی صحت اس قابل نہیں کہ پڑھائی کر سکے۔ پھر ہنس کر فرمانے لگے کہ اس سے ہم نے آٹے دال کی دوکان تھوڑی کھلوانی ہے کہ اسے حساب سکھایا جائے۔ حساب اسے آئے یا نہ آئے کوئی بات نہیں۔ آخر رسول کریم~صل۱~ یا آپﷺ~ کے صحابہ نے کون سا حساب سیکھا تھا۔ اگر یہ مدرسہ میں چلا جائے تو اچھی بات ہے ورنہ اسے مجبور نہیں کرنا چاہئے۔ یہ سن کر ماسٹر صاحب واپس آگئے۔ میں نے اس نرمی سے اور بھی فائدہ اٹھانا شروع کر دیا۔ اور پھر مدرسہ میں جانا ہی چھوڑ دیا۔ کبھی مہینہ میں ایک آدھ دفعہ چلا جاتا تو اور بات تھی۔ غرص اس رنگ میں میری تعلیم ہوئی۔ اور میں درحقیقت مجبور بھی تھا۔ کیونکہ بچپن میں علاوہ آنکھوں کی تکلیف کے مجھے جگر کی خرابی کا بھی مرض تھا۔ چھ چھ مہینے مونگ کی دال کا پانی یا ساگ کا پانی مجھے دیا جاتا رہا۔ پھر اس کے ساتھ تلی بھی بڑھ گئی۔ ریڈ آئیوڈائڈ آف مرکری کی تلی کے مقام پر مالش کی جاتی تھی۔ اسی طرح گلے پر بھی اس کی مالش کی جاتی۔ کیونکہ مجھے خنازیر کی بھی شکایت تھی۔ غرض آنکھوں میں ککرے۔ جگر کی خرابی۔ عظم طحال۱۱۰ کی شکایت اور پھر اس کے ساتھ بخار کا شروع ہو جانا جو چھ چھ مہینے تک نہ اترتا اور میری پڑھائی کے متعلق بزرگوں کا یہ فیصلہ کر دینا کہ یہ جتنا چاہے پڑھ لے اس پر زیادہ زور نہ دیا جائے۔ ان حالات سے ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ میری تعلیمی قابلیت کا کیا حال ہو گا۔ ایک دفعہ ہمارے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے میرا اردو کا امتحان لیا۔ میں اب بھی بہت بدخط ہوں۔ مگر اس زمانہ میں تو میرا اتنا بدخط تھا۔ کہ پڑھا ہی نہیں جاتا تھا کہ میں نے کیا لکھا ہے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی کہ پتہ لگائیں کہ میں نے کیا لکھا ہے مگر انہیں کچھ پتہ نہ چلا۔ میرے بچوں میں سے اکثر کے خط مجھ سے اچھے ہیں۔ ۔۔۔۔۔ ان (حضرت میر ناصر نواب صاحب) کی طبیعت بڑی تیز تھی۔ غصہ میں فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے پاس پہنچے۔ میں بھی اتفاقاً اس وقت گھر میں ہی تھا۔ ہم تو پہلے ان کی طبیعت سے ڈرا کرتے تھے۔ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس شکایت لے کر پہنچے تو اور بھی ڈر پیدا ہوا کہ اب نہ معلوم کیا ہو۔ خیر میر صاحب گئے اور حضرت صاحب سے کہنے لگے کہ محمود کی تعلیم کی طرف آپ کو ذرا بھی توجہ نہیں۔ میں نے س کا اردو کا امتحان لیا تھا۔ آپ ذرا پرچہ تو دیکھیں اس کا اتنا برا خط ہے کہ کوئی بھی یہ خط نہیں پڑھ سکتا۔ پھر اسی جوش کی حالت میں وہ حضرت مسح موعود علیہ السلام سے کہنے لگے آپ بالکل پروا نہیں کرتے اور لڑکے کی عمر برباد ہو رہی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب میر صاحب کو اس طرح جوش کی حالت میں دیکھا تو فرمایا۔ بلائو حضرت مولوی صاحب کو۔ جب آپ کو کوئی مشکل پیش آتی تو ہمیشہ حضرت خلیفہ اولؓ کو بلا لیا کرتے تھے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کو مجھ سے بڑے محبت تھی۔ آپ تشریف لائے اور حسب معمول سر نیچے ڈال کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا۔ مولوی صاحب میں نے آپ کو اس غرض کے لئے بلایا ہے کہ میر صاحب میرے پاس آئے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ محمود کا لکھا ہوا بالکل پڑھا نہیں جاتا۔ میرا جی چاہتا ہے کہ اس کا امتحان لیا جائے۔ یہ کہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قلم اٹھائی اور دو تین سطر میں ایک عبارت لکھ کر مجھے دی اور فرمایا اس کو نقل کرو۔ بس یہ امتحان تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے لیا۔ میں نے بڑی احتیاط سے اور سوچ سمجھ کر اس کو نقل کر دیا۔ اول تو وہ عبارت کوئی زیادہ لمبی نہیں تھی دوسرے میں نے صرف نقل کرنا تھا اور نقل کرنے میں تو اور بھی آسانی ہوتی ہے کیونکہ اصل چیز سامنے ہوتی ہے۔ اور پھر میں نے آہستہ آہستہ نقل کیا۔ الف اور با وغیرہ احتیاط سے ڈالے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اس کو دیکھا تو فرمانے لگے۔ مجھے تو میر صاحب کی بات سے بڑا فکر پیدا ہو گیا تھا۔ مگر اس کا خط تو میرے خط کے ساتھ ملتا جلتا ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ پہلے ہی میری تائید میں ادھار کھائے بیٹھے تھے۔ فرمانے لگے۔ حضور میر صاحب کو تو یونہی جوش آگیا۔ ورنہ اس کا خط تو بڑا اچھا ہے۔
مدرسہ کے امتحانات میں ناکامی اور اس کی حکمت
یہ وہ حالات تھے جن میں آپ کو زمانہ تعلیم میں گزرنا پڑا۔ صرف اس وجہ سے آپ اگلی جماعت میں بٹھا دئے جاتے تھے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے فرزند ارجمند تھے۔۱۱۲ مگر چونکہ سرکاری امتحانوں میں یہ عقیدت مندی قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ اس لئے آپ مڈل اور انٹرنس دونوں امتحانوں میں فیل ہو گئے تا دنیا پر یہ کھل جائے کہ آپ کا معلم حقیقی تو عرش کا خدا ہے۔ چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں۔
’’دینوی لحاظ سے میں پرائمری فیل ہوں مگر چونکہ گھر کا مدرسہ تھا اس لئے اوپر کی کلاسوں میں مجھے ترقی دے دی جاتی تھی۔ پھر مڈل میں فیل ہوا۔ مگر گھر کا مدرسہ ہونے کی وجہ سے پھر مجھے ترقی دے دی گئی۔ آخر میٹرک کے امتحان کا وقت آیا تو میری ساری پڑھائی کی حقیقت کھل گئی اور میں صرف عربی اور اردو میں پاس ہوا۔ اور اس کے بعد پڑھائی چھوڑ دی۔ گویا میری تعلیم کچھ بھی نہیں۔ مگر آج تک ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا۔ کہ کسی نے میرے سامنے قرآن کریم کے خلاف کوئی اعتراض کیا ہو۔ اور پھر اسے شرمندگی نہ ہوئی ہو۔ بلکہ اسے ضرور شرمندہ ہونا پڑا ہے اور اب بھی میرا دعویٰ ہے کہ خواہ کوئی کتنا بڑا عالم ہو وہ اگر قرآن کریم کے خلاف میرے سامنے کوئی اعتراض کرے گا تو اسے ضرور شکست کھانی پڑے گی اور وہ شرمندہ اور لاجواب ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا‘‘۱۱۳۔
پھر فرماتے ہیں۔ ’’اگر کچھ پاس کر لیتا تو ممکن ہے مجھے خیال ہوتا کہ میں یہ ہوں۔ وہ ہوں۔ لیکن اب تو اس حقیقت کا انکار نہیں ہو سکتا کہ جو مجھے آتا ہے یہ اللہ کا ہی فضل ہے میری اس میں کوئی خوبی نہیں۔ کچھ عرصہ ہوا لاہور میں دو مولوی صاحبان مجھ سے ملنے آئے اور بطور تمسخر ایک نے پوچھا کہ آپ کی تعلیم کہاں تک ہے میں سمجھ گیا کہ ان کا مقصد کیا ہے میں نے کہا کچھ بھی نہیں۔ کہنے لگے آخر کچھ تو ہو گی۔‘‘ میں نے کہا صرف قرآن جانتا ہوں۔ کہنے لگے بس قرآن مجھے ان پر تعجب کہ ان کے نزدیک قرآن جاننا کوئی چیز ہی نہیں اور انہیں اس پر خوشی کہ ان کی تعلیم کچھ نہیں‘‘۱۱۴۔
انجمن ہمدردان اسلام
۱۸۹۷ء میں جبکہ آپ کی عمر آٹھ نو سال کی تھی۔ قادیان کے احمدی نوجوانوں کی انجمن قائم ہوئی جس کے سرپرست (حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ) مولانا مولوی نور الدینؓ تھے اول اول اس کے اجلاس پرانے اور قدیم مہمان خانے میں ہوا کرتے تھے۔ اور اس وقت زیادہ سے زیادہ چھ سات ممبر تھے جن میں ایک سرگرم ممبر آپ بھی تھے۔ حضرت بھائی عبدالرحمنؓ قادیانی تحریر فرماتے ہیں۔
’’تشحیذ الاذہان کا پہلا اور ابتدائی نام انجمن ہمدردان اسلام تھا۔ جو بالکل ابتدائی ایام اور پرانے زمانہ کی یادگار ہے۔ جبکہ سیدنا محمود بمشکل آٹھ نو برس کے تھے آپ کے دینی شغف اور روحانی ارتقاء کی یہ پہلی سیڑھی تھی۔ جو حقیقتاً آپ ہی کی تحریک خواہش اور آرزو پر قائم ہوئی تھی۔ کھیل کود اور بچپنے کے دوسرے اشغال میں انہماک کے باوجود آپ کے دل میں خدمت اسلام کا ایسا جوش اور جذبہ نظر آیا کرتا تھا۔ جس کی نظیر بڑے بوڑھوں میں بھی شاذہی ہوتی آپ کی ہر ادا میں اس کا جلوہ اور ہر حرکت میں اس کا رنگ غالب و نمایاں ہے جسے آپ کی کھیلوں کے دیکھنے اور مشاغل کو جانچنے کا اکثر موقعہ ملتا تھا۔ گھنٹوں آپ مطب میں تشریف لا کر ہم میں بیٹھا کرتے کبھی ٹیمیں بنا کرتیں اور کھیلوں کے مقابلوں کی تجاویز ہوا کرتیں کبھی فوجیں بنا کر مصنوعی جنگوں کا انتظام ہوتا۔ کبھی ڈاکو اور چوروں کا تعاقب ہوتا ان کی گرفتاری کے سامان ہوتے اور مقدمات سن کر فیصلے کئے جاتے سزائیں دی جاتیں اور کارہائے نمایاں کرنے والوں کو انعام و اکرام ملتے تو کبھی بحث مباحثات اور علمی مقابلوں کا رنگ جما کرتا۔ گرما گرم بحث ہوتی۔ حجز مقرر ہوتے اور فاتح و مفتوح کا فیصلہ ہوتا۔ الغرض ایسے ہی مشاغل اور مصروفیتوں کے نتائج میں سے ایک انجمن ہمدردان اسلام کا قیام بھی ہے جو آپ کی خواہش‘مرضی اور منشاء کے ماتحت قائم کی گئی‘‘۔
’’حضرت مولانا نور الدینؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیدنا فضل عمرؓ کی زات والا صفات کی وجہ سے ہماری طرف خاص توجہ فرماتے۔ ہماری انجمن کے اکثر اجلاسوں میں شریک ہو کر ہدایات دیتے۔ ۔۔۔۔۔۔ اسی ہماری انجمن میں ایک مرتبہ سیدنا حضرت نور الدینؓ شریک تھے۔ ہمارے آقائے نامدار سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے نور نظر لخت جگر نے ۔۔۔۔۔۔۔ تقریر فرمائی۔ تقریر کیا تھی علم و معرفت کا دریا اور روحانیت کا ایک سمندر تھا۔ تقریر کے خاتمہ پر حضرت مولانا نور الدینؓ کھڑے ہوئے۔ اور آپ نے ۔۔۔۔۔ آپ کی تقریر کی بے حد تعریف کی۔ قوت بیان اور روانی کی داد دی نکات قرآنی اور لطیف استدلال پر بڑے تپاک اور محبت سے مرحبا جزاک اللہ کہتے ہوئے دعائیں دیتے نہایت اکرام کے ساتھ گھر تک آپ کے ساتھ آکر رخصت فرمایا‘‘۱۱۵۔
اس انجمن کے پہلے صدر بھی مدرسہ کے ایک استاد تھے اور سیکرٹری بھی استاد (یعنی منشی خادم حسین صاحب بھیروی) لیکن جب دوبارہ انتخاب ہوا تو صدر مجلس حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب قرار پائے۱۱۶۔ آپ کی صدارت میں انجمن کا پہلا اجلاس ۳/ مارچ ۱۸۹۹ء کو ہوا۔۱۱۷
حضرت مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت
۱۸۹۸ء کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ آپ نے اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کی۔ چنانچہ فرماتے ہیں۔
’’۱۸۹۸ء میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی گو بوجہ احمدیت کی پیدائش کے میں پیدائش سے ہی احمدی تھا مگر یہ بیعت گویا میرے احساس قلبی کے دریا کے اندر حرکت پیدا کرنے کی علامت تھی‘‘۱۱۸۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ پہلا فوٹو
وسط ۱۸۹۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو پہلا گروپ فوٹو لیا گیا اس میں آپ بھی صحابہ حضرت مسیح موعودؑ اور اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ موجود تھے۔ اس پہلے فوٹو کے بعد اگلے سال خطبہ الہامیہ کی تقریب پر ۱۱/ اپریل ۱۹۰۰ء میں عصر کے وقت دوسرا گروپ فوٹو لیا گیا تھا جس میں آپ بھی شامل تھے۔ ان کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ حیات ہی میں آپ کا ایک اور فوٹو لیا گیا۔ جس میں آپ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد۔ حضرت مرزا شریف احمد‘حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ مدظلہا اور حضرت مرزا مبارک احمد بھی شامل ہیں اور آپ کی ایک اور تصویر بھی ملتی ہے جو ۱۹۰۴ء میں بمقام گورداسپور لی گئی تھی جس میں آپ ترکی ٹوپی پہنے اور چھڑی ہاتھ میں لئے ہوئے نظر آتے ہیں‘‘۱۱۹۔
’’تریاق القلوب‘‘ میں ذکر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’تریاق القلوب‘‘ میں تحریر فرمایا۔ ’’الہام یہ بتلاتا تھا کہ چار لڑکے پیدا ہوں گے اور ایک کو ان میں سے ایک مرد خدا مسیح صفت الہام نے بیان کیا ہے سو خدا تعالیٰ کے فضل سے چار لڑکے پیدا ہو گئے‘‘۱۲۰۔
’’میں نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر ۔۔۔۔۔۔۔ خبر دی کہ خدا نے مجھے مخاطب کرکے فرمایا ہے کہ انا نبشرک بغلام حسین یعنی ہم تجھے ایک حسین لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ دہلی میں میری شادی ہوئی۔ اور خدا نے وہ لڑکا بھی دیا اور تین اور عطا کئے‘‘۱۲۱۔
’’میرا پہلا لڑکا جو زندہ موجود ہے جس کا نام محمود ہے ابھی وہ پیدا نہیں ہوا تھا جو مجھے کشفی طور پر اس کے پیدا ہونے کی خبر دی گئی۔ اور میں نے مسجد کی دیوار پر اس کا نام لکھا ہوا یہ پایا کہ محمود۔ تب میں نے اس پیشگوئی کے شائع کرنے کے لئے سبز رنگ کے ورقوں پر ایک اشتہار چھاپا‘‘۱۲۲
حضورؑ نے یہ پیشگوئی دوبارہ پیش کرتے ہوئے ’’تریاق القلوب‘‘ ہی میں لکھا۔
’’محمود جو میرا بیٹا ہے اس کے پیدا ہونے کے بارے میں اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء میں اور نیز اشتہار یکم دسمبر ۱۸۸۸ء میں جو سبز رنگ کے کاغذ پر چھاپا گیا تھا۔ پیشگوئی کی گئی تھی اور سبز رنگ کے اشتہار میں یہ بھی لکھا گیا کہ اس پیدا ہونے والے لڑکے کا نام محمود رکھا جائے گا ۔۔۔۔۔۔ پھر جب کہ اس پیشگوئی کی شہرت بذریعہ اشتہارات کامل درجہ پر پہنچ چکی اور مسلمانوں اور عیسائیوں اور ہندوئوں میں سے کوئی بھی فرقہ نہ رہا جو اس سے بے خبر ہو۔ تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے ۔۔۔۔۔۔۔ محمود پیدا ہوا۔ اور اس کے پیدا ہونے کی میں نے اس اشتہار میں خبر دی ہے جس کے عنوان پر تکمیل تبلیغ موٹی قلم سے لکھا ہوا ہے۔ جس میں بیعت کی دس شرائط مندرج ہیں اور اس کے صفحہ ۴ میں یہ الہام پسر موعود کی نسبت ہے
اے فخر رسل قرب تو معلومم شد
دیرآمدہ زراہ دور امدہ۱۲۳
احکام اسلامی کی طرف تحریک ۱۹۰۰ء کا یادگار رسال
بیسوی صدی کا آغاز آپ کی زندگی میں ایک نئے روحانی انقلاب کے آغاز پر ہوا۔ اس نہایت اہم اجمال کی تفصیل آپ ہی کے الفاظ میں یہ ہے۔
’’۱۹۰۰ء میرے قلب کو اسلامی احکام کی طرف توجہ دلانے کا موجب ہوا ہے اس وقت میں گیارہ سال کا تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کوئی شخص چھینٹ کی قسم کے کپڑے کا ایک جبہ لایا تھا۱۲۴۔ میں نے آپ سے وہ جبہ لے لیا تھا کسی اور خیال سے نہیں بلکہ اس لئے کہ اس کا رنگ اور اس کے نقش مجھے پسند تھے۔ میں اسے پہن نہیں سکتا تھا۔ کیونکہ اس کے دامن میرے پائوں سے نیچے لٹکتے رہتے تھے۔ جب میں گیارہ سال کا ہوا اور ۱۹۰۰ء نے دنیا میں قدم رکھا۔ تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں خدا تعالیٰ پر کیوں ایمان لاتا ہوں۔ اس کے وجود کا کیا ثبوت ہے۔ میں دیر تک رات کے وقت اس مسئلہ پر سوچتا رہا۔ آخر دس گیارہ بجے میرے دل نے فیصلہ کیا کہ ہاں ایک خدا ہے وہ گھڑی میرے لئے کیسی خوشی کی گھڑی تھی۔ جس طرح ایک بچہ کو اس کی ماں مل جائے۔ تو اسے خوشی ہوتی ہے اسی طرح مجھے خوشی تھی کہ میرا پیدا کرنے والا مجھے مل گیا۔ سماعی ایمان علمی ایمان سے تبدیل ہو گیا میں اپنے جامہ میں پھولا نہیں سماتا تھا۔ میں نے اس وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور ایک عرصہ تک کرتا رہا کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق کبھی شک پیدا نہ ہو اس وقت میں گیارہ سال کا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ مگر آج بھی اس دعا کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں۔ میں آج بھی یہی کہتا ہوں خدایا تیری ذات کے متعلق مجھے کبھی شک پیدا نہ ہو۔ ہاں اس وقت میں بچہ تھا اب مجھے زائد تجربہ ہے اب میں اس قدر زیادتی کرتا ہوں کہ خدایا مجھے تیری ذات کے متعلق حق الیقین پیدا ہو۔
جب میرے دل میں خیالات کی وہ موجیں پیدا ہونی شروع ہوئیں۔ جن کا میں نے اوپر زکر کیا ہے تو ایک دن ضحیٰ کے وقت یا اشراق کے وقت میں نے وضو کیا۔ اور وہ جبہ اس وجہ سے نہیں کہ خوبصورت ہے بلکہ اس وجہ سے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا ہے اور متبرک ہے۔ یہ پہلا احساس میرے دل میں خدا تعالیٰ کے فرستادہ کے مقدس ہونے کا تھا پہن لیا۔
تب میں نے اس کوٹھری کا جس میں میں رہتا تھا۔ دروازہ بند کر لیا اور ایک کپڑا بچھا کر نماز پڑھنی شروع کی اور میں اس میں خوب رویا۔ خوب رویا۔ خوب رویا اور اقرار کیا کہ اب نماز کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ اس گیارہ سال کی عمر میں مجھ میں کیسا عزم تھا۔ اس اقرار کے بعد میں نے کبھی نماز نہیں چھوڑی۔ گو اس نماز کے بعد کئی سال بچپن کے زمانہ کے ابھی باقی تھے۔ میرا وہ عزم میرے آج کے ارادوں کو شرماتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم میں کیوں رویا۔ فلسفی کہے گا اعصابی کمزوری کا نتیجہ ہے مذہبی کہے گا تقویٰ کا جذبہ تھا۔ مگر میں جس سے یہ واقعہ گزرا کہتا ہوں مجھے معلوم نہیں۔ میں کیوں رویا؟ ہاں یہ یاد ہے کہ اس وقت میں اس امر کا اقرار کرتا تھا کہ پھر کبھی نماز نہیں چھوڑوں گا اور وہ رونا کیسا بابرکت ہوا۔ وہ افسردگی کیسی راحت بن گئی جب اس کا خیال کرتا ہوں۔ تو سمجھتا ہوں کہ وہ آنسو ہسٹریا کے دورہ کا نتیجہ نہ تھے پھر وہ کیا تھے؟ میرا خیال ہے وہ شمس روحانی کی گرم کر دینے والی کرنوں کا گرایا ہوا پسینہ تھے۔ وہ مسیح موعود کے کسی فقرہ یا کسی نظر کا نتیجہ تھے۔ گر یہ نہیں تو میں نہیں کہہ سکتا کہ پھر وہ کیا تھے‘‘۱۲۵۔
انجمن تشحیذ الاذہان
۱۹۰۰ء میں آپ نے ایک نئی انجمن کی بنیاد رکھی جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ’’تشحیذ الاذہان‘‘ رکھا۔ اس مجلس کی غرض و غایت یہ تھی کہ نوجوانان احمدیت کو تبلیغ اسلام کے لئے تیار کرے۱۲۶۔
خطبہ الہامیہ میں شرکت
۱۱/ اپریل ۱۹۰۰ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عید الاضحیہ کے بعد عربی میں خطبہ الہامیہ پڑھا تھا۔ حضرت صاحبزادہ میاں محمود احمد ایدہ اللہ کو بھی اس میں شرکت کا فخر حاصل ہوا۔ چنانچہ آپ کا بیان ہے کہ۔
’’مجھے خوب یاد ہے گو میں چھوٹی عمر میں ہونے کی وجہ سے عربی نہ سمجھ سکتا تھا۔ مگر آپ کی ایسی خوبصورتی اور نورانی حالت بنی ہوئی تھی۔ کہ میں اول سے آخر تک برابر تقریر سنتا رہا۔ حالانکہ ایک لفظ بھی نہ سمجھ سکتا تھا‘‘۱۲۷
’’مجھے یاد ہے۔ ہمیں اس تقریر کے کئی فقرے یاد ہو گئے تھے۔‘‘۱۲۸
بیماری اور دعا سے شفا یابی
نومبر ۱۹۰۰ء میں آپ کو سخت بخار ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی شفا یابی کی الہامی بشارت ملی۱۲۹۔ چنانچہ بخار اتر گیا۔
مقدمہ دیوار کے فیصلہ کی قبل از وقت خبر
تاریخ احمدیت جلد سوم۱۳۰ میں مقدمہ دیوار کا واقعہ بڑی تفصیل سے گزر چکا ہے کہ کس طرح آپ کے چچا زاد بھائیوں نے آپ کو تکلیف دینے کی خاطر ایک دیوار کھینچ دی تھی۔ حضرت سیدنا محمود ایدہ اللہ الودود کو اس بارے میں بذریعہ خواب دیوار کے گرائے جانے کا نظارہ دکھایا گیا۔ حضور فرماتے ہیں۔
’’میں نے خواب میں دیکھا کہ دیوار گرائی جا رہی ہے اور لوگ ایک ایک اینٹ کو اٹھا کر پھینک رہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے کچھ بارش ہو چکی ہے اس حالت میں میں نے دیکھا کہ مسجد کی طرف حضرت خلیفتہ اولؓ تشریف لا رہے ہیں۔ جب مقدمہ کا فیصلہ ہوا اور دیوار گرائی گئی تو بعینہ ایسا ہی ہوا۔ اس روز کچھ بارش بھی ہوئی اور درس کے بعد حضرت خلیفہ اولؓ جب واپس آئے تو آگے دیوار توڑی جارہی تھی میں بھی کھڑا تھا چونکہ اس خواب کا میں آپ سے پہلے ذکر کر چکا تھا اس لئے مجھے دیکھتے ہی آپ نے فرمایا۔ میاں دیکھو۔ آج تمہارا خواب پورا ہو گیا‘‘۱۳۱۔
سیدنا کے بارے میں بشارت
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ۳۰/ نومبر ۱۹۰۱ء میں ’’بشیر احمد۔ شریف احمد اور مبارکہ بیگم کی آمین‘‘ لکھی تو نہ صرف اپنے سب بچوں کے لئے بارگاہ الٰہی میں نہایت خشوع خضوع سے دعائیں ہی کیں بلکہ اپنی کل اولاد خصوصاً اپنے لخت جگر سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی بابت دنیا کو ان دعائوں کے شرف قبولیت پانے کی بشارت بھی سنا دی۔ جیسا کہ حضورؑ فرماتے ہیں۔
خدایا تیرے فضلوں کو کروں یاد
بشارت تو نے دی اور پھر یہ اولاد
کہا ہرگز نہیں ہوں گے یہ برباد
بڑھیں گے جیسے باغوں میں ہو شمشاد
خبر تو نے یہ مجھ کو بارہا دی!
فسبحان الذی اخزی الاعادی
بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا
جو ہو گا اک دن محبوب میرا
کروں گا دور اس مہ سے اندھیرا
دکھائوں گا کہ اک عالم کو پھیرا
بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی
فسبحان الذی اخزی الاعادی (درثمین)
بارہ تیرہ برس کی عمر میں پہلا روزہ
آپ نے پہلا روزہ بارہ تیرہ برس کی عمر میں رکھا چنانچہ خود ہی فرماتے ہیں۔ ’’مجھے جہاں تک یاد ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے پہلا روزہ رکھنے کی اجازت بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں دی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پہلے سال صرف ایک روزہ رکھنے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت دی تھی‘‘۱۳۲۔
مڈل کا امتحان اور خدائی الہام
جنوری ۱۹۰۲ء میں آپ مڈل کے امتحان کے لئے بٹالہ کو جانے والے تھے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا۔ ’’لیحملہ رجل‘‘ یعنی یہ کمزور ہے اس کے سہارے کے لئے کوئی آدمی ساتھ جانا چاہئے۱۳۳۔ چنانچہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب آپ کے ساتھ کئے گئے۔۱۳۴
’’تحفہ گولڑویہ‘‘ میں ذکر
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ستمبر ۱۹۰۲ء میں ’’تحفہ گولڑویہ‘‘ شائع فرمائی تو اس میں دنیا کو پسر موعود سے متعلق نشان کی طرف توجہ دلاتے ہوئے تحریر فرمایا۔
’’خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ تیری برکات کا دوبارہ نور ظاہر کرنے کے لئے تجھ سے ہی اور تیری ہی نسل میں سے ایک شخص کھڑا کیا جائے گا۔ جس میں میں روح القدس کی برکات پھونکوں گا وہ پاک باطن اور خدا سے نہایت پاک تعلق رکھنے والا ہو گا۔ اور مظہر الحق و العلاء ہو گا گویا خدا آسمان سے نازل ہوا۔4]‘‘ [stf۱۳۵
’’نزول المسیح‘‘ میں ذکر
حضرت اقدس علیہ السلام نے اسی سال ’’نزول المسیح‘‘ تالیف فرمائی اور اس میں بھی سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کا ذکر فرمایا کہ۔
’’مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک لڑکے کے پیدا ہونے کی بشارت دی۔ چنانچہ قبل ولادت بذریعہ اشتہار کے وہ پیشگوئی شائع ہوئی پھر بعد اس کے وہ لڑکا پیدا ہوا جس کا نام بھی رئویا کے مطابق محمود احمد رکھا گیا اور یہ پہلا لڑکا ہے جو سب سے بڑا ہے‘‘۱۳۶۔
پہلی شادی
اکتوبر ۱۹۰۲ء میں آپ کا نکاح حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدینؓ کی دختر نیک اختر (حضرت) سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ سے رڑکی میں ہوا اور وسط اکتوبر ۱۹۰۳ء میں شادی ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت ڈاکٹر صاحب کو قبل ازیں رشتہ کی تحریک فرمائی تو لکھا کہ۔
’’اس رشتہ پر محمود بھی راضی معلوم ہوتا ہے اور گو ابھی الہامی طور پر اس بارے میں کچھ معلوم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مگر محمود کی رضا مندی ایک دلیل اس بات پر ہے کہ یہ امر غالباً و اللہ اعلم جناب الٰہی کی رضامندی کے موافق انشاء اللہ ہو گا‘‘۱۳۷۔
عکس مکتوب مبارک سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام
(بنام حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ)
حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ نے حضور کی شادی پر بمبئی سے ایک ٹوپی اور اوڑھنی کا تحفہ حضرت اقدسؓ کی خدمت میں بھیجا تھا۔ ٹوپی پر مصلح موعود سے متعلق یہ الہام درج تھا۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند مظھر الاول و الاخر مظھر الحق والعلا|ء کان اللہ نزل من السماء اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت سیٹھ صاحبؓ دوسرے اکابر صحابہ کی طرح اس وقت بھی حضرت خلیفہ ثانی کے مصلح موعود ہونے کا یقین رکھتے تھے۱۳۸۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تحفہ کے شکریہ میں ۳۰/ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا۔
۲۰/ اکتوبر ۱۹۵۲ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔:۔ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
مجی عزیزی اخویم سیٹھ اسمعیل آدم صاحب!
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ آپ کا محبت اور اخلاص کا تحفہ جو آپ نے برخوردار محمود اور بشیر کی شادی کی تقریب پر بھیجا ہے یعنی ایک ٹوپی اور ایک اوڑھنی پہنچ گیا ہے۔ میں آپ کے اس محبانہ تحفہ کا شکر کرتا ہوں اور آپ کے حق میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دین اور دنیا میں اس کا اجر بخشے آمین باقی خیریت ہے۔ والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ
’’مواہب الرحمن ‘‘ میں ذکر
’’مواہب الرحمن‘‘ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا۔ ’’الحمدللہ الذی وھب لی علی الکبر اربعہ من البنین و انجز وعدہ من الاحسان‘‘۱۳۹ یعنی اللہ تعالیٰ ہی سب تعریفوں کا مستحق ہے جس نے بڑھاپے کے باوجود چار فرزند عطا کئے اور بطور احسان اپنا وعدہ پورا فرما دیا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مکتوب مبارک
(بنام حضرت سیٹھ اسمعیل آدم صاحبؓ)
شعر و سخن کا آغاز
۱۹۰۳ء میں آپ نے شعر و سخن کی دنیا میں قدم رکھا تو ابتداًء آپ شاد تخلص فرماتے تھے آپ کی پہلی (مطبوعہ)۱۴۰ نظم کے چند اشعار یہ ہیں۔
اپنے کرم سے بخش دے میرے خدا مجھے
بیمار عشق ہوں ترا دے تو شفا مجھے
جب تک کہ دم میں دم ہے اس دین پر رہوں
اسلام پر ہی آئے جب آئے قضا مجھے
تیری رضا کا ہوں میں طلبگار ہر گھڑی
گر یہ ملے تو جانوں کہ سب کچھ ملا مجھے
سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ کی تمام منظومات ’’کلام محمود‘‘ میں تاریخی ترتیب کے ساتھ طبع شدہ ہیں اور آپ کی سیرت کا صاف و شفاف آئینہ ہیں۔ جس میں عشق الٰہی۔ عشق رسولﷺ~ اور عشق اسلام کی شان اپنی پوری آن بان سے درخشاں و تاباں ہے۔ آپ نے اپنے کلام کے بارے میں وضاحت فرمائی ہے کہ
’’میرے نزدیک شعر اس لئے کہنا کہ لوگ پسند کریں اور داد دیں درست نہیں۔ میں بھی شعر کہتا ہوں۔ لیکن جب میں شعر کہتا ہوں تو نہیں معلوم ہوتا کہ کیا لکھ رہا ہوں۔ جب قلم ایک جگہ جا کر رک جاتا ہے‘تو پھر خواہ کتنا ہی زور لگائوں آگے شعر نہیں کہا جا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ شعر جس کو انسان تلاش کرکے لاتا ہے وہ ناپسند ہے مگر جب طبیعت میں جوش اور بغیر خوض اور غور کے مضامین جاری ہوں تو وہ ایک قسم کا القاء اور الہام ہوتے ہیں‘‘۱۴۱
نیز فرماتے ہیں۔
’’درحقیقت اگر دیکھا جائے تو میرے اشعار میں سے ایک کافی حصہ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک چوتھائی یا ایک ثلث حصہ ایسا نکلے گا جو درحقیقت قرآن شریف کی آیتوں کی تفسیر ہے یا حدیثوں کی تفسیر ہے لیکن ان میں بھی لفظ پھر مختصر ہی استعمال ہوئے ہیں ورنہ شعر نہیں بنتا۔ شعر کے چند لفظوں میں ایک بڑے مضمون کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا یا اسی طرح کئی تصوف کی باتیں ہیں جن کو ایک چھوٹے سے نکتہ میں حل کیا گیا ہے‘‘۱۴۲
مولانا الطاف حسین صاحب حالی کو خط اور ان کا جواب
حضرت سیدنا محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے جب شعر کہنے شروع کئے تو آپ نے مولانا الطاف حسین صاحب حالی کو خط لکھا کہ میں شاعری میں آپ کا شاگرد بننا چاہتا ہوں اگر آپ منظور فرمائیں تو آپ کو اپنا کلام اصلاح کے لئے بھیج دیا کروں۔ کچھ دنوں کے بعد مولوی صاحب کا جواب آیا۔ کہ ’’میاں صاحبزادے! اپنی قیمتی عمر کو اس فضول مشغلے میں ضائع نہ کرو یہ عمر تحصیل علم کی ہے۔ پس دل لگا کر علم حاصل کرو۔ جب بڑے ہو گے اور تحصیل علم کر چکو گے اور فراغت بھی میسر ہو گی اس وقت شاعری بھی کر لینا‘‘۱۴۳`۱۴۴
جناب جلال لکھنوی سے اصلاح سخن
مولانا حالی سے مندرجہ بالا جواب ملنے کے بعد آپ نے کسی اور استاد کی طرف رجوع کرنا چاہا۔ اس دور کے بکثرت اساتذہ میں سے تین حضرات بہت بلند پایہ اور عالمگیر شہرت رکھنے والے تھے۔ منشی مفتی امیر احمد صاحب امیر مینائی لکھنوی۔ فصیح الملک نواب مرزا خان صاحب داغ دہلوی اور جناب سید ضامن علی صاحب جلال لکھنوی۱۴۵۔ مگر اول الذکر حضرات تو اس وقت وفات پاچکے تھے آخر الذکر ہی باقی تھے آپ نے اصلاح سخن کے لئے انہی کی طرف توجہ فرمائی۔۱۴۶
کچھ کہا نہیں جا سکتا کہ مشق سخن کا یہ سلسلہ جو خط و کتابت ہی کے ذریعہ سے سر انجام پاتا تھا۔ جناب جلال لکھنوی کی وفات تک جاری رہا یا ۱۹۰۹ء سے پیشتر ہی کسی وقت ختم ہو گیا۔ جو ان کے انتقال کا سنہ ہے۔
گورداسپور میں قیام
وسط اگست ۱۹۰۴ء سے اکتوبر ۱۹۰۴ء تک آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مقدمہ کرم دین کے سلسلہ میں گورداسپور میں رہے۔۱۴۷
سفر لاہور و سیالکوٹ
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگست ۱۹۰۴ء میں لاہور۱۴۸ پھر اکتوبر ۱۹۰۴ء میں سیالکوٹ تشریف لے گئے ان دونوں سفروں میں بھی آپ کو حضرت اقدسؑ کی معیت حاصل ہوئی سفر سیالکوٹ کے بارے میں حضور کا ایک بیان خاص اہمیت رکھتا ہے۔ فرماتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام ۔۔۔۔۔۔۔ سیالکوٹ تشریف لے گئے تو غیر احمدیوں میں سے بعض نے شورش کرنے کا ارادہ کیا۔ مگر اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا۔ کہ وہاں حضور کو کوئی تکلیف نہ ہو اس لئے اس نے یہ انتظام کر دیا کہ شہر کے ایک رئیس آغا باقر جو قادیان برائے علاج آچکے تھے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عقیدت رکھتے تھے۔ ڈپٹی کمشنر نے انتظام کے لئے ان سے مشورہ کیا انہوں نے اپنی خدمات انتظام کے لئے پیش کر دیں اور اپنے ساتھ مسٹر بیٹی ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس کو لگائے جانے کی خواہش کی اور ڈپٹی کمشنر نے اسے منظور کر لیا۔ چنانچہ ان دونوں نے مل کر ایسا عمدہ انتظام کیا کہ کسی قسم کی شورش نہ ہوئی لوگ پتھروں کو لے کر مکانوں پر چڑھے ہوئے تھے۔ مگر ان دونوں نے کہہ دیا کہ اگر کسی نے شرارت کی تو ہم اس قدر سزا دیں گے کہ وہ یاد رکھے گا یہ سن کر سب دشمن ڈر گئے۔
مجھے یاد ہے جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر نکلتے وہ ساتھ رہتے۔ اس سفر میں ایک لیکچر بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دیا اور کچھ لوگوں نے اس میں شورش کرنی چاہی اور بعض آنے والوں پر پتھر پھینکے مسٹر بیٹی نے ان لوگوں کو ڈانٹ کر ہٹا دیا۔ اور جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لیکچر ہو چکا تو باواز بلند کہا کہ مجھے ان مسلمانوں پر افسوس آتا ہے کہ غصہ تو ہم کو آنا چاہئے تھا کہ انہوں نے اپنے لیکچر میں ہمارے خدا کو مردہ ثابت کیا اور ہمارے خلاف اور بہت سی باتیں کہی ہیں لیکن مسلمانوں کے نبی کی بہت تعریف کی ہے اور وہ پھر بھی فساد کرتے ہیں غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کو سیالکوٹ میں ہر شر سے محفوظ رکھا اور اس سے دشمن اور بھی زیادہ غصہ میں بھر گئے۔ چنانچہ انہوں نے آخر تجویز کی کہ آپ کی واپسی پر ٹرین پر پتھر برسائے جائیں اور جو لوگ چھوڑنے جائیں واپسی کے وقت ان کو دکھ دیا جائے چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام واپس ہوئے تو آپ کی گاڑی پر پتھر برسائے گئے اور جو لوگ وداع کے لئے گئے تھے واپسی پر ان پر حملہ کیا گیا ان لوگوں میں مولوی برہان الدین صاحب (جہلمی) مرحوم بھی شامل تھے لوگ بری طرح ان کے پیچھے پڑ گئے۔ ستر یا بہتر سال ان کی عمر تھی اور نہایت کمزور تھے مگر خندہ پیشانی سے مار کھائی حتی کہ ایک شخص نے گوبر اٹھایا ور ان کے منہ میں ڈال دیا۔ بعض دوستوں نے سنایا کہ مولوی صاحب اس وقت بالکل غمگین نہ تھے بلکہ بہت خوش تھے اور بار بار کہتے تھے۔ ’’ایہہ نعمتاں کتھوں ایہہ نعمتاں کتھوں‘‘۔ یعنی ’’یہ نعمتیں ہم کو پھر کب میسر آسکتی ہیں‘‘۔۱۴۹
ایک غیر مطبوعہ قلمی نوٹ
حضرت خلیفتہ المسیح اول مولانا نور الدینؓ کی معرکتہ الاراء کتاب ’’نور الدین‘‘ کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۰۴ء میں طبع ہوا۔ کتاب کے اس دوسرے ایڈیشن کے شروع میں سیدنا حضرت محمود ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ قلمی نوٹ لکھا ہے۔۱۵۰
‏rov.5.4
تا
‏rov.5.9
‏rov.5.10
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دوسرا سال
دوسرا باب (فصل دوم)
خلافت ثانیہ کا دوسرا سال
(۱۳۳۳ھ تا ۱۳۳۴ھ)
(~جنوری ۱۹۱۵ء سے دسمبر ۱۹۱۵ء تک
مبلغین کی اعلیٰ کلاسں کے لئے لیکچروں کا سلسلہ
مبلغین کی اعلٰی کلاسں کے لئے جو قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی زیر تربیت ترقی کر رہی تھی دو انتظامات کئے گئے۔ اول ان کے لئے الگ بورڈنگ اور الگ سپرنٹنڈنٹ تجویز کیا گیا۲۳۷۔ دوم مفید لیکچروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اور ابتدا میں مندرجہ ذیل حضرات نے طلبہ سے خطاب فرمایا۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب (مضمون ’’ہستی باری تعالیٰ‘‘۔ ثبوت ملائکہ‘‘۲۳۸) حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ’’(مضمون کفر و اسلام‘‘۲۳۹ حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی (مسئلہ دعا و تقدیر۲۴۰) شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور۔ (مضمون قدامت دید و سکھ ازم۲۴۱) چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب (مضمون عورتوں کے حقوق۲۴۲)۔ حضرت قمر الانبیاء کا محققانہ مضمون ’’کلمتہ الفصل‘‘ کے نام سے انہی دنوں چھپ گیا تھا۔ ۱۹۴۱ء میں اس کا دوسرا ایڈیشن ’’مسئلہ کفر و اسلام کی حقیقت‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ تو آپ نے اس میں صراحتاً تحریر فرمایا۔ ’’یقیناً دوسرے منکرین کی نسبت غیر احمدی ہمارے بہت زیادہ قریب ہیں اور ہمارا کلمہ اور ہمارا شارع رسول ~(صل۱)~ ایک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس اگر غیر احمدیوں سے دوسرے منکرین کی نسبت بعض امور میں امتیازی سلوک روا رکھا جائے تو یہ بالکل جائز اور معقول ہو گا‘‘۲۴۳۔
ایک خبر کی تردید
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے متعلق غیر مبایعین اصحاب نے یہ خبر مشہور کر رکھی تھی کہ آپ نے اپنے خلیفتہ المسلمین تسلیم کئے جانے کے لئے حکومت انگریزی سے درخواست کی ہے۔ حضور نے اس غلط بیانی کے جواب میں ایک رسالہ شائع فرمایا جس کا عنوان تھا۔ ’’اللہ تعالیٰ کی مدد صرف صادقوں کے ساتھ ہے‘‘۲۴۴۔
اس رسالہ میں ان لوگوں کی شہادتیں درج فرمائیں جن کی طرف یہ بے بنیاد خبر منسوب کی گئی تھی۔
رسالہ ’’القول الفصل‘‘ کی تصنیف
پہلے سال کے واقعات میں بتایا جا چکا ہے کہ خواجہ کمال الدین صاحب نے ’’اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب‘‘ پر ۔۔۔۔۔۔۔ لیکچر دیا تھا۔ جو اسی نام سے شائع ہوا۔ اس کے جواب میں حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۱/ جنوری ۱۹۱۵ء کو ’’القول الفصل‘‘ تصنیف فرمائی یہ رسالہ جو ۷۸ صفحات پر مشتمل تھا۔ صرف ایک دن میں لکھا گیا تھا۲۴۵۔ حضور نے انہی دنوں قاضی محمد یوسف صاحب مردان کے نام ایک خط میں اس لاجواب رسالہ کی نسبت تحریر فرمایا کہ۔
’’خواجہ صاحب کے رسالہ کے جواب آخر میں نے خود ہی لکھنا پسند کیا۔ پہلے مفتی محمد صادق صاحب کے سپرد کیا تھا انہوں نے بھی لکھا ہے لیکن اکیس جنوری کو میں نے جب (خواجہ صاحب کا) وہ رسالہ پڑھا تو حیران ہو گیا۔ خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ خلافت کے عقیدہ (میں) مولوی صاحب (یعنی حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اولؓ ۔ ناقل) بھی ان کے ساتھ تھے۔ اور شخصی حکومت (خلافت کا نام رکھا ہے) کے قائل نہ تھے جس شخص نے مولوی صاحب کی زندگی میں ان کی چھ سالہ تقریریں۔ خطبے۔ درس وغیرہ سنے ہوں اسے تو اس بات کو معلوم کرکے حیرت ہی ہوتی ہے میں تو حیران ہوں اس جرات کو کیا کہوں بھول چوک اس کا نام نہیں رکھا جا سکتا۔ غلطی اسے نہیں کہہ سکتے گھنٹوں اس بارہ میں مجھ سے حضرت (خلیفہ اولؓ) نے گفتگو فرمائی ہے۔ ہر درس میں جہاں کوئی بھی خلافت (کا) ذکر آجاتا تو خلافت کے منکرین پر لے دے کرتے۔ مگر آج وہ کہا جاتا ہے۔ جو کہا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ خواجہ صاحب کے رسالہ کے جواب میں جو مضمون میں نے لکھا ہے اس میں ظلی نبوت پر کافی بحث ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے تو ہماری طرح ہی ظلی بنی ہیں لیکن اس کے معنی ایسے کر دیتے ہیں۔ کہ اس سے نبی صرف نام رہ جاتا ہے۔ کام نہیں رہتا۔ میرا یہ عقیدہ ہے کہ آپ نبی تھے۔ لیکن امتی نبی‘ظلی نبی‘بروزی نبی‘نبی سے مراد یہ ہے کہ آپ کو وہ درجہ ملا جو نبیوں کو ملا۔ وہ کام ملا جو نبیوں کے سپرد ہوا۔ امتی کے معنی ہیں کہ آپ پر شریعت اسلام کی اتباع فرض تھی۔ اور آپ ساری عمر قرآن کریم کے پابند رہے۔ ظلی بروزی سے یہ مطلب ہے کہ آپ کو جو کچھ ملا وہ آنحضرت~صل۱~ کے طفیل اور آپ کی اتباع سے ملا۔ آپ کی نبوت بلاواسطہ نہیں تھی۔ بلکہ آنحضرت~صل۱~ کی غلامی کا نتیجہ تھی۔ اور آپ آنحضرت~صل۱~ کے بروز تھے کیونکہ قرآن کریم میں و اخرین منھم کی آیت میں ہمارے آنحضرت~صل۱~ کے دو بعث لکھے ہیں اور حضرت صاحب لکھ گئے ہیں کہ ہر ایک مسلمان پر جس طرح اور ایمانیات کا ماننا فرض ہے ان دو بعثوں کا ماننا بھی فرض ہے۔ لیکن باوجود اس کے ہم کہتے ہیں کہ ظل اپنے اصل سے جدا نہیں ہوتا اور اس میں جو کچھ ہے اصل کا ہی ہے لیکن ہم ایسے الفاظ کبھی استعمال نہیں کر سکتے۔ جن سے حضرت مسیح (موعود) کی ہتک ہو جیسا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ظل کیا شے ہے ظل کو تو نعوذ باللہ جوتیاں مارنی جائز ہیں عزت تو اصل انسان کی ہوتی ہے نہ اس کے سائے کی۔ ان لوگوں نے ظل کا مطلب ہی نہیں سمجھا۔ جو شخص تصویر کا نقص نکالتا ہے۔ وہ دراصل اس انسان کا نقص نکالتا ہے جس کی وہ تصویر ہے میں نے اس پر اس مضمون پر بحث کی ہے‘‘۔
احمدیہ دارالتبلیغ ماریشس
خلافت ثانیہ کے دوسرے سال جماعت احمدیہ کا دوسرا بیرونی مشن ماریشس میں قائم کیا گیا۔ اور اس کی تحریک خود ماریشس سے ہوئی اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ (روزہل) ماریشس میں ایک سکول کے ہیڈ ماسٹر نور محمد نور دیا صاحب فرانسیسی زبان میں ایک اخبار ’’دی اسلامزم‘‘ شائع کرتے تھے اور لورپول میں ایک معزز انگریز مسٹر عبداللہ کوئلم کی ادارت میں ایک اسلامی اخبار ’’دی کریسنٹ‘‘ نکلتا تھا یہ دونوں اخبارات تبادلہ میں ایک دوسرے کو پہنچتے تھے۔ ’’دی کریسنٹ‘‘ کے پرچوں میں ’’اسلامزم‘‘ کا ذکر پڑھ کر ایڈیٹر ’’رسالہ ریویو آف ریلیجنز‘‘ نے نور محمد صاحب کو اپنے رسالہ کے چند پرچے بھیجے اس طرح ۱۹۰۵ء میں احمدیت کا باقاعدہ پیغام اس جزیرہ تک پہنچا (جو دنیا کا کنارہ کہلاتا ہے) نور محمد صاحب نے بڑی تحقیقات کے بعد ۱۹۱۲ء میں احمدیت قبول کر لی اور کھلے طور پر احمدیت کا پیغام پہنچانے لگے۔ ان کے ذریعہ سے ماسٹر حاجی عظیم سلطان غوث صاحب آف فونکس بھی سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے اور آخر دم تک جماعتی خدمات انجام دینے میں پیش پیش رہے۔ ۱۹۱۳ء میں قصبہ فونکس )PHOENISC( کے مسجد کے امام جناب سبحان محمد صاحب نے بھی احمدی ہونے کا اعلان کر دیا جس پر مخالفت کی آگ بھڑک اٹھی اور ان کو قتل کرنے کے منصوبے ہونے لگے مگر سبحان محمد صاحب بہت زور سے تبلیغ میں مصروف رہے۔ ۱۹۱۴ء میں ہندوستان کی ایک فوجی پلٹن ماریشس پہنچی۔ جس میں چار احمدی بھی تھے۔ جن کے نام یہ ہیں۔ ڈاکٹر لعل محمد صاحب۲۴۶۔ اسمعیل صاحب‘عبدالمجید صاحب۔ منظور علی صاحب۔ جناب سبحان محمد صاحب اکثر ان احمدیوں سے ملاقات کے لئے چھائونی کو جایا کرتے تھے اور وہ بھی گاہے بگاہے ان کے ہاں آجاتے اسی دوران میں کئی لوگ احمدیت کی طرف مائل ہونے لگے۔ اس مرحلہ پر ان لوگوں کی طرف سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں ایک انگریزی دان مبلغ بھیجے جانے کی درخواست آئی۲۴۷۔ اس درخواست پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی نظر انتخاب حضرت صوفی حافظ غلام محمد صاحب۲۴۸ بی۔ اے پر پڑی۔ حضرت صوفی صاحب ۲۰/ فروری ۱۹۱۵ء کو۲۴۹ قادیان سے روانہ ہو کر حیدر آباد مدراس ہوتے ہوئے ۱۴/ مارچ ۱۹۱۵ء کو کولمبو پہنچے۔ یہاں آپ نے تین ماہ قیام فرمایا۔ اور شبانہ روز تبلیغی کوششوں کے نتیجہ میں معمر اور تعلیم یافتہ اشخاص پر مشتمل جماعت قائم کر لی۔ اور کولمبو اس کا مرکز بنا اور آپ اس کے پہلے آنریری پریذیڈنٹ مقرر ہوئے۲۵۰`۲۵۱۔
حضرت صوفی صاحب ۱۵/ جون ۱۹۱۵ء کو ماریشس کی بندرگاہ پورٹ لوئیس پہنچے ابھی آپ جہاز ہی میں تھے کہ ماریشس کے ایک اخبار JOURNAL( PETIT )LE نے حکومت سے آپ کی واپسی کا مطالبہ کر دیا۔ مگر یہ کوشش ناکام ہوئی۔ مکرم ماسٹر نور محمد صاحب نے جہاز پر آپ کا استقبال کیا اور اپنے مکان پر لے آئے۔ چند ماہ تک اسی مکان میں جمعہ اور اجتماعات ہوتے رہے اور یہیں سے حضرت صوفی صاحب کی تبلیغ سے احمدیت کی شعائیں تمام جزیرہ میں پھیلنی شروع ہو گئیں۔ ماسٹر نور محمد صاحب کے مکان سے متصل غیر احمدیوں کی ایک بڑی مسجد تھی جہاں حضرت صوفی صاحب اور ماسٹر صاحب صبح کی نماز پڑھا کرتے تھے ۴/ فروری ۱۹۱۶ء کو آپ قریباً دس بارہ احمدیوں کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے اس مسجد میں گئے۔ پہلے غیر احمدیوں نے نماز پڑھی پھر آپ نے نماز پڑھائی۔ نماز مغرب سے فارغ ہو کر آپ نے عشاء کی نماز تک تقریر فرمائی جو سامعین کو بہت پسند آئی۔ تقریر سننے والوں میں مسجد کے پریذیڈنٹ جناب احمد حاجی سلیمان اچھا صاحب بھی تھے جو اس درجہ متاثر ہوئے کہ عشاء کی نماز انہوں نے حضرت صوفی صاحب کی اقتداء میں ادا کی۔ اس کے بعد حضرت صوفی صاحب اور دوسرے احمدی احباب پانچوں وقت کی نمازیں اور نماز جمعہ بھی اسی مسجد میں ادا کرنے لگے۔ غیر احمدی اصحاب نماز جمعہ پہلے پڑھ لیتے تھے۔ پھر حضرت صوفی صاحب خطبہ دیتے اور نماز جمعہ پڑھاتے تھے چار پانچ ہفتے کے بعد اس مسجد کے امام جناب میاں جی احمد صاحب نے یہ دیکھ کر کہ حضرت صوفی صاحب کی تقریریں اسلامی تعلیم کے بالکل مطابق ہوتی ہیں خود بھی حضرت صوفی صاحب کی اقتداء میں نمازیں پڑھی شروع کر دیں۔ قریباً تین ماہ گزرنے کے بعد غیر احمدیوں نے یکایک مسجد میں آنا ترک کر دیا۔ اور دوسری جگہ نمازیں پڑھنے لگے۔ اور نو ماہ بعد (۶/ ستمبر ۱۹۱۸ء کو) عدالت عالیہ میں یہ دعویٰ دائر کر دیا کہ احمدی مشرک ہیں ان کو اسلامی تعلیم کی رو سے مسجد میں داخلہ کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ مقدمہ قریباً دو سال تک چلتا رہا اور اس کی ستر کے قریب نشستوں میں متنازعہ فیہ مسائل پر پوری اور سیر حاصل بحث ہوئی اور احمدیت کا خوب چرچا ہوا۔ آخر نومبر ۱۹۲۰ء کو عدالت عالیہ نے یہ فیصلہ دیا کہ احمدی مسلمان ہیں۔ لیکن چونکہ غیر احمدی بھی اسی مسجد میں نماز پڑھنا چاہتے ہیں اور اکثریت بھی انہیں کی ہے اس لئے احمدیوں کو اس مسجد میں باجماعت نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ کہ اس میں فساد کا اندیشہ ہے۲۵۲۔
اگرچہ اس فیصلہ میں نماز باجماعت ادا کرنے کی اجازت تو احمدیوں کو نہیں دی گئی۔ لیکن چونکہ اجازت کا نہ دیا جانا اس وجہ سے نہیں تھا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں بلکہ احمدیوں کو مسلمان تسلیم کرکے فساد ہو جانے کے خدشے کی وجہ سے تھا اس لئے احمدیوں کی بات کو اس فیصلہ سے ذرا نقصان نہیں ہوا بلکہ ان کی ہمت زیادہ اور حوصلہ بہت بلند ہو گیا۔ اور باوجودیکہ وہ اس موقعہ پر قریباً پندرہ ہزار کی رقم کثیر خرچ کرچکے تھے جس میں نمایاں حصہ محمد صدر علی صاحب‘مازور صاحب اور بھنوں برادرز نے لیا تھا انہوں نے ۱۹۲۳ء میں نئی مسجد بنا لی۔ ۶۲۔ ۱۹۶۱ء میں خود احمدیوں نے اپنے ہاتھوں اس کی دوبارہ تعمیر کی اور اب یہ ماریشس کی دو منزلہ خوبصورت ترین مسجد شمار کی جاتی ہے۔
حالات مقدمہ بیان کرنے کے بعد اب ہم دوبارہ ماریشس مشن کے ابتدائی واقعات کی طرف آتے ہیں۔ یہ بتایا جا چکا ہے کہ حضرت صوفی صاحب نے ماسٹر نور محمد صاحب کے مکان میں احمدیت کی تبلیغ شروع کر دی۔ روزہل سے پانچ میل کے فاصلہ پر سینٹ پیری Pierre( ۔)St ہے جہاں معزز اور متمول بھنو خاندان آباد تھا۔ حضرت صوفی صاحب اس خاندان کی دعوت پر دوبارہ سینٹ پیئر تشریف لے گئے۔ جہاں آپ نے قرآن مجید اور دوسرے اسلامی لٹریچر سے ایسی مدلل گفتگو فرمائی کہ ایک دن میں اس خاندان کے سب افراد بیعت میں داخل ہو گئے اس واقعہ سے جزیزہ بھر میں ایک شور عظیم برپا ہو گیا۔ اور روزہل کے کئی مسلمانوں نے بھی بیعت کر لی۔
بھنو خاندان نے خواہش ظاہر کی کہ قادیان سے ایک عالم خاص ان کے خاندان کی ضروریات کے لئے انہی کے اخراجات پر بلایا جائے۔ چنانچہ مرکز سے حضرت مولوی حافظ عبداللہ صاحبؓ ۱۴/ اکتوبر ۱۹۱۷ء۲۵۳ کو روانہ ہوئے۔ اور مع اہل بیت کے ماریشس تشریف لے گئے اور بہت اخلاص اور جانفشانی سے نوجوانوں کو پڑھانے لگے۔ روزانہ رات کو درس دیتے۔ ہفت روزہ اجلاس کرکے ان کو تقریر کی مشق کراتے اس کے علاوہ عام تبلیغی کاموں میں حضرت صوفی صاحب کا ہاتھ بٹاتے۔ افسوس دسمبر ۱۹۲۳ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اور ان کو ماریشس ہی میں پائی کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ حضرت مولانا عبیداللہ صاحب عہد خلافت ثانیہ کے پہلے شہید ہیں جنہوں نے اعلائے کلمتہ اللہ کرتے ہوئے اپنے وطن سے ہزاروں میل دور جام شہادت نوش فرمایا۔
مئی ۱۹۱۷ء میں حضرت صوفی صاحب نے چار نوجوانوں کو تحصیل علم کے لئے قادیان بھجوایا جن میں سے دو (پیر محمد صاحب اور الیاس اکبر علی صاحب) قادیان میں رحلت کرکے بہشتی مقبرہ میں دفن کئے گئے۲۵۴4] [rtf۔
۲۸/ اپریل ۱۹۱۸ء کو آپ کا پورٹ لوئیس کے امام جامع کے ساتھ ایک کامیاب مناظرہ ہوا۲۵۵ ۱۹۲۶ء میں آپ دو ہفتہ کے لئے مڈغاسکر تشریف لے گئے اور وہاں پیغام حق پہنچایا۲۵۶۔ حضرت صوفی صاحب قریباً تیرہ سال تک ماریشس میں رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے جزیرہ میں احمدیت کا سکہ بٹھا دیا۔ آپ کو تبلیغ کا جنون تھا اور دشمن تک آپ کی قابلیت کے معترف تھے۔ آخر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے ۴/۳ مارچ ۱۹۲۷ء کو آپ احمد حسن صاحب۲۵۷ سوکیہ کے ہمراہ ماریشس سے چل کر ۱۶/ مارچ ۱۹۲۷ء میں وارد قادیان ہوئے۔
آپ کی واپسی کے بعد حضرت اقدس نے حافظ جمال احمد صاحب۲۵۸ کو بھجوایا۔ جو ۲۷/ جولائی ۱۹۲۸ء کو ماریشس پہنچے۔ اور اکیس (۲۱) برس تک نہایت درجہ اخلاص و فدائیت سے تبلیغ کا کام کرتے ہوئے ماریشس ہی میں ۲۷/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو انتقال فرما گئے۔ ’’سینٹ پیری‘‘ میں آپ کا مزار مبارک ہے۔
حافظ جمال احمد صاحب کے سانحہ شہادت کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے بالترتیب مندرجہ ذیل مبلغین کو ماریشس روانہ فرمایا۔
۱۔ حافظ بشیر الدین صاحب (ابن مولوی عبیداللہ صاحبؓ) آپ ۳/ جولائی ۱۹۵۱ء کو ماریشس پہنچے۔ اور ۱۳/ اپریل ۱۹۵۵ء کو واپس تشریف لائے۔ (۲) مولوی فضل الٰہی صاحب بشیر۔ آپ نے پہلی بار ۲/ فروری ۱۹۵۵ء کو ماریشس میں قدم رکھا۔ (اور کچھ عرصہ کے وقفہ سے) اب تک فریضہ تبلیغ بجا لا رہے ہیں۔
(۳) مولوی محمد اسمعیل صاحب منیر ۸/ دسمبر ۱۹۶۰ء ماریشس پہنچے اور تبلیغی فرائض انجام دینے کے بعد ۸/ ستمبر ۱۹۶۲ء کو مرکز میں آئے۔
ماریشس مشن نے فرانسیسی زبان میں اسلام و احمدیت کے لٹریچر کی بکثرت اشاعت کی ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی بعض تصانیف کا فرانسیسی ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔ قرآن کریم کا فرنچ ترجمہ بھی اس مشن کے زیر انتظام چھپ رہا ہے۔ روزہل میں ۱۶/ جنوری ۱۹۶۲ء کو فضل عمر کالج کا اجرا ہوا۔ مئی ۱۹۶۲ء میں Massage Le نامی اخبار کا اجرا ہوا۔ اور جزیرہ کے چھ مقامات روزہل فونکس۔ سینٹ پیری۔ مونتین بلانش۔ تریولے اور پائی میں احمدی مساجد موجود ہیں۔ جماعت احمدیہ ماریشس کے بعض ممتاز احمدیوں کے نام یہ ہیں۔ احمدید اللہ بھنو۔ عبدالستار سوکیہ۔ مسٹر حنیف جواہر۔ عباس کالو۲۵۹۔
حضرت میر محمد اسحٰق صاحب کا درس بخاری شریف
اسی سال حضرت میر محمد اسحٰق صاحب نے درس بخاری شریف دینا شروع کیا۲۶۰۔ یہ درس ایک خاص رنگ اور امتیازی شان رکھتا تھا۔ ارشادات نبوی کی حکمتیں اور باریک در باریک معارف و نکات ایسے پاکیزہ و پسندیدہ و دل نشین و روح افزا انداز میں بیان فرماتے کہ سننے والے کے دل آنحضرت~صل۱~ کی عظمت و محبت سے معمور ہو جاتے اور ہر شخص یہی چاہتا کہ آپ بولتے رہیں اور میں سنتا رہوں درس کے دوران ربودگی اور وجد کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی۔ آپ کا ایک ایک لفظ محبت رسول میں ڈوبا ہوا ہوتا اور ایک ایک بات سے درد و سوز ٹپکتا تھا۔ خصوصاً آنحضرت~صل۱~ کا نام مبارک زبان پر آتے ہی آپ پر رقت طاری ہو جاتی اور آواز بھرا جاتی اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے تھے۔ آپ درس حدیث کے دوران میں آنحضرت~صل۱~ کو حضور کے مختلف ناموں اور مختلف لقبوں سے یاد فرمایا کرتے تھے اور حضور کا جو نام یا لقب آپ کی زبان سے نکلتا تھا وہ اس جوش اخلاص و محبت میں نکلتا تھا کہ سننے والوں کے دل متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے تھے خاص کر رسول مقبولﷺ~ کے الفاظ تو اس رنگ میں آپ کی زبان سے نکلتے کہ گویا دلوں پر نقش ہو جاتے اور پھر حضرت رسول مقبول~صل۱~ (فدا ابی و امی و روحی و جنانی) کا ذکر مبارک اس جذبہ سے فرماتے کہ ہر سننے والا محسوس کرتا کہ گویا میں آنحضرت~صل۱~ کی پاک مجلس میں بیٹھا ہوا اپنے کانوں سے احادیث رسول سن رہا ہوں۔ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ایک دفعہ تحریر فرمایا۔ ’’درس تدریس کا بھی حضرت میر صاحب کو بے حد شوق بلکہ عشق تھا ان کا حدیث کا درس اب تک سننے والوں کے کانوں میں گونج پیدا کرکے ان کے دلوں کو گرما رہا ہے۔ اور ان کی نگاہیں اس ذوق و شوق اور محبت سے درس دینے والے کو بے تابی سے ڈھونڈتی ہیں مگر نہیں پاتیں‘‘۲۶۱۔
دراصل حدیث شریف حضرت میر صاحب کی غذائے روح اور راحت جان تھی۔ جس کے بغیر آپ کو تسکین ہی نہ ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار علمی و عملی مصروفیات کے باوجود آپ نے اپنی وفات تک (جو ۱۷/ مارچ ۱۹۴۴ء کو ہوئی) باقاعدہ درس جاری رکھا اور حتی الوسع کبھی ناغہ نہیں ہونے دیا۲۶۲4] ft[r۔
’’حقیقتہ النبوت‘‘ کی تالیف
حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تالیف منیف مولوی محمد علی صاحب کے رسالہ کا جواب ہے جس کا نام انہوں نے ’’القول الفصل کی ایک غلطی کا اظہار‘‘ رکھا تھا۔ حضور نے یہ معرکتہ الاراء کتاب جو تقریباً تین سو صفحات پر پھیلی ہوئی ہے بیس روز کے اندر اندر تالیف فرما کر مارچ ۱۹۱۵ء میں شائع فرما دی جس میں مسئلہ نبوت حضرت مسیح موعودؑ کے تمام پہلوئوں پر نہایت جامعیت سے بڑی سیر کن اور تسلی بخش بحث کی گئی ہے۔ اس موضوع پر اسے حرف آخر کا رتبہ حاصل ہے۔ اس کا فقرہ فقرہ بلکہ لفظ لفظ لائق مطالعہ ہے ہم اس کا صرف ایک اقتباس بطور نمونہ درج کرتے ہیں۔ حضور فرماتے ہیں۔
’’نادان انسان ہم پر الزام لگاتا ہے کہ مسیح موعود کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت~صل۱~ کی ہتک کرتے ہیں۔ اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم اسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد~صل۱~ کے لئے ہے وہ کیا جانے کہ محمد~صل۱~ کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کر گئی ہے۔ وہ میری جان ہے میرا دل ہے۔ میری مراد ہے۔ میرا مطلوب ہے اس کی غلامی میرے لئے عزت کا باعث ہے اور اس کی کفش برداری مجھے تخت شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم ہیچ ہے وہ خدا تعالیٰ کا پیارا ہے پھر میں کیوں اس سے پیار نہ کروں۔ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر میں اس سے کیوں محبت نہ کروں وہ خدا تعالیٰ کا مقرب ہے پھر میں کیوں اس کا قرب نہ تلاش کروں۔ میرا حال مسیح موعود کے اس شعر کے مطابق ہے کہ ~}~
بعد از خدا بعشق محمد مخمرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم
اور یہی محبت تو ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ باب نبوت کے بکلی بند ہونے کے عقیدے کو جہاں تک ہو سکے باطل کروں اس میں آنحضرت~صل۱~ کی ہتک ہے‘‘۲۶۳`۲۶۴
اس کتاب کے مطالعہ سے بہتوں پر حقیقت نبوت منکشف ہو گئی اور کئی اصحاب کو سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے یا بیعت خلافت کی سعادت حاصل ہوئی۲۶۵۔
’’چند غلط فہمیوں کا ازالہ‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ’’حقیقتہ النبوۃ‘‘ کی اشاعت کے بعد ہی ۱۱/ مارچ ۱۹۱۵ء کو مسئلہ نبوت ہی سے متعلق سولہ صفحات کا ایک پمفلٹ بھی شائع فرمایا۔ جس میں مولوی محمد علی صاحب کی چند غلط فہمیوں کا ازالہ فرمایا گیا ہے۔
’’ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب‘‘
ایک غیر احمدی دوست نے اپنے ایک خط میں پانچ سوالات پیش کئے اور درخواست کی کہ خود آپ کی طرف سے ان کا جواب دیا جائے۔ چنانچہ ’’ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب‘‘ کے عنوان سے حضور نے ایک مفصل مضمون لکھا جو پمفلٹ کی شکل میں بھی شائع کر دیا گیا۲۶۶۔
ایک فرمانروائے ریاست کو تبلیغ
حضور نے ایک فرمانروائے ریاست کو تبلیغی خط لکھا تھا۔ جس پر اس نے دریافت کیا کہ حضرت مرزا صاحب کا مقام کیا تھا؟ اس اہم سوال کے جواب میں حضور نے مفصل خط لکھنے کے علاوہ ’’تحفہ الملوک‘‘ اور ’’حقیقتہ النبوۃ‘‘ بھی بھجوائیں۔ حضور کا یہ خط ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ اردو مئی ۱۹۱۵ء (صفحہ ۱۹۹ تا ۲۰۶) میں چھپا ہوا ہے۔
حضرت صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ کا نکاح
۷/ جون ۱۹۱۵ء کو سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی دختر نیک اختر صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت حجتہ اللہ محمد علی خاں صاحب کے فرزند ارجمند حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب سے ہوا۲۶۷۔ خطبہ نکاح حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی نے پندرہ ہزار روپیہ مہر پر سوا سات بجے شام مسجد اقصیٰ میں پڑھا۔ آپ اس تقریب سعید پر لاہور سے بلوائے گئے تھے۲۶۸۔ حضرت ام المومنین نے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں اس رشتہ کی بابت خواب دیکھا تھا]10 [p۲۶۹۔ ۲/ فروری ۱۹۱۷ء کو نہایت سادگی کے ماحول میں رخصتانہ عمل میں آیا۲۷۰۔ چنانچہ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ کا بیان ہے کہ ’’میری شادی کے روز شام کو حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے بلا بھیجا۔ چونکہ حضرت والد صاحب ابھی برات کے طریق کو اپنی تحقیقات میں اسلامی طریق نہیں سمجھتے تھے۔ اس لئے شہر پہنچا ہی تھا کہ آپ نے واپس بلا بھیجا۔ اور میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی اجازت سے واپس چلا گیا۔ اور بعد میں سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور ہمشیرہ بوزینب بیگم صاحبہ دلہن کو دارالمسیح سے دارالسلام لے گئیں‘‘۲۷۱۔ ۲۳۔ ۲۴/ جون کو حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ نے دعوت ولیمہ دی۔
حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے بطن مبارک سے یہ اولاد ہوئی۔ نواب میاں عباس احمد خان صاحب (ولادت ۲/ جون ۱۹۲۰ء) طیبہ آمنہ بیگم صاحبہ (ولادت ۱۸/ مارچ ۱۹۱۹ء) طاہرہ بیگم صاحبہ (ولادت ۳/ جون ۱۹۲۱ء) زکیہ بیگم صاحبہ (ولادت ۲۳/ نومبر ۱۹۲۳ء) قدسیہ بیگم صاحبہ۲۷۲body] [tag (ولادت ۲۰/ جون ۱۹۲۷ء) شاہدہ بیگم صاحبہ (ولادت ۳۱/ اکتوبر ۱۹۳۴ء) میاں شاہد احمد خان صاحب (ولادت ۱۰/ اکتوبر ۱۹۳۵ء) فوزیہ بیگم صاحبہ (ولادت ۲۲/ نومبر ۱۹۴۱ء) میاں مصطفیٰ احمد خان صاحب (ولادت ۱۰/ جولائی ۱۹۴۳ء)۲۷۳
سفر لاہور
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ مع اہل بیت ۷/ جولائی ۱۹۱۵ء کو لاہور تشریف لے گئے۲۷۴ اور ۱۲/ جولائی ۱۹۱۵ء کو رونق افروز قادیان ہوئے۲۷۵۔ ۱۱/ جولائی ۱۹۱۵ء کو بعد نماز مغرب میاں معراج الدین صاحب کے احاطہ میں حضور کا معرکتہ الاراء لیکچر ہوا۲۷۶۔ یہ لیکچر جو بعد کو (۲۶ صفحات میں) ’’پیغام مسیح‘‘ کے نام سے چھپ بھی گیا۔ یہ ایک نہایت ہی عمدہ و پسندیدہ لیکچر تھا جس کی عمدگی کا لاہور کے غیر مسلموں نے بھی اقرار کیا۲۷۷۔
آسٹریلیا سے بیعت خلافت کا خط
آسٹریلیا۲۷۸ میں سالہا سال سے ایک بزرگ صوفی حسن موسیٰ خان صاحب رہتے تھے۔ جو صحابی تھے اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان بھی آچکے تھے خلافت ثانیہ کے قیام پر بعض وجوہ سے آپ متامل رہے۔ مگر بالاخر ۱۱/ جولائی ۱۹۱۵ء کو بذریعہ خط بیعت کر لی۲۷۹۔ اور آخر دم تک اس براعظم میں آنریری طور پر اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں مصروف رہے۔ آپ بڑے مخلص و پرجوش بزرگ تھے۔ ضعیف العمری کے باوجود بڑی محنت و جانفشانی سے کام کرتے۔ زبانی بھی تبلیغ کرتے اور تبلیغی خطوط بھی بکثرت لکھتے آپ ہی کی کوشش سے وہاں ’’بیرسن بین‘‘ اور ’’آڈ میئر‘‘ میں جماعتیں قائم ہوئیں اور جزیرہ فجی میں احمدیہ لٹریچر پہنچا۔ ۱۸/ اگست ۱۹۴۵ء کو آپ کی وفات ہوئی اللہ تعالیٰ آپ کو مدارج عالیہ عطا فرمائے۔ آپ کے بعد تبلیغ کا کام پرتھ کے ایک مخلص احمدی جناب شیر محمد صاحب نے سنبھال لیا۲۸۰۔
ایک والئے ریاست کو جواب
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ پر ایک والی ریاست نے اپنے معتمد کے ذریعہ سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضور ہمارے یہاں تشریف لائیں ہم سلسلہ احمدیہ کے متعلق کچھ سننا چاہتے ہیں حضور نے جواب دیا کہ پیاسا کنوئیں کے پاس آتا ہے۔ کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا۔ ہاں اگر آپ کو واقعی حق کی تلاش ہے۔ تو علمائے سلسلہ بھیجے جا سکتے ہیں بشرطیکہ ان کی حفاظت کے آپ ذمہ دار ہوں۲۸۱۔
کنانور(مالا بار) کے قریب احمدیوں پر راجہ صاحب کے مظالم
۱۹۱۵ء کے وسط آخر میں مالا باری احمدیوں پر بہت ظلم و ستم ڈھائے گئے ایک احمدی کو مسجد میں نماز پڑھنے کی وجہ سے زدوکوب کرکے نیم جان کر دیا۔ جس پر مقدمہ چلا۔ غیر احمدیوں نے مقدمہ کے لئے ایک فنڈ کھول دیا۔ چند روز کے بعد ایک احمدی کے ایس۔ حسن صاحب کا چھوٹا بچہ فوت ہو گیا۔ راجہ صاحب نے حکم دے دیا کہ احمدی کافر ہیں کسی مقبرے میں ان کا مردہ دفن نہیں کیا جا سکتا۔ آخر دوسرے دن بڑی کوشش کے بعد کنا نور سے دو میل دور ایک قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت ملی۔ چار پانچ ہزار لوگ شرارت کے لئے جمع ہو گئے۔ احمدی صرف نو تھے آخر مسلح پولیس کی حفاظت میں نعش لے جائی گئی۔ اور شام کے قریب بچہ دفن کرنے کی نوبت آسکی۔ اس واقعہ کے کچھ دن بعد راجہ صاحب نے حکم دے دیا کہ کوئی دکاندار کسی احمدی کے ہاتھ کوئی چیز فروخت نہ کرے۔ ورنہ وہ بھی قادیانی قرار دے کر مساجد سے روک دیا جائے گا۔ اس سے پہلے کئی احمدیوں کی بیویاں بھی چھینی جا چکی تھیں۔ اب اس حکم سے لوگوں کو اور شہ مل گئی۔ حتیٰ کہ زبانوں سے گزر کر ان حالات کا ذکر اخباروں میں بھی آنا شروع ہو گیا۔ اور ان کے مظالم کی رفتار بہت تیز ہو گئی۔ چنانچہ ایک اخبار ’’کیر لاپتر کا‘‘ نے لکھا۔ ’’احمدیوں پر تکالیف کی بوچھاڑ پہلے کی نسبت بہت زیادہ پڑنے لگی ہے۔ بیچارے اپنے گھر کے صحن سے بھی باہر نہیں نکلتے جن کے پاس کچھ مال تھا وہ اندر بیٹھے کھا رہے ہیں اور جو غریب ہیں وہ فاقے کاٹ رہے ہیں۔ جب یہ حالات منظر عام پر آگئے تو لفٹنٹ گورنر پنجاب نے گورنر مدراس کو توجہ دلائی۔ اور تحقیقات کے بعد احمدیوں کو اپنی مسجد اور اپنا قبرستان بنانے کے لئے الگ زمین دے دی گئی۔ مگر چند ہی روز کے بعد کنانور کے قاضی صاحب کی رپورٹ پر راجہ صاحب نے احمدیوں کے نام نوٹس جاری کر دیا کہ کیوں نہ تمہیں کافر قرار دیا جائے اس حکمنامہ نے اور آگ بھڑکا دی۔ لیکن بالاخر مظلوم احمدیوں کی فریاد سنی گئی۔ اور ۱۷/ نومبر ۱۹۱۵ء کو راجہ صاحب انگریزی حکومت کے زیر عتاب آگئے اور احمدیوں کو ان کے مظالم سے نجات ملی10] p[۲۸۲
حضور کے نصائح حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب مبلغ انگلستان کو
حسب الارشاد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی ۶/ ستمبر ۱۹۱۳ء کو بغرض تبلیغ انگلستان روانہ ہوئے۲۸۳ حضور نے ان کو جو تفصیلی ہدایات و نصائح اپنے دست مبارک سے تحریر فرما کر دیں۔ ان کا ملخص یہ ہے۔ اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ یورپ کو فتح کرنے جاتے ہیں نہ کہ مفتوح ہونے۔ یورپ کی ہوا کے آگے نہ گریں۔ بلکہ اہل یورپ کو اسلامی تہذیب کی طرف لانے کی کوشش کریں۔ خدا کی بادشاہت کے دروازوں کو تنگ نہ کریں لیکن عقائد صحیحہ کے اظہار سے کبھی نہ جھجکیں۔ کھانے پینے پہننے میں اسراف اور تکلف سے کام نہ لیں۔ اخلاص سے سمجھائیں اور محبت سے کلام کریں۔ ہر ہفتہ مفصل خط لکھتے رہیں۔ اگر کوئی تکلیف ہو تو خدا تعالیٰ سے دعا کریں۔ اگر کسی فوری جواب کی ضرورت ہو۔ خط لکھ کر ڈال دیں۔ اور خاص طور پر دعا کریں تعجب نہ کریں اگر خط کے پہنچتے ہی یا پہنچنے سے پہلے ہی جواب مل جائے خدا کی قدرتیں وسیع اور اس کی طاقت بے انتہا ہے۔ اپنے اندر تصوف کا رنگ پیدا کریں کم خوردن‘کم گفتن‘کم خفتن عمدہ نسخہ ہے۔ اور تہجد ایک بڑا ہتھیار۲۸۴`۲۸۵
سندھی ٹریکٹ
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سندھ کو پیغام احمدیت پہنچانے کے لئے ۱۹۱۵ء کے آخر میں ٹریکٹ لکھا جو سندھی زبان میں بعنوان ’’ایک عظیم الشان بشارت‘‘ شائع کیا گیا۲۸۶
’’فاروق‘‘ کا اجراء
خلافت ثانیہ کے عہد میں مرکز سے پہلا اخبار ’’فاروق‘‘ حضرت میر قاسم علی صاحب کی ادارت میں ۷/ اکتوبر ۱۹۱۵ء کو جاری ہوا۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس کے پہلے پرچہ میں بعنوان ’’فاروق کے فرائض‘‘ ایک نہایت قیمتی مضمون لکھا۲۸۷۔ حضرت میر قاسم علی صاحب فاروق کی ابتدا کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں۔ ’’خاکسار ایڈیٹر فاروق ۱۹۱۵ء میں دہلی سے ہجرت کرکے دارالامان میں آگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بعض ذمہ دار احباب نے مجھے انجمن کی طرف سے ہیڈ مبلغ بننے کی صلاح دی۔ جس کے لئے میں نے اپنے آپ کو ناقابل سمجھا۔ اور اس تجویز کو منظور نہ کیا۔ میرے پیارے مقتدا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ نے میری حالت کا اندازہ فرما کر مجھے یہی حکم دیا کہ میں جس طرح دہلی سے ’’الحق‘‘ اخبار نکالتا تھا اسی طرح دارالامان سے اخبار جاری کروں اور اس کا نام خلافت ثانیہ کے لحاظ سے فاروق تجویز ہوا‘‘۲۸۸۔ ’’فاروق‘‘ مخالفین اسلام و احمدیت کے لئے شمشیر برہنہ تھا جس کے دلائل سے ان کے اعتراضات پارہ پارہ ہو جاتے تھے۔ افسوس اپریل ۱۹۴۲ء میں حضرت میر قاسم علی صاحب کی وفات کے بعد یہ بند ہو گیا۔
مولوی عبدالحی صاحب کی خدمت میں لاہوری وفد
حضرت صغریٰ بیگم صاحبہ (حرم حضرت خلیفہ اولؓ) اور مولوی عبدالحی صاحبؓ نے ابتدا ہی میں بیعت خلافت ثانیہ کر لی تھی۔ مگر غیر مبایعین برابر اس کوشش میں لگے رہے کہ حضرت خلیفہ اولؓ کے خاندان کی ہمدردیاں حاصل کرکے انہیں اپنے اندر جذب کر لیں۲۸۹۔ چنانچہ جناب میاں عبدالوہاب صاحب عمر کا بیان ہے کہ ’’مولوی عبدالباقی صاحب بہاری ایم۔ اے نے بتایا کہ حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ کے زمانے میں خلافت کے چند دشمن حضرت مولوی عبدالحی صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ خلیفہ بن جاتے تو ہم آپ کی اطاعت کرتے۔ مولوی عبدالحی صاحب نے باوجود بچپن کے ان کو جو جواب دیا وہ اس قابل ہے کہ سلسلہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے انہوں نے فرمایا۔ ’’یا تو آپ کو آپ کے نفس دھوکہ دے رہے ہیں یا آپ جھوٹ بول رہے ہیں۔ میں سچ کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ بنتا تب بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے۔ اطاعت کرنا آسان کام نہیں۔ میں اب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہرگز نہ مانو‘‘۔ اس پر ان میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں۔ پھر دیکھیں کہ ہم آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں۔ یا نہیں۔ مولوی عبدالحی صاحب نے کہا اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جائو حضرت خلیفتہ المسیح کی بیعت کر لو۔ یہ بات سن کر وہ لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہنے لگے کہ یہ تو نہیں ہو سکتا‘‘۲۹۰۔
جماعت احمدیہ کی طرف سے اہم میموریل
ابتداء میں جب انگریزی حکومت نے مسلمانوں سے دریافت کیا۔ کہ تمہارے مقدمات وراثت کا فیصلہ رواج پر ہو یا شریعت پر۔ تو بعض نے رواج لکھوایا اور بعض نے شریعت۔ ہر قوم کے رواج الگ الگ تھے۔ اس لئے مقدمات بہت طول کھینچنے لگے۔ کیونکہ ہر شخص اپنے آپ کو کسی ذاتی فائدے کے لئے ایک خاص رواج کا پابند قرار دیتا جس پر بالاخر حکومت نے تجویز کی کہ تمام قوموں کے رواج کی ایک کتاب لکھی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جو رواج اس میں درج ہوں وہی قانون قرار دیئے جائیں۔ اور ان کے سوا کچھ مسلم نہ ہو۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اکتوبر ۱۹۱۵ء میں جماعت احمدیہ کو ارشاد فرمایا کہ انہیں حکومت کو میموریل بھیجنے چاہئیں۔ کہ ہم خواہ کسی قسم یا ذات یا خاندان سے ہوں ہم احمدی ہیں اور شریعت کے تابع ہیں اور ہمارا عمل درآمد شریعت اسلامیہ ہے پس ہمارے مقدمات شرع کے مطابق فیصل ہوا کریں۔ جو مسئلہ اسلامی فرقوں میں متنازعہ فیہ ہو اس میں احمدی علماء کی رائے معتبر مانی جائے۲۹۱۔
چنانچہ جماعت نے اس کی پوری پوری تعمیل کی اور گو جماعت احمدیہ کا اکثر و بیشتر حصہ پہلے ہی رواج پنجاب کی بندھنوں سے آزاد اور احکام اسلامی کا پابند تھا مگر میموریل کے ذریعہ سے انگریزی حکومت پر بھی واضح ہو گیا کہ یہ جماعت رواج کی بجائے اسلامی شریعت کو اپنا آئین سمجھتی ہے لیکن اس کے مقابل (ایک قلیل طبقہ کے سوا) مسلمانوں کے سواد اعظم نے شریعت پر رواج کو ترجیح دی۔
سر ڈبلیو ایچ ریٹگین رواج عام پنجاب کی مشہور اور مستند ترین کتاب of digest ‘‘The law’’ customary میں لکھا ہے کہ
۔۔۔۔۔ governed is Batala Tehsil Qadian of Barlas Mughal the of family ‘‘The۔۲ ۲۹Law’’ Muhammdan by
یعنی قادیان کا مغل برلاس خاندان رواج زمیندارہ کا نہیں بلکہ قانون شریعت کا پابند ہے۔
مولوی عبدالحی صاحب کی وفات
۱۱/ نومبر ۱۹۱۵ء۲۹۳ کو مولوی عبدالحی صاحب (ابن حضرت خلیفہ اولؓ) کا انتقال ہوا۔ آپ کی وفات پر کثیر التعداد تعزیت ناموں کے علاوہ کئی احباب بیرون سے تعزیت کے لئے آئے۲۹۴۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے چودھری فتح محمد صاحب سیال مبلغ انگلستان کو مولوی صاحب کی وفات کی نسبت اطلاع دیتے ہوئے لکھا۔ ’’عزیز میاں عبدالحی کو دو ہفتہ بخار رہا۔ اور گو سخت تھا لیکن حالت مایوسی کی نہ تھی۔ مگر پچھلی جمعرات کو یک لخت حالت بگڑ گئی۔ اور ایک رات اور کچھ حصہ دن کا بیہوش رہ کر عصر کے قریب اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قریباً اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور اب کے ففتھ ہائی کا امتحان دینا تھا۔ سال ڈیڑھ سال سے شبانہ روز جسم و علم میں ترقی تھی۔ اور اب خاصہ جوان آدمی معلوم ہوتے تھے۔ ذہن نہایت تیز اور رسا تھا مگر منشاء الٰہی کے مقابلہ میں انسان کا کچھ بس نہیں چل سکتا۔ اور اس کے ہر فعل میں حکمت ہوتی ہے اور جیسا کہ مجھے ان کی وفات کے بعد معلوم ہوا۔ یہ واقعہ بھی اللہ تعالیٰ ہی کی حکمتوں کے ماتحت تھا۔ ورنہ کئی فتنوں کا اندیشہ تھا۔ مرحوم بوجہ کمسن ہونے کے بہت سے فتنہ پردازوں کے دھوکے میں آجاتا تھا۔ میں آخری دنوں میں اپنے گھر میں ہی ان کو لے آیا تھا۔ (ان کی بہن امتہ الحی کی خواہش سے) اور حیران تھا کہ وہ ہر وقت والدہ صاحبہ اور میرے پاس بیٹھے رہنے پر مصر سا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بار بار کہتا تھا کہ آپ میرے پاس بیٹھے رہیں مجھے اس سے تسلی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معلوم ہوتا ہے وفات سے پہلے اس کے دل کے دروازے اللہ تعالیٰ نے کھول دیئے تھے اور ایک پاک دل کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملا۔ مجھے اس سے ایسی محبت تھی جیسے ایک سگے بھائی سے ہونی چاہئے۔ اور اس کا باعث نہ صرف حضرت مولوی صاحبؓ کا اس سے محبت رکھنا تھا۔ بلکہ یہ بھی وجہ تھی کہ اسے خود بھی مجھ سے محبت تھی۲۹۵`۲۹۶
احمدیہ ہوسٹل لاہور کا قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی نگاہ دوربین تبلیغ کی راہوں اور طریقوں سے گزر کر نونہالان جماعت کی ابتدائی تعلیمی و تربیتی ضرورتوں تک بھی جاپہنچی۔ قادیان میں ان دنوں کوئی کالج نہیں تھا۔ اس وجہ سے یونیورسٹی کی تعلیم کے لئے جماعت کے نوجوانوں کو لاہور یا دوسرے شہروں کے کالجوں میں داخل ہونا پڑتا تھا۔ یہ صورت حال تربیتی نقطہ نگاہ سے بڑی خطرناک تھی۔ کیونکہ جماعتی ماحول سے نکل کر دنیا کے زہر آلود مادی ماحول میں داخل ہو جانا خام طبیعتوں پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ حضور نے جماعت کی نئی پود کو اس خطرہ سے محفوظ کر دینے کے لئے تجویز فرمائی کہ لاہور میں احمدی نوجوانوں کے لئے ایک ہوسٹل قائم کیا جائے۔ جہاں جماعت کے نوجوان طلبہ جماعت کے تربیتی نظام کے ماتحت رہیں۔ یہ ہوسٹل ۱۹۱۵ء کے آخر میں جاری ہوا۲۹۷۔ اور اس کے پہلے سپرنٹنڈنٹ مکرم بابو عبدالحمید صاحب سیکرٹری انجمن احمدیہ لاہور مقرر کئے گئے۲۹۸۔ اور درس و تدریس کا فرض حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ادا فرمانے لگے۲۹۹ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا شروع شروع میں یہ دستور تھا کہ حضور جب کبھی لاہور تشریف لے جاتے تو احمدیہ ہوسٹل میں ہی قیام فرماتے۔ کہ طلباء میں دینی روح پیدا ہو۔ اور وہ احمدیت سے اخلاص میں ترقی کریں۔ اور یہ حضور کی اس خاص توجہ کا نتیجہ تھا کہ احمدیہ ہوسٹل کے طلباء نہایت اخلاص و جوش رکھنے اور خدمات سلسلہ میں پورا حصہ لینے والے تھے۔ چنانچہ مسجد لندن کی تحریک پر صرف احمدیہ ہوسٹل کا چندہ دو ہزار کے قریب تھا۔ امتحان کے دنوں میں بھی طلباء احمدیت کی تبلیغ کے جوش میں سائیکلوں پر سوار تمام شہروں میں اشتہار بانٹتے پھرتے۔ ایک دفعہ حضور امتحان کے دنوں میں لاہور تشریف فرما ہوئے۔ تو لڑکوں نے امتحان کا کام چھوڑ دیا۔ مگر خدا کے فضل سے پھر بھی ان کے نتائج بہت عمدہ رہے۔ اسی طرح جب ۱۹۱۷ء میں غیر احمدیوں نے قادیان میں پہلا جلسہ منعقد کیا تو احمدیہ ہوسٹل کے طلباء بھی قادیان پہنچ گئے۔ وہ بھی امتحان کے دن تھے لیکن بفضلہ تعالیٰ سب کے سب پاس ہو گئے تھے۳۰۰۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاہب نے اپریل ۱۹۲۷ء میں جب کہ آپ ناظر تعلیم و تربیت تھے۔ احمدیہ ہوسٹل کے مفصل قواعد و ضوابط مرتب فرمائے۔ کل چالیس قواعد تھے جن میں سے چند یہ تھے۔ (۱) کسی بورڈر کے پاس رات کو کوئی مہمان نہیں ٹھہر سکے گا۔ (۲) ہر بورڈر اسلامی تعلیمات کا پابند ہو گا۔ اور سپرنٹنڈنٹ کے احکام کی اطاعت کرے گا۔ (۳) پانچوں نمازیں ادا کرنی ہوں گی۔ اور رمضان کے روزے رکھنے ہوں گے۔ (۴) سگریٹ نوشی ممنوع ہو گی۔ (۵) ہوسٹل کے ملازمین سے طلباء قرضہ نہیں لے سکیں گے وغیرہ وغیرہ۳۰۱۔
احمدیہ ہوسٹل کے لاہور میں ایک عرصہ تک نوجوانان احمدیت کے دینی و علمی مرکز کی حیثیت حاصل رہی۔ یہ گویا اسلامی ماحول میں پرورش پانے والا ایک شجر تھا جس نے حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحبؓ۔ ملک غلام فرید صاحب۔ ملک عبدالرحمن صاحبؓ خادم۔ ڈاکٹر بدر الدین صاحبؓ۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحبؓ درد ایم۔ اے۔ شیخ یوسف علی صاحبؓ بی۔ اے سید عزیز اللہ شاہ صاحبؓ۔ سید محمود اللہ شاہ صاحبؓ۔ جناب شیخ بشیر احمد صاحب۔ جناب مرزا عبدالحق صاحب۔ جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر۔ جناب میاں عطاء اللہ صاحب۔ صوفی محمد ابراہیم صاحب۔ اخوند عبدالقادر صاحب مرحوم اور چوہدری علی اکبر صاحب جیسے اثمار شیریں پیدا کئے۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء (صفحہ ۲۴۴۔ ۲۴۶) میں احمدیہ ہوسٹل کے قدیم طلبہ کی حسب ذیل فہرست شائع شدہ ہے۔
۱۹۱۵۔ ۱۹۱۶ء
۱۹۱۷ء
‏]3do [tag۱۹۱۸ء
فہرست بیرونی طلباء
(۱) میاں عبداللہ خان صاحب
(۱) شیخ یوسف علی صاحب
(۱) چوہدری عصمت اللہ صاحب۔ وکیل
(۱) چوہدری محمد حسینصاحب ہیڈکلرک۔ جھنگ۔
(۲) ملک غلام فرید صاحب
(۲) سید محمود اللہ شاہ صاحب
(۲) محمد حسن صاحب
(۲) میاں محمد احمد صاحب وکیل کپورتھلہ
(۳) ڈاکٹر بدر الدین احمد صاحب
(۳) خلیفہ تقی الدین صاحب
(۳) خاکسار غلام محمد
(۳) مرزا عبدالحق صاحب۔ وکیل گورداسپور
(۴) صوفی محمد ابراہیم صاحب
(۴) چوہدری علی اکبر صاحب
(۴) شیخ سردار علی صاحب سٹوڈنٹ
ایم۔ بی۔ بی۔ ایس
(۵) چوہدری محمد لطیف صاحب
(۵) ڈاکٹر محمد رمضان صاحب
(۵) شیخ بشیر احمد صاحب وکیل گوجرانوالہ
(۶) ڈاکٹر غلام قادر صاحب
(۶) سید عزیز اللہ شاہ صاحب
(۶) اخوند غلام حسن صاحب
پروفیسر بہاولپور کالج
(۷) شیخ احمد الدین صاحب
(۷) میاں عطاء اللہ صاحب
(۷) چوہدری فضل احمد صاحب
اے۔ ڈی۔ آئی۔ گجرات
(۸) ڈاکٹر غلام علی صاحب
(۸) حشمت علی خان صاحب
(۹) ڈاکٹر غلام محمد صاحب
(۱۰) ڈاکٹر لال الدین صاحب



(۱۱) میاں عبدالرحیم خان صاحب خالد
(۱۲) چوہدری غلام حسین صاحب
(۱۳) چوہدری ظفر اللہ خان صاحب
نائب تحصیلدار
۱۹۱۹ء
۱۹۲۰ء
۱۹۲۱ء
فہرست بیرونی طلباء
(۱) عطاء اللہ صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ
(۱) صوفی عبدالقدیر صاحب
(۱) عبدالقدیر کاٹھ گڑہی
(۱) میاں ناصر علی صاحب تمیم
(۲) سید عنایت اللہ شاہ صاحب میڈیکل سٹوڈنٹ
(۲) شیخ فضل کریم صاحب
(۲) عبدالجلیل صاحب کاٹھ گڑھی
(۲) چوہدری غلام احمد صاحب
(۳) ہارون رشید
(۳) عبدالغفار مرحوم
(۳) سید عبدالرزاق
(۳) ملک غلام نبی
(۴) غلام حسین
(۴) محمد انور پسر قاضی عبدالحق صاحب مرحوم
(۴) چوھدری ولی محمد
(۴) چوہدری غلام احمد
(۵) سید فضل الرحمان
(۵) عبدالرحمان رانجہ
(۵) مرزا غلام حیدر وکیل
(۶) سید عبدالحی
(۶) میر عطاء اللہ خان
۲۲۔ ۱۹۲۳ء
۱۹۲۴ء
۱۹۲۵ء
فہرست بیرونی طلباء
(۱) رشید احمد
(۱) کرامت اللہ
(۱) مرزا محمد یعقوب
اس عرصہ میں اور نیز
(۲) عبید السلام
(۲) حبیب اللہ
(۲) شیخ محمد یعقوب
اس کے بعد کے دو سالوں
(۳) حمید اللہ
(۳) برکت اللہ
(۳) محمد شریف][ میں بیرونی طلباء میں سے
(۴) محمد اسمعیل
(۴) محمد صادق
(۴) میر عنایت اللہ
کوئی ایسا طالب علم
(۵) عبدالمنان
(۵) عبدالرحیم مالا باری
(۵) اسد اللہ خان
ہوسٹل میں نہیں آیا
(۶) نذیر احمد

(۶) عبدالغفور
جس نے ہوسٹل میں
(۷) نذیر احمد


آکر ترقی کی ہو۔
(۸) صلاح الدین



‏od1] [tag۱۹۲۶ء
۱۹۲۷ء


(۱) مشتاق احمد
(۱) عبدالرحمن جنید


(۲) ناصر الدین
(۲) افتخار الحق


(۳) احمد الدین
(۳) ضیاء اللہ


(۴) محمد یوسف
(۴) عبدالحمید خان


(۵) محمد دائود



(۶) شریف احمد



(۷) غیور احمد



(۸) غلام احمد



(۹) فیض قادر



(۱۰) مولوی عبدالسلام



(۱۱) محمد اسمعیل رام پوری



(۱۲) اختر احمد



(۱۳) محمد زاہد
۳۰۲


احمدیہ ہوسٹل میں مدت تک ’’احمدیہ فیلوشپ آف یوتھ‘‘ کے نام سے ایک مجلس قائم رہی۔ جس کے روح رواں جناب ملک عبدالرحمن صاحب خادم تھے اس مجلس نے یوم التبلیغ اور دوسرے موقعوں پر کئی پمفلٹ شائع کئے ایک پمفلٹ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی تحریر فرما کر اسی انجمن کو چھاپنے کے لئے عنایت فرمایا۳۰۳`۳۰۴
پہلے پارہ کی نادر تفسیر (اردو اور انگریزی میں)
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت اور نگرانی کے ماتحت دسمبر ۱۹۱۵ء کے آخر میں قرآن شریف کے پہلے پارہ کی تفسیر اردو اور انگریزی ہر دو زبانوں میں شائع ہوئی۔ یہ تفسیر خود حضور کی لکھی ہوئی تھی مگر آپ کے نام سے شائع نہیں ہوئی۔ کیونکہ آپ نے جماعت کے ذمہ دار اصحاب سے فرما دیا تھا کہ میں صرف ایک نمونہ تیار کرتا ہوں۔ اور آگے اسے مکمل کرنا آپ لوگوں کا کام ہوگا۔ اس تفسیر کے لئے حضور نے علماء کی ایک کمیٹی بھی تجویز فرمائی جس کے ممبر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاب‘حضرت حافظ روشن علی صاحب حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل تھے۔ اس تفسیر کا انگریزی ترجمہ احمدی علماء کے ایک بورڈ نے کیا تھا]4 [stf۳۰۵۔ جس میں قاضی عبدالحق صاحب مرحوم پیش پیش تھے۔ اور اس کی اشاعت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خرچ پر ہوئی۔ جو جائداد کا ایک حصہ فروخت کرکے مہیا کیا گیا تھا۳۰۶۔
اس نادر تفسیر نے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ یورپ کے حلقوں میں بھی بڑی ہلچل پیدا کر دی تھی حتیٰ کہ امریکہ کے مسیحی اخبار ’’مسلم ورلڈ‘‘ نے لکھا۔ احمدیت کے لٹریچر کا مطالعہ ہی اس بات کا اندازہ کرنے میں مدد دے سکتا ہے کہ مذاہب کی موجودہ جنگ میں اسلام اور مسیحیت میں سے کون غالب آنے والا ہے۳۰۷۔ ’’ایسٹ اینڈ ویسٹ‘‘ (لندن) نے لکھا۔ یہ قرآن مجید کا بے نظیر ترجمہ ہے۔ جس سے مطالب قرآن پر خوب روشنی پڑتی ہے۳۰۸۔ ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ لاہور نے یہ رائے دی کہ اس ترجمہ سے یہ یقین ہو جاتا ہے کہ قرآن سراسر مربوط کلام ہے جس کی ہر آیت اپنی جگہ ٹھیک ٹکے ہوئے موتی کی طرح ہے۳۰۹۔ ہندوستان کے مشہور فاضل ڈاکٹر عبداللہ المامون السہروردی ایم۔ اے نے یہ تبصرہ کیا کہ یہ ترجمہ کتاب مجید کا ایک شاندار ایڈیشن ہے تشریحی نوٹ سبق اموز اور روشنی پیدا کرنے والے ہیں یہ نئی علمی کوشش اس امر کی مستحق ہے کہ مذاہب عالم کا غیر جانبداری سے مطالعہ کرنے والے تمام لوگ اس کی اعانت و تائید کریں۳۱۰
محلہ دارالفضل
قادیان کے شمال مشرق میں احمد آباد اور کھارا کے درمیان آخر ۱۹۱۵ء میں ایک نیا محلہ آباد ہونا شروع ہوا۔ جس کا نام ’’دارالفضل‘‘ رکھا گیا۳۱۱ یہ محلہ اسی سرزمین پر آباد ہوا جو انگریزی پارہ کے اخراجات مہیا کرنے کے لئے فروخت کی گئی تھی۳۱۲۔ اس محلہ میں ابتداًء حضرت مولوی عبیداللہ صاحب بسمل۔ حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب (مہر سنگھ) حضرت میر قاسم علی صاحب اور حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری وغیرہ بزرگوں نے مکانات بنائے تھے۔
سرزمین سندھ سے متعلق ایک اہم خبر
حصرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۱۵ء میں خواب میں دیکھا کہ آپ نہر میں بہہ رہے ہیں اور دعا کر رہے ہیں کہ یا اللہ سندھ میں تو پیر لگ جائیں۳۱۳]4 [rtf۔ یہ خواب ایک عرصہ کے بعد غیرمعمولی نشان بن کر پوری ہوئی۔ اور اب اس علاقہ میں حضور اور حضور کے خاندان اور سلسلہ کی ہزاروں ایکٹر کی جائداد موجود ہے۔ اور محمد آباد۔ احمد آباد۔ محمود آباد۔ ناصر آباد اسٹیٹس قائم ہیں۳۱۴۔
’’انوار خلافت‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے عہد کے دوسرے سالانہ جلسہ دسمبر ۱۹۱۵ء کی مختلف تاریخوں میں نہایت حقیقت نما اور معلومات افزا چار تقریریں فرمائیں۔ حضور نے ان تقریروں میں ’’مسئلہ اسمہ احمد‘‘ ’’مسئلہ نبوت‘‘ وغیرہ پر بڑی شرح و بسط سے کلام فرمایا ہے اور کتب معتبرہ کی رو سے عبداللہ بن سبا کے فتنہ کی پوری تاریخ بیان فرما دینے کے بعد جماعت کے دوستوں کو یہ دل ہلا دینے والی وصیت فرمائی کہ۔
’’آپ لوگ ان باتوں کو سمجھ کر ہوشیار ہو جائیں۔ اور تیار رہیں فتنے ہوں گے اور بڑے سخت ہوں گے ان کو دور کرنا تمہارا کام ہے خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے اور تمہارے ساتھ ہو اور میری بھی مدد کرے اور مجھ سے بعد آنے والے خلیفوں کی بھی کرے اور خاص طور پر کرے۔ کیونکہ ان کے مشکلات مجھ سے بہت بڑھ کر اور بہت زیادہ ہوں گے۔ دوست کم ہوں گے اور دشمن زیادہ۔ اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ بہت کم ہوں گے۳۱۵۔
متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ خاندان مسیح موعودؑ میں ترقی۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے فرزند ارجمند مرزا حمید احمد صاحب کی ولادت ہوئی۳۱۶۔
۲۔
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے لاہور اور مالیر کوٹلہ کا سفر کیا]10 [p۳۱۷
۳۔
حضرت ام المومنینؓ دہلی تشریف لے گئیں۳۱۸۔
۴۔
مولوی عبدالحی صاحب کی وفات پر ۴/ نومبر ۱۹۱۵ء کو مولوی محمد علی صاحب‘شیخ رحمت اللہ صاحب مرزا خدا بخش صاحب وغیرہ حضرات قادیان آئے اور خاندان حضرت خلیفہ اول سے تعزیت کرنے کے بعد مزار حضرت مسیح موعودؑ پر فاتحہ پڑھنے چلے گئے۔ حضرت امیر المومنین کی طرف سے انہیں چائے کی دعوت بھی دی گئی تھی مگر وہ مقبرہ بہشتی ہی سے لاہور واپس ہو گئے۳۱۹4] ftr[۔
۵۔
حضرت سید میر محمد اسحق صاحب کے فرزند میر محمد ناصر صاحب۔ میاں نجم الدین صاحب اور حافظ عبدالرحیم صاحب مالیر کوٹلہ کا انتقال ہوا۔
۶۔
غیر مبایعین حضرات نے اپنے سالانہ جلسہ میں کچھ وقت سوال و جواب کے لئے رکھا تھا۔ حضرت امیر المومنین کے حکم سے حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ اور حضرت میر قاسم علی صاحب سوال و جواب میں شریک ہونے کے لئے لاہور تشریف لے گئے۳۲۰۔
۷۔
حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ ماموریت سے پہلے کا فارسی کلام ’’درمکنون‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔
۸۔
حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ) گورنمنٹ ہائی سکول پورٹ بلیر (انڈیمان) میں ہیڈ ماسٹر بن کر گئے۔ اور جلد ہی اپنے فرائص کے ساتھ ساتھ دیوانہ وار تبلیغ کرکے جماعت قائم کر دی اور کولمبو‘کانڈی وغیرہ شہروں میں لیکچر دیئے۔ اور لارڈ بشپ اور بدھ لیڈروں کو مقابلہ پر بلایا۔ جس کا مقامی پریس میں خوب چرچا ہوا۳۲۱۔
۹۔
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سال چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب‘پیر اکبر علی صاحب فیروزپور۔ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب اور قاضی عبدالحق صاحب (قادیان) کے خطبات نکاح پڑھے۔
۱۰۔
مشہور مباحثے۔ مباحثہ ڈیرہ غازی خان۳۲۲۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب اور مولوی عزیز بخش صاحب برادر مولوی محمد علی صاحب کے درمیان) مباحثہ گوجرانوالہ۳۲۳۔ (احمدی مناظرین حضرت میر محمد اسحق صاحب۔ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب۔ حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی) مباحثہ شملہ۳۲۴ind] gat[ (جو مولوی عمر دین صاحب شملوی نے منشی عبدالحق صاحب اور حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ سے نبوت مسیح موعودؑ کے موضوع پر کیا) مباحثہ موضع کھیڑ ضلع گجرات۳۲۵۔ (احمدی مناظر حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی) مباحثہ چٹاگانگ۳۲۶۔ مباحثہ سڑوعہ۔ (شیخ محمد یوسف صاحب نے ایک سکھ سے مناظرہ کیا۳۲۷)
۱۱۔
علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات۔ ’’حیات النبی‘‘ جلد اول (از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ) تذکرۃ المہدی حصہ اول۳۲۸ (از حضرت پیر سسراج الحق صاحب نعمانی) ’’صداقت مریمیہ‘‘ (از حضرت میاں معراج دین صاحبؓ عمر) ’’بابا نانک کی سوانح عمری‘‘ از شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور) ’’تذکرۃ الذاکرین‘‘ (حضرت منشی خادم حسین صاحبؓ بھیروی)
۱۲۔
حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب (حیدر آباد (دکن) مہاشہ فضل حسین صاحب (لاہور) اور پروفیسر ریگ کلیمنٹ۳۲۹ (انگلستان) احمدیت میں داخل ہوئے۔
‏rov.5.11
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا تیسرا سال
دوسرا باب (فصل سوم)
خلافت ثانیہ کا تیسرا سال
(جنوری ۱۹۱۶ء تا دسمبر ۱۹۱۶ء بمطابق ۱۳۳۴ھ تا ۱۳۳۵ھ تک)
مسٹر والٹر قادیان میں
جنوری ۱۹۱۶ء کے پہلے ہفتہ میں مسٹر والٹر (سیکرٹری کرسچن ینگ مین ایسوسی ایشن لاہور) سلسلہ احمدیہ کی تحقیق کے لئے قادیان آئے۔ مسٹر ہیوم (ایجوکیشنل سیکرٹری) اور مسٹر لیوکس (وائس پرنسپل فورمین کرسچن کالج لاہور) بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ان سب صاحبوں نے دوبارہ حضور سے ملاقات کرکے بعض مذہبی امور دریافت کئے اور حضور نے بڑی تفصیل سے ان کے جواب دیئے۳۳۰۔ اس پر انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ گفتگو میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور قاضی عبدالحق صاحب ترجمان تھے۔
اسی دوران میں مسٹر والٹر حضرت منشی اروڑے خاں صاحبؓ تحصیلدار کپورتھلہ سے بھی ملے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے قدیم صحابی اور معمر بزرگ تھے۔ انہوں نے حضرت منشی صاحب سے چند رسمی باتوں کے بعد دریافت کیا۔ کہ آپ پر مرزا صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا۔ حضرت منشی صاحب نے جواب میں فرمایا کہ میں زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہیں اور زیادہ علمی دلیلیں نہیں جانتا۔ مگر مجھ پر جس بات نے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی جس سے زیادہ سچا اور زیادہ دیانتدار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا۔ انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا۔ کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ باقی میں تو ان کے منہ کا بھوکا ہوں مجھے زیادہ دلیلوں کا علم نہیں یہ فرما کر آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی یاد میں اس قدر بے چین ہو گئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی۔ اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ کاٹو تو لہو نہیں بدن میں۔ اور ان کے چہرہ کا رنگ ایک دھلے ہوئے کپڑے کی طرح سفید ہو گیا۳۳۱
مسٹر والٹر نے بعد کو ’’احمدیہ موومنٹ‘‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں اپنے تاثرات ان الفاظ میں لکھے کہ ’’میں نے بعض پرانے احمدیوں سے ان کے احمدی ہونے کی وجہ دریافت کی تو اکثر نے سب سے بڑی وجہ مرزا صاحب کے ذاتی اثر اور جذب اور مقناطیسی شخصیت کو پیش کیا۔ میں نے ۱۹۱۶ء میں قادیان جا کر (حالانکہ اس وقت مرزا صاحب کو فوت ہوئے آٹھ سال گزر چکے تھے) ایک ایسی جماعت دیکھی جس میں مذہب کے لئے وہ سچا اور زبردست جوش موجزن تھا۔ جو ہندوستان کے عام مسلمانوں میں آج کل مفقود ہے۔ قادیان میں جا کر انسان سمجھ سکتا ہے کہ ایک مسلمان کو محبت اور ایمان کی وہ روح جسے وہ عام مسلمانوں میں بے سود تلاش کرتا ہے احمد کی جماعت میں بافراط ملے گی‘‘۳۳۲۔
اسی طرح مسٹر لیوکس نے سیلون میں جا کر تقریر کی تو کہا کہ ’’عیسائیت اور اسلام کے درمیان جو جنگ جاری ہے اس کا فیصلہ کسی بڑے شہر میں نہیں ہو گا۔ بلکہ ایک چھوٹے سے گائوں میں ہو گا جس کا نام قادیان ہے‘‘۳۳۳۔
دارالبیعت کا افتتاح
لدھیانہ کا دارالبیعت جہاں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پہلی بیعت لی تھی اب تک ایک مکان کی شکل میں تھا۔ انجمن احمدیہ لدھیانہ نے ۱۹۱۶ء میں اس کی مرمت کرائی اور اس کی بیرونی صورت میں تبدیلی کرکے جانب شمال ایک لمبا اور ہوا دار پختہ کمرہ تعمیر کرا دیا۔ اس کی شمالی دیوار کے بیرونی رخ پر دارالبیعت کا نام اور تاریخ بیعت ۲۳/ مارچ ۱۸۸۹ء کا کتبہ ثبت کرا دیا۔ اور صحن میں پختہ اینٹوں کا بالشت بھر اونچا ایک چبوترہ اور ایک محراب بنوا کر نماز کے لئے مخصوص کر لیا۳۳۴۔
اس ترمیم شدہ عمارت کا افتتاح کرنے کے لئے مرکز سے حافظ روشن علی صاحب تشریف لے گئے اور آپ نے دو دن تک وہاں لیکچر دیئے۳۳۵
۱۹۳۹ء کے قریب دارالبیعت یادگار کے طور پر پختہ بنا دیا گیا جس کی نگرانی میں حافظ سید عبدالوحید صاحب آف کمرشل ہائوس کوہ منصوری اور مولوی برکت علی صاحب لائق لدھیانوی نے نمایاں حصہ لیا۔
تائی صاحبہ کی بیعت
حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ۱۹۰۰ء میں الہام ہوا تھا۔ ’’تائی آئی‘‘۳۳۶ اس الہام میں تین زبردست پیشگوئیاں تھیں۔ (۱) حضرت مسیح موعودؑ کی اولاد میں سے خلیفہ ہو گا۔ (۲) اس وقت اس کی تائی صاحبہ جماعت احمدیہ میں آجائیں گی۔ (۳) بیعت کرنے تک آپ بہرحال زندہ رہیں گی۳۳۷۔ اور ایسا ہی ہوا کہ تائی صاحبہ کا نام حرمت بی بی تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی بیوہ تھیں۔ اور جنہوں نے نہ حضرت مسیح موعود کی بیعت کی تھی اور نہ حضرت خلیفہ اولؓ کی اور سخت مخالف رہی تھیں۔ مارچ ۱۹۱۶ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ پر بیعت کر لی10] p[۳۳۸۔ ایک احمدی شاعر جناب حسن رہتاسی نے اس پر یہ قطعہ کہا۔
تیرے وعدے کے مطابق ترے مامور کے پاس
چل کے دنیا کے کناروں سے خدائی آئی
جس کے آنے کی خبر عہد نبوت میں ملی
تائی والے کی خلافت میں وہ تائی آئی۳۳۹
دارالسلطنت دہلی میں عظیم الشان جلسہ
مارچ ۱۹۱۶ء میں دارالسلطنت دہلی میں جماعت احمدیہ کا عظیم الشان جلسہ منعقدہ ہوا۔ جو ۳/ مارچ ۱۹۱۶ء سے شروع ہو کر ۶/ مارچ ۱۹۱۶ء تک چار دن برابر منعقد ہوتا رہا تھا۔ اپنی نوعیت کا پہلا اور عظیم الشان تبلیغی جلسہ تھا۳۴۰ جلسہ کے آغاز میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پیغام اہل دہلی کے نام جناب شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے پڑھ کر سنایا۔ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب‘چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب‘حضرت میر قاسم علی صاحب‘چوہدری ابوالہاشم صاحب‘مولوی محمد الدین صاحب اور شیخ عبدالخالق صاحب ماہر بائیبل کے لیکچر ہوئے۳۴۱۔ لیکن اس جلسہ کی جان حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا وہ معرکتہ الاراء مضمون تھا جو حضور نے ’’اسلام اور دیگر مذاہب‘‘ کے عنوان سے قلم برداشتہ رقم فرما کر بھجوایا تھا۳۴۲۔
حضور کا یہ نہایت اہم مضمون جس نے اہل دہلی پر باحسن طریق اتمام حجت کر دیا بعد کو کتابی صورت میں اردو کے علاوہ عربی اور انگریزی میں بھی شائع کیا گیا تھا۔
’’نصائح مبلغین‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۲/ مارچ ۱۹۱۶ء کو نماز ظہر کے بعد مبلغین کے لئے ایک اہم لیکچر دیا۔ جس میں بہت قیمتی نصیحتیں فرمائیں۔ مثلاً تبلیغ میں تزکیہ نفس سے غافل نہ رہیں۔ کتابیں اپنی خریدیں۔ سوال اور خوشامد سے بچیں۔ اللہ پر توکل کریں دعائوں میں مصروف رہیں۔ بدی کے رد میں پوری جرات سے لیکچر دیں۔ اپنے کام کا محاسبہ کرتے رہیں۔ استقلال سے کام لیں۔ مسائل پر غور کرنے کی عادت ڈالیں۔ اور لوگوں کو مرکز میں بار بار آنے کی تاکید کرتے رہیں۳۴۳ یہ لیکچر ’’نصائح مبلغین‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے۔
’’نجات کی حقیقت‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۲۵/ مارچ ۱۹۱۶ء کو ایک عیسائی کی درخواست پر مسئلہ نجات سے متعلق فلسفہ عیسائیت اور فلسفہ اسلام کا مقابلہ کرکے اسلام کی برتری ثابت فرمائی ہے۳۴۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح کا ایک پر حکمت جواب
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں ایک غیر مبائع صاحب کا خط پہنچا۔ کہ اختلاف عقائد کے باوجود حضور کی مستجاب دعائوں سے استفادہ کے لئے بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت اقدس نے جواب لکھوایا۔
’’اگر آپ صرف دعا سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں تو میں دعائیں تو ہر مذہب اور ملت کے آدمیوں کے لئے کرتا ہوں اس کے لئے احمدی ہونا اور احمدیوں میں مبائع ہونا شرط نہیں۔ ہندو اور عیسائی بھی مجھے دعا کے لئے کہتے ہیں اور میں ان کے لئے دعا کرتا ہوں۔ پس اگر یہی غرض آپ کی بیعت کرنے کی ہے۔ تو یہ غرض مبارک ہے آپ اپنی اصلی حالت میں رہیں اور مجھے کبھی کبھی علم کے لئے یاد دلاتے رہیں۔ اور اگر بیعت کی غرض اتحاد جماعت کا قائم رکھنا ہے تو پھر اس شرط پر میں آپ کی بیعت منظور کر سکتا ہوں کہ انتظام جماعت کے متعلق آپ کو میرے تمام احکام ماننے پڑیں گے۔ مسائل اختلافیہ میں نہ میں آپ کے عقائد کا ذمہ دار اور نہ آپ میرے عقائد کے ذمہ دار۔ نہ آج تک کوئی خلیفہ عقائد میں جماعت کا ذمہ دار ہوا ہے لیکن عقائد کے متعلق اتنی احتیاط ضروری ہو گی۔ کہ جب میں کسی مسئلہ پر بحث کو جماعت کے اختلاف کا باعث قرار دوں تو اس پر بحث کرنے سے کنارہ کشی کرنی ہو گی اگر ان شرائط پر آپ بیعت کرنا چاہتے ہیں۔ تو آپ کی بیعت منظور ہے‘‘۳۴۵۔
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی کامیابی اور شکریہ
حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس سال ایم۔ اے کا امتحان دیا تھا۔ جس میں آپ کامیاب ہو گئے۔ احباب نے کثرت سے مبارکباد کے خطوط بھیجے جس پر آپ نے شکریہ ادا کرتے ہوئے تحریر فرمایا۔ ’’میری یہ کامیابی اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں میں سے ایک فضل ہے۔ کیونکہ ظاہر سامان بالکل مایوس کن تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ مجھے ایم۔ اے تک پڑھانے کا ارادہ ظاہر فرمایا تھا۔ سو میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے اس قول کو پورا کرنے کے لئے ہی اللہہ تعالیٰ باوجود میری کمزوریوں کے تمام یونیورسٹی کے امتحانوں میں مجھے کامیاب فرماتا رہا۳۴۶۔
اخبار ’’صادق‘‘ کا اجراء
حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے جون ۱۹۱۶ء میں رد عیسائیت کے لئے اخبار ’’صادق‘‘ جاری کیا۔ جو چند اشاعتوں کے بعد بند ہو گیا۔
’’قبولیت دعا کے طریق‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو دعائوں کی طرف توجہ دلانے کے لئے ۲۱/ جولائی اور ۲۸ جولائی ۱۹۱۶ء کو ’’قبولیت دعا کے طریق‘‘ پر نہایت پر معارف خطبات ارشاد فرمائے۳۴۷۔ جو کتابی شکل میں بھی شائع ہو چکے ہیں۔
حضرت خلیفتہ المسیح کا فرمان
بعض لوگ کتابیں یا اشتہارات شائع کرکے احباب جماعت کے نام بغیر ان کی تحریری اجازت یا زبانی درخواست کے وی۔ پی کر دیتے تھے۔ جس سے انجمن کے عام چندوں پر اثر پڑتا تھا۔ اس لئے حضور نے ایک فرمان کے ذریعہ اس کی سختی سے ممانعت کر دی۔ اور حکم دے دیا کہ اگر کسی صاحب کے نام کوئی ایسا وی۔ پی آجائے تو وہ اسے واپس کرکے مجھے اطلاع دیں۳۴۸۔
سنگ بنیاد
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے شروع اگست ۱۹۱۶ء میں مسجد اقصیٰ کے قریب جانب غرب و جنوب جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور کے مکان کا سنگ بنیاد رکھا۳۴۹۔
حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے چند الزامات کے جواب
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے اسی ماہ درس قرآن مجید کے علاوہ حضرت میرزا شریف احمد صاحب کے لئے صحیح مسلم شریف کا ایک درس عام بھی جاری فرمایا۳۵۰۔
’’پیغام صلح‘‘ کے چند الزامات کے جواب
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کے خلاف ’’پیغام صلح‘‘ کے ایک مضمون میں نہایت ناروا اور بے جا الزامات لگائے گئے جن کے رد میں آپ کے قلم حقیقت رقم سے الفضل ۱۶/ ستمبر ۱۹۱۶ء کو ایک مفصل مضمون شائع ہوا۔
عملی تعزیت نامہ
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور کی پہلی بی بی کی ایک بچی چھوڑ کر ۲۲/ ستمبر ۱۹۱۶ء کو فوت ہو جانے پر اپنے دست مبارک سے ایک خط لکھا کہ ’’آج آپ کا خط ملا تھا اس وقت سے عورت تلاش کرائی گئی لیکن بوجہ بیماریوں کے کوئی نہ مل سکی ۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹی بچی کا فکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ جب تک آپ کا گھر خدا تعالیٰ پھر آباد کرے بچی کو ہمارے گھر میں بھیج دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس غرض کے لئے ایک عورت کو بھیجتا ہوں‘‘۳۵۱۔
حضرت میرزا شریف احمد صاحب کا تقرر
حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب کئی ماہ سے آنریری طور پر افسر مدرسہ احمدیہ کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ مگر اس سال آپ نے ہائی سکول کی پانچویں جماعت کو جغرافیہ پڑھانا بھی شروع کر دیا۔ اور مدرسہ احمدیہ کی نگرانی کے لئے حضرت میاں شریف احمد صاحب کا تقرر بطور اسسٹنٹ عمل میں آیا۳۵۲۔
مغربی افریقہ میں احمدیت کا پیغام
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیرنے بیرونی ممالک سے تبلیغی خط و کتابت کا ایک سلسلہ جاری کر رکھا تھا۔ جس کے نتیجہ میں ۱۹۱۶ء میں نائیجیریا اور سیرالیون میں کئی لوگ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۳۵۳۔
’’سیرت مسیح موعودؑ‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح نے یہ اندازہ فرما کر کہ جماعت احمدیہ کی روز افزوں ترقی اور اطراف عالم میں پھیلنے والی لہر کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کو صاحب سلسلہ احمدیہ کے حالات سے آگاہی کا خیال پیدا ہو رہا ہے اور ابتدائی حالت میں مفصل و مبسوط کتب کا مطالعہ ان کے کے لئے مشکل ہو گا۔ نومبر ۱۹۱۶ء میں ’’سیرت مسیح موعود‘‘ کے نام سے ایک مختصر رسالہ تصنیف فرمایا جس میں بہت اختصار سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت‘دعویٰ دلائل‘مشکلات اور حضور کی چند پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا۔ یہ رسالہ چھپ چکا ہے اور جاوی و انگریزی زبان میں اس کے تراجم بھی شائع ہو چکے ہیں۔
آنریری مبلغین کے لئے تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم سے تبلیغ کے کام کو ملک کے طول و عرض میں زیادہ سے زیادہ وسیع کرنے کے لئے نومبر ۱۹۱۶ء میں آنریری مبلغین کے تقرر کی تحریک ہوئی۳۵۴۔ جس پر کئی احمدیوں نے لبیک کہا۳۵۵۔
بہار ہائیکورٹ کا فیصلہ
مونگیر کے احمدیوں نے سب جج مونگیر کی عدالت میں غیر احمدیوں کے نام یہ درخواست دی تھی کہ وہ احمدیوں کے مساجد میں آکر نماز پڑھنے میں مزاحم نہ ہوں۔ غیر احمدیوں کی طرف سے کہا گیا کہ احمدی کافر ہیں اس لئے انہیں مسجدوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ سب جج اور ڈسٹرکٹ جج نے دعویٰ خارج کر دیا اور قرار دیا کہ احمدی فرقہ کے لوگ مسلمان تو ہیں البتہ ان کی بعض رسوم و عقائد دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہیں اس لئے وہ اس رعایت کے مستحق نہیں۔ اس فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی گئی۔ جس کی سماعت ۱۲/ دسمبر ۱۹۱۶ء کو شروع ہوئی جماعت احمدیہ کی طرف سے چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء پیش ہوئے۔ آپ نے کہا کہ عدالت ماتحت نے قانون محمدی کے تحت میرے موکلوں کو مسلمان قرار دیا ہے اس لئے احمدی اس رعایت کے مستحق ہیں۔ مدعا علیہم کی طرف سے مسٹر مظہر حق پیش ہوئے۔ اپیل کی سماعت ختم ہوئی تو خاتمہ پر چیف جج نے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی بہت تعریف کی اور کہا کہ ہائیکورٹ کے جج ان کے بہت شکر گزار ہیں۳۵۶۔ مگر ہائیکورٹ نے عدالت ماتحت کے فیصلہ کو بحال رکھا۔ اور اپیل نامنظور کر دی۔ فریق ثانی کی طرف سے بھی اپیل کی گئی وہ بھی خارج ہو گئی۳۵۷۔
پروفیسر مارگولیتھ حضرت امیر المومنین کی خدمت میں
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لئے ۱۶/ دسمبر ۱۹۱۶ء کو مشہور مستشرق اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر قادیان آئے حصرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ملاقات کے وقت ترجمان تھے حضور نے ایک مختصر مگر نہایت مفید گفتگو فرمائی اس علمی مذاکرہ میں معجزہ شق القمر بھی زیر بحث آیا۔ حضور نے ان کو الوادع کہتے ہوئے مغربی حلقوں میں پہنچا دینے کے لئے ایک پیغام بھی دیا جو یہ تھا کہ اگر یورپین لوگ محبت سے اسلامی مسائل کے متعلق تحقیقات کریں تو اس سے انہیں فائدہ بھی ہوگا اور آپس میں محبت بھی بڑھے گی اور حضور نے ان کو بطور تحفہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی چند عربی مطبوعات دیں اور پروفیسر صاحب عازم لاہور ہو گئے۳۵۸۔
’’صادق لائبریری‘‘ کا قیام
دسمبر ۱۹۱۶ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اپنی تمام بیش بہا کتابوں کا ذخیرہ صدر انجمن احمدیہ کے نام وقف کر دیا۳۵۹۔ اور صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفہ اولؓ کا کتب خانہ اور تشحیذ اور ریویو کی لائبریری میں اسے مدغم کرکے ایک مستقل مرکزی لائبریری ’’صادق لائبریری‘‘ کے نام پر قائم کر دی۔ جس کے ناظم‘افسر مدرسہ احمدیہ تھے۳۶۰۔ اور ۲۴/ جولائی ۱۹۱۷ء سے حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی اس کے لائبریرین مقرر ہوئے۳۶۱۔ ۱۹۲۴ء میں یہ لائبریری نظارت تالیف و تصنیف کے زیر انتظام کر دی گئی اور حضرت امیر المومنین کی خاص ہدایت پر مخالفین اسلام و احمدیت کی کتب خصوصیت سے جمع کی جانے لگی۔ ۱۴/ جنوری ۱۹۲۹ء کو حکیم غلام حسین صاحب نے اس کا چارج لیا۔ اور اپنی وفات تک جو ۱۳/ جون ۱۹۵۰ء کو ہوئی یہ خدمت نہایت محنت سے بجا لاتے رہے۳۶۲۔ نومبر ۱۹۲۹ء میں لائبریری کے قواعد و ضوابط تجویز ہوئے۳۶۳۔ جولائی ۱۹۳۲ء میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنی لائبریری بھی اس میں شامل کر دی]01 [p۳۶۴۔ ۱۹۴۷ء میں اس کا بیشتر حصہ قادیان میں رہ گیا۔ تاہم جو کتابیں بھی لائی جا سکیں وہ از سر نو مرتب کی گئیں۔ اور دوبارہ ربوہ میں اس کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر مئی ۱۹۵۲ء کو یہ مرکزی لائبریری اور حضور کی ذاتی لائبریری دونوں ملا کر ایک کر دی گئیں۔ اور اس مجموعہ کا نام خلافت لائبریری رکھا گیا۔ اور جون ۱۹۵۲ء میں اس کے پہلے انچارج جناب مولوی محمد صدیق صاحب فاضل شاہد ڈی۔ ایل۔ ایس واقف زندگی مقرر ہوئے۳۶۵4] ft[r۔
خواتین کے لئے تبلیغی فنڈ کی پہلی تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے آخر ۱۹۱۶ء میں احمدی عورتوں کو تحریک فرمائی کہ وہ ولایت میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک تبلیغی فنڈ قائم کریں۔ اور اس کی صورت حضور نے یہ تجویز فرمائی کہ مستورات آٹے کی ایک مٹھی ایک خاص برتن میں ڈال دیا کریں اور آٹا ہر ہفتہ فروخت کرکے اس کی قیمت قادیان میں بھجوا دی جائے۔ ابتداًء یہ تحریک قادیان میں شروع ہوئی۔ سب سے پہلے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی اہلیہ نے (جو حضرت خلیفہ اولؓ کی نواسی تھیں) اس میں حصہ لیا۳۶۶۔
’’ذکر الٰہی‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حسب سابق ۱۹۱۶ء کے سالانہ جلسہ پر بھی تین تقریریں فرمائیں۔ پہلی تقریر میں وقتی حالات کے مطابق متفرق امور۳۶۷ پر روشنی ڈالی۔ دوسری تقریر میں جماعت کے فرائض اور ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ تیسری روحانیت سے لبریز تقریر جسے تصوف اسلام کا بہترین خلاصہ اور عطر کہنا چاہئے۔ ’’ذکر الٰہی‘‘ کے عنوان پر فرمائی جس میں ذکر کی اہمیت‘اس کی اقسام اس کے آداب و اوقات بتانے کے علاوہ تہجد کے لئے اٹھنے اور نماز میں توجہ قائم رکھنے کے ایسے ایسے عملی طریق بتائے کہ سننے والے وجد میں آگئے۔ دوران تقریر میں ایک غیر احمدی صوفی صاحب نے رقعہ بھیجا کہ آپ کیا غضب کر رہے ہیں اس قسم کا ایک نکتہ صوفیاء کرام دس دس سال خدمت لے کر بتایا کرتے تھے۔ آپ ایک ہی مجلس میں سب رازوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں۳۶۸۔ یہ تینوں تقریریں ’’ذکر الٰہی‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہیں اور ۱۴۶ صفحات پر مشتمل ہیں۔
‏]bus [tag۱۹۱۶ء کے متفرق مگر اہم واقعات
حضرت میرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں امتہ الحمید بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں۳۶۹۔
۲۔
حضرت قمر جان صاحبہ اہلیہ حضرت صوفی احمد جان صاحبؓ لدھیانوی‘ماسٹر عبدالحق صاحبؓ اور حضرت پیر افتخار احمد صاحب کی زوجہ (ملکہ جان صاحبہؓ) اور ہمشیرہ (مختار بیگم صاحبہ) کی وفات ہوئی۔
۳۔
حضرت ام المومنینؓ دہلی۔ پانی پت‘مالیر کوٹلہ اور پٹیالہ تشریف لے گئیں4] [stf۳۷۰
۴۔
حضرت مرزا شریف احمد صاحب سالانہ جلسہ کی انتظامیہ کمیٹی کے سیکرٹری مقرر ہوئے۔ اور آپ نے بڑی توجہ اور جانفشانی سے اپنے فرائض انجام دیئے۳۷۱۔
۵۔
مسجد اقصیٰ کی توسیع ہوئی اور منارۃ المسیح کی سفیدی کا کام ختم ہوا۳۷۲۔
۶۔
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے مولوی حکیم غلام محمد صاحب امرتسری (شاگرد خاص حضرت خلیفہ اولؓ) کا نکاح پڑھا]4 [stf۳۷۳۔
۷۔
مشہور مباحثات: مباحثہ امرتسر (مابین حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی و مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری۳۷۴) مباحثہ سرگودھا (حضرت مولانا میر محمد اسحق صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے درمیان۳۷۵) مباحثہ گڑھ شنکر۔ (مابین حضرت مولانا میر محمد اسحق صاحب اور مولوی عصمت اللہ صاحب مبلغ انجمن حمایت اسلام لاہور۳۷۶) مباحثہ کولو تارڑ۔ (احمدی مناظر حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی۳۷۷) مباحثہ اجنالہ۳۷۸۔ (احمدی مناظر حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری و شیخ عبدالرحمن صاحب مصری) مباحثہ نواں کوٹ۳۷۹۔ (احمدی مناظر شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور) مباحثہ بنگہ (احمدی مناظر شیخ محمد یوسف صاحب۳۸۰) مباحثہ لکھنو (سیٹھ خیر الدین صاحب لکھنو نے غیر مبایعین سے مناظرہ کیا۳۸۱)
۸۔
‏ind] gat[ علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات: ’’الفارق‘‘۔ ’’القول المحمود فی شان مصلح الموعود‘‘ (از حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ)
۹۔
ممتاز نو مبایعین: ڈاکٹر یوسف سلیمان صاحب (کیپ ٹائون۳۸۲) نواب اکبر یار جنگ صاحب۳۸۳ سابق ہوم سیکرٹری نظام حیدر آباد۔ حافظ سید عبدالوحید صاحب آف کمرشل ہائوس منصوری۳۸۴۔ مولوی عبداللطیف صاحب (پروفیسر چاٹگام کالج۳۸۵]ind )[tag
‏rov.5.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چوتھا سال
دوسرا باب (فصل چہارم)
خلافت ثانیہ کا چوتھا سال
(ربیع الاول ۱۳۳۵ھ تا ربیع الاول ۱۳۳۶ھ)
~ (جنوری ۱۹۱۷ء سے دسمبر ۱۹۱۷ء تک) ~[~
زار روس سے متعلق پیشگوئی کے ظہور پر اتمام حجت][سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ع ’’زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی با حال زار‘‘ اس کے مطابق ۱۲/ مارچ ۱۹۱۷ء۳۸۶ کو بالشویک انقلاب نے زار کی مطلق العنان اور آمرانہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اور پھر اسے اور اس کے بیوی اور بچوں کو محبوس کرکے طرح طرح کی سختیوں عقوبتوں اور شرمناک مظالم کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۳۸۷۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے پر ۴/ اپریل ۱۹۱۷ء کو ’’زندہ خدا کے زبردست نشان‘‘ نامی ٹریکٹ لکھا اور دنیا پر اتمام حجت کر دیا اس ٹریکٹ پر بعض اشتہارات میں زار والی پیشگوئی پر کچھ اعتراض کئے گئے۳۸۸۔ جن کا جواب حضور نے ’’خدا کے قہری نشان‘‘ کے نام سے شائع فرمایا۔
’’الحجہ البالغہ‘‘
قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جون ۱۹۱۷ء میں مسئلہ وفات مسیح علیہ السلام پر ایک معرکتہ الاراء کتاب تصنیف فرمائی جو ’’الحجہ البالغہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۳۸۹۔
’’نور ہسپتال‘‘ کی بنیاد
مخدوم و معظم حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی کوششوں سے یکم رمضان ۱۳۳۵ھ مطابق ۲۱/ جون ۱۹۱۷ء کو ’’نور ہسپتال‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۳۹۰۔ اور ستمبر ۱۹۱۷ء میں اس کی تکمیل ہوئی۔ ابتداًء ہسپتال میں کوئی سند یافتہ ڈاکٹر نہیں تھا اس لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی اشارہ پر محترم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ریاست پٹیالہ سے بلوائے گئے اور ۲/ فروری ۱۹۱۹ء کو ان کا تقرر عمل میں آیا۳۹۱۔ پہلے حضرت میر محمد اسحق صاحب افسر نور ہسپتال تھے مگر اب حضرت ڈاکٹر صاحب میڈیکل ایڈوائزر مقرر ہوئے۳۹۲۔ آپ کے زمانہ میں ہسپتال نے خوب کام کیا زنانہ وارڈ قائم ہوا۔ اپریشن روم میں ترقی ہوئی۳۹۳۔ ۱۹۳۰ء میں اسے سیکنڈ گریڈ ہسپتال کی حیثیت حاصل ہوئی اسی سال اس کے لئے مستقل قواعد و ضوابط تجویز کئے گئے۳۹۴۔
‏body] g[taنور ہسپتال متحدہ ہندوستان کا واحد ادارہ تھا۔ جس نے ایک مذہبی جماعت کی نگرانی میں ربع صدی سے زائد عرصہ تک بلاتمیز تمام مذہب و ملت خدمت کی۔
مبلغین کا وفد بمبئی میں
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سال بمبئی میں تبلیغ شروع کرنے گویا ہندوستان کے دروازہ کا تبلیغی محاصرہ کرنے کے لئے ۳/ اگست ۱۹۱۷ء کو مبلغین کا ایک وفد بھجوایا جس کے ممبر قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب‘حضرت مولانا میر محمد اسحٰق صاحب‘حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل ہلال پوری تھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے لکھی ہوئی اکتیس ہدایتیں بھی انکو دیں اور بارش کی حالت میں قادیان سے باہر تک انہیں الوداع کہنے کے لئے بھی تشریف لے گئے۳۹۵۔
وفد نے قریباً دو ڈھائی ماہ قیام کرکے مسلمانوں کے مختلف فرقوں (خوجے‘بوہرے‘میمن‘اسمعیلی وغیرہ) میں اشتہاروں‘لیکچروں اور درس وغیرہ سے تبلیغ کی اور مخالفتوں کے باوجود خدا کے فضل سے عموماً اچھا اثر رہا10] p[۳۹۶۔ حضرت میرزا بشیر احمد صاحب نے بمبئی میں دو ٹریکٹ لکھے۳۹۷۔ عمومی تبلیغ زیادہ تر حضرت مولوی میر محمد اسحق صاحب کی مساعی کا نتیجہ تھی۔
امرتسر اور شادیوال کے مقدمات کا فیصلہ
اس سال احمدیوں کے خلاف امرتسر۳۹۸ اور شادیوال۳۹۹ میں دو اہم مقدمات کا فیصلہ ہوا۔ دونوں مقدمات میں وکالت کے فرائض چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ادا کئے۔ اور دونوں کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں ہوا۔
سفر شملہ
حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ علیل ہو جانے کی وجہ سے طبی مشورہ پر ۳۰/ اگست ۱۹۱۷ء کو شملہ تشریف لے گئے اور ۱۰/ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو رونق افروز قادیان ہوئے۴۰۰۔ اس سفر میں جو محض تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے کیا گیا تھا۔ حضور کی دینی مصروفیت بہت زیادہ ہو گئی پورا سفر شروع سے آخر تک نہایت درجہ مشغولیت میں گزرا۔ حضور نے شملہ میں اپنے وعظ و تلقین کا سلسلہ جاری رکھا۔ ترقی اسلام میں حصہ لینے سے ¶متعلق جماعت احمدیہ کے نام چھ صفحات کا پیغام بھیجا۴۰۱ ۳۰/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو حضور کا جماعت شملہ کے سالانہ جلسہ پر ’’زندہ مذہب‘‘ کے عنوان سے زبردست اور پر عظمت لیکچر ہوا۔ جس میں حضور نے قبولیت دعا کے معاملہ میں مذاہب عالم کے لیڈروں کو فیصلہ کن چیلنج دیا۴۰۲۔ شملہ سے واپسی پر حضور راجپورہ اسٹیشن پر پہنچے اور پھر حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر فاتحہ کے لئے تشریف لے گئے پھر راجپورہ واپس آکر پہلے سنور۴۰۳]4 [rtf پھر پٹیالہ پہنچے اور صداقت اسلام کے موضوع پر ڈیڑھ گھنٹہ تک نہایت زور دار الفاظ میں دلوں کو ہلا دینے والا لیکچر دیا۴۰۴۔
خواجہ حسن نظامی صاحب کی عجیب و غریب دعوت مباہلہ اور اس کا جواب
درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء~رح~ کے سجادہ نشین خواجہ حسن نظامی دہلوی نہایت شریف مگر ہوشیار صوفیوں اور صاحب طرز ادیبوں اور انشاء
پردازوں میں سے تھے۔ خواجہ صاحب کے مراسم۴۰۵ جماعت احمدیہ کے ساتھ ایک عرصہ سے قائم تھے مگر یکایک خدا جانے کیا خیال آیا کہ انہوں نے (رسالہ نظام المشائخ میں) سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو مباہلہ کا یہ عجیب و غریب چیلنج دے دیا کہ وہ اجمیر شریف میں آئیں میں بھی وہاں حاضر ہو جائوں گا۔ آستانہ خواجہ غریب نواز کی مسجد میں میرزا صاحب میرے ساتھ کھڑے ہوں اور اپنی باطنی قوت کے تمام حرجے مجھ پر آزمائیں۔ اور جب وہ اپنی ساری کرامت آزما چکیں تو مجھ کو اجازت دی جائے کہ میں صرف یہ کہوں۔ اے خدا بطفیل اس صاحب مزار کی حقانیت کے اپنی صداقت کو ظاہر کر اور ہم دونوں میں جو جھوٹا ہو اس کو اسی وقت اور اسی لمحہ میں ہلاک کر دے اور اس کے بعد میرزا محمود احمد کو اجازت دی جائے۔ کہ وہ اپنے الفاظ میں جو جی چاہیں کریں۔ میعاد صرف ایک گھنٹہ مقرر کی جائے۔ یعنی دونوں آدمیوں میں سے ایک پر ایک گھنٹہ کے اندر اس دعا کا اثر ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۴۰۶‘‘ اگر تم کو یہ مباہلہ منظور ہو تو ربیع الاول ۱۳۳۶ھ کی چھٹی تاریخ کو اپنے حواریوں کو لے کر اجمیر شریف آجائو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تم اس ارادہ سے اجمیر شریف آئو تو اپنی والدہ صاحبہ سے دودھ بخشوا کر آنا اور ریلوے کمپنی سے ایک گاڑی کا بندوبست کرا لینا جس میں تمہاری لاش قادیان روانہ ہو سکے۔ اور نیز اپنی اہلیہ صاحبہ سے مہر بھی معاف کرا لینا اور قادیان کو والد ماجد کی قبر سمیت ذرا غور سے دیکھ کر آنا کہ پھر تم کو زندگی میں وہ درو دیوار دیکھنے نصیب نہ ہوں گے اور جانشینی کے مسئلہ کو بھی طے کرکے آنا‘‘۔
سیدنا حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو جب خواجہ صاحب کے اس چیلنج کا علم ہوا تو حضور نے مفصل اعلان فرمایا کہ مباہلہ کے مسنون طریق کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کے بارے میں مباہلہ کے لئے بالکل تیار ہوں۔ آیت مباہلہ سے ثابت ہے کہ دلائل کے اظہار کے بعد مباہلہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہو گا کہ مباہلہ سے پہلے دونوں اپنے اپنے عقائد پر تقریر کر لیں۔ مباہلہ میں شرط ہو گی کہ عذاب انسانی دخل سے پاک ہو گا۔ اس مباہلہ کا ظاہر ہونا یوم مباہلہ سے ایک سال کے عرصہ میں ضروری ہو گا ہاں خواجہ صاحب کو اجازت ہو گی کہ آپ ایک گھنٹہ یا آدھ گھنٹہ کا وقت مقرر کر لیں۔ آیت قرآنی کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے اور سنت رسولﷺ~ کے مطابق ضروری ہو گا کہ کم سے کم سرگروہ اپنے بیوی اور بچوں کو مباہلہ میں شامل کریں۔ ان بنیادی شرائط کے علاوہ آپ نے مباہلہ کا اثر وسیع کرنے اور فریقین کے لئے منحرف ہونے کی راہ مسدود کرنے کے لئے ایک شرط یہ رکھی کہ دونوں طرف سے ایک ایک ہزار آدمی شامل مباہلہ ہوں۔ دوسرے پانچ پانچ ہزار روپیہ بطور ضمانت کسی ثالث کے پاس رکھ دیا جائے۴۰۷۔
حضرت خلیفہ ثانی نے خواجہ صاحب کو ان کے طریق مباہلہ کی طرف توجہ دلائی کہ ’’یہ طریق فیصلہ کہاں سے ایجاد کیا گیا ہے۔ اس قسم کا مقابلہ کسی ولی کسی بزرگ کسی نبی کے طریق عمل سے ثابت نہیں خواجہ صاحب فیصلہ کا طریق مخفی طاقتوں اور غیبی تصرفوں کا استعمال اور باطنی قوت کے حربوں کے وار بتاتے ہیں لیکن ہم قرآن کریم میں بار بار یہی لکھا پاتے ہیں کہ عذاب کا لانا کسی انسان کے اختیار میں نہیں پس جب کسی انسان کے اختیار میں یہ بات ہی نہیں تو اپنی طرف سے اس کے قواعد بنانے اور غیبی تصرفات کا دعویٰ کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے‘‘۔
خواجہ صاحب کا چیلنج اور حضرت اقدس کا جواب پبلک کے سامنے آیا تو مولوی ظفر علی خاں نے ’’بچوں کا کھیل‘‘ اور ’’اسلام سے تمسخر‘‘ کے دہرے عنوان سے لکھا۔ ’’جناب طریقت ماب تقدس انتساب خواجہ حسن نظامی قدس سرہ کو اگر جدا مجد کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طریق کار بھی پسند نہ تھا۔ تو قرآن کریم کی وہ عام ہدایت کیا ان کے لئے بہترین معیار عمل نہ تھی۔ کہ اذ اتنا زعتم فی شی فردوہ الی اللہ و الرسول جب کسی چیز میں شکل منازعت نکل آئے اور تم میں نزاع ہو جائے تو اس معاملہ کو اللہ و رسول ~(صل۱)~ کی جانب لوٹائو۔ یعنی قرآن کریم اور سنت حسنہ نبویہ پر اس کو پیش کرو کہ تم مسلمان ہو تو کتاب و سنت سے اچھا جج تمہیں کون سا ملے گا۔ مگر ہمارا ہندوستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ایک گروہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ایک دوسرے گروہ کو کہ اسے بھی قائل اسلام ہونے کا ادعا ہے۔ مباہلہ کی *** آفرین دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آئو فلاں پیر کی چہار دیواری میں بیٹھ کر ہم تم ایک دوسرے کو بددعائیں دیں اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر ملاء اعلیٰ سے عزرائیل کو بلا کر اپنی حبل الورید اس کے نشتر کے حوالہ کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔ خلیفہ قادیان جناب میرزا بشیر الدین محمود سلمہ کے عقائد سے کامل اختلاف رکھتے ہوئے بھی اس قدر کہنے پر صداقت ہم کو مجبور کرتی ہے کہ انہوں نے خواجہ صاحب کے مباہلہ کا جواب نہایت معقولیت سے دیا ہے‘‘۴۰۸۔
اب خواجہ صاحب کی سنئے۔ حضرت کے جواب پر انہوں نے گو ابتداء میں مسنون مباہلہ کی اکثر و بیشتر شرائط پر بظاہر آمادگی ظاہر کی۔ مگر بالاخر یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیا کہ ’’چند ماہ کا ذکر ہے میری اہل قادیان سے کچھ مخاطبت ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں لگاتار تضیع اوقات نہیں کر سکتا تھا قادیان کی علانیہ گریز دیکھ لی اور سمجھ لی تو اس گفتگو کو ختم کر دیا۔ اب وہ مذکورہ مباہلہ کی نسبت کچھ ہی لکھتے رہیں مطلق جواب نہ دیا جائے گا۴۰۹۔ حالانکہ انہوں نے شروع میں چیلنج دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اہل قادیان سے میری خانہ جنگی نہیں بلکہ جہاز جنگی ہے سارے جہان کو جس قوت مریبیہ و فنائیہ کا خوف لگا ہوا ہے میں اس کو ختم کرنا چاہتا ہوں پروشیا کے قوائے حربیہ کا خاتمہ ہو جائے گا تو دنیا کو امن نہیں ملے گا جتنا کہ قادیان کی طاقت زیر و زبر ہونے سے مل سکتا ہے‘‘۔ (ویش ۲۴/ جنوری ۱۹۱۸ء۴۱۰)
مسٹر مانٹیگو کا اعلان اور مسلم اقلیت کے تحفظ کے لئے نئی جدوجہد کا آغاز
مسٹر مانٹیگو وزیر ہند نے ۲۰/ اگست ۱۹۱۷ء کو اعلان کیا کہ حکومت کا منشاء ہندوستانیوں کو صرف انتظام حکومت میں شریک کرنا ہی نہیں
بلکہ منتہائے مقصود یہ ہے کہ وہ حکومت خود اختیاری کے قابل ہو جائیں اور رفتہ رفتہ ملک کا پورا انتظام بالاخر ہندوستانیوں کو سونپ دیا جائے گا۴۱۱
اس اہم اعلان سے ملکی سیاست میں ایک نیا انقلابی دور شروع ہوا۔ جس کے بعد کانگرس کی تحریک جہاں اور زور پکڑ گئی وہاں مسلمان اقلیت کو اپنے مستقبل سے متعلق ایک مہیب خطرہ پیدا ہو گیا کہ اس کے تحفظ حقوق کے بغیر آزادی ان کی مستقل قومی ہستی کو ختم کر دے گی اور انگریز کے بعد ملک کی بھاری ہندو اکثریت کے ابدی غلام بن جائیں گے۔ گیارہ سال کا واقعہ ہے کہ نواب محسن الملک کی کوشش سے مسلمانوں کا ایک وفد یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء کو شملہ میں لارڈ منٹو وائسرائے و گورنر جنرل کی خدمت باریاب ہوا اور اس نے ایک مفصل عرضداشت پیش کی اور کہا۔ ’’جو طریقہ نیابت و قائم مقامی کا یورپ میں رائج ہے وہ اہل ہند کے لئے بالکل نیا ہے۔ ہماری قوم کے بعض دور اندیش افراد کا خیال ہے کہ اس طریقہ کو ہندوستان کی موجودہ سیاسی اور تمدنی حالت پر کامیابی کے ساتھ منطبق کرنے کے لئے نہایت حزم احتیاط و مال اندیشی سے کام لینا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ورنہ) منجملہ اور خرابیوں کے ایک بہت بڑی خرابی یہ پیش آئے گی کہ ہمارے قومی اغراض کا سیاہ و سفید ایک ایسی جماعت کے حوالہ ہو جائے گا جسے ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے نیز کہا۔ ’’قومی حیثیت سے ہم مسلمانوں کی ایک جداگانہ جماعت ہے جو ہندوئوں سے بالکل الگ ہے‘‘۴۱۲۔
حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ابتدائے خلافت ہی سے جماعت کو سیاست سے الگ رہنے کی پرزور تلقین فرماتے اور بتاتے آرہے تھے کہ ہم مذہبی جماعت ہیں ہمیں سیاست کے دھندوں سے کنارہ کش ہو کر تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف رہنا چاہئے۴۱۳۔ لیکن اب جو برطانوی حکومت کی طرف سے نئی پالسی کا اعلان ہوا اور مسلم اقلیت کے حقوق خطرے میں پڑنے لگے۔ تو حضور محض اسلامی ہمدردی کی بناء پر مسلمانوں کی ترجمانی اور ان کے مفاد کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں آگئے۔ اور آپ نے مصمم فیصلہ کر لیا کہ ملکی امن کو برقرار رکھنے کے لئے حکومت سے تعاون بھی جاری رکھیں گے اور مسلم حقوق کو بھی پامال نہیں ہونے دیں گے۔ اور تمام ممکن اخلاقی اور آئینی ذرائع سے مسلم اقلیت کے جداگانہ وجود کو قائم و برقرار رکھنے کی کوشش کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے اور جیسا کہ آنے والے واقعات سے پتہ چلے گا حضور نے ہرا ہم قدم پر مسلمانوں کی صحیح ترجمانی اور نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔ اس سلسلہ میں حضور نے پہلا قدم مسٹر مانٹیگو وزیر ہند کے ہندوستان آنے پر اٹھایا جب کہ انہوں نے ہندوستان کی مختلف جماعتوں کو دہلی میں آکر ریفارم سکیم گورنمنٹ کے سلسلہ میں ایڈریس پیش کرنے کا موقعہ دیا تھا تا آزادی سے متعلق برطانوی سکیم کو بروئے کار لایا جا سکے۔
حضور اس موقعہ پر بنفس نفیس ۱۳/ نومبر ۱۹۱۷ء کو دہلی تشریف لے گئے۴۱۴ اور جماعت احمدیہ کے بعض سربرآوردہ ممبر بھی دہلی میں بلوا لئے۔ حضور کی ہدایت کے مطابق ۱۵/ نومبر ۱۹۱۷ء کو ایک احمدیہ وفد۴۱۵ نے مسٹر مانٹیگو سے ملاقات کی۔ اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے وفد کی طرف سے ایڈریس پیش کیا۔ جس میں ملکی شورش کے مختلف اسباب و وجوہ پر روشنی ڈالنے کے بعد اور آئندہ ’’سیلف گورنمنٹ‘‘ کے طریق انتقال سے متعلق مشورہ دیا کہ ’’انتخاب کا کوئی ایسا طریق نہ رکھا جائے کہ جس میں قلیل التعداد جماعتیں نقصان میں رہیں ایسے تمام صوبوں میں جہاں کوئی قلیل التعداد جماعت خاص اہمیت رکھتی ہو اور اس کی تعداد اس قدر کم ہو کہ اس کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس جماعت کو اس تعداد سے زیادہ ممبروں کے انتخاب کا حق دیا جائے جس قدر کہ بلحاظ تعداد کے اس کے حصوں میں آتے ہیں۔ جیسا کہ پنجاب و بنگال کے سوا باقی صوبوں میں مسلمان اور پنجاب میں سکھ اور بمبئی میں پارسی اور مدراس میں عیسائی ہیں اور سرحدی صوبہ میں اگر کبھی اس کو آئینی حکومت ملی تو ہندو ہیں مگر یہ حق ایسی قلیل التعداد جماعتوں کو جو زیادہ قلیل نہیں ہیں ہرگز نہیں ملنا چاہئے۔ کیونکہ اس حق سے ان جماعتوں کو جو قلیل کثرت رکھتی ہیں سخت نقصان پہنچائے گا مثلاً اگر بڑی تعداد والی قلیل التعداد جماعتوں کو بھی یہ حق دیا جاوے۔ تو ہندوئوں کو تو جن کی میجارٹی جہاں ہے بہت زیادہ کوئی نقصان نہ ہو گا۔ مگر مسلمانوں کو جن کی میجارٹی (کثرت) صرف بنگال اور پنجاب دو صوبوں میں ہے اور بہت ہی کم ہے سخت نقصان پہنچے گا اور ان کی میجارٹی (کثرت) کہیں بھی نہ رہے گی۔ نیز بتایا ہم بلحاظ سیاست انہی فرقوں کے ساتھ شامل ہیں جو ہماری طرح دعویٰ اسلام رکھتے ہیں اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم اس حیثیت سے بھی اپنی رائے دیں‘‘۴۱۶۔ اخبار پانیئر (الہ آباد) نے اس کی خبر دیتے ہوئے لکھا کہ ’’احمدیہ وفد عصر کے وقت پیش ہوا۔ سیکرٹری وفد نے اصلاحات کی ضرورتوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوروپین اور ہندوستانی میں جو تفریق کی جاتی ہے یہ موجودہ باعث بے اطمینانی کا ہے ایسی کوئی اصلاحات نافذ نہ ہوں جو چھوٹی جماعتوں کے حقوق کے لئے ضرر رساں ہوں آخر میں بیان کیا ہندوستان کے واسطے دو قسم کی اصلاحیں ضروری ہیں۔ اول وہ اصلاحیں جو سارے ملک کی مجموعی حالت کا خیال کرکے پیش کی جاتی ہیں۔ دوئم وہ اصلاحیں جو تعلیم یافتہ اصحاب کی اکثریت چاہتی ہے دونوں قسم کی اصلاحیں بہت ضروری ہیں اور انصاف کا تقاضا ہے کہ ان اصلاحوں کو جاری کیا جائے لیکن آخری فیصلہ کرتے وقت مفصلہ ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ایسی صلاح نہ ہو جس سے قلیل التعداد اقوام کے حقوق کو نقصان پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اصلاحیں اس ملک کی مختلف اقوام کی بہبودی کے لئے ضروری نظر آرہی ہیں۔ اور ان سے جائز حقوق پورے ہوتے ہیں ان کو مسترد نہیں کرنا چاہئے۴۱۷۔
احمدیہ وفد کے موقف کی مزید وضاحت کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح بھی اسی دن ۶ بجے شام مسٹر مانٹیگو سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے اور ۳۵ منٹ تک گفتگو فرمائی۔ ترجمان کے فرائض چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے انجام دیئے۴۱۸۔ اور حضور ۲۶/ نومبر ۱۹۱۷ء کو دہلی سے قادیان واپس تشریف لائے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضور کے اس نئے اقدام پر بعض حلقوں کا تاثر کیا تھا؟ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں۔ ’’جب میں نے بعض سیاسی معاملات میں دخل دینا شروع کیا تو اس لئے نہیں کہ وہ سیاسی تھے۔ بلکہ اس لئے کہ میں انہیں دین کا جزو سمجھتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جب میں نے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کیا۔ تو جماعت کے کئی دوست بھی اس پر معترض ہوئے اور بعض دوسرے لوگ خیال کرتے تھے کہ مجھے سیاسیات سے واقفیت ہی کیا ہو سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک دوست کے متعلق (وہ اب تو احمدی ہو چکے ہیں۔ لیکن اس وقت غیر احمدی تھے) بیان کیا کہ انہوں نے جب دیکھا کہ میں نے بھی سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے تو کہنے لگے میں نہیں سمجھ سکتا کہ ریل سے بارہ میل فاصلہ پر رہنے والا ایک شخص سیاسیات سے واقف ہی کس طرح ہو سکتا ہے (اس وقت قادیان میں ریل نہ تھی) لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آہستہ آہستہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اپنے تو علیحدہ رہے غیر بھی اس امر کو محسوس کر رہے ہیں کہ میں سیاست سمجھتا ہوں اور یہ اس لئے کہ میں سیاست کو دینی نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہوں چونکہ اسلام کے اصول نہایت پکے ہیں۔ اس لئے جب میں اسلام کے اصول کے ماتحت کسی علم کو دیکھتا ہوں تو اس کا سمجھنا میرے لئے نہایت آسان ہو جاتا ہے کوئی علم ہو خواہ وہ فلسفہ ہو یا علم النفس ہو- یا سیاسیات ہوں میں اس پر جب بھی غور کروں گا ہمیشہ صحیح نقطہ پر پہنچوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چونکہ قرآن مجید کے ماتحت ان علوم کو دیکھتا ہوں۔ اس لئے ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور کبھی ایک دفعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اپنی رائے کو تبدیل کرنا نہیں پڑا‘‘۴۱۹۔
ریاست لائبیریا (مغربی افریقہ) میں احمدیت
اسی سال مغربی افرقہ کی ریاست لائبیریا کے ایک پروفیسر نے احمدیت کا لٹریچر منگوایا اس طرح پہلی بار لائبیریا میں احمدیت کا پیغام پہنچا۴۲۰۔
’’تصدیق المسیح و المہدی‘‘
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو زمانہ قیام بمبئی میں تحریک ہوئی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے مناقب پر ایک مختصر سا رسالہ لکھنا چاہئے۔ چنانچہ آپ نے بمبئی سے واپس آکر دسمبر ۱۹۱۷ء میں ’’تصدیق المسیح و المہدی‘‘ تصنیف فرمائی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی آیات قرآنیہ و احادیث صحیحہ سے ثابت فرمایا۔
تحریک وقف زندگی
‏0] [rtfسلسلہ کی تبلیغی سرگرمیاں روز بروز وسعت پکڑ رہی تھیں اس لئے حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اشاعت اسلام کے لئے ۷/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی۴۲۱۔ اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ۶۳ نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے جن میں مولوی عبدالرحیم صاحب ایم۔ اے شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی مولوی جلال الدین صاحب شمس مولوی ظہور حسین صاحب۔ مولوی غلام احمد صاحب۔ مولوی ابوبکر صاحب سماٹری۔ مولوی ظل|الرحمان صاحب بنگالی۔ خان بہادر مولوی ابوالہاشم خان صاحب ایم۔ اے اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس بنگال۔ مولوی مبارک علی صاحب بنگالی۔ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل بھی تھے۔۴۲۲
ان وافقین کو تین گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ (۱) رابطین جو وافقین کے استاد تھے۔ (۲) مجاہدین جو عملاً تبلیغی جہاد میں مصروف عمل تھے۔ (۳) منتظرین جو مدرسہ احمدیہ یا ہائی سکول میں تعلیم پا رہے تھے۴۲۳۔
’’حقیقتہ الرویاء‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۷‘۲۸/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو سالانہ جلسہ کے موقع پر تین تقاریر فرمائیں جو ’’حقیقتہ الرویاء‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ ان تقریروں میں حضور نے علم دین کے طریق بتائے۔ الہام‘کشف‘رویاء اور خواب کے فلسفہ پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی اور الہام خصوصاً ماموروں کے الہام کی علامات بیان فرمائیں۔
۱۹۱۷ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت مرزا ناصر صاحب کے ختم قرآن پر ۲۴/ فروری ۱۹۱۷ء کو آمین ہوئی۔
۲۔
‏]ind [tag حضرت ام المومنینؓ‘حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحب جناب منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کی ہمشیرہ کے رخصتانہ کی تقریب پر سنور (ریاست پٹیالہ) تشریف لے گئے۴۲۴۔
۳۔
حضرت خلیفہ اول کی بڑی دختر حفصہ بیگم (اہلیہ مفتی فضل الرحمن صاحب) اور مرزا غلام اللہ صاحب کا انتقال ہوا۔
۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اجازت اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کی نگرانی میں ایک ’’انجمن ارشاد‘‘ قائم ہوئی جس کا مقصد جوانوں کو تبلیغی ٹریننگ دینا تھا۴۲۵۔ اس کے علاوہ حضور کی تحریک تبلیغ ولایت کو کامیاب بنانے کے لئے مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے بھی انجمن شبان الاسلام کی بنیاد رکھی۴۲۶۔
۵۔
حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب ہجرت کرکے قادیان تشریف لے آئے۴۲۷۔
۶۔
حضرت خلیفہ ثانی نے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کا نکاح ثانی جناب مرزا محمد شفیع صاحب کی دختر نیک اختر سے پڑھا۴۲۸۔
۷۔
۷۔ ۸۔ ۹/ اپریل ۱۹۱۷ء کو قادیان میں ’’احمدیہ کانفرنس‘‘ ہوئی۔ کانفرنس کا پہلا اجلاس تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں۔ دوسرا مسجد اقصیٰ میں اور تیسرا مسجد مبارک میں ہوا۔ وسطی اجلاس کی صدارت قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کی۴۲۹۔
۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کی یادگار میں شفا خانہ نور کا اجراء ہوا۔ اور اس کے پہلے انچارج مفتی فضل الرحمن صاحب بنے۔ شفا خانہ حضرت خلیفتہ اولؓ کے مطب والے مکان میں ہی کھولا گیا۴۳۰۔
۹۔
حضرت خلیفتہ المسح ثانی کے حکم سے حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری پنجاب کی انجمنوں کی تنظیم کے لئے بھیجے گئے آپ کے ہمراہ محمد سعید صاحب سعدی اور مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری بھی تھے۴۳۱۔ یہ ۱۵/ اکتوبر ۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے۔
۱۰۔
قادیان میں ایک نیا محلہ ’’دارالرحمت‘‘ کے نام سے آباد ہونا شروع ہوا جس کے ابتدائی مکینوں میں بابو عبدالرحیم صاحب پوسٹماسٹر اور ملک غلام حسین صاحب رہتاسی بھی تھے۴۳۲۔
۱۱۔
مشہور مباحثات: مباحثہ کاٹھ گڑھ (آریوں سے۔ احمدی مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۴۳۳) مباحثہ نواں شہر۴۳۴۔ (آریوں سے) مباحثہ بھمبلہ ضلع گجرات (احمدی مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحب۴۳۵) مباحثہ بمبئی (حضرت میر محمد اسحق صاحب نے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ سے بھی اور پادری جوالا سنگھ کے ساتھ مباحثے کئے) مباحثہ ظفر وال (حضرت میر قاسم علی صاحب کا آریوں سے۴۳۶۔ مباحثہ کلا سوالہ۔ (شیخ محمد یوسف صاحب کا مہاشہ چرنجی لعل پریم کے ساتھ۴۳۷) مباحثہ سیکھواں (شیخ محمد یوسف صاحب کا سکھوں سے۴۳۸) ان کے علاوہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے (جو ان دنوں مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت کے طالب علم تھے) موضع پکیواں (ضلع گورداسپور) میں ایک آریہ پنڈت اور مولوی ابو تراب عبدالحق صاحب سے مباحثہ کیا۴۳۹]ind [tag۔
۱۲۔
مرزا گل محمد صاحب (ابن مرزا نظام الدین صاحب) داخل احمدیت ہوئے۴۴۰۔
‏rov.5.12
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چوتھا سال
دوسرا باب (فصل چہارم)
خلافت ثانیہ کا چوتھا سال
(ربیع الاول ۱۳۳۵ھ تا ربیع الاول ۱۳۳۶ھ)
~ (جنوری ۱۹۱۷ء سے دسمبر ۱۹۱۷ء تک) ~[~
زار روس سے متعلق پیشگوئی کے ظہور پر اتمام حجت][سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ ع ’’زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی با حال زار‘‘ اس کے مطابق ۱۲/ مارچ ۱۹۱۷ء۳۸۶ کو بالشویک انقلاب نے زار کی مطلق العنان اور آمرانہ حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اور پھر اسے اور اس کے بیوی اور بچوں کو محبوس کرکے طرح طرح کی سختیوں عقوبتوں اور شرمناک مظالم کے بعد موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۳۸۷۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے پر ۴/ اپریل ۱۹۱۷ء کو ’’زندہ خدا کے زبردست نشان‘‘ نامی ٹریکٹ لکھا اور دنیا پر اتمام حجت کر دیا اس ٹریکٹ پر بعض اشتہارات میں زار والی پیشگوئی پر کچھ اعتراض کئے گئے۳۸۸۔ جن کا جواب حضور نے ’’خدا کے قہری نشان‘‘ کے نام سے شائع فرمایا۔
’’الحجہ البالغہ‘‘
قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے جون ۱۹۱۷ء میں مسئلہ وفات مسیح علیہ السلام پر ایک معرکتہ الاراء کتاب تصنیف فرمائی جو ’’الحجہ البالغہ‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۳۸۹۔
’’نور ہسپتال‘‘ کی بنیاد
مخدوم و معظم حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی کوششوں سے یکم رمضان ۱۳۳۵ھ مطابق ۲۱/ جون ۱۹۱۷ء کو ’’نور ہسپتال‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۳۹۰۔ اور ستمبر ۱۹۱۷ء میں اس کی تکمیل ہوئی۔ ابتداًء ہسپتال میں کوئی سند یافتہ ڈاکٹر نہیں تھا اس لئے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کے خصوصی اشارہ پر محترم حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب ریاست پٹیالہ سے بلوائے گئے اور ۲/ فروری ۱۹۱۹ء کو ان کا تقرر عمل میں آیا۳۹۱۔ پہلے حضرت میر محمد اسحق صاحب افسر نور ہسپتال تھے مگر اب حضرت ڈاکٹر صاحب میڈیکل ایڈوائزر مقرر ہوئے۳۹۲۔ آپ کے زمانہ میں ہسپتال نے خوب کام کیا زنانہ وارڈ قائم ہوا۔ اپریشن روم میں ترقی ہوئی۳۹۳۔ ۱۹۳۰ء میں اسے سیکنڈ گریڈ ہسپتال کی حیثیت حاصل ہوئی اسی سال اس کے لئے مستقل قواعد و ضوابط تجویز کئے گئے۳۹۴۔
‏body] g[taنور ہسپتال متحدہ ہندوستان کا واحد ادارہ تھا۔ جس نے ایک مذہبی جماعت کی نگرانی میں ربع صدی سے زائد عرصہ تک بلاتمیز تمام مذہب و ملت خدمت کی۔
مبلغین کا وفد بمبئی میں
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سال بمبئی میں تبلیغ شروع کرنے گویا ہندوستان کے دروازہ کا تبلیغی محاصرہ کرنے کے لئے ۳/ اگست ۱۹۱۷ء کو مبلغین کا ایک وفد بھجوایا جس کے ممبر قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب‘حضرت مولانا میر محمد اسحٰق صاحب‘حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل ہلال پوری تھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے لکھی ہوئی اکتیس ہدایتیں بھی انکو دیں اور بارش کی حالت میں قادیان سے باہر تک انہیں الوداع کہنے کے لئے بھی تشریف لے گئے۳۹۵۔
وفد نے قریباً دو ڈھائی ماہ قیام کرکے مسلمانوں کے مختلف فرقوں (خوجے‘بوہرے‘میمن‘اسمعیلی وغیرہ) میں اشتہاروں‘لیکچروں اور درس وغیرہ سے تبلیغ کی اور مخالفتوں کے باوجود خدا کے فضل سے عموماً اچھا اثر رہا10] p[۳۹۶۔ حضرت میرزا بشیر احمد صاحب نے بمبئی میں دو ٹریکٹ لکھے۳۹۷۔ عمومی تبلیغ زیادہ تر حضرت مولوی میر محمد اسحق صاحب کی مساعی کا نتیجہ تھی۔
امرتسر اور شادیوال کے مقدمات کا فیصلہ
اس سال احمدیوں کے خلاف امرتسر۳۹۸ اور شادیوال۳۹۹ میں دو اہم مقدمات کا فیصلہ ہوا۔ دونوں مقدمات میں وکالت کے فرائض چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ادا کئے۔ اور دونوں کا فیصلہ احمدیوں کے حق میں ہوا۔
سفر شملہ
حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ علیل ہو جانے کی وجہ سے طبی مشورہ پر ۳۰/ اگست ۱۹۱۷ء کو شملہ تشریف لے گئے اور ۱۰/ اکتوبر ۱۹۱۷ء کو رونق افروز قادیان ہوئے۴۰۰۔ اس سفر میں جو محض تبدیلی آب و ہوا کی غرض سے کیا گیا تھا۔ حضور کی دینی مصروفیت بہت زیادہ ہو گئی پورا سفر شروع سے آخر تک نہایت درجہ مشغولیت میں گزرا۔ حضور نے شملہ میں اپنے وعظ و تلقین کا سلسلہ جاری رکھا۔ ترقی اسلام میں حصہ لینے سے ¶متعلق جماعت احمدیہ کے نام چھ صفحات کا پیغام بھیجا۴۰۱ ۳۰/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو حضور کا جماعت شملہ کے سالانہ جلسہ پر ’’زندہ مذہب‘‘ کے عنوان سے زبردست اور پر عظمت لیکچر ہوا۔ جس میں حضور نے قبولیت دعا کے معاملہ میں مذاہب عالم کے لیڈروں کو فیصلہ کن چیلنج دیا۴۰۲۔ شملہ سے واپسی پر حضور راجپورہ اسٹیشن پر پہنچے اور پھر حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر فاتحہ کے لئے تشریف لے گئے پھر راجپورہ واپس آکر پہلے سنور۴۰۳]4 [rtf پھر پٹیالہ پہنچے اور صداقت اسلام کے موضوع پر ڈیڑھ گھنٹہ تک نہایت زور دار الفاظ میں دلوں کو ہلا دینے والا لیکچر دیا۴۰۴۔
خواجہ حسن نظامی صاحب کی عجیب و غریب دعوت مباہلہ اور اس کا جواب
درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء~رح~ کے سجادہ نشین خواجہ حسن نظامی دہلوی نہایت شریف مگر ہوشیار صوفیوں اور صاحب طرز ادیبوں اور انشاء
پردازوں میں سے تھے۔ خواجہ صاحب کے مراسم۴۰۵ جماعت احمدیہ کے ساتھ ایک عرصہ سے قائم تھے مگر یکایک خدا جانے کیا خیال آیا کہ انہوں نے (رسالہ نظام المشائخ میں) سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو مباہلہ کا یہ عجیب و غریب چیلنج دے دیا کہ وہ اجمیر شریف میں آئیں میں بھی وہاں حاضر ہو جائوں گا۔ آستانہ خواجہ غریب نواز کی مسجد میں میرزا صاحب میرے ساتھ کھڑے ہوں اور اپنی باطنی قوت کے تمام حرجے مجھ پر آزمائیں۔ اور جب وہ اپنی ساری کرامت آزما چکیں تو مجھ کو اجازت دی جائے کہ میں صرف یہ کہوں۔ اے خدا بطفیل اس صاحب مزار کی حقانیت کے اپنی صداقت کو ظاہر کر اور ہم دونوں میں جو جھوٹا ہو اس کو اسی وقت اور اسی لمحہ میں ہلاک کر دے اور اس کے بعد میرزا محمود احمد کو اجازت دی جائے۔ کہ وہ اپنے الفاظ میں جو جی چاہیں کریں۔ میعاد صرف ایک گھنٹہ مقرر کی جائے۔ یعنی دونوں آدمیوں میں سے ایک پر ایک گھنٹہ کے اندر اس دعا کا اثر ہونا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۴۰۶‘‘ اگر تم کو یہ مباہلہ منظور ہو تو ربیع الاول ۱۳۳۶ھ کی چھٹی تاریخ کو اپنے حواریوں کو لے کر اجمیر شریف آجائو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تم اس ارادہ سے اجمیر شریف آئو تو اپنی والدہ صاحبہ سے دودھ بخشوا کر آنا اور ریلوے کمپنی سے ایک گاڑی کا بندوبست کرا لینا جس میں تمہاری لاش قادیان روانہ ہو سکے۔ اور نیز اپنی اہلیہ صاحبہ سے مہر بھی معاف کرا لینا اور قادیان کو والد ماجد کی قبر سمیت ذرا غور سے دیکھ کر آنا کہ پھر تم کو زندگی میں وہ درو دیوار دیکھنے نصیب نہ ہوں گے اور جانشینی کے مسئلہ کو بھی طے کرکے آنا‘‘۔
سیدنا حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو جب خواجہ صاحب کے اس چیلنج کا علم ہوا تو حضور نے مفصل اعلان فرمایا کہ مباہلہ کے مسنون طریق کے مطابق حضرت مسیح موعودؑ کی سچائی کے بارے میں مباہلہ کے لئے بالکل تیار ہوں۔ آیت مباہلہ سے ثابت ہے کہ دلائل کے اظہار کے بعد مباہلہ ہوتا ہے اس لئے ضروری ہو گا کہ مباہلہ سے پہلے دونوں اپنے اپنے عقائد پر تقریر کر لیں۔ مباہلہ میں شرط ہو گی کہ عذاب انسانی دخل سے پاک ہو گا۔ اس مباہلہ کا ظاہر ہونا یوم مباہلہ سے ایک سال کے عرصہ میں ضروری ہو گا ہاں خواجہ صاحب کو اجازت ہو گی کہ آپ ایک گھنٹہ یا آدھ گھنٹہ کا وقت مقرر کر لیں۔ آیت قرآنی کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے اور سنت رسولﷺ~ کے مطابق ضروری ہو گا کہ کم سے کم سرگروہ اپنے بیوی اور بچوں کو مباہلہ میں شامل کریں۔ ان بنیادی شرائط کے علاوہ آپ نے مباہلہ کا اثر وسیع کرنے اور فریقین کے لئے منحرف ہونے کی راہ مسدود کرنے کے لئے ایک شرط یہ رکھی کہ دونوں طرف سے ایک ایک ہزار آدمی شامل مباہلہ ہوں۔ دوسرے پانچ پانچ ہزار روپیہ بطور ضمانت کسی ثالث کے پاس رکھ دیا جائے۴۰۷۔
حضرت خلیفہ ثانی نے خواجہ صاحب کو ان کے طریق مباہلہ کی طرف توجہ دلائی کہ ’’یہ طریق فیصلہ کہاں سے ایجاد کیا گیا ہے۔ اس قسم کا مقابلہ کسی ولی کسی بزرگ کسی نبی کے طریق عمل سے ثابت نہیں خواجہ صاحب فیصلہ کا طریق مخفی طاقتوں اور غیبی تصرفوں کا استعمال اور باطنی قوت کے حربوں کے وار بتاتے ہیں لیکن ہم قرآن کریم میں بار بار یہی لکھا پاتے ہیں کہ عذاب کا لانا کسی انسان کے اختیار میں نہیں پس جب کسی انسان کے اختیار میں یہ بات ہی نہیں تو اپنی طرف سے اس کے قواعد بنانے اور غیبی تصرفات کا دعویٰ کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے‘‘۔
خواجہ صاحب کا چیلنج اور حضرت اقدس کا جواب پبلک کے سامنے آیا تو مولوی ظفر علی خاں نے ’’بچوں کا کھیل‘‘ اور ’’اسلام سے تمسخر‘‘ کے دہرے عنوان سے لکھا۔ ’’جناب طریقت ماب تقدس انتساب خواجہ حسن نظامی قدس سرہ کو اگر جدا مجد کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طریق کار بھی پسند نہ تھا۔ تو قرآن کریم کی وہ عام ہدایت کیا ان کے لئے بہترین معیار عمل نہ تھی۔ کہ اذ اتنا زعتم فی شی فردوہ الی اللہ و الرسول جب کسی چیز میں شکل منازعت نکل آئے اور تم میں نزاع ہو جائے تو اس معاملہ کو اللہ و رسول ~(صل۱)~ کی جانب لوٹائو۔ یعنی قرآن کریم اور سنت حسنہ نبویہ پر اس کو پیش کرو کہ تم مسلمان ہو تو کتاب و سنت سے اچھا جج تمہیں کون سا ملے گا۔ مگر ہمارا ہندوستان کا باوا آدم ہی نرالا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں ایک گروہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ایک دوسرے گروہ کو کہ اسے بھی قائل اسلام ہونے کا ادعا ہے۔ مباہلہ کی *** آفرین دعوت دیتا ہے اور کہتا ہے کہ آئو فلاں پیر کی چہار دیواری میں بیٹھ کر ہم تم ایک دوسرے کو بددعائیں دیں اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر ملاء اعلیٰ سے عزرائیل کو بلا کر اپنی حبل الورید اس کے نشتر کے حوالہ کر دیں ۔۔۔۔۔۔۔ خلیفہ قادیان جناب میرزا بشیر الدین محمود سلمہ کے عقائد سے کامل اختلاف رکھتے ہوئے بھی اس قدر کہنے پر صداقت ہم کو مجبور کرتی ہے کہ انہوں نے خواجہ صاحب کے مباہلہ کا جواب نہایت معقولیت سے دیا ہے‘‘۴۰۸۔
اب خواجہ صاحب کی سنئے۔ حضرت کے جواب پر انہوں نے گو ابتداء میں مسنون مباہلہ کی اکثر و بیشتر شرائط پر بظاہر آمادگی ظاہر کی۔ مگر بالاخر یہ کہہ کر پیچھا چھڑا لیا کہ ’’چند ماہ کا ذکر ہے میری اہل قادیان سے کچھ مخاطبت ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں لگاتار تضیع اوقات نہیں کر سکتا تھا قادیان کی علانیہ گریز دیکھ لی اور سمجھ لی تو اس گفتگو کو ختم کر دیا۔ اب وہ مذکورہ مباہلہ کی نسبت کچھ ہی لکھتے رہیں مطلق جواب نہ دیا جائے گا۴۰۹۔ حالانکہ انہوں نے شروع میں چیلنج دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اہل قادیان سے میری خانہ جنگی نہیں بلکہ جہاز جنگی ہے سارے جہان کو جس قوت مریبیہ و فنائیہ کا خوف لگا ہوا ہے میں اس کو ختم کرنا چاہتا ہوں پروشیا کے قوائے حربیہ کا خاتمہ ہو جائے گا تو دنیا کو امن نہیں ملے گا جتنا کہ قادیان کی طاقت زیر و زبر ہونے سے مل سکتا ہے‘‘۔ (ویش ۲۴/ جنوری ۱۹۱۸ء۴۱۰)
مسٹر مانٹیگو کا اعلان اور مسلم اقلیت کے تحفظ کے لئے نئی جدوجہد کا آغاز
مسٹر مانٹیگو وزیر ہند نے ۲۰/ اگست ۱۹۱۷ء کو اعلان کیا کہ حکومت کا منشاء ہندوستانیوں کو صرف انتظام حکومت میں شریک کرنا ہی نہیں
بلکہ منتہائے مقصود یہ ہے کہ وہ حکومت خود اختیاری کے قابل ہو جائیں اور رفتہ رفتہ ملک کا پورا انتظام بالاخر ہندوستانیوں کو سونپ دیا جائے گا۴۱۱
اس اہم اعلان سے ملکی سیاست میں ایک نیا انقلابی دور شروع ہوا۔ جس کے بعد کانگرس کی تحریک جہاں اور زور پکڑ گئی وہاں مسلمان اقلیت کو اپنے مستقبل سے متعلق ایک مہیب خطرہ پیدا ہو گیا کہ اس کے تحفظ حقوق کے بغیر آزادی ان کی مستقل قومی ہستی کو ختم کر دے گی اور انگریز کے بعد ملک کی بھاری ہندو اکثریت کے ابدی غلام بن جائیں گے۔ گیارہ سال کا واقعہ ہے کہ نواب محسن الملک کی کوشش سے مسلمانوں کا ایک وفد یکم اکتوبر ۱۹۰۶ء کو شملہ میں لارڈ منٹو وائسرائے و گورنر جنرل کی خدمت باریاب ہوا اور اس نے ایک مفصل عرضداشت پیش کی اور کہا۔ ’’جو طریقہ نیابت و قائم مقامی کا یورپ میں رائج ہے وہ اہل ہند کے لئے بالکل نیا ہے۔ ہماری قوم کے بعض دور اندیش افراد کا خیال ہے کہ اس طریقہ کو ہندوستان کی موجودہ سیاسی اور تمدنی حالت پر کامیابی کے ساتھ منطبق کرنے کے لئے نہایت حزم احتیاط و مال اندیشی سے کام لینا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (ورنہ) منجملہ اور خرابیوں کے ایک بہت بڑی خرابی یہ پیش آئے گی کہ ہمارے قومی اغراض کا سیاہ و سفید ایک ایسی جماعت کے حوالہ ہو جائے گا جسے ہمارے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ہے نیز کہا۔ ’’قومی حیثیت سے ہم مسلمانوں کی ایک جداگانہ جماعت ہے جو ہندوئوں سے بالکل الگ ہے‘‘۴۱۲۔
حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ابتدائے خلافت ہی سے جماعت کو سیاست سے الگ رہنے کی پرزور تلقین فرماتے اور بتاتے آرہے تھے کہ ہم مذہبی جماعت ہیں ہمیں سیاست کے دھندوں سے کنارہ کش ہو کر تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف رہنا چاہئے۴۱۳۔ لیکن اب جو برطانوی حکومت کی طرف سے نئی پالسی کا اعلان ہوا اور مسلم اقلیت کے حقوق خطرے میں پڑنے لگے۔ تو حضور محض اسلامی ہمدردی کی بناء پر مسلمانوں کی ترجمانی اور ان کے مفاد کے تحفظ کے لئے میدان عمل میں آگئے۔ اور آپ نے مصمم فیصلہ کر لیا کہ ملکی امن کو برقرار رکھنے کے لئے حکومت سے تعاون بھی جاری رکھیں گے اور مسلم حقوق کو بھی پامال نہیں ہونے دیں گے۔ اور تمام ممکن اخلاقی اور آئینی ذرائع سے مسلم اقلیت کے جداگانہ وجود کو قائم و برقرار رکھنے کی کوشش کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے اور جیسا کہ آنے والے واقعات سے پتہ چلے گا حضور نے ہرا ہم قدم پر مسلمانوں کی صحیح ترجمانی اور نمائندگی کا حق ادا کر دیا۔ اس سلسلہ میں حضور نے پہلا قدم مسٹر مانٹیگو وزیر ہند کے ہندوستان آنے پر اٹھایا جب کہ انہوں نے ہندوستان کی مختلف جماعتوں کو دہلی میں آکر ریفارم سکیم گورنمنٹ کے سلسلہ میں ایڈریس پیش کرنے کا موقعہ دیا تھا تا آزادی سے متعلق برطانوی سکیم کو بروئے کار لایا جا سکے۔
حضور اس موقعہ پر بنفس نفیس ۱۳/ نومبر ۱۹۱۷ء کو دہلی تشریف لے گئے۴۱۴ اور جماعت احمدیہ کے بعض سربرآوردہ ممبر بھی دہلی میں بلوا لئے۔ حضور کی ہدایت کے مطابق ۱۵/ نومبر ۱۹۱۷ء کو ایک احمدیہ وفد۴۱۵ نے مسٹر مانٹیگو سے ملاقات کی۔ اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے وفد کی طرف سے ایڈریس پیش کیا۔ جس میں ملکی شورش کے مختلف اسباب و وجوہ پر روشنی ڈالنے کے بعد اور آئندہ ’’سیلف گورنمنٹ‘‘ کے طریق انتقال سے متعلق مشورہ دیا کہ ’’انتخاب کا کوئی ایسا طریق نہ رکھا جائے کہ جس میں قلیل التعداد جماعتیں نقصان میں رہیں ایسے تمام صوبوں میں جہاں کوئی قلیل التعداد جماعت خاص اہمیت رکھتی ہو اور اس کی تعداد اس قدر کم ہو کہ اس کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اس جماعت کو اس تعداد سے زیادہ ممبروں کے انتخاب کا حق دیا جائے جس قدر کہ بلحاظ تعداد کے اس کے حصوں میں آتے ہیں۔ جیسا کہ پنجاب و بنگال کے سوا باقی صوبوں میں مسلمان اور پنجاب میں سکھ اور بمبئی میں پارسی اور مدراس میں عیسائی ہیں اور سرحدی صوبہ میں اگر کبھی اس کو آئینی حکومت ملی تو ہندو ہیں مگر یہ حق ایسی قلیل التعداد جماعتوں کو جو زیادہ قلیل نہیں ہیں ہرگز نہیں ملنا چاہئے۔ کیونکہ اس حق سے ان جماعتوں کو جو قلیل کثرت رکھتی ہیں سخت نقصان پہنچائے گا مثلاً اگر بڑی تعداد والی قلیل التعداد جماعتوں کو بھی یہ حق دیا جاوے۔ تو ہندوئوں کو تو جن کی میجارٹی جہاں ہے بہت زیادہ کوئی نقصان نہ ہو گا۔ مگر مسلمانوں کو جن کی میجارٹی (کثرت) صرف بنگال اور پنجاب دو صوبوں میں ہے اور بہت ہی کم ہے سخت نقصان پہنچے گا اور ان کی میجارٹی (کثرت) کہیں بھی نہ رہے گی۔ نیز بتایا ہم بلحاظ سیاست انہی فرقوں کے ساتھ شامل ہیں جو ہماری طرح دعویٰ اسلام رکھتے ہیں اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم اس حیثیت سے بھی اپنی رائے دیں‘‘۴۱۶۔ اخبار پانیئر (الہ آباد) نے اس کی خبر دیتے ہوئے لکھا کہ ’’احمدیہ وفد عصر کے وقت پیش ہوا۔ سیکرٹری وفد نے اصلاحات کی ضرورتوں کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوروپین اور ہندوستانی میں جو تفریق کی جاتی ہے یہ موجودہ باعث بے اطمینانی کا ہے ایسی کوئی اصلاحات نافذ نہ ہوں جو چھوٹی جماعتوں کے حقوق کے لئے ضرر رساں ہوں آخر میں بیان کیا ہندوستان کے واسطے دو قسم کی اصلاحیں ضروری ہیں۔ اول وہ اصلاحیں جو سارے ملک کی مجموعی حالت کا خیال کرکے پیش کی جاتی ہیں۔ دوئم وہ اصلاحیں جو تعلیم یافتہ اصحاب کی اکثریت چاہتی ہے دونوں قسم کی اصلاحیں بہت ضروری ہیں اور انصاف کا تقاضا ہے کہ ان اصلاحوں کو جاری کیا جائے لیکن آخری فیصلہ کرتے وقت مفصلہ ذیل امور کا لحاظ ضروری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ایسی صلاح نہ ہو جس سے قلیل التعداد اقوام کے حقوق کو نقصان پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اصلاحیں اس ملک کی مختلف اقوام کی بہبودی کے لئے ضروری نظر آرہی ہیں۔ اور ان سے جائز حقوق پورے ہوتے ہیں ان کو مسترد نہیں کرنا چاہئے۴۱۷۔
احمدیہ وفد کے موقف کی مزید وضاحت کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح بھی اسی دن ۶ بجے شام مسٹر مانٹیگو سے ملنے کے لئے تشریف لے گئے اور ۳۵ منٹ تک گفتگو فرمائی۔ ترجمان کے فرائض چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے انجام دیئے۴۱۸۔ اور حضور ۲۶/ نومبر ۱۹۱۷ء کو دہلی سے قادیان واپس تشریف لائے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ حضور کے اس نئے اقدام پر بعض حلقوں کا تاثر کیا تھا؟ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں۔ ’’جب میں نے بعض سیاسی معاملات میں دخل دینا شروع کیا تو اس لئے نہیں کہ وہ سیاسی تھے۔ بلکہ اس لئے کہ میں انہیں دین کا جزو سمجھتا تھا۔ میں نے دیکھا کہ جب میں نے سیاسیات میں حصہ لینا شروع کیا۔ تو جماعت کے کئی دوست بھی اس پر معترض ہوئے اور بعض دوسرے لوگ خیال کرتے تھے کہ مجھے سیاسیات سے واقفیت ہی کیا ہو سکتی ہے۔ مجھے یاد ہے۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک دوست کے متعلق (وہ اب تو احمدی ہو چکے ہیں۔ لیکن اس وقت غیر احمدی تھے) بیان کیا کہ انہوں نے جب دیکھا کہ میں نے بھی سیاسیات میں حصہ لینا شروع کر دیا ہے تو کہنے لگے میں نہیں سمجھ سکتا کہ ریل سے بارہ میل فاصلہ پر رہنے والا ایک شخص سیاسیات سے واقف ہی کس طرح ہو سکتا ہے (اس وقت قادیان میں ریل نہ تھی) لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آہستہ آہستہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ اپنے تو علیحدہ رہے غیر بھی اس امر کو محسوس کر رہے ہیں کہ میں سیاست سمجھتا ہوں اور یہ اس لئے کہ میں سیاست کو دینی نقطہ نگاہ سے دیکھتا ہوں چونکہ اسلام کے اصول نہایت پکے ہیں۔ اس لئے جب میں اسلام کے اصول کے ماتحت کسی علم کو دیکھتا ہوں تو اس کا سمجھنا میرے لئے نہایت آسان ہو جاتا ہے کوئی علم ہو خواہ وہ فلسفہ ہو یا علم النفس ہو- یا سیاسیات ہوں میں اس پر جب بھی غور کروں گا ہمیشہ صحیح نقطہ پر پہنچوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چونکہ قرآن مجید کے ماتحت ان علوم کو دیکھتا ہوں۔ اس لئے ہمیشہ صحیح نتیجہ پر پہنچتا ہوں اور کبھی ایک دفعہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے اپنی رائے کو تبدیل کرنا نہیں پڑا‘‘۴۱۹۔
ریاست لائبیریا (مغربی افریقہ) میں احمدیت
اسی سال مغربی افرقہ کی ریاست لائبیریا کے ایک پروفیسر نے احمدیت کا لٹریچر منگوایا اس طرح پہلی بار لائبیریا میں احمدیت کا پیغام پہنچا۴۲۰۔
’’تصدیق المسیح و المہدی‘‘
حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو زمانہ قیام بمبئی میں تحریک ہوئی کہ حضرت مسیح موعودؑ کے مناقب پر ایک مختصر سا رسالہ لکھنا چاہئے۔ چنانچہ آپ نے بمبئی سے واپس آکر دسمبر ۱۹۱۷ء میں ’’تصدیق المسیح و المہدی‘‘ تصنیف فرمائی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی آیات قرآنیہ و احادیث صحیحہ سے ثابت فرمایا۔
تحریک وقف زندگی
‏0] [rtfسلسلہ کی تبلیغی سرگرمیاں روز بروز وسعت پکڑ رہی تھیں اس لئے حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اشاعت اسلام کے لئے ۷/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی۴۲۱۔ اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے ۶۳ نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے جن میں مولوی عبدالرحیم صاحب ایم۔ اے شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی مولوی جلال الدین صاحب شمس مولوی ظہور حسین صاحب۔ مولوی غلام احمد صاحب۔ مولوی ابوبکر صاحب سماٹری۔ مولوی ظل|الرحمان صاحب بنگالی۔ خان بہادر مولوی ابوالہاشم خان صاحب ایم۔ اے اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس بنگال۔ مولوی مبارک علی صاحب بنگالی۔ شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل بھی تھے۔۴۲۲
ان وافقین کو تین گروہوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ (۱) رابطین جو وافقین کے استاد تھے۔ (۲) مجاہدین جو عملاً تبلیغی جہاد میں مصروف عمل تھے۔ (۳) منتظرین جو مدرسہ احمدیہ یا ہائی سکول میں تعلیم پا رہے تھے۴۲۳۔
’’حقیقتہ الرویاء‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۷‘۲۸/ دسمبر ۱۹۱۷ء کو سالانہ جلسہ کے موقع پر تین تقاریر فرمائیں جو ’’حقیقتہ الرویاء‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ ان تقریروں میں حضور نے علم دین کے طریق بتائے۔ الہام‘کشف‘رویاء اور خواب کے فلسفہ پر بڑی وضاحت سے روشنی ڈالی اور الہام خصوصاً ماموروں کے الہام کی علامات بیان فرمائیں۔
۱۹۱۷ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت مرزا ناصر صاحب کے ختم قرآن پر ۲۴/ فروری ۱۹۱۷ء کو آمین ہوئی۔
۲۔
‏]ind [tag حضرت ام المومنینؓ‘حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ اور حضرت میر محمد اسحٰق صاحب جناب منشی قدرت اللہ صاحب سنوری کی ہمشیرہ کے رخصتانہ کی تقریب پر سنور (ریاست پٹیالہ) تشریف لے گئے۴۲۴۔
۳۔
حضرت خلیفہ اول کی بڑی دختر حفصہ بیگم (اہلیہ مفتی فضل الرحمن صاحب) اور مرزا غلام اللہ صاحب کا انتقال ہوا۔
۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اجازت اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کی نگرانی میں ایک ’’انجمن ارشاد‘‘ قائم ہوئی جس کا مقصد جوانوں کو تبلیغی ٹریننگ دینا تھا۴۲۵۔ اس کے علاوہ حضور کی تحریک تبلیغ ولایت کو کامیاب بنانے کے لئے مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے بھی انجمن شبان الاسلام کی بنیاد رکھی۴۲۶۔
۵۔
حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب ہجرت کرکے قادیان تشریف لے آئے۴۲۷۔
۶۔
حضرت خلیفہ ثانی نے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کا نکاح ثانی جناب مرزا محمد شفیع صاحب کی دختر نیک اختر سے پڑھا۴۲۸۔
۷۔
۷۔ ۸۔ ۹/ اپریل ۱۹۱۷ء کو قادیان میں ’’احمدیہ کانفرنس‘‘ ہوئی۔ کانفرنس کا پہلا اجلاس تعلیم الاسلام ہائی سکول کے ہال میں۔ دوسرا مسجد اقصیٰ میں اور تیسرا مسجد مبارک میں ہوا۔ وسطی اجلاس کی صدارت قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے کی۴۲۹۔
۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کی یادگار میں شفا خانہ نور کا اجراء ہوا۔ اور اس کے پہلے انچارج مفتی فضل الرحمن صاحب بنے۔ شفا خانہ حضرت خلیفتہ اولؓ کے مطب والے مکان میں ہی کھولا گیا۴۳۰۔
۹۔
حضرت خلیفتہ المسح ثانی کے حکم سے حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری پنجاب کی انجمنوں کی تنظیم کے لئے بھیجے گئے آپ کے ہمراہ محمد سعید صاحب سعدی اور مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری بھی تھے۴۳۱۔ یہ ۱۵/ اکتوبر ۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے۔
۱۰۔
قادیان میں ایک نیا محلہ ’’دارالرحمت‘‘ کے نام سے آباد ہونا شروع ہوا جس کے ابتدائی مکینوں میں بابو عبدالرحیم صاحب پوسٹماسٹر اور ملک غلام حسین صاحب رہتاسی بھی تھے۴۳۲۔
۱۱۔
مشہور مباحثات: مباحثہ کاٹھ گڑھ (آریوں سے۔ احمدی مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۴۳۳) مباحثہ نواں شہر۴۳۴۔ (آریوں سے) مباحثہ بھمبلہ ضلع گجرات (احمدی مناظر حضرت حافظ روشن علی صاحب۴۳۵) مباحثہ بمبئی (حضرت میر محمد اسحق صاحب نے حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ سے بھی اور پادری جوالا سنگھ کے ساتھ مباحثے کئے) مباحثہ ظفر وال (حضرت میر قاسم علی صاحب کا آریوں سے۴۳۶۔ مباحثہ کلا سوالہ۔ (شیخ محمد یوسف صاحب کا مہاشہ چرنجی لعل پریم کے ساتھ۴۳۷) مباحثہ سیکھواں (شیخ محمد یوسف صاحب کا سکھوں سے۴۳۸) ان کے علاوہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے (جو ان دنوں مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت کے طالب علم تھے) موضع پکیواں (ضلع گورداسپور) میں ایک آریہ پنڈت اور مولوی ابو تراب عبدالحق صاحب سے مباحثہ کیا۴۳۹]ind [tag۔
۱۲۔
مرزا گل محمد صاحب (ابن مرزا نظام الدین صاحب) داخل احمدیت ہوئے۴۴۰۔
‏rov.5.13
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا پانچواں سال
دوسرا باب (فصل پنجم)
خلافت ثانیہ کا پانچواں سال
(ربیع الاول ۱۳۳۶ھ تا ربیع الاول ۱۳۳۷ھ)
~ (جنوری ۱۹۱۸ء سے دسمبر ۱۹۱۸ء تک) ~[~
احمدیان کٹک پر مظالم
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خلافت کے پانچویں سال (۱۹۱۸ء) کے شروع میں کٹک (صوبہ بہار) کے احمدیوں پر ایسے ایسے ظلم و ستم توڑے گئے جن کے تصور سے بھی دل لرز جاتا ہے۔ چنانچہ اخبار ’’اہلحدیث‘‘ امرت سر جیسا معاند احمدیت اخبار بھی ان مظالم کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتا ہے۔ ’’قادیانیوں کا قافیہ ایسا تنگ کر دیا ہے کہ بیچارے مکان سے باہر تک نہیں نکل سکتے‘‘۔ مرزائیوں کی میت کا پوچھئے مت۔ شہر میں اگر کسی میت کی خبر پہنچ جاتی ہے تو تمام قبرستان میں پہرہ بیٹھ جاتا ہے۔ کسی کے ہاتھوں میں ڈنڈا ہے کسی کے ہاتھ میں چھڑی ہے۔ میت کی مٹی پلید ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ تابوت نہیں ملتی۔ بیلداروں کی طلب ہوتی ہے تو وہ ٹکا سا جواب دے دیتے ہیں۔ بانس اور لکڑی کی بالکل عنقائیت ہو جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر صورت سے ناامید ہو کر جب یہ ٹھان بیٹھتے ہیں کہ چلو چپکے سے مکان کے اندر قبر کھو کر گاڑ دیں۔ تو ہاتف غیبی افسران میونسپلٹی کو آگاہ کر دیتے ہیں وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آکر خرمن امید پر کڑکتی بجلی گرا دیتے ہیں‘‘۴۴۱۔
سفر بمبئی
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت ۱۹۱۸ء میں زیادہ مضمحل ہو گئی اور ڈاکٹروں نے بمبئی جانے کا مشورہ دیا۔ حضور ۳/ مئی ۱۹۱۸ء کو قادیان سے روانہ ہوئے۴۴۲۔ اور لاہور میں ناک و حلق کا بجلی کے ذریعہ علاج کئے جانے کے بعد بمبئی تشریف لے گئے۴۴۳۔ اور خدا کے فضل سے بمبئی میں مرض سے افاقہ ہو گیا اور حضور ۱۵/ جون ۱۹۱۸ء کو قادیان پہنچ گئے۴۴۴۔ اس سفر میں حضور کی ایک بچی امتہ العزیز صاحبہ نے (جو حضرت ام ناصر کے بطن سے تھیں) ڈیڑھ سال کی عمر میں وفات پائی اور بمبئی میں دفن ہوئیں۴۴۵۔
سفر ڈلہوزی
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ ڈلہوزی تشریف لے گئے اور ۲۲/ جون ۱۹۱۸ء سے ۱۷/ اگست ۱۹۱۸ء تک قیام فرمایا۴۴۶۔ اور ایک آزاد خیال عیسائی کی خواہش پر اس سے گفتگو فرمائی اس دن حضور کی طبیعت ناساز تھی مگر جب دوران گفتگو میں اس نے سیدنا نبی کریم~صل۱~ کی نیت پر حملہ کیا تو حضور نے جلالی رنگ میں ایسا مسکت جواب دیا کہ اسے بہت ہی ندامت سے خاموش ہو جانا پڑا4] f[st۴۴۷۔
’’اظہار حق اور حقیقت الامر‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے قلم سے مولوی محمد علی صاحب کے بعض وساس و اوہام کے ازالہ میں ’’اظہار حقیقت‘‘ اور ’’حقیقت الامر‘‘ کے نام سے بالترتیب جولائی ۱۹۱۸ء اور ستمبر ۱۹۱۸ء میں دو اہم رسائل شائع ہوئے۔
انفلو انزا کی عالمگیر وبا میں جماعت کی بے لوث خدمت
۱۹۱۸ء میں جنگ عظیم کا ایک نتیجہ انفلوانزا کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس وبا نے گویا ساری دنیا میں اس تباہی سے زیادہ تباہی پھیلا دی۔ جو میدان جنگ میں پھیلائی تھی۔ ہندوستان پر بھی اس مرض کا سخت حملہ ہوا۔ اگرچہ شروع میں اموات کی شرح کم تھی۔ لیکن تھوڑے ہی دنوں میں بہت بڑھ گئی اور ہر طرف ایک تہلکہ عظیم برپا ہو گیا۔ ان ایام میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت کے ماتحت جماعت احمدیہ نے شاندار خدمات انجام دیں۔ اور مذہب و ملت کی تمیز کے بغیر ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کی تیمارداری اور علاج معالجہ میں نمایاں حصہ لیا۔ احمدی ڈاکٹروں اور احمدی طبیبوں نے اپنی آنریری خدمات پیش کرکے نہ صرف قادیان میں مخلوق خدا کی خدمت کا حق ادا کیا بلکہ شہر بہ شہر اور گائوں بہ گائوں پھر کر طبی امداد بہم پہنچائی۔ اور عام رضا کاروں نے نرسنگ وغیرہ کی خدمت انجام دی اور غرباء کی امداد کے لئے جماعت کی طرف سے روپیہ اور خورد و نوش کا سامان بھی تقسیم کیا گیا ان ایام میں احمدی والنٹیر (جن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی شامل تھے) صعوبتیں اور تکلیفیں برداشت کرکے دن رات مریضوں کی خدمت میں مصروف تھے اور بعض صورتوں میں جب کام کرنے والے خود بھی بیمار ہو گئے اور نئے کام کرنے والے میسر نہیں آئے بیمار رضا کار ہی دوسرے بیماروں کی خدمت انجام دیتے رہے اور جب تک یہ رضا کار بالکل نڈھال ہو کر صاحب فراش نہ ہو گئے۔ انہوں نے اپنے آرام اور اپنے علاج پر دوسروں کے آرام اور دوسروں کے علاج کو مقدم کیا۔ یہ ایسا کام تھا کہ دوست دشمن سب نے جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمت کا اقرار کیا۔ اور تقریر و تحریر دونوں میں تسلیم کیا کہ اس موقع پر جماعت احمدیہ نے بڑی تندہی و جانفشانی سے کام کرکے بہت اچھا نمونہ قائم کر دیا ہے۴۴۸ ۔
حضرت خلیفہ ثانی کی تشویشناک علالت اور وصیت
‏]txet [tagحضرت امیر المومنین پر آخر ۱۹۱۸ء میں انفلوانزا کا اتنا شدید۴۴۹ حملہ ہوا کہ حضور نے ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۸ء کو وصیت بھی لکھ دی جس میں اپنے بعد انتخاب خلیفہ کے لئے گیارہ افراد پر مشتمل ایک کمیٹی نامزد فرما دی۔ اس اہم وصیت کا متن درج ذیل کیا جاتا ہے۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
’’میں مرزا محمود احمد ولد حضرت مسیح موعودؑ خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر ایسی حالت میں کہ دنیا اپنی سب خوبصورتیوں سمیت میرے سامنے سے ہٹ گئی ہے بقائمی ہوش و حواس رو بروان پانچ گواہوں کے جن کے نام اس تحریر کے آخر میں ہیں اور جن میں سے ایک خود اس تحریر کا کاتب ہے۴۵۰۔ جماعت احمدیہ کی بہتری اور اس کی بہبودی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ وصیت کرتا ہوں کہ اگر میں اس کاغذ کی تحریر کو اپنی حین حیات میں منسوخ نہ کروں۔ تو میری وفات کی صورت میں وہ لوگ جن کے نام میں اس جگہ تحریر کرتا ہوں ایک جگہ پر جمع ہوں جن کے صدر اس وقت نواب محمد علی خاں صاحب ہوں گے اور اگر کسی وجہ سے وہ شامل نہ ہو سکیں (گو اگر جدا مکان میں ہو تو میرا حکم ہے کہ وہ اس میں شامل ہوں) تو پھر یہ جمع ہونے والے لوگ آپس کے مشورے سے کسی شخص کو صدر مقرر کریں پہلے صدر جلسہ سب کے رو برو باواز بلند کلمہ شہادت پڑھ کر خدا کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرے کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ اس معاملہ میں رائے دے گا۔ اور کسی قسم کی نفسانیت کو اس میں دخل نہ دے گا۔ پھر وہ ہر ایک نامزد شدہ سے اس قسم کی قسم لے اور سب لوگ صدر جلسہ سمیت اس بات پر حلف اٹھائیں کہ وہ اس معاملہ کو کسی پر ظاہر نہ کریں گے۔ حتیٰ کہ وہ شرائط پوری ہو جائیں جو میں نے اس تحریر میں لکھی ہیں اس قسم کے بعد یہ سب لوگ فرداً فرداً اس بات کا مشورہ دیں کہ جماعت میں سے کس شخص کے ہاتھ پر بیعت کی جاوے۔ تاکہ وہ جماعت کے لئے خلیفہ اور امیر المومنین ہو صدر جلسہ اس بات کی کوشش کرے کہ سب ممبروں کی رائے ایک ہو۔ اگر یہ صورت نہ ہو سکے تو سب لوگ جن کے نام اس کاغذ پر لکھے جاویں گے رات کو نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کریں کہ خدا یا تو ہم پر حق کھول دے۔ دوسرے دن پھر جمع ہوں اور پھر حلف اٹھائیں اور پھر اسی طرح رائے دیں۔ اگر آج کے دن بھی وہ لوگ اتفاق نہ کر سکیں تو ۵/ ۳ رائیں جس شخص کے حق میں متفق ہوں۔ اس کی خلافت کا اعلان کیا جاوے لیکن اعلان سے پہلے یہ ضروری ہو گا کہ حاضر الوقت احباب سے نواب صاحب یا ان کی جگہ جو صدر ہو اس مضمون کی بیعت لیں۔ کہ وہ سب کے سب ان لوگوں کے فیصلہ کو بصدق دل منظور کریں گے اور اس بیعت میں وہ لوگ بھی شامل ہوں جن کے نام اس کاغذ پر لکھے جائیں گے اس کے بعد اس شخص کی خلافت کا صدر اعلان کرے جس پر ان ممبروں کا حسب قواعد مذکورہ بالااتفاق ہو۔ بشرطیکہ وہ شخص ان ممبروں میں سے جو صدر جلسہ ہو اس کے ہاتھ پر اس امر کی بیعت کر ے۔ (جو بیعت کہ میری ہی سمجھی جائے گی اور اس شخص کا ہاتھ میرا ہاتھ ہو گا) کہ میں خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کرتا ہوں کہ حضرت صاحب کی بتائی ہوئی تعلیم اسلام پر میں یقین رکھوں گا اور عمل کروں گا اور دانستہ اس سے ذرا بھی ادھر ادھر نہ ہوں گا۔ بلکہ پوری کوشش اس کے قیام کی کروں گا روحانی امور سب سے زیادہ میرے مدنظر رہیں گے اور میں خود بھی اپنی ساری توجہ اسی طرف پھیروں گا اور باقی سب کی توجہ بھی اسی طرف پھیرا کروں گا۔ اور سلسلہ کے متعلق تمام کاموں میں نفسانیت کا دخل نہیں ہونے دوں گا اور جماعت کے متعلق جو پہلے دو خلفاء کی سنت ہے اس کو ہمیشہ مدنظر رکھوں گا اس کے بعد وہ سب لوگوں سے بیعت لے اور میں ساتھ ہی اس شخص کو وصیت کرتا ہوں۔ کہ حضرت صاحب کے پرانے دوستوں سے نیک سلوک کرے۔ نیوں سے شفقت کرے امہات المومنین خدا کے حضور میں خاص رتبہ رکھتی ہیں۔ پس حضرت ام المومنین کے احساسات کا اگر اس کے فرائض کے رستہ میں روک نہ ہوں احترام کرے۔ میری اپنی بیبیوں اور بچوں کے متعلق اس شخص کو یہ وصیت ہے کہ وہ قرضہ حسنہ کے طور پر ان کے خرچ کا انتظام کرے جو میری نرینہ اولاد انشاء اللہ تعالیٰ ادا کرے گی۔ بصورت عدم ادائیگی میری جائیداد اس کی کفیل ہو ان کو خرچ مناسب دیا جائے عورتوں کو اس وقت تک خرچ دیا جائے جب تک وہ اپنی شادی کر لیں بچوں کو اس وقت تک جبکہ وہ اپنے کام کے قابل ہو جائیں۔ اور بچوں کو دینوی اور دنیاوی تعلیم ایسے رنگ میں دلائی جاوے کہ وہ آزاد پیشہ ہو کر خدمت دین کرسکیں۔ جہاں تک ہو سکے لڑکوں کو حفظ قرآن کرایا جاوے۔ باقی حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کی وصیتیں میں پھر اس شخص کو اور جماعت کو یاد دلاتا ہوں۔ جو کام حضرت مسیح موعودؑ نے جاری کئے ہیں کسی صورت میں ان کو بند نہ کیا جاوے ہاں ان کی صورتوں میں کچھ تغیر ہو تو ضرورتوں کے مطابق خلیفہ کو اختیار ہے اس قسم کا انتظام آئندہ انتخاب خلفاء کے لئے بھی وہ شخص کر دے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کا حافظ حامی اور ناصر ہو اس شخص کو چاہئے کہ اگر وہ دین کی ظاہری تعلیم سے واقف نہیں تو اس کو حاصل کرے دعائوں پر بہت زور دے ہر بات کرتے وقت پہلے سوچ لے کہ آخر انجام کیا ہو گا؟ کسی کا غصہ دل میں نہ رکھے خواہ کسی سے کس قدر ہی اس کو ناراضگی ہو۔ اس کی خدمات کو کبھی نہ بھلائے۔ ان لوگوں کے اسماء جن کو میں خلیفہ کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے مقرر کرتا ہوں۔ یہ ہیں۔
(۱) نواب محمد علی خان صاحب (۲) ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب (۳) مولوی شیر علی صاحب (۴) مولوی سید سرور شاہ صاحب (۵) قاضی سید امیر حسین صاحب (۶) چوہدری فتح محمد صاحب سیال (۷) حافظ روشن علی صاحب (۸) سید حامد شاہ صاحب (۹) میاں چراغ دین صاحب (۱۰) ذوالفقار علی خاں صاحب۔
اگر بیرونی لوگ شامل نہ ہو سکیں تو پھر یہیں کے لوگ فیصلہ کریں- خلیفہ وہی شخص ہو سکتا ہے جو قادیان میں رہے جو خود نمازیں پڑھے یہ ضروری ہدایت یاد رکھی جائے کہ یہ لوگ اس بات کا اختیار رکھیں گے کہ اپنے میں سے کسی شخص کو انتخاب کریں یا کسی ایسے شخص کو جس کا نام اس فہرست میں شامل نہیں ایک نام اس میں اور زیادہ کر دیا جاوے۔ میاں بشیر احمد صاحب بھی اس میں شامل ہیں۔ والسلام۔
اگر صدر جلسہ خود خلیفہ تجویز ہو تو جو الفاظ خلیفہ کی بیعت کے لئے رکھے گئے ہیں ان کا وہ خود حلفیہ طور پر مجلس میں اقرار کرے۔ خدا کے فضلوںکا انکار کوئی نہیں کر سکتا۔ خلیفہ خدا بناتا ہے۔ پس اس شخص کو جس کے لئے لوگ متفق ہوں خلافت سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ ہاں مشورہ دینے والوں کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ ایسے شخص کو منتخب کریں کہ وہ قادیان کا ہی ہو کر رہ سکے۔ اور جماعت کرا سکتا ہو۔ والسلام و اخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین (دستخط) خاکسار مرزا محمود احمد دستخط خاکسار شیر علی عفی عنہ بقلم خود کاتب تحریر ہذا۔ ۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۸ء۔ دستخط فتح محمد سیال بقلم خود۔ دستخط خاکسار مرزا بشیر احمد بقلم خود ۱۸/۱۰ ۱۹۔ دستخط محمد سرور شاہ بقلم خود ۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۸ء۔ دستخط خلیفہ رشید الدین ایل۔ ایم۔ ایس بقلم خود ۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۸ء۔ (نوٹ) یہ کاغذ مولوی شیر علی صاحب کی تحویل میں رکھا جاوے اور اس کی نقل فوراً شائع کر دی جاوے۔ (دستخط) مرزا محمود احمد‘‘۔
حضور کے ارشاد کی تعمیل میں دوسرے ہی روز یہ وصیت دفتر ترقی اسلام کے میگزین پریس قادیان سے شائع کر دی گئی۴۵۱
فتح کا جشن مسلمانان ہند اور جماعت احمدیہ
جرمنی نے ۱۱/ نومبر ۱۹۱۸ء کو معاہدہ صلح پر دستخط کئے اور دنیا نے جنگ کی تباہ کاریوں سے نجات پانے پر اطمینان کا سانس لیا ۱۲/ نومبر ۱۹۱۸ء کو ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک خوشی منائی گئی۔ چنانچہ شیخ عبدالقادر صاحب بی۔ اے (ایڈیٹر ’’مخزن)‘‘ نے لکھا۔ ’’ماہ نومبر کی بارھویں تاریخ جو خوشیاں سارے ملک میں منائی گئی ہیں وہ مدتوں تک یاد رہیں گی۔ اور ایک دن کی خوشی نے لڑائی کے زمانے کی بہت سی کلفتوں کو دھو ڈالا ۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا نے برطانیہ اور اس کے حلیف دول کو بڑی شاندار کامیابی دی ہے ۔۔۔۔۔۔ ظلم پر عدل کی فتح ہے خود مختاری پر جمہوریت کی فتح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا کی تاریخ ایک نیا ورق الٹتی ہے۔ خدا کرے کہ امن و آزادی کا ایک دور جدید دنیا بھر میں اس فتح سے شروع ہو۴۵۲۔ ۲۷/ نومبر ۱۹۱۸ء کو ملک بھر میں جشن فتح منایا گیا۔ اس تقریب پر مسلمان شعراء نے دل کھول کر نظمیں کہیں مثلاً میرا غلام بھیک بی۔ اے نیرنگ (صدر انجمن دعوت و تبلیغ اسلام انبالہ) نے لکھا۔
دکھایا اوج طالع نے نگاہوں کو عجب منظر
جسے دیکھو خوشی کے جوش میں آپے سے ہے باہر
مبارکباد کا اک شور ہے مشرق سے مغرب تک
ترانوں سے طرب کے گونجتا ہے گنبدا خضر
ملی برطانیہ کو فتح کامل ایسے دشمن پر
تصور میں نہیں آتا ہے دشمن جس سے قاتل تر
شہنشہ جارج کو آخر خدا نے فتح کامل دی
کہ خود فتح و ظفر کو ناز ہے اس شہ کی نسبت پر۴۵۳
ایک اور مسلمان شاعر خان احمد حسین خاں (مدیر ’’شباب اردو)‘‘ نے لکھا۔ ~}~
یہ فتح شاندار مبارک ہو شہریار
تم کو نصیب خضر کی ہو عمر تاجدار
یہ تیرا راج راحت اہل قلوب ہو
اور اس پہ آفتاب نہ ہر گز غروب ہو۴۵۴
دوسرے مسلمانوں کی طرح جماعت احمدیہ نے بھی اس جشن میں حصہ لیا۔ کھیلوں کے مقابلے ہوئے غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلایا گیا۔ چراغاں کیا گیا۴۵۵۔ اور اس تمام تر خوشی کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ’’مغرور اور متکبر سلطنت جرمنی جو آج سے چند سال پیشتر تمام دنیا کو اپنی ظلم و استبداد کی حکومت کے ماتحت لانے کے خواب دیکھ رہی تھی اس پر برطانیہ اور اس کی اتحادی طاقتوں نے کامل غلبہ اور فتح اور اقتدار حاصل کرلیا۴۵۶۔
مسلمان بچوں کے لئے پانچ ہزار روپیہ
حضور نے پانچ ہزار روپیہ جنگ عظیم میں کام آنے والے مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم کے فنڈ میں عطا فرمایا۴۵۷۔
متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاں (حضرت ام ناصر کے بطن سے) صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور (حضرت سیدہ امتہ الحی کے بطن سے) صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ کی ولادت ہوئی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب پیدا ہوئے۔
۲۔ صدر انجمن احمدیہ نے اپنے کارکنوں کے لئے پراویڈنٹ فنڈ کا سسٹم جاری کیا۴۵۸
۳۔ ۱۹۱۸ء کا سالانہ جلسہ ملتوی کر دیا گیا۔
۴۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ۱۹۱۴ء میں ولایت سے واپسی کے بعد سیالکوٹ میں وکالت شروع کی تھی مگر اپریل ۱۹۱۸ء کے قریب آپ لاہور میں قیام پذیر ہو گئے۔ اور امارت لاہور کی نازک ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کر دی گئی۔ فرائض امارت کے علاوہ آپ صدر انجمن احمدیہ کے مشیر قانونی بھی تھے۴۵۹۔ اور جماعتی مقدمات میں بھی اکثر جایا کرتے تھے۔
۵۔ اس سال (۱۹۱۸ء میں) حضرت میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی۴۶۰ نے اور حضرت سید محمد علی شاہ صاحب نے انتقال فرمایا۴۶۱۔
۶۔ ۱۹۱۸ء میں غیر احمدیوں کے دائر کردہ دو اہم مقدمات خارج ہوئے۔ (۱) ایک مقدمہ مولوی قاضی فضل احمد لدھیانوی نے شیخ محمد شفیع صاحب سیکرٹری انجمن لدھیانہ کے خلاف ایک اشتہار کی بناء پر دائر کر رکھا تھا جو خارج ہو گیا۴۶۲۔ (۲) کٹک کے احمدیوں پر مسجد سے ممانعت کے تعلق میں ایک فوجداری مقدمہ تھا جو عدالت نے خارج کر دیا۴۶۳۔
۷۔ عہد خلافت ثانیہ کی پہلی سالانہ رپورٹ (صدر انجمن احمدیہ) پانچ سو کی تعداد میں شائع ہوئی۴۶۴۔
۸۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہارات کا مجموعہ ’’تبلیغ رسالت‘‘ کے نام سے حضرت میر قاسم علی صاحب نے شائع کرنا شروع کیا۔
۹۔ اس سال کے مشہور مباحثات: مباحثہ ہوشیار پور۴۶۵ (مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوری اور مولوی ثناء اللہ کے درمیان) مباحثہ فتح گڑھ چوڑیاں۴۶۶۔ (شیخ محمد یوسف صاحب کا آریوں سے) مباحثہ گوجرانوالہ۴۶۷ (مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کا عیسائیوں سے) مباحثہ شملہ۴۶۸ (مولوی عمر دین صاحب شملوی اور مولوی عبدالحق صاحب غیر مبائع) مباحثہ گجرات۴۶۹۔ (حضرت حافظ روشن علی صاحب کا آریہ پنڈت پور نند سے) مباحثہ ماچھیواڑہ۴۷۰ind] gat[ ضلع لدھیانہ (حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی کا دہلوی علماء سے) مباحثہ کپورتھلہ۴۷۱۔ (شیخ عبدالخالق صاحب نو مسلم اور پادری عبدالحق صاحب کے درمیان)
۱۰۔ علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات ’’میرا عقیدہ دربار نبوت مسیح موعودؑ‘‘ (مولفہ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل ہلال پوری) ’’حق الیقین‘‘ (حضرت مولوی حکیم عبیداللہ صاحب بسمل)
۱۱۔ اس سال سیٹھ محمد صدیق صاحب بانی۴۷۲ (کلکتہ) احمدیت میں داخل ہوئے جنہوں نے آگے چل کر حضرت سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کی طرح سلسلہ کی ہر اہم تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور قربانیوں میں ایک شاندار مثال قائم کی۔ خصوصاً تقسیم ملک کے بعد قادیان۔ درویشان قادیان اور احمدیت کے لئے ان کی مالی خدمات کا سلسلہ بہت وسیع اور قابل رشک ہے۔
‏rov.5.14
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چھٹا سال
دوسرا باب (فصل ششم)
خلافت ثانیہ کا چھٹا سال
(ربیع الاول ۱۳۳۷ھ تا ربیع الاول ۱۳۳۸ھ)
(جنوری ۱۹۱۹ء سے دسمبر ۱۹۱۹ء تک)
جماعت کے مرکزی نظم و نسق میں اصلاح اور نظارتوں کا قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۱۹ء میں اس وقت کے نظام سلسلہ احمدیہ کی مناسب اصلاح و ترمیم فرما کر اسے نہایت مفید بنا دیا سلسلہ احمدیہ کا پہلا مرکزی نظام (خلافت کی نگرانی میں) صدر انجمن احمدیہ پر مشتمل تھا۔ جو اپنی تفصیل کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا تجویز فرمودہ نظام نہیں بلکہ خود انجمن کا قائم کردہ نظام تھا۔ اس نظام میں مختلف صیغے ایک ہی سیکرٹری کے ماتحت اس طرح جمع تھے کہ ان صیغوں کے افسروں کو کوئی ذمہ دارانہ پوزیشن حاصل نہیں ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ صدر انجمن احمدیہ کے مشوروں میں بھی ان افسروں کی آواز کا دخل نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے جملہ انتظامی فیصلہ جات خالصت¶ہ ایسے ممبروں کی رائے سے تصفیہ پاتے تھے۔ جن کے ہاتھوں میںکسی انتظامی صیغہ کی باگ ڈور نہیں تھی۔ پھر مجلس کے قواعد کی بنیاد ایسی طرز پر رکھی گئی تھی کہ جماعت کی نمائندگی کو اس میں کوئی دخل نہ تھا بحالیکہ حکومت کی سب سے خطرناک صورت یہی سمجھی گئی ہے کہ اول تو چند آدمی تمام لوگوں کے نمائندے قرار دے دیئے جائیں مگر دراصل وہ نمائندے نہ ہوں۔ دوسرے انہیں یہ اختیار دے دیا جائے کہ خود ہی اپنے قائم مقام تجویز کر دیا کریں۴۷۳۔ حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کی نظر اس امر تک پہنچ تو شروع میں ہی گئی تھی۔ مگر اس خیال سے کہ کسی اور قسم کے نقصانات پیدا نہ ہو جائیں قائم شدہ نظام کو یک دفعہ بدل دینا پسند نہیں فرمایا۔ بلکہ حضور نے کافی غور وفکر اور مقامی وبیرونی اہل الرائے احباب کے مشورہ کے بعد یکم جنوری ۱۹۱۹ء کو ایک متوازی نظام جاری فرمایا۔ جس میں ہر شخص خلیفہ وقت کی براہ راست نگرانی و ہدایات کے تحت ایک مستقل صیغہ کا انچارج اور ذمہ دار تھا اور پھر یہ سب انچارج باہم مل کر ایک انتظامی انجمن بناتے تھے۔ ان افسروں کا نام حضور نے ناظر تجویز فرمایا۔ اور ان کی انجمن کا نام محکمہ نظارت رکھا۴۷۴۔ اور مختلف ناظروں کے اوپر ایک صدر ناظر مقرر فرمایا جس کا نام ناظر اعلیٰ رکھا گیا۔ چنانچہ حضور نے ایک فرمان مبارک کے ذریعہ سے اعلان فرمایا کہ۔
’’تمام احباب جماعت احمدیہ کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ ضروریات سلسلہ کے پورا کرنے کے لئے قادیان اور بیرونجات کے احباب سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے یہ انتظام کیا ہے کہ سلسلہ کے مختلف کاموں کے سرانجام دینے کے لئے چند ایسے افسران مقرر کئے جائیں جن کا فرض ہو کہ وہ حسب موقع اپنے متعلقہ کاموں کو پورا کرتے رہیں۔ اور جماعت کی تمام ضروریات کے پورا کرنے میں کوشاں رہیں۔ فی الحال میں نے اس غرض کے لئے ایک ناظر اعلیٰ ایک ناظر تالیف و اشاعت ایک ناظر تعلیم و تربیت ایک ناظر امور عامہ اور ایک ناظر بیت المال مقرر کیا اور ان عہدوں پر سردست ان احباب کو مقرر کیا جاتا ہے‘ناظر اعلیٰ مکرمی مولوی شیر علی صاحب۔ ناظر تالیف و اشاعت مکرمی مولوی شیر علی صاحب۔ ناظر تعلیم و تربیت مکرمی سید سرور شاہ صاحب۔ ناظر امور عامہ عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب۔ ناظر بیت المال مکرمی ماسٹر عبدالمغنی صاحب۔ ان کے علاوہ جماعت کی ضروریات افتاء اور قضاء کو مدنظر رکھ کر افتاء کے لئے مولوی سید سرور شاہ صاحب مکرمی مولوی محمد اسمعیل صاحب اور مکرمی حافظ روشن علی صاحب اور قضا کے لئے مکرمی قاضی امیر حسین صاحب مکرمی مولوی فضل دین صاحب اور مکرمی میر محمد اسحاق صاحب کو مقرر کیا ہے۔ آئندہ جو تغیرات ہوں گے ان سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ احباب کو اطلاع دی جاتی رہے گی میں امید کرتا ہوں کہ احباب ان لوگوں کے کام میں پوری اعانت کریں گے اور سلسلہ کی کسی خدمت سے دریغ نہ کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کی تحریرات کو میری ہی تحریرات سمجھیں گے‘‘۴۷۵۔
اس جداگانہ نظام نے کئی سال تک علیحدہ صورت میں کام کیا اور بالاخر اکتوبر ۱۹۲۵ء میں صدر انجمن احمدیہ اور اس کے جدید نظام کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا۴۷۶ جس میں صدر انجمن احمدیہ کا نظام اور اس کی اصولی صورت تو بدستور قائم رہی مگر صیغوں کی تقسیم اور ناظروں کی ذمہ دارانہ پوزیشن بھی جدید نظام عمل کے مطابق قائم ہو گئی اور جماعت کو صحیح معنوں میں موثر نمائندگی بھی میسر آگئی۔ اور قواعد اس رنگ میں ڈھال دیئے گئے کہ مجلس معتمدین کا براہ راست خلیفہ وقت سے تعلق و رابطہ ہو گیا۔ اور اسے خلیفہ وقت کو اطلاع اور مجلس شوریٰ کے غور کے بغیر کوئی بجٹ پاس یا تبدیل کرنے کا اختیار نہ رہا۴۷۷۔
حضرت خلیفہ ثانی نے اس جدید نظام عمل کے مطابق مندرجہ ذیل نظارتیں قائم فرمائیں۔ (۱) نظارت علیا۔ (حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحبؓ) (۲) دعوت و تبلیغ۴۷۸ (حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال) (۳) تعلیم و تربیت۴۷۹ (حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ) (۴) بیت المال (حضرت مولوی عبدالمغنی خان صاحبؓ) (۵) امور عامہ (حضرت خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحبؓ) (۶) امور خارجہ (حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ) (۷) ضیافت (حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) (۸) بہشتی مقبرہ (حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحبؓ)
حضور نے ان ناظروں کے علاوہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحبؓ اور حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ کو مجلس معتمدین کا ممبر نامزد فرمایا۴۸۰۔ اور گو ناظروں اور مجلس معتمدین کے ممبروں کی تبدیلی حسب ضرورت ہمیشہ ہوتی رہی ہے۔ مگر اب تک یہی مخلوط نظام سلسلہ میں رانج ہے اور بفضلہ تعالیٰ روز افزوں ترقی پر ہے۔
’’اسلام اور تعلقات بین الاقوام‘‘
حضرت خلیفہ ثانی ۱۲/ فروری ۱۹۱۹ء کو لاہور تشریف لے گئے۴۸۱۔ اور ۲۷/ فروری ۱۹۱۹ء کو دارالامان رونق افروز ہوئے۴۸۲۔ یہ سفر بغرض علاج کیا گیا تھا۔ مگر حضور نے اس کے دوران میں دو معرکتہ الاراء تقریریں بھی فرمائیں۔ پہلی تقریر ۲۳/ فروری کو بریڈ لا ہال میں ’’اسلام اور تعلقات بین الاقوام‘‘ کے موضوع پر۴۸۳۔ اس جلسہ کے صدر جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب تھے ملک کے مختلف اخبارات ’’روزانہ قومی رپورٹ‘‘ (مدراس) ’’روزانہ اخوت‘‘ (لکھنئو) روزانہ ’’ہمدم‘‘ (لکھنئو) ’’وکیل‘‘ (امرتسر) نے مختصر اور ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ (لاہور) نے اس کی مفصل خبر شائع کی۴۸۴۔
’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘
حضور نے دوسری تقریر مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کے زیر اہتمام ۲۶/ فروری ۱۹۱۹ء کو حبیبیہ ہال میں فرمائی۔ اس تقریر کا عنوان تھا ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘۔ اس جلسہ کے صدر مورخ اسلام جناب سید عبدالقادر صاحب ایم۔ اے تھے۔ سید صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا۔ ’’آج کے لیکچرار اس عزت اس شہرت اور اس پائے کے انسان ہیں کہ شاید ہی کوئی صاحب ناواقف ہوں۔ آپ اس عظیم الشان اور برگزیدہ انسان کے خلف ہیں جنہوں نے تمام مذہبی دنیا اور بالخصوص عیسائی عالم میں تہلکہ مچا دیاتھا۴۸۵۔
افتتاحی تقریر کے بعد حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوران خلافت میں عبداللہ ابن سبا اور اس کے باغی اور مفسد ساتھیوں کی سازشوں اور فتنہ انگیزیوں پر اتنی تفصیلی روشنی ڈالی اور تاریخ اسلام کی گمشدہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کڑیوں کو اس طرح منکشف و مربوط فرما کر سامنے رکھ دیا کہ بڑے بڑے صاحبان علم و فہم بھی حیران رہ گئے۔ خاتمہ تقریر پر صدر مجلس جناب سید عبدالقادر صاحب ایم۔ اے نے فرمایا۔ ’’حضرات! میں نے بھی کچھ تاریخی اوراق کی ورق گردانی کی ہے اور آج شام کو جب میں اس ہال میں آیا تو مجھے خیال تھا کہ اسلامی تاریخ کا بہت سا حصہ مجھے بھی معلوم ہے۔ اور اس پر میں اچھی طرح رائے زنی کر سکتا ہوں لیکن اب جناب مرزا صاحب کی تقریر کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں ابھی طفل مکتب ہوں۔ اور میری علمیت کی روشنی اور جناب مرزا صاحب کی علمیت کی روشنی میں وہی نسبت ہے جو اس (میز پر رکھے ہوئے لیمپ کی طرف اشارہ کرکے) کی روشنی کو اس بجلی کے لیمپ (جو اوپر آویزاں تھا کی طرف انگلی اٹھا کر) کی روشنی سے ہے حضرات جس فصاحت اور علمیت سے جناب مرزا صاحب نے اسلامی تاریخ کے ایک نہایت مشکل باب پر روشنی ڈالی ہے وہ انہیں کا حصہ ہے‘‘۴۸۶۔
یہ اہم تقریر اگلے سال شائع ہوئی تو اس کے ابتداء میں سید عبدالقادر صاحب نے تمہیداً لکھا۔
’’فاضل باپ کے فاضل بیٹے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نام نامی اس بات کی کافی ضمانت ہے کہ یہ تقریر نہایت عالمانہ ہے مجھے بھی اسلامی تاریخ سے کچھ شذبد ہے اور میں دعویٰ سے کہہ سکتا ہوں کہ کیا مسلمان اور کیا غیر مسلمان بہت تھوڑے مورخ ہیں جو حضرت عثمان کے عہد کے اختلافات کی تہہ تک پہنچ سکے ہیں اور اس مہلک اور پہلی خانہ جنگی کی اصلی وجوہات کو سمجھنے میں کامیاب ہوئے ہیں حضرت مرزا صاحب کو نہ صرف خانہ جنگی کے اسباب سمجھنے میں کامیابی ہوئی ہے بلکہ انہوں نے نہایت واضح اور مسلسل پیرائے میں ان واقعات کو بیان فرمایا ہے جن کی وجہ سے ایوان خلافت مدت تک تزلزل میں رہا۔ میرا خیال ہے ایسا مدلل مضمون اسلامی تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے احباب کی نظر سے پہلے کبھی نہیں گزرا ہو گا‘‘۴۸۷۔
شرائط مناظرہ سے متعلق اہم اعلان
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک احمدی کے شرائط مباحثہ میں بعض خلاف شریعت شرائط بھی منظور کر لینے پر تحریر فرمایا کہ ’’قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فیصلہ خدا کا منظور ہو سکتا ہے نہ کسی اور کا۔ فروعات میں تو غیر شخص بھی فیصلہ کر سکتا ہے لیکن ایمانی اور اصولی معاملات میں کسی شخص کا فیصلہ ہرگز مانا نہیں جا سکتا۔ نہ میں ایک منٹ کے لئے کسی ایسے مباحثہ کا خیال اپنے دل میں آنے دے سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر سب کی سب جماعت احمدیہ دنیا کے ہر ایک گوشہ کی ایسے امر پر مرتد ہونے کے لئے تیار ہو (خدانخواستہ) تو میں اس کے ارتداد کو نہایت فراخدلی اور خوشی سے قبول کروں گا۔ مگر مسیح موعودؑ کی صداقت یا اسلام کی حقانیت کے متعلق زید اور بکر کی رائے کو حکم بنانے کے لئے تیار نہیں ہوں گا۔ اور ہرگز نہیں ہوں گا آپ لوگوں نے گناہ کیا ہے اور سخت گناہ کیا ہے۔ بلکہ اپنے ایمانوں پر اپنے ہاتھوں سے تبر چلایا ہے‘‘۴۸۸۔
’’عرفان الٰہی‘‘
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کا پہلے سالوں میں یہ معمول رہا تھا کہ جلسہ کے موقع پر اپنی پہلی تقریر میں تو عام نصائح فرماتے اور دوسری تقریر علمی مسئلہ پر ہوا کرتی تھی مگر دسمبر ۱۹۱۸ء کا جلسہ جو مارچ ۱۹۱۹ء میں منعقد ہوا تھا۔ اس میں پہلے دن تو حضور نے ’’عرفان الٰہی‘‘ جیسے دقیق مضمون کو بڑی شرح و بسط سے بیان فرمایا۔ اور عرفان الٰہی اور تزکیہ نفوس کے ذرائع بتاتے ہوئے نکات و معارف کا دریا بہا دیا۔ اور دوسرے دن کی تقریر میں متفرق امور پر روشنی ڈالی پہلے دن کی تقریر ’’عرفان الٰہی‘‘ کے نام سے چھپ چکی ہے۔
نیا قبرستان
احمدی بچوں اور غیر موصی احمدیوں کی تدفین کے لئے کوئی الگ قبرستان موجود نہیں تھا حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ نے جو ہمیشہ رفاہی کاموں میں دلچسپی رکھنے والے بزرگ تھے۔ اس طرف توجہ فرمائی اور اس کے لئے دور الضعفاء (ناصر آباد) سے متصل ایک قطعہ زمین کا انتظام کر دیا۴۸۹۔
(متحدہ) ہندوستان میں زبردست سیاسی ہیجان اور جماعت احمدیہ کا رویہ
(متحدہ) ہندوستان کی تاریخ میں ۱۹۱۹ء کا سال اس لحاظ سے یادگار رہے گا کہ اس میں ایسے طویل و عریض ہیجان کا آغاز ہوا جس کی نظیر اس سے پہلے گزرے ہوئے کسی سال میں نظر نہیں آتی۔ جنگ کے اختتام نے دنیا میں ایک عام بیداری پیدا کر دی تھی۔ اور چونکہ اس قسم کی بیداری کے ابتدائی مراحل میں بعض جوشیلی طبیعتیں حد اعتدال سے آگے نکل جاتی ہیں اس لئے اس کے انسداد کی غرض سے حکومت نے بعض احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیں اور ۱۹۱۹ء کی ابتداء میں ایک ’’رولٹ بل‘‘ بھی پاس کرنے کی تجویز کی۔ جس کے ذریعہ سے پریس پر خاص پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ حکومت کے اس اقدام پر ملک کے بیدار شدہ حصہ میں سخت ہیجان پیدا ہوا۔ امپریل لیجلیٹو کونسل میں جن دنوں یہ بل پیش تھا ملکی اخباروں اور سیاسی جماعتوں نے اس کے خلاف زبردست احتجاج کیا اور کونسل کے تمام ہندوستانی ممبروں نے اس کے خلاف ووٹ دیئے لیکن حکومت نے سرکاری اور نامزد عناصر کی مدد سے یہ بل پاس کرکے ’’رولٹ ایکٹ‘‘ بنا دیا۔ تمام ملک میں شدید ناراضگی کی لہر دوڑ گئی۔ مسٹر گاندھی کی تحریک پر (جسے ستیہ گرہ کا نام دیا گیا) دو دن (۳۰/ مارچ اور ۶/ اپریل ۱۹۱۹ء) ملک کے گوشے گوشے میں ہڑتال منائی گئی۔ نام کو تو یہ ’’سول نافرمانی کی پر امن تحریک‘‘ تھی مگر اس کے نتیجہ میں دہلی۔ احمد آباد اور دوسرے مقامات پر فسادات رونما ہو گئے پنجاب میں سب سے زیادہ شورش برپا ہوئی چند مقامی لیڈروں کی گرفتاری پر امرتسر میں کوئی آٹھ نو افسر قتل کر دیئے گئے۔ بنک لوٹے گئے سرکاری عمارتیں جلا دی گئیں۔ گوجرانوالہ کا ریلوے اسٹیشن نذر آتش کر دیا گیا۔ اور کئی جگہ ریل کی پٹری اکھاڑ دی گئی۔ اور تار کاٹ دیئے گئے اس پر اپریل ۱۹۱۹ء میں لاہور۔ امرتسر۔ گجرات۔ گوجرانوالہ اور لائل پور کے اضلاع میں مارشل لاء نافذ کر دیا گیا۔ یعنی صوبہ کا انتظام فوجی افسروں کو سونپ دیا گیا۔ اور فوجی عدالتیں قائم کر دی گئیں۔
مارشل لاء کے تحت ہر قسم کے جلسے اور جلوس بند کر دیئے گئے تھے۔ لیکن اہل امرتسر نے یہ قانون ٹھکرا دیا اور ۱۳/ اپریل ۱۹۱۹ء کو جلیانوالہ باغ میں ایک پبلک جلسہ کیا جس میں ہزاروں آدمیوں نے شرکت کی۔ امرتسر کے فوجی افسر جنرل ڈائر نے لوگوں کو منتشر ہونے کی کافی مہلت دیئے بغیر گولی چلا دی جس سے سینکٹروں آدمی قتل اور زخمی ہو گئے۔ اس انتہائی غیر دانشمندانہ کارروائی کے خلاف پورا ملک کوہ آتش فشاں بن گیا۔ حکومت نے ایک کمیٹی جلیانوالہ باغ کی خونی داستان سے متعلق تحقیق کے لئے مقرر کر دی جس کے نتیجہ میں حکومت کو تسلیم کرنا پڑا کہ جنرل ڈائر نے گولی چلانے میں اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے حکومت نے پنجاب کے گورنر سر مائیکل اوڈ وائر کو واپس انگلستان بلا لیا۔ اور جنرل ڈائر کو ملازمت سے برطرف کر دیا۴۹۰
چونکہ جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک ابتداء سے یہی رہا ہے کہ کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جو ملکی امن کو برباد کرنے والی ہو اس لئے حضرت خلیفہ ثانی نے اس زمانے میں اپنی جماعت کو پے در پے نصیحت فرمائی کہ وہ ہر قسم کی امن شکن تحریک اور قانون شکنی کے طریق سے کلی طور پر مجتنب رہے۴۹۱۔ چنانچہ جماعت احمدیہ نے ان خطرناک ایام میں قیام امن کے لئے ہر ممکن جدوجہد سے کام لیا۔ حتیٰ کہ حکومت کے ایک پریس کمیونک میں کھلے طور پر تسلیم کیا گیا کہ جماعت احمدیہ نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اپنے امام کی ہدایات پر عمل کیا ہے۴۹۲۔
جہاں تک فوجی حکومت کی تشدد آمیز پالیسی کا تعلق ہے حضرت خلیفہ ثانی نے اسے وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دیتے ہوئے فرمایا۔ ’’اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ رینگ کر چلنے کا حکم ایسا وحشیانہ اور ظالمانہ ہے کہ کوئی شخص بھی اسے برداشت نہیں کر سکتا۔ اور اس کے خلاف اگر ہندوستان کو غصہ پیدا ہو تو یہ کوئی تعجب کا مقام نہیں۔ اسی طرح جلیانوالہ باغ کے واقعہ میں بھی جس سختی سے کام لیا گیا ہے۔ وہ نہایت ہی قابل افسوس ہے اور جنرل ڈائر کا یہ قول کہ وہ اس لئے گولیاں چلاتے گئے تا ملک کے دوسرے حصہ پر اثر ہو اور بغاوت فرو ہو جائے۔ ان کے مجرم ثابت کرنے کے لئے کافی ہے اور کسی مزید ثبوت کی ضرورت نہیں۔ یہ بیان کہ جنرل ڈائر کا فعل اجتہادی غلطی ہے درست نہیں کیونکہ اجتہادی غلطی وہ ہوتی ہے کہ جس کا وقوع ایسے حالات میں ہو کہ اس کام کے کرنے یا نہ کرنے دونوں کے دلائل موجود ہوں لیکن اس جماعت پر گولیاں چلانا جو ہتھیار ڈال چکی ہو اور اپنے عمل سے اپنی غلطی کا اقرار کر رہی ہو خود میدان جنگ میں بھی جائز نہیں‘‘۴۹۳۔
حضور نے اس کے ساتھ ہی ہندوستانیوں کو بھی نصیحت فرمائی کہ اگر قانون شکنی کی روح کو اس طرح پیدا کیا گیا تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا اور کیا آئندہ جب ہندوستان کو حکومت خود اختیاری ملے گی تو ہم میں سے بعض کا یہ فعل اس حکومت کے انتظام میں خلل ڈالنے والا نہ ہو گا اور آئندہ نسلیں یہ نہیں سمجھیں گی کہ حکومت کے قوانین کو توڑنے میں کوئی حرج نہیں؟ یاد رکھیں وہی ملک ترقی کر سکتا ہے جس میں قانون کے احترام کا مادہ ہو۴۹۴۔
مگر افسوس مسٹر گاندھی اور ان کے ساتھیوں نے جو اس تحریک کے علمبردار تھے اس وقت اس اہم نصیحت کو لائق التفات خیال نہیں کیا۔ لیکن ملکی آزادی کے بعد وہی ہوا جو حضور نے فرمایا تھا اور برصغیر پاک و ہند کو جس رنگ میں مسلسل اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور پڑ رہا ہے اور آئے دن ایک ہی ملک کے باشندے اپنے ہم وطنوں اور اپنی ملکی حکومتوں کے خلاف قانون شکنی کے مظاہرے کرتے آرہے ہیں وہ تاریخ کا ایک کھلا ورق ہے۔ یہ واقعات جو یکے بعد دیگرے آتے چلے جا رہے ہیں۔ اتفاقی حادثابت نہیں بلکہ قانون شکنی کی اس باقاعدہ ٹریننگ کے ہولناک نتائج ہیں۔ جو یہ اصحاب غیر ملکی حکومت کے زمانے میں برابر دیتے آرہے تھے۔
علماء دیو بند کا مباہلہ سے گریز
حضرت خلیفتہ المسیح ثانی نے خواجہ حسن نظامی صاحب کو دعوت مباہلہ کے موقعہ پر یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ ’’اگر علمائے دیوبند یا علمائے فرنگی محل مباہلہ کے لئے تیار ہوں تو میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف ان کی تحریر پر ان سے مباہلہ کرنے کو تیار ہوں‘‘۴۹۵۔ اس کے بعد قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل اور خواجہ غلام نبی صاحب بلانویؓ نے علماء کو توجہ دلائی کہ حضرت خلیفتہ المسیح کی دعوت کیوں قبول نہیں کرتے اور ساتھ ہی حضور کی طرف سے شرائط مباہلہ کا بھی اعلان کر دیا۴۹۶۔ اور انتہائی کوشش کی کہ وہ اس آخری فیصلہ کی طرف رجوع کریں۴۹۷۔ علمائے دیو بند نے پوچھا کہ مباہلہ کا نتیجہ کس رنگ میں ظاہر ہو گا۔ اس طرف سے لکھا گیا کہ ’’ہمارے نزدیک مباہلہ کے نتیجہ میں سنت رسول کریم~صل۱~ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے کسی خاص قسم کے عذاب کی تعین نہیں ہوتی۔ ہاں وہ عذاب ایسا ہو گا۔ جس میں فریق مخالف کے کسی منصوبہ کا دخل نہ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب علمائے دیو بند کا فرض ہے کہ جو کچھ آثار مباہلہ سمجھتے ہیں ان کی تعین کر دیں‘‘۴۹۸۔ اس جواب پر دیوبندی علمائے کے لبوں پر مہر سکوت لگ گئی۔
تحریک خلافت کا آغاز اور حضرت خلیفہ ثانی کی بروقت رہنمائی
پہلی جنگ عظیم میں اتحادیوں نے ترکی کی شان و شوکت خاک میں ملا دی تھی۔ گو ابھی صلح کے شرائط طے نہیں ہوئے تھے مگر اس کا مستقبل صاف صاف مخدوش نظر آرہا تھا۔ جس سے مسلمانان ہند کو از حد تشویش تھی۔ چنانچہ اسی سلسلہ میں ۳۱/ ستمبر ۱۹۱۹ء کو لکھنئو میں ایک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ جس میں حکومت کے خلاف منظم طریقہ سے صدائے احتجاج بلند کرنے کی تجویز زیر غور آئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو بھی اس کانفرنس میں خاص طور پر دعوت دی گئی۔ گو حضور اپنی ناسازی طبیعت اور بعض دوسری وجوہ کی بناء پر تشریف نہ لے جا سکے۔ مگر آپ نے اپنے قلم سے مسئلہ ترکی کے بارے میں ایک مفصل مضمون کانفرنس میں بھجوایا جو ’’ٹرکی کے مستقبل اور مسلمانوں کا فرض‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں چھپ گیا۴۹۹
اس مضمون میں حضور نے اس موقعہ کو نازک قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ اسلام کی ظاہری شان و شوکت سخت خطرے میں ہے اور پورا یقین دلایا کہ ’’جماعت احمدیہ ترکوں کی سلطنت سے ہر طرح ہمدردی رکھتی ہے کیونکہ باوجود اختلاف عقیدہ رکھنے کے ان کی ترقی سے اسلام کے نام کی عظمت ہے‘‘ اور پھر اسی پر اکتفا نہ کرکے ترکی کے مستقبل کو آئندہ خطرات سے محفوظ کرنے کے لئے نہایت مدبرانہ رنگ میں ایک متوازاً قابل عمل اور ٹھوس اور موثر سکیم تجویز فرمائی۔ اس سکیم میں خاص طور پر آپ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ ترکوں کے مستقبل کے بارے میں جن طاقتوں کو فیصلہ کرنا ہے ان میں صرف برطانیہ ہی ایک ایسی طاقت ہے جو اگرچہ مسلمان نہیں کہ وہ مذہباً ترکوں کی ہمدرد ہو لیکن وہ اپنی مسلمان رعایا کے جذبات و احساسات کی وجہ سے کسی حد تک مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتی ہے جیسا کہ حکومت حجاز کا نیم سرکاری اخبار ’’قبلہ‘‘ کئی دفعہ اقرار کر چکا ہے۔ پس ہمیں برطانیہ پر اور زیادہ زور دینا چاہئے کہ ترکی کو دوسری حکومتوں کے سپرد نہ کیا جائے۵۰۰
گورنر پنجاب کی خدمت میں ایڈریس
سر ایڈورڈ میکلیگن گورنر پنجاب کی خدمت میں ان کی لاہور میں آمد پر مختلف مسلمان فرقوں کی طرف سے دسمبر ۱۹۱۹ء کو خوش آمدید کے ایڈریس پیش کئے گئے۔ حضرت خلیفہ ثانی کی زیر ہدایت اسی دن صوبہ پنجاب کے احمدیوں کی طرف سے اکاون سربر آوردہ اصحاب پر مشتمل ایک وفد گورنر پنجاب کی خدمت میں پہنچا اور ان کی طرف سے چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے خیر مقدم کا ایڈریس پیش کیا جس میں علاوہ اور امور کے یہ بھی کہا کہ ’’جناب عالی! ہم سے پہلے مسلمانوں کے دوسرے فرقوں کا ایڈریس بھی جناب کی خدمت میں پڑھا گیا ہے اور ان میں دو امور کی طرف جناب کو توجہ دلائی گئی ہے۔ ایک مسئلہ مستقبل ٹرکی اور ایک مسلمانوں کی تعلیم کا سوال ہم اس موقع پر ان دونوں سوالات کے متعلق کہنا چاہتے ہیں ہم آخر الذکر مسئلہ کے متعلق تو ان کے خیالات سے بکلی متفق ہیں لیکن اول الذکر مسئلہ کے متعلق ہمارے اور ان کے نقطہ خیال میں کچھ فرق ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم اپنے مذہبی نقطہ خیال سے اس امر کے پابند ہیں کہ اس شخص کو اپنا مذہبی پیشوا سمجھیں جو حضرت مسیح موعودؑ کا جانشین ہو اور دنیاوی لحاظ سے اسی کو اپنا سلطان و بادشاہ یقین کریں جس کی حکومت کے نیچے ہم رہتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ترکی حکومت سے ہماری ہمدردی اس بناء پر ہے کہ وہ اسلام کے نام میں ہمارے شریک ہیں۔ اور ان کی حکومت کا زوال اسلام کی ظاہری شان و شوکت کے لئے ایک صدمہ ہے‘‘۵۰۱
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں بعض جوانوں کو خاص خاص مذاہب کی ریسرچ کے لئے ارشاد فرمایا۔ مثلاً ہندو مذہب کے لئے (مہاشہ) ملک فضل حسین صاحب۔ چوہدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی کو سکھ مذہب کے لئے۔ مولوی رحمت علی صاحب (مبلغ انڈونیشیا) شیخ محمود احمد صاحب عرفانی اور عیسائی مذہب کی تحقیق کے لئیے شیخ (حکیم) فضل الرحمن صاحب مقرر ہوئے۵۰۲۔ ان حضرات میں سے مولوی رحمت علی صاحب اور شیخ فضل الرحمن صاحب اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی نے آگے چل کر بالترتیب انڈونیشیا۔ افریقہ اور مصر میں سلسلہ کی تبلیغ و اشاعت کے لئے بڑی قابل قدر خدمات سر انجام دیں اور ملک فضل حسین صاحب نے اندرون ملک میں ہندو مذہب کے رد اور اسلام کی تائید میں شاندار لٹریچر پیدا کیا۔ چوہدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی نے تحریک شدھی ملکانہ میں ہندو دھرم کے رد میں سرگرم حصہ لیا۔
’’تقدیر الٰہی‘‘
حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۱۹ء کے سالانہ جلسہ میں تین تقریریں فرمائیں جن میں ایک تقریر ’’تقدیر الٰہی‘‘ کے اہم اور نازک موضوع پر تھی۔ ’’مسئلہ تقدیر‘‘ پر ایمان کی ضرورت و حقیقت۔ تقدیر و تدبر۔ تقدیر عام اور تقدیر خاص کے پہلوئوں پر سیر حاصل روشنی ڈالی۔ اور تقدیر سے متعلق شبہات کا پوری طرح ازالہ فرمایا۔ یہ علم و معرفت سے لبریز تقریر بعد کو ’’تقدیر الٰہی‘‘ ہی کے نام سے شائع ہو گئی۵۰۳۔
۱۹۱۹ء کے متفرق مگر اھم واقعات
۱۔ حضرت خان عبداللہ خان صاحب کے مشکوئے معلیٰ میں طیبہ آمنہ بیگم صاحبہ تولد ہوئیں۵۰۴۔
۲۔ بزرگوں کی وفات: مندرجہ ذیل بزرگ صحابہ داغ مفارفت دے گئے۔ حافظ معین الدین صاحبؓ۔ حضرت شیخ حامد علی صاحبؓ۔ حضرت منشی محمد اروڑے خان صاحبؓ کپورتھلوی۔ حضرت مولوی عظیم اللہ صاحبؓ نابھہ۔
۳۔ اس سال قادیان سے دو نئے رسائل جاری ہوئے۔ (۱) ’’اتالیق‘‘۵۰۵ (بچوں کا رسالہ ایڈیٹر ماسٹر احمد حسین صاحب مرحوم فرید آبادی) (۲) ’’رفیق حیات‘‘۵۰۶ (طبی رسالہ۔ ایڈیٹر حکیم عطا محمد صاحبؓ مرحوم)
۴۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان میں احمدی یتیم بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کے لئے وسط ۱۹۱۹ء میں احمدیہ یتیم خانہ قائم کیا گیا اور اس کے افسر حضرت میر قاسم علی صاحب مقرر ہوئے۵۰۷۔
۵۔ مشہور مباحثہ: مباحثہ بمبئی۵۰۸ (مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور مہاشہ رام چندر کے درمیان) مباحثہ قادیان (حضرت حافظ روشن علی صاحب و حضرت میر محمد اسحق صاحب اور غیر مبائع میر محمد مدثر شاہ صاحب کے مابین۵۰۹) مباحثہ شموگہ میسور (مولوی حکیم خلیل احمد صاحب مونگیری اور مولوی سید عبدالکریم صاحب کے مابین۱۰مباحثہ ڈیریانوالہ ضلع سیالکوٹ۵۱۱ (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور پیر جماعت علی شاہ صاحب کے خلیفہ مولوی غلام احمد صاحب اخگر کے مابین)
۶۔ علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات: ’’براہین العقائد‘‘ (مضامین میں حضرت میر محمد اسحق صاحب۔ حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۔ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب (اکمل) ’’تنویر الابصار‘‘ (از حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل) ’’بابا نانک کا مذہب‘‘ (از شیخ محمد یوسف صاحب) ’’نعم الوکیل‘‘ ’’جماعت مبایعین کے عقائد صحیحہ‘‘ (از مولوی فضل الدین صاحب وکیل۔
‏rov.5.15
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چھٹا سال
حواشی (پہلا باب)
۱۔ الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۔ ۳ بعنوان کلمات طیبات۔
۲۔ الحکم ۲۱/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۳۔ الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۳۔ برکات خلافت طبع اول صفحہ ۶۔
۴۔ الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۶۔ حقیقتہ الرویاء صفحہ ۹۶۔ ۹۷) (از حضرت خلیفہ ثانی)
۵۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۵۔
۶۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء کالم ۲۔
۷۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء کالم ۳ و صفحہ ۶ کالم ۱۔ حضرت قاضی صاحب کو تو حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی میں حضرت خلیفہ ثانی کی خلافت کا علم دیا گیا۔
۸۔ الفضل ۳۰/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۱ کالم ۲۔ ۳۔
۹۔ الفضل ۳۰/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۱ کالم ۲۔ ۳۔][۱۰۔
الفضل۳۰/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۲۔
۱۱۔ الفضل ۳۰/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۲۔
۱۲۔ انہیں تو جنگ مقدس کے دوران میں حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفہ ثانی کے خلیفہ ہونے کے بارے میں خواب آیا تھا۔ ۔(الفضل ۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۴ کالم ۱۔ ۲۔)
۱۳۔ الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۶۔
۱۴۔ بشارات رحمانیہ حصہ اول صفحہ ۲۵۵۔
۱۵۔ آپ کے لطیف کشف کے لئے ملاحظہ ہو فاروق یکم فروری ۱۹۱۷ء صفحہ ۷۔
۱۶۔ رسالہ فرقان قادیان مئی و جون ۱۹۴۴ء صفحہ ۱۹‘۲۰۔ حکیم مرہم عیسیٰ صاحبؓ کا بیان ہے کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ کی قبر شق ہو کر حضرت امام آخر الزمانؑ اس میں سے باہر سینے تک کھڑے ہو گئے ہیں مگر شکل حضور مسیح موعود کی اس وقت بالکل حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی تھی۔ یہ خواب والدم بزرگوار نے حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ کے سامنے قادیان میں ایک مجلس میں سنائی تھی اور اس کی تعبیر بھی پوچھی تھی تو حضرت خلیفتہ المسیح اولؓ نے یہی جواب دیا تھا کہ اللہ تعالیٰ علوم ظاہری و باطنی کی جامعیت حضرت فضل عمر بشیر الدین محمود احمد صاحب کو ہی عطا فرمائے گا‘‘۔
۱۷۔ الفضل ۲۳/ مئی ۱۹۱۳ء صفحہ ۷۔ ۸ آپ کی خواب تعبیر میں حضرت خلیفہ اولؓ نے تحریر فرمایا۔ ’’خواب بہت عمدہ ہے اور تعبیر بھی صحیح ہے اور انشاء اللہ اسی طرح پوری ہو گی‘‘۔
۱۸۔ اخبار نور ۲۴/ ۱۷ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۱۹۔ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۶ صفحہ ۷۵ و مرکز احمدیت قادیان صفحہ ۳۳۱ (از محمود احمد عرفانی مرحوم)
۲۰۔ تابعین اصحاب احمد حصہ اول صفحہ ۱۹۔ آپ کو خلافت محمود کی آٹھ روز پہلے ہی کشفاًاطلاع مل گئی تھی۔
۲۱۔ منشی صاحب مرحوم کی بیٹی صادقہ بیگم صاحبہ (اہلیہ برکت علی صاحب پریذیڈنٹ راجن پور ضلع ڈیرہ غازی خاں) کا بیان ہے کہ ہم نے اپنے ابا جان سے ایک مرتبہ دریافت کیا کہ پیغامی عمائدین سے آپ کے گہرے تعلقات تھے پھر آپ نے خلافت ثانیہ کی بیعت کیسے کر لی؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے خلیفہ اولؓ کے اوائل زمانہ خلافت میں یہ رئویا ہوئی کہ ’’حضرت مسیح موعودؑ مسجد اقصیٰ میں تشریف فرما ہیں حضور کے اور بھی خدام کافی تعداد میں موجود ہیں حضورؑ نے فرمایا کہ بیعت کر لو۔ میں نے دوسرے دوستوں کے ساتھ بیعت کرنے کے بعد عرض کیا کہ حضور یہ تو ایک بچے کا ہاتھ ہے حضور نے فرمایا کہ یہ محمود ہے‘‘ ابا جان فرمایا کرتے تھے کہ میں نے حضور کے فرمان پر اس وقت سے بیعت کر لی تھی۔ جب محمود بچہ تھے پھر جب خدا نے ان کو خلیفہ بنا دیا تو میں کیسے پیغامی دوستوں کے ساتھ رہ سکتا تھا۔ (ملخص از مکتوب چوہدری برکت علی صاحب بنام مولف کتاب مورخہ ۶۴~/~ ۴~/~ ۱۱)
۲۲۔ روئداد جلسہ جوبلی صفحہ ۹۔
۲۳۔ الفضل ۱۶/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ کالم ۱۔ ۲۔
۲۴۔ الفضل یکم اگست ۱۹۱۵ء صفحہ ۷ کالم ۳۔ الفضل ۲۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ میں ان کی خواب درج ہے افسوس اپنی عمر کے آخر میں یہ غیر مبایعین میں شامل ہو گئے۔
۲۵۔ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے آرگن روح اسلام جلد ۲ نمبر ۷ صفحہ ۵۵ پر لکھا ہے کہ ۲۷/ مئی ۱۹۰۸ء کی شب کو تہجد میں دعا کر رہے تھے تو خیال آیا کہ حضرت مولوی نور الدین صاحب کے بعد کون خلیفہ ہو گا اور آواز آئی بشیر الدین محمود۔ اس خواب سے تین باتیں بالکل واضح ہیں۔ اول حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کا یہی عقیدہ تھا کہ خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا ورنہ اگر انجمن اہی اصل جانشین ہے تو اس دعا کی انہیں ضرورت ہی کیا تھی۔ دوم خدا تعالیٰ کی نگاہ میں شخصی خلافت کا سلسلہ انجمن کے باوجود جاری رہنا مقدر ہے۔ سوم دوسرے خلیفہ بشیر الدین محمود ہوں گے۔ افسوس ان واضح حقائق کے منکشف ہونے پر بھی شاہ صاحب نے انجمن والوں سے وابستگی اختیار کر لی اور وجہ یہ بتائی کہ اس کے ساتھ ہی مجھے یہ بتایا گیا تھا کہ مگر وہ آتے ہی مرتدع ہو جائے گا۔ میں کہتا ہوں یہ فقرہ خود حضرت خلیفہ ثانی کی تائید میں ہے۔ کیونکہ *** میں مرتدع کے معنے ممسوح ہونے اور نشانہ ٹھیک نہ لگنے کے ہیں۔ پہلے معنے کی رو سے بتایا گیا تھا۔ کہ حضور رضائے الٰہی کے عطر سے آتے ہی ممسوح ہوں گے۔ یعنی مصلح موعود کی صفات کے حامل ہوں گے۔ دوسرے معنیٰ کے اعتبار سے اس میں یہ خبر دی گئی تھی کہ باوجود یکہ آپ رات کے تیروں (یعنی دعائوں) سے جماعت کو متحد رکھنے کی کوشش کریں گے۔ مگر آپ کو اس میں کامیابی نہ ہو گی۔ اس کے مقابل پر شاہ صاحب نے یہ توجیہہ کی کہ عقائد میں فتور آجائے گا۔ حالانکہ آتے ہی کا لفظ بتاتا ہے۔ کہ مرتدع ہونے کی صورت قیام خلافت کے بعد ہو گی۔ مگر مولوی محمد علی صاحب اور ان کے رفقاء کا تو کہنا یہ ہے کہ حضرت میاں صاحب کے عقائد خلیفہ بننے سے پہلے ہی بگڑ چکے تھے۔ اس لئے بیعت سے کنارہ کش ہو گئے۔ پھر یہ بات عقلاً بھی قابل تسلیم نہیں کہ کوئی خلیفہ آتے ہی گمراہ ہو جائے۔
۲۶۔ الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔ ایضاً الحق دہلی ۱۹۱۴ء۔
۲۷۔ پیغام صلح ۱۰/ جون ۱۹۱۵ء صفحہ ۴۔
۲۸۔ بیان مولوی محمد عثمان صاحب امیر جماعت احمدیہ ڈیرہ غازی خاں و الفضل یکم اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۹۔ الفضل ۶/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ۱ کالم ۱۔
۳۰۔ مسٹر محمد عبداللہ کا حضرت خلیفہ اول کے نام مکتوب بدر ۲۳/ اکتوبر ۱۹۱۳ء میں شائع شدہ ہے ۔ الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۳ کالم ۳
۳۱۔ فرقان سالانہ نمبر نومبر۔ دسمبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۴۴۔ ۴۵۔
۳۲۔ بیعت کے علاوہ بھی ہر نماز کے بعد اور دوسرے وقتوں میں بھی کئی دن تک بیعتیں ہوتی رہیں۔ پہلے روز ۳۶۰ عورتوں کی بیعت ہوئی جن میں حضرت ام المومنین~رضی۱~ اور حضرت اماں جان بھی شامل تھیں۔ (الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳)
۳۳۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے اندازہ کی رو سے صرف پچاس کے قریب آدمی ہوں گے جو بیعت سے باز رہے (آئینہ صداقت صفحہ ۱۹۱) جناب مولوی محمد علی صاحب نے انحراف خلافت کی یہ عجیب توجیہہ فرمائی کہ ’’حضرت مولوی صاحب مرحوم (مراد خلیفہ اول۔ ناقل) ۔۔۔۔۔۔ وصیت کی رو سے نہیں بلکہ قوم کے اتفاق سے خلیفتہ المسیح کہلائے ۔۔۔۔۔۔۔ اب جب قوم کا اتفاق نہیں رہا تو خلافت کا خاتمہ ہو گیا‘‘۔ (الوصیت شائع کردہ مولوی محمد علی صاحب اگست ۱۹۱۴ء صفحہ ج) علاوہ ازیں پیغام صلح میں شائع ہوا۔ اب آئندہ کے واسطے اس سلسلہ خلافت کا رواج دینا ہی ایک بہت خطرناک ہے۔ (پیغام صلح ۲۹/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۴)
۳۴۔ انہی کی نسبت جناب مرزا محمد یعقوب بیگ صاحب نے ابتداء میں ہی لکھا ہی تھا۔ فی الحقیقت حضرت مولوی محمد علی صاحب سے بڑھ کر منصب صدارت و خلافت کے لئے اور کوئی موزوں کام نہ تھا۔ (سالانہ رپورٹ انجمن اشاعت اسلام لاہور حصہ اول۔ دوم صفحہ ۴) اور دعویٰ کیا کہ حضرت مولانا محمد علی صاحب کی آواز گویا کہ خدا کی آواز ہے اور اس کے رسول کی آواز ہے اور اس کے خلیفہ برحق حضرت مسیح موعودؑ کی آواز ہے۔ یہ ضرور کامیاب ہو کر رہے گا اور جماعت احمدیہ کا بہترین حصہ جو اپنے سر میں دماغ اور دماغ میں عقل اور دل میں تقویٰ اللہ اور خشیت اللہ رکھتا ہے ضرور اس مرد میدان کے ساتھ ہو جاوے گا اور آخر کار یہ شخص کامیاب ہو کر رہے گا‘‘۔ (ایضاً صفحہ ۱۲)
۳۵۔ ابتدائے خلافت میں فتنہ کو فرد کرنے کے لئے قلمی خدمات سر انجام دینے والے ممتاز بزرگ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ۔ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب~رضی۱~۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ۔ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ۔ حضرت پیر منظور محمد صاحبؓ۔ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحبؓ ہلالپوری۔ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحبؓ۔ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ۔حضرت مولوی سید محمد احسن صاحبؓ۔ حضرت میر قاسم علی صاحبؓ۔ حضرت میاں محمد سعید سعدیؓ۔ حضرت محمد حسن صاحبؓ۔ آسان دہلوی رضی اللہ عنہم اور حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل۔
۳۶۔ اس سلسلہ میں حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ۔ حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ۔ حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحبؓ۔ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحبؓ کو پشاور۔ لدھیانہ۔ سیالکوٹ اور شملہ وغیرہ مقامات کی طرف بھجوایا گیا۔ ان حضرات کے علاوہ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ۔ حضرت ماسٹر محمد دین صاحب مسٹر مبارک اسمعیل صاحب نے بھی وعظ و تلقین کے لئے سفر کئے موخر الذکر دو حضرات سیالکوٹ گئے تھے۔ (الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۷ کالم ۳ و الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ و الفضل ۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱) لاہور میں جو اس فتنے کا اصل مرکز تھا حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی بھجوائے گئے۔ (الفضل ۶/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳) اور انہوں نے مبارک منزل کے احاطہ چراغ دین میں اپنا مرکز قائم کر لیا۔ (یاد رہے کہ خلافت ثانیہ کے شروع سے ہی غیر مبائع زعماء نے ملک میں طوفانی دورے کرنے شروع کر دیئے تھے۔ (مجاہد کبیر صفحہ ۱۲۵) (ایضاً الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱)
۳۷۔ چنانچہ ان حضرات کو سرتوڑ کوشش کے بعد بالاخر اقرار کرنا پڑا سوائے معددوے چند اشخاص کے میاں صاحب کے ساتھ ساری جماعت تھی۔ (پیغام صلح ۲۳/ مارچ ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۳) اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بھی لکھا کہ میاں صاحب اگر حضرت مسیح موعودؑ کے بیٹے نہ ہوتے اور قادیان مرکز نہ ہوتا اور کوئی مبہم پیشگوئی ۔۔۔۔۔۔۔اور انصار اللہ پارٹی ان کی پشت پر نہ ہوتی تو پھر ہم دیکھ لیتے کہ میاں صاحب اپنے عقائد باطلہ کے ساتھ کس طرح کامیاب ہو جاتے‘‘ (ایضاً) بنا بنایا کام بنی بنائی جماعت بنی بنائی قومی جائیدادیں اسکول بورڈنگ روپیہ خزانہ سبھی کچھ بنا بنایا مل گیا۔ قادیان کا مرکز اور مسیح موعودؑ کا بیٹا ہونا کام بنا گیا قادیان کی گدی نہ ہوتی مسیح موعود کا بیٹا نہ ہوتے اور کہیں باہر جا کر میاں محمود احمد صاحب اپنے عقیدہ ۔۔۔۔۔۔۔ کو پھیلا کر دکھاتے اور پھر نئے سرے سے جماعت بنتی۔ اور ترقی کرتی تو کچھ بات تھی۔ (پیغام صلح ۱۵/ دسمبر ۱۹۳۴ء صفحہ ۱۹ کالم ۳) خدا کی شان ۱۹۴۷ء کی ہجرت کے بعد حضرت امیر المومنین نے ربوہ میں عظیم الشان شہر بسا کر بتا دیا کہ خلافت ثانیہ کا قیام محض خدا تعالیٰ کی ازلی مشیت کے تحت عمل میں آیا تھا نہ کہ کسی سازش یا قادیان کے بنے بنائے انتظام کے بل بوتے پر!!
۳۸۔ مثلاً پٹیالہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب۔ دوالمیال میں مولوی کرم داد صاحب لکھنو میں مرزا کبیر الدین صاحب اور سرگودھا و لائلپور کے علاقہ میں مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری نے فتنہ کے اثرات زائل کرنے میں خوب کام کیا۔
۳۹۔ اس حقیقت کے ثبوت میں صرف چند اقتباسات ملاحظہ ہوں۔ ’’ایک غیر معصوم انسان کو جو اپنی رشد کی عمر کو بھی نہیں پہنچا اپنا پیر اور رہبر بنا لیا‘‘۔ (المہدی نمبر ۲ صفحہ ۳۵) ’’اب وہ پچیس سال کے نو عمر جوان کے غلام ہیں۔ کیونکہ وہ موجودہ خلیفہ صاحبزادہ صاحب کے ساتھ کامل اطاعت کی بیعت کر چکے ہیں پس وہ ایک گونہ ایک بچے کے دائمی غلام بن گئے‘‘۔ (پیغام صلح ۱۶/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲ کالم ۲) ’’یہ ہے وہ ہٹ کا پکا اولو الہٹ جس کو غلطی سے اولوالعزم پکارا جاتا ہے‘‘۔ (رسالہ انکشاف حقیقت صفحہ ۴۹) ’’ہم بخوبی جانتے ہیں کہ حضرت صاحب کے خاندان اور ان کے بعض تعلقداروں کا گزارہ اسی قسم کا ہے کہ ان کی جائداد کی آمدنی اس کے واسطے کافی نہیں ہے اور نوکری وغیرہ تو انہوں نے نہیں کی ہے کہ باہر سے کوئی اور سبیل گزارہ کا نکال دیوے پس لاچاراً اسی آمدنی سے گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ جو سلسلہ کی طرف سے جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ ساری ضروریات اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتیں تاوقتیکہ حضرت صاحب کے مرید ان کو نذرانہ مقررہ طور پر نہ دیویں۔ پس اگر صاحبزادہ صاحب ان کفر و فسق کے فتووں سے باز آجاویں ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہم ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے گزارے کے واسطے ایک مستقل صورت قائم کرنے کے واسطے تیار ہیں‘‘۔ (ٹریکٹ احمدی قوم کی خدمت میں اپیل صفحہ ۶۔ ۷۔ از عجب خان صاحب پاڑا چنار)
اس ضمن میں پیغام صلح ۱۶/ مئی ۱۹۱۵ء صفحہ ۴ کالم ۱ کی یہ عبارت بھی ملاحظہ ہو۔ صاحبزادہ صاحب کے مریدین کو حضرت مولوی محمد علی صاحب کو خلیفتہ ¶المسیح ماننے میں کیا عذر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں تک ہم خیال کر سکتے ہیں صاحبزادہ صاحب کو فقط یہی فوقیت ہے کہ وہ جسمانی طور پر ولد مسیح موعود ہیں ورنہ حضرت مولوی صاحب ممدوح حضرت مسیح موعودؑ کے سلسلہ مبارکہ کی خدمت اس وقت سے کر رہے ہیں جب کہ صاحبزادہ صاحب کے دودھ کے دانت بھی ابھی نہ نکلے تھے‘‘۔
۴۰۔ چنانچہ جناب مولوی صدر الدین صاحب ۱۶/ اپریل ۱۹۱۴ء کو اور جناب مولوی محمد علی صاحب ۲۰/ اپریل ۱۹۱۴ء کو قادیان چھوڑ کر چلے آئے۔ (پیغام صلح ۲۱/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ و مجاہد کبیر صفحہ ۱۲۴) الفضل میں ان کے جانے پر یہ خبر شائع ہوئی۔ ’’صدر انجمن کے اجلاس میں مولوی محمد علی صاحب کو ۲/۱ ۴ ماہ کی رخصت باتنخواہ بحساب دو سو سولہ روپے ماہوار ملی ماسٹر صدر الدین صاحب کو ایک ماہ کی رخصت ملی باتنخواہ حساب ایک سو پچھتر روپیہ ماہوار اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ جب آپ پھر آنے کا ارادہ نہیں رکھتے تو رخصت باتنخواہ لینے کے کیا معنے‘‘۔ (الفضل ۲۹/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ۱ کالم ۱۔ ۲)
۴۱۔ لکھا ہے ’’ہمارے دوستوں نے ملزم کیا کہ تم نے یہ بھاری غلطی کی جو قادیان کو چھوڑ کر آئے ہم نے اس کی ہمیشہ یہی وجہ پیش کی کہ فساد سے بچنے کے لئے ہم نے قادیان کو چھوڑ دیا‘‘۔ (پیغام صلح یکم نومبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۲)
۴۲۔ جناب مولوی محمد علی صاحب نے انہی دنوں اقرار کیا تھا۔ سیکرٹری ان کا مرید محاسب ان کا مرید ناظران کا مرید خود وہ اس کے میر مجلس پندرہ ممبروں میں سے نو ان کے مرید وہ جس طرح چاہتے اس انجمن سے کام لے سکتے تھے۔ (پیغام صلح ۵/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔)
۴۳۔ آپ نے بیعت خلافت پر ایک مفصل مکتوب حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بھی لکھا تھا۔ جو الفضل ۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۴ پر طبع شدہ ہے۔
۴۴۔ اس تعلق میں پیغام صلح (۲۱/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳) کا یہ اعلان ملاحظہ ہو۔ انجمن برائے نام ایک چیز رہ گئی ہے جو پیر کے ہر ایک حکم کی تعمیل کرنے والی ہو گی ہمارے نزدیک یہ تمام کارروائیاں سلسلہ کے انتظام کو بیخ و بن سے اکھاڑنے والی ہیں اور تھوڑے دنوں میں یہ مردہ انجمن جو اب پیر کے ہاتھ میں کام کرانے کا ایک آلہ ہو گا خود بخود مر جائے گی لہذا ہم اپنے احباب کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کسی قسم کا روپیہ قادیان نہ بھیجیں۔
۴۵۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صاف طور پر الوصیت میں تحریر فرمایا تھا کہ یہ ضروری ہو گا کہ مقام اس انجمن کا ہمیشہ قادیان رہے کیونکہ خدا نے اس مقام کو برکت دی ہے۔ مگر ان لوگوں نے اس بابرکت مقام سے ابدی انقطاع کر لیا۔ اور لاہور کو مدینہ المسیح لکھنا شروع کر دیا۔ (پیغام صلح ۲۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲) پیسہ اخبار لاہور نے لکھا۔ میں کسی کی طرفدار نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ لاہور کی جماعت نے جواب اختلاف خلافت کے بعد لاہور کو کھینچ تان کر مدینہ المسیح بنایا ہے۔ اگر ان کا لاہور کے مدینہ المسیح ہونے کی نسبت پہلے سے اعتقاد تھا تو پیغام صلح بھی اب بہت عرصہ سے نکلتا ہے اس میں اس سے پہلے اس امر کو کیوں ظاہر نہ کیا گیا۔ (پیسہ اخبار بحوالہ الفضل ۲۳/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۲ کالم ۲۔ ۳۔)
۴۶۔ جناب مولوی محمد علی صاحب ابھی قادیان میں ہی تھے کہ انہوں نے صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ملازم ہونے کے باوجود اس نئی انجمن کی تشکیل میں سب سے نمایاں حصہ لیا۔ اور پیغام صلح ۲/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ پر اس کا اعلان بھی کر دیا۔
۴۷۔ صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ سے یہ حقیقت بخوبی ¶واضح ہوتی ہے کہ فروری ۱۹۱۴ء کے گوشوارہ کے مطابق انجمن کے تمام ضروری شعبے مثلاً مدرسہ‘مقبرہ بہشتی‘تعمیر اور بیت المال وغیرہ سب مقروض ہو چکے تھے۔ سید محمد حسین شاہ صاحب نے پیغام صلح (۱۶/ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۳) پر خزانہ کے خالی ہونے کا بایں الفاظ اقرار کیا۔ میاں صاحب نے چندوں کی تحریک اپنے متعلق کرکے انجمن کو ان مشکلات میں ڈالا ہوا ہے کہ اس کا خزانہ خالی ہے۔ الخ۔
۴۸۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۴۲۔ ۳۴۷ سے معمولی تصرف کے ساتھ ماخوذ (مولفہ حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ)
۴۹۔ پیغام صلح ۱۶/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ الف کالم ۱۔
۵۰۔ پیغام صلح ۲۴/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ج کالم ۱۔
۵۱۔ پیغام صلح ۲۷/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۵۲۔ مجدد کامل (از خواجہ کمال الدین صاحب) مطبوعہ دسمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۲۵۔
۵۳۔ پیغام صلح ۲۷/ جنوری ۱۹۳۱ء مولوی محمد علی صاحب کے مضمون کے چند فقرات یہ تھے۔ ’’جو چند دوستوں میں تبلیغ کے طریق کار کے متعلق اختلاف تھا۔ اسے کتاب میں لانا اور پھر بعض جگہ نامناسب الفاظ میں انجمن اور اس کے کاموں کی طرف اشارہ کرنا بہت احباب کے لئے رنج کا موجب ہوا ہے۔ (صفحہ ۶ کالم ۱)
۵۴۔ پیغام صلح ۱۲/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۱ و مجاہد کبیر صفحہ ۴۱۱۔
۵۵۔ مجاہد کبیر صفحہ ۱۳۳ (بحوالہ رسالہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب کا تتمہ از ناظر اصلاح و ارشاد ربوہ)
۵۶۔ بحوالہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب کا تتمہ۔ صفحہ ۱۵۔ ۱۷۔
۵۷۔ بحوالہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کے جواب کا تتمہ صفحہ ۱۶۔ ۱۷۔
۵۸۔ ایضاً صفحہ ۲۶۔ ۲۸ مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو مجاہد کبیر صفحہ ۳۴۶۔ ۳۴۸۔
۵۹۔ یہ الفاظ ڈاکٹر غلام محمد (احمدیہ بلڈنگس لاہور) کے ایک سرکلر سے لئے گئے ہیں جو انہوں نے اپنے دستخط سے ۲۵/ مارچ ۱۹۵۹ء کو ارسال کیا اور جس کی ایک کاپی مولف کتاب کے پاس موجود ہے۔
۶۰۔ ان حضرات میں دوسرے اکابر غیر مبایعین کے علاوہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب بھی تھے۔ جنہوں نے اپنی وصیت میں لکھا تھا کہ ’’اگر میرے مرنے کے بعد میری اولاد ذکورواناث نابالغ رہ جائیں تو ان کی تعلیم و تربیت و ترویح وغیرہ کا انتظام بطور گارڈین کے خلیفہ وقت سلسلہ عالیہ احمدیہ کی سرپرستی میں کیا جائے‘‘۔ المرقوم ۲۹/ جنوری ۱۹۰۹ء (بحوالہ فرقان نومبر ۱۹۴۲ء صفحہ ۱۲)
۶۱۔ انہی دنوں کسی نے مولوی صدر الدین صاحب سے پوچھا ’’کہ یہ کیوں بنایا گیا ہے جواب دیا۔ الوئوں کی تسلی بھی تو چاہیئے۔‘‘ (الحق مئی ۱۹۱۴ء)
۶۲۔ پیغام صلح ۵/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۶۳۔ مجدد اعظم حصہ دوم صفحہ ۱۰۷۹۔ پھر نوبت یہاں تک آپہنچی کہ یہ لوگ بہشتی مقبرہ کے لفظوں پر خفا ہونے لگے۔ (ملاحظہ ہو پیغام صلح ۸/ مئی ۱۹۲۹ء صفحہ ۵)
۶۴۔ پیغام صلح ۴/ جنوری ۱۹۳۷ء صفحہ ۸ کالم ۳۔
۶۵۔ تقریر الحاج شیخ میاں محمد صاحب مطبوعہ پیغام صلح ۶/ فروری ۱۹۵۲ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۶۶۔ پیغام صلح ۵/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۶۷۔ پیغام صلح ۱۹/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۶۸۔ بحوالہ الحق دہلی ۲۲/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۲ کالم ۱۔
پیغام صلح ۲۴/ جنوری ۱۹۴۵ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۷۰۔ اشتہار ۲۰/ فروری ۱۸۸۶ء۔
۷۱۔ پیغام صلح ۲۲/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۷۲۔ کلید کلام الامام صفحہ ۱۳۷ شائع کردہ دارالکتب اسلامیہ احمدیہ بلڈنگس لاہور۔
۷۳۔ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ۔۔۔۔۔۔ اولیاء اللہ میں سے تھے۔ (پیغام صلح ۲۸// اپریل ۱۹۴۳ء صفحہ ۳ کالم ۲)
۷۴۔ مولوی محمد علی صاحب احمدیت کے پہلے مجدد تھے۔ (پیغام صلح ۲۶/ دسمبر ۱۹۵۱ء صفحہ ۹۔ از میاں محمد صاحب) حیرت یہ ہے کہ خود مولوی محمد علی صاحب نے ۱۹۱۴ء میں مصلح موعود کے جلد آنے سے صرف اس بناء پر انکار فرمایا تھا کہ ’’اب تو سو سال کے بعد ہی کوئی مجدد آئے گا‘‘۔ (ایک نہایت ضروری اعلان صفحہ ۱۳)
۷۵۔ پیغام صلح ۱۲/ مئی ۱۹۴۰ء صفحہ ۸ کالم ۱۔
۷۶۔ پیغام صلح ۲۹/ مارچ ۱۹۱۴ء کالم ۳۔
۷۷۔ پیغام صلح ۲۹/ مارچ ۱۹۱۴ء کالم ۳۔
۷۸۔ پیغام صلح ۲۴/ مارچ ۱۹۱۴ء۔
۷۹۔ چنانچہ مرزا خدا بخش صاحب نے ۱۹۰۱ء میں اپنی کتاب (عسل مصفیٰ بار دوم) میں لکھا۔ ’’اس وقت تک چار ہی لڑکے موجود ہیں جن میں سے ایک وہ موعود بھی ہے جو اپنے وقت پر اپنے کمالات ظاہر کرے گا اور جو حضرت اقدس کا جانشین ہو گا‘‘۔ (صفحہ ۷۹۹۔ ۸۰۰ طبع اول)
۸۰۔ مجدد اعظم حصہ اول صفحہ ۱۵۹ (از ڈاکٹر بشارت احمد صاحب) اپنے اس نئے نظریہ کے باوجود کہ مصلح موعود کا زمانہ تیسری چوتھی صدی ہے ان دنوں پیغام صلح والوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی نسبت ایک خواب کی بناء پر یہ امید وابستہ کر دی۔ خداوند تعالیٰ کے دربار میں ممکن ہے کہ تین کو چار کرنے والا آخر مرزا سلطان احمد خان صاحب ہی ہوں۔ (پیغام صلح ۳/ فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۸ کالم ۳) خدا کی قدرت حضرت صاحبزادہ صاحب نے خلافت ثانیہ کی بیعت کر لی اور یہ خواب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی سچائی کا ثبوت بن گیا۔
۸۱۔ الوصیت صفحہ ۶ ب۔ شائع کردہ اشاعت اسلام۔ بار چہارم اگست ۱۹۱۴ء۔
۸۲۔ ریویو جلد ۷ نمبر ۱ صفحہ ۱۴۔
۸۳۔ پیغام صلح ۱۶/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۸۴۔ پیغام صلح ۱۷/ دسمبر ۱۹۳۸ء صفحہ ۲۸ کالم ۲۔
۸۵۔ دافع البلاء (طبع اول) صفحہ ۱۰۔
۸۶۔ الحکم ۱۸/ جولائی ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۸۷۔ بیان القرآن اردو صفحہ ۱۰۔
۸۸۔ مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ تبدیلی عقائد مولوی محمد علی صاحب (از حضرت مولانا محمد اسمعیل صاحب فاضل ہلالپوریؓ) و مولوی محمد علی اور اس کی تفسیر بیان القرآن (نوشتہ جناب قاضی محمد یوسف صاحبؓ مردان)
۸۹۔ یہی وجہ ہے کہ ۲۲/ مارچ ۱۹۱۴ء کی شوریٰ میں اہل پیغام نے یہ فیصلہ کیا کہ ’’اگر میاں محمود احمد صاحب انجمن کے فیصلوں کو قطعی قرار دیں اور پرانے احمدیوں سے دوبارہ بیعت لینا لازم تصور نہ کریں تو ان کو صدر انجمن احمدیہ کا پریذیڈنٹ اور کل جماعت کا امیر تسلیم کیا جائے۔ (مجاہد کبیر صفحہ ۱۱۶) اس ضمن میں ان حضرات کا دلی عقیدہ معلوم کرنے کے لئے ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کی یہ عبارت ملاحظہ ہو۔ خاتم النبین کے بعد نبی لانے کے مجرم جیسے کہ ہمارے قادیانی بھائی ہیں ویسے ہی غیر احمدی علماء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں کو غلطی پر سمجھتے ہیں کسی نئے یا پرانے نبی کے اس امت میں آنے کے عقیدہ کو مستلزم کفر سمجھتے ہیں (پیغام صلح ۲۲/ فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۸ کالم ۱`۲) دوسری طرف انہوں نے صاف لفظوں میں اپنا یہ فتویٰ شائع کیا۔ بے شک ختم نبوت کے منکر کو میں بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔ (پیغام صلح ۲۷/ جنوری ۱۹۴۱ء صفحہ ۲ کالم ۱) اس فتویٰ میں جناب مولوی محمد علی صاحب نے اپنی پارٹی کے سوا باقی سب کلمہ گوئوں کو بے دین کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے۔
۹۰۔ مجاہد کبیر صفحہ ۱۶۴۔
۹۱۔ پیغام صلح ۲۷/ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۳۔
۹۲۔ پیغام صلح ۷/ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۹۳۔ پیغام صلح ۷/ فروری ۱۹۳۷ء صفحہ ۳ کالم ۳۔
۹۴۔ رسالہ خلافت اسلامیہ بروئے قرآن و حدیث صفحہ ۵‘۱۸۔
۹۵۔ پیغام صلح ۳/ جون ۱۹۳۷ء صفحہ ۶ کالم ۲۔
۹۶۔ مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے مولوی دوست محمد صاحب (غیر مبائع) کا ایک خط (محررہ ۶/ فروری ۱۹۲۷ء) حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت میں پہنچا جس میں لکھا تھا کہ آپ نے ڈسٹرکٹ بورڈ کے الیکشن میں ایک احمدی کے مقابل غیر احمدی کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے یہ حکم منسوخ کیا جائے یہ خط جو دفتر پرائیوٹ سیکرٹری میں محفوظ ہے اس حقیقت پر روشنی ڈالتا ہے کہ غیر مبائع حضرات کے نزدیک صرف رشتہ ناطہ ہی نہیں ووٹوں کے سلسلہ میں بھی احمدیت ہی کو مقدم رکھنا چاہیئے۔
۹۷۔ قادیانی مذہب بار پنجم صفحہ ۵۹ (مولفہ صلاح الدین محمد الیاس برنی)
۹۸۔ زمیندار ۱۷/ ستمبر ۱۹۴۴ء بحوالہ فرقان ستمبر و اکتوبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۲۰۔
۹۹۔ بحوالہ فرقان (قادیان) فروری ۱۹۴۶ء صفحہ ۶۔
۱۰۰۔ Mohammedanizm طبع دوم مطبوعہ ۱۹۵۰ء صفحہ ۱۸۷ (از ایچ۔ اے۔ آر۔ گب)
اسی خیال کا اظہار انہوں نے اپنی دوسری کتابISLAM( IN TRENDS )MODERN کے صفحہ ۶۱۔ ۶۲ پر بھی کیا ہے اور لکھا ہے کہ بیرونی ممالک میں تبلیغی سرگرمیوں کے باوجود وہ مشکوک ہی رہے ہیں۔
۱۰۱۔ پیغام صلح ۱۵/ جنوری ۱۹۵۸ء صفحہ ۳ کالم ۱۔
۱۰۲۔ مجاہد کبیر صفحہ ۱۱۸ (مولفہ ممتاز احمد صاحب فاروقی بی۔ ایس۔ سی۔ ای۔ ای و محمد احمد ایم۔ اے خلف مولانا محمد علی مرحوم) مطبوعہ دسمبر ۱۹۶۲ء۔
۱۰۳۔ مجاہد کبیر صفحہ ۱۱۱۔
۱۰۴۔ بحوالہ پیغام صلح ۲۲/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۴ کالم ۲۔
۱۰۵۔ بحوالہ پیغام صلح ۲۹/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ۱ کالم ۳۔
۱۰۶۔ بحوالہ الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۳۔
۱۰۷۔ بحوالہ الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۴ کالم ۳۔
۱۰۸۔ بحوالہ الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰ کالم ۲۔ ۳۔
۱۰۹۔ الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۷ کالم ۳۔ اس درس کے بعد حضور نے حضرت خلیفہ اولؓ کی وصیت کے مطابق مستورات میں بھی درس شروع فرما دیا۔ حضرت خلیفہ اولؓ سورہ نساء تک درس دے چکے تھے اس لئے حضور نے سورہ مائدہ سے درس کی ابتداء فرمائی درس قرآن کے علاوہ حضور نے ۲۷/ اپریل ۱۹۱۴ء سے بخاری شریف کا درس بھی جاری کر دیا۔ (الفضل ۲۹/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۳۔)
۱۱۰۔ ۸/ ستمبر ۱۹۲۸ء کو حضور نے درس کے سب امتحانات میں اعلیٰ نمبر حاصل کرنے والوں کو اپنے دست مبارک سے انعامات عطا فرمائے۔ انعام حاصل کرنے والے۔ حافظ عبدالسلام صاحب شملوی۔ صوفی صالح محمد صاحب قصوری۔ نذیر احمد صاحب سٹوڈنٹ بی۔ ایس۔ سی۔ چوہدری فقیر محمد صاحب کورٹ انسپکٹر اور شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگر مل) حال مربی سلسلہ احمدیہ لاہور۔
۱۱۱- الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱-
۱۱۲ ابتدائی مجالس کے نوٹوں کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو الحکم ۲۱/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۳۔۴ و ۲۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۴‘۷/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۵۔
۱۱۳- الفضل ۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ ۲۔
۱۱۴- برکات خلافت طبع اول صفحہ ۵۔
۱۱۵- برکات خلافت طبع اول صفحہ ۷۔
۱۱۶- الحق ۲۹/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۱۔
۱۱۷ سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۲۷۔
۱۱۸- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۲۶-
۱۱۹- الفضل یکم اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔
۱۲۰- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۶ء۔
۱۲۱- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۸- ۱۹۱۷ء۔
۱۲۲- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۸ء ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر ڈاک کے فرائض سرانجام دینے کے علاوہ مدرسہ احمدیہ میں بھی پڑھاتے تھے۔
۱۲۳- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۸ء۔
۱۲۴- ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۰ء۔
۱۲۵- حضرت مفتی صاحب فرماتے تھے۔ ’’جب میں حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں آپ کا پرائیوٹ سیکرٹری تھا تو میں اس امر کو مشاہدہ کرتا رہا کہ مختلف علوم و فنون کے ماہر جو باہر سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ سے گفتگو کرتے تو ہر ایک علم کا ماہر آپ کی ملاقات کے بعد اس امر کا اقرار کرتا کہ اگرچہ ہم اپنے علم کے ماہر و ایکسپرٹ ہیں مگر حضرت صاحب سے گفتگو کے بعد ہم پر یہ اثر ہوا ہے کہ اس علم میں وہ ہم سے بھی زیادہ واقف ہیں‘‘۔ (الفضل ۲۵/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۲ کالم ۱)
۱۲۶- مطبوعہ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔
۱۲۷- مطبوعہ الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۵۹ء صفحہ ۲۔ یاد رہے کہ یہ خطبہ بیماری کے دوران میں دیا گیا ورنہ زمانہ صحت میں آپ کا آخری خطبہ ۲۰/ فروری ۱۹۵۹ء کا ہے۔ (مطبوعہ الفضل ۳۰/ مئی ۱۹۵۹ء صفحہ ۲ تا ۴) ان دونوں خطبوں کے بعد حضور نے ۲۹/ مارچ ۱۹۶۰ء کو خطبہ عیدالفطر ارشاد فرمایا- جو حضو نے پہلے سے املا کروا لیا تھا۔ اس کے بعد آج تک حضور مجلس میں رونق افروز نہیں ہوئے (خطبہ عید الفطر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۵/ اپریل ۱۹۶۰ء صفحہ ۳`۴)
۱۲۸- ۱۹۴۴ء تک حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے سفروں کے خطبوں کو قلمبند کرنے کا کوئی انتظام نہیں ہوتا تھا حضور کے ہمسفر خدام میں سے جن کو خیال آتا اپنے لفظوں میں خطبات کا ملخص الفضل کو بھجوا دیتے تھے۔ لیکن فروری ۱۹۴۵ء میں جب شعبہ زود نویسی کا قیام عمل میں آیا تو مستقل طور پر سفر و حضر میں حضور کے ملفوظات لکھنے کا خاص اہتمام کیا گیا۔
۱۲۹- ولادت ۲۷/ جنوری ۱۹۰۸ء مولوی فاضل کا امتحان جولائی ۱۹۲۹ء میں پاس کیا مئی ۱۹۳۰ء میں ادارہ الفضل میں شامل ہوئے اور ۱۹۴۵ء میں شعبہ زود نویسی کے انچارج مقرر ہوئے۔
۱۳۰- رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء صفحہ ۸۷۔
۱۳۱- خطبات لکھنے والے دوسرے اصحاب۔ شیخ رحمت اللہ صاحب شاکر۔ چوہدری عبدالمجید صاحب۔ بی۔ اے۔ مولوی محمد اسمعیل صاحب دیال گڑھی۔ مولوی سید احمد علی صاحب۔ مولوی عبدالعزیز صاحب چک سکندر۔ چوہدری فیض احمد صاحب گجراتی۔ مولوی سلطان احمد صاحب پیرکوٹی۔ عبدالکریم صاحب۔
۱۳۲- الفضل ۱۹/ نومبر ۱۹۴۰ء صفحہ ۴ کالم ۴۔
۱۳۳۔ روح پرور خطاب صفحہ ۴۔ اس پہلے اشتہار کے شائع کرنے کے لئے آپ کے پاس روپے نہیں تھے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کو علم ہوا تو انہوں نے پانچ سو روپیہ کی ایک تھیلی پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ تعمیر مساجد کی رقم ہے جو میں سمجھتا ہوں کہ اسے اس مصرف میں لانا جائز ہے اس لئے یہ رقم خرچ کر لی جائے۔ چنانچہ اس رقم سے خلافت ثانیہ کا یہ پہلا اشتہار بھی شائع ہوا۔ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۱۳۷) اور بیرونی جماعتوں میں واعظ بھی بھجوائے گئے۔ (سیرت سروری صفحہ ۳۸ غیر مطبوعہ از مولوی صدر الدین صاحب فاضل)
۱۳۴- اشتہار کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے۔ صفحہ ۶۔ ۷ (مشمولہ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء)
۱۳۵- یہ پورا شعر حضرت مسیح موعودؑ کا ہے جو درثمین میں طبع شدہ موجود ہے۔ مولوی محمد علی صاحب اس شعر کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ’’اس شعر کو اپنے لئے ہی سمجھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ لعل بے بدل صداقت ہے‘‘ (ضمیمہ پیغام صلح ۲/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ الف کالم ۱۔ ۲)
۱۳۶- حضرت مسیح موعودؑ کی اصطلاح میں تمزق اعداء کے ایک معنے ان پر اتمام حجت کا ہونا بھی ہے (انوار الاسلام صفحہ ۱۵)
۱۳۷- اشتہار کون ہے جو خدا کے کلام کو روک سکے صفحہ ۱۲ (مشمولہ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۴ء نوشتہ ۲۱/ مارچ ۱۹۱۴ء)
۱۳۸- الفضل ۶/۔ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۶۔
۱۳۹- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو منصب خلافت طبع اول صفحہ ۵۱۔
۱۴۰- الفضل ۲/ جولائی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰-
۱۴۱- ریزولیوش نمبر ۱۶۰۔
۱۴۲۔ ریزولیوشن نمبر۱۶۶ اس ریزولیوشن کی بحث کے دوران مولوی محمد علی صاحب اور ان کے تینوں رفقاء (مولوی صدر الدین صاحب کے علاوہ) اجلاس سے تشریف لے گئے جس کی وجہ مجاہد کبیر میں لکھی ہے کہ ’’انہوں نے دیکھا کہ وہ امور جو ایجنڈا پر بھی نہ تھے اس مجلس میں تحکمانہ طور پر پاس ہونے لگے‘‘ (صفحہ ۱۱۹) مگر صدر انجمن احمدیہ کا ریکارڈ اس ادعاء کی تغلیط کے لئے کافی ہے۔ پھر لکھا ہے کہ مولوی نور الدین صاحب کے وقت میں پکا فیصلہ ہو چکا تھا کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کو ولایت بھجوایا جائے۔ (مجاہد کبیر صفحہ ۱۲۰) ہمارا دعویٰ ہے کہ صدر انجمن احمدیہ نے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا اگر انجمن نے کوئی ایسا پکا فیصلہ کیا ہوتا تو اسے ایجنڈا میں ضرور ہونا چاہئے تھا۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے۔
۱۴۳- ریزولیوشن نمبر ۱۷۱۔
۱۴۴- ریزولیوشن نمبر ۱۷۳-
۱۴۵- اس اجلاس کی کارروائی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اور مولوی صدر الدین صاحب (سیکرٹری) کے دستخط ہیں۔
۱۴۶- الحکم ۱۴/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۹ کالم ۳۔ نمائندگان کی فہرست کے لئے ملاحظہ ہو الحکم ۲۱/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۷`۸ و الفضل ۲۰/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔
۱۴۷- منصب خلافت صفحہ ۳۱۔
۱۴۸- منصب خلافت سرورق صفحہ ۲ (طبع اول)
۱۴۹- منصب خلافت سر ورق صفحہ ۲ و صفحہ ۵۵۔ ۵۶۔
۱۵۰- یہ ترمیم عملی اعتبار سے ہرگز کوئی نئی چیز نہیں تھی بلکہ یہ اسی اعلان کی دستوری و آئینی تعبیر تھی جو صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت خلافت پر ان الفاظ میں کیا تھا کہ ’’حضرت مولوی صاحب موصوف کا فرمان ہے ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا تھا‘‘۔ (بدر ۲/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۶ کالم ۲) اور انجمن کا ریکارڈ شاہد ہے کہ انجمن کی نگاہ میں حضرت خلیفہ اول کا فرمان قطعی اور ناطق رہا چنانچہ انجمن کو حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم کی تعمیل میں اپنے فیصلوں کی ترمیم ہی نہیں تنسیخ بھی کرنا پڑی۔ (ملاحظہ ہو ریزولیوشن نمبر ۱۲۳۱ مورخہ ۲۶/ مارچ ۱۹۱۰ء) مولوی محمد علی صاحب اور دوسرے اکابر نے ۱۹۱۳ء میں ایک اور اعلان کیا کہ ’’ساری قوم کے آپ مطاع ہیں اور سب ممبران مجلس معتمدین آپ کی بیعت میں داخل اور آپ کے فرمانبردار ہیں‘‘۔ (پیغام صلح ۴/ دسمبر ۱۹۱۳ء صفحہ ۳ کالم ۱) پس یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہے کہ اس ترمیم سے عملاً کوئی فرق نہیں پڑا ہاں اس سے ان لوگوں کی ضرور قلعی کھل گئی جنہوں نے انجمن کے اجتہاد کو حجت قرار دینے کے باوجود اس کثرت رائے سے کیا ہوا فیصلہ قبول کرنے سے بالکل انکار کر دیا حالانکہ حضرت مسیح موعودؑ سلسلہ کے ان معاملات کے بارے میں جو انجمن کے ہاتھ میں ہیں یہ تحریر فرما چکے ہیں۔ ’’میری رائے تو یہی ہے کہ جس امر پر انجمن کا فیصلہ ہو جائے کہ ایسا ہونا چاہئے اور کثرت رائے اس میں ہو جائے تو وہی امر صحیح سمجھنا چاہئے اور وہی قطعی ہونا چاہئے‘‘۔ اس پر بس نہیں حضور نے ساتھ ہی وضاحت فرمائی کہ ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ انجمن خلاف منشاء میرے ہرگز نہیں کرے گی‘‘۔ غیر مبایعین کی رائے میں یہ سب کارروائی حضرت مسیح موعودؑ کے منشاء کے خلاف تھی۔ اور انجمن کا ترمیم سے متعلق فیصلہ قابل تسلیم نہیں تھا اور اس لئے اس پر انہوں نے بہت شور بھی اٹھایا کیونکہ ان کے نزدیک صرف ان کے ہم خیال ممبروں ہی کا دوسرا نام انجمن تھا۔ وہ اسی انجمن کی مجموعی رائے کو ناطق و قطعی سمجھتے تھے۔
۱۵۱- منصب خلافت طبع اول صفحہ ۵۵۔ ۵۶۔
۱۵۲۔ جن مقامات کی جماعتوں کے نمائندے اس اجلاس میں موجود تھے ان کے نام یہ ہیں۔ لاہور۔ پاکپٹن۔ کریام ضلع جالندھر۔ راہوں۔ کلکتہ۔ امرتسر۔ بھنگالہ ضلع ہوشیارپور۔ مردان ضلع پشاور۔ صوابی۔ سہارن پور۔ جموں۔ سیالکوٹ۔ گوجرانوالہ۔ ملتان۔ علی پور۔ لائل پور۔ بٹالہ۔ سارچور۔ بھڈیار۔ گوکھووال۔ تلونڈی راہ والی۔ جالندھر چھائونی۔ گوجرہ۔ ماہل پور۔ کوٹ رادھاکشن۔ کراچی۔ بھریا۔ سرگودھا۔ دوالمیال۔ کپورتھلہ۔ لودھراں۔ جوڑہ۔ سیکھواں۔ محلا نوالہ۔ اہرانہ۔ صریح۔ مانگٹ اونچے۔ گوجرانوالہ۔ ڈیرہ غازی خاں- دوجو وال (اجنالہ) گجرات۔ شاہ جہان پور۔ دہلی۔ (الحکم ۱۴/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۰)
۱۵۳- منصب خلافت سر ورق صفحہ ۲۔
۱۵۴- شکریہ اور اعلان ضروری۔ مشمولہ ضمیمہ الفضل ۲/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۸۔
۱۵۵- رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۵ء صفحہ ۳۳۔
۱۵۶- منصب خلافت صفحہ ۱۶ تا ۱۹ (طبع اول)
۱۵۷- اس لیکچر میں حضور نے غیر مبایعین کے اعتراضوں کی حقیقت کھول کھول کر بتائی کہا جاتا تھا کہ عمر چھوٹی ہے۔ حضور نے اس کے جواب میں حضرت ابن ابی لیلیٰؓ کا واقعہ بیان فرمایا جنہیں حضرت عمرؓ نے انیس سال کی عمر میں کوفہ کا گورنر بنا کر بھیجا تھا۔ کوفہ والوں نے از راہ مذاق ان سے عمر پوچھی تو انہوں نے جواب دیا۔ آنحضرت~صل۱~ نے اسامہؓ کو جس عمر میں کبار صحابہ کا افسر بنا کر محاذ شام پر بھیجا تھا میں اس سے دو سال بڑا ہوں۔ حضور نے فرمایا۔ ’’میں بھی اس رنگ میں جواب دیتا ہوں کہ میری عمر تو ابن ابی لیلیٰ سے بھی سات برس زیادہ ہے‘‘۔ (منصب خلافت صفحہ ۴۴۔ ۴۵)
۱۵۸- صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ میں مولوی محمد علی صاحب کی اس اطلاع کا ذکر ہمیں ملتا ہے کہ میں چھ ماہ کی رخصت پر جاتا ہوں میری غیر حاضری میں افسر اشاعت اسلام کا مناسب انتظام کی جائے۔ (روئداد اجلاس ۲۶/ اپریل ۱۹۱۴ء)
۱۵۹- آئینہ صداقت صفحہ ۱۹۸‘۱۹۹ (طبع اول) اخبار نور (۱۷/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۹ کالم ۳) نے مولوی صاحب کی خبر شائع کرتے ہوئے لکھا۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کی سلامت روی اور صلح جوئی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ آپ عین اس جھگڑے اور اس شدید جنگ میں بنفس نفیس جناب مولوی محمد علی صاحب کے ہاں تشریف لے گئے۔
۱۶۰- الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱‘۶/ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱ پر ان کا ذکر ہے۔
۱۶۱- وفات ۲/ جنوری ۱۹۶۱ء۔
۱۶۲ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۴ء سے ماخوذ۔
۱۶۳ تفصیل تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۴۹۱۔ ۴۹۴ پر گزر چکی ہے۔
۱۶۴ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۱ (از چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے) طبع اول دسمبر ۱۹۲۷ء۔
۱۶۵- لندن سے مکرم درد صاحب کی ادارت میں ایک ہفتہ وار اخبار مسلم ٹائمز کے نام سے بھی شائع ہوتا رہا۔ (الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء)
۱۶۶- الفضل ۲۸/ اپریل ۱۹۳۹ء صفحہ ۴۔ اب ان کی عمر ۷۵ برس کی ہو گی۔ جب ان کے سامنے حضور کا ذکر آتا ہے۔ تو چشم پر آب ہو جاتے ہیں۔
۱۶۷- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تواریخ مسجد فضل لندن (از حضرت میر محمد اسمعیل صاحبؓ) مطبوعہ دسمبر ۱۹۲۷ء قادیان۔
۱۶۸- آپ کی واپسی ۱۳/ ستمبر ۱۹۳۵ء کو ہوئی۔
۱۶۹- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو احمدیہ مشن لنڈن کی ایک سالانہ رپورٹ (مطبوعہ الفضل ۲۷/۲۴ مئی ۱۹۳۴ء)
۱۷۰- رسالہ نقوش آپ بیتی نمبر صفحہ ۴۔ ۵ میں خود قائداعظم کے الفاظ میں اس فیصلہ کا تذکرہ موجود ہے۔
۱۷۱- حضرت مولانا درد صاحب کی زبان سے اس اہم واقعہ کی تفصیل سنیئے فرماتے ہیں۔ ’’یہ بھی حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی کوششوں کا نتیجہ تھا کہ قائداعظم نے انگلستان سے ہندوستان واپس آکر مسلمانوں کی سیاسی قیادت سنبھالی اور اس طرح بالاخر ۱۹۴۷ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا ۔جب میں ۱۹۳۳ء میں امام مسجد لندن کے طور پر انگلستان پہنچا تو اس وقت قائداعظم انگلستان میں ہی سکونت رکھتے تھے۔ وہاں میں نے ان سے تفصیلی ملاقات کی اور انہیں ہندوستان واپس آکر سیاسی لحاظ سے مسلمانوں کی قیادت سنبھالنے پر آمادہ کیا۔ مسٹر جناح سے میری یہ ملاقات تین چار گھنٹے تک جاری رہی۔ میں نے انہیں آمادہ کر لیا کہ اگر اس آڑے وقت میں جبکہ مسلمانوں کی راہنمائی کرنے والا اور کوئی نہیں ہے انہوں نے ان کی پھنسی ہوئی کشتی کو پار لگانے کی کوشش نہ کی تو اس قسم کی علیحدگی قوم کے ساتھ بے وفائی کے مترادف ہو گی چنانچہ اس تفصیلی گفتگو کے بعد آپ مسجد احمدیہ لندن میں تشریف لائے اور وہاں باقاعدہ ایک تقریر کی جس میں ہندوستان کے مستقبل کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار فرمایا۔ اس کے بعد قائداعظم انگلستان کو خیر باد کہ کر ہندوستان واپس آئے۔ مسلم لیگ کو منظم کیا اور اس طرح چند سال کی جدوجہد کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا‘‘۔ (الفضل یکم جنوری ۱۹۵۵ء صفحہ ۸) قائداعظم کی یہ تقریر ۶/ اپریل ۱۹۳۳ء کو عید الاضحیہ کی تقریب پر ہوئی تھی اور جلسہ کے صدر سر سٹیوارٹ سنڈیمن Sandaman( Stewart )Sir تھے۔ قائداعظم نے تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا۔’’۔escape leftmeno oftheImam ‘‘Theeloquentpersuation (ترجمہ) امام صاحب کی فصیح و بلیغ ترغیب نے میرے لئے کوئی راہ بچنے کی نہیں چھوڑی۔ (انقلاب عظیم کے متعلق انذارد بشارات نمبر ۲ صفحہ ۱۹ از حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب) مسجد فضل پٹنی میں ایک سیاسی نوعیت کی تقریر پر مختلف حلقوں میں بڑے تعجب کا اظہار کیا گیا۔ اور پریس نے اس کی اشاعت میں سرگرم حصہ لیا۔ چنانچہ ’’دی ایوننگ سٹینڈرڈ‘‘ (لندن) ’’ہندو‘‘ (کلکتہ) ’’دی سٹیٹمین‘‘ (کلکتہ) ’’مدراس میل‘‘۔ ’’ویسٹ افریقہ‘‘ (افریقہ) ’’ایجپشن گزٹ‘‘ (اسکندریہ) ’’پایونیئر‘‘ (الہ آباد) وغیرہ اخبارات میں اس کی خبریں شائع ہو گئی تھیں جن کے تراشے مولانا درد صاحب کی ایک فائل میں محفوظ ہیں۔
۱۷۲- تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۱۔ ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۶ و ۴۲۔ ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۳۔ ۱۷۔ ایضاً رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۴۵۔ ۱۹۴۴ء صفحہ ۸۴۔ ۸۵۔
۱۷۳- مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ۱۹۳۸ء کے آخر سے مارچ ۱۹۴۰ء تک لندن کے احمدیہ مسلم مشن میں کام کرتے رہے۔
۱۷۴- آپ ۲۹/ ستمبر ۱۹۴۵ء کو تشریف لے گئے۔
۱۷۵- الفضل ۲۷/ ۲۴ جولائی ۱۹۵۵ء صفحہ ۱۔
۱۷۶- پہلی بار روانگی کے بعد آپ ۷/ مارچ ۱۹۶۰ء کو ایک ماہ کے لئے واپس آئے اور ۲/ اپریل ۱۹۶۰ء کو پھر لنڈن چلے گئے تھے اس کے بعد آپ کا قیام لندن مشن میں ہی ہے۔
۱۷۷- آپ صحابی تھے اور انگلستان آنے سے قبل سیالکوٹ کے امیر تھے کرکٹ ٹیم کے ساتھ ۱۹۳۸ء کے قریب انگلستان گئے اور وہیں انتقال کیا۔
۱۷۸- آپ بھی صحابی تھے جو اس صدی کے شروع میں انگلستان گئے۔ آپ باقاعدگی سے ہائیڈ پارک میں تقاریر فرماتے تھے۔ ان کے ایک فرزند جن کا نام عبدالعزیز دین ہے اب بھی لنڈن میں مقیم ہیں اور تبلیغ کا بہت شوق رکھتے ہیں۔
۱۷۹- مبلغ انگلستان بشیر احمد صاحب رفیق کی ایک رپورٹ (مورخہ ۶۴/۲۴۲) سے ماخوذ۔
۱۸۰- خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مطبوعہ الفضل ۱۷/ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۴ کالم ۴۔
۱۸۱- ۔8 NO 1, VOL ISLAM GENUINE THE
‏۱۸۲- trail on Civilization صفحہ ۲۰۴ بحوالہ انصار اللہ ربوہ جولائی ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۳۔
۱۸۳- ترجمہ رپورٹ آف دی مشنری کانفرنس ۱۸۹۴ء منعقدہ لندن صفحہ ۴۱۹۔ بحوالہ انصار اللہ دسمبر ۱۹۶۱ء۔
۱۸۴- تذکرہ (طبع دوم) صفحہ ۵۰۹۔
۱۸۵- ضمیمہ الفضل ۲/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ و الفضل ۲۵/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔
۱۸۶- ضمیمہ الفضل ۲/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۱۔
۱۸۷- الفضل ۲۷/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۱۸۸- الفضل ۲۹/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۱۸۹- منصب خلافت صفحہ ۳۳ طبع اول ۱۹۱۴ء۔
۱۹۰- الفضل ۲۷/ اپریل ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔ الفضل ۹/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۸۔ الحکم ۱۴/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۹ کالم ۱۔
۱۹۱- حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خواہش کے مطابق حضرت منشی عبدالحق صاحب کاتب نے اس کتاب کی نہایت عمدہ اور نفیس کتابت کی۔
۱۹۲- بشارات رحمانیہ جلد اول صفحہ ۱۷۴۔ ۱۷۶ (از مولوی عبدالرحمن صاحب مبشر فاضل) الفضل ۱۱/ دسمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۷۔
۱۹۳- الفضل ۳/ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۲- ۲۳۔
۱۹۴- پیغام صلح ۶/ اگست ۱۹۱۴ء صفحہ ب۔ ج۔
۱۹۵- الفضل ۳/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ کالم ۳۔ الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱ و الفضل ۱۰/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۸ کالم ۲۔ ۳۔
۱۹۶-یاد رہے اس سے قبل ترکی کے سلطنت برطانیہ سے نہایت گہرے تعلقات تھے۔ چنانچہ شیخ عبدالقادر صاحب بی۔ اے بیرسٹر ایٹ لاء سیکرٹری خلافت کمیٹی سیالکوٹ لکھتے ہیں۔ ’’حضور سلطان المعظم خلیفتہ المسلمین نے سلطان ٹیپو کے نام ایک مراسلہ ارسال کیا اور اس دین کے پکے مسلمان نے خلیفتہ المسلمین کے حکم کو سر آنکھوں پر رکھا اور جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ ۱۸۵۷ء میں ہندوستان میں غدر مچا اس غدر کو فرو کرنے کے لئے انگریزوں کی افواج کو مصر سے گزر کر ہندوستان پہنچنے کی اجازت حضور خلیفتہ المسلمین سلطان المعظم نے دی تھی جنوبی افریقہ میں جنگ بوئر ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ترکی نے انگلستان کا ساتھ دیا۔ ہزارہا ترکوں نے انگریزی جھنڈے کے نیچے لڑنے مرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کر دیں۔ مساجد میں انگریزوں کی فتح و نصرت کے لئے دعائیں مانگی گئیں‘‘۔ (ترکی کے ارمینوں پر فرضی مظالم صفحہ ۲۳۔ شائع کردہ مجلس خلافت پنجاب) مطبوعہ ۱۹۲۰ء۔
۱۹۷- تاریخ اقوام عالم صفحہ ۶۷۴۔ ۶۷۶ (از مرتضیٰ احمد خاں میکش) شائع کردہ مجلس ترقی اردو کلب روڈ لاہور۔
۱۹۸- تاریخ اقوام عالم صفحہ ۶۸۵۔ ۶۸۶۔
۱۹۹- ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۳۹۹۔ ۴۰۵۔
۲۰۰- تذکرۃ المہدی حصہ دوم صفحہ ۳ (از حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق نعمانیؓ) طبع اول ۲۵/ دسمبر ۱۹۲۱ء و تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۹۵۔
۲۰۱۔ اس سلسلہ میں مولانا سید میاں محمد صاحب ناظم جمعیتہ العلماء ہند نے اپنی کتاب علماء حق کے کارنامے میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ ہندوستان کے یہی غیور مسلمان جو علماء ملت پر ہندو پرستی کا الزام لگاتے ہیں گزشتہ جنگ جرمنی کے زمانہ میں انہوں نے عراق‘شام‘ایران وغیرہ وغیرہ اسلامی ممالک کو انگریزوں کے لئے کیوں تباہ کیا۔ خاص قبلہ ایمان اور کعبہ اسلام پر کیوں گولیاں برسائیں اس کا سبب بھوک اور فاقہ بے روزگاری اور تہیدستی تھی؟ یا ان کے دلوں میں اسلام اور ایمان سے مدینہ طیبہ اور مکہ معظمہ سے عربوں اور ترکوں سے کوئی بغض بھرا ہوا تھا‘‘۔ (صفحہ ۲۸۴)
۲۰۲- دولت آصفیہ اور حکومت برطانیہ صفحہ ۱۶۱۔ ۱۶۳۔ (از سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی) طبع اول
۲۰۳- الفضل ۱۵/ ستمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۲۰۴- اخبار سرمہ روزگار آگرہ یکم دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۷۔
۲۰۵- پوری مسدس اخبار وکیل (امرتسر) مورخہ ۱۱/ مئی ۱۹۱۸ء و ستارہ صبح مورخہ ۱۱/ مئی ۱۹۱۸ء اور کتاب یادگار جنگ (پنجاب پبلسٹی کمیٹی لاہور) صفحہ ۱۷۔ ۱۸۔ پر موجود ہے۔ ایضاً ذکر اقبال (از عبدالمجید سالک) صفحہ ۸۷۔
۲۰۶۔ الفضل ۶/ ستمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۹۔
۲۰۷۔ حضرت اقدس کی ایک تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسٹر مانٹیگو وزیر ہند تھے۔ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۷۔ ۳۸)
۲۰۸۔ الفضل ۵/ اکتوبر ۱۹۴۴ء صفحہ ۳۔
۲۰۹۔ الفضل ۲۱/ مئی ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۔
۲۱۰۔ مکمل خط ملک فضل حسین صاحب مہاجر نے ریویو آف ریلیجنز اردو مئی ۱۹۴۱ء صفحہ ۷۔ ۱۲ پر چھپوا دیا تھا۔
۲۱۱۔ اس تبلیغی مہم کی تفصیلات خود حضرت حکیم مولوی عبیداللہ صاحب بسمل نے مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر کو لکھوا دی تھی۔ مگر افسوس وہ شائع ہونے سے پہلے ہی ایک خادمہ کے ہاتھوں ضائع ہو گئے۔
۲۱۲۔ ریویو آف ریلیجنز اردو جلد ۱۳ صفحہ ۴۲۱۔ ۴۲۷۔
۲۱۳۔ انہی دنوں ترکی کے شامل جنگ ہونے پر دوسرے مسلمانان ہند نے بھی انتباہ کیا تھا چنانچہ قاضی سراج الدین احمد صاحب بیرسٹرایٹ لاء راولپنڈی نے حقیقت خلافت اور مسلمانوں کا فرض میں لکھا یورپ میں اس لڑائی کے شروع ہونے کے بعد مسلمانان ہندوستان نے ترکوں کو یہ مشورہ دیا کہ وہ اس لڑائی میں غیر جانبداری کی وضع اختیار کریں۔ لیکن آخر کار ترکوں نے اس مشورہ کو نہایت حقارت کے ساتھ رد کر دیا اور جرمنی کی جانبداری اختیار کرنے سے انگلستان فرانس اور روس کی رعایا کو ایک غیر مطبوع اور تشویشناک حالت میں ڈال دیا۔ درحقیقت ترکوں نے اس موقع پر مسلمانان عالم کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کر برائی کی ہے۔ جرمنی نے ترکوں کو اپنے دام تزویر میں صرف اس غرض سے نہیں پھنسایا تھا کہ ان سے براہ راست امداد حاصل کرے بلکہ اس غرض سے بھی کہ سلطان ٹرکی کا جو اقتدار اسلامی دنیا میں مانا جاتا ہے اس کو استعمال کرکے قریب قریب تمام دنیا کے مسلمانوں سے ان سلطنتوں کے خلاف جن سے وہ وابستہ ہیں غدر اور فساد برپا کرا دیا جائے یہ ایسی کوشش تھی کہ اگر اس میں کامیابی ہو جاتی۔ تو صرف ایک ہی نتیجہ ہو سکتا تھا کہ دنیا بھر کے مسلمان خدا کے نزدیک اور اپنی اپنی سلطنتوں کی نگاہ میں مردود ہو جاتے اور دین و دنیا میں ان کا کہیں ٹھکانہ باقی نہ رہتا۔ خداوند کریم کا ہزار ہزار شکر ہے کہ جرمنی اور ترکوں کی یہ تدبیر کارگر نہ ہوئی اور خدا نے مسلمانان عالم کی عزت و آبرو رکھ لی۔ اس میں شک نہیں کہ ایک وجہ ایسی موجود تھی جس سے تمام اسلامی دنیا کو ترکی سلطنت کا احترام واجب تھا اور یہ اسی احساس کا معاوضہ تھا جو ترکی حکومت کے حرمین الشریفین کی حفاظت کو اپنے ذمہ لینے سے پیدا ہوتا تھا۔ لیکن ترکوں نے اپنے اس حق کو بھی اپنے ہاتھوں سے تلف کر دیا ہے۔ اگر ترکوں کو ارض مقدس اور حرمین الشریفین کی حفاظت کی کچھ بھی پروا ہوتی تو وہ دنیا کی سب سے بڑی بحری طاقت یعنی انگلستان کے برخلاف کبھی جنگ کا نام نہ لیتے بلکہ صرف اپنے اس فرض کی ادائیگی کی خاطر اس زبردست سلطنت کے ساتھ ہمیشہ مستحکم دوستی رکھتے‘‘۔ (صفحہ ۸۶۔ ۸۹)
۲۱۴۔ الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۲۱۵۔ الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۱۶۔ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۱۷۔ الفضل ۲۲/ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۱۸۔ ریکارڈ روئداد اجلاس صدر انجمن احمدیہ نومبر ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۸۰۔
۲۱۹۔ ریکارڈ ۳۱۔ ۱۹۳۰ء۔
۲۲۰۔ ایضاً ریکارڈ روئداد اجلاس صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۵ء۔
۲۲۱۔ مکمل فہرست کے لئے ملاحظہ ہو احمدی جنتری ۱۹۳۷ء صفحہ ۳۸۔ ۳۹۔
۲۲۲۔ پیغام صلح یکم دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔
۲۲۳۔ خواجہ صاحب نے اندرونی اختلافات سلسلہ کے اسباب میں خود لکھا ہے میرا ارادہ تھا کہ میں فوراً ہی قادیان جائوں (صفحہ ۱۸) مگر فوراً نہ جا سکنے کی وجہ الفضل کا ایک مضمون بتایا ہے جو ان کے لاہور پہنچنے کے چھ دن بعد شائع ہوا۔
۲۲۴۔ یہ مفصل واقعہ قاضی محمد یوسف صاحب کی روایت الفضل ۱۵/ مئی ۱۹۴۶ء صفحہ ۵ پر چھپ چکا ہے۔
۲۲۵۔ الفضل ۳۱/ دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۲۶۔ الفضل ۳۱/ دسمبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۷۷۔ الحکم ۲۱/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۶ کالم ۳ و الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔
۲۲۸۔ الحکم ۲۸/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۳ کالم ۲۔
۲۲۹۔ الفضل ۴/ مئی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۶‘۱۰/ جون ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۳۰۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۴ء صفحہ ۲۷۸۔
۲۳۱۔ الفضل ۳/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۳۲۔ الفرقان۔ قمر الانبیاء نمبر۔ اپریل مئی ۱۹۶۴ء صفحہ ۱۱۔
۲۳۳۔ الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۱۴ء‘۲۵/ اکتوبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۵۔ ۶‘۵/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۸۔
۲۳۴۔ یہ نماز ہزاروں کی تعداد میں یورپ‘امریکہ اور آسٹریلیا میں بھیجی گئی۔ (الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۱۴ء) صفحہ ۱۰ کالم ۱۔ ۲ (نوٹ) اس عنوان کے تحت مصنفین سلسلہ کی صرف خاص خاص کتابوں کا تذکرہ ہو گا۔
۲۳۵۔ الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۱۴ء صفحہ ۱۔ ۲۹/ نومبر ۱۹۱۴ء صفحہ ۷ کالم ۱۔
۲۳۶۔ آپ کے حالات کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۲۸ (حاشیہ)
‏rov.5.16
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چھٹا سال
حواشی (دوسرا باب)
۲۳۷۔ الفضل ۲۴/ جنوری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۳۸۔ الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱‘۲۸/ جنوری ۱۹۱۵ء۔
۲۳۹۔ الفضل ۹/ فروری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ یہ مضمون بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہو گیا۔
‏h1] ga[t۲۴۰۔ الفضل ۱۶/ فروری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ و الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۵ء۔
۲۴۱۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ ‘۱۱/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۴۲۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ ‘۱۱/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۴۳۔ مسئلہ کفر و اسلام کی حقیقت۔ مطبوعہ ۱۹۴۱ء صفحہ ۱۱۸۔
۲۴۴۔ ضمیمہ الفضل ۲۸/ جنوری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔ ۴۔
۲۴۵۔ القول الفصل سرورق (مطبوعہ ۳۰/ جنوری ۱۹۱۵ء)
۲۴۶۔ عزیز الواعظین حضرت مولانا غلام امام صاحب شاہ جہانپوری ثم اسامی کی تبلیغ سے داخل احمدیت ہوئے سلسلہ کے نہایت فدائی اور بذلہ سنج بزرگ تھے۔ ۱۹۶۴ء میں آپ کا انتقال ہوا اور آپ کے لائق فرزند جناب محمود الحسن صاحب (ریونیو ممبر حکومت مشرقی پاکستان ) ڈھاکہ سے آپ کی نعش ربوہ لے آئے اور آپ مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے۔
۲۴۷۔ ریویو آف ریلیجنز اردو اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۴۔ ۲۶۔
۲۴۸۔ جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد سوم (طبع اول) میں بالتفصیل ذکر آچکا ہے۔ حضرت صوفی صاحب نے ۱۹۰۷ء میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے تحریک فرمانے پر اپنی زندگی وقف کی تھی ۱۹۱۲ء میں آپ بی۔ اے کا امتحان پاس کرکے حضرت خلیفہ اولؓ کی خدمت میں حاضر ہو گئے۔ حضرت نے قرآن مجید حفظ کرنے کا ارشاد فرمایا۔ آپ نے بفضلہ تعالیٰ چھ ماہ میں قرآن مجید حفظ کر لیا۔ ان دنوں دربار خلافت میں نیروبی سے ایک مبلغ بھیجے جانے کی درخواست آئی ہوئی تھی۔ حضرت خلیفہ اول نے آپ کو کینیا کالونی کا پاسپورٹ لینے کا حکم دیا۔ مگر افریقہ کا پاسپورٹ نہ مل سکا اور حضرت خلیفہ اولؓ کا وصال ہو گیا۔ پھر حضرت خلیفہ ثانی کی ہدایت پر آپ نے ماریشس کے لئے پاسپورٹ کی درخواست دی۔ دسمبر ۱۹۱۴ء میں آپ کو پاسپورٹ مل گیا۔ (یہ حالات خود حضرت صوفی صاحب کے قلم سے روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۷ صفحہ ۲۸۵ پر موجود ہیں)
۲۴۹۔ الفضل ۲۲/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۔
۲۵۰۔ روایات صحابہ جلد ۷ صفحہ ۲۸۵۔ ایضاً الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ ۷ و الفضل ۲۲/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۔
۲۵۱۔ سیلون میں باقاعدہ مشن اگست ۱۹۵۱ء کو قائم ہوا۔ جس کا ذکر اپنے موقعہ پر آئے گا۔
۲۵۲۔ اس مقدمہ کی پوری عدالتی کارروائی ۲۷۳ صفحات میں طبع شدہ ہے۔
۲۵۳۔ الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۱۷ء۔
۲۵۴۔ ریویو آف ریلیجنز اردو۔ اکتوبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۲۷ و الفضل ۱۹/ ۱۵ مئی ۱۹۱۷ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۵۵۔ روائداد مباحثہ دربارہ حیات و وفات عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے نام سے یہ مناظرہ چھپ گیا تھا۔
۲۵۶۔ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۷ صفحہ ۲۸۵۔ ۲۸۶۔ ایضاً و الفضل ۲۲/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۔
۲۵۷۔ آپ قریباً دو سال تک قادیان میں علم دین حاصل کرنے کے بعد واپس تشریف لے گئے اور اب تک جماعت کے لٹریچر کی فرانسیسی زبان میں منتقل کرنے میں اہم خدمات بجا لا رہے ہیں۔
۲۵۸۔ حضرت حافظ صاحب صحابی تھے مئی ۱۹۰۸ء میں آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کے آخری سفر لاہور کے دوران زیارت کی جس کے قریباً دو ہفتہ کے بعد حضور علیہ السلام وصال فرما گئے۔ روایات صحابہ غیر مطبوعہ جلد ۷ صفحہ ۲۴۸۔ ۱۹۱۶ء میں آپ نے مبلغین کلاس پاس کی۔ (الفضل ۷/ مارچ ۱۹۱۶ء صفحہ ۱)
۲۵۹۔ وکالت تبشیر کے ریکارڈ اور جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر کی تقاریر سے ماخوذ!! جماعت احمدیہ ماریشس کی مطبوعات Massage’’ ‘‘Le (پہلا سالنامہ مئی ۱۹۶۳ء) اور Khilaafat’’ for ‘‘Victory سے بھی مدد لی گئی۔
۲۶۰۔ الفضل ۲۸/ فروری ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۶۱۔ الفرقان ستمبر اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۷۔
۲۶۲۔ الفرقان ستمبر اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۵۳ (مضمون جناب شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لائلپور)
۲۶۳۔ حقیقتہ النبوۃ صفحہ ۱۸۵۔ ۱۸۶۔
۲۶۴۔ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے ’’حقیقتہ النبوۃ‘‘ کی نسبت ۱۳/ نومبر ۱۹۱۵ء کو ایڈیٹر پیغام صلح کے نام خط لکھا کہ میں نے کتاب حقیقتہ النبوۃ کی تعریف کی تھی۔ مگر اس کے دلائل پر رائے دینے کا حق مجھے حاصل نہیں۔ کیونکہ اختلاف سلسلہ احمدیہ کے متعلق وہی محض رائے دے سکتا ہے جو مرزا صاحب مرحوم کی تصانیف سے پوری آگاہی رکھتا ہو اور یہ آگاہی مجھے حاصل نہیں‘‘۔ پیغام صلح ۲۵/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۸۔
۲۶۵۔ الفضل ۲۲/ فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۲ کالم ۱۔ خالد۔ اپریل ۱۹۵۴ء صفحہ ۲۶۔ الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۸۔
۲۶۶۔ الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ ۲ تا ۸۔
۲۶۸۲۶۷۔ ‘ الفضل ۱۰/ جون ۱۹۱۵ء صفحہ ۲۰۱ (حضرت مولانا کا خطبہ نکاح الفضل ۱۷/ جون ۱۹۱۵ء میں شائع شدہ ہے)
۲۶۹۔ اصحاب احمد حصہ دوم صفحہ ۲۷۸۔
۲۷۰۔ الفضل ۲۴/ فروری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۲۷۱۔ اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۲۹۸۔
۲۷۲۔ حضرت ام المومنینؓ کے وصال کے بعد ان کا نام ایک رویاء کی بناء پر نصرت جہاں بیگم رکھ دیا گیا۔
۲۷۳۔ اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۳۰۳-
۲۷۴۔ الفضل ۸/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۷۵۔ الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔
۲۷۶۔ الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۳۔
۲۷۷۔ الفضل ۲۶/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۵۔
۲۷۸۔ مائونٹ گراوٹ متصل شہر برزبن ضلع کونیز لینڈ (آسٹریلیا)
۲۷۹۔ الفضل ۲/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۵۔
۲۸۰۔ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۸۵۔
۲۸۱۔ الفضل ۲۰/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔
۲۸۲۔ تاریخ مالا بار (از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی) میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں۔
۲۸۳۔ الفضل ۹/ ستمبر ۱۹۱۵ء۔
۲۸۴۔ مفصل نصائح الفضل ۱۴/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۴۔ ۵ میں طبع شدہ ہے۔
۲۸۵۔ حضرت قاضی صاحب ۲۸/ نومبر ۱۹۱۹ء کو قادیان میں واپس پہنچے۔ (الفضل یکم دسمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۱)
۲۸۶۔ پیغام صلح ۱۹/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۷۔ ۸ و ۲۱/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۸۔
۲۸۷۔ ملاحظہ ہو فاروق ۷/ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۸۸۔ فاروق ۶/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۷۔
۲۸۹۔ اس کی تفصیل حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے لیکچر نظام آسمانی کا پس منظر میں موجود ہے۔ (اس واقعہ کی تعیین نہیں ہو سکی اندازاً اس سال کے واقعات میں اسے درج کیا جا رہا ہے)
۲۹۰۔ الفضل ۴/ اگست ۱۹۳۷ء صفحہ ۴۔
۲۹۱۔ الفضل ۱۵/ اکتوبر ۱۹۱۵ء و ۱۴/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۲۔
۲۹۲۔ گیارھواں ایڈیشن مطبوعہ ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸ (بحوالہ احمدیہ پاکٹ بک صفحہ ۱۱۲۴ بار ششم
۲۹۳۔ الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۹۴۔ الفضل ۲۱/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۲۹۵۔ نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر صفحہ ۳۸۔ ۴۰ (از سیدنا حضرت خلیفتہ المسسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ)
۲۹۶۔ مرحوم کی بیماری وغیرہ کے حالات کے لئے ملاحظہ ہو۔ (الفضل ۱۴/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۱۔ ۱۲ و ۲۱/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۳۔ ۷ و اخبار فاروق ۱۸/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۱۔ ۱۲ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے تعزیت نامہ کے لئے ملاحظہ فرمائیں فاروق ۲۵/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۰۔
۲۹۷۔ ابتداًء اس کے لئے اسلامیہ کالج کے پاس ایک مکان کرایہ پر لیا گیا۔ پھر اسے گوالمنڈی میں منتقل کیا گیا (الفضل ۱۱/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۸) کچھ عرصہ لارنس روڈ اینگلو بنگلو پر رہا۔ (الفضل مئی ۱۹۱۶ء) اور پھر شاہ ابوالعالی روڈ دیال سنگھ کالج لاہور کے پاس بھی رہا۔ (الفضل ۲۰/ ۱۰ ستمبر ۱۹۲۰ء) اسی طرح ایمپرس روڈ کوٹھی نمبر ۴۰ میں بھی۔
۲۹۸`۲۹۹۔ الفضل ۱۱/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۸ (بابو صاحب کے بعد متعدد سپرنٹنڈنٹ بنے جن میں سے بعض کے نام یہ ہیں۔ چوہدری محمد حسین صاحب سابق امیر ضلع ملتان و سیکرٹری تعلیم و تربیت لندن۔ سید دلاور شاہ صاحب بخاری۔ شیخ فضل کریم صاحب پراچہ۔ ملک عبدالرحمن صاحب خادمؓ۔ ماسٹر نذیر خان صاحب۔ ڈاکٹر غلام مصطفیٰ صاحب۔ چوہدری غلام احمد صاحب ایم۔ اے۔
۳۰۰۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صفحہ ۱۳۲۔ ۱۳۴
۳۰۱۔ انگریزی قواعد و ضوابط کی ایک کاپی صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ ۱۹۲۷ء میں محفوظ ہے۔
۳۰۲۔ رپورٹ مجلس مشاورت۔
۳۰۳۔ الفرقان جنوری ۱۹۵۹ء صفحہ ۱۸ و الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۳۸ و الفرقان اپریل `۱۹۶۱ء صفحہ ۳۳۔
۳۰۴۔ ایک یوم التبلیغ پر دو ہزار انگریزی ٹریکٹ شائع کرنے کا ذکر سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۳۷۔ ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۰۰ پر ہے یہ ہوسٹل ۱۹۴۷ء کے فسادات میں بند ہو گیا تھا اب ستمبر ۱۹۶۴ء سے دوبارہ جاری ہوا۔
۳۰۵۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۵۴۔ ۳۵۵ (از حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ)
۳۰۶۔ الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۵۵ء صفحہ ۶ کالم ۱۔ ۲۔ انگریزی پارہ کا عربی متن حضرت پیر منظور محمد صاحب لدھیانوی نے لکھا (الفضل ۱۶/ ستمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱) حضرت مفتی محمد صادق صاحب اس کی چھپوائی کے لئے اور حضرت مولوی شیر علی صاحب اس کی پروف ریڈنگ کے لئے مدراس تشریف لے گئے (الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۱ کالم ۲) اردو تفسیر اسلامیہ سٹیم پریس لاہور میں اور انگریزی تفسیر ایڈیسن پریس مدراس میں طبع ہوئی۔
۳۰۷۔ مسلم ورلڈ بابت اپریل ۱۹۱۶ء (بحوالہ ریویو آف ریلیجنز اردو اگست ۱۹۱۶ء صفحہ ۳۰۵۔
۳۰۸۔ ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۲۔
۳۰۹۔ ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۲۔
۳۱۰۔ الفضل ۲۴/ اکتوبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۳۱۱`۳۱۲۔ قادیان گائیڈ صفحہ ۱۰۰ (از محمد یامین صاحب تاجر کتب قادیان) صفحہ ۱۰۰۔ ۱۰۱۔
۳۱۳۔ الفضل ۷/ اپریل ۱۹۴۴ء صفحہ ۷۔
۳۱۴۔ تفصیل کے لئے دیکھیں المصلح ۲۳/ ستمبر ۱۹۵۳ء۔
۳۱۵۔ انوار خلافت صفحہ ۱۵۳۔ ۱۵۴۔
۳۱۶۔ الفضل ۵/ جنوری ۱۹۱۵ء۔
۳۱۷۔ الفضل ۳۔ ۵/ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۳۱۸۔ الفضل ۱۹/ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۳۱۹۔ الفضل ۱/ نومبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۱۔ جہاد کبیر صفحہ ۱۴۵۔
۳۲۰۔ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔
۳۲۱۔ اصحاب احمد جلد ہفتم صفحہ ۹۶۔ ۱۰۲۔
۳۲۲۔ الفضل ۱۴/ مارچ ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۳۔
۳۲۳۔ الفضل ۲۷/ اپریل ۱۹۱۵ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۲۴۔ الفضل ۱۶/ جون ۱۹۱۵ء صفحہ ۱ کالم ۲۔ اس مباحثہ کا فیصلہ جو شیخ محمد عمر صاحب بی۔ اے ایل۔ ایل۔ بی وکیل چیف کورٹ (ثالث فریقین) نے کیا۔ قول فیصل کے نام سے طبع شدہ ہے۔
۳۲۵۔ الفضل ۲۰/ جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ ۵۔ ۷۔
۳۲۶۔ الفضل ۱۰/ دسمبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۵۔
۳۲۷۔ اخبار نور ۱۷/ اکتوبر ۱۹۱۵ء صفحہ ۲۔
۳۲۸۔ دوسرا حصہ ۱۹۲۱ء میں شائع ہوا۔
۳۲۹۔ حضرت مسیح موعودؑ سے پروفیسر صاحب کی ملاقات کا تفصیلی ذکر تاریخ احمدیت جلد سوم صفحہ ۵۳۵۔ ۵۳۶ پر گزر چکا ہے۔
۳۳۰۔ الفضل ۴/ جنوری ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔ مفصل گفتگو الفضل ۱۵/ جنوری ۱۹۱۶ء صفحہ ۳۔ ۶ اور فاروق ۱۳/ جنوری ۱۹۱۶ء صفحہ ۲ میں چھپ گئی تھی۔ ان مہمانوں کے قیام اور ملاقات کا انتظام حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے سپرد تھا۔ (اصحاب احمد جلد نہم حاشیہ صفحہ ۱۱۲)
۳۳۱۔ اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۶۴۔ ۶۵۔
۳۳۲۔ احمدیہ موومنٹ۔
۳۳۳۔ تفسیر کبیر (سورۃ الکوثر صفحہ ۴۷۶ (از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی)
۳۳۴۔ ریویو آف ریلیجنز جون۔ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۳۶۰۔
۳۳۵۔ الفضل ۱۵/ فروری ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۳۶۔ تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۷۸۔
۳۳۷۔ الفضل ۹/ دسمبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۸۔
۳۳۸۔ الفضل ۴/ مارچ ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۳۹۔ کلام حسن صفحہ ۶۷۔
۳۴۰۔ یہ جلسہ راما تھیٹر ہال میں ہوا تھا۔
۳۴۱۔ حضرت مولانا میر محمد اسحٰق صاہب نے عربی میں لیکچر دیا تھا۔ اور چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ مولوی محمد الدین صاحب اور چوہدری ابو الہاشم خان صاحب نے انگریزی میں حضرت میر صاحب نے ایک لیکچر اردو میں بھی دیا تھا۔
۳۴۲۔ الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۔ ۱۳۔ حضور نے جس مصروفیت اور جوش کے عالم میں اس مضمون کی تکمیل فرمائی۔ اس کی نسبت الفضل ۷/ مارچ ۱۹۱۶ء صفحہ ۱ پر لکھا ہے کہ آپ نے ایک حصہ تو ظہر تک لکھ کر امیر قافلہ مولوی محمد الدین صاحب بی۔ اے کے سپرد کیا۔ دوسرا حصہ ۲ بجے رات کے منشی فخر الدین کے ہاتھ بھجوایا پھر جمعہ کی نماز کے بعد شیخ عبدالخالق صاحب دہلی جا رہے تھے چند اوراق انہیں دیئے اور ایک حصہ دو گھنٹے کے بعد ماسٹر عبدالعزیز صاحب نے سائیکل سے جا کر اسٹیشن بٹالہ پر شیخ عبدالخالق صاحب کو پہنچایا اور باقی مضمون تین بجے رات کو حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی لے کر دلی کو روانہ ہوئے۔
۳۴۳۔ الفضل ۲۲/ اپریل ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۲۔
۳۴۴۔ الفضل ۲۷/ مئی ۱۹۱۶ء صفحہ ۳۔
۳۴۵۔ الفضل ۲۹/ اپریل ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۲۔
۳۴۶۔ الفضل ۱۸/ جون ۱۹۱۶ء صفحہ ۴۔
۳۴۷۔ الفضل ۲۹/ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۷۔ و الفضل ۸/ اگست ۱۹۱۶ء صفحہ ۶۔ ۱۲۔
۳۴۸۔ الفضل ۸/ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۔
۳۴۹۔ الفضل ۸/ اگست ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۵۰۔ الفضل ۲۹/ اگست ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۵۱۔ اخبار نور ۳/ نومبر ۱۹۱۶ء ضمیمہ (ب)
۳۵۲۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۹۵۔ ۲۸۵۔ جغرافیہ پرھانے کے دوران کا ایک واقعہ الفضل سالانہ جلسہ نمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۳۳ پر ملاحظہ ہو۔
۳۵۳۔ اخبار نور ۳/ نومبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۳۔ الفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۸/ ۷
۳۵۴۔ الفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۸۔
۳۵۵۔ الفضل ۱۳/ جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۲۔
۳۵۶۔ الفضل ۲۲/۱۹ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۵۷۔ الفضل ۲/ جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۵۸۔ الفضل ۱۶/ ۱۲ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔ و الفضل ۲۲/ ۱۹ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۸۔ ۲۰۔
۳۵۹‘۳۶۰۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۶ء صفحہ ۴۶۴ و قادیان گائیڈ صفحہ ۷۲۔ حضرت خلیفہ اولؓ کا کتب خانہ اس وقت تک آپ کے گھر میں رکھا تھا۔
۳۶۱۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۶۶۔ ایضاً سالانہ رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۳۷۔۳۶۲۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۹ء صفحہ ۶۲۔
۳۶۳۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۵۷۔ ۳۵۹۔
۳۶۴۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۸۴۔
۳۶۵۔ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۵۳۔ ۱۹۵۲ء صفحہ ۳۲۔
۳۶۶۔ ضمیمہ الفضل ۱۶/ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۶/ ۵ اس ضمیمہ میں حضور نے اسلام کے عنوان سے مستوارت کے لئے ایک مضمون بھی شائع کیا۔
۳۶۷۔ اس سال مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی بچارے اپنی پیرانہ سالی اور بیماری کے باعث غیر مبایعین سے متاثر ہو گئے تھے اور انہوں نے اعلان کیا تھا کہ میں میاں محمود احمد صاحب کو خلافت سے معزول کرتا ہوں حضرت اقدس نے پہلی تقریر میں اس امر کا بھی ذکر فرما کر پورے جلال کے ساتھ اعلان فرمایا۔ ’’خلیفہ اگر خدا بناتا ہے اور واقعہ میں خدا ہی بناتا ہے تو مولوی محمد احسن کیا دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اسے معزول کر سکتے ہوں۔ ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اعلان کرتا ہوں کہ جس کسی نے ان کی دی ہوئی خلافت سمجھ کر میری بیعت کی تھی وہ اپنی بیعت فخ کرنے میں آزاد ہے‘‘۔ (ذکر الٰہی طبع اول صفحہ ۱۳۔ ۱۴) حضرت مولوی محمد احسن صاحب بعد کو حضور کی خدمت میں قادیان تشریف لائے اور صاف اقرار کیا کہ حق قادیان میں ہے لیکن ساتھ ہی آبدیدہ ہو کر کہنے لگے کہ میں بڑھاپے میں اپنی بیوی کا محتاج ہوں مگر بیوی کو لاہوریوں نے لالچ دیا ہوا ہے اس لئے میں بھی ان کے ساتھ جانے پر مجبور ہوں۔ (الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۵۹ء صفحہ ۳)
۳۶۸۔ تفسیر کبیر (سورہ التطفیف) صفحہ ۳۱۵ (از حضرت خلیفہ ثانی)
۳۶۹۔ الفضل ۲/ ستمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۷۰۔ الفضل ۴۔ ۸۔ ۱۸/ اپریل‘۲۴/ اکتوبر ۱۹۱۶ء۔
۳۷۱۔ الفضل ۵/ ۲ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۷۲۔ الفضل ۳۰/ ستمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۷۳۔ الفضل ۱۶/ مئی ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
‏h1] gat[۳۷۴۔ مباحثہ احمدیاں و غیر احمدیاں کے نام سے کتابی صورت میں طبع شدہ ہے۔
۳۷۵۔ یہ مباحثہ بھی مباحثہ سرگودھا کے نام سے شائع ہو گیا تھا۔
۳۷۶۔ الفضل ۴/ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۔
۳۷۷۔ الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۔
۳۷۸۔ الفضل ۲۲/ اگست ۱۹۱۶ء صفحہ ۱۔
۳۷۹۔ فتح مبین کے نام سے چھپا ہوا ہے۔
۳۸۰۔ اخبار نور ۱۷/ اپریل ۱۹۱۶ء صفحہ ۳۔
۳۸۱۔ الفضل ۵/ ۲ دسمبر ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۔
۳۸۲۔ الفضل ۱۳/ مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۲۔
۳۸۳۔ الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۱۳۔
۳۸۴۔ الفضل ۷/ مارچ ۱۹۶۴ء صفحہ ۵۔
۳۸۵۔ الفضل ۴۔ ۸/ اپریل ۱۹۱۶ء صفحہ ۲۰۔
۳۸۶۔ انسائیکلو پیڈیا بریٹینکا زیر لفظ ‘‘RUSSIA’’
۳۸۷۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ فرمائیں تاریخ احمدیت جلد سوم (طبع اول) صفحہ ۴۰۳‘۴۰۵۔ ایضاً ڈاکٹر محمد شاہ نواز صاحب کے مضامین مطبوعہ ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری فروری ۱۹۳۵ء۔
۳۸۸۔ جناب مولوی ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار نے ’’خدائے قادیان اور زار روس‘‘ کے عنوان سے ایک نظم بھی کہی جس کے چند شعر یہ تھے۔ ~}~
زار کی لفظی رعایت نے یہ سمجھایا تھا قول
زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی با حال زار
بعد مردن اتفاقاً چھڑ گئی جنگ فرنگ
رنگ لائی مدتوں میں گردش لیل و نہار
زار سے چھنوا دیا قسمت نے اس کا تخت و تاج
کیونکہ قسمت کا نہیں دنیا میں کچھ بھی اعتبار
حال اسی کو غیب کے اسرار کا معلوم ہے
بادشاہی اور گدائی پر ہے جس کا اختیار
(ارمغان قادیان صفحہ ۱۹۔ - ۲۰)
۳۸۹۔ ریویو آف ریلیجنز اردو ۱۵/ جولائی ۱۹۱۷ء صفحہ ۲۹۶۔
۳۹۰۔ الفضل ۱۴/ جولائی ۱۹۱۷ء صفحہ ۸۔
۳۹۱۔ حضرت ڈاکٹر صاحب ان دنوں ریاست پٹیالہ میں ملازم تھے اور ریاست سے فارغ ہونا مشکل تھا اور شروع میں حضرت ڈاکٹر صاحب بلا تنخواہ رخصت پر قادیان آئے تھے (ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۹ء)
۳۹۲۔ ایضاً ریکارڈ ۱۹۲۱ء۔
۳۹۳۔ اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ ۱۲۳۔
۳۹۴۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۳۰ء (نور ہسپتال کا ایک کمرہ ملک صاحب خان صاحب نون کے خرچ پر تعمیر ہوا) ریکارڈ ۱۹۲۸ء۔
۳۹۵۔ الفضل ۴/ اگست ۱۹۱۷ء صفحہ ۱ و الحکم ۲۸/ نومبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۳۹۶۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۵۸۔
۳۹۷۔ الفضل ۲۲/ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۳۹۸۔ الفضل ۱۹/ ۱۵ مئی ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۰۔ ۱۱۔
۳۹۹۔ الفضل ۸/ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۷۔
۴۰۰۔ الفضل یکم ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱ و ۱۳/ اکتوبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۰۱۔ ملاحظہ ہو ضمیمہ الفضل ۲۲/ ستمبر ۱۹۱۷ء۔
۴۰۲۔ زندہ مذہب صفحہ ۲۹۔ (از حضرت خلیفہ ثانی)
۴۰۳۔ سنور میں حضور حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری‘منشی محمد تقی صاحب اور مولوی قدرت اللہ صاحب کے گھر بھی تشریف لے گئے تھے۔
۴۰۴۔ الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۴ (لیکچر کے لئے ملاحظہ فرمائیں ۱۵/ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۔ ۱۵۔
۴۰۵۔ اس ضمن میں حضرت مسیح موعودؑ کی ۱۹۰۵ء میں درگاہ میں ملاقات اور حضور کی خط و کتابت کا ذکر تاریخ احمدیت جلد سوم (طبع سوم) صفحہ ۴۳۷ پر گزر چکا ہے ہم یہاں یہ مزید بتانا چاہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحبؓ کی وفات پر حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں یکم اکتوبر ۱۹۰۷ء کو ریاست مانگرول (کاٹھیا واڑ) سے مندرجہ ذیل تعزیت نامہ لکھا۔ قدسی صفات۔ سراپا نوازش و الطاف مرزا صاحب! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ ۔۔۔۔ الحکم آیا اور عزیز مبارک احمد کی وفات معلوم ہوئی۔ جس کے پڑھنے سے اس قدر غم واندوہ ہوا ہے کہ ظاہر نہیں کر سکتا۔ زمانہ قیام دہلی میں عزیز مرحوم کو دیکھا تھا کیا پیارا بچہ تھا۔ اگرچہ آپ کو صبر و رضا کی تلقین لقمان کو حکمت سکھانا ہے تاہم رسمی طور پر اس نیت سے یہ نامہ ارسال ہے گو آپ کو اور آپ کی جماعت کو اس ابتلا میں قلبی اطمینان میسر ہو گیا ہو گا مگر افسوس کہ میں بسبب اس محبت کے جو مجھ کو آپ اور آپ کی جماعت سے ہے عزیزم مرحوم کی ناگہانی وفات کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اور سخت قلق میں ہوں۔ خواجہ حسن نظامی خواہر زاد حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء محبوب الٰہی دہلی۔
۴۰۶۔ رسالہ نظام المشائخ دہلی محرم ۱۳۳۶ھ صفحہ ۵۲۔ ۵۳۔ بعنوان اجمیر شریف میں بلاوا۔
۴۰۷۔ الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۴۰۸۔ ستارہ صبح ۳۱/ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۲ جلد ۱ نمبر ۱۰۰۔
۴۰۹۔ رسالہ مرشد نمبر ۱ بحوالہ الفضل ۱۴ مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۵۔
۴۱۰۔ بحوالہ الفضل ۱۸/ ۱۵ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۴۔
۴۱۱۔ ]h2 [tag تاریخ ہند و پاک صفحہ ۲۳۸ مطبوعہ حجازی پریس لاہور۔
۴۱۲۔ حیات محمد علی جناح صفحہ ۶۱ (از سید رئیس احمد جعفری) طبع دوم۔
۴۱۳۔ برکات خلافت صفحہ ۵۳۔ ۶۴۔ (تقریر سیدنا حضرت خلیفہ ثانی برسالانہ جلسہ ۱۹۱۵ء)
۴۱۴۔ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۱۸۔ ۱۹۱۷ء صفحہ ۵ و الفضل ۱۷/ نومبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۱۵۔ ممبر حضرت نواب محمد علی خان صاحب مالیر کوٹلہ۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب۔ خان بہادر راجہ پائندہ خاں جنجوعہ جہلم۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب۔ عبداللہ بھائی الہ دین صاحب سکندر آباد دکن۔ مولوی غلام اکبر خان صاحب وکیل ہائیکورٹ حیدر آباد دکن۔ حضرت مولوی شیر علی صاحب۔ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال۔
۴۱۶۔ ریویو آف ریلیجنز اردو دسمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۴۵۳۔ ۴۵۷۔ ۴۵۸۔
۴۱۷۔ بحوالہ الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۱۔
۴۱۸۔ الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۱۲ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۱۹۔ الفضل ۷/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۴۲۰۔ الفضل ۲۴/ نومبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۲۔
۴۲۱۔ الفضل ۲۲/ دسمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۵۔
۴۲۲۔ رپورٹ محکمہ نظارت جماعت احمدیہ صفحہ ۱۰۔
۴۲۳۔ الحکم ۷/ مئی ۱۹۲۱ء صفحہ ۵۔ الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۴۳ء صفحہ ۵۔
۴۲۴۔ الفضل ۲۷/ فروری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱‘۱۴/ ۱۰ ۱ اپریل ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۲۵۔ الفضل ۲۷/ جنوری ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۲۶۔ فاروق ۶/ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۔
۴۲۷۔ الفضل ۳۰/ ستمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۴۔
۴۲۸۔ فاروق ۱۲/ اپریل ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۲۹۔ الفضل ۱۳/ ۱۰ اپریل ۱۹۱۷ء صفحہ ۳ ‘۱۰/ اپریل ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۰۔
۴۳۰۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۷ء۔
۴۳۱۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۷ء۔
۴۳۲۔ قادیان گائیڈ صفحہ ۱۰۲۔
۴۳۳۔ اخبار نور ۱۷/ ۳ مئی ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۳۴۔ الفضل ۳/ مارچ ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۳۵۔ الفضل ۱۷/ مارچ ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۲۔
۴۳۶۔ h2] gat[ الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۱۷ء صفحہ ۱ و سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۵۸۔
۴۳۷۔ الفضل ۷/ مارچ ۱۹۱۷ء صفحہ ۹۔
۴۳۸۔ اخبار نور ۱۷/ اگست ۱۹۱۷ء صفحہ ۸۔
۴۳۹۔ فاروق ۶/ ستمبر صفحہ ۳۔ ۴ و ۲۷/ ستمبر ۱۹۱۷ء صفحہ ۳۔ ۸۔
۴۴۰۔ الفضل ۲۸/ جولائی ۱۹۱۷ء صفحہ ۱۔
۴۴۱۔ بحوالہ الفضل ۹/ فروری ۱۹۱۸ء صفحہ ۳۔
۴۴۲۔ الفضل ۴/ مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔
۴۴۳۔ الفضل ۱۱/ مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔
۴۴۴۔ الفضل ۱۸/ جون ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔
۴۴۵۔ مکتوب حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بنام مولف کتاب محررہ ۳۱/ جولائی ۱۹۶۴ء۔
۴۴۶۔ الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔
۴۴۷۔ الحکم ۷/ جولائی ۱۹۱۸ء صفحہ ۴۔
۴۴۸۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۵۸۔ ۳۵۹۔ (از حضرت میرزا بشیر احمد صاحبؓ)
۴۴۹۔ حضرت امیر المومنین کو انفلو انزا کی وجہ سے ہر وقت حرارت رہتی تھی۔ اور ضعف قلب کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا تھا حضور کی بیماری پر حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل صاحب اور حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب تار دے کر بلوائے گئے۔ حضرت میر صاحب تو قادیان پہنچنے کے دوسرے تیسرے روز خود انفلو انزا میں مبتلا ہو گئے۔ مگر حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو قریباً سوا تین ماہ حضور کی خدمت میں رہ کر تیمارداری اور علاج کا موقعہ ملا۔ رات کو حضور کے پاس صرف حضرت ڈاکٹر صاحب ہی ہوتے۔ اکثر کھانا بھی حضور کے ساتھ کھاتے تھے۔ حضور نے انہیں پہلا حکم یہ دیا کہ میری اجازت کے بغیر کمرہ سے باہر نہ جائیں۔ ڈاکٹر صاحب نے حضور کا بول و براز ٹسٹ کرانے کے لئے لاہور کے پتھالوجیکل ڈیپارٹمنٹ میں بھجوایا جہاں ڈاکٹر عبدالغنی صاحب کڑک کام کرتے تھے۔ تشخیص کا نتیجہ سامنے آنے پر حضرت ڈاکٹر صاحب نے ایک نئی ایجاد شدہ دوا کے چھ ٹیکے منگوائے اب سوال یہ پیدا ہوا کہ یہ نئی قسم کا ٹیکہ حضور کے لگایا بھی جائے یا نہیں۔ اس بارے میں بعض احباب متامل تھے کہ مبادا کوئی بری علامت پیدا ہو جائے مگر حضرت ڈاکٹر صاحب کو یقین تھا کہ یہ علاج انشاء اللہ ضرور کارگر ہو گا۔ اس لئے آپ نے پسند کیا کہ بطور تجربہ ایک ٹیکہ آپ کے لگا کر نتیجہ دیکھ لیا جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ چوبیس گھنٹے گزرنے کے بعد جب کوئی بری علامت ظاہر نہ ہوئی۔ پھر تو حضور کے بھی ٹیکہ لگایا گیا۔ دوسرے ٹیکہ کے بعد حضور کی بیماری ختم ہو گئی اور تیسرے ٹیکہ کی ضرورت نہ رہی۔ (نیز ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ ۱۱۶۔ ۱۱۷)
۴۵۰۔ یعنی حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ۔ ناقل۔
۴۵۱۔ حضرت مولانا شیر علی صاحب کے قلم سے لکھی ہوئی اصل وصیت خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۴۵۲۔ اخبار حق لاہور ۲۳/ نومبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۴۵۳۔ یادگار جنگ صفحہ ۳۷۔ ۳۸ (شائع کردہ پنجاب پبلسٹی کمیٹی لاہور)
۴۵۴۔ اخبار حق لاہور ۲۳/ نومبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔
۴۵۵۔ الفضل ۳/ دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۲۔
۴۵۶۔ الفضل ۷/ دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۱۔
۴۵۷۔ الفضل ۲۶/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۳۔
۴۵۸۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ اکتوبر ۱۹۱۸ء۔
۴۵۹۔ الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۴۔
۴۶۰۔ الفضل ۲۳/ نومبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۶۱۔الحکم ۱۴/ ۷ دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۸۔
۴۶۲۔ الفضل ۲۶/ جنوری ۱۹۱۸ء صفحہ ۲۔
۴۶۳۔ الفضل ۲۲/ جون ۱۹۱۸ء صفحہ ۲۔
۴۶۴۔ ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۱۸ء۔
۴۶۵۔ الفضل ۱۲/ فروری ۱۹۱۸ء صفحہ ۱۰۔ ۱۱۔
۴۶۶۔ اخبار نور ۳/ فروری ۱۹۱۸ء صفحہ ۷۔ ۱۵۔
۴۶۷۔ الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۱۸ء صفحہ ۲۔
۴۶۸۔ ’’فیصلہ حکم‘‘ کے نام سے چھپ گیا تھا۔
۴۶۹۔ الفضل یکم جون ۱۹۱۸ء صفحہ ۹۔
۴۷۰۔ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۱۸ء صفحہ ۲۔
۴۷۱۔ تشحیذ الاذہان دسمبر ۱۹۱۸ء صفحہ ۹۔ ۲۶۔
۴۷۲۔ سیٹھ صاحب کا وطن مالوف چنیوٹ ضلع جھنگ ہے آپ کے والد ماجد میاں حاجی سلطان محمود صاحب نے چنیوٹ میں اسلامیہ ہائی سکول جاری کیا۔ جس کی وجہ سے اپنی برادری میں بانی خطاب پایا حاجی تاج محمود صاحب مرحوم جن کا انتقال جولائی ۱۹۶۴ء میں ہوا آپ کے سگے چچا تھے۔ (الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۶۴ء صفحہ ۴)
۴۷۳۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۶۲۔ ۳۶۳ و الفضل ۳/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۳ (تقریر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی)
۴۷۴۔ رپورٹ محکمہ نظارت (از یکم جنوری ۱۹۱۹ء تا مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۲ (شائع کردہ حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ ناظر اعلیٰ) و الفضل یکم اپریل ۱۹۱۹ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۴۷۵۔ الفضل ۴/ جنوری ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔ نظارتوں کی پہلی سہ ماہی کی رپورٹ طبع شدہ ہے۔
۴۷۶۔ الفضل ۳۱/ اکتوبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۳‘۳/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۔
۴۷۷۔ الفضل ۳/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۔
‏]1h [tag۴۷۸‘۴۷۹۔ ۲۹/ نومبر ۱۹۵۵ء کو نظارت دعوۃ و تبلیغ ختم کر دی گئی اور فیصلہ ہوا کہ جماعت بہت بڑھ چکی ہے اور جماعتی تربیت کی طرف بہت ضرورت ہے اس لئے نظارت تعلیم و تربیت دو نظارتوں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ اول نظارت تعلیم دوم نظارت رشد و اصلاح۔ نظارت رشد و اصلاح کے کارکن اپنے گریڈ کے لحاظ سے علی الترتیب (۱) مربی (۲) معلم کے نام سے موسوم ہوں گے۔ اس فیصلہ کے مطابق نظارت تعلیم وتربیت کا تربیتی حصہ عملہ و بجٹ سمیت نظارت رشد و اصلاح کی طرف منتقل کر دیا گیا۔
۴۸۰۔ h2] gat[ الفضل ۲۱/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۱ (یکم مئی ۱۹۲۶ء کو حضور نے نظارت تجارت کا اضافہ کیا اور اس کے پہلے (آنریری) ناظر حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو مقرر فرما کر ارشاد فرمایا کہ شاہ صاحب ہر تجارتی معاہدہ مرزا شریف احمد صاحب کے مشورہ سے کریں گے (ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۶ء) تقسیم ملک کے بعد نظامت خدمت و رویشاں نظامت دیوان اور نظارت زراعت کا بھی قیام عمل میں آیا۔
۴۸۱۔ الفضل ۱۵/ فروری ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔
۴۸۲۔ الفضل ۴/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔
‏h1] ga[t۴۸۳۔ اس تقریر کا ملخص ریویو آف ریلیجنز اردو ستمبر۔ اکتوبر ۱۹۱۹ء میں شائع ہوا۔
۴۸۴۔ الفضل ۸/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔
۴۸۵۔ الفضل ۸/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۳۔
۴۸۶۔ الفضل ۸/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۵۔ غیر مبائع اخبار پیغام صلح نے ۲/ مارچ ۱۹۱۹ء کی اشاعت میں ’’میاں صاحب کا ایک قابل قدر لیکچر‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ علانیہ اس بات کا اظہار کرتے ہوئے کہ ۲۶/ فروری ۱۹۱۹ء کو حبیبیہ ہال لاہور میں خلافت اسلامیہ کے اندرونی اختلافات‘‘ پر جو لیکچر انہوں نے دیا وہ نہایت ہی قابل قدر اور لائق تحسین تھا جس محنت اور جس قابلیت کے ساتھ میاں صاحب نے تاریخ کی ورق گردانی کرکے ان اسباب کو معلوم کیا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم کے باہمی اختلافات اور آپس کی نزاعات اور جنگوں کا باعث تھے اور جس خوبی کے ساتھ اس الزام کو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم دراصل ان فتنوں کے موجب تھے ان خیر القرون کے بزرگوں سے اتارنے کی کوشش کی ہے۔ وہ داد دینے کے قابل ہے۔
۴۸۷۔ ’’اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ بار دم سر ورق صفحہ ۲۔
۴۸۸۔ الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۸۹۔ قادیان گائید صفحہ ۸۶۔ اس نئے قبرستان میں سب سے پہلے امتہ الرشید بنت محمد یامین صاحب تاجر کتب آف قادیان حال (ربوہ) دفن ہوئی۔
۴۹۰۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۵۹۔ ۳۶۰ (از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) سرگزشت صفحہ ۶۰۔ ۶۳ (از عبدالمجید سالک) تاریخ ہند حصہ دوم صفحہ ۲۴۴۔ ۲۴۵۔ (مطبوعہ حجازی پریس لاہور)
۴۹۱۔ ملاحظہ ہو الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۱۹ء۔
۴۹۲۔ سول اینڈ ملٹری گزٹ ۲/ مئی ۱۹۱۹ء (بحوالہ الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۱۹ء صفحہ ۳)
۴۹۳۔ ترک موالات اور احکام اسلام صفحہ ۲۔ ۳ (از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ)
۴۹۴۔ ترک موالات اور احکام اسلام۔ صفحہ ۴۔ ۵ (ملخصاً)
۴۹۵۔ الفضل ۲۲/ فروری ۱۹۱۹ء صفحہ ۳۔
۴۹۶۔ الفضل ۲۲/ فروری ۱۹۱۹ء صفحہ ۳۔
۴۹۷۔ الفضل ۲۱/ اکتوبر ۱۹۱۹ء۔
۴۹۸۔ الفضل ۲/ فروری ۱۹۲۰ء صفحہ ۵۔
۴۹۹۔ اس کا انگریزی ایڈیشن Turkey’’ of Future ehT‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہے۔
۵۰۰۔ الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۱۹ء۔
۵۰۱۔ الفضل ۲۲/ دسمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۳۔
۵۰۲۔ رپورٹ محکمہ نظارت جماعت احمدیہ صفحہ ۱۰۔
۵۰۳۔ جمعدار فضل دین صاحب کا تحریری بیان ہے کہ اس تقریر کے دوران میرے پاس ایک بزرگ عبداللہ نامی بیٹھے تھے انہوں نے حضور کی خدمت میں اپنا نام لکھے بغیر یہ سوال لکھ بھیجا کہ اللہ تعالیٰ کے علم کی وجہ سے انسان تقدیر کے مطابق کام کرنے پر مجبور ہے۔ عجیب بات ہے کہ ابھی سوال کا کاغذ حضور تک پہنچنے بھی نہ پایا تھا کہ حضور نے از خود عبداللہ کا نام بطور مثال لے کر اس اعتراض کا جواب دینا شروع کر دیا۔ جو تقدیر الٰہی طبع اول (صفحہ ۱۰۹۔ ۱۱۰) پر موجود ہے۔
۵۰۴۔ اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۳۰۳۔
۵۰۵۔ الفضل ۱۷/ مئی ۱۹۱۹ء صفحہ ۵۔
۵۰۶۔ الفضل ۱۶/ ستمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۸۔
۵۰۷۔ الفضل ۲۱/ جون ۱۹۱۹ء صفحہ ۴ کالم ۳۔
۵۰۸۔ الفضل ۲۸/ جنوری ۱۹۱۹ء صفحہ ۹۔ ۱۰۔
۵۰۹۔ h2] gat[ الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۱۹ء صفحہ ۹۔
۵۱۰۔ الفضل ۲۶/ جولائی ۱۹۱۹ء صفحہ ۸۔
۵۱۱۔ الفضل ۳۰/ ستمبر ۱۹۱۹ء صفحہ ۱۔
‏rov.5.17
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا ساتواں سال
تیسرا باب (فصل اول)
دارالتبلیغ امریکہ کی بنیاد سے لے کر
’’لجنہ اماء اللہ‘‘ کے قیام تک
خلافت ثانیہ کا ساتواں سال
(جنوری ۱۹۲۰ء تا دسمبر ۱۹۲۰ء بمطابق ربیع الاخر ۱۳۳۸ھ تا ربیع الاخر ۱۳۳۹ھ تک)
دارالتبلیغ امریکہ کی بنیاد
۱۹۲۰ء کے سال کو ایک نمایاں خصوصیت یہ حاصل ہے کہ اس میں سلسلہ احمدیہ کی باقاعدہ تبلیغی مہم پرانی دنیا کی حدود سے نکل کر نئی دنیا میں جا پہنچیں اور امریکہ میں مستقل مرکز کی بنیاد پڑی۔ یہ وہی امریکہ ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پیشیگوئی کے مطابق ڈاکٹر الیگزنڈر ڈوئی فالج زدہ ہوکر کچھ دنوں کے بعد ۹ مارچ ۱۹۰۷ء کو بڑی حسرت واندوہ کی حالت میں ختم ہو گیا۔ ۱ ڈوئی اس عداوت و دشمنی کا بدترین نمونہ تھا۔ جو امریکن پادریوں کو اسلام اور بانی اسلام حضرت رسول خدا محمد مصطفیٰ~صل۱~ سے رہی ہے۔
دراصل امریکہ کے پادری گذشتہ صدی سے تمام عالم اسلام حتیٰ کہ مرکز اسلام مکہ معظمہ پر بھی صلیب کے جھنڈے لہرانے کے خواب دیکھ رہے تھے۔ چنانچہ مسٹر جان ہنری بیرس berose( Henry )Gohn نے گذشتہ صدی کے نصف آخر میں کہا تھا کہ صلیب کی چمکار آج ایک طرف لبنان پر ضوافگن ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کی چمک سے جگمگا رہا ہے یہ صورت حال پیش خیمہ ہے اس آنے والے انقلاب کا جب قاہرہ دمشق اور تہران کے شہر خداوند یسوع کے خدام سے آباد نظر آئیں گے۔ حتیٰ کہ صلیب کی چمکار صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی وہاں بھی پہنچے گی۔ اس وقت خداوند یسوع اپنے شاگردوں کے ذریعہ مکہ کے شہر اور خاص کعبہ کے حرم میں داخل ہوگا ۲
یہ حالات تھے جن میں حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو جو اس وقت انگلستان میں تھے امریکہ چلے جانے کا حکم صادر فرمایا۔ آپ ۲۶ جنوری ۱۹۲۰ء کو انگلسان کی بندرگاہ لور پول سے روانہ ہوئے۳ اور ۱۵ فروری ۱۹۲۰ کو امریکہ کی بندرگاہ فلاڈلفیا پر اترے لیکن شہر کے اندر داخل نہ ہو سکے کیونکہ راہداری کے انسپکٹر نے کئی گھنٹے کی پوچھ گچھ کے بعد صرف اس وجہ سے کہ آپ ایک ایسے مذہب کے داعی و مبلغ تھے جو تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے آپ کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہ دی۔ اور فیصلہ کیا کہ آپ جس جہاز میں آئے ہیں اسی میں واپس چلے جائیں۔
حضرت مفتی صاحب نے اس فیصلہ کے خلاف محکمہ آباد کاری (واشنگٹن) میں اپیل کی۔ اپیل کے فیصلہ تک آپ کو سمندر کے کنارے ایک مکان میں بند کر دیا گیا۔ جس سے باہر نکلنے کی ممانعت تھی مگر چھت پر ٹہل سکتے تھے۔ اس کا دروازہ دن میں صرف دو مرتبہ کھلتا تھا جبکہ کھانا کھلایا جاتا تھا۔
اس مکان میں کچھ یورپین بھی نظر بند تھے جو عموماً نوجوان تھے اور پاسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے اس وقت تک کے لئے یہاں نظر بند کردیئے گئے تھے جب تک حکام کی طرف سے ان کے متعلق کوئی فیصلہ ہو۔ یہ لوگ حضرت مفتی صاحب کابڑا ادب کرتے تھے۔ اور ان کی ضرویات کا خیال رکھتے تھے۔ ان کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ بھی انہوں نے بنادی تھی۔ اور برابر خدمت کرتے رہتے تھے۔ حضرت مفتی صاحب نے موقعہ سے فائدہ اٹھا کر ان نوجوانوں ہی کو تبلیغ کرنا شروع کردی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ دو ماہ کے اندر پندرہ آدمی اسی مکان میں مسلمان ہوئے۔
ادھر یہ صورت ہوئی ادھر آپ کی شہرت کا غیبی سامان یہ ہوا۔ کہ امریکن پریس نے آپ کی آمد اور ملک میں داخلے کی ممانعت کا بہت چرچا کیا۔ اور بعض مشہور ملکی اخبارات مثلاً ’’فلاڈلفیا ریکارڈ‘‘ ۔ پبلک ریکارڈ‘‘۔ نارتھ امریکن بلیٹین‘‘۔ ایوننگ بلیٹین‘‘۔ پبلک لیجر‘‘۔ دی پریس‘‘۔ نے نہ صرف آپ کی آمد کے بارے میں خبر دی۔ بلکہ جماعت احمدیہ کے حالات بھی شائع کئے۔]4 [stf۴
سیدنا حضرت خلفیتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے امریکی حکومت کے اس رویہ پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا۔
’’امریکہ جسے طاقتور ہونے کا دعٰوی ہے اس وقت تک اس نے مادی سلطنتوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی ہوگی۔ روحانی سلطنت سے اس نے مقابلہ کر کے نہیں دیکھا۔ اب اگر اس نے ہم سے مقابلہ کیا تو اسے معلوم ہوجائے گا کہ ہمیں وہ ہرگز شکست نہیں دے سکتا کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے ہم امریکہ کے اردگرد علاقوں میں تبلیغ کریں گے اور وہاں کے لوگوں کو مسلمان بناکر امریکہ بھیجیں گے اور ان کو امریکہ نہیں روک سکے گا اور ہم امید رکھتے ہیں کہ امریکہ میں ایک دن لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونجے گی اور ضرور گونجے گی‘‘۔۵
آخر شروع مئی ۱۹۲۰ء میں امریکی حکومت کی طرف سے حضرت مفتی صاحب سے پابندی اٹھالی گئی۔ جس کی فوری وجہ یہ ہوئی۔ کہ حضرت مفتی صاحب کی تبلیغ سے کئی انگریزوں کے مسلمان ہونے کی خبر جب متعلقہ محکمہ کے افسر کو پہنچی تو وہ بہت گھبرایا اور سوچنے لگا۔ کہ اس طرح تو یہ آہستہ آہستہ سارے نظر بند نوجوانوں کو مسلمان کرلیں گے۔ اور جب شہر کے پادری صاحبان کو اس کا علم ہوگا تو وہ سخت ناراض ہوں گے۔ اور شہر کی پبلک میرے خلاف ہوجائے گی اس پر اس نے اعلیٰ افسروں کو تار دیئے کہ جس قدر جلد سے جلد ممکن ہو ہندوستانی مشنری کو اندرون ملک میں داخلے کی اجازت دیدی جائے چنانچہ حکام نے بھی آپ کو امریکہ داخل ہونے کا فیصلہ کر دیا۔ اور حضرت مفتی صاحب ۶ نے نیو یارک میں داخل ہوکر ایک مکان کا حصہ لیکچروں اور دفتر کے لئے کرایہ پر لے کر تبلیغ اسلام کا کام شروع کر دیا ۷ اور سعید روحیں حلقہ بگوش اسلام ہونے لگیں۔
اس کے بعد آپ نے ڈیٹرائٹ میں چند ماہ قیام فرمایا اور عرب آبادی میں خاص طور پر پیغام حق پہنچایا پھر ۱۹۲۱ء میں آپ شکاگو منتقل ہوگئے وہاں آپ نے ایک عمارت خرید کر امریکہ مشن کا مرکز قائم کیا۔۸ اور ’’دی مسلم سن رائز‘‘ کے نام سے ایک سہ ماہی رسالہ بھی جاری کیا۔ حضرت مفتی صاحب (جو امریکہ میں آج تک ڈاکٹر صادق کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں) ۴ دسمبر ۱۹۲۳ء میں قادیان سے تشریف لے گئے ۹ اور امریکہ مشن کا چارج حضرت مولوی محمد الدین صاحب نے لے لیا۔
حضرت مولوی محمد الدین صاحب نے اپنے عہد میں امریکہ کے طول وعرض میں تبلیغی حدود کو اور زیادہ وسعت دی اور کئی امریکنوں کو مسلمان کیا۔ آپ جنوری ۱۹۲۳ء میں قادیان سے تشریف لے گئے اور ۳۰ جون ۱۹۲۵ء کو واپس تشریف لے آئے۔
۲۰ مئی ۱۹۲۸ء کو مکرم صوفی مطیع الرحمان صاحب بنگالی مشن کے باقاعدہ انچارج بناکر بھیجے گئے جو ۱۸ اگست ۱۹۲۸ء کو شکاگو پہنچے۔ ۱۰ ملک میں ان دنوں گورے اور کالے کا سوال بہت شدت سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اور شکاگو مشن کالے باشندوں کی آبادی میں ہونے کی وجہ سے سفید فام لوگوں کی آمدورفت بہت کم تھی۔ اس لئے صوفی صاحب نے ۱۹۲۹ء میں شہر کے مرکز میں ایک اور مکان کرایہ پر لے لیا۔ جو شہر کے وسط میں واقع ہونے کی وجہ سے ہر قسم کے لوگوں کے لئے باآسانی تبلیغی سنٹر بن گیا۔۱۱
مکرم صوفی صاحب ۱۳ دسمبر ۱۹۳۵ء کو واپس قادیان آئے اوردوبارہ ۲۱اکتوبر ۱۹۳۶ء کو امریکہ بھیجے گئے۔ جہاں آپ بارہ سال تک تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دینے کے بعد ۱۹۴۸ء میں واپس آئے۔ آپ نے اپنے زمانہ قیام میں رسالہ’’مسلم سن رائز‘‘ کی اشاعت کے علاوہ آنحضرت ~صل۱~ کی سیرت اور قبر مسیحؑ پر شاندار تصانیف شائع کیں۔ علاوہ ازیں آپ نے متعدد پمفلٹ اور ٹریکٹ صداقت اسلام پر شائع کئے۔ آپ کے ذریعہ امریکہ میں متعدد نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔
صوفی مطیع الرحمان صاحب بنگالی مرحوم کے بعد مندرجہ ذیل مبلغین نے امریکہ میں تبلیغ کا فریضہ ادا کیا۔ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر ایم۔ اے (شکاگو۔ واشنگٹن) چوہدری غلام یٰسین صاحب بی۔ اے (نیویارک واشنگٹن) مرزا منور احمد صاحب مولوی فاضل مرحوم (جوپٹس برگ میں ہی شہید ہوئے) چوہدری شکر الٰہی صاحب (سینٹ لوئیس) عبدالقادر ضیغم مولوی فاضل (پٹس برگ) مولوی نورالحق صاحب انور مولوی فاضل (نیویارک) سید جواد علی صاحب بی ۔اے (ڈیٹرائٹ) امین اللہ خان سالک شاہد بی۔ اے(شکاگو)صوفی عبدالغفور صاحب بی۔ اے (واشنگٹن نیویارک) عبدالرحمان خان صاحب بنگالی بی ۔ اے (واشنگٹن پٹس برگ) راجہ عبدالحمید صاحب (ڈیٹن)
۱۹۵۰ سے امریکہ کا مرکزی دارالتبلیغ شکاگو کی بجائے واشنگٹن مقرر کیا گیا ہے اور اس کے حلقہ میں شکاگو ‘واشنگٹن ‘بوسٹن‘فلاڈلفیا‘نیویارک۔ بالٹی مور۔ پٹس برگ۔ نیگس ٹائون۔ کلیولینڈ۔ ڈیٹن ۔ انڈیا ناپولس۔ ملواکی ۔ سینٹ لوئیس اور کینس سٹی۔ ولیاینٹک اور ڈیٹرائٹ میں مشہور جماعتیں قائم ہیں۔
امریکہ کے بعض نہایت مخلص اور ایثار پیشہ احمدیوں کے نام یہ ہیں:۔ ولی کریم۔ لطیفہ کریم۔ امتہ اللطیف۔ مرسل شفیق (ڈیٹن) احمد شہید۔ علیہ شہید۔ ابوصالح ابوالکلام۔ رشیدہ کلام۔ (پٹس برگ) علیہ علی (انڈیاناپولس) نور الاسلام۔ محمد بشیر (شکاگو) زینب عثمان۔ عبداللہ علی (سینٹ لوئیس) عبدالحکیم‘امتہ الحفیظ (کلیولینڈ) کریما کریم عبدالرحمان (بالٹیمور) رشیدہ طٰہ (واشنگٹن) بشیر افضل مصطفٰے دلیل (نیو یارک) خلیل محمود ایم۔ اے (باسٹن)
امریکہ مشن کی طرف سے اس وقت تک تیس سے زائد کتب ورسائل شائع ہوچکے ہیں مثلاً اسلامی اصول کی فاسفی اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے انگریزی تراجم۔ اسلام اینڈ ڈیماکریسی(از حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) حیاتاحمد Ahmad( of )Life قبر مسیح jesus( of Tomb )The مئولفہ جناب صوفی مطیع الرحمان صاحب بنگالی مرحوم) اسلام کا تعارف Islam( of Interpetation )An (اطالوی پروفیسر واگ لیری) موخرالذکر کتاب کا دیباچہ جناب چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب (سابق جج عالمی اسمبلی حال جج عالمی عدالت ہیگ) کا لکھا ہوا ہے۔ مشن کی طرف سے اس وقت تبلیغ اسلام کے لئے ’’دی مسلم سن رائز‘‘ اور تربیتی اغراض کے لئے ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کے نام سے دو رسالے بھی جاری ہیں۔ ۱۹۶۵ء میں ڈاکٹر بشارت احمد صاحب منیر نے جماعت کو فضل عمر پریس بطور عطیہ دیا۔۱۲
امریکہ میں جماعت احمدیہ کو تبلیغ اسلام کے کام میں جو بھاری کامیابی حاصل ہوئی ہے اس کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان میں امریکی سفارتخانہ کا ترجمان ’’پنوراما‘‘ لکھتا ہے کہ American ‘‘1,000 Ahmadiyya’’ by Islam to converts۱۳ یعنی امریکہ میں ایک ہزار نو مسلم جماعت احمدیہ کی مساعی کے نتیجہ میں داخل اسلام ہوئے ہیں۔
دوسری طرف ایک امریکن پادری نارمن ونسنٹ پیل peal( vincent )Norman خود امریکہ میں عیسائیت کی ناکامی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں۔ گذشتہ سال موسم بہار میں عوامی رجحانات کا جائزہ لینے کا ایک خاص اہتمام کیا گیا تھا اس کے نتیجے میں پتہ چلا کہ گرجوں میں حاضری روز بروز گر رہی ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسے لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ مذہب (عیسائیت) کا اثر روز بروز کم ہوتا جارہا ہے ان کی تعداد پہلے کی نسبت دوگنی سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔ ایک اور جدید رجحان یہ ہے کہ بائبل کو خدا کا مستندالہامی کلام تسلیم کرنے میں پس وپیش سے کام لیا جارہاہے۔ یہ اب محض ایک دینی کتاب کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ اور اس منہ بولتی تصدیق کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔ کہ خداوند کا فرمان یہ ہے ’’یقیناً خداوند کا فرمان اور انجیل وہ بنیادیں ہیں جن پر پروٹسٹنٹ ازم قائم ہے جب یہ بنیاد ہی کمزور ہوجائے۔ تو پھر پوری عمارت کا متزلزل ہونا لازمی ہے‘‘۔]4 [stf۱۴
مسجد لنڈن کے لئے چندہ کی تحریک
حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ۷ جنوری ۱۹۲۰ء کو مسجد لنڈن کے لئے چندہ کی تحریک فرمائی۔ جس پر جماعت نے ایسے رنگ میں لبیک کہا کہ ایک دنیا ور طہ حیرت میں آگئی۔ چنانچہ عبدالمجید قریشی ایڈیٹر اخبار ’’تنظیم‘‘ امرت سر نے لکھا ’’تعمیر مسجد کی تحریک ۶ جنوری ۱۹۲۰ء میں امیر جماعت احمدیہ نے کی اس سے زیادہ مستعدی اس سے زیادہ ایثار اور اس سے زیادہ سمع و اطاعت کا اسوہ حسنہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ ۱۰ جون تک ساڑے اٹھتر ہزار روپیہ نقد اس کارخیر کے لئے جمع ہوگیا تھا کیا یہ واقعہ نظم وضبط امت اور ایثار وفدائیت کی حیرت انگیز مثال نہیں۔۱۵
لاہور اور امرت سر میں عظیم الشان لیکچرحضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۳ فروری ۱۹۲۰ء ۱۶سے ۲۳ فروری ۱۹۲۰ء۱۷ تک لاہور اور امرت سر کے سفر میں رہے حضور نے اس سفر میں چھ عظیم الشان لیکچر دیئے۔
۱۔ پہلا لیکچر ۱۵ فروری کو بصدارت خان ذوالفقار علی خان صاحب بریڈلا ہال لاہور میں ہوا جس میں حضور نے مسٹر لائڈ جارج وزیراعظم انگلستان کے اس اعلان کی عقلی و نقلی دلائل سے دھجیاں اڑادیں۔ کہ آئندہ دنیا کا امن عیسائیت سے وابستہ ہے حضور نے روز روشن کی طرح ثابت فرما دیا کہ مستقبل میں امن و امان کا قیام صرف اسلام ہی کے ذریعہ ہو سکتاہے۔۱۸
۲۔ حضور کا دوسرا اہم لیکچر ’’واقعات خلافت علوی‘‘ کے موضوع پر لاہور کی مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی کے زیرانتظام کالج کے حبیبیہ ہال میں ہوا۔ اور حضور کے مشہور و مقبول لیکچر اسلام میں اختلافات کا آغاز‘‘ کی طرح یہ تاریخی تقریر بھی نہایت مقبول ہوئی اور صاحب صدر جناب خان بہادر شیخ عبدالقادر صاحب بی۔اے نے اختتامی تقریر میں فرمایا ۔ ’’حضرات ! میں آپ سب صاحبان کی طرف سے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں اس پرزور اور پراز معلومات تقریر کے لئے جو آپ نے اس وقت ہمارے سامنے کی ہے میں نے دیکھا ہے کہ حضرت نے قریباً تین گھنٹے تقریر کی ہے اور آپ صاحبان نے ہمہ تن گوش ہوکر سنی ہے اس تقریر سے جو وسیع معلومات اسلامی تاریخ کے متعلق معلوم ہوئے ہیں۔ ان میں سے بعض بالکل غیر معمولی ہیں ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان کی تلاش اور تجسس کے لئے کسی وقت بہت سی کتب کا مطالعہ کیا ہوگا۔ مگر میں بلا تامل کہ سکتا ہوں کہ یہ باتیں محض مطالعہ سے حاصل نہیں ہوسکتیں بلکہ
ایں سعادت بزرو بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس روانی سے کسی نے تاریخی معلومات کو مسلسل بیان کیا ہو اور پھر کسی تاریخی مضمون میں ایسا لطف آیا ہو جو کسی داستان گو کی داستان میں بھی نہ آسکے۔ اس کے لئے میں پھر شکریہ ادا کرتا ہوں۔
۳۔ حضور کا تیسرا لیکچر ’’مذہب اور اس کی ضرورت‘‘ پر ۱۸ فروری ۱۹۲۰ء کو احمدیہ ہوسٹل لاہور میں ہوا جس میں حضور نے انگریزی خوانوں کے اعتراضات اور موجودہ علمی تحقیقات کو مدنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ایسی خوبی و خوش اسلوبی سے پیش کیا کہ دل وجد کرنے لگے۔ یہ لیکچر اپنی شان اور اپنے رنگ میں بالکل اچھوتا تھا۔ نہایت مشکل وادق مسائل بڑی صفائی و برجستگی سے بیان فرمائے گئے تھے۔ ۲۰
۴۔ حضور نے ۱۹ فروری ۱۹۲۰ء کو بیرون دہلی دروازہ ایک نہایت عمدہ تبلیغی لیکچر دیا یہ لیکچر ڈھائی گھنٹے تک جاری رہا ۔ اکثر احباب چشم پر آب تھے۔ اور غیراز جماعت دوست بھی بہت متاثر ہوئے۔۲۱
۵۔ اس کے بعد حضور لاہور سے امرت سر تشریف لے گئے اور ۲۲ فروری ۱۹۲۰ء کو بندے ماترم ہال میں (جہاں ۱۹۰۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام نے لیکچر دیاتھا۔ اور باوجود مولویوں کی اشتعال انگیزی کے یہ لیکچر بخیروخوبی ختم ہوا۔ اور حضور رات کی گاڑی میں لاہور واپس ہوگئے ۔
۶۔ حضور نے ۲۴ فروری ۱۹۲۰ء کو جماعت لاہور سے ایک اہم خطاب فرمایا گوبظاہر تو احباب لاہور ہی اس کے مخاطب تھے لیکن فی الحقیقت یہ خطاب تمام جماعت ہائے احمدیہ کے لئے تھا۔ ۲۲
سیالکوٹ اور امرتسر میں لیکچر
حضور ۷ اپریل ۱۹۲۰ء ۲۳ کو قادیان سے سیالکوٹ تشریف لے گئے اور ۱۵ اپریل ۱۹۲۰ء ۲۴ کو قادیان واپس آئے۔ سفر لاہور کی طرح اس سفر میں بھی حضور نے کئی تقریریں فرمائیں چنانچہ ۱۰ اپریل ۱۹۲۰ء ۲۵ کو احمدیہ حال کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے حاضرین سے خطاب فرمایا۔ دوسرے روز ۱۱ اپریل ۱۹۲۰ء کو اس عنوان پر کہ’’دنیا کا آئندہ مذہب اسلام ہوگا‘‘۔ لیکچر دیا۔ اس لیکچر کے وقت آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ آسمان سے یکا یک ایک نور اترا ہے اور میرے اندر داخل ہوگیا ہے اور میرے جسم سے ایسی شعاعیں نکلنے لگی ہیں۔ کہ میں نے حاضرین کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیا ہے۔ اور وہ جکڑے ہوئے میری طرف کھنچے چلے آرہے ہیں۔ اور بفضلہ تعالیٰ یہ تقریر بہت کامیاب ہوئی تیسرے روز ۱۲ اپریل ۱۹۲۰ء کو حضور نے پنجابی زبان میں ایک گھنٹہ تک عورتوں کو لیکچر دیا۔ ۲۶جو فرائض مستورات کے نام سے چھپ چکا ہے حضور سیالکوٹ سے واپسی پر ۱۳ اپریل کو لاہور رونق افروز ہوئے۔ اور ۱۴ اپریل کو امرت سر پہنچے اور اس موضوع پر کہ ’’کیا دنیا کے امن و امان کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جاسکتی ہے‘‘ بندے ماترم ہال میں لیکچر دیا۔ اور مسٹر لائڈ جارج وزیراعظم کے اعلان کے مقابل اسلام کو ذریعہ امن ثابت فرمایا۔ اس لیکچر کے دوران میں جب حضور نے اس حدیث کا ذکر فرمایا جس میں خدا تعالیٰ کا ماں سے بھی زیادہ شفیق ہونا ظاہر کیا گیا ہے۔ (ملاحظہ ہو مشکٰوۃ مطبع مجتبائی دہلی صفحہ ۲۰۷) یہ سنتے ہی امرتسر کی مسجد خیرالدین کے امام جناب مولوی سید عطااللہ شاہ صاحب بخاری فوراً اٹھ کھڑے ہوئے اور نہایت جوش و خروش سے حوالہ صفحہ ‘سطر ‘مطبع ‘سنہ کا مطالبہ کرنے لگے۔ حضور نے جواباً فرمایا۔ اس وقت آپ تقریر سنیں اگر حوالہ کی ضرورت ہو تو مکان پر تشریف لے آئیں۔ جناب بخاری صاحب خوب جانتے تھے کہ یہ میدان مناظرہ نہیں ہے کہ کتابیں ساتھ لائی گئی ہوں اور نہ یہ لیکچر کسی اسلامی فرقہ کے خلاف ہو رہا تھا کہ کسی غیر احمدی کو اعتراض ہو سکتا مگر چونکہ ان کی نیت اور تھی۔ اس لئے انہوں نے معقول جواب کی طرف کچھ توجہ نہ کی۔ اور جو شور وغل شروع کر چکے تھے اس میں ترقی کرتے گئے اسی دوران میں بعض دوست یہ اندازہ کرکے کہ غوغائی لوگ خشت باری کا ارادہ کر رہے ہیں۔ حضور کے آگے کھڑے ہوگئے تا حضور کو تکلیف نہ پہنچے مگر حضور نے ان کو حکماً بٹھا دیا۔ بعض نے خطرہ بڑھتا ہوا دیکھ کر یہ بھی عرض کیا کہ لیکچر بند کردیا جائے۔ مگر حضور نے بڑے جلال کے رنگ میں فرمایا۔ کہ کیا تم مجھے بزدل بناتے ہو۔ ۲۷ اور لیکچر بند نہیں فرمایا۔ آخر پولیس نے یہ دیکھ کر کہ حالت خراب سے خراب تر ہوا چاہتی ہے۔ مداخلت کی اور مولوی سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری سے جلسہ کا ہال چھوڑ دینے کے لئے کہا اس پر وہ اپنے ساتھیوں سمیت شوروغل مچاتے جلسہ کی جگہ سے نکل کر باہر دروازہ پر کھڑے ہوگئے۔ ادھر ہال میں تو حضور کا لیکچر ہو رہا تھا۔ اور ادھر ہال کے باہر مولوی بخاری صاحب احمدیت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے خلاف ایسے الفاظ استعمال کر رہے تھے کہ شرافت سے ذرا سا بھی تعلق رکھنے والا انسان انہیں زبان پر لانے کا خیال بھی نہیں کرسکتا۔ انہوں نے غیظ و غضب کے عالم میں یہاں تک کہہ ڈالا آج میں مصروف جہاد ہوں اور مرنے مارنے پر تیار ہوں نماز نہیں پڑھوں گا بلکہ اس کو جو خلیفہ بنا ہوا ہے زندہ نہیں نکلنے دوں گا۔ آخر کچھ وقت کے بعد حضور لیکچر ختم کرکے اسی مشتعل ہجوم میں سے ہوتے ہوئے خدا کے فضل سے بخیریت اپنی قیام گاہ پر تشریف لے آئے۔۲۸ اور قادیان واپس تشریف لانے پر جناب بخاری صاحب کی مطلوبہ حدیث کا مکمل متن مع حوالہ شائع کردیا۔۲۹
مبلغین کلاس کا اجراء۔
حضرت امیرالمومنین کی ہدایت پر ۲۱جون ۱۹۲۱ء کو پہلی یادگار مبلغین کلاس جاری ہوئی اور اس کے استاد علامہ زمان حضرت حافظ روشن علی صاحب جیسے مثالی عالم ربانی مقرر ہوئے۔ ۳۰ مولانا جلال الدین صاحب شمس ۔ مولانا غلام احمد صاحب بدوملہوی۔ مولانا ظہور حسین صاحب اور مولانا شہزادہ خانصاحب مرحوم جیسے نامور علماء و فضلا اس پہلی کلاس کے ابتدائی طلبہ ہیں اس کلاس میں بعد کو حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب بھی شامل ہوگئے۔ ۳۱ تین سال بعد ۱۹۲۴ء میں کر یہہ ضلع جالندھر کے ایک نہایت ذہین وطباع طالب علم کو بھی خوش قسمتی سے اس کلاس میں داخل ہوکر حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب سے شرف تلمذ حاصل ہوا یہ طالب علم اب علمی دنیا میں مولانا ابوالعطاء ۳۲ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے علاوہ سلسلہ کے مبلغین میں سے ابوالبشارت مولانا عبدالغفور صاحب ۔ مولوی قمرالدین صاحب سیکھوانی جناب قریشی محمد نذیر صاحب اور دوسرے متعدد طلباء تھے جنہیں آپ سے تعلیم و تربیت حاصل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ حضرت حافظ صاحب اپنے فرائض تعلیم و تربیت اور جہاد تبلیغ میں اپنی زندگی کے آخری سانس تک مصروف رہے آپ نے اپنی وفات سے قبل یہ وصیت فرمائی کہ میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں۔۳۳۔ اور حق یہ ہے کہ آپ کے تمام شاگردوں نے آپ کی وصیت پر عمل کرنے کا اپنی اپنی حالت کے مطابق پورا پورا خیال رکھا ہے اور رکھتے ہیں لیکن آپ کے فیض یافتہ تلامذہ میں سے جنہوں نے آپ کے سامنے بھی بہت تبلیغ کی تھی اور آپ کے بعد تو پوری قوت سے تبلیغ کے لئے کھڑے ہوگئے اور کھڑے ہیں ان کے متعلق خود حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پیش کر دینا زیادہ انسب واولیٰ ہے حضور نے فرمایا ’’حافظ روشن علی صاحب وفات پاگئے تو ۔۔۔۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے فوراً مولوی ابوالعطاء صاحب اور مولوی جلال الدین صاحب شمس کو کھڑا کر دیا اور جماعت نے محسوس کیا کہ یہ پہلوں کے علمی لحاظ سے قائم مقام ہیں‘‘۔۳۴ پھر ۱۹۵۶ء میں فرمایا۔ ’’یہ نہ سمجھو کہ اب وہ خالد نہیں ہیں اب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں چنانچہ (مولوی جلال الدین صاحب ناقل )شمس صاحب ہیں۔ مولوی ابوالعطاء صاحب ہیں۔ عبدالرحمان صاحب خادم ہیں‘‘۔]4 [stf۳۵
’’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ‘‘
فاتح اتحادی ملکوں نے ترکی سے جو شرائط صلح طے کیں وہ انتہا درجہ کی ذلت آمیز تھیں۔ ترکی سلطنت کے حصے بخرے کر دیئے گئے فلسطین عراق ‘عرب اور شام کو آزاد و خودمختار سلطنتیں قرار دے کر ان پر برطانیہ کی عملداری قائم کر دی گئی اور حجاز پر شریف حسین مکہ کی بادشاہت تسلیم کرلی گئی اور مصر ٹرکی کے حقوق واختیارات سے آزاد کر دیاگیا۔ شرائط نامہ میں ٹرکی کی بحری اور بری اور ہوائی افواج بھی نہایت درجہ محدود کر دی گئیں۔ ۳۶ اس کے علاوہ اور بھی سخت شرائط اور پابندیاں لگادی گئیں۔
اس معاہدہ کے سلسلہ میں آئندہ طریق عمل سوچنے کے لئے یکم و ۲ جون ۱۹۲۰ء کو الہ آباد میں خلافت کمیٹی کے تحت ۳۷ کانفرنس منعقد کی گئی۔ جمیعتہ العلماء ہند ۳۸ کے مشہور لیڈر جناب مولانا عبدالباری صاحب فرنگی محل کی دعوت پر حضور نے ایک مضمون معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ کے عنوان سے ایک دن میں رقم فرمایا۔ اور اسے راتوں رات چھپواکر حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے ذریعہ بھجوادیا۔ ۳۹ ان کے ساتھ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بھی تشریف لے گئے۔
اس مضمون میں حضور نے اپنا نقطہ نگاہ بدلائل واضح فرمایا۔ کہ ’’میرے نزدیک اس معاہدہ کی کئی شرائط میں حقوق کا اتلاف ہوا ہے‘‘ اس کے بعد لکھا کہ مسلمانوں کے سامنے کئی آراء پیش کی جارہی ہیں۔ بعض نے ہجرت کی تجویز پیش کی ہے بعض نے جہاد عام کو پسند کیا ہے بعض نے قطع تعلقی عدم موالات کی پالیسی کو سراہا ہے۔ مگر میرے نزدیک یہ سب تجاویز نادرست اور ناقابل عمل ہیں چنانچہ حضور نے تینوں تجاویز کا مفصل جائزہ لیا۔
۱۔ ہجرت کے بارے میں بتایا کہ شرعاً ہجرت کا یہ کوئی موقعہ نہیں ہے اور ہندوستان کے سات کروڑ مسلمان ہندوستان کو چھوڑ کر کہیں جاسکتے ہیں؟
۲۔ جہاد کی نسبت وضاحت فرمائی کہ ایک حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرکے اس میں رہنے کے بعد اس کے خلاف علم جہاد بلند نہیں کیا جاسکتا۔
۳۔ تحریک عدم موالات کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے آپ نے صاف اور واضح لفظوں میں انتباہ فرمایا کہ ’’سوائے اس کے کہ اس فیصلہ سے لاکھوں مسلمان اپنی روزی سے ہاتھ دھو بیٹھیں اور تعلیم سے محروم ہوجائیں اور اپنے حقوق کو جو بوجہ مسلمانوں کے سرکاری ملازمتوں میں کم ہونے کے پہلے ہی تلف ہورہے ہیں۔ اور زیادہ خطرہ میں ڈال دیں اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا‘‘۔
مضمون کے دوسرے حصہ میں حضور نے مسلمانوں کو مستقبل کے لئے ایک عملی پروگرام بنانے کی طرف توجہ دلائی اور تجویز پیش کی کہ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی و بہبود کے لئے بلا تاخیر ایک عالمگیر لجنہ اسلامیہ (یعنی موتمر عالم اسلامی) قائم ہوجانی چاہئے۔ آخر میں مسلمانوں کو اسلام کے درخشندہ اور روشن مستقبل کی خبر دیتے ہوئے تحریر فرمایا یہآخری صدمہ واقعہ میں آخری صدمہ ہے اب اسلام کے بڑھنے کے دن شروع ہوتے ہیں اور اب ہم دیکھیں گے کہ مسیحی کیونکر اس کی بڑھتی ہوئی رو کو روکتے ہیں خدا کی غیرت اس کے مامور کے ذریعہ ظاہر ہوچکی ہے۔ اور اب سب دنیا دیکھ لے گی۔ کہ آئندہ اسلام مسیحیت کو کھانا شروع کردے گا۔ اور دنیا کا آئندہ مذہب وہی مذہب ہوگا جو اس وقت سب سے کمزور مذہب سمجھاجاتا ہے۔ ۴۰
حضرت خلیفہ المسیح کا پیغام احمدی قوم کے نام
جولائی ۱۹۲۰ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جماعت احمدیہ کو اپنے پیغام میں مدرسہ احمدیہ کی ترقی و بہبود کے لئے اپنے بچے بھجوانے اور مالی اعانت کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ مدرسہ احمدیہ تمہاری عملی جدوجہد کا نقطہ مرکزی ہے اور اسی کی کامیابی پر اس امر کا فیصلہ ٹھہرا ہے کہآئندہ سلسلہ کی تبلیغ جاری رکھی جاسکے گی یا نہیں۔۴۱اس پیغام پر کئی مخلصین جماعت نے اپنے نونہال اس اہم درسگاہ میں داخل کرادیئے اور مدرسہ کے طلبہ میں نمایاں اضافہ ہوگیا۔
مسجد لندن کے لئے زمین کی خرید پر خوشی کی تقریب
حضرت امیرالمومنین خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ ۳۱ جولائی ۱۹۲۰ء کو دھرم سالہ تشریف لے گئے اور ۲۷ ستمبر ۱۹۲۰ء کو واپس قادیان آئے ۴۲ اس سفر کا ایک اہم واقعہ یہ ہے کہ مسجد احمدیہ لنڈن کے لئے قطعہ زمین کی اطلاع ملنے پر ۹ ستمبر کو ایک پر مسرت تقریب منعقد ہوئی جس میں حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم سے قریباً تمام رفقاء سفر (مثلاً حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب‘حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب‘حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ‘حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم ۔اے‘حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب) نے باری باری مسجد لنڈن کے بارے میں اشعار پڑھے اور سب کے بعد خود حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ قطعہ سنایا۔
مرکز شرک سے آوازہ توحید اٹھا
دیکھنا دیکھنا مغرب سے ہے خورشید اٹھا
نور کے سامنے ظلمت بھلا کیا ٹھہرے گی
جان لو جلد ہی اب ظلم صنا دید اٹھا۴۳
اس قطعہ کے علاوہ حضور کی ایک نظم بھی مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے پڑھ کر سنائی۔ نظموں کا پروگرام ختم ہونے پر دعا ہوئی اور نماز عصر پڑھنے کے بعد دسترخوان دعوت بچھایا گیا جس میں آقا و خدام سب خوشی خوشی شامل ہوئے۔۴۴
’’الواح الہدیٰ‘‘ نونہالان احمدیت کو درد انگیز خطاب
اسی سال جبکہ حضور دھرم سالہ میں مقیم تھے نوجوانان احمدیت کو نہایت قیمتی نصائح کے ساتھ خطاب کرتے ہوئے ایک درد انگیز نظم کہی جس کا پہلا شعر یہ تھا۔
نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے
پر ہے یہ شرط کہ ضائع میرا پیغام نہ ہو
‏body] gat[اس نظم کی یہ خصوصیت تھی کہ حضور نے نہ صرف قریباً ہر شعر کی وضاحت نثر میں بھی حاشیہ کے ذریعہ سے فرمائی۔ بلکہ نظم لکھنے سے قبل اس کا پس منظر بھی اپنے قلم سے تحریر فرمایا جس میں لکھا۔ ’’اے نوجوانان جماعت احمدیہ! ہر قوم کی زندگی اس کے نوجوانوں سے وابستہ ہے کس قدر ہی محنت سے کوئی کام چلایا جائے اگر آگے اس کے جاری رکھنے والے لوگ نہ ہوں تو سب محنت غارت جاتی ہے اور اس کام کا انجام ناکامی ہوتا ہے۔ گو ہمارا سلسلہ روحانی ہے مگر چونکہ مذکورہ بالا قانون بھی الٰہی ہے اس لئے وہ بھی اس کی زد سے بچ نہیں سکتا ۔ پس ۔۔۔ آپ پر فرض ہے کہ آپ گوش ہوش سے ہماری باتوں کو سنیں اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ تاخدا تعالٰے کی طرف سے جو امانت ہم لوگوں کے سپرد ہوئی ہے اس کے کما حقہ ادا کرنے کی توفیق ہمیں بھی اور آپ لوگوں کو بھی ملے۔ اس غرض کو مدنظر رکھتے ہوئے میں نے مندرجہ ذیل نظم لکھی ہے جس میں حتی الوسع وہ تمام نصیحتیں جمع کردی ہیں جس پر عمل کرنا سلسلہ کی ترقی کے لئے ضروری ہے ۔۔۔۔ خوب یاد رکھو کہ بعض باتیں چھوٹی معلوم ہوتی ہیں۔ مگر ان کے اثر بڑے ہوتے ہیں پس اس میں لکھی ہوئی کوئی بات چھوٹی نہ سمجھو اور ہر ایک بات پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔ تھوڑے ہی دنوں میں اپنے اندر تبدیلی محسوس کرو گے اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اپنے آپ میں اس کام کی اہلیت پیدا ہوتی دیکھو گے۔ جو ایک دن تمہارے سپرد ہونے والا ہے یہ بھی یاد رکھ کہ تمہارا یہی فرض نہیں کہ اپنی اصلاح کرو بلکہ یہ بھی فرض ہے کہ اپنے بعد آنے والی نسلوں کی بھی اصلاح کی فکر رکھو۔اور ان کو نصیحت کرو کہ وہ اگلوں کی فکر رکھیں۔ اور اسی طرح یہ سلسلہ ادائے امانت کا ایک نسل سے دوسری نسل کی طرف منتقل ہوتا چلا جاوے تاکہ یہ دریائے فیض جو خداتعالیٰ کی طرف سے جاری ہوا ہے ہمیشہ جاری رہے اور ہم اس کام کے پورا کرنے والے ہوں ۔ جس کے لئے آدم اور اس کی اولاد پیدا کی گئی ہے۔ خدا تمہارے ساتھ ہو۔ اللھم آمین۔ ۴۵
’’سیرت خاتم النبین‘‘ کی اشاعت
اس سال کے آخر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی معرکتہ الارا کتاب ’’سیرت خاتم النبین‘‘ کی پہلی جلد جو آنحضرت ~صل۱~ کی مکی زندگی کے بصیرت افروز حالات پر مشتمل ہے۔ شائع ہوئی۔ ابتداً یہ کتاب ۱۹۱۹ء کے ریویو میں ماہوار چھپتی رہی تھی پھر نظر ثانی کے بعد کتابی شکل میں شائع ہوئی اس محققانہ تالیف نے جو آپ ہی اپنی نظیر ہے سیرت النبی~صل۱~ کے چودہ سوسال کے اسلامی لٹریچر میں ایک شاندار اضافہ کیا ہے اور ہم بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح آنحضرت رسول مقبول ~صل۱~ کی شان تمام نبیوں میں ارفع و اعلیٰ ہے اسی طرح سیرت خاتم النبین سیرت کی دوسری تمام کتابوں سے اعلیٰ و افضل ہے۔ چنانچہ اس کے پہلے ایڈیشن پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ سر محمد شفیع صاحب بیرسٹرایٹ لاء لاہور‘مولوی الف دین صاحب وکیل ہائیکورٹ پنجاب اور ’’آگرہ اخبار‘‘ (آگرہ) ’’میونسپل گزٹ‘‘ لاہور نے بہت عمدہ تبصرے کئے ہیں۔۴۶
’’سیرت خاتم النبین‘‘ کا دوسرا حصہ اگست ۱۹۳۱ء میں شائع ہوا جو ابتدائے ہجرت سے ۵ ہجری کے آخر تک کے واقعات پر مشتمل تھا اور اپنی ظاہری و باطنی خوبیوں کے لحاظ سے ایک زبردست علمی کارنامہ تھا۔ حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے فرمایا ’’میں سمجھتا ہوں رسول کریم ~صل۱~ کی جتنی سیرتیں شائع ہوچکی ہیں ان میں سے یہ بہترین کتاب ہے اس تصنیف میں ان علوم کا بھی پرتو ہے۔ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ حاصل ہوئے ہیں اس کے ذریعہ انشاء اللہ اسلام کی تبلیغ میں بہت آسانی پیدا ہوگی‘‘۔
اس حصہ پر نواب سر سکندر حیات خان‘سیٹھ عبداللہ ہارون ایم۔ایل۔ اے کراچی ‘ڈاکٹر سر محمد اقبال۔ مولوی الف دین ایڈووکیٹ ضلع سیالکوٹ‘نواب اکبر یار جنگ جج ہائیکورٹ حیدر آباد دکن ‘مولانا سید سلیمان ندوی‘رسالہ معارف (اعظم گڑھ)اور اخبار ’’سچ‘‘ لکھنو نے بھی بے حد خراج تحسین ادا کیا۔ ۴۷
سیرت کا تیسرا حصہ جس میں غزوہ بنو قریظہ کے بعد سے لے کر آنحضرت ~صل۱~ کے تبلیغی خطوط تک کے واقعات درج تھے۔ اپریل ۱۹۴۹ء میں شائع ہوا۔
ترک موالات و احکام اسلام
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے رسالہ ’’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ‘‘ میں مسلمانوں کو تحریک عدم موالات اور ہجرت کے نقصانات سے بروقت انتباہ فرما دیا تھا۔ مگر مسلمان لیڈروں نے مسٹر گاندھی کی قیادت میں یکم اگست ۱۹۲۰ء ۴۸ سے عدم تعاون کا منظم پروگرام شروع کرکے ملک میں ایسی آگ لگادی کہ کوئی صوبہ اور کوئی ضلع محفوظ نہ رہا۔ بلکہ قصبوں اور دیہات تک اس کی لپیٹ میں آگئے ہر طرف سیاسی جلسوں اور جوشیلی تقریروں کا بازار گرم اور مسلمانوں کی ہجرت کا تانتا لگا ہوا تھا۔ لوگ اپنا گھر بار اور وطن عزیز چھوڑ اعزا واقرباء سے منہ موڑ کر افغانستان کی طرف چلے جارہے تھے۔ اس لئے حضور نے اپنے مذکورہ بالا مضمون میں مختصراً جن خیالات کا اظہار فرمایا تھا ان کو ایک اپنی کتاب ترک موالات و احکام اسلام (مطبوعہ دسمبر۱۹۲۰ء) میں ازروئے آیات قرآنیہ واحادیث نبویہﷺ~ بڑی شرح وبسط سے ثابت فرما دیا۔ اس لاجواب تصنیف نے جو ۹۲ صفحات پر مشتمل ہے جہاں حامیان ’’عدم موالات’’ و ’’ہجرت‘‘ کے خیالات و دلائل کی بے بنیادی ظاہر کر دی۔ وہاں سنجیدگی سے غور کرنے والوں کے لئے کامیابی کا ایک نیا رستہ کھول دیا۔ انہیں دعوت دی کہ یہ وقت اس مجرب نسخہ موالات کو استعمال کرنے کا ہے جس نے بغداد کی اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے ہلاکو خاں کے پوتے کو اسلام کی غلامی میں داخل کر دیا تھا۔ اور جو خدائے واحد لاشریک کے عبادت گزاروں میں شامل ہو کر ایک نئی اسلامی حکومت کا بانی ہوا تھا۔
اس کتاب لاجواب میں حضور نے نہایت غیرت دلانے والے لفظوں میں لکھا کہ ’’اگر یہ درست ہے کہ ترک موالات سے ایک دوسال میں تم اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائو گے تو اسلام کی دوبارہ زندگی یقیناً مسٹر گاندھی کے ہاتھ ہوگی اور نعوذ بااللہ من ذالک ابدالا باد تک محمد رسول اللہ ~صل۱~ کا سر مبارک بار احسان سے ان کے سامنے جھکا رہے گا ۔۔۔۔۔۔۔ حضرت مسیح تو خیر ایک نبی تھے۔ اب جس شخص کو تم نے اپنا مذہبی راہ نما بنایا ہے وہ تو ایک مومن بھی نہیں پس محمد رسول اللہ ~صل۱~ کی اس ہتک کا نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ سخت دیکھو گے اور اگر باز نہ آئے تو اس جرم میں مسٹر گاندھی کی قوم کی غلامی اس سے زیادہ تم کو کرنی پڑے گی جتنی کہ حضرت مسیح کی امت کی غلامی تم کہتے ہو کہ ہمیں کرنی پڑی ہے‘‘۔۴۹
افسوس کہ حضور کی یہ آواز بہرے کانوں سے سنی گئی۔ عوام تو رہے ایک طرف مسلمانوں کے قومی لیڈروں نے اس امید خام کی وجہ سے کہ اتحادیوں کے ہاتھوں ترکی حکومت کو جو مشکل پیش آگئی ہے وہ حل ہوجائے گی۔ اور ہم انگریز کی غلامی سے بھی آزاد ہوجائیں گے مسٹر گاندھی اور کانگریس کے آگے گھٹنے ٹیک دیئے۔ اور بعض بعض ممتاز لیڈروں نے تو ان کے لئے وہ کچھ کہا کہ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح کہا گیا۔ چنانچہ ظفرالملک صاحب علوی نے کہا کہ اگر آنحضرت ~صل۱~ خاتم النبین نہ ہوتے تو میں ضرور کہتا کہ اس زمانے کے بنی مہاتما گاندھی ہیں۔ جناب ڈاکٹر آصف علی نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’میں صدق دل سے یقین کرتا ہوں کہ اس صدی کے مجدد مہاتماگاندھی ہیں۔ مولانا شوکت علی نے کہا۔ میں کہتا ہوں امام مہدی گاندھی جی ہیں۔ مولانا محمد علی جوہر کا مریڈنے جیل سے پیغام بھیجا کہ میں آنحضرت ~صل۱~ کے بعد بے سوچے سمجھے مہاتما گاندھی کی پیروی کرتا ہوں۔ (امیرشریعت احرار) جناب سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے مسجد خیرالدین امرت سر میں کہا۔ کہ میں مسٹر گاندھی کو نبی بالقوۃ مانتا ہوں‘‘۔۵۰
جناب ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر زمیندار نے راولپنڈی میں ایک ہنگامہ خیز تقریر کے دوران میں کہا۔ کہ میں وہی کچھ کہہ رہا ہوں جو تلک اور گاندھی بتا رہے ہیں یہ اخلاقی قوت ان بزرگوں کی ہی کام کر رہی ہے۔ یہ آسمانی قوت ہے۔ ہندوئوں نے اور مہاتما گاندھی نے مسلمانوں پر جو احسان کئے ہیں ان کا عوض ہم نہیں دے سکتے۔ ہمارے پاس زر نہیں ہے جب جان چاہیں ہم حاضر ہیں۔ ۵۱
راولپنڈی کے بعد انہوں نے کلکتہ میں کہا۔ انڈین نیشنل کانگریس نے کلکتہ کی تاریخی سرزمین پر ایک اجلاس خاص منعقد کیا اور اس مشترک پلیٹ فارم پر سے جس کی تعمیر خود خدائے قادر وقیوم کے مقدس ہاتھوں کی رہین منت ہے۔ اس آواز کی ایک قرنا پھونکی گئی ہے اس وقت برطانیہ اقتدار کے حواس درست کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ’’عدم تعاون‘‘ ہے۔ ۵۲
لیکن آہ! جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے قبل از وقت انتباہ فرما دیا تھا۔ اس تحریک نے مسلمانوں کا رہا سہا وقار خاک میں ملادیا۔ اور انہیں تباہی کے کنارے تک پہنچا دیا۔ اور مسلمانان ہند کی ملی و سیاسی زندگی کا یہ خونچکاں حادثہ آج بھی ایک غیور ۔ درد مند مسلمان کو تڑپادینے کے لئے کافی ہے۔ چنانچہ سید رئیس احمد صاحب جعفری لکھتے ہیں:۔
’’اٹھارہ ہزار مسلمان اپنا گھر بار جائداد اسباب غیر منقولہ اونے پونے بیچ کر خریدنے والے زیادہ ترہندو تھے۔ افغانستان ہجرت کر گئے وہاں جگہ نہ ملی واپس کئے گئے کچھ مرکھپ گئے جو واپس آئے تباہ حال ‘خستہ درماندہ مفلس ‘قلاش ‘تہی دست‘بے نوائے یار ومدد گار۔ اگر اسے ہلاکت نہیں کہتے تو کیا کہتے ہیں‘‘۔۵۳
میاں محمد مرزا صاحب دہلوی لکھتے ہیں ۔ ’’کچھ دنوں بعد جب مورخ کابے رحم قلم اس ایجی ٹیشن کے جذبی اثر سے آزاد ہو کر اس کا جائزہ لے گا۔ اور خالص سیاسی نقطہ نظر سے اسے جانچے گا۔ تو ایجی|ٹیشن کا یہ سارا دور اپنی ہنگامہ خیزیوں کے باوجود اسے ایک ایسا بے نتیجہ سیاسی بحران نظر آئیگا جس نے مسلمانوں کی قومی خود داری کا خاتمہ کرکے رکھ دیا۔ (یہ) ہندوئوں کا پروگرام تھا ہندو ہی اس کے رہنما تھے۔ مسلمانوں کی حیثیت اس ایجی ٹیشن میں ان کے آلہ کار سے زیادہ نہیں تھی۔ اس وقت تک ان سے کام لیا جب تک انہیں ضرورت رہی اور اس وقت ایجی ٹیشن بند کر دیا جب ان کی ضرورت ختم ہوگئی‘‘۔ ۵۴
جناب عبدالمجید صاحب سالک لکھتے ہیں ۔ یہ مخلص اور جوشیلے مسلمان کس جوش و خروش سے ایک دینی حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے وطن کو ترک کر رہے تھے۔ اور پھر چند ماہ بعد جب امیر امان اللہ خان کی حکومت نے اس لشکر جرار کی آباد کاری سے عاجز آکر اس کو جواب دے دیا تو ان مہاجرین کی عظیم اکثریت بادل بریاں وبا دیدہ گریاں واپس آگئی۔ اور اس تحریک کا جو محض ہنگامی جذبات پرمبنی تھی نہایت شرمناک انجام ہوا۔۵۵
لیکن یہ شرمناک انجام دراصل تحریک خلافت کے ہولناک اثرات کا ابھی آغاز تھا کیونکہ چند سال بعد ۱۹۲۴ء میں خود ترکی کی قومی اسمبلی نے ترکی خلیفتہ المسلمین کو معزول اور ان کے عثمانی شاہی خاندان کو جلا وطن کر کے ترکی خلافت کا خاتمہ کر دیا اور محمد مصطفٰے کمال پاشا کی صدارت میں ترکی میں جمہوری حکومت قائم ہوگئی۔
اس واقعہ کی خبر ہندوستان میں پہنچی تو عامتہ المسلمین اور ان کے خلافتی لیڈروں پر کیا بیتی۔ اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے خود مولانا ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں ۔ ادھر فیصلہ خلافت کی پہلی خبر رپوٹر ایجنسی نے بھیجی اور اتنی بات کان میں پڑگئی کہ خلیفہ معزول اور خلافت موقوف ! ادھر دماغی رد فعل (ری ایکشن) کی ایک طوفانی لہر سب کے دماغوں میں دوڑ گئی۔ افسوس یہ ہے کہ خواص بھی اپنی دماغی حالت عوام سے بلند تر ثابت نہ کر سکے۔ بلکہ کہنا چاہئے عوام کی بدحواسی ذخیرہ دماغی کی رہنمائی انہی نے کی جس طرح اب سے پہلے دنیا کی ہر خوبی انگورہ والوں میں تھی اس طرح ایک لمحہ کے اندر دنیا جہان کی برائیاں ان میں سمٹ آئیں۔ شاید ہی کوئی بے محل اور بد حواسانہ بات ایسی ہوگی جو نہ کہی گئی ہو بس ایک جوش تھا جو مصطفٰے کمال پاشا۔ کے خلاف امڈ رہا تھا۔ کافر‘بے دین‘دشمن خلافت۔ چنگیزی بدترازہلا کو ۔ ہم مسلمانان ہند نے پانچ سال سے قومی زندگی کی نئی کروٹ لی تھی اور یہ پہلا واقعہ تھا کہ ہماری دماغی قوت اور قومی نظام کے لئے ایک آزمائش پیش آئی۔ میں محسوس کرتا ہوں کہ ہم آزمائش میں فیل ہوگئے۔ گذشتہ دو ماہ نے ثابت کر دیا کہ ہم میں اب تک کوئی نظام و جمعیت نہیں ہے اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ہم میں نازک وقتوں کے لئے حالات پر قابو پانیوالے دماغ مفقود ہیں‘‘۔۵۶
مولوی سید ابو الاعلیٰ صاحب مودودی جنہوں نے تحریک خلافت کے دوران سیرت گاندھی۵۷ تصنیف کی تھی۔ تحریک کے انجام پر ان الفاظ میں روشنی ڈالتے ہیں۔ ’’مسلمانوں میں ایسا انتشار پیدا ہوگیا تھا کہ ان کا کوئی حقیقی رہنما یا لیڈر ایسا نہ تھا جس پر وہ پوری طرح اعتماد کرسکیں۔ دوسری طرف ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوئوں کے عزائم بھی کھل کر سامنے آگئے تھے۔ ان کے مفادات کی نمائندگی گاندی جی کر رہے تھے۔ مسلمان ان پر اعتماد رکھتے تھے حالانکہ وہ ان کے بالکل کام کے نہ تھے اور فائدہ کی بجائے نقصان ہی پہنچا سکتے تھے۔ اور پہنچایا۔ ۵۸
تحریک خلافت کے علمبردار حضرات خلیفہ کی معزولی پر پہلے تو مصطفٰے کمال پاشا کو گالیاں دیتے تھے۔ مگر جب کچھ وقت گذر گیا۔ تو معزول شدہ خلیفہ کو سخت سست کہنے لگے چنانچہ خود مولانا آزاد صاحب نے بھی جو مسلمانوں میں خلافت ترکی کے سب سے زیادہ سرگرم مبلغ تھے۔ خلیفتہ المسلمین کے خلاف یہاں تک لکھا کہ خلیفہ قطعاً بے کار تھا۔ وہ قسطنطنیہ کے ایک قصر میں رہتا تھا۔ دس ہزار پونڈ اس کا وظیفہ تھا۔ اور اگر کوئی مشغولیت تھی تو صرف یہ کہ جمعہ کے دن جلوس سلاملق کے ساتھ ادائے نماز کے لئے مسجد چلاجائے گویا یہ خلافت محص نام اور تنخواہ کی خلافت تھی جس کو دس ہزار پائونڈ ملیں اور جمعہ کے دن سلاملق کے ساتھ نکلے وہی خلیفہ ہے۔ ۵۹
ملائکہ اللہ
حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۲۰ء کے سالانہ جلسہ میں جو ایمان افروز تقریرں فرمائیں۔ وہ ملائکہ اللہ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ ان تقریروں میں جماعت کو نہایت قیمتی اور اہم ہدایات دینے کے علاوہ ملائکہ اللہ کے دقیق و لطیف مضمون پر ایسی صاف و شفاف اور ایسی بصیرت افروز وتسکین بخش روشنی ڈالی کہ دل عش عش اور روح وجد کرنے لگی ملائکہ کی حقیقت و ضرورت۔ ان کے فرائض وخدمات بیان فرمائے ان کے وجود پر ہوسکنے والے شبہات و اعتراضات کے کافی وشانی جوابات دیئے۔ اور آخر میں ان سے تعلق پیدا کرنے کے متعدد ذرائع بتائے۔
۱۹۲۰ء کے متفرق مگر اہم واقعات
(۱) حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کے حرم اول میں صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں چوتھے فرزند مرزا مبشر احمد (اول) پیدا ہوئے۔ ]01 [p۶۰
۲۔ خان محمد عبدالرحیم خان صاحب (ابن حضرت نواب محمد علی خانصاحب) بیرسٹری کے لئے انگلستان روانہ ہوئے۔ ۶۱
۳۔ الفضل نے حضرت مسیح موعود کے پرانے خدام کے سوانح اور حالات زندگی محفوظ کرنے کی پہلی تحریک کی۔ ۶۲
۴۔ سیلون ‘ماریشس اور نائیجیریا کے طلبہ کے لئے باقاعدہ غیر ملکی کلاس کھولی گئی جس میں حضرت مولانا شیر علی صاحب بھی کچھ وقت دیتے رہے۔ ۶۳
۵۔ حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۱ میں مدرسہ تعلیم الاسلام میں لیکچروں کا ایکسلسلہ جاری فرمایا تھا یہ سلسلہ ایک سال جاری رہنے کے بعد بند ہوگیا۔ اور اس سال ۲۲ جنوری ۱۹۲۰ء کو پھر جاری ہوا۔ جبکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ضرورت مذہب کے عنوان پر پہلا لیکچر دیا۔۶۴
۶۔ حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے سید زین العابدین ولی اللہ صاحب کا نکاح پڑھا اور خطبہ ارشاد فرمایا۔
۷۔ حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور۔ حضرت مولوی فتح دین صاحب دھرم کوٹ بگہ ‘حضرت مولوی عبدالغفار صاحب افغان‘حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب بھینی شرقپور ‘حضرت منشی گلاب دین صاحب رہتاسی۔ حضرت میرز امیر احمد خان صاحب عرائض نویس (مردان) اور حضرت مولوی عبدالقادر صاحب لدھیانوی جیسے اکابر صحابہ کا وصال ہوا۔
۸۔ مشہور مباحثے۔ مباحثہ فیروز پور ۶۵ (حضرت منشی فرزندعلی خان صاحب اور سید مدثر شاہ صاحب غیر مبائع کے درمیان) مباحثہ قادیان۔ ۶۶(شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور مرحوم اور سردار گنگا سنگھ کے درمیان) مباحثہ جہلم ۶۷]ydob [tag (حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کے درمیان )مباحثہ ڈوگری ۶۸ ضلع سیالکوٹ (احمدی مناظر حافظ جمال احمد صاحب مرحوم) مباحثہ عالم پور کوٹلہ ۶۹۔ (مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مولوی محمد امین صاحب اہلحدیث کے مابین ) مباحثہ چنیوٹ ۷۰ (حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی اور مولوی میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی) مباحثہ سارچور (مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مولوی عبدالل¶ہ صاحب کے درمیان)۔۷۱
۹۔ خان اوصاف علی خاں صاحب سی۔ آئی۔ ای کمانڈر نابھہ جماعت احمدیہ میں داخل ہوئے۔
(الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۰ ’’فہرست نومبائعین‘‘ نمبر)556
‏rov.5.18
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال
فصل دوم
خلافت ثانیہ کا آٹھواں سال
( جنوری ۱۹۲۱ء تا دسمبر ۱۹۲۱ء بمطابق ربیع الاخر ۱۳۳۹ھ تا جمادی الاول ۱۳۴۰ھ تک)
ہندومسلم اتحاد کے لئے ایک اہم تجویز
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ نے ۲۳ جنوری ۱۹۲۱ء کو ہندومسلم اتحاد کے سلسلہ میں پہلی بار یہ تجویز فرمائی کہ آریہ صاحبان اپنے بیس (۲۰) طلبہ یا کم و بیش جتنے مناسب سمجھیں ہمارے پاس بھیج دیں ان کا خرچ ہم برداشت کریں گے اور ان کو قران شریف پڑھائیں گے اس کے مقابلہ میں آریہ صاحبان ہمارے صرف دو آدمیوں کو سنسکرت پڑھادیں۔ اور ویدوں کا ماہر بنادیں اور ان کا خرچ بھی ہمارے ذمہ ہوگا۔۷۲ مگر افسوس آریہ صاحبان سے آجتک اس طرف توجہ نہیں ہوسکی۔
حضور نے اگلے سال ۱۹۲۲ء میں گوروکل کانگڑی کے بعض ہندو طلباء کے سامنے یہ تجویز بیان فرمائی تو ایک ہندو طالب علم (جو گندرپال) اس کی معقولیت سے متاثر ہوکر خود بخود قادیان آگئے اور بالاخر مشرف باسلام ہوئے جن کا اسلامی نام محمد عمر رکھا گیا۔۷۳
’’ہدایات زریں برائے احمدی مبلغین‘‘
۲۶ جنوری ۱۹۲۱ء کو حضور نے بورڈنگ مدرسہ احمدیہ میں جماعت کے مبلغین اور مدرسہ احمدیہ کے طلباء کے سامنے تقریر فرمائی جس میں مبلغین کو نہایت قیمتی ہدایات دیں پوری تقریر حضرت میر قاسم علی صاحب نے ’’ہدایات زریں‘‘ کے نام سے شائع کردی تھی۔ حضور کی ان ہدایات کا خلاصہ یہ تھا کہ مبلغ کو بے غرض دلیر ‘ہمدرد خلائق‘وسیع المعلومات‘نظافت پسند۔ بااخلاق۔ تہجد گذار۔ دعاگو‘بے نفس‘غیر جانبدار ‘منظم‘سوشل تعلقات میں ماہر اور ایثار وقناعت کا مجسمہ ہونا چاہئے۔۷۴
دارالتبلیغ گولڈ کوسٹ (غانا) اور نائیجیریا کا قیام
اس سال افریقہ میں پہلے مستقل دارالتبلیغ کا قیام عمل میں آیا۔ اور یہ تاریک براعظم اسلام و احمدیت کے نیراعظم کی ضیا پاشیوں سے منور ہونے لگا۔
حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالٰے کو افریقہ میں تبلیغ کی تحریک کیسے ہوئی؟ یہ ایک نہایت ایمان افروز بات ہے جس کی تفصیل خود حضرت اقدس کے قلم سے درج کرتا ہوں فرماتے ہیں۔ ’’مجھے افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ابتدائی تحریک درحقیقت اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے ایک دفعہ حدیث میں پڑھا کہ حبشہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا۔ اور مکہ مکرمہ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا۔۷۵ جب میں نے یہ حدیث پڑھی اسی وقت میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس علاقہ کو مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ انذاری خبر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹل جائے اور مکہ مکرمہ پر حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں بعض دفعہ منذر رویاء آتا ہے تو ہم فوراً صدقہ کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کی موت کی خبر ہمیں ہوتی ہے تو وہ صدقہ کے ذریعہ ٹل جاتی ہے۔ اور صدقہ کے ذریعہ موت کی خبریں ٹل سکتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنا لیا جائے تو وہ خطرہ جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے۔ نہ ٹل سکے۔ چنانچہ میرے دل میں بڑے زور سے تحریک پیدا ہوئی کہ افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنانا چاہئے۔ اسی بنا پر افریقہ میں احمدیہ مشن قائم کئے گئے ہیں بے شک خدا تعالٰے نے بعد میں اور بھی سامان ایسے پیدا کر دئے جن سے افریقہ میں تبلیغ اسلام کا کام زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا گیا مگر اصل بنیاد افریقہ کی تبلیغ کی یہی حدیث تھی۔ کہ افریقہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا اور خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش کرے گا۔ (نعوذباللہ) میں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کے فضلوں کی امید میں چاہا کہ پیشتر اس کے کہ وہ شخص پیدا ہو جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے ہم افریقہ کو مسلمان بنالیں اور بجائے اس کے کہ افریقہ کا کوئی شخص مکہ مکرمہ کو گرانے کا موجب بنے وہ لوگ اس کی عظمت کو قائم کرنے اور اس کی شہرت کو بڑھانے کا موجب بن جائیں۔‘‘۷۶
حضرت خلیفتہ المسیح نے افریقہ میں پہلا مشن قائم کرنے کے لئے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کا انتخاب فرمایا۔ جو ان دنوں لنڈن میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے۔ چنانچہ مولانا نیر صاحب ۷۷ ۹فروری ۱۹۲۱ء کو لنڈن سے روانہ ہوئے اور ۱۹ فروری ۱۹۲۱ء ۷۸4] ftr[ کو سیرالیون پہنچے تختہ جہاز پر مسٹر خیر الدین افسر تعلیم سیر الیون نے آپ کا استقبال کیا۔ ۲۰ فروری ۱۹۲۱ء کو مسلمانوں کے مقامی مدارس اور مسجد میں آپ نے چار لیکچر دیئے۔ آخر تقریر کے بعد جو عیسائیوں کے لئے مخصوص تھی سوال و جواب بھی ہوئے ۲۱ فروری ۱۹۲۱ء کی صبح کو آپ نے سرکاری حکام سے ملاقات کرکے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کی طرف توجہ دلائی ۷۹ اور اسی روز تیسرے پہر جہاز پر سوار ہو کر ۲۸ فروری ۱۹۲۱ء کو ساڑھے چار بجے شام گولڈ کوسٹ (غانا) کی بندرگاہ سالٹ پانڈ پر اترے اور مسٹر عبدالرحمان پیڈرو کے مکان پر قیام پذیر ہوئے۔
گولڈ کوسٹ عملاً عیسائیت کا مرکز تھا۔ جہاں شمالی اور جنوبی نائیجیریا اور وسط افریقہ کے کچھ لوگ آباد ہوگئے تھے۔ اور اصل باشندوں میں صرف فینٹی قوم مسلمان تھی جس کے چیف (امیر) کا نام مہدی تھا۔ ۸۰ جس رات حضرت نیر صاحب سالٹ پانڈ پہنچے اسی رات مہدی نے خواب میں دیکھا کہ میرے کمرے میں رسول خدا ~صل۱~ تشریف لائے ہیں۔ ۸۱چیف مہدی ۴۵ برس سے مسلمان تھے۔ اور اس وقت سے برابر تبلیغ اسلام میں مصروف تھے انہیں یہ از حد غم تھا کہ میری آنکھیں بند ہوتے ہی کہیں اس علاقہ کے مسلمان سفید عیسائی مشزیوں کے رعب میں آکر اسلام کو خیرباد نہ کہہ دیں۔ چیف مہدی نے جو نہایت خدا پرست بزرگ تھے کیپ کوسٹ کے ایک شامی مسلمان سے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا پتہ معلوم کیا۔ اور کچھ روپیہ جمع کرکے ان کو لنڈن بھجوایا تامسلمانوں کا کوئی سفید فام مبلغ گولڈ کوسٹ آئے اور تبلیغ کا کام شروع کرے مگر دوسال تک کوئی مبلغ افریقہ کی طرف نہ بھجوایا جاسکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عوام میں یہاں تک سخت بدگمانی پیدا ہوگئی حتیٰ کہ وہ کہنے لگے کہ سفید آدمی مسلمان ہی نہیں ہوتے۔۸۲حضرت نیر صاحب نے سیرالیون اور سکنڈی سے اپنی آمد کے تار دیئے تو اسی وجہ سے ان پر بھی چنداں اعتبار نہ کیا گیا۔ البتہ آپ کے سالٹ پانڈ پہنچنے پر پہلے بعض آدمی مختلف دیہات سے خبر کی تصدیق کے لئے پہنچے۔ پھر چیف مہدی صاحب کا نقیب آپ سے آکر ملا اور ۱۱ مارچ ۱۹۲۱ء کو اکرافل۸۳میں فینٹی مسلمانوں کا جلسہ مقرر ہوا۔
مولانا نیر صاحب ترجمان کے ساتھ بذریعہ موٹر وہاں پہنچے چیف مہدی کے مکان کے سامنے پانچصد افراد کا مجمع تھا۔ چیف مہدی اپنے قومی لباس پہنے حلقہ امراء میں بیٹھے تھے ۔ مولانا نیر صاحب کے لئے دوسری طرف میز لگایا گیا۔ آپ کا ترجمان اور ائمہ مساجد آپ کے ارد گرد تھے۔ نقیب نے عصائے منصب ہاتھ میں لے کر چیف اور اس کے ممبروں کی طرف سے خوش آمدید کہا۔ پھر خود چیف مہدی نے تقریر کی۔ کہ ۴۵ برس ہوئے میں مسلمان ہوا۔ مجھے صرف اللہ اکبر آتا تھا۔ اور یہی میرے ساتھ کے دوسرے مسلمان جانتے تھے۔ ہوسا قوم۸۴ اور لیگوس کے لوگ بعد میں آئے اور ہمیں اسلام سکھایا۔ ہم جاہل ہیں۔ ۸۵ اسلام کا پورا علم نہیں۔ سفید آدمی مسیحیت سکھانے آتے ہیں۔ میں بوڑھا ہوں مجھے فکر تھی کہ میرے بعد یہ مسلمان مسلمان رہیں میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میری زندگی میں آپ آگئے۔ اور ابیہ مسلمان آپ کے سپرد ہیں ان کو انگریزی و عربی پڑھائی جائے اور دین سکھایا جائے۔
اس کے بعد مولانا نیر صاحب نے اپنی تقریر میں کہا۔ کہ اللہ تعالٰے نے تمہاری دستگیری کی اور اس جماعت کی طرف سے مبلغ آیا جو زندہ اسلام پیش کرتے ہے۔ میری آنکھوں نے مسیح موعودؑ کو دیکھا۔ میرے کانوں نے اس کے مقدس منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سنے۔ میرے ہاتھوں نے اس برگزیدہ پہلوان اسلام کے پائوں کو چھوا۔ پس تم کو مبارک ہو کہ خدانے تمہاری مدد کی۔ اب انشاء اللہ فینٹی مسلانوں کی تعلیم و تربیت کا کام احمدی جماعت کرے گی۔
۱۸ مارچ ۱۹۲۱ء کو اکرافول میں دوسرا جلسہ منعقد ہوا جس میں آپ نے دو گھنٹہ تقریر فرمائی۔ اور فینٹی قوم اور ان کے چیف کو جماعت احمدیہ میں شامل ہونے اور گذشتہ رسوم و رواج کو ترک کرکے سچے اور مخلص مسلمان بننے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ دوسرے ہی دن ان کی مجلس اکابر نے فیصلہ کیا کہ ہم سب لوگ اپنی جماعتوں سمیت احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ اس طرح ایک ہی دن میں ہزاروں لوگ سلسلہ احمدیہ میں شامل ہوگئے اور ید خلون فی دین اللہ افواجا کا نظارہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا۔ ۸۷۸۶
فینسٹی قوم کے احمدی ہونے کے بعد حضرت مولانا نیر صاحب نے نائیجیریا کی طرف توجہ مبذول فرمائی چنانچہ پہلی بار آپ بذریعہ جہاز ۸ اپریل۱۹۲۱ء کو نائیجیریا کے صدر مقام لیگوس میں پہنچے۔ ۸۸
لیگوس میں ان دنوں ۳۵ ہزار کے قریب مسلمان تھے۔ اور ۲۰ ہزار کے قریب عیسائی مگر علم دولت تجارت اور سرکاری عہدے سب عیسائیوں کے ہاتھ میں تھے۔ اور جہاں عیسائیوں کے چالیس مدارس تھے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک (محمڈن اسکول) تھا۔ ان حالات میں حضرت مولانا نیر نے لیگوس میں قدم رکھا اور پہنچتے ہی مختلف مساجد میں لیکچر دیئے۔ پھر پبلک لیکچروں کا ایک باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا جس سے سعید روحیں احمدیت کی طرف کشاں کشاں آنے لگیں۔ ۸۹ ماحول کے اثر سے لیگوس کے مسلمانوںمیں یہ رسم قائم ہوچکی تھی۔ کہ وہ دوسرے کا ادب و احترام کرنے کی خاطرفوراً گھٹنوں کے بل ہوجاتے تھے حضرت مولانا نیر صاحب نے اس کے خلاف زبردست وعظ کی جس پر بہت سے مسلمانوں نے یہ رسم چھوڑ دی۔ لیگوس میں ایک فرقہ اہل قرآن بھی تھا۔ ۹۰ اس کے بارہ اکابر نے حضرت مولانا نیر صاحب سے ملاقات کی اور بتایا کہ بارہ برس ہوئے ہمارے سابق امام جماعت نے مرنے سے پہلے یہ خوشخبری دی تھی کہ ایک سفید رنگ کا آدمی man( )White آئے گا جو مسیح موعود کی خبر لائے گا۔ اور اہل قرآن کی تصدیق کرے گا یہ پیشگوئی آپ کے وجود سے پوری ہوئی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔۹۱ چنانچہ ان اکابر میں سے جنہوں نے مولانا نیر کے ہاتھ پر بیعت کی۔۹۲ الفا عبدالقادر بھی ایک بزرگ تھے افسوس چند ماہ بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ ۹۳ مولانا نیر نے پرنس الیکو سلطان لیگوس کو ان کے محل میں جاکر تبلیغ کی۔ ۹۴
آپ چار ماہ لیگوس میں ٹھرے اور دن رات دیوانہ وار تبلیغ کرتے رہے اور بالاخر ۸ اگست ۱۹۲۱ء کو واپس سالٹ پانڈ پہنچے ۹۵ سالٹ پانڈ میں آکر شہر کے عین وسط میں کمرشل روڈ پر ایک دو منزلہ مکان کرایہ پر لے کر مشن ہائوس قائم کیا۔ اور اندرون ملک ایک لمبا دورہ کیا۔ ۹۶ اور ایک مبلغین کلاس جاری کی جس میں عربی میں قرآن و حدیث ‘فقہ اور عقائد احمدیہ کی تعلیم دینے لگے۔ ۹۷اسی طرح گولڈ کوسٹ (غانا) جماعت کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ان میں عہدیدار مقرر کئے۔ انتظامی تقسیم کے مکمل ہونے کے بعد آپ دوبارہ ۱۵ دسمبر ۱۹۲۱ء کو نائیجیریا کے دارالخلافہ لیگوس میں تشریف لے گئے۔ اور تبلیغ شروع کردی۔ اسی دوران میں حضرت خلیفہ المسیح ثانی نے ۲۳ جنوری ۱۹۲۲۔ ۹۸ کو گولڈ کوسٹ مشن سنبھالنے کے لئے مولوی حکیم فضل الرحمان صاحب کو روانہ فرمایا۔ ۹۹ جو ۱۱ مارچ کو لنڈن اور ۱۷ اپریل کو لیگوسپہنچے اور حضرت نیر کے ذریعہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ۱۳ مئی ۱۹۲۲ء کو سالٹ پانڈ پہنچ گئے۔ اس طرح نائیجیریا اور غانا مشن جو ایک ہی مبلغ کے مشن کے تحت تھے دو مستقل مشنوں کی صورت اختیار کرگئے گولڈ کوسٹ کے انچارج حکیم فضل الرحمان صاحب اور نائیجیریا مشن کے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر۔
دارالتبلیغ نائیجیریا
واقعات کے تسلسل کے لحاظ سے سب سے پہلے نائیجیریا مشن کے بقیہ حالات لکھے جاتے ہیں۔ حضرت مولانا نیر صاحب نے جو نائیجیریا مشن کے مستقل انچارج کی حیثیت سے لیگوس کے باہر بھی تبلیغ کو وسعت دینی شروع کی پہلے اور شمالی نائیجیریا کے ایک اہم شہر زاویہ کے امیر ۱۰۰ اور امیر کانو تک پیغام حق پہنچایا۔ پھر واپس لیگوس آکر ۱۱ ستمبر ۱۹۲۲ء کو مدرسہ تعلیم الاسلام جاری کیا جو صحیح معنوں میں لیگوس میں پہلا اسلامی مدرسہ تھا۔ ۱۰۱ نیز ارد گرد کے علاقوں میں مقامی احمدیوں کے وفود بھجوائے۔ ۱۰۲ حضرت مولانا نیر صاحب کو مغربی افریقہ میں بڑی جدو جہد کرنا پڑی اور آپ شمالی نائیجیریا کے دورہ سے واپس آکر کم وبیش ۴ ماہ تک بیمار رہے۔ اور گورنمنٹ ہسپتال میں داخل کئے گئے۔ پھر آپ ڈاکٹری ہدایت کے تحت تبدیل آب و ہوا کے لئے بتاریخ ۲۱ جنوری ۱۹۲۳ء لنڈن بھجوادیئے گئے۔ ۱۰۳
حضرت مولانا نیر کے بعد مالی مشکلات ۱۰۴ کی وجہ سے سالہا سال تک کوئی مرکزی مبلغ نہیں بھجوایا جاسکا۔ آخر حضرت خلیفہ ثانی کے ارشاد سے الحاج حکیم فضل الرحمان صاحب نے ستمبر ۱۹۲۹ء کے قریب گولڈ کوسٹ (غانا) سے واپسی سے پہلے نائیجیریا کا دورہ کیا۔ ۱۰۵ پھر وہ مرکز میں تشریف لے آئے حکیم صاحب فروری ۱۹۳۳ء کو قادیان سے روانہ ہوکر لنڈن ‘سیرالیون اور گولڈ کوسٹ میں قیام کرتے ہوئے جولائی ۱۹۳۴ء میں نائیجیریا پہنچے۔ ]01 [p۱۰۶ آپ وہاں پہنچتے ہی ایک خظر ناک اندرونی کشمکش سے دوچار ہوگئے۔ جو بعض لوگوں نے ایک خود ساختہ قانون کی بناء پر پیدا کردی تھی۔ ۱۰۷ معاملہ آخر عدالت تک پہنچا۔ ۲۰ مارچ ۱۹۳۷ء کو اس کا فیصلہ ہوا۔ ۱۰۸ لیکن فیصلہ ہونے کے باوجود ۱۹۳۹ء تک حالات مخدوش رہے ۱۹۴۰ء میں حضرت خلیفہ ثانی کے ارشاد پر جماعت کی دوبارہ تشکیل کی گئی۔ جس کے بعد مکرم حکیم صاحب نے جماعت نائیجیریا کی ترقی واستحکام کی طرف پوری توجہ دینی شروع کردی۔ اور اپنی مسلسل جدوجہد اور قابل رشک اخلاص سے مشن کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کر دیا چنانچہ انہوں نے جماعت نائیجیریا کی تربیت واصلاح کے لئے متعدد اقدامات کئے تعلیم الاسلام سکول کے لئے سرکاری گرانٹ منظور کرائی۔ ۱۰۹ نئی جماعتیں قائم کیں۔ لیگوس میں ایک نہایت خوبصورت مسجد ۱۱۰ اور مشن ہائوس تعمیر کیا۔ آنحضرت ~صل۱~ کی سیرت طیبہ ’’دی لائف آف محمدﷺ‘‘~ کے نام سے تصنیف کی ۔ جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع ہوئی اور آج تک مغربی افریقہ کے تمام سکولوں کے نصاب میں شامل ہے جنوری ۱۹۴۵ء میں جناب مولوی نور محمد صاحب نسیم سیفی نائیجیریا بھجوائے گئے جنہوں نے حکیم صاحب کی واپسی کے بعد جو ۱۹۴۷ء میں ہوئی مشن کا چارج لیا۔ اور (چند ماہ کے وقفہ کے ساتھ) قریباً انیس سال تک اہم تبلیغی خدمات بجالاتے رہے ۔ آپ ہی نے دی ٹرتھ Truth( )The کے نام سے نائیجریا مشن کا پہلا ہفت روزہ اخبار جاری کیا جو نائیجیریا میں مسلمانوں کا واحد اخبار ہے۔ اور عیسائیت کے حملوں کے سامنے ایک آہنی دیوار کا کام دے رہا ہے۔ اور تبلیغ اسلام و احمدیت کا نہایت کامیاب اور موثر ذریعہ ہے محترم سیفی صاحب نے پروفیسر الیاس برنی کی کتاب Movement( )Qadiani (قادیانی مذہب) کا جواب Movement’’ ‘‘Our (ہماری تحریک) کے نام سے لکھا جو ہالینڈ سے شائع ہوا۔ ۶۰۔۱۹۵۹ء میں مشہور ہو ساقبیلہ کے لوگ سینکڑوں کی تعداد میں داخل احمدیت ہوئے۔۱۱۱ آپ جولائی ۱۹۶۴ء میں واپس ربوہ تشریف لائے اور اب مولوی شیخ نصیر الدین احمد صاحب دارالتبلیغ نائیجیریا کے انچارج مبلغ ہیں۔
جناب نسیم سیفی صاحب کے زمانہ سے لے کر اب تک جن مبلغین کو نائیجیریا کی سرزمین میں اعلائے کلمہ اسلام کی توفیق ملی یا جو سرگرم عمل ہیں ان کے نام یہ ہیں۔ قریشی محمد افضل صاحب۔ سید احمد شاہ صاحب۔ مولوی مبارک احمد صاحب ساقی‘شیخ نصیر الدین احمد‘مولوی بشارت احمد صاحب بشیر ۔ مولوی محمد بشیر صاحب شاد۔ مولوی محمد اسحاق صاحب خلیل۔ عبدالمجید صاحب بھٹی۔ ڈاکٹر ضیاء الدین صاحب‘قریشی مقبول احمد صاحب۔ چوہدری رشید الدین صاحب۔ کرنل محمد یوسف شاہ صاحب۔ حاجی فیض الحق صاحب‘قریشی فیروز محی الدین صاحب۔ بشیر احمد صاحب شمس۔
لٹریچر
دارالتبلیغ نائیجیریا کی طرف سے بڑی کثرت سے لٹریچر چھپ چکا ہے جس میں یوربا زبان میں ترجمہ قرآن (پارہ اول) Islam of outline (Anاسلام کا اجمالی خاکہ) Christ and Mhuammad حضرت محمد اور یسوع) movement Our (ہماری تحریک) Qadian of Ahmad (احمد قادیانی) Christianity and Islam (اسلام اور عیسائیت) وغیرہ (جو جناب نسیم سیفی صاحب کی تالیفات ہیں) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ نائیجیریا کے وزیراعظم الحاج ابوبکر۱۱۲ نے اپنی تقریر کے دوران میں کہا کہ مجھے جب بھی عیسائیوں سے بحث کے دوران کوئی بات پیش کرنی ہوتی ہے تو ہمیشہ احمدیہ لٹریچر میری رہنمائی کرتا ہے میں اس کے علاوہ کسی اور مذہبی لٹریچر پر اعتماد نہیں کرتا جتنا احمدیہ جماعت کے لٹریچر پر کرتا ہوں‘‘۔
نائیجیریا میں اس وقت مرکزی مبلغوں کے علاوہ متعدد مقامی مبلغ بھی کام کر رہے ہیں ۳۵ جماعتیں قائم ہیں اور مشن اس حد تک ترقی کر چکا ہے کہ وہ خود کفیل ہے اور اس کے ماتحت دس سکول اور دو ہسپتال کھولے جاچکے اور انیس مساجد تعمیر کی جاچکی ہیں۔ اور احمدیہ مشن کی طرف سے ہرماہ تقریباً آٹھ دفعہ ریڈیو پر تقاریر اور ایک مرتبہ خطبہ جمعہ نشر کیا جاتا ہے۔
نائیجیریا مشن غیروں کی نظر میں
اخبار مسلم ورلڈ نے لکھا (۱) ’’سنوسیہ اور اس جیسے مسلمانوں کے قدیم فرقے جو یورپین طاقت سے کھلے کھلے جنگ کے حامی تھے۔ ایک ایک کرکے میدان سے ہٹ گئے ہیں۔ اور ان کی جگہ فرقہ احمدیہ لے رہا ہے جس نے لیگوس کے مرکز سے پھیل کر تمام فرانسیسی مغربی افریقہ پر اثر جمالیا ہے‘‘۔
(۲) اسی طرح دی نائیجیریا سپیکٹیڑ لیگوس نے لکھا۔ ’’معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کے لئے مقدر ہوچکا ہے کہ وہ نائیجیریا کے مسلمانوں کی زندگی میں ایک انقلاب پیدا کردیں چند ہی سال گذرے ہیں جبکہ انہوں نے یہاں کام شروع کیا اور اب یہ سلسلہ نہ صرف لیگوس میں بلکہ تمام نائیجیریا کے مسلمان نوجوانوں کی زندگی میں ایک بھاری تبدیلی پیدا کر رہا ہے‘‘۔۱۱۳
۳۔ ’’تمام نائیجیریا اور خصوصاً اس کے مرکز لیگوس میں زیادہ افراد حلقہ بگوش اسلام ہورہے ہیں۔ یہی حال ابادان کا ہے جو ملک کا تعلیمی مرکز ہے‘‘ (نائیجیریا کے لاٹ پادری بشپ ہاولز کی رپورٹ)۱۱۴
۴۔ ’’آج اسلام کو مغربی نائیجیریا میں بہت زیادہ غلبہ حاصل ہو رہاہے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی کیا جاسکتا ہے کہ عیسائیت قبول کرنے والے ایک کے مقابل پر اسلام میں بیس داخل ہونے والے ہوتے ہیں‘‘۔ (دی لائٹز یکم نومبر ۱۹۵۳ء از اینگلیکن مشزی)
۵۔ ہم چرچ کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو سنبھالے اگر ہماری اس تنبیہ کی طرف توجہ نہ کی گئی تو عین ممکن ہے کہ اسلام فاتحانہ انداز میں جنوبی نائیجیریا کے آخری سرے تک پہنچ جائے۔ 4] f[st۱۱۵ (ویسٹ افریقن پائلاٹ نائیجیریا ۲۱ مئی ۱۹۵۷ء)
۶۔ ’’میتھوڈسٹ کے چرچ نے اپنی سالانہ کانفرنس کی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اسلام مغربی افریقہ اور خود برطانیہ میں ایک زبردست تبلیغی مہم سر کر رہا ہے‘‘۔۱۱۶ (ڈیلی سروس (نائیجیریا) ۱۲ جون ۱۹۵۷ء)
۷۔ ابادان (نائیجیریا) کے انچارج بشپ اے ۔ بی آکیں یسیلے نے کہا۔’’اسلام اس امر کا بڑے زور سے تقاضا کررہا ہے کہ اسے مغربی افریقہ کا مسلمہ مذہب قرار دیا جائے اور اس نے ایک سے زیادہ صوبائی پادریوں سے یہ سنا ہے کہ اسلام بہت زیادہ ترقی کی طرف گامزن ہے۔
۸۔ (افریقہ میں) لاکھوں لاکھ افریقن جن کی تعداد وہاں کی اصل آبادی کے پانچویں حصے کے برابر ہوگی۔ اسلام قبول کرچکے ہیں۔ بعض علاقوں میں جہاں آجکل عیسائی مشزی اور مسلمان مبلغ ایک دوسرے کے بالمقابل اپنے اپنے مذہب کی اشاعت میں مصروف ہیں حالت یہ ہے کہ عیسائیت قبول کرنیوالے ایک شخص کے مقابلے میں دس افریقن اسلام قبول کرتے ہیں۔ یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ مغربی افریقہ میں اب اسلام کو واضح طور پر افریقنوں کا مذہب قرار دیا جاتا ہے۔ جبکہ عیسائیت وہاں صرف اور صرف سفید لوگوں (یورپین) کا مذہب بن کر رہ گیا ہے۔ ۱۱۷
۹۔ ’’آج سے تیس سال قبل وہ (یعنی مسلمان) سب سے زیادہ پسماندہ قوم تھے لیکن جب سے احمدیہ جماعت نے اپنے ترقیاتی پروگرام کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا ہے مسلمانوں میں حیرت انگیز تبدیلی واقع ہوگئی ہے‘‘۔ (کیتھولک ہیرلڈ ۱۹ اگست ۱۹۵۵ء)
۱۰۔ ابادان کے بشپ نے غانا میں تقریر کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ جہاں عیسائیت کو سخت ناکامی ہوئی ہے وہاں مسلمانوں نے میدان جیت لیا ہے‘‘۔ (نائیجیرین ٹریبیون ۲۴ فروری ۱۹۵۵ء)
۱۱۔ نائیجیریا کے بشپ ایس۔ او۔ روڈ وٹون نے کل افریقہ چرچ کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے کہا عیسائی چرچ نائیجیریا میں اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے بہت تشویش میں ہے (ڈیلی ٹائمز۔ ۱۴ جنوری ۱۹۵۸ء)
۱۲۔ مسٹر ریمزے نے افریقہ کے تیرہ ممالک کا دورہ کرنے کے بعد اس خیال کا اظہار کیا کہ عیسائیت افریقہ میں اسلام سے شکست کھا رہی ہے۔ (ویسٹ افریقن پائلاٹ ۲۱ مارچ ۱۹۶۰ء)
۱۳۔ جیوفرے ہیرلڈ (ایک مشہور عیسائی مصنف) نے ویسٹ افریقن ریویو (لنڈن) کی دسمبر ۱۹۶۰ء کی اشاعت میں لکھا ہے احمدیہ جماعت اگرچہ قلیل التعداد ہے لیکن یہ بہت زیادہ کام کرنے والے لوگ ہیں۔ اور اپنی آواز کو خوب دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ مغربی افریقہ میں ان کے متعدد مدارس ہیں جو مغربی خطوط پر چلائے جاتے ہیں۔ ان کے اخبارات بھی ہیں۔
گولڈ کوسٹ (غانا) مشن۱۱۸ اوپر بتایا جاچکاہے کہ الحاج حکیم فضل الرحمان صاحب ۱۳ مئی ۱۹۲۲ء کو انچارج مشن کی حیثیت میں یہاں پہنچے آپ آخر ستمبر ۱۹۲۹ء ۱۱۹ تک گولڈ کوسٹ میں تبلیغ اسلام و احمدیت میں مصروف عمل رہے۔ محترم حکیم صاحب کے عہد میں مشن کو بہت فروغ ہوا۔ سالٹ پانڈ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول جاری کیا۔ اور جماعت کے امراء سے چندہ خاص کرکے سکول کی عمارت تعمیر کی ۱۲۰ اپریل ۱۹۲۸ء میں شہر کماسی میں آپ کا غیر احمدیوں سے مناظرہ ہوا۔ جس میں اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو نمایاں فتح بخشی۔ اس مناظرہ میں حکومت کے اعلیٰ افسروں کے علاوہ پراونشل کمشنر بھی موجود تھے۔ ۱۲۱ حکیم صاحب ابھی گولڈ کوسٹ ہی میں تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم پر مولوی نذیر احمد (علی) صاحب (ابن حضرت بابو فقیر علی صاحب اسٹیشن ماسٹر) ۲۲ فروری ۱۹۲۸ء کو قادیان سے گولڈ کوسٹ روانہ ہوئے۔ ۱۲۲ اور وہاں کچھ عرصہ حکیم صاحب کا ہاتھ بٹانے کے بعد یکم اکتوبر ۱۹۲۹ء سے مشن کے انچارج مقرر کئے گئے۔ ۱۲۳ اور کامیاب جرنیل ثابت ہوئے۔
مولوی نذیر احمد علی صاحب کے زمانہ میں گولڈ کوسٹ (حال غانا) کی جماعت نے خوب ترقی کی کوامنیاٹا۔ اسیام۔ کیپ مقامات میں نئے سکول کھلے اور متعدد نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ مئی ۱۹۳۳ء میں آپ واپس تشریف لے آئے۔ اور مشن کا کام الحاج حکیم فضل الرحمان صاحب نے انجام دینا شروع کر دیا۔ ۱۲۴
آپ کے دور میں یہاں مشن ہائوس بھی تعمیر ہوگیا۔ ۲۱۲۵ فروری ۱۹۳۶ء کو مولوی نذیر احمد علی صاحب اور مولوی نذید احمد صاحب مبشر سیالکوٹی مولوی فاضل گولڈ کوسٹ روانہ ہوئے۔ اور ۲۳ اپریل ۱۹۳۶ء کو گولڈ کوسٹ پہنچے۔ اور یکم مئی ۱۹۳۶ء کو اس مشن کا چارج لیا۔۱۲۶ اور کماسی میں جواشانٹی کا مرکز ہے احمدیہ پرائمری سکول کی بنیاد رکھی۔ ۱۲۷ اکتوبر ۱۹۳۷ء ۱۲۸ میں مولوی نذیر احمد علی صاحب حضرت خلیفہ ثانی کے ارشاد کے تحت سیرالیون میں نیا داراتبلیغ کھولنے کے لئے تشریف لے گئے اور گولڈ کوسٹ مشن مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کی امارت میں جلد جلد ترقیات کی منزلیں طے کرنے لگا اور خدا کے فضل سے یہ آپ ہی کی انتھک کوششوں کا نتیجہ ہے کہ آج غانا کی جماعت ممالک بیرون پاکستان کی عظیم ترین جماعتوں میں شمار ہوتی ہے جس میں اڑھائی سو سے زیادہ جماعتیں ہیں۔ پونے آٹھ لاکھ روپیہ کا بجٹ ہے ایک سو باسٹھ کے قریب مساجد اور سولہ کے قریب سکول قائم ہیں۔اور بیس کے لگ بھگ (مرکزی مبلغین کے علاوہ) مقامی مبلغ کام کر رہے ہیں جن کے لئے الگ الگ مشن ہائوس موجود ہیں۔ حضرت خلیفہ ثانی المصلح الموعود ایدہ اللہ تعالیٰ نے مولوی صاحب کی نسبت فرمایا تھا۔ افریقی اقوام میں بیداری کے جو سامان پیدا ہوئے ہیں ان میں مولوی نذیر احمد صاحب کو اس عمارت کی ایک بنیادی اینٹ بننے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ۱۲۹ حضرت اقدس کے حکم سے مولوی نذیر احمد صاحب مبشر تین بار اس ملک میں بھجوائے گئے اور آپ کو یہاں (آمدورفت کے عرصہ کو مستثنیٰ کرکے) ۱۹۳۶ء سے لیکر ۱۹۶۱ء تک تبلیغی جہاد کرنے کا موقعہ ملا۔ اس عرصہ میں تعداد۔ تعلیم اور جائیداد غرضکہ ہر جہت سے مشن نے حیرت انگیز ترقی کی چنانچہ مسٹر جان ہمفری فشر John ۔)Mr fisher( Humphrey نے جو جماعت کی تبلیغی مساعی پر تحقیقات کے لئے خود مغربی افریقہ گئے تھے۔ اپنی کتاب Ahmdiyya میں آپ کی خدمات کو سراہا ہے۔ ۱۳۰ مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کے بعد اب مولوی عطاء اللہ صاحب کلیم انچارج مشن کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اور سالٹ پانڈ سے ایک ماہوار اخبار ’’دی گائیڈنس‘‘ Guidance( )The بھی آپ کی ادارت میں ۱۹۶۲ء سے شائع ہوتا ہے۔
اب ذیل میں ان مجاہدین کے نام لکھے جاتے ہیں جنہوں نے مندرجہ بالا مبلغین کے علاوہ اس مشن میں کام کیا ہے۔ یا ابھی تک مصروف جہاد ہیں ملک احسان اللہ صاحب۔ مولوی عبدالخالق صاحب ۔ مولوی بشارت احمد صاحب نسیم امروہوی۔ مولوی صالح محمد صاحب۔ مولوی عبدالحق صاحب انور ۔ چوہدری عطاء اللہ صاحب۔ مولوی بشارت احمد صاحب بشیر۔ صوفی محمد اسحاق صاحب۔ مولوی عبداللطیف صاحب شاہد۔ مولوی عبدالقدیر صاحب شاہد۔ مولوی محمد افضل صاحب قریشی۔ ملک خلیل احمد صاحب اختر۔ مولوی فضل الٰہی صاحب انوری۔ مولوی عبدالرشید صاحب رازی۔ مسعود احمد صاحب دہلوی۔ سید سفیر الدین احمد صاحب۔ قریشی فیروز محی الدین صاحب۔ مرزا لطف الرحمان صاحب۔ جناب مولوی عبدالمالک خان صاحب۔ صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب۔ سید دائود احمد صاحب انور۔ مولوی عبدالحمید صاحب۔ منیر احمد صاحب رشید۔ پروفیسرمحمد لطیف صاحب۔ سید محمد ہاشم صاحب بخاری۔ ان مرکزی مبلغین کے علاوہ دو درجن کے قریب مقامی مبلغین بھی کام کررہے ہیں۔ جن میں سے مسٹر عبدالوہاب بن آدم اور مسٹر ابراہیم بن مانو ربوہ میں تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔
لٹریچر۔ اس مشن کی طرف سے فینٹی‘اشانٹی اور انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر چھپ چکا ہے۔
غانا دارالتبلیغ کی خدمات غیروں کی نظر میں
بالاخر غانا دارالتبلیغ سے متعلق غیروں کے چند تاثرات درج کئے جاتے ہیں جن سے اس مشن کی فتوحات کا کسی قدر اندازہ ہوگا۔
۱۔ غانا یونیورسٹی کالج کے مشہور پروفیسر مسٹر ایس۔جی ولیم سن لکھتے ہیں غانا کے شمالی حصہ میں رومن کیتھولک کے سوا عیسائیت کے تمام اہم فرقوں نے محمد کے پیروئوں کے لئے میدان خالی کردیا ہے اشانٹی اور گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں آج کل عیسائیت ترقی کر رہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصیت سے ساحل کے ساتھ ساتھ جماعت احمدیہ کو عظیم فتوحات حاصل ہورہی ہیں۔ یہ خوشکن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا اب معرض خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد احمدیت کی طرف کھچی چلی جارہی ہے۔ اوریہ یقیناً صورت حال عیسائیت کے لئے کھلا چیلنج ہے تاہم یہ فیصلہ ابھی باقی ہے۔ کہ آئندہ افریقہ میں ہلال کا غلبہ ہوگا یا صلیب کا۔ ۱۳۱(ترجمہ)
۲۔ ورلڈ کرسچن ڈائجسٹ (جون ۱۹۶۱ء صفحہ ۳۹۔۴۰) میں لکھا ہے ’’کیا اسلام کی روز افزوں ترقی اور اس سارے علاقہ کو بہت جلد اپنی لپیٹ میں لے لینے کے اسلامی چیلنج کا ہمارے پاس کوئی موثر و موزوں جواب ہے۔ غانا میں بھی جماعت احمدیہ سر گرم عمل ہے۔ غانا کے شمالی علاقہ کے لوگ مذہبی ہیں۔ اس لئے وہاں تھوڑی سی کوشش بھی اسلام کو وسیع پیمانہ پر پھیلانے کا موجب ہوسکتی ہے‘‘۔
۳۔ ماہنامہ ’’مجلہ الازہر‘‘ (بابت جولائی ۱۹۵۸ء) نے ’’الاسلام فی غانا‘‘ کے عنوان سے جماعت احمدیہ کی خدمات کا ان الفاظ میں ذکر کیا۔ ’’ولھم نشاط بارز فی کافہ النواصی ومدارسھم ناجحہ بالرغم ان تلامیذ ھا لا یدینون بمذھبھم جمیعا‘‘۔ یعنی فرزندان احمدیت کی سرگرمیاں تمام امور میں انتہائی طور پر کامیاب ہیں اور ان کے مدارس بھی کامیابی سے چل رہے ہیں۔ بحالیکہ ان مدارس کے سبھی طلبہ ان کی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں۔
۴۔ غانا کے ڈپٹی سپیکر الحاج یعقوب طالع نے بیان دیا کہ یہ امر ہمارے مشاہدہ میں آیا ہے کہ اگر احمدیہ جماعت اسلام کے احیاء اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے کی جدوجہد نہ کرتی تو اسلام مادیات کے تھپیڑوں میں کبھی کا دب چکا ہوتا۔ میں چشم دید گواہ ہوں کہ سلسلہ احمدیہ کی مساعی کے نتیجہ میں اسلام دنیا کے مختلف ممالک میں سربلندی حاصل کررہا ہے۔ اور یہ کہنے میں مبالغہ نہ ہوگا۔ کہ اس دور کی انسانی تاریخ کا سب سے اہم واقعہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہے۔ ۱۳۲
۵۔ غانا یونیورسٹی کے ایک لیکچرار Price ۔A۔J نے مانچسٹر گارڈین کی ایک اشاعت میں لکھا ’’مالکیوں کے علاوہ مسلمانوں کا ایک اور فرقہ جماعت احمدیہ بھی ہے جو اپنی تبلیغی مساعی کے لحاظ سے مشہور ہے اس کا مرکز پاکستان میں ہے ۔۔۔۔۔۔ یہ جماعت تیزی کے ساتھ ترقی کے راستہ پر گامزن ہے عیسائی اور مشرکین دونوں میں سے لوگ جوق در جوق اس میں داخل ہورہے ہیں۔ اس جماعت کی ترقی کی رفتار کا اندازہ اس امر سے ہوسکتاہے۔ کہ ۱۹۳۱ء میں اس کے ممبروں کی تعداد تین ہزار ایک سو دس تھی جبکہ ۱۹۴۸ء میں یہ تعداد بائیس ہزار پانچ سو بہتر تک پہنچ چکی ہے احمدیہ مشن کی نمایاں کامیابی میں اس کی تعلیمی سرگرمیوں کا بھی دخل ہے۔ جس میں ثانوی تعلیم بھی شامل ہے ان کی مساعی کو مغربی افریقہ کے تمام علاقوں میں محسوس کیا جارہا ہے۔ ۱۳۳
حضرت خلیفہ المسیح کا تیسرا نکاح
۷ فروری ۱۹۲۱ کو حضرت خلیفتہ المسیح ثانی نے حضرت مسیح موعود کے مخلص اور قدیم صحابی ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی دختر نیک اختر حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ کو اپنی زوجیت کا فخر بخشا۔ خطبہ نکاح حضرت سید سرورشاہ صاحب نے پڑھا مہر ایک ہزار روپیہ مقرر ہوا۔۱۳۴ ۲۱ فروری ۱۹۲۱ء کو تقریب رخصتانہ عمل میں آئی ۲۳ فروری ۱۹۲۱ء کو بوقت صبح دعوت ولیمہ ہوئی۔ ۱۳۵ حضور کو اس نکاح کی تحریک اس لئے ہوئی کہ سیدہ مریم بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت مسیح موعود کے فرزند مرزا مبارک احمد سے ہواتھا۔ مگر جب صاحبزادہ صاحب وفات پاگئے تو حضور نے گھر میں اپنی اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ یہ رشتہ ہمارے ہی گھر میں ہوتو اچھا ہے۔ ۱۳۶
سکھوں کے ایک گورو صاحب قادیان میں
کرتار پور ضلع جالندھر میں سکھوں کی مشہور گدی ہے ۔ ۲۵ فروری ۱۹۲۱ء کو وہاں کے گورو ضلع گورداسپور کا دورہ کرتے ہوئے قادیان آئے۔ حضرت اقدس نے ان کی پیشوائی کے لئے حضرت مولوی شیر علی صاحب ناظر اعلیٰ اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو شہر سے باہر بھجوایا۔ گورو صاحب گھوڑے پر اور انکے مصاحب رتھ اور گاڑیوں میں سوار تھے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے صحن میں اتارا گیا۔ حضرت خلیفہ ثانی نے مزاج پرسی کے بعد ان سے مسلمانوں اور سکھوں کے ان باہمی خوشگوار تعلقات کا تذکرہ فرمایا۔ جو شاہان مغلیہ کے زمانہ میں تھے۔ کوئی پون گھنٹہ کی ملاقات کے بعد گورو صاحب نے رخصت کی اجازت چاہی۔ حضرت اقدس نے اپنے گھر سے میووں کی ایک سینی لگوا کر حضرت میر قاسم علی صاحب کے ہاتھ بھجوائی جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ ۱۳۷
سفر لاہور ومالیر کوٹلہ
۴ مارچ ۱۹۲۱ء کو حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایک مقدمہ میں شہادت کی غرض سے لاہور تشریف لے گئے لاہور میں حضور کی دو تقریریں ہوئیں جن کے عنوان یہ تھے ’’مذہب کی ضرورت‘‘ اور ’’حقیقی مقصد اور اس کے حصول کے طریق‘‘۔ ۷ مارچ ۱۹۲۱ء کو حضور مالیر کوٹلہ روانہ ہوئے۔ مالیر کوٹلہ کے اسٹیشن پر حضرت نواب محمد علی خان صاحب‘حضرت نواب محمد عبداللہ خانصاحب وغیرہ اصحاب استقبال کے لئے موجود تھے۔ حضور بذریعہ موٹر شیروانی کوٹ تشریف لے گئے۔ ۹ مارچ ۱۹۶۲ء کو حضور نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے شہر والے مکان میں ’’صداقت اسلام‘‘ کے موضوع پر لیکچر دیا۔ ۱۰ مارچ کو حضرت ماسٹر قادر بخش صاحب (والد ماجد حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد) کی درخواست پر لدھیانہ میں قیام فرمایا ۔ حضرت ماسٹر صاحب نے حضور کے اعزاز میں ایک بڑی دعوت کا انتظام کیا۔ حضور لدھیانہ سے ۱۱ مارچ ۱۹۲۱ء کو قادیان واپس تشریف لائے۔ ۱۳۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ایک پرجلال و شوکت تقریر
۹ مارچ ۱۹۲۱ء میں قادیان کے غیر احمدیوں کا بڑی دھوم دھام سے جلسہ ہوا مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اہلحدیث مولوی محمد علی صاحب روپڑی ۔ مولوی میر محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی۔ مولوی انور شاہ صاحب کاشمیری مدرس اعلیٰ دیوبند اور مرتضیٰ حسن صاحب دربھنگوی وغیرہ نے دل آزار اور اشتعال انگیز تقریریں کیں۔ ۱۳۹ جن کے جواب میں ۲۱۔ ۲۲ مارچ کی درمیانی شب کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک پر جلال و شوکت تقریر فرمائی۔
چونکہ علماء صاحبان کی طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کی بے حرمتی کرنے اور کھودنے کی افواہیں ہر طرف پھیلی ہوئی تھیں جن کی تصدیق خود اس جلسہ کی تقاریر سے بھی ہوگئی تھی۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے پہلی بار قادیان کی آبادی اور احمدی مساجد اور بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے اقدامات کرنے پڑے۔ ۱۴۱۱۴۰4] [rtf
جمعدار فضل الدین صاحب کمبوہ کا تحریری بیان ہے کہ۔:
’’جس سال احراریوں نے اپنے بد ارادے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار کے متعلق اور بہشتی مقبرہ کے متعلق ظاہر کئے تھے اور قادیان میں ایکبہت بڑے جلسہ کا انعقاد کا اعلان کردیا تھا میں ان دنوں مہینہ کی رخصت پر اپنے گائوں ہمزہ آیا ہوا تھا مجھے جب احرایوں کے جلسہ قادیان کی اطلاع ملی تو میں اپنے والد صاحب سے اجازت لی اور قادیان کی طرف روانہ ہوگیا۔ چونکہ ان دنوں قادیان کی طرف ریل نہیں جاتی تھی میں بٹالہ سے ٹانگہ پر سوار ہوکر قادیان پہنچا اور بہشتی مقبرہ کے قریب ٹانگہ سے اتر کر دعا کے لئے بہشتی مقبرہ گیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گرد چہار دیوار ڈال کر چھت ڈالی ہوئی تھی۔ دعا کے بعد میں مسجد مبارک قادیان میں گیا۔ سب سے پہلے میں وہاں قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے ملا اور رات مہمان خانہ میں گزاری۔ دوسرے دن صبح کے وقت میں ابھی بیت مبارک میں ہی تھا کہ حضرت صاحب زادہ مرزا شریف احمد صاحب سے ملاقات ہوئی۔ آپ نے مجھ سے علیحدگی میں فرمایا کہ عبدالکریم لوہار جو ان دنوں سیویوں کی مشین بنایا کرتے تھے ان کو بلا لائیں۔ وہ اپنے ساتھ ایسا سامان لے آئیں جس سے بیت مبارک کی پچھلی طرف کھڑکیوں کی سیخیں کاٹی جاسکیں تاکہ اگر مخالفین دار مسیح پر کسی قسم کا حملہ کریں تو ان کھڑکیوں کے ذریعہ مرزا گل محمد صاحب کی حویلی میں بچوں اور عورتوں کو حفاظت کے لئے بھیجا جاسکے۔ آپ کے حکم پر میں مذکورہ لوہار کی دکان پر پہنچا تو اس نے میرے ساتھ آنے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے بہت کام ہے۔ میں وہاں نہیں جاسکتا۔ جب میں نے اس سے اوزار مانگے کہ میں خود ہی سیخیں کاٹ کر اوزار واپس کردوں گا تو اس نے اوزار دینے سے بھی انکار کر دیا اس پر میں مایوس ہوکر واپس آیا تو بیت مبارک میں مجھے کوئی شخص نہ ملا۔ اسی روز احرار گاڑی میں متواتر پہنچ رہے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ تمام ہندوستان کے احرار آرہے ہیں۔۱۴۲ بٹالہ سے ان کے قافلے پیدل اور ٹانگوں پر قادیان روانہ ہوئے۔ مولوی ثناء اللہ وغیرہ بھی ان میں تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد ان کے بد ارادوں کی خبریں جو وہ اپنی باتوں میں بیان کرتے تھے قادیان پہنچتی رہیں ہمارے نوجوانوں نے ایسی سکیم تیار کرلی تھی جس کے تحت وہ بٹالہ میں بہت جمع ہوچکے تھے وہ ہر قافلہ میں دو دو تین تین شامل ہوجاتے اور چونکہ گرمی کے دن تھے وہ ہاتھوں میں پنکھے لے کر آگے بڑھ جاتے اور ہر قافلہ میں جو مولوی ہوتے ان کو پنکھا کرتے اور ان کی باتیں سن لیتے اور پھر پنکھا اپنے دوسرے ساتھی کے حوالے کر کے واپس قادیان جاکر بیان کرتے۔ اس طرح ان کی تمام باتیں قادیان میں قبل از وقت پہنچتی رہیں۔ اس دن انہوں نے پہنچ کر ایک ہندوئوں کے مکان میں تقریریں کیں وہاں بھی ہمارے خاص خاص نوجوانوں کو جانے ہی کا حکم تھا جو وہاں سے رپورٹیں لے کر آتے تھے۔ دوسرے دن ان کا اس قدر ہجوم تھا کہ حضرت صاحب کے حکم سے ایک فوٹو گرافر کو منارۃ المسیح کے اوپر جاکر کیمرہ سے فوٹو لینے کو کہا گیا۔ کیوں کہ وہ دن اور دھوپ کا وقت تھا اور احراریوں کی نظریں منارۃ المسیح پر بدنیتی سے پڑ رہی تھیں جب فوٹو گرافر نے وہاں جاکر کیمرہ نصب کیا تو ان لوگوں نے دیکھا اور بعض نے تو ان میں سے یہ کہنا شروع کیا کہ دیکھو وہ منارۃ المسیح پر مشین گن لگ گئی۔ اسی دن حضرت میر محمد اسماعیل سول سرجن نے مجھے جب مسجد مبارک میں دیکھا تو فرمایا کہ آپ چونکہ ملٹری کے آدمی ہیں میں آپ سے کچھ سوالات کرتا ہوں آپ اس کا جواب دیدیں اس کے بعد میں کوئی کام آپ کے حوالے کردوں گا۔ جو آپ کو کرنا ہوگا۔ میں نے لبیک کہا تو آپ نے سب سے پہلے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ نے فرسٹ ایڈ کی تعلیم حاصل کی ہے۔ میں نے جواب اثبات میں دیا۔ پھر آپ نے سوال کیا کہ آپ فیلڈ ایمبولنس کی ٹریننگ بھی رکھتے ہیں جس میں زخمیوں کو اٹھا کر ہسپتال پہنچانے کی ٹریننگ ہوتی ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ نے آگ بجھانے کی فائر بریگیڈ کی ٹریننگ بھی حاصل کی ہے میں نے جواباً کہا ہاں صاحب۔ پھر میں نے کہا کہ حضور کچھ اور بھی پوچھنا چاہتے ہیں تو آپ نے مسکرا کر فرمایا کہ اب میں آپ کا امتحان لینا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اگر آپ کو بیس آدمی فائر بریگیڈ کے لئے دے دیئے جائیں تو ان کے لئے آپ کو کس سامان کی ضرورت ہوگی۔ میں نے جواباً عرض کیا کہ تیس چالیس خالی ٹینوں کی ضرورت ہوگی۔ بیس کے سر کٹے ہوئے ہوں جن میں ہم مٹی یا ریت ڈالیں گے اور بیس کے آدھے سر کٹے ہوئے ہوں جس میں پانی ڈالا جائے تا کہ ضرورت کے وقت کام آسکے۔ اس کے علاوہ بیس آدمیوں کے پاس بیس لاٹھیاں ہوں تاکہ اس سے ضرورت کے وقت کام لیا جاسکے۔ اور گینتیاں اور بیلچے دس دس ہوں آپ نے کہا کہ آپ اس میں پاس ہوگئے۔ پھر آپ نے فرمایا فیلڈ ایمبولینس میں اگر زخمیوں کو اٹھانے کا کام دیا جائے تو آپ کو کس سامان کی ضرورت ہے میں نے ابھی سٹریچر کا نام ہی لیا تھا تو آپ نے کہا یہ تو فیلڈ ہے یہاں سٹریچر کہاں سے آئیں گے اس پر میں نے کہا کہ حضور بیس آدمیوں کے لئے بیس بانس کی لاٹھیاں چاہیئں اور بیس خالی بوریاں چاہئیں تاکہ چاقوئوں سے بوریوں میں سوراخ کرکے ان میں بانس دے کر سٹریچر کا کام لیا جاسکے۔ اس پر آپ نے کہا کہ چاقو کہاں سے آئے گا تو میں نے اپنی جیب سے چاقو نکال کر دکھلا دیا کہ یہ تو میں ہمیشہ اپنے پاس رکھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا کہ بیت مبارک کے سامنے الفضل کا دفتر ہے اس پر آپ چالیس آدمی لے کر شام مغرب کی نماز کے بعد صبح تک اپنے انتظام کو مکمل رکھیں گے اور دیکھنا کہ جو آدمی آپ کو دیئے جاتے ہیں یہ پنجابی زمیندار ہیں انہیں حقہ پینے کی عادت ہے کہیں یہ آپ کو وقت پر جواب نہ دے دیں حضرت صاحب کی طرف سے قادیان کے گردا گرد دس دس میل تک کے لوگوں کو حکم دیا گیا تھا کہ ایک ایک آدمی ہر گھر سے قادیان آجائے اس طرح کافی احمدی جمع ہوچکے تھے مغرب کی نماز کے بعد میں اپنے چالیس منتخب آدمیوں کو لے کر حضرت نواب محمد علی خان کے مکان کی چھت پر جو مسجد مبارک سے متصل ہے چلا گیا وہ چالیس آدمی کچھ اس چھت پر کچھ دوسری چھت پر بھیج دیئے گئے اور ٹینوں میں پانی اور مٹی ڈال کر مسجد مبارک کے سامنے والے مکانوں کی چھتوں پر اردگرد کے مکانوں کی چھتوں پر رکھوا دیئے گئے اور میں ان دوستوں کو آہستہ آہستہ ان کے فرائض بتانے لگا کہ کس چیز کو کس طرح استعمال کرنا ہے۔
حضرت میر محمد اسماعیل صاحب نے فرسٹ ایڈ کے لئے پٹیاں بھی پہنچادیں تھی عشاء کی نماز ہم نے چھتوں پر ہی ادا کی تو زمیندار دوست حقے کی خواہش پر مجھ سے اجازت لینے آئے کہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم حقہ پی آئیں ۔ میں نے انہیں کہا کہ دیکھو اب آپ نے میرے ساتھ کام کرنا ہے اور میرا کہا ماننا ہے ورنہ ہم اپنے مقصد میں ناکام ہوکر بجائے حضور سے دعا لینے کی ان کی ناراضگی کا باعث بن جائیں گے اس لئے صرف ایک شخص سیڑھی سے اترے اور جاکر حقہ پی آئے اور اس کے آنے کے بعد دوسرا جائے۔ اس طرح سے میں نے خیال کیا کہ ایک ہی آدمی ایک وقت میں غیر حاضر رہ سکتا ہے اور اپنا بستر سیڑھی کے پاس لگا لیا۔ حضور کی طرف سے ان دنوں ہدایات جماعت کو دی جاتی تھیں تعمیل کے لئے پھیلادی جاتی تھی۔ عشاء کے بعد ابھی دو گھنٹے گذرے تھے کہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب دوتین دوستوں کے ہمراہ مکان کے اوپر تشریف لائے اور مجھے اوپر بلایا اور فرمایا کہ دیکھو آج رات قادیان میں ہر طرح کا خطرہ ہے اس لئے اپنے آدمیوں کو چوکس رکھنا۔ میں نے اپنے تمام آدمیوں کو چوکس رہنے کے لئے ہدایت کردی۔ اور کہا کہ ایک آواز آنے کے بعد دوسرے کا انتظار نہ کریں اور فوراً اپنے فرض کی ادائیگی کے لئے آجائیں یہ ایک عجب رات تھی مگر خدائی وعدوں پر ایمان تھا۔ رات کے دو بجے کے قریب جب احرار اپنے خیالات کو دماغوں میں لے کر محو خواب تھے اور ہر اک احمدی اللہ تعالیٰ کے آگے دعا میں مصروف تھا منارۃ المسیح سے بگل کی آواز ایسے رنگ میں سنائی دی کہ گویا وہ صور اسرافیل تھی اور قیامت کا دن تھا۔ ہر احمدی اپنی آرام گاہ سے فوراً کھڑا ہوگیا اور بعض گھروں میں اس آواز سے بچوں کی چیخیں سنائی دیں۔ میں نے اپنے آدمیوں کو کہا کہ کہیں کچھ احمدی زخمی ہوگئے ہیں اور کہیں آگ لگ گئی ہے فوراً چوک میں اپنے سامان کو لے کر کھڑے ہوں میں آگے آگے تھا میرے ہاتھ میں ایک بیلچہ تھا اور ایک خالی ٹین اور میں نے اپنے آدمیوں کو وہاں کھڑا کردیا دیکھتے ہی دیکھتے احمدیہ اسکول کالج کے لڑکے چند منٹ کے اندر‘باہر کے محلوں کے احمدی دوست رات کے وقت مسجد مبارک کی طرف بھاگے اور جہاں جہاں جگہ ملی گلی کوچوں میں کھڑے ہوگئے اور ابھی تھوڑا ہی عرصہ ہوا تھا کہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب میرے پاس تشریف لائے اور پوچھا آپ نے اس بگل سے کیا سمجھا میں نے عرض کیا کہ دشمن نے ہمارے آدمیوں کو زخمی کر دیا ہے اور ہمارے گھروں کو آگ لگادی ہے یہی خیال لئے میں یہاں آیا ہوں کہ پتہ چلے تو اپنے فرض کو ادا کروں۔ میر صاحب نے کہا کہ بس آپ لوگ جاکر آرام کریں کوئی بات نہیں ۔ ادھر تو یہ حالت تھی اور ادھر لشکر احرار کی یہ حالت تھی کہ وہ بگل کی آواز سن کر انہوں نے یہ سمجھا کہ ہم پر آسمانی فوجوں نے حملہ کردیا ہے اور ہم ہر طرح سے بے دست وپا ہیں۔ ان میں سے کئی ایک کی چیخیں بھی نکل گئیں۔ جو کہ ہمارے رپورٹروں نے بتایا اور ہم نے احراریوں کے پائوں کے نیچے سے زمین نکلتی دیکھی۔ صبح کو ایک دوست نے مسجد مبارک کے چوک میں تقریر کی جس میں انہوں نے گورو گوبند سنگھ کے اس واقعہ کا ذکر کیا کہ سکھوں میں جو پانچ پیارے ہیں ان کا کس طرح امتحان لیا گیا اور وہ اس طرح کے گوبند سنگھ کے لنگر میں بے شمار سکھ حلوہ پوری کھانے والے موجود ہیں۔ اس نے یہ دیکھنے کے لئے کہ وہ کچھ کام بھی کرسکتے ہیں تو اس نے رات کے وقت ایک میدان میں ایک تنبو لگا کر اس میں بکرے باندھ دیئے آپ سکھوں کا امتحان کرنا چاہتے تھے صبح کو کڑاہ|پرشاد کھانے والے سکھوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ آج ہمیں چند سکھوں کے سر درکار ہیں آئو کون ہمیں اپنا سر دیتا ہے۔ ان میں سے ایک شخص اٹھ کر آگے بڑھا اور تنبو سے باہر گورو صاحب تلوار لے کر کھڑے ہوگئے وہ آگے بڑھا تو وہ تنبو میں لے گئے اور اسے ایک طرف بٹھا کر تلوار سے ایک بکرے کو مار دیا۔ جب تلوار کی آواز باہر سکھوں نے سنی تو ان میں ہلچل مچ گئی پھر گوبند سنگھ صاحب خون آلود تلوار لے کر باہر آئے اور کہا کہ مجھے ایک اور سر کی ضرورت ہے۔ پھر ایک دوسرا سکھ آپ کے ساتھ اندر گیا تو آپ نے اس کو پہلے سکھ کے ساتھ بٹھا دیا اور پھر تلوار ایک بکرے کی گردن پر ماری۔ اب تو خون بھی تنبو سے باہر دکھائی دینے لگا۔ سکھ آہستہ آہستہ کھسکنے لگے اسی طرح آپ تیسری چوتھی اور پانچویں مرتبہ آئے اور صرف پانچ آدمی آپ کے ساتھ تنبو میں داخل ہوئے باقی سب بھاگ گئے ان پانچ سکھوں کو جنہوں نے اپنی جان قربان کرنے کا وعدہ کیا تھا پانچ پیارے کہتے ہیں اور سکھوں کی ہر بات پانچ باتوں پر ہی مقرر ہے۔ پانچ پیارے ہیں پانچ ککے ہیں اس احمدی مقرر نے کہا کہ لو ادھر تو صرف پانچ پیارے تھے آج تمہارا بھی امتحان ہوگیا کہ تم نے اپنے آپ کو قربانی کیلئے پیش کردیا۔ وہ تو پانچ پیارے تھے۔ احمدی جماعت کا ہر فرد پیارا ہے۔ یہ تو صرف میرے دیکھے ہوئے حالات ہیں باقی انتظامات کے متعلق میں نہیں کہہ سکتا۔ اسی روز شام کے وقت اعلان کیا گیا کہ مرزا گل محمد صاحب کی حویلی میں عشاء کے بعد جلسہ منعقد ہوگا اور اس میں حضور بھی تشریف لائیں گے اور اس میں غیر احمدیوں کے لئے داخلہ کے ٹکٹ دیئے جائیں گے اور احمدیوں کی شناخت پر اندر آسکیں گے۔
عشاء کے بعد جلسہ کا انتظام شروع ہوا حضرت میر محمد اسحاق نے پولیس کے افسروں اور مجسٹریٹ وغیرہ کو جو احراریوں کے جلسہ میں آئے ہوئے تھے جلسہ میں شمولیت کے لئے دعوت دی جب یہ افسران جلسہ گاہ میں تشریف لاکر اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھ گئے تو حضرت میر صاحب نے ان کو کچھ مٹھائی اور چائے پیش کی۔ انہوں نے ابھی چائے پینی شروع کی ہی تھی کہ حضور تشریف لے آئے تمام حاضرین نے کھڑے ہو کر حضور کا استقبال کیا۔ حضور السلام علیکم کہہ کر اپنی کرسی پر تشریف لے گئے۔ بیٹھنے کے بعد حضور فوراً کھڑے ہوگئے اور تقریر شروع کردی۔ تقریر اس موضوع پر تھی کہ گورنمنٹ نے پولیس اور باقی محکمے مظلوموں کی مدد اور ان کی دادرسی کے لئے بنائے ہیں مگر افسوس ہے کہ محکمے اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کرتے بلکہ برعکس اس کے ظالموں کی مدد کرتے ہیں حضور کی آواز اس قدر بلند تھی کہ حاضرین پرایک سکتے کا عالم تھا۔ اور ان کے سامنے پڑی ہوئی چائے اور مٹھائی انہیں ایسا زہر دکھائی دے رہا تھا کہ حلق سے نیچے نہیں اترتا تھا۔ چائے اور مٹھائی اس طرح پڑی رہ گئی حضور مختصر سی تقریر کے بعد تشریف لے گئے اور افسر بھی اٹھ کر جلسہ گاہ سے چلے گئے مگر احمدی اور غیر احمدی پبلک جم کر بیٹھی رہی حضور کے بعد میر محمد اسحاق نے ان اعتراضات کے جواب دینے شروع کئے جو احراریوں نے اپنے اسٹیج پر کئے تھے۔ آپ قرآن اور احادیث سے ان کے جوابات دیتے تو غیر احمدی پبلک سے حوالہ حوالہ کے آوازے اٹھتے ادھر جو احمدی احباب حوالے تلاش کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے وہ فوراً کتاب میر صاحب کے آگے رکھ دیتے اور حضرت میر صاحب حوالہ پیش کردیتے۔ کئی غیر احمدیوں کی طرف سے یہ سنا گیا کہ آج تک ہم نے ایسے عالم نہیں دیکھے تھے کہ جو حوصلہ مندی سے اس طرح حوالے پیش کرتے ہوں اور مخالفین کی باتیں توجہ اور حوصلہ سے سنتے ہوں‘‘۔ (غیر مطبوعہ)
ترکی اور حجاز کے حقوق کی حفاظت
۲۳ جون ۱۹۲۱ء کو جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے ‘حضرت مرزا شریف احمد صاحب‘حضرت نواب محمد علی خان صاحب ۔ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب اور بعض دوسرے سر برآور دہ حضرات شامل تھے۔ شملہ میں وائسرائے ہند لارڈ ریڈنگ سے ملاقات کی ۔چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے جماعت احمدیہ کی طرف سے ان کا خیر مقدم کیا۔ اور سلسلہ احمدیہ کے حالات بیان کرنے کے بعد وائسرائے ہند کی توجہ خاص طور پر تین باتوں کی طرف مبذول کرائی۔
اول حکام میں یہ روح پیدا کی جائے کہ ان کا سلوک ہندوستانیوں سے برادرانہ ہو اور اقوام کے ساتھ مساویانہ سلوک ہو۔
ودم ترکی حکومت کے ساتھ ہمیں ہمدردی ہے اگر پچاس سال کے بعد برطانوی حکومت کی مدد سے السس‘لوریں فرانس کو واپس مل سکتے ہیں کوئی وجہ نہیں کہ سمرنا اور تھریس ترکوں کو واپس نہ دلائے جائیں۔
سوم ترکوں سے علیحدگی کے بعد حجاز کی آزادی میں کوئی خلل نہیں آنا چاہئے۔ مسٹر چرچل وزیر نوآبادیات نے ایک سکیم میں ذکر کیا ہے کہ اگر حکومت حجاز اپنے بیرونی تعلقات برطانوی حکومت کی نگرانی میں دیدے اور اندرونی امن کی ذمہ داری اٹھالے تو انگریزی حکومت اسے سالانہ مالی امداد دے گی۔ یہ سکیم آزادی حجاز کے سراسر منافی ہے اگر حکومت حجاز واقعہ میں ملکی حفاظت نہیں کرسکتی تو حجاز ترکوں کو انہی شرائط پر واپس کردینا چاہئے جن شرائط پر مسٹر چرچل اسے انگریزی حکومت کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں۔ ۱۴۳
سفر کشمیر
اس سال حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے طبی مشورہ کے مطابق کشمیر کا سفر فرمایا۔ آپ ۲۵ جون ۱۹۲۱ء کو روانہ ہوئے ۱۴۴ اور تین ماہ بعد ۲۹ ستمبر ۱۹۲۱ء کو واپس تشریف لائے۔ ۱۴۵ حضور دوران سفر اسلام آباد۔ گاندھر بل۔ چشمہ اچھا بل۔ چشمہ ویری ناگ اور آسنور یاڑی پور وغیرہ کی طرف بھی تشریف لے گئے مگر قیام اکثر و بیشتر سری نگر میں رہا۔ ماحول کی کشمیری جماعتوں نے حضور کی آمد سے خوب فائدہ اٹھایا۔ اور نوے کے قریب بیعتیں ہوئیں۔ ۲۲ اگست ۱۹۲۱ء کو حضور تمام اہل بیت کے ساتھ محلہ خان یار میں تشریف لے گئے۔ اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے مزار مبارک پر بہت دیر تک دعا کی۔ اور روضہ کے محافظ کو اس کی مرمت کے لئے کچھ رقم بھی دی۔ اس کے بعد حضور جامع مسجد دیکھنے گئے۔ ۱۴۶ ۲۶۔۲۷ اگست کو حضرت اقدس کے ارشاد پر آسنور میں احمدیان کشمیر کا جلسہ ہوا۔ جس میں حضور نے تربیتی امور پر لیکچر دیئے۔ آسنور کے احمدیوں نے اس موقع پر جلسہ کے انتظام اور مہمانوں کی خدمت کا حق ادا کر دیا۔ ۱۴۷4] f[rt
آئینہ صداقت
دسمبر ۱۹۲۱ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے قلم سے ایک معرکتہ الاراء کتاب ’’آئینہ صداقت‘‘ شائع ہوئی۔ جس میں حضور نے مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے کی انگریزی کتاب ’’دی سپلٹ‘‘ Split( )The سے پیدا ہوسکنے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے علاوہ اختلافات سلسلہ کی تاریخ کے صحیح حالات پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی۔ اس عظیم الشان تصنیف کا (جو۲۰۳ صفحات پر مشتمل ہے) اختتام ان الفاظ پر ہوا کہ احمدیت ۔ خدا کا قائم کیا ہوا پودہ ہے اس کو کوئی اکھاڑ نہیں سکتا۔
خلافت اس کا لگایا ہوا درخت ہے اس کو کوئی نہیں کاٹ سکتا۔ اس عاجز اور ناتوان وجود کو اسی نے اپنے فضل اور احسان سے اس مقام پر کھڑا کیا ہے اس کے کام میں کوئی روک نہیں ہوسکتا۔ ۱۴۸
اس زبردست تصنیف کا انگریزی ترجمہ split’’ the about Truth ‘‘The کے نام سے کلکتہ میں چھپ کر ۱۹۲۴ء میں شائع ہوا۔
ہستی باری تعالیٰ
سالانہ جلسہ ۱۹۲۱ء میں حضرت اقدس نے ہستی باری تعالیٰ کے موضوع پر تقریر دلپذیر فرمائی جو اسی نام سے شائع ہوئی اس معرکہ الاراء تقریر میں حضور نے ہستی باری تعالیٰ کے دلائل اس کی صفات شرک اور اس کی باریک درباریک اقسام رویت الٰہی اور اس کے مدارج اور اس کے طریق حصول پرایسی زبردست روشنی ڈالی ہے کہ گویا دن ہی چڑھا دیا ہے۔
۱۹۲۱ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت میر ناصر نواب صاحب نے مسجد مبارک (قادیان) سے مہمان خانہ تک احمدیہ بازار میں فرش لگوایا۔ ۱۴۹
۲۔ قادیان میں شرقی جانب واقع ڈھاب کے پرکرنے کا کام حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی نگرانی میں ہوا۔
۳۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جنرل خان اوصاف علی خان صاحب سی ۔ آئی۔ ای کمانڈر انچیف۱۵۰افواج نابھہ اور ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے نکاح پڑھے۔ ۱۵۱
۴۔ حضرت مسیح موعود کے جلیل القدر صحابی حضرت ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب گوڑیانی نے وفات پائی۔
۵۔ جناب مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے اور ان کے چند رفقاء حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی کو لاہور لے جانے کے لئے قادیان آئے جماعت کی طرف سے خانصاحب ذوالفقار علی خان نے ناشتہ کرنے کے لئے کہا۔ مگر انہوں نے معذرت کردی۔ واپسی پر ٹمٹم میں کھانا رکھوادیا گیا لیکن مولویمحمد علی صاحب نے کھانا اتروا دیا۔ ۱۵۲
۶۔ مشہور مباحثے۔ مباحثہ قادیان۱۵۳ (حضرت میر قاسم علی صاحب اور پنڈت پورنانند صاحب کے درمیان) مباحثہ مالیر کوٹلہ۱۵۴ شیخ عبدالرحمان صاحب مصری حضرت میر قاسم علی صاحب اور مولوی ثناء اللہ صاحب کے درمیان) مباحثہ قادیان ۱۵۵ (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور مہاشہ دھرم بھکشو صاحب کے درمیان) مباحثہ لاہور ۱۵۶ (حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور منشی پیر بخش صاحب ایڈیٹر رسالہ ’’تائید الاسلام‘‘ لاہور کے درمیان)۔
۷۔ علماء سلسلہ کی نئی مطبوعات۔ التشریح الصحیح لالہامات المہدی والمسیح (از مولوی فضل دین صاحب وکیل) تذکرۃ المہدی حصہ دوم (از پیر سراج الحق صاحب نعمانی) شہید مرحوم کے چشم دید واقعات (از سید احمد نور صاحب کابلی) تاریخ مالا بار (از شیخ محمود احمد صاحب عرفانی)۔
‏rov.5.19
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا نواں سال
فصل سوم
خلافت ثانیہ کا نواں سال
(جنوری ۱۹۲۲ء تا دسمبر ۱۹۲۲ء بمطابق جماد الاول ۱۳۴۰ھ تا جماد الاخر ۱۳۴۱ھ تک)
۱۹۲۲ء کے آغاز میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کو مصر جانے کا حکم ہوا ۱۵۷ حضور نے آپ کو روانہ کرتے ہوئے اپنے قلم سے مندرجہ ذیل ہدایات لکھ کر دیں۔
آپ مصر جاتے ہیں ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ سر زمین دنیا کی تباہی اور ترقی کے ساتھ ایک خاص تعلق رکھتی ہے۔اس سرزمین سے اسلام کو بہت سا نقصان بھی پہنچا ہے اور فائدہ بھی اور آئندہ اور بھی حوادث ہیں جو اس سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور ہم امید کرتے ہیں کہ انجام کار وہ اسلام کے لئے مفید ہونگے۔ پس اس سرزمین میں بہت ہی ڈرتے ڈرتے قدم رکھیں اور ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیں کہ وہ آپ کا قدم ادھر ادھر پڑنے سے آپ کومحفوظ رکھے۔ آپ کا اول کام عربی زبان کا سیکھنا ہے اس لئے ہندوستانیوں سے رابطہ پیدانہ کریں۔ کیونکہ غیر ملک میں اپنے اہل ملک جب ملتا ہے تو ان کی طرف بہت کھنچ جاتا ہے۔ پس جہاں تک ہوسکے عربوں سے ہی میل ملاقات رکھیں تاکہ زبان صاف ہونے کا موقع ملے۔ اور یہ بھی احتیاط رہے کہ تعلیم یافتہ لوگوں سے تعلق ہو۔ کیونکہ جہال کی زبان بہت خراب ہوتی ہے سیاسیات میں نہ پڑیں۔ اور نہ سیاسی لوگوں سے تعلق رکھیں۔ کیونکہ سیاسی لوگوں میں اگر تبلیغ ہوئی بھی تو ان کو اپنے راستہ سے ہٹاکر دین کی طرف لانا دگنی محنت چاہتا ہے۔ اور اس قدر کام آپ موجودہ اغراض کو پورا کرتے ہوئے نہیں کرسکتے۔
اپنے اخلاق کا نمونہ دکھانے کی کوشش کریں کیونکہ غیر جگہ انسان جاتا ہے تو لوگ اس کی حرکات سکنات کیطرف زیادہ توجہ کرتے ہیں۔ ہر ایک بات پر اپنی رائے ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جب کوئی ایسی بات پیش کرے جس پر رائے کا اظہار نامناسب ہے یا ایسی بحثوں کی طرف لے جائے جو سفر کے مقصد کے خلاف ہے تو بہتر ہے کہ کہدیں کہ مجھے اس امر سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لئے نہ میں نے اس پر کافی غور کیا ہے۔ اور نہ اس پر میں اپنی رائے کا اظہار کرسکتا ہوں ہر قوم میں کچھ عیوب ہوتے ہیں کچھ خوبیاں۔ پس مصریوں کی خوبیاں سیکھنے کی کوشش کریں مگر ان کے عیوب سیکھنے کی کوشش نہ کریں۔ بسااوقات ایسا ہوتا ہے کہ جب انسان اپنے گردوپیش ایک قسم کے حالات دیکھتا ہے تو بری باتیں بھی اسے اچھی نظر آنے لگ جاتی ہیں اور وہ اسے بطور فیشن اختیار کرلیتا ہے۔ مومن کو اس سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ ۱۵۸
شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ۱۸ فروری ۱۹۲۲ء کو قادیان سے روانہ ہوئے ۱۵۹ اور سکندر آباد سے ہوتے ہوئے بمبئی پہنچے جہاں سے بذریعہ جہاز قاہرہ (مصر) میں وارد ہوئے آپ نے حضور کی ہدایات کی روشنی میں وہاں اس رنگ سے تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا کہ خدا کے فضل سے پہلے سال ہی ایک جماعت پیدا کرلی چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۲ء پر فرمایا۔ اس سال بیرونی ممالک میں تبلیغ کے سلسلہ میں ایک نیا مشن مصر میں جاری کیاگیا ہے جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک طالب علم کے ذریعہ جماعت پیدا کردی ہے۔ ۱۶۰ دسمبر۱۹۲۳ء سے آپ کی ادارت میں ’’قصر النیل‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ اخبار جاری ہوا۔ ۱۶۱
عرفانی صاحب نے ۱۹۲۶ء تک مصر میں کام کیا۔۱۶۲ اور اعلیٰ طبقہ کے سرکاری ملازمین آپ کے ذریعہ داخل جماعت ہوئے۔ جن میں سے الاستاذ احمد حلمی آفندی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ۱۶۳ آپ کے زمانہ میں تبلیغ اسلام و احمدیت کا کام تمام تر انفرادی ملاقات یا لٹریچر کے ذریعہ سے ہوا۔ مگر آپ کے بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ابوالعطاء صاحب کے مصر کے علماء اور مسیحی پادریوں سے مناظرے ہوئے۔ چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب شمس کا ازہر کے تعلیم یافتہ ایک مرتد پادری کامل منصور سے ’’حدیقتہ الازبکیہ‘‘ کے گرجا میں اناجیل کی حقیقت کے باے میں ایک معرکتہ الاراء مباحثہ ہوا۔ جو بعد کو تحقیق الادیان کے نام سے رمضان ۱۳۴۸ھ بمطابق فروری ۱۹۳۰ء میں شائع کیا گیا۔ اس مباحثہ سے عیسائیت کا نمائندہ لاجواب ہوگیا۔ مباحثہ کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ بہت سے مصری نوجوان جو عیسائیت کا نمائندہ لاجواب ہوگیا۔ مباحثہ کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ بہت سے مصری نوجوان جو عیسائیت کے اوہام کا شکار ہو رہے تھے۔ پھر سے اسلام پر پختہ ہوگئے۔ انہی نوجوانوں میں عبدالحمید خورشید آفندی بھی تھے جو اس مباحثہ میں آپ کے دلائل وبراہین سے اتنے متاثر ہوئے کہ احمدی ہو کر عیسائیوں کا مقابلہ کرنے لگے مولانا شمس صاحب نے قاہرہ میں قیام کے دوران میں ایک بہائی محی الدین الکروی سے بھی پرائیویٹ مناظرے کئے اور بار بار تحدی کی کہ بہائی شریعت سے کوئی ایک ہی ایسا مسئلہ دکھایا جائے جو اسلامی شریعت میں موجود نہیں۔ اور ضروری ہو۔ مگر وہ کوئی ایسا مسئلہ پیش نہ کرسکے۔
۱۹۳۳ء میں مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نے مشہور عیسائی پادری ڈاکٹر فلپس )Philips( سے عیسائیت کے بنیادی عقائد پر مناظرہ کیا جس میں اسلام کو نمایاں فتح اور عیسائیت کو شکست فاش نصیب ہوئی۔ مولانا ابوالعطاء صاحب نے مباحثہ کی پوری روداد فلسطین کے عربی رسالہ البشارۃ الاسلامیتہ الاحمدیہ میں شائع کرتے ہوئے بلا وعربیہ کے تمام پادریوں کو چیلنج دیا کہ اگر ان میں طاقت ہے۔ تو اس کا جواب دیں۔ بعد ازاں اردو میں بھی ’’مباحثہ مصر‘‘ اسی چیلنج کے ساتھ شائع کیا گیا مگر آج تک نہ بلادعربیہ میں نہ برصغیر پاک وہند میں کسی پادری کو اس کے خلاف آواز اٹھانے کی جرات نہیں ہوسکی۔ ۱۶۴`۱۶۵
مولانا ابوالعطاء صاحب کے بعد مولوی محمد سلیم صاحب فاضل نے جولائی ۱۹۳۷ء سے دسمبر ۱۹۳۷ء تک مصر میں قیام کیا۔ آپ مصر سے حج پر روانہ ہوکر ۱۰ مارچ ۱۹۳۸ کو قادیان میں واپس آئے۔ اسی زمانہ میں ایک مشہور عیسائی عالم انستاس مارمی کرملی نے نشوء اللغہ العربیہ ونموھا واکتناء ھا کے نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں حضرت مسیح موعود کے اس نظریہ کی تائید کی کہ عربی زبان ام الالسنہ ہے۔ ۱۶۶
۱۹۴۰ء کے قریب مولوی محمد دین صاحب مرحوم فاضل مجاہد تحریک جدید البانیہ سے مصر تشریف لائے اور دارالتبلیغ کی سرگرمیاں باقاعدہ صورت میں ہونے لگیں۔ ابھی آپ مصر ہی میں مقیم تھے کہ چوہدری محمد شریف صاحب فاضل فلسطین سے مصر تشریف لے گئے اور جماعت کی ازسر نو تنظیم کی۔ اور کئی اصحاب کو سلسلہ میں شامل کیا۔ اور وقتاً فوقتاً آپ اپنے زمانہ اقامت بلاد عربیہ میں مصر جاتے رہے۔
اسی زمانہ میں البانیہ کے دو طالب علم ۱۶۷جامع ازہر میں بغرض حصول تعلیم داخل ہوئے جن کے متعلق ازہر کے حلقوں میں یہ شور اٹھا کہ یہ احمدی ہیں اس لئے ان کو اس اسلامی درسگاہ سے نکال دیا جائے علامہ مصطفیٰ المراغی شیخ الجامع الازہر نے ازہر کے نامور علماء کی ایک کمیٹی بنائی تاوہ پوری تحقیقات کرکے رپورٹ کرے کہ کیا جماعت احمدیہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے یا نہیں؟ اور اگر اختلاف ہے تو کس قدر؟ اس کمیٹی کی تشکیل پر چوہدری محمد شریف صاحب انچارج مبلغ بلادعربیہ نے عربی رسالہ (البشریٰ) اور مصری اخبارات کے ذریعہ اس کا خیر مقدم کیا اور شیخ الجامع الازہر (علامہ مصطفٰے المراغی) کی معرفت کمیٹی کو سلسلہ احمدیہ کا ضروری لٹریچر بھیجا۔ اور لکھاکہ میں خود بھی حاضر ہوکر جماعت احمدیہ سے متعلق مستند معلومات بہم پہنچا سکتا ہوں۔
اسی دوران ۱۹۴۲ء میں بابوعبدالکریم صاحب یوسف زئی پوسٹ ماسٹر (آف پونچھ) مرحوم نے لیبیا میں اقامت کے وقت ازہر (مصر) سے یہ دریافت کیا حضرت مسیح ابن مریم علیہ السلام زندہ ہیں یا وفات پاچکے ہیں؟ اور جو شخص وفات مسیح کا قائل ہے اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے تو شیخ الازہر نے یہ استفسار علماء ازہر اپنی کمیٹی (کبار علماء الازہر) یعنی ازہر کے بڑے بڑے علماء کے ایک نامور ممبر استاذ محمود شلتوت کو جواب لکھنے کے لئے دیا۔ الشیخ محمود شلتوت نے پوری تحقیق کے بعد حضرت مسیح کی وفات کا فتویٰ دیا حسب دستور علماء ازہر کی کمیٹی میں پیش ہوا۔ سب علماء ازہر نے اس جواب پر اتفاق کیا اور یہ فتویٰ مصر کے ایک کثیر الاشاعت ہفتہ وار اخبار ’’الرسالہ والروایہ‘‘ میں ’’رفع عیسیٰ‘‘ کے عنوان سے شائع کردیا گیا۔ ۱۶۸
اس کے کچھ عرصہ بعد خود الاستاذ محمود شلتوت شیخ الازہر )RECTOR( کے ازہر یونیورسٹی کی طرف سے آپ کے تمام اہم فتادی دسمبر ۱۹۵۹ء میں ’’الفتاویٰ‘‘۱۶۹ کے نام سے شائع کردیئے گئے ’’الفتادیٰ‘‘ میں ’’وفات مسیح‘‘ سے متعلق ان کا سابقہ فتویٰ بھی شامل کیا گیا جس کا خلاصہ خود الاستاذ شلتوت کے الفاظ میں یہ ہے۔
(’’۱) انہ لیس فی القران الکریم ولا فی السنتہ المطھرہ مستند یصلح لتکوین عقیدہ یطمئن الیھا القلب بان عیسی رفع بجسمہ الی السماء وانہ حی الی الان فیھا و انہ ینزل منھا اخر الزمان الی الارض۔
(۲) ان کل ماتفیدہ الایات الواردہ فی ھذہ الشان ھووعد اللہ عیسی بانہ متوفیہ اجلہ ورافعہ الیہ وعاصمہ من الذین کفروا وان ھذا الوعدقد تحقق فلم یقتلہ اعدائہ ولم یصلبوہ ولکن وفاہ اللہ اجلہ ورفعہ الیہ۔‘‘۱۷۰ترجمہ (۱) قرآن کریم اور سنت مطہرہ سے ہرگز کوئی ایسی سند نہیں ملتی جس کی بناء پر اس عقیدہ پر دلی اطمینان ہوسکے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے مادی جسم سمیت آسمان پر اٹھائے گئے ہیں اور یہ کہ وہ اب تک آسمان پر زندہ ہیں اور وہ آخری زمانہ میں زمین پر اتریں گے۔
(۲) قرآنی آیات یہ بتارہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علہ السلام سے وعدہ فرمایا تھے کہ وہ انہیں وفات دے گا۔ ان کا رفع فرمائے گا۔ اور کافروں کے شر سے بچائے گا۔ یہ وعدہ یقیناً پورا ہوچکا ہے۔ حضرت عیسیٰ کے دشمن نہ انہیں قتل کرسکے اور نہ صلیب پر مار سکے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی کے دن پورے کر کے انہیں وفات دے دی اور ان کا اپنی طرف رفع فرمایا۔
عالم اسلامی کی سب سے قدیم اور سب سے بڑی درسگاہ (یونیورسٹی) کے اس فتویٰ نے ممالک اسلامیہ میں زبردست ہلچل پیدا کردی۔ اور اس پر سب قدامت پسند علماء نے سخت نکتہ چینی کی اور آجتک کر رہے ہیں۔ مصر کے ایک عالم الشیخ عبداللہ محمد صدیق الغماری نے اپنی کتاب ’’اقامہ البرھان علی نزول عیسی فی اخر الزمان ‘‘ میں اس کے خلاف زبردست احتجاج اور اسے مصیبت عظمی اور اہم واقعہ قرار دے کر علامہ شلتوت کو اپنے ہندی بھائیوں کی دلداری اور حمایت کی خاطر یہ اپنا فتویٰ واپس لے لینے کا مشورہ دیا۔ مگر علامہ الشیخ شلتوت برابر آخردم تک اپنے موقف پر قائم رہے۔ اور صاف صاف کہا۔ ’’ انا ابدیت رائی ولا یضرنی ان اوافق القادیانیتہ اوغیرھم‘‘ ۱۷۱یعنی میں نے اپنی رائے ظاہر کردی ہے اور مجھے قادیانی جماعت یا کسی اور کی تائید و موافقت نقصان نہیں پہنچاسکتی۔
الاستاذ شلتوت نے ۲ نومبر۱۹۶۰ء کو شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ سے ملاقات کی ۱۷۲اور دوران ملاقات مسئلہ اجرائے نبوت کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ظاہری طور پر لفظ نبوت طبائع میں ہیجان پیدا کردیتا ہے۔ اس لئے عوام اس اصطلاح سے مشتعل ہوجاتے ہیں۔ مگر جو تاویل اور توضیح جماعت احمدیہ کرتی ہے اس قسم کی نبوت غیر تشریعی کی یقیناً گنجائش موجود ہے اور دوسری طرف بانی احمدیت کا لٹریچر اور اسلامی خدمات اس تادیل اور گنجائش کو قبول کرنے میں ممد ہیں‘‘۔ افسوس تین سال بعد علامہ الاستاذ محمود شلتوت دسمبر ۱۹۶۳ء میں انتقال فرما گئے اور دنیائے اسلام ایک عالم متبحر سے ہمیشہ کے لئے محروم ہوگئی۔
الشیخ الاکبر علامہ محمود شلتوت کے علاوہ اور بھی کئی مقتدر علما مسیح کی وفات کا فتویٰ دے چکے ہیں مثلاً الاستاذ مصطفیٰ المراغی (ازہر یونیورسٹی) علامہ عبدالکریم شریف۔ ڈاکٹر احمد زکی ابوشادی الاستاذ عباس محمود العقاد۔ ۱۷۳
مصری علماء مسئلہ ام الالسنہ اور مسئلہ وفات مسیح وغیرہ میں احمدیت کے علم کلام کی تصدیق کرنے کے بعد اب مسئلہ نسخ فی القرآن کے بارے میں بھی جماعت احمدیہ کا مسلک اختیار کر رہے ہیں چنانچہ الاستاذ عبدالمتعال محمد الجبری نے ۱۹۶۱ء میں النسخ فی الشریعتہ الاسلامیتہ کما افھمہ ۱۷۴ شائع کی ہے جس میں قرآنی نسخ کے عقیدہ کا ابطال کیا گیاہے۔
مصری پریس پر جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں نے کہاں تک اثر ڈالا ہے؟ اس کا اندازہ لگانے کے لئے مصر کے بااثر اور مشہور رسالہ الفتح کے دواقتباس کافی ہوں گے۔ اخبار الفتح نے لکھا۔
’’نظرت فاذاحرکتھم امر مد ھش فانھم رفعو اصواتھم و اجروا اقلامھم باللغات المختلفہ وایدو ادعوتھم ببذل المال فی المشرقین والمغربین فی مختلف الاقطار و الشعوب ونظموا جمعیاتھم وصدقوا الحملہ حتی استفحل امرھم وصارت لھم مراکزدعایتہ فی اسیاء واوربا وامریکا وافریقیہ تساوی علما وعملا جمعیات النصاری وامافی التاثیر والنجاح فلامناسبتہ بینھم و بین النصاری فلقادیانیون اعظم نجاحالما معھم من حقائق الاسلام و حکمہ‘‘۔۱۷۵
یعنی میں نے جماعت احمدیہ کا بغور مطالعہ کیا ہے اس جماعت کے کام حیرت انگیز ہیں احمدیوں نے اپنا قلم اور آواز مختلف زبانوں میں احیائے اسلام کے لئے استعمال کی ہے۔ اور مشرق و مغرب میں اپنے اموال خرچ کرکے اپنے عقائد پھیلائے ہیں۔ چنانچہ یہ جماعت بہت اہمیت حاصل کرچکی ہے ایشیا یورپ‘امریکہ اور افریقہ میں ان کے تبلیغی مراکز قائم ہوچکے ہیں۔ یہ مراکز علمی و عملی رنگ میں عیسائیوں کے مراکز کے ہم پلہ ہیں۔ یہ جماعت سب سے زیادہ کامیاب ہے کیونکہ اس کے پاس اسلام کے حقائق ومعارف ہیں جو شخص ان کے حیرت انگیز کارناموں کو بغور دیکھتا ہے اور سب باتوں کا موازنہ کرتا ہے وہ اس بات پر حیرت زدہ ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کہ اس چھوٹی سی جماعت نے تبلیغ و اشاعت اسلام کے لئے جو عظیم الشان کام کیا ہے وہ دوسرے کروڑوں مسلمانوں سے نہیں ہوسکا۔
(۲) اسلام کی طرف منسوب ہونے والے تمام فرقوں میں سے صرف قادیانی فرقہ ہی زندہ اور بیدار فرقہ ہے اس کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں لیکن اس کے یورپ اور مشرق میں پھیلے ہوئے تبلیغی مشن ‘مساجد اور مدارس دیکھنے سے آپ کو یقین ہوجائے گا کہ سچا اورمخلص مومن کون ہے۔ ۱۷۶4] ft[r
جماعت احمدیہ مصر کی طرف سے اب تک مندرجہ ذیل لٹریچر شائع ہوچکا ہے حمامتہ البشریٰ (حصہ اول تالیف سید نا حضرت مسیح موعود) (۲) التبلیغ ۰ تالیف سید ناحضرت مسیح موعود۔ (۳) الخطاب الجلیل (اسلامی اصول کی فلاسفی کا عربی ترجمہ از السید زین العابدین ولی اللہ صاحب) از تالیفات سید ناحضرت مسیح موعود علیہ السلام۔ (۴) الصلٰوۃ فی الاسلام ترجمہ نماز از عبدالمجید الرحالتہ (۵) تنویر الالباب لابطال دعوۃ البہاء والباب۔ (۶) النور المبین (۷) کشف اللثام اور (۸) جواہر الکلام (از مکرم مولانا جلال الدین شمس) ’’بشائر التوراۃ والانجیل فی حق سلیل سیدنا ابراہیم الخلیل‘‘ (از مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری)
بالاخر یہ بتانا بھی مناسب ہوگا کہ مصر کے مندرجہ ذیل مخلص احمدی احباب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی زیادت اور مرکز سے استفادہ کے لئے آچکے ہیں۔ (۱) عبدالحمید خورشید آفندی (۲) الاستاذ احمد حلمی آفندی (۳) الشیخ عبدالحمید ابراہیم آفندی (۴) ابراہیم عباس فضل اللہ از خرطوم۔ سوڈان مصر (۵) رضوان عبداللہ ۔ (آپ ربوہ میں حصول تعلیم کے لئے آئے اور ۲۶ اگست ۱۹۵۳ کو ربوہ میں وفات پائی اور یہیں دفن کئے گئے۔ ۱۷۷
احمدیہ ٹیریٹوریل کمپنی
۱۹۲۲ء کے آغاز میں دوسری ملکی جماعتوں اور قوموں کی طرح ٹیریٹوریل فورس میں جماعت احمدیہ کی بھی ایک کمپنی جالندھر میں قائم کی گئی۔۱۷۸ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ۱۹۳۹ء تک اس کمپنی کی کمان کرتے رہے۔ ۱۷۹ کمپنی کے جوانوں کے لئے آپ کی برگزیدہ شخصیت تنظیم واخلاق اور فوجی روح کے اعتبار سے ایک مثالی شان رکھتی تھی۔ جن دنوں آپ ٹریٹوریل فورس میں لیفٹنینٹ کے عہدہ پر فائز تھے۔ قادیان کے ’’تعلیم الاسلام میگزین‘‘ نے آپ کے حالات بیان کرتے ہوئے لکھا۔ ’’آپ کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے اختراع کا ایک خاص ملکہ عطا فرمایا ہے چنانچہ آپ نے بندوق کی ایسی گولی ایجاد کی ہے جو بڑے بڑے جانور کے پار نکل جاتی ہے۔ اور اس کی ہلاکت کا باعث بن جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے اخلاق فاضلہ کا بڑے بڑے افسروں کو بھی اقرار ہے۔ فوجی کام میں خاص دلچسپی لیتے ہیں آپ کا نشانہ نہایت اعلیٰ درجہ کا ہے نشانہ بازی میں بھی ایک ایسا آلہ ایجاد کر رہے ہیں جس کے ذریعہ سے دور فاصلے کی چیز بہت قریب نظر آنے لگے گی۔ اور نشانہ کبھی خطا نہ جائے گا‘‘۔۱۸۰
مبلغ گولڈ کوسٹ (غانا) کو ہدایات زریں
۲۳ / جنوری ۱۹۲۲ء کی صبح کو حکیم فضل الرحمن صاحب مغربی افریقہ روانہ ہونے والے تھے۔ حضور نے ان کو تحریری اور زبانی ہر دو طرح ہدایات دیں جن کا ملخص یہ تھا : (۱) وہاں کی زبان سیکھیں (۲) نہایت محبت اور حکمت سے کام لیں (۳) وہ قومیں اپنے سرداروں کا بہت ادب کرتی ہیں اس لئے ان سے معاملہ کرتے وقت کوئی ایسی بات نہ ہو جو ان کو بری لگے۔ جب ان کو نصیحت کریں۔ تو علیحدگی میں کریں (۴) ان کی دماغی قابلیت کے لحاظ سے تدریجاً علم دین سکھائیں۔ (۵) ہمیشہ چست رہیں (۶) اپنا کام کرتے وقت دوسروں پر نگاہ مت رکھیں۔ (۷) اخلاق کا خاص خیال رکھیں اور حکام سے معاملہ کرتے وقت مناسب ادب سے پیش آئیں۔ (۸) افریقنوں کا تاثر ہے کہ دنیا ہم سے نفرت کرتی ہے مگر آپ ان سے محبت کا معاملہ کریں۔ (۹) عادات‘لباس اور کھانے پینے میں ہمیشہ کفایت مدنظر رہے۔۱۸۱
’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘
شہزادہ ویلز (جو بعد کو ایڈورڈ ہشتم بنے اور ۱۹۳۶ء میں انگلینڈ چرچ سے اختلاف کر کے تخت سے دستبردار ہو گئے اور ڈیوک آف ونڈسر کہلائے) دسمبر ۱۹۲۱ء میں ہندوستان کے دورہ پر آئے تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے برطانیہ کے ولی عہد کو اسلام کا بے نظیر تحفہ پیش کیا۔ یعنی ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘ کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی۔۱۸۲ جسے آپ کی تجویز کے مطابق ۱۸۳جماعت احمدیہ کے بتیس ہزار سے زائد افراد نے ایک ایک آنہ فی کس جمع کر کے شائع کیا اور ۲۷ / فروری ۱۹۲۲ء کو لاہور میں احمدیہ وفد کے ذریعہ ایک مرصع رو پہلی کشتی میں شہزادہ معظم کے سامنے پیش کیا۔۸۴
حضور نے اس کتاب میں ولی عہد برطانیہ کو دعوت اسلام دیتے ہوئے تحریر فرمایا :
’’ہم یقین رکھتے ہیں کہ اسلام کی برکات ہمیشہ کے لئے جاری ہیں اور ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر اب بھی مسیحی دنیا اسلام اور مسیحیت کا اثر دیکھنے کے لئے تیار ہو تو اللہ تعالیٰ اچھے درخت میں اچھے پھل لگا کر دکھا دے گا۔۔۔۔۔۔ آپ اپنے رسوخ سے کام لے کر پادریوں کو تیار کریں۔ جو اپنے مذہب کی سچائی کے اظہار کے لئے بعض مشکل امور کے لئے دعا مانگیں اور بعض ویسے ہی مشکل امور کے لئے جماعت احمدیہ بھی اللہ تعالیٰ کے حضور التجا کرے۔ مثلاً سخت مریضوں کی شفا کے لئے جن کو بذریعہ قرعہ اندازی کے آپس میں تقسیم کرلیا جائے پھر آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کی سنتا ہے اور کس کے منہ پر دروازہ بند کر دیتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا نہ کر سکیں اور ہرگز نہ کریں گے کیونکہ ان کے دل محسوس کرتے ہیں کہ خدا کی برکتیں ان سے چھین لی گئی ہیں۔ تو پھر اے شہزادہ آپ سمجھ لیں کہ خدا نے مسیحیت کو چھوڑ دیا ہے اور اسلام کے ساتھ اپنی برکتیں وابستہ کر دی ہیں‘‘۔۱۸۵
شہزادہ ویلز نے اس لاثانی تحفہ کو نہایت قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھا اور نہ صرف اپنے چیف سیکرٹری کے توسط سے اس کا شکریہ ادا کیا۔۱۸۶ بلکہ یکم مارچ ۱۹۲۲ء کو لاہور سے جموں تک کے سفر میں اسے مکمل طور پر مطالعہ کیا اور بہت خوش ہوئے اور جیسا کہ بعد کی اطلاعات سے معلوم ہوا کہ کتاب پڑھتے پڑھتے بعض مقامات پر ان کا چہرہ گلاب کی طرح شگفتہ ہو جاتا تھا۔]4 [stf۱۸۷ اسی طرح ان کے ایڈی کانگ نے یہ بھی بتایا کہ وہ کتاب پڑھتے پڑھتے یکدم کھڑے ہو جاتے تھے۔ چنانچہ اس کے کچھ عرصہ بعد انہوں نے صراحتاً عیسائیت سے بیزاری کا اظہار کیا۔۱۸۸
اخبار ’’ذوالفقار‘‘ (۲۴ / اپریل ۱۹۲۲ء) نے اس کتاب پر یہ ریویو کیا کہ ’’ہم خلیفہ ثانی کی سلسلہ احمدیہ کی اشاعت اسلام میں ہمت کی داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتے۔۔۔۔۔۔۔ تحفہ ویلز کا بہت سا حصہ ایسا ہے جو تبلیغ اسلام سے لبریز ہے اور ایک عظیم الشان کارنامہ ہے کہ جس کو دیکھتے ہوئے غیر احمدی ضرور رشک کریں گے یہ ضروری ہے کہ ہم اخبار نویسی کے میز پر تعصب کی مالا گلے سے اتار کر رکھ دیتے ہیں۔ اس واسطے اس تحفہ کو دیکھ کر ہم عش عش کر اٹھے۔ اس تحفہ میں فاضل مصنف نے سنت رسولﷺ~ پر پورا پورا عمل کیا ہے۔ دعوت اسلام کو بڑی آزادی اور دلیری کے ساتھ برطانیہ کے تخت و تاج کے وارث تک پہنچا دیا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اسلام کے کسی فرقہ کا کوئی فرد یا موجودہ زمانے کا کوئی شورش پسند اخبار حسد اور بغض کی راہ سے اس تحفہ پر کوئی حملہ کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمیں اس تحفہ میں کوئی ایسا مقام دکھائی نہیں دیا کہ جس میں خوشامد سے کام لیا گیا ہو۔ ہاں بعض مقامات ایسے ہیں جس میں مرزا غلام احمد صاحب آنجہانی کے ابتداء سے آخر تک مختصر سے حالات لکھے ہیں لیکن وہ واقعات امن پسندی اور حکومت کی وفاداری کا اظہار ہیں۔ یہ ظاہر ہے کہ بد امن اور شورش پسند فرقہ کو کبھی خدا دوست نہیں رکھتا اور تباہ اور برباد کر دیتا ہے‘‘۔۱۸۹
اسی طرح پنجاب کے نیم سرکاری اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ نے ۱۸ / اپریل ۱۹۲۲ء کی اشاعت میں اس کی نسبت یہ رائے ظاہر کی کہ ’’یہ تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ نہایت قابلیت اور علمیت کے ساتھ اپنے دلائل کو احسن رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔ قطع نظر اس کے کہ اس کی وسیع غرض ایک تبلیغی کوشش ہے۔ خواہ پرنس آف ویلز احمدی ہوں یا نہ ہوں۔ اس میں شک نہیں کہ اس کتاب کی قدر و قیمت میں اور ان لوگوں کے لطف میں کمی نہیں ہوسکتی ۔ جو مذہب میں اور خاصکر ہندوستان اور برطانیہ کے بے شمار مذاہب میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ۱۹۰
بیرونی دنیا پر بھی اس کتاب نے گہرا اثر ڈالا۔ اور مغربی ممالک میں تو اس نے تبلیغ اسلام کا ایک نیا راستہ کھول دیا۔ چنانچہ وی آنا (دارالخلافہ آسٹریا) کے ایک پروفیسر نے جو تین زبانوں کا ماہر تھا اسے پڑھ کر بے حد خوشی کا اظہار کیا۔ اور افسوس کیا کہ وہ بوڑھا ہوگیا ہے ورنہ دنیا بھر میں اس کی اشاعت کرتا۔ ۱۹۱ حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے امریکہ سے لکھا کہ اس کتاب نے امریکہ کو بہت متاثر کیا ہے بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا امریکہ کے علمی تقاضوں کے مطابق یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ ۱۹۲
مغربی ممالک کے علاوہ افریقہ میں بھی اس کا اثر ہوا۔ چنانچہ نیروبی کے اخبار ’’لیڈر‘‘ (۲۳ نومبر ۱۹۲۲ء) نے کہا۔ ’’گو میں عیسائی نہیں مگر عیسائیوں کے گھر پیدا ہوا ہوں اور ان کے لٹریچر کو خوب سمجھتا ہوں لیکن جو کچھ مجھے اس کتاب سے حاصل ہوا ہے اور جو میں نے حظ اٹھایا ہے اسے بیان نہیں کرسکتا۔ اس کتاب کا لکھنے والا گو مسلمان ہے لیکن شبہ غالب ہے کہ وہ عیسائیوں میں سالہا سال تک رہا ہے اور ان کے لٹریچر کو اس نے غور سے پڑھا ہے ورنہ یہ بہت مشکل ہے کہ وہ عیسائیوں کوایسی پتہ کی باتیں اس دھڑلے سے سنائے آجتک کوئی ایسی کتاب میری نظر سے نہیں گذری جو مذہبی بنیاد پر لکھی گئی ہو اور تعصب سے مبرا رہی ہو اس شان کی یہ پہلی کتاب ہے۔ ۱۹۳
سفر لاہور
۲۳ فروری ۱۹۲۲ء ۱۹۴ کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ لاہور تشریف لے گئے اور ۲ مارچ ۱۹۲۲ء کو واپس قادیان آئے یہ سفر بظاہر شہزادہ ویلز کے استقبال کی غرض سے تھا۔ جو ارشاد نبوی~صل۱~ اذا جاء کریم قوم فاکرموہ کی تعمیل میں تھا۔ لیکن اس کے پیچھے اور بھی اہم دینی مقاصد کار فرما تھے۔ جن کی تفصیل اخبار الفضل کے الفاظ میں یہ ہے کہ حضور خلیفتہ المسیح نے لاہور کے قیام کا ایک ہفتہ وعظ ونصیحت اور ارشاد و ہدایت میں صرف کیا۔ کہیں جماعت کے نونہال طلباء کو وعظ کرتے تھے کہیں عام لوگوں کو سمجھاتے تھے کہیں ایک جلسہ کی صورت میں تعلیم یافتہ لوگوں کو مذہبی اور روحانی لذت کا شوق دلاتے تھے کہیں دہریت اور مادیت کی رگ پرنشتر رکھتے تھے کہیں عیسویت کا سحر باطل کرتے تھے کہیں منکرین الہام و نبوت کو قائل کرتے تھے۔۔۔۔۔۔ غرض ایک کیفیت تھی ایک حال تھا ایک ولولہ تھا جو چلتا پھرتا اور کام کرتا اور لوگوں کو کام کرنے پر آمادہ کرتا نظر آتا تھا۔ اس سفر میں بہت سے لوگوں کے شکوک مذہب کے متعلق دور ہوئے بہت سے اوہام باطل ہوئے اور قریباً بیس پچیس شخصوں نے بیعت بھی کی۔۱۹۵
اس سفر کے دوران حضور ۲۶ فروری ۱۹۲۲ء کو گنج مغلپورہ کی احمدیہ مسجد دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے اور وہاں دو نفل نماز پڑھائی۔ یہ مسجد مستری محمد موسیٰ صاحب (نیلہ گنبد لاہور) نے تعمیر کرائی تھی۔ ۱۹۶ ۲۷ فروری کو احمدیہ انٹرکالجئیٹ کے اجلاس میں روح کی نشاۃ ثانیہ کے موضوع پر تقریر فرمائی۔ ۲۸ فروری کو دیال سنگھ کالج لاہور کے پرنسپل آپ کی ملاقات کے لئے حاضر ہوئے۔ ۱۹۷
ناظر اول کا تقرر
مارچ ۱۹۲۲ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے نظارت کے صیغوں کی مزید نگرانی خصوصاً محکمہ تجارت کی نگرانی کے لئے ناظراعلیٰ کے علاوہ ایک نیا عہدہ ناظر اول کا تجویز فرمایا۔ اور اس کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نامزد کئے گئے۔ ۱۹۸
علماء کو تبلیغ اسلام میں مقابلہ کی دعوت
قادیان کے غیر احمدی مسلمانوں نے گذشتہ سال کی طرح مارچ ۱۹۲۲ء میں بھی اپنا سالانہ جلسہ کیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جلسہ پر تشریف لانے والے غیر احمدی علماء کو تحقیق حق کے لئے تبادلہ خیالات اور بالاخر مباہلہ کی بار بار دعوت دی۔ ۱۹۹ جس پر مولوی ثناء اللہ صاحب امرت سری نے اپنی ایک تقریر میں یہ جواب دیاکہ میں بڑی حیثیت کا مالک ہوں اور آپ سے مخاطب ہونا بھی اپنی ہتک سمجھتا ہوں اور اس کے ثبوت میں کہا کہ کلکتہ تک آپ میرے ساتھ چلیں تو اس سے معلوم ہوجائے گا کہ پھول کس پر نچھاور ہوتے ہیں اور پتھروں کی بارش کس پر ہوتی ہے؟
حضرت خلیفہ ثانی نے اس کے جواب میں اشتہار دیا کہ اگر مولوی صاحب نے اپنی حیثیت کا پتہ لگانا ہے تو اس کا یہ ذریعہ ہے کہ مولوی صاحب بھی اعلان کریں اور میں بھی اعلان کرتا ہوں کہ ایک سوآدمی جو کم سے کم پچاس روپیہ ماہوار کے ملازم ہوں یا علم دین کے واقف ہوں تبلیغ اسلام کے لئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ اور اشاعت اسلام کے لئے چین یا جاپان یا امریکہ کی طرف نکل جائیں پھر دیکھیں کہ مولوی صاحب کی تحریک پر کس قدر آدمی اپنی نوکرں یا اپنے رشتہ داروں کو چھوڑ کر اسلام کی تبلیغ کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں اور میری تحریک پر کس قدر۔ ابھی اسی جگہ مولوی صاحب بھی اعلان کردیں اور میں بھی ابھی اعلان کرتا ہوں ابھی اس کا امتحان کر لیا جائے۔ کہ اس وقت جو ان کے ہزاروں ہم خیال جمع ہیں ان میں سے کس قدر ان کی بات مانتے ہیں اور میرے چند سو مبائع جو اس وقت موجود ہیں ان میں کس قدر میری بات کو مانتے ہیں۔
پتھر کھانے سے گویا ثابت ہوجائے گا کہ محمد رسول اللٰہ ~صل۱~ کا سچا قائم مقام کون ہے مگر اسلام کو کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ مگر اس تجویز سے جو میں پیش کرتا ہوں اسلام کو بھی فائدہ ہوگا۔ ۲۰۰
شیر اسلام کی یہ للکار سن کر شیر پنجاب کہلانے والے مولوی ثناء اللہ صاحب نے خاموشی مناسب سمجھی۔
مجلس شوریٰ کا قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جہاں صدر انجمن احمدیہ کے انتظام میں اصلاح کی ضرورت کو محسوس کیا۔ وہاں آپ کو اس ضرورت کا بھی احساس پیدا ہوا کہ اہم ملی امور میں جماعت سے مشورہ لینے کے لئے کوئی زیادہ مناسب اور زیادہ منظم صورت ہونی چاہئے۔ چنانچہ حضور نے وسط اپریل ۱۹۲۲ء میں مستقل طور پر مجلس شوریٰ کی بنیاد رکھی۔
مجلس شوریٰ کے قیام سے گویا جماعتی نظام کا ابتدائی ڈھانچہ مکمل ہوگیا یعنی سب سے اوپر خلیفہ وقت ہے جو گویا پورے نظام کا مرکزی نقطہ ہے۔ اس سے نیچے ایک طرف مجلس شوریٰ ہے اور اہم اور ضروری امور میں خلیفہ وقت کے حضور اپنا مشورہ پیش کرتی ہے اور دوسری طرف اس کے متوازی صدر انجمن احمدیہ ہے جسے نظارتوں کے انتظامی صیغہ جات چلانے کے لئے مقرر کیا گیا ہے۔
جماعت احمدیہ کی پہلی مجلس شوریٰ ۱۵۔۱۶ اپریل ۱۹۲۲ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول (قادیان) ۲۰۱]ydob [tag کے ہال میں منعقد ہوئی اور اس میں ۵۲ بیرونی اور ۳۰ مرکزی نمائندوں نے شرکت کی۔ ہال کی شمالی جانب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی میز اور کرسی تھی اور سامنے نصف دائرہ کی شکل میں نمائندے کرسیوں پر بیٹھے تھے ساڑھے نو بجے صبح کے قریب حضور نے افتتاحی تقریر فرمائی جو بارہ بجے تک جاری رہی یہ چونکہ اپنی نوعیت کی پہلی مجلس شوری تھی۔ اس لئے حضور نے تفصیل کے ساتھ اس کی ضرورت واہمیت اور اس کے طریق کار پر روشنی ڈالی اور نمائندگان کو متعدد اہم ہدایات دیں جو ہمیشہ کے لئے مشعل راہ ہیں ان ہدایات کا خلاصہ یہ تھا۔
۱۔ ہر شخص دعا کرے کہ الٰہی میں تیرے لئے آیاہوں تو میری راہ نمائی کر کسی معاملہ میں میری نظر ذاتیات کی طرف نہ پڑے۔ میری نیت درست اور رائے درست اور تیری منشاء کے ماتحت ہو۔
۲۔ رائے دیتے وقت صرف یہ امر مدنظر رہے کہ جو سوال درپیش ہے اس کے لئے کونسی بات مفید ہے۔
۳۔ جذبات کی بجائے ہمیشہ واقعات کو مدنظر رکھنا چاہئے۔
۴۔ یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ ہماری تجاویز نہ صرف غلط نہ ہوں بلکہ غیروں کے مقابلہ میں بہت زیادہ موثر ہوں۔
۵۔ کوئی شخص پہلی بات کے محض دہرانے کے لئے کھڑا نہ ہونا چاہئے۔ ہر شخص اپنا وقت بھی بچائے اور دوسروں کا وقت بھی ضائع نہ کرے۔ ۲۰۲
ان قیمتی ہدایات کے بعد حضور نے مشورہ طلب امور کی تفصیلات کاذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔ ’’میری طبعیت خدانے ایسی بنائی ہے کہ میں بھی سوچتا رہتا ہوں کہ کونسا کام کریں جس سے دنیا میں ہدایت پھیلے اور بعض دفعہ کوئی تجویز ایسی خوبصورت معلوم ہوتی ہے کہ اس پر عمل کرنے کے لئے مجبور ہوجاتا ہوں اور وہ دن یا وہ سال جس میں جماعت کا قدم آگے نہ ہو میرے لئے دیکھنا مشکل ہوتا ہے۔ میں یہی چاہتا ہوں کہ کوئی نہ کوئی کام نیا جاری ہو ۔۔۔۔۔۔ میری نظر اس بات پر پڑ رہی ہے کہ ہماری جماعت نے آج ہی کام نہیں کرنا بلکہ ہمیشہ کرنا ہے۔ دنیا کی انجمنیں ہوتی ہیں جو یہ کہتی ہیں آج کام کرکے دکھا دو اور لوگوں کے سامنے رپورٹ پیش کردو۔ مگر میں نے رپورٹ خدا کے سامنے پیش کرنی ہے اور خدا کی نظر اگلے زمانوں پر بھی ہے اس لئے مجھے یہ فکر ہوتی ہے کہ آج جو کام کررہے ہیں یہ آئندہ زمانہ کے لئے بنیاد ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس مجھے آئندہ کی فکر ہے اور میری نظر آئندہ پر ہے کہ ہم آئندہ کے لئے بنیادیں رکھیں جس کی نظر وسیع نہیں اسے تکلیف نظر آرہی ہے مگر اس کی آئندہ نسل ان لوگوں پر جو بنیادیں رکھیں گے درود پڑھیں گی۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ زمانہ آئے گا جب خدا ثابت کردے گا کہ اس جماعت کے لئے یہ کام بنیادی پتھر ہے۔ ۲۰۳
اس تقریر کے بعد حضور نے سلسلہ کے ہر ایک صیغہ کے معاملات پر غور کرنے اور تجاویز مرتب کرنے کے لئے سات سب کمیٹیاں مقرر فرمائیں اور پہلے دن کا اجلاس ختم ہوا۔
دوسرے دن مشاورت کی کارروائی (نمازوں اور کھانے کے وقفہ کے علاوہ) صبح سات بجے سے لے کر سوا دوبجے شب تک جاری رہی جس میں منتخب کمیٹیوں کی تجاویز اور احباب کی آراء پیش ہوئیں۔ اور حضور نے متعدد اہم فیصلے فرمائے۔ مثلاً۔
۱۔ غیر ممالک میں نئے مشن قائم کئے جائیں لیکن پہلے اسلامی بلاد اور جاوا اور فلپائن وغیرہ کی طرف توجہ کی جائے اور ایسے لوگ وہاں بھیجے جائیں جو اپنا گذارہ بھی کریں اور ساتھ ہی تبلیغ بھی۔ ۲۰۴
۲۔ ہر جماعت میں امور عامہ کے لئے علیحدہ سیکرٹری مقرر ہو اور رشتہ ناطہ کے لئے ایک باقاعدہ رجسٹر رکھا جاوے۔
۳۔ چندہ کی وصولی کے نظام کو باقاعدہ کرنے اور نگرانی کرنے کے لئے انسپکٹر مقرر کئے جائیں۔ ۲۰۵
۴۔ جس طرح مبلغین تبلیغ کے لئے جاتے ہیںاسی طرح واعظین بھی جائیں اور جماعت کو اخلاقی اصلاح کی طرف توجہ دلانے کے علاوہ عام دینی مسائل سے بھی آگاہ کریں۔
۵۔ جماعت میں حفظ قرآن کی تحریک ہو۔ ۲۰۶
۶۔ مرکز سے ایک انگریزی اخبار جاری کیا جائے۔ ۲۰۷
۷۔ جو شخص کوئی نماز مسجد میں آکر باجماعت ادا نہ کرسکے اورکسی مجبوری کی وجہ سے رہ جائے وہ مسجد میں ہی آکر نماز پڑھے تاکہ آئندہ کے لئے اس کی سستی دور ہو۔
۸۔ والدین اپنے بچوں کو نماز باجماعت ادا کرانے میں ذمہ دار ہوں اسی طرح مستورات کو پابندی نماز کی عادت ڈالی جائے۔ ۲۰۸
۹۔ دو دو یا اس سے زائد افراد کی جماعتیں بنادی جائیں جو باہمی رشتہ اخوت و محبت استوار کرکے ایک دوسرے کی اصلاح میں ممد ہوں۔
۱۰۔ مرکز سے مستورات کے لئے ایک رسالہ جاری کیا جائے۔ ۲۰۹
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ۱۹۲۲ء سے ۱۹۶۰ء ۲۱۰ تک مجلس شوریٰ میں بنفس نفیس شریک ہوتے رہے ہیں اور اس عرصہ میں حضور نے جس طرح قدم قدم پر ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں جماعت کی رہنمائی فرمائی ہے اور بے نظیر فراست و ذہانت‘حیرت انگیز قوت فیصلہ اور زبردست مدبرانہ قابلیت کا ثبوت دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور مجلس شوری کی شائع شدہ رپورٹیں جو سلسلہ احمدیہ کی تاریخ کے ایک اہم حصہ کی حامل ہیں اس امر پر شاہد ہیں اور جیسا کہ حضرت خلیفتہ المیسح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۲ء کی شوریٰ میں بتایا تھا شوری کے فیصلے اور تمام تر کارروائی مستقبل میں قائم ہونے والی عالمگیر اسلامی نظام کے لئے سنگ بنیاد بننے والی ہے۔ جس پر دنیا کا آئندہ نظام استوار ہونے والا ہے۔
اسی لئے حضور نے ۱۹۲۸ء میں نمائندگان شوریٰ کے سامنے ارشاد فرمایا:۔
’’ ۔۔۔۔۔۔۔ آج بے شک ہماری مجلس شوری دنیا میں کوئی عزت نہیں رکھتی مگر وقت آئے گا اور ضرور آئے گا جب دنیا کی بڑی سے بڑی پارلیمنٹوں کے ممبروں کو وہ درجہحاصل نہ ہوگا جو اس کی ممبری کی وجہ سے حاصل ہوگا۔ کیونکہ اس کے ماتحت ساری دنیا کی پارلیمنٹیں آئیں گی۔ پس اس مجلس کی ممبری بہت بڑی عزت ہے اور اتنی بڑی عزت ہے کہ اگر بڑے سے بڑے بادشاہ کو ملتی تو وہ بھی اس پر فخر کرتا اور وہ وقت آئے گا جب بادشاہ اس پر فخر کریں گے۔‘‘ ۲۱۱
یہ عظیم الشان پیشگوئی کب اور کس رنگ میں پوری ہونے والی ہے اس پر تو مستقبل کامورخ ہی لکھ سکے گا۔ مگر ہم یہاں ایک نشان کا تذکرہ کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اور وہ یہ کہ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت پر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مدتوں تک مجلس مشاورت میں حضور کے ساتھ بیٹھتے اور اس کی کارروائی چلانے میں مدد کرتے رہے۔ خدا کی شان دیکھو وہ فرزند احمدیت جو مجلس مشاورت میں امیرالمومنین کے پہلو میں خادمانہ حیثیت سے سلسلہ کی خدمات بجالاتا رہا۔ خدا نے اسے عالمی اسمبلی کا ۱۹۶۲ء میں صدر بنادیا۔ ۲۱۲
اچھوت اقوام میں تبلیغ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو ایک عرصہ سے یہ خیال تھا کہ ہندوستان کی اچھوت اقوام میں تبلیغ کی جاوے۔ تبلیغ کے عام فریضہ کے علاوہ آپ نے یہ بھی سوچا کہ ہندوستان میں ان قوموں کی تعداد کئی کروڑ ہے اور ہندو لوگ انہیں مفت میں اپنا بنائے بیٹھے ہیں۔ پس اگر ان قوموں میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ ہو اور وہ مسلمان ہوجائیں تو ان کی اپنی نجات کے علاوہ اس سے اسلام کو بھی بھاری فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ چنانچہ آپ نے اپریل ۱۹۲۲ء کے آغاز میں۲۱۳ ایک سکیم کے مطابق پنجاب کی اچھوت قوموں میں تبلیغ شروع فرمادی اور ان کے لئے ایک خاص عملہ علیحدہ مقرر کر دیا۔ آپ کی اس کوشش کو خدا نے جلد ہی بار آور کیا۔ اور تھوڑے عرصہ میں ہی کافی لوگ حق کی طرف کھنچ آئے اور بہت سے مذہبی سکھ بالیکی اور دوسرے اچھوت اسلام اور احمدیت میں داخل ہوئے اس رو کا سب سے بڑا زور ۲۴۔۱۹۲۳ء میں تھا۔ جبکہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ قومیں ایک انقلابی رنگ میں پلٹا کھائیں گی۔ مگر اس وقت بعض خطرات محسوس کرکے یہ سلسلہ دانستہ مدہم کردیا گیا اور انفرادی تبلیغ پر زور دیاجانے لگا۔اور خداکے فضل سے اس کے اچھے نتائج پیدا ہوئے۔ ۲۱۴
ابتداء میں یہ کام شیخ عبدالخالق صاحب نو مسلم ۲۱۵ کے ذریعہ سے مختصر پیمانہ پر قادیان سے شروع کیا گیا۔ دو ڈھائی سال میں جو اچھوت حلقہ بگوش اسلام ہوئے ان کے ذریعہ سے ارد گرد کے دیہات میں تبلیغی جدوجہد جاری کی گئی اور پھر پورے ملک میں ان سرگرمیوں کا آغاز ہوا ۔ ۱۹۲۸ء سے مکرم جناب گیانی واحد حسین صاحب ۲۱۶ (سابق شیر سنگھ حال مربی سلسلہ احمدیہ) اچھوت اقوام کے طلباء کی تعلیم وتدریس کے لئے مقرر ہوئے ان کے بعد مہاشہ فضل حسین صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خاص ہدایات کے ماتحت عظیم الشان لٹریچر پیدا کیا جس سے اچھوتوں کو بیدار کرنے اور انہیں اسلام کے قریب لانے میں بھاری مدد ملی اس سلسلہ میں ’’اچھوتوں کی درد بھری کہانیاں‘‘ ’’اچھوتوں کی حالت زار‘‘۔ ویدشاستر اور اچھوت ادھار ’’اچھوت ادھار کی حقیقت یا ہندو اقتدار کے منصوبے‘‘ (حصہ اول) خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ آخری کتاب مشہور اچھوت لیڈر ڈاکٹر امبید کار کی فرمائش پر لکھی گئی تھی اور اس کا انگریزی ترجمہ بھی شائع کردیا گیا۔ ڈاکٹر امبید کار اس لٹریچر سے بہت متاثر تھے۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ سے لندن میں ایک ملاقات کے دوران میں کہا کہ اگر میں کبھی مسلمان ہوا تو احمدی جماعت میں ہی داخل ہوں گا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ہندوستان میں صوبہ پنجاب ۲۱۷ کے بعد بنگال کی طرف بھی توجہ فرمائی اور صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی اے کو ابتدائی سروے کے لئے بھجوایا۔ جنہوں نے بڑی حکمت عملی سے کام لے کر ایک مفصل سکیم پیش کی۔ ۲۱۸ جس پر وہاں بھی یہ کام ہونے لگا۔
حفظ قرآن کریم کی تحریک
اپریل ۔ مئی ۱۹۲۲ء میں حضرت خلیفہ ثانی نے جماعت میں حفظ قرآن کی تحریک فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ کم از کم تیس آدمی قرآن کریم کا ایک ایک پارہ حفظ کریں جس پر کئی اصحاب نے لبیک کہا۔ ۲۱۹
درس القرآن
سیدنا حضرت مصلح موعود نے ماہ اگست ۱۹۲۲ء میں درس القرآن دیا تھا اس تاریخی درس میں جن خوش نصیب اصحاب کو شرکت کی سعادت نصیب ہوئی ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں یہ فہرست الفضل ۱۰ اگست ۱۹۲۲ء صفحہ ۲‘۳ سے منقول ہے۔
احباب قادیان
۱۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب
۷۔ایوب خان صاحب طالب علم ہائی سکول قادیان
۲۔ چوہدری فضل احمد صاحب
۸۔ چوہدری فتح محمد صاحب ایم ۔ اے
۳۔ مولوی حافظ ابوعبید اللہ غلام رسول صاحب وزیر آبادی
۹۔مولوی محمد اسماعیل صاحب مولوی فاضل و منشی فاضل
۴۔ مولوی عبدالصمد صاحب پٹیالوی
۱۰۔ مولوی عبدالمغنی صاحب ناظربیت المال
۵۔مولوی غلام نبی صاحب مولوی فاضل مصری
۱۱۔ مولوی ارجمند خان صاحب مولوی فاضل
۶۔ شیخ عبدالرحمان صاحب مولوی فاضل مصری
۱۲۔اللہ دتا صاحب طلب علم مدرسہ احمد قادیان
‏a] emarf[۱۳۔ناصر الدین صاحب طلباء مدرسہ احمد قادیان
۱۴۔ سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب
۱۵۔ محمد اسماعیل صاحب سٹوڈنٹ میڈیکل سکول
۱۶۔سید عنایت اللہ شاہ صاحب سٹوڈنٹ میڈیکل کالج
۱۷۔ چوہدری بدالدین صاحب قادیان
۱۸۔ ماسٹر مولیٰ بخش صاحب قادیان
۱۹۔میاں عبدالغفار صاحب ابن ماسٹر مولیٰ بخش قادیان
۲۰۔ صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب
۲۱۔ مولوی جلال الدین صاحب مولوی فاضل
۲۲۔مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل
۲۳۔ مولوی ظہور حسین صاحب مولوی فاضل
۲۴۔ مولوی زین العابدین صاحب ماریشسی
۲۵۔ مولوی ظل الرحمان صاحب بنگالی
۲۶۔ مولوی مبارک احمد صاحب مولوی فاضل
۲۷۔ مولوی محمد شہزادہ صاحب مولوی فاضل
۲۸۔ مسٹر محمد ابراہیم صاحب بی۔ایس۔ سی
۲۹۔ مسٹر غلام محمد صاحب
۳۰۔ مسٹر عبدالقدیر صاحب
۳۱۔ مسٹر مطیع الرحمان صاحب سٹوڈنٹ بی ۔ اے کلاس
۳۲۔ مولوی شیر علی صاحب بی۔ اے
۳۳۔ میر محمد اسحاق صاحب مولوی فاضل
۳۴۔ محمد یامین صاحب تاجر کتب قادیان
۳۵۔ ممتاز علی خان صاحب
۳۶۔ مولوی قمر دین صاحب مولوی فاضل
۳۷۔ رسائیدار خداداد خان صاحب
۳۸۔ ماسٹر عبدالرحمان صاحب بی۔اے
۳۹۔ مولوی رحمت علی صاحب مولوی فاضل
۴۰۔ حکیم مولوی غلام محمد صاحب
۴۱۔ قاضی عبداللہ صاحب بی ۔ اے۔ بی ٹی
۲۴۔ ماسٹر محمد دین صاحب بی۔اے
۳۴۔ مولوی فضل الٰہی صاحب بھیروی
۴۴۔ ڈاکٹر عطردین صاحب
۴۵۔ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے
بیرونی احباب
۱۔ حاجی غلام احمد صاحب کریام
۲۔ مبارک اسماعیل صاحب بی۔اے ڈیرہ غازیخان
۳۔ میاں سعد الدین صاحب کھاریاں
۴۔ میاں قدرت اللہ صاحب سنور
۵۔ سید عبدالسلام صاحب بی۔اے۔ سیالکوٹ
۶۔ منشی محمد عبداللہ صاحب ریڈر سیالکوٹ
۷۔ مسٹر عطاء اللہ صاحب امرتسر
۸۔ مستری غلام نبی صاحب سیالکوٹ
۹۔ محمد حسن خاں صاحب لدہیانہ
۱۰۔ ملک حسن محمد صاحب سمبڑیال
۱۱۔میاں غلام مصطفٰے صاحب کھاریاں
۱۲۔ مولوی محمد اعظم صاحب تھہ غلام نبی
۱۳۔ میاں محمد امیر صاحب فیروز پور
۱۴۔ میاں بدر دین صاحب میڈیکل کالج
۱۵۔ مولوی محمد علی صاحب شیخوپورہ
۱۶۔ مسٹر عبدالوحید صاحب امرتسر
۱۷۔ مسٹر عبدالغنی صاحب جہلمی
۱۸۔شیخ محمد حسین صاحب انسپکٹر ڈاکخانہ جات امرتسر
۱۹۔ظہور الحسن صاحب مردان
۲۰۔ میاں غلام محمد صاحب طالب پور
۲۱۔ عالمگیر خان صاحب مردان
۲۲۔ مولوی معین الدین صاحب مردان
۲۳۔ میاں عبداللہ صاحب گولیکی
۲۴۔ مولوی فضل دین صاحب مانگٹ اونچی
۲۵۔ نیاز احمد صاحب گولیکی
۲۶۔ محمد دین صاحب میڈیکل سکول امرتسر
۲۷۔ حافظ راج علی کھاریاں
۲۸۔ نعمت اللہ صاحب گوہر لائلپور
۲۹۔ احمد یار صاحب بنگہ
۳۰۔ مہدی شاہ صاحب بیگم پورہ
۳۱۔ میاں خدابخش صاحب میانوالی
۳۲۔ عبدالرحمان صاحب کھیرانوالی
۳۳۔ مسٹر فضل کریم صاحب
۳۴۔ مخدوم محمد صدیق صاحب شاہ پور
۳۵۔ مسٹر حبیب اللہ صاحب سٹوڈنٹ لاہور
۳۶۔ شیخ بشیر احمد صاحب بی۔ اے۔ پٹیالہ
۳۷۔ مولوی غلام مرتضیٰ صاحب ضلع گورداسپور
۳۸۔ ڈاکٹر سید غلام غوث صاحب غازی آباد
۳۹۔ عبدالرشید صاحب
۴۰۔ ملک مولیٰ بخش صاحب گورداسپور
۴۱۔ پروفیسر مولوی عبداللطیف صاحب چٹاگانگ
۴۲۔ ابو احمد خان صاحب بی۔اے کلکتہ
۴۳۔ عبدالسلام صاحب شملہ
۴۴۔ تقی الدین صاحب طالبعلم لاہور
۴۵۔ سید محمود اللہ شاہ صاحب طالب علم
۴۶۔ منشی برکت علی صاحب لائق لدھیانہ
۴۷۔ مولوی عبدالخالق صاحب مظفر نگر
۴۸۔ مسٹر لعل دین صاحب طالبعلم لاہور
۴۹۔ بابو روشن دین صاحب سیالکوٹ
۵۰۔ دوست محمد صاحب لاہور
۵۱۔ غلام فرید صاحب لاہور
۵۲۔ احمد دین صاحب طالب علم امرتسر
۵۳۔ چوہدری عصمت اللہ صاحب طالبعلم لاہور
۵۴۔ سید سردار شاہ صاحب
۵۵۔ چوہدری کرم الٰہی صاحب کرم پورہ ضلع شیخوپورہ
مدراس ہائیکورٹ کا فیصلہ
مالا بار میں غیر احمدی مسلمانوں نے ایک احمدی کی بیوی کا نکاح دوسری جگہ پڑھا دیا تھا۔ مقدمہ دائر کیا گیا تو ماتحت عدالت نے انہیں بری کردیا اس پر ہائیکورٹ میں نظر ثانی کی درخواست کی گئی اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب لاہور سے مقدمہ کی پیروی کے لئے مدارس تشریف لے گئے اور انی بحث میں ثابت کیا کہ (۱) برطانوی عدالتوں کے مسلمہ اصول کے مطابق احمدی مسلمان ہیں (۲) کوئی بھی تعریف اسلام کی مستند کتب سے پیش کی جائے اس کے مطابق احمدی مسلمان ہیں (۳) احمدیوں کے تمام عقائد قرآن کریم کے عین مطابق ہیں (۴) احمدیوں کے متعلق یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ انہوں نے کوئی عقیدہ ایسا ترک کیا ہے جو مسلمہ طور پر جزو اسلام ہے ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا کہ احمدیہ جماعت اسلام ہی کا ایک اصلاح شدہ فرقہ ہے جو قرآن کریم کو اپنی الہامی کتاب مانتا ہے۔ ۲۲۰
غیر از جماعت مسلمانوں سے تعلقات کی تلقین
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۳ نومبر ۱۹۲۲ء کو جماعت احمدیہ کویہ تلقین فرمائی کہ وہ غیر احمدی مسلمانوں سے میل جول رکھیں اور ان سے ہمدردی اور عمدہ برتائو کریں۔ اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوں۔ ان تعلقات کی وجہ سے دین میں خلل نہ آنے دیں۔ اور نہ اپنے مذہبی عقائد ان کی خاطر قربان کریں۔ ۲۲۱
‏0] ft[sتبلیغ ہدایت
۲۲۲ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے تبلیغ ہدایت کے نام سے دسمبر ۱۹۲۲ء میں ایک اہم کتاب شائع فرمائی جس میں آپ نے مخصوص اور دلکش اور زور دار انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ ماموریت کو دلائل نقلیہ سے ثابت فرمایا۔ اگرچہ اس کتاب میں انہی مسائل پر آپ نے قلم اٹھایا جن پر احمدیہ لٹریچر میں بہت کچھ لکھا جاچکا تھا۔ لیکن آپ نے ہر بات اور مسئلہ میں خاص رنگ پیدا کیا۔ اور ترتیب اور طرز بیان دونوں بالکل نئے اور اچھوتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے تبلیغ ہدایت کو اپنے فضل سے بہت مقبولیت عطافرمائی کئی لوگوں نے اس کے ذریعہ ہدایت پائی اور عموماً اپنوں اور بیگانوں دونوں میں اسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا اور آپ کی زندگی میں ہی اس کے آٹھ ایڈیشن شائع ہوئے۔ ۲۲۳ سندھی زبان والا ایڈیشن اس کے علاوہ تھا۔
لجنہ اماء اللہ کی بنیاد اور اس کے شاندار نتائج
سید ناحضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ اول کے زمانہ مبارک میں جو مجالس قائم ہوئیں وہ سب مردوں کی تھیں۔ مثلاً ’’اشاعت اسلام۔ صدر انجمن احمدیہ۔ تشحیذالاذہان۔ مجلس احباب۔ مجمع الاخوان۔ مجلس ارشاد‘‘۔ وغیرہ لیکن مستورات کی کوئی علمی دینی اور تمدنی انجمن اس وقت تک موجود نہ تھی۔ لہذا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے (اپنے حرم دوم امتہ الحی صاحبہؓ کی ۲۲۴ تحریک پر ۲۵ دسمبر ۱۹۲۲ء کو لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی۔ ۲۲۵ جس کی پہلی سیکرٹری حضرت امتہ الحی صاحبہ تھیں۔
حضرت امتہ الحی صاحبہ کے بعد یہ اہم خدمت آپ کے حرم حضرت سارہ بیگم صاحبہ اور پھر حضرت سیدہ ام طاہر رضی اللہ عنہما کے سپرد ہوئی۔ جب اس تنظیم کا قیام عمل میں آیا تو لجنہ کی ممبرات نے حضرت ام المومنینؓ کی خدمت میں درخواست کی کہ اس کی صدارت قبول فرمائیںاور غالباً پہلا اجلاس آپ ہی کی صدارت میں ہوا تھا۔ لیکن آپ نے پہلے اجلاس ہی میں حضرت ام ناصرؓ کو اپنی جگہ بٹھا کر صدارت کے لئے نامزد فرمادیا۔ چنانچہ حضرت ام ناصر اپنی وفات تک جو ۳۱ جولائی ۱۹۵۸ء کو ہوئی یہ فرض نہایت خوش اسلوبی سے نبھاتی رہیں۔ اگست ۱۹۵۸ء سے حضرت ام متین صاحبہ کی صدارت میں یہ مجلس کام کر رہی ہے۔
لجنہ اماء اللہ کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۵ دسمبر ۱۹۲۲ء کو اپنے قلم سے قادیان کی مستورات کے نام مندرجہ ذیل مضمون تحریر فرمایا۔
’’اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ ہماری پیدائش کی جو غرض و غایت ہے اس کو پورا کرنے کے لئے عورتوں کی کوششوں کی بھی اسی طرح ضرورت ہے جس طرح مردوں کی ہے جہاں تک میرا خیال ہے عوتوں میں اب تک اس کا احساس پیدا نہیں ہوا کہ اسلام ہم سے کیا چاہتا ہے؟ ہماری زندگی کس طرح صرف ہونی چاہئے۔ جس سے ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرکے مرنے کے بعد بلکہ اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوسکیں۔
اگر غور کیا جائے تو اکثر عورتیں اس امر کو محسوس نہیں کریں گی کہ روز مرہ کے کاموں کے سوا کوئی اور بھی کام کرنے کے قابل ہے یا نہیں۔
دشمنان اسلام میں عورتوں کی کوششوں سے جو روح بچوں میں پیدا کی جاتی ہے اور جو بدگمانی اسلام کی نسبت پھیلائی جاتی ہے اس کا اگر کوئی توڑ ہوسکتا ہے تو وہ عورتوں ہی کے ذریعہ سے ہوسکتاہے اور بچوں میں اگر قربانی کا مادہ پیدا کیا جاسکتاہے تو وہ بھی ماں ہی کے ذریعہ سے کیا جاسکتا ہے۔ پس علاوہ اپنی روحانی و علمی ترقی کے آئندہ جماعت کی ترقی کا انحصار بھی زیادہ تر عورتوں ہی کی کوشش پر ہے۔ چونکہ بڑے ہوکر جو اثر بچے قبول کر سکتے ہیں وہ ایسا گہرا نہیں ہوتا جو بچپن میں قبول کرتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کی اصلاح بھی عورتوں کے ذریعہ سے ہوسکتی ہے۔
ان امور کو مدنظر رکھ کر ایسی بہنوں کو جو اس خیال کی موید ہوں اور مندرجہ ذیل باتوں کی ضرورت کو تسلیم کرتی ہوں دعوت دیتا ہوں کہ ان مقاصد کو پورا کرنے کے لئے مل کر کام شروع کریں۔ اگر آپ بھی مندرجہ ذیل باتوں سے متفق ہوں تو مہربانی کرکے مجھے اطلاع دیں تاکہ اس کام کو جلد شروع کر دیا جائے۔
۱۔ اس امر کی ضرورت ہے کہ عورتیں باہم مل کر اپنے علم کو بڑھانے اور دوسروں تک اپنے حاصل کردہ علم کو پہنچانے کی کوشش کریں۔
۲۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اس کے لئے ایک انجمن قائم کی جائے تاکہ اس کام کو باقاعدگی سے جاری رکھا جاسکے۔
۳۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اس انجمن کو چلانے کے لئے کچھ قواعد ہوں جن کی پابندی ہر رکن پر واجب ہو۔
۴۔
اس امر کی ضروت ہے کہ قواعد و ضوابط سلسلہ احمدیہ کے پیش کردہ اسلام کے مطابق ہوں اور اس کی ترقی اور اس کے استحکام میں ممد ہوں
۵۔اس امر کی ضرورت ہے کہ جلسوں میں اسلام کے مختلف مسائل خصوصاً ان پر جو اس وقت کے حالات کے متعلق ہوں مضامین پڑھے جائیں اور وہ خود اراکین انجمن کے لکھے ہوں تاکہ اس طرح علم کے استعمال کرنے کا ملکہ پیداہو۔
۶۔اس امر کی ضرورت ہے کہ علم بڑھانے کے لئے ایسے مضامین پر جنہیں انجمن ضروری سمجھے اسلام کے واقف لوگوں سے لیکچر کروائے جائیں۔
۷۔اس امر کی ضرورت ہے کہ جماعت میں وحدت کی روح قائم رکھنے کے لئے جو بھی خلیفہ وقت ہو اس کی تیار کردہ اسکیم کے مطابق اور اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر تمام کارروائیاں ہوں۔
۸۔اس امر کی ضرورت ہے کہ تم اتحاد جماعت کو بڑھانے کے لئے ایسی ہی کوشاں رہو جیسے کہ ہر مسلمان کا فرض قرآن کریم ۔ آنحضرت ~صل۱~ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلاۃ نے مقرر فرمایا ہے۔ اور اس کے لئے ہر ایک قربانی کو تیار رہو۔
۹۔اس امر کی ضرورت ہے کہ اپنے اخلاق اور روحانیت کی اصلاح کی طرف ہمیشہ متوجہ رہو اور صرف کھانے پینے پہننے تک اپنی توجہ کو محدود نہ رکھو۔ اس کے لئے ایک دوسری کی پوری مدد کرنی چاہئے۔ اور ایسے ذرائع پر غور اور عمل کرنا چاہئے۔
۱۰۔اس بات کی ضرورت ہے کہ بچوں کی تربیت میں اپنی ذمہ داری کو خاص طور پر سمجھو اور ان کو دین سے غافل اور بد دل اور سست بنانے کی بجائے چست۔ ہوشیار۔ تکلیف برداشت کرنے والے بنائو۔ اور دین کے مسائل جس قدر معلوم ہوں ان سے ان کو واقف کرو اورخدا ۔ رسولﷺ~ ۔ مسیح موعود ؑ۔ اور خلفاء کی محبت۔ اطاعت کا مادہ ان کے اندر پیدا کرو۔ اسلام کی خاطر اور اس کے منشاء کے مطابق اپنی زندگیاں خرچ کرنے کا جوش ان میں پیدا کرو۔ اس لئے اس کام کو بجا لانے کے لئے تجاویز سوچو اور ان پر عمل درآمد کرو۔
۱۱۔اس امر کی ضرورت ہے کہ جب مل کر کام کیا جائے تو ایک دوسرے کی غلطیوں سے چشم پوشی کی جائے اور صبر اور ہمت سے اصلاح کی کوشش کی جائے۔ نہ کہ ناراضگی اور خفگی سے تفرقہ بڑھایا جائے۔
۱۲۔چونکہ ہر ایک کام جب شروع کیا جائے تو لوگ اس پرہنستے ہیں اور ٹھٹھا کرتے ہیں اس لئے اس بات کی ضرورت ہے کہ لوگوں کی ہنسی اور ٹھٹھے کی پرواہ نہ کی جائے اور بہنوں کو الگ الگ مہنوں یا طعنوں یا مجالس کے ٹھٹھوں کو بہادری و ہمت سے برداشت کا سبق اور اس کی طاقت کا مادہ پیدا کرنے کا مادہ پیدا کرنے کا مادہ پہلے ہی سے حاحل کیا جائے تاکہ اس نمونہ کو دیکھ کر دوسری بہنوں کو بھی اس کام کی طرف توجہ پیدا ہو۔
۱۳۔اس امر کی ضرورت ہے کہ اس خیال کو مضبوط کرنے کے لئے اور ہمیشہ کے جاری رکھنے کے لئے اپنی ہمخیال بنائی جائیں۔ اور یہ کام اس صورت میں چل سکتا ہے کہ ہر ایک بہن جو اس مجلس میں شامل ہواپنا فرض سمجھے کہ دوسری بہنوں کو بھی اپنا ہم خیال بنائے گی۔
۱۴۔اس امر کی ضرورت ہے کہ اس کام کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے صرف وہی بہنیں انجمن کی کارکن بنائی جائیں جو ان خیالات سے پوری متفق ہوں اور کسی وقت خدانخواستہ کوئی متفق نہ رہے تو وہ بطیب خاطر انجمن سے علیحدہ ہوجائے یا بصورت دیگر علیحدہ کی جائے۔
۱۵۔چونکہ جماعت کسی خاص گروہ کا نام نہیں۔ چھوٹے بڑے۔ غریب امیر سب کا نام جماعت ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس انجمن میں غریب امیر کی کوئی تفریق نہ ہو۔ بلکہ غریب اور امیر دونوں میں محبت اور مساوات پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور ایک دوسرے کی حقارت اور اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا مادہ دلوں سے دور کیا جائے کہ باوجود مدارج کے فرق کے اصل میں سب مرد بھائی بھائی اور سب عورتیں بہنیں بہنیں ہیں۔
۱۶۔اس امر کی ضرورت ہے کہ عملی طور پر خدمت اسلام کے لئے اور اپنی غریب بہنوں اور بھائیوں کی مدد کے لئے بعض طریق تجویز کئے جائیں اور ان کے مطابق عمل کیا جائے۔
۱۷۔اس امر کی ضرورت ہے کہ چونکہ سب مدد اور سب برکت اور سب کامیابیاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ اس لئے دعا کی جائے اور کروائی جائے۔
ہمیں وہ مقاصد الہام ہوں
جو ہماری پیدائش میں اس نے مدنظر رکھے ہیں اور ان مقاصد کے پورا کرنے کے لئے بہتر سے بہتر ذرائع پر اطلاع اور پھر ان ذرائع کے احسن سے احسن طور پر پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمارا خاتمہ بخیر کرے۔ آئندہ آنے والی نسلوں کی بھی اپنے فضل سے راہنمائی کرے اور اس کام کو اپنی مرضی کے مطابق ہمیشہ کے لئے جاری رکھے۔ یہاں تک اس دنیا کی عمر تمام ہوجائے۔
اگر آپ ان خیالات سے متفق ہیں اور ان کے مطابق اور موافق قواعد پر جو بعد میں انجمن میں پیش کرکے پاس کئے جارہے ہیں اور کئے جائیں گے عمل کرنے کے لئے تیار ہوں تو مہر بانی کرکے اس کاغذ پر دستخط کردیں۔ بعدمیں ان قواعد پر ہر ایک بہن سے علیحدہ علیحدہ دستخط لے کر اقرار و معاہدے لئے جائیں گے‘‘۔ ۲۲۶
‏rov.5.20
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا نواں سال
اس ابتدائی تحریک پر (جو محض رضاکارانہ رنگ کی تھی) قادیان کی تیرہخواتین نے دستخط کئے ۔
حضور کے فرمان پر ۲۵ دسمبر ۱۹۲۲ء کو یہ دستخط کرنے والی خواتین حضرت ام المومنین کے گھر میں جمع ہوئیں حضور نے نماز ظہر کے بعد ایک مختصر تقریر فرمائی۔ اور لجنہ کا قیام عمل میں آیا۔ اس تقریر میں حضور نے لجنات کے سپرد جلسہ مستورات کا انتظام کرکے کئی مشورے دیئے۔ اور نصائح فرمائیں۔ ۲۲۷
اس اجلاس اول کے بعد لجنہ اماء اللہ کے مفصل قواعد رسالہ تادیب النساء میں (جوقادیان سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی ادارت میں شائع ہوتا تھا) شائع کردیئے گئے۔ اور اس طرح باقاعدہ سرگرمیوں کا آغاز ہوا۔ ۲۲۸
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے لجنہ کے اغراض ومقاصد جلد سے جلد پورا کرنے کے لئے اور احمدی مستورات کی اصلاح و تنظیم کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ لجنات کے ہفتہ وار اجلاس جاری کئے اور فروری اور مارچ ۱۹۲۳ء کے تین اجلاسوں میں نہایت جامعیت کے ساتھ دینی اور دنیاوی علوم کی تفصیلات بیان فرمائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حضور نے خدمت دین کا عملی جوش پیدا کرنے کے لئے تعمیر مسجد برلن کی ذمہ داری بھی احمدی مستورات پر ڈالی۔ اور اس کے لئے چندہ کی فراہمی کا کام ’’لجنہ اماء اللہ کے سپرد فرمایا‘‘۔۲۲۹ (لجنہ اماء اللہ نے اس عظیم الشان تحریک کے کامیاب بنانے میں جس جذبہ ایثار وفدائیت کا ثبوت دیا اس کی تفصیل ایک مستقل عنوان کے تحت اگلے صفحات میں آرہی ہے)۔
دوسال بعد حضرت اقدس خلیفتہ المسیح الثانی نے خواتین میں دینی تعلیم عام کرنے کے لئے ۱۷ مارچ ۱۹۲۵ء کو مدرستہ الخواتین جاری فرمایا۔ جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب ؓ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب حضرت صوفی غلام محمد صاحبؓ سابق مبلغ ماریشس اور دوسرے اصحاب کے علاوہ خود حضور تعلیم دیتے تھے۔۲۳۰ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ اس مدرسہ کے نگران تھے۔ اس مدرسہ نے خواتین کے علمی و تنظیمی خلاء کو پر کرنے میں بڑا کام کیا۔ اور خواتین کے مرکزی اداروں اور درسگاہوں کے لئے معلمات اور کارکنات پیدا ہوگئیں۔
۱۵ دسمبر ۱۹۲۶ء کو لجنہ اماء اللہ کی نگرانی میں ماہوار رسالہ ’’مصباح‘‘ جاری ہوا جس سے احمدی خواتین کی تربیت و تنظیم کو بہت تقویت پہنچی۔ ابتداء میں رسالہ کا انتظام مرد کرتے تھے مگر مئی ۱۹۴۷ء۲۳۱ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر اس کا پورا اہتمام مرکزی ’’لجنہ اماء اللہ‘‘ کو سونپ دیا گیا جس سے رسالہ کے علمی و دینی معیار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا۔ اور اب یہ جماعت کی مستورات کے واحد ترجمان کی حیثیت سے سلسلہ کی خدمت بجا لارہا ہے۔
۱۶ ستمبر ۱۹۲۷ء کو حضرت امتہ الحی صاحبہ کی یاد میں ’’امتہ الحی لائبریری‘‘ کا افتتاح ہوا اور اس کی نگرانی حضرت سیدہ ام طاہر احمد صاحبہ کو تفویض ہوئی۔ جنہوں نے اپنی پوری زندگی لجنہ کے کام کے لئے وقف رکھی۔ افتتاح پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ حضرت ام المومنینؓ اور خاندان حضرت مسیح موعود کے دوسرے افراد نے کتابیں عنایت فرمائیں۔ یہ لائبریری حضرت خلیفہ ثانی کی اجازت خاص سے گول کمرہ میں قائم ہوئی۔ ۲۳۲ ۱۹۴۷ء کے بعد اس لائبریری کا احیاء جنوری ۱۹۶۰ء کو ربوہ میں ہوا۔ ۲۳۳
جولائی ۱۹۲۸ء میں صاحبزادی امتہ الحمید صاحبہ (بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) کی کوشش سے چھوٹی بچیوں کی لجنہ قائم ہوئی ۲۳۴ اور کچھ عرصہ بعد صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ کی تحریک پر ناصرات الاحمدیہ کی بنیاد پڑی۔ اسی سال احمدی مستوارات نے ’’سیرت النبیﷺ‘‘~ کی تحریک کو بھی کامیاب بنانے میں حصہ لینا شروع کیا۔ چوہدری خلیل احمد صاحب ناصر سابق انچارج احمدیہ مشن امریکہ کا بیان ہے کہ ’’میری شادی سے قبل جو ۱۹۳۹ء میں ہوئی میری اہلیہ امتہ الحفیظ صاحبہ اور ان کی چھوٹی بہن امتہ الحی صاحبہ کئی مہینے تک حضرت سیدہ ام طاہر (خداتعالیٰ ان سے راضی ہو) کے ہاں مقیم رہیں۔ صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ اور صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ نے اپنی حقیقی والدہ کی وفات کے بعد اسی گھر میں پرورش پائی۔ میری اہلیہ صاحبہ اور امتہ الحی صاحبہ کی علی الترتیب دونوں صاحبزادیوں کے ساتھ بہنوں کی طرح کے تعلقات تھے جس کا ذکر حضرت امام جماعت نے میرے نکاح میں بھی فرمایا ان کے ہاں میرا آنا جانا پردہ کے اسلامی احکام کی پوری پابندی کے ساتھ اکثر ہوتا رہتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ان دنوں میں صاحبزادی سیدہ امتہ الرشید صاحبہ نے مجھ سے ایک سے زائد مرتبہ ذکر فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کی بنیادوں پر احمدی لڑکیوں کی تنظیم قائم ہونی چاہئے۔ چنانچہ باہم مشورہ کے بعد طے پایا کہ ایسی تنظیم کا اعلان فرمانے کے لئے صاحبزای موصوفہ ایک خط کے ذریعہ سے حضور کی خدمت میں درخواست کریں اور یہ بھی گذارش کریں کہ اس تنظیم کا نام بھی حضور خود تجویز فرمائیں۔ اس خط کا مسودہ تیار کرنے میں خاکسار کو خدمت کا موقعہ ملا۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ اور خاکسار نے کچھ قیاس آرائی بھی کی کہ حضور اس تنظیم کا کیا نام تجویز فرمائیں گے۔ حسن اتفاق سے ایک نام ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ بھی ذہن میں آیا بہرکیف صاحبزادی موصوفہ کے حضور کی خدمت میں درخواست کے جلد بعد ہی حضور نے احمدی لڑکیوں کی تنظیم کے قیام کا اعلان فرمایا اور ایک کاغذ پر اپنے دست مبارک سے اسکا نام ’’ناصرات الاحمدیہ‘‘ تحریر فرمایا اور اس طرح اس تنظیم کی ابتداء ہوئی۔
صاحبزادی سیدہ امتہ الرشید صاحبہ سلمہا اللہ تعالیٰ مستحق صد مبارک ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کے دل میں یہ مبارک تحریک ڈالی اور ان کی کوششیں مثمر ہوئیں فالحمد لل¶ہ علی ذالک۔
۱۹۳۰ء میں لجنہ کو مجلس شوریٰ میں نمائندگی کا حق ملا جولائی ۱۹۳۱ء میں تحریک آزادی کشمیر کا آغاز ہوا تو الجنہ نے اسے کامیاب بنانے کے لئے چندہ دیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے یکم اپریل ۱۹۳۸ء کو حکم دیا کہ جہاں جہاں لجنہ ابھی قائم نہیں ہوئی وہاں کی عورتیں اپنے ہاں لجنہ اماء اللہ قائم کریںاور وہ بھی اپنے آپ کو تحریک جدید کی والنٹیرز سمجھیں۔ ۲۳۵
ماہ اپریل ۱۹۴۴ء میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو الہام ہوا ۔ اگر تم پچاس فیصدی عورتوں کی اصلاح کرلو تو اسلام کو ترقی حاصل ہوجائے گی۔ ۲۳۶ اس خدائی تحریک پر حضور لجنہ اماء اللہ کی تربیت و تنظیم کی طرف اور زیادہ گہری توجہ فرمانے لگے۔
۱۹۴۶ء میں پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے سلسلہ میںقادیان کی احمدی خواتین نے اعلیٰ نمونہ پیش کیا جس پر حضور نے فرمایا کہ عورتوں نے الیکشن میں قربانی کرکے ثابت کردیا ہے کہ وہ اس بات کی مستحق ہیں کہ ان کے اس ذکر کو ہمیشہ تازہ رکھا جائے۔اور بار بار جماعت کے سامنے لایا جائے انہوں نے بے نظیر قربانی اور نہایت اعلیٰ درجہ کی جاں نثاری کا ثبوت دے کر ثابت کردیا ہے کہ وہ مردوں سے قومی کاموں میں آگے نکل آئی ہیں۔ ۲۳۷
۱۹۴۷ء میں ملک تقسیم ہوگیا اور ہر طرف فسادات کی آگ بھڑک اٹھی جس کی وجہ سے لجنہ اماء اللہ کی تنظیم معطل سی رہی۔ مگر جونہی حالات کچھ سدھرنے لگے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ہاتھوں جماعت کا نیا مرکز ربوہ تعمیر ہونا شروع ہوا تو لجنہ کی دینی سرگرمیاں پھر شروع ہوگئیں۔ چنانچہ ۱۹۵۰ میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی تحریک وقف زندگی پر مستورات نے لبیک کہا ۱۹۵۱ء میں لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کا دفتر بنا۔ ۱۹۵۵ء میں ان کے چندوں سے ہالینڈ کی مسجد تعمیر ہوئی۔ ۹ دسمبر ۱۹۵۷ء کو فضل عمر جونئیر ماڈل سکول کا اجراء ہوا۔ جو حضرت سیدہ ام امتہ المتین کی ذاتی نگرانی اور دلچسپی کے باعث آٹھویں جماعت تک ترقی کرگیا ہے اس سکول کے علاوہ گھٹیالیاں۔ ہلال پور اور چک منگلہ میں بھی سکول جاری ہوچکے ہیں۔
یہ اجمالی خاکہ ہے ان خدمات کا جو لجنہ اماء اللہ نے انجام دی ہیں۔ لجنہ کی تحریک اب عالمگیر تنظیم بن چکی ہے۔ جس کی شاخیں نہ صرف برصغیر پاک و ہند میں ہیں بلکہ کینیا‘یوگنڈا‘ٹانگا نیکا۔ غانا۔ نائیجیریا۔ ماریشس۔ سائوتھ افریقہ۔ امریکہ۔ لنڈن اور انڈونیشیا تک بھی پھیلی ہوئی ہیں۔ ۲۳۸ اور اس کے کام کی وسعت روز بروز بڑھتی جارہی ہے لجنہ اماء اللہ نے غیروں پر بھی اپنی غیر معمولی عظمت و اہمیت کا سکہ بٹھا دیا ہے اس سلسلہ میں ہم دو اقتباسات تحریر کرکے آگے چلیں گے۔
۱۔ مولوی عبدالمجید صاحب قریشی ایڈیٹر اخبار تنظیم امرت سر نے لکھا ’’لجنہ اماء اللہ قادیان احمدیہ خواتین کی انجمن کا نام ہے اس انجمن کے ماتحت ہر جگہ عورتوں کی اصلاحی مجالس قائم کی گئی ہیں اور اس طرح پر وہ تحریک جو مردوں کی طرف سے اٹھتی ہے خواتین کی تائید سے کامیاب بنائی جاتی ہے اس انجمن نے تمام احمدیہ خواتین کو سلسلہ کے مقاصد کے ساتھ عملی طور پر وابستہ کردیا ہے عورتوں کا ایمان مردوں کی نسبت زیادہ مخلص اور مربوط ہوتا ہے عورتیں مذہبی جوش کو مردوں کی نسبت زیادہ محفوظ رکھ سکتی ہیں۔ لجنہ اماء اللہ کی جس قدر کارگزاریاں اخبارات میں چھپ رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ احمدیوں کی آئندہ نسلیں موجودہ کی نسبت زیادہ مضبوط اور پرجوش ہونگی اور احمدیہ عورتیں اس چمن کو تازہ دم رکھیں گی جس کا مرور زمانہ کے باعث اپنی قدرتی شادابی اور سرسبزی سے محروم ہونا لازمی تھا۔‘‘۲۳۹
ایک کٹر آریہ سماجی اخبار ’’تیج‘‘ (۲۵ جولائی ۱۹۲۷ء) نے رسالہ مصباح پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ’’میرے خیال میں یہ اخبار اس قابل ہے کہ ہر ایک آریہ سماجی اس کو دیکھے اس کے مطالعہ سے انہیں احمدی عوتوں کے متعلق جو یہ غلط فہمی ہے کہ وہ پردہ کے اندر بندرہتی ہیں اس لئے کچھ کام نہیں کرتیں فی الفور دور ہوجائے گی۔ اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ یہ عوتیں باوجود اسلام کے ظالمانہ حکم کے طفیل پردہ کی قید میں رہنے کے کس قدر کام کررہی ہے اور ان میں مذہبی احساس اور تبلیغی جوش کس قدر ہے ہم استری سماج قائم کرکے مطمئن ہوچکے ہیں لیکن ہم کو معلوم ہوناچاہئے کہ احمدی عورتوں کی ہر جگہ باقاعدہ انجمنیں ہیں اور جو وہ کام کر رہی ہیں اس کے آگے ہماری استری سماجوں کا کام بالکل بے حقیقت ہے۔ مصباح کو دیکھنے سے معلوم ہوگا کہ احمدی عورتیں ہندوستان ‘افریقہ ‘عرب ‘مصر ‘یورپ اور امریکہ میں کس طرح اور کس قدر کام کر رہی ہیں۔ ان کا مذہبی احساس اس قدر قابل تعریف ہے کہ ہم کو شرم آنی چاہئے چند سال ہوئے ان کے امیر نے ایک مسجد کے لئے پچاس ہزار روپے کی اپیل کی اور یہ قید لگادی کہ یہ رقم صرف عورتوں کے چندے سے ہی پوری کی جائے چنانچہ پندرہ روز کی قلیل مدت میں ان عورتوں نے پچاس ہزار کی بجائے پچپن ہزار روپیہ جمع کر دیا۔‘‘ ۲۴۰
نجات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۲ء کی تقاریر میں جماعت احمدیہ کو اس کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانے کے بعد مسئلہ نجات پر روشنی ڈالی اور اس کے مختلف اہم پہلوئوں کو بڑی وضاحت سے بیان فرمایا اگلے سال ۱۹۲۳ء کے سالانہ جلسہ پر بھی حضور نے اسی مضمون کا دوسرا حصہ بیان فرمایا جس میں مسئلہ کفارہ کے دلائل اور تفصیلات غیر معمولی وسعت اور انتہائی باریک نظری سے پیش فرمائے ان کا تجزیہ کرکے اس مسئلہ کا بے بنیاد ہونا ثابت کیا ۔ ۲۴۱ پہلا حصہ ’’نجات‘‘ ہی کے نام سے چھپ چکا ہے مگر دوسرا ابھی تک غیر مطبوعہ ہے۔
۱۹۲۲ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں مرزا مبشر احمد صاحب پیدا ہوئے۔ ]01 [p۲۴۲
۲۔ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے حفظ قرآن کی تکمیل کرلی۔ آپ کے حفظ قرآن کی تاریخ ’’حافظ قرآن‘‘ نکلی۔۲۴۳
۳۔ مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس ‘مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی ‘مولوی ظہور حسین صاحب‘مولوی محمد شہزادہ خان صاحب اور مولوی ظل الرحمان صاحب بنگالی نے مبلغین کلاس کا امتحان (فزیالوجی۔ ’’ہدایات زریں)‘‘ پاس کیا۔ ۲۴۴
۴۔ حضرت میاں جمال الدین صاحب سیکھوانی اور حضرت ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادی کا انتقال ہوا۔
۵۔ پشاور کے علاقہ جہانگیر پورہ محلہ گل بادشاہ میں احمدیہ مسجد تعمیر ہوئی۔ ۲۴۵ جس میں حضرت قاضی محمد یوسف صاحب (مردان) کی کوششوں کا بہت دخل تھا۔
۶۔ قادیان سے ایک انگریزی اخبار ’’البشریٰ‘‘ کے نام سے ۲۰ مئی ۱۹۲۲ء کو جاری ہوا۔ ۲۴۶ جس کے ایڈیٹر اور مینجر چودھری غلام محمد صاحب بی۔اے سیالکوٹی مدرس تعلیم الاسلام ہائی سکول تھے۔ البشریٰ جو دستی پریس پر چھپتا تھا کچھ مدت چل کر بند ہوگیا۔
۷۔ وسط ۱۹۲۲ء میں ذوالفقار علی خان صاحب (ایڈیشنل سیکرٹری حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) نے وائسرائے ہند کی خدمت میں لکھا کہ رمضان میں مسلمان قیدیوں کو مشقت سے مستثنیٰ کیا جائے یا برائے نام مشقت لی جائے اور نماز تراویح کے لئے قرآن مہیا کئے جائیں ۔۲۴۷اس درخواست پر سب سے پہلے جس صوبہ نے مسلمان قیدیوں کے لئے اس نوع کی سہولت مہیا کرنے کا اعلان کیا وہ صوبہ بہار تھا۔ ۲۴۸
۸۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے میاں عبدالسلام صاحب عمر کا نکاح چودھری ابو الہاشم خاں صاحب ایم۔ اے کی دختر محمودہ صاحبہ کے ہمراہ پڑھا۔ ۲۴۹
۹۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر قادیان میں تقاریر کی مشق کے لئے ایک انجمن قائم ہوئی جس کے صدر حضرت مولوی شیر علی صاحب اورسیکرٹری سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب مقرر ہوئے۔ ۲۵۰
۱۰۔ مدرسہ احمدیہ میں حافظ کلاس کھولی گئی۔۲۵۱
۱۱۔ مشہور مباحثے۔ مباحثہ نوشہرہ ۲۵۲ (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مہاشہ گیان بھکشو کے درمیان) ہوا۔ مباحثہ دہلی ۲۵۳ (حکیم احمد حسین صاحب لائلپوری ۲۵۴ اور پادری احمد مسیح کے درمیان) مباحثہ لاہور ۲۵۵ (بابو عبیداللہ صاحب احمدی اور پادری چنن خاں کے درمیان) مباحثہ امرت سر ۲۵۶ (آریوں سے ہوا۔ احمدی مناظر حصرت حافظ روشن علی صاحب اور مولانا جلال الدین شمس تھے)
حواشی
۱۔ ]h2 [tag تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد سوم (طبع سوم) صفحہ ۲۴۷۔ ۲۵۰
۲۔ بیروز لیکچرز صفحہ ۴۲
۳۔ الفضل ۹ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۲
۴۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی آپ بیتی صفحہ۵۰ (مرتبہ جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی) مطبوعہ ۱۹۴۶ء طبع اول و الفضل ۳۔ مئی ۱۹۲۰ء صفحہ ۲ و ۲۸۔ جون ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۵۔ الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ۱۲
۶۔ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی آپ بیتی۔ صفحہ۵۱
۷۔h2] gat[ الفضل ۱۴ جون ۱۹۲۰ء صفحہ۴
۸۔ اس عمارت کو بعد میں مسجد کی شکل دے دی گئی اور اب یہ مسجد شگاگو کے نام سے مشہور ہے۔
۹۔ الفضل ۷/۴ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱
۱۰۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۴
۱۱۔ رپورٹ سالانہ ۳۵۔۱۹۳۴ء صفحہ ۴۴۔۴۵۔
۱۲۔ الفضل ۲۹ جنوری ۱۹۶۶ء صفحہ ۴
۱۳۔ پنوراما ۳ جنوری ۱۹۵۲ء صفحہ۸
۱۴۔ ریڈرز ڈائجسٹ (امریکن ایڈیشن) ستمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۵۲۔۵۳ بحوالہ انصار الل¶ہ دسمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۴۲۔۴۳
۱۵۔ تنظیم ۲۸ دسمبر ۱۹۶۲ء صفحہ ۵۔۶ بحوالہ تاثرات قادیان۔
۱۶۔ الفضل ۱۶ فروری ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۱۷۔ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۱۸۔ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۲۰ء صفحہ ۳۔۴
۱۹۔ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۵۔۶
۲۰۔ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ۷
۲۱۔ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۸
۲۲۔ افضل ۱۵ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۳۔ قیام لاہور کے دوران میں حضور نے کئی لوگوں مثلاً مسٹر رچرڈ پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور کو ملاقات کا موقع دیا اور دینی مسائل پر ان سے گفتگو فرمائی (الفضل ۲۳ فروری ۱۹۲۰ء صفحہ ۲)
۲۳۔ الفضل ۸ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۲۴۔ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ۱
۲۵۔ الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ۲
۲۶۔ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ۸۔۱۱
۲۷۔ الفضل ۱۴/۱۱ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۲۔ ان میں سے ایک حضرت مولوی عبدالمغنی صاحب اور دوسرے بابوعبدالمجید صاحب آڈیٹر ریلوے۔
۲۸۔ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۱۔۱۲
۲۹۔ الفضل ۱۹ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۲
۳۰۔ الفضل ۲۴ جون ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۳۱۔ الفرقان ربوہ دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ۲۶
۳۲۔ حضرت حاجی غلام احمد صاحب آف کریام آپ کو مدرسہ احمدیہ میں داخل کرانے کے لئے خود قادیان تشریف لے گئے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ (جو اس وقت مدرسہ احمدیہ کے افسر تھے) کی خدمت میں آپ کو لیکر حاضر ہوئے چنانچہ آپ نے ان کو مدرسہ احمدیہ کی پہلی جماعت میں داخل کردیا۔
۳۳۔ الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ج
۳۴۔ الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۴۰ء صفحہ۴
۳۵۔ الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۷ء صفحہ ۴
۳۶۔ مفصل معاہدہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۰ مئی ۱۹۲۰ء صفحہ ۸۔۹
۳۷۔ الفضل ۳ جون ۱۹۲۰ء صفحہ۱
۳۸۔ یہ دونوں جماعتیں ۱۹۱۹ء میں معرض وجود میں آئی تھیں ان کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے جناب مرزا محمد دہلوی اپنی کتاب مسلمانان ہند کی حیات سیاسی میں مفصل لکھتے ہیں۔ ہندوئوں کو نئی حکومت کے زیر سایہ اپنی مضبوط قومی تعمیر کے لئے ملک پر زیادہ سے زیادہ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی خواہش تھی اور اسی کے لئے انہوں نے جدوجہد شروع کردی مسلمانوں کا پرجوش طبقہ جو پہلے ہی جذبات سے مغلوب ہورہا تھا۔ یہسمجھا کہ یہ آزادی کی جنگ ہے بلا کسی شرط کے اس جدوجہد میں ہندوئوں کے ساتھ ہوگیا۔ ہندوئوں نے اس نئی طاقت کا خیر مقدم کیا اور بڑے سلیقہ سے اپنے مقصد کے آلہ کار بنالیا۔۔۔۔۔۔ خلافت کمیٹی کانگریس کا ایک جزو بن گئی تھی اور جمعیہ العلماء کی حیثیت ان دونوں جماعتوں کے مذہبی نقیب کی سی تھی کانگریس کوئی نئی تحریک وضع کرتی خلافت کمیٹی اس پر عمل کرنے کو میدان میں اتر آتی اور جمعیتہ العلماء اس تحریک کو قرآن و احادیث کے مطابق ثابت کرکے فتوے سے شائع کیا کرتی (صفحہ ۱۰۴‘۱۰۵ ‘۱۱۴)
اس حقیقت کی روشنی میں یہ سمجھنا ذرا بھی مشکل نہیں کہ تحریک خلافت کے اصل خدوخال کیا تھے؟ جناب ابوالکلام آزاد جو خلافتی لیڈروں کے سرخیل تھے۔ خود ہی انکشاف فرماتے ہیں کہ اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اگلا قدم کیا ہو۔ ایک میٹنگ ہوئی جس میں مسٹر شوکت علی۔ حکیم اجمل خاں اور مولوی عبدالباری فرنگی محل بھی شریک تھے گاندھی جی نے اپنا پروگرام ترک موالات سے متعلق پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اب وفود اور عرضداشتوں کے دن ختم ہوگئے۔ ہم کو حکومت کے ساتھ نصرت و اعانت کے تمام تعلقات منقطع کردینے چاہیں۔ گاندھی جی نے میری طرف دیکھا میں نے ایک لمحے کی جھجک کے بغیر کہا کہ مجھے یہ پروگرام منظور ہے اگر لوگ واقعی ترکی کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو گاندھی جی کے پروگرام کے علاوہ اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے کچھ ہفتوں کے بعد خلافت کانفرنس میرٹھ میں منعقد ہوئی اس کانفرنس میں پہلی مرتبہ باضابطہ طور سے گاندھی جی نے اعلانیہ پبلک پلیٹ فارم سے ترک موالات کا پروگرام پیش کیا ان کی تقریر کے بعد میں نے ان کی مکمل تائید کی (انڈیا ونس فریڈم۔ صفحہ ۹۔۱۰ بحوالہ تقسیم ہند از عبدالوحید خاں صفحہ۵۰۔۵۲) نیز لکھتے ہں جہاں تک اس تحریک کا تعلق ایک ملکی مسئلہ سے ہے وہاں تک کہاں جاسکتا ہے کہ اس مسئلے کے محرک چند رفقا تھے میں نام لونگا مہاتما گاندھی کا وہ تحریک کے اولین اور سب سے بڑے بزرگ تھے جنہوں نے اس تحریک کا ساتھ دیا تھا۔ ایضاً صفحہ ۵۵۔
۳۹۔ الفضل ۳ جون ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۴۰۔ الفضل ۷ جون ۱۹۲۰ء صفحہ ۳۔۸ اس مضمون کاانگریزی ترجمہ بھی شائع کر دیا گیا تھا۔
۴۱۔ الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۲۰ء صفحہ ۸
۴۲۔ الفضل ۲ اگست ۱۹۲۰ء صفحہ۱ ‘۲۷ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۴۳۔ الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۲
۴۴۔ الحکم ۲۱ ستمبر ۱۹۲۰ء (اس نمبر میں سب حضرات کی نظمیں چھپ گئی تھیں)۔
۴۵۔ الواح الہدیٰ (شائع کردہ مولوی محمد عنایت اللہ صاحب تاجر کتب قادیان)
۴۶۔ ملاحظہ ہو سرورق ۴۔ سیرت خاتم النبین حصہ دوم طبع اول۔
۴۷۔ ]2h [tag سیرت خاتم النبین حصہ اول طبع دوم (سرورق)
۴۸۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مولانا عبدالمجید صاحب سالک کی کتاب سرگزشت صفحہ ۱۱۶۔۱۱۷
۴۹۔ ترک موالات اور احکام اسلام طبع اول صفحہ۸۵۔۸۶
۵۰۔ اخبار اتفاق و ذوالفقار بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۳۹۔ ۱۴۰ (از سید طفیل محمد شاہ صاحب) بخاری صاحب اور دوسرے خلافتی لیڈروں نے جیل میں کیا کیا کارنامے انجام دیئے ان کی تفصیل سرگزشت صفحہ ۱۶۰۔۱۶۷ (ازمولانا سالک) سوانح سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری ۔ (از شورش) صفحہ ۶۵۔۷۳ نقوش آپ بیتی نمبر صفحہ ۶‘۷ میں ملاحظہ ہوں بخاری صاحب نے بیرونی سنسر شپ سے بچنے کے لئے اپنا نام پنڈت کرپارام برہمچاری لکھنا شروع کردیا تھا (سوانح سید عطاء اللہ شاہ بخاری از شوزش) صفحہ ۷۳ مولوی سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی نظر بند تو نہیں ہوئے البتہ انہوں نے سیرت گاندھی پر ایک کتاب لکھی جو ضبط کرلی گئی۔ (نقوش آپ بیتی نمبر صفحہ۱۲۸۹)
۵۱۔ تقاریر مولاناظفر علی خاں۔ صفحہ۵۹۔۶۱
۵۲۔ تقاریر مولانا ظفر علی خاں صفحہ۶۴
۵۳۔ حیات محمد علی جناح صفحہ۱۰۸ دوسرا ایڈیشن صفحہ ۱۰۸
۵۴۔ مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحہ ۱۰۹
۵۵۔ سرگزشت صفحہ ۱۱۶۔ عامتہ المسلمین نے تو یوں اپنے ہاتھوں اپنا گھر بارتباہ و بروباد کیا۔ مگر خلافتی لیڈروں نے یہ قربانی کی کہ وہ لاکھوں روپے جو مسلمانوں نے خلافت کی بحالی کے لئے چندہ میں دیئے تھے ہضم کرگئے چنانچہ جب مولانا محمد علی صاحب جیل سے رہا ہوئے تو خلافت کا خزانہ خالی ہوچکا تھا۔ (سیرت محمد علی صفحہ ۴۷۸۔۴۷۹۔ از سید رئیس احمد صاحب جعفری) طبع دوم ۱۹۵۰ء
۵۶۔ تبرکات آزاد صفحہ۲۲۶۔۲۲۷۔ (مولاناآزاد کے مکاتیب ومقالات کا مجموعہ مرتبہ جناب غلام رسول صاحب مہر)
۵۷۔ خودنوشت سوانح عمری مشمولہ ’’مولانا مودودی اپنی اور دوسروں کی نظر میں‘‘ صفحہ۴۳۔
۵۸۔ بحوالہ تحریک اسلامی صفحہ ۸۶۔ مرتبہ خورشید احمد شائع کردہ ادارہ چراغ راہ کراچی۔
۵۹۔ ایضاً صفحہ ۲۴۷۔
۶۰۔ الفضل ۵۔۹ اگست ۱۹۲۰ء صفحہ ۱‘الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۶۱۔ الفضل ۹/۸ فروری ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
‏]1h [tag۶۲۔ الفضل ۳ جون ۱۹۲۰ء صفحہ ۱
۶۳۔ ریویو آف ریلیجز اردو مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۱۳
۶۴۔ الحکم ۲۸ جنوری ۱۹۲۰ء صفحہ۳
۶۵۔ الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ۸
۶۶۔ الفضل ۲۹ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ ۱۱
۶۷۔ الفضل ۸ اپریل ۱۹۲۰ء صفحہ۸
۶۸۔ الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۲۰ء صفحہ۷
۶۹۔ الحکم ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۰ء صفحہ۲۔۳۔
۷۰۔ الحکم ۲۸ نومبر ۱۹۲۰ء صفحہ ۳
۷۱۔ h2] gat[ مطبوعہ ہے۔
۷۲۔ الفضل ۳۱ جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۶
۷۳۔ حضرت خلیفہ ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مشاورت ۱۹۴۲ء میں اپنی جماعت کے ہندومت اور سکھ مذہب کے فاضلوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مہاشہ محمد عمر صاحب کے قادیان آنے کا واقعہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ’’ہندوعلوم اور لٹریچر کے کئی لوگ ہمارے پاس موجود ہیں ۔۔۔۔مولوی عبداللہ ناصر الدین صاحب ہیں جو دید بھی پڑھے ہوئے اور اعلیٰ ڈگری حاصل کرچکے ہیں۔۔۔۔ سکھوں کے متعلق واقفیت رکھنے والے کئی لوگ ہیں گیانی عباد اللہ صاحب اور گیانی واحد حسین صاحب اور ان کے علاوہ سردار محمد یوسف صاحب جو سکھوں کی کتب اور لٹریچر کے پرانے ماہر ہیں اور خداتعالیٰ کے فضل سے دیر سے بہت مفید کام کررہے ہیں غالباً ۱۹۲۲ء کی بات ہے کہ مہاشہ محمد عمر صاحب ہندوطالبعلموں کی ایک پارٹی کے ساتھ مجھے ملنے کے لئے آئے تھے گوروکل کانگڑی کے ایک پروفیسر صاحب یہاں ایک جلسہ پر آئے تھے اور اپنی بہادری دکھانے کے لئے آئے کہ دیکھو میں کیسی اچھی تقریر کرتا ہوں طالب علموں کی ایک پارٹی کو بھی ساتھ لے آئے۔ انہوں نے طلبہ کو مجھ سے ملنے کو بھی بھیجا۔ اس وقت مہاشہ محمد عمر بھی ان کے ساتھ تھے میں نے طالب علموں سے کہا پروفیسر صاحب سے کہو کہ آپ اپنے چند طالب علم یہاں بھیج دیں میں خود ان کو قرآن پڑھائوں گا اسی طرح میں چند طالبعلم بھیجتا ہوں جن کو وہ وید پڑھائیں۔ خرچ اپنے طالب علموں کا بھی اور ان کے بھیجے ہوئے طالب علموں کا بھی میں ہی دونگا۔ اگر قرآن کریم میں تاثیر ہوگی تو ان کے بھیجے ہوئے طالب علموں کو میں مسلمان کرلوں گا اور اگر ویدوں میں تاثیر ہوگی تو ہمارے طالب علموں کو وہ ہندوکرسکیں گے۔ اور یہ ہم دونوں کا انعام ہوگا۔ مگر انہوں نے اس تجویز کو نہ مانا۔ مہاشہ محمد ¶عمر صاحب بھی اس پارٹی میں تھے ان کے دل پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ چند دنوں کے بعد بھاگ کر یہاں آگئے انہوں نے گو جوانی یہاں گزاری ہے مگر بچپن میں وہ ہندوئوں میں رہے ہیں اور وہیں پڑھتے رہے ہیں اس لئے ان کا لب ولہجہ ہندوانہ ہے ان کے علاوہ مہاشہ فضل حسین صاحب ہیںوہ شاید سنسکرت تو نہیں جانتے مگر ہندو لٹریچر سے اچھے واقف ہیں‘‘۔ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۲ء صفحہ ۲۹۔۳۰)
۷۴۔
تفصیل کے لئے دیکھیں ’’ہدایات زریں‘‘
۷۵۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے ’’قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یخرب الکعبہ ذوالسویقتین من الحبشہ‘‘ (صحیح مسلم جلد دوم مصری صفحہ ۳۱۹)
۷۶۔ الفضل ۲۵ مارچ ۱۹۲۰ء صفحہ۴۔۵
۷۷۔ الفضل ۷ مارچ ۱۹۲۱ء صفحہ۹
۷۸۔ الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ۶
۷۹۔ الفضل ۱۸ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ۶۔۷۔ مسٹر خیرالدین صاحب عرصہ سے سلسلہ کا لٹریچر مطالعہ کررہے تھے اب حضرت نیر صاحب کی آمد پر انہوں نے بیعت کرلی اس طرح سیرالیون میں احمدیت کا بیج بویاگیا۔ سیر الیون کا سولہ سال بعد مستقل دارالتبلیغ ۱۹۳۷ء میں قائم ہوا جس کے تفصیلی حالات اگلی جلد میں آرہے ہیں۔
۸۰۔ الفضل ۵ مئی ۱۹۲۱ء صفحہ۱۔۲
۸۱۔ الفضل ۱۹ مئی ۱۹۲۱ء
۸۲۔ ابتداء میں جب مغربی افریقہ کے بعض مسلمانوں نے حضرت نیر صاحب سے ملاقات کی تو کہا کہ آج تک لوگ ہم پر ہنستے تھے کہ سفیدآدمی مسلمان نہیں ہوتے الحمدلل¶ہ کہ اب سفید آدمی مبلغ اسلام ہوکر یہاں آگیا ہے (الفضل ۵ مئی ۱۹۲۱ء صفحہ۲
۸۳۔ چیف مہدی کی جائے رہائش کا مقام
۸۴۔ نائیجیریا کی دو قومیں اولاً اسلام میں داخل ہوئیں ہوسا جو عرب مخلوط نسل سے ہیں۔ یو ربا جو حبشی النسل ہیں ہو ساقدامت پسند مسلمان ہیں اور یوربا مہذب اور تجارت سے شغل رکھتے ہیں۔
۸۵۔ اس زمانہ میں سیرالیون گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا میں ایک بھی مسلمانوں کا ایسا مدرسہ نہیں تھا جس میں جدید طرز کی تعلیم دی جاتی ہو۔ مسلمانوں کے جو بچے ذرا انگریزی پڑھ لیتے وہ عیسائی ہوجاتے تھے ۔
۸۶۔ الفضل ۱۹ مئی ۱۹۲۱ صفحہ۳۔۶
۸۷۔ افریقہ میں جماعت احمدیہ کو عیسائیت کے مقابل شاندار فتوحات کی خبر پڑھ کر خواجہ حسن نظامی صاحب دہلوی نے حضرت خلیفہ ثانی کی خدمت میں خط لکھا کہ بے اختیار زبان سے الحمداللہ نکلا۔ افریقہ میں عیسائیت کے مقابلہ میں مرزائیت کی فتح یقیناً ہر مسلمان کو اچھی معلوم ہوگی بشرطیکہ وہ حاصل مقصد کو سمجھتا ہو میں آپ کے عقیدہ کے اب تک دل سے مخالف ہوں مگر امریکہ یورپ اور افریقہ میں آپ کے آدمیوں کے ذریعہ جو کچھ کام ہورہا ہے اس کا اعتراف کرنا اور اس کے نتائج سے مسرور ہونا لازمی سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ جل شانہ اپنے دین کا اس سے زیادہ بول بالا کرے۔ (الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۹)
۸۸۔ الفضل ۹/۱۲ جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۵۔
۸۹۔ الفضل ۸ اگست ۱۹۲۱ء صفحہ ۳۔
۹۰۔ یہ لوگ پنجاب کے چکڑالوی نہیں ان کا دوسرے مقامی مسلمانوں سے اختلاف صرف یہ تھا کہ تفسیر جلالین قرآن پر مقدم نہیں ہے۔
۹۱۔ الفضل ۲۳ جون ۱۹۲۱ء صفحہ۷
۹۲۔ حضرت خلیفہ ثانی نے نیر صاحب کو افریقہ میں بیعت لینے کی اجازت دی تھی (الفضل ۲۳ جون ۱۹۲۱ء صفحہ ۷)
۹۳۔ الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۲۔
۹۴۔ الفضل ۲۵ اگست ۱۹۲۱ء صفحہ ۴
۹۵۔ الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۲
۹۶۔ الفضل ۳۱ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحہ۲
۹۷۔ الفضل ۸ دسمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۲
۹۸۔ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ ۲‘۷
۹۹۔ الفضل ۱۴ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحہ۱۔۲
۱۰۰۔ الفضل ۱۶ نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ۲
۱۰۱۔ الفضل یکم جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔۱۲ اس مدرسہ کی مستقل عمارت کا افتتاح ۱۹۲۸ء میں ہوا۔ اس تقریب پر مسٹر ہنری کار (RRHENRYCA۔)MR پہلے نائیجیرین ریذیڈنٹ نے نائیجیریا میں مسلمانوں کی تعلیم کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا نائیجیریا کے مسلمانوں نے ڈاکٹر ای۔ ڈبلیو بلائڈن کے مشورہ پر ۱۸۹۶ء میں لیگوس محمڈن سکول جاری کیا جسے نائیجیرین مسلمان حکومت کی امداد اور سرپرستی کے باوجود زیادہ لمبے عرصہ تک قائم نہ رکھ سکے۔ اوربالاخر حکومت کو کلی طور پر اپنی تحویل میں لینا پڑا تحویل میں لینے سے قبل حکومت نے مسلمانوں کو بار بار توجہ دلائی کہ وہ اسلامی سکول کھولنے کی کوشش کریں لیکن کسی نے اس بات کی طرف توجہ نہ دی حتیٰ کہ ۱۹۲۲ء میں مسلمانوں کے احمدیہ فرقہ نے مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کی تحریک پر تعلیم الاسلام سکول قائم کیا اس طرح صحیح معنوں میں یہاں سب سے پہلا مسلم سکول کھولنے کا فخر جماعت احمدیہ کو حاصل ہوا (ترجمہ) (ریویو آف ریلیجنز انگریزی ۱۹۲۸ء صفحہ۲۱۔۲۵)
۱۰۲۔ (الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔۲
۱۰۳۔ الفضل ۵ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲
۱۰۴۔ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۲۔۱۹۳۳ء صفحہ ۱۵۷
۱۰۵۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۵۲۔۱۵۳
۱۰۶۔ رپورٹ سالانہ ۳۳۔۱۹۳۲ء صفحہ ۱۵۶۔
۱۰۷۔ رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۹۔۱۹۳۸ء صفحہ ۷۸
۱۰۸۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رپورٹ سالانہ ۳۷۔ ۱۹۳۶ء صفحہ ۳۴۔ ۳۶۔ رپورٹ سالانہ ۳۹۔۱۹۳۸ء صفحہ ۷۸۔ ۸۶۔
۱۰۹۔ رپورٹ سالانہ ۳۸۔۱۹۳۷ء صفحہ ۳۳
۱۱۰۔ اس کی بنیاد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے رکھی تھی۔
۱۱۱۔ یہ لوگ جناب محمد بشیر صاحب شاد کے ذریعہ سلسلہ میں داخل ہوئے تھے۔
۱۱۲۔ یہ تقریر آپ نے لیگوس کی احمدیہ مسجد میں کی تھی؟ جبکہ شمالی علاقہ کے لوکل چیف پہلی دفعہ نائیجیرین پارلیمنٹ کے اجلاس میں شمولیت کے لئے لیگوس تشریف لائے تھے اور جماعت احمدیہ نے ان کے اعزاز میں استقبالیہ اجلاس منعقد کیا تھا۔
۱۱۳۔ بحوالہ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۶۷ (از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب)۔
۱۱۴۔ بحوالہ اسلام کا غلبہ (ازمولانا جلال الدین صاحب شمس صفحہ ۵۲۔۵۳
۱۱۵۔ ایضاً
۱۱۶۔ بحوالہ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ ۱۲ (از جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ربوہ) روزنامہ ڈیلی ٹائمز ۲۳ فروری ۱۹۵۵ء (ترجمہ)
۱۱۷۔ رسالہ لائف امریکہ ۸ اگست ۱۹۵۵ء (ترجمہ)
۱۱۸۔ اہل گولڈ کوسٹ نے ۱۹۶۰ء میں انگریزوں سے آزادی حاصل کرلینے کے بعد اپنے ملک کا نام (غانا) رکھ لیا۔
۱۱۹۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ۱۵۱۔
۱۲۰۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ۳۷۔
۱۲۱۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۲۔۱۸۳
۱۲۲۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۲۔۱۸۳
۱۲۳۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ۱۵۱
۱۲۴۔ رپورٹ سالانہ ۳۲۔۱۹۳۳ء صفحہ۱۵۵۔۱۵۷۔
۱۲۵۔ رپورٹ سالانہ ۳۵۔۱۹۳۶ء صفحہ۳۵
۱۲۶۔ رپورٹ سالانہ ۳۶۔۱۹۳۷ء صفحہ۴۱ ۔ ۴۳ اسکی تکمیل مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کے زمانہ میں ہوئی اور افتتاح ۲۷ جنوری ۱۹۴۱ء کو عمل میں آیا۔
۱۲۷۔ ایضاً
۱۲۸۔ رپورٹ سالانہ ۳۸۔۱۹۳۷ء صفحہ ۳۴
۱۲۹۔ ۱۵ جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ۱
 

MindRoasterMir

لا غالب الاللہ
رکن انتظامیہ
منتظم اعلیٰ
معاون
مستقل رکن
۱۳۰۔ ملاحظہ ہو صفحہ ۱۲۱۔ ۱۷۷
۱۳۱۔ کرائسٹ آر محمد (مولفہ ایس۔ جی ولیم سن پروفیسر یونیورسٹی کالج غانا) مطبوعہ غانا بحوالہ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں۔ صفحہ۷
۱۳۲۔ افتتاحی ایڈریس تبلیغی نمائش برموقع سالانہ کانفرنس غانا ۱۹۶۲ء
۱۳۳۔ بحوالہ اشاعت اسلام اور ہماری ذمہ داریاں صفحہ۲۲ (از جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر تحریک جدید ربوہ)
۱۳۴۔ الفضل ۱۰ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ ۱۔ خطبہ نکاح کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴ فروری ۱۹۲۱ء۔
۱۳۵۔ الفضل ۲۴ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۳۶۔ الفضل ۱۴ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ۴۔۵۔ زیادہ تفصیل کے لئے دیکھیں تابعین اصحاب احمد جلد سوم مولفہ ملک صلاح الدین صاحب ایم ۔اے۔ قادیان۔
۱۳۷۔ الفضل ۳ مارچ ۱۹۲۱ء صفحہ ۲
۱۳۸۔ الفضل ۷۔۱۴ مارچ ۱۹۲۱ء (والد صاحب (صفحہ ۵۳۔۵۴) از مولانا عبدالرحیم صاحب درد)
۱۳۹۔ الفضل ۲۴ مارچ ۱۹۲۱ء صفحہ ۱۔۴ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ۳
‏h1] g[ta۱۴۰۔
مفصل تقریر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴۔۱۱ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۲
۱۴۱`۱۴۲۔ مولویوں نے اپنے جلسہ میں یہ اعتراض اٹھایا کہ اگر مرزا صاحب سچے ہیں تو ان کی قبر کھود کر دکھائی جائے اگر وہ نبی ہیں تو ان کی لاش محفوظ ہوگی۔ حضور نے جواب دیا کہ قرآن و حدیث سے نبوت کے اس معیار کی تائید میں کوئی دلیل پیش کریں پھر ہزارہا نبیوں کی قبریں دکھا کر اس کا عملی ثبوت بہم پہنچادیں اس کے بعد ہم ان کا مطالبہ پورا کرکے حضور کی سچائی ثابت کر دکھائیں گے۔
۱۴۳۔ الفضل ۴ جولائی ۱۹۲۱ء صفحہ۶
۱۴۴۔ الفضل ۲۷ جون ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۴۵۔ الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۴۶۔ الفضل ۲۲ اگست ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۴۷۔ الفضل ۵ ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ۱۔۲
۱۴۸۔ آئینہ صداقت صفحہ۲۰۳
۱۴۹۔ الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۵۰۔ الحکم ۱۴ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ۱۔۲
۱۵۱۔ الفضل ۱۷ جنوری ۱۹۲۱ء
۱۵۲۔ الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۲
۱۵۳۔ الفضل ۳ فروری ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۵۴۔ الفضل ۲۸ اپریل ۱۹۲۱ء صفحہ ۱
۱۵۵۔ الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۹۲۱ء صفحہ۱
۱۵۶۔ مطبوعہ ہے (الفضل ۲۶ دسمبر ۱۹۲۱ء صفحہ۱۳
۱۵۷۔ آپ واقف زندگی تھے اور عہدیہ تھا کہ کوئی خرچ سلسلہ سے نہیں لیں گے اسلئے آپ کے والد حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے ایک ہزار روپیہ نظارت دعوت و تبلیغ کوبھجوادیا۔ (قادیان صفحہ۲۸۴ از شیخ محمود احمد عرفانی)
۱۵۸۔ الحکم ۷ دسمبر ۱۹۲۲ء صفحہ۶
‏h1] gat[۱۵۹۔ ایضاً۔
۱۶۰۔ نجات صفحہ ۶ (لیکچر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سالانہ جلسہ) ۱۹۲۲ء
۱۶۱۔ اس اخبار کا پہلا پرچہ خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۱۶۲۔ قادیان صفحہ ۲۸۴ (از محمود احمد صاحب عرفانی) آپ دوبارہ ۱۹۳۱ء سے ۱۹۳۴ء تک مصر میں مقیم رہے اور ’’العالم الاسلامی‘‘ کے نام سے اخبار شائع کرتے رہے۔
۱۶۳۔ آپ نے ۱۹۶۳ء میں وفات پائی۔
۱۶۴۔ قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے اس مباحثہ پر ان الفاظ میں تبصرہ فرمایا تھا مناظرہ توخیر کا سرصلیب کے شاگرد ہونے کی وجہ سے کامیاب ہونا ہی تھا مگر مجھے اس مناظرہ کی روداد پڑھنے سے حیرت ہوئی کہ مولوی صاحب نے اس مختصر سے مناظرہ میں کتنا مواد بھر دیا ہے یہ مناظرہ یقیناً ان احمدی مبلغوں کے بہت کام آسکتا ہے جن کا مسیحی مشزیوں کے ساتھ سابقہ پڑتا ہے۔ (الفرقان دسمبر ۱۹۶۱ء)
۱۶۵۔ (مکرم مولانا ابوالعطاء صاحب کی روانگی از قادیان ۱۳ اگست واپسی قادیان ۲۴ فروری ۱۹۳۶ء)
۱۶۶۔ یہ کتاب دراصل ان مضامین کا مجموعہ ہے جو الاستاذ کرملی نے ۱۹۳۵ء میں مقتطف‘الہلال اور لغت العرب وغیرہ مصری اخبارات میں تحریر کیئے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۸ جنوری ۱۹۶۲ء صفحہ ۳۔
۱۶۷۔ طلبہ کے نام ایوب فضلی قرانیا اور ثلیل ابیشطی تھا۔ ملاحظہ ہو رسالہ الاحمدیتہ عرفناھا۔
۱۶۸۔ ہفتہ وار رسالہ (الرسالتہ والروایتہ) نمبر ۴۶۲ بابت ۲۵ ربیع الثانی ۱۳۶۱ھ مطابق ۱۹۴۲ جلد ۱۰ نمبر ۴۶۲ (یہ رسالہ مصر کے مسلمہ ادیب الاستاذ احمد حسن الزیات کی ادارت میں نکلتا تھا۔
۱۶۹۔ ]2h [tag الفتاوی کی اشاعت کے بعد علامہ شلتوت نے جامعہ از ہر کے علمی ترجمان ’’مجلتہ الازہر‘‘ فروری ۱۹۶۰ء کے انگریزی حصہ میں دوبارہ عقیدہ وفات مسیح کا اعلان کیا۔
۱۷۰۔ الفتاویٰ صفحہ ۵۸ (شائع کردہ الادارۃ العامتہ للثقافتہ الاسلامیہ بالازہر مطبوعہ جمادی الاخر ۱۳۷۹ھ مطابق دسمبر ۱۹۵۹ء (نشرواشاعت نظارت اصلاح وارشاد نے اس صفحہ کا عکس پمفلٹ کی صورت میں الگ بھی شائع کر دیا ہے۔
۱۷۱۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو مقدمتہ الہدی والتبصرۃ لمن یری صفحہ ۲۲ تا ۲۷۔ مطبوعہ فلسطین شائع کردہ چوہدری محمد شریف صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ ایضاً ’’رسالہ‘‘ کیا مسیح علیہ السلام زندہ ہیں‘‘۔ صفحہ ۱۳۔ ۱۴ (مرتبہ شیخ نور احمد صاحب منیر سابق مبلغ بلاد عربیہ)
۱۷۲۔ الفضل ۳ مارچ ۱۹۶۱ء صفحہ ۳۔۴ (اس موقعہ پر علامہ شلتوت نے شیخ نور احمد صاحب منیر کو اپنی تین اہم تصانیف بطور ہدیہ دیں جن کے نام یہ ہیں۔ توجیہات الاسلام۔ عقیدۃ و شریعہ۔ الفتاویٰ۔ شیخ الجامعہ نے ان میں سے ہر کتاب پر اپنے دستخط سے عبارت لکھی ھدیہ دینیہ علمیہ الی اخی فی اللہ السید نور احمد منیر من علماء باکستان مع خالص التحیات۔
۱۷۳۔ علماء مصر و عرب کے فتاوی کی تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ کیا مسیح علیہ السلام زندہ ہیں مرتبہ شیخ نور احمد صاحب منیر مبلغ بلاد عربیہ
۱۷۴۔ طبع اول ۱۳۸۰ھ مطابق ۱۹۶۱ء مطبوعہ مطبع دارالجہاد ۱۴ شارع الجمہوریہ ناشر مکتبہ دارالعروبہ شارع الجمہوریہ القاہرہ۔
۱۷۵۔ الفتح قاہرہ (مصر) صفحہ ۳۱۵۔ ۲۰ جمادی الاخرہ ۱۳۵۱ھ (بحوالہ الفرقان فروری ۱۹۵۶ء صفحہ۴
۱۷۶۔ اخبار الفتح ۱۷ جمادی الاخرہ ۱۳۵۸ھ مطابق اگست ۱۹۳۹ء بحوالہ (البشری) فلسطین جلد۵
۱۷۷۔ مقدم الذکر دو اصحاب قادیان میں حضور کی زیارت کے لئے آئے تھے اور باقی ربوہ میں۔
۱۷۸۔ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ ۷۔ حضرت صاحبزادہ صاحب کے علاوہ سردار نذر حسین صاحب ‘مرزا گل محمد صاحب اور چوہدری فضل احمد صاحب بھی افسر تھے جن کا درجہ سیکنڈ لفٹنٹ کا تھا مرزا گل محمد صاحب اسسٹنٹ ایجوٹنٹ بٹالین بھی تھے (الفضل ۸ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ۲
۱۷۹۔ رپورٹ سالانہ ۳۹۔۱۹۳۸ء صفحہ ۳۴۸
‏h1] [tag۱۸۰۔ تعلیم الاسلام میگزین جلد ۲ نمبر۳ صفحہ۱۰۔ (سالنامہ ۱۹۳۱ء) صوبیدار عبدالمنان صاحب (حال افسر حفاظت خاص ربوہ) کا بیان ہے کہ ۱۹۲۵ء کے قریب اس کمپنی کا الحاق انبالہ چھائونی کی ۱۵ پنجاب رجمنٹ سے ہوگیا اور سے ۱۱۔۱۵ پنجاب رجمنٹ کا نمبردیا گیا حضرت میاں صاحب جوانوں کی اعلیٰ ٹریننگ اور نشانہ بازی کے مقابلوں میں شرکت کے لئے میرٹھ چھائونی تشریف لے جاتے اور ہمیشہ اول آیا کرتے تھے اس طرح آپ کی حسن تربیت کا یہ نتیجہ تھا کہ احمدیہ ٹریٹوریل کمپنی نے بٹالین اور بریگیڈ کی سالانہ کھیلوں کے مقابلہ میں کثرت سے انعام جیت کر انبالہ چھائونی میں ایک ریکارڈ قائم کردیا تھا۔
۱۸۱۔ الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ۷
۱۸۲۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے فرمایا اور حضرت مولانا شیر علی صاحب اسے چھپوانے کے لئے خود بمبئی تشریف لے گئے (الفضل ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ۱۔۲) چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ بلاد عربیہ نے ۱۹۴۳ء میں اس کا عربی ترجمہ بھی کبابیر (فلسطین) سے شائع گیا۔
۱۸۳۔ الفضل ۹ جنوری ۱۹۲۲ء صفحہ ۹
۱۸۴۔ ملاحظہ ہو تحفہ شہزادہ ویلز۔
۱۸۵۔ تحفہ شہزادہ ویلز۔ اردو صفحہ ۱۴۲۔۱۴۳ (طبع اول)
۱۸۶۔ ملاحظہ ہو تحفہ شہزادہ ویلز اردو انگریزی طبع دوم
۱۸۷۔ ’’ذوالفقار‘‘ ۲۴ اپریل ۱۹۲۲ء (بحوالہ الفضل ۸ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۷)۔
۱۸۸۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ۱۲۷
۱۸۹۔ بحوالہ الفضل ۸ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۷۔۸
۱۹۰۔ بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ۲۸۲ (از سید طفیل محمد شاہ صاحب مرحوم)
۱۹۱۔ الفضل ۸ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ۵
۱۹۲۔ نجات صفحہ۵ (لیکچر حضرت خلیفہ الثانی ۱۹۲۲ء)
۱۹۳۔ الفضل ۲۵ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ۸
۱۹۴۔ الفضل ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ۱۔
۱۹۵۔ الفضل ۹ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ۳۔ اس سفر میں حضور کا قیام چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور کی کوٹھی پر تھا (الفضل ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ ۱) اور چوہدری صاحب ہی نے حضور اور حضور کے خدام کی مہمان نوازی کا انتظام کیا (الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ۲)
۱۹۶۔ الفضل ۲۷ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۵
۱۹۷۔ الفضل ۶ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ۲
۱۹۸۔ الفضل ۱۶ مارچ ۱۹۲۲ء صفحہ۱
۱۹۹۔ الفضل ۳۰ مارچ ۱۹۲۲ء و الفضل ۳ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ ۳
۲۰۰۔ الفضل ۳ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ۵
۲۰۱۔ ۱۹۴۷ء تک مجلس مشاورت کا انعقاد اسی ہال میں ہوتا رہا۔ اس کے بعد ۱۹۴۸ء کی مجلس شوریٰ رتن باغ لاہور میں ہوئی ۱۹۴۹ء میں اس کا اجراء ربوہ میں ہوا۔ ربوہ کی یہ پہلی شوریٰ چند گھنٹوں کے لئے منعقد ہوئی اور اس میں صرف بجٹ پیش ہوا۔ ۵۱۔۱۹۵۰ء کی شوریٰ جامعہ المبشرین کی خام عمارت کے احاطہ میں ہوئی ۱۹۵۲ء سے اس کے اجلاس دفتر لجنہ اماء اللہ کے ہال میں ہونے لگے۔
۲۰۲۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ ۸۔۱۳ ۔ ان بنیادی ہدایات کے علاوہ حضور نے نمائندوں کی راہنمائی کے لئے بکثرت اور ارشادات فرمائے جو مشاورت کی رپورٹوں میں محفوظ ہیں۔
۲۰۳۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ۲۰۔
۲۰۴۔ ایضاً صفحہ ۴۷۔۴۸
۲۰۵۔ ایضاً صفحہ ۵۳۔۵۴
۲۰۶۔ ایضاً صفحہ ۵۹۔
۲۰۷۔ رپورٹ مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ ۶۰
۲۰۸۔ ایضاً صفحہ۶۰
۲۰۹۔ ایضاً صفحہ۶۲
۲۱۰۔ یاد رہے کہ ۱۹۵۴ء اور ۱۹۵۵ء میں حضور نے اپنی بیماری کے بائث مرزا عبدالحق صاحب ایڈووکیٹ (امیر صوبائی) کو صدارت کرنے کا ارشاد فرمایا تھا۔ ۱۹۶۰ء کے وسطی اجلاس کی صدارت حضور کی ہدایت پر شیخ بشیر احمد صاحب (سابق جج ہائیکورٹ لاہور) نے کی۔ اسی طرح ۱۹۶۱ء ۱۹۶۲ء اور ۱۹۶۳ء میں حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو مجلس شوریٰ کے لئے صدر نامزد فرمایا۔ اور ۱۹۶۴ میں حضور کے حکم سے شیخ محمد احمد صاحب مظہر امیر جماعت احمدیہ لائلپور کی صدارت میں شوریٰ کا انعقاد ہوا۔ ۱۹۴۶ سے ۱۹۴۹ء تک کی رپورٹیں غیر مطبوعہ ہیں چھپی ہوئی رپورٹوں کے ضبط تحریر میں لانے کا کام جن اصحاب نے کیا ہے ان میں خواجہ غلام نبی صاحب بلانوی ایڈیٹر الفضل اور مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر فاضل انچارج شعبہ زود نویسی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
۲۱۱۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۵۔
۲۱۲۔ یہاں شوریٰ کے متفرق کوائف درج کرنا ضروری ہے۔ (۱) ۱۹۲۶ء کی شوریٰ کے ساتھ ایک تبلیغی نمائش بھی منعقد ہوئی۔ (۲) ابتداء میں صدر انجمن کی نظارتوں کی رپورٹیں بھی مشاورت میں سنائی جاتی تھیں۔ مگر کارروائی کے لمبا ہوجانے کی وجہ سے ۱۹۳۰ء میں یہ سلسلہ بند کردیا گیا۔ (۳) ۱۹۳۰ء میں عورتوں کی نمائندگی کے لئے حضورنے یہ فیصلہ فرمایاکہ لجنات اپنی آراء پرائیویٹ سیکرٹری کو بھجوادیا کریں میں ان امور کا فیصلہ دیتے ہوئے ان کو بھی مدنظر رکھ لوں گا۔ (۴) ۱۹۴۱ء میں حضور نے ارشاد فرمایا کہ شوریٰ میں لجنہ اماء اللہ کی طرف سے ایک نمائندہ شامل ہوا کرے چنانچہ آج تک اس پر عمل ہوتا ہے لجنہ کے سب سے پہلے نمائندے جو ۱۹۴۲ء میں مقرر ہوئے بابوعبدالحمید صاحب آڈیٹر تھے جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت پر ۱۹۴۷ء تک یہ خدمت بجالاتے رہے انکے بعد میاں غلام محمد صاحب اختر ۔ مولوی غلام باری صاحب سیف اور مولوی محمد احمد صاحب جلیل کو بھی شوریٰ میں نمائندگی کا موقعہ ملا۔
۲۱۳۔ ملاحظہ ہو رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۲ء صفحہ۴۵۔
۲۱۴۔ سلسلہ احمدیہ صفحہ۳۷۳۔۳۷۴ (از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے)
۲۱۵۔ h2] gat[ الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹
۲۱۶۔ گیانی صاحب موصوف جو ۱۹۲۸ء سے اس وقت تک سلسلہ کی تقریری و تحریری خدمات میں مصروف ہیں۔ ۱۹۲۶ء میں داخل احمدیت ہوئے تھے۔
۲۱۷۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۰۱۔۲۰۴۔
۲۱۸۔ ’’جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات‘‘ صفحہ ۵۲ (از حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ)
۲۱۹۔ الفضل ۴ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۲۰۔ الفضل ۴ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۲‘۲۸~/~۲۵ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۵۔
۲۲۱۔ الفضل ۱۶ نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۶۔۸۔
۲۲۲۔ وکالت تبشیر تحریک جدید کی طرف سے تبلیغ ہدایت کا فرانسیسی زبان میں بھی ترجمہ ہوچکا ہے اور مناسب وقت میں شائع کردیا جائے گا۔
۲۲۳۔ بعد کے ایڈیشنوں میں کئی مقامات پر آپ کے قلم سے اضافہ و ترمیم ہوئی۔
۲۲۴۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۷۔
۲۲۵۔ الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔ بمنہ کا نام حضور ہی کا تجویز فرمودہ ہے (الفضل ۸ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۶)
۲۲۶۔ ]2h [tag ’’الازہار لذوات الخمار‘‘ صفحہ ۶۸۔ ۷۲ (مرتبہ حضرت سیدہ ام متین صاحبہ) سن اشاعت اپریل ۱۹۴۶ء۔
۲۲۷۔ الفضل ۱۱ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔
۲۲۸۔ رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۸۔
۲۲۹۔ الفضل ۸ فروری ۱۹۶۳ء صفحہ ۶۔
۲۳۰۔ الحکم ۲۱ مارچ ۱۹۶۵ء صفحہ ۳۔ ایضاً مصباح یکم جون ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۔ اس مدرسہ میں مولوی ارجمند خاں صاحب کو منطق پڑھانے اور ماسٹر محمد طفیل خان صاحب کو تاریخ وجغرافیہ پڑھانے اور ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب کو حفظان صحت پر لیکچر دینے کا موقعہ ملا۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کا بیان ہے کہ پردہ کے پیچھے کھڑے ہوکر ہم لیکچر دیا کرتے تھے مکان غالباً حضرت سارہ بیگم صاحبہؓ والا چوبارہ تھا۔ جو مسجد مبارک کی گلی کے اوپر چھت پر ہے۔ اس مدرسہ میں حضور کی بیگمات بھی طالبات کی حیثیت سے شامل ہوتی تھیں۔
۲۳۱۔ الفضل ۲۷ مئی ۱۹۴۷ء صفحہ ۶۔ مصباح ابتداًء حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کی ادارت میں نکلتا تھا۔ ان کے بعد مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر ایک عرصہ تک ایڈیٹر رہے۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۱ء تک امتہ اللہ خورشید صاحبہ (بنت مولانا ابوالعطاء صاحب سابق مبلغ بلاد عربیہ) کی زیر ادارت نکلتا رہا۔ اور اب ان کی وفات کے بعد امتہ الرشید شوکت صاحبہ (اہلیہ جناب ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ احمدیہ) اس کی مدیرہ ہیں۔
۲۳۲۔ لائبریری کی تجویز ۱۹۲۴ء میں حضرت امتہ الحی صاحبہؓ کی وفات کے بعد ہوئی۔ ۱۹۲۵ء میں لجنہ اماء اللہ کی پرجوش کارکن حضرت ام دائود صاحبہؓ کی تحریک پر لائبریری کی مہتممہ حضرت سیدہ ام طاہر صاحبہؓ تجویز ہوئیں۔ اور حضرت ام المومنینؓ نے کتابیں رکھنے کے لئے ایک الماری مستعار عنایت فرمائی۔ ۳۰ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو مرکزی لجنہ نے فیصلہ کیا کہ لائبریری کے جمع شدہ فنڈ سے کتابیں خریدی جائیں۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد اس کی افتتاحی تقریب منعقد کی گئی۔ (ملاحظہ ہو حضرت ام طاہر صاحبہؓ کا مضمون مطبوعہ ’’مصباح‘‘ ۱۵ فروری ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۶۔ ۱۷)
۲۳۳۔ رپورٹ کار گزاری لجنہ اماء اللہ مرکزیہ از یکم اکتوبر ۱۹۶۰ء تا ستمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۱۔
۲۳۴۔ مصباح یکم اگست ۱۹۲۸ء صفحہ ۲۔
۲۳۵۔ مصباح ۱۵۔ اپریل ۱۹۳۸ء صفحہ ۳۔
۲۳۶۔ الفضل ۲۹۔ اپریل ۱۹۴۴ء صفحہ ۳۔
۲۳۷۔ مصباح مارچ ۱۹۴۶ء صفحہ ۱۷۔
۲۳۸۔ رپورٹ کارگزاری لجنات اماء اللہ یکم اکتوبر ۱۹۶۲ء تا ۳۰ ستمبر ۱۹۶۳ء صفحہ ۱۲۔ ۲۵۔
۲۳۹۔ اخبار ’’تنظیم‘‘ امرتسر ۲۸۔ دسمبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۵۔۶ بحوالہ ’’تاثرات قادیان‘‘ صفحہ ۱۷۳ (از ملک فضل حسین صاحب طبع اول)
۲۴۰۔ بحوالہ تاثرات قادیان صفحہ ۲۳۰۔ ۲۳۱۔
۲۴۱۔ الفضل ۱۱۔ جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۲۴۲۔ الفضل ۲۴۔ اگست ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۴۳۔ الفضل ۱۷`۲۰ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۴۴۔ الفضل ۹ فروری ۱۹۲۲ء صفحہ ۲۔
۲۴۵۔ الفضل ۲۴۔ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ ۸۔
۲۴۶۔ الفضل ۲۲۔ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۴۷۔ الفضل ۱۲۔ جون ۱۹۲۲ء صفحہ ۴۔
۲۴۸۔ پیسہ اخبار بحوالہ الفضل ۱۰۔ اگست ۱۹۲۲ء صفحہ ۴۔
۲۴۹۔ الفضل ۲۔ نومبر ۱۹۲۲ء میاں صاحب کی برات (جس میں حضرت مولوی شیر علی صاحب‘حضرت حافظ روشن علی صاحب وغیرہ اکابر سلسلہ بھی شامل تھے) ۲۰ نومبر ۱۹۲۲ء کلکتہ گئی تھی (الفضل ۲۰۔ نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۱)
۲۵۰۔ الفضل ۱۲ جون ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۵۱۔ الفضل ۲۴ اپریل ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۔
۲۵۲۔ الفضل ۸ مئی ۱۹۲۲ء صفحہ ۲۔
۲۵۳۔ الفضل ۱۴ اگست ۱۹۲۲ء صفحہ ۲۔
۲۵۴۔ اسی سال ماسٹر محمد حسن صاحب آسان دہلوی کا دہلی میں ایک اہم مباحثہ مولوی عبدالحق صاحب ودیارتھی (مبلغ احمدیہ انجمن اشاعت اسلام) سے ہوا۔ (الفضل ۲۔ اکتوبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۸)
۲۵۵۔ الفضل ۲۸/۲۵ ستمبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۲ (یہ مباحثہ چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی کوٹھی میں ہوا) ایضاً الفضل ۹ اکتوبر ۱۹۲۲ء صفحہ۴۔
۲۵۶۔ الفضل ۳۰۔ نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۱۰۔ ۴ دسمبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۷۔ ۸۔
‏rov.5.21
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
چوتھا باب (فصل اول)
تحریک شدھی کے خلاف محاذ جنگ۔ مجاہدین احمدیت کے کارہائے نمایاں اور اسلام کی شاندار فتوحات
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
(جنوری ۱۹۲۳ء تا دسمبر ۱۹۲۳ء بمطابق جمادی الاول ۱۳۴۱ھ تا جماد الاخر ۱۳۴۲ھ
شدھی تحریک کا پس منظر
ہندوستان۱ میں اسلامی حکومت کی بنیاد تو فاتح سندھ محمد بن قاسم کے ہاتھوں ۷۱۲ء میں رکھی گئی۔ مگر اسلام کا پیغام اس برصغیر میں عرب تاجر اور سیاح برسوں پہلے پہنچا چکے تھے اور اس کی وسیع تبلیغ و اشاعت اکابر اولیاء و صوفیاء و صلحائے امت نے کی۔ ان بزرگوں کی اخلاقی قوت‘ان کے خوارق و کرامات اور ان کے زبردست روحانی اثرات کی وجہ سے ہندوستان کی کئی بت پرست قومیں راجپوت‘جاٹ‘میواتی وغیرہ اس کثرت سے اسلام میں داخل ہوئیں کہ ہر طرف مسلمان ہی مسلمان نظر آنے لگے۔
مگر جیسا عظم الشان یہ داخلہ تھا ویسے وسیع پیمانے پر اس کی نگہداشت اور تعلیم و تربیت کا انتظام نہ ہو سکا۔ اور بعض ہندو قومیں اسلامی تعلیم و تربیت سے بالکل ہی محروم رہیں۔ چونکہ وہ اسلام کو سچا سمجھ کر مسلمان ہوئی تھیں اس لئے اپنے آپ کو سمجھتی اور کہتی تو مسلمان ہی رہی اور ہندو بھی انہیں مسلمان ہی خیال کرتے رہے لیکن اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے اور مسلمان کہلانے کے سوا ان کا رہنا سہنا‘کھانا پینا‘بول چال‘پہناوا‘برتائو اور رسم و رواج سب ہندوانہ تھے۔
یہاں تک کہ نام بھی ہندوانہ کام بھی ہندوانہ اور ماحول بھی ہندوانہ۔ ان کے ہاں شادی کے موقعہ پر قاضی جی بھی بلائے جاتے تھے اور پنڈت جی بھی یہی حالت غمی کے موقع پر تھی۔ ان قوموں کے مردے دفن بھی کئے جاتے تھے اور جلائے بھی جاتے تھے۔
ان کے کئی دور اسی حالت میں گزر چکے تھے۔ وہ تو ناواقفی کی وجہ سے اپنی اس غیر اسلامی حالت کو اسلامی حالت سمجھ کر مطمئن تھیں۔ اور مسلمان اپنی غفلت و بے پروائی کے باعث۔ اور ان قوموں کا مدتہائے مدید سے اس حالت پر قائم و برقرار رہنا بھی صرف اس لئے ہو سکا کہ یہ جہاں کہیں بھی تھیں سناتنی ہندوئوں میں گھری ہوئی تھیں۔ اور سناتنی ہندو کسی غیر مذہب کو اپنے مذہب میں داخل و شامل کرنا خود مذہبی احکام کی رو سے جائز نہیں سمجھتے۔ اور اس کے سخت مخالف تھے۔ اس لئے انہوں نے سودی کاروبار کے ذریعہ سے ان قوموں کا خون تو جہاں تک چوس ملا خوب چوسا۔ لیکن مذہبی لحاظ سے ان کے معاملات میں نہ کوئی مداخلت کر سکتے تھے اور نہ انہوں نے کوئی مداخلت کی۔ ہاں جب انیسویں صدی عیسوی کے نصف آخر میں پنڈت دیانند سرسوتی کی کوشش سے سناتنی ہندوئوں کے خلاف ایک نیا فرقہ آریہ ظہور میں آیا تو وہ غیر مذاہب والوں کو اپنے مذہب میں شامل کر لینے کا قائل اور اس کے لئے بڑا جوش و خروش رکھنے والا تھا۔ چنانچہ اس نے قوت پاتے ہی شدھی یعنی غیر مذاہب کے لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
ایسے نئے‘تازہ دم اور جوشیلے فرقہ کی متجسس نظروں سے صدیوں پرانی مالکانہ راجپوت کہلانے والی قومیں کہاں مخفی رہ سکتی تھیں۔ جو یو۔ پی کے متعدد شہروں اور ان کے نواحی علاقوں میں کثرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔ اس فرقہ نے کام تو ملکانے راجپوتوں میں بھی شروع کر دیا تھا۔ مگر بہت احتیاط بڑی ہوشیاری اور نہایت آہستہ روی سے وہ ان قوموں کو قابو میں لانے کے لئے سالہا سال تک دو حربے ان پر چلاتا رہا۔ پہلا یہ کہ مسلمان بادشاہوں نے اب سے صدیوں پہلے تمہارے دادوں پر دادوں کو زبردستی ہندو دھرم سے الگ کرکے مسلمان بنا لیا تھا۔ لیکن اب تو کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ وہ لوگ جن کے بزرگوں سے جبراً ان کا دھرم چھڑوایا گیا تھا وہ اپنے بزرگوں کے دھرم میں نہ آجائیں؟ دوسرا حربہ مذہب اسلام کو بری سے بری اور بھیانک شکل میں دکھانا اور اس پر زیادہ سے زیادہ نفرت دلانے والے گھنائونے الزام لگانا تھا۔
یہ خطرناک حربے جن قوموں پر چلائے جا رہے تھے اسلامی تعلیم و تربیت تو ان کے ان بزرگوں کو بھی حاصل نہیں ہو سکی تھی۔ جو اب سے پہلے کسی زمانے میں مسلمان ہوئے تھے۔ انہیں صرف اسلام قبول کرنے اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے اور مسلمان سمجھے جانے کا احساس تھا اور یہ ان کا سچا اور گہرا احساس ہی تھا جس نے باوجود اسلامی تعلیم حاصل نہ ہو سکنے کے انہیں بھی آخر دم تک اپنے حال پر قائم رکھا اور اسی کے اثر سے ان کی کئی نسلیں بھی اپنے حال پر قائم و برقرار رہتی ہوئی گزر گئیں۔ لیکن مرور زمانہ کے ساتھ یہ احساس بھی کم ہوتے ہوتے بہت کم رہ گیا اور انیسویں صدی کے آخر میں جب بالکل مٹ گیا یا مٹنے کے قریب ہو گیا۔ تو اب کون سی چیز ملکانہ راجپوتوں کو ان کے گزرے ہوئے بزرگوں کی طرح اپنے حال پر قائم رکھ سکتی تھی؟
مسلمانوں نے نہ تو کبھی پہلے ان کی طرف توجہ کی تھی۔ اور نہ وہ اب اس کی ضرورت سمجھتے تھے آریوں نے میدان بالکل خالی پایا۔ اور اسلام کے خلاف برسوں زہریلا اثر ان میں پھیلایا۔ اور جب تمام علاقوں کی اچھی طرح دیکھ بھال اور جانچ پڑتال کرکے اطمینان کر لیا۔ کہ ان کے دونوں حربے کارگر ثابت ہوئے ہیں اور تمام مختلف علاقوں کے چھوٹے بڑے سارے میدان ہموار و صاف ہو چکے ہیں تو انہوں نے اپنے کام کو اعلیٰ سے اعلیٰ پیمانے پر پہنچانے کا پورا پورا عزم کر لیا اور صوبہ یو۔ پی کے اضلاع ہردوئی۔ شاہ جہان پور‘فرخ آباد‘بدایوں‘متھرا‘ایٹہ‘اٹاوہ‘آگرہ‘مین پوری‘علی گڑھ اور ریاست ہائے جیسور اور بھرت پور اور تروا وغیرہ سب ان کے عزم بالجزم کی زد میں آگئے۔ اور شدھی کا سلسلہ بڑے جوش و خروش اور دھوم دھام سے جاری ہو گیا۔
مسلمان علماء کا افسوسناک طریق عمل ان اضلاع اور ان کے ماحول میں بسنے والے علماء اور مسلمانوں کے مشہور ادارہ ندوۃ العلماء نے شدھی کی اس تحریک شدید کے مقابلہ و تدارک اور انسداد کی کوشش سے متعلق جس مجرمانہ غفلت اور بے حسی کا مظاہرہ کیا۔ اس کی تفصیل علامہ شبلی کے شاگرد رشید و سیرت نگار مولانا سید سلیمان صاحب ندوی کے مندرجہ ذیل بیان سے بخوبی معلوم ہو سکتی ہے۔ آپ اپنی کتاب ’’حیات شبلی‘‘ میں رقم طراز ہیں۔
’’۱۹۰۸ء میں یک بہ یک یہ راز طشت از بام ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ندوۃ العلماء نے اگرچہ ابتداء ہی سے اشاعت اسلام کو اپنے مقاصد میں داخل کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ تاہم اب تک اس نے عملی طور پر اس کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں کی تھی۔ لیکن اب وہ حالت پیش آگئی کہ خاموش رہنا مشکل تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ندوہ کی مجلس اشاعت اسلام کے معتمد جناب مولانا شاہ سلیمان صاحب پھلواروی تھے۔ اور مولانا (شبلی) کے خیال میں وہ کام نہیں کر رہے تھے۔ اس لئے مولانا دو برس تک عجیب شش و پنج میں رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زمانے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا۔ جس سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر اس آگ میں کود پڑے۔ انہیں اطلاع ملی کہ شاہ جہانپور کے قریب ایک مسلمان زمیندار راجپوت مرتد ہوا چاہتا ہے یہ سننا تھا کہ وہ بے قرار ہو گئے مولانا (شبلی) نے اس واقعہ کا ذکر ۔۔۔۔۔۔۔۔ خود کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ فرماتے ہیں دو سال ہوئے کہ شاہ جہانپور سے ایک خط میرے سفید خاں سوداگر کا آیا کہ شاہ جہانپور سے آٹھ کوس پر ایک گائوں جمال پور ہے وہاں کے رئیس راجپوت جو مسلمان ہیں وہ ہندو ہونا چاہتے ہیں آریہ وہاں پہنچ گئے ہیں۔ ان کو ہندو کرنا چاہتے ہیں آپ جلد آئیے اور مدد کیجئے۔ انہوں نے اس کے ساتھ ہی دہلی کی انجمن ہدایت الاسلام کے مولانا عبدالحق حقانی کو لکھا وہ وہاں سے تشریف لائے تھے اور میں ندوہ سے گیا۔ جس وقت میں یہاں سے چلا ہوں میری جو حالت تھی یہ طلبہ ندوہ کے جو یہاں بیٹھے ہیں وہ اس کے شاہد ہوں گے کہ میں نے اس وقت کوئی گالی نہیں اٹھا رکھی تھی۔ جو میں نے ان ندوہ والی کو نہ سنائی ہو گی کہ اے بے حیائو! اور اے کم بختو! ڈوب مرو یہ واقعات پیش آئے ہیں۔ ندوہ کو آگ لگا دو اور علی گڑھ کو بھی پھونک دو یہی الفاظ میں نے اس وقت کہے تھے اور آج بھی کہتا ہوں۔ اس وقت نہایت افسوس میں میں یہاں سے گیا تھا۔ وہاں جا کر میں نے پوچھا کہ کیا واقعہ ہے لوگوں نے یہ بیان کیا کہ آریہ اس گائوں میں آئے ہوئے ہیں اور وہ گائوں کے نو مسلم راجپوتوں کو ہندو بنانا چاہتے ہیں۔ مسلمان علماء کو بلوایا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک کوس پر خیمہ کھڑا کیا گیا ہے تین سو روپے کھانے میں صرف ہوئے ہیں۔ چندہ وغیرہ کیا گیا ہے۔ وہ نو مسلم بیچارے یہ کہتے تھے کہ مناظرہ جانتے نہیں۔ پڑھے لکھے نہیں۔ آپ ہمارے اس گائوں میں آئیے اور یہاں آکر ہم کو سمجھائیے جو باتیں ہمارے دل میں ہوں گی ہم آپ سے کہیں گے۔ آپ ان کا جواب دیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر ایک شخص بھی راضی نہ ہوا کہ گائوں میں جائے۔ اس بات کا کوئی ڈر نہیں تھا کہ وہ لوگ خدانخواستہ فوجداری کریں گے یا ماریں گے کیونکہ پولیس اور تحصیل دار وہاں موجود تھے کہ امن و امان قائم رہے۔ میں نے بالاخر یہ کہا کہ بھائیو! مجھے تو پالکی میں ڈال کر وہاں لے چلو میں چلتا ہوں لیکن کوئی شخص نہیں لے گیا۔ غرض تین دن تک میں وہاں پڑا رہا۔ بالاخر ان لوگوں نے یہ اعلان کر دیا کہ ہم ہندو ہیں۲۔
اس افسوس ناک واقعہ کے دو سال بعد علامہ شبلی نے ’’شدھی کے مقابلہ‘‘ اور اشاعت اسلام کی تجویز کے لئے ۶۔ ۷۔ ۸/ اپریل ۱۹۱۲ء کا اجلاس لکھنو میں منعقد کیا۔ اس اجلاس میں علامہ شبلی کی دعوت پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود ایدہ اللہ تعالیٰ اور خواجہ کمال الدین صاحب نے بھی شرکت فرمائی۔ مگر علمائے کرام نے انسداد شدھی کے بارے میں کوئی عملی کارروائی کرنے اور تدابیر سوچنے کی بجائے اپنا سارا زور اس مخالفت میں لگا دیا کہ قادیانی کیوں بلوائے گئے ہیں۳؟ چنانچہ جناب سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں۔ ’’مولانا یہ چاہتے تھے کہ اشاعت کے کام تمام فرقے مل کر کریں۔ اس لئے مرزا بشیر الدین محمود احمد (صاحب) جو اب خلیفہ قادیان اور خواجہ کمال الدین صاحب تک کی شرکت سے انکار نہیں کیا گیا اس پر اسی جلسہ کے دوران میں مولانا پر یہ الزام رکھا گیا کہ انہوں نے قادیانیوں کو جلسہ میں کیوں شریک کیا؟ اور ان کو تقریر کی اجازت کیوں دی۔ مگر مولانا شروانی کی ثالثی سے یہ بلا ٹل گئی‘‘۴۔
جناب سید سلیمان صاحب ندوی کی تحریر کے مطابق علامہ شبلی کے مدنظر ’’اشاعت و حفاظت اسلام‘‘ کی ایک اہم تجویز تھی۔ جس پر وہ اجلاس لکھنو کے بعد کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن عملاً اگر کچھ ہوا تو صرف یہی کہ چند ماہ بعد وہ ندوہ سے مستعفی ہو گئے۔ چنانچہ سید سلیمان صاحب خود لکھتے ہیں کہ اس تجویز پر عمل کا وقت آیا ہی تھا کہ مولانا بیمار اور پراگندہ خاطر ہو کر مولوی عبدالسلام صاحب اور سیرت کو لے کر بمبئی روانہ ہو گئے اور دو چار ماہ کے غور و فکر کے بعد جولائی ۱۹۱۲ء کو ندوہ سے مستعفی ہو کر سبکدوش ہو گئے اور کام کی ساری تجویزیں درہم برہم ہو کر رہ گئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون‘‘۵۔
مختصر یہ کہ علامہ شبلی اور ان کے ساتھی برسوں سے ارتداد کے مقابلہ کی جو تجویز کر رہے تھے وہ محض خواب و خیال بن چکی تھی اور ان کے علاوہ دوسرے علماء کو اپنے فرضی مشاغل سے فرصت نہ تھی نتیجہ یہ ہوا کہ شدھی کی آگ ۱۹۲۳ء کے آغاز میں پوری شدت سے بھڑک اٹھی اور علی گڑھ سے آگرہ تک اور فرخ آباد سے ریاست الور تک کے علاقے اس کی زد میں آگئے۔
چوہدری افضل حق صاحب (مفکر احرار) نے علماء کی غفلت و بے حسی پر اظہار تاسف کرتے ہوئے لکھا۔
’’آج سے پہلے اسلام کو تبلیغی جماعت سمجھا جاتا تھا۔ مسلمان علماء اپنی خدمات کو جا بیجا ہر جگہ بیان کرتے تھے حالانکہ ان کی تمام کوششیں مسلمانوں کو کافر بنانے میں صرف ہوتی رہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جہاں اسلام کے سب سے بڑے دعویدار موجود تھے۔ ان ہی کے دروازوں پر مسلمان مرتد ہو رہے ہیں اور ان کے بنائے کچھ نہیں بنتی۔ جن کے ہندوستان بھر میں کفر کے فتویٰ کام کرتے تھے ان کا اپنا عمل قریب کے مسلمانوں پر کچھ اثر نہ ڈال سکا تین چار سو برس سے ایک قوم اسلام کے دروازے کے اندر داخل ہوئی مسلمانوں کو متوجہ نہ پا کر آج پھر واپس چلی گئی ایک مسخرہ نے سچ کہا کہ ’’علماء کا کام ہی مسلمانوں کو کافر بنانا ہے‘‘۔ سو انہوں نے مالکانہ راجپوتوں میں اپنی کامیاب تبلیغ کر دی ہے حضرات فرنگی محل‘حضرات دیوبند‘حضرات دہلوی کی صد سالہ اسلامی تبلیغ کا نتیجہ دیکھو کہ ان ہی اضلاع کے گرد و نواح میں ارتداد کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔ ہمارے علماء کے لئے اس میں عبرت ہے ان کے لئے ندامت سے گردن جھکا لینے کا وقت ہے اس فتنہ و ارتداد کی تاریخ اغیار کے لئے دلچسپ اور مسلمانوں کے لئے باعث شرم ہے۔‘‘۶
شردھانند کی طرف سے ہندوئوں کو میدان عمل میں آنے کی کھلم کھلا دعوت
مسلمانان ہند خدا جانے کب تک خواب غفلت میں پڑے رہتے کہ وسط مارچ ۱۹۲۳ء میں مشہور آریہ سماجی لیڈر شردھانند نے جو اس تحریک
کے پرجوش علمبردار تھے اور سب سے بڑے لیڈر تھے (اور جنہیں اس سے پہلے مسلمان علماء نے ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘ کے خیال سے نہ صرف ’’خلافت کانفرنس‘‘ کے نائب صدر ہونے کا موقعہ دیا تھا۷ بلکہ جامع مسجد دہلی کے منبر پر بٹھا کر تقریر کرائی تھی۸) ہندوئوں سے چندہ کی اپیل کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ نواح آگرہ میں راجپوتوں کو تیز رفتاری سے شدھ کیا جا رہا ہے اور اب تک قریباً چار ہزار تین سو راجپوت ملکانے‘گوجر اور جاٹ ہندو ہو چکے ہیں۔ نیز کہا ’’ایسے لوگ ہندوستان کے ہر حصے میں ملتے ہیں۔ یہ پچاس ساٹھ لاکھ سے کم نہیں اور اگر ہندو سماج ان کو اپنے اندر جذب کرنے کا کام جاری رکھے تو مجھے تعجب نہ ہو گا کہ ان کی تعداد ایک کروڑ تک ثابت ہو جائے‘‘۹۔
مہاراجہ کشمیر کی پشت پناہی
شردھانند کے اس اعلان کے ساتھ آریہ اخبار کیسری (۱۲/ مارچ ۱۹۲۳ء) میں یہ خبر چھپی کہ مہاراجہ جموں و کشمیر نے ساڑھے چار لاکھ ملکانہ راجپوتوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے مسئلہ پر کامل غور و خوض کے بعد پنجاب کے سناتن دھرمی پنڈتوں کو دعوت دی ہے کہ وہ اس مسئلہ پر کشمیری پنڈتوں سے گفت و شنید کریں‘‘۱۰۔
مسلمانان ہند کے لئے نازک ترین دوران خبروں کے منظر عام پر آنا ہی تھا کہ ہندوستان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک مسلمانوں میں غم و افسوس کی لہر دوڑ گئی اور ان کے دل پاش پاش ہو گئے اور حواس پراگندہ اور انہیں یقین ہو گیا۔ کہ ہندو قوم شدھی کے بل بوتے پر ان کا نام مٹا دینے پر تلی ہوئی ہے۔ اور ہندوستان میں ان کی قومی زندگی اور قومی ہستی یقینی طور پر خطرہ میں ہے۔
شدھی کے پیچھے ہندو راج کے منصوبے
اس خطرناک حملہ کی شدت کا اندازہ لگانے کے لئے آریہ کے وہ بیانات بھی کافی رہنمائی کرتے ہیں۔ جو بعد کو ان کی زبانوں سے خود بخود جاری ہو گئے اور جن میں انہوں نے کھلا اعتراف کیا کہ شدھی کی تحریک صرف ملکانہ کے مسلم راجپوتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو ہندو دھرم کی چوکھٹ پر لا ڈالنے کے لئے اٹھائی گئی ہے۔ چنانچہ ایک آریہ سماجی راجکمار ایٹھی نے دہلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا ’’بلا شدھی ہندو مسلم ایکتا (اتحاد) نہیں ہو سکتی۔ جس وقت سب مسلمان شدھ ہو کر ہندو ہو جائیں گے تو سب ہندو ہی ہندو نظر آئیں گے پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کو آزادی سے نہیں روک سکتی‘‘۱۱
سوامی و چارانند نے گوروکل کانگڑی کی سلور جوبلی کے موقعہ پر تقریر کرتے ہوئے کہا۔ ’’سب دھرموں سے ہمارا دھرم پرانا ہے تو ہمارے دھرم کے سامنے کسی کو ادھیکار (حق) نہیں کہ وہ شدھ کرے۔ سوارج کے لئے ہندو مسلم ایکتا (اتحاد) ضروری ہے لیکن ہم سچی ایکتا شدھی میں مانتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب تک بھارت ورش کے مسلمان اور عیسائی شدھ نہیں ہو جائیں گے اس وقت تک تم کو سوارج نہیں مل سکتا‘‘۱۲۔ اسی موقعہ پر پنڈت لوک ناتھ جی نے کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’اگر اس چھری کو جو گئو کی گردن پر چل رہی ہے۔ بند کرنا چاہتے ہو تو اس کا علاج شدھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اگر آپ ہمیشہ کے لئے کانٹے دار درخت کو مٹانا چاہتے ہیں تو اس کی جڑ نکال دو‘‘۱۳۔
اسی طرح ایک ہندو شاعر نے اپنے قومی نصب العین کو ان لفظوں میں دہرایا ~}~
کام شدھی کا کبھی بند نہ ہونے پائے
بھاگ سے وقت یہ قوموں کو ملا کرتے ہیں
ہندوئو! تم میں ہے گر جذبہ ایماں باقی
رہ نہ جائے کوئی دنیا میں مسلماں باقی۱۴
مسلمان پریس کا شور و فغاں
المختصر شدھی کی خوفناک تحریک نے مسلمانان ہند کو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کر دیا۔ اور اسی لئے مسلمان پریس کو سوامی شردھانند اور ان کے ساتھیوں کے عزائم کو دیکھ کر بالاتفاق لکھنا پڑا کہ ملک کے تمام مسلمان فرقے اگر اس نازک موقعہ پر متحد ہو کر اس کے انسداد کی فوری جدوجہد نہ کریں گے تو ان کا تباہ ہونا قطعی اور یقینی ہے۱۵۔ خصوصاً اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر کے ایڈیٹر مولوی عبداللہ منہاس صاحب نے ۸/ مارچ ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں ’’علمائے اسلام کہاں ہیں؟‘‘ کے عنوان سے ایک پرزور مضمون لکھا۔ جس میں حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ وہ اس نازک موقعہ پر کیوں خاموش ہیں۱۶۔
حضرت خلیفہ ثانی کی طرف سے شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان
مسلم پریس نے شدھی کے خلاف آواز تو مارچ ۱۹۲۳ء میں بلند کی مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۹۲۳ء کے آغاز میں ہی اس فتنہ کی طرف توجہ فرمائی اور یہ معلوم ہوتے ہی کہ ایک قوم کی قوم ارتداد کے لئے تیار ہے۔ فوراً دفتر کو ہدایت فرمائی کہ پوری تحقیق کریں۔ چنانچہ آپ کی ہدایت کے مطابق پہلے مختلف ذرائع سے اس خبر کی تصدیق کی گئی۔ ضروری حالات معلوم کرنے کے بعد دوسرا قدم یہ اٹھایا گیا کہ فروری ۱۹۲۳ء میں صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے اور ایک اور احمدی کو علاقہ ملکانہ میں ابتدائی سروے اور فراہمی معلومات کے لئے بھجوا دیا۔ صوفی عبدالقدیر صاحب نے واپس آکر مفصل بتایا کہ حالت بہت مخدوش ہے اور فوری تدارک کی ضرورت ہے۱۷۔
اس رپورٹ پر حضور نے شدھی کا وسیع پیمانہ پر مقابلہ کرنے کے لئے ایک زبردست سکیم تیار کی اور جیسا کہ شیخ محمد احمد صاحب مظہر ایڈووکیٹ کا بیان ہے اس اولوالعزم امام نے یہاں تک تہیہ کر لیا کہ میری کل جماعت کی جائداد تخمیناً دو کروڑ روپیہ کی ہو گی اگر ضرورت پڑی تو یہ سب املاک و اموال خدا کی راہ میں وقف کرنے سے میں اور میری جماعت دریغ نہ کریں گے۱۸۔
چنانچہ حضور نے ۷/ اپریل ۱۹۲۳ء کو اعلان فرمایا کہ جماعت احمدیہ فتنہ ارتداد کے خلاف جہاد کا علم بلند کرنے کی غرض سے ہر قربانی کے لئے تیار ہو جائے۱۹۔ اس کے بعد ۹/ مارچ ۱۹۲۳ء کو خطبہ جمعہ میں تحریک فرمائی کہ فتنہ ارتداد کے مٹانے کے لئے فی الحال ڈیڑھ سو احمدی سر فروشتوں کی ضرورت ہے۔ جو اپنے اور اپنے لواحقین کی معاش کا فکر کرکے میدان عمل میں آجائیں چنانچہ آپ نے فتنہ ارتداد کی وسعت بیان کرتے اور جماعت کو اپنی سکیم کے ایک حصہ سے آگاہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
’’ہمیں اس وقت ڈیڑھ سو آدمیوں کی ضرورت ہے جو اس علاقہ میں کام کریں اور کام کرنے کا یہ طریق ہو کہ اس ڈیڑھ سو کو تیس تیس کی جماعتوں پر تقسیم کر دیا جائے اور اس کے چار حصہ بیس بیس کے بنائے جائیں۔ اور تیس آدمیوں کو ریز رو رکھا جائے۔ کہ ممکن ہے کوئی حادثہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس ڈیڑھ سو میں سے ہر ایک کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ فی الحال تین مہینہ کے لئے زندگی وقف کرنی ہو گی ۔۔۔۔۔۔۔ ہم ان کو ایک پیسہ بھی خرچ کے لئے نہ دیں گے۔ اپنا اور اپنے اہل و عیال کا خرچ انہیں خود برداشت کرنا ہو گا ۔۔۔۔۔ سوائے ان لوگوں کے جن کو ہم خود انتظام کرنے کے لئے بھیجیں گے۔ ان کو بھی جو ہم کرایہ دیں گے وہ تیسرے درجہ کا ہو گا۔ چاہے وہ کسی درجہ اور کسی حالت کے ہوں اور اخراجات بہت کم دیں گے۔ ان لوگوںکے علاوہ زندگی وقف کرنے والے خود اپنا خرچ آپ کریں گے۔ اپنے اہل و عیال کا خرچ خود برداشت کریں گے۔ البتہ ڈاک کا خرچ یا وہاں تبلیغ کا خرچ اگر کوئی ہو گا۔ تو ہم دیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے لئے جماعت کو پچاس ہزار روپیہ دینا ہو گا۔ ایسے کاموں کے لئے جو تبلیغ وغیرہ کے ہوں گے۔ باقی مبلغین اسی رنگ میں جائیں گے وہاں اپنے اخراجات خود اٹھائیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو لوگ ملازمتوں پر ہیں وہ اپنی رخصتوں کا خود انتظام کریں اور جو ملازم نہیں اپنے کاروبار کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہاں سے فراغت حاصل کریں اور ہمیں درخواست میں بتائیں کہ وہ چار سہ ماہیوں میں سے کس سہ ماہی میں کام کرنے کے لئے تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی انتظام کے ماتحت ہم سخت انتظام کریں گے اور جو ہیڈ بنائے جائیں گے ان کی پوری اطاعت کرنی ہو گی۔ ممکن ہے کہ بعض اوقات افسر سختی بھی کر بیٹھیں اور مار بھی بیٹھیں لیکن جو ماتحت ہو کے جائیں گے ان کا فرض ہو گا کہ وہ اپنے تمام ارادوں کو چھوڑ کر جائیں۔ اور تمام سختیوں کے مقابلے میں کام کریں اور افسر نے اگر ناواجب تکلیف دی ہو گی تو کام کے ختم ہونے کے بعد رپورٹ کر سکتے ہیں مگر اس وقت کام کرنا ہو گا۔ ماتحتوں کو بہرحال افسروں کی اطاعت کرنی اور ان کا حکم ماننا ہو گا۔ اگر وہ زیادتی کریں گے تو خدا تعالیٰ ان کو سزا دے گا صبر کا اجر ملے گا اور بعد میں رپورٹ کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سکیم کے ماتحت کام کرنے والوں کو ہر ایک اپنا کام آپ کرنا ہو گا۔ اگر کھانا آپ پکانا پڑے گا تو پکائیں گے اگر جنگل میں سونا پڑے گا تو سوئیں گے جو اس محنت اور مشقت کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں وہ آئیں۔ ان کو اپنی عزت اپنے خیالات قربان کرنے پڑیں گے ایسے لوگوں کی محنت باطل نہیں جائے گی۔ ننگے پیروں چلیں گے۔ جنگلوں میں سوئیں گے۔ خدا ان کی اس محنت کو جو اخلاص سے کی جائے گی ضائع نہیں کرے گا۔ اس طرح جنگلوں میں ننگے پیروں پھرنے سے ان کے پائوں میں جو سختی پیدا ہو جائے گی وہ حشر کے دن جب پل صراط سے گزرنا ہو گا ان کے کام آئے گی مرنے کے بعد ان کو جو مقام ملے گا وہ راحت و آرام کا مقام ہو گا۔ اور یہ وہ مقام ہو گا جہاں رہنے والے نہ بھوکے رہیں گے نہ پیاسے یہ چند دن کی بھوک اور چند دن کی پیاس اس انعام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے‘‘۲۰۔
مسلمانان ہند کو متحدہ کام کرنے کی دعوت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ایک طرف جماعت کو میدان جہاد میں آنے کی ہدایت دی تو دوسری طرف مسلمانان ہند کو متحدہ کام کرنے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا۔
’’جب تک ایک لمبی اور باقاعدہ جنگ نہ کی جائے گی (سعی اور تبلیغ کی نہ تلوار کی) اس وقت تک ان علاقوں میں کامیابی کی امید رکھنا فضول ہے۔ اس کام پر روپیہ بھی کثرت سے خرچ ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہندو اپنی پرانی کوششوں کے باوجود دس لاکھ روپیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں مسلمانوں کو نیا کام کرنا ہے ان کے لئے بیس لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے اس اعلان کے ساتھ ہی حضور نے اپنی طرف سے پیشکش فرمائی کہ اگر دوسرے لوگ بقیہ رقم مہیا کر لیں تو ہم پچاس ہزار روپہ یعنی کل رقم کا چالیسواں حصہ اس کام کے لئے جمع کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔ علاوہ ازیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق کے ماتحت ہماری جماعت تیس آدمی تبلیغ کا کام کرنے کے لئے دی گی۔ جن کے اخراجات وہ موعودہ رقم میں سے خود برداشت کرے گی۔ اور اگر اس سے زیادہ خرچ ہو گا تو بھی وہ خود اپنے مبلغوں کا کل خرچ ادا کرے گی اور میں یہ بھی وعدہ کرتا ہوں کہ اگر زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہوئی۔ تو ہماری جماعت انشاء اللہ سینکڑوں تک ایسے آدمی مہیا کر دے گی۔ جو تبلیغ کا عمر بھر کا تجربہ رکھتے ہوں گے‘‘۔
حضور نے یہ دعوت دیتے ہوئے دوسری مسلمان کہلانے والی تمام جماعتوں (اہلحدیث۔ حنفی۔ شیعہ وغیرہ) کے سربرآوردہ اصحاب کو توجہ دلائی کہ وہ اس موقعہ کی نزاکت کو سمجھیں اور اسی نسبت سے اپنے لوگوں کی طرف سے مطلوبہ رقم کا فوراً اعلان کرکے ایک مقام پر جمع ہوں تا کام کی تفصیل اور انتظام پر غور کر لیا جائے اب چھوٹی چھوٹی باتوں پر اپنا وقت ضائع کرنے کا وقت نہیں کام کا وقت ہے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اس دعوت اور فراخ دلانہ پیشکش پر اخبار ’’ہمدم‘‘ نے لکھا۔
’’جماعت احمدیہ کے جوش و ایثار کو دیکھتے ہوئے ان کی طرف سے پچاس ہزار بلکہ اس سے زیادہ روپیہ اس غرض یعنی انسداد ارتداد کے لئے فراہم ہو سکنے کا قریب قریب یقین و اعتماد ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ دیگر مسلمانوں سے ۲/۱ ۱۹ لاکھ تو کجا ایک لاکھ روپیہ بھی حالات موجودہ میں چند ہفتہ کے اندر جمع ہو جانے کی قوی تو کیا معمولی امید بھی ان طریقوں سے نہیں باندھ سکتے‘‘۔ ’’(ہمدم‘‘ ۱۸/ مارچ ۱۹۲۳ء بحوالہ ’’جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات‘‘ صفحہ ۴۳)
اسی طرح اخبار ’’مشرق‘‘ نے لکھا۔
’’جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت بڑی ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ جس ایثار اور درد سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی کوشش کرتی ہے وہ اس زمانہ میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی‘‘۔ ’’(مشرق‘‘ ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء بحوالہ ’’جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات‘‘ صفحہ ۴۳)
احمدیہ جماعت کی طرف سے والہانہ رنگ میں لبیک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۷ اور ۹/ مارچ ۱۹۲۳ء کو جماعت سے جس عظیم الشان جانی و مالی قربانی کا مطالبہ فرمایا اس پر جماعت نے انتہائی والہانہ رنگ میں لبیک کہا اور ڈیڑھ ہزار احمدیوں نے اپنی آنریری خدمات حضور کی خدمت میں پیش کر دیں۔ اس قربانی کے لئے آگے آنے والے ملازم‘رئوسا‘وکلاء‘تاجر‘زمیندار‘صناع‘پیشہ ور‘مزدور‘استاد‘طالبعلم‘انگریزی خواں‘عربی داں‘بوڑھے اور جوان غرض کہ ہر طبقہ کے لوگ تھے۔ حتیٰ کہ مستورات اور بچوں تک نے اس جہاد کے لئے اپنا نام پیش کیا۔
چنانچہ لجنہ اماء اللہ نے حضور کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ ہمیں راہ نمائی فرمائی جائے کہ ہم اس تبلیغی جہاد میں کیا خدمت سرانجام دے سکتی ہیں؟ خواتین نے ملکانہ عورتوں میں تبلیغ کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ اس موقعہ پر احمدی بچوں میں بھی اشاعت اسلام کا جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ مرزا منور احمد صاحب جو اس وقت ۵ سال کے تھے ملکانہ علاقوں میں جانے کے لئے تیار ہو گئے۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے فرزند محمد احمد صاحب نے جن کی عمر اس وقت بارہ سال ہو گی اپنی والدہ ماجدہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو لکھا کہ تبلیغ اسلام کرنا بڑوں کا ہی نہیں ہمارا بھی فرض ہے۔ اس لئے جب آپ تبلیغ کے لئے جائیں تو مجھے بھی لے چلیں۔ اور اگر آپ نہ جائیں تو مجھے ضرور بھیج دیں۔۲۱
جہاں تک انسداد ارتداد کے لئے پچاس ہزار روپیہ چندہ کا تعلق تھا یہ بہت جلد جمع ہو گیا۔ اور جاعت کے مخیر بزرگوں نے بالخصوص اس میں اپنی بساط سے بڑھ کر حصہ لیا۔ جن میں سرفہرست حضرت نواب محمد علی خان صاحب تھے جنہوں نے ایک ہزار روپیہ اور جن کی حرم حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے دو سو روپیہ چندہ دیا۔ حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب‘جنرل اوصاف علی خاں صاحب نابھہ‘میر مرید احمد صاحب خیر پور سندھ‘شیخ محمد حسین صاحب کلکتہ اور حضرت سیٹھ عبداللہ بھائی نے پانچ پانچ سو کی رقمیں پیش کیں۔ ڈاکٹر فضل کریم صاحب کابل۔ حصرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بالترتیب چار سو تیرہ روپیہ۔ تین سو اور ڈھائی سو روپیہ چندہ دیا۔ ان کے علاوہ بابو فضل احمد صاحب راولپنڈی۔ چوہدری عبداللہ صاحب۔ چوہدری نذیر احمد صاحب راولپنڈی۔ خان صاحب مولوی فرزند علی خان صاحب۔ چوہدری عبداللہ صاحب۔ چوہدری نذیر احمد صاحب طالب پوری۔ شیخ مشتاق حسین صاحب گوجرانوالہ اور منشی محمد دین صاحب کھاریاں نے بقدر طاقت ڈیڑھ سو سے سوا دو سو روپیہ چندہ پیش کیا۔ سو سو روپیہ دینے والے تو متعدد اصحاب تھے۲۲۔ چندہ میں شرکت کے لئے ابتداًء یہ شرط تھی۔ کہ کم از کم ایک سو روپیہ چندہ دینے والے لوگ آگے آئیں۔ لیکن بعد کو غریب احمدیوں کی درخواست پر حضور نے یہ شرط اڑا دی اور غریبوں کو بھی اس ثواب میں حصہ لینے کا موقعہ میسر آگیا۔
چندے کے علاوہ احمدی احباب نے مجاہدین کے لئے سائیکل دیئے خصوصاً لاہور کی جماعت نے ڈاکٹر محمد منیر صاحب آف امرتسر نے دھوپ سے بچانے والے پروٹیکٹر دیئے۔ بعض نے ستو کی بوریاں بھیج دیں عید الاضحیہ کا موقعہ آیا تو ہزاروں روپے میدان ارتداد میں ملکانہ قوم کے لئے جانور ذبح کرنے کے لئے بھجوا دیئے۲۳۔ بعض غریبوں نے جن کے پاس کچھ نقد اثاثہ نہ تھا۔ اپنا مکان یا زمین یا جانور بیچ کر اس میں حصہ لیا۔ کہتے ہیں کہ مشہور پنجابی شاعر ڈاکٹر منظور احمد صاحب بھیروی نے اپنی بھینس بیچ ڈالی اور میدان ارتداد میں جا پہنچے۔ بھینس اگرچہ خسارے پر بکی۔ مگر ڈاکٹر نے اس گھاٹے کے سودے پر بھی خوشی منائی۔
مردوں کے علاوہ احمدی عورتوں نے بھی ایثار و قربانی کا ثبوت دیا۔ چنانچہ لجنہ اماء اللہ نے بیس بڑے دوپٹے ان ملکانہ عورتوں کے لئے بھیجے۔ جو ارتداد کے وقت اسلام پر ثابت قدم رہیں۔ حضرت اقدس کی صاحبزادی امتہ القیوم نے جن کی عمر اس وقت چھ سال کی ہو گی۔ اپنا ایک چھوٹا دوپٹہ دیا اور کہا کہ یہ کسی چھوٹی ملکانی کو دیا جائے۲۴۔
قواعد انتظام انسداد فتنہ ارتداد
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے اس مرحلہ پر اپنے قلم مبارک سے حسب ذیل بیس قواعد مقرر فرمائے۔
۱۔ اس انتظام کو باقاعدہ چلانے کے لئے ایک افسر ہو گا جو سب کام کی نگرانی کرے گا۔
۲۔ یہ افسر اپنے کام کی بہتری کے لئے اپنے کام کے کئی حلقہ تجویز کرے گا۔ جن میں سے ہر ایک حلقہ کا ایک نگران ہو گا۔
۳۔ ہر ایک حلقہ میں جس قدر لوگ کام کر رہے ہوں گے وہ حلقہ افسر کے ماتحت ہوں گے اور افسر کو چاہئے کہ ایک وقت مقررہ پر ان سے رپورٹ طلب کرے یعنی ان کو مقررہ عرصہ کے بعد اپنے کام کی رپورٹ کرنے کی ہدایت کرے اور اگر کسی کی رپورٹ نہ پہنچے تو اس کی رپورٹ طلب کرے۔ کارکنان کو چاہئے کہ علاوہ مقررہ رپورٹ کے ہر اہم بات کی اس کو رپورٹ کریں۔
۴۔ حلقہ کے افسر کا فرض ہو گا کہ ایک وقت مقررہ پر جس کی تعین افسر اعلیٰ کرے گا افسر اعلیٰ کو اپنے کام کی رپورٹ دیتا رہے۔ اور درمیان میں بھی جب کوئی اہم امر ہو اس کی رپورٹ کرتا رہے۔
۵۔ افسر اعلیٰ کا فرض ہو گا کہ وہ ہر روز اپنے تمام صیغہ کی رپورٹ جس میں اہم امور کو خاص طور پر پیش کیا جائے میرے پاس بھیجتا رہے۔
۶۔ افسر اعلیٰ کا فرض ہو گا کہ وہ وقتاً فوقتاً خود دورہ کرکے تمام حلقہ کے افسروں اور کارکنوں کے کام کو دیکھتا رہے اور جب وہ دورہ پر جائے تو اسے چاہئے کہ اپنے ایک ہوشیار نائب کو اپنا قائم مقام مرکز میں بھی بنا جائے۔
۷۔ افسر اعلیٰ کو چاہئے کہ وہ اس امر کا کوئی مناسب انتظام کرے کہ صدر اور حلقوں کے مرکزوں میں ان لوگوں کے کھانے کے متعلق مناسب انتظام رہے جو بطور مہمان کے آویں یا جن کو کام کی مدد کے لئے بلوایا جائے۔ لیکن نہایت درجہ کی کفایت شعاری کو مدنظر رکھا جائے کیونکہ تھوڑی تھوری بے احتیاطی سے بڑے بڑے نقصانات پہنچ جاتے ہیں۔
۸۔ حلقہ کے افسروں کو بھی چاہئے کہ دورہ کرکے اپنے ماتحتوں کے کام کو دیکھتے رہیں اور ان کو مناسب ہدایتیں دیتے رہیں۔
۹۔ صدر مقام میں ایک مکمل ذخیرہ ان کتب اور اخبارات و رسائل کا رہنا چاہئے جو آریوں کے خلاف کام کرنے کے لئے ضروری ہے۔
۱۰۔ صدر مقام میں ایک واقف آریہ مذہب اور ہندی کا رہنا چاہئے جو نو آمدوں کو ہندی کے الفاظ سکھائے اور حوالہ نکال نکال کر ان کو دے اور ایسی باتیں آریہ لٹریچر سے نکالتا رہے جس سے دوسری اقوام کو وہ اپنی اصل شکل میں نظر آسکیں۔
۱۱۔ جو لوگ کام پر لگائے جاویں ان کو ایک کاپی مطبوعہ ہدایات کی رجسٹری رسید لے کر دی جائے اور اس پر ایک نمبر لکھ دیا جائے جب وہ شخص واپس جائے تو اس سے وہ کاپی لے کر دوسرے کو دے دی جائے نمبر وہی رہنے دیا جائے مگر دستخط دوسرے آدمی کو جسے دوبارہ دی گئی ہے کے لے لئے جاویں اس سے کاپیاں محفوظ رکھنے کا خیال لوگوں کے دل میں رہے گا۔
۱۲۔ چاہئے کہ سب کارکنوں کو آریہ مذہب کے خلاف مسائل مختصراً عمدگی سے سمجھا دیئے جاویں اور ان کے موٹے موٹے اعتراضات کے جواب بھی تاکہ اگر کوئی ان کا مبلغ مل جائے اور اس سے مجبوراً بات کرنی پڑے تو سبکی اور شرمندگی ۔۔۔۔۔۔۔۔
۱۳۔ افسروں کو خاص توجہ رکھنی چاہئے کہ جن کے جو کام سپرد کیا گیا ہے وہی کام کرتے رہیں ہیں ایسا تو نہیں کہ جسے مثلاً خفیہ خبر رسانی پر لگایا گیا تھا وہ بحث میں لگ گیا ہے اور بحث والا خفیہ خبر رسانی پر۔ بے شک زائد وقت میں اگر ان کو اجازت مل جاوے تو دوسرا کام بھی کر سکتے ہیں لیکن یہ نہیں ہونا چاہئے کہ میلان طبیعت کے ماتحت وہ اصل کام کو چھوڑ کر دوسرے کاموں میں لگ جاویں۔
۱۴۔ افسروں کو چاہئے کہ خاص طور پر طبائع کے میلان کا خیال رکھیں میلان طبع کا خیال نہ رکھنے سے بہت دفعہ کام خراب ہو جاتا ہے۔ جو شخص جس کام کے اہل ہو اسے وہی کام سپرد کیا جائے دوسرا کام سپرد نہ کیا جائے۔ اور اگر بعد کے تجربہ سے پہلا خیال غلط معلوم ہو تو پھر مناسب تبدیلی کر دی جائے۔
۱۵۔ چاہئے کہ حلقوں کے افسر وہ ایسے لوگوں کو مقرر کرے کہ جنہوں نے مستقل طور پر کام کرنا ہے۔ دوسرے لوگ خواہ درجہ میں بڑے ہوں علم میں زیادہ ہوں ان کو مستقل کام کرنے والوں کے ماتحت رکھنا چاہئے ورنہ کام خراب ہو جائے گا۔
۱۶۔ کام کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کر دینا چاہئے۔
۱۔ افسر اعلیٰ
۲۔ افسران حلقہ
۳۔ ایسے لوگ مقرر ہوں جو ہندی اور آریہ مذہب کا علم رکھتے ہوں اگر نہ ہوں تو صرف مرکز میں رکھے جاویں ورنہ ہو سکے تو فی حلقہ ایک آدمی مقرر کر دیا جائے یا ضروری حلقوں میں ایک آدمی رکھا جائے۔ یہ لوگ آریوں کے خلاف سامان بہم پہنچاویں۔ ۲۔ آریوں‘سناتینیوں‘جینیوں‘سکھوں میں جو اختلاف عقیدہ اور عمل میں ہے اس کو جمع کرکے مبلغوں کو سکھاویں۔ ۳۔ تاریخی طور پر برہمنوں نے راجپوتوں پر جو ظلم کئے ہیں ان کو جمع کریں خواہ عملاً ظلم کیا ہو خواہ ایسے عقائد کی تعلیم دے کر جن میں ان کا درجہ گھٹایا ہو۔ ۴۔ تاریخی طور پر ایسی مثالیں جمع کی جائیں جن سے معلوم ہو کہ مسلح راجپوتوں نے ہندو راجپوتوں کو شکست دی ہے اور پھر اس قوم کے لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کی جائے کہ یہ لوگ جو فاتح ہیں ایسے بزدل تھے کہ ڈر کر مسلمان ہو گئے اور ہندو راجپوت جو ان سے ماریں کھاتے تھے ایسے بہادر تھے کہ یہ اپنے دھرم پر قائم رہے۔ ۵۔ بھرت پور۔ الور۔ بیکانیر اور دوسری راجپوتانہ کی ریاستوں کی تاریخوں سے یہ امر معلوم کیا جائے کہ وہ کب سے قائم ہیں اور اگر معلوم ہو کہ یہ قدیم سے چلی آتی ہیں مسلمان کی بنائی ہوئی نہیں ہیں یا یہ کہ ان کے علاقہ کبھی مسلمانوں کے براہ راست انتظام کے نیچے نہیں آئے تو پھر ان قوموں کے سرکردوں سے دریافت کی جائے کہ ان کی قومی روایتوں کے رو سے وہ ان علاقوں میں کب سے بس رہی ہیں جب ان کی روایتوں سے ثابت ہو جائے کہ وہ باہر سے آکر نہیں بسیں بلکہ اسی علاقہ کی رہنے والی ہیں تو پھر یہ بات ان کے سامنے پیش کی جائے اور آریوں سے بحث میں بھی یہ حربہ استعمال کیا جائے کہ جب ان علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ کبھی ہوا نہیں اور جب یہ قومیں باہر سے نہیں آئیں تو پھر ان ریاستوں میں جا کر مسلمانوں نے ان لوگوں کو جبراً مسلمان کیوں کر بنا لیا۔ اور اگر ان ریاستوں میں یہ لوگ بلاجبر کے مسلمان ہو گئے تو باہر کے اسی قسم کے لوگوں کی نسبت کیوں نہ یقین کیا جائے کہ وہ بھی اسی طرح مسلمان ہو گئے تھے۔
۶۔ ان لوگوں کے مسلمان ہونے کی تاریخ دریافت کی جائے پھر ہندو مصنفین کی کتب سے معلوم کیا جائے کہ وہ کس کس زمانہ میں مسلمانوںکے جبر کے متعلق مضامین لکھ چکے ہیں کن زمانوں کو ایسی کوششوں سے پاک بتاتے ہیں اور کن بادشاہوں کو غیر معتصب قرار دیتے ہیں پھر دونوں کا مقابلہ کرکے دیکھا جائے کہ جس وقت یہ لوگ مسلمان ہوئے تھے۔ اس وقت کون سی حکومت اور کون بادشاہ تھا اگر یہ ثابت ہو جائے اور یہی بات اندازاً معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت اسلامی حکومت کمزور تھی اور ہندو راجائوں کا زور تھا یا یہ کہ وہ اکبر اور جہانگیر کا زمانہ تھا تو پھر بتایا جائے کہ اس زمانہ میں اگر اس قدر کثرت سے لوگ جبراً مسلمان بنائے جاتے تو اس کا تاریخ میں ثبوت ہونا چاہئے تھا برخلاف اس کے اس وقت یا تو مسلمانوں کا زور تھا ہی نہیں بلکہ وہ کمزور تھے یا یہ کہ اس وقت کے بادشاہوں کو بھی جابر نہیں کہتے پھر کس طرح ممکن ہے کہ اتنی بڑے تعداد ان کے زمانہ میں جبراً مسلمان بنائی گئی جو دوسرے بقول تمہارے جابر بادشاہوں کے زمانہ میں بھی نہیں بنائی گئی۔
۷۔ باوا نانک صاحب کے مسلمان ہونے کے متعلق اور سکھ گروئوں میں ہندوئوں کے ظلم اور مسلمانوں کا ان سے نیک سلوک اور اس مضمون پر سکھ اخباروں کی آراء جمع کی جاویں اور ان کو مبلغین کو یاد کرایا جائے کیونکہ ان علاقوں میں سکھ پولیس میں زیادہ ملیں گے بعض تعلقہ دار بھی ہیں ان پر اس ذریعہ سے اثر ڈالنا چاہئے۔ عام طور پر ان لوگوں کو آریہ دھوکہ دے کر یہ بتاتے ہیں کہ ہم تمہارے خیر خواہ اور مسلمان تمہارے دشمن ہیں حالانکہ معاملہ بالکل برعکس ہے۔
۸۔ آریوں کی کتاب مصنفہ سے جس میں راجپوتوں کو ترکوںں کی اولاد قرار دیا گیا ہے اور جس پر راجپوت انجمنوں نے سخت شورش برپا کیا تھا خوب فائدہ اٹھایا جائے اور اس کے مفید حوالے اور ان کے استعمال کا موقع اور طریق مبلغوں کو سکھایا جائے۔
۴۔ کچھ لوگ جو بحث کا ملکہ اور شوق رکھتے ہوں مقرر کئے جاویں جن کا کام آریوں کو بحثوں میں الجھانا ہوتا کہ لوگوں پر ان کی کمزوری اور شکست ظاہر ہو۔
۵۔ کچھ لوگ جو مضمون نگاری کا ملکہ اور شوق رکھتے ہوں مقرر کئے جاویں جن کا کام یہی ہو کہ مطلوبہ وفد کی کوششوں اور کامیوں کو پبلک کے سامنے لاتا رہے تاکہ لوگوںکو سلسلہ کے کام سے دلچسپی پیدا ہو اور جماعت میں جوش پیدا ہو اور دوسرے لوگوں میں زندگی اور ہمدردی پیدا ہو۔ ان کو مختلف اخبارات سلسلہ اور دوسرے انگریزی اور اردو اخبارات میں برابر اور متواتر مضمون لکھتے رہنا چاہئے لیکن یاد رہے کہ (۱) مضون نہایت مختصر ہوں ایک یا ڈیڑھ کالم سے زیادہ نہ ہوں۔ (۲) دلچسپ پیرایہ میں بیان ہوں یوں نہ معلوم ہو کہ کوئی شخص اپنی مدح کر رہا ہے ۔ (۳) جوش دلانے والے ہوں۔ (۴) خاص دلچسپ واقعات مثلاً کسی مبلغ کی خاص قربانی (خواہ احمدی ہو خواہ غیر احمدی) کو بیان کیا جائے آریوں کی خفیہ تدابیر کو طشت ازبام کی جائے۔ ان لوگوں کی حالت کا صحیح نقشہ کھینچا جائے۔ ان کی روایات اور رسوم کو بیان کیا جائے۔ خاص کامیابیوں کو بیان کیا جائے۔ اپنے مبلغوں کے ایثار پر روشنی ڈالی جائے۔ ہر دفعہ نئے واقعات ہوں نئے پیرایہ میں ہوں۔ (۴) چونکہ اخبارات بہت سے ہیں اور ایک ہی مضمون کو بہت سے لوگ پسند نہیں کرتے اس لئے خاص مضامین کو چھوڑ کر باقی مضامین اس طرح لکھے جاویں کہ گو سب واقعات سب اخباروں کو جائیں لیکن ایک اخبار میں باقی واقعات مختصر ہوں اور ایک واقع کو خاص طور پر نمایاں کیا جائے۔ دوسرے میں اس کو مختصر اور ایک دوسرے امر کو نمایاں کرکے بیان کیا جائے اس طرح سب واقعات بہ صورت اجمال سب اخباروں میں شائع ہو جائیں گے اور تفصیل سب میں مجموعی طور پر مل جاوے گی اس تفصیل کی خاطر اجمال کو شوق سے لوگ اخبار سے لیں گے۔ (۵) جو مضمون چھپے اس میں لکھنے والے کا نام اس طرح آوے کہ احمدیہ وفد قادیان کا علم لوگوں کو ہوتا رہے۔
۶۔ مختلف ایسے لوگوں کے نام پر یہ مضمون چھپیں جو ڈگری یافتہ ہوں خواہ ایم اے بی اے خواہ مولوی فاضل منشی فاضل ڈاکٹر پلیڈر بیرسٹر وغیرہ۔ (۷) سب ایسے مضامین جو چھپیں وہ صدر دفتر سے جاویں تا یہ دیکھ لیا جائے کہ سب مضامین کی روح ایک ہی ہے اور کہیں اس میں تضاد تو نہیں ہو گیا بلادفتر کے معائنہ کسی شخص کو اجازت نہ ہو کہ اپنے طور پر مضمون لکھ کر شائع کرے۔ (۸) اگر کوئی کارکن دوسری جماعت کا سچے اخلاص سے کام کر رہا ہے یا یہ کہ ہمارے کام میں مدد دے رہا ہے تو اس کا ذکر بھی کیا جائے مگر ایسی طرز پر کہ دوسرے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ہمارے مقابلہ میں اس کو اچھا قرار دیا گیا ہے۔ رقابت پیدا نہ ہونے دی جائے۔ (۹) خواہ کسی افسر کا کسی کارکن سے کوئی اختلاف ہو اس کے اچھے کام کو ظاہر کرنے میں ہرگز کمی نہ کریں۔
۵۔ ایک شخص ایسا مرکز میں رہے جو دستی پریس (چھوٹا نقلوں کا پریس) کا کام اچھی طرح کر سکے تاکہ جہاں نقلیں بھیجنے کی ضرورت پیش آوے وہاں نقلیں فوراً بھیجی جا سکیں۔
۶۔ کچھ ایسے لوگ ہوں جو حکام کو ملنے ملانے کا کام اچھی طرح کر سکیں اور اس بات کی نگہداشت رکھیں کہ ہندو لوگ غلط شکایتوں کے ذریعہ حکام کو بدظن کرکے کام میں روک تو نہیں ڈالنی چاہتے۔
۷۔ ایک آدمی کم سے کم زیادہ ہوں تو اچھے ہیں فوٹو کا کام اچھی طرح کر سکنے کی قابلیت رکھنے والا وفد میں ہو اگر کوئی موجودہ وفد میں سے اس کام کو نہیں جانتا تو کسی ہوشیار آدمی کو یہ کام سکھا لیا جائے مگر چست رہنے والا ہو آہستہ فوٹو لینے کا یہ موقع نہیں ہو گا۔
۸۔ ہر حلقہ کے مرکز میں افسر کے ساتھ ایک مددگار بھی رکھا جائے جو چلنے پھرنے میں ہوشیار ہو تا ادھر سے ادھر خبر پہنچا سکے۔
۹۔ وفد کے ساتھ دین اسلام سے واقف ایک عالم کی ضرورت ہے جو علماء کی مجالس میں اپنے علم سے اثر ڈال سکے یا مباحثات میں اسلامی نقطہ خیال کی خوبی کی وضاحت کر سکے۔
۱۰۔ کچھ ایسے لوگ ہوں جو شعر اچھی طرح پڑھ سکیں۔
۱۱۔ کوئی آدمی متحرک تصاویر یا بائسکوپ دکھانے کی قابلیت رکھنے والا بھی ہونا چاہئے تا اگر ضرورت پڑے تو آریوں کی لٹھ بند جماعتوں کی تصویریں ان کو دکھاتا پھرے اور اس طرح ہو سکے تو پرانے براہمن بادشاہوں کے مظالم کا نقشہ۔
۱۲۔ جہاں تک ہو سکے ایک قانوں دان آدمی بھی ساتھ ہونا چاہئے تاکہ اگر کوئی ہیچ ڈال کر روکیں ڈالی جاویں تو فوری اور معتبر مشورہ ہو سکے۔
۱۳۔ ind] ga[t کچھ آدمی دفتری کام کرنے کی قابلیت رکھنے والے بھی چاہئیں تا اس کام کو اچھی طرح سنبھال سکیں۔
۱۴۔ کچھ آدمی آریوں کے ارادوں کا پتہ لگانے کے لئے مقرر ہونے چاہئیں۔
۱۵۔ کام کرنے والوں کو چاہئے کہ مناسب مقامات کو دیکھ کر اسے حلقہ تجویز کریں جہاں سے آسانی سے ایک حلقہ کی نگرانی ہو سکے۔ یہ مقام ان تمام جہات سے جو ہدایات نمبر اول میں درج ہیں مناسب ہو۔
۱۶۔ چاہئے کہ کام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ ایک حصہ جماعت کا ان لوگوں میں کام کرے جن میں آریہ اپنا جال پھیلا چکے ہیں دوسرا حصہ ان لوگوں میں کام کرے جن میں ابھی تک انہوں نے قطعاً جال نہیں پھیلایا یا پھیلایا ہے تو اس میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوئے۔
۱۷۔ روپیہ چاہئے کہ بنک میں جمع رہے۔ مگر سو دو سو روپیہ ہر حلقہ کے افسر کے نام سے اس جگہ کے سیونگ بنک میں جمع کر دیا جائے جس سے بوقت اشد ضرورت اسے روپیہ نکالنے کی اجازت ہو۔
۱۸۔ روپیہ کے خرچ میں کفایت کو مدنظر رکھنا چاہئے اگر کسی افسر سے بے احتیاطی ہوئی تو اس کا اسے ذمہ دار قرار دیا جائے گا مگر یاد رہے کہ ذمہ داری سے ڈر کر کام میں سستی نہیں کرنی چاہئے ذمہ داری اٹھائے بغیر انسان تعریف اور ثواب کا مستحق نہیں بنتا۔
ھدایات برائے مبلغین اسلام
(سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی رقم فرمودہ اہم ہدایات جو انسداد و ارتداد کے جہاد میں شامل ہونے والے ہر مجاہد کو مطبوعہ ٹریکٹ کی صورت میں دی جاتی تھیں)
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیمط
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
‏rov.5.22
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
ھدایات برائے مبلغین اسلام
مکرمی۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ چونکہ آپ نے اپنی زندگی کا ایک حصہ انسداد فتنہ ارتداد کے لئے وقف کیا ہے۔ میں چند ہدایات اس کام کے متعلق آپ کو دیتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ اپنے افسروں کے احکام کے ماتحت پوری طرح ان ہدایات پر عمل کریں گے۔ وہ ہدایات یہ ہیں۔
۱۔ اللہ تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے نیک نیت اور محض ابتغاًء لوجہ اللہ اس کام کا ارادہ کریں۔
۲۔ گھر سے نکلیں تو دعا کرتے ہوئے اور رب ادخلنی مدخل صدق و اخرجنی مخرج صدق و اجعل لی من لدنک سلطانا نصیرا کہتے ہوئے نکلیں۔ اور بہت استغفار کرتے جائیں۔ کہ خدا تعالیٰ کمزوروں پر پردہ ڈال کر خدمت دین کا کوئی حقیقی کام لے لے۔
۳۔ سورہ فاتحہ اور درود کا بہت ورد رکھیں۔ نمازوں کے بعد تسبیح۔ تمحید اور تکبیر ضرور کریں۔ اور کچھ دیر خاموش بیٹھ کر ذکر الٰہی کریں کہ ایسے اوقات میں یہ نسخہ نور قلب پیدا کرنے میں بہت مفید ہوتا ہے۔
۴۔ ا۔ بھاشا کے الفاظ سیکھنے اور ان کے استعمال کرنے کی طرف خاص توجہ کریں کہ تبلیغ کا آلہ زبان ہے۔ زبان نہ آتی ہو تو تبلیغ بے اثر ہو جاتی ہے۔ پس بھاشا جو ان لوگوں کی زبان ہے۔ اس کے سیکھنے کی طرف پوری توجہ کرنی چاہئے۔ اس میں جس قدر کوشش کریں گے۔ اسی قدر تبلیغ زیادہ موثر ہو گی۔ اور جس قدر تبلیغ زیادہ موثر ہو گی اسی قدر ثواب کا زیادہ موقع ملے گا۔
(ب) اسی طرح جس قوم سے مقابلہ ہو۔ اس کے مذہب اور طریق سے پوری واقفیت نہ ہو تو مقابلہ مشکل ہوتا ہے۔ پس اگر آریوں کے متعلق پوری واقفیت نہ ہو تو مرکز سے ان کے متعلق ضروری معلومات اور حوالوں کو اپنی پاکٹ بک میں نوٹ کر لیں۔ اور اسلام پر ان کے اعتراضوں کے جواب بھی۔ اور ان کو بار بار پڑھ کر یاد کرتے رہا کریں۔
۵۔ راستہ میں لوگوں سے ہرگز فخریہ طور پر باتیں نہ کرتے جاویں۔ فخر انسان کو نیکی سے محروم کر دیتا ہے اور سیاستاً بھی اس کا نقصان پہنچتا ہے۔ دشمن کی توجہ اس طرف پھر جاتی ہے اور وہ ہوشیار ہو جاتا ہے۔
۶۔ اگر پہلے سے آپ کی جگہ مقرر ہے۔ تو جو جگہ مقرر ہے۔اس جگہ جا کر مبلغ سے چارج باقاعدہ لے لیں۔ اور اس سے سب علوم ضروریہ حاصل کر لیں۔ اور اگر جگہ مقرر نہیں تو پھر مرکز میں جا کر افسر اعلیٰ سے ہدایات حاصل کریں۔
۷۔ جس قصبہ میں داخل ہوں۔ جس وقت وہ نظر آوے۔ مندرجہ بالا مسنون دعا کم سے کم تین دفعہ خشوع اور خضوع سے پڑھیں۔ نہایت مجرب اور مفید ہے۔ اللھم رب السموت السبع وما اظللن و رب الارضین السبع وما اقللن و رب الشیاطین وما اظللن و رب الریاح وما ذرین فانا نسالک خیر ھذہ القریہ و خیر اھلھا و خیر مافیھا و نعوذ بک من شر ھذہ القریہ و شر اھلھا و شرما فیھا۔ اللھم بارک لنا فیھا و ارزقنا جناھا وحببنا الی اھلھا وحبب صالحی اھلھا الینا۔ آمین۔ کم سے کم تین دفعہ سمجھ کر یہ دعا مانگو رسول کریم~صل۱~ سے یہ مروی۔ اور میرا اس کے متعلق وسیع تجربہ ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے۔ اے اللہ جو سات آسمانوں کا رب ہے۔ اور ان کا بھی جن پر یہ سایہ کئے ہوئے ہیں۔ اور جو ساتوں زمینوں کا رب ہے اور ان کا بھی جن کو یہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور شیطانوں کا بھی اور ان کا بھی جن کو وہ گمراہ کرتے ہیں۔ اور ہوائوں کا بھی۔ اور ان چیزوں کا بھی جن کو وہ اڑاتی ہیں۔ ہم تجھ سے اس بستی کی بھلائی طلب کرتے ہیں اور اس کے باشندوں کی بھلائی بھی طلب کرتے ہیں اور ہر اس چیز کی بھلائی بھی جو اس میں پائی جاتی ہے۔ اور ہم اس بستی کی ہر ایک برائی سے پناہ مانگتے ہیں۔ اور اس بستی میں رہنے والوں کی برائی سے بھی پناہ مانگتے ہیں۔ اور اس بستی کی ہر ایک بری شے سے پناہ مانگتے ہیں۔ اے خدا اس بستی میں ہمارے قیام کو بابرکت کر۔ اور اس کی نعمتوں اور بارشوں سے ہمیں متمتع کر۔ اور ہماری محبت اس جگہ کے لوگوں کے دلوں میں ڈال اور ہمارے دل میں اس جگہ کے نیک لوگوں کی محبت پیدا کر۔
۸۔ سفر سے نکلتے ہی اپنے پاس ایک پاکٹ بک رکھیں۔ جس میں سب ضروری امور لکھتے چلے جاویں۔ کم سے کم دو کارڈ اور ایک لفافہ اور پنسل و چاقو بھی ہر وقت ساتھ رہیں۔
۹۔ جس حلقہ میں کام کرنا ہے۔ وہاں پہنچتے ہی ان امور کو دریافت کریں
(۱) وہ کس ضلع میں ہے۔ (۲) کس تحصیل میں ہے۔ (۳) وہ کس تھانہ میں ہے۔ (۴) اس کا ڈاک خانہ کہاں ہے۔ (۵) اس میں کوئی مدرسہ بھی ہے یا نہیں۔ (۶) اس میں کوئی شفا خانہ بھی ہے یا نہیں۔ (۷) اس ضلع کے ڈپٹی کمشنر کون ہے اور اس کے اخلاق اور معاملہ کیسا ہے؟ (۸) اس تحصیل کے تحصیلدار اور نائب تحصیلدار کون ہیں اور ان کے اخلاق اور معاملات کیسے ہیں؟ (۹) اس تھانہ میں تھانیدار اور اس کے اوپر انسپکٹر کون ہے اور ان کے اخلاق اور معاملات کیسے ہیں۔ (۱۰) اس گائوں میں اگر پولیس مین مقرر ہے تو وہ کون ہے اور اس کے اخلاق اور اس کا معاملہ کیسا ہے۔ (۱۱) اس کے پوسٹ آفس کا انچارج کون ہے اور چٹھی رساں کون ہے اور ان کا طریق اس تحریک شدھی میں کیسا ہے۔ (۱۲) ڈاک وہاں کتنی دفعہ دن یا ہفتہ میں آتی ہے۔ (۱۳) مدرس کون لوگ ہیں اور وہ اس تحریک میں کیسا حصہ لیتے ہیں۔ (۱۴) ڈاکٹر کون ہے اور اس تحریک میں کیا حصہ لیتا ہے۔ (۱۵) اس میں کوئی مسجد ہے یا نہیں؟ اگر ہے تو امام ہے یا نہیں اگر ہے تو اس سے کوئی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یا نہیں؟
۱۰۔ حلقہ کا افسر ڈپٹی کمشنر سے۔ تحصیل کا انچارج تحصیلدار سے۔ تھانہ کا انچارج تھانہ دار سے ملنے کی کوشش کرے اور بغیر اپنے کام کی تفصیل بتائے اس کی دوستی اور ہمدردی کو حاصل کرنے کی کوشش کرے۔
مذکورہ بالا دوسرے لوگوں سے بھی اپنے تعلقات اچھے بنانے کی کوشش کرے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ جس قدر نقصان یا فائدہ چھوٹے لوگوں سے جیسے پولیس مین چھٹی رسان وغیرہ سے پہنچ سکتا ہے اس قدر بڑے لوگوں سے نہیں پہنچ سکتا۔
۱۱۔ جس گائوں میں جائے اس کے مالک اور نمبردار اور پٹواری کا پتہ لے۔ اگر وہ مسلمان ہوں تو ان کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ اور ان سے مدد کی درخواست کرے مگر یہ بات صاف صاف کہہ دے کہ مدد سے مراد میری چندہ نہیں بلکہ اخلاقی اور مشورہ کی مدد ہے تاکہ وہ پہلے ہی ڈر نہ جائے۔ اگر کوئی شخص مالی مدد دینا بھی چاہے تو شروع میں مدد لینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ ابھی آپ مجھ سے اور ہمارے کام سے واقف نہیں۔ جب واقف ہو کر اسے مفید سمجھیں گے اور ہم لوگوں کو دیانتدار پاویں گے تب جو مدد اس کام کے لئے آپ دیں گے اسے ہم خوشی سے قبول کریں گے۔ اگر وہ غیر مسلم ہوں تب بھی ان سے تعلقات دنیاوی پیدا کرنے کی کوشش کرے کہ میل ملاقات کا بھی ایک لحاظ ہوتا ہے۔
۱۲۔ کوئی مالی مدد دے تو اسے اپنی ذات پر نہ خرچ کرے بلکہ اس کی رسید باقاعدہ دے اور پھر اصل رسید مرکزی حلقہ سے لا کر دے تا لوگوں پر انتظام کی خوبی اور کارکنوں کی دیانتداری کا اثر ہو۔
۱۳۔ سادہ زندگی بسر کرے اور اگر کوئی دعوت کرے تو شرم اور حیا سے کھانا کھاوے۔ کوئی چیز خود نہ مانگے اور جہاں تک ہو سکے دعوت کرنے والے کو تکلف سے منع کرے اور سمجھاوے کہ میری اصل دعوت تو میرے کام میں مدد کرنا ہے مگر مستقل طور پر کسی کے ہاں بلا قیمت ادا کرنے کے نہ کھاوے۔
۱۴۔ دورہ کرتے وقت جو جو لوگ اسے شریف نظر آویں اور جن سے اس کے کام میں کوئی مدد مل سکتی ہے ان کا نام اور پتہ احتیاط سے اپنی نوٹ بک میں نوٹ کرے۔ تابعد میں آنے والے مبلغوں کے لئے آسانی پیدا ہو۔
۱۵۔ جن لوگوں سے اسے واسطہ پڑنا ہے۔ خصوصاً افسروں۔ بڑے زمینداروں یا اور دلچسپی لینے والوں کے متعلق غور کرے کہ ان سے کام لینے کا کیا ڈھب ہے اور خصوصیت سے اس امر کو اپنی پاکٹ بک میں نوٹ کرے کہ کس کس میں کون کون سے جذبات زیادہ پائے جاتے ہیں جن کے ابھارنے سے وہ کام کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔
۱۶۔ جن لوگوں سے کام لینا ہے ان میں سے دو ایسے شخصوں کو کبھی جمع نہ ہونے دو۔ جن میں آپس میں نقار ہو۔ اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہاں کے لوگوں سے ہوشیاری سے دریافت کر لو کہ ان معززین کی آپس میں مخالفت تو نہیں۔ اگر ہے تو کس کس سے ہے جن دو آدمیوں میں مقابلہ اور نقار ہو ان کو اپنے کام کے لئے کبھی جمع نہ کرو بلکہ ان سے الگ الگ کام لو اور کبھی ان کو محسوس نہ ہونے دو کہ تم ایک سے دوسرے کی نسبت زیادہ تعلق رکھتے ہو۔ تمہاری نظر میں وہ سب برابر ہونے چاہیں اور کوشش کرو کہ جس طرح ہو سکے انکا نقار دور کرکے ان کو کلمہ واحد پر اسلام کی خدمت کے لئے جمع کر دو۔
۱۷۔ جس جگہ جائو وہاں کے لوگوں کی قوم ان کی قومی تاریخ اور ان کی قومی خصوصیات‘ان کی تعلیمی حالت‘ان کی مالی حالت اور ان کی رسومات کا خوب اچھی طرح پتہ لو اور پاکٹ بک میں لکھ لو اور جہاں تک ہو سکے ان سے معاملہ کرتے ہوئے اس امر کا خیال رکھو کہ جن باتوں کو وہ ناپسند کرتے ہیں وہ ان کی آنکھوں کے سامنے نہ آویں۔
۱۸۔ جس قوم میں تبلیغ کے لئے جائو اس کے متعلق دریافت کرلو کہ اس میں سب سے زیادہ مناسب آدمی کونسا ہے جو جلد حق کو قبول کر لے گا۔ اس سے پہلے ملو پھر اس سے رئیس کا پتہ لو جس کا لوگوں پر سب سے زیادہ اثر ہے پھر اس سے ملو اور اسی معرفت پہلے قوم کو درست کرنے کی کوشش کرو۔
۱۹۔ جب کسی قوم میں جائو تو پہلے یہ دیکھو کہ اس قوم کو ہندو مذہب سے کون کونسی مشارکت ہے اور اسلام سے کون کونسی مشارکت ہے اور ان کو اپنی کاپی میں نوٹ کر لو۔ پھر ان باتوں سے فائدہ اٹھا کر جو ان میں اسلام کی ہیں۔ ان میں اسلام کی محبت پیدا کرنے کی کوشش کرو اور ان اسلامی مسائل کی خوبی پر خاص طور پر زور دو جن پر وہ پہلے سے کاربند ہیں اور جن کے وہ عادی ہو چکے ہیں۔
۲۰۔ جب ایسی جگہ پر جائو جہاں کے لوگ اسلام سے بہت دور ہو چکے ہیں اور جو اسلام کی کھلی تبلیغ کو بھی سننا پسند نہیں کرتے تو ایسے لوگوں کو جاتے ہی کھلے طور پر تبلیغ نہ کرنے لگو بلکہ مناسب ہو تو اپنا مقصد پہلے ان پر ظاہر ہی نہ کرو۔ اگر کوئی پوچھے تو بے شک بتا دو۔ مگر خود اپنی طرف سے کوئی چرچا نہ کرو کیونکہ اس طرح ایسے لوگوں میں ضد پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
۲۱۔ اردگرد کے مسلمانوں کو یہ باتیں سمجھانے کی کوشش کرو کہ مسلمانوں کی عدم ہمدردی اور سختی سے یہ لوگ تنگ آکر اسلام کو چھوڑ رہے ہیں۔ اسلام کی خاطر آپ اب ان سے اچھی طرح معاملہ کریں اور خوش اخلاقی اور احسان سے پیش آویں اور سمجھاویں کہ ان کا ہندو ہونا نہ صرف ہمارے دین کے لئے مضر ہو گا بلکہ اس کا یہ نتیجہ بھی ہو گا کہ ہندو آگے سے زیادہ طاقتور ہو جائیں گے اور مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچائیں گے۔
(ب) یہ بھی سمجھائیں کہ اس فتنہ کو سختی سے نہیں روکا جا سکتا اور سختی سے روکنے کا فائدہ بھی کچھ نہیں۔ پس چاہئے کہ محبت کی دھار سے ان کی نفرت کی کھال کو چیرا جائے اور پیار کی رسی سے ان کو اپنی طرف کھینچا جائے۔
۲۲۔ وہ لوگ جو غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ پس کبھی ان سے علمی بحثیں نہ کرو۔ بالکل موٹی موٹی باتیں ان سے کرو۔ موٹی موٹی باتیں یہ ہیں۔
آریہ مذہب کے بانی نے کرشن جی کی (جن کی وہ اپنے آپ کو اولاد کہتے ہیں اور ان سے شدید تعلق رکھتے ہیں) جو بڑے بزرگ تھے۔ ہتک کی ہے۔
نیوگ کا مسئلہ خوب یاد رکھو اور ان کو سمجھائو کہ تم راجپوت ہو کر ایسی تعلیم کے پیچھے جا سکتے ہو۔ مرکز میں ستیارتھ پرکاش رہے گی اگر حوالہ مانگیں تو دکھا سکتے ہو۔
ان کو بتایا گیا ہے کہ تمہارے آبائو اجداد کو زبردستی مسلمان کر لیا گیا تھا۔ ان سے کہو کہ راجپوت تو کسی سے ڈرتا نہیں۔ یہ بالکل جھوٹ ہے اس بات کو ماننے کے تو یہ معنے ہوں گے کہ تمہارے باپ دادا راجپوت ہی نہ تھے۔ کیا اس قدر قوم راجپوتوں کی اس طرح دھرم کو خوف یا لالچ سے چھوڑ سکتی تھی۔
کہو کہ یہ بات برہمنوں نے راجپوتوں کو ذلیل کرنے کے لئے بنائی ہے۔ پہلے ان لوگوں نے تمہاری زمینوں کو سود سے تباہ کیا اب یہ لوگ تمہاری قومی خصوصیت کو بھی مٹانا چاہتے ہیں۔ یہ بنیئے تو اپنے ایمان پر قائم رہے اور تم راجپوت بہادر ہو کر بادشاہوں سے ڈر گئے۔ یہ جھوٹ ہے تمہارے باپ دادوں نے اسلام کو سچا سمجھ کر قبول کیا تھا۔
ان کو کہا جاتا ہے کہ تم اپنی قوم سے آملو۔ ان کو سمجھائو کہ لاکھوں راجپوت مسلمان ہو چکے ہیں۔ پس اگر ملنا ہے تو یہ ہندو مسلمان ہو کر تم سے مل جاویں اور یہ ملاپ کیسا ہوا کہ قریبی رشتہ داروں کو چھوڑ کر دور کے تعلق والوں سے جاملو۔
ان کو بتائو کہ کرشن جی کی ہم مسلمان تومہما کرتے ہیں اور ان کو اوتار مانتے ہیں لیکن آریہ ان کی ہتک کرتے ہیں اور ان کو گالیاں دیتے ہیں۔ تمہارے سامنے کچھ اور کہتے ہیں اور الگ کچھ اور کہتے ہیں۔
ان کو بتائو کہ ہندو تو تم کو ہندو کرکے بھی چھوت چھات کرتے ہیں اور کریں گے۔ چند لوگ لالچ دلانے کو تمہارے ساتھ کھاپی لیتے ہیں ورنہ باقی قوم تم سے برتائو نہیں کرے گی چاہو تو چل کر اس کا تجربہ کر لو لیکن مسلمان تم کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں۔
ان کو بتائو کہ آریہ جو آج تم کو چھوت چھات کی تعلیم دیتے ہیں دوسری جگہوں میں جا کر نیچ قوموں میں شدھی کرتے اور چماروں کو ساتھ ملاتے ہیں۔ اس کے حوالے یاد رکھو۔ (جیسے جموں میں شدھی ہو رہی ہے) لیکن ایسی طرز پر بات نہ کرو کہ گویا تم چھوت چھات کے قائل ہو بلکہ اس بات کا اظہار کرو کہ وہ جھوٹ اور فریب سے کام لے رہے ہیں۔
ان کو بتائو کہ یہ لوگ تمہارے خیر خواہ نہیں بلکہ دشمن ہیں۔ اس کا امتحان اس طرح ہو سکتا ہے کہ مسلمان عرصہ سے کوشش کر رہے ہیں کہ سود کی شرح محدود کر دی جائے اور قانون انتقال اراضی پاس کیا جائے مگر ہندو اس کی سخت مخالفت کرتے ہیں (ان دونوں قانونوں کو اچھی طرح سمجھ لو) ان باتوں کا ان کو فائدہ سمجھائو اور کہو کہ ان کا امتحان اس طرح ہو سکتا ہے کہ جو آریہ یا ہندو آئے اسے کہو کہ اگر تم سچ مچ ہمارے خیر خواہ ہو تو یہ دونوں قانون پاس کرائو۔ پھر ہم سمجھیں گے کہ تم ہمارے خیر خواہ ہو۔
۲۳۔ اپنے دل کو پاک کرکے اور ہر ایک تکبر سے خالی کرکے بیماروں اور مسکینوں کے لئے دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہاری ضرور سنے گا انشاء اللہ۔ میں بھی انشاء اللہ تمہارے لئے دعا کروں گا تا خدا تعالیٰ تمہاری دعائوں میں برکت دے۔
۲۴۔ اپنی زبان کو اس بات کا عادی بنائو کہ ان بزرگوں کو جن کو فی الواقع ہم بھی بزرگ ہی سمجھتے ہیں ایسے طریق پر یاد کرو جو ادب اور اخلاص کا ہو۔
۲۵۔ کھانے پینے پہننے میں ایسی باتوں سے پرہیز کرو جن سے ان لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ الگ جو چاہو کرو لیکن ان کے سامنے ان کے دل کو تکلیف دینے والی بات نہ کرو کہ علاوہ تمہارے کام کو نقصان پہنچانے کے یہ بداخلاقی بھی ہے۔
۲۶۔ ہر ایک کام تدریجی طور پر ہوتا ہے یہ مت خیال کرو کہ وہ ایک دن میں پکے مسلمان ہو جائیں گے جو لوگ مسلمان ہوجائیں گے۔ وہ آہستہ آہستہ پختہ ہوں گے پس یک دم ان پر بوجھ ڈالنے کی کوشش نہ کریں۔ تین چار ماہ میں خود ہی درست ہو جائیں گے۔ پہلے تو صرف اسلام سے محبت پیدا کرو اور نام کے مسلمان بنائو۔ مگر یہ بھی نہ کرو کہ اسلام کی کوئی تعلیم ان سے چھپائو کیونکہ اس سے بعد میں ان کو ابتلاء آوے گا۔ اور یا وہ ایک نیا ہی دین بنا لیں گے۔
۲۷۔ لباس وغیرہ ان کے جیسے ہیں ویسے ہی رہنے دو اور ابھی چوٹیاں منڈوانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ باتیں ادنیٰ درجہ کی ہیں۔ جب وہ پکے مسلمان ہو جائیں گے خود بخود ان سب باتوں پر عمل کرنے لگیں گے۔
۲۸۔ جس جگہ پر جائو۔ وہاں خوش خلقی سے پیش آئو اور بے کسوں کی مدد کرو اور دکھیاروں کی ہمدردی کرو کہ اچھے اخلاق سو واعظ سے بڑھ کر ہوتے ہیں
۲۹۔ جس جگہ کی نسبت معلوم ہو کہ وہاں کسی شخص کو مناسب مدد دے کر باقی قوم کو سنبھالا جا سکتا ہے۔ تو اس کی اطلاع افسر حلقہ کو کرو۔ مگر یاد رکھو کہ اس طرف نہایت مجبوری میں توجہ کرنی چاہئے۔ جب کوئی چارہ ہو ہی نہیں۔ اسی صورت میں یہ طریق درست ہو سکتا ہے۔ مگر خود کوئی وعدہ نہ کرو نہ کوئی امید دلائو امداد کس رنگ میں دی جا سکے گی۔ یہ افسروں کی ہدایت میں درج ہو گا۔ اس معاملہ کو افسر حلقہ کے سپرد رہنے دو۔
۳۰۔ کھانے پینے پہننے میں بالکل سادہ رہیں اور جس جگہ افسر حلقہ مناسب سمجھے وہاں کا مقامی لباس پہن لیں اور جس جگہ وہ مناسب سمجھے ایک چارد ہی پہن لو اگر ضرورت ہو تو گیردا رنگ دلوا لو۔ یاد رکھو کہ لباس کا تغیر اصل نہیں۔ لباس کا تغیر اسی وقت برا ہوتا ہے جب انسان ریا کے لئے یا کسی قوم سے مشابہت کی غرض سے پہنچتا ہے۔ تمہارا تغیر لباس تو عارضی ہو گا اور جنگ کی حکمتوں میں سے ایک حکمت ہو گا۔ پس تمہارا طریق قابل اعتراض نہیں ہو گا کیونکہ تم سادھو یا فقیر یا صوفی کہلانے کے لئے ایسا طریق اختیار نہیں کرو گے اور چند دن کے بعد پھر اپنا لباس اختیار کر لو گے۔ اس لباس کی غرض تو صرف دشمن سلام کے حملہ کا جواب دینا ہو گی۔
۳۱۔ کبھی اپنے کام کی رپورٹ لکھنے اور پھر اس کو دفتر حلقہ میں بھیجنے میں سستی نہ کرو۔ یاد رکھو کہ یہ کام تبلیغ کے کام سے کم نہیں ہے۔ جب تک کام لینے والوں کو پورے حالات معلوم نہ ہوں وہ ہرگز کام کو اچھی طرح نہیں چلا سکتے۔ پس جو شخص اس کام میں سستی کرتا ہے وہ کام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
۳۲۔ دشمن تمہارے کام کو یہ نقصان پہنچانے کے لئے ہر طرح کی تدابیر کو اختیار کرے گا۔ تمہاری ذرا سی بے احتیاطی کام کو صدمہ پہنچا سکتی ہے۔ پس فتنہ کے مقام سے دور رہو اور ایسی مجلس میں نہ جائو جس میں کوئی تہمت لگا سکے۔ کسی شخص کے گھر میں نہ جائو۔ جب تک تجربہ کے بعد ثابت نہ ہو جائے کہ وہ دشمن نہیں دوست ہے۔ کھلے میدان میں لوگوں سے باتیں کرو۔
۳۳۔ غصہ کی عادت ہمیشہ ہی بری ہے مگر کم سے کم اس سفر میں اس کو بالکل بھول جائو کسی وقت غصہ میں آکر اگر ایک لفظ بھی سخت تمہارے منہ سے نکل گیا یا تم کسی کو دھمکی دے بیٹھے یا کسی کو مار بیٹھے تو اس کا فائدہ تو کچھ بھی نہیں ہو گا۔ مگر آریہ لوگ اس کو اس قدر شہرت دیں گے کہ ہمارے مبلغوںکو ان کے حملوں کے جواب دینے سے فرصت نہ ملے گی اور سلسلہ کی سخت بدنامی ہو گی۔ پس گالیاں سن کر دعا دو اور عملاً دو۔ اور جوش دلانے والی بات کو سن کر سنجیدگی سے کہہ دو کہ اسلام اور احمدیت کی تعلیم تمہیں اس کا جواب دینے سے مانع ہے۔ تم پھر بھی اس کے خیر خواہ ہی رہو۔ اپنے مخالف سے بھی کہو کہ تم اس کے دشمن نہیں ہو بلکہ تم باوجود اس کی عداوت کے اس کے خیرہ خواہ ہو کیونکہ تم کو خدا تعالیٰ نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے مقرر کیا ہے۔ اگر کوئی مار بھی بیٹھے تو اس کی پرواہ نہ کرو۔ یاد رکھو کہ لوگ بزدل کو حقیر جانتے ہیں اور وہ فی الواقعہ حقیر ہے لیکن تکلیف اٹھا کر صبر کرنے والا اور اپنے کام سے ایک بال کے برابر نہ ہٹنے والا بزدل نہیں وہ بہادر ہے۔ بزدل وہ ہے جو میدان سے بھاگ جاتا ہے یا اپنی کوششوں کو سست کر دیتا ہے جو مار کھاتا ہے اور صبر کرتا اور اپنے کام کو جاری رکھتا ہے۔ وہی درحقیقت بہادر ہے کیونکہ بہادری کا پتہ تو اسی وقت لگتا ہے جب اپنے سے طاقتور کا مقابلہ ہو اور پھر بھی انسان نہ گھبرائے۔
۳۴۔ میں نے بار بار آہستگی کی تعلیم دی ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مہینوں اور برسوں میں کام کرو۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قدم بقدم چلو۔ جب قدم مضبوط جم جائے تو پھر دوسرے قدم کے اٹھانے میں دیر کرنا اپنے وقت کا خون کرنا اور اپنے کام کو نقصان پہنچانا ہے۔ اگر گھنٹوں میں کام ہوتا ہے تو گھنٹوں میں کرو۔ اگر منٹوں میں کام ہوتا ہے تو منٹوں میں کرو۔ صرف یہ خیال کر لو کہ اس کی رفتار ایسی تیز نہ ہو کہ خود کام ہی خراب ہو جائے یا آئندہ کام پر اس کا بداثر پڑے۔
۳۵۔ ایسے علاقوں میں رات نہ گزارو جہاں فتنہ کا ڈر ہو۔ اگر وہاں رات بسر کرنی ضروری ہے تو شہر میں نہ رہو۔ شہر سے باہر کسی پرانے مکان یا کسی جھونپڑے میں یا پاس کے کسی گائوں میں رہو صبح پھر وہیں آجائو۔ یہ بزدلی نہیں حکمت عملی ہے۔
۳۶۔ اس عرصہ میں اگر پرانے ہندوئوں کو تبلیغ کر سکو تو موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہ دو۔ مگر سوائے ان لوگوں کے جن کا کام بحث کرنا مقرر کیا گیا ہے۔ دوسرے لوگ بحث کے کام میں حصہ نہ لیں۔ بلکہ فرداً فرداً اور الگ الگ تبلیغ کریں۔
۳۷۔ اردگرد کے ہندئوں کے خیال معلوم کرکے جو شدہی کے برخلاف ہوں۔ ان میں بھی غیر معلوم طور پر اس تحریک کے خلاف جوش پیدا کرنے کی کوشش کرو۔
۳۸۔ یہ کوشش کرو کہ شدھی ہونے والے راجپوتوں پر ثابت ہو جائے کہ ہندو قوم بحیثیت قوم ان کے ساتھ اپنے لوگوں والا برتائو کرنے کے لئے تیار نہیں اور کسی تدبیر سے ایسے لوگوں کو جو اس بات کو دیکھ کر شدھی کی بے ہودگی کو سمجھ سکیں ان لوگوں سے ملائو۔ جو شدھی شدہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لئے تیار نہیں۔
۳۹۔ ان ظلموں اور شرارتوں کی یا جبر کی خوب خبر رکھو۔ جو آریہ لوگ شدھی کے لئے کرتے ہیں اور جہاں جہاں ایسی مثالیں معلوم ہوں ان کا پورا حال معلوم کرکے گواہوں اور مخبروں کے نام سمیت اپنے حلقہ کے دفتر میں ضرور اطلاع دو۔ اس سے اس کام میں بہت مدد مل سکتی ہے اگر کسی جگہ کے متعلق معلوم ہو جائے کہ وہاں آریوں نے بندوقیں اور تلواریں لے کر جمع ہونا ہے اور طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے تو اس کی اطلاع ضرور قبل از وقت دفتر کو دو۔ تاکہ اس سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔
۴۰۔ راجپوت یا دیگر اقوام جن میں شدہی ہو رہی ہے ان میں سے اسلام کا درود رکھنے والے لوگوں کے ساتھ خاص تعلق پیدا کرو اور ہمیشہ ان سے دوستی اور تعلق بڑھانے کی کوشش کرتے رہو۔
۴۱۔ ]dni [tag محنت سے کام کرو اور وقت کو ضائع نہ ہونے دو۔ دن میں کئی کئی گائوں کی خبر لے لینی چاہئے۔ چلنے پھرنے کی عادت ڈالو اور کم ہمتی کو پاس نہ آنے دو۔
۴۲۔ ہدایت زریں میرا لیکچر تبلیغ کے طریق پر ہے۔ وہ حلقوں میں اور صدر میں رکھا ہوا ہو گا اس کو خوب اچھی طرح پڑھ لو۔ کیونکہ اس میں تبلیغ کے متعلق بعض عمدہ گر جو اس جگہ درج نہیں ہیں ملیں گے۔
۴۳۔ بعض شعر جن میں آریہ مذہب کی حقیقت پر روشنی ڈالی جائے گی اور بعض نظمیں مسائل کے متعلق اپنے پاس رکھو اور گائوں کے چند نوجوان لوگوں کو یاد کرا دو پھر بار بار ان سے بلند آواز سے پڑھوا کر وہ سنو۔ اس سے ان میں جوش پیدا ہو گا۔
۴۴۔ اصل چیز جو ارتداد سے روک سکتی ہے وہ روحانیت ہے۔ پس سنجیدگی اور قناعت کا مادہ پیدا کرنے کی کوشش کرو کہ اس کے بغیر سب کوششیں رائیگاں ہیں۔
۴۵۔ جہاں تک ہو سکے ان کو زائد وقت میں تعلیم دینے کی کوشش کرو۔ لفظ لفظ پڑھ کر بھی انسان کچھ عرصہ میں پڑھ جاتا ہے۔ وہ اردو جاننے لگیں تو اس سے بھی اس فتنہ کا بہت حد تک ازالہ ہو جائے گا۔
۴۶۔ ایسے تمام علاج جو مقامی واقفیت سے ذہن میں آویں ان سے اپنے حلقہ کے افسر کو اطلاع دو تاکہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے۔
۴۷۔ ایسے نوجوان جو ذھین ہوں اور تعلیم کا شوق رکھتے ہوں اور تعلیم کی خاطر چند دنوں کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ سکتے ہوں ان کی تلاش رکھو اور پتہ لگنے پر انکے نام اور پتہ اور جملہ حالات سے افسر حلقہ کو اطلاع دو۔
۴۸۔ جس بات کو مخفی رکھنے کے لئے کہا جائے۔ اس کو پوری طرح مخفی رکھو۔ حتیٰ کہ بلا اجازت اپنے آدمیوں پر بھی ظاہر نہ کرو کہ ایسا کرنا بدیانتی اور سلسلہ کی خیانت ہے۔
۴۹۔ آریوں کے طریق عمل اور ان کے مبلغوں کی نقل و حرکت اور ان کے انتظام کا نہایت ہوشیاری اور غور سے مطالعہ کرو اور جب کوئی بات اس کے متعلق معلوم ہو تو فوراً اس کے متعلق افسر حلقہ کو اطلاع دو۔ اس امر میں سستی تبلیغ کے لئے مضر اور اس میں کوشش تبلیغ کے لئے بہت مفید ہو گی۔
۵۰۔ مجھے خط براہ راست آپ لکھ سکتے ہیں۔ مگر یہ خط رپورٹ نہیں سمجھا جائے گا۔ رپورٹ وہی سمجھی جائے گی جو افسروں کے توسط سے مجھ تک آئے گی۔
۵۱۔ اس عہد کو ہمیشہ سامنے رکھیں جو آپ نے میرے ہاتھ پر بیعت کے وقت کیا تھا یا اب اس تحریک کے وقت کیا ہے اور ان ہدایات کو بار بار پڑھتے رہیں اور پوری طرح بلا سرمو کے فرق کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ اس میں آپ کا مددگار ہو۔
۵۲۔ جب دوسرے بھائی کو چارج دیں تو ان تمام لوگوں سے اس کو ملا دیں جو واقف ہو چکے ہیں اور جن سے کام میں مدد ملنے کی امید ہے اور ان لوگوں سے آگاہ کر دیں۔ جن سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے اور سارے علاقہ کی پوری خبر اس کو دیں اور اپنی نوٹ بک سے وہ سب باتیں جو میں پہلے بتا چکا ہوں۔ اس کو نقل کروا دیں تاکہ وہ بغیر محنت کے کام کو آگے چلا سکے اور ایک دفعہ ساتھ مل کر اس کو دورہ کرا دیں۔ پھر دعائوں پر زور دیتے ہوئے اور خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے کہ اس نے خدمت کا موقع دیا۔ واپس آجاویں اور آنے سے پہلے اپنے حلقہ کے مرکز میں آکر رپورٹ کریں کہ میں فلاں شخص کو چارج دے چکا ہوں اور جو معلومات وہ چاہیں ان کو بہم پہنچا کر اور ان کی اجازت سے مع الخیر واپس ہوں۔ خدا آپ کے ساتھ ہو۔ والسلام۔
خاکسار: میرزا محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی قادیان دارالامان۔ ضلع گورداسپور
۲۱/ اپریل ۱۹۲۳ء
مجاہدین احمدیت شدھی کے علاقہ میں
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ شدھی کے خلاف اپنی سکیم یکم اپریل ۱۹۲۳ء سے جاری کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ مگر حالات کی نزاکت کے پیش نظر حضور نے وسط مارچ ۱۹۲۳ء ہی سے اس کا آغاز فرما دیا۔
چنانچہ آپ کی ہدایت پر صیغہ ’’انسداد ملکانہ‘‘ کے نام سے ایک نیا دفتر کھولا گیا اور اس کے افسر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور نائب حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب عبداللہ خاں صاحب تجویز ہوئے۔ اس مرکزی ادارہ کے قیام کے ساتھ آپ نے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو امیر المجاہدین مقرر فرمایا۲۵۔ اور ان کی سرکردگی میں ۱۲/ مارچ ۱۹۲۳ء کو مجاہدین کا پہلا وفد روانہ فرمایا۔
اس پہلے وفد کے مجاہدین مندرجہ ذیل تھے۔ (۱) حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ایم۔ اے (امیر المجاہدین) (۲) حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی۔ (۳) شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے (۴) صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے (۵) صوفی محمد ابراہیم صاحب بی۔ ایس۔ سی۔ (۶) ڈاکٹر نور احمد صاحب سب اسسٹنٹ سرجن (۷) حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب (نو مسلم‘قادیانی) (۸) مہاشہ محمد عمر صاحب نو مسلم (۹) ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم (۱۰) چوہدری بدر الدین صاحب (۱۱) مولوی ظفر اسلام صاحب (۱۲) میاں عبدالسمیع صاحب (۱۳) محمد ابراہیم صاحب نائک (۱۴) فتح محمد صاحب ملتانی سپاہی (۱۵) عزیز احمد صاحب (۱۶) عبداللطیف صاحب گجراتی (۱۷) میاں خدا بخش صاحب (مومن پٹیالوی) (۱۸) حبیب الرحمن صاحب افغان (۱۹) سید صادق حسین صاحب اٹاوہ (جن کو اٹاوہ سے شامل وفد ہونے کی ہدایت دی گئی۲۶۔ اس وفد کی روانگی کے چند دن بعد مولانا جلال الدین صاحب شمس بھی آگرہ اور اس کے ماحول میں مناظرات اور تقاریر کے لئے بھجوائے گئے۔
چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی قیادت میں دستہ ۱۲/ مارچ ۱۹۲۳ء کو روانہ ہو کر ۱۴/ مارچ ۱۹۲۳ء کو بمقام اچھنیرا ضلع آگرہ میں پہنچا۲۷۔
یہاں چوہدری نذیر احمد خاں صاحب وکیل ریاست جے پور اور نیاز محمد خان صاحب جے پور اور محبوب خاں صاحب جو اپنے علاقہ کے سرکردہ غیر احمدی راجپوتوں میں سے تھے اور اسلام کے لئے دردمند دل رکھتے تھے چوہدری صاحب کی ملاقات کے لئے آئے اور جماعت کا قافلہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ ہم تو آپ ہی لوگوں کے منتظر تھے۔ یہ کام بہت نازک ہے اور آپ ہی کی کوشش اور تندہی سے خاطر خواہ طور پر انجام پا سکے گا۔
اچھنیرہ میں مجلس ’’نمائندگان تبلیغ‘‘ کے نمائندوں میں شدید اختلاف رونما ہو چکے تھے اور ان کے دور ہونے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ تاہم حضرت چوہدری صاحب نے ان تینوں اصحاب کی معرفت کہلا بھیجا کہ ہم اس انجمن سے ہر طرح ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مگر باہمی چپقلش کے انتہا تک پہنچنے کی وجہ سے ان نمائندوں میں اتفاق نہ ہو سکا۔ لہذا انجمن کی طرف سے چوہدری صاحب کو اطلاع آئی کہ آپ لوگ اپنا کام الگ شروع کر دیں اور ساتھ ہی احمدیوں کے لئے آگرہ کے ماحول کا ایک ایسا علاقہ مقرر کر دیا گیا۔ جہاں ارتداد پورے زوروں پر تھا یعنی اس علاقہ کا ایک حصہ تو مرتد ہو چکا تھا اور باقی علاقہ ارتداد سے خطرناک طور پر متاثر تھا۔ اس علاقہ کے راجپوتوں اور مولوی صاحبان نے متفق ہو کر کہا کہ اس علاقہ میں خطرہ بہت سخت ہے اس لئے ہم یہ کام آپ ہی کے سپرد کرتے ہیں۲۸۔
آریوں کی طرف سے شدھی کے مختلف ذرائع
وہ علاقہ جو جماعت احمدیہ کے لئے مقرر کیا گیا بلاشبہ سب سے اہم میدان جنگ تھا اور جیسا کہ احمدی مجاہدین کو یہاں پہنچ کر معلوم ہوا۔ یہاں آریہ چپہ چپہ پر شدھی میں مصروف تھے اور اس غرض کے لئے اس پراپیگنڈہ کے علاوہ جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔ ہر قسم کے ناروا طریقے استعمال میں لا رہے تھے۔ کہیں روپے کا لالچ دے رہے تھے اور کہیں ظلم و تشدد کرکے انہیں اپنی زمین اور مکان سے بے دخل کر رہے تھے۲۹۔ اور یہ سب ہندو راجوں اور ہندو افسروں کی پشت پناہی میں ہو رہا تھا۔ مثلاً ضلع فرخ آباد کی ایک چھوٹی سی ریاست تروانامی تھی۔ جس کا راجہ شدھی کا بڑا زبردست حامی تھا۔ وہ خود دیہات میں جاتا۔ سائبان لگ جاتے حلوہ پوری پکنی شروع ہو جاتی۔ راجہ غریب ملکانوں سے ہنس ہنس کر باتیں کرتا۔ انکے قرضے اتارتا اس طرح بھولے بھالے ملکان شدھ ہونے کے لئے تیار ہو جاتے۔ ایک اور طریق یہ دیکھنے میں آیا کہ گائوں کے چند شوریدہ سر آوارہ طبع لوگوں کو چن لیتے اور ان پر اپنا اثر جما کر باقی لوگوں کو بھی شدھ کر لیتے۔ جس گائوں کو شدھ کرنا ہوتا تھا وہاں کی ملکانہ آبادی سے کئی گناہ آدمی لے کر موٹروں‘گاڑیوں‘اونٹوں‘رتھوں‘بندوقوں اور تلواروں کے ساتھ پہنچتے اور اس نمائش سے مرعوب کرکے مسلمانوں کو شدھ کر لیتے۔ ضلع آگرہ کے ایک گائوں (فتح پور) میں جب آریہ گئے تو بعض مسلمان عورتوں نے جو شدھی کے خلاف تھیں تنگ آکر کنویں میں ڈوب مرنے کی کوشش کی جنہیں بڑی مشکل سے بچایا گیا۳۰۔ جہاں جہاں آریوں کا زور بڑھتا جاتا تھا شدھ سے انکار کرنے والوں کا قافیہ حیات تنگ کیا جا رہا تھا تا وہ بھی ارتداد اختیار کرنے پر مجبور ہو جائیں۳۱۔
اس سلسلہ میں ایک اہم واقعہ جو ترتیب کے لحاظ سے آگے آنا چاہئے۔ مگر آریوں کی تشدد آمیز کارروائیوں کا نمونہ بتانے کے لئے ضروری ہے۔ یہیں درج کئے دیتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ فرخ آباد کے گائوں بھڑا میں ایک نوجوان شہزادہ نامی نے اپنی بہادر مسلمان بیوی ’’بسم اللہ‘‘ کو شدھ ہونے کے لئے کہا مگر اس نے صاف انکار کر دیا جس پر شاہزادہ نے اسے لاٹھی سے مار مار کر نیم جان کر دیا وہ بے چاری آخر دم تک مرغ بسمل کی طرح تڑپتی رہی اور یہ کہتے ہی دم توڑ دیا کہ میں مر جائوں گی مگر شدھ نہیں ہوں گی اس حادثہ کے بعد آریوں نے اس مظلومہ کی لاش دفن کر دی اور مشہور کر دیا کہ وفات ہیضہ سے ہوئی ہے بسم اللہ کا باپ نور خاں ایک غریب اور بے کس آدمی تھا۔ بھاگا بھاگا اپنے مولویوں کے پاس گیا مگر کسی نے پروا نہ کی۔ آخر وہ فرخ آباد میں ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کے پاس گیا۔ انہوں نے آگرہ کے مرکز میں اطلاع دی اور شیخ محمد احمد صاحب ایڈووکیٹ جو آگرہ میں مصروف جہاد تھے۔ فرخ آباد آئے اور نور خاں کی طرف سے عدالت میں درخواست دلوائی اور خاص توجہ سے مقدمہ کی پیروی کی۔ قصہ کوتاہ لاش نکلوائی گئی۔ اور ڈاکٹری معائنہ بھی ہوا۔ مگر اوپر سے نیچے تک تمام کارروائی ہندوئوں کے ہاتھوں میں ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مجرم صاف بری ہو گیا۳۲۔
یہ تمام تر حربے اتنے ناروا اور خلاف اخلاق تھے کہ مشہور ہندو لیڈر پنڈت جواہر لال نہرو کو بھی کھلا اعتراف کرنا پڑا کہ۔
’’جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں تحریک شدھی کی بنیاد مختلف اسباب پر ہے اور ناپسندیدہ طریق پر اسے چلایا جا رہا ہے۔ بجائے امن و یکجہتی کے اس کی وجہ سے نفرت و حقارت‘بے اعتمادی اور تلخی کے جذبات پیدا ہو گئے ہیں۔ رواداری کا قطعی فقدان ہو گیا ہے۔ اور ہم میں سے اچھے اچھے اشخاص بھی قابل شرم شکوک و شبہات سے بری نہیں ہیں‘‘۳۳۔
پھر ان ہی دنوں مسٹر گاندھی نے شدھی کے علمبردار سوامی شردھانند اور آریوں کی نسبت اپنی یہ واضح رائے دی کہ۔
’’آپ جہاں کہیں بھی آریہ سماجیوں کو پائیں گے وہاں ہی زندگی اور سرگرمی موجود ہو گی تنگ نظری اور لڑاکی عادت کی وجہ سے وہ ۔۔۔۔۔۔۔ دیگر مذاہب کے لوگوں سے لڑتے رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شردھا نندجی ۔۔۔۔۔۔۔ کو بھی اس سپرٹ کا حصہ وافر ملا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آریہ سماجی اپدیشک (مبلغ) کو اتنی خوشی کبھی نہیں ہوئی جتنی کہ دیگر مذاہب کی بدگوئی کرنے کے وقت ہوتی ہے‘‘۳۴۔
مجاہدین احمدیت کی ابتدائی سرگرمیاں
یہ وہ حالات تھے جن میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے علاقہ ارتداد میں قدم رکھا۔ حضرت چوہدری صاحب نے اپنا مرکز شہر آگرہ میں قائم کرکے مجاہدین کو مین پوری‘ایٹہ‘فرخ آباد‘علی گڑھ‘کرنال اور مظفر نگر کے اضلاع سے صحیح صحیح حالات کی رپورٹ کے لئے بھیجا اور دس دن میں لوٹنے کی تاکید کر دی۳۵۔ جن علاقوں میں شدھی ہو چکی تھی۔ یا ہونے کی افواہ تھی وہاں بھی مبلغ بھجوا دیئے۔ خصوصاً ریاست بھرت پور کے اکرن نامی مشہور گائوں میں جہاں جمیا نامی ایک بہادر راجپوت بڑھیا پورے گائوں کے شدھ ہونے کے باوجود اسلام پر قائم تھی۳۶۔ جمیا کے بیٹوں نے آریوں کے دھمکانے پر اس سے بار بار کہا کہ شدھ ہو جائو تمام آریہ اور ریاست کے حاکم کہہ رہے ہیں مگر یہ نیک بخت عورت نہ مانی۔ اسے بہت دکھ دیئے گئے اور اس کا بائیکاٹ کر دیا گیا لیکن وہ یہی کہتی رہی کہ ’’بیٹا میں اسلام کو ناہیں چھوڑ سکت چاہے گردن کٹ جائے‘‘۳۷۔ اسی طرح ملکان کے مشہور قصبہ نو گائوں میں حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ مقرر ہوئے۳۸۔
جو اصحاب علاقہ کا ابتدائی دورہ کرنے کے لئے بھجوائے گئے تھے وہ جلد ہی پورے محاذ کا دورہ کرکے نہایت اہم معلومات لے کر واپس آئے۔ اس سلسلہ میں انہیں سخت مجاہدہ کرنا پڑا۔ چنانچہ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی‘صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے۔ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم۔ شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے اور دوسرے مجاہدین نے تیز اور چلچلاتی دھوپ میں کئی کئی میل روزانہ پیدل سفر کیا۔ بعض اوقات کھانا تو الگ رہا ان کو پانی بھی نہ مل سکا۔ کھانے کے وقت یا تو اپنا بچا کھچا باسی کھانا کھاتے یا بھونے ہوئے دانے کھا کر پانی پی لیتے اور اگر سامان میسر آسکتا تو آٹے میں نمک ڈال کر اپنے ہاتھوں روٹی پکا کر کھا لیتے۔ رات کو جہاں جگہ ملتی سو جاتے۔ ملکان نے ان کی خاطر تواضع دودھ سے کرنا چاہی۔ مگر انہوں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے اسے واپس کر دیا۔ بعض رئوسا نے مبلغین کے بستر اور سامان کے لئے مزدور دینا چاہے مگر یہ جانباز سپاہی اپنا سامان اٹھائے پیدل سفر کرتے رہے اور ایک گائوں میں کام ختم ہونے پر اس بات کی پروا کئے بغیر کہ کیا وقت ہے یا دوسرا گائوں کتنے فاصلے پر ہے فوراً آگے روانہ ہو جاتے انہوں نے بعض اوقات اندھیری راتوں میں ایسے تنگ اور پر خطر راستوں سے سفر کیا۔ جہاں جنگلی سور اور بھیڑیئے بکثرت پائے جاتے تھے۔ یہ مجاہد ملکانوں پر پانی تک کا بھی بوجھ نہ ڈالتے۔ اور یہ کہتے کہ آپ لوگوںکو دین سکھانے کے لئے ہمارے آدمی آئیں گے۔ جو آپ سے کچھ نہ لیں گے بلکہ اپنا خرچ بھی آپ برداشت کریں گے۔ یہ لوگ چونکہ اپنے مولوی صاحبان کی شکم پروریوں کی وجہ سے بدظن ہو چکے تھے۳۹۔ اس لئے ان کے نزدیک یہ بات بڑی حیرت انگیز تھی کہ ایسے خادم دین بھی موجود ہیں جو رضا کارانہ طور پر اسلام کی تبلیغ کا فریضہ ادا کرنے کا بیٹرہ اٹھائے ہوئے ہیں۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی نے نہ صرف تین دن کے اندر اندر ضلع ایٹہ کے اکثر دیہات کا دورہ مکمل کر لیا اور ہر گائوں سے متعلق ایسے تفصیلی کوائف مہیا کئے گویا مدت سے ان دیہات میں ان کی آمدورفت تھی۔
ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم4] ft[s۴۰ اور خدا بخش صاحب ’’مومن جی‘‘ پٹیالوی نے ضلع فرخ آباد کا وسیع دورہ کیا۔ جناب ماسٹر صاحب نے جوگیوں کے لباس میں بھگوے کپڑے پہنے‘ننگے سر اور ننگے پائوں دورہ کرتے رہے جس کا مسلمانوں پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے ایسے مولوی نہیں دیکھے جو اس طرح رات دن تبلیغ میں بھاگے پھریں اور کسی پر کھانے پینے کا بوجھ نہ ڈالیں۔
جناب شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے ریاست بھرت پور اور علاقہ تسی میں گئے اور بہت سے گائوں میں پہنچ کر معزز لوگوں کو پیش آمدہ خطرہ سے آگاہ کیا۔ اسی دوران میں شیخ صاحب ریاست بھرت پور کے گائوں اکرن کی جواں ہمت ستر سالہ بڑھیا جمیا سے بھی ملے جو آریوں کے ڈرانے دھمکانے کے باوجود مذہب اسلام پر قائم تھی۔ مائی جمیا نے بتایا کہ مرتد مسلمانوں نے تعصب اور ضد کی وجہ سے اس کی فصل کاٹنے سے بالکل انکار کر دیا ہے۔ یہ خبر آگرہ کے دارالتبلیغ میں پہنچی تو حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال امیر وفد المجاہدین نے اسی وقت جناب قاضی محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے بی۔ ٹی کو (جو اس علاقہ کے انچارج تھے) حکم دیا کہ سب کام چھوڑ کر فوراً اپنے آدمیوں کو ساتھ لے کر فصل کاٹنا شروع کر دیں۔ اور اس مائی کی حفاظت کا پورا پورا سامان کریں۔ چنانچہ حضرت قاضی محمد عبداللہ صاحب بی۔ اے۔ بی۔ ٹی اور دوسرے مجاہدین نے ہاتھوں میں درانتیاں پکڑ کر بڑھیا کی ساری فصل کاٹ دی‘‘۴۱۔
صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے نے ضلع مین پوری اور متھرا کا دورہ کرکے قریباً چالیس دیہات میں چکر لگایا۔ اور سولہ میل روزانہ کی اوسط سے پیدل سفر کرتے رہے۔ ایک بار کھانے کا کوئی انتظام نہ ہو سکا اور متواتر انیس گھنٹہ تک بھوکے رہے اور اسی حالت میں سفر جاری رکھا۴۲4] ft[r۔
غرض کہ اس پہلے ہرا دل دستہ کے مجاہدین دس دن تک آگرہ‘متھرا‘بھرت پور‘ایٹہ‘اٹاوہ‘مین پوری‘فرخ آباد کے اضلاع میں طوفانی دورہ کرکے نہ صرف آئندہ کی مورچہ بندی کے لئے مکمل رپورٹ اور سکیم ساتھ لائے بلکہ شدھی سے متاثر مقامات کے مسلمان ملکان کے حوصلے بلند کر دیئے اور ان کو آریوں کے عزائم سے چوکس اور ہوشیار کر دیا۔
حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے ۲۴/ مارچ کو تار دیا کہ بیس مبلغین کی فوری ضرورت ہے چنانچہ ادھر یہ مجاہدین حالات کا جائزہ لے کر آگرہ میں پہنچے ادھر ۲۶/ اپریل ۱۹۲۳ء کو قادیان سے بیس کی بجائے بائیس مجاہدین کا دوسرا وفد آگیا۔ اس وفد کے بعض افراد کے نام یہ ہیں۔ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب قادیانی۔ چوہدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی۔ جناب خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل۔ جناب مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی۔ منشی عبدالخالق صاحب کپورتھلوی۔ منشی محمد الدین صاحب ملتانی (والد ماجد جناب شیخ مبارک احمد صاحب سابق رئیس التبلیغ مشرقی افریقہ) ہادی علی خان صاحب۔ (برادر زادہ مولانا محمد علی و شوکت علی) شیخ محمد ابراہیم علی صاحب (پسر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) اور حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی۴۳۔
حضرت چوہدری صاحب رات کے ایک بجے تک اس وفد کو صورت حال سے آگاہ کرتے اور ہدایات دیتے رہے اور دوسرے ہی دن ۲۷/ مارچ ۱۹۲۳ء کو مختلف انسپکٹروں کی سرکردگی میں نئے مجاہدین کو مختلف اضلاع میں روانہ کرکے ہر طرف پھیلا دیا۴۴۔ چنانچہ مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی بھوپت پور (ضلع ایٹہ) میں چوہدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی متھرا کے گائوں بھائی میں۔ حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب متھرا کے دوسرے گائوں انور میں اور سید عزیز الرحمن صاحب ضلع فرخ آباد میں بھجوائے گئے۴۵۔
میدان ارتداد میں تبلیغی جنگ کا ابتدائی نقشہ
اس دوسرے وفد کے پہنچنے پر میدان ارتداد میں مدافعت کا ابتدائی نقشہ یہ ہو گیا امیر المجاھدین کے ساتھ صوفی محمد ابراہیم صاحب بی۔ ایس سی اور خواجہ علام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل نے آگرہ میں کام شروع کیا۔ مولانا جلال الدین صاحب شمس آگرہ اور دوسرے علاقوں میں مباحثوں اور تقریروں کے لئے مقرر ہوئے۔
ضلع آگرہ کے موضع کھڈوائی میں مولوی ظفر اسلام صاحب موضع سکرار میں منشی محمد دین صاحب اور ان کی نگرانی اور نئے حالات سے تبلیغی مرکز میں اطلاع دینے کی خدمت حضرت بھائی عبدالرحمن صاحبؓ قادیانی کے سپرد ہوئی۔ ضلع متھرا میں (جو اس وقت آریوں کا بھاری مرکز تھا) حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب‘حضرت شیخ غلام احمد صاحب واعظ‘میاں خدا بخش صاحب مومن‘چوہدری بدر الدین صاحب‘چوھدری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی‘صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز‘حضرت قاضی محمد عبداللہ بی۔ اے۔ بی۔ ٹی اور شیخ یوسف علی صاحب بی۔ اے پہلے ہی نو گائوں‘پرکھم‘موضع بھائی‘موضع باٹھی‘موضع تیرہ اور موضع بیری وغیرہ میں کام کر رہے تھے۔
ضلع فرخ آباد میں ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم تھے اور ان کے تحت حضرت سید عزیز الرحمن صاحب اور دوسرے متعدد مجاہدین قائم گنج‘علی گڑھ و قنوج‘برون‘چھٹرمئو‘محمد آباد اور منگھوالی میں مصروف جہاد تھے۔ ضلع ایٹہ کے قصبات و مواضع (دھومٹری‘بھوپت پور اور کاس گنج) میں مولوی عبدالخالق صاحب اور مولوی ظل الرحمن صاحب بنگالی فاضل وغیرہ نے مورچے سنبھالے۔ ریاست بھرت پور‘ضلع علی گڑھ‘ضلع مظفر گڑھ اور ضلع اٹاوہ میں بالترتیب مولوی عبدالصمد صاحب پٹیالوی۔ شیخ ابراہیم علی صاحب۔ منشی عبدالسمیع صاحب کپورتھلوی اور ہادی علی خان صاحب اور ان کے ساتھ دوسرے مجاہدین کا تقرر ہوا۴۶۔
۴/ اپریل ۱۹۲۳ء کو قادیان سے مجاہدین کا تیسرا وفد بھی۴۷ جو بائیس افراد پر مشتمل تھا راتوں رات ہدایات لے کر ۷/ اپریل کو میدان عمل میں پہنچ گیا۔ اس وفد میں دوسرے احباب کے علاوہ حضرت مولوی محمد حسین صاحب‘حضرت چوہدری برکت علی صاحب گڑھ شنکر‘حضرت مولوی حکیم غلام محمد صاحب امرتسری‘قریشی محمد حنیف صاحب میر پوری اور عبداللہ خانصاحب (خلف حضرت خان صاحب ذوالفقار علی صاحب بھی شامل تھے۔ اس وفد کی آمد پر زور شور سے تبلیغی جنگ لڑی جانے لگی۔
اسی دوران میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے افسر صیغہ انسداد ارتداد ملکانہ حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ کے ساتھ آگرہ تشریف لے گئے۴۸`۴۹ اور بچشم خود اصل حالات کا مشاہدہ کرکے اور مبلغین کو ضروری اور مناسب ہدایات دے کر ۲۳/ اپریل ۱۹۲۳ء کو واپس تشریف لائے۔ آپ کے تاثرات یہ تھے کہ ’’یہ ایک عظیم الشان جنگ تھی۔ جس کا محاذ قریباً ایک سو میل کی وسعت پر پھیلا ہوا تھا اور اس وسیع محاذ پر اسلام اور کفر کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل پر تخت یا تختہ کے عزم کے ساتھ ڈیرہ جمائے پڑی تھیں‘‘۵۰۔
آگرہ‘متھرا کے اضلاع اور ریاست بھرت پور میں شدھی کا حملہ بہت سخت تھا۔ مگر امیر وفد المجاہدین نے دور اندیشی کی کہ جن علاقوں میں آریہ ابھی پہنچے نہیں تھے یا ان کا زور کم تھا وہاں مجاہدین کو پیش قدمی کا حکم دے کر قبضہ کر لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سے گائوں ارتداد سے بچ گئے۵۱body] ga[t۔
۱۶/ اپریل ۱۹۲۳ء کو قادیان سے انیس مجاہدین کا چوتھا وفد جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کی امارت میں روانہ ہوا جو حضرت شیخ صاحب موصوف‘حضرت قاضی عبدالرحیم صاحب بھٹی‘مرزا مہتاب بیگ صاحب مولوی محمد اسماعیل صاحب (برادر اکبر حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری) اور حضرت منشی قاسم علی خاں صاحب رامپوری وغیرہ اصحاب پر مشتمل تھا۵۲۔ ۱۸/ اپریل ۱۹۲۳ء کو آگرہ پہنچا۔ اس وفد کے پہنچنے پر میدان جہاد میں کام کرنے والوں کی مجموعی تعداد سو کے قریب ہو گئی۔ اس کے بعد ایسا انتظام کیا گیا کہ بیک وقت ایک ایک سو آنریری مبلغ اس علاقہ میں کام کرتے تھے ایک دستہ فارغ ہوتا تھا تو اس کی جگہ دوسرا وفد پہنچ جاتا تھا۵۳۔
اگلے وفدوں میں آنے والے بعض اصحاب کا نام بالترتیب یہ ہے۔ چوہدری غلام احمد صاحب کریام۔ شیخ فضل احمد صاحب ہیڈ کلرک راولپنڈی (حال ربوہ`) محترم جناب شیخ بشیر احمد صاحب لاہور (سابق جج ہائیکورٹ مغربی پاکستان`) جناب میاں عطاء اللہ صاحب (بی۔ اے ایل ایل بی لاہور سابق امیر جماعت راولپنڈی مقیم کینیڈا`) چوہدری احمد دین صاحب (وکیل گجرات`) میاں فضل کریم صاحب بی۔ اے‘(مرزا) عبدالحق صاحب لاہور (حال امیر صوبائی و صدر نگران بورڈ`) شیخ محمود احمد صاحب پلیڈر کپور تھلہ‘بابو غلام رسول صاحب ریڈر سیشن کورٹ پشاور‘سید فضل الرحمن صاحب فیضی کمرشل ہائوس منصوری‘حضرت میر مہدی حسین صاحب‘حضرت مولوی حکیم قطب الدین صاحب قادیان‘حافظ ملک محمد صاحب پٹیالوی‘حضرت منشی فرزند علی خان صاحب‘ملک عزیز محمد صاحب پلیڈر ڈیرہ غازی خان‘حضرت مولوی محمد عبداللہ صاحب سنوریؓ۔
حضرت مولوی محمد حسین صاحب کے نہایت ایمان افروز چشم دید اور خودنوشت حالات
حضرت مولوی محمد حسین صاحب وہ خوش نصیب بزرگ ہیں جنہیں پہلی بار ۴۔ اپریل ۱۹۲۳ء کو مجاہدین کے تیسرے وفد میں جانے کی سعادت نصیب ہوئی بلکہ بعد ازاں میں کیا عرصہ مربی
ملکانہ کی حیثیت سے شاندار خدمات کی توفیق ملی آپ اپنی کتاب ’’میری یادیں‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:۔
’’شردھانند آریہ نے آگرہ سے غالباً یہ اشتہار دیا کہ اگر آریہ سماج چار لاکھ روپیہ اکٹھا کرکے مجھے بھیج دیں تو میں ساڑھے چار لاکھ ملکانہ مرد وزن بچوں کو آریہ بناسکتا ہوں۔ جب یہ اشتہار حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں پہنچا تو حضور کو سخت قلق ہوا اور آپ نے وہ اشتہار خطبہ جمعہ میں پڑھ کر سنایا اور اعلان کیا کہ ہماری جماعت اب میدان میں نکلے اور تین ماہ خدا تعالیٰ کی خاطر وقف کرے اور اپنے ہی کرایہ اور کھانے کے بندوبست پر یوپی کے علاقہ جہاں بھی اس کا تعین کیا جائے رہ کر ان لوگوں کو دین
‏rov.5.22,a
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
حق سے اچھی طرح وابستہ کرے۔ چنانچہ جو لوگ اس کام کے لئے تیار ہوں وہ بہت جلد اپنی درخواستیں بھیج کر جانے کے لئے تیار رہیں۔ حضور کا یہ اعلان سنتے ہی سینکڑوں مخلصین نے درخواستیں دیں۔ میں نے بھی والد صاحب سے اجازت لے کر درخواست دے دی۔ میری اس درخواست کا سن کر والدہ صاحبہ بہت گھبرائیں کیونکہ کسی عورت نے بتا دیا تھا کہ جہاں یہ لوگ جائیں گے وہاں ہندوئوں سے جھگڑے ہوں گے اور وہاں ہندو کثرت سے ہیں۔ نامعلوم یہ کہاں مارے جائیں۔ عورتوں کے دل کمزور ہوتے ہیں۔ اسی لئے آپ بھی گھبرا گئیں۔ میں نے آپ کو بڑی محبت سے سمجھایا کہ خدا نے اس جگہ سے ہمیں بچائے رکھا جہاں ہم گورنمنٹ کی نوکری میں صرف جنگ کرنے کے لئے ہی گئے تھے اور یہ تو خدا تعالیٰ کا کام ہے وہ خود ہی ہماری حفاظت کرے گا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں اور ہر نماز میں دوسری دعائوں کے ساتھ دین حق کی فتح کی دعا بھی کرنا شروع کردیں۔ قادیان سے ۱۲ مارچ ۱۹۲۳ء کو پہلا وفد برائے سروے حضور نے روانہ فرمایا۔ حضور اور دیگر احباب کثرت سے ڈلہ کے موڑ تک وفد کو روانہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے۔ وہاں ایک کنویں کے نزدیک تمام احباب اکٹھے ہوگئے۔ حضور نے مختلف نصیحتیں کرنے کے بعد ایک لمبی دعا کروا کر وفد کو روانہ کیا اور اس وقت تک وہیں کھڑے رہے جب تک وفد کے احباب جاتے ہوئے دکھائی دیتے رہے۔ جب یہ وفد آنکھوں سے اوجھل ہوا تو حضور نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ ہم بھی آپ کے ہمراہ واپس آگئے۔ اس وقت میرے دل میں بہت جوش اٹھا کہ کاش میں بھی اس جانے والے وفد کے ہمراہ ہوتا۔ واپس قادیان آکر غمگین دل کے ساتھ دوبارہ کام شروع کردیا۔ بالاخر ۲۴ مارچ ۱۹۲۳ء کو دوسرا وفد جانے کی افواہ سنی۔ بڑی خوشی ہوئی کہ اب میرا نام بھی اس وفد میں ضرور آجائے گا۔ میں نے فہرست میں اپنے نام کی تسلی کرنے کے لئے کوشش کی تو جواب ملا کہ آپ تسلی سے اپنا کام جاری رکھیں۔ جب آپ کا نام آئے گا تو روانگی سے ایک دن قبل آپ کو اطلاع کردی جائے گی۔ ۲۳ مارچ کا دن بھی آگیا مگر شام تک مجھے کوئی اطلاع نہ ملی اور اگلے دن صبح یہ اعلان ہوگیا کہ آج بعد دوپہر دوسرا وفد روانہ ہوگا۔ چنانچہ پہلے وفد کی روانگی کی طرح اب بھی ہم حضور کے ہمراہ اسی جگہ تک گئے اور نصائح کے بعد دعا کے ساتھ وفد کو روانہ کیا۔ میرا نام وفد میں نہ آنے کی وجہ سے سخت اضطراب کی حالت میں رہا اور پھر تنگ آکر میں نے حضور کی خدمت میں ایک درخواست لکھی کہ اگر حضور نے مجھے تیسرے وفد میں بھی نہ بھیجا تو میں بیمار ہوجائوں گا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے میری التجا سن لی اور مجھے اطلاع ملی کہ کل مورخہ ۴ اپریل ۱۹۶۳ء کو تیسرے وفد کے ہمراہ جانے کے لئے تیار رہیں اور کل دس بجے اپنا مختصر سامان‘کھانا اور کپڑے وغیرہ ہمراہ لیکر دفتر تشریف لے آئیں۔ یہ سن کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور اگلے دن مع سامان اور ساٹھ روپے نقد لے کر دفتر پہنچ گیا۔ وہاں سے سرٹیفکیٹ ملا کہ ’’حامل سرٹیفکیٹ جماعت احمدیہ ضلع گورداسپور پنجاب کا بونافائڈ مشنری ہے۔ اسے ہر جگہ جانا پڑے گا اور ضرورت کے مطابق لباس بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔ اس لئے گورنمنٹ اسے مشتبہ نظر سے نہ دیکھے وغیرہ وغیرہ۔
مورخہ ۴۔ اپریل ۱۹۶۳ء کو دفتر سے فارغ ہونے کے بعد وفد کے سب اصحاب جو تعداد میں پچیس کے قریب تھے اکٹھے ہوئے اور ہمیں حضور اور دیگر افراد جماعت کثرت سے ڈلہ کے موڑ تک الوادع کرنے گئے۔ حضور نے حسب معمول نصائح فرمائیں اور اعلان کیا کہ جس کو نئی بستی میں داخل ہونے کی دعا یاد ہے وہ گاڑی میں ہی سب احباب کو حفظ کرا دے مجھے اور عبدالرحیم صاحب کو یہ دعا یاد تھی چنانچہ ہم نے سب کو یاد کروانے کا اقرار کیا۔ حضور نے بعد دعا و معانقہ ہمیں رخصت کیا۔ ہم پیدل ہی جارہے تھے اور بار بار مڑ کر پیچھے دیکھ لیتے تھے۔ حضور بھی اس وقت تک کھڑے ہمیں دیکھتے رہے جب تک ہم انہیں دکھائی دیتے رہے۔ ہم تیزی کے ساتھ چلتے رہے۔ عصر کی نماز قصر کرکے ہم نے نہر کے کنارہ پر نماز باجماعت ادا کی اور مغرب کے بعد بٹالہ پہنچے۔ رات کو بٹالہ سے بذریعہ گاڑی روانہ ہوئے اور اگلے دن بعد دوپہر آگرہ پہنچے۔ وہاں چوہدری فتح محمد صاحب سیال امیر تھے۔ انہوں نے ہمارے لئے حلقوں کا انتخاب کیا۔ جو لوگ مجھ سے واقف تھے وہ مجھے اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ آخر بابو جمال الدین صاحب جو ایڈیٹر ’’نور‘‘ محمد یوسف صاحب کے سسر تھے انہوں نے چوہدری صاحب سے کہا کہ میں عمر رسیدہ ہوں اس لئے آپ مولوی محمد حسین کو میرے ہمراہ کردیں۔ چوہدری صاحب نے منظور کرلیا۔ ہمیں ضلع ایٹہ ملا اور عبدالرحمان صاحب قادیانی ہمیں ہمارے حلقہ میں پہنچانے کے لئے ہمراہ چل دیئے۔ کاسکنج پہنچنے کے بعد بذریعہ لاری ایٹہ پہنچے۔
چونکہ ہم رات کے وقت ایٹہ پہنچے تھے اس لئے رہائش کے لئے سرائے تلاش کرنے لگے۔ ایک آدمی سے سرائے کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگا کہ آپ آباد سرائے میں جائیں گے یا غیر آباد میں؟ ہم نے کہا آباد سرائے میں تو وہ بیچارہ ہمیں راستہ بتا کر کہنے لگا کہ وہاں روشنی ہورہی ہوگی اور آپ آسانی سے وہاں پہنچ جائیں گے۔ جب ہم چند قدم ہی آگے بڑھے تو مجھے خیال آیا کہ اس آباد اور غیر آباد سرائے کے بارے میں معلوم کرنا چاہئے۔ چنانچہ واپس آکر دریافت کی تو معلوم ہوا کہ آباد سرائے میں ہر قسم کی بازاری عورت مل جائے گی اور غیر آباد میں نہیں ملے گی۔ میں نے لاحول پڑھا اور ہنستے ہنستے عبدالرحمان صاحب کو آواز دی کہ ذرا ٹھہر جائیں اور انہیں سارا حال سنایا۔ وہ بھی لاحول پڑھ کر ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ شکر ہے کہ آپ کو یہ بات بروقت سوجھ گئی ورنہ صبح کو ہماری بڑی بدنامی ہوتی۔ غرضیکہ ہم غیر آباد سرائے میں چلے گئے۔ صبح اٹھ کر نماز وغیرہ پڑھی اور بعد دعا بذریعہ یکہ ڈھمری روانہ ہوگئے۔ ظہر کے وقت علی گنج کی تحصیل میں ایک گائوں ’’گڑھی‘‘ تھا جو پختہ سڑک کے کنارہ پر تھا وہاں پہنچے۔ بھائی عبدالرحمان صاحب نے ہمیں سڑک پر ہی اتار دیا کہ آپ اس گائوں میں جہاں چاہیں ڈیرہ لگا لیں میں اب واپس جاتا ہوں۔ خدا حافظ کہہ کر اسی یکہ پر واپس روانہ ہوگئے۔ ہم اپنا سامان اٹھا کر اسی گائوں کی ایک چھوٹی سی پختہ بیت میں پہنچے۔ چھوٹے چھوٹے بچے جن کی زبان سے ہم واقف نہ تھے ایک دوسرے کو کہہ رہے تھے۔ ’’ارے یہ کوہ ہے؟‘‘ یعنی یہ کون ہے؟ تھوڑے دیر کے بعد ایک معمر آدمی جس کا نام ممتاز علی خان تھا آیا۔ اس نے بڑی عمدہ سلیس اردو میں ہمارے ساتھ مہذبانہ طریق سے بات کی۔ ہمیں اس سے مل کر بہت خوشی ہوئی۔ وہ تعلیم یافتہ آدمی تھا۔ ہم نے اسے اس ملک میں آنے کی غرض بتائی۔ وہ سن کر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ میں پہلے آپ کے کھانے کا انتظام کر آئوں پر بیٹھ کر باتیں کریں گے۔ بابو صاحب کہنے لگے کہ مولوی صاحب میں تو اب یہیں رہوں گا آپ کوئی اور گائوں قریب ہی تلاش کرلیں۔ میں نے کہا بہت اچھا۔ انشاء اللہ تعالیٰ میں بھی کوئی گائوں تلاش کرلوں گا۔ آپ بے فکر رہیں۔ رات کو کافی دوست اکٹھے ہوگئے۔ میں نے ان سے اردگرد کے دیہات کا پتہ لیا۔ ان سے قسم قسم کی باتیں کرکے ان سے تعلقات پیدا کئے۔ وہ لوگ مجھ سے زیادہ مانوس ہوگئے کیونکہ بابو صاحب کم گوتھے اور مجھے باتیں کرنے کا شوق پرانا تھا۔ رات کے بارہ بجے مجلس برخواست ہوئی۔ میں نے کچھ طالب علم بھی بابو صاحب کو مہیا کردیئے۔ صبح کے وقت میں نے نماز پڑھائی جس میں دو تین مقامی لوگوں نے بھی شرکت کی۔ دن کے دس بجے میں اپنا بستر اور دیگر سامان اٹھا کر وہاں سے روانہ ہوا۔ ابھی دو میل کے قریب ہی سفر کیا تھا ایک گائوں میں بیت نما بوسیدہ سا مکان دیکھا۔ میں نے ایک مقامی دوست سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ یہ ملکانہ مسلمانوں کا گائوں ہے۔ اور اس کا نام نگلہ گھنو ہے۔ میں اس بوسیدہ سے مکان میں پہنچا۔ اس میں محراب بھی بنا ہوا تھا اور فرش پر گھاس اگا ہوا تھا۔ وہیں میں نے اپنا ڈیرہ جما لیا۔ وہاں پانی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ میں اکیلا ہی بیٹھا رہا۔ کسی قسم کی کوئی گھبراہٹ نہ تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک معمر سی عورت آئی۔ میں نے السلام علیکم کہا۔ اس نے کہا بیٹے جیتے رہو۔ تم کہاں سے آئے ہو اور کیا کام ہے۔ میں نے اپنی آمد کی غرض بتائی کہ آریوں سے اس قوم کو بچانے کے لئے ہمارے پیارے امام نے ہمیں قادیان سے بھجوایا ہے۔ تفصیل سے باتیں بتائیں تو وہ بہت خوش ہوئی اور کہنے لگی کہ یہاں کے لوگ بہت جاہل ہیں ان سے گھبرا نہ جانا۔ میں نے کہا اماں جی اگر یہ لوگ‘ہمارے بھائی‘جاہل نہ ہوتے تو آریہ ان پر حملہ کیوں کرتے۔ وہ یہ کہتے ہوئے چلنے لگی کہ میں آپ کے لئے ’’ستوا‘‘ یعنی ستو لاتی ہوں۔ میں نے کہا اماں جی آپ کا شکریہ۔ میرے پاس ستو بھی ہے اور بھنے ہوئے چنے اور جو موجود ہیں آپ کوئی تکلیف نہ کریں۔ ہمیں حضرت صاحب کا حکم ہے کہ اپنا ہی کھانا ہے کسی کو اس کی تکلیف نہیں پہنچانا۔ وہ بڑے اصرار کے بعد لے ہی آئی اور کہنے لگی بیٹا تین دن تک تو مہمان رہ کر حق رکھتے ہیں پھر چوتھے دن خود انتظام کرلینا۔ اس معمر خاتون کا نام ممتاز بیگم تھا اور یہی اس گائوں میں نماز و روزہ سے واقف تھی۔ باقی سب اسلام کی تعلیم سے ناواقف تھے۔ اس کی زرعی زمین کافی تھی لیکن بوجہ بیوہ ہونے کے مزارعان بددیانتی کرلیا کرتے تھے۔ اس کی دو شادی شدہ بیٹیاں تھیں اور ایک لڑکا نصیر الدین خان تھا جو مڈل پاس تھا۔ میرا پہلے دن ہی ان سے تعارف ہوگیا تھا۔ میں نے ظہر کی اذان کہی۔ بعض لوگ اذان سن کر آئے اور مجھے مل کر چلے گئے۔ رات کے وقت مائی جی ہی کھانا لے آئی اور میں نے اپنا سامان ان ہی کے گھر رکھ دیا۔ خود میں چوپال یعنی ایک مشترکہ مکان ہوتا ہے جس میں ہر گھر کی ایک چارپائی موجود رہتی ہے اور سب گھروں کے مہمان کھانا وغیرہ کھا کر رات وہیں آکر بسر کرتے ہیں۔ اگر کوئی مسافر ہو تو اس کا کھانا بھی چوپال میں ہی آجاتا ہے۔ رات کو یہ سب لوگ میرے اردگرد جمع ہوگئے۔ نمبردار بھجو خان اور وہاں کا رئیس مظفر خان اس کا والد جان محمد خان‘دلاور خان‘خیراتی خاں‘میاں خاں‘منشی خاں‘عثمان خاں‘نتھو خاں‘نور محمد خاں اور افضل خاں وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ میں نے ان سے تعلقات پیدا کرنے کے لئے ایک دلچسپ کہانی سنائی کیونکہ وہ لوگ کہانیوں کے بہت شوقین تھے۔ صبح کے وقت گائوں میں چرچا ہوگیا کہ ’’ارے پنجابی مولبی صاحب تو غجب کی کہانی کاہت ہیں‘‘ یعنی پنجابی مولوی صاحب تو غضب کی کہانی کہتے ہیں۔ میں بھی دن بھر اس قسم کی کہانیاں گھڑتا رہتا تھا جس سے دین حق کے ساتھ محبت بھی پیدا ہو اور دلچسپ بھی ہو۔ غرضیکہ تین چار دنوں میں وہ لوگ میرے ساتھ مانوس ہوگئے۔ میں نے آہستہ آہستہ اردگرد کے دیہات کا دورہ کرنا شروع کردیا اور آریوں کے تعلقات اور آمدورفت کا پتہ رکھا۔
مجھے نگلہ گھنو میں رہتے ہوئے پانچواں ہی دن تھا کہ ٹھاکر گردندر سنگھ آریہ اپدیشک وہاں آگیا۔ اس گائوں میں ہندو ٹھاکروں کے دو ہی گھر تھے اور ایک گھر بنئے کا تھا مگر یہ سب لوگ میرے واقف ہوچکے تھے۔ اس آریہ ٹھاکر نے آکر ان لوگوں کو آریہ بن جانے کی پرزور تحریک کی اور ان کے جذبات کو بہت بھڑکایا اور ان میں ایک خون‘ایک تمدن اور ایک لباس اور ایک ہی قسم کی زبان ہونے اور اعتقاد میں ذرا سا اختلاف ہونے پر انہیں متحد ہونے کی ہدایت کی۔ میں خاموشی سے ان کی ساری باتیں سنتا رہا۔ جب وہ اپنی بات ختم کرچکا تو میں نے کہا ٹھاکر صاحب آپ نے متحد ہونے کی تحریک کی ہے میں نے اس سے بہت اچھا اثر لیا ہے اور ہم سب لوگ بھی یہی چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام لوگوں کا ایک ہی خون ہے ایک ہی خوراک ہے ایک ہی آنے کا راستہ ہے اور ایک ہی جانے کا راستہ ہے لباس بھی سب پہنتے ہیں اور غذا بھی سب کھاتے ہیں۔ زمین بھی سب کی ایک ہے اور آسمان بھی سب کا ایک ہی لیکن جس طرح ہم سب کی شکلیں جداگانہ‘عقلیں جداگانہ‘علم جداگانہ اور اعتقاد بھی جداگانہ ہیں لیکن بعض باتوں میں ہم سب ایک جیسے ہیں اور بعض میں مختلف ہیں اسی طرح نباتات‘جمادات اور حیوانات کا حال ہے۔ درخت کا لفظ تو سب کے لئے بولا جاتا ہے مگر کوئی کیکر ہے تو کوئی ڈھاک ہے‘کوئی شہتوت یا آم ہے تو کوئی نیم ہے غرضیکہ نام کا اشتراک ہے مگر تاثیرات اور فوائد سب ایک ہیں مگر ہم سب کے اعتقادات جو الگ الگ قائم ہوچکے ہیں اگر ہم کوشش کریں تو یہ ایک ہوسکتے ہیں اور یہ کوشش اسی طرح ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے آریہ عقائد بیان کریں ہم سن کر ان پر غور کرتے ہیں۔ اگر وہ ہمارے دین حق سے اچھے ہوئے تو ہم ان کو قبول کرلیں گے۔ پھر میں اپنے ناقص علم کے ساتھ اسلامی عقائد و اخلاق بیان کروں گا۔ پھر آپ ان پر غور کریں پھر ان دونوں میں جو اچھے ہوں گے ان پر ہم دونوں اکٹھے ہوجائیں گے۔ سارے مجمع نے اس بات کو بہت پسند کیا مگر ٹھاکر صاحب نے کہا کہ آپ سے ہماری کوئی بات نہیں ہے۔ آپ پنجابی ہیں۔ میں تو اپنی برادری کو اپنے ساتھ ملا کرجائوں گا۔ میں نے کہا ہم سب مہادیو یعنی حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اس وجہ سے آدمی کہلاتے ہیں۔ اس لئے سب برادری ہیں۔ جب خدا کا بنایا ہوا سورج ساری دنیا کے کام آتا ہے‘اس کی ہوا‘پانی‘آگ‘چاند‘ستارے آسمان اور زمین غرضیکہ اس کی بنائی ہوئی ہر چیز دنیا کے کام آتی ہے تو خدا کا دین بھی ایک ہونا چاہئے اور اس وقت ضرورت بھی ساری دنیا میں ایک ہی دین کی ہے تاکہ جس طرح سب کے جسم ایک جیسے ہیں‘اعتقاد بھی ایک جیسا ہو اور آپس میں مستقل اتحاد پیدا ہوجائے۔ اگر ہر برادری کا مذہب علیحدہ علیحدہ ہو تو پھر دن رات جھگڑے ہی ہوتے رہیں گے۔ ٹھاکر صاحب بولے کہ دنیا میں جس طرح پہلے دن سے ایک ہی سورج چلا آرہا ہے اسی طرح دنیا میں ابتدائی کتاب وید مقدس چلی آرہی ہے اگر اس پر تمام دنیا ایمان لے آئے تو سب جھگڑے آج ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ میں نے ٹھاکر کا شکریہ ادا کیا کہ آخر آپ نے بھی محسوس کرہی لیا کہ میرا بیان کرنا صحیح تھا مگر ٹھاکر صاحب آپ نے میرے پہلے بیان پر غور نہیں کیا کہ بعض باتیں تو سب کی مشترک ہیں لیکن بعض میں تبدیلی ضروری ہے۔ مثلاً بارش بھی ابتدائے زمانہ سے چلی آرہی ہے۔ مگر ہمیں اس کی ہر وقت ضرورت نہیں ہوتی۔ اگر ہمیں کسی وقت اس کی ضرورت ہے تو کسی وقت دھوپ کی بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ پہلی جماعت کا قاعدہ صرف پہلی جماعت کے لئے ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس کے حروف ساری کتابوں میں استعمال ہوتے ہیں اور طالب علم کی استعداد کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کی کتابیں بھی بدلتی جاتی ہیں۔ اسی طرح بچپن میں بھی ہمیں لباس ہی پہنایا جاتا تھا مگر اب جوانی میں ہم وہ لباس نہیں پہن سکتے کیونکہ ہم بڑے ہوچکے ہیں۔ اسی طرح اگر ابتداء میں وید تھا تو وہ ابتدائی قاعدہ کی طرح تھا۔ اب جب کہ دنیا کی استعداد بڑھ چکی ہے تو انہیں اب مکمل کتاب کی ضرورت تھی اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ کتاب قرآن کریم ہے۔ جیسے جوان آدمی کے ناپ کے کپڑے بڑھاپے تک کام میں آتے ہیں اسی طرح قرآن کریم اب قیامت تک کام دینے کا دعویدار ہے مگر وید میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں ہے کہ میں ساری دنیا کے لئے کامل کتاب ہوں۔ جب وید دعویدار ہی نہیں تو مدعی سست گواہ چست والا معاملہ آپ نہ کریں۔ ٹھاکر صاحب بولے آپ ہماری باتوں میں دخل نہ دیں۔ یہ پنجاب نہیں کہ دھنیا‘جولاھا‘لوہار‘ترکھان سب ایک ہی ہوں۔ ہم راجپوت ہیں اور مسلمان بادشاہوں نے ان ہمارے بھائیوں کے بزرگوں کو پتاشے کھلا کر مسلمان کرلیا تھا اور ہم لوگوں نے بھی سستی کی کہ انہیں منہ نہ لگایا۔ اب ہم نے تہیہ کرلیا ہے کہ ہم انہیں اپنے ساتھ ملا کر رہیں گے خواہ ان کے پائوں پکڑنا پڑیں یا ان کے آگے ہاتھ جوڑنا پڑیں۔ میں نے کہا ٹھاکر صاحب میں بھی آپ کا خونی رشتہ دار ہوں اور پنجابی ہونا کوئی جرم نہیں ہے۔ پنجاب میں گائوں کے گائوں راجپوتوں کے آباد ہیں اور میں خود بھی راجپوت کھوکھر ہوں۔ کوئی بھٹی ہیں کوئی چوہان راٹھور ہیں۔ رھا دھنیا‘جولاہا‘تیلی و موچی وغیرہ تو یہ سب ہندوئوں سے ہی ہمارے ہاں مسلمان ہوئے ہیں اور ادھر بھی موجود ہیں۔ مسلمان بھی ہیں اور ہندو بھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ ان ہندوئوں کو جو چمار‘بھنگی‘تیلی و لوہار ہیں کمی (کمین) جان کر نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر ہم لوگ ان کے مسلمان ہوجانے پر اور صاف رہنے کی وجہ سے ان سے نفرت نہیں کرتے کیونکہ یہ سب پیشوں کے نام ہیں اور پیشوں کے بغیر دنیا کا کام چل ہی نہیں سکتا۔ اس لئے وہ لوگ ہمارے مددگار ہیں۔ کسی بات میں ہم ان کے اور کسی بات میں وہ ہمارے محتاج ہیں۔ اناج حاصل کرنے کے لئے اگر وہ ہمارے محتاج نہیں تو جوتا‘تیل اور صفائی رضائی کے لئے ہم ان کے محتاج ہیں۔ اس لئے میں نے بتایا تھا کہ وید ابتدائی قاعدہ ہے۔ یہ ساری دنیا میں محبت واتحاد نہیں پیدا کرسکتا اور اسلام ہی ایسا مذہب ہے جو ان کی شرن میں آجائے اس کو بھائی بھائی بنا دیتا ہے۔ ٹھاکر صاحب بولے ہماری مقدس گائے کھانے والے لوگوں سے ہمارا اتحاد نہیں ہوسکتا اور یہ کہ ہم گائے کھانے والوں کو چیر کر رکھ دیں گے۔ ہمارا راجپوتی خون اب جوش میں ہے۔ جو ہمیں ماں کی طرح میٹھا میٹھا دودھ پلاتی ہے یہ ڈشٹ مسلمان اس کو ذبح کردیتے ہیں اور اس کا سرتن سے جدا کردیتے ہیں۔ چونکہ وہ راجپوت مسلمان بھی گائے کا گوشت نہیں کھاتے تھے اس لئے ٹھاکر صاحب نے ان کے جذبات بھڑکانے کی کوشش کی۔ جب وہ ذرا خاموش ہوا تو میں نے کہا ٹھاکر صاحب آپ تو غصہ میں آگئے۔ حالانکہ اپدیشک کا یہ فرض ہے کہ اپنے علم سے محبت کے ساتھ برے فعل کی برائی اور بھلے کام کی بھلائی بیان کرے پبلک کو سوچ بچار کا موقع دے۔ اس جگہ کس نے گائے کو تکلیف دی ہے کہ آپ خواہ مخواہ اپنے اور دیگر دوستوں کے جذبات بھڑکانے کی کوشش میں لگ گئے ہیں۔ آپ کے اس رویے سے مجھ پر کوئی اچھا اثر نہیں ہوا بلکہ یہی معلوم ہوا کہ آپ اپنے مذہب کی کوئی خوبی بیان نہیں کرسکتے بلکہ ایک ایسی طرح ڈالنا چاہتے ہیں جس سے آپ کی کمزوری پر پردہ پڑا رہے۔ میں بھی جذبات کو بھڑکا کر لڑائی کراسکتا ہوں مگر ہمارا دین حق سلامتی کا مذہب ہے۔ یہ جنگ کو روکنا اور صلح کو قائم کرنا چاہتا ہے۔ ٹھاکر صاحب بولے کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ اسلام تو پھیلا ہی جنگ سے ہے۔ مسلمان چور اور ڈاکو بن کر لوگوں کو لوٹتے رہے ہیں میں نے تاریخ کا مطالعہ کیا ہوا ہے اور ہمارے پاس ساری کتابیں موجود ہیں آپ کی کیا طاقت ہے کہ میری باتوں کا جواب دے سکو اور اگر کھجلی ہورہی ہو تو میں بھی اتارنے کے لئے تیار ہوں۔ بتائو کیا مرضی ہے۔ اس کی یہ باتیں سن کر تین چار آدمیوں نے ارادہ کیا کہ اس ٹھاکر کو دو چار رسید کرکے مزا چھکایا جائے اور بعض ٹھاکر صاحب سے لڑنے بھی لگے۔ میں نے بڑی محبت سے انہیں روکا اور کہا کہ جس طرح میں آپ کا مہمان ہوں بھائیو اسی طرح ٹھاکر صاحب ہمارے مہمان ہیں۔ ہمارا دین حق ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر کوئی تمہارا مہمان بھی غلطی کرے تو تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اسے معاف کردو اور اکرام ضیف کو ملحوظ رکھو۔ میری یہ بات سن کر ٹھاکر صاحب بھی شرمندہ ہوئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ اس پنجابی کی ان لوگوں میں مجھ سے زیادہ عزت ہے۔ خیر اب وہ صحیح راستے پر آگیا تھا۔ میں نے کہا ٹھاکر صاحب نے یہ دو الگ الگ سوال کئے ہیں۔ پہلا گائے کے متعلق ہے کہ مسلمانوں نے گائے پر ظلم کیا ہوا ہے اور دوسرا یہ کہ دین حق تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ میں ان دونوں سوالات کے جوابات علیحدہ علیحدہ دیتا ہوں۔ (۱) ہم سب مسلمان دودھ دینے والے سب جانوروں کی خدمت کرتے ہیں۔ چاہے گائے ہو یا بکری‘بھینس ہو یا اونٹنی ہم سب کو چارہ بھی ڈالتے ہیں اور راتب بھی کھلاتے ہیں۔ اس کی بچپن ہی سے نگہداشت کرتے ہیں مگر ہم ان تمام جانوروں کو اپنا خادم سمجھتے ہیں نہ کہ بزرگ۔ ان میں سے جو دودھ نہ دے یا بانجھ ہو جائے تو اسے ہندو اور مسلمان دونوں قصابوں کے پاس فروخت کرآتے ہیں تو یہ کوئی اعجوبہ نہیں۔ اب رہا یہ سوال کہ میٹھا دودھ دینے کی وجہ سے وہ ماں ہے تو پھر ٹھاکر صاحب آپ یہ بتائیں کہ کیا بھینس‘اونٹنی اور بکری وغیرہ کا دودھ کڑوا ہوتا ہے؟ جب ان کا دودھ بھی میٹھا ہے تو گائے اگر ماں ہے تو بھینس نانی ہوئی اور بکری بہن ہوئی تو پھر ان کی عزت ہندوئوں کے دلوں میں کیوں نہیں ہے؟ اس کی وجہ اب ٹھاکر صاحب ہی بتائیں گے کہ ایسا کیوں نہیں ہے؟ (۲) ہر مذہب میں ماں باپ کی ایک جیسی عزت کرنے کا حکم ہے تو پھر ہمارے یہ ہندو بھائی کیا ظلم کرتے ہیں کہ گائے ماں کو مقدس جان کر اتنی زیادہ عزت کرتے ہیں کہ ایسی عزت نہ کرنے والوں کو چیر کر رکھ دینے کو تیار ہیں مگر اپنے باپ بیل کو ہل میں جوتنا یا ان کی مدد سے کنواں چلانا‘گاڑی کھینچنا‘کولہو چلانا‘اس پر بوجھ لادنا اور ذرا سی کوتاہی پر مار مار کر فنا کردینا اور ہر وقت اس پر مصیبت کھڑی رکھنا اور ذرا بھی عزت نہ کرنا حالانکہ اس بات کی کوشش سے ہی گائے دودھ دینے کے قابل اور ماں بنی تھی۔ (۳) اگر گائے ماں کا ہی مقام رکھتی ہے جو انہیں بچپن میں دودھ پلاتی ہے تو پھر اس کے مرنے پر وہ کیوں چماروں کے حوالے کرکے اس کی کھال اترواتے ہیں اور اس کے گوپر اوپلے اور پیشاب سے چننا متر بناتے ہیں اور اس کی کھال کے جوتے پہنتے ہیں۔ یہ سب تقدیس کے دعوے ان کی ان حرکات سے باطل ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے صرف ہندوئوں کو مسلمانوں سے دور رکھنے کے لئے یہ ایک جذباتی طریق اختیار کیا ہوا ہے۔ (۴) اگر ناکارہ بھینس‘بکری‘اونٹنی بھیڑ وغیرہ ذبح کئے جائیں اور ان کے مرنے پر ہی چمڑہ میسر آتا ہو تو پھر پانچ صد روپے کا بھی جوتا نہیں مل سکتا اور لوگ دھوپ اور سردی میں ننگے پائوں ہی چلیں اور ہر وقت کانٹے ہی نکالتے رہیں۔
(۶) دوسرا سوال کہ دین حق تلوار کے زور سے پھیلا ہے۔ ٹھاکر صاحب نے کرکے راجپوتوں کی سخت توہین کی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کی تلوار سے ڈر کر اپنا آبائی مذہب جھٹ تبدیل کرلیا مگر چمار‘بھنگی‘تیلی وغیرہ تلوار سے نہ ڈرے اور انہوں نے اپنا مذہب تبدیل نہ کیا۔ کیا آپ راجپوتوں کی یہی بہادری ظاہر کرتے پھر رہے ہیں کہ راجپوت اتنے ڈرپوک اور بھوکے تھے کہ جب انہیں تلوار اور پتاشے دکھائے گئے تو جھٹ ڈر کر اور میٹھی چیز دیکھ کر مسلمان ہوگئے۔ ٹھاکر صاحب آپ نے تو تاریخ دان ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ اب آپ بتائیں کہ جب حضرت معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ اس ہندوستان میں درویشی کی حالت میں آئے تھے تو ان کے ہاتھ میں کون سی تلوار تھی اور ان کے ہمراہ کونس سی فوج تھی؟ ہاں بزرگی‘نیکی‘تقویٰ‘طہارت‘خوش اخلاقی‘دلائل‘عبادت‘ریاضت‘شرافت اور تبلیغ کی تلوار تھی جس نے راجہ اور پرجا کو ان کے سامنے جھکا دیا اور لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہوگئے ورنہ جب مسلمان بادشاہ اکبر تخت نشین ہوئے تو ان کی بیوی جودہ بائی تھی اور وہ تمام عمر بت پرستی کرتی رہی اور ہندو ہی رہی۔ اور اسے جبراً مسلمان نہ کرنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ دین حق میں جبر نہیں ہے۔ بلکہ ’’لا اکراہ فی الدین‘‘ کا سبق دیا جاتا ہے۔ دین حق ہمیشہ اپنی صداقت اور خوبیوں سے پھیلا ہے۔ آپ آج بھی قادیان جاکر دیکھ سکتے ہیں کہ کتنے ہندو اور سکھ ¶مسلمان ہوچکے ہیں۔ اب تو مسلمانوں کے ہاتھ میں دین حق پھیلانے کے لئے تلوار نہیں ہے اور نہ اس سے قبل ہی دین حق تلوار سے پھیلا۔ البتہ اتنا ضروری ہے کہ جس نے تلوار سے دین حق کو مٹانے کی کوشش کی اسے تلوار ہی سے روکا گیا۔ اب آپ دلائل سے بات کریں انشاء اللہ دلائل سے ہی جواب دیئے جائیں گے۔ اس وقت کافی رات گزر چکی تھی مگر مرد بدستور چوپال میں اور عورتیں مکانوں کی چھتوں پر بیٹھی تھیں اور سب میرے جواب کے منتظر رہتے تھے۔ ٹھاکر صاحب بولے کہ آپ کے عرب والے نبی نے نو (۹) عورتوں کے ساتھ شادی کیوں کی؟ جب کہ امت کے لئے چار ہی جائز قرار دیں۔ اس کی کیا حکمت ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ عرب کے لوگ بھی ہندوئوں کی طرح بت پرست تھے اس وقت نہ تو کوئی اصول اور نہ کوئی شریعت تھی۔ جس طرح آج پٹیالہ کے ہندو راجہ نے دو سو سے زیادہ بیویاں رکھی ہوئی ہیں اسی طرح عرب کے لوگ اس وقت سو سو بیویاں رکھ لیتے تھے۔ جب حضرت نبی کریم~صل۱~ نے نویں شادی کی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم آیا کہ اور شادی نہیں کرنا اور نہ ان میں سے ہی کسی کو چھوڑنا ہے۔ چونکہ نبی کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہوتی ہیں اس لئے ان میں سے کسی کو بھی علیحدہ نہیں کرنا اور ساتھ ہی مومنوں کے لئے حکم دے دیا کہ تم چار تک اپنے خیالات کے مطابق شادیاں کرسکے ہو اور اگر تمہیں لڑائی جھگڑے کا خوف ہو تو ایک ہی شادی رہنے دو۔ اگر رسول پاک~صل۱~ کسی بیوی کو چھوڑ دیتے تو وہ ماں کی صورت میں کہاں جاتی جب کہ منوشاستری میں بھی یہی لکھا ہے کہ گرو کی بیوی ماں ہوتی ہے۔ ٹھاکر صاحب کہنے لگے کہ میں اب سمجھ گیا ہوں۔ میں نے کہا کہ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ ہمارے آقا نے تو نو شادیاں کرکے اپنے حسن و اخلاق اور سلوک کا یہ نمونہ دکھایا کہ کسی ایک بیوی کو بھی کسی جگہ ناانصاف کہنے کا موقع نہیں ملا۔ حضور کے نیک سلوک کا ان کے دلوں پر اتنا اثر تھا کہ ایک دفعہ حضور~صل۱~ کے پاس مال غنیمت بکثرت پہنچا۔ یہ دیکھ کر بعض بیویوں کے دلوں میں خیال پیدا ہوا کہ اب موقع ہے کہ ہم آپ سے اچھے لباس اور زیورات کا مطالبہ کریں۔ چنانچہ انہوں نے آپ کے سامنے اپنی دلی کیفیت کا اظہار کیا۔ حضور~صل۱~ کو اللہ تعالیٰ نے جواب میں بتایا کہ اے نبی اپنی ان بیویوں سے کہہ دو کہ میں تمہیں تمہاری خواہش کے مطابق زیورات اور لباس بنوا دیتا ہوں مگر پھر تم میرے پاس نہیں رہ سکتیں یعنی علیحدہ ہونا پڑے گا۔ اور اگر تم اللہ تعالیٰ کو اور مجھے پسند کرتی ہو تو پھر تم اس خواہش کو ترک کردو۔ یہ سن کر سب نے یہ جواب دیا کہ ہم اپنی اس خواہش کو قربان کرتی ہیں ہمیں صرف آپ~صل۱~ کی اور اللہ تعالیٰ کی ضرورت ہے۔ بظاہر یہ الفاظ معمولی نظر آتے ہیں مگر جب مستورات کی حالت اور خواہشات کو سامنے رکھ کر غور کیا جاتا ہے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی بیویوں کے ایسا کہنے سے آپ کے اعلیٰ اخلاق کا ان کے قلوب پر کتنا گہرا اثر تھا حالانکہ ان کا مطالبہ بھی جائز تھا لیکن انہوں نے کسی قسم کی بحث نہیں کی اور اپنے مطالبہ کے مقابل پر اپنے خدا اور اس کے رسول کا ساتھ نہ چھوڑا۔ مگر یہ اعتراض کرنے والے ذرا اپنے گریبان میں جھانک کر تو دیکھیں۔ کہ ان کی ایک بیوی بھی جسے اولاد نہ ہو گیارہ مردوں سے نیوگ کرسکتی ہے۔ کتنی شرم کی بات ہے۔ پس معلوم ہوا کہ عرب کا ایک آدمی نو یا گیارہ بیویاں سنبھال سکتا تھا مگر ان آریوں کی ایک بیوی گیارہ مردوں کو سنبھال سکتی ہے۔ اگر یہ لوگ اس قسم کے اعتراض نہ کریں تو اور کیا کریں کیونکہ یہ کام ان کی طاقت سے باہر ہے۔ ٹھاکر صاحب یہ الفاظ سن کر چیخ اٹھے کہ یہ ہندو دھرم کی توہین کی ہے۔ میرے پاس حوالہ موجود تھا میں نے فوراً ’’ستیارتھ پرکاش‘‘ نکال کر اسے دکھا دی۔ وہ بہت شرمندہ ہوا۔ رات کا پچھلا پہر تھا۔ مباحثہ ٹھاکر صاحب کے ان الفاظ پر ختم ہوا کہ صبح دس بجے اب میں اعتراض کروں گا یہ کہہ کر ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم کچھ یوں تھا کہ قادیانی تلوار سے ہی قابو آئیں گے یہ علم سے قابو میں نہیں آسکتے۔ میں نے کہا اس شعر کا جواب آپ کو انشاء اللہ کل ہی دیا جائے گا۔ غرضیکہ سب مردوزن اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ میں اکیلا ہی دیا جلا کر بیٹھ گیا اور خیال کیا کہ اس کے بے تکے شعروں کا جواب بھی اگر بے تکے اشعار میں ہی دیا جائے تو اثر اچھا رہے گا اور خدا کا نام لے کر لکھنے بیٹھ گیا۔ فجر کی نماز تک میں نے اپنے ناقص علم کے مطابق ستر (۷۰) اشعار بنائے۔ جو شعر مجھے اس وقت یاد ہیں تحریر کردوں گا باقی سب ریکارڈ قادیان میں رہ گیا تھا۔ خیر فجر کی نماز کے لئے بیت پہنچا۔ وہاں ایک فقیر طبع آدمی جسے ہم میاں صاحب کہا کرتے تھے اس علی نامی تھا۔ وہ میرا بہت گرویدہ ہوچکا تھا۔ وہ بھی رات کو گفتگو کے اختتام پر ہی سویا تھا۔ اسے بیدار کیا اور اذان کہلوائی۔ بعدہ دونوں نے نماز باجماعت ادا کی۔ باقی لوگوں نے ہم سے وعدہ کیا ہوا تھا کہ ہم جمعہ سے نمازیں پڑھنا شروع کردیں گے۔ نماز کے بعد دعا اور قرآن کریم پڑھ کر سوگیا۔ جب حضور ہمیں الوداع کہنے کے لئے ڈلہ موڑ تک تشریف لائے تھے تو اس وقت یہی نصیحت کی تھی کہ ’’کثرت سے دعائیں کرنا‘نماز کے بعد تسبیح و تحمید کرنا اور خدا کو ہی قادر مطلق جاننا اور صرف اور صرف اس کی ذات پر بھروسہ کرنا۔ کیسی بھی مخالفت ہو گھبرانا نہیں بلکہ میدان میں شیر بننا۔ مخالف چاہے کتنا بڑا عالم ہو اسے معمولی سمجھنا اور نڈر ہوکر اسے جواب دینا۔ اپنے علم اور عقل پر بھروسہ نہ کرنا۔ ہر وقت خدا تعالیٰ کا خوف دل میں رکھنا۔ تلاوت قرآن پاک باقاعدہ کرنا۔ ہر ایک کو دوست بنانے کی کوشش کرنا۔ خوش اخلاقی کو اپنا شعار بنانا تہجد پڑھنے کی کوشش کرنا۔ مخالف کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا۔ ملکانونکی اچھی طرح سے تربیت کرنا اور دین حق کا پابند کرنے کی کوشش کرنا۔ دین حق کی انہیں خوبیاں بتاتے رہنا اور خود بھی کتب کا مطالعہ کرتے رہنا۔ سب سے خندہ پیشانی سے پیش آنا اور دل و جان سے سب کا ہمدرد بننا۔ جائو خدا تعالیٰ حافظ و ناصر ہے۔ آمین ثم آمین‘‘ میں بیدار ہوکر دوبارہ بیت پہنچا۔ لوگ بھی بصد شوق آئے ہوئے تھے اور مختلف قسم کی باتوں میں مصروف تھے کوئی کہتا کہ ’’مولبی کا بہت مجہ آیو‘ٹھاکر سیدھو سادھو معلوم ہوت ہے پر رات کو تو غجب کردیو تھو‘‘ غرضیکہ قسم قسم کی باتیں ہورہی تھیں۔ رات والی بڑھیا پہنچ گئی اور کہنے لگی کہ مولوی بیٹا اللہ آپ کو بہت عمر دے۔ یہ ٹھاکر بڑا آریہ تھا اس کی خوب رات کو خبرلی ہے۔ گائوں کے سب مرد اور عورتیں کہہ رہے ہیں کہ اس ملک میں اتنا بڑا اور کوئی مولوی نہیں ہے۔ ہم تو اب اپنے بچوں کو اس سے پڑھوائیں گے۔ میں نے اپنے پیارے خدا کا شکر ادا کیا۔ ادھر ملکانہ لڑکے مقامی ہندو ٹھاکروں کو بتا رہے تھے کہ کیوں بھئی رات کو آریہ کا تماشا دیکھا کہ ’’ایک جورو اور گیارہ مرد‘‘۔ وہ ٹھاکر یہ سن کر کہتے کہ یہ آریہ بہت گندے ہیں۔ تھوڑی دیر کے بعد ٹھاکر گردندر سنگھ اور بہت سا لوگوں کا ہجوم پہنچ گیا۔ سارا میدان شائقین سے بھر گیا۔ میں نے سب بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ رات کو ٹھاکر صاحب نے کسی گم نام آریہ کے دو شعر سنائے تھے کہ ان قادیانیوں کو قتل کردو‘باتوں میں کامیابی مشکل ہے۔ میں نے ان کے شعروں کا جواب اشعار میں ہی دینے کا وعدہ کیا تھا۔ کیا وہ پہلے سنا لوں یا پہلے دوسری باتیں ہونی چاہئیں۔ ان میں مسئلہ نیوگ‘جونیں بدلنا وغیرہ سب کچھ بیان کردیا۔ اس کے ابتدائی شعر یہاں سے شروع ہوتے ہیں۔ ~}~
کیا ڈراتے ہو ہمیں کہ مار دیں گے جان سے
کیا ڈرا کرتے ہیں وہ جو عبد ہیں رحمان کے
ہم تو مر اس دن گئے تھے جب ہم گھر سے چل پڑے
اے سفیہہ کیا ہے تو واقف احمدی ایمان سے
مرنا بہتر ہے ہمارا زندہ رہنا اور بھی
گرچہ تم نے دیکھنا ہو مار دو تم جان سے
پر عورتوں میں بیٹھ کر للکارنا اچھا نہیں
سامنے مردوں کے آ اور جیت لے میدان سے
نیوگ کا مسئلہ لئے پھرتے ہو تم در بدر
آفریں اس وید پر اور اس کی اعلیٰ شان کے
کتے کتیا کھیلتے تھے ایک دن مندر کے پاس
آریہ ان کو بلاتے تھے بڑوں کے نام سے
ہیں بزرگ یہ سب ہمارے آج قسمت سے ملے
ہم کھلائیں گے انہیں بھوجن بڑے آرام سے
یہ صرف چودہ مصرعے ہیں کل ستر مصرعے تھے جن میں پورا مضمون تناسخ‘جون بدلنا اور پھر کسی بھی عبادت یا عمل سے بخشش نہ ہونا درج تھا۔ میں کوئی شاعر نہیں‘نہ قابلیت ہی ہے مگر ملکانوں نے خوب مزے لے لے کر بار بار انہیں سنا تھا۔ ٹھاکر صاحب نے یہ اشعار سن کر جھٹ کہہ دیا کہ میں اس قسم کا آریہ نہیں ہوں۔ میں نے کہا کہ پھر آریوں کی قسمیں ہوئیں۔ کوئی پنڈت دیانند کو سچا جاننے والا جبکہ آپ اسے جھوٹا بتا رہے ہیں کیونکہ پنڈت صاحب نے تاکید کی ہوئی ہے کہ جس طرح شادی بیاہ ہے اسی طرح نیوگ ہے مگر جو بیاہ سے پیدا ہوں ان کا اظہار تو بڑی خوشی سے کیا جاتا ہے مگر جو نیوگ سے پیدا ہوتے ہیں آپ ان کی کوئی فہرست نہیں دکھا سکتے تو معلوم ہوا کہ یہ معیوب چیز ہی ہے۔ ٹھاکر صاحب کہنے لگے کہ مسلمانوں میں بھی عیب ہیں۔ ان کے ہاں بھی بہت بازاری عورتیں موجود ہیں۔ میں نے کہا ٹھاکر صاحب یہ کوئی قومی یا مذہبی اعتراض نہیں ہے۔ ہم نے تو مذہبی گفتگو کرنا ہے۔ ہمارا دعوٰی ہے کہ دین حق ایک عالمگیر مذہب ہے۔ اس کی یہ تعلیم نہیں ہے کہ ایسا فعل کیا جائے بلکہ ایسا فعل کرنے والے کی دین حق نے بہت سخت سزا رکھی ہوئی ہے۔ یعنی سو ۱۰۰ کوڑوں کی سزا۔ کسبی شخص کا یہ فعل کرنا شخصی جرم ہے مذہبی نہیں۔ دوسرا ایسی بدکار عورتوں کا ہندوئوں کے بازار میں بیٹھنا بھی یہی ثابت کرتا ہے کہ مسلمان ایسی بدکار عورتوں کو اپنے محلے میں رہنا بھی پسند نہیں کرتے بلکہ ایسی عورتیں ہندوئوں کے بازار میں آجاتی ہیں کیونکہ ان کے گھروں میں بھی نیوگ کی تعلیم ہے اس لئے یہ بازار بھی برا نہیں منائیں گے۔ میں نے سوال کیا کہ ٹھاکر صاحب کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ پچھلے جنم میں آپ کیا تھے اور پھر کیا آپ اچھے کام کرکے اپدیشک آدمی بنے ہیں۔ ٹھاکر صاحب نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ میں کسی بڑے پنڈت کو لیکر کسی وقت اسی جگہ آئوں گا اور پھر آپ کی تسلی ہوجائے گی۔ میں نے کہا کہ آپ نے اپنے ذمہ بہت سا قرض چڑھا لیا ہے۔ کیا آپ پنڈت کو لے کر آنے کی کوئی تاریخ بتا سکتے ہیں تاکہ میں بھی اس دن اسی گائوں میں موجود رہوں۔ ٹھاکر صاحب بولے میں آپ کو بذریعہ چٹھی (خط) اطلاع دے دوں گا۔ میں نے کہا آپ کا شکریہ ٹھاکر صاحب جان چھڑا کر ایسے رفو چکر ہوئے کہ بعد میں نہ تو کوئی خط ہی ملا اور نہ خود ہی کبھی دکھائی دیئے۔ مجھے یہ فائدہ پہنچا کہ ہمارے ملکانے بھائیوں کو کئی باتوں کا علم ہوگیا اور ان کو مجھ سے اور زیادہ محبت پیدا ہوگئی۔ بعدہ وہاں کے نوجوانوں نے مجھ سے پڑھنے کا اصرار کیا۔ میں نے ہاتھ سے ادب لکھ کر پڑھانا شروع کردیا۔ پھر قادیان چٹھی لکھی کہ دو درجن قاعدے یسرنا القرآن بھجوا دیں۔ چنانچہ بیس شاگردوں کو قاعدہ پڑھانا شروع کیا۔ آہستہ آہستہ چھوٹی بچیوں نے بھی آنا شروع کیا اور میں نے ان کو بھی قرآن پڑھایا۔
نگہ گھنو میں جے پور کے رہنے والے ایک غیر احمدی دوست چوہدری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ میرے کام کا معائنہ کرنے کے لئے آئے تھے۔ جو اکثر احمدیوں کا کام دیکھ کر یہی کہا کرتے تھے کہ دین حق تو صرف احمدیوں ہی کے پاس ہے اور یہی آریوں کا مقابلہ بھی کرتے ہیں ان کے برعکس دیوبندی وغیرہ سب ’’کلی توڑ‘‘ ہیں یعنی کوئی کام نہیں کرسکتے۔ ایک دن بعد نماز فجر یہی وکیل صاحب اچانک بذریعہ یکہ چوپال پہنچ گئے۔ میں اس وقت بچوں کو قرآن کریم پڑھا رہا تھا اور سب بچے بڑے زور شور سے پڑھ رہے تھے۔ میں نے ان سے ملاقات کی۔ وہ جان محمد خان صاحب رئیس اور بھجو خان صاحب نمبردار کو لیکر علیحدہ چلے گئے اور ان سے کچھ باتیں دریافت کیں اور پھر واپس آکر میرے ساتھ باتیں کرنے لگے۔ کہنے لگے مجھے ازحد خوشی ہوئی ہے۔ میں آپ کے کام اور اخلاق کے بارے میں آپ کی عدم موجودگی میں بھی اچھی تحقیق کرچکا ہوں اور آپ کو مبارکباد دیتا ہوں۔ اور پوچھنے لگے کہ آپ کے پاس کیا کوئی کاپی ہے؟ میں نے انہیں کاپی دی۔ انہوں نے اس پر لکھ دیا کہ میں فلاں تاریخ کو نگہ گھنو میں اچانک پہنچا اور مکرم مولوی محمد حسین صاحب کا کام دیکھ کر اور اہل دیہہ سے حالات دریافت کرکے مجھے اتنی خوشی ہوئی جو بیان سے باہر ہے۔ اس علاقہ کے لئے مولوی صاحب نہایت موزوں ہیں اگر کچھ عرصہ یہ ان لوگوں میں مزید رہیں تو یہاں کے رہنے والوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے۔ اہل دیہہ ان سے بہت خوش ہیں۔ میں مولوی صاحب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مبارکباد دیتا ہوں۔ اگر اسی طرح مستعدی سے کام ہوتا رہا تو بچے تعلیم حاصل کرنے میں ضرور کامیاب ہوجائیں گے‘‘۔ والسلام نذیر احمد وکیل جے پور ۲۳~/~۵~/~۲۱ حال نگلہ گھنو۔ میں نے اس سرٹیفکیٹ کی ایک نقل آگرہ روانہ کردی۔ بعدہ اردگرد کے دیہات لوہاری‘گوھیٹہ‘مہیکہ‘جہوڑا‘مجہولہ‘نگلہ امرسنگھ‘گڑھی‘دھروی‘علی گنج‘رانی کا رامپور‘بوپارہ وغیرہ کا دورہ کرنا شروع کردیا۔
لوہاری گائوں میں ہمارے ایک مبلغ مولوی عبدالخالق صاحب بڑے محنت سے کام کررہے تھے۔ وہ ان دنوں احمد نگر ضلع جھنگ کے صدر ہیں۔ انہوں نے مجھ سے مشورہ کئے بغیر دیوبندیوں سے مناظرہ مقرر کرلیا۔ مقررہ تاریخ پر کافی مولوی صاحبان لوہاری پہنچ گئے اور ہماری طرف سے مولوی جلال الدین صاحب شمس‘مولوی غلام احمد صاحب بدوملہی‘سیٹھ خیر الدین صاحب آف لکھنئو‘قاضی عبدالرحیم صاحب اور اسلم صاحب آف فرخ آباد۔ غرضیکہ کافی احباب پہنچ گئے۔ مجھے مناظرہ کی شرائط طے کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ میری واپسی پر مناظرہ کا آغاز ہوا۔ حیات و ممات مسیح پر دیوبندیوں نے شور مچانا شروع کردیا اور کہنے لگے کہ ان قادیانیوں کا علاج صرف ڈنڈا ہے اور کسی طریق سے ان کا علاج نہیں ہوسکتا۔ میرے گائوں کے لوگ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے کہ اگر علم کی بحث کرنا ہے تو مولویوں سے کرو اور اگر کسی سسرے نے ڈنڈا چلانا ہے تو ہم پر چلائے۔ غرضیکہ مناظرہ اسی شور میں بخیر وخوبی ختم ہوگیا۔ فریقین اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ جب اس بات کی اطلاع حضور کو قادیان پہنچی کہ دیو ¶بندیوں نے ہمیں ڈنڈے سے ڈرایا ہے اور مولوی محمد حسین صاحب کے گائوں والوں نے انہیں ایسا جواب دیا ہے تو حضور بہت خوش ہوئے کہ یہ ہمارے مبلغ کے تعلقات کا نتیجہ ہے اور مبلغین کو ہرجگہ ایسا ہی نمونہ اختیار کرنا چاہئے۔ غرضیکہ حضور نے یہ خوشنودی کا اظہار فرمایا میرے وہاں دورے کا تین ماہ کا عرصہ پورا ہوچکا تھا اور منشی عبدالخالق صاحب رخصت پر قادیان جارہے تھے تو بھائی عبدالرحمان صاحب قادیانی مجھ سے کہنے لگے کہ آپ خدا کے لئے دس دن اور وقف کردیں ورنہ یہ حلقہ خالی رہ جائے گا اور دشمن اپنا پروپیگنڈا کرکے لوگوں کو ہمارے خلاف کردے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان مراکز سے ہمیں جواب مل جائے۔ میں نے ان کے کہنے پر دس دن اور وقف کردیئے اور مزید دس دن وہاں گزارے۔ اسی اثناء میں منشی عبدالخالق صاحب قادیان سے میرے پاس نگہ گھنو پہنچے اور کہا آپ واپس جانے کے لئے تیار نہ ہوں۔ حضور کی طرف سے آپ کو کوئی خاص حکم آئے گا۔ کیونکہ آپ کے کام کے متعلق خفیہ خفیہ کچھ درخواستیں حضور کی خدمت میں پہنچی ہوئی ہیں کہ ان کا کام اور اثر بہت اچھا ہے لہذا انہیں ابھی واپس نہ بلایا جائے۔ مجھے آگرہ سنٹر سے بھی چٹھی موصول ہوئی کہ آپ بہت جلد آگرہ پہنچ جائیں تا آپ کو قادیان واپس بھجوایا جاسکے۔ ایک طرف مجھے قادیان جانے کی بہت خوشی تھی اور دوسری طرف ان لوگوں کی محبت کی وجہ سے ان لوگوں سے علیحدہ ہونے کا غم۔ گائوں کے سب مرد اور عورتیں مع میرے شاگردوں کے مجھے رخصت کرنے کے لئے جمع تھے اور رو رہے تھے کہ معلوم نہیں کہ کب ملاقات ہو۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’(میری یادیں‘‘ صفحہ ۴۵ تا ۶۷ اشاعت ۱۹۹۴ء)
‏rov.5.23
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ دسواں سال
ایک اہم سرکلر
(حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نائب ناظر انسداد راجپوتانہ قادیان کے ایک سرکلر کی نقل جو آپ نے ۴/ جون ۱۹۲۳ء کو جاری فرمایا اس سرکلر سے مجاہدین احمدیت کی مشکلات پر روشنی پڑتی ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
‏]body [tagمکرمی۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ۔ دارالامان سے روانہ ہونے والے آخری وفد کو بالخصوص دارالامان سے روانہ ہونے والے خطوط میں متعدد بار حضرت خلیفتہ المسیح ثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی گائوں میں ہمارے مبلغ وارد ہوتے ہیں تو ملکانوں میں سب سے پہلے جو لوگ ان کا استقبال کرتے ہیں اور آریوں سے اپنی بیزاری کا تذکرہ کرتے ہیں وہی آریوں کے ایجنٹ ہوتے ہیں (الا ماشاء اللہ ان کی غرض یہ ہوتی ہے کہ آنے والے مبلغ کو اپنی باتوں میں الجھائے رکھیں اور اس کو یقین دلاتے رہیں کہ تم بے فکر رہو یہاں کوئی شدھی نہیں ہو گا اور کیا مجال ہے جو آریہ یہاں آسکیں۔ ان کی اس قسم کی باتوں کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ مبلغ اپنے علاقہ کو ارتداد کے فتنہ سے محفوظ خیال کر لیتا ہے۔ جس سے اس کی عملی طاقتیں سست ہو جاتی ہیں اور وہ گائوں کے سب لوگوں سے ملنے کی کوشش نہیں کرتا اور وہ لوگ جو اس فتنہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ احمدی مبلغ سے دور رہتے ہیں۔ اس لئے آریوں کا زہر ان پر سے نہیں اتر سکتا۔ اور آریوں کا ایجنٹ مبلغ کو اپنے ساتھ الجھائے رکھتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب اشدھی کا وقت آتا ہے تو اشدھ ہونے کے لئے سب سے آگے وہی اشخاص ہوتے ہیں جو کہ ہمارے مبلغ سے زیادہ ملنے والے اور ظاہراً اسلام کے حامی نظر آتے ہیں۔
اس فتنہ کے متعلق حضور نے بار بار اب تک لکھوایا ہے۔ مگر اب تک بہتوں نے آریوں کی اس چالاکی کو نہیں سمجھا اور وہ اب تک آریوں کے ایجنٹ کے فریب سے آگاہ نہیں ہوئے۔ تازہ واقعہ یہ ہے کہ علادل پور کا ایک شخص جس کے باپ کا نام ملتان خان ہے اور اس کا نام ملائم خان آریوں کا ایجنٹ ہے۔ جس کو وہ ۱۵ ماہوار دیتے ہیں۔ اپنے گائوں کے احمدی مبلغ سے اس کے اچھے تعلقات ہیں۔ پہلے آنے والی رپوٹیں بتاتی رہی ہیں کہ اس شخص کو اسلام سے محبت ہے مگر آج ذہلیہ سے اطلاع ملتی ہے کہ یہی ملائم خان ساکن علادل پور ذہلیہ میں گیا اور اپنا نام ملائم سنگھ بتایا اور ہماری اس جگہ کے مبلغ کی سخت مخالفت کرنے لگا۔ اسنے وہاں کے لوگوں کو سخت جوش دلایا اور آریہ ہو جانے کے لئے بڑا زور لگایا اور ان لوگوں پر زور ڈالا کہ ہمارے مبلغ کو اپنے گائوں سے نکال دیں۔
دوسری مثال یہ ہے کہ چارلی گنج جو بحمداللہ احمدی مبلغوں کے ذریعہ سارے کا سارا ارتداد سے واپس داخل اسلام ہوا ہے۔ جب یہ گائوں مرتد ہوا تھا۔ تو اس وقت چار گھر ظاہراً مسلمان ہی رہے تھے۔ لیکن اب جب چارلی گنج والے دوبارہ داخل اسلام ہوئے تو یہی چاروں گھر جو شدھی سے بچے ہوئے بتائے جاتے تھے اپنے گائوںکو دوبارہ مسلمان ہونے سے روکنے کے لئے لاٹھیاں لے کر باہر نکل آئے۔ یہ واقعہ صاف اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آریہ لوگوں نے بہت سے ملکان کو اپنا ایجنٹ بنایا ہوا ہے۔ جو بظاہر مسلمان ہی رہتے ہیں اور اشدھ نہیں ہوتے۔ مگر اندر ہی اندر لوگوں کو ارتداد کے لئے تیار کرتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
پس ہمارے مبلغین کا فرض ہے کہ اپنے اپنے گائوں میں جو لوگ ملکانہ ان کو اپنے گائوں کی حالت سے مطمئن کرانا چاہتے ہوں۔ ان کی باتوں سے خوش ہو کر مطمئن نہ ہو بیٹھیں۔ یہ گائوں کے ہر ایک فرد تک پہنچیں اور اس کا عندیہ معلوم کریں۔ اس کو اسلام پاک سے آگاہ کریں۔ اور محبت اسلام ان کے دلوں میں ڈالیں۔ جب تک ہر ایک فرد سے آپ ذاتی طور پر واقفیت حاصل نہیں کریں گے برخلاف اس کے ایک ہی شخص کو جو آپ سے ملتا ہے اپنے گائوں کی زبان سمجھتے رہیں گے۔ آپ خطرہ سے خالی نہیں۔ ایسے لوگ جو چاہیں آپ کو اطمینان دلائیں۔ مگر آپ لوگ ایک دم کے لئے بھی ان سے غافل نہ ہوں۔ اور کام میں سرگرمی جاری رکھیں۔
اللہ تعالیٰ دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان کا تدارک کرنے کی آپ کو توفیق دے۔ آمین ثم آمین۔
والسلام
خاکسار: مرزا شریف احمد
نائب ناظر انسداد ارتداد راجپوتانہ۔ قادیان
۴/ جون ۱۹۲۳ء
نوشتہ سید عبدالرحیم لدھیانوی
سند خوشنودی
’’(سند اظہار خوشنودی‘‘ کا متن جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے تحریک شدھی کے خلاف جہاد میں حصہ لینے والے مبلغین کو واپسی پر عطا کیجاتی تھی۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
سند اظہار خوشنودی
مکرمی۔ السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ- اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم کے ساتھ اپنا وقف کردہ وقت پورا کرکے آپ واپس آرہے ہیں۔ یہ موقعہ جو خدمت کا اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے۔ اس پر آپ جس قدر خوش ہوں کم ہے اور جس قدر اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کریں تھوڑا ہے۔ ایسی سخت قوم اور ایسے نامناسب حالات میں تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ اور ان حالات میں جو کچھ آپ نے کیا ہے وہ اپنے نتائج کے لحاظ سے بہت بڑا ہے۔ آپ لوگوں کے کام کی دشمن بھی تعریف کر رہا ہے اور یہ جماعت کی ایک عظیم الشان فتح ہے۔ اور میری خوشی اور مسرت کا موجب۔ اللہ تعالیٰ آپ کے اس کام کو قبول فرمائے۔ میں آپ لوگوں کے لئے دعا کرتا رہا ہوں۔ اور انشاء اللہ دعا کرتا رہوں گا۔
امید ہے آپ لوگ اس کام کو بھی یاد رکھیں گے۔ جو واپسی پر آپ کے ذمہ ہے۔ اور جو ملکانہ کی تبلیغ سے کم نہیں۔ یعنی اپنے ملنے والوں اور دوستوں میں اس کام کے لئے جوش پیدا کرتے رہنا کیونکہ اس سے بڑی مصیبت اور کوئی نہیں کہ ایک شخص کی محنت آبیاری۔ کسی کمی کے سبب سے برباد ہو جائے۔ مومن کا انجام بخیر ہوتا ہے اور اسے اس کے لئے خود بھی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو۔ آمین۔ والسلام۔
خاکسار
(حضرت) مرزا محمود احمد (خلیفتہ المسیح ثانی)
از قادیان۔ دارالامان۔ پنجاب
(نوشہ سید عبدالرحیم لدھیانوی)
مسلمان اور ہندو اخبارات کی طرف سے خراج تحسین
اگرچہ مورچہ بندی کا ابھی یہ ابتدائی دور تھا مگر اس میں بھی مجاہدین احمدیت نے سرفروشی‘جاں بازی اور فدا کاری کا وہ شاندار نمونہ دکھایا کہ مسلمان ہی نہیں۔ ہندو بھی عش عش کر اٹھے۔
۱۔
چنانچہ اخبار ’’زمیندار‘‘ لاہور (۸/ اپریل ۱۹۲۲ء) نے لکھا۔ ’’احمدی بھائیوں نے جس خلوص‘جس ایثار‘جس جوش اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے‘‘۔
۲۔ اخبار ’’ہمدم‘‘ لکنھو (۶/ اپریل ۱۹۲۳ء۵۴) نے لکھا۔
’’قادیانی جماعت کی مساعی حسنہ اس معاملہ میں بے حد قابل تحسین ہیں اور دوسری اسلامی جماعتوں کو بھی انہی کے نقش قدم پر چلنا چاہئے‘‘۔
۳۔ اخبار ’’مشرق‘‘ گورکھپور نے لکھا۔ ’’جماعت احمدیہ کے امام و پیشوا کی لگاتار تقریروں اور تحریروں کا اثر ان کے تابعین پر بہت گہرا پڑتا ہے اور اس جہاد میں اس وقت سب کے آگے یہی فرقہ نظر آتا ہے اور باوجود اس بات کے احمدی فرقہ کے نزدیک اس گروہ نو مسلم کی تائید کی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس فرقہ سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا مگر اسلام کا نام لگا ہوا تھا۔ اس لئے اس کی شرم سے امام جماعت احمدیہ کو جوش پیدا ہو گیا ہے اور آپ کی بعض تقریریں دیکھ کر دل پر بہت ہیبت طاری ہوتی ہے کہ ابھی خدا کے نام پر جان دینے والے موجود ہیں۔ اور اگر ہمارے علماء کو اس بات کا اندیشہ ہو کہ احمدیہ جماعت اپنے عقائد کی تعلیم دے گی۔ تو وہ اپنی متفقہ جماعت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا خلوص پیدا کرکے آگے بڑھیں کہ ستو کھائیں اور چنے چبائیں اور اسلام کو بچائیں۔ جماعت احمدیہ کے ارکان میں ہم یہ خلوص بیشتر دیکھتے ہیں۔ دیانت‘ایفاء عہد۔ اپنے امام کی اطاعت۔ پس یہ جماعت فرد ہے۔ جناب مرزا صاحب اور ان کی جماعت کی عالی حوصلگی اور ایثار کی تعریف کے ساتھ مسلمانوں کو ایسے ایثار کی غیرت دلاتے ہیں۔ دیانت اور امانت جو مسلمانوں کی امتیازی صفتیں تھیں آج وہ ان میں نمایاں ہیں۔ جماعت احمدیہ کی فیاضی اور ایثار کے ساتھ ان کی دیانت اور آمد و خرچ کے ابواب کی درستگی اور باقاعدگی سب سے زیادہ قابل ستائش ہے اور یہی وجہ ہے کہ باوجود آمدن کی کمی کے یہ لوگ بڑے بڑے کام کر رہے ہیں۵۵۔
۴۔ ’’مسلمانوں کی مذہبی حمیت اور جوش مذہبی کا اندازہ یہ ہے کہ صرف قادیانی جماعت کے ڈیڑھ سو مبلغین تین ماہ تک بغیر کسی معاوضہ کے اور اپنے ذاتی خرچہ پر کام کر رہے ہیں اور دو سو مبلغ آمادہ کار ہیں۔ ان مجاہدین میں زمیندار۔ علماء۔ گریجوایٹ۔ اخبار نویس اور جج شامل ہیں‘‘۵۶
۵۔ نذیر احمد خان صاحب وکیل جے پور نے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’قادیان کی احمدیہ جماعت کے ۷۲‘مبلغین کام کر رہے ہیں۔ چوہدری فتح محمد صاحب ایم۔ اے امیر وفد ایک نہایت ہی زیرک‘فہیم‘بردبار‘مدبر اور تبلیغ میں سالہا سال کا تجربہ رکھنے والے انسان ہیں۔ ان کا انتظام اور نظام ایسے اعلیٰ پیمانہ اور طریق پر ہے کہ تمام مبلغین بھیجنے والوں کو انکا اتباع کرنا چاہئے اور حق یہ ہے کہ جب تک اس جماعت کے قواعد و ضوابط اور ہدایات پر جو ان کو مرکز سلسلہ سے ملتی رہتی ہیں سب مبلغین کاربند نہ ہوں گے کامیابی محال ہے ان احمدی مبلغین کو ہدایت ہے کہ وہ اپنے افسر کی اطاعت ایسی کریں کہ اگر جان جانے کا خطرہ بھی ہو تو بھی حکم بجا لائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس جماعت کے سوا اور کسی فرد کی ایسی اعلیٰ تربیت نہیں۔ نہ سنیوں میں نہ شیعوں میں نہ کسی اور جماعت میں۔ پس میں سچے دل سے مشورہ دیتا ہوں کہ اس اعلیٰ نمونہ کی تقلید سب بھائی کریں اور فائدہ اٹھاویں کہ بغیر اس کے کامیابی محال ہے‘‘۵۷ind] [tag
۶۔ اخبار ’’وکیل‘‘ (امرتسر) ۳/ مئی ۱۹۲۳ء نے اپنے اداریہ میں لکھا۔
’’احمدی جماعت کا طرز عمل اس بات میں نہایت قابل تعریف ہے جو باوجود چھیڑ چھاڑ کے محض اس خیال سے کہ اسلام چشم زخم سے محفوظ رکھا جائے۔ ان خانہ جنگیوں کے انسداد کی طرف خود مسلمانوں کے لیڈروں کو توجہ دلاتے ہیں اور ہر طرح کام کرنے کو تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم علیٰ وجہ البصیرت اعلان کرتے ہیں کہ قادیان کی احمدی جماعت بہترین کام کر رہی ہے‘‘۵۸
۷۔ اخبار ’’نور‘‘ علی گڑھ (۳/ مئی ۱۹۲۳ء) نے لکھا۔
’’اب تک جتنی انجمنوں نے اس کارخیر میں قدم رکھا ہے ان میں سے اعلیٰ کام قادیانی جماعت کا ہے‘‘۵۹۔
اب ہندو اخبارات کی رائے پڑھئے۔
۱۔ ’’آریہ پترکا‘‘ (بریلی) نے یکم اپریل ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں لکھا۔ ’’اس وقت ملکانے راجپوتوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی پرانی راجپوتوں کی برادری میں جانے سے باز رکھنے کے لئے (یعنی مرتد ہونے سے بچانے کے لئے۔ ناقل) جتنی اسلامی انجمنیں اور جماعتیں کام کر رہی ہیں ان میں سے احمدیہ جماعت قادیان کی سرگرمی اور کوشش فی الواقع قابل داد ہے۶۰۔
۲۔ دیو سماجی اخبار ’’جیون تت‘‘ (لاہور) نے لکھا۔
’’ملکانہ راجپوتوں کی شدھی کی تحریک کو روکنے اور ملکانوں میں اسلامی موت کا پرچار کرنے کے لئے احمدی صاحبان خاص جوش کا اظہار کر رہے ہیں۔ چند ہفتے ہوئے قادیانی فرقہ کے لیڈر مرزا محمود احمد صاحب نے ڈیڑھ سو ایسے کام کرنے والوں کے لئے اپیل کی تھی جو تین ماہ کے لئے ملکانوں میں جاکر مفت کام کرنے کے لئے تیار ہوں۔ جو اپنا اور اپنے اہل و عیال کا وہاں کے کرایہ وغیرہ کا کل خرچہ خود برداشت کر سکیں۔ اور انتظام میں جس لیڈر کے ماتحت جس کام پر انہیں لگایا جاوے اسے وہ خوشی خوشی کرنے کے لئے تیار ہوں۔ بیان کیا جاتا ہے کہ اس اپیل پر چند ہفتوں کے اندر چار سو سے زیادہ درخواستیں ان شرائط پر کام کرنے کے لئے موصول ہو چکی ہیں اور تین پارٹیوں میں ۹۰ احمدی صاحبان آگرہ کے علاقہ میں پہنچ چکے ہیں اور بہت سرگرمی سے ملکانوں میں اپنا پرچار کر رہے ہیں۔ اس نئے علاقہ کے حالات معلوم کرنے کے لئے ان میں سے بعض نے جن میں گریجویٹ نوجوان بھی شامل تھے۔ اپنے بسترے کندھوں پر رکھ کر اور تیز دھوپ میں پیدل سفر کرکے سارے علاقہ کا دورہ کیا ہے۔ اپنے مت کے پرچار کرنے کے لئے ان کا جوش اور ایثار تعریف کے قابل ہے‘‘۶۱۔
تحریک شدھی اور تحریک خلافت کے لیڈر
جماعت احمدیہ کے تبلغی جہاد کی ان مہمات کے مقابل تحریک خلافت کے لیڈروں کی بے حسی انتہا تک پہنچی ہوئی تھی اور انہوں نے اس اہم ترین مسئلہ کی طرف سنجیدگی سے توجہ کرنے کی تکلیف ہی گوارا نہیں فرمائی۔ چنانچہ اخبار ’’روزگار‘‘ آگرہ (یکم مئی ۱۹۲۳ء) نے لکھا۔ ’’اس میں شک نہیں کہ جتنے وفد اور جس قدر واعظ اور ہمدردان اسلام کوشاں ہیں ان میں سب سے بڑھا ہوا نمبر جماعت قادیان کا ہے۔ جس کے واعظ ہر قسم کے مصائب اور مصارف برداشت کرکے مصروف کار ہیں بے حد قابل شکر گزاری کے ہیں۔ لیکن افسوس یہ کیسا برتائو ہے کہ فرضی یا اصلی خلافت کے حامیان کی جماعت جو ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں کی گہری پسینے کی کمائی سے باون لاکھ وصول کرکے ٹھکانے لگا چکی ہے وہ واقعات فتنہ ارتداد دیکھتے ہیں اور خاموش ہیں‘‘۶۲۔
شدھی اور شیعہ اصحاب
شیعہ اصحاب فتنہ ارتداد کا مقابلہ کرنے کو کہاں تک اہمیت دیتے تھے اس کا اندازہ شیعہ اخبار ’’در نجف‘‘ (یکم جولائی ۱۹۲۳ء) کے مندرجہ ذیل اقتباس سے لگایا جا سکتا ہے۔
’’ملکانہ راجپوت کے فتنہ ارتداد کو روکنا عبث اور بے فائدہ کوشش ہے۔ ہزاروں روپے کا مفت برباد کرنا ہے‘‘۔ اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ’’فرض کرو اگر وہ مسلمان بھی ہو گئے تو کون مسلمان ہوں گے سنی مسلمان‘پیر پرست‘گور پرست‘اوہام پرست‘تقلید پرست یا غلام احمدی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی اللہ جری اللہ مانیں گے یا اہلحدیث جو خدا تعالیٰ کو مجسم قرار دے کر عرش پر بٹھائیں گے اور پنڈلی کا سجدہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ (کے) قدم دوزخ میں ڈالیں گے۔ نیز اللہ تعالیٰ سے بالمشافہ گفتگو کرکے اس سے مصافحہ و معانقہ وغیرہ کریں گے۔ ملکانہ راجپوت سے زیادہ خطرناک وہ مسلمان ہیں جو دائرہ اسلام میں رہ کر صراط مستقیم سے بھٹکے ہوئے ہیں‘‘۶۳۔
شدھی اور دوسرے مسلمان علماء
خلافتی لیڈر وغیرہ تو خیر خاموش رہے مگر دوسرے مسلمان علماء نے کس طرح اپنی مخالفانہ سرگرمیوں سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی اس کی تفصیل چوہدری نذیر احمد خاں وکیل جے پوری نے ۳/ اپریل ۱۹۲۳ء کو دہلی کی جامع مسجد میں بیان فرمائی اور کھلے لفظوں میں مسلمانوں کو بتایا کہ۔
’’حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے آریوں کے بطلان میں وہ مصالحہ جمع کر دیا ہے اگر اس کو اب استعمال کیا جائے تو یہ لوگ بیخ و بن سے اکھڑ سکتے ہیں۔ لیکن تعجب اور افسوسناک امر تو یہ ہے کہ ہمارے مسلمان علماء ان کی اور ان کی جماعت کی خواہ مخواہ مخالفت کرتے ہیں۔ حالانکہ وہ لوگ ’’دشمنان اسلام‘‘ کے مقابلہ پر ہمیشہ کمر بستہ رہتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو اس میدان میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ میں نہ تو خود احمدی ہوں اور نہ میرا کوئی رشتہ دار احمدی ہے نہ اس ملک کا رہنے والا ہوں جہاں احمدیوں کی آبادی ہے لیکن ان کے کام کے طریق‘ان کی سرگرمی‘ان کے اخلاص‘ان کی تندہی اور جفاکشی سے کام کرنے کی حالت کا اندازہ کرکے مجبور ہوں کہ تمام اہل اسلام سے کہہ دوں کہ وہ ان حضرات کی مخالفت کو چھوڑ دیں۔ ان ہی لوگوں کے اخلاق ایسے ہیں جو جاہل اور اکھڑ ملکانوں کو آریہ ہونے سے باز رکھ سکتے ہیں اس کے برخلاف ہماری انجمنوں کے مبلغین ۵۵ کی تعداد میں وہاں گئے تھے جن میں سے اکثر شب برات کے حلوے کھانے اور عرس کرنے کے لئے واپس آچکے ہیں اور باقی جو ہیں وہ رمضان میں واپس گھر پہنچنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ ایسی صورت میں آپ لوگ خیال کریں ان لوگوں سے کیا امید ہو سکتی ہے؟ اس لئے جو جماعت کام کرتی ہے اس کے رستے سے تمام رکاوٹیں دور کی جائیں‘‘۶۴۔
رمضان گزرنے کے بعد علمائے کرام پھر میدان ارتداد میں آموجود ہوئے اور آریہ کی بجائے ایک دوسرے سے پھر الجھنے لگے اور خصوصاً احمدیوں کے خلاف تو محاذ قائم کر لیا۔ جس پر اخبار ’’زمیندار‘‘ (۱۷/ مئی ۱۹۲۳ء) نے ’’مجلس نمائندگان تبلیغ‘‘ اور دوسری جماعتوں کو شرم دلائی کہ۔
’’اگرچہ سوامی شردھانند آریہ سماجی ہیں لیکن آریہ سماج کی جماعتوں کے علاوہ سناتن دھرم اوجینی وغیرہ بھی ان کے شریک کار ہیں اور آج تک ان لوگوں میں اختلاف کی ایک آواز بھی بلند نہیں ہوئی۔ سناتن دھرم والوں نے کبھی شکایت نہیں کی کہ سوامی شردھانند ملکانوں کو آریہ بنا رہے ہیں۔ پرتاپ‘کیسری اور تیج کے فائل اٹھا کر دیکھئے۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ آپ کو ایک تحریر ایک خبر ایک اطلاع ایک مراسلہ بھی ایسا نہ ملے گا جس سے ہندو مبلغین کا ذرہ برابر باہمی اختلاف ظاہر ہوتا ہے لیکن ’’زمیندار‘‘۔ ’’سیاست‘‘۔ ’’وکیل‘‘ اور دوسرے اسلامی اخبارات کی جلدیں پڑھئے تو آپ پر بار بار اس افسوسناک حقیقت کا انکشاف ہو گا کہ ایک انجمن دوسری انجمن کو حلقہ ارتداد میں کام کرتے دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔ خدا کا کام ہے لیکن ہندوئوں نے اسے ذاتی اختلاف اور ذاتی شہرت پسندی کی جولانگاہ بنا رکھا ہے کیا یہ سر پیٹنے کا مقام نہیں۔ ہم ’’مجلس نمائندگان تبلیغ‘‘ اور دوسری تمام تبلیغی انجمنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر احمدی مبلغین ملکانوں کو احمدی بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو بگڑنے کا کوئی حق نہیں۔ جس طرح آپ ان کو حنفی و اہلحدیث بنانے کا حق رکھتے ہیں احمدی مبلغین ان لوگوں پر اپنا کیش و مذہب پیش کرنے میں آزاد ہیں اور ہندو ہو جانے سے ہزار درجے بہتر ہے کہ ایک مسلمان احمدی ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سیاسی نقطہ نگاہ سے بھی دیکھ لیجئے۔ اگر چھ لاکھ ملکانے مسلمانوں کی کسی جماعت میں شامل ہو جائیں تو مسلمان شمار کئے جائیں گے۔ لیکن اگر ہندو ہو گئے تو فریق ثانی کی طاقت میں اضافہ کا باعث ہوں گے مسلمانوں کے مقاصد سیاسی کی حفاظت کے دعوی دار بتائیں کہ صواب کی راہ کون سی ہے‘‘۶۵
اس بروقت انتباہ کے باوجود ان حضرات کے طرز عمل میں ذرہ بھر فرق نہیں آیا۔ بلکہ احمدیوں کی کامیابی پر اور بھی زیادہ سیخ پا ہوئے۔ دراصل یہ بھی آریہ اخبارات کی ایک چال تھی کہ انہوں نے غیر احمدی علماء کو اکسایا‘کہ قادیانی تو ملکانوں کو احمدی بنا لیں گے۔ دوسرے علماء سے احمدی جماعت کے خلاف فتویٰ کفر طلب کرکے شائع کئے گئے اور ملکانوں سے کہا گیا کہ احمدی تو خود بھی مسلمان نہیں تمہیں کیا اسلام سکھائیں گے؟
اس وقت احمدیوں کے علاوہ ’’جمعیتہ العلماء‘‘۔ ’’رضائے مصطفیٰ‘‘۔ ’’خدام الصوفیہ‘‘ وغیرہ تبلیغ کے لئے پہنچی ہوئی تھیں۔ آریوں کا جادو چل گیا۔ اور یہ سب جماعتیں الا ماشاء اللہ اپنی طاقت و قوت احمدیوں کے خلاف استعمال کرنے لگیں۔ اگر کوئی احمدی مجاہدین کی کوششوں کے نتیجہ میں شدھی سے تائب ہو کر واپس اسلام میں داخل ہوتا تو یہ اصحاب وہان جا کر ملکان سے کہتے کہ قادیانی تو آریوں سے بھی بدتر ہیں۶۶۔ ان کے ذریعہ تم کیوں مسلمان ہوئے؟
پھر یہ اصحاب اس قدر بے بنیاد الزام لگاتے کہ خدا کی پناہ۔ یہ کہا گیا کہ قادیان میں ایک جھنڈا ہے اس کی پوجا کی جاتی ہے۔ مرزا صاحب نے خدائی کا دعویٰ کیا ہے وہ اپنے تئیں (نعوذ باللہ) رسول اللہ~صل۱~ سے افضل سمجھتے ہیں۔ قادیانی پانچ نمازیں نہیں پڑھتے ان کا حج قادیان میں ہوتا ہے۔ یہ گورنمنٹ کے ایجنٹ ہیں اور اس سے روپیہ لیتے ہیں ان کے پاس روپیہ بنانے کی مشین ہے۔ یہ ملکانوں کو روپیہ دے کر اپنے مذہب میں داخل کرتے ہیں۔ یہ لڑکوں کو بھگا لے جائیں گے۔ اب تو بچوں کو پڑھاتے ہیں پھر ان کے اخراجات کا دعویٰ دائر کر دیں گے۔ غرض کہ اس قسم کے مغالطے ملکانوں کو دیئے کہ بس حد ہو گئی۔ اب احمدی مجاہدین کو بیک وقت دو زبردست طاقتوں کا مقابلہ کرنا پڑا۔ آگے آریہ صاحبان اور پیچھے علماء کرام !!۶۷۔
یہ افسوسناک صورت حال معلوم کرکے مولوی ممتاز علی صاحب ایڈیٹر اخبار ’’تہذیب نسواں‘‘ (لاہور) نے لکھا۔
’’میں نے سنا ہے کہ میدان ارتداد میں ہر فرقہ اسلام نے تبلیغ کے لئے اپنے اپنے نمائندے بھیجے ہیں۔ مناسب جانا کہ میں جس گروہ کے مبلغین کو سب سے زیادہ کامیاب دیکھوں ان میں سے ایک اپنے لئے منتخب کر لوں۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ تبلیغ کے کام میں سب سے زیادہ کامیابی احمدی مبلغوں کو ہوئی ہے اس لئے میں نے سوچا کہ اگر تہذیبی بہنوں کو اعتراض نہ ہو تو وہ ان میں سے کسی ایک مبلغ کا خرچ اپنے ذمہ لے لیں۔ مگر اسی اثناء میں ہمارے علماء نے اعلان شائع کیا کہ احمدی فرقہ کے لوگ سب کافر ہیں اور ان کا کفر ملکانہ راجپوتوں کے کفر سے بھی زیادہ شدید ہے۔ اس زمانہ میں علماء کا یہ کام مسلمان بنانا نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کو کافر بنانا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ دنیا میں ایک بھی ایسا مسلمان نہ ہو گا۔ جس کے متعلق سب علماء دین بالاتفاق یہ کہہ سکیں کہ واقعی یہ ٹھیک مسلمان ہیں۔ ہمارے علماء سے جسے چاہو کافر بنوالو۔ وہابی کافر‘بدعتی کافر‘رافضی کافر‘خارجی کافر۔ لیکن اگر ان سے چاہو کہ چند کافروں کو مسلمان بنا دو۔ تو یہ کام ان سے نہیں ہو سکتا‘‘۶۸۔
اسی کی تائید میں جناب عبدالمجید صاحب سالک اپنی کتاب ’’سرگزشت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ۔
’’ملکانہ راجپوتوں میں انسداد ارتداد اور تبلیغ اسلام کا کام شروع ہوا۔ بریلوی‘دیوبندی‘شیعہ‘احمدی‘لاہوری احمدی۔ میر نیزنگ کی جمعیتہ تبلیغ الاسلام کے مبلغ غرض ہر فرقے اور ہر جماعت کے کارکن آگرہ اور نواحی علاقوں میں پھیل گئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مل جل کر اسلام کی خدمت کرتے لیکن ان جماعتوں نے وہاں آپس میں لڑنا شروع کر دیا۔ صرف احمدی مبلغین تو کچھ کام کرتے تھے اور باقی تمام فرقوں کے لوگ یا آپس میں مصروف پیکار تھے یا احمدیوں کے خلاف کفر کے فتوے شائع کرتے تھے‘‘۶۹۔
جمعیتہ العلماء دہلی کی طرف سے احمدیوں کو دھمکی
اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے ’’جمعیتہ العلماء‘‘ دہلی نے احمدیوں کو تباہ کرنے کی بھی دھمکی دے دی۔ چنانچہ شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی کا چشم دید بیان ہے کہ ’’جب میں ملکانہ میں کام کرتا تھا تو چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے مجھے حکم دیا کہ دہلی جائیں اور مولوی کفایت اللہ صاحب اور مولوی احمد سعید صاحب وغیرہ جمعیتہ العلماء کے علماء سے ملیں۔ اور اطلاع دیں کہ آپ کے فلاں مبلغ ملکانوں کو تبلیغ اسلام کرنے کی بجائے ان کو ہمارے خلاف بہکا رہا ہے۔ میں ان کی خدمت میں پہنچا تو غالباً مولوی احمد سعید صاحب نے میری عرض داشت پر جو کہا اس کا مفہوم یہ تھا کہ میں مدد کرتا ہوں۔ مگر میں ایک بات سنائے دیتا ہوں کہ جب یہ ملکانہ کا قضیہ ختم ہو جائے گا تو پھر ہم آپ کی جماعت کا مقابلہ کریں گے اور پیس کر رکھ دیں گے۔ یہ کہہ کر ساتھ ایک آدمی کر دیا کہ فلاں مولوی صاحب کے پاس لے جائیں یہ مولوی صاحب جو نوجوان تھے اور مولوی کفایت اللہ صاحب اور مولوی احمد سعید صاحب کے ماتحت کام کرتے تھے۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگے کہ ہماری تو سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ لوگ کیسے کام کر رہے ہیں۔ ہم اپنے آدمیوں کو تنخواہیں ہی نہیں سفر خرچ بھی دیتے ہیں اور بھی ان کی خاطر مدارت کرتے ہیں مگر اس کے باوجود وہ بھاگ آتے ہیں۔ مگر آپ نے کیا روح پھونک دی ہے کہ ڈٹ کر دشمنوں کا مقابلہ کر رہے ہیں‘‘۷۰
’’انجمن نمائندگان تبلیغ‘‘ کی مزاحمت اورحضرت چوہدری فتح محمد صاحب کی غیرت دینی
جیسا کہ اوپر جمعیتہ العلماء کا بطور مثال ذکر کیا گیا ہے بعض مستثنیات کے سوا علماء کے سب طبقے اجتماعی صورت میں احمدیوں کی مخالفت کررہے تھے۔ حتیٰ کہ ’’انجمن نمائندگان تبلیغ‘‘ بھی جسے
بالکل غیر جانبداری سے کام کرنا چاہئے تھا وہ بھی مزاحمت کرنے لگی چنانچہ جناب شیخ محمد احمد صاحب (ایڈووکیٹ لائلپور) اس صورت حال کا تذکرہ کرتے اور حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی غیرت دینی کا ایک اہم واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’تمام علاقے میں ہنگامے برپا تھے۔ ہر طرف رواروی اور ہماہمی تھی۔ اگر آج چوہدری صاحب موضع پرکھم میں ایک مسجد کی بنیاد رکھ رہے ہیں تو کل موضع اسپار میں مرتد ملکانوں کی اسلام میں واپسی کی تقریب پر شاداں و فرحاں احباب سمیت جا رہے ہیں۔ اور اس طرح شب و روز فرائض منصبی میں بشاشت سے منہمک ہیں اور اس مشکل ترین فرائض کا ایک پہاڑ سر پر اٹھایا ہوا ہے اور امام کے اشارات و ہدایات کے مطابق چلے جا رہے ہیں اور الا مام جنہ یقاتل من ورائہ کا منظر ہے۔ بعض اور انجمنیں بھی علاقہ ارتداد میں کام کر رہی تھیں یا کام بگاڑ رہی تھیں اور کبھی کبھی بلاوجہ محض حسد کی راہ سے ہمارے کام میں روک بن جاتی تھیں۔
اسی قسم کا ایک واقعہ خاکسار کے رو برو پیش آیا۔ ’’انجمن نمائندگان تبلیغ‘‘ نے بذریعہ ایک کارکن ہمارے کام میں دراندازی کی۔ چوہدری صاحب مرحوم کو علم ہوا تو بپھرے ہوئے شیر کی مانند اس انجمن کے دفتر میں آئے۔ خاکسار ہمراہ تھا پھر وہاں جو واقعہ پیش آیا سننے اور سمجھنے کے قابل ہے اور میرے روزنامچے میں بہ الفاظ ذیل درج ہے۔
’’۲۳/ اگست ۱۹۲۳ء۔ امیر صاحب کی معیت میں نمائندگان تبلیغ کے دفتر میں گئے قریب سوا آٹھ بجے (شب) ان کے دفتر میں پہنچے۔
نذیر احمد خاں وکیل جے پوری جو فتنہ ارتداد کے دوران میں معروف ہو چکے ہیں۔ وہاں موجود تھے اور آج ہی مہاسبھا بنارس سے واپس آئے تھے۔ اس کے متعلق اپنے دفتر کے کلرک کو کچھ مضمون وہاں کی کارروائی کے متعلق لکھوا رہے تھے۔ بدیں پیرایہ کہ والیان ریاست کی طرف سے ایک ہزار نمائندے شریک تھے۔ پنڈت مالویہ نے پرزور تحریک شدھی کے حق میں کی کہ خواہ کھان پان نہ ہو۔ لیکن بھنگیوں چماروں تک کو کنوئوں سے پانی بھرنے‘مندروں میں درشن وغیرہ کی اجازت ضرور دی جائے پنڈت لوگوں نے مخالفت بھی کی لیکن مالویہ کے آگے ان کی پیش نہ گئی اور بالاخر یہ پاس ہو گیا۔ مارواڑی کروڑ پتی اور دور دراز کے نمائندے شریک تھے راجہ بھرت پور کی حسن کارکردگی کا خصوصاً اعتراف کیا گیا۔
اس کے بعد وکیل صاحب موصوف نے نوٹ لکھوایا کہ میرا یہ خیال ہے کہ اگر ہندوستان کی کل جماعتیں ایک شخص کے ماتحت ہو کر کام نہ کریں گی تو ۱۹۲۳ء میں دو کروڑ نفوس مرتد ہو جائیں گے اور ہمیں مخاطب کرکے کہا کہ اگر میرے بس میں ہوتا تو اجمل خاں‘محمد علی‘شوکت‘کچلو وغیرہ تمام مسلمان لیڈروں کو کہتا کہ لیڈری کو چھوڑو۔ شکاری شکار کھیلتا ہے اور تم لوگ اس کی بندوق و تیر اٹھائے پھرتے ہو۔ وغیرہ۔
اتنا عرصہ ہم خاموش بیٹھے رہے اور مضمون کے ختم ہونے پر امیر صاحب نے حرف مطلب یوں شروع کیا۔
ہمیں نمائندگان تبلیغ سے سخت شکایت ہے ہم چھ ماہ سے یہاں پڑے ہیں۔ ہماری جماعت کے بہترین آدمی برسرکار ہیں۔ ہم دو ماہ میں شدھی وغیرہ سب کو پورے طور پر رفع دفع کر گئے ہوتے لیکن یہ مولوی لوگ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے۔ ہم جان توڑ کر مسلسل کوشش سے ایک دیہہ کو فتح کرنے والے ہوتے ہیں کہ آپ کا آدمی پہنچتا ہے اور کام خراب کر دیتا ہے ہمیں کافر ٹھہرا کر ملکان کو بہلا پھسلا کر۔
کنور عبدالوہاب صاحب وغیرہ یہاں نہیں رہتے۔ ہم شکایت ان سے کیسے کریں۔ دین میں اعزازی عہدے نہیں ہوا کرتے کام کرنا ہوتا ہے۔ ہم اب یہ برداشت نہیں کر سکتے یا تو مولوی کو ۔۔۔۔۔۔۔ دو دن کے اندر نکال دیا جائے۔ ورنہ ہم اس انجمن کے خلاف جو چاہیں گے کریں گے۔ آریہ مسلمانوں سے بڑی قوم ہے۔ انگریز اتنی بڑی قوم ہے ہم نے ان سے مقابلہ ٹھانا ہوا ہے تو پھر یہ مولوی وغیرہ کیا چیز ہیں یہ میں نہیں کہہ رہا بلکہ تمام جماعت احمدیہ کہہ رہی ہے۔
نذیر احمد خاں: آپ پندرہ دن اور ٹھہر جائیں۔ یہ مولوی ملانے بوریا بستر باندھ کر خود چل دیں گے۔
امیر صاحب: ہم نے چھ مہینے انتظار کیا ہے لیکن کوئی اصلاح نہیں ہوئی۔ کنور عبدالوہاب صاحب کے سامنے ملکانوں نے ذکر کیا کہ آپ کے ایک مولوی نے احمدیوں کو ان کے گائوں میں نہ رہنے دیا ورنہ وہ لوگ ان کے زیر اثر پنجوقتہ نماز پڑھنے لگ گئے تھے حتیٰ کہ بعض تہجد بھی پڑھتے تھے نمائندگان کا آدمی گیا انہیں ورغلایا اور احمدیوں کو کافر قرار دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ احمدی وہاں سے لوٹ آئے اور وہ مولوی ایک دن بھی نہ ٹھہرا۔ سب نے نماز چھوڑ دی اور ویسے کے ویسے رہ گئے۔
امیر صاحب نے فرمایا کہ ان لوگوں کی تحریر میرے پاس موجود ہے اور انہوں نے کہا ہم قادیان بیعت کرتے ہیں۔ لیکن ہم خاموش رہے۔ اب بتائو ہم نے انہیں کہا تھا کہ بیعت کرو۔ اسی طرح آئے دن واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ مولوی چاہتے ہیں کہ کام نہ خود کریں نہ کرنے دیں۔
آنور ایک بڑا گائوں ہے چھ سو ملکانے وہاں آباد ہیں۔ اگر وہ واپس ہو تو بھرت پور پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ دیگر دیہات متھرا پر بھی اس کا اثر ضرور پڑتا ہے۔ وہاں ہمارے تین آدمی مقرر ہیں۔ شیخ فضل صاحب جو بٹالہ کے رئیس ہیں اور دو اور تعلیم یافتہ آدمی اب چوتھا آدمی نمائندگان کا وہاں کیوں جائے۔ لیکن نواب خاں وہاں گیا کہ عبدالحی صاحب نے اسے حکم دیا کہ تم نوکر ہو وہاں ضرور جانا ہو گا۔ اس نے جا کر انہیں بگاڑا۔ ورنہ وہ واپسی کے لئے آمادہ تھے۔ اس شرط پر کہ آریوں سے جو دو سو روپیہ مرمت چاہ کے لئے وہ لے چکے ہیں انہیں واپس دے کر رسید ہم لے لیں اور اگر وہ کوئی مقدمہ کریں تو ہم ان کی امداد کریں۔ ہم تیار تھے کہ یہ آدمی پہنچا۔ ملکانے ایک ہوشیار قوم ہے انہوں نے جب دیکھا کہ دو خریدار ہیں۔ تو اب کہتے ہیں کہ ۸۰۰ دلائو۔ ہمارا چندہ صرف ہندوستان پر ہی نہیں بلکہ دیگر تمام ممالک یورپ امریکہ‘افریقہ پر بھی صرف ہوتا ہے۔ میں بجٹ سے ایک پیسہ زیادہ نہیں کر سکتا۔ اگر ہمارا مقابلہ ہی کرنا ہے تو جائو پنجاب میں‘بنگال میں‘تمام ہندوستان میں ہمارا مقابلہ کرو۔ یہ علاقہ اسلام پر ایک مصیبت ہے یہاں ہی ہمارے ساتھ دشمنی کرنی ہے۔ اگر اتحاد نہیں ہو سکتا تو دشمنی تو نہ ہو اگر ہم آپ کے خیال میں مسلمان نہیں تو ہم ہر دو کم از کم تعلیم یافتہ تو ہیں ملکا نے ہم دونوں کو پریشان کر رہے ہیں۔ اس کا تو خیال ہے۔ اگر آپ کہیں تو ہم آپ کے حسب مرضی جو جو گائوں آپ چاہیں چھوڑ دیں لیکن باقیوں پر ہمارا کامل تسلط ہو گا اور آپ کی طرف سے کوئی در اندازی نہ ہو گی اگر یہ بھی نہ ہو تو ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں لیکن ایک سو چالیس گائوں ہیں ان میں کم از کم دو سو اسی آدمی مبلغ درکار ہوں گے آپ کو ان کا انتظام کرنا ہو گا غرض کوئی معاہدہ بھی ہو لیکن استوار ہو۔
خدا جانتا ہے کہ ہمیں یہاں آنے سے کوئی خاص غرض نہیں اور یہ شکایت محض جانبین کی بہتری کے لئے ہے انتھی کلامہ۔
یہ تمام گفتگو نذیر احمد خاں صاحب اور عبدالحی صاحب نائب ناظم مجلس نمائندگان کے روبرو ہوئی۔ آخر نذیر احمد خاں صاحب عبدالحی صاحب کو اٹھا کر ایک طرف لے گئے اور واپس آکر عبدالحی صاحب نے کہا کہ آپ اپنے دیہات کی ایک فہرست ہمارے پاس بھیج دیں۔ اس کے بعد ہم ان نامزدہ دیہات میں کوئی مداخلت نہ کریں گے۔ کہا گیا کہ چھ ماہ ہوتے ہیں آپ کو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں کہ ہم کہاں کہاں ہیں۔ بہرحال فہرست مطلوبہ ارسال کر دی جائے گی۔
یہ تقریر میں نے واپسی پر رات کو ہی قلمبند کر لی تھی‘‘۷۱۔
مجاہدین احمدیت پر ظلم و تشدد
میدان ارتداد میں احمدی مجاہدین کو آریوں اور علماء کی طرف سے ظلم و تشدد کا تختہ مشق بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ چنانچہ فرخ آباد میں آریوں نے ایک بار ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کے مکان کا مسلح محاصرہ کر لیا۔ مگر اس دوران میں اچانک پولیس کا ایک مسلمان سپاہی آگیا اور ان کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے اسی طرح ایک مولوی آل نبی صاحب نے کئی سو آدمی لے کر ان کے ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بول دیا اور ماسٹر صاحب اور ان کی اہلیہ اور بوڑھی والدہ اور ننھے بچے یونس احمد کو (جو آب قادیان میں درویشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں) جبراً مکان سے نکال دیا اور ساتھ ہی دفتر بھی خالی کروا لیا۷۲۔ ان ہی مولوی صاحب کے رفقائے نے ایک دوسرے احمدی مبلغ عبدالرشید صاحب کو فحش گالیاں دیں اور قتل کی دھمکیاں دینے سے بھی قطعاً دریغ نہ کیا۷۳۔
موضع اسہار میں آریوں اور مرتد ملکانوں نے مرزا غلام رسول صاحب (ریڈر سیشن جج پشاور) پر لاٹھیوں سے مسلح حملہ کرکے ان کی جھونپڑی نیچے گرا دی اور وہ نیچے دب گئے۔ بازوئوں سے کھینچ کر باہر نکالا گیا۔ ظالم و سفاک انہیں گھسیٹتے ہوئے باہر لے گئے اور دھکے دے کر گائوں سے نکال دیا۷۴۔ جس پر جماعت احمدیہ کی طرف سے مقدمہ دائر کیا گیا اور شیخ محمد احمد صاحب وکیل کپورتھلہ نے اس کی پیروی کی۔
اکرن میں ہندو تھانیدار نے احمدی مبلغین کو علاقہ سے باہر نکل جانے پر مجبور کیا۷۵۔ پھر مہاراجہ بھرت پور نے پوری ریاست میں یہ ظالمانہ حکم دے دیا کہ کوئی غیر ریاستی پر چارک (مبلغ) ریاست کی حدود میں چوبیس گھنٹے سے زیادہ نہ رہے۔ تب مجاہدین نے حدود ریاست سے باہر کیمپ لگا لیا۔ ایک مجاہد ریاست میں جاتا اور موضع اکرن میں ۲۴ گھنٹے ٹھہر کر واپس آجاتا۔ اس کے بعد دوسرا مجاہد پہنچ جاتا اور اس طرح باری باری اکرن میں شدھی کی خلاف مورچہ کی نگرانی ہوتی رہی۔ ریاستی حکام نے جب یہ صورت دیکھی تو بڑے سٹ پٹائے۔ آخر مہاراجہ بھرت پور نے احمدی مبلغین کے داخلہ ریاست پر قطعی پابندی عائد کر دی۔
ریاست کی اس مذہبی دست درازی پر مسلم پریس مثلاً ’’پیسہ اخبار‘‘۔ ’’سیاست‘‘ اور ’’وکیل‘‘ نے پر زور احتجاج کیا۷۶]body [tag۔ جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے (جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی‘حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مولوی فضل الدین صاحب وکیل پر مشتمل تھا) ناظم ریاست سے ملاقات کی اور یہ ظالمانہ حکم واپس لینے کی اپیل کی۔ مگر ریاستی حکام ٹس سے مس نہ ہوئے اور مجاہدین کو ریاست سے باہر ملحقہ دیہات میں قیام پذیر ہو کر ریاست کے مرتد مسلمانوں سے رابطہ قائم کرنے کے مختلف ذرائع اختیار کرنے پڑے۷۷۔
مجاہدین احمدیت کا بے مثال استقلال
احمدیت کے رستہ میں قدم قدم پر مشکلات و مصائب کے پہاڑ کھڑے کئے گئے مگر اسلام کے جانباز سپاہی بڑے وسیع حوصلہ اور استقلال اور مضبوط ارادے کے ساتھ شدھی کا قلعہ توڑنے میں دیوانہ وار مصروف ہو گئے۔ اسلام کی تائید میں لٹریچر پھیلایا۷۸۔ ملکانہ بچوں کے لئے ساندھن‘پرکھم‘صالح نگر‘کھڑوائی وغیرہ متعدد مقامات پر مدارس قائم کئے۔ ہسپتال کھولے‘پرانی مسجدیں مرمت کرکے آباد کیں اور نئی مسجدیں تعمیر کیں۷۹`۸۰ مجالس اور پبلک جلسوں کے ذریعہ اسلام کی منادی کی اور جب اور جہاں بھی آریوں نے مناظرے کی طرح ڈالی چیلنج دیئے احمدی اپنی جان کو جوکھوں میں ڈالتے ہوئے میدان مناظرہ میں کود پڑے اور آریوں کے پیش کردہ دلائل کی دھجیاں بکھیر ڈالیں۔ چنانچہ مولانا جلال الدین صاحب شمس نے بھونگائوں‘بموری‘متھرا‘آگرہ‘ساندھن‘مین پوری اور دہلی میں کامیاب مناظرے کرکے کئی اہم مہمیں سرکیں۔
یہ مجاہدانہ سرگرمیاں دیکھ کر مشہور مسلم اخبار ’’زمیندار‘‘ جو پہلے ہی جماعت کی تبلیغی کارناموں کو دیکھ کر رطب اللسان تھا اور زیادہ تعریف کرنے لگا۔ چنانچہ اخبار ’’زمیندار‘‘ نے لکھا۔
۱۔
’’جو حالات فتنہ ارتداد کے متعلق بذریعہ اخبارات علم میں آچکے ہیں ان سے صاف واضح ہے کہ مسلمانان جماعت احمدیہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں۔ جو ایثار اور کمربستگی‘نیک نیتی اور توکل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے اندازہ عزت اور قدر دانی کے قابل ضرور ہے۔ جہاں ہمارے مشہور پیرا اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں۔ اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت کرکے دکھا دی ہے‘‘۸۱۔
۲۔
’’قادیانی احمدی اعلیٰ ایثار کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا قریباً ایک سو مبلغ امیر وفد کی سرکردگی میں مختلف دیہات میں مورچہ زن ہے۔ ان لوگوں نے نمایان کام کیا ہے۔ جملہ مبلغین بغیر تنخواہ یا سفر خرچ کے کام کر رہے ہیں۔ ہم گو احمدی نہیں لیکن احمدیوں کے اعلیٰ کام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جس اعلیٰ ایثار کا ثبوت جماعت احمدیہ نے دیا ہے۔ اس کا نمونہ سوائے متقدین کے مشکل سے ملتا ہے۔ ان کا ہر ایک مبلغ غریب ہو یا امیر بغیر مصارف سفر و طعام حاصل کئے میدان عمل میں گامزن ہے۔ شدت کی گرمی اور لوئوں میں وہ اپنے امیر کی اطاعت میں کام کر رہے ہیں‘‘۸۲۔
۳۔ ’’احمدی مبلغ جس جوش اور ولولہ سے فتنہ ارتداد کے انسداد میں مصروف ہیں ان کی تعریف و توصیف کرنے سے ہم باز نہیں رہ سکتے‘‘۸۳۔
کامیاب مدافعت اور شاندار پیش قدمی
الحمدللہ کہ احمدی مبلغوں کی کوششیں بار آور ہوئیں اور اللہ کے فضل و کرم سے شدھی کی رو میں زبردست کمی آگئی اور شدھ کئے ہوئے خاندان بڑی کثرت سے دوبارہ اسلام میں آنے لگے۔ شورش انگیز اور تشدد آمیز کارروائیوں اور چیرہ دستیوں اور مخالف طاقتوں کی زبردست شورش کے باوجود ہر طرف اسلام کی فتوحات کے دروازے کھل گئے۔ ریاست بھرت پور کے کئی گائوں شدھی سے تائب ہو کر پھر سے اسلامی لشکر میں آشامل ہوئے۸۴۔ آنور کا قصبہ جس کے قریب سری کرشن جی کی پیدائش ہوئی اکثر و بیشتر مسلمان ہو گیا۔ اسہار کے ایک بڑے حصہ نے اسلام قبول کر لیا۸۵۔
چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے تحریر فرماتے ہیں۔
’’دوران جنگ میں احمدیت کے جنگجو دستہ کے لئے بعض خطرے کے موقعے بھی پیش آئے جن میں بعض اوقات غنیم نے نازک حالات پیدا کر دیئے۔ اور ایسا تو کئی دفعہ ہوا کہ احمدی والنٹیر اپنی کوشش سے ایک شدھ شدہ گائوں کو اسلام میں واپس لائے مگر ہندو دستہ نے پھر یورش کرکے اسے پھسلا دیا۔ مگر احمدیوں نے دوبارہ حملہ کرکے پھر دوسری دفعہ قلعہ سر کر لیا۔ بعض دیہات نے کئی کئی دفعہ پہلو بدلا کیونکہ اس کشمکش کے دوران میں بعض ملکانہ دیہات میں کچھ لالچ بھی پیدا ہو گیا۔ مگر بالاخر ایک ایک کرکے ہر ہندو مورچہ فتح کر لیا گیا اور خدا کے فضل سے شدھی کے مواج دریا نے پلٹا کھا کر اپنا راستہ بدل لیا۔ بلکہ اس جدوجہد میں ایک حد تک ملکانہ راجپوتوں کی دینی تربیت بھی ہو گئی اور ان میں سے کم از کم ایک حصہ خدا کے فضل سے صرف نام کا مسلمان نہیں رہا۔ بلکہ اسلام کی حقیقت کو سمجھنے والا اور اسلام کے احکام پر چلنے والا بن گیا‘‘۸۶۔
مجاہدین احمدیت کے ہاتھوں شدھی تحریک کو جس عبرتناک ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اس کا اقرار ہندوئوں اور سکھوں دونوں کی طرف سے برملا کیا گیا۔ چنانچہ لالہ سنت رام بی۔ اے سیکرٹری جات پات توڑک منڈل لاہور نے بیان دیا۔ ’’الفاظ بہت کڑے ہیں اور سخت مایوسی سے بھرے ہوئے ہیں مگر یہ سچائی ہے چاہے کڑوی ہو۔ بہت سے بھائی پوچھیں گے ہم اخباروں میں روز شدھی اور اچھوت ادھار کی خبریں پڑھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تم کیسے کہتے ہو کہ شدھی اور اچھوت ادھار کی تحریک کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کے جواب میں میری عرض یہ ہے کہ کسی کو جھوٹا کہنے کی ضرورت نہیں۔ پرمیشور نے آپ کو آنکھیں دی ہیں کہ اس وقت ہندو سماج میں دوسرے دھرموں سے کتنے لوگ شدھ ہو کر آئے ہیں جن کی شدھی کی خبریں اخباروں میں جلی الفاظ میں چھپتی ہیں ان کی تعداد کم سے کم پانچ سو تو ہو گی مگر ان میں سے مجھے بیس کے نام تو گن دیجئے۔ جو آج بھی ہندو ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ ملکانوں کی شدھی پر بڑا فخر کیا جاتا ہے۔ تھی بھی وہ بڑی فخر کی بات مگر جو لوگ سچائی کو جانتے ہیں وہ بڑے متفکر ہیں۔ ملکانوں کی شدھی کی جو رپورٹ وقتاً فوقتاً اخبارات میں چھپتی رہی ہے اس کے بموجب شدھ ہونے والوں کی گنتی ڈھائی لاکھ سے کم نہیں پہنچی مگر ۔۔۔۔۔۔۔ ان لوگوں میں بہت سے تو اپنی پہلی حالت میں واپس چلے گئے اور باقی بیچ میں لٹکے ہوئے کسی ٹھوکر کی راہ دیکھ رہے ہیں‘‘]10 [p۸۷۔
پروفیسر پریتم سنگھ ایم- اے اپنی کتاب ’’ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکیں‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’آریہ سماج نے شدھی یعنی ناپاک کو پاک کرنے کا طریقہ جاری کیا۔ ایسا کرنے سے آریہ سماج کا مسلمانوں کے ایک تبلیغی گروہ یعنی قادیانی فرقہ سے تصادم ہو گیا۔ آریہ سماج کہتی تھی کہ وید الہامی ہیں اور سب سے پہلا آسمانی صحیفہ ہیں۔ اور مکمل گیان ہیں قادیانی کہتے تھے کہ قرآن شریف خدا کا کلام ہے اور حضرت محمد خاتم النبین ہیں۔ اس کدو کاوش کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی عیسائی یا مسلمان اب مذہب کی خاطر آریہ سماج میں شامل نہیں ہوتا مذہب کی تبدیلی بے معنی سی ہو گئی ہے آریہ سماج کا تعلیمی کام اب تک جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر سماج کا تبلیغی کام تقریباً بند ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ آریہ سماج کی تحریک خاطر خواہ ترقی نہ کر سکی۔ پرانے ہندو جو بت پرست اور مقلد تھے وہ ویسے کے ویسے ہی رہے اور کچھ انگریزی پڑھے لکھے لوگ جو سماج میں داخل ہوئے وہ مادیات میں پھنس کر دہریہ ہو گئے۔ ان کی تو وہی حالت ہے۔
ع نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘‘۸۸۔
شردھانند کی طرف سے تحریک شدھی سے دست برداری کا اعلان
جب آریوں کو کئی مقامات پر پسپا ہونا پڑا تو شدھی کے بانی شردھانند نے ۱۹/ اگست ۱۹۲۳ء کو تمام مسلمانوں کو مباحثہ کا چیلنج دیا۔ مقصد یہ تھا کہ مسلمان عملی میدان سے ہٹ کر براہ راست ان کی طرف متوجہ ہوں اور جہاں ہندو ان کی شخصیت و عظمت کے قائل ہوں وہان بھولی بھالی ملکانہ قوم پر رعب طاری ہو۔ اس چیلنج میں انہوں نے گو احمدیہ جماعت کا نام نہیں لیا تھا مگر چونکہ اس دعوت میں سب مسلمانوں ہی کو خطاب تھا اس لئے جماعت احمدیہ کی طرف سے ناظر تالیف و اشاعت نے فوراً مناظرہ کی منظوری بذریعہ تار بھیج دی اور ساتھ ہی مسلمان اور ہندو اخبارات کو بھی اس کی اطلاع کر دی۸۹۔
انصاف و اخلاق کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے فریق مخالف کی اطلاع کا جواب دیتے مگر شردھانند صاحب نے اس تار کا تو کوئی جواب نہ دیا البتہ ’’ہندوستان کے سب مسلمانوں کو کھلا چیلنج‘‘ کے نام سے ایک نیا اعلان دے دیا۔ جس میں پبلک پر یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ گویا خود مسلمانوں نے مجھے دعوت مباحثہ دی ہے۔ تحریر کیا کہ:۔
’’کچھ عرصہ سے مسلمان اصحاب نے میری معرفت مباحثہ کرنا زیادہ تر مناسب سمجھا ہے اس لئے ان کی خواہش کو پورا کرنے کی غرض سے سب کا فرداً فرداً جواب نہ دیتے ہوئے ہندوستان کے جملہ مسلمان بھائیوں کو اطلاع دیتا ہوں کہ آریہ سماج ہر وقت مباحثہ کے لئے تیار ہے۔ ۹/ ستمبر ۱۹۲۳ء تک اسلام کے ہر فرقہ کی طرف سے (جو مباحثہ کرنا چاہیں) میرے پاس درخواست آجانی چاہئے‘‘۹۰۔
اس اعلان میں انہوں نے ایک تو مسلمانوں کی ’’درخواست‘‘ کے لئے ایسی قلیل مدت مقرر کی جو کسی لحاظ سے معقول نہیں تھی کیونکہ اس دوران میں ہر جگہ سے جواب کا بروقت پہنچنا بالکل ناممکن تھا۔ دوسرے ایسی بعض شرائط بھی لگا دیں جو دوسرا فریق منظور ہی نہ کر سکے۔ مثلاً مناظرہ کے وقت پریذیڈنٹ آریہ سماج کی طرف سے ہو گا۔ تیسرے اس تحکمانہ لہجہ میں اعلان لکھا کہ گویا آپ مہاراجہ ہیں اور اپنی رعایا کے نام احکام جاری فرما رہے ہیں لیکن اس کے باوجود احمدی جماعت نے جواب دیا کہ ہمیں ہر شرط منظور ہے۔ میدان میں نکلیں۔
چنانچہ ناظر صاحب تالیف و اشاعت نے قادیان شردھانند جی کو للکارتے اور پبلک پر ان کی شکست خوردہ ذہنیت کو آشکار کرتے ہوئے لکھا:۔
’’ہم سب شرائط منظور کرتے ہیں جو آپ نے تجویز کی لیکن ہم تمام پبلک خصوصاً انصاف پسندوں کے سامنے اعلان کرتے ہیں کہ یہ ایک نہایت ہی غیر منصفانہ طریق ہے کہ ایک فریق اپنے ہی قبضہ میں سب اختیارات رکھتا ہے۔ اگر آریہ سماج اس طرح مجبور کرکے اپنی پیش کردہ شرائط کو منظور کرانا چاہتی ہے تو یہ اس کا رویہ خود اقرار شکست ہے بحث ایک جنگ ہے اور جب کہ شکست خوردہ دشمن کا بھی یہ حق تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے خیالات کو فاتح کی پیش کردہ شرائط کے مقابلہ میں پیش کرے۔ تو یہ بات نہایت خلاف عقل ہے کہ ایک فریق بحث سے بھی پہلے اپنی طرف سے سب پیش کردہ شرائط کو بلا چون و چرا ماننے پر زور دے۔ میں امید کرتا ہوں کہ آریہ سماج کی طرف سے جلد سے جلد مجھے اس امر کی اطلاع دی جائے گی کہ ان کو ہمارے ساتھ مباحثہ کرنا منظور ہے یا نہیں‘‘۹۱۔
اب شردھانند صاحب کے لئے گریز کی کوئی راہ باقی نہ تھی۔ شرائط اگرچہ یکطرفہ تھیں اور وقت نہایت تنگ مگر جماعت احمدیہ نے اتمام حجت کے لئے مباحثہ منظور کر لیا۔ جماعت بڑی بے تابی سے اس وقت کے انتظار میں تھی کہ کب ’’سوامی جی‘‘ میدان مباحثہ قبول کرتے ہیں اور ہندو دھرم کے مقابل اسلام اور ویدوں کے مقابل قرآن مجید کی فتح کے نقارے بجتے ہیں۔ لیکن شردھانند تو اس مناظرے سے اپنا پیچھا چھڑانے کی فکر میں تھے اور کسی بہانہ کی تلاش میں تھے۔
دہلی کی اتحاد کانفرنس
حسن اتفاق سے ان ہی دنوں دہلی میں آل انڈیا نیشنل کانگرس نے ایک خاص اجلاس شدھی اور سنگھٹن کے مسئلہ پر غور کرنے کے لئے بلا رکھا تھا اس اجلاس میں جناب ابوالکلام صاحب آزاد صدر کانگریس نے اپنے خطبہ صدارت میں کہا کہ موجودہ ملکی حالت یہ ہے کہ سوارج اور خلافت کی جگہ شدھی سنگھٹن کی تحریک اور اس کی مدافعت نے لے لی ہے ہمیں متحدہ قومیت کی ضرورت ہے میں تمام ہندو مسلمانوں سے وطن کے نام سے اپیل کرتا ہوں کہ آئندہ کے لئے ان تمام سرگرمیوں کو بند کر دیں جو شدھی تحریک اور اس کی مدافعت وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں۔
خطبہ صدارت کے بعد ہندو مسلم لیڈروں کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی اور جناب آزاد کی تجویز پر ایک اتحاد کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔ جس کی غرض کانگریس کے سامنے اپنی سفارشات پیش کرنا تھا یہ اتحاد کمیٹی حسب ذیل ممبروں پر مشتمل تھی۔ پنڈت شردھانند‘پنڈت مالویہ جی‘جناب ابوالکلام صاحب آزاد‘ڈاکٹر انصاری‘ڈاکٹر کچلو‘حکیم اجمل خاں‘مولوی شبیر حسین‘مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی‘پنڈت موتی لال نہرو‘سی۔ آر داس‘مسٹر کینڈا‘مسز سروجنی نائیڈو اور ڈاکٹر ستیہ پال۹۲۔
اتحاد کمیٹی کے ممبر ہونے کی وجہ سے شردھانند جی کو مباحثہ سے انکار کرنے کا ایک موقعہ ہاتھ آگیا۔ اور اگرچہ کمیٹی کی تجاویز میں مباحثہ کے اعلان کی واپسی کا چنداں ذکر نہیں تھا۔ مگر انہوں نے فوراً اعلان شائع کر دیا کہ۔
’’کمیٹی صلح کے بن جانے سے ہر دو مذاہب کے درمیان پھر سے اتحاد کی بنیاد قائم ہو گئی۔ اب میں اس بنی ہوئی فضا کے راستے کو مکدر کرنا نہیں چاہتا اس لئے مباحثہ کو اپنی طرف سے بند کرتا ہوں‘‘۹۳۔
اس اعلان پر دنیا نے اچھی طرح محسوس کر لیا کہ آریوں کے مشہور لیڈر اور شدھی کے بانی نے احمدیوں کے سامنے ہتھیار ڈال کر اپنی شکست پر اپنے ہاتھوں دستخط کر دیئے ہیں۹۴۔ یہ بات اتنی واضح اور کھلی تھی کہ ہندو اخبار ’’پرتاپ‘‘ لاہور نے لکھا۔
’’ممکن ہے فساد بھی ہو جاتا لیکن جو بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ ہے کہ یہ حالات تو پہلے بھی موجود تھے جبکہ سوامی جی نے مناظرہ کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد تو کوئی اور فساد بھی نہیں ہوا۔ اس کے بعد کونسی ایسی بات ہوئی ہے جس نے سوامی جی کو مناظرہ کے بند کرنے پر مائل کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے خود ہی مناظرہ کا اعلان کیا۔ خود ہی اسے منسوخ کر دیا‘‘۹۵۔
مناظرہ کی منسوخی سے آریہ سماج کو ایسی ضرب کاری لگی کہ چند دن بعد شردھانند تحریک شدھی سے ہی دستبردار ہو گئے اور اپنی علیحدگی کی وجہ یہ بیان کی کہ ’’میری صحت اس امر کی اجازت نہیں دیتی کہ شدھی جیسے اہم اور ضروری کام کو اسی شوق سے کئے جائوں میرا دل ہمیشہ کارکنوں کے ساتھ رہے گا‘‘۹۶۔
اتحاد کمیٹی میں نمائندگان جماعت کی شمولیت
اب اتحاد کمیٹی کی طرف آئیے۔ جس کی بناء پر شردھا نند جی نے پہلے میدان مناظرہ سے گریز اختیار کیا اور پھر شدھی سے دستکش ہو گئے۔
ہم اوپر یہ ذکر کر آئے ہیں کہ جناب ابوالکلام صاحب آزاد صدر آل انڈیا نیشنل کانگرنس نے ہندو مسلمان لیڈروں کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ شدھی کی تحریک بھی اور اس کی مدافعت کا کام بھی بالکل بند کر دیا جائے۔ چنانچہ اتحاد کمیٹی کے ارکان سوامی شردھانند سے یہ سمجھوتہ کرنے پر آمادہ ہو گئے کہ بیرونی آریہ اپدیشک بھی تحریک شدھی سے الگ ہو جائیں اور دوسری جگہ سے آنے والے مسلمان بھی میدان ارتداد سے ہٹ جائیں اور خود ملکان کو موقعہ دیا جائے کہ وہ آپس میں کوئی فیصلہ کر لیں۔
یہ اطلاع قادیان میں پہنچی تو حضرت خلیفتہ المسیح کے حکم سے ناظر صیغہ انسداد ارتداد (حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے) نے حکیم اجمل خاں صاحب۔ ڈاکٹر انصاری صاحب اور ڈاکٹر کچلو کے نام (جو اتحاد کمیٹی کے ممبر تھے) اس سمجھوتہ کے خلاف زبردست احتجاج کرتے ہوئے مفصل تار دیا۔ کہ
’’ہمارے نزدیک یہ سمجھوتہ سخت خلافت دانست اور خلاف مصالح اسلامیہ ہے۔ آریہ لوگ ایک عرصہ سے وہاں کام کر رہے ہیں اور کئی ہزار آدمی کو آریہ بنا چکے ہیں۔ اب پیچھے ہٹ جانے کے یہ معنی ہیں کہ ان لوگوں کو آریہ رہنے دیا جاوے۔ جو قوم پہلے قبضہ کر چکی ہے اس کے لئے آئندہ جنگ بند کر دینا کوئی حرج نہیں ہے۔ نقصان اس کا ہے جس نے اپنے اہل مذہب کو واپس لانا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس ہم بڑے زور سے اس سمجھوتہ کے خلاف پروٹسٹ کرتے ہیں اس وقت تک کہ اس علاقہ کے لوگ واپس اسلام میں آجائیں ہم صبر نہیں کریں گے اور اسلام کی عزت کے مقابلے میں کسی سمجھوتہ کی پروا نہیں کریں گے۔ ہماری جماعت امید رکھتی ہے کہ آپ اس وقت اسلام کی طرف سے جو ذمہ داری آپ پر عائد ہے۔ اس کو محسوس کرتے ہوئے کوئی ایسا سمجھوتہ نہیں ہونے دیں گے جو اسلام کی تبلیغی روح
‏rov.5.24
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
کے خلاف ہو‘‘۹۷۔
تار پہنچنے تک اتحاد کمیٹی کے ہندو اور مسلمان لیڈروں میں قطعی فیصلہ ہو چکا تھا کہ دونوں قومیں اپنے اپنے آدمی علاقہ ارتداد سے واپس بلا لیں۔ اور صرف یہ سوال باقی رہ گیا کہ آریہ پہلے علاقہ خالی کریں یا مسلمان‘مسلمان لیڈروں نے مان لیا کہ ہمارے آدمی پہلے واپس آجائیں گے لیکن اب یہ اہم سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ احمدیوں کا کیا ہو گا۔ اس پر شردھانند جی نے مسلمان لیڈروں سے کہا۔ جناب! آپ لوگ کس خیال میں ہیں یہ تو سارا کھیل ہی احمدیوں کا ہے پس آپ انہیں الگ رکھ کر کس حیثیت میں سمجھوتہ کریں گے اور کیا سمجھوتہ کریں گے؟
بعض مسلمان لیڈر اس سے پہلے نخوت کے رنگ میں احمدیوں کو دانستہ اس کمیٹی سے الگ کرکے اپنے طور پر سمجھوتہ کرنا چاہتے تھے۔ مگر اس مرحلہ پر ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں مجبوراً حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کی خدمت میں درخواست کرنا پڑی کہ وہ اپنے نمائندے بھجوائیں۹۸ چنانچہ سمجھوتہ کے خلاف احتجاجی تار ڈاک خانہ میں دینے کے معاًبعد حکیم اجمل خان صاحب‘جناب محمد علی صاحب (جوہر) اور ڈاکٹر انصاری صاحب کی طرف سے تار پہنچا کہ۔
’’حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب قادیان بٹالہ۔ ہماری پر زور درخواست ہے کہ آپ اپنے ذمہ دار قائم مقام کو جو آپ کے خیالات سے واقف ہو بھیجیں تاکہ شدھی اور اشدھی کی تحریکات کی وجہ سے جو فسادات پیدا ہو رہے ہیں ان کو روکنے کے لئے مشورہ کیا جائے‘‘۹۹4] [rtf۔
چنانچہ حضور کے حکم پر حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم۔ چودھری فتح محمد صاحب سیال امیر وفد المجاہدین اور حضرت خان صاحب ذوالفقار علی صاحب (علی برادران کے بڑے بھائی) ۱۹/ ستمبر ۱۹۲۳ء کو دہلی پہنچے۱۰۰۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلم لیڈروں کے نام اپنے نمائندوں کے ہاتھ ایک خط بھی بھجوایا جس میں تحریر فرمایا۔
’’جہاں تک میں آپ کے تار سے مطلب سمجھ سکا ہوں ہدایات دے دی ہیں اگر کوئی ایسا سوال پیدا ہوا۔ جس کے متعلق ان کو میری رائے معلوم نہ ہوئی تو مجھ سے دریافت کرکے آپ کو اطلاع دیں گے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ہندو مسلم اتحاد ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے اتحاد کے لئے ہماری جماعت بے چین ہے اور ہمارے عظیم مقاصد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دنیا میں سے تفرقہ اور انشقاق مٹ جائے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس بات کو مدنظر رکھنا نہایت ضروری ہے کہ موجب اختلاف کو معلوم کرکے ایسے اسباب مہیا کئے جائیں جن سے دائمی صلح اور آشتی پیدا ہو کر تمام اقوام عالم میں امن قائم ہو سکے۔ نہ یہ کہ ایسی صلح کی جائے جو دیرپا نہ ہو یا جس کے نتیجہ میں کسی اور جنگ کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جائیں‘‘۱۰۱۔
ان نمائندوں کے دہلی پہنچنے پر حکیم اجمل خاں صاحب نے دوبارہ تار دیا کہ۔
’’حضرت مرزا محمود احمد صاحب قادیان بٹالہ۔ خط اور فوری توجہ کا تہ دل سے شکریہ۔ آپ کا مشورہ ہمارے لئے بڑی مدد کا موجب ہو گا۔ اجمل خاں‘‘۱۰۲۔
احمدی نمائندوں نے کمیٹی کے سامنے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا یہ موقف پوری وضاحت سے پیش کیا کہ جب تک شدھ شدہ مسلمانوں میں سے ایک فرد واحد بھی باقی ہے ہم یہ مہم ہرگز نہیں چھوڑیں گے نتیجہ یہ ہوا کہ سمجھوتہ نہ ہو سکا اور شردھانند اور دوسرے کانگریسی ہندوئوں کی یہ سیاسی تدبیر جو انہوں نے کانگریس کے پلیٹ فارم پر کی تھی۔ کامیاب نہ ہو سکی۔
علاقہ ارتداد میں مستقل مبلغین کا تقرر
گو ہندو مسلم لیڈروں کا کوئی سمجھوتہ نہ ہو سکا۔ مگر غیر احمدی علماء اور آریہ پر چارک تھک ہار کر تیزی کے ساتھ واپس آنے لگے۔ اس کے مقابل جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اعلان فرمایا تھا۔ احمدی مجاہدین آخر دم تک میدان عمل میں مصروف جہاد رہے چنانچہ تبلیغی نقطہ نگاہ سے یہ علاقہ آگرہ‘فرخ آباد اور مین پوری تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جن کے الگ الگ امیر تبلیغ مقرر کئے گئے۱۰۳۔ اور چھ چھ سات مبلغ ان کے ماتحت لگا دیئے گئے۔ اس سلسلہ میں ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم مولوی محمد حسین صاحب۔ قریشی افضال احمد صاحب۱۰۴۔ مولوی عبدالحی صاحب بھاگلپوری۔ مولوی جلال الدین صاحب۱۰۵ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ جنہوں نے اس علاقہ میں لمبا عرصہ تک اسلام کا جھنڈا بلند رکھا اور خدا کے فضل سے اب بھی وہاں احمدیہ جماعت اور اس کی مساجد موجود ہیں اور ان گری ہوئی قوموں کو اٹھانے اور پختہ مسلمان بنانے کا کام جاری ہے۔
تحریک شدھی کے ہنگامی دور کے بعد جماعت احمدیہ کا مستقل مزاجی سے ان علاقوں میں تبلیغی جدوجہد جاری رکھنے پر بھی مسلم پریس نے جماعت کی بہت تعریف کی۔ چنانچہ اخبار اہلسنت (امرتسر) نے لکھا۔
’’جب فتنہ ارتداد کی ابتدا تھی تو بہت سی انجمنیں وہاں کام کرنے کے لئے پہنچ گئی تھیں۔ مگر تھوڑے ہی دنوں میں وہ انجمنیں چلتی پھرتی نظر آنے لگیں۔ باوجودیکہ ان کے مقابل میں قادیانی بڑی سرگرمی سے کام کر رہے ہیں۔ سورج پور میں قادیانیوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔ محمد اسمعیل کا آگرہ سے خط آیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ شدھی کا زور بہت کم ہے۔ لیکن قادیانیوں کا زور زیادہ ہے تمام انجمنیں کنارہ کشی کر گئی۔ کوئی مدرسہ مسلمانوں کا نہیں رہا۔ تمام گائوں پر قادیانی قبضہ کر رہے ہیں۔ صالح نگر اور ساندھن میں بھی قادیانی ہیں‘‘۱۰۶۔
آریوں کی طرف سے احمدیت کی زبردست طاقت کا اقرار
اس معرکہ حق و باطل نے آریوں کو جماعت احمدیہ کی زبردست اور بے پناہ تبلیغی و تنظیمی طاقت و قوت کا پورا پورا احساس کرا دیا چنانچہ اخبار ’’پرتاپ‘‘ لاہور نے لکھا۔
’’مشکل یہ ہے کہ ہندوئوں کو اپنے ہی ہم وطنوں کی ایک جماعت کی طرف سے خطرہ ہے اور وہ خطرہ اتنا عظیم ہے کہ اس کے نتیجہ کے طور پر آریہ جاتی صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہے وہ خطرہ ہے تنظیم و تبلیغ کا۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ کام اس تیزی سے ہو رہا ہے کہ ہندوئوں کے پائوں اکھڑ رہے ہیں ان کی تعداد سال بہ سال کم ہو رہی ہے اگر اسے کسی طرح روکا نہ گیا تو ایک وقت ایسا آسکتا ہے جبکہ آریہ دھرم کا کوئی بھی نام لیوا نہ رہے‘‘۱۰۷۔
اس سے بڑھ کر ایک متعصب آریہ سماجی نے لکھا:۔
’’میں نے اسلام کے اندر رہ کر اور اسلام کے ترک کرنے کے بعد مسلمانوں کے تبلیغی نظام کا خوب اچھی طرح مطالعہ کیا۔ میرے خیال میں تمام دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ٹھوس موثر اور مسلسل تبلیغی کام کرنے والی طاقت احمدیہ جماعت ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم سب سے زیادہ اس کی طرف سے غافل ہیں اور آج تک ہم نے اس خوفناک جماعت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ اگر کی ہے تو فی الحال ہم اسے سمجھ نہیں سکے اگر ہم نے اس کی طرف کبھی دیکھا بھی تو ہماری نگاہیں اس کے بیرونی خط و خال کو دیکھ کر پلٹ آئیں اور اس کے اندرونی حالات ابھی تک ہمارے لئے ایک بھید اور سر مخفی ہیں۔ بلا مبالغہ احمدیہ تحریک ایک خوفناک آتش فشاں پہاڑ ہے جو بظاہر اتنا خوفناک معلوم نہیں ہوتا لیکن اس کے اندر ایک تباہ کن اور سیال آگ کھول رہی ہے جس سے بچنے کی کوشش نہ کی گئی تو کسی وقت موقعہ پا کر ہمیں بالکل جھلس دے گی۔
آریہ سماج اور تحریک احمدیت کے جو تعلقات رہے ان کا تقاضا تو یہ تھا کہ ہم ایک لمحہ کے لئے بھی اس کی طرف سے بالکل غافل نہ ہوتے۔ خاص کر پنڈت لیکھرام جی کی شہادت تو ایک ایسا سبق تھا جس کو ہمیں بالکل نہ بھولنا چاہئے تھا۔ مگر افسوس ہم نے ہمیشہ غفلت برتی اور آج تک غافل ہیں۔ بظاہر خواہ معلوم نہ ہو لیکن درحقیقت ہندوستان اور دوسرے ممالک میں شدھی کی تحریک کے لئے سب سے بڑی روک احمدیہ جماعت ہے اور اس روک کو دور کئے بغیر ہمارے لئے پوری پوری کامیابی حاصل کرنا بالکل محال ہے۔ آج شائد میری اس بات کو تسلیم کرنے میں کسی کو تامل ہو گا۔ لیکن زمانہ خود بتا دے گا کہ میرا کہنا کس قدر صداقت پر مبنی ہے۔
آج سے تیس چالیس سال پیچھے ہٹ جائیے جبکہ یہ جماعت اپنی ابتدائی حالت میں تھی۔ اور دیکھئے اس زمانہ میں ہندو اور مسلمان دونوں اس جماعت کو کس قدر حقیر اور بے حقیقت سمجھتے تھے۔ ہندو تو ایک طرف رہے خود مسلمانوں نے ہمیشہ اس کا مذاق اڑایا اور اس پر *** و ملامت کے تیر برسائے اس جماعت نے اپنی ابتدائی حالت میں جن جن کاموں کے کرنے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ آج ان میں سے اکثر انجام کو پہنچ چکے ہیں۔ اس زمانہ میں جب احمدیوں نے ان کاموں کی ابتدا کی تھی ان کو پاگل سمجھا جاتا تھا اور ان کی حماقت پر ہنسی اڑائی جاتی تھی۔ مگر واقعات یہ کہہ رہے ہیں کہ ان پر ہنسی اڑانے والے خود بے عقل اور احمق تھے۔ اس بارے میں عیسائی مشنریوں نے نہایت عقلمندی سے کام لیا۔ انہوں نے اس وقت سے جب احمدیہ جماعت نے جنم ہی لیا تھا کہ اس کی طرف صرف توجہ ہی نہ کی بلکہ ہمیشہ نہایت گہری نظر سے اس کا مطالعہ کرتے رہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمان اور ہندوئوں سے زیادہ امریکہ اور یورپ کے پادری احمدیہ تحریک سے زیادہ واقف ہیں ان کے پاس اس جماعت کے متعلق درجنوں کتابیں موجود ہیں۔ ان کی ہوشیاری اور باخبری کا یہ عالم ہے کہ احمدیوں نے ابھی یورپ و امریکہ میں قدم رکھا ہی تھا کہ تمام پادری ان کے مقابلے کے لئے تیار ہو گئے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں کہ نصف صدی سے یہ جماعت اپنا خوفناک کام ہمارے مقدس ملک میں کر رہی ہے۔ مگر ہمارا متوجہ ہونا اور انسدادی تدابیر اختیار کرنا تو ایک طرف رہا ہم اس سے اچھی طرح واقف بھی نہیں ہیں‘‘۱۰۸۔
نیز لکھا۔ ’’احمدی جماعت کا اثر ہندوستان کے علاوہ دوسرے ممالک میں بھی ہے۔ یورپ‘امریکہ‘افریقہ‘آسٹریلیا‘عرب‘ایشیا کے تمام حصے غرضیکہ دنیا کا کوئی قابل ذکر ملک نہیں ہے جہاں احمدیہ جماعت کی شاخ یا کم از کم کوئی احمدی کام نہ کر رہا ہو۔ یورپ کے تمام ممالک انگلستان‘فرانس‘جرمنی وغیرہ میں ان کے باقاعدہ مشن موجود ہیں امریکہ میں بھی تبلیغ ہو رہی ہے۔ افریقہ اور عرب کے تپتے ہوئے صحرائوں‘مصر‘ایران کے زرخیر متمدن ممالک ترکستان‘شام‘افغانستان کی خوشنما وادیوں میں غرضیکہ ہر جگہ ان کی کوششیں جاری ہیں اور دن بدن ترقی کر رہی ہیں۔ اگر آج ہم نے ہندوستان میں احمدیوں کا مقابلہ نہ کیا اور ان کی طرف سے غافل رہے تو کل کو ہمارے لئے ممالک اسلامیہ‘یورپ اور امریکہ میں شدھی کا کام کرنا ناممکن ہو جائے گا ۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں پھر ایک بار کہتا ہوں کہ ہمیں ذرا عقل مندی سے کام لے کر اپنے طریق کار کو بدلنا چاہئے۔ ہماری قیمتی طاقتیں بالکل رائیگاں جا رہی ہیں ہم ایسے حریفوں سے ابھی بالکل ناواقف ہیں۔ اب آئندہ کے لئے ہمیں اس تاریکی میں نہ رہنا چاہئے اور جلد سے جلد احمدیہ جماعت کی طرف متوجہ ہونا چاہئے۔ اگر ہم چند سال اور اس خوفناک جماعت کی طرف سے غافل رہے تو اس کے نتائج نہایت افسوسناک اور نقصان دہ ہوں گے۔ آج تک احمدی جو کچھ کرتے رہے ہیں وہ ان کی ذاتی کوششیں ہی تھیں۔ دوسرے مسلمانوں نے کبھی بھی ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ ہمیشہ ان کی مخالفت کی ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب یہ حالت نہیں ہے آج کل سوائے پرانے خیال کے مولویوں کے باقی تمام مسلمان ان کے مددگار اور ان کے کام کے مداح ہیں یہ تبدیلی ایسی ہے جس میں ہمارے لئے بہت سے خطرے پوشیدہ ہیں جن سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کا بندوبست نہ کرنا خود کشی کے مترادف ہو گا‘‘۱۰۹۔
جماعت احمدیہ کی عظیم الشان تبلیغی خصوصیت کاعام چرچا
میدان ارتداد میں جماعت احمدیہ کے مجاہدانہ کارناموں نے جہاں آریوں کو لرزہ بر اندام کر دیا۔ وہاں مسلمانوں پر بھی ظاہر ہو گیا کہ اس زمانہ میں اگر دنیا کے پردہ پر اسلام کا سچا درد رکھنے والی اور اسلام کی حقیقی خدمت کرنے والی کوئی جماعت ہے تو وہ صرف احمدیہ جماعت ہے چنانچہ چوہدری افضل حق صاحب نے (جو بعد کو مفکر احرار کے نام سے یاد کئے گئے) تحریک شدھی کے دوران میں لکھا تھا۔
’’مسلمان پبلک کو چاہئے کہ فتویٰ بازوں سے مطالبہ کریں کہ وہ غیر اقوام میں تبلیغ کرکے غیروں کو اپنا سچا ہم خیال مسلمان بنائیں تاکہ ان پر یہ راز کھل جائے کہ مسلمانون کو کافر بنانا کتنا آسان اور کافر کو مسلمان بنانا کس قدر دشوار ہے۔ مگر مسلمان فتویٰ باز کسی کے روکے نہیں رکتے تو انہیں اجازت دی جائے کہ جہاں وہ مسلمانوں کو کافر بناتے ہیں وہاں کبھی کبھی غیر قوموں میں تبلیغ بھی کریں تاکہ ان کا مزاج اعتدال پر آجائے۔ سینکٹروں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا کس قدر حیرت ہے کہ سارے پنجاب میں سوائے احمدی جماعت کے اور کسی ایک فرقے کا بھی تبلیغی نظام موجود نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسد بے جان تھا جس میں تبلیغی حس مفقود ہو چکی تھی۔ سوامی دیانند کی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنا کر دیا۔ مگر حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہو گیا۔ مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی۔ ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اٹھا ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کرکے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا۔ اگرچہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے‘‘۱۱۰۔
‏rov.5.25
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
(فصل دوم)
مبلغ امریکہ کو زریں ہدایات
تحریک شدھی کے واقعات پر تفصیلی روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم ۱۹۲۳ء کے دوسرے حالات کی طرف آتے ہیں ۱۹۲۳ء کے آغاز میں ۷/ جنوری ۱۹۲۳ء کو حضرت مولوی محمد دین صاحب امریکہ میں تبلیغ اسلام کے لئے روانہ ہوئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے آپ کو مفصل ہدایات و نصائح لکھ کر دیں۔ جن کا خلاصہ یہ تھا کہ نو مسلموں کو اسلامی اخلاق کا پابند بنائیں۔ ان کا مرکز اور خلیفہ وقت سے عاشقانہ تعلق اور قربانی کی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں دعا پر زور دیں۔ سیاہ اور سفید نسل والوں کو ایک ہی نظر سے دیکھیں۔ سیاست سے الگ رہیں قرآن مجید پر تدبر کریں۔ ایسی تمام مجالس سے بچیں جو لغو کاموں پر مشتمل ہوں۔ اپنی زندگی سادہ اور بے تکلف بنائیں۔ پہلے مبلغین کی خدمات کا دل زبان اور قلم سے اعتراف کریں۔ یہ امر خوب یاد رکھیں کہ ہم آدمیوں کے پرستار نہیں بلکہ خدا کے بندے ہیں۔
اسی سلسلہ میں حضور نے ایک اہم نصیحت یہ فرمائی کہ خلیفہ وقت کی فرمانبرداری اپنا شعار بنائیں اور یہی روح اپنے زیر اثر لوگوں میں پیدا کریں۱۱۱۔
احمدی خواتین کا اخلاص
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایک عرصہ سے جرمنی میں تعمیر مسجد کے لئے جدوجہد فرما رہے تھے۔ آخر ستمبر ۱۹۲۲ء میں مولوی مبارک علی صاحب لنڈن سے برلن بھیجے گئے۔ انہوں نے حضور کی ہدایت پر وہاں زمین کا انتظام کر لیا۔ جس پر حضور نے ۲/ فروری ۱۹۲۳ء کو یہ تحریک فرمائی کہ مسجد برلن کی تعمیر خواتین کے چندہ سے ہو۱۱۲۔ اس تحریک نے احمدی خواتین کا مطمح نظر بلند کرکے ان میں اخلاص و قربانی اور فدائیت و للہیت کا ایسا زبردست ولولہ پیدا کر دیا کہ (متحدہ) ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور اگر ملتی ہے تو صرف اور صرف قرون اولیٰ کی صحابیات میں!!
چنانچہ حضرت ام المومنین کو ایک جائیداد میں سے پانچ سو روپے کا حصہ ملا تھا جو آپ نے سب کا سب چندہ میں دے دیا۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک ہزار روپیہ دیا۔ حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ۔ بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب۔ حضرت ام دائود (اہلیہ حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ) اور بیگم صاحبہ خان بہادر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے مقدور بھر حصہ لیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے اہل بیت بھی خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری مبارک خواتین سے اپنی قربانی میں پیچھے نہیں رہے۔ حضرت ام ناصر کو حضور کی طرف سے ایک رقم ملی تھی جس کا نصف آپ نے وصیت میں اور باقی اس تحریک میں دے دیا۔ حضرت امتہ الحی صاحبہ نے ایک سو روپیہ پیش کیا۔ حضرت ام طاہر نے اپنا ایک گلو بند بھی دیا اور کچھ نقدی بھی۔
قادیان کی دوسری احمدی خواتین میں سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ۔ حضرت قاضی امیر حسین صاحب کے گھر والوں اور حامدہ بیگم صاحبہ (دختر حضرت پیر منظور محمد صاحب) نے نمایاں حصہ لیا۔ ایک نہایت غریب و ضعیف بیوہ جو پٹھان اور مہاجر تھی اور سونٹی لے کر بمشکل چل سکتی تھی خود چل کر آئی اور حضور کی خدمت میں دو روپے پیش کر دیئے۔ یہ عورت بہت غریب تھی اس نے دو چار مرغیاں رکھی ہوئی تھیں جن کے انڈے فروخت کرکے اپنی کچھ ضروریات پوری کیا کرتی تھی۔ باقی دفتر کی امداد پر اس کا گزارہ چلتا تھا- ایک پنجابی بیوہ عورت نے جس کے پاس زیور کے سوا کچھ نہ تھا اپنا ایک زیور مسجد کے لئے دے دیا۔ ایک اور بیوہ عورت جو کئی یتیم بچوں کو پال رہی تھی اور زیور اور مال میں سے کچھ بھی پیش کرنے کے لئے موجود نہ تھے اپنے استعمال کے برتن ہی چندہ میں دے دیئے۔ ایک خاتون نے اپنا زیور چندہ میں دے دیا تھا دوبارہ گھر گئی کہ بعض برتن بھی لا کر حاضر کر دوں۔ اس کے خاوند نے کہا کہ تو زیور دے چکی ہے اس نے جواب دیا کہ میرے دل میں اس قدر جوش پیدا ہو رہا ہے کہ اگر خدا اس کے دین اور اس کے رسول کے لئے ضرورت پیش آئے (اور ایسا ممکن اور جائز ہو) تو میں تجھے بھی فروخت کرکے چندہ میں دے دوں یہ الفاط گو ہرگز قابل تعریف نہ تھے نہ شرعاً نہ اخلاقاً مگر ان سے اس جوش کا ضرور اندازہ ہو سکتا ہے۔ جس نے ایک غیر تعلیم یافتہ عورت کا جذبہ فدائیت ان الفاظ میں ظاہر کر دیا۱۱۳۔ ایک بھاگلپوری دوست کی بیوی دو بکریاں لئے الدار میں پہنچی اور کہا کہ ہمارے گھر میں ان کے سوا کوئی چیز نہیں۔ یہی دو بکریاں ہیں جو قبول کی جائیں۱۱۴۔
قادیان کے باہر کی مستورات نے بھی قربانی کے قابل رشک اور قابل فخر نمونے دکھائے چنانچہ اہلیہ صاحبہ کپتان عبدالکریم صاحب (سابق کمانڈر انچیف ریاست خیر پور) نے اپنا کل زیور اور اعلیٰ کپڑا چندے میں دے دیا۔ اس قسم کے اخلاص کا نمونہ چوہدری محمد حسین صاحب صدر قانونگو سیالکوٹ۔ سیٹھ ابراہیم صاحب۔ خان بہادر محمد علی خاں صاحب اسسٹنٹ پولٹیکل افسر چکدرہ (بنوں) حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری‘ڈاکٹر اعظم علی صاحب جالندھری‘خان بہادر صاحب خان نوں اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر‘حضرت ڈاکٹر قاضی اکرم الٰہی صاحب امیر جماعت امرتسر (والد ماجد قاضی محمد اسلم صاحب) میاں محمد دین صاحب و اصل باقی نویس کے خاندان کی مستورات نے بھی دکھایا۱۱۵`۱۱۶
افسوس جرمنی کی غیر مستقل سیاسی صورت حال اور بعض دوسری ناگزیر مشکلات کی وجہ سے جرمنی میں تعمیر مسجد کا کام بند کر دینا پڑا۔ مگر احمدی خواتین کی قربانیاں رائیگاں نہیں گئیں۔ بلکہ ان کے چندہ سے لندن میں مسجد تعمیر ہوئی۔ جو یورپ میں جماعت احمدیہ کی سب سے پہلی مسجد ہے۔
ہندو مسلم امور میں جماعت احمدیہ کا سیاسی موقف
کونسلوں میں انتخابات ہونے والے تھے اس مرحلہ پر صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے ۷/ اگست ۱۹۲۳ء کو ایک مفصل اعلان میں بتایا گیا کہ کونسلوں میں جماعت احمدیہ کا کون نمائندہ ہو سکتا ہے؟ اس سلسلہ میں بعض بنیادی شرائط کا ذکر کرتے ہوئے خاص طور پر جماعت احمدیہ کی سیاسی پالیسی واضح کی گئی کہ ہم یہ امر ہرگز تسلیم نہیں کرتے کہ ہندو مسلم اتحاد کے یہ معنے ہیں کہ مسلمان اپنی جداگانہ ہستی مٹا کر ہندوئوں کو خوش کرنے کے لئے ہر ایک حق اپنا چھوڑ دیں۔ ہمارے نزدیک مسلمانوں کی قومی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے یہ اشد ضروری ہے کہ مسلمانوں کے کھوئے ہوئے حقوق واپس لے جائیں اور مسلمانوں کو کونسلوں اور محکمہ جات میں ان کے تناسب آبادی کے مطابق حصہ ملے۔ مثلاً پنجاب میں مسلمان زیادہ ہیں تو ان کو کونسلوں اور محکموں میں زیادہ آسامیاں ملنی چاہیں یہ حق اس وقت تک غضب کیا گیا ہے اور ہمارے نزدیک ایک ایک منٹ جو اس نقص کی اصلاح کے بغیر گزر رہا ہے اس سے مسلمانوں کی قومی موت قریب سے قریب تر آرہی ہے‘‘۱۱۷۔
بالشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ
‏]text [tagسیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود کے قلم مبارک سے اخبار الفضل ۱۹/ اگست ۱۹۲۳ء کو حسب ذیل مضمون سپرد اشاعت ہوا۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
بولشویک علاقہ میں احمدیت کی تبلیغ
للہ الحمد ہر آں چیز کہ خاطر میخواست
آخر آمدز پس پردہ تقدیر پدید
۱۹۱۹ء کا واقعہ ہے جسے میں پہلے بھی بعض مجالس میں بیانکر چکا ہوں کہ ایک احمدی دوست اللہ تعالیٰ ان کو غریق رحمت کرے جو انگریزی فوج میں ملازم تھے اپنی فوج کے ساتھ ایران میں گئے۔ وہاں سے بولشویکی فتنہ کی روک تھام کے لئے حکام بالا کے حکم سے انکی فوج روس کے علاقہ میں گھس گئی اور کچھ عرصہ تک وہیں رہی۔ یہ واقعات عام طور پر لوگوں کو معلوم نہیں ہیں۔ کیونکہ اس وقت کے مصالح یہی چاہتے تھے کہ روسی علاقہ میں انگریزی فوجوں کی پیش دستی کو مخفی رکھا جائے۔ ان دوست کا نام فتح محمد تھا اور یہ فوج میں نائک تھے۔ ان کی تبلیغ سے ایک اور شخص فوج میں احمدی ہو گیا اور اس کو ایک موقع پر روسی فوجوں کی نقل و حرکت کے معلوم کرنے لئے چند سپاہیوں سمیت ایک ایسی جگہ کی طرف بھیجا گیا جو کمپ سے کچھ دور آگے کی طرف تھی۔ وہاں سے اس شخص نے فتح محمد صاحب کے پاس آکر بیان کیا کہ ہم لوگ پھرتے پھراتے ایک جگہ پر گئے جہاں کچھ لوگ شہر سے باہر ایک گنبد کی شکل کی عمارت میں رہتے تھے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ اس عمارت کے اندر ایسے آثار ہیں جیسے مساجد میں ہوتے ہیں لیکن کرسیاں بچھی ہوئی ہیں جو لوگ وہاں رہتے تھے ان سے میں نے پوچھا کہ یہ جگہ تو مسجد معلوم ہوتی ہے پھر اس میں کرسیاں کیوں بچھی ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ مبلغ ہیں اور چونکہ روسی اور یہودی لوگ ہمارے پاس زیادہ آتے ہیں۔ وہ زمین پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے۔ اس لئے کرسیاں بچھائی ہوئی ہیں۔ نماز کے وقت اٹھا دیتے ہیں۔ ان سے پوچھا کہ آپ لوگ کون ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم مسلمان ہیں۔ اس پر اس دوست کا بیان ہے کہ مجھے خیال ہوا کہ چونکہ یہ مذہبی آدمی ہیں میں ان کو تبلیغ کروں۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کو کہا کہ آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں یا فوت ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح اور انبیاء فوت ہو گئے ہیں اسی طرح وہ فوت ہو گئے ہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کہ ان کی نسبت تو خبر ہے کہ وہ دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہاں اس امت میں سے ایک شخص آجائے گا۔ اس پر میں نے کہا کہ یہ عقیدہ تو ہندوستان میں ایک جماعت جو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو مانتی ہے۔ اس کا ہے۔ اس پر ان لوگوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ بھی انہی کے ماننے والے ہیں۔ فتح محمد صاحب نے جب یہ باتیں اس نو احمدی سے سنیں تو دل میں شوق ہوا کہ وہ اس امر کی تحقیق کریں۔ اتفاقاً کچھ دنوں بعد ان کو بھی آگے جانے کا حکم ہوا اور وہ روسی عشق آباد میں گئے۔ وہاں انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا یہاں کوئی احمدی لوگ ہیں۔ لوگوں نے صاف انکار کیا کہ یہاں اس مذہب کے آدمی نہیں ہیں۔ جب انہوں نے یہ پوچھا کہ عیسیٰ علیہ السلام کو وفات یافتہ ماننے والے لوگ ہیں تو انہوں نے کہا کہ اچھا تم صابیوں کو پوچھتے ہو وہ تو یہاں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک شخص کا پتہ بتایا کہ وہ درزی کا کام کرتا ہے اور پاس ہی اس کی دوکان ہے یہ اس کے پاس گئے اور اس سے حالات دریافت کئے۔ اس نے کہا کہ ہم مسلمان ہیں۔ یہ لوگ تعصب سے ہمیں صابی کہتے ہیں۔ جس طرح رسول کریم~صل۱~ کے دشمن ان کے ماننے والوں کو صابی کہتے تھے۔ انہوں نے وجہ مخالفت پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم لوگ اس امر پر ایمان رکھتے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور ان کی مماثلت پر ایک شخص اسی امت کا مسیح موعود قرار دیا گیا ہے اور وہ ہندوستان میں پیدا ہو گیا ہے۔ اس لئے یہ لوگ ہمیں اسلام سے خارج سمجھتے ہیں۔ شروع میں ہمیں سخت تکالیف دی گئیں روسی حکومت کو ہمارے خلاف رپورٹیں دی گئیں کہ یہ باغی ہیں اور ہمارے بہت سے آدمی قید کئے گئے لیکن تحقیق پر روسی گورنمنٹ کو معلوم ہوا کہ ہم باغی نہیں ہیں بلکہ حکومت کے وفادار ہیں۔ تو ہمیں چھوڑ دیا گیا۔ اب ہم تبلیغ کرتے ہیں اور کثرت سے مسیحیوں اور یہودیوں میں سے ہمارے ذریعہ سے اسلام لائے ہیں لیکن مسلمانوں میں سے کم نے مانا ہے۔ زیادہ مخالفت کرتے ہیں۔ جب اس شخص کو معلوم ہوا کہ فتح محمد صاحب بھی اسی جماعت میں سے ہیں تو بہت خوش ہوا۔ سلسلہ کی ابتداء کا ذکر اس نے اس طرح سنایا کہ کوئی ایرانی ہندوستان گیا تھا- وہاں اسے حضرت مسیح موعود کی کتب ملیں وہ ان کو پڑھ کر ایمان لے آیا اور واپس آکر یزد کے علاقہ میں جو اس کا وطن تھا۔ اس نے تبلیغ کی کئی لوگ جو تاجروں میں سے تھے ایمان لائے وہ تجارت کے لئے اس علاقہ میں آئے اور ان کے ذریعہ سے ہم لوگوں کو حال معلوم ہوا اور ہم ایمان لائے اور اس طرح جماعت بڑھنے لگی۔
یہ حالات فتح محمد صاحب مرحوم نے لکھ کر مجھے بھیجے۔ چونکہ عرصہ زیادہ ہو گیا ہے اب اچھی طرح یاد نہیں رہا کہ واقعات اسی ترتییب سے ہیں یا نہیں لیکن خلاصہ ان واقعات کا یہی ہے گو ممکن ہے کہ بوجہ مدت گزر جانے کے واقعات آگے پیچھے بیان ہو گئے ہوں۔ جس وقت یہ خط مجھے ملا۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں نے سمجھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کہ بخارا کے امیر کی کہان آپ کے ہاتھ میں آگئی ہے۔ اسی رنگ میں پوری ہو رہی ہے اور میں نے چاہا کہ اس جماعت کی مزید تحقیق کے لئے فتح محمد صاحب کو لکھا جائے کہ اتنے میں ان کے رشتہ داروں کی طرف سے مجھے اطلاع ملی کہ سرکاری تار کے ذریعہ ان کو اطلاع ملی ہے کہ فتح محمد صاحب میدان جنگ میں گو لی لگنے سے فوت ہو گئے ہیں۔ اس خبر نے تمام امید پر پانی پھیر دیا اور سر دست اس ارادہ کو ملتوی کر دینا پڑا۔ مگر یہ خواہش میرے دل میں بڑے زور سے پیدا ہوتی رہی اور آخر ۲۱ء میں میں نے ارادہ کر لیا کہ جس طرح بھی ہو اس علاقہ کی خبر لینی چاہئے۔
چونکہ انگریزی اور روسی حکومتوں میں اس وقت صلح نہیں تھی اور ایک دوسرے پر سخت بدگمانی تھی اور پاسپورٹ کا طریق ایشیائی علاقہ کے لئے تو غالباً بند ہی تھا۔ یہ دقت درمیان میں سخت تھی اور اس کا کوئی علاج نظر نہ آتا تھا مگر میں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح بھی ہو اس کام کو کرنا چاہئے اور ان احباب میں سے جو زندگی وقف کر چکے ہیں ایک دوست میاں محمد امین صاحب افغان کو میں نے اس کام کے لئے چنا اور ان کو بلا کر سب مشکلات بتا دیں اور کہہ دیا کہ آپ نے زندگی وقف کی ہے۔ اگر آپ اس عہد پر قائم ہیں تو اس کام کے لئے تیار ہو جائیں۔ جان اور آرام ہر وقت خطرہ میں ہوں گے اور ہم کسی قسم کا کوئی خرچ آپ کو نہیں دیں گے آپ کو اپنا قوت خود کمانا ہو گا۔ اس دوست نے بڑی خوشی سے ان باتوں کو قبول کیا۔ اور اس ملک کے حالات دریافت کرنے کے لئے اور سلسلہ کی تبلیغ کے لئے بلا زادراہ فوراً نکل کھڑے ہوئے۔ کوئیہ تک تو ریل میں سفر کیا سردی کے دن تھے اور برفانی علاقوں میں سے گزرنا پڑتا تھا۔ مگر سب تکالیف برداشت کرکے بلا کافی سامان کے دو ماہ میں ایران پہنچے اور وہاں سے روس میں داخل ہونے کے لئے چل پڑے۔ آخری خط ان کا مارچ ۱۹۲۲ء کا لکھا ہوا پہنچا تھا اس کے بعد نہ وہ خط لکھ سکتے تھے نہ پہنچ سکتا تھا۔ مگر الحمدلل¶ہ کہ آج ۹/ اگست کو ان کا اٹھارہ جولائی کا لکھا ہوا خط ملا ہے۔ جس سے یہ خوشخبری معلوم ہوئی ہے کہ آخر اس ملک میں بھی احمدی جماعت تیار ہو گئی ہے اور باقاعدہ انجمن بن گئی ہے-
اس دوست کو روسی علاقہ میں داخل ہو کر جو سنسنی خیز حالات پیش آئے وہ نہایت اختصار سے انہوں نے لکھے ہیں لیکن اس اختصار میں بھی ایک صاحب بصیرت کے لئے کافی تفصیل موجود ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ ان کے تجربات سے دوسرے بھائی فائدہ اٹھا کر اپنے اخلاص میں ترقی کریں گے۔ اور اسلام کے لئے ہر ایک قسم کی قربانی کے لئے تیار ہو جائیں گے کہ حقیقی کامیابی خدا کی راہ میں فنا ہونے میں ہی ہے۔
چونکہ برادرم محمد امین خان صاحب کے پاس پاسپورٹ نہ تھا۔ اس لئے وہ روسی علاقہ میں داخل ہوتے ہی روس کے پہلے ریلوے سٹیشن قہضہ پر انگریزی جاسوس قرار دئے جا کر گرفتار کئے گئے۔ کپڑے اور کتابوں اور جو کچھ پاس تھا۔ وہ ضبط کر لیا گیا اور ایک مہینہ تک آپ کو وہاں قید رکھا گیا اس کے بعد آپ کو عشق آباد کے قید خانہ میں تبدیل کیا گیا۔ وہاں سے مسلم روسی پولیس کی حراست میں آپ کو براستہ سمرقند تاشقند بھیجا گیا اور وہاں دو ماہ تک قید خانہ میں تبدیل کیا گیا۔ اور بار بار آپ سے بیانات لئے گئے تا یہ ثابت ہو جائے کہ آپ انگریزی حکومت کے جاسوس ہیں اور جب بیانات سے کام نہ چلا تو قسم قسم کی لالچوں اور دھمکیوں سے کام لیا گیا اور فوٹو لئے گئے تا عکس محفوظ رہے اور آئندہ گرفتاری میں آسانی ہو اور اس کے بعد گوشکی سرحد افغانستان لے جایا گیا اور وہاں سے ہرات افغانستان کی طرف اخراج کا حکم دیا گیا مگر چونکہ یہ مجاہد گھر سے اس امر کا عزم کرکے نکلا تھا کہ میں نے اس علاقہ میں حق کی تبلیغ کرنی ہے۔ اس نے واپس آنے کو اپنے لئے موت سمجھا اور روسی پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا اور بھاگ کر بخار جا پہنچا۔
دوہ ماہ تک آپ وہاں آزاد رہے لیکن دو ماہ کے بعد پھر انگریزی جاسوس کے شبہ میں گرفتار کئے گئے اور تین ماہ تک نہایت سخت اور دل کو ہلا دینے والے مظالم آپ پر کئے گئے اور قید میں رکھا گیا اور بخارا سے مسلم روسی پولیس کی حراست میں سرحد ایران کی طرف واپس بھیجا گیا۔
اللہ تعالیٰ اس مجاہد کی ہمت میں اور اخلاص اور تقویٰ میں برکت دے۔ چونکہ ابھی اس کی پیاس نہ بجھی تھی اس لئے پھر کاکان کے ریلوے سٹیشن سے روسی مسلم پولیس کی حراست سے بھاگ نکلا۔ اور پا پیادہ بخارا پہنچا۔ بخارا میں ایک ہفتہ کے بعد پھر انکو گرفتار کیا گیا اور بدستور سابق پھر کاکان کی طرف لایا گیا اور وہاں سے سمرقند پہنچایا گیا۔ وہاں سے آپ پھر چھوٹ کر بھاگے اور بخارا پہنچے اور ۱۳/ مارچ ۲۳ء کو پہلی دفعہ بخارا میں اس جماعت کے مخلصین کو جو پہلے الگ الگ تھے اور حسب میری ہدایات کے ان کو پہلے آپس میں نہیں ملایا گیا تھا ایک جگہ اکٹھا کرکے آپس میں ملایا گیا اور ایک احمدیہ انجمن بنائی گئی اور باجماعت نماز ادا کی گئی اور چندوں کا افتتاح کیا گیا۔
وہاں کی جماعت کے دو مخلص بھائی ہمارے عزیز بھائی کے ساتھ آنے کے لئے تیار تھے۔ لیکن پاسپورٹ نہ مل سکنے کے سبب سے سردست رہ گئے۔
اس وقت محمد امین خان صاحب واپس ہندوستان کو آرہے ہیں اور ایران سے ان کا خط پہنچا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو خیریت سے واپس لائے اور آئندہ سلسلہ کی بیش از پیش خدمات کرنے کا موقع دے۔
میں ان واقعات کو پیش کرکے اپنی جماعت کے مخلصوں کو توجہ دلاتا ہے کہ یہ تکالیف جن کو ہمارے اس بھائی نے برداشت کیا ہے۔ ان کے مقابلہ میں وہ تکالیف کیا ہیں جو ملکانہ میں پیش آرہی ہیں۔ پھر کتنے ہیں جنہوں نے ان ادنیٰ تکالیف کے برداشت کرنے کی جرات کی ہے۔
اے بھائیو! یہ وقت قربانی کا ہے۔ کوئی قوم بغیر قربانی کے ترقی نہیں کر سکتی۔ آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ ہم اپنی نئی برادری کو جو بخارا میں قائم ہوئی ہے۔ یونہی نہیں چھوڑ سکتے۔ پس آپ میں سے کوئی رشید روح ہے جو ان ریوڑ سے دو بھیڑوں کی حفاظت کے لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہو۔ اور اس وقت تک ان کی چوپانی کرے کہ اس ملک میں ان کے لئے آزادی کا راستہ اللہ تعالیٰ کھول دے۔
و اخر دعونا ان الحمدللہ رب العالمین
خاکسار
میرزا محمود احمد (خلیفتہ المسیح الثانی) ۹/ اگست ۱۹۲۳ء
قادیان میں احمدیہ ٹورنامنٹ کا اجراء
جماعت میں جسمانی ورزش کا ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے نومبر ۱۹۲۳ء سے قادیان میں احمدیہ ٹورنا منٹ کا اجراء ہوا۔ اور ہر سال قادیان میں کھیل کے باقاعدہ مقابلے ہونے لگے۔ ٹورنا منٹ کی انتظامیہ کمیٹی کے صدر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے اور سیکرٹری مولوی عبدالرحیم صاحب درد مقرر ہوئے۔ یہ ٹورنا منٹ سالہا سال تک کامیابی سے جاری رہے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اس ٹورنا منٹ میں ہمیشہ بے حد دلچسپی لیتے تھے اور اپنے دست مبارک سے اول آنے والوں کو انعامات عطا فرمایا کرتے تھے۱۱۸- حضور نے پہلے ٹورنا منٹ کے تقسیم انعامات کی تقریب پر تقریر کرتے ہوئے کہا۔ ترقی کرنے والی قوم کے لئے ورزش ضروری ہے نیز فرمایا۔
’’جب میری خلافت کا زمانہ آیا تو میں نے ابتداًء کام کے باعث ورزش کرنا چھوڑ دیا۔ جس سے میری جسمانی حالت پر بہت برا اثر پڑا۔ اس وقت میں نے ایک خواب دیکھی جس میں میں ایک شخص کو ورزش کی ضرورت سمجھا رہا ہوں اس کو میں نے کہا بعض کھیل بعض لوگوں کے لئے جائز ہوتے ہیں۔ مگر وہ لوگ جن کے ذمہ بڑے بڑے ذمہ داری کے کام ہوتے ہیں اگر وہ ورزشوں میں حصہ نہ لیں اور صحت جسمانی کا خیال نہ رکھیں تو ان پر گناہ ہوتا ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی اور میں نے ۔۔۔۔۔۔۔ سمجھا یہ مجھے ہی سمجھایا گیا ہے اس کے بعد میں نے ورزشوں میں حصہ لینا شروع کیا جس سے میری جسمانی صحت اچھی ہو گئی اور میں پہلے سے زیادہ کام کرنے کے قابل ہو گیا‘‘۱۱۹`۲۰
ملک بھر کو پیغام صلح اور ہندو مسلم مشکلات کا صحیح حل
شدھی اور سنگھٹن کی تحریکوں نے ملک کا امن برباد کر دیا تھا۔ اس سے پہلے مسلمانوں اور ہندوئوں میں محبت کی بظاہر ایک زبردست لہر پھیلی ہوئی تھی اور وہ ایک دوسرے کو بھائی بھائی کہتے تھے مگر اب یہ بھائی بھائی آپس میں لڑنے لگے تھے اور جن کو ایک دوسرے سے مل کر ملک و قوم کی ترقی و بہبود کے لئے کوشش کرنا چاہئے تھی۔ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے معلوم ہونے لگے۔ ہندو مسلم فسادات روزانہ کے معمولی واقعات تھے۔ بھلا جہاں جلوس نکالنے‘اذان دینے‘گائو کشی کرنے اور مسجد کے سامنے باجہ بجانے پر جنگ و جدل کا بازار گرم ہو جائے وہاں اتفاق کا امکان ہی کہاں باقی رہ سکتا ہے؟
اس نازک ترین مرحلہ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے وطن کی صورت حال سے مضطرب ہو کر میدان عمل میں آئے اور آپ نے ۱۴/ نومبر ۱۹۲۳ء کو ملک بھر کی قوموں کے نام صلح کا پیغام دیتے ہوئے قومی اور ملکی مشکلات کا صحیح حل اہل وطن کے سامنے رکھا۔ یہ حل آپ نے ۱۴/ نومبر ۱۹۲۳ء کو بریڈلا ہال (لاہور) کے ایک پبلک لیکچر۱۲۱ میں جہاں تعلیم یافتہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی کثیر تعداد موجود تھی۔ بڑی وضاحت وصراحت سے پیش فرمایا۔
چنانچہ حضور نے ہندو مسلم اتحاد قائم نہ رہنے کی وجوہ بتائیں کہ کس طرح ہندوئوں نے مسلمانوں کو ہندوستان سے مٹا دینے کی کوشش کی ہے۔ یہ حقیقت واضح کرنے کے بعد حضور نے مسلمانوں کو خود حفاظتی اقدامات کی طرف توجہ دلائی کیونکہ جیسا کہ سید رئیس احمد جعفری نے اپنی کتاب ’’حیات محمد علی جناح‘‘ میں لکھا ہے۔ ’’شدھی اور سنگھٹن کے طوفان نے مسلمانوں کے دلوں میں ہندوئوں کے خلاف ایک تلخی اور بدمزگی پیدا کر دی تھی۔ لیکن وہ جوابی طور پر آمادہ عمل نہ ہوئے اس کے پیش نظر صرف یہ تھا کہ پہلے انگریزوں سے آزادی حاصل کر لی جائے پھر یہ باہمی اور خانگی تنازعات طے کر لئے جائیں گے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے تھے اور ہندو اپنا کام کئے جا رہے تھے۱۲۲۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلمانوں کو صرف خود حفاظتی کی طرف محض توجہ ہی نہیں دلائی بلکہ ان کو اسلامی نقطہ نگاہ سے اس کی عملی اور موثر تجاویز بھی بتائیں جن کا لب لباب یہ تھا۔
پہلی تجویز: مسلمان اپنے تئیں مضبوط کریں۔ جس کے لئے مسلم لیگ جیسی تنظیموں کا زندہ و قائم رکھنا ضروری ہے۔ تا مسلمانوں کے قومی حقوق کا تحفظ ہو۔
دوسری تجویز: مسلمانوں نے اپنی قومی زندگی کے سارے ذرائع دوسروں کو سپرد کر دیئے ہیں۔ اگر وہ زندہ رہنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے پائوں پر کھڑا ہونا چاہئے اور تمدنی طور پر آپ کو آزاد کر لینا چاہئے۔ چھوت چھات کی وجہ سے ہندوئوں نے بالخصوص ملکانوں کے علاقہ میں مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ حضور نے فرمایا کہ مجھے بائیکاٹ ناپسند ہے مگر جب ہندو چھوت چھات کے باجود یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندو مسلمانوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے تو مسلمانوں کو بھی چھوت چھات کرنے میں نہ صرف کوئی حرج نہیں بلکہ موجودہ حالات میں ضروری ہے۔
چھوت چھات کے علاوہ مسلمانوں کو صنعت و حرفت۔ ڈاکٹری اور وکالت کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ ہندوستان کی داخلی اور خارجی تجارت کلی طور پر ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے اس طرف بھی مسلمان متوجہ ہوں۔
تیسری تجویز: مسلمانان ہند سیاسی اور مذہبی اختلافات نظر انداز کرکے آپس میں اتحاد و اتفاق پیدا کریں اور مذہبی اختلاف کی وجہ سے کسی فرقہ کو جدا نہ کریں۔ اسی طرح سیاسی اختلاف کی وجہ سے بھی علیحدہ ہونے کی پالیسی چھوڑ دیں۔ مثلاً الیکشن کا معاملہ ہے اس میں ایسا موقع بھی آیا ہے کہ ہماری جماعت کا ایک آدمی ایک حلقہ سے کھڑا ہوا مگر دوسرا شخص اس سے زیادہ لائق اور موزوں کھڑا ہوا تو ہم نے اپنا آدمی بٹھا دیا اور دوسرے مسلمان کو ووٹ دیئے۔ اگر ایسی ہی رواداری سب مسلمانوں میں پائی جائے تو بہت سے فوائد کا موجب ہو سکتی ہے۔
چوتھی تجویز: مسلمان مذہب سے بہت دور جا رہے ہیں۔ چاہئے کہ مسلمان خود بھی مذہبی جذبات پیدا کریں اور اپنے بچوں میں بھی مذہبی روح پیدا کریں۔
پانچویں تجویز: مسلمان اگر ترقی کرنا چاہتے ہیں تو تبلیغ کریں اور دوسرے لوگوں کو اسلام میں داخل کریں۔ قرآن کریم نے تبلیغ دین ہر ایک مسلمان کا فرض قرار دیا ہے۔
چھٹی تجویز: مسلمان امراء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسی انجمنیں اور سوسائٹیاں قائم کریں جو غرباء کو کام سکھائیں اور ان کے لئے روزگار کا سامان کریں۔
ساتویں تجویز: مسلمان اپنی قوم کے اپاہج‘لولے اور لنگڑے لوگوں کا خاص انتظام کریں اور یتیم بچوں کی تربیت اور پڑھائی کی طرف خاص توجہ دیں۔
حضور نے مسلمانوں کو خود حفاظتی اقدامات کی یہ اہم تجاویز بتانے کے بعد ہندو مسلم صلح کے مندرجہ ذیل سنہری اصول بیان فرمائے۔
پہلا اصول: اگر حقیقت میں صلح کی خواہش ہے تو سب فرقوں بلکہ گورنمنٹ سے بھی صلح ہونی چاہئے۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ گورنمنٹ جو کچھ کرتی ہے سب ٹھیک کرتی ہے میرے نزدیک بعض اوقات گورنمنٹ سخت غلطیاں کرتی ہے اور ایسے موقع پر خود میں نے ایسے ایسے سخت الفاظ میں گورنمنٹ کو توجہ دلائی ہے کہ جو ضروری تھے اور میں نے دیکھا ہے کہ حکومت نے بالعموم ان باتوں کو منظور کرلیا۔ پس میں خوشامدیوں میں سے نہیں ہوں اور نہ یہ پسند کرتا ہوں کہ لوگ گورنمنٹ کی خوشامد کریں کیونکہ میرے نزدیک خوشامدی انسان ہی نہیں ہوتا۔ حیوان ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی گرا ہوا ہے۔ اور میں یہ بھی نہیں سمجھتا کہ گورنمنٹ غلطیوں سے پاک ہوتی ہے۔ ہاں چونکہ وہ ہمارے ملک کا حصہ ہے اس لئے ایسے رنگ میں حقوق قائم کرنے چاہئیں کہ اسے علیحدہ نہ کریں ورنہ وہ اتحاد ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔
دوسرا اصول: مستقل صلح کے لئے ضروری ہے کہ مذہبی رنگ میں صلح ہو۔ مگر مذہبی صلح سے یہ مراد نہیں کہ سب ایک مذہب میں شامل ہو جائیں بلکہ فقط یہ ہے کہ سب مذاہب والے ایک دوسرا کے مذہبی بزرگوں اور پیشوائوں کا احترام کریں۔ بلاشبہ ہندوستان ہمیں جمع کر سکتا ہے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں محمد~صل۱~ کی ذات والا صفات سے بڑھ کر ہمارے نزدیک ہندوستان کی ہرگز پوزیشن نہیں۔ رسول کریم~صل۱~ سے ہمیں جو تعلق ہے وہ ہندوستان سے بہت بڑھ کر ہے اگر آپ کا ادب اور احترام قائم نہ رکھا جائے تو مسلمانوں کو کوئی چیز جمع نہیں کر سکتی۔
ہندوستانی اگر دوسرے بزرگوں کا احترام کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے پر ہی اکتفا کرنے کا فیصلہ کر لیں تو یہ بھی اتحاد کے لئے کافی ہے۔ جیسا کہ حضرت بانی جماعت احمدیہ (علیہ الصلٰوۃ والسلام) نے بہت پہلے فرمایا تھا۔ مگر افسوس ملک نے توجہ نہ کی نتیجہ یہ ہوا کہ آج تک اتحاد نہیں ہو سکا۔
تیسرا اصول: اگر کوئی شخص کہے کہ ایسا ممکن نہیں تب بھی ہم اتفاق و اتحاد کے لئے تیار ہیں بشرطیکہ یہ اقرار کیا جائے کہ ہمارے بزرگوں کو گالیاں نہ دی جائیں اور خدا اور اس کے رسول~صل۱~ کے خلاف بدزبانی کا سلسلہ بند کر دیا جائے۔ اس صورت میں ضروری ہو گا کہ صرف مسلمہ اصولوں کی بناء پر اعتراض کیا جائے۔
چوتھا اصول: مذہبی لوگوں سے ان کا کوئی مسلمہ مذہبی اصل ترک کرنے کا مطالبہ نہ کیا جائے مثلاً ہندو مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ گائے کا گوشت کھانا چھوڑ دو مگر سوال یہ ہے کہ گائے اگر متبرک ہے تو ہندوئوں کے نزدیک ہے مسلمان اس کا گوشت کھانا کیوں چھوڑ دیں جب کہ ان کا مذہب اس کی اجازت دیتا ہے۔
پانچواں اصول: ہر قوم دوسری قوم کے حقوق تسلیم کرے۔ عجیب بات ہے کہ ہندو یہ تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو سوارج لے کر دیں گے مگر مسلمانوں کو ان کے چھوٹے چھوٹے حقوق نہیں دینا چاہتے۔ میرے نزدیک مسلم لیگ اور کانگریس نے ہندو مسلم حقوق کے متعلق جو سمجھوتہ کیا تھا۱۲۳ وہ بھی ٹھیک نہ تھا جہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہے وہاں تو ان کو کم حقوق دیئے ہی گئے ہیں لیکن جہاں ان کی آبادی نسبتاً زیادہ ہے وہاں بھی آبادی کے تناسب سے پورے حقوق نہیں دیئے گئے۔ اس لئے سب سے ضروری چیز حقوق کا صحیح تعین ہے۔
چھٹا اصول: صلح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب مجرموں کو بلا تمیز مذہب و ملت سزا دی جائے اور جو فریق بھی قصور وار ہو اسے پکڑا جائے۔
ساتواں اصول: آل انڈیا نیشنل کانگریس تب ہی سارے ملک کی نمائندہ بن سکتی ہے جبکہ خیالات کے اختلاف سے بے نیاز ہو کر ہر نقطہ نظر کے لوگوں کو اپنے اپنے خیالات پیش کرنے کا موقعہ دیا جائے ورنہ جب تک یہ کانگریس موجودہ شکل میں ہے اور اختلاف والوں کو نکالنے کی پالیسی پر عمل کیا جاتا ہے اس وقت تک یہ پورے ملک کی کانگریس ہرگز نہیں کہلا سکتی۱۲۴۔
لیکچر کے اختتام پر صدر جلسہ خان بہادر عبدالقادر صاحب نے کہا۔ ’’میں جناب مرزا صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ایسی جامع اور پر مغز تقریر فرمائی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ میں اپنا سارا وقت دینیات کے مطالعہ میں صرف کرتا ہوں مگر اس وقت آپ نے سیاسیات پر ایسی وسعت سے روشنی ڈالی ہے کہ زبان اور دل سے تحسین نکلتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ جناب مرزا صاحب نے اتفاق و اتحاد کے ہر پہلو پر نگاہ ڈالی ہے۔ جس کی سیاسی لیڈروں سے توقع نہیں ہو سکتی نہ وہ اس طرح نگاہ ڈال سکتے ہیں کیونکہ وہ کسی (سیاسی) پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے اس لئے آپ نے نہایت آزادی اور وسعت سے ہر پہلو کو بیان فرمایا ہے‘‘۱۲۵۔
افسوس حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ان اہم اور بروقت ہدایات پر اہل وطن نے کوئی توجہ نہ دی بلکہ ’’پیسہ اخبار‘‘ (لاہور) کے سوا ملک کے مسلمان پریس نے اس کا ذکر تک کرنا گوارا نہ کیا۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی اہم ہدایت احمدی مصنفوں اور لیکچراروں کے لئے
ملکی شورش کی وجہ سے انگریزی حکومت قابل اعتراض تقریروں یا تحریروں پر نوٹس لے رہی تھی اور ہر جگہ مقدمات چلائے جارہے تھے
اور ایک عنصر مقدمہ میں گرفتار ہو کر جھٹ معافی مانگنا شروع کر دیتا تھا۔ یہ حالات دیکھ کر حضور نے اپنی جماعت کے تمام مصنفوں اور لیکچراروں کے نام ایک خاص ہدایت جاری فرمائی۔ کہ
’’اول تو وہ اپنی تحریروں یا تقریروں میں ایسا رنگ ہی اختیار نہ کریں جس سے ملک میں فساد ہو یا شورش پیدا ہو لیکن اگر باوجود ان کی احتیاط کے گورنمنٹ ان میں سے کسی پر کسی مصلحت سے کوئی مقدمہ چلائے تو میں ان سے امید کرتا ہوں کہ وہ مومنانہ غیرت کو کام میں لائیں گے اور بزدلی سے اجتناب کریں گے۔ ہم گورنمنٹ کے لئے ہر ایک جائز بات کو اختیار کر سکتے ہیں لیکن بداخلاقی کو نہیں اور بزدلی اور جھوٹ دو زبردست بد اخلاقیاں ہیں پس جو شخص مقدمہ سے ڈر کر معافی مانگتا ہے جب کہ اس کا نفس یہ کہتا ہے کہ اس نے غلطی نہیں کی اور اپنے اس فعل سے اسلام کی ہتک کرتا ہے وہ دو گناہ کرتا ہے۔ وہ بزدلی کا اظہار بھی کرتا ہے اور جھوٹ بھی بولتا ہے پھر لوگوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو شخص دیانتداری سے سمجھتا ہے کہ اس نے جو کچھ کہا یا لکھا ہے اس میں ہرگز کوئی بات خلاف واقعہ یا خلاف تہذیب یا خلاف قانون یا بد نیتی سے نہیں کہی تو اسے گورنمنٹ کے غضب سے بچنے کے لئے خدا کے غضب کو اپنے اوپر نہیں بھڑکانا چاہئے‘‘۔
اس کے ساتھ ہی حضور نے یقین دلایا کہ۔
’’اگر کوئی شخص خدانخواستہ کسی ایسی مصیبت میں مبتلا ہو جائے جس میں اس کا کوئی قصور نہیں اور وہ بہادری سے اپنے ایمان اور اپنی ضمیر کی پیروی کرے تو میں اور میرے ساتھ اخلاص رکھنے والی تمام جماعت اس کی ہر ممکن اور جائز مدد کرے گی اور قانونی طور پر جس قدر بھی اس کی تائید کر سکے گی اس کی تائید کرے گی۔ اس شخص کا غم ہمارا غم ہو گا اور اس کی مصیبت ہماری مصیبت۔ لیکن جو شخص بزدلی سے کام لے گا اور اپنی ضمیر کے خلاف جھوٹ سے اپنی مصیبت کو ٹلانا چاہے گا وہ ہم میں جگہ نہیں پائے گا اور خدا کی پاک جماعت اسے اپنی آغوش میں نہیں لے گی‘‘۱۲۶۔
(متحدہ) ہندوستان کی تاریخ میں صرف یہی ایک مثال ملتی ہے کہ کسی جماعت کے لیڈر نے اس طرح کھلے الفاظ میں اپنے پیروئوں کو محتاط اور پر امن اور حق و صداقت کی خاطر مومنانہ غیرت و شجاعت کا نمونہ دکھانے کی پرزور تلقین کی ہو۔ جماعت احمدیہ کے مصنفوں اور لیکچراروں نے اس ہدایت کے ایک ایک لفظ کی پابندی کرکے دکھا دی اور کسی قسم کی آزمائش ان کے ثبات و استقلال میں تزلزل پیدا نہ کر سکی۔
’’سیرت المہدی‘‘ کی تالیف
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے وصال مبارک پر کئی سال گزر چکے تھے اور حضور کے قدیم صحابہ کی تعداد روز بروز کم ہو رہی تھی۔ اس لئے وقت کی سب سے بڑی ضرورت یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام سے متعلق جتنی بھی روایات جمع ہو سکیں ان کو جلد از جلد محفوظ کر لیا جائے اور ترتیب استنباط و استدلال اور علم روایت و درایت کے نقطہ نگاہ سے واقعات کی تحقیق و تفتیش کا کام مستقبل پر چھوڑ دیا جائے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے نے اس اہم ترین ضرورت کے پیش نظر ’’سیرت المہدی‘‘ کے نام سے روایات کا ایک ایمان افروز مجموعہ مرتب کرنا شروع فرمایا اور خاص طور پر یہ اہتمام فرمایا کہ ایسے صحابہ سے روایات جمع کر لی جائیں جنہوں نے ابتدائی زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اٹھائی اور سلسلہ بیعت سے پہلے تعلق رکھنے والے تھے۔
’’سیرت المہدی‘‘ کا پہلا حصہ جس میں دوسرے اکابر صحابہ کے علاوہ خاص طور پر حضرت ام المومنینؓ اور حضرت مولوی عبداللہ صاحب سنوری کی روایات خاص طور پر درج کی گئی تھیں۔ اس سال دسمبر ۱۹۲۳ء میں شائع ہوا۱۲۷۔ دوسرا اور تیسرا حصہ بالترتیب ۱۹۲۷ء اور اپریل ۱۹۳۹ء میں چھپ گیا۔ چوتھے حصے کا مواد آپ نے قادیان ہی میں جمع کر لیا تھا جس میں بعض قدیم صحابہ (خصوصاً حضرت منشی ظفر احمد صاحبؓ کپورتھلوی) کی نہایت ایمان پرور روایات شامل تھیں مگر اس کی اشاعت اب تک نہیں ہو سکی۱۲۸۔
جماعت احمدیہ کا پہلا شہید مبلغ
جماعت احمدیہ کے لئے دسمبر ۱۹۲۳ء کا پہلا ہفتہ خوشی اور غم کے مخلوط جذبات پیدا کرنے کا موجب تھا خوشی اس لئے کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب مبلغ انگلستان و امریکہ ۴/ دسمبر ۱۹۲۳ء کو کامیاب و کامران ہو کر وارد قادیان ہوئے اور غم اس لئے کہ ۷/ دسمبر ۱۹۲۳ء کو حضرت مولوی حافظ عبیداللہ صاحب مبلغ ماریشس کے انتقال کی المناک اطلاع ملی۔ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اوصاف اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا۔
’’ہماری ہندوستان کی جماعت میں تاحال اس قسم کے نمونے بہت کم ہیں جو صحابہ میں پائے جاتے ہیں اور پھر ایسے بہت کم ہیں۔ جو خدمات دین کے اقرار کو نباہنا جانتے ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر مولوی عبیداللہ ہمارے ملک میں سے تھا جس نے عمل سے ثابت کر دیا کہ وہ دین کے لئے زندگی وقف کرنا اور پھر اس عہد کو نباہنا دونوں باتوں کو جانتا تھا۔ ہماری جماعت میں پہلے شہید حضرت سید عبداللطیف تھے یا دوسرے کہ ان سے پہلے ان کے ایک شاگرد شہید ہوئے تھے مگر وہ ہندوستان کے نہ تھے بلکہ ہندوستان کے باہر کے تھے۔ ہندوستان میں شہادت کا پہلا موقع عبیداللہ کو ملا‘‘۱۲۹۔
‏sub] ga[tدارالتبلیغ جرمنی کا قیام
اس سال کے آخر میں مولوی مبارک علی صاحب بی۔ اے بنگالی اور ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کی کوشش سے یورپ میں دوسرا اسلامی مشن جرمنی میں قائم ہوا۔ مولوی مبارک علی صاحب جو ۱۹۲۰ء سے لنڈن میں تبلیغ اسلام کر رہے تھے۔ لنڈن سے سیدھے برلن بھجوائے گئے اور ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے قادیان سے بتاریخ ۲۶/ نومبر ۱۹۲۳ء کو روانہ فرمایا۱۳۰۔ جو ۱۸/ دسمبر ۱۹۲۳ء کو صبح دس بجے برلن پہنچے۱۳۱۔
جرمنی میں سب سے پہلے پروفیسر فرنیزی۱۳۲ ایل ایل۔ ڈی اور ڈاکٹر اوسکا۱۳۳ جیسے قابل مصنفوں کو احمدیت کی طرف توجہ ہوئی اور ان کے دیکھا دیکھی برلن کے کالجوں کے پروفیسر اور طلباء میں بھی تحقیق سلسلہ کی جستجو پیدا ہو گئی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ارادہ یہاں شاندار اسلامی مرکز قائم کرنے کا تھا اور اسی لئے مسجد برلن کی تحریک بھی آپ نے فرمائی مگر جرمنی کے حالات یکایک بدل گئے۔ کاغذی روپیہ عملی طور پر منسوخ کر دیا گیا اور سونے کا سکہ جاری کیا گیا۔ جس کی وجہ سے قیمتوں میں دو تین سو گناہ اضافہ ہو گیا۔ ایک طرف مبلغ کا خرچ ۶ پونڈ کی بجائے کم از کم ۲۵ پونڈ تک جا پہنچا۔ دوسری طرف مسجد برلن کی تعمیر کے لئے جس کا پہلے تیس ہزار روپیہ کا اندازہ کیا گیا تھا پندرہ لاکھ روپے کے اخراجات بتائے جانے لگے۔
ان حالات کی بناء پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے تعمیر مسجد کا کام ملتوی کرا دیا اور فیصلہ فرمایا کہ یورپ میں دو مرکز رکھ کر طاقت تقسیم کرنے کی بجائے دارالتبلیغ لنڈن ہی مضبوط کیا جائے اور اسی سے وسط یورپ میں تبلیغ اسلام ہو۔ یہ فیصلہ مارچ ۱۹۲۴ء میں ہوا۱۳۴۔ اور مئی ۱۹۲۴ء میں یہ دارالتبلیغ بند کر دیا گیا اور جرمنی کے مبلغ ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے انگلستان چلے گئے مگر بالاخر ربع صدی کے بعد ۱۹۴۹ء میں چوہدری عبداللطیف صاحب بی۔ اے کے ذریعہ اس کا احیاء ہوا جس کی تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
۱۹۲۳ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حرم ثالث میں مرزا طاہر احمد صاحب (اول) کی ولادت ہوئی اور حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے ہاں صاحبزادی زکیہ بیگم صاحبہ پیدا ہوئیں۱۳۵۔
۲۔
حضرت ماسٹر قادر بخش صاحب (والد ماجد حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد۱۳۶) اور اہلیہ صاحبہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار صاحبؓ نے وفات پائی۔
۳۔
حضرت ام المومنین نے یکم اگست ۱۹۲۳ء کو نور ہسپتال قادیان کے زنانہ وارڈ کا سنگ بنیاد رکھا۱۳۷۔
۴۔
قادیان میں پہلی بار سماٹرا کے طلباء تحصیل علم کے لئے آئے۱۳۸۔
۵۔
میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی کی ادارت میں دہلی سے ’’دعوت الاسلام‘‘ کے نام سے ایک روزنانہ جاری ہوا۱۳۹۔
۶۔
ایک اردو افریقی اخبار ملک احمد حسین صاحب بیرسٹر (ابن ملک غلام حسین صاحب رہتاسی) کی زیر ادارت نیروبی سے نکلنا شروع ہوا۱۴۰۔
۷۔
ادارہ ’’پیغام صلح‘‘ پر ایک مضمون بعنوان ’’وید کا بھید‘‘ کی بناء پر مقدمہ دائر تھا جس کی پیروی چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے رضا کارانہ طور پر کی۔ اخبار ’’الفضل‘‘ نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کیا۱۴۱۔
۸۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے سالانہ جلسہ پر ’’کوئی قوم قربانی کے بغیر ترقی نہیں کر سکتی‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ آپ سالانہ جلسہ کے موقعہ پر یہ سب سے پہلی تقریر تھی جسے آپ نے نہایت روانی اور تسلسل کے ساتھ بناہا۔ اجلاس کے صدر حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اس تقریر کے بعد فرمایا کہ ’’صاحبزادہ صاحب نے اسی لحن میں قرآن کریم پڑھا ہے کہ بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے ہیں کیونکہ میں نے اس لحن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی آواز سنی ہے‘‘۱۴۲
۹۔
مشہور مباحثے: مباحثہ جلال پور جٹاں۱۴۳ (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور شیعہ مناظر سیف علی صاحب کے درمیان) مباحثہ فیروز پور۱۴۴ (حضرت میر قاسم علی صاحب اور پنڈت رام چندر دہلوی اور پنڈت دھرم بھکشو کے درمیان) مباحثہ لائلپور۱۴۵ (حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اور پادری عبدالحق کے درمیان) مباحچہ بھونگائوں ضلع مین پوری۱۴۶ (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مہاشہ رام چندر دہلوی کے درمیان) مباحثہ اودھم پور۱۴۷ (مولوی ظہور حسین صاحب اور پنڈت دھرم بھکشو کے درمیان) مباحثہ اسٰمعیلہ گجرات۱۴۸ (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور ایک غیر احمدی مولوی محمد حسین صاحب کے درمیان) مباحثہ لاہور۱۴۹ (حضرت حافظ روشن علی صاحب کا پنڈت دھرم بھکشو اور پنڈت رام چندر دہلوی سے) مباحثہ سیالکوٹ (حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب نے بالترتیب پادری عبدالحق صاحب اور پادری احمد مسیح سے مباحثہ کیا۱۵۰) مباحثہ دھاریوال۱۵۱ (شیخ عبدالخالق صاحب نو مسلم اور پادری عبدالحق صاحب کے درمیان)
۱۰۔
علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات: ’’فقہ احمدیہ‘‘ حصہ اول (مولفہ حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحب) ’’آریہ پنتھ کا فوٹو‘‘۔ (جناب قاضی محمد نذیر صاحب فاضل لائلپوری) ’’محقق‘‘ (سید ابوالبرکات صاحب محقق دہلوی)
۱۱۔
نواب اکبر یار جنگ صاحب ہوم سیکرٹری حیدر آباد دکن کے بڑے بھائی عبدالغفار صاحب (جنہوں نے تحریک شدھی میں احمدی مجاہدین سے ہر طرح تعاون کیا تھا) داخل احمدیت ہوئے۔۱۵۲ میر محمد بخش صاحب (بی اے ایل ایل بی ایڈووکیٹ آف گوجرانوالہ) نے اس سال قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا۔ ۱۵۳
‏rov.5.26
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا دسواں سال
حواشی
۱۔
متحدہ ہندوستان مراد ہے۔
۲۔
’’حیات شبلی‘‘ صفحہ ۵۵۳ تا ۵۵۸۔
۳۔
لکھنئو میں تو علمائے ندوہ نے مولانا شبلی کو اس وجہ سے کہ آپ نے احمدیوں کو جلسہ میں شرکت کی دعوت اور تقریر کرنے کا موقعہ دیا تھا جس طرح چاہا ہدف اعتراضات و الزامات بنایا۔ لیکن اس کے برخلافت مولانا مسیح الزمان خان صاحب رئیس اعظم شاہ جہانپور استاد نظام دکن نے احمدیوں کی شمولیت سے کام کئے جانے میں ذرا بھی تامل نہ فرمایا۔ چنانچہ جب حاجی محمد سعید خاں صاحب سوداگر رئیس شاہ جہانپور کے پاس (جن کو حیات شبلی میں غلطی سے سفید خاں لکھ دیا ہے) یہ اطلاع پہنچی کی قصبہ جلال آباد سے چند کوس کے فاصلہ پر موضع موہن پور میں چھ سات سربرآوردہ ملکانے راجپوت اپنے گھرانوں سمیت آریہ ہونے والے ہیں ان کو آریہ بنانے کے لئے بھرت پور وغیرہ راجواڑوں کی طرف سے بڑے اعلیٰ پیمانے پر تیاریاں ہو رہی ہیں اس تقریب پر بہت بڑا ازدحام ہو گا بڑے بڑے مقرر تقریریں کریں گے اگر آپ اس کی روک تھام کے لئے کچھ کر سکتے ہیں تو کریں۔ اس اطلاع پر حاجی صاحب موصوف الصدر نے ایک مجلس مشاورت منقعد فرمائی۔ جس کی صدارت کے فرائض مولانا مسیح الزمان خان صاحب استاد نظام دکن نے انجام دیئے اور باتفاق رائے یہ قرار پایا کہ دیو بندی عالم تو موجود ہیں دلی سے احمدی مناظر مولوی میر قاسم علی صاحب بلوا لئے جائیں اور پھر موہن پور میں جلسہ کیا جائے۔ میر قاسم علی صاحب کو بلوانے کی تجویز بھی ایک دیو بندی مولوی صاحب کی طرف سے تھی اور جو صاحب دلی جا کر انہیں ساتھ لائے وہ بھی دیو بندی مکتب خیال سے تعلق رکھنے والے مولانا سید نور احمد میاں صاحب فائز شاہ جہانپوری تھے۔ کچھ لوگ تو پہلے ہی سے موہن پور پہنچ گئے تھے شیر اسلام میر قاسم علی صاحب کے تشریف لے آنے پر باقی جانے والے بھی موہن پور پہنچ گئے کئی روز وہاں دن رات جلسے کئے علماء نے تقریریں کیں اور وہاں کے لوگوں سے ان کے مکان پر جا کر بھی باتیں کی گئیں اور انہیں اپنے پاس بلا کر بھی نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ایک ملکانہ راجپورت ٹھاکر موہن سنگھ تو آریہ ہو گئے باقی سب بفضلہ تعالیٰ محفوظ رہے یہ سب کارروائی حاجی محمد سعید خاں سوداگر شاہجہانپور اور مولانا مسیح الزمان خان صاحب استاد نظام دکن کی منشاء کے مطابق سیکرٹری انجمن احمدیہ شاہجہانپور (حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب) کے ذریعہ سے انجام تک پہنچی۔
۴۔
حیات شبلی۔ صفحہ ۵۶۹۔
۵۔
حیات شبلی۔ صفحہ ۵۷۲۔ ۵۷۳۔
۶۔
فتنہ ارتداد اور پولٹیکل قلا بازیاں مشمولہ رفتار زمانہ لاہور ۷/ جون ۱۹۵۰ء صفحہ ۵۔ ۷۔
۷۔
نقوش آپ بیتی نمبر صفحہ ۳۶۹۔
۸۔
سیرت محمد علی صفحہ ۳۹۵ (از رئیس احمد جعفری)
۹۔
اخبار پرتاپ لاہور ۱۶/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۴۔
۱۰۔
بحوالہ اخبار زمیندار ۱۶/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۱۱۔
تیج دہلی ۲۰/ مارچ ۱۹۲۶ء صفحہ ۶ بحوالہ ہندو راج کے منصوبے (از ملک فضل حسین صاحب) بار ششم ستمبر ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۳۸۔
۱۲‘۱۳۔
پیغام صلح بحوالہ ہندو راج کے منصوبے صفحہ ۱۳۸۔ ۱۳۹۔
۱۴۔
اخبار تیج دہلی ۱۳/ جنوری ۱۹۲۵ء بحوالہ ہندو راج کے منصوبے صفحہ ۱۴۴۔
۱۵۔
ملاحظہ ہو پیسہ اخبار ۱۶/ مارچ ۱۹۲۳ء و زمیندار ۱۶/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۱۶۔
بحوالہ الفضل ۱۲/ مارچ ۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۷۔
الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۸۔
خالد۔ اگست ۱۹۵۶ء صفحہ ۷۔
۱۹۔
الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۳۔
۲۰۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۲۱۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۱۔ ۱۲۔
۲۲۔ ][ ملاحظہ ہو رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۳ء صفحہ ۵۵۔
۲۳۔
فہرست کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۴۔
’’کار زار شدھی‘‘ صفحہ ۴۳۔ ۴۵ (از ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم)
۲۵۔
حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۳ء پر حضرت چوہدری صاحب موصوف کو کمانڈر انچیف کے خطاب سے بھی یاد فرمایا تھا۔ (الفضل ۱۱/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۷)
۲۶۔
الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔ جناب ملک فضل حسین صاحب کا نام بھی اس وفد میں شامل تھا مگر جب آپ وفد کے ساتھ قادیان سے روانہ ہونے لگے تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ کی تجویز پر انہیں قادیان میں رہ کر میدان ارتداد کے لئے یعنی علمی اسلحہ تیار کرکے بھجوانے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپ نے آریہ دھرم کے خلاف ان ہی دنوں دس ٹریکٹ چالیس ہزار کی تعداد میں شائع کر دیئے۔
۲۷۔
کار زار شدھی صفحہ ۳۹۔
۲۸۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۳ء۔
۲۹۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔ ایضاً الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔ ایک سناتنی اخبار جاگرت نے ۱۳/ اپریل ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں لکھا۔ دولت کا جھوٹا لالچ دے کر ایرے غیرے کسی کو مونڈھ لینا شدھی نہیں۔ (بحوالہ وکیل امرتسر ۱۱/ مئی ۱۹۲۷ء)
۳۰۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۔ ۸۔
۳۱۔
الفضل ۱۷/ مئی ۱۹۲۳ء صفحہ ۵۔ ایضاً تبرکات آزاد (مرتبہ غلام رسول مہر)
۳۲۔
الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔ میری کہانی (از ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم) غیر مطبوعہ و الفضل ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۳۳۔
ہمدم مورخہ ۱۵/ اکتوبر ۱۹۲۳ء بحوالہ الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۵۔
۳۴۔
پرتاپ (لاہور) ۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۹ بحوالہ محاکمہ مابین آریہ سماج اور گاندھی۔ صفحہ ۵۔ (مولفہ مہاشہ فضل حسین صاحب احمدی مہاجر) طبع اول ۱۹۲۴ء۔
۳۵۔
کار زارشدھی صفحہ ۴۲۔ الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۴۔
۳۶۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۵۔
۳۷۔
جمیا کو احمدی مجاہدین سے بہت محبت تھی اپنے بچوں سے زیادہ الفت کرتی تھی اور بہت ہمدرد تھی۔ اس کے بیٹوں نے چونکہ اسے باہر جانے سے روک رکھا تھا اس لئے اکثر رات کو چھپ کر احمدی مبلغین کے پاس آتی اور اپنا دکھ درد سناتی تھی۔ (کار زار شدھی صفحہ ۷۷)
۳۸۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۳۹۔
چوہدری افضل حق صاحب اپنی کتاب فتنہ ارتداد اور پولٹیکل قلا بازیاں میں لکھتے ہیں۔ انجمن ہدایت الاسلام کی زیر نگرانی روک تھام شروع ہوئی ایک جگہ سے یک صد روپیہ کی گرانقدر رقم بھی ماہانہ امداد کے طور پر ملی تنخواہ دار مبلغ رکھے گئے لیکن نہ اوپر سے نگرانی ہوئی نہ دل میں سچی تبلیغ کا جذبہ تھا۔ مولوی صاحبان جس گائوں میں جاتے وہاں وعظ فرماتے اور وعظ کے بعد باوجود تنخواہ دار ہونے کے اپنے ذاتی مصارف کے لئے بھیک مانگتے۔ علاوہ ازیں سنا گیا ہے کہ بعض بداخلاقی کی حرکتیں بھی کر بیٹھتے جس سے ان لوگوں کے دل میں اسلام کے متعلق نہایت ذلیل خیال بیٹھ گیا۔
۴۰۔
جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم کا بیان ہے کہ میں نے محسوس کیا کہ اس علاے میں سادھوئوں کی بے حد تعظیم اور مولویوں سے از حد نفرت کی جاتی ہے اس لئے میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں اجازت طلب کی کہ مجھے سادھو بن کر تبلیغ کا کام کرنے کی اجازت دی جائے۔ حضور نے مجھے اجازت تو دے دی مگر ساتھ ہی ارشاد فرمایا عارضی اجازت ہے مستقل نہیں۔ بہرحال میں نے اپنا لباس تبدیل کر لیا۔ جو گیا نہ دھوتی پہن لی۔ چمٹا‘گڈوی اور جھولا وغیرہ سادھو کے لوازمات مہیا کئے اور اپنا کام شروع کر دیا۔ اس لباس میں جو بھجن میں نے وقتاً فوقتاً کہے اور گائے ان سے تبلیغ اسلام کے کام میں بڑی مدد ملی۔ اور ملکانہ قوم اور ہندوئوں میں میرا بڑا احترام ہو گیا۔ وہ مجھ پر بھروسہ کرتے۔ میری باتوں کو سنتے۔ مجھے دور سے نمسکار (سلام کرتے) کرشن جی‘رامچندر جی کی باتیں مجھ سے سنتے اور واہ واہ کرتے جس گائوں میں کوئی مولوی صاحب نہ جائے میں چلا جاتا۔ میں نے علاقے کی پوربی زبان بہت جلد سیکھ لی ہندی اور سنسکرت کے بعض الفاظ اور اصطلاحات بھی یاد کر لیں۔ اور ہندو ریشوں اور مہا پرشوں کے قول اور نصیحتیں بھی از بر کیں۔ میں نے اس قوم کی زبان میں جو بھجن کہے وہ ملکانہ من لگن بھجن کے نام سے ۱۹۲۴ء کے سالانہ جلسہ پر شائع ہوئے اور خدا کے فضل سے بہت مقبول ہوئے۔ اس جلسہ پر میں نے شدھی کے خلاف جماعت احمدیہ کی خدمات پر بھی تقریر کی (میری کہانی غیر مطبوعہ صفحہ ۲۰۶۔ ۲۱۰)
۴۱۔
کار زار شدھی صفحہ ۷۷۔ ۷۸۔
۴۲۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۴۔ ۶۔
۴۳۔
الفضل ۲۹/ مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔ ۱۱۔
۴۴۔
الفضل ۵/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۴۵۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۴۶۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۰۔
۴۷۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۸۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱ و ۱۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۴۹۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کا بیان ہے کہ حضرت نواب صاحب‘حضرت شیخ محمد حسین صاحب ریٹائرڈ سب جج علی گڑھ اور خاکسار عرفانی کو ایک خاص مقصد کے لئے بھیجا گیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ہم یو۔ پی کے ان اضلاع کے حکام سے ملیں اور غلط فہمیاں پیدا نہ ہونے دیں اور بنجارہ قوم کے جرائم پیشہ سے نکلوانے کی کوشش کریں۔ ہم تینوں سفر کرتے تھے اور اخراجات خورد نوش و قیام و سفر نواب صاحب ہی اپنی جیب سے کرتے تھے۔ الخ۔ (اصحاب احمد جلد دوم صفحہ ۴۲۹) حضرت نواب صاحب اور حضرت عرفانی صاحب مسلسل کئی روز گرمی میں دورہ کرنے اور پیدل چلنے کے بعد مئی ۱۹۲۳ء کے وسط میں واپس آئے۔ (الفضل ۱۷/ مئی ۱۹۲۳ء)
۵۰۔
سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۱۔
۵۱۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۰ و کار زار شدھی صفحہ ۴۲۔ (مولفہ جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم)
۵۲۔
الفضل ۱۹/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۵۳۔
سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۰۔
۵۴۔
بحوالہ الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۵۵۔
مشرق ۲۹/ مارچ ۱۹۲۳ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۳۔ ۴۴ (ایڈیٹر حکیم برہم)
۵۶۔
اخبار نجات (بجنور) ۲۷/ اپریل ۱۹۲۳ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۷ حاشیہ۔
۵۷۔
بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۵ حاشیہ۔
۵۸۔
بحوالہ کار زار شدھی (مولفہ ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم) صفحہ ۱۱۹۔
۵۹۔
ایضاً صفحہ ۱۱۹۔
۶۰۔
الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۶۱۔
اخبار جیون تت۔ ۲۴/ اپریل ۱۹۲۳ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۴ حاشیہ۔
۶۲۔
بحوالہ کار زار شدھی صفحہ ۱۱۹۔ ۱۲۰۔ اس حقیقت کا اندازہ لگانے کے لئے یہ واقعہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ۶۔ ۷/ اپریل ۱۹۲۳ء کو آگرہ میں خلافت کانفرنس منعقد ہوئی جس میں دو تین مسلمان لیڈر شامل ہوئے جنہوں نے فتنہ ارتداد کا ذکر نہایت معمولی واقعہ کی طرح کیا۔ مولوی آزاد سبحانی صاحب نے کہا کہ میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتا ہمارا اصل مقصد سوراج حاصل کرنا ہے جب سوارج حاصل ہو جائے گا تو پھر ہم فیصلہ کر لیں گے کہ ہمیں اسلام پر قائم رہنا چاہئے یا ہندو ہو جانا چاہئے۔ اس لئے سوامی شردھانند سے عرض کروں گا اور مسلمان دوسرے ہندوئوں سے عاجزی کے ساتھ درخواست کریں کہ وہ چند دن کے لئے شدھی کی تحریک روک دیں۔ (الفضل ۱۶/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۹) مولوی ابو الکلام صاحب آزاد نے ۱۵/ اپریل ۱۹۲۳ء کے زمیندار میں ایک بیان دینے پر اکتفا کی جس میں کہا۔
’’میں پورے وثوق کے ساتھ رائے رکھتا ہوں کہ جن لوگوں نے موجودہ وقت میں یہ تحریک شروع کی انہوں نے ملک کا عام مفاد نظر انداز کر دیا۔‘‘ ’’مسلمانوں کو نہ چاہئے کہ شکوہ و شکایت کریں یا اپنے لئے کوئی ایسا پوزیشن (رویہ) اختیار کریں جس سے توقع اور خواہش نکلتی ہو۔ یہ کام شروع نہ کیا جاتا تو بہتر تھا لیکن جب شروع کر دیا گیا ہے تو مسلمانوں کے لئے صرف ایک ہی چارہ کار رہ گیا ہے یعنی وہ بھی اپنا فرض سکون اور خاموشی کے ساتھ انجام دیں دوسروں کے لئے یہ نیا قدم ہے لیکن ان کے لئے ان کا اصلی اور دائمی فرض ہے اگر انہوں نے اپنا فرض ادا کیا ہوتا تو آج یہ نتائج پیش نہ آتے‘‘ (تبرکات آزاد صفحہ ۲۰۹۔ ۲۱۰۔ مرتبہ غلام رسول صاحب مہر شائع کردہ ’’کتاب منزل‘‘ لاہور طبع اول جولائی ۱۹۵۹ء)
علی برادران نے اس زمانہ میں عجیب عجیب تقریریں کیں۔ مثلاً مولوی محمد علی نے کہا۔ مسلمان شدھی کی وجہ سے ہندوئوں سے کیوں لڑتے ہیں جب کہ خود عرب میں مسلمانوں کو دوسرے مذہب والے اپنے اندر داخل کرنے کو کوشاں ہیں۔ (وکیل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء بحوالہ الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۳)مولوی شوکت علی خادم کعبہ نے کہا۔ مسلمانوں کو ہندوئوں کا احسان ماننا چاہئے کہ تم ذرا اسی باجہ بجانے کی بات پر ہی ان سے لڑ پڑتے ہو۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر ہندو بھائی تمہاری کسی مسجد کو بھی گرا دیں تو بھی تمہیں برداشت کرنا چاہئے۔ (اخبار کیسری ۱۱/ نومبر ۱۹۲۳ء) نیز کہا۔ میں اور بھائی محمد علی نے اور محترمہ بی اماں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ خواہ کوئی ہندو ہماری ماں‘بہن‘بہو‘بیٹی کی بے عزتی ہی کیوں نہ کرے ہم کبھی کسی ہندو کے برخلاف کچھ نہیں کہیں گے۔ امید ہے اس طرح آپس میں محبت اور ہمدردی پیدا ہو جائے گی۔ (وکیل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء بحوالہ الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۳)
۶۳۔
بحوالہ الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۲۳ء صفحہ ۴۔
۶۴۔
جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۵۔
۶۵۔
زمیندار بحوالہ الفضل ۲۸/ مئی ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۶۶۔
الفضل ۳/ مئی ۱۹۲۳ء صفحہ ۸۔
۶۷۔
کار زار شدھی صفحہ ۱۱۲۔ ۱۱۵۔
۶۸۔
اخبار تہذیب نسواں (لاہور) ۲/ مئی ۱۹۲۵ء بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۶۵۔ ۱۶۶۔ (مولفہ سید طفیل محمد صاحب گوکھو وال)
۶۹۔
سرگزشت صفحہ ۲۲۰ طبع اول جنوری ۱۹۵۵ء از جناب عبدالمجید صاحب سالک۔
۷۰۔
یہ صاحب ناظم عمومی شعبہ تبلیغ جمعیتہ علمائے ہند تھے۔ سیاست لاہور (۱۲/ اگست ۱۹۲۵ء) نے جمعیتہ علماء ہند کی نسبت لکھا۔ جمعیتہ کے شعبہ تبلیغ نے فتنہ ارتداد کے سلسلہ میں روپیہ جمع کرنے کے لئے اپیلیں کرنے کے علاوہ کوئی عملی خدمت انجام نہیں دی ہے۔ (بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۶۵)
۷۱۔
خالد اگست ۱۹۶۰ء صفحہ ۷ تا ۹۔
۷۲۔
میری کہانی (غیر مطبوعہ از جناب ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم) ملخصاً۔
۷۳۔
الفضل ۸/ جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۷۴۔
الفضل ۳/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۷۵۔
الفضل ۴/ جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۷۶۔
الفضل ۳۱/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۷۷۔
الفضل ۱۴/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۷۸۔
اس بارے میں جماعت کے جن اہل قلم اصحاب نے خدمات سر انجام دیں ان میں حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر فاروق‘جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر اخبار نور‘مولانا قاضی محمد نذیر فاضل اور ملک فضل حسین صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ (کارزار شدھی صفحہ ۴۴)
۷۹۔
الفضل ۲۸/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔ ۸۔ قریشی محمد حنیف صاحب میر پوری نے موضع بیری میں ایک پرانی مسجد کی مرمت کی اور اپنے شاگردوں سے مل کر کنواں کھودا یہ گائوں شدھ ہو چکا تھا۔
۸۰۔
مساجد کی تعمیر میں مجاہدین کو خود مسلمان ملکانوں کی طرف سے بھی بہت مشکلات پیش آئیں۔ چنانچہ ایک غیر احمدی دوست ڈاکٹر محمد اشرف صاحب (مراد آبادی) نے یہ چشم دید واقعہ لکھا ہے کہ دوسرے مہینے میں اپنی ننھیال میں گیا یہ تحصیل ہاتھرس کا ایک گائوں ہے یہاں میں نے دیکھا کہ میرے نانا کی چوپال پر قادیانی مولویوں نے مدرسہ کھول رکھا ہے اور بچے قرآن پڑھ رہے ہیں۔ مولوی صاحب مجھ سے بڑے تپاک سے ملے اور جب انہیں اندازہ ہو گیا کہ مجھے قادیانیوں سے کوئی تعصب نہیں ہے تو علیحدہ جا کر فرمانے لگے کہ اب تم اپنے نانا سے سفارش کر دو کہ اس چوپال پر جہاں مدرسہ ہے اور روزانہ باجماعت نماز ہوتی ہے مسجد بنانے کی اجازت دے دیں۔ بالاخر میں نے نانا صاحب سے مولوی صاحب کی خواہش بیان کر دی اور اپنی طرف سے حمایت کے الفاظ بھی کہہ دیئے۔ شام کو میں اور قادیانی مولوی آپس میں باتیں کر رہے تھے کہ میرے نانا آگئے اور خالص برج بھاشا میں فرمانے لگے کہ مولوی اب تک تو میں خاموش تھا مگر آج آپ نے مسجد کی بات شروع کی ہے تو میں بھی کہہ ڈالوں۔ دیکھئے جس ہفتہ آپ نے نماز پڑھنا شروع کی۔ میری گائے مر گئی۔ پھر دوسرے مہینے جب آپ نے باجماعت نماز پڑھنا شروع کر دیا تو میری بڑی لڑکی بیمار ہو گئی اور وہ اب تک بیمار چلی جاتی ہے اب آپ ہی سوچئے کہ جب خدا ہم سے ذرا دور ہے تو یہ مصیبتیں نازل ہوتی ہیں اور اگر اس کا گھر ہی یہاں بن گیا (یعنی مسجد) تو پھر وہ سب کو مار ڈالے گا۔ ایک بھی ہم میں سے زندہ نہیں بچے گا۔
اب مولوی صاحب پریشان تھے کہ ٹھاکر صاحب کو کیسے سمجھائیں بالاخر انہوں نے نماز چوپال پر پڑھنا بند کر دی اور باہمی صلح ہو گئی مسجد اس گائوں میں اب تک نہیں ہے۔ (نقوش آپ بیتی نمبر جون ۱۹۶۴ء) باقی نمبر ۳ مثلاً رائو پٹی (الفضل ۱۴/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۹) اکبر پور اور واحد پور (ضلع فرخ آباد) الفضل ۱۱/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔ صالح نگر (الفضل ۳۱/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲)
۸۱۔
بیان شیخ نیاز علی صاحب وکیل ہائیکورٹ لاہور۔ زمیندار ۲۴/ جون ۱۹۲۳ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۶۔
۸۲۔
بیان شیخ غلام حسن صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول جہلم (زمیندار ۲۹/ جون ۱۹۲۳ء) بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۴۶۔ ۴۷۔
۸۳۔
زمیندار ۲۲/ فروری ۱۹۲۳ء بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۶۶۔
۸۴۔
الفضل ۱۴/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۸۵۔
الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۔
۸۶۔
سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۱۔
۸۷۔
تازیانہ (لاہور) ۱۹/ نومبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۰ (ایڈیٹر یوسف حسن)
۸۸۔
ہندو دھرم اور اصلاحی تحریکیں صفحہ ۴۲۔ ۴۴ (مصنفہ پروفیسر پریتم سنگھ ایم۔ اے) طبع اول ۱۹۴۱ء مطبوعہ امرت الیکڑک پریس ریلوے روڈ لاہور۔
۸۹۔
الفضل ۲۴/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۹۰۔
بحوالہ الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۹۱۔
الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۹۲۔
بحوالہ الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۹۳۔
ملاپ (لاہور) بحوالہ کار زار شدھی صفحہ ۹۶۔
۹۴۔
شردھانند پر حجت تمام کرنے کے لئے جماعت احمدیہ دہلی نے ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۳ء کو ایک جلسہ عام منعقد کیا جس میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے شردھانند کو مقابلہ پر بلایا اور اس غرض کے لئے اپنی تقریروں کے بعد وقت بھی رکھا مگر شردھانند کو سامنے آنے کی جرات نہ ہو سکی۔ (الفضل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۷)
۹۵۔
بحوالہ الفضل ۲/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۔
۹۶۔
بحوالہ الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۹۷۔
الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۹۸۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۷ و سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۳۔
۹۹۔
الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۱۰۰۔
الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
‏h1] ga[t۱۰۱۔
الفضل ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۱۰۲۔
الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۰۳۔
الفضل ۱۲/ جنوری ۱۹۲۶ء صفحہ ۷۔
۱۰۴۔
قریشی صاہب موصوف ۱۹۲۳ء میں ملکانہ نو مسلموں کا ایک پیدل قافلہ جو ایک درجن افراد پر مشتمل تھا ساندھن سے قادیان کے سالانہ جلسہ پر لائے تھے۔ (الحکم ۱۴/۷ مارچ ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۰)
۱۰۵۔
آپ تبلیغ اسلام کرتے ہوئے اسی سر زمین میں فوت ہوئے اور یہیں دفن کئے گئے۔
۱۰۶۔
اخبار اہلسنت (امرتسر) یکم جون ۱۹۲۵ء (ایڈیٹر مولوی عبدالحق تراب) بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۶۶۔
۱۰۷۔
پرتاپ (لاہور) ۲۱/ اکتوبر ۱۹۲۹ء ایڈیٹر مہاشہ کرشن بی۔ اے (بحوالہ راہنمائے تبلیغ صفحہ ۱۶۷)
۱۰۸۔
اخبار تیج دھلی ۲۵/ جولائی ۱۹۲۷ء (ایڈیٹر لالہ ویش بندھو) بحوالہ تاثرات قادیان صفحہ ۲۲۱۔ ۲۲۳ (مولفہ جناب مہاشہ فضل حسین صاحب) طبع اول
۱۰۹۔
اخبار تیج (دہلی) ۲۵/ جولائی ۱۹۲۷ء۔ بحوالہ تاثرات قادیان صفحہ ۲۲۱۔ ۲۳۳۔
۱۱۰۔
فتنہ ارتداد اور پولیٹکل قلا بازیاں (مطبوعہ اخبار رفتار زمانہ لاہور ۷/ جون ۱۹۵۰ء صفحہ ۲۲۔ ۲۴) چوہدری افضل حق صاحب اپنے رفقاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خدا نے مجلس احرار کو زباں آور لوگ دیئے ہیں۔ جن کی تاثیر میں ڈوبی ہوئی تقریریں قلوب کو گرما دیتی ہیں لیکن میں نے سینکٹروں تقریروں میں اسلام کے محاسن اور خوبیاں بیان ہوتے سنی ہیں مگر کسی احراری لیڈر کو یہ کہتے نہیں سنا کہ مسلمانو! تم بھی اپنے دینی اور تبلیغی فرض کو ادا کرو اور غیر مسلموں میں اسلام کا تحفہ پیش کرو احرارہی ہیں جن کے متعلق عام گمان ہے کہ وہ اسلام کے بہترین مبلغ اور جادو بیان ہیں جب ان کا یہ حال ہے تو دوسروں سے کیا توقع۔ خطبات احرار صفحہ ۷۴۔ (مرتبہ جناب آغا شورش کاشمیری) طبع اول مارچ ۱۹۴۴ء۔
۱۱۱۔
الفضل ۲۵/ جنوری ۱۹۲۳ء صفحہ ۳۔ ۶۔
۱۱۲۔
الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۲ء صفحہ ۱ و الفضل ۸/ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۔
۱۱۳۔
الحکم ۲۱/ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۱۴۔
الحکم ۱۴/ فروری ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۱۵۔
الفضل یکم مارچ ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۱۶۔
مسجد برلن کے لئے چندہ دینے والوں کی ایک فہرست ضمیمہ الفضل ۵/ مارچ ۱۹۲۳ء میں شائع کی گئی تھی۔
۱۱۷۔
الفضل ۷/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۱۸۔
الفصل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔ الفضل ۴۔ ۷/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۹۔
۱۱۹۔
الفضل ۱۱/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۸۔
۱۲۰۔
ٹورنامنٹ سے متعلق تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رسالہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور اس کی کھیلیں (از ماسٹر علی محمد صاحب بی۔ اے بی ٹی)
۱۲۱۔
یہ لیکچر خان بہادر (سر) عبدالقادر صاحب کی صدارت میں ہوا۔ جنہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایا ’’جناب مرزا صاحب کو جو موقع اس مسئلہ اور اسی طرح اور بہت سے اہم مسائل پر غور فرمانے کا حاصل ہے وہ معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی ہے کیونکہ آپ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد کے مذہبی پیشوا ہیں اور آپ نے اپنی زندگی مذہبی معاملات پر غور و فکر کرنے کے لئے وقف کی ہوئی ہے۔ (الفضل ۲۳/ ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۷)
۱۲۲۔
حیات محمد علی جناح طبع دوم صفحہ ۱۶۹ فروری ۱۹۴۶ء (شائع کردہ کتب خانہ تاج آفس نیپیئر روڈ کراچی (پاکستان)
۱۲۳۔
میثاق لکھنو (۱۹۱۶ء) کی طرف اشارہ ہے جس میں یہ معاہدہ ہوا تھا کہ پنجاب میں مسلمانوں کو پچاس فیصدی۔ بنگال میں چالیس فیصدی‘بہار میں ۲۹ فیصدی‘مدراس اور سی پی میں پندرہ فیصدی اور بمبئی میں تئیس فیصدی نشستیں مخصوص کی جائیں۔ (حیات محمد علی جناح صفحہ ۷۴۔ ۷۵ طبع دوم (از سید رئیس احمد جعفری)
۱۲۴۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۳۰۔
۱۲۵۔
الفضل ۲۳/ ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔ قیام لاہور کے دوران میں حضور نے آنریبل میاں سر فضل حسین صاحب وزیر تعلیم کے زیر صدارت اسلامیہ کالج کے ہال میں بھی لیکچر دیا۔ جو ۱۵/ نومبر ۱۹۲۳ء کو ہوا۔ جس کا عنوان تھا اسلام پر مغربی علماء کی نکتہ چینی۔ (الفضل ۲۳/ ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۰۔ ۱۱)
۱۲۶۔
الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۲۷۔
اس کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۳۵ء میں (مع اضافہ) شائع ہوا۔
۱۲۸۔
اس غیر مطبوعہ حصہ کا مسودہ حضرت مولف نے اپنی زندگی میں میر مسعود احمد صاحب (خلف حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ) کے سپرد فرما دیا تھا۔ تاریخ احمدیت اور کتاب شمائل احمد (شائع کردہ شعبہ اطفال خدام الاحمدیہ مرکزیہ قادیان۔ مطبوعہ ۱۹۴۳ء میں اس کی بعض روایات درج ہو چکی ہیں۔
۱۲۹۔
الفضل ۱۴/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔ ولادت ۱۸۹۲ء پیدائشی صحابی تھے۔ آپ کے والد حضرت حافظ غلام رسول وزیر آبادی نے آپ کو بچپن میں ہی وقف کر دیا تھا۔
۱۳۰۔
الفضل ۳۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۳۱۔
الفضل ۲۸/ ۲۵ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۴۔ ۱۵۔
۱۳۲۔
یہ وہی صاحب ہیں جو وسط یورپ کی طرف سے دربار تاجپوشی شاہ جارج پنجم پر دہلی میں شاہی مہمان تھے۔
۱۳۳۔
مسیحی دینیات کے مسلمہ جرمن عالم۔
۱۳۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۶۔ ۴۸۔
۱۳۵۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔ الفضل ۳۰/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۳۶۔
الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۔ الفضل ۲۳/ ۲۰ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۳۷۔
الفضل ۷/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۱۔
۱۳۸۔
الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۳۹۔
‏h2] gat[ الفضل ۱۲/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۴۰۔
الفضل ۳/ مئی ۱۹۲۳ء صفحہ ۷۔
۱۴۱۔
الفضل ۱۲/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۲ و ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۴۲۔
الفضل یکم جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۲ و الفضل ۸/ جنوری ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۴۳۔
یہ مناظرہ کلمتہ الحق کے نام سے شائع شدہ ہے۔ (ناشر مکتبہ الفرقان۔ ربوہ)
۱۴۴۔
الفضل ۲۶/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۲۔
۱۴۵۔
الفضل ۷/ اگست ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۴۶۔
الحکم ۲۱/ ۱۴ جولائی ۱۹۲۳ء صفحہ ۹۔ ۱۱۔
۱۴۷۔
الفضل ۲۱/ جون ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۱۔
۱۴۸۔
الفضل ۹/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۴۹۔
الفضل ۲۷/ نومبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۔
۱۵۰۔
الفضل ۲۶/ اپریل ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۲۔
۱۵۱۔
الفضل ۱۷/ جولائی ۱۹۲۳ء صفحہ ۱۱۔
۱۵۲۔
کار زار شدھی صفحہ ۱۲۲۔ ۱۲۳۔
۱۵۳۔
الفضل ۲۱ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
‏rov.5.27
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
پانچواں باب (فصل اول)
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کا پہلا سفر یورپ اور مغرب میں فتح اسلام کی بنیاد
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
(جنوری ۱۹۲۴ء تا دسمبر ۱۹۲۴ء بمطابق جمادی الاول ۱۳۴۲ھ تا جماد الاخر ۱۳۴۳ھ)
۱۹۲۴ء کا سال سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں تبلیغی نقطہ نگاہ سے ایک انقلاب انگیز سال کہلانے کا مستحق ہے کیونکہ اس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے یورپ کا پہلا سفر فرمایا۔ جس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ ایک نئے دور میں داخل ہو گئی۔
ویمبلے کانفرنس کے لئے تحریک
شروع ۱۹۲۴ء میں انگلستان کی مشہور ویمبلے۱ نمائش کے سلسلہ میں سوشلسٹ لیڈر مسٹر ولیم لافٹس ہیر Hare( Loftus William )Mr, نے یہ تجویز کی کہ اس عالمی نمائش کے ساتھ ساتھ ایک مذاہب کانفرنس بھی منعقد کی جائے جس میں برطانوی مملکت کے مختلف مذاہب کے نمائندوں کو دعوت دی جائے کہ وہ اس کانفرنس میں شریک ہو کر اپنے اپنے مذہب کے اصولوں پر روشنی ڈالیں۔ نمائش کے منتظمین جن میں مستثرقین بھی شامل تھے اس خیال سے اتفاق کیا اور لنڈن یونیورسٹی کے مدرسہ علوم شرقیہ studies( Oriental of School )The کے زیر انتظام کانفرنس کا وسیع پیمانہ پر انعقاد کے لئے ایک کمیٹی قائم کر دی گئی۲۔
کانفرنس کا مقام امپریل انسٹی ٹیوٹ لنڈن مقرر کیا گیا اور ۲۲/ ستمبر ۱۹۲۴ء سے ۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء تک کی تاریخیں اس کے لئے تجویز کی گئیں۔ کمیٹی نے مندرجہ ذیل مذاہب کے مقررین کا انتخاب کیا۔ ہندو مت‘اسلام‘بدھ ازم‘پارسی مذہب‘جینی مذہب‘سکھ ازم‘تصوف‘برہمو سماج‘آریہ سماج‘کنفیوشس ازم وغیرہ۔
اگرچہ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر ۱۹۲۳ء کے آغاز ہی سے لنڈن میں تھے مگر آپ کو اس عظیم الشان کانفرنس کی تجویز کا مطلق علم نہ ہو سکا۔ مگر جب کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ مقررین بھی تجویز ہو چکے اور ۱۹۲۴ء کا بھی کچھ حصہ گزر چکا تو ایک سوسائٹی میں برسبیل تذکرہ کسی نے اس کا تذکرہ کیا جس پر آپ کمیٹی کے جائنٹ سیکرٹری ایم۔ ایم شارپلز سے ملے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ اسلام سے متعلق احمدی جماعت کا نقطہ نگاہ ضرور پیش ہونا چاہئے۔ کمیٹی میں ذکر آیا تو کمیٹی کے نائب صدر ڈاکٹر سر تھامس ڈبلیو آرنلڈ (مصنف Islam of )Preaching نے کمیٹی کو توجہ دلائی کہ انتخاب مقررین میں نیر صاحب سے ضرور مشورہ لیا جائے۔ چنانچہ حضرت نیر صاحب کے ساتھ مجوزہ پروگرام پر نظر ثانی ہوئی۔ آپ نے ہندو مت اور بدھ کے نمائندوں کے نام تجویز کرنے کے علاوہ تصوف کی نمائندگی کے لئے حضرت صوفی حافظ روشن علی صاحب کا نام لکھایا۔ مگر ساتھ ہی بتایا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ کی اجازت سے ہی حافظ صاحب آسکیں گے۔
کمیٹی میں جونہی یہ نام پیش ہوئے تو ڈاکٹر آرنلڈ اور پروفیسر مارگولیتھ نے اور کمیٹی کے دوسرے تمام ممبروں نے نہایت خلوص و محبت سے یہ فیصلہ کیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں کانفرنس میں شمولیت کی درخواست کی جائے اور صوفی صاحب کو بھی ساتھ لانے کی گزارش کی جائے اس طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ الل¶ہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں انگلستان کے سربرآوردہ مستشرقین کی طرف سے دعوت نامہ پہنچا۳۔
سفر یورپ کے لئے مشورہ
یہ دعوت قادیان پہنچی تو حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۶/ مئی ۱۹۲۴ء کو بعد نماز عصر ایک مجلس شوریٰ بلائی۴۔ جس میں دوستوں سے مشورہ طلب فرمایا کہ کسے کانفرنس میں شمولیت کے لئے لندن بھیجا جائے۔ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے عرض کیا کہ یہ تبلیغ اسلام کا ایک خاص موقعہ ہے اگر حضور خود بنفس نفیس تشریف لے جا سکیں تو مناسب ہو گا۵۔ دوسرے احباب نے بھی بھاری اکثریت سے اس کی تائید کی۔ اس کے بعد حضور نے بیرونی جماعت سے استصواب فرمایا۶۔
چنانچہ سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۴/ مئی ۱۹۲۴ء کو احباب جماعت کے نام حسب ذیل مکتوب رقم فرمایا تھا۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم
برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
آپ لوگوں کو شاید معلوم ہو گا کہ ولایت میں دو سال سے ایک تجارتی نمائش کی تیاریاں ہو رہی تھیں جس میں انگریزی حکومت کے تمام علاقوں کی ہر قسم پیداوار اور صنعت کی چیزیں رکھی جائیں گی یہ نمائش اب کھل گئی ہے اور ایسے بڑے پیمانے پر ہے کہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ تجارت کی ترقی کو مدنظر رکھ کر اور ملکوں کے باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لئے دو کروڑ آدمی کے قریب اس کو دیکھنے آئے گا۔ غرض ان دنوں میں دنیا کے ہر گوشے کے تعلیم یافتہ آدمی انگلستان میں جمع ہوں گے اور گویا تمام دنیا چھوٹے پیماے پر اس جگہ جمع ہو جائے گی۔ چینی‘جاپانی‘امریکن‘روسی‘فرانسیسی‘جرمن‘ترک‘عرب‘مصری‘ایرانی‘افعانی‘ہندوستانی اور دوسری چھوٹی بڑی قوموں کے تعلیم یافتہ اور سمجھدار طبقہ کے لوگ وہاں جمع ہوں گے اور چھ ماہ تک ایسا ہی جھمگٹا وہاں رہے گا۔
اس اجتماع سے فائدہ اٹھا کر انگلستان کے مذہبی مذاق کے لوگوں نے تجویز کی ہے کہ ستمبر کے آخر اور اکتوبر کے شروع میں وہاں ایک مذہبی جلسہ کیا جائے۔ جس میں ہر مذہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کی حقیقت کو کھول کر بیان کریں اور ساری دنیا کو ان کے اصل عقیدہ اور غرض کا علم ہو جائے۔
اس انجمن نے اپنے جلسہ میں تقریر پڑھنے کی مجھے بھی دعوت دی ہے اور درخواست کی ہے کہ میں خود وہاں جا کر اپنے سلسلہ کے متعلق ان کو علم اور واقفیت بہم پہنچائوں۔ ایسے عظیم الشان موقع سے تبلیغ کا فائدہ اٹھانا تو ہمارا فرض ہے کیونکہ ایسا موقعہ کہ اس کثرت سے ساری دنیا کے ملکوں کے اعلیٰ طبقوں کے لوگ جمع ہوں اور گویا ساری دنیا ایک ہی وقت میں اکٹھی ہو جائے۔ روز بروز نہیں ملتا اس نمائش کی نسبت خیال کیا جاتا ہے کہ سو سال تک ایسی بڑی نمائش پھر انگریزوں کے لئے کرنی مشکل ہو گی۔ اس وقت گویا انگلستان میں بیٹھ کر ہم ساری دنیا کو خدا کا پیغام پہنچا سکتے ہیں اور کروڑوں آدمیوں کو سلسلہ کی حقیقت سے واقف کر سکتے ہیں اور دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں رہ سکتا جو اس ذریعہ سے سلسلہ سے واقف نہ ہو جائے مگر سوال یہ ہے کہ یہ کام کیا کس طرح جائے؟ میں نے اس مذہبی کانفرنس کی دعوت پر قادیان کے احباب کو جمع کرکے مشورہ لیا تھا۔ سولہ احباب میں سے گیارہ کا مشورہ یہ تھا کہ اس موقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے اور آپ کو خود جانا چاہئے۔
اور مہینہ ڈیڑھ مہینہ رہ کر نہ صرف مذہبی کانفرنس میں شامل ہوں بلکہ اس سے پہلے اور بعد انگلستان اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو ملاقات کا موقعہ دے کر سلسلہ کی طرف ان کی توجہ کو کھینچیں۔ ان لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ہر مذہب اور ہر علم کے جاننے والے لوگ وہاں جمع ہوں گا اس لئے اس موقعہ پر صرف میرے ہی جانے سے ان لوگوں کو فائدہ ہو سکتا ہے اور دوسروں کے جانے سے ان کی توجہ نہ اس طرف منعطف ہو گی نہ دوسروں کی باتوں سے ان کو ایسی تسلی ہو گی یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ساری دنیا کو خبردار کر دینے سے تمام دنیا کی حق کی طالب روحیں سلسلہ کی تحقیق میں لگ جائیں گی اور شاید بعض ملک آپ ہی اپنے ملک میں مشن قائم کرنے کی درخواست کریں۔
دوسری دلیل ان کی یہ ہے کہ اس وقت جب کہ ہم مغربی ممالک میں مشن قائم کر رہے ہیں سلسلہ کے امام کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان ممالک کو دیکھ کر اپنی آنکھوں سے وہاں کے حالات کا مطالعہ کرے تا تبلیغ کے لئے ایسی سکیم تیار ہو سکے جو مکمل ہو اور مرکز اور مبلغین کا تعلق زیادہ مضبوط ہو جائے۔
تیسری دلیل یہ لوگ یہ دیتے ہیں کہ امام جماعت کے ساتھ جو ایک جماعت کارکنوں کی جائے گی وہ دوسرے ممالک کے لوگوں کے ساتھ مل کر اور واقفیت حاصل کرکے زیادہ عمدگی سے کام کر سکے گی۔ اور اس کا نقطہ نگاہ وسیع ہو کر اسے معلوم ہو جائے گا کہ باہر جانے والے مبلغین کے لئے کیا وقتیں ہیں اور دنیا کیا کر رہی ہے اس کے مقابلہ کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے۔
دوسرا فریق جو مخالف ہے اس کے دلائل یہ ہیں کہ اس وقت تک ان ممالک میں سلسلہ کی عظمت پوری طرح قائم نہیں اس کے خلیفہ کا ایسے وقت میں جانا سلسلہ کی شان کے خلاف ہے۔ دوسرے یہ کہ مرکز سے خلیفہ وقت کا باہر جانا گو عارضی ہو مگر موجب فتنہ ہو سکتا ہے۔ تیسرے یہ کہ جو غرض خلیفہ کے جانے سے ہے وہ دوسری طرح پوری ہو سکتی ہے۔ چند عالم بھیج دیئے جاویں جو وہاںجا کر تبلیغ کریں۔ جب وہ ممالک تیار ہو جائیں تو پھر خلیفہ وقت کا باہر جانا بھی درست ہو سکتا ہے جو لوگ میرے جانے کا مشورہ دیتے ہیں وہ یہ ہیں۔ مفتی محمد صادق صاحب‘چوہدری فتح محمد صاحب‘عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب‘ذوالفقار علی خان صاحب‘سید ولی اللہ شاہ صاحب‘مولوی رحیم بخش صاحب‘میر قاسم علی صاحب‘قاضی ظہور الدین صاحب‘ماسٹر عبدالمغنی صاحب‘حافظ روشن علی صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری۔
جو لوگ میرے جانے کے خلاف مشورہ دیتے ہیں وہ یہ ہیں۔
مولوی شیر علی صاحب‘مولوی سید سرور شاہ صاحب‘ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب‘میر محمد اسحاق صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب۔ گویا گیارہ رائیں تو میرے جانے کی تائید میں تھیں اور پانچ اس امر کے حق میں تھیں کہ میرا جانا ٹھیک نہیں کوئی اور آدمی بھیجے جاویں۔
اس مشورہ کے بعد میری رائے اس طرف مائل تھی کہ میرے جانے کے بعد ان ملکوں کے مشنوں کو اور زیادہ مضبوط کرنا پڑے گا کیونکہ تحریک کرکے خاموش ہو جانا ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے زیادہ نقصان ہو گا اور اگر مضبوط کیا جاوے تو روپیہ زیادہ خرچ کرنا پڑے گا۔ پھر اگر میں گیا تو چونکہ ساتھ زیادہ آدمی ہوں گے اس لئے روپیہ زیادہ خرچ ہو گا اور جماعت پر بوجھ پہلے ہی زیادہ ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب اور حافظ روشن علی صاحب کو بھیج دیا جاوے۔
دو تین (روز) (متن میں یہ لفظ سہواً رہ گیا ہے۔ ناقل) کے بعد عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب نے اپنے جانے کے متعلق کچھ عذر پیش کیا اور ادھر ولایت سے دوبارہ تار آئی کہ مذہبی کانفرنس چاہتی ہے کہ میں خود شامل ہوں۔ اس پر دوبارہ مشورہ لیا گیا تو میر محمد اسحق صاحب نے بھی جانے والوں کی تائید میں رائے دی لیکن میں نے بعد مشورہ یہ مناسب سمجھا کہ چونکہ خلیفہ وقت کا ملک سے باہر جانا گو ساڑھے تین ماہ کے لئے ہو۔ ایک ایسا اہم امر ہے کہ اس کا سب جماعت پر اثر پڑتا ہے۔ اس لئے سب جماعت کو مشورہ میں شامل کیا جاوے اور اس رائے کے ماتحت میں چاہتا ہوں کہ آپ کی انجمن اس معاملہ کے متعلق مشورہ دے کہ آیا اس کے نزدیک کونسا پہلو اختیار کیا جاوے۔ میرا خود جانا زیادہ مناسب ہو گا یا بعض دوسرے دوستوں کو بھیجنا۔ مشورہ کے وقت یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس امر سے میں متفق ہوں کہ اگر مغربی ممالک میں تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھنا ہے تو ضروری ہے کہ امام جماعت کسی وقت اپنی آنکھوں سے ان ممالک کی حالت کو دیکھے تاکہ صحیح تجویز تبلیغ کے متعلق کر سکے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ موقع ٹھیک ہے یا ابھی انتظار کرنا چاہئے؟ خرچ کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اگر آپ لوگ اس امر کو پسند کریں کہ مجھے جانا چاہئے تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ گو میں اس وقت سخت مقروض ہوں مگر خزانہ پر اپنا بوجھ نہیں ڈالوں گا۔ بلکہ اپنا خرچ خود کروں گا گو کہ قرض ہی لینا پڑے مگر جو لوگ دوسرے ساتھ ہوں گے یعنی انگریزی لیکچرار اور علماء اور رپورٹر۔ ان کا خرچ اور تبلیغ کا خرچ بتیس ہزار کے قریب ہو گا۔ اس میں سے پندرہ سولہ ہزار تو وہ ہے جو خالص تبلیغ پر ہو گا اور پندرہ سولہ ہزار وہ ہے جو ان لوگوں کے آمدورفت کے کرایہ اور مکان اور خوارک وغیرہ پر خرچ ہو گا۔ جو لوگ یہ رائے دیتے ہیں کہ اس وقت مجھے ضرور جانا چاہئے اس کی یہ رائے ہے کہ اس رقم کا خاص بوجھ جماعت پر نہیں پڑے گا۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ مسجد برلن کے لئے جو زمین لی تھی اور جسے عمارت کھڑے کرتے ہوئے پیشتر اس کے کہ مسجد بنتی اس لئے روکنا پڑا تھا کہ جرمن کی مالی حالت بدل جانے کے سبب اس پر چھ سات لاکھ روپیہ خرچ آتا ہے۔ (جس کا ذکر میں سالانہ جلسہ کے موقع پر کر چکا ہوں) اس جگہ کو مجلس شوریٰ کے مشورہ کے بعد فروخت کیا گیا ہے اور اس پر چالیس ہزار روپیہ نفع آیا ہے۔ یعنی ہمارے خرچ سے اتنی رقم زیادہ مل گئی ہے اس روپیہ سے جو نفع کے طور پر آیا ہے۔ روپیہ قرض لے لیا جائے کیونکہ یہ روپیہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور انعام ملا ہے اور پھر تین چار سال میں آہستہ آہستہ کرکے جماعت اس رقم کو واپس کر دے اس طرح فوری بوجھ کوئی نہیں پڑے گی۔ باقی لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس رقم کو ہمیں بالکل نہیں چھیڑنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر ضرورت ہو تو اسی وقت سفر کرنا چاہئے کہ جب پہلے روپیہ جمع ہو۔
اب ان تمام امور کو مدنظر رکھ کر آپ لوگ مجھے مشورہ دیں کہ میں کون سا طریق اختیار کروں۔ اگر آپ مجھے جانے کا مشورہ دیں تو جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ میں اسلام کی ترقی کی خاطر روپیہ قرض لے کر بھی جانے کی کوشش کروں گا۔
اور اپنی ذات کا بوجھ سلسلہ پر نہیں ڈالوں گا۔ لیکن اگر آپ کے نزدیک میرا جانا مناسب نہ ہو تو اور دوسرا وفد بھیجنے کی صورت کی جائے گی۔ جس میں چونکہ آدمی کم ہوں گے۔ اس پر خرچ کم ہو گا۔ گو دس گیارہ ہزار پھر بھی خرچ ہو جائے گا۔ چونکہ فیصلہ فوراً ضروری ہے اس لئے جو جماعتیں دور ہیں ان کو چاہئے کہ اپنی رائے سے بذریعہ تار کے اطلاع دیں۔ کل وقت سفر کا ساڑھے تین ماہ ہو گا۔ ۲۵/ مئی تک جواب پہنچ جانا چاہئے۔
خاکسار
مرزا محمود احمد قادیان ۱۴/ مئی ۱۹۲۴ء
نوٹ: مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال اس خط کا مضمون اپنی جماعت کے دوستوں تک ہی محدود رہے۔ خاکسار رحیم بخش ایم۔ اے۔ افسر ڈاک
نوے فیصدی جماعتوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ حضور ہی بنفس نفیس تشریف لے جائیں ۷۔ پھر حضور نے بھی اور چالیس کے قریب دوستوں نے استخارے بھی کئے جن سے اسی مشیت الٰہی کا علم ہوا کہ خود آپ ہی کو تشریف لے جانا چاہئے۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کی طرف مزید توجہ فرمائی تو آپ پر یہ حقیقت بالکل منکشف ہو گئی کہ قرآن مجید میں ذوالقرنین۹ (مسیح موعود) یا اس کے نائب کے سفر یورپ کی اور حدیث شریف میں سفر دمشق۱۰ کی واضح پیشگوئیاں موجود ہیں۔ ذوالقرنین کے سفر سے متعلق واقعہ پر مزید غور کرتے ہوئے حضور نے معلوم کیا کہ یہ سفر (بنیادی اغراض کے اعتبار سے) تبلیغ کے لئے نہیں بلکہ مغربی ممالک میں اسلامی انقلاب کی تبلیغی سکیم تیار کرنے کے لئے کیا جائے گا۱۱۔ اسی سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ رویاء بھی آپ کے سامنے آیا کہ ’’میں نے دیکھا کہ میں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں۔ بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے رنگ سفید تھے ۔۔۔۔۔۔۱۲
اس کے علاوہ خود حضور کو ایک عرصہ قبل رئویا میں سفر یورپ کا نظارہ دکھایا جا چکا تھا۔ چنانچہ ایک رویاء میں آپ نے دیکھا۔ آپ لنڈن میں ہیں اور ایک جلسہ میں آپ شامل ہیں۔ مسٹر لائڈ جارج (سابق برطانوی وزیراعظم) اس جلسہ میں تقریر کر رہے ہیں کہ یکدم ان کی حالت بدل گئی اور انہوں نے دہشت زدہ ہو کر کہا کہ مجھے ابھی خبر آئی ہے کہ ’’مرزا محمود امام جماعت احمدیہ کی فوجیں عیسائی لشکر کو دباتی چلی آتی ہیں اور مسیحی لشکر شکست کھا رہا ہے‘‘۱۳۔
دوسری رئویا میں (جو کانفرنس کی تحریک سے دو تین ماہ پہلے کی تھی) آپ نے دیکھا کہ ’’میں انگلستان کے ساحل سمندر پر کھڑا ہوں جس طرح کہ کوئی شخص تازہ وارد ہوتا ہے اور میرا لباس جنگی ہے میں ایک جرنیل کی حیثیت میں ہوں ۔۔۔۔۔ اس وقت میں یہ خیال کرتا ہوں کہ کوئی جنگ ہوئی ہے اور اس میں مجھے فتح ہوئی ہے اور میں اس کے بعد میدان کو ایک مدبر جرنیل کی طرح اس نظر سے دیکھ رہا ہوں کہ اب مجھے اس فتح سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کس طرح حاصل کرنا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں ایک آواز آئی]9 [p Conqueror( the )William ولیم دی کنکرر یعنی ولیم (اولوالعزم) فاتح۱۴
ان امور پر غور و فکر اور مسلسل دعائوں اور استخاروں کے بعد حضور نے ویمبلے کانفرنس کی دعوت ایک الٰہی تحریک سمجھی اور باوجودیکہ اتنے لمبے سفر پر جانے کے رستہ میں آپ کے لئے ذاتی طور پر بہت سے مشکلات حائل تھیں۱۵ اور اس بوجھ کا اٹھانا آپ کے لئے بہت مشکل تھا۔ حضور نے اپنے فرائض دینی کو مقدم رکھتے ہوئے پورے انشراح صدر سے سفر یورپ پر جانے کا فیصلہ فرما لیا۔ اور روانگی کی تاریخ ۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء معین کر دی۔
چنانچہ حضور نے ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء کو اپنے فیصلہ کی اطلاع دیتے ہوئے اعلان فرمایا کہ ’’ہماری جماعت کا کام ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کرنا ہے اور چونکہ ساری دنیا کو اسلام کے حلقہ میں لانا ہمارا فرض ہے اس لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے متعلق ہم ایک مکمل نظام تجویز کریں ۔۔۔۔۔۔ اس نظام کے مقرر کرنے کے لئے ضروری ہے خلیفہ مغربی ممالک کی حالت کو وہاں جا کر دیکھے ۔۔۔۔۔۔۔ پس مغربی ممالک میں تبلیغ کے کام کو اگر ہم نے جاری رکھنا ہے اور اگر اس پر جو روپیہ خرچ ہوتا ہے اس کی خدا تعالیٰ کو جوابدہی سے عہدہ برآ ہونا ہے تو ضروری ہے کہ خود خلیفہ وقت ان علاقوں میں جا کر ان کی مشکلات کو دیکھے۔ اور وہاں کے ہر طبقہ کے لوگوں سے مشورہ کرکے ایک سکیم تجویز کرے ۔۔۔۔۔۔۔ پس ان ضروریات کو مدنظر رکھ کر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ مذہبی کانفرنس کی تحریک کو ایک خدا کی تحریک سمجھ کر اس وقت باوجود مشکلات کے اس سفر کو اختیار کروں۔ مذہبی کانفرنس میں شمولیت کی غرض سے نہیں بلکہ مغربی ممالک کی تبلیغ کے لئے ایک مستقل سکیم تجویز کرنے اور وہاں کے تفصیلی حالات سے واقف ہونے کے لئے کیونکہ وہ ممالک ہی اسلام کے راستہ میں ایک دیوار ہیں جس دیوار کا توڑنا ہمارا مقدم فرض ہے‘‘۱۶۔
کانفرنس کے لئے کتاب ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کی تصنیف
سفر یورپ کے فیصلہ کا اعلان تو ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء میں ہوا۔ مگر معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر حضور نے ٹھیک ایک ماہ قبل ۲۴/ مئی۱۷ ۱۹۲۴ء کو کانفرنس کے لئے ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھنا شروع فرما دیا۔
حضور کو سخت گرمی اور تپش میں صبح سے لے کر آدھی رات تک مصروف رہنا پڑتا تھا۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں۔ ’’مضمون کے لکھنے کے دنوں میں مجھے بسا اوقات رات کے بارہ بارہ بجے تک اور بعض دفعہ تو دو دو بجے تک بیٹھنا پڑتا تھا۔ اس شدید گرمی کے موسم میں جبکہ دن کو کام بھی مشکل ہوتا ہے رات کے وقت لیمپ کی روشنی میں بارہ بارہ بجے تک کام کرنا سخت مشکل کام ہے اور میرے جیسے کمزور صحت کے آدمی کے لئے تو ناممکن معلوم ہوتاہے‘‘۱۸۔
اس کے دوران میں دو روز آپ بیمار ہو گئے مگر بالاخر شبانہ روز محنت و جدوجہد کے بعد محض روح القدس کی تائید سے ۶/ جون ۱۹۲۴ء تک مضمون ختم ہو گیا۱۹۔ اس کے بعد مضمون پر نظر ثانی اور پھر انگریزی ترجمہ کے مقابلہ اور اصلاح کا کٹھن مرحلہ شروع ہوا۔ چونکہ مضمون کے لکھنے کے دنوں میں آپ نے ملاقاتوں اور ڈاک کا کام مجبوراً کم کر دیا تھا۔ اس لئے اب وہ کام بھی جمع ہو گیا اس لئے آدھا دن ڈاک اور ملاقات وغیرہ میں صرف ہوتا اور آدھا مضمون کے لئے۔ یہ دن حضور کے لئے پہلے سے بھی زیادہ مصروفیت کے تھے۔ چنانچہ حضور خود فرماتے ہیں ’’مجھے ان دنوں میں بالکل معلوم نہ ہوتا تھا کہ دن کب ہوتا ہے اور رات کب کیونکہ میرے لئے یہ دونوں چیزیں برابر تھیں‘‘۲۰۔
نظر ثانی اور ترجمہ اور اس کی اصلاح کا کام حضور نے مکرم و محترم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب‘حضرت مولوی شیر علی صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے کے سپرد فرما رکھا تھا۲۱ اور انگریزی مسودہ کے ٹائپ کرانے اور مقابلہ کی ذمہ داری حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد پر تھی۲۲۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ساتھ ان سب اصحاب نے دن رات ایک کرکے ۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو مضمون کا انگریزی ترجمہ مکمل کر دیا۲۳ اور ۳/ جولائی ۱۹۲۴ء کو اس کی ایک نقل مذاہب کانفرنس کے منتظموں کو بھجوا دی گئی۲۴۔
اسی اثناء میں حضور نے یہ دیکھ کر کہ لکھا ہوا مضمون بہت لمبا ہو گیا ہے جسے کانفرنس میں پڑھا نہیں جا سکے گا۔ یہ فیصلہ فرمایا کہ ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کے مطالب کا خلاصہ کرکے ایک نیا مضمون لکھنا چاہئے چنانچہ حضور ۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو ’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ کے انگریزی ترجمہ کی نظر ثانی سے فارغ ہوتے ہی نئے مضمون کی تصنیف میں مشغول ہو گئے اور ۹/ جولائی ۱۹۲۴ء کو قریباً گیارہ بجے رات یہ نیا مضمون جو ’’سلسلہ احمدیہ‘‘ Movement( )Ahmadiyya کے عنوان سے تھا پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اور پھر اسی کا خلاصہ کانفرنس میں پڑھا گیا۲۵۔
’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘ گو چند دنوں میں تصنیف ہوئی۔ مگر اس میں حضور نے خدا کے فضل سے احمدیت کے نقطہ نگاہ سے اسلام کی دلکش اور جامع تصویر رکھی اور مکمل نقشہ مغربی دنیا کے سامنے کھینچ دیا اور الل¶ہ تعالیٰ سے تعلق سے متعلق اسلامی نظریہ پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے پہلے یہ بتایا کہ ’’اسلام‘‘ ہی وہ مذہب ہے جس کے ذریعہ سے علیم خدا کی معرفت حاصل ہو سکتی ہے اور وہی وہ مذہب ہے جس کے ذریعہ سے انسان خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر سکتا ہے‘‘۲۶۔ پھر حضور نے اسلام کے نظام اخلاق‘نظام تمدن اور نظام ملکی پر قلم اٹھانے کے بعد یہ عظیم الشان انکشاف فرمایا کہ قرآن مجید نے آج سے چودہ سو سال پہلے جبکہ لیگ آف نیشنز کا کوئی خیال بھی نہیں پایا جاتا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر ایک اسلامی جمعیتہ الاقوام کا خاکہ پیش کر رکھا ہے اور جب تک اس کے مطابق لیگ کی تشکیل نہیں ہو گی دنیا میں کبھی امن قائم نہیں ہو سکتا۔ حضور کی یہ پیشگوئی کس طرح آج تک حرف بحرف پوری ہو رہی ہے۲۷۔ اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
جماعت احمدیہ کے لئے نیابتی انتظام
’’احمدیت یعنی حقیقی اسلام‘‘۲۸ اور ’’سلسلہ احمدیہ‘‘ کا انگریزی ترجمہ مکمل ہوتے ہی حضور نے فوری طور پر جس اہم امر کی طرف توجہ فرمائی۔ وہ قادیان میں نیابتی انتظام کا قیام تھا۔ چنانچہ حضور نے اپنے بعد حضرت مولوی شیر علی صاحب کو امیر اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے کو ان کا نائب مقرر فرمایا۔ ان کے علاوہ ایک مجلس شوریٰ مقرر فرمائی جس کے چودہ ممبر یہ قرار دیئے۔ حضرت حجتہ اللہ نواب محمد علی خان صاحب۔ حضرت میر محمد اسحق صاحب۔ حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب۔ حضرت مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب۔ حضرت قاضی امیر حسین صاحب۔ حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب۔ حضرت ماسٹر عبدالمغنی خان صاحب۔ حضرت قاضی محمد عبدالل¶ہ صاحب۔ حضرت مولوی فضل الدین صاحب وکیل۔ حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل۔ حضرت میر قاسم علی صاحب۔ حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل۔ شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر ’’نور‘‘۔ خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر ’’الفضل‘‘۲۹۔
حضور نے ان تمام اصحاب کے تقرر پر ۱۱/ جولائی ۱۹۲۴ء کو ایک خطبہ بھی دیا۔ جس میں ہر ایک کا نام لے کر ان کی مخلصانہ خدمات کا نہایت تعریفی کلمات میں ذکر کرکے بتایا کہ موجودہ حالات میں یہ لوگ میرے نزدیک بہترین مشیر ہیں۳۰body] [tag۔
علمی کام جاری رکھنے کے لئے حضور نے ہدایت جاری فرمائی کہ مکرم مولوی شیر علی صاحب درس قرآن اور مولوی سید سرور شاہ صاحب درس بخاری دیں اور یہ دونوں درس مسجد اقصیٰ میں باری باری ہوں۔
حضرت مولوی شیر علی صاحب ناظر اعلیٰ کی حیثیت میں کام کر رہے تھے۔ اب جدید انتظام کے بعد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کو (حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب کی حج سے واپسی تک) ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا گیا۔
حضور نے ڈاک کا یہ انتظام فرمایا کہ آپ کے نام خطوط قادیان کے پتہ پر لکھے جائیں اور مرکز سے ہفتہ کی ڈاک کا اکٹھا پارسل بنا کر حضور کے نام بھیج دیا جائے۳۱۔
سفر یورپ کے لئے تیاری
جتنی جلدی اس عظیم الشان سفر کی تیاری ہوئی شائد اس کی مثال پہلے دنیا میں نہ ملتی ہو چھ ہزار میل کا سفر اور صدیوں کی تبلیغ کے لئے سکیم بنانے کی تجویز اور حالت یہ کہ سفر کے شروع ہونے تک حضور کو کسی امر کے سوچنے کے لئے یکسوئی کے لمحات میسر نہیں آسکے۔ ۹۔ ۱۰/ جولائی ۱۹۲۴ء کی رات کے گیارہ بجے کانفرنس والا مضمون ہی بمشکل ختم ہوا۔ اور ۱۲/ جولائی حضور کی روانگی کی تاریخ تھی۔ اس لحاظ سے ۱۰ اور ۱۱/ جولائی کے صرف دو دن فراغت کے مل سکے۔ جن میں حضور نے اپنے بعد قادیان میں انتظام کا فیصلہ کیا۔ لائبریری میں سے ضروری کتابیں نکلوائیں اور دوسرے لوگوں کی مستعار کتابیں واپس کیں۳۲۔
۱۱/ جولائی ۱۹۲۴ء کا مصروف ترین دن
۱۱/ جولائی ۱۹۲۴ء کے دن حضور کی مصروفیت انتہاء تک پہنچ گئی۔ حضور صبح کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر دعا کے لئے تشریف لے گئے۔ حضور نے مزار کے مشرقی دروازہ میں کھڑے ہو کر دیر تک دعا فرمائی پھر جنوب کی طرف موضع ننگل میں سے ہوتے ہوئے موضع کاہلواں کے پاس سڑک تک گئے اور دوسرے رستہ پر لوٹ کر دوبارہ مقبرہ بہشتی میں پہنچے اور مزار اقدس پر دوبارہ دعا فرمائی اس وقت بھی حضور کی مصروفیت کا یہ عالم تھا کہ چلتے چلتے ایک مجاہد کو جو حضور کے ساتھ ہی دور دراز ملک کے لئے روزانہ ہو رہے تھے نہایت اہم اور ضروری امور کے متعلق نوٹ اور ہدایات لکھواتے رہے۔
مقبرہ بہشتی سے واپسی کے بعد حضور گھر تشریف لے گئے اور پھر جمعہ پڑھایا جس میں مقامی انتظام کی تفصیل بیان فرمائی۔ نماز جمعہ کے بعد دیر تک بیرونی احباب سے مصافحہ فرماتے رہے۔
عصر کی نماز حضور نے مسجد مبارک میں پڑھائی اور پھر مسجد اقصیٰ میں تشریف لے گئے جہاں ایک بہت بڑے مجمع میں حضور کا ان اصحاب کے ساتھ جو حضور کے ہمراہ تشریف لے جا رہے تھے۔ (اور جو سبز پگڑیاں بند گلے کے سیاہ کوٹ اور پاجامہ میں ملبوس تھے۳۳) فوٹو لیا گیا۔ ان اصحاب میں حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب۔ مولوی ظہور حسین صاحب اور مولوی محمد امین صاحب بھی کھڑے کئے گئے جو ایران اور بخارا میں تبلیغ کے لئے روانہ ہونے والے تھے۔ حضور انور کے سر پر سفید پگڑی تھی اور آپ کرسی پر رونق افروز تھے۔ حضور نے اپنی معمولی لباس ململ کی سفید پگڑی کھلے گلے کا لمبا کوٹ اور سفید لٹھے کی شلوار میں کوئی تبدیلی نہیں فرمائی۔
اس موقعہ پر حضور نے دو نکاحوں کا بھی اعلان فرمایا ور دعا کے بعد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی ایک الوداعی نظم۳۴ ملک عبدالعزیز صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ نے ایسے رقت انگیز لہجہ میں پڑھی کہ حضور آبدیدہ ہو گئے اور اخیر تک اپنا چہرہ مبارک رومال سے ڈھانپے رہے]4 [stf۳۵۔ اس تقریب کے بعد حضور رات کے ایک بجے تک اپنے بعد کام چلانے کے متعلق ہدایات دیتے رہے۳۶۔
روانگی سے قبل مزار مسیح موعودؑ پر آخری دعا
۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو روانگی کا دن تھا اس دن حضور صبح صبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار مبارک پر آخری بار دعا کرنے کے لئے تشریف لے گئے اس دعا کے وقت حضور کے قلبی جذبات کیا تھے؟ حضور خود ہی اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں۔
’’صبح ۔۔۔۔۔۔ اس آخری خوشی کو پورا کرنے کے لئے چلا گیا جو اس سفر سے پہلے میں قادیان میں حاصل کرنی چاہتا تھا۔ یعنی آقائی و سیدی و راحتی و سروری و حبیبی و مراوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے مزار مبارک پر دعا کرنے کے لئے ۔۔۔۔۔۔۔ مگر آہ وہ زیارت میرے لئے کیسی افسردہ کن تھی ۔۔۔۔۔۔۔ یہ جدائی میرے لئے ایک تلخ پیالہ تھا اور ایسا تلخ کہ اس کی تلخی کو میرے سوا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ میری زندگی کی بہت بڑی خواہشات میں سے ہاں ان خواہشات میں سے جن کا خیال کرکے بھی میرے دل میں سرور پیدا ہو جاتا تھا۔ ایک یہ خواہش تھی کہ جب میں مر جائوں (اللھم متعنا بطول حیاتہ و اطلع شموس طالعہ۔ مولف) تو میرے بھائی جن کی محبت میں میں نے عمر بسر کی ہے اور جن کی خدمت میرا واحد شغل رہا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے عین قدموں کے نیچے میرے جسم کو دفن کردیں تاکہ اس مبارک وجود کے قرب کی برکت سے میرا مولیٰ مجھ پر بھی رحم فرما دے۔ ہاں شاید اس قرب کی وجہ سے وہ عقیدت کیش احمدی جو جذبہ محبت سے لبریز دل لے کر اس مزار پر حاضر ہو میری قبر بھی اس کو زبان حال سے یہ کہے کہ ع
’’اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی‘‘
اور وہ کوئی کلمہ خیر میرے حق میں بھی کہہ دے۔ جس سے میرے رب کا فضل جوش میں آکر میری کوتاہیوں پر سے چشم پوشی کرے اور مجھے بھی اپنے دامن رحمت میں چھپا لے۔ آہ! اس کی غنا میرے دل کو کھائے جاتی ہے اور اس کی شان احدیت میرے جسم کے ہر ذرہ پر لرزہ طاری کر دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پس میری جدائی حسرت کی جدائی تھی کیونکہ میں دیکھ رہا تھا کہ میری صحت جو پہلے ہی کمزور تھی پچھلے دنوں کے کام کی وجہ سے بالکل ٹوٹ گئی ہے۔ میرے اندر اب وہ طاقت نہیں جو بیماریوں کا مقابلہ کر سکے۔ وہ ہمت نہیں جو مرض کی تکلیف سے مستغنی کر دے ادھر ایک تکلیف دہ سفر درپیش تھا۔ جو سفر بھی کام ہی کام کا پیش خیمہ تھا اور ان تمام باتوں کو دیکھ کر دل ڈرتا تھا اور کہتا تھا کہ شاید کہ یہ زیارت آخری ہو۔ شاید وہ امید حسرت میں تبدیل ہونے والی ہو۔ سمندر پار کے مردوں کو کون لا سکتا ہے ان کی قبر یا سمندر کی تہ اور مچھلیوں کا پیٹ ہے یا دیار بعیدہ کی زمین جہاں مزار محبوب پر سے ہو کر آنے والی ہوا بھی تو نہیں پہنچ سکتی‘‘۳۷۔
قادیان سے روانگی کا نظارہ
‏]txet [tagاس روز (۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو) صبح کی نماز کے بعد سی ہی لوگ مسجد مبارک کے قریب جمع ہونے شروع ہو گئے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف سے خدام کا بھاری ہجوم ہو گیا۔ ۸ بجے کے قریب حضور نے بیت الدعا میں لمبی دعا کرائی پھر باہر تشریف لائے۔ اصحاب مصافحہ کے لئے بے تابی کے ساتھ آگے بڑھے لیکن حکم ہوا کہ مصافحے سڑ کے موڑ پر ہوں گے۔
اگرچہ منتظمین نے انتظام کیا تھا کہ حضور کو حلقہ کے اندر لے کر ہجوم کو پیچھے پیچھے رکھا جائے لیکن ہجوم کا ریلہ سنبھالے نہ سنبھلتا تھا۔ کئی لوگ ایک دوسرے پر گرتے مگر کسی قسم کے ملال کے بغیر فوراً اٹھ کر آگے بڑھنیے کی جدوجہد میں مصروف ہو جاتے۔ منتظموں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ ہجوم کے گردوغبار سے حضور کو تکلیف ہو گی۔ سب لوگوں کو قریب آنے سے روکنے کی کوشش کی مگر حضور نے حکم دیا کہ کسی کو روکا نہ جائے اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ میں بھی آہستہ آہستہ چلتا ہوں آپ لوگ بھی آہستہ چلیں تا زیادہ گرد نہ اڑے۔
موڑ کے قریب پہنچ کر حضور نے سارے خدام سمیت پھر لمبی دعا فرمائی۔ دعا کے بعد حضور مردوں کے ہجوم سے باہر تشریف لے گئے اور حضرت ام المومنین نے دیر تک حضور کو گلے لگا کر دعائوں سے رخصت فرمایا۳۸۔
حضرت ام المومنین سے الوداع ہونے کے بعد حضور نے خدام کو جو موڑ پر دو رویہ قطار میں کھڑے تھے شرف مصافحہ بخشا۔ سب اصحاب سے مصافحہ کر لینے کے بعد حضور اور حضور کے ہمراہ جانے والے اصحاب موٹروں میں سوار ہوئے اور یہ مقدس قافلہ آسمانی ’’ولیم دی کنکرر‘‘ کی قیادت میں اللہ اکبر کے نعروں کے درمیان روانہ ہو گیا۳۹۔
اس سفر میں حسب ذیل اصحاب ہمرکاب تھے۴۰۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب۴۱۔ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال۴۲۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد۴۳۔ حضرت خان صاحب ذوالفقار علی صاحب۴۴۔ حضرت حافظ روشن علی صاحب۴۵۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی۴۶۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب۴۷۔ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی۴۸۔ شیخ عبدالرحمن صاحب مصری۴۹۔ چوہدری علی محمد صاحب۵۰۔ میاں رحم دین صاحب۵۱۔
ان کے علاوہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب جو حضور کے ترجمان خصوصی کی حیثیت سے جا رہے تھے پہلے ہی انگلستان روانہ ہو چکے تھے۔ اسی طرح چوہدری محمد شریف صاحب وکیل بھی اپنے خرچ پر حضور کے ہمراہ گئے۔
بٹالہ سے دہلی تک
حضور مع خدام قادیان سے روانہ ہو کر بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچے۔ جہاں آپ کی انتظار میں خلقت کا بے پناہ اژدھام تھا۔ بٹالہ سے چل کر دہلی تک مختلف مقامات کی جماعتوں نے شرف ملاقات حاصل کیا اور دعائوں کے ساتھ اپنے محبوب آقا کو الوداع کہا۔ امرتسر‘بیاس‘جالندھر چھائونی‘پھگواڑہ اور دہلی میں آپ کے اور آپ کے رفقاء سفر کے فوٹو لئے گئے۔ لدھیانہ سے آگے جا کر حضور نے قادیان کی یاد میں وہ مشہور نظم کہی۵۲`۵۳۔ جس کا پہلا شعر یہ تھا۔ ~}~
ہے رضائے ذات باری اب رضائے قادیاں
مدعائے حق تعالیٰ مدعائے قادیاں
قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی حضور کے ہمراہ تشریف فرما تھے جو سہارنپور سے واپس ہوئے۔ دہلی اسٹیشن پر دہلی‘بریلی‘شاہ جہانپور‘قائم گنج اور علی گڑھ کی جماعتوں نے حضور کا شاندار استقبال کیا۔ امرتسر میں مستری محمد موسیٰ صاحب کی طرف سے برف کا انتظام تھا۔ جو دہلی تک قائم رہا اور وہ خود بھی دہلی تک حضور کے ہم رکاب رہے۔
دہلی سے بمبئی تک
دہلی سے آگے متھرا اسٹیشن پر آگرہ کی جماعت کے علاوہ میدان ارتداد ملکانہ کے بعض مجاہدین مثلاً ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم اور ماسٹر غلام محمد صاحب بھی حاضر تھے۵۴۔ متھرا کے پلیٹ فارم پر بھی حضور کا فوٹو لیا گیا۔ مجاہدین میدان ارتداد ملکانہ نے آگرہ تک حضور کی معیت کا فخر حاصل کیا۔ متھرا اور آگرہ کے درمیان ملکانوں کے راستے میں جو گائوں پڑتے تھے حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال نے وہ حضور کو گاڑی میں دکھائے اور وہ جگہ بھی جہاں ہندو ٹھاکروں نے اشدھی کے خلاف پنچایت کی تھی۔ عین اس وقت جب حضور ملکانہ کے علاقہ سے گزر رہے تھے علاقہ ملکانہ اور دوسرے اہم معاملات کے لئے دعا فرمائی اور اپنی جیب خاص سے قربانی کے لئے ایک روپیہ دیا۔ اسی دوران میں گاڑی آگرہ پہنچ گئی۵۵۔
حضور آگرہ سے چل کر گوالیار اور جھانسی سے ہوتے ہوئے آدھی رات کے وقت بھوپال پہنچے جہاں حضرت حکیم عبیداللہ صاحب بسمل اور بعض دوسرے دوست موجود تھے۔ ۱۳/ جولائی ۱۹۲۴ء کی شام کو حضور نے اپنے رفقاء کو ارشاد فرمایا کہ وہ باہم صرف انگریزی یا عربی میں کلام کریں چنانچہ بمبئی اسٹیشن تک اس پر پورے طور پر عمل ہوتا رہا۔ ۱۴/ جولائی ۱۹۲۴ء کو عید الاضحیہ کی تقریب تھی۔ حضور نے عید منماڑ اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر پڑھائی اور مختصر سا خطبہ پڑھا۔ گاڑی اسی روز پانچ بجے شام کے بعد عیسیٰ کے وکٹوریہ اسٹیشن پر پہنچی۔ اسٹیشن پر حیدر آباد‘سکندر آباد‘سورت‘ایلچ پور‘مالا بار اور بمبئی کی جماعتیں موجود تھیں جس اخلاص و عقیدت کے ساتھ ان جماعتوں نے حضور کا خیر مقدم کیا اس کا اظہار الفاظ نہیں کر سکتے۔ مصافحہ کے بعد حضور کا فوٹو لیا گیا۔ جس کے معاًبعد حضور مولوی عبدالرحیم صاحب درد‘خان صاحب ذوالفقار علی صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو لے کر تھامس کک کے دفتر میں تشریف لے گئے پھر انجمن احمدیہ بمبئی کی میمن بلڈنگ میں آکر قیام پذیر ہوئے یہاں پہنچ کر بمبئی کے دو ایک سیٹھ آپ سے ملاقات کے لئے آئے اور حضور تبلیغ فرماتے رہے پھر ساڑھے بارہ بجے تک تحریر میں مصروف رہے۵۶۔
بمبئی سے بذریعہ جہاز روانگی اور عدن میں وردد
دوسرے دن ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء کو قریباً سات بجے حضور اپنے رفقاء سمیت بمبئی کی بندرگاہ پر تشریف لے گئے اور عرشہ جہاز۵۷ سے جماعت کے نام ایک محبت بھرا برقی پیغام دیا جس میں فرمایا۔ تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے کہ مجھے کس قدر محبت تم سے ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ جدائی صرف جسمانی ہے میری روح ہمیشہ تمہارے ساتھ تھی اور رہے گی میں زندگی میں یا موت میں تمہارا ہی ہوں‘‘۵۸۔
بندرگاہ پر جماعت کے دوست بڑی کثرت سے الوداع کہنے کے لئے حاضر تھے۔ حضور نے اس موقعہ پر ایک لمبی اور رقت انگیز اجتماعی دعا کرائی۔ یہاں تک کہ جہاز کی روانگی کا وقت گزرنے لگا مگر جہاز کے افسروں پر بھی ایسی محویت طاری تھی کہ وہ نہ دعا ختم کرنے کے لئے کہہ سکتے تھے اور نہ جہاز روانہ کر سکتے تھے۔ آخر حضور نے دعا ختم کی اور دعا کے ساتھ آسمان سے ترشح ہوا حضور نے دعائوں کے ساتھ جماعت کو رخصت کیا اور السلام علیکم اور خدا حافظ کے نعروں سے فضا گونجی۔ جہاز ایک چھوٹی دخانی کشتی کے ذریعہ حرکت دیا جا رہا تھا۔ جماعت کے دوست کنارے پر کھڑے تھے اور حضور دل میں دعا کر رہے تھے۔ پھر یکایک آپ کو جوش آیا اور پرنم آنکھوں کے ساتھ آپ نے پھر جماعت کے لئے نہایت کرب و اضطراب کے ساتھ لمبی دعا کی۔
اب جہاز حرکت میں آچکا تھا اور دوست بڑی تیزی سے نظر سے اوجھل ہورہے تھے مگر حضور کی شفقت و محبت کا ایک عجیب عالم دیکھنے میں آیا یعنی جہاز کا جو حصہ بھی دوستوں کے قریب ہوتا حضور بھی دوڑ کر اسی طرف تشریف لے جاتے کبھی اس سرے کبھی دوسرے اور کبھی وسط میں اور دوستوں کے لئے قریب جا کر پھر دعا شروع کرا دیتے اس وقت بارش ہو رہی تھی اور آپ کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے مگر اپنے خدام سے دلی الفت و محبت کی چنگاری آپ کو بے قرار کئے ہوئے تھی۔ غرضکہ حضور اسی طرح جہاز کے چاروں طرف نہایت بے تابی سے گھومتے رہے حتیٰ کہ سب دوست آنکھوں سے بالکل غائب ہو گئے۵۹
جہاز کا یہ پہلا دن تھا اسی دن سے حضور اور حضور کے رفقاء کی طبیعت سمندری مرض Sickness( )Sea سے سخت ہونے لگی۔ پھر کئی روز تک سمندر میں ایسا شدت کا تلاطم برپا رہا کہ اس نے حالت اور زیادہ تشویشناک کر دی۔ سمندر کی طوفانی حالت ایسی مخدوش تھی کہ جہاز کی رفتار بہت ہی کم کر دینی پڑی اور عملہ جہاز بھی بیمار ہو گیا۔ خود حضور پر جہازی بیماری کے اثر کے ساتھ سر درد اور بخار کا حملہ ہوا اور متلی کی شکایت بھی تھی لیکن حضور اپنی تکلیف بھولے ہوئے تھے اور اپنے خدام ہی کے فکر میں تھے۔ حضور ہر ایک کی عیادت فرماتے اور ہر طرح تسلی دیتے اور دلجوئی فرماتے تھے اور کبھی کبھی احباب کا دل بہلانے اور غم غلط کرنے کے لئے مولوی عبدالرحیم صاحب درد‘خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب سے نظمیں سنتے۔ خاص طور پر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی الوادعی نظم تو بار بار پڑھی گئی۔ اس موقعہ پر حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی‘حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال‘حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور چوہدری علی محمد صاحب نے ایثار نفس کا بہت عمدہ نمونہ دکھایا اور اپنا آرام قربان کرکے اپنے بیمار بھائیوں کو آرام پہنچایا۔ وگرنہ جہاز میں تو ہر جگہ نفسی نفسی کا معاملہ تھا۔ دوسروں کی خدمت کا جذبہ صرف انہی بزرگوں میں نظر آتا تھا۶۰۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو اس سفر میں سب سے بڑی فکر اور تشویش جس نے آپ کو دن رات متفکر کر رکھا تھا صرف یہ تھی کہ یورپ کے تمدن اور اس کی دماغی ترقی کا مقابلہ کیسے کیا جائے۔ چنانچہ اپنے رفقاء سے فرمایا۔ ’’یورپ کے متعلق مجھے اس بات کا خطرہ اور فکر نہیں ہے کہ اس کا مذہب کیونکر فتح کیا جائے گا۔ مذہب کے متعلق تو مجھے یقین ہے کہ عیسائیت اسلام کے سامنے جلد سرنگوں ہو گی مجھے اگر فکر ہے تو صرف یہ ہے کہ یورپ کا تمدن اور یورپ کی ترقی اور دماغی ترقی کا کیونکر مقابلہ کیا جائے یہی دو باتیں ایسی ہیں جن پر غور و فکر کرتے ہوئے میں راتیں گزار دیتا ہوں اور گھنٹوں اسی سوچ میں پڑا رہتا ہوں‘‘۔ پھر فرمایا۔ ’’انگریزی لباس سے مجھے سخت چڑ ہے اگر ہمارے بچوں میں سے کوئی پتلون اور ہیٹ کا استعمال کرے تو اس کو سزا دینی چاہئے۔ جس قوم کے پاس لباس بھی اپنا نہیں اور دوسرے کے لباس کو اپنے لباس سے اچھا سمجھ کر اسے اختیار کر لینا چاہتی ہے۔ اس قوم نے اس کا مقابلہ کیا کرنا ہے۔ آنحضرت~صل۱~ نے عربوں کی آنکھ کھلتے ہی اصل کو معلوم کر لیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے آپ نے ارشاد فرمایا۔ خالفوا الیھود و النصاری۔ الخ نیز من تشبہ بقوم فھو منھم‘‘ اور حقیقت یہی ہے کہ جو کسی قوم کے لباس کو اور تمدن کو قبول کر لیتا ہے وہ دل سے ان ہی میں سے ہوتا ہے کیونکہ دل اس کا ان کی عظمت اور بڑائی کا قائل ہو چکا ہوتا ہے‘‘۶۱۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے طوفانی کیفیت میں بھی عموماً نماز باجماعت کا التزام رکھا اور اپنے رفقاء سفر اور جماعت کے لئے بہت دعائیں کیں۔ آخر پانچویں روز (۱۹/ جولائی) سے طوفان کی حالت بدلنے لگی اور چھٹے روز (۲۰/ جولائی) کو بہت حد تک طوفان تھم گیا۶۲۔
حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کی روایت ہے کہ ’’اس روز حضور نے جب نماز عصر جملہ احباب سمیت جہاز کے فرسٹ اور سیکنڈ کلاس کے صحن میں ادا کی اور بعد نماز حضور مصلے پر تشریف فرما ہوئے اور تمام رفقائے سفر حضور کی خدمت میں حاضر تھے تو جہاز کے ڈاکٹر نے (جس کا نام مینگلی تھا اور اٹلی کا باشاندہ تھا) حضور کی طرف اشارہ کرکے آہستہ سے کہنے لگا۔ and Christ Jesus Disciples’’ twelve یعنی یسوع مسیح اور بارہ حواری۔ یہ سن کر میری حیرت کی کچھ حد نہ رہی کہ خدا تعالیٰ کیسا قادر ہے کہ پوپ کی بستی کا رہنے والا ایک نہایت سچی اور عارفانہ بات کہہ رہا ہے‘‘۔
ساتویں روز ۲۱/ جولائی ۱۹۲۴ء کو حضور اپنے خدام میں قریباً ڈیڑھ بجے رات تک رونق افروز رہے۔ ناگپور کا ایک ہندو نوجوان مسٹر جوشی بی ایس سی جو مکینکل انجینرنگ کی تعلیم کے لئے جرمنی جا رہا تھا حضور کی خدمت میں حاضر تھا۔ حضور نے حقیقی مذہب کی شناخت اور زندہ خدا پر ایمان کے صحیح طریق پر بہت لطیف تقریر فرمائی جس سے مسٹر جوشی بہت متاثر ہوا اور کہا کہ حقیقت میں آج مجھے نیا علم ملا ہے۶۳۔
آٹھویں دن (۲۲/ جولائی) جہاز عدن کے اور قریب آیا تو حضور نے آدھی رات کے وقت اپنے قلم سے جماعت کے نام ایک مفصل خط میں لکھا۔
’’آج جہاز عدن کے قریب ہو رہا ہے صبح چار بجے خشکی پر جہاز لگے گا۔ طوفان کے علاقہ سے جہاز خدا کے فضل سے نکل آیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ رات کا وقت ہے اور رات بھی خاصی گزر گئی ہے۔ مجھے لوگ کہتے ہیں کل رات آپ کم سوئے تھے اب سو جائیے مگر عدن قریب آرہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر میں اس وقت اپنا قلم رکھ دیتا ہوں تو پھر مجھے عدن کے بعد ہی کچھ لکھنے کا موقعہ ملے گا۔ اس لئے میں ان دوستوں کی نصیحت کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ یہی کہتا ہوں کہ خط نصف ملاقات ہوتی ہے۔ میں خدا کی مشیت کے ماتحت اپنے دوستوں کی پوری ملاقات سے تو ایک وقت تک محروم ہوں پس مجھے آدھی ملاقات کا تو لطف اٹھانے دو۔ مجھے چھوڑ دو کہ میں خیالات و افکار کے پر لگا کر کاغذ کی نائو پر سوار ہو کر اس مقدس سرزمین میں پہنچوں جس سے میرا جسم بنا ہے اور جس میں میرا ہادی اور رہنما مدفون ہے اور جہاں میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کی راحت۔ دوستوں کی جماعت رہتی ہے۔ ہاں پیشتر اس کے کہ ہندوستان کی ڈاک کا وقت نکل جائے مجھے اپنے دوستوں کے نام ایک خط لکھنے دو تا میری آدھی ملاقات سے وہ مسرور ہوں اور میرے خیالات تھوڑے دیر کے لئے خالص اس سرزمین کی طرف پرواز کرکے مجھے دیار محبوب سے قریب کر دیں‘‘۶۴۔
خط کے آخر میں جماعت کو نصیحت فرمائی۔ ’’اپنے آپ کو صاف رکھو۔ تا قدوس خدا تمہارے ذریعہ سے اپنے قدس کو ظاہر کرے اور اپنے چہرہ کو بے نقاب کرے اتحاد‘محبت‘ایثار‘قربانی‘اطاعت‘ہمدردی بنی نوع انسان‘عفو‘شکر‘احسان اور تقویٰ کے ذریعہ سے اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کا ہتھیار بننے کے قابل بنائو۔ یاد رکھو تمہاری سلامتی سے آج دین کی سلامتی ہے‘‘۶۵۔
جہاز ۲۳/ جولائی ۱۹۲۴ء کو (۹ بجے صبح کے قریب) بخیریت عدن پہنچا اور حضور نے بذریعہ تار اپنی خیریت کی اطلاع ارسال فرما دی۶۶۔
عدن سے پورٹ سعید تک
اب جہاز عدن سے پورٹ سعید کی طرف چلا اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا وقت پہلے سے زیادہ دعا اور اس اہم سفر کے متعلق عملی پروگرام پر غور میں صرف ہونے لگا۔ چنانچہ ۲۴/ جولائی ۱۹۲۴ء کو آپ نے شام و مصر میں تبلیغ سلسلہ پر کئی گھنٹے دوستوں سے مشورہ لیا اور ایک سکیم تجویز فرمائی اور دوستوں کو تاکید فرمائی کہ سفر کی اہمیت‘مقصد کی عظمت اور مشکلات کو پیش نظر رکھتے ہوئے تمام وقت اس کی تیاری میں صرف ہونا چاہئے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے تا ہمیں ہر قسم کے برکات حاصل ہوں۔ غرضیکہ اٹھتے بیٹھتے آپ کے پیش نظر یہی ایک امر تھا کہ کوئی لمحہ ضائع نہ ہو۶۷ اسی تاریخ (۲۴/ جولائی) کو حضور دیر تک اسلامی عالم میں اتحاد عمومی پیدا کرنے کی ایک موثر تحریک کے قیام پر گفتگو فرماتے رہے۔
۲۵/ جولائی کو گیارہ اور ۱۲ بجے کے درمیان جہاز جدہ اور مکہ شریف کے سامنے سے گزرنے والا تھا۔ حضور نے ارادہ فرمایا کہ خاص طور پر دعا کی جائے چنانچہ حضور نے دو رکعت نماز باجماعت پڑھائی جس میں بہت رقت انگیز دعائیں کیں۶۸۔ ۲۶/ جولائی کو حضور دن بھر مضمون لکھنے میں مصروف رہے۔
۲۷۔ ۲۸/ جولائی کو حضور نے اپنے قلم سے جماعت کے نام دوسرا مکتوب لکھا۔ جو آپ کے اس اندرونی فکر و تشویش کا آئینہ دار تھا اور جو اس تصور سے آپ کو ہو رہی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یورپ اسلام کو تو قبول کرے مگر اسلامی تمدن اپنانے سے انکار کر دے۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو اسلام کی بدلی ہوئی صورت پہلے یورپ میں پھر ساری دنیا میں قائم ہو جائے گی اور مسیحیت کی طرح اسلام بھی مسخ ہو جائے گا۶۹۔
حضور نے اس خط میں اپنی جماعت کو اس زبردست خطرہ سے متنبہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ’’ہمارا فرض ہے کہ اس مصیبت کے آنے سے پہلے اس کا علاج سوچیں اور یورپ کی تبلیغ کے لئے ہر قدم جو اٹھائیں اس کے متعلق پہلے غور کر لیں اور یہ نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہاں کے حالات کا عینی علم حاصل نہ ہو۔ پس اسی وجہ سے باوجود صحت کی کمزوری کے میں نے اس سفر کو اختیار کیا ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو میں انشاء اللہ اس علم سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کروں گا۔ اگر میں اس جدوجہد میں مر گیا تو اے قوم میں ایک نذیر عریان کی طرح تجھے متنبہ کرتا ہوں کہ اس مصیبت کو کبھی نہ بھولنا اسلام کی شکل کو کبھی نہ بدلنے دینا۔ جس خدا نے مسیح موعود کو بھیجا ہے وہ ضرور کوئی راستہ نجات کا نکال دے گا۔ پس کوشش نہ چھوڑنا۔ نہ چھوڑنا نہ چھوڑنا۔ آہ نہ چھوڑنا میں کس طرح تم کو یقین دلائوں کہ اسلام کا ہر ایک حکم ناقابل تبدیل ہے خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو اس کو بدلتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے۔ وہ اسلام کی تباہی کی پہلی بنیاد رکھتا ہے۔ کاش وہ پیدا نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔ یورپ سب سے بڑا دشمن اسلام کا ہے۔ وہ مانے یا نہ مانے تمہاری کوشش کا کوئی اثر ہو یا نہ ہو تم کو اسے نہیں چھوڑنا چاہئے اگر تم دشمن پر فتح نہیں پا سکتے تو تمہارا یہ فرض ضرور ہے کہ اس کی نقل وحرکت کو دیکھتے رہو اور پھر میں کہتا ہوں کہ یہ کس کو کس طرح معلوم ہوا کہ یورپ آخر اسلام کو قبول نہیں کرے گا۔ یورپ کے لئے اسلام کا قبول کرنا مقدر ہو چکا ہے ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ وہ ایسی صورت سے اسلام کو قبول کرے کہ اسلام ہی کو نہ بدل دے‘‘۷۰۔
جہاز ۲۸/ جولائی کو پورٹ سعید کے ساحل سے لگا۷۱۔
‏rov.5.28
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
پورٹ سعید سے قاہرہ
حضور مع خدام پورٹ سعید سے اسی دن ایکسپریس گاڑی سے قاہرہ تشریف لے گئے اور شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کے مکان پر فروکش ہوئے۔ قاہرہ میں حضور کا قیام صرف دو دن رہا۔ مگر آپ کی برکت و توجہ سے دو دنوں میں ہی قاہرہ کے اندر سلسلہ کی تائید میں ایک نئی رو پیدا ہو گئی۔
حضور قیام مصر کی نسبت اپنے تاثرات و حالات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
’’ہم قاہرہ میں صرف دو دن ٹھہرے ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے نزدیک مصر مسلمانوں کا بچہ ہے جسے یورپ نے اپنے گھر میں پالا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے بلاد اسلامیہ کے اخلاق کو خراب کرے۔ مگر میرا دل کہتا ہے اور جب سے میں نے قرآن کریم کو سمجھا ہے میں برابر اس کی بعض سورتوں سے استدلال کرتا ہوں اور اپنے شاگردوں کو کہتا چلا آیا ہوں کہ یورپین فوقیت کی تباہی مصر سے وابستہ ہے اور اب میں اسی بناء پر کہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ مصر جب خدا تعالیٰ کی تربیت میں آجائے گا تو وہ اسی طرح یورپین تہذیب کے مخرب اخلاق حصوں کو توڑنے میں کامیاب ہو گا جس طرح حضرت موسیٰ فرعون کی تباہی میں۔ بے شک اس وقت یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے مگر جو زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے میں نے قاہرہ پہنچتے ہی ۔۔۔۔۔ اس بات کا اندازہ لگا کر کہ وقت کم ہے اور کام زیادہ۔ ساتھیوں کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا ایک حصہ اخبارات و جرائد کے مدیروں کے ملنے میں مشغول ہوا اور دوسرا پاسپورٹوں اور ڈاک کے متعلق کام میں لگ گیا۔ تیسرا سفر کی بعض ضرورتوں کو مہیا کرنے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ علاقے تبلیغ کے لئے بہت روپیہ چاہتے ہیں مگر اسی طرح جب ان میں تبلیغ کامیاب ہو جائے تو اشاعت اسلام کے لئے ان سے مدد بھی کچھ مل سکتی ہے میں لکھ چکا ہوں کہ میں نے بعض دوستوں کو اخبارات۷۲ کے ایڈیٹروں کے پاس ملنے کے لئے بھیجا تھا ۔۔۔۔۔۔ جن اخبار نویسوں سے ہمارے دوست ملے انہوں نے آئندہ ہر طرح مدد دینے کا وعدہ کیا۔ حتیٰ کہ وطنی اخباروں نے بھی ۔۔۔۔۔۔ علاوہ مذکورہ بالا لوگوں کے جن سے ملنے ہمارے لوگ خود جاتے رہے۔ بعض لوگ گھر پر بھی ملنے آتے رہے۔ چنانچہ جامع ازہر کے ماتحت جو خلافت کمیٹی بنی ہے ۔۔۔۔۔۔ اس انجمن کے پریذیڈنٹ اور سیکرٹری اور بعض اور دوسرے لوگ ملنے کے لئے آئے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد مصر کے ایک مشہور صوفی سید ابوالعزائم صاحب ملنے کے لئے آئے یہ صاحب بہت بڑے پیر ہیں کہا جاتا ہے کہ ایک لاکھ سے زیادہ ان کے مرید ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ علاوہ ان لوگوں کے دو اور معزز آدمی بھی ملنے کے لئے آئے۔ لیکن افسوس کہ بوجہ باہر ہونے کے مجھے ان سے ملنے کا موقعہ نہ ملا ان میں سے ایک تو ترکی رئیس تھے ۔۔۔۔۔۔۔ دوسرے صاحب ایک وکیل تھے ان کے گھر پر بھی میں نے اپنے بعض ساتھیوں کو بھیجا انہوں نے ۔۔۔۔۔۔۔ مصریوں کی حالت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس بات کی خواہش کی کہ مصر میں احمدیہ مشن کو مضبوط کیا جائے ۔۔۔۔۔۔ چونکہ گرمی کا موسم ہے تمام عمائد اور علماء ملک کے ٹھنڈے علاقوں کی طرف چلے گئے ہیں اس لئے اور زیادہ لوگوں سے ملنے کا موقعہ نہیں مل سکتا تھا۔ مجھے جو مصر میں سب سے زیادہ خوشی ہوئی وہ وہاں کے احمدیوں کی ملاقات کے نتیجہ میں تھی تین مصری احمدی مجھے ملے اور تینوں نہایت ہی مخلص تھے دو ازہر کے تعلیم یافتہ اور ایک علوم جدیدہ کی تعلیم کی تحصیل کرنے والے دوست۔ تینوں نہایت ہی مخلص اور جوشیلے تھے اور ان کے اخلاص اور جوش کی کیفیت کو دیکھ کر دل رقت سے بھر جاتا تھا۔ تینوں نے نہایت درد دل سے اس بات کی خواہش کی کہ مصر کے کام کو مضبوط کیا جائے‘‘۷۳۔
قاہرہ سے بیت المقدس تک
حضور فرماتے ہیں۔ ’’دو دن کے قیام کے بعد ہم دمشق کی طرف روانہ ہوئے۔ مگر چونکہ راستہ میں بیت المقدس پڑتا تھا۔ مقامات انبیاء کے دیکھے بغیر آگے جانا مناسب نہ سمجھا اور دو دن کے لئے وہاں ٹھہر گئے ۔۔۔۔۔۔۔ یہودی قوم کی قابل رحم حالت جو یہاں نظر آتی ہے۔ کہیں اور نظر نہیں آتی۔ بیت المقدس کا سب سے بڑا معبد جسے پہلے مسیحیوں نے یہودیوں سے چھین ۔۔۔۔۔۔۔ کر مسلمانوں نے اسے مسجد بنا دیا اس کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کر ہفتہ میں دو دن برابر دو ہزار سال سے یہودی روتے چلے آتے ہیں جس دن ہم جگہ کو دیکھنے کے لئے گئے۔ وہ دن اتفاق سے ان کے رونے کا تھا۔ عورتوں اور مردوں اور بوڑھوں اور بچوں کا دیوار کے پیچھے کھڑے ہو کر بائبل کی دعائیں پڑھ پڑھ کر اظہار عجز کرنا ایک نہایت ہی افسردہ کن نظارہ تھا ۔۔۔۔۔۔ بیت المقدس میں سے مندرجہ ذیل مقامات قابل ذکر ہیں۔ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم‘حضرت اسحاقؑ‘حضرت یعقوبؑ‘اور حضرت یوسفؑ کی قبور اور وہ مقام جس پر حضرت عمرؓ نے نماز پڑھی اور بعد میں اس کو مسجد بنا دیا گیا اور حضرت عیسیٰ کی پیدائش کے مقامات (بیت لحم وغیرہ۔ مولف) وہاں کے بڑے بڑے مسلمانوں سے میں ملا ہوں۔ میں نے دیکھا کہ وہ مطمئن ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر میرے نزدیک ان کی رائے غلط ہے یہودی قوم اپنے آبائی ملک پر قبضہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ قرآن شریف کی پیشگوئیوں اور حضرت مسیح موعودؑ کے بعض الہامات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ضرور اس ملک میں آباد ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے۷۴۔ ۔۔۔۔۔۔ پس میرے نزدیک مسلمان رئوساء کا یہ اطمینان بالاخر ان کی تباہی کا موجب ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔ فلسطین کے گورنر ہائی کمشنر کہلاتے ہیں۔ اصل ہائی کمشنر آج کل ولایت گئے ہوئے ہیں ان کی جگہ سرگلبرٹ کلیٹن کام کر رہے ہیں۔ میں ان سے ملا تھا ایک گھنٹہ تک ان سے ملکی معاملات کے متعلق گفتگو ہوتی رہی ۔۔۔۔۔۔ مسلمانوں کو عام طور پر شکایت تھی کہ تعلیمی معاملات میں ہمیں آزادی نہیں۔ میں نے اس امر کے متعلق ان سے گفتگو کی اور انہوں نے اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ مسلمانوں کی یہ شکایت ایک حد تک بجا ہے مجھے بتایا کہ ایک دن پہلے ہی انہوں نے ایک تجویز وزارت برطانیہ کے غور کے لئے بھیجی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ سر کلیٹن صاحب کو پہلی ملاقات میں ہمارے سلسلہ سے بھی بہت دلچسپی ہو گئی اور گو ہم نے دوسرے دن روانہ ہونا تھا۔ مگر انہوں نے اصرار کیا کہ ڈیڑھ بجے ہم ان کے ساتھ کھانا کھائیں۔ چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ تک دوسرے دن بھی ان کے ساتھ گفتگو ہوتی رہی اور فلسطین کی حالت کے متعلق بہت سی معلومات مجھے ان سے حاصل ہوئیں۷۵text] gat[۔
بیت المقدس سے دمشق تک
فلسطین سے چل کر ہم حیفا آئے جہاں سے کہ دمشق کے لئے گاڑی بدلتی ہے۔ رات حیفا میں ٹھہرنا پڑا۔ چونکہ دس بجے صبح سے پہلے کوئی گاڑی نہ جاتی تھی۔ صبح گاڑی لے کر میں سیر کے لئے گیا اور مجھے معلوم ہوا کہ بہائیوں کے لیڈر مسٹر شوقی آفندی عکہ کو چھوڑ کر حیفا میں آن بسے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم ایک سڑک پر آرہے تھے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ اس کے پاس چند قدم پر ہی مرزا عباس علی صاحب عرف عبدالبہاء کا مکان ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی رحیم بخش صاحب۷۶4] ftr[۔ ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور میاں شریف احمد صاحب مکان دیکھنے کو چلے گئے۔ شوقی آفندی تو وہاں موجود نہ تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی اور بعض دوسرے رشتہ دار (اور) بچے موجود تھے ۔۔۔۔۔ نہ کوئی علماء کی جماعت تھی نہ انتظام تھا ۔۔۔۔۔۔۔‘‘۷۷
حضور ۴/ اگست ۱۹۲۴ء کی صبح کو حیفا سے بذریعہ ریل روانہ ہو کر اسی شام کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب دمشق پہنچے اور ۹/ اگست تک یہاں مقیم رہے۷۸۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مخالف حالات کے باوجود دمشق میں غیر معمولی طور پر کامیابی اور شہرت عطا فرمائی۔ جس کی تفصیل خود حضور کے قلم سے لکھی جاتی ہے۔ فرماتے ہیں:
’’جب ہم دمشق میں گئے تو اول تو ٹھہرنے کی جگہ ہی نہ ملتی تھی۔ مشکل سے انتظام ہوا مگر دو دن تک کسی نے کوئی توجہ نہ کی۔ میں بہت گھبرایا اور دعا کی اے اللہ! پیشگوئی جو دمشق کے متعلق ہے کس طرح پوری ہو گی۔ اس کا یہ مطلب تو ہو نہیں سکتا کہ ہم ہاتھ لگا کر واپس چلے جائیں۔ تو اپنے فضل سے کامیابی عطا فرما۔ جب میں دعا کرکے سویا تو رات کو یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے۔ عبد مکرم]ydob [tag یعنی ہمارا بندہ جس کو عزت دی گئی ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ دوسرے ہی دن جب اٹھے تو لوگ آنے لگے یہاں تک کہ صبح سے رات کے بارہ بجے تک دو سو سے لے کر بارہ سو تک لوگ ہوٹل کے سامنے کھڑے رہتے۔ اس سے ہوٹل والا ڈر گیا کہ فساد نہ ہو جائے۔ پولیس بھی آگئی اور پولیس افسر کہنے لگا۔ فساد کا خطرہ ہے۔ میں نے یہ دکھانے کے لئے کہ لوگ فساد کی نیت سے نہیں آئے۔ مجمع کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ چند ایک نے گالیاں بھی دیں لیکن اکثر نہایت محبت کا اظہار کرتے اور ھذا ابن المھدی کہتے اور سلام کرے مگر باوجود اس کے پولیس والوں نے کہا کہ اندر بیٹھیں۔ ہماری ذمہ داری ہے اور اس طرح ہمیں اندر بند کر دیا گیا۔ اس پر ہم نے برٹش قونصل کو فون کیا ۔۔۔۔۔ اس پر ایسا انتظام کر دیا گیا کہ لوگ اجازت لے کر اندر آتے رہے ۔۔۔۔۔۔۔ غرض عجیب رنگ تھا کالجوں کے لڑکے اور پروفیسر آتے۔ کاپیاں ساتھ لاتے اور جو میں بولتا لکھتے جاتے اگر کوئی لفظ رہ جاتا تو کہتے یا استاذ ذرا ٹھہرئیے۔ یہ لفظ رہ گیا ہے۔ گویا انجیل کا وہ نظارہ تھا جہاں اسے استاد کرکے حضرت مسیح کو مخاطب کرنے کا ذکر ہے اگر کسی مولوی نے خلاف بولنا چاہاتو وہی لوگ اسے ڈانٹ دیتے ایک مولوی آیا جو بڑا بااثر سمجھا جاتا تھا۔ اس نے ذرا ناواجب باتیں کیں تو تعلیم یافتہ لوگوں نے ڈانٹ دیا اور کہہ دیا کہ ایسی بیہودہ باتیں نہ کرو۔ ہم تمہاری باتیں سننے کے لئے نہیں آئے اس پر وہ چلا گیا اور رئوسا معذرت کرنے لگے کہ وہ بے وقوف تھا۔ اس کی کسی بات پر ناراض نہ ہوں یہ ایک غیر معمولی بات تھی۔ پھر منارۃ البیضاء کا بھی عجیب معاملہ ہوا۔ ایک مولوی عبدالقادر صاحب (المغربی۔ ناقل) حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب کے دوست تھے۔ ان سے میں نے پوچھا کہ وہ منارہ کہاں ہے جس پر تمہارے نزدیک حضرت عیسیٰ نے اترنا ہے کہنے لگے۔ مسجد امویہ کا ہے لیکن ایک اور مولوی صاحب نے کہا کہ عیسائیوں کے محلہ میں ہے ایک اور نے کہا حضرت عیسیٰ آکر خود بنائیں گے۔ اب ہمیں حیرت تھی کہ وہ کونسا منارہ ہے۔ دیکھ تو چلیں صبح کو میں نے ہوٹل میں نماز پڑھائی اس وقت میں اور ذوالفقار علی خان صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تھے یعنی میرے پیچھے دو مقتدی تھے۔ جب میں نے سلام پھیرا تو دیکھا سامنے منار ہے اور ہمارے اور اس کے درمیان صرف ایک سڑک کا فاصلہ ہے۔ میں نے کہا یہی وہ منار ہے اور ہم اس کے مشرق میں تھے۔ یہی وہ سفید منارہ تھا اور کوئی نہ تھا۔ مسجد امویہ والے منار نیلے سے رنگ کے تھے جب میں نے اس سفید منارہ کو دیکھا اور پیچھے دو ہی مقتدی تھے تو میں نے کہا کہ وہ حدیث بھی پوری ہو گئی‘‘۷۹۔
’’دمشق میں توقع سے بہت بڑھ چڑھ کر کامیابی ہوئی ۔۔۔۔۔۔ اخبارات نے لمبے لمبے تعریفی مضامین شائع کئے۔ دمشق کے تعلیم یافتہ طبقے نے نہایت گہری دلچسپی لی۔ تمام وہ اخبارات جن میں ہمارے مشن کے متعلق خبریں اور مضامین نکلتے تھے کثرت سے فوراً فروخت ہو جاتے تھے‘‘۸۰body] gat[۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اوپر شیخ عبدالقادر مغربی کا ذکر فرمایا ہے۔ ان کا ایک خاص واقعہ بھی ہے جس کا بیان کرنا ضروری ہے۔ ان صاحب نے جو دمشق کے ادیب شہیر تھے حضور سے کہا کہ ایک جماعت کے معزز امام ہونے کی حیثیت سے ہم آپ کا اکرام کرتے ہیں۔ مگر آپ یہ امید نہ رکھیں کہ ان علاقوں میں کوئی شخص آپ کے خیالات سے متاثر ہو گا کیونکہ ہم لوگ عرب نسل کے ہیں اور عربی ہماری مادری زبان ہے اور کوئی ہندی خواہ وہ کیسا ہی عالم ہو ہم سے زیادہ قرآن و حدیث کے معنی سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ آپ نے یہ گفتگو سن کر اس کے خیال کی تردید فرمائی اور ساتھ ہی تبسم کرتے ہوئے فرمایا کہ مبلغ تو ہم نے ساری دنیا میں ہی بھیجنے ہیں۔ مگر اب ہندوستان واپس جانے پر میرا پہلا کام یہ ہو گا کہ آپ کے ملک میں مبلغ روانہ کروں اور دیکھوں کہ خدائی جھنڈے کے علمبرداروں کے سامنے آپ کا کیا دم خم ہے۔ چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا کہ ولایت سے واپسی پر دمشق میں دارالتبلیغ قائم کرنے کے لئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کو بھجوا دیا جیسا کہ آگے ذکر آئے گا۸۱۔
‏0] ft[sدمشق سے پورٹ سعید تک
حضور ۱۰/ اگست ۱۹۲۴ء کو دمشق سے روانہ ہو کر بیروت سے ہوتے ہوئے حیفا پہنچے۸۲۔ اور پھر عکہ میں بہائیوں کا مرکز دیکھنے تشریف لے گئے۔ مگر وہاں جاکر آپ کی حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی جب آپ کو معلوم ہوا کہ عکہ میں کوئی بہائی نہیں ہے بلکہ عکہ سے تین چار میل پرے ایک گائوں ہے جس کا نام منثیہ ہے۔ اس میں یہ لوگ رہتے ہیں۔ بڑی مشکل سے موٹروں پر وہاں پہنچے۔ بہجہ میں مرزا محمد علی صاحب سے جو مرزا عباس علی صاحب کے چھوٹے بھائی تھے۔ معلوم ہوا کہ یہ گمنام سی جگہ ہے کبھی کبھار کوئی مہمان آجاتا ہے تو مکان کے ایک گوشہ میں ٹھہر جاتا ہے۔ جب بہائیوں کی تعداد کے متعلق ان سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ صحیح تعداد تو نہیں بتائی جا سکتی مگر جو کچھ بہائی ہیں ایران ہی میں ہیں پھر کچھ امریکہ میں ہیں باقی ملکوں میں یونہی تھوڑے ہیں۸۳۔
حضور بہجہ میں۸۴ دو گھنٹے تک ٹھہرے مگر کچھ معلوم نہ ہوا کہ اس جگہ کوئی اور بھی آباد ہے۔ یہاں سے فارغ ہو کر حضور اپنے قافلہ سمیت واپس حیفا پہنچے اور دوسرے دن صبح پورٹ سعید کی طرف روانہ ہوئے۸۵۔
پورٹ سعید سے برنڈزی تک
۱۳/ اگست ۱۹۲۴ء۸۶ کو آپ کا جہاز جس کا نام پلنا تھا پورٹ سعید سے برنڈزی کے لئے روانہ ہوا۔ حضور کی طبیعت متواتر سفروں شب بیداریوں اور غذا کی بے ترتیبیوں اور خصوصاً دمشق کی متواتر لمبی لمبی تقریروں کی وجہ سے پہلے ہی ناساز تھی کہ بیروت پہنچ کر بیماری کا سخت حملہ ہوا۔ بیروت سے حیفا تک کا سفر موٹر کے ذریعہ کرنا پڑا اور اس دن حضور کو دس بارہ اسہال ہوئے۔ عکہ پہنچ کر حضور نے پھر اپنی تکلیف کا کچھ خیال نہ کیا اور گیارہ بجے رات تک بہائیوں سے گفتگو فرماتے رہے۔ ۱۲ بجے شب حیفا میں پہنچے اور پھر بیماری کی حالت میں حیفا سے پورٹ سعید تک آئے۔ صحت کی خرابی کی یہ حالت دیکھ کر جہاز کے ڈاکٹر نے سفر جاری رکھنے کی بجائے کسی صحت افزا مقام پر آرام کرنے کا مشورہ دیا مگر حضور نے سفر منقطع کرنا پسند نہ فرمایا۔
حضور کو پورٹ سعید میں قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل اور خواجہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل کے خطوط سے معلوم ہوا کہ اخبار ’’پیغام صلح‘‘ آپ کے سفر یورپ کے خلاف بہت زہر اگل رہا ہے۔ اس پر حضور نے ۱۵/ اگست ۱۹۲۴ء کو تھوڑی دیر میں ’’اہل پیغام سے خطاب‘‘ کرتے ہوئے ایک نظم کہی جس کے تین شعر یہ تھے۔ ~}~
پھیر لو جتنی جماعت ہے مری بیعت میں
باندھ لو ساروں کو تم مکر کی زنجیروں سے
پھر بھی مغلوب رہو گے مرے تا یوم البعث
ہے یہ تقدیر خداوند کی تقدیروں سے
ماننے والے مرے بڑھ کے رہیں گے تم سے
یہ قضا وہ ہے جو بدلے گی نہ تدبیروں سے
حضور نے اس نظم کی تشریح میں ایک نوٹ سپرد قلم کرکے پوری نظم الفضل کو اشاعت کے لئے بھجوا دی۸۷۔ ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء کو ساڑھے نو بجے صبح آپ کا جہاز اٹلی کی بندرگاہ برنڈزی پر پہنچا۔
برنڈزی سے لنڈن
حضور مع خدام برنڈزی سے ۲/۱ ۶ بجے شام کی گاڑی سے سوار ہو کر ۱۷/ اگست ۱۹۲۴ء کو ۲/۱ ۹ بجے روما میں داخل ہوئے جو عیسائیت کے پوپ کا مرکز ہے۔
روما میں حضور کا قیام چار روز رہا۔ اس عرصہ میں حضور برابر اشاعت سلسلہ کے کام میں مصروف رہے۔ اخبارات کے نمائندوں اور فوٹو گرافروں نے آپ سے انٹرویو کئے۔ حضور نے اٹلی کے وزیر اعظم مسولینی سے بھی ملاقات کی اور اسے سلسلہ احمدیہ کے اغراض و مقاصد بتائے۔ مسولینی نہایت اکرام سے پیش آیا۸۸۔
حضور کا ارادہ پوپ سے ملنے اور ان کو تبلیغ اسلام کرنے کا بھی تھا۔ مگر پوپ نے آپ کی آمد پر ملاقاتوں کا سلسلہ بند کر دیا۸۹۔ تاہم حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ان تک جو پیغام حق پہنچانا چاہتے تھے وہ خدا تعالیٰ نے دوسرے طریق پر پہنچا دیا۔ یعنی روما کے سب سے مشہور اور کثیر الاشاعت اخبار ’’لاٹربیونا‘‘ نے حضور کا ایک مفصل انٹرویو شائع کیا۔ حضور سے سوال کیا گیا کہ آپ پوپ کو ملتے تو کیا کہتے؟ حضور نے جواب دیا۔ ’’میں جب پوپ سے ملتا تو سب سے بہترین تحفہ جو میرے پاس ہے میں اسے پیش کرتا اور وہ یہ ہے کہ میں اسے دعوت اسلام دیتا اور اس نور کی طرف بلاتا جو انسانوں کو خدا تک پہنچا دیتا ہے اور یہ لفظاً نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے قرب کے نشانات اس میں پائے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بڑے بڑے آدمی عیسائیوں میں پائے جاتے ہیں جن کو بڑا نیک اور متقی کہا جاتا ہے۔ مگر وہ کوئی نشان اپنی صداقت میں نہیں دکھا سکتے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا قرب حاصل کرنے کا یہ راہ نہیں۔ اور یہ سچ ہے خدا تعالیٰ نے مسیح موعودؑ کو اسی لئے دنیا میں بھیجا ہے کہ وہ دنیا پر ثابت کر دے کہ یہ قوت اور طاقت اب اسلام میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پس میں پوپ کو اس اسلام کی بشارت دیتا اور اس کو سناتا کہ ہم کو وہ نشان دیئے گئے ہیں جو خدا کے برگزیدہ کو ملتے ہیں‘‘۹۰۔
روما میں حضور نے اصحاب کہف کی غاریں بھی دیکھیں جس کی تفصیل حضور نے اپنی تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۹۲۱۔ ۹۲۲ پر درج فرمائی ہے۔
روما سے ۲۰/ اگست ۱۹۲۴ء کو بوقت شام روانگی ہوئی اور گاڑی دوسرے دن صبح (۲۱/ اگست کو) ۹ بجے کے قریب پیرس فرانس پہنچی۔ پیرس سے کیلے آئے اور بذریعہ جہاز رود بار انگلستان عبور کرکے ڈوور آئے اور ڈوور سے گاڑی لے کر۹۱ ۲۲/ اگست ۱۹۲۴ء۹۲ کو ۶ بجے کے قریب لنڈن کے مشہور وکٹوریہ سٹیشن پہنچے۔ جہاں مبلغ اسلام اور دوسرے اصحاب استقبال کے لئے حاضر تھے۔
حضور نے پلیٹ فارم پر قدم رکھتے ہی اپنے قافلہ سمیت دعا کی۔ اس نظارہ کا فوٹو لنڈن کے اخبارات میں بھی شائع ہوا۔ اسٹیشن سے حضور لڈ گیٹ (باب اللد) پہنچے اور سینٹ پال کے گرجا کے دروازہ کے پاس صحن میں آپ نے اسلام کی کامیابی اور کسر صلیب کے لئے دعا کی۔ یہ نظارہ لنڈن نے کبھی نہیں دیکھا تھا اس لئے چاروں طرف خلقت کا اژدحام ہو گیا۔ حضور ایک لمبی دعا کرنے کے بعد اپنے خدام سمیت اپنی قیام گاہ (واقع چیشم پیلس نمبر ۶) میں تشریف لے گئے اور دعا کے بعد قیام فرما ہو گئے۹۳۔
برطانوی پریس میں چرچا
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جس دن سفر یورپ کے لئے روانہ ہوئے تھے۔ برطانوی پریس میں آپ کی آمد کی خبریں شائع ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ مگر لندن میں ورود کے بعد تو مصور اور غیر مصور اخبارات نے اتنی کثرت سے آپ کے فوٹو اور حالات وغیرہ شائع کئے کہ ایک متعصب رومن کیتھولک اخبار کو لکھنا پڑا کہ تمام برطانوی پریس سازش کا شکار ہو گیا ہے۹۴۔ اور کئی لوگوں نے برملا اظہار کیا کہ پریس نے اتنی اہمیت اور شہرت لنڈن میں آنے والے کسی بڑے سے بڑے لارڈ کو بھی نہیں دی۹۵ جتنی آپ کی تشریف آوری پر پریس کے علاوہ فلموں میں آپ کے اور آپ کے رفقاء کے مناظر دکھائے گئے اس طرح خدا نے انگلستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک آپ کی شہرت کا خود ہی سامان فرما دیا۔
قیام لنڈن کا پہلا ہفتہ ۲۲ تا ۲۸/ اگست ۱۹۲۴ء
حضور نے یہاں پہنچ کر سب سے پہلا اہم کام یہ کیا کہ اپنے رفقاء کو مختلف فرائض سپرد کرکے ایک انتظامیہ کمیٹی قائم کر دی جس کے پریذیڈنٹ چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور سیکرٹری مولوی محمد الدین صاحب کو تجویز فرمایا۔ ملک غلام فرید صاحب مکرمی مولوی محمد الدین صاحب اور حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر کو پریس سے رابطہ کے لئے مقرر فرمایا۔ ہندوستان میں سفر کی مفصل رپورٹ بھجوانے کا کام ابتدا ہی سے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کے ذمہ تھا جو وہ برابر سر انجام دے رہے تھے۔ ڈاک کی خدمت حافظ روشن علی صاحب‘چوہدری محمد شریف صاحب وکیل‘شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو اور ملاقات کی خدمت ذوالفقار علی خان صاحب‘چوہدری فتح محمد صاحب سیال اور مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے سپرد ہوئی۹۶۔ اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور چوہدری علی محمد صاحب کو خورد نوش کے انتظامات پر لگایا گیا۔ چوہدری علی محمد صاحب کو چونکہ اکثر حضور کی خدمت میں بھی حاضر رہنا پڑتا تھا اس لئے زیادہ ذمہ داری حضرت بھائی صاحب پر تھی۔ جو اپنی اصل ڈیوٹی کے علاوہ گاہے گاہے جماعت ہندوستان کو حالات سے باخبر رکھنے کے لئے خطوط بھی لکھتے تھے اور حضور کی ڈاک کے لئے بھی وقت دیتے تھے۹۷۔
انتظامیہ کمیٹی کی تشکیل کے علاوہ حضور نے قیام لندن کے پہلے ہفتہ میں ’’ایوننگ سٹینڈرڈ‘‘ اور اخبار ’’سٹار‘‘ کے نمائندوں کو انٹرویو دیا۔ ڈاکٹر عبدالمجید شاہ صاحب لاہوری اور مسٹر عبداللہ کوئلم (انگریز) کو شرف ملاقات بخشا اور مختلف مسائل پر تبادلہ خیال فرمایا۔ حضرت حافظ روشن علی صاحب کے ’’تصوف‘‘ کے مضمون پر نظر ثانی فرمائی اور ضروری ہدایات کے ساتھ مولوی محمد دین صاحب کو ترجمہ کے لئے دیا۔ یہ مضمون ۲۵/ دسمبر ۱۹۲۴ء کو مولوی محمد دین صاحب ہی نے پانچ بجے شام سر پیٹرک نگن کی صدارت میں سنایا اور بہت مقبول ہوا۹۸۔
اس ہفتہ حضور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ہمراہ ویمبلے اور انڈیا آفس میں تشریف لے گئے۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر مبلغ انگلستان نے اخبارات کے نمائندوں کو دعوت دی۔ جس میں مذاہب کانفرنس کی انتظامیہ کے بعض ممبر (کرنل ینگ ہسبینڈ اور مس شارپلز) بھی شریک ہوئے۔ اس دعوت میں حضور نے اہل انگلستان کے نام ایک مفصل پیغام دیا۔ جس کا فصیح و بلیغ انگریزی زبان میں فی البدیہہ انگریزی ترجمہ مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے سنایا۹۹۔
فرمایا۔ میں اس محبت اور اس اخلاص کی وجہ سے جو بنی نوع انسان سے رکھتا ہوں اور جو میں سمجھتا ہوں کہ بانی سلسلہ احمدیہ کی صحبت اور اسلام کی تعلیم کا نتیجہ ہے انگلستان آیا ہوں۔ میں ان پیشگوئیوں کی وجہ سے جو بانی سلسلہ احمدیہ نے کیں اس امر پر یقین رکھتا ہوں کہ مغرب جلد ان صداقتوں کو قبول کرے گا جو بانی سلسلہ احمدیہ جن کا دعویٰ مسیح موعود اور مہدی اور کل مذاہب کے موعود ہونے کا تھا لائے تھے۔ جب وہ صرف اکیلے تھے اور انکے ساتھ کوئی نہ تھا بلکہ علاوہ ہندوئوں مسلمانوں اور مسیحیوں کے جو طبعاً ان کے مخالف تھے گورنمنٹ بھی ان پر مہدی کے دعویٰ کی وجہ سے شک کرتی تھی اس وقت انہوں نے یہ خبر دی تھی کہ خدا تعالیٰ ان کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گا اور انگلستان میں خصوصاً اور دوسرے مغربی ممالک میں عموماً لوگ ان کے دعویٰ کو قبول کرکے اسلام میں جس کے زندہ کرنے اور ان غلطیوں سے پاک کرنے کے لئے جو اسے لوگوں کے اجتہاد کی وجہ سے اس میں پیدا ہو گئی تھیں جو خدا کے الہام سے مدد پا کر اس کو پیش نہیں کرتے تھے داخل ہو جائیں گے اس دعویٰ کو چونتیس سال گزرے اور آج دنیا کے پردہ پر ایک ملین کے قریب آدمی ان کو مانتا ہے اور یوروپین ممالک میں اور امریکہ میں بھی کئی لوگ ان پر ایمان لا چکے ہیں۔ پس ماضی پر نظر کرتے ہوئے میں یقین کرتا ہوں کہ بقیہ حصہ پیشگوئی کا بھی پورا ہو کر رہے گا۔ اسلام یعنی وہ اسلام جسے مسیح موعود نے زندہ کیا ہے اور جو انسانی اجتہادوں سے پاک ہے آخر پھیلے گا اور انگلستان اس طرح ایک ایسے شخص سے نور پائے گا جو اس کے ماتحت ملک میں رہتا تھا جس طرح روم نے انیس سو سال پہلے اپنے ایک ماتحت ملک کے نبی سے نور پایا ہے۔ یہ امر مشکل معلوم ہوتا ہے مگر کون خیال کرتا تھا کہ ناصرہ کا مصلح دنیا پر غالب ہو گا۔ خدا تعالیٰ ہمیشہ ایسے ہی لوگوں سے کام لیتا ہے۔ جن کو دنیا ادنیٰ اور کمزور سمجھتی ہے تا اس کا جلال ظاہر ہو اور لوگ اس کو انسانی مدد کا محتاج نہ سمجھ لیں میں اہل انگلستان سے امید کرتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے اس شخص کے دعویٰ پر غور کرے جو یہ کہتا تھا کہ خدا تعالیٰ اس سے اسی طرح بولتا تھا جس طرح کہ وہ پہلے نبیوں سے بولا اور ان کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر وہ اس کی طرف توجہ کریں گے تو وہ اسی طرح خدا کا جلال اپنے اندر پائیں گے اور اس کا کلام سنیں گے جس طرح کہ پہلے نبیوں کے حواریوں نے محسوس کیا اور سنا۔
مسیح موعود کا دعویٰ تھا کہ وہ صلح کے شہزادے ہیں اور یہ کہ ان کے ہاتھ پر دنیا اکٹھی کی جائے گی اور امن قائم ہو گا پس ہر اک امن پسند کا فرض ہے کہ وہ ان کے دعویٰ پر غور کرے تا اس کی سستی اس مقصد کو پیچھے نہ ڈال دے جس کے حصول کے لئے وہ کوشاں ہے۔ کوئی سچی اخوت قائم نہیں ہو سکتی جس کی بنیاد خدا کے ساتھ تعلق پر نہ ہو کیونکہ بھائیوں کا رشتہ باپ کے ذریعہ سے ہوتا ہے جو باپ کو پہچانتا ہے وہ باپ کے حق کو پہچان سکتا ہے اور اس زمانہ میں صرف مسیح موعود ہی ایک ایسا شخص ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ باپ سے اسی دنیا میں انسان کو ملا دیتا ہے اور نہ صرف دعویٰ کرتا ہے بلکہ ہزاروں جنہوں نے اس کی تعلیم پر عمل کیا انہوں نے خدا تعالیٰ کے کلام کو اسی طرح سنا جس طرح کہ پہلے نبیوں کے حواری سنتے تھے چنانچہ راقم مضمون بھی ان میں سے ایک ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ انگلستان ہمارے مشن کی ہمدردانہ طور پر مدد کرے گا اور تمام وہ لوگ جو سچے طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کے مشتاق ہیں ملامت اور طعن کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اس طرف متوجہ ہوں گے اور انگلستان کا پریس جو آزادی کا حامل ہے اس حقیقی آزادی کے حصول میں جس کے بغیر بچے اپنے باپ سے نہیں مل سکتے ہماری مدد کریں گے۔ جو لوگ خیالات میں ہمارے مخالف ہیں کم سے کم ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ ہمارا اور ان کا مقصد ایک ہے یعنی دنیا میں نیکی کو قائم کرنا اور خدا تعالیٰ سے انسان کا تعلق قائم کرکے سچی اخوت کو پیدا کرنا جس کا نتیجہ امن ہوتا ہے۔ جب ہم مقصد کی یگانگت پر غور کرکے اپنے اپنے دائرہ میں کام کریں گے تو یقیناً یہ یگانگت ایک ذرائع کے اختیار کرنے پر بھی ہمیں مجبور کر دے گی۔
چونکہ ہمارا مقصد خدا اور بندوں کے درمیان اور بندوں اور بندوں کے درمیان نیک تعلق قائم کرنا ہے میں اہل انگلستان سے یہ بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ مشرقی سوال کی طرف زیادہ توجہ کریں۔ مشرق و مغرب باوجود کوشش کے روزبروز ایک دوسرے سے جدا ہو رہا ہے اور اگر جلد اس کی طرف توجہ نہ کی گئی تو اس کا نتیجہ دنیا کے لئے اچھا نہ ہو گا۔ عقلمندوں کو واقعات کی موجودہ صورت کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ یہ سوچنا چاہئے کہ ایسے حالات جو اس وقت پیدا ہو رہے ہیں آخر کار کیا نتیجہ پیدا کیا کرتے ہیں قوموں کی زندگی محدود نہیں ہوتی اس لئے ان کو اپنے مستقل قریب پر نہیں بلکہ مستقبل بعید پر نظر ڈالنی چاہئے۔ دنیا اپنی موجودہ حالت پر ہرگز نہیں رہ سکتی اگر اس میں تبدیلی نہ ہوئی تو یا دونوں تہذیبیں نئی اور پرانی تباہ ہو جائیں گی یا ان میں سے ایک مگر کیوں نہ دونوں ہی قائم رہیں؟ ہمدردی اور دور اندیشی اس بعد کو دور کر سکتے ہیں مگر یہ کام حکومتوں سے نہیں ہو سکتا بلکہ جب تک قومیں اس طرف توجہ نہ کریں گی یہ کام نہ ہو گا۔ وہ لوگ کوتہ اندیش ہیں جو اس کام کے لئے حکومتوں کی طرف دیکھتے میں حکومتیں خود نہیں ہلا کرتیں بلکہ قومیں ان کو ہلایا کرتی ہیں۔ ایک زبردست طاقت نے دنیا میں کام شروع کیا ہوا ہے کیوں نہ ہم اسے اپنے مفید مطلب استعمال کر لیں ایک دریا جب اس کے پانی کو استعمال کیا جائے لاکھوں ایکٹر کو سیراب کر دیتا ہے لیکن جب اس کو اپنا کام کرنے دیا جائے ہزاروں گائوں اور سینکٹروں جانوں کو ہلاک کر دیتا ہے۔ سو آئو ہم سب مل کر بہتری کے لئے کوشش کریں اور بجائے اجاڑنے والوں کے آباد کرنے والے بنیں۔
قیام لنڈن کا دوسرا ہفتہ ۲۹/ اگست سے ۴/ ستمبر ۱۹۲۴ء تک
دوسرے ہفتہ میں حضور کی مصروفیات میں بے حد اضافہ ہو گیا۔ جس کی بڑی وجہ کابل میں مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی سنگساری کا المناک حادثہ تھا۱۰۰۔ اس حادثہ کی اطلاع ملنے پر حضور نے اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے اور واقعات کی روک تھام کے لئے ضروری اور مناسب اقدامات فرمائے۔ اور اس کے لئے دن رات ایک کر دیا۱۰۱ اور یہ سلسلہ لنڈن میں قیام کے آخر تک برابر جاری رہا۔
اس کے علاوہ اس دوسرے ہفتہ میں حضور برائٹن کے قصبہ میں تشریف لے گئے اور جنگ عظیم میں جان دینے والے سپاہیوں کی یادگار میں چھتری میں دعا کی کہ جس طرح یہ ایک نشان ہے ان لوگوں کا جو ایک دنیاوی غرض کے لئے متحد ہوئے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعودؑ کی عظیم الشان چھتری کے نیچے مشرق و مغرب کو جمع کر دے۔ حضور نے دعا سے پہلے ایک تقریر بھی فرمائی۔ سینما والوں نے اس نظارہ کی تصویریں سینما میں دکھائیں اور اخبارات نے مفصل خبریں شائع کیں۔ حضور چھتری میں دعا کے بعد ایوان شاہی کو گئے اور اس کے دروازہ پر ایک ہجوم کے سامنے اپنا پیغام سنایا جس کا ترجمہ مکرم چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے پڑھا۔ اسی ہفتہ آپ نے مسئلہ تبلیغ پر مجلس مشاورت منعقد فرمائی۔ ’’سپر چولزم سوسائٹی‘‘ کے ایک جلسہ میں شمولیت فرمائی اور مختلف اخبارات اور مذہبی کانفرنس کے نمائندوں سے گفتگو کی۔ اخبار الفضل سے معلوم ہوتا ہے کہ برائٹن کی یادگار تقریب کے قلمی نظارے دنیا بھر کے سینما گھروں میں دکھلائے گئے چنانچہ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کی رپورٹ میں ہے کہ ’’خدا تعالیٰ کی قدرتیں بھی عجیب درعجیب ہیں ساری دنیا میں سلسلہ احمدیہ کا ذکر پہنچانے کے لئے یہ سامان کیا کہ حضرت خلیفتہ المسیح ثانی کو برائٹن میں دعوت دی گئی۔ حضور تشریف لے گئے اور سارا قافلہ ہمرکاب تھا ادھر فوٹو گرافروں کے دل میں تحریک ہوئی اور وہ وہاں جاپہنچے۔ انہوں نے وہ نظارے فلموں میں بھر کو سینما میں بھیج دئے۔ اب وہ فلمیں ہیں جو عراق عرب میں‘مصر میں شام میں امریکہ وافریقہ میں غرض تمام دنیا میں چکر لگا رہی ہیں‘‘۔۱۰۲۔
قیام لنڈن کا تیسرا ہفتہ ۵/ ستمبر تا ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء
حضور نے تیسرے ہفتہ میں بھی تبلیغ سلسلہ کی مہم اور تیز کر دی۔ چنانچہ ۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو بہت سے انگریز مردوں‘عورتوں ہندوستانی طالب علموں اور سفارت ترکیہ اور دوسرے معزز مسلمانوں کو دعوت پر بلایا گیا۔ جس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ایک اور پیغام محبت حسب سابق مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے نہایت قابلیت سے پڑھ کر سنایا۱۰۳۔ ۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی شام کو حضور نے ’’ایسٹ اینڈ ویسٹ یونین‘‘ کے اجلاس (منعقدہ گلڈ ہائوس) میں پہلا انگریزی لیکچر دیا جو بہت پسند کیا گیا۱۰۴۔ پھر ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو قیام امن کے مسئلہ پر لیگ آف نیشنز کے شعبہ مذہب و اخلاق کے سیکرٹری مسٹر ایل سن اور مسٹر رین سے تفصیلی گفتگو فرمائی اور حکیمانہ انداز میں بتایا کہ جب تک اسلامی اصولوں پر لیگ آف نیشنز کی بنیاد قائم نہیں ہو گی یہ اپنے مقاصد میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتی۱۰۵۔
قیام لنڈن کا چوتھا ہفتہ ۱۲/ ستمبر تا ۱۸/ ستمبر ۱۹۲۴ء
چوتھے ہفتہ کا آغاز جمعہ سے ہوا۔ جو حضور نے پڑھایا اور جماعت کو توجہ دلائی کہ اسے شہید افغانستان کی طرح ہر وقت شہادت کے لئے تیار رہنا چاہئے۱۰۶۔ ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے پورٹ سمتھ میں دو لیکچر دیئے ایک ’’مسیح کی آمد ثانی‘‘ اور دوسرا ’’پیغام آسمانی‘‘ پر ۱۵/ ستمبر کو حضور نے ہندوستانی طلبہ سے خطاب فرمایا]01 [p۱۰۷۔ ۱۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو آپ نے کانفرنس کے لئے مجوزہ مضمون کا خلاصہ لکھا۔ ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو آپ نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کابل کی شہادت سے متعلق ایک احتجاجی جلسہ میں تقریر فرمائی۱۰۸۔
قیام لندن کا پانچواں ہفتہ ۱۹ سے ۲۵/ ستمبر تک
۱۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جس میں قومی اخلاق مضبوط کرنے پر زور دیا۔ جمعہ کے بعد ویمبلے کانفرنس کے پریذیڈنٹ سر ای۔ ڈی راس سے ملاقات کی۔ آپ کا شمار انگلستان کے نامور مستشرقین میں ہوتا ہے۔ مزاج پرسی کے بعد انہوں نے کہا کہ آپ کی تشریف آوری پر انگلستان کا پریس بہت دلچسپی لے رہا ہے۔ اسی شام آپ نے سینٹ لوکس ہال میں ’’حیات بعد الموت‘‘ پر شاندار لیکچر دیا۔ ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لیگوس (نائجیریا) کے دو حاجی صاحبان (جن میں سے ایک احمدی تھے) حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔
۲۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی شام کو حضور کی کرنل ڈگلس سے ملاقات ہوئی۔ یہ وہی ڈگلس تھے جنہوں نے ہنری مارٹن کلارک کا مقدمہ بے بنیاد پا کر خارج کر دیا تھا اور عدل و انصاف کا بہترین نمونہ دکھایا تھا۔ ۲۲/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو ویمبلے کانفرنس کا افتتاح ہوا اور حضور معہ رفقاء اس کے اجلاس میں شمولیت کے لئے تشریف لے گئے۔
کانفرنس میں حضور کے مضمون کی شاندار کامیابی
۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء کا دن سفر یورپ کی تاریخ میں سنہری دن ہے۔ کیونکہ اس دن ویمبلے کانفرنس میں حضور کا بے نظیر مضمون پڑھا گیا۔ جس نے سلسلہ احمدیہ کی شہرت کو چار چاند لگا دیئے۔ یورپ میں اسلام کی روحانی فتح کی بنیادیں رکھ دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لندن میں تقریر کرنے کا رویا پوری آب و تاب سے پورا ہو گیا۔
حضور کے مضمون کا وقت ۵ بجے شام مقرر تھا جب کہ لوگ اڑھائی گھنٹے سے مسلسل بیٹھے اسلام۱۰۹ سے متعلق مضامین سن رہے تھے۔ انگلستان کے باشندے زیادہ دیر تک بیٹھنے کے عادی نہیں ہیں مگر جونہی آپ کی تقریر کا وقت آیا وہ نہ صرف وہیں اپنی اپنی جگہ پورے شوق و ذوق سے بیٹھ گئے بلکہ دیکھتے ہی دیکھتے پورا ہال سامعین سے بھر گیا۔ کسی اور لیکچر کے وقت حاضرین کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہوئی۔
اجلاس کے صدر سر تھیوڈر ماریسن نے حضور کا سامعین سے تعارف کرانے کے بعد نہایت ادب و احترام کے جذبات کے ساتھ آپ سے درخواست کی کہ اپنے کلمات سے محفوظ فرمائیں۔ اس پر حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی جو اپنے رفقاء کے ساتھ سٹیج پر ہی تشریف فرما تھے کھڑے ہوئے اور انگریزی میں فرمایا۔ مسٹر پریذیڈنٹ بہنو اور بھائیو! میں سب سے پہلے خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے اس کانفرنس کے بانیوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کیا کہ لوگ اس طریق پر مذہب کے سوال پر غور کریں اور مختلف مذاہب سے متعلق تقریریں سن کر یہ دیکھیں کہ کس مذہب کو قبول کرنا چاہئے۔ اس کے بعد میں اپنے مرید چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بار ایٹ لاء سے کہتا ہوں کہ میرا مضمون سنائیں۔ میں ایسے طور پر اپنی زبان میں بھی پرچہ پڑھنے کا عادی نہیں ہوں۔ کیونکہ میں ہمیشہ زبانی تقریریں کرتا ہوں اور چھ چھ گھنٹے تک بولتا ہوں۔ مذہب کا معاملہ اسی دنیا تک ختم نہیں ہو جاتا بلکہ وہ مرنے کے بعد دوسرے جہان تک چلتا ہے اور انسان کی دائمی راحت مذہب سے وابستہ ہے اس لئے آپ اس پر غور کریں اور سوچیں اور مجھے امید ہے کہ آپ توجہ سے سنیں گے۔
اس کے بعد حضور نے مکرم چودھری صاحب کے کان میں کہا کہ ’’گھبرانا نہیں میں دعا کروں گا‘‘۔
چنانچہ مکرم چودھری صاحب کھڑے ہوئے اور ایک گھنٹہ میں نہایت بلند اور نہایت موثر اور نہایت پرشوکت لہجہ میں یہ مضمون پڑھ کر سنایا۔ چودھری صاحب ایک دن پہلے حلق کی خراش کی وجہ سے بیمار تھے مگر اللہ تعالیٰ نے روح القدس سے ان کی تائید فرمائی۔ حضرت امیر المومنین کا مضمون اور مکرم چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی زبان نے (جسے حضور نے ایک مجمع میں میری زبان کہا تھا۱۱۰) حاضرین پر وجد کی کیفیت طاری کر دی۱۱۱۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سب حاضرین گویا احمدی ہوں۔ تمام لوگ ایک محویت کے عالم میں اخیر تک بیٹھے رہے۔ جب مضمون میں اسلام کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کی جاتی جو ان کے لئے نئی ہوتی تو کئی لوگ خوشی سے اچھل پڑتے۔ غلامی‘سود‘اور تعدد ازدواج وغیرہ مسائل کو نہایت واضح طور پر بیان کیا گیا تھا۔ اس حصہ مضمون کو بھی نہ صرف مردوں نے بلکہ عورتوں نے بھی نہایت شوق اور خوشی سے سنا ایک گھنٹہ بعد لیکچر ختم ہوا۔ تو لوگوں نے اس گرم جوشی کے ساتھ اور اتنی دیر تک تالیاں بجائیں کہ پریذیڈنٹ (سر تھیوڈر ماریسن) کو اپنے ریمارکس کے لئے چند منٹ تک انتظار کرنا۔
پریذیڈنٹ نے کہا۔ مجھے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ مضمون کی خوبی اور لطافت کا اندازہ خود مضمون نے کرا لیا ہے میں اپنی طرف سے اور حاضرین کی طرف سے مضمون کی خوبی ترتیب‘خوبی خیالات اور اعلیٰ درجہ کے طریق استدلال کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح کا شکریہ ادا کرتا ہوں حاضرین کے چہرے زبان حال سے میرے اس کہنے کے ساتھ متفق ہیں۔ اور میں یقین کرتا ہوں کہ وہ اقرار کرتے ہیں کہ میں ان کی طرف سے شکریہ ادا کرنے میں حق پر ہوں اور ان کی ترجمانی کا حق ادا کر رہا ہوں۔ پھر حضور کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ میں آپ کو لیکچر کی کامیابی پر مبارکباد عرض کرتا ہوں آپ کا مضمون بہترین مضمون تھا جو آج پڑھے گئے۔ کیا آپ کا خیال نہیں ہے کہ اس کامیابی کے لئے جو آج آپ کو حاصل ہوئی ہے آپ یہاں تشریف لائے۱۱۲۔
اجلاس ختم ہونے پر سر تھیوڈر ماریسن دیر تک سٹیج پر کھڑے کھڑے مختلف باتیں کرتے رہے۔ اور بار بار مضمون کی تعریف کرتے رہے۔ مضمون کے پڑھنے پر لوگوں نے مکرم چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کو بھی بہت مبارکباد دی۔
چنانچہ (فری چرچ کے ہیڈ) ڈاکٹر والٹر واش نے جو خود فصیح البیان لیکچرار تھے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا۔
میں نہایت خوش قسمت ہوں کہ مجھے یہ لیکچر سننے کا موقعہ ملا۔ قانون کے ایک پروفیسر نے بیان کیا کہ جب وہ مضمون سن رہا تھا تو یہ محسوس کر رہا تھا کہ یہ دن گویا ایک نئے دور کا آغاز کرنے والا ہے پھر کہا اگر آپ لوگ کسی اور طریق سے ہزاروں ہزار روپیہ بھی خرچ کرتے تو اتنی زبردست کامیابی حاصل نہیں کر سکتے تھے۔
ایک پادری منش نے کہا تین سال ہوئے مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ حضرت مسیح تیرہ حواریوں کے ساتھ یہاں تشریف لائے ہیں اور اب میں دیکھتا ہوں کہ یہ خواب پورا ہو گیا ہے۱۱۳۔
مس شارپلز (کانفرنس کی سیکرٹری) نے کہا کہ لوگ اس مضمون کی بہت تعریف کرتے ہیں اور خود ہی بتایا کہ ایک صاحب نے ہزہولی نس (خلیفتہ المسیح الثانی) کے متعلق کہا یہ اس زمانہ کا لوتھر معلوم ہوتا ہے بعض نے کہا ان کے سینہ میںں ایک آگ ہے۔ ایک نے کہا یہ تمام پرچوں سے بہتر پرچہ تھا۔
ایک جرمن پروفیسر نے جلسہ کے بعد سڑک پر چلتے ہوئے آگے بڑھ کر حضور کی خدمت میں مبارکباد عرض کی اور کہا میرے پاس بعض بڑے بڑے انگریز بیٹھے کہہ رہے تھے۔ یہ نادر خیالات ہیں جو ہر روز سننے میں نہیں آتے۔
مسٹر لین نے جو انڈیا آفس میں ایک بڑے عہدہدار تھے تسلیم کیا کہ خلیفتہ المسیح کا پرچہ سب سے اعلیٰ اور بہترین پرچہ تھا۱۱۴۔
پریس نے بھی اس عظیم الشان لیکچر کی نمایاں خبریں شائع کیں اور اس کی عظمت کا اقرار کیا۔ چنانچہ ’’مانچسٹر گارڈین‘‘ نے (۲۴/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں) لکھا۔
’’اس کانفرنس میں ایک ہلچل ڈالنے والا واقعہ جو اس وقت ظاہر ہوا وہ آج سہ پہر کو اسلام کے ایک نئے فرقہ کا ذکر تھا۔ نئے فرقہ کا لفظ ہم نے آسانی کے لئے اختیار کیا ہے ورنہ یہ لوگ اس کو درست نہیں سمجھتے تھے۔ اس فرقہ کی بنا ان کے قول کے بموجب آج سے چونتیس سال پہلے اس مسیح نے ڈالی جس کی پیشگوئی بائبل اور دوسری کتابوں میں ہے اس سلسلہ کا یہ دعویٰ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے صریح الہام کے ماتحت اس سلسلہ کی بنیاد اس لئے رکھی ہے کہ وہ نوع انسان کو اسلام کے ذریعہ خدا تعالیٰ تک پہنچائے۔ ایک ہندوستان کے باشندے نے جو سفید دستار باندھے ہوئے ہے اور جس کا چہرہ نورانی اور خوش کن ہے اور سیاہ داڑھی رکھتا ہے اور جس کا لقب ہزہولی نس خلیفتہ المسیح الحاج میرزا بشیر الدین محمود احمد یا اختصاراً خلیفتہ المسیح ہے مندرجہ بالا تحدی اپنے مضمون میں پیش کی۔ جس کا عنوان ہے ’’اسلام میں احمدیہ تحریک‘‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے ایک اور شاگرد نے جو سرخ رومی ٹوپی پہنے ہوئے تھا۔ آپ کا پرچہ کمال خوبی کے ساتھ پڑھا ۔۔۔۔۔ آپ نے اپنے مضمون کو جس میں زیادہ تر اسلام کی حمایت اور تائید تھی۔ ایک پرجوش اپیل کے ساتھ ختم کیا۔ جس میں انہوں نے حاضرین کو اس نئے مسیح اور اس نئی تعلیم کے قبول کرنے کے لئے مدعو کیا۔ اس بات کا بیان کر دینا بھی ضروری ہے کہ اس پرچہ کے بعد جس قدر تحسین و خوشنودی کا چیئرز کے ذریعہ اظہار کیا گیا اس سے پہلے کسی پرچہ پر ایسا نہیں کیا گیا تھا‘‘۔ (ترجمہ۱۱۵)
قیام لنڈن کا چھٹا ہفتہ ۲۶/ ستمبر سے ۲/ اکتوبر تک
۲۶/ ستمبر کو حضور نے کنز رویٹو کی درخواست پر ڈچ ہال لنڈن میں ہندوستان کے حالات حاضرہ اور اتحاد پیدا کرنے کے ذرائع پر ایک معلومات افزا لیکچر دیا۱۱۶۔ ۲۸/ ستمبر کو آپ کا ایک اہم مضمون ’’رسول کریم~صل۱~ کی زندگی اور تعلیم سے نوجوان بچے کیا فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘‘ کے موضوع پر لنڈن فیلڈ میں پڑھا گیا۱۱۷۔ ۲۹/ ستمبر کو حضور کا بہت سا وقت ہندوستان کی ڈاک میں صرف ہوا۔ اسی ہفتہ آپ نے فیصلہ فرمایا کہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کا انگریزی ایڈیشن آئندہ لنڈن سے شائع ہوا کرے۱۱۸۔
۲/ اکتوبر کو حضور نے ’’ولیم دی کنکرر‘‘ والی خواب کو پورا کرنے کے لئے خلیج میونسی پر پہنچے اور ایک کشتی لے کر اس مقام کی طرف تشریف لے گئے۔ جہاں ’’ولیم دی کنکرر‘‘ اترا تھا۔ حضور کشتی چھوڑ کر قریب ہی ایک مقام پر جس کا نام الیکرسی (لنگر گاہ) ہے۔ کھڑے ہوئے اور خواب کی طرح اسی شکل و ہیئت میں ایک لکڑی پر دایاں پائوں رکھ کر ایک فاتح جرنیل کی طرح چاروں طرف نظر کی۔ حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کا بیان ہے کہ اس وقت آپ کے چہرہ پر جلال اور شوکت تھی اور اس کے ساتھ ایک ربودگی بھی تھی۔ اس کے بعد خاموشی کے ساتھ آپ نے دعا فرمائی۔ اس مقام کے پاس ہی ویلٹائن نام ایک برج سا ہے جس پر ایک توپ رکھی ہوئی تھی۔ حضور نے نماز قصر کرکے پڑھی اور اس میں بھی لمبی دعا کی اور زمین پر اکڑوں بیٹھ کر پتھر کے سنگریزوں کی مٹھیاں بھریں اور فرمایا۔ کسریٰ کے دربار میں ایک صحابی کو مٹی دی گئی تو صحابی نے مبارک فال لیا کہ کسریٰ کا ملک مل گیا اور لے کر رخصت ہوا۔ شہنشاہ ایران نے آدمی بھیجے کہ وہ مٹی لے آئیں۔ مگر صحابی نے واپس نہ کی اور خدا نے بھی اس مبارک فال پر وہ سر زمین صحابہ کو دے دی۔ بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی اور درد صاحب نے ان سنگریزوں کی دو دو مٹھیاں بھر کر اپنی جیبوں میں ڈال لیں۔ یہاں سے فارغ ہوتے ہی بھائی جی کے دل میں ایک پرزور تحریک ہوئی اور آپ نے باواز بلند مبارک باد دی اور بہت جوش سے حضرت مسیح موعودؑ کا یہ مصرع پڑھا۔ ع
تو سچے وعدوں والا منکر کہاں کدھر ہیں۱۱۹؟
قیام لنڈن کا ساتواں ہفتہ ۳/ اکتوبر سے ۹/ اکتوبر تک
۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو حضور نے خطبہ جمعہ۱۲۰ پڑھا اور کانفرنس مذاہب عالم کے آخری اجلاس سے اردو میں خطاب فرمایا۔ جس پر نہایت ہی مسرت کا اظہار کیا گیا۔ لیکچر ہال بالکل پر تھا۱۲۱۔ نیز شام کو حضور نے ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ لنڈن کی ترتیب مضامین اور دیگر امور پر مجلس شوریٰ منعقد فرمائی۔ ۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو حضور مع رفقاء انگلستان کے نئے مبلغ مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو لے کر پٹنی کے اس مکان کے دروازہ پر تشریف لے گئے۔ جو مجوزہ مسجد میں کھلنے والا تھا۔ اس مقام پر کھڑے ہو کر حضور نے تعمیر مسجد کی سکیم کا مختصر ذکر فرمایا۔ پھر مکان کے اس کمرہ میں تشریف لے گئے۔ جہاں ان دنوں نمازیں ہوتی تھیں اور بہت لمبی دعا فرمائی اور اس کے بعد اپنے دست مبارک سے مولوی عبدلرحیم صاحب درد کو اس مکان کی چابی عطا فرمائی اور پھر مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور ان کے نائب ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے کو مفصل ہدایات دیں4] ft[s۱۲۲۔ ۷/ اکتوبر کو حضور نے دارالامراء Lords( of )House کا اجلاس دیکھا اور ۸ اور ۹ اکتوبر کو دارالعوم commons( of )House کا اجلاس دیکھنے تشریف لے گئے۱۲۳۔
قیام لنڈن کا آٹھواں ہفتہ ۱۰/ اکتوبر سے ۱۶/ اکتوبر تک
یہ ہفتہ حضور کی گوناگوں مصروفیت کا ہفتہ تھا۔ چنانچہ حضور نے ۱۰/ اکتوبر کو خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۱۲۴ ارشاد فرمایا۔ ایک ڈاکٹر سے مشورہ کے لئے تشریف لے گئے۔ ۱۲/ اکتوبر کو نو مسلموں کو پانچ گھنٹہ تک تبلیغ و ہدایت فرمانے میں مصروف رہے نیز انگریز مردوں اور عورتوں سے مختلف مسائل سے متعلق دلچسپ مذہبی گفتگو فرمائی۱۲۵۔ چونکہ ۱۴/ اکتوبر کو سامان سفر تھامس کک اینڈ سنزsons( and cooks )Thomas کے سپرد کیا جانے والا تھا اس لئے ۱۳/ اکتوبر کا دن سامان کی تیاری میں گزرا۔ ۱۵/ اکتوبر کو حضور نے ’’اورینٹل سکول آف سٹڈیز‘‘ دیکھا۱۲۶۔
قیام لنڈن کا آخری ہفتہ ۱۷/ اکتوبر سے ۲۴ اکتوبر تک
اب ہم قیام انگلستان کے حالات بیان کرتے ہوئے اس کے آخری مگر اہم ہفتہ میں پہنچ گئے ہیں۔ اس ہفتہ کا آغاز ’’مسجد فضل‘‘ کی بنیاد کے ابتدائی انتظامات سے ہوا۔ اور اختتام رخت سفر باندھنے پر۔ اس طرح وہ دن آپہنچا جس کے انتظار میں آپ فرماتے ہیں۔ ~}~
آہ کیسی خوش گھڑی ہو گی کہ بانیل و مرام
باندھیں گے رخت سفر کو ہم برائے قادیاں
’’مسجد فضل‘‘ کے سنگ بنیاد کا یادگار دن (۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۴ء)
اس ہفتہ کا یادگار دن ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۴ء ثابت ہوا۔ جبکہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۴ بجے شام ایک بہت بڑے مجمع میں ’’مسجد فضل‘‘ (۶۳ میلروز روڈ۔ لنڈن) کا اپنے دست مبارک سے سنگ بنیاد رکھا۱۲۷۔
اس تقریب پر سب سے پہلے (متعینہ) امام مسجد لنڈن مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے خوش آمدید کا مختصر ایڈریس پڑھا۔ جس کے بعد تمام حاضرین مقام بنیاد کی طرف گئے۔ جہاں پہلے حضرت حافظ روشن علی صاحب نے تلاوت فرمائی۔ پھر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں ایک مضمون پڑھا جس میں مسجد کی غرض و غایت پر اسلامی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا۔
’’پیشتر اس کے کہ میں اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھوں میں اس امر کا اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مسجد صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے۔ تاکہ دنیا میں خدا تعالیٰ کی محبت قائم ہو اور لوگ مذہب کی طرف (جس کے بغیر حقیقی امن اور حقیقی ترقی نہیں) متوجہ ہوں اور ہم کسی شخص کو جو خدا تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہے ہرگز اس میں عبادت کرنے سے نہیں روکیں گے بشرطیکہ وہ ان قواعد کی پابندی کرے جو اس کے منتظم انتظام کے لئے مقرر کریں اور بشرطیکہ وہ ان لوگوں کی عبادت میں مخل نہ ہوں جو اپنی مذہبی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس مسجد کو بناتے ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ رواداری کی روح جو اس مسجد کے ذریعہ سے پیدا کی جاوے گی۔ دنیا سے فتنہ و فساد دور کرنے اور امن و امان کے قیام میں بہت مدد دے گی۔ اور وہ دن جلد آجائیں گے کہ لوگ جنگ و جدال کو ترک کرکے محبت اور پیار سے آپس میں رہیں گے‘‘۔
اس مضمون کے بعد (جس کا حاضرین پر ایک گہرا اثر تھا) حضرت خلیفتہ المسیح نے بنیادی پتھر رکھا جس پر انگریزی میں ایک مضمون درج تھا۔ جس کے الفاظ ہم حضرت خلیفتہ المسیح ہی کے خط کے عکس کی صورت میں اگلے صفحہ پر درج کرنے کے علاوہ ذیل میں بھی نقل کر دیتے ہیں۱۲۸۔
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم۔
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھو الناصر۔
قل ان صلوتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین۔
میں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی امام جماعت احمدیہ جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان ہے۔ خدا کی رضا کے حصول کے لئے اور اس غرض سے کہ خدا تعالیٰ کا ذکر انگلستان میں بلند ہو۔ اور انگلستان کے لوگ بھی اس برکت سے حصہ پاویں جو ہمیں ملی ہے آج ۲۰/ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو اس مسجد کی بنیاد رکھتا ہوں اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تمام جماعت احمدیہ کے مردوں اور عورتوں کی اس مخلصانہ کوشش کو قبول فرمائے۔ اور اس مسجد کی آبادی کے سامان پیدا کرے اور ہمیشہ اس کے لئے اس مسجد کو نیکی‘تقویٰ‘انصاف اور محبت کے خیالات پھیلانے کا مرکز بنائے اور یہ جگہ حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبین~صل۱~ اور حضرت احمد مسیح موعود نبی اللہ بروز و نائب محمد علیہما الصلٰوہ والسلام کی نورانی کرنوں کو اس ملک اور دوسرے ملکوں میں پھیلانے کے لئے روحانی سورج کا کام دے اے خدا تو ایسا ہی کر۔
۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۴ء
لندن میں سب سے پہلی مسجد کی بنیاد رکھی جا چکی تو مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے بلند آواز سے حضرت مولوی شیر علی صاحب کا ایک تار پڑھ کر سنایا جو انہوں نے جماعت احمدیہ ہندوستان کی طرف سے اس تقریب پر مبارک باد کا بھیجا تھا۔ اس کے بعد حضور نے لمبی دعا کی۔ پھر عصر کی نماز اسی مقام پر پڑھی اور حضور نے اعلان فرمایا کہ میں اعلان کرتا ہوں کہ اس مسجد کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا گیا۔ اس تقریب کے فوٹو اور فلم ایک درجن کے قریب فوٹو گرافروں اور سینما والوں نے لئے۔ نماز کے بعد مبارکباد کی آواز ہر طرف بلند ہوئی اور مسجد کے محراب پر ایک جھنڈا لہرایا گیا جو حیدر آباد کے ہوم سیکرٹری نواب اکبر نواز جنگ صاحب نے دیا تھا۔ اس کے بعد پورا مجمع خیمہ کی طرف چائے نوشی کے لئے آیا۱۲۹۔
اس مجمع میں مختلف قوموں کے ممتاز آدمی شامل تھے۔ مثلاً انگریز‘جرمن‘سردین‘ہنگری‘زیکو سلواکیا‘ایتھونیا‘مصری‘امریکن‘اٹالین‘جاپانی اور ہندوستان کے رہنے والے نیز مختلف مذاہب کے لوگ عیسائی‘مسلمان‘پارسی اور یہود بھی تھے۔ اگرچہ بارش کا دن تھا پھر بھی دو سو سے زیادہ معززین اس تقریب میں شامل ہوئے جن میں انگریزوں کے علاوہ دوسری حکومتوں کے نمائندے بھی موجود تھے جن میں جرمن سفیر‘ایتھونیا اور سرویا کے وزیر‘زیکو سلویا کا نمائندہ‘ترکی‘البانیہ اور فن لینڈ کے وزراء نے بذریعہ خطوط اچھی خواہشوں کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم انگلستان نے امام مسجد لنڈن اور جماعت احمدیہ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے لکھا۔ افسوس میں اس دن لنڈن میں نہیں ہوں گا۔
اس تقریب پر آنے والے مہمانوں کو ایسی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ وہ بہت دیر تک اس جگہ ٹھہرے رہے اور سلسلہ کے متعلق اپنی دلچسپی ظاہر کرتے رہے۔ ورڈز ورتھ کے میئر نے کہا کہ کوئی مذہب جسے اس تقریر کے کسی حصہ پر بھی اعتراض ہو۔ مذہب کہلانے کا مستحق نہیں ہو سکتا اور لکھنے والا فرشتہ اس کو دوام کی سیاہی میں ڈبوئی ہوئی قلموں کے ساتھ لکھے گا۔ زیکو سلویکا کے نمائندہ نے کہا کہ مجھے نہایت ہی خوشی ہے کہ مجھے ایسے خیالات پہلی دفعہ سننے کا موقعہ ملا ہے۱۳۰]ybod [tag۔
مسجد کے سنگ بنیاد پر بہت سے انگریزی اخباروں نے نوٹ لکھے جن میں سے صرف بطور نمونہ درج ذیل کئے جاتے ہیں۔ ’’ڈیلی کرانیکل‘‘ نے لکھا۔
’’ہز ہولی نس (یعنی تقدس ماب۔ ناقل) خلیفتہ المسیح نے جو اسلام کے فرقہ احمدیہ کے امام ہیں۔ کل ۱۹/ اکتوبر کو میلروز روڈ سائوتھ فیلڈز میں لنڈن کی پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا اس اصلاحی تحریک کے پیرو لندن میں ایک سو اور مشرق و افریقہ میں دس لاکھ سے بھی زیادہ ہیں۔ فی الحال یہ ارادہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مسجد کے صرف ایک حصہ کو مکمل کیا جائے اور اس حصہ کی تعمیر کے لئے سارا روپیہ بذریعہ چندہ جمع ہو چکا ہے۔ اس تقریب پر جاپان اور جرمنی کے سفیر‘وینڈز ورتھ کے رئیس‘استھونیا کا وزیر اور ترکی اور البانیا کے نمائندے بھی شامل تھے۱۳۱۔ (ترجمہ)
۲۔ ’’ویسٹ منسٹر گزٹ‘‘ نے لکھا۔ ’’ایک مسجد جو لنڈن میں پہلی مسجد ہو گی۔ سوتھ فیلڈز میں تعمیر کی جائے گی۔ جس کا مینار ستر فٹ بلند ہو گا۔ جہاں سے ایک موذن مومنوں کے لئے نماز کے وقت کا اعلان کرے گا۔ سنگ بنیاد کل ایک باغیچہ میں رکھا گیا۔ پھلدار درختوں میں خوشبو کا نیلا نیلا دھواں اٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ گیلی زمین پر قالین بچھائے گئے۔ اور اس مجمع میں مختلف اقوام کے لوگ شامل تھے۔ ہز ہولی نس خلیفتہ المسیح نے یہ رسم ادا کی۔ آپ نے قرمزی رنگ کے کفوں والا گلابی رنگ کا کوٹ پہنا ہوا تھا سر پر ایک بھاری سفید عمامہ تھا اور ہاتھ میں ایک عصا جس کے سر پر آبنوس اور چاندی لگی تھی۔ انہوں نے فرمایا کہ ’’میں میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی اور جماعت احمدیہ کا امام جس کا مرکز قادیان پنجاب ہندوستان میں ہے۔ آج ۲۰/ ربیع الاول ۱۳۴۳ھ کو خدا کی رضا حاصل کرنے کے لئے اس مسجد کا سنگ بنیاد رکھتا ہوں کہ لنڈن میں اس کے نام کا جلال ظاہر ہو اور تاکہ اس ملک کے لوگ بھی ان برکات سے حصہ لیں جو ہمیں عطا کی گئی ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ تقریب تو انسان کی اخوت اور وحدت کا ایک نشان ہے یہ ضروری نہیں ہے کہ اختلاف رائے سے تفرقہ پیدا ہو۔ عرب کا مقدس نبی فرماتا ہے کہ اختلاف رائے رحمت کا ایک سرچشمہ ہے کیونکہ اس سے علم اور حکمت کی ترقی میں مدد ملتی ہے رواداری اور عالمی حوصلگی صرف اختلاف رائے کے مدرسہ میں سیکھی جا سکتی ہے۔
ہز ہولی نس کی رائے میں وہ دن دور نہیں جبکہ لوگ جنگ کے خیالات کو ترک کر دیں گے اور بھائیوں اور بہنوں کی طرح ایک ہی خالق کے بندہ ہو کر اتفاق سے زندگی بسر کریں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔
امام مسجد مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے بیان کیا کہ ایک دن مشرق مغرب مل جاویں گے ۔۔۔۔۔ یہ سلسلہ جو کہ اسلام میں پہلا تبلیغی سلسلہ ہے۔ انگلستان کو ایشیا سے اور خصوصاً ہندوستان سے زیادہ قریب کر دے گا۔ انگلستان میں یہ پہلی مسجد ہے جس کو صرف مسلمانوں نے تعمیر کیا ہے مسٹر سی۔ ایچ اوشر مسجد کے انجینئر نے ہمارے نامہ نگار سے بیان کیا کہ وہ ایک وقت سلطان مراکش کے انجینئر تھے اس کی عمارت اپنی شکل میں شرقی طرز کی ہو گی یہ سلسلہ احمدیہ کی تعمیر کردہ مسجد ہو گی جنکا عقیدہ ہے کہ الہام کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ وہ مذہبی جنگوں کے خلاف ہیں اور رواداری کی تعلیم دیتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارا سلسلہ دنیا کو نبی عربی ~(صل۱)~ کے خالص دین کی طرف واپس بلاتا ہے‘‘۱۳۲۔
‏rov.5.29
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
لنڈن سے روانگی اور بمبئی میں درود
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو مسجد فضل لنڈن میں پہلا جمعہ پڑھایا۱۳۳۔ اور لنڈن سے روانگی سے پہلے حضور نے فرمایا۔ میرے نزدیک انگلستان کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ آسمان پر اس کی فتح کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اپنے وقت پر اس کا اعلان زمین پر بھی ہو جائے گا۔ دشمن ہنسے گا اور کہے گا یہ بے ثبوت دعویٰ تو ہر ایک کر سکتا ہے مگر اس کو ہنسنے دو کیونکہ وہ اندھا ہے اور حقیقت کو دیکھ نہیں سکتا‘‘۱۳۴۔
حضور ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو لندن سے روانہ ہوئے۔
واٹرلو اسٹیشن پر (جہاں سے حضور مع خدام گاڑی پر سوار ہوئے) بہت سے یورپین مردوں اور عورتوں کے علاوہ ہندوستانی اور افریقن لوگ بھی الوداع کرنے کے لئے موجود تھے۔ نہایت محبت آمیز مصافحوں کے بعد ہر ایک نے خدا حافظ کہا اور فوٹو گرافروں نے فوٹو لئے۔ لنڈن سے گاڑی سائوتھ پٹن پہنچی۔ جہاں سے حضور معہ رفقاء نے رات کے بارہ بجے بحری جہاز سے رودبار انگلستان عبور کی اور ۲۶/ اکتوبر کو ساڑھے آٹھ بجے کی گاڑی سے سوار ہو کر پیرس پہنچے۔ پیرس میں حضور کا قیام بہت مختصر تھا جو بہت کامیاب رہا۔ روزانہ اخبارات کے نمائندے ملاقات کے لئے آئے۔ پیرس کی سرکاری نو تعمیر مسجد میں پہلی نماز حضور نے پڑھائی۔ پریس کے نمائندوں اور سینما کی کمپنیوں نے فوٹو لئے جو روزانہ اخبارات میں شائع ہوئے]01 [p۱۳۵۔
حضور ۳۱/ اکتوبر کو پیرس سے روانہ ہوئے۔ ۲/ نومبر کی رات کو وینس (اٹلی) سے جہاز پر سوار ہو کر۱۳۶ ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بمبئی کے ساحل پر اترے۔ جماعت احمدیہ کے قریباً دو سو نمائندوں نے جو ہندوستان کے مختلف حصوں سے تشریف لائے تھے۔ حضور کا نہایت گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا اور پریس کے نمائندوں نے فوٹو لئے۔ ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب نے تمام جماعت احمدیہ ہندوستان کی طرف سے حضور کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا۔ یہاں سے حضور لیاقت منزل میں پہنچے اور جناب سید محمد رضوی صاحب کے ہاں فروکش ہوئے۱۳۷۔ بمبئی کے تمام اخبارات کے نمائندوں نے حضور سے سفر یورپ کے حالات دریافت کرنے کے لئے ملاقات اور گفتگو کی۱۳۸`۱۳۹۔
بمبئی میں بخیر و عافیت پہنچنے پر حضور نے جماعت احمدیہ کے نام برقی پیغام ارسال فرمایا کہ۔
’’میں اپنی طرف سے اور اپنے رفقاء سفر کی طرف سے تمام احباب جماعت کا دلی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ہمارے مشن کی کامیابی کے لئے دعائیں کیں۔ میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ حیرت انگیز کامیابی جو ہمیں اس سفر کے دوران میں حاصل ہوئی محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی وجہ سے تھی۔ اس نے ہر قدم پر ہماری نصرت فرمائی اور ہمارے لئے ایسے اوقات میں دروازے کھولے جب کہ ہمیں کوئی رستہ نظر نہیں آتا تھا۔ میں تمام احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنے آقا و مولیٰ کے اس خاص فضل کو یاد رکھیں اور اپنے آپ کو ان بڑی قربانیوں کے لئے تیار کریں جو انہیں ان اثمار کے حاصل کرنے کے لئے کرنی پڑیں گی۔ جو گزشتہ چار ماہ کے کام کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ ہم سب پر اپنی برکات نازل فرمائے‘‘۱۴۰۔
بمبئی سے بٹالہ تک
حضور ۲۰/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بمبئی سے بی بی اینڈ سی آئی ریلوے کے ذریعہ روانہ ہو کر اگلے دن ۲۱/ نومبر ۱۹۲۴ء کو آگرہ پہنچے۔ آگرہ آتے ہوئے آپ نے اکرن کا مشہور مقام دیکھا جو مائی جمیا کا گائوں اور جماعت احمدیہ کے معرکہ جہاد کا اہم میدان رہا ہے۔ آگرہ اسٹیشن پر آپ کا مخلصانہ استقبال کیا گیا۔ مرزا عرفان علی بیگ صاحب نے آپ کے گلے میں پھولوں کے ہار پہنائے۱۴۱4] ft[r۔
صوفی محمد ابراہیم صاحب بی ایس سی امیر المجاہدین آگرہ کی طرف سے اخبار الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷ پر حسب ذیل خبر شائع ہوئی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ورود آگرہ میں
۲۱/ نومبر بوقت ۸/ بجے شام حضرت خلیفتہ المسیح الثانی مع خدام آگرہ فورٹ پر گاڑی سے اترے جہاں سلسلہ احمدیہ کے قریباً ایک سو قائمقاموں نے جو یو پی کے مختلف مقامات سے جمع ہوئے تھے مع چند رئوساء قریباً چالیس غیر احمدی پنجابی تاجروں کے استقبال کیا۔ حضور کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔ حضور نے سب لوگوں کو مصافحہ سے مشرف کیا۔ پھر مع خدام الاحمدیہ دارالتبلیغ میں تشریف لائے۔ آتے ہی حضور نے نمازیں ادا کیں اور علاقہ مین پوری کے چند مہمانوں کی بیعت لی۔ پھر کھانا تناول فرمایا ور مجاہدین و جماعت احمدیہ آگرہ کی طرف سے مولوی غلام احمد صاحب مولوی فاضل نے ایڈریس پیش کیا جس کے جواب میں حضور نے اپنی کامیابی کو محض فضل الٰہی سے ثابت کرتے ہوئے جماعت کو آئندہ ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے کی تلقین فرمائی اور مزید قربانیوں کے لئے تیار ہونے کا حکم دیا۔ اگلی صبح حضور کا مع خدام فوٹو لیا گیا اور موٹر پر تاج محل کو دیکھتے ہوئے موضع ساندھن تشریف لے گئے‘‘۔
۲۲/ نومبر کو حضور ملکانہ تبلیغ کا بہت بڑا مرکز ساندھن دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے یہاں کل انتظام ملکانوں نے کیا تھا۔ بڑے شاندار دروازے بنائے گئے تھے جن میں سے ایک پر ’’غلام احمد کی جے‘‘ کا فقرہ لکھا ہوا تھا۔ حضور کی خدمت میں ایک ایڈریس بھی پیش کیا گیا۔ جس کا حضور نے جواب دیا۔ پھر بہت سے لوگوں نے بیعت کی۔ ساندھن سے روانہ ہو کر حضور اچھنیرہ اسٹیشن سے سوار ہوئے اور اسی رات دہلی پہنچے۔ دہلی اسٹیشن پر بہت بڑا مجمع تھا۔ یہاں تک کہ چلنا مشکل ہو گیا۔ دہلی اور شملہ کی جماعتوں نے ایڈریس پیش کیا۔ جس کا حضور نے جواب دیا اور ۲۳/ نومبر کی صبح کو دہلی سے روانہ ہو کر انبالہ پہنچے اور انبالہ سے بٹالہ روانہ ہوئے۔
تمام درمیانی اسٹیشنوں پر جہاں گاڑی کھڑی ہوئی۔ مختلف مقامات کی جماعتوں نے آکر شرف ملاقات حاصل کیا۔ انبالہ کے اسٹیشن پر جماعت انبالہ کی طرف سے دوپہر کا کھانا پیش کیا گیا۔ راجپورہ کے اسٹیشن پر ریاست پٹیالہ‘سرہند‘نابھہ اور بسی وغیرہ کی جماعتیں موجود تھیں۔ چاوا اور دوراہا کے اسٹیشنوں پر غوث گڑھ کی جماعت موجود تھی چاوا پر گاڑی اسٹیشن سے آگے نکل آئی تھی مگر اسٹیشن پر جماعت دکھائی دی۔ اس لئے گاڑی رکوائی گئی اور حضور کچھ دور پیدل چل کر اپنے خدام کو شرف مصافحہ بخشا۔
لدھیانہ اسٹیشن پر قابل دید منظر تھا۔ تمام جماعتیں جو ضلع لدھیانہ اور فیروزپور اور مالیر کوٹلہ سے آئی ہوئی تھیں۔ ایک خاص ترتیب سے صف بستہ کھڑی تھیں۔ شیخ محمد شفیع صاحب سیکرٹری جماعت لدھیانہ نے ایڈریس پڑھا۔ جس کا حضور نے جواب دیا۔ لدھیانہ کے بعد گاڑی جالندھر چھائونی پر ٹھہری۔ جہاں ضلع جالندھر‘ہوشیار پور اور کپورتھلہ کی جماعت کے نمائندے کثیر تعداد میں موجود تھے۔ حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب رئیس حاجی پورہ نے ایڈریس پڑھا پھر گاڑی جالندھر اور بیاس اسٹیشنوں پر مختصر قیام کرتی ہوئی امرتسر پہنچی جہاں پلیٹ فارم پر تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ جماعت احمدیہ کا مبارکباد اور خیر مقدم کا بلند جھنڈا لہرا رہا تھا۔ قریشی محمد حسین صاحب (موجد مفرح عنبری) قائم مقام امیر جماعت احمدیہ لاہور نے ایڈریس پڑھا اور حضور نے اس کا جواب دیا۔ جماعت امرتسر کی طرف سے کھانا پیش کیا گیا گاڑی ۱۱ بجے بٹالہ پہنچی۔
جماعت قادیان کی طرف سے بٹالہ میں حضور کے استقبال و قیام کے انتظام کے لئے احباب موجود تھے۔ حضور نے رات بٹالہ میں قیام فرمایا اور ۲۴/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بروز ’’دو شنبہ مبارک دو شنبہ‘‘ بٹالہ سے بذریعہ موٹر قادیان کے لئے روانہ ہوئے۔
قادیان میں ورود مسعود اور آپ کا نہایت شاندار پرجوش اور پر اخلاص استقبال
ادھر حضور روانہ ہوئے ادھر قادیان کے سب چھوٹے بڑے اس مقام کی طرف جانے شروع ہو گئے جو استقبالیہ کمیٹی نے قادیان اور
بٹالہ کی سڑکوں کے مقام اتصال پر کنوئیں کے پاس مقرر کیا تھا۔ یہ جگہ شامیانے لگا کر قطعات اور رنگ برنگ جھنڈیوں سے سجا کر نہایت خوبصورت بنائی گئی تھی۔ بیٹھنے کے لئے بینچ رکھے گئے تھے اور سڑک پر بہت خوبصورت دروازہ بنایا گیا جس پر اھلا و سھلا و مرحبا کے علاوہ دوسرے قطعات بھی آویزاں تھے۔ حضور کی تشریف آوری سے قبل بہت بڑا مجمع ہو گیا جس میں قادیان اور بیرونی جماعت کے احمدیوں کے علاوہ قادیان کے غیر احمدی آریہ اور سکھ اصحاب بھی تھے۔ منتظمین نے نہایت عمدگی سے تمام اصحاب ایک ترتیب کے ساتھ سڑک سے لے کر شامیانے تک کھڑے کر دیئے سب سے آگے حضرت مولوی شیر علی صاحب‘حضرت میر محمد اسحق صاحب اور خاندان مسیح موعودؑ کے افراد کھڑے تھے۔
اس وقت ہر فرد ہمہ تن چشم انتظار بن کر سڑک کی طرف ٹکٹکی لگائے ہوئے تھا کہ دور سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی موٹر نظر آئی اور سب کے چہرے خوشی اور مسرت سے کھل گئے۔ ہر ایک کا جی چاہتا تھا کہ اڑ کر سب سے پہلے اپنے محبوب آقا کے پاس پہنچے اور زیارت کرے۔ لیکن انتظام کی پابندی کی وجہ سے مجبور تھے۔ حضور بھی اپنے خدام کے وفور شوق کو جانتے تھے۔ اس لئے حضور نے بھی انتظام کی پابندی کرانے کے لئے کہلا بھیجا کہ ہر ایک شخص اپنی اپنی جگہ کھڑا رہے۔ اپنی جگہ چھوڑ دینے والے سے مصافحہ نہیں کیا جائے گا۔
یہ ارشاد پہنچ جانے کے بعد حضور کی موٹر آہستہ آہستہ آگے بڑھی۔ موٹر پر سبز جھنڈا لہرا رہا تھا جو چودھری علی محمد صاحب پکڑے ہوئے تھے۔ جب حضور دروازہ کے پاس پہنچے تو پہلے حضرت مولوی شیر علی صاحب نے پھر حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے مصافحہ ومعانقہ کیا اس کے بعد حضور نے بہت دیر تک باری باری تمام مجمع سے مصافحہ کیا جب سب لوگ مصافحہ کر چکے تو حضور نے آگے بڑھ کر حضرت صاحبزادہ میرزا بشیر احمد صاحب کو گلے لگا لیا اور دیر تک معانقہ فرمایا۔ اس وقت حضرت صاحبزادہ صاحب کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا رہے تھے۔ آپ کے بعد حضور نے حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب اور حضرت میر محمد اسمعیل صاحب سے معانقہ فرمایا اور پھر تمام مجمع کے ساتھ دعا فرمائی اور اپنے رفقاء سمیت قادیان کی طرف پیدل ہی چل دیئے۔ اس وقت ایک عظیم الشان ہجوم ساتھ تھا۔
حضور قصبہ میں داخل ہونے سے پہلے باغ میں پہنچے۔ اس وقت پھولوں کے بہت سے ہار حضور کے گلے میں تھے۔ حضور نے اس موقعہ پر فرمایا اگر یہ جائز ہوتا۔ تو میں سارے پھول حضرت مسیح موعودؑ کے مزار مبارک پر چڑھا دیتا کیونکہ یہ فتوحات کا نشان آپ ہی کے طفیل اور آپ ہی کے ذریعہ حاصل ہوا ہے۔ اس کے بعد حضور نے مقبرہ بہشتی کے پاس پہنچ کر مٹی کے لوٹے سے پانی پیا۔ پھر وضو کیا اور مزار مسیح موعودؑ پر اکیلے دعا کرنے کو تشریف لے گئے تھوڑی دیر کے بعد حضور نے اپنے رفقاء سفر بھی پاس بلائے۔ پھر سب نے مل کر دعا کی۔ دعا کرنے کے بعد حضور نے اپنے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ کی قبر پر کھڑے ہو کر (جو آپ کے اس سفر کے دوران انتقال فرما گئے تھے) نماز جنازہ پڑھی۔
مقبرہ بہشتی سے قصبہ میں داخل ہونے لگے تو حضور نے فرمایا۔ حافظ روشن علی صاحب داخلہ شہر کی دعا پڑھیں گے۔ سب دوست اسے بلند آواز سے دہراتے جائیں۔ اس پر حافظ صاحب دعا کا لفظ لفظ بلند آواز سے پڑھتے اور سارا مجمع اسے دہراتا۔ دعا یہ تھی۔
آئبون تائبون عابدون لربنا حامدون صدق اللہ وعدہ و نصر عبدہ و ھزم الاحزاب وحدہ۔
حضور میاں محمد اسمعیل صاحب و میاں محمد عبداللہ صاحب جلد ساز ان کے مکان سے متصل راستے میں سے گزرتے ہوئے مہمان خانہ کے قریب پہنچے۔ جہاں حضرت میر محمد اسحٰق صاحب نے لنگر خانہ حضرت مسیح موعودؑ کی طرف سے خیر مقدم کیا۔ یہاں نواب محمد عبداللہ خان صاحب کے فرزند میاں عباس احمد صاحب اونچے چبوترے پر بٹھائے گئے تھے۔ جن کی طرف سے حضرت میر محمد اسحق صاحب نے ایک نان حضور کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے پیش کیا کہ ’’یہ تیرے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے‘‘۔ حضور نے نان لیا اور اپنے رفقاء میں تقسیم کر دیا۱۴۲۔ اس کے بعد جلوس پھر بلند آواز سے حمد کا یہ ترانہ پڑھتا ہوا۔ آگے بڑھا۔ مدرسہ احمدیہ کی طرف سے سکول کے دروازوں کے قریب خیر مقدم اور خوش آمدید کے رنگین اور سنہری قطعے آویزاں تھے۔
احمدیہ چوک میں پہنچ کر حضور نے سارے مجمع سمیت واپسی کی دعا پڑھی۔ اس وقت کا نظارہ نہایت ہی رقت آمیز اور موثر تھا خود حضور کی آواز میں رقت اور آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور حاضرین بھی فرط مسرت سے رو رہے تھے اور بعض کی چیخیں بھی نکل گئیں۔ اس رقت انگیز حالت میں حضور نے ڈبڈبائی آنکھوں اور دردناک لہجہ میں فرمایا۔
’’دیکھو رسول کریم~صل۱~ کی یہ دعا کیسی لطیف ہے جس کا نظارہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ یہی جگہ یہی مقام اور یہی گھر ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے جب دعویٰ کیا تو آپ اکیلے اور تنہا تھے۔ کوئی ساتھی اور مددگار نہ تھا۔ اس وقت چاروں طرف سے آوازیں آئیں کہ نعوذ باللہ یہ فریبی ہے یہ جھوٹا ہے۔ دغا باز ہے اور دشمن کہتے کہ ہم اسے کیڑے کی طرح مسل دیں گے۔ لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے وعدوں کے مطابق آپ کی تائید اور نصرت کی اور آج اسی کمند میں جکڑے ہوئے ہم اس قدر لوگ یہاں جمع ہیں آپ ہی کے طفیل ہمیں خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں فتح دی۔ اسی کے ذریعہ اور اسی کے وعدوں کے مطابق خدا تعالیٰ نے ہمیں وہ عزتیں دیں جو درحقیقت اس کے لئے آئیں اور خدا تعالیٰ نے ہمیں ان انعامات کا وارث بنایا جن کا وعدہ آپ سے کیا گیا اور اگر حقیقت اور سچائی کو مدنظر رکھا جائے تو سچ ہے کہ ساری بڑائیاں حضرت مسیح موعودؑ کے لئے ہیں۔ محمد~صل۱~ کے لئے ہیں اور خدا تعالیٰ کے لئے ہیں‘‘۔
یہ الفاظ فرمانے کے بعد حضور اس دروازہ میں سے گزر کر جو مسجد مبارک کے نیچے نہایت خوبصورتی کے ساتھ بنایا اور بیل بوٹوں سے سجایا گیا تھا۔ مسقف گلی میں سے ہو کر سیڑھیوں سے مسجد مبارک میں تشریف لے گئے اور مسجد کے اس حصہ میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں مسجد تھی۔ حضور نے باجماعت دو رکعت نفل اپنے رفقاء سمیت ادا فرمائے۔ نماز کے بعد حضور مجمع کو السلام علیکم کہہ کر اپنے گھر دارالمسیح میں تشریف لے گئے۱۴۳۔
اس طرح حضور کا یہ مبارک اور تاریخی سفر جو قریباً چار ماہ پہلے ۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو شروع ہوا تھا ۲۴/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بخیر و خوبی ختم ہوا اور آپ یورپ کے لمبے اور طویل سفر سے کامیاب و کامران فتح مندی و کامرانی کا جھنڈا لہراتے ہوئے قادیان کی مقدس سرزمین میں رونق افروز ہوئے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے اپنے رفقاء سفر اور ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر کا شکریہ اور تحریک دعا
اسی روز حضرت مولانا شیر علی صاحب نے اہل قادیان کی طرف سے نماز عصر کے بعد مسجد اقصیٰ میں سپاسنامہ پیش کیا۔ جس کے جواب میں حضور نے سفر میں خدا تعالیٰ کی بے نظیر تائیدات
پر روشنی ڈالی اور آخر میں اپنے رفقاء سفر اور حضرت ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔
’’آخر میں مضمون ختم کرنے سے پہلے میں اس سفر کے ساتھیوں کے متعلق بھی اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں تک ان سے ہو سکا انہوں نے کام کیا۔ انسانوں سے غلطیاں ہوتی ہیں اور ان سے بھی ہوئی ہیں۔ میں ان پر بعض اوقات ناراض بھی ہوا ہوں مگر میری ناراضگی کی مثال ماں باپ کی ناراضگی سی ہے جو ان کی اصلاح اور اس سے بھی زیادہ پر جوش بنانے کے لئے ہوتی ہے۔ مگر انہوں نے اچھے کام کئے اور بڑے اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے اور میرے نزدیک وہ جماعت کے شکریہ کے مستحق ہیں خصوصاً اس لئے کہ میرے جیسے انسان کے ساتھ انہیں کام کرنا پڑا۔ جب کام کا زور ہو تو میں چاہتا ہوں کہ انسان مشین کی طرح کام کرے نہ اپنے آرام کا اسے خیال آئے نہ وقت بے وقت دیکھے۔ جب اس طرح کام لیا جائے تو بعض اوقات اچھے سے اچھے کام کرنے والے کا ہاتھ پائوں بھی پھول جاتے ہیں۔ مگر انہوں نے اخلاص سے کام کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے لئے خصوصیت سے دعائیں کی جائیں پھر میں سمجھتا ہوں ماسٹر عبدالرحیم صاحب نیر خصوصیت سے جماعت کی دعائوں اور شکریہ کے مستحق ہیں واقفیت کی وجہ سے انہوں نے اس سفر میں بہت کام کیا ہے ۔۔۔۔۔۔ ان کی وجہ سے بھی سلسلہ کے کاموں میں بہت کچھ مدد ملی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ برادرانہ حسن سلوک کے خلاف ہو گا اگر میں اس پہلے موقعہ پر جو مجھے اظہار خیالات کا اس سفر کے بعد ملا ہے ان کی خدمات کا اظہار نہ کروں‘‘۱۴۴۔
حضرت مصلح موعود کا ایک اہم مکتوب
حضرت مصلح موعود نے ۱۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو خان بہادر آصف زمان صاحب آف پیلی بھیت کے نام سے حسب ذیل مکتوب سپرد قلم فرمایا۔
۱۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء
مکرمی شیخ صاحب
السلام علیکم۔ آپ کا خط مورخہ گیارہ ستمبر ملا۔ سفر کے حالات پر ہندوستان کے اخبار ہی حواس باختہ نہی خود ہمارے لوگ جو اس ملک کے حالات سے واقف ہیں حیران ہیں پرانے پرانے رہنے والے اقرار کرتے ہیں کہ جس قدر ملک میں ہماری آمد پر شور ہوا ہے کسی بادشاہ کے آنے پر بھی پریس نے اس قدر نوٹس نہیں لیا۔ یہاں کا پریس اپنے آپ کو سب سے اوپر خیال کرتا ہے اور پھر اس قدر بدلنے والا ہے کہ ایک دن لکھ کر دوسرے دن لکھنا اپنی ہتک خیال کرتا ہے مگر ہمارے متعلق کوئی ساٹھ ستر اخبارات نے نوٹس لیا ہے اور بعض نے چھ چھ سات سات دفع لکھا ہے۔ لیکچر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت کامیاب رہا آخری دن برکت دینے کی درخواست بھی مجھی سے کی گئی۔ لوگ کثرت سے سلسلہ کے حالات سے واقفیت کی طرف متوجہ ہیں آج ہی ایک شخص انگلستان کے ایک اور علاقے سے ملنے آیا ہوا تھا ایک مشہور سوسائٹی کا سیکرٹری ہے صرف ملنے کے لئے آیا تھا۔ اس سوسائٹی کی مختلف ممالک میں شاخیں ہیں اور کئی ممبر پارلیمنٹ اس میں شامل ہیں جنگ کے خلاف سوسائٹی ہے۔
لڑکے کی پیدائش مبارک ہو۔ خدا تعالیٰ اسے خاندان کے لئے بھی بابرکت کرے اور خود اسے بھی صاحب فضل بنائے نام حمید زمان رکھیں اور اگر یہ نام پہلے کسی لڑکے یا اور رشتہ دار کا ہو تو ناصر زمان۔
میری صحت بالکل خراب ہو گئی ہے آنکھیں بہت کمزور ہو گئی ہیں بظاہر پچھلے چھ ماہ سے متواتر کام نے ناقابل تلافی نقصان پہنچا دیا ہے۔ ڈاکٹر لمبے اور فوری آرام کا مشورہ دیتے ہیں مگر سردست یہ میسر ہوتا نظر نہیں آتا۔
و علی اللہ التوکل
خاکسار
مرزا محمود احمد
ویمبلے کانفرنس لندن کی رپورٹ
’’ویمبلے کانفرنس لندن‘‘ کی مفصل رپورٹ جس میں دوسرے مضامین کے علاوہ حضور کا مضمون بھی شامل تھا ۱۹۲۵ء میں شائع ہوئی جس کے دیباچہ میں صدر انتظامیہ کانفرنس مذاہب لنڈن ڈینی سن راس Ross( )Denison نے لکھا۔
’’جیسا کہ ہمیں پہلے ہی علم تھا کہ لنڈن میں ان تمام مدعووین کی حاضری ممکن نہیں تھی جنہیں ہم نے کانفرنس میں مضمون پڑھنے کے لئے دعوت دے رکھی تھی لیکن بیرون سے اس کا جواب حوصلہ افزاء تھا۔ چنانچہ ہم خلیفتہ المسیح امام جماعت احمدیہ کے خاص طور پر ممنون ہیں کہ آپ نے اپنے ارادہ سے فوراً آگاہ فرما دیا کہ آپ اپنے چند رفقاء سمیت خاص طور پر کانفرنس میں شمولیت کے لئے تشریف لا رہے ہیں۔ آپ کی اس قابل ذکر مستعدی کی اخبارات میں کافی اشاعت ہوئی اور آپ کا یہ کار عظیم ہماری کانفرنس کے لئے خاص دلچسپی کے پیدا کرنے کا موجب ہوا۔
کانفرنس کے دوران بہت سی استقبالیہ دعوتیں منعقد ہوئیں۔ ایک تو لیڈی بلام فیلڈ field( )Blom کی طرف سے ()Claridgen( ہوٹل میں وقوع پذیر ہوئی اور دوسری رٹز )Ritz( ہوٹل میں مکرم اے آر درد کی طرف سے۔ تاکہ احمدیہ جماعت کے امام سے ملاقات اور تعارف ہو سکے۔ جو گروپ فوٹو وہاں لئے گئے وہ اپنے اندر ان اجتماعات کے وسیع المشرب اور صلح کل ہونے پر واقعاتی شہادت ہیں۔
کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں مضمون پڑھنے والوں میں سے خاص تعداد کو پلیٹ فارم پر بلایا گیا۔ چند مختصر لیکچر دیئے گئے۔ جن میں کانفرنس کی کامیابی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ ان میں سے ہز ہولی نس خلیفتہ المسیح کا نہایت شاندر لیکچر اردو زبان میں تھا۔
قرآن مجید کی آیات کی تلاوت بھی کی گئی جو کہ ووکنگ مسجد کے مفتی اور ہمارے مہمان صوفی روشن علی صاحب آف رنمل نے کی۔ (ترجمہ انگریزی)
’’(ریویو آف ریلیجنز‘‘ آف دی ایمپائر صفحہ ۵۔ ۶)
سیکرٹری ویمبلے کانفرنس کے نام مکتوب
(حضرت امتہ الحی صاحبہؓ کی وفات پر ویمبلے کانفرنس کی سیکرٹری مس شارپلز9] [p Sharples( M۔)M نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں تعزیت نامہ لکھا جس کے جواب میں حضور نے وسط ۱۹۲۵ء میں ایک اہم مکتوب لکھا۔ جس کا وہ حصہ جو حضور کی مقدس زندگی پر روشنی ڈالتا ہے۔ درج ذیل کیا جاتا ہے)
’’مکرمہ! مجھے افسوس ہے کہ بوجہ ماہ رمضان کے آجانے کے میں آپ کے خط کا جلد جواب نہ دے سکا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرا اور میرے ساتھیوں کا دل اس محبت اور ہمدردی کے شکریہ سے لبریز ہے جس سے آپ ہماری پارٹی سے پیش آئیں اور ہم اسے ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ میں اس ہمدردی کا بھی شکر گزار ہوں جس کا اظہار آپ نے میری پیاری بیوی کی وفات کے متعلق کیا ہے۔ میری مرحومہ بیوی ایسا علمی مذاق رکھتی تھیں اور میری تسلی کا ایسا موجب تھیں کہ ان کی وفات میرے لئے نہایت تکلیف کا موجب تھی اور اس وجہ سے میں آپ کی ہمدردی کا اور بھی زیادہ ممنون ہوں۔ گو مجھے اللہ تعالیٰ نے میرے ولایت کے سفر سے پہلے ہی اس واقعہ کی اطلاع دے دی تھی اور میں نے شائع بھی کر دیا تھا کہ میرے اہل کے متعلق ایک سخت حادثہ پیش آنے والا ہے مگر میرے قومی فرائض مجھے مجبور کرتے تھے کہ میں اپنے ذاتی احساسات کو سلسلہ کے مفاد پر قربان کر دوں۔ لیکن باوجود اس کے کہ اس حادثہ کے متعلق ایک حد تک پہلے سے علم تھا پھر بھی یہ واقعہ میرے سفر سے واپسی کے اس قدر قریب ہوا کہ قدرتاً اس کی تکلیف زیادہ محسوس ہوئی لیکن میں اللہ تعالیٰ کی قضا پر خوش ہوں اور کوئی تکلیف مجھے اس کے دین کی خدمت سے غافل نہیں کر سکتی۔ (انشاء اللہ) ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا کہ میں مرحومہ کو یاد نہ کرتا ہوں اور اس کے لئے دعا نہ کرتا ہوں۔ لیکن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دیکھتا ہوں کہ میرا دل خدا کی راہ میں قربان ہونے کے لئے پہلے سے بھی زیادہ تیار ہے میں مرحومہ کو بھولنا پسند نہیں کرتا گویا درفتگان ہمیشہ غمگین رہنے والی ہوتی ہے کیونکہ میرے نزدیک ایک وفادار بیوی سے ادنیٰ وفاداری ہم یہ کر سکتے ہیں کہ باوجود تکلیف کے ہم اس کی یاد کو تازہ رکھیں تا اس کے لئے دعا کرتے رہیں‘‘۔
‏rov.5.30
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
پانچواں باب (فصل دوم)
سفر یورپ کے تفصیلی حالات فصل اول میں بیان ہو چکے ہیں۔ اب ۱۹۲۴ء کے بقیہ واقعات فصل دوم میں درج کئے جاتے ہیں۔
امریکہ کے مستشرق پادری زویمر قادیان میں
امریکہ کے مشہور و معروف مستشرق زویمر مرکز احمدیت دیکھنے کی غرض سے ۲۸/ مئی ۱۹۲۴ء کو قادیان آئے۔ آپ نے مرکزی ادارے دیکھنے کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی اور سلسلہ کا لٹریچر لینے کے بعد رخصت ہوئے۱۴۵۔ اور امریکہ پہنچ کر ایک سرکلر خط شائع کیا۔ جس میں عیسائی دنیا سے اپیل کی کہ اسے جماعت احمدیہ کے مقابلہ کے لئے خاص تیاری کرنی چاہئے۔ کیونکہ ’’جدید اسلام‘‘ جماعت احمدیہ کے ذریعے سے یورپ و امریکہ میں مضبوط ہو رہا ہے۱۴۶۔
پادری زومیر نے چرچ مشنری ریویو لنڈن میں ’’ہندوستان میں اسلام‘‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع کیا اور اس میں اپنی آمد قادیان کا ذکر مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا۔
’’ہمارا استقبال نہایت گرم جوشی کے ساتھ کیا گیا۔ درحقیقت انہوں نے ایک دوسرے ریلوے اسٹیشن۱۴۷ پر ہمیں لانے کے لئے آدمی بھیجا (مگر ہم دوسرے رستہ آگئے اور ہمیں گھنٹوں کی بجائے دنوں تک قادیان میں ٹھہرنے کی دعوت دی ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں سے نہ صرف رسالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ شائع ہوتا ہے بلکہ تین اور رسائل بھی نکلتے ہیں اور لندن‘پیرس‘برلن‘شکاگو‘سنگاپور اور تمام مشرق قریب کے ساتھ خط و کتابت کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ چھوٹے چھوٹے دفاتر ہر قسم کے دستیاب ہونے والے سامان۔ مختلف قسم کی انسائیکلو پیڈیا ڈکشنریوں اور عیسائیت کے خلاف لٹریچر سے بھرے پڑے ہیں یہ ایک اسلحہ خانہ ہے جو ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے تیار کیا گیا ہے اور ایک زبردست عقیدہ ہے۔ جو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہلا دیتا ہے‘‘۱۴۸۔ (ترجمہ)
حادثہ بھیرہ
وسط جولائی ۱۹۲۴ء میں جماعت احمدیہ بھیرہ ایک خطرناک ابتلا میں مبتلا ہو گئی۔ واقعہ یہ ہوا کہ ایک غیر احمدی مولوی صاحب نے احمدیت کے خلاف مسلسل اشتعال پھیلا کر شہر کی فضا مکدر کر دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ غیر احمدیوں نے احمدیوں کے خلاف بلوہ کر دیا۔ جس میں خود غیر احمدی اصحاب کے ہاتھوں ان ہی کے ایک ساتھی مارے گئے۔ جس پر بائیس بے گناہ احمدی حوالات میں دے دیئے گئے۱۴۹۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو اس حادثہ کا علم ہوا تو حضور نے بذریعہ تار مولوی شیر علی صاحب کو ہدایت فرمائی کہ ’’یہ حادثہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں نہایت اہم ہے سلسلہ کی حفاظت نہایت ضروری ہے اپنے طور پر تحقیقات کریں اگر اس میں احمدیوں کا قصور نکلے تو ان کو تنبیہہ کی جانی چاہئے اور جو شخص یا اشخاص اس فساد کے اصل بانی ہوں ان کا مقاطعہ کرنے کے متعلق میرے پاس رپورٹ آنی چاہئے۔ لیکن اگر وہ مظلوم ہوں تو انہیں اپنے سلسلہ کا احترام قائم رکھنے کے لئے ہر طرح سے پوری امداد دینی چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔ بھیرہ کے احمدیوں کو ہدایت کر دی جائے کہ وہ اپنے تمام بیانات وغیرہ میں صداقت اور محض صداقت کو اختیار کریں‘‘۱۵۰۔
اس ارشاد پر حضرت مفتی محمد صادق صاحب‘مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور مولوی فضل الٰہی صاحب نے نہایت محنت سے تحقیقات کرکے مفصل رپورٹ دی کہ بھیرہ کے احمدی مدتوں کی دشمنی اور ایک مولوی صاحب کے اشتعال کا شکار ہوئے ہیں۱۵۱۔
دارالتبلیغ ایران
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۲/ جولائی ۱۹۲۴ء کو شہزادہ عبدالمجید صاحب لدھیانوی کو ایران میں احمدیہ مرکز قائم کرنے کے لئے روانہ فرمایا۔ آپ کے ہمراہ مولوی ظہور حسین صاحب اور محمد امین خان صاحب بھی تھے۔ جن کو بخارا میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کا حکم دیا گیا تھا۔ حضرت شہزادہ صاحب جو اس تبلیغی وفد کے امیر تھے اپنے دوسرے ساتھیوں سمیت ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو ایران کے مشہور شہر مشہد میں پہنچے اور پانچ چھ دن کے بعد مشہد سے طہران (دارالخلافہ ایران) میں تشریف لے گئے اور وہاں نیا دارالتبلیغ قائم کیا۔
حضرت شہزادہ عبدالمجید صاحب ضعیف العمر بزرگ اور قدیم صحابہ میں سے تھے اور نہایت اخلاص سے اپنے خرچ پر آئے تھے۔ مگر اخراجات یہاں آکر ختم ہو گئے۔ پیچھے کوئی جائیداد تھی نہیں۔ مرکز سے مستقل مالی امداد ان کو دی نہیں جاتی تھی۔ اس لئیے آخر عمر میں بعض اوقات اپنے زائد کپڑے فروخت کرکے گزارہ کرتے تھے۔ اور جیسا کہ بعض دیکھنے والوں کا بیان ہے آپ معمولی سی صف اور نہایت مختصر سے بستر پر رات بسر کیا کرتے تھے۔ یہاں تک نوبت آجاتی کہ کپڑے دھونے کے لئے خرچ باقی نہ رہتا۱۵۲۔ بایں ہمہ آپ نے آخر دم تک اپنا عہد نبھایا اور اپنی بے نفس خدمات سے باقاعدہ جماعت قائم کر دی۱۵۳۔ ۲۲/ فروری ۱۹۲۸ء کو تہران میں انتقال فرما گئے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان کی وفات پر فرمایا۔
’’شہزادہ عبدالمجید صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔ افغانستانن کے شاہی خاندان سے تھے اور شاہ شجاع کی نسل سے تھے۔ آپ نہایت ہی نیک نفس اور متوکل آدمی تھے میں نے جب تبلیغ کے لئے اعلان کیا کہ ایسے مجاہدوں کی ضرورت ہے جو تبلیغ دین کے لئے زندگی وقف کریں تو انہوں نے بھی اپنے آپ کو پیش کیا۔ اس وقت ان کے پاس کچھ روپیہ تھا۔ انہوں نے اپنا مکان فروخت کیا تھا۔ رشتہ داروں اور اپنے متعلقین کا حصہ دے کر خود ان کے حصہ میں جتنا آیا۔ وہ ان کے پاس تھا۔ اس لئے مجھے لکھا کہ میں اپنے خرچ پر جائوں گا۔ اس وقت میں ان کو بھیج نہ سکا اور کچھ عرصہ بعد جب ان کو بھیجنے کی تجویز ہوئی تو اس وقت وہ روپیہ خرچ کر چکے تھے۔ مگر انہوں نے ذرا نہ بتایا کہ ان کے پاس روپیہ نہیں ہے۔ وہ ایک غیر ملک میں جا رہے تھے۔ ہندوستان سے باہر کبھی نہ نکلے تھے اس ملک میں کسی سے واقفیت نہ تھی۔ مگر انہوں نے اخراجات کے نہ ہونے کا قطعاً اظہار نہ کیا اور وہاں ایک عرصہ تک اسی حالت میں رہے انہوں نے وہاں سے بھی اپنی حالت نہ بتائی نہ معلوم کس طرح گزارہ کرتے رہے پھر مجھے اتفاقاً پتہ لگا۔ ایک دفعہ دیر تک ان کا خط نہ آیا اور پھر جب آیا تو لکھا تھا چونکہ میرے پاس ٹکٹ کے لئے پیسے نہیں ¶تھے اس لئے خط نہ لکھ سکا۔ اس وقت مجھے سخت افسوس ہوا کہ چاہئے تھا جب ان کو بھیجا گیا۔ اس وقت پوچھ لیا جاتا تھا کہ آپ کے پاس خرچ ہے یا نہیں۔ پھر میں نے ایک قلیل رقم ان کے گزارہ کے لئے مقرر کر دی۔ وہاں کے لوگوں پر ان کی روحانیت کا جو اثر تھا اس کا پتہ ان چٹھیوں سے لگتا تھا جو آتی رہی ہیں۔ ابھی پرسوں اترسوں۱۵۴ اطلاع ملی ہے کہ آپ یکم رمضان (۱۳۴۶ھ) کو فوت ہو گئے دس دن بیمار رہے ہیں پہلے ہلکا ہلکا بخار رہا۔ آخری دن بہت تیز بخار ہو گیا۔ جب ڈاکٹر کو بلایا تو اس نے کہا ہسپتال لے چلو۔ دوسرے دن وہاں لے جانا تھا کہ فوت ہو گئے ان کی تیمارداری کرنے والے رات بھر جاگتے رہے۔ سحری کے وقت آپ نے ایک دو دفعہ پانی مانگا تیماردار صبح کی نماز کے بعد سو گئے اور بارہ بجے کے قریب ان کی آنکھ کھلی تو آپ فوت ہو چکے تھے۔ جس طرح قسطنطنیہ کی خوش قسمتی تھی کہ وہاں حضرت ایوب انصاری دفن ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح یہ ایران کے لئے مبارک بات ہے کہ وہاں خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کو وفات دی جسے زندگی میں دیکھنے والے ولی اللہ کہتے تھے اور جسے مرنے پر شہادت نصیب ہوئی۔‘‘۱۵۵
حضرت شاہزادہ عبدالمجید صاحب تہران کے جنوبی طرف شہر کے سب سے بڑے قبرستان میں دفن کئے گئے۔ ۱۹۵۳ء تک آپ کا مزار مبارک موجود تھا مگر اس کے بعد یہ قبرستان ہموار کرکے اس پر عمارتیں تعمیر کر دی گئیں اور اس کا ظاہری نشان بھی مٹ گیا۔
حضرت شہزادہ عبدالمجید خان صاحبؓ کے بعد مندرجہ ذیل مبلغین ایران تشریف لے گئے۔
(۱) حضرت میر مہدی حسین صاحب (۲) حضرت بابو فقیر علی صاحب (۳) شیخ عبدالواحد صاحب (۴) مولوی صدر الدین صاحب (۵) مولوی عبدالخالق صاحب۔
اول الذکر دونوں بزرگ آنریری مبلغ تھے اور موخر الذکر تحریک جدید کے مبلغ جو ۱۹۴۵ء سے ۱۹۵۵ء کے عرصہ میں بالترتیب ایران گئے اور مصروف تبلیغ رہے۔
دارالتبلیغ ایران کی طرف سے مندرجہ ذیل فارسی لٹریچر اب تک شائع ہو چکا ہے۔
’’فلسفہ اصول اسلام‘‘۔ ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ کا ترجمہ (از حضرت مولوی عبیداللہ صاحب بسمل و چوہدری احمد دین صاحب وکیل گجرات) ترجمہ براہین احمدیہ جلد اول۔ (از مولوی صدر دین صاحب فاضل) ’’گلدستہ بہار‘‘۔ (حضرت مسیح موعودؑ کے کلام فارسی و عربی کا انتخاب۔ شائع کردہ مولوی صدر الدین صاحب فاضل۔) ’’حقیقت اسلام‘‘ (ترجمہ لیکچر حضرت مسیح موعودؑ جلسہ ۱۹۰۶ء۔ شائع کردہ مولوی صدر الدین صاحب فاضل) ’’پیغام احمدیت‘‘ (حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا لیکچر۔ مترجم شیخ عبدالواحد صاحب فاضل) ’’شمشیر براں‘‘۱۵۶۔ ’’افضل الانبیاء‘‘۔ ’’نعمت الہام دباب و بہا‘‘۱۵۷۔ ’’اولین مسجد اسلامی درلندن‘‘ (تالیف مولوی صدر الدین صاحب فاضل)
حضرت مسیح موعودؑ اور آپ کے خلفاء اور دوسرے مصنفین کا لٹریچر تہران کے ’’کتاب خانہ ملی‘‘ (پبلک لائبریری) ’’کتاب خانہ شوری ملی‘‘ (قومی اسمبلی کی لائبریری) ’’دانش گاہ تہران‘‘ (یونیورسٹی) اور ’’دانشکدہ ادبیات‘‘ (آرٹس کالج) میں موجود ہے اور ایران کے مذہبی حلقے خصوصاً عیسائیت اور بہائیت کے رد کے لئے جماعت احمدیہ کا لٹریچر بڑی دلچسپی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اسے اسلام کی خدمت قرار دیتے ہیں۱۵۸۔
مبلغ احمدیت مولوی ظہورحسین صاحب پر روسی حکومت کے دردناک مظالم
جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے بخارا کا تبلیغی وفد (جو مولوی ظہور حسین صاحب اور مولوی محمد امین خان صاحب پر مشتمل تھا) ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کو
ایران کے شہر مشہد میں پہنچا۔ یہاں مولوی ظہور حسین صاحب تپ محرقہ میں مبتلا ہو کر ہسپتال میں داخل ہو گئے مگر مولوی محمد امین خان صاحب جو ۱۹۲۱ء میں بھی بخارا کا سفر کر چکے تھے۔ ۶/ نومبر ۱۹۲۴ء کو بخارا کی طرف چل دیئے اور کچھ عرصہ تک تبلیغی کام کرنے کے بعد حاجی مردان قل ساکن بخارا کو لے کر واپس قادیان آگئے۱۵۹۔
اب مولوی ظہور حسین صاحب کی سنیئے۔ مولوی صاحب موصوف نے اپنی بیماری سے شفا یاب ہوتے ہی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ میں بیماری سے اٹھا ہوں اور سخت کمزور ہوں۔ سردی بھی سخت پڑنے لگی ہے اور برفباری بھی شروع ہو گئی ہے۔ پھر میں نہ روسی زبان سے واقف ہوں نہ رستہ کا علم ہے۔ ویزا بھی نہیں ملا۔ خرچ بھی کم ہے۔ مگر ان مایوس کن حالات کے باجود میں بخارا جانے سے رک نہیں سکتا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ حضور کی دعائیں مجھے ناکام نہ ہونے دیں گی۔
مولوی صاحب یہ اطلاع دینے کے بعد اکیلے ہی ۸/ دسمبر ۱۹۲۴ء کو بخارا کی طرف چل دیئے اور ڈیڑھ دن کے بعد رات روسی ترکستان کی سرحد میں داخل ہو گئے مگر ارتھک اسٹیشن سے بخارا کا ٹکٹ لے کر گاڑی پر سوار ہو رہے تھے کہ گرفتار کر لئے گئے اور آپ کو جاسوس سمجھ کر پہلے ارتھک‘پھر عشق آباد‘تاشقند اور ماسکو کے قید خانوں کی تاریک کوٹھڑیوں میں رکھ کر بہت تکلیفیں پہنچائی گئیں۔ مگر ان مصائب کے باوجود آپ نے قید خانہ میں بھی برابر تبلیغ جاری رکھی چالیس کے قریب قیدیوں کو احمدی کرکے روس میں احمدیت کا بیج بو دیا۔
مولوی ظہور حسین صاحب نے اپنی ’’آپ بیتی‘‘ میں بڑی تفصیل سے اپنے دردناک حالات شائع کر دیئے ہیں۔ ہم ’’آپ بیتی‘‘ کا ایک اقتباس ذیل میں درج کرتے ہیں۔
’’الغرض جب حکومت کے اکثر افراد نے جو میرے سخت مخالف ہو گئے انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ مجھے جاسوسی کا الزام لگا کر قتل کر دیا جائے۔ لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ شخص بیان میں قابو نہیں آتا تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک کاغذ خود ہی فارسی زبان میں لکھ کر اس جگہ پر اس طرح پھینکا جائے کہ اسے علم نہ ہو ۔۔۔۔۔۔۔ میرے کمرے میں دو روشندان تھے وہاں سپاہی مقرر کر دیئے گئے ۔۔۔۔۔۔ تاکہ جب مجھے سوتا ہوا دیکھیں روشندان کے ذریعہ سے کاغذ پھینک دیں اور ادھر دروازہ پر جو سپاہی ہیں۔ وہ فوراً دروازہ کھول کر تلاشی لے کر کاغذ پکڑے اور مجھ کو ملزم ثابت کر دے ۔۔۔۔ پس میں نہ رات کو سوتا نہ دن کو ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح کئی دن تک میرا حال رہا کہ نہ میں رات کو سوتا نہ دن کو۔ نہ کھانا صبح کھاتا نہ شام کو۔ جب مجھ کو سخت بھوک لگتی تو نہایت کم ایک دو لقمے کھاتا ادھر ۔۔۔۔۔۔ دو ماہ سے متواتر سور کا گوشٹ قید میں دیتے تھے اور روسی یا مسلمانوں کی کوئی تمیز نہ تھی میں بجائے گوشت کے گرم پانی سے روٹی بھگو کر کھایا کرتا تھا کئی کئی وقت پانی نہ پینے ۔۔۔۔۔ اور کھانا نہ کھانے کے باعث اور بہت کم سونے کے باعث ۔۔۔۔۔۔ سخت لاغر اور کمزور ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ ایک بار رات کے آٹھ نو بجے کا وقت تھا ایک حاکم جو سپاہی سے بڑا عہدہ رکھتا تھا اس نے دروازہ کھول کر مجھے پکڑ لیا اور اوپر سے روشندان کی طرف سپاہی کو دیکھ کر روسی زبان میں کہا کہ جلدی کاغذ پھینک۔ جب میں نے سپاہی کو روشندان سے دیکھا تو اس وقت بے اختیار میں اونچی آواز سے بڑے حاکم (یعنی اس کے عہدہ کا نام لے کر) پکارا ۔۔۔۔۔۔ تو پانچ چار سپاہی میرے کمرے میں آئے اور مجھ کو پکڑ کر دوسرے تاریک و سیاہ کمرے میں لے گئے ۔۔۔۔۔۔ پھر ایک لکڑی کا اچھا لمبا اور چوڑا تختہ لائے جس پر مجھ کو اس قدر سخت جکڑا کہ میری بے اختیار چیخیں نکل گئیں۔ میں ساری رات ۔۔۔۔۔۔۔ شدت درد کے باعث جو میرے بازوئوں کو بوجہ سختی سے پیچھے کی طرف باندھنے کے ہوتی تھی جاگتا رہا ۔۔۔۔۔۔ جس وقت مجھ کو پیشاب آیا تو میں نے اسی طرح کہ جس طرح لیٹا ہوا تھا اوپر ہی کیا کیونکہ باندھنے اور پھر تختے کے ساتھ جکڑنے کے باعث میں ادھر ادھر ہل نہیں سکتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس رات اپنی سخت تکلیف دیکھ کر میں نے اللہ تعالیٰ کے حضور ایک دعا یہ کی کہ اے خدا! تو میرے آقا حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ کو خبر دے دے کہ میں قید میں اس تکلیف میں مبتلا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے ۔۔۔۔۔ دوسرے تیسرے دن مجھ کو بذریعہ خواب بتایا کہ حضور میرے لئے کوشش فرما رہے ہیں جس پر مجھ کو یقین ہو گیا کہ یہ خواب درست ہے۔ چنانچہ جب عاجز آزاد ہو کر قادیان آیا تو میرے استاذ محترم حضرت حافظ روشن علی صاحبؓ نے مجھ کو واضح الفاظ میں فرمایا کہ حضور کو خوابوں کے ذریعہ تیرے قید ہونے اور تکالیف برداشت کرنے کی خبر دی گئی تھی۔ چنانچہ اس بناء پر حضور نے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو جو ان دنوں ناظر امور خارجہ تھے حکم دیا کہ آپ فوراً ماسکو میں انگریز سفیر کو اس مضمون کا خط لکھیں کہ ہم نے ایک سال سے اپنا مبلغ بخارا کی طرف بھیجا ہوا ہے جس کا ہم کو کچھ علم نہیں ہو سکا‘‘۱۶۰۔
المختصر روسی حکام نے ڈیڑھ پونے دو سال تک آپ کو قید رکھنے کے بعد ہنزلی (ایران کی بندرگاہ) پر چھوڑ دیا۔ جہاں سے آپ تہران۔ بغداد۔ بصرہ اور کراچی سے ہوتے ہوئے ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۶ء کی صبح کو قادیان پہنچ گئے۱۶۱۔
مولوی صاحب کی واپسی پر ’’کشمیر اخبار‘‘ لاہور نے ’’ایک احمدی کا قابل تقلید مذہبی جوش‘‘ کے عنوان سے لکھا ’’مولوی ظہور حسین مبلغ احمدیت جو دو سال سے بالکل لاپتہ تھے پھر ہندوستان واپس آگئے ہیں اس دوران میں آپ کو بہت سخت مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنے ایک خط میں بیان کرتے ہیں کہ انہیں بغیر پاسپورٹ کے بے کسی اور بے بسی کی حالت میں مشہد سے بخارا کی طرف جانا پڑا اور وہ بھی دسمبر کے مہینہ میں جبکہ راستہ برف سے سفید ہو رہا تھا۔ راستے میں روسیوں کے ہاتھ پڑ گئے۔ جہاں آپ پر مختلف مظالم توڑے گئے۔ قتل کی دھمکیاں دی گئیں۔ بے رحمی سے مارا گیا۔ تاریک کمروں میں رکھا گیا۔ کئی کئی دن سئور کا گوشت کھانے کے لئے ان کے سامنے رکھا گیا۔ لیکن وہ سرفروش عقیدت جادہ استقلال پر برابر قائم رہا۔ وہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ کوئی شخص جو قید خانہ میں انہیں دیکھنے آیا۔ ان کی تعلیمات کی بدولت احمدی ہوئے بغیر باہر نہ نکلا۔ اس طرح تقریباً چالیس اشخاص احمدی ہو گئے۔ جو باتیں آج مولوی ظہور حسین سے جیل کے اندر اور جیل سے باہر ظہور میں آئی ہیں قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں اشاعت مذہب کے لئے ایسی ہی تڑپ ہوا کرتی تھی۔ کیا ہمارے ناظرین کو معلوم نہیں ہے کہ امام ابوحنیفہؓ جیل کے اندر بھی لوگوں کو درس دیتے رہے احمدی مسلمانوں کے عقائد اور عام مسلمانوں کے عقائد بوجہ احمدیت اور محمدیت بہت کچھ اختلاف ہے تاہم اس امر کو بلا خوف تردید سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے اندر وہ اخلاص و عزم اور وہ تڑپ اپنے مذہب کی حمایت و اشاعت کے لئے نہیں جو ایک معمولی احمدی بھی اپنے دل کے اندر رکھتا ہے۔
کاش! اسلام کے دوسرے فرقے بھی کفر سازی و کفر پروری کی بجائے ایسے ہی مجاہد پیدا کر سکیں‘‘۱۶۲۔
مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی دردناک شہادت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ابھی لنڈن میں ہی تشریف رکھتے تھے کہ یہ دردناک اطلاع پہنچی کہ امیر امان اللہ خاں شاہ افغانستان کے حکم سے کابل میں احمدی مبلغ مولوی نعمت اللہ خان صاحب ۳۱/ اگست ۱۹۲۴ء کو ۳۴ سال کی عمر میں محض احمدی ہونے کی وجہ سے سنگسار کر دیئے گئے۱۶۳۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون)
مولوی نعمت اللہ خاں صاحب (ابن امان اللہ) کابل کے پاس ایک گائوں خوجہ تحصیل رخہ ضلع پنج شیر۱۶۴ کے رہنے والے تھے احمدی ہونے کے بعد وہ سلسلہ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے قادیان چلے گئے اور مدرسہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ ۱۹۱۹ء میں جبکہ وہ ابھی تعلیم پارہے تھے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان کو کابل کے احمدیوں کی تعلیم و تربیت کے لئے افغانستان بھجوا دیا اور چونکہ احمدیوں کے لئے وہاں امن نہیں تھا۔ اس لئے آپ نے انفرادی رنگ میں اپنے بھائیوں کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ اسی دوران میں ۲۰/ فروری ۱۹۱۹ء کو امیر حبیب اللہ خاں شاہ افغانستان قتل ہو گئے تو امیر امان اللہ خاں نے تخت حکومت پر بیٹھنے کے بعد اپنی سلطنت میں کامل مذہبی آزادی کا اعلان کر دیا۱۶۵۔
اس اعلان پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اگست ۱۹۱۹ء میں نیک محمد خاں صاحب غزنوی (سابق گورنر غزنی امیر احمد خاں کے فرزند) اور بعض دوسرے اصحاب کو افغانستان سے آمدہ ایک نمائندہ وفد سے ملاقات کے لئے منصوری بھجوایا۔ جو محمود طرزی صاحب (وزیر خارجہ افغانستان) کی قیادت میں انگریزوں سے معاہدہ صلح طے کرنے کے لئے آیا تھا۔ حضور کا مقصد یہ تھا کہ افغان حکومت کی موجودہ پالیسی کا علم ہو جائے۔ کہ کیا احمدیوں کے لئے بھی مذہبی آزادی ہے اور وہ احمدی افغان جو مذہب میں مداخلت کی وجہ سے اپنے وطن سے ¶ہجرت کرک قادیان آگئے ہیں واپس اپنے گھروں کو جا سکتے ہیں۔ اس افغان وفد میں ایک ہندو وزیر خزانہ افغانستان بھی شامل تھے انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ یہ میر احمد خاں (رئیس و سابق گورنر غزنی) کا لڑکا ہے اور چودہ سال۱۶۶ کی عمر میں احمدیت کے اظہار کی آزادی نہ پا کر قادیان آگیا ہے تو انہوں نے روتے ہوئے گلے لگا لیا اور کہا کہ تمہارا باپ تو میرا بھائی تھا۔ تم اپنے وطن میں واپس آجائو۔ میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ یہی وعدہ محمودی طرزی صاحب نے کیا۱۶۷body] gat[۔ اور یہ بھی یقین دلایا کہ افغانستان میں کسی احمدیت کو قطعاً کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ کیونکہ ظلم کا زمانہ ختم ہو چکا ہے۔
وفد کے دوسرے ممبروں کے دل پر بھی نیک محمد خاں صاحب کی حالت زار دیکھ کر بہت اثر ہوا اور ان کی آنکھوں سے آنسو آگئے کہ ایسے معزز خاندان کے بچے اس عمر میں اپنے عزیزوں سے جدا ہو کر دوسرے وطنوں کو جانے پر مجبور ہوں۔ موجودہ شاہ افغانستان امیر امان اللہ خان کے وقت میں نہ ہو گا۔
احمدی وفد اپنے نزدیک بہت کامیاب واپس آیا۔ مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مزید احتیاط کرتے ہوئے مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ محمودی طرزی صاحب سے ان کی واپسی پر ملیں اور ان سے احمدیوں پر ہونے والے ظلم کا تذکرہ کریں اور شاہ کابل کے سامنے اپنے خیالات پیش کرنے کی بھی اجازت لیں۔ محمودی طرزی صاحب نے ملاقات کے بعد ان احمدیوں کی تکلیف کا ازالہ کر دیا۔ لیکن چونکہ افغانستان کے بعض علاقوں سے یہ خبریں برابر آرہی تھیں کہ احمدیوں پر برابر ظلم ہو رہا ہے۔ اس لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے وزیر خارجہ افغانستان اور مشہور ترکی جنرل جمال پاشا (مقیم افغانستان) کو بذریعہ خط توجہ دلائی گئی۱۶۸۔ اس کے جواب میں کابل کی وزارت خارجہ کی طرف سے سردار محمود طرزی صاحب نے لکھا۔
’’دو قطعہ مکتوب شما تاریخ ۳۰/ ماہ اپریل ۱۹۲۱ء عیسوی بعنوان جناب جلالت ماب جمال پاشا و بنام ایں خدمتگار عالم اسلام رسیدہ۔ مضامین و مطالب آنرا مطالعہ کردہ الیٰ آخرہ دانستہ شدیم۔ جواباً مے نگاریم کہ درسلطنت اعلیٰ حضرت غازی پادشاہ معظم افغانستان ہیچ یک زحمت یا تکلیفے از طرف حکومت دربارہ تابعین و متعلقین شمادر خاک فغانستان ابراز نیافتہ‘‘۔
’’اگر سیاہہ اشخاص تابعین خودرا کہ درخاک افغانستان سکونت دارند برائے ما بفر ستید‘ممکن است اگر تکلیفے دربارہ شاں وارد شدہ باشد رفع شود‘‘۔
یعنی آپ کے دو خط مورخہ ۳۰/ اپریل ۱۹۲۱ء جناب جلالت ماب جمال پاشا اور عالم اسلام کے اس خدمت گار کے نام پہنچے جن کے تمام مطالب و مضامین سے آگاہی ہوئی۔ جواباً لکھا جاتا ہے کہ اعلیٰ حضرت غازی (امان اللہ خاں) کے عہد حکومت میں کابل کی سرزمین میں رہنے والے آپ کے متبعین اور متعلقین کو کسی قسم کی زحمت یا تکلیف حکومت کی طرف سے نہیں پہنچائی گئی اور اگر ملک افغانستان میں سکونت رکھنے والے احمدیوں کی فہرست ہمارے پاس بھیج دیں تو ممکن ہے کہ اگر انہیں کوئی تکلیف ہوئی ہو تو اس کا ازالہ کر دیا جائے۱۶۹۔
اس مراسلہ کے کچھ عرصہ بعد علاقہ خوست کے بعض احمدیوں کو پھر تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ تو جماعت احمدیہ شملہ نے سفیر افغانستان (متعین ہندوستان) کی معرفت حکومت افغانستان کو ایک درخواست بھیجی۔ ۲۴/ مئی ۱۹۲۳ء کو سفیر افغانستان کو معرفت جواب ملا۔ کہ احمدی امن کے ساتھ حکومت کے ماتحت رہ سکتے ہیں ان کو کوئی تکلیف نہیں دے سکتا۔ باقی وفادار رعایا کی طرح ان کی حفاظت کی جائے گی۔ جواب میں اس طرف بھی اشارہ تھا کہ یہ معاملہ حضرت شاہ معظم کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا اور آپ کے مشورہ سے لکھا جا رہا ہے۔
اب جماعت احمدیہ پوری طرح مطمئن تھی کہ افغانستان میں مذہبی آزادی کا دور دورہ ہے مگر ۱۹۲۳ء کے آخر میں اطلاع ملی کہ دو احمدیوں کو حکومت افغانستان نے قید کر لیا ہے۔ اس اطلاع کے چند ماہ بعد شروع جولائی ۱۹۲۴ء میں مولوی نعمت اللہ صاحب کو بھی حکام نے بلایا اور بیان لیا کہ وہ احمدی ہیں؟ پہلے تو ان کو یہ صحیح بیان دینے پر کہ وہ احمدی ہیں رہا کر دیا گیا۔ مگر پھر جلدی ہی آپ جیل میں ڈال دیئے گئے۔
۲۸/ ذی الحجہ ۱۳۴۲ھ (مطابق یکم اگست ۱۹۲۴ء) کو مولوی نعمت اللہ صاحب نے قید خانہ سے فضل کریم صاحب بھیروی (مقیم کابل) کے نام ایک مفصل خط لکھا۱۷۰۔ جس میں اپنے حالات ان الفاظ میں بتائے کہ ’’یہ کمینہ داعی اسلام تیس روز سے ایسے قید خانہ میں ہے جس کا دروازہ اور روشندان بھی بند رہتے ہیں اور صرف ایک حصہ دروازہ کھلتا ہے کسی کے ساتھ بات کرنے کی بھی ممانعت ہے جب میں وضو وغیرہ کے لئے جاتا ہوں تو ساتھ پہرہ ہوتا ہے خادم کو قید خانہ میں آنے کے دن سے لے کر اس وقت تک چار کوٹھڑیوں میں تبدیل کیا جا چکا ہے لیکن جس قدر بھی زیادہ اندھیرا ہوتا ہے اسی قدر خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے روشنی اور اطمینان قلب دیا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ خط لے کر حضرت خلیفتہ المسیح کے حضور بھیج دیں۔ علاوہ ازیں بذریعہ تار یا خط میرے احمدی بھائیوں کو میرے حال سے اطلاع دے دیں تا وہ دعا فرماویں کہ خدا تعالیٰ مجھے دین متین کی خدمت میں کامیاب کرے۔ میں ہر وقت قید خانہ میں خدا تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ ’’الٰہی اس نالائق بندہ کو دین کی خدمت میں کامیاب کر میں یہ نہیں چاہتا کہ مجھے قید خانہ سے رہائی بخشے اور قتل ہونے سے نجات دے بلکہ میں یہ بھی عرض کرتا ہوں کہ الہیٰ اس بندہ نالائق کے وجود کا ذرہ ذرہ اسلام پر قربان کر‘‘۱۷۱۔ (ترجمہ از فارسی)
الغرض مولوی نعمت اللہ خاں محکمہ شرعیہ ابتدائیہ۱۷۲ میں پیش کئے گئے۔ جس نے ۱۱/ اگست ۱۹۲۴ء کو آپ کے ارتداد اور واجب القتل ہونے کا فتویٰ دے دیا۔ ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء کو آپ عدالت مرافعہ کابل کے سامنے پیش کئے گئے۔ جس نے آپ کے دوبارہ بیانات لئے اور ارتداد سے متعلق پہلے فیصلہ کی توثیق کرتے ہوئے مزید حکم یہ دیا کہ نعمت اللہ خان کو قتل کرنے کی بجائے ایک بڑے ہجوم کے سامنے سنگسار کیا جائے۱۷۳۔
اس فیصلہ کے مطابق ۳۱/ اگست ۱۹۲۴ء کو پولیس نے مولوی صاحب کو ساتھ لے کر کابل کی تمام گلیوں میں پھیرایا اور ہر جگہ منادی کی کہ یہ شخص آج ارتداد کی پاداش میں سنگسار کیا جائے گا لوگ اس موقعہ پر حاضر ہو کر اس میں شامل ہوں۔ دیکھنے والوں کی شہادت ہے جس وقت آپ کو گلیوں میں پھیرایا جا رہا تھا اور سنگساری کا اعلان کیا جا رہا تھا تو آپ گھبرانے کی بجائے مسکرا رہے تھے۔ گویا آپ کی موت کا فتویٰ نہیں دیا جا رہا تھا بلکہ عزت افزائی کی خبر سنائی جا رہی تھی۔
آخر عصر کے وقت ان کو کابل کی چھائونی کے میدان میں (جسے شیر پور کہا جاتا ہے۱۷۴) سنگسار کرنے کے لئے لے جایا گیا تو انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس دنیا کی زندگی ختم ہونے سے پہلے ان کو اپنے رب کی عبادت کرنے کا آخری موقعہ دیا جائے حکام کی اجازت ملنے پر انہوں نے نماز پڑھی اور اس کے بعد کہا کہ اب میں تیار ہوں جو چاہو سو کرو۔
چنانچہ آپ کمر تک گاڑ دیئے گئے اور پہلا پتھر کابل کے سب سے بڑے عالم نے پھینکا اس کے بعد ان پر چاروں طرف سے پتھروں کی بارش شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ آپ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے دب گئے اور خدا تعالیٰ کے راستے میں شہید ہو گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
مولوی نعمت اللہ خان صاحب نے شہادت کے وقت جس جذبہ فدائیت اور ایمانی جرات کا نمونہ دکھایا۔ اس کا اقرار کرتے ہوئے کابل کے ایک نیم سرکاری اخبار نے ۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا۔ ’’مولوی نعمت اللہ بڑے زور سے احمدیت پر پختگی سے مصر رہا اور جس وقت تک اس کا دم نہیں نکل گیا سنگساری کے وقت بھی اپنے عقیدہ کو باواز بلند ظاہر کرتا رہا‘‘۔
اخبار ’’ڈیلی میل‘‘ کے کابلی نامہ نگار نے بتایا۔ ’’ایک بہت بڑا مجمع یہ فتویٰ عمل میں لانے کا نظارہ دیکھنے کے لئے جمع ہو گیا تھا مگر اپنے نہایت ہی خوفناک انجام کے باوجود (جو اس کا انتظار کر رہا تھا) وہ شخص نہایت مضبوط اور پختگی کے ساتھ اپنے عقائد کا اظہار کرتا رہا اور اپنے آخری سانس تک اپنے عقیدہ پر قائم رہا۔ اسی حالت میں کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کر رہا تھا اس کثرت سے پتھروں کی بوچھاڑ ہونی شروع ہو گئی کہ چند لمحوں میں اس کا جسم کلی طور پر پتھروں کے بہت بڑے تودے کے نیچے دب گیا۱۷۵۔ (ترجمہ)
اسی طرح ایک آریہ اخبار ’’پرکاش‘‘ نے ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء کے پرچہ میں لکھا۔ ’’ہمارا احمدیوں سے سخت اختلاف ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن باوجود اس کے ہم انہیں مبارک باد دیتے ہیں کہ ان کی جماعت کے ایک فرد نے اپنے مذہب کے لئے شہید ہونا منظور کیا ہے اگرچہ کابل کی عدالت نے کہہ دیا تھا کہ مولوی نعمت اللہ کے لئے بروئے شروع توبہ بھی نہیں ہے تاہم ان کے لئے باعث فخر ہے کہ انہوں نے آخری وقت تک توبہ نہیں کی پتھر کھا کھا کر مرنا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ ایک انتہائی ایذا کی موت ہے باوجود اس کے انہوں نے اسے منظور کیا لیکن احمدی ہونے سے انکار نہیں کیا‘‘۱۷۶۔
حضرت مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کے بعد ان کی لاش پر پہرہ لگا دیا گیا۔ ان کے بوڑھے غیر احمدی باپ نے حکام سے لاش لینے کی درخواست کی مگر حکومت نے صاف انکار کر دیا۱۷۷۔
انصاف پسند دنیا کا زبردست احتجاج
اس دردناک حادثہ کی خبر شائع ہونے پر ہر ملک میں شہید کی مظلومیت پر گہرے رنج و الم کا اظہار کیا گیا اور تمام متمدن اور انصاف پسند دنیا نے اس کارروائی کو سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھا چنانچہ جہاں یورپ کے اخباروں مثلاً ’’ٹائمز‘‘۔ ’’آبزرور‘‘۔ ’’فنانشل ٹائمز‘‘۔ ’’نیئر ایسٹ‘‘۔ ’’ڈیلی ٹیلیگراف‘‘۔ ’’مارننگ پوسٹ‘‘۔ ’’ڈیلی نیوز‘‘۔ ’’ڈیلی میل‘‘ نے۱۷۸ اس کے خلاف سخت احتجاج کیا اور نوٹ لکھے وہاں ہندوستان کے مسلم اور غیر مسلم پریس۱۷۹۔ نے بھی اس کے خلاف زبردست آواز اٹھائی چنانچہ بطور نمونہ چند اخباروں کے اقتباس درج ذیل کئے جاتے ہیں۔
‏]ybod [tag۱۔ مشہور شیعہ اخبار ’’ذوالفقار‘‘ نے ۸/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا:۔
’’نہایت افسوس ہے کہ مولوی صاحب مرحوم ایک احمدی مسلمان تھے۔ قرآن ایک ہے۔ خدا ایک ہے۔ رسول ایک‘کعبہ ایک۔ پانچ وقت کی نماز پڑھتا اور روزے رکھتا تھا صرف اس کا یہ جرم تھا کہ وہ امیر افغانستان کے مذہب کا مسلمان نہیں تھا۔ جو پہلے گرفتار کر لیا گیا اور اس کو اپنے مذہب پر پھیرنے کی بہت کوشش کی گئی مگر اس نے قبول نہیں کیا۔ اس لئے ظالمانہ سزا سے ایک غریب الوطن کو قتل کر دیا گیا۔ خدا مرحوم کو غریق رحمت کرے۔ اس رنج میں ہمیں احمدی صاحبان سے دلی ہمدردی ہے اور امیر کے اس فعل ظالمانہ سے سخت نفرت ہے جس حکومت میں یہ ظلم اور ستم روا رکھا گیا ہے اس کا کاسہ عمر جلد ٹوٹ جائے گا۔ ایسی حکومت دیرپا نہیں رہتی‘‘۱۸۰۔
۲۔ صوبہ بنگال کے بااثر ہندو اخبار ’’بنگالی‘‘ (کلکتہ) نے ۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا۔ ’’یہ فعل ہر رنگ میں بالکل خلاف انسانیت اور وحشیانہ ہے مگر اس معاملہ میں جو دھوکہ بازی دی اور بدعہدی کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اس حکومت نے ضمیر کی کامل آزادی کا اعلان کیا تھا‘‘۱۸۱4] ft[r۔
۳۔ اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ لاہور (۱۵/ ستمبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا۔
’’افغان عدالتوں کا ۔۔۔۔۔۔ سارا فیصلہ ایک ایسے جاہلانہ مذہبی تعصب سے لبریز نظر آتا ہے کہ جس کے امکان کا تصور بھی بیسویں صدی میں مشکل سے ہو سکتا ہے یہ بات بے شک باور کی جا سکتی ہے کہ اس مقدمہ کی تہہ میں ایک پولیٹکل تحریک تھی یعنی درحقیقت اس کا موجب وہ عنصر ہوا جس کو خوش کرنے اور جس کی مخالف کو موافقت سے بدلنے کا امیر کو خاص فکر ہے کیونکہ اس کی اصلاحات پر ان بے حد متعصب لوگوں کی طرف سے خلاف شرع اسلام ہونے کا الزام لگایا گیا ہے ہم کہتے ہیں کہ اگر امیر کا منشا اپنی سلطنت کے ان بڑھتے ہوئے متعصب لوگوں کو خوش کرنا ہی تھا تو یہ بات اس نے اس نیک نامی پر قربان کرکے حاصل کی ہے جو اس کی گورنمنٹ کو ترقی یافتہ ہونے اور مذہبی رواداری کے لئے حاصل ہو سکتی تھی‘‘۱۸۲۔
۴۔ اخبار ’’مسلم‘‘ لاہور نے ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لکھا۔
’’حکومت افغانستان کا یہ فعل کہ مولوی نعمت اللہ خان صاحب کو محض مرزا صاحب کا پیرو ہونے کی وجہ سے مرتد قرار دیا اور پھر اس خام خیالی پر سنگسار کر دیا مسلمان کہلانے والوں کے لئے باعث شرم ہے‘‘۱۸۳۔
۵۔ ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور (۱۸/ ستمبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا۔ ’’گو ابھی تک اس واقعہ کی مزید تفصیل دستیاب نہیں ہوئی۔ لیکن اب پائونیر سے معلوم ہوا کہ حکومت نے متعصب عقیدہ کے مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اس سزا کی اجازت دے دی ہو گی۔ چونکہ افغانستان میں اسلام سلطنت کا مذہب ہے اور اسی کے استحکام پر سلطنت کے استحکام کا مدار ہے۔ اس لئے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے لیکن احمدی صاحبان کا یہ اعتراض بھی بجا ہے کہ امیر صاحب نے سال گزشتہ میں مذہبی حریت کا اعلان کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔ حضرت خلیفتہ المسلمین معزول سلطان عبدالمجید خاں نے بھی سوئٹزرلینڈ سے کابل کے اس مذہبی قتل پر سخت صدائے احتجاج بلند کی ہے اور وول یورپ کو اس پر توجہ دلائی ہے۔ معلوم نہیں وول یورپ افغانستان کے اس مذہبی معاملہ میں کیا مداخلت کر سکتی ہے بہرحال واقعہ افسوسناک ہے‘‘۔
۶۔ ’’آریہ پتر‘‘ (۲۴/ ستمبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا۔ ’’غیر مسلم مذہب کے لوگ اکثر یہ کہا کرتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت کا انحصار زیادہ تر جبر و تشدد اور تلوار پر ہے۔ لیکن مسلم اصحاب اس کی تردید کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ یہ ہے کہ اسلام کی عالمگیر اخوت اور اس کے عقائد کی خوبیاں ہی اس کی اشاعت کا خاص سبب ہیں۔ جو ہو ابھی حال میں کابل کی خبروں سے معلوم ہوا ہے کہ ہزمیجسٹی امیر کابل نے ایک احمدی بھائی نعمت اللہ خاں کو اس لئے نہایت بے رحمانہ اور وحشیانہ طریق پر ہلاک کر دیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو مسیح موعود مانتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس ایک واقعہ سے مذہبی معاملات میں اسلامی اسپرٹ کا اچھی طرح اندازہ ہو سکتا ہے‘‘۱۸۴۔
۷۔ الہ آباد کے انگریزی اخبار ’’لیڈر‘‘ نے ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو لکھا:۔
’’نعمت اللہ خان کی ہلاکت کے لئے جو خلاف انسانیت اور انتہائی درجہ کا سفاکانہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ یقیناً ساری دنیا کی مہذب اقوام کے دل کو ہلا دے گا ایک احمدی نامہ نگار کا بیان ہے کہ اس غریب کو کابل کی تمام گلیوں میں پھرایا گیا۔ اور پولیس اس کے ساتھ ساتھ اعلان کرتی گئی کہ اسے کفر کے جرم میں سنگسار کیا جائے گا لوگ اکٹھے ہو کر اس کی خوفناک ہلاکت کا مشاہدہ کریں۔ پھر اسے کابل چھائونی میں ایک کھلی جگہ لے جا کر کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا۔ تب کابل کے مفتی نے اس پر پہلا پتھر پھینکا۔ اس کے بعد چاروں طرف سے اس بے چارے پر پتھروں کی بارش ہونے لگی جو اس وقت تک برابر جاری رہی جب تک وہ پتھروں کے ایک بڑے ڈھیر کے نیچے دب نہ گیا۔ قتل کا یہ وحشیانہ طریقہ کابل کی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم سے عمل میں لایا گیا جس نے حکم دیا تھا کہ عوام الناس کی موجودگی میں اسے سنگساری سے ہلاک کیا جائے‘‘۱۸۵۔
۸۔ کلکتہ کے انگریزی اخبار ’’مسلمان‘‘ نے ۲۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا۔ ’’گورنمنٹ کابل نے مولوی نعمت اللہ خاں کو محض احمدی ہونے کی وجہ سے فتویٰ موت صادر کرنے میں جس بے جا تعصب کا اظہار کیا ہے اور جس وحشیانہ طریق سے ان کا قتل عمل میں لایا گیا ہے ہماری حقیر رائے میں اسلام اور انسانیت کے لئے باعث ننگ دعار ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور فرقہ حنفیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور یہی والئی افغانستان کا مذہب ہے۔ ہم احمدی فرقہ کے بعض عقائد سے متفق نہیں اور گو ہم مذہبی عالم ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتے لیکن یہ خیال بھی نہیں کر سکتے کہ ہماری شریعت میں ایسی نارواداری ہے کہ محض اختلاف عقائد کی وجہ سے حکومت ہونے کی صورت میں قتل کو روا رکھتی ہو۔ عیسائی اور یہودی تو رسول~صل۱~ کی نبوت کے ہی قائل نہیں کیا انہیں بھی سنگسار کرنا چاہئے۔ اگر ایسا ہی ہے تو کیوں عدالت ہائے افغانستان نے ان عیسائیوں اور یہودیوں کے خلاف جو مملک افغانستان میں بستے ہیں فتویٰ موت صادر نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔ ہم یہ ضرور کہیں گے کہ نعمت اللہ خاں پر فتویٰ اور اس پر طریق عمل نے ہمیں سخت نقصان پہنچایا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ اسلام کے خوبصورت چہرہ پر ایک بدنما دھبہ ہے۔ مہذب دنیا میں یہ فعل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناپسندیدہ خیالات پیدا کرے گا۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ اس غلطی کا اعادہ نہ ہو گا اور آئندہ افغانستان اس امر کو گوارا نہ کرے گا کہ اسے تعصب اور نارواداری کا مجسمہ سمجھا جائے‘‘۱۸۶۔
۹۔ اخبار ’’وکیل‘‘ امرتسر نے اپنی ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء کی اشاعت میں لکھا۔
’’یہ ایک حقیقت ثابتہ ہے کہ افغانستان کے اس فیصلے سے پہلے ہمارے مسلم معاصرین فرقہ احمدیہ کو ایک اسلامی فرقہ تسلیم کرتے تھے اور فتنہ ارتداد کے متعلق اس کے افراد کی مساعی حسنہ کو اپنے کالموں میں انتہائی استحسان کے ساتھ درج کیا کرتے تھے۔ ممالک غیر میں اشاعت اسلام کے متعلق ان خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان اختلافات کو فرعی قرار دیتے تھے۔ جو احمدی و غیر احمدی مسلمانوں کے عقائد میں موجود ہیں۔ پھر ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ اب کونسا نیا تغیر فرقہ احمدیہ کے عقائد میں رونما ہو گیا ہے کہ وہ ایک احمدی کو مرتد قرار دینے لگے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اگر حکومت افغانستان نے کسی سیاسی امر کی بناء پر ایک احمدی کا قتل مناسب خیال کیا تھا تو اسلام کے دامن کو اس سیاہ دھبے سے آلودہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ وہ اپنے فیصلہ میں صاف لکھ سکتی تھی کہ اس شخص کو کسی سیاسی امر کی بناء پر قتل یا سنگسار کیا جاتا ہے۔ اس نے محض ارتداد کو موجب رجم قرار دینے میں غلطی کی اور شریعت سے منسوب کرکے اس غلطی کو اور بھی غلیظ بنا دیا۔ ہمارے بعض علماء و معاصرین نے اس غلطی کی تائید کرنے میں اسلام کی نہیں بلکہ اپنے معاندانہ جذبات کی ترجمانی کی ہے‘‘۱۸۷۔
۱۰۔ لکھنئو کے مشہور روزانہ اخبار ’’اودھ‘‘ (۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء) نے لکھا۔
’’یہ معاملہ محض ایک قادیانی کی سنگساری کا معاملہ نہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کابل کی سلطنت میں کوئی شخص ایسے اعتقادات و خیالات رکھ کر زندہ نہیں رہ سکتا۔ جو وہاں کے بااقتدار علماء و حکام کے خلاف ہوں۔ ہمیں یقین ہے کہ تمام متمدن دنیا اب اس تاریک حد سے بہت دور چلی گئی ہے۔ جبکہ آزادی رائے و خیال پر بھی پابندیاں عائد تھیں۔ اب کسی متمدن ملک میں دلوں پر حکومت کرنے کی کوشش ویسی نہیں ہو رہی ہے جیسی کہ کبھی زمانہ جاہلیت میں ہوتی ہو گی۔ اس وجہ سے اس متمدن دنیا میں اور اس آزادی کے دور میں کابل کا واقعہ تمام دنیا کو حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی ہے۱۸۸۔
۱۱۔ اخبار ’’تہذیب نسواں‘‘ (لاہور) نے ۱۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء میں لکھا۔
’’اعلیٰ حضرت امیر کابل نے تخت نشینی کے موقع پر اپنی سلطنت میں ہر قوم کو پوری مذہبی آزادی دینے کا بڑے زور سے اعلان فرمایا تھا۔ ایسے اعلان کے بعد اس قسم کے دردناک واقعہ کا ظہور آیا میں آنا بے انتہا افسوس کی بات ہے۔ احمدی فرقے کے مسلمان بالعموم دیندار امن پسند مرنج مرنجان لوگ ہیں۔ عقائد میں ان کا ہم سے کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔ مگر اسلام کی خدمت جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ خدمت ہم مسلمانوں کے کسی اور فرقہ سے نہیں ہو سکتی۔ ملکانہ راجپوتوں میں فرائض تبلیغ جس خوبی سے ان خادمان دین نے ادا کئے ہیں وہ اب تک کسی دوسرے فرقے سے ادا نہیں ہو سکے۔ پھر ان خدمات کے علاوہ انگلستان اور امریکہ میں احمدی فرقے کے مبلغین خدمات اشاعت اسلام کے باب میں بالکل منفرد ہیں۔ یہ خدمات مسلمانوں کے اور کسی فرقے سے نہیں ہو سکیں اور اب کوئی کرے گا تو انہیں کی تقلید کرنے والا ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جو ثواب ان نیک بندوں کی مساعی جمیلہ کے لئے لکھا گیا ہو گا وہ اب دوسروں کو ملنا مشکل ہو گا۔
حریفاں بادہ با خوردند و رفتند
تہی خمخانہ ہا کردند و رفتند
ایسے مفید و نیک دل گروہ کے مبلغ کو یوں بے دردی سے پتھرائو کرکے ہلاک کر دیا جائے کتنے شدید اور خوفناک ظلم کی بات ہے۔ اس واقعہ جانکاہ کا ذرا تصور دل میں لائو کہ جس وقت ایسے بے گناہ مظلوم کو میدان میں کھڑا کرکے اس پر پتھر مارنے شروع کئے ہوں گے اور وہ اس کے منہ‘سر اور آنکھوں پر لگے ہوں گے اور سر کی ہڈیاں ٹوٹ کر ہر طرف خون کی دھاریں چل رہی ہوں گی۔ اس وقت اس عاجز‘بے بس و بے کس کا کیا حال ہوا ہو گا۔ لکھا ہے کہ اس شدید عذاب سے ان کی روح جسم سے مفارقت کر گئی اور ان کے دلفگار رفیقوں نے پتھروں میں ان کی نعش نکالنی چاہی تو اشقیاء نے انہیں اس کی بھی اجازت نہ دی‘‘۱۸۹۔][۱۲۔ ’’آل انڈیا مسلم لیگ‘‘ کے صدر آنریبل سید رضا علی صاحب نے مولوی نعمت اللہ خان کی سنگساری کے دلخراش واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
’’اگر کسی سیاسی جرم میں انہیں سزا دی گئی ہوتی تو ہمیں کوئی سروکار نہ ہوتا۔ لیکن اخباروں میں جو فیصلے شائع ہوئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں بعلت ارتداد سنگسار کیا گیا اور یہی باعث ہے جو مسلمان بے تعلق نہیں رہ سکتے۔ مذہبی اختلافات پر بحث کرنے کی مجھ میں اہلیت نہیں۔ یہ کہہ سکتا ہوں کہ کسی اسلامی حکومت کو یہ حق نہیں کہ محض کسی روحانی عقیدہ کے لئے وہ اپنی کسی رعایا کو قتل کرے۔ اگر یہ خیال پھیلا کہ اسلامی حکومتیں رواداری نہیں برت سکیں تو اسلام کی اخلاقی قوت بہت کمزور ہو جائے گی‘‘۱۹۰۔
۱۳۔ اخبار ’’ذوالفقار‘‘ نے ۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء کے پرچہ میں دوبارہ لکھا۔
’’ہمیں احمدی صاحبان سے مذہباً کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ مگر انسانی ہمدردی یہ تقاضا کرتی ہے کہ ہم امیر افغانستان کے اس ظالمانہ اور بے رحمانہ فعل پر اظہار رنج و نفرین کریں اور اس کو متعصب اور مذہبی دیوانہ اور ناقابل حکومت اور سلطنت کہیں۔ کسی والئی ملک کا یہ فرض منصبی نہیں ہے کہ وہ اپنے مذہب سے اخلاف رائے رکھنے والے کمزور کسی فرقہ یا شخص کو موت کے گھاٹ اتارتا جائے اور زبردست قوم کے دبائو سے دبتا رہے‘‘۱۹۱۔
جمعیتہ العلماء ہند کی طرف سے امان اللہ خاں کو مبارکباد
متمدن اور مہذب دنیا کے اس احتجاج عام کے مقابل ہندوستان کے متعصب اور سنگدل علماء نے اس خبر پر خوشی کے شادیانے بجائے چنانچہ ’’جمعیتہ العلماء ہند‘‘ کی طرف سے مولوی حبیب اللہ صاحب ناظم دارالعلوم دیو بند نے امیر امان اللہ خاں کو مبارکباد کا تار دیا اور لکھا کہ۔
’’مرکزی جماعت دارالعلوم دیو بند دلی مسرت و اطمینان کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتی ہے کہ اعلیٰ حضرت امیر غازی نے ایک مرتد پر حسب قواعد شرعیہ حد و تعزیر جاری کرکے امیر شہید رحمتہ اللہ علیہ کے اسوہ حسنہ پر عمل اور خلفاء راشدین کے مبارک عہد اور ملوک عادلہ اسلام کے طریق کو زندہ کیا ہے۔ یہ ایک فیصلہ ہے جس نے ہندوستان کی فضا میں ایسے وقت جبکہ قادیانی رہزن نام نہاد مذہبی آزادی کی آڑ لے کر غارتگری میں مصروف تھے۔ سکون و اطمینان پیدا کر دیا ہے اور نہایت قبولیت کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ اعلیٰ حضرت امیر غازی اپنے اس غیر متزلزل اتباع شریعت پر صد ہزار مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اور یہی وہ امر ہے جو ہم کو دولت خداداد کی ترقی و استحکام اور ملت افغانیہ کے عروج کی غیبی بشارت سناتا ہے‘‘۱۹۲۔
حضرت خلیفتہ المسیح کا پیغام جماعت احمدیہ کے نام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے سانحہ شہادت پر ۴/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو جماعت احمدیہ کے نام پیغام دیا کہ ’’برادران! غم کے اس وقت میں ہمیں اپنے فرض کو نہیں بھلانا چاہئے۔ جو ہمارے اس مبارک بھائی کی طرف سے ہم پر عائد ہوتا ہے۔ جس نے اپنی جان خدا کے لئے قربانی کر دی ہے اس نے اس کام کو شروع کیا ہے جسے ہمیں پورا کرنا ہے آئو ہم اس لمحہ سے یہ مصمم ارادہ کر لیں کہ ہم اس وقت تک آرام نہیں کریں گے جب تک ہم ان شہیدوں کی زمین کو فتح نہیں کر لیں گے (یعنی وہاں احمدیت نہیں پھیلا لیں گے) صاحبزادہ عبداللطیف صاحب۔ نعمت اللہ خان صاحب اور عبدالرحمن صاحب کی روحیں آسمان سے ہمیں ہمارے فرائض یاد دلارہی ہیں اور میں یقین کرتا ہوں کہ احمدیہ جماعت ان کو نہیں بھولے گی۱۹۳۔
اس پیغام پر جماعت کے بہت سے مخلصین نے حضور کی خدمت میں اپنے نام پیش کئے کہ وہ کابل میں جا کر تبلیغ کرنے اور مولوی نعمت اللہ خاں کی طرح جان قربان کرنے کے لئے تیار ہیں۔
چنانچہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے لکھا۔
سیدنا و امامنا۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
میری زندگی اب تک ایسی ہی گزری ہے کہ سوائے اندوہ و ندامت کے اور کچھ حاصل نہیں۔ میں اکثر غور کرتا ہوں کہ یہ بھی کیسی زندگی ہے کہ سوائے روزی کمانے کے کسی اور کام کی فرصت نہ ملے اور دنیا کے دھندوں میں پھنسا انسان طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا رہے۔ آج جو ایک خوش قسمت کے محبوب حقیقی کے ساتھ وصال کی خبر آئی تو جہاں دل میں ایک شدید درد پیدا ہوا وہاں یہ بھی تحریک ہوتی کہ تمہارے لئے یہ موقع ہے کہ اپنی ناکارہ زندگی کو کسی کام میں لائو اور اپنے تئیں افغانستان کی سرزمین میں حق کی خدمت کے لئے پیش کرو۔ پھر میں اچانک رکا کہ کیا یہ محض میرے نفس کی خواہش نمائش تو نہیں کہ اس یقین پر کہ مجھے نہیں بھیجا جائے گا اپنے تئیں پیش کرتا ہے اور میں نے اپنے ذہن میں ان مصائب اور مشکلات کا اندازہ کیا جو اس رستہ میں پیش آئیں گی اور اپنے تئیں سمجھایا کہ فوری شہادت ایک ایسی سعادت ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور کیا تم محض اس لئے اپنے تئیں پیش کرتے ہو کہ شہادت کا درجہ حاصل کرو اور دنیا کے افکار سے نجات حاصل کرو یا تمہارے اندر یہ ہمت ہے کہ ایک لمبا عرصہ زندہ رہ کر ہر روز اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جان دو اور متواتر شہادت سے منہ نہ موڑو۔ حضور انور میں کمزور ہوں‘سست ہوں‘آرام طلب ہوں لیکن غور کے بعد میرے نفس نے یہی جواب دیا ہے کہ میں نمائش کے لئے نہیں‘فوری شہادت کے لئے نہیں‘دنیا کے افکار سے نجات کے لئے نہیں بلکہ اپنے گناہوں کے لئے توبہ کا موقعہ میسر کرنے کے لئے‘اپنی عاقبت کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کے لئے‘اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے تئیں اس خدمت میں پیش کرتا ہوں اگر مجھ جیسے نابکار گنہگار سے اللہ تعالیٰ یہ خدمت لے اور مجھے یہ توفیق عطا فرمائے کہ میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام اس کی رضا کے حصول میں صرف کر دوں تو اس سے بڑھ کر میں کسی نعمت اور کسی خوشی کا طلب گار نہیں۔
حضور میں مضمون نویس نہیں اور حضور کی بارگاہ میں تو نہ زبان یاری دیتی ہے نہ قلم جیسے کسی نے کہا ہے۔ ~}~
بے زبانی ترجمان شوق بے حد ہو تو پھر
ورنہ پیش یار کام آتی ہیں تقریریں کہیں
اس لئے اس پر بس کرتا ہوں کہ میں جس وقت حضور حکم فرماویں افغانستان کے لئے روانہ ہونے کو تیار ہوں اور فقط حضور کی دعائوں اور میں نے اپنے ذہن میں ان مصائب اور مشکلات کا اندازہ کیا جو راستہ میں پیش آئیں گی اور اپنے تئیں سمجھایا کہ فوری شہادت ایک ایسی سعادت ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور کیا تم محض اس لئے اپنے تئیں پیش کرتے ہو کہ جاتے ہی شہادت کا درجہ حاصل کرو اور دنیا کے افکار سے نجات حاصل کرو یا تمہارے اندر یہ ہمت ہے کہ ایک لمبے عرصہ زندہ رہ کر ہر روز اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جان دو اور متواتر شہادت سے منہ موڑو۔ حضور انور میں کمزور ہوں‘سست ہوں‘آرام طلب ہوں۔ لیکن غور کے بعد میرے نفس نے یہی جواب دیا ہے کہ میں نمائش کے لئے نہیں۔ فوری شہادت کے لئے نہیں۔ دنیا کے افکار سے نجات کے لئے نہیں بلکہ اپنے گناہوں کے لئے توبہ کا موقعہ میسر کرنے کے لئے۔ اپنی عاقبت کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے تئیں اس خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ اگر مجھ جیسے نابکار‘گنہگار سے اللہ تعالیٰ یہ خدمت لے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کا طلبگار ہوں۔
والسلام
حضور کا ادنیٰ ترین خادم
خاکسار ظفر اللہ
سید ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی درخواست میں لکھا۔ ’’میرا نام بھی ان مجاہدین کی فہرست میں داخل فرمائیں۔ جو جام شہادت کے پینے کے لئے تیار ہو رہے ہیں‘‘۔
مولوی عبدالمغنی خان صاحب نے درخواست دی کہ ’’حضرت نعمت اللہ خاں شہید کے واقعہ پر اگر حضور پسند فرمائیں تو میں اس امر کے لئے تیار ہوں کہ کابل جا کر شہید موصوف کے قدم بقدم چل کر سنگسار کیا جائوں‘‘۔
مولوی ابوالعطاء صاحب فاضل نے درخواست پیش کی کہ ’’حضور سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھ گناہگار کو اس خدمت کے لئے قبول فرمایا جاوے اور دعا فرماویں کہ اللہ تعالیٰ کامل ایمان‘استقامت اور ثبات عطا فرمائے‘‘۔
منشی عبدالخالق صاحب کپورتھلوی نے لکھا۔ ’’خادم کو مکرم برادرم مولوی نعمت اللہ خان صاحب شہید کے شہادت پانے سے جدائی کا سخت صدمہ پہنچا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اب وہ جگہ شہید کی کابل میں خالی ہے۔ لہذا امیدوار ہوں کہ اس جگہ پر کمترین کی پرورش فرمائی جائے اور کابل بھیج دیا جائے۔ شاید اسی راستہ سے اس نابکار کو وصال الٰہی ہو۔ خادم حضور انور نے فارسی کی مشق شروع کر دی اور قرآن مجید کا ترجمہ فارسی میں دیکھنا شروع کر دیا ہے‘‘۔
ان کے علاوہ کئی اور مخلصین نے اپنے تئیں اس خدمت کے لئے پیش کیا۔ مثلاً مولانا غلام رسول صاحب راجیکی۔ ماسٹر عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ) ملک صلاح الدین صاحب۱۹۴۔ نذیر احمد علی صاحب۔ چوہدری بدر الدین صاحب مبلغ ملکانہ۔ غلام رسول صاحب افغان۔ احمد نور صاحب کابلی۔ میاں عطاء اللہ صاحب (بی۔ اے۔ ایل ایل۔ بی ایڈووکیٹ) مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی۔ سید لال شاہ صاحب (اول مدرس لوئر مڈل سکول شرقپور ضلع شیخوپورہ) ماسٹر نذیر احمد صاحب چغتائی۔ مولوی محمد شاہزادہ خاں صاحب۔ شیخ نیاز محمد صاحب انسپکٹر پولیس کراچی۔ حافظ محمد ابراہیم صاحب قادیان۔ مولوی محمد حسین صاحب مبلغ ملکانہ۔
‏rov.5.31
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
پانچواں باب (فصل سوم)
دو بزرگ ہستیوں کا انتقال
اس سال کے نہایت اہم اور دردناک واقعات میں سے یہ ہے کہ حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب اور حضرت امتہ الحی صاحبہ (حرم ثانی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) جیسی بزرگ ہستیاں بھی دماغ مقارقت دے گئیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
حضرت میر ناصر نواب صاحب کا وصال ۱۹/ ستمبر ۱۹۲۴ء کو ہوا۱۹۵۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے جسمانی تعلق اور عظیم الشان خدمات دینیہ کے باعث سلسلہ احمدیہ میں آپ کو ایک ممتاز مقام حاصل تھا۔ اکل حلال‘جرات ایمانی‘محنت و مشقت‘استقلال‘سخاوت‘ہمدردی خلق اور احکام شریعت کا کمال اہتمام آپ کی طبیعت ثانیہ بن چکا تھا۔ پوری عمر قال اللہ اور قال الرسول پر سختی سے کاربند رہے۔ سلسلہ کی خدمت کا ہر کام اعزازی کیا۔ اور آنریری کام کرنے کے باوجود تنخواہ لینے والوں سے زیادہ محنت و استقلال کا ثبوت دیا (آپ کی خدمات کا تذکرہ) ’’تاریخ احمدیت‘‘ جلد چہارم میں کیا جا چکا ہے)
حضرت میر صاحب کی وفات کے دو ماہ بعد ۱۰/ دسمبر ۱۹۲۴ء کو (ام خلیل) حضرت امتہ الحی صاحبہ بھی اپنے مولا سے جا ملیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح نے آپ کی وفات پر فرمایا۔
’’عورتوں پر خصوصیت سے میری اس بیوی کا احسان ہے۔ حضرت خلیفہ اولؓ کی وفات کے بعد میرا منشا نہیں تھا کہ میں عورتوں میں درس دیا کروں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ بہت ہی بڑی ہمت کا کام ہے کہ ایسے عظیم الشان والد کی وفات کے تیسرے روز ہی امتہ الحی نے مجھ کو رقعہ لکھا ( اس وقت میری ان سے شادی نہیں ہوئی تھی) کہ مولوی صاحب مرحوم اپنی زندگی میں ہمیشہ عورتوں میں قرآن کریم کا درس دیا کرتے تھے۔ اب آپ کو خدا نے خلیفہ بنایا ہے۔ حضرت مولوی صاحب نے اپنی آخری ساعت میں مجھے وصیت فرمائی کہ میرے مرنے کے بعد میاں سے کہہ دینا کہ وہ عورتوں میں درس دیا کریں۔ اس لئے میں اپنے والد صاحب کی وصیت آپ تک پہنچاتی ہوں۔ وہ کام جو میرے والد صاحب کیا کرتے تھے۔ اب آپ اس کو جاری رکھیں وہ رقعہ ہی تھا جس کی بناء پر میں نے عورتوں میں درس دینا شروع کیا اور وہ رقعہ ہی تھا جس کی وجہ سے میرے دل میں ان سے نکاح کا خیال پیدا ہوا۔ پس اگر اس درس کی وجہ سے کوئی فائدہ عورتوں کو پہنچا ہو تو یقیناً اس کے ثواب کی مستحق بھی مرحومہ ہی ہے ۔۔۔۔۔۔ بلکہ حق تو یہ ہے کہ عورتوں میں خطبہ۔ لیکچرز سوسائٹیاں اور ہر ایک خیال جو عورتوں کے متعلق ہو سکتا ہے اس کی محرک وہی ہیں‘‘۱۹۶۔
لاہورمیں مسلم لیگ کااجلاس اورحضرت خلیفہ ثانی کی سیاسی راہنمائی
ملک میں دو مشہور سیاسی پارٹیاں قائم تھیں آل انڈیا نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ۔ کانگریس کی بنیاد ایک انگریز مسٹر ہیوم نے ۱۸۸۵ء میں رکھی۱۹۷۔ اور ابتداًء اس کے بنیادی مقاصد میں انگریزی حکومت اور ہندوستانیوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنا تھا جو رفتہ رفتہ مکمل آزادی کے مطالبہ میں تبدیل ہو گیا۔ مسلم لیگ کی تاسیس ۳۰/ ستمبر ۱۹۰۶ء کو وقار الملک نواب مولوی مشتاق حسین صاحب کی زیر صدارت عمل میں آئی اور اس کا نصب العین یہ تجویز ہوا کہ ’’ہندوستانی‘‘ ’’مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی محافظت و ترقی اور حکومت (برطانیہ) کی وفاداری کے ساتھ ہمسایہ اقوام سے اتفاق و اتحاد بڑھانے کی کوشش‘‘۱۹۸۔ کانگریس میں گو مسلمان زعماء کی ایک خاصی جماعت شامل تھی مگر عملاً اس پر ہندوئوں کا قبضہ تھا۔ اس کے برعکس مسلم لیگ خالص مسلمانوں کی سیاسی جماعت تھی جس میں مسٹر محمد علی جناح۱۹۹ جیسے مشہور لیڈر شامل تھے۔ جو ۱۹۲۱ء میں کانگریس سے علیحدہ ہو چکے تھے اور مسلم مفاد کی ترجمانی کا فریضہ انتہائی خلوص سے ادا کر رہے تھے۔ اور گو اس ابتدائی دور میں مسلمانوں نے ان کی سیاسی عظمت کو نہیں سمجھا۔ مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی اسی وقت سے ان کی قومی خدمات کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے چنانچہ حضور نے ۱۴/ نومبر ۱۹۲۳ء کو بریڈ لا ہال میں تقریر کرتے ہوئے مسلمانوں کی مسٹر جناح اور راجہ صاحب محمود آباد سے بے التفاتی پر سخت اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ ’’ایک زمانہ تھا جب مسلمان ان کی بہت بڑی قدر کرتے اور ان کو اپنا لیڈر سمجھتے تھے۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ ان کو بالکل چھوڑ دیا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اسی طرح مسلمان نقصان اٹھا رہے ہیں۲۰۰۔ اسی طرح شملہ میں لیکچر دیتے ہوئے فرمایا۲۰۱۔
’’جناح صاحب اس وقت سے مسلمانوں کی خدمت کرتے آئے ہیں کہ محمد علی صاحب (جوہر۔ ناقل) ابھی میدان میں نہ آئے تھے ۔۔۔۔۔۔ میں صاف صاف کہتا ہوں کہ جناح صاحب میرے لیڈر نہیں۔ میں اپنی قوم کا آپ لیڈر ہوں ۔۔۔۔۔ لیکن میں ان کی خدمات کے باعث ان کو قابل عزت اور قابل ادب سمجھتا ہوں جب تک مسلمانوں میں یہ احساس نہ ہو کہ خدمت کرنے والوں کی خدمات کا اعتراف کریں اور ان کا ادب کریں اس وقت تک ان میں قومی وقار پیدا نہ ہو گا‘‘۲۰۲body] gat[۔
مسٹر محمد علی جناح کی خدمات ہی کا اثر تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو نہ صرف ان کی ذات سے بلکہ ’’مسلم لیگ‘‘ سے بھی گہری ہمدردی پیدا ہو چکی تھی۔ خصوصاً اس لئے کہ یہ واحد سیاسی ادارہ تھا جو مسلمانان ہند کے سیاسی تحفظ کو پیش کر رہا تھا اور حضور کی از حد خواہش تھی کہ اسے زیادہ سے زیادہ مضبوط و مستحکم بنانا چاہئے۔ چنانچہ اسی خیال سے آپ نے مسلم لیگ کے اجلاس لاہور (منعقدہ ۲۳/ مئی ۱۹۲۴ء) کے لئے ’’اساس الاتحاد‘‘ کے نام سے ایک اہم رسالہ تصنیف فرمایا۔ جسے اجلاس کے موقعہ پر مفت تقسیم کیا گیا۔ مسلم لیگ کی استقبالیہ کمیٹی نے حضور کو اجلاس میں شرکت کی خاص طور پر دعوت دی تھی جو اس رسالہ کی وجہ تصنیف بنی۔
یہ دور مسلم لیگ کی تاریخ میں انتہائی نازک دور تھا۔ اس وقت مسلم لیگ دو حصوں میں بٹ کر اپنا اثر و نفوذ ختم کر چکی تھی۔ مگر آپ نے ’’اساس الاتحاد‘‘ کے ذریعہ اس میں زندگی کے نئے آثار پیدا کرنے کے لئے نہایت اہم اور مفید مشورے دیئے۔
اس سلسلہ میں سب سے اہم نکتہ مسلم لیگ کے ارباب حل و عقد کے سامنے مندرجہ ذیل الفاظ میں رکھا۔
’’مسلم کی تعبیر مذہبی نقطہ خیال سے اور ہے اور سیاسی نقطہ خیال سے اور۔ مذہبی نقطہ خیال سے تو مختلف فرق اسلام کے نزدیک وہ لوگ مسلم ہیں جو ان اصولی مسائل میں جن پر وہ اپنے نزدیک بنائے اسلام رکھتے ہیں متفق ہو۔ اور سیاسی نقطہ خیال کے مطابق ہر شخص جو رسول کریم~صل۱~پر ایمان لانے کا مدعی ہے اور آپﷺ~ کی شریعت کو منسوخ نہیں قرار دیتا اور کسی جدید شریعت کا قائل نہیں ہے لفظ مسلم کے دائرہ کے اندر آجاتا ہے ۔۔۔۔۔۔ پس ضروری ہے کہ مسلم لیگ کے دروازے ہر ایک اس فرقہ کے لئے کھلے ہوں جو اپنے آپ کو مسلم کہتا ہے خواہ اس کو دوسرے فرقوں کے لوگ مذہبی نقطہ نگاہ سے کافر ہی سمجھتے ہوں اور اس کے کفر پر تمام علماء کی مہریں ثبت ہوں‘‘۲۰۳۔
حضور نے ’’اساس الاتحاد‘‘ میں ان اہم نکات کو بھی دوہرایا جو آپ نے ملکی قوموں میں اتحاد کے لئے ۱۹۲۳ء میں پیش فرمائے تھے اور ایسی تدابیر بتائیں جن پر آپ کے نزدیک ملکی جماعتوں میں مستقل اور پائیدار صلح و امن کی اساس رکھی جا سکتی تھی۲۰۴۔
مسلم لیگ نے بالاخر یہ عظیم الشان نکتہ تسلیم کرکے اعلان کیا کہ اس کا دروازہ ہر مدعی اسلام کے لئے کھلا ہے۔ چنانچہ مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی نے مسلم لیگ کانفرنس میرٹھ میں کہا۔ ’’اس (مسلم لیگ۔ ناقل) نے اپنے دستور میں اعلان کر دیا ہے کہ ہماری مراد مسلم کے لفظ سے صرف اس قدر ہے کہ اس میں شریک ہونے والا اسلام کا دعویٰ رکھتا ہے اور اس کا کلمہ پڑھتا ہو کیونکہ مسلم لیگ کوئی مفتیوں کی جماعت نہیں۔ علماء کے فتاویٰ اپنی جگہ پر قائم رہیں گے صرف غیر کلمہ گویوں کے مقابلہ میں قدرے توسیع کیا گیا ہے‘‘۲۰۵۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلم لیگ کو مضبوط بنانے کے لئے صرف مشوروں اور تجاویز بتلانے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ہر ممکن اخلاقی‘آئینی اور مالی ذرائع سے اس کی اعانت بھی کرنے لگے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی خود فرماتے ہیں۔
’’جب مسلم لیگ قائم ہوئی تو اس کی مالی حالت اتنی کمزور تھی کہ انہیں اپنے جلسے منعقد کرنے کے لئے بھی روپیہ نہیں ملتا تھا اور ہمیشہ میں انہیں مدد دیا کرتا تھا۔ ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے لاہور میں ایک دفعہ لکھنئو کے ایک وکیل ملے انہوں نے کہا میں قریباً نو سال مولانا محمد علی صاحب کا سیکرٹری رہا ہوں اور مجھے خوب یاد ہے کہ جب کبھی مسلم لیگ کا جلسہ ہوتا تھا آپ کو اس میں بلایا جاتا تھا اور آپ سے مشورہ لیا جاتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور جب روپیہ کی وجہ سے جلسہ نہ ہو سکتا تھا تو آپ سے مالی امداد لی جاتی تھی ہم لوگ جو ابھی تک زندہ موجود ہیں اس بات کے گواہ ہیں‘‘۲۰۶۔
یہ بات ایسی کھلی تھی کہ غیر مسلم بھی اسے جانتے تھے چنانچہ ارجن سنگھ صاحب عاجز (ایڈیٹر اخبار ’’رنگین‘‘ امرتسر نے) اپنی کتاب ’’سیر قادیان‘‘ میں جماعت احمدیہ کا سیاسی مسلک بیان کرتے ہوئے لکھا۔
’’مسلمانوں کی کئی سیاسی جماعتوں ہیں اور جہاں تک ہماری معلومات کا تعلق ہے ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ احمدی جماعت مسلم لیگ کے طرز عمل کی حامی ہے چنانچہ ذمہ دار احمدیوں سے تبادلہ خیالات کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا ہے کہ ان لوگوں نے مسلم لیگ کے مقاصد کی تکمیل کی خاطر ہزار ہا روپیہ خرچ کرنے کے علاوہ اپنی تمام کوششیں مسلم لیگ کی کامیابی کے لئے وقف رکھی ہوئی ہیں‘‘۲۰۷`۲۰۸۔
’’دعوۃ الامیر‘‘ کی اشاعت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اوائل خلافت ہی سے والیان ریاست تک پیغام احمدیت پہنچانے کا ازحد خیال رہا ہے جیسا کہ نظام حیدر آباد دکن‘والی ریاست رامپور اور والیہ ریاست بھوپال کے نام تبلیغی خطوط بھجوانے کا ذکر پچھلے صفحات میں آچکا ہے اس سال (۱۹۲۴ء میں) حضور نے امیر امان اللہ خان بادشاہ افغانستان و ممالک محروسہ پر اتمام حجت کے لئے ’’دعوۃ الامیر‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب شائع فرمائی۲۰۹۔ جس کا فارسی ترجمہ حضرت حکیم مولانا عبیداللہ صاحب بسمل۲۱۰ نے کیا۲۱۱۔ حضور نے اس بے نظیر کتاب میں (جس کا ایک حصہ خدا تعالیٰ کے القاء کا نتیجہ ہے۲۱۲) نہایت جامعیت کے ساتھ جماعت احمدیہ کے مخصوص عقائد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ ماموریت کے بارہ میں دلائل بیان فرمائے اور حضور علیہ السلام کی پوری ہونے والی بارہ اہم پیشگوئیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس شاندار تحفہ کا اختتام مندرجہ ذیل الفاظ پر کیا ہے۔
’’اللہ تعالیٰ کے مامور پر ایمان لائیے تا خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو امن دیا جائے اور اسلام کی آواز کو قبول کیجئے تا سلامتی سے آپ کو حصہ ملے میں آج اس فرض کو ادا کر چکا ہوں جو مجھ پر تھا۔ خدا تعالیٰ کا پیغام میں نے آپ کو پہنچا دیا ہے۔ اب ماننا نہ ماننا آپ کا کام ہے‘‘۲۱۳۔
افسوس امیر امان اللہ خان نے نہ صرف یہ آسمانی تحفہ قبول کرکے خدا کی امان کے نیچے آنے سے انکار کر دیا بلکہ انتہائی شوخی اور بے باکی سے مظلوم اور بے کس احمدیوں کو پے در پے اپنے مظالم کا نشانہ بنایا۲۱۴ جس کا خمیازہ انہیں عبرتناک رنگ میں بھگتنا پڑا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔ یعنی ۱۹۲۹ء میں ایک ڈاکو بچہ سقہ نے تخت کابل پر قبضہ کر لیا۲۱۵۔ اور انہیں بھاگ کر پہلے قندھار اور پھر قندھار سے بمبئی۲۱۶ کے رستہ جا کر اٹلی میں پناہ گزین ہونا پڑا۔ جہاں وہ کئی سال تک نہایت کسم پرسی اور گمنامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد ۳/ اپریل ۱۹۶۰ء کو راہی ملک عدم ہو گئے فاعتبر وایا اولی الابصار۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا بیان ہے کہ جب وہ یورپ روانہ ہوئے تو خود ان کے ایک درباری نے آپ کی خدمت خط لکھا کہ ہماری مجالس میں بار بار یہ ذکر آیا ہے کہ جو کچھ ہماری ذلت ہوئی وہ اسی ظلم کی وجہ سے ہوئی جو ہم نے احمدیوں پر کیا تھا امید ہے کہ اب جبکہ ہمیں سزا مل چکی ہے آپ ہمارے لئے بددعا نہ کریں گے‘‘۲۱۷۔
دعوۃ الامیر کا اثر سعید روحوں پر
’’دعوۃ الامیر‘‘ کو گو امیر امان اللہ نے کوئی اہمیت نہ دی مگر یہ کتاب بہت سی سعید روحوں کی ہدایت کا موجب بنی اور بن رہی ہے۔ یہی وہ عظیم الشان کتاب ہے جو چوہدری فقیر محمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر (سابق صوبہ سرحد) کو احمدیت میں لانے کا فوری باعث ہوئی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اس کی تفصیل میں فرماتے ہیں۔
’’سرحد کے ایک رئیس چوہدری فقیر محمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر تھے۔ وہ ایک دفعہ دہلی میں مجھے ملے اور انہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ ہم چار بھائی ہیں جن میں سے دو بھائی غیر احمدی ہیں اور دو بھائی احمدی ہیں۔ اپنے متعلق انہوں نے کہا کہ میں ابھی تک آپ کی جماعت میں شامل نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔ ہم پورا پورا انصاف کرنے کے عادی ہیں روپیہ میں سے اٹھنی ہم نے آپ کو دے دی ہے اور اٹھنی دوسرے مسلمانوں کو دے دی ہے۔ میں نے بھی ان سے مذاقاً کہا کہ خان صاحب! ہم تو اٹھنی پر راضی نہیں ہوتے۔ ہم تو پورا لے کر چھوڑا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اس وقت معہ اہل و عیال انگلستان کی سیر کو جا رہے تھے۔ میری اس بات کو سن کر انہوں نے کہا کہ خان محمد اکرم خان صاحب چارسدہ والے میرے بھائی ہیں انہوں نے آپ کی بعض کتابیں میرے ٹرنک میں رکھ دی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ اس کے بعد وہ ولایت چلے گئے۔ ابھی تین مہینے ہی گزرے تھے کہ مجھے ایک چٹھی پہنچی اس کے شروع میں ہی یہ لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔ کہ میں وہ ہوں جو آج س تین ماہ پہلے دہلی کے شاہی قلعہ میں آپ سے ملا تھا۔ اور میں نے آپ سے کہا تھا کہ ہم نے پورا پورا انصاف کیا ہے اٹھنی آپ کو دے دی ہے اور اٹھنی غیر احمدیوں کو دے دی ہے جس پر آپ نے کہا تھا کہ ہم تو پورا روپیہ لے کر چھوڑا کرتے ہیں۔ سو آپ کے حکم کے مطابق اب ایک چونی آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں اور اپنے آپ کو بیعت میں شامل کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ اور لکھا کہ جب میں ولایت میں آیا اور میں نے مختلف مقامات کی سیر کی تو گو میں پٹھان ہوں اور مذہبی جوش میرے دل میں موجود ہے مگر کفر کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر میرا دل پژ مردہ ہوتا چلا گیا۔ ۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہو گیا کہ اب اسلام دنیا پر غالب نہیں آسکتا۔ ایک دن میرے دل پر اس خیال کا بے انتہا اثر ہوا۔ اور حالت مایوسی میں میں نے کہا آئو ان کتب کو پڑھ کر دیکھو جو میرے بھائی نے میرے ٹرنک میں رکھ دی تھیں۔ چنانچہ پہلے ’’اسلامی اصولی کی فلاسفی‘‘ نکلی اور اسے میں نے پڑھا اس کے بعد آپ کی کتاب ’’دعوۃ الامیر‘‘ نکلی اور اسے میں نے پڑھنا شروع کیا۔ پڑھتے پڑھتے اس کتاب میں وہی ذکر آگیا جس نے میرے دل میں انتہائی طور پر مایوسی پیدا کر دی تھی یعنی اسلام کے تنزل اور اس کے ادبار کا اس میں ذکر تھا۔ مگر ساتھ ہی بتایا گیا تھا کہ رسول کریم~صل۱~ نے اسلام کے تنزل کے متعلق یہ پیشگوئی کی تھی جو پوری ہو گئی۔ غرضیکہ بعد دیگرے اسلامی تنزل کے متعلق کئی پیشگوئیاں تھیں جو پڑھنے میں آئیں اور جو واقعہ میں پوری ہو چکی تھیں۔ اس کے بعد آپ نے اسلام کی ترقی کے متعلق رسول کریم~صل۱~ کی پیشگوئیوں کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ جب رسول کریم~صل۱~ کی وہ پیشگوئی پوری ہو گئیں جو اسلام کے تنزل کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں۔ تو وہ پیشگوئیاں کیوں پوری نہیں ہوں گی۔ جو اسلام کے دوبارہ غلبہ کے متعلق ہیں۔ میں نے جب یہ مضمون پڑھا تو میرا دل خوشی سے بھر گیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے فیصلہ کیا کہ اب میں اس وقت تک سونے کے لئے اپنے بستر پر نہیں جائوں گا جب تک آپ کو اپنی بیعت کا خط نہ لکھ لوں۔ چنانچہ سونے سے پہلے میں یہ خط آپ کو لکھ رہا ہوں میری بیعت کو قبول کیا جائے‘‘۲۱۸۔
احمدیہ مسجد لاہور کی تعمیر
خلافت ثانیہ کے آغاز سے لے کر ۱۹۲۳ء تک جماعت احمدیہ لاہور کے احباب حضرت میاں چراغ دین صاحب رئیس لاہور کے گھر (واقع بیرون دہلی دروازہ) پر نمازیں پڑھتے تھے اور یہی جگہ بطور مہمان خانہ استعمال ہوتی تھی مگر ۱۹۲۴ء میں حضرت میاں چراغ دین صاحب اور حضرت میاں سراج دین۲۱۹ صاحب کے مشترکہ احاطہ میں جماعت احمدیہ لاہور کی پہلی مسجد کی بنیاد رکھی گئی جو ۱۹۲۵ء کے قریب پایہ تکمیل تک پہنچی مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب امیر جماعت لاہور نے تعمیر مسجد کے لئے ایک کمیٹی بنائی جس کے پریذیڈنٹ بابو عبدالحمید صاحب آڈیٹر اور سیکرٹری سید دلاور شاہ صاحب بخاری تھے۔ مسجد کا نقشہ میاں محمد صاحب نے تیار کیا جو سکول آف آرٹس لاہور میں ورک اوورسیر تھے۔ اور اس کے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا سہرا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص صحابی حضرت حکیم محمد حسین صاحب قریشی (موجد مفرح عنبری) کے سر ہے چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں ’’حکیم محمد حسین صاحب قریشی جنہوں نے دہلی دروازہ والی مسجد بنوائی ان کے تعلقات بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت قدیم اور مخلصانہ تھے‘‘۲۲۰۔
سالانہ جلسہ پر تقریریں
حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۴ء کے موقعہ پر تین تقریریں فرمائیں۔
۱۔
افتتاحی تقریر جس میں استغفار و دعا کی طرف توجہ دلائی۔
۲۔
دوسری تقریر ’’بہائی ازم کی تاریخ و عقائد‘‘ کے موضوع پر ہوئی۔ جس سے دنیا پر پہلی بار واضح طور پر یہ حقیقت ظاہر ہوئی کہ بہائیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ بہاء اللہ صاحب کا دعویٰ خدا ہونے کا تھا۔
۳۔
حضور نے اپنی آخری اور تیسری تقریر میں پہلے مولوی نعمت اللہ خان صاحب کی شہادت کا ذکر کرکے قرآن و احادیث سے ثابت فرمایا کہ اسلام میں محض ارتداد کی سزا ہرگز رجم و قتل نہیں ہے۔ اس کے بعد حضور نے اپنے سفر بلاد اسلامیہ ویورپ کے واقعات اور اس سفر کی تئیس عظیم الشان برکات و فوائد بیان فرمائے اور جماعت احمدیہ کو ان کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلائی۲۲۱
۱۹۲۴ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حرم ثانی میں مرزا خلیل احمد صاحب‘حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں مرزا مجید احمد صاحب اور حضرت میر محمد اسحق صاحب کے ہاں سید دائود احمد صاحب کی ولادت ہوئی۔
۲۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے ۳/ مارچ ۱۹۲۴ء کو تعلیم الاسلام مڈل سکول کاٹھ گڑھ کا سنگ بنیاد رکھا۲۲۲۔
۳۔
صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب (اول) (فرزند حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) مولوی الحاج میر محمد سعید صاحب حیدر آبادی۔ حضرت سید فضل شاہ صاحب۔ شیخ رحمت اللہ صاحب۲۲۳۔ (مالک انگلش ویر ہائوس لاہور) عابد علی شاہ صاحب سیالکوٹی۔ مولوی محمد اسمعیل صاحب۲۲۴ (ترگڑی والے) سردار امام بخش خاں صاحب تمندار قیصرانی4] ft[s۲۲۵۔ پیر برکت علی صاحب (برادر اکبر حافظ روشن علی صاحب) اور مولوی فیض الدین صاحب سیالکوٹی کا انتقال ہوا۔
۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۸/ مارچ ۱۹۲۴ء کو محفوظ الحق علمی۔ مہر محمد خاں شہاب اور ماسٹر اللہ دتہ کو جماعت میں درپردہ اور خفیہ بہائی خیالات کی اشاعت کرنے پر جماعت احمدیہ سے خارج کر دیا۔ ان لوگوں نے حضور کے مقررہ کردہ کمیشن کے سامنے اپنے بہائی ہونے کا خود اعتراف کیا تھا۲۲۶۔ حضور نے ان کے اخراج کے بعد بہائی مذہب کی حقیقت سے متعلق لیکچروں کا ایک سلسلہ جاری فرمایا۲۲۷۔ علاوہ ازیں مولوی فضل الدین صاحب پلیڈر نے بڑی محنت اور عرقریزی سے بہائیت کی کتابیں خصوصاً بہاء اللہ کی کتاب ’’اقدس‘‘ حاصل کی اور بہائی ازم کے ابطال میں بنیادی اور اہم لٹریچر شائع کیا۲۲۸۔
۵۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے مرزا رشید احمد صاحب (خلف حضرت مرزا سلطان احمد صاحب) کا نکاح حضرت میرزا بشیر احمد صاحبؓ کی دختر امتہ السلام صاحبہ کے ساتھ پڑھا‘‘۲۲۹۔
۶۔
مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری مولوی فاضل میں یونیورسٹی بھر میں اول آئے۔ آپ نے حضور کی خدمت میں لکھا کہ مجھے یونیورسٹی کی طرف سے انگریزی کی تکمیل کے لئے تیس روپے ماہوار وظیفہ مل سکتا ہے اگر حضور کا ارشاد ہو تو وہاں داخل ہو جائوں مگر حضور نے فرمایا۔ ’’جسے ہم مسیحا نفس بنانا چاہتے ہیں اس تیس روپے میں گرفتار کرنے کے لئے تیار نہیں‘‘۲۳۰۔ چنانچہ آپ نے مبلغین کلاس میں داخلہ لے لیا۔ مولانا ابوالعطاء صاحب کے ہم مکتبوں میں سے ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب‘مولوی تاج دین صاحب لائلپوری۲۳۱ اور مولوی عبداللہ صاحب مالا باری نے بھی اسی سال مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا۲۳۲۔ اور مزید ٹریننگ لینے کے بعد سلسلہ کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ موخر الذکر تین اصحاب میں سے خصوصاً (ابوالبشارت) مولوی عبدالغفور صاحب فاضل نے آگے چل کر اپنی تقریروں اور مباحثوں سے جماعت میں بڑا نام پیدا کیا اور مولوی عبداللہ صاحب مالا باری نے مالا بار کے طول و عرض میں احمدیت کا پیغام پہنچایا اور سلسلہ کی عمدہ خدمات کیں۔
۷۔
اس سال سے سالانہ جلسہ مسجد نور کی بجائے قریب ہی ہائی سکول کی گرائونڈ میں منعقد ہونا شروع ہوا۲۳۳۔
۸۔
حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر مبلغ بلاد یورپ و مغربی افریقہ سے ۲۱/ ۲۰ دسمبر ۱۹۲۴ء کو سلسلہ احمدیہ میں پہلی بار میجک لینٹرن کے ذریعہ تبلیغی تصاویر دکھانے کا طریق جاری فرمایا۲۳۴۔ حضرت نیر صاحب کے بعد ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم نے بھی اس طریق سے تبلیغ احمدیت کا بہت کام لیا ہے۔
۹۔
علمائے سلسلہ کی نئی مطبوعات: (۱) قرآن مجید کا گورمکھی ترجمہ (از جناب شیخ محمد یوسف صاحب ایڈیٹر نور) (۲) ’’احکام القرآن‘‘ (از حکیم محمد الدین صاحب گوجرانوالہ) (۳) ’’برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول‘‘ (۴) ’’محاکمہ مابین آریہ سماج اور گاندھی‘‘۔ (از مہاشہ فضل حسین صاحب) (۵) ’’سیرت مسیح موعودؑ‘‘۲۳۵۔ (از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) (۶) ’’فقہ احمدیہ‘‘ حصہ اول (از حضرت علامہ حافظ روشن علی صاحبؓ) (۷) ’’کارزار شدھی‘‘ (از ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم)
۱۰۔
مشہور مباحثات: مباحثہ مظفر نگر۲۳۶ (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی عبداللطیف صاحب۔ مصطفیٰ آبادی کے مابین) مباحثہ بانکی پورپٹنہ۲۳۷ (مولوی سید وزارت حسین صاحب رئیس موضع اورین ضلع مونگیر اور آریہ سماج کے درمیان) مباحثہ گلانوالی۲۳۸ ضلع امرتسر (مولوی ظہور حسین صاحب فاضل اور مولوی محمد اسماعیل صاحب کے درمیان) مباحثہ مونگیر (حضرت حافظ روشن علی صاحب اور اجودھیا پرشاد ست دیو اور مراری لال تین آریہ مناظروں کے ساتھ) مباحثہ میانی۲۳۹ (مولانا جلال الدین صاحب شمس کا مفتی غلام مرتضیٰ صاحب میانوی کے ساتھ) مباحثہ کھاریاں۲۴۰ (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتارڑوی) مباحثہ اٹاوہ (مابین جناب سید صادق حسین صاحب مختار عدالت سیکرٹری انجمن احمدیہ اٹاوہ و حکیم مرزا محمود احمد صاحب زرقانی و سید محفوظ الحق صاحب علمی بہائی۲۴۱)
۱۱۔
(میجر جنرل) احیاء الدین صاحب (خلف خان بہادر میاں وسیع الدین صاحب سرخ ڈھیری ضلع مردان صوبہ سرحد) داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔
‏rov.5.32
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا گیارھواں سال
حواشی
۱۔
ویمبلے لنڈن کے ایک پارک کا نام ہے جہاں اس نمائش کا انعقاد ہوا تھا۔
۲۔
اس کمیٹی کے ممبر یہ تھے۔ (۱) سرای ڈینی سن راس (صدر) (۲) سر تھامس ڈبلیو آرنلڈ اور مسٹر وکٹر برنیفورڈ (نائب صدر) مسٹر ایف سی چینینگ۔ مسٹر سی رائس ڈیوڈ۔ پارسی ٹسل ڈیوس۔ پادری اے ایس گیڈن۔ پروفیسر مارگولیتھ۔ پروفیسر ایلائس ورنر۔ پادری ڈبلیو سٹن پیج۔ سر فرانسس ینگ ہسبینڈ۔ (یہ سب انتظامیہ کمیٹی کے ممبر تھے) مسٹر ایل سی ساپر (خزانچی) مسٹر ڈبلیو لا فٹس ہیئر (سیکرٹری) مس ایم ایم شارپلز (سیکرٹری)
۳۔
الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۲۳ء صفحہ ۶۵۔
۴۔
الفضل ۲۰/ مئی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۵۔
تواریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ ۱۳۔
۶۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۷۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۸۔
الفضل ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ اس سفر کے متعلق استخارہ کرنے کا تحریری ارشاد خاکسار کو بھی پہنچا تھا۔ ابھی دو تین دن ہی دعا کی تھی کہ میں نے رئویا میں دیکھا کہ مولوی فضل الدین صاحب (وکیل) اسباب سفر باندھ رہے ہیں اور میں بطور مددگار پاس کھڑا ہوں میں نے یہ رئویا حضور کو لکھ کر بھیج دی تھی۔
۹۔
حضرت مسیح موعودؑ نے لیکچر لاہور اور براہین احمدیہ حصہ پنجم پر تحریر فرمایا ہے کہ ذوالقرنین کے قرآنی واقعہ میں میرے متعلق پیشگوئی ہے اور میرا نام ذوالقرنین رکھا گیا ہے اب ذوالقرنین کی نسبت قرآن مجید میں لکھا ہے کہ اس نے مغربی ممالک کی طرف سفر کیا۔ ثابت ہوا کہ مسیح موعود یا اس کے کسی جانشین کو ان ممالک کی طرف ضرور سفر کرنا پڑے گا۔
۱۰۔
حضرت مسیح موعودؑ نے حدیث نزول عیسیٰ کی تشریح میں فرمایا یسافر المسیح الموعود او خلیفہ من خلفاء|ہ الی ارض دمشق (حمامتہ البشریٰ صفحہ ۳۷) طبع اول یعنی مسیح موعود یا اس کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ سرزمین دمشق کا سفر اختیار کرے گا۔
۱۱۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۱۲۔
ازالہ اوہام طبع اول صفحہ ۵۱۵۔ ۵۱۶۔
۱۳۔
ملخصاً از الفضل ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۴۔
ملخصاً از الفضل ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۵۔
ان کی تفصیل حضور ہی کے قلم مبارک سے لکھتا ہوں فرمایا۔ ’’میری مالی مشکلات جن کی موجودگی اور بوجھ کا اٹھانا طبیعت پر ایک حد تک گراں گزرتا ہے دوسرے میری صحت بہت خراب رہتی ہے اور اتنے لمبے سفر اور اس کی مشقتوں کو برداشت کرنا میرے لئے شاید ایک بار گراں ثابت ہو کیونکہ اس قدر کثیر اخراجات کے برداشت کرنے کے بعد اگر وقت کو پوری طرح استعمال نہ کیا جائے اور زیادہ سے زیادہ کام نہ کیا جائے تو یہ ایک اسراف ہو گا۔ جس کو میری طبیعت پسند نہیں کرتی۔ تیسرے قادیان سے اس قدر عرصہ تک اتنے فاصلے پر رہنا کہ گویا ایک نئی دنیا ہے مجھے ناپسند ہے چوتھے اپنی صحت کی خرابی اور عمر کی ناپائیداری کا خیال کرکے طبیعت ایک تکلیف محسوس کرتی ہے۔ پانچویں میری دو بیویاں اس وقت حاملہ ہیں اور ان دونوں کو اسقاط کا مرض ہے اور بچے ان کو سخت تکلیف سے ہوتے ہیں یہاں تک کہ جان کی فکر پڑ جاتی ہے اور ان کے وضع حمل کا زمانہ وہی ہے جو اس سفر میں خرچ ہو گا۔ میری غیر حاضری کا خیال ان کی طبائع پر ایک قدرتاً بوجھ ہے‘‘۔ (الفضل ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۳)
۱۶۔
الفضل ۲۴/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۷۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۸`۱۹۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۲۰۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۲۱`۲۲۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۲۳۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۲۴۔
فاروق ۶/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۲۵۔
مفصل ملاحظہ ہو ریویو آف ریلیجنز اردو دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۷۔ ۴۰۔
۲۶۔
احمدیت یعنی حقیقی اسلام اردو صفحہ ۹۰۔
۲۷۔
ایضاً صفحہ ۲۲۸۔ ۲۲۹۔
۲۸۔
اس کتاب کا انگریزی ترجمہ سفر یورپ کے دوران مین ولنگٹن سکوائر کلکتہ سے چھپوا کر لندن بھجوا دیا گیا تھا۔
۲۹۔
الفضل ۲۲/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔ ۷۔
‏h1] gat[۳۰۔
الفضل ۲۴/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۳۱۔
الفضل ۲۴/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۳۲۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۳۳۔
یہ فوٹو سید ناصر شاہ صاحب نے لیا تھا۔
۳۴۔
پوری نظم الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲ پر چھپی ہوئی ہے۔
۳۵۔
الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۳۶۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۳۷۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۳۸۔
‏]2h [tag الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۹۔
الفضل ۱۵/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۰۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۴۱۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرح حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے ذاتی خرچ پر تشریف لے گئے تھے اور واپسی پر کچھ عرصہ مصر میں عربی ادب کا مطالعہ کرنے کے لئے قیام پذیر رہے۔
۴۲۔
سیکرٹری تبلیغ کی حیثیت سے۔
۴۳۔
پرائیوٹ سیکرٹری
۴۴۔
جنرل سیکرٹری۔
۴۵۔
بحیثیت عالم۔
۴۶۔
بحیثیت پریس رپورٹر۔
۴۷۔
مشیر طبی کی حیثیت سے۔
۴۸۔
خادم خاص۔
۴۹۔
بحیثیت عالم۔
۵۰۔
خادم۔
۵۱۔
باورچی۔
۵۲۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کی قلمی یادداشت سے ماخوذ۔ پوری نظم الفضل ۲۵/ جولائی ۱۹۲۴ء کے علاوہ کلام محمود میں بھی موجود ہے۔
۵۳۔
یہ وہی تاریخی نظم ہے جس کی اشاعت پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بھی حضور کو مخاطب کرکے اسی ردیف و قافیہ میں اپنے دلی خیالات کا اظہار فرمایا تھا۔ ملاحظہ ہو درعدن صفحہ ۹۔ ۱۳۔ دراصل آپ کی مقدس شاعری کا آغاز اسی نظم سے ہوتا ہے۔
۵۴۔
حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی کے ایک خط سے ماخوذ ایضاً الفضل ۲۳/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۵۵۔
الفضل ۲۲/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۲۔
۵۶۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔ خط حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب سے ماخوذ و الفضل ۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۵۷۔
اس جہاز کا نام افریقہ تھا۔ اٹالین کمپنی کا جہاز ہونے کی وجہ سے دو ایک ہندوستانی گورکھوں کے سوا اس کے سب ملازم اٹالین تھے۔ افسروں کا سلوک دوران سفر حضور اور حضور کے رفقاء کے ساتھ بہت ہی اچھا تھا۔ (الفضل ۱۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۶)
۵۸۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۵۹۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔ ایضاً خط حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی۔
۶۰۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷ و ۱۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۶۱۔
‏h2] [tag الفضل ۲۳/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۶۲۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۶۳۔
الفضل ۱۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۵۔ ۶۔
۶۴۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۶۵۔
الفضل ۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۶۶۔
الفضل ۲۹/ جولائی ۱۹۲۴ء و الفضل ۱۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۶۷۔
الفضل ۱۹/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۶۸۔
الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۶۹۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۷۰۔
الفضل ۶/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۷۔
۷۱۔
الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۸ و الفضل ۲/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۷۲۔
اس سلسلہ میں اخبار المقطم قاہرہ مورخہ ۲/ اگست ۱۹۲۴ء کے ایک نوٹ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۷۳۔
الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۵۔
۷۴۔
بعد کے واقعات نے حضور کے الفاظ کی لفظاً لفظاً تصدیق کر دی۔
۷۵۔
الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۶۔
۷۶۔
یعنی مولوی عبدالرحیم صاحب درد۔
۷۷۔
الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۷۸۔
الفض ۱۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۷۹۔
الفضل ۴/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۸۰۔
الفضل ۲۸/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۸۱۔
سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۵۔ ۳۷۶ (از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) ایضاً الحکم ۲۱/ ۱۴ جنوری ۱۹۴۰ء صفحہ ۱۳۔
۸۲۔
الفضل ۶/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۸۳۔
الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۸۴۔
عکا شہر کی آبادی سے چار میل دور کھیتوں میں جس جگہ بہا اللہ کی قبر ہے بہائی اس کا نام بہجہ رکھتے ہیں۔
۸۵۔
خط حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی۔
۸۶۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۸۷۔
الفضل ۲۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۸۸۔
الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۸۹۔
خط سیدنا امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی بنام حضرت مولوی شیر علی صاحب (الفضل ۲۳/ ستمبر صفحہ ۳۔ ۴)
۹۰۔
الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۹۱۔
خط حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی سے ماخوذ۔
۹۲۔
الفضل ۳۰/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۹۳۔
الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۹۴۔
الفضل ۲۸/ دسمبر ۱۹۳۹ء صفحہ ۶۶ چند اخبارات کے نام بطور نمونہ یہ ہیں۔ ٹائمز آف لنڈن۔ ڈیلی میل لنڈن۔ ڈیلی مرر۔ ڈیلی نیوز۔ ایوننگ سٹینڈرڈ۔ ڈیلی سکیچ۔ ڈیلی گرانک۔ ڈیلی ٹیلیگراف۔ مانچسٹر گارڈین۔ (ملاحظہ ہو اخبار الفضل ۱۹۲۴ء)
۹۵۔
الفضل ۲/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۹۶۔
سفر یورپ کے حالات کی قلمی ڈائری (از حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی) اصل ڈائری جو پنسل سے لکھی ہوئی ہے خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۹۷۔
ان خطوط کی نقل خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے۔
۹۸۔
الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۹۹۔
قلمی ڈائری حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے ماخوذ۔ (مکمل پیغام کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔ ۵)
۱۰۰۔
اس کا مفصل ذکر آگے آرہا ہے۔
۱۰۱۔
مثلاً لیگ آف نیشنز اور دنیا کے مختلف ممالک کو تار دیئے پریس کو اطلاعات بہم پہنچانے کا انتظام فرمایا لنڈن میں احتجاجی جلسے منعقد کرائے ایک مضمون میں شہید افغانستان کے مفصل حالات شائع کئے۔
۱۰۲۔
الفضل ۲۷/ ستمبر ۱۹۲۱ء صفحہ ۵۔ ۷۔ الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔ الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۱۰۳۔
الفضل ۷/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔ ۵ پر پیغام کا متن موجود ہے۔
۱۰۴۔
مکمل لیکچر کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۷/ اکتوبر ۱۹۲۴ء۔
۱۰۵۔
الفضل ۱۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۰۶۔
مفصل خطبہ کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۱۰۷۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۰۸۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔ تفصیل آگے آرہی ہے۔
۱۰۹۔
۲۳/ ستمبر کو اسلام پر تین مضمون پڑھے گئے پہلا مضمون خواجہ کمال الدین صاحب بانی ووکنگ مشن نے اہلسنت و الجماعت کی طرف سے دوسرا شیخ خادم دجیلی نے ایل تشیع کی طرف سے اور تیسرا اور آخری حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے تھا۔ جو تحریک احمدیت کے نقطہ خیال سے اسلام کی ترجمانی کرتا تھا۔
۱۱۰۔
الفضل ۸/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۱۱۱۔
الفضل ۲۱/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۱۲۔
الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۱۱۳۔
الفضل ۳۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶ الف۔
۱۱۴۔
الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔ ۵۔
۱۱۵۔
بحوالہ الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۱۶۔
یہ لیکچر ایک سیاسی لیکچر کے نام سے چھپا ہوا ہے۔
۱۱۷۔
یہ مضمون پیارا رسول کے نام سے چھپا ہوا ہے۔
۱۱۸۔
الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۱۱۹۔
الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۲۰۔
الفضل ۱۳/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۲۱۔
الفضل ۱۵/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳ و ۶/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۲۲۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۵۔
۱۲۳۔
الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۲۴۔
الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۲۵۔
الفضل ۱۸/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۸۔
۱۲۶۔
الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۲۷۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۲۸۔
الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۲۹۔
الفضل ۲۰/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔
۱۳۰۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۳۱۔
‏]h2 [tag ڈیلی کرانیکل لندن ۲۰/ اکتوبر ۱۹۲۴ء (بحوالہ سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۷۹)
۱۳۲۔
ویسٹ منسٹر گزٹ (۲۰/ اکتوبر ۱۹۲۴ء) بحوالہ تواریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ ۳۶۔ ۳۸۔
۱۳۳۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۳۴۔
الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ایضاً صفحہ ۳۔ ۶۔
۱۳۵۔
الفضل ۱۱/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۱۸/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴۔ ۶۔
۱۳۶۔
الفضل ۶/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۱۳۷۔
الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۲۴ء۔
۱۳۸۔
مثلاً ٹائمز آف انڈیا نے ۱۹/ نومبر ۱۹۲۴ء کو لکھا۔ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ سے (جو کل اپنے لمبے سفر یورپ سے واپس آئے ہیں) ہمارے اخبار (ٹائمز آف انڈیا) کے ایک نمائندہ نے ان کے بمبئی پہنچنے سے تھوڑی دیر بعد ملاقات کی یہ ملاقات نہایت دلچسپ اور نئی روشنی دینے والی ثابت ہوئی۔ اس نئی اسلامی جماعت کے امام ایک ذی علم اور روشن دماغ نوجوان ہیں اور انگریزی خوب روانی کے ساتھ بولتے ہیں۔ (بحوالہ الفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۹)
۱۳۹۔
اسی طرح حضور نے ۲۰/ نومبر ۱۹۲۴ء کو گاندھی جی کے ساتھ علی برادران اور جناب ابوالکلام صاحب آزاد کی موجودگی میں حالات حاضرہ پر گفتگو فرمائی اور اس بات پر زور دیا کہ کانگریس اس وقت تک صحیح معنوں میں قومی جماعت نہیں کہلا سکتی جب تک اس میں تمام قسم کے خیال کے لوگ شامل نہ کئے جائیں۔ اب کانگریس اپنے آپ کو قومی جماعت کہتی ہے لیکن وہ ایک خاص پارٹی کے لوگوں کی نمائندگی کرتی ہے گاندھی جی نے اس پر رضا مندی ظاہر کی اور حضور سے کانگریس میں شامل ہونے کے لئے بہت اصرار کیا حضور نے جواب دیا کہ چونکہ میں کلی طور پر حامی تعاون ہوں اور آئینی اور ارتقائی ترقی کا حامی ہوں اس لئے موجودہ صورت میں انڈین کانگریس میں شامل نہیں ہو سکتا۔ (الفضل ۶/ دسمبر ۱۹۲۴ء) صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۴۰۔
الفضل ۲۲/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۴۱۔
ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ جب حضور ریلوے اسٹیشن آگرہ سے گھوڑا گاڑی پر سوار شہر میں جائے قیام پر تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک احمدی دوست نے حضور کی خدمت میں قادیان سے آمد تازہ تار پیش کیا۔ جس میں یہ اطلاع تھی کہ امتہ الحی صاحبہ سخت بیمار ہیں حضور جلد از جلد قادیان تشریف لائیں۔ یعنی آگرہ کا ایک روزہ قیام منسوخ فرما دیں۔ مگر حضور نے فرمایا کہ یہ دینی کام جو مقررہ پروگرام کے مطابق ہے چھوڑ نہیں سکتا اور ساتھ ہی اپنے اس طبی خادم حشمت اللہ کو فوراً قادیان روانہ کر دیا چنانچہ میں حضور کے ورود قادیان سے ۳۱ گھنٹے پہلے قادیان پہنچ گیا حضرت امتہ الحی صاحبہ کو میرے پہنچنے سے خوشی ہوئی۔
۱۴۲۔
یاد رہے کہ دراصل ایک خوبصورت بچہ کی طرف سے نان پیش کئے جانے کا ذکر حضرت مسیح موعود~ع۱~ کے ایک کشف میں آتا ہے جو تریاق القلوب میں درج ہے اور اس موقعہ پر بھی اسے پورا کر دیا گیا۔
۱۴۳۔
الفضل ۲۹/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱ تا ۸۔
۱۴۴۔
الفضل ۴/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۹۔
۱۴۵۔
الفضل ۳/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۴۶۔
بحوالہ الفضل ۶/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۵۔
۱۴۷۔
بٹالہ مراد ہے کیونکہ اس وقت تک قادیان میں ریل نہیں آئی تھی۔
۱۴۸۔
بحوالہ الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
‏h1] gat[۱۴۹۔
الفضل ۱۴/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۵۰۔
الفضل ۲۹/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۵۱۔
الفضل ۱۴/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۵۲۔
آپ بیتی صفحہ ۱۸۷ (از مولوی ظہور حسین صاحب) طبع دوم ۱۹۶۳ء۔
۱۵۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۴۱ و رپورٹ ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۸۹۔
۱۵۴۔
یہ خطبہ ۲۳/ مارچ ۱۹۲۸ء کا ہے۔
۱۵۵۔
الفضل ۲۷۔ ۳۰/ مارچ ۱۹۲۸ء صفحہ ۹۔ حضرت شاہزادہ صاحب کی تیمارداری اور تجہیز و تکفین کرنے والے محمد خان صاحب گجراتی (متوطن پنجن کسانہ تحصیل کھاریاں) تھے۔
۱۵۶`۱۵۷۔
یہ دونوں کتابیں روبہائیت میں ہیں جن کو ایران کے علماء و فضلا نے بہت قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ چنانچہ آقائی عبدالحسین آیثی (سابق مبلغ بہائیاں) آقائی عطاء اللہ شہاب پور (انجمن تبلیغات اسلامی کے بانی اور رسالہ نور دانش کے) آقائی حسن نیکو (سابق مبلغ بہائیاں) اور شیخ مصطفیٰ رہنما صاحب (ایڈیٹر رسالہ حیات مسلمین (تہران) نے ان پر عمدہ تبصرہ لکھے جو دنیائے اسلام۔ نور دانش۔ آئین اسلام اور اصلاحات ایران‘آئین برادری‘حیات مسلمین وغیرہ ایرانی اخبارات میں چھپ چکے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۳۰/ مئی ۱۹۵۶ء)
۱۵۸۔
تحریک جدید کے بیرونی مشن صفحہ ۴۸ (از جناب صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل التبشیر ربوہ)
۱۵۹۔
الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۱۶۰۔
آپ بیتی از مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا و روس صفحہ ۹۵۔ ۱۰۹۔
۱۶۱۔
آپ بیتی صفحہ ۱۸۴۔ ۱۹۰ طبع دوم ۱۹۶۳ء۔ الفضل ۲۹/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۱۶۲۔
اخبار کشمیری مورخہ ۲۱/ اکتوبر ۱۹۲۶ء (بحوالہ الفضل ۳۰/ نومبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۳۔ ۴)
۱۶۳`۱۶۴۔
الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۶۵۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۶۶۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۶۷۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۵۶ء صفحہ ۳۔
۱۶۸۔
الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۶۹۔
الفضل ۲۵/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۱۷۰۔
اصل خط جو فارسی زبان میں ہے خلافت لائبریری ربوہ میں محفوظ ہے اور اس کا عکس الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۴ پر چھپ چکا ہے۔
۱۷۱۔
الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۷۲۔
یعنی پہلی شرعی عدالت۔
۱۷۳۔
اخبار حقیقت کابل (جلد ۱ شمارہ ۱۱ صفحہ ۴) بحوالہ الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔ عدالت عالیہ کے فاضل جج نے اپنے فیصلہ میں یہ بھی لکھا کہ ملزم چونکہ اہل السنت و الجماعت کے ان علماء کو جنہوں نے مسئلہ نزول مسیح کو جسمانی صورت میں بتایا ہے غلطی خوردہ سمجھتا ہے اس لئے یہ خادم شرع شریف اس فیصلہ کا حکم درست سمجھتا ہوا اس کی تصدیق کرتا ہے‘‘۔ (ترجمہ)
۱۷۴۔
الفضل ۱۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۱۷۵۔
بحوالہ الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۱۷۶۔
بحوالہ الفضل ۶/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۱۷۷۔
سیدنا حضرت خلیفہ ثانی کے ایک مفصل مضمون مطبوعہ الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۴ سے ماخوذ۔
۱۷۸۔
بحوالہ الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۷۹۔
بعض متعصب اخباروں نے اس فعل پر پردہ ڈالنے کے لئے شہید احمدیت مولوی نعمت اللہ خاں کو سیاسی مجرم گرداننے کی کوشش کی۔ مگر افغان عدالت کے فیصلہ نے اس کی تغلیط کر دی۔ اخبار ڈیلی میل کے نامہ نگار نے کابل سے اطلاع دی کہ مولوی نعمت اللہ کی سنگساری کے عدالتی فیصلہ کے بعد امیر نے ملکی دستور کے مطابق اس فیصلہ کی بذات خود تصدیق کی جس کے بعد یہ عمل میں لایا گیا۔ (الفضل ۲۸/ اکتوبر ۱۹۲۴ء)
۱۸۰۔
الفضل ۹/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۱۸۱۔
بحوالہ الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۵۔
۱۸۲۔
بحوالہ الفضل ۳۰/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۸۳۔
الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۸۴۔
الفضل ۶/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔
۱۸۵۔
الفضل ۷/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۱۸۶۔
بحوالہ الفضل ۲۵/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۱۸۷۔
الفضل ۷/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔
۱۸۸۔
بحوالہ الفضل یکم نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۰۔
۱۸۹۔
الفضل ۲۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۹۔
۱۹۰۔
بحوالہ الفضل ۱۵/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۴۔
۱۹۱۔
الفضل ۱۶/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۹۲۔
زمیندار ۲۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء۔
۱۹۳۔
الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۲۴ء۔
۱۹۴۔
یاد رہے یہ مولف اصحاب احمد نہیں اور صاحب تھے۔
۱۹۵۔
الفضل ۲۳/ ستمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲ (تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو حیات ناصر (مولفہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ)
۱۹۶۔
الفضل ۲۰/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔
۱۹۷۔
اردو انسائیکلو پیڈیا صفحہ ۴۱ شائع کردہ فیروز سنز لاہور۔
۱۹۸۔
مسلمانان ہند کی حیات سیاسی صفحہ ۵۲ (از محمد مرزا دہلوی) طبع اول مارچ ۱۹۴۰ء۔
۱۹۹۔
ولادت ۲۵/ دسمبر ۱۸۷۶ء بمقام کراچی ۱۸۹۶ء میں بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ۱۸۹۷ء میں بمبئی ہائیکورٹ میں مقدمات کی پیروی شروع کی ۱۹۰۵ء میں کانگریس کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لینا شروع کیا ۱۹۱۶ء میں مسلم لیگ کے صدر منتخب ہوئے ۱۹۲۱ء میں کانگریس سے علیحدگی اختیار کی ۱۹۴۰ء میں مسلم لیگ کے اجلاس لاہور میں پاکستان کی تجویز منظور کرائی ۱۹۴۱ء سے ۱۹۴۷ء تک حصول پاکستان کے لئے شب و روز کوشاں رہے ۱۴/ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان معرض وجود میں آئی تو اس کے پہلے گورنر جنرل بنائے گئے اور گیارہ ستمبر ۱۹۴۸ء کو کراچی میں وفات پائی۔
۲۰۰۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۲۔
۲۰۱۔
۱۹۲۷ء کے حالات میں اس کا ذکر آرہا ہے۔
۲۰۲۔
لیکچر شملہ صفحہ ۱۹۔ ۲۰۔
۲۰۳۔
اساس الاتحاد صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۰۴۔
اساس الاتحاد صفحہ ۲۴۔ ۲۵۔
۲۰۵۔
خطبہ صدارت صفحہ ۱۵۔ ۱۶۔
۲۰۶۔
الفضل ۱۴/ جون ۱۹۵۶ء صفحہ ۴۔
۲۰۷۔
سیر قادیان صفحہ ۲۵۔ ۲۶۔
۲۰۸۔
اس ضمن میں تفصیلات تو آئندہ اپنے اپنے مقام پر آئیں گی ہم یہاں صرف مالی اعانت سے متعلق بطور مثال دو شہادتیں صدر انجمن احمدیہ کے پرانے ریکارڈ سے درج کرنا ضروری سمجھتے ہیں جن سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اور جماعت احمدیہ کا مسلم لیگ سے رابطہ و تعلق کتنا پرانا اور کتنا گہرا ہے۔ (۱)
صدر انجمن احمدیہ کے ریکارڈ متعلقہ ۱۹۲۷ء میں ناظر اعلیٰ کی طرف سے یہ رپورٹ درج ہے کہ شملہ کانفرنس کے موقعہ پر مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری اور ڈاکٹر سیف الدین کچلو بیرسٹرایٹ لاء حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مسلم لیگ کی مالی کمزوری کا اظہار کرکے حضرت سے امداد کی درخواست کی حضور نے ترقی اسلام کے سلسلہ میں دو سو روپیہ دینا منظور فرما لیا اور اسی وقت اپنے پاس سے ادا فرما دیئے۔ (۲) ۱۹۲۹ء کے ریکارڈ میں ہمیں یہ ملتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس (دہلی منعقدہ ۳۱/ ۳۰ مارچ ۱۹۲۹ء) کے لئے ایک سو روپیہ چندہ دیاگیا۔ (ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ مارچ ۱۹۲۹ء صفحہ ۳۷۶) یہ اجلاس روشن تھیٹر دہلی اجمیر دروازہ میں ہوا تھا اس میں مسٹر محمد علی جناح۔ حاجی عبداللہ ہارون صاحب۔ مولوی شفیع صاحب دائودی۔ مولوی ظفر علی خان صاحب کے علاوہ حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت ذوالفقار علی خان صاحب اور دوسرے مقتدر حضرات شامل تھے۔ اس جلسہ کا اشتہار جو سید شمس الحسن صاحب سیکرٹری آل انڈیا مسلم لیگ بلیماراں دہلی کا لکھا ہوا اور اقبال پرنٹنگ پریس دہلی کا چھپا ہوا ہے قادیان کی احمدیہ لائبریری میں محفوظ ہے۔
۲۰۹۔
حضرت شیخ یعقوب علی صاحب کے ایک خط محررہ یکم جون ۱۹۲۲ء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب ۱۹۲۲ء میں تصنیف ہو چکی تھی چنانچہ فرماتے ہیں ’’حضرت خلیفتہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ نے امیر کے نام ایک لطیف تحفہ لکھا ہے اور عبدالاحد خاں افغان کو سردست ایک خط دے کر بھیجا ہے‘‘۔ (جان پدر صفحہ ۳۵)
۲۱۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۸ء صفحہ ۲۸۔
۲۱۱۔
الفضل ۲۱/ اگست ۱۹۲۴ء صفحہ ۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں امیر کابل کو یہ کتاب بذریعہ ڈاک بھجوانے کی تجویز کی گئی تھی۔ لیکن عبدالاحد صاحب افغان کا بیان ہے کہ حضرت سید ولی اللہ شاہ اور نیک محمد خاں غزنوی بمبئی گئے اور سردار محمود طرازی وزیر خارجہ کو دعوۃ الامیر دی کہ وہ شاہ کابل تک اسے پہنچا دیں۔
۲۱۲۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی فرماتے ہیں ’’احمدیت اور دعوۃ الامیر کے بعض حصے ایسے ہیں جن کے پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ خدائی تائید شامل ہے اور وہ انسانی الفاظ نہیں رہے بلکہ خدا تعالیٰ کے القا کردہ الفاظ ہو گئے ہیں‘‘۔ (الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۳۶ء صفحہ ۶)
۲۱۳۔
دعوۃ الامیر صفحہ ۲۸۳۔
۲۱۴۔
تفصیل آگے آرہی ہے۔
۲۱۵۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو زوال غازی (از عزیز ہندی)
۲۱۶۔
سید احمد محمود غزنوی (جنہوں نے عرشہ جہاز پر شاہ سے آخری ملاقات بھی کی تھی) امان اللہ خاں کی بمبئی سے روانگی کے وقت کا دردناک منظر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ ’’عام مسافروں کے ساتھ ان کی کرسیاں بچھی ہوئی تھیں۔ یورپ کو جانے والے مسافر بڑے اعلیٰ لباس میں پورے فیشن کے ساتھ دوڑتے نظر آتے تھے اور اگر کوئی شخص سب سے سادہ معمولی قمیص میں اور پتلون بغیر کوٹ کے پہنے ہوئے تھا تو وہ افغانستان کا سابق بے کس بادشاہ تھا میں مبالغہ نہیں کرتا۔ قمیض بھی صاف نہ تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ کئی روز سے پہنی جا رہی ہے۔ ۱۹۲۷ء کے زمانہ کو یاد کرو بمبئی میں کس زور سے استقبال کیا گیا تھا۔ جہاز کا ایک حصہ مخصوص طور پر سجایا گیا تھا۔ بڑی بڑی شاہی کرسیاں مزین تھیں جہاز کے اوپر ہوائی جہاز پرواز کر رہے تھے آج کیا ہے امان اللہ عام مسافروں کے ساتھ ہے وہ جب گزرتا ہے تو عام مسافروں کے ساتھ کھوا چھلتا ہے اگر اس دن زربفت کی پوشاک اور سر پر تاج تھا تو آج جسم پر کوٹ تک نہیں سر سے ننگے نظر آرہے تھے اور یاس و حزن کی ایک حرکت کرتی ہوئی تصویر دکھائی دیتی تھی۔ وہ حسرت بھری نگاہوں سے ادھر ادھر نگاہ اٹھاتا اور اپنی اس حالت پر خون کے آنسو رو رہا تھا۔ ملکہ ثریا جو یورپ کی عورتوں میں اپنے فیشن اور اعلیٰ لباس کے باعث محبوب تھی۔ آج معمولی لباس میں بال پریشان کئے عرشہ جہاز پر اپنے کیبن کے سامنے کھڑی تھیں پژمردگی ۔افسردگی ان کے چہرہ پر نمایاں تھی معلوم ہوتا تھا کہ اپنی سابقہ جاہ و حشمت کو یاد کرکے اور موجودہ حالت کا مقابلہ کرکے بے ہوشی کے عالم میں کھڑی ہجوم خلق کو جو بڑی بے توجہی کے ساتھ اس کے پاس کھڑا ہے دیکھ رہی ہے اس کا چھوٹا بچہ جسے ولی عہد سلطنت افغانستان شہزادہ ہدایت اللہ خان کہتے تھے اس کے پاس ہے وہ اپنی ماں کے ساتھ لپٹ کر پوچھتا ہے ’’مادر جان ما کجا میرویم‘‘۔ کون دل ہے جو ان الفاظ کو سن کر ٹوٹ نہ جاتا ہو ہمارے سوا شاہ نے اور کسی کو ملاقات کا شرف نہیں بخشا ۔۔۔۔۔۔ سیڑھی اٹھائی گئی اور جہاز نے لنگر اٹھانے کے لئے گھنٹی بجائے۔ اب ہم نیچے اترے۔ مولانا ظفر علی خاں سے ملے اور ان کی جماعت میں شامل ہو گئے نیچے بہت سے لوگ جمع تھے جنہیں جہاز پر جانے کا موقعہ نہیں ملا جہاز کنارہ سے جدا ہوا اور صدائے اللہ اکبر امان اللہ خاں کو سنائی گئی اور اس کو یاد دلایا گیا کہ ایک سب سے بڑا بادشاہ ہے جسے چاہے تخت دے جسے چاہے اس حالت میں وطن سے نکالے۔ یہ خیال میرے دل میں تھا آنسو میری آنکھوں سے جاری تھے اور زبان پڑھ رہی تھی۔ اللھم توتی الملک من تشاء و تنزع الملک ممن تشاء و تعز من تشاء و تذل من تشاء۔ امان اللہ خاں و ثریا اور اس کے بچے سامنے کھڑے دیکھ رہے تھے اور نعروں کو سن رہے تھے اچانک مولانا ظفر علی خاں نے بلند آواز سے کہا۔ ’’بسلامت روی و باز آئی‘‘۔ اس مصرعہ نے برق کا کام کیا اور اس کو سنتے ہی امان اللہ خاں جو پہلے ہی مغموم و مخزون تھے بے اختیار ہو گئے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور دیر تک خاموش کھڑے رہے پھر معاً شاہ و ثریا دونوں اپنے کیبن میں چلے گئے معلوم ہوتا ہے کہ اس مصرعہ نے ان پر تیر کا کام کیا دو بجے کے قریب جہاز ساحل سے دور چلا گیا اور ہم لوگ واپس آئے و فیھا عبرہ لا ولی الابصار‘‘۔ (انقلاب لاہور ۲۹/ جون ۱۹۲۹ء صفحہ ۳)
۲۱۷۔
الفضل ۲۱/ مئی ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۔
۲۱۸۔
تفسیر کبیر (سورۃ التکویر) صفحہ ۱۹۶۔ ۱۹۷ طبع اول (خان فقیر محمد صاحب نے ۱۹۳۱ء میں بیعت کی تھی)
۲۱۹۔
والد ماجد جناب ڈپٹی محمد شریف صاحب۔
۲۲۰۔
الفضل ۳۱/ دسمبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۲۔ مسجد احمدیہ بیرون دہلی دروازہ میں پہلے چمڑے کا گودام ہوا کرتا تھا یہ زمین ساڑھے گیارہ ہزار روپیہ میں خرید کی گئی تھی (رپورٹ صدر انجمن احمدیہ ۱۸۔ ۱۹۱۷ء صفحہ ۴۸)
۲۲۱۔
الفضل ۳/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۲ و سفر یورپ کے برکات کے سلسلہ میں ملاحظہ ہو الفضل ۲۵/ نومبر ۱۹۲۴ء و الفضل ۴/ دسمبر ۱۹۲۴ء۔
۲۲۲۔
الفضل ۱۸/ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۲۳۔
شیخ صاحب مرض ذیا بیطس میں مبتلا ہو کر ۲/ مارچ ۱۹۲۴ء کو فوت ہوئے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے شیخ صاحب کی بیماری کی خبر سنتے ہی ۲۸/ فروری ۱۹۲۴ء کو ذوالفقار علی خان صاحب کے ہاتھ اپنا ایک پر درد خط عیادت نامہ کے رنگ میں ۔۔۔۔۔۔ بھجوایا۔ جس میں تحریر فرمایا ’’میں نے بارہا حضرت مسیح موعودؑ کو رویا میں دیکھا ہے اور یہ معلوم کیا ہے کہ جہاں دوسرے بعض لوگوں پر ناراض ہیں آپ سے کم ناراض ہیں یا صرف دوستانہ گلہ آپ سے رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بعض اور خوابوں میں بھی آپ کے دل کی حالت بعض دوسرے لوگوں کی نسبت اچھی دکھائی گئی ہے۔ اس لئے بھی اور ان متواتر خدمات کو یاد کرتے ہوئے جو آپ نے حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ میں کیں میرا دل آپ کی جدائی پر کڑھتا ہے‘‘۔ (الفضل ۱۱/ ۱۴ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۲۔ ۱۔ ۲)
۲۲۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ ’’ہمارے مولوی محمد اسمعیل صاحب ترگڑی والے جنہوں نے ’’چھٹی مسیح‘‘ لکھی تھی۔ ان کی ایک بات مجھے بڑی اچھی لگتی ہے ۔۔۔۔۔ وہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے بعد مجھے ملے وہ چونکہ بڈھے تھے اس لئے انہیں بار بار پیشاب آنے کا مرض تھا وہ مجھے کہنے لگے۔ آپ ہمارے جیسے بڈھوں کا بھی کچھ خیال رکھا کریں۔ میں نے کہا کیا بات ہے۔ کہنے لگے آپ کا لیکچر ہو جاتا ہے لمبا اور مجھے ہے بار بار پیشاب آنے کا مرض۔ تھوڑی دیر کے بعد ہی مجھے ضرورت ہوتی ہے کہ میں اٹھوں اور جا کر پیشاب کر آئوں مگر جب پیشاب آتا ہے تو مجھ سے اٹھا نہیں جاتا۔ میں کہتا ہوں یہ بات جو بیان کر رہے ہیں اسے ذرا پوری طرح سن لوں یہ ختم ہو گئی تو پیشاب کر آئوں گا مگر جب وہ بات ختم ہوتی ہے تو ایک اور بات شروع ہو جاتی ہے اور وہ بھی بڑی مزیدار ہوتی ہے اور جی چاہتا ہے کہ اسے بھی سن کر جائوں۔ غرض ادھر پیشاب سے برا حال ہو رہا ہوتا ہے اور ادھر باتیں اتنی دلچسپ ہوتی ہیں کہ اٹھ کر جانے کو جی نہیں چاہتا۔ آخر انتظار کرتے کرتے حالت یہ ہو جاتی ہے کہ ۔۔۔۔۔۔ شدت پیشاب کی وجہ سے مثانہ پھٹنے لگتا ہے۔ یہ ان کی محبت کی ایک علامت تھی کہ انہوں نے ایک طرف اپنی تکلیف کا بھی اظہار کر دیا اور دوسری طرف اپنی محبت کا بھی اظہار کر دیا‘‘۔ (سیر روحانی طبع اول صفحہ ۴۔ لیکچر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی جلسہ ۱۹۳۸ء)
۲۲۵۔
ضلع ڈیرہ غازی خان کے ایک نہایت معزز احمدی رئیس جن کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے انتہائی مخلصانہ تعلق تھا۔ آپ حکومت میں پیش ہونے والے احمدی وفدوں کے ممبر ہوتے تھے۔
۲۲۶۔
الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۲۲۷۔
الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
۲۲۸۔
اقدس کا نسخہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا جماعت احمدیہ کی طرف سے بہائیوں کو بطور ضمانت ایک ہزار روپیہ تک کی پیشکش کی گئی کہ اس کی نقل کرنے کی اجازت دے دیں مگر وہ آنوں بہانوں سے ٹال دیتے تھے۔ (رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء)
۲۲۹۔
الفضل ۶/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۔ ۹۔
۲۳۰۔
الفرقان دسمبر ۱۹۶۰ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۲۳۱۔
آپ فارغ التحصیل ہونے کے بعد ابتداًء مدرسہ احمدیہ میں استاد مقرر ہوئے۔ پھر ناظم قضا جیسے اہم عہدہ پر فائز ہوئے۔
۲۳۲۔
الفضل ۲۲/ جولائی ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔
‏]1h [tag۲۳۳۔
الفضل ۳/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۲۳۴۔
الفضل ۶/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۷۔
۲۳۵۔
سنہ اشاعت حصہ اول ۲۴ء حصہ دوم ۲۵ء حصہ سوم ۲۷ء حصہ چہارم۔ غالباً ۱۹۲۷ء۔
۲۳۶۔
الفضل ۲۲/ فرری ۱۹۲۴ء صفحہ ۹۔
۲۳۷۔
الفضل ۲۵/ مارچ ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔ ۸۔
۲۳۸۔
الفضل ۲۹/ فروری ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۲۳۹۔
الفضل ۲۰/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۲۴۰۔
الفضل ۸/ نومبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۱۔ طبع شدہ ہے۔
۲۴۱۔
الفضل ۱۶/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۷۔ و اخبار انوار الاسلام لکھنئو ۲۶/ ۲ فروری ۱۹۲۵ء مدیر حسام الدین صاحب لکھنوی۔
‏rov.5.33
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا بارھواں سال
چھٹا باب (فصل اول)
شہدائے کابل کی شہادت سے لے کر مسلمانان ہند کی ترقی و بہبود سے متعلق منظم جدوجہد
خلافت ثانیہ کا بارھواں سال
(جنوری ۱۹۲۵ء تا دسمبر ۱۹۲۵ء بمطابق رجب ۱۳۴۳ھ تا جماد الاخر ۱۳۴۴ھ)
مولوی عبدالحلیم صاحب اور قاری نور علی صاحب کی شہادت
امیر امان اللہ خان صاحب کی حکومت جس نے ۱۹۲۴ء میں مولوی نعمت اللہ خاں صاحب کو محض اختلاف عقیدہ کی بناء پر سنگسار کرا دیا تھا عالمگیر احتجاج پر اور بھی مشتعل ہو گئی اور اس نے ۵/ فروری ۱۹۲۵ء کو دو اور احمدی مولوی عبدالحلیم صاحب ساکن چراسہ اور قاری نور علی صاحب ساکن کابل سنگسار کر دیئے۱`۲
سرزمین کابل میں چند ماہ کے اندر ہونے والے اس دوسرے المناک حادثہ پر جس میں دو بے گناہوں کا خون بہایا گیا تھا۔ دنیا کے انصاف پسند حلقوں نے پہلے سے زیادہ زور اور شدت سے اس کے خلاف احتجاج کیا۔ احتجاج کرنے والوں میں دنیا بھر کے مشہور علمی دماغ شامل تھے۔ مثلاً (برطانوی مورخ) ایچ۔ جی ویلز (نامور افسانہ نگار) سر آرتھر کونن۔ سر الیور لاج۔ کرنل سر فرانسس ینگ ہسبنڈ۔ تصوف اسلامی کے ماہر پروفیسر نکلسن۳۔ جناب محمد علی جوہر۔ جناب عبدالماجد دریا آبادی۔ مسٹر گاندھی۴۔
ہندوستان کے ہندو مسلم پریس نے اس واقعہ کے خلاف پوری قوت سے آواز بلند کی چنانچہ بطور نمونہ چند اقتباسات درج کئے جاتے ہیں۔
۱۔
’’انڈین ڈیلی میل‘‘ (بمبئی) نے ۱۴/ فروری ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں لکھا۔
’’یہ خبر کہ کابل کے دو اور احمدی ۔۔۔۔۔۔ سنگسار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے ہیں۔ امیر افغانستان کی شہرت کو سوائے چند متعصب ہندوستانی ملانوں کے حلقے کے اور کسی قوم میں نہیں بڑھائے گی‘‘۵۔
۲۔
’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ لاہور نے ۱۷/ فروری ۱۹۲۵ء کے پرچہ میں لکھا۔
’’اس بیسویں صدی میں ایسے ملک میں جو اپنے آپ کو دنیا کی مہذب قوموں میں شمار کرے ایسے دل سوز منظر کا واقعہ دل میں افسوسناک خیالات پیدا کرتا ہے‘‘۶۔
۳۔
اخبار ’’ریاست‘‘ دہلی نے ۲۱/ فروری ۱۹۲۵ء کو لکھا۔
’’افغان گورنمنٹ کا یہ وحشیانہ فعل موجودہ زمانہ میں اس قدر قابل نفرت ہے کہ جس کے خلاف مہذب ممالک جتنا بھی سزائے احتجاج بلند کریں کم ہے ۔۔۔۔۔۔ دنیا میں کسی شخص کا مذہبی عقائد کی صورت میں حکومت کی طرف سے ظلم کیا جانا اور بے رحمی کے ساتھ قتل کیا جانا باعث شہادت ہوا کرتا ہے اور بلاشبہ نعمت اللہ اور اس کے دو شجاع اور بہادر قادیانی بھی شہید کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ جنہوں نے اپنے عقائد کے مقابلہ پر دنیاوی لالچ اور راحت و آرام کی پروا نہ کی اور اپنے فانی جسم کو پتھروں‘اینٹوں اور دوسری بے جان چیزوں کے حوالے کر دیا۔ ع ’’ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما‘‘۔
ہم جہاں افغان حکومت کے اس ظالمانہ فعل کے خلاف نفرت اور انتہائی حقارت کا اظہار کرتے ہیں وہاں ان شہداء کے خاندان اور قادیانی فرقہ کے تمام لوگوں کو مبارکباد دیتے ہیں کہ انہوں نے اپنے عقائد پر مضبوط رہ کر دنیا میں ظاہر کر دیا کہ ہندوستان اب بھی اپنے عقائد کے مقابلہ پر بڑی مصیبت کو لبیک کہنے کے لئے تیار ہے‘‘۷`۸
۴۔
مدراس کے مشہور اخبار ’’مدراس میل‘‘ نے کلکتہ کے اخبار سٹیٹسمین کے حوالہ سے لکھا۔
’’یہ نہایت ظالمانہ فعل جو نیم سرکاری افسروں کی ہدایات کے بموجب عمل میں لایا گیا ۔۔۔۔۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ امیر جس نے بلند ارادوں اور مصلحانہ روح کے ساتھ اپنا کام شروع کیا تھا ۔۔۔۔۔۔ قدامت پسند اور متعصب اثرات کے نیچے دب گیا ہے‘‘۹۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے مظالم پر صبر و سکون کی تلقین
شہدائے کابل کے حادثہ کی قادیان میں اطلاع جب پہنچی تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اسی وقت بیت الدعا
میں تشریف لے گئے اور دعا کی کہ الہیٰ تو اس حکومت پر رحم فرما اور ان کو ہدایت دے۔ دعا کے بعد حضور نے ایک تقریر کی جس میں پوری جماعت کو صبر و سکون سے کام لینے کی تلقین فرمائی اور ساتھ ہی آنے والی نسلوں کو نصیحت فرمائی۔ کہ
’’مجھے اس بات کا خیال نہیں آتا کہ گورنمنٹ افغان نے ہمارے آدمیوں کو سنگسار کر دیا ہے مجھے ڈر ہے تو اس بات کا ہے کہ ہماری نسلیں جب تاریخ میں ان مظالم کو پڑھیں گی۔ اس وقت ان کا جوش اور ان کا غضب عیسائیوں کی طرح ان کو کہیں اخلاق سے نہ پھیر دے ۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے میں آنے والی نسلوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جب خدا تعالیٰ ان کو ہماری ان حقیر خدمات کے بدلے میں حکومت اور بادشاہت عطا کرے گا تو وہ ان ظالموں کے ظلموں کی طرف توجہ نہ کریں جس طرح ہم اب برداشت کر رہے ہیں وہ بھی برداشت سے کام لیں اور وہ اخلاق دکھانے میں ہم سے پیچھے نہ رہیں بلکہ ہم سے بھی آگے بڑھیں4] ft[s۱۰۔
مسئلہ ’’قتل مرتد‘‘ اور ہندو اصحاب
مولوی نعمت اللہ صاحب شہید کے واقعہ شہادت کی طرح اس موقعہ پر بھی ہندوستان کے بعض متعصب اور تنگ نظر علماء نے امان اللہ خان کا یہ فعل مستحسن قرار دیا اور اسے ’’شریعت حقہ اسلامیہ‘‘ کی اہم ترین دفعہ ثابت کرنے کی کوشش کی۱۱۔ اس موقف نے دشمنان اسلام کے ہاتھ اسلام اور آنحضرت~صل۱~ کو بدنام کرنے کا ایک اور ہتھیار دے دیا اور ان کو پورا پورا یقین ہو گیا کہ اسلام واقعی جبر و تشدد کا علمبردار ہے۔
چنانچہ مسٹر گاندھی نے کہا ’’میرا خیال ہے کہ سنگساری کی سزا کی قرآن میں صرف خاص حالات میں اجازت ہے۔ جن کے تحت میں یہ واقعات تو آسکتے ہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔ اس قسم کی سزا کو اخلاق پر دھبہ قرار دوں گا ۔۔۔۔۔۔ یہ اس قسم کی سزا ہے جو انسانی جذبات کو ٹھیس لگاتی ہے خواہ جرم کسی بھی قسم کا کیوں نہ ہو دل اور دماغ قبول نہیں کرتے کہ کسی بھی جرم کے لئے سنگساری کی وحشیانہ سزا کو مناسب قرار دیا جائے‘‘۱۲۔
پنڈھت شردھانند نے بیان دیا کہ ’’حال کی سنگساری کے بارہ میں وزیر داخلہ کابل نے جو اعلان نکالا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے یہ سنگساریاں مذہبی اختلاف کی بناء پر عمل میں آئی تھیں۔ جہاں کہیں بھی اسلامی بادشاہت قائم ہو گی وہاں قتل مرتد بذریعہ سنگساری کا قانون جاری ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس لئے ہندوستان کے ہندو اس امر سے واقفیت رکھتے ہوئے اطمینان کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے ۔۔۔۔۔۔ میں نے مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب صدر جمعیتہ علمائے ہند سے پوچھا تھا کہ اگر قتل مرتد کا مسئلہ صحیح ہے تو ہندو کیسے مطمئن ہوں گے؟ مولانا مفتی صاحب نے جواب دیا تھا کہ قتل مرتد کی اجازت اسی حالت میں ہے جبکہ مسلمان بادشاہ ہو۔ کیونکہ بادشاہ ہی ایسا حکم دے سکتا ہے۔ میں نے اس وقت کہا تھا کہ اگر ہندوستان میں جمہوری سلطنت قائم ہو جائے اور اس کا صدر مسلمان چنا جائے۔ اس وقت ان ہندوئوں اور عیسائیوں کی حالت کیا ہو گی۔ جو ایک بار مسلمان ہو کر پھر اپنے پرانے مذہب میں واپس آنا چاہیں گے ۔۔۔۔۔۔ اگر ایسے وحشیانہ قانون کے برخلاف یک زبان ہو کر ساری دنیا آواز نہ اٹھائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ انصاف کا خیال دنیا سے معدوم ہو گیا ہے‘‘۱۳۔
مسئلہ قتل مرتد اور جماعت احمدیہ اور دوسرے روشن خیال علماء
جماعت احمدیہ قتل مرتد کے مسئلہ ہی کو اسلامی تعلیمات کے سراسر منافی و مخالف سمجھتی ہے اس لئے وہ دشمنان اسلام کے حملوں کا جواب دیتے ہوئے شروع ہی سے یہ واضح کرتی آرہی تھی کہ امان اللہ خاں کی حکومت اور اس کے مویدین نے احمدیوں ہی کا نہیں اسلام کا بھی خون کیا ہے جماعت احمدیہ کے اس موقف کی تائید و موافقت بعض دوسرے روشن خیال علماء نے بھی کی اور جرات اور دلیری سے قرآن و حدیث کی روشنی میں ثابت کیا کہ نہ تو اسلام میں ارتداد کے لئے کوئی سزا مقرر ہے اور نہ احمدی مرتد ہیں۔
چنانچہ جناب مولانا محمد علی جوہر نے اس موضوع پر اپنے اخبار ہمدرد میں کئی اقساط میں ایک مفصل مقالہ سپرد قلم کیا جس میں مسئلہ ’’قتل مرتد‘‘ پر قرآن و حدیث سے سے بحث کرنے کے بعد لکھا۔
’’اس وقت احمدیوں کی دو جماعتیں ہیں۔ لاہوری جماعت کے عقائد تو بالکل عام مسلمانوں کے سے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اب رہے قادیانی احمدی یعنی مرزا بشیر الدین صاحب۱۴ کے حلقہ کے لوگ بے شک ان کے عقائد عام مسلمانوں سے بالکل الگ ہیں اور ہم ان لوگوں کو صحیح نہیں سمجھتے مگر باوجود ان کے غلط عقائد کے ان کو کافر و مرتد کہنا صریح ظلم ہے کیونکہ وہ اہل کعبہ ہیں‘توحید‘رسالت‘قرآن اور حدیث کو ماننے اور عبادت و معاملات میں فقہ حنفی پر عمل کرتے ہیں۔ صوم و صلٰوۃ اور حج و زکٰوۃ کو فرض تسلیم کرتے اور اس پر عمل کرتے ہیں قرآن کو کلام الٰہی اور رسول اللہ کو افضل الرسل و انبیاء مانتے ہیں۔ باقی مرزا غلام احمد صاحب کے متعلق جو خیال انہوں نے قائم کر لیا ہے وہ ہر اک لحاظ سے غلط و باطل ہے مگر بہرصورت وہ قصور علم و کوتاہی فہم کی وجہ سے ہے۔ وہ آیات و احادیث میں تاویل کرتے ہیں اور موول کو آج تک کسی نے مرتد و کافر نہیں کہا۔ مرتد کی تعریف یہ ہے کہ جو اپنی زبان سے کہہ دے کہ میں نے دین اسلام کو چھوڑ دیا۔ کسی دوسرے شخص کو یہ حق نہیں کہ کسی ایسے شخص کو وہ مرتد و کافر قرار دے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو۔ قرآن میں یہاں تک ہے کہ ولا تقولوا لمن القی الیکم السلام لست مومنا ط جو تم کو سلام کرے اس سے یہ مت کہو کہ تو مومن نہیں۔ اگر قصور فہم و تاویلات بعیدہ کی بناء پر کفر و ارتداد کے فتوے نکلنے اور احکام جاری ہونے لگیں تو کوئی فرقہ بھی کفر و ارتداد کی زد سے نہیں بچ سکتا۔
واقعہ یہ ہے کہ قادیانی جماعت کے جو کچھ بھی عقائد ہیں وہ آیات و احادیث کے سوء فہم و قصور علم کی بناء پر ہیں۔ ایک آیت کے معنے جو ہم سمجھے ہوئے ہیں وہ اس کے دوسرے معنی مراد لیتے ہیں۔ مگر ہماری طرح وہ بھی اپنے عقائد کے ثبوت میں آیات و احادیث کے معنی و مفہوم کو اپنے طور پر اپنے فہم و ادارک کے مطابق پیش کرتے ہیں اور یہ مسلمہ مسئلہ ہے کہ موول کو مرتد یا کافر نہیں قرار دیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ مرتد کی سزا قتل بتلائی جاتی ہے نہ کہ رجم۔ مگر افغانستان میں ان کو رجم کیا جا رہا ہے جو ایک نئی اختراع ہے۔
اگر مناظرانہ الزامات کفر و ارتداد کو معتبر قرار دیا جائے تو پھر تمام فرقے ایک دوسرے کے نزدیک واجب القتل ٹھہرتے ہیں۔ بہت سے غالی اور متقشف علمائے احناف شیعوں کو بھی کافر سمجھتے ہیں۔ بالخصوص قائلین افک عائشہؓ کو۔ اسی طرح شیعہ خوارج کو کافر کہتے ہیں اور مناظرانہ حیثیت میں تمام فرقے ایک دوسرے کے عقائد کو باطل ٹھہراتے اور کفر و ارتداد سے تعبیر کرتے ہیں۔ بریلی کے دارالکفر سے سینکڑوں علماء حق کی نسبت کفر کے فتوے صادر ہوئے۔ خصوصاً مولانا رشید احمد صاحب محدث گنگوہی رحمتہ اللہ علیہ سے لے کر حضرت شیخ الہند قدس سرہ العزیز تک تمام علمائے دیو بندان کے نزدیک بالکل ہی مرتد و کافر تھے۔ کیا یہ سبب واجب القتل نہیں ٹھہرتے اور کیا اس طریقہ پر ایک ایسے فتنہ کا ۔۔۔۔۔۔ دروازہ نہیں کھل جاتا۔ جو لا انتہاء تباہی اور بربادی کا باعث ہو گا‘‘۱۵۔
سید رئیس احمد صاحب جعفری نے مولانا محمد علی جوہر کے ان مضامین پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے۔ ’’انہوں نے ان دونوں جماعتوں کے افکار و آراء کا مطالعہ کیا۔ اور پھر اپنا نظریہ یہ پیش کیا کہ اسلام میں قتل مرتد جائز نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ اس مسئلہ پر انہوں نے آیات قرآنی‘احادیث رسول~صل۱`~ اقوال فقہاء‘خیالات آئمہ‘افکار مجتہدین کا اتنا نادر ذخیرہ جمع کر لیا کہ ایک شخص پوری بصیرت کے ساتھ اس مسئلہ پر ’’ریسرچ‘‘ کر سکتا ہے۔ اس ذخیرہ سے متمتع ہونے کے بعد اپنی بصیرت کے مطابق ایک رائے قائم کی اور اس پر آخر وقت تک مصر رہے‘‘۱۶۔
مسلم زعماء میں سے دوسرے اہل قلم جنہوں نے اس موقعہ پر مسئلہ قتل مرتد پر محققانہ انداز میں قلم اٹھایا جناب عبدالماجد صاحب بی۔ اے دریا آبادی ہیں جنہوں نے لکھا۔
’’کابل کے واقعہ رجم کی تائید و تحسین میں بعض اخبارات کی پرجوش تحریریں اور علمائے حنفیہ کے مضامین میری نظر سے گزرے میں نے انہیں بغور پڑھا۔ لیکن افسوس ہے کہ ان سے متفق و مطمئن نہ ہو سکا اور باوجود غیر احمدی ہونے کے اس باب خاص میں میری ہمدردی گروہ احمدی کے ہاتھ ہے۔
میں کسی معنی میں بھی ہرگز مذہبی عالم ہونے کا دعویٰ نہیں رکھتا۔ تاہم ایک عام مسلم بھی اپنے فہم و ادارک کے موافق ہر اسلامی مسئلہ میں لب کشائی کر سکتا ہے۔ اس لئے امید ہے کہ میری یہ مبادرت قابل عفو خیال کی جائے گی۔
میرے پیش نظر سوالات ذیل ہیں۔
۱۔
کیا اسلام نے ارتداد کی سزا قتل رکھی ہے؟
۲۔
کیا قتل و رجم مترادف ہیں؟
۳۔
کیا احمدیت ارتداد ہے؟
(اس کے بعد آپ نے اس مسئلہ پر جو موافق و مخالف دلائل کا تجزیہ کیا اور آخر میں لکھا۔)
’’رجم مرتد کی تائید میں تو کوئی سند بھی موجود نہیں۔ ’’قتل‘‘ مرتد کے باب میں کتاب و سنت خاموش ہیں بلکہ قرآن کریم جو رواداری عقائد کا اعلان عام کیا جا چکا ہے۔ وہ فتویٰ جو از قتل مرتد کی گویا تردید کر رہا ہے۔ صحابہ کرام کے طرز عمل سے باغیوں کے ساتھ قتال ثابت ہوتا ہے نہ کہ محض مرتدوں سے۔ آخر میں تیسرا مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ آیا مرتد کا اطلاق احمدیوں پر صحیح ہے۔ قرآن کریم کی اصطلاح میں مرتد تو شاید صرف اسے کہہ سکتے ہیں جو احکام خدا یا احکام رسول سے منحرف ہو گیا ہو۔ پھر کیا احمدیت کو کتاب و سنت کے کسی جزئیہ سے بھی انکار ہے ۔۔۔۔۔ جہاں تک میری نظر سے خود بانی سلسلہ احمدیہ جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کی تصانیف گزری ہیں ان میں بجائے ختم نبوت کے انکار کے اس عقیدہ کی خاص اہمیت مجھے ملی۔ بلکہ مجھے ایسا یاد پڑتا ہے کہ احمدیت کے بیعت نامہ میں ایک مستقل دفعہ حضرت رسول خدا~صل۱~ کے خاتم النبین ہونے کی موجود ہے۔ مرزا صاحب مرحوم اگر اپنے تئیں نبی کہتے تھے تو اس معنی میں جس میں ہر مسلمان ایک آنے والے مسیح کا منتظر ہے اور ظاہر ہے کہ یہ عقیدہ ختم نبوت کے منافی نہیں۔
پس اگر احمدیت وہی ہے جو خود مرزا صاحب مرحوم بانی سلسلہ کی تحریروں سے ظاہر ہوتی ہے تو اسے ’’ارتداد‘‘ سے تعبیر کرنا بڑی ہی زیادتی ہے ان کی تحریروں سے تو محض اتنا ہی نہیں معلوم ہوتا کہ وہ توحید و رسالت کے پوری طرح قائل ہیں قرآن پر حرفاًحرفاًایمان رکھتے ہیں کعبہ مومنین کو اپنا قبلہ سمجھتے ہیں بلکہ سردار کونین~صل۱~ کی ذات مبارک کے ساتھ محبت و شیفتگی بھی ٹپکتی ہے۔ ان سے ہمارا جو کچھ اختلاف ہے وہ بعض احکام و ہدایات کی سوء تعبیر کی بناء پر ہے نہ کہ اغراض و انکار کی بناء پر۔ اور سوء تعبیر ایسی شے نہیں جس کی بناء پر ارتداد و تکفیر کا حکم لگایا جا سکے‘‘۱۷۔
بالاخر یہ بتانا ضروری ہے کہ اس موقعہ پر جماعت احمدیہ کے مشہور مخالف جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری ایڈیٹر اخبار ’’اہلحدیث، نے بھی مسئلہ ’’قتل مرتد‘‘ کے بارے میں جماعت احمدیہ کے مسلک کی تائید کرتے ہوئے لکھا۔
’’ہم علی اعلان کہتے ہیں کہ صورت موجودہ میں سنگسار کرنے کا حکم نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں نہ کتب فقہ حنفیہ میں نہ شافعیہ وغیرہ میں اگر اس کا نام سیاسی حکم رکھا جائے تو ہمیں اس پر بحث نہیں‘‘۔
اس کے بعد آپ نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ پر روشنی ڈالی اور لکھا۔
’’نتیجہ یہ ہے کہ افغانستان میں جو کسی مرزائی کو محض مرزائی ہونے کی وجہ سے (اگر یہ صحیح ہے) سنگسار کیا گیا ہے تو قرآن‘حدیث اور کتب فقہ میں اس کا ثبوت نہیں اس لئے یہ سزا نہ حد ہے نہ تعزیز ہاں اگر کچھ ہو سکتا ہے تو باصطلاح افاغنہ سیاسی حکم ہے دگر ہیچ‘‘۱۸۔
مسئلہ ’’قتل مرتد اور اسلام‘‘ پر سلسلہ مضامین
جماعت احمدیہ کی بار بار وضاحتوں اور جناب محمد علی صاحب جوہر اور جناب عبدالماجد صاحب دریا آبادی کے قابل قدر علمی مضامین کے باوجود غیر مسلموں کی طرف سے اسلام کو برابر بدنام کیا جا رہا تھا۔ چنانچہ آریوں کے بااثر اخبار ’’پرکاش‘‘ لاہور (۷/ مارچ ۱۹۲۵ء) نے لکھا۔
قادیانیوں کا تعصب مذہبی ملاحظہ ہو۔ کہ عین اسی وقت جبکہ وہ حکومت افغانستان کے اس سنگدلانہ فعل کے برخلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے ہیں اس عنوان سے اپنے اخبار میں مضامین کی اشاعت میں بھی مشغول ہیں کہ اسلام منوانے کے لئے کبھی تلوار نہیں چلائی گئی۔ کوئی ان بھلے آدمیوں سے پوچھے کہ اگر اسلام منوانے کے لئے کبھی تلوار نہیں چلائی گئی تو کیا نعمت اللہ پر پھول برسائے گئے تھے۔ یا اس کی اور اس کے بعد دو اور احمدیوں کی لاشیں ابھی تک پھولوں کے ڈھیر میں دبی پڑی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ضرور ہے کہ نعمت اللہ اور دیگر احمدیوں کو تلوار نہیں پتھروں کی مار سے مارا گیا ہے۔ لیکن پتھر کی مار تلوار کی مار سے بلاشبہ زیادہ سنگدلانہ ہے‘‘۱۹۔
اس خطرناک طعن و تشنیع کا دروازہ بند کرنے کی واحد صورت یہی تھی کہ سابقہ مضامین پر اکتفا نہ کرتے ہوئے مسئلہ قتل مرتد پر اسلامی نقطہ نگاہ سے سیر حاصل روشنی ڈالی جائے تا اسلام کا مقدس چہرہ اس بدنما داغ سے پوری طرح صاف و شفاف ہو کر غیر مسلموں کے سامنے آجائے۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اس اہم خدمت کے لئے مقرر فرمایا۔ جنہوں نے حضور کی ہدایت اور نگرانی کے تحت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے مکرم مولوی فضل الدین صاحب وکیل۔ مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس اور مکرم مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی کی اعانت سے اس مسئلہ کے ہر پہلو پر زبردست تحقیق کی اور اس سلسلہ میں قرآن مجید‘احادیث نبوی اور اقوال فقہاء پر نہایت گہری اور باریک نظر ڈال کر ایسے مدلل‘متین اور زور دار رنگ میں اس نازک مسئلہ پر قلم اٹھایا کہ اپنوں اور بے گانوں کی پیدا کردہ غلط فہمیوں ہی کا ازالہ نہیں ہوا بلکہ اسلام کا مذہب امن و صلح ہونا بھی پورے طور پر عیاں ہو گیا۔ یہ مضمون الفضل ۱۹۲۵ء میں پہلے باقساط چھپا پھر اگلے سال ’’قتل مرتد اور اسلام‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ یہ اسی عظیم الشان تصنیف کا اثر ہے کہ مولوی ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر اخبار ’’زمیندار‘‘ کو (جنہوں نے اس مسئلہ کی تائید میں اہل دیوبند کے بعد پنجاب میں سب سے زیادہ مضامین شائع کئے تھے) بالاخر اپنے اخبار ’’زمیندار‘‘ میں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ’’اس دین کی اصل محکم جس کا نام اسلام ہے یہ دین کمال کو پہنچا اور نعمت پوری ہو چکی اس قرآن کریم میں مجرم ارتداد کی کوئی جسمانی سزا نہیں بتائی گئی‘‘۲۰۔
تحریک چندہ خاص
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۰/ فروری ۱۹۲۵ء کو مخلصین جماعت کو ایک لاکھ روپیہ کی خاص چندہ کی تحریک فرمائی۔ اس تحریک کا پس منظر حضور کے الفاظ میں یہ تھا۔
’’میری صحت متواتر بیماریوں سے جو تبلیغ ولایت کے متعلق تصانیف اور دوران سفر کے متواتر کام کے نتیجہ میں پیدا ہوئیں بالکل ٹوٹ چکی ہے۔ اور غموں اور صدموں نے میرے جسم کو زکریا علیہ السلام کی طرح کھوکھلا کر دیا ہے اور میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر کبھی بھی میرا جسم راحت اور آرام کا مستحق اور میرا دل اطمینان کا محتاج تھا تو وہ یہ وقت ہے لیکن صحت کی کمزوری‘جانی۲۱ اور مالی ابتلائوں۲۲ کے باوجود بجائے آرام ملنے کے میری جان اور بھی زیادہ بوجھوں کے نیچے دبی جا رہی ہے۔ کیونکہ سفر مغرب کی وجہ سے اور اشاعت کتب کی غرض سے جو روپیہ قرض لیا گیا تھا اس کی ادائیگی کا وقت سر پر ہے بلکہ شروع ہو چکا ہے اور بیت المال کا یہ حال ہے کہ قرضہ کی ادائیگی تو الگ رہی کارکنوں کی تنخواہیں ہی تین تین ماہ کی واجب الادا ہیں۔ پس یہ غم مجھ پر مزید برآں پڑ گیا ہے کہ قرضہ ادا نہ ہونے کی صورت میں ہم پر نادہندگی اور وعدہ خلافی کا الزام نہ آئے اور اسی طرح وہ لوگ جو باہر کی اچھی ملازمتوں کو ترک کرکے قادیان میں خدمت دین کے لئے بیٹھے ہیں ان کو فاقہ کشی کی حالت میں دیکھنا اور ان کو ان کی ان تھک خدمات کے بعد قوت لایموت کے لئے بھی روپیہ نہ دے سکنا کوئی معمولی صدمہ نہیں ہے تیسرا صدمہ مجھے یہ ہے کہ اس قدر تکالیف برداشت کرکے جو سفر اختیار کیا گیا تھا اس کے اثرات کو دیرپا اور وسیع کرنے کے لئے ضروری تھا کہ فوراً تجربہ کے ماتحت شام اور انگلستان میں تبلیغ کا راستہ کھولا جاتا۔ مگر مالی تنگی کی وجہ سے اس کام کو شروع نہیں کیا جا سکتا اور سب محنت کے برباد ہونے کا خطرہ ہے۔ ان صدمات کے بعد جو میری صحت اور جسم کو پہنچے ہیں اور جو اپنی ذات میں ہی ایک انسان کو ہلاک کر دینے کے لئے کافی ہیں اس قدر صدمات کا بوجھ میرے لئے ناقابل برداشت ہوا جا رہا ہے۔ پس میں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ اس وعدہ کے مطابق جو احباب نے سفر ولایت کے متعلق مشورہ لیتے وقت کیا تھا ایک خاص چندہ کی اپیل کروں۔
سفر ولایت پر پچاس ہزار روپیہ خرچ آیا ہے۔ اور اس خاص لٹریچر کی اشاعت پر جو اس سفر کی غرض کے لئے چھپوایا گیا۔ بیس ہزار روپیہ۔ موجودہ مالی تنگی کو رفع کرنے اور سفر سے جو تحریک اسلامی اور مغربی بلاد میں پیدا کی گئی تھی اس کے چلانے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے تیس ہزار روپیہ کی ضرورت ہے۔ یہ کل ایک لاکھ روپیہ ہوتا ہے اور میں اس کے لئے اب جماعت سے اپیل کرتا ہوں اور اس کے پورا کرنے کے لئے یہ تجویز کرتا ہوں کہ ہر شخص جو احمدی کہلاتا ہے۔ اس غرض کے لئے اپنی ایک مہینہ کی آمد تین ماہ میں یعنی ۱۵/ فروری سے ۱۵/ مئی تک علاوہ ماہوار چندہ کے جو وہ دیتا ہے اس خاص تحریک میں ادا کرے۔ زمیندار لوگ دونوں فصلوں کے موقعہ پر علاوہ مقررہ چندہ کے دو سیر فی من پیداوار پر ادا کریں اور اس جماعت کی عزت اور سلسلہ کے کام کو برباد ہونے سے بچایا جائے‘‘۲۳۔
جماعت احمدیہ نے اپنے پیارے امام کے ارشاد پر تین ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ سے زیادہ روپیہ اپنے آقا کے قدموں میں ڈال دیا۔
چنانچہ حضور نے اس پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے ۱۲/ جولائی ۱۹۲۵ء کو اعلان فرمایا۔ ’’الحمدلل¶ہ کہ میں آج اس امر کا اعلان کرنے کے قابل ہوا ہوں کہ معیاد مقررہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو ایک لاکھ کی تحریک کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی ۔۔۔۔۔۔ مجھے نہایت خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مخالفوں کے منہ بند کر دیئے ہیں جو اعتراض کر رہے تھے کہ احمدی چندے دیتے دیتے تھک گئے ہیں۲۴۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ان لوگوں کے جواب میں اس نے جماعت کو اس امر کا عملی ثبوت بہم پہنچانے کا موقعہ دے دیا ہے کہ وہ چندے دیتے دیتے تھکی نہیں بلکہ وہ اسی طرح تازہ دم ہے جس طرح کہ پہلے دن تھی۔ بلکہ مومنانہ شان کے مطابق اس کا جوش پہلے سے بھی بڑھا ہوا ہے اور وہ دین اسلام کے لئے ہر اک قربانی کے لئے تیار ہے اور ہر ایک بوجھ اٹھانے کے لئے آمادہ‘‘!۲۵
اشاعت احمدیت کے لئے خاص تحریک
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۳/ فروری ۱۹۲۵ء کو تحریک فرمائی کہ ہر ایک احمدی دل میں عہد کرے کہ اشاعت سلسلہ میں ہمہ تن لگ جائے گا۔ نیز فرمایا۔
’’میرے نزدیک موجودہ ترقی کی رفتار بہت کم ہے۔ جب تک ایک لاکھ سالانہ سلسلہ میں لوگ داخل نہ ہوں ہماری ترقی خطرہ میں ہے۔ ہمیں جلد سے جلد اس بات پر قادر ہونا چاہئے۔ ایک لاکھ سالانہ کی رفتار سے ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ سلسلہ میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے کہ جو اس کام کو جاری رکھ سکیں گے۔ موجودہ حالت میں تو ہم یہ بھی امید نہیں کر سکتے۔ پس جس طرح احباب سب چندہ دیتے ہیں۔ اسی طرح ایک دو سال بھی اگر وہ سب اشاعت سلسلہ اور اخلاق کی درستی کی کوشش میں لگ جائیں جس کے ساتھ جماعت کے اندر ایک رو پیدا ہو جائے تو اس طرح ایسی تعداد پیدا ہو سکتی ہے کہ جو کام کو سنبھال سکیں‘‘۲۶۔
فرقہ وارانہ نیابت کے سوال کا حل
ان دنوں ملک میں فرقہ وارانہ نیابت کا سوال بہت پیچیدہ صورت اختیار کر گیا تھا۔ اس کے تصفیہ کے لئے سیاسی زعماء نے دہلی میں آل انڈیا پارٹی کانفرنس بھی منعقد کی۔۲۷ مگر کچھ فیصلہ نہ ہو سکا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے مسلمانوں کو مشورہ دیا کہ مسلمان اپنا یہ مطالبہ کہ ان کو بعض صوبوں میں ان کی تعداد سے زیادہ حق نیابت دیا جائے چھوڑ دیں۔ مدراس یا بہار میں اگر وہ چند ممبریاں زیادہ بھی حاصل کر لیں گے تو اس سے ان کو اتنا فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا جتنا کہ بعض صوبوں میں کثرت سے ہو سکتا ہے۔ اور آئندہ نظام اس طریق پر قائم کیا جائے کہ ہر ایک قوم کو اس کی آبادی کے مطابق حق نیابت ملے۔ صرف یہ رعایت ہو کہ جہاں قلیل التعداد اقوام کو نصف ممبری کا حق ملتا ہے وہاں ان کو ایک پوری ممبری کا حق دیا جائے بشرطیکہ آبادی کی کثرت قلت میں نہ بدل جائے۔
اس ضمن میں دوسری اہم تجویز آپ نے یہ فرمائی کہ ہر قوم کا انتخاب اس کی اپنی قوم کے افراد کے ذریعہ سے کیا جاوے یعنی نہ صرف یہ شرط ہو کہ ہر ایک قوم کو اس کی تعداد کے مطابق نیابت دی جائے بلکہ یہ بھی شرط ہو کہ ہر قوم کے نمائندے صرف اسی کے ووٹوں سے منتخب کئے جائیں ورنہ طاقتور اور ہوشیار قومیں دوسری اقوام کے ایسے ممبروں کے منتخب کرانے میں کامیاب ہو جائیں گی۔جو اپنی قوم کا نمائندہ کہلانے کی بجائے دوسرے زبردست یا زیادہ تعلیم یافتہ قوم کا نمائندہ کہلانے کا زیادہ حقدار ہو گا۔
تیسری بات حضور نے سیاسی لیڈروں کے سامنے یہ پیش کی کہ ایسے قواعد تجویز کئے جائیں جن کی موجودگی میں کثیر التعداد قومیں اقلیتوں پر ظلم نہ کر سکیں۔ پس آئندہ سمجھوتہ کی بنیاد ان شرائط پر ہونی چاہئے کہ
(الف) ایک قوم دوسری قوم کے مخصوص تمدنی قوانین کے خلاف بھی قانون نہیں بنا سکتی اور نہ ان امور کے متعلق جو مابہ النزاع ہوں۔
(ب) ایسے امور میں نہ صرف مذاہب کے کثیر التعداد فرقوں کے خیالات کا احترام کیا جائے گا بلکہ اگر قلیل التعداد فرقہ کثیر التعداد کے خلاف ہو تو اس کے لئے کوئی قانون اس کی مرضی کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۲۸۔
مدرستہ الخواتین کا اجراء اور آپ کی مصروفیات میں اضافہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے احمدی خواتین کی علمی ترقی سے متعلق سفر یورپ کے دوران میں جو سکیم بنائی تھی۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لئے حضور نے ۱۷/ مارچ ۱۹۲۵ء کو ’’مدرستہ الخواتین‘‘ کی بنیاد رکھی۲۹۔
چونکہ قابل معلمات اس وقت موجود نہیں تھیں اس لئے خود حضور بھی طالبات کو پڑھاتے تھے چنانچہ آپ نے اپنی مصروفیات کی تفصیل بیان کرتے ہوئے دسمبر ۱۹۲۵ء میں فرمایا۔
’’میں صبح ناشتہ کے بعد مدرسہ خواتین میں پڑھاتا ہوں یہ ایک نیا مدرسہ قائم کیا گیا ہے۔ جس میں چند تعلیم یافتہ عورتوں کو داخل کیا گیا ہے ان میں میری تینوں بیویاں اور لڑکی بھی شامل ہیں ان کے علاوہ اور بھی ہیں چونکہ ہمیں اعلیٰ تعلیم دینے کے لئے معلم عورتیں نہیں ملتیں اس لئے چکیں ڈال کر عورتوں کو مرد پڑھاتے ہیں۔ آج کل میں ان عورتوں کو عربی پڑھاتا ہوں۔ مولوی شیر علی صاحب انگریزی پڑھاتے ہیں اور ماسٹر محمد طفیل صاحب جغرافیہ۔ سوا گھنٹہ تک میں انہیں پڑھاتا ہوں۔ اصل وقت تو ۴۵ منٹ مقرر ہے مگر سارے استاد اپنا کچھ نہ کچھ وقت بڑھا لیتے ہیں کیونکہ مقررہ وقت کم ہے اور تعلیم زیادہ اس کے بعد اس کمرہ میں جہاں کل دوست ملاقات کرتے ہیں جاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ وہاں آکر میرا دفتری کام شروع ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس وقت میں سلسلہ کے انتظامی کاموں اور کاغذات اور سکیموں کا مطالعہ کرتا ہوں اسی دوران میں دس بجے کے قریب ڈاک آجاتی ہے جن میں روزانہ ۔۔۔۔۔۔۔ سو سوا سو خطوط ہوتے ہیں جو کم از کم دو اڑھائی گھنٹہ کا کام ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں کھانا کھانے جاتا ہوں پھر نماز ظہر کے لئے جاتا ہوں نماز پڑھانے کے بعد آکر سلسلہ کے کام جو سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں یا دفاتر کے کاغذات پڑھنے یا تدابیر سوچنے یا بعض علمی مضامین کے لئے مطالعہ کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد پھر عصر کی نماز ۔۔۔۔۔۔ پڑھانے کے بعد وہاں کچھ دیر دوستوں کے لئے بیٹھتا ہوں اور اگر درس ہو تو درس کے لئے چلا جاتا ہوں یا بیٹھ کر خطوط کے جواب لکھاتا ہوں کہ مغرب کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے۔ وہ پڑھاتا ہوں اور اس کے بعد کھانا کھا کر عشاء کی نماز تک مطالعہ کرتا ہوں اور پھر عشا کی نماز کے بعد کام کے لئے اسی کمرہ میں چلا جاتا ہوں جہاں ۱۱ بجے اور ۱۲ بجے تک ترجمہ قرآن کریم کا کام کرتا ہوں پھر علمی شوق کے لئے ذاتی مطالعہ کرتا ہوں ۔۔۔۔۔ ساڑھے بارہ بجے یا ایک بجے تک یہ مطالعہ کرتا ہوں اس کے بعد جب بستر پر لیٹتا ہوں تو تھکان کی وجہ سے نیند نہیں آتی۔ آنکھوں کے سامنے چیزیں ہلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ کیونکہ تھکان کی وجہ سے اعصاب کانپ رہے ہوتے ہیں اسی حالت میں نیند آجاتی ہے پھر صبح کی نماز کے بعد کام کا یہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۳۰۔
حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کے متعلق اھم اعلان
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مجلس شوریٰ (منعقدہ ۱۹۲۵ء) کے موقعہ پر یہ اہم اعلان فرمایا۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے تھے۔ محمد~صل۱~ کا بروز ہو کر آئے تھے۔ اس لئے آپ کے قلم سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ دنیا کی ساری کتابوں اور تحریروں سے بیش قیمت ہے اور اگر کبھی یہ سوال پیدا ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی تحریر کی ایک سطر محفوظ رکھی جائے یا سلسلہ کے سارے مصنفین کی کتابیں؟ تو میں کہوں گا آپ کی ایک سطر کے مقابلہ میں یہ ساری کتابیں مٹی کا تیل ڈال کر جلا دینا گوارا کروں گا۔ مگر اس سطر کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش صرف کر دوں گا‘‘۳۱۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا چوتھا نکاح
(حرم ثانی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) حضرت امتہ الحی صاحبہ کی وفات سے جماعت میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا تھا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مدنظر احمدی خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے ایک اہم سکیم تھی جو ان کی وفات سے درمیان میں ہی رہ گئی۳۲۔
اگر آپ لاکھوں کی جماعت کے امام نہ ہوتے اور احمدی مستورات کی ترقی و بہبود اور تعلیم و تربیت کی ذمہ داری آپ پر عائد نہ ہوتی تو آپ کے لئے کسی اور نکاح کا خیال ہی دکھے ہوئے دل کو ٹھیس لگانے کے لئے کافی تھا کیونکہ جسمانی و مالی پہلو دونوں مخدوش اور سقیم تھے اور دو بیویاں اور بچے موجود تھے۳۳۔ لیکن آپ محض مفاد سلسلہ کی خاطر تیسرے نکاح کے لئے آمادہ ہو گئے اور مولوی عبدالماجد صاحب بھاگلپوری سے ان کی دختر نیک اختر سارہ بیگم صاحبہ کے لئے کم از کم تین سو مرتبہ استخارہ کرکے سلسلہ جنبانی شروع کیا۳۴۔
آخر جب فریقین کی طرف سے معاملہ طے پا گیا تو ۱۲۔ ۱۳/ اپریل ۱۹۲۵ء کو مسجد اقصیٰ میں حضور کے اس مبارک نکاح کی تقریب عمل میں آئی۔ حضور نے اپنا خطبہ نکاح خود پڑھا اور اس کے اغراض و مقاصد پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی۳۵۔
سرزمین حجاز کی خانہ جنگی اور جماعت احمدیہ
جنگ عظیم کے خاتمہ پر تمام عرب ممالک کی ایک وسیع مملکت بنانے کا جو وعدہ انگریزوں نے کیا تھا۔ وہ تو پورا نہ کیا۔ البتہ عربوں کے لیڈر شریف حسین (شریف مکہ) کو حجاز کا بادشاہ تسلیم کر لیا شریف حسین اس وعدہ خلافی پر بہت تلملائے۔ نجد کے سلطان امیر عبدالعزیز ابن سعود نے حجاز پر چڑھائی کر دی اس لڑائی میں جیسا کہ بعد کو انکشاف ہوا۔ ابن سعود اور شریف حسین دونوں کو برطانیہ کی خفیہ امداد حاصل تھی۔ ہندوستان کی برطانوی حکومت امیر عبدالعزیز ابن سعود کا حوصلہ بڑھا رہی تھی اور مصر کے برطانوی حکمران شریف حسین کو امداد دے رہے تھے۳۶۔ امیر عبدالعزیز ابن سعود کی فوجیں تجربہ کار تھیں شریف حسین کو شکست پر شکست ہونے لگی اور طائف بھی ہاتھ سے نکل گیا۔ مگر ابھی تک شریف حسین میں تاب مقابلہ تھی۔ لیکن جونہی مکہ مکرمہ پر سعودی لشکر نے حملہ کیا تو انہوں نے اس خیال سے کہ اہل مکہ ہی اس کے خلاف کہیں بغاوت نہ کر دیں اور ان کے لئے بھاگنے کا رستہ نہ رہے خلافت سے دستبرداری اختیار کر لی اور ان کے بڑے لڑکے شریف علی نے ان کی جگہ عنان حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور اپنی فوج ترتیب دے کر جدہ کو اپنا صدر مقام بنا لیا اور کھلے میدان میں جنگ کرنے کی بجائے ساحل سمندر کے پاس شہروں میں محصور ہو گئے۳۷۔ اور اس طرح وسط ۱۹۲۵ء میں حجاز کی صورت یہ تھی کہ امیر ابن سعود کا مکہ مکرمہ پر اقتدار ہو چکا تھا۔ مگر جدہ کی مشہور بندرگاہ جو ہندوستانی حجاج کا صرف ایک ہی راستہ تھی شریف حسین کے قبضہ میں تھی۔ مگر یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی ہندوستان کے مسلمان سیاسی لیڈر برابر زور دے کر حج کے لئے جہاز روانہ کروا رہے تھے۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک مضمون میں (جو الفضل ۱۹۲۵ء کی تین اشاعتوں میں شائع ہوا) مسلمانوں کو مخلصانہ مشورہ دیا کہ فتنہ کے ان ایام میں حج کا ارادہ ملتوی کر دیں۔ کیونکہ حج کی شرائط میں ایک اہم شرط امن کا وجود ہے جو موجودہ حالات میں مفقود ہے۳۸۔
اس مشورہ کے ساتھ ہی حضور نے (امیر ابن سعود اور شریف مکہ کی کشمکش اور عرب پر اس کے سیاسی اور تمدنی اثرات کا جائزہ لینے کے علاوہ بتایا کہ اٹھارھویں صدی عیسوی میں جبکہ اسلام پر شرک کی گھٹائیں چھارہی تھیں ’’خدا تعالیٰ کی غیرت نے مختلف ممالک میں مختلف لوگ مسلمانوں کو بیدار کرنے کے لئے پیدا کئے ہندوستان میں شاہ ولی اللہ صاحب پیدا ہوئے عرب میں خدا تعالیٰ نے محمد بن عبدالوہاب کو چنا‘‘۔ اس تفصیل کے بعد سعودی خاندان کی پوری تاریخ پر روشنی ڈالی اور سعودی حکومت کی نسبت یہ رائے دی کہ ’’ہمارا پچھلا تجربہ بتاتا ہے کہ احمدیت میں جس قدر جلد وہابی۳۹ داخل ہوتے ہیں اس قدر جلد کوئی دوسرا فرقہ مسلمانوں کا داخل نہیں ہوتا۔ پس جماعت احمدیہ کے فوائد کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ حجاز پر وہابیوں کی حکومت ہمارے لئے گو مشکلات بھی پیدا کرے گی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر انجام کار انشاء اللہ ہمارے سلسلہ کے لئے مفید ہوگی4]‘‘ [stf۴۰۔
اس کے چند ماہ بعد امیر عبدالعزیز ابن سعود۴۱ نے شریف علی کو مکمل شکست دے دی اور نجد و حجاز کو ملحق کرکے مملکت سعودیہ عربیہ کے نام سے اپنی حکومت قائم کر لی جسے آہستہ آہستہ سب حکومتوں نے تسلیم کر لیا۔
‏rov.5.34
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا بارھواں سال
چھٹا باب (فصل دوم)
دارالتبلیغ شام و فلسطین
ابھی جماعت احمدیہ کا باقاعدہ قیام بھی عمل میں نہیں آیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ۶/ اپریل ۱۸۸۵ء کو الہام نازل فرمایا کہ ’’یدعون لک ابدال الشام و عباداللہ من العرب۔۴۲ یعنی تیرے لئے ابدال شام اور عرب کے نیک بندے دعا کرتے ہیں۔
اس آسمانی خبر کے قریباً چار سال بعد لدھیانہ میں پہلی بیعت ہوئی۔ اور ۱۰/ جولائی ۱۸۹۱ء کو مکہ مکرمہ کے ایک بزرگ محمد بن شیخ احمد۴۳ (ساکن محلہ شعب عامر) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کرکے داخل احمدیت ہوئے۔ بلاد عربیہ کے دوسرے بزرگ۴۴ جنہوں نے حضور علیہ السلام کے ہاتھ پر بیعت کی۔ السید محمد سعید النشار الحمید انی الطرابلسی تھے ان کے علاوہ طائف میں عثمان صاحب اسکندریہ (مصر) میں السید احمد زہری بدر الدین۴۵ اور یمن میں الحاج محمد المغربی۴۶ حضور علیہ السلام کی زندگی میں آپ پر ایمان لائے۔
حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنے دعویٰ مسیحیت کے بعد بلاد عربیہ تک اپنی دعوت پہنچانے کے لئے فصیح و بلیغ عربی میں متعدد تالیفات فرمائیں۴۷۔
یہ مبارک لٹریچر بلاد عربیہ اور دوسرے عربی سمجھنے والے ممالک میں پھیلا دیا۴۸۔ اس طرح حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام ہی کے زمانہ میں احمدیت کا پیغام ان ممالک تک پہنچ گیا۔ اسی زمانہ میں حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصر میں تشریف لے گئے اور احمدیت کی دعوت پہنچاتے رہے۴۹۔
خلافت اولیٰ کے آخری دور میں سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب لاہوری نو مسلم مصر میں بغرض تعلیم گئے۵۰۔ اور اپنی تعلیمی مصروفیات کے ساتھ ساتھ تبلیغ سلسلہ میں بھی مصروف رہے۔ ان کے بعد ۱۹۲۲ء میں شیخ محمود احمد صاحب عرفانی کے ذریعہ بلاد عربیہ کا پہلا احمدیہ دارالتبلیغ مصر میں قائم ہوا۵۱۔
اب اس سال (۱۹۲۵ء میں) حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے شام میں نیا دارالتبلیغ کھولنے کے لئے حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس کو روانہ فرمایا اور انہیں الوداع کرتے ہوئے جہاں اور کئی نصائح فرمائیں وہاں یہ بھی ارشاد فرمایا۔ کہ
’’اہل عرب کے ہم پر بہت بڑے احسان ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ ہم تک اسلام پہنچا ہمارا ]ksn [tagرونگٹا رونگٹا ان کے احسان کے نیچے دبا ہوا ہے۔ ان کا بدلہ دینے کے لئے ہمارے یہ مبلغ وہاں جا رہے ہیں۔ ان میں سے سید ولی اللہ شاہ صاحب پر دوہری ذمہ داری ہے۔ کیونکہ انہوں نے علم بھی اس ملک سے حاصل کیا ہے۔ اب ان کی یہ کوشش ہونی چاہئے کہ ان لوگوں کو روحانی علم دیں۔ مگر ساتھ ہی یہ خیال رکھنا چاہئے کہ وہ مبلغ کی حیثیت سے نہیں جارہے بلکہ مدبر کی حیثیت سے جارہے ہیں ان کا کام یہ دیکھنا ہے کہ اس ملک میں کس طرح تبلیغ کرنی چاہئے مبلغ کی حیثیت سے مولوی جلال الدین صاحب جا رہے ہیں ان کو اسی مقصد کے لئے اپنا وقت صرف کرنا چاہئے تاکہ ان کے جانے کا مقصد فوت نہ ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ ان کا یہ کام ہے کہ ان کے ذریعہ جو جماعت خدا تعالیٰ پیدا کرے اس کا تعلق مرکز سے اس طرح قائم کریں جس طرح عضو کا تعلق جسم سے ہوتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری ترقی ہی موجب تنزل ہو گی ۔۔۔۔ پس مبلغین کا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ احمدیت میں داخل ہونے والوں کا آپس میں ایسا رشتہ اور محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں جس کی وجہ سے ساری جماعت اس طرح متحد ہو کہ کوئی چیز اسے جدا نہ کر سکے۔ اگر شامی احمدی ہوں تو انہیں یہ خیال نہ پیدا ہونے دیں کہ ہم ’’شامی احمدی‘‘ ہیں اسی طرح جو مصری احمدی ہوں۔ ان کے دل میں یہ خیال نہ ہونا چاہئے کہ ہم ’’مصری احمدی‘‘ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ مذہب اسلام وطنیت کو مٹانے کے لئے آیا ہے۔ اس لئے نہیں کہ حب وطن کو مٹانا چاہتا ہے اسلام تو خود کہتا ہے حب الوطن ایمان کی علامت ہے مگر وہ وطن کو ادنیٰ قرار دیتا ہے اور اس سے اعلیٰ یہ خیال پیش کرتا ہے کہ ساری دنیا کو اپنا وطن سمجھو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ انسانیت کو وطن سمجھو دنیا سے مراد تو وہ انسان ہوتے ہیں جو زندہ ہوتے ہیں مگر انسانیت سے مراد وہ تمام انسان ہیں جو پہلے گزر چکے اور جو آئندہ آئیں گے ایک مسلمان کا کام جہاں پہلوں کی نیکیوں کو قائم کرنا اور ان کے الزامات کو مٹانا ہوتا ہے وہاں آئندہ نسلوں کے لئے سامان رشد پیدا کرنا بھی ہوتا ہے اس کے لئے انسانیت ہی مطمح نظر ہو سکتی ہے پس ہمارے مبلغوں کو یہ مقصد مدنظر رکھ کر کھڑا ہونا چاہئے اور ہمیشہ اسی کو مدنظر رکھنا چاہئے‘‘۵۲۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب اور مولانا جلال الدین صاحب شمس ۲۷/ جون ۱۹۲۵ء۵۳ کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۱۷/ جولائی ۱۹۲۵ء کو دمشق پہنچے۵۴۔ حضرت شاہ صاحب کے دوستوں اور شاگردوں کا حلقہ بیت المقدس اور شام میں وسیع تھا۔ جس سے انہوں نے مولانا جلال الدین صاحب شمس کا تعارف کرایا۔ قیام دمشق کے دوران میں آپ نے ’’کشتی نوحؑ‘‘ کا ترجمہ کیا۔ ایک ٹریکٹ ’’الحقائق عن الاحمدیہ‘‘ چھپوایا اور ایک مبسوط کتاب ’’حیات المسیح و وفاتہ‘‘ کے نام سے شائع کی۔ جس کا عیسائیوں کے علاوہ بڑے بڑے مسلمان عالموں اور فلاسفروں پر بھی بہت اثر پڑا۔ چنانچہ مصر کے مشہور مفکر احمدز کی پاشا نے تسلیم کیا کہ وفات مسیح کے متعلق جو تحقیق احمدیوں نے کی ہے اور جس سے اسلام کی برتری ثابت ہوتی اور عیسائیت پر کاری ضرب لگتی ہے۔ ان کے علاوہ محسن البرازی بیک نے (جو پہلے حکومت شام کے سابق وزیر اور پھر القصر الجمہوری معتمد اول منتخب ہوئے) کہا کہ افسوس اگر میرے دینوی مشاغل مانع نہ ہوتے تو سب سے بہترین کام جس کے اختیار کرنے میں فخر کرتا وہ تبلیغ اسلام تھا جسے احمدی انجام دے رہے ہیں۵۵۔
ان دنوں عراق میں کوئی مرکزی مبلغ موجود نہیں تھا۔ ہندوستانی احمدی انفرادی طور پر تبلیغ میں مصروف رہتے تھے۔ حکومت عراق نے انہیں تبلیغ احمدیت کی ممانعت کر دی اور ان کے پرائیوٹ اجتماعات پر بھی پابندی لگا دی۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب کو ہدایت فرمائی کہ وہ ہندوستان واپس آتے ہوئے عراق کے راستہ سے آئیں اور کوشش کریں کہ یہ ناروا پابندیاں اٹھا دی جائیں چنانچہ شاہ صاحب شروع ۱۹۲۶ء میں بغداد پہنچے اور امیر فیصل سے ملاقات کی اور خوبی اور عمدگی سے پورا معاملہ ان کے سامنے رکھا۵۶ جس پر حکومت عراق نے سب پابندیاں اٹھا دیں۵۷۔
حضرت شاہ صاحب موصوف سفارت عراق میں کامیاب ہو کر ۱۰/ مئی ۱۹۲۶ء۵۸ کو قادیان تشریف لائے تو سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا۔
’’میرے نزدیک شاہ صاحب نے اس سفر میں ایک بڑا کام ہے ۔۔۔۔۔۔ وہ عراق کے متعلق ہے۔ سیاستاً یہ ایک ایسا کام ہے کہ جو دور تک اثر رکھتا ہے ۔۔۔۔۔ ہم گورنمنٹ آف انڈیا کے ذریعہ کوشش کر چکے تھے۔ مگر پھر بھی اجازت نہ حاصل ہوئی تھی۔ وہاں سے ہمارے کئی آدمی اس لئے نکالے جا چکے تھے کہ وہ تبلیغ کرتے تھے۔ اپنے گھر میں جلسہ کرنا بھی منع تھا۔ ان حالات میں کوشش کرکے کلی طور پر روک اٹھا دینا بلکہ وہاں ایسے خیالات پیدا ہو جانا جو ان کے دل میں ہمدردی اور محبت ثابت کرتے ہیں بہت بڑا کام ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کام اس قسم کا ہے کہ سیاسی طور پر اس کے کئی اثرات ہیں ۔۔۔۔۔۔ اس سے سمجھا جائے گا کہ احمدی قوم حکومتوں کی رائے بدلنے کی قابلیت رکھتی ہے ۔۔۔۔۔۔ پس شاہ صاحب نے یہ بہت بڑی خدمت کی ہے‘‘۵۹۔
شاہ صاحب کی خصوصی خدمات کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم پھر دارالتبلیغ شام و فلسطین کے ابتدائی حالات کی طرف واپس آتے ہیں۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے۔ شام و فلسطین میں بحیثیت مبلغ مولانا جلال الدین صاحب شمس تشریف لے گئے تھے۔ آپ نے شاہ صاحب کی معیت میں وہاں پہنچتے ہی تبلیغ شروع کر دی اسی دوران میں نومبر ۱۹۲۵ء میں درزیوں نے تحریک آزادی کا علم بلند کر دیا جس پر شام کی فرانسیسی حکومت نے دمشق پر مسلسل بمباری کرکے تباہی مچا دی اگر ان ناموافق حالات میں بھی آپ شاہ صاحب کے ساتھ پیغام حق پہنچاتے رہے اور یکم اپریل ۱۹۲۶ء تک دمشق میں ایک جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۶۰۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے فرمایا۔ ’’ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمارے شام کے مبلغین نے جو کام کیا وہ ۔۔۔۔۔ تعریف کے قابل ہے کہ انہوں نے تبلیغ کو جاری رکھا۔ الخ ۔۔۔۔۔۔۔۶۱
۱۹۲۷ء میں مولانا جلال الدین صاحب شمس نے دمشق میں ایک تحریری مناظرہ ڈنمارک کے ایک مشہور پادری الفریڈ نلسن سے کیا جو بیس سال سے شام کے علاقہ میں عیسائیت کا کام کر رہے تھے اور شام کے عیسائی مشنوں کے انچارج تھے۔ موضوع مناظرہ یہ تھا کہ کیا حضرت مسیح ناصری فی الواقعہ صلیب پر فوت ہوئے؟ مناظرہ کے محرک السید منیر الحصنی صاحب تھے جو احمدی مناظر کے دلائل سن کر احمدیت میں شامل ہو گئے اور اخلاص میں اتنی ترقی کی کہ جماعت شام کے امیر و مبلغ بنے۔ چنانچہ آپ خود لکھتے ہیں۔
’’میرے قبول احمدیت کا سب سے بڑا سبب یہی مناظرہ تھا۔ کیونکہ میں نے دیکھا کہ احمدی مبلغ کے دلائل و براہین لاجواب تھے۔ مسیحی مناظر سے ان کا کوئی جواب نہ بن پڑا اور عزت و غلبہ اسلام نصف النہار کی طرح ظاہر ہو گیا۔ عیسائی پادری اور مولانا شمس صاحب میں مناظرہ سے پہلے یہ معاہدہ ہوا تھا کہ اختتام مناظرہ پر پوری روئداد مناظرہ فریقین کے خرچ پر طبع کرائی جائے گی۔ لیکن جب مناظرہ ہو چکا تو وہ اپنے عہد سے پھر گیا۔ اس مناظرہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے میرا سینہ قبول احمدیت کے لئے کھول دیا اور مجھے مسیح موعود کی جماعت میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا‘‘۶۲۔ یہ مناظرہ ’’اعجب الاعا جیب فی نفی الانا جیل لموت المسیح علی الصلیب‘‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔
عیسائیت کے خلاف محاذ قائم کرنے کے علاوہ آپ نے علماء ومشائخ کا بھی مقابلہ کیا۔ مگر آپ کے دلائل و براہین کا وہی جواب دیا گیا جو ہمیشہ مخالفین حق دیا کرتے ہیں۔ یعنی دسمبر ۱۹۲۷ء۶۳ میں آپ پر خنجر سے قاتلانہ حملہ کرا کے سخت زخمی کر دیا گیا۔ آپ کے زخم مندمل ہوئے تو علماء کی انگیخت پر فرانسیسی حکومت نے ۹/ مارچ ۱۹۲۸ء کو حکم دیا کہ آپ شام کا ملک چھوڑ دیں۔ جس کی اطلاع آپ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں بذریعہ تار دی۔ حضور نے آپ کو فلسطین کی بندرگاہ حیفا میں جانے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپ السید منیر الحصنی صاحب کو دمشق میں اپنا قائم مقام امیر مقرر کرکے ۱۷/ مارچ ۱۹۲۸ء کو حیفا پہنچ گئے اور فلسطین مشن کی بنیاد رکھی۔
شروع شروع میں یہاں بھی آپ کی سخت مخالفت ہوئی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ حیفا میں بھی جماعت قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ جب مشائخ نے دیکھا کہ یہاں لوگ احمدیت کو بنظر استحسان دیکھنے لگے ہیں تو انہوں نے سخت مخالفت شروع کر دی آخر ایک عالم شیخ کامل قصاب سے آپ کا دو دن مباحثہ ہوا۔ شیخ مذکور نے اپنی شکست محسوس کرکے عوام کو آپ کے خلاف بھڑکایا۔
ان مخدوش حالات کے باوجود آپ برابر تبلیغی کوششوں میں مصروف رہے۔ چنانچہ اپریل ۱۹۲۸ء سے فروری ۱۹۲۹ء تک آپ کے آٹھ پرائیویٹ مناظرے علماء سے دو بہائیوں اور سات عیسائیوں سے ہوئے۔ عیسائیوں کے ساتھ جو مناظرے ہوئے ان کا اثر مسلمانوں پر بہت اچھا ہوا اور مشائخ کے ساتھ جو مناظرے ہوئے ان میں سے پہلے مناظرہ میں مدمقابل عالم نے اپنی شکست محسوس کر لی۔ اس لئے دوسرے مناظرہ میں شرائط مناظرہ کی خلاف ورزی کی جس کا نتیجہ فوری طور پر یہ ہوا کہ جو صاحب محرک مناظرہ تھے وہ احمدی ہو گئے ان کی بیعت پر مشائخ اور بھی زیادہ مخالفت پر کمربستہ ہو گئے اور تمام مساجد میں جمعہ کے دن جبکہ دیہات سے بھی سینکڑوں لوگ حیفا میں آئے ہوئے تھے سلسلہ احمدیہ اور آپ کے خلاف تقریریں کیں۔ اس کا ردعمل یہ ہوا کہ سلسلہ سے ناواقف لوگ واقف ہو گئے اور جو واقف تھے وہ قریب تر ہو کر سلسلہ کے حالات کا مزید مطالعہ کرنے لگے۔
۳/ جون ۱۹۲۸ء کو آپ بعض دوستوں کے ہمراہ سیر کرتے ہوئے (کبابیر کے نیچے واقع) وادی السیاح میں پہنچے جہاں ان کی ملاقات الحاج محمد المغربی الطرابلسی سے ہوئی معلوم ہوا کہ یہ بزرگ ۲۳ سال سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام پر ایمان لا چکے ہیں۔ اور ان کے ایمان کا باعث حضرت اقدس کی بعض تالیفات تھیں جو کسی طرح یمن میں امام محمد بن ادریس کے پاس پہنچی تھیں۔ یہ بزرگ پہلے ایمان چھپائے ہوئے تھے۔ مگر اب اپنے دو شاگردوں سمیت علانیہ سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۶۴۔ ۱۹۳۰ء میں جبکہ کبابیر میں الحاج صالح عبدالقادر عودہ نے اپنے خاندان سمیت احمدیت قبول کر لی۔ الحاج مغربی بھی کبابیر میں آگئے اور کبابیر کے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا اور مدرسہ کبابیر قائم ہونے تک باقاعدہ یہ خدمت بجا لاتے رہے۶۵۔
وسط ۱۹۲۹ء میں علماء نے جماعت احمدیہ کی بڑھتی ہوئی ترقی دیکھ کر مخالفت تیز کر دی چنانچہ انہوں نے فلسطین کی ’’المجلس الاسلامی الاعلیٰ‘‘ سے ایک مبلغ آپ کے مقابلہ کے لئے بلوایا جس نے ’’جمعیتہ الشبان المسلمین‘‘ اور دوسرے مقامی علماء کے ساتھ مل کر احمدیوں پر جبر و تشدد کرنا شروع کیا۔ اس شور و شر کے تھوڑے عرصہ کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں میں جھگڑا شروع ہو گیا اور ایک دوسرے کے خلاف مظاہرات کرنے لگے اور قتل کی وارداتیں شروع ہو گئیں اور معلوم ہو گیا کہ فسادی عنصر آپ کے مکان پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ آپ کو فساد کے اندیشہ سے مجبوراً دوسرے مکان میں منتقل ہونا پڑا4] [stf۶۶۔
۳/ اپریل ۱۹۳۱ء۶۷ (بمطابق ۱۶ ذوالقعدہ ۱۳۴۹ھ) کو آپ نے کبابیر۶۸ میں ’’جامع سیدنا محمود‘‘ کی بنیاد رکھی جو بلاد عربیہ میں پہلی احمدیہ مسجد ہے مسجد کی صرف چھت ڈالنا باقی رہ گئی تھی کہ آپ واپسی کے لئے مصر روانہ ہو گئے۔ اس مسجد کی تعمیر میں کبابیر کے سب احمدی مردوں‘عورتوں اور بچوں نے حصہ لیا۔ آپ ۲۹/ ستمبر ۱۹۳۱ء تک فلسطین میں رہے آپ کے زمانہ قیام میں حیفا اور طیرہ میں دو مستقل جماعتیں قائم ہوئیں اور بلاد عربیہ کے اہم مقامات مثلاً بغداد‘موصل بیروت‘حمص‘حماۃ لاذقیہ اور عمان وغیرہ میں تبلیغی خطوط کے ذریعہ پیغام احمدیت پہنچا۶۹`۷۰۔
شام و فلسطین میں آپ کی مندرجہ ذیل تصانیف شائع ہوئیں۔ ’’اعجب الاعا حبیب فی نفی الاناجیل لموت المسیح علی الصلیب‘‘۔ البرھان الصریح فی ابطال الوھیہ المسیح‘‘۔ الھدیہ السنیہ لفئہ المبشرہ المسیحیہ‘‘۔ ’’حکمہ الصیام‘‘ ’’میزان الاقوال‘‘۔ ‘‘’’توضیح المرام فی الرد علی علماء حمص و طرابلس الشام‘‘۔ دلیل المسلمین فی الرد علی فتاوی المفتین‘‘۔
‏body] [tagآپ ابھی حیفا میں تھے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے حکم سے مولانا ابوالعطاء صاحب ۱۳/ اگست ۱۹۳۱ء۷۱ کو قادیان سے روانہ ہو کر ۴/ ستمبر ۱۹۳۱ء۷۲ کو حیفا پہنچے۔ مولانا شمس صاحب نے آپ کو مشن کا چارج دیا اور ۲۰/ دسمبر ۱۹۳۱ء۷۳ کو قادیان مراجعت پذیر ہوئے۔
آپ کی واپسی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا۔
’’اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے بعض لوگوں کو توفیق دی ہے کہ انہوں نے سچائی کی خاطر جانیں دیں جیسا کہ افغان ہیں۔ ہندوستانیوں کو ابھی تک ایسا موقعہ نہیں ملا۔ اور ایسا تو بالکل نہیں ملا کہ وہ جانتے ہوں کہ ان کی جان لی جائے گی اور پھر جان لی گئی ہو۔ مگر ایسا بھی موقعہ نہیں ملا کہ بے جانے حملہ کرکے جان لی گئی ہو۔
اس قسم کا پہلا موقعہ مدرسہ احمدیہ کے فارغ التحصیل لوگوں میں سے مولوی جلال الدین صاحب کو ملا‘‘۷۴۔
مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل ستمبر ۱۹۳۱ء سے آخر جنوری ۱۹۳۶ء تک قیام پذیر رہے۔ آپ کے زمانہ میں دارالتبلیغ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گیا۔
آپ نے کبابیر میں ’’مسجد جامع سیدنا محمود‘‘ کی تکمیل کرائی۔ مولانا شمس صاحب نے ۱۹۳۰ء میں ایک مکتب جاری کیا تھا۔ جس میں الشیخ محمد المغربی لڑکوں اور لڑکیوں کو قرآن مجید پڑھاتے تھے اس کا باقاعدہ مدرسہ احمدیہ کی صورت میں افتتاح اب مولوی ابوالعطاء صاحب کے ذریعہ سے یکم جنوری ۱۹۳۴ء کو ہوا۔ آپ اس مدرسہ کے پہلے ہیڈ ماسٹر تھے اور الشیخ سلیم محمد الربانی‘الشیخ ابو حسین مصطفیٰ الفحماوی‘الحاج عبداللہ العراقی‘السید منیر الحصنی]10 [p۷۵ اور محمد سعید بخت ولی اس کے ابتدائی اساتذہ !! اس کے علاوہ آپ نے ’’المطبعہ الاحمدیہ‘‘ کے نام سے کبابیر میں پہلا احمدیہ پریس جاری کیا جس کا افتتاح ۶/ مارچ ۱۹۳۵ء کو ہوا اور سب سے پہلے اس پر حضرت مسیح موعودؑ کے اشتہار ’’دعوت حق‘‘ کا عربی ترجمہ شائع کیا۷۶۔
آپ کے زمانہ میں بھی علماء اور مسیحی منادوں سے زبردست مقابلہ جاری رہا اور متعدد تحریری و تقریری مناظرے ہوئے جن میں اللہ تعالیٰ نے اسلام و احمدیت کو غلبہ عطا فرمایا اور بہت سے لوگوں تک پیغام حق پہنچا۔ اس دوران میں آپ قاہرہ‘راس البر‘دمیاط اور اسکندریہ بھی تشریف لے گئے۷۷۔ عیسائیوں کے علاوہ آپ نے یہودیوں کو بھی اسلام کی دعوت دی اور عبرانی زبان میں بھی ان کے لئے ایک ٹرکٹ شائع کیا۔ یہودیوں کے لئے یہ پہلا موقعہ تھا کہ انہیں عبرانی زبان میں مسلمانوں کی طرف سے پیغام پہنچایا گیا اور انہیں حیرت ہوئی کہ اب ہمیں عبرانی میں بھی اسلام کی طرف بلایا جا رہا ہے۔
آپ کے زمانہ قیام کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ نے گاہے گاہے کوئی ٹریکٹ یا رسالہ شائع کرنے کی بجائے باقاعدہ مقررہ وقت پر شائع ہونے والے رسالہ کی بنیاد رکھی اور پہلے شروع میں ایک سہ ماہی رسالہ ’’البشارہ الاسلامیہ الاحمدیہ‘‘ کے نام سے جاری کیا۔ جسے بعد میں جنوری ۱۹۳۵ء میں ’’البشریٰ‘‘ کے نام سے ماہوار کر دیا جو آئندہ چل کر بلاد عربیہ کے طول و عرض میں اسلام و احمدیت کا پیغام پھیلانے میں موثر ترین ذریعہ ثابت ہوا۔
آپ نے باقاعدہ سہ ماہی یا ماہوار رسالہ کے علاوہ مندرجہ ذیل لٹریچر شائع کیا۔ (۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب اعجاز المسیح ایک مبسوط دیباچہ کے ساتھ۔ (۲) نبراس المومنین (سو احادیث نبویہ کا مجموعہ) یہ کتاب مدرسہ احمدیہ کبابیر کے نصاب میں داخل تھی۔ (۳) عین الضیاء (۴) القول المتین فی بیان معنی خاتم النبین (۵) عشرون دلیلا علی بطلان لا ھوت المسیح (۶) الدین الحی الخالد (۷) دعوہ عامہ الی المناظرہ (۸) رسالہ اخلاص الی کل مسیحی متدین‘‘۷۸۔
آپ کے زمانہ میں ام الفحم اور موضع عارہ میں نئی جماعتیں قائم ہوئیں اور کبابیر‘حیفا اور برجا میں احمدیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۷۹۔
مولانا ابوالعطاء صاحب مولوی محمد سلیم صاحب فاضل کو چارج دے کر شام اور عراق کے راستہ سے ۲۴/ فروری ۱۹۳۶ء کو قادیان پہنچ گئے۸۰۔
مولوی محمد سلیم صاحب ۴/ جنوری ۱۹۳۶ء۸۱ کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۲۷/ جنوری ۱۹۳۶ء کو حیفا پہنچے ہی تھے۸۲ کہ آپ کے چارج لینے کے چند ہفتے بعد فلسطین بھر میں عربوں اور یہودیوں کی باہمی کشمکش کی وجہ سے عام ہڑتال شروع ہو گئی۔ جو چھ ماہ تک جاری رہی۔ جس نے جلدی شورش کی شکل اختیار کر لی۔ تاہم آپ نے دارالتبلیغ کے مرکز کبابیر میں درس و تدریس کا سلسلہ باقاعدہ جاری رکھا۔ ’’البشریٰ‘‘ کی ادارت کا کام خوش اسلوبی سے سنبھالے رکھا مدرسہ کبابیر کی ترقی و بہبود میں دلچسپی لی اور فلسطین‘شرق اردن اور مصر میں علماء ازہر نیز عیسائی پادریوں سے مناظرے کئے جن میں سچائی کو فتح نصیب ہوئی۔ آپ کے وقت میں بھی کئی سعید روحیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی غلامی میں داخل ہوئیں۸۳۔ آپ نے اپنے زمانہ قیام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مشہور کتاب ’’الاستفتاء‘‘ شائع کی۔ اور رسالہ اسئلہ واجوبہ (پہلا حصہ) بھی لکھا۔
مولوی محمد سلیم صاحب فاضل قریباً دو سال تک فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد ۱۰/ مارچ ۱۹۳۸ء کو واپس آگئے۸۴۔ تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے چوہدری محمد شریف صاحب فاضل کو فلسطین روانہ فرمایا۸۵۔
آپ ۷/ ستمبر ۱۹۳۸ء کو قادیان سے روانہ ہوئے اور ۲۴/ ستمبر ۱۹۳۸ء کو حیفا پہنچے آپ بلاد عربیہ میں قریباً ۱۸ سال تک تبلیغ احمدیت میں مصروف رہنے کے بعد ۱۵/ دسمبر ۱۹۵۵ء کو ربوہ میں واپس آئے۔
آپ کا دور تبلیغ بڑے صبر آزما حالات میں گزرا۔ عربوں اور یہودیوں کی کشمکش پہلے سے زیادہ نازک صورت اختیار کر گئی۔ اسی دوران میں آپ کے قتل کا منصوبہ بھی کیا گیا جو ناکام ہو گیا۔ فلسطین میں عربوں اور یہودیوں کی خانہ جنگی جب انتہاء کو پہنچ گئی تو نومبر ۱۹۴۷ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے تقسیم فلسطین کے فیصلہ کا اعلان ہوا۸۶اور ۱۵/ مئی ۱۹۴۸ء کو اسرائیل حکومت قائم ہو گئی اور ہر طرف قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا۔ جہاں ہزاروں بے گناہ عرب مارے گئے اور لاکھوں بے خانماں ہوئے حیفا اور کیا بیر باقی ملک سے کٹ گیا اور متعدد احمدی جماعتیں ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئیں۸۷۔
ابھی تقسیم فلسطین کا آخری فیصلہ ہوا تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے شیخ نور احمد صاحب منیر اور مولوی رشید احمد صاحب چغتائی بالترتیب ۱۳/ اکتوبر ۱۹۴۵ء اور ۲۳/ اکتوبر ۱۹۴۶ء کو بلاد عربیہ میں تبلیغ کے لئے فلسطین روانہ ہوئے۔
شیخ نور احمد صاحب منیر چند ماہ فلسطین میں فریضہ تبلیغ ادا کرنے کے بعد ۱۷/ ستمبر ۱۹۴۶ء کو شام میں آگئے۔ اور جماعت احمدیہ شام کو بیدار کرنے کے علاوہ اس ملک کے اونچے طبقہ تک پیغام احمدیت پہنچایا اور ملکی پریس کے ذریعہ عوامی حلقوں کو بھی جماعت احمدیہ کی سرگرمیوں سے روشناس کرایا۔ پھر آپ ہی کے دوران قیام میں فلسطینی احمدی نہایت بے سرو سامانی سے دمشق میں پناہ گزین ہوئے جن کی آباد کاری کا انتظام بھی آپ نے السید منیر الحصنی صاحب سے مل کر کیا۔ اس سلسلہ میں جماعت احمدیہ دمشق نے بہت اخلاص اور ہمدردی کا نمونہ دکھایا اور احمدی مہاجرین کی خصوصاً اور دوسرے مہاجرین کی عموماً ہر ممکن امداد کی۔ آپ ۱۷/ دسمبر ۱۹۴۹ء کو واپس مرکز (ربوہ) میں آگئے۸۸۔
مولوی رشید احمد صاحب چغتائی کے فلسطین میں پہنچنے کے ایک سال بعد چونکہ فلسطین کی صورت حال بہت زیادہ نازک ہو گئی تھی اس لئے چوہدری محمد شریف صاحب نے انہیں ۳/ مارچ ۱۹۴۸ء کو شرق اردن میں نیا مشن قائم کرنے کے لئے بھجوا دیا۔ جہاں آپ ۱۷/ جولائی ۱۹۴۹ء تک تبلیغی فرائض ادا کرنے کے بعد دمشق میں آگئے اور کچھ عرصہ کام کرنے کے بعد لبنان مشن کی بنیاد رکھی اور ۲۲/ دسمبر ۱۹۵۱ء کو مرکز (ربوہ) میں پہنچے۸۹۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے چوہدری محمد شریف صاحب مبلغ انچارج کے اس بروقت اقدام کی تعریف کرتے اور السید منیر الحصنی اور شیخ نور احمد صاحب منیر کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
’’مشرقی پنجاب پر جیسے تباہی آئی ویسے ہی یہودیوں کے حملہ کی وجہ سے فلسطین پر آئی ہے اور خطرناک جگہ وہی تھی جہاں ہماری جماعت تھی۔ حیفا کی جماعت کا کچھ حصہ فسادات سے پہلے ہی دمشق چلا گیا تھا۔ باقیوں کے متعلق کوئی اطلاع نہیں آئی۔ چوہدری محمد شریف صاحب نے جو وہاں کے مشنری انچارج تھے وقت کی نزاکت سمجھتے ہوئے بڑی ہوشیاری سے کام کیا اور اپنا ایک مبلغ شرق اردن بھجوا دیا اور اسے ہدایت کی کہ پتہ نہیں ہمارا کیا حال ہو تم وہاں جا کر نیا مرکز بنانے کی کوشش کرو۔ گویا انہوں نے وہی تدبیر اختیار کی جو ہم نے قادیان سے نکلنے کے وقت اختیار کی تھی اور اپنا ایک ساتھی شرق اردن میں بھجوا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ شام میں کسی وقت ہمارے مبلغ گئے تھے لیکن کافی عرصہ سے یہ میدان خالی پڑا تھا۔ تحریک جدید کے ماتحت شیخ نور احمد صاحب کو وہاں بھیجا گیا ان کے ذریعہ جماعت میں ایک خاص بیداری پیدا ہو رہی ہے وہاں کے دوست منیر الحصنی صاحب مقامی احمدی ہیں جو کہ نہایت ہی مخلص اور اچھے تعلیم یافتہ ہیں۔ انہوں نے یورپ میں فرانس وغیرہ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ آسودہ حال اور تاجر ہیں ان کے چھوٹے بھائی دمشق کے سب سے بڑے تاجر ہیں اور ان کے ایک بھائی کی قاہرہ (مصر) میں ایک بڑی دکان ہے ان کے خاندان کے سب افراد احمدی ہو گئے ہیں اور بہت مخلص اور قربانی کرنے والے لوگ ہیں۔ ہمارے مبلغ کے وہاں جانے کی وجہ سے اور برادرم منیر الحصنی صاحب کے قادیان میں رہ جانے کی وجہ سے وہاں کی جماعت میں ایک خاص احساس اور بیداری پیدا ہو چکی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا اثر پیدا ہوا ہے‘‘۹۰۔
چوہدری محمد شریف صاحب فاضل نے اپنے زمانہ قیام فلسطین میں مندرجہ ذیل اہم خدمات انجام دیں۔
۱۔
احمدیہ پریس (کبابیر) متروک الاستعمال اور مقفل ہو چکا ہے۔ جسے آپ نے نومبر ۱۹۳۸ء میں درست کرا کے اسی سے رسالہ (البشریٰ) شائع کرنا شروع کیا۔ جو آپ کے زمانہ قیام تک باقاعدگی سے آپ کی ادارت میں نکلتا رہا۔
۲۔
احمدیہ پریس اور احمدیہ کتب خانہ عارضی طور پر بنائے گئے تھے جو آپ نے از سر نو پختہ تعمیر کرائے۹۱۔
۳۔
مدرسہ احمدیہ کبابیر کو ترقی دی۔
۴۔
حضور علیہ السلام کی مندرجہ ذیل کتابیں شائع کیں۔ ’’تحفہ بغداد‘‘۔ ’’حمامتہ البشری‘‘۔ ’’نجم الہدیٰ‘‘۔ ’’لجتہ النور‘‘۔ ’’حقیقتہ المہدی‘‘۔ ’’مکتوب احمد الیٰ علماء الہند و غیرھا من البلاد الاسلامیہ‘‘۔ (عربی حصہ ’’انجام آتھم)‘‘ ’’الہدیٰ و التبصرۃ لمن یرسیٰ‘‘۔
۵۔
حضرت مسیح موعودؑ اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی مندرجہ ذیل اردو کتب کے تراجم شائع کئے۔ ’’تجلیات الٰہیہ‘‘۔ ’’لیکچر سیالکوٹ‘‘۔ ’’الوصیت‘‘۔ ’’تحفہ شہزادہ ویلز‘‘۔ ’’نظام نو‘‘۔ ’’اسلام اور دیگر مذاہب‘‘۔ (موخر الذکر دو کتابوں کے مترجم جماعت احمدیہ مصر کے پریذیڈنٹ الاستاذ بسیونی ہیں)
۶۔
مندرجہ ذیل تالیفات کرکے شائع کیں۔ ’’التاویل الصحیح لنزول المسیح‘‘۔ ’’اسئلہ و اجوبہ‘‘۔ (آخری حصہ) ’’کشف الغطاء عن وجہ شریعہ البھاء‘‘۔ ’’محمد رسول اللہ خاتم النبین و مفتی الدیار المصریہ‘‘۔ ’’نداء المنادی‘‘۔ (چار حصے) ان کے علاوہ بڑی تعداد میں عربی اور عبرانی تبلیغی ٹریکٹ شائع کئے۔
۷۔
حیفا کی اسلامی لاء کورٹ نے احمدیوں کی نکاح خوانی سے انکار کر دیا تھا۔ آپ نے یہ معاملہ المجلس الاسلامی الاعلیٰ (بیت المقدس) تک پہنچایا۔ جس نے تمام عدالتوں کو ہدایت جاری کی کہ جماعت احمدیہ مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے۔
۸۔
آپ نے جنوری ۱۹۴۷ء میں پیٹری آرک آف انطاکیہ کو خصوصاً اور فلسطین و شام کے پیٹری آرکوں اور بشپوں کو عموماً چیلنج دیا کہ وہ بیت المقدس میں اسلام اور عیسائیت کے درمیان اختلافی مسائل کی نسبت تقریری اور تحریری مناظرہ کر لیں۔ یہ چیلنج عراق‘مصر‘شام‘لبنان وغیرہ کے اخبارات میں شائع ہوا۔ مگر انہیں میدان مقابلہ میں آنے کی جرات نہ ہو سکی۹۲۔
۹۔
بہائیوں کے لیڈر شوقی آفندی پر بھی اتمام حجت کیا۹۳۔
۱۰۔
مصر‘شام‘اردن لبنان اور عراق کے دورے کئے۔ آپ کے ذریعہ جہاں بلاد عربیہ کی پہلی احمدیہ جماعتوں میں اضافہ ہوا۔ وہاں سوڈان‘حبشہ۹۴‘عدن‘کویت‘بحرین اور شمالی افریقہ میں نئی جماعتیں قائم ہوئیں۔
آپ کی واپسی۹۵ پر صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ماتحت فلسطین مشن میں مولوی جلال الدین صاحب قمر انچارج مبلغ مقرر ہوئے جو آج (یعنی دسمبر ۱۹۶۴ء) تک فریضہ تبلیغ ادا کر رہے ہیں۔
شام و فلسطین سے شائع ہونے والے لٹریچر کا گو مفصل ذکر کیا جا چکا ہے مگر اسے مکمل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیونکہ اس دارالتبلیغ کی اور بھی کئی مطبوعات ہین مثلاً الکفر ملہ واحدہ (ٹریکٹ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی) ’’دعوہ الاحمدیہ و غرضھا‘‘۔ ’’(احمدیت کا پیغام‘‘۔ تالیف حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ترجمہ) ’’المودودی فی المیزان‘‘۔ (قادیانی مسئلہ کے جواب کا عربی ترجمہ (از السید منیر الحصنی صاحب)
دارالتبلیغ شام و فلسطین کے حالات بیان کرنے کے بعد ہم بالاخر سلسلہ احمدیہ کی مساعی کے سلسلہ میں بلاد عربیہ کے چند فضلا و ادباء کے افکار و آراء درج کرنا چاہتے ہیں۔
۱۔
رسالہ ’’التمدن الاسلامی‘‘ (دمشق) الجزء السابع ۱۳۵۷ھ نے لکھا:۔
’’اسلام کی طرف منسوب ہونے والے تمام فرقوں میں سے صرف قادیانی فرقہ ہی زندہ اور بیدار فرقہ ہے اس فرقہ کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ نہیں لیکن اس کے یورپ اور مشرق میں پھیلے ہوئے تبلیغی مشن مساجد اور مدارس دیکھنے سے آپ کو یقین ہو جائے گا کہ سچا اور مخلص مومن کون ہے اور کاذب کون‘‘؟ (ترجمہ۹۶)
۲۔
رسالہ ’’العرفان‘‘ (لبنان) (بابت ذوالقعدہ و ذوالحجہ ۱۳۵۸ھ) نے ۱۹۳۹ء میں لکھا۔ ’’تبلیغ و اشاعت اسلام سے متعلق جماعت احمدیہ کی جدوجہد کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ اعلائے کلمہ اسلام کا عظیم الشان کام کر رہی ہے‘‘۔ (ترجمہ۹۷)
۳۔
احمد درویش زقزق شام نے ۱۹۴۲ء میں احمدیہ مبلغین کی تبلیغی مساعی کے بارے میں لکھا۔ ’’خدا کا ہزار ہزار شکر ہے کہ میں موجودہ زمانہ میں وہ پہلوان پاتا ہوں جو اسلامی شریعت کے احیاء کے لئے کمربستہ ہیں اور محمد~صل۱~ کے لائے ہوئے دین کی نصرت کر رہے ہیں‘‘۔ (ترجمہ۹۸)
۴۔
الصراط المستقیم نمبر ۲۶ (بغداد) نے لکھا۔ ’’مسلمانان عالم آج تک کسی یورپین زبان میں ایک اخبار بھی جو دین اسلام کے حقائق بیان ¶کرے شائع نہیں کر سکے۔ انہیں آج تک یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ یورپ کے کسی شہر میں مسجد یا مشن کی بنیاد رکھیں۔ لیکن قادیانی احمدیوں نے امریکہ اور یورپ میں بہت سی مساجد تعمیر کی ہیں ان ممالک میں ان کے کئی مشن ہیں انگریزی اور دیگر کئی زبانوں میں ان کے اخبارات بھی جاری ہیں‘‘۔ (ترجمہ۹۹)
۵۔
اخبار ’’آخر دقیقہ‘‘ دمشق (بابت ۱۸/ ربیع الاول ۱۳۶۶ھ) نے لکھا کہ ’’احمدیوں کی نسبت سب کو معلوم ہے کہ وہ دنیا بھر میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں احمدی ہمیشہ مذہبی گفتگو کرنے کے لئے تیار اور مخالفین اسلام کو ساکت کرنے اور ان کے شکوک و شبہات کا ازالہ کرنے کو کمربستہ رہتے ہیں‘‘۔ (ترجمہ۱۰۰)
۶۔
اخبار ’’الجزیرۃ‘‘ عمان (اردن) مورخہ ۱۲/ جون ۱۹۴۹ء لکھتا ہے۔
’’ہم اس بات کا اعتراف کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے مبلغین بڑی ہمت اور تندہی سے اپنا کام کرتے ہیں اور اسلام کے پھیلانے کے لئے بہت جدوجہد کر رہے ہیں۔ افریقہ کے غیر آباد علاقوں اور وسط افریقہ اور امریکہ میں تو ان کی یہ کوششیں اور بھی زیادہ ہیں‘‘۔ (ترجمہ۱۰۱)
۷۔
رسالہ ’’ھا فوعیل ھا تصعیر‘‘ ’’تل ابیب‘‘ نے ۲۵/ مارچ ۱۹۵۳ء کو لکھا۔
’’لا شک ان للاحمدیہ فی تاریخ الاسلام فضل۱۰۲‘‘۔ یعنی بلاشبہ تحریک احمدیت کو تاریخ اسلام میں خصوصی مقام حاصل ہے۔
۸۔
الحاج عبدالوہاب عسکری (بغداد کے صحافی) لکھتے ہیں۔
’’جماعت احمدیہ نے دین اسلام کی جو خدمات سرانجام دی ہیں۔ ان میں تبلیغی لحاظ سے وہ ساری دنیا پر فوقیت حاصل کر چکے ہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ لوگ اعلائے کلمتہ الدین کے لئے ہر قسم کے ممکن ذرائع اختیار کرتے ہیں اور ان کے بڑے بڑے کارناموں میں سے محکمہ تبشیر ایک بہت بڑا کارنامہ ہے نیز وہ مسجدیں ہیں جو انہوں نے امریکہ افریقہ اور یورپ کے مختلف شہروں میں بنائی ہیں اور یہی وہ سنت ناطقہ ہے جس کو لے کر وہ کھڑے ہوئے ہیں اور اسی کے ذریعہ اسلامی خدمات بجا لا رہے ہیں۔ بلاشبہ جماعت احمدیہ کے ہاتھوں اسلام کا مستقبل اب روشن ہو گیا ہے‘‘۔ (ترجمہ۱۰۳)
معارف قرآنیہ میں مقابلہ کا چیلنج
‏]txte [tagقادیان میں اس سال غیر احمدی مسلمانوں کا سالانہ جلسہ ہوا۔ جس میں ایک دیوبندی عالم نے اپنی تقریر میں کہا ہمیں معلوم نہیں کہ وہ معارف قرآنیہ کیا ہیں جو مرزا صاحب نے قرآن مجید سے استنباط کئے ہیں۱۰۴۔ اس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جولائی ۱۹۲۵ء میں علمائے دیوبند کو چیلنج دیا کہ ’’میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کا ادنیٰ خادم ہوں میرے مقابلہ پر مولوی صاحبان آئیں اور قرآن کریم کے تین رکوع کسی جگہ سے قرعہ ڈال کر انتخاب کر لیں اور وہ تین دن تک اس ٹکڑے کی ایسی تفسیر لکھیں جس میں چند ایسے نکات ضرور ہوں جو پہلی کتب میں موجود نہ ہوں اور میں بھی اسی ٹکڑے کی اسی عرصہ میں تفسیر لکھوں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کی روشنی میں اس کی تشریح بیان کروں گا اور کم سے کم چند ایسے معارف بیان کروں گا جو اس سے پہلے کسی مفسر یا مصنف نے نہ لکھے ہوں گے اور پھر دنیا خود دیکھ لے گی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی کیا خدمت کی ہے۔ اور مولوی صاحبان کو قرآن کریم اور اس کے نازل کرنے والے سے کیا تعلق ۔۔۔۔۔۔ ہے‘‘۱۰۵4] ftr[۔
دیوبندی علماء نے دعوت مقابلہ قبول کرنے کی بجائے لکھا کہ ’’صاحبزادہ صاحب! آپ کو دین و ایمان اسلام و قرآن معارف الٰہیہ اور حقائق و عرفان سے کیا تعلق۔ آپ تو آپ آپ کے تو ابا جان بھی ان تمام باتوں سے محروم تھے‘‘۱۰۶۔ مگر مولوی ثناء اللہ صاحب نے ’’اہلحدیث‘‘ (۲۱/ اگست ۱۹۲۵ء) میں بظاہر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا۔
’’گو ہماری اس میں ہتک ہے کہ ہم ایک ایسے شخص کے سامنے بیٹھیں جو نہ علوم ظاہری کے عالم ہیں نہ کسی باطنی درجہ کے مدعی ۔۔۔۔۔۔۔ تاہم ۔۔۔۔۔۔۔ بلاتکلف ہم کو یہ صورت منظور ہے پس آپ اسی میدان میں تشریف لے آئیے جس میں مرزا صاحب نے امرتسر میں مباہلہ کیا تھا‘‘۱۰۷۔
قادیان سے جواب دیا گیا کہ تفسیر نویسی کے مقابلہ کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے قادیان سے باہر تشریف لے جانے کی اس لئے ضرورت نہیں کہ مناسب انتظام کے ساتھ اپنی اپنی جگہ بیٹھے بھی یہ مقابلہ ہو سکتا ہے امرتسر میں قرعہ اندازی ہو اور ہر دو جانب سے قرعہ سے منتخب ہونے والے تین رکوع کی تفسیر لکھیں اور پھر یہ دونوں تفسیریں مساوی خرچ پر یکجا شائع کر دی جائیں۔ ہاں اگر مولوی ثناء اللہ صاحب بالمشافہ تفسیر نویسی ضروری سمجھتے ہیں تو وہ قادیان تشریف لے آئیں ان کے تمام مناسب اخراجات ہم ادا کریں گے اور ہر قسم کی جانی اور مالی حفاظت کی ذمہ داری ہم پر ہو گی۱۰۸۔
جناب مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری نے مقابلہ کی کوئی صورت بھی قبول نہ کی۔ البتہ ایک عرصہ بعد دیوبندی اصحاب کے ساکت رہ جانے کا اعتراف کرتے ہوئے یہ ضرور لکھا کہ۔
’’ماہ جولائی ۱۹۲۵ء میں قادیان سے دیوبندی علماء کے لئے تفسیر نویسی کا چیلنج شائع ہوا۔ دیو بندیوں کے ساکت رہنے پر میں سینہ ٹھونک کر میدان میں آنکلا کہ میں دیوبندی ہوں۔ مجھ سے مقابلہ کر لو‘‘۱۰۹۔
’’آل مسلم پارٹیز کانفرنس پر ایک نظر‘‘
۱۶۔ ۱۷/ جولائی ۱۹۲۵ء کو امرتسر میں ایک آل مسلم پارٹیز کانفرنس نواب اسمعیل خان صاحب بیرسٹر (ممبر لیجلیٹو اسمبلی) کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ جس میں مسلمانان ہند کے کئی سیاسی لیڈر مثلاً مولوی محمد علی صاحب جوہر‘مولوی شوکت علی صاحب‘مولوی عبدالباری صاحب‘سید غلام بھیک صاحب اور خلیفہ شجاع الدین صاحب نے شرکت کی۱۱۰۔
کانفرنس کے منتظمین کی طرف سے حضور کی خدمت میں دعوت شرکت موصول ہوئی جس پر حضور نے ’’آل مسلم پارٹیز کانفرنس پر ایک نظر‘‘ کے نام سے ایک ٹریکٹ لکھا۔
کانفرنس کے ایجنڈا میں مندرجہ ذیل اہم مسائل درج ہیں۔ (۱) ملک میں تبلیغی نظام کا قیام۔ (۲) تنظیم مسلمانان ہند (۳) مسلم بنک (۴) قیام بیت المال (۵) اصلاح رسوم و بدعات و رفع تنازعات (۶) تحفظ مساجد و اوقاف و قیام مکاتب (۷) ہندو مسلم مناقشات (۸) سیاست ہند سے متعلق مسلمانوں کا رویہ (۹) مسلمانوں کی تعلیم و تجارت و صنعت و حرفت کی ترقی کا مسئلہ۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ٹریکٹ کے آغاز میں مسلمان کی سیاسی اور مذہبی تعریف کی ضرورت و اہمیت واضح کرنے کے بعد ہر ایک مسئلہ کا حل پیش فرمایا۔ اور مسلمان لیڈروں کو مندرجہ ذیل نکات کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی۔
۱۔
ہم حکومت سے صحیح تعاون کرکے جس قدر جلد حکومت پر قابض ہو سکتے ہیں۔ عدم تعاون سے نہیں۱۱۱
۲۔
مسلمانوں کو اپنا مطالبہ حق نیابت اور اپنے دوسرے ضروری مطالبات نہایت درجہ مدلل و معقول صورت میں پیش کرنے چاہئیں تا انگلستان کی رائے عامہ ان کے حق میں ہو جائے۔
۳۔
مسلمان دینی تعلیم کی طرف خاص توجہ دیں۔ اسلامی تمدن پر تاریخی کتابیں لکھی جائیں اور اس سلسلہ میں تعلیم نسواں پر خاص طور پر زور دیا جائے۔
۴۔
مسلمان اپنے بچوں کو مغربی تمدن سے آزاد کرائیں۔ کیونکہ تمدنی غلطی سیاسی غلامی سے بھی بہت بڑھ کر ہے۔
۵۔
مسلمانوں کی تجارتی ترقی کے لئے ’’مسلم چیمبر آف کامرس‘‘ اور ’’بورڈ آف انڈسٹریز‘‘۔ قائم کئے جائیں۱۱۲
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنا یہ ٹریکٹ دے کر میر محمد اسحاق صاحب مفتی محمد صادق صاحب‘ذوالفقار علی خان صاحب‘چوہدری فتح محمد صاحب سیال‘حافظ روشن علی صاحب‘چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور شیخ عبدالرحمن صاحب مصری۱۱۳ کو امرتسر بھجوایا۔ ان اصحاب نے یہ ٹریکٹ کانفرنس میں تقسیم کیا۱۱۴۔ جو بہت دلچسپی سے پڑھا گیا۔ اس موقعہ پر علمائے دیوبند‘جمعیتہ العلماء اور امرتسری علماء۱۱۵ نے کانفرنس میں احمدیوں کی شرکت پر سخت مخالفت کی۔ اور مسجد جامع خیر الدین میں تقریریں کیں اشتہار دیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے پیرو کافر ہیں۔ اس لئے اگر وہ کانفرنس میں شامل ہوں گے تو ہم کانفرنس کا بائیکاٹ کریں گے۱۱۶۔ لیکن ان کی یہ جدوجہد کامیاب نہ ہوئی اور احمدی وفد نے کانفرنس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اس کے ارکان سبجیکٹ کمیٹی کے ممبر بھی منتخب کر لئے گئے۱۱۷۔
علماء کی روش پر مولوی محمد بشیر الدین صاحب ایڈیٹر اخبار ’’البشیر‘‘ (اٹاوہ۔ یو۔ پی) نے اظہار افسوس کرتے ہوئے لکھا۔
’’اس اجلاس کی مخالفت جمعیتہ العلماء اور علماء دیوبند کی جانب سے اس بنیاد پر ہوئی کہ چونکہ قادیانی مسلمان نہیں ہیں۔ لہذا اگر ان کو آل مسلم پارٹیز کانفرنس میں شریک کیا جاوے گا تو ہم اس کانفرنس میں شریک نہ ہوں گے اپنی عدم شرکت پر ان اصحاب نے اکتفاء نہیں کیا بلکہ شہر امرتسر میں بہ زمانہ کانفرنس بڑے بڑے پوسٹر لگائے گئے۔ جن میں دوسرے مسلمانوں کو بھی شرکت کانفرنس سے باز رکھنے کی کوشش کی گئی۔ خواہ قادیانی جماعت کی نسبت ہمارے کچھ بھی خیال ہوں۔ اور اگرچہ ہم اس کو پسند نہیں کرتے کہ مسلمانوں کا کوئی فرقہ مذہبی حیثیت سے دوسرے فرقہ کو کافر سمجھے لیکن آل مسلم پارٹیز کانفرنس کا مقصد زیادہ تر سیاسی یا مسلمانوں کی قوم کی اندرونی اصلاح اور وسائل معاش پر فکر کرنا تھا لہذا محض اختلافی مسائل مذہبی کی بنیاد پر مسلمانوں کو کسی جماعت کو کافر سمجھ کر اس امر پر اصرار کرنا کہ اگر فلاں جماعت کے اصحاب اس میں شریک ہوں گے تو ہم اس میں شریک نہ ہوں گے نہایت تنگ نظری اور کوتہ اندیشی کی دلیل ہے اور ہم کو افسوس ہے کہ باوجودیکہ زمانہ مسلمانوں کو تھپڑا رہا ہے اور ہندوستان میں بلا خیال سنی و شیعہ و مقلد و غیر مقلد‘دیوبندی اور بریلوی یا قادیانی کے تمام ان لوگوں کے لئے جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے لیکن بدقسمتی سے ہماری قوم کے علماء آج بھی انہیں خیالات میں مبتلا ہیں جو پچاس سال قبل تھے‘‘۱۱۸۔
‏rov.5.35
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا بارھواں سال
چھٹا باب (فصل سوم)
دارالتبلیغ سماٹر اوجاوا کا قیام
۱۹۲۵ء میں سلسلہ احمدیہ کا ایک اور بیرونی مشن جزائر شرق الہند (یعنی انڈونیشیا۱۱۹) کے جزیرہ سماٹرا میں قائم کیا گیا۔ اس دارالتبلیغ کی داغ بیل اتفاقاً پڑی جس کی تفصیل یہ ہے کہ ان جزائر میں سے تین نوجوان مولوی ابوبکر ایوب صاحب‘مولوی احمد نور الدین صاحب اور مولوی زینی دحلان صاحب حصول علم دین کے لئے لکھنئو پہنچے اور وہاں ایک عالم سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی جہاں ان لوگوں نے دیکھا کہ ان کا استاد اپنے کسی استاد یا پیر کی قبر پر سجدہ کر رہا ہے یہ نظارہ دیکھ کر چاروں لکھنئو سے لاہور آگئے اور چند ماہ تک احمدیہ بلڈنگس میں قیام کیا۔ مگر ان کی تعلیم کا کوئی تسلی بخش انتظام نہ ہو سکا۔ اسی اثناء میں انہیں یہ معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خاندان قادیان میں مقیم ہے۱۲۰۔ چنانچہ یہ تینوں اصحاب اگست ۱۹۲۳ء میں قادیان تشریف لے گئے اور حضور کی خدمت میں حاضر ہو کر بتایا کہ ہم دینی تعلیم کے لئے آئے تھے۔ مگر ہمارا کوئی معقول انتظام نہیں کیا گیا۔ حضور نے فرمایا میں دینی تعلیم کا انتظام کر سکتا ہوں مگر شرط یہ ہو گی کہ آپ چھ ماہ تک صرف اردو زبان پڑھیں چنانچہ انہوں نے پہلے اردو سیکھی اور پھر دینیات کی تعلیم حاصل کرنے لگے۱۲۱۔ اور جلد ہی احمدیت میں داخل ہو گئے۱۲۲4] ft[r۔ کچھ عرصہ بعد ان کی مساعی سے کئی اور سماٹری اور جاوی طلباء قادیان میں پہنچ گئے۔ ساتھ ہی ان لوگوں نے اپنے رشتہ داروں سے تبلیغی خط وکتابت شروع کی۔ جس کے نتیجہ میں بعض لوگ تو حضرت مسیح موعودؑ پر اسی عرصہ میں ایمان لے آئے بعض مستعد ہو گئے اور بعض نے مخالفت کا رنگ اختیار کیا اور بحث شروع کر دی۔ ان حالات نے ان طلبہ کو تبلیغ کی طرف اور بھی متوجہ کر دیا۱۲۳۔
چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ جب سفر یورپ سے واپس تشریف لائے تو انہوں نے ۲۹/ نومبر ۱۹۲۴ء کو حضور کے اعزاز میں ایک دعوت دی اور مخلصانہ ایڈریس پیش کرکے استدعا کی۱۲۴ کہ حضور مغرب کی طرف تشریف لے گئے ہیں اب از راہ شفقت مشرق کی طرف بھی تشریف لے چلیں حضور نے وعدہ فرمایا کہ انشاء اللہ میں خود یا میرا کوئی نمائندہ آپ کے ملک میں جائے گا۱۲۵۔
چنانچہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جزائر شرق الہند کے لئے مولوی رحمت علی صاحب فاضل کو پہلا مبلغ احمدیت مقرر فرمایا۔ قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی مشہور کتاب ’’سلسلہ احمدیہ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’اس مہم کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح کی مردم شناس آنکھ نے مولوی رحمت علی صاحب کو منتخب کیا۔ مولوی صاحب مولوی فاضل تھے۔ مگر سادہ مزاج رکھتے تھے اور بعض حلقوں میں خیال کیا جاتا تھا کہ شاید وہ اس نازک کام میں کامیاب نہ ہو سکیں مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے اور حضرت خلیفتہ المسیح کی روحانی توجہ کے طفیل اس مشن نے حیرت انگیز رنگ میں ترقی کی اور بعض لحاظ سے دوسرے سب مشنوں کو مات کر گیا‘‘۱۲۶۔
مولوی رحمت علی صاحب ۱۷/ اگست ۱۹۲۵ء کو قادیان سے روانہ ہوئے۱۲۷۔ حضور نے آپ کو رخصت کرتے ہوئے کئی نصیحتیں فرمائیں۔ مثلاً علم کا گھمنڈ رکھنے والوں اور علماء سے خلوت میں گفتگو کریں۔ تبلیغ کا کام بتدریج ہو۔ جہاں جہاں جماعتیں قائم ہوں وہاں انجمن بھی قائم کریں اور انجمن کو باقاعدہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے احمدیوں میں تبلیغ کی عادت بھی پیدا کریں اور عمدہ نمونہ بنیں۔ تا لوگ احمدیت کی حقیقت سمجھ سکیں۱۲۸۔
مولوی رحمت علی صاحب احمدیت کا پیغام لے کر ستمبر ۱۹۲۵ء میں اس ملک میں پہنچے اور سب سے پہلے سماٹرا کے قصبہ ’’تاپک توان‘‘ میں فروری ۱۹۲۷ء تک قیام کیا۔ اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے وہاں ایک جماعت پیدا کر دی۔ ’’تاپک توان‘‘ میں احمدیت کا بیج بو دینے کے بعد آپ مارچ ۱۹۲۷ء میں پاڈانگ گئے۱۲۹۔ اور وہاں اپنا مرکز قائم کرکے ایک رسالہ ’’اقبال‘‘ نامی جاری کیا۱۳۰۔ اور پبلک لیکچروں‘اخبارات اور انفرادی ملاقاتوں سے عوام اور حکومت دونوں حلقوں میں تبلیغ شروع کر دی۔
علماء نے احمدیت کا اثر و نفوذ دیکھا تو وہ متفقہ طور پر آپ کو ملک سے نکالنے کی کوشش کرنے لگے۔ لیکن حکام نے مذہبی معاملات میں دست اندازی کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی دوارن میں قادیان سے حاجی محمود احمد صاحب بھی علم دین حاصل کرکے پہنچ گئے اور آپ کا ہاتھ بٹانے لگے۔ مسلمانوں میں تبلیغ کے علاوہ عیسائیت کے خلاف بھی محاذ قائم کیا گیا اور عیسائی پادریوں سے متعدد مذاکرات و مباحثات ہوئے۔
دسمبر ۱۹۲۷ء کے آخر میں پاڈانگ میں غیر احمدی علماء سے آپ کا ایک عظیم الشان مباحثہ ہوا یہ مناظرہ مولوی رحمت علی صاحب کے الفاظ میں احمدیت کی حیات و موت اور ترقی و تنزل کا سوال تھا۔ بڑے بڑے علماء‘مشائخ ایڈیٹر اور عہدیدار ان حکومت اس میں موجود تھے۔ علماء کو مناظرہ میں سخت ناکامی اٹھانا پڑی اور تحقیق پسند طبائع پر سلسلہ کی حقانیت کھل گئی۔ اور گو اس کے نتیجہ میں ایک کثیر طبقہ احمدیت کا دل سے قائل ہو گیا۔ مگر علماء کی سختیوں کی وجہ سے علی الاعلان صداقت کا اظہار نہ کر سکا۱۳۱۔ تاہم احمدیت میں ان کے داخلہ کی رفتار پہلے سے تیز ہو گئی۔ اور ’’تاپک تو ان‘‘ اور پاڈانگ کے بعد ڈوکو میں بھی جماعت قائم ہو گئی۔ اور تبلیغ کو مزید وسعت دینے کے لئے مئی ۱۹۲۸ء میں کرائے کے ایک مکان میں باقاعدہ مشن ہائوس قائم کر دیا گیا۱۳۲ اس وقت تک جماعت سماٹرا میں ہی قائم ہوئی تھیں اور جاوا کا جزیرہ خالی پڑا تھا۔ مگر ۳۰۔ ۱۹۲۹ء میں سماٹرا کے ایک احمدی ابوبکر بگنڈو مہارا جو تجارتی کاروبار کے سلسلہ میں وہاں گئے اور جاوا میں بھی ایک مختصر جماعت پیدا ہو گئی۔
چار سال کی محنت شاقہ کے بعد مولوی رحمت علی صاحب مرکز کی ہدایت پر ۱۹/ اکتوبر ۱۹۲۹ء کو۱۳۳ واپس تشریف لائے آپ کے ساتھ ابوبکر صاحب (پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ پاڈانگ) اور ایک معزز دوست ڈمنگ داتو پوتی بھی تھے۔ مولوی رحمت علی صاحب حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے دوبارہ ۶/ نومبر ۱۹۳۰ء کو روانہ ہوئے۔ آپ کے ہمراہ مولوی محمد صادق صاحب بھی تھے۔ جنہیں حضور نے سماٹرا کی تبلیغ کے لئے منتخب فرمایا تھا۔ یہ دونوں مبلغ ۲/ دسمبر ۱۹۳۰ء کو پاڈانگ پہنچے۔ جہاں مولوی رحمت علی صاحب کچھ عرصہ مولوی محمد صادق صاحب کے ساتھ رہنے کے بعد اپریل ۱۹۳۱ء میں جاوا روانہ ہو گئے۱۳۴۔ اور وہاں نئے دارالتبلیغ کی بنیاد رکھی۔ جاوا میں آپ کے رستہ میں بہت مشکلات تھیں۔ مگر آپ نے استقلال سے مقابلہ کیا اور پہلے سال چپو‘بٹاوی (جاکرتا) اور بوگور میں جماعتیں قائم ہو گئیں۱۳۵۔ اور آپ کا مرکز بٹاوی میں تھا۔
جنوری ۱۹۳۵ء میں مولوی رحمت علی صاحب گارت اور تسکملایا کے شہروں میں گئے اور مختلف انجمنوں میں تقریریں کرنے کے علاوہ عیسائیوں سے مباحثے کئے اس سے پہلے عام مسلمان عیسائیوں کے اعتراضات سے سخت پریشان تھے۔ لیکن اب جو انہوں نے دیکھا کہ عیسائی احمدی مبلغ کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔ تو انہوں نے مولوی صاحب کو بہت مبارکباد دی۔ مگر علماء نے مخالفت شروع کر دی اور عوام کو بھڑکایا کہ یہ لوگ مسلمان نہیں مگر یہی مخالفت بعض سعید روحوں کو احمدیت میں لانے کا موجب بن گئی۱۳۶۔
مولوی رحمت علی صاحب جاوا جانے سے پہلے جو تبلیغی میدان قائم کر چکے تھے اسے مولوی محمد صادق صاحب نے اور وسیع کرنے کی طرف توجہ دی۔ چنانچہ آپ نے پاڈانگ میں ایک پندرہ روزہ اخبار ’’اسلام‘‘ (مولوی احمد نور الدین صاحب سماٹری کی ادارت میں) نامی جاری کیا۔ جو بعد کو ماہنامہ میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس رسالہ کے اجراء پر عیسائی اخبارات احمدیت کے مقابلہ میں آگئے۔ اس کے علاوہ عیسائیوں سے عام خط و کتابت کے ذریعہ بھی بحث ہونے لگی۱۳۷۔ مئی ۱۹۳۴ء میں آپ نے سماٹرا کے دارالحکومت ’’میڈان‘‘ میں جا کر کام شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصہ میں ایک جماعت قائم ہو گئی۔
۳۵۔ ۱۹۳۴ء کا زمانہ تاپوتوان اور لہوسوکن کی جماعت کے لئے بھاری ابتلا کا زمانہ تھا کیونکہ اس میں جماعت کو تبلیغ بلکہ باقاعدہ نماز کی ادائیگی سے روک دیا گیا۔ اسی طرح لہوسوکن کی جماعت کو وہاں کے راجہ نے اپنے مظالم کا تختہ مشق بنایا4] f[st۱۳۸۔ تاہم حق و صداقت کی اشاعت کا سلسلہ خطوط و مضامین‘اشتہارات و اخبارات اور مستقل کتابوں کی تصنیف کے ذریعہ بھی جاری رہا اور مباحثات کے ذریعہ بھی چنانچہ پاڈانگ میں ایک اور میڈان میں تین نہایت کامیاب مناظرے ہوئے پہلا مناظرہ مولوی محمد صادق صاحب نے پاڈانگ میں ایک عیسائی سے کیا۔ جس نے دلائل سے عاجز آکر مولوی صاحب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ شخص جنون کو استعمال کرتا ہے‘‘۔ دوسرا مباحثہ مولوی ابوبکر ایوب سماٹری کا ایک عرب فاضل سے ہوا۔ میڈان میں یہ پہلا مذہبی مناظرہ تھا جس میں خدا کے فضل سے اس قدر کامیابی ہوئی کہ غیر احمدی اخباروں نے بھی احمدیت کی فتح کا کھلا کھلا اقرار کیا۔ تیسرا اور چوتھا مباحثہ مولوی صادق صاحب اور مولوی ابوبکر ایوب صاحب نے ایک مجلس شرعی کے صدر سے کیا۔ ان کے علاوہ انہی دنوں چھ اور مناظروں میں بھی اللہ تعالیٰ نے کامیابی بخشی اور غیر احمدی علماء جو پہلے احمدیت کی مخالفت میں پوری قوت صرف کر رہے تھے اب احمدی مبلغوں کے مقابل پر آنے سے جھجکنے لگے۱۳۹۔
اب جاوا اور سماٹرا میں سلسلہ کی ۔۔۔۔۔۔۔ تبلیغ کا کام روز بروز وسیع ہو رہا تھا۔ اس لئے حضور نے ۱۸/ مارچ ۱۹۳۶ء کو ملک عزیز احمد خان صاحب اور مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری کو قادیان سے اور سید شاہ محمد صاحب کو سنگاپور سے وہاں بھجوایا۔ ۳۷۔ ۱۹۳۶ء میں مولوی ابوبکر ایوب صاحب نے سماٹرا میں قریباً دو ہزار میل کا تبلیغی سفر کیا۔ اسی زمانہ میں گاروت (جاوا) میں احمدیہ مسجد کی بنیاد رکھی گئی۔ ایک پریس خریدا گیا۱۴۰۔ مولوی رحمت علی صاحب کچھ عرصہ مرکز میں تشریف لے گئے اور دوبارہ اکتوبر ۱۹۳۷ء میں واپس جاوا آئے اور تبلیغ سلسلہ میں مصروف ہو گئے۔ ان دنوں گاروت میں مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری سورا بایا میں ملک عزیز احمد صاحب بہروا کرتو میں سید شاہ محمد صاحب اور تسکملایہ میں محمد طیب صاحب فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے۔ ان مبلغین کی کوششوں سے احمدیت قبول کرنے والوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔ ایک خاص اثر یہ بھی ہوا کہ دو جماعتوں کے سوا جو ظاہراً مخالفت کرتی تھیں باقی مخالف جماعتیں ایک ایک کرکے میدان سے ہٹ گئیں۱۴۱۔
نومبر ۱۹۴۰ء کے تیسرے ہفتہ میں مولوی رحمت علی صاحب بٹاویہ (جاوا) سے سماٹرا میں آئے ۱۴ دن میڈان میں اور تین ماہ پاڈانگ میں رہ کر مارچ ۱۹۴۱ء میں واپس جاوا تشریف لے گئے قیام کے دوران میں آپ نے جماعت کو وعظ و نصیحت سے متمتع کیا۔ آپ کی آمد پر پاڈانگ میں چار جلسے ہوئے جن میں مولوی محمد صادق صاحب اور مولوی ابوبکر صاحب کے علاوہ آپ نے بھی لیکچر دیئے سماٹرا میں ایک مبلغ ناکافی تھا۔ اس لئے مولوی ابوبکر صاحب جو پہلے جاوا میں کام کر رہے تھے سماٹرا میں فریضہ تبلیغ انجام دینے لگے۱۴۲۔
اسی اثناء میں ۸/ مارچ ۱۹۴۲ء کو جاپانیوں نے جزائر شرق الہند پر قبضہ کر لیا اور مشکلات اور تکالیف کا ایک نہایت المناک سلسلہ شروع ہوا۔ قبضہ کے دوران جاپانیوں نے ملکی باشندوں پر جو وحشیانہ مظالم توڑے وہ نہایت ہی دردناک تھے۔ ایک جماعت کے سوا جسے حکومت نے اپنی سیاسی اغراض کے لئے قائم کیا تھا باقی سب سیاسی اور مذہبی تنظمیں حکماً بند کر دیں۔ تاہم انفرادی تبلیغ جاری رہی اور اس عرصہ میں جماعت کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اس زمانہ میں احمدی مبلغین نے جن میں مولوی رحمت علی صاحب اور ملک عزیز احمد خان خاص طور پر قابل ذکر ہیں مختلف کتابوں کے تراجم کئے جو بعد کو شائع ہوئے]10 [p۱۴۳۔
جاوا اور سماٹرا کے علماء نے جنوب مشرقی ایشیا کی اس جاپانی لڑائی کو جہاد فی سبیل اللہ قرار دیا اور مخبری کی کہ احمدی انگریزوں کے جاسوس ہیں۔ چنانچہ جاپانی حکام نے مولوی محمد صادق صاحب کی بارہا پوچھ گچھ کی اور بالاخر تبلیغ کی ممانعت کر دی۔ اس پر مولوی محمد صادق صاحب نے حکومت جاپان کو مفصل خط لکھا جس میں احمدیت کی غرض وغایت پر روشنی ڈالنے کے علاوہ خاص طور پر اس طرف توجہ دلائی کہ جاپان حکومت کی لڑائی ہرگز جہاد فی سبیل اللہ نہیں اس کی علمبردار صرف مسلمان قوم ہو سکتی ہے اور آپ مسلمان نہیں۔
جماعت احمدیہ کے ایک وفد نے جس میں مولوی محمد صادق صاحب بھی شامل تھے جاپانی حکومت کے گورنر آف سماٹرا کے سامنے یہ خط پیش کیا۔ جاپانی حکومت نے اس سے سخت برافروختہ ہو کر مولوی محمد صادق صاحب کو سزائے موت کا حکم صادر کر دیا۱۴۴۔
اس کے بالمقابل جاوا کے احمدی مبلغین جاپانی حکومت نے قید میں ڈال دیئے جس کی وجہ یہ ہوئی کہ ۱۹۴۴ء میں مغربی جاوا کے ایک مقام پر بغاوت ہوئی۔ بعض مقامی علماء نے جاپانی حکام سے کہا کہ بغاوت میں احمدیوں کا ہاتھ ہے اس شکایت پر بعض دوسرے احمدیوں کے علاوہ ملک عزیز احمد خاں‘مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری اور سید شاہ محمد صاحب گرفتار کر لئے گئے۔ غرضکہ جاوا اور سماٹرا دونوں جگہ نہ صرف احمدی جماعتیں اور احمدی مبلغین جاپانی مظالم کا نشانہ بنائے گئے اور بظاہر نجات کی کوئی صورت باقی نہ رہی۔ مگر اس سے پہلے کہ جاپانی اپنے منصوبوں میں کامیاب ہوتے اس ظالم حکومت کا تختہ الٹ گیا۔ اور قدرت الٰہی کا یہ عجیب کرشمہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس انقلاب کی نسبت احمدی مبلغوں کو قبل از وقت اطلاع دے دی گئی تھی4] fts[۱۴۵۔
جاپانی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ڈاکٹر سکارنو نے ۱۷/ اگست ۱۹۴۵ء کو انڈونیشیا کی آزادی کا اعلان کر دیا اور ولندیزیوں کے خلاف سارے ملک میں تحریک آزادی لڑی جانے لگی۔ اس موقعہ پر مبلغین احمدیت اور دوسرے احمدیوں نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد پر تحریک آزادی میں بھی سرگرم حصہ لیا۱۴۶۔ چنانچہ مولوی عبدالواحد صاحب اور ملک عزیز احمد صاحب نے تقریباً دو تین ماہ ریڈیو پر اردو پروگرام نشر کیا۔ اور سید شاہ محمد صاحب تو تحریک میں اس جوش و خروش سے شامل رہے کہ انڈونیشیا کے ایک سابق وزیر داخلہ نے کہا کہ ہم سید شاہ محمد صاحب کو اپنی قوم کا ہی فرد سمجھتے ہیں چنانچہ ۱۹۴۹ء میں جس روز صدر ڈاکٹر سکارنو ڈچ حکومت سے چارج لینے کے لئے جن چودہ آدمیوں کے ہمراہ دارالحکومت میں پہنچے تو ان میں سید شاہ محمد صاحب بھی تھے۱۴۷۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۹۴۸ء میں جبکہ انڈونیشیا کی جنگ آزادی جاری تھی۔ مولوی محمد سعید صاحب انصاری کو سماٹرا بھجوایا۔ نومبر ۱۹۴۹ء میں جماعت کی از سر نو تنظیم کرنے کے لئے مولوی رحمت علی صاحب کی صدارت میں تمام مبلغین کا پہلا اجتماع منعقد ہوا۔ اس اجتماع میں جماعت احمدیہ انڈونیشیا کے لئے قواعد و ضوابط مرتب کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقرر کی گئی جس کے ممبر سید شاہ محمد صاحب مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری اور ملک عزیز احمد صاحب تھے اور معاون مسٹر راڈین ہدایت۔ انڈونیشین زبان میں قواعد مرتب ہوئے تو ۹۔ ۱۰۔ ۱۱/ دسمبر کو جماعت ہائے انڈونیشیا کی پہلی سالانہ کانفرنس جاکرتا میں منعقد ہوئی۱۴۸۔ جس کا سلسلہ (ایک سال کے (وقفہ کے ساتھ) اب تک خدا کے فضل سے جاری ہے۔
مولوی رحمت علی صاحب ۳۰/ اپریل ۱۹۵۰ء کو واپس تشریف لائے اسی سال مولوی امام الدین صاحب‘مولوی عبدالحی صاحب‘مولوی محمد زہری صاحب اور حافظ قدرت اللہ صاحب اور دو سال بعد حکیم عبدالرشید صاہب ارشد بھی ان علاقوں میں تبلیغ کے لئے بھیجے گئے۔ ان کے بعد حضور نے ۶/ جون ۱۹۵۴ء کو صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کو مع اہل و عیال انڈونیشیا روانہ فرمایا۔ صاحبزادہ صاحب نے وہاں ملک میں پھیلی ہوئی جماعتوں کا دورہ کرکے ان میں غیر معمولی بیداری پیدا کی اور ۲۲/ مارچ ۱۹۵۶ء کو واپس تشریف لائے۔ ۱۹۵۴ء کے سالانہ جلسہ میں شمولیت کے لئے جماعت ہائے انڈونیشیا کے وائس پریذیڈنٹ راڈین ہدایت صاحب ربوہ آئے تو واپسی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے انڈونیشیا کی جماعتوں کے اخلاص اور قربانی کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے دست مبارک کی لکھی ہوئی ایک تحریر جو آٹھ صفحات پر مشتمل ہے اور ’’حقیقتہ الوحی‘‘ کے مسودہ کا ایک حصہ ہے بطور تبرک بھجوائی۔
۱۹۶۲ء میں ملک عزیز احمد صاحب انتقال فرما گئے اور اسی سرزمین میں دفن کئے گئے۔ جولائی ۱۹۶۳ء میں صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (وکیل التبشیر تحریک جدید۱۴۹) مشرق بعید کے مشنوں کا جائزہ لینے کے لئے انڈونیشیا بھی تشریف لے گئے اور بانڈونگ انڈونیشیا کی چودھویں سالانہ کانفرنس منعقدہ بانڈونگ (۲۶ تا ۲۸/ جولائی ۱۹۶۳ء) میں شمولیت کی۔ اس کانفرنس میں ساٹھ احمدیہ جماعتوں کے قریباً دو ہزار نمائندے شامل ہوئے کانفرنس کے دوران قریباً نوے افراد داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۱۵۰۔
دارالتبلیغ سماٹرا اور جاوا جس کا آغاز محض اتفاقی رنگ میں ہوا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی ترقی کر چکا ہے ابتداًء اس کے اخراجات مرکز برداشت کرتا تھا مگر ۱۹۴۷ء کے بعد سے انڈونیشیا مشن خود کفیل مشن بن چکا ہے۔
جاوا اور سماٹرا میں مندرجہ ذیل مقامات پر مشہور احمدی جماعتیں قائم ہیں۔
(جاوا غربی) جاکرتا۔ بوگور۔ چیسا لاڈا۔ سوکا بومی۔ چانجور۔ چپارائے۔ بانڈنگ۔ چکا لونگ۔ گاروت۔ دانا سگرا۔ سنگاپرنا۔ تاسکملانا۔ چہارنگ۔ بوجنگ۔ پینگلاں۔ تنجرانگ۔ کرادنگ۔ لاوی مانگو۔ بونی جایا۔ سوکاتابی۔ تو لنجنگ۔ چساعت۔ کڈنگ ہالنگ۔ گونڈ رنگ۔ چری بون۔ مانس لور۔
(جاوا وسطی) پورو کرتو۔ جوگجا کرتا۔ پابو وارن۔ کڈلنگ مالنگ۔
(جاوا شرقی) سورا بایا (سماٹرا شمالی) میڈان۔ تابنگ تنگی۔ تنجونگ بالائی (سماٹرا وسطی) پاڈنگ۔ تالنگ۔ پکن بارو۔ بوکیت۔ تینگی ڈوکو۔ (سماٹرا جنوبی) لاہت۔ ۱۹۶۲ء کی رپورٹ کے مطابق جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی اکاون مساجد اور تیرہ مشن ہائوس قائم ہیں۔
جاوا اور سماٹرا کے مبلغین کی طرف سے اسلام اور احمدیت کی تائید میں شام و فلسطین کے بعد سب مشنوں سے زیادہ لٹریچر شائع ہوا ہے چنانچہ چند اہم کتابوں کا ذیل میں ذکر کیا جاتا ہے۔
(۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک تصانیف کے تراجم۔ اسلامی اصول کی فلاسفی۔ کشتی نوح۔ ایک غلطی کا ازالہ۔ احمدی اور غیر احمدی میں فرق۔ لیکچر سیالکوٹ۔ الوصیت۔ (کتب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے تراجم) حضرت مسیح موعودؑ کا کارنامے۔ سیرت مسیح موعود۔ دعوت الامیر۔ نظام نو۔ ’’اسلام کا اقتصادی نظام‘‘ (تصانیف مولوی رحمت علی صاحب) اسرار ارکان اسلام۔ صداقت حضرت مسیح موعود۔ اسلام میں جہاد۔ معراج النبی~صل۱~۔ حقیقت بائیبل۔ سیرت النبی~صل۱~۔ مسئلہ تقدیر۔ ملائکہ اللہ۔ قبر مسیح اسرائیلی۔ المسیح الاسرائیل اور صلیب۔ حقیقت ابنیت عیسیٰ۔ مشارکت و تمدن اسلامیہ۔ اسلام اور دنیا کے علوم کا منبع۔ دنیا کا آئندہ نظام۔ صداقت رسول کریم از روئے بائیبل۔ میں نے اسلام کو کیوں چنا۔ قیامت۔ جہاد۔ لائحہ عمل احمدیہ۔ (تصانیف مولوی محمد صادق صاحب) (۱) بائیبل کا یسوع۔ (۲) محمد~صل۱~ از روئے بائبل۔ (۳) تصدیق المسیح۔ (تصانیف ملک عزیز احمد خان صاحب) ترقی اسلام کی راہ۔ مبایعین اور غیر مبایعین میں فرق۔ پیشگوئی متعلقہ مصلح موعود۔ (تصانیف میاں عبدالحی صاحب) ’’کفارہ‘‘ (تصانیف مولوی ابوبکر صاحب) مکمل تردید (جماعت کے خلاف اعتراضات کا رد) شفاعت ارحم الراحمین۔ (تصانیف صالح الشبیبی صاحب الہندی) وادی قمران کے صحیفے۔ احمدیت پر ایک طائرانہ نظم۔ نماز مترجم۔
جماعت احمدیہ انڈونیشیا کی طرف سے اس وقت تک کئی ماہوار یا سہ ماہی رسائل نکل چکے ہیں مثلاً رسالہ ’’اسلام‘‘ (ماہوار) رسالہ ’’البشریٰ‘‘ (ماہور) رسالہ ’’پنو جوک جاسن‘‘ (ماہوار) رسالہ الہدیٰ (ماہوار) رسالہ bat’’ ‘‘Bale (ماہوار) رسالہ ’’آواز مجلس خدام الاحمدیہ‘‘ (سہ ماہی) رسالہ ’’آواز مجلس انصار اللہ‘‘ (سہ ماہی) رسالہ ’’آواز مجلس ناصرات الاحمدیہ‘‘ (سہ ماہی) آج کل رسالہ ’’سینار اسلام‘‘ اور ہفتہ وار ’’بلٹن یا احمدیہ گزٹ‘‘ باقاعدہ جاری ہے۔
انڈونیشیا میں اس وقت مندرجہ ذیل مبلغین اعلائے کلمہ اسلام میں مصروف ہیں۔
سید شاہ محمد صاحب (رئیس التبلیغ) مولوی ابوبکر ایوب صاحب مرکزی مبلغ۔ مولوی عبدالحی صاحب مرکزی مبلغ۔ مولوی امام الدین صاحب مرکزی مبلغ۔ مولوی صالح شبیبی صاحب مرکزی مبلغ۔ مولوی عبدالواحد صاحب مرکزی مبلغ۔ مولوی محمد ایوب صاحب لوکل مبلغ۔ مولوی زینی دحلان صاحب۔ مولوی منصور احمد صاحب۔ راڈین احمد نور صاحب۔ مولوی احمد رشدی صاحب۔ مولوی سلیمان عباس صاحب۔ مولوی محی الدین صاحب۔ حاجی بصری صاحب دیہاتی مبلغ۔ محمد شتیری صاحب دیہاتی مبلغ۔ سلیمان صاحب دیہاتی مبلغ۔ عبدالرحمن صاحب دیہاتی مبلغ۔
اس دارالتبلیغ کی اسلامی خدمات کی نسبت دوسروں کی چند آراء بطور نمونہ درج ذیل کی جاتی ہیں۔
۱۔ سفیر انڈونیشیا الحاج محمد رشید صاحب نے ستمبر ۱۹۵۷ء میں ایک پبلک جلسہ میں جماعت احمدیہ کی انڈونیشیا میں اسلامی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’’انڈونیشین قوم جو عیسائیت کے سیلاب کے آگے بہہ جارہی تھی اس کو جماعت احمدیہ کے مبلغین نے اس خطرہ سے بچا لیا۱۵۱۔
۲۔ سلسلہ احمدیہ کے ایک شدید مخالف ڈاکٹر حاجی عبدالکریم امر اللہ نے اپنی کتاب ’’القول الصحیح‘‘ میں لکھا کہ ’’ہم روئے زمین کے مسلمانوں کی طرف سے جماعت احمدیہ قادیان کا اس بارہ میں شکریہ ادا کرتے ہیں کہ اس نے ہندوستان اور ہندوستان سے باہر یورپین ممالک میں کئی عیسائیوں کو اسلام کی طرف کھینچا ہے‘‘۱۵۲۔
۳۔ ایم۔ اے آر گب اپنی کتاب )Mohammadanism( ایڈیشن جولائی ۱۹۵۵ء آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے صفحہ ۱۴۲ پر لکھتے ہیں۔
’’۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جماعت احمدیہ قادیان۔ انڈونیشیا۔ جنوبی۔ مشرقی اور مغربی افریقہ میں عیسائی مشنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہی ہے‘‘۱۵۳۔
۴۔ جسٹس دان۔ ڈیر کو دوف ’’دی مسلم ورلڈ‘‘ (جنوری ۱۹۶۲ء) کی اشاعت میں لکھتے ہیں۔ ’’انڈونیشیا کے ایک مشہور پبلشر نے مجھے بتایا کہ انڈونیشیا کا نوجوان علمی طبقہ جماعت احمدیہ کا لٹریچر بڑے شوق کے ساتھ خریدتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ انڈونیشیا کے بڑے جزائر میں احمدی موجود ہیں بلکہ دور افتادہ علاقوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ اگرچہ غالب اکثریت قادیانی احمدیوں کی ہے تاہم ان دونوں احمدیہ فرقوں کا وجود مغربی تعلیم یافتہ نوجوانوں میں احیاء اسلام کا زبردست محرک ہے۔
جماعت احمدیہ کا اثر ہندوستان سے نکل کر ساری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس کی شاخیں اور اس کا لٹریچر دنیا کے ہر گوشے میں پہنچ چکا ہے یورپ اور امریکہ کے لوگ اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے مبلغ بھی تمام ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے ہیں یورپ اور باقی علمی دنیا میں جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں اور اپنے اس امتیاز کے باعث ہم اس کے معترف اور ممنون ہیں۔ (نیشنل فرنٹ نیوز آف انڈونیشیا۔ ۲۰/ دسمبر ۱۹۶۲ء)
مقامات مقدسہ کی بے حرمتی پر احتجاج
ہندوستان میں یہ دلخراش خبر پہنچی کہ (حضرت) محمد بن عبدالوہاب~رح~ کے معتقدین کی گولہ باری سے رسول کریم~صل۱~ کے روضہ اطہر کے گنبد کو نقصان پہنچا جس سے گنبد میں دراڑیں پڑ گئی ہیں ساتھ ہی یروشلم کی مسلم کونسل کے صدر اعلیٰ کی طرف سے تار آیا کہ صحیح خبر یہ ہے کہ حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے روضہ اطہر پر گولہ باری نہیں کی گئی البتہ اس کے گنبد پر گولیاں لگی ہیں۱۵۴۔
‏]ybod [tagاس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۴/ ستمبر ۱۹۲۵ء کو رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے خطبہ جمعہ میں فرمایا۔
’’یہ تو مانا نہیں جا سکتا کہ نجدیوں نے جان بوجھ کر روضہ مبارک‘مسجد نبویﷺ~ اور دیگر مقامات مقدسہ پر گولے مارے ہوں گے کیونکہ آخر وہ بھی مسلمان کہلاتے ہیں اور نبی کریم~صل۱~کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں اور آپ کی عزت و توقیر کا بھی دم بھرتے ہیں لیکن باوجود ان سب باتوں کے جو کچھ ہوا ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ گو انہوں نے دیدہ دانستہ مقامات مقدسہ کو نقصان نہ پہنچایا ہو مگر ان کی بے احتیاطی سے نقصان ضرور پہنچا‘‘۔ پھر فرمایا۔ ’’گو میں سمجھتا ہوں قبے بنانے ناجائز ہیں۔ مگر ہر جگہ نہیں بلکہ ضرورت کے وقت جائز ہیں۔ اگر ان سے مراد قبر کی حفاظت نہیں تو ناجائز ہیں یا ان کے لئے ناجائز ہیں جو ہر حال میں ناجائز سمجھتے ہیں مگر خواہ کچھ ہی ہو ان کا یہ کام نہیں کہ ان کو توڑیں۔ اس معاملے میں ہم نجدیوں کے ساتھ اتفاق کرتے ہیں کہ قبے بلا ضرورت بنانے ناجائز ہیں اور شرک میں داخل ہیں لیکن اس معاملہ میں ہم ان کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے کہ ان کو توڑنا اور گرانا بھی درست ہے ۔۔۔۔۔۔۔ ہماری ان باتوں کو دیکھ کر نجدیوں کے حامی کہیں گے کہ یہ بھی شریف علی کے آدمی ہیں لیکن اگر رسول اللہ~صل۱~ کی توقیر کے متعلق آواز اٹھاتے ہوئے شریف کا آدمی چھوڑ کر شیطان کا آدمی بھی کہہ دیں تو کوئی حرج نہیں ہم تو رسول اللہ~صل۱~ کی خاطر سب سے محبت رکھتے ہیں۔ تو صرف اس لئے کہ وہ رسول کریم~صل۱~کے غلام تھے اور آپ کو جو کچھ حاصل ہوا اس غلامی کی وجہ سے حاصل ہوا ۔۔۔۔۔۔ بے شک ہم قبوں کی یہ حالت دیکھ کر خاموش رہتے۔ لیکن رسول کریم~صل۱~ کی محبت اور عزت کی خاطر ہم آواز بلند کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں۔ جس سے ہم نجدیوں کے ہاتھ روک سکیں۔ ہاں ہمارے پاس سہام اللیل ہیں۔ پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ رسول کریم~صل۱~ کے مزار مقدس اور مسجد نبویﷺ~ اور دوسرے مقامات کو اس ہتھیار سے بچائیں۔ ہماری جماعت کے لوگ راتوں کو اٹھیں اور اس بادشاہوں کے بادشاہ کے آگے سر کو خاک پر رکھیں جو ہر قسم کی طاقتیں رکھتا ہے اور عرض کریں کہ وہ ان مقامات کو اپنے فضل کے ساتھ بچائے ۔۔۔۔۔ عمارتیں گرتی ہیں اور ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن ان عمارتوں کے ساتھ اسلام کی روایات وابستہ ہیں۔ پس ہمیں دن کو بھی اور رات کو بھی۔ سوتے بھی اور جاگتے بھی دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالیٰ اپنی طاقتوں سے اور اپنی صفات کے ذریعہ ان کو محفوظ رکھے اور ہر قسم کے نقصان سے بچائے‘‘۱۵۵۔
معاملات حجاز میں جماعت احمدیہ کا موقف
اس خطبہ کے کچھ عرصہ بعد ایک احمدی دوست نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں لکھا کہ مجھ سے بعض اہل حدیث اصحاب نے شکایت کی کہ توحید کے مسئلہ میں ہمارے عقائد ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ مگر ابن سعود کے معاملہ میں تم لوگ ہماری مخالفت اور حنفیوں کی تائید کرتے ہو۔ نیز دھمکی دی کہ آپ لوگ اپنا رویہ نہیں بدلیں گے تو خلافت کمیٹیاں جو اس وقت تک آپ کے لیکچروں کی موید ہو رہی ہیں تائید کرنا چھوڑ دیں گی۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس پر ۲۷/ نومبر ۱۹۲۵ء کو ایک مفصل خطبہ دیا۔ جس میں معاملات حجاز کی نسبت جماعت احمدیہ کے موقف کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’میرے نزدیک کسی حکومت کے لئے جائز نہیں کہ وہ مذہبی معاملات میں زبردستی کرے یا زبردستی کسی قوم کے قابل احترام مقامات کو گرائے یا ان پر قبضہ کرے۔ پس ہر ایک اسلامی حکومت کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ اپنے علاقہ کے مسلمانوں کی عبادت گاہوں یا قابل احترام مقامات کو گرا کر ملک میں فتنہ پیدا کرے۔ لیکن ہاں میرے نزدیک دو مقام ایسے ہیں جن میں اگر کوئی مشرکانہ فعل ہوتا ہے تو اسلامی حکومت کے لئے جائز ہے کہ جبراً اس میں دست اندازی کرے اور ان مقامات کو اپنی حفاظت اور نگرانی میں رکھے ان مقامات مقدسہ میں سے ایک تو خانہ کعبہ ہے اور دوسرا مسجد نبویﷺ~ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اسلامی حکومت کا حق ہے کہ ان پر اپنا قبضہ رکھے وہ بہرحال اسلامی حکومت کے قبضے میں رہنے چاہئیں اور اس قبضہ کی غرض صرف حفاظت ہونی چاہئے نہ کہ ان کے استعمال میں کسی قسم کی مشکل پیدا کرنا۔ پس ان دونوں مقامات پر اسلامی حکومت کا قبضہ رہنا چاہئے جو یہ دیکھتی رہے کہ ان کی حفاظت کماحقہ ہو رہی ہے یا نہیں اور ان میں کوئی فعل شریعت کے خلاف تو نہیں کیا جاتا۔ اگر کیا جاتا ہو تو اسے جبراً روک دے مثلاً اگر خانہ کعبہ میں بت پرستی ہو یا قبریں پوجی جاتی ہوں اور اسی طرح مسجد نبویﷺ~ میں بھی کوئی مشرکانہ فعل ہوتا ہو تو میں کہوں گا کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے اور اس حکومت کا کہ جس کے قبضہ میں یہ دونوں مقام ہوں حق ہے کہ لوگوں کو وہاں ایسا کرنے سے جبراً روک دے‘‘۔
اس اصولی بات کے بعد حضور نے روضہ رسول عربی~صل۱~ کی نسبت فرمایا کہ۔
’’بعض لوگ جب دوسری قبروں کے متعلق یہ دیکھتے ہیں کہ وہ شرک کا منبع بن رہی ہیں تو انہیں آنحضرت~صل۱~ کے مقبرہ کے متعلق بھی یہی خیال گزرتا ہے کہ اس سے بھی شرک پیدا ہوتا ہے۔ مگر اس کے متعلق ان کا یہ خیال کرنا غلطی ہے۔ کیونکہ رسول کریم~صل۱~ کے مزار مبارک پر جو گنبد بنایا گیا ہے۔ وہ اس لئے نہیں کہ اس سے روضہ کی شان بڑی بنا کر پرستش کی جائے بلکہ وہ اس لئے بنایا گیا کہ شرک نہ ہو رسول کریم~صل۱~ کی قبر کو چھپانے کے لئے اس پر گنبد بنایا گیا تھا پس اس گنبد سے یہ قیاس کرنا غلطی ہے ۔۔۔۔۔۔۔ پس میں پھر کہتا ہوں کہ کسی اعزاز کے لئے رسول کریم~صل۱~ کی قبر پر گنبد نہیں بنایا گیا۔ بلکہ اس کی حفاظت کے لئے بنایا گیا۔ اور اس غرض کے لئے بنایا گیا کہ تا آپ کی قبر چھپی رہے کسی اعزاز کے لئے رسول کریم~صل۱~ کی قبر گنبد کی محتاج نہیں۔ اعزاز اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ بجائے خود ہے اور کسی بیرونی کوشش سے نہیں ہو سکتا۔ پس اس کے لئے کسی گنبد کی یا کسی اور شے کی ضرورت نہ تھی۔ آنحضرت~صل۱~ جب زندہ تھے اس وقت صحابہؓ آپ کی حفاظت کرتے تھے۔ پھر کوئی وجہ نہیں کہ آپﷺ~ کی وفات کے بعد دشمنوں سے بچانے کے لئے آپ کے جسم مبارک کی حفاظت مسلمان نہ کریں ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہاں تو ایک گنبد کے لئے شور برپا ہے مگر میں کہتا ہوں حفاظت کے لئے اگر ایک سے زائد گنبد بھی بنانے پڑیں تو بنانے چاہئیں ۔۔۔۔۔ آج کل ہوائی جہازوں اور توپ کے گولوں اور دیگر اسی قسم کی ایجادوں سے پل بھر میں ایک عالم کو تباہ کر دیا جا سکتا ہے اس لئے آپ کی قبر کی حفاظت کا سوال اور بھی اہم ہو گیا ہے‘‘۔
خطبہ کے آخر میں حضور نے اہلحدیث اصحاب کو قیام توحید و استیصال شرک کے تعلق میں پورے پورے تعاون کا یقین دلاتے ہوئے اعلان فرمایا کہ۔
’’میں کہتا ہوں کہ شرک کو مٹائو لیکن شرک کو مٹاتے ہوئے رسول کریم~صل۱~ کے نشانات اور شعائر اللہ نہ گرائو اور ان مقامات کو ملیا میٹ نہ کرو جن کو دیکھ کر ایک شخص کے دل میں توحید کی لہر پیدا ہوتی ہے۔ پس وہ قوم جو اہلحدیث کہلاتی ہے اور جس کا بڑا دعویٰ شرک کی بیخکنی ہے وہ بالضرور شرک کے مٹانے میں کوشش کرے اور ہم اس کوشش میں اس کے ساتھ ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ نہ کرے کہ شعائر الل¶ہ پر ہی کلہاڑا رکھ دے یا ان مقامات کی بنیادوں میں ہی پانی پھیر دے جن سے روایات اسلامی وابستہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘۱۵۶۔
شام کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ
جنگ عظیم کے بعد شام پر فرانس نے قبضہ کر لیا۔ شامیوں نے یہ قبضہ ختم کرنے کا تہیہ کر لیا۔ چنانچہ ۱۹۲۵ کے آخر میں لبنان کی ایک جنگجو مسلمان پہاڑی قوم (دروز) نے تحریک آزادی کا علم بلند کر دیا۔ شام کی فرانسیسی حکومت نے ستاون گھنٹے بلکہ بعض خبروں کے مطابق اس سے بھی زیادہ عرصہ تک دمشق پر گولہ باری کی جس سے یہ بارونق شہر تباہ و ویران ہو گیا اور ایسی تباہی آئی کہ تین ہزار سال سے ایسی تباہی اس شہر میں نہیں آئی تھی۱۵۷۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام (مورخہ ۹/ اپریل ۱۹۰۷ء) ’’بلائے دمشق‘‘ میں خبر دی گئی تھی۱۵۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۱۳/ نومبر ۱۹۲۵ء کو دمشق کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام اور اس کے عملی ظہور کی دردناک تفصیلات سنانے کے بعد اہل شام کی تحریک آزادی کی تائید کرتے ہوئے فرمایا۔
’’میں اس اظہار سے بھی نہیں رک سکتا کہ دمشق میں ان لوگوں پر جو پہلے ہی بے کس اور بے بس تھے۔ یہ بھاری ظلم کیا گیا ہے۔ ان لوگوں کی بے بسی اور بے کسی کا یہ حال ہے کہ باوجود اپنے ملک کے آپ مالک ہونے کے دوسروں کے محتاج بلکہ دست نگر ہیں میرے نزدیک شامیوں کا حق ہے کہ وہ آزادی حاصل کریں ملک ان کا ہے حکمران بھی وہی ہونے چاہیں۔ ان پر کسی اور کی حکومت نہیں ہونی چاہئے۔ یہ ظلم اس لحاظ سے اور بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ پچھلی جنگ میں اہل شام نے اتحادیوں کی مدد کی اور اس غرض سے مدد کی کہ انہیں اپنے ملک میں حکومت کرنے کی آزادی دی جائے گی۔ پھر کتنا ظلم ہے کہ اب ان کو غلام بنایا جاتا ہے۔ وہ ملک جو تلوار کے ذریعہ زیر نہ کئے جائیں بلکہ معاہدات کی رو سے سیاست اور علم کا چرچا نہ ہونے کے سبب جن کی تربیت کرنے کا ذمہ لیا جائے۔ کیا ان کی یہی حالت ہونی چاہئے کہ انہیں بالکل غلام بلکہ غلاموں سے بھی بدتر بنانے کی کوشش کی جائے انہیں ہر طرح تکلیف دی جائے اور بجائے مدد کرنے کے ان کو نقصان پہنچایا جائے پس نہ انگریزوں کا اور نہ کسی اور سلطنت کا حق ہے کہ وہ شامیوں کے ملک پر حکومت کریں اور نہ ہی فرانسیسیوں کا حق ہے کہ وہ ملک پر جبراً قبضہ رکھیں۔ شامیوں نے اتحادیوں کی مدد کی اور انہیں فتح دلائی جس کا بدلہ یہ ملا کہ فرانسیسیوں نے ان کے ملک کو تباہ اور ان کے گھروں کو ویران کر دیا۔ اس سے زیادہ غداری کیا ہو سکتی ہے کہ جس نے ان کو فتح دلائی اسے ہی غلامی کا حلقہ پہنایا جاتا ہے‘‘۔
نیز اہل شام سے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے فرمایا۔
’’شام والے مظلوم ہیں اور ان کی وفاداریوں اور جانبازیوں کا اچھا صلہ ان کو نہیں دیا گیا۔ انہوں نے اپنی جانیں دے کر اتحادیوں کو فتح دلانے کی کوشش کی۔ مگر جب ان کی باری آئی تو بجائے حسن سلوک کے ان پر ظلم کیا گیا۔ ان کی جانیں تباہ کی گئیں ان کا ملک ویران کیا گیا۔ ان کے مال برباد کئے گئے۔ پس وہ مظلوم ہیں اور میں ان مظلوموں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہوں ۔۔۔۔۔ میں ان لوگوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں جنہوں نے قوم کی حریت اور آزادی کے لئے کوشش کی۔ اور اس کے لئے مارے گئے۔ پھر میں ان لوگوں کے لئے بھی دعا کرتا ہوں جو زندہ ہیں اور اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ تباہی سے بچیں اور کامیاب ہوں‘‘۱۵۹۔
الحمدلل¶ہ! کہ حضور کی یہ دعا جناب الٰہی میں قبول ہوئی اور بالاخر فرانسیسی تسلط ختم ہوا اور ۱۶/ ستمبر ۱۹۴۱ء کو شام میں مسلمانوں کی آزاد حکومت قائم ہوئی۔
’’منہاج الطالبین‘‘
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۵ء پر گناہوں سے پاک ہونے اور نیکیوں میں آگے بڑھنے کے طریق پر دو دن تک علمی لیکچر دیا۱۶۰۔ حضور نے اس مضمون کا عنوان اپنی ایک بہت پرانی رئویا کی بناء پر ’’منہاج الطالبین‘‘ رکھا۱۶۱۔ ’’منہاج الطالبین‘‘ اسلامی اخلاق و تصوف کے لطیف اور باریک مسائل کا انسائیکلو پیڈیا اور روحانی بیماریوں کے علاج کی بیاض ہے جس میں امراض روح و قلب کی تشخیص اس کے اسباب اور اس کے علاج کے علاوہ صحت روحانی میں ترقی کرنے کے مجرب علمی و عملی نسخے درج ہیں۔ اس لیکچر کے مطالعہ سے یہ حقیقت انسان پر کھلتی ہے کہ وہ آسمانی طب جو انسانوں کو گناہوں سے نجات دے کر نیکیوں کی طرف مائل کرتی اور پھر ان پر دوام بخشتی ہے صرف اور صرف خدا کے انبیاء و خلفاء ہی کو عطا ہوتی ہے کیونکہ وہی آسمانی حکم کے نمائندے ہونے کی حیثیت سے صحیح معنوں میں مزکی و معلم ہوتے ہیں۔ حضور نے اپنے لیکچر کے خاتمہ پر جماعت احمدیہ کو نصیحت فرمائی۔ کہ
’’اگر ہماری جماعت کا ہر ایک شخص اولیاء اللہ میں سے نہ ہو تو دنیا کو نجات نہیں دلائی جا سکتی۔ اور ہم دنیا میں کوئی تغیر نہیں پیدا کر سکتے یاد رکھو ہمارا مقابلہ دنیا کی موجودہ بدیوں سے نہیں بلکہ ہمارا فرض خیالات بد کی رو سے مقابلہ کرنا بھی ہے اور ہمیں خیالات کے اس دریا کا مقابلہ کرنا ہے جو ہر طرف لہریں مار رہا ہے۔ بہت ہی نازک ہے‘‘۔
۱۹۲۵ء کے متفرق مگر اہم واقعات
‏text] gat[۱۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے حرم اول میں مرزا حفیظ احمد صاحب پیدا ہوئے۱۶۲۔
۲۔
ڈنمارک کی دو خواتین (ڈاکٹر کازنند اور مس پالی) سلسلہ احمدیہ کی تحقیق کے لئے قادیان آئیں۱۶۳۔
۳۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب جو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے لنڈن سے واپسی پر مصر ٹھہر گئے تھے ۱۹/ جنوری ۱۹۲۵ء کو بخیریت قادیان تشریف لے آئے۱۶۴۔
۴۔
سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے صحابی حضرت منشی ہاشم علی صاحب ۲۸/ مارچ ۱۹۲۵ء۱۶۵ کو اور حضرت مولوی نظام الدین صاحب (والد حضرت مولوی شیر علی صاحب) ۲۳/ جون ۱۹۲۵ء کو رحلت فرما گئے۱۶۶۔
۵۔
مولانا ابوالعطاء صاحب فاضل نے یکم مارچ ۱۹۲۵ء کو ’’انجمن احمدیہ خدام الاسلام‘‘ قائم کی جس کا مقصد اشاعت اسلام و احمدیت تھا۔ اس انجمن نے تبلیغی ٹریکٹوں کا مفید سلسلہ جاری کیا جو ایک عرصہ تک جاری رہا4] f[st۱۶۷`۱۶۸۔
۶۔
لنکا کے گمپولا نام قصبہ میں ایک احمدی عورت کا انتقال ہو گیا۔ غیر احمدی مسلمانوں نے اپنے قبرستان میں دفن کئے جانے کی مخالفت کی جس پر پولیس کی نگرانی میں میت دفن کی گئی۱۶۹۔
۷۔
ایک عرب سیاح محمد سعد الدین صاحب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لئے قادیان آئے۱۷۰۔
۸۔
اکتوبر ۱۹۲۵ء میں مزار حضرت مسیح موعودؑ کے ¶اردگرد پختہ چار دیواری تعمیر ہوئی اور اس کے چاروں طرف دروازے رکھے گئے۔ چار دیواری بنانے کے لئے ملک صاحب خان صاحب نون (ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر) نے ڈیڑھ ہزار روپیہ دیا تھا۱۷۱۔
۹۔
ایک ماہوار رسالہ (بنگلہ زبان میں) ’’احمدی‘‘ کے نام سے کلکتہ (بنگال) میں جاری ہوا۔ جو خدا کے فضل سے اب پندرہ روزہ ہے۱۷۲ اسی طرح رنگون (برما) سے عبدالکریم صاحب غنی نے ایک سہ ماہی رسالہ جاری کیا جس کا نام Peace’’ Universal ‘‘The تھا۔
۱۰۔
اگست ۱۹۲۵ء میں صدر انجمن احمدیہ قادیان کے ’’صیغہ امانت‘‘ کا اجراء ہوا۱۷۳۔
۱۱۔
قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے منصوری میں کئی ماہ قیام پذیر رہنے کے بعد ۱۵/ ستمبر ۱۹۲۵ء کو قادیان تشریف لائے۱۷۴۔
۱۲۔
حضرت ام المومنین اور حضرت میر محمد اسحق صاحب نے شملہ کا سفر کیا۱۷۵۔
۱۳۔
حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے سالانہ جلسہ پر ’’تربیت جماعت احمدیہ کے متعلق ضروری امور‘‘ کے موضوع پر تقریر فرمائی۱۷۶۔
۱۴۔
مشہور مباحثے: مباحثہ دہلی (ماسٹر محمد حسین صاحب آسان دہلوی اور دھرم بھکشو کے درمیان۱۷۷) مباحثہ دلاور چیمہ ضلع گوجرانوالہ (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی محمد حسین صاحب کولو تارڑوی کے درمیان۱۷۸) مباحثہ نادون (ماسٹر محمد علی صاحب اشرف اور بابو حبیب اللہ کلرک امرتسری کے درمیان۱۷۹) مباحثہ گوجرانوالہ (مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور مولوی محمد حسین صاحب کولوتاڑروی کے درمیان) مباحثہ شیخوپورہ (مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور ایک اہل حدیث عالم کے درمیان۱۸۰) مباحثہ شیخوپورہ (مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور ایک اہل حدیث عالم کے درمیان۱۸۱) مباحثہ گجرات (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی محمد حسین صاحب کولو تارڑوی کے درمیان۱۸۲ind] g)[ta مباحثہ بدوملہی (مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور ڈاکٹر برائون اور پادری عبدالحق صاحب کے درمیان۱۸۳) مباحثہ جالندھر (مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور مولوی عبدالحق صاحب کے درمیان۱۸۴) مباحثہ دہلی (مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولوی عبدالرحمن صاحب اہلحدیث عالم کے درمیان۱۸۵)
۱۵۔
علمائے سلسلہ احمدیہ کی نئی مطبوعات: ترجمہ قرآن مجید (از حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحبؓ) ’’حدوث روح و مادہ‘‘ (حضرت میر محمد اسحق صاحبؓ) ’’بہائی مذہب کی حقیقت‘‘ (از مولوی فضل الدین صاحب وکیل۱۸۶) ’’آئینہ احمدیت‘‘ (از مرزا محمد صادق صاحب لاہور) ’’انذاری پیشگوئی دربارہ مرزا احمد بیگ وغیرہ‘‘ (از مولوی غلام احمد صاحب فاضل بدوملہوی)
۱۶۔
جناب شیخ عبدالقادر۱۸۷ (سابق سوداگر مل حال مربی سلسلہ احمدیہ) اسلام قبول کرکے داخل سلسلہ احمدیہ ہوئے۔ آپ کو میاں محمد مراد صاحب (ساکن پنڈی بھٹیاں ضلع گوجرانوالہ) کے ذریعہ سے متاع ایمان نصیب ہوئی۱۸۸۔
‏rov.5.36
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال
چھٹا باب (فصل چھارم)
خلافت ثانیہ کا تیرھواں سال
(جنوری ۱۹۲۶ء تا دسمبر ۱۹۲۶ء بمطابق رجب ۱۳۴۴ھ تا جماد الاخر ۱۳۴۵ھ تک)
دنیا کی چوبیس زبانوں میں تقریریں
۲۹/ جنوری ۱۹۲۶ء کو (حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے زیر انتظام) پہلی بار ایک جلسہ ہوا جس میں دنیا کی چوبیس زبانوں میں تقریریں ہوئیں۔
اس جلسہ کے مقررین یہ تھے۔ شیخ محمد احمد صاحب عرفانی (عربی`) فخر الدین صاحب مالا باری (ملیالم`) حضرت میر قاسم علی صاحب (اردو`) جندب صاحب (جاوی`) عبدالواحد صاحب (کشمیری`) شیخ محمد یوسف صاحب (گورمکھی`) حسن خان صاحب (اڑیا`) حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب فاضل ہلالپوری (فارسی`) حضرت مفتی محمد صادق صاحب (عبرانی`) محمد نور صاحب طالب علم مدرسہ احمدیہ (ملایا`) خواجہ میاں صاحب (مرہٹی`) حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب نیر (انگریزی`) میاں شاہ ولی صاحب (گوجری`) مولوی ارجمند خاں صاحب (پشتو`) مہاشہ محمد عمر صاحب (سنسکرت`) علی قاسم صاحب ابن مولوی ابوالہاشم صاحب (بنگالی`) ابراہیم صاحب سیلونی (سیلونی`) حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب نو مسلم (پنجابی`) ماسٹر محمد شفیع صاحب اسلم (پوربی`) احمد سریڈو صاحب (ڈچ`) احسان الحق صاحب (ریاستی`) ضیاء اللہ صاحب (سندھی`) ملک محمد حسین صاحب نیروبی (سواحلی`) احمد حسین صاحب وکیل (کنٹری)
ان تقاریر کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے تقریر فرمائی کہ حضرت مسیح ناصری کے متعلق آتا ہے کہ ان کے حواریوں کے متعلق پیشگوئی تھی کہ وہ غیر زبانوں میں تقریر کریں گے۱۸۹۔ چنانچہ انہوں نے یہودیوں کے مختلف قبیلوں کی زبانوں میں ان کو تبلیغ کی مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام العود احمد کے مطابق پہلے مسیح سے افضل تھے اس لئے آپ کی جماعت کو یہ فضیلت حاصل ہوئی کہ اس میں غیر زبانیں بولنے والے پیدا ہو گئے۔ بے شک اب عیسائیت میں مختلف ممالک کے لوگ داخل ہیں۔ مگر حضرت مسیح کے زمانہ میں اور پھر ان کے بعد تین سو سال تک تین چار ممالک میں ہی عیسائیت پھیلی تھی۔ پس یہ سب تقریریں (جو مختلف زبانوں میں صداقت مسیح موعود علیہ السلام پر ہوئی ہیں) اپنی ذات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی مستقل دلیل ہیں۱۹۰۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا پانچواں نکاح
یکم فروری ۱۹۲۶ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کا نکاح حضرت سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب آف جدہ کی دختر فرخندہ اختر حضرت عزیزہ بیگم صاحبہ سے ہوا۔ نکاح کا اعلان ایک ہزار روپیہ مہر پر حضرت سید سرور شاہ صاحب نے کیا۱۹۱۔
حضرت مولوی صاحب نے خطبہ نکاح میں بتایا۔ اس نکاح کے متعلق میں نے الہام‘کشوف اور رئویا اور خوابیں وغیرہ بیان کرنے کی اجازت نہیں لی۔ اس لئے میں ان کو بیان نہیں کرتا۔ البتہ یہ بیان کر دیتا ہوں کہ میں اور حافظ صاحب اس نکاح کے واقعات سے واقف ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ نکاح کن حالات کے ماتحت ہو رہا ہے۔ جس لڑکی کے ساتھ اب نکاح ہونے لگا ہے اس کے متعلق حضرت صاحب اپنا ارادہ فسخ کر چکے تھے چنانچہ اس کے رشتے کے متعلق آپ نے کسی دوسری جگہ اجازت بھی دے دی تھی۔ لڑکی اور لڑکے کے والدین تیار بھی ہو چکے تھے مگر ایک ہی رات میں خدا نے یہ سب کچھ بدل دیا۔ اور صبح ہوتے ہی لڑکے کے باپ نے کہہ دیا ہم نہیں کر سکتے اور ادھر خود حضرت صاحب کو حضرت ام المومنین پر اور دوسرے احباب پر خداوند تعالیٰ نے اپنے منشاء اور قضائو قدر کو بار بار ظاہر فرمایا اور علاوہ اس کے خداوند تعالیٰ کا فعل بھی اس کا موید تھا۔ خلیفہ بے شک ہمارا آقا ہے مگر خدا کا قبضہ ان کے دل پر بھی ہے۔ جس طرح اس نے سید عبدالقادر جیلانی~رح~ سے کہا کہ کھا تو اس نے کھایا اور کہا پہن تو اس نے پہنا اسی طرح اس نے یہاں بھی کیا اور کہا کرو‘‘۱۹۲۔
حضرت صاحبزادہ صاحب سید عبداللطیف صاحب شہید کے خاندان کی کابل سے ہجرت اور قادیان میں آمد
جیسا کہ تاریخ احمدیت جلد سوم میں بتایا جا چکا ہے حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید۱۹۳ کی شہادت کے بعد آپ کا خاندان ایک لمبے عرصہ تک ظلم و ستم کا نشانہ بنتا رہا۔ اور آخر
نہایت بے کسی کے عالم میں ۲/ فروری ۱۹۲۶ء۱۹۴ کو سرائے نورنگ (ضلع بنوں) میں ہجرت کرکے آگیا۔ جہاں اس کی پہلے سے جاگیر موجود تھی۔
سید ابوالحسن صاحب قدسی اور سید محمد طیب صاحب (فرزندان شہید مرحوم) کا ارادہ سرائے نورنگ پہنچ کر جلد ہی قادیان کی زیارت کرنے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہونا تھا کہ اس دوران میں خود حضور نے از راہ شفقت نیک محمد خان صاحب غزنوی کو سرائے نورنگ بھیج دیا۔ چنانچہ یہ دونوں اصحاب غزنوی صاحب کے ہمراہ وسط مارچ ۱۹۲۶ء میں پہلی بار قادیان آئے۔ حضور نے نماز ظہر کے بعد مسجد مبارک میں ان کو شرف ملاقات بخشا اور بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔
سید محمد طیب صاحب پندرہ بیس روز قادیان میں مقیم رہنے کے بعد سرائے نورنگ چلے گئے اور سید ابوالحسن صاحب قدسی نے جنہیں بچپن سے عربی و فارسی پڑھنے کا شوق تھا۔ مدرسہ احمدیہ کی چوتھی جماعت میں داخلہ لے لیا۔ ۱۹۳۱ء میں آپ نے مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پہلے مدرسہ احمدیہ میں اور پھر جامعہ احمدیہ میں ۱۹۶۲ء تک تعلیمی خدمات بجا لاتے رہے۔
’’دارالشیوخ‘‘ کا قیام
جماعت احمدیہ کے مرکز میں جماعت کے غریب و یتیم بچوں اور دوسرے محتاجوں اور معذوروں کے لئے کوئی تسلی بخش انتظام نہیں تھا۔ حضرت میر محمد اسحٰق صاحب نے اس اہم جماعتی ضرورت کی طرف توجہ فرمائی اور یکم مئی ۱۹۲۶ء سے ’’دارالشیوخ‘‘ کے نام سے ایک اہم ادارہ قائم کیا۱۹۵۔ جس میں غریب اور معذور بچے بلکہ بعض بوڑھے بھی کافی تعداد میں رہتے تھے اور حضرت میر صاحب اپنی پرائیوٹ کوشش کے ذریعہ ان کے اخراجات وغیرہ مہیا کرکے انہیں تعلیم دلاتے تھے اور اپنے عزیزوں کی طرح ان کی دیکھ بھال کرتے تھے اور نابینا بچوں کو قرآن مجید کے حفظ کرانے کا انتظام کرتے تھے۔ دارالشیوخ میں پرورش پانے والے متعدد بچے مدرسہ احمدیہ جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام ہائی سکول مین پڑھے۔
حضرت میر محمد اسحٰق صاحب نے ’’دارالشیوخ‘‘ کا جس رنگ میں انتظام فرمایا۔ وہ بلا مبالغہ عدیم المشال تھا۔ یتامیٰ و مساکین اور بے سہارا لوگوں کے لئے آپ کی شفقت اور ہمدردی سے متعلق متعدد واقعات شائع شدہ ہیں۔ جن میں سے بطور نمونہ صرف تین کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
۱۔ حکیم عبداللطیف صاحب شاہد (گوالمنڈی لاہور) کا بیان ہے کہ ’’میری دارالشیوخ میں تین سال تک بطور مہتمم تقرری کے زمانہ میں بیسیوں طالب علم قادیان بغرض تعلیم آئے جب خاکسار آپ کی خدمت میں ایسے کسی طالب علم یا غریب آدمی کو داخلہ کے لئے پیش کرتا تو تین سال کے لمبے عرصہ میں مجھے یاد نہیں کہ آپ نے کسی کے داخلہ میں کبھی لیت و لعل فرمایا ہو۔ دارالشیوخ میں کسی فرد کے داخلہ کے بعد آپ نہ صرف اس کی ضروریات کا پورا خیال رکھتے بلکہ اس کو بیکار بھی نہ رہنے دیتے۔ اور اگر کوئی شخص طلب علم کی خواہش کرتا تو اسے ہائی سکول یا مدرسہ احمدیہ میں داخل فرما دیتے اور اگر کوئی درزی وغیرہ کا کام سیکھنا چاہتا تو اسے وہاں پر انچارج درزی خانہ مرزا مہتاب بیگ صاحب کے سپرد کر دیتے‘‘۱۹۶۔
۲۔ منشی محمد یٰسین صاحب سابق محرر نظارت ضیافت بیان کرتے ہیں کہ ’’دارالشیوخ میں ۱۷۵ کے قریب افراد کے کھانے کے لئے بڑی محنت کرنی پڑتی تھی۔ اور اس کا فنڈ بڑا کمزور تھا۔ ایک دفعہ قاضی نور محمد صاحب مرحوم ہیڈ کلرک نظارت ضیافت نے عرض کیا کہ اب دارالشیوخ پر دو ہزار قرض ہو گیا ہے۔ فرمایا کہ کل عصر کے بعد ٹانگہ لانا اور میرے ہمراہ چلنا دارالشیوخ کے لئے چندہ کی تحریک کرنا ہے۔ دوسرے دن میں تانگہ لایا۔ ہم دونوں سوار ہو گئے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کبیر مرحوم کے گھر کے پاس حضرت نواب عبداللہ خان صاحب ملے اور مصافحہ کیا۔ نواب صاحب نے مصافحہ کے بعد فرمایا کہ ماموں جان آپ کو بخار ہے۔ فرمانے لگے ہاں کچھ بخار تو ہے۔ مگر دارالشیوخ پر کچھ قرضہ ہو گیا ہے اس کے لئے چندہ کرنے کو محلہ دارالرحمت جارہا ہوں۔ انہوں نے پچاس روپے جیب سے نکال کر دیئے۔ مجھے فرمایا جیب میں رکھتے جائو۔ جب نواب صاحب کچھ آگے نکل گئے تو فرمایا۔ ’’بوہنی‘‘ (ابتداء) تو اچھی ہو گئی۔ غرض محلہ دارالرحمت میں پہنچے۔ مغرب کی نماز کے بعد تحریک کی گئی مولانا ابوالعطاء صاحب نے بھی تقریر کی تھی۔ اہل محلہ نے کافی چندہ دیا اور کچھ غلہ بھی دیا۔ دوسرے دن محلہ دارالفضل بھی گئے۔ پھر دوسرے محلہ جات میں گئے اور ایک ہفتہ کے اندر اندر اڑھائی ہزار روپیہ چندہ جمع ہو گیا۔ غلہ اس کے علاوہ تھا۔ قاضی صاحب سے فرمانے لگے کہ جب کمی ہو جائے تو پھر بتانا‘‘۱۹۷
۳۔ حافظ عبدالعزیز صاحب موذن مسجد اقصیٰ قادیان کا بیان ہے کہ ’’ایک دفعہ ایک معزز احمدی قادیان تشریف لائے وہ بوجہ عدیم الفرصتی کے ایک گھنٹہ کے لئے حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ کی ملاقات کو آئے تھے۔ حضرت میر صاحب نے فوراً بھائی احمد الدین صاحب ڈنگوی کی دکان سے ان کے لئے لسی اور ناشتے کا انتظام کیا اور ان کو ساتھ لے کر دارالشیوخ میں تشریف لائے اور فرمایا کہ جماعت کے یہ یتیم اور مسکین بچے ہیں یہ میرا باغ ہے جو میں نے اللہ تعالیٰ کی خاطر لگایا ہے۔ اس کی آبیاری میں آپ بھی حصہ لیں۔ وہ احمدی دوست چند منٹ میں آپ کی باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ مبلغ پانچ سو روپے کی رقم ان یتامیٰ کی اعانت کے لئے پیش کر دی‘‘۱۹۸۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۹۴۳ء میں دارالشیوخ سے متعلق حضرت میر صاحب کی ان خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔
’’میں سمجھتا ہوں جہاں ہماری جماعت مشترکہ طور پر یتامیٰ و مساکین کی خبر گیری میں ناکام رہی ہے وہاں میر محمد اسحٰق صاحب نے اس میں کامیابی حاصل کر لی اور انہوں نے سو ڈیڑھ سو ایسے غرباء اور یتامیٰ و مساکین کو جن کے کھانے پینے اور لباس اور رہائش وغیرہ کا کوئی انتظام نہیں تھا اپنی نگرانی میں رکھ کر ایسے رنگ میں ان کی تربیت اور تعلیم کا کام کیا۔ جو نہایت قابل تعریف ہے۔ میر صاحب نے جن جن مشکلات میں یہ کام کیا ہے ان کو کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وہ مشکلات یقیناً ایسی ہیں جو ان کے کام کی اہمیت کو اور بھی بڑھا دیتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں انہوں نے اتنے سال کام کرکے جماعت کے اندر ایک بیداری پیدا کر دی ہے کہ اب جماعت کے افراد کو بھی محسوس ہونے لگ گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یتیم کی خدمت اور اس کی صحیح رنگ میں تعلیم و تربیت اتنا اہم کام ہے کہ کوئی جماعت جو زندہ رہنا چاہتی ہے وہ کسی صورت میں بھی اس کو نظر انداز نہیں کر سکتی‘‘ الخ ۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۔
حضرت میر صاحب کی وفات کے بعد جو (۱۷/ مارچ ۱۹۴۴ء کو ہوئی) جہاں سلسلہ کے دوسرے علمی اور انتظامی معاملات میں زبردست خلا پیدا ہو گیا وہاں دارالشیوخ کے انتظام کو بھی سخت دھکا لگا۔ اور اگرچہ صدر انجمن احمدیہ کا مستقل صیغہ قرار دے کر اس کے اخراجات کی ذمہ داری براہ راست مرکزی نظم و نسق کے سپرد ہو گئی۔ مگر یہ ادارہ قادیان میں دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا نہ ہو سکا۲۰۰۔
قصر خلافت کی بنیاد
۲۲/ مئی ۱۹۲۶ء کا دن بڑی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس روز حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنے دست مبارک سے (حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔ اے کی نشستگاہ اور سید ناصر شاہ صاحب کے مکان کے درمیان قطعہ زمین پر) قصر خلافت کی بنیاد رکھی۔ اور مجمع سمیت دعا فرمائی۔ اس کے بعد احباب حضرت صاحبزادہ صاحب کے دیوان خانے میں جمع ہوئے جہاں شیرینی تقسیم کی گئی اور یہ مبارک تقریب ختم ہوئی۲۰۱۔ قصر خلافت کی عمارت اکتوبر ۱۹۲۶ء۲۰۲ میں پایہ تکمیل تک پہنچی جس کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور آپ کی ڈاک کا پہلے سے زیادہ عمدہ اور محفوظ انتظام ہو گیا۔
‏]bsu ’’[tagاحمدیہ گزٹ‘‘ کا اجراء
جماعت احمدیہ کی مختلف انجمنوں اور افراد سلسلہ کو ایک باقاعدہ صورت میں سلسلہ کے مرکزی صیغوں کی کارگزاری اور اعلانات سے باخبر رکھنے کے لئے ۲۶/ مئی ۱۹۲۶ء سے ’’احمدیہ گزٹ‘‘ کا اجراء ہوا۔ اس اہم پرچہ کی عنان ادارت حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل کے سپرد ہوئی۲۰۳۔ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ چند سال کے بعد بند کر دیا گیا اور یہ کام بھی حسب سابق الفضل ہی بجا لانے لگا۔
حضرت امام کا پیغام احمدیان بنگال کے نام
بنگالی احمدیوں نے بنگلہ زبان میں ’’احمدی‘‘ کے نام سے ایک رسالہ جاری کر رکھا تھا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس پرچہ کے نئے سال کے پہلے نمبر کے لئے ’’جماعت احمدیہ بنگال کے نام ایک پیغام‘‘ ارسال کیا۔ جس میں تحریر فرمایا کہ۔
’’سنو اے فرزندان بنگال! خدا تعالیٰ کا مسیح مغرب ہند میں نازل ہوا اور وہ شوق محبت سے آپ لوگوں کی طرف جو مشرق ہند کے بسنے والے ہیں بڑھا اور اس نے زندگی کا پانی چھڑک کر آپ لوگوں میں سے بعض کو زندہ کیا اور عرفان کی روشنی ڈال کر بعض سوتوں کو جگایا۔ اب پنجاب بنگال سے ملنے کے لئے بے تاب ہے۔ مگر اس کے راستے میں سد سکندری حائل ہے۔ ہاں کفر کی دیوار اس کے اور بنگال کے درمیان کھڑی ہے وہ دیوار جسے پٹھانوں اور مغلوں کی چھ سو سالہ حکومت بھی توڑ نہیں سکی۔ اسلام نے اپنی نشوونما کے لئے پنجاب اور بنگال کو چنا تھا۔ اسی طرح احمدیت نے بھی پنجاب اور بنگال کو چنا ہے مگر درمیانی علاقے خالی ہیں بادشاہتیں اس دیوار کو توڑ نہیں سکیں۔ لیکن دو محبت کرنے والے دل اس روک کو اٹھانے میں ضرور کامیاب ہو جائیں گے۔ اٹھو اے بھائیو! محبت سے پر دلوں کو لے کر اٹھو۔ بادلوں کی طرح اٹھو جو سب ملک کو ایک آن میں سیراب کر جاتے ہیں۔ آندھیوں کی طرح اٹھو جو سب خس و خاشاک کو ایک منٹ میں اڑا دیتی ہیں۔ سیلاب کی طرح اٹھو جو مکانوں‘قصبوں اور شہروں کو اپنے آگے بہا کر لے جاتا ہے۔ ہاں۔ ہاں۔ سورج کی طرح بلند ہو جس کی روشنی تمام تاریکیوں کو مٹا دیتی ہے اور خدا تعالیٰ کے پیغام کو اپنے ملک میں پھیلاتے ہوئے دریائے گنگا کے کنارے کنارے اس علاقہ کی طرف آجائو۔ جہاں سے کہ آپ لوگوں کے آباء نے مشرق کا رخ کیا تھا‘‘۲۰۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا سفر ڈلہوزی
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی شبانہ روز مصروفیات نے آپ کی صحت پر بہت اثر ڈالا اور سالانہ جلسہ ۱۹۲۵ء کے بعد آپ روز بروز کمزور ہو رہے تھے۔ اس لئے ڈاکٹری مشورہ کے مطابق آپ تبدیلی آب و ہوا کے لئے ۲۹/ جولائی ۱۹۲۶ء۲۰۵ کو مع اہل و عیال ڈلہوزی تشریف لے گئے اور ۱۱/ اکتوبر ۱۹۲۶ء۲۰۶ کو وارد قادیان ہوئے۔ اس سفر میں حضور نے ترجمہ قرآن شریف اور ڈاک کا کام بدستور جاری رکھا اور اس غرض کے لئے حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب ہلالپوری‘صوفی عبدالقدیر صاحب نیاز بی۔ اے (پرائیوٹ سیکرٹری) اور یحیی خان صاحب ہمراہ گئے۔ نیز طبی مشورہ کے لئے ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب بھی جنہیں ہمیشہ آپ کے اکثر سفروں میں ہمرکاب رہنے کا شرف حاصل رہا ہے۲۰۷۔
سفر ڈلہوزی کے حالات میں اس امر کا تذکرہ کرنا بھی ضروری ہے کہ حضور اپنے زمانہ خلافت کے آغاز سے لے کر اب تک ڈاک اور دوسری دفتری ضرورتوں پر سفر کرنے پر کارکنان سلسلہ کے اخراجات اپنے پاس سے ادا فرماتے آرہے تھے۔ مگر اب اپنی کمزور مالی حالت کے پیش نظر آپ نے پہلی بار صدر انجمن احمدیہ کو لکھا کہ ’’ڈاکٹروں کا مشورہ ہے کہ میں آب و ہوا کی تبدیلی کروں۔ اب تک تو میں بوجہ مالی کمزوری کے اس کو ٹلاتا رہا ہوں مگر اب چونکہ کمزوری زیادہ ہوتی جارہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس کا تجربہ بھی کر لوں۔ چونکہ اس حالت میں میں اکیلا سفر نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ میرے لئے بھی تکلیف دہ ہے اور گھر کے لوگوں کے لئے موجب تشویش۔ اس لئے میں نے ارادہ کیا ہے کہ سب اہل خانہ کو ساتھ لے کر جائوں کیونکہ مکان بہرحال لینا ہو گا۔ اور دو جگہ کے اخراجات بھی تکلیف دہ ہوں گے۔ میں نے اندازہ کیا ہے۔ ۲ ہزار کے قریب زائد خرچ ہو گا۔ اس میں سے ایک ہزار روپیہ کا مدمتفرق غیر معمولی سے انتظام کر دیا جائے۔ ایک ہزار کا میں انشاء اللہ بعض دوستوں سے انتظام کر لوں گا۔ یہ روپیہ میں انشاء اللہ بجٹ کے خاتمہ سے پہلے ادا کر دوں گا۔ تا سلسلہ کے کام کو نقصان نہ ہو چونکہ اس سفر میں ترجمہ قرآن شریف اور ڈاک کا کام بھی ہو گا۔ اس لئے مولوی محمد اسماعیل صاحب‘صوفی عبدالقدیر صاحب اور یحییٰ خان صاحب کے جانے کے متعلق بھی انتظام کیا جائے مکان تو میں نے لے ہی لیا ہے۔ ان کے جانے اور آنے اور کھانے کے اخراجات اور کتب جو لے جانی پڑیں گی۔ ان کے کرایہ کے انتظام کی ضرورت ہو گی ۔۔۔۔۔۔ میں نے اس سے پہلے کبھی یہ اخراجات اپنے سفروں میں نہیں لئے تھے۔ بمبئی اور کشمیر میں مہمان نوازی اور اس قسم کی دوسری دفتری ضرورتوں پر ہمراہ سفر کرنے والوں پر میرا تین چار ہزار روپیہ سے زائد خرچ ہوا تھا۔ لیکن میں اب مقروض ہوں‘‘۔
اس تحریر پر صدر انجمن احمدیہ نے حضور کی خدمت میں عرض کیا۔ کہ ’’یہ بار بحیثیت امام جماعت ہونے کے حضور کو اٹھانا پڑتا ہے اس لئے مجلس کا حق ہے کہ حضور سے درخواست کرے کہ یہ بار حقیقتاً مجلس کے اٹھانے کا ابتداء ہی سے ہے۔ اس لئے اس کے اٹھانے کی اجازت بخشی جائے‘‘۔
مگر حضور نے ایسی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور ۱۱/ جولائی ۱۹۲۶ء کو تحریر فرمایا۔
’’میں آپ لوگوں کی محبت کا ممنون ہوں۔ مگر اول تو آپ لوگ خود میرے مقرر کردہ ممبر ہیں اور ہماری کانسٹی چیوشن کے لحاظ سے خلیفہ کو کوئی رقم دینے کا فیصلہ بذریعہ شوریٰ کر سکتی ہے نہ کہ صدر انجمن احمدیہ۔ اور یہ اصول کے خلاف ہے کہ ایک اپنی ہی قائم کردہ انجمن کسی شخص کی مالی امداد کا فیصلہ کرے۔ دوسرے اس وقت تک قرض لے کر ادھار اٹھا کر گزارہ کرتا رہا ہوں۔ دل میں یہی نیت ہے کہ خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو خود ادا کر دوں گا۔ ورنہ جائیداد سے وصیت کر جائوں گا صحت کی حالت بتاتی ہے کہ بہت گزر گئی اور تھوڑی رہ گئی۔ اب اپنا طریق کیا بدلوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کسی کے لئے ٹھوکر کا موجب کیوں بنو۔ میری طبیعت اس قدر حساس ہے۔ خصوصاً مالی معاملات میں ایک حرف اعتراف کا خواہ اشد ترین منافق کی زبان سے کیوں نہ نکلا ہو کہ میرے قلب کو ناقابل تلافی صدمہ پہنچتا ہے۔ اس وقت میری یہ حالت ہے کہ تیس آدمی کے قریب ہیں جن کا خرچ مجھے اٹھانا پڑتا ہے۔ اور دو سو روپیہ ماہوار کے قریب لائبریری اور امداد وغیرہ کا خرچ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چار پانچ وقت کے کھانے میں سے ایک وقت کے سوا باقی سب قرض پر ہمارا گزارہ ہوتا ہے۔ اپنی عمر کے لئے میں اپنی جائداد کی قیمت کی وسعت کا اندازہ کیا کرتا ہوں کہ اس وقت تک زندہ رہنا میرے لئے جائز ہو سکتا ہے جب تک کہ قرض کی رقم کو جائداد بہ سہولت ادا کر سکے۔ آگے اللہ تعالٰ کے کام کا بندہ کو وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔ غرض باوجود اس حالت کے اور اس رات اور دن کی پریشانی کے یہ روزمرہ کا دکھ مجھے زیادہ پسندیدہ معلوم ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ میں کوئی رقم بیت المال سے بغیر قرضہ کے لوں اور کسی طرف سے میرے کان میں یہ آواز آئے کہ ان کو اس قدر رقم ملتی ہے۔ اب بھی جبکہ میں کبھی کچھ نہیں لیتا میرے کانوں میں یہ آوازیں پڑی ہیں کہ خلیفہ کی اس قدر بیویاں ہیں۔ اب ان کا خرچ جماعت پر پڑے گا۔ اگر میں کوئی رقم لوں گا تو یہ آواز میرے لئے بالکل ناقابل برداشت ہو گی۔ مومنوں کے نفوس خدا کے لئے قربانیاں ہیں۔ کوئی کسی طرح قربان ہو جاتا ہے کوئی کسی طرح قربان ہو جاتا ہے‘‘۲۰۸۔ خاکسار مرزا محمود احمد۔ ۲۶/۷/۱۱
حضرت خلیفتہ المسیح کہ الثانی اور مولوی محمد علی صاحب کے مشترکہ اعلانات
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ ڈلہوزی میں ہی قیام فرما تھے کہ (حضرت) مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری‘خان بہادر دلاور خاں
صاحب۲۰۹ (اسسٹنٹ کمشنر) اور قاضی محمد شفیق صاحب حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جماعت احمدیہ کے دو فریقوں میں مصالحت کے لئے تبادلہ خیالات کیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس تحریک مصالحت پر مولوی محمد علی صاحب‘مولوی غلام حسن خان صاحب‘خان بہادر محمد دلاور خاں وغیرہ کو اپنی کوٹھی پر دعوت دی اور بالاخر طے پایا کہ اخبارات اور رسائل میں ایک دوسرے کے خلاف سب وشتم اور ذاتی حملوں کا سلسلہ بند کر دیا جائے۔ ہاں اختلافی مسائل پر متانت و شائستگی سے مضامین کا سلسلہ جاری رہے۲۱۰۔
چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں ۱۷/ جولائی ۱۹۲۶ء کو مندرجہ ذیل اعلان فرمایا۔
’’برادران! السلام علیکم۔ میں اس اعلان کے ذریعہ تمام ایڈیٹران‘نامہ نگاران و مصنفین سلسلہ احمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جو اختلاف سلسلہ میں کسی نہ کسی سبب سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بعض دفعہ مبایعین بھی گو جواباً ہی کیوں نہ ہو ایسے الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ جن سے مسئلہ کی تحقیق پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ صرف دوسرے کی دلازاری ہوتی ہے۔ گو جواباً بعض دفعہ سختی کرنا ایک قسم کا علاج ہی ہوتا ہے لیکن موجودہ زمانہ میں جبکہ دنیا کی نگاہیں خاص طور پر ہماری طرف لگی ہوئی ہیں لوگوں میں یہ امر جماعت کی سبکی کا موجب ہو جاتا ہے اور یہ میں بارہا بتا چکا ہوں کہ دنیا اخلاق سے فتح ہو سکتی ہے نہ کہ ہمارے زور دار الفاظ سے۔ اس لئے آئندہ کے لئے میں اپنے تمام احباب کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ جواباً بھی کوئی ایسا کلمہ اپنی تحریرات میں درج نہ کریں جس سے کسی پر ان سے ادنیٰ ذاتی حملہ بھی ہوتا ہو بلکہ صرف مسائل کی تحقیق سے کام لیں۔ چونکہ کسی فریق کے حد سے بڑھ جانے پر بعض دفعہ الزامی جواب کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ اس لئے میں سردست اس اعلان کو تین ماہ کی مدت سے مشروط کرتا ہوں اس تین ماہ کے عرصہ میں تو خواہ کوئی حالات بھی پیش آئیں اور الزامی جواب نہ دینے سے نقصان بھی ہو تب بھی اس اعلان کو قائم رکھا جائے گا۔ لیکن تین ماہ کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ آیا دوسرے فریق نے کوئی اصلاح کی ہے یا نہیں۔ اگر اس کا رویہ درست ہوا یا ایسا اشتعال انگیز نہ ہوا کہ جس کی وجہ سے الزامی جوابات کی ضرورت پیش آئے تو پھر اس اعلان کی مدت کو لمبا کر دیا جائے گا۔ ورنہ دوبارہ اعلان کرکے مجبوری کی وجہ سے اس اعلان کو منسوخ کر دیا جائے گا۔ میں دوستوں کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر کسی مصنف یا مولف یا مضمون نویس یا ایڈیٹر نے اس کے خلاف عمل کیا اور اس کے اس فعل کی طرف مجھے توجہ دلائی گئی تو میں تحقیقات کے بعد ایسے شخص کے خلاف اظہار نفرت کرنے پر مجبور ہوں گا۔ پس میری محبت اور میری رائے کی قدر کرنے والے دوستوں کو اپنی تحریرات میں خود ہوشیار رہنا چاہئے۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ایسے سامان پیدا کر دے کہ ہمیں آئندہ کبھی اس اعلان کو منسوخ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۲۱۱۔ ۲۶/۹/۱۷ مرزا محمود احمد۔
اسی طرح مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے نے بھی اپنے رفقاء کے نام سے یہ اعلان شائع کیا کہ ’’اس میں شبہ نہیں کہ ابتدائے اختلاف کا زمانہ ایک جوش کا زمانہ تھا۔ جس میں زیادتی کے مقابل پر زیادتی کا بھی عذر ہو سکتا تھا لیکن اب وہ زمانہ باقی نہیں رہا اور اگر اب اختلاف باقی بھی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ کب تک باقی رہے گا۔ تو مسائل پر بحث اسی طرح ہو سکتی ہے کہ جس طرح ہم دوسرے غلط عقائد پر بحث کرتے ہیں کسی عقیدہ کی غلطی کے اظہار کے لئے نہ کسی خاص شخص کو برا کہنے کی ضرورت ہوتی ہے نہ اس پر کوئی ذاتی حملہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس لئے اس اعلان کے ذریعہ سے میں اپنے تمام احباب کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ آئندہ کے لئے ہماری تحریرات کی روش خواہ وہ اخبار میں ہوں یا رسالوں میں اس کے مطابق ہونی چاہئیں اور اس امر پر کہ کسی دوسرے پر کوئی حملہ نہ ہو یا اس کی دلازاری نہ ہو۔ ایک نیکی کا کام سمجھ کر اس خلق کو جو فی الحقیقت انبیاء کا خلق ہے۔ اپنے اندر لینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ مسائل اور عقائد پر بحث ضرور رہے گی۔ لیکن اس میں کسی شخص کی ذات پر بھی کوئی حملہ نہ ہو نہ کسی کے متعلق کسی قسم کے دل آزار کلمات ہوں مجھے امید ہے کہ یہ طرز تحریر جس میں نرمی کا پہلو غالب ہو بالاخر زیادہ مفید نتائج پیدا کرنے والی ہو گی‘‘۲۱۲۔
افسوس جہاں جماعت احمدیہ قادیان نے اس معاہدہ کی پوری پوری پابندی کی وہاں ’’پیغام صلح‘‘ اپنے گزشتہ طریق کے مطابق پھر ذاتی حملوں پر اتر آیا۔ حتیٰ کہ ’’سیرت النبیﷺ‘‘~ کے جلسوں کی محض اس وجہ سے مخالفت کی کہ اس کی تحریک قادیان سے اٹھی تھی۔ نیز لکھا ’’کہ ان (مراد حضرت خلیفہ ثانی۔ ناقل) کا اختیار ہے کہ وہ جو چاہیں کریں۔ صلح کریں یا جنگ کریں۔ ہم دونوں حالتوں میں ان کے عقائد کے خلاف جو اسلام میں خطرناک تفرقہ پیدا کرنے والے ہیں۔ ہر حال میں جنگ کریں گے‘‘۲۱۳۔
معاہدہ کی خلاف ورزی پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس بات کی تحقیق کے لئے کہ معاہدہ کی خلاف ورزی کس فریق نے کی ہے ایک ثالثی بورڈ کی تجویز فرمائی اور اعلان کیا کہ اگر یہ بورڈ فیصلہ کر دے کہ میری طرف سے زیادتی ہوئی ہے تو میں علی الاعلان معافی مانگوں گا۔ اور اگر یہ فیصلہ ہو کہ مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے زیادتی ہوئی ہے تو وہ اقرار کریں کہ معافی مانگیں گے۔ اسی طرح اگر بورڈ کا فیصلہ یہ ہو کہ ہماری اخباروں نے معاہدہ توڑا۔ تو ہماری اخباریں بھی معافی مانگیں گی۔ اور اگر ’’پیغام صلح‘‘ کا قصور ثابت ہو تو پیغام صلح کو معافی طلب کرنا پڑے گی۲۱۴۔ مگر مولوی محمد علی صاحب نے یہ آسان طریق قبول نہ کیا۔
مسجد فضل لنڈن کا افتتاح
یہ ذکر گزر چکا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۹۲۴ء میں اپنے سفر ولایت کے دوارن میں مسجد لنڈن کی بنیاد رکھی تھی۔ مگر چونکہ اس وقت بعض ضروری سامان مہیا نہ ہو سکے تھے۔ اس لئے مسجد کی بقیہ تعمیر کچھ عرصہ تک ملتوی رہی۔ بالاخر ۱۹۲۵ء میں اس کا کام شروع کیا گیا اور ۱۹۲۶ء میں یہ خدا کا گھر اپنی تکمیل کو پہنچا۔ اس وقت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم۔ اے نے (جو دارالتبلیغ لنڈن کے انچارج تھے) حضرت خلیفتہ المسیح کی ہدایت کے ماتحت بادشاہ فیصل ملک عراق سے درخواست کی وہ اپنے لڑکے شہزادہ زید کو اجازت دیں کہ وہ ہماری مسجد کا افتتاح کریں اور جب اس کے جلد بعد شاہ عراق خود یورپ گئے تو ان سے تحریک کی گئی کہ اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ خود مسجد کے افتتاح کے لئے تشریف لاویں۔ مگر انہوں نے اس درخواست کو ٹال دیا اس کے بعد سلطان ابن سعود ملک حجاز کی خدمت میں تار دی گئی کہ وہ اپنے کسی صاحبزادہ کو اس کام کے لئے مقرر فرمائیں اور انہوں نے تار کے ذریعہ اس درخواست کو منظور کیا اور اپنے ایک فرزند شہزادہ فیصل (موجودہ شاہ حجاز) کو اس غرض کے لئے ولایت روانہ کر دیا۔ جب شہزادہ موصوف لنڈن پہنچے تو جماعت احمدیہ لنڈن کے انتظام کے ماتحت ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور اخباروں میں دھوم مچ گئی کہ وہ مسجد لنڈن کے افتتاح کے لئے تشریف لائے ہیں۔ مگر اس کے بعد ایسے پراسرار حالات پیدا ہونے لگے کہ شہزادہ فیصل برملا انکار کرنے کے بغیر پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے۔ اور گو آخر وقت تک انہوں نے انکار نہیں کیا۔ مگر عملاً تشریف بھی نہیں لائے۔ ان کو متامل دیکھ کر درد صاحب نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی سے بذریعہ تار اجازت لے رکھی تھی کہ اگر وہ نہ آئیں تو سر شیخ عبدالقادر صاحب مسجد کا افتتاح کر دیں۔ چنانچہ جب شہزادہ فیصل صاحب نہ پہنچے تو سر عبدالقادر صاحب نے ۳/ اکتوبر ۱۹۲۶ء کو مسجد کا افتتاح کر دیا۔ جو ان ایام میں لیگ آف نیشنز میں شرکت کے لئے ہندوستان کے نمائندہ کی حیثیت میں ولایت گئے ہوئے تھے۔ مگر شہزادہ فیصل کی آمد آمد کا ولایت کے اخباروں میں اس قدر کثرت کے ساتھ چرچا ہو چکا تھا کہ لوگوں نے ان کے نہ آنے کو بہت اچنبھا سمجھا۔ اور واقف کار لوگ تاڑ گئے کہ اس عملی انکار کے پیچھے اصل راز کیا مخفی ہے۔ یہ راز یہی تھا کہ بعض مسلم اور غیر مسلم حلقوں نے یہ بات دیکھ کر کہ جماعت احمدیہ زیادہ اہمیت اختیار کر رہی ہے سلطان ابن سعود کو بہکا دیا تھا کہ ان کے صاحبزادہ صاحب مسجد احمدیہ کی افتتاحی رسم سے مجتنب رہیں اور ان کے دل میں یہ خیال بھی پیدا کر دیا تھا کہ چونکہ مسلمان علماء کا ایک معتدبہ حصہ جماعت احمدیہ کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا اس لئے احمدیہ مسجد کے افتتاح میں شہزادہ فیصل کی شرکت سے اسلامی ممالک میں سلطان کے متعلق برا اثر پیدا ہو گا۔ بہرحال خواہ اصل وجہ کچھ بھی ہو۔ شہزادہ فیصل کی شرکت سے جو فائدہ جماعت احمدیہ کو حاصل ہو سکتا تھا۔ وہ پھر بھی ہو گیا اور وہ یہ کہ ولایت کے اخباروں میں نہایت کثرت کے ساتھ مسجد احمدیہ اور جماعت احمدیہ کی شہرت ہو گئی۔ بلکہ ابتدائی اقرار اور بعد کے انکار نے اس شہرت کو اور بھی نمایاں کر دیا۲۱۵۔
مسجد لنڈن کے افتتاح کی تقریب پر انگلستان‘مصر اور ہندوستان کے پریس نے نمایاں خبریں شائع کیں۔ بطور نمونہ صرف برطانوی اخبارات کے چند اقتباسات درج کرنے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
۱۔ ’’ڈیلی کرانیکل‘‘ مورخہ ۴/ اکتوبر ۱۹۲۶ء نے لکھا۔
’’مشرق و مغرب کا ایسا عجیب اور دلفریب ملاپ شاذ و نادر کبھی ہوا ہو۔ جیسا کہ دیکھنے میں آیا۔ جبکہ لنڈن کی لمبی تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کی اذان سوتھ فیلڈ کے چمکدار مناروں سے سنائی دی ۔۔۔۔۔۔ عربی شہزادہ کی غیر حاضری میں لنڈن کی پہلی مسجد کا افتتاح شیخ عبدالقادر صاحب سابق وزیر پنجاب اور حال نمائندہ لیگ آف نیشنز نے کیا ۔۔۔۔۔۔ تقریروں کے ختم ہوتے ہی مناروں سے موذن کی دل سوز آواز مومنین کو نماز کے بلانے کے لئے سنائی دی۲۱۶]ybod [tag۔
۲۔ ’’سوتھ ویلز میوز‘‘ مورخہ ۴/ اکتوبر ۱۹۲۶ء نے لکھا۔
’’لنڈن نے کل ایک ایسے نظارہ کو دیکھا جسے اس نے اپنی طویل تاریخ میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ سوتھ فیلڈ واقع لنڈن میں مسلمانوں کی پہلی مسجد رحیم خدا کے نام کے ساتھ کھولی گئی ۔۔۔۔۔۔ مسجد کے افتتاح سے پہلے امام مسجد نے احمدیہ فرقہ کے امام کی طرف سے ایک پیغام سنایا جس میں ہز ہولی نس نے یہ فرمایا کہ
’’مسجد کا وجود اس عظیم الشان نیکی کا معاوضہ ہے جو مغرب نے ہماری گہری نیند کے زمانہ میں ہمارے لئے علوم کی مشعل کو روشن کرنے سے کی ہے انہوں نے عیسائیوں سے یہ اپیل کی ہے کہ وہ اسلام کو دشمنی کی نظر سے نہ دیکھیں کیونکہ اسلام عیسائیت کو اس نظر سے نہیں دیکھتا۔ ہم حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بڑا اور سچا نبی مانتے ہیں۔ مجمع میں بہت سے اکابرین شامل تھے‘‘۲۱۷۔
۳۔ ’’نارون ایکو‘‘ مورخہ ۴/ اکتوبر ۱۹۲۶ء نے لکھا۔
’’آنریبل شیخ نے اپنے ایڈریس کے دوران میں کہا کہ وہ ظاہری رسومات کے موید نہیں لیکن چونکہ ظاہری رسومات سے اشاعت و شہرت ہوتی ہے لہذا ہم ان کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مسجد چونکہ اسلامی تحریک کا آغاز ہے۔ اس لئے اگر اس کی شہرت نہ ہوئی تو یہ محض گمنامی میں رہے گی۔ یہ شہرت افتتاحی رسومات کی اشاعت سے حاصل ہو گی۔ میں احمدیہ فرقہ کا ممبر نہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ اسلام کے بعض بڑے اور پرانے فرقے اس فرقہ کو پسند نہیں کرتے اور امیر کی ممانعت کی بھی یہی وجہ ہے اس مسجد کے کام کو فرقہ وارانہ نظر سے نہیں جانچنا چاہئے۔ اسلام کو مغربی قوموں کے سامنے اصلی معنوں میں پیش کرنے کے کام کے سامنے فرقہ بندی ہیچ ہے اسی رائے کو لے کر میں اس مجمع میں شامل ہوا ہوں‘‘۲۱۸۔
برطانوی اخبارات کی آراء کے بعد انگلستان کے بعض پادریوں کا ردعمل بھی بتانا ضروری ہے۔ جنہوں نے نہ صرف تقریب افتتاح پر شامل ہونے سے انکار کیا بلکہ مسجد کی مخالفت کی۔ چنانچہ آرچ بشپ آف کنٹربری (انگلستان کے سب سے بڑے پروٹسٹنٹ پادری) نے دعوتی رقعہ کے جواب میں لکھا۔ ’’آپ آسانی سے یہ بات سمجھ لیں گے کہ میرے لئے مسلمانوں کی کسی تقریب میں شامل ہونا موزوں نہ ہو گا‘‘
اس طرح رومن کیتھولک کے سب سے بڑی پادری نے جواب دیا کہ ’’آپ جانتے ہیں کہ ہم کسی اور مذہب کی عبادت میں شمولیت اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارا یقین ہے کہ ایمان عبادت پر مقدم ہے‘‘۔
لاٹ پادری صاحب کی خدمت میں لکھا گیا کہ ہم نے آپ کو عبادت میں شریک کرنے کے لئے نہیں بلایا بلکہ تقریب افتتاح میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔ مگر انہوں نے آنے سے معذوری ظاہر کر دی۔
مسیحیوں کے ایک فرقہ کے اخبار ’’بپٹسٹ ٹائمز‘‘ نے لکھا۔
’’اس مسجد کی تعمیر ایک چیلنج سمجھنا چاہئے مغرب اب تک مشرق کو مذہباً اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔ مگر افسوس کہ اس نے اپنی طاقت کو اپنے گھر میں ہی کمزور کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اب مشرق بھی مغرب کی طرف دیکھنے لگا ہے۔ اب مسلمانوں کی اذان کا نعرہ اس سرزمین میں سنایا جانے والا ہے‘‘۔ اس کے بعد اس اخبار نے پادریوں پر اعتراض کیا جو افتتاح میں شریک ہوئے تھے اور متنبہ کیا کہ اگر عیسائیت کا کوئی حقیقی دشمن ہے تو وہ اسلام ہی ہے۔
اسی طرح مسٹر لارنس نے کلکٹن میں ایک بحث کے دوران میں اس امر پر بہت حیرت کا اظہار کیا کہ انگلستان کی تمام مسیحی جماعتوں نے کیوں متحد ہو کر ایسا مقابلہ نہ کیا کہ اس سرزمین پر یہ مسجد تعمیر ہی نہ ہو سکتی‘‘۲۱۹۔
’’انجمن انصار اللہ‘‘ کا قیام
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نومبر ۱۹۲۶ء میں احمدی بچوں اور نوجوانوں کی تربیت کے لئے ’’انصار اللہ‘‘ کے نام سے ایک نئی انجمن قائم فرمائی۔
اس انجمن میں زیادہ تر طالب علم شامل تھے۔ مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے طلباء مع اساتذہ مختلف گروپوں کی صورت میں عصر کی نماز کے بعد مدرسہ احمدیہ کے صحن میں اکٹھے ہوتے اور حضور ممبروں کو خود ہدایات دیتے تھے۲۲۰۔ اس انجمن کا پہلا اجلاس ۵/ نومبر ۱۹۲۶ء کو منعقد ہوا۔ جس میں حضور نے ’’انصار اللہ‘‘ کے ہر ممبر کا فرض قرار دیا کہ اسے آیتہ الکرسی اور تین آخری سورتیں یاد ہونی چاہئیں اور اس کے پاس تین کتابیں ضرور ہونی چاہئیں۔ (۱) قرآن مجید (۲) کشتی نوح (۳) ریاض الصالحین۲۲۱۔
انجمن کے ممبروں کو حضور نے وقتاً فوقتاً جو نصائح فرمائیں ان میں تہجد‘خوش اخلاقی‘استقلال‘یکسوئی‘السلام علیکم کی ترویج پر آپ نے خاص طور پر زور دیا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ارشاد پر دونوں سکولوں کے طلباء نے اپنے اپنے نمائندوں کا بھی انتخاب کیا۔ چنانچہ مدرسہ احمدیہ کے بچوں نے پہلے سال کے لئے صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اور تعلیم الاسلام ہائی سکول کے مرزا منصور احمد صاحب کو اپنا نمائندہ منتخب کیا۲۲۲۔
اس انجمن نے اپنے ممبروں میں بہت تھوڑے عرصہ میں نمایاں تبدیلی پیدا کر دی اور ان میں سے اکثر تہجد پڑھنے لگے۲۲۳۔ انجمن انصار اللہ کے طالب علموں میں ان کا ایک ’’اسلامی سیونگ بینک‘‘ بھی قائم فرمایا۔ جس کی مثال پیش کرتے ہوئے حضور نے مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر ’’پیسہ اخبار‘‘ لاہور کو ملاقات میں بتایا کہ مسلمانوں کی اقتصادی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ ایسے مسلم بینک کھولے جائیں جن میں سود کا شائبہ تک نہ ہو۲۲۴۔
انگریزی اخبار ’’سن رائز‘‘ کا اجراء
خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی جماعت بیرونی ممالک میں روز بروز بڑھ رہی تھی اور تربیتی اور تبلیغی ضروریات کا تقاضا تھا کہ مرکز سے ایک ایسا انگریزی اخبار جاری کیا جائے جو ایک طرف دنیا میں پھیلی ہوئی جماعتوں کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایات و خطبات اور مرکزی تحریکات سے آگاہ رکھے۔ اور دوسری طرف غیروں میں اسلام و احمدیت کی اشاعت کرے۔ ان اغراض و مقاصد کے پیش نظر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک پندرہ روزہ انگریزی اخبار جاری کرنے کی ہدایت فرمائی اور اس کا نام ’’سن رائز‘‘ رکھا۲۲۵۔
اخبار ’’سن رائز‘‘ مولوی محمد الدین صاحب بی۔ اے (مبلغ امریکہ) کی زیر ادارت دسمبر ۱۹۲۶ء میں جاری ہوا۲۲۶۔ وسط ۱۹۲۸ء میں ملک غلام فرید صاحب ایم۔ اے اس کے ایڈیٹر مقرر ہوئے آپ کے دور میں اخبار کا علمی معیار بھی بلند ہوا اور اس کی اشاعت میں بھی اضافہ ہوا۔ یکم ستمبر ۱۹۳۰ء سے اسے ہفتہ وار کر دیا گیا۲۲۷۔ مارچ ۱۹۲۳ء میں اخبار لاہور (فلیمنگ روڈ) میں منتقل ہو کر مسٹر مجید ملک ایم۔ اے۔ ایل ایل۔ بی کی ادارت میں نکلنا شروع ہوا۔ مگر جلد ہی بند ہو گیا اور اس کا دوبارہ اجراء قاضی عبدالمجید صاحب بی۔ اے۔ ایل ایل۔ بی کے ذریعہ ہوا اور آپ نے عرصہ تک بڑی محنت اور توجہ سے یہ کام انجام دیا۔ تقسیم ملک کے بعد یہ اخبار بعض واقفین کے زیر ادارت شائع ہوتا رہا۔ ۱۹۵۰ء کے شروع میں مکرم نسیم سیفی صاحب اس کے انچارج مقرر ہوئے۔ اور ماہ اکتوبر ۱۹۵۰ء میں ان کے نائیجیریا تبلیغ اسلام کے لئے جانے کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ انگریزی کی موجودگی میں اس کی ضرورت نہیں لہذا اسے بند کر دیا جائے۔
’’سن رائز‘‘ نے قریباً ربع صدی تک نہ صرف جماعت احمدیہ کی تربیتی اور تبلیغی ضروریات پوری کی ہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں کی سیاسی تحریکات میں بھی نمایاں حصہ لیا ہے۲۲۸۔
اخبار ’’مصباح‘‘ کا اجراء
احمدی خواتین کے لئے ۱۵/ دسمبر ۱۹۲۶ء کو اخبار ’’مصباح‘‘ جاری ہوا۔ جس کے پہلے ایڈیٹر حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل مقرر ہوئے اس کا ذکر ’’لجنہ اماء اللہ‘‘ کے حالات (۱۹۲۳ء) میں آچکا ہے۔ اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔
سوامی شردھانند صاحب کا قتل اور حضرت مسیح موعود کی ایک پیشگوئی کا ظہور
سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے ۲/ اپریل ۱۸۹۳ء کو کشف دیکھا کہ ’’میں ایک وسیع مکان میں بیٹھا ہوا ہوں اور چند دوست
بھی میرے پاس موجود ہیں اتنے میں ایک شخص قوی ہیکل مہیب شکل گویا اس کے چہرے پر سے خون ٹپکتا ہے میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہ ایک نئی خلقت اور شمائل کا شخص ہے گویا انسان نہیں ملائک شداد غلاظ میں سے ہے۔ اور اس کی ہیبت دلوں پر طاری تھی اور میں اس کو دیکھتا ہی تھا کہ اس نے مجھ سے پوچھا کہ لیکھرام کہاں ہے اور ایک اور شخص کا نام لیا کہ وہ کہاں ہے۔ تب میں نے اس وقت سمجھ لیا کہ یہ شخص لیکھرام اور دوسرے شخص کی سزادہی کے لئے مامور کیا گیا ہے۔ مگر مجھے معلوم نہیں رہا کہ وہ دوسرا شخص کون ہے‘‘۲۲۹؟
‏]body [tagاس کشف کی وضاحت میں حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے اپنی کتاب ’’حقیقتہ الوحی‘‘ میں تحریر فرمایا۔
’’اب تک مجھے معلوم نہیں کہ وہ اور شخص کون ہے اس فرشتہ خونی نے اس کا نام تو لیا مگر مجھے یاد نہ رہا۔ کاش اگر مجھے یاد ہوتا تو اسے میں متنبہ کرتا۔ تا اگر ہو سکتا تو میں اسے وعظ و نصیحت سے توبہ کی طرف مائل کرتا لیکن قرآئن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شخص بھی لیکھرام کا روپ یا یوں کہو کہ اس کا بروز ہے اور توہین اور گالیاں دینے میں اس کا مثیل ہے۔ واللہ اعلم‘‘۲۳۰۔
یہ عظیم الشان پیشگوئی ۲۳/ دسمبر ۱۹۲۶ء کو پوری ہوئی جب کہ شدھی تحریک کے علمبردار اور لیکھرام کے مثیل (منشی رام) سوامی شردھانند صاحب ایک مسلمان عبدالرشید خوشنویس کے ہاتھوں دہلی میں قتل ہوگئے۔ سوامی شردھانند کا لیکھرام ثانی ہونا خود آریہ سماجی حلقوں نے تسلیم کیا۔ چنانچہ روزنامہ ’’تیج‘‘ (۲۵/ دسمبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۲) نے لکھا۔
’’ہمیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ نظارہ نہیں بھولتا۔ جب پنڈت لیکھرام کے بلیدان کے سماچار سنتے ہی شریمان مہاتما منشی رام جی جالندھر سے لاہور آئے اور پنڈت لیکھرام کی شہادت کے متعلق سب کام اپنے ہاتھ میں لے کر آریہ جنتا کو دھرم پر درڑ (پختہ) رہنے کا اپدیش دیا‘‘۲۳۱۔
اسی اخبار نے ۲۷/ دسمبر ۱۹۲۶ء کو شائع کیا کہ۔
سوامی جی لیکھرام ثانی تھے ۔۔۔۔۔۔ سوامی شردھانند جی ایک افضل اور برگزیدہ ترین آریہ سماجی نیتا تھے۔ لاہور میں سورگیہ پنڈت لیکھرام جی آریہ مسافر کی شہادت کے پورے بیس سال بعد دہلی میں بزدل مذہبی دیوانے سفاک مسلمانوں کے ہاتھوں سوامی جی کا اس طرح جام شہادت پینا ایک دلدوز روح فرسا حادثہ ہے‘‘۲۳۲۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کاتبصرہ سوامی شردھانند کے قتل پر
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے سوامی شردھانند کے واقعہ قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’یہ واقعہ کئی لحاظ سے اہم ہے ایک تو شردھانند صاحب آریوں اور پولٹیکل جماعتوں کے لیڈر سمجھے جاتے تھے دوسرے وہ ایک ہی ہندو تھے جن کو مسجد میں منبر پر چڑھا کر جہاں خدا کا کلام پڑھا جاتا اور سنایا جاتا ہے مسلمانوں نے ان کی تقریر کرائی اور جس کو اس لئے مسجد میں منبر پر کھڑا کیا گیا کہ اس کے ذریعہ سے ہندو مسلمانوں میں اتحاد ہو پانچ سال بعد اسی قوم کا فرد اسے قتل کرتا ہے یہ سمجھتے ہوئے کہ اس قتل کے نتیجہ میں وہ سیدھا جنت میں چلا جائے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تیسرے اس لحاظ سے یہ واقعہ اپنے اندر اہمیت رکھتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق ہے۔ (آگے حضور نے اس کی تفصیل پر روشنی ڈالنے کے بعد فرمایا) گو یہ پیشگوئی کے مطابق ہوا لیکن یہ صحیح نہیں کہ جو بات پیشگوئی کے مطابق ہو وہ ضرور اچھی ہوتی ہے۔ مثلاً یہ پیشگوئی ہے کہ نبی کی مخالفت ہو گی۔ اس پر استہزاء کیا جائے گا لیکن باوجود اس کے اس کی مخالفت اور استہزاء اچھی بات نہیں۔ پھر یہ بھی پیشگوئی ہوتی ہے کہ فلاں شخص دین کی راہ میں مارا جائے گا اور ایک شخص کے ناحق مارے جانے کی خبر دی جاتی ہے۔ بہرحال اس فعل کے اندر بعض بھیانک باتیں جن کے باعث ہم اظہار نفرت کئے بغیر نہیں رہ سکتے ۔۔۔۔۔ جو قوم اس لئے مارتی ہے کہ اس کے مذہب پر لوگ حملہ کرتے ہیں وہ گویا ثابت کرتی ہے کہ اس کا مذہب تلوار کا محتاج ہے ۔۔۔۔۔۔ لیکن اسلام کی اشاعت تلوار سے نہیں ہوئی ہے جو شخص اسلام کے لئے تلوار اٹھاتا ہے وہ اسلام کا دشمن ہے۔ اس لئے ہم اس فعل کی حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے نہایت حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس نے قوم اور ملک کے امن کو برباد کر دیا ہے اور دین اسلام کو بدنام کر دیا ہے‘‘۲۳۳۔
پنڈت شردھانند کے قتل سے اسلام جیسے پر امن اور صلح و آشتی کے علمبردار مذہب کو کتنا بدنام کیا گیا اس کا اندازہ لگانے کے لئے صرف یہ بتانا کافی ہے کہ مسٹر گاندھی نے جو ’’ہندو مسلم اتحاد‘‘ کے سب سے زبردست حامی لیڈر سمجھے جاتے تھے کہا۔ ’’اسلام ایسے ماحول میں پیدا ہوا ہے جس کی فیصلہ کن طاقت پہلے بھی تلوار تھی اور آج بھی تلوار ہے‘‘]01 [p۲۳۴۔
حق الیقین کی تصنیف و اشاعت
اس سال حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ’’حق الیقین‘‘ کے نام سے ایک اہم تصنیف شائع فرمائی جو ’’ہفوات المسلمین‘‘ کتاب کے جواب میں تھی۔ اس کتاب میں حضور نے مخالفین اسلام کے احادیث پر اعتراضات کے جواب اور احادیث کے فوائد میں نہایت مفید معلومات جمع کر دی ہیں۔
ہندومسلم اتحاد سے متعلق وائسرائے ہندکے نام مکتوب
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے دسمبر ۱۹۲۶ء میں وائسرائے ہند لارڈ ارون کے نام ایک طویل مکتوب لکھا۔ جس میں ملک کے سیاسی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندو مسلم کشیدگی اور منافرت کے ازالہ کے بارے میں نہایت اہم تجاویز رکھیں یہ خط ’’مسلم آئوٹ لک‘‘ (دسمبر ۱۹۲۶ء) کی متعدد قسطوں میں چھپنے کے علاوہ رسالہ کی صورت میں بھی شائع ہو گیا۔ جسے لنڈن کے سیاسی حلقوں اور ہندوستان سے دلچسپی رکھنے والے مدبروں نے بڑے شوق اور دلچسپی سے پڑھا اور ہندو مسلم اتحاد کی گتھی سلجھانے کے لئے اسے ایک اہم اور مفید دستاویز قرار دیا۲۳۵۔
ملک عبدالرحمن صاحب خادم میدان مناظرہ میں
اس سال ایک پرجوش احمدی طالب علم نے میدان مناظرہ میں قدم رکھا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس میدان کا شہسوار بن گیا اور اپنی علمی خدمات کی بناء پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے خالد کا لقب پایا۔ ہماری مراد ملک عبدالرحمن صاحب خادم گجراتی سے ہے جنہوں نے ۱۹۲۶ء میں (جبکہ آپ کی عمر صرف سولہ سال کی تھی اور آپ میٹرک میں تعلیم پاتے تھے) سیالکوٹ کے ایک غیر احمدی عالم سے پہلا مناظرہ کیا۲۳۶۔
ملک عبدالرحمن صاحب خادم اپنی وفات تک (جو ۳۱/ دسمبر ۱۹۵۹ء کو بمقام لاہور ہوئی) لسانی و قلمی جہاد میں مصروف رہے۔ اور ناقابل فراموش خدمات انجام دیں جیسا کہ آئندہ اپنے اپنے مقام پر ذکر آئے گا۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ابتدا میں آپ کی شہرت مناظروں سے ہی ہوئی۔ حالانکہ آپ نے کسی دینی درسگاہ میں کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے ان کی اس خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر فرمایا کہ۔
’’خادم صاحب مرحوم گجرات صوبہ پنجاب کے رہنے والے تھے اور کسی ایسے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ جس میں علمی تبحر اور تبلیغی ذوق و شوق کی کوئی خاص روایات پائی جاتی ہیں۔ بلکہ خود ملک صاحب مرحوم نے بھی کسی دینی درسگاہ میں تعلیم نہیں پائی اور نہ کسی عالم دین کی باقاعدہ شاگردی اختیار کرکے دین کا علم سیکھا ان کی درسی اور عرفی تحصیل علم صرف اس قدر تھی کہ انگریزی کالجوں کی فضا میں بی۔ اے پاس کرکے وکالت کا امتحان دیا اور پھر بظاہر ساری عمر عدالتوں میں گشت لگا کر اپنی روزی کماتے رہے مگر باوجود اس کے خادم صاحب مرحوم نے محض اپنے ذاتی شوق اور ذاتی مطالعہ کے نتیجہ میں وہ کمال پیدا کیا کہ جہاں تک مذہبی مباحثہ اور اس میدان کے علمی حوالہ جات کا تعلق ہے وہ جماعت احمدیہ کے کسی موجودہ عالم سے کم نہیں تھے بلکہ مناظرات میں جوابوں کی فراوانی اور برجستگی میں انہیں گویا ایک جیتی جاگتی انسائیکلو پیڈیا کہنا چاہئے۔ ہر اعتراض کا جواب ان کی زبان پر تیار کھڑا ہوتا تھا۔ ہر ضروری حوالہ ان کے منہ سے اس طرح نکلتا تھا جس طرح ٹکسال کی مشین سے سکے بن بن کر نکلتے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ سب کچھ کسی درسی تعلیم کا نتیجہ نہیں تھا۔ بلکہ محض ذاتی شوق اور ذاتی مطالعہ کا نتیجہ تھا۔ جس نے ان کو مذہبی مناظرین کی صف اول میں لاکھڑا کیا تھا‘‘۲۳۷۔
دو بزرگ ہستیوں کا انتقال
جیسا کہ آگے ذکر آرہا ہے اس سال کئی بزرگ انتقال فرما گئے جن میں سے حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب۲۳۸الف اور حضرت چودھری نصر اللہ خان صاحب۲۳۸ب خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے سالانہ جلسہ ۱۹۲۶ء کے موقعہ پر حضرت ڈاکٹر صاحب اور حضرت چودھری صاحب کا ذکر خیر کرتے ¶ہوئے فرمایا۔
’’اس دفعہ ہمارے سلسلہ میں سے چند دوست ہم سے جدا ہو گئے جن کے ساتھ بعض خصوصیات وابستہ تھیں۔ ان میں سے ایک ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب تھے انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کو ایسے زمانہ میں قبول کیا جبکہ چاروں طرف مخالفت زوروں پر تھی اور پھر طالب علمی کے زمانہ میں قبول کیا اور مولویوں کے گھرانہ میں قبول کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ جب انہوں نے یک دوست سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دعویٰ سنا تو آپ نے سنتے ہی فرمایا کہ اتنے بڑے دعویٰ کا شخص جھوٹا نہیں ہو سکتا اور آپ نے بہت جلد حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی بیعت کر لی۔ حضرت صاحب نے ان کا نام اپنے بارہ حواریوں میں لکھا ہے اور ان کی مالی قربانیاں اس حد تک بڑھی ہوئی ہیں کہ حضرت صاحب نے ان کو تحریری سند دی کہ آپ نے سلسلہ کے لئے اس قدر مالی قربانی کی ہے کہ آئندہ آپ کو قربانی کی ضرورت نہیں‘‘۔
’’دوسرے دوست چودھری نصر اللہ خان صاحب تھے جو گو اتنے پرانے نہ تھے لیکن سلسلہ کی خدمات میں بہت آگے نکل گئے تھے میں نے جب ایک دفعہ اعلان کیا کہ سلسلہ کے لئے ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو دین کی خدمت کے لئے اپنے اوقات کو وقف کریں تو سب سے پہلے لبیک کہنے والے چودھری صاحب ہی تھے جو ادب اور احترام ان میں تھا وہ بہت کم لوگوں میں پایا جاتا ہے کامیاب وکیل تھے۔ صاحب جائیداد تھے زمین کافی تھی۔ اس لئے یہاں آزادی سے گزارہ کرتے تھے مگر ان کی فرمانبرداری کو دیکھا ہے کہ گزارہ لینے والوں میں بھی وہ فرمانبرداری نہیں نظر آتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک پرانا خادم سلسلہ ہم سے اٹھ گیا۔ آئندہ نسلوں کی یاد کے لئے اور انہیں بتانے کے لئے کہ ہم میں ایسے مخلص موجود ہیں۔ یہ چند کلمات کہے ہیں تا دوسروں کو بھی تحریک ہو اور کام کرکے دکھائیں۔ دینی خدمات میں ان کی طرح حصہ لیں‘‘۲۳۹۔
۱۹۲۶ء کے متفرق مگر اہم واقعات
۱۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حرم ثالث (حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ بنت حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب) کے بطن سے صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ پیدا ہوئیں۲۴۰۔
۲۔
جنوری ۱۹۲۶ء کے آغاز میں قادیان کے تار گھر کا افتتاح ہوا۔ تار برقی کے آلات نصب ہونے کے بعد سب سے پہلا تار حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا۔ جو ہندوستان کی بعض مشہور جماعتوں کے نام تھا۔ تار کے الفاظ یہ تھے۔
’’خدا تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے مرکز قادیان میں تار برقی آجانے کے سبب قادیان کا تعلق بیرونی دنیا کے ساتھ قائم ہو گیا ہے۔ تار کا یہاں آنا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کی ان پیشگوئیوں کا پورا ہونا ہے۔ جو آپ نے قادیان کی ترقی اور معموری کے لئے فرمائیں۔ میں اس موقعہ سے فائدہ اٹھاتا ہوا تمام ان شخصوں کو جو احمدی کہلاتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اسلام کو دنیا میں پھیلانے اور اس مقصد وحید کو بہت جلدی پورا کرنے کے لئے اپنی تمام تر کوششوں اور ہمتوں کو صرف کرنے میں مشغول ہو جائیں کہ جس کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت احمد علیہ الصلٰوۃ والسلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا‘‘۔ خلیفتہ المسیح۲۴۱۔
۳۔
سیالکوٹ میں احمدیوں کی جامع مسجد کبوتراں والی مسجد کے نام سے مشہور ہے غیر احمدی اصحاب نے اس سے احمدیوں کو بے دخل کرنا چاہا۔ آخر عدالت میں چارہ جوئی کی گئی۔ عدالت نے ۲۲/ فروری ۱۹۲۶ء کو فیصلہ سنایا جس میں مسجد پر احمدیوں کا قبضہ تسلیم کیا گیا۲۴۲۔
۴۔
۱۸/ جون ۱۹۲۶ء کو سونگھڑہ (کٹک) کی مسجد کا افتتاح ہوا۔ جو بنگال‘بہار اور اڑیسہ میں پہلی احمدیہ مسجد تھی۲۴۳۔
۵۔
اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کو سیاسی رنگ میں بھی ایک عظمت اور قوت حاصل ہوئی وہ یہ کہ پنجاب کونسل کے انتخابات کے سلسلہ میں بعض بڑے بڑے مسلمان لیڈر خود حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور خدا کے فضل سے ایک مسلمان ممبر کے سوا باقی سب مسلمان جن کی تعداد ۱۶ تھی اور جن کی جماعت احمدیہ نے تائید کی تھی انتخاب میں جیت گئے۲۴۴۔ کامیاب ہونے والے مسلمانوں میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء لاہور۔ پیر اکبر علی صاحب وکیل فیروز پور اور نواب سر ذوالفقار خان صاحب (برادر حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ) بھی تھے۲۴۵۔
۶۔
۱۹۲۶ء میں پہلی بار سالانہ جلسہ کے موقعہ پر بڑے بڑے پوسٹر شائع کئے گئے۲۴۶۔ جن میں سالانہ ¶جلسہ کا اعلان اور پروگرام درج تھا۔ جلسہ ۱۹۲۶ء کو یہ بھی خصوصیت حاصل ہوئی کہ مہمانوں کو بٹالہ سے قادیان تک پہنچانے کے لئے پہلی بار موٹروں کا انتظام کیا گیا۲۴۷۔
۷۔
اس سال حضرت مولوی زین الدین صاحب آف بمبئی۔ حضرت مولوی سید عبدالواحد صاحب بنگالی‘حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی۔ حضرت حاجی احمد اللہ صاحب اور حضرت صوفی غلام محمد صاحب نقل نویس امرتسری انتقال فرما گئے۲۴۸۔
۸۔
مرکز کی طرف سے شائع ہونے وال رسالوں اور اخباروں کا سلسلہ خدا کے فضل سے وسیع ہو رہا تھا اس لئے ایک نئے صیغہ ’’طبع و اشاعت‘‘ کا قیام ہوا۔ جس کے سب سے پہلے مہتمم طبع و اشاعت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل مقرر کئے گئے۲۴۹۔
۹۔
مشہور مباحثے: مناظرہ گوجرانوالہ۲۵۰ (مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور ثناء اللہ صاحب کے درمیان) مناظرہ ماہل پور۲۵۱ (مولوی غلام احمد صاحب بدوملہوی اور مولوی محمد شیث صاحب جو دت رام پوری کے درمیان) مناظرہ پٹی ضلع لاہور۲۵۲ (مولانا ابوالعطاء صاحب اور اہلحدیث عالم مولوی عبدالرحیم صاحب لکھو والے) مناظرہ لائل پور (قاضی محمد نذیر صاحب فاضل اور راج نرائن صاحب گھست شاستری کے درمیان۲۵۳) مناظرہ سٹھیالی ضلع گورداسپور۲۵۴ (مولوی قمر الدین صاحب فاضل اور بابو حبیب اللہ صاحب امرتسری کلرک محکمہ انہار) مناظرہ بٹالہ۲۵۵ (حضرت میر قاسم علی صاحب و مولانا ابوالعطاء صاحب نے آریہ دھرم بھکشو صاحب سے کیا) مناظرہ قصور۲۵۶ (حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی اور پادری عبدالحق صاحب کے درمیان) مناظرہ کمال ڈیرہ علاقہ سندھ۲۵۷ (حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری اور چار حنفی علماء صاحبان کے درمیان)
۱۰۔
علماء سلسلہ کی نئی مطبوعات: ’’الواح الہدیٰ‘‘۔ ’’ترجمہ ریاض الصالحین۲۵۸‘‘ (از حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل) ’’اسوہ حسنہ‘‘ از حضرت میر محمد اسحق صاحب۔ ’’مجاہد بخارا کی آپ بیتی‘‘ حصہ اول (از مولوی ظہور حسین صاحب) ’’ویدوں کا سربستہ راز‘‘ (از مہاشہ فضل حسین صاحب)
‏rov.5.37
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چودھواں سال
چھٹا باب (فصل پنجم)
خلافت ثانیہ کا چودھواں سال
(جنوری ۱۹۲۷ء سے دسمبر ۱۹۲۷ء تک بمطابق جماد الاخر ۱۳۴۵ھ تا رجب ۱۳۴۶ھ)
۱۹۲۷ء یہ خصوصیت رکھتا ہے کہ اس سال حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی قیادت میں جماعت احمدیہ نے آنحضرت~صل۱~ کی ناموس و عزت کے تحفظ اور مسلمانان ہند کی ترقی و بہبود کے لئے ایک زبردست تحریک شروع کی جس نے دوسرے مسلمانوں میں بھی نئی زندگی نیا جوش اور نیا ولولہ ان میں پیدا کر دیا اور وہ بھی متحد ہو کر جماعت احمدیہ کے دوش بدوش اسلام کی حفاظت کے لئے تیار ہوئے۔ ایک جھنڈے تلے جمع ہونے لگے۔ اس لحاظ سے یہ زمانہ جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانان ہند کی مذہبی اور سیاسی تاریخ کا ایک اہم سنگ میل کہلانے کا مستحق ہے۔
جماعت احمدیہ کوتبلیغی جنگ کیلئے تیارہونے کاارشاد
پنڈت شردھانند صاحب کے قتل نے ہندو قوم میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زبردست آگ لگا دی۔ اور پشاور سے لے کر کلکتہ تک کے تمام ہندوئوں نے عزم کر لیا کہ وہ پنڈت شردھانند کا کام بہرکیف جاری رکھیں گے اور اپنی جان اور اپنا مال تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ اس غرض کے لئے ایک ’’شردھانند میموریل فنڈ‘‘ قائم کیا گیا اور ہندو شدھی سبھا نے اپنی سرگرمیاں اور زیادہ تیز کر دیں۲۵۹۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے سامنے یہ تشویشناک صورت رکھتے ہوئے بتایا کہ اب اسلام پر جو حملہ ہو گا۔ اس کا دفاع ہمیں کرنا ہو گا۔ چنانچہ حضور نے فرمایا۔
’’ہندوستان میں سپین کی طرح کا مشکل وقت اسلام کے لئے آیا ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ جو ہندوئوں کی طرف سے چیلنج دیا گیا ہے اگر احمدی جماعت اس کے جواب کے لئے میدان میں نکل کھڑی ہو تو یقیناً اسلام کی فتح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ پس میں احمدی دوستوں سے کہتا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر وہ اس جنگ کے لئے تیار ہوں تو ۔۔۔۔۔۔۔ وہ ایک جان ہو کر مضبوط عزم کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور ایسی بلند آواز اٹھائیں کہ ہر ہندو کے کان میں وہ پہنچے اور کوئی شخص اس آواز کو دبا نہ سکے4]‘‘ ft[s۲۶۰۔
مسلمانوں کو اشتراک عمل کی دعوت
اپنی جماعت کو مخاطب کرنے کے بعد حضور نے خواب غفلت میں پڑے ہوئے مسلمانوں کو آنے والے عظیم خطرہ سے ہوشیار اور بیدار کرتے ہوئے اشتراک عمل کی دعوت دی اور فرمایا۔
وہ آنحضرت~صل۱~ کی محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں۔ اگر اور کچھ نہیں تو کم از کم ان کے ہونٹوں سے تو یہ بات نکلتی ہے کہ نبی کریم~صل۱~کی محبت ان کے اندر ہے اور پھر ان میں سے بعض تو اسلام کا درد بھی رکھتے ہیں۔ پس جب یہ بات ان میں پائی جاتی ہے تو میں ان الفاظ کا ہی واسطہ دے کر انہیں کہتا ہوں کہ وہ جو آنحضرت~صل۱~ کی محبت کے الفاظ بولتے ہیں۔ ان کا لحاظ کرکے ہی وہ اس نازک وقت میں اسلام کی مدد کے لئے کھڑے ہو جائیں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس وقت یقیناً وہی براہین اور دلائل کارگر ہو سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بتائے ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ گھر کی لڑائی چھوڑ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے‘‘۔
اس سلسلہ میں حضور نے مسلمانان ہند سے تین باتوں کی خواہش کی۔
۱۔
دشمن کے مقابلہ کے وقت ہم آپس میں متحد ہو جائیں اور ایک دوسرے کے مددگار بنیں۔
۲۔
مسلمان اپنے ماحول کے حالات سے باخبر رہیں اور جس جگہ وہ ہندوئوں کے حملہ کا دفاع نہیں کر سکتے وہ ہمیں اطلاع دیں۔ ہم اپنے آدمی بھیج دیں گے۔
۳۔
جہاں جہاں آریوں اور عیسائیوں کا زور ہو۔ وہاں مسلمان تبلیغی جلسے کرکے ہمارے واعظ بلوائیں۔۲۶۱
اس اعلان پر اسلام کا درد رکھنے والا طبقہ احمدی واعظوں کو اپنے جلسوں میں بھی بلانے لگا اور احمدی مسلمان اور غیر احمدی مسلمان دونوں ایک پلیٹ فارم پر اسلام کا دفاع کرنے لگے چنانچہ اس زمانہ کے اخبارات میں ایسی مثالیں بکثرت موجود ہیں کہ دوسرے مسلمانوں کو جہاں بھی اور جس وقت بھی آریوں یا عیسائیوں کے خلاف جلسہ کرنے یا مناظرے کرنے کی ضرورت پیش آئی احمدی مبلغ دعوت ملتے ہی وہاں بلا تامل پہنچے اور انہوں نے مخالفین اسلام کے دانت کھٹے کر دیئے۔ چنانچہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے اپنی کتاب ’’مسلمان مہارانا‘‘ میں اقرار کیا کہ۔
’’اگرچہ میں قادیانی عقیدہ کا نہیں ہوں نہ کسی قسم کا میلان میرے دل میں قادیانی جماعت کی طرف ہے۔ لیکن میں اس بات کو تسلیم کرتا ہوں کہ قادیانی جماعت اسلام کے حریفوں کے مقابلہ میں بہت موثر اور پرزور کام کر رہی ہے۲۶۲۔
سید کشفی شاہ نظامی صاحب سیکرٹری پراونشل تنظیم کمیٹی برما نے (حضور کی خدمت میں) لکھا۔
’’اس وقت جبکہ اسلام پر ہر طور سے نرغہ ہے اور ہمارے مخالفین نے یہ سمجھ لیا تھا کہ اسلام کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے۔ مسلمانوں کو ایسی حالت میں زیر کر لینا آسان امر ہے اور گورنمنٹ کو شاید یہ خیال تھا کہ ہر حالت میں جماعت احمدیہ گورنمنٹ کے فعل پر صاد کرے گی۔ یہ دیکھ کر مجھے کس قدر مسرت حاصل ہوئی ہے کہ آپ نہایت غیرت کے ساتھ اس حملہ کے روکنے میں آگے بڑھے ہیں اور میں مسلمانان برما کی طرف سے بغیر مبارکبادی دیئے ہوئے نہ رہوں گا کہ یقیناً آپ پر جوش مقابلہ کے لئے آمادہ ہیں۔ میں امید کرتا ہوں کہ آپ کے مرید بھی آپ کے صحیح جذبات کا اندازہ کرتے ہوئے آپ کے اس کار خیر میں اسی اخلاص کے ساتھ کاربند ہوں گے۔ اللہم آمین۔ والسلام۲۶۳۔
جداگانہ نیابت کی تائید
۲۵/ فروری ۱۹۲۷ء کو جماعت احمدیہ کا ایک وفد وائسرائے ہند کو ملا۔ یہ وفد ۲۶ اصحاب پر مشتمل تھا۔ اور اس میں حضرت صاحبزادہ شریف احمد صاحب‘حضرت مفتی محمد صادق صاحب‘حضرت ذوالفقار علی خان صاحب‘چوہدری ظفر اللہ خان صاحب‘سیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب (سکندر آباد دکن) پیر اکبر علی صاحب ایڈووکیٹ فیروز پور‘مرزا ناصر علی صاحب ایڈووکیٹ فیروز پور‘مولوی عبدالماجد صاحب بھاگلپوری اور سید بشارت احمد صاحب وکیل ہائیکورٹ حیدر آباد دکن وغیرہ حضرات شامل تھے۔
چودھری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء نے وفد کی طرف سے ایڈریس پیش کیا۔ جس میں دوسرے اہم امور کی طرف توجہ دلانے کے علاوہ آپ نے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے سلسلہ میں وائسرائے ہند کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ضروری ہے کہ جب تک کہ قلیل التعداد جماعتیں خود اپنے اس حق کو نہ چھوڑیں۔ انتخابات کو نسلہا علیحدہ نیابت اور جداگانہ منتخب کندگان کے طریق پر جاری رہے۲۶۴۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا سفر لاہور
اس سال حضور نے مسلمانان ہند کی راہ نمائی اور دیگر اسلامی مصالح کی غرض سے دو اہم سفر کئے۔ (۱) سفر لاہور (۲۶/ فروری ۱۹۲۷ء۲۶۵ تا ۵/ مارچ ۱۹۲۷ء۲۶۶) (۲) سفر شملہ (۱۳/ اگست ۱۹۲۷ء۲۶۷ تا ۲/ اکتوبر ۱۹۲۷ء۲۶۸) سفر لاہور میں لاہور کے متعدد مشہور مسلمان اخبار نویس اور لیڈر ملاقات کے لئے آئے اور مسلمانوں کی ترقی و بہبود کے سلسلہ میں گفتگو فرماتے رہے۔ آنے والوں میں مولوی سید ممتاز علی صاحب ایڈیٹر اخبار ’’تہذیب نسواں‘‘۔ مولوی محبوب عالم صاحب ایڈیٹر ’’پیسہ اخبار‘‘ سید عبدالقادر صاحب پروفیسر اسلامیہ کالج۔ مولوی غلام محی الدین صاحب قصوری وکیل۲۶۹۔ بشیر احمد صاحب پروفیسر فارمین کرسچن کالج خاص طور پر قابل ذکر ہیں۲۷۰۔ سر شہاب الدین صاحب اور مولوی غلام محی الدین صاحب قصور نے حضور کے اعزاز میں دعوت بھی دی۔ ۲۸/ فروری ۱۹۲۷ء کو حضور نے لیجسلیٹو کونسل پنجاب کے اجلاس میں اور یکم مارچ ۱۹۲۷ء کو اسلامی کالج کے جلسہ تقسیم اسناد میں شرکت فرمائی۲۷۱۔ ۴/ مارچ ۱۹۲۷ء کو آپ ملک غلام محمد صاحب کی فلور ملز دیکھنے کے لئے قصور تشریف لے گئے جہاں آپ کی ایک تقریر بھی ہوئی۲۷۲۔
’’ہندومسلم فسادات‘ان کاعلاج اورمسلمانوں کاآئندہ طریق عمل‘‘
لاہور میں حضور کے دو لیکچر بھی ہوئے۔ پہلا لیکچر خان بہادر سر محمد شفیع کے۔ سی۔ ایس۔ آئی کی صدارت میں ۲/ مارچ ۱۹۲۷ء کو بریڈ لاء ہال میں ہوا۔ جس کا عنوان تھا۔ ’’ہندو مسلم فسادات‘ان کا علاج اور مسلمانوں کا آئندہ طریق عمل‘‘۔ اس لیکچر نے پورے ہندوستان کو ہلا دیا اس تقریر کا چرچا ہندو اور مسلم پریس میں خوب ہوا۔ مثلاً اخبار ’’تنظیم‘‘ نے لکھا۔
’’امیر جماعت احمدیہ قادیان نے بریڈ لاء ہال لاہور میں ہندو مسلم فسادات کے اسباب و علاج اور مسلمانوں کے آئندہ طرز عمل پر ایک اہم تقریر کی ہے ۔۔۔۔۔۔ آپ نے ہندوئوں اور مسلمانوں سے مذہبی اور سیاسی رواداری اور احترام باہمی کی اپیل کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ مسلمانوں کو آپس میں متحد ہو جانا چاہئے۔ ورنہ ان کے لئے اپنا وجود قائم رکھنا بھی دشوار ہو جائے گا۔ آپ کی تجویز ہے کہ مسلمان سیاسی معاملات میں سیاسی اتحاد کو پیش نظر رکھیں اور ان تمام فرقوں کو مسلمان سمجھ لیں جو اسلام کسے دعوی دار ہیں اور جنہیں غیر مسلم مسلمان کہتے ہیں۔ کیونکہ غیر مسلم کسی فرق و امتیاز کے بغیر تمام مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ تمام فرقوں کے حقوق کا لحاظ رکھیں اور اپنے بچوں کے لئے اس قسم کی تاریخیں لکھیں جن میں سلاطین اسلام کے متعلق صحیح واقعات پیش کئے جائیں اور انہیں معلوم ہو کہ ان کا ماضی کس قدر شاندار تھا‘‘۲۷۳۔
لاہور کے ہندو اخبارات میں سے ’’ملاپ‘‘۔ پرتاپ۔ ’’سوراجیہ‘‘ اور ’’بندے ماترم‘‘ نے بھی (اپنی ۴/ مارچ ۱۹۲۷ء کی اشاعتوں میں) اس تقریر کا خلاصہ نمایاں طور پر شائع کیا اور جہاں مسلمانوں نے اس تقریر کو سراہا وہاں ہندو اخبار ’’ملاپ‘‘ نے اس پر تنقید کی۔ چنانچہ ’’ملاپ‘‘ (۴/ مارچ ۱۹۲۷ء) نے خاص طور پر ’’میرزا محمود احمد صاحب کا تازہ لیکچر‘‘ کے عنوان سے لکھا۔
’’۲/ مارچ ۱۹۲۷ء کو میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ نے بریڈ لاء ہال لاہور میں ’’ہندو مسلم فسادات کا علاج اور مسلمانوں کے آئندہ طریق عمل‘‘ کے موضوع پر جن خیالات کا اظہار کیا وہ اسی پرچہ میں آپ کسی دوسری جگہ پڑھیں گے۔ یہ سچ ہے کہ میرزا صاحب کا طرز تقریر معقول اور متین تھا۔ لیکن آپ نے جس طریقہ سے اپنے مضمون کو نبھایا وہ مسلمانوں کے ایک سیاسی مبلغ کی حیثیت سے تھا نہ کہ ایک مذہبی امام کی حیثیت سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ گو اصولی طور پر تو مرزا صاحب نے فرقہ وارانہ نیابت کے مسئلہ کو لیاقت پر قربان کرنا ہی مناسب سمجھا۔ لیکن جب آپ اپنی تقریر کے اندر تفاصیل میں داخل ہوئے تو آپ نے اس اصول کی بناء پر حمایت کی کہ پس افتادہ اور کمزور اقوام کی ترقی کے لئے یہ امر ضروری ہے لیکن یہ نہ سوچا کہ پس افتادہ اقوام کے لئے تربیت اور درسی تعلیم کی سہولتیں ہی مفید ہو سکتی ہیں لیکن سیاست میں پس افتادہ اقوام کے ہاتھوں عنان اقتدار دینا گاڑی کے پیچھے گھوڑا لگانے کے مترادف ہے۔ ہم پس افتادہ قوم کے بچوں کے لئے تعلیمی سہولتیں بہم پہنچانے کو تو کسی حد تک حق بجانب قرار دے سکتے ہیں لیکن یہ نہیں پسند کر سکتے کہ سروسز لیجسیلچروں اور لوکل باڈیوں میں نااہل اور نیم خواندہ آدمیوں کی قسمتوں کو خراب ہوتا دیکھیں ۔۔۔۔۔ اس کے سوائے جس خطرناک پہلو پر میرزا صاحب نے مسلمانوں کو نرالی انگیخت کی وہ ان ہندو تاجروں اور دکانداروں کا بائیکاٹ کرنا تھا جو کہ کھانے پینے کی چیزیں فروخت کرتے ہیں۔ کاش میرزا صاحب اتنا تو سوچتے کہ اس طرح وہ ہندو تجاروں کا بائیکاٹ کرکے افتراق کی خلیج کو محض وسیع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں نہ کہ فساد کو روکنے کی کوئی سبیل بیان فرما رہے ہیں۔ وہ جمہوریہ اسلام کے اندر ایک ایسا نفرت کا جذبہ پیدا کر رہے ہیں۔ جس سے ہندو قدرتاً ناراض ہوں اور یہ سمجھنے لگ پڑیں کہ آنریبل میاں فضل حسین نے سیاسی میدان میں ہندوئوں کو جو ضعف پہنچایا ہے وہی اب میرزا صاحب تجارتی پہلو میں ہندوئوں کو پہچانا چاہتے ہیں‘‘۔
’’مذہب اور سائنس‘‘ پر لیکچر
حضور کا دوسرا لیکچر ۳/ مارچ ۱۹۲۷ء کو ’’مذہب اور سائنس‘‘ کے موضوع پر حبیبیہ ہال میں شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی صدارت میں ہوا۔ حضور نے ڈھائی گھنٹہ تک تقریر فرمائی اور قرآن و حدیث کو سائنس اور علوم جدیدہ کی بعض نئی تحقیقاتوں کے بالمقابل رکھ کر کئی مثالوں سے واضح فرمایا کہ سائنس نے جو باتیں آج دریافت کی ہیں ان کا انکشاف تیرہ سو سال پہلے قرآن مجید اور آنحضرت~صل۱~ فرما چکے ہیں۔ یہ علمی لیکچر نہایت کامیاب لیکچر تھا۲۷۴۔ چنانچہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا:۔
‏]ydob ’’[tagایسی پراز معلومات تقریر بہت عرصہ کے بعد لاہور میں سننے میں آئی ہے اور خاص کر جو قرآن شریف کی آیات سے مرزا صاحب نے استنباط کیا ہے وہ نہایت عمدہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔ میں اپنی تقریر کو زیادہ دیر تک جاری نہیں رکھ سکتا۔ تا مجھے اس تقریر سے جو لذت حاصل ہو رہی ہے۔ وہ زائل نہ ہو جائے اس لئے میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں‘‘۲۷۵۔
جماعت احمدیہ سے تبلیغ اسلام سے متعلق عہدکی تجدید
مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء کے دوران جماعت کے سامنے کئی اہم امور زیر بحث آئے جن میں ایک بہت بڑا مسئلہ اچھوت اقوام میں تبلیغ کا تھا۔ جس پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے نمائندوں سے تبلیغ اسلام کی مہم جاری رکھنے کا عہد لیا کہ اگر ہمارے جسموں کا ذرہ ذرہ بھی اشاعت اسلام میں لگ جائے گا تو ہم تبلیغ اسلام بند نہ کریں گے۲۷۶۔ نیز پرشوکت الفاظ میں فرمایا۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام نے فرمایا ہے ہمیں دلوں کی عمارتیں بنانے کے لئے خدا تعالیٰ نے بھیجا ہے۔ ہمیں اینٹ پتھر کی عمارتوں سے کیا غرض! آپ نے یہ بھی فرمایا کہ آئندہ لوگ آئیں گے جو سنگ مرمر کی عمارتیں بنائیں گے ان میں سونے کا کام کریں گے۔ یہ کام ان کے لئے رہنے دو۔ آئو ہم دلوں کی عمارتیں بنائیں۔ پس اگر ہمیں ان عمارتوں کو فروخت کرنا پڑے‘ان زمینوں کو بیچ ڈالنا پڑے تو کوئی پرواہ نہیں۔ یہ سارا نظام اسی وقت تک ہے جب تک ہم اصل فرض اور مقصد کو پورا کر سکتے ہیں۔ جب ہم سمجھیں گے کہ اسلام کی عزت اس کی محتاج ہے تو ہمیں ان کے بیچ ڈالنے میں ایک منٹ کے لئے بھی دریغ نہ ہو گا۔ مگر کوئی غیرت مند آدمی پسند نہ کرے گا کہ اس کا مکان تو باقی رہے اور قوم کی عمارتیں بک جائیں۔ اس کی زمین تو باقی رہے لیکن اسلام کی زمین فروخت ہو جائے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر صرف آپ لوگ جنہوں نے آج اقرار کیا ہے دین کی خدمت کے لئے کھڑے ہو جائیں تو میں سمجھوں گا اسلام کی فتح کا زمانہ آگیا اور میں دشمن پر فتح پا گیا۲۷۷۔
فسادات لاہور اور جماعت احمدیہ کی طرف سے مظلوم مسلمانوں کی امداد
مئی ۱۹۲۷ء کے پہلے ہفتہ کا آغاز فسادات لاہور سے ہوا۔ جس میں لاہور کے مظلوم اور بے کس مسلمانوں کا خون دو تین دن تک نہایت
بے دردی سے بہایا جاتا رہا۲۷۸۔
قادیان میں اس دردناک حادثہ کی اطلاع پہنچی تو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو سخت قلق و کرب ہوا اور آپ نے ذوالفقار علی خان صاحب (ناظر اعلیٰ) اور مفتی محمد صادق صاحب (ناظر امور عامہ) کو فوراً قیام امن‘خدمت خلق اور امداد مظلومین کی غرض سے اور مسلمانوں کی قانونی امداد کے لئے مولوی فضل الدین صاحب وکیل کو لاہور روانہ فرمایا۔ اس کے بعد حضور کی ہدایات لے کر بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی بھی لاہور تشریف لے آئے اور مسجد احمدیہ لاہور میں انفرمیشن بیورو (شعبہ اطلاعات) قائم کر دیا گیا۲۷۹۔
شعبہ اطلاعات کے قیام کے بعد حضرت ذوالفقار علی خان صاحب اور حضرت مفتی صاحب نے سب سے پہلے مقتولین اور مجروحین اور ان کے پسماندگان سے متعلق ضروری اور مفصل معلومات حاصل کرنے کے لئے ایک مفصل اشتہار دیا۲۸۰۔ جس پر صبح ۶ بجے سے لے کر ۹ بجے شام تک لاہور کے مختلف حصوں سے بکثرت اطلاعات آنا شروع ہوئیں اور جہاں جہاں بھی فوری امداد کی ضرورت محسوس ہوئی ان بزرگوں نے امداد پہنچائی اور خود کوتوالی میں جا کر زیر حراست مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی۔ مرنے والوں کے لواحقین اور متعلقین کی ڈھارس بندھائی اور مناسب ضروریات کا بندوبست کیا اور لاہور کے احمدی ڈاکٹروں کو ہسپتال میں جا کر زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے بھجوایا۲۸۱۔ چنانچہ لاہور کے ہفت روزہ ’’ترجمان‘‘ نے ۶/ جون ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں لکھا۔ ۔مرزائی مسلمانوں نے بڑے وسیع پیمانے پر لاہور کے مصیبت زدہ مسلمانوں کی ہر صورت میں یعنی قانونی اور نقدی کی امداد بہم پہنچانا شروع کر دی ہے‘‘۲۸۲۔
ذوالفقار علی خاں صاحب (ناظر اعلیٰ`) ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب (ناظر امور خارجہ`) مولوی فضل الدین صاحب وکیل اور بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی مہینوں تک مسلمانان لاہور کی خدمت کرتے رہے۲۸۳۔
‏rov.5.38
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کا چودھواں سال
چھٹا باب (فصل ششم)
مسلمانان ہند کی ترقی و بہبود کے لئے وسیع پیمانہ پر جدوجہد کا آغاز
لاہور کے مسلمانوں کا کشت و خون محض ایک مقامی فرقہ وارانہ کشمکش نہیں تھی بلکہ اس کے پیچھے مسلمانوں کو ختم کرنے کی زبردست
روح کام کر رہی تھی۔ اس لئے حضور نے صرف مظلومین لاہور کو امداد دینے کے علاوہ مسلمانان ہند کی اقتصادی‘معاشی‘سیاسی اور مذہبی ترقی کے لئے ایک ملک گیر تحریک چلانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس سلسلہ میں حضور نے سب سے پہلے قادیان کے ناظروں‘مبلغوں‘ایڈیٹروں‘مصنفوں‘طالب علموں اور استادوں کو دفتر ڈاک میں بلایا اور ملکی حالات پر مفصل تقریر فرمائی اور انہیں اپنی تحریک سے متعلق نہایت اہم ہدایات دیں۲۸۴۔
جماعت احمدیہ کو اپنی اہم تحریک سے روشناس کرانے کے بعد حضور نے مسلمانوں کو ان خطرناک حالات کے مقابلہ میں متحد کرنے کے لئے پے در پے مضامین‘پوسٹر اور اشتہارات شائع فرمائے چنانچہ اس سلسلہ میں آپ کے قلم سے پہلا مضمون ’’امام جماعت احمدیہ کا فسادات لاہور پر تبصرہ۲۸۵‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ جس میں آپ نے مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ فسادات لاہور سے سبق لیں اور اشاعت اسلام کی طرف توجہ دیں۔ دوسری اہم بات جس کی طرف آپ نے اس مضمون میں مسلمانوں کو توجہ دلائی یہ تھی کہ
’’مسلمانوں کو چاہئے کہ سکھ صاحبان سے تعلقات کو بڑھائیں اور اس شورش کی وجہ سے اس امر کو نظر انداز نہ کر دیں کہ سکھ صاحبان صرف ہندوئوں کا ہتھیار بنائے گئے ہیں۔ ورنہ وہ دل سے مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں بلکہ بوجہ اپنے بزرگوں کی نصائح اور توحید پر ایمان رکھنے کے مسلمانوں کا داہنا بازو ہیں اور مسلمانوں کی ذرا سی توجہ کے ساتھ وہ اپنی غلطی کا اعتراف کر کے مسلمانوں کے ساتھ مل کر ملک سے فساد اور شورش کو مٹانے کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ خصوصاً جب کہ ان کا سیاسی فائدہ بھی مسلمانوں سے ملنے میں ہے کیونکہ ہندوئوں سے مل کر وہ اس صوبہ میں قلیل التعداد ہی رہے لیکن مسلمانوں سے مل کر وہ ایک زبردست پارٹی بنا سکتے ہیں۔ جو پنجاب کو اس کی پرانی شان و شوکت پر قائم کرنے میں نہایت مفید ہو سکتی ہے‘‘۲۸۶۔
اس مضمون کے ساتھ حضور نے ایک مفصل ٹریکٹ بھی شائع فرمایا۔ جس کا عنوان تھا۔ ’’آپ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں‘‘؟
اس ٹریکٹ میں حضور نے اسلامی اتحاد کی تحریک کے اکتیس اہم نکات مسلمانوں کے سامنے رکھے جن میں انجمن ترقی اسلام سے تعاون کی اپیل فرمائی۔ یہ نکات حضور ہی کے الفاظ میں درج ذیل ہیں۔
۱۔
’’آپ آج سے اقرار کر لیں کہ جہاں تک آپ کے اختیار میں ہوگا۔ آپ جائز طور پر مسلمانوں کی بے کاری کو دور کرنے میں مدد دیں گے‘‘۔
۲۔
آپ کو اگر ایسے مسلمانوں کا علم ہے‘جو کسی قسم کے روزگار کے متلاشی ہیں تو ان لوگوں کو تحریک کریں کہ وہ اپنے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں‘‘۔
۳۔
’’آپ یہ ارادہ کر لیں کہ آپ مسلمان مستحقین کو اپنا پیشہ سکھا کر انہیں کام کے قابل بننے کی ہر سعی کو استعمال کریں گے‘‘۔
۴۔
’’آپ کو ایسے نوجوانوں کا حال معلوم ہے۔ جو مناسب پیشہ نہ جاننے کے سبب سے بیکار ہیں تو ایسے نوجوانوں کے نام سے صیغہ ترقی اسلام کو اطلاع دیں‘‘۔
۵۔
’’آپ آج سے ارادہ کر لیں کہ مسلمان مظلوموں کی مدد کے لئے آپ حتی الوسع تیار رہیں گے‘‘۔
۶۔
’’اگر آپ یہ نہیں کر سکتے تو یہ بھی آپ کی اسلامی خدمت ہو گی کہ آپ ایسے مظلوموں کے ناموں اور پتوں سے صیغہ مذکورہ بالا کو اطلاع دیں‘‘۔
۷۔
آپ کو بعض ایسے کام اور پیشے معلوم ہیں جن میں مسلمان ترقی کر سکتے ہیں تو اس کے متعلق صیغہ مذکورہ کو تفصیلی علم دیں‘‘۔
۸۔
’’اگر آپ کو بعض ایسے محکموں کا حال معلوم ہے جن میں مسلمان کم ہیں اور ان کی طرف توجہ مسلمانوں کے لئے مفید ہے تو ان سے صیغہ مذکور کو اطلاع دیتے رہیں‘‘۔
۹۔
’’اگر مسلمانوں کی کسی ضرورت کے لئے کسی ڈیپوٹیشن کی ضرورت ہو تو آپ اس میں شامل ہونے کے لئے بشرطیکہ آپ کے حالات اجازت دیں تیار رہیں‘‘۔
۱۰۔
’’اگر آپ پروفیسر ہیں یا تعلیم کے کام سے دلچسپی رکھتے ہیں تو ایسے تعلیمی شعبوں سے صیغہ مذکور کو اطلاع دیتے رہا کریں۔ جن میں مسلمان کم ہیں‘‘۔
۱۱۔
’’اندھا دھند پرائی لکیر پر چل کر ایک ہی لائن پر اپنے بچوں کو نہ چلائیں۔ بلکہ اپنے بچہ کو اعلیٰ تعلیم دلانے سے پہلے اپنے احباب سے مشورہ کر لیں کہ کس تعلیم سے نہ صرف بچہ ترقی کر سکتا ہے بلکہ مسلمانوں کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے‘‘۔
۱۲۔
’’خود بھی سادہ زندگی کو اختیار کریں اور اپنے بچوں کو بھی سادہ زندگی اختیار کرنے کی تحریک کریں‘‘۔
۱۳۔
’’اگر آپ کو خدا تعالیٰ نے عزت دی ہے تو غرباء سے اور اگر آپ شہری ہیں تو قصباتیوں سے تعلق بڑھائیں‘‘۔
۱۴۔
’’تعاون باہمی کی انجمنیں اپنے علاقوں میں قائم کریں‘‘۔
۱۵۔
’’آپ آج سے عہد کر لیں کہ کسی ہندو کی پکی ہوئی یا اس کے ہاتھ کی چھوئی ہوئی چیز کا استعمال نہیں کرنا۔ جب تک کہ ہندو اپنی روش کو بدل کر مسلمانوں سے خریدنا اور ان کے ہاتھوں کا کھانا نہ شروع کر دیں‘‘۔
۱۶۔
’’فساد سے بچنے اور مستقل ارادہ سے کام کرنے کی طرف آپ اپنے گرد و پیش کے لوگوں کو تحریک کرتے رہیں‘‘۔
۱۷۔
’’آپ کے محلہ اور آپ کے گائوں میں ایسے لوگ ہیں جن کو ہندو تہذیب نے ہزاروں سالوں سے غلام بنا رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔ ان کی ہدایت کی طرف توجہ کریں‘‘۔
۱۸۔
’’آپ مرسلہ اشتہار کو مناسب موقعوں پر اپنے شہر یا محلہ میں لگا دیں گے تو یہ بھی ایک دینی خدمت ہے‘‘۔
۱۹۔
’’اس لٹریچر کو منگوا کر جو اس وقت کی ضرورت کے مطابق شائع کرایا جائے گا اپنے علاقہ میں فروخت کریں‘‘۔
۲۰۔
’’اگر آپ کے قصبہ اور شہر میں کوئی اسلامی انجمن ایسی نہیں جو تبلیغی کام میں حصہ لے رہی ہو تو آپ ایسی انجمن کو قائم کرکے دینی خدمت کر سکتے ہیں‘‘۔
۲۱۔
’’ہندو لوگ ہر علاقہ میں خفیہ خفیہ شدھی کی تحریک جاری کر رہے ہیں۔ آپ ایک بہت بڑی خدمت اسلامی کریں گے اگر آپ ان کی حرکات کو تاڑتے رہیں‘‘۔
۲۲۔
’’بیوائوں۔ مظلوم عورتوں اور یتیموں کو آریہ اور مسیحی خصوصاً بہکا رہے ہیں۔ آپ ایک بڑی خدمت اسلام کریں گے اگر ان کے حالات پر نگاہ رکھیں اور ان کی مدد اور ہمدردی کریں‘‘۔
۲۳۔
’’اگر آپ کو شوق تبلیغ ہے اور آپ عربی کی تعلیم رکھتے ہیں یا کم سے کم انٹرینس تک تعلیم یافتہ ہیں تو ہم بڑی خوش سے آپ کی مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کے لئے تیار ہیں‘‘۔
‏]in [tag۲۴۔
’’اگر آپ کے ہاں پہلے سے انجمن قائم ہے تو آپ تبلیغی لیکچروں یا مباحثوں کا انتظام کرکے خدمت اسلام کر سکتے ہیں‘‘۔
۲۵۔
’’آپ مسلمانوں کی دینی تعلیم کے لئے ایسے لیکچروں کا انتظام کرکے بھی جن میں اسلامی تعلیم کی خوبیاں بیان کی جائیں اسلام کی خدمت کر سکتے ہیں‘‘۔
۲۶۔
’’آپ دین کی خدمت کے لئے اپنے اموال میں سے ایک حصہ الگ کرکے دین اسلام کی مدد کر سکتے ہیں‘‘۔
۲۷۔
’’آپ مسلمانوں میں یہ خیال پیدا کرکے کہ آپس میں گو ہمارے کس قدر اختلاف ہوں۔ لیکن دشمنان اسلام کے مقابلہ میں ہمیں ایک ہو جانا چاہئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت بڑی خدمت اسلام کر سکتے ہیں‘‘۔
۲۸۔
’’آپ مسلمان زمینداروں میں یہ خیال پیدا کرکے کہ وہ اپنے علاقہ کی ادنیٰ اقوام کو مسلمان بنانے میں مبلغین اسلام کی مدد کریں۔ خدمت اسلام میں حصہ لے سکتے ہیں‘‘۔
۲۹۔
’’مسلمانوں کو ہر موقعہ پر اس خطرہ سے آگاہ کرتے رہیں جو اس وقت اسلام کو پیش آرہا ہے‘‘۔
۳۰۔
’’آپ کی خدمت اور بھی بڑھ جائے گی اگر آپ ایسے لوگوں کے ناموں اور پتوں سے صیغہ مذکورہ بالا کو اطلاع دیتے رہا کریں جو کسی نہ کسی رنگ میں خدمت اسلام میں حصہ لینے کے لئے تیار ہوں‘‘۔
۳۱۔
’’اگر آپ ان امور میں سے کسی امر کی تعیین نہ کر سکتے ہوں تو آپ کم سے کم اس قدر ضرور کریں کہ اپنی زندگی کو اسلام کی تعلیم کے مطابق بسر کرنے کی کوشش کریں۔ اس طرح آپ اسلام کو اعتراض سے بچانے میں ہماری مدد کریں گے۲۸۷۔
سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کو اس بروقت اور پرزور تحریک کی کامیابی کے لئے جماعت احمدیہ کے مرکزی ناظروں‘مبلغوں‘کارکنوں اور دوسرے احمدیوں نے اپنے اوقات وقف کر دیئے اور ایسی غیر معمولی جدوجہد سے کام لیا کہ خصوصاً مسلمانان پنجاب میں حیرت انگیز انقلاب برپا ہو گیا اور مسلمان نہ صرف اتحاد ملت اور تبلیغ اسلام سے متعلق اپنے فرائض کی طرف متوجہ ہو گئے بلکہ ایک نہایت ہی قلیل عرصہ میں مسلمانوں کی ہزاروں نئی دکانیں کھل گئیں۲۸۸۔ ہندوئوں نے مسلمان دکانداروں کو ناکام کرنے کے لئے کئی صورتیں اختیار کیں۔ مثلاً جن چیزوں کی تجارت مسلمانوں نے شروع کی ان کی قیمتیں قیمت خرید سے بھی گرا دیں۔ مگر مسلمانوں کو تجارت کے میدان سے بے دخل کرنے کی یہ تدبیریں کارگر نہ ہو سکیں اور ان کا قدم پیچھے ہٹنے کی بجائے آگے ہی بڑھتا گیا۔
حواشی (پانچواں`چھٹا باب)
۱۔
الفضل ۲۱/ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔ ان شہداء کو پتھر مارنے والوں میں بھیرہ کے صوفی عبدالرحیم صاحب پراچہ بھی تھے جنہوں نے اس حادثہ سے متاثر ہو کر بعد ازاں احمدیت قبول کر لی۔ ولادت غالباً ۱۹۰۲ء وفات ۷/ فروری ۱۹۵۸ء بھیرہ میں دفن کئے گئے۔
‏h1] [tag۲۔
امان اللہ خاں کی حکومت نے اعلان کیا کہ کابل کے دو اشخاص ملا عبدالحلیم چہار آسیانی ملا نور علی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہو چکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدہ کی تلقین کرکے انہیں صلاح کی راہ سے بھٹکا رہے تھے۔ جمہوریہ نے ان کی اس حرکت سے مشتعل ہو کر ان کے خلاف دعویٰ دائر کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجرم ثابت ہو کر عوام کے ہاتھوں پنجشنبہ ۱۱/ رجب ۱۳۴۳ھ کو عدم آباد پہنچائے گئے۔ ان کے خلاف مدت سے ایک اور دعویٰ دائر ہو چکا تھا اور مملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضہ سے پائے گئے جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ بک چکے تھے۔ اس واقعہ کی تفصیل مزید تفتیش کے بعد شائع کی جائے گی۔ (اخبار امان افغان۔ بحوالہ الفضل ۳/ مارچ ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۱) اس اعلان میں سازشی خطوط کا جو الزام عائد کیا گیا وہ امان اللہ خاں کی حکومت اپنے عہد اقتدار کے آخری دن تک ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔ دراصل جس حکومت میں محض مذہبی اور نظریاتی اختلاف کی وجہ سے سنگسار کرنا روا ہو وہاں چند سازشی خطوط کا مرحومین کے گلے مڑھ دینے میں کیا مضائقہ سمجھا جا سکتا تھا پھر عجیب تر بات یہ تھی کہ مزید تفتیش تو ابھی ہونے والی تھی۔ مگر سزا پہلے دے دی گئی۔
۳۔
الجمعیتہ (دہلی) ۱۰/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۹ بحوالہ الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۲۵ء و الفضل ۱۱/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۴۔
الفضل ۳/ مارچ ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۱۔
۵۔
بحوالہ اخبار الفضل ۲۱/ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۶۔
بحوالہ الفضل ۲۶/ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۵۔
۷۔
اخبار ریاست دہلی ۲۱/ فروری ۱۹۲۵ء۔
۸۔
دیوان سنگھ مفتون ایڈیٹر اخبار ریاست نے اپنی مشہور کتاب ’’ناقابل فراموش‘‘ کے صفحہ ۴۴۱ پر بھی اپنے اس احتجاج کا ذکر کیا ہے۔
۹۔
الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۲۵ء صفحہ ۶۔
۱۰۔
الفضل ۱۹/ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۱۱۔
’’سیرت محمد علی‘‘ صفحہ ۵۱ (از سید رئیس احمد صاحب جعفری) طبع دوم ۱۹۵۰ء۔
۱۲۔
بحوالہ الفضل ۳/ مارچ ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۱۔
۱۳۔
بحوالہ الفضل ۱۰/ مارچ ۱۹۲۵ء۔
۱۴۔
اصل مضمون میں الدین کی بجائے احمد کا لفظ لکھا گیا ہے جو سہو کتابت ہے۔ (ناقل)
۱۵۔
روزنامہ ’’ہمدرد‘‘ دہلی ۲۱/ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۳ (اس سلسلہ میں جناب محمد علی جوہر کی ایک تحریر کا عکس الفضل ۱۵/ اپریل ۱۹۵۲ء میں شائع ہو چکا ہے)
۱۶۔
سیرت محمد علی از رئیس احمد صاحب جعفری صفحہ ۵۱۔
۱۷۔
منقول از الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۲۵ء صفحہ ۶۔ ۷۔
۱۸۔
اخبار اہلحدیث امرتسر ۳/ اکتوبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۹۔
بحوالہ الفضل ۲۴/ مارچ ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۔
۲۰۔
زمیندار ۱۹/ فروری ۱۹۲۵ء بعنوان احقاق حق بحوالہ الفضل ۲۸/ فروری ۱۹۲۸ء صفحہ ۴۔
۲۱۔
حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب اور حضرت امتہ الحی صاحبہ وغیرہ کی وفات کے صدمات کی طرف اشارہ ہے۔
۲۲۔
جیسا کہ پچھلے سال کے حالات میں ذکر کیا جاچکا ہے حضرت خلیفہ ثانی نے سفر یورپ کے ذاتی اخراجات خود برداشت کئے اور اس سلسلہ میں آپ کو سیٹھ شیخ حسن یادگیر اور بعض دوسرے اصحاب سے قرض لینا پڑا تھا۔ ملاحظہ ہو اصحاب احمد جلد اول صفحہ۲۳۰۔۲۳۲
۲۳۔
‏]2h [tag الفضل ۱۷/ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۵۔
۲۴۔
دراصل اس تحریک پر اخبار سیاست نے نہایت معتبر ذرائع کی بناء پر لکھا تھا کہ آئے دن چندے دیتے دیتے قادیانی مرید بھی کچھ تھک سے گئے ہیں اور اپیل کا اثر تاحال حوصلہ افزا نہیں۔ مگر اس کے بعد خود ہی ۱۳/ مئی ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں لکھا معتقدین قادیان اپنے خلیفہ کے ایماء پر بھوکے رہ کر محنت کرکے بال بچوں کو بھوکا رکھ کر روپیہ دے رہے ہیں۔ (بحوالہ الفضل ۱۹/ مئی ۱۹۲۵ء صفحہ ۳)
۲۵۔
الفضل ۱۶/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۶۔
الفضل ۲۱/ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۷۔
۲۷۔
منعقدہ ۲۳۔ ۲۴/ جنوری ۱۹۲۵ء بمقام دہلی (الفضل ۵/ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۲)
۲۸۔
الفضل ۱۴/ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۹۔
الفضل ۲۱/ مارچ ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۳۰۔
منہاج الطالبین صفحہ ۳۔ ۴ (از حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ) طبع اول دسمبر ۱۹۲۶ء۔
۳۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۹۔
۳۲۔
الفضل ۳/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۷۔
۳۳۔
الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۔ ۶۔
۳۴۔
الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۵۔
۳۵۔
الفضل ۱۸/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۳ تا ۶۔
۳۶۔
تاریخ اقوام عالم صفحہ ۷۰۸۔ ۷۰۹۔ اس امر کا پہلی بار انکشاف برطانوی پالیسی کے بہت بڑے ماہر لفٹنٹ کمانڈر جے۔ ایم کین ممبر پارلیمنٹ اسسٹنٹ چیف آف سٹاف جبرالٹر نے کیا تھا چنانچہ انہوں نے اپنی ایک کتاب میں جنگ کے اسباب و علل پر بحث کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اب مذہب کی بنا پر جنگ نہیں ہوتے۔ ہاں عرب کے مختلف قبائل میں مذہب ابھی تک باعث مخاصمت ہے واقعہ یہ ہے کہ خود انگلستان نے عربوں کے مذہبی تعصب سے فائدہ اٹھانا چاہا اور شریف حسین کو جو شاہ حجاز بن چکا تھا اس بات پر اکسایا کہ خلیفتہ المسلمین کی خالی جگہ پر متمکن ہو جائے یہ محکمہ خارجہ کی سازش تھی اور اس کے ذمہ دار قاہرہ کے عرب بیورو کے ارکان تھے لیکن یہ تجویز بالکل ناکامیاب رہی۔ اس ناکامی کی وجہ نادانستہ طور پر حکومت ہند بن گئی حکومت ہند اپنی خفیہ حکمت عملی پر کاربند ہوتے ہوئے شریف مکہ کے زبردست دشمن ابن سعود کو اشرفیاں اور بندوقیں پہنچاتی رہی۔ یہ ¶وہابی لوگ اہل مکہ کے خلاف پچھلی صدی سے نبرد آزما ہیں۔ ادھر برطانوی محکمہ خارجہ کا عرب بیورو شریف مکہ کو بندوقیں اور اشرفیاں دے رہا تھا حکومت ہند نے تاڑ لیا تھا کہ ابن سعود طاقتور آدمی ہے اس لئے اسے پھانسنا چاہئے اور برطانوی محکمہ خارجہ خلیفتہ المسلمین بنانے کی سازش میں لگا ہوا تھا۔ غرض حکومت برطانیہ کا اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ سے بے خبر تھا اس طرح ابن سعود اور شریف مکہ کی جنگ دراصل حکومت ہند اور برطانیہ کی جنگ تھی اور اس راز کا انکشاف اس وقت ہوا۔ جب صلح کانفرنس کے موقعہ پر حکومت ہند اور محکمہ خارجہ نے اپنی الگ الگ یادداشتیں برطانوی وزارت کے آگے پیش کیں۔ (بحوالہ اخبار تازیانہ (لاہور) ۱۵/ اکتوبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸)
۳۷۔
الفضل ۲۰/ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۳۔
۳۸۔
الفضل ۴/ جون ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۳۹۔
حضور نے اپنے اس مضمون میں یہ وضاحت بھی فرمائی کہ محمد بن عبدالوہاب کے پیروئوں کا نام آہستہ آہستہ وہابی پڑ گیا۔ اس لئے میں نے وہی نام لکھا ورنہ یہ لوگ اس نام کو استعمال نہیں کرتے۔ (الفضل ۲۰/ جون ۱۹۲۵ء صفحہ ۴)
۴۰۔
الفضل ۲۰/ جون ۱۹۲۵ء صفحہ ۶۔
۴۱۔
ولادت ۱۸۸۲ء۔ وفات ۱۹۵۳ء۔
۴۲۔
مکتوبات احمدیہ جلد اول صفحہ ۸۶ (مکتوب بنام میر عباس علی صاحب مورخہ ۶/ اپریل ۱۸۸۵ء)
۴۳۔
۳۱۳۔ اصحاب کبار کی فہرست میں آپ کا نام ۹۸ نمبر پر درج ہے (ملاحظہ ہو ضمیمہ انجام آتھم)
۴۴۔
۳۱۳ کی فہرست میں ۵۵ نمبر پر۔
۴۵۔
الاستفتاء (از حضرت مسیح موعودؑ) صفحہ ۳۲۔
۴۶۔
تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو تابعین اصحاب احمد حصہ اول صفحہ ۸۰ تا ۹۴ (وفات ۱۸/ دسمبر ۱۹۶۰ء)
۴۷۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تاریخ احمدیت جلد دوم وسوم۔
۴۸۔
خریسطفور جبارہ (ایک دمشقی فاضل) نے اپنی کتاب خلاصتہ الادیان و زبدۃ الادیان کے صفحہ ۲۴ میں آپ کی تالیف حمامتہ البشریٰ سے چند سطور نقل کرکے آپ کی نسبت لکھتا ہے کہ یہ کتاب ایک ہندی فاضل کی ہے جو تمام ملک ہند میں مشہور ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے تریاق القلوب کے ضمیمہ ۳ میں اس کا ذکر فرمایا ہے۔
۴۹۔
تاریخ احمدیت جلد دوم (طبع دوم) صفحہ ۲۸۱ حاشیہ۔
۵۰۔
تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحہ ۴۹۷۔
۵۱۔
تفصیل پہلے گزر چکی ہے ملاحظہ ہو صفحہ ۲۹۳ بعنوان دارالتبلیغ مصر کا قیام۔
۵۲۔
الفضل ۱۱/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۵۳۔
الفضل ۳۰/ جون ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۵۴۔
الفضل ۱۸/ اگست ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۵۵۔
مضمون السید منیر الحصنی صاحب امیر جماعت احمدیہ شام (مطبوعہ ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۵۔ ۴۶)
۵۶۔
‏]2h [tag الفضل ۱۳/ اپریل ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۵۷۔
الفضل ۳۰/ اپریل ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۵۸۔
الفضل ۱۴/ مئی ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۵۹۔
الفضل ۱۸/ جون ۱۹۲۶ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۶۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۴۔ ۳۵۔
۶۱۔
الفضل ۱۸/ جون ۱۹۲۶ء صفحہ ۴۔
۶۲۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۴۱ اس مناظرہ کا حصہ دوم جس میں حیاۃ و وفات مسیح پر بحث تھی فریقین کے مساوی خرچ پر شائع ہوا۔ مگر اس کے علاوہ دیگر مسائل شائع نہ ہوئے۔
۶۳۔
مولانا شمس صاحب کی یادداشت کے مطابق یہ ۲۰/ دسمبر ۱۹۲۷ء کا دن تھا۔
۶۴۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۷۵۔ ۱۷۸۔
۶۵۔
تابعین اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۸۷۔
۶۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۵۹۔ ۱۶۰۔
۶۷۔
رپورٹ سالانہ ۳۱۔ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۲۔
۶۸۔
کیا بیر ایک گائوں ہے جو حیفا شہر سے تین میل کے فاصلہ پر جبل الکرمل کی چوٹی پر سمندر کے کنارہ پر واقعہ ہے اور ۱۹۴۲ء سے حیفا کا ایک حصہ بن چکا ہے۔
۶۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۰۔
۷۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۳۰ء صفحہ ۱۵۸۔
۷۱۔
الفضل ۱۵/ اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔
۷۲۔
الفضل ۸/ ستمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۔
۷۳۔
الفضل ۲۲/ دسمبر ۱۹۳۱ء صفحہ ۲۔
۷۴۔
الفضل ۱۹/ جنوری ۱۹۳۲ء صفحہ ۶ کالم ۱۔
۷۵۔
آپ کو تبلیغ احمدیت کی وجہ سے شام کی فرانسیسی حکومت نے ملک سے نکال دیا تھا اس لئے آپ ان دنوں حیفا میں تشریف لے آئے تھے۔
۷۶۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۵۔ ۱۹۳۴ء صفحہ ۸۳۔
۷۷۔
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۳۔ ۱۹۳۲ء صفحہ ۱۵۲۔ ۱۵۳۔
۷۸۔
رسالہ الفرقان فروری ۱۹۵۶ء و رپورٹ سالانہ ۳۴۔ ۱۹۳۵ء صفحہ ۸۱۔ ۸۲۔
۷۹۔
رپورٹ سالانہ ۳۲۔ ۱۹۳۳ء صفحہ ۱۵۱۔ ۱۵۲۔
۸۰۔
الفضل ۲۵/ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۲۔
۸۱۔
الفضل ۷/ جنوری ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۔
۸۲۔
الفضل ۲۳/ فروری ۱۹۳۶ء صفحہ ۵۔
۸۳۔
رپورٹ سالانہ ۳۷۔ ۱۹۳۸ء صفحہ ۱۴۸ تا ۱۵۴۔
۸۴۔
الفضل ۱۲/ مارچ ۱۹۳۸ء۔
۸۵۔
قادیان سے آپ اپنی اہلیہ صاحبہ (فضل بی بی بنت میاں خیر الدین صاحب) کے ساتھ روانہ ہوئے تھے جو ۲۷/ فروری ۱۹۴۳ء کو اسی سرزمین میں انتقال کر گئیں اور جبل الکرمل (کبابیر) میں دفن کی گئیں۔ (الفضل ۲۱/ اپریل ۱۹۴۳ء صفحہ ۲)
۸۶۔
رپورٹ سالانہ ۳۸۔ ۱۹۳۹ء صفحہ ۷۷۔
۸۷۔
انقلاب ۱۹۴۸ء سے پہلے فلسطین کے مندرجہ ذیل مقامات پر احمدی موجود تھے۔ کبابیر‘حیفا۔ عکا۔ بیت المقدس۔ ناصرہ۔ نابلس۔ طیرہ۔ ام الفحم۔ عین غذال۔ جیع۔ برجا۔ طول کرم۔ کفر لام۔ سمخ۔ بیسان۔ طبریا۔ ترشیحا۔ صفد۔ لد۔ رملتہ۔ یافا۔
۸۸۔
آپ کچھ عرصہ بعد لبنان میں بھیجے گئے مگر اس کی تفصیل لبنان مشن کے حالات میں آرہی ہے۔
۸۹۔
مزید تفصیلات اردن اور لبنان مشن کے کوائف میں آئیں گی۔
۹۰۔
الفضل ۵/ دسمبر ۱۹۴۸ء صفحہ ۳۔
۹۱۔
رپورٹ سالانہ ۳۸۔ ۱۹۳۹ء۔
۹۲۔
الفضل ۲۵/ دسمبر ۱۹۴۹ء صفحہ ۸ و البشریٰ ۱۹۴۷ء۔
۹۳۔
تفصیل کے لئے دیکھیں البشریٰ جلد ۱۵ نمبر ۲۔۱۹۴۹ء
۹۴۔
اس وقت حبشہ کے مندرجہ ذیل مقامات پر جماعت احمدیہ موجود ہے۔ ادیس آبابا۔ ہرر۔ اسباتفری۔ شرشر۔ دری دوا۔ اداما (البشریٰ جلد ۱۷ صفحہ ۱۳۹) ۱۹۵۱ء حبشہ میں ڈاکٹر نذیر احمد صاحب (ابن حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب سابق مہر سنگھ) نے بھی آنریری مبلغ کی حیثیت سے کام کیا ہے۔
۹۵۔
حکومت اسرائیل کے پریذیڈنٹ (اسحٰق بن صفی) نے آپ کو پیغام بھیجا کہ اپنے وطن روانہ ہونے سے پہلے مجھے مل کر جائیں۔ چنانچہ آپ نے ان کی دعوت قبول کر لی اور ۲۸/ نومبر ۱۹۵۵ء کو ان سے ملاقات کی۔ اور انہیں (جماعت احمدیہ کا شائع کردہ) جرمن کا ترجمہ قرآن مجید بطور تحفہ دیا۔ جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کیا۔ اس تقریب کا فوٹو بھی لیا گیا۔ جو دنیا کے مختلف ممالک میں شائع ہوا۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اس کا ذکر اپنے خطبہ جمعہ ۵/ ستمبر ۱۹۵۸ء (مطبوعہ الفضل۳/ اکتوبر ۱۹۵۸ء) میں بھی فرمایا ہے۔
۹۶۔
(الجزء السابع ۱۳۵۷ھ بحوالہ رسالہ البشریٰ (فلسطین) صفحہ ۹۰ جلد ۵۔
۹۷۔
بحوالہ البشریٰ جلد ۵ صفحہ ۳۰۶۔
۹۸۔
بحوالہ البشریٰ (فلسطین) جلد ۷۔
۹۹۔
بحوالہ البشریٰ جلد ۱۳ صفحہ ۴۰۔
۱۰۰۔
بحوالہ البشریٰ (فلسطین) جلد ۱۳ صفحہ ۱۲۴۔
۱۰۱۔
بحوالہ البشریٰ جلد ۱۵ صفحہ ۲۴۰۔
۱۰۲۔
بحوالہ البشریٰ صفحہ ۱۳۸ جلد ۲۰۔
۱۰۳۔
مشاہداتی فی سماء الشرق صفحہ ۴۳ تا ۴۵۔
۱۰۴۔
اہلحدیث ۲۱/ اگست ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۰۵۔
الفضل ۱۶/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۱۰۶۔
بحوالہ الفضل ۱۰/ ستمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۵۔
۱۰۷۔
اہلحدیث ۲۱/ اگست ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۔
۱۰۸۔
الفضل ۱۰/ ستمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۳۔
۱۰۹۔
اہلحدیث ۹/ جون ۱۹۴۴ء (مولوی ثناء اللہ صاحب کے اس ادعا کے جواب میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے مفصل مضمون کے لئے ملاحظہ ہو الفضل ۳۱/ جنوری ۱۹۳۱ء صفحہ ۳۔ ۵۔
۱۱۰۔
الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۱۱۔
مولوی شبیر احمد صاحب عثمانی جانشین شیخ الہند مولوی محمود الحسن صاحب نے صوبہ جمعیتہ العلماء اسلام کانفرنس لاہور (منعقدہ ۲۵۔ ۲۶۔ ۲۷/ جنوری ۱۹۴۶ء) کے خطبہ صدارت میں تسلیم کیا کہ ہندوستان کو کامل یا نیم آزادی اگر ملنے والی ہے تو وہ انگریزوں کے دینے سے ملے گی۔ (خطبہ صدارت صفحہ ۳۲)
۱۱۲۔
الفضل (۱۸/ جولائی ۱۹۲۵ء)
۱۱۳۔
الفضل ۱۸/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۱۴۔
الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۱۱۵۔
مثلاً سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری‘مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی‘مولوی محمد اسمعیل صاحب غزنوی (الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۲)
۱۱۶۔
الفضل ۲۳/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۱۱۷۔
الفضل ۲۱/ جولائی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۱۸۔
الفضل ۲۷/ اگست ۱۹۲۵ء صفحہ ۵۔
۱۱۹۔
مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تقریر سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا مطبوعہ خالد مارچ ۱۹۵۴ء صفحہ ۵۔ ۷۔ یاد رہے کہ ہم نے اس عنوان کے تحت انڈونیشیا کے جزائر میں سے صرف سماٹرا اور جاوا کے تبلیغی حالات کا تذکرہ کیا ہے بورنیو اور دوسرے جزائر کے مشنوں کا ذکر اپنے مقام پر آئے گا۔
۱۲۰۔
تقریر سید شاہ محمد صاحب مطبوعہ خالد اپریل ۱۹۵۴ء صفحہ ۲۱۔ ۲۲۔
۱۲۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۵۲ء صفحہ ۲۵۔
۱۲۲۔
سب سے اول مولوی ذینی دھلان نے بیعت کا شرف حاصل کیا۔
۱۲۳۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۵۔ ۵۶۔
۱۲۴۔
الفضل ۴/ دسمبر ۱۹۲۴ء صفحہ ۲۔
۱۲۵۔
خالد اپریل ۱۹۵۴ء صفحہ ۲۲۔
۱۲۶۔
سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۸۳۔
۱۲۷۔
الفضل ۲۰/ اگست ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۲۸۔
ملخصاً از الفضل ۱۵/ ستمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۵۔ ۷۔
۱۲۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۸۳۔
۱۳۰۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۵۔
۱۳۱۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۸ء صفحہ ۱۸۳۔ ۱۸۶۔
۱۳۲۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۸۵ تا ۱۸۷۔
۱۳۳۔
الفضل ۲۲/ اکتوبر ۱۹۲۹ء۔
۱۳۴۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۸۔
۱۳۵۔
رپورٹ سالانہ ۳۲۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۵۔ ۶۔
۱۳۶۔
رپورٹ سالانہ ۳۵۔ ۱۹۳۴ء صفحہ ۹۸۔ ۹۹۔
۱۳۷۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۵۸ و ۶۲۔
۱۳۸۔
رپورٹ سالانہ ۳۵۔ ۱۹۳۴ء صفحہ ۹۱۔
۱۳۹۔
رپورٹ سالانہ ۳۵۔ ۱۹۳۴ء صفحہ ۹۰ تا ۹۷۔
۱۴۰۔
رپورٹ سالانہ ۱۹۳۶ء صفحہ ۱۴۰۔ ۱۴۱۔
۱۴۱۔
سالانہ رپورٹ ۳۸۔ ۱۹۳۷ء صفحہ ۱۳۹۔ ۱۴۴۔
۱۴۲۔
رپورٹ سالانہ ۴۱۔ ۱۹۴۰ء صفحہ ۳۰۔ ۳۱۔
۱۴۳۔
خالد اپریل ۱۹۵۴ء صفحہ ۲۳۔ ۲۴۔
۱۴۴۔
ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۶۴۔ ۶۶۔
۱۴۵۔
چنانچہ مولوی محمد صادق صاحب کا بیان ہے کہ جنوب مشرقی ایشیا کی جنگ کے ختم ہونے میں چند ماہ باقی رہ گئے ایک روز ایک شخص ہمارے ایک احمدی دوست کے پاس آیا اور کہا کہ مولوی محمد صادق صاحب کے متعلق یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ جس وقت اتحادی فوجیں سماٹرایا جاوا کے کسی حصہ پر چڑھ آئیں گی اسی وقت ان کو گرفتار کر لیا جائے گا ۔۔۔۔۔۔ یہ خبر سنتے ہیں میں نے جماعت کو تحریک کی کہ وہ بیس دن متواتر تہجد کی نماز ادا کریں۔ اور ہر سوموار اور جمعرات کو روزے رکھیں ۔۔۔۔۔۔ جب تیسری رات تہجد کی نماز پڑھ کر صبح سے قبل میں تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گیا۔ تو مجھے خواب میں بڑے موٹے حروف میں لکھا ہوا دکھائی دیا کہ کتاب دانیال کی پانچویں فصل پڑھو ۔۔۔۔۔۔ مغرب کی نماز پڑھ کر میں نے بائبل کا مذکورہ حوالہ پڑھا جس میں بلشرز بنی بخت نصر کے متعلق ذکر ہے اور آخر میں لکھا ہے کہ خدا نے اس ایک خواب دکھایا جس کے متعلق دانیال نبی نے خدا سے پوچھا اور اس کی تعبیر بیان کی اس خواب کے الفاظ یہ ہیں کہ بلشرز کی حکومت کا خاتمہ قریب آپہنچا ہے خدا نے اسے تولا۔ وہ ہلکی نکلی اب اسے مٹا کر فارسی حکومت کو اس کی جگہ قائم کر دیا جائے گا۔ میں نے یہ خواب بعض ہندو اور سکھ دوستوں کے سامنے بھی بیان کیا اور بعض چیدہ چیدہ احمدی دوستوں کو بھی بتایا۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے حالات کو ایسے پلٹا دیا کہ چند ماہ میں حکومت جاپان تباہ ہو گئی۔ دراصل جاپانی حکومت نے ۱۴/ اگست ۱۹۴۵ء ہی کو شکست مان لی تھی۔ مگر اس نے سماٹرا اور جاوا میں ۲۲/ اگست کو یہ شائع کیا کہ ہمارے بادشاہ نے رعایا پر شفقت کی نظر کرتے ہوئے انگریز اور امریکہ سے صلح کر لی ہے۔ جس دن یہ پمفلٹ شائع ہوا۔ اسی دن میں سردار جوگندر سنگھ صاحب ہری برادرز پاڈنگ کی دکان پر گیا وہاں ایک عالم حسن فواد بھی تھے۔ انہوں نے مجھے مخاطب ہو کر کہا ’’مبارک ہو‘‘ میں نے کہا ’’خیر مبارک‘‘۔ مگر بتائیے تو سہی یہ مبارک باد کیسی’’ انہوں نے کہا آپ کے متعلق فیصلہ ہو چکا تھا کہ آپ کو ۲۳/ ۲۴/ اگست ۱۹۴۵ء کی رات کو سزائے موت دی جائے گی مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچا لیا۔ کیونکہ بلیک لسٹ میں آپ کا نام بھی درج ہے پھر دوسرے غیر احمدیوں نے بھی ہمارے بعض دوستوں کو خود بخود بتایا کہ میرے متعلق سزائے موت کا فیصلہ اس لئے کیا گیا تھا کہ میں جاپانی جنگ کو جہاد فی سبیل اللہ نہ مانتا تھا بلکہ اس کے خلاف تبلیغ کرتا تھا۔ اس طرح خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت کا ایک کرشمہ ظاہر فرمایا۔ (ریویو آف ریلیجنز اردو جنوری ۱۹۴۷ء صفحہ ۶۶۔ ۶۷)
اسی طرح جاوا میں جو مبلغین گرفتار تھے ان کی رہائی کے لئے خدا تعالیٰ نے نشان دکھایا اور جاپانی حکومت کی تباہی کی معین تاریخیں تک بتا دیں۔ چنانچہ جناب سید شاہ محمد صاحب فرماتے ہیں۔
’’ایک دفعہ ہمارے بعض دوستوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ استخارہ اور دعا کے ذریعہ معلوم کیا جائے کہ کیا ہم زندہ قید سے چھٹکارا حاصل کر لیں گے یا ہمارے گلے کاٹے جائیں گے۔ ۔۔۔۔۔۔ اس خواہش کی بنا پر میں نے بھی استخارہ کیا ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے رئویا میں بتایا گیا۔ ’’پندرہ دن‘‘ اور ساتھ ہی ایک گھڑی دکھائی گئی جس پر بارہ بج کر اٹھاون مٹ کا وقت تھا اور تفہیم یہ ہوئی کہ ہم پندرہ دن کے بعد بارہ بج کر اٹھاون منٹ پر قید سے رہا ہو جائیں گے ایک دوست محمد طیب نامی کے متعلق معلوم ہوا کہ ان کے کاغذات پر حضرت خلیفتہ المسیح نے دستخط ثبت نہیں کئے اس لئے وہ ہمارے ساتھ قید سے رہا نہیں ہوں گے ۔۔۔۔۔۔ وہ ہمارے بعد رہا ہوں گے۔ یہ پندرہ دن مہینہ کی ۲۷ تاریخ کو ختم ہوئے تھے یہ رئویا سب دوستوں کو سنا دی گئی اور ہم سب منتظر تھے کہ وہ دن کب آتا ہے جب ہم رہا ہوں گے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ جب ہم لوگ سونے لگے تو میرا ہاتھ مکرم مولوی عبدالواحد صاحب سماٹری مبلغ (جو قید میں میرے ساتھ تھے) کے سر پر لگا۔ ان کے علاقہ میں جسے میں نے افریدیوں کا علاقہ قرار دیا ہے یہ معیوب سمجھا جاتا تھا کہ کوئی شخص کسی کے سر پر ہاتھ لگا دے۔ لیکن میرا ہاتھ ان کے سر پر اتفاقی طور پر لگ گیا۔ مولوی صاحب کی طبیعت پر یہ ناگوار گزرا اور آپ نے مجھ پر ناراضگی کا اظہار کیا ۔۔۔۔۔۔ اور ہم میں بحث کی صورت پیدا ہو گئی ۔۔۔۔۔۔ رات کو ساڑھے تین بجے کے قریب میں نے رئویا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کو ہم دونوں کی کل کی حرکت نہایت ناپسند ہے اور اس تکرار کے نتیجہ میں جو ہم دونوں میں ہوئی ہم سب کو تین دن مزید قید کی سزا دی جائے گی ۔۔۔۔۔۔ میں نے انہیں اسی وقت جگایا۔ میری آنکھوں میں آنسو تھے میں ان کے گلے لگ گیا۔ اور ان سے معافی مانگنی شروع کی انہوں نے کہا پاگل تو نہیں ہو گئے جاپانی سنیں گے تو ہمیں مارنا شروع کر دیں گے۔ میں نے انہیں رئویا کے متعلق بتایا تو وہ بھی رونے لگ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ المختصر ہم تیس مئی کو رہا ہوئے اور رئویا کے مطابق جب قید خانہ کے دروازہ سے باہر نکلے تو گھڑی پر ایک بجنے میں دومنٹ باقی تھے۔ محمد طیب صاحب کو کمرہ سے باہر لا کر تھوڑی دیر بعد پھر انہیں کمرہ میں بند کر دیا گیا ۔۔۔۔۔۔ قید میں ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک دن ہم عشاء کی نماز پڑھ رہے تھے مولوی عبدالواحد صاحب امام تھے اور ہم دو مبلغ مقتدی تھے ڈیوٹی پر جو سپاہی تھا اس نے ہمیں نماز پڑھتے دیکھ لیا اور کھڑکی کھول کر اندر آگیا۔ اس سپاہی کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا ۔۔۔۔۔۔ اس نے ہمیں زور سے ایک ایک کوڑا مارا اور کہا یہ کیا کر رہے ہو۔ جاپانی خدا تعالیٰ کی توحید پر ایمان نہیں رکھتے وہ دیوتائوں کے پجاری ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔ طبعاً ہمیں یہ بات ناگوار گزری کہ اب ہمیں عبادت کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ ہم نے دعا کی اور اسی رات ہم میں سے اکثر کو خدا تعالیٰ نے رئویا میں دکھایا کہ جاپانی عنقریب تباہ ہو جائیں گے۔ (مجھے بھی دس سے زیادہ مرتبہ رئویا میں بتایا گیا ’’لنمز قنھم‘‘ یعنی ہم انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ ھم کی ضمیر کا اشارہ جاپانیوں کی طرف تھا اور ساتھ ہی یہ بتایا گیا کہ ۱۲/ اگست سے ۲۲/ اگست کے درمیان جاپانی تباہ ہوں گے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے دوسرے سال یعنی ۱۹۴۵ء میں ۱۲/ اگست کو جاپانی علاقہ میں ایٹم بم گرایا گیا۔ اور ۲۲/ اگست کو جاوا میں جاپانیوں نے اتحادیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے‘‘۔ (خالد مئی ۱۹۵۴ء صفحہ ۳۰۔ ۳۲)
۱۴۶۔
الفضل ۲۵/ جنوری ۱۹۴۶ء میں حضور کا مفصل ارشاد شائع ہوا تھا جس کا متن ۱۹۴۶ء کے واقعات میں درج کیا جائے گا۔
۱۴۷۔
رسالہ خالد جون ۱۹۵۴ء صفحہ ۱۷۔ ۱۸۔
۱۴۸۔
تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
۱۴۹۔
اس دورہ کی تفصیلات اپنے مقام پر آئیں گی یہاں صرف اجمالاً تذکرہ کیا گیا ہے صاحبزادہ صاحب کے ہمراہ جناب سید کمال یوسف صاحب بھی سابق مبلغ سکنڈے نیویا سیکرٹری کی حیثیت سے گئے تھے۔
۱۵۰۔
مزید تفصیلات کے لئے ملاحظہ ہو انگریزی کتابچہ تحریک جدید مرتبہ جناب مولوی نور الدین صاحب منیر ایم۔ اے (نائب وکیل التصنیف تحریک جدید) شائع کردہ وکالت تبشیر ربوہ۔
۱۵۱`۱۵۲`۱۵۳۔
سید شاہ محمد صاحب رئیس التبلیغ انڈونیشیا کی رپورٹ محررہ ۶۲/۱۱/۱۸ سے ماخوذ۔
۱۵۴۔
بحوالہ الفضل ۸/ ستمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۱۔
۱۵۵۔
الفضل ۱۲/ ستمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۵ تا ۹۔
۱۵۶۔
الفضل ۵/ دسمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۷ تا ۱۱۔
۱۵۷۔
الفضل ۲۱/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۵۔
۱۵۸۔
بدر ۱۱/ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۴۔ الحکم ۱۰/ اپریل ۱۹۰۷ء صفحہ ۲ و تذکرہ طبع دوم صفحہ ۷۱۰۔
۱۵۹۔
الفضل ۲۱/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۸ تا ۱۰۔
۱۶۰۔
الفضل میں اس لیکچر کی رپورٹ میں لکھا ہے۔ یہ تقریر چار گھنٹہ تک جاری رہی بوجہ رات ہو جانے کے جلسہ گاہ میں گیس کے لیمپ جلا دیئے گئے اور موم بتیاں بھی تقسیم کر دی گئیں تاکہ جو اصحاب تقریر کے نوٹ لے رہے تھے انہیں آسانی ہو آخر بوجہ دیر ہو جانے کے سات بجے کے بعد حضور نے بقیہ تقریر دوسرے دن کرنے کا ارشاد فرماتے ہوئے بند فرمائی۔ (الفضل یکم و ۵/ جنوری ۱۹۲۶ء صفحہ ۲) پھر اگلے دن کی روداد میں لکھا ہے حضور نے بقیہ تقریر شروع فرمائی یہ تقریر بھی چار گھنٹہ سے زیادہ عرصہ تک مسلسل جاری رہی اور آخر ساڑھے سات بجے کے قریب ختم ہوئی۔
۱۶۱۔
(ایضاً صفحہ ۱۱) منہاج الطالبین صفحہ ۲۲۔
۱۶۲۔
الفضل ۱۷/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۶۳۔
الفضل ۱۰/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۶۴۔
ایضاً ۲۲/ جنوری ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۶۵۔
الفضل ۲۱/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۱۶۶۔
‏]2h [tag الفضل ۳۰/ جون ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۱۶۷۔
انجمن کے شائع کردہ اہم ٹریکٹوں کے عنوان۔ مسلمانوں کو بشارت۔ اسلام کی زندگی مسیح ناصری کی موت میں ہے۔ خاتم النبیین اور اجرائے نبوت۔ معیار صداقت اور حضرت مسیح موعود۔ امکان نبوت در خیر امت۔ فرقہ ناجیہ کی علامات۔ صداقت اسلام اور واقعہ لیکھرام۔ صداقت مسیح موعود از روئے بائبل۔ سچے اور جھوٹے مدعی رسالت میں مابہ الامتیاز۔ صحابہ کرام کے دو عظیم الشان اجتماع۔ حضرت مسیح موعود کا زمانہ بعثت۔ حضرت مسیح موعود کی صداقت کا ایک اور نشان ظاہر ہوا۔ عقائد احمدیہ۔ دلائل صداقت انبیاء اور حضرت مسیح موعود۔
۱۶۸۔
الحکم ۱۴/ جون ۱۹۲۵ء صفحہ ۵۔
۱۶۹۔
اخبار سیلون ڈیلی نیوز بحوالہ الفضل ۲۵/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۱۷۰۔
الفضل ۲۳/ مئی ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۷۱۔
الفضل ۲۷/ اکتوبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۷۲۔
الفضل ۱۷/ اکتوبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۵ و الفضل ۲۱/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔ رسالہ احمدی کے پہلے ایڈیٹر مولوی غلام صمدانی صاحب بی۔ اے جائنٹ ایڈیٹر مولوی دولت احمد خاں بی۔ اے اور معاون مدیر مولوی محمد عبدالحافظ صاحب تھے۔ (الفضل ۲۰/ جولائی ۱۹۲۶ء صفحہ ۱)
۱۷۳۔
الفضل ۱۵/ ۱۳ اگست ۱۹۲۵ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۱۷۴۔
الفضل ۱۹/ ستمبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۷۵۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۵ء۔
۱۷۶۔
الفضل ۴/ جنوری ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۱۷۷۔
الفضل ۲۶/ فروری ۱۹۲۵ء صفحہ ۷۔
۱۷۸۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۷۹۔
الفضل ۹/ اپریل ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۱۸۰۔ ][ الفضل ۹/ مئی ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۱۸۱۔
الفضل ۱۹/ مئی ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۱۸۲۔
الفضل ۱۹/ مئی ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۱۸۳۔
الفضل ۱۱/ اگست ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۱۸۴۔
الفضل ۲۸/ نومبر ۱۹۲۵ء صفحہ ۱۔
۱۸۵۔
الفضل ۲۸/ مارچ ۱۹۲۵ء صفحہ ۲۔
۱۸۶۔
لکھنو کے مشہور اہل قلم اور فسانہ نگار مولوی عبدالحلیم صاحب شرر نے اپنے رسالہ دلگداز ماہ جون ۱۹۲۶ء میں کتاب بہائی مذہب کی حقیقت پر مفصل تبصرہ کیا۔ جس میں لکھا بابیت اسلام کے مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے۔ اور اسی کی برکت ہے کہ باوجود چند اختلافات کے احمدی فرقہ والے اسلام کی جیسی سچی اور پرجوش خدمت ادا کرتے ہیں۔ دوسرے مسلمان نہیں کرتے اس سلسلے میں مولوی فضل الدین صاحب احمدی نے جو قادیان کیے ایک قابل پلیڈر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ رسالہ بابی اور بہائی مذہبوں کی تردید میں شائع کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ مولوی فضل الدین صاحب نے یہ کتاب نہایت قابلیت سے لکھی ہے۔ زبان نہایت پاکیزہ اور شستہ ہے ۔۔۔۔۔ جن حضرات کو مذہب بابی و بہائی کی تاریخ اور اس نئے دین کے عقائد و احکام معلوم کرنے کا شوق ہو۔ اس رسالہ کو منگوا کر ضرور ملاحظہ فرمائیں۔
۱۸۷۔
مولف کتاب سید الانبیاء۔ حیات نور اور حیات طیبہ آپ کے تفصیلی حالات کے لئے ملاحظہ ہو تابعین اصحاب جلد اول صفحہ ۲۷ تا ۷۹ (از ملک صلاح الدین صاحب ایم۔ اے قادیان)
۱۸۸۔
آپ کے مفصل حالات بھی تابعین اصحاب احمد جلد اول صفحہ ۱۸ تا ۲۶ پر موجود ہیں۔
۱۸۹۔
اعمال باب ۲۔
۱۹۰۔
ملخصاً از الفضل ۲/ فروری ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۱۹۱۔
الفضل ۹/۵ فروری ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۴۔
۱۹۲۔
الفضل ۹/۵ فروری ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۳۔
۱۹۳۔
حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ کا شجرہ حضرت داتا گنج بخش~رح~ تک پہنچتا ہے آپ کے جد امجد شہنشاہ اورنگ زیب کے زمانے میں سہارنپور سے آئے تھے۔ خاندانی شجرہ نسب درج ذیل ہے۔


۱۹۴۔
الفضل ۲۶/ مارچ ۱۹۲۶ء صفحہ ۴۔
۱۹۵۔
رپورٹ مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۲۲۔ سالہا سال تک دارالشیوخ میں حضرت مسیح موعودؑ کے باغ اور بہشتی مقبرہ سے متصل مکان میں رہا۔ اس کے بعد مدرسہ احمدیہ سے ملحق عمارت میں بھی (جہاں الفضل کا دفتر رہا ہے) دارالشیوخ کے طلبہ مقیم رہے۔
۱۹۶۔
الفرقان ستمبر۔ اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۰۲۔ ۱۰۳۔
۱۹۷۔
الفرقان ستمبر۔ اکتوبر ۱۹۶۱ء صفحہ ۱۱۹۔ ۱۲۰۔
۱۹۸۔
ایضاً الفرقان صفحہ ۶۰۔
۱۹۹۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۴۳ء صفحہ ۳۷۔ ۴۱۔
۲۰۰۔
ربوہ میں اس اھم ادارہ کا احیاء دارالیتامیٰ کے نام سے ہو چکا ہے جس کے نگران میر دائود احمد صاحب (خلف میر محمد اسحق صاحبؓ) ہیں۔
۲۰۱۔
الفضل ۲۵/ مئی ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۲۰۲۔
الفضل ۸/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۲۰۳۔
الفضل یکم جون ۱۹۲۶ء صفحہ ۴۔
۲۰۴۔
الفضل ۱۸/ جون ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۲۰۵۔
الفضل ۱۰/ اگست ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۲۰۶۔
الفضل ۱۵/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۲۰۷۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۶ء۔
۲۰۸۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۶ء۔
۲۰۹۔
مقدم الذکر دو اصحاب اس وقت غیر مبائع تھے یاد رہے اس سے پہلے سید عبدالجبار صاحب (سابق والی سوات بھی اس سلسلہ میں قادیان تشریف لا کر گفتگو کر چکے تھے (الفضل ۱۷/ ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۶)
۲۱۰۔
میری داستان (از خان بہادر محمد دلاور خاں) صفحہ ۵۲۔ ۵۳۔
۲۱۱۔
الفضل ۲۴/ ستمبر ۱۹۲۶ء۔
۲۱۲۔
الفضل یکم اکتوبر ۱۹۲۶ء۔
۲۱۳۔
پیغام صلح ۱۷/ جولائی ۱۹۲۸ء صفحہ ۵۔
۲۱۴۔
الفضل ۱۸/ ستمبر ۱۹۲۸ء صفحہ ۸۔ ۹۔
۲۱۵۔
سلسلہ احمدیہ صفحہ ۳۸۴۔ ۳۸۶۔ افتتاح مسجد لنڈن کے مفصل حالات کے لئے دیکھو کتاب تاریخ مسجد فضل لنڈن مصنفہ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحبؓ۔
۲۱۶۔
تاریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ ۹۹۔ ۱۰۰۔
۲۱۷۔
تاریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ ۱۰۲۔
۲۱۸۔
تاریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ ۱۰۱۔ ۱۰۲۔
۲۱۹۔
تاریخ مسجد فضل لنڈن صفحہ ۱۰۵۔ ۱۰۶۔
۲۲۰۔
خود نوشت ڈائری مولوی عبدالرحمن صاحب انور مطبوعہ خالد اپریل ۱۹۵۹ء صفہ ۳۔ ۴۔ و خالد مارچ ۱۹۵۹ء صفحہ ۱۱۔ نیز ملاحظہ ہو خالد مئی تا ستمبر ۱۹۵۹ء۔
۲۲۱۔
ایضاً صفحہ ۱۴۔
۲۲۲۔
الفضل ۱۴/ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۶۔
۲۲۳۔
الفضل ۸/ مارچ ۱۹۲۷ء۔
۲۲۴۔
ایضاً خالد ماہ جون ۱۹۵۹ء صفحہ ۶۔
۲۲۵۔
الفضل ۲۶/ نومبر ۱۹۲۶ء۔
۲۲۶۔
مولوی محمد الدین صاحب کے نائب مولوی عبدالرحیم صاحب نیر مقرر ہوئے۔
۲۲۷۔
رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمدیہ ۳۰۔ ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۷۔
۲۲۸۔
مثلاً تحریک آزادی کشمیر (تفصیل اگلی جلد میں آرہی ہے)
۲۲۹۔
تریاق القلوب (صفحہ ۲۸۱ بار دوم)
۲۳۰۔
حقیقتہ الوحی طبع اول صفحہ ۲۸۴ حاشیہ۔
۲۳۱۔
بحوالہ الفضل ۴/ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۴۔
۲۳۲۔
بحوالہ الفضل ۴/ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۴۔
۲۳۳۔
الفضل ۱۱/ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۴۔ ۵۔ شردھانند کے قتل پر اخبار امان افغان نے لکھا۔ شردھانند ایک بہت بڑے راہنما اور صاحب عزم بزرگ تھے اور اس قسم کے لوگ خواہ وہ کسی قوم یا مذہب سے تعلق رکھتے ہوں جمہور اقوام کے عقلاء کے نزدیک واجب الاحترام ہوا کرتے ہیں چنانچہ ایسی محترم شخصیت کی وفات ہمارے دل کو صدمہ پہنچا رہی ہے۔ نیز لکھا شردھانند کو ایک مسلمان نے قتل کیا لیکن یہ ایک ایسی حرکت ہے جس کا حکم اسلام نے نہیں دیا۔ (بحوالہ الفضل یکم مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۹)
۲۳۴۔
ملاحظہ ہو دیباچہ کتاب الجہاد فی الاسلام (از سید ابوالاعلیٰ صاحب مودودی)
۲۳۵۔
الفضل ۱۶/ ستمبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۔][۲۳۶۔
الفرقان ۱۹۵۷ء صفحہ ۲۹۔
۲۳۷۔
الفرقان جنوری ۱۹۵۹ء صفحہ ۴۔
۲۳۸۔
(الف) تاریخ وفات یکم جولائی ۱۹۲۶ء‘ ۲۳۸۔ (ب) تاریخ وفات ۲/ ستمبر ۱۹۲۶ء۔
۲۳۹۔
الفضل ۱۱/ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۳۔ ۴۔
۲۴۰۔
الفضل ۲/ اپریل ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔ ۲۔
۲۴۱۔
الفضل ۱۲/ جنوری ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۲۴۲۔
الفضل ۲۶/ فروری ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۲۴۳۔
الفضل ۹/ جولائی ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔][۲۴۴۔
الفضل ۱۴/ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ۳۔ ایضاً الفضل ۱۲/ نومبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔ ۱۹/ نومبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۲۴۵۔
الفضل ۱۰/ دسمبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۲۴۶۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۶ء۔
۲۴۷۔
الفضل ۲۱/ دسمبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۔
۲۴۸۔
الفضل ۱۶/ فروری ۱۹۲۶ء صفحہ ۸ و ۱۳/ اپریل ۱۹۲۶ء صفحہ ۹ و ۳/ اگست ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۰ و ۲۶/ اکتوبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۶۔ ۲۱/ دسمبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۷۔
۲۴۹۔
ریکارڈ صدر انجمن احمدیہ ۱۹۲۶ء۔
۲۵۰۔
الفضل ۵/ مارچ ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۲۵۱۔
الفضل یکم جون ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۲۵۲۔
الفضل ۱۱/ جون ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۲۵۳۔
الفضل ۱۸/ جون ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۲۵۴۔
الفضل ۱۳/ جولائی ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۲۵۵۔
الفضل ۱۷/ اگست ۱۹۲۶ء صفحہ ۹۔
۲۵۶۔
الفضل ۳۰/ نومبر ۱۹۲۶ء صفحہ ۹۔
۲۵۷۔
الفضل ۱۱/ مئی ۱۹۲۶ء صفحہ ۲۔
۲۵۸۔
حدیث کی کتاب۔
۲۵۹۔
پرتاپ ۵/ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۰ بحوالہ الفضل ۱۱/ جنوری ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۰۔
۲۶۰۔
خطبہ فرمودہ ۲۲/ اپریل ۱۹۲۷ء مطبوعہ الفضل ۶/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۷۔
۲۶۱۔
الفضل ۶/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۷۔ ۹۔
۲۶۲۔
بحوالہ الفضل ۳۱/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۵۔
۲۶۳۔
بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ ۵۴۔
۲۶۴۔
الفضل ۸/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۵۔
۲۶۵۔
الفضل ۴/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۔
‏h1] [tag۲۶۶۔
الفضل ۸/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۲۔
۲۶۷۔
الفضل ۱۶/ اگست ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۔
۲۶۸۔
الفضل ۴/ اکتوبر ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۔
۲۶۹۔
الفضل ۸۔ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۲۔
۲۷۰۔
الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۶۔
۲۷۱۔
الفضل ۸/ مارچ ۱۹۲۷ء۔
۲۷۲۔
الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۷۔
۲۷۳۔
اخبار تنظیم۔ امرتسر ۱۴/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۲۔
۲۷۴۔
الفضل ۱۱/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۷۔ اس لیکچر کا اپنے لفظوں میں خلاصہ ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب نے ریویو آف ریلیجنز اردو۔ جنوری میں شائع کر دیا تھا۔
۲۷۵۔
ایضاً ۱۵/ مارچ ۱۹۲۷ء صفحہ ۹۔
۲۷۶۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۸۳۔ ۱۸۴۔
۲۷۷۔
رپورٹ مشاورت ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۸۶۔
۲۷۸۔
جناب عبدالمجید صاحب سالک کا بیان ہے۔ ۴/ مئی ۱۹۲۷ء کو رات کے وقت حویلی کابلی مل کی مسجد سے چند مسلمان نماز پڑھ کر نکلے تو سکھوں نے ڈبی بازار والے گوردوارے سے نکل کر ان پر حملہ کیا اور تین غازی شہید ہو گئے حکام شہر اور بزرگان شہر نے انتہائی تدابیر اختیار کیں تاکہ فساد پھیلنے نہ پائے۔ مسلمانوں نے نہایت صبر و شکیب سے کام لیا اور دوسرے دن شہداء کی میتیں ہزارہا مسلمانوں کے جلوس کے ساتھ اٹھیں جب یہ جلوس لوہاری دروازہ کے باہر پہنچا تو ہندوئوں کے ایک مکان سے جنازہ پر کنکر پھینکے گئے۔ مسلمان بپھر گئے لیکن پھر بڑوں کے سمجھانے بجھانے پر خاموش ہو گئے۔ تاکہ جنازوں کی توہین نہ ہو لیکن جب ہزار ہا مسلمان میتوں کو دفن کرنے کے بعد واپس آئے تو ہندوئوں سے ان کا تصادم ہو گیا اور شہر کے مختلف حصوں میں چھرا چلنے لگا۔ اگرچہ اس فساد کا آغاز سکھوں کی طرف سے ہوا تھا لیکن حویلی کابل مل کے حادثہ کے بعد سکھ خدا جانے کہاں غائب ہو گئے اور خونریزی ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے لگی۔ ایسی حالت میں سکھوں کا طریقہ یہی ہوتا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ ہم بہت قلیل اقلیت میں ہیں۔ اگر ہم میں سے دو تین آدمیوں نے فساد شروع کر دیا ہے تو باقی سکھوں کو اس فساد کے نتائج سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ طیش کھائے ہوئے مسلمان ہندوئوں پر حملہ آور ہو جاتے تھے اور پھر ہندو بھی اپنے اپنے حلقوں میں مسلمانوں کا قتل کرنا شروع کر دیتے تھے۔ غرض دو تین دن لاہور میں کشت و خون کا سلسلہ جاری رہا اور کوئی دو سو ہلاک اور تین سو سے زیادہ زخمی ہوئے۔ (سرگزشت از جناب عبدالمجید صاحب سالک صفحہ ۲۳۶۔ ۲۳۷)
۲۷۹۔
الفضل ۲۰/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۲‘۱۷/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۲۔
۲۸۰۔
اخبار سیاست لاہور ۱۵/ مئی ۱۹۲۷ء اور الفضل ۱۱/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۲ پر یہ مکمل اشتہار چھپا ہوا ہے۔
۲۸۱۔
الفضل ۲۰/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۲ و الفضل ۲۴/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۲۔
‏]1h [tag۲۸۲۔
ہفت روزہ ترجمان لاہور ۶/ جون ۱۹۲۷ء صفحہ ۷۔
۲۸۳۔
رپورٹ مجلس مشاورت ۱۹۲۹ء صفحہ ۱۹۔
۲۸۴۔
الفضل ۱۰/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۱۔
۲۸۵۔
الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۲۷ء۔
۲۸۶۔
الفضل ۱۳/ مئی ۱۹۲۷ء صفحہ ۲۔
۲۸۷۔
آپ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟ صفحہ ۷ تا ۱۵۔
۲۸۸۔
تقریر دلپذیر صفحہ ۴۳۔ ۱۹۲۷ء (از حصرت خلیفتہ المسیح الثانی)
‏rov.5.39
تاریخ احمدیت ۔ جلد ۴
خلافت ثانیہ کے چودھواں سال
ساتواں باب (فصل اول)
خلافت ثانیہ کا چودھواں سال
کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ اور رسالہ ’’ورتمان‘‘ کا فتنہ جماعت احمدیہ کا زبر دست دفاع اور تحفظ ناموس رسول کے لئے ملک گیر تحریک کا آغاز

آنحضرت ~صل۱~ پر آریہ مصنفوں کے حملے
اس دور میں بعض بد زبان اور دریدہ دہن آریہ مصنف آنحضرت ~صل۱~ کی ذات بابرکات پر خاص طور پر حملے کر رہے تھے چنانچہ ایک آریہ سماجی راجپال نے ’’رنگیلا رسول‘‘ نامی کتاب شائع کی اور اس میں مقدس بانی اسلام ~صل۱~ کی نسبت نہایت درجہ دلحزاش اور اشتعال انگیز باتیں لکھیں جس پر حکومت کی طرف سے مقدمہ چلا۔ یہ مقدمہ ابھی زیر سماعت تھا کہ امرتسر کے ہندورسالہ ’’ورتمان‘‘ نے مئی ۱۹۲۷ء کی اشاعت میں ایک بے حد دلازار مضمون شائع کیا جسمیں ایک آریہ دیوی شرن شرمانے افسانوی صورت میں آنحضرت ~صل۱~ کے خلاف یہ دکھانے کی کوشش کی کہ (معاذاللہ) مبتلائے عذاب ہیں اور اس کی وجہ (خاکش بدہن) شہوت رانی ہے اس شرمناک فسانہ میں حضور علیہ التحیتہ والسلام اور حضور کے مقدس اہل بیت کے نام بھی بگاڑ کر پیش کئے گئے تھے۔
حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ولولہ انگیز بیان اور اس کا زبردست ردعمل
حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ اشتعال انگیز مضمون دیکھتے ہی ایک پوسٹر شائع فرمایا جس کا عنوان تھا۔ ’’رسول کریم کی محبت کا
دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے‘‘ ۱
اس پوسٹر میں حضور نے نہایت پر شوکت اور جلال پرانداز میں تحریر فرمایا:۔
’’کیا اس سے زیادہ اسلام کے لئے کوئی اور مصیبت کا دن آسکتا ہے کیا اس سے زیادہ ہماری بے کسی کوئی اور صورت اختیار کرسکتی ہے؟ کیا ہمارے ہمسایوں کو یہ معلوم نہیں کہ ہم رسول کریم ~صل۱~ فدتہ نفسی و اہلی کو اپنی ساری جان اور سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے اگر وہ اس امر سے واقف ہیں تو پھر اس قسم کی تحریرات سے سوائے اس کے اور کیا غرض ہوسکتی ہے۔ کہ ہمارے دلوں کو زحمی کیا جائے اور ہمارے سینوں کو چھیدا جائے اور ہماری ذلت اور بے بسی کو نہایت بھیانک صورت میں ہماری آنکھوں کے سامنے لایا جائے اور ہم پر ظاہر کیا جائے کہ مسلمانوں کے احساسات کی ان لوگوں کو اس قدر بھی پرواہ نہیں جس قدر کہ ایک امیر کبیر کو ایک ٹوٹی ہوئی جوتی کی ہوتی ہے لیکن میں پوچھتاہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کے لئے ان لوگوں کو کوئی اور راستہ نہیں ملتا ہماری جانیں حاضر ہیں ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں جس قدر چاہیں ہمیں دکھ دے لیں لیکن خدارا نبیوں کے سردار کی ہتک کرکے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس پر حملہ کرنے والوں سے ہم بھی صلح نہیں کر سکتے ہماری طرف سے باربار کہا گیا ہے اور میں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بن کے سانپوں سے صلح ہوسکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہرگز صلح نہیں ہوسکتی جو رسول کریم ~صل۱~ کو گالیاں دینے والے ہیں۔ بیشک وہ قانون کی پناہ میں جو کچھ چاہیں کر لیں اور پنجاب ہائیکورٹ کے تازہ فیصلہ کی آڑ میں جس قدر چاہیں ہمارے رسول کریم ~صل۱~ کو گالیاں دے لیں۔ لیکن وہ یاد رکھیں کہ گورنمنٹ کے قانون سے بالا اور قانون بھی ہے اور وہ خدا کا بنایا ہوا قانون فطرت ہے وہ اپنی طاقت کی بناپر گورنمنٹ کے قانون کی زد سے بچ سکتے ہیں لیکن قانون قدرت کی زد سے نہیں بچ سکتے اور قانون قدرت کا یہ اٹل اصل پورا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جس کی ذات سے ہمیں محبت ہوتی ہے اس برا بھلا کہنے کے بعد کوئی شخص ہم سے محبت اور صلح کی توقع نہیں رکھ سکتا‘‘۔
پھر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’اے بھائیوں! میں درد مند دل سے پھر آپ کو کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جو لڑپڑتا ہے وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کرلیتا ہے اور جب تک اس کو پورا نہ کرلے اس سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ پس اسلام کی ترقی کے لئے اپنے دل میں تینوں باتوں کا عہد کر لو۔ اول یہ کہآپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے دوسرے یہ کہ آپ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے اور اس کام کے لئے اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ اور تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کی تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے اور اس وقت تک بس نہیں کریں گے جب تک کہ مسلمان اس کچل دینے والی غلامی سے بکلی آزاد نہ ہو جائیں اور جب آپ یہ عہد کرلیں تو پھر ساتھ ہی اس کیمطابق اپنی زندگی بسر کرنے لگیں۔ یہی وہ سچا اور حقیقی بدلہ ہے ان گالیوں کا جو اس وقت بعض ہندومصنفین کی طرف سے رسول کریم ~صل۱~ فدتہ نفسی واہلی کو دیجاتی ہیں اور یہی وہ سچا اور حقیقی علاج ہے جس سے بغیر فساد اور بد امنی پیدا کرنے کے مسلمان خود طاقت پکڑ سکتے ہیں اور دوسروں کی مدد کرنے کے قابل ہوسکتے ہیں ورنہ اس وقت تو وہ نہ اپنے کام کے ہیں نہ دوسروں کے کام کے اور وہ قوم ہے بھی کس کام کی جو اپنے سب سے پیارے رسول کی عزت کی حفاظت کے لئے حقیقی قربانی نہیں کرسکتی؟
کیا کوئی درد مند دل ہے جو اس آواز پر لبیک کہہ کر اپنے علاقہ کی درستی کی طرف توجہ کرے اور خداتعالیٰ کے فضلوں کا وارث ہو‘‘۔ ۲
اس پوسٹر نے جو پورے ہندوستان میں ایک ہی تاریخ کو راتوں رات چسپاں کر دیا گیا تھا۔ ملک بھر میں زبردست ہیجان کی صورت پیدا کردی اور حکومت کو انتہائی جدوجہد کے ساتھ امن قائم رکھنا پڑا۔ اگرچہ پوسٹر ضبط کر لیا گیا مگر یہ ضبطی غیرت رسولﷺ~ اور عشق رسول~صل۳~ کے طوفان کو بھلا کیا روکتی اس سے مسلمانوں کے دلوں میں اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد ~صل۱~ کے لئے قربانی اور فدائیت کے جذبات پہلے سے بھی زیادہ شدت سے موجزن ہونے لگے اور خود حکومت کو بھی ’’ورتمان‘‘ کا ناپاک اور گندہ پرچہ ضبط کرنے اور اس کے ایڈیٹر اور مضمون نگار پر مقدمہ چلانے کی فوری توجہ پیدا ہوئی۔
ہندوئوں نے یہ صورت دیکھی تو سر میلکم ہیلی HAILEY( MALCOLM )SIR گورنر پنجاب کے نام کھلی چھٹی لکھی۔
اس رسالہ ’’ورتمان‘‘ میں جو مضمون قابل اعتراض سمجھا گیا ہے اس کے جواب میں ایک نہایت گندہ دل آزار اور اشتعال دلانے والا پوسٹر مرزا بشیر ۔۔۔۔ قادیان کی طرف سے شائع کیا گیا اور اس کی ہزارہا کاپیاں چھاپ کر ملک کے ہر حصہ میں تقسیم اور چسپاں کرائی گئیں۔ رسالہ ورتمان کا وہ پرچہ جس پر قابل اعتراض مضمون چھپا چند سوسے زیادہ نہ چھپا ہوگا اور اسے ایک آدھ مسلمان کے سوا اور کسی مسلمان نے نہیں پڑھا ہوگا لیکن مرزا کا پوسٹر جہاں لاکھوں مسلمانوں نے پڑھا وہاں لاکھوں ہندوئوں کی بھی نظر سے گذرا۔ اور اس طرح پر اس کے ذریعہ زیادہ زہر پھیلایا گیا۔ مگر سرکار نے مرزا کی اس شرارت کا اس کے سوا اور کوئی نوٹس نہ لیا کہ اس کا پوسٹر ضبط کرلیا گیا کیا اس امر کی ضرورت نہ تھی کہ جس طرح لالہ گیان چند (ایڈیٹر ورتمان ناقل) کے خلاف مقدمہ چلایا گیا ہے اسی طرح مرزا کے خلاف بھی قانون کو حرکت دی جاتی۔ ۳
کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ سے متعلق عدالت پنجاب کا فیصلہ
اوپر کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ کا ذکر آچکا ہے اس ناپاک کتاب کے مقدمہ میں راجپال کو زیر دفعہ ۱۵۳ ۔ الف تعزیرات ہند چھ ماہ قید بامشقت اور ایک ہزار روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ قید مزید کی سزا ہوئی تھی۔ راجپال نے پنجاب ہائیکورٹ میں اپیل دائر کی اور اس کے جج کنور دلیپ سنگھ نے فیصلہ دیا کہ۔
’’میری رائے مں دفعہ ۱۵۳۔الف اس قدر وسیع معانی کے لئے نہیں بنایا گیا تھا۔ میرے خیال میں اس دفعہ کے وضع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو کسی ایسی قوم پر حملہ کرنے سے روکا جائے جو موجود ہو نہ کہ اس سے گذشتہ مذہبی رہنمائوں کے خلاف اعتراضات اور حملوں کو روکنا مقصود تھا۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں اس امر پر اظہار افسوس کرتا ہوں کہ ایسی دفعہ کی تعزیرات میں کمی ہے لیکن میں یہ نہیں سمجھتا کہ یہ مقدمہ دفعہ ۱۵۳۔الف کی زد میں آتا ہے اس لئے میں نظر ثانی کو بادل ناخواستہ منظور کرتا ہوں۔ اور مرافعہ گزار کو بری کرتا ہوں‘‘۔ ۴
اخبار ’’مسلم آئوٹ لک‘‘ لاہور کا علالتی فیصلہ کے خلاف احتجاج
فیصلہ کے خلاف اخبار مسلم آئوٹ لک Look( Out )Muslim کے احمدی ایڈیٹر سید دلاور شاہ صاحب بخاری نے ۱۴ جون ۱۹۲۷ء کو ’’مستعفی ہوجائو‘‘ کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جس پر پنجاب ہائیکورٹ کی طرف سے اخبار کے ایڈیٹر اور اس کے مالک وطابع (مولوی نور الحق صاحب) کے نام توہین عدالت کے جرم میں ہائیکورٹ کی طرف سے نوٹ پہنچ گیا۔
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی طرف سے سید دلاور شاہ بخاری کو مشورہ
سید دلاور شاہ صاحب بخاری ہائیکورٹ کا نوٹس لے کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ
مضمون پر اظہار افسوس کردینا چاہئے مگر حضور نے مشورہ دیا کہ۔
’’ہمارا فرض ہونا چاہئے کہ صوبہ کی عدالت کا مناسب احترام کریں لیکن جبکہ ایک مضمون آپ نے دیانتداری سے لکھا ہے اور اس میں صرف ان خیالات کی ترجمانی کی ہے جو اس وقت ہر مسلمان کے دل میں اٹھ رہے ہیں تو اب آپ کا فرض سوائے اس کے کہ اس سچائی پر مضبوطی سے قائم رہیں اور کیا ہوسکتا ہے یہ رسول کریم~صل۱~ کی محبت کا سوال ہے اور ہم اس مقدس وجود کی عزت کے معاملہ میں کسی کے معارض بیان پر بغیر آواز اٹھائے نہیں رہ سکتے ہیں میں قانون تو جانتا نہیں اس کے متعلق تو آپ قانون دان لوگوں سے مشورہ لیں مگر میری طرف سے آپ کو یہ مشورہ ہے کہ آپ اپنے جواب میں لکھوادیں کہ اگر ہائیکورٹ کے ججوں کے نزدیک کنور دلیپ صاحب کی عزت کی حفاظت کے لئے تو قانون انگریزی کوئی دفعہ موجود ہے لیکن رسول کریم ~صل۱~ کی عزت کی حفاظت کے لئے کوئی دفعہ موجود نہیں تو میں بڑی خوشی سے جیل خانہ جانے کے لئے تیار ہوں‘‘۔ ۵
مقدمہ کی سماعت اور سید دلاور شاہ کا بیان
اس مقدمہ کی سماعت ۲۲ جون ۱۹۲۷ء کو ہائیکورٹ کے فل بیج نے کی جس میںسید دلاور شاہ صاحب بخاری نے مومنانہ غیرت کا ثبوت دیتے ہوئے نہایت ایمان افروز بیان دیاکہ۔
’’مسلمان کا سب سے زیادہ محبوب اور مطلوب جذبہ یہ ہے کہ وہ اسلام کیپیغمبر پاک سے عقیدت وافر اور ارادت کامل رکھتا ہے۔ مسلمان کے لئے خواہ وہ کسی طبقہ یا درجہ سے تعلق رکھتا ہو عام اس سے کہ وہ امیر ہو یاغریب و نادار یہ ناممکن ہے کہ پیغمبر پاک ~صل۱~ کی ذات پاک یا آنحضرت~صل۱~ کی سیرت مبارکہ پر کسی قسم کا حملہ گوارا کر سکے۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ رنگیلا رسول کی اشاعت سے ہر ایک قلب مسلم پر یاس و ہیجان مستولی ہوگیا۔ ہر مسلمان مضطرب نظر آنے لگا ۔ لیکن اس اشتعال انگیز کتاب کی اشاعت سے مشتعل شڈہ جذبات کو ملت اسلامیہ کے ہرفرد نے دبائے رکھا۔اور اس امید سے دل کو تسلی دے لی کہ اس کی اشاعت کے ذمہ دار کو قانون کے ماتحت واجب اور منصفانہ سزادی جائے گی اور کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ آنریبل مسٹر جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ نے امیدوں کے قصر کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور اس وسیع ملک کے طول وعرض میں لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو نہایت سخت صدمہ پہنچا‘‘۔ ۶
چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی فاضلانہ بحث
اس مقدمہ میں وکالت کے لئے مسلمان وکلاء نے متفق طور پر چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا نام تجویز کیا اور آپ ہی مقدمہ میں پیش ہوئے اور ایسی قابلیت اور عمدگی سے وکالت کی کہ سب مسلمانوں نے آپ کو خراج تحسین ادا کیا۔ چنانچہ اخبار ’’دور جدید‘‘ لاہور نے لکھا:۔
مسلم آئوٹ لک کے اس کیس کے سلسلہ میں جو درحقیقت راجپال کے مقدمہ تحقیر نبی کریمﷺ~ کاایک شاخسانہ تھا۔ شفیع مرحوم و مغفور کی کوٹھی پر پنجاب کے بہترین وکلاء اس غرض کے لئے جمع ہوئے تھے کہ اس مقدمہ کو ہائیکورٹ میں ججوں کے سامنے کون پیش کرے تو ان چوٹی کے آٹھ دس وکلاء نے (جو سب کے سب لیڈر اور قومی رہنما اور سردار سمجھے جاتے ہیں) متفقہ طور پر فیصلہ کیا تھا کہ اس کام کو چوہدری ظفر اللہ خاں کے علاوہ اور کوئی شخص کامیابی کے ساتھ انجام نہیں دے سکتا۔ چودھری صاحب موصوف نے اگرچہ اس بات پر بہت زور دیا اور فرمایا کہ آپ حضرات تجربہ ‘قابلیت ‘شہرت اور استعداد میں مجھ سے بڑھ کر ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذمہ دار کارکن آپ میں سے کوئی بزرگ ہوجائے اور میں بطور اسسٹنٹ ممکن خدمت اور مدد کرتا رہوں لیکن اس کو کسی ایک نے بھی منظور نہ کیا۔
چودھری صاحب نے ہائیکورٹ میں یہ کیس بڑی خوبی کے ساتھ پیش کیا اور اپنی سحر بیان تقریر کے آخری فقروں میں فرمایا کہ حضرت محمد ~صل۱~ جن کے احکام کے سامنے دنیا کی چالیس کروڑ آبادی کی گردنیں جھکی ہوئی ہیں جن کی غلامی پر دنیا کے جلیل القدر شہنشاہ عظیم الشان وزراء مشہور عالم جرنیل اور کرسی عدالت پر رونق افروز ہونے والے جج (جنکی قابلیت پر زمانہ کو ناز ہے) فخر کرتے ہیں ایسے انسان کامل کے متعلق راجپال کی ذلیل تحریر کو کسی جج کا یہ قرار دینا کہ اس سے نبی کریم کی کوئی ہتک نہیں ہوئی تو پھر مسلم آئوٹ لک کے مضمون سے بھی یہ فیصلہ قرار دینے والے کہ اس سے کسی کی کوئی تحقیر نہیں ہوئی صاحب الرائے ٹھہرتے ہیں۔ اس موقعہ پر مولانا ظفر علی خان صاحب جو اس وقت موجود تھے فرط جوش میں آبدیدہ ہوگئے۔ اور ان سے رہانہ گیا وہ صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھے اور چودھری صاحب کا ہاتھ چوم کر ان کو گلے سے لگالیا نیز نہایت پر زور طریق سے یہ بات کہی کہ چودھری صاحب کی اس تقریر نے واضح طور پر غلط ثابت کردیا ہے کہ مسلمانوں میں مقرر نہیں۔ ان واقعات سے صرف کرتے ہوئے چودھری صاحب کو ایک زمانہ میں انجمن حمایت اسلام کی ممبری کے لئے مینجنگ کمیٹی کا بھی ممبر بنایا گیا اور آپ نے مسلمانوں کے مختلف ڈیپو ٹیشنز کی ممبری کے فرائض سرانجام دیئے‘‘۔ 4] f[st۷
اخبار سیاست (لاہور) ۲۳ جون ۱۹۲۷ء نے لکھا:۔
اس سوال پر کہ عدالت کو اس مقدمہ کی سماعت کا حق حاصل ہے یا نہیں چودھری ظفراللہ خان صاحب بیرسٹرایٹ لاء ممبر پنجاب کونسل نے زبردست تقریر کی اور متعدد حوالے دیکر ثابت کرنا چاہا کہ عدالت ہائے برطانیہ کو ولایت کے قانون عامہ کی رو سے ایسے مقدمات کی سماعت کا اختیار حاصل ہے یہ اختیار پرانی عدالت ہائے ہند کو حاصل تھا جو بمبئی‘مدراس اور کلکتہ میں موجود تھیں ان کے بعد انہی شہروں میں عدالت ہائے عالیہ مقرر ہوئیں ان کو یہ حق خاص طور پر تفویض ہوا ان کے سوا کسی عدالت کو یہ حق حاصل نہیں سرکاری وکیل نے جواب میں کہا کہ الٰہ آباد ہائیکوٹ اور پنجاب ہائیکورٹ کی حیثیت ایک ہی ہے اور دنوں کو یہ حق حاصل ہے غرضیکہ پرلطف بحث ہوئی اور ساڑھے بارہ بجے عدالت نے فیصلہ کیا کہ ہمیں سماعت مقدمہ کا حق حاصل ہے اگرچہ فیصلہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے خلاف ہوا تاہم ان کی قابلیت اور ان کے فاضلانہ خطاب کا ہر شخص معترف تھا اور اپنے اور بیگانے وکلاء نے بھی ان کو ان کی تیاری اور قابلانہ تقریر پر مبارک باد دی۔
اس کے بعد اصل الزام زیر بحث آیا مسٹر کارڈن بیرسٹر نے سرکار کی طرف سے تقریر کی اور کہا کہ جس مضمون پر اعتراض ہے وہ ۱۴ جون کو شائع ہوا اس کا عنوان ہے ’’مستعفی ہوجائو‘‘ ایک جج سے استعفاء کا مطالبہ کرنا ہی اس کی سخت ہتک کرنا ہے دوسرے اس مضمون میں لکھا ہے کہ جن حالات میں یہ فیصلہ ہوا ہے جو غیر معمولی فیصلہ ہے ان کی تحقیقات ہوناچاہئے اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ مضمون میں الزام لگایا گیا ہے کہ فاضل جج نے ایمانداری سے فیصلہ نہیں کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے بعد ۔۔۔۔۔ مسٹر ظفر اللہ نے ثابت کیا کہ کسی جج سے استعفاء کا مطالبہ کرنا اس کی ہتک کرنا نہیں ہے اس کو عدالت نے تسلیم کیا آپ نے کہا کہ ملزمین نے نہایت دلیرانہ جواب دیا ہے اس سے ظاہر ہے کہ وہ جھوٹ بولنے والے نہیں ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ ہمارا مقصد یہ نہ تھا کہ جج کی نیت پر حملہ کریں تو ہمیں ان کے بیان پر اعتماد کرنا چاہئے وہ اس امر کی تحقیقات چاہتے تھے کہ آیا اس مقدمہ میں سرکاری وکیل نے خوب بحث کی یا نہ کی اور جج نے اس کو دو ججوں کے سپرد کیوں نہ کر دیا اکیلے کیوں فیصلہ کیا وغیرہ وغیرہ آپ نے کہا کہ ایک فقرہ کے بھلے اور برے دو معنی ہوسکتے ہیں اس کے جو بھلے معنی ہیں عدالت ان کو اختیار کرے‘‘۔
مولوی نورالحق صاحب کی جانب سے مسٹر نیاز محمد نے کہا کہ وہ محض ناشر وطابع ہیں اور انگریزی نہیں جانتے لہذا ان کی ذمہ داری کم ہے آپ نے کئی حوالے پیش کئے مگر مولوی نورالحق صاحب نے خود اٹھ کر کہہ دیا میں تمام الزام قبول کو کرتا ہوں‘‘۔
علالت کی طرف سے سزا کا فیصلہ
جسٹس براڈوے نے سید دلاور شاہ صاحب بخاری مولوی نورالحق صاحب کے بیانات اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی بحث سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ
میں سید بخاری کو چھ ماہ قید محض اور ساڑے سات سو روپے جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی چھ ہفتہ مزید قید محض کی سزا دیتا ہوں اور مولوی نورالحق کو ۳ ماہ قید محض ہزار روپے جرمانہ اور بصورت عدم ادائیگی مزید ایک ماہ قید محض کا حکم سناتا ہوں۔ تمام ججوں نے اس سزا سے اتفاق کیا۔ فوراً پولیس کے افسروں نے ملزمین کو گھیر لیا۔ وارنٹ تیار تھے۔ انہیں موٹر میں بٹھا کر سنٹر جیل کو لے گئے۔۸
تحفظ ناموس رسولﷺ~ کیلئے مسلمانان ہند کی راہنمائی اور ملک گیر تحریک کا آغاز
عدالتی فیصلہ پر مسلمانان ہند کا قومی دماغ سخت پریشان ہوگیا اور مسلمان اس وقت متفق طور پر یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ اب انہیں کیا اقدام
کرنا چاہئے ایک فریق نے یہ علاج سوچا کہ عدالتوں کا بائیکاٹ کیا جائے۔ دوسرے فریق نے کہا کہ مسلم آئوٹ لک کے ایڈیٹر کی طرح دوسرے مسلمان بھی توہین عدالت کے جرم کا تکرار کریں آخر کتنے مسلمانوں کو جیل خانہ میں ڈالا جاسکے گا۔ تیسرے فریق نے یہ تجویز بتائی کہ ملک میں سول نافرمانی شروع کردی جائے۔
مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان سب تدبیروں کو پرزور دلائل سے بے فائدہ بلکہ مسلم مفادات کے اعتبار سے انتہائی نقصان دہ اور ضرر رسان ثابت کیا۔ اور اس نازک ترین وقت میں جبکہ مسلمانوں اور اسلام کی زندگی اور موت کا سوال درپیس تھا مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی اور تحفظ ناموس رسول ~صل۱~ کے لئے ایک پرامن مگر موثر عملی تحریک کا آغاز کر دیا۔
۲۲ جولائی ۱۹۲۷ء کے دن جلسوں کی تجویز
اس سلسلہ میں حضور نے ابتدائی مرحلہ میں فوری رنگ میں یہ تجویز کی کہ ’’مسلم آئوٹ لک‘‘ کے مدیر و مالک کی قید کے پورے ایک ماہ بعد یعنی ۲۲ جولائی ۱۹۲۷ء کو جمعہ کے دن ہر مقام پر جلسے کئے جائیں جن میں مسلمانوں کو اقتصادی اور تمدنی آزادی سے متعلق آگاہ کیا جائے اور سب سے وعدہ لیا جائے کہ وہ اپنے اپنے حلقہ میں تبلیغ اسلام کا کام جاری کریں گے۔ اور ہندوئوں سے ان امور میں چھوت چھات کریں گے جن میں ہندو چھوت چھات کرتے ہیں اپنے قومی حقوق قوانین حکومت کے ماتحت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اس دن ہر مقام پر ایک مشترکہ انجمن بنائی جائے جو مشترکہ فوائد کا کام اپنے ہاتھ میں لے۔ اسی طرح تمام مسلمان حکومت سے درخواست کریں کہ ہائی کورٹ کی موجوہ صورت مسلمانوں کے مفاد کے خلاف اور ان کی ہتک کا موجب ہے(پنجاب میں) پچپن فیصد آبادی والی قوم کے کل دو جج ہیں اس لئے ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ کم سے کم ایک مسلمان جج پنجاب کے بیرسٹروں میں سے اور مقرر کیا جائے اور اسے نہ صرف مستقل کیا جائے بلکہ دوسرے ججوں سے اسے اس طرح سینئر کیا جائے کہ موجودہ چیف جسٹس (سرشادی لال) کے بعد وہی چیف جج ہو۔
محضر نامہ کی تجویز
حضور نے مزید فرمایا کہ ۲۲ جولائی کے جلسوں میں مسلمانوں سے دستخط لے کر ایک محضر نامہ تیار کیا جائے کہ ہمارے نزدیک ’’مسلم آئوٹ لک‘‘ کے ایڈیٹر اور مالک نے ہر گز عدالت عالیہ کی ہتک نہیں کی بلکہ جائز نکتہ چینی کی ہے جو موجودہ حالات میں ہمارے نزدیک طبعی تھی اس لئے ان کو آزاد کیا جائے اور جلد سے جلد جسٹس کنور دلیپ سنگھ کا فیصلہ مسترد کرکے مسلمانوں کی دلجوئی کیجائے۔ ۹
انگریزی حکومت نے چاہا کہ آپ یہ مہم جاری نہ کریں۔ لیکن حضور نے حکومت کو صاف صاف کہہ دیا کہ۔
’’مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ گورنمنٹ کی خاطر قوم کو قربان کردوں اس وقت قوم کی حفاظت کا سوال ہے‘‘۔ ۱۰
۲۲ جولائی ۱۹۲۷ء کوجلسے کاشاندار منظراور قومی وملی اتحاد
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی اس آواز پر جو آپ نے قادیان سے بلند کی تھی پورا ہندوستان گونج اٹھا اور جیسا کہ آپ نے تحریک پیش کی تھی ۲۲ جولائی کو مسلمانان ہند نے ہر جگہ کامیاب جلسے کئے اور ایک متحدہ پلیٹ فارم سے نہ صرف مسلم آوٹ لک کے مالک اور مدیر کی گرفتاری پر احتجاج کیا گیا۔ بلکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی سکیم کے مطابق مسلمانوں نے مشترکہ انجمنیں قائم کرکے دوکانیں کھلوائیں تبلیغ اسلام کی طرف توجہ دی اور اپنے سیاسی حقوق کے لئے اپنی جدوجہد تیز تر کر دی اور ایک محضر نامہ تیار کیا جس پر پانچ لاکھ مسلمانوں کے دستخط تھے ۔ ۱۱
جماعت احمدیہ کے علماء مصنفین اور دوسرے احمدی اپنے محبوب امام کی ہدایات کے مطابق اس تحریک کو کامیاب کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔
لنڈن میں مسلم پولیٹیکل لیگ کا قیام
جماعت احمدیہ کی کوششوں کا دائرہ بیرونی ممالک تک ممتد تھا۔ چنانچہ جماعت احمدیہ کی کوشش سے لندن میں مسلم حقوق کی تائید کے لئے ایک مسلم پولیٹیکل لیگ قائم کی گئی۔ ۱۲
انہی دنوں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بیرسٹر مسلمانان پنجاب کے نمائندہ کی حیثیت سے لندن تشریف لے گئے آپ نے دارالعلوم اور دارالامرا کے ممبروں انڈیا آفس کے عہدیداروں سابق وائسرائے ‘گورنروں ‘پارلیمنٹ کے کارکنوں اور پریس کے نمائدوں سے ملاقاتیں کی کئی مجالس کو خطاب کیا اور ’’مارننگ ٹائمز‘‘ ’’مانچسٹر گارڈین‘‘ ’’ڈیلی کرانیکل‘‘۔ ’’سنڈے ٹائمز‘‘ وغیرہ مشہور برطانوی اخبارات میں مضمون لکھے جن کے نتیجہ میں پبلک حلقوں میں مسلمانوں کے حقوق کی نسبت اور زیادہ دلچسپی پیدا ہوگئی۔۱۳ چنانچہ اخبار ’’دور جدید‘‘ نے چودھری صاحب کی قومی و ملی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا۔
’’پنجاب کونسل کے تمام مسلمانوں نے (جو یقیناً مسلمانان پنجاب کے نمائندے کہلانے کا جائزہ حق رکھتے ہیں) جبکہ یہ ضرورت محسوس کی کہ پنجاب کی طرف سے ایک مستند نمائندہ انگلستان بھیجا جانا چاہئے۔ تو عالی جناب چوہدری ظفر اللہ خاں ہی کی ذات ستودہ صفات تھی جس پر ان کی نظر انتخاب پڑی چنانچہ چودھری صاحب اپنا روپیہ صرف کرکے اور اپنے قیمتی وقت اور آمدنی کو نظر انداز کرکے انگلستان تشریف لے گئے اور اس خوبی اور عمدگی سے حکومت برطانیہ اور سیاسیین انگلستان کے روبرو یہ مسائل پیش کئے جس کے مداح نہ صرف مسلمانان پنجاب ہوئے بلکہ حکومت بھی کافی حدتک متاثر ہوئی یہ وہ واقعات ہیں اور وہ روشن حقائق ہیں جن سے کم از کم اخباری دنیا کا کوئی شخص کسی وقت بھی انکار نہیں کرسکتا‘‘۔ ۱۴
ہندوئوں کی طرف سے مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش
ہندوئوں نے جب دیکھا کہ قادیان سے بلند ہونیوالی تحریک نے مسلمانوں میں زبردست اثر پیدا کر دیا ہے تو انہوں نے مسلمانوں کو احمدیوں کے خلاف اکسانا شروع کیا۔ چنانچہ ایک ہندو اخبار نے لکھا۔
’’مرزائیوں یا احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں اس قدر اختلاف رائے ہے کہ مرزائی مسلمانوں کو اور مسلمان مرزائیوں کو کافر قرار دیتے ہیں ابھی کل کا ذکر ہے کہ ایک مسلمان نے مولوی کفایت اللہ صدر جمعیت علماء دہلی سے مرزائیوں کے متعلق فتویٰ طلب کیا تھا آپ نے جو فتویٰ دیا۔ وہ جمعیت علماء کے آرگن ’’الجمعیتہ‘‘ دہلی کے کالموں میں شائع ہوا ہے اس میں مولانا کفایت اللہ نے مرزائیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ زیادہ میل جول بڑہانے کو برا قرار دیا ہے مگر مرزائیوں کی چالاکی ہوشیاری اور خوش قسمتی ملاحظہ ہو جو مسلمان ان کو کافر قرار دیتے ہیں ان کے ہی لیڈر مرزائی بنے ہوئے ہیں۔ اس وقت لاہور کے بدنام اخبار ’’مسلم آئوٹ لک‘‘ کے ایڈیٹر اور پرنٹر پبلشر کے قید ہونے پر تمام ہندوستان کے مسلمان ایک غیر معمولی مگر فرضی جوش کا اظہار کررہے ہیں اور مسلم آئوٹ لک کی پیروی کے لئے بے قرار ہوئے پھرتے ہیں اخبار مسلم آئوٹ لک کے متعلق ہمیں یہ معلوم کرکے از حد حیرت ہوئی ہے کہ اس کے ایڈیٹر مسٹر دلاور شاہ بخاری احمدی تھے اور جب ہائیکورٹ کا نوٹس ان کے نام آیا تو وہ مرزا قادیان کے پاس گئے تاکہ اپنے ڈیفنس یا طرز عمل کے متعلق اس کی رائے لیں۔ مرزا نے انہیں مشورہ دیا کہ معافی مانگنے کے بجائے قید ہوجانا بہتر ہے غرضیکہ ہر پہلو سے یہ ایک احمدی تحریک ہے اور احمدیوں کی چالاکی پر ہمیں حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح انہوں نے تمام مسلمانوں کو اپنے آگے لگایا ہوا ہے اور تو اور جو مسلمان لیڈر انہیں کافر قرار دیتے تھے وہ بھی اس وقت انہیں اپنا لیڈر تسلیم کرتے اور ان کی ہاں میں ہاں ملانا اسلام کی بہت بڑی خدمت خیال کرتے ہیں۔ 4] f[st۱۵
مقدمہ ورتمان کا فیصلہ
’’رنگیلا رسول‘‘ سے متعلق عدالتی فیصلہ اور اس کے ردعمل کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ہم دوبارہ مقدمہ ورتمان کی طرف آتے ہیں۔
قبل ازیں ذکر آچکا ہے کہ رسالہ ’’ورتمان ‘‘ کی ضبطی اور اس کے طابع و ناشر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنے پر ہندوئوں نے حکومت انگریزی پر زور دیا کہ وہ امام جماعت احمدیہ (ایدہ اللہ تعالیٰ) پر بھی مقدمہ چلائے مگر حکومت ہندوئوں سے مرعوب نہ ہوئی۔ اور چیف جسٹس نے یہ مقدمہ ایک جج کے سپرد کر دیا۔ لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے حکومت کو بذریعہ تار توجہ دلائی کہ یہ مقدمہ ایک سے زیادہ ججوں کے سامنے پیش ہونا چاہئے تادفعہ ۱۵۳۔ الف سے متعلق جسٹس دلیپ سنگھ کے فیصلہ کی تحقیق ہوجائے۔
یہ معقول مطالبہ حکومت نے منظور کر لیا اور چیف جسٹس صاحب جو رخصت پر جارہے تھے بمبئی سے واپس آگئے اور مقدمہ ورتمان ڈویژن بینچ کے سپرد ہوگیا۔ ۱۶ جس نے ۶ اگست ۱۹۲۷ء کو فیصلہ سنایا کہ مذہبی پیشوائوں کے خلاف بدزبانی ۱۵۳۔ الف کی زد میں آتی ہے اور بانی اسلام کو اسلام سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا اور بنابریں ڈویژن بیج نے ورتمان کے مضمون نگار کو ایک سال قید بامشقت اور پانچسو روپیہ جرمانہ اور ایڈیٹر کو چھ ماہ قید سخت اور اڑھائی سو روپیہ جرمانہ کی سزا دی۔ ۱۷
مقدمہ ورتمان کے فیصلہ پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے جذبات
مقدمہ ورتمان کا فیصلہ ہوگیا اور سیر دوزخ کا مضمون لکھنے والا اور اس کا چھاپنے والا ایک سال اور چھ ماہ کے لئے دنیا کے دوزخ میں ڈال دیا
گیا۔ مسلمان خوش ہوگئے اور حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کو بہت سے لوگوں نے مبارکباد کے تار بھی دیئے مگر آپ نے فرمایا۔
’’میرا دل غمگین ہے کیونکہ میں اپنے آقا۔ اپنے سردار حضرت محمد ~صل۱~ کی ہتک عزت کی قمیت ایک سال کے جیلخانہ کو نہیں قرار دیتا۔ میں ان لوگوں کی طرح جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ~صل۱~ کو گالیاں دینے والے کی سزا قتل ہے ایک آدمی کی جان کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا۔ میں ایک قوم کی تباہی کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا۔ میں دنیا کی موت کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا۔ بلکہ میں اگلے پچھلے سب کفار کے قتل کو بھی اس کی قیمت نہیں قرار دیتا۔ کیونکہ میرے آقا کی عزت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے‘‘۔
’’کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ میرا آقا دنیا کو جلانے کے لئے آیا تھانہ کہ مارنے کے لئے وہ لوگوں کو زندگی بخشنے کے لئے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کے لئے غرض محمد رسول اللہ ~صل۱~ کی عزت دنیا کے احیاء میں ہے نہ اس کی موت میں پس میں اپنے نفس میں شرمندہ ہوں کہ اگر یہ دوشخص جو ایک قسم کی موت کا شکار ہوئے ہیں اور بدبختی کی مہر انہوں نے اپنے ماتھوں پر لگائی ہے اس صداقت پر اطلاع پاتے جو محمد رسول اللہ ~صل۱~ کو عطا ہوئی تھی تو کیوں گالیاں دے کر برباد ہوتے کیوں اس کے زندگی بخش جام کو پاکر ابدی زندگی نہ پاتے اور اس صداقت کا ان تک نہ پہنچنا مسلمانوں کا قصور نہیں تو اور کس کا ہے پس میں اپنے آقا سے شرمندہ ہوں کیونکہ اسلام کے خلاف موجودہ شورش درحقیقت مسلمانوں کی تبلیغی سستی کا نتیجہ ہے ۔ قانون ظاہری فتنہ کا علاج کرتا ہے نہ دل کا اور میرے لئے اس وقت تک خوشی نہیں جب تک کہ تمام دنیا کے دلوں میں محمد رسول اللہ ~صل۱~ کا بغض نکل کر اس کی جگہ آپ کی محبت قائم نہ ہوجائے‘‘۔ ۱۸]4 [rtf
حضرت امام جاعت احمدیہ کی مساعی پر مسلم اخبارات کا اظہار تشکر
ناموس رسول عربی ~صل۱~ کی حفاظت اور دشمنان اسلام کے فتنہ کی سرکوبی کے لئے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے جو عظیم الشان جہاد
کیا وہ اس دور کے اسلامی کارناموں میں ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا۔ چنانچہ اخبار مشرق (گورکھپور) نے حضرت امام صاحب جماعت احمدیہ کے احسانات کے عنوان پر مندرجہ ذیل نوٹ شائع کیا۔
’’جناب امام صاحب جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں آپ ہی کی تحریک سے ’’ورتمان‘‘ پر مقدمہ چلایا گیا۔ آپ ہی کی جماعت نے رنگیلا رسول کے معاملہ کو آگے بڑھایا۔ سرفروشی کی اور جیل خانہ جانے سے خوف نہیں کھایا آپ ہی کے پمفلٹ نے جناب گورنر صاحب بہادر پنجاب کو انصاف و عدل کی طرف مائل کیا۔ آپ کا پمفلٹ ضبط کر لیا مگر اس کے اثرات کو زائل نہیں ہونے دیا۔ اور لکھ دیا کہ اس پوسٹر کی ضبطی محض اس لئے ہے کہ اشتعال نہ بڑھے اور اس کا تدارک نہایت ہی عادلانہ فیصلہ سے کردیا اور اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں۔ سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوئوں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہورہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرون اولٰے کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سرانجام دے رہی ہے مسلم پولٹیکل جماعت جو لنڈن میں بنائی گئی ہے یہ مسلم لیگ کی طرح مٹ جانے والی اور تباہ ہوجانے والی چیز نہ ہوگی کہ مسلمانان ہند کے لیگ کا اثر ولایت تک بڑھایا لیکن جب ہندوستان کی نیشنل کانگریس میں لیگ جذب ہوگئی تو آنریبل سید امیر علی کو دودھ کی مکھی کی طرح الگ کر دیا۔‘‘ ۱۹
یہ واقعہ ہے اس پر کوئی پردہ نہیں ڈال سکتا کہ مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے صرف احمدی جماعت ہی اس بات کا دعویٰ کرسکتی ہے کہ اس نے فتنہ ارتداد کا مقابلہ برحیثیت اچھا کیا اور خوب کیا اور اس سے زیادہ بہتر اور صحیح طریق پر ناموس رسول کریم صلعم کی حفاظت کے لئے جہاد اکبر بھی کسی دوسری جماعت نے نہیں کیا فرداً من الافراد کاذکر نہیں۔ کیونکہ حضرت خواجہ حسن نظامی اپنی ذات خاص سے کیا کچھ نہیں کرتے ہیں۔ یورپ اور افریقہ اورامریکہ میں جو خدمات اسلام یہ جماعتیں کر رہی ہیں ان کا ذکر بے سود ہے ہندوستان میں بھی جو کام ہو رہا ہے اور جیسا ایثار اور ہمت بلکہ اولوالعزمی یہ لوگ دکھا رہے ہیں باعث صد ہزار ممنونیت قوم مسلمہ ہے۔ حال میں صوبہ متوسط کے دارالصدر ناگپور میں اس جماعت کے ایک فرد واحد نے جو ثبوت اپنی ہمت وایثار کا دیا ہے اس کی مفصل کیفیت الفضل قادیان نے ۱۷ اگست کو لکھی ہے ایک صاحب ایثار کی کوششیں اور ہمت کا یہ نتیجہ نکلا کہ جلسہ ہوا اور بارش بہت زور وشور سے ہوتی رہی۔ پانی میں سسب بھیگتے رہے جن کے پاس چھتریاں تھیں۔ چھتریاں اتار دیں اور ریزولیوشن پیش کئے پاس کئے تقریریں کیں اورثابت کردیا کہ مسلمان اپنے پیشوا اور اپنے امام جماعت کے حکم کی تعمیل میں سب کچھ کرسکتا ہے اور اس موقعہ پر قابل تحسین تمام فرقوں کے مسلمان ہیں جنہوں نے اختلاف کو چھوڑ کر خدا کے حکم پر تمسک کیا اور رہنمائے اسلام امین کامل صادق پاک باز حضرت محمد رسول~صل۱~ کے ناموس کی حفاظت کے لئے ایک مرکز پر جمع ہوگئے اور یہی خدا کا حکم ہے قرآن پاک میں برابر اس کی تاکید مسلمانوں کو ہے کہ تفرقہ نہ پیدا کرو۔ فرقہ بندی کو چھوڑ دو اور سب ایک ہوجائو گے تو غیر مسلم فرقے تم کو نقصان نہیں پہنچاسکتے۔
ہم جاعت احمدیہ کو مبارک وباد دیتے ہیں کہ وہ سچا کام خدمت اسلام کا انجام دے رہی ہے اور اس وقت ہندوستان میں کوئی جماعت اتنا اچھا اور ٹھوس کام نہیں کرتی کہ وہ ہر موقعہ پر مسلمانوں کو حفاظت اسلام اور بقائے اسلام کے لئے توجہ دلاتی رہتی ہو۔ باوجود اختلاف عقائد کے ہمارے دل پر اس جماعت کی خدمات کا گہرا اثر ہے۔ اور آج سے نہیں۔ جناب مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کے زمانہ سے اس وقت تک ہم نے کبھی اس کے خلاف کوئی حرف زبان اور قلم سے نہیں نکالا۔
(اخبار مشرق یکم ستمبر ۱۹۲۷ء بحوالہ جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات صفحہ۵۷۔۵۸)
اسی طرح اخبار ’’انقلاب‘‘ لاہورنے احمدیوں کی قابل قدر خدمات اسلامی کے عنوان پر لکھا۔
’’احمدی فرقے سے براعتبار عقائد ہمیں جو اختلاف ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ علاوہ بریں مطالبات اسلامی کی تکمیل کے طریقہ ہائے کار میں بھی ہمارے اور ان کے درمیان بڑی حد تک فرق وتفاوت موجود ہے لیکن ان اختلافات کے باوجود ہم اس فرقہ کی بعض قابل قدر خدمات اسلامی کا تہ دل سے اعتراف کرتے ہیں۔ امام جماعت احمدیہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب نے مقدمہ راجپال کے فیصلہ کے متعلق نہ صرف ہندوستان میں ہی مسلمانوں کی ہم آہنگی اختیار کی بلکہ مسجد لنڈن کے امام مولوی عبدالرحیم درد کو اس قسم کی ہدایات بھی بھیج دیں کہ جہاں تک ہوسکے اس سلسلہ میں مسلمانوں کی شکایات کو پارلیمنٹ تک پہنچا دو اور انگلستان میں بھی اس جدوجہد کی بنیاد رکھ دو۔ جس نے آج مسلمانان ہند کو آتش زیر پاکر رکھا ہے ان ہدایات کا نتیجہ یہ ہوا کہ درد صاحب نے نہایت ہی درد مندی اور انہماک سے کام شروع کردیا اور اب تک جو اطلاعات موصول ہوچکی ہیں۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک طرف بعض معززین انگلستان اور مسلمانان مقیم برطانیہ کے دستخطوں سے وزیرہند کو بھیجنے کے لئے ایک محضرنامہ تیار ہورہا ہے جس پر دو سو سے زائد دستخط کرنے والوں میں چینی‘ہندوستانی ‘ایرانی‘افغانی اور برطانوی مسلمانوں کے علاوہ سرآتھر کانن ڈائل اور سر ولیم سمپسن جیسے معزز اور نامور انگریز بھی شامل ہیںاس محضرنامہ میں راجپال کی کتاب اور مقدمہ راجپال کے خلاف شدید نفرت اور حقارت کا اظہار کیا گیا۔ اس کے علاوہ مانچسٹر گارڈین نے اس مسئلہ پر ایک افتتاحیہ لکھا ہے جس میں بتایا ہے کہ حالات موجودہ میں اس قسم کی قابل اعتراض تحریروں کی اشاعت سخت خطرناک فسادات کا باعث ہوسکتی ہے یہ بھی مولوی عبدالرحیم صاحب درد اور سردار اقبال علی شاہ صاحب احمدی کی کوششوں کانتیجہ ہے۔ تازہ خبر یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے کسی رکن نے راجپال کے مقدمہ کے متعلق ایک سوال بھی کردیا ہے جس کے جواب میں ارل ونٹرٹن نے اعلان کیا ہے کہ عدالت عالیہ اس قسم کے مقدمہ کی سماعت کر رہی ہے اگر اس کا فیصلہ خاطر خواہ نہ ہوا تو اس قسم کی مطبوعات کے انسداد کے لئے قانون میں ترمیم کیجائیگی ہمیں یقین ہے کہ احمدیوں کی مساعی جمیلہ جاری رہیں گی اور دوسرے مسلمان بھی اس کام میں احمدیوں کی اعانت کرینگے۔ یہاں تک کہ پارلیمنٹ میں ایک ایسی قوی جماعت پیدا ہوجائے جو مسلمانوں کے مطالباتکی پورے زور سے حمایت کرسکے ہم ان بروقت خدمات کے لئے امام جماعت احمدیہ اور مولوی عبدالرحیم درد صاحب کے بہت شکرگزار ہیں‘‘۔ ۲۰
تحفظ ناموس پیشوایان مذاہب کے لئے مکمل قانون کا مطالبہ
مقدمہ ’’ورتمان‘‘ کے فیصلہ سے یہ ثابت ہوجانے کے بعد کہ جسٹس کنور دلیپ سنگھ نے دفعہ ۱۵۳۔ الف کی جو تشریح کی ہے بالکل غلط ہے اس امر کی فوری ضرورت تھی کہ بزرگان مذاہب کی توہین کے انسداد کے لئے پہلے سے زیادہ واضح اور زیادہ مکمل قانون کا مطالبہ حکومت سے کیا جاتا۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ۱۰ اگست ۱۹۲۷ء کو فیصلہ ورتمان کے بعد مسلمانوں کا اہم فرض کے عنوان سے ایک اشتہار شائع کیا جس کیابتدا میں یہ بتایا کہ حمایت احمدیہ اس قانون کے نامکمل ہونے کی دیر سے شاکی ہے چنانچہ حضور نے تحریر فرمایاکہ:۔
۱۸۹۷ء میں بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گورنمنٹ کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ مذہبی فتن کو دور کرنے کے لئے اسے ایک زیادہ مکمل قانون بنانا چاہئے لیکن افسوس کہ لارڈالجن نے جو اس وقت وائسرائے تھے اس تجویز کی طرف مناسب توجہ نہ کی۔ اس کے بعد سب سے اول ۱۹۱۴ء میں میں نے سر اڈوائر کو اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ گورنمنٹ کا قانون مذہبی فتن کے دور کرنے کے لئے کافی نہیں اور جب تک اس کو مکمل نہ کیا جائے ملک میں امن قائم نہ ہوگا۔ انہوں نے مجھے اس بارہ میں مشورہ کرنے کے لئے بلایا لیکن جس تاریخ کو ملاقات کا وقت تھا اس سے دو دن پہلے استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب امام جماعت احمدیہ فوت ہوگئے۔ اور دوسرے دن مجھے امام جماعت منتخب کیا گیا۔ چنانچہ وہ جماعت کے لئے ایک سخت فتنہ کا وقت تھا۔ میں سراڈوائر سے مل نہ سکا اور بات یونہی رہ گئی۔ اس کے بعد ۱۹۲۳ء میں میں میکلیگن سابق گورنر پنجاب سے ملا اور انہیں اس قانون کے نقصوں کی طرف توجہ دلائی مگر باوجود اس کے کہ میں نے انہیں کہا تھا کہ آپ گورنمنٹ آف انڈیا کو توجہ دلائیں انہوں نے یہ معذرت کردی کہ اس امر کا تعلق گورنمنٹ آف انڈیا سے ہے اس لئے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ اس کے بعد میں نے پچھلے سال ہزایکسلینسی گورنر جنرل کو ایک طویل خط میں ہندوستان میں قیام امن کے متعلق تجاویز بتاتے ہوئے اس قانون کی طرف بھی توجہ دلائی لیکن افسوس کہ انہوں نے محض شکریہ تک ہی جواب کو محدود رکھا اور باوجود وعدہ کے کہ وہ ان تجاویز پر غور کریںگے غور نہیں کیا میرے اس خط کا انگریزی ترجمہ چھ ہزار کے قریب شائع کیا گیا اور تمام حکام اعلٰے سیاسی لیڈروں اخباروں پارلیمنٹ کے ممبروں اور دوسرے سربرآوردہ لوگوں کو جاچکا ہے اور کلکتہ کے مشہور اخبار ’’بنگالی‘‘ نے جو ایک متعصب اخبار ہے لکھا ہے کہ اس میں پیش کر دہ بعض تجاویز پر ہندو مسلم سمجھوتے کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے سر مائیکل اوڈوائر اور ٹائمز آف لنڈن کے مسٹر برائون نے ان تجاویز کو نہایت ہی ضروری تجاویز قرار دیا اور بہت سے ممبران پارلیمنٹ اور دوسرے سربرآوردوں نے ان کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ لیکن افسوس کہ ان حکام نے جن کے ساتھ ان تجاویز کا تعلق تھا ان کی طرف پوری توجہ نہ کی جس کا نتیجہ وہ ہوا جو نظر آرہا ہے ملک کا امن برباد ہوگیا اور فتنہ وفسادکی آگ بھڑک اٹھی۔ ۲۱
یہ تفصیل بیان کرنے کے بعد حضور نے حکومت اور مسلمانوں کو مروجہ قانون (۱۵۳۔الف) کی چار واضح خامیوں کی طرف توجہ دلائی۔
۱۔
موجودہ قانون صرف اس شخص کو مجرم گردانتا ہے جو فسادات کی نیت سے کوئی مضمون لکھے۔ براہ راست توہین انبیاء کو جرم نہیں قرار دیتا۔
۲۔
اس قانون کے تحت صرف حکومت ہی مقدمہ چلاسکتی ہے۔
۳۔
اس قانون میں یہ اصلاح کرنا ضروری ہے کہ جوابی کتاب لکھنے والے پر اس وقت تک قانونی کارروائی نہ کی جائے جب تک کہ اصل مئولف پر مقدمہ نہ چلایا جائے بشرطیکہ اس نے گندہ دہنی سے کام لیا ہو۔
۴
یہ قانون صوبائی ہے لہذا اصل قانون یہ ہونا چاہئے کہ جب ایک گندی کتاب کو ایک صوبائی حکومت ضبط کرلے تو باقی تمام صوبائی حکومتیں بھی قانوناً پابند ہوں کہ وہ اپنے صوبوں میں اس کتاب کی طباعت یا اشاعت بند کردیں بلکہ بہتر یہ ہے کہ اس قانون پر عمل درآمد گورنمنٹ آف انڈیا کے اختیار میں ہو جو کسی صوبہ کی حکومت کے توجہ دلانے پر ایک عام حکم جاری کردے جس کا سب صوبوں پر اثر ہو۔۲۲
ہندوستان سے یہ آواز بلند کرنے کے بعد حضور نے لندن کے مبلغ مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم ۔اے کے ذریعہ انگلستان میں بھی کوشش کرکے وہاں کے پریس میں یہ سوال اٹھا دیا کہ موجودہ قانون ناقص ہے اور اسے جلد بدلنا چاہئے اور پارلیمنٹ میں بھی بعض ممبروں نے یہ معاملہ رکھا ۔
ساتواں باب (فصل دوم)
سفر شملہ
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ تحفظ ناموس رسول ﷺ~ اور مسلمانوں کے ملکی و قومی حقوق کی نگہداشت کے لئے جو جدوجہد فرما رہے تھے۔ اس کو نتیجہ خیز بنانے کے لئے ہندوستان کے مشہور مسلم وغیر مسلم زعماء سے تبادلہ خیالات کرنے کے علاوہ حکومت کے حلقوں سے رابطہ پیدا کرنا بھی ضروری تھا۔ چنانچہ بنفس نفیس اس مقصد کی تکمیل کے لئے ۱۳ اگست ۱۹۲۷ء ۲۳ کو شملہ تشریف لے گئے اور قریباً ڈیڑھ ماہ تک دن رات مصروف رہنے کے بعد ۲ اکتوبر ۱۹۲۷ء کو دارالامان میں واپس تشریف لائے۔ ۲۴
اس مبارک سفر میں جو اول سے آخر تک دینی ‘قومی اور ملکی سرگرمیوں کے لئے وقف تھا آپ کی مصروفیات عروج تک پہنچ گئیں۔
ناموس پیشوایان مذاہب کے تحفظ کے لئے نیا قانون
گورنر صاحب پنجاب نے مقدمہ ’’ورتمان‘‘ کے فیصلہ سے قبل ایک تقریر میں کہا کہ۔ اس مقدمہ (ورتمان) کا نتیجہ یہ فیصلہ کردیگا کہ آیا ہمارے لئے موجودہ قانون ہی کافی ہے یا ہمیں اس میں ترمیم کرنے کے لئے مجلس واضع قوانین تک جانا پڑیگا‘‘۔
یعنی ورتمان کا بھی اگر وہی فیصلہ ہوا جو راجپال کا ہوا تھا تب حکومت قانون کی ترمیم کے لئے اسمبلی میں سوال رکھے گی۔ ۲۵ لیکن حضور نے شملہ تشریف لے جاکر نہ صرف حکومت کو ملکی اور جدیدقانون کی ضرورت کا قائل کرنے کی کوشش کی بلکہ اسمبلی کے مسلمان ممبروں سے تبادلہ خیالات کے علاوہ ہندولیڈروں سے بھی اپنے مجوزہ مسودہ قانون پر گفتگو فرمائی چنانچہ مسلمانوں کے مشہور لیڈر جناب محمد علی جناح (قائداعظم) مولوی محمد یعقوب صاحب ڈپٹی پریزیڈنٹ اسمبلی ‘سر عبدالقیوم صاحب‘خان محمد نواز خان صاحب ‘مولوی محمد شفیع صاحب دائودی اور مولوی محمد عرفان صاحب گاہے گاہے آپ کی فردوگاہ پر تشریف لائے اور انہوں نے اس کے تمام پہلوئوں پر گھنٹوں بیٹھ کر تبادلہ خیالات کیااور آپ کے مسودہ کی نہ صرف تائید کی بلکہ تعریف بھی۔ ۲۶ یہ مسودہ شائع ہوا تو ہندوستان ٹائمز نے اسے نہایت اہم اور ضروری قرار دیااور پنڈت مدن موہن مالویہ نے اپنی ایک پرائیویٹ ملاقات میں اصولی طور پر اس سے اتفاق کیا۔ اسی طرح مہاراشٹر پارٹی کے لیڈر مسٹر کلکر اور مسٹر پہلوی خود حضور کی قیامگاہ پر آئے اور آپ کی رائے سے اظہار اتفاق کیا۔ ۲۷
حضور کی اس شبانہ روز جدوجہد کا اثر یہ ہوا کہ قیام شملہ کے صرف نو دن بعد حکومت ہند نیا قانون اسمبلی میں پیش کرنے پر رضامند ہوگئی۔ چنانچہ ۲۲ اگست ۱۹۲۷ء کو شملہ سے یہ سرکاری اعلان ہوا کہ۔
’’مذاہب کی توہین یا دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لئے شرانگیز مضامین کی افسوس ناک اشاعت کے پیش نظر حکومت ہند نے موجودہ قانون کی دفعات کو محض اس لئے بنظر امعان ملاحظہ کیا کہ ان میں سے کسی کو قوی بنانے کی ضرورت ہے یا نہیں لیکن قانون پر غور کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اس قسم کی تحریرات تعزیرات ہند کے باب پانزدہم کی گرفت میں نہیں آتی ہیں۔ کیونکہ یہ باب محض ان جرائم پر حاوی ہے جو مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ اس قسم کی تمام تحریرات دفعہ ۱۵۳۔الف تعزیرات ہند کے روسے قابل مواخذہ ہیں کیونکہ ایسا تو بہت ہی شاذونادر ہوتا ہے کہ اس سے دو مختلف جماعتوں کے درمیان نفرت و حقارت کے جذبات کو ترقی دینے کی کوشش کا اظہار نہ ہوتا ہو۔
لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ طریقہ ایسے افعال کو قابل مواخذہ قرار دینے کے لئے ایک ٹیڑھا سا طریقہ ہے جنہیں خود ہی مورد تعزیر ہونا چاہئے عام اس سے کہ ان افعال سے مختلف جماعتوں کے درمیان منافرت ومغایرت کے جذبات کو ترقی ہوتی ہے یا نہیں۔ لہذا حکومت ہند نے فیصلہ کر لیا ہے کہ لیجسلیٹو اسمبلی میں فوراً ایک مسودہ قانون پیش کردیا جائے تاکہ تعزیرات ہند کے باب پانزدہم میں ایک نئی دفعہ کا اضافہ ہو جائے جس کے رو سے کسی مذہب کی عمداً توہین یا توہین کی کوشش یا ملک معظم کی رعایا کی کسی جماعت کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے یا مجروح کرنے کی کوشش کو بذات خود ایک جرم قرار دیا جاسکے۔ اس دفعہ کو کتاب الائین پر لانے کے لئے ضابطہ فوجداری میں بھی بعض ترمیمات کی جائیں گی جو اس اجلاس میں پیش ہوں گی‘‘۔ ۲۸ چنانچہ اسمبلی نے اس معاملے کے پیش ہونے پر ایک نئی دفعہ کا اضافہ منظور کر لیا اور پیشوایان مذاہب کی عزت کے تحفظ کا قانون پہلے سے بھی زیادہ معین صورت اختیار کرگیا۔
ہندو مسلم اتحاد کانفرنس میں شرکت
حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ نے ہندومسلم مناقشات دور کرنے کی جدوجہد کبھی ترک نہیں کی اور باوجودیکہ آپ کے سامنے تبلیغ اسلام اور تربیت جماعت اور تنظیم قوم کا ایک عظیم الشان مقصد تھا۔ آپ نے ملکمیں امن وصلح کی فضا پیدا کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ چنانچہ پچھلی سطور میں یہ ذکر آچکا ہے کہ حضور نے وائسرائے ہند کے نام ایک مفصل مکتوب لکھا جس میں ہندومسلم فسادات کی روک تھام اور باہمی مفاہمت کے لئے نہایت قیمتی مشورے دیئے اس خط میں آپ نے ملکی سطح پر ایک ہندومسلم اتحاد کانفرنس کی ضرورت پر بھی زور دیاتھا۔ وائسرائے نے ابتداء میں تو غیر ضروری خیال کی لیکن ۲۹ اگست ۱۹۲۷ء کو کونسل آف سٹیٹ اور مجلس واضع قوانین کے ممبروں میں تقریر کی کہ۔
’’ایک سال گذرا ہے کہ بعض مقتدر اصحاب نے مجھ کو توجہ دلائی تھی کہ میں ایسی کانفرنس منعقد کروں جو ان اسباب پر غور کرے جو امن کے کفیل ہوسکیں۔ بعض وجوہ کی بناہ پر جو اس وقت مجھ کو یقینی معلوم ہوتی تھی۔ میں نے اس وقت کوئی کارروائی کرنا مناسب خیال نہ کیا لیکن اس عرصہ میں بعض ایسے واقعات رو نما ہوئے جن سے میں مجبور ہوگیا کہ اپنے سابقہ فیصلہ پر نظر ثانی کروں‘‘۔
اس تقریر کے دوسرے روز شملہ میں ہندو مسلم اتحاد کی کانفرنس شروع ہوگئی۔
اتحاد کانفرنس کا پہلا مشترکہ اجلاس
۳۰ اگست ۱۹۲۷ء کو اس کانفرنس کا پہلا مشترکہ (مگر غیر ضابطہ)اجلاس کونسل چیمبر میں ہوا۔ اس اجلاس میں جناب محمد علی صاحب جناح (قائداعظم) سرعبدالقیوم صاحب‘سر عمر حیات خان صاحب ٹوانہ‘سر ذوالفقار علی خان صاحب‘مولانا شوکت علی صاحب و جناب محمد علی صاحب جوہر‘مولوی ظفر علی خان صاحب۔ پنڈت مدن موہن مالویہ ۔ ڈاکٹر مونجے‘لالہ لاجپت رائے‘مسٹر سری نواس آئینگر وغیرہ لیڈر شامل ہوئے اور سمجھوتے کے طریق پر گرما گرم تقریریں اور بحثیں ہوئیں۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنی تقریر میں اتحاد کے صحیح طریق پر روشنی ڈالی اور مسلمانوں کے اقتصادی حقوق کی حفاظت پر زور دیا۔ اتحاد کے اصول پر مفصل غور کے لئے ۷ ستمبر ۱۹۲۷ء کا دوسرا اجلاس مقرر ہوا۔ ۲۹
حضرت خلیفتہ المسیح کی تجاویز ہندومسلم اتحاد سے متعلق کانفرنس کے دوسرے اجلاس میں
فیصلہ کے مطابق ۷ ستمبر ۱۹۲۷ء کو دوسرا اجلاس منعقد ہوا جس میں حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ہندو مسلم اتحاد سے متعلق مندرجہ ذیل بیس اہم تجاویز پیش فرمائی۔
۱۔
ہر جماعت کو اپنے مذہب کی تبلیغ واشاعت کرنے اور دوسروں کو اپنے مذہب میں داخل کرنے کی پوری آزادی ہونی چاہئے۔
۲۔
کسی کے مذہب پر کسی ایسے عقیدہ یا دستور کی وجہ سے جسے وہ اپنے مذہب کا جزو نہ سمجھتی ہو کوئی اعتراض نہ کیا جائے۔
۳۔
ہر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے کہ وہ اپنے افراد کی اقتصادی اصلاح کرسکے اور ان کو کاروبار کرنے یا دکانیں کھولنے کی ترغیب دے اور ان کی سرپرستی کی تحریک کرے۔
۴۔
اپنی دکانیں کھولنے کی تحریک مسلم قوم کے لئے ایسی ہی مفید ہے جیسے کہ سودیشی تحریک۔ لہذا اس سلسلہ میں ہماری کوششیں کسی انتقام یا دشمنی کی بنا پر نہ سمجھی جائیں۔
۵۔
کسی قوم کے مذہبی یا سوشل عقائد سے کوئی تعرض نہ ہونا چاہئے اگر مسلمان گائے ذبح کرنا چاہیں تو ان کو پوری آزادی ہونی چاہئے۔ اسی طرح عیسائیوں سکھوں ہندوئوں کو سئور مارنے یا جھٹکے کرنے یا باجہ بجانے میں پوری آزادی ہو۔
۶۔
مذہبی امور میں ہر قوم کو مکمل آزادی ہونی چاہئے اور یہ اصل ہندو مسلم اتحاد کا ایک ضروری جزو قرار دینا چاہئے۔
۷۔
ہندوئوں کو ایک ایسا قانون پاس کرانے میں جس کی رو سے پرائیویٹ ساہوکارہ باضابطہ ہوسکے۔ ہماری مدد کرنی چاہئے۔ اور ہماری کوششوں کو جو ہم مسلم رقبوں میں مسلمانوں کے فائدے کے لئے کوآپریٹو بنک کھلوانے کے سلسلہ میں کریں‘فرقہ وارانہ منافرت کارنگ نہیں دینا چاہئے۔
۸۔
جس طرح ملازمتوں کو ہندوستانیوں کے لئے مخصوص کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ اسی طرح مختلف قوموں کے تناسب کے لحاظ سے ملازمتوں میں بھی ان کی نیابت منظور کی جائے۔ اور ہرصوبہ میں ہر قوم کی نیابت اس کی تعداد کے لحاظ سے ہونی چاہئے۔
۹۔
یہ امر بطور اصل تسلیم کیا جائے کہ جس صوبہ میں جو قوم زیادہ تعداد میں ہو وہ کونسل میں قلیل تعداد نہ رکھے۔ اور جب کسی قلیل التعداد قوم کو خالص مراعات دینا ہوں۔ تو مذکورہ بالا اصول کے عین مطابق کیا جائے۔
۱۰۔
یونیورسٹیوں کے بارہ میں بھی یہی اصل ہونا چاہئے کیونکہ یہ ضروری ہے کہ ہر صوبے کی ذہنی بالیدگی ایسی قوم کے سپرد کی جائے جس کی تعداد اس صوبہ میں زیادہ ہو۔
۱۱۔
صوبہ سرحد میں اصلاحات کا نفاذ اسی طرح اور اسی حد تک ہونا چاہئے جہاں تک کہ دوسرے صوبوں میں ملے ہیں اور اس صوبہ میں ہندوئوں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں ملے ہیں اور اس صوبہ میں ہندوئوں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں ملے ہیں۔ جہاں وہ اقلیت میں ہیں۔
۱۲۔
سندھ اور بلوچستان مستقل صوبے بنادیئے جائیں اور یہاں ہندوئوں کو وہی حقوق دیئے جائیں جو مسلمانوں کو ان صوبوں میں حاصل ہیں۔ جہاں وہ قلیل التعداد ہیں۔
۱۳۔
چونکہ دیسی ریاستوں کو بھی برٹش انڈیا کے ہم پایہ ہونا چاہئے۔ اس لئے یہ فیصلہ ہوجانا چاہئے کہ کس ریاست میں وہاں کی حکمران قوم کو قطع نظر اس کی تعداد کے بعض خاص حقوق دیئے جائیں اور اس کو فوقیت ہونی چاہئے۔
۱۴۔
مختلف صوبجات کے اختیار خود انتظامی کے اصول کو اس شرط پر تسلیم کرنا چاہئے کہ ایسے صوبجات ہمیشہ مرکزی حکومت کے قواعد وآئین کے اندر رہیں گے۔
۱۵۔
مخلوط انتخاب کا طریقہ اصولاً صحیح ہے مگر ہندوستان کی موجودہ حالت کے مطابق نہیں اور ہمارے خیال میں یہ مسلم مفاد کے لئے خطرناک ہے بہر حال جماعت احمدیہ اور پنجاب کے مسلمان اور بعض دوسرے صوبوں کے مسلمان بھی فی الحال مخلوط انتخاب کے طریقہ کو منظور کرنے کے لئے تیار نہیں اس لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ جداگانہ انتخاب کا حق مسلمانوں کے لئے جاری رہنا چاہئے۔ اور دوسری جماعتوں کو بھی جو اسے پسند کریں۔
۱۶۔
مذہبی امور میں سے کوئی بات فیصلہ نہ کی جائے جب تک اس قوم کے تین چوتھائی ممبر جس پر اس کا اثر پڑسکتا ہے۔ اس کے حق میں رائے نہ دیں اور فیصلے کرنے کے بعد بھی اگر اتنی ہی تعداد ممبروں کی اس کو چھوڑنا چاہئے تو اس کو چھوڑ دیا جائے۔
۱۷۔
اس وقت تمام فرقہ وارانہ مخالفت اور لڑائیوں میں ایک قوم دوسری کو پیش دستی کا الزام دیتی ہے اس لئے یہ ضروری ہے کہ اتحاد کانفرنس کے آخری فیصلہ سے پہلے یا تو یہ طے ہوجائے کہ تمام مصائب کی ذمہ داری کس قوم پر ہے؟ یا پھر یہ طے ہوجانا چاہئے کہ اگر آئندہ کوئی رنجدہ واقعہ ہو تو کسی فریق کو گذشتہ واقعات کا حوالہ دینے کی اجازت نہیں ہوگی ورنہ فطرتاً یہ خیال پیدا ہوگا۔ کہ ذمہ داری کے اظہار کے ڈر سے صلح کی جارہی ہے۔
۱۸۔
ہر صوبہ میں ایک بورڈ بنایا جائے جس کی شاخیں تمام اضلاع میں ہوں۔ اور جب کبھی کوئی فرقہ وارانہ مخاصمت پیدا ہوتو لوکل بورڈ کے ممبروں کو فوراً جائے وقوع پر پہنچ کر تفتیش کرنا چاہئے۔ اور جس قوم کی طرف سے ابتداء ثابت ہو اس کے لیڈر کو اسے مناسب سزا اور مظلوم پارٹی کو ہرممکن طریق سے مدد دینی چاہئے۔
۱۹۔
انڈین نیشنل کانگریس صحیح معنوں میں قومی جماعت ہونی چاہئے اور ہر خیال اور عقیدہ کے لوگوں کو اس کا ممبر ہونے کی اجازت ہو اور حلف وفاداری صرف انہیں الفاظ میں لیا جانا چاہئے کہ ’’میں اپنے آپ کو ہندوستانی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ ہندوستان کی بہبودی کو مدنظر رکھوں گا‘‘ اس کے سوا ممبر کے لئے کوئی شرط نہیں ہونی چاہئے تاکہ ہر خیال اور عقیدہ کے لوگ اس میں شامل ہوسکیں۔
۲۰۔
ہر قوم یا فرقہ کو اس کی اپنی تنظیم سے متعلقہ باتوں میں کامل آزادی ہونی چاہئے تاوہ اپنے مفاد کی حفاظت کرسکے۔ ۳۰
اتحاد کانفرنس کا تیسرا اجلاس
اسی دن شام کے پانچ بجے برہم مندر کے ہال میں ہندو مسلم اتحاد کانفرنس کاتیسرا اجلاس جناب محمد علی صاحب جناح (قائداعظم) کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں یہ قرار پایا۔ کہ ایک مشترکہ سب کمیٹی مقرر کی جائے جو اس کانفرنس کے لئے ایجنڈا تیار کرے ۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بھی اسی کمیٹی کے ممبر نامزد ہوئے۔ اسی اجلاس میں یہ بھی فیصلہ ہوا کہ دوسرے دن ۸ ستمبر ۱۹۲۷ء کی صبح کو سب کمیٹی کا اجلاس ہو اور شام ۵ بجے اس ایجنڈا پر غور کرنے کے لئے اتحاد کانفرنس کا اجلاس ہو۔ چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی قرار داد کے مطابق مقررہ وقت پر تشریف لے گئے لیکن کوئی اجلاس نہ ہوسکا۔
الغرض کئی روز تک یہ کانفرنس جاری رہی اور سب کمیٹی کے اجلاسوں کی طرح کانفرنس میں بھی تعطل کی صورتیں پیدا ہوئیں۔ مگر حضرت خلیفتہ المسیح کی کوشش سے فضا ساز گار ہوگئی۔ چنانچہ پنڈت مدن موہن مالویہ جی نے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے (جوشملہ میں نامہ نگار کی حیثیت سے گئے تھے )کہا کہ کل حضرت نے بہت ہی معقول تقریر کی اور صحیح راستہ دکھایا۔ ۳۱
افسوس حضور کی انتہائی جدوجہد کے باوجود ملکی لیڈروں میں کوئی سمجھوتہ نہ ہوسکا۔ جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اس دوران میں ہندو اخبارات نے اپنے لیڈروں پر اس قدر دبائو ڈال کہ اگر وہ سنجیدگی سے کسی مسئلہ میں مسلمانوں کے جذبات واحساسات کا لحاظ رکھنے کے لئے تیار بھی ہوجاتے تو ہندوان کیقطعاً پروانہ کرتے۔ ۳۲
گورنر صاحب پنجاب سے ملاقات
قیام شملہ کے دوران میں حضور کی گورنر صاحب پنجاب سے بھی ملاقات ہوئی جس کی تفصیل خود حضور کے الفاظ میں یہ ہے:۔ گورنر صاحب پنجاب سے میرا ملنے کا ارادہ نہ تھا مگر چیف سیکرٹری صاحب گورنر پنجاب کی چٹھی آئی کہ واپس جانے سے پہلے گورنر صاحب سے ضرور ملتے جائیں میں جب ان سے ملنے کے لئے گیا ۔ تو انہوں نے چھوٹتے ہی تحریک چھوت چھات کے متعلق گفتگو شروع کردی اور کہا کہ آپ کی جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک شروع کررکھی ہے۔ میں نے بتایا کہ یہ رپورٹ آپ کو غلط ملی ہے نہ ہم نے بائیکاٹ کرنے کے لئے کہا اور نہ ہماری جماعت نے بائیکاٹ کی تحریک کی۔ ہم نے جو کہا وہ صرف یہ ہے کہ ہندو جو چیزیں مسلمانوں سے نہیں خریدتے وہ مسلمان بھی ہندوئوں کی بجائے مسلمانوں سے خریدیں اور مسلمان اپنی دکانیں نکالیں تاکہ تجارت کا کام بالکل ان کے ہاتھ سے نہ چلا جائے آخر ایک لمبی گفتگو کے بعد گورنر صاحب کو تسلیم کرنا پڑا کہ یہ بائیکاٹ نہیں اور اس تحریک میں کوئی ہرج نہیں۔
 
Top