تردید دلائل تقِیَّہ
تقِیَّہ کی تعریف از کتب شیعہ
’’جو مومن بہ اطمینان قلب موافق شرع رہ کر بخوف دشمن دین فقط ظاہر میں موافقت کرے دشمن دین کی تو دیندار ،ممدوح و متقی ہے‘‘۔ (قول فیصل مصنفہ مرزا رضا علی صفحہ ۳)
قولہ:۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے تقیہ کیا جبکہ صلح حدیبیہ میں رسول اﷲ اور بسم اﷲ کا لفظ کاٹ دیا۔
[بخاری کتاب الصلح باب کیف یکتب ھٰذا ما صالح فلان بن فلان]
[مسلم کتاب الصلح باب کیف یکتب ھٰذا ما صالح فلان بن فلان]
اقول:۔یہ تقیہ نہیں بلکہ درحقیقت ایسا ہی ہونا چاہیے تھا کیونکہ بوجہ معاہدہ فریقین دونوں فریقوں کا لحاظ ہونا تھا اس واسطے آپ ؐ نے کفار کا لحاظ کرتے ہوئے بسم اللّٰہ کی بجائے بِاسْمِکَ اللّٰھُمَّ (احمد بن حنبل مصری جلد ۱ مسند علی بن ابی طالبؓ) لکھوایا۔ اور آپ نے یہ انکار نہیں کیا کہ میں رسول اﷲ نہیں ہوں، بلکہ اقرار کیا ہے اور فرمایا تھا کہ’’اَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ عَبْدِ اللّٰہِ وَ رَسُوْلُ اللّٰہ ِ‘‘۔ (بخاری کتاب الصلح)
قولہ:۔الخ (النحل:۱۰۷) کہ کافر کے غلبہ کے وقت تقیّہ جائز ہے۔
اقول:۔جواب نمبر۱:کفر دو قسم کا ہے ۔ (۱) عقائد (۲) اعمال۔
عقا ئد۔انسان کے دل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ان میں اکراہ ممکن نہیں کیونکہ کسی کے عقائد کو کوئی دوسرا شخص جبراً نہیں بدل سکتا کیونکہ جبر اور اکراہ کے معنی تو یہ ہیں کہ’’قوت فیصلہ ‘‘کو معطل کردیا جائے۔عقائد میں اکراہ اس لئے ممکن نہیں کہ ان کے بدلنے یا نہ بدلنے میں بہر حال قوت فیصلہ کا دخل ہوتا ہے۔مثلاً زید اﷲ تعالیٰ کی ہستی کا قائل ہے۔ بکر اُس کو کہتا ہے کہ اگر تم خدا کا انکار نہ کرو گے تو میں تمہیں قتل کردوں گا ۔اب زید کو دوچیزوں کے درمیان فیصلہ کرنا ہے ۔یا تو خدا کی ہستی پر ایمان کو مقدم کرے یا اپنی زندگی کو۔اگر وہ اپنی زندگی کو مقدم کرکے خداکی ہستی کا انکار کر دیتا ہے تو وہ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ میں نہیں آتا کیونکہ یہ انکار اس کی ’’قوت فیصلہ‘‘کے استعمال کے نتیجہ میں ظاہر ہوا ہے۔
کفر کی دوسری قسم اعمال کے متعلق ہے اور اس میں’’جبراوراکراہ‘‘کئی صورتوں میں ممکن ہے۔ یعنی ہوسکتا ہے کہ کسی شخص سے جبراً بعض ایسے اعمال سرزد کرائے جائیں جن میں اس کی قوت فیصلہ کا ایک ذرہ بھی دخل نہ ہو۔مثلاً اگر زید و بکر اور عمر پکڑ کر خالد کو جبراً شراب پلانا چاہیں یا اور کسی ناجائز فعل کا ارتکاب کرانا چاہیں تو گو خالد اس سے بچنے کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے تیار ہو پھر بھی ممکن ہے کہ اسے لٹا کر جبراً شراب اس کے منہ میں ڈال دی جائے۔اب اس طریق پرشراب پینے میں خالد کے ارادہ اور اس کی قوت فیصلہ کا ذرہ بھی دخل نہیں۔ یوں تو شراب پینا یا زنا کرنا ایمان کے خلاف ہیں مگر مندرجہ بالا طریق پر ان کا ارتکاب کرایا جانا یقینا اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ کے تحت آتا ہے کیونکہ وہ باوجود اپنے کامل طور پر مصمّم اور غیر متزلزل ارادہ کے اس سے بچ نہ سکا ،لیکن کسی شخص کی زبان کو کوئی دوسرا شخص زبردستی پکڑ کو چلا نہیں سکتا کہ وہ اپنے عقائد کے خلاف کہے مگر اعمال کا صدور جیسا کہ اوپر بیان ہوا ہے بعض اوقات جبراً کرایا جا سکتا ہے۔پس آیت مندرجہ بالا میں لفظ ایمان کفر کے بالمقابل ہے ،اور کفر کے معنی زبانی انکار کے نہیں بلکہ اعمال کے رنگ میں بھی نافرمانی کے ہیں۔جیسا کہ لغت میں ہے :۔
’’اَکْفَرَ لَزِمَ الْکُفْرَ وَ الْعِصْیَانَ بَعْدَ الطَّاعَۃِ وَالْاِیْمَانِ‘‘ (المنجد صفحہ ۴۹۷زیر لفظ کفر) اس نے کفر کیا ۔یعنی کفر اور عصیان سے وابستہ ہوا فرمانبرداری اور ایمان کے بعد۔گویا لفظ کفر میں ہر قسم کا عصیان داخل ہے۔
ہم اوپر ثابت کر چکے ہیں کہ ’’عقائد‘‘کے متعلق ’’اکراہ‘‘کیا ہی نہیں جاسکتا جو عقائد کے تبدیل کرانے کے لئے کسی شخص پر کیا جائے کیونکہ ایسی حالت میں دو مشکل راہوں میں سے ایک کو دوسری پر مقدّم کرنے کا فیصلہ خود اس شخص کے ہاتھ میں ہوتا ہے جس پر جبر کیا جائے ۔اور یہ ظاہر ہے کہ ’’ایمان ‘‘کے مقابلہ میں ’’جان‘‘کی کوئی قیمت نہیں ۔پس جو شخص ’’جان ‘‘کے خوف سے ’’ایمان‘‘کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتا ہے یعنی بجائے دین کو دنیاپر مقدّم کرنے کے دنیا کو دین پر مقدّم کرتا ہے۔وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے یہ فیصلہ ’’اکراہ‘‘ کے ماتحت کیا ہے کیونکہ اکراہ تو اس صورت میں ہوتا جب وہ یہ کہہ سکتاکہ یہ جو کچھ ہوا میرے ’’فیصلہ‘‘ سے نہیں ہوا۔ہاں بعض ’’اعمال‘‘ایسے رنگ میں دوسرے شخص سے جبراً سرزد کرائے جا سکتے ہیں جن میں اس کے اپنے فیصلہ کا دخل نہ ہو۔جیسا کہ اوپر مثال دی گئی ہے۔پس شیعوں کاتقیّہ اس آیت سے ہرگز نہیں نکل سکتا کیونکہ وہ اعمال کے متعلق اس رنگ میں استثناء نہیں مانتے جس رنگ میں اوپر بیان ہوا بلکہ وہ عقائد کو کسی کے خوف سے چھپانے اور اس کے خلاف کہنے کا نام ’’تقیّہ‘‘کہتے ہیں۔
جواب نمبر۲:۔اگر عقائد کو اس طریق پر چھپانے کی اجازت مل جائے تو کسی نبی کی جماعت بھی ترقی نہ کر سکتی ۔ اگر اس رنگ میں تقیّہ جائز ہوتا تو حضرت علی،حضر ت ابوبکر، حضرت بلال وغیرھم رضوان اﷲ علیہم اجمعین صحابہ کرام جن کومحض اسلام لانے کی و جہ سے سخت تکالیف اور مصائب کا مقابلہ کرنا پڑا ضرور اس سے فائدہ اٹھاتے اور اگر وہ ایسا کرتے تو پھر مسلمان کون ہوتا؟پس ان بزرگوں کا انتہائی مصیبتیں اٹھا کر بھی انکار نہ کرنا صاف طور پر ثابت کرتا ہے کہ ان کے نزدیک ’’عقائد ‘‘کے متعلق ’’اکراہ‘‘ممکن نہ تھا اور یہ کہ ڈر کر عقائد کو تبدیل کرنا اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ کی استثناء میں نہیں آتا۔
جواب نمبر ۳:۔تقیّہ کے متعلق ایک نہایت ضروری سوال ہے اور وہ یہ کہ
’’تقیّہ کرنا اچھا ہے یا بُرا‘‘
اگر کہو برا تو (ا) یہ عقائد شیعہ کے خلاف (۲) حضرت علیؓ نے کیوں کیا (بقول شما) اگر کہو ’’اچھا‘‘تو حضرت امام حسینؓ نے یزید کے بالمقابل کیوں نہ کیا؟