تفسیر کبیر ۔ تفسیر القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی مرزا محمود احمد رض ۔جلد 8 یونی کوڈ
سُورَۃُ النَّبَاِ مَکِّیَّۃٌ
سورۃ نبا۔ یہ سورۃ مکّی ہے
وَھِیَ اَرْبَعُوْنَ
اور بسم اللہ کے علاوہ اس کی چالیس آیتیں ہیں اور دو رکوع ہیں۱؎
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں)
۱؎یہ سورۃ النَّبَا کہلاتی ہے کیونکہ اس میں اصل ذکر ایک نبأعظیم کا ہے۔ اس سورۃ میںبعث ؔ ۱ بعد الموت۔ قرآن کریم ؔ ۲ یا غلبۂ اسلام ؔ ۳ کاذکر ہے یا یوں کہو کہ ان تینوں کاذکر ہے۔ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے تعلق یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں یومِ فصل کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی گئی ہے چنانچہ سورۃ الْمُرْسَلٰتکے پہلے رکوع میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِاَیِّ یَوْمٍ اُجِّلَتْ لِیَوْمِ الْفَصْلِ وَمَآاَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الْفَصْلِ یعنے کس دن کے لئے وعدہ دئیے گئے ہیں فیصلے کے دن کے واسطے اور تُوکیا جانے کہ و ہ فیصلے کا دن کیا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے ھٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ جَمَعْنَاکُمْ وَالْاَوَّلِیْنَ یعنے یہ فیصلے کا دن ہے کہ جس کے لئے ہم نے تم کواور تم سے پہلے لوگوں کو جمع کیا ہے۔ گویا ایک یومِ فصل کا اس جگہ پر ذکر تھا۔ اس سورۃ میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا۔یعنی یقینا یہ فیصلے کا دن ایک مقرر وقت پر آنیوالا ہے۔ تو گویا سورۃ الْمُرْسَلَاتاور سورۃ النَّبا دونوں کا باہمی تعلق یومِ فصل کے ذریعہ سے ہے پہلی سورۃ میں دو دفعہ یومِ فصل کا بیان ہے اور اس سورۃ میں ایک دفعہ یومِ فصل کے ذکر کو دُہرایا گیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ ان دونوں میں اشتراکِ مضمون پایا جاتا ہے۔ اُس سورۃ میں بھی یومِ فصل کا بیان تھا اور اِ س سورۃ میں بھی یومِ فصل کا بیان ہے۔
سورۃ النَّباابتدائی مکّی سورتوں میں سے ہے۔ اس کی ترتیب کے متعلق نولڈک NOLDEKEجو مشرقی علوم کے متعلق جرمنی کامشہور پروفیسر ہے لکھتا ہے کہ اس سورۃ کے مضمون سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سورۃ الْمُرْسَلَات کے ساتھ ہی اُتری ہے(ریورنڈ ویریز کمنٹری آن دی قرآن) یہ ردّ ہے اُن مستشرقین یورپ کا جو کہا کرتے ہیںکہ قرآن کریم کی سورتوںمیں کوئی خاص ترتیب نہیں۔ لمبی سورتیں پہلے رکھ دی گئی ہیں اور چھوٹی سورتیں آخر میں رکھ دی گئی ہیں۔ اِن لوگوں کی سمجھ میں بھی جہاں جہاں کوئی بات آجاتی ہے وہاں انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سورتوں کا مضمون آپس میں ملتا ہے۔اور گو وہ سارے قرآن کو ایک باترتیب کلام نہ مانیں مگر کسی کسی جگہ انہیں بھی یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ سورتوں کا جوڑ ایک دوسری سے ملتا ہے۔
عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَ
یہ (لوگ) کس (چیز) کے بارے میں ایک دوسرے سے (بطریق انکار) سوال کر رہے ہیں ۲؎
۲؎ حل لغات
عَمَّاصل میںعَنْ مَا ہے نونؔ چونکہ میمؔ میں مدغم ہو جاتا ہے اس لئے عَمَّا ہو گیا۔ عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ حروف جارہ کے بعد بالعموم مَااستفہامیہ کے الف کو حزف کر دیتے ہیںاور آخر مِیم پر فتحہ بطور علامت کے رکھ دیتے ہیں (اقرب) مثلاً کہتے ہیں۔ فِیْمَ۔ لِمَ ۔ بِمَا۔ اِلَامَ۔ عَلٰی مَ۔ عَمَّ۔ بلکہ عام قاعدہ یہ ہے کہ وزن کے لحاظ سے جہاں الف ظاہر کرنے کا فائدہ ہو وہاں الف لاتے ہیں ورنہ بالعموم اس کو حذف کر دیتے ہیں۔ یعنی جہاں توازن میں یا بولنے میں زیادہ سہولت الف کے لانے میں ہو اُسی جگہ الف ظاہر کرتے ہیں ورنہ نہیں۔
اَلتَّسَائُ لُ کے معنے ہوتے ہیں ایک دوسرے سے پوچھنا۔ اور جب تَسَأَلَ الْقَوْمُ کہیں گے تو معنے ہوں گے سَأَلَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا (اقرب) یعنی آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے پوچھا۔ اور یَتَسَآئَ لُوْنَ کے معنے ہوں گے آپس میں وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔ پس عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَکے معنی ہوں گے آپس میں ایک دوسرے سے وہ کس کے بارے میں پوچھتے ہیں یا کس کے بارے میںوہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں۔
تفسیر
ایک دوسرے سے سوال مختلف وجوہ کی بناء پر کئے جاتے ہیں۔ کبھی سوال زیادتی ٔ علم کے لئے ہؤاکرتا ہے یعنے ایک انسان دوسرے انسان سے علم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً کسی کو راستہ معلوم نہیں تو وہ دوسرے سے پوچھتا ہے فلاں رستہ کدھر کو جاتا ہے یا پوچھتا ہے فلاں شہر کی طرف کونسا رستہ جاتا ہے۔ یا کسی لفظ کے معنی معلوم نہ ہوں تو وہ دوسرے سے پوچھتا ہے فلاں لفظ کے کیا معنے ہیں۔ اور یا پھر سوال امتحان کے لئے ہؤا کرتا ہے یعنی سوال کرنے والا جانتا تو ہے کہ جس لفظ کے متعلق وہ پوچھ رہا ہے اس کے کیا معنے ہیں مگر وہ یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ آیا دوسرے کو بھی وہ معنے معلوم ہیں یا نہیں۔ یہ سوال بھی بلاواسطہ عدمِ علم پر ہی دلالت کرتا ہے کیونکہ گو اس کو ان معنوں کا علم تو ہوتا ہے مگر اُسے یہ علم نہیں ہوتا کہ دوسرے کو بھی اس کا علم ہے یا نہیں۔ لیکن کبھی سوال اظہارِ تعجّب کے لئے بھی ہؤا کرتا ہے جیسے بعض دفعہ بیٹا اپنے باپ کی گستاخی کرے تو باپ اُسے کہتا ہے تمہیں پتہ ہے میں کون ہوں؟ یعنی تمہیں اتنی سمجھ تو ہونی چاہئیے کہ میں تمھارا باپ ہوں اور باپ کا ادب ضروری ہوتا ہے یا آقا اپنے غلام کو یا افسر اپنے ماتحت کو کہتا ہے تم جانتے ہو مَیں کون ہوں؟ اب اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اُسے علم نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے۔ پھر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہوتا کہ تم نہیں جانتے ہو کہ میں کون ہوں۔ بلکہ اس موقع پر سوال کرنے والا یہ بھی جانتا ہے کہ وہ کون ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ جس سے سوال کیا گیا ہے وہ بھی جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ جس سے سوال کیا جاتا ہے وہ بھی جانتا ہے اور باوجود اس کے کہ جو سوال کرنے والا ہے یہ بھی جانتا ہے کہ میرا مخاطب اس سوال کا جواب جانتا ہے پھر بھی وہ سوال کرتا ہے۔ تو درحقیقت یہ سوال ایک قسم کے تعجب کے اظہار کے لئے ہوتا ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم کو پتہ ہے کہ حقیقت کیا ہے پھر باوجود علم ہونے کے تم کیوں غفلت کر رہے ہو یا باوجود پتہ ہونے کے تم پوچھ کیوں رہے ہو یا اختلاف کیوں کر رہے ہو۔ اور کبھی اس تعجب کی صورت میں تفخیم کے لئے یعنی اس چیز کی عظمت کے اظہار کے لئے بھی سوال کیا جاتا ہے۔
یہاں بھی درحقیقت مخفی معنے تعجب کے ہی ہیںگو یہاں تفخیم کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ جیسے میں نے ابھی ایک مثال دی ہے کہ بعض دفعہ سوال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے تم جانتے ہو میں کون ہوں اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میری جو کچھ شان اور عظمت ہے اُس سے تم بخوبی واقف ہو۔
قرآن کریم چونکہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس لئے یہاں نہ تو یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ خدا نہیں جانتا۔ نہ دوسرے معنے ہو سکتے ہیں کہ خدا کو یہ شک ہے کہ میرا مخاطب جانتا ہے یا نہیں جانتا پس تیسرے ہی معنے ہیں جو خدا کے متعلق چسپاں ہو سکتے ہیں اور وہی معنی اس جگہ پر لئے جائیں گے۔ جیسا کہ اگلی آیت نے اس کو ظاہر بھی کر دیا ہے۔ پس عَمَّ یَتَسَائَ لُوْنَ کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں تعجب ہے کہ بغیر کافی غور اور فکر کے یہ لوگ ایک ایسے امر کے متعلق سوال کرتے ہیں جس کے حقائق ظاہر ہیں۔ گویا ایک طرف تو اس سوال میں مسئلہ کی بڑائی پر زور ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ مسئلہ بہت ہی اہم ہے اور اس کے حقائق بالکل ظاہر ہیںاور دوسری طر ف وہ لوگ جن کے متعلق یہ فقرہ کہا گیا ہے اُن کی عقل پر اظہار تعجب کیا گیا ہے کہ باجود اس مسئلہ کے دلائل موجو دہونے کے پھر بھی وہ شبہات میں پڑے ہوئے ہیں۔
عَنِ النَّبَاِ
اس (مذکورہ بالا یَوْمُ الْفَصْل٭ والی) عظیم (الشان) خبر کے متعلق (سوال کر رہے ہیں)۳؎
۳؎حل لغات
نَبَأٌ کے معنے خبر کے ہوتے ہیں لیکن علّامہ ابوالبقاء اپنی کتاب کلیات میں لکھتے ہیں کہ اَلنَّبَأُ وَالْاِنْبَائُ لَمْ یَرِدَافِیْ الْقُرٰانِ اِلَّا لِمَا لَہٗ وَقْعٌ وَشَاْنٌ عَظِیْمٌ (بحوالہ اقرب)یعنی نَبأ اوراِنْبَاء کے الفاظ قرآن کریم میں کسی جگہ بھی سوائے ایسے امر کے جس کی بہت بڑی شان اور اہمیت ہو استعمال نہیں ہوتے۔ وَقْعٌتاثیر اور اہمیت کو کہتے ہیں۔
امام راغب اپنی کتاب مفردات میں لکھتے ہیںاَلنَّبَأُ خَبَرٌذُوْفَائِدَۃٍ عَظِیْمَۃٍ یَحْصُلُ بِہٖ عِلْمٌ اَوْ غَلَبَۃُ ظَنٍّ وَّلَایُقَالُ لِلْخَبَرِ فِیْ الْاَصْلِ نَبَأٌ حَتّٰی یَتَضَمَّنَ ھٰذِہِ الْاَشْیَائَ الثَّلٰثَۃَ یعنی نبأ اس خبر کو کہتے ہیں جس میں اوّل فائد ہ ہو۔ دوسرے بڑا فائد ہ ہو۔ تیسرے اُس کے ذریعہ سے یا تو علم یقین حاصل ہوتا ہو یا علم غیب حاصل ہوتا ہو۔ پھر وہ کہتے ہیں خبر کو کبھی اس کے حقیقی معنوں میں نبأ نہیں کہتے جب تک یہ تینوں باتیں اُس میں نہ پائی جاتی ہوں۔ گویا اس طرح انہوں نے مزید زور اس بات پر دیا کہ نبأ نہیں کہہ سکتے سوائے اس کے کہ کوئی سرسری طور پر اس لفظ کا استعمال کر دے یا غلط طور پر استعمال کردے۔ مگرچونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں کسی لفظ کا غلط استعمال نہیں ہو سکتا اس لئے ابوالبقاء نے کہا کہ قرآن کریم میں ان معنوں کے سوا کہیں بھی نبأ کا لفظ استعمال نہیں ہؤا۔ جب بھی قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ وَقْعٌ وَشَانٌ عَظِیْمٌ کے الفاظ بھی درحقیقت یہی تینوں معنے ظاہر کرتے ہیں کیونکہ وَقْعٌ کے معنے وہی ہیں جو امام راغب نے خَبَرٌذُوْفَائِدَۃٍ کے الفاظ میں بیان کئے ہیں۔ اور عظیمٌ کا لفظ فَائِدَۃ عَظِیْمَۃ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور شَاْنٌ کے معنے وہی ہیں جو یَحْصُلُ بِہٖ عِلْمٌ اَوْ غَلَبَۃٌ ظَنٍّ کے ہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرحمن ع ۲ ۲ ۱ )پس وَقْعٌوَشَاْنٌ عَظِیْمٌ کے الفاظ میں درحقیقت وہی مضمون پایا جاتا ہے جو مفردات والے نے بیان کیا۔ مفردات والے نے بتا دیانبأ کو لفظ جب بھی صحیح طور پر استعمال کیا جائے گا اُس میں یہ تین باتیں ضرور پائی جائیں گی اور ابوالبقاء نے کہہ دیا کہ اَلنَّبَأُ وَالْاِنْبَائُ لَمْ یَرِدَافِیْ الْقُراٰنِ اِلَّا لِمَا لَہٗ وَقْعٌ وَشَانٌ عَظِیْمٌ قرآن کریم میںنبأ اور انباء کا لفظ کہیں بھی استعمال نہیں ہؤا مگر اسی صورت میںجب اُس کی خبر بہت بڑی شان اور اہمیت ہو۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن چونکہ الفاظ کا صحیح استعمال کرتا ہے۔ اس لئے جب بھی قرآن میں یہ لفظ استعمال ہوگاان تینوں معنوں پر مشتمل ہوگا۔ اس بناء پر میں غیر مبایعین کے مقابلہ میں کہا کرتا ہوں کہ تم جو کہتے ہوکہ ہر وہ شخص جس پر الہام الٰہی نازل ہو اُسے لُغوی طور پر ہم نبی کہہ سکتے ہیں یہ بالکل غلط ہے۔ لُغوی طور پر نبوت کے معنوں میں صرف الہام کے نزول کا مفہوم نہیں پایا جاتا۔ بلکہ لغت کے لحاظ سے نبی وہ ہوتا ہے جس پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہو اور اُس کلام میں یہ تین شرطیں پائی جاتی ہوں۔ اوّل وہ ذُوْفَائِدَۃٍ ہو دوم ؔوہ ذُوْفَائِدَۃٍ عَظِیْمَۃٍ ہو۔سومؔوہ ایسا الہام ہویَحْصُلُ بِہٖ عِلْمٌ اَوْ غَلَبَۃُ ظَنِّ۔ اور پھر زائد بات بوجہ نبی کے صیغہ کے یہ پائی جائے گی کہ اُس پر کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوتاہو۔گویانبأ کو جب ہم نبی کے صیغہ میں تبدیل کر دیں تو اس کے معنے ہوں گے ایسا شخص جس پر کثرت سے کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اور پھر وہ کلام ایسا ہوتا ہے جو ذُوْفَائِدَۃٍ عَظیْمَۃٍ یَحْصُلُ بِہٖ عِلْمٌ اَوْ غَلَبَۃُ ظَنٍّ کا مصداق ہوتا ہے۔ گویا نبی وہ ہے جو اللہ کی طرف سے کثرت کے ساتھ لوگوں کو خبر یں دیتا ہے اور ایسی خبریں دیتا ہے جو فائدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور نہ صر ف فائدہ پر بلکہ فائدہ عظیمہ پر مشتمل ہوتی ہیںاور یَحْصُلُ بِہٖ عِلْمٌ اُن سے زائد علم حاصل ہوتا ہے پس جب ہم کسی کو نبی اللہ کہتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ نبی اللہ وُہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سُن کر لوگوں کو کثرت سے خبر دیتا ہے (۲) ایسی خبریں دیتا ہے جن میں فائد ہ ہوتا ہے اور فائد ہ بھی عظیم الشان ہوتا ہے اور (۳) پھر اُن سے علم زائد حاصل ہوتا ہے۔ ان معنوں کی رُو سے کسی صورت میں بھی غیر مبایعین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ اس پہلو میں اُمت محمدؐیہ کا کوئی اور بھی فرد شریک ہے اور نہ درحقیقت وہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان معنوں کے رُو سے کوئی غیر نبی کسی غیر نبی کا شریک ہو سکتا ہے۔کیونکہ یہ باتیں کسی غیر نبی میں پائی ہی نہیں جاتیں۔
تفسیر
عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ جملہ مستانقہ بھی ہو سکتا ہے اور عَنْ عَمَّ کا بدل بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ بھی اس کے معنے ہو سکتے ہیںکہ کس بارے میںسوال کر رہے ہیں۔ کیا اس عظیم الشان نَبَأ کے متعلق جس کا ذکرآگے جا کر ہوگا اور یا پھر یہ جملہ مستانفہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ پہلی آیت میں تو یہ کہا گیا تھا کہ کس بارے میں یہ لوگ آپس میں سوال کر رہے ہیں۔ اب اس کا خود ہی جواب دیتا ہے کہ عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ یہ لوگ سوال کر رہے ہیں ایک عظیم الشان نبأکے متعلق۔ اس دوسری آیت نے بتا دیا کہ عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَ کہنے والی ہستی جانتی تھی کہ وہ کس چیز کے بارے میں آپس میں بحث کر رہے ہیں کیونکہ وہ خود بتاتی ہے کہ اُن کاآپس میں تَسَآئُ لُ نبأ عظیم کے متعلق تھا۔
اس جگہ پر اللہ تعالیٰ نے ایک زائد بات بیان فرمائی ہے جو نہایت غور کے قابل ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہیعَمَّ یَتَسَآ ئَ لُوْنَ عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ یہ لوگ کس کے بارے میں سوال کر رہے ہیں آیا ایک عظیم الشان نبأکے متعلق یا جملہ مستانفہ کی صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ لوگ سوال کر رہے ہیںایک عظیم الشان نبأ کے متعلق۔ جیسا کہ لُغت سے ظاہر ہے نَبَأ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اَلنَّبَأُ خَبَرٌ ذُوْفَائِدَۃٍ عَظِیْمَۃٍ اوربقول کلیات کے نبأ وہ ہے مَالَہٗ وَقْعٌ وَشَاْنٌ عَظِیْمٌ گویا عَظِیْمٌ کا لفظ خود نبأ میں شامل ہے۔ مگر یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْم۔ یعنی نَبَأکی حیثیت اور شان والی جو خبریں ہیں اُن میں سے بھی یہ عظیم الشان خبر ہے گویا بڑیوں میں سے بڑی اورعظیموں میں سے عظیم ہے۔جب نَبَأ خود اپنے اندر ایک عظمت اور شان رکھتی ہے تو اُس کے ساتھ عظیم کے لفظ کا لا یا جانا بتاتا ہے کہ اس کے معنے یہی ہیںکہ بڑیوں میں سے بڑی۔ عظیموں میں سے عظیم اور شانداروں میں سے شاندار خبر۔ اب نَبَأ کے اصل معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم اس آیت کا تفسیری طور پر ترجمہ کریں تو وہ یوں ہو گاکہ کیا یہ لوگ سوال کرتے ہیں اُس خبر کے متعلق جو شاندار خبروں میں سے بھی بڑی شاندار خبر ہے۔ اس جگہ نَبَأ سے مراد بعض نے قرآن کریم لیا ہے اور بعض نے بعث بعد الموت چنانچہ ابن کثیر میں ہے کہ قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں اَلنَّبَأُ الْعَظِیْمُ:بَعْثَ بَعْدَ الْمَوْتِ کہ نَبَا ٔعظیم سے مرادمرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا ہے۔پھر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ مجاہد کہتے ھُوَالْقُرْاَنُ یعنی نبأ عظیم سے مراد قرآن ہے لیکن اس سے پہلی سورۃ یعنی سورۃ المرسلات کی اس آخری آیت میں ذکر ہے کہ فَبِایِّ حَدِیثٌ بَعْدَہٗ یُوْمِنُوْنَ۔ اور غلبۂ قرآن کا اس آیت میں ذکر ہے کہ کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلاً اِنَّکُمْ مُجْرِمُوْنَ۔وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ اور پھر یوم الفصل کا جو ذکر کیا گیا ہے اُس میں بھی غلبہ ٔ اسلام کی پیشگوئی ہے پس صرف قرآن کا ہی نہیں بلکہ غلبۂ اسلام کا بھی اس سورۃ میں ذکر ہے اور یہ دونوں ذکر ہے اس سورۃ نبأ سے بھی ظاہر ہیںاور اس سے پہلی سورۃ سے بھی۔
اس موقع پر یہ شبہ دل میں پیدا نہیں ہونا چاہیئے کہ ان تینوں چیزوں سے کون سی چیز یہاں مراد ہے کیونکہ قرآن کریم کے کئی بطن ہوتے ہیں اور قرآن کریم بعض دفعہ ایک ہی دلیل سے کئی کئی مضمون ثابت کرتا ہے۔ مثلاًاگر کسی جگہ یہ ذکر ہوکہ زید فلاں ملک میں گیا ہے یا نہیں اور دوسری جماعت میں یہ بحث ہو کہ زید ایک مغلوب شخص تھا یا غالب۔ تو اگر ہم یہ فقرہ کہہ دیں کہ زید اس ملک میں گیا اور اُس نے فتح پائی۔ تو یہ فقرہ ان دونوں سوالوں کو حل کر دے گا۔ اس فقرہ میں اس پارٹی کا بھی جواب آجائے گا یہ بحث کرتی تھی کہ زید اس ملک میں گیا تھا یا نہیں اور اُس پارٹی کا بھی جواب آجائے گاجو یہ بحث کرتی تھی کہ زید مغلوب شخص تھا یا غالب۔ اسی طرح بعض دلائل کا مجموعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک نتیجہ پیدا نہیں کرتا بلکہ کئی نتائج اُس سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ پس جب کوئی دلیل بیان کریں تو جتنے پہلو اس دلیل میں سے نکل سکتے ہوں وہ سارے ہی ثابت ہو جائیں گے۔ بعث بعد الموت ورحقیقت اُس بعثِ روحانی کے مشابہ چیز ہے جو اس دنیا میں ہوتی ہے۔ اس لئے ایک دلیل دوسری دلیل کو ثابت کر دیتی ہے۔ بعثِ روحانی اس بات کا بھی ثبوت ہوتی ہے کہ بعث بعد الموت بھی ہو گی اور بعث بعد الموت اس بات کا ثبوت ہے کہ بعثِ روحانی بھی ضروری ہوتی ہے۔ اگر اللی تعالیٰ نے انسان کی روح کو مدارجِ الٰہیہ تک پہنچاتا ہے تو ایسی روح کا کوئی عظیم الشان مقصد اور مدعا ہونا چاہیئے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مدارجِ عالیہ پر پہنچا کر اللہ تعالیٰ روح کو فنا کر دے گا اور آگے اس کا کوئی کام نہیں ہو گا۔ اور مرنے کے بعد انسان کے لئے کوئی زندگی ہے توپھر لازماً اس دُنیا میں احیاء روح بھی ہونا چاہئیے کیونکہ ایک انسان کو دائمی چکر میں ڈال دینا اور اس ابدی زندگی میں جو خلودوالی ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہ بنانا یہ بھی ایک ظلم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہم کو مرنے کے بعد خلود والی زندگی بخشے تو لازماًاس زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کا سامان بھی اس دُنیا میں ہونا چاہئیے۔ گویا ان دونوں سوالوں کا انحصار ایک دوسرے پر ہے اگر ایک ہے تو لازماً دوسری بھی ہے اور اگر دوسری ہے تو لازماً پہلی بھی ہے۔ اور چونکہ وہ روحانی زندگی جو اس دنیا میں حاصل ہوتی ہے اُس کے متعلق قرآن کریم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس زمانہ میں روحانی زندگی بخشنے والا میں ہی ہوں اس لئے یہ بھی پہلے دونوں سوالوں کے ساتھ شریک ہو گیا۔ یعنی جس دلیل سے یہ ثابت ہو گا کہ اس دنیا میں احیا ء روح کے کوئی سامان ہونے چاہئیں وہ قرآن کریم کے دعویٰ کے مطابق یہ بھی ثابت کرے گی کہ قرآن کریم سچا ہے کیونکہ قرآن کریم ہی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس زمانہ میں روحانی زندگی بخشنے کے لئے وہ مقرر ہے۔ پس ایک ہی دلیل سے یہ تینوں امر ثابت ہو جائیں گے۔ اگر کسی دلیل سے یہ ثابت ہو گا کہ مرنے کے بعد کی زندگی ایک یقینی چیز ہے اور وہ ضرور آنیوالی ہے تو اُسی دلیل سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ اس دنیا میں احیائِ روح کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سامان رکھے گئے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ ثابت ہو جائے گا کہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ میں اس کاسر انجام دیتا ہوں بالکل صحیح اور درست ہے۔ کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے گا کہ روحانی مدارج جو نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں انسان کو اس دنیا میں ملتے ہیں تو ساتھ ہی یہ ثابت ہو جائے گا کہ قرآن کریم ہی یہ درجے دینے والا ہے۔ اس لئے کہ یہ درجے قرآن کریم کو ہی حاصل ہوتے ہیں اَور لوگوں کو حاصل نہیں ہوتے ۔ اسی طرح جب یہ ثابت ہو جائے گاکہ قرآن پر عمل کرنے کے نتیجہ میں بڑے سے بڑے روحانی مدارج انسان کو اس دنیا سے حاصل ہو سکتے ہیں تو ساتھ ہی یہ ثابت ہو جائے گاکہ مرنے کے بعد بھی زندگی ہے کیونکہ ان مدارجِ روحانیہ کے حصول کو ہم لغو اور فضول نہیں کہہ سکتے۔ گویا اگر یہ ثابت ہو گاکہ قرآن کریم روحانی مدارج عطا کرتا ہے تواس کے لازماً یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم پر عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے بڑے مدارج عطا ہوں گے۔ اور اگر یہ ثابت ہو گا کہ قرآن کریم پر عمل کرنے کے نتیجہ میںانسان کو روحانی مدارج حاصل ہوتے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو جائے گاکہ مرنے کے بعد ضرور کوئی زندگی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ انسان کو اعلیٰ قابلیتیں دے کر اُن کے ظہور کا موقع ملنے سے پہلے اُسے فنا کر دیا جائے۔ پس یہ تینوں چیزیں آپس میں لازم وملزوم ہیں اور ان میں سے ایک کے ثابت ہونے سے باقی وہ چیزیں خود بخود ثابت ہو جاتی ہیں۔
غرض اگر ہم نبأ عظیم کے معنے قرآن کریم کے لیں اور پھر ساتھ ہی بعث بعد الموت اور غلبۂ اسلام کے بھی تو یہ کوئی شبہ والی بات نہ ہو گی بلکہ تینوں معنے آپس میں لازم وملزوم ہوں گے۔ بعض چیزوں کاتعدّدشک پر دلالت کرتا ہے اور بعض چیزوں کا تعدّد لزوم پر دلالت کرتا ہے۔ یہاں تعدّدِ لزومی ہے تعدّدِ شکی نہیں۔ نبأعظیم کا لفظ جو اس موقع پر استعمال ہؤا ہے وہ درحقیقت ان تینوںمعنوں پر ہی استعمال ہو سکتا ہے کیونکہ مرنے کے بعد کی جو زندگی ہے وہ بھی ایک ایسی خبر ہے جو بڑی خبروں کی سرتاج ہے۔ یہ کہہ دینا کہ فلاں کے ہاں بیٹا پیدا ہو جائے گایا فلاں ملک میں لڑائی ہو جائے گی اس خبر کے مقابلہ میں بہت ہی ادنیٰ اور معمولی ہیں۔بے شک یہ خبریں بھی اپنی ذات میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں مگر یہ خبریں اُس قدر اہمیت نہیں رکھتیں جتنا یہ کہنا کہ ایک زمانہ میں ساری دنیا زندہ کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو گی۔ پس نبأ عظیم کا لفظ قیامت کے بالکل مطابق ہے اور یہ لفظ اُس پر بخوبی چسپاں ہو جاتا ہے۔ اسی طرح نبأ عظیم کا لفظ قرآن کریم پر چسپاں ہو جاتا ہے اس لئے قرآن کریم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں ساری خوبیوں کا جامع ہوں بلکہ گز شتہ تما م انبیاء کی کتابیں میرے اندر جمع ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہیفِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنہ)پس اگر نوح ؑکے صحف نَبَأ تھے۔ اگر ابراھیم ؑکے صفحہ نَبَأ تھے۔ اسی طرح اگر عیسیٰ ؑکاکلام نَبَأ تھا۔ اگر زرتشتؑ کا کلام نَبَأ تھاتو جس کلام میں یہ سارے ہی جمع کر لئے گئے ہوں وہ یقینا نَبَأ عظیم کہلائے گا۔
اس طرح غلبہ ٔ اسلام بھی ایک ایسی چیز ہے جو تمام انبیاء کے غلبوں میں سے عظیم الشان رنگ رکھتی ہے اور درحقیقت یہ غلبہ ایسا ہے جس نے تمام انبیاء کے غلبوں میں سے عظیم الشان رنگ رکھتی ہے اور درحقیقت یہ غلبہ ایسا ہے جس نے تمام انبیاء کے غلبو ں کو اپنے اندر جمع کر لیا ہے۔ مثلاً حضرت نوح ؑکا طوفان لے لو۔ نوح ؑکی قوم نے غرق ہو کر نوح ؑ کی صداقت کا ثبوت دے دیا اور نوح ؑ اپنی قوم پر غالب آ گیا۔ مگر اس کا کیا نتیجہ ہؤا یہی کہ قوم غرق ہو گئی اور وہ نوح پر ایمان لانے سے مرحُوم رہی۔ لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوم اس طرح غرق کی گئی کہ وہ پھر آپ پر ایمان بھی لے آئی۔ موسیٰ ؑ کو اپنے دشمنوں پر اس طرح غلبہ دیا گیا کہ موسیٰ ؑ کا دشمن سمندر میں ڈبو دیا گیا مگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دشمن سمندر کی بجائے خشکی میں ڈبو دیا گیا اور پھر خدا نے یہ سامان کئے کہ حضرت موسیٰ ؑ کو جس ملک کا وعدہ دیا گیا تھا اُس ملک پر غلبہ دئیے جانے کا وعدہ ان کی زندگی میں پورا نہ ہؤا۔ اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی طرح غلبہ کا وعدہ دیا گیا مگر انہوں نے اپنی زندگی میں ہی مکّہ کو فتح کر لیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو خدا تعالیٰ نے اس طرح غلبہ دیا کہ وہ اپنے دشمن سے بھاگے اور ایک غیر ملک میں اُس کے حملہ سے محفوظ ہو گئے۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں غلبہ دیا کہ آپ دشمن سے بھاگے اور ایک دوسرے شہر میں جا کر اُس کے حملہ سے محفوظ ہو گئے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پھر اپنے ملک میں واپس نہیں آئے اور نہ انہوں نے اپنی قوم کو مغلوب کیا مگرمحمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پھر مکّہ میں واپس آئے اور انہوں نے اپنی قوم کو مغلو ب کیا مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پھر مکّہ میں واپس آئے اور انہوں نے اپنی قوم کو مغلوب کرلیا۔ غرض جس جس رنگ میں پہلے انبیاء کو غلبہ ملااُن میں سے ہر رنگ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غلبہ حاصل ہؤا اور نہ صر ف غلبہ حاصل ہوا بلکہ اُن سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اُس کی تائید آپؐ کے شامل حال رہی ۔مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کی قوم کو تین سو سال میں غلبہ حاصل ہؤامگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی زندگی میں ہی غلبہ مل گیا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو ایسے ساتھی ملے جنہوں نے قربانی کے موقع پر کمزوری دکھائی اور وہ ثابت قدم نہ ہوئے۔ لیکن رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ ساتھ عطا فرمائے جنہوں نے موسیٰ ؑ کے ساتھیوں جیسی کمزوری دکھائی اور نہ عیسیٰ ؑکے ساتھیوں جیسی کمزوری دکھائی۔ موسیٰ ؑ کے ساتھیوں نے جنگ کے موقع پرکمزوری دکھائی تھی اور عیسیٰ ؑ کے ساتھیوں نے اُس وقت کمزوری دکھائی جب ان کی اپنی جان خطرے میں تھی۔
درحقیقت دنیا میں دو قسم کے جزبات ہوتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قوم کی خاطر قربانی کرنے کے لئے تو تیار رہتے ہیں لیکن اپنے لیڈر کے لئے قربانی کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔ اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو اپنے لیڈر کی خاطر تو ہر وقت قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں لیکن اپنی قوم کے لئے قربانی کی روح اُن میں موجود نہیں ہوتی۔اُنہیں صرف عشق ذاتی ہوتا ہے زعشق قومی نہیں ہوتا۔ مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ ساتھی عطا فرمائے جو یہ دونوں جزبات اپنے دل میں رکھتے تھے جہا ں قوم کے لئے انہیں قربانی کرنی پڑی وہاں آپ کے صحابہ ؓنے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے ساتھیوں جیسا نمونہ نہ دکھایا بلکہ اپنی قوم کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور جہاں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کا سوال پیدا ہؤا وہاں انہوں نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اُس عشق کا ثبوت دیا جو اُن کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کے ساتھ تھا اور حضرت مسیح ؑ کے حواریوں کی طرح بُزدلی نہیں دکھائی۔ چنانچہ مکہ کے لوگ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے ایک دفعہ رات کو آپؐ کے مکان کے اردگر د اکٹھے ہو گئے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے گھر سے نکل پڑے تو اُس وقت آ پ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر لٹا دیا۔ اور اس طرح حضرت علی ؓ نے اس امر کا ثبوت دے دیا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ آپ کی جگہ خود صلیب پر لٹکنے کو تیار رہتے تھے تو عشق ذاتی میں بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوم دوسرے نبیوں کی قوم سے بڑھ گئی اور عشقِ قومی میں بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوم دوسرے نبیوں کی قوم سے بڑھ گئی۔ اس لئے آپ کا جو غلبہ تھا یعنی غلبۂ اسلام وہ بھی نبأ عظیم تھا کیونکہ یہ غلبہ پہلے انبیاء کے غلبوں کے مقابلے میں نہایت ہی شاندار تھا اور آپکی جو کتاب تھی وہ بھی نبأ عظیم تھی کیونکہ وہ گزشتہ تمام الہامی کتابوں سے بہت زیادہ شاندار تھی ۔ اور قیامت بھی نبأ عظیم ہے کیونکہ وہ اور تمام خبروں سے بہت زیادہ شان اور عظمت اپنے اندر رکھتی ہے۔
الَّذِیْ
جس کے بارے میں یہ لوگ (قرآن کی بتائی ہوئی حقیقت سے ) اختلاف رکھتے ہیں ۴؎
۴؎حل لغات
مُخْتَلِفُوْنَ مُخْتَلِفٌ کی جمع ہے اور مُختَلِفٌ اِخْتَلَفَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے آپس میں ایک دوسرے کے اختلاف کرنے کے ہیں (اقرب) پس مُخْتَلِفُوْنَ کے معنے ہوں گے اختلاف کرنے والے۔ اَسَا طِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ یعنی وہ نبأ عظیم جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں۔ گویا اول تو نبأ عظیم میں اختلاف نہیں ہونا چاہیئے تھا اور پھرنبأ عظیم میں تو کسی صورت میں بھی اختلاف نہیں ہو سکتا تھا مگر یہ وہ لوگ ہیں جو نبأ عظیم میں بھی اختلاف کر رہے ہیں۔ گویا ادھر ایک ایسی عظیم الشان خبر موجود ہے اور اُدھر یہ لوگ ایسے ذلیل ہیں کہ اس عظیم الشان خبر میں بھی اختلاف کرتے ہیں۔
بعض لوگوں نے اس موقع پر اعتراض کیا ہے کہ اَلَّذِیْ ھُمْ فِیہِ مُخْتَلِفُوْنَ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس جگہ نبأ عظیم سے مراد قرآن نہیں اور نہ بعث بعد الموت مراد ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفّار ان امور میں اختلاف کرتے تھے حالانکہ وہ بعث بعد الموت کے منکر تھے اور وہ تسلیم ہی نہیں کرتے تھے کہ مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے۔ پس جب وہ اس عقید ہ کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے تو اس میں وہ اختلاف کیونکر کرسکتے تھے۔ اس طرح قرآن کریم پر بھی وہ ایمان نہیں رکھتے تھے پس قرآن کریم کے متعلق بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کفّار اس کے متعلق اختلاف کیاکرتے تھے۔ لیکن یہ اعتراض درست نہیں۔ اس لئے کہ سب کے سب کفّار بعث بعد الموت کے منکر نہیں تھے بلکہ اُن میں سے اس بارہ میں اختلاف تھا گو اس بعث کی شکل اَور سمجھتے ہوں۔ گویا اوّل تو سب کے سب کفّار اس عقیدہ کے منکرنہیں تھے اور پھر جو لوگ اسکے قائل تھے اُن میں سے بعض کو صر ف بعض کی شکل میں اختلا ف تھا اسی وجہ سے عربوں میںیہ روایات پائی جاتی تھیں کہ جب کوئی شخص مارا جاتا ہے اور پھر اس مقتول کا بدلہ نہیں لیا جاتا تو اُس کی رُوح اُلُّو کی شکل میں آکر چیختی چلّاتی ہے۔ اگر وہ مرنے کے بعد کسی حیات کے قائل نہیں تھے تو اُلُّو کی شکل میں مقتول کی روح کے آنے کے وہ کس طرح قائل ہو سکتے تھے۔ پس درحقیقت وہ کسی حقیقی علم پر قائم نہیں تھے بلکہ خود اِ س بارہ میں اُن میں اختلاف موجود تھا کوئی کچھ کہتا تھااور کوئی کچھ کہتا تھا۔
قرآن کریم کی صورت میں یہ بھی سوال پید ا ہوتا ہے کہ اَلَّذِیْ ھُمْ فِیہِ مُخْتَلِفُوْنَاس پر کس طرح چسپاں ہو سکتا ہے اور وہ اس بارہ میں کیا اختلاف کیا کرتے تھے وہ تو قرآن کریم کی صداقت کے قائل ہی نہیں تھے بلکہ کہتے تھے کہ یہ محض جھوٹ ہے اس میں سچائی کا کوئی شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔ مگر میرے نذدیک یہ سوال بھی درست نہیں اس لئے کہ قرآن کریم کے متعلق بھی ان کو اختلاف تھا۔ بعض اس کا نام سحر رکھتے تھے۔ بعض اُسے کذب قرار دیتے تھے اور بعض اس کا نام اَسَا طِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ (الانفال ع ۴ ۸ ۱ ) رکھتے تھے یہ سیدھی بات ہے کہ اَسَا طِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ کے کہنے والوں کے نذدیک قرآن کریم جھوٹا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اگر قرآن کریم اُن کے نذدیک جھوٹا ہوتا توا سکے معنے یہ بنتے ہیں کہ وہ اپنے باپ دادا کوبھی جھوٹا قرار دیا کرتے تھے حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ پس ان قرآن کریم کواَسَا طِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ قرار دیناہی بتا رہا ہے کہ اُن میں سے بعض کو قرآن کریم کے متعلق یہ اعتراض نہیں تھا کہ اس میںیہ کلام جھوٹا ہے بلکہ ان کا اعتراض یہ تھا کہ اس میں اُن کے باپ دادا کی باتوں کو ہی نقل کر دیا گیا ہے اس لئے ہم اس کو بطور خدا کے کلام کے نہیں مان سکتے۔پس عربوں میں قرآن کریم کو اَسَا طِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ کہنے والے بھی موجود تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں قرآن کریم کے متعلق اختلاف تھا۔ اسی طرح قرآن کریم کو سحر کہنے والے بھی اُن میں موجود تھے۔ پس قرآن کریم کی صورت میں بھی یہ آیت پوری طرح چسپاں ہو جاتی ہے کہ اَلَّذِیْ ھُمْ فِیہِ مُخْتَلِفُوْنَ یعنی وہ نبأ عظیم ہے جس میں کفّار اختلاف کرتے ہیں۔ تیسر ا پہلو غلبۂ اسلام کا ہے ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ اس کے متعلق ان کو کہا ں اختلاف تھا تو اس کے متعلق بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ غلبۂ اسلام کے متعلق بھی کفار میں اختلاف موجود تھاکفّار جانتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسی روح کام کررہی ہے جو ایک دن اُن کو ہم پر غالب کر دے گی۔ چنانچہ اُن کا اسلام کی شدید ترین مخالفت کرنااور اس کی ترقی کو روکنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش صرف کرنا خود ایک بات کا ثبوت ہے کہ وہ ڈرتے تھے کہ اسلام اُن پر غالب آجائے گااور وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر ایسی چیز موجود ہے جو اُن کے مقابلہ میں ہم کو مغلوب کردے گی۔ اور یہی سچے نبی کی علامت ہؤا کرتی ہے کہ مخالفوں کے دلوں میں پہلے سے یہ ڈر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ ایک دن یہ لوگ ہم کو کھا جائیں گے اور ہماری طاقت کو توڑ کر رکھ دیں گے۔ وہ ایک طرف یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ ہم ان کو مار دیںگے۔ ہم ان کو تباہ کردیں گے۔ ہم ان کو دنیا سے مٹا دیں گے۔مگر ساتھ ہی ان کے دلوں میںیہ خطرہ بھی موجود ہوتا ہے کہ یہ شخص ہم کو کھا جائے گایہی وجہ ہے کہ نبیوں کی دنیا میں شدید مخالفت ہوتی ہے ورنہ سب جانتے ہیں کہ وہ اکیلے ہوتے ہیں اور نہ اُن کے پاس جتھہ ہوتا ہے۔ نہ اُن کے پاس طاقت ہوتی ہے نہ اُن کے پاس مال ہوتا ہے نہ اُن کے پاس ظاہر ی شان وشوکت کا کوئی اور سامان ہوتا ہے۔ وہ اکیلے اُٹھتے ہیں اور بے سروسامانی کی حالت میں دنیا کے مقابلے میں کھڑے ہو جاتے ہیں مگر پھر ساری دنیا اُن کی مخالفت کرنے لگ جاتی ہے اور وہ پورا زور اس بات پر صرف کر دیتی ہے کہ اُن کو کچل دے اُن کے نام کو مٹا دے اور ان کو اپنے مشن میں کامیاب نہ ہونے دے کیونکہ ان کے دلوں میں یہ خیال موجود ہوتا ہے کہ یہ شخص گو اکیلا ہے مگر اس میں ایسی ترقی کی قابلیت پائی جاتی ہے اور ایسی رُوح اس کے اندر نظر آتی ہے جو ایک دن ہم کو کھا جائے گی اور ہمیں اس کے مقابلہ میں پسپا کر دے گی۔ ہمارے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بعد بھی کئی لوگوں نے دعوے کئے مگر لوگ اُن کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کرتے جس پر وہ چڑتے ہیں کہ ہماری مخالفت کیوں نہیں کی جاتی۔ بلکہ بعض اُن میں سے گالیاں دیتے ہیں کہ ہم اُن کی باتوںکا جواب کیوں نہیں دیتے۔ مگر باوجود اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اُن کی مخالفت کریں۔ اُن کی باتوں کی طرف توجہ کریں پھر بھی کوئی شخص اُن کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اسی لئے اُن میں وہ کوئی ایسی چیز نہیں دیکھتے جس سے اُن کے دلوں میں ڈر محسوس ہواوروہ یہ خیال کرنے لگ جائیں کہ یہ ایک دن ہم پر غالب آجائیں گے۔ لوگ اُن کی باتوں کو سنتے ہیں تو ہنس کر گزر جاتے ہیں کوئی مخالفت نہیں کرتے ۔اتفاقیہ طور پر اُن کے متعلق منہ سے کچھ نکل جائے تو اور بات ہے ورنہ یُوں سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ آپ ہی تباہ ہو جائیں گے ہمیں ان کی مخالفت کرنے کی ضرورت نہیں۔ توالَّذِیْ ھُم فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ میں غلبہ اسلام کے معنوں کی طرف بھی اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کفّار میںسے جو سمجھدار لوگ ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ چیز ایک دن غالب آنیوالی ہے۔ عوام الناس بے شک اپنے علماء کی باتیں سُن کر کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہمارے مقابلہ میں فنا ہو جائیں گے مگر اُن کے علماء جانتے ہیں کہ آخر اسلام ہی جیتے گا اور وُہی ا س میدان میں شکست کھائیں گے بلکہ اُنہیں اپنی شکست کے ابھی سے آثار آنے شروع ہو گئے ہیں۔ گویا پہلے دن سے ہی اسلام کی برتری اور اُس کے غلبہ کا اقرار ان لوگوں کو تھااور وہ سمجھتے تھے کہ اس مذہب کے مقابلہ میں ہم ٹھہر نہیں سکیں گے۔ اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں جماعت احمدیہ کی برتری کا احساس لوگوں کے قلوب میں موجود ہے اور وہ ڈرتے ہیں کہ اگر جماعت احمدیہ اس طرح بڑھتی چلی گئی تو معلوم نہیں کہ کیا ہو جائے گا۔ اس لئے وہ مخالفت میں اپنا پورا زور صرف کر دیتے ہیں اور اس شدید مخالفت کی وجہ سے کسی وقت یہ بھی سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ لوگ تباہ ہو جائیں گے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اتنی مخالفتوں کے بعد بھلا یہ کب پنپ سکیں گے۔ پس ہُم فیہِ مُخْتَلِفُوْن کے اس صورت میں یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں بلکہ جب ہم غلبہ ٔ اسلام کے معنے لیں گے تو اس آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ان لوگوںکی حالتیں مختلف وقتوں میں مختلف ہوتی ہیں گویا اس صورت میں اختلاف یا تو عوام الناس اور اُن کے علماء میں سمجھا جائے گا اور یا پھر علماء کا آپس میں اختلاف اس سے لیا جائے گا یعنی یا تو اس کا یہ مفہوم ہو گاکہ اس بارہ میں عوام الناس یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان تباہ ہو جائیں گے مگر علماء اور لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان تباہ نہیں ہو سکتے اور یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بارہ میں علماء کی حالتیں بدلتی رہتی ہیں ایک حالت پر وہ قائم نہیں رہتے۔ کبھی وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو مار لیں گے اور کبھی یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہم ان کو کہاںمار سکتے ہیں ہم خود ان کے مقابلہ میں پِس جائیں گے جب وہ مسلمانوں کی اندرونی خوبیوں اور اُن کی اعلیٰ درجہ کی صفات پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو سمجھتے ہیں ہم مسلمانوں کو مار لیں گے۔
اسی طرح ھُمْ فِیہِ مُخْتَلِفُوْنَ کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مومن اور کافر آپس میں اختلاف رکھتے ہیں اور مومنوں اور کافروں کا یہ اختلاف بھی تین چیزوں کے متعلق سمجھا جائے گا۔ بعث بعد الموت کے متعلق غلبۂ قرآن کے متعلق اور غلبہ ٔ اسلام کے متعلق یعنی بعث بعد الموت کے متعلق مومن کچھ کہتے ہیں اورکافر کچھ کہتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کے متعلق مومن کچھ کہتے ہیں اور کافر کچھ کہتے ہیں اور غلبۂ اسلام کے متعلق بھی مومنوں کا کچھ قول ہے اور کافروں کا کچھ قول ہے۔
کَلَّا
(خوب یادر کھو کہ بات )یوں نہیں (جس طرح یہ کہتے ہیں)بلکہ یہ لوگ (قرآن کریم کی بتائی ہوئی حقیقت کو)عنقریب جان لیں گے۔ پھر (ہم کہتے ہیں کہ بات) یوں نہیں (جس طرح یہ کہتے ہیں بلکہ)یہ لوگ (قرآن کریم کی بتائی ہوئی حقیقت کو)عنقریب جان لیں گے۔ ۵؎
۵؎حل لغات
کَلَّا ۔حرف ہے جو بات غلط ہو اُس سے ہوشیار کرنے کے لئے تنبیہ کے طور پر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یوں بات نہیں کہ جس طرح کے لوگ سمجھتے ہیں۔ علّا مہ ابو البقاء اپنی کتاب کلیات میں لکھتے ہیں قَدْ تَجِیْ ئُ بَعْدَالطَّالِبِ کَفَّوْ لِکَ لِمَنْ قَالَ لَکَ اِفْعَلْ کَذَا۔ کَلَّا۔اَیْ لَا یُجَابُ اِلٰی ذَالِکَ یعنی کَلَّا کسی مطالبہ کے جواب میں آتا ہے یہ بتانے کے لئے کہ مطالبہ کرنے والی کی بات ماننے کے لئے ہم تیار نہیں۔ چنانچہ جب ہمیں کوئی کسی امر کرنے کے لئے اور ہم سمجھیں کہ یہ بات ایسی نہیں کہ کوئی مان سکے تو ہم کہیں گے کَلَّا پھر علّامہ ابوالبقاء لکھتے ہیںوَقَدْ جَائَ بِمَعْنیَ حَقًّا۔ یعنی کبھی لفظ کَلَّا ۔حَقَّا کے معنے میں آتا ہے یعنی اس کے بعد بیان کی جانے والی بات کی تاکید کرتا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ انسان سرکشی کرتا ہے(اقرب)
سَیَعْلَمُوْنَ۔ وہ ضرور جان لیں گے۔ سؔ توکید کے معنوں میں یہاں آیا ہے ثُمَّ کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ یہاں ثُمَّ کا لفظ تکرار مضمون کے لئے ہؤا ہے یعنی پھر ہم کہتے ہیں کہ وہ بات اُس طرح ہر گز نہیں جس طرح وہ خیال کرتے ہیں ۔
تفسیر
سَیَعْلَمُوْنَ وہ ضرور جان لیں گے یعنے قیامت کے دن ان کے یہ خیالات بالکل غلط ثابت ہوں گے اور اُن پر واضح ہو جائے گا کہ وہ کیسی کھلی غلطی میں مبتلا رہے۔ یا قرآن کریم مراد لیتے ہوئے اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ایک دن آئے گا جب قرآن کریم کی صداقت اُن پر کُھل جائے گی۔ اور غلبۂ اسلام پر جب ان آیات کو چسپاں کیا جائے گاتو مفہوم یہ ہو گا کہ آخر اسلام ایک دن غالب آجائے گااور وہ سمجھ لیں گے کہ اسلام کی مخالفت کر کے انہوں نے کیسا غلط طریق اختیار کیا تھا۔
اب اگلی آیتو ںمیں اللہ تعالیٰ اپنے اس دعوے کی دلیل دیتا ہے اور وہ دلیل ایسی ہے جو مذکورہ بالا تینوں معنوں پر چسپاں ہو سکتی ہے۔ یعنی اس دلیل سے نہ صرف قیامت کا وجود ثابت ہوتا ہے بلکہ غلبۂ قرآن اور غلبۂ اسلام کا بھی اس سے ثبوت مل جاتا ہے۔
اَلَمْ
(سوچیں تو سہی کہ) ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا ۶؎ اور پہاڑوںکو میخوں کے طور پر ۷؎
۶؎ حل لغات
اِلْمِھَادُ: اَلْفِرَاشُ وَالْاَرْضُ۔(اقرب) یعنی مِھَاد کا لفظ فراش کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور زمین کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ زمین کو مِھَاد کہتے ہیں اس کا بھی درحقیقت یہی مفہوم ہے کہ اُس میں فراش والی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔
تفسیر
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھَادًا کے معنے یہ ہیں کہ کیا ہم نے زمین کو ایسا نہیں بنایا جیسے فراش ہؤاکرتا ہے۔فراش پر انسان کیا کرتا ہے۔ یہی کہ لیٹتا ہے آرام کرتا ہے۔سوتا ہے اور اس طرح اُسے راحت حاصل ہوتی ہے۔ فرماتا ہے ہم نے زمین کو تمھارے لئے ایسا ہی بنایا ہے کہ تم اس میں ہر قسم کے آرام پاتے ہو۔ ہر قسم کی سہولتیں اس سے حاصل کرتے ہو اورتمھاری راحت کے تمام سامان اس میں موجود ہیں۔ فرماتا ہے تم زمین کی اس حالت پر غور کرو اور سوچو کہ کیا واقع میں ہم نے زمین کو تمھارے لئے ایسا بنایا ہے یا نہیںبنایا (اس آیت اور اگلی آیات کی تفسیر یکجائی طور پر نوٹ نمبر۸ یعنی وَخَلَقْنَا کُمْ اَزْوَاجًا کی آیت کے نیچے دی گئی ہے کیونکہ ان آیات کا مضمون اکٹھا ہے)
۷؎حل لغات
اَوْ تَادٌ وَ قَدٌ کی جمع ہے اوروَقَدٌ کے معنے اُس چیز کے ہوتے ہیں جسے زمین یا مکان کی دیوار میں گاڑا جائے۔ گویا یہ لفظ کِیل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لغت میں پہاڑوں کو اَوْتَادُ الْاَرْضِ کہتے ہیں چنانچہ لکھا ہے اَوْ تَادُ الْاَرْضِ جِبَالُھَاوَاَوْ تَادُ الْبِلَادِ رُئُ سَائُ ھَا وَااَوْ تادُ الْفَمِ اَسْنَانُہٗ (اقرب)یعنی جب اَوْ تَادُالْاَرْضِ کہا جائے تو اس سے مراد پہاڑ ہوں گے جب اَوْ تَادُ الْبِلَادِ کہا جائے تو اس سے مراد مختلف ممالک کے رؤسا ہوں گے اور جب اَوْ تَادُالْفَمِ کہا جائے یعنی منہ کے اوتاد۔ تو اس سے مراد دانت ہوں گے کیونکہ جس طرح رؤساسے ملکی نظام قائم ہوتا ہے اسی طرح دانتوں سے مُنہ کا نظام قائم ہے۔ دانتوں سے انسان کھانا کھاتا ہے اور دانتوں سے ہی چہرے کا حُسن قائم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ دانتوں کو اَوْ تَادُ الْفَمِ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پہاڑوں سے چونکہ زمین میں حسن پیدا ہوتا ہے اور اس کی مضبوطی اور پختگی کا بھی وہ باعث ہوتے ہیں اس لئے پہاڑوں کو اَوْتَادُالْاَرْضِ کہا جاتا ہے۔کِیل کی بھی یہی غرض ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف مضبوطی کا باعث ہوتا ہے اور دوسری طرف بعض چیزوں کے لئے سہارے کا موجب ہوتا ہے۔مثلاً دیوار میں اگر کوئی کیل گاڑا جائے تو اسکی غرض کسی چیز کو وہاں لٹکانا ہو گی۔ گویا وہ کیل دوسرے کے لئے سہارے کا موجب ہوگا۔ اسی طرح میں جو کِیلے گاڑے جاتے ہیں اُن کی غرض اس کیلے سے کسی دوسری چیز کو باندھنا ہوتی ہے جیسے کسی جگہ خیمہ نصب کرنا ہو تو زمین میں کِیلے گاڑ دیتے ہیں تاکہ اس کے ساتھ خیمے کی رسیاں مضبوطی سے باندھ دی جائیں اور خیمہ کھڑا ہو جائے۔ یابعض دفعہ گھوڑایا کوء اور جانور بھی اُس سے باندھ دیتے ہیں۔ گویاوَقَدٌ کا لفظ کسی چیز کو محفوظ کرنے یا سہارا دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔پس جب خدا نے کہا کہ ہم نے جِبَال کواَوْتَاد بنایا ہے کہ وہ سہارے کا بھی موجب ہیں اور جِبَال زمیں کی حرکتِ مُضرہ کو بھی روکنے کا موجب ہیں اور درحقیقت یہی دونوں چیزیں جِبَال کی اغراض میں شامل ہیں۔
وَّخَلَقْنَا
اور (پھر )ہم نے تم (سب) لوگوں) کو جوڑا (جوڑا) بنایا ہے ۸؎
۸؎ حل لغات
اَزْوَاجًا: اَزْوَاجٌ زَوْجٌ کی جمع ہے اور زَوْجٌ کے معنے ہیں کُلّّ وَاحِدٍ مَعَہٗ اٰخَرَ مِنْ جِنْسِہٖ۔ ہر ایک وہ چیز جس کے ساتھ اس کی جنس میں سے ایک اور وجود بھی ہو۔اَلصِّنْفُ مِنْ کُلِّ شَی ئٍ۔ ہر چیز کی قسم۔ صنف۔ اَلْبَعْلُ۔ خاوند۔اَلزَّوْجَۃُ۔بیوی ۔(اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے اِدھر ہم نے یہ سامان پیدا کر دیا کہ زمین کو ہم نے ایسا بنایا ہے جسے تم بستر کے طور پر استعمال کرتے ہو۔ پھر ہم نے پہاڑوں کو بنایا جو تمھارے لئے سہارے کا بھی موجب ہیںاور وہ زمین کی حرکت مُضِرہ کو بھی روکنے کا ذریعہ ہیں دوسری طرف ہم نے تمھارے اندر یہ بات رکھ دی ہے کہ خَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجًا۔ ہم نے تم کوزَوْج بنایا ہے۔ زَوْجٌ کے معنے جوڑے کے ہوتے ہیںچنانچہ نر کو بھی زوج کہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جس کو زوجہ کہتے ہیں عربی زبان میں اُسے زَوْج بھی کہہ سکتے ہیں اورزَوْجَۃ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک انسان اپنی بیوی کے متعلق یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ھِیَ زَوْجِیْ یہ میری بیوی ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ ھِیَ زَوْجَتِیْ کہے۔ اسی طرح زوج کا لفظ مرد کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے چنانچہ ایک عورت اپنے خاوند کے متعلق بھی کہہ سکتی ہے کہ ھُوَ زَوْجِیْ پس خَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجًا کے معنے یہ ہوئے کہ خدا نے تم کو جوڑا بنایا ہے یعنی نر اور مادہ کی صورت میں اس نے تم کوپیدا کیا ہے گویا ایک طرف زمین میں یہ قابلیّت رکھی ہے کہ تم اس کی طرف اُسی طرح لوٹتے ہو جیسے بستر کی طرف جس طرح انسانی جسم میں جب تھکان پیدا ہو جائے تو وہ آرام کے لئے اپنے بستر کی طرف جاتا ہے اسی طرح جب تمھیں کوئی ضرورت محسوس ہوتی ہے یا تمھیں کسی تکلیف کا احساس ہوتا ہے تم زمین کی طرف توجہ کرتے ہواور تمھیں اپنی تمام ضروریات زمین سے حاصل ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح لباس ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس ضرورت کوبھی زمین سے ہی پورا کرتا ہے زمین سے اللہ تعالیٰ اس کی وہ ضرورت پوری کر دیتا ہے اور وہ اسی طرح سے زمین سے آرام حاصل کرتا ہے ۔ پھرجِبَال بھی زمین کے لئے تقویّت اور سہارے کا موجب ہیں۔ درحقیقت زمین میں بعض نقائص ایسے تھے جن کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا سلسلہ جاری کر دیا۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے زمین کئی فوائد سے محروم رہ جاتے۔ مثلاًپہاڑوں کا یہ بہت بڑا فائد ہ ہے کہ وہ اس پانی کو جو زمین کی زندگی کا ذریعہ ہے جمع رکھتے ہیں کیونکہ برف پہاڑ کی چوٹیوں پر ہی پڑتی ہے اور پھر وہ برف پگھل کر زمین کے لئے سال بھر کے لئے پانی مہیا کر دیتی ہے۔ اسی طرح قسم قسم کی بُوٹیاں ہیں جو پہاڑوں پر پیدا ہوتی اور بنی نوع انسان کے کام آتی ہیں۔ زمین کو انسان چونکہ اپنی رہائش کے لئے آباد کرتا ہے اس لئے وہ پرواہ نہیں کرتا کہ زمین کو قابل رہائش بنانے کے لئے وہ کون کون سی چیزیں تلف کر رہا ہے جب بھی اُسے اپنی رہائش کے لئے یا اپنے اور کاموں کے لئے زمین کی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ بلا دریغ اُن سب چیزوں کو تلف کر دیتا ہے جو زمین پر موجود ہوتی ہیں ۔ اگر درخت اُگے ہوئے ہوں تو ان کو کاٹ دیتا ہے بوٹیاں موجود ہوں تو اُن کو اُکھیڑ دیتا ہے کیونکہ اُسے ضرورت ہوتی ہے کہ اپنی رہائش کے لئے زمین کو صاف کرے۔ پس چونکہ زمین کو انسان نے آباد کرنا تھا اس میں اپنی رہائش کے لئے اُس نے مکان بنانے تھے۔ سڑکیں بنانی تھیں۔ کھیت بونے تھے۔ رسے تیا ر کرنے تھے اور یہ چیزیں تقاضا کرتی تھیں کہ زمین صاف ہو اس لئے انسانی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ زمین کو بالکل صاف کر دیتا ہے تو اور تما م روئیدگیوں وغیر ہ کولغو سمجھ کر کاٹ دیتا ہے ۔ حالانکہ ان بوٹیوں میں جن کو کاٹ رہا ہوتا ہے اور جن کو بالکل لغو اور بیکا ر سمجھ رہا ہوتا ہے ہزاروں بوٹیاں ایسی ہوتی ہیں جو نہایت ہی مفید ہوتی ہیں اور کئی قسم کی بیماریوں کو دُور کرنے کاذریعہ ہوتی ہیں پس اگر میدان ہی میدان ہوتے تو اس کالازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ انسان ساری چیزیں اُکھیڑ دیتا۔ حالانکہ اُن میں سے بیسیوں چیزیں ایسی ہو سکتی تھیں جو اس کے لئے نہایت مفید ہوتیں۔ اس نقص کودُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑ بنا دئیے ہیں۔ وہاں جس طرح پانی محفوظ ہوتا ہے (کیونکہ برف پہاڑوں پر ہی پڑتی ہے) اسی طرح ہزاروں قسم کی بوٹیاں جو انسانی صحت کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہیں اور جو اگر ہموار زمین پر ہوتیں تو انسان اُن کو کاٹ کر فنا کر چکا ہوتا وہاں محفوظ رہتی ہیں اس طرح پہاڑ زمین کے لئے سہارے کا موجب بن جاتے ہیں۔ ان امور کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَخَلَقْنَکُمْ اَزْوَاجًا۔ ہم نے تمہیں نر اور مادہ بنایا ہے جس کی وجہ سے تمہاری نسل چلتی ہے۔ یعنی ایک طرف سے زمین میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے بے انتہا فوائد جو زمینی قوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ ختم ہونے والے ہیں رکھے ہیں اور دُوسری طرف اُس نے جِبَال بھی بنائے ہیںجن سے یہ فوائد عملی صورت میں بھی مستقل ہو جاتے ہیں۔ گویا زمین بھی فائدے کا موجب ہے اورجِبَالب بھی فائد ے کا موجب ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ جِبَال زمین کے فوائد کو مستقل حیثیت دیدیتے ہیں پس ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم الشان سلسلہ تمھارے لئے جاری کیا ہؤا ہے دوسری طرف تمھار ی نسل قائم کرنے کے لئے اس نے تمہیں اَزْوَاج یعنی نر و مادہ بنا دیا ہے۔ اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خدا نے تمہارے لئے ایک طرف تو زمین کو پیدا کیا جس سے تم اپنے کھانے کا سامان حاصل کرتے ہو اپنے پینے کا سامان حاصل کرتے ہو۔ اپنے لباس کا سامان حاصل کرتے ہو۔ اپنی رہائش کا سامان حاصل کرتے ہو۔ اور دُوسری طرف اُس نے پہاڑ بنا دیئے جن سے یہ فوائد ایک مستقل طور پر صورت اختیار کر گئے ہیں تیسری طرف اُس نے تمہیں نر اور مادہ بنا دیا تا کہ تمہاری نسل قائم رہے اور مستقل صورت اختیار کرے اور تم ان چیزوں سے ہمیشہ فائدہ اُٹھاتے رہو۔ مگر تمہاری یہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس لمبے سلسلہ ٔ پیدائش کے متعلق تم یہ کہہ رہے ہو کہ یہ سب لغو اور فضول ہے ان کی پیدائش کسی حکمت پر مبنی نہیں ۔
زَوْج کے ایک معنے صِنف کے بھی ہوتے ہیں اس لحاظ سے خَلَقْنَکُم اَزْوَاجًا کا یہ مفہوم ہو گا کہ ہم نے تم کو مختلف اقسام میں پیدا کیا ہے یعنے کوئی شخص تم میں سے ایسا ہے جو تصویر کشی کی رغبت رکھتا ہے۔ کوئی ایسا ہے جو نجّار بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کوئی ایسا ہے جسے سائنس میں انہماک ہے۔ کوئی ایسا ہے جو حساب سے دلچسپی لیتا ہے کوئی ایسا ہے جو تاریخ کی طرف مائل ہے۔ غرض ہم نے تم کو مختلف اقسام میں تقسیم کر دیا ہے۔ اگر سب طبائع یکساں ہوتیں تو دنیا ایک ہی حالت میں چلتی چلی جاتی اور اُس میں کسی قسم کی ترقی نہ ہوتی۔ مگر ہم نے انسانی دماغ کو اتنا متنوّع بنا یا ہے اور اس قدر اقسام در اقسام صورت میں ترقیات کا میدان اس کے لئے کھولا ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مذاق اور اپنی اپنی طبیعت کے مطابق جس لائن کو چاہتا ہے اختیار کر لیتا ہے۔کوئی دنیا میں مشغول ہے کوئی دین میں مشغول ہے۔ کوئی سے اپنی دلچسپی کا اظہار کر رہا ہے۔ غرض اپنے اپنے رنگ میں انسانی فطرت اس میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔یہ تنوّع اس بات کی دلیل ہے کہ انسان میں خدا تعالیٰ نے کسی غیر مرئی چیز کو حاصل کرنے کی جدّوجہد کرے۔ چنانچہ اس کوشش اور تلاش میں کوئی کسی طرف دوڑ رہا ہے اور کوئی کسی طرف دوڑ رہاہے جیسے پانی بہایا جاتا ہے تو وہ نشیب کی طرح بہہ پڑتا ہے اسی طرح انسانی طبیعت اپنے اپنے مذاق کے مطابق مختلف رستوں پر دوڑ رہی ہے۔ کوئی کسی رستہ سے اس چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور کوئی کسی رستہ سے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی خاندان کا بچہ کھویا جائے تو اس خاندان کے کچھ افراد مشرق کو چلے جائیں گے ۔ کچھ شمال کی طرف دوڑ پڑیں گے اور کچھ جنوب کی سمت اختیارکرلیں گے مگر مقصد سب کا ایک ہی ہو گا کہ کسی طرح اس بچہ کو ڈھونڈا جائے۔ اسی طرح انسانی فطرت مختلف رستوں پر مختلف جہات کی طرف بھاگ رہی ہے جو ثبوت ہے اس بات کا کوئی چیز ایسی ہے جس کے متعلق فطرت یہ محسوس کرتی ہے کہ اُسے حاصل کرنا چاہئیے۔ مگر چونکہ اُسے علم نہیں کہ وہ کہاں ہے اس لئے مختلف جہات سے وہ اس چیز کو پکڑنے کی کوشش کرتی ہے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ انسانی فطرت اپنے لئے کسی ایسے مقصود کی طالب ہے جس کے مقام کا خود اُسے اپنی ذات کے اندر سے نہیں حاصل ہوتا اور چونکہ اُسے اپنی ذات سے اُس کے مقام کا علم حاصل نہیں ہوتا اس لئے وہ مختلف جہات سے اس کو تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور یہ حالت چلتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اپنا کلام نازل کرکے اس مقصد کو ظاہر کردیتا ہے پھر انسان کی تسلی ہو جاتی ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ مقصد میں نے پا لیا جس کے لئے میں کوشش کر رہا تھااور جس کے لئے خدا نے مختلف قسم کے مادے انسانی فطرت میں پیدا کئے تھے گویا ایک طرف زمین اور جبال کی پیدائش کا سلسلہ اور دوسری طرف انسانی فطرت میں تنوّع کا پایا جانا ا ور مختلف الطبائع انسانوں کا مختلف جہات کی طرف اپنے مقصد کے حصول کے لئے دوڑنا یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ انسان کے سامنے کوئی بڑا مقصدہے جس کے حصول کے لئے اُس نے کوشش کرنی ہے پس انسانی فطرت کی یہ کشمکش ایک طرف کلام الٰہی کی ضرورت پر دلالت کرتی ہے دوسری طرف بعث بعد الموت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اگر کلامِ الٰہی کا غلبہ نہیں ہونا تھا تو پھر اُس کے نزول کا کوئی فائدہ نہ تھا پس یہ امر کلام الٰہی کے غالب آنے پر بھی دلالت کرتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ زمین جس پر انسان بستا ہے اس میں بے انتہاء اشیاء اور قوتیں پیدا کر کے اور پہاڑوں کے ذریعہ سے خورونوش اور سائنٹفک ترقیات کے سامانوں کو مستقل رنگ دے کر اور انسانوں کو اس صورت میں پیدا کر کے کہ وہ مختلف مزاجوں کے مطابق زمین کی مختلف قابلیتوں کو ترقی دیں اور اُن سے فائدہ اُٹھائیں۔ اور پھر انسانوں کو بھی مرد وزن بنا کر اور ایک مستقل قائم رہنے والے وجود کی شکل دے کر اللہ تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ انسان غیر محدود ترقیات کے لئے اور دائمی زندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اگر یہ بات ثابت ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس دنیا میں فنا ہو نے والے انسان کے لئے کسی اور دنیا میں دائمی زندگی کا سامان مہیا ہونا چاہئیے اور اس دائمی زندگی کے لئے کوئی ہدایت نامہ اور اس ہدایت نامہ پر چلنے والوں کے لئے کامیابی کی ضمانت بھی ہونی چاہیئے۔ورنہ کارخانۂ عالم بیکار محض ثابت ہوتا ہے۔
وَّجَعَلْنَا
اور ہم نے تمھاری نیند کو موجب راحت بنا یا ہے ۹؎
۹؎حل لغات
سُبَات سَبْتٌ سے ہے اور سَبْتٌ کے اصل معنے کسی چیز کو کاٹنے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں سَبَتَ السَّیْرَ چمڑے کے ٹکڑے کو لمبے رنگ میں کاٹا۔وَسَبَتَ شَعْرَہٗ: حَلَقَہٗ اُس نے بالوں کا کاٹا۔ اور ہفتہ کو یومِ سبت اس لئے کہا گیا کہ اُس دن یہودی اپنے کام کاج چھوڑ دیتے تھے (مفردات) انہی معنوں کے پیش نظر وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا کے معنے صاحب مفردات نے کئے ہیں قَطْعًا لِلْعَمَلِ کہ ہم نے تمھاری نیند کو ایسا بنایا ہے کہ اُس سے تم اپنے کاموں سے کٹ جاتے ہو اور پھر تم تاذہ دم ہو جاتے ہو (مفردات)
اقرب االموارد میں ہے اَلسُّبَاتُ: الدَّھْرُ یعنی زمانہ اَلدَّاھِیَۃُ مِنَ الرَّجَالِ۔ آدمیوں میں سے بڑا لائق آدمی ۔اَلنّوْمُ۔ نیند۔ وَقِیْلَ خِفَّہٗ وَقِیْلَ اِبْتَدَائُ ہٗ فے الرَّاسِ حَتّٰی یَبْلُغُ الْقَلْبَ بعض کے نذدیک سُبَات کے معنے ہلکی سی نیند کے ہیں اور بعض نے اس کے معنے اُونگھ کے کئے ہیں لیکن اقرب الموارد کے مصنف لکھتے ہیں وَاَصْلُہُ الرَّاحَۃُ کے اصل معنی آرام اور راحت کے ہیں (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے ہم نے تمھاری نیند کو سُبَات بنایا یعنی اگر کوئی شخص کہے کہ اسلام کے ذریعہ کُفر پر ایک نئے غلبہ کی کیا ضرورت ہے اگر کفر پر غلبہ ہی منشاء ہے تو آدم ؑ کے وقت یہ غلبہ ہو گیا۔ نوح ؑکے وقت یہ غلبہ ہو گیا ۔ اب کسی نئے غلبہ کی کیا ضرورت ہے؟ تو اللہ تعالیٰ اس کے جوا ب میں فرماتا ہے وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا کیا زندگی میں تم دیکھتے نہیں کہ ایک جاگنے کا وقت ہوتا ہے اور ایک سونے کا وقت ہوتا ہے۔ اسی طرح قوموں میں بیداری اور نیند کاایک تسلسل چلا جاتا ہے تا کہ نئی قوتیں لے کر انسان اُٹھے اور کفر کو شکست دینے کے لئے کھڑا ہو جائے۔ اس طرح لوگ ایک لمبے عرصہ تک کوشش کرتے چلے جاتے ہیں۔ مگرجب وہ اپنی ان کوششوں میں تھک جاتے ہیں جب ان کی تمام رغبتیں دنیا میں محدود ہو جاتی ہیں جب دین کی طرف سے بے رغبتی کا اظہار کرنے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کو چھوڑ دیتا ہے اُن کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ خرابیوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ ایک نیا فضل نازل کرتاہے اور لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک نئے رُوحانی سورج کا طلوع کرتا ہے۔
اس آیت میں چونکہ نَوْم کا لفظ مذکور ہے اس لئے سُبَاتًا سے مراد نیند تو نہیں ہو سکتی جو اس کے معروف معنی ہیں اور حل لغات میں بیان ہو چکے ہیں۔پس لازمًااس کے کوئی اور معنی ہوں گے اور وہ معنے یہی ہیں کہ جَعَلْنَا نَوْمَکُمْ رَاحَۃً ہم نے تمہاری نیند کو ایک راحت کا ذریعہ بنایا ہے اور چونکہ سُبَات کے ایک معنے دَھْر کے بھی ہوتے ہیںاس لئے جَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا کے معنے جَعَلْنَا نَوْمَکُمْ دَھْرًا کے بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی تمہاری نیند کے زمانہ کو ایک لمبا زمانہ بنایا ہے۔ اس صورت میں نیند سے مراد وہ زمانہ ہو گا جب روحانی سورج کا طلوع نہیں ہوتا اور قوم غفلت کی حالت میں سو رہی ہوتی ہے گویا مراد یہ ہے کہ جب کوئی قوم سوتی ہے تو پھر ایک لمبے عرصہ تک سوتی چلی جاتی ہے۔
وَّجَعَلْنَا
اور ہم نے رات کو پردہ پوش بنایا ہے ۱۰؎
۱۰؎ حل لغات
لِبَاس کے معنے مفردات میں یوں لکھے ہیں وَجُعِلَ اللِّبَاسُ مَا یُغَطِّیْ مِنَ الْاِنْسَانِ عَنْ قَبِیْحٍ یعنی لباس کا لفظ ہر ایسی چیز پر بولا جاتا ہے جو انسانی عیوب اور نقائص کو چھپا دیتی ہے جَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا کے معنے ہوںگے ہم نے رات کو تمہاراننگ ڈھانکنے والی چیز بنایا ہے اور اسی لحاظ سے رات کو لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ عربی زبان ہر وہ چیز جو عیوب ڈھانکنے کا کام دے وہ لباس کہلاتی ہے جیسے قرآن کریم میں ہی ایک دوسرے مقام پر لِبَاسُ التَّقْویٰ (الاعراف ع ۳ ۰ ۱ ) کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ تقویٰ کو بھی لباس انہی معنوں میں کیا گیا ہے کہ تقویٰ انسانی عیوب کو ڈھانکتا ہے پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے رات کو تمہارے عیوب ڈھانکنے والی چیز بنایا ہے۔
اقرب ؔمیں ہے اَلِلّبَاسُ: اَلْاِخْتِلاطُ وَالْاِجْتِمَاعُ یُقَالُ بَیْنَہُم لِبَاسٌ‘‘ اَیْ اِخْتِلَاطٌوَاِجْتِمَاعٌ (اقرب)یعنی اختلاط اور اجتماع کو بھی لباس سے تعبیر کرتے ہیں چنانچہ عرب کہتے ہیں بَیْنَہُمْ لِبَاسٌ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اُن کے درمیان اختلاط اور اجتماع ہے۔
لسانؔ میں ہے لِبَاسُ کُلِّ شَیْ ئٍ غِشائُ ہٗ۔ ہر چیز کا پردہ اُس کا لباس کہلاتا ۔۔۔
تفسیر
اگر رات نہ آئے اور ہر انسان ہر وقت جاگتا رہے تودوچار دن میں ہی وہ پاگل ہو جائے مگر رات آنے کی وجہ سے انسان کا یہ نقص ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رات کو بنی نوع انسان کا لباس بنایا ہے اور وہ انسان کی محدود طاقت کے نقائص کو چھپا دیتی ہے۔ اسی طرح رات کے اندھیرے میں جب کوئی شخص سویا ہؤا ہوتو اس کے سوتے وقت کے نقائص دوسروں کو معلوم نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ بھی سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور کوئی دوسرا شخص ان نقائص کو دیکھ نہیں سکتا لیکن اگر دن کے وقت کوء شخص سوئے تو دوسرے شخص کو فوراًاس قسم کے عیوب نظر آجائیں۔ سوتے وقت انسان کی عجیب عجیب حالتیں ہوتی ہیں اور بعض تو یقینا ایسی ہوتی ہیں جن کو اگر دوسرا شخص دیکھ لے تو اُسے سخت کراہت آئے بعض دفعہ ایک بڑا شخص ہوتا ہے لیکن اُس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ سوتا ہے تو اُس کا منہ کُھلا رہتا ہے اور اُس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں۔ لیکن اگر وہ رات کو سوتا ہے تو اس کا یہ نقص پوشیدہ رہتا ہے اسی طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سوتے وقت خراٹے شروع کر دیتے ہیں۔ بعض نہایت قابلِ نفرت طریق پرسوتے ہیں۔ کوئی بلّی کی طرح سوتا ہے کوئی مچھلی کی طرح سوتا ہے اور کوئی کسی طرح سوتا ہے۔ غرض سونے کی ایسی ایسی حالتیں ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر گھِن پیدا ہوتی ہے پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا ہم نے رات کو لباس بنایا ہے یعنی سونے کا ایک عام وقت رات ہوتا ہے اور رات میں سونے والوں کے جسمانی عیوب ڈھک جاتے ہیں۔ اگر انسان عام طور پر دن کو سوتا تو اس کے عیوب ظاہر ہو جاتے لیکن چونکہ وہ رات کے اندھیرے میں سوتا ہے اس لئے اُس کے سوتے وقت کے عیوب کا پتہ نہیں لگتااور اُن پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ اسی طرح روحانی لَیْل بھی ایک لباس ہوتی ہے کیونکہ رات اسی کو کہتے ہیں جب سارے لوگ سوئے ہوں جس طرح جسمانی لَیْل لباس کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح روحانیلَیْل بھی ایک لباس ہوتی ہے اسی طرح رحانی لَیْل بھی ایک لباس ہوتی ہے کیونکہ رات اسی کو کہتے ہیں جب سارے لوگ سوئے ہوں۔ جس طرح جسمانی لَیْل لباس کا کام دیتی ہے کیونکہ ساری قوم مُردہ ہوتی ہے کوئی شخص کسی دوسرے کا کوئی عیب نہیں دیکھتا جیسے کہتے ہیں حمام میں سارے ننگے۔ اُس زمانہ میں بھی روحانی لحاظ سے سارے ننگے ہوتے ہیں۔ ہر شخص میں بدی ہوتی ہے۔ ہر شخص میں عیب ہوتا ہے اور چونکہ ہر شخص گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے اس لئے کسی دوسرے کا گناہ اُسے نظر نہیں آتا۔ جیسے اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانہ میں ہر شخص شرک میں مبتلا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ کوئی بڑا مشرک تھا اور کوئی چھوٹا مشرک تھالیکن باجود اس کے ہر شخص شرک میں مبتلا تھا کوئی شخص کسی دوسرے کے نقص کا اظہار نہیں کرتا تھا جب نبی آتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے روحانی سورج کا طلوع کر دیتا ہے تو پھر لوگوں کو ایک دوسرے کے نقائص نظر آنے لگ جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ فلاں ایسا ہے اور فلاں ایسا ہے مگر جب تک سب قوم سوئی ہوئی ہو کوئی شخص کسی دوسرے کے عیب نہیں دیکھ سکتا۔جیسے یورپ میں ننگے ناچ ہوتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ یہ بھی کوئی گندی چیز ہے کیونکہ روحانی لَیْل اُن پر چھائی ہوئی ہے اور رات کی تاریکی کی وجہ سے اُنہیں یہ نقائص نظر نہیں آتے۔ بڑے سے بڑا آدمی بھی ان نظاروں کو دیکھیگا تو خاموشی سے گزر جائے گا اور اُسے یہ خیال نہیں آئے گاکہ ان باتوں کے خلاف نفرت کااظہار کرے۔ مگر جب نبی کا زمانہ آتا ہے تو پھر لوگ شرمانے لگتے ہیںاور وہ کہنے لگ جاتے ہیںکہ یہ بھی بُری بات ہے اور وہ بھی بُری بات ہے۔
پھرلباس زینت کا موجب بھی ہوتا ہے اور کام کرنے والوں کے لئے ایک رنگ میں رات ہی زینت کا باعث ہوتی ہے۔ عرب میں رواج ہے کہ غریب سے غریب آدمی بھی روزانہ اپنے کپڑے دھوتا ہے یا بعض امیر رات کو اور کپڑے پہنتے ہیں اور دن کو اَور۔ دن میں تو کام کاج کرنے کی وجہ سے لباس خراب ہو جاتا ہے لوگ اچھا لباس نہیں پہن سکتے مگر رات کو فارغ ہو کر پہنتے ہیں اور آرام سے بیٹھتے ہیں۔ بعض ممالک یعنی یورپ وغیر ہ میں جا کر دیکھ لو امیر سے امیر آدمی دن کے وقت کارخانوں وغیرہ میں کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن لباس خراب ہوتا ہے۔ لیکن جب چار بجے اور کام سے فارغ ہوئے غسل کر کے صاف ستھرے کپڑے پہن لیتے اور آرام سے اپنے گھر بچوں اور بیوی کے پاس بیٹھتے ہیں۔
وَّجَعَلْنَا
اور ہم نے دن کو زندگی ( کے اظہار) کا ذریعہ بنایا ہے ۱۱؎
۱۱؎حل لغات
مَعَاشٌ عَاشَ کا مصدر ہے اور عَاشَ یَعِیْشُ مَعَاشًا کے معنے ہوتے ہیں صَارَذَا حَیَاۃٍ(اقرب) یعنی وہ زندہ ہوا۔ پس مَعَاشَ کے معنے ہوئے زندگی والا ہونا۔ اور جَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا کا یہ مطلب ہؤا۔کہ ہم نے دن کو حیات کے اظہار کا ایک موقع بنایا ہے۔ اسی طرح لغت میں مَعَاشًا کا یہ مطلب ہؤا کے ایک معنے یہ بھی لکھے ہیں کہ مُلْتَمَسًا لِلْعَیْشِ (اقرب) اس صورت میں جَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا کے ایک معنے یہ ہوں گے کہ ہم نے دن کو ایسا بنایا ہے کہ اُس میں انسان اپنے عیش کے سامان تلاش کرتا ہے گویا جَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا کے ایک معنے ہوئے مُلْتَمَسًا لِلْعَیْشِ یعنی دن ایک ذریعہ سامانِ معیشت کے تلاش کا ہوتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم نے دن کو ایک حیات کی چیز بنایا ہے یعنی دن اپنی ذات میں حیات کو ظاہر کرنے والا اور وہ زندہ چیز نظر آتی ہے۔ دوسرے معنے یہ ہوںگے کہ ہم نے نہار کو ذریعہ معاش بنایا ہے یعنی وہ انسان کے لئے زندگی کے سامان تلاش کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ اگر مَعَاشًا کے معنوں میں لیا جائے تو یہ جَعَلَ کا مفعول بہٖ بن جاتا ہے۔ اسکی ایسی ہی مثال ہو گی جیسے کہتے ہیں زَیْدٌ عَدْلٌ پس علاوہ مفعول فیہ ہونے کے یہ اس کے مفعول بہ کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے کہ ہم نے نھار کو معاش یعنی نھاراور معاش کا آپس میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ معاش نھار ہے اور معاش نھار ہے تو یہ بالکل جائز ہے جیسے کہتے ہیںزَیْدٌ عَدْلٌ یعنی زید کا عدل سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ زید عدل اور عدل زید ہے تو یہ جائز ہو گا۔ قرآن کریم میں بھی اسکی مثال پائی جاتی ہے سورۂ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّ الدَّارَ الْاَخِرۃَلَھِیَ الْحِیْوانُ (عنکبوت ع ۷ ۳ ) حَیْوَان کا لفظ حیات کا مبالغہ کے طور پر استعمال ہؤا ہے اور مطلب یہ ہے دارِ آخرت ہی اصل زندگی ہے۔ اب دارِ آخرت ایک جگہ کا نام ہے اور کوئی خاص جگہ زندگی نہیں کہلا سکتی مگر چونکہ انسان دارِ آخرت میں ہی حقیقی طور پر زندہ ہو گا اور اصل زندگی وہی ہے جو انسان کواگلے جہان میں حاصل ہوگی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ دارِ آخرت ہی آخری زندگی ہے۔ یعنی ہم یہ کہیں کہ دارِ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے تو یہ بالکل جائز ہے پس جَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًَا کے یہ معنے ہوں گے کہ معاش کے دن کے ساتھ اتنا بھاری تعلق ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ خدا تعالیٰ نے دن کو معاش بنا دیا ہے یعنی دن میں اُس نے اتنا سامان معاش کمانے کے پیدا کر دئیے ہیں کہ اورکسی وقت وہ سامان میسَّر نہیں آ سکتے تو بالکل درست ہو گا۔ یہ معنی مَعَاشًَا کے مفعول بہ ہونے کی صورت میں ہیں لیکن اگر اسے مفعول فیہ سمجھا جائے تو اسکے معنی وقتِ معاش کے ہوں گے یعنی دن کو ہم نے ایک ذریعۂ معاش بنا دیا ہے۔ دوسرے اوقات میں انسان معاش کو تلاش نہیںکر سکتا لیکن دن اُس کے حصولِ معاش کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔
مَعَاشًَا درحقیقت عَاشَ کا مصدر ہے اور مَعَاشَ کے معنے ہوں گے تو محض حیاۃ ٌکے ہوتے ہیںاور دوسرے معنی حیوانی حیات کے ہوتے ہیں۔ عام معنے اس کے حیوانی حیات کے ہی ہوتے ہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کے کوئی بُرے معنے ہیں بلکہ حیوانی حیات سے مراد صرف وہ زندگی ہے جو کھانے پینے سے تعلق رکھتی ہے۔
تفسیر
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ جس طرح دن کے بعد رات آتی ہے اسی طرح قوموں پر بھی بعض دفعی تاریکی کا دَور آجاتا ہے اور وہ تاریکی دَور اُن کے لئے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے نہار کے بعد لیل کی ظلمت دنیا پر چھا جاتی ہے ۔
میں نے بتایا تھا کہ اس سورۃ میں تین مضامین کاذکر ہو رہا ہے قیامت کا۔ غلبۂ قرآن کا اور غلبۂ اسلام کا۔ پس اگر یہاں بعث بعدالموت مراد ہو تو اس صورت میں وَجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا کا مفہوم یہ ہو گا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ رات کو تمھارے نقائص دور کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ تمہاری روح میں یہ قابلیت نہیں تھی کہ وہ ہمیشہ نھارسے فائدہ حاصل کر سکتی بلکہ ضروری تھا کہ اُس پر رات بھی آتی تاکہ دن سے فائدہ اُٹھانے کے لئے اُس میں نئی طاقتیں پیدا ہو جاتیں یہی تمہارا روحانی حال ہے جس طرح خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے رات کو لباس اور نیند کو سُبَات بنایا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے دنیا کی پیدائش کا سلسلہ جو لَیْلاور سُبَات کا قائمقام ہے اس لئے جاری کیا ہے تاکہ تم اس جہان میں رہ کر اپنے اند ر وہ نئی طاقتیں پیدا کرو جن سے اگلے جہان میں تمہیں رؤیت الٰہی نصیب ہو سکے پس جس طرح لیل کا کا نہار سے پہلے آنا ضرور ی ہے اسی طرح تمہاری ترقی کے لئے ایک اور عالم کا ہونا بھی ضروری ہے تم اس جہان میں رہ کر اپنے اندر وہ قابلیتیں پیدا کرو تاکہ اگلے جہان میں رؤیت الٰہی سے حصہ لے سکو۔ اور قرآن یا اسلام کا غلبہ مراد ہو تو اس صورت میں مذکورہ بالا آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ تمہاری قوم سو رہی تھی مگر اللہ تعالیٰ اس لَیْل میں تمہارے اندر نئی قوتیں پیدا کر رہا تھا۔ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کلام نازل ہوتا ہے اُسی قوم میں نازل ہوتا ہے جو مردہ اور ذلیل ہو چکی ہوتی ہے تاکہ وہ اُس نئے کلام کے ذریعہ نئی طاقتیں لے کر کھڑا ہو جائے اور دنیا پر غالب آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کا کلام کسی قوم میں نازل ہوتا ہے اُس کی قوتوں میں نشوونما پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور آخر ایک دن وہ قوم اُن قوتوں سے کام لے کر دنیا میں پھیل جاتی ہے۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کو دیکھ لو۔ عرب صدیوں سے ذلیل اور مردہ چلے آرہے تھے اُن کادنیا میں کہیں غلبہ نہ تھا۔ اُن کی ترقی کے کوئی آثار نہ تھے۔ وہ دنیا سے ایک الگ گوشہ ٔ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہؤا تو بے شک وہ قرآن کریم کی مخالفت کرتے تھے۔ وہ اسلام کو مٹانے کی کوششیں کرتے تھے مگر ساتھ ہی اُن کے دلوں میں یہ حسرت بھی موجود تھی ہر قوم نے ترقی کی۔ ہر قوم نے عروج حاصل کیا۔ مگر ہمیں کوئی ترقی حاصل نہیں ہوئی۔ پس اُن کے دلوں میں ترقی کی تڑپ پائی جاتی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ غلبہ حاصل کریں اور ان کی ذاتی خواہش تھی کہ ہماری قوم کو بھی عزت ملنی چاہیئے اور اس کی خواہش نے اسلام لانے پر انہیں ترقی میں بڑی مدد دی۔ پس جب بھی کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اسی قوم میں نازل ہوتا ہے جو مدتوں سے مرد ہ ہوتا ہے۔ اس زمانہ میںبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں مبعوث فرمایا جہاں کے رہنے والے مدتوں سے غلا می کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہے ہم بھی بڑھیں اور ترقی کریں۔ اور گو وہ لوگ احمدیت کی مخالفت کرتے ہیں جس طرح عرب کے رہنے والے لوگ اسلا م کی مخالفت کیا کرتے تھے مگر جس دن اُن کو پتہ لگا کہ احمدیت ہی اُن کی ترقی کا ذریعہ ہے اُس دن اُن کے اندر بیداری پیدا ہو جائے گی اور وہ اس غرض کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔
وَجَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ درحقیقت زندگی کا ثبوت صرف دن سے ہی ملتا ہے رات سے نہیں ملتا۔ یہاں ایک عجیب لفظی لطیفہ ہے۔ انسان عام طور پر راحت اور آرام کے سامانوں میں اپنی زندگی بسر کرنا ہی عیش سمجھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کو تم عیش سمجھتے ہووہ عیش نہیں بلکہ ایک نیند ہے جو دتم پر مسلّط ہوتی ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ کھانا پینا سیر وسیاحت کرنا۔ راحت و آرام کے سامانوں میں چکّر لگانا انسان کے لئے عیش ہوتا ہے حالانکہ عیش کا زمانہ صر ف نبی کا زمانہ ہوتا ہے جب حقیقی کام کا وقت ہوتا ہے اور جب حقیقی عزت حاصل کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ کھانا پینا اور مادی راحت و آرام کے سامانوں سے لطف اُٹھانا یہ عیش نہیں بلکہ سونا ہے۔ گویا جس کو تما عیش کہتے ہو وہ تمہارے سونے کازمانہ ہے اور جس کو تم تکلیف کا زمانہ کہتے ہو وہ حقیقی معنوں میں عیش کا زمانہ ہے جس طرح دن کو انسان چلتا پھرتا ہے اور رات کو آرام کرتا ہے اسی طرح کام کا وقت کہلاتا ہے اور آرام کا وقت لَیْل کا وقت کہلاتا ہے دنیا میں جس چیز کو عیش سمجھا جاتا ہے وہ سکون کا زمانہ ہوتا ہے۔ اور جس چیز کو تکلیف سمجھا جاتا ہے وہ کام کا زمانہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ عجیب بات ہے کہ تم سکون والی چیز کا نام عیش رکھتے ہو حالانکہ عیش کا زمانہ ہے جس میں انسانی طاقتیں متحرک ہوں اور اس کے لئے لَیْل کا وقت نہیں بلکہ نہار کا وقت مقرر ہے اور درحقیقت وہ زمانہ عیش کا ہو تا ہے جب قوم میں قربانی کی روح پائی جاتی ہو۔جب اُس کے تمام افراد میں بیداری نظر آتی ہو۔ جب اُس کے ہر فرد میں یہ احساس پایا جاتا ہو کہ جان کو قربان کر دینا اور مال کو خُدا تعالیٰ کی راہ میں لُٹا دینا ہی کلید کامیابی ہے۔ کیونکہ زندگی حرکت کا نام ہے سکون کا نام نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کو تم عیش کہتے ہو سکون ہے اور تباہی کی علامت۔ اور جس کو تم تکلیف کا وقت کہتے ہو وہی عیش ہے۔ تم سکون والی زندگی کو عیش کی زندگی قرار دیتے ہو حالانکہ وہ عیش نہیں بلکہ ایک نیند ہے جو تم پر طاری ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں جس چیز کو تم عیش قرار دینے کے لئے تیا ر نہیں وہی حقیقی معنوں میں عیش ہے۔ گویا ان الفاظ کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی ایک غلطی کا ایک ازالہ کیا کہ عیش نام ہے حرکت کا جیسے انسان دن میں حرکت کرتا ہے۔ مگر تم عدمِ حرکت کا نام عیش رکھتے ہو حالانکہ وہ عیش نہیں بلکہ تمہارے حواس کا بُطلان ہے۔
وَّ بَنَیْنَا
اور ہم تمہارے اوپر سات (بلند اور) مضبوط (آسمان)بنائے ہیں ۱۲؎
۲؎ا حل لغات
شِدَادٌ شَدِیْدٌ کی جمع ہے اور اَلشَّدِیْدُ کے معنے ہیں اَلشُّجَاعُ وَالْبَخِیْلُ وَالُاَسَدُ وَالْقَوِیُّ وَالرَّفِیْعُ وَالْوَثِیْق (اقرب) یعنی شَدِیْدٌ کے معنے شجاع ؔ کے بھی ہیں۔ شیر ؔ کے بھی ہیں۔ قویؔ کے بھی ہے۔ بلندؔ کے بھی ہیں اور مضبوط ؔ کے بھی ہیں۔ شَدِیْدٌ کی شِدَادٌ بھی آتی ہے اور اَشِدَّائُ بھی آتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر صحابہؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے اَشِدَّآئُ عَلیَ الْکُفَّارِ (الفتح ع ۴ ۲ ۱) یہاں سَبْعًا شِدَادً کے معنے ہوں گے سَبْعًا رِفَاعًا یعنی سات اونچی چیزیں ہم نے پیدا کی ہیں اسی طرح قَوِیٌ کے معنی بھی ہو سکتے ہیں اور وَثِیْق کے معنے بھی ہو سکتے ہیں۔ گویا اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے سات وہ چیزیں وہ پیدا کی ہیں جو بلند ہیں یا ہم نے سات وہ چیزیں پیدا کی ہیں جو قوی ہیں یا ہم نے سات وہ چیزیں پیدا کی ہیں جو بندھی ہوئی ہیں اپنی جگہ سے ہلتی نہیں۔
تفسیر
یہ سات کیا چیزیں کیا ہیں؟ قرآن کریم میں دوسری جگہ آسمانوں کے لئے چونکہ سات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے یہاں بھی سات سے مراد سات آسمان ہی ہوں گے اور بَنَیْنَا فَوْقَکُم سَبْعًا شِدَادًا کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم نے تمہارے اوپر سات جسمانی اور مادی بلندیاں پیدا کی ہیں جو بڑی قوی ہیں یعنی اُن میں کوئی تزلزل واقعہ نہیں ہوتا۔ ایک مضبوط قانون اُن میں چلتا چلاتا ہے جو کسی حالت میں بھی ٹوٹتا نہیں اور اس وجہ سے نظامِ عالم میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوتا۔
شِدَاد کے معنے اگر ہم رَفِیْع ؔکے لیں تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہم نے ایک ایسا وسیع اور بلند وبالا نظام تمہارے لئے قائم کیا ہے جس کا رفعت میں کوئی خاتمہ نظر نہیںآتا۔ اسی طرح وَثِیْق کے معنے بھی لئے جاسکتے ہیں یعنی وہ نظام جسے ہم نے قائم کیاہے اُس میں یکرنگی پائی جاتی ہے ایک قانون جس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے اُسی رنگ میں چلتا چلا جاتا ہے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ یکرنگی اور نہ ٹوٹنے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ نہ ٹوٹنے میں صرف ایک چیزقائم رہتی ہے لیکن یکرنگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ قانون بالکل یکساں رہتا ہے اُس میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔ دُنیا میں بعض انسان ایسے ہوئے ہیں جن میں عدم استقلال پایا جاتا ہے وہ آج کچھ کہتے ہیں تو کل کچھ کہہ دیتے ہیں ایسے لوگوں کو یکرنگی نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے سَبْعًا شِدَادًا بنائے ہیں اُن میں یہ تینوں خوبیاں پائی جاتی ہیں قَوِیّ کے لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ ان کے اندر ثبات پایا جاتا ہے رَفِیْع کے لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ اُن میں یکرنگی پائی جاتی ہے گویا بَنَیْنَا فَوْقَکُم سَبْعًا شِدَادًا کے یہ معنے ہوئے کہ ہم نے تمہارے اوپر سات بلندیاں پیدا کی ہیں وہ یکرنگ بھی ہیں وہ قائم رہنے والی بھی ہیں اور اپنی ذات میں رفعت بھی رکھتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے بَنَیْنَا سَبْعًا شِدَادًا کا ذکر کرتے ہوئے یہاں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ تین خصوصیات جو نظام سماوی کی ہم نے بیان کی ہیں یہ بھی اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہیں کہ دُنیا کی پیدائش کا کوئی بڑا مقصد ہے۔ جو شخض کہتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو پیدا کر کے بلا وجہ اور بغیر کسی مقصد کے اللہ تعالیٰ نے اس کے اوپر ایک بہت بڑااور وسیع اور مضبوط نظام بنا دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فعل کو عبث قرار دیتا اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا یہ تمام نظام نعوز باللہ بالکل لغواور فضول ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ہمارے اس قانون کی یکرنگی کو دیکھو کہ کس طرح وہ ایک ہی رنگ میں چلاتا چلا جا رہا ہے اور پھر اس نظام کی رفعت اور اس کی وسعت کا اندازہ لگاؤ۔ سانئسدان اس نظام کو دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں اور باجود بڑی علمی ترقی کے اس نظام کی وسعت کا اندازہ لگانے سے اُن کی عقلیں قاصر ہیں۔ تم غور کرو اور سوچو کہ کیا یہ تمام انتظام ایک ایسی دنیا کے لئے اورپھر اس دنیا کی ایک ایسی مخلوق کے لئے کیا جا سکتا تھا جس کی پیدائش کا کوئی مقصد نہ تھا اور جس نے کچھ عرصہ کے بعدفنا ہو کر مٹی ہو جانا تھا۔ یہ انتظام خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی پیدائش کا کوئی بہت بڑا مقصد اور مدعا ہے۔ اگر اس مقصد کو تسلیم نہ کیا جائے تو یہ نظام نعوذ باللہ لغوتسلیم کرنا پڑتا ہے گویا اس رنگ میں نظام سماوی کو اللہ تعالیٰ نے بعث بعد الموت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وسیع اور پُر حکمت نظام جاری کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی پیدائش صر ف اس لئے نہیں ہوئی کہ وہ چند روز کھائے اور پئے اور فنا ہو جائے بلکہ کسی بہت بڑے مقصد اور مدعا کو پورا کرنے کے لئے اس کی پیدائش ہوتی ہے۔ اور اگر یہاں قرآن مجید مراد لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ تم اپنی فطرت کو دیکھو اور غور کرو کہ کھانے پینے کے سوا اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے حصول کی کتنی عظیم الشان تڑپ تمہارے دلوں میں رکھی گئی ہے۔ تمہارے اندر شوق پایا جاتا ہے کہ تم نیکی میں ترقی کرو۔ تمہارے اندر خواہش پائی جاتی ہے کہ تم اعلیٰ درجہ کے روحانی مدارج حاصل کرو۔ کیا یہ شوق اور خواہش بلا وجہ ہے اور کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو تمہاری ادنیٰ خواہشیں تھیں اُن کو پورا کرنے کے سامان تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دئے مگر جو اعلیٰ درجہ کی روحانی خواہشات تمہارے اندر رکھی گئی تھیں اُن کو پورا کرنے کا خدا نے کوئی سامان پیدا نہیں کیا۔ اس صورت میں سَبْعًا شِدَادًا سے مراد وہ سات روحانی مدارج ہوں گے جن کا سورۂ مومنون میں ذکر آتا ہے اور جن کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب مومن ترقی کرتے کرتے ان ساتوں بلندیوں کو طے کر لیتا ہے۔
وَّجَعَلْنَا
اور ہم نے ایک چمکتا ہؤا سورج (بھی) بنایا ہے ۱۳؎
۱۳؎حل لغات
سِرَاجٌ کے معنے عام طور پر دئےؔ کے ہوتے ہیں اور سُرُجٌ اس کی جمع ہے۔ سورج کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی خدا کا ایک دیا ہے جو دنیا کو روشن کرنے کے لئے اُس نے بنایا ہے۔
وَھَّاجًا۔ کہتے ہیں وَھَجَتِ النَّارُ والشَّمْسُ وَھْجًا وَھَجَانًا:۔ اِتَّقَدَتْ(اقرب) وَھَجَتِ النَّارُ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ آگ بھڑک وَھَاج مبالغے کا صیغہ ہے یعنی اَلشَّدِیْدُالْوَھَج (اقرب) سخت گرمی والا یا سخت بھڑکنے والا۔ اور وَھَجٌ کے معنے اس گرمی کے بھی ہوتے ہیں جس کو دور سے محسوس کیا جائے گویا وَھَجَ کے معنے ہوئے حَرُّ الشَّمْسِ مِنْ بَعِیْدِ سور ج کی گرمی جو دور سے آرہی ہو۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ ہم نے ایک سورج بنا لیا ہے جس کی صفت یہ ہے کہ وہ بڑا گرم ہَے اور اُس کی گرمی دُور دُور تک محسوس ہوتی ہے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ وَجَعَلْنَا السِّرَاجَ وَھَّاجً بلکہ فرمایا وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَّاجًا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں تنوین تفخیمکے لے آتی ہے اگر جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَاجًا ہوتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ ہم نے سورج کو وَھَّاج بنایا ہے مگر جَعَلْنَا سِرَاجاً وَھَّاجًا کہہ کر بتا دیا کہ ہم نے ایک عظیم الشان سورج بنایا ہے جس کی صفت ذاتی یہ ہے کہ وہ وَھَّاج ہے۔
مفردات میں ہے اَلْوَھَجُ:حُصُوْلُ الضَّوْئِ وَالْحَرِّ مِنَ النَّارِ یعنی آگ سے روشنی حاصل کرنے اور گرمی حاصل کرنے کو وَھَّجً کہتے ہیں۔ تَوَھَّجَ الْجَوْھَرُ کہیںتو اس کے معنے ہوتے تَلَاْلَأَ یعنی جو ہر چمک اُٹھا۔ اور جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَاجًا کے معنے ہیں مُضِیًْٔا یعنی ہم نے سورج کو ایسابنایا کہ دنیا اس سے روشنی حاصل کرتی ہے (مفردات) پس دوسرے معنے جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَاجًا کے یہ ہوئے کہ ہم نے سورج بنایا ہے جس کی ذاتی صفت یہ ہے کہ وہ بہت روشنی دینے والا ہے۔
تفسیر
سورج کی وھَّاج بتا کر اُس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ سورج کی روشنی اور گرمی ذاتی ہے۔چاندوھَّاج نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے کہ اس میں اتّقاد نہیں ہے۔ آگ کی طرح جلنے والا سورج ہی ہے۔ سورج کے اندر خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام کر دیا ہے کہ اس میں ریڈیم موجود ہے کششِ ثقل کے ماتحت جب اس کے ذرّے اندر کی طرف کھنچتے ہیں تو تیز روشنی اور گرمی پیدا ہوتی ہے اور ان ذرّوں کے اندر کی کشش کی وجہ سے اس سے مستقل آگ پیدا ہوتی رہتی ہے۔
سورج کی صفتوھَّاج بھی کتنی ظاہر ہے۔ کروڑوں کروڑ میل پر سورج ہے یعنی نو کروڑ میل کے قریب دنیا سے اس کا فاصلہ ہے مگر جب اس کی گرمی یہاں پہنچتی ہے تو گرمیوں کے موسم میں کئی لوگ اس کو برداشت نہیں کر سکتے اور وہ مر جاتے ہیں۔ ابھی چند دن ہوئے لاہور کے متعلق یہ خبر آئی تھی کہ وہاں گرمی کی شدّت کی وجہ سے گھوڑے چلتے چلتے گر کر مر جاتے تھے۔ نیز امریکہ سے خبر آئی تھی کہ گرمی کی وجہ سے درجنوں آدمی پاگل ہو ئے اور بلند مکانوں پر سے چھلانگ مارنے پر تیار ہو گئے۔ گویا سورج کو اللہ تعالیٰ نے وھَّاج بنایا ہے یعنی دور دور تک اس کی گرمی پہنچتی ہے۔ لُغت میں اَلْوَھَجُ مِنَ النَّارِ والشَّمْسِ کے معنوں میں لکھا ہے کہ حَرُّھُمَامِنْ بَعِِیْدٍیعنی سورج یا آگ کی گرمی جو بہت دور سے محسوس ہوتی ہو۔ گویا سِرَاجًا وَّھَاجًا میں دو اشارے کئے گئے ہیں۔ اوّل یہ کہ سورج کی روشنی اور گرمی ذاتی ہے۔ دوسرےؔیہ کہ اس کی گرمی بہت دور سے محسوس ہوتی ہے۔
سورج کے جہاں تک اَور بہت سے فوائد ہیں اُس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سورج کی روشنی اور اس کی تپش سے زمین کے اندر روئیدگی کا مادہ پیدا ہوتا ہے چنانچہ ہل چلانے سے محض یہ غرض نہیں ہوتی کہ زمین کو نرم کر دیا جائے بلکہ آج کل جو نئے حل بنائے گئے ہیں وہ ایسی طرز پر بنائے گئے ہیں کہ زمین کے نچلے حصہ کو اُکھاڑ کر باہر پھینک دیتے ہیں یعنی وہ ہل زمین کو صرف نرم ہی نہیں کرتے بلکہ اُوپر کی زمین کو نیچے اور نیچے کی زمین کو اُوپر کر دیتے ہیں اور اس کی غرض یہ ہؤا کرتی ہے کہ زمین میں اگانے والے بعض مادے ایسے ہوتے ہیں جن کو فصل کھا جاتی ہے اور اگر پھر اُسے اُٹھا کر سورج کے سامنے نہ کیا جائے تو آئندہ فصل ناقص پیدا ہونے لگتی ہے لیکن جب نچلے حصہ کو اُلٹا کر اُوپر کر دیا جائے تو سورج کی شعائوں سے طاقت حاصل کر کے زمین کے اس نقص کی کمی پوری ہو جاتی ہے غرض سور ج کا تعلق فصلوںکے اُگانے میں بہت بڑا ہے اگر سورج کی گرمی اور اُس کی شعائیں نہ پہنچیں تو زمین کے بعض ایسے مادے جن سے فصلیں اُگتی ہیں بالکل ختم ہو جاتے ہو جائیں۔
جہاں تک سِرَاجًا وَّھَاجًا کا تعلق ہے اس میں تو میں سمجھتاہوں قیامت کی طرف اس رنگ میں اشار ہ ہے کہ ایک چیز جو اپنی ذات میں جل رہی ہے وہ آخر ایک وقت ختم ہو جائے گی تو نظامِ شمسی میں ضرور کوئی اہم تبدیلی رُونما ہو گی۔ چنانچہ علم ہئیت کے جو بڑے بڑے ماہرین ہیں وہ قیامت کے قائل ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں سورج چھوٹا ہوتا جا رہا ہے اور اسی طرح یہ چھوٹا ہوتا چلا جائے گا یہاں تک ایک دن اس کا وجود نظامِ عالم میں بالکل بیکار ہو جائے گااور اس کے ساتھ ہی باقی تمام سیّارے فنا ہو جائیں گے۔
گو اس بات کے ساتھ ہی علم ہئیت والوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جہاں تک گرمی کا تعلق ہے سورج کی گرمی گھٹ نہیں رہی بلکہ بڑھ رہی ہے اور جوں جوں وہ اپنے مرکز کے قریب آتا جاتا ہے اس کی گرمی تیز ہوتی چلی جاتی ہے۔ احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب قیامت آئے گی تو شدید گرمی پیدا ہو جائے گی۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلبہ یا قرآن کریم کے غلبہ کے مفہوم کو اگر ہم لیں تو میرے نزدیک اس میں محض ایک مخفی اشارہ ہجرت کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان الفاظ کے ذریعہ کفّار مکہ کو توجہ دلاتا ہے کہ اب تومحمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمہارے پاس بیـٹھے ہیں اور تم کہتے ہو ہمیں دق کرتے ہیں۔ یہ ہمارے بُتوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ یہ ہمیں تبلیغ کرتے ہیں۔ یہ ہمیں اباؤاجداد کی اتباع کرنے سے روکتے ہیں۔ اور جب یہ تمہیں کوئی نیک بات بتاتے اور تمہیں وعظ و نصیحت کرتے ہیںتو تم شور مچانے لگ جاتے ہو اور چاہتے ہو کہ کسی طرح ان کو اپنے شہر سے نکال دو اور اس طرح امن میں آجائو مگر تمہیں پتہ نہیں ہم نے اپنے رسول کو سِرَاجًا وَّھَاجًا بنایا ہے ایک دن یہ تم سے دُور چلا جائے گا مگر پھر بھی تم اس کی گرمی سے نہیں بچو گے بلکہ برابر اسکی گرمی تمہارے پاس پہنچتی رہے گی اور اس کی روشنی تم میں سے سعید روحوں کی تاریکی کو دُور کرتی رہے گی۔ اگر قرآن مراد لے لو تب بھی یہ معنے ہوں گے کہ ایک دن قرآن کا مرکز تم سے دور ہو جائے گامگر تم یہ نہ سمجھو دور ہو جانے کی وجہ سے تم اس کے اثر سے بچ سکو گے بلکہ پھر بھی قرآن کریم کی تعلیم کا اثر تم تک پہنچیگا اور وہ تمہیں اپنا شکار بنائے گا۔
انبیاء کے زمانہ میں کچھ ایسا شور ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوںمیں کچھ اس قسم کا اخلاص پیدا کر دیتا ہے کہ انہیں تبلیغ کرنے اور دوسروں تک اپنی باتیں پہنچانے کے سوا چین ہی نہیں آتا۔اُنہیں لاکھ گالیاں دی جائیں وہ اپنے کام سے نہیں رُکتے اور لوگوں کی ہدایت کے لئے ان کے پیچھے ہی پڑے رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے زمانہ میں بھی ہم مُخالفوں کے مُنہ سے یہ فقرہ سنا کرتے تھے کہ احمدی تو ہمارا پیچھا ہی نہیںچھوڑتے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَجَعَلْنَاسِرَاجًا وَّھَاجًا ہم نے ایسا سورج بنا دیا ہے جو وَھَّاج ہے اور جس کی گرمی اور روشنی دور دور تک جاتی ہے۔ دوسرےؔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی عالمگیر تعلیم کی طر ف بھی اس میں اشارہ ہے اور اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ جس طرح سورج کا نور ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے اِسی طرح محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی تعلیم ایک دن ساری دنیا میںپھیل جائے گی۔ تم مکّے کا رونا رو رہے ہو اور کہہ رہے ہو کہ مکّہ میں اسلام پھیل گیا دس بیس پچاس برس کے بعد ایک دن آئے گا جب تم دیکھو گے کہ یہ سِرَاج وَھَّاج بن جائے گا اور اس کی روشنی ساری دنیا میں چھا جائے گی۔ تیسرے ؔ دُور تک گرمی اور روشنی کے پھیلنے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا زمانہ ٔ افادہ زمانہ کے لحاظ سے بھی بہت ممتد ہے اور جس طرح یہ دنیوی سورج قیامت تک مادی دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرتا رہے گا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا افاضۂ روحانی بھی دنیا کے اختتام تک چلتا چلا جائیگا۔
وَّاَنْزَلْنَا
اور ہم نے گھنے بادلوں سے کثرت سے بہنے والا پانی (بھی) اتارا ۱۴؎
۱۴؎حل لغات
مُعْصِرَۃُ کے معنے ہوتے ہیں وہ بدلی جس میں نمی کی بہت زیادتی ہو اور اُس میں سے بارش کے قطرات گرتے ہوں۔ اَلَْمُعْصِرَۃُ۔ اَلسَّحَابَۃُ تُعْتَصَرُ بِالْمَطَرِ۔ یعنی مُعصِرَۃُ اُس بدلی کو کہتے ہیں جس میں سے پانی کے قطرے ٹپکتے پڑتے ہوں۔ پس مُعْصِرَات کے معنے ہوئے اَلسَّحَائِب تُعْتَصَرُ بِالْمَطَرَ (اقرب)وہ بادل جن میں سے پانی کی کثرت کی وجہ سے قطرے ٹپک پڑتے ہوں اور مُعْصِرَۃٌ اُن ہوا کو بھی کہتے ہیں جس کے ساتھ بگولہ آتا ہے چنانچہ اَعْصَرَتُ الرِّیحُ کے معنے ہیں جَائَ تْ بِالْاِعْصَارِ (اقرب) ہوا کے ساتھ بگولہ آیا۔لیکن محاورہ کی رو سے اَلْمُعْصِرَات: أَلسَّحَائِبُ تُعْتَصَرُ بِالْمَطَرَ کے معنے میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ گو مُعصِرَۃ کے معنے ہوا کے بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ بعض صحابہؓ نے کئے ہیں لیکن چونکہ عام محاورہ مُعصِرَۃ اُس ہوا کو کہتے ہیں جس کے ساتھ بگولہ ہواور یہ معنے پور ی طرح چسپاں نہیں ہوتے اس لئے یہاں زیادہ مناسب معنے ایسے بادل کے ہی ہوں گے جس میں پانی کی کثرت ہو اور اس میں سے پانی ٹپک رہا ہو۔ ہاں وضعِ لُغت کے لحاظ سے اِعْصَار کے معنے چونکہ نچوڑنے کے ہوتے ہیں اس لئے مُعْصِرَات اُن ہوائوں کو بھی کہہ سکتے ہیں جن کے تیزی سے چلنے کی وجہ سے بادلوں کے بخارات جلد مجتمع ہو کر پانی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ بہرحال صحابہؓ نے مُعْصِرَات کے معنے ہوائوں کے کئے ہیں اور بعض نے اس کے معنے بادلوں کے کئے ہیں۔ اکثر مفسّرین نے ترجیح بادلوں کے معنوںکو ہی دی ہے کیونکہ لُغت کے استعمال میں یہی معنے رائج ہیں۔
ثَجَّاجًا۔ثَجَّ سے ہے اورثَجَّ الْمَائُ کے معنے ہوتے ہیں سَالَ(بِکَثْرَۃٍ) یعنی کثرت کے ساتھ پانی بہنا شروع ہؤا۔ اور ثَجَّاج کے معنے ہیں اَلثَّاجُ مِنَ الْمَطَرِ: السَّیَّالُ الشَّدِیْدُ الْاِنْصَبَابِ(اقرب)یعنی ثَجَّاج اُس بارش کو کہتے ہیں جو بڑی تیزی سے برستی ہے۔پس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ ہم نے بڑی بارش والی بدلیوں میں سے جن سے پانی کی کثرت کی وجہ سے قطرات ٹپکتے پڑتے ہیں ایک ایسا پانی اتارا ہے جو کثرت سے بہنے والا ہے۔
تفسیر
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے سورج کا ذکر کیا اور پھر بدلیوں کا ذکر کر کے بتایا کہ ان چیزوں سے مل کر زمین تیار ہوتی ہے یعنی سِرَاج وَھَاج سے زمین تیار ہوتی ہے تومُعْصِرَات سے پانی برستا ہے جس سے زمین کی روئیدگی نشوونما حاصل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اور دوسرےؔان آیات میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ وَھَج سے زمین تیار ہوتی ہے وہاں وَھَج سے ہی بادل اُٹھتے ہیں۔ کیونکہ بادل کیا چیز ہیں۔ بادل سمندروں اور دریائوں اور نالوں وغیرہ کے پانی کے ابخرے ہیں جو سورج کی گرمی سے اُڑ کر فضاء میں جاتے اور پھر فضاء کی سردی میں سیّال بن کر زمین پر ہی واپس آجاتے ہیں۔ جب سورج کی گرمی ان پانیوں پر پڑتی ہے تو جس طرح آگ پر ہم پانی رکھیں تو اُس میں سے دُھواں اٹھنا شروع ہو جاتا ہے اور اگر زیادہ دیر تک آگ پر رکھا جائے تو تمام پانی بخارات بن کر اُڑ جاتا ہے اس طرح سورج کی گرمی سے بخارات اُٹھتے اور آہستہ آہستہ جَوّ میں جمع ہوتے رہتے ہیں پھرہوائیں اُن کو زمین پر لا کر برسا دیتی ہے۔ تو ایک طرف سِرَاج وھَّاج سے زمین تیار ہوتی ہے اور دوسری طرف سِرَاج وھَّاج ہی پانی لاتا ہے گویا وہی گرمی جو انسان کے بے چین کر رہی ہوتی ہے اُس کو ٹھنڈک پہنچانے کے سامان مہیّا کر رہی ہوتی ہے۔
اِن آیات میں قیامت کی طرف اس رنگ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ ہر چیز کے لئے خدا نے کوئی جواب رکھا ہے۔ سورج آسمان پر گرم ہے زمین پر اُس کا اثر پڑتاہے تو وہ نشوونما روئیدگی کے لئے تیا ر ہوتی ہے پھر وہی سورج جو ایک طرف زمین کی روئیدگی کے لئے تیار کرتا ہے اپنی گرمی سے زمین کے بخارات کو اوپر اٹھاتا ہے اور اس طرح سورج کے وَھَج کے نتیجہ میں وہ بخارات بادل کر زمین پر برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سبب اور مسبّب کا یہ سلسلہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کائناتِ عالم میں جاری کیا ہؤا ہے ہیہودہ اور لغو نہیں ہو سکتا۔ ضرور ہے کہ اس کا کوئی عظیم الشان نتیجہ نکلے مگر وہ نتیجہ اس دنیا میں نہیں نکل رہااس لئے لازماً کسی اور زندگی کو ماننا پڑے گا جہاں ان عظیم الشان کاموں کا کوئی نتیجہ نکلے اور انسان کہہ سکے کہ اللہ تعالیٰ نے جس سلسلۂ کائنات کی بنیاد رکھی تھی وہ لغو نہیں تھا۔
قرآن مجید اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف اِن آیات میں اس رنگ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ قرآن مجید اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں تم کو بُری لگتی ہیں تم کہتے ہو کہ انہوں نے دنیا میں آکر فساد مچا دیا ۔ تم کہتے ہو کہ جب سے یہ ظاہر ہؤا ہے جھگڑے اور لڑائیاں شروع ہو گئی ہیں ایک شور ہے جو اس کی وجہ سے مچ ر ہا ہے۔ باپ بیٹے سے جدا ہو گیا ہے۔ ماں لڑکی سے علیحدہ ہو گئی ہے اور لڑکی ماں سے علیحدہ ہو گئی ہے۔ بھائی بھائی سے علیحدہ ہو گیا ہے اور دوست دوست سے جدا ہو گیا ہے گویا تمہیں اس کے آنے کی وجہ سے ایک گرمی سی محسوس ہوتی ہونے لگی ہے جیسے سورج کے نکلنے سے ایک گرمی محسوس ہونے لگتی ہے مگر فرماتا ہے بیشک تمہیں آج اس کی وجہ سے گرمی محسوس ہونے لگی ہے مگر یہی گرمی ایک دن تمہارے لئے رحمت کا بادل ثابت ہو گی اِس گرمی سے تمہاری اندرونی قابلیتوں کو اُبھارا جا رہا ہے۔ تمہارے اندر نئی قابلیتیں پیدا کی جارہی ہیں مگر تم بھی اس کو محسوس نہیں کر سکتے بلکہ تم اس تغیّر پر تکلیف محسوس کرتے ہو جیسے ڈاکٹر جب اپریشن کرنے لگتا ہے اُس کا چاقو انسان کو چُبھتا ہے لیکن آخر وہی چاقو جس سے اُس نے تکلیف محسوس کی تھی اُس کی صحت اور آرام کا موجب بن جاتا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے بے شک محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے تم ایک بے چینی اور تکلیف سی محسوس کر رہے ہو۔ مگر یہ وَھَج اور یہی گرمی اوریہی تپش اور یہی روشنی تمہاری راحت اور آرام کا موجب ہو گی۔ جس طرح سورج کی گرمی بادلوں کو اُٹھا کر لاتی اور زمین پر پانی کی صورت میں اُن کو برسا دیتی ہے اسی طرح ایک دن اسی وَھَج سے تمہارے دلوں میں ایمان اور عرفان کی بدلیاں اُٹھنے لگیں گی اور تمہارے دلوں سے علم و عرفان کے وہ سوتے پُھوٹ پڑیں گے جن کا پانی ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔ مجھے یہاں مَآئٌ ثَجَّاجًا کے الفاظ سے اپنا وہ خواب یاد آگیا جو تھوڑے ہی دن ہوئے مَیں نے دیکھا تھا اور جس میں مجھے انسانی قلب ایک تنور کی شکل میں دکھایا گیا اور مجھے یہ نظارہ نظر آیا کہ اُس تنور میں سے اللہ تعالیٰ کے عرفان کا پانی پُھوٹنا شروع ہؤا اور وہ دنیا کے کناروں تک پھیل گیا۔ میں نے جب اُس پانی کو پھیلتے دیکھا تو اُس وقت مَیں نے کہا یہ پانی پھیلے گا اور پھیلتا چلا جائے گا یہاں تک کہ دنیا کا ایک انچ بھی ایسا باقی نہ رہے گا جہاںخدا کے عرفان کا یہ پانی نہ پہنچے۔ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمایا ہے کہ وَاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَائً ثَجَّاجًا۔ اس شمس روحانی کی گرمی سے تمہارے دل کی زمینیں تیار ہوں گی پھر اسی گرمی کے نتیجہ میں وہاں سے ایسے بخارات اٹھنے شروع ہوں گے جو بادلوں کی صورت میں اختیار کر لیں گے اور پھر وہی بادل تمہارے دلوں کی زمین پر برسیں گے اور اُن کا پانی ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔
لِّنُخْرِجَ بِہٖ
تا کہ اس کے ذریعہ سے ہم دانے اور سبزیاں نکالیں۔ اور گھنے باغ (اُگائیں) ۱۵؎
۱۵؎حل لغات
حَبًّا: اَلْحَبُّ وَالْحَبَّۃُ یُقَالُ فِیْ الْحِنْطَۃِ وَالشَّعِیْرِ وَنَحْرِھِمَا مِنَ الْمَطْعُوْمَاتِ یعنی گندم اور جَو اور ایسے ہی وہ تمام غلّہ جات اور اناج جن سے خوراک کاکام لیا جاتا ہے اُن کے دانوں کو حبّ کہتے ہیں (مفردات)
لسانؔ میں ہے۔اَلْحَبُّ: اَلزَّرْعُ صَغِیْراً کَانَ اَوْکَبِیْرًا یعنی حبّ نباتاتی پیداوار کو کہتے ہیںخواہ چھوٹی ہو یا بڑی ۔
نَبَاتًا: اَلنَّبْتُ وَالنَّبَاتُ مَا یَخْرُجُ مِنَ الْاَرْضِ مِنَ النَّامِیَاتِ سَوَائً کَانَ لَہٗ سَاقٌ کَالشَّجَرِ اَوْلَمْ یَکُنْ لَہٗ سَاقٌ کَالنَّجْمِ لٰکِنِ اخْتَصَّ فِیْ التَّارُفِ مِمَّا لَاسَاقَ لَہٗ بَلْ قَدِ اخْتَصَّ عِنْدَ الْعَاعمۃِ بِمَا یَاْکُلُہٗ الْحَیَوَانُ (مفردات) یعنی نبات زمین سے پیدا ہو کر بڑھنے والی ہر چیز پر بولتے ہیں خواہ وہ درختوں کی قسم سے ہو یا چھوٹی چھوٹی بوٹیوں کی قسم سے لیکن عرف عام میں نہایت صرف اس کو کہتے ہیں جس کا تنا نہ ہو یعنی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں ہوں۔ بلکہ عوام کے نزدیک صرف اُس کو نبات کہتے ہیں جس کو حیوان کھاتے ہیں۔ گویا حَبُّ انسانوں کی خوراک ہوئی اور نبات حیوانوںکی خوراک۔
جَنَّاتٌ: جَنَّۃٌ کی جمع ہے اور اَلْجَنَّۃُ کے معنے ہیں کُلُّ بُسْتَانٍ ذِیْ شجَرٍ یَسْتُرُ بِاَشْجَارِہِ الْاَرْضَ ہر وہ باغ جس میں درخت ہوں اور وہ درختوں کے ذریعے اپنی زمین کو ڈھانپ لے (مفردات)
اَلْفَافًا: اَلْفَافٌ لِفٌّ کی جمع ہے اور اَلِلّفُ کے معنے ہیں اَلصِّنْفُ مِنَ النَّاسِ مختلف طرز کے لوگوں میں سے ایک طرز کے لوگ۔ چنانچہ کہتے ہیںعِنْدَہٗ اَلْفَافٌ مِنَ النَّاسِکہ اس کے پاس مختلف اصناف کے لوگ بیٹھے ہیںنیز اَللِّفُّ کے معنے ہیں اَلرَّوْضَۃُ الْمُلْتَفَّۃُ النَّبَاتِ وہ باغیچہ جس کی نباتات کثیر ہونے کی وجہ سے آپس میں لپٹی ہو ئی ہو وَالبُسْتَانُ الْمُجْتَمَعُ الشَّجَرِ ایسے باغ کو بھی لِفّ کہتے ہیںجو گھنے درختوں والا ہو۔ پس جَنَّاتِ اَلْفَافًا کے معنے ہوں گے ایسے گھنے باغات جو کثرت اشجار کی وجہ سے آپس میں لپٹے ہوئے ہوں۔
تفسیر
پانی جب آسمان سے اُترتا ہے تو اس کے بعد لِنُخْرِجَ بِہٖ حَبًّا وَّ نَبَاتًا وَجَنَّتٍ اَلْفَافًا کا وقت آجاتا ہے یعنی اُس بارش کے نتائج پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور زمین سے دانے نکلتے ہیں۔ سبزیاں نکلتی ہیں۔قسم قسم کی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں اور ایسے باغات نکلتے ہیں جو بڑے گھنے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب سورج نکلتا ہے تو تم جانتے ہو اُس کا ظاہری نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ ظاہری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سورج زمین تیار کرتا ہے اور اپنی روشنی کی شعائیں وہاں تک پہنچاتا ہے اور پھر اپنی گرمی کے ذریعہ زمین کا پانی کھینچ کر اوپر لے جاتا ہے گویا ایک چیز سورج دے جاتا ہے اور ایک چیز سورج لے جاتا ہے پھر جو چیز لے جاتا ہے اُسے بادلوں کی صورت میں پھر زمین کی طرف واپس کر دیتا ہے اور اس طرح سورج لوگوں کے لئے رحمت اور برکت کا سامان پیدا کر دیتا ہے چنانچہ سے بارش سے بڑے بڑے باغ نکلتے ہیں۔ سبزیاں نکلتی ہیں۔ کھیتی باڑی ہوتی ہے اور انسانی زندگی کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب مہیّا ہو جاتی ہیں۔ اتنا بڑا کارخانہ جو خدا نے بنایا ہے کہ کروڑوں کروڑ میل پر ایک سورج بنایا ہے۔ کروڑوں کروڑ میل پر ایک سورج بنایا ہے۔کروڑوں کروڑ میل پر ایک زمین ہے۔ زمین میں یہ قابلیت رکھی گئی ہے کہ وہ سورج کی شعائوں کو اپنے اندر جذب کرے اور سورج میں یہ قابلیت رکھی گئی ہے کہ اُس کی گرمی پانی کو اُٹھا کر اوپر لے جائے۔ پھر ہوائیں چلتی ہیں جو بادلوں کو زمین پر برسا دیتی ہیں اور زمین میں سے کھیت اُگتے ہیں غلّہ پیدا ہوتا ہے۔ باغات تیا ر ہوتے ہیں ۔ پھل پیدا ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک ایک چیز انسان کے کام آتی ہے۔ ان میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے فوائد دیرپا نہیں ہوتے اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے فوائد دیرپا ہوتے ہیں مثلاً غلّہ ہے اِدھر غلہ پیدا ہوتا ہے اور اُدھر انسان اس کو استعمال کر نا شروع کردیتا ہے۔ دوسرے سال پھر غلہ بوتا ہے اور پھر استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو بار بار بونے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے پھلدار بوٹیاں ہیں یعنی جانوروں کے کھانے کی جھاڑیاں ہیں اُن کے پھلوںسے انسان زیادہ دیر تک فائدہ اُٹھاتا ہے اور جانور کئی سال تک اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس سے بھی زیادہ عرصہ تک کام آتی ہیں مثلاًباغات ہیں کہ وہ بعض دفعہ سو سو دو دوسو تین تین سو سال تک کام دیتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے تم غور کرو اور سوچو کہ کیایہ سارا سلسلہ لغو اور فضول ہے۔ اگر تم سوچو توب تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ کارخانۂ عالم کی پیدائش لغو اور فضول نہیں ہو سکتی بلکہ کوئی نہ کوئی اہم غرض ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ تمام سلسلہ جاری فرمایا ہے اور کوئی نہ کوئی مقصد ہے جس کو پورا کرنے کے لئے اس قدر وسیع کارخانہ کام کر رہا ہے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انسان کی پیدائش بالکل عبث ہے اور وہ کسی خاص مقصد کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ اور اگر ہم ان آیات کوروحانی معنوں میں لیں تو اس کے معنے یہ بن جائیں گے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور قرآن کریم دونوں سِرَاج وَھَّاج ہیں اُن کی گرمی تپش اور تیز روشنی آج تمہیں بُری لگتی ہے مگر ایک دن یہی گرمی اور تپش اور روشنی تمہارے دل کے چھپے ہوئے گند دور کرنے کے لئے بادلوں اور روشنی کا کام دے گی۔ سورج آخر کیا کرتا ہے یہی کہ وہ گندے پانی کو بخارات کی صورت میں اُڑاتا اور پھر ایک مصفّٰی پانی کی صورت میںاُسے زمین کی طرف لوٹا دیتا ہے اور اُس کی روشنی قسم قسم کے زہروں کو مارتی اور نئی طاقتیں بخشتی ہے۔ اسی طرح تمہارے پاس جو کلام الٰہی کا پانی پہلے سے موجود ہے وہ ایسا ہے جو گدلا ہو چکا ہے جس کا استعمال تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ بے شک تمہارے پاس ابراہیمؑ کی تعلیم بھی موجود ہے۔ تمہارے پاس موسیٰ ؑ کی تعلیم بھی موجود ہے۔ تمہارے پاس عیسیٰ ؑ کی تعلیم بھی موجود ہے۔ تمہارے پاس اور انبیاء کی تعلیم بھی موجود ہے مگر اُن سب تعلیموں کا پانی گدلا ہو چکا ہے۔ اب یہ سِرَاج وَھَّاج جس کی گرمی اور تپش اور تیز روشنی تمہیں بُری معلوم ہوتی ہے اُن چھپڑوں سے بخارات اُٹھائے گا اور پھر اُن بخارات کو بادلوں کی صورت میں تمہارے دلوں پر برسائے گا جس سے تمہارے دلوں کے سوتے پھوٹ نکلیں گے اور وہ ساری دنیا کو سیراب کر دیں گے اسی طرح اُس کی روشنی تمہارے دلوں کی تاریکیوں کو پھاڑ کر نورِ بصیرت تم کو بخشے گی۔ گویا کلام الٰہی کا وہ پانی جس کو آج تم ردّ کر رہے ہو ایک دن تمہارے دلوں سے خود بخود پھوٹنے لگے گا اورمَآئً ثَجَّاجًا بن کر ایک عالم کو سیراب کر دے گاپھر اس کے ذریعہ تمہارے دلوں میں اناج بھی نکلیں گے بوٹیاں بھی نکلیں گی اور باغات بھی نکلیں گے۔ گویا تمہیں کچھ ایسے فوائد حاصل ہوں گے جو قریب کے ہوں گے اور کچھ ایسے فوائد ہوں گے جو بعید کے ہوں گے یا کچھ ایسے علوم تم سے ظاہر ہوں گے جو عارف لوگوں کے کام آئیں گے جیسے علمِ تصوّف ہے یا علمِ قرآن ہے اور کچھ ایسے علوم ظاہر ہوں گے جو عوام الناس کے کام آئیں گے جیسے سائنس ہے یا جغرافیہ ہے یا حساب ہے یا ہندسہ ہے۔ وَجَنَّاتٍ اَلْفَافًا اور ایسے باغ بھی نکلیں گے جو مدتوں تک کام دیں گے جیسے علمِ تحریر میں مسلمانوں نے بڑی ترقی کی اور اسے دنیا میں انہوںنے پھیلا دیا۔
اِنَّ یَوْمَ
یقینا یہ فیصلے کا دن ایک مقرر وقت (پر آنے والا) ہے۔ جس دن کے صور میں پھونکا جائے گا۔ پھر تم گروہ در گروہ ہو کر (ہمارے حضورمیں) آؤ گے۔ اور آسمان کھول دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ دروازے (دروازے) ہو جائے گا۔ اور پہاڑ (اپنی جگہ سے) چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب (کی مانند) ہو جائیں گے ۱۶؎
۱۶؎حل لغات
یَوْمٌ :۔ اس کے معنے مطلق وقت کے ہوتے ہیںچنانچہ ایک شاعر کہتا ہے ع یَوْمَا ہُ یَوْمُ نَدًی وَیَوْمُ طَعَانٍ یعنی میرے ممدوح پر دو ہی قسم کے وقت آتے ہیں۔ یا تو وہ سخاوت میں مشغول ہوتا ہے یا دشمنوں کو قتل کرنے میں۔ اسی طرح عرب کہتے ہیں یَوْمَاہُ یَوْمُ نُعْمٍ وَیَوْمُ بُوْسٍ ای الدَّھْرُ یعنی زمانہ دوحال سے خالی نہیں۔ یا تو انسان کے لئے نعتیں لاتا ہے یا تکالیف لاتا ہے (لسان العرب) اسی طرح سیبویہ کا قول ہے کہ عرب کہتے ہیں اَنَا الْیَوْمَ اَفْعَلُ کَذَا لَا یُرِیْدُوْنَ یَوْمًا بِعَیْنِہٖ وَلَکِنَّھُم یُرِیْدُوْنَ الْوَقْتَ الْحَاضِرَ (لسان العرب) یعنی جب کہتے ہیں کہ میں آج کے دن اس اس طرح کروں گا تو اس سے مراد چوبیس گھنٹے کا دن نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے مراد صرف موجودہ وقت ہوتا ہے۔ اسی طرح اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنِکُمْ جو قرآن کریم میں آتا ہے اس سے بھی مراد معروف دن نہیں بلکہ زمانہ اور وقت مراد ہے (لسان) پھر لکھا ہے وَقَدْیُرَادُ بِالْیَوْمِ اَلْوَقْتُ مُطْلَقًا وَمِنْہُ الْحَدِیْثُ تِلْکَ اَیَّامُ الْھَرَجِ اَیْ وَقْتُہٗ (لسان) یعنی کبھی یوم سے مطلق وقت مراد ہوتا ہے۔ جیسے حدیث میں ہے کہ یہ فتنہ اور لڑائی کے دن ہیں۔ مراد یہ ہے کہ فتنہ اور لڑائی کازمانہ ہے۔
اَلْفَصْل: اَلْفَصْلُ فَصَلَ کا مصدر ہے۔ اور فَصَلَ الشَّیْ ئَ فَصْلًا کے معنے قَطَعَہٗ وَاَبَانَہٗ کسی چیز کے حصے کو کاٹ کر اس سے علیحدہ کر دیا اور اَلْفصْلُ کے معنے ہیںاَلْحَاجِزُ بَیْنَ الشَّیْئَیْنِ دو چیزیں کے درمیان روک اور پردہ اَلْحَدُّ بَیْنَ الْاَرْضَیْنِ دوزمینوں کے درمیان حد اَلْحَقُّ مِنَ الْقَوْلِ پکی اور مضبوط بات۔ اَلْفَصْلُ اَیْضًا اَلْقَضَائُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ۔ نیز فصل کے معنے حق اور باطل کے درمیان فیصلہ ہو جانے کے بھی ہیں (اقرب)پس یَوْمُ الْفَصْل کے معنے ہوں گے۔ ایسا وقت جبکہ حق اور باطل کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا۔
مِیْقَاتًا:مِیْقَات کے معنے ہیںاَلْوَقْتُ۔ مطلقاً وقت وَقِیْلَ الْوَقْتُ الْمَضْرُوْبُ للشَّی ئِ کسی چیز کے لئے مقرر شدہی وقت اَلْوَعْدُ الَّذِیْ جُعِلَ لَہٗ وَقْتٌ نیز اس وعدہ کو بھی مِیْقَات کہہ دیتے ہیں جس کے لئے وقت مقرر کیا جائے۔ اس کی جمع مَوَاقِیْت آتی ہے (اقرب) ؎
یُنْفَعُ: نَفَخَ سے مضارع مجہول واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اَلنَّفْخُ کے معنے ہیں نَفْخُ الرِّیْحِ فِیْ الشَّیْ ئِ کسی چیز میں ہوا پھونکنا (مفردات) پس یُنْفَخُ کے معنے ہوں گے کہ پھونکا جائے گا۔
اَلصُّوْرُ: صَارَا الرَّجُلُ یَصُوْرُ صَوْرًا کے معنے ہیں صَوَّتَ یعنی آواز دی۔اور صُوْر اس سینگ کو کہتے ہیں جس میں پھونک مار کر اس کو بجایا جاتا ہے (اقرب) بعض نے اس کو اَلصُّوْرَۃُ کی جمع بھی قرار دیا ہے اور اَلصُّوْرَۃُ کے معنے ہیں۔ اَلشَّکْلُ۔ شکل ۔کُلُّ مَا یُصَوَّرُ مُشَبَّھًا بِخَلْقِ اللّٰہ مِنْ ذَوَاتِ الْاَرْوَاحِ وَغَیْرِھَا۔ کسی جاندار یا غیر جاندار کی تصویر اَلنَّوْعُ۔ قسم ۔ الصِّفَۃُ۔ صفت (اقرب) پس یَوْمَ یُنْفَخُ فِیْ الصُّوْرِ کے معنے ہوں گے جبکہ صُوْر میں پھونکا جائے گا۔
اَفْوَاجًا:فَوْجٌ کی جمع ہے اور فَوْج کے معنے انسانوں کی جماعت کے ہیںیا انسانوں کی وہ جماعت جو تیزی سے گزر رہی ہو (اقرب)
سُیِّرَتْ:سَیَّر سے مونث مجہول کاصیغہ ہے اور سَیَّرہٗ کے معنے ہیں جَعَلَہٗ سَائِرًا اس کو چلایا۔ اور جب سَیَّرَہُ کے معنے ہوں گے جَعَلَہٗ سَائِرًا اس کو چلایا۔ اور جب سَیَّرَہٗ مِنْ بَلَدِہٖ کہیں گے تو معنے ہوں گے اَخْرَجَہُ وَاَجْلَاہُ اس کو وطن سے جلا وطن کر دیا (اقرب)
اَلْجِبَالُ:اَلْجَبَلُکی جمع ہے اور اَلْجَبَلُ کے معنے ہیں کُلُّ وَتَدٍ لِلْاَرْضِ عَظُمَ وَطَالَ زمین پر اُونچے ٹیلے کو جَبَل کہتے ہیں۔ خِلَافُ السَّاحِلِ ساحل مخالف مفہوم ادا کرنے کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے یعنی خشکی کا علاقہ۔ سَیِّدُالْقَوْمِ وَعَا لِمُھُمْ نیزقوم کے سردار اور عالم کو بھی جَبَل کہتے ہیں (اقرب) پس سُیِّرَتِ الْجِبَالُ کے معنے ہوں گے (۱) جب پہاڑ چلائے جائیںگے (۲)جب قوموں کے سردار اور عالموں کو گھروں سے نکا لا جائے گا۔
سَرَابًا: مَاتَرَاہُ نِصْفَ النَّھَارِ مِنِ اشْتِدَادِ الْحَرِّ کَالْمَائِ یَلْصِقُ بِالْاَرْضِ (اقرب) یعنی سَرَاب اس ریتلے میدان کو کہتے ہیں جو دوپہر کے وقت سورج کی شعائوں میں پانی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ کلیات میں لکھا ہے وَالشَّرَابُ فِیْ مَا لَا حَقِیْقَتَہٗ کہ سراب اُس کو بھی کہتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہ ہو
تفسیر
یَوْمَ یُنْفَخُ فِیْ الصُّوْرِ۔ یَوْمُ الْفَصْلِ کا بدل ہے یعنی یَوْمُ الْفَصل سے مراد وہ دن ہے کہ یُنْفَخُ فِیْ الصُّوْرِ جس دن صورمیں پھونکا جائے گا فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا اور تم فوج در فوج آؤ گے وَفُتِحَتِ السَّمٓائُ اور آسمان کھولا جائے گا فَکَانَتْ اَبْوَابًا پس وہ دروازے ہی دروازے ہو جائے گا۔ آسمان کے دروازے ہو جانے کے معنے عام طور پرعذاب نازل ہونے کے ہوتے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی قرینہ ایسا ہو جو ظاہر کر رہا ہو کہ وہاں عذاب مراد نہیں بلکہ کچھ اور مراد ہے۔ ورنہ اگر کوئی رویا میں دیکھے کہ آسمان پھٹ گیا ہے یا وہ چھید چھید ہو گیا ہے اور ساتھ کوئی قرینہ ایسانہ ہو جو بتا رہا ہو کہ یہاں عذاب مراد نہیں بلکہ کچھ اورہے تو اس سے مراد عذاب ہی ہو گا۔ لیکن اگر کوئی شخص دیکھے کہ آسمان مثلاً پھٹ گیا ہے اور ملائکہ خدا تعالیٰ کی تسبیحیں کر رہے اور خوشیاں منا رہے ہیں تو اس سے مراد یہ ہو گا کہ اب کسی نبی کی بعثت کا وقت ہے۔ بہرحال عام طور پر فتح سماء کے معنے عذاب کے ہی ہوتے ہیں اور جب سماء سے مراد ظاہر سماء ہو تو اُس وقت فُتِحَتِ السَّمَاء کا یہی مفہوم ہوتا ہے کہ عذاب کا وقت آ گیا ہے۔
وَسُیِّرَتِ الْجِبَالُ۔ اورپہاڑ اپنی جگہ سے چلائے جائیں گے فَکاَنَتْ سَرَابًا پس وہ سراب کی طرح ہو جائیںگے۔ سراب وہ ریتلا میدان ہوتا ہے جو دوپہر کے وقت سورج کی شعائوں کے نیچے پانی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ پہاڑ چونکہ زمین میں سے نکلتے ہیں اور ریت بھی زمین سے ہی پیدا ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت زمین پر ایسی تباہی آئے گی کہ پہاڑ گر جائیں گے اور چونکہ اَوْتَادَ الْاَرْض ہوتے ہیں اس لئے جب اَوْتَاد گر جائیں گے تو ساری زمین تباہ ہو جائے گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن پھر زمین میں ایسی گرمی پیدا ہو گی جو نہایت ہی شدید ہو گی اور وہ ایسی تیز ہو گی کہ بجائے اس کے کہ اُس گرمی سے پہاڑ بنیں موجودہ پہاڑ بھی اس کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے اور باقی زمین بھی تباہ ہو جائے گی۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا اور میں نے بتا یا ہے کہ یَوْمُ الْفَصْل سے مراد قیامت بھی ہے اوریَوْمُ الْفَصْل سے قرآن کریم یا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلبہ کا ظہور بھی مراد ہے اور درحقیقت یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں گو نام مختلف رکھ دیا گیا ہے۔ چاہے نبوت کے کمالات کا ظہور ہو بات ایک ہی ہے۔ بہرحال اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کے معنے ہوئے جدائی کا دن اور اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتًا کے معنے ہوئے یَوْمُ الْفَصل کا ایک وقت مقرر ہے اس یَوْمُ الْفَصْل سے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں غلبۂ اسلام بھی مراد ہے مگر اس میں ایک اور امر کی طرف بھی اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کفّار مکّہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے جس طرح محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمہارے ظلموں کی وجہ سے تم سے جدا ہو نا پڑا ہے اسی طرح خدا ایک دن محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غلبہ دے کر تم کو بھی جُد ا کر دے گا اور وہ دن تمہارے لئے یَوْمُ الْفَصْل ہو گا۔ چنانچہ اِسی کی طرف سُورۂ توبہ میں اشارہ کیا گیاہے۔ جو درحقیقت سورۂ انفال کا دوسرا باب ہے۔یہ سورۃ شروع ہی اس طرح ہوتی ہے کہ بَرَآئَ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلیَ الَّذِیْنَ عَاھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَoفَسِیْحُوْا فِیْ الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّاعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرُ مُّعجِزِے اللّٰہِ لاوَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِیْ الْکٰفِرِیْنَo چوَاَذَانٌمِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللّٰہ بَرِٓیْ ئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ج وَرَسُوْلُہٗ ط فَاِنَّ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرُمُعْجِزِیْ اللّٰہِ طوَبَشِّرِالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo لا اِلَّاالَّذِیْنَ عَاھَدْ تُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُمْ شَیْعًا وَّلَمْ یُظَاھِرُوْا عَلَیْکُمْ اِحَدًا فَاَتِمُّوااِلَیْھِمْ عَھْدَھُم اِلٰی مُدَّتِھِمْ طاِنَّ اللّٰہ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ o فَاِذَاانْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواالْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ وَخُذُوْا ھُمْ وَاحْصُرُوْ ھُمْ وَاقْعُدُ وْلَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍج فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُ االزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْط اِنَّ اللّٰہ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌo
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ چار مہینے کفّار کو یہاں رہنے کی اجازت ہے۔ جب چار مہینے گذر جائیں تو پھر کفّار یہاں سے چلے جائیں۔ یہ یَوْمُ الْفَصْلہ ہے جو کفّار پر آیا اور جس کا فتح مکّہ کے بعد اعلان کیا گیا گویا فتح مکّہ کا نتیجہ ہی یَوْمُ الْفَصْل تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَوْمُ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا وہ موعود دن تم پر آنیوالا ہے جب تم کو اپنے گھروں اور وطن سے جُدا ہونا پڑے گا۔ یعنی ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مسلمان نہ صرف غالب آجائینگے بلکہ وہ اتنے غالب ہوںگے کہ مشرکوں کووہ کُھلے بندوں یہ سُنا دیں گے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ ہمارا تمہارا کوئی جوڑ نہیں۔ ایسا غلبہ عام حالات میں نہیں ہوتا بلکہ غیر معمولی حالات میں ہی ہو سکتا ہے۔ سپینؔ پر مسلمانوں کو ایک لمبے عرصہ تک غلبہ حاصل رہامگر باوجود غلبہ کے وہ عیسائیوں کو سپین میں سے نکال نہ سکے۔ اسی طرح اور کئی ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمان حکمران ہوئے مگر وہ غیر مذاہب والوں کے اپنے ملکوں سے نکال نہیں سکے۔ ہندوستان میں ہی مسلمانوں کی ایک لمبے عرصہ تک حکوت رہی مگر وہ ہندئوں کو نہ نکال سکے۔ آجکل ہندوستان میں ہندو بہت طاقتور ہیں مگر وہ مسلمانوں کو نہیں نکال سکتے بلکہ انگریز جن کے ماتحت ہندوستانی ہیں وہ بھی ہندستانیوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم ہندوستان سے چلے جائو۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہییَوْمُ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْل کَانَ مِیْقَاتًا۔ ایک ایسے عظیم الشان غلبے کا دن آنیوالا ہے جو یَوْمُ الْفَصْل ہو گا۔ وہ نہ صرف عام فیصلے کا دن ہو گا بلکہ یَوْمُ الْفَصْل ہو گا یعنی وہ فَصْلٌ بَیْنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُؤْمِنِیْنَ بھی ہوگا۔ چنانچہ سورۂ بَرَآئَ ۃٌ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہیبَرَآئَ ۃٌمِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ شرکوں میں سے جن سے عہد کیا گیا تھا کہ ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مسلمانوں کو تم پر غلبہ حاصل ہو جائے گاتُم اُن کے مقابلہ میں بالکل ذلیل اور حقیر ہو جائو گے تمہیں وہ مکّہ میں بھی نہیں رہنے دیں گے کہ تم یہاں سے چلے جائو اور اُس وقت تم ذلّت اور رسوائی کی حالت میں اِدھر اُدھر دوڑ رہے ہو گے۔ اُن مشرکوں کو کہو کہ اب اُس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے گویا اس صورت میں بَرَآئَ ۃٌمِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ اِلَی الَّذِیْنَ عَاھَدْتُّمْ مَّنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے معنی یہ ہوںگے کہ اللہ کی طرف سے برأت ہے اُن مشرکین کے مقابلے میں جن سے تم نے عہد کیا تھا۔ اِن معنوں کی رُو سے میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہاں صلح حدیبیہ والے معاہدے کاذکر آتا ہے بلکہ ان معنوں کی رُو سے عَاھَدْتُّمْ سے مراد وہ معاہدہ ہو گا جس کا سورۂ نبا میں ذکر آتا ہے یعنی سورۂ نبا میں تم سے کہا گیا تھا کہ ایک کافرو ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب تم مکّہ میں سے نکال دیئے جائو گے۔ یعنی وہ عہد جس کا سورۂ توبہ میں عَاھَدْتُّمْ کے الفاظ میں ذکر آتا ہے۔ اس پیشگوئی کو عہد کے نام سے اس لئے پکارا گیا ہے کہ بنی جب کوئی پیشگوئی کرتا ہے جس کا کفّار پر بھی اثر پڑتا ہو تو مومنوں کو ہی یہ شوق نہیں ہوتا کہ وہ اُس پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھیں بلکہ اگر وہ پیشگوئی کسی وجہ سے پوری نہ ہو تو دشمن بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ پیشگوئی کیوں پوری نہیں ہوئی تو اس لئے وہ عہد کا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ پس عَاھَدْتُّمْ میں سورۂ نباء والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اب خدا اور اس کے رسول کی برأت ہوگئی یعنی اب تم یہ الزام نہیں دے سکتے کہ وہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی بلکہ ہم نے جو تم سے کہا تھا کہ ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مسلمانوں کو تم پر غلبہ حاصل ہو جائے گا اور تم مکّہ میں نہیں ٹھہر سکو گے ہماری بات پوری ہو گئی ہے۔
فَسِیْحُوْافِیْ الْاَرْضِ اَرْبَعْۃَ اَشْھُرٍ ہم نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے گا اور ہم نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ ایک دن تمہیں اپنے ملک سے نکال دیا جائے گا اب ہم نے اپنے اس عہد کو پورا کر دیا ہے مگر چونکہ غلبۂ اسلام دیکھنے کے لئے تمہارا ٹھہرنا ضروری ہے اور پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے تمہاری وطن سے جدائی ضروری ہے اس لئے ہم نے تمہارے رہنے کے چار مہینے مقرر کر دیئے ہیں تاکہ تم اس عرصہ میں سارے عرب میں پھرو اور دیکھو کہ خدا کی باتیں کسی طرح پوری ہوئیں وَاعْلَمُوٓااَنَّکُمْ غَیْرُمُعْجِزِی اللّٰہِ اور تم دیکھ لو کہ خدا کا حکم جو اسلام کے غلبہ کے متعلق تھا وہ پورا ہو گیا ہے یا وَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِی الْکٰفِرِیْنَ اور اللہ کافروں کو ذلیل کرنے والا ہے وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہ وَرَسُوْلِہٖ اِلٰی النَّاسِ اور اعلان ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ حج اکبر کے دن۔ یعنی خدا نے اس اعلان کے لئے حجِ اکبر کے دن کومخصوص کیا ہے تا کہ سارے عرب کو یہ اعلان سنایا جاسکے۔ یُوں اگر اعلان کر دیا جاتا تو چار ماہ میں بھی سارے عرب میں نہ پہنچ سکتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس اعلان کے لئے حجِ اکبر کا دن تجویز فرما دیا۔ اس فیصلہ سے فَسِیْحُوْا فِیْ الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ کا حکم بھی پورا ہو گیا۔ کیونکہ حج کے موقع پر عرب کے ہر علاقہ سے لوگ آتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے حج کے دن کا انتخاب اسی حکمت کے ماتحت فرمایاکہ جب لوگ حج سے واپس آجائیں تو اس اعلان کے ساتھ ہی وہ اپنی آنکھوںسے بھی یہ دیکھتے چلے جائیں کہ اسلام کا ہر علاقہ میں غلبہ ہو گیا ہے۔ درحقیقت یہ بھی اسلامی تعلیم میں رحم کے غلبے کاثبوت ہے کہ اعلان اُس وقت کیا گیا جب سارے لوگ موجود تھے اور اعلان یہ کیا گیا کہ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیٓ ٌٔ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اللہ مشرکوں کے الزام سے پاک ہے۔ وہ اس عظیم الشان غلبہ کے بعد جس کا ظہور انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اللہ تعالیٰ پر یہ الزام نہیںلگا سکتے کہ سورۃ نباء میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ پوری نہیں ہوئی وَرَسُوْلُہٗ اور رسول بھی اِس الزام سے بری ہے فَاِنْ تُبْتُمْ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ اگر تم توبہ کرو تو تمہارے لئے بہتر وَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّکُم غَیْرُ مُعْجِزِیْ اللّٰہِ وَبَشِّرالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ اور اگر تم پھر جائو تو یاد رکھو جب تم پہلے ہمیں عاجز نہیں کرسکے تو آئندہ کس طرح کرو گے۔ اس کے بعد فرماتا اِلَّاالَّذِیْنَ عَاھَدْتُّم مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُم شَیْئًاوَّلَمْ یُظَاھِرُوْا عَلَیْکُمْ اَحَدًا فَاَتِمُوْْ ٓااِلَیْھِم عَھْدَھُمْ اِلٰی مُدَّتِھِمْ اِنَّ اللّٰہ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ سوائے ان لوگوں کے جن سے مشرکوں میں سے تم نے عہد کیا ہے پھر انہوں نے تم سے معاہدہ میں خلاف ورزی نہیں کی اور تمہارے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کی پس اُن سے جو عہد کیا ہے اُسے مقررہ معیاد تک نبا ہو اللہ تعالیٰ متقیوں کو پسند فرماتا ہے۔ یہ دلیل ہے میرے اُن معنوں کے درست ہونے کی جو ابھی میں نے بیان کئے ہیں۔ وہاں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا بَرَآئَ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلیَ الَّذِیْنَ عَاھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَoفَسِیْحُوْا فِیْ الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّاعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرُ مُّعجِزِے اللّٰہِ لاوَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِیْ الْکٰفِرِیْنَo گویا عہد کے باجود اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے کہا تھا کہ مکّہ میںسے نکل جائو مگر یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن مشرکین سے تم نے معاہدہ کیا ہؤاہے اورانہوں نے اِس معاہدے کو توڑا نہیں اُن کے معاہدے کو دیانتداری کے ساتھ پورا کرو اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ معاہدہ اَور ہے اور یہ معاہدہ اَور ہے۔ اِلَّاالَّذِیْنَ عَاھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ میں جس معاہدے کا ذکر ہے وہ دُنیوی معاہد ہ ہے اور پہلی آیت میں جس معاہدے کا ذکر آتا ہے اس سے الہامی معاہدہ مراد ہے یعنی وہ معاہدہ جس کا الہامی طور پر ذکر کیا گیا تھا اور جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ اگر وہ جھوٹا نکلے تو تمہارا حق ہے کہ گرفت کرواور کہو کہ تمہاری یہ بات کیوں پوری نہیں ہوئی۔ ایک عہد یکطرفہ ہوتا ہے جس میں انسان خود اپنے نفس سے کوئی عہد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں ایسا کرو ں گا۔ اُس کے متعلق کوئی دوسرا شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم نے ایسا کیوں نہیں کیا۔لیکن وہ معاہدہ جو فریقین میں ہو یا وہ معاہدہ جو جماعتوں سے تعلّق رکھتا ہو اُس میں دوسرے کو پکڑنے اور گرفت کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور اگر وہ بات پوری نہ ہوتو دوسرا کہہ سکتا ہے کہ تم تو کہتے تھے فلاں بات اس طرح ہو گی مگر پھر وہ اُس طرح ہوئی نہیں۔ اس قسم کے معاہدات میں پیشگوئیاں بھی شامل ہیں کیونکہ اُن کے متعلق بھی کفاّر یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں تو پھر وہ پوری کیوں نہ ہوئیں۔ پس ایک ہی رکوع میں دوجگہ َ عَاھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے الفاظ استعمال کرنا اور ایک جگہ تو یہ کہنا کہ جن مشرکوں سے یہ عہد تھا اُن کا چار ماہ کا نوٹس دے کر مکّہ سے نکال دو اور دوسروں کے متعلق یہ کہنا کہ اُن سے جو معاہدہ ہو چکا ہے اُس کو پورا کرو بتا رہا ہے کہ پہلے روحانی معاہدے کا ذکر تھا اور اب جسمانی معاہدے کا ذکر ہے۔ اس جسمانی معاہدے کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم نے اِسے نہیں توڑنا ہاں کفّار اگر توڑ دیں تو اَور بات ہے۔ لیکن اگر اُن کی طرف سے نقضِ عہد نہ ہو تو پھر معاہدہ کی جو بھی معیاد ہے اُس معیاد تک تمہاری طرف سے یہ پوری کوشش ہونی چاہئیے کہ اُس کا احترام کرو۔ چنانچہ فرماتا ہے فَاَتِمُّوااِلَیْھِمْ عَھْدَھُم اِلٰی مُدَّتِھِمْ اس میں چار ماہ کی کوئی شرط نہیں اگر دو سال کا معاہدہ ہے تو پورے دو سال کرو اور اگر چھ سال کا معاہدہ ہے تو چھ سال پورے کرو۔ غرض جتنی مدّت مقرر ہے اُس مدّت تک معاہدے کو پورا کرو۔ غرض اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتًامیں قرآن اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے غلبہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور کفّار کو بتایا گیا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب نہ صرف مسلمانوں کو تم پر غلبہ حاصل ہو جائے گا بلکہ اس غلبہ کے ساتھ ہی تم کو مکّہ سے نکال دیا جائے گا۔ اب اگلی آیت میں اس غلبہ کا وقت بتایا گیا ہے فرماتا ہے یَوْمَ یُنْفَخُ فِیْ الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا جس دن صور پھونکا جائے گااورتم فوج در فوج کی صورت میں آئو گے وَفُتِحَتِ السَّمَآئُ اور آسمان کھول دیا جائے گا۔ فوج در فوج اور گروہ در گروہ لوگوں آنیکی خبر اُس وقت پوری ہوئی جب مکّہ فتح ہؤا بلکہ صلح حدیبیہ کے بعد ہی سارے عرب میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی اور فتح مکّہ کی جنگ درحقیقت اسی ہلچل کا نتیجہ تھی کیونکہ عربوں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا کہ اب اُن کے لئے دو ہی صورتیں ہیں یا تو محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ مل جائیں اَور یا مکّہ والوں کے ساتھ مل جائیں چنانچہ کچھ لوگ ادھر آگئے اور کچھ لوگ اُدھر چلے گئے وَفُتِحَتِ السَّمَآئُ اور آسمان پر سے عذاب نازل ہون شروع ہو جائے گا۔
نفخِ صور سے اگر صلح حدیبیہ مرا د لے لو تو اِن آیات کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک ایسا واقعہ رونما ہو گا جس سے عرب قبائل میںبے چینی پیدا ہو جائے گی اور اُن کے دلوںمیں یہ خیال پیدا ہونا شروع ہو جائے گا کہ اب اُنہیں کُھلے طور پراسلام میں شامل ہونا چاہئیے۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے وقت سے لوگوں میں یہ احسان پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ اب معاملہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہم یا محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ساتھ رہ کر بچ سکتے ہیں یا مکّہ والوں کے ساتھ رہ کر بچ سکتے ہیں چنانچہ اسی خیال کے زیرِ اثر کچھ قبائل رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ساتھ مل گئے اور کچھ قبائل کفّار کے ساتھ مل گئے گویا یَوْمَ الْفَصْل کی بنیاد صلح حدیبیہ نے رکھ دی۔
وَفُتِحَتِ السَّمَآ ئُ اور آسمان کھولا جائے گافَکَانَتْ اَبْوَابًا اور وہ دروازے دروازے بن جائے گا۔ اِن معنوں کے لحاظ سے فَکَانَتْ اَبْوَابًا کا یہ مفہوم ہو گا کہ آسمان سے کفّار پر عذاب نازل ہوں گے اور مومنوں پر اُس کی رحمت کی بارش برسے گی گویا آسمان ابواب ابواب ہو جائے گا۔ کچھ دروازے ایسے ہوںگے جن سے خیر نازل ہو گی اور کچھ دروازے ایسے ہوں گے جن سے عذاب نازل ہو گا پہلے ہی مسلمان پر آسمان سے خیر نازل ہوئی تھی مگر وہ ایسی تھی جیسے چھیدو ں میں سے کوئی چیز گرائی جاتی ہے لیکن صلح حدیبیہ کے بعد یہ خیر اس طرح مسلمانوں پر گرنے لگی جیسے بڑے بڑے دروازوںمیں سے کوئی چیز گرتی ہے۔ اسی طرح کفّار پر کثرت سے عذاب آنے شروع ہو گئے۔ گویا آسمان سے رحمت کے سامان بھی نازل ہونے لگے اور عذاب کے سامان بھی نازل ہونے شروع ہو گئے۔
وَسُیِّرَتِ الْجِبَالُ۔جِبَال کے معنے سردارانِ قوم کے بھی ہوتے ہیں۔ پس سُیِّرَتِ الْجِبَالُ کے معنے یہ ہوئے کہ بڑے بڑے صنادید عرب اور وہ بڑے بڑے سردار جن پر اہلِ عرب کو ناز ہے اپنے گھروں سے نکالے جائیں گے۔ فَکاَنَتْ سَرَابًا اور وہ سراب کی طرح ہو جائیں گے یعنی ثابت ہو جائے گاکہ اُن میں کوئی ایسا لیڈر نہیں جو قوم کی صحیح رہنمائی کرنے والا ہو۔ بلکہ سب کے سب لیڈر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے مقابلہ میں ناکام رہیں گے۔ سَرَابًا کا لفظ اس جگہ رکھا گیا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ سَرَاب نصف النہار میں نظر آیا کرتا ہے۔ اس لفظ میں اس امرکی طرف بھی اشارہ تھا کہ جب محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا سورج نصف النہار پر پہنچے گا اور اُس کی چمک لوگوں کی آنکھوں کو خیر ہ کر دے گی اُس وقت اُنہیں معلوم ہو جائے گا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے مقابلہ میں اُن کے لیڈر کیسے ناکام اور کس قدر عقل وخرد سے عاری ہیں۔چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد ہی اسلام کی فتح کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور فتح مکّہ نے اس کو تکمیل تک پہنچا دیا۔ پس فرماتا ہے اُس وقت لوگوں پر ثابت ہو جائے گاکہ ان کے سارے لیڈ ر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے مقابلہ میں ایک سراب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ قوم کو تباہ کرنے والے اور اُسے ذلّت کے گڑھوں میں گرانے والے ہیں۔ اُس کو ترقی تک پہنچانے کی اُن میں کوئی قابلیت نہیں چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔
اِنَّ جَھَنَّمَ
یقینا جہنم ایک راستہ ہے (مگر مذکورہ بالا) سرکشوں کے لئے وہ ٹھہرنے کی جگہ (بھی) ہے ۱۷؎
۱۷؎حل لغات
َّ َّ جَھَنَّم :۔کہتے ہیں َّ بِئْرٌ جَہَنَّمٌ اور مراد ہوتی ہے بَعِیْدَۃُ الْقَعْرِ گہری نہ والا کنواں (لسان)لسانؔ کے مصنف کہتے ہیں وَبِہٖ سُمِّیَ جَہَنَّمُ لِبُعْدِ قَعْرِھَا کہ جہنم کو اس لئے جہنم کہا جاتا ہے کہ اس کی تہہ گہر ی ہو گی۔
مِرْصَادًا: کے معنے ہیں اَلْمَکَانُ یُرْصَدُ فِیْہِ الْعَدُوُّ وہ جگہ جہاں دشمن کی انتظار کی جاتی ہے جس کو اُردو میں گھات کہتے ہیں۔ مِرْصَادًا کے معنے اَلطَّرِیْقُ کے بھی ہیں یعنی راستہ (اقرب)
مَاٰبٌ: اٰبَ کا مصدر بھی ہے اور اسم زمان اور مکان بھی۔ اٰبَ مَابًا کے معنے اَلْمَرْجَعُ وَالْمُنْقَلَبُ لوٹنے کی جگہ(اقرب)
صاحب مفردات کہتے اَلْاَوْبُ ضَرَبٌ مِنَ الرُّجُوْعِ وَذَالِکَ اَنَّ الْاَوْبَ لَا یُقَالُ اِلَّا فِیْ الْحَیَوانِ الَّذِیْ لَہٗ اِرَاَۃٌ والرُّجُوْعُ یُقَالُ فِیْہِ وَفِیْ غَیْرِہٖ (مفردات)یعنی عربی زبان میں اردو زبان کے لفظ ’’لوٹنے‘‘کا مفہوم ادا کرنے کے لئے دولفظ آتے ہیں (۱) رُجُوْعٌ (۲) اَوْبٌ لیکن اَوْبٌ۔رُجُوْعٌ ذو ارادہ اور غیر ذی ارادہ ہر دو کے لوٹنے کو کہتے ہیں۔
تفسیر
قتادہ کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ جہنم گھات میں رہتی ہے جو اُس پر سے گزرتا ہے اگر اُس کے پاس جواز کا پروانہ ہو تو اُسے گزرنے دیتی ہے ورنہ اُسے وہیں گرا لیتی ہے (کثیر) گویا انہوں نے اس کے معنوں میں جسرِ صراط کی طرف اشار ہ کیا ہے لیکن اگر اِنَّ جَھَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًا سے وہی جہنم مراد لیا جائے جو اگلے جہان میں ہو گا تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ اس کا سِلسلہ اسی دنیا سے شروع ہو جاتا ہے اِسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ(صحیح بخاری کتاب الصوم باب زیارۃالمرأۃزوجہا فی اعتکافہٖ جلدنمبرا صفحہ ۲۳۷مطبوعہ مصر)کہ شیطان انسان کے مجری الدم میں چلتا ہے۔ گویا شیطانی تحریکیں دنیا میں اس قدر ہوتی ہیںکہ انسان اگر ذرا بھی غافل ہوتو وہ نفس پر غالب آجاتی ہیں۔ مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ لِلطّٰغِیْنَ مَاٰبًایہ سرکشوںکے ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ اس کیطرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے اِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ سُلْطَانٌ عَلٰی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوکَّلُوْنَ۔اِنَّمَا سُلْطَانُہٗ عَلٰی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِہٖ مُشْرِکُوْنَ ( النّحل ع ۳ ۱ ۹ ۱ ) کہ شیطان کو مومنوں پر اور خدا تعالیٰ پر غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اُس کا غلبہ اُنہی لوگوں پر ہوتا ہے جو خودشیطان سے دوستی رکھتے ہیںاور اسکی محبت کا دم بھرتے اور شرک کرتے ہیں۔ لِلطّٰغِیْنَ مَاٰبًا میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیاہے گویا اِنَّ جِھَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًاکے مضمون میں وہ حدیث آگئی ہے جس میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے یہ فرمایا ہے کہ شیطان انسان کے مَجْرِی الدَّم میں چلتا ہے اور لِلطّٰغِیْنَ مَاٰبًا نے بتا دیا ہے کہ گو جہنّم کا حملہ مومن و کافر سب پر ہوتا ہے کسی پر کسی رنگ میں اور کسی پر کسی رنگ میں۔ لیکن جہنّم ٹھکانہ کے طور پر صرف طاغین کے لئے ہے۔ دوسری آیات سے اس مضمون کی تصدیق ہوتی ہے کہ شیطان کو کفّار پر ہی غلبہ ملتا ہے مومنوں پر اُسے غلبہ حاصل نہی ہوتا۔ غرض جہنّم کو راستہ قرار دیا جائے یا گھات دونوں صورتوں میں اس کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے جہنّم بھی ایک ضروری شے ہے۔ جب تک انسان اپنے لئے جہنم یعنی تکلیف کا راستہ قبول نہ کرے خداتعالیٰ نہیں پہنچ سکتا۔ اور اگر گنہ کر چکا ہو تو پھر بطور سزا کے اس تکلیف کے راستہ پر ایک عرصہ تک چلنا پڑتا ہے خواہ اسی دنیا میں یا اگلے جہان میں۔ اس کے بعد لقاء الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ لِلطّٰغِیْنَ مَاٰبًا کا حال ہے یعنی اِنَّ جَہَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًا وَمَاٰبًا حَالَ کَوْنِھَا لِلطّٰغِیْنَ یا یہ جملہ مِرْصَاد کی صفت بھی ہو سکتا ہے۔
لّٰبِثِیْنَ
اور آنحالیکہ وہ برسوں اس میں رہتے چلے جائیں گے ۱۸؎
۱۸؎ حل لغات
اَحْقَابًا: اَحْقَاب حُقْبٌ کی جمع ہے اور حُقْبٌ کے معنے ہیں ثَمَانُوْنَ سَنَۃً اسّی سال کا عرصہ۔ وَیُقَالُ اَکْثَرَ مِنْ ذَالِکَ اور بعض نے کہا کہ اسّی سا ل سے زیادہ عرصہ بھی حُقْبٌ کا لفظ بولیں گے۔ اَلدَّھْرُ۔زمانہ ۔اَلسَّنَۃُ وَکِّیْلَ السِّنُوْنَ مطلق ایک سال کے لئے بھی عربی میںلفظ حُقْب استعمال ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ کئی سال کا عرصہ حُقْب کہلاتا ہے (اقرب)
تفسیر
لَابِثِیْنَ طَاغِیْنکی ضمیر کا حال ہے یعنی طاغیوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ جہنم میں سالوں یا زمانوں یا صدیوں رہیں گے۔ اُخروی لحاظ سے تو بعد میں بحث کی جائے گی دنیوی لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں جب اسلام کوغلبہ حاصل ہو تو وہ صدیوں تک ہی رہا۔ بعض قومیں دنیا میں فوراً پھیل جاتی ہیں لیکن اس کے بعد جلد مٹ جاتی ہیں۔ مگر مسلمانوں کا صدیوں تک غلبہ رہا۔ چنانچہ مسلمان تقریباًسات سو سال غالب رہے اُن میں کمزوری بے شک چوتھی صدی میں ہی پیدا ہونی شروع ہو گئی تھی مگر مختلف صورتوں میں اُن کا غلبہ سات سو سال تک رہا ہے بلکہ وہ زمانہ جس میں مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی شخص اُٹھ نہیں سکتا تھا اور کسی کوجرأ ت نہیں ہوتی تھی کہ وہ مسلمان کے سامنے کھڑا ہو سکے اُس کو بھی شامل کر کے یہ ایک ہز ار سا ل تک کا عرصہ بن جاتا ہے۔ اب قریباً ساڑھے تین سو سال سے مسلمانوں کے مقابلہ میں غیر اقوام کھڑا ہونے کی جرأ ت ہوئی ہے اور انہوں نے سمجھا ہے کہ ہم بھی مسلمانوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ یعنی سترھویں صدی کے شروع سے مسلمان ایسے گرنے شروع ہوئے کہ دشمن اُن کے مقابلہ میں کھڑا ہو گیا لیکن اس سے پہلے ایک ہزار سال کے لمبے عرصہ میں کسی کو جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کھڑا ہو سکے اور یہ زمانہ دنیوی لحاظ سے گویادشمنان اسلام کے لئے دوزخِ حسد میں جلنے کا زمانہ تھا۔
اَحْقَاب حُقُبٌ کی جمع ہے اس کے لغوی معنے حل لغات میں لکھے جا چکے ہیں اب اس کے تفسیری معنے لکھے جاتے ہیں۔
ابن جریر حضرت علیؓ سے روایت کرتے ( عن سالم بن ابی الجہد) کہ حضرت علی ؓنے ہلال الہجری سے کہا کہ حُقْب کے معنے تم کیا کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ حُقْب کے معنے ہیںاسّی سال۔ ہر سال بارہ مہینے کا۔ ہر مہینہ تیس دن کااور ہر دن ایک ہزار سال کا۔ گویا یہ دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سا ل ہوئے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے۔کہ حُقْب کے معنے چالیس سال جس کا ہر دن ہزار سال کا ہے گویا ایک کروڑ چوالیس لاکھ سال۔ اِسی قسم کی روایت ابن ابی حاتم نے ابن عباس سعید بن جبیر اور کئی تابعین سے بھی نقل کی ہے مگر حُقْب کو ستّر سال قرار دیا ہے( جملہ روایات منقول از ابن کثیر ہیں)گویا ان روایات کے مطابق ایک کروڑ چوالیس لاکھ یا دو کروـڑ اٹھاسی لاکھ یا دو کروڑ ساٹھ لاکھ سال کو اتنے عدد سے ضرب دی جائے گی جتنے عدداَحْقَاب کی جمع سے مراد لئے جائیں گے مگر یہ مقدار خواہ کچھ بھی ہو۔ بیس کروڑ ہو۔ چالیس کروڑ ہو یا ایک ارب ہو۔ بہرحال یہ ایک معیّن عدد ہے اور ان روایات سے اتنا ضرور ثابت ہوتا گیا کہ دوزخ کا عذاب محدود ہے اور وہ آخر ایک دن ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ یہ احساس مفسّرین کے دلوں میں بھی پیدا ہؤا ہے اور اسی وجہ سے مقاتل ابن حیان کہتے ہیں کہ یہ آیت فَذُوْقُوْافَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا کی آیت سے منسوخ ہے جو اس رکوع کے آخر میں آتی ہے۔حالانکہ مفسّرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ساری آیتیں اکٹھی نازل ہوئی تھیں یعنی ا س سورۃ کا دو ٹکڑوں میں اترنا ثابت نہیں پس یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ ایک ہی وقت میں یہ آیتیں نازل ہوئیں اور پھر ان میں سے ایک آیت نے دوسری آیت کو منسوخ کر دیا۔ خالد بن معدان کہتے ہیں (عن ابی جریر بحوالہ ابن کثیر) کہ یہ منسوخ ہے۔ ان کی روایات لکھ کر ابن جریر کہتے ہیں کہ شاید عبارت لَا یَذُوْ قُوْنَ فِیْھَا بَرْدٌ اوَّلَا شَرَابًا سے متعلق ہے یعنی لَابِثِیْنَ فِیْھَآ اَحْقَابًا سے مراد محض دوزخ میں رہنا نہیں بلکہ اس قسم کا رہنا ہے جس کے متعلق اگلی آیت میں لَا یَذُوْ قُوْنَ فِیْھَا بَرْدٌ اوَّلَا شَرَابًا آیا ہے اور مراد یہ ہے کہ دوزخی دوزخ میں صدیوں ایسی حالت میں رہیں گے کہ نہ انہیں راحت ملے گی اور نہ پینے کو کچھ ملے گااس کے بعد بھی وہ رہیں گے تو دوزخ میں ہی مگر عذاب کی نوعیت بدل جائے گی پھر وہ کہتے ہیں وَالْاَمَتُحُّ اَنَّھَا لَا انْقِضَائَ لَھَا یعنی سچی بات تو یہ ہے کہ دوزخ کبھی مٹ ہی نہیں سکتا۔ پھر ابن جریر نے سالم سے اور انہوں نے حسن بصری سے یہ روایت نقل کی ہے کہ اَمَّا الْاَحْقَابُ فَلَیْسَ لَھَا عِدَّۃٌ اِلَّا الْخُلُوْدُ فِیْ النَّارِ یعنی اَحْقَاب جمع کا لفظ خدا تعالیٰ نے بولا ہے اس کی گنتی بیان نہیں کی اس لئے اَحْقَاب کی گنتی غیرمحدود ہے اور اس سے مراد دوزخیوں کا ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ اِن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو ہر اک کے دل میں خیال پیداہؤا ہے کہ اس آیت کے ظاہری معنے عذاب جہنم کے ختم ہونے پر دلالت کرتے ہیں لیکن پھر ان معنوں کی اپنے عقیدہ کے مطابق تاویل کرنے کی کوشش کی ہے اور یا تو اس آیت کو لَا یَزُوْقُوْنَ فِیْھَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا سے متعلق بتایا ہے اور یا اَحْقَاب کو اَن گنت جمع قرار دے دیاہے۔ جہاں تک اَحْقَاب کی جمع کا سوال ہے یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ اَحْقَاب اوزانِ جمع قلّت میں سے ہے یعنی ان اوزان میں سے ہے جن کے معنے تین سے دس تک کے ہوتے ہیں اور گو ضروری نہیں کہ ہر جمع قلّت کے لفظ سے قلّت ہی مراد لی جائے مگر بہرحال وضع لفظ کو اہمیت ضرور دی جائے گی اور جس غرض کے لئے لغت نے لفظ مقرر کیا ہو اُس سے بدلنے کے لئے کوئی قرینہ ضرور ہونا چاہیئے۔ بغیر کسی قرینہ کی موجودگی کے اُس کے دوسرے معنی کرنے جائز نہیں ہوں گے ورنہ تاویل کا ایسا دروازہ کھل جائیگاجو حقیقت سے بہت دُور لے جائے گاایسے قرینے بعض دفعہ معنوی ہوتے ہیں یعنی دُوسری آیت اُس پر دلالت کرتی ہے یا دُوسرے شواہد اُس پر دلالت کرتے ہیں اور بعض دفعہ ظاہر ی ہوتے ہیں یعنی دُوسری آیات اُس پر دلالت کرتی ہیں یا دُوسرے شواہد اُس پر دلالت کرتے ہیں اور بعض دفعہ ظاہری ہوتے ہیں جیسے ال استغراقی آ جائے تو اس کے معنے جمع کثرت کے ہو جاتے ہیں یا کسی ایسے لفظ کی طرف اضافت ہو جو اُس کے ایسے معنے کر دے جو کثرت پر دلالت کرتے ہو۔ مگر بغیر کسی قرینے کے کسی لفظ کو اُن معنوں سے پھرا دینا جو وضع لغت کے لحاظ سے صحیح ہوں جائز نہیں ہو سکتا اور وضع لغت کے لحاظ سے اَحْقَاب کے معنے تین سے دس تک کے ہو سکتے ہیں۔ پس اگر ہم اس کی آخری حد کو سمجھ لیں تو ہم دو کروڑ اٹھاسی لاکھ کو اس سے ضرب دے لیں گے بشرطیکہ ہم اَحْقَاب کے وہ معنے کریں جو تفاسیر میں کئے گئے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس ایک اور حدیث ایسی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت کے وہاں ہر دن ہزار سال کا ہوگا رسول کریم صلے علیہ وآلہٖ وسلم کی نہیں بلکہ غالباً یہود وغیرہ سے سنی ہوئی ہے۔ بزّاز نے ای روایت ابو مسلم بن العلاء سے نقل کی ہے کہ انہوں نے سلیمان التیمی سے پوچھا کہ کیا جہنم میں سے کوئی نکلے گا بھی یا نہیں ؟سلیمان التیمی نے جواب دیا کہ حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَعَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ وَاللّٰہِ لَایَخْرُجُ مِنَ النَّارِ اَحَدٌ حَتّٰی یَمْکُثَ فِیْھَا اَحْقَابًا قَالَ اَلْحُقْبُ بِضْعٌ سَنَۃٍ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَسِتُّوْنَ یَوْمًا مِمَّا تَعْدُّوْنَ یعنی مجھ سے بیا ن کیا نافع نے اُنہوں نے سُنا عبدا للہ ؓسے عبداللہ بن عمر ؓ نے براہ راست رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا خدا کی قسم آگ میں سے کوئی نہ نکلے گا جب تک اُس میں اَحْقَابیعنی کئی حُقْب نہ رہ لے۔
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوزخ میں اَحْقَاب رہنے کے بعد وہاں سے نکلنے کے قائل ہیں مگر جن لوگوں کا عقیدہ اوپر بیان کیا گیا ہے اُن کے نزدیک اَحْقَاب سے مراد یہ ہے کہ دوزخ میں سے کوئی آدمی کبھی نہیں نکلے گا۔ پس اس روایت نے اُن کے خیالات کی تردید کر دی اور یہ ظاہر ہو گیا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وَآلہٖ وسلم نے بھی اس کے معنے یہی لئے ہیں کہ اَحْقَاب کے بعد لوگ دوزخ میں سے نکل آئیں گے پھر آگے جو فرمایا گیا ہے کہ قَالَ اَلْحُقْبُ بِضْعٌ وَّثَمَانُوْنَ سَنَۃً کُلُّ سَنَۃٍ ثَلاثُ مِائَۃٍ وَسِتُّوْنَ یَوْمًا مِّمَّا تَعُدُوْنَ یہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے الفاظ ہیں تب بھی ان کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنہوں نے یہ معنے کئے ہیںکہ حُقُبْ کا ہر دن ایک ایک ہزار سال کا ہوگا انہوں نے غلطی کی ہے اور یہ معنی انہوں نے یہود وغیرہ سے سُن کر نقل کر دیئے ہیںاور اگر قَالَ سے مراد حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہیں تب بھی مِمَّا تَعُدُّوْنَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ ان الفاظ کے ذریعہ ایک ہزار سال کا ایک دن ہونے کی تردید کرنا چاہتے ہیں۔ پس اگر یہ قول رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ہو تب بھی وہ معنے غلط ثابت ہوتے ہیں اور اگر یہ قول حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ہو تب بھی یہ اُن معنوں کے غلط ہونے کی دلیل ہو گی کیونکہ ایک جلیل القدر صحابی ان معنوں کی تردید کر رہا ہے۔ تیسرا قرینہ اِن معنوں کے غلط ہونے کا حضرت علیؓ کی وہ روایت ہے جو سالم بن ابی الجعد سے منقول ہے اُس میں حضرت علیؓ ہلال الھجری سے پوچھتے ہیں کہ تم حُقُب کے کیا معنے کرتے ہوجس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حُقب کے کوئی خاص معنی مروی نہیں تھے اگر کوئی خاص معنی مروی ہوتے تو حضرت علیؓ ہلال الھجری کو وہ معنی بتاتے نہ یہ کہ ہلال الھجری سے اس لفظ کے معنے پوچھتے پس ان تمام استدلالات اور روایتوں سے یہ معلُوم ہؤا کہ اس جگہ دوزخ میں سے دوزخیوں کے نکلنے کا جواز بلکہ اُس کی خبر پائی جاتی ہے گو یہ بھی ضرور ہے کہ دوزخ میں رہنے کا ایک لمبا عرصہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے۔ اگراَحْقَاب سے مراد دس اَحْقَاب لئے جائیں اور حقب کے معنی اسّی سال لئے جائیں تب بھی آٹھ سو سال بن جاتے ہیں ۔ یہ زمانہ بھی کوئی چھوٹا نہیں کیونکہ عذاب کی ای ک گھڑی بھی بہت بڑی ہوتی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے حُقُب کے معنے ایک لمبے زمانہ کے بھی ہوتے ہیں اور صدی کے بھی ہوتے ہیں۔ اگر صدی کے معنے لئے جائیں تو ایک ہزار سال کا زمانہ بن جاتا ہے اور حُقُب سے مُراد لمبا زمانہ لیا جائے تو اَحْقَاب سے مراد دس لمبے زمانے ہوں گے۔ اس صورت میں یہ عذاب بہت لمبا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُوْنَ (الحج ع ۶ ۳ ۱ ) کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کا ایک زمانہ ہزار برس کا ہوتا ہے۔ اِس صورت میں اَحْقَاب سے مراد دس ہزار سال بن جائیںگے لیکن بہرحال کوئی معنی ہوں دوزخ کے عذاب کا غیر منتہی ہونا کہیں سے ثابت نہیں ہوتا۔ خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک اور جگہ پچاس ہزار سال کا دن بھی قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے تَفْرُجُ الْمَلئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ (المعارج ع ۱ ۷ ) اگر ایک حُقْب کو پچاس ہزار سال کا قرار دو تب بھی جہنم کا عذاب محدود ہی رہے گا غیر محدود ثابت نہیں ہو سکتا۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے دشمنوں کے دنیوی عذاب کے معنے کرنے کی صورت میں اس آیت میںیہ پیشگوئی نکلتی ہے کہ اسلام کے دشمن دو سو چالیس یا تین سو سے لے کر آٹھ سو یا ہزار سال تک مغلوب رہیں گے (اسّی سال حُقُب مانا جائے تو چونکہ جمع قلّت تین سے دس تک ہوتی ہے تین سے اسّی کو ضرب دی جائے تو دو سو چالیس اور دس سے ضرب دی جائے تو آٹھ سو سال کا زمانہ بنتا ہے اور سو سال کا حُقُب مانا جائے تین سوسے ہزار سال تک کا زمانہ ہوتا ہے)اگر کہو کہ اس طرح وہ مُدتیں بتانے میں تو شک پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کلام میں شک نہیں ہوتا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس حد تک کلام میں الہام کا ہونا کسی نئے فائدے کو پیدا کرتا ہے اُسی حد تک خدا تعالیٰ کے کلام میں الہام ہوتا ہے اور ہونا چاہئیے۔ اس جگہ تین صدی سے دس صدی تک اسلام کے غلبہ کی خبر دینے میں دو فوائد تھے اس لئے یہ الہام قبیح نہیں بلکہ حسن اور مفید ہے۔ اور وہ دو فائدے یہ تھے (۱)کہ دو سو چالیس سال یا تین صدیوں تک اسلام کا غلبہ نہایت مکمل اور اعلیٰ تھا یعنی اندرونی اتحاد اور بیرونی دشمن کی کمزوری دونوں باتیں پائی جاتی تھیں اور اسی عرصہ میں دشمن مکمل طور پرحسد کی آگ میں جل رہا تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کی کمزوری اُسے اپنی ترقی کی امید دلاتی تھی نہ اپنی طاقت کوئی امید کی صورت پیدا کرتی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ سوسال کے بعد مسلمانوں میں ایک اختلاف رونما ہوا تھا۔ سپین اور بغداد الگ ہوئے مگر دو سو ستّر سال تک یہ اختلاف ایسا نمایاں نہیں ہؤا کہ اس کا اثر اسلام کی ترقی پر پڑتا۔ اس کے بعد دو سو چالیس یا تین سو سال سے آٹھ سو یا ہزار سال تک کا زمانہ وہ ہے کہ اس میں ایک طرف مسیحیت کو طاقت ملنی شروع ہوئی دوسری طرف مسلمانوں میں کمزوری نمایاں طور پر پیدا ہونا شروع ہوئی۔ مگر مسیحیوں کی بیداری اور مسلمانوں کی کمزوری ایسی نہ تھی کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے غلبہ کو نقصان پہنچے۔ خصوصًا اسی زمانہ کا متمدن علاقہ یعنے ایشیا اور شمالی افریکہ پوری طرح مسلمانوں کے تسلّط میں رہا۔ لَابِثِیْنَ فِیْھَآ اَحْقَابًا کی پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور اِن دونوں زمانوں کے لحاظ سے اَحْقَاب کا لفظ جو مُبہم عدد پر دلالت کرتا ہے استعمال کیا گیا ہے۔ اَحْقَاب کی ابتدائی مدّت مکمل غلبہ پر دلالت کرتی ہے اور اس کی انتہائی مدّت اس غلبہ پر دلالت کرتی ہے جس میں کسی قدر ضعف کے آثار ظاہر ہونے لگ گئے تھے مگر غلبہ پھر بھی تھا۔
اس کے علاوہ اس الہام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ پہلی تین صدیوں اور آخری سات صدیوں کے غلبہ میں ایک اور امتیاز بھی تھا۔ پہلی صدیوں میں اسلامی حکام پر کم وبیش عمل ہوتا تھااور کفّار سے حسن سلوک کا خیال رکھا جاتا تھا مگر تین سو سال کے بعد ملوکیّت نے زور پکڑلیا اور کفّار سے نسبتًا سختی شروع ہو گئی جو غیر مذاہب والوں کے سلوک سے تو بہتر تھی مگر اسلامی معیار کے مطابق نہ تھی اس وجہ سے بھی ایسا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے دو قسم کے سلوکوں کے الگ الگ زمانوں پر دلالت ہو یعنی تین سو اور ہزار سال کے زمانہ پر۔ ان معنوں کی رُو سے فَلَنْ نَّزیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا کی آیت بھی خوب حل ہوتی ہے کیونکہ اس آیت میں زمانہ کے ساتھ ساتھ عذاب کی زیادتی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہی حال کفّار کا ہؤا۔ ابتداء ً اسلام میں اسلامی تعلیم کے ماتحت ان پر سختی نہ کی جاتی تھی لیکن جوں جوں اسلامی تعلیم کا اثر مسلمانوں کے دلوں سے کم ہوتا گیا مسلمانوں میں سختی پیدا ہوتی گئی اور اسلامی حکومتوں کے دشمنوں پر تعذیب بڑھتی گئی۔
غرض اس آیت کا جہاں غلبۂ اسلام سے تعلق ہے اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ مسلمانوں کا غلبہ تین سو سال سے ایک ہزار سال تک رہے گا اور ایسا ہی ہؤا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ درمیان میں عارضی طور پر ترکوں کی ایک رَو آئی جس نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا مگر وہ بھی کچھ عرصہ کے بعد مسلمان ہو کر دب گئے اور اسلام کو ہی غلبہ حاصل رہا۔ اس صورت میں یہی نہیں کہ اسلام کی ترقی اور کفر کی بربادی کی اس آیت میں خبر دی گئی ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسلام کو جو غلبہ حاصل ہو گاوہ ایک ہزار سال تک چلتا چلا جائے گا۔ ایک ہزار سال کے غلبہ کے بعد کفر پھر سر اٹھائے گا اور مسلمانوں کا تنزّل شروع ہو جائے گا۔ چونکہ ہر مضمون کے لحاظ سے آیتوں کے معنے کئے جاتے ہیں اس لئے اسلام اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلبہ کے لحاظ سے اس کے معنے یہی ہوں گے۔ لیکن جب ہم ان آیات کو عذاب دوزخ کے متعلق قرار دیں گے تو اس صورت میں ہم یہ کہیں گے کہ حُقْب سے مراد زمانہ ہے اور اَحْقَاب سے مراد بہت لمبا زمانہ ہے۔
علاوہ ازیں قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ کا عذاب غیر منقطع نہیں اس لئے اَحْقَاب کو اس کے معنوں سے پھرانے کی اجازت نہ ہو گی۔ چنانچہ فرماتاہے اُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ(قارعہ) دوزخ دوزخیوں کی ماں کی طرح ہو گی جس طرح ماں کے رحم میں انسان کی تکمیل ہوتی ہے اسی طرح دوزخ میں دوزخیوں کی روحوں کی تکمیل کی جائے گی اور ظلمات ثلاثہ میں سے گزر کر آخر ایک دن وہ نئی روحانی پیدائش حاصل کر لیں گے (۲)د وسرے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ (اعراف ع ۹ ۹ ۱ ) میری رحمت نے ہر چیز کو ڈھانپا ہؤا ہے ۔ جب اللہ کی رحمت نے ہر چیز کو ڈھانپا ہؤا ہے تو دوزخیوں کو بھی اُسے اپنی رحمت سے ڈھانپنا چاہیئے اس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آخر انسان نجات پا جائے گا (۳) تیسرے فرماتا ہے رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلُّ شَیْ ئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا (المومن ع ۱ ۶ ) اے ہمارے رب ہر چیز کا تو نے رحمت اور علم سے احاطہ کیا ہوا ہے۔ اگر اس کی آیت کی موجودگی میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی چیز بھی مخلوق میں سے ایسی ہے جس کا خدا کو علم نہیں تو یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی چیز ایسی ہے جس کو خداکی رحمت ڈھانپ نہیں لے گی (۴) چوتھے فرماتا ہے خَالِدِیْنَ فِیْھَا مَادَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآ ئَ رَبُّکَ ط اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ(ھود ع ۹ ۹ ) اور اُس میں اُس وقت تک رہیں گے جب تک آسمان اور زمین ہیں اِلَّا مَاشَآ ئَ رَبُّکَ مگر جو تیرا رب چاہے یعنی تیرا رب جس کو بخشنا چاہے بخش دے اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ تیر ا رب وہ بات ضرور کرے گا جس کا وہ ارادہ رکھتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ بخشش کر نے والا ہے بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ اُس کی طرف سے بخشش ہو گی۔ (۵) اسی طرح سورۂ ھود میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَالِکَ خَلَقَہُمْ (ھودع ۰ ۱ ) سوائے ان کے جن پر تیرے رب نے رحم کیا وَذَالِکَ خَلَقَھُمْ اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے تا کہ اُن پر رحم کرے۔ جب ہر مخلوق کو خدا تعالیٰ نے رحم کے لئے پیدا کیا ہے تو یہ خیال کر لینا کہ وہ کسی کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہنے دے گا اس آیت کے بالکل خلاف ہے۔ ابن کثیر میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت آتی ہے کہ لِلرَّحْمَۃِ خَلَقَہُمْ وَلَمْ یَخْلُقْہُم لِلْعَذَابِ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو اپنی رحمت کے لئے پیدا کیا ہے عذاب کیلئے پیدا نہیں کیا۔ اور یہ لازمی بات ہے کہ جس چیز کے لئے کسی کو پیدا کیا گیا ہے وہ اسکو ضرور مل جانی چاہیئے (۶)پھر فرماتا فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ (زلزال) جو شخص ایک ذرّہ بھر نیکی میں بھی حصہ لے گا اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکی کے ایک ذرّہ کو بھی ضائع نہیں کرے گا اور وہ ضرور اس کا انجام دیکھے گا۔ یہ انجام وہ اسی طرح دیکھ سکتا ہے کہ پہلے اُسے گناہوں کی سزا دے دی جائے اور بعد میں اُسے معاف کر دیا جائے (۷) حدیث میں آتا ہے اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی للّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِذَااَرَادَ عَبْدِیْ اَنْ یَّعْمَلَ سَیِّئَۃٍ فَلَا تَکْتُبُوْھَا عَلَیْہِ حَتَّے یَعْمَلَھَافَاِنْ عَمِلَھَا فَاکْتُبُوْا ھَابِمِثْلِھَاوَاِنْ تَرْکَھَا مِنْ اَجْلِیْ فَاکْتُبُوْھَا لَہٗ حَسَنَۃً وَاِذَااَرَادَ اَنْ یَّعْمَلُ حَسَنَۃً فَلَمْ یَعْمَلْھَا فَاکْتُبُوْھَا لَہٗ حَسَنَۃً فَاِنْ عَمِلْھَا فَاکْتُبُوھَا لَہٗ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا لِھَا اِلَی سَبْعِ مِأتِ ضِعْفٍ (بخاری مصری جلد رابع کتاب التوحید) یعنی ہر بدی کی سزا اُس کے برابر ہے اور ہر بدی جس کا خیال چھوڑ دیا جائے اس کے بدلہ میں نیکی لکھی جاتی ہے ہر نیکی جس کا انسان خیال کرے خواہ عمل نہ کرے اس کے بدلہ میں نیکی ہے اور ہر نیکی کا بدلہ دس سے سات سوگنے تک ہے۔ قرآن کریم میں بھی نیکی کا دس گنے سے زیادہ ثواب دیئے جانے کا وعدہ کیا گیا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائۃُ حَبَّۃٍ وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (البقرہ ع ۶۴ ۳ ۴) یعنی جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن کے اس فعل کی حالت اُس دانہ کی حالت کی مشابہ ہے جو سات بالیں اُگائے اور ہر بال میں سو دانہ ہو اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اس سے بھی بڑھا بڑھا کر دیتا ہے اور اللہ وسعت والا ہے اور بہت جاننے والا ہے۔ اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ بعض نیکیوں کا بدلہ سات سات سو گناہ بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ چونکہ انسان میںکچھ نیکی بھی پائی جاتی ہے اس لئے نیکیوں کا شمار اگر اس حدیث اور قرآن کریم کی آیت کے مطابق کیا جائے تو عقل اس بات کو جائز قرار نہیں دیتی کہ کوئی انسان دائمی طور پر نجات سے محروم رہ جائے (نیز دیکھو تفسیر کبیر حصہ سوم ہود ع ۹ صفحہ ۲۵۳سے ۲۵۹تک)
لَایَذُوْقُوْنَ
(وہاں ان لوگوں کی یہ حالت ہو گی) کہ وہ نہ تو اس میں کسی قسم کی ٹھنڈک (محسوس کریں گے) ٹھنڈے پانی کے ( اس طرح انہیں ان کے اعمال) مطابق بدلہ(دیا جائے گا)۱۹؎
۱۹حل لغات
اَلْبَرْدُ: نَقِیْضَ الْحَرِّ۔ بَرْد کے معنے ٹھنڈک کے ہیں اَلْبَرْدُ اَیْضًا اَلنَّوْمُ۔بَرْد کے ایک معنے نیند کے بھی ہیں چنانچہ عرب کہتے ہیں اَلْبَرْدُ یَمْنَعُ الْبَرْدَ یعنی ٹھنڈک نیند کو روک دیتی ہے(اقرب) فتح البیان میں ہے کہ حسن ۔عطا اور ابن زید کے نزدیک بَرْد سے مراد راحت ہے۔
جَمِیْعًا: اَلْحَمِیْمُ: اَلْمَائُ الْحَارُّ۔حَمِیْم گرم پانی کو کہتے ہیں یہ لفظ اضداد میں سے ہے یعنی اپنے مخاطب معنے بھی ادا کرتا ہے چنانچہ اس کے معنے ٹھنڈے پانی کے بھی ہیں۔ نیز اَلْحَمِیْمُ کے معنے ہیں اَلْقَیْظُ ۔گرمی اَلْعَرْقُ پسینہ (اقرب)
غَسَّاق: اَلْغَسَّاقُ کے معنے اَلْمُنْطِنُ الْبَارِدُ اَلشَّدِیْدُ الْبَرْدِالَّذِیْ یُحْرِقُ مِنْ بُرْدِہٖ کَاِحْرَاقِ الْحَمِیْمِ سخت ٹھنڈی بدبودار چیز ہے اپنی ٹھنڈک سے ایسی ہی تکلیف دے جیسے کہ گرم پانی سے جلا دیتا ہے(لسان) مَایَقْطُرُ مِنْ جُلُوْدِ اَھْلِ النَّارِ وَصَدِیْدُھَمْ مِّنْ قَیْج وَنَحْوُہٗ وہ پیپ جو دوزخیوں کے اجسام سے نکلے گی اُس کو بھی غَسَّاق کہتے ہیں (اقرب)
وِفَاقًا: وِفَاق وَافَقَ کا مصدرہے اور وَافَقَ عَلَی الشَّیْ ئِ کے معنے ہیں ضِدُّ خَالَفَ کسی چیزکے مطابق آیا۔ اَلْرَفْقُ کے معنے ہیں اَلْمُطَابَقَۃُ بَیْنَ الشَّیْئَیْنِ وہ اشیاء کے درمیان پوری مطابقت (مفردات)پس جَزَآئً وِّفَاقًا کے معنے ہوںگے اعمال کے مطابق جزاء۔
تفسیر
لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا یہ طَاغِیْنَ کا دوسرا حال ہے۔ پہلا حال آیت لَابِثِیْنَ فِیْھَآ اَحْقَابًا میں بیان ہے۔ یعنی طاغیوں کا یہ حال بھی ہو گا کہ وہ نہیں چکھیں گے بَرْد اور نہ ہی شَرَاب اس حالت میں کہ وہ جہنّم میں ہوں گے جو ابن جریر نے معنے کئے ہیں کہ لَابِثِیْنَ فِیْھَآ اَحْقَابًا والی آیت لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا سے متعلق ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ پھر عذاب کی نوعیت بدل جائے گی یہ معنے بالبداہت باطل ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں آیت کے یہ معنے بنتے ہیں کہ اَحْقَاب کے بعد اُنہیں راحت بھی میسّر آجائیگی اور پینے کے لئے پانی بھی ملنا شروع ہو جائے گا۔ جب انہیں پانی بھی مل جائے گا اور راحت بھی میسّر آجائے گی تو پھر عذاب کس بات کا ہو گا۔ اگر خالی پینے کا ذکر ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ صرف پانی پینے کے بعد دُکھ رہ سکتا ہے مگر یہاں شَرَابًا کے ساتھ ہی بَرْدًا کا بھی ذکر آتا ہے اور بَرْدًا کے معنے نیند اور راحت کے بھی ہوتے ہیں۔ پسلَا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا کے معنے یہ ہوں گے کہ اَحْقَاب تک تو انہیں راحت نہیں ملے گی اور نہ پینے کے لئے پانی ملے گا مگر جب اَحْقَاب گزر جائیں گے تو پھر انہیں پینے کے لئے پانی بھی مل جائے گا اور نیند اور راحت کے سامان بھی میسّر آجائیںگے لیکن وہ رہیں گے دوزخ میں ہی۔ پس یہ معنے بالبداہت غلط اور باطل ہیں۔
دوسرے بَرْدًا وَلَا شَرَابًا میں بَرْدًا کو الگ بیان کیا گیا ہے اور شَرَابًا کو الگ بیان کیا گیا ہے جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں بَرْدًا سے ٹھنڈا پانی مراد نہیں بلکہ کچھ اور مراد ہے اور وہ معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ انہیں راحت کے سامان بھی میسّر نہیں آئیں گے۔ چنانچہ بَرْد کے ایک معنی راحت کے بھی آتے ہیںچنانچہ لکھا اَلبَرْدُ: اَلرَّوْحُ وَالرَّاحَۃُ (فتح البیان)
جہاں تک قیامت کا تعلق ہیلَا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا کے معنے ظاہر بھی کئے جا سکتے ہیں کہ وہاں اُن کے لئے راحت کا سامان نہیں ہو گااور نہ انہیں پینے کے لئے کوئی چیز ملے گی سوائے گرم پانی اور غَسَّاق کے۔ غَسَّاق کے معنے ہوتے ہیں سخت سرد پانی یا بد بودار پانی کے یا وہ پیپ جو زخموں سے بہتی ہے چنانچہ لُغت میں لکھا اَلغََسَّاقُ۔ اَلْعَنْتِیْنُ۔ اَلْبَارِدُالشَّدِیْدُالْبَرْدِ۔ وَمَا یَقْطُرُمِنْ جُلُوْدِاَھْلِ النَّارِ وَصَدِیْدُھُم مِنْ قَیْج وَ نَحْوُہٗ (اقرب) غَسَّاق کا لفظ بھی بتا رہا ہے کہ یہاں بَرد کے معنے راحت کے ہی ہیں کیونکہ غَسَّاق کے معنے ہیں سخت سرد۔ پس یہ کہنا کہ نہیں وہاں سردی نہیں لگے گی بالبداہت باطل ہو گیا کیونکہ غَسَّاق کے معنے ہی سخت سرد کے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ دوزخیوں کو جو پانی ملے گاوہ سخت گرم ہو گا۔ اسی طرح اُنہیں زخموں کا دھودن یعنی اسکی پیپ دی جائے گی یا سخت بد بودار اور سڑا ہؤا پانی ملے گا۔ یا اتنا ٹھنڈا پانی دیا جائے گا جس سے ان کے دانت گرنے لگیں گے۔
جَزَآئٌ وِّفَاقًایعنی یہ جزا ہے جو اُن کے مناسب حال ہے۔ وِفَاقًا کے معنے ہوتے ہیں مُوَافِقًا لَلْاَعْمَالِ وہ جزا جو اُن کے اعمال سے مطابقت رکھتی ہو یعنی اُس دنیا میں بھی اُن کے اندر میانہ روی نہیں تھی اور چونکہ دُنیا میں میانہ روی کا وصف اُن کے اندر نہیں پایا جاتا تھا اس لئے اگلے جہان میں بھی انہیں ایسی ہی چیزیں ملیں گی جو حد درجہ گرم ہوں گی یا حد درجہ سرد ہوں گی یا چونکہ دنیا میں وہ سخت غصہ میں آجاتے تھے یا نکمے اور سُست ہو کر بیٹھ رہتے تھے ۔ میانہ روی کی عادت جو انسان کو کامیاب کرتی ہے ان کے اندر نہیں تھی اس لئے جہنّم کا عذاب بھی انہیں اسی صورت میں ہی ملے گا۔ کیونکہ سخت گرم پانی یا اُن کو پینے کے لئے ملے گاکہیں سخت سرد پانی اُن کو پینے کے لئے ملے گا۔ درمیانی پانی جو راحت بخشتا ہے انہیں جہنّم میں نظر نہیں آئے گا۔ اسلام اور کفر کے اخلاق میں یہی فرق ہے کہ اسلام میں میانہ روی کی تعلیم ہے لیکن اسلام کے علاوہ اور کسی مذہب میں میانہ روی کی تعلیم نہیں پائی جاتی۔ یہودیت کہتی ہے ’’جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور پائوں کے بدلے پائوں۔ جلانے کے بدلے جلانا۔ زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ ‘‘(خروج باب ۲۰آیت ۲۳تا ۲۵)عیسائیت کہتی ہے ’’جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے ‘‘ (متی باب۵ آیت ۳۸)گویا ایک میں گرمی ہی چلتی چلی جاتی ہے اور دوسرے میں سردی ہی سردی چلی جاتی ہے۔ پس ایسے اعمال کے بدلہ میں جزاء بھی ایسی ہوگی کسی کو گرمی ہی گرمی پہنچے گی۔لیکن اسلام اپنے تمام احکام میں میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ فرماتا ہے تم رحم کے موقع پر رحم کرو اور سزا کے موقع پر سزادو۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے۔جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا فَمَنْ عَفَاوَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ (الشوریٰ ع ۴ ۵ ) یعنی بدی کی سزا اُسی حد تک دینی جائزہے جس حد تک کہ ظالم نے طلم کیاتھا مگر جو ظلم کے مقابل پر عفو سے کام لے کر بشرطیکہ اس عفو سے اصلاح ہوتی ہو تو اُسے اپنے اس عفو کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا اور ضرور ملے گا۔
قرآن مجیداو۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے متعلق اگر ان آیتوں کو لیا جائے تو پھر ان سے روحانی معنے کرتے چلے آئے ہیں۔ یعنی اسلام کے دشمنوں کو کبھی راحت نہیں ملے گی۔ اُن کے دلوں کو کبھی چین نہیں نصیب نہیں ہو گا وہ اسلام کے مقابلہ میں جب اپنی ناکامی دیکھیں گے تو اس بے چینی اور اضطراب کی حالت میںکبھی وہ اسلام کے مقابلہ میں بالکل مایوس ہو کر بیٹھ جائیں گے اور کبھی پاگلوں کی طرح اُٹھ کر حملہ کرنا شروع کر دیں گے حَمِیْمًاوَّ غَسَّاقًا والی حالت یہی ہوتی ہے کہ کبھی انسان جوش میں آکر پاگلوں کی طرح کام کرنے لگ جائے اور کبھی ہمت ہار کر بیٹھ جائے۔ یعنی دونوں حالتیں ایسی ہیں جو انسان کو کامیابی سے دُور رکھتی ہیں۔ نہ پاگلوں کی طرح حملہ کرنے والا جیت سکتا ہے اور نہ مایوسی کی حالت میں قوت عمل سے کام نہ لینے والاکبھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن فرماتا ہے جبا اس حالت میں پر اَحْقَاب گزر جائیں گے تو اس کے بعد ان کو ہوش آجائے گی اور وہ منظم طور پر مسلمانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیں گے اُس وقت چونکہ مُسلمان اپنے بُرے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کو بڑھا چکے ہوں گے اس لئے ایک طرف اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور دوسری طرف کفر کا منظم حملہ۔ جب یہ دو چیزیں مل جائیں گی تو پھر کفّار جیت جائیں گے۔
اِنَّھُمْ
وہ یقینا (کسی) محاسبہ کا ڈر (اپنے دلوں میں ) نہیں رکھتے تھے۔ ۲۰؎
۲۰؎حل لغات
لَا یَرْجُوْنَ: رَجَا سے مضارع منفی کا جمع مذکّر کا صیغہ ہے اور رَجَا الشَّیْ ئَ کے معنے ہیں اَمَّلَ بِہٖ اس کی امید رکھی۔ خَافَ۔ کسی چیز سے ڈرا (اقرب)پس کَانُوْالَایَرْجُوْنَ کے معنی ہوںگے (۱)وہ امید نہیں رکھتے (۲) وہ ڈرتے نہ تھے۔
اَلْحِسَابُ: کے معنے ہیں اَلْعَدُّ: شمار کرنا۔ گننا۔ (اقرب)
تفسیر
آخرت کے لحاظ سے اس کے معنے یہ ہوں گے کہ بعث بعد الموت پر چونکہ یقین نہیں تھا اس لئے وہ ایسے کام نہ کرتے تھے جو ان کو اگلی زندگی میں فائدہ پہنچانے والے ہوتے۔ اُن کاموں کی اصل غرض دنیوی حالات ہؤا کرتے تھے صحیح محرّک اُن کے قلب میں نہیں تھا اس لئے وہ نیکی کو نہیں پا سکتے یَرْجُوْنَ کے معنے خوف کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور امید رکھنے کے بھی۔ اور آخرت کے لحاظ سے یہ دونوں معنی چسپاں ہو سکتے لَایَرْجُوْنَ حِسَابًا وہ خوف نہیں کرتے تھے کہ ہمارے اعمال کی سزا ہم کو ملے گی یا وہ امید نہیں رکھتے تھے کہ اگر ہم نیک اعمال کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کا بدلہ ملے گا۔ اسلئے رَجَاء کا لفظ یہاں استعمال کیا گیا ہے قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وُہ ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو ایک ہی وقت میں کئی معنوں میں مستعمل ہو جاتے ہیں۔ یہاں بھی رَجَاء کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو دو معنوں کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی امید اور خوف۔ درحقیقت انسانی اعمال میں دو وجوہ سے ہی مراد ہوتی ہے یا تو اس وجہ سے خرابی پیدا ہوتی کہ بد اعمال کی سزا کا اُسے کوئی ڈر نہیں ہوتا اور یا اس وجہ سے خرابی ہوتی ہے کہ نیک اعمال کی جزاء کا اُسے یقین نہیں ۔ اِنَّھُمْ کَانُوْا لَایَرْجُوْنَ حِسَابًا یہ دونوں باتیں بیان کر دی گئی ہیں یہ بھی کہ وہ اس بات سے ڈرتے نہیں تھے کہ اُن کے اعمال کا محاسبہ ہوگا اور یہ بھی کہ وہ امید نہیں رکھتے تھے کہ اگر وہ نیکی کریں گے تو اس کا کچھ بدلہ ملے گا۔ دنیوی زندگی کے متعلق ا س آیت کو سمجھا جائے تب یہ دونوں معنے چسپاں ہوتے ہیں یعنی قرآن مجید اور محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے انہوں نے اس لئے پیدا نہیں کیا اور اس لئے وہ مغضوب اور مقہود بن گئے کہ اُنہیں اس امر کا ڈر نہ تھا کہ ان کو اُن کی بدیوں کی سزا ملے گی۔ وہ کہتے تھے کہ ہم کیوں بدیاں چھوڑ یں ہمیں کسی ڈر نہیں ہے۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی وہ اس امر کی بھی امید نہیں رکھتے تھے کہ انہیں نیک اعمال ک اچھا بدلہ ملے گا۔ اور اس وجہ سے نماز ،روزہ اور دوسری اسلامی قیود کی طرف اُن کا دل مائل نہیں ہوتا تھا۔
اسلام کے مقابلہ کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان آیات کا یہ مطلب ہے کہ اُن کے دلوں میں سخت بُغض اور کینہ ہو گا وہ پوری کوشش کریں گے کہ اسلام مٹ جائے اور وہ کسی خطرہ کی پرواہ نہیں کریں گے مگر ساتھ ہی لَایَرْجُوْنَ حِسَابًا وہ کامیابی کی امید نہیں رکھیں گے۔ اُن کے دلوں میں مایوسی پیدا ہو جائے گی اور وہ خیال کریں گے کہ اب کفر کو فتح حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور جس شخص کے اندر مایوسی پیدا ہو جائے اس کی دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو پاگلوں کی طرح حملہ کرتا ہے یا پھر مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔
وَّکَذَّبُوْا
اور ہمارے نشانات کو سختی کے ساتھ جھٹلاتے تھے ۲۱؎اور ہم نے (تو) ہر ایک چیز کو (پوری ) ؎پوری طرح گن رکھا ہے ۲۲؎؎
۲۱؎حل لغات
کَذَّ بُوْا: کذَّبَ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور کذَّبَ اَلْاَمْرَ تَکْذِیبًا وَّکِذَّابًا کے معنے ہیں اَنْکَرَہٗ وَجَحَدَہٗ کس چیز کا شدت سے انکار کیا۔ جھٹلایا(اقرب) پس کذَّبُوا کے معنے ہوں گے۔ انہوں نے جھٹلایا۔ انکار کیا۔
کِذَّاب:۔ کَذَّبَ کا مصدر ہے جس کے معنے جھٹلانے کے ہوتے ہیں۔
تفسیر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ ہمارے نشانوں کو سخت جھٹلایا کرتے تھے یعنی نشانوں کے جھٹلانے کی وجہ سے ایمان لانے کی طرف اُن کو کوئی توجہ نہیں تھی۔
کذَّبُوا بِاٰیٰتِنَا کِذَّابًا اگر شروع زمانہ کے کافروں کے متعلق سمجھا جائے تو اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ چونکہ یہ لوگ ہماری ان پیشگوئیوں کو کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا اور قیامت آئے گی نہیں مانتے تھے اس لئے گمراہ ہو گئے۔قیامت پر یہ معنی اس طرح چسپاں ہو سکتے ہیں کہ چونکہ وہ قیامت کے منکر تھے اس لئے اُن کی یہ حالت ہوئی اور اگر کلام الٰہی یا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مراد لئے جائیںتو پھریہ مطلب بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اُن نشانات کو نہ مانتے تھے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مراد لئے جائیں تو پھر یہ مطلب بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اُن نشانات کو نہ مانتے تھے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے۔ اسی طرح آیات سے مراد کلام الٰہی بھی ہو سکتا ہے۔ پس کذَّبُوا بِاٰیٰتِنَا کِذَّابًا کا یہ مطلب ہو گا کہ چونکہ کلام الٰہی سے اُن کی فطر ت کا جوڑ نہیں اس لئے وہ اس کا قطعی طور پر انکار کرتے ہیں۔
۲۱؎حل لغات
اَحْصَیْنَا: اَحْصِیْ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے۔ اور اَحْصِیَ الشَّیْ ئَ اِحْصَائً کے معنے ہیں عَدَّہُ کسی چیز کو گنا ہ اور شمار کیا (اقرب)پس اَحْصَیْنَہُ کے معنے ہوں گے۔ ہم نے اس کو گن لیا۔
کِتَابًا: اَحْصٰی کا مفعول مطلق بھی ہو سکتا ہے اور حال بھی۔ مفعول مطلق ہونے کی صورت میں اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم نے ہر چیز کو پوری طرح گن رکھا ہے۔ اور حال ہونے کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے اَحْصَیْنٰہُ حَالَ کَوْنِھَا کِتَابًا اَیْ مَکْتُوْبًا۔ یعنی ہم نے ہر چیز کو اس حال میں گن چھوڑا ہے کہ وہ لکھی ہوئی ہے۔ کیونکہ کِتَاب بمعنے مَکْتُوْب بھی آتا ہے۔
کتاب کے معنے ہیں۔ مَایُکْتَبُ فِیْہِ۔ وہ اوراق جن میں لکھا جاتا ہے۔ اَلْقَدَرُ ۔قدر ۔ اَلْحُکْمُ۔ حکم۔ اَلْفَرْضُ۔ اَلدَّوَاۃُ۔ دوات (اقرب)
تفسیر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ہر چیز کا اچھی طرح اندازہ کر رکھا ہے یا ہر چیز کو ہم نے ایک اندازہ کی جگہ میں محفوظ کر رکھا ہے۔ مطلب یہ کہ وہ ایسی جگہ محفوظ ہیں جہاں سے کوئی چیز ضائع نہیں کر سکتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کوئی انسانی عمل ایسا نہیں جو ضائع ہو جا تا ہو بلکہ ضرور کسی نہ کسی شکل میں محفوظ ہوتا ہے۔ ریڈیو کی ایجاد نے اس صداقت کو بہت بڑا ثبوت مہیا کر دیا ہے ہزاروں ہزار میل پر ایک شخص اپنی زبان سے کوئی لفظ نکالتا ہے تو فوراً ہم تک پہنچ جاتا ہے اور ہم گھر بیٹھے ہزاروں ہزار میل دور کی آواز اس طرح سُن لیتے ہیں جیسے وہ ہمارے پاس بیـٹھا باتیں کر رہا ہے۔ مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ کوئی تعجب نہیں اگر یہ علوم ترقی کرتے کرتے اس حالت کو پہنچ جائیں کہ گزشتہ زمانہ کی آوازوں کو بھی ریکارڈ کیا جاسکے۔ اگر کوئی ایسا آلہ نکل آئے تو ہو سکتا ہے ہم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ حدیثیں جو آج ہم کتابوں میں پڑھتے ہیںخُود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آوازمیں سُن لیں۔ یہ بات موجودہ زمانہ کی ایجادات کو دیکھتے ہوئے ناممکن نظر نہیں آتی۔ زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے ممکن ہے آئندہ چل کر کوئی ایسا آلہ ایجاد ہو جائے اور گزشتہ زمانہ کو بھی اپنے کنٹرول میں لایا جاسکے۔ اس صورت میں ہمیں گزشتہ زمانہ کی آوازیںآسانی سے سُنائی دینے لگیں گی۔ ہم جس صدی کے جس سال کی بات سُننا چاہیں گے اُس صدی کے اُس سال پر اُس آلہ کو نصب کر دیں گے اور آوازوں کو سُننا شروع کر دیں گے کاش دنیا اس ترقی سے صداقت کی طر ف آجائے۔
فَذُوْقُوا
پس (اپنے اپنے اعمال کے مطابق) عذاب چکھو۔ اور ہم تم کو (عذاب کے بعد) ٭ عذاب ہی دیتے چلے جائیں گے۔۲۳؎
۲۳؎ حل لغات
اَلْعَذَابُ: اَلْعَذَاب کُّلُّ مَاشَقَّ عَلیَ الْاِنْسَانِ وَمَنَعَہٗ عَنْ مُرَادِہٖ عذاب کے معنے ہیں ہر وہ چیزجو انسان میں شاق گزرے اور حصول مراد سے اُسے روک دے۔ وَفِیْ الْکُلِّیَاتِ کُلُّ عَذَابٍ فِیْ الْقُراٰنِ فَہُوَا لتَّئِفَۃٌ فَاِنَّ الْمُرَادَالضَّرْبُ اور کلیات میں لکھا کہ لفظ عَذَاب سے مراد قرآن مجید میں ’’عذاب دینا‘‘ ہوتا ہے سوائے وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا کی آیت کے وہاں ظاہری سزا مراد ہے۔ (اقرب)
اَلْعَذَابُ ھُوَالْاِیْجَاجُ الشَّدِیْدُ۔ عذاب کے معنے ہیں سخت تکلیف دینا۔ فَالتَّعْدِیْبُ فِیْ الْاَصْلِ ھُوَ حَمْلُ الْاِنْسَانِ اَنْ یَّعْذِبَ اَیْ یَجُوْعَ وَیَسْھَرَ یعنی اگر مادہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اُس کے معنے ہیںکسی کو بھوکا اور بیدار رکھنا۔ کیونکہ عَذَبَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں۔ اُس نے کھانا پینا ترک کر دیا۔ وَقِیْلَ اَصْلَہٗ مِنَ الْعَذَابِ: فَعَذَّبْنَہٗ اَیْ اَزَلْتُ عَذْبَ حَیٰوتِہٖ بعض نے کہا ہے کہ عذَاب عَذْبٌ سے نکلا ہے۔ جس کے معنے میٹھے پانی کی ہیں اور تَعْذِیْب کے معنے ہیں کہ اُسے زندگی کی حلاوت سے محروم کر دیا (مفردات) پس عَذَّبَ کے معنے ہیں کہ اُسے زندگی کی حلاوت سے محروم کر دیا (مفردات) پس عَذَاب کے معنے ہوئے (۱) تکلیف (۲) ایسی چیز جو زندگی کی حلاوت سے محروم کر دے۔
(۳)جو مقصود حیات سے محروم کر دے۔
تفسیر
مقہور قوموں کا دنیا میں یہی نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عذاب اُس سے ٹلے گا نہیںبلکہ مطلب یہ ہے کہ مقہور قومیں جب اپنی آزادی کے لئے کوشش کرتی ہیںتو وہ اور زیادہ عذاب میں مبتلہ ہو جاتی ہیںاور جب تک اُن کے غلبہ کا زمانہ نہیں آتاان کی ہر کوشش اپنے مقصد سے اور زیادہ دور کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس جنگ میں انگریز بار بار بلجیم اور فرانس والوں سے کہہ رہے ہیں کہ تم جلدی اُٹھنے کی کوشش نہ کرو۔ اگر تم جلدی اُٹھنے کی کوشش کرو گے اَور زیادہ مصیبت میں مبتلا ہو جائو گے چنانچہ جب بھی وہ اپنی آزادی کے لئے کوشش کرتے ہیں جرمن انہیں اور زیادہ تکلیفیں دینی شروع کر دیتے ہیں۔ پس فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا کا یہ مطلب ہے کہ جب تک اسلام کے غلبہ کا زمانہ ہے تمہاری کوششیں بیکار ہیں جب تک خاموشی سے بیٹھے رہو گے لیکن جب تہور سے کام لے کر مسلمانوں کے مقابلہ میں اُٹھو گے اُس وقت تم اپنا ہی نقصان کرو گیااسلام اور مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے۔ قیامت کے لحاظ سے بھی یہ معنی ٹھیک ہیں۔ انسان پر جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اس کی تکلیف بڑھتی جاتی ہے پہلے دن بخار کی حالت اَور ہوتی ہے دوسرے دن اَور۔ اور جب بخار لمبا ہو جائے تو مریض کی حالت بالکل اَور ہو جاتی ہے۔ پس عذاب کا زمانہ جتنا لمبا ہوتا چلا جائے گا اُن کی تعذیب بھی بڑھتی چلی جائے گی۔
پس اس آیت سے یہ مراد نہیں کہ اُن کی نجات نہیں ہو گی بلکہ مراد یہ ہے کہ عذاب کے وقت وہ عذاب میں ہی ترقی کریں گے جوں جوں مرض بڑھتی ہے تکلیف بھی بڑھتی جاتی ہے اور ضعف بھی زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے لیکن اس خلاف کبھی عذاب برداشت کرنے کی عادت بھی بڑھ جاتی ہے مگر اُس کا علاج اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ بتا دیا ہے کہ جب اُنہیں عذاب کی عادت ہو جائے گی تو اُن کو نئی جلود دے دی جائیں گی۔
فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا کے دنیوی لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ مسلمان روز بروز ترقی کرتے چلے جائیں گیااور جوں جوں وہ ترقی کریں گے کفّار و مشرکین اُن کے مقابلہ میں روز بروز دبتے چلے جائیں گے۔
اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ
یقینا متقیوں کے لئے کامیابی مقدّر ہے ۲۴؎
۲۴؎حل لغات
مَفَازٌفَازَ کا مصدر بھی ہو سکتا ہے اور ضرف مکان کا صیغہ بھی۔ فَازَمِنْ (یَفُوْزُفَوْزًا) کے دو معنے ہوتے ہیں۔ ایک فَازَ مِنْ مَکْرُوْہٍ اور ایک فَازَ مِنْ مَّکْرُوْہٍ کے معنے ہوتے ہیں فَجَا یعنی وہ بُری بات سے بچ گیا اور فَازَا بِخَیْرٍ کے معنے ہوتے ہیں ظَفَرَ بِہٖ اچھی بات اس کو حاصل ہو گئی۔ (اقرب) مفردات میں ہے اَلْفَوْزُ: اَلظَّفَرُ بِالْخَیْرِ مَعَ حُصُوْلِ السَّلامَۃِ۔ یعنی کسی کا بہترین مقصود کو اس طرح پر پا لینا کہ وہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہے فَوْز کہلاتا ہے۔ (مفردات) پس اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ مَقَالًاکے معنے ہوئے (۱)کہ متقیوںکو کامیابی حاصل ہو گی یعنی وہ تمام قسم کی بھلائیوں کو پالیں گے اور تمام مصائب سے اُن کونجات مل جائے گی (۲)یہ کہ متقیوں کو یقینا خدا ایک قسم کا مقام عطا فرمانے والا ہے جہاں وہ مصائب سے نجات پا جائیں گے اور تمام قسم کی برکات اور کامیابیوں کو حاصل کرلیں گے۔ ایک مقام تو اُخروی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ اس مقام میں نہ کسی قسم کا شر ہے اور نہ وہاں خیر کی کوئی کمی ہے بلکہ لَھُمْ مَا یَشَائُ وْنَ (الشوریٰ ع ۳ ۴ )یعنی جو کچھ وہ چاہیں گے اس میں اُن کو حاصل ہو جائیں گے۔ پس ایک تو وہ مقام ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی بعث بعد الموت والی زندگی۔ ددسرے اس دنیا میں بھی دنیا سے یہ وعدہ ہوتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ (الرحمن ع ۳ ۳ ۱ )کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے مقام سے ڈرتا ہے اُس کے لئے اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ جنت کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی وہ اس کے لئے جنت کے سامان پیدا کرے گا۔
تفسیر
مَیں بتا چکا ہوں کہ اس سورۃ میں غلبۂ اسلام کا بھی ذکر ہے اور قرآن کریم کے غلبہ کا بھی اس میں ذکر ہے پس اس میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ مومنا ت کے لئے مکروہات سے نجات حاصل کرنے کے سامان پیدا ہو جائیں گے اور ان کوایسی جگہیں عنایت ہو ں گی جو مقام نجات یا مقام کامیابی کہلانے کی مستحق ہوں گی۔ یہ پیشگوئی ایسے وقت میں کی گئی تھی جب مسلمانوں کے لئے کسی قسم کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے یہ سورۃ مکّی ہے اور مکّی بھی ابتدائی زمانہ کی ہے۔ اُس وقت اسلام میں صرف دس بارہ آدمی شامل تھے اور ان کو کفار کی طرف سے ایسی ایسی تکالیف دی جاتی تھیں جن کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ غلام جو ابتدائی زمانہ میں مسلمان ہو گئے تھے کفّار مکّہ اُن کو تپتی ریت پر عرب جیسے گرم علاقہ میں لٹا دیتے اور جب اس کے نتیجہ میں بھی وہ اسلام سے بیزاری کا اظہار نہ کرتے تو تپتے ہوئے پتھر اُن کے سینہ پر رکھ دیتے بلکہ بعض دفعہ کوئی آدمی اُن کے سینہ پر چڑھ جاتا۔ وہاں عام طور پر بارشوں کے اثر سے اپنے مکانات کوبچانے کے لئے دروازوں کے آگے بڑے بڑے پتھر رکھ دیتے تھے۔ جن کو کھنگر کہتے ہیں تاکہ بارش کی وجہ سے دیواریں خراب نہ ہوں۔ کفّار مکہ کی عادت تھی کہ وہ مسلمانوں کو جب دکھ دیتے اور اُن کی ٹانگوں میں رسی باندھ کر مکّہ کی گلیوں میں گھسیٹتے تو ان کھنگروں پر سے بھی اُن کو گھسیٹتے ہوئے چلے جاتے اور اُن کے جسم لہو لہان ہو جاتے۔ ایک صحابی خباب بن ارتّ نے جو پہلے غلام تھے اور غلامی کی حالت میں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اُنہیں بڑی بڑی تکالیف دی گئی تھیں ایک دفعہ فتوحات کے زمانہ میں حضرت عمر ؓ نے اُن سے مشرکوں کی ایذادہی کے متعلق دریافت کیا تب انہوں نے اپنی پیٹھ سے کپڑا اُٹھایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ کی کھال ایسی تھی جو عام انسانوں کی نہیں ہوتی۔ وہ دیکھ کر حیران ہوئے اور کہنے لگے کیا آپ کو یہ کوئی بیماری ہے؟ وہ کہنے لگے بیماری نہیں بلکہ پتھروں پر ہمیں گھسیٹا جاتا تھا اس کی وجہ سے زخم اور خراش ہو ہو کر میری پیٹھ کا چمڑا ایسا ہو گیا۔ (اسدالغابہ)
یہ حالات تھے جو مسلمانوں پر وارد ہورہے تھے اُدھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ حالت تھی کہ آپ باہر نکل کر نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔ حضرت اُم ہانی ؓ کے مکان میں آپ چند ساتھیوں کو لے کر جمع ہو جاتے۔ نماز پڑھتے اور دین کی باتیں کرتے۔ کھلے میدان میں آپکی نمازیں پڑھنا دین کی باتیں کرنا بالکل نا ممکن تھا۔ اسی طرح قرآن کریم کو باہر نکل کر پڑھنا یا اپنے صحن میں ہی بلند آواز سے پڑھنا۔ یہ بھی جُرم سمجھا جاتا تھا جب مصائب حد سے بڑھ گئے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ ؓ آپ سے اجازت لے کر مکّہ مکرمہ سے باہر جانے شروع ہو گئے۔ ایک دفعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کا ارادہ کیا۔ وہ اپنا سامان لے کر جارہے تھے کہ مکّہ کا ایک رئیس ابن الدغنہ انہیں ملا۔ اُس نے آپ سے پوچھا کہ آپ اسباب باندھ کر کہاں جارہے ہیں؟ اُنہوں نے کہا کہ چونکہ اس جگہ دین کی آزادی نہیں ہے اور میری قوم دشمنی کرتی ہے اس لئے میں مکّہ چھوڑ کر جارہا ہوں۔ اُس نے کہا وہ شہر کس طرح آباد رہ سکتا ہے جس میں سے آپ جیسے آدمی نکل جائے۔ میں آپ کا ضامن ہوں آپ باہر نہ جائیں۔ چنانچہ اُس نے اعلان کر دیا کہ (حضرت) ابو بکر ؓمیری حفاظت میں ہیں۔ اہل عرب میں بہت بڑی خوبی خود سری پائی جاتی تھی لیکن اس کے باوجود ان میں یہ خوبی تھی کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے کو اپنی حفاظت اور پناہ میں لے لیتا تو پھر اُسے کوئی شخص تکلیف نہیں پہنچا سکتا تھا اور اگر کوئی پہنچانا چاہتا تودُوسرے اُسے روک دیتے کہ تم ایسا مت کرو یہ فلاں شخص کی حفاظت میں ہے۔ اُس نے بھی جب اعلان کر دیا کہ ابو بکرؓ میری حفاظت میں ہے تو حضرت ابو بکر ؓ اطمینان کے ساتھ مکّہ میں رہنے لگ گئے۔ ایک روز وہ اپنے صحن میں باہر نکل کر قرآن شریف پڑھ رہے تھے کہ اِ پر رقّت غالب آگئی اور اُن کے آنسو بہنے شروع ہو گئے۔ حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق آتا ہے کَانَ رَجُلًا بَکاَّئً یعنی اُن کو قرآن شریف پڑھتے وقت بہت رقّت آجایا کرتی تھی اور وہ رو پڑتے تھے۔ اُن کے قرآن شریف پڑھنے کی آواز سُن کر بچے اور عورتیں اردگرد سے نکل کر وہاں جمع ہو جایا کرتی تھیں۔بچوں اور عورتوں میں خصوصیت سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب اُنہیں کوئی نئی چیز نظر آئے تو دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے ہیں۔ اُن کے لئے قرآن شریف بالکل نیا کلام تھا اور جب کوئی بڑا آدمی رو رہا ہو تو لازمًا دوسروں کی توجہ پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنے دروازوں سے لگ کر قرآن شریف سُننا شروع کر دیا۔ نتیجہ ہؤا کہ جب قرآن کریم کی آواز اُن کے کانوں میں پڑی اُدھر حضرت ابو بکر ؓ کی رقّت اور اُن کے گریہ کو دیکھا تو محلہ کی عورتیں بھی متاثر ہونے لگیں اور اس طرح اس محلہ میں جس میں حضرت ابو بکر ؓ رہتے تھے اسلام کا چرچہ شروع ہو گیا اور عورتوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ تو بڑی اچھی باتیں ہیں۔ جب اُن کے خاوندوں کو علم ہؤا کہ ہماری عورتیں اس طرح متاثر ہو رہی ہیں تو وہ اس رئیس کے پاس گئے جس نے اپنی حفاظت میں لیا تھا اور کہا کہ آپ نے ابو بکر ؓ کو اپنی حفاظت میں لے کر یہ کیا مصیبت پید اکر دی ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے قرآن سے متاثر ہوتے جا رہے ہیں اگر یہی حالت جاری رہی تو تمام محلہ مسلمان ہو جائے گا۔ پس یا تو اُسے سمجھائیں کہ وہ قرآ ن شریف بلند آواز سے نہ پڑھا کرے اور یا اپنی حفاظت واپس لے لیں۔ وہ رئیس حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ اس اس طرح کرتے ہیں جس پر محلہ والے سخت شکوہ کر رہے ہیں اور کہتے کہ اگر یہی طریق جاری رہاتو ہماری عورتیں اوربچے مسلمان ہو جائیں گے اس لئے آپ یہ کام چھوڑ دیں اور اندر بیٹھ کر قرآن شریف پڑھا کریں ورنہ مجھے اپنی حفاظت کو واپس لینا پڑے گا۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایاکہ آپ اپنی حفاظت بے شک واپس لے لیں میں اللہ اور ا س کے رسول کی حفاظت میں رہنا پسند کرتا ہوں۔ (تاریخ خمیس جلد اول و بخاری مصری جلد دوم مناقب الانصار باب الہجرت) چنانچہ ابن الدغنہ وہاں سے آیا اور اُس نے اپنی حفاظت واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ بعد میں حضرت ابو بکر ؓ کی رائے بھی ہجرت کے متعلق بدل گئی اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ جب آپ کو ہجرت کی اجازت ہو اُسوقت بھی آپ اپنے ساتھ لے چلیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس امر کو منظور فرما لیا۔ ان حالات میں مسلمان مکّہ کے اندر اپنی زندگی کے دن بسر کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مکہ والوں کے مظالم کی مثالیں جمع کی جائیں تو وہ سینکڑوں کی تعداد میں نکل آئیں گی جن سے نہ صرف اُن مظالم کا پتہ لگ سکتا ہے جو اہل مکہ مسلمانوں پر کیا کرتے تھے بلکہ لوگوں کو یہ سبق بھی مل سکتا ہے جو اہل مکہ مسلمانوں پر کیا کرتے تھے بلکہ لوگوں کو یہ سبق بھی مل سکتا ہے کہ انہیں دین کی خاطر کس طرح قربانیوں سے کام لینا چاہیئے۔ اس حالت میں جب مسلمان انتہائی تکلیف میں اپنی زندگی بسر کر رہے تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا یقینا یقینا جو مسلمان اور مُتقی ہیں اُن کی مکروہات ہیں ایک دن دور ہو جائیں گی اور تکلیف دہ باتیں جو آج پیدا ہو رہی ہیںخدا اُن سب کو مٹا دے گا اور وہ جنگیں اُن کو حاصل ہوں گی جہاں مکروہات اُن کے قریب نہیں پھٹکیں گی۔ جہاں کامیابی اُن کے پائوں چومے گی اور جہاں آرام اور آسائش کے کے دروازے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے لئے کھول دیئے جائیں گے چنانچہ پہلے خدا نے حبشہ کو مَفَازبنایا۔ مسلمان وہاں ہجرت کرگئے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے ہر قسم کے سامانِ راحت بہم پہنچا دیئے۔ یہ سورت چونکہ ابتدائی مکّی سورتوں میں سے ہے اس لئے حبشہ کی ہجرت سے بھی پہلے کی ہے۔ حبشہ کی ہجرت ۵ ن کے نصف میں ہوئی (کامل ابن اثیر) اور یہ سورۃ پہلے دو تین سال کی ہے پس اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا کے مطابق پہلا مقامِ فوز جو مسلمانوں کے لئے ظاہر ہؤا وہ حبشہ ہے۔چنانچہ حبشہ میں خدا تعالیٰ کی نصرت اور اس کی تائید کا کیسا زبردست نشان ظاہر ہؤا۔ دشمن نے چاہا کہ حبشہ پہنچ کر بھی مسلمانوں کو مبتلائے آلام کرے اور اُنہیں اس ملک میں بھی آرام اور چین سے نہ رہنے دے۔ مگر وہ خدا جس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ متّقیوں کو ہر قسم کے مکروہات سے بچا کر ایسے مقام پر لے جائے گا جو اُن کے آرام وسکون کا موجب ہو گا اُس نے کفّارِ مکّہ کو اپنی کوشش میں ناکام کیا اور مسلمان اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق حبشہ میں نہایت آرام اور عزّت کے ساتھ رہے۔ چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے جب مسلمان حبشہ کی طرت ہجرت کر کے گئے تو عمرو بن العاص کا ایک اور رئیس عبداللہ ابن ابی ربیعہ دونوں حبشہ گئے۔ ان کو مکّہ والوں نے اس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ تم جائو اور حبشہ کے بادشاہ سے یہ عرض کرو کہ یہ لوگ ہمارے بھاگے ہوئے غلام ہیں اگر آپ ان کو پنا ہ دیں گے تو ہمارے تعلقات آپ سے اچھے نہیں رہیں گے۔ یہ لوگ حبشہ گئے اور اپنے ساتھ وہ بڑے بڑے تحفے لے گئے جو اُن کی قوم کے لوگوں نے بادشاہ اور اُس کے وزراء اور پادریوں وغیرہ کے لئے دئیے تھے اور کہا تھا کہ یہ تحفے بادشاہ کو دینا۔ یہ وزراء کے سامنے پیش کرنا اور یہ پادریوں وغیرہ کو دینا۔ چنانچہ یہ لوگ بڑی شان کے ساتھ حبشہ پہنچے اور ہر ایک کے سامنے انہوں نے تحائف پیش کئے پہلے تو بادشاہ نے بڑا اعزاز کیا مگر جب انہوں نے تجویز پیش کی کہ یہ لوگ ہمارے ملک سے بھاگے ہوئے ہیں ان کو ہمارے ساتھ واپس بھیج دیا جائے اس کے سفارش بادشاہ کے وزراء نے بھی کی۔ مگر بادشاہ نے کہا۔ کہ جب تک مُسلمانوں کو بلا کر اُن کے حالات دریافت نہ کرلے وہ کسی کو اپنے ملک سے نہیں نکال سکتا۔ چنانچہ بادشاہ نے مسلمانوں کو بلوایا اور پوچھا کہ آپ لوگوں کے کیا عقائد ہیں؟ تب مسلمانوں کے نمائندہ جعفر بن ابی طالب نے قرآن کریم کی چند آیات پڑھیں جن میں اسلامی عقائد کا ذکر آتا تھا اور یہ بھی کہ مسلمان حضرت مسیحؑ کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں بادشاہ نے وہ آیات سے سُن کر کہا میں تو ان عقائد میں کوئی بری بات نہیں دیکھتا۔ دوسرے دن پھر دونوں سردار قریش دربار میں آئے اور کہا۔ اے بادشاہ! یہ مسلمان مسیح کی ہتک کرتے ہیں تب اُس نے مسلمانوں کو طلب کیا اور اُن کا جواب سُننے پر دربار میں اُس نے ایک تنکا اُٹھایا اور اُسے اُٹھا کر کہنے لگا جو کچھ ان لوگوں نے حضرت مسیح ؑکے متعلق بیان کیا ہے مَیں اُس سے ایک تنکے کے برابر بھی مسیح کو زیادہ نہیں سمجھتا اُن کا وہی رتبہ سمجھتا ہوں جو انہوں نے بیان کیا ہے۔ اِس پر اُس کے درباری بہت چیں بچیں ہوئے۔ لیکن بادشاہ نے کہا کہ جب میرا باپ مرا تھا مَیں بچہ رہ گیا تھا۔ تم لوگوں نے میرے چچا کے ساتھ مل کر چاہا کہ اس حکومت پر قبضہ کر لو۔ تب خدا نے اپنے فضل سے مجھے طاقت بخشی اور اُس نے تم کو شکست دے کر مجھے اس تخت پر بٹھا دیا۔ جس خدا نے مجھ کو اس بیکسی کی حالت میں بادشاہت کے تخت پر بٹھا دیا اور میرے دشمنوں کو ناکام ونامراد کیا اُس خدا کی نصرت پر مجھے آج بھی یقین ہے اور آج جب مُجھے اُس نے طاقت بخشی ہے مَیں بے شرمی نہیں کر سکتا کہ اُس کے مظلوم بندوںکی مدد نہ کروں۔ اگر تم سارے اُس کو برا بھی منائو تب بھی مَیں اُن کو یہاں سے نہیں نکالوں گا۔ چنانچہ سردارانِ قریش نے جو تحفے لائے تھے ان کو وہ واپس کر دیئے گئے اور وہ ناکام ونامراد لوٹے (تاریخ خمیس جلد اوّل)غرض اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا (یعنی متقیوں کو کامیابی اور نجات کا مقام ملنے والا ہے)کا نہایت ہی شاندار نظارہ صحابہ ؓ نے وہاں دیکھا اور انہوں نے اس خدائی وعدہ کو پورا ہوتے ہوئے وہاں دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسی جگہ دے گاجہاں مکروہات سے یہ لوگ نجات پا جائیں گے اور آرام اور راحت کو دیکھیں گے۔ پھر دوسرا نظار ہ اس کا مدینہ میںنظر آیا جبکہ مسلمان وہاں گئے اور اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے لوگوں کی توجہ پھیر دی۔ ابتداء میں صرف چند لوگ مکہ میں حج کے لئے آئے تھے کہ انہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خبر پہنچی اور وہ آ پ پر ایمان لے آئے ۔دوسرے سال بعض اور لوگ مدینہ کے حاجیوں میں سے لے آئے۔ اور انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں تیسرے سال ایک وفد ۷۶آدمیوں پر مشتمل بھیجا جس نے یہ اقرار کیا کہ مدینہ میں آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر اگر کوئی دشمن حملہ کرے گاتو ہم اُس سے لڑیں گے اور آپ کی حفاظت کریں گے۔ چنانچہ اس معاہد ہ کے مطابق رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ ؐکے صحابہ مدینہ میں تشریف لے گئے (ابن ہشام) حبشہ میں جو لوگ ہجرت کر کے گئے تھے وہ بھی اس دوران واپس آ کر مدینہ پہنچ گئے۔ اس لے وہ صحابہ ہجرتَین کہلاتے ہیں یعنی دو ہجرتیں کرنے والے۔ کیونکہ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور مدینہ کی طرف بھی۔ پھر مدینہ کے لوگوں نے جس جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مہاجرین کی حظاظت کی یہ تاریخ کا ایک شاندار ورق ہے اَور قرآن کریم کی اس پیشگوئی کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے کہ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا یقینا ہم متقیوں کو وہ جگہ دیں گے جہاں وہ مکروہات سے بچ جائیں گے اور کامیابیوں کا منہ دیکھیں گے۔ چنانچہ پہلا مَفَازَ اللہ تعالیٰ نے حبشہ کو بنایا اور مَفَاز اللہ تعالیٰ نے مدینہ کو بنایا۔ ابتدائی سالوں کی تمام اسلامی تاریخ اسی آیت کی تشریح ہے۔ حبشہ کا سفر اور مدینہ کے ابتدائی ایام کی تاریخ سب کی سب اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا والی پیشگوئی کے پورا ہونے کا ایک نہایت ہی روشن اور زبردست ثبوت ہے۔
دوسرے معنے اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا کے یہ ہیں۔ کہ متقیوں کوہم کامیاب و بامراد کریں گے۔ یہ معنے بھی مدینہ منوّرہ میں پورے ہوئے۔ اور پھر صرف مدینہ منوّرہ ہی نہیں بلکہ مدینہ منوّرہ کے بعد سارا عرب اور پھر ساری وسطی دنیا اس پیشگوئی کی صداقت کا ایک نشان تھی کہ کس کس طرح یہ لوگ با مراد ہوئے اور کس کس طرح انہوں نے کامیابیاں حاصل کیں۔ ہر قوم جو اُن کے مقابلہ میں اُٹھی اُسے شکست ہوئی۔ ہر وہ طاقت جو مسلمان سے ٹکرائی وہ ذلیل ہوئی۔ قیصر وکسریٰ کے خزانے فتح ہوئے اور وہ ان مسلمانوں کو ملے۔ مدینہ منورہ ایک چھوٹی سی بستی تھی جہاں گھر میں باامن طور پر رہنے کا کوئی سامان نہ تھا۔ چنانچہ اسی لئے مسلمان یہود سے مختلف معاہدات کرتے رہے تاکہ وہ غداری نہ کریں اور مسلمانوں کے ضعف کا موجب نہ بنیں۔ مگر وہ چھوٹی سی بستی ایک دن ساری دنیا کا مرکز بن گئی۔ اگر مدینہ منورہ سے کوئی حکم نکلتا تھا تو ساری دُنیا کانپ اُٹھتی تھی۔ اور وہ سمجھتی تھی کہ اس حکم کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پھر مدینہ منورہ وہی بستی تھی جہاں ایک دن قیصر و کسریٰ کے خزائن آئے اور مسلمانوں میں تقسیم ہوئے یہاں تک کہ اسی مدینہ میں کسریٰ کے سونے کے کنگن ایک صحابی سراقہ بن مالکؓ کے ہاتھوں میں پہنائے گئے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ ہجرت کے سفر میں اُن سے کہا تھا میں تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دیکھتا ہوں۔ جب کسریٰ کی حکونت تباہ ہوئی اور اُس کے سونے کے کنگن مدینہ میں آئے تو حضرت عمرؓ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے جبری طورپر اس صحابی کے ہاتھ میں سونے کے کنگن ڈالے(اصابہ جلد ۳) اب کجا مدینہ منورہ جو ایک چھوٹی سی بستی تھی اور کجا کسریٰ کے سونے کے کنگن جو ایک غریب صحابی کے ہاتھوں میں پہنائے گئے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ مَفَازَ کا لفظ ہلاکت سے نجات کی جگہ کے معنوں کی رُو سے تو حبشہ اور مدینہ پر صادق آتا ہے لیکن دوسرے معنوں یعنی کامیابی کے معنوں کی رُو سے مدینہ ہی مَفَازثابت ہؤا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا کہ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا تو اس کے معنے یہ تھے کہ میں تم کو مدینہ دینے والا ہوں جو مقام فوز ہے اور اس آیت میں گو ہجرت اُولیٰ کی بھی پیشگوئی تھی مگر زیادہ وضاحت اور شان سے ہجرت ثانیہ کی پیشگوئی تھی۔
ایک یورپین مصنف مدینہ کی اس حالت کو دیکھ کر ایسا متاثر ہؤا کہ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ تم کچھ کہہ لو تم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اس کے ساتھیوں کو۔ لیکن میں تو جب یہ بات دیکھتا ہوں کہ مدینہ میں ایک چھوٹی سی مسجد میں جس پر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی ہوئی ہے تو جب بارش ہوتی ہے تو اس میں سے پانی ٹپک پڑتا ہے نماز پڑھتے ہیں تو اُن لوگوں کے گھٹنے اور ماتھے کیچڑ سے لت پت ہو جاتے ہیں۔ اُس مسجد میں ننگی زمین پر بیٹھے ہوئے ایسے آدمی جن کے نہ سروں پر ٹوپیاں ہیں نہ اُن کے تن پر لباس ہے دنیا کو فتح کرنے کے مشورہ کر رہے ہیں ا ور وہ اس یقین اور وثوق کے ساتھ یہ باتیں کرتے ہیں کہ گویا دنیا کو فتح کرنا ان کے لئے معمولی بات ہے کیونکہ اُن کے نزدیک یہ خدا کا وعدہ ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتا۔ اور پھر وہ ایسا ہی کر کے دکھا دیتے ہیں۔ تو اس بات کو دیکھ کر میرا دل یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ مَیں ان کو جھوٹا اور فریبی کہوں تو اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا میں جو پیشگوئی کی گئی تھی کہ مسلمانوں کو یہ مقام ملے گا جو ان کی کامیابیوں اور فتوحات کا مرکز ہوگا۔ پہلے وہ انہیں مکروہات سے نجات دلائے گا اور پھر اُن کی کامیابیوں اور فتوحات سے حصہ دے گا۔ اس پیشگوئی کا نظارہ مدینہ منورہ سے بڑھ کراور کہیں نظر نہیں آسکتا۔ مدینہ منورہ سے بڑھ کر اور کوئی مقام ایسا نظر نہیں آتا جو ایسا مرکز ہو جیسے مدینہ اسلام کا مرکز بنا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ لنڈنؔ اور برلنؔ اور پٹسؔبرگ وغیرہ بھی بڑے بڑے مرکز ہیں ان کے مقابلہ میں مدینہ کی مرکزی حیثیت کس طرح پیش کی جا سکتی ہے مگر وہ کہنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ یہ مقامات وہ ہیں جنہیں پہلے سے طاقت حاصل تھی۔ مگر مدینہ وہ مقام تھا جسے کوئی طاقت حاصل نہیں تھی مگرپھر بھی وہ ساری کامیابیوں کا مرکز بن گیا اور اس زمانہ کی پیشگوئی کے مطابق بنا جب مسلمانوں کے لئے سر چھپانے کی جگہ بھی نہ تھی۔
حَدَآئِقَ
(یعنی) باغات اور انگور ۲۵؎
۲۵؎ حل لغات
حَدَآئِق: حَدِیْقَہٌ کی جمع ہے اور اَلْحَدِیْقَۃُ کے معنے ہیں اَلْبُسْتَانُ یَکُوْنُ عَلَیْہِ حَائِطٌّ وہ باغ جس کے ارد گرد دیوار ہو (اقرب)
اَعْنَاب: عِنْبٌ کی جمع ہے اور عِنْبٌ کے معنے انگور کے ہوتے ہیں یعنی انگور کے پھل کو عربی زبان میں عِنْبٌ کہتے ہیںاور کَرَمٌ انگور کی بیل کو کہا جاتا ہے لیکن عِنْبٌ انگور کو اس وقت کہا جاتا ہے جبکہ وہ تازہ ہو اگر وہ خشک ہو جائے تو اُسے زَبِیْب کہتے ہیں (اقرب) نیز عِنْبٌ سے ہی شراب بنتی ہے۔ دراصل کسی چیز کا جب کسی دوسری چیز میں کوئی غالب اثر پایا جائے تو اُس کانام بعض دفعہ اُسی کے نام پر رکھ دیتے ہیں ۔ عِنْب سے چونکہ خَمْر بنتی ہے اس لئے عربی زبان میں عِنَب کے ایک معنے خَمَر کے بھی کئے جاتے ہیں۔
تفسیر
حَدَائِق بدل ہے مَفَازًا کا۔ لیکن میرے نزدیک یہ بدلِ کُل نہیں بلکہ بدل اشتمال ہے یعنی کچھ جُزئیات اس کی بتائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ متقیوں کو جو مَفَازَا حاصل ہو گا اس کی کچھ تشریحات ہم تم کو بتاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ متقیوں کو حَدَائِق یعنی باغات ملیں گے۔ حَدَائِق حَدَیْقَۃٌ کی جمع ہے اوریہ حدیقے مکہ میں نہیں ہوتے مدینہ میں ہی ہوتے ہیں گویا ان الفاظ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نقشہ کھینچ دیا کیونکہ حَدَائِق مدینہ میں ہی ہؤا کرتے ہیں۔ بعد میں بے شک ساری دنیا ہی مسلمانوں کے لئے حَدِیْقہ بن گئی۔ لیکن جہاں تک ظاہری الفاظ کا سوال ہے یہ نقشہ مدینہ پر ہی چسپاں ہوتا ہے۔ لُغت کے لحاظ سے حَدِیْقہ اُس باغ کو کہا جاتا ہے جس کے اردگرد دیوار ہو (اقرب) اور مدینہ میں اس کا عام رواج تھا۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی کہ لَنْ تَنَالُو الْبِرَّ حتّٰی تُنفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آل عمران ع ۰ ۱ ۱ ) تو ابو طلحہ ؓانصاری نے سب سے پہلے اپنا حََدِیْقہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے اَحَبُّّ المال یہ حدیقہ ہے (بخاری مصری جلد سوم کتاب التفسیرو ترمذی جلد دوم کتاب التفسیر) اسی طرح حضرت ابوھریرہ ؓ کی آیت میں آتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دفعہ بعض اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک حضور اُٹھ کر چلے گئے جب آنے میں دیر ہوگئی تو میرے دیر ہو گئی تو میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اتنی دیر کیوں لگا دی ہے ایسا نہ ہو کہ کہ کسی دشمن نے آپ کو نقصان پہنچایا دیا ہو۔چنانچہ میں آپ کی تلاش میں انصار کے ایک حَدِیْقہکی طرف چلا گیا۔ معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُس حَدِیْقہم کا پھاٹک بند کر لیا تھا۔ کیونکہ حضرت ابو ھریرہ کہتے ہیں جب مجھے اس باغ کے اندر جانے کااور کوئی راستہ نہ ملاتو میں اُس کی نالی میں سے اندر داخل ہؤا جیسے لُومڑ کسی تنگ جگہ میں سے اندر داخل ہوتا ہے (مسلم کتاب الایمان) غرض حَدَائِق کا رواج مدینہ میں والوں میں زیادہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس پیشگوئی کے مطابق جو مقامِ فوز مسلمانوں کو ملنے والا ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اس میں حَدَائِق ہوں گے اور اس میں اَعْنَاب بھی ہوں گے۔
حَدَائِق کہہ کر بتا یا کہ اُن کا اپنا علاقہ ہو گا اور اُس پر اُنہیں قبضہ تامّہ حاصل ہو گا۔ کیونکہ حَدِیْقہ وہی ہوتا ہے جو دوسروں سے الگ ہو۔ اگر حَدِیْقہ کے اردگرد دیوار نہ ہو تو شبہ رہتا ہے کی اِس سرحدکونسی ہے اور اُس کی سرحد کونسی ہے۔ پس جب مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے حَدَائِق کے لفظ کا استعمال فرمایا تو اگر اس سے وہ ساری حکومت مراد لی جائے جو مسلمانو ں کو ملنے والی تھی ا ور یہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی آئندہ حکومت کا نام اسی جگہ حَدِیْقہ رکھا ہے تب اس کے معنے یہ ہوں گے کہ مسلمانوں کی حکومت نہایت منظم ہوگی اور اس کی سرحدیں بہت مظبوط ہوں گی جیسے باغ کے اردگرد دیواریں ہوتی ہیں۔ اور وہ ان دیواروں کی وجہ سے محفوظ ہوتا ہے اسی طرح مسلمانوں کی حکومت منظم ہوگی اور اس کی سرحدیں مظبوط ہوں گی۔ اسی کے متعلق قرآن کریم نے دوسری جگہ ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے یَآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمِنُوْااصْبِرُوْاوَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا (آل عمران ع ۰ ۲ ۱ ۱ )کہ اے ایماندار صبر سے کام لو۔ اور دشمن سے بڑھ کر دکھائو اور سرحدوں کی نگرانی رکھو یعنی مسلمان حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنی سرحدوں کو مضبوط رکھے اور وہاں حفاظت اور نگرانی کے لئے اپنی فوجوں کو مقرر کرے تا کہ اسلامی علاقہ محفوظ رہے اور غیر اسلامی حکومت کو یہ جرأت نہ ہو کہ وہ اسلامی حکومت پر حملہ کرے۔
حَدَائِق کے لحاظ سے ہی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حَمِیً اَلَا حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہُ کہ ہر بادشاہ کی ایک رَکھ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رَکھ اُس کے محارم ہیں۔ آپ نے فرمایا جو شخص بادشاہ کی رکھ کے قریب اپنے جانور کو چراتا ہے وہ بھی غلطی کرتا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت اُس کا جانور با دشاہ کی رَکھ میں چلا جائے اور وہ نقصان اُٹھائے (بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبر الدینہٖ) پس ایک معنے اس کے یہ ہوں گے کہ مومن اپنے اعمال کی حد بندی کر تا ہے اورحلال اور حرام میں امتیاز کرتا ہے اور چونکہ متقی کا کام یہ ہوتا ہے کہ حلال اور حرام میں تمیز کرے اور اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا نام جو وہ مومنوں کو دے گا حَدِیْقہ رکھ دیا۔ یعنی جس طرح اُس نے فرق کیااور خدا کی رضا کے لئے حلال اور حرام میں امتیاز روا رکھا اسی طرح خدا مومن اور غیرمومن میں امتیاز کرے گا اور اُسے انعام کے طور پر حَدَائِق عطا فرمائے گا اوراس نسبت سے کہ سچا تقویٰ انسان کے لئے غذا کا بھی کام دیتا ہے اور پھل کا بھی کام دیتا ہے اور نشۂ محبت الٰہی بھی پیدا کرتا ہے اس کا نام اَعْنَابرکھ دیا کیونکہ اتّقا میں ساری شرطیں ہوتی ہیں ۔ ایک طرف وہ مومن کی روحانی غذا ہوتا ہے جس سے وہ خدا کا روحانی قرب حاصل کرتا ہے۔ دوسرے جسے سچا تقویٰ میسر آجاتا ہے وہ آئندہ ایک لمبے زمانہ تک دنیا میں تبدیلی پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے جیسے ذخیرہ خور غذا دیر تک رہتی اور انسان کے کام آتی ہے اسی طرح تقویٰ ایک لمبے زمانہ تک دنیا کے کام آتا ہے گویا ایک طرف وہ انسان کو اپنی ذات کے لئے تازہ بتازہ پھل کاکام دیتا ہے اور دوسری طرف آئندہ کے لیئے بھی ذخیرہ کا کام دیتا ہے۔ چنانچہ اسی بناء پر حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں میں نے صادق کو ترک کرتے ہوئے اور اس کی نسل میں سے کسی کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا (زبور ۳۷ آیت ۲۵) گویااِتقا کیا ہے ایک ذخیرہ خور غذا ہے جو نہ صرف اس کو فائدہ پہنچاتی ہے بلکہ اس کی آئند ہ آنیوالی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے پھر تقویٰ محبت الٰہی پیدا کرنے کا بھی موجب ہے جیسے عِنَب میں سے شراب نکلتی ہے اسی طرح تقویٰ کے ذریعہ محبت الٰہی پیدا ہوتی ہے جیسے شراب پی کر انسان مست ہو جاتا ہے اور اُسے خیر وشر کی پروا نہیں رہتی۔ نہ اسے کسی نقصان سے ڈر آتا ہے اور نہ کسی خیر کے حصول کی خواہش اُس کے دل میں رہتی ہے محض ایک مستی ہوتی ہے جو شراب کی وجہ سے اُس کے دل میں رہتی ہے محض ایک ہستی ہوتی ہے جو شراب کی وجہ سے اُس کے دماغ میں پیدا ہو جاتی ہے اور وہ نہ کسی خوف سے کام کرتا ہے اور نہ کسی لالچ سے۔ ایک رستہ ہوتا ہے جس پر وہ نشہ کی حالت میں چل پڑتا ہے۔ اسی طرح جب کسی شخص کے دل پر محبت الٰہی غالب آجائے تو اس نشہ میں وہ ایسا چُور ہو جاتا ہے کہ نہ وہ دوزخ کے ڈر کے مارے خدا سے تعلق رکھتا ہے اور نہ جنت کی لالچ اُسے نیکیوں پر آماد کرتی ہے۔ ڈر اور لالچ کی قسم کے تمام احساسات اُس کے دل سے مٹ جاتے ہیں اور وہ خدا سے محض خدا کی رضا کے لئے محبت کرتا ہے گویاوُہ یہ نہیں چاہتا کہ میں دوزخ سے بچ جائوں وہ یہ نہیں چاہتا کہ میں جنت میں داخل ہو جائوں بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے۔ پس تقویٰ بھی ایک مستی پیدا کر دیتا ہے جیسے اَعْنَاب سے جو خمر تیارہوتی ہے وہ انسان کو مست بنا دیتی ہے۔ حضرت جنید بغدادی ؒ سے ایک دفعہ سوال کیا گیا کہ آپ جب اللہ تعالیٰ سے ملیں تو اُسے کیا کہیں گے انہوں نے کہا کہ میں تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے یہ کہوں گا کہ خدایا مجھے نہ جنت کی خواہش ہے نہ دوزخ کا خوف ہے۔ مَیں تو یہ چاہتا ہوںکہ تُو مجھے جہاں بھی رکھنا چاہتا ہے وہاں رکھ دے۔ اگر دوزخ میں ڈالنا چاہتا ہے تو دوزخ میں ڈال دے اور اگر جنت میں لے جانا چاہتا ہے تو جنت میں لے جا۔ مجھے تو تیری رضا کی ضرورت ہے (تذکرۃ الاولیاء) یہ مستی کی ہی علامت ہے نہ اچھی بات کی خواہش رہے اور نہ بُری بات کا ڈر ہے۔ ایک ہی غرض سامنے رہے کہ میرا محبوب مجھ سے راضی ہو جائے۔ غرض اَعْنَابًا کا ذکراس لحاظ سے کیا گیا ہے کہ اَعْنَاب ہی وہ پھل ہے کہ پینے کے کام بھی آتا ہے اور میوہ کے کام بھی آتا ہے اور خشک کرکے غذا کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ پس اسے خاص طو ر پر قرآ ن کریم نے مثال کے طور پر چُنا ہے یہ بتا نے کے لئے کہ ایمان کی بھی یہی مثال ہوتی ہے کہ وہ بشاشت بھی بخشتا ہے وہ لذت بھی بخشتا ہے اور وہ طاقت بھی بخشتا ہے۔ اسی طرح یہ تینوں چیزیں تقویٰ میں بھی پائی جاتی ہیں کہ وہ غذا بھی ہے۔ وہ ذخیرہ خور غذا بھی ہے اور وہ عشق الٰہی بھی پیدا کرتی ہے یعنی خمر والی حالت بھی اس میں پائی جاتی ہے مگر خمر تو انسان کی عقل پر پرد ہ ڈال دیتی ہے یہ وہ نشہ ہے جو عقل کو تیز کرتا ہے۔ البتہ یہ مشابہت ضرورپائی جاتی ہے کہ جس طرح خمر انسان کو مست بنا دیتی ہے اسی طرح تقویٰ اور ایمان کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی محبت میں مست ہو جاتا ہے۔
وَّکَوَاعِبَ
اور ہم عمر نوجوان عورتیں ۲۶؎
۲۶؎ حل لغات
کَوَاعِب: کَاعِبَۃٌ کی جمع ہے اور کَاعِبَۃٌ کے معنے ہوتے ہیں اَلنَّاھِدُ جوان لڑکی (اقرب)
اَتْرَابٌ: تِرْبٌ کی جمع ہے اور تِرْبٌ اس کو کہتے ہیں جو کسی کا ہم عمر ہو۔ اکثر استعمال اس کا مؤنث میں ہوتا ہے۔
کہتے ہیں ھَذِہٖ تِرْبُ فُلَانَۃٍ اِذَاکَانَتْ عَلٰی سِنِّھَا (اقرب)یہ فلاں عورت کی تِربْ ہے جبکہ وہ اس عور ت کی ہم عمر ہو۔ پس کَوَاعِب کے معنے ہوئے۔ نوجوان عورتیں۔ اور اَتْرَاب کے معنے ہوئے۔ ہم عمر عورتیں۔ کیونکہ عربی زبا ن کے لحاظ سے اَتْرَابًا میں مرد اور عورت کا مقابلہ نہیں ہوتا یعنی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ فلاں مرد کے ہم عمر عورت۔ بلکہ اَتْرَاب کے معنے ہوتے ہیں آپس میں ہم عمر عورتیں یعنی اَتْرَاب میں ہم عمر ہونے کے جو معنے ہیں اُن کی نسبت عورتوں کے لحاظ سے ہے یعنی عورت عورت کی ہم عمر ہو۔ مردوں اور عورتوں میں یہ نسبت نہیں۔ چنانچہ تاج العروس میں سیوطی کا قول ہے:۔
’’اَلْاَتْرَابُ: اَلْاَنْسَانُ۔ لَا یُقَالُ اِلَّا لِلْاِنَاثِ وُیُقَالُ لِلذُّکُوْرِ اَلْاَسْنَانُ وَالْاْقْرَانُ وَاَمَّا اُللدِّاتُ فَاِنَّہٗ یَکُوْنُ للذُّکُوْرِوَلْاِنَاثِ وَقَدْ اَقَرَّہُ اَئِمَّۃُاللِّسَانِ عَلٰی ذَالِکَ‘‘ (تاج)
یعنی عربی زبان میں جب مردوں کی ہم عمری کا ذکر ہو تو اَقْرَان اور اَسْنَان کا ذکر کرتے ہیں۔ اور جب عورتوں کی آپس میں ہم عمری کا ذکر ہو تو اَتْرَاب کہتے ہیں او ر مؤنث و مذکر دونوں کا ہو تو لِدَات۔ چنانچہ تما ائمہ لغت اس بات کی تائید کرتے ہیں پس کَوَاعِبَ اَتْرَابًا کے معنے ہوئے آپس میں ہم عمر جوان عورتیں۔
تفسیر
اس آیت میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ قوم میں کام کی حقیقی روح تبھی پیدا ہوتی ہے جب ایک حد تک اُن میں خیالات کا اور جوش کا اور ہمت کاتوازن قائم ہو۔ کسی قوم میں اگربعض لوگ بڑے شاندار کارنامے سر انجام دینے والے ہوں اور باقی لوگ اس معیار کے نہ ہوں تو وہ قوم کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔ بڑی کامیابی کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ قوم کا عام معیارِ اخلاق ایک ہو۔ اگر قوم کا ایک فرد آسمان پر ہو اور دوسرا زمین پر تو وہ کبھی اپنی قوم کے لئے اتنے مفید ثابت نہیں ہو سکتے جتنے مفید وہ ساٹھ ستر فیصدی افراد ہو سکتے ہیں جو مثلاًایک ایک گز زمین سے اُونچے ہوں کیونکہ وہ گو آسمان والے کے مقابلہ میں بہت نیچے ہوں گے مگر سب کا معیار یکساں ہوگا۔ اگر دس افراددو دو فٹ بھی اُونچے ہوں تو وہ اُن دس افراد سے زیادہ مفید ہوں گے جن میں سے ایک آسمان پر ہو اور ایک زمین پر۔ پسکَوَاعِبٌ اَتْرَابًا میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ ایسی برکتیں دے گا کہ جب وہ مقام مفاز میں پہنچیں گے تو ان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہوگی کہ ان کی عورتوں کا دینی معیا ربھی اُونچا ہو جائے گا اور پھر وہ اس معیا ر میں ایک دوسری کے برابر ہوں گی۔ غرض پسکَوَاعِب میں اُن کے معیار کے اونچا ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی عورتوں کا دینی معیا ر اونچا ہو گااور سب میں جوش اور جوانی اور بلندی پائی جائے گی۔ اور اَتْرَابٌ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اُن کی ترقی قومی ترقی ہوگی انفرادی نہیں۔ یعنی سب میں جوش ایک دُوسرے سے ملتا جلتا پایا جائے گا۔ یہ نہیں کہ چند عورتوں میں توجوش وخروش بے انتہاء ہواور باقی اپنے فرض سے غافل ہوں بلکہ سب عورتوں میں ملتا جُلتا دینی جوش پایا جائے گا اور وہ سب کی سب دین کی ترقی کے لئے تیار رہیں گی چنانچہ اسلامی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو کثرت سے ایسی عورتوں کی مثالیں نظر آتی ہیں جنہوں نے جنگوں میں بہت بڑی جرأت اور ہمت کا ثبوت دیا۔ مہاجرین کی بیویوں کو ہم دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی ہمیں یہ شان نظر آتی ہے اور انصار کی بیویوں کو ہم دیکھتے ہوںتو اُن میں بھی ہمیں یہ شان نظر آتی ہے اور انصار کی بیویوں کو بیویوں کو دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی ہمیں یہ شان نظر آتی ہے ۔ ہزارہا عورتیں ایسی ہیں جن کا تاریخوں میں ذکر آتا ہے اور جنہوں نے مختلف مواقع پر کَوَاعِب اَتْرَابًا ہونے کی ایسی شان دکھائی کہ آجکل کے مرد بھی اُن کے مقابلہ میں ہیچ نظر آتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کَوَاعِب کا لفظ استعمال فرمایا ہے جو جسمانی اور روحانی دونوں حالتوں پر دلالت کرتا ہے مگر ایسے لفظ کے لانے میں حکمت یہ تھی کہ یہاں وہ مضمون بیان کئے جارہے تھے ایک وہ مضمون تھا جس کا قیامت سے تعلق تھا اور ایک وہ مضمون تھا جس کا اس دنیا سے تعلق تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا لفظ استعمال فرمایا جو دونوں مقامات پر چسپاں ہو سکتا ہے قیامت کے معنے اگر لئے جائیں تب بھی یہ لفظ ٹھیک ہے کیونکہ جنت میں ہر آدمی جوان ہونے کی حالت میں داخل کیا جائے گا۔ حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک بوڑھی عورت آئی۔ معلوم ہوتا ہے اُسے بے وقت بات کرنے کی عادت تھی اُس نے آتے ہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کرے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غالباً اور گفتگو میں مصروف تھے اِس لئے اُسے مذاقًا مختصر طور پرجو اب دیا۔ کہ جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہیں جائے گی۔ وہ یہ سنتے ہی رونے اور چیخنے چِلّانے لگی اور اس حالت میں واپس ہو گئی۔آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ ؓمیں سے کسی کو بُلا کر فرمایا کہ جائو اس کو کہو میرا وہ مطلب نہیں تھا جو اُس نے سمجھا ہے بلکہ میرا مطلب تو یہ تھا کہ جنت میں جو بھی داخل کئے جائیں گے سب جوان ہو کر جائیں گے بڑھاپے کی حالت میں نہیں جائیں گے۔ (شمائل ترمذی)
اور واقعہ میں وہ مقام جو دائمی سرور کا ہے وہاں اگر بڑھاپے کی حالت میں کوئی شخص چلا جائے تو جنت دوزخ سے بد تر بن جائے۔ آدمی تو ساٹھ اسی سو سال تک بوڑھا ہو جاتا ہے اگر اسی طرح اس کا بڑھاپا بڑھتا چلا جائے تو دس بیس ہزار سال میںتو وہ ایس ذلیل چیز بن جائے گا کہ اس کا لذت اٹھا نا تو الگ رہا۔ وہ شاید ایک گیند کی شکل میں تبدیل ہوجائے گا۔ پس جنت کی یہ ایک ضروری شرط ہے کہ وہاں سب جوان کر کے داخل کئے جائیںگے اور ہمیشہ اسی حالت میں رکھے جائیں گے۔ اسی طرح جنت کے لحاظ سے انسان کے جو ساتھی ہوں گے یعنی بیوی بچے وہ بھی سب جوان ہوں گے لیکن جب ہم اس آیت کو دنیا پر چسپاں کریں تو پھر کَوَاعِب کے معنے ایسی عورتوں کے ہوں گے جو حوصلہ اور جرأت اور بہادری کے لحاظ سے جوان ہوں۔ کَوَاعِب کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ جسمانی لحاظ سے جوان ہوںگی کیونکہ اگر یہ معنے لئے جائیں تو پھر اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ کَوَاعِبَ کے یہ معنے ہوں گے اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ کَوَاعِبَ فِیْ الْاِبْتِدَائِ یعنی متقیوںکو شروع میں جوان بیویاں ملیں گی لیکن بعد میں بوڑھی ہو جائیںگی اور یا پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ متقیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ جوان عورتوں سے شادیاں کریں اور جب وہ بوڑھی ہونے لگیں تو انہیں طلاق دے دیا کریں کیونکہ اُس وقت وہ کَوَاعِبنہیں رہ سکتیں اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ متقیوں کو جو عورتیں ملیںگی وہ کبھی بوڑھی نہیں ہوں گی مگر یہ تینوں صورتیں غلط ہیںاور انسان کو مجبور کرتی ہیں کہ اس جگہ روحانی معنے لے جسمانی کیونکہ یہاں زمانہ نہیں بتایا گیا کہ وہ فلاں عمر میں جوان ہوں گی اور فلاں عمر میں نہیں بلکہ بتا یا یہ گیا کہ وہ ہمیشہ کَوَاعِب رہیں گی۔ پس لازمًااس کے معنے جوان ہونے کے نہیں بلکہ حوصلہ اور ہمت کے لحاظ سے جوان ہونے کے ہیں۔ پھر بتایا کہ وہ نہ صرف ہمت اور عزم اور ارادہ کے لحاظ سے جوان ہوںگی بلکہ وہ اَتْرَاب بھی ہوںگی یعنی ساری عورتیں یکساں جوان ہوں گی۔ ساری عورتیں یکساں بلند ہمت ہوں گی اور ساری عورتیں یکساں حوصلہ مند ہوں گی۔ یہ ایک بہترین انعام ہے جو کسی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے کہ جیسے اُس قوم کے مردوں میں جوش ہو ویسا ہی اُس قوم کی عورتوں میں جو ش ہوں۔ جیسی چند عورتیں بہادر اور دلیر اور قوم کیلئے قربانی کا مادہ اپنے اندر رکھنے والی ہوں ویسی ہی تمام عورتیں بہادر اور دلیر اور قربانی کا مادہ رکھنے والی ہوں بلکہ ایک سے ایک بڑھ کر ہو۔ یہ حقیقی انعام ہے جس سے قومیں ترقی کیا کرتی ہیں۔ دنیا میں انسان کو بُزدلی کی طرف لے جانے والی عورت ہی ہوتی ہے مرد دین کے لئے باہر جانا چاہتا ہے تو عورت اس کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے اور کہتی ہے تم مجھے کہاں چھوڑ کر جارہے ہو تمہارے بغیر میرا کون سا سہارا ہے۔ پھر وہ کبھی بچوں کو اس کے سامنے لاتی ہے اور کہتی ہے اِن بچوں کو کون پوچھے گا۔ اس پر مرد کا دل بے چین ہو جاتا ہے لیکن جب عورت اس کی ہمت بندھاتی ہے جب وہ اسے جرأت اور دلیری کا سبق دیتی ہے۔ جب وہ کہتی ہے کہ شاباش جائو اور خدا کے دین کا کام کرو تو مرد کا دل بڑھ جاتا ہے اور وہ پوری بے فکری سے دینی ذمہ واریوں کو ادا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ عورتیں دینی لحاظ سے بلند معیار پر قائم ہوں اور سب میں دین کا یکساں جوش اور قربانی کی یکساں روح پائی جاتی ہو۔
اس جرأت اوربہادری کا نمونہ جن عورتوں نے دکھایا ان کی مثالوں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔ انہوں نے اسی رُوح سے کام لیتے ہوئے بعض دفعہ اپنے مردوں سے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر تم میدان جنگ سے بھاگوگے تو پھر ہمارے پاس نہ آنا۔ تاریخوں میں آتا ہے کہ جنگ یرموک میں یکدم عیسائی لشکر نے کثیر تعداد اور بھاری سامان کے ساتھ حملہ کیا تو اسلامی لشکر مقابلہ کی تاب نہ لا کر وقتی طور پر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہؤا۔ اُس وقت مسلمان عورتوں نے خیمے توڑ کر اُن کی لکـڑیاں ہاتھوں میں سنبھال لیں اور مسلمان سپاہیوں کے گھوڑوں کے مونہوں پر مار مار کر ان کو واپس دشمن کے لشکر کی طرف لوٹا دیا۔ ان عورتوں میں سے ایک ہند بن عتبہ بن ربیعہ بھی تھی جو کسی زمانہ میں اسلام کی شدید ترین دشمن رہ چکی تھی۔ مسلمان پیچھے ہٹنے والے سپاہیوں میں ا بو سفیان اس کا خاوند بھی شامل تھا اور معاویہ اس کا بیٹا بھی۔ چنانچہ جب لشکر بھاگتا ہؤا واپس پہنچا تو ابو سفیان جو لشکر کے اس حصہ کا سردار تھا اُس کی بیوی ہند نے اس کے گھوڑے کو خیمے سے مار کر واپس کیا اور کہا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت میںتو پیش پیش ہوتا تھا اب اسلام قبول کر کے میدان جنگ سے کیوں بھاگتا ہے۔ تمہار ا تو یہ فرض ہو نا چاہئیے کہ تم نے اسلام کی شرک کی حالت میں مخالفت کی تھی اس کو دھو ڈالو اور اپنی جان پر کھیل جائو۔ چنانچہ اُس نے اور باقیوں سپاہیوں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو کہا کہ واپس لوٹو۔ دشمن کی تلواروں سے عورتوں کے ڈنڈے زیادہ سخت ہیں۔ یہ سُن کر لشکر واپس لوٹا اور آخر دشمن پر فتح پائی۔
(فتوح الشام حالات جنگ یرموک)
پس کَوَاعِب کے مطابق اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایسا لشکر دیا جو دوسری قوموں کے مردوںسے بھی بالا تھا اور پھر ان عورتوں میں سے ایک سے بڑھ کر ایک ہی تھی۔ یہ نہیں کہ حضرت عائشہ ؓ تو بہادر ہوں اور حضرت زینب ؓ نہ ہوں یا حضرت زینب تو بہادر ہوں مگر اسماء بنت ابی بکرؓ بہادر نہ ہوں بلکہ حضرت عائشہ ؓ بھی کَوَاعِبَ اَتْرَابًا کا مصداق تھیں اور حضرت زینب ؓؓبھی کَوَاعِبَ اَتْرَابًا کامصداق تھیں اور اسماء بنت ابی بکرکَوَاعِبَ اَتْرَابًا کا مصداق تھیں بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں ہند جیسی عورت جو کسی زمانہ میں شدید دشمنِ اسلام رہ چکی تھی اس میں بھی یہ روح کام کر رہی تھی اور انہوں نے ایسی قربانیاں کیںجن کی کوئی حد ہی نہیں۔ اسی جنگ کا یہ واقعہ ہے کہ عیسائی لشکر کی طرف سے جب مسلمانوں پر بہت زیادہ دبائو پڑاتو مقابلہ کرتے کرتے اسلامی لشکرکی طرف سے جب مسلمانوں پر بہت زیادہ زورپڑا تو مقابلہ کرتے کرتے اسلامی لشکر بالکل تھک گیا۔ ایک رات اسلامی لشکر کے کمانڈر انچیف جو حضرت ابو عبیدہ تھے چکّر لگانے کے لئے نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ اسلامی لشکر کے اردگرد دو آدمی پھر رہے ہیںط اُنہیں شبہ پیدا ہؤا کہ دشمن کے آدمی جاسوس کے طور پر نہ آئے ہوںچنانچہ وہ آگے بڑھے اور انہوں نے آواز دی کہ تم کون ہو!اس پر حضرت زبیر ؓ آگے بڑھے اُن کے ساتھ اُن کی بیوی اسماء بنت ابی بکر بھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آج مسلمان چونکہ سخت تھکے ہوئے تھے اس لئے میں اور میری بیوی دونوں پہرہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے (فتوح الشام۔ حالات جنگ یرموک)
کَوَاعِبَ اَتْرَابًا کی کیسی شاندار مثال ہے اور کس طرح ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ ؓ کی عورتوں میں بھی وہی جزبۂ فدا کاری پایا جاتا تھا جو خود صحابہ کے اندر موجود تھا۔ پھر یہ نہیں کہ یہ جز بہ کسی خاص خاندان کی عورتوں سے مخصوص ہو بلکہ ہر عورت اسی جزبہ سے سرشار تھی اور یہی روح اُس میں کام کرتی دکھائی دیتی تھی ورنہ دنیا کے لحاظ سے کَوَاعِب کے اور معنی بنتے ہی نہیں۔ جوان لڑکی پانچ سات سال میں ہی جوانی کی عمر گزار دیتی ہے اور وہ پھر کَوَاعِب میں شامل نہیں رہتی۔ مگر یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ متقیوں کو ایسی عورتیں ملیں گی جو کَوَاعِب ہی رہیں گی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں روحانی معنے مراد ہیںجسمانی نہیں۔ بے شک اگلے جہاں کے لحاظ سے جسمانی معنے ہی ٹھیک ہیں کیونکہ جنت میں اگر بوڑھے داخل ہوں یا بڑھاپا آ جائے تو پھر جنت جنت نہیں رہتی۔ لیکن جب ہم اس آیت کو دنیا پر چسپاں کریں گے تو اس کے معنے ایسی عورتوں کے ہوں گے جو جوانی والی طاقتیںا پنے اندر رکھتی ہوںکیونکہ دنیا میں انسانی جسم بہرحال ندھال ہو جاتا ہے۔ اور عمر کی زیادتی کے ساتھ بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن روحانی طاقتیں اگر انسان ان کو ترقی دینا چاہے تو کمز ور نہیں ہو سکتیں۔ پس بڑی بات یہ ہے کہ قوم کی عورتیںکَوَاعِبَ اَتْرَابًا کی مصداق ہوں۔ کَوَاعِب کا لفظ ذاتی جوانی پر دلالت کرتا ہے اَور اَتْرَاب کا لفط قومی جوانی پر دلالت کرتا ہے۔ اَتْرَاب کا لفظ بھی بتا رہا ہے کہ اس جگہ روحانی معنے ہی زیادہ موزون ہیں کیونکہ جنّت کے متعلق اَتْرَاب کے لفظ میں کوئی حکمت نہیںہو سکتی۔ یہ لفظ دنیا سے ہی تعلق رکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہی قوم ترقی کر سکتی ہے جس کی ساری عورتوں کا دینی معیاربلند ہو۔ وہ جواں ہمت اور حوصلہ مند ہوں۔ وہ مصائب اور مشکلا ت کی پرواہ کرنے والی نہ ہوں۔ وہ دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنے والی ہوںوہ جرأت اور بہادری کی پیکر ہوں اور اپنے اخلاص اور اپنے جوش اور اپنی محبت سے مردوں کے پیچھے نہ ہوں۔ یہ معنے ایسے لطیف ہیں کہ میرے نزدیک اپنی ذات میں اس بات کے مستحق ہیںکہ ان معنوں کو بار بار بیان کیا جائے۔ ان پر زور دیا جائے اور انہیں اپنی تقریر وتحریر میں بتکرار لایاجائے تا معلوم ہو کہ اسلام عورتوں کو کس بلند مقام پر پہنچانا چاہتا ہے اور عورتوں میں بھی دینی روح ترقی کرے۔ اگلے جہاں میں اگر ساری عورتیں ایک ہی عمر کی ہوں تو اس میں کوئی خاص لطف کی بات نہیں۔ وہ غرض کَوَاعِب کہہ کر پوری ہو سکتی تھی۔ اَتْرَاب کا لفط زائد طور پر لانا بتا رہا ہے کہ یہ بات خصوصیت سے اس دنیا میں تعلق رکھنے والی ہے۔
وَّکَاْسًادِھَاقًا
اور چھلکتے ہوئے پیالے ۲۷؎نہ تو وہ اِن (جنتوں) میں باتیں سنیں گے اور نہ (ایک دوسرے کو) جھٹلانے والا کام ۲۸؎
۲۷؎ حل لغات
اَلْکَاْسُ: اَلْاِنَائُ یُشْرَبُ فِیْہِ ۔ وہ برتن جس میں کوئی چیز پی جاتی ہے۔ وَقِیْلَ مَادَامَ اَلشَّرَابُ فِیْہِ وَاِلَّا فَھِیَ زُجَاجَۃٌ وَاِنَائُ وَقَدْحٌ اور بعض کہتے ہیں کہتے ہیں کہکَاْسٌ پینے کے برتن کو اس وقت کہیں گے جبکہ اس میں پینے کی چیز بھی موجود ہووگرنہ خالی برتن عربی زُبان میں زُجَاجَۃ اور اِنَاء اور قَدْح کہلاتا ہے۔ لفظ کَاْسٌمؤنث ہے (اقرب)
دِھَاق کا لفظ جب کَاْس کے لئے آئے تو اس کے معنے بھرے ہوئے کے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں اَلدِّھَاقُ مِنَ الْکُؤُوْسِ: اَلْمُتَلِئَۃُ (اقرب) تو کَاْسًا دِھَاقًا کے معنے ہوئے اُنہیں ایسے ملیں گے جو لبالب بھرے ہوں گے۔
تفسیر
پہلے اللہ تعالیٰ نے اَعْنَاب کا ذکر کر کے فرماتاتھا جن سے شراب بنتی ہے۔ اب یہ بتا یا کہ وہ مذکورہ بالا شرابِ معرفت میں اتنے متوالے ہوں گے کہ ان کا نشہ کبھی ختم نہ ہو گا اور نہ ان کی طبیعتوں میں کہیں سیری حاصل انہیں ہو گی۔ ایک پیالہ ختم ہو گا تو دوسرا پینا شروع کر دیں گے دوسرا پیالہ ختم ہو گا تو تیسر اشروع کر دیں گے یعنی ایک قربانی لیں گے تو دوسری کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ دوسری قربانی کریں گے تو تیسری کے لئے تیار ہو جائیںگے گویا محبت الٰہی کا پیالہ وہ سیر ہو کر زمین پر رکھیںگے ہی نہیں۔ ہر وقت اُن کا پیالہ بھرا ہؤا رہے گا اور عشق الٰہی کے نشہ میں انہیںقربانی کی ایسی عادت پڑ جائے گی کہ کسی موقع پر بھی اُن کی طبیعت میں سیری نہیں ہوگی اور چونکہ اگلے جہاں کی لذتیں روحانی ہوں گی گو یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی ایک جسمانی شکل بھی ہو گی مگر بہرحال چونکہ اصلی لذت روحانی ہو گی اس لئے جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ان کو ایسے پیالے ملیں گے جو ہمیشہ بھرے رہیں گے اُن میں کبھی کمی نہیں آئیگی تو ان الفاظ کو جہاں اگلے جہا ں پر چسپاں کیا جاتاہے وہاں اس کے معنے یہ بھی ہوں گے کہ ان کے دل محبت الٰہی سے ہمیشہ لبریز رہیں گے۔قربانی ان کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹائے گی بلکہ ہر قربانی کے بعد ان کا دل چاہے گا کہ ہم اور قربانی کریں اور اپنے عشق کا مظاہر ہ کریںاور جب وہ دبارہ اپنے عشق کا مظاہر ہ کریں گے تو ان کے دلوں میں خواہش پیدا ہو گی کہ ہم اپنے عشق کا اب تیسرا مظاہر ہ کریں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔
۲۸؎تفسیر
چونکہ اللہ تعالیٰ نے محبت الٰہی کی مشابہت شراب سے دی تھی اور شراب میں بعض نقائص ہوتے ہیںاس لئے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی ذکر فرما دیا کہ گو وہ شراب کی طرح محبت الٰہی کے نشہ میں سرشار ہوں گے مگر ہمارا اس سے یہ مطلب نہیں کہ شراب کے نقائص بھی ان میں پائے جاتے ہوں گے۔ شراب کی خرابی یہ ہے کہ اُس میں لغو بہت ہوتا ہے اسی طرح اُس میں تکذیب ہوتی ہے یعنی شرابی لغو اور فضول باتیںبھی کرتے ہیں۔ اور آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی ہیں مگر لَایَسْمَعْوْنَ فِیْھَالَغْوًا وَّلَاکِذَّابًا وہ نہ اس میں کوئی لغو بات سنیں گے اور نہ تکذیب کی کوئی بات سنیں گے۔ لغو سے مراد بکواس اور بیہودہ باتیں ہیں۔ مجھے یاد میں ایک دفعہ اپنے گھر میں ٹہل رہا تھاجب میں ٹہلتے ٹہلتے اس دیوار کے پاس پہنچا جو گلی کی طرف ہے تو مجھے اس وقت ایک آدمی کی آواز سُنائی دی جو دوسرے شخص کا نام لے کر کہہ رہا تھا سندرسنگھیا پکوڑے کھانے این یعنی سندر سنگھ کیا پکوڑے کھائو گے۔ تھوڑی دیرکے بعد اُس نے پھر یہی فقرہ کہا۔کچھ دیر گزری تو پھر مجھے یہی آواز آئی مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں ملتا تھا۔ میں نے دیوار پر سے جھانکا تو مجھے نظر آیا کہ مسجد اقصیٰ کے پاس جو موڑ ہے جہاں نظارتوں کے دفاتر ہیں وہ ایک شخص ٹیک لگائے شراب کے نشہ کی حالت میں یہ فقرہ دہراتا چلا جا رہا ہے اور اُس کا مخاطب ساتھی اُس وقت تک وہاں تک پُہنچ چکا تھا جہاں اُم طاہر کا مکان ہے یعنی کہنے والے کے پچاس گز کے فاصلہ پر۔ مگر وہ یہی کہتا جا رہا تھاکہ سندر سنگھ پکوڑے کھانے ہیں۔اس طرح وہ کتنی ہی دیر وہاں پر بیٹھا یہ فقرہ دُہراتا رہا حالانکہ دُوسرا شخص اُس وقت تک غالباً دوسرے گائوں تک پہنچ چکا ہوگا۔
غرض شراب میں ایک بہت بڑا نقص ہے کہ انسان لغو باتیں کرنے لگ جاتا ہے۔ دُوسرا نقص اس میں یہ ہے کہ اس کے پینے والا دوسرے سے لڑنے جھگڑنے اور اُسے گالیاں دینے لگ جاتا ہے۔ کِذَّابًا کَذَّبَ کا مصدر ہے اور اس کے معنے ایک دوسرے کو جھٹلانے کے ہوتے ہیں۔ ایک کہتا ہے تُو نے یہ کہا تھا ۔ دوسرا کہتا ہے مَیں نے یہ نہیں کہا تھامیں نے تو وہ بات کہی تھی۔ اس وجہ سے اُسی شرابی کا ذکر کر کے قرآن کریم فرماتا ہے لَایَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَاکِذَّابًا جنت کی نعماء خواہ شراب کے پیالوں میں ملیں۔ خواہ عشق الٰہی کی شراب کے پیالے ان کو پلائے جائیں۔ اس شراب کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں لغو نہیں ہو گا اورنہ کِذّاب ہو گا۔ لغو سے انسان کا وقت ضائع ہوتا ہے اِسی لئے شراب پی کر انسان ایسی باتوںکی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو وقت کو ضائع کرنے والی ہوتی ہیں۔ مثلاًجؤا عام طور پرشراب پی کر ہی کھیلا جاتا ہے۔ لیکن لغو نہ ہونے سے اولؔ وقت ضائع نہیں ہوتا۔ دومؔ ذہن کام کے سوادوسرے امور کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور توجہ کے قیام سے ترقی جلد جلد ہوتی ہے۔ جب انسان لغو امور کی طرف توجہ کرتا ہے تو چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنا وقت ضائع کر دیتا ہے اور توجہ کا اجتماع پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں لغو نہ ہو وہاں اجتماع توجہ خوب ہوتا ہے اور کام کی چیزوں کی طرف توجہ رہتی ہے۔ اورچونکہ اس کی عادت میں بات داخل ہو جاتی ہے کہ وہ کام کی طرف توجہ کرے۔ لغو کاموں میں حصہ نہ لے۔اس لئے اس کے اندر غور اور فکر کی قوت بڑھ جاتی ہے اور ہر بات کی طرف توجہ کرنے کی اُسے عادت پیدا ہو جاتی ہے۔ تیسراؔ فائدہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہر حصہ کام اور ہر حصّہ قوم مفید ضرورت میں لگ ر ہا ہوتا ہے جب انسان لغو نہیں کرے گا تو لازماً وہی کام کرے گا جو ضروری ہو گا اور جس کا مفید نتیجہ نکل سکے گا اور جب ساری قوم ایسے ہی کاموں میں حصہ لے گی جن کے مفید نتائج نکل سکتے ہوں تو قومی ترقی جلد جلد ہو گی۔ پس لغوؔ کی طرف توجہ نہ کرنے کے تین فوائد ہیں۔ اولؔ اس کے نتیجہ میں وقت ضائع نہیں ہوتا دومؔ ذہنوں میں مقاصدکی طرف توجہ کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے سومؔ اُو پر کی دو باتوں کے نتیجہ میں قوم جلد جلد ترقی کی طر ف قوم جلد جلد قوم ترقی کی طرف قدم اُٹھاتی ہے۔
وَلَا کِذَّابًا: پھر شراب سے لڑائی جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے مگر یہ وہ نشۂ محبت ہے جس میں لڑائی اور جھگڑے کی کوئی صورت میں نہیں بلکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی تائید اور تصدیق کرنے والا ہی ہوگا۔ کِذَّاباور تَکْذِیْب بھی قومی قومی ترقی کی جڑ کو لغو کی طرح کاٹنے والی چیز ہے جو شخص دوسرے کی تکذیب نہیں کرتا لازمی بات ہے کہ وہ حسن ظنّی کرے گا تو لازمی بات ہے کہ اس کے نتیجہ میں دلوں کو اطمینان حاصل ہو گا۔ساری خرابی بدظنی سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر انسان بد ظنی سے کام لینے لگے تو وہ یہ بھی خیال کر سکتا ہے کہ میری بیوی نے کھانے میں زہر نہ ملا دیا ہو۔ لیکن اگر اس طرح انسان خیال کرنے لگے تو یہ دنیا ہی دوزخ بن جائے۔ اسی طرح اور بیسیوں معاملات ہیں جن میں حسن ظنی سے کام لینا پڑتا ہے اور اگر انسان شکوک وشبہات میں مبتلا رہے تو اس کے معاملات میں بیسیوں خرابیاں پیدا ہو جائیں۔ لیکن جب لڑاء جھگڑا نہ ہو اور کاموں کی بنیاد حسن ظنی پر ہو تو دل کو اطمینان رہتا ہے اور یہ ایک بہت بڑی قومی نعمت ہے جو حسن ظنی سے حاصل ہوتی ہے۔ پھرا سکا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قومی تعاون حاصل ہوتاہے جب انسان حسن ظنی سے کام لے گا تونیکی کے کاموں میں وہ دوسروں کی مدد بھی کرے گا اور ان کے تعاون کو بھی قدر کی نگا ہ سے دیکھے گا اور اسی طرح ایک دوسرے کے تعاون سے قوم میں ترقی کی راہ پیدا ہو گی اگر انسان یہ خیا ل کرے کہ فلاں شخص تو میرا دشمن ہے تو اس کے بعد وہ اس کی مدد کے لئے کھڑا نہیں ہوسکتا لیکن اگر وہ بدظنی نہ کرے اوریہی سمجھے کہ میرا دوست ہے تو مشکلا ت کے وقت وہ اس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ پس حسن ظنی کا دوسرا فائد ہ یہ ہے کہ قومی تعاون کی رُوح اس سے ترقی کرتی ہے۔ تیسرے حسن ظنی کے اقدام عمل کے وقت یہ خوف نہیں ہوتا کہ دوسرے الزام لگا کر میری سکیم کو ناکام بنا دیں گے۔ بلکہ وہ دوسروں پرحسن ظنی کرتے ہوئے ہر خطرہ کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے مثلاً کوئی شخص مصیبت میں مبتلا ہو اور یہ سمجھے کہ اس کے ہمسائے فوراً اس کی مصیبت دور کرنے کے لئے خطرہ میں کود پڑیں گے تو جس دلیری سے وہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہو گا اس دلیری سے وہ شخص کھڑا نہیں ہو سکتا جو سمجھتا ہے کہ نامعلوم میرے ہمسائے اور میرے دوست میری مدد کریں گے یا نہیں۔ پس حسن ظنی کی وجہ سے اقدام عمل کے وقت زیادہ دلیری پیدا ہو جاتی ہے اور انسان قوم کی خاطرہربڑی سے بڑی قربانی کے لئے تیار رہتا ہے۔
غرض یہ تین فوائد ہیں جو حسن ظنی سے حاصل ہوتے ہیں دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا لَغْوٌ فِیْھَا وَلَا تَاْثِیْمٌ نہ جنت میں لغو ہوگا نہ ایک دوسرے پر گناہ کا الزام لگانا (الطور ع ۱ ۳ )اس جگہ تَاثِیْمٌ کی جگہ کِذَّاب کالفظ رکھ دیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ کَذَّاب اور تَاثِیْم ایک ہی چیز ہیں۔ کِذَّاب کے معنے ہوتے ہیں ایک دوسرے کی تکذیب کرنا اور تَاثِیْم کے معنے ہوتے ہیں ایک دوسرے پر الزام لگانا۔ پس یہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں۔(۱)ایسی عطا جو کافی ہو گی (۲) ایسی عطا جو حساب میں ہو۔
ع حِسَابًا صفت ہے عَطَائً کی اور عَطَائً مفعول مطلق ہے جَزَائً کا جس کا عامل مخدوف ہے۔
تفسیر
یہ تیرے رب کی طرف سے بطور جز ا ہو گا اور یہ عَطَائً حِسَابًا ہوگی عَطَائً کا لفظ جَزَائً کے لئے مفعول مطلق کے طور پر استعمال ہؤا ہے یعنی ایسی جزاء ہو گی جو حساب کے مطابق ہو گی۔ حساب کے مطابق جزاء ہونے سے بظاہر اس امر پر زور معلوم ہوتا ہے کہ وہاں حساب سے زیادہ جزاء نہیں ہو گی حالانکہ قرآن کریم کی بعض دوسری آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا رحیمؔ ہے اور انسانی اعمال سے بہت زیادہ جزاء دیتا ہے۔ پس بظاہر یہ بات اُن آیات کے خلاف نظر آتی ہے کہ ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ مومنوں کو ان کے کام سے زیادہ جزاء دیں گے اور دوسری جگہ فرما دیا کہ حساب کے مطابق جز اء ہو گی۔
اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کے حساب کے معنے حساب کے مطابق کے علاوہ اور بھی ہوتے ہیںچنانچہ حساب کے ایک معنے گننے کے بھی ہوتے ہیںاور کافی کے بھی ہوتے ہیں (اقرب) یعنی ایسی چیز جس سے ضرورت پوری ہو جائے پس عَطَائً حِسَابًا کا یہ مطلب ہؤاکہ ایسی عطا جس سے انسان کی ہر ضرروت پوری ہو جائے ۔ چنانچہ ابن کثیر لکھتے ہیں کَافِیًا وَافِیًا سَالِمًا کَثِیْراً کے معنے یہ ہیں کہ جو کچھ ملے گاوہ کافی ہو گا بلکہ ضرورت سے زیادہ ہو گا اور سالم ہوگا یعنی کسی قسم کانقص اُس میں نہیں ہوگا۔ کَثِیْراً اور وہ پھر بہت ہوگا۔ چنانچہ وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں تَقُوْلُ الْعَرَبُ اَعْطَا فِیْ فَاَحْسَبَنِیْ اَیْ کَافَانِیْ یعنی اہل عرب کہتے ہیں اَعْطَا فِیْ فَاَحْسَبَنِیْ اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس شخص نے مجھے اتنا دیا کہ میری سب ضرورتوں کو پورا کر دیا۔ پھر کہتے ہیں وَمِنْہُ حَسْبِیَ اللّٰہُ اَیِ اللّٰہُ کَافِیَّ اس سے حَسْبِیَ اللّٰہ نکلاجس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ میرے لئے کافی ہے۔ لیکن حِسَابًا کے اس جگہ ایک اور معنی بھی ہیں اور وہ یہ کہ انہیں ایسی عطا ملے گی جو حساب میں پہلے ہی موجود تھی یعنی مومن جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو یہ یہ جزا ملے گی کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو بتا یا ہؤا ہے کہ اس کی طرف سے فلاں فلاں نعمتیں ملیں گی۔ گویا یہاں حِسَابًا کے یہ معنے ہوں گے کہ ایسی عطا جوپہلے ہی حساب میں آئی ہوئی تھی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پیشگوئیوں میںذکر کیا ہؤا تھا اور جس کے متعلق مومن یہ امید رکھتا تھا چونکہ خدا نے اپنی پیشگوئیوں میں اس کا ذکر کیا ہؤا ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہ باتیں ایک دن پوری ہوں اور کافر بھی علم رکھتا تھا کہ مسلمانوں کے متعلق یہ یہ باتیں بیان کی گئی ہیں۔ پس چونکہ اس عطا کے ساتھ ایک پیشگوئی کا بھی تعلق تھا جس پر مومن بھی ایمان رکھتا تھا اور کافر کو بھی اس کاعلم تھا اس لئے عَطَائً کے ساتھ حِسَابًا کا لفظ بڑھا دیا۔ میرے نذدیک عَطَائً حِسَابًا سے مراد وہی عطا ہے جو حساب میں آچکی تھی یعنی جس کا ذکر ہو چکا تھا جس کا مومن کو بھی علم تھا اور کافر کو بھی علم تھا یہاں عَطَاء کی تعداد مراد نہیں بلکہ اس سے عَطَاء کے ملنے کا وعدہ مراد ہے۔ جیسے کہتے ہیں فلاں چیز تو محسوب ہو چکی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ چیز ہمارے ریکارڈ میں آچکی ہے۔ اسی طرح عَطَائً حِسَابًا کا یہ مطلب ہے کہ وہ سرکاری دیوان میں لکھی ہوئی عطاء ہو گی جس کی پہلے سے پیشگوئی موجود تھی اور جس کا دوست کو بھی علم تھا اور دشمن کو بھی علم تھا۔
رَبِّ السَّمٰوٰتِ
(تیرے اس رب کی طرف سے جو) آسمانوںاور زمین اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کا رب ہے (اور) بے حد کرم کرنے والا ہے۔ وہ اس کے حضور میں بلا اجازت بات کرنے کی طاقت نہیں رکھیں گے۔ ۳۰؎
۳۰؎ حل لغات
خِطَابًا: خِطَاب خَاطَبَ کا مصدر ہے۔ کہتے ہیں خَاطَبَہٗ بِالْکَلَامِ مُخَاطَبَۃً وَخِطَابًا۔ کَالَمَہُ یعنی اس سے آمنے سامنے ہو کر با ت کی (اقرب) پس خِطَاب کے معنے ہوں گے آمنے سامنے ہو کر بات کرنا۔
تفسیر
پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا جَزَآئُ مِّنْ رَبِّکَ کہ یہ تیرے رب کی طرف سے جزا ہے اور جزاء رحیمیّت کی علامت ہوتی ہے یعنی جزا اُسی کو ملتی ہے جو کام کرتا ہے پس پہلے تو فرمایا تھا کہ جَزَائً مِّنْ رَّبِّکَ مگر آگے اَلرَّحْمٰن کا لفظ استعمال فرما دیا جو صفت رحمانیت پر زور دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور بتاتا ہے کہ اُس ذات کی طرف سے تمہیں یہ جزا ملے گی جو رحمن ہے۔ یہاں سوال پیداہوتا ہے کہ رحمن اس کو کہتے ہیں جو بغیر کام کے بدلہ دے اور جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ میں یہ بتایا گیا کہ جزاء کام کے بدلہ میں ہو گی کیونکہ جزاء صفتِ رحیمیت کے تابع ہے صفتِ رحمانیت کے تابع نہیں۔ پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے صفت رحیمیت کے نتیجہ میں جزاء قرار دے کرآگے صفت رحمانیت کا کیوں ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق یہ امر بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ یہاں اَلرَّحْمٰن کا لفظ لانے میں دو حکمتیں ہیں ایک تویہ کہ رحمن کالفظ لا کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو کچھ دیا ہے صفت رحیمیت کے ماتحت دیا ہے مگر وہ صرف رحیم ہی نہیں بلکہ رحمن بھی ہے۔ جب صفتِ رحیمیت کے ماتحت اس نے تمہیں یہ یہ کچھ دے دیا ہے تو تم خود ہی سمجھ لو گے کہ وہ کیا انعام ہو گا جو صفت رحمانیت کے ماتحت تمہیں ملے گا وہ تو لازمًااس سے بہت بڑا انعام ہو گا کیونکہ وہ کسی کام کے بدلہ میں استحقاق کے طور پر نہیں ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحمانیت کے ماتحت تمہیں اپنے اس انعام سے حصہ دے گا۔ گویا وہ خدا جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے جس نے اپنی صفت رحیمیت کے ماتحت تمہیں اپنی نعمتوں سے حصہ دیا اُس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ رحمن ہے جب رحیمیت کے ماتحت اس نت تمہیں ایسی عطا دے دی جو تمہاری تمام ضروریات پر حاوی ہے بلکہ تمہاری ضرورتوں سے بھی زائد ہے تو اس کی صفت رحمانیت کے ماتحت آنیوالے انعامات کا اندازہ بھی کب کر سکتے ہو۔ گویا یہ نہ سمجھو کہ یہ ہمارا آخری انعام ہے بلکہ یہ انعام تو صرف رحیمیت کے نتیجہ میں تمہیں حاصل ہؤا ہے صفتِ رحمانیت کے ماتحت جو انعام ملے گا وہ تو بہت ہی زیادہ ہو گا۔
دوسرےؔ رحمن کا لفظ لا کر اس طر ف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ گو ہم اس کے لئے جز اء کا لفظ بولتے ہیں مگر درحقیقت بات وہی ہے جو غالب نے اپنے شعر میں کہی کہ
جان دی۔ دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہؤا
فرمایا ہمارا یہ احسان ہے کہ ہم اس کے لئے جز اء کا لفظ استعمال کر رہے ہیں ورنہ تم نے جو کچھ کیا وہ تو ہمارے فضلوںکا طبعی نتیجہ تھا اُس میں تمہاری کیا قابلیت تھی اگر ہم قرآن کریم نازل نہ کرتے۔ اگر ہم اپنے کلام تمہیں اپنی ہدایت کی راہیں نہ بتاتے تو تم کس طرح وہ مقامات حاصل کر سکتے جو آج تمہیں حاصل ہیں۔ یہ قرآن ہی تھا جس نے محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رسالت کے بلند ترین مقام پر پہنچا دیا۔ یہ قرآن ہی تھا جس نے ابو بکر کو ابو بکر ؓ۔ عمر کو عمرؓ۔ عثمان کو عثمانؓ اور علی کو علیؓ بنایا۔ بے شک ان لوگوں نے بڑی قربانیاں کیں۔ بے شک ان لوگوں نے دین کی بڑی خدمتیں کیں مگر یہ سب ہماری صفتِ رحمانیت کا نتیجہ تھا۔ یہ سب قرآن کا نتیجہ تھا۔ پس گوہم تمہارے لئے جزاء کا لفظ استعمال کر رہے ہیں مگر اس بات کو بھول نہ جاناکہ یہ محض ہماری صفت رحمانیت کا نتیجہ ہے جیسا کہ قرآن کریم میں دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (الرحمن ع ۱ ۱ ۱ ) کہ اگر رحمن خدا کی طرف سے قرآن نازل نہ ہوتا۔ اگر اس کی طرف سے تم پر یہ علوم اور معارف کھولے نہ جاتے تو تم کو وہ مقام کبھی حاصل نہ ہو سکتا جس پر تم آج پہنچے ہوئے ہو۔
رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس رب کی طرف سے تم کو یہ جزاء ملے گی وہ آسمان و زمین اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے۔ پس وہ جس پر مہربان ہویہ سب کُچھ اُسے بخش سکتا ہے گویا بخشش کی وسعت کے امکان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا۔ ان کو اختیار نہیں ہے اُس سے خطا ب کرنے کا ۔ یا اُس سے خطاب کرنے کی وہ طاقت نہیں پاتے۔ دنیا میں بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن میں ایک شخص دوسرے پر زور دے کر اُس سے اپنی بات منوالیتا ہے یا اگر بات نہ منوائے تو اس پر زور ضرور ڈالتا ہے مثلاً زیدؔ بکرؔسے بات کرتا ہے۔ اب خواہ بکر زیدؔ کی بات کو مانے یا نہ مانے زیدؔ اس خطاب کر لیتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ہستی ایسی ہے کہ اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی وہ لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا کی شان رکھتی ہے یعنی اُس سے خطاب کرنے پر کوئی انسان مقدرت نہیں رکھتا۔ دنیا میں تو انسان کو خدا تعالیٰ پر جو ایمان ہوتا ہے وہ ہوتا ہی ایمان بالغیب ہے اس لئے اس میں خطاب کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن آخرت میں بھی یہی کیفیت ہو گی کہ کوئی انسان اس کی اجازت کے بغیر اُس سے گفتگو کرنے کی مقدرت نہیں رکھے گا۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا خطاب نہیںکہلاتا کیونکہ خطاب کے معنے ہوتے ہیںآمنے سامنے ہو کر بات کرنا اور اس طرح خدا تعالیٰ سے بالمشافہ گفتگو کرنے کی کسی انسان میں طاقت نہیں ہے اگلے جہان میں بھی ایسا ہی ہو گاجس کو اجازت ہو گی بولے گا اور جس کو اجازت نہیں ہو گی نہیں بولے گا۔ اور درحقیقت لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا سے مراد ہی یہ ہے کہ یہ چیز اختیار نہیں ہو گی ورنہ یہ مراد نہیں کہ ایسا ہوگا ہی نہیں۔ لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اس سے پہلے اَلرَّحْمٰن کا لفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا تھا جس میں اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ یہ ہمارا احسان ہے کہ ہم نے تم پر اپنا کلام نازل کیا ورنہ کسی انسانی عمل کے نتیجہ میں کلامِ الٰہی نازل نہیں ہؤا کرتا۔ پس رحمن کے لفظ میں جو اشارہ تھا کہ ہماری صفتِ رحمانیت کے نتیجہ میں ہی محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ا ٓئے اگر ہم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہ بھیجتے اور اگر قرآن ہماری طرف سے نازل نہ ہوتا تو تمہیں یہ ترقیات بھی نصیب نہ ہوتیں اور نہ ہماری طرف سے تمہیں کوئی جز اء ملتی۔ پس یہ جزاء جو تمہیں مل رہی ہے درحقیقت نتیجہ ہے خدائی کلام کا۔ مگر لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا۔ کسی انسان میں اُسے خطاب کرنے کی طاقت نہیں وہ آپ جب فضل نازل کرنا چاہے نازل کر دیتا ہے انسانی مقدرت اور کوشش کا اس میں دخل نہیں ہوتا۔ گویا رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ و مابَیْنَہُمَا الرَّحْمٰنِ لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا میں رحمن کا لفظ جو بظاہر زائد لایا گیا تھا اس کی وجہ بیان کر دی کہ تمہارے بس اور طاقت کی یہ بات نہیںتھی کہ تم اس قدر ترقی کر جاتے۔ تم نے جو کچھ ترقی کی ہے کلام الٰہی کے عمل کے نتیجہ میں کی ہے اور کلام الٰہی اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا نتیجہ ہوتا ہے زور سے اُسے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
یَوْم یَقُوْمُ الرُّوْحُ
(یہ اس دن ہو گا ) جس دن کہ روح کامل اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے (اور) وہ بات نہ کر سکیں گے سوائے اس کے جسے رحمان (خدا) نے اجازت دی ہو گی۔ اور وہ (مناسب موقع) ٹھیک ٹھیک بات کہے گا۔۳۱؎
۳۱؎ حل لغات
اَلرُّوْحُ: اَلرُّوْح اَلْ اور رُوْح کا مجموعہ ہے۔ اَلْ مختلف اغراض کے لئے کسی لفظ پر داخل کیا جاتا ہے۔ اِن اغراض میں سے ایک یہ غرض بھی ہے کہ یہ بتایا جائے کہ جس لفظ پر اَلْ داخل ہؤا ہے وہ فرد اپنے افراد میں سے کامل ہے چنانچہ کہتے ہیں اَنْتَ رَجَلُ یعنی مرد کے کمالات کو اگر دیکھا جائے تو اس کی تعریف تجھ پر ہی صادق آتی ہے۔ باقی مردوں میں کچھ نقص ہیں۔ یہاںاَلرُّوْحُ میں اَلْ کمال کے اظہار کے لئے لایا گیا ہے اور مراد یہ ہے کہ ارواح میں سے کامل روح۔
اَلصَّوَابُ: اَللَّائِقُمناسب۔ اَلْحَقُّ پکی بات۔ ضِدُّالْخَطَائِ درست بات (اقرب)
تفسیر
یَوْمَ یَقُوْمُ ظرف ہو سکتا ہے لَا یَمْلِکُوْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلَآئِکَۃّ صَفًا یا لَایَتَکَلَّمُوْنَ یَوْمَ یَقَوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُصَفًا میں نے جو معنے کئے ہیں اس کے لحاظ سے یَوْمَ یَقَوْمُ الرُّوْحُ والی آیت لَایَتَکَلَّمُوْنَ سے زیادہ تعلّق رکھتی ہے گو لَایَمْلِکُوْنَ سے بھی اس کا تعلق ثابت ہے۔ بہرحال میرے معنوں کے رُو سے اگر اس آیت کو لَا یَتَکَلَّمُوْنَ کے ساتھ لگایا جائے تو زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے یَوْمَ یَقَوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًا جس دن روح بھی اور ملائکہ بھی صف باندھ کر کھڑے ہوں گے۔ یہاں روح کے متعلق سوال پیدا اہوتا ہے کہ کیا چیز ہے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ اس سے ارواح بنی آدم مراد ہیں۔ حسن ؔاور قتادہؔ کہتے ہیں کہ اس سے بنو آدم مراد ہیں۔ شعبی اور سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ اس سے مراد جبریل ہے اور وہ نَزَلَ بِہٖ الرُّوْحُ الْاَمِیْن ُ(الشعرآء ع ۱ ۱ ۵ ۱ ) سے استدلال کرتے ہیں گویا مفسّرین کے نزدیک روح سے مراد جبریل ہے بعض نے یہ معنے بھی کئے ہیں گو یہ بالکل لغو ہیں کہ اس سے مراد انسانوں کے سوا کوئی اور جنس ہے مگر یہ بالکل لغو بات ہے جب قرآن سے ایسی بات ثابت نہ ہو اُسے پیش کرنا خلاف عقل ہے۔ لیکن باقی معنی ایسے ہیں جو اس آیت پر چسپاں کئے جا سکتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓکے قول سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ وہ اگلے جہاں کی زندگی کو ا سی جسم کے ساتھ نہیں سمجھتے تھے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ انسانی جسم فنا ہو جاتے ہیںاور ارواح انسانی کو اگلے جہان میں زندگی دی جاتی ہے اسی لئے انہوں نے معنے یہ کئے ہیں کہ اس سے ارواح بنی آدم مراد ہیں۔ لیکن حسن اور قتادہ کہتے ہیںکہ اس سے بنو آدم مراد ہیں گویاوہ اس بات کے قائل تھے کہ زندگی اسی مادی جسم کے ساتھ ہو گی۔ یہ بھی ایک اختلاف ہے جو مسلمانوں میں دیر سے چلا آ رہا ہے کہ یہی جسم دوبارہ زندہ ہو گا یا کوئی اور جسم ہو گا۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہاں جسم توضرور ہو گا مگر وہ ایک روحانی جسم ہو گایہ موجودہ جسم نہیں ہو گا۔ یہ جسم مٹی میں مل کر فنا ہو جائے گا البتہ اس کے کسی باریک حصہ کو لے کر جسے درحقیقت روحانی حصہ ہی کہنا چاہئیے اللہ تعالیٰ اُسے نشوونما دینا شروع کر دے گااور اُسے انسان کا جسم بنا دے گا۔ انسان اپنے ذہن میں اس جسم کا ایک تسلسل سمجھے گا اور یقین رکھے گا کہ میں وہی آدمی ہوں جو دنیا میں ہؤا کرتا تھا مگر وہ جسم اور ہو گا۔حضرت ابن عباسؓ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ اگلے جہان میں ہر انسان کو رُوحانی جسم ملے گا کیونکہ وہ رُوح سے ارواح بنی آدم مراد لیتے ہیں صرف بنو آدم مراد نہیں لیتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خود قتادہ کو جو اُن کے شاگرد تھے یہ شبہ پیدا ہؤا ہے کہ میرے اُستاد تو ارواح بنی آدم مرادلے رہے ہیں اور اس طرح اُن کے اپنے عقیدے سے وہ اختلاف رکھتے ہیں۔ چنانچہ قتادہ کہتے ہیں ھَذَا مَاکَانَ یُخْفِیْہٖ ابْنُ عَبَّاسٍ کا مطلب درحقیقت بنو آدم سے ہی تھا مگر انہوں نے اسے لفظوں میں چھپا دیا۔ حالانکہ اُن کو اخْفا کی کیا ضرورت تھی۔ معلوم ہوتا ہے ابن عباس کا یہی عقیدہ تھا کہ جو شخص مرجا تا ہے اس کا جسم فنا ہو جاتا ہے زندگی صرف روح ملتی ہے۔ بہرحال یہ سارے معنے وہ ہیں جو اگلے جہان پر ہی چسپاں ہوتے ہیں اس جہان پر چسپاں نہیں ہوتے۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس سورۃ میں غلبۂ قرآن۔ غلبۂ اسلام اور قیامت تینوں چیزوں کا ذکر ہے اور تینوں چیزیں مراد لی جا سکتی ہیں لیکن یہ معنے تینوں مقامات پر چسپاں نہیں ہوتے۔ بے شک قیامت پر چسپاں ہو جائیں گے مگر غلبۂ قرآن یا غلبۂ اسلام پر چسپاں نہیں ہو تے۔بے شک قیامت پر چسپاں ہو جائیں گے مگر غلبۂ قرآن یا غلبۂ اسلام پر چسپاں نہیں ہو سکیں گے۔ اس لئے اب میں وہ معنے بتاتا ہوں جو اس دنیا پر چسپاں ہو جاتے ہیں اور اگلے جہان پر بھی چسپاں ہو جاتے ہیں اور وہ معنے یہ ہیںکہ میں اَلرُّوحُ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روحِ کامل مراد لیتا ہوں اور یَوْم سے مراد قیامت کا وہ دن لیتا ہوں جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شفاعت فرمائیں گے اور یہ معنے ایسے ہیں جن کی قرآن اور حدیث دونوں سے تصدیق ہوتی ہے۔ حدیثوں سے صاف پتہ لگتا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گی اُس وقت آپ فرماتے ہیں کہ میں خدا کے سامنے جا کر لوگوں کی شفاعت کروں گا پس روح سے مراد اس جگہ محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روح کامل ہے۔ تو آیت یَوْمَ یََقَوْمُ الرُّوحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًا کے معنے ہوں گے جس دن کھڑی ہو گی روحِ کامل اور کھڑے ہوں گے ملائکہ صف باندھ کر۔ لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اس وقت کوئی نہیں بولے گا اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ سوائے اس کے جسے خدا اجازت دے گا اور کہے گا کہ تُو لوگوں کی شفاعت کر سکتا ہے۔ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ کے الفاظ بھی بتا رہے ہیں کہ یہاں شفاعت کا ہی ذکر ہو رہا ہے کیونکہ شفاعت ہی ایک ایسی چیز ہے جو اذن سے ہو گی اور وہی لوگ شفاعت کریں گے جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت ملے گی۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں جب قیامت کا دن آئے گا فَیَشْفَعُ النَّبِیُِّوْنَ وَالْمَلٰئِکَۃُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ فَیَقُوْلُ الْجَبَّارُ بَقِیَتْ شَفَاعَتِیْ (بخاری کتاب التوحید )کہ انبیاء بھی شفاعت کریں گے اور ملائکہ بھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ انبیاء نے بھی شفاعت کر لی۔ ملائکہ نے بھی شفاعت کر لی مومنوں نے بھی شفاعت کر لی۔ اب صرف میں باقی رہ گیا ہوں۔ چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے گی اور بہت سے لوگ دوزخ سے نجات پا جائیں گے۔
یہ اعتراض کرنا کہ اگر یہاں شفاعت کا ذکر ہے تو پھ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا اور لوگوں کی شفاعت کا کیوں ذکر نہیں۔ درست نہ ہو گا۔ کیونکہ جب بادشاہ کا ذکر کر دیا جائے تو اس کے وزراء اور سکرٹریوں وغیرہ کا ذکر اس میں شامل ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے تابع ہوتے ہیں۔ جب یہ کہہ دیا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قیامت کے دن لوگوںکی شفاعت فرمائیں گے تو باقی انبیاء اور شہدا ء اور صلحاء وغیرہ کا اسی میں ذکر آگیا کیونکہ جب روح کامل کا ذکر کر دیا گیا تو دوسری ارواح جو اس سے نچلے درجہ کی ہیں اُن کا ذکر اسی میں خود آگیا اسی طرح گزشتہ انبیاء کی روحیں بھی اَلرُّوْحُ میں شامل سمجھی جائیں گی۔ پس لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ نے صاف بتا دیا کہ یہاںشفاعت کا ہی ذکر ہے اور شفاعت جس روح نے کرنی ہے وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہی رُوح ہے اور اَلرُّوْحُ سے مراد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں۔
اس دنیا میں بھی ایسا ہی ہؤا۔ محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روح جب کھڑی ہوئی تو ملائکہ آپ کے ساتھ تھے۔ اس لحاظ سے اس آیت کو اسلامی جنگوں کے متعلق بھی سمجھا جائے گااور مراد یہ ہو گی کہ جب دشمنوں کے مقابلہ کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نکلیں گے تو فرشتوں کی فوج صف باندھ کرآپ کے ساتھ ہو گی اور وہ آپ کی مدد کریں گے چنانچہ قرآن کریم میں یُعْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلَافٍ مِّنَ الْمَلَآئِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ (آل عمران ع ۳ ۱ ۴ ) کے الفاظ آتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے بعض جنگوں میں پانچ پانچ ہزار ملائکہ کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کی مدد کی۔ ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یَوْمَ یَقَوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًا سے خاص طور پر فتح مکّہ کی طر ف اشارہ سمجھا جائے گا۔ وہ وقت ایسا تھا کہ جیسے ایک غالب بادشاہ سے مغلوب قوم ڈرتی ہے اسی طرح مشرکین مکہ ڈرتے اور کانپتے ہوئے آپ کے سامنے پیش ہوئے اُن کے اندر یہ طاقت ہی نہیں تھی کہ وہ بول سکیں۔ سوائے اس کے رحمن خدا کے حکم سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے انہیں بولنے کی اجازت ملتی۔ اس میں کیا شک ہے کہ جہاں تک انسانی انصاف کا سوال ہے کفّار مکّہ سخت سزا کے مستحق تھے مگر رحمن خدا نے ان کے لئے بخشش کا فیصلہ محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سنا دیا تھا جب کفار مکہ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کہا کہ ہم سے وہی سلوک کرو جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تو انہوں نے اس سبق کو دُہرایا جو رحمن نے قرآ ن کریم میں ان کو دیا تھا کہ ہم نے محمدؐ کو مثل یوسف بنایا ہے اور جب محمد رسول اللہ صلعم نے معاف فرما دیا تب بھی رحمن کے حکم کو ہی دُہرایا۔
پھر تیسرے معنوں کے لحاظ سے اس میں غلبۂ اسلام کی طرف بھی اشارہ ہے اور مراد یہ ہے کہ یَوْمَ یَقَوْمُ الرُّوْحُ جس دن ہمارا رسول محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تم پر فتح حاصل کر کے کھڑا ہو گا وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًا اور ملائکہ اس کے ساتھ صف باندھے کھڑے ہوںگے۔ یہاں ملائکہ سے ہم فرشتے مراد نہیں لیں گے بلکہ مراد یہ لیں گے کہ ایسے لوگوں کی جماعت آپ کے ساتھ ہو گی جو ملائکہ صفت کے ہوں گے۔ اسلام کی منظم حکومت دنیا میں قائم ہو جائے گی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم براہ راست دنیا سے خطاب کریں گے لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ اُس وقت ہی بولے گا جسے خدا کی طرف سے بولنے کی اجازت ہو گی یعنی محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دربار میں بولنے والے ایسے ہوں گے جن کو خدا نے اجازت دی ہو گی کہ وہ بولیں۔ وَقَالَ صَوَابًا اور وہ جو بھی مشورہ دیں گے بالکل صحیح ہو گا۔ گویا محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی جماعت ملے گی جس کی بڑی خوبی یہ ہو گی کہ وہ تب بولے گی جب خُدا اُسے حکم دے گا وہ کوئی کام خدا کے حکم کے بغیر نہیں کرے گی۔ جو کچھ کہے گی اور جو کچھ کرے گی خدا کے حکم کے مطابق کرے گی ۔ باقی لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ خدا کی اجازت کی طرف نہیں دیکھتے بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔ خدا نے نہیں کہا کہ رنڈیوں کا ناچ دیکھو مگر وہ رنڈیوں کا ناچ دیکھتے ہیں۔ خدا نے نہیں کہا کہ بیحودہ اور گندے گانے سنو مگر وہ اپنی ساری لذّت انہی گندی گانوں میں سمجھتے ہیں۔ خدانے نہیں کہا کہ لغو قصّے کہانیوں میں اپنا وقت گزارو۔ مگروہ اپنا اکثر وقت ایسی ہی گندی کتابوں اور ناولوں میں کے پڑھنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ گویا وہ جو کچھ کرتے ہیںخدا کے اذن کے بغیر اور اس کے منشاء کے خلاف کرتے ہیں۔ مگر محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ ایسی جماعت دے گا جس کے افراد اُس وقت بولیں گے جب خُدا اُن سے کہے گا کہ بولو۔ اس کے بغیر وہ کوئی بات نہیں کریں گے وَقَالَ صَوَابًا اور پھر وہ سچے مشورے دینے والے اور خوشامدی نہیں ہوں گے گویا ان آیات میں دربار محمدؐی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ اِس اِس طرح ہو گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس دن ہمارے رسول کی روح کھڑی ہوئی اور روح کے کھڑے ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ دنیا پر غالب آگئی۔ گویا قیام سے مراد ظاہری قیام نہیں بلکہ دُنیا پر غالب آنا اور اُسے اپنے زیرِنگیں کر لینا ہے۔ فرمایا جس دن یہ کامل روح کھڑی ہو جائے گی اور ملائکہ اس کے ساتھ صف باندھے ہوں گے لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا وہ لوگ جو اس کے ساتھی ہوں گے اُن کی یہ خصوصیت ہو گی کہ وہ نہیں بولیں گے جب تک خدا اُن کو بولنے کے لئے نہ کہے۔ وہ اُسی وقت بولیں گے جب خدا کی طرف سے ان کو بولنے کا حکم ہو گا اور اُسی قدر بولیں گے جس قدر بولنے کا خدا انہیں حکم دے گا۔ وہ لغو اور بیحودہ باتیں محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں نہیں کریں گے قرآن کریم میں بعض اور جگہ بھی اس کے متعلق اور اس کی ہدایت کے مطابق کریں گے قرآن کریم میں بعض اور جگہ بھی اس کے متعلق اشارے پائے جاتے ہیں۔ مثلاًایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَائَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ (المائدہ ع ۴ ۱ ۴ ) اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لغو سوالات سے صحابہ کو روک دیا کہ یہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس کے آداب کے خلاف ہے۔ اور فرمایا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو جن پوچھنا پسند نہیں کرتا بلکہ ایسی ہی باتیں پوچھو جن کا پوچھنا تمہارا خدا پسند کرتا ہے۔ لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا صحابہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں وہی باتیں پوچھیں گے جن باتوں کی انہیں خدا کی طرف سے اجازت ہے۔ اور جب بھی بولیں گے صحیح اور درست مشورہ دیں گے۔ اُن کے مشوروں میں منافقت نہیں ہو گی۔ وہ کسی خود غرضی کے ماتحت کوئی مشورہ پیش نہیں کریں گے بلکہ وہ جو کچھ کہیں گے بالکل صحیح اور درست ہو گا اور جو مشورہ دیں گے وہ سچا مشورہ ہو گا۔ اُن کے نفس کی کسی خواہش کا اُس میں دخل نہیں ہو گا۔
ذٰلِکَ الْیَوْمُ
یہ دن ہو کر رہنے والا ہے۔ پس (تم میںسے) جو (شخص) چاہے اپنے رب کے پاس (اپنا) ٹھکانہ بنا لے ۳۲؎ ہم نے تم کو ایک قریب (ز مانہ میں آنیوالے) عذاب سے یقینا ہوشیار کر دیا ہے۔ جس دن کہ انسان اُس کو دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہو گااور کافر (اُس دن) کہہ اُٹھے گا اے کاش! (کاش) مَیں مٹی ہوتا ۳۳؎
۳۲؎حل لغات
مَاٰبَ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ النّباء ۱۷؎
اَلْحَقُّ: کے معنے ہیں اَلْاَمْرُ الْاَمْرُ الْمَقْضِیُّ فیصلہ شدہ بات۔ اَلْمَوْجُوْدُ الثَّابِتُ ایسی چیز جو موجود اور ثابت ہو (اقرب)
تفسیر
ذَلِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ یہ دن آکر رہنے والا ہے ۔ حَقّ کے معنے ہوتے ہیں وَاقع۔ ثَابت۔ فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَاِلٰی رَبِّہٖ مَاٰبًا۔پس جو چاہے اپنے رب کو مَاٰب بنا لے۔ مَاٰب کے معنے ہوتے ہیں وہ چیز جس کی طرف انسان بار بار لوٹ کر جاتا ہے چونکہ اسلام خدا کو مومن کا معشوق قرار دیتا ہے اس لئے فرمات ہے کہ اگر تم اپنے دعویٰ ٔ عشق میں صادق ہو تو پھر تمہارا یہ کام ہے جب تم دنیا کے کاموں سے فارغ ہو جائو خدا کو مَاٰب بنائو اور اُسی سے اپنی محبت اور عشق کا اظہار کرو۔ دوسری جگہ اسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ فَاِذَافَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ (الانشراح) کہ جب تم دنیا کے دھندوں سے فارغ ہو جائو تو پھر خدا کی طرف ہی رغبت کرو اور اُسی کو اپنا مَاٰب بنائو۔ اُسی کی طرف جائو اور بار بار جائو۔ مثلاً انسان کو ئی کتاب لکھ رہا ہے تو اِدھر فقرہ ختم ہؤااور اُدھر اُس کی زبان سے نکلے سُبحان اللہ۔یا ایک شخص کھانا کھا رہا ہوتو اِدھر لقمہ چباتا جائے اور اُدھر سُبحان اللہ سُبحان اللہ کہتا جائے گویا اُس کا مَاٰب صرف خدا ہی ہو اور کسی طرف اُس کی حقیقی توجہ نہ ہو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس طرف بھی اشارہ فرماتا ہے کہ چونکہ وہ دن آنیوالا ہے جس میں اسلام کو چاروں اطراف غلبہ حاصل ہو جائے گا اس لئے کئی لوگوں کے دلوں میں یہ خواہش پید اہو گی کہ ہم کو بھی اس عزت میں سے کچھ حصہ مل جائے ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتاہے کہ اگر تمہاری سچے دل سے خواہش ہے کہ تم بھی ان کامیابیوں میں حصہ لو اور تمہیں بھی کوئی مقام حاصل ہو جائے تو ہماری نصیحت ہے کہ تم اپنے رب کو مَاٰب بنا لو۔ اور لوٹ لوٹ کر خدا کی طرف جائو۔ تمہیں کام سے ذرابھی فراغت نصیب ہو۔ تو تمہارا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو جائو۔ اُس سے اپنی محبت بڑھائو۔ اُس کی طرف دوڑدوڑ کر جائو اور اُس کو اپنی جائے پناہ قرار دو۔ صرف پانچ وقت کی نماز میں اور تیس دن کے روزے انسان کے کام نہیں آتے بلکہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنا اور انسان کا بار بار اس کی طرف لوٹنا۔ یہ چیز جو انسان کے کام آیا کرتی ہے۔
۳۳؎حل لغات
اَنْذَرْکُمْ اَنْذَرَ سے متکلم مع الصغیر کا صیغہ ہے اور اَنْذَرَہُ بِالْاَمْرِ کے معنے ہوتے ہیں اَعْلَمَہٗ وَحَذَّرَہُ مِنْ عَوَاقِبِہِ قَبْلَ حَلُوْلَہٖ کسی خطر ے سے اسکو اگاہ کیا اور خطرے کے آنے سے پیشتر ہی اُس کے بُرے انجاموں سے خبردار کر دیا (اقرب) پس اَنَْذَرْنٰکُمْ کے معنے ہوں گے کہ ہم نے عذاب قریب کے آنے سے پیشتر ہی اس سے اور اس کے انجاموں سے خبردار کر دیا ہے۔
تفسیر
فرماتا ہے ہم نے تمہیں عذابِ قریب سے ڈرا دیا ہے۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں اسلام اور قرآن کا غلبہ بھی مراد ہے صرف اگلا جہاں مراد نہیں۔ کیونکہ یہاں ایک بات سے دوسری بات کا نتیجہ نکالا گیا ہے۔ فرماتا ہے ہم نے عذابِ قریب سے تمہیں ڈرا دیا ہے۔ جو ثبوت ہو گا اس بات کا کہ عذابِ ابعید بھی آنیوالا ہے۔
یَوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ مَاقَدَّمَتْ یَدَاہُ: یَوْمَ عَذَابًا کا بدل ہے۔ پس اس جملہ کے یہ معنے ہیں کہ ہماری مراد اس سے وہ عذاب ہے جس دن انسان اپنے کاموں کے نتائج کو دیکھ لے گا۔ دیکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اتفاقی طور پردیکھ لے گابلکہ مراد یہ ہے کہ اُس پر اپنی ناکامی واضح ہو جائے گی۔ وہ دیکھ لے گا کہ اس نے اپنے کئے کا بدلہ پا لیا۔ مسلمان جیت گئے اور اُن کے دشمن ذلیل اور رُسوا ہو گئے چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غالب آنے کے ساتھ کفّار نے بھی اپنا انجام دیکھ لیا اور مومنوں نے بھی اپنے انعامات دیکھ لئے۔ یہاں تک کہ ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکر ؓ نے اس کے نتیجہ میں بادشاہت کا مقام حاصل کر لیا ورنہ ابو بکر ؓ کی حیثیت کیا تھی۔ مکّہ کے ایک تاجر سے بڑھ کر اُن کی حیثیت نہ تھا مگر کُجا مکّہ کے ایک تاجر جسے مکّہ ریاست بھی حاصل نہیں تھی اور کُجا یہ کہ وہ ساری وسطی دنیا کے بادشاہ بن گئے۔ جب وہ بادشاہ ہوئے تو ایک شخص اُن کے والد ابو قحافہ کے پاس دوڑا دوڑا گیا۔ ابو قحافہ اُن کے والد کی کنیت تھی اور وہ اُن دنوں میں مکّہ میں تھے۔ چونکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہو چکے تھے اِس لئے تمام مسلمانوں میں گھبراہٹ تھی کہ اب نا معلوم کون مسلمانوں کا بادشاہ بنتا ہے۔ وہ دوڑا دوڑا وہاں پہنچا اور کہنے لگا کہ ابو بکر بادشاہ ہو گئے ہیں۔ اُن کے والد نے یہ بات سُنی تو کہنے لگے کون ابو بکر؟ گویا اُن کو یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہ بادشاہ بننے والا اُن کا بیٹا ہو سکتا ہے۔ اُس نے کہا کہ وہی جو تمہارا بیٹا ہے اَور کون۔ انہوں نے سوال کرنا شروع کیا۔ فلاں قبیلہ نے مان لیا ؟ کیا فلاں قبیلہ نے مان لیا؟ جب اُس نے سب سوالوں کا جواب اثبات میں دیا تو وہ کہنے لگے کیا بنو ہاشم نے بھی مان لیا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ بنو ہاشم نے بھی مان لیا ہے۔ اِس پر حضرت ابو بکر ؓ کے والد کہنے لگے اللہ! اللہ!محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے رسول تھے جن کے اثر کے نیچے ابو قحافہ کے بیٹے کو عرب کے قبائل اور سرداروں نے بادشاہ تسلیم کر لیا۔غرض یَوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ مَاقَدَّمَتْ یَدَاہُسے اسی طرف اشارہ تھا کہ ہر اِک اپنے اپنے کام کے مطابق نتیجہ دیکھ لے گا۔ چنانچہ لوگوں نے دیکھ لیا کہ رؤساء عرب ذلیل و رسواء ہو گئے اور ابو قحافہ کے بیٹے کی بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب نے بھی اطاعت اختیار کر لی۔
اگلے جہاں کے لحاظ سے وَیَقُوْلُ الْکَافِرُ یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا کے یہ معنے ہوں گے کہ کافر عذاب کو دیکھ کر حسرت کے ساتھ کہے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا اور اس عذاب کو نہ دیکھتا۔ اور اس جہاں کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ کاش میں مٹی میں ہوتا اور اس ندامت اور شرمندگی کی ذلّت سے بچ جاتا جو مجھے دیکھنی نصیب ہوئی۔ چنانچہ مسلمانوں کی شوکت کے زمانہ میں کفّار کی یہی حالت ہوئی۔مکّہ کے وہ بڑے بڑے رؤسا اور سردار جو نہایت حقارت کے ساتھ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے والوں کو مکّہ کی گلیوں میں گھسیٹا کرتے تھے جب دیکھتے ہوں گے کہ وہ معمولی غلام جن کو ہم خاطر میں بھی نہ لاتے تھے جن کی تحقیر ہمارا دن رات کام تھا اور جن کو مٹانے کی ہم نے بڑی کوششیں کی وہ ہم پر غالب آچکے ہیں اور ہم اُن کے سامنے معمولی غلاموں کی طرح کھڑے ہیں تو اُن کے دلوں میں کیا کیا حسرتیں پیدا ہوتی ہوں گی اور کس طرح وہ اپنے دلوں میں بار بار کہتے ہوں گے کہ کاش ہم اس سے پہلے مر کر فنا ہو چکے ہوتے اور اس شرمندگی اور ذلّت کو دیکھنے سے بچ جاتے۔ حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنے زمانۂ خلافت میں مکّہ تشریف لائے تو شہر کے بڑے بڑے رؤسا جو مشہور خاندانوں میں سے تھے اُ ن کے ملنے کے لئے آئے۔ انہیں خیال پیدا ہؤا کہ حضرت عمر ؓ ہمارے خاندانوں سے اچھی طرح واقف ہیں اس لئے اب جب کہ وہ خود بادشاہ ہیں ہمارے خاندانوں کا بھی پوری طرح اعزاز کریں گے اور ہم پھر اپنی گم گشتہ عزت کو حاصل کر سکیں گے۔ چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے اپنی باتیں شروع کر دیں ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ حضرت عمرؓ کی مجلس میں حضرت بلالؓ آگئے۔ تھوڑی دیر گزری تو حضرت خبابؓ آگئے اور اسی طرح یکے بعد دیگرے اول الایمان غلام آتے چلے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ان رئوسا یا اُن کے اباء کے غلام رہ چکے تھے اور جن پر وہ اپنی طاقت کے زمانہ میں شدید ترین مظالم کیا کرتے تھے حضرت عمرؓ نے ہر غلام کی آمد پر اُس کا استقبال کیا اور رئوسا سے کہا آپ ذرا پیچھے ہو جائیں اور اُن کو آگے بیٹھنے کے لئے جگہ دے دیں حتیٰ کے وہ نوجوان رئوسا جو آپ سے ملنے آئے تھے ہٹتے ہٹتے دروازہ تک جا پہنچے۔ اُس زمانہ میں کوئی بڑے بڑے ہال تو ہوتے نہیں تھے ایک چھوٹاسا کمرہ ہو گا اور چونکہ وہ سب ان میں سما نہیں سکتے تھے اس لئے اُن کو پیچھے ہٹتے ہٹتے جوتیوں میں جا بیٹھنا پڑا۔ جب مکّہ کے وہ رئوسا جوتیوں میں جا پہنچے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح ایک کے بعد ایک مسلمان غلام آیا اور اُس کو آگے بٹھانے کے لئے اُن کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا گیا تو اُن کے دل کو سخت چوٹ لگی۔ خدا تعالیٰ نے بھی اُس وقت کچھ ایسے سامان پیدا کر دئے کہ یکے بعد دیگرے کئی ایسے مسلمان آ گئے جو کسی زمانہ میں کفّارکے غلام رہ چکے تھے۔ اگر ایک بار ہی وُہ رئوسا ہٹتے تو اُن کو احساس بھی نہ ہوتا مگر چونکہ بار بار اُن کو پیچھے ہٹنا پڑا اس لئے وہ اس بات کو برداشت نہ کر سکے اور اُٹھ کر باہر چلے گئے۔ باہر نکل کر وہ ایک دوسرے سے شکایت کرنے لگے کہ دیکھو کہ آ ج ہماری کیسی ذلّت اور رسوائی ہوئی ہے۔ ایک ایک غلام کے آنے ہم کو پیچھے ہٹایا گیا۔ یَہاں تک کہ ہم جوتیوں میں جا پہنچے۔ اس پر اُن میں سے ایک نوجوان بولا اس میں کس کا قصور ہے عمرؓ کا کوئی قصور نہیں۔ یہ ہمارے باپ دادا کا ہی قصور تھا جس کی آج ہمیں سز ا ملی۔ کیونکہ خدا نے جب اپنا رسول مبعوث فرمایا تو ہمارے باپ دادا نے مخالفت کی ان غلاموں نے اُس کو قبول کیا اور ہر قسم کی تکالیف کو خوشی سے برداشت کیا اس لئے آج اگر ہمیں مجلس میں زلیل ہونا پڑا تو اس میں عمرؓ کا کوئی قصور نہیں ہمارا اپنا قصور ہے۔ اس کی یہ بات سُن کر دوسرے کہنے لگے ہم نے تو مان لیا کہ یہ ہمارے باپ دادا کا قصور کا نتیجہ ہے مگر کیا اس ذلّت کے داغ کو دُور کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں؟ اس پر سب نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہماری سمجھ میں تو کوئی بات نہیں آتی چلو حضرت عمرؓ سے ہی پوچھیں کہ کیا علاج ہے۔ چنانچہ وہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہؤا ہے اُس کو آپ بھی خوب جانتے ہیں۔ حضرت عمرؓ فرمانے لگے معاف کرنا میں مجبور تھا کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو رسول کریم کی مجلس میں معزز تھے۔ اس لئے میرا فرض تھا کہ میں اُن کی عزت کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں یہ ہمارے ہی قصور کا نتیجہ ہے لیکن آیااس عار کو مٹانے کا بھی کوئی ذریعہ ہے؟ ہم لوگ تو اس کا اندازاہ بھی نہیں لگا سکتے کہ اُنہیں مکّہ میں کس قدر رسوخ حاصل تھا لیکن حضرت عمرؓ اُن کے خاندانی حالات کو خُوب جانتے تھے۔ آپ مکہ میں پیدا ہوئے اور مکہ میں ہی بڑے ہوئے اس لئے آپ جانتے تھے کہ ان نوجوانوں کے باپ دادا کس قدر عزت رکھتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ کوئی شخص ان کے سامنے آنکھ اٹھانے کی بھی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ اور آپ جانتے تھے کہ اُنہیں کس قدر رُعب اور دبدبہ حاصل تھا۔ جب انہوں نے یہ بات کہی تو حضرت عمرؓ کے سامنے ایک ایک کر کے یہ تمام وقعات آگئے اور آپ پر رقّت طاری ہو گئی۔ اُس وقت غلبۂ رقّت کی وجہ سے بول بھی نہ سکے صرف آپ نے ہاتھ اُٹھایا اور شمال کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ شمال میں یعنی شام میں بعض اسلامی جنگیں ہو رہی ہیں اگر تم ان جنگوں میں شامل ہو جائو تو ممکن ہے اس کا کفّارہ ہو جائے چنانچہ وہ وہاں سے اٹھے اور جلد ہی ان جنگوں میں شامل ہونے کے لئے چل پڑے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اُن میں سے ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا سب اسی جگہ شہید ہو گئے اور اس طرح انہوں نے اپنے خاندانوں کے نام پر سے داغِ ذلّت کو مٹا دیا۔ یہ لوگ تو مخلص تھے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لا چکے تھے جب اُن کا یہ حال تھا تو سمجھ لو کہ کفّار کا کیا حال ہو تا ہو گا۔ وہ کس طرح ان حالات کو دیکھ دیکھ کر کُڑھتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ ہائے ہم مٹ جاتے۔ ہم مر کر فنا ہو چکے ہوتے مگر یہ دن ہمیں دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ جب وہی لوگ جن کو وہ گلیوں میں گھسیٹا کرتے تھے جن کے سینوں پر وہ بڑے بڑے گرم پتھّر رکھ کر انہیں اسلام سے پھرانے کی کوشش کرتے تھے۔ جن کو مارتے مارتے اور گالیاں دیتے اور ہر قسم کے دُکھ پہنچایا کرتے تھے فتح مکہ کے دن گھوڑے دوڑاتے ہوئے آئے ہوں گے اور یہ لوگ اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھ رہے ہوں گے کہ کہیں ان لوگوں کی ہم پر نظر نہ پڑ جائے۔ تو کس طرح اُن کی عزتیں خاک میں ملتی ہوئی نظر آتی ہوں گی۔ کس طرح بار بار اُن کی زبان سے یہ نکلتا ہو گا کہ کاش ہم اس سے پہلے مر کر فنا ہو چکے ہوتے اور اپنی ذلّت کا یہ دن نہ دیکھتے۔ غرض ابتدائی ایام اسلام میں ہی اللہ تعالیٰ نے وہ سارا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا جو آئندہ زمانہ میں اسلام اور مسلمانوں کا ہونے والا تھا۔ ابھی وہ بہت سے لوگ زندہ تھے۔ جنہوں نے اس نقشہ کو ایک مجنون کی بڑ سے وقعت نہ دی تھی کہ خدا کی بات پوری ہو گئی اور ان لوگوں نے اپنی آنکھوں سے اس نقشہ کے مطابق پیدا ہوتے ہوئے حالات دیکھ لئے۔
سُوْرَۃُ الْغَاشِیۃِ مَکِّیَّۃٌ
سورۃ غاشیہ۔ یہ سورۃ مکّی ہے ۱؎
اور اس کی بسم اللہ کے علاوہ چھبیس آیات ہیں اور ایک رکوع ہے
۱؎ اس سورۃ کا نام غاشیہ ہے اور یہ سورۃ بغیر کسی اختلاف کے مکّی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ دونوں سے مروہ ہے کہ یہ سورۃ مکّہ میں نازل ہوئی تھی اور چونکہ کوئی اور روایت اس کے خلاف نہیں اس لئے اس سورۃ کے مکّی ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
مسند احمد بن حنبل اور مسلم اور سُنن نسائی اور سُنن ابودائود اور ابن ماجہ میں نعمان بن بشیرؓ سے روایت آتی ہے کہ رسول کریم ﷺ جمعہ اور عیدین کی پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی اور دوسر ی میں سورۃ الغاشیہ پڑھا کرتے تھے بلکہ اگر دونوں نمازیں جمع ہو جاتی تھیںیعنی کبھی عیدالفطر اور جمعہ اکٹھے ہو جاتے یا عیدا لضحٰی اور جمعہ اکٹھے ہو جاتے تب بھی آپ دونوں نمازوں میں یہ دونوں سورتیں پڑھا کرتے تھے۔
پادری ویری لکھتے ہیں کہ اس سورۃ کے نزول کا زمانہ چوتھے سال نبوت کے قریب ہے کیونکہ اس کے مضامین ایسے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ مسلمانوں پر کفار کے مظالم یا تو شروع ہو گئے تھے یا شروع ہونے والے تھے۔ نولڈکے NOLDEKEجرمن مصنّف ہے اُس کا بھی یہی خیال ہے اور چونکہ صحابہؓ کی رائے بھی جو قطعی طور پر آپس میں ملتی ہے اس رائے کے موافق ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ یہ سورۃ اتنا عرصہ پہلے نازل ہوئی ہے کہ یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے ابتدائی زمانہ میں نازل ہونے کے خلاف کوئی بات کہی جا سکتی ہو اِس لئے ہمیں اس سورۃ کے متعلق کسی بات کی تردید کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
اس کے مضامین ایسے ہی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ دشمن اپنی دشمنی کو شروع کرنے والا ہے۔ اس میں ایسی دشمنی کا اظہار نہیں جو عملًا رونما ہو چکی ہو لیکن اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ لوگ منصوبہ بازیاں کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں پر سختیاں کریں اور مسلمان حیران ہیں کہ اب ہمارا کیا بنے گا۔ پس یوروپین مصنّفین کا استدلال غلط نہیں کہ یہ سورۃ ابتدائی زمانہ کی ہے بلکہ اسلامی روایات کے مطابق درست معلوم ہوتا ہے۔
اِس سورۃ اور سورۃ الاعلیٰ کو رسول کریم ﷺ کا جمعہ اور عیدین میں پڑھنا اور بالالتزام پڑھنا اور اتنا تعہد کرنا کہ اگر دونوں نمازیںجمع ہو جائیں تب بھی آپ دونوں میں التزامًا یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے بتاتا کہ اسلام کی اجتماعی زندگی کے ساتھ یہ دونوں سورتیں گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ سورۃ الاعلیٰ کا جوڑ تو نظر ہی آتا ہے کہ اُس میں قرآن کریم کے قولِ فصل ہونے کے لحاظ سے بحث کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح اسلام اپنے انتہائی کمال کو پہنچ جائے گا۔ اس ضمن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسلام کو ایسے خادم مل جا ئیں گے جو قرآن کے حافظ ہوں گے۔ اسی طرح اس کی حفاظت کے متعلق اور کئی قسم کی غیر معمولی تحریکات دنیا میں جاری ہو جائیں گی۔ گویا سورۃ الاعلیٰ اسلامی ترقی اور دین کی اشاعت۔ اُس کے ماننے والوں کی زیادتی اور مسلمانوں کے غلبہ پر دلالت کرتی تھی اور سورۃ الغاشیہ میں گو وہ مضمون نہیں مگر اس میں بھی یہ بات ضرور پائی جاتی ہے کہ کافروں کے اسلام کے خلاف اُٹھنے اور زور لگانے کا اس میں اشارہ کیا گیا ہے اور مومنوں کا ان کے مقابلہ میں کامیاب ہونا اشارۃً بیان کیا گیا ہے مگر چونکہ ابھی اسلام کے ابتدائی ایام تھے اور خواہ مخواہ کفار کا بھڑکانہ مقصود نہیں تھا اس لئے جنگ اور مقابلے کا اللہ تعالیٰ صریح الفاظ میں ذکر نہیں کرتا بلکہ ایسے الفاظ میں ذکر کرتا ہے جو ٹھیس لگانے والے نہ ہوں۔ جس طرح دشمن نے کھلے طور پر مخالفت کا اظہار نہیں کیا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی کھلے طور پر یہ ذکر نہیں کیا کہ مسلمان لڑیں گے اور کفار کو مغلوب کریں گے صرف نتیجہ کا ذکر کر دیا ہے کہ اسلام کے خلاف مخالفین کچھ کوششیں کریں گے لیکن وہ اسلام کو گزند پہنچانے میں ناکام رہیں گے اور آخر مسلمانوں کو اپنے مخالفین پر غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ گویا صاف الفاظ میں اس سورۃ میں لڑائی کا ذکر نہیں کیا صرف اشارۃً ذکر کیا ہے تاکہ اس وقت جب کہ مخالفین اسلام نے کھلے طور پر حملہ نہیں کیا تھا اس قسم کی باتوں کی وجہ سے اسلام کی طرف سے ابتداء نہ سمجھی جائے اور یہ خیال نہ کیا جائے کہ کفار کو انہوں نے بھڑکا دیا ہے۔
اس سورۃ کا مضمون بھی اجتماعی کاموں پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ اس سورۃ میں ایک مجموعۂ افراد کا ذکر کرتے ہوئے پیشگوئی کی گئی ہے کہ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَاعِمَۃٌ لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے صرف رسول کریم ﷺ کی ترقی کی خبر نہیں دی بلکہ جماعت مسلمہ کی ترقی کی بھی خبر دی ہے اِسی طرح وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌمیں اجتماعی طور پر کفار کے متعلق خبر دی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ناکام رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سورۃ الاعلیٰ رسول کریم ﷺ کے زمانہ اور آخری زمانہ یعنی ہر دو زمانون کے متعلق ہے اور یہ سورۃ بھی ان دونوں زمانوں کے حالات بیان کرتی ہے۔ چونکہ ان دونوں سورتوں کا مضمون ایسا ہے جو شروع زمانۂ اسلام سے آخر زمانۂ اسلام سے تعلق رکھنے والا تھا۔ اس لئے رسول کریم ﷺ ہمیشہ جمعہ اور عیدین میں بالالتزام اِن دونوں سورتوں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ جمعہ اور عیدین جو اجتماع کے مواقع ہیں اُن میں رسول کریم ﷺ کا اِن دونوں سورتوں کا تلاوت کرنا بتاتا ہے کہ جب بھی مسلمان اجتماعی طاقت پکڑنے کی طرف متوجہ ہوں گے اور جب بھی خدا تعالیٰ مسلمانوں کی کمزوری کو دُور کرنے لگے گا اُس وقت یہ دونوں سورتیں اپنے مطالب کے لحاظ سے ظاہر ہو جائیں گی۔
سورۃ الاعلیٰ میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ مُسلمانوں کی ترقی اُس وقت ہو گی جب قرآن کریم کے معارف اور اُس کے علوم ظاہر کرنے والا مامور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گا۔ گویا مسلمانوں کی ترقی کبھی بھی دنیوی ذرائع سے نہیں ہو گی بلکہ مامورین پر ایمان لانے والے اور ان کی ہدایات پر چلنے کے ذریعہ ہو گی جیسا کہ سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی کے الفاظ اس پر شاہد ہیں کہ قرآن کریم کے کے خدّام جو بُھولے ہوئے قرآن کو پھر واپس لائیں گے اُن کے ذریعہ ہی مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عزت کو حاصل کر سکیں گے۔ آج جو مسلمان سیاسی ذرائع سے ترقی حاصل کرنا چاہتے ہیں اُن کو سورۃ الاعلیٰ کے مضامین کی طرف توجہ کرنی چاہئیے۔ اب اس سورۃ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب بھی اسلام کی ترقی ہو گی تلواروں کے سایہ کے نیچے ہو گی۔ کبھی کوئی مامور ایسا نہیں آ سکتا جس کے آنے پر دُنیا اُس کا خوشی سے استقبال کرے اور کہے ’’جی آئیاں نوں‘‘ یا ’’بھلے آئے‘‘ یا ’’برسروچشم‘‘بلکہ جب بھی کوئی مامور آئے گا وُجُوْۂ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ کی حالت رونما ہو گی اور ضرور اس کی مخالفت ہو گی اس مخالفت کے بغیر کسی روحانی سلسلہ کی ترقی کا امکان بالکل ناممکن ہے۔ اگر حضرت مسیح ناصریؑ جیسا کہ مسلمان سمجھتے ہیں کسی وقت آسمان سے اُتر آئیں تو اُن کے زمانہ میں وُجُوْۂ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی۔ لوگ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جائیں گے اور اُن کے حلقۂ غلامی میں شامل ہو جائیں گے کیونکہ فرشتے اُن کے ساتھ ہوں گے اور کسی کو انکار کی جرأت نہیں ہو سکے گی۔ مگر الٰہی سُنت کے ماتحت ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ضروری ہے کہ ہر الٰہی سلسلہ کی مخالفت ہو اور مخالفت کے بعد اُس کو ترقی نصیب ہو۔ غرض اِن دونوں سورتوں سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام کو ہمیشہ شدید مخالفت کے بعد ترقی ہوتی ہے پس یہ دونوں سورتیں مضامین کے لحاظ سے آپس میں گہرا تعلق رکھتی ہیں۔
اس سورۃ کا سورۃ الاعلیٰ سے ایک قریبی تعلق ہے جو بحر محیط کے مصنّف نے بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں نار اور آخرت سے ڈرانے کا حکم تھا اور اس سورۃ میں دوزخ و جنت کا ذکر کیا گیا ہے مگر اصل تعلق وہی ہے جو میں نے بیان کیا ہے کہ ان ہر دو سورتوں میں اسلام کی ترقی کے دو اصول بیان کئے گئے ہیں۔ سورۃ الاعلیٰ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب بھی مسلمانوں کا تنزّل ہو گا قرآن کریم کے بھولنے سے ہو گا اور جب بھی مسلمانوں کی ترقی ہو گی ایسے شخص کے ذریعہ ہو گی جو قرآن کو آسمان سے واپس لائے گا گویا ایسے مامور تو آئیں گے جو بُھولے ہوئے قرآن کو یاد کرائیں گے مگر ایسے مامور نہیں آ سکتے جو نئی شریعت لائیںاور سورۃ الغاشیہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی دَور اول میں ہو یا دَور آخر میں ہمیشہ ایسے ماموروں کے ذریعہ ہو گی جن کی شدید مخالفت ہو گی مگر بالآخر وہ جیت جائیں گے جیسا کہ وُجُوْۂ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ میں بتایا ہے۔ پس مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئیے کہ اُن کی ترقی ہمیشہ مامورین پر ایمان لانے اور ساری دنیا سے لڑائی جھگڑا مول لینے کے بعد ہو گی۔ ایسا وجود کوئی نہیں آ سکتا جِسے لوگ آپ ہی مان لیں۔ پس آسمان سے کسی مامور کے اُترنے کا خیال بالکل خلافِ قرآن ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃ
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں)
کیا تجھے (دنیا پر) چھا جانے والی (مصیبت) کی بھی خبر پہنچی ہے؟ (یا نہیں)۲؎
۲؎حل لغات
ھَلْ جب فعل سے پہلے آئے تو اس کے معنے قَدْ کے ہوتے ہیں لیکن عام طور پر ھَلْ تصدیق ایجابی کے لئے ہوتا ہے یعنی عام معنے اس کے ایسے سوال کے ہیں جس کے جواب میں تصدیق کا مطالبہ ہوتا ہے سوائے اس کے کہ اس کے بعد اِلَّا آ جائے اُس وقت اُس کے معنے نفی کے ہو جاتے ہیں۔ پس آیت کے معنے تو یہ ہوں گے کہ کیا حدیثِ غاشیہ آ پہنچی یا نہیں یعنی آ پہنچی ہے اور یا پھر یہ معنی ہوں گے کہ وہ ضرور آ پہنچی ہے۔
حَدِیْثٌ کے معنے خبر کے ہوتے ہیں (اقرب)
غَاشِیَۃٌ: غَاشِیْ کا مؤنث ہے اور اس کے معنے ہیں ڈھانکنے والی چیز۔ نیز غَاشِیَۃٌ قیامت کا بھی نام ہے کیونکہ اُس میں اس قدر ڈر اور خوف اور صدمہ کی باتیں ہوں گی کہ اُن کی وجہ سے وہ انسانی دماغ پر چھا جائے گی۔ (اقرب) جب کبھی کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے باقی سارے حالات انسان کے دل میںمحو ہو جاتے ہیں۔ قیامت چونکہ ایک بڑا بھاری حادثہ ہو گا اور قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ اُس وقت ہر شخص دوسرے کو بُھول جائے گا یہاں تک کہ ماں اپنے بچہ کو بھول جائے گی اور قیامت کا خیال باقی تمام خیالات پر مستولی اور غالب آ جائے گا اس لئے قیامت کو بھی غَاشِیَۃ کہا جاتا ہے اور غَاشِیَۃ جہنم کی آگ کو بھی کہتے ہیں (اقرب) کیونکہ اس کا عذاب کامل ہے۔ عام عذاب ایسے ہوتے ہیں کہ اُن میں کوئی نہ کوئی پہلو عذاب سے بچا ہؤا ہوتا ہے۔ ایک طرف سے اگر دُکھ پہنچ رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف سے سُکھ بھی پہنچ رہا ہوتا ہے۔ اگر کسی ایک بچہ مر جائے تو اُس کا دوسرا بچہ اُس کے سامنے کھیل رہا ہوتا ہے یا کسی کا باپ مرے تو اس کی ماں اُس کے پاس موجود ہوتی ہے یا دوسرے بھائی۔ عزیز اور رشتہ دار پاس ہوتے اور اس غم میں بھی تسکین کا ایک پہلو پایا جاتا ہے۔ یا کسی کو مال کا نقصان پہنچا ہے تو دوسری طرف سے کوئی فائدہ پہنچ جاتا ہے غرض دنیوی عذاب سب ایسے ہیں کہ ایک طرف سے اگر عذاب آتا ہے تو اُس کے ساتھ ہی کوئی نہ کوئی سکھ کا پہلو بھی ہوتا ہے مگر جہنم کے عذاب کو غاشیہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ کامل عذاب ہو گا اور اُس میں سکھ کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔ اور غاشیہؔ زبردست مصیب کو بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں تَاْتِیْہٖ غَاشِیَۃٌ مِنْ عَذَابَ اللّٰہِ اَیْ نَائِبَۃٌ تَغْشَاہُ۔ یعنی اُس پر ایسی مصیبت نازل ہو گی جو اُس کو ڈھانپ لے گی (اقرب) اور غَاشِیَۃ پیٹ کی بیماری کو بھی کہتے ہیں۔ اور غَاشِیَۃ کے معنے ایسی جماعت کے بھی ہیں جو سوال کے رنگ میں یا کوئی اور فائدہ اُٹھانے کے لئے انسان کے پیچھے پڑی رہے۔ (اقرب) سوالیوں کو اس لئے غاشیہ کہتے ہیں کہ وُہ بُری طرح پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ نوکروں چاکروں کو بھی غاشیہ ب کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اُس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ اسی طرح وہ دوست جو ایک دوسرے سے ملنے کے لئے گھروں پر آتے ہیں وہ بھی غاشیہؔ کہلاتے ہیں (اقرب)
تفسیر
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ الٰہی عذابوں میں سے ایک عذاب خاص طور پر غاشیہ کہلانے کا مستحق ہے جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی آیا اور مسیح موعودؑ کے زمانہ کے لئے بھی اس کی پیشگوئی تھی۔ سورہ ٔ دُخان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنِo یَّغْشَی النَّاسَ ط ھٰذَاعَذَابٌ اَلِیْمٌ (الدخان ع ۱ ۴ ۱) یعنی تو انتظار کر اُس دن کا جب آسمان پر دُھواں ہی دُھواں چھا جائے گا اور سارے انسانوں کو اپنے اندر ڈھانپ لے گا یہ عذاب ہے جو نہایت ہی دردناک ہو گا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کو جب مکّہ والوں نے سخت دُکھ دیا تو آپ نے اس پیشگوئی کے ماتحت دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلَیْھِمْ بِسَبِّحْ کَسَبْحٍ یُوْسَفَ (بخاری جلد ۳ کتاب تفسیر القرآن) اَے خدا ان لوگوں نے مجھے سخت تنگ کر لیا ہے تُو میری اُن سات سالوں سے مدد فرما جن سات سالوں سے تُو نے حضرت یوسف علیہ السلام نے کی تھی چنانچہ اس دعا کے نتیجہ میں اُس زمانہ میں شدید قحط پڑا۔ بارشیں رُک گئیں اور اس قدر تباہی آئی کے مکّہ والوں نے ابو سفیان کو خاص طور پر رسول کریم ﷺ کی طرف بھیجا اور کہا کہ آ پ کی قوم قحط کی وجہ سے برباد ہو گئی آپ دعا کریں کہ اُن کی یہ حالت بدل جائے (بخاری کتاب تفسیر القرآن تفسیر سورۃ دخان) گویا جس طرح فرعون نے حضر موسٰیؑ کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنے سفیر بھیجے تھے اسی طرح مکّہ والوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اپنا سفیر بھیجا اور درخواست کی اس قحط کے دور ہونے کے متعلق دعا فرمائی جائے چنانچہ آپ نے دعا کی اور اللہ نے اُس قحط کو دُور کر دیا۔ تو غاشیہؔ سے مراد وہ عذاب دُخان بھی ہے جس کا ذکر سورۃ دُخان میں کیا گیا ہے۔ اِس دخانِ مبین کے عذاب کی مسیح موعودؑ کے زمانہ کے لئے بھی پیشگوئی کی گئی ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو الہامات نازل ہوئے اُن میں ایک الہام یہ بھی ہے کہ یَوْمَ تَاْتِ السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ وَتَرَی الْاَرْضَ یَوْمَئِذٍ خَامِدَۃً مُّصْفَرَّۃً (تذکرہ صفحہ ۵۹۴)
غرض علاوہ اور عذابوں کے جن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسّلام کے الہامات میں اشارہ کیا گیا ہے قحط کے عذاب کی خبر بھی آپ کے الہامات میں موجود ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس زمانہ میں لوگوں پر شدید تنگی اور مصیبت کے سال آئیں گے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے زمانہ میں علاوہ عام قحطوں کے جنگوں کی وجہ سے جو قحط پڑے ہیں وہ ایسے شدید ہیں کہ اُن کی مثال پہلے زمانوں میں نہیں ملتی۔ دنیا میں ایک ایک سال کے قحط پڑتے ہیں تو تباہی آ جاتی ہے مگر یہاں قحطوں کے یہ حالت ہے کہ بعض اقوام ایسی ہیں کہ جنہوں نے چھ چھ سال پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا۔ ۱۹۴۲ء کے شروع میں جب قحط کی تکلیف شروع ہوئی اور غلّہ کی سخت قلّت ہو گئی تو مَیں اُن دنوں میں سندھ میں تھا مجھے وہاں قادیان سے اطلاع ملی کہ یہاں اوّل تو گندم ملتی ہی نہیں اور اگر ملتی ہے تو اُس کی روٹی کالی پکتی ہے میرے نزدیک تو اس گندم سے پکی ہوئی روٹیاں جانوروں کے کھانے کے قابل بھی نہیں تھی مگر لوگ اِن ایام میں مجبوراً وہی کھاتے رہے۔ بنگال میں یہ حالت ہو گئی کہ ایک یتیم لڑکی جو ایک احمدی نے پرورش کے لئے رکھی ہوئی ہے بتاتی ہے کہ میں اور واقعات تو بھول گئی ہوں مگر مجھے اتنا یاد ہے کہ لو مُردوں کی ہڈیاں لے کر کھا جاتے تھے بعض جگہ پر ثابت ہؤا ہے کہ عورتوں نے اپنے بچہ زبح کر کے کھا لئے۔ یہ کیسا خطرناک قحط ہے کہ دس لاکھ آدمی سے زیادہ چند مہینوں میں ہی بھوک کی وجہ سے مر گیا اور یہ دس لاکھ بھی گورنمنٹ کا اندازہ ہے ورنہ پبلک کا اندازہ یہ ہے کہ بنگال میں بیس لاکھ آدمی قحط کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں حالانکہ بیس لاکھ آدمی جنگ کے قریبًا چھ سالہ عرصہ میں ہلاک نہیں ہوئے پھر وہ زمانہ ہے جس میں ریل موجود ہے۔ موٹریں موجود ہیں۔ لاریاں موجود ہیں۔ نہریں چل رہی ہیں اور سامان خورد ونوش نہایت آسانی کے ساتھ ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچایا جا سکتا ہے باوجود سامانوں کی اس قدر فراط کے ایک سال میں بیس لاکھ آدمی بھوک کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ اگر یہ قحط کسی ایسی جگہ پر پڑتا جہاں کھانے پینے کا سامان کسی صورت میں بھی پہنچایا نہ جا سکتا تو شائد ایک آدم بھی نہ بچتا اور سب کے سب ہلاک ہو جاتے۔ ہزارہا آدمی ایسے ہیں جو بنگال سے نکل کر پنجاب اور سرحد میں آ بسے ہیں اور انہوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ اب شائد قیامت تک بنگال میں قحط ہی رہے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان میں سے کوئی زندہ نہیں رہا اس لئے ہم گھبرا کر وہاں سے نکل آئے ہیں اب ہم نے واپس جا کر کیا کرنا ہے۔ بعض واقعات ایسے ہیں۔ کہ ایک بھوک سے تڑپتے ہوئے بچہ کو اٹھا کر لایا گیا اور اُسے دُودھ پلایا گیا تو دُودھ کے اندر جاتے ہیں وہ بچہ ہلاک ہو گیا۔ دراصل لمبے فاقہ کی وجہ سے معدہ میں زہر پیدا ہو جاتا ہے اور جب دُودھ یا کوئی اور غذا اندر جاتی ہے تو انسان ہلاک ہو جاتا ہے۔
پس ھَلْ آتٰکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ کے یہ معنے ہیں کہ کیا تمہیں معلوم ہے یا نہیں کہ غاشیہ کہلانے والی مصیبت بھی آنے والی ہے۔ ھَلْ چونکہ عام طور پر تصدیق ایجابی کے لئے آتا ہے اس لئے اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کیا حدیث غاشیہ آ پہنچی کہ نہیں یعنی آ پہنچی ہے۔ لیکن ھَلْ جب فعل سے پہلے آئے تو کبھی قَدْ کے معنے بھی دیتا ہے اس لحاظ سے آیت یوں ہو گی قَدْ اَتٰکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ لو اب مخالفتیں تیز ہونے والی ہیںاس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب کی خبریں آ رہی ہیں یا اے محمد ﷺ ہم نے تیری طرف حَدِیثُ الْغَاشِیَۃ بھیج دی۔ دشمن اب شرارت میں بڑھنے والا ہے اس لئے ہم نے بھی عذاب کی خبریں دینی شروع کر دی ہیں اور غاشیہ کے معنے چونکہ اُس شخص کے بھی ہوتے ہیں جس کے پاس کثرت سے لوگ آئیں اس لئے حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃ کے معنے فتوحات کے بھی ہو سکتے ہیں اور معنے یہ ہوں گے کہ چاروں طرف سے لوگوں کے وفود تیرے پاس آئیں گے۔ گویا درمیانی زمانۂ مخالفت کو چھوڑ دیا جائے اور آخری نتیجہ بیان کر دیا کہ تیرے پاس وفود آئیں گے۔ ان معنوں کے لحاظ سے حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃ سال وفود کی خبر دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کفار سے جنگ ہو گی۔ تُو اس جنگ میں جیت جائے گا اور پھر چاروں طرف سے لوگوں کے وفود تیرے پاس آئیں گے دُنیا دشمن اُن کو دیکھ دیکھ کر جل مرے گا اور مومن بہت بڑی ترقیات حاصل کریں گے۔
وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ
اُس دن (جب وہ مصیبت چھا جائے گی) کچھ چہرے اُترے ہوئے ہوں گے (وہ) محنت کر رہے ہوں گے (اور) اور تھک کر چور ہو رہے ہوں گے(لیکن محنت انہیں کوئی فائدہ نہ دے گی)۳؎
۳؎حل لغات
وُجُوْھٌ: وَجْہٌ کی جمع ہے اور وَجْہٌ کے اصل معنے تو چہرے کے ہوتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی اس کے کئی معنے ہوتے ہیں چنانچہ ایک معنے سَیِّدُ الْقَوْمِ کے ہوتے ہیں یعنی قوم کا سردار۔ پھر وَجْہٌ کے معنے اس انسان کے بھی ہوتے ہیں جو عزت اور وجاہت رکھتا ہو (اقرب) چنانچہ کہتے ہیں رَجُلٌ وَجْہٌ اور مرادی یہ ہوتی ہے ذُوْجَاہٍ یعنی فلاں آدمی بڑی عزت اور وجاہت والا ہے پس وُجُوْہٌ کے معنے ہوئے کچھ لوگ جو معزز سمجھے جاتے ہیں یا کچھ لوگ جو قوم کے سردار ہیں۔
خَاشِعَۃٌ: خَشَعَ سے اسم فاعل مؤنث کا صیغہ ہے اور خَشَعَ لَہٗ خُشَوْعًا کے معنے ہوتے ہیں ذَلَّ وَ تَطَاْمَنَ اُس سے دب گیا۔ اُس کے ماتحت ہو گیا یا اُس کے سامنے جھکنا پڑا۔ اور خَشَعَ بِبَصَرِہٖ کے معنے ہوتے ہیں غَضَّہٗ اُس نے اپنی آنکھیں نیچی رکھیں۔ اور خَشَعَ بَصَرُہٗ کے معنے ہوتے ہیں اِنْکَسَرَ اُس کی نظر جھک گئی یعنی ذلّت اور رسوائی کی وجہ سے انسان نے آنکھ اونچی نہ کی۔ اور خَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ کے معنے ہیں سَکَنَتْ وَذَلَّتْ وَخَضَعَتْ آوازیں دب گئیں اور خدا تعالیٰ کے سامنے ذلّت اور اقرارِ اتباع پر مجبور ہو گئیں (اقرب) پس وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ کے معنے ہوئے اُس دن کچھ سردارانِ قوم ہوں گے یا کچھ لوگ ہوں یا کچھ کچھ وجاہت والی ہستیاں ہوں گی جو بالکل ذلیل ہو جائیں گی اور اُن کی آوازیں دب جائیں گی۔
نَاصِبَۃٌ: نَصَبَ سے اسم فاعل مؤنث کا صیغہ ہے اور نَصَبَہُ الْھَمُّ کے معنے ہوتے ہیں اَتْعَبَہٗ تم نے اس کو تھکا دیا۔ اور نَصَبُ فُلَانُ نِ الشَّیْئَ کے معنے ہوتے ہیں وَضَعَہٗ وَضْعًا ثَابِتًا کَنَصْبِ الرُّمْحِ وَالْبِنَائِ وَالْھَجَرِ یعنی کسی چیز کو مضبوطی سے گاڑ دیا جیسے نیزہ گاڑا جارتا ہے یا بنیاد کو مضبو ط بنایا جاتا ہے یا پتھر کو عمارت میں مضبوطی سے پیوست کر دیا جاتا ہے۔ وَدَفَعَہٗ ضِدٌّ نیز یہ لفظ اضداد میں سے ہے اور اس کے معنے بلند کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور نَصَبَ السَّیْرَ کے معنے ہوتے ہیں دَفَعَہٗ اَوْھُوَ اَنْ یَّسِیْرَ طُوْلَ یَوْمِہٖ سَیْرًا لَیِّنًا اُس نے سیر کو بلند کیا یعنی خوب تیزی سے سفر کیا یا آہستہ آہستہ سارا دن سفر کرتا رہا۔ گویا اس کے دونوں معنے ہیں۔ یہ بھی معنے ہیں کہ خوب گھوڑا دوڑایا اور یہ بھی معنے ہیں کہ آہستہ آہستہ دیر تک سفر کرتا دچلا گیا۔ اور نَصَبَ بِفُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیں عَادَاہُ اُس سے دشمنی کی اور نَصَبَ لَہٗ الْحَرْبَ کے معنے ہوتے ہیں وَضَعَھَا اُس کے خلاف لڑائی کی اور نَصَبَ الْعَلَمَ کے معنے ہوتے ہیں رَفَعَہٗ وَاَقَامَہٗ مُسْتَقْبِلًا بِہٖ اس نے جھنڈے کو اپنے سامنے کھڑا کیا۔ اور نَصَبَ الشَّجَرَۃَ کے معنے ہوتے ہیں غَرَسَھَا فِی الْاَرْضِ اُس نے زمین میں درخت گاڑا اور نَصَبَ السُّلْطَانُ فُلَانًا کے معنے ہوتے ہیں وَلَّا ہٗ مَنْصَبًا اس کو بادشاہ کے منصب پر مقرر کیا اور نَصَبَ الشَّرَّ بِفُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیں اَشَرْتَ عَلَیْہِ بِرَاْیٍ لَایَعْدِلُ عَنْہُ کہ تُو نے ایسی رائے اُن کو دی جس سے وہ اِدھر اُدھر نہ ہو سکا (اقرب) پس عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ کے معنے ہوئے عمل کرنے والی جماعت یا اعلان جنگ کرنے والی یا اپنی بنیادوں کو مضبوطی سے گاڑ دینے والی یا لمبے لمبے سفر کرنے والی یا اپنی دشمنیوں کا اظہار کرنے والی یا عہدوں پر مقرر کرنے والی یا اپنے جھنڈوں کو اونچا کرنے والی یا نیزہ گاڑنے والی جماعت (اقرب)
خَاشِیَۃ کے معنے چونکہ عام مشکلات اور مصائب کے بھی ہیں جن میں وہ لڑائیاں بھی شامل ہیں جو کفار سے ہوئیں۔ اس لحاظ سے عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ کے یہ معنے ہوں گے کہ اب مخالفینِ اسلام تمہارے خلاف منصوبے کرنے والے ہیں اور اُن بغضوں اور کینوں کو جن کو وہ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے تھے ظاہر کرنے والے ہیں۔
تفسیر
یہ بتایا جا چکا ہے سورۃ غاشیہ کا نزول رسول کریم ﷺ کے دعویٰ ٔنبوّ کے چوتھے سال کے قریب ہؤا ہے اور یہی وہ سال ہے جس میں کفّار مکّہ کی طرف سے منظّم رنگ میں ایذاء دہی کا سلسلہ شروع ہؤا۔ ابتداء میں تو لوگ رسول کریم ﷺ کے دعویٔ نبوت کو سُنتے تو کہتے۔ ہائے ہائے بیچارہ پاگل ہو گیا ہے (نعوذ باللہ من ذالک) اس طرح آپ کو مجنون اور پاگل کہہ کر وہ اپنے دل کا غصّہ نکال لیتے تھے مگر جب کچھ لوگوں نے رسول کریم ﷺ کو مان لیا خصوصًا نوجوان طبقہ میں سے ایک بااثر حصّہ آپ کی بیعت میں شامل ہو گیا جن میں حضرت عثمانؓ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ خاص طور پر قابل ذکر ہیں تو کفار میں اسلام کے خلاف سخت جوش پیدا ہو گیا۔ اُن کے دلوں میں اسلام کی مخالفت کا جوش پیدا کرنے والی دو چیزیں تھی ایکؔ غلاموں کا اسلام میں شامل ہونا۔ دوسرےؔ رؤسا میں سے بعض نوجوانوں کا رسول کریم ﷺپر ایمان لے آنا۔ حضرت عثمانؓ۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ ایسے خاندانوں میں سے تھے جو مکّہ کے رؤسا شمار ہوتے تھے۔ جب یہ لوگو ایمان لے آئے تو وہ لوگ جو رسول کریمﷺ کو پاگل کہا کرتے تھے اُن لوگوں نے طعنہ دینا شروع کر دیا کہ کیا یہ پاگل ہو گیا ہے یہ تو تمہارے گھروں میں سے نوجوانوں کو اپنی طرف کھنچ کر لے گیا ہے اور تم اسی خیال میں مست ہو کہ پاگل ہے ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اسی طرح جب غلام مسلمان ہوئے اور کفار مکہ نے اُن کے مُنہ سے یہ باتیں سننی شروع کہ بتوں کی پرستش بالکل بیحودہ بات ہے اُن میں رکھا ہی کیا ہے وہ تو کسی کو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔ یہ تو باتیں اُن کے لئے بالکل ناقابلِ برداشت ہو گئیں۔ کیونکہ اوّل تو ان کے بتوں کو بُرا بھلا کہا جاتا تھا اور پھر کہنے والے وہ تھے جو ان کے غلام تھے۔ یہ حالا ت تیسرے سال کے بعد پیدا ہونے لگ گئے تھے چنانچہ اسلام کی ترقی کو دیکھ کر انہوں نے علی الاعلان کہنا شروع کر دیا کہ اب مذاق ہو چکا۔ اب ہم ان باتوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ہمارے ہاں بھی جب آپس میں مذاق ہو تو معمولی مذاق دوسرا شخص برداشت کرتاجاتا ہے لیکن جب یہ بات بڑھنے لگے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ اب حد ہو گئی اب اس کے بعد اگر کوئی مذاق کیا تو میں تم سے لڑ پڑوں گا۔ اسی طرح تیسرے سال کے بعد کفّار مکہ نے کہنا شروع کر دیا کہ ہم اِن باتوں کو مذاق سمجھتے تھے مگر اب تو حد ہو گئی اب یہ باتیں ہمارے لئے ناقابلِ برداشت ہو گئی ہیں چنانچہ اُنہوں نے اپنے بغضوں اور شرارتوں کا اعلان کر دیا۔ پس اُن کے اس اعلان کی ہی خبر خدا تعالیٰ نے وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ میں دی ہے کیونکہ نَاصِبَۃٌ کے ایک معنے افسر مقرر کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ وقت آ رہا ہے جبکہ رسول کریم ﷺ کی مخالفت میں مکّہ والے کمانڈر اور افسر مقرر کریں گے اور یہ لوگ پورا زور لگائیں گے کہ اسلام نہ پھیلے۔ چنانچہ پیشگوئی کے مطابق مخالفین نے مخالفت کے جھنڈے گاڑ دئے اور مقابلہ کے لئے اُتر آئے۔
پھر جن الفاظ میں مخالفین کی خبر دی ہے وہ ایسے ہیں کہ ان سے مخالفت کی تفصیل اور اُس کا انجام بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ پہلے عَامِلَۃٌ کہا اور پھر عَامِلَۃٌ میں انفرادی طور پر مکّہ والوں کے مخالفت کرنے کا ذکر تھا مگر اس کے بعد نَاصِبَۃٌ کا لفظ استعمال کیا اور نَاصِبَۃٌ میں قومی طور پر مخالفت کرنے کا ذکر ہے اور اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اب مکہ والے صرف انفرادی طور پر نہیں بلکہ قومی طور پر اجتماعی رنگ میں بھی مخالفت کریں گے اور اپنے میں سے بعض کو افسر مقرر کریں گے تاکہ ایک تنظیم کے ماتحت وہ مسلمانوں سے لڑیں اور اُن کو دِق کریں۔
پھر نَاصِبَۃٌ کے ایک معنے چونکہ تھکنے والی جماعت کے بھی ہیں۔ گویا آیت کے اس حصّہ میں مخالفت کے انجام کی طرف اشارہ کر دیا کہ اہالیانِ مکّہ مخالفت میں پوری محنت صرف کریں گے مگر اس کے نتیجہ میں اُن کو کوئی خوشی نہیں پہنچے گی۔ محنت کریںگے لیکن نتیجہ تھکان ہی تھکان نکلے گا آرام و راحت میسّر نہیں آئے گی۔
تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً
وہ (سخت گرم اور) بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۴؎
۴؎حل لغات
حَامِیَۃٌ: حَمِیَ سے ہے اور حَمِیَتْ النَّارُ کے معنے ہوتے ہیں اِشْتَدَّ حَرُّھَا آگ نہایت تیزی کے ساتھ بھڑک اٹھی (اقرب) پس حَامِیَۃٌ کے معنے ہوں گے کہ مخالف جماعتیں بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گی۔ ساری آگیں ایک قسم کی نہیں ہوتی ہے اور بعض کم گرم۔ یہاں تک کہ بعض آگیں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ ننگے پائوں صرف پائوں کو کیچڑ لگا کر اُن کے اُوپر سے گزر جاتے ہیں اور اُنہیں کوئلوں کی گرمی محسوس نہیں ہوتی۔ مگر فرماتا ہے کہ وہ آگ جس میںمخالفین داخل ہوں گے وہ نَارًا حَامِیَۃ ہو گی یعنی ایسی آگ جو اپنی تیزی اور اپنی گرمی میں انتہاء پر پہنچ چکی ہو گی۔
تفسیر
فرماتا ہے یہ مخالفت چاہے انفرادی ہو یا قومی مخالفین کی تباہی کا مؤجب ہو گی اور بجائے اس کے کہ مخالف لوگ امن و آرام پائیں یا اُنہیں عزّت اور کامیابی حاصل ہو یہ اُس آگ میں داخل ہوں گے جو سخت گرم ہو گی اور بھڑکنے میں تیز ہو گی یعنی مسلمان ترقی کر جائیں گے اور مخالفین اپنے منصوبوں میں ناکام و نامراد رہیں گے اور آگ میں جلیں گے۔
تُسْقٰی
انہیں اُبلتے ہوئے چشمہ سے (پانی) پلایا جائے گا۵؎
۵؎حل لغات
عَیْنٌ کے عربی زبان میں بہت سے معنے ہیں ان معنوں میں سے ایک چشمہ کے ہیں اور دوسرے معنے بادل کے ہیں (اقرب) اس آیت میں چونکہ تُسْقٰی کا لفظ استعمال ہؤا ہے اس لئے عَیْنٌ سے مراد چشمہ یا بادل ہی ہو سکتا ہے۔
اٰنِیَۃٌ: اَنٰی ریَاْنِی اَنْیًا وَاِنِّی وَاَنَائً سے ہے اور اَنَی کے معنے ہوتے ہیں دَنٰی وَقَرُبَ وَحَضَرَ۔ وہ قریب ہو گیا اور سامنے آ گیا۔ جب پانی کے متعلق یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے معنے ہوتے ہیں اِنْتَھٰی حَرُّہٗ۔ کہ پانی سخت گرم ہو گیا (اقرب) جیسے آگ کے متعلق کہتے ہیں حَمِیَتِ النَّارُ یعنی آگ سخت بھڑک اُٹھی اِسی طرح پانی کے لئے جب یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں وہ تیز گرم ہو گیا۔ پس تُسْقٰی مِنْ عرَیْنٍ اٰنِیَۃٍ کے یہ معنے ہوئے کہ اُنہیں اَیسے چشمے سے پانی پلایا جائے گا جو نہایت تیز گرم ہو گا یا ایسے بادلوں سے اُن پر پانی برسے گا جو نہایت شدید گرم ہوں گے اور اُن کو جُھلس کر رکھ دیں گے۔
تفسیر
انسان پیتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ پیاس بجھے اور پیاس ہمیشہ ٹھنڈا پانی بجھاتا ہے۔ لیکن یہاں یہ ذکر ہے کہ اُن کو سخت کَھولتا ہؤا گرم پانی پلایا جائے گا۔ گرم پانی انسان دو ہی حالتوں میں پیتا ہے یا تو اُس وقت جب بیمار ہو اور علاج کے لئے اُسے گرم پانی پینا پڑے اور یا اُس وقت جب ٹھنڈا پانی اُسے میسّر نہ آئے اور مجبوراً گرم پانی پینا پڑے۔ (گو اس زمانہ میں لوگوں میں چائے کا طریق مروج ہو گیا ہے جو گرم بھی ہوتی ہے اور پیاس بجھانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے مگر وہ درحقیقت ایک غذ اہے پانی کا قائمقام نہیں) پس گرم پانی پینے کا ذکر فرما کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ ہر آرام سے محروم ہو جائیںگے یا یہ اُن کی روحانی امراض کو دُور کرنے کے لئے اُنہیں ابتلائوں میں ڈالا جائے گا اور ایسے گرم چشمہ سے اُن کو پانی پلایا جائے گا جس کی گرمی انتہا درجہ تک پہنچی ہوئی ہو گی۔ یعنی پانی پینے کی جو اصل غرض ہوتی ہے کہ انسانی جسم پر تروتازگی آئے وہ اُن کو حاصل نہیں ہو گی۔ دُنیا میں دو قسم کی چیزیں ہیں۔ ایک تو ایسی ہیں تو نضارت اور تروتازگی پیدا کرتی ہیں اور ایک ایسی ہوتی ہیں جو موٹاپا پیدا کرتی ہیں۔ اِن میں سے ایک مقصد غذا سے اور دوسرا مقصد پانی سے حاصل ہو جاتا ہے۔ پانی پینے سے تروتازگی حاصل ہوتی ہے اور غذا کھانے سے بھوک دور ہوتی اور جسم فربہ ہوتا ہے۔ کفار کے متعلق بتایا کہ اُن کو یہ دونوںباتیں حاصل نہیں ہوں گی۔ نہ اُن کے اندر تازگی پائی جائے گی۔ اور نہ اُن کے جسم پر گوشت چڑھے گا یعنی اُن کے دل بھی مُرجھا جائیں گے اور اُن کے جسم بھی مُرجھا جائیں گے۔
کھولتا ہؤا چشمہ آخرت میں تو ہو گا ہی دنیا میں کھولتے ہوئے چشمہ سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جس سے دل کو آگ لگ جائے۔ مطلب یہ ہے کہ کفار کو ایسے مصائب پہنچیں گے اور ایسے حالات میں سے وہ گزریں گے کہ اُن کے دل جائیں گے۔ یہ عَیْنٍ اٰنِیَۃ ہی تھا کہ اُن کی اولادیں مسلمان ہو گئیں اور جس مذہب کو مٹانے کے لئے کھڑے ہوئے تھے اسی مذہب میں اُن کے بیٹے شامل ہو گئے۔ جب وہ اپنی اولادوں کو اسلام میں شامل دیکھتے ہوں گے تو کس طرح اُن کے دل جلتے ہوں گے ہم کیا چاہتے تھے اور کیا ہو گیا۔ ہمارے ہاں بھی محاورہ کے طور پر کہا جاتا ہے کہ میں تو غم کے گھونٹ پی رہا ہوں۔ گویا غم کی چیزوں کو بھی پینے سے مشابہت دی جاتی ہے۔ عربی زبان میں بھی غم کے گھونٹ پینا محاورہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ پس فرماتا ہے اُن کو گرم اور تیز گھونٹ پلائے جائیں گے یعنی ایک طرف اُن کی اولادیں اور دوسری طرف غلام مسلمان ہونے لگ جائیں گے جس کا اُن کو شدید صدمہ پہنچے گا۔ قرآن کریم میں اس حقیقت کو دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا تَاْتِیَ الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا (الرعد ع ۲ ۲ ۱) یعنی یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ پر غالب آ جائیں گے۔ آپؐ کے دین کو مٹا دیں گے اور مسلمانوں کو شکست دے دیں گے کیا اِن اندھوں کو یہ بات نظر نہیں آتی کہ ہم زمین کو اُس کے کناروں سے چھوٹا کرتے چلے آ رہے ہیں اِدھر اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور اُدھر نوجوان اسلام قبول کر رہے ہیں جب غلام اور نوجوان دونوں اِسلام میں داخل ہو گئے ہیں تو پیچھے سوائے بُڈھوں کے کون رہ جائے گا۔ یہ بُڈّھے چند سالوں میں مَر کر فنا ہو جائیں گے اور ان کی نسلیں اسلام میں شامل ہو جائیں گی۔ دنیا میں طاقت کے یہی دو ذرائع ہوتے ہیں ایکؔ غلام جو ہاتھ ہوتے ہیں اور دوسری آئندہ نسلیں جو جڑ ہوتی ہیں۔ جب اُن کے پاس نہ ہاتھ رہے اور ن جڑ تو درمیان کا ٹنڈ کیا کرے گا۔
غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ اسلام کی ترقی کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے اِن کفار کو عَیْنٍ اٰنِیَۃ یعنی گرم چشمہ سے گھونٹ پینے پڑیں گے اور یہ ایسی خبریں سُنیں گے جن سے ان کے سینے جلنے لگ جائیںگے ہم دیکھتے ہیں کہ واقعہ میں اگر کوئی شخص کسی مذہب کو سچے دل سے قبول کرتا ہے تو اس کی اولاد کا اس سے پھرنا اس کے لئے انتہائی طور پر دُکھ کا موجب ہوتا ہے عقلی طور پر اگر اولا دمذہب سے منحرف ہو جاتی ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں، مذہب کے معاملہ میں جبر سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا اگر اُن کا مخالف ہو سکتا ہے تو دوسرے لوگوں کی اولادیں بھی اپنے باپ دادا کی مذہب سے انحراف اختیار کر سکتی ہیں مگر جہاں کوئی اور قائم مقام نہ ہو اور وہ اولاد جس سے انسان کی امیدیں وابستہ ہوں اپنے باپ دادا کے مذہب کو ترک کر دے تو یہ ایک ایسا تلخ گھونٹ ہے جس کا پینا انسانی طاقتِ برداشت سے بالکل باہر ہوتا ہے۔
حدیبیہ کے مقام پر جب رسول کریم ﷺ کفّار سے صلح کی شرائط طے کرنے لگے تو اُس وقت کفار کی طر ف سہیل ابن عمرو نمائندہ تھے۔ اسی اثناء میں کہ ابھی شرائط صلح طے ہی ہو رہی تھیں کہ اس کا بیٹا ابوجندل ایسی حالت میں وہاں آ پہنچا کہ اس کے پائوں بیڑیاں پڑی ہوئیں تھیں (ابن ہشام) اور اُس نے آتے ہی کہا یا رسول اللہ ﷺ مَیں مسلمان ہوں اور آپ پر ایمان لا چکا ہوں۔ گھر میں تو اس کا باپ اُسے مارپیٹ کر غصّہ نکال لیتا ہو گا مگر اُس وقت جب اُسی کا لڑکا جسے اُس نے زنجیروں میں جکڑ کر گھر میں قید کیا ہؤا تھا لڑکھڑاتا اور گرتا پڑتا وہان پہنچا ہو گا اور اس نے کہا ہو گا کہ یا رسول اللہ میں آپ پر ایمان لا چکا ہوں تو اُس وقت اُس کا کیا حال ہؤا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں اُس کے لئے اٹھنا مشکل ہو گیا ہو گا اور وہ کہتا ہو گا کہ کاش اس وقت زمین پھٹ جائے تو مَیں اس میںسما جائوں۔ ایسے نازک وقت میں اُس کے اپنے بیٹے کا کفر سے اسی طرح برأت کا اظہار کرنا اُس کے لئے کتنا تلخ گھونٹ تھا جو اُسے پینا پڑا۔
اسی طرح ابوجہل کا واقعہ میںنے کئی دفعہ بیان کیا ہے۔ وہ جنگ بدر میں دو نوجوان لڑکوں کے ہاتھ سے مارا گیا اور آخری وقت اُس نے یہی کہا کہ مجھے اور تو کوئی صدمہ نہیں مگر افسوس ہے کہ میں دو انصاری لڑکوں کے ہاتھ سے مارا گیا ہوں۔
غرض اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار ایسے حالات میں سے گذریں گے کہ اُن کو بڑے بڑے تلخ گھونٹ پینے پڑیں گے۔
میں نے شروع میں بتایا ہے کہ یہ سُورۃ دونوں زمانوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ کے ساتھ بھی اور موجودہ زمانہ کے ساتھ بھی۔ تُسْقٰی مِنْ عَیْن اٰنِیَۃٍ میں کفار کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خبر دی گئی تھی وہ اس زمانہ میں بھی بڑی صفائی کے ساتھ پوری ہوئی ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے شدید مخالف تھے اور اُن کی ساری عمر آپ کی مخالفت کرتے گزر گئی۔ انہوں نے ایک دفعہ بڑی تعلّی کے ساتھ کہا تھا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو اونچا کیا تھا اور اب میں ہی اُن کو نیچے گرائوں گا۔ مگر اس کے بعد انہوںنے حضرت مرزا صاحب کو کیا گرانا تھا خود ہی ذلیل ہوتے گئے یہاں تک کہ اُن کے دو بیٹے بھاگ کر قادیان میں میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا باپ اتنا بے غیرت ہے کہ وہ ہمیں کہتا ہے کہ ہم کسی یتیم خانہ میں داخل ہو جائیں۔ وہ ہمیں ہر وقت مارتا پیٹتا ہے اور ہم سے ذلیل کام لیتا ہے اب ہم اُس کے پاس نہیں رہنا چاہتے۔ میں نے اُن دونوں کا وظیفہ لگا دیا اور انہیں قادیان میںتعلیم دلائی۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ اس میں بڑی ذلّت ہے اُن کو قادیان سے نکال دیں۔ مگر مَیں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ میرے پا س مدد کے لئے آئیں اور مَیں اُن کو نکال دُوں۔ اس کے بعد وہ دونوں احمدی ہو گئے۔ اور آخر مولوی صاحب زور دے کر اُن کو واپس لے گئے مگر پھر بھی اُن سے اَیسا سلوک کیا کہ اُن میں سے ایک تو مر گیا ہے مگر دوسرا عیسائی ہو گیا اور اب تک زندہ ہے اور ریاست میسور میں کاروبار کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں دل سے تو احمدی ہوں مگر روزی کے لئے مذہب تبدیل کیا ہؤا ہے۔ یہ کتنا تلخ گھونٹ تھا جو مولوی محمد حسین بٹالوی کو پینا پڑا۔ وہ شخص جس نے کہا تھا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو اونچا کیا تھا اور اب میں ہی اُن کو نیچے گرائوں گا اُن کے اپنے لڑکے ہمارے پاس مدد کے لئے آئے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہمارا باپ ہم کو مارتا ہے پیٹتا ہے اَور کھانے کے لئے روٹی تک نہیں دیتا۔ کہتا ہے کہ یتیم خانے میں داخل ہو جائو میرے پاس تمہارے لئے کچھ نہیں۔ چنانچہ ہم نے اُن کی مدد کی اور اپنے مدرسہ میں رکھ کر تعلیم دلائی پس یہ واقعہ مولوی محمد حسین صاحب کے لئے کتنا تلخ گھونٹ تھا جو اُن کو پینا پڑا۔
اسی طرح ایک اور مشہور مخالف جو ہمارے شدید مخالفوں کا سردار ہے اُس کے بیٹے پر ایک مقدمہ درج ہؤا۔ جس مجسٹریٹ کے پاس وہ مقدمہ گیا اتفاق سے وہ احمدی تھا۔ وہ احمدی مجسٹریٹ مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے ذکر کیا کہ فلاں مخالف کے لڑکے کا مقدمہ میرے پاس ہے اور وہ اس کے متعلق بڑی سفارشیں بھجوا رہا ہے کہ اُسے چھوڑ دیا جائے۔ میں نے انہیں کہا کہ اگر آپ اُسے جائز طور پر چھوڑ سکتے ہیں تو ضرور چھوڑ دیں تا کہ اس کے باپ کو شرم محسوس ہو کہ مَیں تو جماعت احمدیہ کی مخالفت کرتا رہا مگر احمدی مجسٹریٹ نے میرے بچے کو رہا کر دیا۔ یہ ایسا احسان ہو گا جو ساری عمر اس کی آنکھیں نیچی رکھے گا۔ اس لئے جائز طور پر اور قانون کی مناسب تشریح سے اگر آپ اس کو چھوڑ سکتے ہیں تو ضرور چھوڑ دیں۔
اسی طرح میں جب حج کے لئے گیا تو ہمارے ایک رشتہ دار جو ہمارے نانا جان مرحوم کی ہمیشرہ کے بیٹے تھے اور اس لحاظ سے ہمارے ماموں تھے اور ساتھ ہی ایک اور شخص جو بھوپال کے رہنے والے تھے اور نواب جمال الدین خاں صاحب کے نواسے تھے اور جن کا نام خالدؔ تھا ہمارے خلاف سخت شورش کر دی اور لوگوں کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کر دیا کہ یہ لوگ کفر پھیلاتے ہیں اور ساتھ ہی مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی کو (جو اس سال حج کو گئے تھے) مباحثہ کے لئے آمادہ کرنا شروع کیا اور ان کی غرض یہ تھی اس طرح اُن کا اعلان کثرت سے ہو گا اور مباحثہ ہؤا تو یہ لوگ جوش میں آ کر انہیں قتل کر دیں گے گورنمنٹ کو انہوں نے یا اُن کے ساتھیوں نے توجہ دلائی کہ ان کے خلاف فوری کاروائی کرے اور اس فتنہ کو بڑھنے سے روکے لیکن ہمیں ان کی اس اشتعال انگیزی کا علم نہ تھا۔ میں ایک دن ایک عرب مولانا عبدالستار کبتی کو شریفِ مکّہ کے بیٹوں کے استا د تھے تبلیغ کرنے کے لئے گیا۔ وہ بہت ہی شریف الطبع آدمی تھے عقیدۃً وہابی تھے مگر اپنے آپ کو وہابی ظاہر نہیں کرتے تھے بلکہ حنبلی ظاہر کرتے تھے انہوںنے باتوں باتوں میں اپنے متعلق خود ہی بتایا کہ میں ہوں تو اہلحدیث لیکن یہاں اہلحدیثوں کو چونکہ لوگ سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس لئے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتا۔ تعلیم کا کام بھی مفت اس لئے کرتا ہوں تا کہ شریف کے خاندان کی امداد حاصل رہے۔ اس پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے کوئی شخص میرے خلاف شرارت کی جرأت نہیں کر سکتا۔ آدمی بڑے شریف تھے میں اُن کو کافی دیر تک تبلیغ کرتا رہا۔ جاتی دفعہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک کتاب کے متعلق فرمایا تھا کہ اُس کا عرب ممالک سے پتہ لگانا۔ اُنہیں بھی کتابوں کا شوق تھا میں نے اُن سے اس کتاب کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ کتا ب میرے پاس تو نہیں لیکن حلبؔ کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ جب مَیں تبلیغ سے فارغ ہؤا تو وہ کہنے لگے آپ نے مجھے تو تبلیغ کر لی ہے اور آپ کی باتیں بھی معقول ہیں لیکن میرے سوا اور کسی کو تبلیغ نہ کریں ورنہ آپ کی جان کی خیر نہیں۔ لوگ بہت جوش میں ہیں اگر آپ نے تبلیغ کی تو خطرہ ہے کہ آپ پر کوئی شخص حملہ نہ کر بیٹھے یا حکومت ہی آپ کو قید نہ کر دے۔ میں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں آپ کے خلاف بعض لوگوں نے یہاں اشتہار شائع کیا ہے اور لوگ سخت جوش میں بھرے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کس نے وہ اشتہار شائع کروایا ہے؟ تو انہوں نے کہا ایک تو اس اشتہار کے محرک فلاں مولوی صاحب ہیں۔ میں نے کہا وہ تو میرے ماموں ہیں۔ اور کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا دوسرے بھوپال کے ایک رئیس جن کا نام خالدؔ ہے۔ اِن دونوں نے آپ کے خلاف اشتہار دیا ہے یا دلوایا ہے اور اگر لکھا ہے کہ اگر انہیں اپنے دعاوی کی صداقت پر یقین ہے تو مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے مباحثہ کر لیں۔ مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی بھی اُن دنوں میں وہی تھے اور ہمارے ماموں کا یہ خیال تھا کہ مکّہ میں چونکہ باقاعدہ حکومت کوئی نہیں اس لئے اگر مباحثہ ہؤا تو لوگ انہیں مار ڈالیں گے اور اس طر ح ایک کانٹا نکل جائے گا۔ مولانا عبدالستار کبتی فرمانے لگے میں نے مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے کہا ہے کہ کہیں جوش میں مباحثہ نہ کر بیٹھنا کیونکہ یہاں احمدیوں کی اتنی مخالفت نہیں جتنی کہ جتنی وہابیوں کی ہے اس لئے لوگوںکو کیوں خواہ مخواہ اپنے مخالف اشتعال دلاتے ہو۔ احمدیوں کے خلاف کسی اشتعال آیا یا نہ آیا تمہارے خلا ف تو لوگ ضرور بھڑک اٹھیں گے اس لئے وہ شاید اس ڈر سے مقابلہ نہ کریں کہ کہیں شورش زیادہ نہ ہو جائے مگر آپ کسی اور کو اب تبلیغ نہ کریں ایسا نہ ہو کہ آپ کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔ میں نے کہا آپ کس طرف سے زیادہ خطرہ سمجھتے ہیں؟ انہوں نے ایک عالم کا نام لیا کہ اُسے تو بالکل تبلیغ نہ کرنا۔ میں نے کہا کہ میں تو اسے ایک گھنٹہ تبلیغ کر کے آ رہا ہوں۔ وہ حیران ہو کر بولے پھر کیا ہؤا؟ میں نے کہا کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ غصّہ اور جوش کی حالت میں کہہ دیتے تھے کہ نہ ہوئی تلوار ہمارے قبضہ میں ورنہ تمارا سر اُڑا دیتا۔ غرض وہ ہمارے ماموں اور بھوپال کے رئیس ہمارے خلاف لوگوں کو خوب بھڑکاتے رہے لیکن ادھر حج ختم ہؤا اور اُدھر مکّہ میں ہیضہ پُھوٹ پڑا جو اتنا شدید تھا کہ لوگ گلیوں میں مُردوں کو پھینک دیتے تھے دفن کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا یہ دیکھ کر نانا جان گھبرا گئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں جلدی واپس چلنا چاہئیے۔ چنانچہ ہم نے واپسی کی تیاری شروع کر دی اور آخری ملاقات کے لئے نانا جان صاحب مرحوم اپنی بہن اور بھانجہ سے ملنے کے لئے اُن کے مکان پر گئے میں بھی ساتھ تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک جنازہ پڑا ہے لوگ جمع ہیں اور تدفین کی تیاری ہو رہی ہے۔ نانا جان نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ لوگوں نے ہمارے ماموں کا نام لیا کہ اُن کا انتقال ہو گیا ہے ۔ منٰیؔ سے واپس آئے تھے کہ ہیضہ کا حملہ ہو گیا اور تھوڑی دیر میں ہی فوت ہو گئے۔ ایک کا تو یہ حال ہؤا۔
جب ہم جدّہ پہنچے تو جدّہ کے انگریزی قنصل خانہ میں بھی ہمارے ننھیال کے رشتہ دار ہیڈ کلرک تھے۔ بھوپا ل کے جس رشتہ دار کا میں نے ذکرکیا ہے وہ تو نانا جان مرحوم کے رشتہ داروںمیں سے تھے اور یہ نانی اماں صاحبہ مرحومہ کے رشتہ داروں میں سے تھے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہمارے جتنے رشتہ دار نانا جان کی طرف سے تھے وہ بالعموم مخالف تھے اور جتنے نانی اماں کی طرف سے تھے وہ بالعموم محبت کرنے والے تھے (مگر اب حالات وہ نہیں رہے) یہ غالبًا اُن کی خالہ کے لڑکے تھے اور ہم سے محبت کرتے تھے۔ جہاز چونکہ کم تھا اور لوگ جلدی واپس ہونا چاہتے تھے اس لئے ٹکٹ ملنے میں سخت دشواری تھی۔ ہم نے اُن سے کہا کہ ٹکٹوں کا جلدی انتظام کر دیں تاکہ ہم پہلے جہاز میں واپس ہو سکیں۔ انہوں نے جہاز ران کمپنی کے دفتر میں مجھے بٹھا دیا اور اس کی کھڑکی کے قریب بیٹھ گیا۔ یہ کھڑکی بہت اونچی تھی اور وہاں ہاتھ بمشکل اونچا کر کے پہنچ سکتا تھا۔ اتنے میں ایک نوجوان دُبلے پتلے سفید رنگ کے تھے اُس کھڑکی کے نیچے آئے اُنہوں نے مجھے بیٹھے دیکھ کر خیال کیا کہ شاید کمپنی کا ملازم ہوں چنانچہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ میں نے کہا آپ کا اس سے کیا مطلب؟ انہوں نے کہا میرا مقصد یہ ہے کہ کیا آپ کمپنی میں کام کرتے ہیں؟ مَیں نے کہا مَیں تو کمپنی میں کام نہیں کرتا۔ کہنے لگے تو کیا کمپنی سے کوئی اور تعلق ہے؟ میں نے کہا کہ میرا کمپنی سے کسی قسم کا تعلق نہیں۔ وہ کہنے لگے پھر آپ کمپنی کے دفتر میں بیٹھے کیوں ہیں؟ مَیں نے کہا میرے ایک عزیز مجھے یہاں بٹھا گئے ہیں اور وہ خود ٹکٹوں کی خرید کا انتظام کر رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہمارا قافلہ تیس تیس عورتوں اور مردوں پر مشتمل ہے اور اس وقت سخت مصیبت کا سامنا ہے مگر ہمیں سب سے زیادہ فکر عورتوں کا ہے ہیضہ کی وجہ سے عورتیں تو پاگل ہو رہی ہیں اگر آپ دس بارہ ٹکٹ خرید دیں تو ہم عوروتوں کو یہاں سے نکال دیں مردوں کے ساتھ جو گزرے گی گزر جائے گی۔ میں نے کہا عورتیں اکیلی کس طرح جائیں گی؟ اس پر وہ کہنے لگے اگر آپ دو چار اور ٹکٹ لے دیں تو کچھ مرد بھی اُن کے ساتھ جا سکیں گے اور آپ کی یہ بڑی مہربانی ہو گی۔ مَیں نے کہا کہ ٹکٹوں کی خرید کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں مگر مَیں کوشش کرتا ہوں۔ وہ فوراً پیچھے پلٹ کر گئے اور واپس آ کر ایک تھیلی روپوں کی انہوں نے مجھے پکڑا دی۔ جب میرے وہ عزیز اُس کمرہ میں آئے تو میں نے اُن سے کہا ماموں اِن لوگوںکی حالت بہت قابلِ رحم ہے آپ ان کو بھی ٹکٹ لا دیں۔ وہ اُس وقت کسی بات پر چڑھے ہوئے تھے کہنے لگے کیا میں کوئی ایجنٹ ہوں کہ ٹکٹ لاتا پھروں۔ مَیں نے کہا یہ رحم کا معاملہ ہے آپ ضرور کوشش کریں اور اگر آپ اُن کے لئے نہیں تو کم از کم میری خاطر ہی کچھ ٹکٹ لا دیں وُہ بڑبڑاتے ہوئے واپس دفتر چلے گئے اور میں نے سمجھا کہ یہ کچھ مدد نہ کر سکیں گے مگر تھوڑی ہی دیر میں وہ غالبًا سترہ ٹکٹ لے کر واپس آئے اور میرے ہاتھ میں ٹکٹ پکڑا دئیے۔ میں نے وہ ٹکٹ اور باقی روپے کھڑکی میں سے اُن صاحب کو پکڑا دیئے۔ اور وہ لے کر چلے گئے شاید دوسرے ہی دن جب مَیں جہاز پر سوار ہونے کے لئے گیا تو مجھے کچھ دیر ہو گئی تھی جہاز چلنے ہی والا تھا وُہ نوجوان جہاز کے دروازہ پر ہی مجھے ملے اور کہنے لگے آپ نے اتنی دیر لگا دی جلدی کریں جہاز تو چلنے والا ہے۔ چنانچہ انہوں نے مزدوروں پر زور دے کر جلدجلد میرا اسباب جہازمیں اسباب جہاز میں رکھوایا اور پھر بڑی ممنونیت کا اظہار کیا کہ آپ نے بڑا احسان کیا جو ہمیں ٹکٹ لے دئے ورنہ ہمارا سوار ہونا بالکل ناممکن تھا۔ میں نے کہا آپ کی تعریف؟ کہنے لگے میرا نام خالد ہے اور نواب جمال الدین خان صاحب کا نواسہ ہوں۔ اب سوچو کہ وہ صاحب جو مکّہ میں بحث مباحثہ ڈال کر مروانے کے موجب ہو رہے تھے جب اُنہیں میرے نام کا پتہ لگا ہو گا تو وہ کس قدر شرمندہ ہوئے ہوں گے۔ کہ میں نے اُن سے کیا سلوک کرنا چاہا تھا اور انہوں نے مجھ سے کیا سلوک کیا۔ چنانچہ اس کے بعد انہوںنے جہاز پر کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ بھوپال کی جماعت کی یہ رپورٹ ہے کہ وہ جماعت کے دوستوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے بعد سارے سفر میں وہ میرے ممنون احسان رہے اور اصرار کرتے رہتے تھے کہ اُن کے ساتھ کھانا کھایا جائے یا چائے پی جائے۔ تو اللہ تعالیٰ ایسے ہی حالا ت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے تم کو ایسے ایسے مواقع ملیں گے کہ ان کفار کو گرم گرم پانی کے گھونٹ پینے پڑیں گے۔ جب رسول کریم ﷺ کو کفّار مکّہ نے یہ کہلا کر بھیجا ہو گا کہ آپ ہمارے لئے دعا کریں کہ قحط دُور ہو جائے یا جب آپ ایک فاتح کی صورت میں مکّہ میں داخل ہوئے اور آپ نے کفار سے کہا کہ بتائو اب تم سے کیا سلوک کیا جائے اور انہوں نے کہا کہ ہم سے وہی سلوک کیا جائے جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا۔ تو اس وقت ان کو تلخ گھونٹ پینا پڑا ہو گا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اُن کی زبانیں خشک ہو ہو کر تالُو سے لگ جاتی ہوں گی کہ ہمیں کیسا ذلیل ہونا پڑا اور کس طرح اسلام کی فوقیت کا اعتراف کرنا پڑا۔
لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ
اُنہیں سوکھے شبرق گھاس کے سوا اور کوئی کھانا نہیں ملے گا وہ نہ تو اُنہیں موٹا کرے گا اور نہ بھوک (کی تکلیف) سے بچائے گا ۶؎
۶؎ حل لغات
اَلضَّرِیْعُ: اَلضَّرِیْعُ نَبَاتٌ رَتْبُہٗ یُسَمّٰی شِبْرَقًا وَیَابِسُہٗ ضَرِیْعًا لَاتَقْرُبُہٗ دَابَّۃٌ لِخُبْثِہٖ۔ یعنی ضریع گھاس کی ایک قسم ہوتی ہے جب تک وہ گھاس تازہ رہے اُسے شبرق کہتے ہیں اور جب سوکھ جائے تو ضریعؔ کہتے ہیں ضریع ایسی گندی چیز ہوتی کہ جانور بھی اس کو نہیں کھاتے ۔ اسی طرح ضریعؔ ایسی گھاس کو بھی کہتے ہیں جو سمندر کے کنارے اُگ آتا ہے مگر چونکہ نہایت گندہ اور بد بو دار ہوتا ہے لوگ اسے کاٹ کر پانی میں بہا دیتے ہیں۔ اسی طرح ہر درخت کی سُوکھی ٹہنی یا سُوکھے پتوں کو بھی ضریعؔ کہتے ہیں۔ اسی طرح سڑے ہوئے پانی میں ایک بوٹی ہوتی ہے اس کبھی ضریع کہتے ہیں۔ (اقرب) لغت والوں نے جو اس کی تشریح کی ہے اُس سے میں سمجھتا ہوں کہ غالبًا اس سے کائی مراد ہے کیونکہ وہ لکھتے ہیں نَبَاتٌ فِی الْمَآئِ الْاَجَنِ لَہٗ عُرُوْقٌ لَاتَصِلُ اِلَی الْاَرْضِ سڑے ہوئے پانی میں ایک بوٹی ہوتی ہے جس کی جڑیں زمیں میں نہیں جاتیں پانی میں رہتی ہیں یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن میں کوئی غذائیت نہیں ہوتی اور جنہیں انسان چھوڑ جانور بھی نہیں کھاتے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ کہ اُن کے سوائے ضریع کے اور کوئی کھانا نہیں ملے گا۔
تفسیر
علّامہ زمخشری لکھتے ہیں اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ ان کوکوئی کھانا نہیں ملے گا کیونکہ ضریع کوئی کھانا نہیںہے لیکن بحر محیط والوں نے اس پر بڑی عمدہ جرح کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ یہ درست نہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ ضریع کھانا ہو یا نہ ہو مگر جس کو کھانے کے لئے کچھ نہیں ملتا وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کھا ہی لیتا ہے خواہ عام حالات میں وہ چیز کھانے کے ناقابل ہی کیوں نہ ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد صاف طور پر فرما دیا ہے کہ لَا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ تو یہ کیوں کہتے ہو کہ اُن کو کھانا نہیں ملے گا۔ قرآن کریم کا اسلوبِ بیان اور اُس کے الفاظ واضح کر رہے ہیں کہ ان کو کھانے کے لئے ضریع دیا جائے گا یعنی وہ ایسے ذلیل ہو جائیں گے کہ ایسی چیزیں کھانے پر مجبور ہوں گے جن جانور بھی نہیں کھاتے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کو ایسی ایسی ذلّتیں اور رسوائیاں پہنچیں گی جن کو ادنیٰ ادنیٰ انسان بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ فتح مکّہ کے بعد کئی آدمی جنگلوں میں بھاگ کر چلے گئے تھے اور وہیں مر گئے۔ پھر بعض لوگ تھے جو بڑی بڑی تلخیاں برداشت کرنے کے بعد مکّہ میں واپس آئے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ سے معافی مانگی جس پر رسول کریم ﷺ نے اُنہیں معاف فرما دیا۔ جب رسول کریم ﷺ نے مکّہ فتح کر لیا تو وہ لوگ جو کہا کرتے تھے کہ ہم مسلمانوں کو تباہ کر دیں گے۔ اُن کو کچل کر رکھ دیں گے۔ اُن کو مٹا دیں گے جب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوں گے کہ مسلمان غلام اُن کے حاکم اور سردار بنے ہوئے ہیں تو خواہ وہ اعلیٰ درجہ کا کھانا ہی کیوں نہ کھاتے ہوں مگر وہ انہیں ضریع سے محسوس نہیں ہوتا اور وہ اُن کے انگ میں نہیں لگتا ہو گا۔ یہ ضروری نہیں کہ ضریع سے مراد یہاں حقیقتًا شبرق گھاس ہی ہو بلکہ آگے جو تشریح کی گئی ہے کہ لَا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ وہ کھانا نہ اُن کو موٹا کرے گا اور نہ اُن کی بھوک کو دُور کرے گا یہ اُن کی بدحواسی کی حالت کو ظاہر کر رہا ہے۔ پس بالکل قرین قیاس ہے کہ ضریع کا ذکر استعارۃً ہے۔
وہ روزانہ دیکھتے تھے کہ مسلمان ترقی کر رہے ہیں اور ہم شکست کھاتے جا رہے ہیں۔ پھر ہر لڑائی میں اُنہیں خبریں پہنچتی تھیں کہ آج فلاں رئیس مر گیا ہے۔ آج فلاں سردار مر گیا ہے یا آج فلاں قوم مسلمانوں سے مل گئی ہے اور فلاں قوم نے بھی اسلام قبول کرلیا ہے۔ یہ خبریں اُن کے لئے اس قدر پریشان کن۔ اس قدر تکلیف دہ اور اس قد ر غم و الم میں مبتلا کرنے والی تھیں کہ واقعہ میں اچھی سے اچھی غذائیں کھا کر بھی وہ اُن کے انگ میں نہیں لگ سکتی تھیں۔ الغرض لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ لَّایُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ اور اسی طرح تُسْقٰی مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَۃ میں اسلام کی ترقیات کے متعلق زبردست پیشگوئی کی گئی ہے۔
عیسائی مصنّف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سورۃ ابتدائی ایام کی ہے جب کہ ابھی رسول کریم ﷺ کے دعویٔ نبوّت پر ابھی صرف تین چار سال گزرے تھے یہ کتنا بڑا نشان ہے کہ اُن ابتدائی ایام میں ہی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ ان کفار سے جنگ ہو گی۔ قحط کی سُورت میں اُن پر عذاب نازل ہو گا۔ وہ انفرادی کوششیں بھی اسلام کو مٹانے کے لئے کریں گے اور اجتماعی کوششیں بھی اسلام کے خلاف کریں صرف کریں گے چنانچہ عَامِلَۃٌ نَاصِبَۃٌ میں اسلام کو اسی رنگ میں چیلنج دیا گیا تھا جس رنگ میں حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے دشمنوں کو دیا کہ یَاقَوْمِ اِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَّقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ فَاجْمِعُوْآ اَمْرِکُمْ وَشُرَکَآئَ کُمْ ثُمَّ لَایَکُْنْ اَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْصُوْآ اِلَیَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِ (یونس ع ۸ ۳ ۱)یعنی اے میری قوم اگر تمہیں میرا مرتبہ اور اللہ تعالیٰ کے نشانون کے ذریعہ تمہیں فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانا ناگوار گزرتا ہے تو پھر بے شک میرے مقابلہ میں نکل آئو۔ اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کر لَو اور ہر لحاظ سے مجھے مٹانے کے لئے متحد ہو جائو پھر دیکھو کہ کون ہے جو کامیاب ہوتا ہے اور کون ہے جو ناکامی کا منہ دیکھتا ہے۔ بالکل اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ کفار اپنی تمام طاقتوں کو مجتمع کر لیں گے وہ افسر اور کمانڈر مقرر کر کے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کریں گے مگر نہ اُن کے کمانڈر اُن کے کام آئیں گے‘ نہ اُن کے جیوش اُن کو فتح دلائیں گے‘ نہ اُن کے افسر اُن کو کامیابی تک پہنچائیں گے اور نہ اُن کے منصوبے مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں گے۔ چنانچہ باجود اس کے کہ وہ بڑے بڑے ماہر اور تجربہ کار افسر چُن چُن کر مقرر کرتے تھے وُہ افسر مسلمانوں کے مقابلہ میں ہمیشہ شکست کھا کر واپس آتے ۔
غور کرو اورسوچو کہ کیسے نازک وقت میں اسلام کی ترقی کی یہ عظیم الشان خبر دی گئی تھی کہ یہ لوگ تو الگ رہے ان کے سردار بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں کچھ نہیں کر سکتے۔ اُس وقت ظاہری حالات کے لحاظ سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مسلمان اپنے گھروں سے باہر نکل کر نمازیں پڑھ سکیں گے فتح و غلبہ تو دُور کی بات ہے مگر ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی کہ مسلمان کامیاب ہوں گے۔ دشمن ناکام ہو گا اور نہ اُنہیں تیز گرم پانی کے گھونٹ بار بار پینے پڑیں گے۔ مسلمانوں کی مظلومیت اور اُن کی کمزوری اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ جنگ احزاب تک یہ حالت تھی جس کا حدیثوں میں ذکر آتا ہے اور قرآن کریم میں بھی اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ منافق مسلمانوں کو طعنے دیتے تھے کہ تمہیں پاخانہ پھرنے کو تو جگہ نہیں ملتی اور فتح کی خبریںسُنائی جا رہی ہیں۔ یہ غلبہ کی پیشگوئی چوتھے سال بعد نبوت میں کی گئی ہے اور ہجرت کے پانچویں سال تک مسلمانوں کی کمزوری کی یہ حالت تھی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ پس اتنا لمباعرصہ پہلے اسلام کے غلبہ اور مسلمانوں کی شان و شوکت کے متعلق خبر دے دینا یقینا کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا۔
غرض لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ لَّایُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ میں بتایا گیا ہے کہ اُن کھانا اور اُن کا پینا اُن کے لئے عذاب بن جائے گا اور غم اور مصیبت اُن پر نازل ہو گی۔ گویا استعارۃً یہ ویسا ہی کلام ہے جیسے ایک شاعر کہتا ہے
؎ خُون دل پینے کو اور لختِ جگر کھانے کو
یہ غذا ملتی ہے لیلیٰ تیرے دیوانے کو
پانی پئیں گے اور وہ آگ معلوم ہو گا خواہ ٹھنڈا پانی پئیں لیکن وہ اُن کے گلے میں پھنسے گا اور انہیں جلائے گا جیسے غم اور مصیبت میں لوگ پانی پیتے ہیں تو وہ اُن کے گلے میں پھنستا ہے۔ دُودھ دے دو۔ عمدہ سے عمدہ کھانا دے دو۔ اچھی سے اچھی غذائیں کھلاتے جائو اُن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ غم سے انسان اور زیادہ دُبلہ ہو جاتا ہے پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مخالفینِ اسلام پر اس قدر مصائب و مشکلات آئیں گی۔ اس قدر ان کی عزتوں پر حملے ہوں گے۔ خاندانی حملے ہوں گے کہ اُن کو تلخی کے گھونٹ پینے پڑیں گے اور لخت جگر کھانے کو ملیں گے۔ ٹھنڈا پانی پئیں گے لیکن وہ اُن کے منہ میں آبلے ڈال دے گا۔ عمدہ سے عمدہ کھانے کھائیں گے لیکن وہ اُنہیں اتنا نفع نہیں دیں گے جتنا خشک پتّے یا شبرق گھاس اونٹ کو نفع دیتے ہیں۔
روایتوں میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مخالفین نے کہا کہ ہمارے اونٹ تو ضریع کھا کر موٹے ہوتے ہیں اس پر بعض مفسریں کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ضریع اُونٹ کا کھانا تھا اور وہ اُس کے کھانے سے موٹا ہوتا تھا دوسرے مفسروں نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یا تو اُن کی یہ بات غلط تھی اور یا پھر خدا نے لَّایُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ میں ایک قید لگا دی ہے کہ اُن کو ایسا ضریع ملے جو نہ موٹا کرے اور نہ بھوک کو دُور کرے گا وہ ضریع اُن کے اُونٹوں کو موٹا کرتا ہو گا لیکن کفار کو وہ ضریع ملے گا جو لَّایُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ کا مصداق ہو گا۔
مجھے تعجب آتا ہے کہ مفسّرین اس بحث میں پڑے ہی کیوں ہیں۔ اگر تو اس آیت میں یہ ذکر آتا کہ لَیْسَ لِجَمَالِھِمْ یا لَیْسَ لِاَبَالِھِمْ کہ اُن کے اونٹوں کو سوائے اس کے کوئی کھانا نہیں ملے گا تب تو یہ بحث بھی ہوتی کہ ضریع جانور کو موٹا کرتا ہے یا نہیں لیکن یہاں تو آدمیوں کا ذکر ہے اونٹوں کا ذکر نہیں اگر کوئی جابر بادشاہ سزا کے طور پر کسی ملزم کے متعلق کہے کہ فلاں شخص کے آگے بھوسہ ڈالو تو کیا وہ شخص اور اُس کے دوست خوش ہوں گے اورکہیں گے کہ بھوسہ کھانے سے تو بیل موٹا ہو جاتا ہے اگر اس کے آگے بھوسہ ڈالا گیا ہے تو کیا حرج ہے۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بھوسہ بیل کو موٹا کرتا ہے کسی انسان کے متعلق اگر یہ کہا جائے گا کہ اُس کے آگے بھوسہ ڈالو تو اُس میں اس کی ذلّت ہو گی عزّت افزائی نہیں ہو گی اور نہ کوئی یہ کہے گا کہ اسے وہ غذا دی گئی ہے جو موٹا کرتی ہے۔
شہاب الدین غوری نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو ایک جنگ میں پرتھوی راج کے مقابلہ میں اُس کے لشکر کے بعض سپاہی بھاگ اُٹھے۔ شہاب الدین غوری نے بھاگنے والوں کے متعلق حکم دیا کہ اُن کے منہ پر توبڑا باندھ کر اور اُس میں چنے ڈال کر اُن سے کہا جائے کہ یہ چنے کھائو۔ چنانچہ اُن کے منہ پر توبڑے باندھے گئے اور اُن میں چنے ڈال دئے گئے یہ بتانے کے لئے کہ یہ لوگ جانوروں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اب کیا کوئی معقول آدمی کہہ سکتا ہے کہ وہ سپاہی اس پر بڑے خوش ہوئے وہ ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ دانہ تو اچھے گھوڑے یا اچھے گدھے کو ڈالا جاتا ہے اگر ہمیں بھی دانہ ڈال دیا گیا تو کیا ہؤا۔ پس میں تو سمجھ ہی نہیں سکا کہ اس بحث کے معنے ہی کیا ہوئے۔ پھر یہ بحث بالکل لغو ہے کہ ضریع اونٹ کو فائدہ دیتا ہے یا نہیں۔ اوّل لغت والے لکھتے ہیں کہ لَاتَقْرُبُہٗ دَابَّۃٌ لِخُبْثِہٖ۔ اُس کے گند اور خرابی کی وجہ سے جانور بھی اُس کو نہیں کھاتا۔ لیکن اگر وہ کھاتا بھی ہے تب بھی مکّہ والوں نے اگر یہ بات کہی تو یقینا انہوں نے اپنے جانور ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اگر کسی آدمی کو یہ کہا جائے کہ تمہیں جانور کا کھانا ملے گا تو کیا وہ یہ کہے گا کہ مجھے بے شک دے دو کیونکہ جانور اس کے کھانے سے موٹا ہوتا ہے۔ پس مفسرین کا اس بحث میں پڑ جانا کہ ضریع اونٹ کو موٹا کرتا ہے یا نہیں بالکل لغو بات ہے۔ قرآن نے ابوجہلؔ اور عتبہؔ اور شیبہؔوغیرہ کا ذکر کیا ہے کہ ان کو ضریع ملے گا اونٹوں کا یہ ذ کرنہیں کیا کہ یہ بحث کی جائے کہ اونٹ تو اس کے کھانے سے موٹے ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی کے ہاں کوئی چوڑھا بھی بطور مہمان اور وہ اُ س کے سامنے بھوسہ ڈال دے یا تازہ بتازہ گھاس لا کر رکھ دے جس کے کھانے سے بیل اور بھینسیں موٹی ہوتی ہیں تو وہ خوش نہیں ہو گا بلکہ اُسے اپنی انتہائی ہتک سمجھے گا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ یہاں آدمیوں کا ذکر کر رہا ہے تو اس بحث کا مطلب ہی کیا ہؤا کہ ضریع اونٹ کو موٹا کر دیتا ہے۔ بادب ان مفسرین سے کہتا ہوں کہ یہاں آدمیوں کی بات ہو رہی ہے جانوروں کی نہیں۔ اگر مکّہ والوں نے ایسا کہا تھا تو یقینا انہوں نے اپنے جانور ہونے کا ثبوت دیا تھا آپ کو اُن کا جواب دینے کی فکر نہ کرنی چاہئیے۔
وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ
کچھ (اور) چہرے اُس دن خوش بخوش ہوں گے۷؎
۷؎ حل لغات
نَاعِمَۃٌ: نَعَمَ سے اسم فاعل مؤنث کا صیغہ ہے اور نَعَمَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں رَفِہَ۔ وہ خوشحال اور آسودہ حال ہو گیا۔ اور جب نَعَمَ عَیْشُہٗ کہیں تو معنے ہوتے ہیں طَابَ وَلَانَ وَاتَّسَعَ۔ یعنی اس کی زندگی عمدہ ہو گئی اور کسی تکلیف کا سامنا اُسے نہ کرنا پڑا۔ اور ہر چیز اُسے بافراغت ملنے لگی (اقرب) بحر محیط کے مصنّف نے نَاعِمَۃٌ کے معنے حسن و نضارت والے کے کئے ہیں اور پھر لکھا ہے کہ نَاعِمَۃٌ کے معنے مُتَنَعِّمَۃ کے بھی ہوتے ہیں یعنی یہ معنے بھی ہیں کہ اُن میں حُسن اور نضارت اور تازگی پائی جائے گی اور اُن کے چہرے خوبصورت ہوں گے اور یہ بھی معنے ہیں کہ اُنہیں بڑی بڑی نعمتیں حاصل ہوں گی (محیط)
تفسیر
پہلی آیت میں وُجُوْہ کا ذکر تھا جن کی صفت یہ تھی کہ وہ عَامِلَۃ اور نَاصِبَۃ تھے یعنی محمد ﷺ کے مقابلہ میں یا آنے والے ماموروں کے مقابلہ میں خوب عمل کرنے والے اور تھکا دینے والی محنت کرنے والے تھے انفرادی رنگ میں بھی اور اجتماعی رنگ میںبھی۔ مگر اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ باوجود ان کے انفرادی اور اجتماعی مقابلوں کے یہ نہیں ہو گا کہ خدا کا رسول دب جائے یا اکیلا رہ جائے بلکہ اُس کی جماعت بڑھتی چلی جائے گی اور وہ جماعت ایسی ہو گی جو دنیا میں عزت اور کامیابی حاصل کرنے والی ہو گی چنانچہ انہی کا ذکر وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ میں کیا گیا ہے۔
سردارانِ کفار کو وُجُوْہ اس لئے کہا گیا تھا کہ وہ ابتداء میں وُجُوْہ تھے گو بعد میں خَاشِعَۃ ہو گئے اور جو لوگ گر جائیں۔ لوگوں کی نگاہ میں ذلیل ہو جائیں۔ اُن کی آواز میں کوئی اثرنہ رہے اور وہ غم والم کی آگ میں ہر وقت جلتے رہیں وہ وُجُوْہ نہیں رہتے۔ پس اُن کا نام وُجُوْہ اُن کی ابتدائی حالت کی وجہ سے رکھا گیا تھا کیونکہ شروع میں وہ واقعہ میں سرداران قوم میں سے تھے بڑی عزت اور وجاہت رکھتے تھے۔ مگر مسلمانوں کا نام وُجُوْہٌ اُن کی انتہاء کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کام وہی اچھا ہوتا ہے جس کا انجام اچھا ہو۔ کافر وُجُوْہ بن کر اٹھے اور خَاشِعَۃ بن کر رہ گئے۔ مگر مومن گری ہوئی حالت سے اُٹھے اور وُجُوْہ بن گئے۔ ہر قسم کی عزّت، رُتبے اور درجے اُن کو حاصل ہو گئے۔ چنانچہ دیکھ لو کفار کی کیا حالت ہوئی اور مومن کس حالت کو پہنچ گئے۔ ابو جہل بڑا ذوالوجاہت تھا مگر مرا کس حالت میں؟ ایسی حالت میں کہ پندرہ پندرہ برس کے دو انصاری لڑکوں نے اُس کو جنگ بدر میں مار گرایا۔ اس کے مقابلہ میں حضرت ابوبکرؓ مکّہ کے ایک معمولی تاجر تھے مگر جب رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد مسلمانوں نے اُن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اُنہیں اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا تو مکّہ میں بھی کسی نے یہ خبر پہنچا دی۔ ایک مجلس میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے حضرت ابو بکرؓ کے والد بھی اُن میں موجود تھے کہ کسی نے کہا کہ مدینہ سے خبر آئی ہے رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ لیکن لوگوں نے پوچھا پھر کیا ہؤا؟ اُس نے بتایا کہ مسلمانوں نے ایک شخص کو خلیفہ مقرر کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے ۔ انہوں نے پوچھا کس کے ہاتھ پر بیعت کی گئی ہے؟ اُس نے جواب دیا ابو بکرؓ کے ہاتھ پر۔ حضرت ابوبکرؓ کے والد جو اسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے یہ سن کر کہنے لگے کس ابوبکر کے ہاتھ پر؟ یعنی اُن کے ذہن میں بھی یہ نہیں آ سکتا تھا کہ میرے بیٹے ابوبکرؓ کو بادشاہ تسلیم کر لیا جائے گا اُس نے کہا ابن ابی قحافہ۔ یعنی تمہارے بیٹے کے ہاتھ پر بیعت کی گئی ہے۔ انہوں نے ایک ایک خاندان اور قبیلہ کا نام لے کر پوچھنا شروع کیا کہ انہوں نے بھی بیعت کر لی ہے؟ اور اُس نے جواب دیا کہ ہاں۔ تب بے اختیار ہو کر وہ بولے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مّحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ حالانکہ وہ پہلے ہی مسلمان تھے اُن کے کلمہ طیبہ پڑھنے معنے ہی یہ تھے کہ یہ بھی ثبوت ہے اس بات کا کہ اسلام سچّا ہے۔ ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ ابوقحافہ کے بیٹے کے ہاتھ پر تمام قبائل عرب بیعت کر لیتے۔ غرض اسلام کی بدولت ایک شخص ادنیٰ حالت سے ترقی کرتا ہے اور اِس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ باپ کو یقین نہیں آتا کہ اُسے یہ مقام حاصل ہو گیا ہے حالانکہ لوگ اپنے بیٹوں کے متعلق بڑے وسیع اندازے لگایا کرتے ہیں۔ کئی لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہمارا بیٹا لائق ہے اور جب پوچھا جائے کیا لیاقت ہے؟ تو کتاب کتاب فر فر پڑھ لیتا ہے۔ اُن کے ایک معمولی کتاب کو پڑھ لینا بھی بہت بڑے علم کا ثبوت ہوتا ہے خواہ وہی اپنی زبان کے اشعار ہی ہوں یا خواہ فر فر بھی نہ پڑھتا ہو وہ کہیں گے یہی کہ ہمارا بیٹا بڑا لائق ہے کتاب کو فر فر پڑھ لیتا ہے۔ پس حضرت ابوبکرؓ کے باپ کے نزدیک اُن کے بیٹے کی سب سے زیادہ قدر ہونی چاہئیے تھی مگر اُن کے باپ کی حالت یہ ہے کہ اُنہیں یقین تک نہ آیا کہ اُن کے ہاتھ پر مسلمانوں نے بیعت کر لی ہے۔ پس ابوجہل بڑا ہو کر چھوٹا ہو گیا اور ابو بکر چھوٹا ہو کر بڑا ہو گیا۔ یہی مفہوم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس الہام میں کیا گیا ہے کہ ’’کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے‘‘ (تذکرہ صفحہ ۴۹۶) گویا ایک کی ابتداء بڑے ہونے سے ہوئی اور انتہا چھوٹے ہونے پر ہوئی اور ایک کی ابتداء چھوٹے ہونے سے ہوئی اور انتہا بڑے ہونے پر ہوئی۔ ایک کا وُجُوہٌ نام رکھا گیا ہے۔ ابتداء کی وجہ سے اور دوسرے کا وُجُوہٌ نام رکھا گیا ہے انتہاء کی وجہ سے ورنہ ایک ملک کے وہ دونوں سردار نہیں ہو سکتے تھے وہ تو ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ پس اس جگہ یہی بتایا گیا ہے کہ اے آنحضرت ﷺکا مقابلہ کرنے والو! تم آج وُجُوہٌ ہو کل خَاشِعَۃ ہو جائو گے۔ مسلمان آج گرے ہوئے ہیں کل وُجُوہٌ بن جائیں گے۔
پھر وُجُوہٌ کے ساتھ نَاعِمَہ کا لفظ بڑھا دیا اور نَاعِمَۃ کے دو معنے بتائے جا چکے ہیں۔ حُسن و نضارت والے اور یہ بھی کہ وہ مُتَعِّمَۃ ہوں گے۔ یعنی بڑی بڑی نعمتیں اُن کو حاصل ہوں گی۔ ذاتی طور پر بھی وہ کمال رکھیں گے اور ماحول کے لحاظ سے بھی کمال رکھیں گے جہاں اُن کو ذاتی طور پر بھی وہ نعمتیں حاصل ہوں گی وہاں اللہ تعالیٰ اُن کو بیرونی نعمتیں بھی عطا کرے گا۔ ظاہری معنوں کے لحاظ سے یہ مراد ہو گی کہ وہ حسین۔ خوبصورت اور صاحب اموال ہوں گے اور روحانی لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ وہ متقی اور صاحب علوم ہوں گے یعنی متقی بھی ہوں گے اور علومِ روحانیہ بھی اُن کو حاصل ہوں گے۔ اپنی ذات میں بھی کامل عرفان اور استغناء اُن کو حاصل ہو گا اور اُن کے پاس ایسے علوم اور اموال بھی ہوں گے جو دوسروں کو سکھا سکیں اور دے سکیں۔ حُسن ایک ذاتی چیز ہے اور مال ایسی چیز ہے جو دوسرے کو دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح تقویٰ ایسی چیز ہے جو انسان کسی کونہیں دے سکتا لیکن علم ایسی چیز ہے جو دوسرے کو دے سکتا ہے۔ پس بتایا کہ جیسے ظاہری لحاظ سے حُسن اور مال دونوں نعمتیں اُن کو حاصل ہوں گی اسی طرح باطنی لحاظ سے تقویٰ بھی اُن میں پایا جائے گا اور علم بھی اُن کو عطا ہو گا۔ ظاہری لحاظ سے وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ اُس پر حسین نظر آ رہے ہوں گے بظاہر یہ سمجھنا مشکل معلوم ہوتا ہے کسی خاص وقت کوئی شخص حسین کس طرح ہو جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جس کے ساتھ محبت کا تعلق ہو وہ بہت ہی خوبصورت دکھائی دیتا ہے اور اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ بوجہ ذاتی تقویٰ اور احسان کے وہ لوگوں کے محبوب ہو جائیں گے اور خواہ اُن کی شکل کیسی ہی ہو وہ لوگوں کو حسین نظر آئیں گے جیسے ہر باپ کو اپنا بیٹا اور ہر بیٹے کو اپنا باپ حسین نظر آتا ہے۔
حضرت عمرو بن العاصؓ مسلمان ہونے سے پہلے اسلام کے شدید مخالف تھے جب وہ وفات پانے لگے تو سخت گھبرا رہے تھے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھائوں گا۔ اُن کے بیٹے نے کہا آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ کو تو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بڑی بڑی خدمتوں کے مواقع ملے ہیں انہوں نے کہا ہاں رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بے شک خدمتوں کے مواقع ملے تھے مگر آپ کے بعد جن حالات میں سے ہم گزرے ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے ڈر آتا ہے کہ نامعلوم اللہ تعالیٰ ہم سے کیا معاملہ کرے۔ پھر کہنے لگے رسول کریم ﷺ کا کوئی حُلیہ مجھ سے پوچھے تو میں نہیں بتا سکتا آپ کے متعلق مجھ پر دو زمانے گزرے ہیں ایک وقت تو وہ تھا جب رسول کریم ﷺ نے دعویٰ کیا ا ور مجھے اس دعویٰ اس قدر نفرت پیدا ہوئی کہ میں نے اُس دن کے بعد آپ کی شکل کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ پہلے تو آپ سے کوئی زیادہ واقفیت ہی نہیں تھی کہ شکل یاد ہوتی۔ دعویٰ کے بعد یہ حالت ہو گئی کہ آپ سامنے آ رہے ہوتے تو میں اپنی آنکھیں نیچی کر لیتا کہ نعوذ باللہ میں آپ کی شکل کو نہ دیکھ لوں۔ اس کے بعد جب اس کے بعد جب مجھے ایمان نصیب ہؤا تو رسول کریم ﷺ کا مجھے وہ جلال، وہ حُسن اور وہ نور نظر آیا کہ اس کے بعد مجھے جرأت ہی نہیں ہوئی کہ آپ کے چہرہ پر نظر ڈال سکوں۔ چنانچہ آج اگر مجھ سے کوئی شخص رسول کریمﷺ کا حُلیہ دریافت کرے تو میں اُسے نہیں بتا سکتا۔ کیونکہ کفر کی حالت میں آپ کی شکل سے زیادہ بد صورت مجھے کوئی اور شکل نظر نہیں آتی تھی اور ایمان کی حالت میں آپ کی شکل سے زیادہ خوبصورت مجھے کوئی اور شکل نظر نہیں آتی تھی اس لئے دونوں حالتوں میں مَیں آپ کو دیکھ نہ سکا۔ گویا کفر کی حالت میں آپ کے جلال اور آپ کے حُسن کو برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے نہ دیکھ سکے۔
حقیقت یہی ہے کہ ایک چیز کو انسان بعض حالات میں اچھا اور بعض حالات میں بُرا سمجھنے لگ جاتا ہے اور محبت یا نفرت کی وجہ سے شکلیں بھی بدل جاتی ہیں۔ ہم نے بیسیوں میاں بیوی کی لڑائیاں دیکھی ہیں پہلے وہ ایک دوسرے کے عاشقِ زار ہوتے ہیں اور میاں سمجھتا ہے کہ خدا نے مجھے دنیا کی حسین ترین بیوی عطا فرمائی ہے مگر جب لڑائی ہو جاتی ہے تو خاوند کہتا ہے کہ اس کی شکل ہی اتنی بُری ہے کہ دیکھنے کے قابل ہی نہیں۔ غرض نَاعِمَۃٌ کے اگر ظاہری معنے لئے جائیں تو وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَاعِمَۃٌ کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ ایسے مقبولِ جہاں ہو جائیں گے کہ لوگوں کو حسین نظر آنے لگ جائیں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ لوگوں کو حسین نظر آنے لگ جائیں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ اُن کی شکلیں بھی حسین ہوں بلکہ وہ دنیا کو حسین اور خوبصورت معلوم ہونے لگ جائیں گے۔ جب وہ دنیا کے محسن ہوں گے‘ جب وہ خدمت خلق کرنے والے ہوں گے‘ جب وہ یتامیٰ سے حُسنِ سلوک کرنے والے ہوں گے، جب وہ غریبوں سے ہمدردی کرنے والے ہوں گے، جب وہ گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے والے ہوں گے تو وہ لوگ دنیا کو دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ خوبصورت اور اچھے نظر آنے لگ جائیں گے اور دوسرے لوگوں کے چہرے اُن کے مقابلہ میں اُنہیں حسین نظر نہیں آئیں گے۔ پس اگر ہم اس کے ظاہری معنے لیں تب بھی وہ صحیح ہوں گے مگر اس طرح نہیں کہ اُن کی شکلیں خوبصورت ہو جائیںگی بلکہ جیسے محاورہ کے طور پر کہتے ہیں پرنالہ چلتا ہے اِسی طرح اس کا یہ مطلب ہو گا کہ وہ اپنے احسان کی وجہ سے حسین نظر آنے لگ جائیں گے۔ جب اُن میں احسان کا مادہ ہو گا ، جب جب اُن میں نیکی ہو گی، جب اُن میں عفّت ہو گی، جب اُن میں حُسنِ سلوک کا جزبہ ہو گا تووُہ لوگوں کو بے انتہاء پیارے لگنے لگ جائیں گے پس وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ میں صحابہ کے یا مومنوں کے اخلاق فاضلہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور حسنِ سلوک کی خُدا ان کو توفیق عطا فرمائے گا کہ وہ دنیا کی نگاہ میں بڑے خوبصورت اور حسین نظر آئیں گے اور اگر اس سے تقویٰ اور علم مراد ہو تو وہ ظاہر ہی ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں۔
لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ
اپنی (سابقہ) کوششوں پر مطمئن ہوں گے ۸؎
۸؎ تفسیر
دنیا میں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے سے حسنِ سلوک کرتا ہے مگر وہ اپنے کئے پر خوش نہیں ہوتا جیسے ریاء والا ہوتا ہے کہ وہ بعض دفعہ ہزاروں لاکھوں روپیہ بھی چندہ میں دے دیتا ہے اور لوگ اُسے دیکھ کر کہتے ہیں سبحان اللہ واہ واہ اس نے کتنی بڑی قربانی کا نمونہ دکھایا مگر اس کا دل اندر سے خون ہو رہا ہوتا ہے یا وہ دکھاوے کے لئے صدقہ کرتا ہے تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں مگر اُس کی جان اندر سے ہلکان ہو رہی ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مَیں نے اپنے روپے کو ضائع کیا ہے۔ تو صرف ظاہر میں تعریف کا ہو جانا اور لوگوں کی نگاہ میں حسین بن جانا کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنی نگاہ میں بھی حسین بننا ضروری ہوتا ہے۔ لوگوں کی نگاہ میں تو ایک ریاکار بھی حسِین ہو جاتا ہے مگر وہ اپنے دل میں جل رہا ہوتا ہے کہ مَیں تباہ ہو گیا۔ لیکن فرماتا ہے وہ ایسے کامل وجود ہوں گے کہ اُن میں یہ نقص نہ ہو گا۔ چنانچہ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَاعِمَۃٌ لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ کا اگر ہم معنوی لحاظ سے ترجمہ کریں تو یوں ہو گا کہ کچھ چہرے ایسے ہوں گے کہ ایک دن آئے گا جب کہ وہ دنیا کی نگاہ میں حسین ہو جائیں گے لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ اور اپنی نگاہ میں حسین ہوں گے اور وہ اپنے کئے پر خوش ہوں گے اُن میں یہ احساس نہیں ہو گا کہ ہم نے لوگوں کے لئے قربانی کر کے اپنے پر ظُلم کیا ہے بلکہ وہ جس قدر خدمات سرانجام دیں گے، جس قدر قربانیں کریں گے، جس قدر احسانات کریں گے اُن کے دل اور زیادہ خوش ہوں گے۔ گویا ایمان اور اخلاص اور محبت باللہ سے اُن کے قلوب اس طرح پُر ہوں گے کہ صرف لوگ ہی اُن کو دیکھ کر خوش نہیں ہوں گے بلکہ وہ خود بھی اپنے کاموں کو دیکھ کر خوش ہوں گے۔ یہ ویسی ہی بات ہے جیسے محاورہ کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر مجھے پھر موقع ملے تو مَیں پھر بھی یہی کام کروں گا۔ بعض دفعہ ایک انسان ایک کام تو کر لیتا ہے مگر بعد میں اپنے کئے پر نادم اور پشیمان ہوتا ہے اور اُس کی ضمیر اُسے ملامت کرتی ہے چنانچہ جب اُسے کہا جائے کہ کیا اب جب کہ تم وہ کام کر چکے ہو اور وہ موقع گذر چکا ہے کیا تمہارے دل کو اطمینان ہے کہ تم نے جو کچھ کیا تھا درست کیا تھا؟ تو وہ بسا اوقات کہتا ہے کہ نہیں۔ میں اپنے کام پر نادم ہوں اور مجھ اعتراف ہے کہ میں نے درست کام نہیں کیا۔ لیکن اگر اُس کے ضمیر کو تسلی ہوتی اور وہ اپنے بیان میں سچ سے بھی کام لیتا ہے تو وہ کہتا ہے اگر میں پھر انہی حالات میں ڈالا جائوں تو میں پھر بھی یہی کام کروں گا یعنی باوجود اس کے کہ زمانہ گزر چکا ہے میرے دل کو اس قدر اطمینان ہے کہ اگر پھر ویسے ہی حالات پیدا ہوں تو میں پھر وہی کام کروں گا۔
دنیا میں ہر چیز کو دو نقطہ ہائے نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بعض دفعہ ماضی سے استقبال کی طرف دیکھا جاتا ہے اور بعض دفعہ حال سے ماضی کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ یہ الگ الگ نقطہ ہائے نگاہ ہوتے ہیں۔ کبھی ہم ماضی سے مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں تو ایک چیز ہمیں اچھی معلوم ہوتی ہے مگر وہ استقبال ماضی میں بدل جاتا ہے اور ہم غور کرتے ہیں تو وہ فعل ہمیں بُرا محسوس ہونے لگتا ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم ماضی سے مستقبل کے نتیجہ کو دیکھتے ہیں اُس وقت بھی وہ ہمیں اچھا معلوم ہوتا ہے اور جب وہ وقت گزر جاتا ہے نتائج روشن ہو جاتے ہیں اور ہم حال سے ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تب بھی ہمیں وہ کام اچھا معلوم ہوتا ہے۔ جو کام اعلیٰ درجے کا ہو اُس کی علامت یہی ہے کہ اُسے ماضی سے استقبال کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تب بھی وہ اچھا معلوم دے اور جب حال سے ماضی کی طرف دیکھا جائے تب بھی وہ اچھا معلوم دے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ مسلمان ماضی کے مقام پر کھڑے ہو کر جب استقبال کی طرف دیکھیں گے تب بھی اُن کو وہ اعمال جن کے کرنے کا انہوں نے تہیّہ کیا ہے خوبصورت نظر آئیں گے اور جب وہ اِن کاموں کو کر چکیں گے اور مستقبل کے مقام پر کھڑے ہو کر ماضی کی طرف دیکھیں گے تب بھی اُن کو وہ اعمال خوبصورت نظر آئیں گے گویا آگے اور پیچھے دونوں طرف اُن کے حُسن ہی حُسن ہو گا۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گھوڑا خریدنے والے کبھی اس کو سامنے کی طرف سے دیکھتے ہیں اور کبھی اس کو پیچھے کی طرف سے دیکھتے ہیں۔ بعض جانور سامنے سے تو خوبصورت معلوم ہوتے ہیں مگر وہ پیچھے سے بدصورت نظر آتے ہیں اور بعض پیچھے کی طرف سے خوبصورت نظر آتے ہیں اور سامنے سے بدصورت نظر آتے ہیں۔ اچھا جانور وہی ہوتا ہے جو سامنے سے بھی اچھا نظر آئے اور پیچھے کی طرف سے بھی اچھا نظر آئے۔ انسانی اعمال کی بھی یہی دو حالتیں ہوتی ہیں بعض دفعہ ایک کام کرنے کے بعد بھی اچھا معلوم ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایک کام کرنے سے پہلے خوبصورت نظر آتا ہے اور کرنے کے بعد بُرا معلوم ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایک کام کرنے سے پہلے بُرا معلوم ہوتا ہے اور کرنے کے بعد اچھا۔ اگر کوئی کام کرنے سے پہلے بھی اچھا نظر آئے اور کرنے کے بعد بھی اچھا نظر آئے تو وہی کام قابلِ قدر ہوتا ہے جیسے حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی جنگ میں شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر فرمایا جو کچھ مجھ سے مانگنا چاہتے ہو مانگو تمہاری ہر خواہش پوری کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اگر انہوں نے اعلیٰ وجہ البصیرت شہادت کو قبول نہ کیا ہوتا تو وہ کہتے ہے کہ اے خدایا میری خواہش یہ ہے کہ تُو مجھے زندہ کر دے میں نے بے وقوفی کی جو جنگ میں شامل ہؤا اور مارا گیا اب تُو مجھے پھر زندہ کر دے تا کہ میں اپنے بیوی بچوں کے پاس جائوں مگر انہوں نے یہ نہیں کہا کیونکہ انہوں نے جب شہادت کو مستقبل کے اُفق میں دیکھا تھا تب بھی یہ نتیجہ نکالا تھا کہ یہ اچھی چیز ہے اور جب اس درجہ کو پالیا اور ماضی کی طرف نگاہ دوڑاتے ہوئے اپنی شہادت کو دیکھا تو اس وقت بھی انہوں نے یہی نتیجہ نکالا کہ یہ اچھی چیز ہے چنانچہ انہوں نے کہا یا اللہ میرا دل یہ چاہتا ہے کہ تُو مجھے زندہ کر دے تا کہ میں پھر تیری راہ میں شہید ہو جائوں (ترمذی ابواب التفسیر) گویا مرنے کے بعد بھی انہوں نے اپنی شہادت کو اچھی نگاہ سے دیکھا۔ تو کام شروع کرنے سے پہلے اور اُس کے ختم ہونے کے بعد دونوں نقطۂ نگاہ سے دیکھنے کے نتیجہ میں کسی کام کی حقیقی خوبی ظاہر ہوتی ہے اور لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جہاں لوگ اُن کو حسین پائیں گے وہ اپنے آپ کو بھی حسین پائیں گے یہ نہیں ہو گا کہ وہ بعد میں کہیں ہم نے بہت بُرا کیا بلکہ کام کرنے سے پہلے بھی وہ اپنے اعمال کو اچھا سمجھتے تھے اور کام کرنے کے بعد بھی اُن کو اپنے اعمال خوبصورت نظر آئیں گے۔ اپنے آپ کو حسین پانے کے معنے اس متکبّرانہ خیال کے نہیں جو ہر بیوقوف میں پایا جاتا ہے کہ ہم چومن دیگرے نیست کی مرض میں مبتلا ہوتا ہے یہ حالت تو نہایت خراب اور دل کی بیماری پر دلالت کرتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سچے غور وفکر اور نتائج اعمال دیکھ کربھی وہ اپنے اعمال کو اچھا پائیں گے اور یہ مقام کامل کا مقام ہوتا ہے۔
فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ
بلند (وبالا) جنت میں (رہ رہے) ہوں گے۹؎
۹؎تفسیر
فرماتا ہے جب وہ لوگوں کی نگاہوں میں خوبصورت ہو جائیں گے اور اپنی نظروں میں بھی وہ حسین دکھائی دیں گے۔ جب وہ ماضی سے استقبال کی طرف دیکھیںگے تب بھی وہ ان افعال پر خوش اور مطمئن ہوں گے جن کے کرنے کا انہوں نے ارادہ کیا ہے اور جب وہ حال سے ماضی کی طرف نگاہ دوڑائیں گے تب بھی انہیں اپنے افعال پر اطمینا ن ہو گا۔ پس دنیا کی رائے بھی اُن کے متعلق اچھی ہو گی اور اُن کی اپنی رائے بھی اپنے متعلق اچھی ہو گی بلکہ یوں کہو کہ انعامات چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں اور سب تعریفیں اُس کی طرف سے آتی ہیں اس لئے خدا کی رائے بھی اُن کے متعلق اچھی ہو گی پبلک کی رائے بھی اُن کے متعلق اچھی ہو گی اور اُن کی اپنی رائے بھی اپنے متعلق اچھی ہو گی اور یہی انسانی اعمال کے تین اہم ترین حصے ہیں یعنی انسان کا اپنی ذات سے معاملہ، انسان کا بنی نوع انسان سے معاملہ اور انسان کا خدا تعالیٰ سے معاملہ۔ اپنی ذات سے اُن کا معاملہ ایسا ہو گا کہ اُن کی اپنی رائے اپنے متعلق اچھی ہو گی۔ بنی نوع انسان سے اُن کا معاملہ ایسا ہو گا کہ پبلک کی رائے اُن کے متعلق اچھی ہو گی اور خدا تعالیٰ سے اُن کا معاملہ ایسا ہو گا کہ خد اتعالیٰ کی رائے اُن کے متعلق اچھی ہو گی۔ جب یہ تینوں تعریفیں کسی کو حاصل ہو جائیں تو اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ کا مصداق ہوتا ہے۔ لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لوگ اُس کے پاس ایک پیسہ تک نہ ہو۔ اُس کے کپڑے پھٹے پُرانے ہوں لیکن وہ خود اپنے نفس میں بھی اپنے آپ کو بلند پاتا ہے دنی نہیں پاتا بلکہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اخلاقی لحاظ سے بلند مرتبہ دیا ہے ذلیل لوگوںمیں مجھے شامل نہیں کیا۔ اور لوگ بھی اس کی عزت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
پُرانے زمانہ میں شاید جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ کا مفہوم پوری طرح سمجھا نہ جاتا ہو مگر اس زمانہ میں اس کا مفہوم سمجھنا بالکل آسان ہے کیونکہ ہینگنگ گارڈنز (HANGING GARADENS)دنیا میں پائے جاتے ہیں اور بمبئی میں بھی کئی ایسے باغات ہیں مَیں اوائل عمر میں ایک دفعہ بمبئی گیا وہاں مجھے بتایا گیا کہ یہاں ہینگنگ گارڈنز ہیں۔ مجھے خیال ہؤا کہ شاید کھمبوں میں گملے لٹکا کر باغات بنائے گئے ہوں گے یا کسی چٹان پر جو آگے بڑھی ہو گی اور ہوا میں معلّق نظر آتی ہو گی۔ مگر جب مجھے کوئی ایسا باغ وہاں نظر نہ آیا تو میں نے کسی سے پوچھا کہ لوگ تو کہتے تھے یہاں ہینگنگ گارڈنز ہوتے ہیں مگر مجھے تو کوئی نظر نہیں آیا۔ اِس پر اُس نے بتایا کہ ہینگنگ گارڈنز تو ابھی آپ دیکھ آئے ہیں تب مجھے پتہ لگا کہ ہینگنگ گارڈن کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لٹکا ہؤا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اونچی چوٹی پر ہے اور چونکہ لوگ نیچے ہوتے ہیں اور باغات چوٹی پر ہوتے ہیں۔ اس لئے اُن کو ہینگنگ گارڈنز کہا جاتا ہے یعنی بلند اور اونچے باغات۔ اسی طرح فرماتا ہے مومن ایسے باغات میں ہوں گے جو اونچے اور بلند ہوں گے۔ جنتؔ کے معنے سایہ دار جگہ کے ہیں اور عالیہؔ کے معنے بلند کے ہیں۔ جو چیز سایہ دار ہو اُس کے اندر کی چیزیں لوگوں کو نظر نہیں آتیں اور جو چیز بلندی پر ہو اُس پر دھوپ پڑتی ہے سایہ دار نہیں رہ سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جن باغات کا ہم ذکر کرتے ہیں اُن کے اندر دونوں قسم کی خوبیاں پائی جائیں گی جہاں تک شہرت اور عزت کا سوال ہے وہ عالیہؔ ہوں گے اور جہاں تک اُن کی نیکیوں اور خوبیوں کا سوال ہے وہ سایہ دار ہوں گے یعنی لوگوں کی نظریں بھی اُن کی طرف اُٹھیں گی اور پھر وہ تمازت اور دھوپ کا شکار بھی نہیں ہوں گے بلکہ ہر وقت سایۂ رحمتِ الٰہی کے نیچے رہیں گے ورنہ اکثر لوگ بلندی پر پہنچ کر ننگے ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل کا سورج بجائے اُن کے نفع مند ہونے کے اُن کے جلانے کا موجب ہو جاتا ہے۔
لَّا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً
وہ اس میں کوئی لغو بات نہ سنیں گے۱۰؎
۱۰ ؎حل لغات
لَاغِیَۃٌ کے معنے ہیں اَللَّغْوُ یعنی لغو اور بیحودہ بات۔ کہتے ہیں کَلِمَۃٌ لَاغِیَۃٌ اَیْ فَاحِشَۃٌ۔ کَلِمَۃٌ لَاغِیَۃٌ ایسے کلمہ کو جو فحش اور بُرا ہو وَمِنْہُ لَاتَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃُ اَیْ کَلِمَۃً ذَاتَ لَغْوٍ اور لَاتَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً کے یہ معنے ہیں کہ تُو اس میں کوئی فحش اور بُری بات نہیں سنے گا یا وہ چہرے اس میں لغو بات نہ سُنیں گے (اقرب)
تفسیر
دنیا میں انسان دو ہی طرح بُری باتیں سُنتا ہے یا تو اس طرح کہ وہ خود کج رَو ہوتا ہے اور لوگوں سے لڑتا رہتا ہے اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر اُسے لَاغِیَۃ سُننا پڑے گا اور یا پھر دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس سے لڑتے ہیں اور وہ لَاغِیَۃ سنتا ہے۔ اپنا کہا انسان تب مانتا ہے جب وہ لوگوں سے خوش نہ ہو اور لوگوں سے لَاغِیَۃ سُنتا ہے جب لوگ اُس سے خوش نہ ہوں مگر فرماتا ہے وہ لوگ ایسے ہوں گے کہ لَاغِیَۃ نہیں سنیں گے یعنی وہ لوگوں سے خوش ہوں گے اور لوگ اُن پر خوش ہوں گے اُن میں رحم ہو گا، اُن میں ہمدردی ہو گی، اُن میں پردہ پوشی کی عادت ہو گی، اُن میں حسنِ سلوک کا جزبہ ہو گا، اُن میں محبت ہو گی، اُن میں خلوص ہو گا اور اس وجہ سے وہ لوگوں سے لڑیں گے نہیں اور نہ اُن کو گالیاں دیں گے جیسے رسول کریم ﷺ کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ نہ سبّابؔ تھے اور نہ لقان۔ نہ گالیاں دیتے تھے اور نہ لوگوں پر لعنتیں ڈالتے تھے۔ جب انسان کا مزاج چڑچڑا ہو جاتا ہے یا بخیل اور ضدّی ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں سے لڑتا ہے اَور گالی گلوچ دیتا ہے چنانچہ بعض لوگوں میں یہ نقص ہوتا ہے کہ کسی کام کے لئے لوگ اُن کے پاس جائیں تو وہ شور مچا دیتے ہیں کہ یہ بدبخت ہر وقت پیچھے پڑے رہتے ہیں کسی وقت چھوڑتے بھی نہیں۔ لیکن اگر کوئی سخی ہوتا ہے، حُسن سلوک کرتا ہے، لوگوں سے محبت کے ساتھ پیش آتا ہے تو اپنے منہ سے لغو بات نہیں سنتا اور اگر وہ حسن سلوک میں کامل ہو اور اس کے ساتھ ہی اُسے طاقت اور غلبہ بھی حاصل ہو تو وہ اور لوگوں سے بھی لَاغِیَہ نہ سننے میں مسلمانوں کی طاقت اور اُن کی قوت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ دنیا میں ایسے کمینے لوگ بھی پائے جاتے ہیںکہ خواہ اُن سے کس قدر حسنِ سلوک کیا جائے وہ بُرا بھلا کہنے سے باز نہیں آتے۔ ہماری جماعت کو ہی دیکھ لو۔ ہم کس قدر لوگوں سے سلوک کرتے ہیں اور ان کی بہتری کی کوششیں کرتے ہیں مگر سب سے زیادہ گالیاں ہمیں ہی ملتی ہیں۔ تو بعض لوگ ایسے گندے ہو جاتے ہیں کہ کسی حالت میں بھی نیش زنی سے باز نہیں آتے۔ جس طرح اقرب کا یہ کا م ہوتا ہے کہ وہ نیش زنی کرتا ہے اسی طرح بعض لوگ شیاطین کے ورغلانے سے اتنے گندے ہو جاتے ہیں کہ اپنے نفع اور نقصان کو بھی نہیں دیکھتے اور خدا سے آنیوالے اپیغام کی پوری مخالفت کرتے خواہ اس کو پیش کرنے والے کتنی ہمدردی اور اور محبت سے کام لے رہے ہوں۔ لیکن اگر الٰہی جماعت کو حکومت اور غلبہ میسّر آجائے تو پھر وہی لوگ بوٹ چاٹنے لگ جاتے ہیں۔ پس لَا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً میں مسلمانوں کی حکومت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو ایسا غلبہ حاصل ہو جائے گا کہ اُن کے مقابلہ میں کوئی شخص بُری بات کہنے کی جرأت نہیں کرے گا اسی طرح لَاتَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً میں مسلمانوں کے اخلاق کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جس طرح لِسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ میں تین باتوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کا اپنے نفس سے سلوک، مسلمانوں کا بنی نوع انسان سے سلوک اور مسلمانوں کا خدا تعالیٰ سے سلوک۔ اور بتایا گیا تھا کہ وہ تینوں لحاظ سے کامل ہوں گے۔ اِسی طرح لَا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً میں اوّل تو اُن کے اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بخیل اور حریص نہیں ہوں گے کہ اگر اُنہیں لوگوں سے حسنِ سلوک کرنا پڑے تو وہ گالیاں دینے پر اُتر آئیں یا اُن کے مزاج میں چڑچڑاپن نہیں ہو گا کہ لوگ اُنہیں بُرا بھلا کہیں بلکہ وہ لوگوں کے محسن ہوں گے، منعم ہوں گے، معلّم ہوں گے اور لوگ اُن کی تعریف کریں گے۔ لیکن کمینے انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ دونوں حالتوں میں لڑتا ہے اُس پر احسان کرو تب بھی لڑتا ہے گویا اُس کی حالت کُتّے کی طرح ہوتی ہے کہ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْھَتْ اَوْتَتْرُکْہُ یَلْھَثْ (اعراف ع ۲ ۲ ۲ ۱) دونوں حالتوں میں زبان نکالے کتّے کی طرح پیچھے پڑا رہتا ہے۔ ایسا انسان اسی صورت میں خاموش ہوتا ہے جب اُس کے مدمقابل کو حکومت اور غلبہ میسّر آ جائے۔ پس فرماتا ہے مسلمانوں کو غلبہ مل جائے گا اور کوئی صورت لَاغِیَۃ سننے کی نہیں رہے گی دشمنانِ دین جو احسان فراموش ہیں وہ غلبہ کی وجہ سے تعریف کریں گے اور یہ خود نیک طبیعت ہونے کی وجہ سے کسی سے بدگوئی نہیں کریں گے اس لئے لغو اُن کو سُنائی ہی نہیں دے گا۔
۱۱؎تفسیر
مومن جس جنّت میں رہیں گے اُس میں ایک جاری چشمہ ہو گا۔ اگلے جہان میں تو یہی ہو گا ہی۔ اس کے متعلق کسی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ نہ میں نے اُسے دیکھا اور نہ کسی اَور نے یہ ایک ایمانی معاملہ ہے۔ لیکن دنیا کے لحاظ سے یہ معنے ہیں کہ وہ ایسے علوم اپنے ورثہ میں چھوڑیں گے اَور ایسے سلوک بنی نوعِ انسان سے کریں گے جن کا اثر عرصۂ دراز تک چلتا چلا جائے گا۔ کچھ لوگوں کا احسان صرف وقتی ہوتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا احسان صدقۂ جاریہ کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے مثلاً کسی غریب کو ایک پیسہ دے دینا یہ بھی احسان ہے مگر جب وہ اُس پیسے سے روٹی خرید کر کھا لیتا ہے تو اس احسان کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے لیکن ایک احسان یہ ہے کہ کسی دین کی باتیں سکھائی جائیں یا اخلاقی لحاظ سے اعلیٰ تربیت دی جائے یہ احسان بڑا وسیع ہے یا مثلاً کسی کو کوئی پیشہ چلانے کے لئے مدد دے دینا یا اُسے اپنا پیشہ چلانے کے لئے روپیہ سے امداد کرنا یا ہتھیار وغیرہ خرید ینا یہ اور قسم کا احسان ہے پہلی قسم کا صدقہ ختم ہو گیا مگر یہ صدقہ صدقۂ جاریہ ہے فِیْھَا عَیْنٌ جَارِیَۃٌ سے یہی مراد ہے کہ اُن کے صدقات صدقاتِ جاریہ ہوں گے اور ان کے احسان بنی نوع انسان سے محدود نہیں ہوں گے یا معمولی اور چھوٹے درجہ کے نہیں ہوں گے۔ بلکہ ایسے ہوں گے جو عرصۂ دراز تک چلتے چلے جائیں گے۔ جیسے رسول کریم ﷺ سے صحابہؓ نے علم لیا۔ اور پھر اُسے دنیا میں اس طرح پھیلایا کہ عَنْ فُلَانٍ عَنْ فُلَانٍ کے ایک لمبے سلسلہ کے ماتحت وہ اگلی نسلوں تک پہنچ گئے۔ اگلوں نے اگلوں تک یہاں تک کہ وہ سارے علوم ہم تک پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام میں یہ خوبی بدرجۂ اتم رکھی ہوئی تھی کہ وہ علوم کے خزانے صرف اپنے تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسروں تک عَیْنٌ جَارِیَۃٌ بن کر پہنچا دیتے تھے۔ لوگوں کے پاس علم ہوتا ہے تو وہ اُس کو بند کر لیتے ہیں مگر صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ ایک صحابیؓ سے ایک دفعہ کسی نے کوئی بات پوچھی۔ اُس نے جواب دیا کہ مجھے تو یہ بات معلوم نہیں لیکن اگر مجھے معلوم ہوتی اور میری گردن پر کوئی شخص تلوار رکھ کر کہتا کہ اب تجھے قتل کرنے لگا ہوں تو مَیں اس کی تلوار چلنے سے پہلے جلدی جلدی بتا دیتا کہ رسول کریم ﷺ سے مَیں نے فلاں فلاں بات سُنی ہوئی ہے۔ یہ عَیْنٌ جَارِیَۃٌ ہی تھے کہ کسی جگہ ٹکتے نہیں تھے بلکہ بہتے چلے جاتے تھے۔ پھر عَیْنٌ جَارِیَۃٌ میں یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ صحابہؓ اور اُن کے شاگرد دُور دُور تک نکل جائیں گے صرف عرب میں محدود نہیں رہیں گے۔ چنانچہ دیکھ لو مسلمان عرب سے نکلے اور دُنیا کے دُور دراز ممالک تک پھیل گئے یہاں تک وہ چینؔ بھی گئے اور انہوں نے اسلام پھیلایا۔ انطاکیہؔ میں بھی گئے اور اسلام پھیلایا۔ سپینؔ میں بھی گئے اور اسلام پھیلایا۔ غرض وہ دنیا کے کناروں تک نکل گئے اور دنیا میں علوم کے دریا انہوں نے بہا دئے۔ جس طرح جاری چشمہ کا پانی دُور دُور کی زمین کو سیراب کر دیتا ہے اسی طرح مسلمان ٹھہرتے نہیں تھے بلکہ اپنے علوم سے دنیا کو مستفیض کر تے چلے جاتے تھے۔ یہی خوبیاں ہیں جو جیتنے والی اقوام میں مخصوص ہیں۔ ہماری جماعت کو سوچنا چاہئیے کہ کیا ہم میں یہ خوبیاں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ حکومت کا حصہ تو اپنے وقت پر آئے گا لیکن سوال یہ ہے کیا باقی خوبیاں ہم نے اپنے اندر پیدا کر لی ہیں؟ کیا ہم اپنی نظر میں، لوگوں کی نظر میں اور پھر خدا تعالیٰ کی نظر میں ہر قسم کے نقائص سے پاک ہیں؟ کیا ہمارے اخلاق ہر قسم کے نقائص سے پاک ہیں؟ کیا ہمارے اخلاق اس قسم کے ہیں کہ ہم نہ اپنی زبان سے لَاغِیہ سنتے ہیں اور نہ لوگوں کی زبان سے لَاغِیہ سُنتے ہیں؟ اور کیا ہماری کوششیں یہی ہوتی ہیں کہ عَیْنٌ جَارِیَۃٌ کی طرح ہم جو بات بھی سُنیں اُسے دوسرے لوگوں تک پہنچا دیں یا ہم صرف واہ واہ اور سبحان اللہ کہنے کے لئے سُنتے ہیں؟ صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ وہ رات اور دن تعلیم میں لگے رہتے تھے اور پھر جو کچھ سیکھتے اپنے سینوں میں ہی نہ رکھتے بلکہ لوگوں تک پہنچا دیتے۔ گویا وہ ایک جاری چشمہ تھا جو دنیا کو سیراب کرتا تھا۔ کتنی زبردست خواہش دوسروں تک علوم پہنچانے کی ہے جو اُس صحابی کے دل میں پائی جاتی تھی جس نے کہا اگر تلوار میری گردن ہر چل رہی ہوتی تو اُس وقت میری خواہش یہ ہوگی کہ اگر رسول کریم ﷺ کی کوئی بات مجھ سننے سے رہ گئی ہو تو مَیں اُسے جلدی جلدی بیان کر دُوں۔ یہی خوبی ہماری جماعت کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیے اور اپنے علوم کے لحاظ سے عَیْنٌ جَارِیَۃٌ ثابت کرنا چاہئیے۔
فِیْھَا سُرُرٌمَّرْفُوْعَۃٌ
(اور) اس میں اونچے تخت (بھی) رکھے ہوں گے۱۲؎
۱۲؎حل لغات
سُرُرٌ: سَرِیْرٌ کی جمع ہے اور سُرُرٌ کی بجائے اَسِرَّۃٌ بھی جمع کے طور پر استعمال ہوتا ہے اس کے معنے تخت کے ہوتے ہیں خصوصًا یہ لفظ بادشاہ کے تخت کے لئے بولا جاتا ہے چنانچہ کہتے ہیں ذَالَ عَنْ سَرِیْرِہٖ وہ اپنے سر پر سے ہٹ گیا اور مراد یہ ہوتی ہے کہ ذَہبَ عِزُّہٗ نِعْمَتُہٗ اُس کی عزّت اور دولت جاتی رہی سُمِّیَ بِہٖ لِاَنَّ مَنْ جَلَسَ عَلَیْہِ مِنْ اَھْلِ الرِّفْعَۃِ وَالْجَاہِ یَکُوْنُ مَسْرُوْرًا سریر کا لفظ اس لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ مالدار اور جاہ وجلال کے مالک تخت پر بیٹھتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں۔ پس چونکہ اس مقام کا حصول دل میں سرور پیدا کرتا ہے اس لئے تخت کا نام بھی سریر ہی رکھ دیا گیا (اقرب)
مَرْفُوْعَۃٌ: رَفَعَ سے ہے اور رَفَعَہٗ کے معنے ہوتے ہیں اُس نے کسی چیز کو بلند کیا (اقرب) یہ بلندی خواہ اونچا بنانے کے لحاظ سے ہو جیسے کہتے ہیں اونچا بنایا گیا اور خواہ اونچا کرنے کے لحاظ سے ہو جیسے کسی چیز کو اُٹھا کر اُونچا کر دیا جاتا ہے۔ دونوں رنگ میں اس لفظ کا استعمال ہو جاتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں دیوار اونچی ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ لمبی چلی جاتی ہے اور قامت کے اعتبار سے بلند ہے یا کہتے ہیں چھت اونچی ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ زمین ہو یا فاصلہ کی کوئی زیادتی دونوں پر رفع کا اطلاق پاتا ہے۔ پس مَرْفُوْعَۃٌ کے معنے ہوں گے اُونچے کئے ہوئے۔ بلند کئے ہوئے۔
تفسیر
اس آیت کے ایک معنے یہ ہیں کہ وہ بلند شان والے ہوں گے۔ کیونکہ سُرُر کے ساتھ مَرْفُوْعَہ ہونا زیادہ شان اور عزت پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ وہ بلند رکھے گئے ہوں گے گویا دونوں قسم کی خوبیاں اُن میں پائی جاتی ہوں گی۔ مومنوں کی یہ شان بھی ہو گی کہ وہ نیک اعمال میں ترقی کرتے چلے جائیں گے اور دوسروں سے نیکی میں بلند قامت ہونے کی کوشش کریں گے اور وہ اس لحاظ سے بھی مَرْفُوعَہ ہوں گے کہ خُدا تعالیٰ اُن کو اپنی طرف اٹھا لے گا۔ گویا جہاں تک اُن کا انسانوں سے واسطہ ہے وہ دوسرے بنی نوع انسان سے بلند قامت ہوں گے اور نیکی اور تقویٰ کے لحاظ سے اس قدر فائق ہوں گے کہ اُن میں اور عام لوگوںمیں کوئی نسبت ہی نہیں ہو گی اور جہاں تک خدا تعالیٰ کا تعلق ہے وہ باقی انسانوں کے مقابل پراُن سے الگ قسم کا سلوک کرے گا اور وہ انہیں مقرب بنا لے گا۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو جو بادشاہتیں ملیں گی وہ بالکل الگ قسم کی ہوں گی وہ اس جہان کی بادشاہتوں کی طرح نہیں ہوں گی بلکہ مَرْفُوعَۃ ہوں گی۔ اُن کے کے تخت آسمان پر رکھے جائیں گے چنانچہ دیکھ لو مسلمان بادشاہ تو ہوئے مگر انہوں نے دنیوی طور پر بادشاہت سے فائدہ اُٹھایا؟ حضرت ابوبکرؓ تمام عالمِ اسلام کے بادشاہ تھے مگر اُن کو کیا ملتا تھا۔ پبلک کے روپیہ کے وہ محافظ تھے مگر خود اس روپیہ پر کوئی تصرّف نہیں رکھتے تھے۔ بے شک حضرت ابو بکرؓ بڑے تاجر تھے مگر چونکہ ان کو کثرت سے یہ عادت تھی کہ جونہی روپیہ آیا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیااس لئے ایسا اتفاق ہؤا کہ جب رسول کریم ﷺ کی وفات ہوئی اور آپ خلیفہ ہوئے تو اس وقت آپ کے پاس نقد روپیہ نہیں تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی دن آپ نے کپڑوں کی گٹھڑی اُٹھائی اور اسے بیچنے کے لئے چل پڑے۔ حضرت عمرؓ رستہ میں ملے تو پوچھا کیا کرنے لگے ہیں؟ انہوں نے کہا آخر میں نے کچھ کھانا تو ہؤا اگرمَیں کپڑے نہیں بیچوںگا تو کھائوں گا کہاں سے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا اگر آپ کپڑے بیچتے رہے تو خلافت کا کام کون کرے گا؟ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ اگرمیں یہ کام نہیں کروں گا تو پھر گزارہ کس طرح ہو گا؟ حضر ت عمرؓ نے کہا کہ آپ بیت المال سے وظیفہ لے لیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں یہ تو برداشت نہیں کر سکتا۔ بیت المال پر میرا کیا حق ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جب قرآن نے اجازت دی ہے کہ دینی کام کرنے والوں پر بھی روپیہ صرف ہو سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں لے سکتے۔ چنانچہ اس کے بعد بیت المال سے اُن کا وظیفہ مقرر ہو گیا مگر اُس وقت کے لحاظ سے وہ وظیفہ صرف اتنا تھا جس سے روٹی کپڑے کی ضرورت پوری ہو سکے۔ پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اُن کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بالکل سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ خلفاء میں سے صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس دولت تھی مگر آپ چونکہ بہت سخی تھے اس لئے جو کچھ پاس ہوتا بالعموم تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ لوگ اُن پر یہ اعتراض بھی کرتے تھے کہ آپ نے فلاں کو مال دیا ہے۔ فلاں کو مال دیا ہے آپ جواب دیتے کہ تم کو اس سے کیا۔ میرا اپنا روپیہ ہے میں جہاں چاہوں خرچ کروں تم اس میں دخل دینے والے کون ہو۔ تو کوئی فائدہ بھی خلفاء نے بیت المال سے نہیں اُٹھایا بلکہ تمام کا تمام روپیہ انہوں نے لوگوں کے فائدہ کے لئے اپنی نگرانی میں صرف کیا۔
غرض مسلمانوں کے تخت دوسروں کی نسبت بلند تھے۔ دنیا کے بادشاہ قومی خزانہ کو اپنا خزانہ سمجھتے ہیں اور وہ اس پر پورا پورا تصرّف رکھتے ہیں آج پبلک اور بادشاہتوں میں یہی جنگ جاری ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ تم روپیہ رعایا کے لئے خرچ کرو اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا روپیہ ہے ہم جس طرح چاہیں گے خرچ کریں گے۔
پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اسلامی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ اُن کے تخت مَرْفُوْعَۃ ہوں گے وہ لوگوں کے فائدہ کے لئے حکومت کریں گے گویا نام کے بادشاہ ہوں گے مگر حقیقتًا زمین کے بادشاہوں سے بہت بلند مقام پر ہوں گے۔ وہ خزانوں کو اپنے خزانے نہیں سمجھیں گے بلکہ مُلک اور قوم کی مِلک تصور کریں گے۔ یہی اسلامی حکومت کے معنے ہیں اُس میں خزانہ کسی فرد کا نہیں ہوتا قوم بحیثیت مجموعی اُس خزانہ کی مالک ہوتی ہے میں نے دیکھا ہے بعض غیر احمدی جو ہماری جماعت کو بھی عام پیروں فقیروں کی جماعت کی طرح سمجھتے ہیں مجھے خط لکھتے ہیں کہ آپ بڑے مالدار ہیں آپ ہمیں اتنے ہزار یا اتنے لاکھ دے دیں۔ مَیں انہیں جواب دیتا ہوں کہ میرے پاس جو مال آتا ہے وہ میرا نہیں سلسلہ کا ہوتا ہے میں اسے مرضی کے مطابق خرچ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ غرض وہ لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ میں بھی کسی قانون کے ماتحت ہوں اور اُس قانون کو توڑ کر بیت المال کے روپیہ کو خرچ کرنے کا حق نہیں رکھتا اُنہیں بہت سمجھایا جاتا ہے کہ مجھے خزانہ پر کلی اختیار نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بھی بعض قوانین کے ماتحت رکھا ہے مگر ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی اور وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ مَیں بُخل کی وجہ سے اُن کی مدد نہیں کرتا۔ یہ حالت بتاتی ہے کہ مسلمان اسلامی تعلیم سے آج کل کس قدر دُور چلے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان امراء مغضوب ہیں جبکہ گزشتہ ایام میں مسلمان امراء اور بادشاہ نہ صرف اپنوں کے محبوب تھے بلکہ غیروں کے بھی محبوب تھے۔ کیونکہ وہ حکومت کے روپیہ کو ملک اور خصوصًا غرباء کی ترقی کے لئے خرچ کرتے تھے اور امراء بھی اپنے اموال کو ایک الٰہی امانت سمجھتے تھے اور اُسے عیاشی پر نہیں بلکہ رفاہِ عامہ کے کاموں پر خرچ کرتے تھے۔
وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ
اور آب خورے دھرے ہوں گے۱۳؎
۱۳؎حل لغات
اَکْوَابٌ: آبخوروں کو کہتے ہیں اور مَوْضُوْعَۃٌ وَضَعَ سے ہے جس کے معنے رکھنے کے ہوتے ہیں لیکن اس میں حَطَّ میں فرق ہے حَطَّ کے معنے محض رکھنے کے ہوتے ہیں اور وَضَعَ کے معنے مناسب طور رکھنے کے ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ (الرحمن ع ۱ ۱ ۱) اس کے معنے یہ ہیں کہ زمین کو اس طرح بنایا کہ چارپایوں کو اس سے فائدہ پہنچے۔ اسی طرح فرمایا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہٖ (نساء ع ۷ ۲) یعنی مناسب محل سے بدل کر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔
تفسیر
اَکْوَابٌ مَوْضُوْعَۃٌٔ کے تین معنے ہو سکتے ہیں۔ آبخورے مومنوں کے پاس رکھے جائیں گے چونکہ آبخورے کا کسی کے پاس رکھنا پینے کے لئے ہوتا ہے اس لئے ان معنوں سے یہ استنباط بھی ہو گا کہ وہ بھرے ہوئے ہوں گے۔ دوسرےؔ اس کے یہ معنے ہیں کہ آبخورے اُن کے پاس ہی دھرے ہوں گے۔ تیسرےؔ معنے اس کے یہ ہیں کہ آبخورے چشموں کے پاس دھرے ہوں گے۔
اس آیت میں مسلمانوں کے قرب الٰہی اور ان کی سخاوت اور فیّاضی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ’آبخورے اُن کے پاس رکھے جائیں گے‘ کا ایک اشارہ اُن کے بھرے ہوئے ہونے کی طرف ہے پس اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے انعامات کا جام لبا لب پلائے گا اور ہر وقت پلائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مومن فضل و احسان کے جام بھر کر اپنے پاس رکھیں گے تا جو آئے اُسے پلائیں۔ وہ علومِ آسمانی کے جام بھر بھر کر لوگوں کے سامنے پیش کریں گے اور کہیں گے لو جی یہ آبخورے پی لو۔ دوسرےؔ معنے اس سے یہ نکلتے ہیں کہ آبخورے مومنوں کے پاس ہی رکھے ہوں گے یعنی علومِ آسمانی کا حصول اُن کے لئے آسان کر دیا جائے گا ادنیٰ کوشش سے وہ رُوح کی پیاس بجھا سکیں گے تیسرےؔ معنے اس کے یہ ہیں کہ آبخورے چشموں کے پاس دھرے ہوں گے یعنی دعوتِ عامہ ہو گی جو چاہے پِئے۔ گویا:۔
اوّلؔ۔ اُن کے سینوں کو علومِ آسمانی سے پُر کیا جائے گا۔
دومؔ۔ اُن کا علم اور عرفان لوگوں کے لئے اس قدر وسیع ہو گا کہ کسی کو مانگنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
سومؔ۔ وہ آبخوروں کو بھر بھر کر رکھتے چلے جائیں گے اور لوگوں سے کہیں گے آئو اور پی لو۔
چہارمؔ۔ اُن کے لئے آسمانی علوم کا حصول آسان کر دیا جائے گا۔
پنجمؔ۔ اُن کے فیوض کا دروازہ ہر ایک کے لئے کُھلا ہو گا جو چاہے اس سے فائدہ اُٹھائے
وَّنَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ
اور سہارے لینے والے تکئے قطاروں میں رکھے ہوئے ہوں گے۱۴؎
۱۴؎حل لغات
نَمَارِق: نُمْرُقٌ اور نُمْرُقُہ کی جمع ہے اور یہ لفظ تینوں طرح آ جاتا ہے نُمْرُقٌ۔ نَمْرُقٌ اور نِمْرُقٌ۔ نَمَارِق اُن چھوٹے چھوٹے تکیوں کو کہا جاتا ہے جو ٹیک لگانے کے لئے پیچھے رکھے جاتے ہیں (اقرب) ایک گائو تکیہ ہوتا ہے جو متمدّن ممالک میں صرف وہاں لگاتے ہیں جہاں قوم کا سردار بیٹھا ہو لیکن نَمَارِق اُن چھوٹے چھوٹے تکیوں کو کہتے ہیں جو دیواروں کے ساتھ ساتھ تمام اہل مجلس کے لئے رکھے جاتے ہیں اور جو بھی آتا ہے اُس تکئے سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہے۔
تفسیر
اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مسلمان سارے کے سارے معزّز ہوں گے یہ نہیں کہ اُن میں سے صرف ایک شخص کے پیچھے گائو تکیہ ہو اور باقی تکیوں کے بغیر ہوں بلکہ ہر شخص کے پیچھے ایک ایک تکیہ ہو گا یعنی اللہ تعالیٰ قوم کی قوم کو معزز اور باعظمت بنا دے گا اور خوبی اگر کامل طور پر ملی ہے تو محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کو۔ افسوس ہے کہ ابھی ہمارے اندر بھی کئی لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو کو دینی علوم حاصل کرنے کا کائی شوق نہیں۔ جو قرآن کریم کے علوم سے بہت حد تک ناواقف ہیں اور جن کے دلوںمیں یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کے علوم کو سیکھنے کی کوشش کریں۔ قادیان میں سینکڑوں ایسے آدمی ہیں جو کبھی اُس مجلس میں باقاعدگی نہیں آتے جس میں مَیں بیٹھتا ہوں۔ اگر آئیں تو وہ باتوں کو یاد رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر وہ خود یاد رکھیں تو دُوسروں کو سنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہی تھی جن کو ایسی باکمال جماعت ملی جس نے آپ کی باتوں کو سُنا، اُن پر عمل کیا اور پھر اُسے دوسروں لوگوں تک پہنچایا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جو صحابہؓ کی طرح دین کی ہر بات کو سیکھنے اس پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہاں سب کے سب ایسے تھے یہ ایک ایسی خوبی اور کمال ہے جس پر ہر قوم کو رشک کرنا چاہئیے اور اپنے آپ کو اُن جیسا بنانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اسی خوبی کا اللہ تعالیٰ نے زیر تفسیر آیت میں ذکر کیا ہے اور بتایا ہے مسلمانوں میں یہ نہیں ہو گا کہ ایک شخص گائو تکیہ لگا کر بیٹھا ہؤا ہو اور باقی لوگ اُس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں بلکہ تمام افراد کو عزت حاصل ہو گی، تمام افراد کو وجاہت حاصل ہو گی، تمام افراد کو عظمت حاصل ہو گی اور تکیے سب کے پیچھے ہوں گے کسی ایک فرد کے پیچھے بڑا سا تکیہ نہیں ہو گا۔
وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ
اور فرش پیچھے بچھے ہوئے ہوں گے ۱۵؎
۱۵؎حل لغات
زَرَابِیُّ کے معنے نَمَارِق کے بھی ہوتے ہیں اور فرش کے بھی۔ زَرَابِیُّ کا واحد زِرْابِیٌّ بھی ہوتا ہے اور زَرْبِیَّۃٌ بھی (اقرب)
مَبْثُوْثَۃٌ: بَثَّ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اور بَثَّ کے معنے کسی چیز کو پھیلانا (مفردات) اور مَبْثُوثَۃٌ کے معنے ہوں گے پھیلائے ہوئے۔
تفسیر
زَرَابِیُّ مَبْثُوثَۃٌ کے یہ معنے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہر ملک میں عزت بخشے گا اور ہر قوم کے لوگ اُن کو اپنی آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ نَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ کے معنے تو یہ تھے کہ اُن کے ہر فرد کو عزت کے مقام پر بٹھایا جائے گا یعنی ساری کی ساری قوم معزّز ہو گی یہ نہیں ہو گا کہ کوئی ایک فرد معزز ہو اور باقی لوگ ذلیل ہوں بلکہ ہر ایک پیچھے تکیہ لگا ہؤا ہو گا۔ اب زَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ میں یہ بتاتا ہے کہ اُن کی دُنیا کے کونہ کونہ اور زمین کے گوشہ گوشہ میں عزت کی جائے گی زَرْبِیَّۃ کے معنے جیسا کہ بتائے جا چکے ہیں فرش کے ہوتے ہیں پس زَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ کے یہ معنے ہوں گے کہ مسلمانوں کے لئے ہر جگہ فرش بچھے ہوئے ہوں گے اللہ تعالیٰ اُن کو ہر جگہ عزت دے گا اور ہر مقام پر اُن کی وجاہت کا لوگوں پر اثر پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نَمَارِق کے لئے مَصْفُوْفَۃ کا لفظ استعمال کیا ہے مَصْفُوْفَۃ کے معنے ہوتے ہیں صف میں رکھے ہوئے اور مَصْفُوْفَۃ کہنے سے مطلب یہ تھا کہ جب مسلمان مجالس میں حاضر ہوں گے سب کے سب عزت کے مقام پر بیٹھیں گے ان میں سے کوئی ذلیل نہیں ہو گا۔ لیکن زَرَابِیُّ میں کسی خاص مجلس کا ذکر نہیں بلکہ عام ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ جہاں جائیں گے لوگ اُن کے رستہ میں فرش بچھائیں گے۔ اُن کا استقبال کر یں گے۔ اُن سے عزت کے ساتھ پیش آئیں گے اور چاہیں گے کہ وُہ اُن کے گھروں میں رہیں اور اس طرح اُن کے لئے برکت کا باعث بنیں۔
لوگ عمومًا ظاہر پر مرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ استقبال وہی ہوتا ہے جب بڑی بڑی قالینیں بچھائی جائیں، شاندار دروازے بنائے جائیں، رنگ برنگ کی جھنڈیاں لگائی جائیں اور ظاہری لحاظ سے نمائش کی جائے حالانکہ اصل استقبال قالین بچھانا نہیں بلکہ آنکھوں کا فر شِ راہ کرنا ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے ع
حضرتِ واعظ جو آئیں دیدہ و دل فرشِ راہ
پس لوگوں کے دیدہ و دل کا فرشِ راہ ہونا ہی اصل عزّت کی علامت ہے اور اسی کی طرف زَرَابِیُّ مَبْثُوثَۃٌ میں اشارہ کیا گیا ہے اس سے مراد ظاہری زَرَابِیُّ نہیں۔ ان ظاہری زَرَابِیُّ کی تو صحابہ کو پرواہ بھی نہیں تھی۔
جب ایران کے بادشاہ کے دربار میں صحابہؓ گئے تو وہ اپنے نیزوں کی اَنّی اُسے کے بڑے بڑے قالینوں میں چبھوتے چلے جاتے تھے ایرانی دلوں میں کہتے تھے کہ یہ کیسے بد تہذیب ہیں کہ انہوں نے ہزاروں روپیہ کی قالینیں نیزے مار مار کر خراب کر دیں مگر اُنہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ جب بادشاہ کے سامنیب پیش ہوئے تو اُس نے صحابہؓ سے کہا کہ تم کیا جانو کہ سیاست کیا چیز ہوتی ہے بہتر یہ ہے کہ روپیہ لے لو اور واپس چلے جائو ناحق اپنی جانیں کیوں ضائع کرتے ہو۔ اُس کا خیال تھا کہی عرب روپے لے کر خوش ہو جائیں گے اور لڑائی کا خیال ترک کر دیں گے۔ اُس نے اُن کی جو قیمت لگائی اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ بیرونی اقوام اہلِ عرب کے متعلق کیسے ذلیل اندازے لگایا کرتی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے عرب اُس زمانے میں ایسے ہی لالچی اور اور حریص ہوتے ہوں گے ورنہ اُن کے متعلق ایسا اندازہ کیوں لگاتا۔ اُس نے حکم دیا کہ ہر سپاہی کو ایک ایک اشرفی اور ہر سوار کو دو دو اشرفی دی جائے۔ صحابہؓ نے اُسے کہا اب دو صورتوں میں سے ایک صورت ہے یا ہماری موت یا تمہاری موت۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اسلام جنگ شروع ہو جانے کے بعد کفر سے صلح کرے۔ یہ سُن کر بادشاہ کو غُصّہ آیا۔ اُس نے مٹی کا ایک بورا بھروایا اور مسلمانوں کے سردار سے کہا کہ آگے آئو۔ وہ آگے آئے تو اُس نے وہ بورا اُن کی پیٹھ پر لدوا دیا اور کہا کہ اِ س مٹی کے بورے کے سوا اب تمہیں کچھ نہیں مل سکتا۔ ساتھی صحابہؓ کا خیال تھا کہ سردار مٹی کے بورے کو اُٹھانے سے انکار کر دے گا اور کہے گا کہ میں اس ہتک کو برداشت نہیں کر سکتا۔ مگر انہوں نے آگے بڑھ کر مٹی کا بورا اپنی پیٹھ پر رکھوا لیا جو اُن کے ساتھیوں کو بہت بُرا لگا مگر انہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی بورا اُٹھایا اور زور سے ایک نعرہ لگایا کہ اپنے ساتھیوں سے کہا آ جائو بادشاہ نے خود ایران کی زمین ہمارے حوالے کر دی ہے۔ مشرک تو ہوتا ہی وہمی ہے یہ سنتے ہی بادشاہ کا رنگ زرد ہو گیا اُس کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور اُس نے درباریوں سے کہا جلدی جائو اور اُن کو پکڑ کے لے آئو مگر وہ گھوڑوں پر سوار ہو کر اُس وقت دُور نکل چکے تھے اس لئے وہ ناکام واپس آئے۔ دیکھو یہ کیسی لطیف اور باموقع بات اُس صحابیؓ کو سوجھی باقی صحابہؓ کو اس کا خیال نہیں آیا وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہمارے سردار نے اچھا نہیں کیا جو مٹی کا بورا اٹھا لیا مگر جب اُس نے نعرہ لگا کر حقیقت ظاہر کی تب اُنہیں پتہ لگا کہ یہ کیسی لطیف بات تھی۔ پھر دیکھو صحابہؓ جس جگہ بھی گئے لوگوں نے اُن کا استقبال کیا۔ یوروشلم کا واقعہ ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے پہلے مسلمانوں نے اُسے فتح کر لیا مگر کچھ عرصہ بعد دشمن نے بڑے لشکروں سے اُس پر حملہ کر دیا اور مسلمانوں کو یوروشلم چھوڑ کر پیچھے ہٹنا پڑا۔ جب مسلمان لشکر واپس آنے لگا تو یوروشلم کے عیسائی روتے تھے حالانکہ اُس وقت مسلمانوں کا عیسائیوں سے مقابلہ تھا اور عیسائیوں کا اپنا مذہب بادشاہ یوروشلم پر قابض ہو رہا تھا مگر اس کے باوجود مسلمان لشکر کو شہر سے باہر تک چھوڑنے کے لئے آئے اور ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو پھر ہمارے ملک میں واپس لائے۔ تو دیکھو اُن کا اپنا ملک تھا۔ اپنی قوم مسلمانوں سے برسر جنگ تھی۔ مگر اُنہیں اپنے مذہب کی بادشاہت کے مقابلہ میں ایک غیر قوم کی حکومت اچھی لگتی تھی اور وہ دعائیں کرتے تھے کہ خدا مسلمانوں کو پھر ہمارے شہر میں واپس لائے۔
غرض بتایا کہ مسلمان جہاں جائیں گے لوگ اپنی آنکھیں فرشِ راہ کریں گے اور کہیں گے آئیے اور تشریف رکھئے۔ آخر وہ کون سی چیز تھی جس کی وجہ سے اسلام کو فتح حاصل ہوئی۔ اور مسلمان جہاں گئے پھیلتے چلے گئے اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمان منصف مزاج تھے اور وہ لوگوں کے حقوق کو غصب نہیں کرتے تھے۔ غصّہ سے تب انسان لڑتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ میرا نقصان ہو رہا ہے لیکن جب وہ سمجھتا ہو کہ ہمارے اپنے بادشاہ ظلم کرتے ہیں مسلمان آئیں تو انصاف کریں گے اُس وقت وہ دل سے نہیں لڑ سکتا بلکہ عزّت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ پس فرماتا ہے کہ مسلمانوں کی حالت یہ ہو گی کہ وہ جدھر جائیں گے لوگ اپنی آنکھیں اُن کی راہ میں بچھائیں گے جس جگہ ٹھہریں گے لوگ تکئے لگائیں گے۔ اُن کے قدموں میں قالینیں بچھائیں گے جیسے گورنروں یا حاکموں کے استقبال کے موقع پر ہوتا ہے اور کہیں گے کہ ہمارے ہاں ہی ٹھہریئے اور آگے نہ جائیے۔
اَفَلَا نَنْظُرُونَ
کیا وہ اونٹوں کونہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کئے گئے ہیں۔ اور آسمان کو (نہیں دیکھتے کہ) کس طرح اونچا کیا گیا ہے۱۶؎
۱۶؎ حل لغات
اِبِلٌ: کے معنے اونٹوں کے ہوتے ہیں لیکن بعض علماء ادب نے اس کے معنے بادل کے بھی کئے ہیں۔ امام راغب نے اپنی کتاب مفردات میں لکھا ہے کہ اس کے معنے اگر بادل کے ہیں تو یہ بھی استعارہ کے طور پر ہیں لُغت میں یہ معنے نہیں ہیں۔ گو بعض آئمہ نے حتٰی کہ کسائیؔ تک نے کہا ہے کہ اس کے معنے بادل کے ہیں۔ جیسا کہ صاحبِ محیط کہتے ہیں وَرُوِیَتْ عَنْ اَبِیْ عَمْرٍ وَاَبِیْ جَعْفَرٍ وَالْکَسَائِیِّ وَقَالُوْا اِنَّھَا السَّحَابُ عَنْ قَوْمٍ مِنْ اَھْلِ اللُّغَۃِ۔ لیکن لُغت کی کتب کو لکھنے والوں نے اِن معنوں کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ لغت کے لحاظ سے اس کے حقیقی معنے اُونٹوں کے ہی ہیں۔ مَیں بھی پہلے اِس آیت میں اِبِل کے معنے اونٹوں کی بجائے بادل کے کیا کرتا تھا اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اگر اِبِل کے معنے یہاں اونٹوں کے ہی کئے جائیں تو پھر اِبِل اور سَمَاء میں جوڑ کیا ہؤا۔ اُس وقت بادل کے معنے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتے تھے لیکن اب جو میں نے غور کیا تو یہی بات ٹھیک نکلی کہ اس آیت میں اِبِل کے معنے اونٹوں کے ہی ہیں۔ پہلے میں اس آیت میں صرف اِسی آیت کو سامنے رکھ کر غور کرتا رہا ہوں۔ لیکن اب جو میں نے ترتیبِ آیات کے لحاظ سے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ اونٹوں کا سماء کے ساتھ تو جوڑ نظر آتا ہے مگر بادل کا کوئی جوڑ نہیں جیسا کہ مفردات والوں اور صاحبِ کشّاف نے لکھا ہے یہ درست معلوم ہوتا ہے کہ اِبِل کے معنے جن لوگوں نے بادل کے کئے ہیں فَعَلٰی تَشْبِیْہِ السَّحَابِ یعنی وہ اس وجہ سے کئے ہیں کہ اونٹ اس طرح اونچے نیچے چلتے ہیں۔ جس طرح بادل چلتا ہے۔ پس چونکہ اِبِل کو چلنے کے لحاظ سے بادلوں سے مشابہت ہوتی ہے اس لئے محاورہ میں اِبِل کا لفظ بادل کے لئے استعمال کیا جانے لگا ورنہ اِبِل کے اصل معنے بادل کے نہیں ہیں۔
تفسیر
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْo وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ میں مضمون نیچے سے اوپر گیا ہے اور اگلی آیت یعنی وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْo وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْمیں مضمون اوپر سے نیچے آیا ہے۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں دو الگ الگ مضمون بیان ہوئے ہیں۔ ایک مضمون میں نیچے سے اُوپر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور دوسرے مضمون میں اُوپر سے نیچے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اگر اِن آیات میں دو الگ الگ مضمون تسلیم نہ کئے جائیں تو پھر اہل سماءؔ۔ جبالؔ اور ارضؔمیں کوئی بھی ترتیب نظر نہیں آتی۔ ترتیب کے لحاظ سے مدارج دو ہی طرح بیان کئے جا سکتے ہیں یا نیچے سے اُوپر کی طرف مضمون کے لے جایا جائے یا اُوپر سے نیچے کی طرف۔ اب اس آیت میں پہلے اُونٹوں کاذ کر ہے پھر سماءؔ کا۔ یہاں تک تو ترتیب درست ہے یعنی نیچے سے اوپر کی طرف مضمون لے جایا گیا ہے مگر اس کے بعد پہاڑوں کا ذکر ہے جو نہ سماءؔ سے اُونچے ہیں نہ اُن کے برابر۔ اور اس کے بعد زمین کا ذکر ہے جو پہاڑوں سے اونچی نہیں ہوتی۔
دوسری ترتیب یہ ہوتی ہے کہ اُوپر سے نیچے کی طرف آیا جائے مگر اس لحاظ سے بھی بات نہیں بنتی کیونکہ اونٹ جو چھوٹی چیز ہے اُسے پہلے ذکر کر دیا گیا ہے اور سماء جو بلند چیز ہے اُس کا بعد میں ذکر کیا گیا ہے گویا نہ یہ ترتیب بنتی ہے کہ اونٹ سب سے نیچا ہو۔ اُس سے اُونچا آسمان ہو۔ اُس سے اُونچا پہاڑ ہو اور اس سے اونچی زمین ہو اور نہ یہ ترتیب بنتی ہے کہ اونٹ سب سے اونچا ہے۔ آسمان اُس سے نیچا ہو۔ پہاڑ اُس سے نیچے ہوں اور زمین اُن سے نیچی ہو۔
کبھی کبھی ایک اور رنگ بھی ترتیب کے بیان میں استعمال کر لیا جاتا ہے وہ اس طرح کہ پہلے درمیانی چیز کا ذکر کر دیا جاتا ہے پھر اُن اشیاء کا ذکر کر دیا جاتا ہے جو اُس کے دائیں بائیں ہوں مگر یہاں ابلؔ کے بعد آسمان کا ذکر دیا گیا ہے۔ آسمان کے بعد پہاڑوں کا اور پہاڑوں کے بعد زمین کا۔ اگر چوٹی کی چیز کو پہلے بیان کر دیا جاتا اور اس کے بعد ایسی چیز کا نام لیا جاتا جو اُس سے کم اونچی ہیں تو خیر کوئی بات بھی تھی مگر بظاہر اس جگہ کوئی اصل بھی مدنظر نہیں رکھا گیا۔ نہ نیچے سے اوپر مضمون گیا ہے نہ اوپر سے نیچے کو مضمون گیا ہے اور نہ درمیان کی کسی چیز کا پہلے ذکر کر کے اس سے تعلق رکھنے والی چیزوں کا بعد میں ذکر کیا گیا ہے۔ پس یا تو اِن آیات کو بے ترتیب قرار دینا پڑے گا جو قرآن کریم کی شان کے خلاف ہے یا ان آیات کو دو الگ الگ مثالوں پر مشتمل قرار دینا ہو گا۔ جن میں سے ایک ہی نیچے سے اوپر کیطرف مضمون لے جایا گیا ہے اور دوسری میں اوپر سے نیچے کی طرف ایک مثال کے ذریعہ ابلؔ اور سماءؔ کی آپس میں کوئی نسبت بتائی ہے اور دوسری ـمثال کے ذریعہ جبالؔ اور ارضؔ کی آپس میں کوئی نسبت بتائی ہے۔ اور میرے نزدیک اِن آیات میں یہی آخری طریق استعمال ہؤا ہے۔ اِبِل کے معنے اس جگہ اُونٹوں کے ہی ہیں لیکن سَمَاء کے معنے اس جگہ آسمان کے نہیں بلکہ بادل کے ہیں جیسا کہ وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الرَّجْعِ (الطارق) میں سماء کے معنے بادل کے ہیں۔
اہل مکّہ کا طریق تھا کہ وہ ہمیشہ فخر ومباہات سے کام لیا کرتے تھے اور تکبّر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی شان اور وجاہت کا بار بار ذکر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم ایسی شان والے۔ ہم اتنا بلند مرتبہ رکھنے والے۔ ہم ایسے اور ہم ویسے مسلمان بھلا ہمارے مقابلہ میں جیت سکتے ہیں۔ اس کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنی شانیں تو بیان کرتے ہو مگر تمہاری حالت بالکل اونٹوں کی سی ہے۔ اونٹ بے شک اونچا ہوتا ہے مگر جانتے ہو وہ ہمیشہ دوسرے کی سواری کے ہی کام آتا ہے بے شک اُس کی کوہان اُونچی ہوتی ہے، اس کا قد اونچا ہوتا ہے، اس کی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں، اُس کا جسم بڑا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود ہمیشہ دوسروں کے نیچے رہتا ہے۔ اسی طرح تم خواہ اپنی کسی قدر شانیں بیان کرتے رہو۔ تمہیں وہ قویٰ ہی نہیں دیئے گئے کہ تم حکومت کر سکو۔ تم ہمیشہ اِسی قابل رہو گے کہ لوگ تمہاری گردنوں پر سوار ہو ں جیسے اونٹ بے شک اونچا ہوتا ہے مگر اونچا ہونے کے باوجود اُسے نیچا ہونا پڑتا ہے اور ایک دوسرا شخص اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے۔ پس تم اپنی خوبیاں خواہ کتنی گنتے جائو تم اس اِبِل کے مشابہ ہو اور اونٹ ہمیشہ سواری ہی دیتے ہیں۔ اُوپر چھانے والے بادل ہوتے ہیں اُونٹ نہیں ہوتے تم اونٹوں کی طرح ہمیشہ دوسروں کی سواری کا کام آتے رہے ہو کبھی دنیا پر تم نے حکومت نہیں کی۔ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ سماء ہیں پس تمہاری آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ یہ بادلوں کیطرح دنیا پر چھا جانے والے ہیں اور تم خواہ کتنے اونچے ہو جائو بہرحال تمہاری پیٹھ پر دوسرے لوگ سوار ہوں گے چنانچہ عربوں کو دیکھ لو اُنہوں نے کئی صدیوں تک دنیا پر حکومت نہیں کی تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے اُن کی تاریخ محفوظ ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے محکوم چلے آتے تھے کسی قسم کا غلبہ اُن کو حاصل نہیں ہؤا تھا لیکن وہی قوم جو پچیس سو سال پہلے بالکل ذلیل چلی آتی تھی جس کو ہر لحاظ ستے ادنیٰ قرار دیا جاتا تھا۔ جسے دنیا میں کوئی غلبہ حاصل نہ تھا اور جس کے افراد کو حکومت کا کوئی شعور نہیں تھا جب محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں آئی اور آپ کے دامن کو اُس نے چھؤاتو وہ دیکھتے ہی دیکھتے کہیں سے کہیں جا پہنچی اورد نیا کی فاتح اور حکمران بن گئی اور بادلوں کی طرح دنیا پر چھا گئی۔ پس آیت میں کفار کو اونٹوں سے مشابہت دی ہے کہ باوجود اونچا ہونے کے سواری کے کام آتے ہیں اور مسلمانوں کو بادلوں سے مشابہت دی ہے کہ نظر نہ آنے والے ذرّوں سے بنتا ہے اور آخر بلند ہو کر دنیا پر چھا جاتا ہے اور اُسے سیراب کر دیتا ہے۔
وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ
اور پہاڑوں کو (نہیں دیکھتے) کہ کس طرح گاڑے ہوئے ہیں اور زمین کو (نہیں دیکھتے) کہ کس طرح ہموار کی ہوئی ہے۱۷؎
۱۷؎تفسیر
اس آیت میں دوسری مثال بیان کی گئی ہے جس کا مضمون اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے فرماتا ہے تم پہاڑوں کو دیکھو کہ وہ کسی طرح زمین میں گڑے ہوئے ہیں۔ دوسری جگہ پہاڑوں کا فائدہ اللہ تعالیٰ نے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَعِیْدَبِھِمْ(الانبیاء ع ۳ ۳)ہم نے پہاڑ اس لئے بنائے ہیں کہ زمین ہل نہ جائے اور لوگ تباہ نہ ہو جائیں۔ زمین کی غیر ضروری حرکت کو پہاڑوں نے ہی روکا ہؤا ہے ورنہ زمین کی غیر ضروری حرکت کو پہاڑوں نے ہی روکا ہؤا ہے ورنہ بنی نوع انسان کا زمین میں قیام بالکل ناممکن ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ گزشتہ مضمون کے تسلسل میں کفار کو توجہ دلاتا ہے کہ تم اپنے دلوںمیں خیال کرتے ہو کہ یہ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان غالب آ جائیں۔ اور مغلوب ہو جائیں۔ ہم طاقتور اور بڑی عزت اور شان رکھنے والے ہیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہم قوم اور ہمارے ہم مذہب ہم کو چھوڑ کر ان کے پیچھے دوڑنے لگ جائیں۔ مگر تمہارا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ تم بے شک اچھے ہو مگر تمہاری اور مسلمانوں کی حالت میں جو کچھ فرق ہے وہ اس سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو ہم نے اپنی مشیّت کے ماتحت پہاڑ بنایا ہے اور تم کو زمین بنایا ہے۔ زمین پہاڑوں کے ذریعہ ہی قائم رہتی ہے اگر پہاڑ نہ ہوں تو زمین بھی اس حالت میں نہ رہے۔ پس بے شک تم میں خوبیاں ہیں اس سے ہم انکار نہیں کرتے۔ جس طرح زمین میں بھی خوبیاں پائی جاتی ہیں اور کوئی شخص اُن خوبیوں سے انکار نہیں کر سکتا مگر زمین یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ اُسے پہاڑوں کی ضرور ت نہیںیا پہاڑوں کے بغیر بھی اُس کی زندگی قائم رہ سکتی۔ زمین کی زندگی پہاڑوں کے بغیر قطعی طور پر ناممکن ہے۔ اسی طرح اب جبکہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے پہاڑ بنا دیا ہے تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ زمین کی طرح اُن کے مقابلہ میں بِچھ جائو۔ جس طرح زمین پہاڑ کے مقابلہ میں بچھ کر ہی فائدہ اٹھاتی ہے اس کے بغیر نہیں اسی طرح تمہارا فائدہ اٹھاتی ہے اس کے بغیر نہیں اسی طرح تمہارا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ تم مسلمانوں کے مقابلہ میں کھڑے نہ ہو۔
اگر پہاڑ کی اونچائی کے لحاظ سے اس مثال کو مسلمانوں پر چسپاں کیا جائے تو پھر معنے یہ ہوں گے کہ مسلمانوں کی مثال پہاڑوں کی طرح ہے اور تمہاری مثال زمین کی طرح۔ ان مثالوں کی ذریعہ اب دنیا سے فتنہ و فساد دُور ہوں گے۔ بے شک زمین سرسبز و شاداب ہوتی ہے اور کئی قسم کی روئیدگیاں اس میں پیدا ہوتی ہیں مگر انہی پہاڑوں کے ذریعہ۔ کیونکہ وہی بادلوں کے برسنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور وہی دریائوں کا منبع ہیں پس اب تمہاری ترقی مسلمانوں کے ساتھ وابستہ ہے اِن سے جُدا ہو کر تم سُکھ نہیں پا سکتے۔
فَذِکِّرْ اِنّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ
پس نصیحت کر کہ تُو تو صرف نصیحت کرنے والا ہے۱۸؎ تُو اِن (لوگوں) پر داروغہ (کے طور پر) مقرر نہیں ہے مگر جس نے پیٹھ پھیر لی اور کفر کا مرتکب ہؤا۱۹؎
۱۸؎تفسیر
فرماتا ہے جبکہ تمام ترقیات اور فوائد مسلمانوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی اُمت میں شامل ہو کر ہی ہر قسم کی برکات کا حصول انسان کے لئے ممکن ہے خدا اُن کو بادلوں کی طرح دنیا پر چھا جانے والے اور پہاڑوں کی طرح زمین کے فتنہ و فساد کو دور کرنے والا اور ہر قسم کے فوائد لوگوں کو پہنچانے والا بنایا ہے تو پھر اے مسلمانو! تمہارا بھی فرض ہے کہ تم مخالفینِ اسلام کو سمجھائو اور اُنہیں کہو کہ وہ بھی اسلام کو قبول کر لیں اُونٹ بن کر اُنہوں نے کیا لینا ہے۔ اگر بننا ہے تو بادل بنیں اور پہاڑوں کی طرح دنیا کو فائد ہ پہنچائیں اور زمین کی طرح دوسری اقوام کے پائوں تلے روندے نہ جائیں۔
۱۹؎حل لغات
اَلْمُصَیْطِر: سین سے بھی لکھا جاتا ہے اور صاد سے بھی۔ اور اَلْمُصَیْطِر بھی ہے اور اَلْمُتَصَیْطِر بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنے ہیں الرَّقِیْبُ۔ اَلْحَافِظُ وَالْمُتَسَلِّطُ عَلَی الشَّیْئِ یَشْرُفُ عَلَیْہِ وَیَتَّعَھَّدُ اَحْوَالَہہٗ وَیَکْتُبُ عَمَلَہٗ وہ شخص جو کسی کی پوری نگرانی کرے اُس کی حالت کو دیکھتا رہے اور اُس کے اعما ل کو لکھتا رہے (اقرب) پس لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ کے یہ معنے ہوئے کہ خُدا نے تمہیں اُن پر مُصَیْطِر نہیں بنایا اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ سوائے اُس کے جو تولّی اخیتار کرتا اور کفار میں مبتلا رہتا ہے۔ یہاں اِلَّا استثناء منقطع کے معنے دیتا ہے متصل کے نہیں۔ یعنی تو کسی کا مصیطر نہیں اُن کا کبھی نہیں جو تولّی کریں گے اور باوجود سمجھانے کے کفر میں مبتلا رہیں گے اُن سے بھی تیرا واسطہ نہیں ہے۔ جن کے دلوں میں سعادت ہے انہی لوگوں نے تجھے ماننا ہے مگر نہ تجھے ماننے والوں پر مصیطر بنایا گیا ہے اور نہ انکار کرنے والوں پر اور تولّٰی اور کفر کرنے والوں پر مصیطر بنایا گیا ہے تیرا اُن سے کوئی واسطہ نہیں وہ اگر نہیں مانتے تو نہ مانیں اُن کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔
تفسیر
رسول کریم ﷺ کا مصیطر نہ ہونا دونوں لحاظ سے ہے مومنون کے لحاظ سے بھی اور کافروں کے لحاظ سے بھی۔ یعنی آپ نہ مومنوں کے لئے مُصَیْطِر ہیں اور نہ کفار کے لئے مُصَیْطِر ہیں۔ کفار کو اگر جبراً مذہب میں شامل کیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ وہ ظاہر میں تو مذہب قبول کر لیں گے لیکن دل میں منافق رہیں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ کہہ کر غیر مذاہب والوں کو جبراًاسلام میں شامل کرنے کی ممانعت فرما دی ہے اور بتایا ہے کہ ہم نے تمہیں اُن کا داروغہ مقرر نہیں کیا۔ اگر تم جبر سے کام لو گے تو اس سے نہ مومن کو فائدہ ہو گا نہ کافر کو۔ کافر کو تو اس لحاظ سے فائدہ نہیں ہو گا کہ اگر وہ تلوار کے ڈر سے مسلمان ہو بھی جائے تو بہرحال وہ منافق مسلمان ہو گا اور منافق کافر سے بد تر ہوتا ہے۔ مومنوں کو اس لئے فائدہ ہو گا کہ منافق اُن کی طاقت کو کمزور ہونے والے ہوں گے بڑھانے والے نہیں۔ مومنوں پر مصیطرؔ اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ایسے ہی اعمال کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہو سکتی ہے جو دلی شوق اور رغبت سے کئے جائیں۔ جس شخص کے دل میں ذاتی طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا جوش نہیں، اُس کے احکام پر عمل کرنے کا ولولہ اس کے سینہ میں نہیں پایا جاتا وہ معرفت اور اخلاص کی راہوں سے بیگانہ ہے۔ اوہ اگر جبر کے ماتحت کوئی نیک کام کرے گا بھی تو اُ س کی رُوح کو پاکیزگی حاصل نہیں ہو گی اور خدا تعالیٰ کے حضور اس کے وہ اعمال قبولیت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں جائیں گے اس لئے فرمایا کہ تمہیں لوگوں کا مصیطر بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ جو شخص کفر کرے اور باوجود سمجھانے کے اپنے بداعمال سے باز نہ آئے اُسے ہمارے سپرد کر دو تمہارے جبر سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اور جو مسلمان ہے اُسے شوق اور رغبت کے ذریعہ سے نیکی میں بڑھائو تا کہ اُسے ایمان کا نفع حاصل ہو۔
یہاں بھی دیکھ لو اسلام اور رسول کریم ﷺ کے غلبہ کی کیسے کیسے لفظوں میں پیشگوئی کی گئی ہے۔ مکّی زندگی میں جبکہ اسلام کا ابتدا ء تھا اور کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ اسلام بہت بڑی طاقت حاصل کر لے گا یہاں تک کہ کفار کی گردنیں مسلمانوں کے قبضہ میں ہوں گی اور وہ اختیار رکھتے ہوں گے کہ اُن سے جو سلوک چاہیں کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِر یہ صاف بات ہے کہ مکّہ میں رسول کریم ﷺ کو کوئی ایسی طاقت حاصل نہیں تھی کہ آپ کو یہ کہا جاتا کہ تجھے ہم نے مصیطر بنا کر بھیجا۔ یہ آئندہ کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی اور اسلام کے غلبہ کی خبر دی گئی تھی ورنہ وُہ لوگ جن کو مکّہ میں کُھلے بندوں نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی اُن کو یہ کہنا کہ تمہیں زبردستی کسی کو مسلمان بنانے کی اجازت نہیں ایک مضحکہ خیز بات ہو جاتی ہے۔ یہ فقرہ صاف بتا رہا تھا کہ وہ دن آنے والا ہے جب کہ مسلمانوں کو اتنی طاقت حاصل ہو جائے گی کہ اگر وہ چاہیں تو زبردستی لوگوں کو مسلمان بنا سکیں گے مگر پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے بطور نصیحت فرما دیا کہ تم ایسا نہ کرنا۔
غرض لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍo اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ میں غلبۂ اسلام کی پیشگوئی پائی جاتی ہے۔ اور یہ بات ایسی ہے کہ عیسائی مصنّفین کو بھی کھٹکی ہے ہے چنانچہ ویریؔ اس آیت کے ماتحت لکھتا ہے آپؐ کے دل میں شروع سے ہی حکومت کے خیالات اُٹھ رہے تھے چنانچہ ابتدائی زمانہ میں ہی اس قسم کی آیات مکّہ والوں سُنانا بتا رہا ہے کہ انہوں نے شروع سے ہی حکومت کا نقشہ اپنے ذہن میں جمایا ہؤا تھا اور ویسے ہی خیالات دل میں پیدا ہوتے رہتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کے خیالات آخر کسی وجہ سے پیدا ہؤا کرتے ہیں بغیر کسی وجہ سے پیدا نہیں ہو سکتے۔ وہ شخص جو ماریں کھا رہا ہو، جو لوگوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنا ہؤا ہو، جو اتنی طاقت بھی نہ رکھتا ہو کہ باہر نکل کر خدا تعالیٰ کی عبادت کر سکے اُس کے دل میں حکومت کے خیالات پیدا ہی کس طرح ہو سکتے ہیں اور پھر خود ساختہ خیالات پورے کس طرح ہو سکتے ہیں۔
درحقیقت یہ ایک پیشگوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ گو اس وقت تمہاری کوئی حیثیت نہیں مگر ایک زمانہ میں تم کو ایسا غلبہ حاصل ہونیو الا ہے کہ تم جو چاہو گے کر سکو گے مگر دیکھنا جب تمہیں غلبہ میسّر آئے اُس وقت اِن لوگوں پر جبر نہ کرنا بلکہ اِن کو اپنے حال پر چھور دینا جو شخص ایمان لے آئے اُسے اپنے اندر شامل کر لینا اور جو تولّی اور کفر کرے اس کی پرواہ نہ کرنا۔
فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ
اس کے نتیجہ میں اللہ اُسے بڑا عذاب دے گا۲۰؎ یقینا انہیں ہماری ہی طرف لوٹنا ہے پھر اُن سے حساب لینا بھی یقینا ہمارا ہی کام ہے۲۱؎
۲۰؎تفسیر
تولّی اور کفر کرنے والوں کو بہت بڑا عذاب دئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک بڑی ہدایت کا انکار کیا۔ سزا ہمیشہ جرم کے مطابق دی جاتی ہے معمول قصور ہو تو معمولی سزا دی جاتی ہے اور زیادہ قصور ہو تو زیادہ سزا دی جاتی ہے۔ ان کا جرم چونکہ معمولی نہیں ہو گا اس لئے اُنہیں سزا بھی غیر معمولی دی جائے گی کیونکہ انہوں نے اُس رسول کا انکار کیا جو تمام رسولوں سے بڑا ہے اور جس کی شریعت تمام شریعتوں سے بڑی تھی۔
۲۱؎ حل لغات
اِیَابٌَ: اٰبَ کا مصدر ہے اور اٰبَ کے معنے ہیں۔ لوٹا (اقرب) پس اِیَابٌ کے معنے ہوں گے۔ لوٹنا۔
تفسیر
اس آیت سے اس مضمون کو ختم کیا گیا ہے جو سورۃ الاعلیٰ سے شروع کیا گیا تھا اور بتایا گیا ہے کہ مومن کافر اپنے اپنے کام پورے کر کے مومن تسبیح کو بلند کر کے اور کافر کفر کی اشاعت کر کے آخر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور دنیوی نتائج دیکھ کر اُخروی نتائج دیکھنے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوں گے۔
سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ دونوں کے متعلق یہ امر بتایا جا چکا ہے کہ ان کا آپس میںگہرا ربط ہے اس کا ایک ثبوت اس امر سے بھی ملتا ہے کہ احادیث میں آتا ہے رسول کریم ﷺ جب سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی اور جب سورۃ الغاشیہ کی تلاوت کرتے کرتے اِنَّ اِلَیْنَآ۔ ثُمَّ اِنَُّ عَلَیْنَا حِسَابَھُم پر پہنچے تو فرماتے اَللَّھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا۔ ایک سورۃ کے شروع میں ایک فقرہ کا دُہرانا اور دوسری سورۃ کے آخر میں دوسرے فقرے کا دہرانا صاف طور پر بتا رہا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے نزدیک یہ دونوں سورتیں مضمون کے اعتبار سے آپس میں جوڑ رکھتی ہیں اِسی لئے ایک سورۃ کی ابتداء میں دوسری سورۃ کے انتہا میں ایک فقرہ یہ بتانے کے لئے دُہراتے کہ جو مضمون سَبِّح اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی سے شروع ہؤا تھا وُہ اِنَّا اِلَیْنَا اِیَابَھُمْ۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَھُمْ پر آ کر ختم ہو گیا ہے۔
سُوْرَۃُ الفَجْرِمَکِّیَّۃٌ
سورۂ فجر۔ یہ سورۃ مکّی ہے۱؎
اور بسم اللہ کے علاوہ اس کی تیس آیتیں ہیں اور ایک رکوع ہے
۱؎ یہ سورۃ مکّی ہے فتح البیان والے لکھتے ہیں ھِیَ مَکِّیَّۃٌ بِلَاخِلَافٍ فِی قَوْلِ الْجَمْھُوْرِ۔ جمہور علماء کے نزدیک اِ سکے مکّی ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔ ابن عباسؓ۔ ابن زبیرؓ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہی مروی ہے۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سورۃ الاعلیٰ۔ سورۃ الغاشیہ۔ سورۃ الفجر اور اس قسم کی بعض اور سورتوں کو عام طور پر فرض نمازوں میں پڑھنا زیادہ پسند فرمایا کرتے تھے۔ نسائی نے جابرؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک آدمی اُن کے ساتھ پیچھے سے آ کر شامل ہؤا۔ حضرت معاذؓ نے نماز لمبی شروع کر دی بعض روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے سورۂ آل عمران یا سورۂ نساء کی تلاوت شروع کر دی تھی۔ جب نماز لمبی ہو گئی تو اُس نے نماز توڑ کر ایک دوسرے کونہ میں جا کر علیحدہ نماز شروع کر دی اور فارغ ہو کر چلا گیا۔ نماز کے بعد کسی شخص نے حضرت معاذؓ سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور کہا کہ آپ نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے آپ کے ساتھ نماز شروع کی مگر جب آپ نے نماز میں دیر لگا دی۔ تو وہ نماز توڑ کر علیحدہ ہو گیا اور ایک کونے میں نماز پڑھ کر چلا گیا۔ حضرت معاذؓ نے کہا وہ منافق ہو گا پھر انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی اس واقعہ کا ذکر کر دیا اور کہا یا رسول اللہ! میں نماز پڑھا رہا تھا کہ پیچھے فلاں شخص آ کر شامل ہؤا مگر جب نماز لمبی ہو گئی تو وہ نماز توڑ کر الگ ہو گیا اور علیحدہ نماز پڑھ کر چلا گیا۔ جب اُس شخص کو معلوم ہؤا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس میری شکایت گئی ہے تو وہ آپؐ کی خد مت میں حاضر ہؤا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ مَیں آیا تو یہ نماز پڑھا رہے تھے مَیں ان کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا مگر انہوں نے نماز لمبی کر د۔ آخر ہم کام کرنے والے آدمی ہیں میری اونٹنی بغیر چارہ کے کھڑی تھی مَیں نے نماز توڑ کر مسجد کے ایک کونے میں اپنی نماز ختم کر لی اور پھر گھر جا کر اپنی اونٹنی کو چارہ ڈالا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ سُن کر حضرت معاذؓ پر ناراض ہوئے اور اُن سے فرمایا معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو تمہیں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی اور وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا اور وَالْفَجْرِ اور وَالَّیْلِ اِذَایَغْشٰی کے پڑھنے میں کیا تکلیف ہوتی تھی تم نے یہ سورتیں کیوں نہ پڑھیں اور لمبی سورتیں کیوں شروع کر دیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِن سُورتوں کو اوسط سورتوں میں قرار دیا ہے۔ خاص اوقات میں انسان بے شک لمبی سورتیں پڑھ لے یا تکلیف اور بیماری کی صورت میں چھوٹی سوتیں پڑھ لے۔ لیکن اوسط سورتیں یہی ہیں جن کو عام طور پر بالجہر نمازوں میں پڑھنا چاہئیے۔
اس سورۃ کی نسبت یوروپین مفسّرین کا خیال ہے کہ یہ ابتدائی سالوں کی ہے اور میرے نزدیک یہی درست ہے۔ نولڈکےؔ جرمن محقق اِسے سورۃ الغاشیہ کے معًا بعد کی قرار دیتا ہے اور غاشیہ کی نسبت یوروپین مفسّرین کی رائے میں پہلے بتا چکا ہوں کہ وہ اسے تیسرے اور چوتھے سال کے ملتے حصّوں کی قرار دیتے ہیں یعنی اُن کے نزدیک یہ سورۃ یا تیسرے سال کے آخری نصف میں نازل ہوئی ہے یا چوتھے سال کے پہلے نصف میں نازل ہوئی ہے یا چوتھے سال کے پہلے نصف میں نازل ہوئی ہے اور یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ اِن سورتوں میں مخالفت کی ابتداء کی طرف اشارہ کیا گیا ہے منظّم اور تفصیلی مخالفت کا اس میں ذکر نہیں بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ مخالفت ہونے والی ہے اور یہ وہی زمانہ تھا جو تیسرے سال کا آخری یا چوتھے سال کا شروع تھا۔ وہ تفصیلی مخالفت جس کا ذکر اُن سورتوں میں ہے جو مخالفت کے بعد اُتریں اُن کا ذکر یہاں نہیں۔
دوسریؔ بات یہ ہے کہ یہاں کفار کے وہ عیوب گنائے گئے ہیں جو اخلاقی، شرعی اور دینی ہوتے ہیں مثلًا یتامیٰ کی خبر گیری کیوں نہیں کرتے، مساکین کو کھانا کیوں نہیں کھلاتے۔ اس قسم کے عیوب ہر زمانہ میں ہی گنائے جاتے ہیں لیکن جب نبوت کی کھلی مخالفت شروع ہو اُس وقت زیادہ زور انکارِ نبوت کے جرم پر دیا جاتا ہے اور اس جرم کو باقی تمام جرائم کی اساس اور بنیاد سمجھا جاتا ہے اُس وقت تفصیلی جرائم کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ جب تک لوگ نبی کی مخالفت نہیں کرتے اُس وقت تک اُن کے اور نقائص پر زور دیا جاتا ہے مثلًا انہیں کہا جاتا ہے کہ تم یتامیٰ سے حسنِ سلوک نہیں کرتے، بیوائوں کی خبر گیری نہیں کرتے، مساکین کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش نہیں آتے، اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے، بیوائوں کی خبر گیری نہیں کرتے، مساکین کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش نہیں آتے، اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے۔ لیکن جب وہ مامور کی مخالفت کرتے ہیں تو سارا زور اس بات پر صرف کر دیا جاتا ہے کہ سب سے بڑا عیب تم میں یہ ہے کہ تم ایک نبی کے منکر ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان بالرسالت تمام اعمال صالحہ کے لئے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جب لوگ نبی کو ماننے لگ جاتے ہیں تو اُن کی اخلاقی اصلاح آپ ہی آپ ہو جاتی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ کفار جب نبی کی مخالفت اُس کے دعویٰ کے متعلق زور شور سے شروع کر دیتے ہیں تو اُن کا یہ جرم باقی تمام جرائم سے بڑھ جاتا ہے کیونکہ سب نیکیاں نبیوں سے شروع ہوتی ہیں نبی کے انکار کا جرم سب نیکیوں کے انکار کا موجب ہوتا ہے اِس لئے اُس وقت زیادہ زور اِسی انکارِ نبوت کے جرم پر دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی اصلاح باقی سب باتوں میں اصلاح کروا سکتی ہے۔ مگر اس سے پہلے کہ عرصہ میں جب دعویٰ کا ابتداء ہوتا ہے تفصیلی نقائص کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ بعد میں تفصیلات کا ذکر نہیں ہوتا۔ ذکر تو ہوتا ہے لیکن اُن پر زور کم دیا جاتا ہے کیونکہ ایک ہی اصلاح کے ساتھ سب امور کی اصلاح وابستہ ہونے سے تفصیلات کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔
ہم نے دیکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر لوگ ہمیشہ یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ آپ ان باتوں پر تو زیادہ زور دیتے ہیں کہ مجھے یہ الہام ہؤا ہے مگر اور امور کی طرف توجہ نہیں کرتے آپ اس کے جواب میں فرمایا کرتے تھے کہ سارے نقائص اور عیوب خدا تعالیٰ سے بُعد کے نتیجہ میں ہوتے ہیں۔ اگر لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق کامل یقین پیدا ہو جائے تو اُن سے گناہ سرزد نہ ہوں۔ میں لوگوں کے سامنے خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ الہامات اور اس کے نشانات ومعجزات کو بار بار اس لئے پیش کرتا ہوں کہ اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے متعلق یقین پیدا ہو جائے جس دن اُن کے دلوں میں سچا یقین پیدا ہؤا اور انہوں نے مجھے مان لیا یہ عیوب آپ ہی آپ دُور ہو جائیں گے۔ غرض جب تک لوگ نبوت کی کھلی مخالفت نہیں کرتے جُزئیات کی طرف زیادہ توجہ دلائی جاتی ہے اور انہیں کہا جاتا ہے کہ تم میں یہ بھی نقص ہے وہ بھی نقص ہے۔ مگر جب وہ کھلے بندوں نبی کی مخالفت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں جب وہ کہتے ہیں ہم اس نبی کو اور اس نبی کے ماننے والوں کو کچل کر رکھ دیں گے اُس وقت اُن کے اُس نقص کو جو بنیادی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام پر ایمان میں کمی، اُسے سامنے رکھ کر اس کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے اور اسی میں باقی تمام جزئیات کی اصلاح آ جاتی ہے۔
اس سورۃمیں بھی کفار کے تفصیلی گناہوں پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ یتامیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے، مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے، اُن کے دلوں میں یہ حرص پائی جاتی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ مال اپنے پاس جمع کر لیں۔ یہ نقائص اُن کے ایمان کی کمزوری پر دلالت کرتے ہیں اس کی اصلاح ہونی چاہئیے۔ اِن تفصیلات سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ سُورۃ اُس وقت کی ہے جب ابھی قومی طور پر مخالفت شروع نہیں ہوئی تھی اِسی لئے اِس میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے انکار پر اتنا زور نہیں دیا جتنا اعمال کی جزئیات پر زور ہے بالخصوص ایسے گناہوں پر جو اسلام کے مقابلہ کے وقت اسلام کی شوکت اور اُن کی تباہی کا موجب ہونے والے تھے یہ سورۃ یقینا ابتدائی ایام کی ہے اور چونکہ اس میں اشارۃً یہ ذکر آتا ہے کہ اب منظم مخالفت ہونے والی ہے اس لئے یہ سورۃ تیسرے سال کے آخر یا چوتھے سال کے بالکل ابتدائی حصہ کی ہے۔
ترتیبِؔ سُورۃ
ابوحیانؔ کہتے ہیں کہ سورہ غاشیہ میں وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ میں کچھ لوگوں کے متعلق ذکر کیا گیا تھا کہ وہ ذلیل اور رسواء ہوں گے۔ اب اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو یتامیٰ کی خبر گیری نہیں کرتے۔ مساکین کی طرف توجہ نہیں کرتے اور حریص اور لالچی ہیں۔ اسی طرح وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَاعِمَۃٌ میں ایک اور گروہ کا ذکر کیا گیا تھا جو اللہ تعالیٰ کے حضور عزّت پانے والا تھا اس سورۃ میں اُس کا ذکر یٰٓااَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُمْطَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً کے ذریعہ کیا گیا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دونوں ذکر اس سورۃ میں موجود ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان دونوں امور میں سے ایک کا تعلق وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ سے ہے اور دوسرے کا تعلق وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ سے ہے مگر یہ صرف قریبی تعلق ہے۔ یعنی پہلی سورۃ کے بعض مضامین اس سُورۃ کے بعض مضامین کا باہمی رابطہ ملتا ہؤا معلوم ہوتا ہے مگر مضمون کا وہ تسلسل جو ایک زنجیر کی طرح دونوں میں پایا جانا چاہئیے وہ انہوں نے نہیں بتایا۔ جہاں تک قریبی تعلق کا سوال ہے ابوحیان نے خوب کام کیا ہے اور وہ اکثر تعلقاتِ سور کے بارہ میں بڑی نگاہ رکھنے والے انسان ہیں بلکہ اس امر میں تمام پُرانے مفسّروں سے منفرد ہیں اور ممتاز بھی۔ مگر اس قریبی تعلق کے علاوہ قرآن کریم کی سورتوں اور آیتوں میں ایک مسلسل زنجیر معلوم ہوتی ہے جو دُور دُور رتک مضامین کی لڑی پروتی چلی جاتی ہے اور بالآخر سارے قرآن کریم کو ایک ہی ہار بنا کر رکھ دیتی ہے۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وحی کی مثال صَلْصَلَۃُ الْجَرْسِ سے دی ہے جس میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ جس طرح گھنٹی جھنکار میں ایک تسلسل ہوتا ہے اسی طرح ایک مربوط اور مسلسل الٰہی کلام ہوتا ہے اور چونکہ قرآن کریم وہ کلام ہے جو تمام الٰہی کلاموں میں سے تشبیہ دے کر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس امر کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ قرآن کریم کو بے ترتیب نہ سمجھنا یہ خدا تعالیٰ کی وحی ہے اور اس کا ہر حصہ پرویا ہؤا ہے۔ اس وسیع اور لمبے سلسلہ کی طرف علامہ ابو حیانؔ کی نظر نہیں گئی مگر پھر بھی اُن کی خدمت ترتیبِ قرآن کریم کے بارہ میں بہت قابل قدر اور قابلِ ستائش ہے جَزَاہُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء۔
جیسا کہ میں نے اُوپر بتایا ہے سورتوں کے باہمی تعلقات دو قسم کے ہؤا کرتے ہیں۔ ایک قریبی تعلق جس میں یہ مدنظر رکھا جاتا ہے کہ ای سورۃ کی آخری آیت کا مضمون دوسری سورۃ کی پہلی آیت سے ملا دیا جائے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے سورۂ فاتحہ میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہہ کر ہدایت کے متعلق دعا مانگی گئی تھی اس کے بعد سورۂ بقرہ شروع ہوئی تو ابتدا ہ میں ہی کہہ دیا گیا کہ الٓمٓ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ گویا سورۃ فاتحہ میں جو ہدایت طلب کی گئی تھی سورۂ بقرہ کے شروع میں اُس ہدایت کی نسبت بتا دیا کہ جو کچھ تم مانگ رہے تھے وہ یہ ہے اِس قسم کے تعلقات جو باہم سورتوں میں پائے جاتے ہیں قریبی تعلق کہلاتے ہیں۔ لیکن سورتوں کا ایک تعلق سارے مضمون کے لحاظ سے ہوتا ہے اور مسلسل ایک قسم کا مضمون کئی سورتوں میں چلتا چلا جاتا ہے۔ اس تعلق کے لحاظ سے اگر سورتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ بعض جگہ پانچ پانچ اور بعض جگہ دس دس سورتوں کا ایک گروپ ہوتا ہے اور اُن کا مضمون ایک زنجیر کے کے تسلسل کی طرح آپس میں ملتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ جو مضمون اس سورۃ کو چند پچھلی سورتوں کے مجموعہ کا ایک فرد بنا دیتا ہے اس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ان چند سورتوں میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت دو زمانوں کے لحاظ سے بیان کی جا رہی ہے یہ مضامین سورۂ تکویر سے شروع ہیں اور ان میں بتا یا جا رہا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے محض اس زمانہ میں ہی ثبوت مہیا نہیں ہوں گے بلکہ جب بھی اسلام کمزور ہو گا اس صداقت کے ثبوت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہیّا کئے جائیں گے۔ اسی تسلسل میں سورۂ بروج میں بتایا گیا تھا آخری زمانہ میں دنیا کی خرابی کے وقت ایک بدر پیدا ہو گا مگر چونکہ اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا تھا کہ نورِ محمدؐی گویا دنیا کو فائدہ دے گا مگر رہے گا اوجھل اور براہ راست نظر نہ آئے گا اِس لئے اس شبہ کا ازالہ سورۂ طارق میں کیا اور بتایا کہ آنے والا موعود دو الگ الگ نام رکھے گا بدرؔ بھی اور طارقؔ بھی یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جلا ل کو وہ براہ راست ظاہر کرے گا یہ نہیں ہو گا کہ کہ لوگ صرف سُن کر ایمان لائیں گے بلکہ وہ ایسی جماعت پیدا کرے گا جس کا خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق ہو گا اور وہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے انوار اور آپ کی برکات اپنی ذات میں مشاہدہ کریں گے۔ گویا سورۂ بروج میں مسیحیت موعودہ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور سورۂ طارق میں مہدویت مبشرہ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ پھر میں نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی اور سورۃ الغاشیہ کا آپس میں تعلق بتاتے ہوئے کہا ذکر کیا تھا کہ یہ دونوں سورتیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں بالالتزام پڑھا کرتے تھے اور یہ دونوں سورتیں ایسی ہیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ترقی اور آنے والے موعود کی خبر یکجائی طور پر اپنے اندر رکھتی ہیں یا اگر ایک ٹکڑہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر آتا ہے تو بعد کے ٹکڑہ میں آنے والے موعود کا ذکر آتا کیا گیا ہے۔ یا مثال تو ایک ہی دی ہے مگر وہ مثال ایسی ہے جو وہاں بھی چسپاں ہو جاتی ہے اور یہاں بھی چسپاں ہو جاتی ہے گویا دو دھاری تلوار ہے جس سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے مخالفین پر بھی حجت تمام ہو جاتی ہے اور بعد میں پیدا ہونے والے مخالفین کے پر بھی حجت تمام ہو جاتی ہے۔ اسی سلسلہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَھْرَ وَمَایَخْفٰی میں بھی آنے والے موعود کی ضرورت بیان کی گئی ہے اور خبر دی گئی ہے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کا ظاہر تو باقی ہو گا مگر اُس کا مغز نہیں ہو گا۔ تب اُس موعود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ قرآنی علوم کو دنیا میں پھر زندہ کرے گا اور پھر اُس کے مغز کو دنیا میں واپس لائے گا۔ اسی طرح وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ میں دونوں زمانوں کی مخالفت اور اسلام کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جب بھی اسلام پر کمزوری کا زمانہ آئے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کمزوری کو دور کرنے کا سامان کیا جائے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی اگر ہو سکتی ہے تو اِسی ذریعہ سے، اس کے بغیر اُن کی ترقی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ مضمون ہے جو مسلسل کئی سورتوں سے چلا آ رہا ہے اور جس کی وجہ سے ہر سورۃ اپنے سے پہلی سورۃ سے بالکل مربوط نظر آتی ہے۔
وہ گہرا تعلق جو اس سورۃ کو پہلی سورۃ سے حاصل ہے یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں بتایا گیا تھا کہ اسلام کا مقابلہ کفّارِ مکّہ کریں گے اور ہر قسم کی تدابیر اسلام کے خلاف کریں گے لیکن کامیاب نہ ہوں گے بلکہ اُن کے مقابل پر مسلمان کامیاب ہوں گے۔ دوسرےؔ یہ بتایا تھا کہ آئندہ بھی اسلام پر جب کبھی خطرناک وقت آئے گا خدا تعالیٰ اسلام کی مدد کرے گا اور اُ س کے مخالف آخر شکست کھائیں گے۔ اس سورۃ میں اِس مضمون کی مزید وضاحت کی گئی ہے اور تفصیل بھی بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ کے مصداق ہوں گے کس طرح عمل اور محنت کریں گے اور کس طرح اللہ تعالیٰ اُن وُجُوہ کو دنیا میں پیدا کرے گا جو نَاعِمَۃٌ تِسَعْیَھَا رَاضِیَۃٌ کے مصداق ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ نبوت کے تیسرے سال میں تو یہ دونوں وُجُوْہ پوشیدہ تھے نہ خَشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ اور نہ نَاصِبَۃ پائے جاتے تھے کیونکہ منظم مخالفت ابھی کفارِ مکّہ نے شروع نہیں کی تھی اور نہ یہ پتہ تھا کہ نَاعِمَۃ وُجُوْہ کون ہوں گے اور کہاں سے آئیں گے کیونکہ مومنوں کی تعداد گنتی کے چند افراد پر مشتمل تھی۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں پیشگوئی فرماتا ہے کہ کفار کی مخالفت کیسا شدید رنگ اختیار کرے گی اور کس طرح مسلمانوں کی ترقی اور رفعت ہو گی۔ اسی طرح بعد میں جب خود مسلمان بگڑیں گے اور اسلام سے دور ہو جائیں گے تو اُس وقت خدا تعالیٰ کس رنگ میں اپنی اپنی نصرت ظاہر کرے گا۔
مَیں اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی تائید کے ایک تازہ واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا قرآن کریم کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مضامین ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے القاء اور الہام کے طور پر مجھے سمجھائے ہیں اور میں اس بارہ میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا جس قدر ذکر کروں کم ہے۔ اُس نے کئی ایسی آیات جو مجھ پر واضح نہیں تھیں اُن کے معانی بطور وحی یا القاء میرے دل میں نازل کئے اور اس طرح اپنے خاص علوم سے اُس نے مجھے بہرہ ور کیا۔ مثال کے طور پر میں سورۂ بقرہ کی ترتیب کو پیش کرتا ہوں۔ میں ایک دن بیٹھا ہؤا تھا کہ یکدم مجھے القاء ہؤا کہ فلاں آیت اس کی کنجی ہے اور جب میں نے غور کیا تو اس کی تمام ترتیب مجھ پر روشن ہو گئی۔ اِسی طرح سورۂ فاتحہ کے مضامین مجھے القاء ً اور الہامًا اللہ تعالیٰ کی طرف سے رویاء میں بتائے گئے تھے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے میرا سینہ سورۂ فاتحہ کے حقائق سے لبریز فرما دیا۔ قرآن کریم کی ترتیبیں بیسیوں آیا ت کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء مجھے سمجھائی گئی ہیں مثلًا سورۂ بروج اور سورۂ طارق کا یہ جوڑ کہ ان میں سے ایک سورۃ میں مسیحیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسری سورۃ میں مہدویت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی اُن مضامین میں سے ہے جو لوگوں کی نگاہ سے مخفی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اُن کو ظاہر فرما دیا اور مجھے وہ دلائل دئے جن سے میں اپنے اس استدلال کو پوری قوت کے ساتھ ثابت کر سکتا ہوں اور کوئی منصف مزاج اُن دلائل کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ عقلی طور پر اُسے بہرحال ماننا پڑے گا کہ میرا دعویٰ دلائل پرمبنی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں اِن دلائل کو تسلیم نہیں کرتا لیکن اُسے یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ میں نے جو دعویٰ کیا ہے اُس کے دلائل اور وجوہ موجود ہیں۔
غرض قرآن کریم کی کئی مشکل آیات کے معانی اللہ تعالیٰ نے اپنے القاء اور الہام کے ذریعہ مجھ پر منکشف فرمائے ہیں اور اس قسم کی بہت سی مثالیں میری زندگی میں پائی جاتی ہیں۔ اُنہی مشکل آیات میں سے میرے لئے ایک یہ سورۃ بھی تھی۔ میں جب بھی سوچتا اور غور کرتا مجھے اس کے معانی کے متعلق تسلّی نہیں ہوتی تھی بلکہ ہمیشہ دل میں ایک خلش سی پائی جاتی تھی اور مجھے بار بار یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ جو معانی بتائے جاتے ہیں وہ قلب کو مطمئن کرنے والے نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مفسّرین نے بہت سے معانی کئے جو لوگوں کی نگاہ میں اس سورۃ کو حل کر دیتے ہیں مگر میری اپنی نگاہ میں وہ اطمینان بخش معانی نہیں تھے اور اس لئے ہمیشہ ایک بے چینی سی میرے اندر پائی جاتی تھی میں سوچتا اور غور کرتا مگر جو بھی معنے میرے ذہن میں آتے جن کو مزید غور کرنے کے بعد میں خود ہی ردّ کر دیتا کہ کہتا کہ یہ درست نہیں ہیں آخر بڑی مدتوں کے بعد ایک دفعہ جب میں عورتوں میں قرآن کریم کے آخری پارہ کا درس دینے لگا تو اس کا ایک حصّہ حل ہو گیا مگر پھر بھی جو حل ہؤا وہ صرف ایک حصّہ ہی تھا مکمل مضمون نہیں تھا جو معنے مجھ پر اُس وقت روشن ہوئے اُن سے چاروں کھونٹے قائم نہیں ہوتے تھے دو تو بن جاتے تھے مگر دو رہ جاتے تھے یہ حالت چلتی چلی گئی اور مجھے کامل طور پر اس کے معانی کے متعلق اطمینان حاصل نہ ہؤا۔
اب جو میں نے درس شروع کیا تو پھر یہ سورۃ میرے سامنے آ گئی اور میں نے اس پر غور کرنا شروع کر دیا۔ میں نے آخری پارہ کا درس جولائی جولائی ۱۹۴۴ء میں شروع کیا تھا اور ڈلہوزی میں اس کی ابتدا کی تھی اُس وقت سے لے کر اب تک کئی دفعہ میں نے اس سورۃ پر نظر ڈالی اور مجھے سخت فکر ہؤا کہ اس سورۃ کا درس تو قریب آ رہا ہے مگر اس کے معانی ترتیبِ سُور کے لحاظ سے مجھ پر روشن نہیں ہوئے۔ بار بار میں اس کو دیکھتا۔ اس کے مطالب پر غور کرتا اور کوئی مضمون میرے ذہن میں بھی آ جاتا مگر پھر سوچتے سوچتے میں اُس کو ناکافی قرار ددے دیتا غرض بیسیوں دفعہ مَیں نے اس سورۃ پر نگا ہ دوڑائی مگر مجھے اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی یہاں تک کہ سورۃ الغاشیہ کے درس کا وقت آ گیا اور مَیں نے اس کے نوٹ لکھنے لگا مگر اُس وقت بجائے غاشیہ پر نگاہ ڈالنے کے میری نظر بار بار آگے کی طرف نکل جاتی اور سورۃ الفجر میرے سامنے آ جاتی۔ غاشیہ کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ تو حل شدہ ہی ہے اور اگر کوئی اور مشکل آیت بھی ہوئی تو ترتیب میں آ کر وہ خودبخود حل ہو جائے گی۔ جس طرح ایک انسان جب گیند پھینکتا ہے تو اُسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ گیند اتنی دُور جائے گا۔ اسی طرح جو شخص قرآن کریم کی تفسیر ترتیبِ آیات اور ترتیبِ سُور کو مدنظر رکھ کر کرتا ہے وہ سمجھ جاتا ہے کہ فُلاں آیت کے معنے فلاں بنیں گے مگر اس بات کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی عمر اس فن میں صرف کر دی ہو۔ وہی جانتا ہے کہ نہر کا رُخ کس طرف ہے اور پانی کا بہائو کدھر ہے دوسرا شخص جسے قرآن پر اس رنگ میں غور کرنے کا موقع نہ ملا ہو وہ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ جب میں سورۂ کہف کی تفسیر لکھ رہا تھا تو لَا تَقُوْلَنَّ لِشَیْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذَالِکَ غَدًا اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ (الکہف ع ۴ ۶ ۱)کے معنے میری سمجھ نہیں آتے تھے مگر تفسیر لکھتے وقت میں نے سمجھا میں صحیح ترتیب پر چل رہا ہوں جب میں اس آیت پر پہنچوں گا تو دیکھوں گا کہ اس کے کیا معنے بنتے ہیں چنانچہ ترتیبِ آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں تفسیر کرتا چلا گیا یہاں تک کہ میں اس آیت پر پہنچا تو اُس وقت یہ آیت اپنے معانی کے لحاظ سے یوں واضح ہو گئی کہ میں نے سمجھ لیا کہ اس کے سوا اس آیت کے اور کوئی معنی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ پہلی آیتیں مجبور کر کے اُن معنوںکی طرف لے جا رہی تھیں۔ لطیفہ یہ ہؤا کہ انگریزی ترجمۃ القرآن کے سلسلہ میں مولوی شیر علی صاحب کے نوٹ جب میرے پاس آئے تو اُن میں وہی معنے لکھے ہوئے تھے بلکہ ولایت میں لکھے تھے میں نے ملک غلام فرید صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب نے یہ نوٹ اب کئے ہیں یا پہلے اسی طرح لکھے ہوئے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ ولایت کے لکھے ہوئے ہیں میں نے کہا اگر یہ ولایت کے نوٹ ہیں تو پھر اس آیت کے یہ معنے ولایت میں کس طرح پہنچ گئے؟ میں تو اس آیت پر بڑا غور کرتا رہا تھا مگر اس کے معنے پندرھویں پارہ کی تفسیر لکھتے ہوئے میری سمجھ میں آئے تھے۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ نے جو درس ۱۹۲۲ء میں دیا تھا اُس میں یہی معنے بیان کئے تھے اور اُسی وقت کے نوٹوں سے مولوی صاحب نے یہ معنے درج کئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ۲۲ء کا درس دیتے وقت جب میں اس آیت پر پہنچا تو خود بخود یہ آیت حل ہو گئی مگر چونکہ عین وقت پر حل ہوئی اس لئے میرے قرآن کریم کے حاشیہ پر وہ معنے نہ لکھے گے اور کچھ عرصہ کے بعد مجھے بُھول گئے۔ اب گو میں اُن معنوں کو بھول چکا تھا مگر جب ترتیب آیات کے لحاظ سے غو کرتے ہوئے میں اُس آیت پر پہنچا تو فوراً وہی معنی پر ذہن میں آ گئے۔ تو ترتیب کے لحاظ سے جو شخص آیات کے معنے کرنے کا عادی ہو وُہ اِدھر اُدھر جا ہی نہیں سکتا۔ وہ اُسی رَو اور اُسی نالی میں بَہ رہا ہوتا ہے جس کی طرف مضمون زبانِ حال سے اشارہ کر رہا ہوتا ہے۔
غرض جوں جوں سورۂ فجر کا درس قریب آتا گیا میرا اضطراب بھی بڑھتا چلا گیا۔ میں نے کہا جب اس سورۃ کے متعلق میری اپنی تسلی ہی نہیں ہوئی تو میں دوسروں کو کیسے مطمئن کر سکتا ہوں۔ مفسرین نے جو معانی بیان کئے ہیں وہ میں بیان کر سکتا تھا مگر جو ترتیب گزشتہ سورۃ سے میں بتاتا آ رہا ہوں اُس کے لحاظ سے چاروں کھونٹے قائم نہیں ہوتے تھے۔ پہلے خیال آیا کہ میں دوسروں کے معانی ہی نقل کر دوں کیونکہ اب یہ درس کتابی صورت میں چھپنے والا ہے کب تک میں اِن معانی کا انتظار کروں جو ترتیب کے مطابق ہوں شاید ترتیب کے مطابق اللہ تعالیٰ پھر کسی وقت کھول دے آخر پُرانے مفسروں نے کوئی نہ کوئی معنے اس آیت کے کئے ہیں۔ رازیؔ نے بھی ان کے معنے لکھے ہیں۔ بحرِ محیط والوں نے بھی معنے لکھے ہیں۔ حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ نے بھی معنے کئے ہوئے ہیں اور اُن تمام معانی کو ملحوظ رکھ کر کچھ نہ کچھ بات بن ہی جاتی ہے مگر چونکہ میرا دل کہتا تھا کہ ترتیب آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ معانی پوری طرح باہم منطبق نہیں ہوتے مجھے اطمینان نہ ہؤا۔ یہاں تک کہ ۱۷ ماہ صلح ۱۳۲۴ ہش مطابق ۱۷جنوری ۱۹۴۵ء بروز بُدھ میں سُورۂ غاشیہ کا درس دینے کے لئے مسجد مبارک میں آیا۔ میں نے درس سورۂ غاشیہ کا دینا تھا مگر میں غور سورۂ فجر پر کر رہا تھا اِسی ذہنی کشمکش میں مَیں نے عصر کی نماز پڑھانی شروع کی اور میرے دل پر ایک بوجھ تھا لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ میں عصر کی نماز کے آخری سجدہ میں سر اُٹھا رہا تھا تو ابھی سر زمین سے ایک بالشت بھر اونچا آیا ہو گا کہ ایک آن میں یہ سورۃ مجھ پر حل ہو گئی۔ پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہؤا ہے کہ سجدہ کے وقت خصوصًا نماز کے آخری سجدہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے بعض آیات کو مجھ پر حل کر دیا۔ مگر اس دفعہ بہت ہی زبردست تفہیم تھی کیونکہ وہ ایک نہایت مشکل اور نہایت وسیع مضمون پر حاوی تھی چنانچہ جب مَیں نے عصر کی نماز کا سلام پھیرا تو بے تحاشہ میری زبان سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کے الفاظ بلند آواز سے نکل گئے۔
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
وَالْفَجْرِ
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں)
(مجھے) قسم ہے (ایک آنیوالی) فجر کی اور دس راتوں کی اور ایک جنت کی اور ایک وتر کی اور (مذکورہ بالا راتوں کے بعد آنے والی) رات کی جب وہ چل پڑے۲؎
۲؎حل لغات
یَسْرِ: سَرَا کا مضارع ہے اور سَرٰی کے معنے ہیں۔ رات کو چلا (اقرب)پس وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کے معنے ہوں گے رات جب چل پڑے۔
تفسیر
پیشتر اس کے کہ میں وہ معانی بتائوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر مجھے سمجھائے گے ہیں میں پہلے دوسرے لوگوں کے بیان کردہ معنے بتانا چاہتا ہوں تاکہ میری مشکلات کا دوستوں کو پتہ چل لگ جائے اور اُن کو معلوم ہو کہ میری مشکلات حقیقی مشکلات تھیں۔ اگر میں شرح صدر کے بغیر جو مجھے اب حاصل ہے اس کے معنی بتا دیتا تو میں اپنے نفس میں تسلی نہیں پا سکتا تھا۔ یہ مضمون میں چار آیات کے متعلق مشترک طور پر بیان کر رہا ہوں۔ یہ آیات یہ ہیں (۱) وَالْفَجْرِ (۲)وَلَیَالٍ عَشْرٍ (۳)وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (۴)وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ
ان آیات میں چار قسمیں کھائی گئی ہیں اور قسم کے معنے شہادت کے ہوتے ہیں یہ مضمون تفصیل کے ساتھ پہلے آ چکا ہے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں فجر کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں اسی طرح میں دس عظیم الشان راتوں کو شہاد ت کے طور پر پیش کرتا ہوں نیز میں شَفع اور وتر کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ شفعؔ اور وترؔ کے لفظ بتا رہے ہیں کہ ان میں سے کوئی چیز طاق ہے اور کوئی چیز جفت ہے کیونکہ وَتر طاق کو کہتے ہیں اور شفع جُفت کو۔ اسی طرح فرماتا ہے میں رات کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں جب وہ چلی جائے گی۔
اس جگہ چار قسمیں کھائی گئی ہیں سوال یہ ہے کہ ان سے مراد کیا ہے اور کسی چیز کو کس چیز کی شہادت کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ فجر کی چیز ہے اور وہ کس امر کی شہادت دے رہی ہے۔ لَیَالٍ عَشْرٍ کیا چیز ہیں اور کون سی دس راتیں یہاں مراد ہیں اور وہ کس امر کے ثبوت کے لئے بطور شاہد پیش کی گئی ہیں۔ شفع اور وتر کیا چیز ہیں اور کون سی دس راتیں یہاں مراد ہیں اور وہ کس امر کے ثبوت کے لئے بطور شاہد پیش کی گئی ہیں۔ شفع اور وتر کیا چیز ہیں اور انہیں کسی بات کے ثبوت کے لئے پیش کیا گیا ہے اسی طرح رات جو جانے والی ہے کون سی ہے اور اُسے کس بات کے ثبوت کے لئے پیش کیا گیا ہے؟
الفجر
حضرت علیؓ۔ ابن عباسؓ۔ عکرمہ۔ مجاہد اور سدی کا قول ہے کہ فجر سے مراد معروف صبح ہے جو رات کے بعد آتی ہے (ابن کثیر)گویا صبح سے صبح ہی مراد لیتے ہیں مگر کہتے ہیں اس سے ہر صبح مراد نہیں بلکہ قربان کے دن سے پہلے جو صبح آتی ہے وہ مراد ہے اور وہ دس راتوں کی آخری فجر ہے کیونکہ عید دسویں تاریخ کو ہوتی ہے کو ہوتی ہے پس اُن کے نزدیک فجر سے مراد ذوالحجہ مہینہ کی دس راتوں کی آخری فجر ہے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ فجر سے مراد وہ صبح کی نماز ہے جو دسویں ذوالحجہ کو پڑھی جاتی ہے یعنی عید کے دن کی صبح کی نماز۔ گویا یہ بھی انہی معنوں کی طرف گئے ہیں جو مسروق اور محمد بن کعب نے کئے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ وہ اس سے ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کی فجر مراد لیتے ہیں اور یہ فجر کی نماز بھی مراد ہو سکتی ہے اور ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ فجر سے مراد سارا دن بھی ہو سکتا ہے اِن معنوں کی رُو سے بھی ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے صرف فرق یہ ہے کہ فجر سے پو پھوٹنے سے لے کر فجر سورج نکلنے تک کا وقت مراد نہیں لیا گیا۔ بلکہ پَو پھٹنے سے لے کر شام تک عید کا سارا دن مراد لیا گیا ہے یعنی عید کا سارا دن۔
لَیَالٍ عَشْرٍ
دوسرا سوال یہ ہے کہ دس راتوں سے کیا مراد ہے ابنِ عباس کا قول ہے کہ دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی راتیں ہیں عید سے پہلے کی۔ عبداللہ بن زبیرؓ۔ مجاہد اور کئی علماء سلف نے یہی بات کہی ہے۔ اسی طرح بہت سے بعد کے علماء کا بھی یہی قول ہے۔
ترمذی میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ مَا مِنْ اَیَّامٍ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھِنَّ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ الْعَشْرِ (یعنی ذی الحجّہ) (ترمذی جلد اوّل ابواب الصوم باب ما جاء فی العمل فی ایّام العشر ) یعنی عملِ صالحہ کے لحاظ سے یوں تو جس دن بھی کوئی شخص نیکی کرے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کا قرب حاصل کر سکتا ہے مگر وہ ایام جن میں نیکی کی خاص طور پر قدر کی جاتی ہے اور جن میں عمل صالح کرنا اللہ تعالیٰ کو خاص طور پر پسند آتا ہے اُن میں سے کوئی بھی دن اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب نہیں جتنا ان دس دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ میں نیک اعمال بجا لانا اُس کو پسند ہے۔ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ فَقَالَ وَلَا الْجِھَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ لوگوں نے کہا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی ان دنوں کے کے اعمال سے اچھا نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی ان دنوں کے اعمال سے زیادہ اچھا نہیں۔ اِلَّارَجُلًا خَرَجَ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْجِعْ بِذَالِکَ مِنْ شَیْئٍ (ابن کثیر و ترمذی حوالہ مذکور) سوائے اس کے کہ کوئی شخص اپنی جان اور اپنا مال لے کر خد ا تعالیٰ کی راہ میں نکلے اور پھر مارا بھی جائے اور اس کا سارا مال بھی ضائع ہو جائے اُس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس نے ایسا نیک عمل کیا جو اِن ایام کے اعمال صالحہ کے برابر ہے ورنہ اور کوئی عمل ان دس ایام کے اعمال کے برابر نہیں ہو سکتا۔
ابو جعفر ابن جریر کہتے ہیں کہ دس راتوں سے مراد محرم کی پہلی راتیں ہیں۔ ابو ظبیان حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اِن سے مراد رمضان کی پہلی دس راتیں ہیں گویا لَیَالٍ عَشْرٍ کے متعلق تین خیالات پائے جاتے ہیں۔
۱۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ذوالحجہ کی عید سے پہلے کی دس راتیں ہیں۔
۲۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد محرم کی پہلی دس راتیں ہیں۔
۳۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد رمضان کی پہلی دس راتیں ہیں۔
ابن الزبیر جابرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ دس سے مراد قربانی کے مہینہ کی دس راتیں ہیں (گویا یہ روایت انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچا دی کہ لَیَالٍ عَشْرٍ سے ذوالحجہ کی دس راتیں مراد ہیں) اور وترؔ یومِ عرفہ ہے۔ (کیونکہ وہ نویں دن ہوتا ہے) اور شفیع یومِ نحر ہے یعنی عید کا دن۔ یہ روایت امام احمد سے ابن کثیر نے نقل کی ہے۔ نسائی نے بھی یہ روایت محمد بن رافع اور عبدۃ بن عبداللہ سے نقل کی ہے جن دونوں نے زید بن الحباب سے سنا ہے۔ یہ وہی راوی ہیں جن سے براہ راست امام احمد نے روایت کی ہے۔ ابن حریر اور ابن ابی حاتم کی روایات بھی زید الحباب تک پہنچتی ہیں گویا چاروں کتب احادیث میں زید بن الحباب کی طرف یہ روایت منسوب ہے گویا نیچے کے راوی خواہ مختلف ہوں زید بن الحباب پر پہنچ کر روایت کا سلسلہ ایک ہو جاتا ہے اس لئے یہ روایت احاد میں سے ہے۔ ابن کثیر جو حدیث کے بہت بڑے عالم ہیں وہ اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس حدیث کو مرفوع قرار دینے میں مجھے شبہ ہے یعنی اس روایت کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچانا یقینی معلوم نہیں ہوتا۔
شفع اور وتر
ابن عباس کا قول ہے کہ وترؔ یومِ عُرفہ ہے یعنی ذوالحجہ کا نواں دن جو حج کا دن ہے اور طاق ہے اور شفع یوم النحر ہے یعنی قر بانی کا دن جو دسواں ہے اور جُفت ہے۔ عکرمہ اور ضحاک کا بھی یہی قول ہے اور ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ وہ واصل بن سائب کہتے ہیں مَیں نے عطاء سے پوچھا کیا شفع والوتر سے مراد ہماری نماز وتر ہے؟ انہوں نے کہا وتر کی نماز مراد نہیں بلکہ شفع سے مراد یوم العرفہ ہے (مگر وہ نواں اور طاق ہے نہ کہ جُفت) اور وتر سے مراد یوم الاضحیہ کی رات ہے (اور یہ رات دسویں اور جُفت ہے نہ کہ طاق۔ معلوم ہوتا ہے کہ راوی سے اس میں غلطی ہو گئی ہے یا ابن کثیر سے نقل کرتے ہوئے غلطی ہو ئی ہے۔
ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن عامر بن ابراہیم الاصبہانی نے روایت کی انہوں نے النعمان یعنی ابن عبدالسلام سے روایت کی کہ اُن سے مکّہ میں سعید بن عوف نے روایت کی میں نے ایک دفعہ عبداللہ بن زبیر کو تقریر کرتے سُنا (آپ کے ایام خلافت میں مکّہ مکرمہ کے مقام پر) تقریر کے دوران میں ایک شخص کھڑا ہؤا اور اُس نے کہا اے امیر المومنین (یزید کے وقت حضرت عبد اللہ بن زبیر نے اس کی بیعت سے انکار کر دیا تھا اور مکہ میں اپنی خلافت کا اعلان کر دیا تھا یہ اُس وقت کی بات ہے عبداللہ بن زبیر حضرت ابو بکر کے نواسے اور حضرت زبیر بن العوام کے فرزند تھے) شفع اور وتر کے متعلق مجھے کچھ سمجھائیے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے جو علاوہ صحابی ہونے کے بہت عبادت گزار بزرگ تھے اور بہت سے لوگوں نے اُن کو پہلا مجدّد قرار دیا ہے اور بعض نے مہدی۔ انہوں نے جواب میں فرمایا۔ شفع سے مراد فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ہے اور وتر سے مراد مَنْ تَاَخَّرَفَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ہے یعنی قرآن کریم میں جو یہ ذکر آتا ہے کہ جب تم حج کر چکو تو چاہے دو دن ٹھہر کر آ جائو یا تین دن۔ اس میں دو دن ٹھہر کر آنا شفع ہؤا۔ اور یہ جو فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تیسرے دن بھی ٹھہرنا چاہے تو اُسے اجازت ہے یہ تیسرا دن وتر ہے۔ ابن جریر نے بھی یہ روایت حضرت عبداللہ بن زبیر سے نقل کی ہے۔
بخاری اور مسلم میں روایت ہے کہ ابوھریرہؓ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ننانونے نام ہیں یعنی سَو میں سے ایک کم جو شخص اُن کو خوب گن رکھے وہ جنت میں داخل ہو گا اور اللہ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ بھی ایک ہے اور اُس نے اپنے نام بھی ننانوے رکھے ہیں اس حدیث کا اصل مطلب یہ ہے کہ صفاتِ الٰہیہ کا گہرا مطالعہ انسان کو حقیقی متقی بناتا ہے تقویٰ کے معنے بھی یہی ہوتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر لے جو شخص اللہ تعالیٰ کی ساری صفات کو اپنے مدنظر رکھے گا وہ کسی خوبی کو نظر اندا ز نہیں کر سکتا اور جو شخص ہر خوبی کو اپنے ساتھ رکھے گا اور ہر نیکی پر عمل کرے گا اُس کے یقینی جنتی ہونے میں کوئی شبہ ہی کیا ہو سکتا ہے۔
حسن بصری اور زید بن اسلم کہتے ہیں کہ تمام مخلوق یا شفع ہے یا وتر۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں مخلوق کی قسم کھائی ہے۔ مجاہدؔ سے بھی یہی مروی ہے اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ شفع اور وتر سے مخلوق مراد ہے کیونکہ کوئی جوڑا ہوتا ہے اور کوئی اکیلا۔ ابن عباسؓ عوفی ن ے روایت کی ہے کہ اللہ وتر ہے اور تم لوگ شفع ہو کیونکہ تم نر ومادہ ہوتے ہو اور خدا اکیلا ہے اس لئے تم شفع ہے اور خدا وتر ہے بعض نے کہا ہے کہ شفع سے مراد صبح کی نماز ہے اور وتر سے مراد شام کی نماز۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ شفع سے مراد جوڑا ہے اور وتر اللہ تعالیٰ ہے یعنی یہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی (النجم ع ۳ ۷)اسی کی طرف شفع میں اشارہ کیا گیا ہے۔
ابو عبداللہ مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ وتر ہے اور مخلوق شفع ہے کیونکہ وہ ذکر انثٰی ہورتی ہے۔ ابن ابی نجیع مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے جوڑا ہے اور اس سے آپ نے اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (الذاریات ع ۳ ۲) چونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر مخلوق کو جوڑے کی صورت میں پیدا کیا گیا ہے اس لئے شفع سے مراد مخلوق اور وتر سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
قتادہ حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ شفع اور وتر سے مراد عدد ہیں کہ وہ شفع اور وتر ہوتے ہیں مثلًا ایک وتر ہے دو شفع ہے تین وتر ہے چار شفع ہے اِسی طرح جس قدر عدد گنتے چلے جائو اُن میں سے ایک شفع ہو گا اور ایک وتر۔ پس اُن کے نزدیک شفع اور وتر میں اعداد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
ابن حریر نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کی ہے کہ عبداللہ زبیر جابر سیر روایت کرتے ہیںکہ میں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلمسے سُنا کہ اَلشَّفْعُ اَلْیَوْمَانِ وَالْوِتْرُ اَلْیَوْمُ الثَّالِثُ یعنی وہی جو ابن زبیر نے بیان کیا تھا کہ شفع میں فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ کی طرف اشارہ ہے اور وتر میں وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ کی طرف۔ وہی بات اس روایت میں بیان کی گئی ہے۔ مگر یہ روایت خود اُن کی پہلی روایت کے خلاف ہے جس میں وہ یہ بیان کر چکے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ فرمایا کہ شفع یومِ نحر ہے اور وتر یومِ عرفہ۔
ابو العالیہ اور ربیع بن انس کہتے ہیں کہ اس سے مراد نماز ہے کہ اُس میں کوئی شفع ہوتی ہے اور کوئی وتر ہوتی ہے۔ مغرب کی فرض نماز وتر ہے اسی طرح وتر کی نماز اس میں شامل ہے لیکن باقی سب نمازیں شفع ہیں کیونکہ اُن میں کسی کی دود دو درکعت ہوتی ہیں اور کسی کی چار چار۔
امام احمد عمران بن حصین کہتے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ھِیَ الصَّلَوٰۃُ بَعْضُھَا وِتْرٌ اس سے مراد نماز ہے کیونکہ نماز شفع ہوتی ہے اور کوئی وتر۔ یہ تیسری روایت ہے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہے مگر یہ تیسری روایت بھی پہلی دونوں روایتوں کے خلاف ہے۔ یہی روایت ترمذی اور ابن جریر نے بھی دوسرے سلسلہ سے بیان کی ہے اسی طرح ابودائود نے بھی یہی روایت کی ہے (ابن کثیر)
وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ
ابن عباسؓ کہتے ہیں اس کے معنے یہ ہیں کہ جب رات چلی جائے۔اور ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب رات آئے اس طرح اقبال النہار اور باراللیل کی قسم ہو گئی۔ گویا ابن عباس کے نزدیک تو اس میں رات کے جانے کا ذکر ہے مگر ابن کثیر کے نزدیک اس میں رات کے آنے کا ذکر ہے۔ رات کے جانے کا ذ کر والفجر میں ہو چکا ہے۔ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جب فجر کا ذکر پہلے آ چکا ہے اور فجر ہمیشہ رات کے جانے پر ہی ہوتی ہے تو پھر اسی بات کو وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کہہ کر کیوں دہرایا گیا ہے۔ چونکہ بلا وجہ کسی بات کو دہرانا لغو ہوتا ہے اور لغو بات قرآن کریم کی طرف منسوب نہیں کی ہو سکتی اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یَسْرِ سے مراد اس جگہ جانے کے نہیں بلکہ آنے کے ہیں۔ یَسْرِ کے معنے درحقیت چلے جانے کے ہوتے ہیں اور اس میں آنے کا مفہوم بھی شامل ہے اور جانے کا مفہوم بھی شامل ہے۔ مگر ہم قرآن کریم کی طرف کیوں ایسی بات منسوب کریں جو لغو ہو۔ جب وَالْفَجْرِ میں رات کے جانے کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے تو وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ میں پھر انہی معنوں کاتکرار درست نہیں ہو سکتا۔ پس اس کے معنے رات کے جانے کے نہیں بلکہ آنے کے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں قرآن کریم نے خود ہی دوسری جگہ فرمایا ہے وَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفّسَ (التکویر ع ۱ ۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیل اور صبح دونوں کی قسم کھا نا جائز ہے چنانچہ وَالْفَجْرِ میں رات کے جانے کی طرف اشارہ کر دیا اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ میں رات کے آنے کا ذکر کر دیدا ضحاک کے قول کا بھی یہی منشاء ہے وہ کہتے ہیں وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ اَیْ یَجْزِیْ۔ (نوٹ:۔ متذکرہ بالا تمام حوالجات ابن کثیر سے ماخوذ ہیں)
یہ مختلف بیانات ہیں جو اِن آیا ت کے متعلق تفاسیر میں نظر آتے ہیں اِن میں سے تین بیان رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف بھی منسوب کئے گئے ہیں۔
اوّلؔ یہ کہ شفع اور وتر سے ذی الحجہ کے ایام عرفہ اور نحر مراد ہیںَ
دومؔ یہ کہ شفع اور وتر سے حج کے بعد منیٰؔ سے واپسی کے ایام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ واپس آنا دوسرے دن بھی جائز ہے اور تیسرے دن بھی۔
سومؔ یہ کہ شفع اور وتر سے نماز مراد ہے کہ کوئی نماز شفع ہوتی ہے اور کوئی وتر۔
تینوں روایتوں کا اختلاف یہ بتاتا ہے کہ اِن روایتوں کو مرفوع کہنا بالکل غلط ہے آخر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شفع اور وتر کی تشریح میں یہ تینوں باتیں کس طرح کہہ سکتے تھے معلوم ہوتا ہے یہ رُواۃ کی اپنی رائے ہے۔ انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعض ذوالوجوہ حدیثوں سے یہ خیال کر لیا کہ شاید رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شفع اور وتر سے یہ مراد لی ہے چنانچہ کسی نے کوئی استنباط کر لیا اور کسی نے کوئی۔ پس یہ رُواۃ کی اپنی رائے ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف قطعی طور پر کسی مفہوم کو منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس کا ثبوت حضرت ابن عمرؓ کی ایک روایت سے بھی ملتا ہے۔ مسند احمد۔ نسائی اور حاکم میں حضرت طلحہ بن عبداللہ ذکر کرتے ہیں کہ میں اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن حج میں ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس گئے انہوں نے ہمیں کہا کہ یوم عرفہ کی دوپہر کا کھانا ہمارے ہاں کھانا۔ میں نے اُن سے کہا جناب یہ دن جو ذوالحجہ کے ہیں یہی لَیَالَ عَشْرٍ ہیں۔ انہوں نے کہا تم کو کس نے بتایا۔ میں نے کہا بتانے کی کیا ضرورت ہے مجھے خود یقین ہے کہ اس سے مراد یہی دن ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا اگر تمہیں یقین ہے تو کسی وقت میرے پاس آنا میں تمہارے یقین کو شک میں بدل دُوں گا۔ اس سے صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ سمجھتے تھے کہ ہم ان آیات کی تشریح میں جو کچھ کہتے ہیں ہماری ذاتی رائے ہے۔ کسی رائے پر حتمی طور پر یقین کر لینا درست نہیں ورنہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کوئی حدیث اس بارہ میں ہوتی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بتائے ہوئے مضمون کی نسبت یہ کیوں کہتے کہ میرے پاس آنا میں تمہارے یقین کو شک میں بدل دُوں گا۔
واقعہ یہی ہے کہ ذوالحجہ کے دس دنوں کی فضیلت کے متعلق کئی حدیثیں آئی ہیں مگر ایسی کوئی حدیث نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ قرآن کریم میں لَیَالٍ عَشْرِ کا جو ذکر آتا ہے اُس سے مراد یہی دن ہیں۔ اِن دنوں کی فضیلت سے ہم انکار نہیں کر تے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان دنوں کو بہت مبارک اور بہت بڑی اہمیت رکھنے والا قرار دیا ہے۔ مگر یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ کسی حدیث میں یہ ذکر آتا ہو کہ لَیَالٍ عَشْرِ سے مراد یہی ذوالحجہ ہیں۔
اب رہے لوگوں کے خیالات سو لَیَالٍ عَشْرِ کے متعلق چار خیالات لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔
۱۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے ذوالحجہ کی دس راتیں مراد ہیں۔
۲۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے محرّم کی دس راتیں مراد ہیں۔
۳۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد رمضان کی پہلی دس راتیں مراد ہیں۔
۴۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد رمضان کی آخری دس راتیں مراد ہیں۔
شفع اور وتر میں بھی بہت کچھ اختلاف ہے کچھ لوگ اس سے نماز مراد لیتے ہیں تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد عدد ہیں۔ اگر شفع اور وتر سے مراد نماز لی جائے یا اعداد مراد لئے جائیں تو اُن کے ساتھ کوئی دس راتیں مخصوص نہیں ہو سکتیں حالانکہ یہاں شفع اور وتر سے پہلے دس راتوں کا ذ کر ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کی اُس روایت سے استدلال کر کے جسے میں نے آخر میں بیان کیا ہے ایک حال کے مفسر نے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کے معنی لیلۃ القدر اور دوسری راتوں کے کئے ہیں یا رمضان کی ان دس راتوں میںسے پہلی رات کے۔ ان آراء پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس بارہ میں کوئی امر ثابت نہیں۔ دوسرےؔ خود صحابہؓ میں بھی سخت اختلاف ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ صرف اجتہاد پر تفسیر کی بنیاد رکھی گئی ہے صاحبِ شریعت سے کوئی امر ثابت نہیں اور پھر صحابہ کا اجتہاد بھی یقینی نہیں۔ ایک ایک صحابی نے دو دو تین تین معنے ایسے کئے ہیں جو آپس میں بالکل متضاد ہیں۔ کسی آیت کے دو دو بلکہ چا ر چار سو معنے کر لینا بھی بشرطیکہ وہ معنے ایک دوسرے کے متضاد نہ ہوں بلکہ مصدق ہوں بالکل جائز اور درست ہوتا ہے۔ لیکن ایسے معنے کرنا کہ اگر ایک معنے مانے جائیں تو دوسرے معنے ردّ کرنے پڑیں۔ دوسرے معنے تسلیم کئے جائیں تو تیسرے معنوں کو ناقابل قبول قرار دینا پڑے یہ اس امر کا ثبوت ہوتا ہے کہ خود معنے کرنے والے کے دل کو اطمینان نہیں ہوتا کبھی اس کا رجحان ایک مضمون کی طرف چلا جاتا ہے اور کبھی دوسرے معنوں کیطرف۔ کبھی وہ سمجھتا ہے کہ یہ معنے درست معلوم ہوتے ہیں اور کبھی خیال کرتا ہے کہ وہ معنے درست معلوم ہوتے ہیں۔ اسے اطمینان اور شرح صدر حاصل نہیں۔ پس صحابہؓ نے اس بارہ میں جو کچھ اجتہاد کیا وہ قطعی نہیں۔ چنانچہ ابن عمرؓ کا قول اس کا مصدّق ہے۔ آخر وہ بھی اس آیت کے معنے کرتے ہوں گے انہوں نے جب سنا کہ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ یقینی اور قطعی طور پر لَیَالٍ عَشْرِ سے مراد ذوالحجہ کی دس راتیں ہیں تو اُنہیں حیرت ہوئی کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے اور کسی بناء پر اس مضمون کو یقینی سمجھ رہا ہے گو بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ اکثر علماء سلف کا یہی قول تھا کہ لَیَالٍ عَشْرِ سے ذوالحجہ کی دس راتوں سوا اور کوئی مراد نہیں مگر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا طلحہ بن عبداللہ سے یہ کہنا کہ میرے پاس آنا میں تُمہیں شک میں ڈال دُوں گا بتاتا ہے کہ اس بارہ میں جو کچھ کہا جا رہا تھا محض اجتہاد تک محدود تھا۔ آخر حضرت عبداللہ بن عمرؓ دین کے منکر تو نہیں تھے کہ انہوںنے اُسے یہ کہا ہو کہ میں اسلام کی صداقت کے متلق تمہیں شکوک میں مبتلا کر دُوں گا۔ اُن کا مطلب یہی تھا کہ تم جو یہ خیال کر رہے ہو کہ لَیَالٍ عَشْرِ سے قرآن کریم نے یقینی طور پر ذوالحجہ کی دس راتوں کی طرف اشارہ کیا ہے یہ درست نہیں۔ اگر تمہیں اتنا ہی کامل یقین ہے تو میرے پاس آنا میں تمہیں شُبہ میں ڈال دوں گا۔ غرض ابنِ عمرؓ کا قول اس امر کا مصدق ہے کہ صرف اجتہاد پر اس آیت کی تفسیر کی بنیاد رکھی گئی تھی اسی طرح خود صحابہؓ اور تابعین کے شدید اختلافات بھی اس امر پر شاہد ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ہم نے مان لیا اس بارہ میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں مگر تم ان میں سے کسی ایک بات کو ترجیح دے دو اور اس جھگڑے کو نپٹا دو۔ آخر جب ہم نے اجتہاد سے ہی اس آیت کی تفسیر کرنی ہے تو ہم ان مختلف بیانات میں سے کسی ایک کو جس کی طرف لوگوں کا زیادہ میلان پایا جاتا ہے کیوں درست تسلیم نہیں کر لیتے اور کیوں سب کو ناقابل یقین سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ بے شک اختلافات ہیں لیکن اس اختلاف کو دور کرنے کا طریق یہ ہے کہ کسی ایک قول کو ترجیح دے دی جائے۔
میرے نزدیک بھی یہ صورت بالکل ممکن تھی کہ باوجود اختلافات کے ہم کسی ایک قول کو ترجیح دے دیتے ہیں اور دوسروں کو ردّ کر دیتے مگر مشکل یہ ہے کہ اس طرح بھی قرآن کریم کی یہ آیات حل نہیں ہوتیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ سب سے زیادہ زور ذی الحجہ کی دس راتوں پر دیا گیا ہے مگر اس تاویل کے ساتھ فجر کی کوئی معقول تفسیر بیان نہیں کی گئی۔ اگر اللہ تعالیٰ نے صرف راتوں کا ذکر کیا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کے ساتھ ایک فجر کا بھی ذکر کیا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کے ساتھ ایک فجر کا بھی ذکر کیا ہے جو اِن سے پہلے ہے۔ وہ فرماتا ہے وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ ہم شہادت کے طور پر فجر کو پیش کرتے ہیں اور ہم شہادت کے طور پر اُس فجر کے ساتھ دس راتوں کو پیش کرتے ہیں اگر ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں تو سوال یہ ہے کہ پھر فجر سے کون سی فجر مراد ہے اگر دس راتوں کی آخری فجر مراد ہے تو اُس میں کس بات کی شہادت مخفی ہے کون سا اہم امر شریعت سے تعلق رکھنے والا ایسا جو ذی الحجہ کی دسویں رات کی صبح کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے اور وُہ صبح خدا تعالیٰ کی قدرت یا اُس کے دین کی صداقت کی شہادت دیتی ہے۔ اور پھر اس میں کیا حکمت تھی کہ صبح آئی تو دس راتوں کے بعد لیکن اس کا ذکر دس راتوں سے پہلے کر دیا گیا۔ اگر صرف دس راتوں کا ذکر ہوتا تو ہمیں اُن کی بات تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں تھا ہم سمجھتے ہیں کہ ان دس راتوں کا خدا تعالیٰ نے اس لئے ذکر کیا ہے کہ یہ راتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اُن سے ایک وعدہ کیا تھا جسے اُس نے پورا کیا اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کو زندگی بخشی اور اُس کے ذریعہ ہمیشہ کے لئے دنیا میں ایک نشان قائم کر دیا یہ واقعہ میں ایک بڑا بھاری نشان تھا اور اس نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں سے جو وعدے کیا کرتا ہے مخالف حالات کے باوجود وہ ان وعدوں کو پورا کرتا ہے اور انہیں دنیا میں عزت اور کامیابی عطا کرتا ہے۔ ابراہیمؑ نے خدا تعالیٰ پر توکل کیا اور اُس نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک بے آب وگیاہ جنگل میں چھوڑ دیا۔ بظاہر اُس کی زندگی کا ایک لمحہ خطرہ میں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے پیش از وقت بتا دیا کہ یہ قربانی ضائع نہیں جائے گی۔ مکّہ مرجعِ خلاق بنے گااور خدا تعالیٰ کے اس نشان کو قیامت تک یاد رکھا جائے گا۔ اگر اس واقعہ کی یادگار منائی جائے تو کوئی شبہ نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایک زبردست ثبوت کی یادگار ہو گی اور اگر یہ واقعہ دُنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو کوئی احمق ہی ہو گا جو اس کا انکار کرے اور کہے کہ اس سے خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر نہیں ہوتا۔ پس اگر خالی لَیَالٍ عَشْرٍ کا ذکر ہوتا تو میرے لئے یہ بات حل شدہ تھی اور میں بغیر کسی ججھک کے کہہ سکتا تھا کہ ان سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہی ہیں کیونکہ یہ راتیں اس عظیم الشان قربانی کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کی لیکن مشکل یہ ہے کہ یہاں لَیَالٍ عَشْرٍ کے ساتھ وَالْفَجْرِ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اگر کہو کہ اس سے مراد کوئی فجر ہے تو پھر بتانا چاہئیے کہ وہ کون سی فجر ہے اور اگر کہو کہ لَیَالٍ عَشْرٍ میں اس آخری رات کی فجر ہے تو پھر بتانا چاہئیے کہ وہ کون سی فجر ہے اور اگر کہو کہ لَیَالٍ عَشْرٍ میں سے آخری رات کی فجر مراد ہے تو سوال یہ ہے کہ اس فجر میں کیا خصوصیت ہے کہ اس کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے اور پھر اس کا راتوں سے پہلے کیوں ذکر کیا گیا ہے۔ دس دنوں کی فضیلت تو سمجھ میں آ سکتی تھی کیونکہ انسان پہلے قربانی کا ارادہ کرتا ہے پھر اُس ارادہ کے مطابق سامان مہیّا کرتا ہے اور آخر وہ وقت آتا ہے جب وہ اُس قربانی کو ادا کر دیتا ہے اس نقطۂ نگاہ کے ماتحت بجائے یوم النحر کے اگر ہم سب کے سب دنوں کو مبارک کہہ دیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان دس راتوں کی آخری فجر میں کون سی ایسی بات پائی جاتی ہے جسے ہم کفار کے سامنے پیش کر سکیں اور اُن سے منوا سکیں کہ یہ فجر بھی خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا ایک زبردست نشان ہے مگر یہ بات نہ مفسرین نے بیان کی ہے اور نہ ہی میری سمجھ میں آتی ہے لَیَالٍ عَشْرٍ میں تو یقینا ایسان نشان ہے جسے بادلائل کفار کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے اور انہیں خدا تعالیٰ کی قدرت کا قائل کیا جا سکتا ہے مگر لَیَالٍ عَشْرٍ کے ساتھ فجر کا کوئی جوڑ نظر نہیں آتا۔
اِسی طرح مفسّرین نے لَیَالٍ عَشْرٍ کی تفسیر تو بیان کر دی مگریہ نہیں بیان کیا کہ اُن کے ساتھ وہ کون سے شفع اور وتر ہیں جو ایک نشان کا کام دیتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ شہادت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ آخر شفع اور وتر میں کون سی ایسی دلیل ہے جس سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ملتا ہے یا جسے کسی نشان کی شہادت کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا کہی دو دن پہلے چلے جائو یا تیسرے دن چلے جائو یہ ایک حکم تو ہے مگر نشان اور معجزہ تو نہیں یا اس سے خدا تعالیٰ کی کسی قدرت کا تو ثبوت نہیں ملتا اور محض حکم سے ایک کافر کیونکر سبق حاصل کر سکتا ہے یا کافر پر اس بات سے کیا حجت ہو سکتی ہے کہ ہم نے کہہ دیا ہے کہ چاہو تو دو دن ٹھہرو اور چاہو تو تین دن ٹھہرو۔ میں سمجھتا ہوں ایک بیوقوف سے بیوقوف کے سامنے بھی یہ بات بیان کی جائے تو وہ ہنس پڑے گا اور کہے گا کہ اس میں خدا تعالیٰ کی ہستی یا اُس کی قدرت کا کیا ثبوت ہے۔ آپ ہی کہہ دیا کہ دو دن ٹھہر کر آ جائو اور آپ ہی کہہ دیا کہ اگر چاہو تو تین دن ٹھہر کر آ جائو۔ اس میں کون سی ایسی بات ہے جس کی بناء پر قسم کھا کر اس کا ذکر کیا گیا ہے یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ نے معمولی طور پر شفعؔ اور وترؔ کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا ہے میں قسم کھاتا ہوں شفع کی اور میں قسم کھاتا ہوں وتر کی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شفع ہے جو کفار پر حجت تمام کرتا ہے اور کوئی وترؔ بھی جس سے الگ طور پر کفار حجت تمام ہوتی ہے یا شفع اور وتر دونوں مل کر حجت پوری کرتے ہیں مگر یہ تینوں باتیں ذوالحجہ کے کسی شفع یا وتر میں نہیں پائی جاتیں۔
پھر ایک اور اعتراض یہ پیدا ہوتا کہ مفسّرین جو معنے کرتے ہیں اور جن میں سے بعض رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلمتک پہنچ بھی جاتے ہیں اُن میں وتر کا پہلے ذکر آتا ہے اور شفع کا بعد میں۔ لیکن قرآن کریم میں شفع کا ذکر پہلے آتا ہے اور وتر کا بعد میں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کہ میں شفع کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ اور شفع کے معنے کئے گئے ہیں دسویں ذی الحجہ کے اور وتر کے معنے کئے گئے ہیں نویں ذی الحجہ کے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ نو ۹ پہلے ہوتا ہے اور دس ۱۰ بعد میں ہوتا ہے یعنی وتر پہلے ہے اور شفع بعد میں۔ مگر قرآن نے شفع کا ذکر پہلے کیا ہے اور وتر کا بعد میں کیا ہے گر تو وَالْوَتْرِ وَالشَّفْعِ ہوتا تو یہ بات بن جاتی کہ وتر سے نویں ذی الحجہ مراد ہے اور شفع سے دسویں ذی الحجہ۔ مگر قرآن کریم نے شفع کا پہلے اور وتر کا بعد میں ذکر کیا ہے اور اس جگہ کوئی ایسی وجہ نہیں بتائی گئی جس کی بناء پر ہم اس ذکر کو آگے پیچھے کر سکیں اور کہہ سکیں کہ فلاں وجہ سے دسویں رات کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور نویں رات کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے۔ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ وزن ملانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے مگر ہم یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ بلکہ قرآن کریم صرف وزن کی خاطر الفاظ کو آگے پیچھے کر دیتا ہے۔ اگر یہاں شفع اور وتر کا آگے پیچھے ذکر ہے تو ضرور اس کی وجہ ہونی چاہئیے اور وہ دلیل دینی چاہئیے جس کی بناء پر شفع کا پہلے اور وتر کے بعد میں ذکر کیا گیا ہے مگر ایسی کوئی دلیل مفسّرین کی طرف سے پیش نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ یہ سوال ہے کہ وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ سے کیا مراد ہے۔ اگر دس راتوں سے ذی الحجہ کی دس راتیں ہی مراد ہیں تو پھر یہ کون سی رات ہے جس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ چلی گئی۔ لیل سے مراد شام سے صبح تک کا وقت ہوتا ہے۔ جب لَیَالَ عَشْرٍ میں دس راتیں آ چکی تھیں تو یہ کون سی نئی رات ہے جو آگئی۔ چلی گئی کہہ لو دونوں صورتوں میں سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ یہ کون سی لیل ہے جس کا ذکر کیا جا رہا ہے یا دس راتوں میں سے کس خاص رات کی طرف اس میں اشارہ کیا گیا ہے اور جب یہ دس راتوں میں سے ایک ہی رات تھی تو کیوں وَلَیَالَ عَشْرٍ کے بعد شفع اور وتر کا ذکر کے اس رات کا ذکر کیا گیا ہے شفع اور وتر کو درمیان میں لا کر اُسے ان دس راتوں سے جن کا یہ حصہ ہے الگ کیوں کر دیا گیا ہے؟
پھر سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے پہلے دس راتوں کا ذکر کیا گیا تھا تو اُن دس راتوں کے چلے جانے کا مضمون اس میں خود بخود آگیا تھا بلکہ فجر کا ذکر بھی آ چکا تھا جو اِن راتوں کے گزر جانے کی طرف اشارہ کر رہا تھا اس قدر وضاحت کے بعد دوبارہ وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کہنے کا کیا مطلب ہؤا۔ اگر کہو کہ اس کے معنے رات کے جانے کے نہیں بلکہ آنے کے ہیں یہ اور بھی لطیفہ ہے کہ دس راتیں آئیں گی اور گزر بھی جائیں گی مگر ان کا ذکر مکمل کر چکنے کے بعد ان کے بعد شفع اور وتر کے الفاظ کہہ کر ایام منٰی کا ذکر کر دینے کے بعد پھر ان کے اس میں پہلی رات کے آنے کا دوبارہ ذکر کرنا شروع کر دیا گیا۔ اگر اس پہلی رات کے آنے میں کوئی نشان تھا تو وہ دس راتوں کے بیان میں ذکر ہو چکا اور اگر دس راتوں میں کوئی نشان تھا تو شفع اور وتر کا ذکر کر کے اس نشان کے بیان کو ختم کر دیا گیا پھر نئے سرے سے پہلی رات کے ذکر کے کیا معنے ہوئے اگر کہا جائے کہ وہی فجر کا مضمون اس جگہ دُہرایا گیا ہے تو یہ بھی بتانا چاہئیے کہ وَالْفَجْرِ میں کون سی کمی رہ گئی تھی جسے وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ میں بیان کیا گیا ہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس سے ذی الحجہ کی پہلی رات مراد ہے تو پہلی رات کی فجر کو کیا ثابت کرتی ہے‘ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے پہلی رات کی فجر مراد ہو یا آخری رات کی۔ سوال یہ ہے کہ اُس رات کی خصوصیت کیا ہے جس کی وجہ سے اُس کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے اور ذوالحجہ کی پہلی یا آخری رات کی فجر میں کون سی ایسی بات پائی جاتی ہے جس سے کفار پر حجت تمام ہو سکتی ہے یا اللہ تعالیٰ کی قدرت اُن پر ظاہر ہو سکتی ہے؟ جب قسم شہادت کے لئے ہوتی ہے تو پہلی رات یا آخری رات کی فجر کس امر کی شہادت دیتی ہے؟ میںبتا چکا ہوں کہ اگر حج کی وجہ سے ان راتوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سچائی کا ثبوت قرار دیا جائے تو یہ ایک معقول بات ہو گی مگر پھر یہی سوال پیدا ہو گا کہ یہ تو مان لیا کہ یہ راتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہیں مگر پہلی رات کی فجر کس بات کا ثبوت دیتی ہے اور پھر آخری رات کسی خاص امر کی شہادت دیتی ہے یا کس مضمون کو مکمل کرتی ہے؟ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کسی کُلّ کے ذکر پر اس کے ٹکڑے کا مستقل طور پر الگ الگ شہادت دینا ضروری نہیں مگر جب کُل کے ذکر کے بعد یا پہلے بعض ٹکڑوں کا الگ ذکر کیا جائے تو پھر لازمًا اِن ٹکڑوں کے ذکر سے مزید شہادت کا حاصل ہونا ضروری ہو گا۔ لیکن وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کی کوئی خاص شہادت ان مفسرین نے بیان نہیں کی۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ چاروں مضمون الگ الگ شہادت نہیں رکھتے بلکہ مل کر ایک شہادت بنتے ہیں تو ہم اس کو بھی ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ حج کے ساتھ فجر اور شفع اور وتر اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ مل کر کیا شہادت پیش کرتے ہیں۔ اگر لَیَالَ عَشْرٍ کے ساتھ فجر کو نہ ملایا جاتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے میں کیا کمی رہ جاتی۔ اگر شفع اور وتر کا ذکر نہ کیا جاتا کون سا امر مخفی رہ جاتا ہے یا وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کا ذکر نہ ہوتا تو دس راتوں کی شہادت اور اُن کے معجزہ میں کون سا نقص رہ جاتا ہے؟
ہم مانتے ہیں کہ بعض دفعہ دلیل کو نمایاں کرنے کے لئے اُس کے مختلف حصے کر دئے جاتے ہیں مگر ایسا تبھی کیا جاتا ہے جب اُن مختلف حصّوں پر زیادہ زور دے کر دلیل کو نمایاں اور روشن کرنا مقصود ہو۔ بلاوجہ ایک دلیل کے مختلف حصے نہیں کئے جاتے۔ اگر فجر اور شفع وتر اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کے مفہوم میں لَیَالَ عَشْرٍ کی بعض خصوصیات کا ذکر کیا جاتا تو ہمیں اس کو تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہ ہوتا۔ ہم سمجھتے کہ گو فجر اور شفع اور وتر اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کا دس راتوں سے جن کا وہ حصّہ ہیں علیحدہ طور پر بھی ذکر کیا گیا ہے مگر اس ذکر کی غرض ان امور کی اہمیت کی طرف اشارہ کرنا ہے اور ان پر زور دینے کے لئے الگ بیان کیا گیا ہے مگر اس ذکر کی غرض ان امور کی اہمیت کی طرف اشارہ کرنا ہے اور ان پر زور دینے کے لئے الگ بیان کیا گیا ہے ورنہ اصولًا یہ تمام حصے دس راتوں میں ہی شامل ہیں اور ہر حصہ اُس دلیل کا ایک مفید اور ضروری حصہ ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ مفسرین کی طرف سے لَیَالَ عَشْرٍ کے جو معنے کئے جاتے ہیں اُن میں نہ فجر کا ذکر دلیل کا کوئی حصہ بنتا ہے نہ شفع اور وتر کا ذکر کوئی معنے رکھتا ہے اور نہ وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کو کوئی مفہوم ثابت ہوتا ہے گویا ایسے معنے کئے جاتے ہیں جو کسی صورت میں بھی آیاتِ قرآنیہ سے مطابقت نہیں رکھتے۔
دوسریؔ تو جیہ محرم کی راتوں کی ہے۔ اس میں بھی اگر تو صرف اتنا ہوتا کہ وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ توجیہ چسپاں ہو جاتی اور ہمیں اس تفسیر کو درست تسلیم کرنا پڑتا کیونکہ حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں یہ وہ دن ہیں جن میںحضرت موسٰی علیہ السلام کو فرعون پر غلبہ ملا اور سمندر سے نجات حاصل ہوئی۔ اور اسی طرح کا ایک واقعہ میری اُمت میں بھی آئندہ زمانہ ہو گا (ترمذی ابواب الصوم باب ماقیل فی یوم عاشوراء )پس جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ ذی الحجہ کی دس راتوں پر چسپاں ہو سکتا ہے اسی طرح اگر وَالْفَجْرِ وَلَیَالِ عَشْرٍ میں حضرت موسٰی علیہ السلام کے اس عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ سمجھا جائے تو کوئی بڑے سے بڑا معتبر بھی اس کی عظمت اور اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس صورت میں وَالْفَجْرِ سے محرم کی دسویں رات کی صبح مراد لی جائے گی اور لَیَالٍ عَشْرٍ سے محرم کی ابتدائی دس راتیں۔ کیونکہ ان دس راتوں میں سے کچھ وقت حضرت موسٰی علیہ السلام کا فرعون سے بحث کرنے میں گزرا ہو گا۔ کچھ وقت سامانِ سفر کو درست کرنے میں صرف ہؤا ہو گا اور اس لحاظ سے ان تمام راتوں کو ہی خدا تعالیٰ کا ایک نشان قرار دینا پڑے گا۔ بہرحال اگر صرف وَالْفَجْرِ وَلَیَالَ عَشْرٍ تک ہی آیت ہوتی تو ہم تسلیم کر لیتے کہ فجر سے مراد وہ فجر ہے جب حضرت موسٰی علیہ السلام مصر سے بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر اور فرعون سمندر میں غرق ہؤا۔ اور وَلَیَالَ عَشْرٍ سے مراد محرم کی ابتدائی دس راتیں ہیں کیونکہ وہ سب کی سب خدا تعالیٰ کے لئے اس نشان کی مظہر ہیں کہ بنی اسرائیل نے موسٰیؑ کی پیروی میں فرعون کے مظالم سے نجات حاصل کی۔ مگر اس موقع پر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کا اس واقعہ سے کیا جوڑ ہؤا یہ بالکل تشنۂ تفسیر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت موسٰی علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اس میں اشارہ ہے تو وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کے کیا معنے ہوئے اور محرم کی دس راتوں اور حضرت موسٰیؑ کے واقعہ سے اس کا کیا جوڑ ہے؟ اگر صرف فجر اور دس راتوں کا ذکر ہوتا تو عقلی طور پر ہم اس توجیہ کو تسلیم کرنے میں ہر گز وکوئی عذر نہ تھا جس طرح عقلی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ پر ذوالحجہ کی دس راتیں یا یوام النحر کی فجر چسپاں ہو سکتی ہے اسی طرح عقلی طور پر حضرت موسٰی علیہ السلام کا یہ واقعہ بھی چسپاں ہو سکتا ہے۔ پس اگر صرف اتنی ہی آیت ہوتی تو کوئی شخص اس واقعہ کی اہمیت کا انکار نہیں کر سکتا تھا بلکہ ہر شخص کے نزدیک یہ شہادت ایک اہم شہادت ہوتی۔ ایک اہم قسم ہوتی اور فرعون بخش قسم ہوتی مگر اگلی دو آیتیں ہمیں اس طرف بھی جانے نہیں دیتیں۔
تیسری توجیہہ رمضان کی دس راتوں کی ہے اِس میں اول تو اختلاف ہے۔ بعض روایات میں پہلی دس اور بعض میں آخری دس راتوں کو ان کا مصداق قرار دیا گیا ہے مگر پہلی ہوں یا پچھلی سوال یہ ہے کہ رمضان کی راتیں کس امر کی شہادت دیتی ہیں۔ یہ سورۃ ابتدائی سالوں کی ہے اور اس پر قریبًا سب کا جو کوئی رائے رکھ سکتے ہیں اتفاق ہے لیکن رمضان کے روزے فرض ہوتے ہیں مدینہ میں۔ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ میں تشریف لائے ہیں تو اُس وقت تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے دوسرا ماہ رمضان جو مدینہ میں آیا اُس وقت یہ روزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہوئے (طبری) اب بتائو کہ کیا کوئی بھی معقول اس توجیہ کو مان سکتا ہے خواہ زمانۂ حال کا کوئی مفسّر ہو یا ماضی کا مجھے بتائے کہ کیا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرت کی کوئی دلیل ہے کہ لوگوں سے کہا جائے کہ ہم صداقت کے ثبوت کے طور پر یہ بات پیش کرتے ہیں کہ آج سے بارہ سال کے بعد ہم اپنے ساتھیوں سے کہیں گے کہ وہ رمضان کے روزے رکھا کریں۔ روزہ رکھنے کا حکم دینا تو انسان کے اپنے اختیار کی بات ہے ایک مفتری بھی اگر چاہے تو ایسا حکم اپنے ماننے والوں کو دے سکتا ہے۔ مسلیمہ کذّاب بھی ایک جھوٹی شریعت بنا سکتا تھا۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ آیا جو بات پیش کی جا رہی ہے وہ کافروں کے لئے بھی حجت ہے یا نہیں؟
پھر عجیب بات ہے کہ اس توجیہ کو درست تسلیم کرنے کی صورت میں کفار کے سامنے حجت کے طور پر رمضان کی راتوں کو پیش کیا گیا ہے مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ حالت تھی کہ آپ اُن دنوں محرم کے پہلے دس دنوں کے روزے رکھا کرتے تھے کیونکہ ان ایام میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو فرعون سے نجات دی تھی۔ چونکہ اس واقعہ کی یادگار کے طور پر یہودی لوگ یہ روزے رکھا کرتے تھے اس لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی یہ روزے رکھتے تھے۔ جب رمضان کے روزوں کے احکام نازل ہو گئے تو آپ نے یہ روزے چھوڑ دئے۔ پس سوال یہ ہے کہ جو روزے ابھی فرض ہی نہیں ہوئے تھے اور جن کو نہ مسلمان جانتے تھے اور نہ کفار جانتے تھے اُن کے ذکر سے مسلمانوں نے کیا سمجھا۔ یا کافروں نے کیا سمجھا ہو گا۔ جب یہ روزے سورۃ الفجر کے نزول کے وقت فرض ہی نہیں تھے تو ان کی شہادت کیا اثر رکھتی تھی اور اِن سے کفار پر کیا حجت ہو سکتی تھی۔
ممکن ہے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ بیشک رمضان کے روزے بارہ سال بعد مدینہ منورہ میں جا کر فرض ہوئے ہیں مگر اُن کا قبل ازوقت ذکر کرنا یا رمضان کی راتوں کی قسم کھانا قابل اعتراض امر نہیں۔ قرآن کریم نے خود متعدد مقامات پر آئندہ زمانوں میں ہونے والے واقعات کی قسم کھائی ہے مثلًا قرآن کریم نے یہ کہا ہے یا نہیں کہ اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ۔ ایک زمانہ آئے گا جب سورج کو لپیٹ دیا جائے گا یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مطابعت کو ترک کر دیا جائے گا یا انوارِمحمدیہ کا نزول بند ہو جائے گا یا سورج اور چاند کو گرہن لگے گا۔ پھر یہ واقعات رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں ہی رونما ہو گئے تھے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ پیشگوئیاں بعد میں پوری ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اِن بعد میں رونما ہونے والے واقعات کی خود قسم کھائی ہے۔ اسی طرح وَاِذَالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ ایک زمانہ میں ریل تار اور ریڈیو وغیرہ سے باہمی تعلقات ایسے ہو جائیں گے کہ گویا پاس بیٹھے ہیں۔ مگر یہ پیشگوئیاں ایک لمبے عرصہ گذر جانے کے بعد پوری ہوئیں۔ اسی طرح خواہ رمضان کے روزے بارہ سال بعد فرض ہوئے مگر اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ اور اِذَاالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ اور اِسی قسم کی اور متعدد پیشگوئیوں کی طرح رمضان کی راتوں کی بھی قسم کھائی جا سکتی تھی۔
اس سوال کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ بے شک آئندہ امور کی قسم قرآن کریم میں موجود ہے مگر وہ تمام واقعات ایسے ہیں جن سے علمِ غیب وابستہ تھا۔ درحقیقت وہ پیشگوئیاں ہیں جو آئندہ زمانہ کے متعلق کی گئی تھیں اور پیشگوئی ایسی چیز ہے جو بندے کے اختیار میں نہیں ہوتی۔ لیکن ایک پیر کا اپنے مرید کو کوئی حکم دے دینا اُس کے اپنے اختیار کی بات ہے اور اس میں ہر گز علمِ غیب کا کوئی حصّہ نہیں۔ مثلًا تحریک جدید کا ہماری جماعت میں ۳۴ء سے آغاز ہؤا ہے اگر مَیں اس تحریک کو شروع کرنے سے دو سال پہلے اعلان کر دیتا کہ ۳۴ء میں مَیں تحریک جدید جاری کروں گا اور جب ۳۴ء آتا تو تحریک جدید کو جاری کر کے کہتا کہ دیکھو یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا نشان ہے میں نے دو سال پہلے جو بات کہی تھی وہ پوری ہو گئی۔ تو ہر شخص ہنسنے لگ جاتا کہ اس میں نشان کی کون سی بات ہے۔ یہ تو اپنے اختیار کی چیز تھی کہ جب چاہا اپنے مریدوں کو حکم دے دیا اور جب چاہا نہ دیا۔ یا مثلًا میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ فلاں وقت میں سارے سات روزے رکھنے کے متعلق اعلان کر دوں گا اور جب وہ وقت آیا میں نے روزوں کے متعلق جماعت میں اعلان کر دیا۔ اب کیا میرا قبل وقت یہ کہنا کہ فلاں مہینہ میں روزے رکھنے کا حکم دوں گا اور پھر اُس مہینہ پر روزوں کا اعلان کر دینا اپنے اندر کوئی نشان رکھتا ہے کیا میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک معجزہ ہے جو ظاہر ہؤا یا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے خدا کی ہستی کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی طرح اگر رمضان کے روزوں کے متعلق کہہ دیا گیا تھا تو اس میں کون سی ایسی بات ہو گئی جس سے کافروں پر حجت تمام کی جا سکتی ہے۔ یہ تو ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم میں جو کچھ لکھا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہؤا ہے مگر کافر تو اس بات کو نہیں مانتا وہ تو کہتا ہے کہ یہ سب باتیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود ہی اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کی ہیں اور جب کہ کفار قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا کلام مانتے ہی نہیں تو اُن کے سامنے یہ بات بطور حجت کس طرح پیش کی جا سکتی ہے کہ بارہ سال کے بعد رمضان کے روزے فرض کئے جائیں گے اور اُس کی دس راتیں بڑی اہمیت رکھیں گی۔ ایک مخالف کہہ سکتا ہے کہ خود ہی بارہ سال پہلے ایک سکیم شروع کر دی گئی اور پھر خود ہی اس کے مطابق اعلان کر کے کہہ دیا کہ خدا کا نشان ظاہر ہو گیا ہے۔ اس میںنشان کی کون سی بات ہے ایسا تو ہر شخص کر سکتا ہے۔ پس یہ بالکل غلط ہے کہ جس رنگ میں قرآن کریم نے آئندہ زمانہ میں رُونما ہونے والے واقعات کی قسم کھائی ہے اُسی رنگ میںرمضان کی راتوں کی قسم سمجھی جا سکتی ہے۔ رمضان کے روزوں کا حکم دینا بندے کا اختیاری فعل ہے چند سال پہلے ہی اپنی کسی سکیم کا اعلان کر دینا اپنے اندر کوئی نشان نہیں رکھتا لیکن آئندہ زمانوں میں رُونما ہونے والے واقعات کی خبر دینا جو انسان کے اختیار میں نہ ہوں یہ کام یقینا کسی انسان کا نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی قسم کھائی گئی ہے وہاں ایسے ہی واقعات کے متعلق قسم کھائی گئی ہے جو آئندہ زمانہ میں رونما ہونے والے تھے اور جن پر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا آپ کی اُمت کو نہ کوئی اختیار حاصل تھانہ اختیار حاصل ہونا ممکن ہو سکتا تھا جو خُدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرت اور اس کے علم کا ایک زبردست نشان تھے مثلًا یہ کہا گیا کہ اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ۔ ایک زمانہ آئے گا جب سورج اور چاند کو گرہن لگے گا۔ اب بتائو کہ کیا سورج اور چاند کو گرہن لگانا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طاقت میں تھا؟یا اِذَاالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ میں جب ریل اور تار اور ڈاک کی ایجاد کی خبر دی گئی تھی تو کیا ان چیزوں کی ایجاد محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اختیار میں تھی؟ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ خبریں ایسی تھیں جن کو پورا کرنا کسی انسانی طاقت کا کام نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ان کو پورا کر سکتا تھا اسی لئے اِن واقعات کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
غرض قسمیں اُنہی امور کے متعلق کھائی جاتی ہیں جو مستقبل سے تعلق رکھنے والی ہوں یا ہوں تو زمانۂ ماضی کی مگر اُن سے اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کی قدرت کا اظہار ہوتا ہو۔
زمانۂ حال کے ایک مفسّر نے لکھا ہے کہ رمضان کی آخری دس راتوں کو بطور شہادت اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ ان میں روزے رکھ کر انسان کے تقویٰ اور اس کی روحانیت میں خاص طور پر ترقی ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کافر بھی مانتا ہے کہ روزہ سے تقویٰ بڑھتا ہے یا روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے ؟ وہ دس روزوں کا ہی نہیں بلکہ سارے روزوں کا بھی یہ نتیجہ تسلیم نہیں کرتا۔ سارے کیا اگر کوئی شخص پچاس سال بھی متواتر روزے رکھتا چلا جائے تو وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ان روزوں سے اُس کی روحانیت میں اضافہ ہؤا ہو گا۔ پس جس بات کو وہ مانتا ہی نہیں اُسے بطور شہادت اُس کے سامنے کس طرح پیش کیا جا سکتا ہے؟وہ تو یہی کہے گا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے روزوں سے روحانیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ پس قسمیں اُنہی واقعات کے متعلق کھائی جا سکتی ہیں جو مستقبل سے تعلق رکھتے ہوں اور جن سے اللہ تعالیٰ کی ایسی قدرت کا اظہار ہوتا ہو جو دشمنانِ دین کے لئے حجت ہو سکے اور یا پھر اُن واقعات پر قسمیں کھائی جاتی ہیں جو گو زمانۂ ماضی سے تعلق رکھتے ہوں مگر اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اُس کی قدرت کا نشان اُن سے ظاہر ہو چکا ہو۔ مثلًا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی۔ آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور اللہ تعالیٰ کا ان وعدوں کو پورا کرنا یہ سب زمانۂ ماضی سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں مگر چونکہ تاریخی طور پر یہ باتیں ثابت ہیں دشمن ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس لئے انہیں دشمن کے سامنے بطور حجت پیش کیا جا سکتا ہے لیکن روحانی ترقی تو ایسی چیز ہے جو دوست کو بھی نظر نہیں آتی کجا یہ کہ اُسے دشمن کے سامنے پیش کیا جائے۔ پس یہ بات یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتی کہ جس طرح آئندہ زمانہ میں ہونے والے واقعات کی قرآن کریم نے قسم کھائی ہے اسی طرح رمضان کی قسم کھائی ہے قرآن کریم میں قسم اُن واقعات کی کھائی گئی ہے جن سے علم غیب وابستہ تھا مثلًا سورج گرہن۔ عوام کی بیداری۔ بادشاہتوں کی تباہی۔ ان امور کے متعلق قبل ازوقت خبر یقینا خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک زبردست ثبوت ہے مگر رمضان کے روزے تو علمِ غیب اپنے اندر نہیں رکھتے ہر شخص اپنی جماعت کو ایک حکم دے سکتا ہے اور ایسا حکم اس کی سچائی کا ثبوت نہیں ہو سکتا۔ کفار کے نزدیک وہ خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فعل تھا اور عبادت کے طور پر اُس کی خبر مکّہ والوں کو پہلے دینے میں کوئی فائدہ نہیں تھا۔
غرض خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کے نشان کے طور پر وہی بات پیش کی جا سکتی ہے جو علمِ غیب اپنے اندر رکھتی ہو۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زلزلۃ الساعۃ کی خبر دی۔ اب یہ ایسی خبر ہے جس کو پورا کرنا کسی انسان کے اختیار کی بات نہیں۔ اس خبر کو اگر خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرت کا ثبوت قرار دیا جائے تو یہ بالکل درست ہو گا۔ لیکن احکام کی قسم کھانے سے اُس کی قدرت کا کچھ اظہار نہیں ہوتا پس رمضان کی راتوں کی قسم چونکہ اپنے اندر کوئی علمِ غیب یا اظہارِ قدرت اپنے اندر نہیں رکھتی جیسے کہ مثلًا وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ کی قسمیں رکھتی ہیں۔ کہ ہیں تو ماضی کے امور۔ آئندہ کا علم اُن میں نہیں مگر ماضی کے علمِ غیب کے ظہور کا ثبوت ان میں موجود ہے جس کا دشمن انکار نہیں کر سکتا۔ یا مثلًا اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ وَاِذَاالنُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ وغیرہ پیشگوئیاں ہیں کہ یہ سب کی سب اپنے اندر علمِ غیب رکھتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا ثبوت ہیں اس لئے وہ قسم فضول ہے اور قرآن کریم ایسی فضول قسموں سے بالا ہے۔
غرض لَیَالٍ عَشْرٍ میں واقعۂ ابراہیمی کی طرف اشارہ یا حضرت موسٰی علیہ السلام کی نجات کی طرف تو ایک معقول بات بن سکتی ہے۔ لیکن رمضان کی پہلی یا پچھلی راتوں کا ذکر ان آیات سے نکالنا اپنے اندر کوئی حکمت کی بات نہیں رکھتا۔ غیب کی خبریں خواہ ماضی میں پوری ہو چکی ہوں یا آئندہ پوری ہونے والی ہوں بے شک ایمان افزاء ہوتی ہیں مثلًا خدا تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے وعدہ کیا کہ میں تجھے اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ دوں گا اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کو پورا کر کے فرعون کو غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو اُس کے مظالم سے نجات دلا دی۔ اب گو یہ زمانۂ ماضی کا ایک واقعہ ہے مگر تاریخ میں یہ واقعہ ہے محفوظ ہے اور اسے دشمن کے سامنے بطور حجت پیش کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی یہ واقعہ کسی کے سامنے بیان کیا جائے گا خدا تعالیٰ کی ہستی کا ایک زندہ ثبوت ہے اُسے نظر آنے لگ جائے گا۔ بے شک حضرت موسٰی علیہ السلام فوت ہو گئے فلسطین پر جو حکومت قابض تھی وہ جاتی رہی۔ مگر باوجود اس کے آج بھی جب کسی ہندو یا سکھ کے سامنے ان واقعات کو پیش کیا جائے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ کہے گا خواہ موسٰیؑ مر گئے۔ فلسطین سے یہود کی حکومت مٹ گئی مگر اس کے باوجود یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور تاریخ اس کی سچائی پر شاہد ہے کہ موسٰیؑ نہایت ادنیٰ اور کمزور حالت میں تھے۔ بنی اسرائیل کی فرعون کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں تھی وہ جس طرح چاہتا اُن سے سلوک کرتا۔ ایسی کمزور اور ذلیل حالت میں اللہ تعالیٰ نے موسٰیؑ سے وعدہ کیا کہ میں تجھے کامیاب کروں گا۔ واقعات اُن کی کامیابی کے خلاف تھے مگر خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ فرعون نے اپنی ساری طاقت اور اپنے سارے لشکر اور اپنے سارے سازوسامان کے باوجود ناکام ہؤا۔ ناکام و نامراد ہونے کی حالت میں مرا اور موسٰیؑ اپنے ساتھیوں سمیت خدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق کامیاب ہو گیا۔ یہ واقعہ خواہ ماضی کا ہے مگر تاریخی شہادت اس ماضی کو ایسا شاندار بنا دیتی ہے کہ آج بھی اس واقعہ کو پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ اسی طرح ابرہیمؑ فوت ہو چکے جو پیشگوئیاں انہوں نے کی تھیں وہ قصّۂ ماضی بن چکیں مگر اس کے باوجود اُس ماضی کا بھی ایک ماضی تاریخ میں محفوظ ہے جب ہم اس گزشتہ ماضی میں جا کر اس واقعہ کو مستقبل کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں خدا تعالیٰ کا ایک حیرت انگیز اور عجیب نشان نظر آتا ہے ہم محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کو زمانۂ حاضر میں کھڑے ہو کر نہیں دیکھتے اور ہم سوچتے ہیں کہ کیا اس قسم کی پیشگوئی کرنا ابراہیمؑ کے لئے ممکن تھا اُس وقت جب ہم تاریخ کی نلکی میں سے جھانکتے ہوئے ابراہیمؑ کے زمانہ تک پہنچتے ہیں۔ جب ہم ماضی سے مستقبل کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں توہمیں یہ ایک زبردست پیشگوئی نظر آتی ہے اور ہمارا دل اس یقین سے پُر ہو جاتا ہے کہ خدا کا ایک زندہ نشان ہے جو ابراہیم کے ذریعہ ظاہر ہؤا۔ تو بعض ماضی بھی خدا تعالیٰ کی قدرت کا ثبوت ہوتے ہیں کیونکہ اس ماضی کا بھی ایک ماضی تھا جب ہم گزشتہ ماضی میں کھڑے ہو کر مستقبل کو دیکھتے ہیں تو یہ ماضی ہمارے لئے ایک نشان بن جاتا ہے اور مستقبل تو ظاہری ہی ہے۔ جب ایک پیشگوئی پوری ہو جاتی ہے تو وہ ایک زندہ ثبوت ہوتی ہے خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرت اور اس کے جلال اور اس کی عظمت کا۔ مگر رمضان کے روزوں کی جو ابھی نازل نہیں ہوئے تھے قسم کھانے سے ان فوائد میں سے جو قرآنی قسموں میں ہیں ایک فائدہ بھی پایا نہیں جاتا۔
اسی اصولی سوال کو نظرانداز کر دو تو پھر بھی سوال ہے کہ رمضان کی پہلی راتوں میں سے فجر کس امر کی شہادت دیتی ہے کہ اسے الگ کر کے بیان کیا ہے؟ پھر اس میں شفع اور وتر کا کیا سوال ہے کہ ان کا ذکر کیا گیا ہے؟ پھر وہ کون سی رات ہے جسے اِذَایَسْرِ کہا گیا ہے اور اس رات سے کیا شہادت نکلتی ہے؟ اور اگر آخری راتیں مراد ہیں پھر اَلْفَجْرِ سے کیا مراد ہے یعنی اگر پہلی دس راتیں مراد ہیں تو اَلْفَجْرِ سے کیا مراد ہے اور اگر آخری راتیں مراد ہے تو اَلْفَجْرِ سے کیا مراد ہے؟ اور اَلْفَجْرِ میں پہلی راتوں کی کسی فجر کا ذکر ہے یا آخری راتوں کی کسی فجر کا ذکر کیا ہے؟ آخری یا پہلی راتیں مراد لینا تو پھر بھی ایک معقول بات ہے۔ کیونکہ پہلے راتیں رمضان کے شروع کی ہیں اور دوسری راتیں رمضان کے اختتام کی۔ ایک کی یہ عظمت بیان کی جا سکتی ہے کہ اُن سے رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوتا ہے اور دوسری راتوں کی یہ عظمت بیان کی جا سکتی ہے کہ اُن پر رمضان کا اختتام ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ خاص اہمیت رکھتی ہے کہ اُس کی قسم کھائی گئی ہے اور جس سے دشمن پر حجت تمام کی جا سکتی ہے اور اُسے خدا تعالیٰ کی قدرت کا قائل کیا جا سکتا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جگہ فجر سے لیلۃ القدر کی فجر مراد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ (سورۃ القدر ع ۱ ۲ ۲)لیلۃ القدر مطلعِ فجر تک ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ لیلۃ القدر مبارک ہوتی ہے نہ کہ اس کی فجر۔ فجر کو تو وہ برکات ختم ہو جاتی ہیں پھر اُس وقت کی قسم کیوں کھائی گئی ہے؟ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ جو مبارک چیز تھی یعنی لیلۃ القدر اس کا تو ذکر ہی نہیں کیا اور جس میں کوئی خاص بات نہ تھی یعنی فجر اُسے بیان کر دیا۔ حالانکہ اس سے کسی خاص مبارک وقت کی طرف اشارہ پایا ہی نہیں جاتا۔ پھر سوال یہ ہے کہ ان دس راتوں میں وتر کس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ وتر سے مراد یہاں لیلۃ القدر ہے کیونکہ لیلۃ القدر وتر رات میں آتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں وتر کے ساتھ شفع کابھی ذکر آتا ہے۔ یہاں صرف یہ نہیں کہا گیا کہ ہم ایک وتر کو شہادت کے طور پیش کرتے ہیں بلکہ وتر اور شفع دونوں کو اکٹھا بطور شہادت پیش کیا گیا ہے اگر وتر سے مراد رمضان کے آخری عشرہ کی وتر راتیں مراد ہیں اور شفع سے مراد آخری عشرہ کی جفت دس راتیں۔ تو شفع کے لحاظ سے پانچ راتیں مبارک ہوں گی یا کبھی دس کی بجائے صرف صرف نَو راتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ بہرحال جب دس راتوں میں سے پانچ شفع اور پانچ وتر ہیں یا چار شفع اور پانچ وتر ہیں۔ تو یا تو شفع اور وتر سے ساری راتیں مراد ہوں گی اور یا پھر اُن میں سے کوئی ایک وتر اور ایک شفع مراد ہو گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ وتر سے مراد صرف ایک وتر رات مراد ہے جو لیلۃ القدر ہوتی ہے تو شفع سے مراد بھی کوئی ایک ایسی جفت رات ہونی چاہیئے جو خاص حیثیت رکھنے والی ہو مگر شفع کے معنے کرتے وقت تو اُن پانچ راتوں کو لے لینا جو جفت ہوں یا چار راتوں کو لے لینا جو جفت ہوں یا چار راتوں کے لے لینا جو جفت ہوں اور وتر سے مراد صرف ایک رات لینا یہ کوئی معقول بات نہیں ہے۔
پھر یہ سوال بھی ہے کہ لیلۃ القدر تو وتر راتوںمیں سے ایک ہے لیکن وتر راتیں تو دس راتوں میں کئی آتی ہیں اُن کی قسم کیوں کھائی ہے یا کس قرینہ سے لیلۃ القدر کے سوا دوسری وتر راتوں کو خارج سمجھا جائے اور پھر شفع کی قسم کی کیا وجہ ہے اگر شفع بھی مبارک ہیں اور وتر بھی تو الگ بیان کرنے کی وجہ کیا تھی؟ لَیَالٍ عَشْرٍ میں اِن ساری راتوں کا ذکر آ چکا تھا۔ آخرشفع اور وتر سے یہی مراد لیا جائے گا کہ پانچ طاق راتیں اور پانچ جفت راتیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ ذکر تو لَیَالٍ عَشْرٍ میں پہلے ہی آ چکا ہے شفع اور وتر کے ساتھ جفت اور طاق راتوں کا الگ الگ ذکر کیوں کیا گیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھا لی تو اُن میں وتر راتیں بھی آ گئی تھیں اور جفت بھی اُن کا علیحدہ ذکر کرنے کاکوئی فائدہ نہ تھا۔ پھر سب سے آخر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ وَالَّیْلِ اِذَِایَسْرِ کیا شئے ہے لَیَالٍ عَشْرٍ میں تو دس راتیں سب آ گئی تھیں جو دراصل نو ہوتی ہی نہیں لیکن یہاں ایک گیارھویں رات کا بھی ذکر ہے۔ اگر اعتکاف مراد لو تو اُس کی بھی گیارہ راتیں کسی صورت میں نہیں ہوتیں یا دس بنیں گی یا نو ۹۔ ہاں بعض دفعہ بارہ دن ہو جاتے ہیں۔ غرض کوئی معنے آیاتِ قرآنیہ سے مطابقت نہیں کھاتے اور ہر ایک پر متعدد اور شدید اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔
اب میں اپنے معنی بیان کرتا ہوں جو مجھے اللہ تعالیٰ نے یکدم سجدۂ آخری سے اُٹھتے ہوئے عصر کی نماز میں بُدھ کے دن سمجھائے۔
اِن آیات میں چار باتیں بیان ہوئی ہیں۔
اوّلؔ اَلْفَجْرِ دومؔ وَلَیَالٍ عَشْرٍ سومؔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ چہارمؔ وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ۔
اِن چاروں کی قسم دو طرح ہو سکتی ہے یا یہ سارے امور ایک ہی واقعہ کے چار اہم جزو ہیں۔ یعنی یا تو یہ کہنا پڑے گا کہ ان آیات میں صرف ایک واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے مگر اس ایک واقعہ کے چار اہم جزو الگ الگ بیان کر دئے گئے ہیں اور یہ صورت بالکل جائز ہے۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ مفسّرین کے بیان کردہ معنوں کو ہم مان سکتے تھے بشرطیکہ چاروں باتیں آپس میں منطبق ہو جاتیں مگر چونکہ اُن کے پیش کردہ معانی پر تمام آیات پوری نہیں اُترتیں اس لئے ہم اُن کو تسلیم نہیں کر سکتے۔ بہرحال ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ کے چار اہم جزو ہوں اور یا پھر یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ چاروں الگ الگ واقعات ہیں اگر ثابت ہو جائے کہ والفجر اوسے اور واقعہ کی طرف اشارہ ہے وَلَیَالٍ عَشْرٍ سے اور واقعہ کی۔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ سے اور واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ سے اور واقعہ کی طرف۔ تو یہ بھی ایک معقول توجیہ ہو سکتی ہے اور ہم اسے تسلیم کر سکتے ہیں بشرطیکہ یہ چاروں اہم واقعات سے تعلق رکھنے والے امور ہوں اور آپس میں کوئی جوڑ اور کوئی تعلق رکھتے ہوں اور پھر ان کے متعلق یہ صورت تسلیم کی جا سکتی ہے کہ یہ دو یا تین مجموعے ہیں جن کو تسلیم کیا گیا ہے مثلًا ثابت کیا جائے کہ فلاں فلاں دو باتیں الگ بیان کی گئی ہیں اور فلاں فلاں دو باتیں الگ بیان کی گئی ہیں اور یہ چار الگ الگ واقعات نہیں بلکہ دو مختلف مجموعے ہیں۔ یا مثلًا ثابت کیا جائے کہ وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ میں دوسرا اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ میں تیسرا۔ تو یہ بھی درست ہو سکتا ہے غرض یہ تینوں صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ سارے امور ایک ہی واقعہ کے چار اہم جزو ہیں کا چاروں الگ الگ واقعات ہیں یا دو یا تین مجموعے ہیں۔ سابق مفسرین نے ان کو ایک ہی واقعہ کے مختلف حصّے قرار دیا ہے اور انہوں نے کوشش کی ہے کہ ایک ہی واقعہ پر لَیَالٍ عَشْرٍ کو چسپاں کریں۔ اُسی کو شفع کا مصداق قرار دیں اور اسی کو وتر قرار دیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ کے مختلف حصّے ہیں جیسے محرم کی راتیں اور اُس کی فجر اور اس کی نمازیں یا ذی الحجہ کے ایام اُس کی راتیں اور بعض دن اور فجر۔ یا رمضان کی راتیں اُس کی کوئی فجر اور بعض راتیں۔ غرض اس امر میں اتفاق ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ کے مختلف پہلو ہیں۔ مگر جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں بیان کردہ تفسیریں سارے پہلوئوں پر مشتمل ثابت نہیں ہوتیں اور کوئی حقیقت باہرہ اُن سے ظاہر نہیں ہوتی۔
میرے نزدیک فجر چونکہ ایک بیان ہوئی ہے اور راتیں دس بیان ہوئی ہیں حالانکہ دس راتوں کی دس فجریں ہوتی ہیں اور راتوں کی دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے دس راتوں کا ذکر ہے درمیان میں شفع اور وتر کا ذکر ہے اور آخر میں پھر ایک رات کا ذکر ہے اس لئے میرے نزدیک صحیح مضمون پر پہنچنے کے لئے ہم سب سے زیادہ اس امر پر غور کرنے سے مدد مل سکتی ہے کہ یہاں فجر ایک بیان ہوئی ہے اور راتیں دس بیان کی گئی ہیں۔ پھر ان دس راتوں کے بعد کوئی واقعہ شفع اور وتر کا ہے پھر کسی اور رات کا ذکر کیا گیا ہے جو چلی گئی۔ گویا دو فجروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک فجر وہ ہے جس کا دس راتوں کے ساتھ تعلق ہے پھر شفع اور وتر کا کوئی واقعہ ہے اور پھر ایک رات کا ذکر ہے جو دُور ہو گئی یعنی اس کے بعد پھر ایک اور فجر طلوع ہو ہو گیا۔ اگر ہمیں کسی ایسے واقعہ کا علم حاصل ہو جائے جس میں یہ سب باتیں پائی جائیں اور وہ واقعہ ایسا ہو کہ ان تمام حصّوں پر پوری طرح چسپاں ہو جاتا ہو تو دوست اور دشمن کوئی بھی اس کی صحت سے انکار نہیںکر سکتا۔ پس ان آیات میں پہلے دس راتیں بیان ہوئی ہیں جن کے ساتھ فجر کا تعلق ہے۔ پھر شفع اور وتر کا ذکر ہے اور پھر ایک رات کے چلے جانے کا۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ یہاں رات پر زور دینا مدنظر نہیں بلکہ رات کے دُور ہو جانے پر زور دینا مدنظر ہے لَیَالٍ عَشْرٍ میں رات پر زور دینا مقصود تھا۔ مگر وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ میں رات کے چلے جانے پر زور دینا مقصود ہے۔
چونکہ دنیا میں کوئی دس راتیں ایسی نہیں ہوتیں جن کی ایک فجر ہو اور کوئی دس راتیں ایسی نہیں ہوتیں جن کے بعد شفع اور وتر کا کوئی واقعہ ہو اور کوئی شفع اور وتر کا واقعہ ایسا نہیں ہوتا جس کے بعد ایک رات ہواس لئے لازمًا تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس جگہ جن راتوں کا ذکر کیا گیا ہے اُن کا مادی سورج چڑھنے اور ڈوبنے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور ایک رات سے مراد بھی کوئی ایسی رات نہیں جس میں سورج ایک طرف چڑھتا ہے اور دوسری طرف نکل جاتا ہے کیونکہ دس راتوں کے بعد ایک فجر نہیں ہوتی۔ اور نہ دس راتوں اور ایک رات کے درمیان کوئی شفع اور وتر ہوتا ہے پس یہاں ظاہری راتیں کسی صورت میں مراد نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ عقلًا تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس جگہ رات اور فجر کے الفاظ استعارۃً استعمال ہوئے ہیں نہ کہ حقیقی معنوں میں۔ کیونکہ ظاہری راتیں ایسی نہیں ہوتیں جن کے بعد ایک فجر ہو۔ کوئی ظاہری دس راتیں ایسی نہیں ہوتیں جن کے بعد شفع اور وتر کا کوئی واقعہ ہو۔ اور کوئی ظاہری ایک رات ایسی نہیں ہوتی جس کے بعد فجر ہی فجر رہے۔
پھر راتوں کے ذکر میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ لَیَالٍ عَشْرٍ میں تورات کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے مگر ایک رات کے ذکر میں اُس رات کے جانے اور دن کے نکل آنے پر زور دیا گیا ہے۔
الغرض میرے نزدیک اس آیت کی ترتیب یوں بنتی ہے۔ دس راتیں ؔ ۱ پھر ایک فجر ؔ ۲ اور اس کے بعد شفع ؔ ۳ اور وتر کا کوئی واقعہ اور پھر ایک رات ؔ ۴ اور پھر ایک طویل فجر۔ گویا اس واقعہ میں دس راتوں کے بعد ایک فجر اور اس کے بعد ایک شفع وتر کا واقعہ اور اس کے بعد ایک رات اور یک لمبی فجر کا ذکر ہے۔ پہلی فجر کو دس راتوں سے پہلے اس لئے بیان کیا گیا ہے (حالانکہ فجر رات کے بعد ہوتی ہے) کہ یہ امر واضح تھا کہ رات سے پہلے فجر نہیں ہوتی بلکہ بعد میں ہوتی ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ فجر کا ذکر پہلے اور راتوں کا ذکر بعد میں کرنے کی وجہ کیا ہے؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ فجر کے لفظ میں ایک خوشخبری تھی اور دنیا میں یہ ایک عام طریق ہے کہ جب ہم اپنے کسی دوست سے کسی ایسے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں جو تکلیف دہ ہو لیکن اُس کا انجام اچھا ہو تو ہم اُس کے خوش انجام کا ذکر پہلے کر دیتے ہیں اور غم انگیز حصہ کو بعدمیں بیان کرتے ہیں تا اُسے زیادہ صدمہ نہ ہو۔ مثلًا اگر ہمارا کوئی دوست بیمار ہو اور کوئی شخص اس کی تیمارداری کے لئے جائے اور اس بیمار کی حالت پہلے سے اچھی ہو اور وہ آ کر پہلی بیماری کی تفصیل شروع نہیں کر دے گا بلکہ مثلًا یوں کہے گا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اچھے ہیں بیچ میں تو خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ یہ نہیں ہوتا کہ وُہ پہلے تفصیلی حالات بیماری کے سنانے لگ جائے اور اس کی خیریت کے متعلق بعد میں جا کر خبر دے۔
چنانچہ اُحدؔ کے موقع پر جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شہادت کی خبر لوگوں میںمشہور ہوئی اور مدینہ سے عورتوں اور بچوں کا ایک گروہ اُحد کے میدان کی طرف چل پڑا تو اُس وقت اسلامی لشکر واپس آ رہا تھا ایک عورت بے تابانہ آگے بڑھی اور اس نے ایک مسلمان سپاہی سے دریافت کیا بتائو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ اُس نے بجائے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خیریت کی خبر اُسے دے یہ جواب دیا کہ تمہارا خاوند اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اُس نے کہا میں تم سے اپنے خاوند کی خبر دریافت نہیں کر رہی پہلے یہ بتائو کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ اور جب اُس نے کہا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خیریت سے ہیں تو عورت خوشی سے بول اٹھی کہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خیریت سے ہیں تو پھر مجھے اپنے کسی غم کی پرواہ نہیں ہے تو دیکھ لو اُس عورت نے خوشی کی خبر پہلے سننی چاہی اور غم کی بعد میں۔ اس نے سمجھا کہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندہ ہیں تو میرا دل اس خوشی کی خبر کی وجہ سے اور صدمات کو برداشت کر سکتا ہے لیکن اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندہ نہیں تو پھر میرا دل کسی صدمہ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ توقاعدہ یہی ہے کہ جب خوشی اور غم کسی خبر کا جزو ہوں تو پہلے خوشی کی خبر سنائی جاتی ہے تا کہ غم کی خبر زیادہ تکلیف دہ نہ دے۔ پس چونکہ خوشی کی خبر پہلے بیان کی جانی تبشیر کے موقع ہر زیادہ مناسب ہوتی ہے اس لئے بجائے یوں کہنے کے ہم دس راتوں اور اُن کے بعد کی فجر کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں۔ اگر پہلے ہی دس راتوں کا تو مسلمان اس خبر کو سن کر کانپ اٹھتے اور سخت غم اور فکر میں مبتلا ہو جاتے کہ نہ معلوم اب کیا بننے والا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بجائے یہ فرمانے کے کہ ہم دس راتوں اور اُن کے بعد کی فجر کو بطور شہادت پیش کرتے ہیں یہ کہہ دیا کہ ہم فجر اور اُس سے پہلے آنے والی دس راتوں کو بطور شہادت پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد ہونے والے ایک شفع اور وتر کے واقعہ کو اور پھر اس کے بعد رات کے چلے جانے کے بعد یعنی صبح کو بطور شہادت پیش کرتے ہیں گویا بات تو وہی رہی مگر مومنوں کے دلوں کو تسلی ہو گئی کہ کسی خاص فکر کی ضرورت نہیں آخر نتیجہ ہمارے حق میں ہی نکلے گا چنانچہ اس خبر کو لَیَالٍ عَشْرٍ سے شروع کرنے کی بجائے وَالْفَجْرِ سے شروع کیا اور مسلمانوں کو بتایا کہ اب جو خبر آ رہی ہے اس سے یہ نہ سمجھنا کہ آخری نتیجہ تمہارے حق میں خراب نکلے گا۔ آخری نتیجہ بہرحال اچھا ہو گا اور اس کو ہم اُن راتوں کے ذکر سے پہلے ہی بیان کر دیتے ہیں تا کہ تمہارے دل مطمئن رہیں اور اس خبر سے پریشان نہ ہوں۔
پس یہاں رات کا لفظ حقیقی معنوںمیں استعمال نہیں کیا گیا بلکہ استعارۃً استعمال کیا گیا ہے کیونکہ کوئی ظاہری دس راتیں ایسی نہیں ہوتیں جن کی ایک فجر ہو ہاں استعارۃً راتوں کی ایک فجر ہو سکتی ہے۔ بہرحال یہ چار واقعات ہیں جن کا سورۂ الفجر کی ان چار آیات میں ذکر آتا ہے۔ پہلے یہ خبر دی گئی ہے کہ دس راتیں آئیں گی پھر یہ خبر دی گئی ہے کہ ان دس راتوں کے بعد فجر آئے گی پھر یہ خبر دی گئی ہے کہ ایک شفع اور وتر کا واقعہ ہو گا اور پھر یہ خبر دی گئی ہے کہ ایک رات جو چلی جائے گی۔
ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ وہ کون سے واقعات ہیں جن کا ان آیات میں ذکر آتا ہے۔ اگر ہم قیاسات سے کام لیں اور محض عقلی ڈھکونسلوں تک اپنے آپ کو محدود رکھیں تو یقینا ہم کسی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے اور ہم اُسی رَو میں بہتے چلے جائیں گے جس رَو میں سابق مفسرین بہ گئے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اِن واقعات کو قرآن کریم سے ثابت کریں۔ ہم ان واقعات کو اسلامی تاریخ سے ثابت کریں۔ ہم ان واقعات کو مہتم بالشان واقعات سے ثابت کریں اور ہم اعلیٰ وجہ البصیرت اس بات کو بیان کر سکیں کہ یہ واقعات ہیں جن کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے‘ جو اسلام کی سچائی سے گہرا تعلق رکھتے ہیں‘ جن میں قرآنی ترتیب پوری طرح پائی جاتی ہے اور جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے لئے بطور ثبوت اور حجت کفار کے سامنے پیش کئے جا سکتے ہیں۔ اگر ایسے واقعات ہمیں قرآن کریم سے مل جائیں، اسلامی تاریخ سے مل جائیں، ترتیب آیات پر وہ پورا اتریں پھر اسلام اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا بھی زندہ ثبوت ہوں تو یقینا انہی واقعات کی طرف ان آیات میں اشارہ سمجھا جائے گا۔
مَیں نے اس سورۃ پر سوچا اور سوچا مگر آخر معًا القاء اس کا حل مجھے ملا۔
مَیں یہ بتا چکا ہوں کہ دس راتوں کا ذکر محلًّا پہلے ہے ذکراً دوسرے نمبر پر ہے اور میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ یہ دس راتیں عام راتیں نہیں بلکہ استعارۃً ان کو راتیں کہا گیا ہے۔ پھر مَیں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ یہ سورۃ تیسرے سال کے آخر میں نازل ہوئی ہے جب ابھی منظّم مخالفت اسلام کی شروع نہیں ہوئی تھی۔ جب ابھی مسلمانوں کو کچلنے اور ان کو تباہ وبرباد کرنے کے منصوبے اجتماعی طور پر کفار نے شروع نہیں کئے تھے۔ وہ انفرادی طور پر تو اذیّت پہنچانے کی کوشش کرتے تھے مگر اکثر ایسے تھے جو اسلام کو مذاق میں اڑا دیتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو پاگل اور مجنون کہہ کر خاموش ہو جاتے اور سمجھتے کہ یہ چند سر پھرے لوگ ہیں انہوںنے ہمارا کیا بگاڑ لینا ہے خود ہی چند دنوں تک خاموش ہو جائیں گے۔ عملی مخالفت جو انہوں نے بعد میں ایک تنظیم کے ماتحت کی اور جس میں مُسلمانوں کو بڑے بڑے دکھ پہنچائے گئے وہ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ قریبًا تین سو سال رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعویٔ نبوت پر گذر چکے تھے کہ اُس وقت خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کو نازل کیا اور مسلمانوں کو بتایا کہ اب تمہاری شدید مخالفت ہونے والی ہے۔ مصائب اور تکالیف کی بھیانک راتیں تم پر چھا جانے والی ہیں۔ ایک کے بعد رات آئے گی مگر کامیابی کی کوئی شعاع تمہیں نظر نہیں آئے گی اور یہ سلسلہ ممتد ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ پورے دس سال تمہیں ان مصائب اور مشکلات کا تختۂ مشق بننا پڑے گا۔ اب غور کر لو یہ بات کس حیرت انگیز طور پر پوری ہوئی۔ تیسرے سال کے آخر میں یہ سورۃ نازل ہوتی ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تیرہ سال تک مکہ میں رہے ہیں۔ پہلے تین سال مخالفت نہیں ہوئی لیکن اس کے بعد مکّہ والوں نے شدید ترین مخالفت شروع کر دی۔ تیرہ میں سے تین سال نکال دو تو باقی ٹھیک دس سال رہ جاتے ہیں جن میںمسلمان کفار کا تختۂ مشق بنے رہے اور یہی وہ دس سال تھے جن کی لَیَالٍ عَشْرٍ میں خبر دی گئی تھی اور جن کو مشکلات اور مصائب کے ہجوم کی وجہ سے استعارۃً رات قرار دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم نے جو تمہیں عَامَلَۃٌ نَاصِبَۃٌ میں خبر دی تھی کہ اب یہ لوگ منظم مخالفت شروع کرنے والے ہیں وہ وقت آ پہنچا ہے۔ مصائب کا ایک شدید دَور تم پر اور تمہارے ساتھیوں پر آنے والا ہے‘ تاریک ترین راتیں، انتہائی بھیانک راتیں، جسم کو کپکپا دینے والی راتیں، لرزہ بر اندام کر دینے والی راتیں، ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، مسلسل دس راتیں آئیں گی اور تم کو اور تمہاری قوم کو سخت مصیب دیکھنا پڑے گی مگر اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پیشتر اس کے کہ ہم ان تاریک راتوں کی خبر دیںپہلے ہی تمہیں یہ خوشخبری سنا دیتے ہیں کہ ان راتوں کے بعد فجر آنے والی ہے، بیشک مخالفت ہو گی اور شدید ہو گی مگر انجام بہرحال اچھا ہو گا۔ اسلام پھیلے گا، مسلمان غالب آئیں گے، اور مشکلات کے بادل دس سال گزرنے کے بعد پھٹ جائیں گے اور فجر ظاہر ہو جائے گی۔
چنانچہ ٹھیک چوتھے سال مکّہ والوں نے اسلام اور مسلمانوں کی منظم شروع کر دی اور مسلمانوں پر تاریک راتیں چھا گئیں۔
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ یہ سورۃ تیسرے سال کے آخر پر یا چوتھے سال کے شروع کی ہے اور مکہ والوں کی طرف منظم مخالفت چوتھے سال میں شروع ہوئی ہے اسلامی تاریخ اس پر متفق ہے کے اور یوروپین مصنّف بھی گو اسلام کے دشمن ہیں مگر تاریخی اعتبار سے یہ گواہی دینے پر مجبور ہوئے ہیں چنانچہ میور لکھتا ہے۔
"It was not however till three or four yeaars of his ministry had elapsed that any general opposition to Muhammad was organised."
یعنی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت آپ کے دعویٰ کے تین چار سال بعد تک منظم صورت میں ظاہر نہیں ہوئی۔ آرگنائزڈ اور منظم مخالفت جس میں تمام قوم آپ کے خلاف کھڑی ہو گئی اور چھوٹوں بڑوں سب نے مل کر اسلام کو مٹانا چاہا وہ دعویٰ کے ابتدائی تین چار سالہ دَور میں نظر نہیں آتی۔
آرگنائزڈ مخالفت جیسا کہ نَاصِبَۃٌ کی تشریح میں بتایا جا چکا ہے یہ ہوتی ہے کہ باقاعدہ افسر مقرر کئے جاتے ہیں۔ مختلف لیڈر کھڑے کئے جاتے ہیں اور اُن سب سے کہا جاتا ہے کہ تم نے مل کر حملہ کرنا ہے اس قسم کی منظم مخالفت میور کے نزدیک ابتدائی تین چار سالوں میں شروع نہیں ہوئی۔
پھر لکھتا ہے:۔
Even after he had begun publicty to summon his fellow citizens to the faith, and his followers had mulltiplied the people did not gainsay his doctrine.
’’اس وقت کے بعد بھی کہ آپ نے اعلانیہ اہلِ شہر کو دعوت دینی شروع کی اور باوجود اس کے کہ آپ پر ایمان لانے والے بڑھنے لگ گئے تھے لوگ آپ کی بات کی تردید کی ضرورت نہ سمجھتے تھے۔‘‘
یہ خیال ہو سکتا تھا کہ جب چند آدمی آپ کو مان چکے تھے اور آپ کے دعویٰ کو تسلیم کر چکے تھے تو بہرحال لوگوں میں آپ کے خلاف جوش پیدا ہو چکا ہو گا بالخصوص اس وجہ سے کہ آپ نے لوگوں میں وعظ شروع کر دیا تھا اور لوگوں کو اپنے مذہب کی تلقین شروع کر دی تھی۔ مگر میور لکھتا ہے یہ خیال درست نہیں باوجود اس کے کہ انہوں نے لوگوں کو اعلانیہ اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کرد ی تھی اور اُن کے ماننے والوں کی تعداد بڑھنے لگی تھی لوگ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم ان کو کچل دیں گے یا ان کے مذہب کو مٹا دیں گے۔ بلکہ
They would only point at him slieghtingly as he passed and say there goeth the follow from among the children of Abdul Muttalib to speak unto the
people about the heavens.
وہ ان کی طرف حقارت اور نفرت سے دیکھتے ہوئے کہتے دیکھو وہ عبدالمطّلب کی اولاد میں سے ایک شخص جا رہا ہے جو آسمان کی خبریں لوگوں کو سناتا ہے۔ مگر تیسرے سال کے آخر پر یا چوتھے سال کے شروع میں انہوں نے اسلام کی آرگنائزڈ مخالفت کا فیصلہ کیا۔
ریورنڈ ویری لکھتے ہیں:۔
This would be Neoldeke has it about the fourth tyear ow his ministry at Mekkah.
محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کھلی اور منظم مخالفت جو مکہ میں ہوئی وہ جیسا کہ نولڈکے کا خیال ہے تیسرے سال کے آخر یا چوتھے سال کے شروع میں ہوئی ہے۔
پھر دیکھو سورۂ فجر کی نسبت لکھتے ہیں:۔
He (Noeldeke) however regards it as early Mekkah and in his chronolodgical table places it immediately after chapter LXXX VIII.
یعنی نولڈکے اس سورۃ کے ابتدائی مکّی سورتوں میں شمار کرتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ غاشیہ کے معًا بعد نازل ہوئی ہے اور غاشیہ کے متعلق یہ بتا چکا ہے کہ اس کا نزول چوتھے سال کے قریب ہؤا ہے جب کہ مسلمانوں پر کفار مکہ کے مظالم شروع ہونے والے تھے۔
غرض یوروپین اور مسلمان مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سورۃ چوتھے سال کے قریب نازل ہوئی ہے اور یہی وہ سال ہے جس میں کفار مکہ کی طرف سے منظم مخالفت کا آغاز ہؤا اور انہوں نے مسلمانوں کو شدید ترین مصائب میں مبتلا کرنا شروع کر دیا۔ میور تسلیم کرتا ہے کہ ابتدائی تین سالوں میں مسلمانوں کی کوئی قابلِ ذکر مخالفت نہیں تھی۔وہ مسلمانوں کودیکھتے اور استہزاء سے کام لے کر گذر جاتے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تبلیغ کرتے دیکھتے تو حقارت سے کہتے کہ یہ پاگل ہے جو لوگوں کو آسمان کی باتیں سُنا رہا ہے۔ مگر چوتھے سال کے شروع میں جیسا کہ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ میںخبر دی گئی تھی انہوں نے کھلی اور منظم مخالفت شروع کر دی۔ اسلام کو مٹانے کے لئے اُن کو چھوٹے اور بڑے سب متحد ہو گئے اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہم مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیں گے۔
غرض تاریخی شہادتیں اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں پر منظم ظلم چوتھے سال میںشروع ہؤاہے یعنی ہجرت سے دس سال بعد پہلے۔ اور یہ سورۃ تو اسی زمانہ میں نازل ہوئی ہے۔ پس دس سالوں میں ظلم وتعدّی کے اُن دس سالوں کی خبر دی گئی ہے جن میں انسانیت اور شرافت کا مکّہ والوں نے جنازہ نکال دیا تھا اور منظم ظلم کرنے شروع ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ اب مکّہ والے عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ بننے والے ہیں، اُن کی طرف سے ظلم وستم کا بازار گرم ہونے والا ہے اور وہ اسلام کے خلاف اپنا پورا زور صرف کرنیو الے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی۔ اور یہ مظالم برابر دس سال تک چلے جائیں گے کہ ہر ایک سال ایک رات کی طرح ہو گا جس میں امید کی کوئی شعاع لوگوں کو نظر نہیں آئے گی مگر آخر ان دس راتوں کے گزرنے کے بعد جو انتہائی دکھ اور تکلیف کی راتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ فجر کو طلوع کرے گا یعنی مصائب اور تکالیف کی یہ راتیں کٹ جائیں گی اور ایک نیا دَور مسلمانوں کی ترقی کا شروع ہو جائے گا۔
یہ فجر اس طرح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی رنگ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کی خبر مدینہ میں پہنچا دی۔ یہودی لوگ مشرکین سے کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں میں ایک آنے والے موعود کی خبر پائی جاتی ہے اور آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عنقریب آنے والا ہے جب وہ آئے گا تو دنیا میں خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کر دے گا اور لوگ اس کے معنے یہودیت کی حکومت سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ اُس موعود کے آنے پر ہمیں حاصل ہو جائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ کے منشاء کا اُن کو علم نہیں تھا ۔ چونکہ مشرکین یہود سے بالعموم اس قسم کی باتیں سنتے رہتے تھے اور یہود اُن سے تعلیم اور مال میں بھی زیادہ تھے گو تعداد کے لحاظ سے مشرکین زیادہ تھے اس لئے جب اُن کے کان میں یہ خبر پہنچی کہ مکّہ میں ایک شخص ظاہر ہؤا ہے جو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا ہے تو اُن کے دلوں میں یہ خیال گزرا کہ اگر وہ سچاہؤا اور وہی ہؤا جس کا یہود ذکر کیا کرتے تھے تو پھر کیا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ یہود اس پر ایمان لا کر ہم سے سبقت لے جائیں اور حکومت پر قبضہ کر لیں۔ یہودی اُن سے کہا کرتے تھے کہ ہم اُس موعود کے آنے پر جب بادشاہت حاصل کر لیں گے تو تمہاری خوب خبر لیں گے۔ اِن باتوں کو سنتے رہنے کی وجہ سے قبائل مدینہ کو آنے والے کا خاص خیال رہتا تھا جب انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کی خبر سُنی تو فوراً خیال آیا کہ اگر یہ مدعی سچا ہے تو ایسا نہ ہو کہ یہود اُسے ہم سے پہلے مان لیں۔ اُن میں سے بعض لوگ مکّہ حج کے لئے گئے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ملے آپ کی باتیں سُن کر آپ کی صداقت کا انہیں یقین ہو گیا اور وہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام میں داخل ہو گئے۔ پھر اَور لوگ آئے۔ پھر اَور لو گ آئے یہاں تک کہ ایک کافی لوگ مدینہ کے لوگوں کی اسلام میں داخل ہو گئی۔ اس پر بعض نے کہا کہ مکّہ والے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قدر نہیں کرتے کیوں نہ ہم اُن کو اپنے پاس بُلوا لیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں اپنا وفد بھیجا اور عرض کیا کہ آپ ہمارے ہاں تشریف لے آئیں ہماری قوم قریبًا سب کی سب مسلمان ہونے کے لئے تیا ر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے اجازت دے گا تو مَیں ہجرت کر کے آ جائوں گا۔ اس پر بعض نے کہا ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ جب آپ کو غلبہ عطا فرمائے تو آپ واپس اپنے وطن میں آ جائیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا۔ آخر خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہجرت کی اجازت دی اور آپ مدینہ میں تشریف لے گئے۔ یہ ہجرت وہی فجر ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے اور جس سے اسلام کے سورج کا طلوع ہؤا۔ اور جس سے اسلامی سال آج تک چل رہا ہے اور قیامت تک چلے گا۔ اسی ہجرت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ یوں فرمایا رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَانًا نَّصِیْراً (بنی اسرائیل ع ۹ ۹)دیکھو یہاں ہجرت سے زیادہ خوشخبری یعنی داخلۂ مکّہ کا ذکر پہلے کیا ہے اور ہجرت کا ذکر جو زمانًا مقدم ہے بعدمیں کیا ہے۔ اسی طرح مکّہ والوں کے دس سالہ مظالم کے مقابلہ پر ہجرت ایک نعمت تھی اُس کا ذکر پہلے کیا ہے اور دس راتوں کا زمانًا مقدم تھیں بعد میں ذکر کیا ہے۔ ہجرت کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ کیا گیا ہے۔ جس طرح وہ دس تکالیف کے سال اسلامی تاریخ میں ایک اہم جگہ رکھتے ہیں اسی طرح ہجرت بھی ایک اہم جگہ رکھتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوااللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِo وَاِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَیَقْتُلُوْکَ اَوْیَخْرِجُوْکَ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَo (الانفال ع ۴ ۸ ۱) فرماتا ہے مومنو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اگر تم اختیار کرو گے تو وہ تمہاری کامیابی کے بیسیوںرستے پیدا کر دے گا۔ تمہاری کوتاہیوں کو دُور کر دے گا اور تمہاری کمزوریوں پر پردہ ڈال دے گا اور اللہ بڑے فضلوں والا ہے۔ چنانچہ تمہارے سامنے اس کی ایک مثال پیش کرتے ہیں تاکہ تمہیں یہ خیال نہ ہو کہ یہ محض قیاسی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑے فضلوں والا ہے سواے ہمارے رسول تم بھی یاد کرو ہمارا خدا کیسا وفادار خدا ہے۔ کتنی بڑی طاقتوں اور قدرتوں کا مالک خدا ہے۔ جب تمہارے متعلق کفار نے مختلف منصوبے شروع کر دئے تھے اور اُن منصوبوں سے اُن کی غرض یہ تھی کہ اے ہمارے رسول! تھے قتل کر دیں یا تجھے اپنے گھر سے باہر نکال دیں۔ یہ تین تدبیریں تھیں جن کا تیرے خلاف انتظام کیا جا رہا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ تجھے قید کر دیں۔ وہ چاہتے تھے کہ تجھے قتل کر دیں وہ چاہتے تھے کہ تجھے اپنے شہر سے نکال دیں۔ یہ مطلب نہیں کہ بیک وقت وُہ اِن تینوں تدبیروں پر عمل کرنا چاہتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُن میں سے بعض ایسے تھے جنہوں نے دورانِ مشورہ میںیہ رائے دی کہ اس شخص کا معاملہ حد سے بڑھ گیا ہے اور مدینہ کے لوگ بھی اس پر ایمان لگ گئے ہیں اگر یہ اسی طرح ترقی کرتا چلا گیا تو ہمارے لئے یہ بات نہایت خطرناک ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ اسے قید کر دیا جائے تاکہ نہ یہ لوگوں سے مل سکے اور نہ اپنی تبلیغ کو پھیلا سکے۔ دوسروں نے کہا کہ یہ مناسب نہیں اگر ہم نے اسے قید کر دیا تو اس کے رشتہ داروں اور ماننے والوں کو جب اس کا پتہ چلا تو وُہ جوش میں آ کر لڑنے پر آمادہ ہو جائیں گے اور اس طرح قوم میں فساد ہو گا اس لئے ہمارے نزدیک بہتر یہ ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے تاکہ یہ جھگڑا ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے اور اس کے رشتہ دار بھی یہ سمجھ کر کہ اب تو ہمارا عزیز مارا ہی جا چکا ہے اب قوم سے لڑائی مول لینے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ تو واپس آ نہیں سکتا۔ صبر سے کام لیں بعض اور لوگوں نے کہا کہ قتل کرنا مناسب نہیں اس کے قتل پر شور مچ جائے گا اور بالکل ممکن ہے کہ بنو ہاشم بدلہ لینے کے لئے ہم سے لڑائی شروع کر دیں اور جیسا کہ بعض دوسروں کا خیال ہے کہ صبر کر کے بیٹھ جائیں واقع میں ایسا نہ ہو پس بہتر یہ ہے کہ اسے مکّہ سے نکال دیا جائے۔ وہ لوگ جو اخراج کی تدبیر کے خلاف تھے انہوں نے کہا کہ یہ کوئی اچھی تجویز نہیں۔ ہمارا مشن تو اس کے مشن کو ناکام کرنا ہے۔ اگر یہ باہر جا کر اپنی باتوںکو پھیلانے لگ گیا تو تمام عرب تمہارے خلاف ہو جائے گا۔ غرض مختلف تجاویز پیش ہوئیں کسی پر کوئی اعتراض ہوتا اور کسی پر کوئی۔ مگر آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اصل علاج یہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قتل کر دیا جائے پس چونکہ انہوں نے تین تجویز کی تھیں اس لئے قرآن کریم نے بھی ان تینوں تجویزوں کا ذکر کر دیا۔ پہلے تثبیتؔ کا ذکر کیا پھر قتلؔ کا ذکر کیا پھر اخراج کا ذکر کیا۔
دیکھو اس جگہ جو بڑی چیز تھی اللہ تعالیٰ نے اس کا درمیان میں ذکر کیا ہے اور قید اور جلاوطنی جو اُس سے کم درجہ کی چیزیں تھیں اُن کو دائیں بائیں رکھ دیا ہے یہ وہی ترتیب ہے جس کا میںاَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْo وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْo کی تفسیر میں ذکر کر چکا ہوں کہ بعض دفعہ ایک بڑی چیز کو درمیان میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس سے چھوٹی چیزوں کو دائیں بائیں۔ گو یہ کلام مثلّث کی شکل کا ہو تا ہے دو مشورے جو ادنیٰ تھے اُن کو خدا تعالیٰ نے دائیں بائیں بیان کر دیا ہے اور جو زیادہ سخت اور چوٹی کا مشورہ تھا اُسے درمیان میں رکھ دیا۔ بہرحال آخری فیصلہ انہوں نے یہی کیا کہ آپ کو قتل کر دیا جائے۔ قید کرنا یا آ پ کو مکّہ سے باہر نکال دینا مناسب نہیں اس میں زیادہ خطرات ہیں اگر جھگڑا ختم کرنا ہے تو اس کا طریق یہی ہے کہ حملہ کر کے آپ کو مار ڈالا جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُن کا آخری فیصلہ قتل کا ہی تھا مگر قرآن کریم نے ان کے تینوں مشوروں کا ذکر کیا ہے جس کی حکمت میں آگے چل کر بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اُن تینوں مشوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ انہوں نے تین منصوبے کئے خواہ آخر میں قتل پر ہی متفق ہو گئے اور میں نے بھی ان کے مقابلہ میں تین تدبیریں کیں بعض نے کہا تھا کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر دینا چاہئیے۔ بعض نے کہا تھا کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قتل کر دینا چاہئیے اور بعض نے کہا تھا کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جلاوطن کر دینا چاہئیے۔ خدا تعالیٰ نے اُن کی تدبیروں کو سُنا اور اُس نے کہا بہت اچھا میں تم سے یہ تینوں کام کروائوں گا اور پھر تمہیں اِن تینوں کاموں میں ناکام ونامراد کرا کے دکھا دوں گا۔ تم قتل کا منصوبہ کرو گے اور ذلیل و رسوا ہو گے۔ تم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر و گے اور ذلیل ورسوا ہو گے۔ فرض کرو وُہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قتل کا منصوبہ کرتے اور اس میں کامیاب ہو جاتے گو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو قتل نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ آپ شرعی نبی تھے اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت آپ کے ساتھ تھی۔ لیکن بغرضِ محال اگر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے اور اس کے بعد بنوہاشم بدلہ لینے کے لئے جنگ شروع کر دیتے اور کفار میں بڑے بڑے لوگ مارے جاتے تو وُہ لوگ جنہوں نے قید یا جلاوطن کرنے کا مشورہ دیا تھا خوش ہوتے اور کہتے ہم نہیں کہا تھا کہ تم اسے قتل نہ کرو تم نے ہمارا مشورہ نہ مانا اور یہ نقصان اٹھایا۔ یا فرض کرو وہ آپ کو مکہ سے نکال دیتے تو وہ لوگ جنہوں نے کہا تھا کہ آپ کو جلاوطن نہیں کرنا چاہئیے خوش ہوتے اور کہتے ہم نے نہیں کہا تھا کہ اس کو جلاوطن نہ کیا جائے یہ لوگوں کو اپنی جادو بیانی سے متاثر کر لے گا تم نے ہماری بات نہ مانی اور نقصان اُٹھایا۔ یا فرض وہ آپ کو قید کر دیتے اور آپ کے رشتہ دار اور متبع آپ کو رہا کرانے کے لئے خانہ جنگی شروع کر دیتے اور کسی طرح چھڑا لیتے تو جو اس تجویز کے خلاف تھے خوش ہوتے اور کہتے ہم نے نہیں کہا تھا کہ تم اسے قید نہ کرو تم نے اسے قید کیا اور نقصان اٹھایا۔ پس چونکہ ہر شخص اپنی اپنی تدبیر کی کامیابی کے متعلق بعد میں دعویٰ کر سکتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کا ذکر کر دیا اور فرمایا ہم نے تم سے یہ تینوں کام کروا دئے تا کہ تم میں سے کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ اس کا مشور ہ صحیح تھا، اس کی رائے صائب تھی اور اس کی تجویز درست تھی۔ ہم نے ان تینوں تجاویز پر تجھ سے عمل کروا کے یہ ثابت کر دیا کہ تم ان تینوں باتوں میں جھوٹے تھے چنانچہ قتل کی تدبیر میں وہ اس طرح ناکام ہوئے کہ جب وہ فیصلہ کے بعد رات کو آپ کے مکان کے اردگرد جمع ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ نشان دکھایا کہ باوجود اس کے کہ آپ کے قتل کے لئے آپ کے دروازہ پر مختلف قبائل کے مسلّح نوجوان کھڑے تھے اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی اس قتل میں شریک ہوتا کہ یہ خون قریش کے متفرق قبائل پر پھیل جائے اور بنو ہاشم کو یہ جرأت نہ ہو کہ وہ ساری قوم کے ساتھ لڑیں پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے سارے سامان پیدا کر دئے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رات کے وقت اُن کے پاس سے نکل گئے اور انہیں خبر تک نہ ہوئی کہ جس شخص کے قتل کے لئے وہ اکٹھے ہوئے ہیں وہ گھر سے جا چکا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے گھر سے نکلتے وقت حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹا دیا تھا (چارپائی کا رواج نہیں اُن دنوں نہیںتھا بلکہ اب تک بھی مکہ میں چارپائی کا عام رواج نہیں۔ بعض روایات میں غلطی سے یوں بیان ہؤا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ کو اپنی چارپائی پر لٹا دیا) جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رات کے وقت اُن لوگوں کے پاس سے گذرے تو اُن میں سے بعض نے آپ کو دیکھا بھی مگر انہوں نے خیال کر لیا کہ یہ کوئی اور شخص ہے جو شاید آپ سے ملنے کے لئے آیا ہو گا اور اب واپس جا رہا ہے اس کی وجہ یہی تھی کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہایت دلیری کے ساتھ باہر نکلے تھے اور آپ کی طبیعت پر زرا بھی خوف نہیں تھا۔ انہوں نے سمجھا کہ اتنی دلیری سے آپ اس وقت باہر نکلنے کی جرأت کہاں کر سکتے ہیں یہ ضرور کوئی اور آدمی ہے جو آپ سے ملنے کے لئے آیا ہو گا۔ اس کے بعد انہوں نے دروازہ کی دراڑ میں سے اندر جھانکا یہ اطمینان کرنے کے لئے کہ کہیں آپ باہر تو نہیں نکل گئے تو انہوں نے ایک آدمی کو سویا ہؤا دیکھا اور خیال کیا کہ یہی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ غرض ساری رات وہ آپ کے مکان کا پہرہ دیتے رہے پھر جب مناسب وقت سمجھا تو اندر داخل ہوئے اور شاید انہیں جسم سے شک پڑ گیا کہ یہ جسم آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نہیں۔ انہوں نے منہ سے کپڑا اٹھا کر دیکھا یا شایدمنہ ننگا تھا۔ بہرحال انہیں معلوم ہؤا کہ سونے والے حضرت علیؓ ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں۔ تب انہیں معلوم ہؤا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سلامتی کے ساتھ جا چکے ہیں اور اُن کے لئے اب سوائے ناکامی کے کچھ باقی نہیں رہا۔
غرض انہوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ کیا مگر معجزانہ طور پر انہیں ناکام و نامراد ہونا پڑا۔ اُس وقت یقینا لو گ جو کہتے تھے کہ انہیں قید کرو کہتے ہوں گے کہ ہم نہ کہتے تھے چوری قتل کا خیال چھوڑ دو باقاعدہ مکّہ کی مجلس میں فیصلہ کر کے اسے قید کر دو یہ زیادہ اچھا ہے۔ تم نے ہماری بات نہ مانی اور یہ نتیجہ دیکھا۔ ضرور ہے کہ قتل کو ناپسند دکرتے ہوئے اس کے کسی رشتہ دار نے اُنہیں خبر کر دی ہو گی اور وہ بچ نکلے۔ کچھ اور لوگ کہتے ہوںگے ہم نے جو کہا تھا اسے جلاوطن کر دو، قتل کا منصوبہ نہ کرو، تم نے ہمارے مشورے کو ردّ کر دیا اور یہ دن دیکھا کہ سارے قبائل کو شرمندہ اور ناکام ہونا پڑا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ وہ اگر یہ تدابیر کر رہے تھے تو ہم بھی خاموش نہیں تھے ہم نے بھی فیصلہ کر دیا تھا کہ ایک ایک تدبیر میں ہم ان کفار کو ناکام کریں گے۔ چنانچہ قتل کی تدبیر کر کے انہوں نے دیکھ لیا وہ ناکام ہوئے۔ اُن کی تدابیر سب باطل ثابت ہوئیں اور خدا تعالیٰ کا فیصلہ غالب آیا۔
یہ وہ فجر تھی جس کا دس تاریک راتوں کے بعد علاج ہؤا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی ہجرت کی اجازت دے دی اور باوجود اس کے کہ کفار آپ کے دروازے پر قتل کے لئے کھڑے تھے آپ نے خدا تعالیٰ کی حفاظت میں مکّہ کو چھوڑا اور مدینہ تشریف لے گئے اور یہ قتل کا منصوبہ آپ کو نقصان پہنچانے کی بجائے آپ کے لئے ایک معجزہ کے ظہور کا موجب ہؤا۔ یہ پہلی خبر تھی جس سے مسلمانوں کے دل خوش ہوئے ورنہ اُن کے دل کفار کے مظالم کو دیکھ دیکھ کر ہر وقت دُکھتے رہتے تھے اور بسااوقات وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض بھی کرتے کہ یا رسول اللہ آپ یہاں سے ہجرت کر کے کہیں اَور تشریف لے جائیں۔ مگر آپ یہی فرماتے کہ جب تک خدا تعالیٰ کا حکم نہ ملے میں اس بارہ میںکچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن کئی اور مسلمان ان راتوں کے مصائب سے تنگ آ کر مکہ چھوڑ کر چلے گئے اور گو اُن کو حبشہ اور مدینہ میں آرام میسّر آ گیا تھا اور کفار کے مظالم سے وہ بچ گئے تھے مگر اُن کے دل ہر وقت دُکھتے رہتے تھے کہ نہ معلوم ہمارا آقا کس حال میں ہو گا اور دشمن آپ سے کیا سلوک کر رہا ہوگا۔ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہجرت کی خبر ان کو پہنچی تو وہ پہلی رات آرام کی نیند سوئے اور اُن کے دل مطمئن ہوئے کہ اب ہمارا آقا دشمن کے حملوں سے محفوظ ہو گیا ہے۔ یہ ہجرت طلوع آفتاب کی ایک شعاع تھی جسے قرآن کریم میں فجر کے لفظ سے بیان کیا گیا تھا اور جو ظاہر کر رہی تھی اب عنقریب کوئی آسمانی تغیّر ہونے والا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ان دس راتوں کی فجر کے بعد شفع اور وتر کا بھی کوئی واقعہ ہؤا ہے یا نہیں۔ اِس غرض کے لئے جب ہم قرآن پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک شفع اور وتر کے واقعہ کا بھی اُس میں ذکر پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مدینہ کے کمزور مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْیَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاج فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی ط وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (التوبہ ع ۶ ۲ ۱) فرماتا ہے اگر تم ہمارے رسول کی مدد نہ کرو گے تو اس کا نقصان تمہیں خود ہی ہو گا۔ ہمارا رسول تو ہماری حفاظت میں ہے اور ہم خود اُس کی ہر موقع پر نصرت اور تائید کرنے والے ہیں کیا تمہیں اس واقعہ کا علم نہیں جب کافروں نے اُسے مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور جب وہ اکیلا نہیں بلکہ اپنے ساتھ ایک اور شخص کو لے کر مکہ سے نکلا اور غار میں آ کر چھپ گیا اور جب اُس نے دیکھا کہ میرا ساتھی گھبرا رہا ہے اس لئے نہیں کہ اُسے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے بلکہ اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے تو اُس نے تسلّی دی او رکہا
لَا تَحْزَنْ اِنَ اللّٰہَ مَعَنَا
کہ غم مت کر ہم دو نہیں بلکہ ایک وتر بھی موجود ہے۔ وتر کی تشریح بھی خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کر دی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ اِنَّ اللّٰہَ وَتْرٌ یُحِبُّ الْوَتْرَ۔ خدا تعالیٰ وتر ہے اور وتر کو ہی پسند کرتا ہے پس شفع کون تھا؟ شفع محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت ابو بکرؓ تھے اور وتر کون تھا؟ وتر خدا تعالیٰ تھا جو ان دو کے ساتھ تھا۔
غرض خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی تھی کہ اسلام اور مسلمانوں پر دس تاریک راتیں آئیں گی جن کے گزرنے پر ہم فجر طلوع کریں گے اور پھر اُس فجر کے کے واقعہ کے ساتھ ہی ایک اور معجزہ دکھائیں گے جس کے ساتھ ایک شفع اور ایک وتر کا تعلق ہو گا یہ وہ معجزہ تھا جو غارِ ثور میں ظاہر ہؤا اور جس نے یَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیرُ الْمَاکِرِیْنَ کی صداقت کو آفتاب نـصف النہار کی طرح روشن کر دیا۔ یہ امر بتایا جا چکا ہے کہ کفار نے ایک تدبیر کی تھی کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر لیا جائے قتل کی تدبیر میں تو وہ ناکام ہو چکے تھے مگر جن لوگوں نے قید کا مشورہ دیا تھا وہ ضرور اپنے مشورہ پر عمل کرتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے اگر قید کر لیتے تو یہ ناکامی تمہیں نہ دیکھنی پڑتی۔ اللہ تعالیٰ نے کہا بہت اچھا تم قید کر کے بھی دیکھ لو پھر بھی خدا تعالیٰ تمہیں ناکام کرے گا چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت ابوبکر ؓ دونوں جب مکہ میں سے نکلے تو غارثور میں جا کر چھپ گئے۔ کفار کو جب علم ہؤا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کہیں باہر چلے گئے ہیں تو وہ تعاقب کرتے ہوئے غارثور کے منہ پر پہنچ گئے اور وہاں انہوں نے ڈیرہ ڈال دیا۔ کھوجی اُن کے ساتھ تھا اُس نے کہا بس یہیں نشانات پہنچتے ہیں۔ اور اگر یہاں نہیں تو پھر وہ آسمان پر چڑھ گیا ہے۔عرب لوگ کھوجیوں کی بات پر بڑا عتبار کرتے تھے اور وہاں کے کھوجی اپنے فن میں بہت ماہر ہؤا کرتے تھے۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے کھوجی ہوتے ہیں جو بعض دفعہ چوری کا سُراغ لگا لیتے ہیں مگر ہمارے کھوجی بہت ادنیٰ ہوتے ہیں۔ عرب کھوجی وہاں کے خاص حالات کے ماتحت بہت اعلیٰ درجہ کی مہارت رکھتے تھے چنانچہ وہ کھوجی جسے مکہ والے ساتھ لے گئے تھے اُس نے صاف صاف کہہ دیا کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسی جگہ معلوم ہوتے ہیں۔ لوگوں نے کہا یہاں چُھپنے کی کون سی جگہ ہے؟ اُ س نے کہا اگر یہاں نہیں ہیں تو پھر آسمان پر چلے گئے ہیں۔ اُس کی یہ بات سُن کر سب ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ ہمارا کھوجی تو آج پاگل ہو گیا ہے کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی چھپنے کی جگہ ہے اس غار کے مُنہ پر درخت کی شاخیں جھکی ہوئی ہیں اور ان پر مکڑی کا جالا بنا ہؤا ہے اگر وہ اندر جاتے تو جالا ٹوٹ جاتا (یہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان تھا جو اس نے دکھایا۔ مکڑی منٹوں میں جالا تن لیتی ہے میں نے خُود اُسے ایک بڑا جالا دو تین منٹ میں بُنتے ہوئے دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کیا کہ مکڑی نے شاخوں پر جالا بن دیا ان لوگوں کا ذہن ادھر نہ گیا یہ جالا تھوڑی دیر میں ہی بنایا جا سکتا ہے۔
غرض کفار تو آپس میں گفتگو کر رہے تھے اورادھر چند گز کے فاصلہ پر ابوبکرؓ غار ثور میں گھبرا رہے تھے اس لئے نہیں کہ اُن کی زندگی کو خطرہ تھا بلکہ اس لئے کہ اُنہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فکر لاحق ہو گیا تھا ورنہ یہ خیال درست نہیں کہ انہیں اس وجہ سے فکر لاحق ہؤا کہ کہیں میں پکڑا نہ جائوں۔ حدیثوں میں ذکر آتا ہے انہوں نے خود اُس وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! اگر میں مارا گیا تو دنیا میں صرف ایک آدمی مارا جائے گا اس سے زیادہ میری موت کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی لیکن یا رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اگر آپ مارے گئے تو اسلام مارا جائے گاا۔ جب حضرت ابوبکرؓ کی یہ گھبراہٹ پیدا ہوئی تو اس وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا
لَا تَحْزَنْ اِنَ اللّٰہَ مَعَنَا
غم مت کر خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعِی۔ آپ نے یہ بھی نہیں کیا کہ صرف اتنا کہہ دیتے کہ لَا تَحْزَنْ فکر کی کوئی بات نہیں بلکہ آپ نے ابوبکرؓ کو اپنے ساتھ شامل کیا اور فرمایا خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ پس ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے سورۂ فجر کے اِسی شفع اور وتر والے واقعہ کی طرف اشارہ کر دیا اور بتا دیا کہ وہ جو ہم نے خبر دی تھی کہ کوئی دو ہوں گے اور تیسرا وتر اُن کے ساتھ ہو گا وہ وعدہ ہم نے اُس وقت پورا کر دیا تھا اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذ َیَقُوْلُ بِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا جب وہ دونوں غار میں چھپے بیٹھے تھے اور جب ہمارا رسول اپنے ساتھی سے یہ کہہ رہا تھا کہ غم مت کر۔ ہم صرف دو نہیں بلکہ ایک خداجو وتر ہے ہمارے ساتھ ہے ورنہ ثَانِیَ اثْنَیْنِ کہنے کی اپنی ذات میں کوئی ضرورت نہیں تھی اس کے بغیر بھی یہ مضمون بیان ہو سکتا تھا کہ اگر تم مدد نہ کرو گے تو ہم اس کی مدد کریں گے۔ چنانچہ دیکھو غارثور میں ہم نے اس کی مدد کی یا نہیں ۔ مضمون کو بیان کرنے کے لئے صرف اسی قدر ذکر کافی تھا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ اس لئے استعمال فرمائے تا دنیا کو یہ بتائے کہ ہم نے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کہہ کر سورۂ فجر میں جو پیشگوئی کی تھی کہ طلوع فجر بعد یعنی مکہ سے ہجرت کرنے کے بعد ایک شفع اور وتر کا واقعہ ظاہر ہو گا وہ پیشگوئی ہماری پوری ہو چکی ہے فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ۔ جب وہ دو سے تین ہو گئے اور ابوبکرؓ کو پتہ لگا کہ ہم صرف دو نہیں بلکہ ایک تیسرا وتر بھی ہمارے ساتھ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر سکینت نازل کی۔ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَمْ تَرَوْھَا۔ بادشاہ اکیلا نہیں ہوتا بلکہ لشکر اُس کے ساتھ ہوتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی عالم روحانی کے بادشاہ تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے وہ لشکر بھیجے جن کو دنیا کے لوگ نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وَجَعْلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی۔ کفا ر نے کہا تھا کہ اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر لیا جاتا۔ اگر اس کو محبوس ومحصور کر لیا جاتا تویہ ناکامی نہ دیکھنی پڑتی۔ مگر خدا تعالیٰ نے اس تدبیر میں بھی اُن کو ناکام کیا۔ باوجود اس کے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غارثور میں بند تھے کفار وہاں پہنچ چکے تھے پھر بھی کفار کا کلمہ ہی ذلیل ہؤا۔ اُن کو ہی ناکام ونامراد واپس لوٹنا پڑا اور محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلمہ اونچا ہؤا۔ دیکھو یہ کتنا بڑا معجزہ ہے جو خدا تعالیٰ نے ظاہر کیا اور کتنا عظیم الشان نشان ہے جو اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ کفار نے تو یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر کے اُن کی آواز کو دبا دیں گے اُن کے کلمہ کو نیچے کر دیں گے مگر خدا تعالیٰ نے اِس قید کے نتیجہ میں اُن کی آواز کو اَور بھی اونچا کر دیا۔ وہ قید کر کے آپ کی آواز کو بند کرنا چاہتے تھے خدا تعالیٰ نے قید میں ڈال کر آپ کی آواز کو اور بھی بلند کر دیا اور اِس قید کے واقعہ میں ایک ایسا معجزہ دکھایا جو قتل کے منصوبے کو ناکام کرنے والے معجزہ کی طرح ہمیشہ کے لئے اسلام کی صداقت اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعویٰ کے ثبوت میں پیش ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اور غارثور کی قید محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذلّت کا موجب نہیں بلکہ ہمیشہ آپ کے کلمہ کے اعلاء کا موجب ہوتی رہے گی۔
دو تدبیروں میں تو کفار کو ناکامی ہو چکی تھی لیکن ابھی ایک تدبیر باقی تھی وہ لوگ جنہوں نے یہی مشورہ دیا تھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مکّہ سے باہر نکال دیا جائے کہہ سکتے تھے کہ ہمارے مشورے پر عمل نہ کیا گیا ورنہ اسلام کا خاتمہ ہو جاتا۔ خداتعالیٰ نے نہ چاہا کہ یہ حسرت بھی اُن کے دلوں میں باقی رہ جائے وہ آپ کو صحیح سلامت مکہ سے مدینہ لے گیا اور اس طرح اُس تیسرے گروہ کی بات بھی پوری ہو گئی کہ صحیح علاج یہ ہے کہ انہیں جلاوطن کر دیا جائے۔ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ پہنچے تو کفار نے اردگرد کے قبائل کو اکسانا اور بھڑکانا شروع کر دیا۔ کبھی خود چھاپے مارتے اور اس طرح مسلمانوں کو دق کرتے رہتے گویا ابھی ایک لیلؔ مسلمانوں کے لئے باقی تھی۔ مدینہ میں مسلمانوں کویہ تسلی ہو گئی تھی کہ ہمارا رسول محفوظ ہو گیا ہے لیکن ابھی کفار کے مظالم بند نہ ہوئے تھے بلکہ نئے سرے سے انہوں نے عرب قبائل کو اسلام اور مسلمانوںکے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ گو دس راتوں کے گزرنے کے بعد روشنی کی ایک شعاع ظاہر ہو گئی ہے۔ ہجرت ہو چکی ہے اور شفع اور وتر کا واقعہ بھی رونما ہو چکا ہے مگر ایک رات باقی ہے۔ مشکلات کا ایک سال ابھی رہتا ہے اِ س ایک سال کے گذرنے کے بعد مسلمانوں کے لئے دوسری فجر چڑھا دی جائے گی۔ چنانچہ اس کا ذکر قرآن کریم میں یُوں آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَومَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo اِذْ اَنْتُمْ بِلْ عُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰی وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْ ط وَلَوْتَوَا عَدْتُّمْ لَاکْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعَادِ لا وَلٰکِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًاoلا لِّیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ م بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰ مَنْ حَیَّ عَنْ م بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰ مَنْ حَیَّ عَنْ م بَیِّنَۃٍ ط وَاِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌoلا اِذْ یُرِیْکَھُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًا ط وَلَوْاَرٰکَھُمْ کَثِیْرًا لَّغِشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ ط اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِo وَاِذْ یُرِیْکُمُوْھُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلًا کَانَ مَفْعُوْلَا ط وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُo (الانفال ع ۵ ۱) اِن آیات قرآنیہ میں جنگِ بدر کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اُسے فرقان قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس جنگ کے ذریعہ ہم نے مسلمانوں کی مشکلات کا خاتمہ کر دیا۔ اُن کی آخری رات کو بھی جو اُن پر چھائی ہوئی تھی دُور کر دیا اور اُن کے لئے روشن صبح کا طلوع ہو گیا۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ میں رات کے جانے کی خبر دی گئی تھی جس کے معنے یہ تھے کہ اس کے ایک رات گزرنے پر فجر ظاہر ہو جائے گی۔ اُدھر اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کا فرقان نام رکھا ہے اور فرقان کے متعلق لغت میں لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں اَلصُّبْحُ۔ اَلسِّحْرُ (اقرب) پس وہ فتح کا دن جس کا وعدہ سورۂ فجر کی آیت وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ میں کیا گیا تھا کہ طلوعِ فجر کے بعد بھی ایک گیارہویں رات ابھی باقی رہ جائے گی جو آخر دور کر دی جائے گی آخر کار اللہ تعالیٰ کو اُس نے ہمیشہ کے لئے توڑ کر رکھ دیا۔ اب کفار میں سے کوئی شخص یہ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ اگر میرے مشورہ پر عمل کیا جاتا تو فائد ہ رہتا کیونکہ وہ تینوں تدابیر جو اسلام کو کچلنے کے لئے کی گئی تھیں اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کا باعث بن گئیں۔
یہ ایک عجیب فجر تھی جو مسلمانوں کے لئے ظاہر ہوئی پہلی فجر تو وہ تھی جو دس راتوں کے بعد ظاہر ہوئی اور جس میں نور کی ایک شعاع مسلمانوں کو نظر آنے لگ گئی تھی مگر ابھی فجر کی صرف ایک لَوپیدا ہو ئی تھی کیونکہ ایک رات ابھی باقی تھی۔ جب وہ رات بھی گذر گئی اور گیارہ راتیں آ چکیں تو اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان ظاہر کر دیا جس میں عرب کی طاقت کو بالکل کچل دیا گیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں پر اس کے بعد بھی مظالم ہوتے رہے اور انہیں کفار سے کئی لڑائیاں لڑنی پڑیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جنگ بدر نے کفار کی طاقت کو توڑ دیا تھا اور مسلمانوں کی شوکت اُن پر ظاہر ہو گئی تھی۔
جنگ بدر جسے قرآن کریم نے فرقان قرار دیا ہے اس کے متعلق بائبل میں بھی ایک پیشگوئی پائی جاتی ہے چنانچہ یعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۷ میں لکھا ہے ’’عرب کی بابت الہامی کلام۔ عرب کے صحرامیں تم رات کو کاٹو گے‘ اے دوانیوں کے قافلو‘ پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آئو‘ اے تیما کی سرزمین کے باشندو‘ روٹی لے کر بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو کیونکہ وَے تلواروں کے سامنے سے‘ ننگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدّت سے بھاگے ہیں کیونکہ خدا وند نے سمجھ کر یوں فرمایا۔ ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا۔‘‘
یعیاہ نبی کے اس کلام میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ ہجرت کے زمانے پر ٹھیک ایک سال گزرنے کے بعد عرب میں ایک ایسی جنگ ہو گی جس میںقیدار کی ساری حشمت خاک میں مل جائے گی اور وہ جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر بھاگ جانے کا الزام لگاتے تھے اپنے لائو لشکر کی موجودگی میں پیٹھ دکھائیں گے اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ کمانڈر اور اُن کے جرنیلوں کی لاشیں میدان جنگ میں پڑی رہ جائیں گی۔ اور آخر وادیٔ مکّہ اپنے جرنیلوں کو کھو کر اپنی اس شوکت کو بالکل کھو بیٹھے گی جو اس سے پہلے حاصل تھی۔ اِسی طرح قرآن کریم نے ایک گیارھویں رات کی خبر دے کر یہ پیشگوئی کی تھی کہ ہجرت کے پورے ایک سال کے بعد کفار کی ساری طاقت ٹوٹ جائے گی اور مسلمانوں کے لئے فتح اور کامرانی کی صبح ظاہر ہو جائے گی۔ چنانچہ عین ایک سال کے بعد جنگ بدر ہوئی جس میں کفار کے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے اور مسلمانوں کو اُن پر نمایاں غلبہ حاصل ہؤا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکّہ سے ہجرت کے لئے دعویٰ نبوت کے تیرھویں سال ربیع الاول کے مہینہ میں نکلے تھے قاعدہ یہ ہے کہ سال بقیہ حصہ اُسی سال میں شمار ہوتا ہے نئے سال میں شمار نہیں ہوتا اس لحاظ سے بقیہ چھ ماہ تیرہ سالہ مدّت میں ہی شامل کرنے پڑیں گے ۔ ورنہ دراصل مکہ میں مسلمانوں پر منظم حملوں کا عرصہ ساڑھے نو سال بنتا ہے۔ دسویں سال ربیع الاول میں آپ ہجرت کے لئے چل پڑے تھے مگر عام معروف قاعدہ کے مطابقیہ نصف سال ہی مکّی زندگی کے تیرہ سالہ دَور میں شمار ہو گا اور نئے سال کا رمضان سے آغازسمجھا جائے گا۔ کیونکہ رمضان سے ہی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت کا شروع ہو جاتا ہے۔
اب دیکھو لو مدینہ میں آنے کے بعد پہلے رمضان تک اس پیشگوئی پر دس سال کا آغاز ہؤا تھا۔ ایک سال گزرنے پر دوسرے سال ۱۷رمضان کو بدر کی جنگ ہوئی جس میں بڑے بڑے کفار مارے گئے اور اُن کے ظالمانہ حملوں کا خاتمہ ہو گیا وہ گیارہویں لَیْل جو مسلمانوں پر آئی ہوئی تھی ٹھیک ایک سال گزرنے کے بعد دور ہو گئی۔ اور مسلمانوں نے فتح و کامرانی کی صبح کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید اور نصرت کے ساتھ دیکھ لیا۔
یہ ہے وہ مفہوم جو اِن آیات قرآنیہ کا اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا اور جس کا ایک ایک ٹکڑا اسلامی تاریخ اور قرآنی حوالوں سے ثابت ہے کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں پر دس تاریک راتیں آئیں اور پھر اُن تاریک راتوں کے گذرنے پر ہجرت کی صورت میں فجر کی ایک شعاع ظاہر ہوئی اس کے بعد شفع اور وتر کا واقعہ ہؤا اور آخر میں پھر ایک گیارہوں رات آئی جو اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق پورے ایک سال کے بعد گذر گئی اور قیدار کی ساری حشمت خاک میں ملا دی گئی اِس کے بعد بے شک جنگیں ہوئی ہیں مگر جنگِ بدرکے بعد کفار کا رعب بالکل مٹ گیا تھا اور اب وہ مسلمانوں کو ترنوالہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس حقیقت کابر ملا اظہار کرتے تھے کہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنا آسان بات نہیں۔
پس اس پیشگوئی میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کے آئندہ حالات بیان کئے گئے ہیں اور وہ سارے واقعات جن کا اس جگہ پر ذکر ہے قرآن کریم میں نام لے کر بیان کر دئے گئے ہیں بلکہ آخری تین حصّے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ تو اکٹھے ایک ہی جگہ وَاِذْیَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَفْتُلُوْکَ اَوْیُخْرِجُوْکَ میں بیان کر دی گئی ہیں۔
میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ ترتیب تین قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ ترتیب ہوتی ہے جس میں مضمون نیچے سے اوپر کو جاتا ہے۔ دوسری ترتیب وہ ہوتی جس میں مضمون اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اور تیسری ترتیب مثلّث کی سی ہوتی ہے کہ چوٹی کی بات کو درمیان میں بیان کر دیا جاتا ہے اور اس سے چھوٹی باتوں کو دائیں بائیں رکھ دیا جاتا ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ میں یہی مثلّث کی ترتیب پائی جاتی ہے کہ قتل جو سب سے اہم چیز تھی اُس کا اللہ تعالیٰ نے درمیان میں ذکر کر دیا اور اثبات اور اخراج جو اس سے ادنیٰ درجہ کی چیزیں تھیں اُن کو دائیں بائیں بیان کر دیا لیکن اس کے علاوہ مندرجہ بالا آیت میں ایک اور ترتیب بھی ہے جو سیدھی چلی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس جگہ کفار کے مشوروں کے لحاظ سے اثبات، قتل اور اخراج کا ذکر نہیں یعنی یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے پہلے قید کا مشورہ کیا ہو پھر قتل کا اور سب سے آخر کا کیونکہ ان کا آخری فیصلہ قتل پر ہؤا تھا نہ کہ اخراج پر۔ بلکہ ان امور کا ذکر وقوعہ کی ترتیب کے لحاظ سے ہؤا ہے۔ مثلًا سب سے پہلے کفار رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مکان پر گئے اور انہوں نے رات کے وقت اُس کے اردگرد گھیرا ڈال لیا اور اپنے نقطۂ نگاہ سے انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر لیا۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اثبات یعنی قید کا ذکر پہلے فرمایا ہے اِس کے بعد جب آپ ہجرت کے ارادہ سے اپنے مکان میں سے نکلے اور اُن کے پاس سے گزرے تو اُن کے لئے موقع تھا کہ وہ آپ کو قتل کر دیتے کیونکہ وہ اِسی نیت اور ارادہ کے ماتحت اکٹھے ہوئے تھے پس واقعات کے لحاظ سے چونکہ دوسرا نمبر قتل کے امکان کا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اثبات کے بعد قتل کا ذکر کر دیا اور بتایا کہ باوجود قتل کا ارادہ رکھنے کے وہ ناکام رہے اور آپ کے قتل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد اخراج کا واقعہ ہؤا اور گو یہ اُن کے مظالم کی وجہ سے ہی ہؤا مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ بیان فرمایا ہے کہ کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ م بَیْتِکَ بِالْحَقِّ (الانفال ع ۱ ۵ ۱) یعنی آپ کو نکالنے والا دراصل خدا تعالیٰ تھا۔ اس لئے اگر آپ اُس وقت نہ نکلتے تو دوسرے وقت آپ کی جان محفوظ نہ ہوتی۔ آپ گئے اور غارِ ثور میں پناہ گزیں ہو گئے اُس وقت جب کفار تعاقب کرتے ہوئے غارثور تک پہنچے تو اُن کا ارادہ یہی تھا کہ آپ کو ڈھونڈ کر نکالا جائے مگر آپ وہیں سے بھی بچ کر نکل گئے اور اس طرح اثبات، قتل اور اخراج تینوں تدابیر میں اُن کو ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ یہ دوسرے معنے دوسرے درجہ پر ہیں ورنہ مَیں ترجیح پہلے معنوں کو ہی دیتا ہوں۔
اب پیشتر اس کے مَیں اس پیشگوئی کے دوسرے ظہور کو بیان کروں ایک سوال کا جواب دے دیتا ہوں جو بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتا ہے اور یہ کہ یہ معنے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ہی صحابہؓ پر کیوں نہ کھل گئے تاکہ اس زمانہ کے کفار پر حجت تمام ہو جاتی؟
اس سوال کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ جہاں تک حجت کا سوال ہے آج بھی ان معنوں کو پیش کر کے منکرین اسلام پر حجت تمام کی جا سکتی ہے اور انہیں اسلام اور قرآن کی صداقت کا قائل کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کسی ایک زمانہ کے لئے نہیں بلکہ ہر زمانہ کے لئے ہے۔ آج دنیا میں جو لوگ اسلام کے مخالف پائے جاتے ہیں جو پیشگوئیوں کے قائل نہیں۔ جو اسلام کو چھوٹا مذہب تصور کرتے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا انکار کرتے ہیں اُن کے سامنے بھی اگر ان پیشگوئیوں کو رکھا جائے تو یقینا یہ پیشگوئیاں اُن پر حجت ہوں گی اور اگر وہ انصاف اور دیانتداری سے کام لیں گے انہیں اسلام کی صداقت کا قائل ہونا پڑے گا۔ باقی رہا یہ سوال کہ یہ معنے پہلے کیوں نہ کھلے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے لحاظ سے مختلف قسم کے ہتھیار کام آیا کرتے ہیں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جو ہتھیار اس زمانہ میں کام آ رہا ہو اُس کے متعلق یہ اصُول قرار دے دیا جائے کہ وہ پہلے زمانہ میں بھی ہونا چاہئیے تھا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں آپ کی کامیابی اپنی ذات میں اتنا بڑا نشان تھا کہ صحابہؓ کسی اور طرف توجہ ہی نہیں ہوتی تھی چنانچہ تاریخی شواہد اس بارہ میں موجو د ہیں۔ جب مکّہ فتح ہؤا تو ہندؔ (زوجہ ابوسفیان)کے خلاف سزا کا اعلان تھا۔ لیکن وہ چوری چھپے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں آئی اور آپ کی بیعت میں شامل ہو گئی۔ وہ چادر راوڑھ کر اور دوسری عورتوں میں شامل ہو کر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت کے لئے آ گئی تھی بیعت لیتے لیتے جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ کہو کہ ہم شرک نہیں کریں گی تو ہندؔ (زوجہ ابوسفیان) اس کو برداشت نہ کر سکی اُس کی طبیعت تیز تھی وہ فوراً بول اٹھی کہ یا رسول اللہ کیا ہم اب بھی شرک کریں گی۔ آپ اکیلے تھے اور ہم سب کے سب اکٹھے آپ کے مقابلہ میں کھڑے تھے اگر ان بُتوں میں کوئی بھی طاقت ہوتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ باوجود اس کے کہ ساری قوم ہمارے ساتھ تھی پھر بھی ہمیں ذلیل ہونا پڑتا اور آپ سب کے مقابلہ میں کامیاب ہو جاتے۔ آپ کی اس کامیابی کو دیکھنے کے بعد اب کوئی شخص شرک کر ہی کس طرح سکتا ہے کہ آپ یہ اقرار لے رہے ہیں کہ ہم شرک نہیں کریںگی۔ تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلبہ اور آپ کی کامیابی کا اُس وقت اتنا اثر تھا کہ دوسری باتوں کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں ہوتی تھی۔ قرآن کریم تو ہر زمانہ کے لئے ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جب وہ ہر زمانہ کے لئے ہے تو ہر زمانہ میں اُس سے نئے سے نئے معارف نکلتے آئیں گے۔ یہی موٹی بات لے لو کہ شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ (الاحقاف ع ۱ ۱)کے ماتحت بعد کے مفسرین تورات کی اُن پیشگوئیوں کو بیان کرتے ہیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق اُس میں موجود تھیں مگر خود صحابہؓ کا خیال ہی اس طرف نہیں گیا۔ وہ سمجھتے تھے ہمیں گزشتہ پیشگوئیوں کی ضرورت نہیں ہمارے لئے یہی دلیل آپ کی سچائی کی کافی ہے کہ آپ اکیلے اُٹھے، بے سروسامانی کی حالت میں اُٹھے، مخالف حالات میں اٹھے اور پھر ساری دنیا پر غالب آ گئے۔ لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا وہ نشان جو پہلے لوگوں کے دلوںمیں تلاش کیا جائے چنانچہ نئے نشانات کو قرآن کریم میں تلاش کیا جائے چنانچہ نئے نشانات کو قرآن کریم میںتلاش کیا جائے چنانچہ نئے نشانات تلاش کئے گئے اور پھر اُن پر زیادہ زور دیا جاتا رہا۔
پس بات یہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کو اس قسم کے دلائل کی ضرورت ہی نہیں تھی گو قرآن کریم میں اِن کا ذکر موجود تھا لیکن چونکہ ہمیں اس باگ کی ضرورت تھی کہ ہم اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے قرآن کریم میں سے نشانات تلاش کریں۔ اِس لئے جب ہم نے اِس نقطۂ نگاہ سے قرآن کریم پر غور کیا تو ہم پر نئے مطالب کھل گئے گویا پہلے لوگوں کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا ایک بیّن اور ظاہر اور واضح نشان یہ تھا کہ لوگوں نے آپ کو مارنا چاہا مگر مار نہ سکے، انہوں نے کچلنا چاہا مگر کچل نہ سکے، انہوں نے آپ کو مغلوب کرنا چاہا مگر آپ غالب آ گئے۔ اس عظیم الشان نشان کے بعد انہیں آپ کی صداقت کے متعلق کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح اسلام کی تعلیم یہودیت، مسیحیت،مجوسیت وغیرہ کے مقابلہ میں اتنی واضح اور اتنی شاندار تھی کہ وہ علیٰ وجہ البصیرت اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جس قسم کے انصاف اور عدل اور محبت اور بدیوں سے بچنے کے احکام اسلام میں پائے جاتے ہیں اور کسی مذہب میں نہیں پائے جاتے اس لئے ضرورت ہی نہیں سمجھتے تھے کہ اَور باتوں کی طرف توجہ کریں یا اسلام کی صداقت کے متعلق گزشتہ مذاہب کی پیشگوئیوں کو تلاش کریں۔ مفسرین نے یہ پیشگوئیاں لکھی ہیں مگر اُسی وقت جب اسلام عیسائی ممالک میں پہنچا چونکہ اُس وقت وہ دلائل جو مشرکین کے لئے بیان کئے جاتے تھے عیسائیوں کے لئے کافی نہیں تھے اس لئے انہوں نے کتبِ صادقہ سے پیشگوئیاں تلاش کرنی شروع کر دیں۔ اسی طرح قرآن کریم پر غور کر کے انہوں نے نئے نئے دلائل پیدا کئے چنانچہ بعد کی تفسیروںمیں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اسی ضرورت کے ماتحت ہؤا ہے۔ بے شک کان موجود تھی مگر پہلے جس چیز کی ضرورت نہیں تھی وہ حکمت الٰہی کے ماتحت پوشیدہ رہی اور اُس وقت ظاہر ہوئی جب زمانہ کو اس کی ضرورت تھی۔
علوم کی ترقی میں ہمیشہ ایک قدم کے بعد دوسرا قدم اُٹھتا ہے اور وہ دوسروں قدم ہمیشہ آگے کی طرف اٹھتا ہے۔ پیچھے کی طرف نہیں جاتا۔ ایک ماں بچے کو اٹھا کر دس میل چلتی ہے لیکن باجود اس کے کہ ماں طاقتور ہوتی ہے اور بچہ کمزور، ماں کے پائوں میں چلتے چلتے چھالے پڑ جاتے ہیں پھر بھی اگر دس میل کے بعد بچہ دو قدم بھی چلے گا تو آگے ہی جائے گا پیچھے نہیں جائے گا۔ لیکن ہم یہ نہیں سکتے کہ وہ ماں سے بڑھ گیا۔ اسی طرح بعض دفعہ کم علم والاپہلوں سے زیادہ دلائل اخذ کر لیتا ہے کیونکہ علم ہمیشہ بڑھتا ہے اور قرآن کریم میں سے نئے سے نئے معارف ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق نکلتے رہتے ہیں۔ پس یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ معنے کیوں کُھلے۔
یہ سوال بھی بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتا ہے کہ وَلَیَالٍ عَشْرٍ کی بجائے وَاللَّیَالٍ عَشْرٍ کہنا چاہئیے تھا اسے نکرہ کیوں بیان کیا ہے۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ جو بالکل درست ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے نکرہ کے طورپر اس لئے بیان کیا ہے تاکہ اُن لیالیؔ کی عظمت کی طرف اشارہ کیا جائے۔ عربی زبان میں تنوین کئی اغراض کے لئے آتی ہے۔ بعض دفعہ تنوین تنکیر کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور بعض دفعہ کسی چیز کی عظمت بیان کرنے کے لئے۔ عظمت سے یہ مراد نہیں کہ وہ چیز ضرور اچھی ہو بلکہ اچھی یا بُری چیز جس شق میں بھی کوئی چیز بڑی ہو اُس کے لئے تنوین آ جائے گی۔ مثلًا ظلم بڑا ہو یا انعام بڑا ہو تو دونوں کا تنوین سے ذکر کیا جائے گا۔ انہوں نے رمضان یا ذی الحجہ کی راتیں اس سے مرادس لی ہیں لیکن جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں اس سے یہ مراد نہیں بلکہ اس سے ظلم وہ دس مکّی مراد ہیں کیونکہ وہ بڑی عظمت اور شان رکھنے والی ہیں لیکن جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں اس سے یہ مراد نہیں بلکہ اس سے ظلم کے وہ دس مکّی سال مراد ہیں جن کا احادیث سے پتہ لگتا ہے اور تاریخ بھی گواہ ہے ان دس سالوں میں مسلمانوں پر بڑے بڑے مظالم کئے گئے اور اُنہیں طرح طرح کے دُکھ دئے گئے یہاں تک کہ دو دفعہ صحابہؓ حبشہ کی طرف ہجرت کر کے گئے اور ایک دفعہ انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ گویا علاقوں کے لحاظ سے دو اور تعداد کے لحاظ سے تین ہجرتیں اُنہیں کرنی پڑیں۔ پس چونکہ مظالم ہونے والے تھے اس لئے اُن کا نکرہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ ان میں انتہا درجہ کا ظلم ہو گا۔
موجُودہؔ زمانہ کے متعلق پیشگوئی
میں نے بتایا تھا کہ گزشتہ سورتوں میں اکٹھی پیشگوئیاں چل رہی ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثتِ اولیٰ کے متعلق بھی اور بعثتِ ثانیہ کے متعلق بھی۔ سورۃ الفجر بھی اس سلسلہ کی اہم کڑی ہے اور جس طرح سورۂ غاشیہ اور بعض دوسری سورتوں میں اکٹھے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثتِ اولیٰ کے بھی اور آپ کی بعثتِ ثانیہ کے بھی ۔ اسی طرح اس سورۃ میں دونوں زمانوں کے حالات اکٹھے بیان کر دئے گئے ہیں۔ پس یہ پیشگوئی صرف ایک زمانہ کے متعلق نہیں بلکہ دو زمانوں کے متعلق ہے اور اس زمانہ کا پتہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اخبار سے بھی ملتا ہے اور قرآن کریم کی آیت الٓمٓرٰ قف تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ ط وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایُؤْمِنُوْنَ (رعد ع ۱ ۷) میں بھی اس کے متعلق اشارہ پایا جاتا ہے۔
ابن اسحاق نے اور بخاری نے اپنی تاریخ میں نیز ابن جریر نے ابن عباس سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دفعہ سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات تلاوت کر رہے تھے کہ ایک یہودی ابو یاسر اپنے ساتھیوں سمیت آپ کے پاس سے گزرا اور اُس نے سورۂ بقرہ کی ان آیا ت کو سُنا۔ وہ یہود کے علماء میں سے تھا ان آیات کو سنتے ہی وہ سیدھا گھر کی طرف روانہ ہؤا تا کہ وہ اپنے بھائی حُییی بن اخطب کو یہ واقعہ بتائے۔ تب اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ یہ یہ آیتیں مَیں نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنی ہیں اُس نے کہا کہ کیا تم نے خود اپنے کانوں سے سُنی ہیں یا کسی اور شخص سے؟ وہ کہنے لگا میں نے اپنے کانوں سے یہ آیتیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پڑھتے سُنا ہے۔ اُس نے کہا اچھا تم ابھی میرے ساتھ چلو۔ چنانچہ وہ سب کے سب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں آئے اور حُییی نے عرض کیا کہ میرا بھائی کہتا ہے کہ یہ آیتیں آپ کو الہام ہوئی ہیں مَیں یہ دریافت کرنے آیا ہوں کہ کیا یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیتیں نازل کی ہیں؟ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہاں یہ آیتیں مجھ پر اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہیں۔ انہوں نے کہا اگر یہ بات ہے تو پھر میرا معاملہ آسان ہو گیا آپ کا کلام ہے الٓمٓ۔سو ابجد کے لحاظ سے
الف کا ایک
لام کے ۳۰
میم کے ۴۰
کل ۷۱ سال بنے بالفرض اگر آپ کو غلبہ بھی ہؤا تو صرف ۷۱ سال رہے گا۔ اس عرصہ میں اگر ہمیں آپ کی غلامی کرنی پڑی تو معمولی بات ہے ۷۱ سال تک ہم تکلیفیں برداشت کر لیں گے اس کے بعد آپ کا غلب نہیں رہ سکتا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک اور الہام بھی ہؤا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کیا؟ آپ نے فرمایا الٓمٓصٓ وہ کہنے لگے پھر بھی کیا ہؤا۔
الف کا ایک
لام کے ۳۰
میم کے ۴۰
ص کے ۴۰
کل ۱۶۱ سال بنے یہ بھی کوئی بڑی مدت نہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا مجھے الٓرٰ بھی الہام ہؤا ہے۔ یہ سن کر وہ پھر حساب لگانے لگے اور کہا کہ
الف کا ایک
لام کے ۳۰
ر کے ۲۰۰
کل ۲۳۱ سال بنے یہ بھی کوئی زیادہ معیاد نہیں ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا مجھے الٓمٓرٰ بھی الہام ہؤا ہے یہ سُن کر وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ چلو یہ معاملہ تو کچھ مشتبہ ہو گیا ہے(فتح البیان مصری صفحہ ۲۴)
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کی تردید نہیں کی بلکہ ان کی باتوں کی تصدیق کرتے چلے گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف مقطعات میں علاوہ دوسری باتوں کے ایک یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ اُن میں ایسے واقعات کا بطور پیشگوئی ذکر ہے جو اسلام کو پیش آنے والے تھے خواہ وہ اچھے یا بُرے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں سورۂ رعد جو نہایت خطرناک خبروں پر مشتمل ہے اُس کی ابتداء الٓمٓرٰ سے کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی ترقی کا زمانہ ۲۷۱ سال تک جانے والا تھا اور ۲۷۱ھ سے اسلام میں کوئی خاص تنزّل واقعہ ہونے والا تھا کیونکہ الٓمٓرٰ کے اعداد ابجد کے لحاظ سے ۲۷۱ ہیں
الف کا ایک
لام کے ۳۰
م کے ۴۰
ر کے ۲۰۰
چنانچہ میں نے جب اس حدیث کو دیکھا اور سورۂ رعد پر بھی غور کیا تو میں نے یہ تحقیق شروع کی کہ آیا ۲۷۱ھ میں یا اس کے قریب قریب کوئی خاص اور اہم واقعہ جس کا تعلق اسلامی تنزّل کے ساتھ ہو رونما ہؤا ہے یا نہیں کیونکہ بعض دفعہ کوئی واقعہ رونما تو کسی سال ہوتا ہے مگر اس کی بنیاد ایک ایک دو دو سال پہلے پڑنی شروع ہو جاتی ہے اس لحاظ سے میں نے غور کیا ہے کہ آیا۲۷۰ھ سے ۲۸۰ھ تک کوئی واقعہ ایسا ہؤا ہے یا نہیں جسے اسلامی تنزل کی بنیاد قرار دیا جا سکے۔ جب میں نے غور کیا اور اسلامی تاریخ کو دیکھا تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب ۲۷۰ھ یا ۲۷۲ھ یا ۲۷۴ھ میں نہیں بلکہ عین ۲۷۱ھ میں سپین کے بادشاہ نے پوپ سے معاہدہ کیا کہ وہ بغدادی حکومت کو تباہ کرنے کے لئے ساتھ دے گا۔ گویا ایک مسلمان بادشاہ نے ایک عیسائی بادشاہ سے معاہدہ کیا کہ وُہ اُس کے ساتھ مل کر اسلامی بادشاہ کا مقابلہ کرے گا اور اس کی حکومت کو تباہ کرے گا۔ اس کے بغداد رہ گیا تھا میں نے اس کی تاریخ کا مطالعہ کیا تو معلوم ہؤا کہ ۲۷۲ھ یا۲۷۳ھ میں بغداد کی حکومت نے قیصر روم سے معاہدہ کیا کہ وہ اس کے ساتھ مل کر سپین کی حکومت کو تباہ کرے گا۔
یہ دو واقعات ایسے خطرناک ہوئے جنہوں نے اسلام کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے کمزور کر دیا اور اسلام ترقی کا دَور اپنی شان اور عظمت کو کھو بیٹھا۔ اس سے پہلے مسلمان کے اتحاد کی یہ حالت تھی کہ قیصر روم نے جب حضرت علیؓ اور معاویہ کو آپس میں جنگ کرتے دیکھا تو اُس نے ارادہ کیا کہ میں مسلمانوں پر حملہ کر دوں۔ چونکہ رستہ میں معاویہ کی حکومت تھی اور بعد میں حضرت علیؓ کی حکومت آتی تھی۔ اس لئے جب حضرت معاویہؓ نے یہ بات سُنی تو انہوں نے قیصر روم کو کہلا بھیجا کہ ہماری آپس کی لڑائی سے تمہیں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئیے یاد رکھو اگر تمہارا لشکر آیا تو سب سے پہلا جرنیل جو علیؓ کی طرف سے تمہارے مقابلہ کے لئے نکلے گا وُہ میں ہوں گا یعنی صرف یہی نہیں کہ سب سے پہلے مَیں تمہارے ساتھ لڑوں گا بلکہ اُسی وقت مَیں اپنے ہتھیار ڈال دوں گا اور علیؓ کے ماتحت ہو جائوں گا۔ قیصر روم نے جب یہ بات سُنی تو وہ ڈر گیا اور اُس نے مسلمانوں پر حملے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اب یا تو مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ وہ باوجود آپس میں برسرِ پیکار ہونے کے دشمن کے مقابلہ میں متحد ہو جاتے تھے اور یا یہ زمانہ آیا کہ ۲۷۱ھ میں ایک اسلامی حکومت پاپائے روم سے اَور دوسری اسلامی حکومت قیصر قسطنطینیہ سے اس لئے معاہدہ کرتی ہے کہ دوسری اسلامی حکومت کو وہ عیسائیوں کے ساتھ مل کر مٹا دے اور اس کی طاقت کو کچل دے۔ انّاللہ وانّا الیہ راجعون۔ گویا انتہا درجہ کے تنزّل کی بنیاد ۲۷۱ھ میں پڑی۔ تب میں نے سمجھا کہ وہ نظریہ جو یہود کا تھا اور جس کی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تردید نہیں کی تھی وہ اپنے اندر حقیقت رکھتا تھا۔
پھر ہم دیکھتے ہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (سجدہ ع ۱ ۲ ۲) جس طرح خدا تعالی کہ ہمیشہ سے یہ سنّت چلی آتی ہے کہ وہ آسمان سے لوگوں کی ہدایت کا انتظام کر کے اُسے دنیا میں بھیجتا اور اپنا ایک سلسلہ قائم فرماتا ہے اسی طرح وہ اب بھی کرے گا اور اسلام کو دنیا میں قائم کرے گا مگر پھر وہ سلسلہ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ قائم ہو گا آسمان پر اٹھنا شروع ہو گا ایک ایسے دن میں جو ہزار سال کے برابر ہو گا۔ اس آیت میں تنزّلِ اسلام کے ایک ہزار سالہ دَور کی خبر دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہی اس دوران میں ایمان اور اسلام آسمان پر اٹھ جائے گا اور لوگوں میں بے دینی پھیل جائے گی۔پس ان پہلے معنوں کی رُو سے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے اعتبار سے کئے گئے ہیں لَیْل سے مراد ایک سال کا عرصہ تھا مگر دوسرے معنوں کے رُو سے لَیْل سے مراد ایک سال سے مراد ایک صدی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اسلام پر دس تاریک راتیں آئیں گی جن میں سے ہر رات ایک ایک سو سال کی ہو گی اور یہ سلسلہ برابر دس راتوں یعنی ایک ہزار سال تک چلتا چلا جائے گا۔
دیکھو یہ کیسی لطیف مشابہت ہے کہ جس طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں تین سال کے بعد ظلم وتعدّی کا ایک دَور آیا جو دس سال تک چلتا چلا گیا اسی طرح یہاں تین صدیوں کے بعد ایک اسلامی تنزّل کے دَور کی خبر دی گئی اور بتایا گیا کہ وہ دَور دس صدیوں یعنی ایک ہزار سال تک چلا جائے گا اور چونکہ یہ دَور ۲۷۱ھ سال سے شروع ہؤا ہے اس لئے ایک ہزار سال میں اگر ان ۲۷۱ھ سالوں کو ملایا جائے تو یہ ۱۲۷۱ھ سال بن جاتے ہیں یعنی قریبًا تیرہ صدیاں۔ پس تیرہ سو سال کے ایک زمانہ کا ذکر قرآن کریم سے ثابت ہو گیا ہے جن میں سے ۲۷۱ھ سال یا قریبًا تین صدیاں اسلام کی ترقی کی ہیں اور دس سو سال رات سے مشابہت رکھتے ہیں۔ پھر جس طرح وہاں دس راتوں کے بعد ایک فجر کے طلوع کی بشارت دی گئی تھی اسی طرح قرآن کریم میں ان دس راتوں کے بعد جن میں سے ہر رات سو سو سال کی بتائی گئی ہے۔ اسی مضمون کی طرف سورۂ سبا کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ وَمَآ اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَاالْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo قُلْ لَّکُمْ مِّیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّلَا تَسْتَقْدِمُوْنَo (سبا ع ۳ ۹)
پھر اس آیت کی تشریح سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ سورۂ احزاب میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خاتم النبیّین ہونے کا دعویٰ لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور بتایا گیا دتھا کہ آئندہ تمام فیوض رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے واسطہ سے ہی بنی نوع انسان حاصل کر سکیں گے براہ راست بغیر آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی کے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ مضمون جو سورۂ احزاب میں تھا اُسی کا سورۂ سبا میں ذکر آتا ہے اور اس امر کا ثبوت دیا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ دنیا میں ایک مستقل نظام قائم کیا جائے گا۔ خاتم کے معنے یہ تھے کہ آپ سے الگ ہو کر کوئی فیضان نہیں ملے گا بلکہ آپ کی اطاعت اور غلامی میں رہ کر انسان الٰہی برکات اور فیوض سے متمتع ہو سکے گا۔ اس پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ کیااس کے یہ معنے ہیں کہ نظامِ روحانی میں آپ نے لوگوں کو اعلیٰ مقامات کے حصول سے روک دیا ہے؟ اسی کا جواب سورۂ سبا میں اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ آپ نے نظام روحانی میں لوگوں کو اعلیٰ مقامات کے حصول سے نہیں روکا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمیشہ ایسے نبی آتے رہیں گے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خدام اور آپ کے غلاموں میں سے ہوں گے چنانچہ فرمایا اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تیری نبوّت ختم ہونے والی نہیں بلکہ قیامت تک جاری رہے گی۔ اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ تُو قیامت تک لوگوں کے لئے بشیر و نزیر ہے جیسے کہ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ہم نے تجھے تمام انسانوں کے لئے خواہ وہ عرب ہوں، شامی ہوں، فلسطینی ہوں، یا اور کسی قوم کے ہوں۔ اِس صدی کے ہوں یا اگلی صدی کے سب کے لئے بشیر ونزیر بنا کر بھیجا ہے۔ یوں تو ہر نبی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہو اُس کو ماننا پڑتا ہے۔ موسٰی علیہ السلام گو ساری دنیا کے لئے مامور نہیں تھے اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ماننے والوں کو اُن پر بھی ایمان لانا پڑتا ہے لیکن فرماتا ہے ہم نے تجھے خالی اس لئے نہیں بھیجا کہ لوگ تجھ پر ایمان لائیں بلکہ تُو قیامت تک ہر زمانہ میں بشیر و نزیر ہو گا۔ موسٰیؑ بے شک نبی ہیں مگر وہ آج کوئی بشارت اور انذار نہیں کرر ہے اُن کے کوئی ایسے احکام نہیں چل رہے جن کے انکار کی وجہ سے لوگوں پر عذاب نازل ہو یا جن کو ماننے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے انعامات کے مورد ہوں۔ ماننے کی وجہ سے فضل نازل ہوتا ہے اور انکار پر عذاب نازل ہونا اُس نبی کی وجہ سے ہوتا ہے جس کی نبوت جاری ہو۔ پس فرماتا ہے ہم نے تجھے لوگوں کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے مبعوث فرمایا ہے ایسی صورت میں کہ صرف نبوت پر ان کے لئے ایمان لانا ضروری نہیں بلکہ تُو اُن کے لئے بشیر ونزیر بھی ہو گا۔ جو لوگ تجھے مانیں گے اُن پر خداتعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے جو انکار کریں گے اُن پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو گا۔ پھر فرماتا ہے وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ لیکن اکثر لوگ اِ س سے واقف نہیں۔ اس سے یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ لوگ ایمان نہیں لا رہے کیونکہ یہ تو صاف بات ہے کہ وہ ایمان نہیں لا رہے تھے اِس کے ذکر کا کوئی خاص فائدہ نہیں تھا اس کے معنے درحقیقت یہ ہیں کہ ہم نے ایک ایسی بات کہی ہے جس سے لوگ پہلے واقف نہیں تھے۔ پہلے لوگ صرف قومی اور وقتی نبیوں کے قائل تھے سوائے عیسائیوں کے ایک فرقہ کے جو ساری دُنیا کے لئے اور ہمیشہ کے لئے روحانی بادشاہت کا قائل تھا۔ لیکن باقی لوگوں میں سے کوئی بھی اِس بات کا قائل نہیں تھا۔ کیونکہ نبی آتے رہے اور اُن کی تعلیمیں منسوخ ہوتی رہیں۔ پس فرمایا کہ ہم تیرے متعلق ایک ایسا دعویٰ کر رہے ہیں جس سے لوگ واقف نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ایک نبی کے بعد جب بھی دوسرا نبی آتا ہے وہ پہلے نبی کی نبوت کو منسوخ کر دیتا ہے۔ ساری دُنیا کی طرف ایک نبی کا ہونا اور پھر ہر زمانے لئے ہونا یہ دو باتیں پہلے کسی نبی میں جمع نہیں ہوئیں۔ ہندو وید کو ہمیشہ کے لئے مانتے ہیں۔ مگر وہ ساری دُنیا کے لئے نہیں مانتے۔ شودروں کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر وہ ویدوں کو سُن لیں تو سیسہ پگھلا کر اُن کے کان میں ڈالا جائے۔ زرتشتی خاموش ہیں۔ مگر اتنی بات بالکل واضح ہے کہ اُن کا مذہب ساری دُنیا کے لئے نہیں۔ یہودی ہیں وہ لوگ اب کہتے ہیں کہ اُن کی شریعت ہمیشہ کے لئے ہے۔ مگر یہ خیال آخری زمانہ میں اُن میں پیدا ہؤا ہے۔ پہلے اُن کا یہی خیال تھا کہ ایک اور شریعت آنے والی ہے۔ جیسا کہ استثنا ۱۸/۱۸ اور ۲/۳۳سے ظاہر ہے۔ اس کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام آئے وہ بھی ساری دُنیا کے لئے نہیں تھے۔ مگر چونکہ وہ ایک ایسے زمانے میں آئے ہیں جب وہ وقت بالکل قریب آ رہا تھا جب کہ ساری دُنیا کے لئے ایک نبی بھیجا جائے اور حالات میں جلد جلد تغیّر ہو رہا تھا اس لئے عیسائیوں نے غلطی سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے متعلق یہ سمجھ لیا کہ وہی تمام دُنیا کے لئے بھیجا گئے ہیں۔ لیکن عیسائی اکثر النّاس نہیں ہیں اور خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ کا اکثر حصّہ ایسا ہے جو اس عقیدے کا قائل ہی نہیں۔ وہ یہ مانتا ہی نہیں کہ ساری دُنیا کے لئے شریعت ہو اور پھر وہ شریعت ہمیشہ کے لئے ہو۔ یہ دونوں فرق چلتے چلے جاتے ہیں اور سوائے عیسائیوں کے دُنیا میں جس قدر مذاہب پائے جاتے ہیں اُن میں سے اکثر اس کے قائل نہیں۔ اور جو لوگ قائل ہیں وہ بہت ہی تھوڑے ہیں۔ اِس کے بعد فرماتا ہے وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ یعنی وہ لوگ پوچھتے ہیں کہ جب یہ کہا گیا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر زمانہ کے لئے ہیں اور ہر زمانہ کے لئے وہ بشیر اور نزیر ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ پھر بھی ایسے زمانے آتے رہیں گے جب دُنیا میں خرابی پیدا ہو گی اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بحیثیت بشیر اور نزیر کے دُنیا میںظاہر ہوں گے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ ایسا زمانہ کب آئے گا اور کب بحیثیت بشیر اور نزیر کے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دُنیا میں ظاہر ہوں گے۔
یہ امر واضح ہے کہ قیامت تک بشیر اور نزیر ہونے کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے تھے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر زمانہ میں اپنے جسدِ عنصری کے ساتھ واپس آئیں گے اور تبشیر وانذار کا کام سرانجام دیں گے بلکہ اس کے معنے یہ تھے کہ آپؐ کے اظلال دنیا میں پیدا ہوتے رہیں گے اور جب کی کوئی خرابی واقع ہو گی آپؐ کے اظلال بشیر و نزیر بن کر کھڑے ہو جائیں گے اور اس طرح برابر آپؐ کا وجود دُنیا میں ظاہر ہوتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ یہی جواب اس موقع پر پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے قُلْ مِیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّلَا تَسْقْدِمُوْنَ ہم اس کے لئے ایک دن کی معیاد سورۂ سجدہ میں مقرر کر چکے ہیں۔ یعنی ایک ہزار سال خرابی کا دَور گزرنے کے بعد محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظہور ہو گا۔ اور آپؐ دوبارہ بشیر و نزیر بن کر دُنیا میں آ جائیں گے۔ پس قُلْ مِیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّلَا تَسْقْدِمُوْنَ میں اُنہی دس تاریک راتوں کی طرف اشارہ ہے جو اسلام کے قریبًا تین سو سالہ دَور ترقی کے بعد مسلمانوں پر آئیں جو ایک ہزار سال تک ممتد چلی گئیں اور جب کا ذکر سورۂ سجدہ میں اِن الفاظ میں پایا جاتا ہے کہ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔
غرض تیرہ سو سال کے ایک زمانہ کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے جن میں سے دس سو سال تک کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ رات کے مشابہ ہوں گے اور ہر رات ایک ایک سو سال کی ہو گی اور اِس طرح دس راتیں یکے بعد دیگرے مسلمانوں پر آئیں گی۔
اِسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ وَالَّیْلِ وَمَا وَسَقَ وَالْقَمَرِ اِذَااتَّسَقَ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (الانشقاق ع ۱ ۹) جس طرح تم کہتے ہو اُس طرح نہیں بلکہ مَیں شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں شفق کو۔ پھر مَیں شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں رات کو اور اُس کو جسے وہ اپنے اندر جمع کر لیتی ہے اور پھر مَیں شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں چاند کو جب وہ تیرھویں رات کا ہو جاتا ہے۔ اِتِّسَاق کے معنے ہوتے ہیں تیرھویں رات کا چاند۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ یہ بات نہیں جو تم کہتے ہو۔ مَیں شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں جب سورج تو ڈوب جاتا ہے لیکن اُس کی سرخی رہ جاتی ہے۔ اِس میں کفّار کو بتایا کہ اِس وقت اسلام کو مغلوب کرنے کی کوششیں بالکل عبث ہیں اسلام غالب آئے گا اور تم اس کے مقابلہ میں خواہ کتنی کوششیں کرو کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام ہمیشہ طاقتور رہے گا۔ جس طرح سورج ایک مقررہ وقت کے بعد ڈوب جاتا ہے اسی طرح اسلام پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب اس میں تنزّل کے آثار پیدا ہو جائیں گے۔ لیکن ابھی شفق کی سُرخی اس میں باقی ہو گی۔ بے شک دن کی روشنی نہیں رہے گی مگر رات کی تاریکی بھی اُس وقت نہیں ہو گی۔ ایک ملی جُلی کیفیت ہو گی۔ مسلمانوں کا غلبہ بھی ہو گا اور اُن میں ضُعف اور اضمحال بھی پیدا ہو چکا ہو گا۔ لیکن پھر اس کے بعد ہم رات کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور اُن سب چیزوں کو جنہیں رات اپنے اندر جمع کر لیتی ہے یعنی جو جو مصائب اور مشکلات رات کے اندر پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب اُس رات میں اکٹھی ہو جائیں گی اور وہ تمام تارکیوں کو جمع کر کے ایک بھیانک صورت اختیار کر لے گی وَالْقَمَرِ اِذَااتَّسَقَ اس کے بعد ہم ایک چاند کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو تیرھویں رات کا ہو گا۔ یہ قرینہ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ یہاں رات سے حقیقی رات مراد نہیں بلکہ استعارۃً رات کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ تیرہویں یا چودھویں رات کے چاند انتہائی تاریک رات کے بعد نہیں نکلتے بلکہ تاریک راتوں کے شروع ہونے سے پہلے یہ چاند نکلا کرتے ہیں۔ پس اگر لیل سے مراد یہاں اصلی رات ہوتی تو وَالَّیْلِ وَمَاوَسَقَ کے بعد قمر کا کوئی ذکر نہ ہوتا۔ کیونکہ مادی دُنیا میں اِس قسم کی تاریک رات کے بعد کبھی تیرہویں یا چودھویں کا چاند نہیں نکلا کرتا۔ یہ قرینہ بتا رہا ہے کہ اِس جگہ ظاہری رات کا ذکر نہیں ہو رہا بلکہ ایسی رات کا ذکر کیا جا رہا ہے جس کے انتہائی طور پر تاریک ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے قمر ظاہر ہؤا کرتا ہے۔
اِتِّسَاق کے معنے جیسا کہ اِس سورۃ کی تفسیر میں بتایا جا چکا ہے تیرہویں، چودھویں، پندرہویں، اور سولہویں رات کے چاند کے ہوتے ہیں۔ پس اِس آیت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ جس طرح دن غائب ہوتا ہے اسی طرح اسلام کا حال ہو گا۔ اُس کا تنزّل ایک دم نہ ہو گا بلکہ آہستہ آہستہ وہ تنزّل کی طرف جائے گا۔ یہاں تک کہ اسلام کا سورج لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے گا مگر اُس کی شفق باقی رہ جائے گی۔ اِس کے بعد شفق بھی جاتی رہے گی اور کامل تاریکی مسلمانوں پر چھا جائے گی۔ اس کے بعد ایک چاند نکلے گا جو تیرہویں رات میں ظاہر ہو گا اور سولہویں رات تک جائے گا۔ اور وہ تیرہویں تاریخ کا چاند اسلام کے تمام مصائب کا خاتمہ کر دے گا۔ اور یہ ترقی کا سلسلہ سولہویں صدی تک چلتا چلا جائے گا خدا تعالیٰ نے اس حقیقت کے اظہار کے لئے اِتِّسَاق کا لفظ بھی عجیب رکھا ہے۔ لغت میں لکھا ہے اِس کے معنے اُس چاند کے ہیں جو تیرہویں، چودہویں، پندرہویں رات کو ابتدا سمجھا جائے تو پندرہویں اور سولہویں رات اس چاند کے ظہور کی انتہائی راتیں سمجھی جائیں گی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے گو اسلام پر تنزّل کا زمانہ آئے گا مگر تیرہویں صدی میں چاند کا ظہور ہو جائے گا اور یہ تکلیف دہ زمانہ دُور ہو جائے گا۔ چنانچہ آگے فرماتا ہے لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ تم طبق بہ طبق اور درجہ بدرجہ ان ساری حالتوں میں سے گزرو گے تم پر تاریکی کے دَور بھی آئیں گے اور روشنی کے بھی۔ غلبہ کے ایام بھی آئیں گے اور تنزّل کے دَور بھی۔ ابتدا میں تمہاری حالت شفق کے مشابہ ہو گی اِس کے بعد رات اپنی تمام تاریکیوں کو جمع کر کے بھیانک صورت اختیار کر لے گی۔ پھر اس کے بعد چاند نکلے گا جو تمام تاریکیوں کو پھاڑ دے گا اور اسلام کی مشکلات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اِ س سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں ظاہری راتیں مراد نہیں بلکہ باطنی راتیں مراد ہیں اور مسلمانوں کے تنزّل اور پھر اُن کی دوبارہ ترقی کا اِن آیات میں نقشہ کھینچا گیا ہے۔
اِسی طرح سورۂ بروج میں فرماتا ہے وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْبَرُوْجِ۔ یعنی ہم آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو بروج والا ہے۔ وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ اور ہم شہادت کے طور پر یومِ موعود کو بھی پیش کرتے ہیں۔ علم ہیئت کے ماہرین بارہ ستاروں کے لئے بارہ بُرج قرار دیتے ہیں اِس لحاظ سے ذَاتِ الْبُرُوْج سے مراد وہ آسمان ہو گا جو بارہ بُرجوں والا ہے اور آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو بارہ بُرجوں والا ہے۔ اور پھر اِس کے ساتھ ہی یومِ موعود کو بھی پیش کرتے ہیں یعنی تیرہویں زمانہ کو۔ تیرہویں صدی میں اسلام کے احیاء کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مقدس انسان مبعوث ہونے والا ہے جس کی تشریح اگلی آیت میں ہی اِن الفاظ میں فرمائی کہ وَشَاھِدٍ وَّ مَشْھُوْدٍ وہ وجود گواہ بن کر آئے گا ایک اور وجود کے لئے جو مشہود ہو گا اور جس کی صداقت کی گواہی دی جائے گی۔ یعنی مسیح موعودؑ مبعوث ہو گا تاکہ وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت اور قرآن کریم کی سچائی کو گواہ ہو۔ اور اسلام کا زوال روبہ ترقی ہو۔ اِ س آیت سے بھی تیرہویںصدی میں ایک شاہد کے ظہور کا ثبوت ملتا ہے۔
اِسی طرح احادیث میں آتا ہے۔ خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَکُوْنُ بَعْدَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَکُوْنَ بَعْدَھُمْ قَوْمٌ یَشْھَدُوْنَ وَلَا یُسْتَشْھَدُوْنَ وَیَخُوْنُوْنَ وَلَا یُؤْتَمَنُوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ وَلَایَفُوْنَ وَیَظْھَرُ فِیْھِمْ السِّھَنُ۔ (بخاری جلد ۴ کتاب الرقاق باب ما یحذر من زھرۃ الدنیا والنّافس فیھا ) یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں سب سے بہتر میری صدی ہے پھر بعد کی اور پھر اُس کے بعد کی مگر اِس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو گواہی دیں گے تو لوگ کہیں گے تمہاری گواہی کا کیا اعتبار تم تو جھوٹ بولنے کے عادی ہو۔ کوئی شخص اُن کے پاس امانت رکھنے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ سخت خائن اور بددیانت ہوں گے۔ اِسی طرح اُن کا حال یہ ہو گا کہ وہ نذریں مانیں گے تو اُن کو پورا نہیں کریں گے اور کھا کھار کر خوب موٹے ہو جائیں گے۔ دین کی رغبت اور قربانی کا جزبہ اُن کے دلوں میں نہیں رہے گا۔
ان سب آیات اور پیشگوئیوں کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تین صدی تک اسلام کی ترقی کا زمانہ ہو گا اس کے بعد دس صدیوں کا لمبا زمانہ اُس پر تنزل کا آئے گا۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وقت مقررہ پورے کا پورا ہی شمار ہو جب تک کہ کوئی خاص قرینہ نہ ہو بلکہ ایک سال کا اکثر حصّہ ایک سال اور ایک دن کا ایک کثیر حصّہ ایک دن اور صدی کا ایک کثیر حصّہ ایک صدی کہلا سکتا ہے۔ پس حدیث کی مقرر کردہ تین صدیوں کے جن کے بعد فتنہ فساد پھیل جانا ہے قرآن کریم کے دو سو اکہتر سالوں سے اختلاف نہیں۔ بلکہ ایک جگہ عرصہ زیادہ متعین کر دیا گیا ہے اور دوسری جگہ عربی الفاظ استعمال کر دئے گئے ہیں۔ الغرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ کہ ہم اُس فجر کی اور اُن دس راتوں کی قسم کھاتے ہیں جو اُس فجر سے پہلے آئیں گی اور اِس سے مراد وہ ہزار سالہ دَورِ تنزّل اور دَورِ ضُعف ہے جو اسلام پر پہلی تین صدیوں کے بعد آیا اور ہر رنگ میں تنزّل آنا شروع ہؤا یہاں تک ساری تاریکیاں جمع ہو گئیں گویا جس طرح پہلے دَور کے متعلق ایک رات ایک سال کی قائم مقام تھی دوسری پیشگوئی میں ایک رات ایک صدی کی قائم مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِن تاریک راتوں کے بعد فجر کا زمانہ آئے گا اور تاریکی و ظلمت کے بادل آسمانِ روحانیت سے پھٹ جائیں گے۔ چنانچہ اِسی مناسبت سے مسیح موعودؑ کا ایک نام طارق رکھا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی پہلا الہام وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق ہؤا۔ اور یہ الہام آپؐ کو آپؐ کے والد کی وفات کے وقت ہؤا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس کے معنے اُن کی وفات کے کئے ہیں کیونکہ اُن کی وفات رات کو ہوئی۔ مگر اِس کے معنے صبح کا ستارہ کے بھی ہوتے ہیں اور والد کی وفات کے وقت جب آپ کو فکر ہوئی کہ والد فوت ہو جائیں گے تو کیا ہو گا تو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تم تو طارق ہو اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور کو ظاہر کرنے والے ہو۔ پس تمہارے والد محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ اِس دنیوی والد کی وفات کا تم کو کیا غم ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ اَلمٓرٰ کے ابجدی اعداد کو اگر فیج عوج کے ہزار سال سے ملایا جائے اور پھر اِس سارے حساب کو عیسوی بنانے کے لئے اس میں ۶۲۱ سال وہ شامل کئے جائیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہجرت کے زمانہ تک سنہ عیسوی کے لحاظ سے بنتے ہیں تو عین وہ سنِ عیسوی نکل آتا ہے جس میں فجر طلوع ہؤا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دُنیا کے سامنے اپنا دعویٰ پیش فرمایا۔ اَلمٓرٰ کے اعداد ۲۷۱ ہیں اِس میں دس صدیاں شامل کی جائیں تو ۱۲۷۱ بن جاتا ہے پھر ۱۲۷۱ میں ۶۲۱ شامل کئے جائیں تو ۱۸۹۲ بن جاتے ہیں۔ اب اس میں دو یا تین سال ہمیں بہرحال نکالنے پڑیں گے کیونکہ اَلمٓرٰ سورۂ رعد میں آتا ہے جو مکّی سورۃ ہے اور ہجرت سے دو دتین سال پہلے نازل ہوئی تھی ۔ اب اگر دو سال نکال دیں تو ۱۸۹۰ رہ جاتے ہیں اور یہ وہی سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا۔ اور اگر تین سال نکال دیں تو ۱۸۸۹ رہ جاتے ہیں اور یہ وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لوگوں سے بیعت لی۔
اِسی طرح اگر ہم ہجری سنہ کا حساب کریں اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیان فرمودہ تین صدیوں کو لَیَالٍ عَشْرٍ میں شامل کریں تو یہ ۱۳۰۰ بن جاتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے بالکل قریب یعنی ۱۳۰۸ہجری میں دعویٰ فرمایا ہے۔ اور سات یا آٹھ سال ایسا چھوٹا دہاکہ ہے کہ تیرہ صدیوں کے ذکر میں ان کو شمار ہی نہ سمجھا جائے گا۔
پھر اگر ہم ایک اور لحاظ سے دیکھیں تو اس سے براہین احمدیہ کی پیشگوئی نکل آتی ہے۔ براہین احمدیہ ۱۳۰۰ھ میں لکھی گئی اور ۱۳۰۲ہجری میں شائع ہوئی ہے اور یہ وہی سال ہے جس میں قرآنی پیشگوئی کے مطابق فجر کا طلوع مقدر تھا۔ گویا شمسی اور قمری دونوںلحاظ سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور رات کی تاریکیوں کو دُور کرنے کے لئے اُفقِ آسمان سے الطارقؔ کا ظہور ہو گیا۔
یہ کتنی زبردست پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طلوعِ فجر کی تاریخیں تک بتا دی گئیں اور سینکڑوں سال پہلے اُن کا ذکر کر دیا گیا اور پھر اُس کے مصداق کو عین اُنہی تاریخوں میں اللہ تعالیٰ نے دُنی کی ہدایت کے لئے کھڑا کیا جو قرآن اور احادیث میں اُس کے ظہور کے لئے مقرر کی گئی تھیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایسا عظیم الشان نشان ہے جس پر غور کرنے سے اس کی ہستی اور قدرت پر زندہ ایمان پیدا ہوتا ہے اور ہر شخص جو تعصّب سے خالی ہو اُسے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب ہے۔
اب رہا پیشگوئی کا تیسرا حصّہ یعنی وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ اِس کے دو معنے ہو سکتے ہیں ایک تو یہ شفع اور وَتر کا جو معاملہ ہو گا اُسے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئیے کہ اس آیت میں بعد کے وائو عطف کے ہیں اور مراد یہ ہے کہ ہم اِس کی بھی قسم کھاتے ہیں اور اُس کی بھی قسم کھاتے ہیں۔ لیکن وَالْفَجْرِمیں وائوؔ کو عاطفہ قرار دے سکیں۔ وَالْفَجْرِ دراصل اُقْسِمُ بِالْفَجْرِ ہے اور وائوؔ کو اُقْسِمُ کا قائم مقام بنایا گیا ہے لیکن اس کے بعد جتنے وائو ہیں سب اَلْفَجْرِ کے بعد جو امور مذکور ہوئے ہیں انہیں معطوف بنانے کے لئے آئے ہیں۔ اِس لحاظ سے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کے یہ معنے ہوں گے کہ ’’اور ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اُس معاملہ کو جو شفع اور وَتر کا ہے‘‘ جیسے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب غارِ ثور میں گئے تھے اور حضرت ابو بکرؓ آپ کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا تھا لَا تَحْزَنْ اِنَ اللّٰہَ مَعَنَا غم مت کر خدا ہمارے ساتھ ہے اِسی طرح جب شاہِد و مشہود جمع ہو جائیں گے یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوبارہ ظاہر ہوں گے اور آپ کا ایک خادم بھی جو آپ کا بُروز ہو گا ظاہر ہو گا تو وہ وقت بھی اسلام کے لئے نہایت سخت ہو گا اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے شاگرد سمیت گویا محصور ہو جائیں گے تب وَتر یعنی اللہ تعالیٰ پھر اس بات کو ثابت کرے گا کہ وہ اُن ساتھ ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے:۔
’’رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پناہ گزیں ہوئے قلعۂ ہند میں۔‘‘
(تذکرہ صفحہ ۴۶۶)
یعنی جس طرح پہلے کفار کے حملہ سے بچنے کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے غار ثور میں پناہ لی اور حضرت ابوبکرؓ آپ کے ساتھ تھے اِسی طرح آخری زمانہ میں آپ کی روحانیت کفر سے بچنے کے لئے قلعۂ ہند پناہ گزیں ہوئی ہے۔ اِس الہامِ الٰہی نے صاف بتا دیا کہ دوسری غارِ ثور ہندوستان میں ہونے والی ہے۔ پھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غارِ ثور میں پناہ لیں گے۔ پھر آپ کے ساتھ آپؐ کا ایک ساتھی ہوگا، اور پھر آپؐ اُسے فرمائیں گے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے وہ قید ہی کامیابی کا ذریعہ ہو جائے گی۔ پس وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح پہلے غار ثور میں حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پناہ گزیں ہوئے تھے اِس آخری دَور میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مسیح موعودؑ کے ساتھ پناہ گزیں ہوں گے مگر اِس دفعہ غارِ ثور میں نہیں بلکہ قلعۂ ہند میں پناہ گزیں ہوں گے اور پھر خدا تعالیٰ ان کی معیّت کے لئے اپنی فرشتوں کی فوج کے ساتھ اُترے گا جس طرح کہ غار ثور کے وقت اُترا تھا۔
علاوہ ازیں وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کے ایک اور معنے بھی ہو سکتے ہیں اور یہی یہ کہ درمیانی عطف کو اَلْفَجْرِ کی طرف منسوب نہ کیا جائے بلکہ شفع کی طرف پھیرا جائے اِس صورت میں اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم قسم کھاتے ہیں شفع کی اور ہم قسم کھاتے ہیں وَتر کی بلکہ اِس کے معنے یہ لئے جائیں گے کہ ہم قسم کھاتے ہیں شفع کی اور اُس کے ساتھ تعلق رکھنے والی وَتر کی۔ گویا وَتر کی علیحدہ قسم نہیں کھائی بلکہ شفع اور وتر کو ملا کر اُن کی قسم کھائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایسے وجود کو ہم بطور شاہد پیش کرتے ہیں۔ اِس صورت میں اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ مَیں اس شفع کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں جو ساتھ ہی وَتر بھی ہے۔ یعنی ایک جہت سے وہ شفع ہے اور ایک جہت سے وَتر ہے۔ اور یہ مطلب ہو گا کہ لَیَالٍ عَشْرٍ کے بعد جو فجر ظاہر ہو گی وہ ایسے وجود کے ذریعہ سے ہو گی جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا غیر ہوتے ہوئے پھر غیر کہلانے کا مستحق نہیں ہو گا۔ بظاہر وہ دوسرا ہو گا اور شفع کہلائے گا لیکن باوجود ایک دوسرا شخص ہونے کے اُس کے آنے سے دو نبی نہیں ہو جائیں گے وہ امام نہیں ہو جائیں گے بلکہ وہ ایک ایسا فنا فی الرّسل ہو گا کہ باوجود اُس کے آنے کے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک کے ایک ہی رہیں گے۔ یعنی وہ کہے گا
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
اور وہ کہے گا کہ مَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ الْمُصْطَفٰی فَمَا عَرَفَنِیْ وَمَا رَاٰی۔ جس نے کہا کہ مَیں محمّد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے علیحدہ وجود ہوں۔ وہ الگ ہیں اور مَیں الگ فَمَا عَرَفَنِیْ وَمَارَاٰی اُس نے مجھے نہیں پہچانا بلکہ وہ تو گھمراہ ہو گیا۔
مجھے ایک دفعہ یہی مضمون خواب میں دکھایا گیا تھا۔ مقبرہ بہشتی کی طرف جاتے ہوئے مدرسہ احمدؐیہ اور بکڈپو کے درمیان سے جو گلی گزرتی ہے۔ اور جس کے آگے کنؤاں آ جاتا ہے یہاں پہلے ایک چھوٹا سا میدان تھا۔ اب تو وہاں کمرے بن چکے ہیں۔ مَیں نے رَویا میں دیکھا کہ اس میدان میں ایک کرسی بچھائی گئی ہے اور کسی نے کہا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ ایک طرف سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ جب دوسری طرف مَیں نے نگاہ اٹھائی تو مَیں نے دیکھا اُس طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لا رہے ہیں اور دونوں کے مُنہ اُس کرسی کی طرف ہیں۔ خواب میں مَیں سخت گھبراتا ہوں کہ یہ کیسی خطرناک غلطی ہوئی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی تشریف لا رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی تشریف لا رہے ہیں لیکن کُرسی ایک ہے یہ تو بڑی ہتک امیز بات ہے مگر اُس وقت نہ مجھ سے اُٹھا جاتا ہے کہ مَیں دوڑ کر کوئی اور کُرسی لے آئوں اور نہ کسی اور کو یہ خیال آیا۔ اُس وقت میرا دل خوف سے دھڑک رہا ہے اور جوں جوں وہ قریب آ رہے ہیں میرا اضطراب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دونوں کُرسی کے قریب پہنچ گئے۔ اُس وقت مجھے خیال آیا کہ اب شاید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیچھے ہٹ جائیں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیچھے نہ ہٹے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی آگے کی طرف بڑھے۔ اُ س وقت مجھے معلوم ہؤا کہ میرے دل کی حرکت بند ہو جائے گی مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی مَیں نے دیکھا کہ دونوں نے اپنے اپنے جسم کو ذرا سا ٹیڑھا کر کے کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی۔ اور اِس کے بعد اُن کے دھڑ ایک دوسرے میں داخل ہونے شروع ہو گئے۔ اور جب وہ کُرسی پر بیٹھ گئے تو دو نہیں بلکہ ایک ہی وجود نظر آنے لگا۔
یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ ہم تمہارے سامنے اُس شفع کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو شفع کے ساتھ وَتر بھی ہو گا۔ بظاہر دو ہوں گے لیکن درحقیقت وہ دو نہیں بلکہ ایک ہی وجود ہو گا۔
دوسرے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ایسا وجود ظاہر ہو گا جسے لوگ دو سمجھتے ہوں گے یعنی مہدی اور عیسٰی۔ لیکن وَتر ہو گا یعنی ایک ہی وجود کے یہ دو نام ہوں گے۔ اور باوجود شفع سمجھے جانے کے جب وہ ظاہر ہو گا تو وہ وَتر ثابت ہو گا۔ مَیں سمجھتا ہوں اِس قسم کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی۔ کہ لوگ دو مدعیوں کے امیدوار ہوں لیکن جب وقت آئے تو وہ موعود ایک ہی موعود ثابت ہوں۔ صرف یہی ایک زمانہ ہے جس میں لوگ کہتے تھے کہ ایک مسیحؑ ہو گا اور ایک مہدی ہو گا۔ مگر جب وہ آیا تو وَتر تھا یعنی پیشگوئیوں کے لحاظ سے دو کی خبر دی گئی تھی مگر حقیقت کے لحاظ سے وہ دو نہیں تھے بلکہ ایک ہی وجود کے دو مختلف نام تھے۔ یہی بات اِس آیت میں بیان کی گئی تھی کہ یہ دونوں نام ایک ہی وجود کے ہوں گے۔ اور باوجود شفع سمجھے جانے کے جب وہ ظاہر ہو گا تو وتر معلوم ہوگا۔ غرض اِ س صورت میںوَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آنے والے کی دو حقیقتیں ہوں گی۔ ایک حقیقتِ شفع اور ایک حقیقتِ وتر۔ وہ ایک علیحدہ وجود ہو گا اس لئے بظاہر اسلام میں دو نبی نظر آئیں گے مگر چونکہ وہ فنا فی الرسول ہو کر یہ درجہ پائے گا اور اسلام پر ہی عمل کرے گااور اسی پر عمل کرائے گا۔ اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلمہ پڑھے گا اور وہی لوگوں سے پڑھوائے گا اس لئے دُوئی کوئی پیدا نہ ہو گی بلکہ اسلام میں ایک ہی نبی رہے گا دو نہ ہوں گے۔ کیونکہ دو تو اختلاف سے ہوتے ہیں۔ اتّحاد سے دو ایک ہو جاتے ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ دو کاموں کی وجہ سے اُسے دو عہدے ملیں گے مگر درحقیقت وہ ایک ہی وجود ہو گا۔
پھر فرماتا ہے وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ۔ اِس حصّہ آیت میں پھر ایک اور صدی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دس تاریک راتوں کے بعد کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن کے معًا بعد اسلام کی ترقی نہ ہو گی وہ فجر تو اُ ن کے بعد ظاہر ہو جائے گی، شعاعِ نور نظر آ جائے گی اور لوگوں کی امیدیں بندھ جائیں گی مگر ابھی رات نہ جائے گی بلکہ ایک صدی کا ابھی وقفہ ہو گا۔ اب اگر ۱۸۹۰ کو فجر لے لو تو یہ ۱۹۹۰ تک چلتی ہے۔ آجکل ۱۹۴۵ء ہے اِس لحاظ سے چھیالیس ۴۶ سال ابھی اِس لیل میںباقی رہتے ہیں۔ اور اگر ہجری سال لے لو اور ۱۲۷۱ کو دس تاریک راتوں کا آخری سال قرار دیدو تو یہ صدی ۱۳۷۱ میں ختم ہوتی ہے۔ گویا اِس لحاظ سے لیل کے ختم ہونے میں صرف ۸ سال باقی رہتے ہیں۔ اور اگر صدی کا سر مراد لو اور ۱۴۰۰ھجری میں اِس لیل کا اختتام سمجھو تو اِس میں ۲۷ سال باقی رہتے ہیں۔ یہ تین مدتیں ہیں جو تین مختلف جہتوں میں پیدا ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اِن میں کون سی جہت حقیقی ہے اور کون سی غیر حقیقی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں جہتوں ہی حقیقی ہوں جیسے دس راتوں کی پیشگوئی کے بارہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ آپ کے دعویٰ کے لحاظ سے ایک رنگ میں پیشگوئی پوری ہو جاتی ہے۔ بیعت کے لحاظ سے دوسرے رنگ میں اور براہین احمدیہ کی اشاعت کے لحاظ سے تیسرے رنگ میں۔ اِسی طرح ممکن ہے کہ جانے والی ایک رات کا ایک ظہور آٹھ سال بعد ہو یعنی ۱۹۵۲ء میں ایک ظہور ۲۷ سال بعد ہو یعنی ۱۹۸۱ء میں۔ ایک ظہور چھیالیس سال بعد ہو یعنی ۱۹۹۰ء میں۔ قمری لحاظ سے چونکہ ایک صدی میں تین سال کی کمی آ جاتی ہے اس لئے ۳۷ سالہ معیاد میں سے اگر تین سال نکال دیئے جائیں تو ۳۴ سال رہ جاتے ہیں۔ اِس لحاظ سے یہ لیل ۱۳۹۷ ہجری میں ختم ہو گی۔ گویا تین کی بجائے چار جہتیں ہو گئیں۔ چونکہ ابھی ایک پیشگوئی پوری نہیں ہو ئی اس لئے جتنے نقطۂ نگاہ سے بھی تعیین کی جا سکے ہمیں اُن سب کو مدنظر رکھنا چاہئیے۔ ایک نقطۂ نگاہ سے اس لیل کے کے جانے میں صرف آٹھ سال باقی رہتے ہیں۔ ایک نقطۂ نگاہ سے ۳۴ سال باقی رہتے ہیں۔ اور ایک نقطۂ نگاہ سے ۳۷ سال باقی رہتے ہیں اور ایک نقطۂ نگاہ سے ۴۶ سال باقی رہتے ہیں۔ اِس عرصہ میں یقینا دوبارہ اللہ تعالیٰ کسی جلوہ کے ساتھ یوم الفرقان ظاہر ہو اور کسی خاص شان کے ذریعہ احمدیت کو تقویت حاصل ہو گی۔ گو جیسا کہ بدرؔ کی جنگ میں آخری جنگ نہیں تھی اس کے بعد بھی لڑائیاں ہوتی رہیں۔ اسی طرح اس کے بعد بھی مخالفین سے ہماری لڑائیاں جاری رہیں گی۔ مگر بہرحال احمدیت کو اُس وقت تک ایسے رنگ میں غلبہ میسّر آ جائے گی کہ دشمن اُس کو محسوس کرنے لگ جائے گا۔ اسلام اور احمدیت کی کامل فتح تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے تین سو سال کے عرصہ میں ہو گی۔ اِس کے بعد جو قومیں احمدؐیت میں شامل نہیں ہوں گی اُن کی حیثیت بالکل ایسی ہی رہ جائے گی جیسے آج کل یہود کی ہے۔ بہرحال وہ آخری ترقی خواہ کچھ لمبے عرصہ کے بعد ہو احمدؐیت کی ایک فتح یا آج سے ساٹھ سال بعد ہو گی یا آج سے ۳۴ سال بعد ہو گی یا آج سے ۳۷ سال بعد ہو گی یا آ ج سے ۴۶ سال بعد ہو گی۔ یا اِن سالوں کے لگ بھگ وہ فتح ظاہر ہو جائے گی کیونکہ پیشگوئیوں میں دن نہیں گنے جاتے بلکہ ایک موٹا اندازہ بتایا جاتا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اِن چاروں اوقات میں چار مختلف قسم کی فتوحات ظاہر ہوں۔ پس اِن سب سالوں میں یا اِن سالوں کے لگ بھگ ضرور کسی نہ کسی رنگ میں احمدؐیت کو فتح حاصل ہو گی۔
فتح و نصرت کے نشانات قریب قریب عرصہ میں ظاہر ہونے سے یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ مومنوں کے ایمان ساتھ کے ساتھ تازہ ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے گھر سے بہ خیریت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سلامتی کے ساتھ نکل آئے تو مومنوں کو ایک خوشی پہنچی۔ جب غارِ ثور میں دشمنوں کے حملہ سے بچ گئے تو دوسری خوشی پہنچی۔ مدینہ پہنچے تو تیسری خوشی حاصل ہوئی ۔ بدر کی جنگ میں کفار کو شکست ہوئی تو خوشی پہنچی۔ اسی طرح ممکن ہے اللہ تعالیٰ اِن چاروں مدّتوں میں سے ہر مدّت کے اختتام پر فجر کی ایک لَو ظاہر کرتا رہے۔ اور اِ س طرح مومنوں کے ایمانوں کو تقویت دیتا رہے۔ اِسی رات کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے اشعار میں فرمایا ہے
؎ دن چڑھا ہے دشمنانِ دین کا ہم پر رات ہے
اے مرے سورج نِکل باہر کہ مَیں ہوں بے قرار
ھَلْ فِیْ ذٰلِکَ
کیا اس میں عقلمند کے لئے کوئی قسم ہے؟ (یانہیں)۳؎
۳؎حل لغات
حِجْرٌ کے معنے عقل کے ہیں (اقرب) اور ذِیْ حِجْرٍ کے معنے ہوئے عقلمند انسان۔
تفسیر
ھَلْ فِیْ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ کے لفظی معنے تو یہ ہیں کہ کیا اِس میں قسم ہے عقلمند انسان کے لئے۔ یا کیا اِس میں شہادت ہے عقلمند انسان کے لئے۔ مگر ھَلْ سے یہ مراد نہیں کہ قسم ہے یا نہیں بلکہ ھَلْ کا سوال لفظ عربی زبان میں تصدیق کے لئے آتا ہے جیسے کہ اُردو میں کہتے ہیں کہ کیوں ایسا ہو گیا یا نہیں، اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسا ضرور ہو گیا ہے۔ پس چونکہ اِس جگہ ھَلْ کے لفظ سے سوال کیا گیا ہے اس کے یہ معنے نہیں کہ لوگو بتائو کے اس میں عقلمند کے لئے قسم ہے یا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ کیا تم اِس سے انکار کر سکتے ہو کہ اِس میں عقلمند کے لئے قسم ہے۔ اور ہر عقلمند انسان کو سلام اور محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سچّا ہونے کی شہادت اِس دلیل میں مل جانی چاہئیے۔
لِذِیْ حِجْرٍ کے الفاظ صاف بتا رہا ہے کہ گزشتہ عظیم الشان نشانات کو پیش کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اب تو عقلمند انسان کی سمجھ میں یہ آ جانا چاہئیے کہ جو کچھ دعویٰ کیا جا رہا ہے اُس کے دلائل بیّنہ اور براہینِ مقاطعہ موجود ہیں اور جب یہ ظاہر ہوں گے اُس وقت تمہیں ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں خدا تعالیٰ نے عظیم الشان غیب کی خبریں دی ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ مرزا صاحب نے یونہی ایک دعویٰ کر دیا ہے اور بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایسے شخص کے دل میں یہ خیال کس طرح پیدا ہو گیا کہ وہ ۱۸۹۰ء میں ہی دعویٰ کرے یا آپؐ سے پہلے کسی کے دل میں یہ خیال کیوں پیدا نہ ہؤا کہ وہ ۱۸۹۰ء میں یہ دعویٰ کر دے۔ یہ تعدا د اور سال بہرحال ایک حد تک مخفی تھے۔ پھر پہلے لوگوں کے دلوں میں ان کا خیال کیونکہ پیدا نہ ہؤا اور کیوں آپؐ نے ہی اُس وقت دعویٰ کیا جس وقت پیشگوئیوں کے مطابق مدعی کھڑا ہونا ضروری تھا۔ پھر سوال یہ ہے کہ باقی لوگ کیوں کامیاب نہیں ہوئے اور آپ کیوں کامیاب ہو گئے۔ مہدی کا دعویٰ حضرت مرزا صاحبؑ سے پہلے اور بھی سینکڑوں لوگ کر چکے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ وہ تو مِٹ گئے اور جس نے ۱۸۹۰ء میں دعویٰ کیا اُسے خدا نے طاقت عطا فرمائی۔ کیا یہ اِس بات کا ثبوت نہیں کہ اُس کا دعویٰ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اتفاقی نہیں تھا۔ اگر اتفاقی ہوتا اور آپ کی کامیابی ظاہری جدّوجہد کا نتیجہ ہوتی تو بعض مدعیٔ مہدویت ایسے بھی ہوئے ہیں جنہوں نے ملک فتح کئے اور حکومت قائم کی اور گو وہ بعد میں تباہ ہو گئے مگر بہرحال اُن کے لئے ترقی پانے کے زیادہ مواقع تھے لیکن اِس ک باوجود ایک عارضی کامیابی کے بعد انہوں نے شکست کھائی اور اُن کا نام ہمیشہ کے لئے مٹ گیا۔ اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کامیابی حاصل کرنے کے کوئی مواقع میسّر نہیں تھے لیکن اس کے باوجود آپؐ نے دُنیا پر فتح پائی۔
پھر ایک اور فرق یہ ہے کہ آپؑ نے اُنہی تاریخوں پر دعویٰ کیا جن تاریخوںکی قرآن کریم اور احادیث میں خبر دی گئی تھی مگر باقی لوگوں میں سے کسی نے آگے دعویٰ کر دیا اور کِسی نے پیچھے۔ گویا وہ سب کے سب ’’مِس فائر‘‘ کر گئے اور صرف آپ ہی ایسے ثابت ہوئے جنہوں نے ٹھیک وقت پر لوگوں کے سامنے دعویٰ پیش کیا۔ بابؔ نے دعویٰ کیا مگر اُس نے بہت پہلے دعویٰ کر دیا۔ اس کے بعد بہاء اللہ نے دعویٰ کیا مگر اس کا دعویٰ بھی پہلے ہؤا اور گو اُس نے کچھ زمانہ ایسا پایا جس سے یہ امر مشتبہ ہو سکتا تھا۔ مگر عین اس سے پہلے جبکہ مہدوت کی مخصوص علامت چاند اور گرہن نے ظاہر ہونا تھا وہ اِ س دُنیا سے چل بسا۔ گویا سب مدعی شہادت کے مواقع سے پہلے گزر گئے یا بعد میں پیدا ہوئے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسے وقت میں دعویٰ فرمایا جب قرآن اور احادیث کی تمام پیشگوئیاں دتقاضا کر رہی تھیں کہ کوئی مدعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہو اور وہ لوگوں کی اصلاح کا فرض سرانجام دے۔ لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحبؑ کو کون سی ترقی ایسی حاصل ہوئی ہے جس کی بناء پر ہم یہ یقین کر لیں کہ آپؑ اپنے دعویٰ میں سچے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلؔ کوئی موعود ایسا نہیں گزرا جس کی ہر ملک میں جماعت ہو۔ ہماری جماعت ایسے ایسے ممالک میں قائم ہے جہاںسے چند سال پہلے ایک احمدؐی بھی نہیں تھا۔ اور جہاں اسلام کا نام بھی نہیں پہنچا تھا۔ پھر بڑی بات یہ ہے کہ احمدؐیوں کو وہاں وہاں کام کرنے کا موقع ملا ہے جہاں دوسرے مدعیوں کا ایک فرد بھی نہیں پہنچا۔ مثلاً مغربی افریقہ میں اس ملک کے رہنے والے لوگو ننگے پھرتے تھے۔ عِلم سے بے خبر تھے اور تہذیب وتمدّن سے قطعی طور پر نا آشنا تھے۔ جب احمدؐی مبلغین وہاں تبلیغ کے لئے گئے تو اُن کی وجہ سے ہزارہا لوگ انسانیت کے دائرہ میں شامل ہوئے اور انہوں نے بھی متمدن زندگی بسر کرنی شروع کر دی۔ درحقیقت اس قسم کے عملی کاموں سے ہی کسی قوم کی زندگی کا پتہ لگ سکتا ہے ورنہ خالی ٹریکٹ شائع کر دینے سے کچھ نہیں بنتا۔ ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ کے فضل سے اِس قسم کا کام کرنے کی توفیق ملی ہے جس قسم کا کام کرنے کی دوسرے مدعیوں کی جماعتیں قطعًا کوئی مثال پیش نہیں کر سکتیں۔
ترقی کی ایک اور علامت جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم میں تو پائی جاتی ہے لیکن دوسرے مدّعیوں کی جماعتیں اِس سے محروم ہیں وہ قوم کا ایک مرکز مجتمع ہوتا ہے تاکہ اُس کا شیرازہ منتشر نہ ہو اور وہ متحدہ طاقت سے دُنیا میں تبلیغ کرنے کا پروگرام جاری رکھ سکے۔ مثلًا بھائیوں کا اِس وقت تک کوئی مرکز نہیں لیکن جماعت احمدیہ کا قادیان مرکز ہے جہاں ہر سال ہزاروں لوگ آتے ہیں اور علمی اور روحانی لحاظ سے فائدہ اٹھا کر اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔ یہ وہ مرکز ہے جس کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہؤا کہ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍِ عَمِیْقٍ (تذکرہ صفحہ ۴۸‘۴۹) تیری طرف دُور دُور سے اور اِس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ سڑکوںمیں گڑھے پڑ جائیں گے۔ پھر آپؑ نے رویا میں قادیان کی ترقی کو دیکھا اور فرمایا:۔
’’ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا ہے اور انتہائی نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے۔ اونچی اونچی دو منزل یا چو منزل یا اس سے بھی زیادہ اونچے اونچے چبوتروں والی دوکانیں عمدہ عمارت کی بنی ہوئی ہیں اور موٹے موٹے سیٹھ بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے بیٹھے ہیں اور اُن کے آگے جواہرات اور لعل اور موتیوں اور ہیروں روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں اور قِسم قِسم کی دوکانیں خوبصورت اسباب سے جگمگا رہی ہیں۔ یکّے ، بھگیایں، ٹم ٹم، فِٹن، پالکیاں، گھوڑے، شِکرمیں، پیدل اِس قدر بازار آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا بِھڑکر چلتا ہے اور راستہ بمشکل ملتا ہے۔‘‘
(تزکرہ صفحہ ۲۹۳ و ۳۹۴)
یہ پیشگوئی ہے جو قادیان کی ترقی کے متعلق حضرت میسح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو یہ خبر دی کہ لوگ اپنے وطنوں کو چھوڑ کر قادیان میں ہجرت کر کے آ جائیں گے (تزکرہ صفحہ ۵۱) چنانچہ اِن پیشگوئیوں کے مطابق قادیان خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہا ہے اور ہزارہا لوگ قادیان میں ہجرت کر کے آ چکے ہیں۔ اپنے وطن کو چھوڑ دینا اور مال و املاک کو ترک کر کے ایک دوسرے شہر میں محض خدا کی رضا کے لئے ہجرت کر کے چلے جانا بڑی بھار قربانی کی علامت ہوتی ہے۔ اور جس قوم میں یہ قربانی پائی جاتی ہو وہ کبھی مٹ نہیں سکتی۔ اِس کے مقابلہ میں عکہؔ اور بہجہؔ میں جا کر دیکھ لو بہائی لوگ بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہیں اور کوئی شخص بَیرو نجات سے اُن کے پاس نہیں آتا۔ ہمارے آدمی سفر یورپ کے موقع پر وہاں گئے تو بہائی لوگ اُن کے پیچھے پڑ گئے کہ بہاء اللہ کی قبر کے انگور لے جائو۔ یہ بڑی برکت والے ہیں۔ گویا اُن کی حالت بالکل مجاوروں کی سی ہے اور وہی مشرکانہ رسوم وہاں پائی جاتی ہیں جو ہندوستان میں بعض قبروں پر پائی جاتی ہیں۔ پھر وہاں اُن کی ترقی کی جو حالت ہے اُس کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ہم عکّہ گئے تو جس سے پوچھیں کہ بہائیوں کا مرکز کہاں ہے تو وہ کہتے کہ ہمیں تو علم نہیں۔ اِس پر ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ ہم عکّہ میں بھی پہنچ گئے اور بہائیوں کے مرکز کا بھی ہمیں پتہ نہیں لگتا۔ آخر بڑی دیر کے بعد ایک شخص نے بتایا کہ آپ غلط سوال کر رہے ہیں بہائی اس علاقہ میں بہائیت کے نام سے نہیں بلکہ عجمیّت کے نام سے مشہور ہیں اور اُن کو سب لوگ یہاں عجمی کہتے ہیں۔ آپ عجمی کہہ کر دریافت کرتے تو کسی کو علم بھی ہوتا کہ آپ کِن لوگوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ پھر اُس نے بتایا کہ یہ عجمی بھی عکّہ میں نہیں رہتے بلکہ تین چار میل پرے ایک جگہ بہجہؔ ہے وہ وہاں رہتے ہیں۔ چنانچہ ہم موٹر لے کر وہاں پہنچے اور بہائیوں کے حالات کا مشاہدہ کیا۔ اُس وقت ہمیں معلوم ہؤا کہ چونکہ بعض پیشگوئیوں میں عکّہ کا لفظ آتا تھا اس لئے انہوں نے عکّہ کو اپنا مرکز لکھنا شروع کر دیا حالانکہ عکّہ میں نہیں بلکہ اس سے بھی چار پانچ میل دُور رہتے تھے اور پھر باوجود اس کے کہ سالہاسال سے باب اور بہاء اللہ کا دعویٰ تھا پھر بھی اُن کی حالت یہ تھی کہ چار پانچ میل تک بھی لو گ اُن کو نہیں جانتے تھے اور یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے یہ حالت ہے کہ کوئی شخص آپؐ کا نام لے دے فوراً لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ مرزا صاحبؑ کے ماننے والوں میں سے ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر احمدؐی بھی مرزائیؔ کہلانے لگ گئے ہیں اور یا پھر لوگ ہماری جماعت کے دوستوں کو مولوی کہتے ہیں جس کے معنے ہیں علم والے مگر عجمی کا لفظ عرب میں ہمیشہ کیلئے تحقیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور عربی زبان میں اس کے معنے ہوتے ہیں اَن پڑھ اور جاہل لوگ۔ پس اُنہیں تو اپنے علاقہ میں اَنْ پڑھ اور جاہل کہا جاتا ہے اور یہاں احمدؐیوں کو مولوی کہا جاتا ہے جس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ علم والے ہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ترقی کا صحیح مقام ابھی ہماری جماعت کو حاصل نہیں ہؤا اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے ساری دُنیا فتح کر لی ہے مگر ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ ہمارا ایک مرکز ہونا، ہماری جماعت کا مختلف ممالک میں پھیل جانا، ہزاروں آدمیوں کا اپنے وطن چھوڑ کر قادیان میں ہجرت کے آ جانا اور ہمارا اپنی تعداد اور اپنے علم میں روز بروز بڑھتے جانا یہ اس امر کی علامات ہیں کہ ہم ایک دن ساری دُنیا کو انشاء اللہ فتح کر لیں گے۔ اِس وقت اگر قادیان کے محلّوں اور اُس کی پُرانی اور نئی آبادی کا جائزہ لیا جائے تو سوائے ہمارے کہ ہم قادیان کے اصل باشندے ہیں اور سوائے محلّہ ارائیاں میں رہنے والے چند لوگوں کے جن کی مجموعی تعداد کسی صورت میں بھی دو یا تین سو سے نہیں ہو گی باقی سب کے سب وہ لوگ ہیں جو باہر سے ہجرت کر کے قادیان آئے۔ مَیں سمجھتا ہوں سَو احمدؐیوں میںسے ڈیڑھ فیصدی قادیان کے اصل باشندے ہیں باقی سب کے سب وہ لوگ ہیں جو باہر سے آئے ہیں۔ پھر اِن باہر سے آنے والوں میں کوئی افغانستان سے آیا ہے کوئی برما سے آیا ہے کوئی مالابار سے آیا ہے کوئی سیلون سے آیا ہے کوئی سندھ سے آیا ہے وکوئی بنگال سے آیا ہے۔ اسی طرح بیسیوں علاقے ہیں جن جہاں کے رہنے والے قادیان میں پائے جاتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ دیکھا جائے کہ قادیان میں کہاں کہاں سے لوگ آئے ہوئے ہیں تو اتنے مختلف مقامات سے آئے ہوئے لوگ ثابت ہوں گے کہ لاہور میں بھی اتنے مختلف مقامات کے لوگ موجود نہیں ہوں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ بہت بڑی بات ہے اور اس الہام کی صداقت کا ایک زبردست صداقت کا ایک ثبوت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہؤا کہ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍِ عَمِیْقٍ (تذکرہ صفحہ ۴۸‘۴۹) لوگ تیرے پاس دُور دُور سے آئیں گے۔ پھر خدا تعالیٰ نے جماعت احمدؐیہ کو شاخ درشاخ اِس طرح پھیلا دیا ہے کہ ہر قسم کے کارکن ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں۔ اگر ایک طرف زمیندار طبقہ ہے تو دوسری طرف تاجروں کا بھی ایک کثیر حصّہ ہماری جماعت میں موجود ہے۔ اِسی طرح عربی دان ہماری جماعت میں کثرت سے پائے جاتے ہیں تو انگریزی دان لوگوں کی بھی ہماری جماعت میں کمی نہیں ہے۔ غرض ہر طبقہ اور ہر شعبہ میں ہماری جماعت پھیل رہی ہیے۔ اور ہر قسم کے کارکن ہماری جماعت کو میسّر نہیں آ رہے ہیں مگر بہائیوں کو یہ بات نصیب نہیں۔ اُن میں چند خاص قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اُن میں نہیں پائے جاتے جو اِس بات کی علامت ہے کہ اُن کی جماعت کو وسعت حاصل نہیں جو دُنیا پر چھا جانے والی جماعتوں کو حاصل ہؤا کرتی ہے۔ چند علمی رنگ میں بحثیں کرنے والے آدمیوں کا پیدا ہو جانا کِسی جماعت کے زندگی کے لئے کافی نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ قربانی اور ایثار کا مادہ اُن میں زیادہ سے زیادہ پایا جاتا ہو۔ وہ مرکز سے وابستگی رکھتے ہوں۔ اپنی تعلیم کی اشاعت کے لئے ہر مشکل کو برداشت کرنے والے ہوں اور یہ جزبہ اپنے دلوںمیں رکھتے ہوں کہ ہم مر جائیں گے مگر اُس کی تعلیم کو نہیںچھوڑیں گے جس کو لے کر ہم کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ جزبۂ قربانی اور ایثار و استقلال کا یہ مادہ ہماری جماعت میں تو پایا جاتا ہے مگربہائیوں میں اس قسم کی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔
پھر جس قسم کی اشاعت کی توفیق ہماری جماعت کے مبلّغوں کو ملی ہے اُن کو نہیں ملی۔ ہماری جماعت کے مبلّغ سارے جہان میں پھرتے اور لوگوں کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرتے ہیں مگر اُن کے اندر کوئی باقاعدہ تبلیغی نظام نہیں نہ اُن کے مبلّغ غیر ممالک میں جاتے ہیں اور نہ تبلیغی جزبہ اُن کے اندر پایا جاتا ہے۔ اِسی طرح جس قسم کا کام ہماری جماعت کر رہی ہے اُس قسم کے کام کی کوئی مثال بہائی اپنی جماعت کی طرف سے پیش نہیں کر سکتے۔ ہماری جماعت نے پسماندہ اقوام کو اُبھارنے اور ادنیٰ اقوام کو اونچا کرنے اور اُن میں تعلیم رائج کرنے اور انہیںمہذب اور متمدّن بنانے کے لئے جس قدر کوششیں کی ہیں اُن کا عشر عشیر بھی بھائیوں میں نہیں پایا جاتا۔
پھر تعداد کے لحاظ سے دیکھو تو اُن کی ہمارے مقابلہ میں کوئی نسبت نہیں۔ باوجود اِس کے کہ انہوں نے ہماری جماعت سے چالیس سال پہلے کام شروع کیا تھا پھر بھی اب تک صرف چند امراء کی وجہ سے اُن کو شہرت حاصل ہوئی ہے جو اُن کی جماعت میں شامل ہوئے۔ لوگوں کی اکثریت نے اُن کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ اور اِن چند امراء کا بہائیت کی طرف میلان بھی کِسی قربانی کی وجہ سے نہیں ہؤا بلکہ اس وجہ سے ہؤا کہ امراء مذہبی پابندیوں کو سخت مصیبت سمجھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا طریق نکل آئے کہ مذہب بھی رہے اور آزادی بھی ہاتھے سے نہ جائے۔ اِس خیال کے ماتحت اگر انہیں کسی مذہب میں آسانی نظر آتی ہے تو وہ اُس میںشوق سے شامل ہو جاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہم مذ ہب کے بھی پابند رہیں گے اور ہر قسم کے تعیّش سے بھی کام لیتے رہیں گے۔ بہائیت میں اس قسم کی کوئی پابندی نہیں وہ کہتے ہیں نماز جس کے پیچھے چاہو پڑھو اور جو چاہو کرو تمہیں کوئی باز پُرس نہیں ہو گی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو بیک وقت مذہب اور آزادی سے ہمکنار رہنا چاہتے ہیں وہ اس مذہب میں شامل ہو جاتے ہیں۔
مَیں ولایت گیا تو ایک انگریز بہائی عورت مجھ سے ملنے کے لئے آئی اور کہنے لگی آپ بہاء اللہ کو کیون نہیں مانتے مَیں نے کہا تم قرآن میں نقص بتا دو تو پھر یہ سوال بھی ہو سکتا ہے کہ مَیں کسی اور مذہب کی طرف رجوع کروں ورنہ جب تک قرآن کریم میں کوئی نقص ثابت نہیں ہوتا مجھے کسی اور مذہب کی تعلیم کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے وہ کہنے لگی دیکھئے! قرآن کرم میں کتنا بڑا نقص ہے کہ اُس نے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے۔ مَیں نے کہا بہاء اللہ نے خود ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے‘ وہ کہنے لگی یہ بات بالکل غلط ہے‘ بہاء اللہ نے قطعًا ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں دی۔ اُس کے ساتھ ایک اور عورت بھی تھی جو ایرانن تھی اور چھ ماہ کے قریب مرزا عباس علی کے پاس رہ کر آئی تھی۔ مَیں نے اُس انگریز عورت سے کہا تم اپنے ساتھ والی عورت سے پوچھو کہ یہ درست ہے یا نہیں۔اُس نے پوچھا تو وہ جواب دینے میں کچھ شرارت کر گئی کہنے لگی دو شادیوں کا ذکر تو آتا ہے مگر بہاء اللہ نے لکھا تھا کہ میرے کلام کی جو تشریح مرزا عباس علی کریں وہ درست ہو گی اور انہوں نے یہی تشریح کی ہے کہ ایک ہی شادی کرنی چاہئیے۔ مَیں نے کہا یہ بھی کوئی معقول بات ہے کہ دوشادیوں کا ذکر ہو اور کہا جائے کہ اِس سے مراد ایک ہی شادی ہے۔ انگریز عورت کہنے لگی جواب تو درست ہے کہ جب مرزا عباس علی نے تشریح کر دی اور کہہ دیا کہ ایک ہی شادی کرنی چاہئیے تو معاملہ ختم ہو گیا۔ مَیں نے کہا اچھا یہ بتائو بہاء اللہ نے عباس علی کو کہا تھا یا نہیں کہ تم لڑکے کی خاطر دوسری بیوی کر لو۔ اُس انگریز عورت نے کہا یہ بھی نہیں ہو سکتال۔ مَیں نے کہا اپنے ساتھ والی سے پُوچھو۔ اُس سے پُوچھا گیا تو وہ کہنے لگی کہا تھا مگر اُس نے مانا نہیں۔ مَیں نے کہا اُس نے بات نہیں مانی تو وہ نافرمان تھا اُس پر یہ الزام عائد ہوتا ہے۔ کہ اُس نے اپنے باپ کے حکم کو جو مظہرِ خدا تھا خلاف ورزی ک۔ اُس انگریز عورت نے کہا نہیں جب اُس نے انکار کر دیا تو بات صاف ہو گئی۔ بہاء اللہ نے خواہ کچھ لکھا ہو اُس نے انکار کر دیا تو پتہ لگ گیا کہ دوسری شادی جائز نہیں۔ مَیں نے کہا اچھا یہ بتائو کہ بہاء اللہ کی دو بیویاں تھیں یا نہیں۔ انگریز عورت نے پھر کہا ہر گز نہیں۔ مَیں نے کہا اپنی ایرانن بہن سے پُوچھو۔ اُس سے پوچھا گیا تو اُس نے کہا مجھ سے کیوں پوچھتی ہیں۔ مَیں کہا آخر تم وہاں رہ آئی ہو اور تمہاری ساتھن ناواقف ہے تمہارا تنا بتا دینے میں کیا حرج ہے کہ بہاء اللہ کی د و بیویاں تھیں یا نہیں۔ اُس نے کہا بات یہ ہے کہ دعویٰ سے پہلے اُس کی دو بیویاں تھیں لیکن دعویٰ کے بعد اُس نے ایک بیوی کو بہن قرار دے دیا تھا۔ انگریز عورت یہ سُن کر اچھل پڑی اور کہنے لگی دیکھئے دیکھئے!! جواب ہو گیا۔ مَیں نے کہا تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ بہاء اللہ خدائی کے مقام پر تھا اور بچپن سے اُسے غیب کا علم حاصل تھا، اگر بہاء اللہ کو علم تھا کہ مجھے اپنی ایک بیوی کو بہن قرار دینا پڑے گا تو اُس نے دوسری شادی ہی کیوں کی۔ انگریز عورت کہنے لگی نہیں جب اُس نے ایک کو بہن قرار دیا تھا تو یہ کافی تھا۔ مَیں نے کہا اچھا اِس ایرانن بہن سے پوچھو کہ بہن سے بچے پیدا کرنے بھی بہائی مذہب میں جائز ہیں۔ اگر نہیں تو دعویٰ کے بعد اُس بہن کے بطن سے بہاء اللہ کے ہاں اولاد کیوں پیدا ہو ئی تھی۔ اِس پر وہ انگریز عورت جوش سے کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی آپ تو گالیاں دینے لگ گئے ہیں۔ مَیں نے کہا یہ گالیاں نہیں بلکہ حقیقت کا اظہار ہے۔ تم اِس سے پوچھو کہ دعویٰ کے بعد بہاء اللہ کے ہاں اُس دوسری عورت سے اولاد ہوئی ہے یا نہیں۔ اِس دفعہ ایرانن دیر تک خاموش رہی مگر آخر اُس نے تسلیم کرنا پڑا کہ دوسری بیوی سے دعویٰ کے بعد اُن کے ہاں اولاد ہوئی تھی۔ مَیں نے کہا اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ ہم قرآن کو کیوں مانتے ہیں اور بہاء اللہ کو اپنے دعویٰ میں کیوں سچّا تسلیم نہیں کرتے۔ بہاء اللہ کو ہم اسی صورت میں مان سکتے تھے جب قرآن کریم کے ذریعہ ہماری دینی ضرورت پوری نہ ہو سکتیں اور بہاء اللہ اس ضرورت کو پورا کر دیتے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے اور اِدہر ایسی کوئی ایسی ضرورت بھی نہیں ہے جسے اسلامی شریعت نے پُورا نہ کیا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ قرآنی شریعت کو ترک کیا جائے اور بھائی شریعت کو قابلِ قبول قرار دیا جائے۔
غرض بہائی شریعتِ اسلامی کو منسوخ قرار دیتے اور ایک نئی شریعت دُنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دُنیا میں اس لئے مبعوث ہوئے ہیں کہ آپؑ اسلام کو زندہ کریں اور شریعت کو دنیا میں زندہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے خود آپ کو الہامًا فرمایا کہ یُحْیِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃً (تذکرہ صفحہ ۶۹)۔مسیح موعود ؑ اس لئے آیا ہے تاکہ وہ اسلام کو زندہ کرے اور شریعت کو دُوبارہ دنیا میں قائم کرے۔ آپ ؑ اس مقصد کو لے کرکھڑے ہوئے اور لاکھوں لوگوں کو اپنے ارگرد اکٹھا کر لیا۔ بہاء اللہ نے یہی کہا کہ اسلامی شریعت میں سے بہت سی باتوں کو یا منسوخ کر دیا یا اُن میں آسانیاں پیدا کر دیں۔ مگر پھر بھی لوگوں نے اس کو نہ مانا۔ بہائیوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے اُردو میں کہتے ہیں ’’شافعی سب کچھ معافی‘‘ اُن کا مذہب بھی اسی قسم کا ہے۔ اس قسم کی تحریک کو دُنیا میں چلانا اور بات ہے اور ساری دُنیا کی مخالفت کے باوجود بنی نوع انسان کی ساری زندگی بدلنا‘ اُن کی صبح بدلنا اُن کی شام بدلنا، اُن کا دن بدلنا اُن کی رات بدلنا، اُن کا ظاہر اُن کا باطن بدلنا، اُن کا مذہب بدلنا ان کی سیاست بدلنا، اُن کی تعلیم بدلنا اور اُن کا تمدّن بدلنا یہ وہ کام ہے جسے حقیقی کام کہا جا سکتا ہے اور وہ یہ کام ہے جو گزشتہ دو ہزار سال میں یا تو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا تھا یا اب اُن کے شاگرد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہے۔ پس ترقی کے جو آثار وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں پائے جاتے ہیں۔ آپؑ ہی دینا کے مسیحؑ اور مہؑدی ہیں۔ آپ ؑ ہی اُن کے نجات دہندہ ہیں اور آپ ہی وہ موعود ہیں جو اُن تاریخوں میں ظاہر ہوئے جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیان فرما دی تھیں یا قرآن کریم میں اُن کا ذکر آتا تھا۔
اَلَمْ تَرَکَیْفَ
کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرے رب نے عاد سے کیا (معاملہ) کیا۴؎
۴؎ تفسیر
اَلَمْ تَرَ قرآن کریم کا ایک محاورہ ہے اس سے روئتِ قلبی یا روئتِ علمی مراد ہوتی ہے روئت عین مراد نہیں ہوتی جیسے قرآن کریم میں ہی ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ (سورۃ الفیل ع ۱ ۰ ۲) کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا سلوک کیا حالانکہ اصحاب الفیل کے واقعہ کے بعد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پیدا ہوئے تھے اُس کے حالات آپؐ نے دیکھے نہیں تھے۔ پس معنے یہ ہیں کہ کیا تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل سے کیا کیا۔ اِسی طرح اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍمیں بھی روئتِ علمی مراد ہے روئت عین مراد نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عاد سے کیا کیا اور کیا تُو اُن حالات سے نصیحت حاصل نہیں کرتا۔ یہاں تُو سے مراد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں بلکہ ہر انسان مخاطب ہے۔ بعض جگہ خطاب واحد کے صیغہ سے ہوتا ہے لیکن مراد ایک جماعت ہوتی ہے۔ یہاں بھی اَلَمْ تَرَ سے مراد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں بلکہ سارے مسلمان اور پھر ساری دُنیا مراد ہے۔ عاد ایک قبیلے کا نام تھا اس کا ذکر تفصیلی طور پر تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۲۰۲ نوٹ نمبر ۵۰ میں آ چکا ہے۔ یورپین لوگ کہتے ہیں کہ اس قبیلے کا وجود آثارِ قدیمہ سے نہیں ملتا۔ چنانچہ عرب کے جس قدر کھنڈرات کھودے گئے ہیں اور جس قدر آثار قدیمہ کا سراغ لگایا گیا ہے اُن میں عاد کا وجود کسی جگہ نہیں ملا۔ لیکن اُن کی یہ بات ثبوت اور دلیل کے طور پر تسلیم نہیں کی جا سکتی۔
اوّلؔتو اِس لئے کہ اُن کا پرانے کھنڈرات کو تلاش کرنا یہ معنے نہیں رکھتا کہ عرب کے سارے کھنڈرات انہوں نے تلاش کر لئے ہیں۔ عرب میں انگریزوں کو تو کوئی جانے ہی نہیں دیتا۔ باہر کے علاقوں میں جہاں اُن کا قبضہ ہے اُنہوں نے کچھ کھنڈرات تلاش کئے ہیں۔ لیکن اُن کھنڈرات میں عاد کے نشانات کا نہ ملنا یہ معنے نہیں رکھتا کہ انہوں نے سارے کھنڈرات کھود لئے ہیں اور اب کوئی بھی ایسا کھنڈر باقی نہیں رہا جسے تلاش کیا جا سکے۔ ہندوستان میں انگریز تین سو سال سے حکومت کر رہے ہیں۔ مگر ہندوستان کے سارے کھنڈرات وہ اب تک نہیں نکال سکے۔ تیس چالیس سال کی بات ہے کہ ٹیکسلہؔ میں اشوؔ کا کا شہر نکلا جو ہندوستان کے بہت بڑے بادشاہوں میں سے تھا اور اب تک پتہ نہیں چلتا تھا کہ اس کا مقام کہاں ہے۔ تیس چالیس سال ہوئے وہاں ایک مقام کو جو ’’شاہ دی ڈھیری‘‘ کہلاتا تھا کھودا گیا تو اشوؔ کا کے محلّات اور اُس کا شہر نکل آیا۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ اشوؔ کا صدر مقام کبھی بنگال میں بتاتے تھے۔ کبھی بہار میں اور کبھی کِسی اور جگہ۔ گویا اُس کے حالات اتنے مخفی تھے کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں رہا تھا کہ وہ کہاں رہتا تھا۔ اتفاقیہ طور پر ایک مقام کو کھودا گیا تو اُس میں سے اشوؔ کا محلّات وغیرہ نِکل آئے۔ حالانکہ وہ ایک زمانہ میں سارے ہندوستان کا بادشاہ تھا۔
اسی طرح سندھ میں مجودھارو کے مقام پر جسے سندھی زبان میں ’’موہنجو ڈیرو‘‘ کہتے ہیں ایسے آثارِ قدیمہ برآمد ہوئے جن سے سندھ کی پُرانی تہذیب کا پتہ چلتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اشوکا کی تہذیب سے بھی پُرانی ہے۔ سندہیوں کو اِس کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ اتفاقًا وہ جگہ کھودی گئی تو نیچے سے ایسے آثار نکل آئے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آج سے دس بارہ ہزار سال پہلے کے ہیں۔ قاعدہ یہ ہے جو بھی جگہ نکلے اُس کے متعلق کہہ دیا جاتا ہے کہ سب سے قدیم تہذیب کے آثار ہیں۔ تھوڑے ہی دن ہوئے جیکب آباد میں ایک جگہ نکلی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس سے بھی پُرانی ہے۔ پس ایک ایسی جگہ میں بھی جہاں صدیوں سے انگریزوں کی حکومت ہے جب وہ ابھی مکمل کھدائی نہیں کر سکے تو عرب کے متعلق یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہاں اُس نے پورے طور پر کھدائی کر لی ہے۔ پس اوّل تو یہ دعویٰ کہ کھدائی میں عاد کا نام نہیں نکلا اگر صحیح ہو تو اس سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ جن کھنڈرات کی یورپین نے کُھدائی کی ہے اُن میں عاد کا نام نہیں نِکلا نہ یہ کہ عاد کا وجود تھا ہی نہیں۔ اگر چین میں بیٹھا ہؤا ایک شخص یہ کہہ دے کہ افریقہ کوئی نہیں تو اِس کے معنے صرف اتنے ہی ہوں گے کہ اُس نے افریقہ کو نہیں دیکھا نہ یہ کہ افریقہ کا کوئی وجود ہی نہیں۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے جب عادِارم سے فرمایا ہے تو اس سے پتہ لگتا ہے کہ عاد کسی ایک قبیلے کا نام نہیں بلکہ مجموعہ قبائل کا نام تھا اور کئی قسم کے عاد تھے اور جبکہ عاد مجموعۂ قبائل کا نام تھا تو جس قبیلے کی بھی حکومت ہو گی وہ اپنا نام لکھتا ہو گا مجموعے کا نہیں لکھتا ہو گا اس وجہ سے خیال کر لینا کہ پُرانے آثار میں عادِ ارم کا نام نہیں ایک مغالطہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو نام بھی کسی پُرانے عرب قبیلے کا نکلے گا اُسے عاد کے قبائل میں سے ہی قرار دینا پڑے گا۔ کیونکہ عربوں کے نزدیک ان کی پُرانی تہذیب عاد قوم کے مرہون منت تھی۔
تیسرا قطعی ثبوت یہ ہے کہ کہ یونانی جغرافیوں میں لکھا ہے کہ یمنؔ میں زمانہ مسیح سے قبل ایک قبیلہ حاکم تھا جس کا نام ’’ایڈرامی ٹائی‘‘ تھا۔ اور یہ لفظ صاف بتا رہا ہے کہ عادِ ارم کا بگڑا ہؤا ہے۔ یوروپین مصنّفوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اس سے مراد عاد نہیں بلکہ حضر موت ہے مگر یہ خیال غلط ہے۔ اولؔ تو اس لئے کہ ’’ایڈرامی ٹائی‘‘ ایک قبیلے کا نام بتایا گیا ہے اور حضرموت شہر کا نام ہے دوسرے حضر موت کے لئے یونانی جغرافیوں میں ہی ایک علیحدہ لفظ موجود ہے۔ چنانچہ جس جغرافیہ میں ’’ایڈرامی ٹائی‘‘ کا ذکر آتا ہے اُسی جغرافیہ میں حضر موت کا نام ’’ایڈرا موٹی ٹائی‘‘ (ADRAMOTITAI) لکھا ہے اور حضر موت کا یہ نام یونانی اور لاطینی دونون کتب میں مذکور ہے معلوم نہیں یوروپین مصنفین نے ان دو فریقوں کے ہوتے ہوئے جب کہ ایک کا نام شہر کا ہے اَور دونوں کو ایک کس طرح قرار دے دیا۔ ’’ایڈرامی ٹائی‘‘ کا لفظ جو عادِ ارم کے متعلق آتا ہے اصل میں ’’ایڈرامی ٹائی‘‘ ہے ٹائی جو آخر میں آتا ہے وہ یونانی نام کی علامت ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایڈ عاد اور رامی ارم ہے اور اس نام سے ملتا ہؤا کوئی قبیلہ عرب کا سوائے عاد ارم کے نہیں ایک مشہور عیسائی مؤرخ اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ عاد کے متعلق مؤرخوں کی سینکڑوں صفحوں کی کتابیں اُس سے زیادہ معلومات بیان نہیں کر سکیں جتنی معلومات قرآن کریم نے اپنے چند الفاظ میں بیان کر دئے ہیں۔ جس قدر قدیم روایات اس سلسلہ میں بیان کی جاتی ہیں اُن کو دیکھنے کے بعد انسان صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہے کہ پُرانی تاریخوں میں عاد ارم کے متعلق جس قدر باتیں بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب لغو اور فضول ہیں سوائے اُس حصّہ کے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ یہ عیسائی مؤرخ شدید دشمنِ اسلام ہے مگر عاد ارم کی تاریخ کے متعلق قرآن کریم کی فضیلت کا اقرار کرنے پر مجبور ہو گیا (دیکھو العرب قبل الاسلام مصنفہ جرجی زیدان)
قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبیلہ بہت طاقتور تھا چنانچہ اگلی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ یُخْلِقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ اس زمانہ تک اتنی طاقت کی کوئی قوم دنیا میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔
قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ احقاف میں رہتے تھے۔ احقاف کے عرب میں دو علاقے ہیں ایک وہ علاقہ ہے جو جنوبی احقاف کہلاتا ہے یہ یمن سے شروع ہو کر صنعاء کے نیچے عدن سے اوپر مشرق کی طرف کو چلا گیا ہے پھر وہاں سے پھیلتا ہؤا شمال کی جانب کو نکل گیا ہے۔ دوسرا علاقہ شمالی احقاف ہے جو بصریٰ سے نیچے کی طرف عراق کے بیابان کے ساتھ ساتھ چلا جاتا ہے۔
غرض احقاف نے عرب کو گھیرا ہؤا ہے ایک نیچے احقاف ہیں اور ایک اوپر کے درمیان میں نجد اور حجاز کے علاقے ہیں۔
احقاف اُن ریت کے ٹیلوں کو کہتے ہیں جو اونچے نیچے خم کھاتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ یہ لوگ وہاں رہتے تھے جہاں اب احقاف ہیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے اِذْکُرْ اَخَا عَادٍط اِذْاَنْذَرَقَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ (الاحقاف ع ۳) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا زور شمالی اور جنوبی عرب میں تھا یا وہ علاقے جو شمالی اور جنوبی احقاف کہلاتے ہیں اُن میں ان لوگوں کا زور تھا۔ تاریخوں میں جو مختلف روایات آتی ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ جنوب سے پھیل کر شمال میں چلے گئے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ثمود قوم جو عاد کا ایک قبیلہ تھی اس کے آخری دَور میں اس کی حکومت شمالی عرب اور جنوبی فلسطین میں تھی اور یہیں اس کے آثار ملتے ہیں۔ چنانچہ حجر بھی اُن کا ایک شہر ہے جو مدینہ ٔ منورہ اور تبوک کے درمیان ہے۔
یہ قوم حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ہوئی ہے چنانچہ قرآن کریم میں اُن کے نبی کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وَاذْکُرُوْآ اِذْجَعَلَکُمْ خُلْفَآئَ مِنْ م بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ (الاعراف ع ۹) یعنی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تم کو نوحؑ کی قوم کے بعد دنیا میں غلبہ عطا کیا۔ پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نوحؑ کے ساتھ براہ راست جس قوم کا تعلق تھا اورجس نے قوم نوحؑ کے بعد عرب میں غلبہ حاصل کیا وہ عاد لوگ تھے۔
تورات میں جو بابل کی تباہی کا ذکر ہے اور جو قومِ نوحؑ کی تباہی تھی معلوم ہوتا ہے اس تباہی کے بعد جو اقوام بابل سے نکل کر پھیل گئیں اُن میں سے ایک قبیلہ جس نے بعد میں ترقی کی اس کا نام عاد تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ہود علیہ السلام اُن کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً (الاعراف ع ۹) یہاں پیدائش کے معنے نسل کے بھی ہیں اور جسم کی بناوٹ کے بھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ قد آور جوان تھے اور اُن کی نسل نے خوب ترقی کرتی تھی۔ اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمالقہ کی نسلیں جو عرب کے شمال میں تھیں وہ انہی لوگوں کے بقایا میں سے تھیں۔
پھر یہ بھی پتہ چلا کہ اس قبیلہ میں شرک کا مرض بھی کثرت سے تھا۔ چنانچہ حضرت ہود علیہ السلام کہتے ہیں یَاقَوْمِ اعْبُدُو االلّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (الاعراف ع ۹) اے میری قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سور تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم شرک میں مبتلا تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بھی چونکہ شرک میں مبتلا تھی اس لئے معلوم ہوتا ہے وہی روایات ان میں بھی آ گئیں۔
پھر یہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں بناتے تھے چنانچہ اسی سورۂ فجر میں ان کو ذات العماء کہا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ و ہ لوگ بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنانے والے تھے۔
پھر قرآن کریم میںیہ بھی بتایا گیا ہے کہ اُن کی تباہی ایک آندھی سے ہوئی تھی جو سات راتیں اور آٹھ دن متواتر اُن پر چلتی رہی۔ اور پھر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ اس طرح تباہ و برباد کر دئے گئے کہ قومی طور پر اُن کا کوئی نشان باقی نہیں رہا چنانچہ فرماتا ہے فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰٓی اِلَّا مَسَاکِھُمْ (احقاف ع ۳) ان کی قوم کا نشان بالکل مٹ گیا ہے صرف اُن کی بڑی بڑی عمارتوں کے آثار باقی رہ گئے ہیں۔
دیکھو یہ بھی کیسی زبردست پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی۔ یوروپین مؤرخ اعتراض کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں عاد کا کہیں نام نہیں ملتا اور وہ اتنا نہیں سوچتے کہ قرآن کریم نے خود کہہ دیا تھا کہ فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰٓی اِلَّا مَسَاکِھُمْ صرف عمارتیں نظر آئیں گی۔ اُن کا نام نظر نہیں آئے گا کیونکہ ہم نے اُن کا نام بالکل مٹا دیا ہے پس اگر انہوں نے یہ نئی تحقیق کی ہے کہ عاد کا نام آثار قدیمہ میں نہیں ملتا تو ہم کہتے ہیں اس سے بھی قرآن کریم کی صداقت ہی ثابت ہوتی ہیت کیونکہ قرآن کریم نے خود کہا تھا کہ آثار قدیمہ کی تلاش ور جستجو کے بعد اُن کی عمارتیں تو ٹوٹی پھوٹی تمہیں مل جائیں گی مگر اُن کا نام نہیں ملے گا۔ پس یہ جملہ قرآن کریم کو باطل کرنے والا نہیں بلکہ اس کی اَور بھی تائید کرنے والا ہے۔ عاد قوم کے بنی حضرت ہودؑ تھے ان کا ذکر قرآن کریم میں سترہ جگہ آیا ہے۔
(۱)ہود۔ اس میں چار جگہ نام آیا ہے۔ (۲)شعراء (۳) قمر (۴)فُصِّلَتْ (۵) اعراف (۶)فجر (۷)ذاریات (۸)ص (۹)ق (۱۰) توبہ (۱۱)ابراہیم (۱۲)حج (۱۳)مومن (۱۴) نجم (۱۵)فرقان (۱۶)عنکبوت (۱۷) احقاف ۔ سورہ ٔفُصّلت میں دو دفعہ اور ہود میں چار دفعہ ذکر آتا ہے اس طرح سارے قرآن کریم میں ان کا ۲۱ دفعہ ذکر کیا گیا ہے۔
میں ان قرآنی حالات کے متعلق ایک عیسائی مؤرخ کا قول پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ان حالات سے زیادہ مکمل اور صحیح حالات ہمیں دنیا کی اور کسی تاریخ سے نہیں مل سکتے۔
اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ
یعنی (عاد) ارم سے جو بڑی بڑی عمارتوں والے تھے ۵؎ وہ جن کی مثل (اقوم) ان ملکوں میں پیدا ہی نہ کی گئی تھی ۶؎
۵؎حل لغات
اَلْعِمَادُ: ۔ کے معنے ہیں اَلْاَبْنِیَۃُ الرَّفِیْعَۃُ اونچی عمارتیں۔ اس کا مفرد عِمَادَۃٌ آتا ہے (اقرب) پس ذَاتِ الْعِمَادِ کے معنے ہوئے۔ بلند اور اونچی عمارتوں والا قبیلہ۔
تفسیر
اِرم عطفِ بیان ہے عاد کے بعد۔ اِرم کے متعلق تین مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ارم قبیلے کا نام ہے اور یہاں ارم قبیلہ سے تعلق رکھنے والے عاد کا ہی ذکر کیا گیا ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ قبیلے کا نام نہیں بلکہ ایک شہر کا نام ہے۔ وہ لوگ بِعَادٍ اِرَمَ کی بجائے بِعَادِ اِرَمَ پڑھتے ہیں یعنی وہ عاد جو ارم جگہ کا رہنے والے تھے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ ہے تو شہر کا نام مگر مراد ہے اِرَمَ صَاحِبِ ذَاتِ الْعِمَادِ یعنی ارم جو بڑی عمارتوں والے تھے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قبیلہ کے لوگ بڑی بڑی عمارتیں بنایا کرتے تھے چنانچہ سورۂ شعراء میں حضرت ہودؑ اُن کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْحٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعٍ لَعَلَّکُمْ تَخْلَدُوْنَ (الشعراء ع ۷ ۱ ۱) یعنی تم لوگ ہر پہاڑی پر شاندار عمارتیں بناتے ہو اور بڑے بڑے کارخانے تیار کرتے ہو اور خیال کرتے ہو کہ تم حوادثِ روزگار سے ہمیشہ محفوظ رہو گے اور کبھی دنیا سے مٹ نہیں سکو گے۔ یہ اس قبیلہ کی ایک امتیازی خصوصیت تھی جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے۔
۶؎تفسیر
لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ سے مراد یہ ہے کہ اس قوم سے پہلے اور کوئی قوم اس جیسی طاقتور نہیں گزری۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر مختلف رنگ میں اس قسم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کو دیکھ کر بعض لوگ اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ ساری قوموں یا سارے لوگوں کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی۔ ایک قوم تو ایسی ہو سکتی ہے جو بے مثال ہو لیکن ہر قوم کے متعلق کہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اُس جیسی پہلے کوئی قوم نہیں گزری۔ اس اعتراض کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ طاقت وقوت میں مقابلہ کبھی ایک ملک سے ہوتا ہے اور کبھی ایک قوم سے۔ اور کبھی ساری دنیا سے۔ اگر بالکل ابتدائی زمانہ ہو اور اُس وقت کسی قوم کے متعلق یہ کہا جائے کہ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ تو اس سے مراد صرف یہ ہو گی کہ اُس سے پہلے اور کوئی قوم اتنی بڑی طاقت حاصل نہیں کر سکی اور اگر مختلف قومیں دنیا میں پھیل چکی ہوں اور مختلف ممالک ہیں مختلف قومیں حکومتیں کر رہی ہوں تو اُس وقت اس قسم کے الفاظ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں اس سے بڑی طاقت ور اور کوئی نہیں تھی گویا یہ الفاظ محض نسبتی ہوتے ہیں کلّی فضیلت مراد نہیں ہوتی۔ انسان کا اپنا فرض ہوتا ہے کہ وہ عقل سے کام لے اور صحیح معنوں کی تعیین کرے۔ ہاں ایمانیات کا معاملہ اس سے مختلف ہے وہاں ایسے قرائن بھی رکھ دئے جاتے ہیںجن سے اس نتیجہ پر پہنچنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ کسی جزوی فضیلت کا ذکر کیا جا رہا ہے یا کلّی فضیلت کا۔ مثلًا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سارے زمانوں کے لئے اور آپ قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے مطاع اور پیشوا ہیں یہ بات چونکہ ایمانیات سے تعلق رکھتی تھی اور ہر وہ شخص جو آپ کی اس فضیلت پر ایمان نہ لاتا روحانی لحاظ سخت مجرم اور گنہگار سمجھا جاتا۔ اِس لئے جہاں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عالمگیر بعثت کاذکر کیا گیا وہاں ایسے قرائن بھی رکھ دئے گئے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سارے زمانوں اور سارے ملکوں کے لئے ہیں آپ کی نبوت سابق انبیاء کی طرح مختص الزمان نہیں ہے لیکن جہاں کسی قوم کی صرف ظاہری طاقت اور شوکت کا اظہار ہو وہاں معقول انسان کا فرض ہے کہ وہ خو اندازہ لگائے اور سوچے کہ یہ نسبتی الفاظ ہیں یا کلّی۔ جیسے قرآن کریم ہمیشہ ذومعانی الفاظ استعمال کرتا ہے لیکن عقلمند انسان دیکھ لیتا ہے کہی اس عبارت میں کون سے معنے چسپاں ہوتے ہیں اور کون سے نہیں۔ بسا اوقات چار میں سے دو معنے چسپاںہو سکتے ہیں۔ قرآن کریم صرف اُسی جگہ قرائن مرجّح رکھتا ہے جہاں معنوں میں ادنیٰ غلطی ایمان میں خرابی پیدا کر دیتی ہو۔ جیسے فرمایا تھا وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق۔ اب طارق کے لفظ سے ایک شبہ پیدا ہو سکتا تھا جس کا مَآاَدْرٰکَ مَاالطَّارِقُ کہہ کر ازالہ کیا۔ کیونکہ طارق کے دو معنے ہیں ایک معنے ہیں رات میں آنے والا اور دوسرے معنے ہیں صبح کا ستارہ۔ چونکہ گزشتہ سورتوں سے ایک نبی کے آنے کی پیشگوئی بیان ہو رہی تھی اس لئے ضروری تھا کہ اس کی حیثیت پر روشنی ڈالی جاتی اور بتایا جاتا کہ اُس کی حیثیت رات میں آنے والے کی سی ہے یا صبح کے ستارے کی سی۔ سو اس کے بعد وَمَآاَدْرٰکَ مَاالطَّارِقُ النَّجْمُ الثَّاقِبُ کہہ کر بتا دیا کہ یہاں کوئی اور معنے مراد نہیں بلکہ صرف النَّجْمُ الثَّاقِبُ والے معنے مراد ہیں۔ یہ قرآن کریم کا دستور ہے کہ وہ جہاں معنوں کی تعیین کرنا چاہتا ہے مَااَدْرٰکَ کے الفاظ لے آتا ہے لیکن دوسرے مقامات پر انسان کو مختلف معنوں کی اجازت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ہم تمہاری عقل پر اعتبار کرتے ہیں عقل سے کام لو اور صحیح معنے کرو۔ پس جہاں مختلف معانی سے کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ بھی کوئی تعیین نہیں کرتا لیکن جہاں کسی خلل کا امکان ہو وہاں اللہ تعالیٰ اپنے مخصوص معنے بتا دیتا ہے جیسے اَلْقَارِعَۃُ مَاالْقَارِعَۃُ کے بعد النَّجْمُ وَمَآاَدْرَاکَ مَاالْقَارِعَۃُ کہہ کر بتا دیا کہ قارعہ کے اگرچہ لُغت میں کئی معنے ہیں لیکن ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اس جگہ اُن معنوں میں سے صرف فلاں معنے مراد ہیں دوسرے معنے کرنے جائز نہیں ہیں۔ غرض جہاں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی یا ایمانیات میں کوئی نقص واقعہ ہونے کا احتمال نہیں ہوتا قرآن کریم آیات کے معانی کو محاورۂ زبان اور عقل صحیح پر چھوڑ دیتا ہے۔
لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ میں بھی کوئی ایسی بات نہیں جس کی کسی خاص پیشگوئی یا ایمانیات پر زد پڑتی ہو اس لئے قرآن کریم نے عمومیت کے رنگ میں یہ ذکر کر دیا ہے کہ وہ لوگ بڑی طاقت والے تھے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنی عقل اور تاریخی معلومات کی بناء پر فیصلہ کریں کہ یہ بات اُس وقت کے زمانہ کے لحاظ سے کہی گئی ہے یا ساری دنیا کے لحاظ سے۔ عاد چونکہ بالکل ابتدائی زمانہ میں ہوئے ہیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں ساری دنیا کے مقابلہ میں ان کی فوقیت کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ بتانان مقصود ہے کہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے یا عرب کے لحاظ سے اُن جیسی طاقتور قوم اور کوئی نہ تھی۔ یہ قرآن کریم کی ایک خاص خوبی ہے کہ اس میں کئی تشریحات کو انسانی عقل پر چھوڑا گیا ہے تا کہ دماغی انحطاط واقعہ نہ ہو۔ قرآن کریم لوگوں کو جاہل نہیں بناتا بلکہ جہاں کسی شبہ کا امکان ہو صرف اس کا ازالہ کرتا ہے اور جہاں ایمانیات میں کسی خطرہ کا امکان ہو اس کو پوری طرح ظاہر کر دیتا ہے تاکہ لوگ ٹھوکر نہ کھائیںاور اُن کا ایمان محفوظ رہے۔
وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ
اور کیا ثمود کے متعلق تجھے معلوم ہے ٭ وادی (القریٰ) میں پہاڑیوں کو کھودتے تھے۷؎
۷؎ حل لغات
جَابُوْا: جَابَ سے جمع کا صیغہ ہے اور جَابَ الثَّوْب (یَجُوْبُہٗ جَوْبًا) کے معنے ہوتے ہیں قَطَعَہٗ۔ اس نے کپڑے کو پھاڑا۔ اور جَابَ الصَّخْرَۃَ کے معنے ہوتے ہیں خَرَقَھَا۔ اس نے پتھر کو کھودا۔ وَمِنْہُ فِی الْقُرْاٰنِ وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ اَیْ قَطَعُوْہُ وَاتَّخَذُوْہُ مَنَازِلَ یعنی قرآن کریم میں جو یہ آتا ہے کہ وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوْا الصَّخْرَ بِالْوَادِ (اقرب) اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ پتھروں کو تراش کر یا اُن کو کاٹ کاٹ کر عمارتیں بناتے تھے گویا اس آیت کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ چٹانوں کو کاٹ کاٹ کر پتھر لاتے اور اپنے لئے پتھروں کی عمارتیں بناتے اور یہ بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ پتھریلی چٹانوں کو کاٹ کاٹ کر ان میں عمارتیں تیار کیا کرتے تھے۔
اَلصَّخْرُ: اَلصَّخْرَۃُ کی جمع ہے اور اَلصَّخْرَۃُ کے معنے ہیں اَلْحَجْرُ الْعَظِیْمُ الصُّلْبُ۔ ایسا بڑا پتھر جو سخت بھی ہو (اقرب) پس اَلَّذِیْنَ جَابُوْا لصَّخْرَ بِالْوَادِ کے معنے ہوئے وہ لوگ جنہوں نے پہاڑ کاٹ کر اور پتھر اکٹھے کر کر کے وادی میں اپنے مکان بنائے یا پہاڑی وادی میں انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر عمارتیں بنائیں۔
تفسیر
ثمود قوم کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر اپنے لئے عمارتیں بنایا کرتی تھی۔ اس قوم کا دارالحکومت حجرؔ تھا جو مدینہ منوّرہ اور تبوک کے درمیان ہے اور اس وادی کو جس میں حجر واقع ہے وادیٔ قریٰ کہا جاتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب غزوۂ تبوک پر جا رہے تھے اور ہزاروں صحابہؓ آپ کے ساتھ تھے۔ چلتے چلتے راستہ میں حجر شہر آیا اور وہاں تھوڑی دیر کے لئے آپ نے پڑائو کیا۔ صحابہؓ نے دیکھا تو انہوں نے اپنے آٹے نکالے اور گوندھ کر کھانا پکانے لگ گئے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اعلان فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہؤا تھا اس لئے یہاں کا پانی کوئی نہ پئے اور نہ کسی اَور مصرف میں لائے چنانچہ حدیث کے الفاظ ہیں۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَزَلَ الْحِجْرَ فِی عَزْوَۃِ تُبُوْکَ اَمَرَھُمْ اَنْ لَایَشْرَبُوْا مِنْ بِئْرِھَا وَلَا یَسْتَقُوْا مِنْھَا فَقَالُوْا قَدْ عَجِنَّا مِنْھا وَاسْتَقَیْنَا فَاَمَرَھُمْ اَنْ یَّطْرَحُوْا ذٰلِکَ الْعَجِیْنَ وَیُھْرِیْقُوْا ذٰلِکَ الْمَائَ (بخاری کتاب الانبیاء) یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غزوۂ تبوک کو جاتے ہوئے حجر مقام پر اُترے تو آپ نے صحابہ کو حکم دے دیا کہ نہ تو وہاں کے کنوئوں کا پانی خود پئیں اور نہ پینے کے لئے ساتھ لیں۔ تو لوگوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ ہم نے تو اس پانی سے آٹے گوندھ لئے ہیں اور پانی بھی لے لیا ہے تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے گوندھے ہوئے آٹے کو پھینکوانے اور جمع شدہ پانی کو گرانے کا حکم دے دیا۔
دیکھو اللہ تعالیٰ کے انبیاء خدا تعالیٰ کے غضب سے کس قدر ڈرا کرتے ہیں۔ کہ باوجود اس کے کہ وہ لوگ مر گئے تھے جب پر غضب نازل ہؤا تھا اور وہ شہر اُجڑ گیا جو اُس غضب کا نشانہ بنا تھا۔ سالوں کے بعد سال اور صدیوں کے بعد صدیاں گذرتی چلی گئیں مگر اس قدر مدت دراز گزرنے کے باوجود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ حالت تھی کہ وہ آج بھی اس مقام پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتے دیکھ رہے تھے آج بھی اس مقام پر خدا تعالیٰ کے فرشتوں کو *** کرتے دیکھ رہے تھے آپ نے اتنا بھی پسند نہ کیا کہ اُس جگہ کے پانی سے گندھا ہؤا آٹا صحابہ استعمال کریں۔ آپ نے فوراً حکم دیا کہ اپنے گندھے ہوئے آٹے کو پھینک دو، سواریوں پر چڑھ جائو اور فوراً اس مقام سے نکل جائو کہ یہ وہ مقام ہے جو خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنا تھا ۔ اسی طرح جہاں خدا تعالیٰ کی رحمت کا کوئی نشان نازل ہو انبیاء اُن مقامات کا نہایت ادب کرتے ہیں اور جب بھی ان جگہوں میں جاتے ہیں اُن کے دلوں پر خدا تعالیٰ کی خشیت طاری ہو جاتی ہے اور سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے وہ کسی اور طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس کے مقابلہ میں لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ نہ خدا تعالیٰ کے غضب کے نشانات اُن کے دلوں میں اُس کی محبت پیدا کرتے ہیں۔ مثلًا مساجد خدا کا گھر کہلاتی ہیں اور مساجد وہ مقام ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے مخصوص ہیں مگر لوگ جب مسجد میں آتے ہیں تو ہزاہا قسم کی بکواس کرتے ہیں، آپس میں دنیوی معاملات پر لڑتے جھگڑتے ہیں، ایک دوسرے کو جوش میں گالیاں بھی دیتے ہیں، غیبت بھی کر لیتے ہیں اور انہیں بھی ذرا بھی یہ احساس نہیں ہوتاکہ وہ خدا کے گھر میں بیٹھ کر کس قسم کی شرمناک حرکات کر رہے ہیں۔ اُنہیں تو چاہئیے تھا کہ وہ جب تک مساجد میں رہتے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اُن کی زبانیں تر رہتیںمگر وہ بجائے ذکر الٰہی کرنے کے دنیوی امور میں اپنے قیمتی وقت کو ضائع کر کے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مرتکب بن جاتے ہیں تم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خدا تعالیٰ کے غضب کے مقام کو کتنا بُرا جانا اور کس طرح اُس سے نفر ت کا اظہار کیا کہ گُندھا ہؤا آٹا پھنکوا دیا۔ اور یہ پسند نہ کیا کہ اُس آٹے کا ایک لقمہ تک کسی صحابی کے اندر جائے حالانکہ وہ ایام سخت تنگی کے تھے۔ صحابہ کی مالی اور اقتصادی حالت سخت کمزور تھی۔ خود صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بعض دفعہ کھجوروں کی گٹھلیاں کھا کھا کر گذارہ کیا کرتے تھے۔ اس تنگی کے باوجود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے منوں آٹا پھینکوا دیا اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کی کہ لشکر کیا بنے گا۔ اس غزوہ میں تین ہزار صحابی آپ کے ساتھ تھا۔ اگر فی کس ایک پائو آٹے کا بھی اندازہ لگایا جائے تو قریبًا آٹھ سو سیر یا بیس من کے قریب آٹا ایسے زمانہ میں جب اُن کے پاس کھانے پینے کے وافر سامان نہیں ہؤا کرتے تھے حُکمًا پھینکوا دیا گیا۔
یہ ہے خشیت جو لوگوں دل میں ہونی چاہئیے اور جس اسلام ہر مومن سے تقاضا کرتا ہے۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خود ہماری جماعت میں سے بعض لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب وہ مقبرہ بہشتی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر دعا کرنے کے لئے جاتے ہیں تو اُن میں سے بعض درختوں کا پھل توڑ کر کھانے لگ جاتے ہیں۔ گویا بجائے اس کے کہ مقبرہ بہشتی میں جا کر اُن کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا ہواور دعا پر زور دیں کھانے پینے کا خیال اُن کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مساجد میں اس قسم کی باتیں ہوتی ہیںاور اس قدر شور بعض لوگوں نے مچایا ہؤا ہوتا ہے کہ تعجب آتا ہے کیوں ابھی تک لوگوں کو اتنی موٹی بات معلوم نہیں ہوئی کہ انہیں مساجد کا احترام کرنا چاہئیے اور لغو باتوں کی بجائے ذکر الٰہی میں اپنا وقت گزارنا چاہئیے۔
مومن کے ایمان کی سچی علامت یہی ہے کہ جب وہ کسی ایسے مقام سے گزرے جو خدا تعالیٰ کے کسی عذاب کو یاد دلانے والا ہو تو وہاں اُس کے اعضاء اور جوراح سے کسی قسم کی بیباکی ظاہر نہ ہوتی ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت اُس دل پر طاری ہواور وہ اُس عذاب کو اپنی آنکھوں سے اِس طرح دیکھ رہا ہو جس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حجر میں اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتے دیکھا۔ اسی طرح جب وہ مسجد میں آئے یا کسی ایسی جگہ جائے جہاں خدا تعالیٰ نے اپنا کوئی نشان ظاہر کیا ہو تو وہاں فضول اور لغو باتیں نہ کرے بلکہ ذکر الٰہی اور خدا تعالیٰ کی یاد کرے۔ نمازیں پڑھے دعائوں میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ سے زیادہ جذب کرنے کی کوشش کرے یا اگر باتیں ہی کرنی ہیں تو دین کی باتیں کرے۔ جیسے ہم اپنی مساجد میں جب بیٹھتے ہیں تو ہمیشہ دین کی باتیں کرتے ہیں یا ایسی دنیوی باتیں بھی کر لیتے ہیں جو دین سے تعلق رکھتی ہیں مگر یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ مساجد میں بیٹھ کر سودا سلف کی باتیں شروع کر دی جائیں یا گھر کے جھگڑے بیان ہونے لگ جائیںیا ایک دوسرے کی غیبت شروع ہو جائے یہ ساری باتیں سخت معیوب ہیں اور انسان کو خدا تعالیٰ کی نظر میں بنا دیتی ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس نمونہ کو ہر وقت اپنے سامنے رکھو کہ آپ حجر مقام پر اُترے مگر تھوڑی دیر کے بعد گھبرا کر کھڑے ہو گئے اور صحابہؓ سے فرمایا کہ چلو یہاں سے یہ وہ مقام ہے جہاں خدا کا عذاب نازل ہؤا تھا۔
ثمود قوم کے نبی حضرت صالحؓ تھے۔ صالح عربی زبان کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صالح عربک کے ایک ہی نبی تھے۔ قرآن کریم سے یہ بھی پتہ لگتا ہے یہ لوگ عاد کے بعد ہوئے ہیں۔ چنانچہ فرماتا وَاذْکرُوْآ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْم بَعْدِ عَادٍ (الاعراف ع ۰ ۱ ۷ ا) اُس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں عاد کے بعد اُن کا قائم مقام بنایا۔ اس سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ عاد بھی عرب ہی تھے۔
آثار قدیمہ کی تلاش اور جستجو کے سلسلہ میں قوم ثمود کے کتبے بھی دستیاب ہوئے ہیں اور یوروپین لوگوں نے ان کتبوں کو تسلیم کیا ہے یہ کتبے عرب کے شمالی حصّوں سے ملے ہیں جس سے اُن عرب جغرافیہ نویسوں کی تائید ہوتی ہے جن کا یہ خیال ہے کہ ثمود قوم جنوب سے ہجرت کر کے شمال کی طرف آئی تھی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کچھ مصر کی طرف بھی بڑھے تھے۔ بہرحال قومِ ثمود عاد کے بعد ہوئی ہے اور جب کہ عاد کو نوحؑ کی قوم کا قائم مقام قرار دیا گیا ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حضرت نوحؑ بھی عرب کے کسی علاقہ میں ہی مبعوث ہوئے تھے اور پھر اس سے عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے کا بھی ایک ثبوت مل گیا۔
قرآن کریم دعویٰ کرتا ہے کہ ابتدائی زبان عربی تھی اور یہی زبان باقی تمام زبانوں کی اُم ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ دشمن اس بات کو تسلیم نہ کرے لیکن قرآن کریم یہی کہتا ہے کہ ابتدائی نسل کی زبان عربی تھی۔ اس کا ثبوت اس امر سے بھی ملتا ہے کہ قرآن کریم حضرت نوحؑ کو آدم کے معًا بعد قرار دیتا ہے۔ اب اگر نوحؑ تک یہ سلسلہ پہنچ جائے اور ثابت ہو جائے کہ حضرت نوحؑ عربی نسل سے تعلق رکھتے تھے تو ساتھ ہی عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔
یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ قوم ثمود، عاد کی قائم مقام تھی اور عاد، نوحؑ کی قائم مقام تھی اور چونکہ ثمود اور عاد دونوں عربی اقوام ہیں اس لئے معلوم ہؤا کہ حضرت نوحؑ بھی عرب کے کسی علاقہ میں مبعوث ہوئے تھے اور تاریخ سے بھی حضرت نوحؑ کا مقام عراق میں ہی ثابت ہوتا ہے جب حضرت نوحؑ تک یہ زبان پہنچ گئی تو نوحؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وہ آدمؑ کے معًا بعد ہوئے بتاتا ہے کہ ابتدائے عالم کی زبان عربی تھی کیونکہ نسل انسانی کا آغاز عرب سے مانا جائے تو لازمًا اُس ملک کی زبان کو بھی اُم الالسنہ تسلیم کرنا پڑے گا بہرحال عرب اور اس کے متعلقہ علاقہ سے ابتدائے تہذیب کے وابستہ ہونے کا دعویٰ ان آیات سے مستنبط ہوتا ہے اور تاریخی واقعات اس دعویٰ کی تائید کرتے ہیں۔
ثمود کا ذکر قرآن کریم میں ۲۱ جگہ آیا ہے
(۱) ہود (۲) شعراء (۳) قمر (۴) ھآقہ (۵) شمس (۶) اسرائیل (۷) اعراف (۸) نمل (۹) فُصِّلت (۱۰) ذاریات (۱۱) توبہ (۱۲) ابراہیم (۱۳) حج (۱۴) مومن (۱۵) ص (۱۶) فرقان (۱۷) عنکبوت (۱۸) ق (۱۹) فجر (۲۰) بروج (۲۱)نجم
(ثمود اور صالحؑ اور اُن کے واقعہ کے لئے دیکھئے تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۲۱۱ تا صفحہ ۲۱۷ نوٹ نمبر ۶۰ تا ۶۵)
وَفِرْعَوْنَ
اور فرعون (کے متعلق بھی تجھے معلوم ہے) جو پہاڑوں کا مالک تھا۔ (کیا تجھے) ان سب لوگوں کا (حال معلوم ہے) جنہوں نے شہروں میں سرکشی کی تھی۸؎
۸؎ حل لغات
اَوْتَادٌ وَتَدٌ کی جمع ہے اور وَتَدٌ اس کھونٹے یا لکڑی کے اُس کیلے کو کہتے ہیں جو دیوار یا زمین میں گاڑا جاتا ہے اَوْتَادُ الْاَرْضِ پہاڑوں کو کہتے ہیں اَوْتَادُ الْقَمِ دانتوں کو کہا جاتا ہے (اقرب) اس لحاظ سے آیت کے کئی معنے ہو جائیں گے یہ بھی کہ وُہ فرعون جو خیموں والا تھا۔ یا یہ کہ وہ فرعون جو پہاڑوں والا تھا یا بڑی بڑی عمارتوں والا تھا (بلند وبالا اور اونچی عمارت پر بھی وَتَد کا لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد زمین میں نہایت گہری کھودی جاتی ہے)
طَغَوْا: طَغٰی سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور طَغٰی کے معنے ہوتے ہیں اَسْرَفَ فِی الْمَعَاصِیْ والظُّلْمِ۔ کہ ظلم اور گناہوں میں حد سے بڑھ گیا (اقرب) پس طَغَوْا کے معنے ہوئے وہ ظلم اور گناہوں میں حد سے بڑھ گئے۔
تفسیر
اس آیت میں فرعون اور اس کی قوم کے تمدّن کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس قوم کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنایا کرتی تھی۔ یہ لازمی بات ہے کہ جو بھی اونچ عمارتیں بنائی جائیں گی اس کی بنیاد باقی عمارات کی نسبت زیادہ گہری رکھنی پڑے گی چنانچہ قدیم مصری عمارتیں بہت بلند ہیں اہرام مصر اپنی بلندی اور شان دنیا میں اپنی نظیر آپ ہے۔
دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ خیموں والا تھا۔ مراد یہ ہے کہ وہ ایک متمدن ملک کا بادشاہ تھا اُس میں آمدورفت کے لئے بڑی بڑی سڑکیں تھیں اور کشتیوں کے ذریعہ دُور دُور سفر ہو سکتا تھا اس وجہ سے بادشاہ ہمیشہ ملک میں دَورہ کرتا رہتا تھا۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ فرعون مصر کے وقت ملک بہت متمدّن ہو گیا تھا۔ وہاں ہر قسم کی سہولتیں لوگوں کو میسّر تھیں اور ان کی طرز رہائش بادیہ نشین لوگوں کی طرح نہیں رہی تھی بلکہ وہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں بناتے تھے سڑکیں تیار کرتے تھے اور بادشاہ دورہ کر کے ملک کے حالات دیکھتا رہتا تھا۔ جن ملکوں میں عمارتوں کا رواج نہ ہو۔ اگر اُن کے بادشاہ کے متعلق کہا جائے کہ وہ ذِیْ الْاَوْتَاد تھا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ گو وہ بادیہ نشین تھا مگر بڑی طاقت والا تھا۔ لیکن جب کسی شہر ی قوم کے متعلق ہم یہ الفاظ استعمال کریں گے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ قوم متمدّن تھی۔ آمدورفت کے لئے ملک میں بڑی بڑی سڑکیں تھیں۔ اسی طرح دریا کے راستے کھلے تھے اور بادشاہ اور مختلف احکام کشتیوں کے زریعہ دَورے کرتے رہتے تھے۔
پھر اَوْتَاد کے معنے رؤسا کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ صرف بادشاہ ہی نہیں تھا بلکہ شہنشاہ تھا۔ بڑے بڑے بادشاہ اور نواب اس کے ماتحت تھے اور وہ اپنی اپنی جگہ بادشاہ سمجھے جاتے تھے او ر لوگوں پر ان کی حکومت حاصل تھی۔
ذِیْ الْاَوْتَادِ کے ایک معنے جبل حکومت کے بھی ہیں اور فِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ کہہ کر بتایا گیا ہے کہ اَوْتَادُ الْاَرْضِ یعنی جبال بھی اس کے ماتحت تھے یعنی اُس کے زمانہ میں مصر کا پھیلائو بہت زیادہ تھا۔ یہاں تک کہ خرطوم وغیرہ کے علاقے یا ایبے سینیا کے کچھ علاقے جو اب مصر سے باہر ہیں وہ بھی اس کے ماتحت ہوتے تھے۔ چنانچہ پُرانے آثار اب اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ مصری حکومت کا دائرہ بہت وسیع تھا اور بعض پہاڑی علاقے بھی اُس کے اندر شامل تھے۔
فَاَکْثَرُوْا
جس کے نتیجہ میں انہوں نے ان (شہروں) میں بے حد فساد پیدا کر دیا تھا۹؎
۹؎تفسیر
یُوں تو ہر برائی قابلِ نفرت ہے مگر دو جوہ سے بُرائیاں نہایت بھیانک شکل اختیار کر لیتی ہیں ایکؔ اپنی کثرت کی وجہ سے۔ دوسرےؔ بڑے بڑے جرائم پر مشتمل ہونے کی وجہ سے۔ جب کسی قوم میں کثرت سے جرائم پائے جائیں اور پھر وہ جرائم ایسے ہوں جو نہایت سنگین ہوں اور بڑی بڑی خطرناک برائیوں پر مشتمل ہوں تو اس قوم کی تباہی اور بربادی کی ساعت تو بالکل ہی قریب آ جاتی ہے۔
اَکْـثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ کی آیت کو صرف فرعون اور اُس کی قوم پر بھی چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ مناسب یہی ہے کہ اَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ کو تینوں قوموں کے ساتھ لگایا جائے گو صرف فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ بھی لگ سکتا ہے۔
فساد بڑے جرائم کے لئے بولا جاتا ہے اور اَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ کہہ کر اس آیت میں بتایا ہے کہ ان لوگوں نے بڑے بڑے جرم بھی کئے اور پھر کثرت سے کئے۔ مثلًا اِن اقوام میں شرک کی خطرناک وبا تھی اور پھر کثرت سے شرک پھیلا ہؤا تھا اور اگر شرک کے علاوہ اور جرائم بھی لئے جائیں تو معنے یہ ہوں گے کہ وہ شرک بھی کرتے تھے اور دوسری خرابیاں بھی اُن میںپائی جاتی تھیں۔ مثلًا ظلم کر لینا یا دوسروں کا حق مار لینا بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہوں نے فساد کو انتہاء تک پہنچا دیا تھا۔
یہاں تین قوموں کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے عاد۔ ثمود اور فرعون کی قوم کو۔ عاد اور ثمود یہ دونوں قومیں عرب کی تھیں اور فرعون کی قوم مصر سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ تین مثالیں اللہ تعالیٰ بلاوجہ بیان نہیں کیں بلکہ اس لئے بیان کی ہیں کہ یہاں دو زمانوں کی خبر دی گئی تھی۔ ایکؔ اُس زمانہ کی جس میں مکہ والوں کے مظالم کی وجہ سے مسلمانوں پر دس تاریک راتیں آنے والی تھیں اور ایکؔ زمانہ مسیح موعودؑ کی۔ پہلی لیالی کا موجب چونکہ عرب لوگ تھے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی مثال اُن کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے تمہارے ملک میں وہ بڑی بڑی حکومتیں گزر چکی ہیں ایک تمہارے جنوب میں تھی اور دوسری تمہارے شمال میں تھی۔ ان دونوں حالات پر غور کرو اور سوچو کہ جب ان لوگوں نے انبیاء کا مقابلہ کیا اور فسادات کو انتہاء تک پہنچا دیا تو اللہ تعالیٰ نے کس طرح اُن کا نام و نشان مٹا دیا۔ باجود اس کے کہ یہ قومیں بڑی طاقت رکھتی تھیں پھر بھی جب انبیاء کے مقابلہ میں کھڑی ہوئیں خدا تعالیٰ نے ان کو تباہ و برباد کر دیااور اُن کی طاقت اُن کے کچھ بھی کام نہ آئی۔ تمہاری تو اُن کے مقابلہ میں کوئی نسبت ہی نہیں پھر کیوں تم اُن کے حالات سے عبرت نہیں پکڑتے اور کیوں محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مقابلہ کر رہے ہو۔ اگر تم نے یہی طریق جاری رکھا تو جو سلوک ہم نے عاد اور ثمود سے کیا تھا وہ تمہارے ساتھ کریں گے۔ تم مت سمجھو کہ ان مظالم کے نتیجہ میں تم کامیاب ہو جائو گے جس طرح آج مسلمانوں پر تم مختلف قسم کے مظالم ڈھا رہے ہو اور تم نے اُن کے دنوں کو بھی رات بنا دیا ہے۔ اِسی طرح عاد اور ثمود نے بھی بڑی بڑی شرارتیں کی تھیں اور پھر حد سے زیادہ شرارتیں کی تھیں مگر پھر بھی وہ ناکام رہے حدیثوں سے پتہ لگتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا جرم کسی نبی کو قتل کرنا ہے ان لوگوں نے بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا جیسا کہ فرماتا ہے وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُتْبِتُوْکَ اَوْیَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ (انفال ع ۴ ۸ ۱)پھر مکّہ والے شرک میں بھی مبتلا تھے اور شرک وہ گناہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ظلم عظیم قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّا الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان ع ۲ ۱ ۱) پھر اَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ کے دوسرے معنوں کے مطابق کفّار مکّہ نے نہ صرف بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کیا بلکہ مظالم کو انتہاء تک پہنچا دیا۔ جو شخص بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لایا انہوں نے اُس کو دکھ دینا شروع کر دیا بلکہ وہ تلاش کر کر کے مسلمانوں کو پکڑتے اور ان کو بڑی بے دردی سے مارتے پیٹتے اور مختلف رنگوں میں عذاب دیتے یہاں تک کہ کئی مسلمان بھاگ کر ایبے سینیا چلے گئے مگر اُن کا جوش پھر بھی نہ تھما اور حبشہ تک محض اس لئے گئے کہ مسلمانوں کو پکڑ کر واپس لائیں۔ اور اُن کو اپنے مظالم کا تختۂ مشق بنائے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مکّہ والو! پہلی قومیں بھی تمارے ملک میں ایسی گزرچکی ہیں جنہوں نے فسادات کو انتہات تک پہنچا دیا تھا۔ تم یہ نہ سمجھو کہ تمہاری یہ سرکشی اور ظلم تمہارے حق میں مفید ہو گا۔ وہ قومیں بھی اسی خیال میں مبتلا رہی تھیں کہ ہم خوب ظلم ڈھا رہی ہیں مگر آخر ایک دن وہ تباہ وبرباد کر دی گئیں۔ اسی طرح تم ایک دن خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن جائو گے اور عاد اور ثمود کی طرح دنیا سے مٹ جائو گے۔
اس کے بعد فرعون کا ذکر کیا۔ میرے نزدیک اس میں مسیح موعودؑ کے زمانہ کی خبر ہے۔ میں ابھی تک تفصیل سے نہیں بتا سکتا کہ کیوں؟ مگر وہ باتیں میں بیان کر دیتا ہوں جن کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ اس مثال کا مسیح موعودؑ کے زمانہ کے ساتھ کیا تعلق ہے اور وہ باتیں یہ ہیں۔ کہ اوّلؔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ محرم کی دسویں رات ایک خاص شان اور عظمت رکھتی ہے کیونکہ اس دن میں خدا تعالیٰ نے موسٰیؑ کو فرعون سے نجات دی اور میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ میری اُمت کو اس دن ایک عذاب سے نجات ملے گی۔ گو بظاہر یہاں فرعون اور اس کے مظالم سے نجات کے الفاظ ہیں مگر ان میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس رنگ میں کوئی واقعہ آئندہ ہونے والا ہے۔ دوسریؔ دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں مَیں نے
’’دیکھا کہ میں مصر کے دریائے نیل پر کھڑا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں اور میں اپنے آپ کو موسٰیؑ سمجھتا ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں نظر اٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہؤا کہ فرعون ایک لشکر کثیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے اور اس کے ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے گاڑیوں رتھوں وغیرہ کے ہے اور ہمارے بہت قریب آ گیا ہے۔ میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں اور اکثر ان میں سے بے دل ہو گئے ہیں اور بلند آواز میں چلاّتے ہیں کہ اے موسٰیؑ ہم پکڑے گئے تو مَیں نے بلند آواز سے کہا
کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَھْدِیْن
اتنے میں مَیں بیدار ہو گیا اور زبان پر یہی الفاظ جاری تھے (تذکرہ صفحہ ۴۲۹) اسی طرح آپ کا ایک یہ بھی الہام ہے:۔
یَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی (تذکرہ صفحہ ۴۲۳)
کہ تجھ پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جو موسٰیؑ کے زمانہ کی طرح ہو گا۔ پس جبکہ حدیث میں اشارہ ہے کہ موسٰیؑ کی طرح ایک واقعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں ہونے والا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ اب تک کوئی ایسا واقعہ نہیں ہؤا۔ دوسری طرف خدا تعالیٰ کا وہ مامور جودہ زمانہ میں آیا، اُسے بتایا گیا کہی وہ موسٰیؑ ہے‘ فرعون اُس کا پیچھا کرے گا اس کے ساتھی گھبرا جائیں گے اور کہیں گے کہ اے موسٰیؑ ہم پکڑے گئے اُس وقت موسٰیؑ بلند آواز سے کہے گا کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَھْدِیْن ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا خدا میرے ساتھ ہے۔
اِن دو الہامات کے ساتھ اگر میرے اس رؤیا کو بھی ملا لیا جائے جو الفضل میں شائع ہو چکا ہے کہ میں ایک مکان میںٹھہرا ہؤا ہوں۔
’’اُس وقت میرے دل میں خیال آتا ہے کہ جس مکان میں ٹھہرا ہؤا ہوں حضرت موسٰیؑ نے بھی اسی میں پناہ لی تھی۔ ‘‘(الفضل جلد ۳۲ نمبر ۱۴۳ صفحہ۱ مورخہ ۲۰جون ۱۹۴۴)
تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ آئندہ کے متعلق ایک پیشگوئی ہے جو لَیَالِی عَشْر کے دوسرے ظہور میں گیارہویں رات یعنی انیسویں صدی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ پوری ہو گی اور موسٰیؑ کی مصر سے نجات کی قسم کا کوئی واقعہ جماعتِ احمدیہ کو پیش آئے گا۔
پس چونکہ یہاں مسیح موعود کا بھی ذکر تھا اس لئے جہاں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنون کے لئے عاد اور ثمود کی مثال دی وہاں مسیح موعود کے دشمنوں کے لئے فرعون کا واقعہ بطور مثال پیش کیا گیا۔
فِصِبَّ عَلَیْھِمْ
اس پر تیرے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۱۰
۱۰؎حل لغات
صَبَّ: صَبَّ الْمَآئَ کے معنے ہوتے ہیں۔ اُس نے پانی بہا دیا۔ صَبَّ لازم بھی ہے اور متعدّی بھی یعنی صَبَّ کے معنے بہانے کے بھی ہیں اور بہنے کے بھی ہیں۔
سَوْطٌ: کوڑے کوبھی کہتے ہیں اور سَوْطٌ کے معنے حصہ کے بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح سَوْطٌ جوہڑ کو بھی کہتے ہیں یعنی اُس نشیب دار زمین کو بھی سَوْطٌ کہا جا تا ہے جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے (اقرب)
تفسیر
اگر سَوْطٌ کے معنے کوڑے کے لئے جائیں تو صَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطٌ عَذَابٍ کے یہ معنے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کے اُوپر عذاب کے کوڑے برسا دئے۔ ہمارے ملک میں کوڑوں کے متعلق برسانے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہی محاورہ یہاں استعمال کیا گیا ہے کہ اُن پر تیرے رب نے عذاب کے کوڑے برسانے شروع کر دئے جس طرح قطرہ کے بعد قطرہ گرتا ہے اسی طرح اُن پر عذاب کے بعد عذاب نازل ہو گا۔ اور انہیں ہوش ہی نہیں آئے گا۔ یہاں تک کہ وہ تباہ ہو جائیں گے۔
اگر سَوْط کے معنے حصہ کے کئے جائیں تو اِس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اس قوم کا عذاب الٰہی میں جو حصہ مقدر تھا اس کے متعلق اُسے کہا جائے گا کہ لو اپنا سارا حصہ عذاب کا لے لو۔ تم نے ہمارے نبیّوں کو دکھ دیا تھا انہوں نے اپنا حصہ دکھوں میں سے لے لیا اور تم اپنا حصہ لو۔
اگر سَوْط کے معنے جوہڑ کے کئے جائیں تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ عذاب کا جوہڑ سارے کا سارا اُن پر الٹا دیا جائے گا۔ چونکہ سَوْط اُس نشیب دار زمین کو بھی کہتے ہیں جس میں پانی جمع ہو جاتا ہے اس لئے سَوْط کہہ کر اس طرف اشارہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے احکام نازل ہو کر اُن کا ذخیرہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ ایک دن سارے کا سارا جوہڑ اُن پر اُلٹا دیا جائے گا۔
اِنَّ رَبِّکَ
تیرا رب یقینا گھات میں (لگا ہؤا) ہے۱۱؎
۱۱؎تفسیر
فرماتا ہے تیرا رب مجرموںکی گھات میں رہتا ہے جب وہ اُن کو پکڑتا ہے تو اکٹھا پکڑتا ہے۔ کہتے ہیں سَو سُنار کی اور ایک لوہار کی۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ وہ ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے اور مجرم انسان سمجھتا ہے کہ مجھے میرے بُرے کاموں کی سزا نہ ملے گی۔ مگر آخر ایک دن ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اُسے تباہ وبرباد کر دیتا ہے۔ یہی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ سلوک ہو گا۔ ہم اُن کو ڈھیل دیں گے اور گیارہ سال تک دیتے چلے جائیں گے مگر آخر ایک دن آئے گا جب قیدار کی حشمت کو خاک میں ملا دیا جائے گا۔ اور مومنوں کے دکھ کو خوشی میں بدل دیا جائے گا۔ اِسی طرح اس پیشگوئی کے دوسرے ظہور کے وقت انیسویں صدی٭میں کوئی فرعون اتنا خطرناک ظلم کرے گا کہ جماعت پکار اٹھے گی۔ یٰمُوْسٰی اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ اے موسٰی اب تو ہماری تباہی سر پر آ پہنچی۔ اب ہم کس طرح اس فرعون کے پنچۂ ظلم سے بچ نہیں سکتے اُس وقت جماعت کا جو بھی لیڈر ہو گا وہ موسٰیؑ کی طرح اپنے ساتھیوں کو کہے گا کَلَّا یہ بالکل غلط بات ہے کہ دشمن تمہیں تباہ و برباد کر دے گا۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْن۔ میرے ساتھ میرا رب ہے اور وہ مجھے ہدایت دے دے گا۔
میں نے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کی تشریح کر تے ہوئے بیان کیا تھا کہ جب کفار غار ثور کے مُنہ پر پہنچ گئے اور حضرت ابوبکرؓ کو گھبراہٹ طاری ہوئی تو اُس وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِن الفاظ میں اُن کو تسلّی دی کہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا یعنی غم مت کر ایک وتر بھی ہمارے ساتھ ہے۔ اسی طرح جماعت احمدیہ کسی فرعون کے مظالم کی وجہ سے سخت گھبرا اُٹھے گی اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جماعت احمدیہ کو روحانی طور پر اُس کے خلیفہ اور امام کی زبان سے کیونکہ وہ دو نہیں بلکہ ایک ہی وجود ہوں گے۔ جب کہ وہ غم وہم کے تمثیلی سمندر کے کنارے پر کھڑا ہو گا۔ یاممکن ہے کے مصر یا اور کسی ملک میں ایسے ہی حالات پیدا ہونے پر۔ اوپر واقعہ دریائے نیل کے کنارے پر یا اور کسی دریا کے کنارے پر بڑے جاہ وجلال سے فرمائیں گے کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَھْدِیْن کَلَّا کے معنے یہی ہیں کہ لَاتَحْزَنْ غم مت کرو اِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَھْدِیْن میرے ساتھ میرا رب ہے یعنی ایک وتر بھی میرے ساتھ ہے۔ اور وہ اس لَیْل میں سے ہمیں نکال کر لے جائے گا۔
فَاَمَّا الْاِنْسَانُ
پس (ذرا دیکھو تو) انسا ن کی حالت (کو جو) یہ ہے کہ جب اس کارب اسے ازمائش میں ڈالتا ہے۔اور اس کی عزت کرتا ہے۔ اور اس پر ہر نعمت کرتا ہے۔ تو وہ کہتا ہے کہ (دیکھو میں ایسا ذی شان ہوںکہ) میرے رب نے (بھی) میری عزّت کی۔ اور جب اَزمائش میں ڈالتا ہے۔ اور اس کے رزق کو تنگ کرتا ہے۔ تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میری (بلاوجہ) بے عزتی کی۱۲؎
۱۲؎حل لغات
اِبْتَلَاہُ: کے معنے ہوتے ہیں اِخْتَبَرَہٗ۔ اس کی حقیقت کو ظاہر کیا اور اِبْتَلَی الْاَمْرَ کے معنے ہوتے ہیں عَرَفَہٗ۔ اس کو جان لیا۔ اصل میں یہ لفظ بَلِیَ یَبْلٰی ہے اور بَلَاہٗ یَبْلُوْہُ (بَلْوًَا) بھی استعمال کیا جاتا ہے بَلِی الثَّوْبُ کے معنے ہوتے ہیں خَلَقَ کپڑا پُرانا ہو گیا اور گھس گیا اور بَلَاہٗ (یَبْلُوْہُ بَلْوًا) کے معنے ہیں جَرَّبَہٗ وَاخْتَبَرَہُ۔ اس کا تجربہ کیا۔ اُس کی حقیقت کو ظاہر کیا اور اس کے اندرونہ کو معلوم کیا۔ مفردات والے لکھتے ہیں کہ بَلَوْتُہٗ کے معنے اِخْتَبَرْتُہٗ کے اس لئے ہیں کہ خواہ یہ لفظ بَلِیَ یَبْلٰی سے ہو یا بَلَاہٗ یَبْلُوْہُ بَلْوًا اسے دونوں صورتوں میں اس میںپُرانے ہونے کی حقیقت پائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں بَلَوْتُہٗ: اِخْتَبَرْتُہٗ کَاَنّٰیِْ اَخْلَقْتُہٗ مِنْ کَثْرَۃِ اِخْتِبَارِیْ لَہٗ یعنی بَلَوْتُہٗ کے معنے اِخْتَبَرْتُہٗ ا س لئے جاتے ہیں کہ اس میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ مَیں نے اسے بار بار دیکھ کر پُرانا کر دیا ہے۔ اسی لئے ابتلاء کا لفظ ایسے امر کے متعلق استعمال کیا جاتا ہے جس کی انسان پوری طرح تحقیق کرے۔ جیسے انسان کپڑا خرید کر لاتا ہے تو عورتیں اس کپڑے کو ہاتھوں سے گھستی ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ اُس کی مایا کیسی ہے یا اُس کا رنگ اُترے گا کہ نہیں یہ بار بار دیکھنا اس لئے ہوتا ہے تاکہ رائے پختہ ہو جائے۔ اس بار بار کے فعل سے چونکہ چیز پرانی ہوتی ہے اس لئے بَلِیَ کا لفظ اسی حقیقت کے اشتمال کی وجہ سے بولا جاتا ہے (پنجابی میں بھی محاورہ ہے کہ یہ چیز تو میری ہنڈائی ہوئی ہے یعنی کثرت سے اس کا میرے ساتھ واسطہ معاملہ پڑا ہے اور میں اس کی حقیقت سے واقف ہوں) اسی طرح تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ مَااَسْلَقَتْ کے معنے ہیں تَعْرِفُ حَقِیْقَۃَ مَا عَمِلَتْ یعنی ہر شخص اپنے اعمال کی حقیقت کو جان لے گا۔ وُسُمِّیَ الْغَمُّ بَلَائً مِنْ حَیْثُ اَنَّہٗ یُبْلِی الْجِسْمَ۔ غم کو بھی اسی لئے بَلَاء کہتے ہیں کہ وُہ جسم کو دُبلا کر دیتا ہے اور اس کی طاقت کو کمزور کر دیتا ہے اسی طرح صاحب مفردات لکھتے ہیں سُمِّیَ التَکْلِیفَ بَلَائً مِنْ اَوْجُہٍ تکلیف کو بھی عربی میں بَلَاء کہتے ہیں اور اس کی کئی وجوہ ہیں اَحَدُھَا اَنَّ التَّکَالِیْفَ کُلَّھَا شَاقٌ عَلَی الْاَبْدَانِ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جب تکلفیں آتی ہیں انسا پر ایک بوجھل کام آ پڑتا ہے اور اُن تکالیف کا س کے جسم پر اثر پڑتا ہے اس لئے ان کو بلا کہتے ہیں وَالثَّانِیْ اَلَّھَا اِخْتِبَارَاتٌ دوسرے اس لئے کہ جب انسا ن پر بوجھ پڑتا ہے تبھی اس کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔ وہ شخص جسے کسی بڑی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا اُس کی بہادری کا کس طرح پتہ چل سکتا ہے یا جسے متواتر بوجھ اٹھانے کا موقع نہیں ملا اس کا استقلال کس طرح نظر آ سکتا ہے۔ یوں تو ہر شخص اپنے متعلق سمجھ لیتا ہے کہ میں بڑا واقف اور ماہر ہوں۔ لیکن اس کی واقفیت یا مہارت تب معلوم ہوتی ہے جب اُس پر کوئی بڑا بوجھ آ کر پڑتا ہے اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجَاھِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصَّابِرِیْنَ (سورۃ محمد ع ۴ ۸) یعنی ہم تمہیں کئی تکلیفوں میں ڈالیں گے یہاں تک کہ تم میں سے مجاہدوں اور صابروں کو ممتاز کر کے دکھا دیں گے۔ وَالثَّالِثُ اَنَّ اخْتِبَارَ اللّٰہِ تَعَالٰی لِلْعِبَادِ تَارَۃً بِالمَسَارِّ لِیَشْکُرُوْا وَتَارَۃً بِالْمَضَارِّ لِیَصْبِرُوْا۔ تیسریؔ وجہ مفردات کے مصنّف یہ بتاتے ہیںکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بندے کی حقیقت کو اس طرح ظاہر کیا جاتا ہے کہ کبھی اس کس خوشیاں پہنچائی جاتی ہیں تا کہ یہ دیکھا جائے کہ اُس میں شکر کا مادہ ہے یا نہیں اور کبھی اس کو تکالیف میں ڈالا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ اس میں صبر کا مادہ ہے یا نہیں فَصَارَتِ الْمِحْنَۃُ وَالْمِنْحَۃُ جَمِیْعًا بَلَائً فَالْمِحْنَۃُ مُقْتَضِیَۃُ لِلصَّبْرِ وَالْمِنْحَۃُ مُقْتَضِیَۃٌ لِلشُّکْرِ۔ پس ابتلاء اور تکالیف اور صبر ظاہر کرنے کا موجب بن جاتی ہیں اور انعامات کے جزبۂ شکر کو ظاہر کرنے کا موجب بن جاتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی انعام نازل ہوتا ہے اُس وقت انعام کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان شکر کرے اور جب اُسے ٹھوکر لگے تو اُس وقت مصیبت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان صبر کرے وَالْقِیَامُ بِحُقُوْقِ الصَّبْرِ اَیْسَرُ مِنْ الْقِیَامِ بِحُقُوْقِ الشُّکْرِ پھر وہ وکہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان بذریعہ صبر لیا جاتا ہے اور انسان پر مختلف تکالیف اور مصیبتیں آتی ہیں تو یہ زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مصیبتیں آتی ہیں تو وہ سمجھتا ہے اب تو یہ سر پر آ ہی پڑی ہیں ان کو برداشت کرنا چاہئیے اور کہتا ہے کہ جو مصیبت پڑگئی سو پڑ گئی اور اس وجہ سے وہ صبر سے کام لے لیتا ہے۔ لیکن جو شکر کے ذریعہ ابتلاء آتا ہے وہ نہایت خطرناک ہوتا ہے کیونکہ انسان کہتا ہے جو چیز میرے قبضہ میں آ گئی ہے اُس سے مَیں پوری طرح حظ اٹھا لوں اسی طرح وہ خداکو بھول جاتا ہے۔ صبر کے ساتھ ماضی کا تعلق ہے اور ماضی کو انسان بُھلا سکتا ہے لیکن انعام کا مستقبل کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور مستقبل کو بھلانا بڑ ا مشکل ہوتا ہے اِسی لئے وہ کہتے ہیں کہ اصل ابتلاء وہ ہے جو انعام کے رنگ میں آتا ہے۔ مثلًا اللہ تعالیٰ کسی کو دولت دیتا ہے، کسی کو صحت دیتا ہے، کسی کو عزت دیتا ہے، کسی کو طاقت دیتا ہے، کسی کی حکومت دیتا ہے۔ یہ مختلف انعامات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کئے جاتے ہیں لیکن بسا اوقات انسان دولت اور عزت کے ملنے پر خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ طاقت کے ملنے پر تکبّر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تجارت اور صنعت و حرفت یا زمیندارہ کے کام میں ترقی حاصل ہونے پر اپنے اموال کا غلط استعمال کرتا ہے، مقدمات میں روپیہ برباد کرتا ہے، غریبوں کی حق تلفی کرتا ہے، اِسی طرح اپنے ہاتھوں اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں وغیرہ کا ناجائز استعمال کرتا ہے پس اس ابتلاء میں کامیاب اترنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ کوئی شخص مر جائے تو دوسرا سن کر کہہ دے۔ اِنّا لِلّٰہ وَاِنّا الیہ رَاجِعون۔ جب کسی شخص کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دولت ملتی ہے تو اُس کا اپنے نفس کو عیاشی سے روکنا، اچھے کھانے اور اچھے پہننے سے روکنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ ابتلاء انعامی زیادہ مشکل ہوتے ہیں اور ان میں بہت کم لوگ کامیاب ہؤا کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کا ایک قول بھی انہی معنوں میں پایا جاتا ہے وہ فرماتے ہیں بُلَیْنَا بِالضَّرَّآئِ فَصَبَرْنَا کہ ہماری اُمت پر اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی مصیبتیں ڈالیں لیکن ہم نے صبر سے کام لیا اور کوئی شخص ہم میں سے اُن مصیبتوں پر نہیں گھبرایا وَبُلِیْنَا بِالسَّرَآئِ فَلََمْ نَصْبِرْ لیکن پھر ہم پر خدا تعالیٰ نے انعامات والے ابتلاء وارد کئے۔ جب انعامی ابتلاء اللہ تعالیٰ نے ہم پر ڈالا تو کئی لوگ ہم میں سے صبر نہ کر سکے چنانچہ دیکھ لو صحابہؓ کی تکلیفوں کے زمانہ میں اُن میں سے ایک شخص بھی اپنے مذہب سے منحرف نہیں ہؤا۔ لیکن انعام کے زمانہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے معًا بعد بادشاہت اور خلافت کے جھگڑے میں سارا عرب مرتد ہو گیا سوائے مکّہ اور مدینہ کے ان لوگوں کے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہے تھے گو وہ مرتد ہونے والے صحابی نہ تھے لیکن بہرحال وہ قریب کے مسلمان تھے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی تائیدات اور اس کی نصرتوں کے نشانات دیکھے ہوئے تھے۔ لیکن باوجود اس کے کہ انہوں نے تازہ بتازہ نشانات دیکھے تھے سب کے سب مرتد وہ گئے۔ حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد صرف مکہ اور مدینہ ہی با جماعت نماز ہؤا کرتی تھی باقی ہر جگہ ارتداد کی وباء پھیلی ہوئی تھی سو حضرت عمرؓ فرماتے ہیں بُلِیْنَا بِ الضَّرَّآئِ فَصَبَرْنَا۔ ہم پر مصائب آئے۔ بڑی بڑی مشکلات آئیں مگر ہم نے جرأت دکھلائی، ہمت کا مظاہرہ کیا اور اُن مصائب سے ذرا بھی نہ گھبرائے وَبُلِیْنَا بِالسَّرَّآئِ فَلَمْ نَصْبِرْ لیکن جب خدا تعالیٰ نے انعام پر انعام۔ فتح پر فتح۔ نصرت پر نصرت اور دولت پر دولت دی تو تو ہماری جماعت سو فی صدی اس امتحان میں پاس نہ ہو سکی جس طرح پہلے پاس ہوئی تھی وَلِھٰذَا قَالَ مِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ اسی بناء پر پر امیرالمومنین کہتے ہیں (یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ محاورہ میں امیر المومنین سے مراد صرف حضرت علیؓ ہوتے ہیں گو تمام خلفاء ہی امیرالمومنین ہیں لیکن بعض اسلامی مصنّفین میں چونکہ تفصیل رنگ پایا جاتا تھا اور وہ حضرت علیؓ کو اپنے درجہ میں باقی تمام خلفاء سے بڑا سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے یہ محاورہ بنا دیا کہ جب وہ امیرالمومنین کا لفظ استعمال کرتے تو اس سے مراد محض حضرت علیؓ ہی ہوتے۔ اس جگہ غالبًا حضرت علیؓ ہی مراد ہیں۔ وہ فرماتے ہیں) مَنْ وُسِّعَ عَلَیْہِ دُنْیَاہُ فَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّہٗ قَدٓ مُکِرَ بِہٖ فُھُوَ مَخْدُوْعٌ عَنْ عَقْلِہٖ یعنی جس کے لئے اس کی دنیا وسیع ہو جائے، اُسے ہر قسم کی آسائشیں اور سامان میسر آ جائیں، اُسے کثرت سے دولت مل جائے فَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّہٗ قَدْ مُکِرَ بِہٖ اور اُسے یہ پتہ نہ لگے کہ اُسے ابتلا میں ڈالا جا رہا ہے گویا دولت بڑھنے، اور آسائش کے سامانوں میںزیادتی ہونے سے اُس کے دل میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ میرے لئے یہ آرام کی صورت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے میرا امتحان لے رہا ہے تو فَھُوَ مَخْدُوْعٌ عَقْلِہٖ ایسا شخص یقینا پاگل ہے درحقیقت صحیح الدماغ انسان وہی ہے کہ جب مصائب ومشکلات ا ٓئیں تب بھی وہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ میرا امتحان لے رہا ہے اور اگر اُسے انعامات ملے یا دولت کی فراوانی اُسے حاصل ہو جائے تب بھی وہ یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ میرا امتحان لے رہا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً (الانبیاء ع ۳) ہم تمہارے ایمان کو آزمانے کے لئے کبھی ترقی دیں گے اور کبھی دکھ دیں گے۔ گویا حضرت علیؓ نے جو کچھ فرمایا وہ قرآن کریم سے ماخوذ تھا۔ قرآن کریم میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ ابتلاء کے معنے عذاب کے ہی نہیں یعنی یہی نہیں کہ اگر کوئی موت واقع ہو جائے یا کوئی مالی نقصان پہنچ جائے تو یہ ابتلائی ہے بلکہ کسی کو مال و دولت کا مل جانا بھی ایک ابتلاء ہے۔ اور یہ بھی ویسا ہی خطرناک ہے جیسے ابتلائِ تکلیف خطرناک ہے اور دولت و عزّت کی فراوانی حاصل ہونا بھی ویسا ہی ڈر کا مقام ہے جیسے دولت و عزت کا چھینا جانا ڈر کا مقام ہے۔ اگر آج کسی شخص کی بھینس مر جائے، کل اُس کے گھر میں چوری ہو جائے، پر سوں اُس کا کتا مر جائے، اترسوں اس کا گھوڑا ہلاک ہو جائے، اگلے روز کسی عزیز کی موت ہو جائے تو اُس وقت اُس کے دل میں کتنی سخت گھبراہٹ پیدا ہو گئی۔ کئی کم ایمان والے بھی یہ حالت دیکھ کر سمجھنے لگ جائیں گے کہ ان ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے گناہوں کی سزا مل رہی ہے لیکن کسی کو سو روپیہ مل جائے، تیسرے دن تین سو روپیہ مل جائے، چوتھے دن مربع زمین مل جائے، پانچویں دن ایک گھوڑا انعام میں مل جائے، چھٹے دن گورنمنٹ کی طرف سے کوئی خطاب مل جائے تو اس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ مَیں کہیں ہلاک نہ ہو جائوں کہیں یہ چیزیں میری بربادی کا باعث نہ بن جائیں حالانکہ جس طرح مصائب کے ہجوم کے وقت اُس کی ہلاکت اور گرنے کا امکان ہوتا ہے اسی طرح نعمتوں کے ملنے پر اُس کی ہلاکت اور گرنے کا امکان ہوتا ہے۔ جس طرح دو چیزیں خدا تعالیٰ کے عذاب کو قریب قریب کر کے دکھانے لگ جاتی ہیں اسی طرح بسا اوقات یہ چیزیں انسان کو اس لئے ملتی ہیں کہ پتہ لگایا جاتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے کیسا تعلق رکھتا ہے۔ درحقیقت دولت کمانا منع نہیں۔ بشرطیکہ وہ دین میں جارح نہ ہو۔ صرف دولت کے ساتھ محبت کرنا یا اس کا ناجائز استعمال منع ہے ورنہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کے ویسی ہی دولتیں تھیں جیسے آج کل بڑے بڑے امراء کے پاس ہوتی ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کے متعلق تاریخوں میں آتا ہے کہ اُن کی وفات کے بعد اڑھائی کروڑ روپیہ کے برابر اُن کی جائیداد نکلی۔ اُس وقت کا اڑھائی کروڑ روپیہ آج کل کے تیس چالیس کروڑ روپیہ کے برابر بن جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اُن کا کھانا پینا ویسا ہی تھا جیسے عام مسلمانوں کا تھا وہ اپنی آمدنی کے متعلق کوشش کرتے تھے کہ اُسے خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کر دیں۔ اُن کی اولاد نے ایسا کیا یا نہیں یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے لیکن وہ اپنی زندگی میں بلادریغ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا روپیہ خرچ کرتے رہتے تھے۔ تو کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کا ملنا بھی ایک آزمائش ہوتی ہے۔
پھر صاحب مفردات لکھتے ہیں وَاِذَا قِیْلَ اُبْتُلِیَ فُلَانٌ کَذَا وَابْلَاہُ فَذَالِکَ یَتَضَمَّنُ اَمْرَیْنِ یعنی جب یہ کہا جائے کہ فلاں شخص نے فلاں کا اس اس رنگ میں امتحان لیا تو اس کے دو معنے ہو سکتے۔ اَحَدَھُمَا تَعَرُّفُ حَالِہٖ وَالْوُقُوْفُ عَلٰی مَا یُجْھَلُ مِنْ اَمْرِہٖ۔ ایک تو یہ کہ اُس کا اندرونہ معلوم کیا اور جو حقیقت پوشیدہ تھی وہ ظاہر کی۔ دوسرے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اُس کے اندر نہ کو دنیا پر ظاہر کیا جائے خُبث ہو تو اُس کا خُبث ظاہر ہو جائے اور اگر نیکی ہو تو نیکی ظاہر ہو جائے۔ گویا ایک تو جاننے کا یہ مفہوم ہوتا ہے کہی ہمیں خود کسی چیز کی حقیقت کا علم ہو جائے۔ مگر ایک معنے یہ ہوتے ہیں کہ کسی دبی ہوئی چیز کو اُبھارنے دیا جائے اَور اس کی جودت یعنی اس کی خوبی اور اُس کے حسن کو یا اُس کی چیز کی ردأت کو ظاہر کر دیا جائے وَرّبَّمَا قُصِدَ بِہِ الْاَمْرَانِ۔ اور کبھی کبھی یہ دونوں باتیں مدنظر ہوتی ہیں۔ یعنی ابتلاءؔ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ مخفی حالت جاننا اور یہ بھی معنے بھی ہوتے ہیں کہ مخفی حالات کو ظاہر کرنے کا موقع دینا وَرُبَّمَا یُقْصَدُ بِہٖ اَحَدُھُمَا۔ اور کبھی صرف ایک ہی مراد ہوتی ہے یعنی کبھی صرف جاننا مراد ہوتا ہے اور کھبی صرف اس کا ظہور مراد ہوتا ہے فَاِذَا قِیْلَ فِی اللّٰہِ تَعَالٰی بَلٰی کَذَا اَوْاَبْلَاہُ فَلَیْسَ الْمُرادُ مِنْہُ اِلَّا ظُہُوْرُ جَوْدَتِہٖ وَرِدْأَتِہٖ۔ یعنی جب خدا تعالیٰ کے متعلق یہ لفظ بولا جائے اور کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے ابتلاءؔ میں ڈالا تو اس کے معنے جاننے کے نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے اندر نہ کو ظاہر ہونے کا موقعہ دیا۔ اگر گند تھا تو اُس گند کے ظاہر ہونے کا موقعہ پیدا کر دیا اور اگر اچھائی تھی تو اس کی خوبی کے ظاہر ہونے کا موقع پیدا کر دیا دُوْنَ التَّصَرُّفِ لِحَالَہٖ وَالْوُقُوْفِ عَلٰی یُجْھَلَ مِنْ اَمْرِہٖ۔ اس کے سوال کو جاننے کے معنے نہیں ہوتے اور اس کے پوشیدہ امر پر واقف ہونے کے معنے بھی نہیں ہوتے اِذْکَانَ اللّٰہُ عَلَّامَ الْغُیُوْبِ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو جاننے والا ہے۔ اور اسے مزید جاننے کی ضرورت نہیں۔
ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آیت اِذَا مِا ابْتَلَہُ رَبُّہُ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَمَّہٗ فَیَقُوْلُ رِبِّیْٓ اَکْرَمَنِ کا یہ مفہوم ہو گا کہ انسان کی یہ حالت ہے کہ جب اس کا رب اس کے اخلاق کی یا اُس کے خیالات کی یا اس کے افکار کی یا اس کی طاقتوں کی اچھائی یا بُرائی کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اس ذریعہ سے کہ اس کا اکرام کرتا ہے اور اُسے نعمتیں دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میرا اکرام کیا۔
خدا تعالیٰ کا طریق یہ ہے کہ جب وہ بندے کے اندرونی ایمان اور اس کے عقیدہ اور اس کے اخلاص کو ظاہر کرنا چاہتا تا اس شخص کو خود بھی پتہ لگ جائے اور دوسرے لوگوں کو بھی۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کو تو پتہ ہی ہوتا ہے تو وہ ایک تواس کا امتحان اس ذریعہ سے لیتا ہے کہ اُس کا اکرام کرتا ہے اور اُسے نعمتوں پر نعمتیں دیتا چلا جاتا ہے۔ اُسے کہیں سے روپیہ مل جاتا ہے، کسی تجارت میں نفع حاصل ہو جاتا ہے، کہیں دو دو بچے ایک ایک جانور دے دیتا ہے، کہیں اُس کے زمین کی پیدا وار میں ترقی ہو جاتی ہے، کہیں اُسے گورنمنٹ کی طرف سے کوئی خطاب یا عہدہ مل جاتا ہے۔ اُس وقت وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزّت دی لیکن وہ یہ جو کچھ کہتا ہے اس میں حقیقت نہیں ہوتی۔ مُنہ سے تو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے لیکن حقیقت موجود نہیں ہوتی۔ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو ہر جگہ ظاہر ہوتی۔ جیسے لمبے قد کا آدمی ایرانؔ میں پھرے گا تب وہ لمبا ہو گا۔ لیکن اگر وہ کسی جگہ لمبا نظر آتا ہے اور کسی جگہ چھوٹا۔ تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہو گی۔ یا تو دوسرے موقعہ پر کوئی اور آدمی ہو گا اور یا وہ کبھی اونچی ایڑی کا بُوٹ پہن لیتا ہو گا اور کبھی اُسے اتار دیتا ہو گا۔ بہرحال حالتِ مستقلہ ہی انسان کی، اصل بات ہوتی ہے۔ اگر حالت مستقلہ نہ ہو تو وہ بناوٹی اور مصنوعی طور پر اختیار کی ہوئی ہوتی ہے چنانچہ بندے کے شکر کے مصنوعی ہونے کا ثبوت یہ ہوتا ہے وَاَمَّآ اِذَا مَاابْتَلٰہُ فَقَدْرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَھَانَنِ۔ اور جب وہ دوسرے رنگ میں اُسے ابتلاء میں ڈالتا اور اُس کے اندر نہ کو ظاہر کرنا اور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے اُس کے رزق کو تنگ کر دیتا ہے (قَدَرَ عَلٰی عَیَالِہٖ کے معنے ہوتے ہیں ضَیَّقَ اُس نے عیال کا گزارا تنگ کر دیا) اور اُسے کے تقویٰ سے کام لے کر وُہ نیکی کو خدا کی طرف منسوب کرتا اور نقصان کو اپنی طرف۔ جب اُس پر کوئی بلا اور مـصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میری اہانت کی اور اُس نے مجھے ذلیل کر دیا۔ یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا انعام کے وقت اُس نے جو کچھ کہا تھا وہ بھی صرف اُس کے مُنہ کی ہی ایک بات تھی۔ حققیت اُس میں نہیں تھی۔ اِسی لئے قرآن کریم نے وہاں صرف یَقُوْلُ کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔
یاد رکھو کہ کفر کی بات مُنہ سے نکلی ہوئی ایک جرم ہے لیکن نیکی کی بات جب دل سے کہی گئی ہو قطعًا کوئی جرم نہیں مگر اس لئے کہ یہ شخص نیکی کی بات منافقت سے کہتا ہے اُس کی پہلی بات بھی جرم بن جاتی ہے اور کفر کی بات چونکہ دل سے نکلی ہوئی ہوتی ہے اس لئے وہ تو جرم ہوتی ہی ہے۔
تفسیر
اس آیت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمتوں سے نوازتا اور اُس پر اپنے ابر کرم کی بارش برساتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میرا اکرام کیا اور اگر وہ اپنی مشیت کے ماتحت اُس پر تنگی کے اوقات لے آئے اور اُس کے وسائل معاش کھلے نہ رہیں تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میری تذلیل کی۔ گویانیکی اور بدی دونوں کو وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے اور کہتا ہے میرے ساتھ اچھا سلوک بھی میرے اللہ نے کیا مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کہنا سخت غلطی ہے تم یہ مت کہو کہ عزت بھی خدا کی طرف سے ملتی ہے اور ذلت بھی خدا کی طرف سے ملتی ہے۔ نیک نتائج بھی وہی پیدا کرتا ہے اور بُرے نتائج بھی وہی پیدا کرتا ہے۔
لیکن دوسری جگہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہِ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ج وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَط قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِط فَمَالِ ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَایَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًاo (النساء ع ۱ ۱ ۸) یعنی جب ان کو کوئی خوشی کی خبر پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کہا گیا تھا کہ فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَامَا ابْتَلٰہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْْٓ اَکْرَ مَنِ۔ لیکن جب اُنہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی بندوں کی کاروائیوں کی وجہ سے ہے۔ اور چونکہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسلمانوں کے حاکم ہیں اور وہی کفر کے مقابلہ میں تدابیر اختیار کرتے رہتے ہیں اس لئے نقصان ان کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ خرابی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بے تدبیری کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے فرماتا ہے۔ قُلْ۔ تُو اِن لوگوں سے کہہ دے کُلُّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ۔ تم بالکل جھوٹ بولتے ہوانعام بھی خدا کی طرف سے آتا ہے اور سزا بھی خُدا کی طرف سے آتی ہے۔ فَمَالَ ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَایَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا۔ اس قوم کو کیا ہو گیا کہ یہ اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھتی کہ جو کچھ کرتا ہے خدا تعالیٰ کرتا ہے اس لئے تم یہ کہو کہ انعام بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور سزا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ اب عجیب بات ہے کہ کافروں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ عزّت اور ذلّت دونوںخدا کی طرف سے آتی ہیں۔ چنانچہ خود قرآن کریم نے اِن الفاظ میں اُن خیالات کا ذکر کیا کہ فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَامَا ابْتَلٰہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْْٓ اَکْرَ مَنِ وَامَّآ اِذَامَاابْتَلَاہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَھَانَنِ۔ جب اُس پ انعامات نازل ہوتے ہیں تو کہتا ہے رَبِّیْْٓ اَکْرَ مَنِ۔ میرے رب نے میری عزت کی اور جب اُس پر ایسی صورت میں ابتلاء وارد کرتا ہے کہ اُس کا رزق تنگ ہو جاتا ہے تو وہ کہتا ہے رَبِّیْٓ اَھَانَنِ۔ میرے رب نے میری اہانت کی۔ اب یہ بات تو وہی ہے جو سورۂ نساء میں بیان کی گئی ہے۔ مگر آیت زیر تفسیر میں تو یہ فرمایا ہے کہ تم ایسا مت کہو کہ نیکی بھی خدا کی طرف سے ہے اور بدی بھی خدا کی طرف سے ہے۔ مگر دوسرے مقام پر جب لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ نیکی خدا کی طرف سے ہے اور بدی بندے کی طرف سے۔ تو اُن کو ڈانٹ دیا کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے جو تم نے کہی۔ حقیقت یہ ہے کہ نیکی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بدی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ گویا دونوں آیتوںمیں ایک نمایاں تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک جگہ نیکی اور بدی دونوں کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا غلط قرار دیا گیا ہے اور دوسری جگہ نیکی اور بدی دونوں کا انتساب اللہ تعالیٰ کی طرف کیا گیا ہے۔
تیسری جگہ فرماتا ہے مَآ اَصَابِکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ (النساء ع ۱ ۱ ۸) جو نیکی تم کو پہنچے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ اور جو تکلیف تجھ کو پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے۔ حالانکہ سورۂ نساء کی پہلی آیت میں یہی بات کفار نے کہی تھی کہ نیکی کا ظہور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تکلیف محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے۔ اور اس پر انہیں تنبیہ کی گئی تھی لیکن دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ نیکی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور بدی تمہاری طرف سے ۔
(۴) پھر فرماتا ہے مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْھَا وَمَارَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ (حمٰ سجدہ ع ۶ ۱) نیکی بھی انسان کے لئے ہے اس کی نفس کی طر ف سے آتی ہے اور بدی بھی اُسی کی طرف سے پیدا ہوتی اور اُس کی سزا اُسے مل جاتی ہے وَمَارَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۔ تیرا رب لوگوں پر ظلم کرنے والا نہیں جو کچھ کرتے ہیں لوگ خود کرتے ہیں۔ اس جگہ بُرائی اور بھلائی دونوں کو بندہ کی طر ف منسوب کر دیا ہے۔
(۵) اسی طرح قارون جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانہ میں گزرا ہے اس کے متعلق سورۂ قصص میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے دعویٰ کیا اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ (قصص ع ۸ ۱ ۱) میں نے اپنے علم کے مطابق کام کیا اور مجھے اس کا نتیجہ مل گیا مگر اللہ تعالیٰ نے اُسے توبیخ کی اور فرمایا کہ وہ جھوٹ بولتا ہے اور خدا تعالیٰ پر افتراء سے کام لے رہا ہے۔ اب یہاں بظاہر ی ساری ہی باتیں اُلٹ گئیں اور جو کچھ بیان کیا گیا تھا اُن سب کی تردید کر دی گئی۔ جب بندے نے کہا کہ نیکی اور بدی دونوں خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے کہا نہیں یہ بات غلط ہے۔ جب بندے نے کہا کہ نیکی خدا کی طرف سے اور بدی بندے کی طرف سے آتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے کہا یہ بالکل غلط ہے۔ کُلُّ مِنْ عَنْدِ اللّٰہِ ہر بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے، نیکی بھی اُسی کی طرف سے آتی ہے اور بدی بھی اُسی کی طرف سے آتی ہے۔ مگر پھر ان دونوں کے خلاف یہ بات بیان کر دی کہ نیکی خدا کی طرف سے اور بدی بندے کی طرف سے آتی ہے۔ اور آخر میں کہہ دیا کہ نیکی اور بدی دونوں بندوں کی طرف سے پیدا ہوتی ہیں۔ سورۂ فجر میں تو فرمایا کہ عزت اور ذلّت دونوں تم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیوں منسوب کیں اور سورۂ نساء میں فرما دیا کہ عزّت اور ذلّت دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ ایک کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا اور دوسری کو نہ کرنا درست نہیں۔ تیسرےؔ سورۂ نساء کی اگلی آیت میں ہی فرما دیا کہ عزت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ذلّت اپنے نفس سے۔ چوتھےؔ سورۂ حٰم سجدہ میں فرمایا کہ دونوں ہی انسان کی طرف سے ہیں۔ اب بظاہر یہ چار اختلاف ہیں اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سچ ہے؟ آخر چار ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
(۱) یا تو نیکی اور بدی دونوں خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہوں۔
(۲)یا نیکی اور بدی دونوں انسان کی طرف سے ہوں۔
(۳)کا خیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو اور شر انسان کی طرف سے۔
(۴) یا شر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو ا ور خیر انسان کی طرف سے۔ پانچویں بات تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ قرآن کریم نے اس امر کو بھی ردّ کیا کہ دونوں انسانوں کی طرف سے ہیں اور اس امر کو بھی ردّ کر دیا کہ دونوں انسان کی طرف سے ہیں اور اس امر کو بھی کہ خیر خدا تعالیٰ کی طرف سے اور شر بندہ کی طرف سے اور اسے بھی ردّ کر دیا کہ شر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور خیر بندہ کی طرف سے۔ اس کا حل یہ ہے کہ یہ سب امُور الگ الگ زاویہ اور الگ الگ نقطۂ نگاہ کے ماتحت بیان کئے گئے ہیں اور اِن میںاختلاف نظر آ رہا ہے وُہ صرف زاویہ نگاہ کو سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ جہاں کسی بات کو بیان کر کے اُس کی تردید کی گئی ہے وہاں اَور زاویہ نگاہ ہے اور جہاں اُس بات کی تصدیق کی گئی ہے وہاں اَور زاویہ نگاہ ہے اور زاویۂ نگاہ کے اختلاف اور نقطۂ نگاہ کے تغیر سے بہت کچھ تبدیل ہو جایا کرتا ہے۔ مثلًا ایک شخص کہتا ہے مجھے نبی جو کچھ کہے گا وہ میں کروں گا یا خلیفۂ وقت جو کچھ کہے گا اس پر عمل کروں گا یا امیر اور پریزیڈنٹ جو کچھ کہے گا وہی کروں گا۔ اب بظاہر یہ بڑی معقول بات ہے اور جو بھی سُنے گا اُسے درست قرار دے گا لیکن اگر گھر میں بیٹھے ہوئے کسی شخص کے سامنے روٹی کھائی جائے اور وہ کہے کہ میں اُس وقت تک روٹی نہیں کھائوں گا جب تک نبی یا خلیفہ یا امیر یا پریذیڈنٹ مجھے آ کر نہ کہے تو گو بات وہی ہے۔ مگر نقطۂ نگاہ کے بدل جانے اور اُس کے محل میں تبدیلی آ جانے کی وجہ سے ہم اُس کی ایک بات کو غلط کہیں گے اور دوسری بات کو ٹھیک کہیں گے یا اگر ایک شخص ہنگامی طور پر کسی چندے کی تحریک کرتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے کہ فلاں غرض کے لئے روپیہ دو اور وہ اسے کہتے ہیں کہ جب تک ہمارا امیر اس چندے میں حصہ لینے کی اجازت نہ دے یا جب تک مرکز کی طرف سے اس بارہ میں باقاعدہ اجازت حاصل نہ کر لی جائے ہم چندہ نہیں دے سکتے تو یہ بالکل صحیح بات ہو گی۔ اگر اس طرح لوگوں کو چندے لینے کی اجازت دے دی جائے تو مرکزی تحریکات کے لئے لوگوں کے پاس روپیہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن اگر شخص کے پاس سکرٹری مال یا تحریک جدید کا سکرٹری چندہ کی وصولی کے لئے جائے اور وہ کہے کہ جب تک خلیفۃ المسیح کا میرے نام خط نہ لائو گے یا جب تک بیت المال مجھے نہ لکھے گا میں تمہیں چندہ نہیں دے سکتا تو ہر شخص اس کی بات کو غلط قرار دے گا۔ اگرچہ پہلے اسی بات کو صحیح سمجھا جا چکا ہے۔ وہ فقرہ ایک اَور نقطۂ نگاہ کے ماتحت کہا گیا تھا اور یہ فقرہ ایک اَور نقطۂ نگاہ کے ماتحت کہا گیا ہے۔ چونکہ زاویۂ نگاہ بدل گیا ہے اس لئے دونوں میں سے ایک بات کو ہم درست قرار دیں گے اور دوسری کو غلط۔ غرض زاویۂ نگاہ کی تبدیلی سے بہت بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلًا باپ کو جُوتی مارنا کتنا خطرناک جرم ہے لیکن فرض کرو باپ آگے بیٹھا ہے اور بیٹا پیچھے ہے اور بیٹے نے یہ دیکھا کہ ایک سانپ اس کے باپ کے کوٹ کا قمیص پر چڑھتا جا رہا ہے وہ عین اس کی گردن تک پہنچ گیا ہے وہ سمجھتا ہے اگر میں نے ایک منٹ کی بھی دیر کی تو سانپ اُسے کاٹ لے گا۔ ایسی صورت میں اگر وہ سانپ کو اپنے ہاتھ سے ہٹاتا ہے تو اُسے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں سانپ ہوشیا ر ہو کر میرے باپ کو کاٹ نہ لے۔ وہ اس کا علاج صرف یہی سمجھتا ہے کہ کسی جھٹکے کے ذریعہ اسے الگ کیا جائے اُس وقت جب وہ اپنے بائیں دیکھتا ہے تو اُسے سوائے بوٹ کے اور کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اُس وقت وہ یہ نہیں سوچے گا کہ میں اپنے ابّا جان کو بوٹ کس طرح ماروں بلکہ اگر اُسے بوٹ ملے گا تو بُوٹ اور اگر جُوتی ملے گی تو جُوتی سانپ پر زور سے مارے گا اورسمجھے گا کہ اگر میں نے بُوٹ یا جوتی نہ ماری تو میرے باپ کو زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ اب دیکھو اس جگہ اُس نے اپنے باپ کو اُس نے جوتی ماری ہوگی مگر لوگ اُسے ملامت نہیں کریں گے کہ بڑا خبیث تھا اپنے باپ کو اُس نے جُوتی مار دی بلکہ ہر شخص اُس کی تعریف کرے گا اور کہے گا کہ بڑا عقلمند بیٹا تھا جس نے اپنے باپ کی جان بچا لی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو سانپ اُس کے باپ کو ضرور ڈس لیتا گویا ایک ہی فعل ایک جہت سے تو قابل مذمّت ہوتا ہے اور دوسری جہت سے قابل تعریف ہوتا ہے۔ فرض کرو کسی جگہ آگ لگی ہوئی ہو اور ایک شخص مصلّٰی بچھا کر نماز پڑھنے لگ جائے لوگ شور مچا رہے ہوں کہ پانی لائو اور یہ بیٹھا تسبیح ہاتھ میں لئے ذکر الٰہی کر رہا ہو تو لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ یہ بڑا نمازی ہے خدا سے بڑی محبت رکھنے والا ہے بلکہ ہر شخص اس کی مذمت کرے گا حالانکہ نماز پڑھنی اچھی چیز ہے۔
غرض نقطۂ نگاہ اور محل کے بدلنے سے انسانی اقوال اور افعال کی حیثیت بھی بدل جاتی ہے۔
یہ بات کہ شر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور خیر بندے کی طرف سے، اس کو قرآن کریم نے کلّی طور پر ردّ کر دیا ہے۔ یہ جائز ہی نہیں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ نیکی بندے کی طرف سے آتی ہے اور بدی خدا تعالیٰ کی طرف سے، یہ ہر زاویہ نگاہ سے بُری بات ہے اور اس کی کوئی نیک توجیہ ہو ہی نہیں سکتی۔
یہ کہ خیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور شر بندہ کی طرف سے‘ اس کی تردید قرآن کریم نہیں کرتا بلکہ تائید کرتا ہے جیسا کہ سورۂ نساء میں فرماتا ہے مَآ اَصَابِکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ (النساء ع ۱ ۱ ۸) جو تجھے نیکی پہنچے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو شر پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے اِس کی تردید قرآن کریم نے کسی جگہ نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ اس کی تائید کی ہے اور جو بظاہر تردید معلوم ہوتی ہے وہ بھی تردید نہیں بلکہ تائید ہے۔ چنانچہ اس سے پہلی آیت میں جو کہا گیا ہے کہ وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہِ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ج وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَط قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِط فَمَالِ ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَایَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًاo (النساء ع ۱ ۱ ۸) جب بھلائی آتی ہے تو کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے اور جب بُرائی آتی ہے تو کہتے ہیں یہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے ہے حالانکہ دونوں خدا کی طرف سے ہیں۔ اس کا وہ مفہوم نہیں جو مَآ اَصَابِکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ کا ہے بلکہ اس کا مفہوم بالکل اور ہے۔ درحقیقت اس آیت میںمنافقین کی اس شرارت کی تردید کی گئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جس کی کوشش کا نتیجہ نکلے وہ کہتے تھے کہ یہ اتفاقًا ہے اس میں کسی الٰہی تائید یا آپ کی کسی اعلیٰ تدبیر کا دخل نہیں۔ مگر وہ الفاظ یہ استعمال کرتے تھے کہ ھٰذِہٖ مِنْ عَنْدِ اللّٰہِ۔ دراصل یہ ایک محاورہ ہے جو اُن لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ پر کامل ایمان نہیں ہوتا اتفاقی امور کے لئے ایجاد کیا ہؤا ہے اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ اُنہیں خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین ہے اور وہ اس کام کو خدا تعالیٰ کی تائید کا نتیجہ سمجھتے ہیں بلکہ یہ محض رسمی رنگ کے الفاظ ہوتے ہیں جو ایمان پر دلالت نہیں کرتے بلکہ اس غرض کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں کہ اُسے اتفاق قرار دیا جائے۔ ہمارے ملک میں بھی اتفاقی امور کے متعلق اس قسم کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں چنانچہ جب کوئی واقعہ ہو تو لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ کام ’’رب سببی‘‘ ہو گیا یا ’’رب سببوں‘‘ فلاں چیز مل گئی ہے حالانکہ اُن کے دل میں ذرا بھی خدا تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت نہیں ہوتی۔ ذرا بھی اُن کو اس بات پر یقین نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُن کو کامیابی عطا فرمائی ہے۔محض رسمی رنگ میں یہ الفاظ اُن کی زبان سے نکل جاتے ہیں۔ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اتفاقیہ طور پر یہ کام ہو گیا ہے۔ پس یہ الفاظ اُن کے کسی ایمان پر دلالت نہیں کرتے بلکہ یہ ایک محاورہ ہے جو لوگوں کی زبان پر چڑھا ہؤا ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک مومن جب یہ الفاظ استعمال کرتا ہے تو اس کی مراد حقیقتًا یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے یہ نیک معاملہ کیا ہے لیکن ایک کافر یا منافق جب ان الفاظ کو استعمال کرتا ہے تو اس کی مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ یہ کام محض اتفاق سے ہو گیا۔ اس سے زیادہ یہ الفاظ اس کے نزدیک اپنے اندر کوئی معنے نہیں رکھتے یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمائی ہے کہ منافقین کی حالت یہ ہے کہ جب اُنہیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ھٰٓذِہٖ عِنْدِ اللّٰہِ ’’رب سببی‘‘ یہ بات ہو گئی یعنی اتفاقی طور پر ایسا ہو گیا ہے پس یہ محض رسمی الفاظ نہیں ہیں۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ نقصان کو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے جو بے ایمانی کی علامت تھی۔ اگر وہ نقصان کو اپنی طرف منسوب کرتے تو اور بات ہوتی مگر وہ نقصان کو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جو صاف طور پر ان کی بے ایمانی کی علامت ہے۔ اگر کہو کہ وہ نتائج کے لحاظ سے ہر کام کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر نا پسند کرتے تھے تو پھر سوال یہ ہے کہ نتائج تو سب کے سب خدا تعالیٰ ہی نکالتا ہے اور بُرے نتائج محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نکالتے ہیں۔ پس اگر انہوں نے نتائج کے اعتبار سے ایسا کہا تب بھی غلط ہے کیونکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ کُلُّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ اچھے نتائج بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں اور بُرے نتائج بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں اس صورت میں اُنہیں اچھے اور برے دونوں نتائج خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے چاہئیے تھے مگر وہ اچھے نتائج محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کر دیتے تھے اور اگر انہوں نے اچھے اور بُرے نتائج کو بندے کے عمل کی طرف منسب کرتا ہے تو اچھے نتائبج پیدا ہوتے ہیں، بُرا عمل کرتا ہے تو بُرے نتائج پیدا ہوتے ہیں تو اس صورت میں اچھے اور بُرے دونوں نتائج محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب ہونے چاہئیے تھے۔ اگر احدؔ میں کسی غلطی کی وجہ سے بہت سے مسلمان مارے گئے تو آخر بد ر میں مٹھی بھر صحابہؓ کے ساتھ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کفار کے ایک بہت بڑے لشکر پر فتح بھی تو پائی تھی اگر وہ بندے کے فعل کو دیکھ رہے تھے کہ نیکی بھی محمد رسول صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے ہے۔ اور اگر وہ نتائج کے اعتبار کو ملحوظ رکھ کر بات کرتے تو کہتے کہ نیکی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بدی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے مگر وُہ ان دونوں نقطۂ نگاہ کے خلاف یہ کہتے ہیں کہ نیکی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بدی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ منافقین ایسا کر ہی نہیں سکتے کہ نیکی اور بدی دونوں خدا تعالیٰ کی طرف سے منسوب کر دیں یا نیکی اور بدی دونوں محمد رسول اللہ وصلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کر دیں کیونکہ اُن کو غرض یہ تھی کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت دلوں سے کم کریں اگر وہ کہتے کہ نیک نتائج بھی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور بُرے نتائج بھی آپ کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں تو لوگوں کے دلوںمیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت بدظنی نہ ہو سکتی کیونکہ زیادہ اچھے نتائج نکلتے تھے اور بہت کم خراب نکلتے تھے۔ سو ۱۰۰ میں سے اٹھانوے نتائج بہتر ہوتے اور صرف دو نتائج خراب نکلا کرتے تھے۔پس اگر وہ ایسا کہتے تو اُن کا کام نہ بنتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بڑے عقلمند لیڈر ہیں کہ انہوں نے لڑائیوں میں اتنی دفعہ فتح پائی، اتنی دفعہ مالِ غنیمت لیا، اتنے لوگوں کو قید کیا، صر ف ایک دو فعہ لڑائی میں مسلمانوں کونسبتًا زیادہ نقصان پہنچ گیا تو یہ معمولی بات ہے ورنہ چالیس پچاس غزوات میں ہر جگہ ایسا ہی ہؤا کہ اگر آپ کا ایک آدمی مارا گیا تو دشمن کے دس آدمی مارے گئے۔ پس اگر وہ اچھے اور بُرے دونوں نتائج کو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کرتے تو یہ بات آپ کے درجہ اور شان کو بلند کرنے والی ہوتی اور ہر جگہ آپ کی تعریف ہوتی اور اگر وہ نتائج کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے اور کہتے کہ نیکی بھی خدا کی طرف سے ہے اور بدی بھی خدا کی طرف سے ہے تب بھی ان کا کام نہ بنتا اور وہ لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکتے۔ پس چونکہ ان کی غرض لوگوں کے ایمانوں پر ڈاکہ ڈالنا تھی اس لئے وہ نہ روحانی نقطۂ نگاہ لیتے تھے نہ مادی نقطۂ نگاہ۔ بلکہ اگر بھلائی آتی تو کہتے یہ اتفاق کی بات ہے اور اگر نقصان پہنچتا تو کہتے یہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے ہؤا ہے۔ فلاں موقع پر بھی نقصان ہؤا تھا مگر محمد رسول اللہ ؐ پھر بھی نہ سمجھے اور قوم کو دوبارہ نقصان برداشت کرنا پڑا۔ پس اُن کا یہ اعتراض کسی فلسفہ پر مبنی نہیں تھا بلکہ محض شرارت اور فتنہ و فساد پر اس کی بنیاد تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کی تردید کی ورنہ یہ صحیح ہے کہ خرابی بندے کی غلطی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور انعام خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے مگر بندے سے مراد محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں بلکہ عام مسلمان ہیں جہاں جہاں مسلمانوں کو نقصان پہنچا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کسی غلطی کی وجہ سے نہیں پہنچا بلکہ بعض جگہ مسلمانوں کے غلط اجہتاد کی وجہ سے جیسے اُحدؔ کی جنگ میں اور بعض جگہ کافروں اور کمزور مسلمانوں کی بُزدلی کی وجہ سے جیسے غزوۂ اُحدؔ کی جنگ میں اور بعض جگہ کافروں اور کمزور مُسلمانوں کی بزدلی کی وجہ سے جیسے غزوۂ حُسنین میں۔ لیکن منافق نہ روحانی نقطۂ نگاہ سے یہ بات کہتے تھے نہ مادی نقطۂ نگاہ سے۔ صرف شرارت سے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کہتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُن کے قول کی تردید کر دی۔
اگر کہو کہ ادب کے مقام پر خیر خدا تعالیٰ کی طرف اور شر بندے کی طرف منسوب ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اُن کے دلوں میں ادب ہوتا تو اس صورت میں ان کو شر اپنی طرف یا اتفاق کی طرف منسوب کرنا چاہئیے تھا اور اُنہیں یوں کہنا چاہئیے تھا کہ ہم سے غلطی ہوئی جس کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑا۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف وہ بدی کو منسوب نہ کرتے۔ ادب یہی ہوتا ہے کہ انسان غلطی اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور خوبی اپنے افسر کی طرف۔ مگر وہ خوبی خدا تعالیٰ کی طرف اور بدی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کے طور پر ایسا نہیں کہہ رہے تھے بلکہ محض شرارت اور فساد کی نیت سے ایسا کہتے تھے۔
اب راہ خیر کو اللہ تعالیٰ کی طرف اور شر کو اپنی طرف منسوب کرنا۔ اس دعوے کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز انسان کی بھلائی کے لئے پیدا کی ہے آگے کبھی اپنے فعل کی وجہ سے اور کبھی دشمن کے فعل کی وجہ سے وُہ انسان کے لئے بُری بات بن جاتی ہے۔ مثلًا خدا تعالیٰ نے سنکھیا اس لئے پیدا کیا ہے کہ اگر انسان کو بخار چڑھے تو وہ اس سے فائدہ اٹھائے یا کسی کو خون دست آ رہے ہوں تو ہومیو پیتھک ڈوز میں اُسے آرسنک دیا جائے تا کہ اُس کی پیچش دُور ہو جائے اور خون آنا بند ہو جائے یا سنکھیا خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ اگر کوئی کمزور شخص ہو اُس کے جسم میں خون کی کمی ہو۔ تو وہ سنکھیا استعمال کر کے اپنی کمیٔ خون اور جسم کی کمزوری کو دُور کر لے یا اگر اعصاب میں کمزوری پیدا ہو چکی ہو تو سنکھیا استعمال کر کے اعصاب میں کمزوری پیدا ہو چکی ہو تو سنکھیا استعمال کر کے اعصاب کو مضبوط بنا لیا جائے اسی طرح اَور بیسیوں فوائد ہیں جن کے لئے سنکھیا استعمال کیا جاتا ہے مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان خودکُشی کرنے کے لئے سنکھیا کھا لیتا ہے۔ کبھی جہالت سے بغیر ضرورت اور بغیر ڈاکٹری مشورہ کے ایسی چیزیں استعمال کر لیتا ہے جن میں سنکھیا پڑا ہؤا ہوتا ہے، کبھی دشمن اسے زہر دے دیتا ہے اور اس طرح وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ اب سنکھیا تو خدا تعالیٰ نے خیر کے لئے ہی پیداکیا تھا اُس کے اپنے غلط استعمال کی وجہ سے یا معالج کی بے احتیاطی کی وجہ سے یا دشمن کی شرارت کی وجہ سے وہ خیر اُس کے لئے شر بن جاتی ہے یا مثلًا خدا نے لوہا اس لئے بنایا ہے کہ لوگ گنڈاسے بنائیں اور اُس سے چارہ کتریں، چاقو تیار کریں اور اُس کی قلمیں اور پنسلیں تراشیں، چُھرے بنائیں اور اُن سے بکرے زبح کریں، کسیاں بنائیں اور اُن سے زمیں کھودیں، کُدالیں بنائیں اور اُن سے سخت پتھریلی زمینیں توڑیں، اسی طرح آرے تیار کریں اور لکڑیوں کو چیریں مگر ایک اَور شخص لوہا لے کر اپنے سر پر مارتا ہے اور مر جاتا ہے اب یہ فعل اس کا اپنا ہے اللہ تعالیٰ کا نہیں۔ اُس نے تو بہرحال انسان کے فائدہ کے لئے لوہا کو پیدا کیا تھا اِس لئے نہیں پیدا کیا تھا کہ وہ نقصان اُٹھائے یا اپنے آپ کو ہلاک کرے۔ پس چونکہ خدا تعالیٰ ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پید اکی ہے اگر وہ نقصان اُٹھاتا ہے تو پانی غلطی کی وجہ سے۔ اس لئے ہر نیکی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتی ہے اور ہر بدی بندے کی طرف منسوب ہوتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جہاں تک نتائج کا سوال ہے یہ امر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ نتیجۂ شر بھی خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور نتیجۂ خیر بھی خدا تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے مگر الزام خدا تعالیٰ پر نہیں آتا اس لے کہ وہ فعل خدا تعالیٰ نے نہیں کیا بلکہ انسان نے کیا ہے۔ مثلًا فرض کرو ایک شخص نے مینار سے چھلانگ لگائی اور وہ مر گیا۔ اب بے شک خدا تعالیٰ نے اُس کا گوشت پوست بنایا تھا اگر وہ اونچی جگہ سے گرے تو مر جائے۔ اُس کے پھیپھڑے اُس نے بنائے تھے کہ اگر اُن پر چوٹ آئے تو وہ زخمی ہو جائیں مگر اس کے باوجود خدا تعالیٰ نے اُسے گرایا نہیں بلکہ وہ خود گرا ہے۔ پس جہاں تک نتائج کا سوال ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوں گے یہ کہا جائے گا کہ خدا تعالیٰ نے اُس کا گوشت پوست ایسا ہی بنایا تھا کہ اتنی اُونچی جگہ سے چھلانگ لگانے کے نتیجہ میں وہ مر جاتا مگر یہ نہیں کہا جائے گا کہ مینار سے اُسے خدا تعالیٰ نے گرایا ہے یا اس کا گوشت پوست کسی اور غرض کے لئے بنایا تھا کہ مینار سے چھلانگ لگائے اُس کا گوشت پوست کسی اور غرض کے لئے بنایا گیا تھا مگر بہرحال خدا تعالیٰ نے ایسا ہی گوشت پوست اُسے بخشا تھا جو بلند جگہ سے گرنے کے نتیجہ میں کچلا جائے اور انسان ہلاک ہو جائے مگر اس کے باوجود خدا تعالیٰ پر یہ الزام نہیں آئے گا کہ اُس نے ہلاک کیا۔ غرض جہان تک نتائج کا سوال ہے اچھے بُرے دونوں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوں گے لیکن جہاں تک شر کے الزام کا سوال ہے وہ بندے پر عائد ہو گا لیکن فعلِ بد اور فعلِ خیر دونوں بندے کی طرف منسوب ہوں گے اچھا فعل بھی اُسی کی طرف منسوب ہو گا اوربُرا فعل بھی اُس کی طرف منسوب ہو گا۔ اور جہاں تک نتائج کا سوال ہے شر بھی خدا اتعالیٰ کی طرف سے ہے اور خیر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جب ہم نتائج کے لحاظ سے کوئی بات کریں گے تو کہیں گے خدا تعالیٰ کی طرف سے خیر بھی آتی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے شرم بھی آتی ہے لیکن جب یہ کہا جائے گا کہ بُرے اور اچھے کام کون کرتا ہے تو ہم کہیں گے چوری بھی بندہ کرتا ہے اور نماز بھی بندہ پڑھتا ہے اور جہاں تک سامانوں کے بالقویٰ یا بالفعل ظہور کا سوال ہے یعنی یہ سوال کہ انسان کے اندر قوتیں کس مقصد کے لئے رکھی گئی ہیں؟ اُس وقت جب بالقوّہ طاقتوں کا سوال ہو گا تو ہم کہیں گے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور جب اُن قوتوں کے بالفعل ظہور کا سوال ہو تو ہم کہیں گے کہ یہ بندے کی طرف سے ہیں اس لئے کہ جہاں تک طاقتوں اور قوتوں کا سوال ہے وُہ خیر ہی خیر ہیں اِس لئے ہم کہیں گے کہ وہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں لیکن جہاں تک اُن قوتوں کے استعمال کا سوال ہے چونکہ بندے بُرے کام بھی کر لیتے ہیں اَور اچھے بھی۔ اس لئے اگر ا نسان اُن قوتوں کا بُرا استعمال کرے گا تو شر بندے کی طرف منسوب ہو گا اور اگر وہ اُن قوتوں کا نیک استعمال کرے گا تو چونکہ خدا تعالیٰ نے ہی اُن قوتوں کو نیکی کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے وہ خیر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہو گا۔ پس نتائج کے اعتبار سے خیر اور شر دونوں بندے کی طرف سے ہیں بالقوہ طاقتوں کے لحاظ سے خیر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہو گا اور شر نہیں کیونکہ اُس نے کوئی چیز بُرے استعمال کے لئے پیدا ہی نہیں کی اور بالفعل ظہور سے خیر خدا تعالیٰ کی طرف اور شر بندے کی طرف منسوب ہو گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اُن قوتوں کو کس شر کے لئے پیدا نہیں کیا تھا۔ غرض دونوں باتیں خدا تعالیٰ کرتا ہے اور دونوں باتیں بندہ کرتا ہے مگر اس کے باوجود شر بندے کی طرف منسوب ہوتا ہے اور خیر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ یہاں انکار اُنہی معنوں میں کیا گیا ہے جو بُرے ہیں فرماتا ہے فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَاابْتَلٰہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ کہ جب انسان پر اس حقیقت کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ اکرام وانعام کی بارش نازل فرماتا ہے تو وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خدا نے میرا اکرام کیا یعنی میں ایسا ہی تھا کہ خدا تعالیٰ مجھ سے یہ سلوک کرتا۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں مجھے اس لئے دی ہیں تا اِن کے ذریعہ میرا گند یا میری خوبی دنیا پر ظاہر کرے یا مجھے اس لئے دولت دی ہے کہ تا کہ لوگوں کو دکھائے کہ میرا ایمان اتنا مضبوط ہے یا نہیں کہ باوجود دولت ملنے کے میں تکبّر میں مبتلا نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کو پوری دیانتداری کے ساتھ کرتا رہتا ہوں بلکہ وہ سمجھتا ہے خدا مجھ پر عاشق ہو گیا ہے کہ اتنے بڑے انعام مجھے عطا کرتا جا رہا ہے گویا وہ خدا تعالیٰ کے اکرام اور اس کے انعام سے ایک غلط نتیجہ نکال لیتا ہے۔
وَاَمَّآ اِذَا مَاابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِذْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَھَانَنِ۔ اور اگر خدا تعالیٰ کسی وقت رزق کی تنگی سے اُس کی آزمائش کرتا ہے تو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ خدا تعالیٰ اس ابتلاء کے ذریعہ میرے اندرونہ کو ظاہر کرنا چاہتا ہے وہ دنیا کو یا خود مجھے یہ دکھانا چاہتا ہے کہ مشکلات کو کس حد تک برداشت کرنے کی میرے اندر قوت پائی جاتی ہے اور قومی ضرورتوں کے وقت میں اچھا سپاہی ثابت ہو سکتا ہوں یا نہیں۔ وہ ان حکمتوں میں سے کسی حکمت کو نہیں سمجھتا بلکہ یہ شور مچانا شروع کر دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بے عزت کر دیا۔ گویا دونوں موقعوں پر وہ ایک غلط نقطۂ نگاہ اختیار کر لیتا ہے اس لئے اس کی دونوں باتیں غلط ہوتی ہیں ورنہ حقیقت کے لحاظ سے یہ دونوں باتیں صحیح ہیں کہ کبھی اللہ تعالیٰ انسان کی اس رنگ میں ازمائش کرتا ہے کہ اس پر انعام و اکرام نازل کرتا ہے اور کبھی اس رنگ میں آزمائش کرتا ہے کہ اُسے مشکلاات اور مصائب اور تنگیٔ رزق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سچا مومن دونوں حالتوں میں ثابت قدم رہتا ہے مگر کافر کی یہ حالت ہوتی ہے کہ انعام و اکرام کے وقت وہ کہتا ہے رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ خدا نے میرا اکرام کیا حالانکہ خدا تعالیٰ اس ذریعہ سے اس کا امتحان کیا حالانکہ خدا تعالیٰ اس ذریعہ سے اس کا امتحان لے رہا ہوتا ہے اور تنگیٔ رزق کے وقت وہ کہتا ہے رَبِّیْٓ اَھَانَنِ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا حالانکہ اس ذریعہ سے وہ اُس کے اندرونہ کو بے نقاب کر رہا ہوتا ہے۔ گویا یہ دونوں ابتلائی مقام ہوتے ہیں جزاء و سزاء کے مقام نہیں ہوتے۔ جب اس پر انعامات کے رنگ میں بارش ہو رہی ہوتی ہے اُس وقت بھی وہ ابتلاء کے نیچے ہوتا ہے اور جب اُس پر تنگیٔ رزق کا دَور ہوتا۔ اُس وقت بھی وہ ایک ابتلاء کے نیچے ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ انعامات اُسے کسی اعلیٰ درجہ کے کام کی جزاء کے طور پر دئے جا رہے ہوں یا تنگیٔ رزق کسی جرم کی سزا کے طور پر اُس پر حاوی ہو دونوں حالتیں ابتلائی ہوتی ہیں اور دونوں حالتوں میں اُس کی حقیقت کو خود اُس کے نفس پر اور دوسرے لوگوں پر ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے۔
اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کی طرف سے آنے والی تکالیف کے سلسلہ میں دو قسم کے مقام ہوتے ہیں ایک مقام ابتلائی ہوتا ہے اور ایک مقامِ جزا وسزا ہوتا ہے یعنی کبھی ابتلاء کے طور دُکھ وارد ہوتے ہیں۔ اسی طرح کبھی ابتلاء کے طور پر دُکھ وارد اور کبھی سزا کے طور پر مختلف تکالیف کے دَور آتے ہیں۔ اس جگہ صرف ابتلائی مقامات کا ہی ذکر کیا جا رہا ہے جزا و سزا والے مقام کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ انسان کو مجرم قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے ہم اس امتحان لینے کے لئے اُسے انعامات دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میرا اکرام کیا۔ گویا ان انعامات پر اس کا حق تھا اور خدا تعالیٰ کو یہی چاہئیے تھا کہ اس کا اکرام کرتا۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ میں نے تو کوئی نیک کام کیا نہیں اور یہ کہ نعمتیں تو اس کے امتحان کا ایک ذریعہ ہیں۔ اس کے مقابلہ میں جب تکالیف کے ذریعہ اس کا امتحان لیا جاتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے ربِّیْٓ اھَانَنِ میرے رب نے میری ہتک کر دی۔ میرے مقام کو اُس نے نظر انداز کر کے اُس نے مجھے بے عزّت کردیا۔ اگر وہ یہ کہتا کہ میرے جرموں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ سزا ملی ہے یا بجائے اَھَانَنِ کہنے کے وہ کہتا ہے کہ عَذَّبَنِیْ میرے رب نے میرے گناہوں کی پاداش میں مجھے عذاب میں مبتلا کر دیا تو خواہ ابتلائی مقام ہونے کی وجہ سے اُس کی یہ بات بھی غلط ہوتی مگر پھر بھی وہ مجرم نہ بنتا مگر وُہ تو یہ کہتا ہے رَبِّیْٓ اَھَانَنِ میں اس بات کا مستحق تھا کہ مجھے عزت دی جاتی مگر میرے رب نے مجھے رسوا کر دیا۔
اصلی بات یہ ہے کہ ابتلائی صورتیں اور نگ کی ہوتی ہیں اور جزا سزا کی صورتیں اور رنگ کی ہوتی ہیں مثلًا ہر نبی کو خدا تعالیٰ عزت دیتا اور اُس کے مقاصد میں اُسے کامیابی عطا کرتا ہے اور کئی ایسے انبیاء ہیں جنہیں اُس نے علاوہ روحانی حکومت کے جسمانی باد شاہت بھی عطا کی۔ مثلًا حضرت موسٰیؑ۔ حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمان کے ہاتھ میں بادشاہت آئی مگر یہ بادشاہت ابتلاء کے طور پر نہیں تھی بلکہ انعام کے طور پر اُن کے کام کو تقویت پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی۔ یا مثلًا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بادشاہت نہ ملتی تو آپ قرآنی شریعت کو عملی رنگ میں کس طرح رائج کرتے پس آپ کو اور دوسرے انبیاء کو جو حکومت ملی وہ ایک ہتھیار کے طور پر تھی اور ضمنی چیز تھی ابتلاء نہیں تھا۔ ابتلاء ہمیشہ اس لئے آتا ہے کہ انسان کے اخلاق ظاہر کئے جائیں مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے اخلاق تو پہلے ہی ظاہر تھے آپؐ نے سَرَّآء میں بھی خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کیا اور ضَرَّاء میں بھی اس کی رضامند ی کی راہوں کو اختیار کیا۔ آپ کے پاس دولت آئی تو وہ آپ نے سب کی سب بنی نوع انسان کے فوائد کے لُٹا دی اور خود اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس کے مقابلہ میں آپ پر مصائب بھی آئے۔ کئی قسم کے دُکھ بھی آپ کو برداشت کرنے پڑے مگر ہمیشہ آپ نے صبر سے کام لیا ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قبرستان کے پاس سے گزر ہے تھے کہ آپ نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ ایک قبر پر کھڑی رو رہی ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ بی بی صبر کر۔ اُس نے کہا اگر تیرے بچے مرتے تو مَیں دیکھتی تُو کس طرح صبر کرتا۔ صبر کی نصیحت تُو اس لئے کر رہا ہے کہ میرا بچہ تھا تیرا بچہ نہیں تھا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس سے فرمایا۔ اے عورت میرے سات بچے مر چکے ہیں مگر میں نے ہر بچہ کی وفات پر صبر سے کام لیا ہے۔ یہ کہہ کر آپ چل پڑے بعد کسی نے اُسے بتایا کہ بدبخت تجھے پتہ بھی ہے کہ تجھے یہ بات کہنے والا کون تھا؟ اُس نے کہا مجھے تو پتہ نہیں۔ اُس نے کہا یہ تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے یہی سنتے ہی وہ آپ کے مکان پر آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں نے صبر کیا۔ آپ نے فرمایا اَلصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی۔ صبر تو ابتدائی حالت میں ہوتا ہے رو دھو کر صبر آ ہی جاتا ہے۔ غرض وہ حالتیں بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آئیں جن میں انسان جزع فزع کرنے لگ جاتا ہے مگر آپ نے اُن حالات میں صبر کیا اور یہی کہا کہ ہم اس کی مشیّت پر راضی ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بیٹا ابراہیم جب فوت ہونے لگا تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُس وقت پاس موجود تھے اُس کی تکلیف اور کرب کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کسی نے کہا یا رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ بھی روتے ہیں آپ نے فرمایا آنکھ کا آنسو بہانا اَور ہے ورنہ ہمیں خدا تعالیٰ کے فعل پر کوئی اعتراض نہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اُس نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے۔
تو ابتلاء اَور ہوتے ہیں اور جزاء اَور ہوتی ہے اور بعض جزائیں تو ایسی ہوتی ہیں جو اعلیٰ درجہ کے روحانی مقامات حاصل کرے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کے طور پر ملتی ہیں جیسے حضرت سید عبدالقادر جیلانی صاحب فرماتے ہیں کہ میں اُس وقت تک کھانا نہیں کھاتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر تجھے میری ذات کی قسم کہ یہ کھانا کھا اور میں کپڑا نہیں پہننا جب تک مجھے خدا نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر تجھے میری ذات ہی کی قسم کہ یہ کھانا کھا اور میں کپڑا نہیں پہنتا جب تک مجھے خدا نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر تجھے میری ذات ہی کی قسم کہ یہ کپڑا پہن۔ یہ ابتلاء والا مقام نہیں بلکہ ایک روحانی عہدہ حاصل کرنے کا انعام ہے۔ ان لوگوں کو سَرَّآء اور ضَرَّآء میں سے گزار کر اللہ تعالیٰ اُن کے اخلاق اور اُن کے اندرونہ کو دنیا پر اچھی طرح ظاہر کر دیتا ہے اس لئے یہ ضرورت نہیں رہتی کہ اُن پر ابتلاء وارد کئے جائیں لیکن عام لوگوں کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ اُن کے دل پر کبھی گناہوں کی وجہ سے اتنا زنگ لگ جاتا ہے کہ نہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی فراخی کا اُن پر کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ اس کی طرف سے آنے والی مشکلات اُن میں تغیرات پیدا کرتی ہیں۔ وہ اندھے پیدا ہوتے ہیں اور اندھے ہونے کی حالت میں ہی اس جہان سے گزر جاتے ہیں۔ ایسی ہی روحانی نابینائی رکھنے والوں کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ابتلاء کے طور پر انہیں فراخی دیتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں خدا نے ہماری قدر کی حالانکہ اُن کے اعمال ایسے نہیں ہوتے کہ اللہ تعالیٰ اُن پر انعام کرے۔ بسااوقات وہی دولت اور عزت اُن کو جہنم میں لے جانے کا باعث بن جاتی ہے اسی طرح جب اُن پر تنگی رزق کا دَور آئے تو کہنے لگ جاتے ہیں خدا نے ہمیں بے عزت کر دیا گویا دونوں حالتوں میں وہ اُس کی حکمتوں سے آنکھیں بند رکھتے اور روحانی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں لوگوں کی اصل کیفیت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے فرماتا ہے وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْیَشَآئُ اللّٰہُ اَطْعَمَہٗٓ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ (یٰس ع ۳ ۲) یعنی جب اُن سے یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے سے دوسرے مستحقین پر خرچ کرو تو وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم اُنہیں کھانا کھلائیں جنہیں خدا نے کھانا نہیں کھلایا حالانکہ وہ چاہتا تو انہیں خود رزق دے سکتا تھا۔ پس ہمیں یہ نصیحت کر کے کہ ہم ان کو دین جن کو خدا تعالیٰ نہیں دینا چاہتا تم ثابت کر رہے ہو کہ تم بڑے ہی گمراہ ہو۔
اس آیت نے زیر بحث کی تشریح کر دی ہے ان کفار کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ ہم مستحق انعامات ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ہمیں دیتا ہے اور دوسرے لوگ مستحق نہیں اس لئے اُنہیں نہیں دیتا اور چونکہ خدا تعالیٰ کے فعل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ مستحق انعام نہیں اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ اُنہیں نہ دیں۔ یہ ظاہر ہے کہ جس کا یہ نقطۂ نگاہ ہو اُس کے دل میں انعام پر اللہ تعالیٰ کا شکر پیداس نہ ہو گا۔ اور اگر کوئی تکلیف آئے گی تو شکوہ پیدا ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا مناسب اعزاز نہیں کیا اور ہمارے درجہ کا خیال نہیں رکھا۔
کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ
(یوں) ہر گز نہیں بلکہ تم (قصور وار ہو کہ)یتیم کی عزت نہیں کرتے۔ اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے۱۳؎ اور ورثہ کا مال سب کا سب (عیش میں) اڑا جاتے ہو۱۴؎
۱۳؎حل لغات
تَحَآضُّوْنَ: حَاضَّ سے جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور حَاضَّہُ عَلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیں حَثَّ کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا صَاحِبَہٗ۔ دو شخصوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو کسی کے کرنے کی رغبت دلائی (اقرب) پس لَا تَحٰٓضُّوْنَ کے معنے ہوں گے تم رغبت ہیں دلاتے۔
تفسیر
فرماتا ہے کَلَّا یوں نہیں تم خیال کرتے ہو کہ تم خاص طور پر دولت کے مستحق تھے اس لئے تم کو دولت ملی تھی اور خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوق نہیں تھی اس لئے اُسے نہیں ملی اور یہ کہ جب تم کو ابتلائِ تکلیف آتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارے حق میں بے انصافی ہوتی ہے بلکہ بات یہ ہے کہ تم کو دولت ملی تھی کہ تم غرباء پر خرچ کرو اور اس طرح ایک نیک برادری دنیا میں قائم ہو مگر بجائے اس کے تم نے تکبّر شروع کیا اور غریبوں کی خبر گیری ہی سے غفلت نہیں برتی بلکہ ان کو ذلیل بھی کیا کہ تم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مستحق نہیں ہو اور یتیموں کی عزّت نہ کی بلکہ اُنہیں ذلیل سمجھا اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی تم کو ذلیل کیا اگر تم دولت ملنے پر یہ سمجھتے کہ خدا تعالیٰ نے یہ دولت اس لئے دی ہے کہ وہ دیکھے کہ تم یتیموں کی خبر گیری کرتے ہو یا نہیں اور تم ایک دوسرے کہتے ہو یا نہیں کہ خدا نے ہمیں روپیہ دیا ہے تو آئو غرباء کی خبرگیری کریں۔ ہم بھوکوں کو کھانا کھلائیں ہم ننگوں کا سردیوں میں ننگ ڈھانکیں۔ مگر جب اُس نے تمہیں نعمتیں دیں توبجائے اس کے کہ تم یہ سمجھتے کہ خدا تعالیٰ نے یہ نعمتیں ہمیں اِس لئے دی ہیں کہ لوگوں پر خرچ کی جائیں ان کی ضروریات کو پورا کریں اور اُن کے دکھوں کو دُور کریں تم نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ خدا کا ہمارے ساتھ کوئی خاص جوڑ ہے کہ اُس نے یہ نعمتیں ہمیں دی ہیں اَوروں کو نہیں دیں۔ تم نے یتیموں اور مسکینوں کی ذرا بھی پروا ہ نہ کی اور تم نے اپنے متعلق یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ ہم خدا کے خاص محبوب اور پیارے ہیں۔ کہ اُس نے ہمیں تو ان انعامات سے نوازا مگر دوسروں کو محروم رکھا بجائے اس کے کہ تم یہ سمجھتے کہ یتیموں کی پرورش اور مساکین کی خبر گیری کے لئے یہ نعمتیںدی گئی ہیں تم نے ان نعمتوں کو اپنا حق قرار دے کر ان کی طرف سے اپنی آنکھیں بالکل موند لیں اور ان کی ضروریات کے لئے ایک پیسہ خرچ کرنابھی روا نہ رکھا۔ تمہارے سامنے کئی یتیم بچے بھوک سے مرتے ہیں، کئی مساکین بھیک مانگتے اور دربدر ٹھوکریں کھاتے رہے مگر تم نے ان کی طرف ذرا بھی توجہ نہ کی بلکہ اسی خیال میں مست رہے کہ ہم بڑے آدمی ہیں۔
۱۴؎حل لغات
تُرَاثٌ: وَرِثَ کا مصدر ہے نیز اس کے معنے ہیں مَایَخْلِفُہُ الرَّجُلُ لِوَرَثَتِہٖ وہ مال جو آدمی اپنے وارثوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے (اقرب)
لَمَّا: قَالَ الْفَرَّائُ اَیْ شَدِیْدًا وَفِی الصِّحَاحِ اَیْ نَصِیْبَہٗ وَنَصِیْبَ صَاحِبِہٖ۔ فرّاء کہتے ہیں کہ لَمًّا کے معنے شدیدکے ہیں اور آیت کا یہ مطلب ہے کہ تم سارے کا سارا مال کھا جاتے ہو یا وہ مال تمہارے قبضہ میں آتا ہے تو تم اُسے بالکل چٹ کر جاتے ہو اُ س میں سے کچھ باقی نہیں رہنے دیتے۔ لیکن صحاح میں یہ لکھا ہے کہ لمًّا کے معنے یہ ہیں کہ تم اپنا حصّہ بھی کھا جاتے ہو اور دوسروں کا حصہ بھی لینے پر اکتفا کرو بلکہ تم اپنا حصہ بھی چٹ کر جاتے ہو اور یتامٰی و مساکین یا دوسرے بھائیوں کا جو حصّہ ہو وہ بھی کھا جاتے ہو۔
تفسیر
فرماتا ہے تم اپنے اعمال کی طرف دیکھو کہ تمہاری شامتِ اعمال تمہارے لئے کیا رنگ پیدا کر رہی ہے۔ تم میں بجائے اس کے کہ کوئی نیک خلق پیدا ہوتا اور تم یتامیٰ اور مساکین کی خبرگیری کرتے تم نے دولت ملنے پر اسراف سے کام لینا شروع کر دیا اور اپنے روپیہ کو بالکل برباد کر دیا اس کے بعد بجائے اس کے کہ تم یہ سمجھتے کہ ہم اپنے گندے افعال کی وجہ سے اس غربت کو پہنچے ہیں اور خدا نے اس ذریعہ سے ہمیں ہوشیار کیا ہے اور آئندہ کے لئے نصیحت کر دی ہے کہ تمہیں اسراف نہیں کرنا چاہئیے بلکہ روپیہ کو محفوظ رکھنا چاہئیے تم نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ رَبِّیْٓ اَھَانَنِ ہماری تو عزت ہونی چاہئیے تھی مگر خدا تعالیٰ نے ہمیںرسوا کر دیا حالانکہ خدا تو تمہیں نعمتیں دیں اور اس لئے دیں کہ تم غریبوں پر خرچ کرو مگر تم نے روپوں کو اپنی جیب میں ڈالا۔ یتامیٰ ومساکین کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور شراب اور ناچ گانوں میں اپنی دولت کو برباد کرنا شروع کر دیا اور جب تمہاری دولت سب برباد ہو گئی تم یہ شور مچانے لگے کہ خدا نے ہمیں رسواء کر دیا۔ بجائے اس کے کہ ان تمام حالات کو تم اصل روشنی میں دیکھتے تم نے اُلٹا اُسے غلط رنگ دے دیا۔ کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ تمہاری حالت کس قدر گر چکی ہے۔ کتنی کمینگی اور بے حیائی تم میں پیدا ہو چکی ہے تم یتیموں کا مال لیتے اور شیرمادر کی طرح ہضم کر جاتے ہو۔ تمہیں ورثہ مٰں بڑی بڑی جائدادیں ملتی ہیں، زمینیں ملتی ہیں، کوٹھیاں ملتی ہیں، روپیہ ملتا ہے مگر تم وہ تمام جائیداد عیاشی میں برباد کر دیتے ہو۔ باپ روپیہ کما کما کر تھک جاتا ہے اور تم صاحبزادے بن کر اُس کا سب مال اڑا دیتے ہو اور پھر یہ کہتے ہو لوگ ہماری عزت نہیں کرتے۔ وہ تمہاری کیوں عزت کریں جانتے ہیں کہ تمہارا بُرا حال ہے۔ بجائے اپنی جائیداد کو بڑھانے کے اور بجائے غریبوں کی خبرگیری کرنے کے تم میں سے کوئی اچھے کھانے کھانے لگ جاتا ہے، کوئی اچھے لباسوں پر اپنا روپیہ برباد کر دیتا ہے، کوئی شراب میںمشغول ہو جاتا ہے، کوئی ناچ گانوں میں اپنی عمر ضائع کر دیتا ہے، کوئی عیاشی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر زبانوں پر یہ شکوہ ہوتا ہے کہ لوگ ہماری عزت نہیں کرتے۔ ہم اتنے بڑے تھے، اتنے بڑے خاندان میں سے تھے، معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے۔ وہ حیران ہوتے ہیں اور پھر خود ہی کہتے ہیں کہ ’’کچھ اللہ تعالیٰ ولوںوگ گئی اے‘‘ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کی *** کی اور ہم آ پڑی ہے ورنہ ہماری عزت میں کیا شبہ تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارا باپ مالدار تھا تو تمہیں اس سے بھی اونچی سیڑھی پر چڑھنا چاہئیے تھا اگر اُس نے ایک ہزار روپیہ کمایا تھا تو چاہئیے تھا کہ تم دس ہزار روپیہ کماتے اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے خرچ کرتے نہ کہ اس روپیہ کو تعیش میں برباد کر دیتے اور بھیک مانگنے لگ جاتے۔ تم نے خود اپنے نفس کی اہانت کی اور اپنے آپ کو لوگوں کی نگاہ میں گرا دیا اس لئے تم خدا تعالیٰ کی نظر سے بھی گر گئے۔ یا اگر تم پر تکلیف کی بعض گھڑیاں آئی تھیں تو اس لئے کہ تم ہوشیار ہو جائواور اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کر لو۔ مگر تم اور بھی نیچے چلے گئے۔
چونکہ لَمًّا کے معنے دوسرے کا حصّہ لے لینے کے بھی ہیں اس لئے اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کو جو دولت ملتی ہے وہ صرف اُسی کا حصّہ نہیں ہوتا اس میں دوسرے بنی نوع انسان کا بھی حصّہ ہوتا ہے لیکن بعض لوگ اس دولت کو صرف اپنے نفس پر خرچ کر دیتے ہیں اور دوسروں کا حق کھا جاتے ہیں۔
وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ
اور تم مال سے بے انتہا محبت کرتے ہو۱۵؎
۱۵؎حل لغات
جَمًّا: اَلْجَمُّ کے معنے ہیں اَلْکَثِیْرُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ بہت سی چیز (اقرب) نیز کہتے ہیں جَائُ وْاجَمًّا غَفِیْرًا معنے یہ ہوتے ہیں جَاؤُا بِجَمَاعَتِھِمْ۔ اَلشَّرِیْفُ وَالْوَضِیْعُ وَلَمْ یَتَخَلَّفْ اَحَدٌ وَکَانَ فِیْھِمْ کَثْرَۃٌ یعنی سب لوگ اکھٹے ہو کر آ گئے چھوٹے بھی اور بڑے بھی۔ کوئی بھی پیچھے نہ رہا اور اسی طرح لوگوں کی کثرت ہو گئی (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے تمہاری حالت یہ ہے کہ تم مال کو لپیٹ کر بیٹھ جاتے ہو خدا تعالیٰ نے تو تمہیں اس لئے مال دیا تھا کہ تم اِسے تجارت میں لگائو یا صنعت وحرفت کو فروغ دو یا غریبوں کی خبر گیری کرو مگر تم اُسے بند کر کے بیٹھ جاتے ہو۔
اسی طرح اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ تم مال سے ایسی محبت کرتے ہو کہ اچھے بُرے کی تمیز تم میں باقی نہیں رہی۔ تمہارے پاس حرام مال آتا ہے تو تم حرام لے لیتے ہو حلال آتا ہے تو حلال لے لیتے ہو۔ ادنیٰ چیز آتی ہے تو ادنیٰ لے لیتے ہو اعلیٰ چیز آئے تو اعلیٰ لے لیتے ہو۔ تمہیں صرف مال سے غرض ہوتی ہے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ مال تمہیں ملا کہاں سے اور کس طرح سے۔
اوپر کی بات میں چار امور بیان کئے گئے ہیں۔ جو کفار میں پائے جاتے تھے اور یہی چار امور ایسے ہیں جن سے قومیں تباہ ہوتی ہیں۔
اوّلؔ یتامیٰ کی خبر گیری نہ کرنا۔ فرماتا ہے ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی انعام ملتا ہے تو کہتے ہیں ہم خدا کے حضور خاص شان رکھتے ہیں اور جب اُن پر اس رنگ میں ابتلاء وارد ہوتا ہے کہ ان کی مالی حالت ناقص ہو جاتی ہے اور اُن پر تنگدستی کے ایام آ جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں خدا نے ہماری اہانت کر دی۔ گویا دونوں صورتوں میں وہ عزت اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ عزت آتی ہے تو کہتے ہیں ہمارا اکرام ہونا ہی چاہئیے تھا اور اگر اہانت آتی ہے تو کہتے ہیں ہماری تو عزت ہونی چاہئیے تھی خدا نے غلطی سے ہمیں ذلیل کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ان امور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ بات درست نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تمہاری تباہی کے سامان تمہارے اندر ہی موجود ہیں اور اُنہی کے ذیعہ سَوطِ عذاب نازل ہؤا کرتا ہے یعنی اندرونی طور پر بعض ایسی قوتیں ہوتی ہیں جو انسان کوتباہی کی طرف لے جاتی ہیں اور تباہی کے وہ سب موجبات تم میں پائے جاتے ہیں۔ اس لئے اگر تم پر تباہی نہ آئے تو اَور کس پر آئے۔ چنانچہ قومی تباہی کے چار بڑے بڑے اسباب بیان کئے گئے ہیں جن میں پہلا اور اہم سبب یتامیٰ کی خبر گیری نہ کرنا ہے۔ بظاہر یہ ایک روحانی اور دینی کام معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ ہے کہ قومی ترقی اور اس کے تنزّل کے ساتھ اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اگر یتامیٰ کی خبر گیری نہ کی جائے، اُن کی پرورش کو نظر انداز کر دیا جائے تو دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ دنیا میں بڑے بڑے کام قربانی کے چاہتے ہیں اور جب تک بڑی بڑی قربانیاں نہ ہوں اُس وقت تک بڑے بڑے کام بھی نہیں ہوتے۔ اور بڑی بڑی قربانیاں دوہی قسم کی ہوتی ہیں یا مالی یا جانی۔ مگرہم دیکھتے ہیں انسان اپنے لئے تکلیف بردازشت کر لیتا ہے لیکن جب اُسے خیال آتا ہے کہ میرے بال بچوں کا بنے گا تو بہت سے لوگ بُزدل بن جاتے ہیں اور قربانی کے میدان سے اپنے قدم پیچھے ہٹا لیتے ہیں۔ اگر کسی قوم میں یتامیٰ کی خبرگیری پوری طرح پائی جاتی ہو تو یہ ممکن ہی نہیں کہ جانی اور مالی قربانیوں کے وقت اس قوم کا ایک فرد بھی پیچھے رہے اور اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش نہ کرے بلکہ وہ ہنستا ہؤآگے بڑھے گا اور ہر قسم کے شدائد کو خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ اگر لوگ روزانہ اپنی آنکھوںسے یہ نظارہ دیکھیں کہ فلاں شخص مر گیا تو اُس کے یتیم بچوں کو فلاں امیر لے گیا اور اُس نے اپنے بچوں کی طرح اپنے گھر میں رکھ لیا وُہ اُن میں اور اپنے بچوں میں کوئی فرق نہیں کرتا، وہ اُنہیں تعلیم دلا رہا ہے، اُنہیں اچھے کھانے کھلا رہا ہے، اُنہیں اچھا سے اچھا لباس پہنا رہا ہے تو جب بھی قربانی کا سوال ہو گا ہر شخص آگے بڑھے گا۔اور کہے گا اگر میری جان بھی جاتی ہے تو بے جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ فلاں شخص مر گیا تھا اُس کے بچے فلاں قومی بھائی لے گیا اور اُس نے اُنہیں اپنے بچوں کی طرح پالنا شروع کر دیا۔ فلاں شخص مر گیا تو اُس کے بچے کو فلاں شخص لے گیا اور اُن کے اخراجاگ کا متکفّل ہو گیا اگر میں بھی مر گیا تو کیا ہؤا میرے بچوں کی قوم نگران ہو گی اور وہ مجھ سے زیادہ بہتر رنگ میں ان کی تربیت کا فرض سرانجام دے گی۔ یہ احساس اگر ہر فرد کے دل میں پیدا ہو جائے تو وہ جماعت کبھی مٹ نہیں سکتی۔ یہ جماعت کبھی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کر سکتی۔ قربانیوں سے ہچکچاہٹ محض اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم مر گئے تو ہمارے بچے خا ک میں مل جائیں گے اُن کا کوئی نگران نہیں ہو گا۔ اُن کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔ لوگ اُنہیں ڈانٹیں گے، اُن سے نوکروں کی طرح کام لیں گے، اُن کو بُوٹ کی ٹھوکروںسے ماریں گے، اُنہیں کھانے کے لئے سُوکھے ٹکڑے پہننے کے لئے پھٹے پُرانے کپڑا دیں گے اُن کے سروں سے محبت کا ہاتھ نہیں رکھیں گے، اُن کو پیار کی نگاہوں سے نہیں دیکھیں گے، اُنہیں بات بات پر نہ جھڑکیں گے، وہ روئیں گے تو انہیں چپ کرانے کی کوشش نہ کرو گے۔ اُنہیں ضرورتیں پیش آئیں گی تو وہ ان کو پورا نہیں کریں گے۔ یہ خیالات جب کسی شخص کے دل اور دماغ میں ہر حاوی ہوتے ہیں تو اُس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اُس کا بدن کپکپا جاتا ہے اور وہ جان دینے سے گھبرا تا ہے اور اس میدان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح مالی قربانی کا وقت آئے تو وہ گھبرا جاتا ہے اور اُسے اپنے بچوں کی پرورش کا خیال روپیہ کو بلادریغ خرچ نہیں کرنے دیتا۔ اپنی زندگی تو اُسے پرواہ نہیں ہوتی سمجھتا ہے جس طرح بھی ہو گا میں اپنے بچوں کی پرورش کر لوں گا۔ لیکن ساتھ ہی اُس کے دل میں یہ خیال بھی آ جاتا ہے کہ اگر مال لٹانے کے بعد میں مر گیا اور میرے بچوں کے لئے کوئی چیز باقی نہ رہی تو اُن کا بعد میں کیا حال ہو گا۔ اُس وقت اگر وہ سمجھتا ہے کہ قوم نے میرے بچوں کی پرورش نہیں کرنی تو وہ بُزدل بن جاتا ہے اور قربانی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ ڈر اُسے اِس بات کا ہوتا ہے کہ میری موت کے بعد میرے بچوں کا کیا حال ہو گا۔ یہ ایک جزباتی سوال ہے جو اس کے اندر کشمکش اور ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ اُس کے ارادوں میں تعطّل اور اُس کی خواہشات میں تعطّل اور اُس کی خواہشات میں جمود کی کیفیت رونما ہو جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ قوم کے کئی بچے یتیم ہیں مگر ان کی حالت یہ ہے وہ لوگوں کے دروازوں پر جا جا کر اپنے لئے آٹا مانگتے پھرتے ہیں یہ دیکھ کر وہ سمجھتا ہے اگر میں مر گیا تو میرا بچہ بھی کل اسی طرح بھیک مانگنے پر مجبور ہو گا۔ پھر وہ ایک اور نظارہ دیکھتا ہے تو اُس کا قلب اور بھی سہم جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے چند یتیم آٹا مانگنے کے لئے کسی کے دروازہ پر آئے انہوں نے دستک دی اور کہا ہمیں آٹا دیا جائے۔ گھر وہ اُن کی آواز کو سنتا ہے تو بڑ بڑا کر کہنے لگ جاتا ہے اِ ن لوگوں نے تو ہمارے کان کھا لئے ہیں۔ روز آٹا روز آٹا۔ وہ یہ فقرہ سنتا ہے تو اُس میں اور بھی زیادہ بزدلی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے اگر میں مر گیا تو میرا بچہ اوّل تو بھیک مانگنے پر مجبور ہو گا اور پھر لوگوں کا سلوک اُس سے یہ ہو گا کہ وہ تو آٹا مانگے گا اور لوگ اُسے کہیں گے تُو نے ہمارے کان کھا لئے۔ پھر وہ دیکھتا ہے کہ فلاں شخص مر گیا ہے تو اس کے یتیم بچے فلاں گھر میں برتن مانجھ مانجھ کر گزارا کر رہے ہیں۔ وہ اپنی نظر کو وسیع کرتا ہے اور اپنی قوت فکریّہ پر زور ڈالتا ہے۔ تو کہتا ہے جب میں مر جائوں گا میرے بچے سے بھی اس قسم کا کام لیا جائے گا۔ اِس پر اُس کی بُزدلی کا پارہ اور زیادہ اُوپر چڑھ جاتا ہے بلکہ اگر کوئی خود ہی یتیم پر ظلم کر رہا ہو تو بھی اُس میں بُزدلی آ جاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے جو سلوک آج میں دوسروں کے یتیم بچوں سے کر رہا ہوں وہی سلوک میرے مرنے کے بعد لوگ میرے بچے کے ساتھ کریں گے۔ پس یاد رکھو یتیم کی خبر گیری کرنا صرف نیکی اور تقویٰ ہی نہیں بلکہ قوم کے کیرکٹر کو بلند کرنا اور اُسے قربانیوں پر زیادہ سے زیادہ دلیر بناتا ہے۔ جو قوم یتامیٰ سے حسن سلوک نہیں کرتی وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔
میں نے ایک دفعہ گھر میں نصیحت کی کہ یتامٰی سے ایسا سلوک ہی کرنا چاہئیے جیسے اپنے بچوں سے کیا جاتا ہے۔ اگر اس رنگ میں اُن سے سلوک نہیں کیا جاتا تو قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ تم نے کسی یتیم کی پرورش کی ہے میں نے کہا میں بعض یتامیٰ کا خرچہ خود دیتا ہوں مگر پھر بھی میری بعض بیویاں اُن سے اس طرح کام لیتی ہیں جس طرح نوکروں سے کام لیا جاتا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ اُن سے بالکل کام نہ لیا جائے اگر اُن سے کام نہیں لیا جائے گا تو وہ آوارہ ہو جائیں گے میںصرف یہ کہتا ہوں کہ اُن سے ایسا ہی کام لیا جائے جو اپنے بچوں س بھی لے لیا جاتا ہے اور اگر کوئی کام ایسا ہو جو ہم اپنے بچوں سے کروانے کے لئے تیار نہ ہوں تو ہمیں وہ کام کسی یتیم سے بھی نہیں لینا چاہئیے۔ بہرحال میں نے گھر میں نصیحت کی کہ یہ روپیہ تو میں دیتا ہوں مگر کام کی ذمہ داری تم پر ہے تمہیں چاہئیے کہ ایسے رنگ میں اُن سے کام مت لو گویا وہ تمہارے نوکر ہیں۔ میری نصیحت کے بعد اُمّ طاہر مرحومہؓ نے ایک یتیم بچہ پالا بعد میں تو اُس کی حالت ایسی اچھی ثابت نہیں ہوئی مگر بہرحال انہوں نے اُس بچے کو اُسی طرح پالا جس طرح وہ اپنے بچوں کو پالتی تھیں اور انہوں نے کسی قسم کا فرق پیدا نہ ہونے دیا۔
اس بارہ میں نہایت ہی اعلیٰ نمونہ عزیزم مرزا مظفر احمدؐ نے دکھایا ہے جو میرے بھتیجے ہیں۔ بنگال کے وہ فاقہ زدہ لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں وہاں ہلاک ہوئے ہیں اُن میں سے ایک کی یتیم بچی لے کر انہوں نے پرورش شروع کی ہے اور اس عمدگی اور خوبی کے ساتھ وہ اُس کی پرورش کر رہے ہیں کہ اُس میں اور اُن کی اپنی لڑکی میں کوئی بھی فرق نظر نہیں آتا۔ وُہ اُس کو مار پیٹ لیتی ہے اور یہ اُس کو مار پیٹ لیتی ہے، دونوں کے بالکل ایک جیسے کپڑے ہوتے ہیں، ایک جیسا دونوں کھانا کھلاتے ہیں، ایک جیسی دونوں کو تعلیم دلاتے ہیں، اور ایک جیسی دونوں کی نگرانی رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی لڑکی اُس لڑکی کو باجی کہتی ہے اور اُس کا احترام کرتی ہے اور یہی چیز ہے جسے یتیم کا پالنا کہتے ہیں۔ یتیم کا پالنا یہ نہیں کہ کسی کو گھر میں نوکر کے طور پر رکھ لیا، سارا دن اُس سے کام لیتے رہے، کھانے کو اُسے روکھی روٹی دیدی ، پہننے کے لئے پھٹا پُرانا کپڑا دیدیا، ذرا غلطی ہوئی تو گالیاں دینے لگ گئے یا تھپڑوں سے اُس کی مرمت شروع کر دی اور پھر یہ خیال کر لیا کہ ہم یتیم کی پرورش کر رہے ہیں اِس اسلامی اصطلاح میں قطعًا یتیم پروری نہیں کہا جاتا۔ یتیم پروری یہ ہے کہ انسان اپنے بچوں کی طرح دوسرے کے یتیم بچہ کو رکھے اور اپنے سلوک میں ذرا گھی فرق نہ آنے دے۔ محض کسی کو روٹی کھلا دینا اور بات ہے اور یتیم پروری اور چیز ہے۔ قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْن الْیَتِیْمَ اے لوگو! تم یتیم کو کھا نا نہیں کھلاتے تھے اگر محض کھانے کا ذکر ہوتا تو یہاں اکرامؔ کا لفظ نہ ہوتا بلکہ اِطْعَام کا لفظ ہوتا۔ اکرام کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھا جانا صاف بتا رہا ہے کہ الٰہی منشاء یہ ہے کہ یتیموں کی ایسے رنگ میں پرورش کی جائے کہ اُن کا احترام مدنظر ہو یہ نہ ہو کہ صدقہ کے طور پران کو روٹی دی جا رہی ہو۔
میں نے قادیان میں ایک دفعہ یتیم خانہ بنایا تھوڑے دنوں کے بعد ہی مجھے پتہ لگا کہ اُن یتیموں سے سارا دن کام لیا جاتا ہے۔ کام لینا منع نہیں لیکن ہمیں اُن سے اتنا ہی کام لینا چاہئیے جتنا ہم اپنے بیٹے سے کام لیتے ہیں یہ نہ ہو کہ ہمارا بیٹا تو آرام سے بیٹھا رہے اور کام کا بوجھ یتیم پر ڈال دیا جائے محض اس لئے کہ اُس کا باپ زندہ نہیں اُس کی ماں زندہ نہیں اور وہ اب دوسروں لوگوں کے رحم پر ہے۔ اُسے بیٹوں کی طرح رکھا جائے، بیٹوں کی طرح اُس سے کام لیا جائے اور پھر اگر اُس میں اور اپنے بیٹے میں کبھی لڑائی ہو جائے تو بے شک یہ اُس کو مارپیٹ لے اَور وہ اُن کو مارپیٹ لے اس وقت ماں اُسے یہ نہ کہے کہ خبردار میرے بیٹے پر ہاتھ اٹھا یا تو تجھے مار مار کر سیدھا کر دوں گی۔ اگر اس طرح کسی یتیم کو رکھا جائے تو بے شک کسی غلطی پر اُسے مار بھی لیا جائے اس میں کوئی حرج نہیں آخر ہم اپنے بچے کو بھی بعض دفعہ مار لیتے ہیں۔ پھر اگر کسی یتیم کو اس کی کسی غلطی پر بالکل اس طرح جس طرح ہم اپنے بچوں کی اصلاح کے لئے اُنہیں مارتے ہیں اگر کبھی مار لیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں مگر بہرحال اس کی عزّت نظر انداز نہیں ہونی چاہئیے۔
قرآن کریم صرف یتامیٰ کو کھانا کھلا ضروری نہیں سمجھتا بلکہ فرماتا ہے قومی ترقی کے لئے یہ نہایت ضروری امر ہے کہ یتیم کو عزت سے رکھا جائے اگر یتامیٰ کا اکرام قوم میں نہیں پایا جاتا تو خواہ تم ہزارہا لوگوں سے کہو کہ جائو اور خدا کی راہ میں مر جائو۔ جائو اور اپنی جان کو قربان کر دو۔۔۔ وہ کہیں گے ہم چلے تو جائیں گے مگر ایسا نہ ہو کہ مر جائیں اور ہمارے بچوں کو تکلیف اٹھانی پڑے لیکن اگر وہ یہ دیکھیں کہ ہماری زندگی اور ہماری موت بچوں کی پرورش کے لحاظ سے برابر ہے ہمارے مرنے کے بعد بھی یہ اسی طرح رہیں گے بلکہ موجودہ حالت سے بھی ہزارہا گنا بڑھ کر ان کی پرورش کے سامان ہوں گے تو بے شک تم قوم کے ایک ایک فرد کو کٹواتے جائو، ایک ایک فرد کو مرواتے جائو کوئی ایک شخص بھی اپنے قدم کو پیچھے نہیں ہٹائے گا اور خوشی سے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دے گا س۔ غرض یہ ایک نہایت ہی عظیم الشان مسئلہ ہے اور جب تک کسی قوم کے افراد اس کو پوری طرح نہ سمجھ لیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔
دوسری بات خدا تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وَلَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامٍ الْمِسْکِیْنِ تم آپس میں ایک دوسرے کو رغبت نہیں دلاتے کہ غریب آدمی کو کھانا کھلایا جائے۔
اگر غرباء کی خبر گیری نہ ہو تو قومی جنگوں میں کا میابی نہیں ہوتی اور سپاہی بہت کم ملتے ہیں کیونکہ دنیا میں غرباء زیادہ ہوتے ہیں اگر سپاہیوں اور لڑنے والوں کے ذہن میں یہ ہو کہ ہماری قوم ہماری محسن ہے۔ ہم بیمار ہوئے تو اُس نے ہمارا علاج کیا۔ ہمارے پاس کپڑے نہ تھے تو اُس نے ہمارے لئے کپڑے مہیا کئے۔ ہم بھوکے تھے تو اُس نے ہمارے لئے غلّہ مہیا کیا۔ ہم حاجتمند تھے تو اُس نے ہماری حاجات کو پورا کیا۔ تو گو کمینے اور رذیل لوگ بھی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں مگر بہرحال جو شریف ہوں گے اور یہی طبقہ زیادہ ہوتا ہے وہ کہیں گے جب قوم نے ہمارے ساتھ یہ احسان کیا ہے وہ احسان کیا ہے تو آج ہم قومی ضرورت کے وقت کیوں پیچھے ہٹیں ہم آگے بڑھیں گے اور قوم کے لئے اپنی جانوں کو قربان کر دیں گے لیکن اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھوکے مرتے رہے مگر ہمیں کسی نے نہ پوچھا ہم ننگے پھرتے رہے مگر کسی نے ہمارا ننگ نہ ڈھانکا ہم بیمار ہوئے مگر کسی نے ہمارا علاج نہ کیا، ہم محتاج ہوئے مگر کسی نے ہماری احتیاج کو رفع نہ کیا۔ تو وہ کہیں گے ہمارے لئے قوم نے کیا کیا تھا کہ آج ہم اُس کے لئے قربانی کریں۔ وہ ہم سے بے اعتنائی کرتی رہی ہے آج ہم اُس سے بے اعتنائی کریں گے۔ پس غرباء کی خبر کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قربانی کا مادہ لوگوں کے دلوںمیں سے کم ہو جاتا ہے اور قومی جنگوں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔
میں نے قادیان میں دیکھا ہے ہم کوشش کرتے ہیں کہ غرباء کی کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ہم اُن کے لئے کپڑے مہیا کرتے ہیں، اُن کے لئے غلّہ مہیّاکرتے ہیں۔ ان کی روپیہ سے امداد کرتے ہیں، اُن کو طبّی امداد بہم پنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور حتی الامکان اُن کی تکالیف کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو باوجود اس سارے انتظام کے جماعت پر اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں لوگوں کا کام صرف یہی ہے کہ اُن پر روپیہ خرچ کرتے چلے جائیں اُن پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ لیکن پھر بھی اکثریت ایسی ہے جو محسوس کرتی ہے کہ یہ جماعت ہمارے لئے قربانی کر رہی ہے اس لئے قومی ضرورتوں کے وقت ہمیں بھی دوسروں سے زیادہ قربانی کرنی چاہئیے۔ چنانچہ وہ لوگ خُود بھوکے ہوتے ہیں مگر جب کسی چندہ کی تحریک ہو مزدوری کر کے بھی اُس میں ضرور حصّہ لیتے ہیں اَور گو وہ اُس تحریک کے مخاطب نہیں ہوتے اور اُن پر کسی قسم کی ذمہ واری بھی نہیں ہوتی مگر چونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ قوم ہمارے لئے قربانی کرتی ہے اور ہماری ضروریات کا خیال رکھتی ہے اس لئے وہ بھی قربانی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قومی تحریکات میں حصہ دار بن جائیں۔ پس غرباء کی خبر گیری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر قومی جنگ ہو جائے تو چونکہ قوم کی اکثریت غرباء پر مشتمل ہوتی ہے اس لئے قوم کو کثرت سے کام کرنے والے مل جاتے ہیں۔ ایک کروڑ پتی کی تلوار صرف ایک تلوار کا کام دے سکتی ہے لیکن جنگوںمیں ایک تلوار نہیں کروڑوں تلواروں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کروڑوں تلواریں اس وقت تک مہیّا نہیں ہو سکتیں جب تک کہ کروڑوں غرباء کے حقوق کا خیال نہ رکھا جائے اور ان کو پوری طرح مطمئن نہ کیا جائے۔ اگر مساکین کے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے تو یہ لازمی بات ہے کہ جب قوم پر کوئی مصیبت آئے گی شریف الطبع لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ قوم نے ہم پر احسان کیا تھا اب اُس پر مصیبت آئی ہے تو ہم اس کی مدد کریں۔ جیسے انگلستان امریکہ روس اور جرمنی وغیرہ ممالک میں موجودہ جنگ میں لاکھوں آدمی کام آئے اور انہوں نے اپنے آپ کو قوم کے لئے قربان کر دیا۔ اس کی وجہ درحقیقت یہی ہے کہ اِن قوموں میں غرباء کی پرورش کا احساس زیادہ پایا جاتا ہے ہندوستا ن میں لوب فوجی بنتے ہیں وہ یا تو اس لئے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں کہ ان کے باپ دادا فوج میں کام کر چکے ہوتے ہیں اور یا پھر اس لئے جاتے ہیں کہ اُن کو بعد میں مربّعے مل جائیں۔ قومی احساس ہندوستانیوںمیں بہت کم ہوتا ہے۔
پھر اگر غرباء کے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے تو اُن کے دلوں میں یہ احساس رہتا ہے کہ جو لوگ اپنے اموال میں ہماری ضروریات کا خیال رکھتے ہیں وہ فتوحا ت میں بھی ہمارا ضرورخیال رکھیں گے اور یہ بھی قوم کی ترقی کا ایک ذریعہ ہوتا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ قومی اموال کی ترقی صرف امراء کو ہی نہیں بلکہ ہمیں بھی فائدہ پہنچائے گی۔ جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اموال میں غرباء کے حقوق اس لئے بیان کئے ہیں کَیْ لَایَکُوْنَ دُوْلَۃً م بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ (الحشر ع ۱ ۴)تا کہ تم روپیہ کو اس طرح استعمال نہ کرو کہ وہ دولتمندوں میں ہی چکر لگانے لگے بلکہ غرباء کو بھی روپیہ ملے۔ پس غرباء کی خبر گیری کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جتنی قوم ترقی کرے گی اُتنا ہی ہمارا حصہ بڑھتا چلا جائے گا لیکن اگر ان کو حصہ نہ دیا جائے تو وہ کہتے ہیں ہمیں تو حصہ ملنا نہیں قومی اموال کی ترقی امراء کو ہی فائدہ دے گی اس لئے ہم اپنی جانوں کو کیوں ضائع کریں۔
تیسری چیز جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے وہ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا۔ کہ تمہیں باپ دادا سے مال ملا ہے مگر بجائے اس کے کہ تم اُسے ترقی دیتے اور اُسے اور بڑھانے کی کوشش کرتے تم نے اسے تباہ کرنا شروع کر دیا۔ غرض اسراف بھی قومی تنزّل کی ایک بہت بڑی علامت ہے اور اس کے دو بڑے نقصان ہوتے ہیں۔ اوّلؔ یہ کہ انسان میں نکمّا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ باپ دادا کی طرح اگر وہ کام کرتا تو نکمّا پن اس میں پیدا نہ ہوتا مگر وہ محنت کو صرف روٹی کمانے کا ذریعہ سمجھ لیتا ہے اور جب اُسے باپ دادا کی جائیداد پر قبضہ کر لینے کی وجہ سے روٹی مل جاتی ہے تو وہ کام نہیں کرتا۔ جس قوم میں ایسے آدمی پیدا ہو جائیں کہ وہ کوئی کام نہ کریں وہ اس جونک کی طرح ہوتے ہیں جو جسم کا خون چوس لیتی ہے اور اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کی زیادہ سے زیادہ مذمت کی جائے۔ اگر کسی قوم میں ہزاروں لوگ بھی کروڑ پتی ہوں لیکن وہ سب کے سب کام کر رہے ہوں اور اُن میں سے ایک شخص بھی ایسا نہ ہو جس کے اندر نکمّا پن پایا جاتا ہو تو وہ قوم کبھی تباہ نہیں ہوتی۔ لیکن اگر ایک کروڑ پتی بھی ایسا ہے جو باپ دادا کی جائیداد لے کر بیٹھ گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب مجھے کسی کام یا کسی محنت کی ضرورت نہیں محنت تو اس لئے کی جاتی ہے کہ روٹی ملے میرے پاس روٹی کا کافی سامان ہے کیوں محنت کروں تو اُس قوم کی تباہی کی بنیادی اینٹ وہ شخص اپنے ہاتھ سے رکھنے والا ہوتا ہے۔ پس محض کسی کروڑپتی کا قوم میں پایا جانا اس کی بربادی کی علامت نہیں کیونکہ گو وہ کروڑپتی ہو گا مگر نکمّا نہیں ہو گا بلکہ کام کر رہا ہو گا۔ نکمّا وہ ہے جو کہتا ہے کہ باپ کا ایک کروڑ روپیہ میرے پاس ہے مجھے اب محنت کی ضرورت نہیں۔ مجھے اب کام کی ضرورت نہیں میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ باپ کے روپیہ پر تصرّف رکھوں جس طرح جی میں آئے کروں۔ یوں تو انگلستان میں بھی کروڑ پتی پائے جاتے ہیں مگر وہ لوگ ایسے ہیں کہ باوجود کروڑ پتی ہونے کے محنت کرتے ہیں اور اپنے روپیہ کو برباد کرنے کی بجائے اُس سے کوئی نہ کوئی کارخانہ جاری کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پچاس، سو، دو سو یا ہزار آدمیوں کو مزدوری مل جاتی ہے اور وہ روپیہ قوم کی ترقی کے کام آتا رہتا ہے۔ بے شک وہاں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو بنکوں میں اپنا روپیہ جمع کر دیتے ہیں مگر زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنے روپیہ سے کارخانہ جاری کر دیتے ہیں یا بنکوں میں روپیہ جمع کر کے خود کسی سوسائٹی کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری بن جاتے ہیں اور اس طرح آنریری طور پر قومی خدمات سرانجام دیتے ہیں اس لئے وہ قوم تباہ نہیں ہوتی۔ اس جگہ ایسے لوگوں کا ذکر نہیں بلکہ نکمّے امراء کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنے باپ دادا کے روپیہ کو کھاتے رہتے ہو اور خود ساری عمر نکمّاپن میں گزار دیتے ہو جس قوم میں ایسے منحوس لوگ پیدا ہو جائیں وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ دوسرےؔ خواہ تم اچھا کہو یا بُرا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں وہ قوم میں ضرور عزت حاصل کر لیتے ہیں اور اس وجہ سے اُن سے اُتر کر اُن کی اولاد کو بھی کچھ نہ کچھ عزت قوم میں حاصل ہو جاتی ہے خواہ دنیا میں کتنی بغاوت ہو جائے، لوگ بالشوزم کے قائل ہو جائیں پھر بھی یہ بات کبھی مٹ نہیں سکتی کہ جب کوئی شخص قوم میں کوئی خاص اعزاز حاصل کر لیتا ہے تو کچھ نہ کچھ عزت اُس کی اولاد کو بھی مل جاتی ہے۔ یہ ایک فطرتی چیز ہے جس کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا جس نے کوئی نمایاں کام کیا ہوتا ہے اُس کی اولاد خواہ مستحق ہو یا نہ ہو مگر بہرحال اُس عزت کا کچھ نہ کچھ حصہ اولاد کو بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اب یہ لازمی بات ہے کہ جب ایسے لوگوںمیں سُستی پیدا ہو جائے گی تو چونکہ بڑے خاندان ہی لیڈر ہوتے ہیں اُن کی سُستی کا قوم پر اثر پڑے گا کہ اس کا شیرازہ منتشر ہو جائے گا جب وہ لوگ جنہیں قوم میں عزت حاصل ہو جن کے ہاتھ میں لیڈری کی باگ ڈور ہو، باپ دادا کی جائیداد پر بیٹھے روٹیاں توڑ رہے ہوں تو یہ قدرتی بات ہے کہ اُس قوم میں لیڈر کم ہو جائیں گے۔ بے شک کچھ نئے لیڈر بن جاتے ہیں مگر کچھ باپ دادا کی عزت اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے لیڈر سمجھے جاتے ہیں اگر اُن میں اس قسم کی سُستی پیدا ہو جائے تو ایک قسم کے لیڈر ہی رہ جائیں گے دوسری قسم کے لیڈر نہیں رہیں گے اور اس طرح قوم کے راہنما محدود ہو جائیں گے۔
چوتھی چیز محبتِ مال ہے۔ مال کی محبت حلال وحرام کا امتیاز اُڑا کر انسان کو ظلم کی طرف مائل کر دیتی ہے جس شخص کے دل میں انتہائی طور پر مال کی محبت ہو گی وہ حلال اور حرام میں کوئی امتیاز نہیں کرے گا۔ حلال ذریعہ سے مال آئے گا تو اُسے بھی لے لے گا، حرام ذریعہ سے مال آئے گا تو اُسے بھی لے لے گا اور جس شخص میں حلال کا امتیاز نہ رہے وہ ظلم پر امادہ ہو جاتا ہے اور جس قوم میں ظالم پیدا ہو جائیں اُس کا شیرازہ کبھی متحد نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک لازمی اور طبعی بات ہے کہ جب انتہائی طور پر مال کی محبت پیدا ہو گی حلال و حرام کی تمیز نہ رہے گی تو انسان ظلم سے دریغ نہیں کرے گا اور جب قوم میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جن کو دوسروں کو لوٹنے میں مزا آتا ہو تو وہ قوم کبھی پنپ نہیں سکتی۔
دوسرےؔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم صنعتی ترقی سے محروم رہ جاتی ہے جس شخص کے دل میں مال کی شدید محبت ہو وہ بعض دفعہ روپیہ کو کام پر لگانے سے ڈرتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ شاید تجارت یا صنعت میں نقصان نہ ہو جائے بہتر یہی ہے کہ میں اس کو اپنے پاس محفوظ رکھوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کا مال بھی نہیں بڑھتا اور غرباء کے حقوق کا بھی اتلاف ہوتا ہے۔ فرض کرو دس ہزار روپیہ سے یہ ایک کارخانہ جاری کرتا اور بیس پچیس مزدور اُس کارخانہ میں کام کرنے والا ہوتا تو بیس پچیس خاندان اُس روپیہ سے پرورش پانے لگ جاتے۔ آگے ایک خاندان میں اگر پانچ پانچ آدمی بھی فرض کر لئے جائیں تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ اُس نے دس ہزار روپیہ خرچ کر کے سَو سوا سَو لوگوں کے لئے مزدوری مہیا کی۔ لیکن اگر وہ روپیہ خزانہ میں جمع کر دیتا ہے تو سَو سوا سَو آدمیوں کی روٹی ماری جاتی ہے۔ اسی طرح اگر قوم میں دس ہزار مالدار ہوں اور وہ اپنے روپیہ کو خزانہ میں محفوظ رکھیں تو لاکھوں لوگوں کی مزدوری ماری جائے گی اور صنعتی لحاظ سے قوم کو شدید نقصان پہنچے گا۔ پس دوسرا نقصان مال کی محبت کا یہ ہے کہ قوم صنعتی لحاظ سے ترقی سے محروم رہ جاتی ہے۔
تیسرا نقصان یہ ہے کہ حُبِّ مال کی وجہ سے قومی چندوں میں کمی آ جاتی ہے۔ جب بھی کوئی تحریک ہو مال کی محبت غالب آ جاتی ہے اور قومی تحریکات میں حصہ لینے کے لئے انسان تیار نہیں ہوتا۔
چوتھےؔ اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جن کے دلوں مال کی محبت ہوتی ہے وہ قومی ایثار کے وقت دشمن کے غلبہ سے ڈر کر غدّار بن جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ (آل عمران ع ۴ ۱ ۵) لڑائی میں کبھی ایک کا پلّہ بھاری ہو جاتا ہے اور کبھی دوسرے کا۔ اونچ نیچ ضرور ہوتی رہتی ہے ایسی حالت میں وہ شخص جس کے دل میں مال کی محبت ہوتی ہے اگر اُسے ذرا بھی یہ پتہ لگے کہ دشمن غالب آنے والا ہے تو وہ چوری چھپے دشمن کے ساتھ ساز باز شروع کر دیتا ہے اور اپنی قوم سے غدّاری کرتا ہے محض اس لئے کہ اس کا مال محفوظ رہے۔
حضرت خلیفہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر انگریز سُود رلے کر بھی لوٹتے ہیں تو سُود دے کر بھی لوٹتے ہیں پھر اس کے متعلق ایک واقعہ سُنایا کرتے تھے۔ آپ فرماتے اودھؔ کی اسلامی حکومت اس طرح تباہ ہوئی کہ پہلے انگریزوں نے لوگوں میں یہ تحریک شروع کر دی کہ اگر تم ہمارے بنک میں اپنا روپیہ جمع کرو تو تمہیں اڑھائی فیصدی نفع دیا جائے گا۔ یہ لالچ اتنا بڑا تھا کہ ان لوگوں نے اپنا تمام روپیہ کلکتہ کے انگریزی بنک میں جمع کرا دیا۔ عورتوں نے اپنے زیورات تک بیچ ڈالے اور روپیہ انگریزوں کے حوالے کر دیاکیونکہ اُنہیں آئندہ کے متعلق بڑی بڑی امیدیں دلائی گئی تھیں۔ اُنہیں کہا گیا تھا کہ تمہارا دس لاکھ روپیہ جمع ہؤا تو تمہیں پچیس ہزار روپیہ سود دیا جائے گااور پھر تمارا اصل مال بالکل محفوظ رہے گا جب تم مانگو گے روپیہ واپس دے دیا جائے گا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ مسلمانوں کا سارے کا سارا روپیہ کلکتہ کے انگریزی بنک میں جمع ہو گیا اس کے بعد انگریزی فوج نے حملہ کر دیا۔ لکھنؤ جو اودھؔ کی حکومت کا دارالسلطنت تھا وہاں کے بڑے بڑے سرداروں سے انگریزوں نے کہہ دیا کہ خبردار! تم میں سے کوئی شخص بادشاہ کو یہ خبر نہ پہنچائے کہ انگریزی فوج حملہ کے لئے آ رہی ہے اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارا جو روپیہ بنک میں جمع ہے وہ ضبط ہو جائے گا۔ اُن غدّار افسروں نے ایسا ہی کیا۔ بادشاہ مرغ لڑوا رہا تھا اور کنچنیوں کے ناچ گانے میں مشغول تھا کہ ایک شخص بول اٹھا اور کہنے لگا کہ حضور سنا ہے انگریزی فوج آ رہی ہے وہ افسر جو اندرونی طور پر انگریزوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے اُنہوں نے اُس کو ڈانٹنا شروع کر دیا اور بادشاہ سے کہا حضور کے اقبال کے سامنے انگریزوں کی کیا مجال ہو سکتی ہے یہ ایک بے وقوف شخص یوں ہی بول پڑا ہے۔ حضور کے آرام اور مزے کا وقت تھا مگر اس نے سارا مزہ خراب کر دیا انگریزوں کی کیا مجال ہے کہ وہ حضور کی شاہی کو نقصان پہنچا سکیں۔
غرض بادشاہ کو انہوں نے ناچ گانوں اور مرغوں کے لڑوانے میں ہی مشغول رکھا اور انگریزی فوج لکھنؤکے اندر داخل ہو گئی الغرض محبتِ مال قوم میں غدّاری پیدا کر دیتی ہے اس لئے اگر کوئی قوم ترقی کرنا چاہے تو اُسے اپنے افراد کے قلوب میں سے مال کی محبت کو مٹا دینا چاہئیے اس کے بغیر وہ حقیقی اور پائدار ترقی حاصل نہیں کر سکتی۔
چونکہ یہاں کفار کا ذکر تھا اور اُنہیں یہ بتایا جا رہا تھا کہ تم تباہ ہو جائو گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِن آیات میں یہ مضمون بیان کیا کہ تمہاری تباہی کے سامان مہیا کہیں باہر سے نہیں آئیں گے بلکہ تمہارے اندر ہی تمہاری بربادی کے سامان موجود ہیں۔ لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوم کا ہر فرد جانتا ہے کہ اگر میں لڑائی میں مارا گیا تو مجھ سے بڑھ کر شفیق باپ میرے بچوں کے لئے موجود ہے۔ مسکین جانتا ہے ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو طاقت ملی تو مجھے کھانا ملے گا، مجھے کپڑا ملے گا، مجھے بیماری کے وقت علاج میسر آئے گا اور مجھے فتوحات میں برابر کا حصہ ملے گا۔ باپ دادا سے ورثہ حاصل کرنے والا جانتا ہے کہ میں نے اپنے مال کو تلف نہیں کرنا بلکہ اِسے قومی کاموں پر صرف کرنا اور اُسے پہلے سے بھی زیادہ بڑھانا ہے تاکہ قوم کا قدم ترقی کی طرف بڑھے تنزل کی طرف نہ جُھکے۔ اور اگر کسی کے پاس مال ہے تو اس سے محبت نہیں رکھتا۔ چندے کے وقت سارے کا سارا مال لے آتا ہے اور پھر اس بات کی احتیاط رکھتا ہے کہ اُس کے مال میں کوئی حرام پیسہ نہ آ جائے جب ترقی کی تمام علامات محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے ساتھیوں میں پائی جاتی ہیں اور تنزل کی تمام علامات تم میں موجود ہیں تو تمہیں یہ خیال ہی کس طرح کر سکتے ہو کہ تم غالب آ جائو گے اور مسلمان مغلوب ہو جائیں گے۔ بے تعداد کے لحاظ سے تم زیادہ ہو مگر بہت سی چڑیاں باز پر فتح حاصل نہیں کر سکتیں۔ تم میں سے ہر شخص وہ ہے جو یتامیٰ کی خبرگیری نہیں کرتا اور اسلئے وہ انتہائی طور پر بُزدل اور ڈرپوک ہے۔ تم میں سے ہر شخص وہ ہے جو غرباء کی اعانت کرتا اس لئے تمہیں قومی جنگوں کے وقت کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ تم میں سے ہر شخص وہ ہے جسے اپنے باپ دادے سے جب ورثہ میں روپیہ ملتا ہے تو وُہ اُسے عیاشی میں برباد کر دیتا ہے۔ تم میںسے ہر شخص وُہ ہے جس کے دل میں مال کی انتہائی محبت پائی جاتی ہے اور اس وجہ سے جب قوم کے لئے مال کی ضرورت ہو تم میں سے کوئی شخص روپیہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ جب تمہاری یہ حالت ہے اور مسلمانوں کی وہ حالت تو یہ لازمی بات ہے کہ مسلمان جیتیں گے اور تم ہارو گے۔
یہی چیز ہے جو ہماری جماعت کے افراد کو اپنے مدنظر رکھنی چاہئیے۔ اگر ہماری جماعت ترقی کرنا چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ یہ چار باتیں اپنے اندر پیدا کرلے اور پوری مضبوطی کے ساتھ اُن پر قائم رہے۔ اگر ہمارے مبلّغ اور ہمارے معلّم اور ہمارے صدر اس بات کو مدنظر رکھیں کہ ہم نے یتامیٰ کی خبر گیری کرنی ہے ہم نے ان کو صرف کھانا ہی نہیں کھلانا بلکہ اُن کا اکرام کرنا ہے، اگر وہ سمجھیں کہ ہم نے مساکین کو کھانا پینے کے لحاظ سے ہر قسم کی تکالیف سے محفوظ رکھنا ہے، اگر وہ خیال رکھیں کہ ہم نے لوگوں میں کام کرنے کی عادت پیدا کرنی ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم میں سے کوئی شخص اپنے باپ دادا کی جائیداد لے کر بیٹھ جائے اور خود کام نہ کرے اگر ایک شخص کروڑ پتی بھی ہے مگر وہ صرف اپنے باپ دادا کی جائیداد پر بیٹھا ہؤا ہے خود کوئی کام نہیں کرتا تو قوم کو اس کی ذرا بھی عزت نہیں کرنی چاہئیے اُس کے متعلق یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ وہ بڑا رئیس ہے بلکہ اُسے چوہڑوں اور چماروں سے بھی زیادہ ذلیل اور بد ترسمجھنا چاہئیے۔ اسی طرح قوم میں کوئی شخص ایسا ہو جو مال سے محبت رکھتا ہو تو جماعت کو سمجھ لینا چاہئیے کہ یہ وہ شخص ہے جو کسی وقت ہمارے لئے غدّار ثابت ہو گا اور جب بھی اسے موقع ملے گا روپیہ کے ڈر کے مارے دشمن سے مل جائے گا۔ اگر یہ چار باتیں تم اپنے اندر پیدا کر لو تو چاہے تمہارے دشمن لاکھ ہوں، کروڑ ہوں، دس کروڑ ہو وہ کروڑ یا دس کروڑ چڑیاں ہوں گی اور تم اُن کے مقابلہ میں باز ہو گے۔
کَلَّآ اِذَادُکَّتِ
خبردار! جب زمین کا ہلا کر ہموار کر دی جائے گی اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے اُس کے ساتھ صف باندھے ہوں گے۱۵؎ اور اُس دن جہنم (قریب) لائی جائے گی اُس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا مگر اب اُس کے لئے (نفع مند) نصیحت کہاں۱۶؎
۱۵؎حل لغات
دُکَّتْ۔ دَکَّ سے مجہول مؤنث کا صیغہ ہے اور دَکَّ الْاَرْضَ کے معنے ہیں سَوّٰی صَعُوْدَھَا وَھُبُوْطَھَا وَکَسَرَ حُفْرَتَھَا بالتُّرَابِ وَسَوّٰھَا یعنی زمین کے اونچے نیچے کو برابر کر دیا ّذ(اقرب) دُکَّتْ الْاَرْضُکے معنے ہوں گے جب زمین ہموار کر دی جائے گی۔
تفسیر
فرماتا ہے کَلَّا تم میں یہ باتیں نہیں ہیں لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی جماعت میں یہ سب باتیں پائی جاتی ہیں۔ تم خوب یاد رکھو جب زمین کو ہلایا جائے گا اور وہ وقت آئے گا جس کی اِذَازُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا (زلزال) میں خبر دی گئی ہے اور خدائی فیصلے کا دن آ جائے گا۔ اُس دن خدا اپنے فرشتوں کی صف کے ساتھ آئے گا یا خدا آئے گا اور فرشتے صفیں باندھے کھڑے ہوں گے اور یہ بھی کہ خدا فرشتوں کی صفوں کے ساتھ آئے گا۔
۱۶؎تفسیر
اَلْاِنْسَانُ سے مراد وہ انسا ن ہے جس کا اُوپر ذکر آ چکا ہے اور جس کے متعلق بتایا جا چکا ہے کہ وہ یتامیٰ کی خبر گیری نہیں کرتا۔، مساکین کو کھانا نہیں کھلاتا۔ باپ دادا کا مال برباد کر دیتا ہے اور مال سے بے جا محبت کرتا ہے فرماتا ہے اُس دن وہ انسان جس میں یہ چار خصلتیں پائی جاتی ہوں گی وہ چاہے گا کہ اپنی اصلاح کرے اپنی قوم کو منظّم کرے۔ا پنے شیرازپ کو متحد کرے اور قومی تباہی سے محفوظ رہے مگر اَنّٰی لَہٗ الذِّکْرٰی قومی کیرکٹر سالہاسال کی محنت کے بعد پیدا ہوتے ہیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اِدھر خیال آیا اور اُدھر قومی کیرکٹر کا رُخ بدل جائے۔ اکرامِ یتیم کی عادت کسی جماعت میں ایک دن میں پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ چالیس پچاس بلکہ سو سال کی جدوجہد کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ یہی حال محبتِ مال کا ہے کہ وہ ایک دن میں نہیں بلکہ مدتوں کی کوششیں صفائی قلب کا موجب بنتی ہیں۔ پس فرماتا ہے اَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی اب اصلاح کا کہاں موقع ہے یہ چیزیں تو ایک لمبے عرصہ کے بعد پیدا ہوتی ہیں اور تمہارا وہ عرصہ گذر گیا اب تم ہلاکت کے کنارے پر کھڑے ہو اب اصلاح اور درستیٔ احوال کا کون سا موقع ہے۔
یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ
اور کہے گا کاش میں نے اپنی (اس) زندگی کے لئے کچھ آگے بھیجا ہوتا۱۷؎ پس اُس دن اُس (یعنی خدا) کے عذاب جیسا کوئی عذاب نہ دے گا اور نہ اُس کی گرفت جیسی کوئی گرفت کرے گا۱۸؎ اے نفسِ مطمئنّہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ (اس حال میں کہ تُو اُسے)پسند کرنے والا بھی (ہے) اور اس کا پسندیدہ بھی (ہے)۱۹؎
۱۷؎تفسیر
اُس دن اُسے اِس امر پر افسوس ہو گا کہ کاش میں اعلیٰ اخلاق پیدا کر کے اپنی جماعت کو مضبوط کرتا مگر اُس دن کی خواہش نفع نہیں بخش سکتی وہ وقت اُس کی تباہی کا ہو گا۔
۱۸؎حل لغات
یُوْثِقُ: اَوْثَقَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور اَوْثَقَہٗ فِی الْوِثَاقِ کے معنے ہوتے ہیں قَدَّہٗ بِہٖ اس کو رسّہ میں یا کسی اور باندھنے والی چیز میں جکڑ دیا (اقرب) پس لَایُوْثِقُ وَثَاقَہٗٓ اَحَدٌ کے معنے ہوں گے اُس جیسا کوئی نہیں باندھے گا۔
تفسیر
فرماتا ہے جس طرح تم نے ایسے ایسے عذاب ہماری جماعت کو دئے جن کی مثال نہیں ملتی اِسی طرح ہم تمہیں بھی اُس دن ایسا عذاب دیں گے جس کی مثال نہیں ملتی اِسی طرح ہم تمہیں بھی اُس دن ایسا عذاب دیں گے جس کی مثال نہیںملتی اور جس طرح تم نے مومنوں کو کوئی قسم کی قیدوں میں ڈالا تھا اُسی طرح ہم بھی تمہیں قید میں ڈالیں گے۔ قید سے مراد یہاں صرف قید نہیں بلکہ کاموں سے الگ الگ کر دینا یا اور کئی رنگ میں اُن کو جکڑ کر تکالیف پہنچانا بھی اس میں شامل ہے۔ فرماتا ہے جس طرح تم نے ہمارے مامور کی جماعت کو باندھ باندھ کر دُکھ دئے تھے اسی طرح ہم تم کو ایسا باندھیں گے کہ کبھی کسی کو نہ باندھا ہو گا۔
۱۹؎تفسیر
نفس مطمئنّہ سے مراد وہ نفس ہے جس میں اوپر کی بیان کردہ چاروں خوبیاں پائی جاتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ جس قوم میں یہ چار خوبیاں پیدا ہو جائیں وہ ہر قسم کے تنزل اور ادبار کے خوف سے مطمئن ہو جاتی ہے۔ جب یتیم پروری کا مادہ قوم کے ہر فرد کے دل میں پیدا ہو جائے انہیں اپنی موت سے کیا گھبراہٹ پیدا ہو سکتی ہے یا جب مساکین کی خبرگیری کا احساس ہر شخص کے دل میں پیدا ہو جائے اور وہ ایک دوسرے کو اس کی تحریک کرتے رہتے ہوں تو قومی جنگوں کے وقت انہیں کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ مساکین جن کا بوجھ قوم اٹھا رہی ہو گی آگے بڑھیں گے اور ہر قسم کی تکلیف کو خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے وہ سمجھیں گے کہ جب قوم ہمارا خیال رکھتی ہے، ہمارے لئے کھانا مہیا کرتی ہے، ہمیں کپڑے پہناتی ہے، ہماری ضروریات کو پورا کرتی ہے تو اب ہمارا فرض ہے کہ ہم قومی مصیبت میں اُس کا ہاتھ بٹائیں اور اس کی عزت کو برقرار رکھنے میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یا جب اسراف کی عادت قوم کے کسی فرد کو نہیں ہو گی تو نکمّا پن اُن میں کس طرح پیدا ہو سکتا ہے۔ اُن کو خواہ لاکھوں کی جائیداد مل جائے اُنہیں محنت سے کوئی عار نہیں ہو گی اور جن لوگوں کو محنت سے عار نہ ہو جو کہ کروڑ پتی ہونے باوجود خود کماکر کھانے کے عادی ہوں یا روپیہ کو قومی ضروریات پر صرف کرتے ہوں اُن کا وجود قوم کے لئے ترقی کا ہی باعث ہو سکتا ہے تنزل کا باعث نہیں ہو سکتا۔ یا جب اُن کے دلوں میں مال کی محبت نہیں ہو گی تو غدّاری کرنے والے لوگ اُن میں کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں اور اُنہیں اپنے متعلق گھبراہٹ کیا ہو سکتی ہے وہ قوم یقینا مطمئن ہو گی جان کی قربانی کا سوال آئے گا تو لوگ کہیں گے ہمیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں۔ ہماری قوم یتیموں کی پرورش کرے گی۔ اگر مال کی قربانی کا سوال آئے گا تو لوگ کہیں گے ہمیں اپنے مالوں کی پرواہ نہیں۔ ہماری قوم وہ جو اپنے مساکین کا خیال رکھتی ہے اس لئے ہم ہر خطرہ سے گے نیاز ہو کر قربانی کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکنے کے لئے تیار ہیں اور ہمیں اپنے عواقب سے پوری طرح اطمینان ہے۔
قومی ترقی کا یہی نکتہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے یَآاَیَّتُھَا النّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ اے نفس مطمئنّہ یعنی پہلاانسان تو وہ تھا جس میں یہ چار خصلتیں موجود تھیں مگر تُو وہ ہے جس میں یہ چاروں خوبیاں پائی جاتی ہیں اِس لئے تھے نفسِ مطمئنّہ حاصل ہے اِرْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکَ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً اے میرے بندے تو نے دنیا میں رہ کر وہ کام کر لیا ہے جس کیلئے میں نے تجھے پیدا کیا تھا اس لئے تُو بھی خوش ہے کہ میں نے کام کر لیا اور ہم بھی خوش ہیں کہ تُو نے کام کر لیا۔ تُو ہم سے خوش ہے اور ہم تجھ سے خوش ہیں۔
فَادْخُلِیْ
پھر (تمہارا رب تمہیں کہتا ہے کہ) میرے (خاص) بندوں میں داخل ہو جا۲۰؎ اور (آ) میری جنت میں بھی داخل ہو جا۲۱؎
۲۰؎تفسیر
فرماتا ہے اب تو ہمارے بندوں میں داخل ہو جا یعنی جس طرح انسان اپنے ماتحت افراد یا اپنی مملوکہ اشیاء کی حفاظت کرتا ہے اسی طرح اب تجھ پر حملہ کرنا مجھ پر حملہ کرنا ہے۔ تجھے دُکھ دینا میری غیرت کو بھڑکانہ ہے۔ تو میرے غلاموں میں داخل ہو گیا ہے اب کسی کی مجال نہیں کہ وہ تجھ پر ہاتھ ڈال سکے۔ اگر اس کے بعد بھی کسی شخص نے تجھ کو غلام بنانا چاہا تو چونکہ تُو میرا غلام ہے اس لئے مَیں خود اُس سے لڑوں گا اور اُسے اس اہانت کی سزا دُوں گا۔
۲۱؎تفسیر
دنیا میں لوگ غلاموں سے بڑی بڑی خدمتیں لیتے اور اُنہیں کئی قسم کے عذابوں میں مبتلا رکھتے ہیںمگر فرماتا ہے جو میرا غلام بن جائے میں اُسے اپنی جنت میں لے جاتا ہوں۔ تو چونکہ میرا غلام بن گیا ہے اس لئے اے میرے بندے آ اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
سُوْرَۃُ الْبَلَدِ مَکِّیَّۃٌ
سورۃ البلد۔ یہ سورۃ مکّی ہے۱؎
اور اس کی بسم اللہ کے علاوہ بیس آیات ہیں اور ایک رکوع ہے۔
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں)
۱؎سورۃ البلد کے متعلق حضرت ابن عباسؓ اور ابن زبیرؓ کہتے ہیں کہ یہ سورۃ مکّی ہے۔ لطف یہ ہے کہ مسیحی مصنّفین میں سے پادری ویری تک کہتے ہیں۔ تغلیط کے خطرہ بغیر اس اطمینان اور یقین کے ساتھ کہ ہم کِسی غلطی کا ارتکاب نہیں کر رہے۔ نہ تاریخی واقعات کے خلاف ہم کِسی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں۔ کہ یہ پہلے سال کی ہے۔ گویا وُہ اس کے ابتدائی ہونے پر اتنے مصرہیں کہ اسے نہ صرف ابتدائی مکّی سورتوں میں شمار کرتے ہیں۔ پہلے سال کی نازل شدہ بتاتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو اس کا مضمون اور بھی معجزانہ ہَے۔ مگر میرے نزدیک اس سورۃ کا مضمون اور معجزانہ ہَے۔ مگر میرے نزدیک اس سورۃ کا ان مضامین سے تعلق ہے جن مضامین کی پہلے تین سورتیں گزر چکی ہیں اور جو تیسرے یا چوتھے سال بعد نبوت کی ہیں۔ اس بناء پر یہ سورۃ بھی میرے نزدیک تیسرے سال کے آخر یا چوتھے سال کے پہلے چند ماہ کی ہے اور پہلی سورتوں کے زمانہ کی ہی ہے۔
اِس سورۃ کا تعلق پہلی سورتوں میں سے یہ ہے کہ پہلی سورتوں میں ظلم کے ابتدا کی خبر دی گئی تھی۔ اور یہ بتایا گیا تھا کہ مُسلمانوں کے خلاف کفار کی طرف سے منظّم کوششیں شروع ہونے والی ہیں۔ پھر یہ بتایا تھا کہ وُہ کوششیں بڑی تکلیف دہ ہوں گی۔ اور یک لمبے عرصہ تک (جو دس سال تک ممتد ہو گا) یہ کوششیں جاری رہیں گی۔ پھر اس کے ازالہ کی صورت پیدا ہو گی۔ اس کے بعد پھر کچھ تکلیف ہو گی مگر صرف کچھ عرصہ تک رہے گی۔ اس کے بعد فجر کا طلوع شروع ہو جائے گا۔ اب اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ ظلم کے مقام کو واضح کرتا ہے۔ اسی طرح ظلم کی بعض اور تفصیلات کو بیان کرتا ہے۔ اور بتاتا ہے کہ یہ ظلم مکّہ میں ہی شروع ہو گا۔ ہو سکتا تھا کہ چونکہ اسوقت تک مسلمانوں پر ظلم نہیں ہؤا تھا۔ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہؓ کے رشتہ دار مکّہ میں موجود تھے۔ یہ خیال کر لیا جاتا۔ کہ لیالی عشر کی پیشگوئی کا جو ظہور ہونے والا ہے ممکن ہے اس رنگ میں ہو۔ کہ بعض اور علاقوں میں اسلام پھیلے۔ اور وہاں مسلمانوں پر مظالم شروع ہو جائیں۔ اِس خیال کی ایک وجہ یہ تھی۔ کہ مکّہ سے باہر بھی اکّے دکّے لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور ذہن اس طرف جا سکتا تھا کہ ممکن ہے عرب کا کوئی اور حصہ ہو جس میں ان مظالم کا آغاز ہونے والا ہو۔ یا کوئی اور لوگ ہوں جن کو مصائب و آلام کا تختۂ مشق بنایا جانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں ایسے شبہات کی دتردید کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ یہی مکّہ جس میں تم رہتے ہو جس میں تمہارے عزیز اور رشتہ دار موجود ہیں۔ اور جس میں کفار کی طرف سے مظالم شروع ہونے کا تمہارے دلوںمیں خیال تک بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی مکّہ میں ان کی طرف سے یہ افعال ہوں گے۔ اور اسی شہر میں تم پر مظالم کے تیر برسائے جائیں گے۔
لَآاُقْسِمُ
نہیں (نہیں ایسا نہیں جیسا تم سمجھتے ہو) مَیں تو قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۲؎
۲؎تفسیر
لا کے متعلق نحوی لکھتے ہیں کہ فِیْہِ وَجْھَانِ اَحْدُھُمَا ھِیَ زَائِدَۃً کَمَا فِیْ قَوْلَہٖ تَعَالٰی لِئلًا یَعْلَمَ یعنی اس آیت میں جو لا آتا ہے اس کے متعلق دو باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ زائدہ ہے جیسے قرآن کریم میں ہی آتا ہے لِئَلًا یَعْلَمَ تا کہ وُہ نہ جانے اور مراد یہ ہے کہ وُہ جان لے۔
اِس جگہ یاد رکھنا چاہئیے کہ زائدہ سے اردو والا زائد مراد نہیں۔ اردو میں زائد کے اور معنے ہوتے ہیں۔ اور عربی میں نحویوں کے نزدیک زائد کے اور معنی ہوتے ہیں۔ اور عربی میں نحویوں کے نزدیک زائد بالکل اور معنے رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک زائد کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ یہ لفظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال نہیں ہؤا۔ بلکہ صرف مضمون کی تاکید کے معنی دیتا ہے۔ پس نحوی جب کسی لفظ کے متعلق یہ کہیں کہ وُہ زائد ہے تو اس سے ان کی مراد صرف اتنی ہوتی ہے۔ کہ لغت کے لحاظ سے جن معنوں میں عام طور پر یہ لفظ استعمال ہؤا کرتا ہے۔ ان معنوں میں یہ استعمال نہیں ہؤا بلکہ تاکید کے معنے دیتا ہے۔ عربی زبان کی یہ خصوصیّت ہے کہ وُہ کئی قسم کے فلسفیانہ نکمّے اپنے اندر رکھتی ہے۔ چنانچہ یہ قاعدہ ایک فلسفیانہ نکتے اپنے اندر رکھتی ہے۔ چنانچہ یہ قاعدہ ایک فلسفیانہ اصل کے ماتحت بنایا گیا ہے انسانی فطرت میں یہ داخل ہے کہ جب عام رسم ورواج کے خلاف کوئی بات کہی جائے تو انسان کی توجہ ادھر پھر جاتی ہے۔ مثلًا بچے کو بعض دفعہ باتوں باتوں میں انسان کہہ دیتا ہے۔ ’’او شریر‘‘ اب ہر شخص جانتا ہے۔ کہ اس وقت ایس گالی دینا مدنظر نہیں ہوتا۔ بلکہ صرف اس کی چالاکی کا اظہار مدنظر ہوتا ہے۔ مگر اس کے لئے شریر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ تیرے افعال میں ایک حدّت اور تیزی ہوتی پائی جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وُہ حدّت اور تیزی اعلیٰ اخلاق یا صحیح مذاق کے خلاف ہو۔ اسی طرح ماں کے سامنے بعض دفعہ بچہ ایسے انداز سے آتا ہے۔ کہ وہ سمجھتی ہے اب یہ ضرور مجھ سے کوئی چیز مانگے گا وہ اسے دیکھتی ہے اور مسکراتے ہوئے کہتی ہے ’’شریر‘‘ اب اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ تُو بہت بڑا ہے۔ بلکہ اس کے معنی صرف اتنے ہوتے ہیں کہ مَیں جانتی ہوں۔ تم میری محبت کو کھینچ رہے ہو۔ اور چاہتے ہو کہ میرے جزبات میں ہیجان پیدا کر کے چیز حاصل کر سکو۔ اور یہ بات بُری نہیں بلکہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ انسان روزانہ دعائیں مانگتا ہے۔ اور عجیب عجیب رنگ میں خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم کو حرکت میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے خدایا میں نے فلان کام محض تیری رضا کے لئے کیا تھا۔ اگر وُہ کام تیری نگا ہ میں پسندیدہ ہے اور تو جانتا ہے کہ میری نیت اور ارادہ اس کام کو کرنے سے محض یہ تھا کہ تیری رضا اور خوشنودی مجھے حاصل ہو جائے۔ کوئی اور غرض میرے سامنے نہیں تھی۔ تو اے میرے رب اس نیکی کے عوض میری فلاں حاجت کو پُورا فرما دے۔ کبھی خیال کرتا ہے۔ کہ اگر میں اپنی مسکنت اور غربت خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کروں گا تو اس کا رحم جوش میں آ جائے گا۔ اور اس کا فضل میری مشکل کشائی کا موجب بن جائے گا۔ چنانچہ اس خیال کے آنے پر وُہ اپنے عجز اور اپنی بیکسی کو خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور کہتا ہے خدایا میرا تو تیرے سوا کوئی والی اور مدد گار نہیں۔ میں اکیلا ہوں۔ میں بے کس اور بے بس ہوں۔ میری تیرے سوا اور کسی پر نظر نہیں۔ اگر تو مجھ پر رحم نہیں کرے گا۔ تو اور کون کرے گا۔ تو میری مدد فرما اور میری مشکلات کو دُور کر۔ کیونکہ تیرے سوا میرا کوئی ناصر اور مدد گار نہیں۔ اب یہ چالاکی نہیں ہے۔ نہ اسے شرارت اور بددیانتی کہتے ہیں۔ بلکہ ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو کھینچنے اور اس کے رحم کو جوش میں لانے کے لئے ایسے الفاظ کا استعمال اثر رکھتا ہے۔ چنانچہ ایک ماں جب اپنے بچے کو شریر کہتی ہے اس وقت اسے غضب نہیں آتا۔ بلکہ مزہ آتا ہے۔ اور اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ اسے چمٹا لے کہ یہ کتنا ہوشیار ہے اور اس نے اپنے مقصد کو کس عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ تو فطرت انسانی میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ کبھی کوئی بُری بات بظاہر متضاد کہی جاتی ہے اور اس سے مراد دوسرے کی توجہ کو کھنچنا ہوتا ہے۔
پنجابی زبان میں بعض دفعہ ایسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ جن کا مفہوم ان کے ظاہر کے خلاف ہوتا ہے۔ مثلاً بعض دفعہ باتیں کرتے ہوئے ایک شخص دوسرے سے کہہ دیتا ہے ’’چھڈ وی‘‘ یعنی مجھے چھوڑو بھی۔ حالانکہ اس نے اسے پکڑا نہیں ہوتا۔ نہ اس کا خود یہ مطلب ہوتا ہے کہ تُو نے مجھے کیوں نہ پکڑ رکھا ہے۔ مجھے چھوڑو تا کہ مَیں جا سکوں بلکہ یہ ایک طریق ہے جو شدت سے دوسرے کو کسی بات سے روکنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نحوی کہتے ہیں کہ جب کسی بات کی طرف دوسروں کی توجہ مبذول کرنا ہو اور منشاء یہ ہو کہ تاکید کی جائے۔ تو الٹ بات کہہ دی جاتی ہے۔ حالانکہ مفہوم اور ہوتا ہے جیسے اں بعض دفعہ اپنے بچہ کو شریر کہہ دیتی ہے۔ مگر اس کا منشاء یہ نہیں ہوتا کہ کِسی ناراضگی کا اظہار کرے۔ بلکہ وہ اپنی محبت کے اظہار کے لئے یہ لفظ استعمال کرتی ہے۔ اور وُہ جانتی ہے کہ جتنی محبت ’’شریر‘‘ لفظ کہہ کر ظاہر ہو سکتی ہے۔ اتنی محبت کسی پیار کے لفظ سے ظاہر نہیں ہو سکتی۔ گو وُہ اسے کہتی ’’شریر‘‘ ہے مگر اس کے چہرے کی بناوٹ اس کے ہونٹوں کی حرکت اور اس کی آنکھوں کی چمک ظاہر کر رہی ہوتی ہے کہ وہ محبت میں گھلی جا رہی ہے۔
غرض لا کے متعلق نحوی کہتے ہیں کہ یہ زائدہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ اسل معنوں میں استعمال نہیں ہؤا۔ بلکہ محض مضمون کی تاکید کے لئے استعمال ہؤا ہے۔ بلکہ اور معنوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا ’’نہیں‘‘ ’’نہیں‘‘ یہ الفاظ ایسے ہیں کہ انسان ان کو سنتے ہی حیران ہو جاتا ہے۔ اور فوراً اس کی توجہ پھر جاتی ہے۔ کہ یہ ’’نہیں‘‘ ’’نہیں‘‘ کیوں کہا جا رہا ہے۔ اگر صرف اُقْسِمُ سے آیت کا آغاز کیا جاتا ہے۔ اور لا کا استعمال نہ کیا جاتا۔ تو اُقْسِمُ کے بعد لوگوں کی توجہ پیدا ہوتی۔ اور وُہ سوچتے کہ ان کے سامنے کونی سی شہادت رکھی جا رہی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرما دیا کہ لا ’’نہیںنہیں‘‘ اور باتوں کو چھوڑو اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیںاسے سنو۔ اس ’’نہیں نہیں‘‘کو سنتے ہی ہر شخص فوراً متوجہ ہو جاتا ہے ۔ اور وُہ چاہتا ہے کہ میں معلوم کروں کہ کیا بات ہے اور نہیں نہیں کس بات پر کہا جا رہا ہے۔ گویا لوگوں کی توجہ کو جذب کرنے اور ان پر اصل حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے اُقْسِمُ کی بجائے لا سے اس سورۃ کا آغاز کیا۔ تاکہ اُقْسِمُ کے بعد توجہ پیدا نہ ہو۔ بلکہ اس سے پہلے لا کے سنتے ہی ہر شخص متوجہ ہو جائے۔ بعض نحویوں نے کہا ہے کہ یہ لا زائدہ نہیں بلکہ معنے رکھتا ہے۔ اور پھر وہ اس کی دو قسمیں کرتے ہیں اَحَدُھُمَا ھِیَ نَفْیٌ لِلْقَسَمِ بِھَا کچھ لوگ تو کہتے ہیںکہ یہ نفیٔ قسم کے معنوںمیں ہے۔ یعنی لَآ اقْسِمُ بِھَذَا الْبَلَدِ کے معنے یہ ہیں کہ ہم اس شہر کی قسم نہیں کھاتے۔ مگر چونکہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ قسم کی نفی یہاں کیوں کی گئی ہے۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہاں قسم نفی اس لئے کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جو بات کہتے ہیں وہ اتنی صاف اور واضح ہے کہ اس کے لئے کِسی قسم کی ضرورت نہیں۔ وَالَّثَانِیْ اَنَّ لَا رَدٌّلِکَلَامٍ مُقَدَّرٍ لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ لا ایک کلام مقدّر کا رد ہے۔ یعنی کوئی اعتراض ہے جس کا لا کے ذریعہ رد کیا گیا ہے۔ یہ مقدر کلام دو طرح نکلتا ہے۔ ایک آیت کے مفہوم سے اور ایک پہلی سورۃ کے مضمون سے یعنی یا تو یہ مقدر کلام آیت کے مفہوم سے نکلے گا۔ اور یا پھر مقدر کلام آیت کے کے مفہوم سے نکلے گا۔ اور یا پھر مقدر کلام وہ ہو گا۔ جس کا پہلے ذکر آ چکا ہے۔ چنانچہ اِس سورۃ میں انہوں نے مقدر کلام پہلی سورۃ کے مضامین سے اخذ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس لا کا مفہوم یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں جو باتین تمہاری طرف سے پیش کی گئی ہیں وُہ بالکل غلط ہیں اصل بات اور ہے۔ اور یا ہماری طرف سے بیان کردہ پہلی باتوں کے خلاف جو لوگ اعتراضات کر رہے ہیں وہ غلط ہیں اور ہم ان کی تردید کرتے ہیں بہرحال انہوں نے لا کو ایک کلام مقدّر کا ردّ قرار دیا ہے۔ اور کلام مقدر انہوں نے اس جگہ اَنْتَ مُفْتَرٍ نکالا ہے۔ یعنی ان لوگوں کا قول یہ ہے کہ وہ کفار جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کہا کرتے تھے کہ تو مفتری ہے۔ ان کا ردّ اس جگہ کیا گیا ہے۔ اور اصل آیت یوں ہے لا اَنْتَ لَیْسَ بِمُفْتَرٍ نہیں نہیں یہ بات غلط ہے کہ تُو مفتری ہے۔ تو مفتری نہیں بلکہ ہمارا سچا رسول ہے۔ اور ہم اس بات کی شہادت کے طور پر اس مکّہ شہر کو پیش کرتے ہیں۔
میرے نزدیک لا اَنْتَ مُفْتَرٍ کے جواب میں نہیں بلکہ اسی مضمون کے جواب میں ہے جو پہلی سورتوں کے جواب میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی مخالفین نے پانے ذہن میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی جماعت کی تباہی کے منصوبے سوچنے شروع کر دئے تھے۔ اور گو ابھی تک انہوں نے ان منصوبوں کو ظاہر نہیں کیا تھا۔ مگر ان کے اذہان میں یہ بات بڑھتی جا رہی تھی۔ کہ اسلام کو کچلنے اور اس کی ترقی کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اور چونکہ انہوں نے مخفی منصوبے کئے تھے میرے نزدیک ان کے ان مخفی خیالات کو قرآن کریم نے بھی ایک اخفا کے رنگ میں پیش کیا ہے۔ اور لا کہہ کر ایسے رنگ میں ان کو ظاہرکیا ہے۔ کہ کفار کو اشاروں میں بتا دیا جائے کہ ہمیں تمہارے ان منصوبوں کا علم ہے مگر تم یاد رکھو کہ اپنے ان منصوبوں میں تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ طریق اللہ تعالیٰ نے سورۂ الغاشیہ سے ہی اختیار کیا ہے۔ چنانچہ پہلے یہ خبر دی۔ کہ کچھ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ بننے والے ہیں۔ پھر سورۃ الفجر میں خبر دی۔ کہ مسلمانوں پر دس تاریک راتیں آنے والی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس جگہ ابھی کفار کے ارادوں کو ظاہر نہیں کرتا۔ صرف صرف اشاروں اشاروں میں ان کا ذکر آتا ہے۔ ظاہر ہے اس لئے نہیں کرتا کہ دشمنوں نے بھی ابھی کھلم کھلا مخالفت شروع نہیں کی تھی۔ صرف مخفی منصوبے اسلام کے خلاف کر رہے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی مخفی رنگ میں ان کے منصوبوں کا ذکر کر دیا۔ اگر ان باتوں ظاہر کر دیا جاتا۔ تو سمجھا جاتا کہ مسلمانوں نے ابتدا کی ہے۔ اور انہوں نے خود کفار کو برانگیختہ کیا ہے پس چونکہ اللہ تعالیٰ ابھی کفار کے منصوبوں کو کھلے طور پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اِس لئے اس نے کہہ دیا لَا نہیں نہیں۔ یعنی میں بتاتا تو نہیں۔ مگر تمہارے دل میں جو کچھ ہے میں اس کی نفی کرتا ہوں اور تمہیں بتاتا ہوں کہ ویسا نہیں ہو گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اشاروں اشاروں میں وہ بات بھی بیان کر دی۔ مگر ایسی زبان میں کہ جسے ہر شخص نہیں سمجھ سکتا تااشتعال بھی پیدا نہ ہو۔ اور تابعد میں کوئی شخص یہ بھی نہ کہہ دے کہ قرآن کریم نے یونہی کہہ دیا تھا کہ ہم سمجھ گئے ہیں۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک بات کو نہیں سمجھتا مگر کہہ دیتا ہے کہ میں سمجھ گیا ہوں۔ مگر واقعہ یہ ہوتا ہے کہ وُہ سمجھا نہیں ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی تشریح کر دی۔ اور بتا دیا کہ ہم کیا سمجھے ہیں۔ لیکن ایسی عبارت میں اس کو بیان کیا۔ کہ بات بھی ہو جائے اور وُہ یہ بھی نہ کہہ سکیں کہ قرآن کریم نے ان کو اشتعال دلایا ہے کہ کفار مسلمانوں کے متعلق بدا رادے رکھتے ہیں۔ اس بات کا ثبوت کفار کے ارادوں کا ہمیں پتہ لگ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے اگلے حصہ میں دیا ہے جس کی تشریح اپنے موقع پر آئے گی۔
لَا اُقْسِمُ قرآن کریم میں آٹھ جگہ استعمال ہؤا ہے۔ (۱-۲) سورۂ قیامۃ میں دو جگہ (۳)بلد (۴)واقعہ (۵)حاقہ (۶)معارج (۷)تکریر (۸)انشقاق میں اور یہ سب کی سب مکّی سورتیں ہیں۔
قرآن کریم میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو بطور شہادت کے پیش کیا ہے۔ وہاں عمومًا وائو سے قسم کھائی ہے۔ اور جہاں لَا استعمال کیا ہے۔ وہاں اُقْسِمُ کا لفظ ظاہر کیا ہے۔ وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ۔ وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِقِ وغیرہ میں وائو کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اُقْسِمُ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ لیکن جہاں لَا کے استعمال کے بعد غیر اللہ کی قسم کھائی گئی ہے وہاں لَا کے بعد اُقْسِمُ کا لفظ آیا ہے وائو سے قسم نہیں کھائی۔ جیسا کہ اوپر کی سورتوں میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ صرف ایک جگہ ہے جہاں لَا آیا ہے مگر اُقْسِمُ کا لفظ ظاہر نہیں کیا گیا۔ بلکہ وائو سے ہی قسم کھائی ہے۔ اور وُہ آیت یہ ہے فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجَاً مِمَّا قضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً (النساء ع ۹ ۶)اِس جگہ لَا وَرَبِّکَ فرمایا ہے اُقْسِمُ نہیں فرمایا۔ لیکن اس آیت کا فرق دوسری قسم کی آیتوں سے یہ ہے کہ ان میں قسم غیر اللہ کی کھائی گئی تھی۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی گئی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُقْسِمُ زور دینے کے لئے اور لَا کے معنوں کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جب خدا تعالیٰ کا نام لیا گیا۔ جیسا کہ فَلَا وَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ میں آتا ہے۔ تو اس جگہ وائو کافی سمجھی گئی اور اُقْسِمُ کو ظاہر نہیں کیا۔ لیکن جہاں خدا تعالیٰ کا نام نہیں لیا گیا۔ وہاں اُقْسِمُ کا لفظ ضرور لایا گیا ہے اس لئے کہ خدا تعالیٰ کے نام کے متعلق تو ہر شخص جانتا ہے۔ کہ اس کی قسم کا کھائی جاتی ہے۔ لیکن غیر اللہ کے متعلق نہیں جانتا۔ کہ اس کی قسم کھائیء جاتی ہے۔ پس لَا سے چونکہ نفی ہوتی تھی اُقْسِمُ کو ظاہر کر دیا گیا۔ تا قسم کی نفی سمجھ لی جائے۔
وَاَنْتَ حِلٌّ
اس حال میں کہ تو اس شہر میں (ایک فاتح کی صورت میں) اترنے والا ہے۳؎
۳؎حل لغات
حِلٌّ کے معنے تو اس علاقہ کے ہیں مَاجَاوَزَا الْحَرَمَ مِنْ اَرْضِ مَکَّۃَ جو حرم سے باہر کا ہے۔ مکّہ مکرمہ حرم کہلاتا ہے اور وہاں کسی شکار کا مارنا یا درخت کا کاٹنا بالکل منع ہے۔ لیکن چند میلوں کے بعد یہ چیزیں جائز ہو جاتی ہیں۔ یا مثلًا لڑائی حرم میں منع ہے لیکن حرم سے باہر منع نہیں۔ غرض جو علاقہ مکّہ کے اردگرد کی مقررہ حدود کے اندر کا ہے۔ وہ حرم کہلاتا ہے۔ اور اس میں جنگ کا شکار اور درختوں کاٹنا منع ہے۔ لیکن حرم سے باہر یہ چیزیں جائز ہیں۔ اسی وجہ سے بیرونی علاقہ کو حِلٌّ کہتے ہیں۔ اور اندرونی علاقہ کو حرم۔ اسی طرح اس کے ایک معنے حلال کے بھی ہیں۔ یعنی یہ حرام کی ضد بھی ہوتی ہے۔ وَالْحِلُّ: اَلْغَرَضُ الْذِیْ یُرْعٰی اِلَیْہِ۔ اور حِلّ اس ہدف کو بھی کہتے ہیں جس کی طرف تیر پھینکے جاتے ہیں وَالْاِسْمُ مِنْ تَحْلِیْلِ الیَمِیْنِ اور حل اور تحلیل ۔یمین کا اسم بھی ہے۔ یعنی قسم کو کسی ذریعہ سے کفارہ دے کر توڑ دینا۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک عورت سے جس نے یہ قسم کھائی تھی کہ مَیں اپنے غلاموں کو آزاد نہیں کروں گی۔ فرمایا حِلًّ اُمَّ فُلَانٍ اَیْ تَحلَّلْ فِیْ یَمِیْنِکَ۔ اے عورت تو کفارہ دے دے۔ اور قسم پر قائم نہ رہ۔ کیونکہ یہ بُری قسم ہے۔ وَالْحّلُ۔ اَلنَّازِلُ بِالْمَکَانِ اور کسی مکان میں عارضی طور پر اترنے والے کو بھی حِلّ کہتے ہیں قَالَ الْحَرِیْرِیُّ مَادُمْتُ حِلًّا بِھَذَا الْبَلَدِ اَیْ نَازِلًا اور حریری کہتے ہیں کہ مَادُمْتُ حِلًّا کے معنی یہ ہیں کہ جب تک مَیں اس شہر میں ہوں (اقرب) گویا حِلٌّ کے پانچ معنے ہوئے اوّل وہ علاقہ جو حرم سے باہر کا ہے دوم۔ حلال۔ سوم ۔ ہدف۔ چہارم۔ قسم کو کفارہ کے ذریعہ توڑنا۔ پنجم کِسی جگہ پر اترنا۔
تفسیر
اَنْتَ حِلٌّ بِھَذَا لْبَلَدِ کے متعلق علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ یہ جملہ معترضہ ہے جو درمیان میں آ گیا ہے لیکن بحر محیط والے کہتے ہیں کہ یہ جملہ حالیہ ہے۔ میرے نزدیک جہاں تک متبا درالی الذہن معنوں کا سوال ہے اِن معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں وائو حالیہ ہی زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے۔ مگر اِس کے یہ معنے نہیں کہ اس حال میں تو مکّہ شہادت ہے لیکن اس کے بغیر کسی روحانی امر کو شہادت مکّہ مکرمہ پیش نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی حال تو اس قسم کا ہوتا ہے کہ وہ کسی شہادت کو موجب نہیں ہوتا۔ لیکن بعض جگہ حال اس شہادت کا موجب نہیں ہوتا۔ لیکن بعض جگہ حال اس شہادت کو دوہرا رنگ دے دیتا ہے۔ اور ایک ہی چیز دو یا دو سے زائد باتوں کے لئے بطور شہادت پیش ہو جاتی ہے۔ گویا پہلے تو وہ صرف ایک چیز کی شہادت کا موجب ہوتی ہے۔ مگر اس حال کے ساتھ مل کر دوہری شہادت کا موجب بن جاتی ہے۔ پس بِھَذَا الْبَلَدِ کا حال وَاَنْتَ حِلٌّ بِھَذَا الْبَلَدِ کو قرار دینا گویا یہ معنی رکھتا ہے کہ شہادت کے طور پرمکّہ کو اس حال میں پیش کیا جاتا ہے جو یہاں بیان کیا گیا ہے مگر اس کے یہ معنے ہر گز نہیں ہیں کہ دوسری صورت میں وُہ کوئی نشان نہیں بلکہ یہ حال مزید شہادت کا موجب ہے۔ ورنہ اِس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مکّہ وہ شہر ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانۂ کعبہ کی بنیادیں استوار کیں۔ اور اس نشان عظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے تمام عرب کا مرجع بنا دیا۔ پھر مکہ مکرمہ وہ شہر ہے جس میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم الشان نشان دکھایا۔ کہ ابرہہ اپنے لشکر سمیت اس پر حملہ آور ہؤا۔ تو خدا تعالیٰ نے اسے اور اس کے لشکر تباہ و برباد کر دیا۔ اسی طرح چاہ زمزم خدا تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان تھا۔ جو مکّہ مکرمہ میں پایا جاتا تھا۔ پھر صفا اور مروہ خدا تعالیٰ کے ایک بہت بڑے نشان کی زندہ یادگاریں تھیں جن کو دیکھ کر انسان کا ایمان تازہ ہوتا تھا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھتا تھا۔ جو اس نے حضرت اباہیم علیہ السلام سے ان کی اولاد کے بڑھنے کے متعلق کئے۔ غرض مکہ مکرمہ میں اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کے بغیر بھی اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان تھا جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ ہر وہ شخص جس کے دل میں ایک ذرّہ بھی ایمان ہو جو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو دیکھنے والی آنکھ رکھتا ہو جو روحانی بینائی سے محفوظ ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ مکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی ابراہیمی نشانات کی وجہ سے ایک ممتاز مقام تھا۔ اور وہ اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کے وجود کا ایک زندہ گواہ تھا۔ پس لَآ اُقْسِمُ بِھَذَا الْبَلَدِ وَاَنْتَ حِلٌّٔ بِھَذَا الْبَلَدِ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اِس حال کے بغیر مکّہ کوئی نشان نہیں تھا۔ یا وُہ خدا تعالیٰ کی ہستی کی کوئی شہادت اپنے اندر نہیں رکھتا تھا بلکہ اس حال کے بغیر مکہ کوئی نشان نہیں تھا۔ یا وُہ خدا تعالیٰ کی ہستی کی کوئی شہادت اپنے اندر نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ اس حال کے معنی یہ ہیں کہ وہ مقدس مقام ہے جس میںعلاوہ اور نشانات کے یہ بھی ایک عظیم الشان نشان پایا جاتا ہے کہ وَاَنْتَ حِلٌّٔ بِھَذَا الْبَلَدِ تُو اِس شہر میں حِل ہے جب تک مکہ اس حال میں متصف نہیں ہؤا تھا۔ اس کا نشان اپنی ذات میں اتنا اہم نہیں تھا جنتا اب ہو جائے گا۔ اس لئے کہ پہلے مکہ مکرمہ اور بات کے ثبوت کے لئے تھا اور اب مکہ مکرمہ اور بات کے ثبوت کے لئے پیش آنے والا ہے پہلے مکہ مکرمہ ثبوت تھا اس بات کا کہ حضرت ابراہیمؑ کے نبی تھے یا حضرت اسمٰعیل خدا کے نبی تھے۔ لیکن اب یہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا کے نبی ہیں وَاَنْتَ حِلٌّٔ بِھَذَا الْبَلَدِ کے بغیر مکہ صرف ان نشانات کا شاہد تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ وابستہ تھے۔ لیکن اب یہ ان نشانات کا بھی شاہد ہو گا۔ جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے ساتھ وابستہ ہوں گے۔ پس اس حال نے مکہ کو نیا رنگ دے دیا ہے۔ پہلے مکہ صرف ابراہیمؑ یا اسماعیل ؑ کی صداقت کا ثبوت تھا۔ اور اب یہ ثبوت ہو گا اِس بات کا کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ اور دُنیا کی کوئی طاقت ان کو اپنے مقصد میں ناکام نہیں کر سکتی۔ پس اس حال کا یہ مطلب نہیں کہ مکّہ صرف اِس حال میںشہادت ہے پہلے بطور شہادت اسے پیش نہیں کیا گیا۔ بلکہ اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ہم اس وقت اسے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت میں ثبوت میں پیش کر رہے ہیں۔
اگر اس نقطۂ نگاہ کو لیا جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ نشانات دکھائے خدا تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت سے دکھائے تھے۔ اِس وجہ سے مکّہ مکرمہ خدا کے وجود کا ایک ثبوت تھا۔ تو پھر یہ اکٹھا ثبوت بن جائے گایعنی مکّہ حضرت ابراہیم علیہما السلام کی صداقت کا بھی ثبوت ہو گا۔ اور مکہ اس بات کا بھی ثبوت ہو گا کہ خدا موجود ہے کیونکہ حضرت ابراہیمؑ اور اسمٰعیل علیہما السلام کی صداقت کا بھی ثبوت ہو گا۔ اور مکہ اس بات کا بھی ثبوت ہو گا کہ خدا موجود ہے کیونکہ ابراہیمؑ یا حضرت اسمٰعیلؑ نے جو کچھ کیا خدا تعالیٰ کے حکم سے کیا۔ پس جہاں نشانات اور پیشگوئیوں نے حضرت ابراہیمؑ اور اسمٰعیل علیہما السلام کی صداقت کا ثبوت دُنیا کے سامنے پیش کیا۔ وہاں خدا تعالیٰ کی ہستی کا ایک زندہ ثبوت بھی لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اس لحاظ سے وَاَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کے یہ معنے ہوں گے کہ مکہ مکرمہ پہلے بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت تھا۔ مگر اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اب تیرے آنے سے یہ ثبوت اور بھی نمایاں ہو گا۔ کیونکہ تیرے آنے سے خدا تعالیٰ کی طاقتوں اور اس کی قدرتوں کا دنیا میں غیر معمولی ظہور ہو گا۔ اور ایسے ایسے نشانات ظاہر ہوں گے جو دنیا نے اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔
حِلٌّٔ کے مختلف معانی جو اوپر بیان کئے جا چکے ہیں ان کے لحاظ سے پہلے معنی وَاَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کے یہ ہوئے کہ ہم اس شہر کو پہلے بیان کردہ مضمون کی تائید میں ایسی حالت میں شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ اس شہر میں تجھ کو حلال سمجھا گیا ہے۔ یا سمجھا جانے والا ہے۔ یعنی مکہ مکرمہ کو حرم سمجھا جاتا ہے۔ اور جو کام باہر جائز ہیں وہ یہاں جائز نہیں۔ اور جو باہر جائز ہیں وہ یہاں اور بھی شدت سے ناجائز ہیں۔ لیکن اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم نے جو کہا تھا کہ لیالی عشر آنے والی ہیں۔ اس کے متعلق ہم مزید تجھے یہ خبر دیتے ہیں کہ یہ دس تاریک راتیں مکہ مکرمہ میں ہی آنے والی ہیں۔ پہلے صحابہؓ سمجھتے ہوں گے کہ خواہ مشرکینِ مکہ اسلام کے کس قدر خلاف ہوں۔ اور توحید سے کتنی ہی منافرت کیوںنہ رکھتے ہوں۔ بہرحال وہ مکہ میں ہمیں کوئی دکھ نہیں پہنچا سکتے کیونکہ ان کا اپنا مذہب ہے یہی ہے۔ کہ باہر تو منع ہے ہی مگر حرم میں قتل و خونریزی اور دنگا فساد اور بھی سختی سے منع ہے۔مگر اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ باوجود اس کے کہ مکہ والوں کا مذہب یہی ہے کہ مکہ میں لڑائی جائز نہیں۔ مکہ والوں کا مذہب یہی ہے کہ مکہ میں فتنہ برپا کرنا اور لوگوں کو تکالیف میں مبتلا کرنا جائز نہیں پھر بھی اَنْتَ حِلٌّٔ بِھَذَا الْبَلَدِ مکہ کی حرمت تیری اور تیرے ساتھیوں کی حفاظت نہیں کر سکے گی۔ وُہ حرمت تمہیں ان کے حملوں سے بچا نہیں سکے گی۔ بلکہ تم اس جگہ حلال سمجھے جائو گے۔ بے شک یہاں ہر شے کا مارنا ناجائز سمجھتا جاتا ہے یہاں تک کہ شکار تک کا مارنا جائز نہیں۔ مگر اس مکہ میں اسی شہر کے رہنے والے اور مکہ کی حرمت اور اس کی تقدیس کا عقیدہ رکھنے والے تجھے اور تیرے مریدوں کو اب ہر قسم کی ایذا دیں گے۔ اور حرم اور اس کی حرمت کا کچھ بھی پاس نہیں کریں گے۔
دُوسرے معنوں کے لحاظ سے اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کے یہ معنے ہوں گے کہ تُو اس میں ہر تیر کا نشانہ بننے والا ہے یعنی یہی نہیں کہ تمہاری عزت یا تمہارا مال ان کے ہاتھ میں محفوظ نہیں ہو گا بلکہ ہر قسم کے مظالم تم پر توڑے جائیں گے۔ ایک ہوتا ہے ظُلم اور ایک ہوتا ہے ہر قسم کا ظلم۔ ظلم اپنی ذات میں ہی بُری چیز ہے۔ لیکن ہر قسم کی برائیوں کا ظلم جو شخص اختیار کر لے۔ اور تمام قسم کی برائیوں کے ارتکاب پر کمر بستہ ہو جائے۔ اس سے زیادہ بُرا اور کون شخص ہو سکتا ہے۔ اس جگہ نہ صرف مشرکین مکہ کے مظالم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ ہر قسم کے مظالم کا ہدف مسلمانوں کو بنائیں گے اور جو بھی تیر ان کے ہاتھوں سے چھوٹے گا اس کا اولین نشانہ مسلمانوں کے سینے ہوں گے۔ حِلٌّ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے اس ہدف کے ہوتے ہیں جو تیروں کے نشانہ کے لئے بنایا جاتا ہے۔ پس معنی یہ ہوئے کہ اب ہر قسم کے تیروں کا ہدف بن جائو گے جو بھی تیر آئے گا تمہاری طرف آئیگا۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سلسلہ سے پہلے بھی علماء کو کفر بازی کا شوق تھا۔ اور برابر ان کے اندر یہ مشغلہ پایا جاتا تھا کہ کبھی سنیوں نے وہابیوں پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ اور کبھی وہابیوں نے سنّیوں کو کافر قرار دے دیا۔ کبھی اہلحدیث دیوبندیوں کے خلاف اٹھے اور ان پر کفر کا فتویٰ دے دیا کبھی اہلحدیث دیوبندیوں کے خلاف اٹھے اور ان پر کفر کا فتویٰ عائد کر دیا۔ اور کبھی دیوبندیوں نے دوسرے مسلمان فرقوں کو کافر اور مرتد کہہ کر اپنے دل کو خوش کر لیا۔ مگر جب سے اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو قائم کیا ہے مسلمانوں کی طرف سے جو بھی تیر آتا ہے احمدیوں کی طرف آتا ہے۔ نہ سنی شیعوں پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ نہ شیعہ سنّیوں کو ملحد اور زندیق کہتے ہیں۔ بلکہ سب کے سب خواہ وہ سنّی ہوں شیعہ ہوں۔ اہلحدیث ہوں اور احمدیت کے خلاف متفقہ طور پر کھڑے ہیں۔ اور انہوں نے ہر تیر کا نشانہ ہماری جماعت کو بنایا ہؤا ہے۔ درحقیقت جس شخص کے متعلق قوم میں یہ احساس پیدا ہو جائے۔ کہ یہ طاقت پکڑتا جا رہا ہے۔ اور ایک دن یہ ہمارے زور کو کچل دے گا۔ اس کے خلاف ساری قومیں اپنے اختلاف کو بھول کر متحد ہو جاتی ہیں اور متحدہ عزائم سے اس کو مٹانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمائی ہے کہ اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ ہر قسم کے مظالم جو پہلے مکہ والوں نے کبھی نہ کئے ہوں گے اور جو مکہ نے کبھی دیکھے بھی نہ ہوں گے وہ اب تم پر اور تمہاری جماعت پر نازل ہوں گے۔ بے شک مکہ والوں میں اختلاف بھی ہے پارٹیاں بھی ہیں جتھے بھی ہیں۔ مگر تیری مخالفت کی وجہ سے ان کی تمام جتھ بندیاں ختم ہو جائیں گی۔ وہ سب کے سب اکٹھے ہو جائیں گے اور اس ایک مقصد پر سب متفق ہو جائیں گے کہ تجھ پر اور تیرے ساتھیوں پر مظالم کے تیر برسائے جائیں۔ا ور ہر قسم کی تکالیف جو وہ پہنچا سکتے ہوں پہنچائیں۔ یہ بھی کتنی زبردست پیشگوئی ہے کہ نہ صرف مظالم کی طرف بلکہ ان مظالم کے انواع کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے۔
تیسرے معنی اس آیت کے یہ ہوں گے کہ تو اس مقام پر عارضی طور پر اترنے والا ہے یعنی اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم نے لیالی عشر کی پیشگوئی میں مکہ والوں کے جن مظالم کی خبر دی ہے۔ ان کے نتیجہ میں تجھ کو یہاں سے ہجرت کرنی پڑے گی۔ اور پھر اس کے بعد فاتح کی صورت میں تو اس جگہ واپس آ ئے گا۔ مگر یہاں رہے گا نہیں بلکہ عارضی قیام کے بعد واپس چلا جائے گا۔ گویا لیالی عشر اور وَالفجر دونوں کی یہاں تشریح کر دی۔ اور پھر گیارہویں رات کے بعد فجر کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے۔ یہ قرآن کریم کا کیسا کمال ہے کہ اس نے ایک مختصر سے فقرہ میں دو زبردست پیشگوئیاں بیان کر دی ہیں۔ الف: ہجرت کی۔ باء:فتح مکہ کی۔ اور جس طرح اَنْتَ حِلٌّ م کے الفاظ میں لیالی عشر کی تشریح کر دی تھی۔ اسی طرح کے بعد کی فجر کو بھی واضح کر دیا اور بتا دیا۔ کہ ہم ان کے بعد فجر کو بھی واضح کر دیا اور بتا دیا کہ ہم ان مصائب اور مشکلات کے نتیجہ میں تجھ کو مکہ سے لے جائیں گے۔ مگر پھر تجھے کامیاب و کامران حالت میں اس شہر میں واپس لائیں گے۔
چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ تیرے لئے اس مقام میں حلت کی صورت پیدا کی جانے والی ہے یعنی مکہ کا احترام ایسا تھا جیسا کہ کوئی شخص کسی کام کے نہ کرنے پر قسم کھا لیتا ہے۔ لیکن جس طرح ایک جائز بات اگر حرام ہو جائے تو قسم کا کفارہ دے کر اس کام کو کر لینا جائز ہے۔ اسی طرح چونکہ مکہ والوں نے اپنی شرارتوں سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیا ہے۔ اس لئے ہم تجھے قسم کا کفارہ دینے والے کی طرح اس ممنوع بات کی اجازت دینے والے ہیں اور اس حرام امر کو تیرے لئے حلال کرنے والے ہیں پس تو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مکہ پر حملہ کرے گا گویا یہ بتایا ہے کہ تجھے اور تیرے ساتھیوں کو مکہ میں حلال سمجھنے کے نتیجہ سمجھنے میں اب ان پر بھی حملہ کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اگر یہ ظلم نہ کرتے تو ہم شائد محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو صلحًا اس شہر میں لاتے۔ چونکہ انہوں نے بلد اللہ الحرام کو حلال بنا لیا۔ اس لئے کچھ وقت کے لئے ہم بھی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے اس شہر کو حلال کر دیں گے۔ اور پھر جو ان کو ذلت ورسوائی ہو گی۔ اس کے ذمہ وار یہ لوگ خود ہوں گے۔ گویا صرف یہی نشان نہیں ہو گا کہ تو اس شہر میں کامیاب وکامران واپس آئے گا بلکہ تیرے لئے کچھ وقت تک مکہ کو حلال کر دیا جائے گا۔ اور اہل مکہ کو ان کے مظالم کی وجہ سے شدید رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پانچویں معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ تو اس مقصود ہے ہر ارادہ کا کیونکہ مجازاً ہدف کا لفظ مقصود کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ اور اسعارۃً اس کے ایک معنے مرجع ہونے کے بھی ہیں۔ جیسے رمی کے معنی تیر پھینکنے کے ہیں اسی طرح رمی کا لفظ استعارہ کے طور پر ان اشاروں کے لئے بھی بولتے ہیں۔ جو کسی مامور کے ظہور سے پہلے کئے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے۔ کہ اس شہر کی تقدیس کے لئے جو حالات ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ جیسے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام میں مکہ میں آنا۔ عربوں کا غیر معمولی رجوع۔ مکہ کا شہر بن جانا۔ اس کو فتنوں سے پاک رکھنا۔ اسے دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنا۔ اسے غیر مذاہب کے اثر سے بچانا۔ یہ سب باتیں اس شہر کے لئے حاصل تھیں۔ کہ تُو اس شہر میں ظاہر ہونے والا تھا۔ مگر مکہ والوں کی عجیب حالت ہے وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ مکہ کو عظمت حاصل ہے مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ جس غرض کے لئے مکہ کو عزت دی گئی ہے وہ کیا ہے اور اس کی وہ مخالفت کر رہے ہیں۔ بے شک مکہ بڑی عظمت کی چیز ہے۔ مگر اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ ہم مکہ کو ہی اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تُو ہی اس شہر کا مقصود ہے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر آج تک جو انگلی بھی اٹھ رہی تھی وہ تیری طرف ہی اٹھ رہی تھی۔ واقعات کا ہر اشارہ تیری طرف تھا۔ اور ہر نشان تیری طرف ہی بنی نوع انسان کی راہنمائی کر رہا تھا۔ مگر تو جو اس شہر کا مقصود ہے جب ظاہر ہو گیا تو مکہ والے تیرے مخالف ہو گئے۔ حالانکہ تُو ہی وہ شخص تھا جس کے لئے واقعات کا ایک لمبا سلسلہ ہم نے پیدا کیا۔
اب اس آیت کے تفصیلی طور پر یوں معنے ہوں گے کہ ہم مکہ کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں کئی قسم کے دردناک مظالم مسلمانوں پر ہونے والے ہیں یعنی ہم نے جو ـظلم اور منظّم سازشوں کے ذکر کئے ہیں خو د مکہ ہی اس بات کا ثبوت دیدیگا۔ اور باوجود اس کے کہ مکہ والوں کا یہ عقید ہ ہَے۔ کہ حرم میں شکار تک مارنا جازئز نہیں۔ حرم میں کسی انسان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ حرم میں دنگا فساد جائزنہیں۔ پھر بھی وہ تجھے اور تیرے مریدوں کو اس مکّہ میں ہر قسم کے ایذائیں دینگے اور انہیں حرم اور اس کی تقدیس کا کچھ بھی خیال نہیں رہے گا۔ یہ واقعہ میں ایک حیرت انگیز چیز تھی۔ جو صحابہؓ کو دیکھنی پڑی صحابہؓ کے لئے کفار کی مارپیٹ اتنی حیرت انگیز نہیں تھی۔ جتنی حیرت انگیز ان کے لئے یہ بات تھی کہ ہمیں مکہ میں مارا جاتا ہے۔ یہ بات انسانی فطرت میں داخل ہے کہ جب اسے غیر متوقع طور پر کسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہونچے۔ تو وہ اسے غیر معمولی طور پر محسوس کرتا ہے۔ اور اس تکلیف سے بہت زیادہ اذیت پاتا ہے۔ قصہ مشہو ر ہے کہ منصور کے متعلق بادشاہ نے حکم دے دیا کہ انہیں پھر پتھرائو کیا جائے۔ لوگ انہیں پتھر مارنے لگ گئے۔ مگر منصورباالکل خاموش رہے۔ اور انہوں نے اس سخت تکلیف کے باوجود اف تک نہ کی۔ اسی دوران میں شبلی وہاں سے گزرے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ منصور کو پتھر ما رہے ہیں۔ تو انہوں نے گلاب کا ایک پُھول اٹھایا۔ اور منصور کو مارا۔ جب گلاب کا پھول ان کے جسم سے لگا تو وُہ چلّا اٹھے لوگوں نے ان سے کہا کہ عجیب بات ہے ہمارے پتھروں سے تو آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ اور آپ خاموش رہے۔ لیکن شبلی نے گلاب کا ایک پھول مارا تو آپ چلّا اٹھے۔ یہ کیا بات ہے انہوں نے کہا تمہارے پتھر مجھے پھول معلوم ہوتے ہیں لیکن شبلی کا پھول مجھے پتھر معلوم ہؤا۔ یعنی اس سے مجھے امید نہیں تھی۔ کہ وہ مُجھے مارے گا۔ اور گو اس ن ے مجھے پھول ہی مارا مگر چو نکہ غیر متوقع پر اس کی طرف سے ایسا فعل ہؤا اس لئے اس کا پھول مجھے پتھر کی طرح آ کر چبھا۔ اور اس نے مجھے سخت تکلیف پہنچائی۔ اسی طرح مکہ وہ مقام تھا جہاں کے رہنے والوں کا عقیدہ یہ تھا کہ یہاں کسی پر ظلم کرنا سخت گناہ ہے۔ کسی کو مارنا سخت گناہ ہے۔ کسی کو پٹنا سخت گناہ ہے کسی سے لڑائی کرنا جائز نہیں۔ مکہ ایک مقدس مقام ہے اس کی تقدیس اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہاں اس قسم کی وحشیانہ حرکات کا قطعًا ارتکاب نہ کیا جائے۔ چنانچہ سالہاسال سے اس عقیدہ پر ان کا عمل تھا۔ مکہ کی عظمت اور اس کی جنت حرمت کو پوری طرح ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ قبائل جو حرم کی حدود سے باہر آپس میں دست و گربیان رہا کرتے تھے۔ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے تھے۔ جو تلواروں سے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہوتے تھے۔ وُہ جب حرم کی حدود میں آتے۔ تو ان کی لڑائیاں ختم ہو جاتیں۔ وہ ایک دوسرے کے دشمن ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے والے شانہ بشانہ اور کندھا بہ کندھا لَبَّیْکَ اَللَّھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے مکہ کا طواف کرتے۔ اور اس کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے نظر آتے۔ کسی کی مجال نہیں تھی۔ کہ وُہ حرم میں کسی کو غضب آلودنگاہوں سے دیکھ سکے۔ مگر اس مکّہ میں اس حرم کی حدود میں یہی عقیدہ رکھنے والے ایک دن اسلام اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت میں اس قدر جوش اور غیظ و غضب سے بھر گئے کہ انہوں نے متحدہ طور پر فیصلہ کر لیا۔ کہ مسلمانوں کو قتل کر دو۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دو۔ کہ یہ حرم ہے یا حرم سے باہر کا علاقہ ہے۔ مکہ والوں کا حدود حرم میں مسلمانوں کے متعلق یہ فیصلہ ان کے لئے ایسا ہی حیرت انگیز تھا۔ جیسے منصورکے لئے شبلی پھول حیرت انگیز تھا۔ وہ ان پتھروں کی امید تو کرتے ہی تھے۔ مگر ان کے واہمہ اور گمان میں بھی یہ نہیں آ سکتا تھا کہ شبلی پھول بھی ان پر پھینکنے کی جرأت کرے گا۔ اس لئے جب شبلی نے پھول مارا تو وہ گلاب ایک پھول تھا۔ ان کو پتھروں کی بوچھاڑ سے زیادہ سخت معلوم ہؤا۔ اور اس کی اذیّت نے ان کو پریشان کر دیا۔ اسی طرح طائف وغیرہ میں مسلمانوں کو مارا جاتا۔ یا ان کو مختلف قسم کے دکھوں میں مبتلا کیا جاتا۔ تو مسلمانوں کے لئے یہ بات ہر گز قابل تعجب نہ ہوتی۔ وُہ سمجھتے کہ یہ باتیں تو انبیاء کی جماعتوں کو پیش آیا کرتی ہیں مگر وہ سمجھتے تھے کہ کفار کے عقیدہ کے مطابق مکہ مکرمہ میں ایسی بات نہیں ہو سکتی۔ اس لئے انہیں سخت حیرت ہوئی۔ کہ مکہ میں کفار نے مسلمانوں کو مظالم کا تختۂ مشق بنانا شروع کر دیا۔ حالانکہ مکہ والے ابراہیمؑ کے زمانہ سے مکہ کی تقدیس اور اس کی حرمت کے قائل چلے آتے تھے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کا درمیانی عرصہ چھ سو سال کا ہے۔ اور حضرت عیسٰی اور حضرت موسٰی علیہما السلام کا درمیانی زمانہ ۱۳ سوسال کا ہے۔ یہ ۱۹ سو سال ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسٰی علیہ السلام سے بھی چھ سو سال پہلے ہوئے ہیں۔ انیس سو سال یہ اور چھ سوا سال وہ ۲۵ سو سال ہو گئے۔ گویا اڑھائی ہزار سال سے یہ اعتقاد ان کے اندر قائم چلا آ رہا تھا۔ کہ یہاں کسی کو مارنا پیٹنا سخت گناہ ہے۔ کسی کی جان لینا سخت گنا ہ ہے کسی پر ظلم کرنا سخت گناہ ہے۔ اتنے لمبے عرصہ کے عقیدہ کے بعد کس کو یہ امید ہو سکتی تھی کہ یہ قوم ایک دن مسلمانوں پر یکدم ٹوٹ پڑے گی۔ اور ان کی عورتوں اور ان کے بچوں ان کے غلاموں اور اور ان کے آزادوں پر دانت پیستے ہوئے انہیں حدود حرم میں مظالم کا نشانہ بنانا شروع کر دے گی۔ یہ امید کسی شخص کو بھی نہیں تھی۔ مگر م ہؤا یہی کہ مکہ والوں نے اپنے تمام اعتقادات کو پس پشت ڈال دیا۔ اور مسلمانوں کو مکہ میں اپنے مظالم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ تُو اس شہر میں ہر تیر کا نشانہ بنے گا۔ یعنی ہر قسم کے مظالم تم پر اور تمہاری جماعت پر توڑے جائیں گے۔ یوں تو دنیا میں کبھی رحم دل بھی جوش میں آکر دوسرے کو سزا دینے پر آمادہ وہ جاتے ہیں۔ اور کبھی جوش پیدا ہونے کی وجہ سے وقتی طور پر انسان کسی وحشیانہ حرکت کا بھی ارتکاب کر لیتا ہے لیکن تعذیب جو مارنے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اس کا امکان ایسے لوگوں سے جو ۲۵ سو سال سے ایک خاص قسم کا عقیدہ رکھتے چلے آ رہے ہوں بہت ہی بعید اور دورازقیاس تھی اور کوئی شخص یہ امید نہیں کر سکتا تھا۔ کہ مکہ والوں کی طرف سے ہر قسم کے مظالم کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قبل ازوقت فرما دیا۔ کہ تم مت خیال کرو۔ کہ یہ قوم تم پر ظلم نہیں کرے گی۔ یہ وہ قوم ہے جو ہر قسم کے مظالم کا دروازہ تم پر کھول دے گی۔ اور ہر قسم کے تیروں تمہیں ہدف بنا دے گی۔ جو تیر بھی اٹھے گا اس کا نشانہ مسلمانوں کے سینے ہوں گے۔ اور جو ظلم بھی توڑا جائے گا م مسلمانوں پر توڑا جائے گا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کی صداقت کفار مکہ نے اپنے مظالم کے ذریعہ روزروشن کی طرح ظاہر کر دی۔
دنیا میں ظلم ہوتے ہیں مگر دشمنوں کی طرف سے اگر مذہبی بناء پر کوئی مخالفت ہو تو زیادہ تر علماء مخالف ہوتے ہیں۔ ماں باپ اور ماں بھائی وغیرہ مذہبی اختلاف کے وقت زیادہ مخالف نہیں کرتے۔ بلکہ اگر کسی کا بچہ کسی اور مذہب میں شامل ہو جائے تو ماں باپ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس کی بھی ایک رائے ہے۔ اور ہماری بھی ایک رائے ہے ہم نہیں جانتے کہ سچ کیا ہے۔ یا زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے بچے کی یہ غلطی ہے کہ اس نے دوسرا مذہب اختیار کر لیا۔ لیکن غلطیاں دنیا میں کسی سے نہیں ہوتیں۔ گویا عام طور پر مذہبی اختلاف پر مظالم ڈھانے کی بجائے لوگ اپنے بچوں اور اپنے بھائیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اور ان کی طرف سے کئی قسم کے عذرات اور حیلے بہانے شروع کئے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں فرمایا کہ ہر قسم کے تیر تم پر چلائیں جائیں گے۔ یعنی ماں تمہاری ماں نہیں رہے گی باپ تمہارا باپ نہیں رہے گا۔ اور تمہیں ہر قسم کے مظالم کا نشانہ بنایا جائے گا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں مسلمانوں پر صرف دینی علماء نے ظلم نہیں کئے۔ کاہنوں نے ظلم نہیں کئے۔ بتوں کے پچاریوں نے ظلم نہیں کئے۔ بلکہ ہر ایک نے ظلم کئے ہیں۔ حتیٰ کہ ماں باپ نے بھی ظلم کئے ہیں۔
ایک نوجوان جو ابھی پوری طرح بالغ نہیں ہؤا تھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لے آیا۔ ماں نے غصہ میں آ کر اس کے برتن الگ کر دئیے۔ اور کچھ مدت تک دیکھا۔ کہ اس پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں۔ مگر اس پرکوئی اثر نہ ہؤا۔ اسے ماں باپ نے بہتیرا سمجھایا۔ اور جب وہ زبانی سمجھانے سے باز نہ آیا تو اسے مارا پیٹا۔ مگر وہ نوجوان گھر سے نکلا۔ اور چند دن مکہ میں کئی قسم کی تکالیف اٹھانے کے بعد حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلا گیا۔ جب سورۂ نجم والے واقعہ کی خبر حبشہ میں پہنچی یا جیسا کہ میری تحقیق ہے۔ سورۂ نجم والے واقعہ کا منصوبہ بنا کر مکہ والوں نے اس کی خبر حبشہ میں پہنچائی۔ تو کئی مسلمان یہ خبر سن کر حبشہ سے واپس آ گئے۔ انہی میں وہ نوجوان صحابی بھی تھا۔ وُہ اپنے گھر گیا اور اس نے سمجھا کہ شاید اب ان کا غصہ ختم ہو چکا ہو گا۔ اس کے ماں باپ نے بڑے جو ش سے اس کا استقبال کیا۔ اُسے اپنے گلے لگایا اور پیار کیا اور سمجھا کہ اب یہ جو ہمارے گھر آیا ہے۔ تو شاید اسلام سے توبہ کر کے آیا ہے اور اس نوجوان نے خیال کیا کہ میری کئی مہینوں کی جدائی اور مکہ کو چھوڑ کر چلے جانے کا میرے ماں باپ پر یہ اثر ہؤا ہے۔ کہ ان دل نرم ہو گئے ہیں۔ اور ان میں بھی رحم کے جزبات پیدا ہو گئے ہیں۔ مگر ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ ماں نے اُسے کہا کہ شکر ہے کہ تیری آنکھیں کھلیں۔ اور تجھے معلوم ہؤا ہے کہ تُو نے اس صابی (نعوذ باللہ من ذالک)سے تعلق پیدا کر کے اچھا کام نہیں کیا تھا۔ اب میری یہ نصیحت ہے کہ اُ س صابی (نعوذ باللہ من ذالک) کے پاس کبھی نہ جانا۔ وُہ لڑکا اُسی وقت کھڑا ہو گیا۔ اور اس نے کہا اے میرے ماں تُو میری ماں ہے اور اے میرے باپ تو میرا باپ ہے۔ لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے میں ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں اور اس راہ میں کسی بڑی سے بڑی مشکل کی بھی مَیں پرواہ نہیں کر سکتا اگر محمدرسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق پھر کوئی ایسا لفظ تم نے اپنی زبان سے نکالا تو نہ تم میری ماں ہو اور نہ تم میرے باپ ہو۔ انہوں نے کہا اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر تُوبھی ہمارا بیٹا نہیں۔ یہ سُنتے ہی وُہ اپنے گھر سے باہر نکل گیا۔ا ور پھر ساری عمر اس نے اپنے ماں باپ کی صورت نہیں دیکھی۔ اب دیکھو یہ تیر تو چلے پر کہاں سے؟ اس جگہ سے تِیر چلے جہاں سے انسان آخری وقت میں بھی تیر چلنے کی امید نہیں رکھتا۔ اور ان ہاتھوں سے چلے جو عام طور پر تیر چلانے کی بجائے دوسروں کے تیر اپنے ہاتھوں پر لیا کرتے ہیں اور چلنے والے تیروں کے درمیان خود آ کر کھڑے ہو جایا کرتے ہیں۔
یہ تو ماں باپ کے سلوک کا ایک نظارہ تھا۔ اب چچا کے سلوک کا ایک نظارہ دیکھ لو۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک چچا ابو لہب تھا۔ اور بھی آپ کے بعض چچا تھے مگر بجائے اس کے کہ وُہ آپ کی مشکلات میں آپ کا ساتھ دیتے وُہ خود دوسروں کو انگیخت کیا کرتے۔ اور ان کورسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف اکساتے رہتے تھے۔ اور تیر تو الگ رہے یہی تیر کیا کم ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دو بیٹیاں رقیہ اور ام کلثوم ؓ آپ کے چچا ابو لہب کے دو بیٹوں سے بیاہی ہوئی تھیں۔ دعویٰ نبوت کے بعد اس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے اپنے بیٹوں کا بلایا۔ اور ان سے کہا اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو اپنی بیویوں کو طلاق دے دو۔ انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دی۔ گویا نازک سے نازک جزبات کو توڑے کے بھی آپ کے رشتہ داروں نے پرواہ نہ کی۔ وہ بھی ایک چچا ہی تھا۔ جس نے آپ کو پالا۔ اور آپ کی پرورش کی۔ اور وُہ بھی ایک چچا تھا جس نے آپ کا مقابلہ کیا اور آپ کو شدید سے شدید دکھ دیا۔ یہاں تک کہ آپ کو دو لڑکیوں کو بلاوجہ طلاق دلا دی۔ پھر دوست ہوتے ہیں اور ان میں بڑی گہری دوستی ہوتی ہے۔ مگر جس نے اسلام قبول کر لیا۔ اس کے تمام دوست اس سے بچھڑ گئے۔ عرب لوگ دوستیوں کو بہت بنانے والے تھے۔ اور وُہ ضرورت پر ایک دوسرے کے لئے جانیں بھی قربان کر دیا کرتے تھے۔ مگر محمد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف اتنا بغض مکہ والوں کے دلوں میں پیدا ہو گیا تھا کہ انہوں نے اپنی تمام دوستیوں کو قطع کر کے رکھ دیا اور بڑے بڑے گہرے دوست ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔ عثمان بن مظعون مکہ کے ایک رئیس کے لڑکے تھے۔ اسلام لانے پر طرح طرح کے مظالم ان پر ہوئے۔ آخر ہجرت کے ارادہ سے گھر سے نکلے۔ راستہ میں ا ن کے والد کا ایک گہرا دوست ملا۔ اس نے پوچھا کہاں جا رہے ہو۔ عثمان نے کہا مکہ والوں کے ظلم سے تنگ آ کر ہجرت کر رہا ہوں اس رئیس کی آنکھوں میں یہ سن کر آنسو آ گئے۔ عثمان کو گلے لگا لیا اور کہا کہ میرے دوست کا بیٹا مکہ چھوڑے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ تو آج سے میری پناہ میں ہے۔ چنانچہ واپس آ کر خانۂ کعبہ میں اپنی حفاظت کا اعلان کر دیا۔ مکہ والے ایک دوسرے کی پناہ کا بڑا لحاظ کرتے تھے لوگوں نے اس رئیس کی وجہ سے عثمان کو دکھ دینا چھوڑ دیا۔ اس سال حج کے موقعہ پر تمام عرب کے لوگ منیٰ میں جمع ہوئے۔ لبید شاعر اپنے شعر سنا رہے تھے۔ کہ انہوں نے ایک شعر پڑھا۔
اَلَاَکُلُّ شَئٍی مَاخَلَا اللّٰہِ بَاطِلٌ
عثمان نے یہ سُن کر صَدَقْتَ کے لفظ کہے یعنی تع نے سچ کہا ہے۔ لبید جو اس وقت عرب کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے تھے۔ ایک نوجوان سے اپنے کلام کی تصدیق سن کر آگ بگولہ ہو گئے۔ اور کہا کہ کیا لبید کو ایک بچہ سے اپنے شعر کی تصدیق کروانے کی ضرورت ہے۔ مکہ والو تمہارے اخلاق کو کیا ہو گیا۔ اس پر لوگ غصہ سے عثمان کی طرف لپکے۔ اور انہیں بولنے سے سختی سے منع کیا۔ اس کے بعد لبید نے دوسرا مصرعہ پڑھا
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٌ
یعنی ہر نعمت ضرور زائل ہو جائے گی۔ عثمان نے کہا کَذَبْتَ نَعِیْمُ الْجَنَّۃِ لَا یَزُوْلُ یعنی تو غلط کہتا ہے۔ جنت کی نعمتیں ضائع نہ ہوں گی۔ اس پر تو لبید سخت غصہ میں آ گئے۔ اور کہا کہ اب مَیں شعر نہیں پڑھتا۔ اس پر نوجوان عثمان کی طرف لپکے۔ ایک شخص نے شدت غیظ سے ایک گھونسا تان کر عثمان کی آنکھ میں مارا۔ کہ ڈھیلے کا پانی بہہ گیا۔ اور آپ کانے ہو گئے۔ وُہ رئیس جس نے پناہ دی تھی اٹھا اور کہا کہ بیوقوف تو نے کیا کیا کہ اپنی آنکھ ضائع کروا لی۔ عثمان نے کہا کہ تُو اپنی پناہ گھر رکھ۔ تو کہتا ہے کہ مَیں نے ایک آنکھ ضائع کر دی۔ میری دوسری آنکھ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں جانے کو بیتاب ہے۔ اب دیکھو کس طرح مکہ میں دوستیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ اور اسلام کے جرم میں کوئی دوست بھی کسی مسلمان کے کام نہ آیا۔ بلکہ وہ سارے رشتہ دار اور دوست اور قریبی تعلقات رکھنے والے جرم سے انسان کو ہمیشہ مہرو وفا کی امید ہوتی ے جن سے محبت اور پیار کی امید ہوتی ہے۔ جن سے دکھ اور مصیبت کی گھڑیوں میں جن سلوک کو ہمدردی کی امید ہوتی ہے۔ انہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اسلام کی مخالفت میں اپنے عزیزوں پر تیر چلائے۔ یہاں تک کہ بعض جگہ خاوندوں نے اپنی بیویوں کو چھوڑ دیا۔ اور بیویاں اپنے خاوندوں سے الگ ہو گئیں۔ ماں باپ نے اپنے بچوں سے قطع تعلق کر لیا۔ اور بچوں نے اپنے ماں باپ کو چھوڑ دیا۔ پھر یہ نہیں کہ صرف ایک رنگ کا عذاب ان کو دیا گیا ہو۔ بلکہ ہر نوعیت اور ہر قسم کے مظالم ان پر توڑے گئے۔ پتھروں پر ان کو گھسیٹا گیا۔ جلتی ہوئی ریت پر ان کو لٹایا گیا۔ مکہ کی گلیوں جہاں بڑے بڑے کھردرے اور نوک دار پتھر ہوتے تھے۔ ان کی ٹانگوں میں رسیاں باندھ کر اس طرح گھسیٹا جاتا جیسے کسی مردہ جانور کو مارا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کا تمام جسم لہولہان ہو جاتا۔ پھر بسا اوقات ان کو زد وکوب کیاجاتا۔ ان کے سینہ پر بڑے بڑے وزنی پتھر رکھ کر انہیں مجبور کیا جاتا۔ کہ وُہ توحید سے منحرف ہو جائیں۔ کئی لوگ ایسے تھے جن کو نیزے مار مار کر ہلاک کیا گیا۔ یہاں تک کہ بعض مسلمان عورتوں کی شرمگاہوںمیں انہوں نے نیزے مار کر ان کو ہلاک کیا۔ ان کے پائوں میں بیڑیاں ڈالی گئیں انہیں گندی سے گندہ اور غلیظ سے غلیظ گالیاں دی گئیں۔ ان کو مکہ سے نکالا گیا۔ اور ان کو ہلاک کرنے کے لئے نہایت ظالمانہ اور گندے طریقوں کو اخیتار کیا گیا۔ بعض دفعہ مسلمان مردوں کی ایک ٹانگ ایک اونٹ سے اور دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے باندھ دیتے۔ اور پھر ان اونٹوں کو مخالف اطراف میں دوڑا دیتے۔ اور اس طرح ان کو ہلاک کر کے اپنے دلوں کو خوش کرتے۔ غرض کوئی نوعیت ظلم کی ایسی نہیں تھی جس سے مکہ والوں نے کام نہ لیا ہو۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَنْتَ حِلٌّ بِھَذَا الْبَلَدِ کہ اے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو اس مکہ میں ہر قسم ے تیروں کا ہدف بنے گا۔ ہر ہاتھ خواہ وہ باپ کا ہو یا ماں کا ہو یا چچا کا ہو یا کسی اور عزیز رشتہ دار کا ہو۔ تیرے مقابلہ میں اٹھنے والا ہے۔ اور ہر قسم کا تیر ان کی طرف سے چلنے والا ہے۔
پھریہ بھی کتنی عظیم الشان پیشگوئی ہے۔ اور کتنی لطیف تفیسر ایک مختصر سے فقرہ میں لیالی عشر کی فرما دی۔ کہ ایک دن آنے والا ہے جبکہ تو اس مقام پر اترے گا جو اسی وقت ممکن ہو سکتا تھا۔ کہ آپ پہلے مکہ چھوڑ کر جائیں۔ پس اترے گا کا مختصر لفظ استعمال کر کے ہجرت کی طرف بھی اشارہ کر دیا۔ اور بتایا کہ ظلموں کے بعد تجھے اس شہر سے ہجرت کرنی پڑے گی اس زمانہ کے لحاظ سے یہ بھی کتنی عجیب اور حیرت انگیز بات تھی۔ مکہ کے لوگوں کی معاش کا ذریعہ صرف باہر سے آنے والے لوگوں کی آمد پر تھا۔ اور وُہ محض مجاوروں کا ایک شہر تھا۔ ان کا کام یہ تھا کہ وُہ لوگوں کو اپنی طرف بلائیں۔ ان کا یہ کام نہیں تھا کہ وہ مکہ سے لوگوں کو نکالیں۔ اس زمانہ میں کون کہہ سکتا تھا کہ یہ مجاور ایک دن رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ سے نکال دیں گے۔ یقینا جہاں تک انسانی قیاسات کا سوال ہے کسی شخص کے وہم اور گمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی۔ کہ مکہ والے جو مجاوروں کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کی زندگی کا تعلق ہی اس بات سے ہے کہ باہر سے لوگ مکہ میں آتے رہیں۔ وُہ ایک دن اسلام کی مخالفت میں اس قدر اندھے ہو جائیں گے۔ کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو اس امر پر مجبور کر دیں گے۔ کہ وہ مکہ کو چھوڑ دیں۔ اور کسی اور شہر میں چلے جائیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت بتا دیا کہ آج یہ حالات تمہیں ناممکن دکھائی دیتے ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ مکہ والے ایسا کہاں کر سکتے ہیں۔ مگر یقینا سمجھو کہ وہ دن آنے والا ہے جب تمہیں مکہ کو چھوڑنا پڑے گا۔ مگر مکہ صرف اسی قدر نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ہم تمہیں یہ خبر بھی دیتے ہیں کہ اس کے بعد ایک دن وُہ بھی آئے گا جب پھر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس شہر میں آئیں گے اور اس مکہ کو جس میں وہ صرف اپنے ایک ساتھی کے ساتھ نکلے تھے دس ہزار صحابہ سمیت فتح کر لیں گے چنانچہ فرمایا وَاَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کہ اے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو اس شہر میں اترنے والا ہے۔ یہ لازمی بات ہے کہ آپ اس شہر میں اس صورت میں آسکتے تھے جب آپ کو پہلے اس شہر سے نکالا جاتا۔ گویا ایک ہی فقرہ میں ہجرت کی بھی خبر دے دی۔ اور فتح مکہ کی بھی خبر دے دی۔ اس طلوع فجر کی بھی پیشگوئی کر دی۔ جو لیالی عشر کے بعد ظاہر ہونے والی تھی۔ اور اس دوسری فجر کی بھی پیشگوئی کر دی۔ جو گیارھویں رات کے بعد ظاہر ہونے والی تھی۔ اور جس کا آغاز بدر سے ہؤا۔ اور جس کا اتمام فتح مکّہ پر ہؤا۔
پھر یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے ظلموں کا نتیجہ ان کے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔ کیونکہ اگر یہ ظلم نہ کرتے۔ تو شائد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہم صلح کے ساتھ اس شہر میں لاتے۔ مگر چونکہ انہوں نے ظلم کیا ہے اور بلد اللہ الحرام کو حلال کیا ہے اس لئے کچھ وقت کے لئے ہم محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تلوار کے زور سے اس شہر میں داخل ہونے کی اجازت دیں گے۔ اور پھر جو ان کی ذلت و رسوائی ہو گی اس کے وہ خود ذمہ وار ہوں گے۔
پھر یہ بتایا کہ تُو اس شہر میںکا مقصود ہے۔ یعنی پیشگوئیاں شروع دن سے جب سے کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل علیہماالسلام نے خانۂ کعبہ کی بنیاد ڈالی تیری طرف اشارہ کر رہی تھیں۔ اور اسی وقت سے یہ خبر دے دی گئی تھی کہ ایک عظیم الشان نبی آنیو الا ہے جس کا کام یہ ہو گا کہ وُہ تلاوت آیات کرے گا۔ا ور تزکیۂ نفوس کرے گا۔ اور کتاب اور حکمت سکھائے گا جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کی خانہ کعبہ کی بنیاد اونچی کرنے کے وقت کی دعا سے معلوم ہوتا ہے۔ جو سورۂ بقرہ ع ۵ ۱ ۵ ۱ میں ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ وَابْعَثْ فِیْھُمْ رَسُوْلًا مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ یعنی اے خدا مکہ کے رہنے والوں میں رسول مبعوث فرما۔ جو تیری آیات ان لوگوں پر پڑھے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے۔ اور انہیں پاک کرے۔ پس آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے ہی یہ پیشگوئی تھی۔ اور آپ ہی اس شہر کے مقصود تھے۔ اس لئے فرمایا کہ جب اس شہر کی بنیاد محض تیرے لئے رکھی گئی تھی۔ تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وُہ مقصود پُورا نہ ہو جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کارخانۂ عالم کو قائم کیا تھا۔ اس مقصد کو پُورا ہونا تو نہایت ضُروری ہے۔ چنانچہ شروع سے ہی جب یہ بنیاد ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا مکہ میں آنا۔ عربوں کا رجوع۔ اِس شہر کا فتنوں سے پاک رکھنا اور غیر مذاہب کے اثرات سے اس کا محفوظ رہنا یہ ساری باتیں آخر کس لئے تھیں۔ اِسی لئے تو تھیںَ کہ تُو اس شہر کا مقصود تھا۔ اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ دُنیا میں تیری بعثت ہو۔ مکہ ایک بے آب وگیاہ وادی میں تھا۔ کوئی مہذب قوم اس کے اردگرد نہیں رہتی تھی۔ بلکہ وُہ ظالم اور ڈاکو جو کسی قانون کے ماتحت نہیں تھے اس کے چاروں طرف بستے تھے۔ ان کا دن رات کام یہی تھا کہ وُہ آپس میں لڑتے رہیں۔ اور کشت وخون کا بازار گرم رکھیں۔ مگر ایسے ظالم اور ڈاکو بھی جب لڑتے ہوئے مکہ کے سامنے آتے تو ان کی تلواریں جھک جاتیں اور وُہ کہتے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں لڑائی جائز نہیں۔ پھر عرب لوگ وُہ تھے جو اپنا گزارہ نہائت تنگی سے کرتے۔ انہیں کھانے پینے کے سامانوں کے لحاظ سے کسی قسم کی آسائش اور سہولت میسر نہیں تھی۔ مگر جب ذی الحجہ کے دن آتے۔ تو وہ اپنے اُونٹوں پر کجاوے کسّے اور بے آب و گیاہ میدانوں اور بیابانوں میں اپنے اونٹوں کو ایڑیاں مارتے ہوئے مکہ میں آتے۔ اور حج بیت اللہ کے فرض کو سرانجام دیتے۔ پھر مکہ وہ شہر تھا جسے خدا نے ہر قسم کی آفات سے بچایا۔ اور جب بھی کوئی دشمن اس پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ناکام کیا۔ ابرہہ آیا۔ اور وُہ اس ارادہ سے آیا کہ وہ اس شہر میں کو تباہ کر دے گا۔ وُہ خانۂ کعبہ کو گرا دے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے تمام ارادوں اور اس کی تدابیر کو خاک میں ملا دیا۔ اور آسمانی عذاب کا اسے نشانہ بنایا۔ یہ خدا تعالیٰ کا کیسا زبردست نشان ہے۔ جو اس نے مکہ کی حفاظت کے سلسلہ میں دکھایا۔ اور دُنیا پر ثابت کر دیا کہ بیت اللہ کا مَیں محافظ ہوں کہ کوئی اور محافظ نہیں ہے۔ ابرہہ یمن کا گورنر تھا۔ا ور حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے مقرر تھا۔ عرب میں اگر کوئی آباد اور اچھا علاقہ ہے تو وُہ یمن کا ہی ہے۔ بڑا زرخیز علاقہ ہے۔ زراعت بھی اچھی ہوتی ہے۔ اور پھل بھی وہاں کثرت سے ہوتے ہیں۔ ایسے آباد علاقہ اور سب سے طاقتور علاقہ کا گورنر جو بہت بڑی فوجوں کا مالک تھا دس ہزار لشکر کے ساتھ آیا اور اِس ارادہ اور نیت سے آیا۔ کہ مَیں مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ مگر خدا تعالیٰ نے اس لشکر میں چیچک کی وبا پیدا کر دی۔ اور حبشی جو اس کی فوج میں شامل تھے۔ وہ ایک ایک کر کے ہلاک ہونے لگ گئے۔ حبشی لوگوں میں چیچک کا مرض نہائت مہلک ہؤا کرتا ہے۔ اگر کسی حبشی کو یہ مرض ہو جائے تو اس کی موت یقینی ہوتی ہے۔ دنیا میں مختلف امراج مختلف قوموں سے تعلق رکھتی ہیں۔ چیچک کا مرض حبشیوں کے لئے نہایت خطرناک ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک شخص اچھا بھلا ہوتا ہے ہل ہاتھ میں لئے اپنی زمین کی طرف جا رہا ہوتا ہے کہ راستہ میں اسے کوئی دوست ملتا ہے۔ اور اس سے پوچھتا ہے۔ سنائو کیسا حال ہے۔ وہ کہتا ہے اچھا ہے۔ صرف کچھ پیچش لگ گئی ہے۔ لیکن انگریز کو ذرا بھی پیچش ہو فوراً اس کا دل ڈر جاتا ہے۔ اور وہ خیال کر لیتا ہے کہ اب میری موت قریب آ پہونچی ہے۔ غرض مختلف امراض کا صرف افراد سے ہی نہیں بلکہ مختلف قوموں سے بھی تعلق ہوتا ہے۔ اور جب کسی قوم میں اس کا مخصوص مرض پیدا ہو جائے۔ تو وُہ قوم تباہ ہونی شروع وہ جاتی ہے۔ حبشیوں کے لئے چیچک بڑا جان لیوا مرض ہے۔ وُہ اس کا نام بھی سُن لیں تو اُن کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے۔ کہ ابرہہ کے لشکر میں چیچک کا مرض پیدا ہو گیا۔ اور سب میں ایک کھلبلی پیدا ہو گئی۔ یوں مکہ کو فتح کرنا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں تھا۔ وُہ سازوسامان اور اسلحہ سے آراستہ تھے۔ اور مکہ والے بالکل نہتّے تھے۔ وُہ ایک باقاعدہ فوج کا مقابلہ کس طرح کر سکتے تھے۔ مگر خدا تعالیٰ نے ان میں وُہ مرض پیدا کر دیا۔ جس کے نام سے ہی حبشیوں کی جان نکل جاتی ہے۔ چنانچہ اِدھر مرض پیدا ہؤا۔ اور ادھر انہوں نے ہتھیار رکھ دئے۔ کہ اب ہمارا خاتمہ قریب ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ان میں موتیں شروع ہو گئیں۔ اور سارے لشکر میں بھاگڑ مچ گئی۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب ایک شخص بھاگتا ہے۔ تو دوسرے کے دل میں کبھی بھی کمزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ جب لشکر کا ایک حصہ سراسیمہ اور پریشان ہو کر بھاگا۔ تو دوسرے حصّہ کے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ اور اس نے بھی بھاگنا شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ یمن میں پہونچے سے پہلے پہلے اس کے لشکر کا بہت بڑا حصّہ برباد ہو گیا۔ اور جس مقصد کے لئے وہ مکہ پر حملہ آور ہؤا تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس میں اسے غائب وخاسر اور ناکام مراد رکھا۔
اللہ تعالیٰ ان تمام واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ کہ لوگوں کو سوچنا چاہئیے کہ آخر ہم یہ باتیں کیوں رہے تھے۔ جو ابراہیمؑ نے کی۔ کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھُمْ رَسُوْلًا مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیْمُ (البقرہ ع ۵ ۱ ۵ ۱) اب یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جو اس شہر کا اصل مقصود تھا جس کے لئے اڑھائی ہزار سال سے مکہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جب وہ ظاہر ہو جائے تو خدا اس کی طرف توجہ نہ کرے۔ پس فرماتا ہے لَآ اُقْسِمُ بِھَذَا الْبَلَدِ وَاَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ ہم شہادت کے طور پر اس شہر کو پیش کرتے ہیں۔ اس حالت ہونے کی صورت میں مکہ کی جو قیمت ہے۔ وُہ تیرے غیر مقصود ہونے کی صورت میں ہر گز نہیں۔ مکہ کی عظمت اور اس کا جلال محض تیری وجہ سے ہے۔ اب اس آیت کے معنے یوں ہوں گے کہ
(۱)ہم مکہ کو شہادت کے طور پیش کرتے ہیں جس میں مسلمانوں پر کئی قسم کے مظالم ہونے والے ہیں۔ یعنی ہم نے گزشتہ سورتوں میں مخالفین اسلام کی جن منظّم سازشوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ مکہ خود ان سازشوں کا ثبوت بہم پہنچا دے گا۔ یہ نہیں کہ کہا جا سکتا۔ کہ مخالفت تو قیاسی امر ہے۔ جو مدعی بھی کھڑا ہوتا ہے۔ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ اس کی باتوں کو سنتے ہی لوگ فوراً ایمان لے آئیں۔ اور کسی قسم کی مخالفت نہ کریں جب بھی کوئی ایسا مدعی کھڑا ہوتا ہے جو دوسروں کے عقائد ۔۔۔۔۔۔کے خلاف کوئی بات پیش کرتا ہے۔ لوگ اس کی مخالفت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ میری مخالفت ہو گی۔ اور مسلمانوں کو تکالیف پہنچائی جائینگی۔ یہ پیشگوئی کس طرح بن گیا یہ تو ایک قیاسی امر تھا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قیاس کر لیا ہو گا۔ کہ چونکہ مکہ والوں کے سامنے مَیں نے ایک نئی بات پیش کی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مکہ والے مخالفت بھی کریں۔ اس کو پیشگوئی کس لحاظ سے قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو ہر مدعی کو مخالفت نصیب نہیں ہوتی۔ دنیا کے متعلق انسانی ارادے بے شک مخالفت پیدا کر دیتے ہیں۔ مگر الہام کے نازل ہونے کا دعویٰ کرنا یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو ضرور مخالفت پیدا کرے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اِس ارادہ سے کھڑا ہو جائے کہ وُہ دُوسرے کے گھر پر قبضہ کر لے گا تو دوسرا شخص اس سے ضرور لڑے گا۔ لیکن اگر وُہ یہ کہے گا کہ مجھے الہام ہوتا ہے تو دوسرے کو غصّہ نہیں آئے گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ سمجھے گا کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ جو ایسی باتیں کہتا ہے تو یہ بات بالکل غلط ہے کہ جو بھی مدعی الہام دُنیا میں کھڑا ہو ضرور اس کی مخالف ہوتی ہے۔ مجھے ایک دفعہ ظہیر الدین ارورپی نے جو مصلح موعود ہونے کا مدعی تھا بڑے جوش سے لکھا کہ مَیں اتنے عرصہ سے آپ کے خلاف اشتہار اور ٹریکٹ وغیرہ شائع کر رہا ہوں مگر آپ ان میں سے کسی کا جواب ہی نہیں دیتے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ آپ مجھے مان لیں۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ آپ بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور مخالفت بھی نہیں کرتے۔ اگر آپ اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم مخالفت ہی کریں خاموش کیوں بیٹھے ہیں۔ مَیں نے اسے جواب میں لکھا کہ مخالفت بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نصیب ہوتی ہے اور یہ بھی سچائی کی ایک علامت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا کہ تمہارے اندر یہ علامت بھی پائی جائے۔ اس لئے خواہ تم کتنی ہی خواہش رکھو کہ لوگ تمہاری مخالفت کریں تمہیں یہ مخالفت نصیب نہیں ہو سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ جو مدعی بھی کھڑا ہو لوگ اس کے مخالف ہو جاتے ہیں۔ مخالفت بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے چنانچہ دیکھ لو احمدیت کی مخالفت ہر ملک میں ہوئی لیکن بہائیت کی مخالفت اس طرح نہیں ہوئی۔ صرف باہیوں کی مخالفت ایران میں ان کی سیاسی چالوں کی وجہ سے ہوئی۔ حالانکہ وہ لوگ قرآن کو منسوخ قرار دیتے ہیں اور بہاء اللہ کی شریعت اس کی بجائے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مُسلمان یہ سب باتیں دیکھتے اور جانتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ بہائیوں کی کوئی مخالفت نہیں کرتے۔ بلکہ ان کو اپنے گلے لگاتے ہیں۔ لیکن جہاں تک احمدیت کا ذکر آ جائے وہاں فوراً مخالفت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پس اول تو یہ بات ہی غلط ہے کہ مخالفت ایک قیاسی امر تھا۔ اور ضروری تھا کہ لوگ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو تکالیف میں مبتلا کرتے۔ دُوسرے سوال یہ ہے کہ اگر یہ قیاس ہی تھا تو نبوت کے دعویٰ کے تین سال کے بعد کیوں پیدا ہؤا۔ شروع شروع میں ہی یہ قیاس کیوں نہ کر لیا گیا کہ مکہ والوں کی طرف سے اسلام کی شدید مخالفت ہو گی۔
پھر ایک اور بات یہ ہے کہ ایک مخالفت وہ ہوتی ہے جو انسان خود کرواتا ہے۔ مثلاً کسی شخص نے ارادہ کیا کہ وہ دُوسرے کی بھینس چوری کرے۔ یا اس نے ارادہ کیا کہ وُہ دوسرے کے گھر پر قبضہ کر لے۔ اب وہ اپنے ارادہ کا علم رکھتے ہوئے دوسرے کو قبل از وقت خبر دے دے۔ کہ فلاں شخص فلاں دن مجھ سے لڑے گا۔ تو یہ ہر گز پیشگوئی نہیں ہو گی۔ کیونکہ یہ فساد اس کے نفس کی طرف سے ہے۔ اور وُہ اپنے ارادوں کو جانتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ فلاں فلاں شخص میرے ساتھ لڑائی کریں گے۔ لیکن اگر اس کی طرف سے صلح کے سامان ہو رہے ہوں محبت اور پیار کی تعلیم دی جا رہی ہو تو ایسی حالت میں کسی مخالفت کے متعلق قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ پس مخالفت خود اکسا کر لانا اور شے ہے۔ اور امن پسند ہونے کے باوجود لوگوں کا مخالفت کرنا اور امر ہے۔ کسی کے گھر پر تم قبضہ کر لو۔ تو وُہ ضرور لڑے گا۔ اور اس قسم کے فساد کی تم اپنے ارادہ کو جانتے ہوئے قبل از وقت خبر بھی دے سکتا ہو۔ مگر تم اپنے گھر میں بیٹھے ہو۔ اور کوئی دوسراشخص آ کر قبضہ کر لے۔ تو تم کو اس کا کیا علم ہو سکتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے دشمنوں کا مقابلہ ایسا ہی تھا۔ آپ صلح و آشتی کا پیغام دیتے تھے اور مخالفین مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے تھے۔
آخروہ کون سی چیز تھی۔ جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعویٰ کے تین سال بعد مُسلمانوں میں زائد طور پر ہو گئی تھی۔ اور جس کی بناء پر انہوں نے مخالفت کرنا ضروری سمجھا۔ نمازیں وہ پہلے ہی پڑھا کرتے تھے نیکی اور تقویٰ کی وہ پہلے بھی ترغیب دیا کرتے تھے۔ وہ پہلے بھی یہی کیا کرتے تھے کہ خدا ایک ہے اور وہی انسان کا مددگار ہے۔ اس پر بنی نوع انسان کو توکل رکھنا چاہئیے۔ اور اسی سے اپنی حاجات مانگنی چاہئیں۔ وہ پہلے بھی یہی کہا کرتے تھے کہ کفر بُری چیز ہے اور اسلام سچا مذہب ہے۔ پس کون سی وُہ زائد بات تھی جس پر مکہ والوں کو جوش آ سکتا تھا یا انہیں جوش میں آنا چاہئیے تھا۔ یقینا جہاں تک اعتقادات کا سوال ہے مسلمانوں میں کوئی زائد چیز ایسی پیدا نہیں ہوئی جس پر ان کو تین سال کے بعد غصّہ پیدا ہؤا۔ اور انہوں نے مسلمانوں کو مبتلائے آلام کرنا شروع کر دیا۔ پس تین سال کے بعد اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں کی مخالفت کی خبر دینا اس لئے نہیں تھا کہ مسلمانوں کے مذہب یا ان کے اعتقادات کا کفار مکہ کو پہلے علم نہیں تھا۔ بلکہ اس لئے تھا کہ اب یہ مسلمانوں کو ایسی ترقی حاصل ہو رہی تھی۔ کہ کفار یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ اب ہمارے لئے یہ ایک مستقل خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور اس کا ازالہ ضروری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایسی طاقت دے دینا جس سے کفار کو اپنے لئے حقیقی خطرہ نظر آنے لگ گیا۔ یہ کس کا کام تھا۔ اس کا جواب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام تھا کسی انسان کا کام نہیں تھا۔ بلکہ ایک آسمانی خبر تھی۔ جو علم غیب پر مشتمل تھی۔ اور جس کی صداقت کی انہوں نے اپنے اعمال سے تصدیق کر دی۔
دوسرے معنوں کے رُو سے شہادت یہ ہو گی۔ کہ تُو اس میں ہر تیر کا نشانہ بنے گا۔ اب یہ ایک مبالغہ امیز امر نہیں۔ بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہر قسم کے ظلم ہوئے (۱)آپ کو عبادت سے روکا گیا (۲)مارا پیٹا گیا (۳)گالیاں دی گئیں (۴)تعلقات باہمی سے روکا گیا (۵)تبلیغ سے روکا گیا (۷)صحابہؓ کو پتھروں پر گھسیٹا گیا (۸)ہجرت سے روکا گیا۔ لوگ مارتے ہیں تو کہتے ہیں نکل جائو۔ مگر یہاں مارتے بھی تھے اور نکلنے بھی نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ بعض صحابہ ان مظالم سے تنگ آ کر چوری چھپے حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے۔ تو مکہ کے بعض بڑے بڑے رؤسا نجاشی کے پاس پہنچے اور اسے کہا کہ یہ ہمارے غلام ہیں جو ہمارے ملک سے بھاگ کر یہاں آ گئے ہیں۔ ان کو واپس کیا جائے گویا ان کی سکیم یہی تھی۔ کہ ہم مسلمانوں کو نہ مکہ میں آرام سے رہنے دیں گے اور نہ ان کو باہر جانے دیں گے۔ (۹)عورتوں کو شرمناک طریقوں سے مارا گیا (۱۰)جھوٹے الزامات لگائے گئے کبھی پاگل کہا گیا کبھی خود غرض کہا گیا۔ کبھی جھوٹا کہا گیا۔ کبھی عزت کا متلاشی کہا گیا۔ غرض کوئی تیر نہ تھا جو مکہ والوں نے آپ پر نہ چلایا ہو۔
تیسرے معنے یہ تھے کہ تو اس شہر میں سے جا کر پھر اترنے والا ہے۔ یعنی یہ شہر دو زبردست ثبوت اسلام کی صداقت کے پیش کرے گا۔ اوّل محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہجرت کا۔ اور پھر آپ کے واپس آنے کا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ محال تھے۔ مکہ والے اس سورۃ کے نزول کے وقت میں یا آپ کو ناقابل التفات سمجھتے تھے۔ یا آپ کو ایک قابل احترام وجود سمجھتے تھے۔ دونوں حالتوں میں آپ کے اخراج کا کوئی خیال بھی نہ کر سکتا تھا۔ خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا نکالا جانا اس قدر ناممکن نظر آتا تھا کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پہلا الہام ہؤا۔ اور آپ گھبراہٹ اور اضطراب کی حالت میں گھر تشریف لائے تو آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ وہ آ پ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ان کے چچا زاد بھائی اور بائیبل کے بہت بڑے عالم تھے اور ان سے ان الہامات کا زکر کیا۔ ورقہ بن نوفل نے خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی حالات دریافت کئے۔ اور آپ نے وہ تمام واقعہ تفصیل کے ساتھ سنایا۔ جو غارِ حرا میں آپ کے ساتھ گزرا تھا۔ ورقہ بن نوفل آپ کی گفتگو سننے کے بعد کہنے لگے۔ اس پر تو وہی فرشتہ نازل ہؤا ہے جو موسٰی پر نازل ہؤا تھا۔
یہاں ضمنی طور پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ ورقہ بن نوفل عیسائی تھے اور صحف مقدسہ کا اکثر مطالعہ رکھا کرتے تھے۔ اگر وُہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بھی ویسی ہی شریعت کا بانی سمجھتے جس قسم کی شریعت کے بانی حضرت موسٰی علیہ السلام تھے تو وُہ قطعًا یہ کہتے کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل ہؤا تھا۔ بلکہ وُہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نام لیتے۔ اور کہتے کہ تم پر کوئی فرشتہ نازل ہی نہیں ہو سکتا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام آ چکے۔ اور وہی دنیا کے آخری نجات دہندہ تھے۔ اب ان کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا مگر وُہ سنتے ہیں تو یہ کہتے ہیں۔ وھَذَا النَّامُوْسَ الَّذِیْ اُنْزِلَ عَلٰی مُوْسٰی یعنی یہ تو وہی فرشتہ ہے جو موسٰی نبی پر وحیٔ آسمان لایا تھا۔ پھر انہوں نے کہا لَوْ کُنْتَ جَذَعاً اِذْیُخْرِجُکَ قَوْمُکَ کاش میں اس وقت قوی اور طاقتور ہوتا جب تیری قوم تجھ کو مکہ سے نکال دے گی۔ اگر مجھ میں طاقت اور ہمت رہی۔ اور اگر میں اس وقت زندہؤا تو اَنْصُرُکَ نَصْراً مُؤذَّراً میں اپنی پوری ہمت اور اپنی پُوری طاقت کے ساتھ تیری مدد کروں گا۔ ورقہ بن نوفل کی یہ بات رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے اتنی عجیب تھی کہ آپ اس کو سن کر حیران رہ گئے۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ آپ کو الہام ہو چکا تھا آپ نے حیرت سے کہا اَوَ مُخْرِجِیَّ ھُمْ کیا مکہ کے لوگ مجھ کو نکال دیں گے۔ یعنی میرے جیسا پُرامن اور صلح پسند انسان جو ہر قسم کے حقوق کو ادا کرنے والا ہے۔ اسے مکہ کے لوگ کس طرح نکال سکتے ہیں۔ میری ان سے کوئی دشمنی نہیں۔ مَیں ان کا کبھی بد خواہ نہیں ہؤا۔ میری ان سے کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ پھر اس مکہ میں میرے رشتہ دار اور دوست موجود ہیں۔ ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وُہ مجھے مکہ میں سے نکال دیں۔ دنیامیں اگر لوگ کسی کو نکالتے ہیں تو دشمنی کی وجہ سے مگر میری تو کسی سے دشمنی نہیں ہے۔ کیا میرے جیسے پُرامن کو بھی یہ لوگ نکال دیں گے۔ اور اگر نکال دیں گے تو کیا جرم ہو گا۔ اور کون سا قصور ہو گا۔ جس کی وجہ سے میں اس مکہ سے نکالا جائوں گا۔ کتنے مختصر مگر گہرے معانی رکھنے والے وہ الفاظ ہیں۔ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس موقعہ پر استعمال فرمائے ہیں۔
اَوْ مُخْرِجِیَّ ھُمْ بظاہر ایک چھوٹا سا فقرہ ہے مگر محمد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قلبی کیفیات کی ایک وسیع دنیا ان الفاظ میں آباد ہے۔ اگر ایک طرف ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دل کس قدر صلح اور آشتی اور محبت کے جزبات سے لبریز تھا۔ تو دوسری طرف ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود خود مکہ والوں کی نگاہ میں اس قدر محبوب تھا کہ ظاہری حالات کے لحاظ سے یہ بالکل ناممکن نظر آتا تھا کہ وہ آپ جیسے کسی انسان کو مکہ میں سے نکال سکیں گے۔ مگر پھر ہؤا یہی کہ انہوں نے باوجود آپ کی صلح پسندی کے اور باوجود آپ کے پُرامن ہونے کے آپ کو مکہ سے نکال دیا۔ اور خدا کی بات پوری ہوئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ مخالف حالات کو دیکھ کر بعض دفعہ قبل از وقت ایک رائے کا اظہار کر دیا جاتا ہے۔ اور اس کا نام پیشگوئی رکھ لیا جاتا ہے۔ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں وُہ اس پیشگوئی پر غور کریں۔ اور سوچیں کہ کیا عالم الغیب خدا کے سوا کوئی انسان اپنی فطرت سے یہ بات کہہ سکتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک دن مکہ میں سے ہجرت کرنی پڑے گی۔ اور لوگوں کو تو جانے دو۔ خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں سمجھتے تھے۔ اور آپ حیران ہوتے تھے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ کہ مَیں مکہ میں سے نکالا جائوں۔ اور جس امر کو آپ نہ سمجھتے تھے اسے کوئی دوسرا کیا سمجھ سکتا تھا۔ مگر باوجود اس کے کہ آپ کی اپنی نگاہ میں یہ بات ناممکن تھی۔ مگر مکہ والوں کے حالات کے لحاظ سے یہ بات ناممکن نظر آتی تھی۔ پھر بھی خدا کی بات پوری ہوئی۔ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک لمبے عرصہ کے شدید مظالم کے نتیجہ میں مکہ سے ہجرت کرنی پڑی۔
اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مکہ میں واپس آنا ایسا ناممکن نظر آتا تھا۔ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس وقت کون شخص خیال بھی کر سکتا تھا کہ رات کی تاریکی میں مکہ سے دو بھاگنے والے ایک دن دس ہزار لشکر جرار اپنے ساتھ لئے فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوں گے۔ اور مکہ کے بڑے بڑے سردارمسلمانوں کے رحم وکرم پر ہوں گے کہ وہ جیسا چاہیں ان سے سلوک کریں۔ اس وقت کون ان باتوں کو اپنے وہم و گمان میں بھی لا سکتا تھا۔ اَور کون کہہ سکتا تھا کہ وُہ کفار جو آج خوش ہو رہے ہیں جو اس خیال میں پھولے نہیں سماتے کہ وہ اسلام کی شوکت کو مٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سامنے صرف چند سال کے عرصہ کے اندر وہی شخص جسے مکہ سے نکالا گیا تھا دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں واپس آئے گا۔ اور بڑے بڑے جاہ و جلال کے ساتھ فرمائے گا کہ اے مکہ والو! بتائو اب مَیں تم سے کیا سلوک کروں۔ اور وُہ جواب یہ دیں گے۔ کہ وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ ہجرت کے وقت زیادہ سے زیادہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ افسوس ہم آپ کو مار نہ سکے۔ اور بعض لوگ یہ کہتے ہوں گے کہ چلو اچھا ہؤا خس کم جہاں پاک (نعوذ باللہ من ذالک) ہماری نگاہوں سے تو وُہ اوجھل ہؤا۔ اب ہمیں اس سے کیا غرض کہ وُہ زندہ ہے یا نہیں۔ ہم نے اسے اپنے شہر سے تو نکال دیا۔ اس وقت کوں خیال کر سکتا تھا۔ کہ وہی لوگ جو آج یہ کہہ رہے ہیں کہ چلو اچھا ہؤا ہمیں چھٹی مل گئی۔ ایک بلا اور مصیبت سے چھٹکارا ہؤ۔ انہی لوگوں میں وُہ ایک فاتح جرنیل کی حیثیت میں واپس آئے گا۔ اور پھر کون یہ خیال بھی کر سکتا تھا۔ کہ وُہ اتنی جلدی واپس آئے گا۔ کہ لوگوں کے لئے نہ صرف اس کی واپسی بلکہ جلد واپسی حیرت انگیز ہو گی۔ واقعہ میں اگر غور کیا جائے تو یہ ایک عظیم الشان نشان ہے جس سے خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی طاقت و جبروت کا نقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ مکہ سے رات کی تاریکی میں دور بھاگنے والے بھاگے اور اس حالت پر بھاگے کہ انہیں اپنی جان خطرہ میں گھری ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اور کفار نے یہ ارادہ کیا ہؤا تھا کہ ان کی کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔ مگر پھر آٹھ سال کے بعد اسی مکہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک فاتح کی حیثیت میں واپس آئے۔ آٹھ سال میں تو ایک ڈاکو بھی پُوری طرح تیار نہیں ہوتا۔ مگر یہاں یہ خبر دی گئی تھی کہ آٹھ سال کے اندر محمدر سول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو صرف ایک ساتھی کے ساتھ مکہ سے رات کے وقت بھاگے تھے۔ اور جن کو زندہ یا مردہ پکڑلانے پر انعام مقررتھا۔ وُہ آٹھویں سال مکہ میں داخل ہوں گے۔ کہ قیدار کی ساری حشمت تباہ ہو چکی ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ اور آپ اللہ تعالیٰ کیا تائید اور اس کی نصرت کے ساتھ اسلام کی فتح کا جھنڈا اڑاتے مکہ میں داخل ہوئے اور یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی کہ اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلدِ (اَشْھَدُ اَنْ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ)
دیکھو یہاں کس طرح ابتدائی زمانہ میں ہی فجر کے معنی بھی کر دئیے یعنی ہجرت اور ایک ہی وقت میں دُوسری کامل جو بدر سے شروع ہوئی۔ اور فتح مکہ پر مکمل ہوئی۔ اس کا بھی ذکر کر دیا۔ کہ دوسرا ثبوت مکہ ہماری باتوں کی درستی کا اس طرح دے گا کہ تُو اس شہر میں پھر نازل ہو گا اور پھر اللہ تعالیٰ کا جلال اور اس کی قدرت کا ایک عظیم الشان نشان تیرے ذریعہ سے مکہ میں نظر آنے لگ جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بات کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہے کہ یہ مکہ ایک لمبے عرصہ سے محفوظ چلا آتا تھا۔ جب لوگ بت پرست اور دین سے غافل تھے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ابرہہ سے اس کی حفاظت کی۔ مگر اب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھوں سے قہراً فتح ہو گا۔ اور نہ صرف محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا داخلہ آپ کی سچائی کا ثبوت ہو گا بلکہ قہراً داخلہ دوسری دلیل مہیا کرے گا کہ اگر خدا تعالیٰ ان ساتھ نہیں تو ان کو مکہ میں قہراً داخل ہونے کی اس نے کیوں اجازت دی۔ گویا علاوہ داخلہ کی پیشگوئی کے پُورا ہونے کے یہ مزید دلیل ہو گی۔ اس ا مر کی کہ آپ سچّے ہیں جو بات ابرہہ کو نصیب نہ ہوئی۔ وُہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نصیب ہو گئی۔ ابرہہ آیا تو خدا تعالیٰ نے اسے اپنے عظیم الشان لشکر سمیت تباہ کر دیا۔ اور اسے مکہ میں داخل نہ ہونے دیا۔ لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر مکہ کی طرف آئے تو خدا نے آپ کو اپنے لشکر سمیت مکہ میں داخل کر دیا۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نہ صرف مکہ میں داخلہ ایک پیشگوئی کوپورا کرنے والا ہے بلکہ آپ کا تلوار کے زور سے مکہ میں داخل ہونا ایک دوسری پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہے۔ اگر بالفرض مکہ والے آپ سے کہتے کہ آپ اپنے شہر میں واپس آ جائیں اور آپ واپس آ جاتے تو اس سے صرف ایک پیشگوئی پوری ہوتی۔ مگر آپ کا داخلہ دو پیشگوئیوں کو پورا کرنے کا مؤجب بنا۔ یعنی نہ صرف آپ مکہ میں داخل ہو ئے۔ بلکہ الٰہی پیشگوئی کے مطابق مکہ کی حرمت کو توڑتے ہوئے اس میں داخل ہونے کی دنیا کی گزشتہ ۲۵ سو سال کی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کوئی شخص تلوار کے زور سے مکہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہؤا ہو۔ ابرہہ آیا اور اس نے تلوار کے زور سے مکہ میں داخل ہونا چاہا مگر خدا نے اُسے تباہ کر دیا۔ لیکن فرماتا ہے اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلدِ اے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تیرے لئے اس شہر کو حلال کر دیا گیا ہے۔ اور تیرے ذریعہ اس شہر کو تلوار کے زور سے فتح کیا جائے گا۔ مکہ والوں کا یقین ہے کہ کوئی شخص تلوار کے زور سے اس شہر کو فتح نہیں کر سکتا۔ مگر ہمارا تم سے نہ صرف یہ وعدہ ہے کہ ہم تجھے واپس لائیں گے بلکہ یہ بھی وعدہ ہے کہ ہم تلوار کے زور سے واپس لائیں گے تا کہ مکہ والوں کا جو یہ عقیدہ ہے کہ کوئی شخص تلوار سے مکہ کو فتح نہیں کر سکتا وہ تیرے ذریعہ سے باطل کر دیا جائے۔ مگر نہ اس لئے کہ مکہ کو حفاظت حاصل نہیں بلکہ اس لئے کہ جس نے مکہ کی حفاظت کی تھی وہ بھی میں تھا۔ اور جو تلوار کے زور سے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس شہر میں لایا وہ بھی میں ہی ہوں۔
پانچویں یہ بتایا کہ اس شہر کو ہم اوپر کی باتوں کے لئے بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ جب کہ تُو اس شہر کی بنیاد کا مقصود ہے یعنی ایسی حالت میں کہ مکہ کا مقصود تُو ہے۔ ہم اسے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور دُنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب کہ شروع دن سے ظہور محمدی مکہ مکرمہ کے قیام کا موجب تھا۔ تو اب یہ لوگ کس طرح خیال کر سکتے ہیں کہ صدیوں سے ایک مقصد کی طرف دنیا کو لاتے ہوئے عین جب اس مقصد کو پُورا کرنے کا وقت آیا۔ تو اللہ تعالیٰ اسے بھلا دے گا۔ اور اس مقصد کا ساتھ چھوڑ دے گا۔ اگر خدا نے اس وقت مکہ کو لوگوں کا مرجع بنا دیا۔ جس مکہ کا تاج اس کے سَر پر نہیں تھا۔ اگر خدا نے اس وقت مکہ کو ہر طرف سے مہیا کیا۔ جب مکہ کا تاج اس کے سر پر نہیں تھا۔ اگر خدا نے اس وقت مکہ کو بڑا شہر بنایا۔ جب مکہ کا تاج اس کے سر پر نہیں تھا۔ اگر خدا نے اس وقت مکہ کو بڑا شہر بنایا۔ جب مکہ کا تاج اس کے سر پر نہیں تھا۔ اور اگر خدا نے اس وقت مکہ کو ہر قسم کی لڑائیوں سے محفوظ رکھا۔ جب مکہ کا تاج اس کے سر پر نہیں تھا۔ تو اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو جو مکہ کا مقصود اور سرتاج ہے میرے آنے کے بعد اب یہ نشانات کس طرح مٹ سکتے ہیں۔ یہ نشانات اور بھی ظاہر ہوں گے۔ا ور آئیندہ رونما ہونے والی پیشگوئیاں نہ صرف تیری صداقت کا ایک زندہ نشان ہوں گی۔ بلکہ خود مکہ ان پیشگوئیوں کے ذریعہ اور عزت پائے گا۔ اور خدا تعالیٰ کے کلام کے لئے دنیا کے سامنے ایک زبردست شہادت مہیا کرے گا۔ کیونکہ تُو مقصود ہے مکّہ کا۔ تو سرتاج ہے مکہ کا۔ اور تیری طرف ہی ہزارہا سال کے تاریخی واقعات کی انگلی اشارہ کر رہی تھی۔ اب تیرے آنے کے بعد خدا تعالیٰ کے نشانات کا ایسا ظہور ہو گا۔ جو دنیا میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہؤا۔ غرض ایک مختصر سے فقرہ میں اللہ تعالیٰ نے لیالی عشرکی بھی تشریح کر دی۔ اور پھر دوسری فجر کی بھی تشریح کر دی اور پھر اس دوسری فجر کی بھی تشریح کر دی جو گیارہویں رات کے اختتام تک پر جنگ بدر سے شروع ہوئی اور جس انتہا فتح مکہ پر ہؤا۔ ان لوگوں کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کا مکہ کی فتح کے لئے آنا کتنی حیرت و استعجاب کی بات تھی۔ اس کا کچھ اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مکہ کے لوگ اس امید میں بیٹھے تھے کہ کہ ابو سفیان محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلمسے ایک نیا معاہدہ کر کے آ رہا ہے۔ وہ رات کو اس امید میں سوئے کہ ابو سفیان ہمارے لئے امن کا پیغام لا رہا ہے۔ مگر آدھی رات کے وقت جب کہ وہ میٹھی نیند سو رہے تھے۔ ابوسفیان گھوڑا دوڑاتے ہوئے مکہ میں داخل ہؤا۔ اور بلند آواز سے پکارنا شروع کر دیا کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دس ہزار صحابہ سمیت مکہ کی طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ مگر مَیں ان سے یہ رعائت لے کر آیا ہوں کہ جو شخص اپنے گھر کا دروازے بند کرے گا۔ اور ان کے مقابلہ کے لئے باہر نہیں نکلے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ لیکن جو شخص گلیوں میں پھرے گا یا تلوار لے کر مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گا وُہ اپنی جان کا آپ ذمہ دار ہو گا۔ اب کجا تو یہ حالت تھی کہ وہ مکہ والوں کی طرف سے صلح کا سفیر بن کر گیا تھا۔ اور کجا یہ حالت ہے کہ جب وُہ واپس آیا تو ایسی حالت میں کہ اس نے اپنی قوم سے کہا۔ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا لشکر فاتحانہ طور پر مکہ میں داخل ہو رہا ہے۔ مَیں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ میں تمہارے لئے بعض مراعات لے کر آیا ہوں۔ اور پھر اس نے ان مراعات کا ان الفا ظ میں اعلان کیا کہ جو شخص اپنے گھر کے دروازے بند کر کے بیٹھ رہے گا۔ اس کی جان کی بخشی کی جائے گی۔ لیکن اگر کوئی باہر نکلا یا اس نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا تو وہ اپنی جان کا آپ ذمہ وار ہو گا۔ چنانچہ ایک طرف سے خالدؓ اپنی فوجوں سمیت مکہ میں داخل ہوئے۔ دوسری طرف زبیر اور سعد بن عبادہ اپنے دستے لے کر بڑھے۔ اور تیسری طرف سے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بغیر کسی لشکر کے بغیر کسی جاہ وحشم کے اکیلے مکہ میں داخل ہوئے۔ آپ کا اکیلا مکہ میں داخل ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ مکہ والے جانتے تھے کہ یہ اکیلا داخلہ لشکر سمیت داخلہ سے ہزارہا گنا زیادہ شاندار ہے۔ کیونکہ آپ اکیلے تھے۔ مگر زبانِ حال سے مکہ والوں کو کہہ رہے تھے۔ کہ دیکھو گو میں لشکر کے بغیر مکہ میں داخل ہو رہا ہوں۔ مگر آج مجھے نظر بد سے دیکھنے کی تم میں جرأت نہیں ہے۔ میرے دائیں اور بائیں خدا تعالیٰ کے فرشتے حفاظت کے لئے کھڑے ہیں۔ اور مَیں توبہ کا پیغام لے کر تمہاری طرف آ رہا ہوں۔ اب چاہو تو توبہ قبول کر کے خدا تعالیٰ کی فوج میں شامل ہو جائو اور چاہو تو ان فرشتوں کی تلوار کا شکار ہو جائو۔ جو دائیں طرف سے بھی مکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اور بائیں طرف سے بھی مکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔
وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ
اور باپ کی بھی اور بیٹے کی بھی (قسم کھاتا ہوں)۴؎
۴؎حل تفسیر
حضرت ابن عباسؓ نے کہا ہے کہ وَالِدٍ وَمَاوَلَدَ سے مراد سب جاندار ہیں۔ یعنی میں اس بلد کو بھی پیش کرتا ہوں۔ اور تمام جانداروں کو بھی بطور شہادت پیش کرتا ہوں مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے مراد آدم اور ان کی ساری اولاد ہے یعنی مَیں اس بلد کو پیش کرتا ہوں۔ اور مَیں تمام دُنیا کے باپ اور اس کی اولاد یعنی تمام بنی نوع انسان کو بھی بطور ثبوت پیش کرتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد تمام صلحا اور ان کی اولادیں ہیں۔ یعنی مَیں اس بلد الحرام کو بھی جس کا مقصود تُو ہے۔ یا جس میں تُو اترنے والا ہے۔ یا جسے تیرے لئے حلال کیا جانے والا ہے اس کو بھی بطور شہادت کے پیش کرتا ہوں۔ اور تمام صلحاء اور ان کی اولادوں کو بھی بطور شہادت کے پیش کرتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے نوح اور ان کی اولاد مراد ہے۔ ابو عمران الحوفی کہتے ہیں کہ اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی سب اولاد مراد ہے۔ طبری اور مادردی کا قول ہے کہ وَالِد سے مراد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ اور مَاوَلَدَسے مراد آپ کی امت ہے کیونکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں اَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ میرا تعلق تم سے ایسا ہی ہے جیسے باپ کا اپنی اولاد سے ہوتا ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھَاتُھُمْ (احزاب ع ۱ ۷ ۱) رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔ جب وُہ مائیں ہوئیں تو وہ شخص جس کے تعلق کی وجہ سے وُہ ہماری مائیں بنی ہیں بدرجہ اولیٰ ہمارا باپ ہؤا۔ پس قرآن کریم نے بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو والد قرار دیا ہے۔ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود بھی فرماتے ہیں کہ اَنَا لَکُمْ بِمَنْزَلَۃِ الْوَالِدِ میرا تعلق تم سے ایسا ہی ہے جیسے باپ کا اپنی اولاد سے ہوتا ہے۔
بحر محیط والے لکھتے ہیں کہ آپ کے مقام کی قسم کھانے کے بعد آپ کی اور آپ کی امت کی قسم اظہار شرف کے لئے کھائی گئی ہے ۱؎ میں قسم کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ قسم سے مراد محض شہادت ہوتی ہے اور غرض اس کی یہ ہوتی ہے کہ ان چیزوں کو ان مخصوص حالات میں یا عام حالات میں ہم بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ بعض دفعہ عام حالات مراد ہوتے ہیں۔ اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان چیزوں کے حالات سے جو سبق ملتا ہے اُسے ہم بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں کہ ہمارا دعویٰ صحیح ہے لیکن کبھی ان چیزوں کے مخصوص حالات مراد ہوتے ہیں۔ جیسے یہاں فرمایا کہ ہم اس مکہ کو بطور شہادت تو پیش کرتے ہیں مگر ایسے حالات میں کہ اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلدِ یہ کہنا کہ قسم اکرام کے لئے کھائی گئی ہے۔ یہ بالکل عبث بات ہے۔ دنیا میں کبھی کوئی شخص عزت کے لئے قسم نہیں کھاتا۔ کیا یہ بھی کوئی کہا کرتا ہے کہ چونکہ میرے دل میں تمہاری عزت ہے اس لئے مَیں یہاں قسم کھاتا ہوں۔ یہ نہ عربی کا محاورہ ہے اور نہ کسی اور زبان کا۔ صرف اس لئے کہ مفسرین کی سمجھ میں قسم کی حقیقت نہیں آئی۔ انہوں نے یہ کہہ دیا کہ قسم اکرام کے لئے کھائی گئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم میں جس کا بھی ذکر آئے گا خواہ وہ ذکر کسی شہادت کے لئے آئے یا کسی نیکیوں کی یادگار کے طور پر آئے۔ اس کا اکرام ہو جائے گا مگر یہ ایک ضمنی بات ہے قسم اکرام کے لئے نہیں کھائی جاتی۔ ہاں جب قسم کھائی جاتی ہے۔ تو اگر وہ اچھی بات کے لئے ہو ہو تو اس چیز کا اکرام بھی ہو جاتا ہے۔ مگر مقصد اکرام نہیں ہوتا۔ اکرام اس کا ایک طبعی نتیجہ ہوتا ہے۔
میرے نزدیک وَالِدٍ وَمَاوَلَدَ کے معنی (اول) حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کے ہیں۔ قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ خانۂ کعبہ اور مکہ مکرمہ کا تعلق خصوصیت کے ساتھ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ علیہما السلام کے ساتھ ہے۔ اور جب ایک چیز کو بغیر تعیین کے بیان کیا گیا ہو تو لازمًا سب سے مقدم حق انہی وجودوں کا ہے جن کا تعلق اس مضمون سے ہو۔ جو وہاں بیان ہو رہا ہو۔ چونکہ وَالِدٍ وَّ مَاوَلَدَ سے پہلے ذکر مکہ مکرمہ کا ہے۔ اس لئے لازمًا ہمیں ایسے ہی وَالِد اور مَوْلُوْد کی تلاش کرنی ہو گی۔ جن کا مکہ سے خاص تعلق ہو۔ اب ہمیں خود قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام نے خانۂ کعبہ کی بنیاد رکھی اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کو مکہ میں لا کر بسایا۔ اور خدا تعالیٰ سے دُعا کی۔ کہ وُہ اسے ایک شہر بنا دے۔ یہاں دُور دُور سے لوگ کھچے چلے آئیں۔ ان کو رزق میسر آئے۔ پھر یہ شہر امن والا ہو۔ اور خدا تعالیٰ کا ذکر کرنیو الے اور اس کے نام پر اپنی زندگیاں قربان کرنے والے شہر میں پیدا ہوں۔ یہ دُعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی۔ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر کی۔ پھر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے جوان ہونے سے پہلے جب وُہ اپنے بچے ہی تھے ان کو مکہ مکرمہ میں لا کر چھوڑ دیا۔ اور ایسی حالت میں چھوڑا جبکہ وہاں کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا۔ محض خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے انہوں نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ایک بے آب وگیاہ وادی میں لا کر بسا دیا۔ پس اگر کوئی وَالِد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانۂ بعثت سے پہلے کا مکہ سے تعلق رکھنے والوںمیں سے لوگوں کے ذہن میں آ سکتا ہے تو وُہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانۂ بعثت سے پہلے اگر کس ولد کی طرف انسانی ذہن منتقل ہو سکتا ہے تو وُہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں۔ یہ ایک ایسا کُھلا اور بیّن امر ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کا منکر ہو تو وُہ بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے پہلے اگر کوئی باپ اور بیٹا مکہ مکرمہ سے خاص طور پر تعلق رکھتے تھے تو وُہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام ہی تھے اور جب یہ ایسی نمایاں بات ہے تو جس باپ اور بیٹے کا یہاں ذکر ہے۔ ان کی تعیین کرنے میں ہمارے لئے کیا مشکل ہے۔جب بغیر کسی تعیین کے لئے ایک لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے دو ہک مفہوم ہوتے ہیں یا تو وُہ کلّی طور پر عام ہوتا ہے اور یا اتنا نمایاں ہوتا ہے کہ اس لئے کسی تعیین کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ مثلًا جب ہم دن کا لفظ استعمال کریں گے تو اس سے یا تو ہر دن مراد ہو گا اور یا ایسا دن مرا دہو گا جو ہماری زندگیوں پر ایسا نمایاں اثر رکھتا ہو کہ خود بخود انسانی ذہن اس دن کی طرف چلا جاتا ہو۔ ہر فصیح زبان میں یہی طریق رائج ہے۔ کہ جب نکرہ استعمال کیا جائے یا تو اس سے مراد وُہ تمام افراد ہوں گے جو اس میں آ سکتے ہوں اور یا ان افراد میں سے وُہ خاص وجود جو اتنا خاص ہو کہ اس کے لئے کسی تعیین کی ضرورت نہ ہو۔ اس کے لئے نکرہ آئے گا۔ اس کے خلاف کوئی اور معنی کرنے کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتے ہمارے ملک کی عورتیں جب اپنی زندگی کے خاص دن کا ذکریں تو بغیر تعیین کے کہہ دیتی ہیں۔ اودن نہیں بھلدا۔ یعنی وُہ دن نہیں بُھولتا۔ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ وُہ دن میری زندگی میں اتنا اہم ہے کہ میرے سب جاننے والے صرف اشارہ سے اسے سمجھ سکتے ہیں۔
وَالِدٍ وَّمَالَدَ کے یہ معنے کرنے کے اس سے صلحا اور ان کی اولاد مراد ہے۔ یا نوح اور ان کی اولاد مراد ہے۔ یہ سب عقل کے خلاف معنے ہیں۔ اور ایک نکرہ کا وجود برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن جہاں تک حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے کا تعلق ہے (میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری اولاد مراد نہیں لیتا۔ بلکہ مَا وَلَدَ سے صرف حضرت اسمٰعیل علیہ السلام مراد لیتا ہوں) اس حد تک کوئی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ مکہ کی بنیاد انہوں نے رکھی۔ پس جنہوں نے مکہ بنایا ہے جنہوں نے خانۂ کعبہ کی بنیادوں کو استوار کیا ہے اگر ہم ان کا نام نہیں لیتے اور بغیر تعیین کے مکہ کے ذکر میں باپ بیٹے کے الفاظ سے ان کا ذکر کر دیتے ہیں تو ہرعقلمند انسان سوائے ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کے کِسی اور شخص کا نام اپنے ذہن میں لا ہی نہیں سکتا۔ ہمارے ملک میں عام لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ’’او مدینے والیا‘‘ اب جہاں تک مدینے میں رہنے والوں کا سوال ہے۔ اس میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ اس وقت بسر چکے ہیں۔ اور ان الفاظ سے یہ تعیین نہیں ہوتی کہ کہنے والے نے کس کا ذکر کیا ہے۔ آیا اس سے مدینے کا ہر شخص مراد ہے یا مدینہ کا کوئی خاص شخص مراد ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ الفاظ میں کسی کی تعیین نہیں ہوتی جب کوئی شخص یہ الفاظ استعمال کرتا ہے کہ ’’او مدینے والیا‘‘ ’’اومدینے والیا‘‘ تو ہر شخص کا ذہن فوری طور پر اس امر کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد مدینہ کا ہر شخص نہیں۔ بلکہ اس سے مراد مدینہ کا وُہ مقدس انسان ہے جس سے مدینہ کی عزت حاصل ہوئی۔ اب دیکھ لو یہ الفاظ ہمارے ملک میںروزانہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ پنجابی شعراء جب نعت کہتے ہیں تو انہی الفاظ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کرتے ہیں۔ مگر کبھی ان الفاظ کے متعلق کسی شخص کے دل میں شبہ پیدا نہیں ہوتا۔ وہ کبھی نہیں کہتا کہ یہ تو نکرہ ہے۔ اور اس سے مدینے کا ہر شخص مراد ہو سکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گو یہ نکرہ ہے۔ مگر اس سے مراد معرفہ ہے۔ جس سے زیادہ مدینہ کے ذکر میں اور کسی کو تعیین حاصل نہیں۔ پس جس طرح روزانہ کہا جاتا ہے ’’او مدینے والیا‘‘ اور اس سے مراد محمد درسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ہوتی ہے۔ اسی طرح مکہ کے ساتھ جب بھی ایک باپ اور بیٹے کا ذکر آئے گا لازمًا اس سے مراد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام ہی ہوں گے۔ اور کوئی نہیں ہو گا۔ پھر یہ بھی ایک غور کرنے والی بات ہے کہ یہاں باپ اور بیٹے کو ملا کر ان کو اکٹھا ذکر کرنے کیا معنے تھے۔ خالی باپ یا بیٹے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ اسی لئے ایک باپ اور ایک بیٹا دونوں وجود ایسے تھے جنہوں نے مل کر خانۂ کعبہ بنایا۔ اس کی تعبیر کی۔ اور پھر ان دونوں سے آئیندہ کے لئے ایک سلسلہ ہدایت قائم ہؤا ہے۔ وُہ خالی باپ کا فعل نہیں تھا۔ خالی بیٹے کا فعل نہیں تھا۔ بلکہ ایک باپ اور ایک بیٹے کا مشترکہ فعل تھا۔ جو انہوں نے مل کر سر انجام دیا۔ اسی لئے قرآن کریم نے صرف باپ یا صرف بیٹے کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ باپ اور بیٹے دونوں کاذ کر کیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں جو واقعہ اپنی تمام جزئیات کے ساتھ اس آیت پر چسپاں ہوتا ہو ہمیں تفسیر کرتے ہوئے پہلا حق اسی کو دینا چاہئیے۔
اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے۔ کہ ہم اس شہر کو اس حالت میں کہ تُو اس میں حِلٌّ ہے۔ شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور اسی طرح اس شہر کی بنیاد رکھنے والے ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو بھی بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ کس امر کی شہادت کی؟ یا وہ دونوں کیا شہادت دیتے ہیں؟ اس کے متعلق مفسرین کہتے ہیں۔ کہ قسم کا جواب لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍمیں بیان ہؤا ہے جو آگے آئے گا۔ کہ ہم نے انسان کو کَیْد میںپیدا کیا ہے۔ میرے نزدیک یہ درست ہے۔ جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍایک بڑا قطعی اور یقینی جواب اسی قسم کا ہے لیکن جہاں تک ساری آیات کا تعلق ہے میرے نزدیک یہ دُوسرا جواب ہے۔ پہلا جواب وہی ہے جو پہلی سورتوں میں بیان ہؤا۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قسم سے پہلے لَا کا لفظ استعمال کیا جائے۔ تو اس کا کوئی نہ کوئی قرینہ ہونا چاہئیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لا کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ اظہار نہیں کیا کہ کس چیز کا انکار کیا گیا ہے۔ مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فصیح کلام میں لا کے اظہار کے لئے ضرور کوئی قرینہ ہونا چاہئیے۔ اور قریبی قرینہ یہی ہوتا ہے۔ کہ ماسبق کی طرف اشارہ سمجھا جائے۔ پس جس کی طرف لا کا اشارہ سمجھا جائے گا۔ اسی کی طرف قسم کا بھی اشارہ سمجھا جائے گا۔ میرے نزدیک لَا اُقْسِمُ کے لحاظ سے ایک جواب قسم محذوف ہے۔ اور دُوسرا جواب جو اس کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے۔ اور جسے تائیدی طورپر پیش کیا جا سکتا ہے۔ وہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍہے۔ گویا یہ جواب قسم تو ہے مگر ثانوی جواب ہے۔ اصل جواب نہیں۔ اصل جواب وہی ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اور چونکہ وُہ بیان ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حذف کر دیا۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوں گے کہ ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اس شہر کو ایسی حالت میں جبکہ تُو اس میں حِلٌّ ہے۔ اور ہم وَالد ابراہیمؑ اور وَلَدَ اسمٰعیل کو بھی اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ کہ ہم نے اسمٰعیل کو بھی اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ کہ ہم نے پہلی آیتوں میں جو یہ باتیں بیان کی ہیں کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سخت مخالفت ہو گی۔ یہاں تک کہ اسے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ مگر آخر وُہ کامیاب ہو جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس شہر میں اس کو واپس لائے گا۔ یہ ساری باتیں ہو کر رہیں گی۔ اسی طرح یہ بھی ہماری قسم کا جواب ہے کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ ہم نے انسان کو کبد میں پیدا کیا ہے(آگے جب مضمون آئے گا تو اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا) پس یہ مزید عقلی دلیل ہو گی جو سابق شہادت کے لئے بطور تائیدی گواہ کے سمجھی جائے گی۔ لیکن اگر اسی کو جواب قسم سمجھا جائے گا۔ تو پھر ہم کو یہ سمجھنا ہو گا کہ لَا نے اس دعویٰ کو ردّ کر دیا جس کا لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ سے استنباط ہوتا ہے۔ کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں ہم کو سہولت اور آرام سے بغیر کسی قسم کی قربانی کے ہر ترقی مل جائے گی۔ اور ہمیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ عدم اکرام ضعیف اور عدم تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ وغیرہ حالات سے معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو رد کرتا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ کہ سہولت اور آرام سے قومی ترقی حاصل ہو جائے گی۔ اور تمہیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ اخلاقی اور مذہبی اور سیاسی ذمہ داریوں سے مونہہ موڑ کر ترقی نہیں ملتی بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی اس طرح کیا ہے۔ کہ وہ محنت اور مشقت سے ترقی کرتا ہے۔ چنانچہ ہم اس بات کی دلیل کے طور پر مکہ کو پیش کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں کہ تُو اس میں حِلٌّ ہے۔ اور ہم ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ان آیات کے ایک حصہ کی تشریح اوپر گزر چکی ہے اور بتایا جا چکا ہے۔ کہ لغت کے لحاظ سے حِلٌّ کے کئی معنی ہیں۔ ان سب معنوں کے لحاظ سے مکہ اس بات کا ایک یقینی ثبوت ہے۔ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے۔ اسی طرح لَیَالٍ عَشْرٍ کی تشریح کرتے ہوئے بتایا جا چکا ہے۔ کہ مشرکین مکہ کی تکالیف کی کیا نوعیت ہو گی۔ اور وُہ کس کس رنگ میں مُسلمانوں کو مبتلائے آلام کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بات بھی بتائی جا چکی ہے کہ فجر کا ظہور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کس رنگ میں ہو گا۔ اور کس طرح کفار کی طاقت کو توڑا جائے گا۔ ان تمام واقعات سے جواب قسم خود بخود نکل آیا۔ کہ مکہ والوں کے ظلم اور ان کی تعدی اس بات کی متقاضی ہے کہ خدا تعالیٰ مکّہ سے محمد رسول اللہ کو پہلے نکال لے جائے اور پھر فاتح کی حیثیت سے واپس لائے۔ اور اس طرح ثابت کرے کہ ہم نے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔ وہ ہماری طرف سے ہے۔ اور وُہ ضرور جیت کر رہے گا۔ اب اس کے بعد فرماتا ہے وَوَالِدٍ وَّمَاوَلَدَ ہم ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی شہادت اس لحاظ سے ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی بنیاد رکھتے وقت جبکہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ان کے ساتھ شامل تھے۔ یہ دُعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھُمْ رَسُوْلًا مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیْمُ (البقرہ ع ۵ ۱ ۵ ۱) گو ولد کی شہادت کا یہاں ذکر نہیں۔ مگر یہ صاف ظاہر ہے کہ جب وہ دونوں مل کر کام کر رہے تھے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ دُعا کر رہے تھے۔ تو لازمًا اس دُعا کے وقت وُہ اکیلے نہیں تھے۔ بلکہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ جیسا کہ رَبَّنَا کے لفظ سے بھی ظاہر ہے۔ پھر اس لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ جب انہوں نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے بڑی بڑی دعائیں کیں۔ تو ان دعائوں کے معنے یہی تھے کہ انہوں نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کے متعلق دُعائیں کی ہیں۔ چنانچہ وُہ خود فرماتے ہیں۔ رَبَّنَا اِنِّیْْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعً عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْعِدَۃُ مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ (ابراہیم ع ۶ ۸ ۱) یعنی اے میرے رب مَیں نے اپنی اولاد کو ایک وادیٔ غیر ذی زرع میں لا کر بسایا ہے۔ محض اس لئے کہ وہ تیری عبادت کریں۔ اور تیرے دین کی خدمت میں اپنی عمر بسر کر دیں تُو اپنے فضل سے لوگوں کے قلوب کو ان کی طرف پھیر دے اور انہیں اپنے پاس سے رزق دے۔ تا کہ یہ تیرے شکر گزار بندے بنیں۔ پس اول تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک رسول کی بعثت کی متعلق جو دعائیں کیں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ان دُعائوں میں شامل تھے۔ کیونکہ انہوں نے اکٹھے خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔ دُوسرے وہ ان دُعائوں میں اس لحاظ سے بھی شریک تھے۔ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسمٰعیلؑ کی نسل سے ہی ان وعدوں کے پورا ہونے کی دُعا کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وَلَد دونوں کی اکٹھی شہادت کا اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ذکر کیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ ہم اس بات کی شہادت کے طور پر کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ والد اور ولد کو تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کی نسل میں سے ایک رسول بعثت کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کی تھیں۔ اگر وُہ دُعائیں اب تک پُوری نہیں ہوئیں۔ تو بتائو ابراہیم تمہارے نزدیک جھوٹا ہؤا یا نہیں۔ پھر اسمٰعیل کی طرف دیکھ کہ اس نے ایک بہت بڑی قربانی کی۔ اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وادیٔ غیر ذی زرع میں بس کر اپنی جان کو ہلاک کرنے کے لئے تیار ہوں۔ وُہ خدا کی خاطر مرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ اس نے اپنے اوپر ایک بہت بڑی موت وارد کر لی۔ محض اس لئے کہ خدا کے وعدے اس متبرک مقام کی نسبت اس کی نسل کے ذریعہ سے پورے ہو جائیں۔ اب اگر وُہ شخص پیدا نہیں ہؤا۔ جو اس مکہ کا مقصود ہے۔ تو بتائو اسمٰعیل جھوٹا ہؤا یا نہیں۔ جھوٹی قُربانی ہی ایک ایسی چیز ہے۔ جو کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتی۔ ورنہ سچی قربانی اپنا پھل ضرور پیدا کرتی ہے۔ پس اگر اسمٰعیل نے سچی قربانی کی تھی اور تم بھی اس قُربانی کی عظمت سے انکار نہیں کر سکتے۔ تو تمہیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئیے۔ اس طرح اگر تم ایک ایسے کامل انسان کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہو۔ جو ابراہیمی دُعا کے نتیجہ میں اسمٰعیل نسل میں سے پیدا ہؤا ہے۔ تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے نزدیک ابراہیمؑ کی قربانی بھی نعوذ باللّٰہ مردود تھی۔ اگر اس کے اندر قربانی کرتے وقت تقویٰ ہوتا۔ تو کس طرح ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے تقویٰ کو ضائع کرتا۔ اور اس کی قربانی کو ردّ کر دیتا۔ بہرحال دونوں میں سے ایک بات ضروری ہے۔ یا تم تسلیم کرو کہ ابراہیمؑ کی دُعا نعوذ باللّٰہ ضائع چلی گئی۔ اور اسمٰعیلؑ کی قربانی دنیا میں کوئی نتیجہ نہ پیدا کر سکی۔ اور یا پھر یہ تسلیم کرو کہ ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ دونوں ن سچی قُربانی کی تھی۔ اور دونوں کی قربانی میں پھل کا تقاضا کرتی تھی۔ وُہ دنیا میں پیدا ہو گیا ہے۔ کیونکہ اس طویل عرصہ کے بعد وہی اس مقام کا دعویدار ہے۔
پہلی بات کو تسلیم کرنے کی صورت میں تمہیں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل دونوں کو جھوٹا قرار دینا پڑتا ہے۔ لیکن اگر دُوسری بات مان لو۔ تو پھر بے شک تم ان کے سچے ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہو۔ مگر تمہاری تو یہ حالت ہے کہ تم ان کو سچا بھی کہتے ہو۔ا ور پھر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی جھٹلاتے ہو۔ جو اس دُعا کا نتیجہ ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی۔ اور اس قربانی کا پھل ہیں جو حضرت اسمعیل علیہ السلام نے کی۔ اگر تم ان کو جھوٹا کہتے ہو تو تمہیں ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو بھی جھوٹا کہنا پڑے گا۔ اور اگر تم ابراہیمؑ اور اسمعیل کو سچا مانو۔ تو پھر تمہیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت پر بھی ایمان لانا پڑے گا۔ بہرحال یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم باتیں ہیں۔ اگر محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے ثابت ہوں۔ تو ابراہیمؑ بھی سچے ثابت ہوتے ہیں۔ اور اگر محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے ثابت نہ ہوں۔ تو ابراہیمؑ بھی سچے ثابت نہیں ہوتے۔ اور اسمٰعیل نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا تھا۔ اس وقت خدا نے کہا تھا کہ چونکہ اس نے میرے حکم پر اپنے آپ کو مرنے کے لئے پیش کر دیا ہے۔ اس لئے میں اسے وہ روحانی اولاد عطا کروں گا۔ جو ساری دنیا کو زندہ کر دے گی۔ اور میں اس موت کے بدلے اس کے سارے خاندان کو حیاتِ ابدی بخشوں گا۔ اب اگر خاص نیت اور ارادہ سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے اپنے آپ کو پہلے ظاہر میں قربان ہونے کے لئے پیش نہیں کیا۔ا ور پھر مکہ میں بسائے جانے کے وقت پیش نہیں کیا۔ تو ان کی نسل میں اس قسم کا بچہ پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن اگر انہوں نے سچی قُربانی کی تھی۔ تو ضرور تھا کہ ان کی نسل سے وُہ سلسلہ چلتا۔ جو دنیا کو زندگی بخشتا۔ پس بہرحال محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سچائی کے ساتھ ابراہیمؑ اور اسمٰعیل کی سچائی وابستہ ہے۔ اور یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کفار مکہ کے سامنے وَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ کے الفاظ میں رکھتا ہے۔ کہ تم ابراہیمؑ کو بھی سچا مانتے ہو۔ اور اسمٰعیل کو بھی۔ مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ تم اس شخص کو جھٹلا رہے ہو جس کی سچائی کے ساتھ ابراہیمؑ اور اسمٰعیل کی سچائی وابستہ ہے۔ تم یہ مانتے ہو کہ ابراہیمؑ نے ایک رسول کے لئے دُعا کی تھی۔ مگر جب اس دُعا کے نتیجہ میں وُہ رسول تم میں مبعوث ہو گیا تو تم اس کو جھٹلا رہے ہو۔ تم یہ تو مانتے ہو کہ اسمٰعیلؑ نے جب قربانی کی تو خدا تعالیٰ نے اس کی اولاد کے بارہ میں ابراہیمؑ سے وعدے کئے۔ اور کہا کہ اس کی نسل سے ایک ایسا انسان پیدا ہو گا۔ جو دنیا کی مزکی ہو گا۔ مگر جب وُہ روحانی فرزند ظاہر ہو گیا۔ تو تم نے اس کا انکار کر دیا۔ اب بظاہر تم نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار کیا۔ اور تم نے اسمٰعیل کا بھی انکار کیا۔ کیونکہ یہ وہ شخص ہے جس کی صداقت پر یہ دونوں انبیاء گواہ ہیں۔ ابراہیم گواہ ہیں۔ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے ہیں اور اسمٰعیل گواہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے ہیں۔ اور تم نے جو طریق اس کی مخالفت میں اختیار کر رکھا ہے۔ وہ اس مقصد کے بالکل خلاف ہے۔ جس کو پُورا کرنے کے لئے ابراہیمؑ نے دعائیں کیں۔ اور جس کے ظہور کے لئے اسمٰعیل نے قربانی کی۔
ممکن ہے اس موقعہ پر کسی شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ مکہ والے اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت کرتے تھے تو اس لئے نہیں کہ وُہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے مقصد کا پورا ہونا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی مخالفت صرف اس لئے تھی کہ وُہ اپنے متعلق یہ یقین رکھتے تھے کہ ہم نے اپنے وجود کے ذریعہ اسمٰعیل قُربانی کو بے نتیجہ نہیں رہنے دیا۔ ہم لات۔ مناۃ اور عزیٰ کی پرستش اس لئے کرتے ہیں۔ کہ یہی ابراہیمؑ کا مقصد تھا۔ یا ہم اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں تو اس لئے کہ ہم سمجھتے ہیں ابراہیمؑ نے اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ سے جن باتوں کی خواہش ظاہر کی تھی۔ وہ ساری کی ساری باتیں ہمارے زریعہ سے پوری ہو چکی ہیں۔ اس لئے اب یہ ضرورت نہیں۔ کہ کوئی شخـص آئے اور اپنے آپ کو ابراہیمی دُعا کا نتیجہ یا اسمٰعیلی قربانی کا مقصود قرار دے۔ ابراہیم نے جو دُعائیں کیں۔ وہ ہمارے ذریعہ سے پوری ہو چکی ہیں اور اسمٰعیل نے جس مقصد کے لئے قربانی کی تھی وُہ بھی ہمارے وجود کے ذریعہ حاصل ہو چکا ہے۔ ہم اس مقصد کی طرف جا رہے ہیں۔ جو ابراہیم اور اسمٰعیل کا مقصد تھا۔ اور انہی عقائد کو ہم نے اختیار کیا ہؤا ہے۔ جو ان کے عقائد تھے۔ اس لئے گو یہ عقائد بُرے نظر آئیں۔ تمہیں لات اور مناۃ اور عزّیٰ کی پرستش بُری دکھائی دے۔ مگر ہمارے نزدیک جب ابراہیم اور اسمٰعیل دونوں کی یہی تعلیم تھی۔ یہی مقصد بعثت تھا۔ تو ہم پر اس بات کا کیا اثر ہو سکتا ہے۔ کہ ہم نے ابراہیمی دُعا کو عبث قرار دے دیا ہے۔ یا اسمٰعیلی قربانی کے مقصد کو نظر انداز کر دیا ہے۔
اس اعتراض کے متعلق یاد رکھنا چاہئیے کہ اس کے دو جواب ہیں پہلا جواب تو یہ ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ مکہ کے لوگ لات اور مناۃ اور عزّہ وغیر کی پرستش کرتے تھے۔ مگر ان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو یہ کہتا ہو کہ ابراہیمؑ بتوں کی پرستش کرتا تھا۔ یا اسمٰعیلؑ بتوں کی پرستش کرتا تھا۔ یہ خدا نے ایک عجیب ثبوت رکھا ہؤا تھا۔ کہ ان کو کبھی جرأت ہی نہیں ہوئی تھی کہ وہ ابراہیم اور اسمٰعیل کو بھی شرک میں ملوث کریں اور چونکہ وُہ اپنے عقائد کی رُو سے یہ باتیں ان کی طرف منسوب نہیں کرتے تھے۔ اس لئے وُہ مسلمانوں کے سامنے اس بات کو پیش ہی نہیں کر سکتے تھے کہ ہم جس تعلیم پر قائم ہیں وہ ابراہیمی اور اسمٰعیلی مقصد کو پُورا کرنے والی ہے۔ کیونکہ وہ خود ان کو شرک میں ملوث نہیں سمجھتے تھے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ بے شک مذہب ایک ایسی چیز ہے جو زیر بحث ہوتی ہے۔ اورا س میں بہت کچھ اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ لیکن اور مذہبی اختلافات کو نظر کرتے ہوئے اس حقیقت سے بھی کبھی اغماض نہیں کیا جا سکتا۔ کہ وُہ لوگ اس بات کے قائل تھے کہ خانہ کعبہ کی بنیاد کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک دُعا کی تھی اور وُہ دعا بہرحال پوری ہونی چاہئیے۔ مگر جو کچھ اس وقت مکہ کہ حالت تھی۔ اس کے لحاظ سے وُہ قطعی طور پر ایک منٹ کے لئے بھی یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ مکہ کا وجود ابراہیمی دُعا کا مصداق ہے۔ کیونکہ دُعا یہ تھی کہ خدا مکہ کو ساری دنیا کا مرجع بنا دے۔ وہ مذہبی لحاظ سے تو کہہ سکتے تھے کہ ہم سچے ہیں۔ وُہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم اگر شرک کرتے ہیں اگر لات اور مناۃ اور عزّیٰ کی پرستش کرتے ہیں۔ تو اچھا کرتے ہیں۔ مگر کیا مکہ والے یہ بھی کہہ سکتے تھے۔ کہ عرب ساری دنیا کا مرکز ہے۔ اور ابراہیمؑ کی دُعا پوری ہو چکی ہے۔ ان کو نظر آ رہا تھا کہ یہ خانہ ابھی خالی ہے۔ اور مکہ کو ابھی تک وُہ اعزازحاصل نہیں ہؤا جس کے لئے ابراہیمؑ نے خانۂ کعبہ کی تعبیر کے وقت دعا کی تھی۔ وہ دنیاوی طور پر معمولی حیثیت کے لوگ جن کو عرب میں کوئی خاص عزت حاصل نہیں تھی۔ کجا یہ کہ بیرونی دنیا کی نگاہ میں ان کو کوئی خاص اعزاز حاصل ہوتا ان کا اپنے آپ کو دنیا کی نگاہ میں ان کو کوئی خاص اعزاز حاصل ہوتا ان کا اپنے آپ کو ابراہیم اور اسمٰعیل کی دعا کا مصداق قرار دینا تو بڑی بات ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ عرب پر ہی انہیں کوئی دبدبہ اور حکومت حاصل ہے۔ پس انہیں یہ تسلیم کرنا پڑتا تھا کہ روحانی لحاظ سے ابھی مکہ کی عظمت اور اس کی شان وشوکت میں اضافہ ہونے والا ہے ابھی خلا باقی ہے جس نے پُر ہونا ہے۔ ابھی اس نے دنیا جہان کا مرکز بننا ہے۔ ابھی اسے یہ اعزاز حاصل ہونا ہے کہ دنیا کے چاروں طرف سے لوگ یہاں آئیں۔ یہ عظمت مکہ کو پہلے کہاں حاصل تھی۔ بے شک عرب لوگ حج کے لئے مکہ میں آتے تھے۔ مگر دنیا کے چاروں اطراف سے ہر ملک اور ہر علاقہ کے لوگ مکہ میں نہیں آتے تھے۔ وہ ایک ملک کا مرکز تو کہلا سکتا تھا۔ مگر ساری دنیا کا مرکز نہیں تھا۔ حالانکہ ابراہیمی دُعا یہ تھی کہ خدا اسے دنیا کا مرکز بنا دے۔ خدا اس میں تمام عالم کے اطراف سے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لائے اب کجا مکہ کی وہ حالت اور کجا ابراہیم علیہ السلام کی یہ دُعا صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ کہ ابھی مکہ اپنے اصل اعزاز سے بہت پیچھے تھا۔ ابراہیمؑ کی دُعا ابھی پوری ہونے والی تھی اسمٰعیلؑ کی قُربانی ابھی پھل دینے والی تھی۔ جب اسے ساری دنیا کا مرکز قرار دیا جانے والا تھا۔ پس مکہ والے یہ کہہ ہی نہیں سکتے تھے کہ ابراہیمؑ کی دعا پوری ہو چکی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ بے شک حج کے لئے عرب لوگ مکہ میں آ جاتے ہیں مگر بیرونی دنیا کی نگاہ میں انہیں کوئی اعزاز حاصل نہیں چنانچہ اس کے متعلق خود تاریخی شہادات بھی موجود ہیں۔ جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ عرب والوں کو کیسی تحقیر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔
جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قیصر کو تبلیغی خط لکھا اور وُہ اسے پہونچا تو وہ اس خط کو پڑھ کر خاص طور پر متاثر ہؤا اور اس نے درباریوں سے کہا کہ اس خط کا لکھنے والا بڑا دلیر انسان معلوم ہوتا ہے۔ لوگوں سے پتہ لگانا چاہئیے کہ یہ کون ہے کیا دعویٰ کرتا ہے اور اس کے ساتھ کیا کیا واقعات گزرے ہیں۔ اگر مکہ کے کوئی آدمی یہاں آئے ہوئے ہیں تو ان کو میرے دربار میں پیش کیا جائے۔ تاکہ مَیں ان سے اس خط کے لکھنے والے کے حالات دریافت کروں۔ اتفاق کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے چونکہ مکہ والوں پر حجت تمام کرنی تھی۔ ابوسفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ لوگوں نے اسے بادشاہ کے دربار میں پیش کر دیا۔ ابوسفیان وہ شخص تھا جو مکہ کا کمانڈر تھا۔ اہل مکہ کا سردار تھا۔ وہ قیصر کے دربار میں پیش کیا گیا۔ مگر اس طور پر نہیں کہ مقابل کی حکومت کا کوئی بادشاہ آیا ہو۔ اس طور پر بھی نہیں کہ کسی چھوٹی حکومت کا سردار آیا ہو۔ اس طور پر بھی نہیں کہ مقابل کی کسی حکومت کا کوئی جرنیل آیا ہو۔ بلکہ اس طور پر اسے قیصر کے سامنے پیش کیا گیا جس طرح ایک مجرم کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ابوسفیان پیش ہؤا تو بادشاہ نے بعض دوسرے لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے کہا کہ میں اس سے بعض سوالات کروں گا۔ اگر یہ ان سوالات کا سچ سچ جوا ب دے تو تم چپ رہنا لیکن اگر کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے جھوٹ بولے تو فوراً مجھے بتانا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ کیسی ذلت ہے۔ جو قیصر کے دربار میں پہنچتے ہی ابوسفیان کو پہونچی یہ وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو مکہ کا بادشاہ سمجھتا تھا۔ یہ وُہ شخص ہے جسے قوم نے منتخب کر کے اپنا لیڈر بنایا ہؤا تھا۔ یہ وہ شخص ہے جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقابلہ میں اپنی قوم کے لیڈر کے طور پر پیش ہوتا تھا۔ یہ وہ شخص ہے جس کو مکہ سے تعلق رکھنے والے عربوں نے اکٹھے ہو کر اپنا رئیس منتخب کیا ہؤا تھا۔ یہ قیصر کے دربار میں پیش ہوتا ہے۔ تو وُہ یہ تسلیم نہیں کرتا کہ یہ کسی بالمقابل حکومت کا بادشاہ ہے۔ قیصر یہ بھی تسلیم نہیں کرتا۔ کہ یہ کسی ریاست کا مالک ہے۔ قیصر یہ بھی تسلیم نہیں کرتا کہ یہ کسی فوج کا کمانڈر ہے۔ کیونکہ وہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا کہ عرب کوئی بالمقابل حکومت ہے۔ وُہ یہ سب ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ کہ عرب کوئی ریاست ہے۔ وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا کہ عرب کوئی منظم قوم ہے جس کا کمانڈر ابوسفیان ہے وہ اسے تخت پر نہیں بٹھاتا۔ وہ اسے کرسی پر نہیں بٹھاتا۔ اسے کسی چیز پر نہیں بٹھاتا۔ اسے کسی چیز پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ اسے اپنے سامنے کھڑا ہونے کا حکم دیتا ہے۔ اور وُہ اسے صرف ایک معمولی تاجر کی حیثیت دیتا ہے۔ یہ تو قیصر کا ابوسفیان اور اس شہر کے متعلق فیصلہ ہے۔ جس کا وُہ نمائندہ تھا۔ مگر ابوسفیان کا اپنا فیصلہ اس سے بھی عجیب تر ہے جب ابو سفیان سے مجرموں والا سلوک ہؤا۔ تو اس نے ایک لفظ بھی بطور احتجاج کے نہیںکہا۔ اگر وہ مکہ کو ایک حکومت قرار دیتا اور اپنے آپ کو واقعی ایک حکومت کا سردار کہتا تو وہ احتجاج کرتا اور کہتا کہ میں ایک حکومت کا رئیس ہوں مجھے اپنے برابر جگہ دو۔ مگر وہ خاموشی سے اس ذلت کو برداشت کر لیتا ہے۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ جب قیصر کے دربار میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خط پیش ہؤا۔ اور اس نے لوگوں کو بتایا کہ مجھے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لکھا ہے کہ میں اس پر ایمان لے آئوں۔ بتائو اس بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے۔ تو ابوسفیان محض اس خط کے لکھنے سے ہی مرعوب ہو گیا اور اس نے ساتھیوں سے کہا لَقَدْ اَمِرَ اَمْرَ ابْنُ اَبِیْ کَبْشَۃَ کہ محمد (رسول اللہ) تو بہت بڑا ہو گیا ہے اس نے قیصر کو خط لکھ دیا ہے۔ اور وہ اس خط کی طرف توجہ دے رہا ہے۔ یہ اس کی حیثیت ہے کہ وہ ایک قوم کا بادشاہ ہے اور پھر اس بات پر حیران ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قیصر کو خط لکھ دیا۔ اگر حقیقی بادشاہ ہوتا تو اس لئے اس میں تعجب کی کون سی بات تھی۔ کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قیصر کو خط لکھ دیا ہے۔ اگر کہو کہ اس نے خط لکھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے یہ الفاظ کہے تھے کہ قیصر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خط سے متاثر ہؤا تھا۔ تو بہرحال اس سے بھی پتہ لگ سکتا ہے کہ مکہ والے اپنی کیا شان سمجھتے تھے۔ اگر تو وُہ خط لکھنے سے متاثر ہؤا ہے۔ تو یہ بہت ہی گھٹیا بات ہے۔ اور اگر وہ اس بات سے متاثر ہؤا ہے کہ ہم تو بالکل معمولی تھے۔ ہماری دنیا کی نگاہ میں کوئی عزت نہیں تھی۔ اب محمدصلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک ایسا شخص پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے قیصر بھی مرعوب ہونے لگ گیا ہے۔ تو یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ مکہ والے تسلیم کرتے تھے کہ ابھی ابراہیمی دُعا پوری نہیں ہوئی بلکہ ابراہیم کی دُعا پوری ہو چکی ہوتی۔ اور اگر عرب ما نتے کہ مکہ ساری دنیا کی نگاہ میں ایک غیر معمولی عظمت رکھتا ہے۔ تو کیا ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کی دُعا پوری ہو جانے کا وہی یہی ثبوت پیش کرتے۔ کہ ہمارا بادشاہ ابوسفیان قیصر کے دربار میں پیش ہؤا۔ اور اس سے یہ سلوک ہؤا۔ یا کیا عتبہ اور شیبہ اور دوسرے بڑے بڑے عمائد اپنی عزت اور اقتدار کا کوئی ثبوت پیش کر سکتے تھے۔
اہل عرب کو دنیا کی نگاہ میں جو عزت حاصل تھی۔ اس کا اندازہ تو اسی سے ہو جاتا ہے۔ کہ ایران کے بادشاہ نے مسلمانوں کے حملہ کے وقت اسلامی لشکر کو یہ پیشکش کی تھی۔ کہ ایک ایک اشرفی لے لو اور واپس چلے جائو۔ وہ سمجھتا تھا۔ کہ عرب کے لوگ ایسے ذلیل ہیں کہ ایک ایک اشرفی دے کر ان کو خریدا جا سکتا ہے۔ یہ ایران کے بادشاہ کے عربوں کے متعلق مکہ والوں کے اخلاق کودیکھ کر اندازہ تھا۔ اور قیصر کا جو سلوک تھا وہ ابو سفیان والے واقعہ سے ظاہر ہے۔ وہ قیصر کے دربار میں پیش ہؤا۔ تو اس نے ایک تاجر سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہ سمجھی جسے ضرورت کے موقعہ پر جھوٹ بولنے سے بھی عار نہیں ہوتا۔ بلکہ ابوسفیان کی حیثیت تو اتنی بھی ثابت نہیں ہوئی۔ جتنی مولوی محمد حسین بٹالوی کی۔ اس نے مسٹر ڈگلس سے عدالت میں کہا تھا کہ مجھے کرسی ملنی چاہئیے۔ مگر ابوسفیان کے مونہہ سے اتنا بھی نہ نکلا۔ کہ مجھے کرسی دو۔ کیونکہ وُہ جانتا تھا کہ اگر میں نے کرسی کا مطالبہ کیا تو مجھے جوتیاں مار کر نکال دیا جائے گا۔ اب بتائو کیا وہ ان واقعات کو پیش کر کے کہہ سکتے تھے کہ ابراہیمؑ اور اسمٰعیل کی دُعا کا یہ ظہور ہے۔ وُہ جانتے تھے کہ یہ دُعا ابھی پُوری ہونے والی ہے۔ اور مکہ کو ابھی وہ اعزاز حاصل نہیںہؤا۔ جس کا ابراہیمی دعا میں ذکر آتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ ان کی ایک دُعا تھی جس کو تم بھی تسلیم کرتے ہو۔ تم بتائو کہ آخر وہ دُعا گئی کہاں۔ اس دُعا کے مطابق جو اس وقت مدعی کھڑا ہؤا ہے تم اس کے متعلق کہتے ہو کہ وہ جُھوٹا ہے۔ تو پھر اس دُعا کو پورا کون کرے گا۔ اور وُہ کون ہو گا۔ جو والد اور ولد کی دعائوں کا مصداق ہو گا۔ تم اس کے سوا اور کوئی وجود ایسا پیش نہیں کر سکتے۔ جو ان دعائوں کے نتیجہ میں ظاہر ہونے کا اعلان کر رہا ہو۔ پس ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کی دُعائوں میں بڑا بھاری ثبوت ہیں اس بات کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے اور راستباز رسول ہیں۔
دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم گزشتہ زمانہ کے ایک واقعہ کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں۔ اور ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے کا واقعہ ہے۔ تم اس واقعہ کو غور کرو۔ اور دیکھو کہ اس کو کس طرح ایک بے آب و گیاہ جنگل میں خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پھینک دیا گیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے بچایا۔ اور پروان چڑھایا۔ اور ایک بڑی نسل کا باپ بنایا۔ اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اگر آپ کے رشتہ دار مکہ سے نکال دیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی اسی طرح مدد کرے گا۔ جس طرح اسمٰعیل علیہ السلام کی اس نے مدد کی تھی۔
وُہ لوگ جو بائیبل کا مطالعہ رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ بائیبل اس نظریہ کو پیش کرتی ہے۔ کہ حضرت ہاجرہ جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ تھیں۔ ان سے سارہ کی لڑائی ہوئی۔ اور اس نے ناراض ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مطالبہ کیا۔ کہ ہاجرہ اور اس کے بیٹے اسمٰعیل کو اپنے گھر سے نکال دو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے الٰہی اشارات اس کی تائید میں پائے۔ چنانچہ ماں اور بیٹے دونوں کو گھر سے نکال کر مکہ کی وادی میں لا کر چھوڑ گئے۔ وہ جگہ جہاں ان کو رکھا گیا۔ وہاں کھانے کا کوئی سامان نہ تھا۔ پینے کا کوئی سامان نہ تھا۔ رہائش کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ وہاں ایک دُوسرے سے ملنے کے لئے کوئی آبادی نہیں تھی۔ ایک سنسان اور ویران جنگل میں جہاں نہ پانی کا ایک قطرہ تھا اور نہ غذا کا ایک دانہ۔ کھلے آسمان کے نیچے خدا پرتوکل کرتے ہوئے وُہ دو کمزور اور نحیف و ناتواں جانوں کو چھوڑ گئے۔ اوراس لئے چھوڑ گئے کہ خدا نے ان سے کہا تھا کہ وہ ایسا کریں۔ جب انہوں نے خدا کے لئے یہ قُربانی کی تو خدا نے بھی آسمان پر ان کی اس قُربانی کو قبول فرمایا۔ اور اس نے رفتہ رفتہ وہاں ایک شہر آباد کر دیا۔ پھر خدا نے اس مقام کو یہ عظمت دی کہ وُ ہ لوگوں کا مرجع بن گیا۔ بیت اللہ کی اس میں تعمیر ہوئی۔ اور اسے ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ یہ شرف بخشا گیا کہ اس امن و امان کا مرکز قرار دیا گیا۔ اس واقعہ کو پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دن تم بھی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے شہر میں اسی طرح نکال دو گے جس طرح سارہ نے ہاجرہ اور اسمٰعیل کو نکالا تھا۔ مگر ہم کو بھی قسم ہے ابراہیمؑ اور اپنے بیٹے اسمٰعیل کی۔ کہ جس طرح وہاں ایک ویران اور سنسان جنگل کو ہم نے ایک عظیم الشان شہر کی شکل میں تبدیل کر دیا تھا۔ اور پھر ہم نے اسے یہاں تک عظمت دی کہ بلد الحرام قرار دے دیا۔ اسی طرح جس گائوں میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہجرت کر کے جائیں گے اس گائوں کو بھی ہم شہر بنا دیں گے اور پھر اس شہر کو بھی یہ عظمت دیں گے۔ کہ اسے مکہ کی طرح بلد الحرام قرار دیں گے پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے اس باپ کی قسم ہے جس نے اپنی بیوی کے کہنے پر اپنے بیٹے کو نکالا۔ وہ بیٹا ایسی حالت میں نکلا۔ جبکہ وہ بے کس بے زر اور بے پَر تھا۔ کوئی اس کا یار اور مددگار نہیں تھا۔ مگر خدا نے اسے رفتہ رفتہ بہت بڑی طاقت کا مالک بنا دیا۔ تم بے شک محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے شہر میں سے نکال دو۔ مگر یاد رکھو پھر مکہ منفرد عزت رکھنے والا شہر نہیں رہے گا۔ بلکہ اسی قسم کی عزت والا ایک اور شہر اس کے مقابل میں کھڑا کر دیا جائے گا۔ چنانچہ دیکھ لورسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مکہ میں سے نکالا گیا۔ مگر آخر آپ کو وُہ عظمت حاصل ہوتی کہ آپ نے ایک دن سب لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا اے لوگو جس طرح ابراہیمؑ کے ذریعہ مکہ مکرمہ کو ایک خاص اعزاز بخشا گیا تھا میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدینہ کو بھی وہی اعزاز عطا کیا گیا ہے۔ جس طرح مکہ میں جان کی عزت کی جاتی ہے اسی طرح مدینہ میں جان کی عزت کی جائے۔ جس طرح وہاں درخت کاٹنے جائز نہیں۔ اسی طرح مدینہ میں بھی درختوں کا کاٹنا جائز نہیں۔ جس طرح وہاں فتنہ وفساد اور قتل و خونریزی کی سخت ممانعت ہے۔ اسی طرح مدینہ میں بھی فتنہ وفساد اور قتل و خونریزی کی سخت ممانعت ہے۔ غرض وہ تمام باتیں جو مکہ کے متعلق تھیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ منورہ پر بھی عائد کر دیں۔
آخر یہ بھی غور کرنے والی بات ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مدینہ کو حرم بنانے کا اختیار کس نے دیا تھا۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہوئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ایسا حکم دینا خدا کا کام تھا۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ اختیار نہیں تھا۔ کہ خود بخود ایسا حکم دے دیتے۔ ان نادانوں کو یہ معلوم نہیں۔ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قرآن کریم کا وہ گہرا علم بخشا گیا تھا۔ جو دُنیا میں اور کسی شخص کو عطا نہیں کیا گیا۔ آپ نے مدینہ منورہ کے متعلق جو حکم دیا۔ وہ اسی آیت سے ماخوذ تھا کہ لَآ اُقْسِمُ بِھَذَا الْبَلَدِ وَاَنْتَ حِلٌّٔ بِھَذَا الْبَلَدِ وَوَالِدٍِ وَّمَاوَلَدَ میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کو بسانے والے کی۔ اور میں قسم کھاتا ہوں اس بیٹے کی جو اس شہر میں آ کر بسا تھا۔ بے شک تم محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس شہر میں سے نکال دو۔ مگر یاد رکھو جس شہر میں وہ جائے گا۔ اس شہر کو مکہ کا قائمقام بنا دیا جائے گا۔ اور اُسے وہی عزتیں دی جائیں گی جو اس شہر کو حاصل ہیں۔ مکہ اپنے اس اعزاز میں منفرد نہیںرہے گا۔
تیسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ وَوَالَدٍ وَّمَا وَلَدَ سے مراد رسول کریمصلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی امت ہے۔ اور یہ فرمایا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی جماعت اس بات پر شاہد ہے کہ خدا تعالیٰ اسلام کو ترقی دینے والا ہے۔ جس طرح اس بلد الحرام سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نکلنا اور پھر بڑی شان و شوکت کے ساتھ اس میں واپس آنا اس بات کا ثبوت ہو گا۔ کہ جو باتیں اس کی طرف پیش کی جا رہی ہیں۔ بالکل درست ہیں۔ اسی طرح خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی امت اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہو گی۔ کہ ان لوگوں کو کوئی قوم مٹا نہیں سکتی۔ دنیا میں دو قسم کی شہادت ہوتی ہے۔ ایک اندرونی اور ایک بیرونی۔ بیرونی شہادت پھر دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک مادی اور ایک روحانی۔ مادی شہادت تو یہ ہے۔ کہ ایک شخص کے ساتھ کئی ہزار کا لشکر ہو۔ لڑائی کا سازوسامان ان کے پاس موجود ہو۔ اطاعت کا مادہ سب میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہو۔ ایسے انسان کو دیکھ کر ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ ضرورت ہوتی ہے۔ وہ سب اس کے پاس موجود ہیں۔ روحانی شہادت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنی کامیابی کے متعلق اللہ تعالیٰ سے علم پا کر پیشگوئیاں کرتا ہے۔ جو لوگ مومن ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ شخص بہرحال جیت جائے گا۔ کیونکہ خدائی وعدے اس کے ساتھ ہیں۔ لیکن ایک شہادت اندرونی ہوتی ہے۔ جسے انگریزی میں اِنْ ٹَرِن زِکْ ویلیو INSTRINSIC VALUE کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات وہ بظاہر کمزور اور بے حقیقت نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کے اندر ایسے اوصاف اور ایسی قابلیتیں پائی جاتی ہیں۔ اور ان کی اخلاقی طاقت ایسی زبردست ہوتی ہے کہ باوجود ان کے کمزور ہونے کے لوگ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کہ ان لوگوں کے مقابل پر کوئی قوم ٹھہر نہیں سکتی۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک تو طرف اسلام کی ترقی کے متعلق پیشگوئیاں بیان کیں اور فرمایا کہ تم خواہ کچھ کہو۔ لیکن ہم یوں کہتے ہیں ۔ یا ابراہیمؑ نے یہ پیشگوئی کی تھی۔ جو بہرحال پوری ہو گی۔ اور دوسری طرف فرمایا ہم نہ صرف ان پیشگوئیوں کو پیش کرتے ہیں جو لیالی عشر میں اور ان لیالی کے گزرنے کے بعد پوری ہو کر اس بات کا ثبوت ہوں گی کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دعویٰ سچا ہے۔ بلکہ ہم اس کی صداقت اور راستبازی کا اور اس کے دنیا پر ایک دن غالب آ جانے کا تمہارے سامنے ایک اندرونی ثبوت بھی پیش کرتے ہیں کہ تم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے اتباع کو دیکھ لو ان کے اندر جو اوصاف پائے جاتے ہیں کیا یہ ہارنے والے لوگوں کے اندر اپائے جاتے ہیں۔ یا غالب آنے والے لوگوں کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ گویا عشروَالِدا ور مَاولد میں اللہ تعالیٰ نے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی جماعت کی کیرکٹر کو پیش کیا ہے۔ اور فرمایا ہے تم ان لوگوں کے کیرکٹر سے اپنا کیرکٹر ملا کر دیکھو۔ تمہارا کیرکٹر تو وُہ ہے جو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ کَلَّا بَلْ لَا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ وَلَا تَحَاضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمَاً وَتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمَّاً اور یہ بات واضح ہے کہ اس کیرکٹر والے کبھی جیت نہیں سکتے۔ اب بتاتا ہے کہ اس وَالِد اور مَاوَلَد کے اندر جو کیرکٹر پائے جاتے ہیں۔ اس کیرکٹر کے مالک کبھی ہار نہیں سکتے۔ تمہارا کیرکٹر تو یہ تھا کہ یتیم کو پوچھنا نہیں۔ مسکین کو کھانا نہیں کھلانا۔ جائدادیں آئیں۔ تو اُن کو لٹا دینا۔ یا مال سے اتنی محبت رکھنا کہ ضرورت پر بھی اس کو خرچ نہ کرنا اور انتہائی بخل سے کام لینا۔ یعنی ایک طرف تو تمہارے بعض حصۂ قوم میں اتنا اسراف پایا جاتا ہے۔ کہ باپ دادا کی جائدادیں آتی ہیں۔ تو وہ ان کو تباہ کر دیتا ہے۔ اور دوسری طرف تم سے کچھ لوگوں کے اندر ایسا بخل پایا جاتا ہے کہ مال آئے تو اسے بند کر کے رکھ لیتے ہیں۔ گویا کچھ تو ایسے ہیں جو اپنے مال کو بے مصر ف خرچ کرتے ہیں۔ اور کچھ وُہ افراد ہیں۔ جو بامقصد بھی صرف نہیں کرتے یہ چار قسم کی صفات جس قوم میں ہوں۔ تم خود ہی غور کرو۔ کہ آیا وُہ قوم کبھی جیت سکتی ہے ۔ اس کے مقابل میں تم اس باپ اور اس کے بیٹوں کو دیکھو۔ یہاں گو نام بنام ایک ایک صفت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ مگر تقابل میں صاف ظاہر ہے کہ جن بُرائیوں کا ذکر دشمنوں کے بارہ میں کیا گیا ہے۔ انہی کے مقابل کی نیکیاں ان لوگوں میں پائے جانے کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ چونکہ کفار کی برائیاں یہ بیان کی تھیں۔ کہ وُہ یتامٰی کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے۔ اسراف میں مبتلا رہتے ہیں۔ یا اتنے بخل سے کام لیتے ہیں۔ کہ ضرورت حقہ پر بھی روپیہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اس جگہ انہی چار عیبوں کے مقابل کی خوبیوں کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے۔ کہ وہ اس باپ اور اس کی اولاد میں پائی جاتی ہیں۔ ان میں اکرام یتیم بھی پایا جاتا ہے۔ ان میں مساکین کی پرورش کا جزبہ بھی موجود ہے۔ وہ اسراف بھی نہیں کرتے۔ اور ضرورت پر اپنے مالوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرانے سے دریغ بھی نہیں کرتے۔ چنانچہ رسول کریمصلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھبرائے۔ کہ یہ کہیں میرا امتحان نہ ہو۔ تو اسی حالت میں آپ حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے اور ان سے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہو گیا ہے۔ حضرت خدیجہ نے یہ سنتے ہی بلاتکلف بغیر سوچنے اور بغیر کسی فکر و تردّد سے کام لینے کے نہائت اطمینان کے ساتھ کہا کَلَّا وَاللّٰہِ مَا یخُزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتَصِلُ الرِّحْمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِی الطَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ (بخاری باب کیف کان بدء الوحی) خدا کی قسم۔ خدا کبھی آپ کو ذلیل نہیں کر سکتا۔ کیونکہ آپ وہ ہیں جو صلہ رحمی کرتے ہیں۔ آپ وہ ہیں جو سچائی سے کام لیتے ہیں۔ آپ وُہ ہیں جو لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں۔ آپ وُہ ہیں جنہوں نے تمام معدوم اخلاق کو اپنے اندر پیدا کیا ہؤا ہے۔ آپ وُہ ہیں جو مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اور آپ وُہ ہیں جو حق کی راہ میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں۔ آپ جیسے انسان کو اللہ تعالیٰ کس طرح ضائع کر سکتا ہے۔ اب دیکھ لو حضرت خدیجہ نے جو باتیں بیان فرمائی ہیں اِن سب میں وہ اخلاق آ گئے جو کفار کے اندر موجود نہیں تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ تَقْرِی الضَّیْفَ آپ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اس میں یہ بات آ گئی۔ آپ کے اندر مال کی ایسی محبت نہیں تھی کہ آپ اسے بند کر کے بیٹھ رہتے۔ بلکہ ہر جائز ضرورت پر آپ اسے خرچ کر دیتے تھے۔ پھر انہوں نے ایک خوبی ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔ کہ تَحْمِلُ الْکَلَّ۔ آپ لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں۔ اس میں یتامٰے اور مساکین بھی شامل ہیں۔ کیونکہ جو شخص کسی کام کے قابل نہ ہو۔ وُہ دوسروں کے لئے ایک بوجھ ہوتا ہے۔ یتیم کسی کام کے قابل نہیں ہوتا بوجہ اپنی کم سنی کے اور مسکین بھی کسی کام کے قابل نہیں ہوتا بوجہ فقدان روپیہ کے بے شک اس میں اور باتیں بھی شامل ہیں۔ مگر اکرام یتیم اور مساکین پروری دونوں بہرحال تَحْمِلُ الْکَلَّ میں شامل ہیں۔ پھر جط محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لوگوں کی ضروریات کے لئے روپیہ خرچ کیا کرتے تھے۔ تو یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص روپیہ خرچ کرنے والا ہو وہ کنجوس نہیں ہو سکتا پس بخل کی بھی نفی آ گئی۔ پھر اسراف بھی جاتا رہا۔ کیونکہ حضرت خدیجہ فرماتی ہیں۔ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وہ اخلاق جو قوم میں سے مٹ چکے ہیں۔ ان کو دوبارہ اپنی قوم میں واپس لا رہے ہیں۔ گویا وہ سب اخلاق جن کو آپ کی قوم کھو چکی تھی۔ وہ آپ کے ذریعہ دوبارہ حاصل ہو رہے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ خود بخود نکل آیا۔ کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسرف نہیں تھے۔ پس حضرت خدیجہؓ کی گواہی اپنی ذات میں اس بات کا ایک قطعی اور یقینی ثبوت ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اندر وہ سب اوصاف و کمالات پائے جاتے تھے جو ایک ترقی کرنے والے وجود کے اندر پائے جانے ضروری ہیں۔
وَالِد کے بعد وَلَد کا ذکر آتا ہے۔ ان کے اخلاق اور اُن کی قربانیوں کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ ان کے اخلاق اور اُن کی قربانیوں کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ تو حیرت آتی ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے کے بعد انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا۔ کہ وطن کی قربانی یتامٰے کی خبر گیری مساکین کی پرورش۔ دینی ضروریات کے لئے روپیہ صرف کرنا یہ سب خوبیاں ان کے اندر اپنی پوری شان کے ساتھ موجود تھیں۔ چنانچہ ان کے اخلاق اور ان کی قربانیوں کا یہ ایک زندہ ثبوت موجود ہے۔ کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے وطنوں کو قربان کر دیا۔ اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیا۔ اور ہر قسم کی موت کو اپنے اوپر خوشی سے وارد کر لیا۔ اور ہر قسم کی موت کو اپنے اوپر خوشی سے وارد کر لیا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ والد اور مَاوَلَدَ دونوں پیش کرتا ہے۔ اور بتاتا ہے کہ ان اوصاف کی موجودگی میں تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہو۔ کہ یہ لوگ نہیں جیتیں گے پیشگوئیوں کے متعلق تو تم یہ کہہ سکتے ہو کہ جب وہ پوری ہوں گی تو دیکھا جائے گا۔ مگر یہ چیز تو تمہارے سامنے موجود ہے۔ تم ہر وقت دیکھ سکتے ہو۔ کہ تم میں کیسے اخلاق پائے جاتے ہیں۔ اور مسلمانوں میں کس قسم کے اخلاق پائے جاتے ہیں۔ تمہارے اخلاق اس بات کا ثبوت ہیں کہ تم لوگ ہارنے والے ہو۔ اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کی جماعت کے اخلاق اس بات کا ثبوت ہیں۔ کہ وہ لوگ جیتنے والے ہیں۔
بطور تنزل اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں۔ کہ وَوَالدٍ وَمَاوَلَدَ سے آدم اور اس کی تمام اولاد مراد لی جائے۔ اور آیت کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ ہم محمدر سول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے ثبوت میں تمام بنی نوع انسان کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں۔ تم دیکھ لو کہ نوعِ انسانی میں سے کچھ لوگ عزت پانے والے ہوتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ذلت پانے والے ہوتے ہیں۔ عزت پانے والوں میں جو خوبیاں موجود ہوتی ہیں وہ سب کی سب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے ساتھیوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور ذلت پانے والوں میں جو بُرائیاں موجود ہوتی ہیں۔ وُہ سب کی سب تم میں پائی جاتی ہیں۔ اب تم خود ہی سوچ سکتے ہو کہ ذلت کس کے حصہ میں آئے گی۔ اور فتح کس کے حصہ میں۔ اس صورت میں وَالدٍ وَّ مَا وَلَدَ سے مراد دنیا کے تمام باپ اور تمام اولادیں ہوں گی۔ یعنی تم اس دنیا پر غور کرو۔ لوگوں کے حالات پر تدبر کرو۔ ترقی و تنزل کے وجوہ پر نظر غائر ڈالو۔ تمہیں معلوم ہو گا کہ بعض خرابیاں باپ سے پیدا ہوتی ہیں اور بعض خرابیاں اولاد سے پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کی جماعت میں یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں۔ نہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں وہ خرابیاں ہیں جو باپ میں موجود ہوتی ہیں۔ اور آئیندہ نسل کو تباہ کر دیتی ہیں۔ نہ ان کے صحابہؓ میں وہ خرابیاں ہیں جو اولاد میں موجود ہوتی ہیں۔ اور وُہ باپ دادا کے نام کو ڈبو دیتی ہیں۔
پھر دنیا میں ترقی و تنزل کے حالات پر غور کرنے سے ان کی چار وجوہ معلوم ہوتی ہیں۔ یا تو باپ قابل ہوتا ہے۔ لیکن بیٹا ناقابل ہوتا ہے۔ اور بیٹا قابل ہوتا ہے۔ یا باپ اور بیٹا دونوں ناقابل ہوتے ہیں یا باپ اور بیٹا دونوں قابل ہوتے ہیں۔ گویا یا تو دونوں قابل ہوں گے۔ یا دونوں ناقابل ہوں گے۔ یا بیٹا قابل ہو گا۔ اور باپ ناقابل ہو گا اور بیٹا قابل۔ ان چاروں صورتوں میں جب بیٹا قابل ہوتا ہے اور باپ ناقابل ہوتا ہے۔ تو کبھی بیٹا اپنے باپ کے اثر کو قبول کر لیتا ہے اور کبھی نہیں کرتا۔ اور آگے نکل جاتا ہے۔ کبھی باپ تو قابل ہوتا ہے۔ لیکن بیٹا قابل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کبھی باپ کو ناکامی ہوتی ہے۔ اور کبھی تربیت سے وہ اپنے بیٹے کو درست رک لیتا ہے۔ لیکن کبھی دونوں ناقابل ہوتے ہیں۔ اور کبھی دونوں قابل ہوتے ہیں۔ جب باپ قابل ہو۔ اور بیٹا ناقابل۔ تو تربیت سے اس کے نقص کو دُور کیا جا سکتا ہے۔ گو بعض دفعہ یہ نقص دُور نہیں بھی ہوتا۔ جب باپ اور ناقابل ہو اور بیٹا قابل۔ تو وہ کبھی باپ کے اثر کو مٹا کر کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور کبھی کسی پیدا کردہ الجھنوں میں دب کر خود بھی ہلاک ہو جاتا ہے۔ لیکن جب دونوں ناقابل ہوں تو اس وقت ترقی کا کوئی راستہ نہیں کھلتا۔ لیکن جب دونوں قابل ہوں۔ تو اس وقت ان کا ترقی سے محروم رہنا ناممکن ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ لو۔ باپ وُہ ہے جو اپنے اندر ساری خوبیاں جمع رکھتا ہے۔ اور بیٹے وہ ہیں جو ہر وقت اس کی اطاعت میں مشغول رہتے ہیں۔ اور جو بھی حکم ملے اس پر فوری طور پر عمل کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ تکالیف برداشت کرتے ہیں مشکلات میں سے گزرتے ہیں۔ مگر یہ پسند نہیں کرتے۔ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مونہہ سے کوئی بات نکلے۔ تو وہ اس کے سننے سے محروم رہیں۔ اور اس پر عمل کرنے میں پیچھے رہیں۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ کا واقعہ اس کی ایک شاندار مثال ہے۔ انہوں نے بہت بعد میں اسلام قبول کیا تھا۔ بیس سال رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعویٰ پر گزر چکے تھے۔ کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت میں شامل ہوئے۔ اور اس کے تین سال بعد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وفات پا گئے۔ وُہ چونکہ جانتے تھے۔ کہ بیس سال گزر چکے ہیں اور مجھے اسلام میں داخل ہونے کی بہت بعد میں توفیق ملی ہے۔ اس لئے جب انہوں نے بیعت کی تو اپنے دل میں یہ عہد کر لیا کہ اب میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دروازہ سے ہلوں گا نہیں سب لوگ اپنی جھولیاں بھر چکے ہیں۔ صرف میں خالی ہاتھ ہوں۔ اگر میں نے ان ایام کو بھی ضائع کر دیا۔ تو مجھے کیا ملے گا۔ چنانچہ اس عہد کے بعد وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دروازہ پر بیٹھ گئے اور کچھ ایسے بیٹھے کہ ایک منٹ کے لئے بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھوں سے اوجھل ہونا انہیں ایک بلا اور عذاب معلوم ہوتا۔ وہ ہر وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس بیٹھے رہتے۔ سوائے اس کے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھر میں چلے جائیں۔ کیونکہ وہاں پردہ ہؤا کرتا تھا۔ چونکہ وہ ہر وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دروازہ پر ہی بیٹھے رہتے تھے۔ اور وُہ ڈرتے تھے کہ اگر میں اِدھر اُدھر ہؤا تو ایسا نہ ہو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مونہہ سے کوئی بات نکلے اور میں اسے نہ سن سکوں۔ اس لئے بسا اوقات انہیں کئی دن کا فاقہ آ جاتا۔ اور پھر شدت بھوک اور ضعف سے یہاں تک حالت ہو جاتی کہ زمین پر گر جاتے ۔ لوگ سمجھتے کہ ان کو مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور وہ عرب کے دستور کے مطابق اس کے علاج کے لئے ان کے سر پر جوتیاں مارنے لگ جاتے۔ جب اسلامی فوجوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے کسریٰ کو شکست دی۔ تو وُہ رومال جس کو کسر نے اپنے ہاتھ میں لے کر دربار شاہی میں تخت پر بیٹھا کرتا تھا۔ مال غنیمت میں تقسیم ہو کر حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا۔ ایک دفعہ وہ رومال ان کے ہاتھ میں تھا کہ انہیں کھانسی اٹھی بلغم آیا۔ اور انہوں نے اس رومال میں اس بلغم کو تھوک دیا۔ اور پھر کہا بَخِّ بَخِّ اَبُوھُرَیْرَۃَ واہ واہ ابو ہریرہ تیری بھی عجیب شان ہے کہ کسریٰ کا رومال تیرے ہاتھ میں ہے۔ اور تُو اس میں بلغم تھوک رہا ہے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا اس سے کیا مطلب۔ اس پر انہوں نے واقعہ سنایا۔ اور بتایا کہ جب میں نے اسلام قبول کیا۔ تو میں نے یہ عہد کر لیا کہ چونکہ میں بہت بعد میں شامل ہؤا ہوں اس لئے اب میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت کو چھوڑوں گا نہیں۔ اور آپ کے دروازہ پر ہی بیٹھا رہوں گا۔ خواہ مجھے کتنی تکلیف ہو۔ چنانچہ خدا نے مجھے اس عہد پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ مگر میری حالت یہ تھی۔ کہ بعض دفعہ مجھ پر سات سات وقت کا فاقہ آ جاتا۔ اور پھر ضعف کی وجہ سے مجھے غشی کا دورہ ہو جاتا۔ صحابہؓ سمجھتے کہ مجھے مرگی ہو گئی ہے۔ عربوں میںر واج تھا۔ کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہوتا۔ تو وُہ اس کے سر پر جوتیاں مارتے اور سمجھتے کہ یہ اس مرض کا علاج ہے۔ اور اس طرح مریض کو ہوش آ جاتا ہے۔ وُہ کہتے ہیں جب مَیں ہوش میں ہوتا تو میرے سَر پر بھی اس خیال کے ماتحت جوتیاں ماری جاتیں حالانکہ مجھے اندر سے ہوش ہوتا تھا۔ لیکن ضعف اس قدر غالب ہوتا تھا کہ بول نہیں سکتا تھا۔ مگر آج یہ حالت ہے کہ کسریٰ کا رومال میرے ہاتھ میں ہے۔ اور میں اس میں اپنا بلغم تھوک رہا ہوں۔
اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ کیسی تربیت یافتہ کیسی بااخلاق کیسی سمجھدار اور کیسی قربانی کرنے والی اولاد اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا کی تھی۔ اور اس میں علم سیکھنے کا مادہ کس قدر اور انتہائی طور پر پایا جاتا تھا۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کامیابی کے اصول کے جتنے راستے دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ سب کے سب اس باپ اور بیٹوں کو حاصل ہیں۔ اس لئے تمہیں اس بات میں کبھی شبہ نہیں کرنا چاہئیے کہ تمہاری شکست اور ان لوگوں کی فتح بالکل قطعی اور یقینی ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ
ہم نے یقینا انسان کو رہینِ محنت بنایا ہے۵؎
۵؎ حل لغات
اَلْکَبَدُ: اَلشِّدَۃُ والْمُشَقَّۃُ یعنی کبد سخت اور مشقت کو کہتے ہیں۔ اسی طرح کَبَدٌ: وَسْطُ الرَّمْلِ یعنی ٹیلے کے درمیانی حصہ کو بھی کہتے ہیں اور کَبَدٌ کے معنے وَسْطُ السَّمَائِ کے بھی ہیں۔ یعنی آسمان کے درمیان کو بھی کبد کہتے ہیں۔ اسی طرح کَبَدَ الرَّجُلُ کَبَداً کے معنے ہوتے ہیں۔ اَلِمَ مِنْ رَجْعِ کَبَدِہٖ وُہ درد جگر میں مبتلا ہو گیا (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے ہم نے انسان کو کبد میں بنایا ہے محاورہ کے الفاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وُہ ہمیشہ تکلیف اور مشقت سے کام کرتا ہے۔ اسی طرح اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ ہم نے انسان کو وسط سما میں بنایا ہے۔
پہلے معنوں کی رُو سے اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے ہم نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ محنت کرنے پر مجبور ہے۔ یہ گویا ایک لازمی بات ہے۔ جس سے کوئی مفر نہیں۔ قدرت کا جو بھی کارخانہ ہے یا ہماری طرف سے جو قوتیں بھی بنی نوع انسان کو دی گئی ہیں۔ وہ لازمی طور پر اس بات کو ظاہر کرتی ہیں۔ کہ ہم نے انسان کو محنت و کوشش کے لئے پیدا کیا ہے۔ میرے نزدیک یہ دوسرا جواب قسم ہے یعنی محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سچائی اور ان کی راستبازی کا ثبوت صرف وہی نہیں جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ بلکہط اس کے ساتھ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا ایک یہ بھی ثبوت ہے۔ کہ ہم نے انسان کو ایسا بنایا ہے۔ کہ وہ محنت کرتا ہے۔ اور محنت کرنے پر مجبور ہے۔ یا وُہ خدا ہو کر رہے گا یا دُنیا کا۔ درمیان میں وہ لٹک نہیں سکتا۔ اور نہ درمیانی انسان کبھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ کامیابی یا عزت دو ہی طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ یا تو انسان دنیا کا ہو رہے۔ اگر خدا بھول گیا ہے۔ تو دنیوی لحاظ سے محنت کرے۔ کوشش کرے۔ علم حاصل کرے۔ قربانی کرے۔ اور اس طرح دنیا میں عزت حاسل کرے۔ اور یا پھر یہ طریق ہے کہ وُہ خدا کا ہو جائے۔ اور دنیا کی محبت اپنے دل سے بالکل مٹا دے۔ اور دین کے لئے جدوجہدمیں لگ جائے۔ درمیانی راستہ اور کوئی نہیں۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ بغیر محنت دینی یا محنت دنیوی کے کوئی انسان عزت حاصل نہیں کر سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے۔ کہ ہمارے زمانہ میں تمام عزت خدا نے ہمارے ساتھ وابستہ کر دی ہے۔ اب عزت پانے والے یا ہمارے مرید ہوں گے۔ یا ہمارے مخالف ہوں گے۔ چنانچہ فرماتے ہیں مولوی ثناء اللہ صاحب کو دیکھ لو۔ وُہ کوئی بڑے مولوی نہیں۔ ان جیسے ہزاروں مولوی پنجاب اور ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ ان کو اگر اعزاز حاصل ہے تو محض ہماری مخالفت کی وجہ سے۔ وُہ لوگ خواہ اس امر اقرار کریں یا نہ مگر واقعہ یہی ہے۔ کہ آج ہماری مخالفت میں عزت ہے یا ہماری ہماری تائید میں گویا اصل مرکزی وجود ہمارا ہی ہے اور مخالفین کو بھی اگر عزت حاصل ہوتی ہے تو ہماری وجہ ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے شہادت کے طور پر جن چیزوں کو پیش کیا ہے۔ ان کا وجود اس بات کا ایک اہم ثبوت ہے۔ کہ ہم نے انسان کو محنت ومشقت سے کام لینے والا بنایا ہے۔ یہ مکہ جس میں تو رہتا ہے جس میں تجھے حلال سمجھا جانے والا ہے۔ جس میں تجھے ہر تیر کا نشانہ بنایا جانے والا ہے جس میں تیری جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں سمجھی جائے گی۔ یہ ہمارے اس دعویٰ کا ثبوت ہے اس لئے کہ تجھے مارنے اور تباہ کرنے کی وہ جتنی بھی کوشش کریں گے ان میں انہیں ناکامی ونامرادی حاصل ہو گی۔ اور انہیں آخر اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ کہ ان کی کوشش اور کارنامے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ ان کی یہ ناکامی اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہو گی کہ انسان کو ہم نے ایسا ہی بنایا ہے۔ کہ سچی محنت کے بغیر وُہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ان کی مخالفتیں بالکل سطحی ہیں۔ اور ان کی کوششیں بالکل عبث۔ کیونکہ وہ حقیقی قربانی سے کام نہیں لے رہے وہ سمجھتے ہیں جو بڑا بننے والا ہو اس کو مار دینا چاہئیے۔ حالانکہ مارنے سے کیا بنتا ہے۔ بڑا انسان تب بنتا ہے جب وہ قربانی سے کام لے۔ مگر تمہاری یہ حالت ہے۔ تم یتیموں کو پوچھتے نہیں۔ تم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے۔ تم اپنے مالوں کو قومی اور ملی مفاد کے لئے قربان نہیں کرتے۔ تمہیں جائدادیں ملتی ہیں تو تم انہیں تباہ برباد کر دیتے ہو۔ گویا جس قدر بنیادی کام ہیں اور جو محنت و مشقت اور قربانی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو تم سرانجام نہیں دیتے۔ا ور جو شخص ان کاموں کو کرنے لگے۔ اسے مارنے کے لئے دوڑ پڑتے ہو اس سے کیا بن سکتا ہے۔ تم یاد رکھو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خواہ تم مارنے کی کتنی بھی کوشش کرو وہ کبھی نہیں مرے گا۔ بلکہ تم ہی مرو گے۔ اور یہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام تر عزت قربانی میں رکھی ہے۔ جب کوئی شخص اپنے جگر کا خون کر کے آگے بڑھنا چاہے۔ تو اللہ تعالیٰ اسے عزت دے دیتا ہے۔ لیکن وہ جو سہل ترین راستہ پر چلنے کی کوشش کریں جو قربانیوں میں حصہ لینے سے دل چرائیں۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ پس فرمایا تم اپنا روشن مستقبل کس طرح مانتے ہو جب کہ تم کبد والی حالت ہی نہیں۔ کبد والی حالت تو تقاضا کرتی ہے۔ کہ انسان باخدا کا ہو کر رہے۔ یا دنیا کا۔ مگر تم نہ خدا کے ہو نہ دنیا کے۔ نہ تم میں مذہب ہے نہ قومی اخلاق ہیں۔ اور جب حالت یہ ہے تو تمہارا مستقبل کس طرح ہو سکتا ہے۔
اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں۔ کہ ہم نے انسان کو وسط سماء میں پیدا کیا ہے۔ سماء سے مراد وہ بلند اخلاق ہوں گے۔ جو انسان کے روحانی ارتقاء کے لئے ضروری ہیں۔ اور وسط کے معنی تو ہر شخص جانتا ہی ہے پس لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ کے معنے یہ ہوئے کہ کامل انسان وہی ہوتا ہے۔ اور بااخلاق وہی کہلا سکتا ہے جس کے اندر اعتدال موجود ہو۔ اور وسطی اخلاق اس کے اندر پائے جائیں۔ گویا اول اس کا سماء سے تعلق اس کے اندر پائے جائیں۔ گویا اول اس کا سماء سے تعلق ہو۔ اور پھر اس کے اخلاق وسطی رنگ کے ہوں وہ ایک طرف جھکا ہؤا نہ ہو۔ وسط سماء میں پیدا کرنے کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں۔ کہ جب تک اس کا شرعی اور قدرتی قواعد سے تعلق نہ ہو گا۔ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ دونوں کا پورا کرنا ضروری ہے۔ یعنی جب تک اس میں اعتدال نہ ہو گا۔ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ
کیا وُہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس پر کسی کا زور نہ چلے گا۔۶؎ وُہ کہتا ہے کہ میں نے تو ڈھیروں ڈھیر مال لٹا دیا ہے۷؎
۶؎تفسیر
یہاں وہ انسان مراد نہیں جسے خدا تعالیٰ نے کبد والی حالت میں پیدا کیا ہے۔ بلکہ یہاں انسان سے مراد اس کا ناقص وجود ہے۔ فرماتا ہے کیا گمان کرتا ہے وہ شخص جو ظاہر میں تو انسان کہلاتا ہے۔ مگر حقیقت میں انسانیت سے بہت دُور۔ اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقابل میں کھڑا ہے۔ کہ خواہ وہ کبد کے مقام کو چھوڑ بیٹھے۔ اور شرعی اور دنیوی دونوں قواعد سے بے نیاز ہو کرکام کرے۔ پھر بھی اس پر کوئی تنگی نہیں آئے گی یہ بالکل غلط ہے اور ہم نے انسان کو فِی کَبَد کے مقام پر پیدا کیا ہے۔ مگر وہ اول تو اخلاق کو چھوڑ بیٹھتا ہے۔ اور پھر اگر اس میں کوئی پہلو اخلاق نما پایا جاتا ہے۔ تو وہ غلو کی صورت اختیار کر کے ایک بدی بن جاتا ہے مثلاً ضرورت حقہ پر مال خرچ کرنا۔ یتامیٰ و مساکین کی خبر گیری کرنا یہ اخلاق سے تعلق رکھنے والے افعال ہیں۔ مگر وُہ اس رنگ میں مال خرچ نہیں کرتا۔ بلکہ جو کچھ آتا ہے اسراف سے کام لے کر تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ اس مقام پر کھڑے ہو کر بھی کیا وہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی تنگی نہیں آ سکتی۔ کوئی تباہی اور بربادی مجھ پر مسلط نہیں ہو سکتی۔ جو شخص ایک غلط مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور جس مقام کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا۔ اسے بھول جاتا ہے۔ وہ کس طرح سمجھ سکتا ہے کہ الٰہی گرفت سے وہ بچ جائے گا۔ لازمًا وہ اپنی اس بے اعتدالی کے نتیجہ میں ایک دن تکلیف میں مبتلا ہو گا۔ مصیبت میں گرفتار ہو گا۔ اور خدا کے فضل کی بجائے اس کا عذاب اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھے گا۔
۷؎ حل لغات
لُبَدٌ کے معنے ہوتے ہیں۔ کَثِیْرٌ لَا یُخَافُ قَتَادَہٗ کَاَنَّہٗ الْتَبَدَ بَعْضُہٗ عَلٰی بَعْضٍ۔ اتنا زیادہ مال کہ اس کے ختم ہونے کا خوف نہ ہو۔ گویا وہ ایک ڈھیر کے اوپر دوسرا ڈھیر ہے (اقرب)گویا لبد کے معنے ہیں ڈھیروں ڈھیر مال۔
تفسیر
کہتا ہے تم یہ کیا کہتے ہو کہ میں نے مال خرچ نہیں کیا۔ میں نے تو ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے۔ اور لوگ اس بات کے گواہ ہیں مگر تم یہ کہہ رہے ہو کہ میں نے کوئی مال خرچ ہی نہیں کیا۔
۸؎تفسیر
فرماتا ہے کیا وہ خیال کرتا ہے کہ نہ اوپر خدا اس کے افعال کو دیکھنے والا ہے۔ نہ بندے اس کے اعمال پر نظر رکھتے ہیں۔ اور وُہ جو کچھ کہے گا اسے دوست تسلیم کر لیا جائے گا۔ خدا تو انسان کا دل دیکھتا ہے۔ کیونکہ دل کی درستی بھی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے۔ مگر کیا خدا نہیں جانتا کہ اس نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیوں کیا ہے۔ یا کیا بندے نہیں جانتے۔ کہ اس نے اتنا روپیہ کیوں صرف کیا ہے۔ فرماتا ہے تو نے بیشک اپنا مال خرچ کیا ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ تو نے اپنا مال کس جگہ پر خرچ کیا ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ تم نے اپنا سارا مال لٹا دیا ہے۔ لیکن اگر تم ان لوگوں میں سے ہو۔ جو تَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً لَّمًّا وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبّاً جَمَاً کے مصداق ہیں۔ تو بتائو تم اللہ تعالیٰ کے حضور کون سی فضیلت پا سکتے ہو۔ یا کم از کم بنی نوع انسان کی نگاہ میں ہی تمہیں کون سا مقام حاصل ہو سکتا ہے۔ نہ خدا تم کو فضیلت دے گا۔ اور نہ بندے تمہارا ادب کریں گے کیونکہ خدا بھی جانتا ہے اور اس کے بندے بھی جانتے ہیں کہ تم نے نے محض نام آوری کے لئے محض جاہ طلبی اور شہرت کے لئے یہ سب کچھ کیا۔ تمہیں بعض دفعہ جوش آ جاتا ہے۔ تو تم سو سو اونٹ ایک ایک دن ذبح کر دیتے مگر سوال یہ ہے کہ ان اونٹوں کے ذبح کرنے کا کیا فائدہ تھا۔ جب کہ یتیم بھوکے مرتے رہے۔ اور تم نے انہیں کھانا نہ کھلایا۔ مساکین ننگے پھرتے رہے اور تم نے انہیں کپڑا نہ پہنایا۔ حاجت مند پریشان رہے۔ اور تم نے ان کی حاجات کو پورا نہ کیا۔ اگر تمہارے دل میں بنی نوع انسان کی کچھ بھی محبت ہوتی۔ اور اگر ان کے فقر و فاقہ کی مصیبت تمہارے دل کو کچھ بھی متاثر کرتی۔ تو بجائے اس کے کہ ایک ایک دن میں تم سو سو اونٹ ذبح کر دیتے۔ تم ان کی امداد کے لئے یہ طریق اختیار کرتے کہ ایک اونٹ ذبح کیا۔ اور ان کو کھلا دیا۔ پھر کوئی اونٹ ذبح کیا۔ اور ان کو کھلا دیا۔ اس طرح تم تین بلکہ چھ ماہ تک اپنی اس امداد کے سلسلہ کو ممتد کر دیتے۔ مگر تمہارے مدنظر تو یہ بات تھی کہ لوگوں میں تمہاری شہرت ہو۔ لوگ دور دور سے اونٹوں پر سوار ہو کر تمہاری دعوت میں شریک ہونے کے لئے آئیں اور جب لوگ ان سے پوچھیں کہ آج تم کہاں جا رہے ہو تو وہ بتائیں کہ فلاں امیر کے ہاںدعوت ہے۔ اس نے آج سو اونٹ ذبح کئے ہیں۔ اس دعوت میں شمولیت کے لئے ہم جا رہے ہیں۔ جب تمہارے مدنظر جاہ طلبی اور لوگوں میں اپنی عزت کو بڑھانا اور دور دور تک مشہور ہونا تھا۔ تو بتائو خدا تمہاری کیوں قدر کرے۔ یا بنی نوع انسان تمہارا کیوں احترام کریں۔ کیا لوگ اندھے ہیں کہ وہ اتنی موٹی بات کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ کہ تم نے جو کچھ کیا ہے ان کی خاطر نہیں کیا بلکہ اپنے نفسوں کی خاطر کیا ہے۔ یا کیا خدا تمہارے دلوں کی نیتوں سے آگاہ نہیں۔ اور وہ نہیں جانتا کہ تمہارے پیش نظر کیا مقصد تھا۔ پس فرمایا اَیَحْسَبُ اَنْ لَّمْ یَرہٗٓ اَحَدٌ کیا یہ لوگ گمان کرتے ہیں۔ کہ انہیں نہ خدا دیکھتا ہے اور نہ اس کے بندے دیکھتے ہیں۔ وہ مال تو عزت طلبی کے لئے خرچ کر رہا ہے۔ شہر ت کے حصول کے لئے برباد کر رہا ہے۔ اور توقع یہ رکھتا ہے کہ لوگ مجھے اپنا محسن سمجھیں۔ آخر لوگ اسے کیوں سمجھیں کیا وُہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہا ہے دنیا کے لئے کر رہا ہے۔ کیونکہ وُہ مال اس طرح خرچ نہیں کرتا۔ کہ اس کے خرچ سے زیادہ سے زیادہ آدمیوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ اور جب واقعہ یہی ہے تو پھر خدا اور اس کے بندوں کی نگاہ میں اس کی کیا عزت ہو سکتی ہے۔
اَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں پیدا کیں۔ اور زبان بھی اور دو ہونٹ بھی۹؎
۹؎ تفسیر
فرماتا ہے اس امر کو بھی اچھی طرح یاد رکھو کہ تمہارا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ اور خدا تعالیٰ سچے عذر کو ضرور قبول کر لیتا ہے۔ اگر تمہارا سچا عذر ہوتا تو اللہ تعالیٰ تمہیں یقینا تباہ نہ کرتا۔ اور وُہ سچا عذر یہی ہوتا ہے کہ انسان کی آنکھیں نہ ہوں۔ اور اسے کچھ دکھائی نہ دیتا ہو۔ یہ لازمی بات ہے کہ جس کی آنکھوں میں بینائی نہیں ہو گی۔ اس کے سامنے اگر کوئی گڑھا آئے گا۔ تو وہ ضرور اس میں گِر جائے گا۔ مگر کوئی شخص ایسا نہیں ہو گا۔ جو اسے یہ کہے کہ خبیث کیوں تو اس گڑھے سے بچ کر نہ چلا۔ ہر شخص کہے گا کہ جب اس کی آنکھیں ہی نہیں تھیں تو اگر یہ گڑھے میں گر گیا ہے تو معذور ہے۔ یا اگر ایک شخص راستہ بھول گیا ہے مگر وُہ گونگا ہے لوگوں سے یہ دریافت نہیں کر سکتا۔ کہ سیدھا راستہ کون سا ہے۔ تو کوئی شخص اُسے ملامت نہیں کرے گا کہ تُو راستہ لوگوں سے پوچھ کر کیوں نہ چلا۔ ہر شخص سمجھے گا۔ کہ یہ معذور تھا۔ یہ کسی سے راستہ پوچھ نہیں سکتا تھا۔ یا اگر کسی کی آنکھیں بھی ہوں۔ زبان بھی موجود ہو۔ مگر کوئی راستہ بتانے والا نہ ہو۔ اور وُہ چلتے چلتے شیروں کی کچھار میں پہونچ جائے۔ یا ہاتھیوں کی وادی میں چلا جائے۔ اور شیر اس کو پھاڑ ڈالیں۔ یا ہاتھی اس کو مسل ڈالیں۔ تب بھی وُہ معذور سمجھا جائے گا۔ لوگ کہیں گے کہ اس کی آنکھیں تو تھیں جن سے راستہ دیکھ سکتا۔ زبان بھی تھی جس سے کام لے کر لوگوں سے رستہ دریافت کر سکتا مگر چونکہ اُسے کوئی صحیح راستہ بتانے والا نہیں ملا اس لئے وہ ٹھوکر کھا کر کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
بہرحال وُہ معذور اسی صورت میں سمجھا جا سکتا ہے۔ جب وہ بوجہ آنکھیں اور زبان نہ ہونے کے رستہ دیکھنے یا دریافت کرنے سے معذور ہو۔ یا رستہ بتانے والا کوئی شخص موجود نہ ہو۔ مگر ان تمام جائز اور صحیح اور معقول عذرات کے باوجود دنیا کا قانون اسے عواقب سے بچا نہیں سکتا۔ ایک انسان اندھا ہوتا ہے۔ اور وُہ دن کے وقت یا رات کی تاریکی میں کسی گڑھے میں گر جاتا ہے۔ وُہ اس گرنے میں معذور ہوتا ہے۔ مگر کوئی مادی قانون اس گڑھے میں سے گرنے سے بچاتا نہیںَ یا ایک گونگا ہوتا ہے اور وُہ راستہ پوچھ نہیں سکتا۔ اس کے نتیجہ میں وُہ ایک غلط راستہ پر چل پڑتا ہے۔ وُہ اپنی اس غلطی میںقطعی طور پر معذور ہوتا ہے۔ مگر مادی دنیا کا قانون اُسے راستہ بھولنے کی سزا سے نہیں بچا سکتا یا ایک شخص کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں۔ اس کی زبان بھی موجود ہوتی ہے مگر اُسے کوئی راستہ بتانے والا نظر نہیں آتا۔ اور وُہ ٹھوکر کھا کر شیر کی کچھار میں پہونچ جاتا ہے۔ اب بے شک وُہ اپنے اس فعل میں معذور ہوتا ہے۔ مگر نیچر کا قانون اسے تکلیف سے نہیں بچا سکتا۔ یہ نہیں ہوتا کہ نیچر اُسے شیر کی کی کچھار سے پرے پھینک دے۔ یا دھکے دے کر ہاتھیوں کے حملہ سے اسے بچائے لیکن فرمایا روحانی معاملہ اور رنگ کا ہوتا ہے۔ اس میں عذر قبول کیا جاتا ہے۔ ایک اندھا ہوتا ہے۔ اس میں عذر قبول کیا جاتا ہے۔ ایک اندھا گرتا ہے۔ تو وہ باوجود معذور ہونے کے وُہ گڑھے میں گرنے کی تکلیف سے نہیں بچتا۔ ایک گونگا راستہ نہیں پائے گا۔ تو باوجود معذور ہونے کے وُہ راستہ میں ٹھوکر کھانے کی تکلیف سے نہیں بچتا۔ ایک شخص آنکھیں بھی رکھتا ہے۔ اور زبان بھی رکھتا ہے اور زبان بھی مگر چونکہ اسے راستہ بتانے والا کوئی نہیں ملتا۔ وُہ شیروں کی کچھار میں پہونچ جاتا ہے۔ اور باوجود معذور ہونے کے اس کی یہ معذوری اُسے موت کے پنجہ سے نہیں بچا سکتی۔ لیکن فرمایا ہم اس قسم کے تمام حقیقی عذرات کو قبولہ کر لیا کرتے ہیں۔ اگر لوگ روحانی آنکھوں سے معذور ہوتے۔ تو ہم کہتے کہ وُہ معذور تھے انہیں کوئی سزا نہ دی جائے۔ اگر لوگ رُوحانی امور میں گویائی کی طاقت نہ رکھتے تو ہم بھی قرار دیتے۔ کہ وُہ معذور ہیں انہیں عذاب نہ دیا جائے۔ اگر کوئی ہادی نہ آتا۔ تب بھی ہم لوگوں کو معذور قرار دیتے۔ پس اے مکہ والو اگر تم میں کوئی ایسا قانون موجود نہ ہوتا۔ جو تمہیں ہدائت اور راستی کی طرف لاتا۔ اور تم اِدھر اُدھر ویسے ہی بھٹک رہے ہوتے۔ جیسے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آنے سے پہلے بھٹک رہے تھے۔ تو ہم کہتے مکہ بلد الحرام ہے۔ اس کے رہنے والے ہماری نگاہ میں معذور ہیں۔ ان کو ہماری طرف سے کوئی ہدایت نہیں ملی۔ ان کو کوئی سزا نہ دی جائے۔ مگر تمہاری حالت تو یہ ہے کہ تمہاری آنکھیں بھی موجود ہیں۔ تمہاری زبان بھی موجود ہے۔ تمہارے سامنے ایک ترقی کا راستہ بھی موجو د ہے۔ تمہیں اس ترقی کے راستہ پر چلانے والا بھی موجود ہے۔ اور تم پھر بھی گمراہی کو اختیار کئے ہوئے ہو۔ ان حالات میں تم خود ہی غور کرو۔ کہ تم عذاب الٰہی سے کس طرح بچ سکتے ہو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہلاکت سے بچنے کے تین ذرائع بتائے ہیں۔ اوّلؔ آنکھیں دیکھنے کے لئے دومؔ۔ زبان اور ہونٹ پوچھنے کے لئے سومؔترقی کار استہ یعنی کامیابی کیلئے یہ تین چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔مقصد صحیح ہو اور ترقی کا موجب بن سکے آنکھوں سے دیکھ کر کام کرے۔ اور نہ معلوم ہو سکے تو پوچھے۔ پھر ان کے لئے کیا مشکل ہے۔ کہ ترقی کر جاتے۔ آنکھیں خدا تعالیٰ نے دیکھنے کو دی تھیں۔ زبان خدا تعالیٰ نے پوچھنے کو دی تھی۔ صرف راستہ غائب تھا۔ سو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وُہ راستہ جو اوپر لے جاتا ہے۔ دکھا دیا۔ اس کے بعد ان کا کیا عذر رہ جاتا ہے۔
زبان کے ساتھ ہونٹوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اسلئے کیا ہے۔ کہ ہونٹ ہوا کو روکتے ہیں۔ اور انسانی آواز بلند کرتے ہیں۔ جس شخص کے دانت نکل جائیں۔ وہ اونچی آواز سے نہیں بول سکتا۔ میرا صرف ایک دانت نکلا ہؤا ہے۔ مگر جب تقریر کر رہا ہوتا ہوں تو مجھے بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ اس خلا میں سے پھونک نکل جاتی ہے۔ اور کسی کسی لفظ کا تلفظ صحیح طور پر ادا نہیں ہوتا۔ حضرت خلیفۂ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے۔ کہ لوگ موٹے ہونٹوں کو ناپسند کرتے ہیں مگر میرے لئے تو موٹے ہونٹ خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت کا موجب بن گئے ہیں۔ میرے دانت سب گر چکے ہیں۔ مگر موٹے ہونٹوں کی وجہ سے مَیں اب بھی خوب اونچی آواز سے بول سکتا ہوں۔ تو فرمایا ہم نے انسان کو بولنے کے لئے زبان دی۔ اور پھر ہم نے اُسے ہونٹ بھی دیئے۔ تاکہ اگر سامع اس کے قریب نہ ہو۔ تو وہ دُور تک اپنی آواز پہنچا سکے۔
وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِo
اور (پھر) ہم نے اسے (دینی ودنیوی) دونوں راستے بتا دیئے ہیں۱۰؎
۱۰؎تفسیر
نَجْدٌ کے معنے پہاڑی راستہ کے ہوتے ہیں۔ لیکن مفسرین نے اس سے بُرائی اور بھلائی کا راستہ مراد لیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ اور ابن مسعودؓ دونوں نے کہا ہے کہ اس جگہ نَجْدَیْنِ سے خیر اور شر دو راستے مراد ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے۔ کہ ہم نے انسان کو بھلائی کا راستہ بتا دیا۔ اور بُرائی کا راستہ بھی بتا دیا۔ مگر اُس نے اچھے راستے کو اختیار نہیں کیا۔
میری رائے یہ ہے کہ یہاں نَجْدَیْنسے بھلائی اور بُرائی کے راستے مراد نہیں۔ بلکہ دینی اوردنیوی ترقی کے راستے مراد ہیں۔ شر کا راستہ اونچا نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ نہ اس کے اختیار کرنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ اور نہ اس پر چل کر کوئی عزّت ملتی ہے۔ اور راستہ اونچا انہی دو سبب سے کہلاتا ہے۔ اس پر چڑھنے میں تکلیف ہو۔ یا اس پر چڑھ کر صحیح عزّت ملے۔ پس یہاں نَجْدَیْن سے خیر اور شر مراد نہیں۔بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم نے انسان کی ترقی کے لئے دونوں قسم کے راستے کھول دئیے ہیں اس کی دینی ترقی کے راستے بھی کھول ہوئے ہیں اور اس کی دنیوی ترقی کے راستے بھی کھولے ہوئے ہیں۔ اور یہ دونوں راستے ہم نے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ کھولے ہیں۔ جو لوگ آپ پر سچے دل سے ایمان لائیں گے اور اسلام کے تمام احکام کی خلوصِ دل کے ساتھ اتباع کریں گے۔ انہیں نہ صرف روحانی ترقی حاصل ہو گی۔ اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے خدا تعالیٰ ان سے خوش ہو گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ا نہیں دنیوی نعماء سے بھی متمتع فرمائے گا چنانچہ دیکھ لو محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کو صرف دین ہی نہیں ملا۔ بلکہ دنیا بھی ملی۔ اور آخر حکومت کی باگ ڈور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں دے دی۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے۔ کہ آج تم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے والوں کو دیکھتے ہو۔ تو حقارت کی ہنسی ہنستے ہوئے کہتے ہو۔ کہ چند بیوقوف نوجوان ہیں جو اس پر ایمان لے آئیں ہیں۔ مگر تم نہیں جانتے کہ یہی نوجوان جن کو تم بے وقوف قرار دے رہے ہو۔ جن کو تم نہائت ذلیل اور حقیر وجود سمجھتے ہو۔ ایک دن محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے کی برکت سے دُنیا کے بادشاہ بن جائیں گے۔ اور دینی اور دنیوی دونوں ترقیات کے راستے ان کے لئے کھل جائیں گے۔ چنانچہ ایک دن آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کے مطابق صحابہؓ کو بادشاہت دے دی۔ اور اس طرح دونوں نجد ان کو مل گئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے لئے بھی اسلام کی اتباع میں دینی اور دنیوی دونوں ترقیات تھیں۔ اخلاقی راستہ پر چل کر خدا تعالیٰ کا خوش ہونا اور قوم کی خدمت کی وجہ سے شیرازہ بندی اور سیاست کی مضبوطی کا حاصل ہونا۔ دونوں قطعی اور یقینی امور تھے۔ مگر باوجود اس کے کہ ہم نے تمہیں آنکھیں دی تھیں۔ تمہیں زبان دی تھی۔ تمہارے سامنے اسلام کے ذریعہ دینی اور دنیوی ترقیات کا ایک بہت بڑا میدان تیار کیا تھا۔ پھر بھی تم نے اس راستہ کو اختیار نہ کیا۔ جو تمہیں کامیابی کی منزل کی طرف لے جاتا ہے۔ بلکہ تم اسی راستہ کی طرف جھکے رہے۔ جو ہلاکت و تباہی وبربادی کا تھا۔
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَo
(مگر) وہ پھر بھی چوٹی پر نہ چڑھا۱۱؎
۱۱؎ حل لغات
اِقْتِحَامُ کے معنے نتائج سے بے فکر ہو کر اور عواقب کو نظر انداز کر کے کسی کام میں مشغول ہو جانے کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ لغت میں لکھا اِقِتْحَمَ الْعَقَبَۃَ: رَمٰی نَفْسَہٗ فِیْھَا بِشِدَّۃٍ وَمُشَقَّۃٍ۔ کسی کھائی میں داخل ہونے کے لئے یا کسی معاملہ میں اپنے آپ کو کسی سختی میں ڈال دیا۔ اِسی طرح تَحَمَ فِی الْاَمْرِ کے معنے ہوتے ہیں۔ رَمٰی بِنَفْسِہٖ فِیْہِ فَجْأَۃً بِلَا رَوِیَّۃٍ بغیر سوچنے کے جس طرح پروانہ شمع پر جا گرتا ہے۔ اِسی طرح مقصد کے حصول کے لئے وُہ دیوانہ وار کھڑا ہو گیا۔ (اقرب)
اَلْعقَبَۃُ: مَرْقیً صَعْبٌ مِنَ الْجِبَالِ وَالطَّرِیْقُ فِیْ اَعْلَاھَا۔ عقبہ کے معنے گھاٹی کے ہوتے ہیں۔ نیز اس کے معنی اس راستہ کے ہوتے بھی ہوتے ہیں جو پہاڑ کی چوٹی پر ہو۔ (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے ذریعہ ہم نے عرب کی ترقی کے ایسے سامان پیدا کر دئیے تھے کہ نہ صرف انہیں خدا مل جاتا بلکہ وصال صنم بھی میسر آ جاتا۔ اگر ایک طرف خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کر کے وہ روحانی مدارج کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ جاتے۔ تو دوسری طرف اپنی شیرازہ بندی اور سیاست کی مضبوطی کی وجہ سے حکومت بھی حاصل کر لیتے۔ ان کو تو چاہئیے تھا کہ جس طرح پروانے شمع پر گر نثار ہو جاتے ہیں اسی طرح وہ شمع محمد پر اپنی جانیں قربان کر دیتے۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور سجدات شکر بجا لاتے۔ کہ اس نے کتنا بڑا احسان کیا۔ کتنا بڑا انعام نازل کیا۔ کس طرح زمین سے اٹھا کر انہیں عرش پر پہونچا دیا۔ وُہ اگر سوچتے اور غور کرتے ۔ تو ان کی زبانیں اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کے انعامات کے ذکر سے تر رہتیں۔ اور یہ تصور کر کے ہی اپنے بخت بیدار پھولے نہ سماتے۔ کہ اللہ ! اللہ پچیس سو سال سے جس موعود کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ جس کے انتظار میں گن گن کر گھڑیاں گزاری جا رہی تھیں جو اس مکہ کی بنیاد کا مقصود اور ابراہیمی اور اسمٰعیلی دعائوں کا پھل تھا۔ وُہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہو گیا ہے ا ب ہمارا فرض ہے کہ ہم عواقب کو نظرانداز کر کے دیوانہ کھڑے ہو جائیں۔ اور اس کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کے لئے تیار ہیں۔ اگر وُہ ایسا کرتے۔ تو انہیں دین بھی مل جاتا۔ اور انہیں دنیا بھی مل جاتا۔ وُہ روحانی مملکت کے بھی حصہ دار بنتے۔ اور جسمانی بادشاہت بھی ان کے قدموں پر آ گرتی۔ مگر افسوس وُہ چوٹی کی چڑھائی سے ڈر گئے جس طرح ایک کمزور اور نحیف انسان پہاڑ بلند پر چڑھنے سے گھبراتا ہے۔ وُہ سمجھتا ہے کہ اگر مَیں نے چڑھنے کی کوشش کی تو مجھے تھکان ہو جائے گی۔ میرا سانس پھول جائے گا اور وُہ ڈر کر نیچے ہی بیٹھ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ گئے۔ اور اس ترقی کی طرف نہ دیکھا۔ جو اوپر لے جاتی تھی۔ صرف چڑھائی کے خطرہ سے ڈر گئے۔ اور محنت و مشقت کرنے سے اجتناب کیا۔ اور عیاشی کا راستہ جو سہل نظر ایا۔ اُسے اختیار کر لیا۔
اب اگلی آیت میں بتاتا ہَے۔ کہ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ انہیں بلندی کا ایک راستہ بتایا گیا تھا۔ مگر یہ اس کی چوٹی پر نہ چڑھے۔ اس سے ہمارا کیا مطلب ہے۔
وَمَآ اَدْرٰکَ
اور تجھے کس نے بتایا ہے۔ کہ چوٹی کیا (اور کسی چیز کا نام) ہے۔ (چوٹی پر چڑھنا غلام کی)گردن چھڑانا ہے۔۱۲؎
۱۲؎حل لغات
فَکٌّ کے معنے کھول دینے کے ہوتے ہیں۔ پس فَکٌّ رَقَبَۃٍ کے معنے ہوئے گردن آزاد کرنا۔ یعنی کسی غلام کو آزاد کرانے میں مدد دینی۔
تفسیر
اِس آیت کے دو معنے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہیں چاہئیے تھا وُہ غلام آزاد کروانے کی کوشش کرتے۔ اگر یہ ان غلاموں کو جوان کے پاس ہیں آزاد کروانے کی کوشش کرتے تو یہ خود بھی قومی لحاظ سے آزادی حاصل کر سکتے تھے۔ مگر یہ الٹا غلامی کو اور بھی رائج کرنے لگیں گے۔ اور مسلمانوں پر ظلم ڈھانے لگ جائیں گے۔ درحقیقت غلاموں کی آزادی کا اسلام نے شروع سے ہی اس لئے حکم دیا ہے کہ قومی ترقی کے لئے قوموں کا آزاد کرنا نہائت ضروری ہوتا ہے۔ مساوات قائم کئے بغیر اور چھوٹوں بڑوں کا امتیاز مٹائے بغیر دنیا میں کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کیا کرتی۔ جب تک یہ راستباز دنیا میں نظر آتا رہے گا۔ کہ ایک چھوٹا ہے اور ایک بڑا۔ اس وقت تک دنیا حقیقی ترقی نہیں کر سکتی۔ کبھی کوئی پائدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ جب تک دنیا میں یہ فتنے موجود رہیں گے۔ اور جب تک ان کے انسداد کے لئے متحدہ مساعی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔ اس وقت تک ترقی کی تمام تدابیر بیکار ثابت ہوں گی۔ اسی امتیاز کا نتیجہ غلامی ہے۔ جس کی بیخ کنی اسلام کا اولین مقصد ہے۔ اور جس کے خلاف وہ شروع دن سے اپنی آواز بلند کر رہا ہے اگر ان امتیازات کو قائم رہنے دیا جائے۔ تو بڑے آدمی اپنے لئے اور عزت چاہتے ہیں۔ پھر اور عزّت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ پھر اور عزت کا حصول ان کو بے قرار رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن ایسا آتا ہے جب وہ اپنے سوا کسی اور کو بڑا سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔
مَیں نے دیکھا ہے ہندوستان کے ایک بہت بڑے لیڈر ہیں۔ مَیں ان کا نام نہیں لیتا۔ ان کے دماغ میں یہ خیال سمایا ہؤا ہے کہ ان بڑا لیڈر اور کوئی نہیں۔ یہی دُھن انہیں آٹھوں پہر رہتی ہے اور اپنی بڑائی اور اعزاز کا خیال انہیں ہر وقت دامنگیررہتا ہے۔ ایک دفعہ شملہ میں ہندوستان کے بڑے بڑے لیڈروں کی ایک مجلس منعقد ہوئی۔ مجھے بھی تار دے کر بُلایا گیا۔ گاندھی جی نے اس وقت مرن برت رکھا ہؤا تھا۔ اور انہو ں نے کہا تھا کہ اگر ہندو مسلم اتحاد نہ ہؤا تو مَیں بھوکا مر جائوں گا چونکہ یہ بڑا بھاری مسئلہ تھا۔ سارے ہندوستان سے مختلف اقوام کے لیڈر شملہ میں جمع ہوئے۔ مَیں سمجھتا ہوں ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہو گی۔ کوئی بمبئی سے آیا۔ کوئی مدراس سے۔ کوئی سی پی سے۔ کوئی بنگال سے۔ کوئی بہار سے کوئی اڑیسہ سے۔ کوئی سرحد سے۔ کوئی ریاستوں سے۔ غرض ایک اچھا خاصہ اجتماع ہندوستان کے تمام لیڈروں کا شملہ میں جمع ہو گیا۔ جب ان لیڈر صاحب نے اتنا بڑا مجمع دیکھا۔ تو چونکہ انہیں صرف اپنی لیڈرری کو ظاہر کرنے کی عادت تھی۔ کسی اور لیڈر کو لیڈر سمجھنا وُہ اپنی ہتک سمجھتے تھے۔ اس لئے جب وُہ تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو مَیں نے دیکھا کہ وہ بار بار کہتے کہ ایسے اہم مسائل کے متعلق کبھی ہجوم فیصلے نہیں کیا کرتے۔
WE LEADERS OF LEADERS
جو کچھ کہیں گے وہی آخری اور قطعی فیصلہ ہو گا۔ یعنی ہم جو راہنمائوں کے راہنما ہیں اصل کام ہمارا ہے۔ اتنے زیادہ لیڈروں کا کام نہیں کہ اکٹھے ہو کر فیصلہ کر دیں۔
غرض میں نے دیکھا کہ اُن پر یہ امر بڑا گراں گزرا۔ کہ اتنی تعداد میں لوگوں کو کیوں لیڈر قرار دیا گیا۔ حالانکہ وہاں کسی ایک قوم کے لیڈر جمع نہیں تھے۔ بلکہ ہندوئوں سکھوں اور مسلمانوں سب کے نمائیندے تھے۔ جس طرح افراد کا دماغ بعض دفعہ اس رنگ میں بگڑ جاتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ قوموں میں بڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ اور پھر ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ جب تک کہ تمام قوموں کو اپنے مقابلہ میں غلام اور اچھوتوں سے بھی بد تر قرار نہ دے دیں۔
ابھی چند دن ہوئے اخبارات میں بڑا شور اٹھا کہ پہلے تو اقبال جیسے لوگوں کو علامہ لکھا جاتا تھا۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ ہر وُہ آدمی جو اردو بھی صحیح پڑھ نہیں سکتا۔ اس کے نام کے ساتھ علامہ لکھ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ لدھیانہ میں ایک جلسہ ہؤا تو ہر مقرر کے نام کے ساتھ لکھا گیا کہ یہ فلاں علامہ تھے اور وُہ صحیح طور پر اردو بھی نہیں جانتے تھے۔ اس قسم کی وباء کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جو لوگ واقعہ میں علامہ ہوتے ہیں۔ ان کے لئے کوئی اور لفظ تجویز نہیں کیا جاتا ہَے۔ اور دوسروں کو ان کے مقابل میں گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اس طرح نہ صرف منافرت کی ایک وسیع خلیج چھوٹوں اور بڑوں میں حائل ہو جاتی ہے۔ بلکہ ذہنیتیں اس قسم کی ہو جاتی ہیں۔ کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں۔ کہ ہم بڑے ہیں۔ اور باقی لوگ ہمارے غلام ہیں۔
ہم جب بچے تھے۔ تو مَیں اور میر محمد اسحٰق صاحب مرحوم نے حضرت خلیفۂ اول رضی اللہ عنہ سے پڑھنا شروع کیا۔ استاد کا یوں بھی دلوں میں زیادہ اعزاز ہوتا ہے۔ مگر حضرت خلیفۂ اول رضی اللہ عنہ کو تو جماعت میں بھی ایک خاص پوزیشن حاصل تھی اس وقت جب بھی یہ بات کہی جاتی کہ مولوی صاحب نے یہ کہا ہے تو اس سے مراد یا حضرت خلیفۂ اول رضی اللہ عنہ ہؤا کرتے تھے۔ یا حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مراد ہؤا کرتے تھے۔ جب بھی کسی نے کہنا مولوی صاحب نے یہ بات کہی ہے۔ تو سننے والا کہتا کون مولوی صاحب۔ اور وُہ کہتا حضرت خلیفہ اولؓ یا کہتا مولوی صاحب نے یہ بات کہی ہے۔ اور سننے والا کہتا کہ کون مولوی صاحب تو وُہ کہتا مولوی عبدالکریم صاحب۔ چند دن تک میر محمد اسحق صاحب یہ سنتے رہے۔ مگر ایک دن ان کو بڑا غصہ آیا۔ کہ یہ کیا بات ہے کہ یہ مولوی صاحب اور وُہ بھی مولوی صاحب اِن کا نام آئے ۔ تب بھی لوگ کہتے ہیں مولوی صاحب نے یہ کہا۔ اور اُن کا نام آئے تب بھی لوگ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب نے یہ کہا۔ یہ بالکل غلط طریق ہے۔ آئیندہ مولوی عبدالکریم صاحب کی کوئی بات ہو گی تو میں کہوں گا مولوی صاحب نے یہ کہا ہے۔ اور خلیفۂ اولؓ کی کوئی بات ہو گی تو میں کہوں گا چولوی صاحب نے یہ کہا ہے۔ گویا انہوں نے امتیاز کا یہ نرالا طریق نکالا۔ کہ ایک کو مولوی صاحب کہا جائے۔ اور دوسرے کو چولوی صاحب کہا جائے یہ ہے تو بچپن کی ایک حماقت۔ لیکن واقعہ یہی ہے کہ جب کسی کو کوئی خاص اعزاز حاصل ہو جائے تو اس کے مقابل میں دوسروں کو کہا جاتا ہے کہ تم چھوٹے درجہ کے ہو۔ پھر ان کو اور چھوٹا کیا جاتا ہے۔ پھر اور چھوٹا کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ مکمل غلام بن جاتے ہیں۔ پس غلام کی آزادی درحقیقت قوم کی آزادی ہے۔ یہ دس یا بارہ آدمیوں کا سوال نہیں۔ بلکہ قوم کا کیرکٹر تبھی بلند ہوتا ہے جب غلط اصول پر قائم شدہ امتیازات کو مٹا دیا جائے۔ اسی طرح خدا کی خوشنودی بھی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب غلاموں کو آزاد کیا جائے۔ یا غلاموں کو آزاد کرانے کی سرگرم کوشش کی جائے۔
فَکٌ رَقَبَۃٍ کے دُوسرے معنی غلط عقائد کی اصلاح اور رسم و رواج کی پابندیوں کو توڑ دینے کے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کفار کی نسبت فرماتا ہے اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ وَاُوْلٰٓئِکَ الْاَغْلَالُ فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ (رعد ع ۱ ۷) یہ وُہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کا کفر کیا۔ اور جن کی گردنوں میں اغلال پڑے ہوئے ہیں۔ اس جگہ کفر اور شرک کے معنون میں اغلال کا لفظ استعمال ہؤا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ یہ وہ طوق ہے جنہوں نے ان کی گردنوں کو خم کیا ہؤا ہے۔ اسی طرح یہود کی نسبت فرماتا ہے۔ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلَالَ الَّتِیْ کَاَنْتَ عَلَیْھِمْ (اعراف ع ۹ ۱ ۹) ہمارا یہ رسول ان کے اِصر کو دور کرتا ہے۔ اور ان کے اغلال کو کاٹتا ہے۔ ان ہر دو آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ فَکٌ رَقَبَۃٍ کے معنے جہاں غلام آزاد کرنے کے ہیں۔ وہاں غلط عقائد رسم و رواج کی سختیاں۔ جھوٹے نظام جو ظالم سرداروں کو سَر پر بٹھا دیں۔ جیسے احبار وجابر بادشاہ جن کی وجہ سے قوم اپنی گردن اوپر نہ اٹھا سکے۔ وُہ بھی اس میں شامل ہے۔ پس فَکٌ رَقَبَۃٍ کے معنے یہ ہوئے کہ ہم تو ان کو غلامی سے آزاد کرانے لگے تھے۔ مگر ان کو اپنے اغلال توڑنے کی ہمت نہ پڑی۔ انہوں نے غلاموں کو آزاد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے قوم ادنیٰ طبقہ کو ابھارنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے رسم و رواج کو چھوڑنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے جھوٹے عقائد کو ترک کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اور اس طرح وہ تباہی و بربادی کے گڑھے میں ہی گرے رہے۔
اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ
یا بھوک کے دن کھانا کھلانا ہے۱۳؎
۱۳؎حل لغات
سَغَبَ الرَّجُلُ سَغْباً وسُغُوباً وسَغْباً وَسَغَابَۃً وَمَسْغَبَۃً (اقرب) کے معنے ہیں جَاع وہ بھوکا رہا (اقرب)پس مَسْغَبَۃٌ کے معنے بھوکے رہنے کے ہوئے۔
تفسیر
فرماتا ہے اگر اس کے اندر یتامٰی و مساکین کی حقیقی محبت ہوتی اور وُہ ان ک تکالیف کو دُور کرنے کا صحیح احساس اپنے اندر رکھتا تو اس کا فرض تھا کہ وُہ بھوک والے دن ان کو کھانا کھلاتا۔ یعنی قحط میں ان کی خبر گیری کرتا یا فقر وفاقہ میں ان کے لئے غلّہ وغیرہ مہیا کرتا۔ یہ مان لیا کہ وہ سو سو اونٹ ایک ایک دن میں ذبح کرتا رہا ہے۔ مگر ہم تو یہ کہتے ہیں وہ بے موقعہ ذبح کرتا رہا ہے۔ اور ان کو ذبح کرنے کا موقع یہ تھا۔ کہ وُہ یتامیٰ ومساکین کے لئے ان کو ذبح کرتا۔ اور ان کا گوشت ان میں تقسیم کر دیتا۔ یا خود پکا کر ان کو دعوت دے کر ان کی بھوک کو دُور کرتا۔ یہاں فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ کے الفاظ اسی حکمت کے ماتحت لائے گئے ہیں۔ کہ پہلے یہ ذکر آ چکا تھا۔ کہ وُہ نام ونمود کے لئے جاہ طلبی اور شہرت کے حصول کے لئے اپنا روپیہ صاف کر دیتا ہے۔ اس سے خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ ممکن ہے وہ یتامیٰ ومساکین کو بھی کھلا دیتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کا ازالہ کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ وُہ روپیہ تو خرچ کرتا تھا۔ اپنے اونٹوں کو بھی ذبح کرتا تھا۔ مگر بھوک والے دن نہیں۔ یعنی جب بھوکوں کو ضرورت ہوتی تھی۔ وُن ان کو ذبح نہیں کرتا تھا۔ بلکہ جب اپنی شہرت کا جنون اس کے سر پر سوار ہو جاتا۔ تو سو سو اونٹ ایک ایک دن میں ذبح کر دیتا۔ حالانکہ اگر حقیقی ضرورت کو مدِّنظر رکھ کر وُہ کام کرتا۔ تو دوستوں کی دعوت کے لئے صرف ایک اونٹ ذبح کرتا۔ اور ننانوے اونٹ یتامیٰ و مساکین کے لئے رکھ دیتا۔ تاکہ ان کو فاقہ کی مصیبت پیش نہ آتی۔ پس چونکہ اس نے قومی ضرورت کو مدنظر نہیں رکھا۔ اور اپنے مال کو بے موقعہ خرچ کر کے ضائع کر دیا۔ اس لئے ہماری نگاہ میں وُہ کِسی تعریف کا مستحق نہیں۔ نہ اس قابل ہے کہ لوگ اس کو احترام کی نظر سے دیکھیں۔
یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ
یتیم کو جو قریبی ہو۱۴؎
۱۴؎تفسیر
یہاں یتیم کے ساتھ مَقْرَبَہ کے الفاظ کا اضافہ اس لئے کیا گیا ہے۔ کہ قرابت والا یتیم بہرحال انسان کو اپنے پاس رکھنا پڑتا ہے۔ اور اس کے خوردونوش کی ذمہ داری یا تعلیم اور لباس وغیرہ کے اخراجات انسان کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ یہ الگ امر ہے کہ کوئی شخص ان اخراجات کو طوعًا برداشت کرے۔ یا کرہًا مگر بہرحال خاندانی ذمہ داریاں تقاضہ کرتی ہیں۔ کہ انسان اپنے قرابت دار یتیم کا خیال رکھے۔ مگر فرمایا تمہاری تو یہ حالت ہے کہ تم ایسے یتیم کو بھی کھانا نہیں کھلاتے۔ جو تمہارا قریبی رشتہ دار ہوتا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہاری حالت خطرناک حد تک گر چکی ہے۔
اس آیت کے یہ معنے نہیں۔ کہ قریبی یتیم کو تو کھانا کھلانا چاہئیے۔ مگر دُوسرے کو نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ کسی اور یتیم کی پرورش تو الگ رہی۔ تم سے اس بات کی بھی خبر نہیں کی جا سکتی۔ کہ تم اپنے قریبی یتیموں کی خبرگیری کرو گے۔ اور ان کی ضرُوریات کا خیال رکھو گے۔ جب ایک قریبی ذمہ داری سے تم اس قدر لاپرواہ ہو۔ تو دُور کی ذمہ داری کو پورا کرنے کی طرف تمہاری توجہ ہی کہاں ہو سکتی ہے۔
اَوْمِسْکِیْنًا
یا مسکین کو جو زمین پر گرا ہؤا ۱۴؎a
پھر (چوٹی پر چڑھنا یہ تھا۔ کہ ان کاموںکے علاوہ) یہ ان میں سے بن جاتا جو ایمان لائے۔ اور (جنہوں نے) ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔ اور ایک دُوسرے کو رحم کرنے کی نصیحت کی۱۵؎
a۱۴؎تفسیر
مِسْکِیْناً ذَامَتْربَۃٍ کے لفظی معنی تو یہ ہیں۔ کہ وُہ مسکین جو خاک افتادہ ہو مگر اس کے مفہوم دو ہیں۔
اوّلؔ۔ ایسا غریب جو مالی لحاظ سے بالکل ادنیٰ اور ذلیل حالت میں ہو۔ ہماری زبان میں بھی کہتے ہیں۔ فلاں شخص تو مٹی میں مل گیا ہے۔ یعنی اس کی نہایت ہی قابل رحم حالت ہے۔
دوسراؔ مفہوم اس کا یہ ہے کہ ایسا مسکین جو مالی کمزوری کے ساتھ جسمانی طور پر بھی ایسا کمزور اور بیمار ہو کہ چل پھر نہ سکتا ہو۔ گویا اس میں اتنی طاقت بھی نہیں رہتی۔ کہ وہ امیروں کے دروازہ تک پہونچ کے سوال کر سکے۔ کمزوری اس قدر بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ زمین پر لیٹا ہؤا ہوتا ہے۔ اور کوئی اس کا پُرسان حال نہیں ہوتا۔ یا اتنا کمزور ہو جاتا ہے۔ کہ مانگنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ جس شخص کے دل میں ایسے مساکین کے متعلق بھی رحم کا جزبہ پیدا نہ ہو۔ جو بالکل کنگال ہو چکے ہوں یا ساتھ ایسے بیمار بھی ہوں۔ کہ مانگنے کی سکت نہ رکھتے ہوں۔ وہ خدا سے کیا فضل مانگ سکتا ہے۔ اور بندے اس کی کیا عزت کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مشکلات کے وقت ان لوگوں سے بھی کام کی امید کی جاتی ہے۔ جو عام طور پر معذور سمجھے جاتے ہوں۔ مگر پھر بھی کچھ لوگ ایسے ضرُور ہوتے ہیں۔ جن کا بوجھ انسان کو اٹھانا پڑتا ہے جیسے اپنے قریبی یتیم اور بالکل ناکارہ انسان جن سے کمائی کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ مگر یہ ان لوگوں کی پرورش سے بھی مصائب کے وقت غافل ہوتا ہے۔ حالانکہ مصائب کے وقت ہی انسانی اخلاق کا تجربہ ہوتا ہے۔
۱۵؎تفسیر
ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ کہہ کر بتایا ہے۔ کہ خالی نیک اعمال کافی نہیں۔ بلکہ یہ بھ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ایمان بھی ہو۔ اور قوم میں نیکی پیدا کرنے کا جزبہ بھی ہو۔ اس جگہ ایمان سے عام ایمان مراد نہیں۔ بلکہ ایمان ان اعمال خیر کے متعلق ایمان مراد ہے۔ جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ ان اعمال پر کاربند ہونے کے علاوہ دل میں یہ یقین ہو کہ یہ اعمال ضروری ہیں منافقانہ رنگ میں ان پر عمل نہ کرتا ہو۔ کیونکہ منافقانہ عمل میں ایسا جوش کبھی پیدا نہیں ہوتا۔ کہ کماحقہ ان کو بجا لاسکے۔ سچی بشاشت اُسی عمل کے ساتھ پیدا ہوتی ہے جس کے ضرُوری اور درست ہونے پر انسان کو یقین بھی ہو۔
دُوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ اگر خلوص سے یہ لوگ اُن اعمال کو بجا لاتے تو انہیں تقویٰ نصیب ہوتا۔ اور اس کے نتیجہ میں اُن کو ایمان نصیب ہو جاتا۔ گویا ثُمَّ کے معنے ’’اس کے ساتھ ہی‘‘ کے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور پھر کے بھی۔ اور یہ دونوں معنے لغت کے لحاظ سے ثابت ہیں۔ کہ یہ نیک اعمال بھی کرتے اور ساتھ ہی مومن بھی ہوتے۔ یعنی بغیر اس عمل کے اچھا ہونے پر یقین ہو نے کے عمل کا مل نہیں ہوتا۔ منافقت جڑوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اور اگر ثُمَّ کے معنے ’’اس کے بعد‘‘ کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے۔ کہ یہ نیک اعمال کرتے۔ اور ان کے بعد مومن بن جاتے۔ یعنی ان اعمال کا نتیجہ یقینا یہ نکلتا۔ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان بھی ان کو مل جاتا۔ کیونکہ نیک نیتی کے ساتھ کیا ہؤا عمل ایمان کی طرف لے جاتا ہے۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حکیم بن حزام نے جو نبوت کے دعویٰ سے پہلے آپ کے دوست تھے۔ آپؐ سے پوچھا۔ کہ کفر میں جو صدقہ وخیرات میں نے کیا تھا وہ ضائع گیا؟ آپ نے فرمایا اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا سَلَفَ مِنْ خَیْرٍ (بخاری جلد چہارم کتاب الادب باب من وصل رحمۃ فی الشرک ) ضائع کیوں گیا۔ اسی عمل کے نتیجہ میں تو تم کو دولت اسلام حاصل ہوئی۔
پھر فرماتا ہے وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ پہلے مومنوں کے مطابق اس جملہ کے یہ معنے ہوں گے کہ اگر ان اعمال کے ساتھ ساتھ انہیں ان اعمال کی خوبیوں پر ایمان بھی نصیب ہوتا۔ اَور یہ لوگ خود ہی وہ اعمال نہ بجا لاتے۔ بلکہ دُوسروں کو بھی اُن کے استقلال کے ساتھ بجا لانے کا دیتے۔ اور رحم کرنے کی تلقین کرتے رہتے۔ تو ان کے لئے بابرکت ہوتا۔ تَوَاصَوْا کے معنے بار بار تاکید کرنے کے ہیں۔ اور صبر کے معنے اس جگہ استقلال سے کام کرنے کے ہیں۔ اور مَرْحَمَۃ کے معنے رحم کے ہیں۔
دوسرے معنوں کے رُو سے اس جملہ کے یہ معنے ہوں گے کہ ان کے نیک اعمال کے بعد انہیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے کی توفیق ملتی۔ اور نیکی کا جزبہ اتنا قوی ہو جاتا۔ کہ اب تو یہ لوگ ظلم کرتے ہیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لا کر یہ خود ظلم شو ق سے برداشت کرتے۔ اور دوسروں کو ظلم کو صبر سے برداشت کرنے کی تلقین کرتے رہتے۔ باوجود ظلموں کو برداشت کرنے کے اپنے دشمنوں پر بھی رحم کرتے۔ اور دُوسرے دوستوں کو بھی نصیحت کرتے کہ دشمن کے ظلم پر غصہ میں نہ آئو۔ بلکہ باوجود اس کے ظلم کے پھر بھی رحم سے کام لو۔
اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ
یہی لوگ تو برکت والے ہوں گے۱۶؎ اور جنہوں نے ہماری آیتوں کا کفر کیا وُہ نحوست والے ہوں گے۱۷؎ ان پر بھٹی کی آگ (کی سزا) نازل ہو گی۱۸؎
۱۶؎تفسیر
مَیْمَنَۃ کے معنے برکت کے بھی ہیں اور مَیْمَنَۃ کے معنے دائیں کے بھی ہوتے ہیں۔ (اقرب) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ قیامت کے دن جن لوگوں کے دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دیا جائے گا۔ وُہ عزت پائیں گے اور جنت کے حقدار ہوں گے۔ اس مناسبت سے اَصْحَابُ الْمَیْمَنَۃ کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی کہ وُہ لوگ جن میں اوپر کی باتیں پائی جائیں۔ اور وُہ احکامِ الٰہی پر عمل کریں۔ وہ قیامت کے دن ان لوگوں میں شامل ہوں گے۔ جن کے دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دیا جائے گا۔ اور یہ بھی معنے ہو سکتے ہیں۔ کہ ایسے لوگ ہی اللہ تعالیٰ کی برکات کو حاصل کرتے ہیں۔ جو احکامِ الٰہیہ کی متابعت کو خوشی سے قبول کرتے ہیں۔
۱۷؎حل لغات
مَشْئَمَۃٌکے معنے بائیں کے بھی ہوتے ہیں۔ اور مَشْئَمَۃٌ نحوست کو بھی کہتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
پہلی آیت کی طرح اس آیت کا بھی ایک تو یہ مفہوم ہے۔ کہ جو لوگ احکامِ الٰہیہ کا انکار کریں گے۔ وُہ قیامت کے دن ان لوگوں کی صف میں کھڑے کئے جائیں گے۔ جن کے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دیا جائے گا۔ اور ایک معنے یہ ہیں کہ ایسے لوگ اپنے نفس اور اپنی قوم کے لئے سخت منحوس ہیں۔ ناکامی ان کے شامل حال رہے گی۔
۱۸؎حل لغات
اَلْمُؤْصَدُ کے معنے ہیں۔ اَلْمُطْبَقُ وَالْمُغْلَقُ بند کی ہوئی چیز (اقرب) پس نَارٌ مُؤْصَدَۃٌ کے معنے ہوں گے۔ ایسی آگ جو بند کی گئی ہو۔
تفسیر
پہلے لوگ شائد نَارٌ مُؤْصَدَۃ کی حقیقت کو پُوری طرح نہ سمجھتے ہوں۔ مگر باوجود زمانہ کے لوگوں کے لئے اس کی حقیقت کو سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ کیونکہ نئے علوم نے واضح کر دیا ہے کہ سخت ترین آگ وہ ہوتی ہے جس پر چاروں طرف سے دروازے بند کر دئیے جائیں۔ بھٹی کی آگ اسی لئے تیز ہوتی ہے کہ اُسے چاروںطرف سے بند کر کے صرف ایک چھوٹا سا سوراخ رکھ لیا جاتا ہے جو آگ اس طرح بھڑکائی جائے وُہ اس قدر تیز ہوتی ہے۔ کہ سب کچھ جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اِس آیت میں کفار کے انجام کا ذکر کرتا ہے۔ اور بتاتا ہے۔ کہ آج تو یہ لوگ اسلام کے مقابل میں کھڑے ہیں۔ اَور مُسلمانوں کو سخت سے سخت اذیتیں پہنچانے کے درپے ہیں۔ مگر وُہ یاد رکھیں ایک دن وُہ ایسی آگ میں ڈالے جائیں گے۔ جو چاروں طرف سے بند ہو گی۔ اور جو انہیں جلا کر راکھ کر دے گی۔ یعنی اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار مکہ ایسے تباہ ہوں گے کہ ان کا نشان تک باقی نہیں رہے گا۔ چنانچہ دیکھ لو وُہ کیسے تباہ ہوئے کہ لات اور منات اور عُزّیٰ کی پرستش کرنے والا آج ساری دنیا میں کوئی ایک وجود بھی نظر نہیں آتا۔ خُدا نے ان کو اپنے عذاب کی چکّی میں اس طرح پیسا اور اپنے غضب کا ان کو ایسا نشانہ بنایا۔ کہ دُنیا میں ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔
سُوْرَۃُ عَبَسَ مَکِّیَّۃٌ
وَّھِیَ اثْنَتان
یہ سورۃ عبس۔ یہ سورۃ مکّی ہے
اور اس کی بسم اللہ کے بغیر بیالیس آیتیں اور ایک رکوع ہے ۱؎
۱؎ سورۃ عبس مکّی سورۃ ہے اور بہت ہی ابتدائی سورتوں میں سے ہے۔ یوروپین مصنّفین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ابتدائی مکّی سورۃ ہے چنانچہ نلولڈک NOLDEKEجرمن مستشرق ابتدائی زمانہ کی بھی ابتدائی سورتوں میں اس کو شامل کرتاہے۔ میور MUIRبھی اِسے اُن پہلی سورتوں میں سے قرار دیتا ہے جنہیں کفار پر ظاہر کیا گیا یعنی پہلی چند سورتوں کے متعلق مستشرقین کا خیال ہے کہ اُن کا اعلان اُن سورتوں کے وقت ہی نہیں ہؤا بلکہ کچھ عرصہ بعد ہؤا۔ پس میور کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی چند سورتوں کے بعد یہ نازل ہؤئی۔
اس سورۃ کا پہلی سورۃ کے ساتھ ایک تو قریبی تعلق ہے اور ایک سارے مضمون کے لحاظ سے۔ قریبی تعلق تو یہ ہے کہ پچھلی سورۃ کی آخری آیت میں یہ مضمون تھا کہ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ یَّخْشٰھَا۔ کہ ڈرانا اسی کو مفید ہو سکتا ہے جو یَوْمَ الْحِسَاب یا انجامِ اعمال سے ڈرتا ہو۔ یَخْشٰھَا کی ضمیر سَاعَۃٌ کی طرف جاتی ہے اور ہم سَاعَۃٌ کے دونوں معنے کرتے ہیں۔ حیات بعد الموت بھی اور غلبۂ قرآن بھی۔ پس اس میں ن دونوں باتوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ یَّخْشٰھَا۔ جو شخص حیات بعد الموت سے خوف رکھتا ہو یا اپنے انجام کے سے ڈرتا ہو کہ جو اعمال میں کر رہا ہوں اُن کے نتیجہ میں تو اسلام جیتتا نظر آتا ہے اور میں ہارتا دکھائی دیتا ہوں اُس شخص کو یہ انداز مفید ہو سکتا ہے چنانچہ اسی لحاظ سے اب اس سورۃ میں ذکر فرماتا ہے کہ اُن لوگوں کی طرف زیادہ توجہ کرو جو حق کو غور سے سُننے کے شائق ہیں اور حق کی قبولیت کا استحقاق اپنے اندر رکھتے ہیں۔ حق کی قبولیت کا ستحقاق کئی طرح سے ہوتا ہے۔ اوّلؔ اعمال سے یعنی ایک شخص کے اندر جہاں تک اُس کا ایمان ہے خشیۃ اللہ پائی جاتی ہے یا سنجیدگی پائی جاتی ہے اور دین کی باتوں کو غور سے سُنتا ہے اور یا پھر قومی استحقاق اسی طرح ہوتا ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے انبیاء آتے ہیں بالعموم ادنیٰ اور غریب طبقہ کے لوگ اُن کی طرف آتے ہیں گویا انبیاء کی بعثت پر نوّے فی صد احتمال یہ ہو گا کہ غرباء جلدی دین سیکھیں گے۔ اگر کسی نبی کی جماعت زیادہ تر امراء کی طرف توجہ رکھے گی تو وہ اپنے دائرہ ترقی کو محدود کر دے گی۔ بے شک امراء بھی آتے ہیں مگر نسبت سے کم۔ اس فرق کو بھی قرآن کریم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔
مضمون کے لحاظ سے اس کا پہلی سورۃ سے یہ تعلق ہے کہ پہلی سورۃ اور اس سے بھی پہلی سورۃ میںیہ بیان کیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی مقدر کی ہے اور اس کے ذرائع بھی بتائے گئے تھے جو یہ تھے۔ وَلنَّازِعَاتِ غَرْقًا۔ وَّالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا۔ وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا۔ فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا۔ فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا۔ اب یہ بتاتا ہے کہ جس طرح ساعت کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا وہؤا ہے کہ وہ کب ظاہر ہو گی۔ اسی طرح اس بات کا علم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہؤا ہے کہ وہ کب ظاہر ہوگی۔ اسی طرح اس بات کا علم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہؤا ہے کہ وہ کن لوگوں کے ہاتھ سے ظاہر ہو گی۔ اسی طرح اس بات کا علم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہؤا ہے کہ وہ کن لوگوںکے ہاتھ سے ظاہر ہو گی اور وہ نَازِعَات اور نَاشِطَات اور سَابِحَاتِ اور سَابِقَات اور مَدَبِّرَات والے کون لوگ ہوں گے مطلب یہ کہ وہ لوگ جو قوموں میں بڑے ہوشیار اور کام کرنے والے دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری یہ مراد نہیں کہ تمہیں وہ لوگ مل جائیں گے کیونکہ ہو سکتا تھا کہ یہ خیال کر لیا جاتا کہ وَالنَّازِعَات سے فلاں فلاں آدمی مراد ہیں یا فلاں فلاں کام کرنے والے مراد ہیںیا فلاں فلاں بڑے آدمی مراد ہیں اور اس طرح قیاس کر لیا جاتا کہ یہ شخص اس اس سے مراد ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا نہیں ہے جس طرح خدا تعالیٰ نے ساعت کا علم اپنے پاس رکھا ہؤا ہے اسی طرح نَازِعَات بننے والی روحیں اور نَاشطَات اور سَابِحَات اور سَابِقَات اور مُدَبِّرَات بننے والی روحیں بھی خدا تعالیٰ کے علم میں ہی ہیں تم اُن کے متعلق کیوں قیاس نہیں کر سکتے۔ تم ظاہر میں سمجھو گے کہ فلاں فلاں شخص قابل ہیں لیکن درحقیقت وہ اندرونی طور پر قابل نہیں ہوں گے۔ یہ علم بھی سَاعَۃ کی طرح خدا تعالیٰ نے اپنے پاس ہی رکھا ہؤا ہے گویا اَلنَّازِعَات کے مستحق لوگ خدا تعالیٰ کے علم میں ہیں وقت پر وہ اُن کو لاتا جائے گا خود اُن کی جستجو کرنا مفید نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کی سُنّت ہے کہ وہ اپنے سلسلہ کو اُن لوگوں کی معرفت ترقی نہیں دیتا جو پہلے سے جانے بوجھے ہوتے ہیں بلکہ اُن کے ذریعہ سے ترقی دیتا ہے جو کلّی طور پر اُس دین سے عزت پاتے ہیں جن کی نسبت یہ کہا جائے کہ دین نے اُن سے عزت پائی وہ سچے دین کے قابل نہیں۔ سچے دین کے قابل وہی ہوتا ہے جس کے متعلق کہا جائے کہ دین سے اُس نے عزت پائی۔ نبی کے زمانہ میں اُس کے اَتباع خدا تعالیٰ کی طرف اشارہ نہیں کرتے کہ لوگو! اُس کو مان لو۔ بلکہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ لوگو یہ وہ ہیں جن کو میں خدمت دین کے لئے چُنتا ہوں۔ پس اس سورۃ میں اَلنَّازِعَات کی جماعتکی تشریح کی گئی ہے اور اُن کے انتخاب کا طریقو بتایا گیا ہے جو یہ ہے کہ وقت پر اللہ تعالیٰ اُن کو خود ظاہر کر دے گا۔ چنانچہ اسلام کی تاریخ کو دیکھ لو جتنے لوگ چُنے گے وہ وہی ہیں جن کی صداقت اور نیکی کا دشمن معترف تھا۔ لیکن اس زمانہ کے ماحول کے مطابق اگر دنیا کو کہا جاتا کہ اس کام کے لئے آدمی چُنو تو وہ کبھی اُن کو نہ چنتی۔ لیکن گو اُن کے اندر مخفی قابلیتیں تھیں لیکن ایک مبہم خیال سے زیادہ لوگ ان کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ آخر مکّہ والے ابو بکرؓ کی قابلیت کے تو قائل تھے مگر سرداری کے لئے انہوں نے ابو جہل،عتبہ اور شیبہ کو ہی چنا ہؤا تھا۔ کیونکہ ابو بکرؓ کے اندر وہ ایک مبہم نیکی پاتے تھے۔ ظاہری قابلیتیں ان کو عتبہ، شیبہ اور ابو جہل میں ہی نظر آتی تھیں۔ اسی طرح عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، زیبرؓ اور طلحہؓ وغیر ہم میں سے ایک بھی نہ تھا جس کو قوم نے اپنی سرداری کے لئے منتخب کیا ہو۔ اسی طرح یمن میں مثلاً ابوموسیٰ اشعری ایمان لائے اور یہود میں عبداللہ بن سلام ایمان لائے۔ مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر اُن کی قومیں منتخب کرتیں تو وہ انہی لوگوں کو کرتیں۔ یقینا وہ دوسروں کو کرتیں لیکن اِس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک مبہم اقرار اُن کی نیکی کا لوگوں کے دلوں میںضرور موجود تھا۔
غرض یہ لوگ ایسے تھے کہ قوم میں کسی تغیر کا پیدا کرنا ان سے متوقع نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر تغیر پیدا انہوں نے ہی کیا اور جن سے تغیر متوقع ہو سکتا تھا وہ محروم رہ گئے۔ پس یہ ایک نہایت ہی اہم معاملہ قومی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس مضمون پر اس سورۃ میں خاص طور پر بحث کی گئی ہے کہ جب قوموں پر تغیر کا زمانہ آتا ہے تو اصل قابلیتیں دب جاتی ہیں اور جھوٹی قابلیتیں ابھرتی ہیں لوگوں کے مزاج کچھ ایسے بگڑ جاتے ہیں کہ حقیقی نیکی کو وہ پسند نہیں کرتے اور مظاہرے اور بناوٹ اور قوم کی رگ پہچاننے کو وہ زیادہ قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں وہ اس شخص کو آگے نہیں آنے دیتے جو حقیقی لیڈر ہو۔ بلکہ اُسے آگے لاتے ہیں جو نام کا تو لیڈر ہو لیکن واقعہ میں قومی رسومات اور عادات کے پیچھے چلنے والا اس لئے زمانۂ ظلمت کی اصلاح کے لیڈر کا چننا لوگوں کے لئے ناممکن ہوتا ہے کیونکہ ان کی فطرتیں مسخ اور غلامانہ بن چکی ہوتی ہیں جو اس نیک جدّت کو بھی جو رسم ورواج کے خلاف ہو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتیں پس اس انتخاب کا حق اللہ تعالیٰ اپنے قبضہ میں رکھتا ہے کیونکہ خدا کی نظر دلوں پر ہوتی ہے صرف منہ کی باتیں وہ پسند نہیں کرتا۔ ایک عام انسان تو کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ لوگ لائق ہیں تو آگے کیوں نہیں آتے لیکن خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اُن کا آگے نہ آنا حالات کے ناسازگار ہونے کی وجہ سے ہے۔ قوم کے حالات ہی گندے ہو جاتے ہیں اور اس گندی زمین میں کوئی پاکیزہ درخت اُگ ہی نہیں سکتا اور جب تک اس زمین سے اُن کو نہ اکھاڑا جائے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ اسی کی طرف سورۂ نازعات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ قابل تو یہ ہیں مگر زمین خراب ہے اس زمین میں یہ اُگ نہیں سکتے۔ اب ہم ایک نئی زمین ان لوگوں کے لئے پیدا کریں گے تب اُن کی قابلیتیں تمہیں نظر آنے لگ جائیں گی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد حضرت ابو بکرؓ خلیفہ ہوئے۔ جب مکّہ میں یہ خبر اُس جگہ پہنچی جہاں اُن کے والد بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے مدینہ سے آنے والے ایک آدمی سے پوچھا کہ سُنائو مدینہ کا کیا حال ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ انہوں نے ایک آدمی کی بیعت کر لی۔ انہوں نے کہا کہ کس آدمی کی؟ وہ کہنے لگا ابوبکرؓ کی۔ انہوں نے حیرت سے پوچھا کون ابوبکرؓ؟ اُس نے جواب دیا ابن ابی قحافہ۔ کہنے لگا کون ابو قحافہ؟ اُس نے کہا کہ تم۔ پھر انہوں نے مختلف خاندانوں کے نام لے کر پوچھا کہ کیا انہوں نے بیعت کر لی ہے؟جب اُس نے بتایا کہ انہوںنے بیعت کر لی ہے تو وہ کہنے لگا بنو ہاشم کا کیا حال ہے۔ کیا انہوں نے بھی بیعت کر لی؟ اُس نے کہا ہاں۔ پھر انہوں نے بعض اور قبائل کے متعلق پوچھا اُس نے یہی جواب دیا کہی اُنہوں نے بھی بیعت کر لی ہے۔ ابو قحافہ ظاہر میں تو اسلا م لے آئے تھے لیکن ابھی پورے طور پر اُن کے دل میں ایمان داخل نہیں ہؤا تھا جب انہوں نے یہ باتیں سُنیں تو تھوڑی دیر تک خاموش سر جھکائے بیٹھے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ گویا یہ دن اُن کے ایمان کی صفائی کا تھا جس میں اُن کو اسلام کی سچائی کے متعلق حقیقی بصیرت حاصل ہوئی۔ اُن کے ذہن میں یہ کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ کوئی دن ایسا بھی آسکتا ہے جب ابوبکرؓ کو عرب کے سارے قبائل اپنا خلیفہ اور بادشاہ مان لیں گے اور یہ بات بھی ٹھیک ہے جس ابو بکرؓ کو انہوں نے پالا تھا اور جس نگاہ سے انہوں نے ابو بکر ؓ کو دیکھا تھا وہ ابو بکر واقعہ میں اُس وقت اس عظیم الشان منصب کے قابل نہیں تھا۔ مگر اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُنہیں اس مٹی میں گایا جا رہا تھا جس سے اُن کو کوئی مناسبت نہ تھی۔ جب خدانے زمین بدل دی اور وہ زمین اس پودے کے مناسب حال ہو گئی تب ابوبکرؓ کی روح کا پودا ابھرااور اُس نے نشوونما پاتے پاتے ایک بہت بڑے درخت کا رنگ اختیار کر لیا۔ یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے آم کشمیر لگا تو وہ نہیں اُگیں گے۔ اور اگر سیب کا درخت پنجاب میں بو دو تو وہ کبھی اچھا پھل نہیں دے گا۔ نیک روحوں کے لئے بھی مناسب حال پودے کی ضرورت ہوتی ہے اور زمین کے لئے مناسب حال پودے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کفر کی زمین میں عتبہؔ شیبہؔاور ابوجہلؔ ہی بڑھ سکتے تھے۔ ابو بکر سر نہیں اٹھا سکتے تھے اور ایمان کی زمین میں ابو بکر ہی بڑھ سکتے تھے۔ عتبہ ،شیبہ اور ابوجہل سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ وہ اس زمین میں جھاڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل نظر آتے تھے بلکہ جھاڑیاں تو کیا اُن کی گھاس پُھونس جیسی حیثیت بھی نہ تھی۔ اسی مضمون کی طرف اس سورۃ میں اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تم کو وہ روحیں نظر نہیں آتیں جنہوں نے دین کی اشاعت کا کام سرانجام دینا ہے اور جن کے ہاتھوں پر اسلام کا غلبہ مقدر ہے۔ اِسی لئے تم پوچھتے ہو کہ وہ روحیں آئیں گی کہاں سے جو نَازِعَات۔ نَاشِطَات۔ سَابِقَات۔ سَابِحَات اور مُدَبِّرَات ہوں گی اور روحوں کو چُنے گا کون؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم چُنیں گے اور کون چُنے گا۔ بے شک آج وہ روحیں تم کو نظر نہیں آئیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہاری زمین ناسازگار ہے۔ تمہارے باغ میں وہ نیکی کے پودے تو لگے ہوئے ہیں مگر زمین کے مناسب حال نہ ہونے کی وجہ سے وہ سُوکھ رہے ہیں۔ جب ہم ان پودوں کو اس زمین سے اکھیڑ کر اصل زمین میں بوئیں گے تو اُس وقت تم دیکھو گے کہ وہ کتنے شاندار درخت بنتے ہیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo
عَبَسَ وَتَوَلّٰٓیo
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں)
(کیا) چیں بجییں ہو گیا اور مُنہ موڑ لیا؟ (صرف) اس بات پر کہ اُس کے پاس (ایک) نابینا (جسے واقف لوگ جانتے ہیں) آیا؟ ۲؎
۲؎حل لغات
عَبَسَ فُلَاَنٌ وَجْھَہٗ کے معنے ہوتے ہیں قطَّبَہٗ۔ اُس نے ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے ماتھے پر شکن ڈال لئے (اقرب) اور تَوَلَّی عَنْہُ کے معنے ہوتے ہیں اَعْرَضَ عَنْہُ وَتَرَکَہٗ۔ اس سے اعراض کیا اور اُس سے توجہ کو ہٹا لیا (اقرب)
تفسیر
کہا جاتا ہے کہ عبداللہ بن اُم مکتوم ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں تشریف لائے۔ یہ اس وقت تک مسلمان ہو چکے تھے یا اگر ظاہری طور پر انہوں نے بیعت نہ کی ہو تو بہرحال رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لا چکے تھے۔ جب یہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے تو اُس وقت آپ کے پاس عتبہ و شیبہ (ربیعہ کے دونوں بیٹے جو مکّہ کے لیڈروں میں سے تھے) ابو جہل اور عباس ابن عبدالمطلب اور امیہ بن خلف اور ولید بن مغیرہ بیٹھے ہوئے تھے اَور ان کو بڑے شوق سے تبلیغ کر رہے تھے کہ شاید یہ مان جائیں تو اُن کے ذریعہ سے باقی مکّہ والے بھی اسلام میں داخل ہو جائیں باتیں ہو ر ہی تھیں کہ عبداللہ بن ام مکتوم آئے اور انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اَقْرِئْنِیْ وَعَلِّمْنِیْ مِمَّا عَلَّمَکَ اللّٰہُ تَعَالٰی کہ مجھے قرآن کریم پڑھائیے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے وہ بھی مجھے بھی سکھائیے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ جس پر انہوں نے دو تین بار اسی بات کو دُہرایا چنانچہ لکھا ہے وَلَمْ یَعْلَمْ تَشَاغُلَہٗ بِالْقَوْمِ یعنی اُن کو علم نہ ہؤا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوسروں سے باتیں کر رہے ہیں۔ فَکَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَطْعَہُ لِکَلَامِہٖ وَ عَبَسَ وَاَعْرَضَ عَنْہُ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کے قطع کلام کو ناپسند فرمایا اور آپ کے ماتھے پر شکن پڑے اور آپ نے اُن سے اعراض کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے توبیخ نازل ہوئی (کشاف) چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بعد میں اُن کو بلا کر اُن کی عزت افزائی کی اور اُن سے باتیں کیں اور اس کے بعد جب کبھی وہ آپ کے پاس آتے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کے لئے چادر بچھاتے اور انہیں بیٹھنے کے لئے کہتے (فتح البیان)
یہ واقعہ ہے جو اس سورۃ کا شانِ نزول بتا یا جاتا ہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک اندھے کو حقیر جانا اور یہ سمجھ کر کہ وہ معمولی اور غریب آدمی ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ اور بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ جو اس وقت آپ کے پاس موجود تھے اُن کی طرف ہی آپ نے اپنی توجہ رکھی اور یہ سمجھا کہ مشہور خاندانی لوگوں کی طرف توجہ رکھنا زیادہ مفید ہو سکتا ہے ایک اندھے اور غریب کی طرف توجہ کی کیا ضرورت ہے۔
اس روایت کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ عبداللہ بن ام مکتوم کون تھا۔ عبداللہ بن ام مکتوم حضرت خدیجہؓ کے بھائی تھے یعنی اُن کے ماموں کے بیٹے تھے اُن کے نام اور نسب کے متعلق قریب کے ناموں میں اختلاف ہے مگر قوم کے لحاظ سے سب اس بات پر متفق ہیں کہ بنی عامر بن لُؤَیِّ میں سے تھے۔ اُن کا نام اور نسب نامہ بعض عبداللہ بن شریح بن مالک بن ربیعۃ الفہری بتاتے ہیں اور بعض عبداللہ بن عمرو بن قیس ابن زائدہ بن الاعصم بتاتے ہیںاور بعض اُن کا نام ہی عمرو بن قیس ابن زائدہ بتاتے ہیں (روح المعانی) یہ ابن ام مکتوم کیوں کہلاتے ہیں اس کے متعلق زمخشری نے لکھا ہے کہ اُم مکتوم اُن کی دادی کا نام تھا۔ لیکن ابن عبدالبرّ اور دوسرے مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے اُن کے نزدیک یہ اُن کی والدہ کی کنیت ہے اور ان کا اصل نام عاتکہ بنت عامر بن مخزوم تھا۔ اُن کی کنیت ام مکتوم اس لئے تھی کہ یہ پیدا ہی اندھے ہوئے تھے اس لئے ان کی کنیت ام مکتوم پڑ گئی یعنی اندھے کی ماں۔ بعض مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اندھے پیدا نہیں ہوئے تھے کچھ دیر تک اُن کی آنکھیں سلامت رہیں مگر بعد میں کسی وجہ سے اُن کی بینائی جاتی رہی۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دو دفعہ اُن کو مدینہ کا امیر بھی مقرر فرمایا۔ اس شجرۂ نصب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں میری غرض یہ ہے کہ یہ کہنا کہ وہ حقیر آدمی تھے اور اُن کی طرف رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی توجہ مفید نہیں ہو سکتی تھی ان واقعات سے بالبداہت غلط ثابت ہوتا ہے اس لئے ان کی والدہ اور والد دونوں زبردست قبائل میں سے ہیں۔ اور یہ ایک ایسی عورت کے بھائی ہیں جس کی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دل میں انتہاء درجہ کی عزّت تھی کہ اُن کی وفات کے سالوں بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو اُن پر شک آجاتا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ خود بیان کرتی ہیں کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تکرار اور تواتر کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کا ذکر فرماتے تو میں بعض دفعہ بے تاب ہو کر کہتی یا رسول اللہ! آپ اُس بڑھیا کا ذکر چھوڑ دیں گے بھی یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہت بہتر عورتیں دے دی ہیں؟ اُس وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کے جواب میں فرماتے عائشہ! تم کو معلوم نہیں خدیجہؓ کے اندر کئی خوبیاں تھیں اور اس نے میری ایک لمبے عرصہ تک کیسے خدمت کی۔ پس حضرت خدیجہؓ کے بھائی اور ماں باپ دونوں کی طرف سے زبردست خاندانوں کے فرد کی عظمت صرف نابینا ہونے کی وجہ سے تو نہیں کی جا سکتی تھی۔ آخر تبلیغ زبان سے کی جاتی ہے آنکھوں سے تو نہیں کی جاتی۔ پس یہ کہنا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ سمجھا کہ ایک حقیر اندھا آدمی میرے پاس آیا ہے میں بڑے بڑے لوگوں کو چھوڑ کر ایسے غریب اور معمولی آدمی کی طرف کیوں توجہ کروں یا بالبداہت واقعات سے غلط ثابت ہوتا ہے۔ پھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کو دو دفعہ مدینہ کا سردار مقرر کیا اور یہ سردار مقرر کرنا محض لحاظ کے طور پرنہیں ہو سکتا تھا بلکہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کو سردار مقرر فرمایا تو اس لئے کہ ان میں امارت کی قابلیت تھی اور اس لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ سمجھتے تھے کہ عرب ان کی خاندانی عظمت کو جبکہ انہیں اپنا سردار تسلیم کرنے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کریں گے ۔کیونکہ عرب کے دستور کے مطابق کوئی ایسا شخص امیر مقرر نہیں کیا جا سکتا جس کا خاندانی لحاظ سے لوگوں پر اثر نہ ہوتا۔ اسی وجہ سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب بھی امیر مقرر کیا ہمیشہ انہی لوگوں کو کیا جو خاندانی لحاظ سے عظمت وشہرت کے مالک ہوتے تھے اور جن کے متعلق یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ لوگوں کو اُن کی اطاعت سے کوئی گریز نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد امیر مقرر فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ عربوں میں نسلی تعصب اس قدر بڑھا ہؤا تھا کہ وہ ادنیٰ اقوام یا بے اثر لوگوں کی امارت کو تسلیم ہی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ تو بہت لمبے عرصہ کے بعد اسلام نے ان کے دلوں سے یہ بات دُور کی ورنہ شروع شروع میں یہ بالکل ناممکن تھا کہ وہ کسی ایسے آدمی کی امارت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتے جو خاندانی طور پر اثر نہ رکھتا ہو۔ پس یہ سمجھنا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ایک حقیر آدمی آیا اور آپ نے اُس کی طرف محض اُس کی غربت اور عدم عزّت کی وجہ سے توجہ نہ کی بالبداہت باطل ہے اور یہ اتنا موٹا مضمون ہے کہ تعجب آتا ہے کہ مسلمانوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا حالانکہ بعض دشمنانِ اسلام کی سمجھ میں آگیا ہے چنانچہ نولڈکے NOLDEKEجو مشہور جرمن مستشرق ہے وہ یہ واقعہ لکھ کر کہتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹا واقعہ ہے عبداللہ بن ام مکتوم کا شجرہ نصب بتا رہا ہے کہ وہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔اور اس لئے یہ بات اس کے متعلق ہر گز نہیں ہو سکتی گویا اُس کا ذہن بھی اِدھر چلا گیا کہ یہ واقعہ یہاں چسپاں نہیں ہوتا۔ حالانکہ اگر یہ بات درست ہوتی تو اُس کو خوش ہونا چاہئیے تھا کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہتک ہوتی ہے مگر وہ کہتا ہے یہ بات واقعہ کے بالکل خلاف ہے اور اسے ان آیات پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔ میرے نزدیک علاوہ اس شہادت کے پانچ اور امور ایسے ہیں جن کی وجہ سے ہر شخص کو ماننا پڑتا ہے کہ یہ واقعہ اس رنگ میں یہاں چسپاں نہیں ہوتا۔
(۱) پہلی وجہ یہ ہے کہ ابن مکتوم اندھے تھے بہرے تھے۔ یا تو یہ کہا جاتا کہ ابن مکتوم بہرے تھے اور چونکہ بہرے ہونے کی وجہ سے وہ باتوں کو سُن نہیں سکتے تھے اس لئے اُن کو پتہ نہیں لگا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بعض لوگوں سے مصروف گفتگو ہیں اور چونکہ اُن کو اپنے بہرے پن کی وجہ سے اس بات کا علم نہیں ہو سکا اس لئے انہوں نے آتے ہی سوال کر دیا۔ اگر ثابت ہو جائے تو پھر ابن مکتوم پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔ کیونکہ عدمِ علم کی حالت میں کسی بات کو انسان سے سرزد ہو جانا اُسے موردِ الزام قرار نہیں دے سکتا لیکن تاریخ سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ وہ بہرے تھے۔ چنانچہ بعض مفسرین کو بھی یہ اعتراض سوجھا ہے کہ جب ہم اس واقعہ کو بیان کر رہے ہیں تو ہر شخص یہ کہے گا کہ قصور ابن مکتوم کا ہے جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بات کر ر ہے تھے تو انہوں نے بیچ میں دخل کیوں دے دیا۔ آخر ہر شخص جانتا ہے کہ جب دوسرے سے گفتگو کی جا رہی ہو تو اُس وقت کوئی شخص دخل دے دے اور کلام کو قطع کرنے کی کوشش کرے تو وہ تہذیب اور شائشتگی کے خلاف حرکت کا مرتکب سمجھا جاتا ہے اور اُسے کیس صورت میں بھی اپنے فعل میں حق بجانب نہیں سمجھا جا سکتا پس جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بعض اور لوگوں سے گفتگو کر رہے تھے اور عبدا للہ بن اُم مکتوم نے اس میں دخل دے دیا اور آپ کی بات کو قطع کرنا چاہا تو ایسی صورت میں عبداللہ بن م مکتوم ہی زجر کے قابل تھا کہ اُس نے خلافِ تہذیب ایک حرکت کا ارتکاب کیا۔ بہرحال یہ ایک اعتراض ہے جو مفسرین کو بھی سوجھا ہے اور انہوں نے اس کا جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے مگر وہ جواب ایسا کمزور ہے کہ اُسے پڑھ کر حیرت آتی ہے کہ مفسرین نے یہ کیا کہہ دیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شاید ان لوگوں کو کان میں تبلیغ کر رہے تھے جس کی آواز عبداللہ بن مکتوم کو نہیں پہنچی۔ مگر یہ بالکل ہنسی کے قابل بات ہے کہ سات آدمی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں موجود ہوں اور ان سات آدمیوں کو آپ کان میں تبلیغ کر رہے ہوں اور ایسی ہلکی آوا زسے کوئی پاس کا شخص بھی اُس کو سُن نہ سکے دُنیا کی کوئی عقل اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی اور احمق سے احمق انسان بھی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا کہ سات آدمی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئیں اور اُن سات آدمیوں کو بجائے کھلے طور پر تبلیغ کرنے کے آپ ہر ایک کو کان کے ساتھ اپنا منہ لگا رہے ہوں اور اُسے تبلیغ کر رہے ہوں۔ بات یہ ہے کہ فطرت خود بولتی ہے کہ سچائی کیا ہے خواہ اس پر کس قدر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ بہرحال اگر عبداللہ بن مکتوم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں اس وقت بولے جب آ پ دوسروں کو تبلیغ کر رہے تھے تو ملز ابن مکتوم تھے اور اُن کا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اس وقت بولتے۔ اور اگر انہوں نے سُنا نہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تبلیغ کر رہے ہیں تو پھر ثابت کرنا چاہیئے کہ وہ بہرے تھے لیکن تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ وہ اندھے تھے یہ نہیں بتاتی کہ وہ اس کے ساتھ بہرے بھی تھے۔ اور جب وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی گفتگو سُن رہے تھے۔ جب انہیںمعلوم تھا کہ اس وقت مکہ کے بڑے بڑے رئوساء کو تبلیغ کی جا رہی ہے تو وہ بولے کیوں؟ اُن کااس موقع پر بولنا بتا رہا ہے کہ قصور ابن مکتوم کا ہی تھا اور یہ بات تو عقل کے بالکل خلاف ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بات کر رہے ہوں اور ابن مکتوم نے اُس کو سنا ہی نہ ہو۔ جیسے مفسرین نے ایک بے بنیاد توجیہہ کی ہے بہرحال جرم ابن مکتوم کا ثابت ہوتا ہے مگر بتایا یہ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈانٹ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پڑی۔ اسی مشکل کی وجہ سے مفسرین نے عجیب قیاس کیا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کو کان میں تبلیغ کر رہے تھے حالانکہ یہ تبلیغ کا موقع کسی کی بیوی کا جھگڑا نہیں تھا کہ اس کے متعلق کان میں کچھ کہنے کی ضرورت ہوتی تاکہ دوسرا شخص اُسے سُن نہ لے۔ خدا اور رسول کی باتیں تھیں۔ اسلام کی اشاعت کا کام تھا۔ توحید کی تعلیم تھی۔ مگر یہ بتایا جاتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بڑی آہستگی سے عتبہ اور شیبہ کے کان کے ساتھ اپنا منہ لگا کر کہہ رہے تھے کہ دیکھو اللہ ایک ہے۔ اللہ نے ہی سب دنیا کو پیدا کیا ہے۔ بُتوں میں کچھ نہیں رکھا۔ انہیں چھوڑ دو اور توحید کا اقرار کرو۔ دنیا کا کوئی بھی معقول انسان اسے تسلیم نہیں کر سکتا بلکہ جس شخص کے سامنے یہ بات پیش کی جائے وہ ہنس پڑے گا کہ جیسی جاہلانہ بات کہی جا رہی ہے۔
(۲) دوسرے اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب نہیں دیا تو آپ نے عین ثواب کا کا م کیا اُن پر اعتراض کیسا؟ آپ بڑے بڑے رئوساء کو تبلیغ کر رہے تھے۔ اُن پر اسلام کی حقیقت واضح کر رہے تھے۔ اُن کو خدا اور اُس کے رسول کی طرف بُلا رہے تھے۔ ایسی حالت میں ایک شخص نے آپ کے کلام کو قطع کرنا چاہا اور موقع اور محل کو نظرانداز کر کے تہذیب وشائشتگی کے اصول کے بالکل خلاف ایک بات پیش کر دی تو اُس وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اگراس بات کا جواب نہیں دیا تو آپ نے بالکل درست کیا۔ قرآن کریم میں کوئی آیت ایسی نہیں جو ہمیں اس فعل سے روکتی ہو بلکہ آج ہماری مجلس میں کوئی ایسی حرکت کرے تو باوجود عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی والی آیت کے نازل ہونے کے ہم آج بھی اس سے وہی سلوک کریں گے جو عبداللہ بن ام مکتوم سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا۔ میں اگر قرآن کریم کا درس دے رہا ہوں اور کوئی شخص درمیان میں مجھے آکر کہے کہ اس درس کو چھوڑئیے اور میری فلاں بات کا جواب دیجئے۔ تو کیا میں اُس وقت درس چھوڑ دوں گا اور اس کی بات کی طرف متوجہ ہو جائوں گا۔یا اُس سے اعراض کروں گا کہ اُس نے موقع اور محل کو نظر انداز کر کے سلسلہ کلام کو قطع کرنا چاہا؟ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسے موقع پر اعراض کرنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ا گر درمیان میں کوئی شخص دخل دے دے تو اس سے بات کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ طبائع پر جو اثر ہو رہا ہوتا ہے وہ جاتا رہتا ہے۔ دلیل بھول جاتی ہے اور دخل دینے والے کی بدتہذیبی کا اثر پڑتا ہے۔ پس ایسی حالت میں ضروری ہوتا ہے کہ اس بات کی طرف توجہ نہ کی جائے۔ کیا کوئی شخص اس بات کو جائز قرار دے سکتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت پیش کر رہے ہوتے اور ابن مکتوم کے دخل دینے پر اُسے سورۂ نَازِعَات کا درس شروع کر دیتے اور جب گھنٹہ بھر گزر جاتا تو پھر اُن لوگوں سے کہتے کہ لواب بقیہ آدھی دلیل تم بھی سن لو؟ دنیامیں جاہل سے جاہل اور احمق سے احمق انسان بھی ایسی حرکت نہیں کرتا مگر یہ لوگ محض اس بات کی وجہ سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو موردِ الزام قرار دیتے ہیں۔ اور بتاتے ہیں کہ آپ کو تبلیغ چھوڑ کر ابن مکتوم کی طرف متوجہ ہو جانا چاہئیے تھا اور تہذیب وتمدن کے تمام اصول کو بالائے طاق رکھ دینا چاہئیے تھا۔ گویا یہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس کو ایک ایسا رنگ دینا چاہتے تھے جسے دنیا میں کہیں بھی معقول قرار نہیں دیا جاتا۔
(۳) تیسرے اندھے کی بات کو ناپسند کر کے اُس پر تیوری چڑھانا اور مُنہ پھیر لینا یہ تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعلیٰ درجہ کے اخلا ق کا ثبوت ہے۔ اس پر تو آپ کی تعریف ہونی چاہئیے تھی نہ یہ کہ توبیخ نازل ہوتی۔ ایک اندھا شخص آتا ہے وہ ایک غیرمعقول بات کرتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کو ڈانٹتے نہیں تا کہ اُس کا دل میلا نہ ہو صرف اُس کے بار بار دخل دینے کی وجہ سے آپ کے ماتھے پر شکن آجاتے ہیں لیکن پھر بھی آپ کوئی آپ کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلتے آپ چاہتے تھے کہ اُس کا دل نہ دُکھے مگر دُوسری طرف وہ ایسی بات کر رہا تھا جو سراسر غیر معقول تھی۔ ایسی حالت میں آپ حیران تھے کہ میں کیا کروں؟ ادھر میں بات کو نہیں چھوڑ سکتادوسری طرف اگر اس کو ڈانٹتا ہوں تو اس کا دل میلا ہوتاہے اب میں کیا کروں۔ ایسی حالت میں بہترین طریق جو ایک انسان اختیار کر سکتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ مُنہ پھیر لے اور اس طرح دونوں باتیں ہو جائیں سلسلہ کلام بھی نہ رُکے اور دوسرے شخص کے دل کو بھی صدمہ نہ پہنچے۔ چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ماتھے پر شکن پڑے اور آپ نے اُس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ مُنہ پھیرنے میں حکمت یہ تھی کہ آپ چاہتے تھے مجھے غصہ پیدا نہ ہواگر عبداللہ بن اُم مکتوم میرے سامنے ہو گاتو ممکن ہے غصہ کی حالت میں میرے مُنہ سے کوئی بات نکل جائے۔ چنانچہ آپ نے تیوری چڑھائی جس کو اندھا نہیںدیکھ سکتا تھا اور پھر اُس سے مُنہ پھیر لیا تاکہ اس کے متعلق زیادہ غصہ پیدا نہ ہو اور زبان سے کوئی ایسا لفظ نہ نکلے جس سے اُس کے دل کو صدمہ ہو پس آپ کا یہ فعل تو ایسا تھا کہ اس پر عرش سے خدا تعالیٰ کی طرف سے تعریف آنی چاہئیے تھی نہ یہ کہ ڈانٹ پڑتی؟ اور کہا جاتا کہ آپ نے اچھا کام نہیں کیا۔ پھر اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ طریق اختیار نہ کرتے تو مفسّرین کو بتانا چاہئیے تھا کہ آپؐ کیا کرتے اور وہ کون سا دوسرا قدم تھا جو آپ تمام اخلاقی پہلوئوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اٹھا سکتے تھے۔ مگر وہ کوئی دوسرا طریق نہیں بتا سکتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک بھی یہی طریق تھا جو اس موقعہ پر اختیار کیا جا سکتا تھا۔ اگر اس واقعہ سے کچھ پتہ چلتا ہے تو وہ یہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تیوری چڑھائی اور آپ کو ابن مکتوم کی بات بُری لگی لیکن آپ نے اُسے کوئی جواب نہ دیا۔ صرف زائد بات یہ کی کہ جب آپ نے دیکھا کہ وہ باز نہیں آتا تو آپ کو یہ خیال پیدا ہؤا کہ ایسا نہ ہواُسے اپنے سامنے بیٹھے دیکھ کر غصہ میں میرے منہ سے کوئی بات نکل جائے۔ آپ نے اس کی طرف اپنا مُنہ پھیر لیا تا کہ وہ نظر نہ آئے اور نہ اس کے متعلق طبیعت میں زیادہ جوش پیدا ہو اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر دلالت کرتی ہیں۔
(۴)چوتھے ابن اُم مکتوم خود ایک بڑے خاندان کے فرد تھے۔ اس لئے ان کو حقیر سمجھنے کے کوئی معنے نہیں۔ لیکن اگر فرض بھی کر لو کہ وہ حقیر تھے تو اُن کے متلعق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کی غربت کی وجہ سے ان کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ کیونکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غرباء کی طرف خاص طور پر توجہ کیا کرتے تھے اور کبھی کسی شخص کو محض اُس کے غریب ہونے یا اس کے ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے تحقیر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مکّہ کی زندگی میں آپ غلاموں کی تبلیغ کرتے اور بعض دفعہ گھنٹہ گھنٹہ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ اُن کے پاس کھڑے رہتے اور انہیں محبت اور پیار کے ساتھ اسلام کی باتیں پہنچاتے حالانکہ وہ نہایت ادنیٰ طبقہ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ دو عیسائی غلاموں کے متعلق تاریخ میں ذکر آتا ہے کہ وہ نہایت شوق سے انجیل پڑھا کرتے تھے جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کے اندر یہ مذہبی جو ش پایا تو آپ بہت خوش ہوئے اور آپ نے سمجھا کہ یہ لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا جائے ۔ چنانچہ آپ اُن کے پاس جاتے اور بڑی بڑی دیر تک اُن کے پاس بیٹھے رہتے وہ عیسائی غلام آہن گری کا کام کرتے تھے۔ لوہے کوٹتے جاتے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کے پاس کھڑے ہو کر انہیں تبلیغ کرتے رہتے۔ پس وہ شخص جو گلیوں میں ادنیٰ ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے پاس کھڑا ہو جاتا تھا۔ جو غلاموں کو کئی کئی گھنٹہ تبلیغ کرتا رہتا تھا۔ جو غریب اور معمولی طبقہ کے لوگوں سے ملنے میں اپنی کوئی ہتک محسوس نہیں کرتا تھا۔ اُس کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کی طرف محض اس لئے متوجہ نہ ہؤا کہ وہ غریب آدمی تھا۔ جو شخص غلاموں کے ساتھ برسرِ بازار گفتگو کرنے سے گھبراتا تھا اور جو شخص اُن کو تبلیغ کرنے میں اپنی کوئی ہتک محسوس نہیں کرتا تھا اُس کے لئے یہ شرم کی بات نہیں تھی کہ وہ ابن مکتوم سے بات کر لیتا بشرطیکہ اخلاق اس بات کی اجازت دیتے۔
(۵) پانچواں ردّ اس کا یہ ہے کہ اگر یہ توبیخ تھی اور اگر اس آیت کے ذریعہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نعوذباللہ ڈانٹا گیا تھا تو پھر چاہئیے تھا کہ آپ اپنے رویّہ کو بدل لیتے کیونکہ ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس واقعہ کے بعد ابن ام مکتوم کو بلایا اور اُسے کہا کہ بتائو تم مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہو تمہاری خاطر تو خدا نے مجھے ڈانٹا ہے۔ پس اگر یہ واقعہ درست ہے تو اس کے بعد لازمی طور پر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا سابق طریقِ عمل بدل لینا چاہئیے تھا اور آئندہ یہ دستورِعمل بنا لینا چاہئیے تھا کہ جب بھی کوئی شخص آپ کی بات میں دخل دیتا آپ فوراً اس کی طرف متوجہ ہو جاتے اور اپنے سلسلۂ کلام کو منقطع کر دیتے۔ مگر ہمیں تاریخ سے ایسے واقعات نظر آتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بعد میں بھی اپنا یہی طریق عمل رکھا۔ چنانچہ بخاری میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آیا حضور اُس وقت مجلس گفتگو فرما رہے تھے اُس نے آپ کے کلام میںدخل دیتے ہوئے ایک سوال کیا مگر آپ نے اُس کا جواب نہیں دیا اور اپنی بات میں مشغول رہے یہاں تک کہ صحابہ کہتے ہیں ہم نے سمجھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شاید خفا ہو گئے ہیں۔ جب آپ بات ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا کہ سائل کہاں ہے؟ اور پھر آپ نے اُس کے سوال کا جواب دیا (بخاری جلد اول کتاب العلم باب منْ سُئِلَ عِلْمًا وَھُوْ مُشْتَغِلٌ فِی حَدِیْثِہٖ فاتّم الحدیث ثم اجاب السائل) گویا وہ طریق جو ابن مکتوم کے واقعہ کے وقت آپ نے اختیار کیا تھا وہی طریق بعد میں بھی آپ نے جاری رکھا اور جب بھی کوئی شخص نے آپ کی گفتگو کے دوران میں دخل دے کر آپ سے کوئی سوال کرنا چاہا آپ نے کبھی اس کا جواب نہیں دیا جب تک اپنی بات کوختم نہیں کر لیا۔ اور یہ طریق وہ ہے جو نہ صرف مکّہ مکرمہ میں بلکہ مدینہ منورہ میں بھی آپ نے جاری رکھا۔ بلکہ جیسا کہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے آپ کا عام طریق ہی یہ تھا کہ جب تک بات ختم نہ کر لیتے کسی دوسرے شخص کے سوال کا جواب نہ دیتے اور یہی شرفاء کا طریق ہے۔ پس اگر واقعہ میں یہ توبیخ ہوتی تو پھر چاہئیے تھا کہ اِن آیات کے نزول کے بعد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس جب بھی کوئی شخص بات کرتا اور جس حالت میں کرتا آپ فوراً اس کا جواب دینا شروع کر دیتے اور سمجھتے کی میں اُس غلطی کا اعادہ نہ کروں جو ایک دفعہ مجھ سے ہو چکی ہے۔ لیکن آپ نے کبھی اپنے طریق کو نہیں بدلا۔ اور جب آپ نے وہی رویّہ رکھا جو ابن مکتوم کے واقعہ کے وقت تھا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ توبیخ کس بات پر تھی اور کس بات سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو روکا گیا تھا؟ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عمل تو ثابت کررہا ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخر تک عَبَسَ وَتَوَلّٰی والی بات پر ہی عمل کیا اور جب بھی کوئی شخص آپ کی بات میں دخل دیتا آپ اُسے پسند نہ فرماتے۔ کیونکہ تداخل سے تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ اثر جاتا رہتا ہے۔ بات پوری نہیں ہوتی اور مضمون کے کئی پہلو ذہن سے نکل جاتے ہیں۔ پس اگر اس واقعہ کو درست تسلیم کیا جائے تو اس کے معنے ہوں گے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نعوذ باللہ ڈانٹ بھی پڑی مگر پھر بھی آپ نہ مانے۔
میں اِن دلائل کے بیان کرنے سے پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ عبداللہ بن ام مکتوم کے حالات بتاتے ہیں کہ وہ کوئی ذلیل یا حقیر آدمی نہیں تھے۔ بیشک وہ اندھے تھے لیکن آخر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خاندان میں سے تھے حضرت خدیجہؓ کے ماموں زاد بھائی تھے اور باپ اور ماں کی طرف سے بھی مشہور خاندانوں میں سے تھے۔ اس خاندانی اثر کیو جہ سے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت خدیجہؓ کے تعلقات کی وجہ سے اُنہیں آپ کا مقرب ہونا چاہئیے تھا اور جیسا کہ واقعات ثابت کرتے ہیں وہ آپ کے مقرب ہی تھے۔ چنانچہ بعد میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انہیں دو دفعہ اپنے بعد مدینہ کا امیر کرنا اسی بات کا ثبوت ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دل میں ان کا احترام پایا جاتا تھا اور آپ اُن کے خاندانی اثر کے قائل تھے۔ پس یہ دلیل بھی اس واقعہ کے غلط ہونے کا ایک بیّن ثبوت ہے۔
میرے نزدیک ان آیات میں ہی خدا تعالیٰ نے ایک حل رکھ دیا ہے جس کی طرف مفسّرین نے توجہ نہیں کی۔ اُن کا ذہن ادھر گیا ہے مگر وہ اس کی اَور توجیہیں کرتے رہے ہیں۔ اور وہ حل یہ ہے کہ ان آیات کی بناوٹ اور ان کی ترتیب پر ہمیں غور کرنا چاہئیے۔ یہ آیات اس طرح ہیں عَبَسَ وَتَوََلّٰٓی اَنْ جَآئَ ہُ الْعَمٰی۔ وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَکّٰٓی۔ اَوْیَذَّکَّرُ فَنَنْفَعَہٗ الذِّکْرٰی۔ اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی۔ فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی۔ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی وَاَمَّا مَنْ جَآئَکَ یَسْعٰی۔ وَھُوَیَخْشٰی۔ فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی۔ اِن آیات عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی اَنْ جَآئَ ہُ الْعَمٰی۔تین غائب کے صیغے ہیں۔ یعنی کسی نے عَبُوْس اختیار کیا۔ کسی نے تَوََلّٰٓی کی اور کسی کے پاس اَعْمٰی آیا۔ لیکن آگے فرماتا ہے وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی تجھ کو کس نے بتایا کہ اس کے متعلق یہ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ تزکیہ حاصل کر لے گا۔ یہاں غائب کی بجائے مخاطب کا صیغہ آگیا۔ اسی طرح اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی۔ فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی۔ میں مخاطب کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے گویا یہاں کچھ غائب کے صیغے ہیں اور کچھ مخاطب کے صیغے ہیں ان غائب اور مخاطب کے صیغوں کے متعلق چار ہی صورتیں ہیں۔ (۱) یا تو ہم غائب اور مخاطب دونوں کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق سمجھیں۔ یعنی یا تو ہم یہ سمجھیں کہ عَبَسَ بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہے اور مَایُدْرِیْکَ بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہے اور یا ہم یہ سمجھیں کہ عَبَسَ بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علاوہ کسی اور کے متلعق ہے اور مَایُدْرِیْکَ بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علاوہ کسی اور کے متعلق ہے (۳) اور یا پھر ہم یہ سمجھیں کہ عَبَسَ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہے اور مَا یُدْرِیْکَکسی اور کے متعلق ہے اور مَایُدْرٖیْکَ کسی اور کے متعلق ہے (۴)اور یا پھر ہم یہ سمجھیں کہ عَبَسَ کسی اور کے متعلق ہے اور مَایُدْرِیْکَ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہے۔ یہ چار صورتیں ہیں جو بن سکتی ہیں اور ہمیں یہ تعیین کرنا ہے کہ اِن چاروں میں سے اصل بات کیا ہے۔ پہلے ہم اس بات کو لے لیتے ہیں کہ یہاں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر ہی نہیں اور مَایُدْرِیْکَ بھی غیر سے تعلق رکھتا ہے مگر اس طرح چونکہ آیات کے معنے بالکل غیر معقول ہو جاتے ہیں اس لئے ہمیں ان می پڑنے کی ضرورت نہیں۔ روایات نہایت تواتر سے ابنِ مکتوم کا قصہ بیان کرتی ہیں اور جس قصہ کو اِتنے تواتر اور تکرار کے ساتھ مختلف کتب میں بیان کیا جائے وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ بہرحال ماننا پڑتا ہے کہ کوئی واقعہ ہؤا ضرور ہے۔ اگر ہم عَبَسَ اور مَایُدْرِیْکَ دونوں کسی غیر کے متعلق قرار دیں تو اسے قصّہ کو سرے سے جھوٹا کہنا پڑتا ہے اور یہ بات بظاہر ناممکن ہے۔ ہم احادیث اور تاریخ دونوں میں اس واقعہ کا تکرار کے ساتھ ذکر پاتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عَبَسَ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق نہیں بلکہ کسی اور کے متعلق ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم عَبَسَ بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق سمجھ لیتے ہیں اور مَایُدْرِیْکَ میں بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب سمجھ لیتے ہیں۔ مگر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ضمائر کو کیوں بدلا۔ پہلے اُس نے عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی کیوں کہا اور پھر اُس نے مَایُدْرِیْکَ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کیوں مخاطب کیا؟ مفسّرین اس موقعہ پر بیان کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے عَبَسَ وَتَوََلّٰٓی میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا لحاظ کر کے غائب کے صیغے استعمال فرمائے اگر مخاطب کے صیغے استعمال کئے جاتے ہیں تو آپ کو زیادہ تکلیف ہوتی اس لئے خدا تعالیٰ نے یہ خیال کر کے کہ آپ کو بُرا نہ لگے عَبَسْتَ وَتَوَلَّیْتَ اَنْ جَآئَ کَ الْاَعْمٰی نہیں فرمایا بلکہ عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی اَنْ جَآئَ ہُ الْعَمٰی فرمایا۔ پھر ذرا اعتاب کم ہو گیا تو مَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی سے آپ کو خطاب شروع کر دیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اگلی آیتوں میں عتاب زیادہ ہے کم نہیں ہے۔ اور عَبَسَ وَتَوََلّٰٓی میں تو عتاب ہے ہی نہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایک اندھے کے سامنے عَبُوْس اور تَوََلّٰٓی سے کام لینا ہر گز کوئی ایسا فعل نہیں ہے جس سے اس کی دلآزاری ہو اور نہ یہ فعل ایسا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عتاب نازل ہونے کا امکان ہو۔ بلکہ یہ تو آپ کے اعلیٰ اخلاق کا ایک ثبوت تھا۔ پس یہ عجیب بات ہے کہ جہاں عتاب نہیں تھا وہاں اُس نے غائب کے صیغے استعمال کئے اور جہاں بہت زیادہ عتاب تھا وہاں اُس نے مخاطب کے صیغے استعمال کرنے شروع کر دئے۔ آخر یہ کتنے سخت الفاظ ہیں کہ اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی۔ فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی۔ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی وَاَمَّا مَنْ جَآئَکَ یَسْعٰی۔ وَھُوَیَخْشٰی۔ فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی۔ کہ جوشخص مستغنی ہے تو اُس کی طرف پوری توجہ دیتا ہے حالانکہ تجھ پر کوئی اعتراض نہیں اگر وہ پاک نہ ہو اور جو تیری طرف دوڑتا آتا ہے اور وہ ڈرتا بھی ہے تُو اس سے بے رغبتی ظاہر کرتا ہے۔ کیا یہ عبوس اور تولّی سے کم خطرناک الفاظ ہیں؟ پس جہاں واقعہ میں توبیخ کا موقع تھا وہاں تو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کے صیغے استعمال کر دئے جہاں توبیخ کا کوئی موقع ہی نہیں تھا بلکہ تعریف کا موقع تھا وہاں اس نے وہاں اس نے غائب کے صیغے رکھ دئے۔ گویا تعریف کو تو نظر انداز کر دیا اور توبیخ کے پہلو کو نمایاں کر دیا۔ پس یہ توجیہہ جو مفسّرین کی طرف سے کی جاتی ہے بالکل غلط ہے اور ان کے معنوں کو تسلیم کرتے ہوئے ضمائر کے بدلنے کی کوئی وجہ نہیں نظر آتی۔
اب وہی صورتیں رہ جاتی ہیں جن میں سے پہلی یہ ہے کہ عَبَسَ وَتَوَلّٰی ہم کسی غیر کے متعلق سمجھیں اور مَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَکّٰی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق قرار دیں۔ مگر اس صورت میں جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ ہمیں اس واقعہ کا انکار کرنا پڑتا ہے جو ابن مکتوم کے متعلق احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ واقع ایسا ہے جس کا اس قدر شہادت کے بعد کسی صورت میں بھی انکار نہیں کیا جا سکتا متواتر تاریخ کی کتابوں میں اس واقعہ کو دہرایا گیا ہے اور صحاح ستہ کی بعض کتب میں بھی یہ واقع پایا جاتا ہے (ترمذی ابواب التفسیر) پس اگر ہم عَبَسَ وَتَوَلّٰی کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق نہ سمجھیں تو ایک بہت بڑے تاریخی واقعہ کو غلط قرار دینا پڑتا ہے۔ حالانکہ تاریخی ثبوت اُس وقت ردّ نہیں کیا جا سکتا جب تک کوئی ویسا ہی اہم ثبوت اس کی تردید نہ کر دے۔ اب صرف چوتھی صورت ہی رہ جاتی ہے کہ عَبَسَ وَتَوَلّٰی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق سمجھیں اور مَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی کا خطاب کسی اور سے قرار دیں۔ اور میرے نزدیک یہی صورت ایسی ہے جس سے اس مشکل کا حل ہو سکتا ہے اس طرح قصّہ پر جوز پڑتی ہے وہ دُور ہو جاتی ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقام پر بھی کوئی اعتراض واقع نہیں ہو سکتا۔ پس میرے نزدیک عَبسَ وَتَوَلّٰی رسول کریم کے متعلق ہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ابن مکتوم کا واقعہ بالکل صحیح ہے کیونکہ تواتر اور تکرار سے یہ واقعہ مختلف کتب میں بیان کیا گیا ہے اور ہم بغیر کسی قطعی اور یقینی ثبوت کے جو تاریخی شہادت بھی اپنے اندر رکھتا ہو اس واقعہ کو ردّ نہیں کر سکتے۔ بہرحال ابن مکتوم آئے اور اُس وقت آئے جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کفار مکّہ کے بڑے بڑے رئوسا کو تبلیغ کر رہے تھے۔ اُنہیں یہ دیکھ کر جوش پیدا ہؤا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اِن کفار پر اپنے قیمتی وقت کو کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ دنیا میں مختلف طبائع ہوتی ہیں اور وہ اپنے اپنے رنگ میں خیالات کا اظہار کر دیتی ہیں۔ میں نے احمدیوں میں بھی دیکھا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جب اُنہیں معلوم ہو کہ کسی شدید دشمن کو تبلیغ کی جا رہی ہو تو وہ اُس وقت برداشت نہیں کر سکتے۔ اور وہ کہتے ہیں جانے بھی دو یہ مُردہ لوگ ہیں یہ مُنہ لگانے کے قابل نہیں یہ تو دوزخ کی آگ میں جلنے والے ہیں ان پر اپنا وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ گویا دشمن کو دیکھ کر اُس کی طبیعت میں ایسا جوش پیدا ہوتا ہے کہ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ اُن سے باتیں کی جا رہی ہیں۔ اُن کا نقطۂ نگاہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ تو جہنم کا ایندھن ہیں اِسی مخالفت کی حالت میں مریں گے اور خدا کے غضب کے مستحق ہوں گے انہیں تبلیغ کرنا۔ خدا اور اس کے رسول کی باتیں سمجھانا اپنے وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عبداللہ بن ام مکتوم کی طبیعت بھی ایسی ہی ہو گی۔ جب وہ وہاں پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عتبہ اور شیبہ اور ابو جہل اور امیہ اور ولید وغیرہ کو تبلیغ کر رہے ہیں تو اُن کا جوش بھڑک اٹھا اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہؤا کہ یہ خبیث دشمن جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دن رات گالیاں دینے والے ہیں آپ کی مجلس میں آ کر کیوں بیٹھے ہیں یہ تو جہنم کی آگ کے مورد ہیں ان کا خدا اور اس کے رسول کی باتوں سے کیا تعلق ہے اور ان پر اپنے وقت کو ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ اُ ن کے دل کے خیالات تھے اور انہی کے خیالات کے نتیجہ میں انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتوں میں دخل دینا شروع کر دیا کہ یا رسول اللہ! آپ عتبہ اور شیبہ اور ابوجہل وغیرہ کو اسلام کی باتیں کیوں بتا رہے ہیں اَقْرِئْنِیْ وَعَلِّمْنِیْ مِمَّا عَلَّمَکَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔ ان کو دفع کریں اور میری طرف آپ توجہ کریں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُن کا اس طرح دخل دینا سخت ناگوار گزرا کہ باہر سے مہمان آئے ہوئے ہیں میں اُن سے گفتگو کر رہا ہوں اور میرا ہی ایک مرید حد سے تجاوز ہوتا جا رہا ہے اور ایسا رویّہ اختیار کر رہا ہے جو ان مہمانوں کی دلآزاری اور دلشکنی کا موجب ہے۔ اور گو انہوں نے اس وقت کافر کو گالی نہیں دی مگر بہرحال جب انہوں نے کہہ دیا کہ آپ میری طرف توجہ کریں تو اس کے معنے یہ تھے کہ ان لوگوں کو دفع کریں یہ تو اسلام کے شدید دشمن ہیں انہوں نے اسلام کے احکام کو کہاں ماننا ہے۔ مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سمجھتے تھے کہ یہ لوگ خواہ مانیں یا نہ مانیں میرا فرض ہے کہ میں ان کے کا نوں تک تمام باتیں پہنچا دُوں اور خدا کے حضور بری الزمہ ہو جائوں۔ غرض عبداللہ بن ام مکتوم نے اپنے جوش میں ایک ایسی حرکت کی جو عقل اور تہذیب کے بالکل خلاف تھی۔ جب رسول کریم ان کو تبلیغ کر رہے تھے تو اُن کا کوئی حق نہیں نہیں تھا کہ وہ یہ سمجھ لیتے کہ ان کو تبلیغ بے فائدہ ہے آپ کو چاہئیے کہ اُن کو چھوڑ کر میری طرف توجہ کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ بعد میں واقع میں جہنمی ہی ثابت ہوئے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان نہیں لائے مگر اُس وقت تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہی فرض تھا کہ آپ آنیوالے مہمانوں کی عزت کریں۔ اور ان کی طرف توجہ کریں اور اُن سے عزت واحترام کے ساتھ باتیں کریں۔ لیکن عبداللہ بن اُم مکتوم کے دل میں خدا تعالیٰ کے احکام کا وہ ادب نہیں ہو سکتا تھا جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دل میں تھا۔ اور نہ اُن کو اکرامِ ضعیف کا اس قدر احساس ہو سکتا تھا جتنا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس کا احساس تھا خصوصًا اندھے میں تو یہ احساس بہت کم ہوتا ہے چونکہ اسے کچھ نظر نہیں آتا اس لئے دوسروں کو بھی کھری کھری سُنا دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں کہ اگر کھری کھری بات سُننی ہوں تو کسی اندھے سے جا کر سُن لو۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ چونکہ اندھے کو نظر نہیں آتا اس لئے اُسے بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی۔ کہ لوگوں پر اس کا کیا اثر ہو رہا ہے۔ غرض عبداللہ بن مکتوم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں آئے اور جب انہوں نے دیکھا کہ آپ اشد ترین دشمن کفار کو تبلیغ کر رہے ہیں تو اُن کی طبعیت میں سخت جوش پیدا ہؤا اور سول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور اُن سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ تم یہاں سے نکلو تمہارا یہاں کیا کام؟ آخر انہوں نے سوچ کر یہی کہنا شروع کر دیا کہ یارسول اللہ! اَقْرِئْنِیْ وَعَلِّمْنِیْ مِمَّا عَلَّمَکَ اللّٰہُ تَعَالی اور اس کو بار بار دُہرایا اُن کی یہ بات رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پسند نہ آئی۔ دوسری طرف آپ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ اُن کا دل ٹوٹے اس لئے اُس وقت آپ نے عبوس اور تولّی سے کام لیا۔ آپ نے خیال فرمایا کہ آخر کہ کفار کے رئوسا کیا کہیں گے کہ یہ مسلمان ایسے تہذیب سے ناآشنا ہیں کہ آداب مجلس کا بھی خیال نہیں رکھتے اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کوئی شخص اُن کے پاس اُن کی باتیں سُننے کے لئے آیا ہؤا ہے۔ خواہ وہ منافقت سے آئے تھے۔ خواہ دل میں وہ آپ کی باتوں کو جھوٹا ہی کہتے جاتے تھے مگر چونکہ وہ ظاہر یہ کرتے تھے کہ ہم اسلام کی باتیں سننے کے لئے آئے ہیں اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سمجھتے تھے کہ ان کو تبلیغ کرنا ضروری ہے اس لئے آپ نے ابن اُم مکتوم کی دخل اندازی پر عبوس کیا اور تولّی کی۔ اس واقعہ کی طرف ان آیا ت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَبَسَ وَتَوَلّٰی ہمارے رسول نے عبوس کیا اور تولّٰی کی۔ اَنْ جَآئَ ہُ الْاَعْمٰی اس موقع پر آپ کے پاس ایک اندھا آیا۔ اَلْاَعْمٰی کا لفظ بھی بتلاتا ہے کہ یہاںکسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اَلْاَعْمٰی سے کوئی خاص اندھا مراد ہے۔ اگر اس جگہ اندھے کی تعریف کرنے کا موقع ہوتا اور یہ کہنا ہوتا کہ اُس اندھے کی طرف کیوں توجہ نہیں کی گئی یا اُس اندھے نے جو فعل کیا تھا وہ بڑا قابل تعریف تھا تو بجائے اَلْاَعْمٰی کہنے کے اس کا نام لیا جاتا اور کہا جاتا کہ فلاں شخص آیا مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عبوس اور تولّٰی سے کام لیا۔ لیکن اس جگہ چونکہ زد ایک اندھے پر پڑتی تھی اس لئے اس کا نام نہیں لیا گیا اور اَلْاَعْمٰی کہہ کر اشارہ کر دیا کہ یہاں ایک خاص واقعہ کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے اَلْاَعْمٰی کے ساتھ اَلْ لگا دیا۔ اللہ تعالیٰ کا اَلْاَعْمٰی کہنا بتا رہا ہے کہ اس واقعہ کی زد میں اُس اعمیٰ پر ہی پڑتی تھی تبھی اُس کا نام نہیں لیا گیا۔ ورنہ اگر یہ تعریف کا موقع ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور نام لیتا۔ اور کہتا کہ عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی اَنْ جَآئَ ہُ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا۔ اِدھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق صرف عَبَسَ وَتَوَلّٰی کے الفاظ رکھ دئے کیونکہ ان دونوں میں آپ کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی تعریف کی گئی ہے۔
میرے نزدیک واقعہ یہ ہے کہ عبداللہ بن اُمّ مکتوم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں آئے اور انہوں نے ایسے رنگ میں سوال کیا جو دوسروں کی دلشکنی کا باعث تھا اور پھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلام بھی قطع ہوتا تھا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن پر اپنی ناراضگی کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔ صرف اتنا ہؤا کہ آپ نے ماتھے پر تیوری چڑھائی۔ اور اُس کی طرف سے مُنہ پھیر لیا اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جن کو ایک اندھا شخص دیکھ نہیں سکتا جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی باتیں جاری رکھیں اور عبداللہ بن اُم مکتوم کی طرف کوئی توجہ نہ کی تو وہ غُصّہ میں اُٹھ کر چلے گئے۔ ممکن انہوں نے بعض اور لوگوں کے پاس بھی اس بات کو بیان کیا ہو اور ممکن ہے جن کے پاس انہوں نے اس واقعہ کا ذکر کیا ہو ان کی طبیعت بھی اسی قسم کی جوش والی ہو اور ان کے دل میں خیال پیدا ہؤا ہو کہ یہ بات اچھی نہیں ہوئی۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہماری طرف توجہ کرنی چاہئیے یہ خبیث دشمن کون ہیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں آکر بیٹھ جاتے ہیں اور آپ کے وقت کو ضائع کرتے ہیں۔ پس عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر کیا گیا ہے اور مَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی میں عبداللہ بن ام مکتوم کی طرح کے خیالات رکھنے والے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے اس رسول نے ایک اندھے کے بیجا دخل دینے پر عبوست کی اور بڑے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے ثبوت دیا اور ہمارے رسول نے صرف تولّٰی کی اور بڑے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا ثبوت دیا تا کہ غصّہ اور ناراضگی کی حالت میں بات بڑھ نہ جائے۔ ٭
وَمَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ
اور (اے رسول) کون سی بات تجھے(اس پر)آگاہ کر سکتی ہے کہ وہ ضرور پاک ہو جائے گا یا (موجبات عبرت کو) یاد کرے گا تو (یہ) یاد کرنا اُسے نفع بخش دے گا۔ ۳؎٭
۳؎ حل لغات
مَایُدْرِیْکَ:۔ یُدْرِیْکَ یُدْرِیْ اور ک سے مرکب ہے۔ یُدْرِیْ اَدْرِیْ کا مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور کاف ضمیر کا ہے۔ اَدْرٰی کے معنے ہیں اَعْلَمَہُ۔ اُس کو بتایا (اقرب) یُدْرِیْکَ کے معنے ہوں گے اس نے تجھ کو بتایا ہے؟ نیز عرب لوگ جب کہتے ہیں مَایُدْرِیْکَ تو بسا اوقات مراد یہ ہوتی ہے کہ مَاتَدْرِیْ یعنی تو نہیں جانتا۔ تجھے اس کا علم نہیں؟
یَزَّکّٰی اصل میں یَتَزَّکّٰی ہے تاء کا زاء میں ادغام کر دیا گیا اور یَتَزَّکّٰی سے یَزَّکّٰی ہو گیا۔ تَزَکّٰی فُلَانٌ کے معنے ہوتے ہیں۔ صَارَزَکِیًا وہ پاک ہو گیا (اقرب) اور یَتَزَکّٰی کے معنے ہوں گے۔ وہ پاک ہو جاتا ہے۔ اور لَعَلّہٗ یَتَزَّکّٰی کے معنے ہوں گے اُس کے لئے ممکن ہے کہ وہ ہدایت پا جائے۔
یَذَّکَّرُ:۔ یَذَکَّرُ اصل میں یَتَذَکَّرُ ہے۔ تَاء کو ذال میں ادغام کر دیا
گیا۔ اور یَذَکَّرُ ہو گیا۔ یَتَذَکَّرُ تَذَکَّرَ سے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور تَذَکَّرُ الشَّیْئَ کے معنے ہیں حَفِظَہُ ذِھْنِہٖ کسی چیز کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا۔ اور جب تَذَکَّرَ مَا کَانَ قَدْ نَسِیَ کہیں تو معنے ہوں گے فَطِنَ بِہٖ کسی بھولی ہوئی بات کو یاد کر لیا۔ (اقرب) پس یَتَذَکَّرُ کے معنے ہوں گے۔ کسی نصیحت والی بات کو ذہن میں وہ مخفوظ کر لے (۲) یا کسی نصیحت والی بُھولی ہوئی بات کو یاد کر لے۔
تفسیر
اس آیت کے صاف معنے یہ ہیں کہ تجھ کو کس نے بتایا کہ وہ شخص ہدایت پا جاتا۔ مگر مفسّرین اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ تجھ کو کس نے بتایا کہ وہ ہدایت نہ پاتا۔ پھر وہ کہتے ہیں مَایُدْرِیْکَ الگ جملہ ہے اور لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی الگ جملہ ہے۔ گویا اس کے معنے وہ اس رنگ میں کرتے ہیں کہ مَایُدْرِیْکَ تجھے کس نے بتایا کہ وہ ہدایت نہ پاتا لَعَلّہٗ یَزَّکّٰی شاید وہ ہدایت پا جاتا۔ حالانکہ اس آیت کے صاف معنے یہ ہیں کہ تجھے کس نے بتایا کہ وہ شخص ضرور فائدہ اٹھاتا۔ یہاں یُدْرِیْکَ سے مراد وہ خیال ہو گا جو بعض مسلمانوں کے دل میں اُس وقت پیدا ہؤا یا ہو سکتا تھا۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے معترض تجھے کس نے بتایا ہے کہ اگر عبداللہ بن ام مکتوم کی طرف توجہ کی جاتی تو وہ ضرور فائدہ اٹھاتا۔ آخر لوگ مرتد ہو بھی ہو جاتے ہیں اور باوجود ایمان کے بڑے بڑے دعووں کے اُن پر بعض دفعہ ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب اُن کی تمام کوششیں ایمان کے خلاف صرف ہونے لگ جاتی ہیں۔ پس جب حالت یہ ہے اور تغیّرات کے مختلف دور آتے رہتے ہیں تو تمہارے پاس کون سا ذریعہ ایسا ہے جس سے تمہیںپتہ لگ گیا کہ فلاں شخص کی طرف توجہ کرنا زیادہ مفید تھا۔ انبیاء کا مقام بیشک ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ کسی شخص سے کوئی بات کہیں تو خواہ وہ کیسے ہی اہم کام میں مشغول ہو اور خواہ اس کو ترک کرنا کتنا ہی تکلیف دِہ ہو اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو ترک کر دے اور نبی کی بات سننے کی طرف متوجہ ہو جائے اور درحقیقت یہی ایمان کی علامت ہے خدا کے رسول کی آواز کے بعد کسی انسان کا کوئی حق نہیں رہتا کہ وہ دوسرے امور کی طرف متوجہ رہے۔ پس مقامِ نبوت رکھنے والا انسان یا اُس کا نائب اگر کسی شخص کو اپنی طرف متوجہ کرے اور وہ شخص مثلاً اُس وقت کسی کو تبلیغ کر رہا ہو تو خواہ قطع کلامی کو لوگ بدتہذیبی سمجھیں اس کا فرض ہو گا کہ وہ تبلیغ کو بند کر دے اور خدا کے رسول اور اس کے نائب کی بات سننے کی طرف متوجہ ہو جائیج۔ اگر ابن ام مکتوم تبلیغ کر رہے ہوتے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کو بلاتے تو اُن کا فرض تھا کہ وہ تبلیغ کو چھوڑ دیتے اور اس کی پرواہ نہ کرتے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو اس کی تہذیب کے خلاف سمجھا جائے گا۔ مگر عبداللہ بن ام مکتوم کو یہ مقام حاصل نہیں تھا کہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو وہ اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تو آپ اُس کی طرف ضرور متوجہ ہوجاتے اور دوسروں کو تبلیغ چھوڑ دیتے۔ یہ بھی ایک قیاس تھا کہ اگر کفار کی طرف توجہ کی گئی تو ان کو فائدہ نہ ہوگا۔ اور یہ بھی ایک قیاس تھا کہ اگر عبداللہ بن ام مکتوم کی طرف توجہ کی جاتی تو اُسے فائدہ ہوتا۔ قطعی اور یقینی بات نہیںتھی اور جب یہ دونوں قیاسی باتیں تھیں تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرض تھا کہ اخلاق جس بات کی تائید میں تھے اس کو اختیار کرتے اور جس بات کی اخلاق اجازت نہیں دیتے اس کی طرف توجہ نہ کرتے اسی وجہ سے عبداللہ بن ام مکتوم کی طرف تو توجہ نہ کی اور کفار کی طرف ہی تمام توجہ رکھی۔ پس مَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی میں یہ بتایا گیا ہے کہ اے معترض تُو جو کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے غلطی کی تجھے کس نے بتایا ہے کہ اُم مکتوم کے لئے تزکیہ حاصل کرنا ممکن تھا دوسرے کے لئے نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اُس نے بعد میں تزکیہ حاصل کر لیا مگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کیا پتہ تھا کہ کل اس کا کیا انجام ہو گا اور یہ ہدایت پر قائم رہے گا یا نہیں۔ بہرحال جب خدا نے کہا ہے کہ جو شخص تمہارے گھر میں آئے تم اس کا احترا م کرو اور جب خدا نے یہ کہا ہے کہ جو بات مقدم ہو اُس کو مقدم رکھو اور جو مؤخر ہو اس کو مؤخر رکھو تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقدم کو مؤخر اور مؤخر کو مقدم کس طرح کر سکتے تھے؟ اور کس طرح فیصلہ کر سکتے تھے کہ عبداللہ بن ام مکتوم کی طرف اگر توجہ کی گئی تو وہ ضرور پاک ہو جائے گا۔ یَتَذَکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرِیٰ یا یہ بھی کس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معلوم ہو سکتا تھا کہ اگر اُسے کچھ نصیحت کی باتیں بتائی گئیں تو وہ اُن سے فائدہ اٹھا لے گا؟ ممکن ہے کوئی شخص کہہ دیتا کہ اگر زیادہ نہ سہی تو عبداللہ بن ام مکتوم کچھ تو فائدہ اٹھا لیتے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں اس بات کا بھی کیا علم ہو سکتا ہے کہ وہ فائدہ اٹھاتا یا نہ اٹھاتا؟ یہ بھی ایک الگ قیاس ہے اور وہ بھی ایک قیاس ہے۔ اور جب دو قیاس جمع ہو گئے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُس قیاس کو ترجیح دے دی جس کے ترجیح دینے سے اکرامِ ضیعف میں بھی کوئی نقص واقع نہیں ہو سکتا تھا۔ اور خدا تعالیٰ کا یہ قانون بھی پورا ہو جاتا تھا کہ مقدم کو مقدم اور مؤخر کو مؤخر کر رکھو۔
اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰے
(کیا) جو شخص (حق سے) بے پرواہی کرتا ہے۔ (اس کی طرف) تو تُو خوب توجہ کرتا ہے؟ حالانکہ تجھ پر ل(اس وجہ سے) کوئی الزام نہیں کہ وہ پاک نہ ہو گا۔ ۴؎
۴؎حل لغات
اِسْتَغْنٰی غَنِیَ سے باب استفعال ہے۔ غَنِیَ غِنًا کے معنے ہوتے ہیں۔ وہ مالدار ہو گیا۔ اور اِسْتَغْنٰی کے معنے ہوں گے۔ اُس نے چاہا کہ وہ مالدار ہو جائے۔ نیز اِسْتَغْنٰی عَنْہُ بِہٖ کے معنے ہوتے ہیں اِکْتَفٰی اُس نے ایک چیز کے مل جانے سے دوسری سے لاپرواہی کی (اقرب) پس اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی کے معنے ہوں گے وہ جو مال کا طالب ہے (۲) وہ جو لاپرواہی کرتا ہے۔
تَصَدّٰی لَہٗ اصل میں تَتَصَدّٰی ہے جو تَصَدّٰی کا مضارع ہے۔ تَصَدّٰی لَہٗ کے معنے ہیں تَعَرَّضَ وَھُوَالَّذِیْ یَسْتَشْرِفُہٗ نَاظِرًااِلَیْہِ۔ کسی چیز کے سامنے آیا۔ اور شوق سے اسکو دیکھا۔ اور تَصَدّٰی لِلْاَمْرِ کہیں تو اس کے معنے ہوں گے رَفَعَ رَاْسَہُ اِلَیْہِ اپنا سر اس کی طرف توجہ کے لئے اٹھایا (اقرب) پس تَصَدّٰی کے معنے ہوں گے۔ تُو اس کے سامنے آتا ہے (۲) تُو اس کی طرف توجہ دیتا ہے۔
تفسیر
یہاں عام انسانوں کی حالت بیان کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرنے والوں کا اپنا حال بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ بڑے لوگوں کی طرف تو توجہ کرتے ہیں لیکن چھوٹے درجہ کے آدمیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گویا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرنے والوں کو ان کی اپنی حالت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اے معترض! تو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ کہتا ہے کہ جو مستغنی ہوتا ہے اس کی طرف وہ زیادہ توجہ کرتے ہیں اور جو غریب اور معمولی درجہ کا آدمی ہوتا ہے اس کی طرف وہ کوئی توجہ نہیں کرتے۔ حالانکہ اے معترض تُو جو کچھ کہہ رہا ہے یہ تیری اپنی حالت ہے اور تیرا ذاتی رویّہ واقعہ میں ایسا ہی ہے کہ تو اُمراء کی طرف توجہ کرتا ہے اور غرباء کو نظر انداز کر دیتا ہے مگر تُو اپنی اس حالت کو محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے اور جو الزام خود تجھ پر عائد ہوتا ہے وہ تُو محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر لگا رہا ہے۔ تُو اپنے حالات پر غور کر اور دیکھ کہ کیا یہ سچ نہیں کہ اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی جو شخص امیر ہوتا ہے تیری ساری توجہ کا وہ مرکز بن جاتا ہے تَصَدّٰی دراصل تَتَصَدّٰی ہے وَمَا عَلَیْکَ اَلَّایَّذَّکّٰی حالانکہ تجھ پر اس بات کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ کون شخص ہدایت پاتا ہے اور کون نہیں پاتا۔ تمہیں خدا تعالیٰ کے قانون کا احترام مدنظر رکھنا چاہئیے اور جو کچھ خدا کہے کہ کافر سے بات کرو دتو تم کافر سے بات کرو۔ مگر تم عمدًااور ارادتًا اُنہی کی طرف توجہ کرتے ہو جو امراء میں شامل ہوتے ہیں حالانکہ یہ صرف خدا کو ہی پتہ ہے کہ کس نے نَازِعَات میں سے بننا ہے اور کس نے نَاشِطَات میں سے بننا ہے۔ تمہارا کام یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقرّرہ قوائد ہیں اُن پر عمل کرو۔ خدا تعالیٰ نے اکرام ضیعف کا حکم دیا ہے تم اکرامِ ضیعف کو ملحوظ رکھو۔ خدا تعالیٰ مقدم کو مقدم اور مؤخر کو مؤخر رکھنے کا حکم دیا ہے تمہارا ہے کہ تم بھی ایسا ہی کرو اور بات کو نظر انداز نہ کر دو کہ فلاں امیر ہے ور فلاں غریب۔ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم امراء کی طرف توجہ رکھتے ہو اور پھر کہتے یہ ہو کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایسا کرتے تھے حالانکہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تو جو کچھ کیا خدائی منشاء کے مطابق کیا۔ اس کے احکام کو انہوں نے ملحوظ رکھا۔ اس کے اوامر کو انہوں نے تسلیم کیا اور اُس کے قوانین کو نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ مگر تم بجائے اپنی حالت پر غور کرنے کے یہ نقص محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کر رہے ہو۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کیا بالکل بجا اور درست کیا۔
۵؎ حل لغات
یَسْعٰی سَعٰی سے مضارع کا صیغہ ہے اور سَعٰی کے معنے ہیںتَصَدَ اُس نے ارادہ کیا۔ اور جب سَعٰی الرَّجُلُ کہیں تو معنے ہوں گے مَشَی وَعَدَا یعنی وہ دوڑ کر چلا (اقرب) پس یَسْعٰی کے معنے ہوں گے وُہ دوڑ کر آتا ہے (۲)وہ قصد کرتا ہے۔
تَلَھّٰی اصل میں تَتَلَھّٰی سے مضارع ہے اور تَتَلَھّٰی کے معنے ہیں تَتَشَاغَلُ تو ایک طرف سے توجہ ہٹا کر دوسرے کی طرف متوجہ ہوتا ہے (لسان)
تفسیر
اس آیت میں خدا تعالیٰ نے کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ نہیں کیا مگر اس سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ یہ آیت ابن مکتوم والے واقعہ پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ ابن مکتوم تو اندھے تھے وہ دوڑتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس کس طرح آسکتے تھے۔ پھر ابن مکتوم تو اتنے دلیر آدمی تھے کہ مکّہ کے بڑے بڑے رئوسا بیٹھے ہیں اور وہ آتے ہی وہ اُن کو ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ خدا اور رسول کے دشمن یہاں بیٹھے ہی کیوں ہیں۔ یہ تو مُردہ لوگ ہیں ان کی طرف توجہ کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے مگر یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَھُوَ یَخْشٰی ساتھ ہی دوڑتا بھی ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کا عبداللہ ابن ام مکتوم والے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس میں بھی درحقیقت لوگوں کے اندرونی اخلاق کا ایک عام نقشہ کھینچا گیا ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرنیوالوں کو جواب دیا گیا ہے کہ تم ہمارے رسول پر کیا اعتراض کرتے ہو تمہاری تو اپنی حالت یہ ہے کہ تمھارے پاس اگر کوئی غریب شخص دوڑا دوڑا آئے تو تم اُس کی طرف منہ بھی نہیں کرتے لیکن اگر کوئی امیر آجائے تو صرف اتنی ہی بات پر خوش ہو جاتے ہو کہ وہ امیر تمہارے پاس چل کر آیا ہے اور تم اس پر خوشی سے اپنے جامہ سے اپنے جامہ میں پُھولے نہیں سماتے۔ پس یہ تمہاری اپنی حالت ہے ہمارا رسول ایسا نہیں۔ ہمارے رسول کے متعلق کہ کہنا کہ وہ امیروں کی طرف زیادہ توجہ کرتا ہے اور غرباء کو نظر انداز کر دیتا ہے صریح ظلم ہے۔ ہاں تمہاری حالت یہی ہے اور ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں چنانچہ واقعہ میں اگر دُنیا پر غور کر کے دیکھا جائے تو لوگوں کے دلوں میں اس بات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ کسی امیر شخص سے اُنہیں گفتگو کرنے کا موقع مل جائے مگر اللہ تعالیٰ کے انبیاء ان باتوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام ایک دفعہ لاہور یا امرتسر کے سٹیشن پر تھے کہ پنڈت لیکھرام بھی وہاں پہنچے اور اس نے آپ کو سلام کیا۔ چونکہ پنڈت لیکھرام آریہ سماج میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اس لئے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تھے وہ بہت خوش ہوئے کہ لیکھرام آپ کو سلام کرنے کے لئے آیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی اور یہ سمجھ کر کہ شاید آپ نے دیکھا نہیں کہ پنڈت لیکھرام صاحب سلام کر رہے ہیں آپ کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو آپ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ اسے شرم نہیں آتی کہ میرے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کر تا ہے۔ گویا آپ نے اس بات کی ذرا بھی پَرواہ نہ کی کہ لیکھرام آیا ہے لیکن عام لوگوں کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی یہی ہوتی ہے کہ کسی بڑے رئیس یا لیڈر سے اُن کو ملنے کا اتفاق ہو جائے۔ چنانچہ جب کوئی ایسا شخص اُن کے پاس آتا ہے وہ بڑی توجہ سے اُس سے ملتے ہیں لیکن اگر کوئی غریب شخص اُن کے پاس آ جائے تو وہ پرواہ بھی نہیں کرتے۔
اللہ تعالیٰ معترضین کو اُن کے اس نقص کی طرف توجہ دلاتا ہے اور بتاتا ہے کہ اَمَّا مَنْ جَآئَ کَ یَسْعٰی وَھُوَ یَخْشٰی فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی۔ تمہاری اپنی حالت یہ ہے کہ جو شخص تمہارے پاس دوڑتا ہؤا آئے اور ساتھ ہی وہ اللہ تعالیٰ کی خشیت بھی اپنے دل میں رکھتا ہو لیکن امارت اس میں نہ ہو تم اُس سے غافل رہتے ہو۔ پس وہ لوگ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اُن کو زجر کیا ہے کہ تم ہمارے رسول پر کیا اعتراض کرتے ہو جائو اور اپنے اخلاق کو دیکھو۔ تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی بڑا آدمی آ جائے تو تم اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے ہو۔ اس کیطرف تم اپنی تمام توجہ صرف کر دیتے ہو لیکن اگر کوئی مسکین اور غریب آدمی آ جائے تو تُم اس سے منہ پھیر لیتے ہو اور اُس سے بات تک کرنا گوارا نہیں کرتے۔ تمہارا اعتراض آخر کیا ہے یہی کہ عبداللہ بن ام مکتوم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آیا اور آپ نے اس کیطرف توجہ نہ کی حالانکہ اُس وقت آپ کا اس کی طرف توجہ نہ کرنا ہی ضروری تھا۔ اُس نے مجلس میں آکر ایک نامناسب حرکت کی خلافِ اخلاق حرکت کی۔ خلافِ اخلاق حرکت کی اور وہ یقینا اسی بات کا مستحق تھا کہ اس کی طرف توجہ نہ کی جاتی مگر تم اس پر اعتراض کر رہے ہو اور تمہاری اپنی حالت یہ ہے کہ تم امیروں کی طرف ہی توجہ رکھتے ہو غریبوں کو اپنی خاطر میں ہی نہیں لاتے۔
غرض اُن چاروں باتوں میں سے جن کو میں تفصیل کے ساتھ اوپر بیان ہو چکا ہوں اِس موقع پر ایک ہی بات چسپاں ہوتی ہے۔ میرے نزدیک عَبَسَ وَتَوَلّٰٓے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہی ہے اور میرے نزدیک ایک اندھے کے آنے پر عبوس اور تولّی اختیار کرنا اعلیٰ درجہ کا قابلِ تعریف فعل ہے اور یہ آیت بھی آپ کے اخلاق کی تعریف کے لئے نازل ہوئی ہے مذّمت کے لئے نازل نہیں ہوئی۔ مذمّت والے معنے کر کے آیت کی ترغیب قائم ہی نہیں رہتی مَیں نے بتایا ہے کہ ان آیات میں غائب کے صیغے شروع ہوئے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد ہی مخاطبہ کے صیغے شروع ہو جاتے ہیں۔ صیغوں کی ی تبدیلی کسی حکمت کے بغیر نہیں ہوسکتی اور وہ حکمت یہی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کی گئی ہے اور پھر کفار یا بعض نا تربیت یافتہ مسلمانوں کے دلوں میں اِس واقعہ سے جو وساوس پیدا ہوئے تھے یا ہو سکتے تھے اُن کا ازالہ کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ فعل اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اُس کے احکام کے بالکل مطابق تھا آپؐ پر اعتراض کرنے والوں کی اپنی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ اُمراء اور غرباء میں تفاوت کرتے ہیں۔ وہ بڑوں اور چھوٹوں میں امتیاز روا رکھتے ہیں مگرہمارا رسول ایسا نہیں ہے پس عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کرنے کے بعد وَمَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی میں معترضین کو مخاطب کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تمہارا اعتراض بالکل بیحودہ ہے تمہیں کون سا یقینی علم اِس بات کا ہے کہ ابن مکتوم کی طرف اگر توجہ کی جاتی تو وہ ضرور فائدہ اٹھاتا یا تمہیں کون سا الہام ہؤا ہے کہ ابن ام مکتوم کا فائدہ اٹھانا زیادہ قرینِ قیاس تھا۔ صرف تمہارا قیاس ہی ہے کہ اس کی طرف توجہ کرنا زیادہ بہتر تھا۔ اور جب یہ صرف قیاس تھا کسی یقینی اور قطعی علم پر اِس کی بنیاد نہیں تھی تو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مقدم کو مقدم رکھا اور اکرامِ ضیعف کے حکم کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیا اور ابن ام مکتوم کی دخل اندازی پر ایسے رنگ میں اظہار ناراضگی کیا جس سے اندھے کو کوئی خاص تکلیف نہیں ہو سکتی تھی۔ پس آپ نے جو کچھ کیا بالکل درست کیا۔ لیکن اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرنے والو! تمہارے اپنے اخلاق یہی ہیں مگر تم الزام ہمارے رسول پر لگا رہے ہو۔ انبیاء ؑ پر الزام لگانا یا اُن پر کوئی بے جاء اعتراض کرنا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے متعلق بہت بڑی غیرت رکھتا ہے۔ اسی غیرت کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرتے ہو لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ کمزوری خود تمہارے اندر پائی جاتی ہے اور تمہارے اپنے اخلاق ایسے ہیں۔
مَیں نے دیکھا ہے بیسیوں دفعہ منافق مجھ پر کئی قِسم کے اعتراض کرتے ہیں مَیں اُن کے جواب میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ یہ اعتراض تو صحیح ہیں مگر مجھ پر نہیں بلکہ خود تم پر پڑتے ہیں کیونکہ تمہارے اپنے اعمال بتا رہے ہیں کہ تم میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ یہی طریق اللہ تعالیٰ نے اس جگہ اختیار کیا ہے کہ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ بعض لوگ غریبوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اُمراء کی طرف توجہ کر لیتے ہیں یہ تو بالکل صحیح اور درست ہے مگر محمّد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسا نہیں کیا بلکہ معترضین کے اندر بیشک یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور ہم اِن کی اس کمزوری کو تسلیم کرتے ہیں۔ گویا ایک طرف اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کو صحیح قرار دے دیا اور دوسری طرف محمّد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کیا جاتا تھا اُس کو غلط قرار دے دیا اور مسلمانوں کو نصیحت کر دی کہ کہ مسلمانوں میں سے جدید العہد کفار میں سے بعض لوگ چونکہ خود اُن کے اندر یہ نقائص پائے جاتے ہیں اِس لئے وہ اِن نقائص کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کرنے میں حرج نہیں سمجھتے۔ تمہیں اِ ن باتوں سے بچنا چاہئیے اور رسول کے متعلق مقامِ ادب پر کھڑا ہونا چاہئیے۔
اگر روایتوں کو نظر انداز کر دیا جائے تب تو آسانی سے اِن آیات کے یہ معنے کئے جا سکتے ہیں کہ عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی کافر کی نسبت ہے اور مراد یہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس جب رئوسا مشرکین بیٹھے ہوئے تھے ایک اندھا آیا اور اُس نے کچھ سِیکھنا چاہا اس پر ایک کافر سردار نے عبوست کا اظہار کیا۔ اور مُنہ پھیرلیا۔ گویا اِس امر کو کہ آپؐ کے پاس ایک اندھا سیکھنے آیا ہے ایک حقیر امر سمجھا اور اس پر حقارت کا اظہار مُنہ پھیر لینے سے کیا۔ اس پر فرماتا ہے اے عبوست اور تولّٰی کرنے والے! تجھے کیا معلوم ہے یہ شخص تو تزکیہ حاصل کرے گا یا نصیحت سُنے گا اور اُس سے فائدہ اٹھائے گا اور بطور دوست اور شاگرد ایسا ہی آدمی مفید ہوتا ہے اور عقلمند ایسے ہی انسان کی عزّت کرتے ہیں۔باقی رہا مالدار اور ظاہری ترقی یافتہ سوائے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس غرباء کے آنے پر ناک بھوں چڑھانے والے تُو تو ایسے ہی آدمی کی طرف لپکتا ہے اور اُسی کی طرف توجہ کرتا ہے۔ اور تجھے اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ وہ پاک ہوتا ہے یا بدکار ہوتا ہے تجھے تو اس سے غرض ہے کہ وہ مالدار اور دولتمند ہو پھر کسی اور شے کی پرواہ نہیں۔ اور دوسرا شخص جو تیری طرف دوڑتا ہے (یعنی سوالی یا حاجتمند) اور اس کا دل ڈر رہا ہوتا ہے کہ یہ بڑا آدمی ہے میری بات بھی سُنتا ہے یا نہیں۔ تُو نہ اس کو اپنی عنایت کا امیدوار سمجھ کر اس کی قدر کرتا ہے اور نہ اُس کی مسکینی اور دھڑکتے ہوئے دل کا خیال کرتا ہے اور اُسے کہہ دیتا ہے ہمیں فرصت نہیں اور سمجھتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اندھوں اور پاہجوں کی طرف توجہ کرنا اُ س کے ادنیٰ ہونے کی علامت ہے اور تیرا مالداروں کی صحبت کا متلاشی ہونا تیرے بڑے ہونے کی علامت ہے۔ مگر یہ امر درست نہیں کیونکہ قابلِ توجہ وہی ہے جس کی اصطلاح اور پاکیزگی کی امید کی جائے۔ پس محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فعل مستحسن ہے اور تیرا ناک بُھوں چڑھانا واجب ہے۔ اِن آیات میں بتایا ہے کہ اسلام کے آئندہ سپاہی امراء سے نہیں چُنے جائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ اُن کا انتخاب اُن ارواحِ طیّبہ سے کرے گا جو صداقت کا ماننے اور پاکیزگی کو حاصل کرنے کی تڑپ رکھتی ہیں۔ گویا اَلنَّازِعَات اَلنَّاشِطَات وغیرہ ارواح جن کا اُوپر ذکر ہؤا تھا ان کی نسبت بتاتا ہے کہ اُن کی جستجو مالداروں اور رئوسا میں نہ کرو اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ کہیں اور دبکی بیٹھی ہیں اللہ تعالیٰ ہی اُن کو چُنے گا۔
کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکَرَۃٌ
(ایسا) ہر گز نہیں (الزامات غلط ہیں) یقینا یہ (قرآن)تو ایک نصیحت ہے پس جو چاہے اسے اپنے ذہن میں مستحضر کر لے ۶؎
۶؎ تفسیر
اُن معنوں کے لحاظ سے جن کو اوپر بیان کیا جا چکا ہے کَلَّآ کا لفظ اس کمزور انسان کے متعلق سمجھا جائے گا جس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق شبہ کیا اور اپنے دل میں بعض ایسے وساوس کو آنے دیا جو اعلیٰ درجہ کے ایمان کے خلاف تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَلَّآ ہر گز یوں بات نہیں جس طرح تم خیال کرتے ہو اِنَّمَا تَذْکِرَۃٌ یہ چیز جو ہماری طرف سے آئی ہے یہ تو ایک نصیحت کے طور پر ہے یعنی قرآن کریم خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نصیحت نامہ کے طور پر نازل ہے اور اُس کے نزول سے ہماری غرض یہ ہے کہ دُنیا کے تمام لوگ ہدایت پائیں پس جبکہ اس کتاب کی غرض لوگوں کو ہدایت کے رستہ پر قائم کرنا ہے تو بنی نوع انسان میں سے جس شخص کے قلب کو بھی اِس ہدایت سے مناسبت ہو گی وہ اس کو ضرور قبول کرے گا کیونکہ جب یہ چیز اُسی زمین میں پنپ سکتی ہے جو اس کے مناسب حال ہو تو وہ لوگ جو اُس سے مناسبت نہیں رکھتے ہوں گے وہ اس کی طرف آئیں گے ہی نہیں۔ اور جو لوگ اُس سے مناسبت رکھتے ہوں گے اور خود بخود آ جائیں گے اُن کو چننے اور انتخاب کرنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہو سکتا ہے۔ مَیں نے جیسا کہ شروع میں بیان کیا تھا سورۂ نازعات کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ نَازِعَاتاور نَاشِطَات بننے والی روحیں آئیں گی کہاں سے! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے دل میں یہ سوال کیوں پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں کہاں سے آئے ہیں کہاں سے آئیں گے جب ہم نے خود ان لوگوں کو چُننا ہے او ر جب ان کا انتخاب ہمارے ہاتھوں میں ہے تو تمہیں اس کے متعلق کسی فکر کی ضرورت نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ نَازِعَات اور نَاشِطَات بننے والی قابلیتوں کے حامل کون کون لوگ ہیں اور آیا وہ اُمراء میں ہیں یا غُرباء میں یا اُمراء اور غُرباء دونوں میں ہیں۔ ہم اُن کے ذاتی اوصاف سے آگاہ ہیں۔ ہمیں اُن کی مخفی قابلیتوںکا علم ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کسی میں کیا کیا خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے ہم خود ان عظیم الشان امور کی سرانجام دہی کے لئے قابلیّتیں رکھنے والے نفوس کو کھینچ کھینچ کر لائیں گے قطع نظر اِس کے کہ ایسے نفوس اُمراء میں ہوں یا غرباء میں۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت عثمانؓ اسلام میں داخل ہوئے جو مکّہ کے مالدار خاندان میں سے تھے اور طلحہؓ اور زبیرؓ بھی اسلام میں داخل ہوئے جو چوٹی کے رئیس خاندانوں میں سے تھے گو اُس وقت قوم کے منتخب لیڈر نہ تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ دولت اپنے ساتھ نہیں لائے لیکن حضرت عثمان اپنے ساتھ دولت بھی لائے۔ گویا امراء اور معزّز خاندانوں میں سے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مناسب حال پایا اُن کو کھینچ لایا اور جن غرباء میں سے اسلام کے مناسب حال دیکھا اُن کو غرباء میں سے کھینچ لایا۔
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ہماری جماعت کے ایک دوست تھے شیخ غلام احمد صاحب مرحوم اُن کو اپنے متعلق تصوّف میں دخل رکھنے کا خاص خیال تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ تصوّف کے متعلق جو اُن کانظریہ ہے وہی سب دُنیا کا ہونا چاہئیے۔ ایک دفعہ وہ مجھ سے ملے اور کہنے لگے بتائیے آپ کو غریب اچھے لگتے ہیں یا امیر اچھے لگتے ہیں۔ میں نے پہلے تو اُن کو ٹالنا چاہا مگر جب بار بار اصرار کے ساتھ انہوں نے یہ سوال کیا تو میں نے اُنہیں کہا کہ مجھے نہ امیر اچھے لگتے ہیں نہ غریب اچھے لگتے ہیں نہ امیر بُرے لگتے ہیں نہ غریب بُرے لگتے ہیں۔ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ جہاں تک خدا تعالیٰ کے کام کا تعلق ہے اس کو سرانجام دینے کے لئے وہ میرے ساتھ کسی امیر کو وابستہ کرتا ہے یا کسی غریب کو وابستہ کرتا ہے۔ اگر میرے کام کے لئے وہ ایک غریب کو چُنتا ہے تو وہی مجھے اچھا لگتا ہے اور اگر میرے کام کے لئے وہ ایک امیر کو چُنتا ہے تو وہی مجھے اچھا لگتا ہے میں تو اللہ تعالیٰ کے اشارہ کی طرف نگاہ رکھتا ہوں کہ وہ کس آدمی کو کام کے لئے میرے ساتھ وابستہ کر رہا ہے۔ اگر امیر ہوتو مجھے اس امیر سے محبت ہو جاتی ہے اور اگر غریب ہو تو مُجھے اُس غریب سے محبت ہو جاتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی یہ سُنّت ہے کہ وہ اپنے کام کے لئے امیروں کو بھی چُنتا ہے اور غریبوں کو بھی چُنتا ہے مگر اکثر وہ غریبوں میں سے چُنتا ہے اور اگر کوئی امیر چُنا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے نہیں کہ خاندانی لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس کو آگے لانا پسند کرتا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ ذاتی قابلیتوں کے لحاظ سے و ہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اُسے آگے لایا جائے مگر چونکہ خاندانی عظمت کو جوہر بھی اُس کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے نبی کی جماعت میں وہ عزت پا جاتا ہے۔
یہ مضمون جو اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرما رہا ہے کہ کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ۔ یہ قرآن تو ایک نصیحت کی کتا ب ہے جو چاہے اِسے پڑھے اور جو چاہے اس سے فائدہ اٹھا لے۔ اس میں نبی کا کوئی واسطہ نہیں۔ خدا تعالیٰ نے مختلف لوگوںکی طبائع اس کے مطابق بنا دی ہیں اور آہستہ آہستہ اس سے فائدہ اٹھاتے چلے جائیں گے ان کے رستہ میں کوئی چیز روک نہیں بن سکتی اگر امیر کو اس کے ساتھ قلبی مناسبت ہے تو اس امیر کو روکا نہیں جا سکتا اور غریب کو اس کے ساتھ قلبی مناسبت ہے تو اُس غریب کو نہیں روکا جا سکتا۔ فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ یہ خیال کر لینا کہ دین صرف غریبوں کے لئے ہی ہے کسی طرح سے درست نہیں ہو سکتا۔ دین غریبوں کے لئے بھی ہے اور دین امیروں کے لئے بھی ہے جو چاہے خدا تعالیٰ کے دین میں داخل ہو کر فائدہ اٹھا لے اور اللہ تعالیٰ کے قریب میں بڑھ جائے ہم نے کسی کو روکا ہؤا نہیں۔ یہی فقرہ ہے جو میں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کے راستوں کو محدود نہیں کیا۔ اُس نے اپنے فرشتوں کو اعلیٰ درجہ کے روحانی مدارج پر اس لئے نہیں کھڑا کر دیا کہ اب کسی کو آگے مت بڑھنے دو۔ خدا تعالیٰ کے قرب کے راستے کُھلے ہیں اور کُھلے رہیں گے یہاں تک کہ اگر کوئی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کے قرب بڑھنا چاہے تو بڑھ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی روک نہیں اگر کوئی بڑھ سکتا ہے تو بڑھ کر دکھا دے۔ مگر جب کسی نے اب تک رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر نہیں دکھایا اور نہ آئندہ دکھا سکتا ہے تو گو حقیقت یہی ہو گی کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے افضل ہیں مگر کہا یہی جائے گا کہ خدا تعالیٰ نے جبراً آپ کو اس مقام پر نہیں پہنچایا اور نہ اُس نے زبردستی طور پر دوسروں کو بڑھنے سے روکا۔ خدا تعالیٰ کے قرب کے راستے کھلے ہیں اور اگر کوئی شخص بڑھنا چاہے تو بڑھ سکتا ہے۔ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمایا ہے کہ فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ ہماری طرف سے کوئی روک نہیں قرآن تو ساری دنیا کے لئے ہے۔ امیر کے لئے بھی ہے اور غریب کے لئے بھی ہے۔ عالم کے لئے بھی ہے اور جاہل کے لئے بھی ہے۔ کالے کے لئے بھی ہے اور گورے کے لئے بھی ہے۔ مشرقی کے لئے بھی ہے اور مغربی کے لئے بھی ہے۔ جو چاہے اس سے فائدہ اٹھا لے۔
اِنَّھَا میں ھَا کی ضمیر ہدایت اور موعظت کی طرف جاتی ہے گویا اَنَّھَا تَذْکِرَۃٌ کے معنے یہ ہیں کہ اِنَّ الْھَدَایَۃَ الَّتِیْ جَآئَ تْ مِنَ اللّٰہِ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ اَیِ الْقُرْاٰنَ۔ پس جو چاہے اس کلام سے جو ہم نے نازل کیا ہے فائدہ اٹھا لے۔ ھَا کی ضمیر دونوں طرف کی جا سکتی ہے ذِکْریٰ کی طرف بھی جس کا اوپر ذکر آچکا ہے اور قرآن کی طرف بھی۔ مگر اگلی آیات میں چونکہ خصوصیت سے قرآن کریم کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے وہی مراد ہے اور ا س امر کو ظاہر کرنے کے لئے ایک جگہ مؤنث کی ضمیر یعنی ھَا کو استعمال کر دیا اور آگے ذَکَرَہٗ میں مذکّر کی استعمال کر کے بتا دیا کہ مراد قرآن کریم ہے ہاں اس کی صفت تذکیر کی طرف خاص طور پر توجہ دلانا مقصود ہے اس لئے اس کی طرف مؤنث کی ضمیر پھیری گئی ہے۔
ایک نیا نکتہ
آیات مذکورۃ الصدر کے ایک اور لطیف معنے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور انہی کے مطابق میں نے ترجمہ کیا ہے اور وُہ معنے یوں ہیں کہ اس جگہ کلام طنزیہ ہے جیسے کہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ (دخان ع ۳ ۶ ۱ ) یعنی یہ جہنم کا کھانا کھا تُو تو بہت ہی طاقتو ر اور معزز تھا اور نہ معزز تھا یہ سب تیرے نفس کا فریب تھا اگر تُو اپنے خیال کے مطابق ہوتا تو آج تجھ کو جہنم کی ذلیل غذائیں کیوں کھانی پڑتیں۔ صاحب کشاف کہتے ہیں کہ یہ آیت ھزء اور تہکم کی قسم سے ہے یعنی دشمن کے قول کی بظاہر تصدیق کی گئی ہے لیکن اصل میں اس کی تردید مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمہارا یہ قول بالکل خلاف عقل ہے۔ دوسری زبانوں میں بھی یہ قول بالکل خلاف عقل ہے۔ دوسری زبانوں میں بھی یہ کلام تنزیہ استعمال ہوتا ہے چنانچہ اُردو میں بھی گرکوئی شخص کسی کا دوست ہو اور ہمیشہ اس کی خیر خواہی کرتا رہا ہو اور وہ دوسرا شخص کسی موقعہ پر اس کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کر دے جو خیر خواہی کے خلاف ہو تو وہ دوست اُسے جواب میں کہتا ہے ’’ہاں ہاں کیوں نہیں میں تمہارا دشمن جو ہؤا۔‘‘ اور مراد اس کی یہ ہوتی ہے کہ مَیں تو تمہارا دوست ہوں اور ہمیشہ تمہاری خیر خواہی کرتا رہا ہوں تم ایسا الزام مجھ پر کس طرح لگا سکتے ہو۔ غرض مدّنظر تو تردید ہوتی ہے لیکن ظاہر میں انسان اس قول کی تائید کرتا ہے۔ ذُقْ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ(دخان ع ۳ ۶ ۱ ) میں بھی یہی طریق کلام استعمال کیا گیا ہے۔ دشمن کہا کرتا تھا کہ میں عزیز وکریم ہوں اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نعوذباللہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ہم اُسے دوزخ میں ڈالیں گے اور اُسے کہیں گے لو یہ عذاب چکھو اس لئے کہ تم عزیز و کریم ہو اور مطلب اس کا یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو عزیز وکریم کہنے میں جھوٹے تھے۔ اگر تم عزیز وکریم ہوتے تو یہ عذاب تمہیں کیوں دیا جاتا۔ اسی رنگ کا کلام میرے نزدیک اس سورۃ میں بھی ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک اندھا آیا۔ اُس نے بے موقع بات کی اور آپ کے چہرہ پر نا پسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے۔ لیکن آپ نے اپنی ناپسندیدگی کو دبانے کے لئے اس کی طرف سے مُنہ پھیر لیا۔ کفار تو مومنوں میںپھوٹ ڈلوانے کی ہمیشہ کوشش کیا ہی کرتے ہیں۔ جب کفار کو اس واقعہ کا علم ہؤا اور کیوں نہ علم ہوتا کہ خود کفار ہی کی موجودگی میں یہ واقعہ ہؤا تھا تو کفار نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے اِس ساواقعہ سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ محمّد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے ایک غریب ساتھی کی بڑی ہتک کی ہے صرف اس لئے کہ وہ غریب تھا جب آپؐ کے پاس شرفاء بیٹھے تھے اس کے آنے پر آپؐ ناراض ہو گئے۔ اور اس ذریعہ سے مسلمانوں کے دلوں میں تذبذب اور شبہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اِس اعتراض کی کمزوری اور لغویّت ظاہر کرنے کے لئے ھزء اور تحکم کے رنگ میں اس اعتراض کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی اَنْ جَآئَ ہُ الْاَعْمٰی ہمارے رسول نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا صرف اتنی سی بات پر کہ ابنِ مکتوم اُس کے پاس آیا۔ اور مطلب یہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق ظاہر ہیں اور دوست ودشمن اُن سے واقف ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت ہی غر باء کے ساتھ رہتی تھی اور غرباء کی جماعت ہی آپؐ کے اردگرد بیٹھی تھی جو شخص غلاموں کی آزادی اور غریبوں، بیوائوں، یتیموں اور مسکینوں کی ترقی کے لئے رات دن مشغول رہتا ہو اس پر یہ الزام لگانا کہ صرف اس وجہ سے کہ ایک اندھا اس کے پاس آیا تھا اُس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا۔ کوئی عقلمند اِس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ پس یہ الزام خود ہی اپنی ذات میں تردید کر رہا ہے۔ جیسے کہتے ہیں آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ سورج کا نِکلنا ہی سورج ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف اِس امر کا منسوب کرنا ہی اِس الزام کا کافی جواب ہے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔ پھر وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی کہہ کر اس کی تردید کو دلیل عقلی سے بھی مکمل کر دیااور فرمایا کہ اندھے یا سوجاکھے کا سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس بات کا کیا علم ہو سکتا تھا کہ کون سا شخص ہدایت پائے گا اور کون سا نہیں۔ کون ہدایت پر قائم رہے گا اور کون پھسل جائے گا۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو دوسری شریعت کے پابند ہیں اور غیب کے علم میں دخل اندازنی پسند نہیں کرتے۔ غیب کا علم خدا کے پاس ہے اور وہی جانتا ہے کہ جو لوگ آخر کافر نظر آتے ہیں وہ مرتے وقت کیا ہوں گے۔ ہماری شریعت کا ظاہری حکم یہی ہے کہ جو شخص ہم سے بات کر رہا ہو ہم پہلے اُس کی طرف توجہ کریں اور بعد میں آنیوالا اپنے موقع کا انتظار کرے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شریعت کے اس حکم پر عمل کیا اور خدا کے حکم کو پورا کر دیا۔ غیب کا آپ کو علم نہیں تھا کہ آپ کہہ سکتے کہ کس کو تبلیغ کرنا وقت کو ضائع کرنا ہے اور کس کو تبلیغ کرنا وقت کو صحیح طور پر استعمال کرنا ہے ایک وقت وہ تھا کہ بلالؓ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اسلام کے لئے تکلیفیں اٹھا رہا تھا۔ جلتی ریت پر اُس کو لٹایا جاتا۔ کُھردرے پتھروں پر اس کو گھسیٹا جاتا اور نوجوان اُس کے ننگے سینہ پر چڑھ کر کُودتے تا کہ اُسے اسلام سے پھرا دیں اور عمرؓ محمّد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مارنے کے لئے تلوار لئے پھرتے تھے لیکن بعد کے واقعات نے بتایا۔ بے شک بلالؓ کا انجام بہت ہی اچھا ہؤا مگر جس مقام کو عمرؓ پہنچے بلالؓ تو نہیں پہنچے۔ پس محض اس لئے کہ کوئی شخص اُس وقت کافر تھا اور کوئی دوسرا شخص اُس وقت مسلمان تھا اُس کو بناء قرار دیتے ہوئے شریعت کا ظاہری حکم محمّد رسول صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کِس طرح توڑ سکتے تھے۔ آپٖٖؐ کو کیا معلوم تھا کہ وہ ظاہر میں کافر نظر آنے والے لوگ آئندہ کیا بننے والے تھے۔ چنانچہ بعض روایات میں آتا ہے کہ اُن میںحضرت عباسؓ بھی تھے۔ اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ابنِ اُمّ مکتوم عباسؓ کے درجہ کو نہیں پہنچے۔ حضرت عباسؓ سے جو شوکت اسلام کو پہنچی اور خلفائِ اسلام ان کی زندگی میں جس طرح اُن کا مشورہ لیتے اور اس پر عمل کرتے تھے اور اُن کے عالی مقام پر شاہد ہے۔ پس وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی میں خدا تعالیٰ نے عام طریق استدلال سے بھی اِس اعتراض کو ردّ کر دیا ہے پھر اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی کہہ کر اسی قسم کے تہکم والے کلام کی طرف دوبارہ رجوع کیا اور کفار کا یہ بقیہ اعتراض دُہرایا کہ لو جی جو محمّد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف توجہ نہیں کرتا اُس کی طرف بوجہ اُس کے عالی مرتبہ ہونے کے آپؐ بڑی توجہ کرتے ہیں۔ اِس اعتراض کو بھی ھزء اور تہکم کے طور پر اِس طرح دُہرایا گیا ہے گویا اِس اعتراض کی صِحّت کو قبول کر لیا گیا ہے بعینہٖ اسی طرح جس طرح وہ شخص جس کا انصاف ظاہر ہو معترض کے جواب میں کہتا ہے۔ ہاں ہاں مَیں تو ظالم ہوں ہی لیکن اس اعتراض کے دُہرانے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ مرے وجود کی طرف اِس اعتراض کا منسوب ہونا ہی اِس کے غلط ہونے کا ثبوت ہے۔ اِس جگہ اِس اعتراض کے نقل کرنے سے بھی یہ مراد ہے کہ ایسا ہر گز نہیں۔ چنانچہ پہلے اعتراض کی طرح یہاں بھی بعد میں اس اعتراض کے ردّ کرنے کی عقلی دلیل فرما دی اور فرمایا کہ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی یہ اعتراض ہی بالبداہت غلط ہے۔ تیرے متعلق یہ کہنا خلافِ عقل بات ہے۔ اگر یہ لوگ سمجھ سے کام لیں تو ان کومعلوم ہو سکتا ہے کہ اُن کفار کا جو مجلس میں بیٹھے تھے ہدایت پانا یا نہ پانا نہ تیرے اختیار میں ہے نہ تیرے سپُرد ہے۔ گویا پہلی آیات میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ ابنِ مکتوم کا ہدایت پر مرنا تیرے علم کی بات نہیں اور اِ س آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اِن کفار کے ہدایت نہ پانے پر تجھ سے کوئی باز پُرس نہ ہونی تھی پھر کس ذاتی غرض سے تُو نے ابنِ مکتوم کی طرف توجہ نہ کی اور کس فائدہ کی وجہ سے تُو نے کفار کی طرف توجہ کی نہ تو ابن اُم مکتوم کی طرف توجہ نہ کرنے میں تیرا کوئی فائدہ تھا۔ اور نہ اُن کفّار کی طرف توجہ کرنے میں تیرا کوئی فائدہ تھا پس اِن واقعات کی موجودگی میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس واقعہ کی وجہ کچھ اور ہی تھی۔ (وہ وجہ وہی تھی جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں یعنی شریعت کے ظاہری احکام کی پابندی)
اس کے بعد فرماتا ہے وَاَمَّا مَنْ جَآئَ کَ یَسْعٰی۔ وَھُوَ یَخْشٰی فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی یہ بھی کفار کا ہی قول ہے اور بطور ھزء اور تحکم اِسے یوں بیان کیا گیا ہے واقعہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ کفار یہ بھی کہتے ہیں کہ جو شخص تیری طرف دَوڑتا ہؤا آتا ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے اس کی طرف سے محمد (صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) بے اعتنائی کرتے ہیں چونکہ یہ ھزء اور تحکم کے طور پر عبارت ہے اس لئے اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ میرے اِن معنوں کا قطعی اور یقینی ثبوت اِس بات سے مِلتا ہے کہ اِن آیات کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَلَّا اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ اور کَلَّا کے معنے ہوتے ہیں جو پہلی بات کہی گئی ہے وہ غلط ہے اب یہ صاف بات ہے کہ پہلی جو بات کہی گئی ہے وہ وہی اعتراض ہیں جو دشمنوں کی طرف سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کئے گئے ہیں یعنی آپؐ نے ایک اندھے کے معاملہ میں بداخلاقی سے کام لیا اور بعض دولت مندوں کی طرف زیادہ توجہ کی۔ یہ عجیب بات نہیں کہ خدا تعالیٰ نے جس بات کی تردید کرے ہم اس کی تصدیق کریں۔ کَلَّا کے لفظ نے بتا دیا ہے کہ یہ سب اعتراضات غلط ہیں۔ پس جتنی باتیں پہلے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض والی بیان ہوئی ہیں وہ بطور ھزء اور تہکم کے بیان کی گئی ہیں اور ظاہر الفاظ تو تصدیق کے ہیں لیکن اصل مراد انکار ہے جیسا کہ اس طریقِ کلام کا قاعدہ ہے۔
کَلَّا کے معنے یہی ہؤا کرتے ہیں کہ اس سے پہلے جو بات مذکور ہو اس کلام سے سختی سے ردّ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کلیات ابی البقاء میں لکھا ہے قَالَ عَمْرُوْبْنُ عَبْدِ اللّٰہِ اِذَا سَمِعْتَ اللّٰہَ یَقُوْلَ کَلَّا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ کَذَبْتَ یعنی عمر بن عبداللہ فرماتے ہیں جب تم خدا کے کلام میں کَلَّا کا لفظ پڑھو تو سمجھ لو کہ اُس کے معنے یہ ہیں کہ پہلی باتوں کا کہنے والا جھوٹا ہے۔ پس کَلّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ کے معنے یہ ہوئے کہ پہلے جو اعتراضات بیان کئے گئے ہیں وہ جھوٹے ہیں اور ان کے جھوٹے ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن کریم ایک نصیحت کی کتاب ہے کافر کو سُنانا بھی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرض ہے اور مومن کو سُنانا بھی محمد رسول اللہ کا فرض ہے۔ پس اگر آپ قرآن شریف کفار کو سُنا رہے تھے تو ایک مومن کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ درمیان میں بولتا۔ اور اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس بات کا جواب نہیںدیا تو بالکل ٹھیک کیا۔
مغنی اللبیب میں کَلَّا کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھا ہے عِنْدَ سِیْبَوَیْہِ وَاَکْثَرِ الْبَصرِیِّیْنَ حَرْفٌ مَعْنَاہُ الرَّوْعُ وَالزَّجْرُ لَا مَعْنَی لَھَا عِنْدَھُمْ اِلَّا ذَالِکَ حَتّٰی اِنَّھُمْ یُجِیْزُوْنَ اَبَدًا اَلْوَقْفُ عَلَیْھَا وَالْاِبْتِدَائُ بِمَا بَعْدَ ھَا وَحَتّٰی قَالَ جَمَاعَۃٌ مَتٰی سَمِعْتَ کَلَّا فِیْ سُوْرَۃٍ فَاحْکُمْ بِاَنَّھَا مَکِّیَۃٌ لِاَنَّ فِیْھَا مَعْنَی التَّھدِیْدِ وَالْوَعِیْدِ وَاَکْثَرَ الْعَتُوِّ کَانَ بِھَا۔ یعنی سیبویہ اور خلیل اور مبرّداور زجاج اور اکثر بصری کہتے ہیں کہ اس کے معنے زجر اور تردید کے ہوتے ہیں۔ اُن لوگوں کے نزدیک اس کے سوا کَلَّا کے اور کوئی معنے ہی نہیں ہیں یہاں تک کہ وہ لوگ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہمیشہ کَلَّا کے لفظ پر وقف کر لینا اور مابعد کے فقرہ کو ایک نیا جملہ فرض کر لینا چاہئیے۔ اور ان میں سے ایک جماعت تو یہاں تک کہتی ہے کہ جب کسی سورۃ میں کَلَّا کا لفظ آئے تو سمجھ لو کہ وُہ مکّی ہے کیونکہ اس لفظ کے معنوں میں ڈرانے اور دھمکی دینے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور زیادہ تر یہ لفظ مکّی سورتوں میں اترا ہے کیونکہ اکثر شرارتیں اور زیاتیاں مکّہ میں ہی ہؤا کرتی تھیں اس پر صاحبِ مغنی نے بے شک اعتراض کیا ہے کہ قرآن شریف میں جو یہ آتا ہے کہ یَاَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَاغَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَ لَکَ۔ فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ۔ کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ (الانقطار ع ۱ ۷ ) اس میں کوئی تہدید یا وعید نظر نہیں آتا مگر یہ اعتراض بالبداہت باطل ہے اس لئے کہ قرآن کریم نے خود ہی بتا دیا ہے کہ کَلَّا کے لفظ سے پہلے اعتراض ہی مراد تھا کیونکہ فرماتا ہے بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ تم جزاء سزا کو جھٹلاتے ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیات میں ان لوگوں کا ردّ تھا جو سزاء کے منکر تھے اور انہی کی تردید کی جار ہی تھی۔ تو کَلَّا میں وعید اور تہدید مراد نہیں ہو گی تو کیا پیار مراد ہو گا؟
غرض بڑے بڑے نحویوں اور ادیبوں کی نگاہ میں کَلَّا کا لفظ منکرین اور مخالفین کے لئے استعمال ہوتا ہے اور تہدیدی اور وعید اس میں شامل ہوتی ہے۔ پس کَلَّا اِنَّھَا مَّذْکِرَۃٌ سے معلوم ہؤا کہ پہلے اقوال خدا تعالیٰ کے مصدقہ نہیں بلکہ منکروں اور دشمنانِ اسلام کے ہیں جن کو ردّ کیا گیا ہے تبھی تو ہر اعتراض کے بعد اللہ تعالیٰ اُن کی تردید کرتا ہے اگر واقعہ اسی طرح ہوتا اور یہ الزام دہ ہوتے جن کی خدا تعالیٰ تصدیق کرتا ہے تو پھر ان آیات کے بعد کَلَّا کے استعمال کے کیا معنے تھے؟ پھر تو یہ کہنا چاہئیے تھا کہ یہ الزام بالکل سچے ہیں۔ پس پہلے الزام بیان کرنا اور پھر کَلَّا کہنا بتاتا ہے کہ یہ الزام دشمنوں کی طرف سے غلط طور پر لگائے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں محض ھزء اور تہکم کے رنگ میں اُن کا ذکر کیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہمارے رسول کو یوں کہا جاتا ہے۔ مگر یہ بالکل جھوٹ ہے وہ ایسا نہیں بلکہ ان تمام الزامات سے پاک ہے۔
فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ
(وہ قرآن ایسے) صحیفوں میں ہے (جو) عزت والے ہیں بلند شان (اور) پاک ہیں (لکھنے والوں اور دُور دُور) سفر کرنے والوں کے ہاتھوں میں (ہیں) (ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں جو) معزز ہیں اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہیں۔ ۷؎
۷؎ حل لغات
مُکَرَّمَۃٌ کَرَّمَ سے ہے اور کَرَّمَ کے معنے ہوتے ہیں عَظَّمَ وَنَزَّہٗ اس کی بڑائی بیان کی اور اس کو عیوب سے منزّہ قرار دیا (اقرب) اور مُکَرَّمَۃٌ کے معنے ہوئے مَعَظَّمَۃٌ وَمُنَزَّھَۃٌ عَنْ کُلِّ خَطَائٍ وَنَقْصٍ یعنی وہ جن کی عظمت بیان کی جاتی ہے اور جن کو تمام نقائص خرابیوں اور عیوب سے مبرّا قرار دیا جاتا ہے۔
مَرْفُوْعَۃٌ رَفَعَ سے ہے اور رَفَعَہُ (رَفْعًا) کے معنے ہوتے ہیں ضِدُّ وَضَعَہٗ اس کو اوپر کیا۔ بلند کیا۔ اور جب رَفَعَ اِلَی السُّلْطَانِ (رُفْعَانًا) کہیں تو معنے ہوں گے قَرَّبَہٗ کہ اس کو بادشاہ کا قرب بنا دیا (اقرب)
مُطَھَّرَۃٌ طَھَرَ سے ہے اور طَھَرَہٗ کے معنے ہوتے ہیں جَعَلَہٗ ھِرًا۔ اُس کو پاک قرار دیا (اقرب)
سَفَرَۃٌ۔ اَلسَّافِرُ کی جمع ہے اور اس کے دو معنے ہوتے ہیں۔ ایک تو مسافر کے۔ ان معنوں میں اس کا کوئی فعل نہیں آتا۔ دوسرے اس کے کاتب کے ہوتے ہیں (اقرب)
کَرَامٌ۔ کَرِیْمٌ کی جمع ہے اور اس کے معنے معزز اور بزرگ لوگوں کے ہیں (اقرب) کبھی کبھی لفظ کَرِیْم ایسے سخی آدمی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو لوگوں کو بہت ہی نفع پہنچائے اور کَرِیْم اُس چیز کو بھی کہتے ہیں جو اپنی جنس میں بہترین ہو چنانچہ عرب کہتے ہیں اَلْکَرِیْمُ مِنْ کُلِّ قَوْمٍ اور ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ مَا یَجْمَعُ فَضَائِلَہُ کہ فلاں شخص ساری قوم میں سے کریم ہے یعنی ساری قوم کی خوبیاں اس میں پائی جاتی ہیں۔ اقرب کے مؤلف لکھتے ہیں ’’اَلْکَرِیْمُ مَنْ یُّوْصِلُ النَّفَعَ بِلَا عِوَضٍ فَالْکَرْم ھُوَ اِفَادَۃُ مَا یَنْبَغِیْ لَا لعِوَضٍ‘‘ کریم ایسے شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچائے اور کسی سے معاوضہ کی خواہش نہ کرے (اقرب) پس کَرَام کے معنے ہوں گے (۱)سخی (۲)بزرگ (۳)قوم میں سے بہترین (۴)ایسے لوگ جنہیں لوگوں کو بلا معاوضہ فائدہ پہنچانے کا جنون ہو۔
بَرَرَۃٌ جمع ہے اَلْبَرُّ وَالْبَارُّ کی جو کہ بَرَّ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ اور بَرَّ وَالِدَہٗ کے معنے ہیں اَحْسَنَ الطَّاعَۃَ اِلَیْہِ وَرَفَقَ بِہٖ وَتَحَرّٰی مَحَابَّہٗ وَتَوَفّٰی مَکَارِہَہٗ (اقرب) کہ اُس نے اپنے والد کی پوری اطاعت کی اور اُس کے ساتھ نرمی سے پیش آیا اور اس کی خوشنودی کے ذرائع کو تلاش کیا اور اُن پر عمل کیا اور ہر ایک اُس بات سے بچا جو اُس کے والد کو ناراض کر دے۔
تفسیر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ قرآن ایسے صحیفوں میں ہے جو مُکَرَّمَۃ ہیں مَرْفُوْعَہ ہیں اور مَطَھَّرَہ ہیں۔ اس جگہ یہ امر یاد درکھنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ نے صُحْف کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اِس میں درحقیقت قرآن کریم کو سورتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت الگ الگ ٹکڑوں میں نازل ہوئی ہیں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان مختلف ٹکڑوں کو آپس میں یوں ہی جوڑ دیا گیا ہے کسی خاص حکمت کو مدنظر نہیں رکھا گیا مگر قرآن نہ صرف اُن کے علیحدہ علیحدہ نزول کو بلکہ اُن کے علیحدہ علیحدہ وجود کو تسلیم کرتا ہے اور ہر سورۃ کو ایک صحیفہ قرار دیتا ہے۔ گویا صُحُف کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ قرآن کریم کی ہر سورۃ اپنی ذات میں ایک علیحدہ اور مستقل مضمون رکھتی ہے ورنہ وہ صحیفہ نہیں کہلا سکتی تھی۔
دوسرےؔ صُحف کہہ کر اُس امر کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے جس کا صُحُفِ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوْسٰی (الاعلیٰ ع ۱ ۲ ۱ ) کے الفاظ میں ذکر آتا ہے یعنی صُحُف کہہ کر اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ صحف سابقہ کی تمام اعلیٰ درجہ کی اخلاقی اور روحانی تعلیموں کو جو انسانی سابقہ کی تمام اعلیٰ درجہ کی اخلاقی اور روحانی تعلیموں کو جو انسانی فطرت کے مناسب حالب تھیں اس قرآن میں جمع کر دیا گیا ہے گویا کتاب تو ایک ہی ہے مگر اس میں تمام انبیاء کے صحیفے جمع ہیں اسی لئے اُس کے لئے جمع کا لفظ لایا گیا اور صحیفہ کی بجائے صحف کہا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کو بھی صحف اِسی لئے کہا گیا ہے کہ اُس میں آپؐ سے پہلے تمام انبیاؑء کی تعلیمیں جمع تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفہ کو بھی اسی لئے صحف کہا گیا کہ اُس میں نوحؑ اور بعض دوسرے انبیاؑء علیہ السلام کے صحیفے جمع تھے۔ اور پھر قرآن کو بھی صحف کہا گیا کیونکہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس نے آدمؑ سے لے کر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک آنے والے تمام انبیاؑء کے صحف کو بھی اپنے اندر جمع کر لیا اور کوئی تعلیم ایسی نہیں رہی جس کی بنی نوع انسان کو ضرورت ہو اور اس کا قرآن کریم میں ذکر نہ آتا ہو۔ گویا جس طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خاتم الانبیاء کہا گیا اِن معنوں میں کہ آپؐ کے وجود میںتمام انبیاؑء سابقین جمع ہو گئے تھے اسی طرح آپؐ کی کتا ب کو صحف کہا گیا کیونکہ اس میں تمام انبیائِ سابقین کے صحیفوں کو جمع کر دیا گیا تھا درحقیقت کوئی نبی دُنیا میں ایسا نہیں آیا جو اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی صحیفہ نہ لایا ہو (مگر اس کے معنے یہ نہیں کہ وہ شریعت جدیدہ لایا یا احکام جدیدہ لایا۔ صحیفہ سے مراد ایک پیغامِ حقیقت ہے جو اُس وقت کے مناسب حال ہو) اِسی وجہ سے قرآن کریم میں صُحفِ ابراہیم کا ذکر ہے۔ حالانکہ وہ حامل شریعتِ جدیدہ نہ تھے۔ حضرت نوحؑ کے تابع تھے جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے اِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَا بَرٰھِیْمَ (صافات ع ۳ ۷ )آدمؑ مبعوث ہؤا تو وہ اپنے ساتھ پہلا صحیفہ لایا۔ اس کے بعد اگر نوحؑ دوسرا نبی ہؤا ہے تو نوحؑ کا صحیفہ صحیفتین کہلائے گا کیونکہ اس میں آدمؑ کا بھی صحیفہ تھا اور نوحؑ کا بھی صحیفہ تھا۔ پھر جوں جوں انبیاء آتے گئے وہ اپنے سے پہلے آنے والے انبیاء کی تعلیموں کو بھی حامل رہے یہاں تک کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے اور آپؐ کو جو کتاب دی گئی اُس میں تمام پہلے انبیاء کے صحیفوں کو شامل کر دیا گیا۔ اس لئے کوئی کتاب ایک صحیفہ نہیں بلکہ کئی صحف کا مجموعہ ہے اِسی لئے قرآن نے اس کے لئے فِیْ صُحُفٍِ مُّکَرَّمَۃٍ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے اِذَاالرُّسُلُ اُقِّتَتْ (المرسلات ع ۱ ۱ ۲ )کہہ کر مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی بعثت کی طرف اشارہ کر دیا حالانکہ آنے والا صرف ایک رسول تھا مگر چونکہ اس کی رسالت میں گزشتہ تمام انبیاء کی رسالت بھی شامل ہو جانی تھی اور وہ ہر گزشتہ نبی کا بروز ہونے والا تھا اُسے رسول کی بجائے رُسل کہا گیا۔ یہی وہ بات ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَائِ اللہ کا جری جو تمام انبیاء کا لباس پہن کر اس دُنیا میں آیا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم ایک صحیفہ نہیں بلکہ وہ مجموعہ ہے اُن تمام تعلیموں کا جو گزشتہ انبیاء کو دی گئیں اور پھر وہ مجموعہ ہے اُ س زائد تعلیم کا بھی جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍ یہ قرآن ایسے صحف میں ہے جو مکّرمہ ہیں۔ مرفوعہ اور مطّہرہ ہیں۔ یہاں ایک لطیف قرآنی ترتیب کا منظر پیش کیا گیا ہے کہ ایک طرف تو قرآن کریم کی یہ تین صفات بیان کی گئی ہیں (۱)مُکَرَّمَۃ (۲)مَرْفُوْعَۃ (۳)مَطَھَّرَۃ اور دوسری طرف وہ لوگ جنہوں نے واملینِ قرآن بننا تھا اُن کی بھی تین صفات بیان کی گئی ہیں۔ (۱)سَفَرَۃ(۲)کَرَام(۳)بَرَرَۃ
قرآن کریم کی پہلی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مُکَرَّمَۃ کے معنے عربی زبان میں مُعَظَّمَۃٌ وَمُنَزَّھَۃٌ عَنْ کُلِّ خَطَائٍ وَنَقْصٍ کے ہوتے ہیں یعنی ہر قسم کی خرابی اور نقص سے پاک۔ گویا پہلی بات قرآن کریم کے متعلق یہ بتائی گئی ہے کہ وہ بزرگ کتا ب ہے اور دُنیا میں اس کی عزت کی جائے گی۔
یہ ایک قاعدہ ہے کہ دُنیا میں جو بھی الہامی کتاب موجود ہے اس کی عزت اِس کتاب کو ماننے والے لوگوں کو دلوں میں پائی جاتی ہے لیکن اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کتابوں کو زیادہ عزت حاصل ہوتی ہے اور بعض کو کم عزت حاصل ہوتی ہے اور جب ہر الہامی کتاب کی اس کے ماننے والے عزت کرتے ہیں تو قرآن کریم کو خاص طور پر مُکَرَّمَہ کہنا اِس امر کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ یہ وہ کتاب ہے جس کی اور تمام الہامی کتابوں سے زیادہ عزت کی جائے گی۔ کیونکہ وہ کتاب جس کی پہلے عزت کی جاتی ہو جب اُس کے متعلق کہا جائے کہ وہ مُکَرَّمَہ ہے تو لازمًا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس کی عزت نسبتی طور پر دوسری کُتب سے بہت زیادہ کی جائے گی۔ چنانچہ دیکھ لو دُنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں جس کی عزت قرآن کریم سے بڑھ کر کی جاتی ہو۔ اِس کتاب کو لوگ حفظ کرتے ہیں۔ یہ کتاب نمازوں میں پڑھی جاتی ہے۔ اور پھر اس کتاب پر عمل کرنے والی قو م دُنیا میں موجود ہے اور کوئی کتاب ایسی نہیں جس پر عمل کرنے والی قوم دُنیا میں موجود ہو۔ ویدؔ پر عمل کرنے والے کہیں نظر نہیں آتے۔ تورات پر عمل کرنے والے بہت شاذونادر دکھائی دیتے ہیں اور جو لوگ عمل کرتے ہیں ان کا عمل اِس قسم کا ہوتا ہے جسے پنجابی میں ’’اَدھ پچدّھ‘‘ کہتے ہیں یعنی کِسی بات پر عمل کیا اور کسی پر نہ کیا۔ انجیل تو عملی لحاظ سے بالکل ختم ہے ابھی گزشتہ دنوں انگلستان میں پادریوں نے انجیل کی تعلیم کے خلاف یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ عورتیں ننگے سر گرجا گھر میں جا سکتی ہیں۔ ہمارے مبلغ مولوی جلال الدّین شمس ؔ نے اُن کو پکڑا کہ تم یہ کیا فتویٰ دے دیا تمہاری انجیلی تعلیم تو اس کے مخالف ہے۔ مگر انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے کہہ دیا شریعت شریعت *** ہے جب شریعت اُں کے نزدیک *** بن گئی تو اُس پر عمل کرنے کی تحریک اُن کے دلوں میں کس طرح پیدا ہو سکتی ہے۔ صرف قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جس پر اس تنزّل کے زمانہ میں بھی عمل کیا جاتا ہے۔ ہم خواہ غیر احمدیوں کو کچھ کہیں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ لاکھوں کروڑوں مسلمان آج بھی نظر آتے ہیں جن کے دلوں میں یہ جزبہ پایا جاتا ہے کہ وہ قرآن پر عمل کریں اور خواہ کس قدر کوئی بے عمل ہو اُس کے دل کے اندرونی گوشوں میں یہ خواہش موجود ہوتی ہے کہ مَیں قرآن پر عمل کروں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کروں۔ یہ تو اِ س زمانۂ تنزّل کا حال ہے۔ اپنے دَور میں تو قرآن کریم پر وہ عمل ہؤا ہے جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ پر قرآن نے حکومت کی اور ایسی شاندار حکومت کی جس کی مثال دُنیا کی تاریخ میں اور کہیں نظر نہیں آتی۔
دوسرے معنے مُکَرَّمَہ کے مُنَزَّھَۃ عَنْ کُلِّ خَطَائٍ وَنَقْصٍ کے ہوتے ہیں کہ وہ چیز ہر قسم کی خرابی اور نقص سے پاک ہو۔ یہ خوبی بھی قرآن کریم میں پائی جاتی ہے کہ اِس میں کوئی غیر بات داخل نہیں۔ اَور تو اَور قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کسی قول کو بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی حدیث ایسی ہو جو صحاح ستّہ میں سے ہر حدیث کی کتاب میں آتی ہو اور ہر محدّث اس حدیث کی صحت پر متفق ہو تو پھر بھی قرآن کریم میں اُس حدیث کو درج نہیں کیا جا سکتا پس خدا نے قرآن کریم کو ایسا بنایا ہے کہ وہ تمام قسم کی غیر باتوں سے پاک ہے یہاں تک کہ ہم دیکھتے ہیں دشمن کو بھی یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ قرآن کریم ہر قسم کی انسانی دست بُرد سے پاک ہے۔ میور جیسا شدید دشمن اسلام بھی جو قرآن پر جگہ جگہ اعتراض کرتا ہے جب اس مقام پر پہنچتا ہے تو اُسے سوائے یہ کہنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا کہ قرآن جس شکل میں آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے تھا اسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ وہ اپنی کتاب میں ایک جگہ اس امر پر بحث کرتا ہے اور کہتا ہے فلاں پادری نے یہ کہا ہے اور فلاں پادری نے یہ لکھا ہے مگر وہ ان سب دلائل کو ردّ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ سچی بات یہ ہے کہ قرآن کریم متعلق ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جس شکل میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ قرآن دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اُسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ لولڈکے NOLDEKEمشہور جرمن مستشرق بھی قرآن کی اس خوبی کا اعتراف کرتا ہے اور باجود دشمن ہونے کے اُس نے بھی تسلیم کیا ہے کہ قرآن پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ وہ انسابی دستبرد کا شکا ر ہو گیا۔ نولڈکے NOLDEKEاسلام کا دشمن ہے مگر تمام مستشرقینِ یورپ میں سب سے زیادہ تحقیق اُس نے کی ہے اور میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ صحیح حقیقت پر اُس کی غضب کی نظر پڑتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے اُس نے بڑے سچے طور پر قرآن پر غور کیا تھا۔ وہ بھی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ میں یہ قطعًا مان نہیں سکتا کہ قرآن میں کوئی اور بات داخل کر دی گئی ہو اور وہ اسی طرح دوسرے لوگوں کے دخل سے پاک ہے جس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں پاک تھا وہ کہتا ہے تم بے شک یہ کہہ لو کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ قرآن بنایا مگر تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس قرآن میں کوئی تبدیلی ہو گئی۔ جس طرح وہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں تھا اُسی طرح وہ اس زمانہ میں بھی ہے۔ پس یہ قرآن مُکَرَّمَہ ہے یعنی ہر قسم کی خطاء لفظی ومعنوی سے پاک ہے۔ اور دنیا کی کوئی کتاب اس خوبی میںقرآن کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
اس کے مقابلہ میں حاملین قرآن کی جو صفات بیان کی گئی ہیں اُ ن میں سے پہلی صفت سَفَرَۃ ہے گویا مُکَرَّمَۃ کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے سَفَرَۃ کو رکھا ہے اور بتایا ہے کہ اس کی بزرگی کا ذریعہ اللہ تعالیٰ سَفَرَۃ کو بنائے گا۔ سَفَرَۃ کے معنے یا مسافر کے ہوتے ہیں یا پھر کاتب کے ہوتے ہیں۔ پہلے معنوں کے لحاظ سے اس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ قرآن دنیا میں یکدم پھیل جائے گا کیونکہ وہ اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا جو مسافر ہوں گے۔ مطلب یہ کہ مسلمان اس کو لے کر نکل جائیں گے اور دنیا کے کونہ کونہ میں اس کی تعلیم کو پہنچا دیں گے۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے معًا بعد کچھ صحابہ ایران میں چلے گئے۔ کچھ افغانستان میں چلے گئے کچھ چین کی طرف نکل گئے۔ کچھ جز ائر کی طرف چلے گئے اور اس طرح ایک طرف چین کے انتہائی کناروں تک اور اس طرح ایک طرف چین کے انتہائی کناروں تک اور دوسری طرف الجزائر تک رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کی زندگی میں ہی قرآن کریم پھیل گیا۔ گویا جتنی معلومہ دنیا تھی اُس میں قرآن کی تعلیم صحابہ کے ہاتھ سے پھیل گئی بلکہ بعض ممالک کے لوگ اب تک اس بات کے مدعی ہیں کہ صحابہؓ کی لائی ہوئی قرآن کی کاپیاں اُن کے پاس موجود ہیں۔ توفرماتا ہے بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ یہ قرآن اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا جو بڑے سفر کرنے والے ہوں گے اور اس طرح قرآن کی اشاعت کا کام سرانجام دیں گے۔
سَفَرَۃ کے ایک معنے چونکہ کاتب کے بھی ہیں اس لئے بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ کہہ کر قرآن کریم کے لکھنے کی طرف اشارہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ قرآن اُن لوگوں کے ہاتھ میں جائے گا جو کاتب ہوں گے اور یہ قرآن صرف زبانوں پر ہی نہیں رہے گا بلکہ فوراً ضبط تحریر میں آجائے گا۔ پس اس آیت سے صحابہؓ کے زمانہ میں ہی قرآن کریم کا لکھا جانا ثابت ہوتا ہے۔ دشمن اعتراض کرتا ہے کہ قرآن کریم بعد میں لکھا گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ جس قوم کے ہاتھ میں ہم یہ قرآن دیں گے وہ اسے فوراً لکھ لے گی صرف زبانوں پر اسے نہیں رہنے دے گی۔ عیسائی قرآن کریم کے متعلق ہمیشہ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ قرآن کو بہت بعد میں لکھا گیا حالانکہ اُس کی اپنی کتاب انجیل کے متعلق تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ وہ ایک ۱۸۰سو اسی سال کے بعد لکھی گئی۔ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کی طرف جن باتوں کو منسوب کیا جاتا ہے وہ بھی بہت بعد میں لکھی گئیں مگر قرآن کریم وہ کتاب ہے کہ جہاں اسے زبانی یاد کیا جاتا تھا وہاں یہ ایسے لو گوں کے ہاتھ میں بھی تھا جو سَفَرَۃ تھے اسے فوراً لکھ لیتے تھے۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ صحابہ اکرامؓ کی موجودگی میں ہی سارا قرآن لکھا گیا تھا۔
اس میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ قرآن کی دنیا میں عزت کی جائے گی کیونکہ وہ بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ ہو گا۔ جو تعلیم کسی ایک ملک میں محدود ہو گی لازمًا اُس کا اکرام اَور رنگ کا ہو گا۔ پس قرآن سفر کرنے والے لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا اس قرآن کریم بھی ساری دنیا میں ہو گی۔ کسی ملک میں نہیں ہو گی۔ پھر سَفَرَۃ کے معنے خالی لکھنے کے نہیں ہوتے بلکہ اس کے مادہ میں انکشاف کے معنے بھی پائے جاتے ہیں پس بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ کہہ کر اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ اُسے ایسے لکھنے والے لکھیں گے جو اس کے مطالب کو واضح کریں گے اور اس کے اخلاق کو کھولیں گے گویا بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ کے معنے ہوئے کہ قرآن اُن لوگوں کے ہاتھوں میں ہو گا جو اس کی تفسیریں کرنے والے ہوں گے۔ اس کے حقائق کو واضح کرنے والے ہوں گے اور اس کی پوشیدہ اور متعلق باتوں پر سے پردہ اٹھانے والے ہوں گے اور اس طرح قرآن نہ صرف خطاء لفظی سے پاک ہو گا بلکہ خطاء معنوی سے بھی پاک ہو گا۔
سَفَرَۃ چونکہ مُکَرَّمَۃ کے مقابل میں سے ہے اس لئے اس آیت کا مطلب یہ ہؤا کہ قرآن کریم کو ماننے والے اس کی بڑی عزّت کریں گے اور نہ صرف خود عزّت کریں گے بلکہ ساری دنیا میں پھیل کر عزّت کرائیں گے۔ تیسری طرف اس قرآن کو محفوظ رکھیں گے اور اس طرح قرآن کی عزّت میں اور اضافہ ہو گا۔ جیسے میں میور (MUIR)اور نولڈکے (NOLDEKE) کے متعلق بتایا ہے کہ باوجود شدید دشمن اسلام ہونے کے وہ اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ قرآن پوری طرح محفوظ ہے۔ پس قرآن کے ضبط تحریر میں آجانے کی وجہ سے اس کے اعزاز میں اَور بھی اضافہ ہو گیا یہاں تک کہ دشمن بھی اس اعزاز کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکے۔
پھر قرآنی معارف کی تشریح کے لحاظ سے بھی اس کی تکریم میں غیر معمولی اضافہ ہؤا کیونکہ قرآن کی نہ صرف ظاہری حیثیت قائم رہی بلکہ اس کی معنوی حیثیت بھی قائم رہی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں قرآن دیا جو اس کے اغلاق کو کھولنے والے اور اس کے مطالب کی وضاحت کرنے والے تھے۔ اس میں اس امر کی طرف بھی اشارہ تھا کہ قرآن کی بولی دنیا میں بولی جائے گی یہ زبان زندہ رہے گی اور اس کے مضامین کو حل کرنے کے لئے لوگوں کو کسی قسم کی دقّت پیش نہیں آئے گی۔
دوسری صفت اللہ تعالیٰ نے مَرْفُوْعَۃٌ بیان فرمائی ہے۔ رَفَعَ کے معنے ہوتے ہیں اونچا کیا۔ یعنی ذلّت نہ کی بلکہ اعزاز کیا۔ اس کے مقابلہ میں صحابہؓ کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ کرَامٌ ہوں گے اور کِرَامٌ کے معنے بزرگ کے ہوتے ہیں اس جگہ قرآن کے متعلق مَرْفُوْعَۃٌ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں مَرْفُوْعَۃٌ کے معنے ذی شان ہونے کے ہیں۔ یہ بات ظاہری لحاظ سے بھی قرآن کریم کے متعلق پائی جاتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو قرآن کی اُمت محمدؐیہ کبھی نیچا نہیں رکھتی ہمیشہ اُسے اُونچی جگہ پر رکھا جا تا ہے بلکہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کو نیچے رکھ دے تو سب مسلمان اس سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں کہ تم نے قرآن کریم کی ہتک کی۔ پس ظاہر میں بھی یہ معنے قرآن کریم پر چسپاں ہو جاتے ہیں کیونکہ مسلمان جس طرح قرآن کو اُنچا رکھتے ہیں دُنیا کی کوئی عالمگیر قوم اپنی الہامی کتاب کی اس طرح عزت نہیں کرتی۔ درحقیقت اور کوئی عالمگیر قوم اپنی کتاب کو اونچا رکھنے کی عادی ہی نہیں۔ نہ عیسائی انجیل کو اونچا رکھتے ہیں نہ یہودی تورات کو اونچا رکھتے ہیں۔ یہ شرف صرف قرآن کریم کو ہی حاصل ہے کہ مسلمان اس کو اونچی جگہ پر رکھتے ہیں۔ اس کو نیچے رکھنا وہ برداشت ہی نہیں کر سکتے۔
مَیں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کی تین صفات جو اِس جگہ بیان کی گئی ہیں وہ حاملینِ قرآن کریم کی تین صفات کے مقابل میں رکھی گئی ہیں اور وہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ان میں سے ایک چیز دوسری چیز کا سبب ہے چنانچہ دیکھ لو قرآن مَکْرَّمَۃ ہو گیا اس لئے وہ سَفَرَۃ کے ہاتھ میں تھا جو اُسے دُنیا کے مختلف مُلکوں میں پھیل گئے اور سَفَرَۃ۔ مُکَرَّم ہو گئے اس لئے کہ اُن کے ہاتھوں میں وہ کتاب تھی جو بڑی عزت والی تھی۔ گویا یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے لازم ملزوم تھیں۔ یہ جوش جو کسی شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ مَیں اس چیز کو اپنے ہاتھ میں لیکر باہر نکل جائوں اسی لئے پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس چیز کو مُکَرَّمَۃ سمجھتا ہے اور اُسے یقین ہوتا ہے کہ اس چیز کو پھیلانا میری عزت کا موجب ہے مگر جب وُہ اسے پھیلا دیتا ہے تو اس کا طبعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خود بھی مکرّم بن جاتا ہے کیونکہ وہ ایسی چیز کو پھیلاتا ہے جو تکریم رکھنے والی ہوتی ہے۔ گویا قرآن کا مُکَرَّم ہونا سَفَرَۃ کی وجہ سے تھا اور سَفَرَۃ کا مُکَرَّم ہونا قرآن کی وجہ سے تھا۔ قرآن مسلمانوں کی عزت کا باعث ہؤا۔ اور مسلمان قرآن کی عزت کو بڑھانے کا باعث ہوئے جیسے ایک مشینری چکّر کھاتی چلی جاتی ہے اُسی طرح ایک قرآن نے صحابہؓ کو اونچا کیا اور دوسری طرف صحابہؓ نے قرآن کو اونچا کیا۔ صحابہؓ قرآن کی عزت بڑھانے کا موجب ہوتے تھے اور قرآن صحابہؓ کی عزت بڑھانے کا موجب ہوتا تھا۔
دوسری صفت قرآن کریم کی مَرْفُوْعَۃ بتائی کہ وہ بڑی ذی شان کتاب ہے۔ا ب یہ لازمی بات ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی ذی شان چیز ہو گی وہ ضرور کِرَامٌ بن جائے گا۔مگر دوسری طرف جس چیز کی کِرَامٌ عزت کریں وہ بھی ذی شان اور معزز ہو جاتی ہے چنانچہ دیکھ لو جب کوئی معزز آدمی کسی کی عزت کرے گا لوگ کہیں گے کہ معلوم ہوتا ہے یہ شخص بڑی عزت والا ہے کیونکہ فلاں معزز آدمی نے اس کی عزت کی تھی۔ پس وہ اس کی عزت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اور جب وہ معزز بن کر پھر دوسرے کی عزت کرے گا تو اس کی شہرت میں بھی اضافہ ہو گا کہ اسے فلاں معزز آدمی عزت کی نگا ہ سے دیکھتا ہے۔ گویا یہ ایک سِلسلہ ہے جو مشینری کی طرح چکّر کھاتا چلا جاتا ہے۔ جو لوگ خود کسی چیز کے اوصاف سے ذاتی طور پر واقف نہ ہوں وہ اگر اُس چیز سے متاثر ہوتے ہیں تو اُسی وقت جب وہ دیکھیں گے کہ کوئی بڑاآدمی جس کا اُس کے دل میں احترام موجود ہے اُس چیز کی تعریف کر ر ہا ہے یہ دیکھ کر وہ خود بھی اُس کے مدّاح بن جاتے ہیں۔ اب جو قرآن کریم پر ایمان رکھتے تھے وہ تو اُس کی عزت کرتے ہی تھے مگر ایک عیسائی کے نزدیک قرآن کریم کی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ روم کے بادشاہ کو بھی اس کی عظمت کا احساس ہے اور وہ کہتا ہے یہ بہت بڑی کتاب ہے جسے عمرؓ جیسا عظیم الشان انسان مانتا ہے حالانکہ عمرؓ کیوں بڑے بنے اسی لئے کہ انہوں نے قرآن پر عمل کیا۔ گویا ایک طرف روما کا بادشاہ یہ کہے گا کہ قرآن بڑی کتاب ہے جس کو عمرؓ جیسا انسان مانتا ہے اور دوسری طرف عمرؓ کی حقیقت کو جاننے والا یہ کہے گا کہ قرآن بڑی کتاب ہے کیونکہ اس کو ماننے والا عمرؓ ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اِس قدر بڑا بن گیا۔ غرض جب سچّی باتیں ایک دوسرے کے مقابل میں آجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اُبھارتی چلی جاتی ہیں۔ اِسی لئے فرمایا کہ قرآن مَرْفُوْعَۃ ہے یعنی بڑی ذی شان کتاب ہے اور اس کے ذی شان ہونے کا ثبوت یہ ہو گا کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے عزت پاتے چلے جائیں گے اور جب وہ عزت پا جائیں گے تو پھر قرآن کو ایک نئی عزت حاصل ہو گی کیونکہ لوگ کہیں گے کہ اِس کتاب کو تو بڑے بڑے آدمی مانتے ہیں پھر یہ بات دوبارہ چکّر کھائے گی کہ قرآن کریم کی نئی حاصل کر دہ عزت کی وجہ سے کچھ اور لوگ اس کا عملی تجربہ کرنے کی طرف متوجہ ہوں گے اور اس کی اتباع سے عزّت پائیں گے اور پھر اور لوگ ان کی عزّت کو دیکھ کر قرآن کریم کی عزّت کے قائل ہوںگے اور اِسی طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ قرآن لوگوں کو کرام بنائے گا اور لوگ قرآن کو مرفوعہ بنائیں گے گویا پہلے مُکَرَّمَہ کے ذریعہ سے قرآن کریم کی ذاتی عزت بتائی پھر مَرفُوْعَۃ کے ذریعہ سے بتایا کہ قرآن مسلمانوں کو کِرَامٌ بنا دے گا اور وہ اسے مَرْفُوْعَہ بنا دیں گے۔ مسلمان سارے عالم پر چھا جائیں گے اور اس طرح پھر دوسری قسم کی عزّت قرآن کریم کو ملے گی یعنی بادشاہوں کا محبوب ہونے کے سبب سے سب دُنیا میں مَرْفُوْعَۃ ہو جائے گا کہ سب اسے اپنے سروں پر رکھیں گے۔
تیسری صفت قرآن کریم کی مُطَھَّرَۃ بیان کی گئی ہے اور مُطَھَّرَۃ کے معنے پاکیزہ کے ہوتے ہیں اس کے مقابل میں بَرَزَۃ کو رکھا گیا ہے جو بَرَّ سے ہے اور بَرَّ کے معنے ہوتے ہیں اَحْسَنَ الطَّاعَۃَ اِلَیْہِ وَرَفَقَ وَتَحَدَّی مَحَابَّہٗ وَتَوَفّٰی مَکَارِہَہٗ کہ اس کی پوری اطاعت کر۔ اُس کے ساتھ رفق کیا۔ اور اُس کی اچھی چیزوں کو خوب شوق سے حاصل کیا یا اُس کی طرف توجہ سے کام لیا اور اس کی ناپسندیدہ باتوں سے بچا۔ یہ کتنا چھوٹا لفظ ہے مگر اس کے اندر کتنے وسیع معنے ہیں اور کس طرح اس ایک لفظ میں ہی حاملین قرآن کے اوصاف کو بیان کر دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے بَرَرَۃ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ قرآن کی پوری اطاعت کرنے والے ہوں گے۔ اُس کے ساتھ اپنا تعلق رکھنے والے ہوں گے۔ جو چیزیں اُس نے پسند کی ہیں اُن کو وہ پُورے زور سے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور جن چیزوں سے اُس نے منع کیا ہے اُن سے وہ پُورے زور سے بچیں گے۔
قرآن کریم کے متعلق مُطَہَّرَۃ اور صحابہ کے متعلق بَرَرَۃ کا لفظ استعمال کر کے اللہ تعالیٰ نے اِس طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآن کریم اپنے اندر کوئی ایسی بات نہیں رکھتا جو فطرتِ انسانی کے خلاف ہو۔ تمام باتیں جو فطرتِ انسانی کو اُبھارنے والی ہیں وہ اُس کے اندر موجود ہیں اور تمام باتیں جو فطرتِ انسانی کو بگاڑنے والی ہیں اُن سے وہ پاک ہے۔ اِس وجہ سے وہ لوگ جو اس کتاب سے تعلق رکھنے والے ہوں گے وہ بھی ایسے ہی ہوں گے کہ اس کی ساری باتوں پر عمل کریں گے اور اُن ساری باتوں سے بچنے کی کوشش کریں گے جن سے قرآن کریم نے روکا ہے۔ غرض بَرَرَۃ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ مومن اپنا پُورا زور اِس بات پر صرف کریں گے کہ قرآن کریم نے جن باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اُن پر عمل کریں اور وہ پُورا زور اس بات پر صرف کریں گے کہ قرآن کریم جن باتوں سے منع کیا ہے اُن سے مجتنب رہیں اور اِس طرح وہ بَرَرَۃ ہوں گے یعنی اس کے سے مجتنب رہیں اور اس طرح وہ بَرَرَۃ ہوں گے یعنی اس کے نتیجہ میں کامل متقی بن جائیں گے۔ جب انسان اِس مقام پر نہیںہوتااور وہ اِسی شش و پنج میں مبتلا رہتا ہے کہ مَیں قرآن کریم کی بات کو مانوں یا نہ مانوں تو وہ بَرَرَۃ میں شامل نہیں سمجھا جا سکتا۔ اور نہ وہ قرآن کا مُطَھَّرسمجھنے والا قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر وہ قرآن کریم کو مُطَھَّر سمجھتا اور یقین رکھتا کہ قرآن کریم نے ہر وہ تعلیم دی ہے جس کی فطرتِ انسانی کو پیاس ہے اور ہر اُس بات سے روکا ہے جو فطرت کو مسخ کرنے والی ہے تو وہ اس کے احکام پر عمل بھی کرتا اور اُس کے نواہی سے بچنے کی کوشش کرتا مگر جب وہ ایسا نہیں کرتا اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ نہ وہ قرآن کے مطہر ہونے پر ایمان رکھتا ہے اور نہ وہ اپنے آپ کو بَرَرَۃ میں شامل کرنا چاہتا ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مُطَھَّرَۃ کے مقابل میں بَرَرَۃ رکھا یہ بتانے کے لئے کہ ان دونوں میں نسبت پائی جاتی ہے۔
جب قرآن پر عمل کرنے کے نتیجہ میں لوگ بَرَرَۃ بن جائیں گے تو قرآن کو نئے سرے سے مطہر بنائیں گے اس لئے کہ جب انسان نیکو کار ہو گا۔ قرآن پر عمل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو مدنظر رکھے گا تو یہ لازمی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس پر روحانی فیوض کا نزول ہو گا کیوں کہ جب انسان نیکیوں میں حصّہ لیتا اور اللہ تعالیٰ کے قرب میںبڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیوض نازل ہوتے ہیں۔ جب بَرَرَۃپر قرآن کریم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں فیوض نازل ہوں گے تو وہ ان فیوض کو قرآن کریم کی طرف منسوب کریں گے اور اس طرح قرآن کریم کو ایک نئے رنگ کی طہارت حاصل ہو جائے گی جیسے قرآن کریم تو پہلے ہی مطہر تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کس نے بَرَرَۃ میں سے بنایا تھا؟اسی قرآن نے گویا قرآن نے مسیح موعودؑ کو پاک کیا اور مسیح موعودؑ نے قرآن کی طہارت کے پوشیدہ اوصاف کو ظاہر کیا۔ حضرت مسیح موعود عیلہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے پہلے لوگ قرآن کریم کی طرف کئی قسم کی غلط باتیں منسوب کیا کرتے تھے مگر آپ نے اُن تمام غلط عقائد اور غلط تعلیمات کا باطل ہونا ثابت کر دیااور اس طرح قرآن کو مطہر بنا دیا۔ جب آپ نے قرآن کو مطہر بنایا تو یہ لازمی بات تھی کہ اس کے نتیجہ میں آپ کی نیکیوں میں اَور بھی اضافہ ہو جاتا پس قرآن کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ مطہر ہے اُس پر عمل کرنے والے بَرَرَۃ میں شامل ہو جاتے ہیں اور بَرَرَۃ میں شامل ہونے والے پھر قرآن کو مطہر کرتے ہیں اور قرآن پھر اُن کو نیکیوں میں بڑھاتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا امور سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کلام کی عظمت کسی ظاہری سامان کی محتاج نہیں بلکہ قلوب کی صفائی کے ساتھ قرآن کریم کی عظمت قائم ہوتی ہے۔ گویا بتایا گیا ہے کہ اس قرآن کی عظمت قائم ہوتی ہے۔ گویا بتایا گیا ہے کہ اس قرآن سے وہی لوگ فائدہ اٹھائیں گے جو نیک ہوں مگر وہ لوگ فائدہ نہیں اٹھا سکتے جو نیک نہیں ہیں۔ اور جب یہ بات ہے تو پھر یہ کوئی سوال ہی نہ رہا کہ ظاہر میں فلاں شخص بڑا ہے اور فلاں شخص چھوٹا۔ فلاں شخص عالم ہے اور فلاں شخص جاہل۔کیونکہ یہاں ظاہری بڑائی علم یا ظاہری علم یا ظاہری عزّت کا کوئی سوال نہیں۔ قرآن ایسے ہاتھوں میں ترقی کرے گا جو سَفَرَۃ ہوں گے۔ کِرَامٌ ہوں اور بَرَرَۃ کے اوصاف اپنے اندر رکھتے ہوں گے خواہ وہ ظاہری طور پر بڑوں میں سے ہوں یا چھوٹوں میں سے۔ امیروں میں سے ہوں یا غریبوں میں سے۔ چنانچہ مکّہ کے چوٹی کے خاندانوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے کئی لوگوں کو خدمت کی توفیق دی اور غرباء میں سے بھی کئی لوگوں نے اسلام کی شاندار خدمات سرانجام دیں۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت علیؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت حمزہؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت عثمانؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے اس کے مقابل زیدؓ اور بلالؓ اور سمرہؓ اور خُبابؓ۔ صُہیبؓ۔ عامرؓ۔ ابوفکیہہؓ چھوٹے سمجھے جانیوالے۔ گویا بڑے لوگوں میں سے بھی قرآن کریم کے خادم چُنے گے اور چھوٹے لوگوں میں سے بھی۔ پس فرماتا ہے تمہارا یہ سوال بالکل غلط ہے کہ یہ لوگ آئیں گے کہاں سے؟ اسی طرح تمہارا یہ خیال بھی غلط ہے کہ فلاں شخص ہی دین کے قابل ہے اور فلاں نہیں۔ یہ معاملہ قلوب سے تعلق رکھتا ہے ظاہر سے نہیں۔ اور اس وجہ سے ہم ان لوگوں کا خود انتخاب کریں گے۔ قرآن کریم میں وہ تمام چیزیں ہیں جو اچھے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور اگر کسی شخص کو قرآن کریم کی خوبیاں نہیں کھینچ سکیں تو وُہ یقینا اس زمانہ میں حقیقی بڑائی حاصل کرنے کا مستحق ہی نہیں۔
قُتِلَ الْاِنْسَانُ
انسان ہلاک ہو وہ کیسا ناشکرا ہے ۸؎
۸؎ حل لغات
قُتِلَ قَتَلَ سے مجہول کا صیغہ ہے اور قَتَلَ اللّٰہُ الْاِنْسَانَ کے معنے ہیں لَعَنَہُ اللہ نے اُس پر *** کی (اقرب) پس قُتِلَ الْاِنْسَانُ کے معنی ہوں گے۔ اس انسان پر *** ہو۔
تفسیر
جس قسم کا لطیف نقشہ قرآن کریم کی خوبیوں اور اُس کے کمالات کا اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کھینچا ہے اس کی مناسبت سے فرماتا ہے قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہٗ۔ یہ منکر انسان جو قرآن کریم سے اعراض کرنے والا اور اُس کے احکام سے تَلّھِی اختیار کرنے والا ہے کتنا بڑا ناشکر گزار انسان ہے اس کے سامنے ایک ایسا عظیم الشان کلام پیش کیا جا رہا ہے جو مکّرمہ ہے جو مرفوعہ اور مطہرہ ہے اور جو نہ صرف آپ ہی پاک ہے بلکہ اس کے اندر یہ خصوصیت بھی موجود ہے کہ جو شخص اس کو ہاتھ لگا لے وہ بھی پاک ہو جاتا ہے گویا جیسے سنگ پارس کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ جس چیز سے چُھو جائے سونا بن جاتی ہے اسی طرح یہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ نہ صرف خود اعزاز رکھنے والی ہے بلکہ جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں وہ بھی معزز بن جاتے ہیں جب یہ ایسی عظیم الشان کتاب ہے تو قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہٗ۔ اس قرآن سے اعراض کرنے والا انسان ہلاک ہو وہ کتنا بڑا نا شکرا ہے قرآن اس کے سامنے تھا اور اس کے لئے موقع تھا کہ وہ اس کے احکام پر عمل کر کے سَفَرَۃ میں سے بن جاتا۔ کِرَامٌ میں سے بن جاتا۔ بَرَرَہ میں سے بن جاتا۔ اگر قرآن کے اندر صرف ذاتی خوبیاں ہوتیں تو کوئی شخص کہہ سکتا تھا کہ مجھے تو وہ خوبیاں اس کلام میں نظر نہیں آئیں مگر قرآن کی خوبیان وہ ہیں جو صرف ذاتی نہیں بلکہ متعدی ہیں اور دوسروں کے اندر بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ پس یہ انسان کیسا ناشکرا ہے کہ ہم نے تو اسے بڑھانے اور ترقی دینے کا سامان کیا مگر وہ اُلٹا اس کلام سے دُور بھاگتا ہے۔
مِنْ اَیِّ شَیْئٍ
(وہ غور تو کرے) کہ کس چیز سے خدا نے اُسے پیدا کیا ہے نطفہ سے (پیدا کیا ہے) (پہلے تو)اُسے پیدا کیا پھر اس کے لئے (ترقی کا ایک) اندازہ مقرر کیا۔ پھر (اس کے) راستہ کو (آسان بنایا) خوب ہی (اُسے) آسان بنایا ۹؎
۹؎ تفسیر
آخر وہ یہ تو سوچے کہ ہم نے اُس کی پیدائش کس طرح کی ہے اور کن اعلیٰ اور اغراض کے لئے اُسے دُنیا میں بھیجا ہے۔ قرآن کریم کا یہ ایک عجیب وصف ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنی شان کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہمیں تمہاری کوئی پرواہ نہیں۔ اگر تم مانو گے تو تمہارا اپنا فائدہ ہو گا اور اگر انکار کرو گے تو تمہارا اپنا نقصان ہو گا۔ مگر دوسری طرف جس طرح ماں کے دل میں اپنے بچہ کے متعلق رحم اور محبت کے جزبات پیدا ہو جاتے ہیں اسی طرح قرآن کریم میں پیدا ہو جاتے ہیں اور پھر محبت اور پیار سے اُن کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔ماں بھی اسی طرح کرتی ہے جب بچہ اس کا کہنا نہیں مانتا تو وہ ناراض ہو کر کہتی ہے کہ میرا کیا ہے میں نے تو تمہارے فائدہ کے لئے یہ بات کہی تھی مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی وُہی پھر اُسے پُچکار کر کہنا شروع کر دیتی ہے کہ بچے کھانا کھا لے۔ اور اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح بچہ اس کی بات مان لے۔ اسی طرح قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآاَکْفَرَہٗ میں اللہ تعالیٰ نے استغناء ظاہر کیا تھا کہ انسان ہلاک ہو جائے وہ کتنا بڑا ناشکر ا ہے قرآن جیسی کتاب اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور وہ پھر بھی تَلَھِّی اور اعراض سے کام لیتا ہے مگر یہ کہنے کے معًا بعد فرما دیا مِنْ اَیِّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ۔ مِنْ نُّطْفَۃٍ۔ گویا انسان کو پچکارنا شروع کر دیا کہ کسی طرح وہ اُس کی طرف واپس آجائے۔ فرماتا ہے کیا انسان اس بات پر بھی غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ اُسے کس طرح پیدا کرتا ہے مِنْ نُّطْفَۃٍ وہ اسے ایک چھوٹے سے قطرہ سے پیدا کرتا ہے اور پھر پیدا کرنے کے بعد اُس نے اُسے چھوڑ نہیں دیا بلکہ فَقَدَّرَہٗ اس کا اندازہ مقرر کیا قَدَّرَہٗ کے متعلق مفردات والا لکھتا ہے کہ اَشَارَۃٌ اِلٰی مَا اَوْ جَدَہٗ بِالْقُوَّۃِ فَیَظْھَرُ حَالًا فَحَالًا اِلَی الْوُجُوْدِ بِالصُّوْرَۃِ کہ وہ مخفی قوتیں جو خدا تعالیٰ نے انسان میںرکھی ہیں اور جن کو موقع موقع پر انسان ظاہر کرتا چلا جاتا ہے اُن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے گویا خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ کے معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس میں ایسی طاقتیں اور قوتیں رکھیں جو ہر موقع و محل کے مطابق اس سے ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ جیسا کامن ہوتا ہے ویسی ہی قوتیں اس سے ظاہر ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ گویا ایک وسیع ترقی کا میدان اللہ تعالیٰ نے اُس کے لئے پیدا کیا ہے۔ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ اِدھر اُس نے انسان کے لئے ترقی کا ایک وسیع میدان پیدا کیا ہے اور اُدھر اس کے اندر ایسا مادہ رکھ دیا ہے کہ جب بھی کوئی اہم موقع اُس کے سامنے آئے اس کے مطابق اس کی اندرونی قابلیتیں اُبھر کر سامنے آجاتی ہیں اور اُسے کوئی قربانی بھی دوبھر محسوس نہیں ہوتی۔ پس ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایسا مادہ پیدا کر دیا ہے کہ اگر وہ اپنی طبیعت پر ذرا بھی بوجھ ڈال لے تو ہر کام اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے اور وہ بڑی بڑی دشوار گزارگھاٹیاں آسانی سے عبور کر جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ عادت بُری چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عادت بھی ہمارے فضلوں میں سے ایک فضل ہے۔ اور جب کسی کام کی عادت انسان کو ہو جائے تو پھر اس کام کے کرتے وقت کوئی دِقّت محسوس نہیں ہوتی۔ پس کسی کام کی عادت ہو جانا ایک خوبی ہے بشرطیکہ اس عادت کا استعمال کسی بُرے موقع پر نہ ہو۔ پس فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ۔ انسان کو پیدا کرنے اور اس کے اندر ترقی کی قابلیتیں رکھنے کے بعد ہم نے اُس کا راستہ آسان کر دیا۔ نماز پڑھنا پہلے انسان کو بڑا دوبھر معلوم ہوتا ہے مگر کچھ دن باقاعدگی اور التزام سے نمازیں پڑھنے کے بعد ایسی عادت ہو جاتی ہے کہ نمازون کا پڑھنا بالکل آسان معلوم ہونے لگتا ہے۔ روزے رکھنے لگیں تو پہلے مشکل معلوم ہوتے ہیں لیکن جب روزوں کی عادت ہو جائے تو پھر محسوس بھی نہیں ہوتا کہ یہ بھی کوئی مشکل کام ہے۔ یہی حال صدقہ و خیرات اور دوسری نیکیوں کا ہے۔ جن لوگوں کو صدقہ و خیرات کی عادت ہو جائے ہم نے دیکھا ہے کہ جب تک وہ روزانہ کچھ نہ کچھ صدقہ کرنہ لیں انہیں چین ہی نہیں آتا۔ عربوں کو اس بات کی عادت تھی کہ وہ کھانا کھاتے وقت کسی اَور کو اپنے ساتھ ضرور شامل کر لیا کرتے تھے اور پھر یہ عادت رفتہ رفتہ ایسی پختہ ہو گئی کہ جب تک وہ کسی اَور کو اپنے ساتھ دسترخوان پر نہیں بٹھا لیتے تھے وہ کھانا نہیں کھا سکتے تھے اور تلاش کر کر کے دوسروں کو بھی اپنے کھانے میںشریک کرتے تھے۔ تو فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ بظاہر انسان کے سامنے قربانی ایک بہت بڑا وسیع میدان ہے مگر اس کے ساتھ ہی فطرتِ انسانی میں ہم نے یہ مادہ رکھ دیا ہے کہ جب وہ عمل کرنا شروع کر دے تو بجائے اس کے کہ کام بوجھل محسوس ہو وہ اُسے آسان معلوم ہونے لگتا ہے اور اس کی طرف اُسے دلی رغبت پیدا ہو جاتی ہے چنانچہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی اور دوسری کے بعد تیسری نیکی میں وہ حصہ لینا شروع کر دیتا ہے۔ اگر عادت نہ ہوتی تو ایک نیکی کا کام بھی سرانجام دینا اس کے لئے مشکل ہوتا مگر چونکہ رفتہ رفتہ کاموں کی عادت ہوتی چلی جاتی ہے اس لئے انسان کاموں سے گھبراتا نہیں بلکہ اُن میں ایک لذّت اور سُرور محسوس کرتا ہے۔ پہلے وہ نماز پڑھتا ہے تو اُسے نماز کی عادت ہو جاتی ہے پھر روزے رکھتا ہے تو اُسے روزوں کی عادت ہو جاتی ہے۔ پھر صدقہ وخیرات میں حصہ لیتا ہے تو اُسے صدقہ و خیرات کی عادت ہو جاتی ہے اس طرح وہ ایک ایک نیکی کو فتح کرتا چلا جاتا ہے اور آگے بڑھنا اس کے لئے بالکل آسان ہو جاتا ہے۔
ثُمَّ اَمَاتَہٗ
پھر (عمر کے طبعی کے بعد) اُسے ماردیا پھر اُسے (موعود) قبر میں رکھا ۱۰؎٭
۱۰؎ تفسیر
فرماتا ہے اس کے بعد ہم نے اُس کو وفات دی یعنی ہمارا طریق یہ ہے کہ اس کے بعد ہم اُس کو وفات دے دیتے ہیں۔ یہاں خدا تعالیٰ نے موت کو اپنے احسان کے طور پر پیش کیا ہے چنانچہ دیکھ لو اِن آیات میں ہر جگہ خدا تعالیٰ نے اپنے احسانات کا ذکر کیا ہے فرماتا ہے مِنْ اَیِّ شَیْئٍ خَلَقَہٗoط مِنْ نُّطْفَۃٍ ط خَلْقَہٗ فَقَدَّرَہٗoلا ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ۔یہ سب احسانات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے شمار کرائے ہیں۔ اِسی ذیل میں فرماتا ہے ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ۔ پس اماتت کو بھی یہاں احسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ فرماتا ہے جب انسان نیکیوں میں حصہ لیتا ہے اور مسلسل حصہ لیتا چلا جاتا ہے تو آخر ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہم کہتے ہیں اب تم نے بڑی محنت اُٹھا لی آئو ہم تم کو پنشن دیتے ہیں۔ گویا موت کیا ہے ایک پنشن ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ دنیا میں لوگوں کو پنشن ملتی ہے تو وہ گورنمنٹ کے ممنون ہوتے ہیں مگر فرماتا ہے یہ عجیب نادان ہیں کہ ہم ان کو پنش دیتے ہیں تو لوگ رونا شروع کر دیتے ہیں۔ فَاَقْبَرَہٗ جب انسان کو ہم موت دیتے ہیں تو اس کے بعد اُسے قبر میں داخل کرتے ہیں۔ اَقْبَرَہٗ کے معنے ہیں جَعَلَ لَہٗ قَبْرًا یُذفَنُ فِیْہِ (اقرب) کہ اُس کے لئے ایک قبر مقرر کی جس میں وہ دفن کیا جاتا ہے اور یہ بھی اس کے معنے ہو سکتے ہیں کہ جَعٔلَہٗ مِمَّنْ یُقْبَرَ اُسے اُن لوگوں میں سے بنایا جن کے لئے قبر میں داخل ہونا مقدّر ہے اور اَقْبَرَ الْقَوْمَ کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اَمَرَ اَنْ یُّقْبَرَ قَتِیْلُھُمْ (اقرب) اُس نے حکم دیا کہ اُن مقتولوں کو قبروں میں دفن کیا جائے۔ پس اَقْبَرَہٗ کے معنے ہوئے قبر میں اس کو داخل کیا یا قبر میں داخل ہونے کا حکم دیا اُس کیلئے قبروں میں داخل ہونے کا نظام جاری کیا۔ گویا یا تو اس کے معنے یہ ہوںگے کہ جَعَلَ لَہٗ قَبْرًا یُدْفَنُ فِیْہِ اور اس کے معنے ہوں گے جَعَلَہٗ یُدْفَنُ فِیْہِ اور یا اس کے معنے ہوں گے جَعَلَہٗ مِمَّنْ یُقْبَرُ کہ ہم نے اس کو ایسا بنایا کہ اس کو قبر میں ضرور داخل ہونا پڑتا ہے۔ اب اگر فَاَقْبَرَہٗ کے معنے یہ لئے جائیںکہ جَعَلَ لَہٗ قَبْرًا یُدْفَنُ فِیْہِ یعنی ہر انسان قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو یہ معنے اس لحاظ سے یہاں چسپاں نہیں ہوں گے کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو قبروں میں دفن نہیں ہوتے۔ اور اگر وہ معنی لئے جائیں جو اَمَرَ اَنْ یُّقْبَر قَتِیْلَھُمْ سے ظاہر میں تو وہ بھی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتے۔ پس میرے نزدیک اَقْبَرَہٗ کے معنے اس جگہ یہی مناسب ہیں کہ جَعَلَہٗ مِمَّنْ یُّقْبَرُ یعنی ہم نے اس کو ایسا بنایا ہے کہ وہ قبر میں داخل کیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک دلیل ہے جو پچھلی دلیل کے ایک حصہ اور ٹکڑہ کے طور پر اس جگہ بیان ہوئی ہے۔ اَقْبَرَہٗ کے معنے خالی مٹی میں دفن کئے جانے کے ہوں تو یہ الفاظ دلیل کا حصہ نہیں بن سکتے۔
وہ معنے جو عام طور پر ہماری طرف سے اس آیت کے کئے جاتے ہیں کہ اس آیت میں اُس قبر کا ذکر ہے جو عالمِ برزخ میں ہر انسان کو ملتی ہے وہ بھی درست ہیں مگر دشمن کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک ڈھکوسلہ ہے ہمیں تو نظر نہیں آتا کہ اگلے جہان میں ہر مرنے والے کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے اس لئے ہم تمہاری اس بے دلیل بات کو کس طرح مان سکتے ہیں اور میرے نزدیک جبکہ یہ ایک دلیل ہے جو گزشتہ دلیل کے جزو کے طور پر بیان ہوئی ہے تو بہرحال اَقْبَرَہٗ کا کوئی حصّہ دنیا میں بھی نظر آنا چاہئیے۔ جو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے معنے یہ کریں کہ جَعَلَہٗ مِمَّنْ یُّقْبَرُ یعنی انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھ دیا ہے کہ وہ اپنے مردے کو قبر میں داخل کرے۔ اگر بعض لوگ اپنے مُردوں کو جلاتے ہیں تو درحقیقت وہ بھی اسی لئے جلاتے ہیں کہ وہ پسند نہیں کرتے کہ اُن کے مُردے سڑتے گلتے رہیں اسی لئے وہ ان کو جلا کر راکھ کر دیتے ہیں۔ جو لوگ اپنے مُردے جانوروں کو کھلا دیتے ہیں وہ بھی اسی لئے کہ اُن کے نزدیک مردہ کا احترام یہ تقاضا کرتا ہے کہ ایسا کیا جائے۔ گویا مُردوں کی عزت اور اُن کا احترام کرنا انسانی فطرت میں داخل ہے اور یہی معنے فَاَقْبَرَہٗ کے ہیں کہ کوئی انسان اپنے مُردے کی ہتک برداشت نہیں کر سکتا باوجود اس کے کہ وہ ایک بے جان لاشہ ہوتا ہے فطرتِ انسانی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتی کہ اُسے یونہی پھینک دیا جائے بلکہ ہر انسان خواہ وُہ کسی مذہب و ملّت سے تعلق رکھتا ہو اُس کا مناسب اعزاز کرے گا اور اپنے اپنے رنگ میں جو سلوک مناسب ہو گا اُس سے کرے گا۔ اور یہ وہی وہ بات ہے جس میں انسان دوسرے جانداروں سے ممتاز ہے ورنہ اگر کھانے کو لو۔ تو انسان بھی کھاتا ہے اور جانور بھی کھاتا ہے۔ سونے کو لو تو انسان بھی سوتا ہے اور جانور بھی مرتا ہے۔ آگے یہ فرق ہو جاتا ہے کہ جانوروں میں یہ مادہ نہیں کہ وہ دوسرے جانوروں کی لاشوں کو دفنائیں لیکن کوئی انسان اپنے مردوں کو ایسی طرز پر نہیں رکھتا جس سے ان کے اعزاز میں فرق آئے۔ یہ مردے کا اعزاز اور اُس کا احترام جو انسانی فطرت میں داخل ہے بتاتا ہے کہ انسانی زندگی موت پر ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر انسان کی زندگی اُس کی موت پر ختم ہے تو پھر اُس کے جسم کا احترام کون سا رہا یا اُس کے اعزاز کی ضرورت ہی کیا ہے اس صورت میں بیشک اُسے میدان میں پھینک دیا جائے کوئی حرج نہیں ہو گا۔ لیکن فطرتِ انسانی میں اس مادہ کا ہونا کہ مُردے کی عزت کی جائے اور اس کی عظمت میں کوئی فرق نہ آئے اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی موت کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتی۔ فرماتا ہے ہم تمہارے سامنے اس فطری دلیل کو پیش کرتے ہیں۔ تم اپنے مردہ کی لاش کو تحقیر کے ساتھ پھینکتے نہیں بلکہ اس کا مناسب احترام کرنا ضروری سمجھتے ہو۔ اگر اس آئندہ زندگی کا کوئی امکان نہیں تو تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مردے کا مناسب احترام کیا جائے۔ خواہ تم اپنے مُردوں کو بجلی سے جلا دو خواہ لکڑیوں کے اغبار میں رکھ کر آگ لگا دو۔ خواہ خاص مقام پر رکھ کر سدھائی ہوئی چیلوں اور گِدھوں کو کھلا دو۔ بہرحال تم اپنے مُردوں سے وہ معاملہ نہیں کرتے جو جانور کرتے ہیں ایک کُتّا مر جاتا ہے تو دوسرے کُتوں کو خیال بھی نہیں آتا کہ اس کے ساتھ کوئی خاص سلوک کریں وہ اُسی طرح پڑا رہتا ہے یہاں تک کہ گل سڑ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر انسانی زندگی اُس کی موت پر ختم تھی تو پھر چاہئیے تھا کہ لوگ اپنے مردوں کو یونہی پھینک دیتے مگر وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے رنگ میں اس کا مناسب اعزاز کرتے ہیں پس فرماتا ہے ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ہم انسان کوموت دیتے ہیں۔ اور پھر اُس کے رشتہ داروں کے دلوں میں ایسی حس پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ اس کی لاش کو یوں ہی نہیں پھینک دیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اگر ہم نے ایسا کیا تو مردہ کی عزت اور احترام میں فرق آئے گا۔ یہ دلیلِ فطرت پیش کر کے اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ جب مرنے کے بعد بھی تم عزت کے قائل ہو اور لاش کی عزت کرنا اپنے لئے ضروری سمجھتے ہو تو اس سے معلوم ہؤا کہ مرنے کے بعد کی زندگی کا تمہارے دلوں میں بھی احساس موجود ہے گویا یہ احساس ادنیٰ ہے مگر بہرحال یہ ادنیٰ احساس تمہاری روح کو اس اہم امر کی طرف متوجہ کرنے کے لئے کافی ہے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ تمہارے دلوں میں مردہ کے احترام کا جزبہ پایا جاتا ہے۔ تمہارے دلوں میں اس جزبہ کا نمایاں طور پر پایا جانا اور دنیا میں کسی انسان کا بھی اپنے مردہ کی لاش کی ہتک گوارا نہ کر سکنا اس بات کا ثبوت ہے کہ زندگی موت کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتی بلکہ کوئی اور حیات ہے جس کا اس موت سے آغاز ہوتا ہے اور انسان نہیں چاہتا کہ اس زندگی کے کوچہ میں داخل کرتے وقت محض اس خیال سے کہ یہ جسم تو مُردہ ہو چکا ہے اس کی عزت میں کوئی فرق آنے دے۔
ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ
پھر جب چاہے گا اُسے دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا ۱۱؎(ایسا) ہر گز نہیں (جو تم سمجھتے ہو) (دیکھتے نہیں کہ) ابھی تک جو اسے حکم ملا تھا اُس نے اُسے پورا نہیں کیا ۱۲؎
۱۱؎ حل لغات
اَنْشَرَاللّٰہُ الْمَیِّتَ کے معنے ہوتے ہیں اَحْیَاہَ۔ اللہ تعالیٰ نے مردہ کو زندہ کیا (اقرب) پس اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ کے معنے ہوں گے جب وہ چاہے گا اُسے زندہ کرے گا۔
تفسیر
فرماتا ہے کہ تم کو ان ساری باتوں سے نتیجہ نکال لینا چاہئیے کہ جب خدا چاہے گا تم کو دوبارہ زندہ کر دے گا۔ ورنہ یہ تمام سلسلۂ پیدائش ہی لغو اور بے معنی قرار دینا پڑتا ہے آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنا بڑا کارخانہ جاری کرے اور پھر اس کے اندر کوئی غرض اور حکمت کام نہ کر رہی ہو۔ وہ انسان کو پیدا کرتا ہے ایک ایسی چیز سے جو نہایت ہی ذلیل ہے پھر ادنیٰ حالت سے ترقی دیتے دیتے اُسے اعلیٰ درجہ کے مقامات تک پہنچا دیتا ہے۔ اُس کے اندر ایسی قوتیں رکھتا ہے جو غیر محدود ہیں اور جوں جوں ترقی کے سامان ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں اُس کے مقابلہ میں اُس کی اندرونی قوتیں بھی رُونما ہونی شروع ہو جاتی ہیں پھر نہ صرف انسان کے اندر اس نے مختلف قسم کی قوتیں پیدا کی بلکہ عادت کے ذریعہ وہ اُس کے کاموں میں بشاشت پیدا کر دیتا ہے اور جب اسی طرح ترقی کرتے کرتے انسان اپنے کمال کو ہؤپہنچ جاتا ہے تو تم یہ خیال کرتے ہو کہ اس کے بعد روح کو فنا کر دیا جاتا ہے حالانکہ اتنے بڑے کام کے بعد انعام ملنے کا حق ہوتا ہے نہ یہ کہ انعام تو کوئی نہ دیا جائے اور روح کو ابدی طور پر فنا کر دیا جائے۔ پھر جب انسان مر جاتا ہے تو تمہاری فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ پیدا کیا ہؤا ہوتا ہے کہ تم اپنے مردہ کی عزت کرو چنانچہ تم اپنے اپنے طریق کے مطابق احترام کے ساتھ اُسے اپنے گھر سے جُدا کرتے ہو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی تم کسی عزت کے قائل ہو اور تمہارا یہ فعل اس بات پر گواہ ہے کہ زندگی موت پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ ایک اور حیات انسان کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ اور وہ جب چاہے گا انسان کو زندہ کر دے گا۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ تم اور تو ساری باتیں مانتے چلے آتے ہو مگر یہاں آکر انکار کر دیتے ہو۔ گویا تسلیم کرتے ہو کہ انسان کی پیدائش بغیر کسی حکمت کے نہیں ہوئی۔ اس کا ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اعلیٰ درجہ تک کی حالت تک پہنچنا۔ اس کے اندر ترقی کی وسیع قابلیتوں کا رکھا جانا۔ اس کے سامنے ترقیات کا ایک وسیع میدان ہونا اور پھر اُن ترقیات کے مطابق انسانی قوتوں کا اُبھر آنا اور پھر عادت کے ذریعہ اس کے اندر بشاشت کا پیدا ہونا اور پھر جب وہ مر جائے تو تمہارا اپنے مردہ کی لاش کا احترام کرنا یہ سب امور اس بات کی ایک کھلی دلیل ہیں کہ مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے۔ مگر تمہاری عجیب حالت ہے کہ تم اور تو سب باتوں کو مانتے چلے آتے ہو مگر ان باتوں کو جو طبعی نتیجہ ہے اُس کو تسلیم کرنے سے نشوز کرتے ہو۔
۱۲؎ تفسیر
فرماتا ہے کَلَّا ہر گز نہیں لَمَّا یَقْضِ مَآاَمَرَہٗ اُس نے اب تک وہ کام نہیں کیا جس کا اُسے حکم دیا گیا تھا۔ لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ میں اسی طرف اشارہ ہے جس طرف مَایُدْرِیْکَ لَعَلَہٗ یَزَّکّٰٓی میں اشارہ کیا گیا تھا اور جس کا قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہٗ میں بھی ذکر تھا۔ کہ انسان کے لئے موقعہ تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اور اپنی عاقبت کو سنوار لے مگر اب تک اس نے اپنے اس فرض ادا نہیں کیا۔ اُس کے لئے روحانی ترقیات حاصل کرنے کا بہت بڑا موقع تھا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب کا میدان کُھلا تھا مگر افسوس کہ اس نے اپنے اس فرض کو کماحقہٗ اب تک سرانجام نہیں دیا۔ یہی وہ چیز ہے جس پر آجکل بار بار زور دے رہا ہوں اور جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ وہ آئندہ نسلوں تک اِس امانتِ روحانی کو پہنچانے کے لئے اس قدر تن دہی اور اس قدر جانکاہی سے کام لے کہ شیطان ہمیشہ کے لئے مایوس ہو جائے اور کفر کے غلبہ کا دنیا میں کوئی امکان نہ رہے۔ آج تک کسی اُمت نے اپنی نسل کو شیطانی حملوں سے محفوظ رکھنے پر زور نہیں دیا اگر ہماری جماعت اس فرض کو سرانجام دے لے تو یقینا یہ ایک بے مثال کام ہو گا اور اس کی نظیر اَور کسی اُمّت میں نہیں مل سکے گی۔ اللہ تعالیٰ اسی نکتہ کی طرف توجہ دلاتا ہے اور افسوس کے ساتھ فرماتا ہے کہ لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ ہم نے انسان کو جو حکم دیا تھا اس کو اب تک اُس نے ادا نہیں کیا۔ فرداً فرداً لوگوں نے اپنی اصلاح کی بہت کوششیں کی ہیں مگر قوم کی قوم کو اُبھار کر ترقی کے میدان میں اس طرح بڑھاتے چلے جانا کہ پھر اس کے گرنے کا کوئی امکان نہ رہے اور شیطان اُس کو ورغلانے سے مایوس ہو جائے یہ کام اَیسا ہے جس کی طرف ابھی تک توجہ نہیں کی گئی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت پر چونکہ مُختلف دَور آتے ہیں اس لئے ممکن ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دَوروں میں سے کوئی دَور ایسا بھی آجائے جس میں اس غرض کی ادائیگی ہو سکے جس کا کَلَّا لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اب تک الگ الگ کوششیں کر کے اُن کے نتائج کو دیکھا جا چکا ہے صحابہؓ نے تیس سال کوشش کی مگر پھر اُن کی نسلوں میں کمزوری پیدا ہو گئی اور نیکی کا تسلسل جاتا رہا۔ اب ہمارے لئے موقع ہے کہ ہم اس کام کو سرانجام دینے کے کوشش کریں تاکہ قومی طور پر اسلام دنیا میں اس طرح قائم ہو جائے کہ پھر اس کے گرنے کا امکان ہی نہ رہے۔ یہ کام ایسا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہؤا۔ انفرادی رنگ میں بے شک بہت کوششیں ہوئیں مگر قومی طور پر اسلام کی برتری کی ایسی کوشش نہیں کی گئی کہ نیکی کا تسلسل قائم رہتا اور اسلام کے گرنے کا کبھی خطرہ پیدا نہ ہوتا۔ پس کَلَّا لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ میں اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب تک انسان نے وہ بات نہیں کی جس کا ہم نے اسے حکم دیا تھا۔
اس کے ایک اور معنے بھی ہو سکتے ہیں اور وہ یہ کہ انسانی قوتیں جس مقامِ عظیم کو حاصل کر سکتی ہیں اب تک انسان نے اُس مقام کو حاصل نہیں کیا پس تم کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ابھی موعود کا ادیان آنا باقی ہے جس سے انسانی ترقی کا آخری مقام وابستہ ہے او ر بجائے اس کے کہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیغام کو حقارت سے دیکھا جائے اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ کرنی چاہئیے۔
مَّتَاعًا لَّکُمْ
( یہ سب) تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدہ کے لئے (کیا گیا ہے) ۱۳؎
۱۳؎ تفسیر
چاہئیے کہ انسان اپنے کھانے کی طرف دیکھے اور غور کرے کہ ہم اس کی جسمانی پرورش کے لئے کیا کچھ کرتے ہیں۔ ہم نے اس کے لئے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے زمین کو اس کی خاطر پھاڑا۔ ہم نے اُس میں سے دانے نکالے اور انگور پیدا کئے اور قضب پیدا کیا۔ لُغت میں لکھا ہے کہ اَلْقَضْبُ کُلُّ شَجَرَۃٍ طَالَتْ وَسَبَطَتْ اَغْصَانُھَا وَالْقَتُّ۔ وَالْقَتُّ: اَلْفِصْفَصَۃُ الْیَابِسُ وَالْفِصْفِصَۃُنَبَاتٌ تَعْلُفُہُ الدَّوَاتُ وَھِیَ تُسَمَّی بِذَالِکَ مَادَامَتْ رَطْبَۃً فَاِذَاجَفَّتْ زَالَ عَنْھَا اِسْمُ الْفِصْفِصَۃِ وَسُمِّیَتْ بِالْفَتِّ حَبُّھَا نَحْوُ الْکَرْسَنَّۃِ لَکِنْ فِیْہِ طَوْلٌ (اقرب)قضبؔ کہتے ہیں ہر ایسے درخت کو جو اونچا بھی ہو اور اس کی شاخیں بھی اردگرد پھیلی ہوئی ہوں۔ جانور اس کو شوق سے کھاتے ہیں خصوصًا اونٹ ایسے درخت کی طرف بہت رغبت سے جاتا ہے۔ اسی طرح قتؔ کو بھی قضب کہتے ہیں اور قَتّ نِصْفِصَۃ کو کہتے ہیں یہ ایک روئیدگی ہے جس کو جانور کھاتے ہیں جب تک تازہ رہے فِصْفِصَۃ کہتے ہیں اور جب سُوکھ جائے تو اس کو قَتّ کہتے ہیں۔ اس کا دانہ کرسنّہ کی طرح کا ہوتا ہے مگر اس سے کسی قدر لمبا ہوتا ہے (کرسنّہ گندنے کو کہتے ہیں جسے پنجابی میں بھوکاٹ کہا جاتا ہے) پھر فرماتا ہے ہم نے زیتون نکالا اور کھجوریں پیدا کیں اور باغات پیدا کئے منڈیروں والے۔ ایسے باغات غُلْبًا جو بڑے گھنے ہیں۔ غُلب اُس چیز کو کہتے ہیں جو مُلْتَفٌّ یعنی لپٹی ہوئی ہو۔ پس حَدَائِقَ غُلْبًا کے معنے یہ ہوئے کہ ہم نے ایسے باغات پیدا کئے ہیں جن کی شاخیں ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی ہیں یعنی بڑے گھنے ہیں۔ اسی طرح ہم نے میوے پیدا کئے ہیں اور پھر چارہ بھی پیدا کیا ہے۔ اَبٌّ اُن تمام چیزوں کو کہتے ہیں جن کو انسان نہیں کھاتا اور نہ اُن کو بوتا ہے۔ قدرتًا زمین میں سے اُگ آتی ہیں اور جانور اُن کو کھاتے ہیں چنانچہ لکھا ہے اَلْاَبُّ کُلُّب مَا یُنْبِتَ الْاَرْضُ مِمَّا لَا یَاْکُلُہٗ النَّاسُ وَلَا یَزْرَعُوْنَہٗ (فتح البیان)
مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ۔ ان تمام چیزوں کو ہم نے تمہارے اَنْعام کے لئے بھی۔ قرآن کریم کے بعض مقامات ایسے ہیں جو لفظی رنگ میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اسی قسم کی مشابہت اس جگہ بھی پائی جاتی ہے چنانچہ یہی مضمون سورۂ نازعات میں بھی تھا مگر اور رنگ میں۔ وہاں فرمایا تھا ئَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآئُ بَنٰھَاo رَفَعَ سَمْکَھَا فَسَوّٰھَاo وَاَغْطَشَ لَیْلَھَا وَاَخْرَجَ ضُحٰھَاo وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذَالِکَ دَحٰھَاo اَخْرَجَ مِنْھَا مَآئَ ھَا وَمَرْعٰھَاo وَالْجِبَالَ اَرْسٰھَاo مَتَاعًا لَّکُمْ وَلْاِنْعَامِکُمْ اس سورۃ میں بھی اسی طرح کی چیزیں گنائی ہیں کہ فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖٓo اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآئَ صَبًاo ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَo فَاَنْ م بَتْنَا فِیْھَا حَبًّاo وَّعِنَبًا وَّقَضْبًاo وَّزَیْتُوْنًا وَّ نَخْلًاo وَّحَدَائِقَ غُلْبًاo وَّاَبًّاo مَّتَاعًا لَّکُمْ وَالْاِنَعَامِکُمْ فرق صر ف یہ ہے کہ سورۂ نازعات میں زیادہ تر آسمانی چیزوں کو پیش کیا گیا تھا۔ گو زمینی چیزوں کا بھی اس میں ذکر تھا مگر اصل مقصد نظام سماوی کو پیش کرنا تھا لیکن اس جگہ نظام ارضی کو خصوصیت سے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ گویا پچھلی سورۃ میں اُس وسیع نظام کی طرف اشارہ کیا گیا تھا جو آسمان اور زمین دونوں پر حاوی ہے مگر اس سورۃ میں اُس مخصوص نظام کی طرف اشارہ ہے جو زمین کی روئیدگی پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ وہاں خدا تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ جس طرح زمین پر آسمان کا وجود ضروری ہے اور بغیر آسمانی نظام کے زمینی نظام قائم نہیں ہو سکتا اسی طرح تمہارے لئے بھی ایک روحانی بلندی کی ضرورت ہے۔ اگر تم یہ خیال کرو کہ اس رُوحانی بلندی کے بغیر تم نظام ارضی کو قائم کر سکو گے تو یہ تمہاری غلطی ہو گی جس طرح آسمان کے بغیر زمین کا وجود عبث ہے اسی طرح روحانی نظام کے بغیر جسمانی نظام عبث اور بیکار ہوتا ہے یہاں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانی فطرتوں میں سے بعض ایسی ہیں جو قرآن کریم سے مناسبت رکھتی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو قرآن کریم سے کوئی مناسبت نہیں رکھتیں۔ وہ فطرتیں جو قرآن کریم سے مناسبت رکھتی ہیں وہ آپ ہی آپ اس طرف آجائیں گی اور جو اس سے مناسبت نہیں رکھتیں وہ اس طرف توجہ بھی نہیں کریں گی۔ پس سورۂ نازعات میں اور مضمون تھا اور اس سورۃ میں اور مضمون ہے۔ وہاں آسمان کا ذکر کلام الٰہی کے نزول کی ضرورت پر روشنی ڈالنے کے لئے پیش کیا گیا تھا اَور یہاں یہ بتایا ہے کہ بعض طبائع جو اس تعلیم سے مناسبت رکھتی ہیں وہ دوڑتی ہوئی اس طرف آجائیں گی اور جن کے قلب میں اس سے کوئی مناسبت نہیں ہو گی وہ اس سے دُور رہیں گے جیسے زمین کو دیکھ لو کہ اس میں سے دانے بھی اُگتے ہیں۔ انگور بھی پیدا ہوتے ہیں۔ درخت بھی پیدا ہوتے ہیں۔ زیتون بھی پیدا ہوتا ہے۔ کھجور یں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ باغات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ میوے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اور چارہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی چیز ایسی ہے جسے انسان مُنہ مارتا ہے اور کوئی چیز ایسی ہے جسے جانور مُنہ مارتا ہے۔ یہی انسانی طبائع کا حال ہے۔ جو قرآن کریم کے مناسب حال ہیں وہ اس طرف آجائیں گے اور جو کفر کے مناسب حال ہیں وہ اُس طرف چلی جائیں گی۔ گویا فطرتیں خود بخود بول اٹھیں گی اُن کے مناسب حال کون سی چیز ہے۔ جیسے انگور ہوں تو اُن کی طرف انسان جائے گا اونٹ نہیں جائے گا لیکن اگر کیکر کا درخت ہو تو اس کی طرف اونٹ جائے گا انسان نہیں جائے گا۔ تو فرماتا ہے انسان نے بیشک ابھی تک قرآن پر عمل نہیں کیا مگر وہ مجبور ہے جس دن قرآن کریم کی روئیدگیاں ظاہر ہوئیں اور اس کا حُسن دنیا میں چمکا تم دیکھ لو گے کہ مناسب حال فطرتیں اس کی طرف دوڑتی ہوئی آئیں گی۔ اب تو یہ لوگ تمہیں تھوڑے سے نظر آتے ہیں مگر پھر وہ گروہ در گروہ اور جوق در جوق لوگ اس مذہب میں داخل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ چنانچہ مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ تم دنیا میں دیکھ لو۔ کچھ دانےؔ۔ انگورؔ۔ زیتونؔ۔ کھجورؔ۔ باغاتؔ۔ اور میوےؔ ہوتے ہیں اور کچھ جھاڑیاں اورچارہ وغیرہ ہوتا ہے۔ تم اُن چیزوں کی طرف چلے جاتے ہو جو تمہارے مناسب حال ہیں اور جانور اُن چیزوں کی طرف چلے جاتے ہیں جو اُن کے مناسب حال ہیں۔ اسی طرح جو نیک فطرتیں ہیں وہ قرآن کریم کی طرف آجائیں گی اور جو بد فطرتیں ہیں وہ کفر کی طرف چلی جائیں گی۔
یہ عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن چیزوں کا تو زیادہ تر ذکر کیا ہے جو انسانوں کے کھانے کے کام آتی ہیں چنانچہ چھ جگہ انسانوں کے کام آنے والی چیزوں کا ذکر کیا اور دو جگہ جانوروں کے کام آنے والی چیزوں کا۔ اس میں اِس طرف اشارہ ہے کہ قرآن زیادہ آدمی کھینچ لے گا اور کفر اپنی طرف کم آدمی کھینچے گا۔ چنانچہ جانور کے لئے تو صرف قُضِبٌ اور اَبٌ کا ذکر کیا مگر انسان کے لئے حَبًّا وَعِنَبًا وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا وَّحَدَآئِقَ غُلْبًا وَّ فَاکِھَۃً اتنی چیزوں کا ذکر کر دیا یہ بتانے کے لئے کہ قرآن کی طرف لوگوں کا رجوع زیادہ ہو گا اور کفر کی طرف کم۔ پس فرماتا ہے یہ سوال ہی غلط ہے کہ اسلام کا غلبہ کس طرح ہو گا۔ فطرتیں اپنی مناسب حال ہیں اور وہ اس کیطرف آجائیںگی۔ جیسے حبؔ اور عنبؔ اور زیتونؔ اور نخلؔ اور حدائقؔ اور فاکھتہ کی طرف انسان جاتے ہیں اور جو فطرتیں کفر کے مناسب حال ہیں وہ اُس کی طرف چلی جائیںگی جیسے جانور قضب اور اَبّ کی طرف جاتے ہیں۔ انگوروں اور کھجوروں کی طرف نہیں جاتے۔
فَاِذَا جَآئَ تِ لصَّآخَّۃُo
پھر (یہ بھی تو سوچو کہ) جب اکھاڑنے والی (مصیبت) آئے گی جس دن کہ انسان اپنے بھائی سے (دُور) بھاگے گا اور (اسی طرح) اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور بیٹوں سے (بھی) اس دن ہر ایک آدمی کی حالت ایسی ہو گی کہ وہ اُسے اپنی (ہی) طرف اُلجھائے رکھے گی ۱۴؎
۱۴؎ حل لغات
اَلصَّآخَۃُ: صخَّ سے اسم فاعل کا مؤنث صیغہ ہے۔ اور صَخَّ الصَّوْتُ الْاُذُنَ کے معنے ہوتے ہیں اَصمَّھَا۔ اتنے زور کی آواز آئی کہ اُس نے کان پھاڑ دیا اور اُسے بہرہ کر دیا (اقرب) اَلصَّآخَۃُ کے معنے ہیں صَیْحَۃُ تُصِمُّ لِشَدَّتِھَا۔ ایسے زور کی آواز جو کانوں کو بہرہ کر دے نیز اس کے معنے ہیں اَلدَّوھِیَۃُ سخت مصیبت (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے جب وہ کان پھاڑنے والی آواز آجائے گی یَوْمَ یَفِرُّالْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ جس دن کہ آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا وَاُمِّہٖ اور اپنی ماں سے بھاگے گا وَاَبِیْہِ اور اپنے باپ سے بھاگے گا وَصَاحِبَتِہٖا ور اپنی بیوی سے بھاگے گا وَبَنِیْہِ اور اپنے بیٹوں سے بھاگے گا۔ لِکُلِّ امْرِیئٍ مِّنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۔ اُس دن انسان کے حالات ایسے ہوں گے کہ وہ گردوپیش کی طرف دیکھ نہ سکے گا اور دوسری طرف وہ توجہ ہی نہ کرے گا۔ قیامت کے دن تو لوگوں کی ایسی حالت ہو گی ہی۔ صحابہؓ کے حالات پر غور کر کے دیکھو جس وقت قرآن کا نزول ہؤا کس طرح دنیا نے اپنی آنکھوں سے نظّارہ کا مشاہدہ کیا کہ باپ نے بیٹے کو چھوڑ دیا بیٹے نے باپ کو چھوڑ دیا۔ ماں بیٹی سے الگ ہو گئی اور بیٹی ماں سے الگ ہو گئی۔ بھائی بھائی سے جدا ہو گیا اور دوست دوست سے علیحدہ ہو گیا ۔ یَوْمَ یُفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ بھائی بھائی کو چھوڑ کر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آگیا۔ خاوند اپنی بیوی کو چھوڑ کر اور بیوی اپنے خاوند کو چھوڑ کر۔ باپ اپنے بیٹے سے الگ ہو کر اور بیٹا اپنے باپ سے الگ ہو کر۔ ماں اپنی بیٹی کو چھوڑ کر اور بیٹی اپنی ماں سے علیحدہ ہو ک۔ دوست اپنے دوست کو چھوڑ کر اور رشتہ دار اپنے رشتہ دار سے علیحدہ ہو کر محمد رسول اللہ کے حلقۂ اطاعت میں آگئے اور انہوں نے کسی دنیوی محبت کی خدا اور اس کے رسول کی رضاء کے مقابلہ میں پرواہ نہ کی۔ لِکُلِّ امْرِیئٍ مِّنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۔ اور پھر وہ اسلام اور قرآن کی محبت میں ایسے محو ہو گئے کہ وہ دُنیا اور اس کی دلچسپیوں کو بالکل بھول ہی گئے۔ تاریخ اسلام کے صفحات پر صحابہؓ کرام کی اس قربانی کتنی ہی واضح مثالیں موجود ہیں مگر میں اس جگہ صرف دو مثالیں بیان کر دیتا ہوں جن کا میں پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں۔ ایک نوجوان جو اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا وہ مسلمان ہو گیا۔ اُس کے ماں باپ نے اُسے کئی قسم کی تکلیفیں دینی شروع کیں یہاں تک کہ اس کے برتن الگ کر دئے مگر وہ اسلام کو ترک کرنے پر آمادہ نہ ہؤا آخر کچھ عرصہ کے بعد وہ مکّہ سے ہجرت کر کے چلا گیا۔ کچھ مدت گزرنے کے بعد وہ پھر مکّہ میں واپس آیا جس پر اُس کے ماں باپ اُسے بڑے شوق اور محبت سے ملے۔ انہوں نے سمجھا کہ یہ اسلام سے توبہ کر چکا ہے اور بیٹے نے یہ سمجھا کہ یہ میرے بعد اسلام کی دشمنی کو ترک کر چکے ہیں اور اس لئے مجھ سے محبت سے مل رہے ہیں اور اب اپنے افعال پر پچھتاتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد ماں باپ نے کہا بیٹا ہم تو تمہیں پہلے بھی یہی نصیحت کیا کر تے تھے کہ اس صابی کی طرف مت جائو۔ اُن کا اشارہ صابی کے لفظ سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کی طرف تھا۔ گویا اس رنگ میں انہوں نے اپنی خیر خواہی جتانی شروع کر دی کہ ہم تو تمہیں پہلے ہی کہا کرتے تھے کہ اسلام میں داخل ہو کر تم نے بڑی غلطی کی۔ اب اچھا ہؤا جو اسلام کو چھوڑ کر پھر ہم میں شامل ہو گئے ہو۔ اُس نوجوان نے جب یہ بات سُنی تو وہ اُسی وقت کھڑا ہو گیا اور کہا ماں!تم میری ماں ہو اور باپ! تم میرے باپ ہو مگر محمدرسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے زیادہ مجھے اور کوئی پیارا نہیں۔ میں نے یہ سمجھا تھا کہ تمہارے دل میں رحم پیدا ہو چکا ہے اور تم اپنے افعال پر پشیمان ہو لیکن میرا خیال غلط نکلا۔ اگر تمہارا میرے ساتھ ملنا اسی شرط سے وابستہ ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو چھوڑ دُوں تو یہ ناممکن بات ہے۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرے باپ ہیں اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میری ماں ہیں۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے اٹھا اور پھر اُس نے مرتے دم تک اپنے ماں باپ کو نہیں دیکھا۔ پھر اس عورت کے واقعہ پر غور کرو جو مدینہ کی رہنے والی تھی جو جنگ اُحد میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شہادت کی خبر سُن کر دیوانہ وار اپنے گھر سے نکل کھڑی ہوئی تھی اور جب اُسے یکے بعد دیگرے بتایاگیا کہ تیرا باپ اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ تیرا خاوند اس جنگ میں مارا گیا ہے تیرا بھائی اس جنگ میں مارا گیا ہے تو اُس نے کہا کہ میں تم سے یہ نہیں پوچھتی کہ میرے باپ اور میرے خاوند اور میرے بھائی کا کیا حال ہے میں تم سے یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے اور جب اس کو بتایا گیا کہ آپ تو خدا تعالیٰ سے بخیریت ہیں تو اُس کے مُنہ سے بے اختیار نکلا کہ آپ خیریت سے ہیں تو پھر کوئی مصیبت ایسی نہیں ہو سکتی جو نا قابل برداشت ہو۔ غرض یَوْمَ یُفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ وَاَبِیْہِ کا نظارہ ہمیں صحابہ کرام میں نظر آتا ہے۔ اس کے بالقابل کفار میں بھی ایسا جوش تھا کہ بھائی بھائی پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا اور باپ بیٹے کو قتل کرنے کے لئے دوڑتا۔ چنانچہ جب جنگ ہوئی تو اس میں بھائی بھائی کو مارنے کے لئے آگے بڑھتا تھا اور اپنے رشتہ داری تعلقات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتا تھا یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک جنس نہیں ہیں بلکہ وہ الگ الگ جنسیں ہیں۔ مومن ہے تو وہ کہتا تھا میرا کافر سے کوئی واسطہ نہیں میرا وہی دوست ہے جو مومن ہے۔ اور کافر ہے تو وہ کہتا تھا میرا مومن سے کوئی واسطہ نہیں۔ میرا وہی دوست ہے جو کافر ہے۔ یہی وہ صَاخَّۃ کی علامت ہے جو سچے مذہب کی آمد پر ظاہر ہؤا کرتی ہے اور جس کے بعد کسی قسم کی مداہنت یا کسی قسم کی منافقت برداشت نہیں کی جا سکتی۔ کفر اور ایمان میں ایک بیّن اور کُھلا کُھلا امتیاز ہو جاتا ہے۔ لیکن جھوٹے مذہب کے درمیان یہ بات نہیں ہوتی۔ اسی طرح اُس قوم میں بھی یہ امتیازی علامت نہیں رہ سکتی۔ جو جھوٹے مذہب کا حصہ بن جائے جیسے غیر مبائعین ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے۔ اُن سے رشتہ داری تعلقات قائم کر لیں گے اور اس میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے حالانکہ خدا کی آواز صاخّہ ہوتی ہے اور جب وہ بلند ہوتی ہے تو بھائی کو اپنے بھائی سے اور رشتہ دار کو اپنے رشتہ دار سے جُدا ہونا پڑتا ہے۔
وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ
کچھ (لوگوں کے) چہرے اُس دن روشن ہوں گے ہنستے ہوئے خوش بخوش ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات
مُسْفِرَۃٌ کے معنے ہیں مُضِیْئَۃٌ مُشْرِقَۃٌ۔ روشن اور چمکنے والی۔ چنانچہ اَسْفَرَ الصُّبْحُ کے معنے ہوتے ہیں اَضَائَ وَاَشْرَقَ۔ صبح روشن ہو گئی اور اس کی سفیدی پھیل گئی۔ اور اَسْفَرَ وَجْہُہٗ کے معنے ہوتے ہیں۔ حَسُنَ وَاَشْرَقَ کہ اس کا چہرہ خوبصورت ہو گیا اور روشن ہو گیا (اقرب) پس فرماتا اُس دن کچھ چہرے ایسے ہوں گے جو بڑے خوبصورت ہوں گے۔ بڑے روشن اور چمکدار ہوں گے۔
مُسْتَبْشِرَۃٌ۔ اِسْتَبْشَرَ سے ہے اور اِسْتَبْشَرَ کے معنے خوش ہونے کے بھی ہوتے ہیں۔ (لسان) پس مُسْتَبْشِرَۃٌ کے معنے یہ ہیں کہ وہ بڑے خوش ہوں گے اور انہیں بڑی خوشخبریاں مل رہی ہوں گی۔ کہ ابھی اور فتح آنے والی ہے اور غلبہ ملنے والا ہے اور نصرت نازل ہونے والی ہے۔
تفسیر
فرماتا ہے مومن اور کافر چونکہ دو الگ الگ گروہ ہیں اس لئے ان سے ہمارا سلوک بھی الگ الگ ہو گا جو لوگ ہمارے احکام پر ایمان لائے ہیں ان کو ہم اپنے انعا مات سے حصہ دیں گے اور جنہوں نے انکار کیا ہے ان کو اپنے عذاب سے حصہ دیں گے۔ چنانچہ فرماتا ہے اس دن کچھ چہرے ایسے ہوں گے جو روشن ہوںگے اور خوبصورت ہوں گے ہنس رہے ہوں گے اور خوش ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سے بشارتیں حاصل کر رہے ہوں گے۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے مُسْتَبْشِرَۃٌ دو معنے رکھتا ہے خوش ہونے کے اور خوشخبری حاصل کرنے والے کے بھی۔ تو مومنوں کو ہر دو امور حاصل ہوں گے۔
سُورَۃُ النَّبَاِ مَکِّیَّۃٌ
سورۃ نبا۔ یہ سورۃ مکّی ہے
وَھِیَ اَرْبَعُوْنَ
اور بسم اللہ کے علاوہ اس کی چالیس آیتیں ہیں اور دو رکوع ہیں۱؎
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں)
۱؎یہ سورۃ النَّبَا کہلاتی ہے کیونکہ اس میں اصل ذکر ایک نبأعظیم کا ہے۔ اس سورۃ میںبعث ؔ ۱ بعد الموت۔ قرآن کریم ؔ ۲ یا غلبۂ اسلام ؔ ۳ کاذکر ہے یا یوں کہو کہ ان تینوں کاذکر ہے۔ اس سورۃ کا پہلی سورۃ سے تعلق یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں یومِ فصل کی طرف خصوصیت سے توجہ دلائی گئی ہے چنانچہ سورۃ الْمُرْسَلٰتکے پہلے رکوع میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لِاَیِّ یَوْمٍ اُجِّلَتْ لِیَوْمِ الْفَصْلِ وَمَآاَدْرٰکَ مَا یَوْمُ الْفَصْلِ یعنے کس دن کے لئے وعدہ دئیے گئے ہیں فیصلے کے دن کے واسطے اور تُوکیا جانے کہ و ہ فیصلے کا دن کیا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے ھٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ جَمَعْنَاکُمْ وَالْاَوَّلِیْنَ یعنے یہ فیصلے کا دن ہے کہ جس کے لئے ہم نے تم کواور تم سے پہلے لوگوں کو جمع کیا ہے۔ گویا ایک یومِ فصل کا اس جگہ پر ذکر تھا۔ اس سورۃ میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا۔یعنی یقینا یہ فیصلے کا دن ایک مقرر وقت پر آنیوالا ہے۔ تو گویا سورۃ الْمُرْسَلَاتاور سورۃ النَّبا دونوں کا باہمی تعلق یومِ فصل کے ذریعہ سے ہے پہلی سورۃ میں دو دفعہ یومِ فصل کا بیان ہے اور اس سورۃ میں ایک دفعہ یومِ فصل کے ذکر کو دُہرایا گیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ ان دونوں میں اشتراکِ مضمون پایا جاتا ہے۔ اُس سورۃ میں بھی یومِ فصل کا بیان تھا اور اِ س سورۃ میں بھی یومِ فصل کا بیان ہے۔
سورۃ النَّباابتدائی مکّی سورتوں میں سے ہے۔ اس کی ترتیب کے متعلق نولڈک NOLDEKEجو مشرقی علوم کے متعلق جرمنی کامشہور پروفیسر ہے لکھتا ہے کہ اس سورۃ کے مضمون سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ سورۃ الْمُرْسَلَات کے ساتھ ہی اُتری ہے(ریورنڈ ویریز کمنٹری آن دی قرآن) یہ ردّ ہے اُن مستشرقین یورپ کا جو کہا کرتے ہیںکہ قرآن کریم کی سورتوںمیں کوئی خاص ترتیب نہیں۔ لمبی سورتیں پہلے رکھ دی گئی ہیں اور چھوٹی سورتیں آخر میں رکھ دی گئی ہیں۔ اِن لوگوں کی سمجھ میں بھی جہاں جہاں کوئی بات آجاتی ہے وہاں انہیں تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سورتوں کا مضمون آپس میں ملتا ہے۔اور گو وہ سارے قرآن کو ایک باترتیب کلام نہ مانیں مگر کسی کسی جگہ انہیں بھی یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں رہتا کہ سورتوں کا جوڑ ایک دوسری سے ملتا ہے۔
عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَ
یہ (لوگ) کس (چیز) کے بارے میں ایک دوسرے سے (بطریق انکار) سوال کر رہے ہیں ۲؎
۲؎ حل لغات
عَمَّاصل میںعَنْ مَا ہے نونؔ چونکہ میمؔ میں مدغم ہو جاتا ہے اس لئے عَمَّا ہو گیا۔ عربی زبان کا یہ محاورہ ہے کہ حروف جارہ کے بعد بالعموم مَااستفہامیہ کے الف کو حزف کر دیتے ہیںاور آخر مِیم پر فتحہ بطور علامت کے رکھ دیتے ہیں (اقرب) مثلاً کہتے ہیں۔ فِیْمَ۔ لِمَ ۔ بِمَا۔ اِلَامَ۔ عَلٰی مَ۔ عَمَّ۔ بلکہ عام قاعدہ یہ ہے کہ وزن کے لحاظ سے جہاں الف ظاہر کرنے کا فائدہ ہو وہاں الف لاتے ہیں ورنہ بالعموم اس کو حذف کر دیتے ہیں۔ یعنی جہاں توازن میں یا بولنے میں زیادہ سہولت الف کے لانے میں ہو اُسی جگہ الف ظاہر کرتے ہیں ورنہ نہیں۔
اَلتَّسَائُ لُ کے معنے ہوتے ہیں ایک دوسرے سے پوچھنا۔ اور جب تَسَأَلَ الْقَوْمُ کہیں گے تو معنے ہوں گے سَأَلَ بَعْضُھُمْ بَعْضًا (اقرب) یعنی آپس میں ایک دوسرے سے انہوں نے پوچھا۔ اور یَتَسَآئَ لُوْنَ کے معنے ہوں گے آپس میں وہ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔ پس عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَکے معنی ہوں گے آپس میں ایک دوسرے سے وہ کس کے بارے میں پوچھتے ہیں یا کس کے بارے میںوہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں۔
تفسیر
ایک دوسرے سے سوال مختلف وجوہ کی بناء پر کئے جاتے ہیں۔ کبھی سوال زیادتی ٔ علم کے لئے ہؤاکرتا ہے یعنے ایک انسان دوسرے انسان سے علم حاصل کرنا چاہتا ہے۔ مثلاً کسی کو راستہ معلوم نہیں تو وہ دوسرے سے پوچھتا ہے فلاں رستہ کدھر کو جاتا ہے یا پوچھتا ہے فلاں شہر کی طرف کونسا رستہ جاتا ہے۔ یا کسی لفظ کے معنی معلوم نہ ہوں تو وہ دوسرے سے پوچھتا ہے فلاں لفظ کے کیا معنے ہیں۔ اور یا پھر سوال امتحان کے لئے ہؤا کرتا ہے یعنی سوال کرنے والا جانتا تو ہے کہ جس لفظ کے متعلق وہ پوچھ رہا ہے اس کے کیا معنے ہیں مگر وہ یہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ آیا دوسرے کو بھی وہ معنے معلوم ہیں یا نہیں۔ یہ سوال بھی بلاواسطہ عدمِ علم پر ہی دلالت کرتا ہے کیونکہ گو اس کو ان معنوں کا علم تو ہوتا ہے مگر اُسے یہ علم نہیں ہوتا کہ دوسرے کو بھی اس کا علم ہے یا نہیں۔ لیکن کبھی سوال اظہارِ تعجّب کے لئے بھی ہؤا کرتا ہے جیسے بعض دفعہ بیٹا اپنے باپ کی گستاخی کرے تو باپ اُسے کہتا ہے تمہیں پتہ ہے میں کون ہوں؟ یعنی تمہیں اتنی سمجھ تو ہونی چاہئیے کہ میں تمھارا باپ ہوں اور باپ کا ادب ضروری ہوتا ہے یا آقا اپنے غلام کو یا افسر اپنے ماتحت کو کہتا ہے تم جانتے ہو مَیں کون ہوں؟ اب اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اُسے علم نہیں ہوتا کہ وہ کون ہے۔ پھر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہوتا کہ تم نہیں جانتے ہو کہ میں کون ہوں۔ بلکہ اس موقع پر سوال کرنے والا یہ بھی جانتا ہے کہ وہ کون ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ جس سے سوال کیا گیا ہے وہ بھی جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ جس سے سوال کیا جاتا ہے وہ بھی جانتا ہے اور باوجود اس کے کہ جو سوال کرنے والا ہے یہ بھی جانتا ہے کہ میرا مخاطب اس سوال کا جواب جانتا ہے پھر بھی وہ سوال کرتا ہے۔ تو درحقیقت یہ سوال ایک قسم کے تعجب کے اظہار کے لئے ہوتا ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ تم کو پتہ ہے کہ حقیقت کیا ہے پھر باوجود علم ہونے کے تم کیوں غفلت کر رہے ہو یا باوجود پتہ ہونے کے تم پوچھ کیوں رہے ہو یا اختلاف کیوں کر رہے ہو۔ اور کبھی اس تعجب کی صورت میں تفخیم کے لئے یعنی اس چیز کی عظمت کے اظہار کے لئے بھی سوال کیا جاتا ہے۔
یہاں بھی درحقیقت مخفی معنے تعجب کے ہی ہیںگو یہاں تفخیم کا پہلو بھی نمایاں ہے۔ جیسے میں نے ابھی ایک مثال دی ہے کہ بعض دفعہ سوال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے تم جانتے ہو میں کون ہوں اور اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ میری جو کچھ شان اور عظمت ہے اُس سے تم بخوبی واقف ہو۔
قرآن کریم چونکہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس لئے یہاں نہ تو یہ معنے ہو سکتے ہیں کہ خدا نہیں جانتا۔ نہ دوسرے معنے ہو سکتے ہیں کہ خدا کو یہ شک ہے کہ میرا مخاطب جانتا ہے یا نہیں جانتا پس تیسرے ہی معنے ہیں جو خدا کے متعلق چسپاں ہو سکتے ہیں اور وہی معنی اس جگہ پر لئے جائیں گے۔ جیسا کہ اگلی آیت نے اس کو ظاہر بھی کر دیا ہے۔ پس عَمَّ یَتَسَائَ لُوْنَ کے یہ معنے ہیں کہ ہمیں تعجب ہے کہ بغیر کافی غور اور فکر کے یہ لوگ ایک ایسے امر کے متعلق سوال کرتے ہیں جس کے حقائق ظاہر ہیں۔ گویا ایک طرف تو اس سوال میں مسئلہ کی بڑائی پر زور ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ مسئلہ بہت ہی اہم ہے اور اس کے حقائق بالکل ظاہر ہیںاور دوسری طر ف وہ لوگ جن کے متعلق یہ فقرہ کہا گیا ہے اُن کی عقل پر اظہار تعجب کیا گیا ہے کہ باجود اس مسئلہ کے دلائل موجو دہونے کے پھر بھی وہ شبہات میں پڑے ہوئے ہیں۔
عَنِ النَّبَاِ
اس (مذکورہ بالا یَوْمُ الْفَصْل٭ والی) عظیم (الشان) خبر کے متعلق (سوال کر رہے ہیں)۳؎
۳؎حل لغات
نَبَأٌ کے معنے خبر کے ہوتے ہیں لیکن علّامہ ابوالبقاء اپنی کتاب کلیات میں لکھتے ہیں کہ اَلنَّبَأُ وَالْاِنْبَائُ لَمْ یَرِدَافِیْ الْقُرٰانِ اِلَّا لِمَا لَہٗ وَقْعٌ وَشَاْنٌ عَظِیْمٌ (بحوالہ اقرب)یعنی نَبأ اوراِنْبَاء کے الفاظ قرآن کریم میں کسی جگہ بھی سوائے ایسے امر کے جس کی بہت بڑی شان اور اہمیت ہو استعمال نہیں ہوتے۔ وَقْعٌتاثیر اور اہمیت کو کہتے ہیں۔
امام راغب اپنی کتاب مفردات میں لکھتے ہیںاَلنَّبَأُ خَبَرٌذُوْفَائِدَۃٍ عَظِیْمَۃٍ یَحْصُلُ بِہٖ عِلْمٌ اَوْ غَلَبَۃُ ظَنٍّ وَّلَایُقَالُ لِلْخَبَرِ فِیْ الْاَصْلِ نَبَأٌ حَتّٰی یَتَضَمَّنَ ھٰذِہِ الْاَشْیَائَ الثَّلٰثَۃَ یعنی نبأ اس خبر کو کہتے ہیں جس میں اوّل فائد ہ ہو۔ دوسرے بڑا فائد ہ ہو۔ تیسرے اُس کے ذریعہ سے یا تو علم یقین حاصل ہوتا ہو یا علم غیب حاصل ہوتا ہو۔ پھر وہ کہتے ہیں خبر کو کبھی اس کے حقیقی معنوں میں نبأ نہیں کہتے جب تک یہ تینوں باتیں اُس میں نہ پائی جاتی ہوں۔ گویا اس طرح انہوں نے مزید زور اس بات پر دیا کہ نبأ نہیں کہہ سکتے سوائے اس کے کہ کوئی سرسری طور پر اس لفظ کا استعمال کر دے یا غلط طور پر استعمال کردے۔ مگرچونکہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں کسی لفظ کا غلط استعمال نہیں ہو سکتا اس لئے ابوالبقاء نے کہا کہ قرآن کریم میں ان معنوں کے سوا کہیں بھی نبأ کا لفظ استعمال نہیں ہؤا۔ جب بھی قرآن کریم میں یہ لفظ استعمال ہوتا ہے انہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ وَقْعٌ وَشَانٌ عَظِیْمٌ کے الفاظ بھی درحقیقت یہی تینوں معنے ظاہر کرتے ہیں کیونکہ وَقْعٌ کے معنے وہی ہیں جو امام راغب نے خَبَرٌذُوْفَائِدَۃٍ کے الفاظ میں بیان کئے ہیں۔ اور عظیمٌ کا لفظ فَائِدَۃ عَظِیْمَۃ کی طرف اشارہ کرتا ہے اور شَاْنٌ کے معنے وہی ہیں جو یَحْصُلُ بِہٖ عِلْمٌ اَوْ غَلَبَۃٌ ظَنٍّ کے ہیںکیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِیْ شَاْنٍ (الرحمن ع ۲ ۲ ۱ )پس وَقْعٌوَشَاْنٌ عَظِیْمٌ کے الفاظ میں درحقیقت وہی مضمون پایا جاتا ہے جو مفردات والے نے بیان کیا۔ مفردات والے نے بتا دیانبأ کو لفظ جب بھی صحیح طور پر استعمال کیا جائے گا اُس میں یہ تین باتیں ضرور پائی جائیں گی اور ابوالبقاء نے کہہ دیا کہ اَلنَّبَأُ وَالْاِنْبَائُ لَمْ یَرِدَافِیْ الْقُراٰنِ اِلَّا لِمَا لَہٗ وَقْعٌ وَشَانٌ عَظِیْمٌ قرآن کریم میںنبأ اور انباء کا لفظ کہیں بھی استعمال نہیں ہؤا مگر اسی صورت میںجب اُس کی خبر بہت بڑی شان اور اہمیت ہو۔ مطلب یہ ہے کہ قرآن چونکہ الفاظ کا صحیح استعمال کرتا ہے۔ اس لئے جب بھی قرآن میں یہ لفظ استعمال ہوگاان تینوں معنوں پر مشتمل ہوگا۔ اس بناء پر میں غیر مبایعین کے مقابلہ میں کہا کرتا ہوں کہ تم جو کہتے ہوکہ ہر وہ شخص جس پر الہام الٰہی نازل ہو اُسے لُغوی طور پر ہم نبی کہہ سکتے ہیں یہ بالکل غلط ہے۔ لُغوی طور پر نبوت کے معنوں میں صرف الہام کے نزول کا مفہوم نہیں پایا جاتا۔ بلکہ لغت کے لحاظ سے نبی وہ ہوتا ہے جس پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہو اور اُس کلام میں یہ تین شرطیں پائی جاتی ہوں۔ اوّل وہ ذُوْفَائِدَۃٍ ہو دوم ؔوہ ذُوْفَائِدَۃٍ عَظِیْمَۃٍ ہو۔سومؔوہ ایسا الہام ہویَحْصُلُ بِہٖ عِلْمٌ اَوْ غَلَبَۃُ ظَنِّ۔ اور پھر زائد بات بوجہ نبی کے صیغہ کے یہ پائی جائے گی کہ اُس پر کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوتاہو۔گویانبأ کو جب ہم نبی کے صیغہ میں تبدیل کر دیں تو اس کے معنے ہوں گے ایسا شخص جس پر کثرت سے کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اور پھر وہ کلام ایسا ہوتا ہے جو ذُوْفَائِدَۃٍ عَظیْمَۃٍ یَحْصُلُ بِہٖ عِلْمٌ اَوْ غَلَبَۃُ ظَنٍّ کا مصداق ہوتا ہے۔ گویا نبی وہ ہے جو اللہ کی طرف سے کثرت کے ساتھ لوگوں کو خبر یں دیتا ہے اور ایسی خبریں دیتا ہے جو فائدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور نہ صر ف فائدہ پر بلکہ فائدہ عظیمہ پر مشتمل ہوتی ہیںاور یَحْصُلُ بِہٖ عِلْمٌ اُن سے زائد علم حاصل ہوتا ہے پس جب ہم کسی کو نبی اللہ کہتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ نبی اللہ وُہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سُن کر لوگوں کو کثرت سے خبر دیتا ہے (۲) ایسی خبریں دیتا ہے جن میں فائد ہ ہوتا ہے اور فائد ہ بھی عظیم الشان ہوتا ہے اور (۳) پھر اُن سے علم زائد حاصل ہوتا ہے۔ ان معنوں کی رُو سے کسی صورت میں بھی غیر مبایعین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے ساتھ اس پہلو میں اُمت محمدؐیہ کا کوئی اور بھی فرد شریک ہے اور نہ درحقیقت وہ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ ان معنوں کے رُو سے کوئی غیر نبی کسی غیر نبی کا شریک ہو سکتا ہے۔کیونکہ یہ باتیں کسی غیر نبی میں پائی ہی نہیں جاتیں۔
تفسیر
عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ جملہ مستانقہ بھی ہو سکتا ہے اور عَنْ عَمَّ کا بدل بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی یہ بھی اس کے معنے ہو سکتے ہیںکہ کس بارے میںسوال کر رہے ہیں۔ کیا اس عظیم الشان نَبَأ کے متعلق جس کا ذکرآگے جا کر ہوگا اور یا پھر یہ جملہ مستانفہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ پہلی آیت میں تو یہ کہا گیا تھا کہ کس بارے میں یہ لوگ آپس میں سوال کر رہے ہیں۔ اب اس کا خود ہی جواب دیتا ہے کہ عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ یہ لوگ سوال کر رہے ہیں ایک عظیم الشان نبأکے متعلق۔ اس دوسری آیت نے بتا دیا کہ عَمَّ یَتَسَآئَ لُوْنَ کہنے والی ہستی جانتی تھی کہ وہ کس چیز کے بارے میں آپس میں بحث کر رہے ہیں کیونکہ وہ خود بتاتی ہے کہ اُن کاآپس میں تَسَآئُ لُ نبأ عظیم کے متعلق تھا۔
اس جگہ پر اللہ تعالیٰ نے ایک زائد بات بیان فرمائی ہے جو نہایت غور کے قابل ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ فرماتاہیعَمَّ یَتَسَآ ئَ لُوْنَ عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْمِ یہ لوگ کس کے بارے میں سوال کر رہے ہیں آیا ایک عظیم الشان نبأکے متعلق یا جملہ مستانفہ کی صورت میں اس کے یہ معنے ہوں گے کہ یہ لوگ سوال کر رہے ہیںایک عظیم الشان نبأ کے متعلق۔ جیسا کہ لُغت سے ظاہر ہے نَبَأ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اَلنَّبَأُ خَبَرٌ ذُوْفَائِدَۃٍ عَظِیْمَۃٍ اوربقول کلیات کے نبأ وہ ہے مَالَہٗ وَقْعٌ وَشَاْنٌ عَظِیْمٌ گویا عَظِیْمٌ کا لفظ خود نبأ میں شامل ہے۔ مگر یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَنِ النَّبَاِ الْعَظِیْم۔ یعنی نَبَأکی حیثیت اور شان والی جو خبریں ہیں اُن میں سے بھی یہ عظیم الشان خبر ہے گویا بڑیوں میں سے بڑی اورعظیموں میں سے عظیم ہے۔جب نَبَأ خود اپنے اندر ایک عظمت اور شان رکھتی ہے تو اُس کے ساتھ عظیم کے لفظ کا لا یا جانا بتاتا ہے کہ اس کے معنے یہی ہیںکہ بڑیوں میں سے بڑی۔ عظیموں میں سے عظیم اور شانداروں میں سے شاندار خبر۔ اب نَبَأ کے اصل معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم اس آیت کا تفسیری طور پر ترجمہ کریں تو وہ یوں ہو گاکہ کیا یہ لوگ سوال کرتے ہیں اُس خبر کے متعلق جو شاندار خبروں میں سے بھی بڑی شاندار خبر ہے۔ اس جگہ نَبَأ سے مراد بعض نے قرآن کریم لیا ہے اور بعض نے بعث بعد الموت چنانچہ ابن کثیر میں ہے کہ قتادہ اور ابن زید کہتے ہیں اَلنَّبَأُ الْعَظِیْمُ:بَعْثَ بَعْدَ الْمَوْتِ کہ نَبَا ٔعظیم سے مرادمرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا ہے۔پھر ابن کثیر میں لکھا ہے کہ مجاہد کہتے ھُوَالْقُرْاَنُ یعنی نبأ عظیم سے مراد قرآن ہے لیکن اس سے پہلی سورۃ یعنی سورۃ المرسلات کی اس آخری آیت میں ذکر ہے کہ فَبِایِّ حَدِیثٌ بَعْدَہٗ یُوْمِنُوْنَ۔ اور غلبۂ قرآن کا اس آیت میں ذکر ہے کہ کُلُوْا وَتَمَتَّعُوْا قَلِیْلاً اِنَّکُمْ مُجْرِمُوْنَ۔وَیْلٌ یَّوْمَئِذٍ لِلْمُکَذِّبِیْنَ اور پھر یوم الفصل کا جو ذکر کیا گیا ہے اُس میں بھی غلبہ ٔ اسلام کی پیشگوئی ہے پس صرف قرآن کا ہی نہیں بلکہ غلبۂ اسلام کا بھی اس سورۃ میں ذکر ہے اور یہ دونوں ذکر ہے اس سورۃ نبأ سے بھی ظاہر ہیںاور اس سے پہلی سورۃ سے بھی۔
اس موقع پر یہ شبہ دل میں پیدا نہیں ہونا چاہیئے کہ ان تینوں چیزوں سے کون سی چیز یہاں مراد ہے کیونکہ قرآن کریم کے کئی بطن ہوتے ہیں اور قرآن کریم بعض دفعہ ایک ہی دلیل سے کئی کئی مضمون ثابت کرتا ہے۔ مثلاًاگر کسی جگہ یہ ذکر ہوکہ زید فلاں ملک میں گیا ہے یا نہیں اور دوسری جماعت میں یہ بحث ہو کہ زید ایک مغلوب شخص تھا یا غالب۔ تو اگر ہم یہ فقرہ کہہ دیں کہ زید اس ملک میں گیا اور اُس نے فتح پائی۔ تو یہ فقرہ ان دونوں سوالوں کو حل کر دے گا۔ اس فقرہ میں اس پارٹی کا بھی جواب آجائے گا یہ بحث کرتی تھی کہ زید اس ملک میں گیا تھا یا نہیں اور اُس پارٹی کا بھی جواب آجائے گاجو یہ بحث کرتی تھی کہ زید مغلوب شخص تھا یا غالب۔ اسی طرح بعض دلائل کا مجموعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک نتیجہ پیدا نہیں کرتا بلکہ کئی نتائج اُس سے پیدا ہو جاتے ہیں۔ پس جب کوئی دلیل بیان کریں تو جتنے پہلو اس دلیل میں سے نکل سکتے ہوں وہ سارے ہی ثابت ہو جائیں گے۔ بعث بعد الموت ورحقیقت اُس بعثِ روحانی کے مشابہ چیز ہے جو اس دنیا میں ہوتی ہے۔ اس لئے ایک دلیل دوسری دلیل کو ثابت کر دیتی ہے۔ بعثِ روحانی اس بات کا بھی ثبوت ہوتی ہے کہ بعث بعد الموت بھی ہو گی اور بعث بعد الموت اس بات کا ثبوت ہے کہ بعثِ روحانی بھی ضروری ہوتی ہے۔ اگر اللی تعالیٰ نے انسان کی روح کو مدارجِ الٰہیہ تک پہنچاتا ہے تو ایسی روح کا کوئی عظیم الشان مقصد اور مدعا ہونا چاہیئے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ مدارجِ عالیہ پر پہنچا کر اللہ تعالیٰ روح کو فنا کر دے گا اور آگے اس کا کوئی کام نہیں ہو گا۔ اور مرنے کے بعد انسان کے لئے کوئی زندگی ہے توپھر لازماً اس دُنیا میں احیاء روح بھی ہونا چاہئیے کیونکہ ایک انسان کو دائمی چکر میں ڈال دینا اور اس ابدی زندگی میں جو خلودوالی ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات حاصل کرنے کا کوئی ذریعہ نہ بنانا یہ بھی ایک ظلم ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ ہم کو مرنے کے بعد خلود والی زندگی بخشے تو لازماًاس زندگی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کا سامان بھی اس دُنیا میں ہونا چاہئیے۔ گویا ان دونوں سوالوں کا انحصار ایک دوسرے پر ہے اگر ایک ہے تو لازماً دوسری بھی ہے اور اگر دوسری ہے تو لازماً پہلی بھی ہے۔ اور چونکہ وہ روحانی زندگی جو اس دنیا میں حاصل ہوتی ہے اُس کے متعلق قرآن کریم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس زمانہ میں روحانی زندگی بخشنے والا میں ہی ہوں اس لئے یہ بھی پہلے دونوں سوالوں کے ساتھ شریک ہو گیا۔ یعنی جس دلیل سے یہ ثابت ہو گا کہ اس دنیا میں احیا ء روح کے کوئی سامان ہونے چاہئیں وہ قرآن کریم کے دعویٰ کے مطابق یہ بھی ثابت کرے گی کہ قرآن کریم سچا ہے کیونکہ قرآن کریم ہی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس زمانہ میں روحانی زندگی بخشنے کے لئے وہ مقرر ہے۔ پس ایک ہی دلیل سے یہ تینوں امر ثابت ہو جائیں گے۔ اگر کسی دلیل سے یہ ثابت ہو گا کہ مرنے کے بعد کی زندگی ایک یقینی چیز ہے اور وہ ضرور آنیوالی ہے تو اُسی دلیل سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ اس دنیا میں احیائِ روح کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے سامان رکھے گئے ہیں اور پھر ساتھ ہی یہ ثابت ہو جائے گا کہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ میں اس کاسر انجام دیتا ہوں بالکل صحیح اور درست ہے۔ کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے گا کہ روحانی مدارج جو نہایت اعلیٰ درجہ کے ہیں انسان کو اس دنیا میں ملتے ہیں تو ساتھ ہی یہ ثابت ہو جائے گا کہ قرآن کریم ہی یہ درجے دینے والا ہے۔ اس لئے کہ یہ درجے قرآن کریم کو ہی حاصل ہوتے ہیں اَور لوگوں کو حاصل نہیں ہوتے ۔ اسی طرح جب یہ ثابت ہو جائے گاکہ قرآن پر عمل کرنے کے نتیجہ میں بڑے سے بڑے روحانی مدارج انسان کو اس دنیا سے حاصل ہو سکتے ہیں تو ساتھ ہی یہ ثابت ہو جائے گاکہ مرنے کے بعد بھی زندگی ہے کیونکہ ان مدارجِ روحانیہ کے حصول کو ہم لغو اور فضول نہیں کہہ سکتے۔ گویا اگر یہ ثابت ہو گاکہ قرآن کریم روحانی مدارج عطا کرتا ہے تواس کے لازماً یہ معنے ہوں گے کہ قرآن کریم پر عمل کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے بڑے مدارج عطا ہوں گے۔ اور اگر یہ ثابت ہو گا کہ قرآن کریم پر عمل کرنے کے نتیجہ میںانسان کو روحانی مدارج حاصل ہوتے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو جائے گاکہ مرنے کے بعد ضرور کوئی زندگی ہے کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ انسان کو اعلیٰ قابلیتیں دے کر اُن کے ظہور کا موقع ملنے سے پہلے اُسے فنا کر دیا جائے۔ پس یہ تینوں چیزیں آپس میں لازم وملزوم ہیں اور ان میں سے ایک کے ثابت ہونے سے باقی وہ چیزیں خود بخود ثابت ہو جاتی ہیں۔
غرض اگر ہم نبأ عظیم کے معنے قرآن کریم کے لیں اور پھر ساتھ ہی بعث بعد الموت اور غلبۂ اسلام کے بھی تو یہ کوئی شبہ والی بات نہ ہو گی بلکہ تینوں معنے آپس میں لازم وملزوم ہوں گے۔ بعض چیزوں کاتعدّدشک پر دلالت کرتا ہے اور بعض چیزوں کا تعدّد لزوم پر دلالت کرتا ہے۔ یہاں تعدّدِ لزومی ہے تعدّدِ شکی نہیں۔ نبأعظیم کا لفظ جو اس موقع پر استعمال ہؤا ہے وہ درحقیقت ان تینوںمعنوں پر ہی استعمال ہو سکتا ہے کیونکہ مرنے کے بعد کی جو زندگی ہے وہ بھی ایک ایسی خبر ہے جو بڑی خبروں کی سرتاج ہے۔ یہ کہہ دینا کہ فلاں کے ہاں بیٹا پیدا ہو جائے گایا فلاں ملک میں لڑائی ہو جائے گی اس خبر کے مقابلہ میں بہت ہی ادنیٰ اور معمولی ہیں۔بے شک یہ خبریں بھی اپنی ذات میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں مگر یہ خبریں اُس قدر اہمیت نہیں رکھتیں جتنا یہ کہنا کہ ایک زمانہ میں ساری دنیا زندہ کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو گی۔ پس نبأ عظیم کا لفظ قیامت کے بالکل مطابق ہے اور یہ لفظ اُس پر بخوبی چسپاں ہو جاتا ہے۔ اسی طرح نبأ عظیم کا لفظ قرآن کریم پر چسپاں ہو جاتا ہے اس لئے قرآن کریم یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں ساری خوبیوں کا جامع ہوں بلکہ گز شتہ تما م انبیاء کی کتابیں میرے اندر جمع ہیں جیسا کہ وہ فرماتا ہیفِیْھَا کُتُبٌ قَیِّمَۃٌ (البیّنہ)پس اگر نوح ؑکے صحف نَبَأ تھے۔ اگر ابراھیم ؑکے صفحہ نَبَأ تھے۔ اسی طرح اگر عیسیٰ ؑکاکلام نَبَأ تھا۔ اگر زرتشتؑ کا کلام نَبَأ تھاتو جس کلام میں یہ سارے ہی جمع کر لئے گئے ہوں وہ یقینا نَبَأ عظیم کہلائے گا۔
اس طرح غلبہ ٔ اسلام بھی ایک ایسی چیز ہے جو تمام انبیاء کے غلبوں میں سے عظیم الشان رنگ رکھتی ہے اور درحقیقت یہ غلبہ ایسا ہے جس نے تمام انبیاء کے غلبوں میں سے عظیم الشان رنگ رکھتی ہے اور درحقیقت یہ غلبہ ایسا ہے جس نے تمام انبیاء کے غلبو ں کو اپنے اندر جمع کر لیا ہے۔ مثلاً حضرت نوح ؑکا طوفان لے لو۔ نوح ؑکی قوم نے غرق ہو کر نوح ؑ کی صداقت کا ثبوت دے دیا اور نوح ؑ اپنی قوم پر غالب آ گیا۔ مگر اس کا کیا نتیجہ ہؤا یہی کہ قوم غرق ہو گئی اور وہ نوح پر ایمان لانے سے مرحُوم رہی۔ لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوم اس طرح غرق کی گئی کہ وہ پھر آپ پر ایمان بھی لے آئی۔ موسیٰ ؑ کو اپنے دشمنوں پر اس طرح غلبہ دیا گیا کہ موسیٰ ؑ کا دشمن سمندر میں ڈبو دیا گیا مگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دشمن سمندر کی بجائے خشکی میں ڈبو دیا گیا اور پھر خدا نے یہ سامان کئے کہ حضرت موسیٰ ؑ کو جس ملک کا وعدہ دیا گیا تھا اُس ملک پر غلبہ دئیے جانے کا وعدہ ان کی زندگی میں پورا نہ ہؤا۔ اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی طرح غلبہ کا وعدہ دیا گیا مگر انہوں نے اپنی زندگی میں ہی مکّہ کو فتح کر لیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو خدا تعالیٰ نے اس طرح غلبہ دیا کہ وہ اپنے دشمن سے بھاگے اور ایک غیر ملک میں اُس کے حملہ سے محفوظ ہو گئے۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں غلبہ دیا کہ آپ دشمن سے بھاگے اور ایک دوسرے شہر میں جا کر اُس کے حملہ سے محفوظ ہو گئے۔ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پھر اپنے ملک میں واپس نہیں آئے اور نہ انہوں نے اپنی قوم کو مغلوب کیا مگرمحمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پھر مکّہ میں واپس آئے اور انہوں نے اپنی قوم کو مغلو ب کیا مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پھر مکّہ میں واپس آئے اور انہوں نے اپنی قوم کو مغلوب کرلیا۔ غرض جس جس رنگ میں پہلے انبیاء کو غلبہ ملااُن میں سے ہر رنگ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غلبہ حاصل ہؤا اور نہ صر ف غلبہ حاصل ہوا بلکہ اُن سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اُس کی تائید آپؐ کے شامل حال رہی ۔مثلاً حضرت عیسیٰ علیہ السَّلام کی قوم کو تین سو سال میں غلبہ حاصل ہؤامگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنی زندگی میں ہی غلبہ مل گیا۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کو ایسے ساتھی ملے جنہوں نے قربانی کے موقع پر کمزوری دکھائی اور وہ ثابت قدم نہ ہوئے۔ لیکن رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ ساتھ عطا فرمائے جنہوں نے موسیٰ ؑ کے ساتھیوں جیسی کمزوری دکھائی اور نہ عیسیٰ ؑکے ساتھیوں جیسی کمزوری دکھائی۔ موسیٰ ؑ کے ساتھیوں نے جنگ کے موقع پرکمزوری دکھائی تھی اور عیسیٰ ؑ کے ساتھیوں نے اُس وقت کمزوری دکھائی جب ان کی اپنی جان خطرے میں تھی۔
درحقیقت دنیا میں دو قسم کے جزبات ہوتے ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قوم کی خاطر قربانی کرنے کے لئے تو تیار رہتے ہیں لیکن اپنے لیڈر کے لئے قربانی کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہوتے۔ اور بعض ایسے ہوتے ہیں جو اپنے لیڈر کی خاطر تو ہر وقت قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں لیکن اپنی قوم کے لئے قربانی کی روح اُن میں موجود نہیں ہوتی۔اُنہیں صرف عشق ذاتی ہوتا ہے زعشق قومی نہیں ہوتا۔ مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ ساتھی عطا فرمائے جو یہ دونوں جزبات اپنے دل میں رکھتے تھے جہا ں قوم کے لئے انہیں قربانی کرنی پڑی وہاں آپ کے صحابہ ؓنے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے ساتھیوں جیسا نمونہ نہ دکھایا بلکہ اپنی قوم کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور جہاں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کا سوال پیدا ہؤا وہاں انہوں نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اُس عشق کا ثبوت دیا جو اُن کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کے ساتھ تھا اور حضرت مسیح ؑ کے حواریوں کی طرح بُزدلی نہیں دکھائی۔ چنانچہ مکہ کے لوگ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قتل کرنے کے ارادہ سے ایک دفعہ رات کو آپؐ کے مکان کے اردگر د اکٹھے ہو گئے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے حکم سے گھر سے نکل پڑے تو اُس وقت آ پ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بستر پر لٹا دیا۔ اور اس طرح حضرت علی ؓ نے اس امر کا ثبوت دے دیا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ آپ کی جگہ خود صلیب پر لٹکنے کو تیار رہتے تھے تو عشق ذاتی میں بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوم دوسرے نبیوں کی قوم سے بڑھ گئی اور عشقِ قومی میں بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوم دوسرے نبیوں کی قوم سے بڑھ گئی۔ اس لئے آپ کا جو غلبہ تھا یعنی غلبۂ اسلام وہ بھی نبأ عظیم تھا کیونکہ یہ غلبہ پہلے انبیاء کے غلبوں کے مقابلے میں نہایت ہی شاندار تھا اور آپکی جو کتاب تھی وہ بھی نبأ عظیم تھی کیونکہ وہ گزشتہ تمام الہامی کتابوں سے بہت زیادہ شاندار تھی ۔ اور قیامت بھی نبأ عظیم ہے کیونکہ وہ اور تمام خبروں سے بہت زیادہ شان اور عظمت اپنے اندر رکھتی ہے۔
الَّذِیْ
جس کے بارے میں یہ لوگ (قرآن کی بتائی ہوئی حقیقت سے ) اختلاف رکھتے ہیں ۴؎
۴؎حل لغات
مُخْتَلِفُوْنَ مُخْتَلِفٌ کی جمع ہے اور مُختَلِفٌ اِخْتَلَفَ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے جس کے آپس میں ایک دوسرے کے اختلاف کرنے کے ہیں (اقرب) پس مُخْتَلِفُوْنَ کے معنے ہوں گے اختلاف کرنے والے۔ اَسَا طِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ یعنی وہ نبأ عظیم جس میں یہ لوگ اختلاف کر رہے ہیں۔ گویا اول تو نبأ عظیم میں اختلاف نہیں ہونا چاہیئے تھا اور پھرنبأ عظیم میں تو کسی صورت میں بھی اختلاف نہیں ہو سکتا تھا مگر یہ وہ لوگ ہیں جو نبأ عظیم میں بھی اختلاف کر رہے ہیں۔ گویا ادھر ایک ایسی عظیم الشان خبر موجود ہے اور اُدھر یہ لوگ ایسے ذلیل ہیں کہ اس عظیم الشان خبر میں بھی اختلاف کرتے ہیں۔
بعض لوگوں نے اس موقع پر اعتراض کیا ہے کہ اَلَّذِیْ ھُمْ فِیہِ مُخْتَلِفُوْنَ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ اس جگہ نبأ عظیم سے مراد قرآن نہیں اور نہ بعث بعد الموت مراد ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفّار ان امور میں اختلاف کرتے تھے حالانکہ وہ بعث بعد الموت کے منکر تھے اور وہ تسلیم ہی نہیں کرتے تھے کہ مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے۔ پس جب وہ اس عقید ہ کو تسلیم ہی نہیں کرتے تھے تو اس میں وہ اختلاف کیونکر کرسکتے تھے۔ اس طرح قرآن کریم پر بھی وہ ایمان نہیں رکھتے تھے پس قرآن کریم کے متعلق بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ کفّار اس کے متعلق اختلاف کیاکرتے تھے۔ لیکن یہ اعتراض درست نہیں۔ اس لئے کہ سب کے سب کفّار بعث بعد الموت کے منکر نہیں تھے بلکہ اُن میں سے اس بارہ میں اختلاف تھا گو اس بعث کی شکل اَور سمجھتے ہوں۔ گویا اوّل تو سب کے سب کفّار اس عقیدہ کے منکرنہیں تھے اور پھر جو لوگ اسکے قائل تھے اُن میں سے بعض کو صر ف بعض کی شکل میں اختلا ف تھا اسی وجہ سے عربوں میںیہ روایات پائی جاتی تھیں کہ جب کوئی شخص مارا جاتا ہے اور پھر اس مقتول کا بدلہ نہیں لیا جاتا تو اُس کی رُوح اُلُّو کی شکل میں آکر چیختی چلّاتی ہے۔ اگر وہ مرنے کے بعد کسی حیات کے قائل نہیں تھے تو اُلُّو کی شکل میں مقتول کی روح کے آنے کے وہ کس طرح قائل ہو سکتے تھے۔ پس درحقیقت وہ کسی حقیقی علم پر قائم نہیں تھے بلکہ خود اِ س بارہ میں اُن میں اختلاف موجود تھا کوئی کچھ کہتا تھااور کوئی کچھ کہتا تھا۔
قرآن کریم کی صورت میں یہ بھی سوال پید ا ہوتا ہے کہ اَلَّذِیْ ھُمْ فِیہِ مُخْتَلِفُوْنَاس پر کس طرح چسپاں ہو سکتا ہے اور وہ اس بارہ میں کیا اختلاف کیا کرتے تھے وہ تو قرآن کریم کی صداقت کے قائل ہی نہیں تھے بلکہ کہتے تھے کہ یہ محض جھوٹ ہے اس میں سچائی کا کوئی شائبہ بھی نہیں پایا جاتا۔ مگر میرے نذدیک یہ سوال بھی درست نہیں اس لئے کہ قرآن کریم کے متعلق بھی ان کو اختلاف تھا۔ بعض اس کا نام سحر رکھتے تھے۔ بعض اُسے کذب قرار دیتے تھے اور بعض اس کا نام اَسَا طِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ (الانفال ع ۴ ۸ ۱ ) رکھتے تھے یہ سیدھی بات ہے کہ اَسَا طِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ کے کہنے والوں کے نذدیک قرآن کریم جھوٹا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اگر قرآن کریم اُن کے نذدیک جھوٹا ہوتا توا سکے معنے یہ بنتے ہیں کہ وہ اپنے باپ دادا کوبھی جھوٹا قرار دیا کرتے تھے حالانکہ یہ صحیح نہیں۔ پس ان قرآن کریم کواَسَا طِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ قرار دیناہی بتا رہا ہے کہ اُن میں سے بعض کو قرآن کریم کے متعلق یہ اعتراض نہیں تھا کہ اس میںیہ کلام جھوٹا ہے بلکہ ان کا اعتراض یہ تھا کہ اس میں اُن کے باپ دادا کی باتوں کو ہی نقل کر دیا گیا ہے اس لئے ہم اس کو بطور خدا کے کلام کے نہیں مان سکتے۔پس عربوں میں قرآن کریم کو اَسَا طِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ کہنے والے بھی موجود تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انہیں قرآن کریم کے متعلق اختلاف تھا۔ اسی طرح قرآن کریم کو سحر کہنے والے بھی اُن میں موجود تھے۔ پس قرآن کریم کی صورت میں بھی یہ آیت پوری طرح چسپاں ہو جاتی ہے کہ اَلَّذِیْ ھُمْ فِیہِ مُخْتَلِفُوْنَ یعنی وہ نبأ عظیم ہے جس میں کفّار اختلاف کرتے ہیں۔ تیسر ا پہلو غلبۂ اسلام کا ہے ممکن ہے کوئی شخص کہہ دے کہ اس کے متعلق ان کو کہا ں اختلاف تھا تو اس کے متعلق بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ غلبۂ اسلام کے متعلق بھی کفار میں اختلاف موجود تھاکفّار جانتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر ایک ایسی روح کام کررہی ہے جو ایک دن اُن کو ہم پر غالب کر دے گی۔ چنانچہ اُن کا اسلام کی شدید ترین مخالفت کرنااور اس کی ترقی کو روکنے کے لئے اپنی انتہائی کوشش صرف کرنا خود ایک بات کا ثبوت ہے کہ وہ ڈرتے تھے کہ اسلام اُن پر غالب آجائے گااور وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کے اندر ایسی چیز موجود ہے جو اُن کے مقابلہ میں ہم کو مغلوب کردے گی۔ اور یہی سچے نبی کی علامت ہؤا کرتی ہے کہ مخالفوں کے دلوں میں پہلے سے یہ ڈر پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کہ ایک دن یہ لوگ ہم کو کھا جائیں گے اور ہماری طاقت کو توڑ کر رکھ دیں گے۔ وہ ایک طرف یہ بھی کہتے جاتے ہیں کہ ہم ان کو مار دیںگے۔ ہم ان کو تباہ کردیں گے۔ ہم ان کو دنیا سے مٹا دیں گے۔مگر ساتھ ہی ان کے دلوں میںیہ خطرہ بھی موجود ہوتا ہے کہ یہ شخص ہم کو کھا جائے گایہی وجہ ہے کہ نبیوں کی دنیا میں شدید مخالفت ہوتی ہے ورنہ سب جانتے ہیں کہ وہ اکیلے ہوتے ہیں اور نہ اُن کے پاس جتھہ ہوتا ہے۔ نہ اُن کے پاس طاقت ہوتی ہے نہ اُن کے پاس مال ہوتا ہے نہ اُن کے پاس ظاہر ی شان وشوکت کا کوئی اور سامان ہوتا ہے۔ وہ اکیلے اُٹھتے ہیں اور بے سروسامانی کی حالت میں دنیا کے مقابلے میں کھڑے ہو جاتے ہیں مگر پھر ساری دنیا اُن کی مخالفت کرنے لگ جاتی ہے اور وہ پورا زور اس بات پر صرف کر دیتی ہے کہ اُن کو کچل دے اُن کے نام کو مٹا دے اور ان کو اپنے مشن میں کامیاب نہ ہونے دے کیونکہ ان کے دلوں میں یہ خیال موجود ہوتا ہے کہ یہ شخص گو اکیلا ہے مگر اس میں ایسی ترقی کی قابلیت پائی جاتی ہے اور ایسی رُوح اس کے اندر نظر آتی ہے جو ایک دن ہم کو کھا جائے گی اور ہمیں اس کے مقابلہ میں پسپا کر دے گی۔ ہمارے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام کے بعد بھی کئی لوگوں نے دعوے کئے مگر لوگ اُن کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کرتے جس پر وہ چڑتے ہیں کہ ہماری مخالفت کیوں نہیں کی جاتی۔ بلکہ بعض اُن میں سے گالیاں دیتے ہیں کہ ہم اُن کی باتوںکا جواب کیوں نہیں دیتے۔ مگر باوجود اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ لوگ اُن کی مخالفت کریں۔ اُن کی باتوں کی طرف توجہ کریں پھر بھی کوئی شخص اُن کی طرف توجہ نہیں کرتا۔ اسی لئے اُن میں وہ کوئی ایسی چیز نہیں دیکھتے جس سے اُن کے دلوں میں ڈر محسوس ہواوروہ یہ خیال کرنے لگ جائیں کہ یہ ایک دن ہم پر غالب آجائیں گے۔ لوگ اُن کی باتوں کو سنتے ہیں تو ہنس کر گزر جاتے ہیں کوئی مخالفت نہیں کرتے ۔اتفاقیہ طور پر اُن کے متعلق منہ سے کچھ نکل جائے تو اور بات ہے ورنہ یُوں سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ آپ ہی تباہ ہو جائیں گے ہمیں ان کی مخالفت کرنے کی ضرورت نہیں۔ توالَّذِیْ ھُم فِیْہِ مُخْتَلِفُوْنَ میں غلبہ اسلام کے معنوں کی طرف بھی اشارہ ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کفّار میںسے جو سمجھدار لوگ ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ چیز ایک دن غالب آنیوالی ہے۔ عوام الناس بے شک اپنے علماء کی باتیں سُن کر کہتے ہیں کہ یہ لوگ ہمارے مقابلہ میں فنا ہو جائیں گے مگر اُن کے علماء جانتے ہیں کہ آخر اسلام ہی جیتے گا اور وُہی ا س میدان میں شکست کھائیں گے بلکہ اُنہیں اپنی شکست کے ابھی سے آثار آنے شروع ہو گئے ہیں۔ گویا پہلے دن سے ہی اسلام کی برتری اور اُس کے غلبہ کا اقرار ان لوگوں کو تھااور وہ سمجھتے تھے کہ اس مذہب کے مقابلہ میں ہم ٹھہر نہیں سکیں گے۔ اس زمانہ میں بھی ہم دیکھتے ہیں جماعت احمدیہ کی برتری کا احساس لوگوں کے قلوب میں موجود ہے اور وہ ڈرتے ہیں کہ اگر جماعت احمدیہ اس طرح بڑھتی چلی گئی تو معلوم نہیں کہ کیا ہو جائے گا۔ اس لئے وہ مخالفت میں اپنا پورا زور صرف کر دیتے ہیں اور اس شدید مخالفت کی وجہ سے کسی وقت یہ بھی سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ لوگ تباہ ہو جائیں گے۔ وہ خیال کرتے ہیں کہ اتنی مخالفتوں کے بعد بھلا یہ کب پنپ سکیں گے۔ پس ہُم فیہِ مُخْتَلِفُوْن کے اس صورت میں یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں بلکہ جب ہم غلبہ ٔ اسلام کے معنے لیں گے تو اس آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ ان لوگوںکی حالتیں مختلف وقتوں میں مختلف ہوتی ہیں گویا اس صورت میں اختلاف یا تو عوام الناس اور اُن کے علماء میں سمجھا جائے گا اور یا پھر علماء کا آپس میں اختلاف اس سے لیا جائے گا یعنی یا تو اس کا یہ مفہوم ہو گاکہ اس بارہ میں عوام الناس یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان تباہ ہو جائیں گے مگر علماء اور لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان تباہ نہیں ہو سکتے اور یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بارہ میں علماء کی حالتیں بدلتی رہتی ہیں ایک حالت پر وہ قائم نہیں رہتے۔ کبھی وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو مار لیں گے اور کبھی یہ خیال کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہم ان کو کہاںمار سکتے ہیں ہم خود ان کے مقابلہ میں پِس جائیں گے جب وہ مسلمانوں کی اندرونی خوبیوں اور اُن کی اعلیٰ درجہ کی صفات پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو سمجھتے ہیں ہم مسلمانوں کو مار لیں گے۔
اسی طرح ھُمْ فِیہِ مُخْتَلِفُوْنَ کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مومن اور کافر آپس میں اختلاف رکھتے ہیں اور مومنوں اور کافروں کا یہ اختلاف بھی تین چیزوں کے متعلق سمجھا جائے گا۔ بعث بعد الموت کے متعلق غلبۂ قرآن کے متعلق اور غلبہ ٔ اسلام کے متعلق یعنی بعث بعد الموت کے متعلق مومن کچھ کہتے ہیں اورکافر کچھ کہتے ہیں۔ اسی طرح قرآن کے متعلق مومن کچھ کہتے ہیں اور کافر کچھ کہتے ہیں اور غلبۂ اسلام کے متعلق بھی مومنوں کا کچھ قول ہے اور کافروں کا کچھ قول ہے۔
کَلَّا
(خوب یادر کھو کہ بات )یوں نہیں (جس طرح یہ کہتے ہیں)بلکہ یہ لوگ (قرآن کریم کی بتائی ہوئی حقیقت کو)عنقریب جان لیں گے۔ پھر (ہم کہتے ہیں کہ بات) یوں نہیں (جس طرح یہ کہتے ہیں بلکہ)یہ لوگ (قرآن کریم کی بتائی ہوئی حقیقت کو)عنقریب جان لیں گے۔ ۵؎
۵؎حل لغات
کَلَّا ۔حرف ہے جو بات غلط ہو اُس سے ہوشیار کرنے کے لئے تنبیہ کے طور پر اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یوں بات نہیں کہ جس طرح کے لوگ سمجھتے ہیں۔ علّا مہ ابو البقاء اپنی کتاب کلیات میں لکھتے ہیں قَدْ تَجِیْ ئُ بَعْدَالطَّالِبِ کَفَّوْ لِکَ لِمَنْ قَالَ لَکَ اِفْعَلْ کَذَا۔ کَلَّا۔اَیْ لَا یُجَابُ اِلٰی ذَالِکَ یعنی کَلَّا کسی مطالبہ کے جواب میں آتا ہے یہ بتانے کے لئے کہ مطالبہ کرنے والی کی بات ماننے کے لئے ہم تیار نہیں۔ چنانچہ جب ہمیں کوئی کسی امر کرنے کے لئے اور ہم سمجھیں کہ یہ بات ایسی نہیں کہ کوئی مان سکے تو ہم کہیں گے کَلَّا پھر علّامہ ابوالبقاء لکھتے ہیںوَقَدْ جَائَ بِمَعْنیَ حَقًّا۔ یعنی کبھی لفظ کَلَّا ۔حَقَّا کے معنے میں آتا ہے یعنی اس کے بعد بیان کی جانے والی بات کی تاکید کرتا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ انسان سرکشی کرتا ہے(اقرب)
سَیَعْلَمُوْنَ۔ وہ ضرور جان لیں گے۔ سؔ توکید کے معنوں میں یہاں آیا ہے ثُمَّ کَلَّا سَیَعْلَمُوْنَ یہاں ثُمَّ کا لفظ تکرار مضمون کے لئے ہؤا ہے یعنی پھر ہم کہتے ہیں کہ وہ بات اُس طرح ہر گز نہیں جس طرح وہ خیال کرتے ہیں ۔
تفسیر
سَیَعْلَمُوْنَ وہ ضرور جان لیں گے یعنے قیامت کے دن ان کے یہ خیالات بالکل غلط ثابت ہوں گے اور اُن پر واضح ہو جائے گا کہ وہ کیسی کھلی غلطی میں مبتلا رہے۔ یا قرآن کریم مراد لیتے ہوئے اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ایک دن آئے گا جب قرآن کریم کی صداقت اُن پر کُھل جائے گی۔ اور غلبۂ اسلام پر جب ان آیات کو چسپاں کیا جائے گاتو مفہوم یہ ہو گا کہ آخر اسلام ایک دن غالب آجائے گااور وہ سمجھ لیں گے کہ اسلام کی مخالفت کر کے انہوں نے کیسا غلط طریق اختیار کیا تھا۔
اب اگلی آیتو ںمیں اللہ تعالیٰ اپنے اس دعوے کی دلیل دیتا ہے اور وہ دلیل ایسی ہے جو مذکورہ بالا تینوں معنوں پر چسپاں ہو سکتی ہے۔ یعنی اس دلیل سے نہ صرف قیامت کا وجود ثابت ہوتا ہے بلکہ غلبۂ قرآن اور غلبۂ اسلام کا بھی اس سے ثبوت مل جاتا ہے۔
اَلَمْ
(سوچیں تو سہی کہ) ہم نے زمین کو بچھونا نہیں بنایا ۶؎ اور پہاڑوںکو میخوں کے طور پر ۷؎
۶؎ حل لغات
اِلْمِھَادُ: اَلْفِرَاشُ وَالْاَرْضُ۔(اقرب) یعنی مِھَاد کا لفظ فراش کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور زمین کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ زمین کو مِھَاد کہتے ہیں اس کا بھی درحقیقت یہی مفہوم ہے کہ اُس میں فراش والی خوبیاں پائی جاتی ہیں۔
تفسیر
اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مِھَادًا کے معنے یہ ہیں کہ کیا ہم نے زمین کو ایسا نہیں بنایا جیسے فراش ہؤاکرتا ہے۔فراش پر انسان کیا کرتا ہے۔ یہی کہ لیٹتا ہے آرام کرتا ہے۔سوتا ہے اور اس طرح اُسے راحت حاصل ہوتی ہے۔ فرماتا ہے ہم نے زمین کو تمھارے لئے ایسا ہی بنایا ہے کہ تم اس میں ہر قسم کے آرام پاتے ہو۔ ہر قسم کی سہولتیں اس سے حاصل کرتے ہو اورتمھاری راحت کے تمام سامان اس میں موجود ہیں۔ فرماتا ہے تم زمین کی اس حالت پر غور کرو اور سوچو کہ کیا واقع میں ہم نے زمین کو تمھارے لئے ایسا بنایا ہے یا نہیںبنایا (اس آیت اور اگلی آیات کی تفسیر یکجائی طور پر نوٹ نمبر۸ یعنی وَخَلَقْنَا کُمْ اَزْوَاجًا کی آیت کے نیچے دی گئی ہے کیونکہ ان آیات کا مضمون اکٹھا ہے)
۷؎حل لغات
اَوْ تَادٌ وَ قَدٌ کی جمع ہے اوروَقَدٌ کے معنے اُس چیز کے ہوتے ہیں جسے زمین یا مکان کی دیوار میں گاڑا جائے۔ گویا یہ لفظ کِیل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لغت میں پہاڑوں کو اَوْتَادُ الْاَرْضِ کہتے ہیں چنانچہ لکھا ہے اَوْ تَادُ الْاَرْضِ جِبَالُھَاوَاَوْ تَادُ الْبِلَادِ رُئُ سَائُ ھَا وَااَوْ تادُ الْفَمِ اَسْنَانُہٗ (اقرب)یعنی جب اَوْ تَادُالْاَرْضِ کہا جائے تو اس سے مراد پہاڑ ہوں گے جب اَوْ تَادُ الْبِلَادِ کہا جائے تو اس سے مراد مختلف ممالک کے رؤسا ہوں گے اور جب اَوْ تَادُالْفَمِ کہا جائے یعنی منہ کے اوتاد۔ تو اس سے مراد دانت ہوں گے کیونکہ جس طرح رؤساسے ملکی نظام قائم ہوتا ہے اسی طرح دانتوں سے مُنہ کا نظام قائم ہے۔ دانتوں سے انسان کھانا کھاتا ہے اور دانتوں سے ہی چہرے کا حُسن قائم ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ دانتوں کو اَوْ تَادُ الْفَمِ قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پہاڑوں سے چونکہ زمین میں حسن پیدا ہوتا ہے اور اس کی مضبوطی اور پختگی کا بھی وہ باعث ہوتے ہیں اس لئے پہاڑوں کو اَوْتَادُالْاَرْضِ کہا جاتا ہے۔کِیل کی بھی یہی غرض ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف مضبوطی کا باعث ہوتا ہے اور دوسری طرف بعض چیزوں کے لئے سہارے کا موجب ہوتا ہے۔مثلاً دیوار میں اگر کوئی کیل گاڑا جائے تو اسکی غرض کسی چیز کو وہاں لٹکانا ہو گی۔ گویا وہ کیل دوسرے کے لئے سہارے کا موجب ہوگا۔ اسی طرح میں جو کِیلے گاڑے جاتے ہیں اُن کی غرض اس کیلے سے کسی دوسری چیز کو باندھنا ہوتی ہے جیسے کسی جگہ خیمہ نصب کرنا ہو تو زمین میں کِیلے گاڑ دیتے ہیں تاکہ اس کے ساتھ خیمے کی رسیاں مضبوطی سے باندھ دی جائیں اور خیمہ کھڑا ہو جائے۔ یابعض دفعہ گھوڑایا کوء اور جانور بھی اُس سے باندھ دیتے ہیں۔ گویاوَقَدٌ کا لفظ کسی چیز کو محفوظ کرنے یا سہارا دینے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔پس جب خدا نے کہا کہ ہم نے جِبَال کواَوْتَاد بنایا ہے کہ وہ سہارے کا بھی موجب ہیں اور جِبَال زمیں کی حرکتِ مُضرہ کو بھی روکنے کا موجب ہیں اور درحقیقت یہی دونوں چیزیں جِبَال کی اغراض میں شامل ہیں۔
وَّخَلَقْنَا
اور (پھر )ہم نے تم (سب) لوگوں) کو جوڑا (جوڑا) بنایا ہے ۸؎
۸؎ حل لغات
اَزْوَاجًا: اَزْوَاجٌ زَوْجٌ کی جمع ہے اور زَوْجٌ کے معنے ہیں کُلّّ وَاحِدٍ مَعَہٗ اٰخَرَ مِنْ جِنْسِہٖ۔ ہر ایک وہ چیز جس کے ساتھ اس کی جنس میں سے ایک اور وجود بھی ہو۔اَلصِّنْفُ مِنْ کُلِّ شَی ئٍ۔ ہر چیز کی قسم۔ صنف۔ اَلْبَعْلُ۔ خاوند۔اَلزَّوْجَۃُ۔بیوی ۔(اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے اِدھر ہم نے یہ سامان پیدا کر دیا کہ زمین کو ہم نے ایسا بنایا ہے جسے تم بستر کے طور پر استعمال کرتے ہو۔ پھر ہم نے پہاڑوں کو بنایا جو تمھارے لئے سہارے کا بھی موجب ہیںاور وہ زمین کی حرکت مُضِرہ کو بھی روکنے کا ذریعہ ہیں دوسری طرف ہم نے تمھارے اندر یہ بات رکھ دی ہے کہ خَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجًا۔ ہم نے تم کوزَوْج بنایا ہے۔ زَوْجٌ کے معنے جوڑے کے ہوتے ہیںچنانچہ نر کو بھی زوج کہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جس کو زوجہ کہتے ہیں عربی زبان میں اُسے زَوْج بھی کہہ سکتے ہیں اورزَوْجَۃ بھی کہہ سکتے ہیں۔ ایک انسان اپنی بیوی کے متعلق یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ھِیَ زَوْجِیْ یہ میری بیوی ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ ھِیَ زَوْجَتِیْ کہے۔ اسی طرح زوج کا لفظ مرد کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے چنانچہ ایک عورت اپنے خاوند کے متعلق بھی کہہ سکتی ہے کہ ھُوَ زَوْجِیْ پس خَلَقْنٰکُمْ اَزْوَاجًا کے معنے یہ ہوئے کہ خدا نے تم کو جوڑا بنایا ہے یعنی نر اور مادہ کی صورت میں اس نے تم کوپیدا کیا ہے گویا ایک طرف زمین میں یہ قابلیّت رکھی ہے کہ تم اس کی طرف اُسی طرح لوٹتے ہو جیسے بستر کی طرف جس طرح انسانی جسم میں جب تھکان پیدا ہو جائے تو وہ آرام کے لئے اپنے بستر کی طرف جاتا ہے اسی طرح جب تمھیں کوئی ضرورت محسوس ہوتی ہے یا تمھیں کسی تکلیف کا احساس ہوتا ہے تم زمین کی طرف توجہ کرتے ہواور تمھیں اپنی تمام ضروریات زمین سے حاصل ہو جاتی ہیں۔ اسی طرح لباس ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کی اس ضرورت کوبھی زمین سے ہی پورا کرتا ہے زمین سے اللہ تعالیٰ اس کی وہ ضرورت پوری کر دیتا ہے اور وہ اسی طرح سے زمین سے آرام حاصل کرتا ہے ۔ پھرجِبَال بھی زمین کے لئے تقویّت اور سہارے کا موجب ہیں۔ درحقیقت زمین میں بعض نقائص ایسے تھے جن کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا سلسلہ جاری کر دیا۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے زمین کئی فوائد سے محروم رہ جاتے۔ مثلاًپہاڑوں کا یہ بہت بڑا فائد ہ ہے کہ وہ اس پانی کو جو زمین کی زندگی کا ذریعہ ہے جمع رکھتے ہیں کیونکہ برف پہاڑ کی چوٹیوں پر ہی پڑتی ہے اور پھر وہ برف پگھل کر زمین کے لئے سال بھر کے لئے پانی مہیا کر دیتی ہے۔ اسی طرح قسم قسم کی بُوٹیاں ہیں جو پہاڑوں پر پیدا ہوتی اور بنی نوع انسان کے کام آتی ہیں۔ زمین کو انسان چونکہ اپنی رہائش کے لئے آباد کرتا ہے اس لئے وہ پرواہ نہیں کرتا کہ زمین کو قابل رہائش بنانے کے لئے وہ کون کون سی چیزیں تلف کر رہا ہے جب بھی اُسے اپنی رہائش کے لئے یا اپنے اور کاموں کے لئے زمین کی ضرورت محسوس ہوتی ہے وہ بلا دریغ اُن سب چیزوں کو تلف کر دیتا ہے جو زمین پر موجود ہوتی ہیں ۔ اگر درخت اُگے ہوئے ہوں تو ان کو کاٹ دیتا ہے بوٹیاں موجود ہوں تو اُن کو اُکھیڑ دیتا ہے کیونکہ اُسے ضرورت ہوتی ہے کہ اپنی رہائش کے لئے زمین کو صاف کرے۔ پس چونکہ زمین کو انسان نے آباد کرنا تھا اس میں اپنی رہائش کے لئے اُس نے مکان بنانے تھے۔ سڑکیں بنانی تھیں۔ کھیت بونے تھے۔ رسے تیا ر کرنے تھے اور یہ چیزیں تقاضا کرتی تھیں کہ زمین صاف ہو اس لئے انسانی عادت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ زمین کو بالکل صاف کر دیتا ہے تو اور تما م روئیدگیوں وغیر ہ کولغو سمجھ کر کاٹ دیتا ہے ۔ حالانکہ ان بوٹیوں میں جن کو کاٹ رہا ہوتا ہے اور جن کو بالکل لغو اور بیکا ر سمجھ رہا ہوتا ہے ہزاروں بوٹیاں ایسی ہوتی ہیں جو نہایت ہی مفید ہوتی ہیں اور کئی قسم کی بیماریوں کو دُور کرنے کاذریعہ ہوتی ہیں پس اگر میدان ہی میدان ہوتے تو اس کالازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ انسان ساری چیزیں اُکھیڑ دیتا۔ حالانکہ اُن میں سے بیسیوں چیزیں ایسی ہو سکتی تھیں جو اس کے لئے نہایت مفید ہوتیں۔ اس نقص کودُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے پہاڑ بنا دئیے ہیں۔ وہاں جس طرح پانی محفوظ ہوتا ہے (کیونکہ برف پہاڑوں پر ہی پڑتی ہے) اسی طرح ہزاروں قسم کی بوٹیاں جو انسانی صحت کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہیں اور جو اگر ہموار زمین پر ہوتیں تو انسان اُن کو کاٹ کر فنا کر چکا ہوتا وہاں محفوظ رہتی ہیں اس طرح پہاڑ زمین کے لئے سہارے کا موجب بن جاتے ہیں۔ ان امور کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَخَلَقْنَکُمْ اَزْوَاجًا۔ ہم نے تمہیں نر اور مادہ بنایا ہے جس کی وجہ سے تمہاری نسل چلتی ہے۔ یعنی ایک طرف سے زمین میں اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے بے انتہا فوائد جو زمینی قوتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ ختم ہونے والے ہیں رکھے ہیں اور دُوسری طرف اُس نے جِبَال بھی بنائے ہیںجن سے یہ فوائد عملی صورت میں بھی مستقل ہو جاتے ہیں۔ گویا زمین بھی فائدے کا موجب ہے اورجِبَالب بھی فائد ے کا موجب ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ جِبَال زمین کے فوائد کو مستقل حیثیت دیدیتے ہیں پس ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم الشان سلسلہ تمھارے لئے جاری کیا ہؤا ہے دوسری طرف تمھار ی نسل قائم کرنے کے لئے اس نے تمہیں اَزْوَاج یعنی نر و مادہ بنا دیا ہے۔ اب کیا یہ عجیب بات نہیں کہ خدا نے تمہارے لئے ایک طرف تو زمین کو پیدا کیا جس سے تم اپنے کھانے کا سامان حاصل کرتے ہو اپنے پینے کا سامان حاصل کرتے ہو۔ اپنے لباس کا سامان حاصل کرتے ہو۔ اپنی رہائش کا سامان حاصل کرتے ہو۔ اور دُوسری طرف اُس نے پہاڑ بنا دیئے جن سے یہ فوائد ایک مستقل طور پر صورت اختیار کر گئے ہیں تیسری طرف اُس نے تمہیں نر اور مادہ بنا دیا تا کہ تمہاری نسل قائم رہے اور مستقل صورت اختیار کرے اور تم ان چیزوں سے ہمیشہ فائدہ اُٹھاتے رہو۔ مگر تمہاری یہ حالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اس لمبے سلسلہ ٔ پیدائش کے متعلق تم یہ کہہ رہے ہو کہ یہ سب لغو اور فضول ہے ان کی پیدائش کسی حکمت پر مبنی نہیں ۔
زَوْج کے ایک معنے صِنف کے بھی ہوتے ہیں اس لحاظ سے خَلَقْنَکُم اَزْوَاجًا کا یہ مفہوم ہو گا کہ ہم نے تم کو مختلف اقسام میں پیدا کیا ہے یعنے کوئی شخص تم میں سے ایسا ہے جو تصویر کشی کی رغبت رکھتا ہے۔ کوئی ایسا ہے جو نجّار بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کوئی ایسا ہے جسے سائنس میں انہماک ہے۔ کوئی ایسا ہے جو حساب سے دلچسپی لیتا ہے کوئی ایسا ہے جو تاریخ کی طرف مائل ہے۔ غرض ہم نے تم کو مختلف اقسام میں تقسیم کر دیا ہے۔ اگر سب طبائع یکساں ہوتیں تو دنیا ایک ہی حالت میں چلتی چلی جاتی اور اُس میں کسی قسم کی ترقی نہ ہوتی۔ مگر ہم نے انسانی دماغ کو اتنا متنوّع بنا یا ہے اور اس قدر اقسام در اقسام صورت میں ترقیات کا میدان اس کے لئے کھولا ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مذاق اور اپنی اپنی طبیعت کے مطابق جس لائن کو چاہتا ہے اختیار کر لیتا ہے۔کوئی دنیا میں مشغول ہے کوئی دین میں مشغول ہے۔ کوئی سے اپنی دلچسپی کا اظہار کر رہا ہے۔ غرض اپنے اپنے رنگ میں انسانی فطرت اس میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہی ہے۔یہ تنوّع اس بات کی دلیل ہے کہ انسان میں خدا تعالیٰ نے کسی غیر مرئی چیز کو حاصل کرنے کی جدّوجہد کرے۔ چنانچہ اس کوشش اور تلاش میں کوئی کسی طرف دوڑ رہا ہے اور کوئی کسی طرف دوڑ رہاہے جیسے پانی بہایا جاتا ہے تو وہ نشیب کی طرح بہہ پڑتا ہے اسی طرح انسانی طبیعت اپنے اپنے مذاق کے مطابق مختلف رستوں پر دوڑ رہی ہے۔ کوئی کسی رستہ سے اس چیز کو حاصل کرنا چاہتا ہے اور کوئی کسی رستہ سے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی خاندان کا بچہ کھویا جائے تو اس خاندان کے کچھ افراد مشرق کو چلے جائیں گے ۔ کچھ شمال کی طرف دوڑ پڑیں گے اور کچھ جنوب کی سمت اختیارکرلیں گے مگر مقصد سب کا ایک ہی ہو گا کہ کسی طرح اس بچہ کو ڈھونڈا جائے۔ اسی طرح انسانی فطرت مختلف رستوں پر مختلف جہات کی طرف بھاگ رہی ہے جو ثبوت ہے اس بات کا کوئی چیز ایسی ہے جس کے متعلق فطرت یہ محسوس کرتی ہے کہ اُسے حاصل کرنا چاہئیے۔ مگر چونکہ اُسے علم نہیں کہ وہ کہاں ہے اس لئے مختلف جہات سے وہ اس چیز کو پکڑنے کی کوشش کرتی ہے یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ انسانی فطرت اپنے لئے کسی ایسے مقصود کی طالب ہے جس کے مقام کا خود اُسے اپنی ذات کے اندر سے نہیں حاصل ہوتا اور چونکہ اُسے اپنی ذات سے اُس کے مقام کا علم حاصل نہیں ہوتا اس لئے وہ مختلف جہات سے اس کو تلاش کرنے کی کوشش کرتی ہے اور یہ حالت چلتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اپنا کلام نازل کرکے اس مقصد کو ظاہر کردیتا ہے پھر انسان کی تسلی ہو جاتی ہے اور وہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ مقصد میں نے پا لیا جس کے لئے میں کوشش کر رہا تھااور جس کے لئے خدا نے مختلف قسم کے مادے انسانی فطرت میں پیدا کئے تھے گویا ایک طرف زمین اور جبال کی پیدائش کا سلسلہ اور دوسری طرف انسانی فطرت میں تنوّع کا پایا جانا ا ور مختلف الطبائع انسانوں کا مختلف جہات کی طرف اپنے مقصد کے حصول کے لئے دوڑنا یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ انسان کے سامنے کوئی بڑا مقصدہے جس کے حصول کے لئے اُس نے کوشش کرنی ہے پس انسانی فطرت کی یہ کشمکش ایک طرف کلام الٰہی کی ضرورت پر دلالت کرتی ہے دوسری طرف بعث بعد الموت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اگر کلامِ الٰہی کا غلبہ نہیں ہونا تھا تو پھر اُس کے نزول کا کوئی فائدہ نہ تھا پس یہ امر کلام الٰہی کے غالب آنے پر بھی دلالت کرتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ زمین جس پر انسان بستا ہے اس میں بے انتہاء اشیاء اور قوتیں پیدا کر کے اور پہاڑوں کے ذریعہ سے خورونوش اور سائنٹفک ترقیات کے سامانوں کو مستقل رنگ دے کر اور انسانوں کو اس صورت میں پیدا کر کے کہ وہ مختلف مزاجوں کے مطابق زمین کی مختلف قابلیتوں کو ترقی دیں اور اُن سے فائدہ اُٹھائیں۔ اور پھر انسانوں کو بھی مرد وزن بنا کر اور ایک مستقل قائم رہنے والے وجود کی شکل دے کر اللہ تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ انسان غیر محدود ترقیات کے لئے اور دائمی زندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور اگر یہ بات ثابت ہے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ اس دنیا میں فنا ہو نے والے انسان کے لئے کسی اور دنیا میں دائمی زندگی کا سامان مہیا ہونا چاہئیے اور اس دائمی زندگی کے لئے کوئی ہدایت نامہ اور اس ہدایت نامہ پر چلنے والوں کے لئے کامیابی کی ضمانت بھی ہونی چاہیئے۔ورنہ کارخانۂ عالم بیکار محض ثابت ہوتا ہے۔
وَّجَعَلْنَا
اور ہم نے تمھاری نیند کو موجب راحت بنا یا ہے ۹؎
۹؎حل لغات
سُبَات سَبْتٌ سے ہے اور سَبْتٌ کے اصل معنے کسی چیز کو کاٹنے کے ہیں چنانچہ کہتے ہیں سَبَتَ السَّیْرَ چمڑے کے ٹکڑے کو لمبے رنگ میں کاٹا۔وَسَبَتَ شَعْرَہٗ: حَلَقَہٗ اُس نے بالوں کا کاٹا۔ اور ہفتہ کو یومِ سبت اس لئے کہا گیا کہ اُس دن یہودی اپنے کام کاج چھوڑ دیتے تھے (مفردات) انہی معنوں کے پیش نظر وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا کے معنے صاحب مفردات نے کئے ہیں قَطْعًا لِلْعَمَلِ کہ ہم نے تمھاری نیند کو ایسا بنایا ہے کہ اُس سے تم اپنے کاموں سے کٹ جاتے ہو اور پھر تم تاذہ دم ہو جاتے ہو (مفردات)
اقرب االموارد میں ہے اَلسُّبَاتُ: الدَّھْرُ یعنی زمانہ اَلدَّاھِیَۃُ مِنَ الرَّجَالِ۔ آدمیوں میں سے بڑا لائق آدمی ۔اَلنّوْمُ۔ نیند۔ وَقِیْلَ خِفَّہٗ وَقِیْلَ اِبْتَدَائُ ہٗ فے الرَّاسِ حَتّٰی یَبْلُغُ الْقَلْبَ بعض کے نذدیک سُبَات کے معنے ہلکی سی نیند کے ہیں اور بعض نے اس کے معنے اُونگھ کے کئے ہیں لیکن اقرب الموارد کے مصنف لکھتے ہیں وَاَصْلُہُ الرَّاحَۃُ کے اصل معنی آرام اور راحت کے ہیں (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے ہم نے تمھاری نیند کو سُبَات بنایا یعنی اگر کوئی شخص کہے کہ اسلام کے ذریعہ کُفر پر ایک نئے غلبہ کی کیا ضرورت ہے اگر کفر پر غلبہ ہی منشاء ہے تو آدم ؑ کے وقت یہ غلبہ ہو گیا۔ نوح ؑکے وقت یہ غلبہ ہو گیا ۔ اب کسی نئے غلبہ کی کیا ضرورت ہے؟ تو اللہ تعالیٰ اس کے جوا ب میں فرماتا ہے وَجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا کیا زندگی میں تم دیکھتے نہیں کہ ایک جاگنے کا وقت ہوتا ہے اور ایک سونے کا وقت ہوتا ہے۔ اسی طرح قوموں میں بیداری اور نیند کاایک تسلسل چلا جاتا ہے تا کہ نئی قوتیں لے کر انسان اُٹھے اور کفر کو شکست دینے کے لئے کھڑا ہو جائے۔ اس طرح لوگ ایک لمبے عرصہ تک کوشش کرتے چلے جاتے ہیں۔ مگرجب وہ اپنی ان کوششوں میں تھک جاتے ہیں جب ان کی تمام رغبتیں دنیا میں محدود ہو جاتی ہیں جب دین کی طرف سے بے رغبتی کا اظہار کرنے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن کو چھوڑ دیتا ہے اُن کی حالت بدل جاتی ہے اور وہ خرابیوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں تب اللہ تعالیٰ ایک نیا فضل نازل کرتاہے اور لوگوں کی ہدایت کے لئے ایک نئے رُوحانی سورج کا طلوع کرتا ہے۔
اس آیت میں چونکہ نَوْم کا لفظ مذکور ہے اس لئے سُبَاتًا سے مراد نیند تو نہیں ہو سکتی جو اس کے معروف معنی ہیں اور حل لغات میں بیان ہو چکے ہیں۔پس لازمًااس کے کوئی اور معنی ہوں گے اور وہ معنے یہی ہیں کہ جَعَلْنَا نَوْمَکُمْ رَاحَۃً ہم نے تمہاری نیند کو ایک راحت کا ذریعہ بنایا ہے اور چونکہ سُبَات کے ایک معنے دَھْر کے بھی ہوتے ہیںاس لئے جَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا کے معنے جَعَلْنَا نَوْمَکُمْ دَھْرًا کے بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی تمہاری نیند کے زمانہ کو ایک لمبا زمانہ بنایا ہے۔ اس صورت میں نیند سے مراد وہ زمانہ ہو گا جب روحانی سورج کا طلوع نہیں ہوتا اور قوم غفلت کی حالت میں سو رہی ہوتی ہے گویا مراد یہ ہے کہ جب کوئی قوم سوتی ہے تو پھر ایک لمبے عرصہ تک سوتی چلی جاتی ہے۔
وَّجَعَلْنَا
اور ہم نے رات کو پردہ پوش بنایا ہے ۱۰؎
۱۰؎ حل لغات
لِبَاس کے معنے مفردات میں یوں لکھے ہیں وَجُعِلَ اللِّبَاسُ مَا یُغَطِّیْ مِنَ الْاِنْسَانِ عَنْ قَبِیْحٍ یعنی لباس کا لفظ ہر ایسی چیز پر بولا جاتا ہے جو انسانی عیوب اور نقائص کو چھپا دیتی ہے جَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا کے معنے ہوںگے ہم نے رات کو تمہاراننگ ڈھانکنے والی چیز بنایا ہے اور اسی لحاظ سے رات کو لباس قرار دیا گیا ہے کیونکہ عربی زبان ہر وہ چیز جو عیوب ڈھانکنے کا کام دے وہ لباس کہلاتی ہے جیسے قرآن کریم میں ہی ایک دوسرے مقام پر لِبَاسُ التَّقْویٰ (الاعراف ع ۳ ۰ ۱ ) کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ تقویٰ کو بھی لباس انہی معنوں میں کیا گیا ہے کہ تقویٰ انسانی عیوب کو ڈھانکتا ہے پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے رات کو تمہارے عیوب ڈھانکنے والی چیز بنایا ہے۔
اقرب ؔمیں ہے اَلِلّبَاسُ: اَلْاِخْتِلاطُ وَالْاِجْتِمَاعُ یُقَالُ بَیْنَہُم لِبَاسٌ‘‘ اَیْ اِخْتِلَاطٌوَاِجْتِمَاعٌ (اقرب)یعنی اختلاط اور اجتماع کو بھی لباس سے تعبیر کرتے ہیں چنانچہ عرب کہتے ہیں بَیْنَہُمْ لِبَاسٌ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اُن کے درمیان اختلاط اور اجتماع ہے۔
لسانؔ میں ہے لِبَاسُ کُلِّ شَیْ ئٍ غِشائُ ہٗ۔ ہر چیز کا پردہ اُس کا لباس کہلاتا ۔۔۔
تفسیر
اگر رات نہ آئے اور ہر انسان ہر وقت جاگتا رہے تودوچار دن میں ہی وہ پاگل ہو جائے مگر رات آنے کی وجہ سے انسان کا یہ نقص ظاہر نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے رات کو بنی نوع انسان کا لباس بنایا ہے اور وہ انسان کی محدود طاقت کے نقائص کو چھپا دیتی ہے۔ اسی طرح رات کے اندھیرے میں جب کوئی شخص سویا ہؤا ہوتو اس کے سوتے وقت کے نقائص دوسروں کو معلوم نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ بھی سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور کوئی دوسرا شخص ان نقائص کو دیکھ نہیں سکتا لیکن اگر دن کے وقت کوء شخص سوئے تو دوسرے شخص کو فوراًاس قسم کے عیوب نظر آجائیں۔ سوتے وقت انسان کی عجیب عجیب حالتیں ہوتی ہیں اور بعض تو یقینا ایسی ہوتی ہیں جن کو اگر دوسرا شخص دیکھ لے تو اُسے سخت کراہت آئے بعض دفعہ ایک بڑا شخص ہوتا ہے لیکن اُس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ جب وہ سوتا ہے تو اُس کا منہ کُھلا رہتا ہے اور اُس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں۔ لیکن اگر وہ رات کو سوتا ہے تو اس کا یہ نقص پوشیدہ رہتا ہے اسی طرح بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ سوتے وقت خراٹے شروع کر دیتے ہیں۔ بعض نہایت قابلِ نفرت طریق پرسوتے ہیں۔ کوئی بلّی کی طرح سوتا ہے کوئی مچھلی کی طرح سوتا ہے اور کوئی کسی طرح سوتا ہے۔ غرض سونے کی ایسی ایسی حالتیں ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر گھِن پیدا ہوتی ہے پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا ہم نے رات کو لباس بنایا ہے یعنی سونے کا ایک عام وقت رات ہوتا ہے اور رات میں سونے والوں کے جسمانی عیوب ڈھک جاتے ہیں۔ اگر انسان عام طور پر دن کو سوتا تو اس کے عیوب ظاہر ہو جاتے لیکن چونکہ وہ رات کے اندھیرے میں سوتا ہے اس لئے اُس کے سوتے وقت کے عیوب کا پتہ نہیں لگتااور اُن پر پردہ ڈال دیتی ہے۔ اسی طرح روحانی لَیْل بھی ایک لباس ہوتی ہے کیونکہ رات اسی کو کہتے ہیں جب سارے لوگ سوئے ہوں جس طرح جسمانی لَیْل لباس کا کام دیتی ہے۔ اسی طرح روحانیلَیْل بھی ایک لباس ہوتی ہے اسی طرح رحانی لَیْل بھی ایک لباس ہوتی ہے کیونکہ رات اسی کو کہتے ہیں جب سارے لوگ سوئے ہوں۔ جس طرح جسمانی لَیْل لباس کا کام دیتی ہے کیونکہ ساری قوم مُردہ ہوتی ہے کوئی شخص کسی دوسرے کا کوئی عیب نہیں دیکھتا جیسے کہتے ہیں حمام میں سارے ننگے۔ اُس زمانہ میں بھی روحانی لحاظ سے سارے ننگے ہوتے ہیں۔ ہر شخص میں بدی ہوتی ہے۔ ہر شخص میں عیب ہوتا ہے اور چونکہ ہر شخص گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے اس لئے کسی دوسرے کا گناہ اُسے نظر نہیں آتا۔ جیسے اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانہ میں ہر شخص شرک میں مبتلا تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ کوئی بڑا مشرک تھا اور کوئی چھوٹا مشرک تھالیکن باجود اس کے ہر شخص شرک میں مبتلا تھا کوئی شخص کسی دوسرے کے نقص کا اظہار نہیں کرتا تھا جب نبی آتا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے روحانی سورج کا طلوع کر دیتا ہے تو پھر لوگوں کو ایک دوسرے کے نقائص نظر آنے لگ جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ فلاں ایسا ہے اور فلاں ایسا ہے مگر جب تک سب قوم سوئی ہوئی ہو کوئی شخص کسی دوسرے کے عیب نہیں دیکھ سکتا۔جیسے یورپ میں ننگے ناچ ہوتے ہیں مگر کسی کے دل میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ یہ بھی کوئی گندی چیز ہے کیونکہ روحانی لَیْل اُن پر چھائی ہوئی ہے اور رات کی تاریکی کی وجہ سے اُنہیں یہ نقائص نظر نہیں آتے۔ بڑے سے بڑا آدمی بھی ان نظاروں کو دیکھیگا تو خاموشی سے گزر جائے گا اور اُسے یہ خیال نہیں آئے گاکہ ان باتوں کے خلاف نفرت کااظہار کرے۔ مگر جب نبی کا زمانہ آتا ہے تو پھر لوگ شرمانے لگتے ہیںاور وہ کہنے لگ جاتے ہیںکہ یہ بھی بُری بات ہے اور وہ بھی بُری بات ہے۔
پھرلباس زینت کا موجب بھی ہوتا ہے اور کام کرنے والوں کے لئے ایک رنگ میں رات ہی زینت کا باعث ہوتی ہے۔ عرب میں رواج ہے کہ غریب سے غریب آدمی بھی روزانہ اپنے کپڑے دھوتا ہے یا بعض امیر رات کو اور کپڑے پہنتے ہیں اور دن کو اَور۔ دن میں تو کام کاج کرنے کی وجہ سے لباس خراب ہو جاتا ہے لوگ اچھا لباس نہیں پہن سکتے مگر رات کو فارغ ہو کر پہنتے ہیں اور آرام سے بیٹھتے ہیں۔ بعض ممالک یعنی یورپ وغیر ہ میں جا کر دیکھ لو امیر سے امیر آدمی دن کے وقت کارخانوں وغیرہ میں کام کر رہے ہوتے ہیں لیکن لباس خراب ہوتا ہے۔ لیکن جب چار بجے اور کام سے فارغ ہوئے غسل کر کے صاف ستھرے کپڑے پہن لیتے اور آرام سے اپنے گھر بچوں اور بیوی کے پاس بیٹھتے ہیں۔
وَّجَعَلْنَا
اور ہم نے دن کو زندگی ( کے اظہار) کا ذریعہ بنایا ہے ۱۱؎
۱۱؎حل لغات
مَعَاشٌ عَاشَ کا مصدر ہے اور عَاشَ یَعِیْشُ مَعَاشًا کے معنے ہوتے ہیں صَارَذَا حَیَاۃٍ(اقرب) یعنی وہ زندہ ہوا۔ پس مَعَاشَ کے معنے ہوئے زندگی والا ہونا۔ اور جَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا کا یہ مطلب ہؤا۔کہ ہم نے دن کو حیات کے اظہار کا ایک موقع بنایا ہے۔ اسی طرح لغت میں مَعَاشًا کا یہ مطلب ہؤا کے ایک معنے یہ بھی لکھے ہیں کہ مُلْتَمَسًا لِلْعَیْشِ (اقرب) اس صورت میں جَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا کے ایک معنے یہ ہوں گے کہ ہم نے دن کو ایسا بنایا ہے کہ اُس میں انسان اپنے عیش کے سامان تلاش کرتا ہے گویا جَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا کے ایک معنے ہوئے مُلْتَمَسًا لِلْعَیْشِ یعنی دن ایک ذریعہ سامانِ معیشت کے تلاش کا ہوتا ہے۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ہم نے دن کو ایک حیات کی چیز بنایا ہے یعنی دن اپنی ذات میں حیات کو ظاہر کرنے والا اور وہ زندہ چیز نظر آتی ہے۔ دوسرے معنے یہ ہوںگے کہ ہم نے نہار کو ذریعہ معاش بنایا ہے یعنی وہ انسان کے لئے زندگی کے سامان تلاش کرنے کا ذریعہ ہے۔ اس کے علاوہ اگر مَعَاشًا کے معنوں میں لیا جائے تو یہ جَعَلَ کا مفعول بہٖ بن جاتا ہے۔ اسکی ایسی ہی مثال ہو گی جیسے کہتے ہیں زَیْدٌ عَدْلٌ پس علاوہ مفعول فیہ ہونے کے یہ اس کے مفعول بہ کے طور پر بھی استعمال ہو سکتا ہے کہ ہم نے نھار کو معاش یعنی نھاراور معاش کا آپس میں اتنا گہرا تعلق ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ معاش نھار ہے اور معاش نھار ہے تو یہ بالکل جائز ہے جیسے کہتے ہیںزَیْدٌ عَدْلٌ یعنی زید کا عدل سے اتنا گہرا تعلق ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ زید عدل اور عدل زید ہے تو یہ جائز ہو گا۔ قرآن کریم میں بھی اسکی مثال پائی جاتی ہے سورۂ عنکبوت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنَّ الدَّارَ الْاَخِرۃَلَھِیَ الْحِیْوانُ (عنکبوت ع ۷ ۳ ) حَیْوَان کا لفظ حیات کا مبالغہ کے طور پر استعمال ہؤا ہے اور مطلب یہ ہے دارِ آخرت ہی اصل زندگی ہے۔ اب دارِ آخرت ایک جگہ کا نام ہے اور کوئی خاص جگہ زندگی نہیں کہلا سکتی مگر چونکہ انسان دارِ آخرت میں ہی حقیقی طور پر زندہ ہو گا اور اصل زندگی وہی ہے جو انسان کواگلے جہان میں حاصل ہوگی اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمادیا کہ دارِ آخرت ہی آخری زندگی ہے۔ یعنی ہم یہ کہیں کہ دارِ آخرت کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے تو یہ بالکل جائز ہے پس جَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًَا کے یہ معنے ہوں گے کہ معاش کے دن کے ساتھ اتنا بھاری تعلق ہے کہ اگر ہم یہ کہیں کہ خدا تعالیٰ نے دن کو معاش بنا دیا ہے یعنی دن میں اُس نے اتنا سامان معاش کمانے کے پیدا کر دئیے ہیں کہ اورکسی وقت وہ سامان میسَّر نہیں آ سکتے تو بالکل درست ہو گا۔ یہ معنی مَعَاشًَا کے مفعول بہ ہونے کی صورت میں ہیں لیکن اگر اسے مفعول فیہ سمجھا جائے تو اسکے معنی وقتِ معاش کے ہوں گے یعنی دن کو ہم نے ایک ذریعۂ معاش بنا دیا ہے۔ دوسرے اوقات میں انسان معاش کو تلاش نہیںکر سکتا لیکن دن اُس کے حصولِ معاش کا ایک ذریعہ بن جاتا ہے۔
مَعَاشًَا درحقیقت عَاشَ کا مصدر ہے اور مَعَاشَ کے معنے ہوں گے تو محض حیاۃ ٌکے ہوتے ہیںاور دوسرے معنی حیوانی حیات کے ہوتے ہیں۔ عام معنے اس کے حیوانی حیات کے ہی ہوتے ہیں۔ یہ مطلب نہیں کہ اس کے کوئی بُرے معنے ہیں بلکہ حیوانی حیات سے مراد صرف وہ زندگی ہے جو کھانے پینے سے تعلق رکھتی ہے۔
تفسیر
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ جس طرح دن کے بعد رات آتی ہے اسی طرح قوموں پر بھی بعض دفعی تاریکی کا دَور آجاتا ہے اور وہ تاریکی دَور اُن کے لئے ایسا ہی ہوتا ہے جیسے نہار کے بعد لیل کی ظلمت دنیا پر چھا جاتی ہے ۔
میں نے بتایا تھا کہ اس سورۃ میں تین مضامین کاذکر ہو رہا ہے قیامت کا۔ غلبۂ قرآن کا اور غلبۂ اسلام کا۔ پس اگر یہاں بعث بعدالموت مراد ہو تو اس صورت میں وَجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا کا مفہوم یہ ہو گا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ رات کو تمھارے نقائص دور کرنے کے لئے پیدا کیا ہے۔ تمہاری روح میں یہ قابلیت نہیں تھی کہ وہ ہمیشہ نھارسے فائدہ حاصل کر سکتی بلکہ ضروری تھا کہ اُس پر رات بھی آتی تاکہ دن سے فائدہ اُٹھانے کے لئے اُس میں نئی طاقتیں پیدا ہو جاتیں یہی تمہارا روحانی حال ہے جس طرح خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے رات کو لباس اور نیند کو سُبَات بنایا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ نے دنیا کی پیدائش کا سلسلہ جو لَیْلاور سُبَات کا قائمقام ہے اس لئے جاری کیا ہے تاکہ تم اس جہان میں رہ کر اپنے اند ر وہ نئی طاقتیں پیدا کرو جن سے اگلے جہان میں تمہیں رؤیت الٰہی نصیب ہو سکے پس جس طرح لیل کا کا نہار سے پہلے آنا ضرور ی ہے اسی طرح تمہاری ترقی کے لئے ایک اور عالم کا ہونا بھی ضروری ہے تم اس جہان میں رہ کر اپنے اندر وہ قابلیتیں پیدا کرو تاکہ اگلے جہان میں رؤیت الٰہی سے حصہ لے سکو۔ اور قرآن یا اسلام کا غلبہ مراد ہو تو اس صورت میں مذکورہ بالا آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ تمہاری قوم سو رہی تھی مگر اللہ تعالیٰ اس لَیْل میں تمہارے اندر نئی قوتیں پیدا کر رہا تھا۔ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کلام نازل ہوتا ہے اُسی قوم میں نازل ہوتا ہے جو مردہ اور ذلیل ہو چکی ہوتی ہے تاکہ وہ اُس نئے کلام کے ذریعہ نئی طاقتیں لے کر کھڑا ہو جائے اور دنیا پر غالب آجائے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کا کلام کسی قوم میں نازل ہوتا ہے اُس کی قوتوں میں نشوونما پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے اور آخر ایک دن وہ قوم اُن قوتوں سے کام لے کر دنیا میں پھیل جاتی ہے۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کو دیکھ لو۔ عرب صدیوں سے ذلیل اور مردہ چلے آرہے تھے اُن کادنیا میں کہیں غلبہ نہ تھا۔ اُن کی ترقی کے کوئی آثار نہ تھے۔ وہ دنیا سے ایک الگ گوشہ ٔ گمنامی میں پڑے ہوئے تھے۔ جب اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہؤا تو بے شک وہ قرآن کریم کی مخالفت کرتے تھے۔ وہ اسلام کو مٹانے کی کوششیں کرتے تھے مگر ساتھ ہی اُن کے دلوں میں یہ حسرت بھی موجود تھی ہر قوم نے ترقی کی۔ ہر قوم نے عروج حاصل کیا۔ مگر ہمیں کوئی ترقی حاصل نہیں ہوئی۔ پس اُن کے دلوں میں ترقی کی تڑپ پائی جاتی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ غلبہ حاصل کریں اور ان کی ذاتی خواہش تھی کہ ہماری قوم کو بھی عزت ملنی چاہیئے اور اس کی خواہش نے اسلام لانے پر انہیں ترقی میں بڑی مدد دی۔ پس جب بھی کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اسی قوم میں نازل ہوتا ہے جو مدتوں سے مرد ہ ہوتا ہے۔ اس زمانہ میںبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں مبعوث فرمایا جہاں کے رہنے والے مدتوں سے غلا می کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور جن کے دلوں میں یہ خواہش پائی جاتی ہے ہم بھی بڑھیں اور ترقی کریں۔ اور گو وہ لوگ احمدیت کی مخالفت کرتے ہیں جس طرح عرب کے رہنے والے لوگ اسلا م کی مخالفت کیا کرتے تھے مگر جس دن اُن کو پتہ لگا کہ احمدیت ہی اُن کی ترقی کا ذریعہ ہے اُس دن اُن کے اندر بیداری پیدا ہو جائے گی اور وہ اس غرض کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔
وَجَعَلْنَا النَّھَارَ مَعَاشًا میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا ہے کہ درحقیقت زندگی کا ثبوت صرف دن سے ہی ملتا ہے رات سے نہیں ملتا۔ یہاں ایک عجیب لفظی لطیفہ ہے۔ انسان عام طور پر راحت اور آرام کے سامانوں میں اپنی زندگی بسر کرنا ہی عیش سمجھتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کو تم عیش سمجھتے ہووہ عیش نہیں بلکہ ایک نیند ہے جو دتم پر مسلّط ہوتی ہے۔ تم سمجھتے ہو کہ کھانا پینا سیر وسیاحت کرنا۔ راحت و آرام کے سامانوں میں چکّر لگانا انسان کے لئے عیش ہوتا ہے حالانکہ عیش کا زمانہ صر ف نبی کا زمانہ ہوتا ہے جب حقیقی کام کا وقت ہوتا ہے اور جب حقیقی عزت حاصل کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ کھانا پینا اور مادی راحت و آرام کے سامانوں سے لطف اُٹھانا یہ عیش نہیں بلکہ سونا ہے۔ گویا جس کو تما عیش کہتے ہو وہ تمہارے سونے کازمانہ ہے اور جس کو تم تکلیف کا زمانہ کہتے ہو وہ حقیقی معنوں میں عیش کا زمانہ ہے جس طرح دن کو انسان چلتا پھرتا ہے اور رات کو آرام کرتا ہے اسی طرح کام کا وقت کہلاتا ہے اور آرام کا وقت لَیْل کا وقت کہلاتا ہے دنیا میں جس چیز کو عیش سمجھا جاتا ہے وہ سکون کا زمانہ ہوتا ہے۔ اور جس چیز کو تکلیف سمجھا جاتا ہے وہ کام کا زمانہ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ عجیب بات ہے کہ تم سکون والی چیز کا نام عیش رکھتے ہو حالانکہ عیش کا زمانہ ہے جس میں انسانی طاقتیں متحرک ہوں اور اس کے لئے لَیْل کا وقت نہیں بلکہ نہار کا وقت مقرر ہے اور درحقیقت وہ زمانہ عیش کا ہو تا ہے جب قوم میں قربانی کی روح پائی جاتی ہو۔جب اُس کے تمام افراد میں بیداری نظر آتی ہو۔ جب اُس کے ہر فرد میں یہ احساس پایا جاتا ہو کہ جان کو قربان کر دینا اور مال کو خُدا تعالیٰ کی راہ میں لُٹا دینا ہی کلید کامیابی ہے۔ کیونکہ زندگی حرکت کا نام ہے سکون کا نام نہیں۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کو تم عیش کہتے ہو سکون ہے اور تباہی کی علامت۔ اور جس کو تم تکلیف کا وقت کہتے ہو وہی عیش ہے۔ تم سکون والی زندگی کو عیش کی زندگی قرار دیتے ہو حالانکہ وہ عیش نہیں بلکہ ایک نیند ہے جو تم پر طاری ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں جس چیز کو تم عیش قرار دینے کے لئے تیا ر نہیں وہی حقیقی معنوں میں عیش ہے۔ گویا ان الفاظ کا ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اُن کی ایک غلطی کا ایک ازالہ کیا کہ عیش نام ہے حرکت کا جیسے انسان دن میں حرکت کرتا ہے۔ مگر تم عدمِ حرکت کا نام عیش رکھتے ہو حالانکہ وہ عیش نہیں بلکہ تمہارے حواس کا بُطلان ہے۔
وَّ بَنَیْنَا
اور ہم تمہارے اوپر سات (بلند اور) مضبوط (آسمان)بنائے ہیں ۱۲؎
۲؎ا حل لغات
شِدَادٌ شَدِیْدٌ کی جمع ہے اور اَلشَّدِیْدُ کے معنے ہیں اَلشُّجَاعُ وَالْبَخِیْلُ وَالُاَسَدُ وَالْقَوِیُّ وَالرَّفِیْعُ وَالْوَثِیْق (اقرب) یعنی شَدِیْدٌ کے معنے شجاع ؔ کے بھی ہیں۔ شیر ؔ کے بھی ہیں۔ قویؔ کے بھی ہے۔ بلندؔ کے بھی ہیں اور مضبوط ؔ کے بھی ہیں۔ شَدِیْدٌ کی شِدَادٌ بھی آتی ہے اور اَشِدَّائُ بھی آتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر صحابہؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے اَشِدَّآئُ عَلیَ الْکُفَّارِ (الفتح ع ۴ ۲ ۱) یہاں سَبْعًا شِدَادً کے معنے ہوں گے سَبْعًا رِفَاعًا یعنی سات اونچی چیزیں ہم نے پیدا کی ہیں اسی طرح قَوِیٌ کے معنی بھی ہو سکتے ہیں اور وَثِیْق کے معنے بھی ہو سکتے ہیں۔ گویا اس آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم نے سات وہ چیزیں وہ پیدا کی ہیں جو بلند ہیں یا ہم نے سات وہ چیزیں پیدا کی ہیں جو قوی ہیں یا ہم نے سات وہ چیزیں پیدا کی ہیں جو بندھی ہوئی ہیں اپنی جگہ سے ہلتی نہیں۔
تفسیر
یہ سات کیا چیزیں کیا ہیں؟ قرآن کریم میں دوسری جگہ آسمانوں کے لئے چونکہ سات کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اس لئے یہاں بھی سات سے مراد سات آسمان ہی ہوں گے اور بَنَیْنَا فَوْقَکُم سَبْعًا شِدَادًا کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم نے تمہارے اوپر سات جسمانی اور مادی بلندیاں پیدا کی ہیں جو بڑی قوی ہیں یعنی اُن میں کوئی تزلزل واقعہ نہیں ہوتا۔ ایک مضبوط قانون اُن میں چلتا چلاتا ہے جو کسی حالت میں بھی ٹوٹتا نہیں اور اس وجہ سے نظامِ عالم میں کوئی نقص پیدا نہیں ہوتا۔
شِدَاد کے معنے اگر ہم رَفِیْع ؔکے لیں تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ ہم نے ایک ایسا وسیع اور بلند وبالا نظام تمہارے لئے قائم کیا ہے جس کا رفعت میں کوئی خاتمہ نظر نہیںآتا۔ اسی طرح وَثِیْق کے معنے بھی لئے جاسکتے ہیں یعنی وہ نظام جسے ہم نے قائم کیاہے اُس میں یکرنگی پائی جاتی ہے ایک قانون جس رنگ میں ظاہر ہوتا ہے اُسی رنگ میں چلتا چلا جاتا ہے۔ یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ یکرنگی اور نہ ٹوٹنے میں کیا فرق ہوتا ہے۔ نہ ٹوٹنے میں صرف ایک چیزقائم رہتی ہے لیکن یکرنگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ قانون بالکل یکساں رہتا ہے اُس میں کوئی تغیر واقع نہیں ہوتا۔ دُنیا میں بعض انسان ایسے ہوئے ہیں جن میں عدم استقلال پایا جاتا ہے وہ آج کچھ کہتے ہیں تو کل کچھ کہہ دیتے ہیں ایسے لوگوں کو یکرنگی نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے سَبْعًا شِدَادًا بنائے ہیں اُن میں یہ تینوں خوبیاں پائی جاتی ہیں قَوِیّ کے لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ ان کے اندر ثبات پایا جاتا ہے رَفِیْع کے لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ اُن میں یکرنگی پائی جاتی ہے گویا بَنَیْنَا فَوْقَکُم سَبْعًا شِدَادًا کے یہ معنے ہوئے کہ ہم نے تمہارے اوپر سات بلندیاں پیدا کی ہیں وہ یکرنگ بھی ہیں وہ قائم رہنے والی بھی ہیں اور اپنی ذات میں رفعت بھی رکھتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے بَنَیْنَا سَبْعًا شِدَادًا کا ذکر کرتے ہوئے یہاں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ تین خصوصیات جو نظام سماوی کی ہم نے بیان کی ہیں یہ بھی اس حقیقت کو ظاہر کر رہی ہیں کہ دُنیا کی پیدائش کا کوئی بڑا مقصد ہے۔ جو شخض کہتا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو پیدا کر کے بلا وجہ اور بغیر کسی مقصد کے اللہ تعالیٰ نے اس کے اوپر ایک بہت بڑااور وسیع اور مضبوط نظام بنا دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فعل کو عبث قرار دیتا اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ گویا یہ تمام نظام نعوز باللہ بالکل لغواور فضول ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ہمارے اس قانون کی یکرنگی کو دیکھو کہ کس طرح وہ ایک ہی رنگ میں چلاتا چلا جا رہا ہے اور پھر اس نظام کی رفعت اور اس کی وسعت کا اندازہ لگاؤ۔ سانئسدان اس نظام کو دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں اور باجود بڑی علمی ترقی کے اس نظام کی وسعت کا اندازہ لگانے سے اُن کی عقلیں قاصر ہیں۔ تم غور کرو اور سوچو کہ کیا یہ تمام انتظام ایک ایسی دنیا کے لئے اورپھر اس دنیا کی ایک ایسی مخلوق کے لئے کیا جا سکتا تھا جس کی پیدائش کا کوئی مقصد نہ تھا اور جس نے کچھ عرصہ کے بعدفنا ہو کر مٹی ہو جانا تھا۔ یہ انتظام خود اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی پیدائش کا کوئی بہت بڑا مقصد اور مدعا ہے۔ اگر اس مقصد کو تسلیم نہ کیا جائے تو یہ نظام نعوذ باللہ لغوتسلیم کرنا پڑتا ہے گویا اس رنگ میں نظام سماوی کو اللہ تعالیٰ نے بعث بعد الموت کے ثبوت کے طور پر پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا یہ وسیع اور پُر حکمت نظام جاری کرنا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ انسانی پیدائش صر ف اس لئے نہیں ہوئی کہ وہ چند روز کھائے اور پئے اور فنا ہو جائے بلکہ کسی بہت بڑے مقصد اور مدعا کو پورا کرنے کے لئے اس کی پیدائش ہوتی ہے۔ اور اگر یہاں قرآن مجید مراد لیا جائے تو مطلب یہ ہو گا کہ تم اپنی فطرت کو دیکھو اور غور کرو کہ کھانے پینے کے سوا اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے حصول کی کتنی عظیم الشان تڑپ تمہارے دلوں میں رکھی گئی ہے۔ تمہارے اندر شوق پایا جاتا ہے کہ تم نیکی میں ترقی کرو۔ تمہارے اندر خواہش پائی جاتی ہے کہ تم اعلیٰ درجہ کے روحانی مدارج حاصل کرو۔ کیا یہ شوق اور خواہش بلا وجہ ہے اور کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جو تمہاری ادنیٰ خواہشیں تھیں اُن کو پورا کرنے کے سامان تو اللہ تعالیٰ نے پیدا کر دئے مگر جو اعلیٰ درجہ کی روحانی خواہشات تمہارے اندر رکھی گئی تھیں اُن کو پورا کرنے کا خدا نے کوئی سامان پیدا نہیں کیا۔ اس صورت میں سَبْعًا شِدَادًا سے مراد وہ سات روحانی مدارج ہوں گے جن کا سورۂ مومنون میں ذکر آتا ہے اور جن کے متعلق بتایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا آتا ہے جب مومن ترقی کرتے کرتے ان ساتوں بلندیوں کو طے کر لیتا ہے۔
وَّجَعَلْنَا
اور ہم نے ایک چمکتا ہؤا سورج (بھی) بنایا ہے ۱۳؎
۱۳؎حل لغات
سِرَاجٌ کے معنے عام طور پر دئےؔ کے ہوتے ہیں اور سُرُجٌ اس کی جمع ہے۔ سورج کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی خدا کا ایک دیا ہے جو دنیا کو روشن کرنے کے لئے اُس نے بنایا ہے۔
وَھَّاجًا۔ کہتے ہیں وَھَجَتِ النَّارُ والشَّمْسُ وَھْجًا وَھَجَانًا:۔ اِتَّقَدَتْ(اقرب) وَھَجَتِ النَّارُ کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ آگ بھڑک وَھَاج مبالغے کا صیغہ ہے یعنی اَلشَّدِیْدُالْوَھَج (اقرب) سخت گرمی والا یا سخت بھڑکنے والا۔ اور وَھَجٌ کے معنے اس گرمی کے بھی ہوتے ہیں جس کو دور سے محسوس کیا جائے گویا وَھَجَ کے معنے ہوئے حَرُّ الشَّمْسِ مِنْ بَعِیْدِ سور ج کی گرمی جو دور سے آرہی ہو۔ پس اس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ ہم نے ایک سورج بنا لیا ہے جس کی صفت یہ ہے کہ وہ بڑا گرم ہَے اور اُس کی گرمی دُور دُور تک محسوس ہوتی ہے۔ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ وَجَعَلْنَا السِّرَاجَ وَھَّاجً بلکہ فرمایا وَجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَّاجًا اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں تنوین تفخیمکے لے آتی ہے اگر جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَاجًا ہوتا تو اس کے معنے یہ ہوتے کہ ہم نے سورج کو وَھَّاج بنایا ہے مگر جَعَلْنَا سِرَاجاً وَھَّاجًا کہہ کر بتا دیا کہ ہم نے ایک عظیم الشان سورج بنایا ہے جس کی صفت ذاتی یہ ہے کہ وہ وَھَّاج ہے۔
مفردات میں ہے اَلْوَھَجُ:حُصُوْلُ الضَّوْئِ وَالْحَرِّ مِنَ النَّارِ یعنی آگ سے روشنی حاصل کرنے اور گرمی حاصل کرنے کو وَھَّجً کہتے ہیں۔ تَوَھَّجَ الْجَوْھَرُ کہیںتو اس کے معنے ہوتے تَلَاْلَأَ یعنی جو ہر چمک اُٹھا۔ اور جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَاجًا کے معنے ہیں مُضِیًْٔا یعنی ہم نے سورج کو ایسابنایا کہ دنیا اس سے روشنی حاصل کرتی ہے (مفردات) پس دوسرے معنے جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَاجًا کے یہ ہوئے کہ ہم نے سورج بنایا ہے جس کی ذاتی صفت یہ ہے کہ وہ بہت روشنی دینے والا ہے۔
تفسیر
سورج کی وھَّاج بتا کر اُس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ سورج کی روشنی اور گرمی ذاتی ہے۔چاندوھَّاج نہیں کہلا سکتا۔ اس لئے کہ اس میں اتّقاد نہیں ہے۔ آگ کی طرح جلنے والا سورج ہی ہے۔ سورج کے اندر خدا تعالیٰ نے ایسا انتظام کر دیا ہے کہ اس میں ریڈیم موجود ہے کششِ ثقل کے ماتحت جب اس کے ذرّے اندر کی طرف کھنچتے ہیں تو تیز روشنی اور گرمی پیدا ہوتی ہے اور ان ذرّوں کے اندر کی کشش کی وجہ سے اس سے مستقل آگ پیدا ہوتی رہتی ہے۔
سورج کی صفتوھَّاج بھی کتنی ظاہر ہے۔ کروڑوں کروڑ میل پر سورج ہے یعنی نو کروڑ میل کے قریب دنیا سے اس کا فاصلہ ہے مگر جب اس کی گرمی یہاں پہنچتی ہے تو گرمیوں کے موسم میں کئی لوگ اس کو برداشت نہیں کر سکتے اور وہ مر جاتے ہیں۔ ابھی چند دن ہوئے لاہور کے متعلق یہ خبر آئی تھی کہ وہاں گرمی کی شدّت کی وجہ سے گھوڑے چلتے چلتے گر کر مر جاتے تھے۔ نیز امریکہ سے خبر آئی تھی کہ گرمی کی وجہ سے درجنوں آدمی پاگل ہو ئے اور بلند مکانوں پر سے چھلانگ مارنے پر تیار ہو گئے۔ گویا سورج کو اللہ تعالیٰ نے وھَّاج بنایا ہے یعنی دور دور تک اس کی گرمی پہنچتی ہے۔ لُغت میں اَلْوَھَجُ مِنَ النَّارِ والشَّمْسِ کے معنوں میں لکھا ہے کہ حَرُّھُمَامِنْ بَعِِیْدٍیعنی سورج یا آگ کی گرمی جو بہت دور سے محسوس ہوتی ہو۔ گویا سِرَاجًا وَّھَاجًا میں دو اشارے کئے گئے ہیں۔ اوّل یہ کہ سورج کی روشنی اور گرمی ذاتی ہے۔ دوسرےؔیہ کہ اس کی گرمی بہت دور سے محسوس ہوتی ہے۔
سورج کے جہاں تک اَور بہت سے فوائد ہیں اُس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سورج کی روشنی اور اس کی تپش سے زمین کے اندر روئیدگی کا مادہ پیدا ہوتا ہے چنانچہ ہل چلانے سے محض یہ غرض نہیں ہوتی کہ زمین کو نرم کر دیا جائے بلکہ آج کل جو نئے حل بنائے گئے ہیں وہ ایسی طرز پر بنائے گئے ہیں کہ زمین کے نچلے حصہ کو اُکھاڑ کر باہر پھینک دیتے ہیں یعنی وہ ہل زمین کو صرف نرم ہی نہیں کرتے بلکہ اُوپر کی زمین کو نیچے اور نیچے کی زمین کو اُوپر کر دیتے ہیں اور اس کی غرض یہ ہؤا کرتی ہے کہ زمین میں اگانے والے بعض مادے ایسے ہوتے ہیں جن کو فصل کھا جاتی ہے اور اگر پھر اُسے اُٹھا کر سورج کے سامنے نہ کیا جائے تو آئندہ فصل ناقص پیدا ہونے لگتی ہے لیکن جب نچلے حصہ کو اُلٹا کر اُوپر کر دیا جائے تو سورج کی شعائوں سے طاقت حاصل کر کے زمین کے اس نقص کی کمی پوری ہو جاتی ہے غرض سور ج کا تعلق فصلوںکے اُگانے میں بہت بڑا ہے اگر سورج کی گرمی اور اُس کی شعائیں نہ پہنچیں تو زمین کے بعض ایسے مادے جن سے فصلیں اُگتی ہیں بالکل ختم ہو جاتے ہو جائیں۔
جہاں تک سِرَاجًا وَّھَاجًا کا تعلق ہے اس میں تو میں سمجھتاہوں قیامت کی طرف اس رنگ میں اشار ہ ہے کہ ایک چیز جو اپنی ذات میں جل رہی ہے وہ آخر ایک وقت ختم ہو جائے گی تو نظامِ شمسی میں ضرور کوئی اہم تبدیلی رُونما ہو گی۔ چنانچہ علم ہئیت کے جو بڑے بڑے ماہرین ہیں وہ قیامت کے قائل ہو رہے ہیں۔ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں سورج چھوٹا ہوتا جا رہا ہے اور اسی طرح یہ چھوٹا ہوتا چلا جائے گا یہاں تک ایک دن اس کا وجود نظامِ عالم میں بالکل بیکار ہو جائے گااور اس کے ساتھ ہی باقی تمام سیّارے فنا ہو جائیں گے۔
گو اس بات کے ساتھ ہی علم ہئیت والوں کا یہ بھی خیال ہے کہ جہاں تک گرمی کا تعلق ہے سورج کی گرمی گھٹ نہیں رہی بلکہ بڑھ رہی ہے اور جوں جوں وہ اپنے مرکز کے قریب آتا جاتا ہے اس کی گرمی تیز ہوتی چلی جاتی ہے۔ احادیث سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ جب قیامت آئے گی تو شدید گرمی پیدا ہو جائے گی۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلبہ یا قرآن کریم کے غلبہ کے مفہوم کو اگر ہم لیں تو میرے نزدیک اس میں محض ایک مخفی اشارہ ہجرت کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان الفاظ کے ذریعہ کفّار مکہ کو توجہ دلاتا ہے کہ اب تومحمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تمہارے پاس بیـٹھے ہیں اور تم کہتے ہو ہمیں دق کرتے ہیں۔ یہ ہمارے بُتوں کو بُرا بھلا کہتے ہیں۔ یہ ہمیں تبلیغ کرتے ہیں۔ یہ ہمیں اباؤاجداد کی اتباع کرنے سے روکتے ہیں۔ اور جب یہ تمہیں کوئی نیک بات بتاتے اور تمہیں وعظ و نصیحت کرتے ہیںتو تم شور مچانے لگ جاتے ہو اور چاہتے ہو کہ کسی طرح ان کو اپنے شہر سے نکال دو اور اس طرح امن میں آجائو مگر تمہیں پتہ نہیں ہم نے اپنے رسول کو سِرَاجًا وَّھَاجًا بنایا ہے ایک دن یہ تم سے دُور چلا جائے گا مگر پھر بھی تم اس کی گرمی سے نہیں بچو گے بلکہ برابر اسکی گرمی تمہارے پاس پہنچتی رہے گی اور اس کی روشنی تم میں سے سعید روحوں کی تاریکی کو دُور کرتی رہے گی۔ اگر قرآن مراد لے لو تب بھی یہ معنے ہوں گے کہ ایک دن قرآن کا مرکز تم سے دور ہو جائے گامگر تم یہ نہ سمجھو دور ہو جانے کی وجہ سے تم اس کے اثر سے بچ سکو گے بلکہ پھر بھی قرآن کریم کی تعلیم کا اثر تم تک پہنچیگا اور وہ تمہیں اپنا شکار بنائے گا۔
انبیاء کے زمانہ میں کچھ ایسا شور ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ مومنوں کے دلوںمیں کچھ اس قسم کا اخلاص پیدا کر دیتا ہے کہ انہیں تبلیغ کرنے اور دوسروں تک اپنی باتیں پہنچانے کے سوا چین ہی نہیں آتا۔اُنہیں لاکھ گالیاں دی جائیں وہ اپنے کام سے نہیں رُکتے اور لوگوں کی ہدایت کے لئے ان کے پیچھے ہی پڑے رہتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے زمانہ میں بھی ہم مُخالفوں کے مُنہ سے یہ فقرہ سنا کرتے تھے کہ احمدی تو ہمارا پیچھا ہی نہیںچھوڑتے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَجَعَلْنَاسِرَاجًا وَّھَاجًا ہم نے ایسا سورج بنا دیا ہے جو وَھَّاج ہے اور جس کی گرمی اور روشنی دور دور تک جاتی ہے۔ دوسرےؔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی عالمگیر تعلیم کی طر ف بھی اس میں اشارہ ہے اور اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ جس طرح سورج کا نور ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے اِسی طرح محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی تعلیم ایک دن ساری دنیا میںپھیل جائے گی۔ تم مکّے کا رونا رو رہے ہو اور کہہ رہے ہو کہ مکّہ میں اسلام پھیل گیا دس بیس پچاس برس کے بعد ایک دن آئے گا جب تم دیکھو گے کہ یہ سِرَاج وَھَّاج بن جائے گا اور اس کی روشنی ساری دنیا میں چھا جائے گی۔ تیسرے ؔ دُور تک گرمی اور روشنی کے پھیلنے میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا زمانہ ٔ افادہ زمانہ کے لحاظ سے بھی بہت ممتد ہے اور جس طرح یہ دنیوی سورج قیامت تک مادی دنیا کی ضرورتوں کو پورا کرتا رہے گا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا افاضۂ روحانی بھی دنیا کے اختتام تک چلتا چلا جائیگا۔
وَّاَنْزَلْنَا
اور ہم نے گھنے بادلوں سے کثرت سے بہنے والا پانی (بھی) اتارا ۱۴؎
۱۴؎حل لغات
مُعْصِرَۃُ کے معنے ہوتے ہیں وہ بدلی جس میں نمی کی بہت زیادتی ہو اور اُس میں سے بارش کے قطرات گرتے ہوں۔ اَلَْمُعْصِرَۃُ۔ اَلسَّحَابَۃُ تُعْتَصَرُ بِالْمَطَرِ۔ یعنی مُعصِرَۃُ اُس بدلی کو کہتے ہیں جس میں سے پانی کے قطرے ٹپکتے پڑتے ہوں۔ پس مُعْصِرَات کے معنے ہوئے اَلسَّحَائِب تُعْتَصَرُ بِالْمَطَرَ (اقرب)وہ بادل جن میں سے پانی کی کثرت کی وجہ سے قطرے ٹپک پڑتے ہوں اور مُعْصِرَۃٌ اُن ہوا کو بھی کہتے ہیں جس کے ساتھ بگولہ آتا ہے چنانچہ اَعْصَرَتُ الرِّیحُ کے معنے ہیں جَائَ تْ بِالْاِعْصَارِ (اقرب) ہوا کے ساتھ بگولہ آیا۔لیکن محاورہ کی رو سے اَلْمُعْصِرَات: أَلسَّحَائِبُ تُعْتَصَرُ بِالْمَطَرَ کے معنے میں ہی استعمال ہوتا ہے۔ گو مُعصِرَۃ کے معنے ہوا کے بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ بعض صحابہؓ نے کئے ہیں لیکن چونکہ عام محاورہ مُعصِرَۃ اُس ہوا کو کہتے ہیں جس کے ساتھ بگولہ ہواور یہ معنے پور ی طرح چسپاں نہیں ہوتے اس لئے یہاں زیادہ مناسب معنے ایسے بادل کے ہی ہوں گے جس میں پانی کی کثرت ہو اور اس میں سے پانی ٹپک رہا ہو۔ ہاں وضعِ لُغت کے لحاظ سے اِعْصَار کے معنے چونکہ نچوڑنے کے ہوتے ہیں اس لئے مُعْصِرَات اُن ہوائوں کو بھی کہہ سکتے ہیں جن کے تیزی سے چلنے کی وجہ سے بادلوں کے بخارات جلد مجتمع ہو کر پانی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ بہرحال صحابہؓ نے مُعْصِرَات کے معنے ہوائوں کے کئے ہیں اور بعض نے اس کے معنے بادلوں کے کئے ہیں۔ اکثر مفسّرین نے ترجیح بادلوں کے معنوںکو ہی دی ہے کیونکہ لُغت کے استعمال میں یہی معنے رائج ہیں۔
ثَجَّاجًا۔ثَجَّ سے ہے اورثَجَّ الْمَائُ کے معنے ہوتے ہیں سَالَ(بِکَثْرَۃٍ) یعنی کثرت کے ساتھ پانی بہنا شروع ہؤا۔ اور ثَجَّاج کے معنے ہیں اَلثَّاجُ مِنَ الْمَطَرِ: السَّیَّالُ الشَّدِیْدُ الْاِنْصَبَابِ(اقرب)یعنی ثَجَّاج اُس بارش کو کہتے ہیں جو بڑی تیزی سے برستی ہے۔پس آیت کے معنے یہ ہوئے کہ ہم نے بڑی بارش والی بدلیوں میں سے جن سے پانی کی کثرت کی وجہ سے قطرات ٹپکتے پڑتے ہیں ایک ایسا پانی اتارا ہے جو کثرت سے بہنے والا ہے۔
تفسیر
اِن آیات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے سورج کا ذکر کیا اور پھر بدلیوں کا ذکر کر کے بتایا کہ ان چیزوں سے مل کر زمین تیار ہوتی ہے یعنی سِرَاج وَھَاج سے زمین تیار ہوتی ہے تومُعْصِرَات سے پانی برستا ہے جس سے زمین کی روئیدگی نشوونما حاصل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اور دوسرےؔان آیات میں اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ وَھَج سے زمین تیار ہوتی ہے وہاں وَھَج سے ہی بادل اُٹھتے ہیں۔ کیونکہ بادل کیا چیز ہیں۔ بادل سمندروں اور دریائوں اور نالوں وغیرہ کے پانی کے ابخرے ہیں جو سورج کی گرمی سے اُڑ کر فضاء میں جاتے اور پھر فضاء کی سردی میں سیّال بن کر زمین پر ہی واپس آجاتے ہیں۔ جب سورج کی گرمی ان پانیوں پر پڑتی ہے تو جس طرح آگ پر ہم پانی رکھیں تو اُس میں سے دُھواں اٹھنا شروع ہو جاتا ہے اور اگر زیادہ دیر تک آگ پر رکھا جائے تو تمام پانی بخارات بن کر اُڑ جاتا ہے اس طرح سورج کی گرمی سے بخارات اُٹھتے اور آہستہ آہستہ جَوّ میں جمع ہوتے رہتے ہیں پھرہوائیں اُن کو زمین پر لا کر برسا دیتی ہے۔ تو ایک طرف سِرَاج وھَّاج سے زمین تیار ہوتی ہے اور دوسری طرف سِرَاج وھَّاج ہی پانی لاتا ہے گویا وہی گرمی جو انسان کے بے چین کر رہی ہوتی ہے اُس کو ٹھنڈک پہنچانے کے سامان مہیّا کر رہی ہوتی ہے۔
اِن آیات میں قیامت کی طرف اس رنگ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ ہر چیز کے لئے خدا نے کوئی جواب رکھا ہے۔ سورج آسمان پر گرم ہے زمین پر اُس کا اثر پڑتاہے تو وہ نشوونما روئیدگی کے لئے تیا ر ہوتی ہے پھر وہی سورج جو ایک طرف زمین کی روئیدگی کے لئے تیار کرتا ہے اپنی گرمی سے زمین کے بخارات کو اوپر اٹھاتا ہے اور اس طرح سورج کے وَھَج کے نتیجہ میں وہ بخارات بادل کر زمین پر برسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ سبب اور مسبّب کا یہ سلسلہ جو اللہ تعالیٰ نے اس کائناتِ عالم میں جاری کیا ہؤا ہے ہیہودہ اور لغو نہیں ہو سکتا۔ ضرور ہے کہ اس کا کوئی عظیم الشان نتیجہ نکلے مگر وہ نتیجہ اس دنیا میں نہیں نکل رہااس لئے لازماً کسی اور زندگی کو ماننا پڑے گا جہاں ان عظیم الشان کاموں کا کوئی نتیجہ نکلے اور انسان کہہ سکے کہ اللہ تعالیٰ نے جس سلسلۂ کائنات کی بنیاد رکھی تھی وہ لغو نہیں تھا۔
قرآن مجید اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف اِن آیات میں اس رنگ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ قرآن مجید اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتیں تم کو بُری لگتی ہیں تم کہتے ہو کہ انہوں نے دنیا میں آکر فساد مچا دیا ۔ تم کہتے ہو کہ جب سے یہ ظاہر ہؤا ہے جھگڑے اور لڑائیاں شروع ہو گئی ہیں ایک شور ہے جو اس کی وجہ سے مچ ر ہا ہے۔ باپ بیٹے سے جدا ہو گیا ہے۔ ماں لڑکی سے علیحدہ ہو گئی ہے اور لڑکی ماں سے علیحدہ ہو گئی ہے۔ بھائی بھائی سے علیحدہ ہو گیا ہے اور دوست دوست سے جدا ہو گیا ہے گویا تمہیں اس کے آنے کی وجہ سے ایک گرمی سی محسوس ہوتی ہونے لگی ہے جیسے سورج کے نکلنے سے ایک گرمی محسوس ہونے لگتی ہے مگر فرماتا ہے بیشک تمہیں آج اس کی وجہ سے گرمی محسوس ہونے لگی ہے مگر یہی گرمی ایک دن تمہارے لئے رحمت کا بادل ثابت ہو گی اِس گرمی سے تمہاری اندرونی قابلیتوں کو اُبھارا جا رہا ہے۔ تمہارے اندر نئی قابلیتیں پیدا کی جارہی ہیں مگر تم بھی اس کو محسوس نہیں کر سکتے بلکہ تم اس تغیّر پر تکلیف محسوس کرتے ہو جیسے ڈاکٹر جب اپریشن کرنے لگتا ہے اُس کا چاقو انسان کو چُبھتا ہے لیکن آخر وہی چاقو جس سے اُس نے تکلیف محسوس کی تھی اُس کی صحت اور آرام کا موجب بن جاتا ہے۔ اسی طرح فرماتا ہے بے شک محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے تم ایک بے چینی اور تکلیف سی محسوس کر رہے ہو۔ مگر یہ وَھَج اور یہی گرمی اوریہی تپش اور یہی روشنی تمہاری راحت اور آرام کا موجب ہو گی۔ جس طرح سورج کی گرمی بادلوں کو اُٹھا کر لاتی اور زمین پر پانی کی صورت میں اُن کو برسا دیتی ہے اسی طرح ایک دن اسی وَھَج سے تمہارے دلوں میں ایمان اور عرفان کی بدلیاں اُٹھنے لگیں گی اور تمہارے دلوں سے علم و عرفان کے وہ سوتے پُھوٹ پڑیں گے جن کا پانی ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔ مجھے یہاں مَآئٌ ثَجَّاجًا کے الفاظ سے اپنا وہ خواب یاد آگیا جو تھوڑے ہی دن ہوئے مَیں نے دیکھا تھا اور جس میں مجھے انسانی قلب ایک تنور کی شکل میں دکھایا گیا اور مجھے یہ نظارہ نظر آیا کہ اُس تنور میں سے اللہ تعالیٰ کے عرفان کا پانی پُھوٹنا شروع ہؤا اور وہ دنیا کے کناروں تک پھیل گیا۔ میں نے جب اُس پانی کو پھیلتے دیکھا تو اُس وقت مَیں نے کہا یہ پانی پھیلے گا اور پھیلتا چلا جائے گا یہاں تک کہ دنیا کا ایک انچ بھی ایسا باقی نہ رہے گا جہاںخدا کے عرفان کا یہ پانی نہ پہنچے۔ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمایا ہے کہ وَاَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرَاتِ مَائً ثَجَّاجًا۔ اس شمس روحانی کی گرمی سے تمہارے دل کی زمینیں تیار ہوں گی پھر اسی گرمی کے نتیجہ میں وہاں سے ایسے بخارات اٹھنے شروع ہوں گے جو بادلوں کی صورت میں اختیار کر لیں گے اور پھر وہی بادل تمہارے دلوں کی زمین پر برسیں گے اور اُن کا پانی ساری دنیا میں پھیل جائے گا۔
لِّنُخْرِجَ بِہٖ
تا کہ اس کے ذریعہ سے ہم دانے اور سبزیاں نکالیں۔ اور گھنے باغ (اُگائیں) ۱۵؎
۱۵؎حل لغات
حَبًّا: اَلْحَبُّ وَالْحَبَّۃُ یُقَالُ فِیْ الْحِنْطَۃِ وَالشَّعِیْرِ وَنَحْرِھِمَا مِنَ الْمَطْعُوْمَاتِ یعنی گندم اور جَو اور ایسے ہی وہ تمام غلّہ جات اور اناج جن سے خوراک کاکام لیا جاتا ہے اُن کے دانوں کو حبّ کہتے ہیں (مفردات)
لسانؔ میں ہے۔اَلْحَبُّ: اَلزَّرْعُ صَغِیْراً کَانَ اَوْکَبِیْرًا یعنی حبّ نباتاتی پیداوار کو کہتے ہیںخواہ چھوٹی ہو یا بڑی ۔
نَبَاتًا: اَلنَّبْتُ وَالنَّبَاتُ مَا یَخْرُجُ مِنَ الْاَرْضِ مِنَ النَّامِیَاتِ سَوَائً کَانَ لَہٗ سَاقٌ کَالشَّجَرِ اَوْلَمْ یَکُنْ لَہٗ سَاقٌ کَالنَّجْمِ لٰکِنِ اخْتَصَّ فِیْ التَّارُفِ مِمَّا لَاسَاقَ لَہٗ بَلْ قَدِ اخْتَصَّ عِنْدَ الْعَاعمۃِ بِمَا یَاْکُلُہٗ الْحَیَوَانُ (مفردات) یعنی نبات زمین سے پیدا ہو کر بڑھنے والی ہر چیز پر بولتے ہیں خواہ وہ درختوں کی قسم سے ہو یا چھوٹی چھوٹی بوٹیوں کی قسم سے لیکن عرف عام میں نہایت صرف اس کو کہتے ہیں جس کا تنا نہ ہو یعنی چھوٹی چھوٹی بوٹیاں ہوں۔ بلکہ عوام کے نزدیک صرف اُس کو نبات کہتے ہیں جس کو حیوان کھاتے ہیں۔ گویا حَبُّ انسانوں کی خوراک ہوئی اور نبات حیوانوںکی خوراک۔
جَنَّاتٌ: جَنَّۃٌ کی جمع ہے اور اَلْجَنَّۃُ کے معنے ہیں کُلُّ بُسْتَانٍ ذِیْ شجَرٍ یَسْتُرُ بِاَشْجَارِہِ الْاَرْضَ ہر وہ باغ جس میں درخت ہوں اور وہ درختوں کے ذریعے اپنی زمین کو ڈھانپ لے (مفردات)
اَلْفَافًا: اَلْفَافٌ لِفٌّ کی جمع ہے اور اَلِلّفُ کے معنے ہیں اَلصِّنْفُ مِنَ النَّاسِ مختلف طرز کے لوگوں میں سے ایک طرز کے لوگ۔ چنانچہ کہتے ہیںعِنْدَہٗ اَلْفَافٌ مِنَ النَّاسِکہ اس کے پاس مختلف اصناف کے لوگ بیٹھے ہیںنیز اَللِّفُّ کے معنے ہیں اَلرَّوْضَۃُ الْمُلْتَفَّۃُ النَّبَاتِ وہ باغیچہ جس کی نباتات کثیر ہونے کی وجہ سے آپس میں لپٹی ہو ئی ہو وَالبُسْتَانُ الْمُجْتَمَعُ الشَّجَرِ ایسے باغ کو بھی لِفّ کہتے ہیںجو گھنے درختوں والا ہو۔ پس جَنَّاتِ اَلْفَافًا کے معنے ہوں گے ایسے گھنے باغات جو کثرت اشجار کی وجہ سے آپس میں لپٹے ہوئے ہوں۔
تفسیر
پانی جب آسمان سے اُترتا ہے تو اس کے بعد لِنُخْرِجَ بِہٖ حَبًّا وَّ نَبَاتًا وَجَنَّتٍ اَلْفَافًا کا وقت آجاتا ہے یعنی اُس بارش کے نتائج پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور زمین سے دانے نکلتے ہیں۔ سبزیاں نکلتی ہیں۔قسم قسم کی بوٹیاں پیدا ہوتی ہیں اور ایسے باغات نکلتے ہیں جو بڑے گھنے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب سورج نکلتا ہے تو تم جانتے ہو اُس کا ظاہری نتیجہ پیدا ہوتا ہے۔ ظاہری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سورج زمین تیار کرتا ہے اور اپنی روشنی کی شعائیں وہاں تک پہنچاتا ہے اور پھر اپنی گرمی کے ذریعہ زمین کا پانی کھینچ کر اوپر لے جاتا ہے گویا ایک چیز سورج دے جاتا ہے اور ایک چیز سورج لے جاتا ہے پھر جو چیز لے جاتا ہے اُسے بادلوں کی صورت میں پھر زمین کی طرف واپس کر دیتا ہے اور اس طرح سورج لوگوں کے لئے رحمت اور برکت کا سامان پیدا کر دیتا ہے چنانچہ سے بارش سے بڑے بڑے باغ نکلتے ہیں۔ سبزیاں نکلتی ہیں۔ کھیتی باڑی ہوتی ہے اور انسانی زندگی کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ سب مہیّا ہو جاتی ہیں۔ اتنا بڑا کارخانہ جو خدا نے بنایا ہے کہ کروڑوں کروڑ میل پر ایک سورج بنایا ہے۔ کروڑوں کروڑ میل پر ایک سورج بنایا ہے۔کروڑوں کروڑ میل پر ایک زمین ہے۔ زمین میں یہ قابلیت رکھی گئی ہے کہ وہ سورج کی شعائوں کو اپنے اندر جذب کرے اور سورج میں یہ قابلیت رکھی گئی ہے کہ اُس کی گرمی پانی کو اُٹھا کر اوپر لے جائے۔ پھر ہوائیں چلتی ہیں جو بادلوں کو زمین پر برسا دیتی ہیں اور زمین میں سے کھیت اُگتے ہیں غلّہ پیدا ہوتا ہے۔ باغات تیا ر ہوتے ہیں ۔ پھل پیدا ہوتے ہیں اور ان میں سے ایک ایک چیز انسان کے کام آتی ہے۔ ان میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے فوائد دیرپا نہیں ہوتے اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کے فوائد دیرپا ہوتے ہیں مثلاً غلّہ ہے اِدھر غلہ پیدا ہوتا ہے اور اُدھر انسان اس کو استعمال کر نا شروع کردیتا ہے۔ دوسرے سال پھر غلہ بوتا ہے اور پھر استعمال کرنا شروع کر دیتا ہے۔ لیکن کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کو بار بار بونے کی ضرورت نہیں ہوتی جیسے پھلدار بوٹیاں ہیں یعنی جانوروں کے کھانے کی جھاڑیاں ہیں اُن کے پھلوںسے انسان زیادہ دیر تک فائدہ اُٹھاتا ہے اور جانور کئی سال تک اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ اور پھر کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اس سے بھی زیادہ عرصہ تک کام آتی ہیں مثلاًباغات ہیں کہ وہ بعض دفعہ سو سو دو دوسو تین تین سو سال تک کام دیتے چلے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے تم غور کرو اور سوچو کہ کیایہ سارا سلسلہ لغو اور فضول ہے۔ اگر تم سوچو توب تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ کارخانۂ عالم کی پیدائش لغو اور فضول نہیں ہو سکتی بلکہ کوئی نہ کوئی اہم غرض ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ تمام سلسلہ جاری فرمایا ہے اور کوئی نہ کوئی مقصد ہے جس کو پورا کرنے کے لئے اس قدر وسیع کارخانہ کام کر رہا ہے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انسان کی پیدائش بالکل عبث ہے اور وہ کسی خاص مقصد کے لئے پیدا نہیں کیا گیا۔ اور اگر ہم ان آیات کوروحانی معنوں میں لیں تو اس کے معنے یہ بن جائیں گے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور قرآن کریم دونوں سِرَاج وَھَّاج ہیں اُن کی گرمی تپش اور تیز روشنی آج تمہیں بُری لگتی ہے مگر ایک دن یہی گرمی اور تپش اور روشنی تمہارے دل کے چھپے ہوئے گند دور کرنے کے لئے بادلوں اور روشنی کا کام دے گی۔ سورج آخر کیا کرتا ہے یہی کہ وہ گندے پانی کو بخارات کی صورت میں اُڑاتا اور پھر ایک مصفّٰی پانی کی صورت میںاُسے زمین کی طرف لوٹا دیتا ہے اور اُس کی روشنی قسم قسم کے زہروں کو مارتی اور نئی طاقتیں بخشتی ہے۔ اسی طرح تمہارے پاس جو کلام الٰہی کا پانی پہلے سے موجود ہے وہ ایسا ہے جو گدلا ہو چکا ہے جس کا استعمال تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ بے شک تمہارے پاس ابراہیمؑ کی تعلیم بھی موجود ہے۔ تمہارے پاس موسیٰ ؑ کی تعلیم بھی موجود ہے۔ تمہارے پاس عیسیٰ ؑ کی تعلیم بھی موجود ہے۔ تمہارے پاس اور انبیاء کی تعلیم بھی موجود ہے مگر اُن سب تعلیموں کا پانی گدلا ہو چکا ہے۔ اب یہ سِرَاج وَھَّاج جس کی گرمی اور تپش اور تیز روشنی تمہیں بُری معلوم ہوتی ہے اُن چھپڑوں سے بخارات اُٹھائے گا اور پھر اُن بخارات کو بادلوں کی صورت میں تمہارے دلوں پر برسائے گا جس سے تمہارے دلوں کے سوتے پھوٹ نکلیں گے اور وہ ساری دنیا کو سیراب کر دیں گے اسی طرح اُس کی روشنی تمہارے دلوں کی تاریکیوں کو پھاڑ کر نورِ بصیرت تم کو بخشے گی۔ گویا کلام الٰہی کا وہ پانی جس کو آج تم ردّ کر رہے ہو ایک دن تمہارے دلوں سے خود بخود پھوٹنے لگے گا اورمَآئً ثَجَّاجًا بن کر ایک عالم کو سیراب کر دے گاپھر اس کے ذریعہ تمہارے دلوں میں اناج بھی نکلیں گے بوٹیاں بھی نکلیں گی اور باغات بھی نکلیں گے۔ گویا تمہیں کچھ ایسے فوائد حاصل ہوں گے جو قریب کے ہوں گے اور کچھ ایسے فوائد ہوں گے جو بعید کے ہوں گے یا کچھ ایسے علوم تم سے ظاہر ہوں گے جو عارف لوگوں کے کام آئیں گے جیسے علمِ تصوّف ہے یا علمِ قرآن ہے اور کچھ ایسے علوم ظاہر ہوں گے جو عوام الناس کے کام آئیں گے جیسے سائنس ہے یا جغرافیہ ہے یا حساب ہے یا ہندسہ ہے۔ وَجَنَّاتٍ اَلْفَافًا اور ایسے باغ بھی نکلیں گے جو مدتوں تک کام دیں گے جیسے علمِ تحریر میں مسلمانوں نے بڑی ترقی کی اور اسے دنیا میں انہوںنے پھیلا دیا۔
اِنَّ یَوْمَ
یقینا یہ فیصلے کا دن ایک مقرر وقت (پر آنے والا) ہے۔ جس دن کے صور میں پھونکا جائے گا۔ پھر تم گروہ در گروہ ہو کر (ہمارے حضورمیں) آؤ گے۔ اور آسمان کھول دیا جائے گا۔ یہاں تک کہ وہ دروازے (دروازے) ہو جائے گا۔ اور پہاڑ (اپنی جگہ سے) چلائے جائیں گے یہاں تک کہ وہ سراب (کی مانند) ہو جائیں گے ۱۶؎
۱۶؎حل لغات
یَوْمٌ :۔ اس کے معنے مطلق وقت کے ہوتے ہیںچنانچہ ایک شاعر کہتا ہے ع یَوْمَا ہُ یَوْمُ نَدًی وَیَوْمُ طَعَانٍ یعنی میرے ممدوح پر دو ہی قسم کے وقت آتے ہیں۔ یا تو وہ سخاوت میں مشغول ہوتا ہے یا دشمنوں کو قتل کرنے میں۔ اسی طرح عرب کہتے ہیں یَوْمَاہُ یَوْمُ نُعْمٍ وَیَوْمُ بُوْسٍ ای الدَّھْرُ یعنی زمانہ دوحال سے خالی نہیں۔ یا تو انسان کے لئے نعتیں لاتا ہے یا تکالیف لاتا ہے (لسان العرب) اسی طرح سیبویہ کا قول ہے کہ عرب کہتے ہیں اَنَا الْیَوْمَ اَفْعَلُ کَذَا لَا یُرِیْدُوْنَ یَوْمًا بِعَیْنِہٖ وَلَکِنَّھُم یُرِیْدُوْنَ الْوَقْتَ الْحَاضِرَ (لسان العرب) یعنی جب کہتے ہیں کہ میں آج کے دن اس اس طرح کروں گا تو اس سے مراد چوبیس گھنٹے کا دن نہیں ہوتا۔ بلکہ اس سے مراد صرف موجودہ وقت ہوتا ہے۔ اسی طرح اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنِکُمْ جو قرآن کریم میں آتا ہے اس سے بھی مراد معروف دن نہیں بلکہ زمانہ اور وقت مراد ہے (لسان) پھر لکھا ہے وَقَدْیُرَادُ بِالْیَوْمِ اَلْوَقْتُ مُطْلَقًا وَمِنْہُ الْحَدِیْثُ تِلْکَ اَیَّامُ الْھَرَجِ اَیْ وَقْتُہٗ (لسان) یعنی کبھی یوم سے مطلق وقت مراد ہوتا ہے۔ جیسے حدیث میں ہے کہ یہ فتنہ اور لڑائی کے دن ہیں۔ مراد یہ ہے کہ فتنہ اور لڑائی کازمانہ ہے۔
اَلْفَصْل: اَلْفَصْلُ فَصَلَ کا مصدر ہے۔ اور فَصَلَ الشَّیْ ئَ فَصْلًا کے معنے قَطَعَہٗ وَاَبَانَہٗ کسی چیز کے حصے کو کاٹ کر اس سے علیحدہ کر دیا اور اَلْفصْلُ کے معنے ہیںاَلْحَاجِزُ بَیْنَ الشَّیْئَیْنِ دو چیزیں کے درمیان روک اور پردہ اَلْحَدُّ بَیْنَ الْاَرْضَیْنِ دوزمینوں کے درمیان حد اَلْحَقُّ مِنَ الْقَوْلِ پکی اور مضبوط بات۔ اَلْفَصْلُ اَیْضًا اَلْقَضَائُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ۔ نیز فصل کے معنے حق اور باطل کے درمیان فیصلہ ہو جانے کے بھی ہیں (اقرب)پس یَوْمُ الْفَصْل کے معنے ہوں گے۔ ایسا وقت جبکہ حق اور باطل کے درمیان فیصلہ ہو جائے گا۔
مِیْقَاتًا:مِیْقَات کے معنے ہیںاَلْوَقْتُ۔ مطلقاً وقت وَقِیْلَ الْوَقْتُ الْمَضْرُوْبُ للشَّی ئِ کسی چیز کے لئے مقرر شدہی وقت اَلْوَعْدُ الَّذِیْ جُعِلَ لَہٗ وَقْتٌ نیز اس وعدہ کو بھی مِیْقَات کہہ دیتے ہیں جس کے لئے وقت مقرر کیا جائے۔ اس کی جمع مَوَاقِیْت آتی ہے (اقرب) ؎
یُنْفَعُ: نَفَخَ سے مضارع مجہول واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور اَلنَّفْخُ کے معنے ہیں نَفْخُ الرِّیْحِ فِیْ الشَّیْ ئِ کسی چیز میں ہوا پھونکنا (مفردات) پس یُنْفَخُ کے معنے ہوں گے کہ پھونکا جائے گا۔
اَلصُّوْرُ: صَارَا الرَّجُلُ یَصُوْرُ صَوْرًا کے معنے ہیں صَوَّتَ یعنی آواز دی۔اور صُوْر اس سینگ کو کہتے ہیں جس میں پھونک مار کر اس کو بجایا جاتا ہے (اقرب) بعض نے اس کو اَلصُّوْرَۃُ کی جمع بھی قرار دیا ہے اور اَلصُّوْرَۃُ کے معنے ہیں۔ اَلشَّکْلُ۔ شکل ۔کُلُّ مَا یُصَوَّرُ مُشَبَّھًا بِخَلْقِ اللّٰہ مِنْ ذَوَاتِ الْاَرْوَاحِ وَغَیْرِھَا۔ کسی جاندار یا غیر جاندار کی تصویر اَلنَّوْعُ۔ قسم ۔ الصِّفَۃُ۔ صفت (اقرب) پس یَوْمَ یُنْفَخُ فِیْ الصُّوْرِ کے معنے ہوں گے جبکہ صُوْر میں پھونکا جائے گا۔
اَفْوَاجًا:فَوْجٌ کی جمع ہے اور فَوْج کے معنے انسانوں کی جماعت کے ہیںیا انسانوں کی وہ جماعت جو تیزی سے گزر رہی ہو (اقرب)
سُیِّرَتْ:سَیَّر سے مونث مجہول کاصیغہ ہے اور سَیَّرہٗ کے معنے ہیں جَعَلَہٗ سَائِرًا اس کو چلایا۔ اور جب سَیَّرَہُ کے معنے ہوں گے جَعَلَہٗ سَائِرًا اس کو چلایا۔ اور جب سَیَّرَہٗ مِنْ بَلَدِہٖ کہیں گے تو معنے ہوں گے اَخْرَجَہُ وَاَجْلَاہُ اس کو وطن سے جلا وطن کر دیا (اقرب)
اَلْجِبَالُ:اَلْجَبَلُکی جمع ہے اور اَلْجَبَلُ کے معنے ہیں کُلُّ وَتَدٍ لِلْاَرْضِ عَظُمَ وَطَالَ زمین پر اُونچے ٹیلے کو جَبَل کہتے ہیں۔ خِلَافُ السَّاحِلِ ساحل مخالف مفہوم ادا کرنے کے لئے بھی یہ لفظ بولا جاتا ہے یعنی خشکی کا علاقہ۔ سَیِّدُالْقَوْمِ وَعَا لِمُھُمْ نیزقوم کے سردار اور عالم کو بھی جَبَل کہتے ہیں (اقرب) پس سُیِّرَتِ الْجِبَالُ کے معنے ہوں گے (۱) جب پہاڑ چلائے جائیںگے (۲)جب قوموں کے سردار اور عالموں کو گھروں سے نکا لا جائے گا۔
سَرَابًا: مَاتَرَاہُ نِصْفَ النَّھَارِ مِنِ اشْتِدَادِ الْحَرِّ کَالْمَائِ یَلْصِقُ بِالْاَرْضِ (اقرب) یعنی سَرَاب اس ریتلے میدان کو کہتے ہیں جو دوپہر کے وقت سورج کی شعائوں میں پانی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ کلیات میں لکھا ہے وَالشَّرَابُ فِیْ مَا لَا حَقِیْقَتَہٗ کہ سراب اُس کو بھی کہتے ہیں جس کی کوئی حقیقت نہ ہو
تفسیر
یَوْمَ یُنْفَخُ فِیْ الصُّوْرِ۔ یَوْمُ الْفَصْلِ کا بدل ہے یعنی یَوْمُ الْفَصل سے مراد وہ دن ہے کہ یُنْفَخُ فِیْ الصُّوْرِ جس دن صورمیں پھونکا جائے گا فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا اور تم فوج در فوج آؤ گے وَفُتِحَتِ السَّمٓائُ اور آسمان کھولا جائے گا فَکَانَتْ اَبْوَابًا پس وہ دروازے ہی دروازے ہو جائے گا۔ آسمان کے دروازے ہو جانے کے معنے عام طور پرعذاب نازل ہونے کے ہوتے ہیں سوائے اس کے کہ کوئی قرینہ ایسا ہو جو ظاہر کر رہا ہو کہ وہاں عذاب مراد نہیں بلکہ کچھ اور مراد ہے۔ ورنہ اگر کوئی رویا میں دیکھے کہ آسمان پھٹ گیا ہے یا وہ چھید چھید ہو گیا ہے اور ساتھ کوئی قرینہ ایسانہ ہو جو بتا رہا ہو کہ یہاں عذاب مراد نہیں بلکہ کچھ اورہے تو اس سے مراد عذاب ہی ہو گا۔ لیکن اگر کوئی شخص دیکھے کہ آسمان مثلاً پھٹ گیا ہے اور ملائکہ خدا تعالیٰ کی تسبیحیں کر رہے اور خوشیاں منا رہے ہیں تو اس سے مراد یہ ہو گا کہ اب کسی نبی کی بعثت کا وقت ہے۔ بہرحال عام طور پر فتح سماء کے معنے عذاب کے ہی ہوتے ہیں اور جب سماء سے مراد ظاہر سماء ہو تو اُس وقت فُتِحَتِ السَّمَاء کا یہی مفہوم ہوتا ہے کہ عذاب کا وقت آ گیا ہے۔
وَسُیِّرَتِ الْجِبَالُ۔ اورپہاڑ اپنی جگہ سے چلائے جائیں گے فَکاَنَتْ سَرَابًا پس وہ سراب کی طرح ہو جائیںگے۔ سراب وہ ریتلا میدان ہوتا ہے جو دوپہر کے وقت سورج کی شعائوں کے نیچے پانی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ پہاڑ چونکہ زمین میں سے نکلتے ہیں اور ریت بھی زمین سے ہی پیدا ہوتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک وقت زمین پر ایسی تباہی آئے گی کہ پہاڑ گر جائیں گے اور چونکہ اَوْتَادَ الْاَرْض ہوتے ہیں اس لئے جب اَوْتَاد گر جائیں گے تو ساری زمین تباہ ہو جائے گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن پھر زمین میں ایسی گرمی پیدا ہو گی جو نہایت ہی شدید ہو گی اور وہ ایسی تیز ہو گی کہ بجائے اس کے کہ اُس گرمی سے پہاڑ بنیں موجودہ پہاڑ بھی اس کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے اور باقی زمین بھی تباہ ہو جائے گی۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا اور میں نے بتا یا ہے کہ یَوْمُ الْفَصْل سے مراد قیامت بھی ہے اوریَوْمُ الْفَصْل سے قرآن کریم یا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلبہ کا ظہور بھی مراد ہے اور درحقیقت یہ دونوں ایک ہی چیز ہیں گو نام مختلف رکھ دیا گیا ہے۔ چاہے نبوت کے کمالات کا ظہور ہو بات ایک ہی ہے۔ بہرحال اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کے معنے ہوئے جدائی کا دن اور اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتًا کے معنے ہوئے یَوْمُ الْفَصل کا ایک وقت مقرر ہے اس یَوْمُ الْفَصْل سے جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں غلبۂ اسلام بھی مراد ہے مگر اس میں ایک اور امر کی طرف بھی اشارہ ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کفّار مکّہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے جس طرح محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تمہارے ظلموں کی وجہ سے تم سے جدا ہو نا پڑا ہے اسی طرح خدا ایک دن محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو غلبہ دے کر تم کو بھی جُد ا کر دے گا اور وہ دن تمہارے لئے یَوْمُ الْفَصْل ہو گا۔ چنانچہ اِسی کی طرف سُورۂ توبہ میں اشارہ کیا گیاہے۔ جو درحقیقت سورۂ انفال کا دوسرا باب ہے۔یہ سورۃ شروع ہی اس طرح ہوتی ہے کہ بَرَآئَ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلیَ الَّذِیْنَ عَاھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَoفَسِیْحُوْا فِیْ الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّاعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرُ مُّعجِزِے اللّٰہِ لاوَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِیْ الْکٰفِرِیْنَo چوَاَذَانٌمِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلَی النَّاسِ یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ اَنَّ اللّٰہ بَرِٓیْ ئٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ج وَرَسُوْلُہٗ ط فَاِنَّ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرُمُعْجِزِیْ اللّٰہِ طوَبَشِّرِالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍo لا اِلَّاالَّذِیْنَ عَاھَدْ تُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُمْ شَیْعًا وَّلَمْ یُظَاھِرُوْا عَلَیْکُمْ اِحَدًا فَاَتِمُّوااِلَیْھِمْ عَھْدَھُم اِلٰی مُدَّتِھِمْ طاِنَّ اللّٰہ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ o فَاِذَاانْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُواالْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ وَخُذُوْا ھُمْ وَاحْصُرُوْ ھُمْ وَاقْعُدُ وْلَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍج فَاِنْ تَابُوْا وَاَقَامُواالصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُ االزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْط اِنَّ اللّٰہ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌo
اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ چار مہینے کفّار کو یہاں رہنے کی اجازت ہے۔ جب چار مہینے گذر جائیں تو پھر کفّار یہاں سے چلے جائیں۔ یہ یَوْمُ الْفَصْلہ ہے جو کفّار پر آیا اور جس کا فتح مکّہ کے بعد اعلان کیا گیا گویا فتح مکّہ کا نتیجہ ہی یَوْمُ الْفَصْل تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَوْمُ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا وہ موعود دن تم پر آنیوالا ہے جب تم کو اپنے گھروں اور وطن سے جُدا ہونا پڑے گا۔ یعنی ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مسلمان نہ صرف غالب آجائینگے بلکہ وہ اتنے غالب ہوںگے کہ مشرکوں کووہ کُھلے بندوں یہ سُنا دیں گے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ ہمارا تمہارا کوئی جوڑ نہیں۔ ایسا غلبہ عام حالات میں نہیں ہوتا بلکہ غیر معمولی حالات میں ہی ہو سکتا ہے۔ سپینؔ پر مسلمانوں کو ایک لمبے عرصہ تک غلبہ حاصل رہامگر باوجود غلبہ کے وہ عیسائیوں کو سپین میں سے نکال نہ سکے۔ اسی طرح اور کئی ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمان حکمران ہوئے مگر وہ غیر مذاہب والوں کے اپنے ملکوں سے نکال نہیں سکے۔ ہندوستان میں ہی مسلمانوں کی ایک لمبے عرصہ تک حکوت رہی مگر وہ ہندئوں کو نہ نکال سکے۔ آجکل ہندوستان میں ہندو بہت طاقتور ہیں مگر وہ مسلمانوں کو نہیں نکال سکتے بلکہ انگریز جن کے ماتحت ہندوستانی ہیں وہ بھی ہندستانیوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم ہندوستان سے چلے جائو۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہییَوْمُ اِنَّ یَوْمَ الْفَصْل کَانَ مِیْقَاتًا۔ ایک ایسے عظیم الشان غلبے کا دن آنیوالا ہے جو یَوْمُ الْفَصْل ہو گا۔ وہ نہ صرف عام فیصلے کا دن ہو گا بلکہ یَوْمُ الْفَصْل ہو گا یعنی وہ فَصْلٌ بَیْنَ الْمُشْرِکِیْنَ وَالْمُؤْمِنِیْنَ بھی ہوگا۔ چنانچہ سورۂ بَرَآئَ ۃٌ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہیبَرَآئَ ۃٌمِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ۔ شرکوں میں سے جن سے عہد کیا گیا تھا کہ ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مسلمانوں کو تم پر غلبہ حاصل ہو جائے گاتُم اُن کے مقابلہ میں بالکل ذلیل اور حقیر ہو جائو گے تمہیں وہ مکّہ میں بھی نہیں رہنے دیں گے کہ تم یہاں سے چلے جائو اور اُس وقت تم ذلّت اور رسوائی کی حالت میں اِدھر اُدھر دوڑ رہے ہو گے۔ اُن مشرکوں کو کہو کہ اب اُس پیشگوئی کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے گویا اس صورت میں بَرَآئَ ۃٌمِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ اِلَی الَّذِیْنَ عَاھَدْتُّمْ مَّنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے معنی یہ ہوںگے کہ اللہ کی طرف سے برأت ہے اُن مشرکین کے مقابلے میں جن سے تم نے عہد کیا تھا۔ اِن معنوں کی رُو سے میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہاں صلح حدیبیہ والے معاہدے کاذکر آتا ہے بلکہ ان معنوں کی رُو سے عَاھَدْتُّمْ سے مراد وہ معاہدہ ہو گا جس کا سورۂ نبا میں ذکر آتا ہے یعنی سورۂ نبا میں تم سے کہا گیا تھا کہ ایک کافرو ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب تم مکّہ میں سے نکال دیئے جائو گے۔ یعنی وہ عہد جس کا سورۂ توبہ میں عَاھَدْتُّمْ کے الفاظ میں ذکر آتا ہے۔ اس پیشگوئی کو عہد کے نام سے اس لئے پکارا گیا ہے کہ بنی جب کوئی پیشگوئی کرتا ہے جس کا کفّار پر بھی اثر پڑتا ہو تو مومنوں کو ہی یہ شوق نہیں ہوتا کہ وہ اُس پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھیں بلکہ اگر وہ پیشگوئی کسی وجہ سے پوری نہ ہو تو دشمن بھی مطالبہ کرتا ہے کہ وہ پیشگوئی کیوں پوری نہیں ہوئی تو اس لئے وہ عہد کا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ پس عَاھَدْتُّمْ میں سورۂ نباء والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ اب خدا اور اس کے رسول کی برأت ہوگئی یعنی اب تم یہ الزام نہیں دے سکتے کہ وہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی بلکہ ہم نے جو تم سے کہا تھا کہ ایک دن ایسا آنیوالا ہے جب مسلمانوں کو تم پر غلبہ حاصل ہو جائے گا اور تم مکّہ میں نہیں ٹھہر سکو گے ہماری بات پوری ہو گئی ہے۔
فَسِیْحُوْافِیْ الْاَرْضِ اَرْبَعْۃَ اَشْھُرٍ ہم نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو جائے گا اور ہم نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ ایک دن تمہیں اپنے ملک سے نکال دیا جائے گا اب ہم نے اپنے اس عہد کو پورا کر دیا ہے مگر چونکہ غلبۂ اسلام دیکھنے کے لئے تمہارا ٹھہرنا ضروری ہے اور پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے تمہاری وطن سے جدائی ضروری ہے اس لئے ہم نے تمہارے رہنے کے چار مہینے مقرر کر دیئے ہیں تاکہ تم اس عرصہ میں سارے عرب میں پھرو اور دیکھو کہ خدا کی باتیں کسی طرح پوری ہوئیں وَاعْلَمُوٓااَنَّکُمْ غَیْرُمُعْجِزِی اللّٰہِ اور تم دیکھ لو کہ خدا کا حکم جو اسلام کے غلبہ کے متعلق تھا وہ پورا ہو گیا ہے یا وَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِی الْکٰفِرِیْنَ اور اللہ کافروں کو ذلیل کرنے والا ہے وَاَذَانٌ مِّنَ اللّٰہ وَرَسُوْلِہٖ اِلٰی النَّاسِ اور اعلان ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے یَوْمَ الْحَجِّ الْاَکْبَرِ حج اکبر کے دن۔ یعنی خدا نے اس اعلان کے لئے حجِ اکبر کے دن کومخصوص کیا ہے تا کہ سارے عرب کو یہ اعلان سنایا جاسکے۔ یُوں اگر اعلان کر دیا جاتا تو چار ماہ میں بھی سارے عرب میں نہ پہنچ سکتا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس اعلان کے لئے حجِ اکبر کا دن تجویز فرما دیا۔ اس فیصلہ سے فَسِیْحُوْا فِیْ الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ کا حکم بھی پورا ہو گیا۔ کیونکہ حج کے موقع پر عرب کے ہر علاقہ سے لوگ آتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے حج کے دن کا انتخاب اسی حکمت کے ماتحت فرمایاکہ جب لوگ حج سے واپس آجائیں تو اس اعلان کے ساتھ ہی وہ اپنی آنکھوںسے بھی یہ دیکھتے چلے جائیں کہ اسلام کا ہر علاقہ میں غلبہ ہو گیا ہے۔ درحقیقت یہ بھی اسلامی تعلیم میں رحم کے غلبے کاثبوت ہے کہ اعلان اُس وقت کیا گیا جب سارے لوگ موجود تھے اور اعلان یہ کیا گیا کہ اَنَّ اللّٰہَ بَرِیٓ ٌٔ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اللہ مشرکوں کے الزام سے پاک ہے۔ وہ اس عظیم الشان غلبہ کے بعد جس کا ظہور انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے اللہ تعالیٰ پر یہ الزام نہیںلگا سکتے کہ سورۃ نباء میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ پوری نہیں ہوئی وَرَسُوْلُہٗ اور رسول بھی اِس الزام سے بری ہے فَاِنْ تُبْتُمْ فَھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ اگر تم توبہ کرو تو تمہارے لئے بہتر وَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْآ اَنَّکُم غَیْرُ مُعْجِزِیْ اللّٰہِ وَبَشِّرالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ۔ اور اگر تم پھر جائو تو یاد رکھو جب تم پہلے ہمیں عاجز نہیں کرسکے تو آئندہ کس طرح کرو گے۔ اس کے بعد فرماتا اِلَّاالَّذِیْنَ عَاھَدْتُّم مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ ثُمَّ لَمْ یَنْقُصُوْکُم شَیْئًاوَّلَمْ یُظَاھِرُوْا عَلَیْکُمْ اَحَدًا فَاَتِمُوْْ ٓااِلَیْھِم عَھْدَھُمْ اِلٰی مُدَّتِھِمْ اِنَّ اللّٰہ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْنَ سوائے ان لوگوں کے جن سے مشرکوں میں سے تم نے عہد کیا ہے پھر انہوں نے تم سے معاہدہ میں خلاف ورزی نہیں کی اور تمہارے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کی پس اُن سے جو عہد کیا ہے اُسے مقررہ معیاد تک نبا ہو اللہ تعالیٰ متقیوں کو پسند فرماتا ہے۔ یہ دلیل ہے میرے اُن معنوں کے درست ہونے کی جو ابھی میں نے بیان کئے ہیں۔ وہاں خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا بَرَآئَ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖٓ اِلیَ الَّذِیْنَ عَاھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَoفَسِیْحُوْا فِیْ الْاَرْضِ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّاعْلَمُوْآ اَنَّکُمْ غَیْرُ مُّعجِزِے اللّٰہِ لاوَاَنَّ اللّٰہَ مُخْزِیْ الْکٰفِرِیْنَo گویا عہد کے باجود اللہ تعالیٰ نے مشرکوں سے کہا تھا کہ مکّہ میںسے نکل جائو مگر یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن مشرکین سے تم نے معاہدہ کیا ہؤاہے اورانہوں نے اِس معاہدے کو توڑا نہیں اُن کے معاہدے کو دیانتداری کے ساتھ پورا کرو اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ معاہدہ اَور ہے اور یہ معاہدہ اَور ہے۔ اِلَّاالَّذِیْنَ عَاھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ میں جس معاہدے کا ذکر ہے وہ دُنیوی معاہد ہ ہے اور پہلی آیت میں جس معاہدے کا ذکر آتا ہے اس سے الہامی معاہدہ مراد ہے یعنی وہ معاہدہ جس کا الہامی طور پر ذکر کیا گیا تھا اور جس کے متعلق کہا گیا تھا کہ اگر وہ جھوٹا نکلے تو تمہارا حق ہے کہ گرفت کرواور کہو کہ تمہاری یہ بات کیوں پوری نہیں ہوئی۔ ایک عہد یکطرفہ ہوتا ہے جس میں انسان خود اپنے نفس سے کوئی عہد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ مَیں ایسا کرو ں گا۔ اُس کے متعلق کوئی دوسرا شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم نے ایسا کیوں نہیں کیا۔لیکن وہ معاہدہ جو فریقین میں ہو یا وہ معاہدہ جو جماعتوں سے تعلّق رکھتا ہو اُس میں دوسرے کو پکڑنے اور گرفت کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور اگر وہ بات پوری نہ ہوتو دوسرا کہہ سکتا ہے کہ تم تو کہتے تھے فلاں بات اس طرح ہو گی مگر پھر وہ اُس طرح ہوئی نہیں۔ اس قسم کے معاہدات میں پیشگوئیاں بھی شامل ہیں کیونکہ اُن کے متعلق بھی کفاّر یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھیں تو پھر وہ پوری کیوں نہ ہوئیں۔ پس ایک ہی رکوع میں دوجگہ َ عَاھَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ کے الفاظ استعمال کرنا اور ایک جگہ تو یہ کہنا کہ جن مشرکوں سے یہ عہد تھا اُن کا چار ماہ کا نوٹس دے کر مکّہ سے نکال دو اور دوسروں کے متعلق یہ کہنا کہ اُن سے جو معاہدہ ہو چکا ہے اُس کو پورا کرو بتا رہا ہے کہ پہلے روحانی معاہدے کا ذکر تھا اور اب جسمانی معاہدے کا ذکر ہے۔ اس جسمانی معاہدے کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ ہدایت دیتا ہے کہ تم نے اِسے نہیں توڑنا ہاں کفّار اگر توڑ دیں تو اَور بات ہے۔ لیکن اگر اُن کی طرف سے نقضِ عہد نہ ہو تو پھر معاہدہ کی جو بھی معیاد ہے اُس معیاد تک تمہاری طرف سے یہ پوری کوشش ہونی چاہئیے کہ اُس کا احترام کرو۔ چنانچہ فرماتا ہے فَاَتِمُّوااِلَیْھِمْ عَھْدَھُم اِلٰی مُدَّتِھِمْ اس میں چار ماہ کی کوئی شرط نہیں اگر دو سال کا معاہدہ ہے تو پورے دو سال کرو اور اگر چھ سال کا معاہدہ ہے تو چھ سال پورے کرو۔ غرض جتنی مدّت مقرر ہے اُس مدّت تک معاہدے کو پورا کرو۔ غرض اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ مِیْقَاتًامیں قرآن اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے غلبہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور کفّار کو بتایا گیا ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب نہ صرف مسلمانوں کو تم پر غلبہ حاصل ہو جائے گا بلکہ اس غلبہ کے ساتھ ہی تم کو مکّہ سے نکال دیا جائے گا۔ اب اگلی آیت میں اس غلبہ کا وقت بتایا گیا ہے فرماتا ہے یَوْمَ یُنْفَخُ فِیْ الصُّوْرِ فَتَاْتُوْنَ اَفْوَاجًا جس دن صور پھونکا جائے گااورتم فوج در فوج کی صورت میں آئو گے وَفُتِحَتِ السَّمَآئُ اور آسمان کھول دیا جائے گا۔ فوج در فوج اور گروہ در گروہ لوگوں آنیکی خبر اُس وقت پوری ہوئی جب مکّہ فتح ہؤا بلکہ صلح حدیبیہ کے بعد ہی سارے عرب میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی اور فتح مکّہ کی جنگ درحقیقت اسی ہلچل کا نتیجہ تھی کیونکہ عربوں میں یہ احساس پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا کہ اب اُن کے لئے دو ہی صورتیں ہیں یا تو محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ مل جائیں اَور یا مکّہ والوں کے ساتھ مل جائیں چنانچہ کچھ لوگ ادھر آگئے اور کچھ لوگ اُدھر چلے گئے وَفُتِحَتِ السَّمَآئُ اور آسمان پر سے عذاب نازل ہون شروع ہو جائے گا۔
نفخِ صور سے اگر صلح حدیبیہ مرا د لے لو تو اِن آیات کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک ایسا واقعہ رونما ہو گا جس سے عرب قبائل میںبے چینی پیدا ہو جائے گی اور اُن کے دلوںمیں یہ خیال پیدا ہونا شروع ہو جائے گا کہ اب اُنہیں کُھلے طور پراسلام میں شامل ہونا چاہئیے۔ چنانچہ صلح حدیبیہ کے وقت سے لوگوں میں یہ احسان پیدا ہونا شروع ہو گیا کہ اب معاملہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہم یا محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ساتھ رہ کر بچ سکتے ہیں یا مکّہ والوں کے ساتھ رہ کر بچ سکتے ہیں چنانچہ اسی خیال کے زیرِ اثر کچھ قبائل رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے ساتھ مل گئے اور کچھ قبائل کفّار کے ساتھ مل گئے گویا یَوْمَ الْفَصْل کی بنیاد صلح حدیبیہ نے رکھ دی۔
وَفُتِحَتِ السَّمَآ ئُ اور آسمان کھولا جائے گافَکَانَتْ اَبْوَابًا اور وہ دروازے دروازے بن جائے گا۔ اِن معنوں کے لحاظ سے فَکَانَتْ اَبْوَابًا کا یہ مفہوم ہو گا کہ آسمان سے کفّار پر عذاب نازل ہوں گے اور مومنوں پر اُس کی رحمت کی بارش برسے گی گویا آسمان ابواب ابواب ہو جائے گا۔ کچھ دروازے ایسے ہوںگے جن سے خیر نازل ہو گی اور کچھ دروازے ایسے ہوں گے جن سے عذاب نازل ہو گا پہلے ہی مسلمان پر آسمان سے خیر نازل ہوئی تھی مگر وہ ایسی تھی جیسے چھیدو ں میں سے کوئی چیز گرائی جاتی ہے لیکن صلح حدیبیہ کے بعد یہ خیر اس طرح مسلمانوں پر گرنے لگی جیسے بڑے بڑے دروازوںمیں سے کوئی چیز گرتی ہے۔ اسی طرح کفّار پر کثرت سے عذاب آنے شروع ہو گئے۔ گویا آسمان سے رحمت کے سامان بھی نازل ہونے لگے اور عذاب کے سامان بھی نازل ہونے شروع ہو گئے۔
وَسُیِّرَتِ الْجِبَالُ۔جِبَال کے معنے سردارانِ قوم کے بھی ہوتے ہیں۔ پس سُیِّرَتِ الْجِبَالُ کے معنے یہ ہوئے کہ بڑے بڑے صنادید عرب اور وہ بڑے بڑے سردار جن پر اہلِ عرب کو ناز ہے اپنے گھروں سے نکالے جائیں گے۔ فَکاَنَتْ سَرَابًا اور وہ سراب کی طرح ہو جائیں گے یعنی ثابت ہو جائے گاکہ اُن میں کوئی ایسا لیڈر نہیں جو قوم کی صحیح رہنمائی کرنے والا ہو۔ بلکہ سب کے سب لیڈر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے مقابلہ میں ناکام رہیں گے۔ سَرَابًا کا لفظ اس جگہ رکھا گیا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ سَرَاب نصف النہار میں نظر آیا کرتا ہے۔ اس لفظ میں اس امرکی طرف بھی اشارہ تھا کہ جب محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا سورج نصف النہار پر پہنچے گا اور اُس کی چمک لوگوں کی آنکھوں کو خیر ہ کر دے گی اُس وقت اُنہیں معلوم ہو جائے گا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے مقابلہ میں اُن کے لیڈر کیسے ناکام اور کس قدر عقل وخرد سے عاری ہیں۔چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد ہی اسلام کی فتح کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوگئے اور فتح مکّہ نے اس کو تکمیل تک پہنچا دیا۔ پس فرماتا ہے اُس وقت لوگوں پر ثابت ہو جائے گاکہ ان کے سارے لیڈ ر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے مقابلہ میں ایک سراب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ قوم کو تباہ کرنے والے اور اُسے ذلّت کے گڑھوں میں گرانے والے ہیں۔ اُس کو ترقی تک پہنچانے کی اُن میں کوئی قابلیت نہیں چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔
اِنَّ جَھَنَّمَ
یقینا جہنم ایک راستہ ہے (مگر مذکورہ بالا) سرکشوں کے لئے وہ ٹھہرنے کی جگہ (بھی) ہے ۱۷؎
۱۷؎حل لغات
َّ َّ جَھَنَّم :۔کہتے ہیں َّ بِئْرٌ جَہَنَّمٌ اور مراد ہوتی ہے بَعِیْدَۃُ الْقَعْرِ گہری نہ والا کنواں (لسان)لسانؔ کے مصنف کہتے ہیں وَبِہٖ سُمِّیَ جَہَنَّمُ لِبُعْدِ قَعْرِھَا کہ جہنم کو اس لئے جہنم کہا جاتا ہے کہ اس کی تہہ گہر ی ہو گی۔
مِرْصَادًا: کے معنے ہیں اَلْمَکَانُ یُرْصَدُ فِیْہِ الْعَدُوُّ وہ جگہ جہاں دشمن کی انتظار کی جاتی ہے جس کو اُردو میں گھات کہتے ہیں۔ مِرْصَادًا کے معنے اَلطَّرِیْقُ کے بھی ہیں یعنی راستہ (اقرب)
مَاٰبٌ: اٰبَ کا مصدر بھی ہے اور اسم زمان اور مکان بھی۔ اٰبَ مَابًا کے معنے اَلْمَرْجَعُ وَالْمُنْقَلَبُ لوٹنے کی جگہ(اقرب)
صاحب مفردات کہتے اَلْاَوْبُ ضَرَبٌ مِنَ الرُّجُوْعِ وَذَالِکَ اَنَّ الْاَوْبَ لَا یُقَالُ اِلَّا فِیْ الْحَیَوانِ الَّذِیْ لَہٗ اِرَاَۃٌ والرُّجُوْعُ یُقَالُ فِیْہِ وَفِیْ غَیْرِہٖ (مفردات)یعنی عربی زبان میں اردو زبان کے لفظ ’’لوٹنے‘‘کا مفہوم ادا کرنے کے لئے دولفظ آتے ہیں (۱) رُجُوْعٌ (۲) اَوْبٌ لیکن اَوْبٌ۔رُجُوْعٌ ذو ارادہ اور غیر ذی ارادہ ہر دو کے لوٹنے کو کہتے ہیں۔
تفسیر
قتادہ کہتے ہیں کہ مراد یہ ہے کہ جہنم گھات میں رہتی ہے جو اُس پر سے گزرتا ہے اگر اُس کے پاس جواز کا پروانہ ہو تو اُسے گزرنے دیتی ہے ورنہ اُسے وہیں گرا لیتی ہے (کثیر) گویا انہوں نے اس کے معنوں میں جسرِ صراط کی طرف اشار ہ کیا ہے لیکن اگر اِنَّ جَھَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًا سے وہی جہنم مراد لیا جائے جو اگلے جہان میں ہو گا تو ہمیں کہنا پڑے گا کہ اس کا سِلسلہ اسی دنیا سے شروع ہو جاتا ہے اِسی کی طرف یہ حدیث اشارہ کرتی ہے اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَجْرِیْ مِنَ الْاِنْسَانِ مَجْرَی الدَّمِ(صحیح بخاری کتاب الصوم باب زیارۃالمرأۃزوجہا فی اعتکافہٖ جلدنمبرا صفحہ ۲۳۷مطبوعہ مصر)کہ شیطان انسان کے مجری الدم میں چلتا ہے۔ گویا شیطانی تحریکیں دنیا میں اس قدر ہوتی ہیںکہ انسان اگر ذرا بھی غافل ہوتو وہ نفس پر غالب آجاتی ہیں۔ مگر ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ لِلطّٰغِیْنَ مَاٰبًایہ سرکشوںکے ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ اس کیطرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ فرمایا ہے اِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ سُلْطَانٌ عَلٰی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوکَّلُوْنَ۔اِنَّمَا سُلْطَانُہٗ عَلٰی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِہٖ مُشْرِکُوْنَ ( النّحل ع ۳ ۱ ۹ ۱ ) کہ شیطان کو مومنوں پر اور خدا تعالیٰ پر غلبہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ اُس کا غلبہ اُنہی لوگوں پر ہوتا ہے جو خودشیطان سے دوستی رکھتے ہیںاور اسکی محبت کا دم بھرتے اور شرک کرتے ہیں۔ لِلطّٰغِیْنَ مَاٰبًا میں بھی اسی طرف اشارہ کیا گیاہے گویا اِنَّ جِھَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًاکے مضمون میں وہ حدیث آگئی ہے جس میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم نے یہ فرمایا ہے کہ شیطان انسان کے مَجْرِی الدَّم میں چلتا ہے اور لِلطّٰغِیْنَ مَاٰبًا نے بتا دیا ہے کہ گو جہنّم کا حملہ مومن و کافر سب پر ہوتا ہے کسی پر کسی رنگ میں اور کسی پر کسی رنگ میں۔ لیکن جہنّم ٹھکانہ کے طور پر صرف طاغین کے لئے ہے۔ دوسری آیات سے اس مضمون کی تصدیق ہوتی ہے کہ شیطان کو کفّار پر ہی غلبہ ملتا ہے مومنوں پر اُسے غلبہ حاصل نہی ہوتا۔ غرض جہنّم کو راستہ قرار دیا جائے یا گھات دونوں صورتوں میں اس کے یہ معنے ہیں کہ انسان کو خدا تعالیٰ تک پہنچانے کے لئے جہنّم بھی ایک ضروری شے ہے۔ جب تک انسان اپنے لئے جہنم یعنی تکلیف کا راستہ قبول نہ کرے خداتعالیٰ نہیں پہنچ سکتا۔ اور اگر گنہ کر چکا ہو تو پھر بطور سزا کے اس تکلیف کے راستہ پر ایک عرصہ تک چلنا پڑتا ہے خواہ اسی دنیا میں یا اگلے جہان میں۔ اس کے بعد لقاء الٰہی نصیب ہوتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ لِلطّٰغِیْنَ مَاٰبًا کا حال ہے یعنی اِنَّ جَہَنَّمَ کَانَتْ مِرْصَادًا وَمَاٰبًا حَالَ کَوْنِھَا لِلطّٰغِیْنَ یا یہ جملہ مِرْصَاد کی صفت بھی ہو سکتا ہے۔
لّٰبِثِیْنَ
اور آنحالیکہ وہ برسوں اس میں رہتے چلے جائیں گے ۱۸؎
۱۸؎ حل لغات
اَحْقَابًا: اَحْقَاب حُقْبٌ کی جمع ہے اور حُقْبٌ کے معنے ہیں ثَمَانُوْنَ سَنَۃً اسّی سال کا عرصہ۔ وَیُقَالُ اَکْثَرَ مِنْ ذَالِکَ اور بعض نے کہا کہ اسّی سا ل سے زیادہ عرصہ بھی حُقْبٌ کا لفظ بولیں گے۔ اَلدَّھْرُ۔زمانہ ۔اَلسَّنَۃُ وَکِّیْلَ السِّنُوْنَ مطلق ایک سال کے لئے بھی عربی میںلفظ حُقْب استعمال ہوتا ہے اور بعض کہتے ہیں کہ کئی سال کا عرصہ حُقْب کہلاتا ہے (اقرب)
تفسیر
لَابِثِیْنَ طَاغِیْنکی ضمیر کا حال ہے یعنی طاغیوں کا حال یہ ہوگا کہ وہ جہنم میں سالوں یا زمانوں یا صدیوں رہیں گے۔ اُخروی لحاظ سے تو بعد میں بحث کی جائے گی دنیوی لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں جب اسلام کوغلبہ حاصل ہو تو وہ صدیوں تک ہی رہا۔ بعض قومیں دنیا میں فوراً پھیل جاتی ہیں لیکن اس کے بعد جلد مٹ جاتی ہیں۔ مگر مسلمانوں کا صدیوں تک غلبہ رہا۔ چنانچہ مسلمان تقریباًسات سو سال غالب رہے اُن میں کمزوری بے شک چوتھی صدی میں ہی پیدا ہونی شروع ہو گئی تھی مگر مختلف صورتوں میں اُن کا غلبہ سات سو سال تک رہا ہے بلکہ وہ زمانہ جس میں مسلمانوں کے مقابلہ میں کوئی شخص اُٹھ نہیں سکتا تھا اور کسی کوجرأ ت نہیں ہوتی تھی کہ وہ مسلمان کے سامنے کھڑا ہو سکے اُس کو بھی شامل کر کے یہ ایک ہز ار سا ل تک کا عرصہ بن جاتا ہے۔ اب قریباً ساڑھے تین سو سال سے مسلمانوں کے مقابلہ میں غیر اقوام کھڑا ہونے کی جرأ ت ہوئی ہے اور انہوں نے سمجھا ہے کہ ہم بھی مسلمانوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔ یعنی سترھویں صدی کے شروع سے مسلمان ایسے گرنے شروع ہوئے کہ دشمن اُن کے مقابلہ میں کھڑا ہو گیا لیکن اس سے پہلے ایک ہزار سال کے لمبے عرصہ میں کسی کو جرأت نہیں ہوتی تھی کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں کھڑا ہو سکے اور یہ زمانہ دنیوی لحاظ سے گویادشمنان اسلام کے لئے دوزخِ حسد میں جلنے کا زمانہ تھا۔
اَحْقَاب حُقُبٌ کی جمع ہے اس کے لغوی معنے حل لغات میں لکھے جا چکے ہیں اب اس کے تفسیری معنے لکھے جاتے ہیں۔
ابن جریر حضرت علیؓ سے روایت کرتے ( عن سالم بن ابی الجہد) کہ حضرت علی ؓنے ہلال الہجری سے کہا کہ حُقْب کے معنے تم کیا کرتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ حُقْب کے معنے ہیںاسّی سال۔ ہر سال بارہ مہینے کا۔ ہر مہینہ تیس دن کااور ہر دن ایک ہزار سال کا۔ گویا یہ دو کروڑ اٹھاسی لاکھ سا ل ہوئے۔ ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے۔کہ حُقْب کے معنے چالیس سال جس کا ہر دن ہزار سال کا ہے گویا ایک کروڑ چوالیس لاکھ سال۔ اِسی قسم کی روایت ابن ابی حاتم نے ابن عباس سعید بن جبیر اور کئی تابعین سے بھی نقل کی ہے مگر حُقْب کو ستّر سال قرار دیا ہے( جملہ روایات منقول از ابن کثیر ہیں)گویا ان روایات کے مطابق ایک کروڑ چوالیس لاکھ یا دو کروـڑ اٹھاسی لاکھ یا دو کروڑ ساٹھ لاکھ سال کو اتنے عدد سے ضرب دی جائے گی جتنے عدداَحْقَاب کی جمع سے مراد لئے جائیں گے مگر یہ مقدار خواہ کچھ بھی ہو۔ بیس کروڑ ہو۔ چالیس کروڑ ہو یا ایک ارب ہو۔ بہرحال یہ ایک معیّن عدد ہے اور ان روایات سے اتنا ضرور ثابت ہوتا گیا کہ دوزخ کا عذاب محدود ہے اور وہ آخر ایک دن ختم ہو جائے گا۔ چنانچہ یہ احساس مفسّرین کے دلوں میں بھی پیدا ہؤا ہے اور اسی وجہ سے مقاتل ابن حیان کہتے ہیں کہ یہ آیت فَذُوْقُوْافَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا کی آیت سے منسوخ ہے جو اس رکوع کے آخر میں آتی ہے۔حالانکہ مفسّرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ساری آیتیں اکٹھی نازل ہوئی تھیں یعنی ا س سورۃ کا دو ٹکڑوں میں اترنا ثابت نہیں پس یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ ایک ہی وقت میں یہ آیتیں نازل ہوئیں اور پھر ان میں سے ایک آیت نے دوسری آیت کو منسوخ کر دیا۔ خالد بن معدان کہتے ہیں (عن ابی جریر بحوالہ ابن کثیر) کہ یہ منسوخ ہے۔ ان کی روایات لکھ کر ابن جریر کہتے ہیں کہ شاید عبارت لَا یَذُوْ قُوْنَ فِیْھَا بَرْدٌ اوَّلَا شَرَابًا سے متعلق ہے یعنی لَابِثِیْنَ فِیْھَآ اَحْقَابًا سے مراد محض دوزخ میں رہنا نہیں بلکہ اس قسم کا رہنا ہے جس کے متعلق اگلی آیت میں لَا یَذُوْ قُوْنَ فِیْھَا بَرْدٌ اوَّلَا شَرَابًا آیا ہے اور مراد یہ ہے کہ دوزخی دوزخ میں صدیوں ایسی حالت میں رہیں گے کہ نہ انہیں راحت ملے گی اور نہ پینے کو کچھ ملے گااس کے بعد بھی وہ رہیں گے تو دوزخ میں ہی مگر عذاب کی نوعیت بدل جائے گی پھر وہ کہتے ہیں وَالْاَمَتُحُّ اَنَّھَا لَا انْقِضَائَ لَھَا یعنی سچی بات تو یہ ہے کہ دوزخ کبھی مٹ ہی نہیں سکتا۔ پھر ابن جریر نے سالم سے اور انہوں نے حسن بصری سے یہ روایت نقل کی ہے کہ اَمَّا الْاَحْقَابُ فَلَیْسَ لَھَا عِدَّۃٌ اِلَّا الْخُلُوْدُ فِیْ النَّارِ یعنی اَحْقَاب جمع کا لفظ خدا تعالیٰ نے بولا ہے اس کی گنتی بیان نہیں کی اس لئے اَحْقَاب کی گنتی غیرمحدود ہے اور اس سے مراد دوزخیوں کا ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے۔ اِن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تو ہر اک کے دل میں خیال پیداہؤا ہے کہ اس آیت کے ظاہری معنے عذاب جہنم کے ختم ہونے پر دلالت کرتے ہیں لیکن پھر ان معنوں کی اپنے عقیدہ کے مطابق تاویل کرنے کی کوشش کی ہے اور یا تو اس آیت کو لَا یَزُوْقُوْنَ فِیْھَا بَرْدًا وَّلَا شَرَابًا سے متعلق بتایا ہے اور یا اَحْقَاب کو اَن گنت جمع قرار دے دیاہے۔ جہاں تک اَحْقَاب کی جمع کا سوال ہے یہ امر یاد رکھنا چاہیئے کہ اَحْقَاب اوزانِ جمع قلّت میں سے ہے یعنی ان اوزان میں سے ہے جن کے معنے تین سے دس تک کے ہوتے ہیں اور گو ضروری نہیں کہ ہر جمع قلّت کے لفظ سے قلّت ہی مراد لی جائے مگر بہرحال وضع لفظ کو اہمیت ضرور دی جائے گی اور جس غرض کے لئے لغت نے لفظ مقرر کیا ہو اُس سے بدلنے کے لئے کوئی قرینہ ضرور ہونا چاہیئے۔ بغیر کسی قرینہ کی موجودگی کے اُس کے دوسرے معنی کرنے جائز نہیں ہوں گے ورنہ تاویل کا ایسا دروازہ کھل جائیگاجو حقیقت سے بہت دُور لے جائے گاایسے قرینے بعض دفعہ معنوی ہوتے ہیں یعنی دُوسری آیت اُس پر دلالت کرتی ہے یا دُوسرے شواہد اُس پر دلالت کرتے ہیں اور بعض دفعہ ظاہر ی ہوتے ہیں یعنی دُوسری آیات اُس پر دلالت کرتی ہیں یا دُوسرے شواہد اُس پر دلالت کرتے ہیں اور بعض دفعہ ظاہری ہوتے ہیں جیسے ال استغراقی آ جائے تو اس کے معنے جمع کثرت کے ہو جاتے ہیں یا کسی ایسے لفظ کی طرف اضافت ہو جو اُس کے ایسے معنے کر دے جو کثرت پر دلالت کرتے ہو۔ مگر بغیر کسی قرینے کے کسی لفظ کو اُن معنوں سے پھرا دینا جو وضع لغت کے لحاظ سے صحیح ہوں جائز نہیں ہو سکتا اور وضع لغت کے لحاظ سے اَحْقَاب کے معنے تین سے دس تک کے ہو سکتے ہیں۔ پس اگر ہم اس کی آخری حد کو سمجھ لیں تو ہم دو کروڑ اٹھاسی لاکھ کو اس سے ضرب دے لیں گے بشرطیکہ ہم اَحْقَاب کے وہ معنے کریں جو تفاسیر میں کئے گئے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس ایک اور حدیث ایسی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت کے وہاں ہر دن ہزار سال کا ہوگا رسول کریم صلے علیہ وآلہٖ وسلم کی نہیں بلکہ غالباً یہود وغیرہ سے سنی ہوئی ہے۔ بزّاز نے ای روایت ابو مسلم بن العلاء سے نقل کی ہے کہ انہوں نے سلیمان التیمی سے پوچھا کہ کیا جہنم میں سے کوئی نکلے گا بھی یا نہیں ؟سلیمان التیمی نے جواب دیا کہ حَدَّثَنِیْ نَافِعٌ عَنِ ابْنِ عُمَرَعَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنَّہٗ قَالَ وَاللّٰہِ لَایَخْرُجُ مِنَ النَّارِ اَحَدٌ حَتّٰی یَمْکُثَ فِیْھَا اَحْقَابًا قَالَ اَلْحُقْبُ بِضْعٌ سَنَۃٍ ثَلَاثُ مِائَۃٍ وَسِتُّوْنَ یَوْمًا مِمَّا تَعْدُّوْنَ یعنی مجھ سے بیا ن کیا نافع نے اُنہوں نے سُنا عبدا للہ ؓسے عبداللہ بن عمر ؓ نے براہ راست رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یہ روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا خدا کی قسم آگ میں سے کوئی نہ نکلے گا جب تک اُس میں اَحْقَابیعنی کئی حُقْب نہ رہ لے۔
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوزخ میں اَحْقَاب رہنے کے بعد وہاں سے نکلنے کے قائل ہیں مگر جن لوگوں کا عقیدہ اوپر بیان کیا گیا ہے اُن کے نزدیک اَحْقَاب سے مراد یہ ہے کہ دوزخ میں سے کوئی آدمی کبھی نہیں نکلے گا۔ پس اس روایت نے اُن کے خیالات کی تردید کر دی اور یہ ظاہر ہو گیا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وَآلہٖ وسلم نے بھی اس کے معنے یہی لئے ہیں کہ اَحْقَاب کے بعد لوگ دوزخ میں سے نکل آئیں گے پھر آگے جو فرمایا گیا ہے کہ قَالَ اَلْحُقْبُ بِضْعٌ وَّثَمَانُوْنَ سَنَۃً کُلُّ سَنَۃٍ ثَلاثُ مِائَۃٍ وَسِتُّوْنَ یَوْمًا مِّمَّا تَعُدُوْنَ یہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے الفاظ ہیں تب بھی ان کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ جنہوں نے یہ معنے کئے ہیںکہ حُقُبْ کا ہر دن ایک ایک ہزار سال کا ہوگا انہوں نے غلطی کی ہے اور یہ معنی انہوں نے یہود وغیرہ سے سُن کر نقل کر دیئے ہیںاور اگر قَالَ سے مراد حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہیں تب بھی مِمَّا تَعُدُّوْنَ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ ان الفاظ کے ذریعہ ایک ہزار سال کا ایک دن ہونے کی تردید کرنا چاہتے ہیں۔ پس اگر یہ قول رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کا ہو تب بھی وہ معنے غلط ثابت ہوتے ہیں اور اگر یہ قول حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا ہو تب بھی یہ اُن معنوں کے غلط ہونے کی دلیل ہو گی کیونکہ ایک جلیل القدر صحابی ان معنوں کی تردید کر رہا ہے۔ تیسرا قرینہ اِن معنوں کے غلط ہونے کا حضرت علیؓ کی وہ روایت ہے جو سالم بن ابی الجعد سے منقول ہے اُس میں حضرت علیؓ ہلال الھجری سے پوچھتے ہیں کہ تم حُقُب کے کیا معنے کرتے ہوجس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حُقب کے کوئی خاص معنی مروی نہیں تھے اگر کوئی خاص معنی مروی ہوتے تو حضرت علیؓ ہلال الھجری کو وہ معنی بتاتے نہ یہ کہ ہلال الھجری سے اس لفظ کے معنے پوچھتے پس ان تمام استدلالات اور روایتوں سے یہ معلُوم ہؤا کہ اس جگہ دوزخ میں سے دوزخیوں کے نکلنے کا جواز بلکہ اُس کی خبر پائی جاتی ہے گو یہ بھی ضرور ہے کہ دوزخ میں رہنے کا ایک لمبا عرصہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے۔ اگراَحْقَاب سے مراد دس اَحْقَاب لئے جائیں اور حقب کے معنی اسّی سال لئے جائیں تب بھی آٹھ سو سال بن جاتے ہیں ۔ یہ زمانہ بھی کوئی چھوٹا نہیں کیونکہ عذاب کی ای ک گھڑی بھی بہت بڑی ہوتی ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے حُقُب کے معنے ایک لمبے زمانہ کے بھی ہوتے ہیں اور صدی کے بھی ہوتے ہیں۔ اگر صدی کے معنے لئے جائیں تو ایک ہزار سال کا زمانہ بن جاتا ہے اور حُقُب سے مُراد لمبا زمانہ لیا جائے تو اَحْقَاب سے مراد دس لمبے زمانے ہوں گے۔ اس صورت میں یہ عذاب بہت لمبا بھی ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِمَّا تَعُدُوْنَ (الحج ع ۶ ۳ ۱ ) کہ بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کا ایک زمانہ ہزار برس کا ہوتا ہے۔ اِس صورت میں اَحْقَاب سے مراد دس ہزار سال بن جائیںگے لیکن بہرحال کوئی معنی ہوں دوزخ کے عذاب کا غیر منتہی ہونا کہیں سے ثابت نہیں ہوتا۔ خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک اور جگہ پچاس ہزار سال کا دن بھی قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے تَفْرُجُ الْمَلئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ (المعارج ع ۱ ۷ ) اگر ایک حُقْب کو پچاس ہزار سال کا قرار دو تب بھی جہنم کا عذاب محدود ہی رہے گا غیر محدود ثابت نہیں ہو سکتا۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے دشمنوں کے دنیوی عذاب کے معنے کرنے کی صورت میں اس آیت میںیہ پیشگوئی نکلتی ہے کہ اسلام کے دشمن دو سو چالیس یا تین سو سے لے کر آٹھ سو یا ہزار سال تک مغلوب رہیں گے (اسّی سال حُقُب مانا جائے تو چونکہ جمع قلّت تین سے دس تک ہوتی ہے تین سے اسّی کو ضرب دی جائے تو دو سو چالیس اور دس سے ضرب دی جائے تو آٹھ سو سال کا زمانہ بنتا ہے اور سو سال کا حُقُب مانا جائے تین سوسے ہزار سال تک کا زمانہ ہوتا ہے)اگر کہو کہ اس طرح وہ مُدتیں بتانے میں تو شک پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے کلام میں شک نہیں ہوتا۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جس حد تک کلام میں الہام کا ہونا کسی نئے فائدے کو پیدا کرتا ہے اُسی حد تک خدا تعالیٰ کے کلام میں الہام ہوتا ہے اور ہونا چاہئیے۔ اس جگہ تین صدی سے دس صدی تک اسلام کے غلبہ کی خبر دینے میں دو فوائد تھے اس لئے یہ الہام قبیح نہیں بلکہ حسن اور مفید ہے۔ اور وہ دو فائدے یہ تھے (۱)کہ دو سو چالیس سال یا تین صدیوں تک اسلام کا غلبہ نہایت مکمل اور اعلیٰ تھا یعنی اندرونی اتحاد اور بیرونی دشمن کی کمزوری دونوں باتیں پائی جاتی تھیں اور اسی عرصہ میں دشمن مکمل طور پرحسد کی آگ میں جل رہا تھا۔ کیونکہ مسلمانوں کی کمزوری اُسے اپنی ترقی کی امید دلاتی تھی نہ اپنی طاقت کوئی امید کی صورت پیدا کرتی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ سوسال کے بعد مسلمانوں میں ایک اختلاف رونما ہوا تھا۔ سپین اور بغداد الگ ہوئے مگر دو سو ستّر سال تک یہ اختلاف ایسا نمایاں نہیں ہؤا کہ اس کا اثر اسلام کی ترقی پر پڑتا۔ اس کے بعد دو سو چالیس یا تین سو سال سے آٹھ سو یا ہزار سال تک کا زمانہ وہ ہے کہ اس میں ایک طرف مسیحیت کو طاقت ملنی شروع ہوئی دوسری طرف مسلمانوں میں کمزوری نمایاں طور پر پیدا ہونا شروع ہوئی۔ مگر مسیحیوں کی بیداری اور مسلمانوں کی کمزوری ایسی نہ تھی کہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے غلبہ کو نقصان پہنچے۔ خصوصًا اسی زمانہ کا متمدن علاقہ یعنے ایشیا اور شمالی افریکہ پوری طرح مسلمانوں کے تسلّط میں رہا۔ لَابِثِیْنَ فِیْھَآ اَحْقَابًا کی پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی اور اِن دونوں زمانوں کے لحاظ سے اَحْقَاب کا لفظ جو مُبہم عدد پر دلالت کرتا ہے استعمال کیا گیا ہے۔ اَحْقَاب کی ابتدائی مدّت مکمل غلبہ پر دلالت کرتی ہے اور اس کی انتہائی مدّت اس غلبہ پر دلالت کرتی ہے جس میں کسی قدر ضعف کے آثار ظاہر ہونے لگ گئے تھے مگر غلبہ پھر بھی تھا۔
اس کے علاوہ اس الہام کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ پہلی تین صدیوں اور آخری سات صدیوں کے غلبہ میں ایک اور امتیاز بھی تھا۔ پہلی صدیوں میں اسلامی حکام پر کم وبیش عمل ہوتا تھااور کفّار سے حسن سلوک کا خیال رکھا جاتا تھا مگر تین سو سال کے بعد ملوکیّت نے زور پکڑلیا اور کفّار سے نسبتًا سختی شروع ہو گئی جو غیر مذاہب والوں کے سلوک سے تو بہتر تھی مگر اسلامی معیار کے مطابق نہ تھی اس وجہ سے بھی ایسا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس سے دو قسم کے سلوکوں کے الگ الگ زمانوں پر دلالت ہو یعنی تین سو اور ہزار سال کے زمانہ پر۔ ان معنوں کی رُو سے فَلَنْ نَّزیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا کی آیت بھی خوب حل ہوتی ہے کیونکہ اس آیت میں زمانہ کے ساتھ ساتھ عذاب کی زیادتی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور یہی حال کفّار کا ہؤا۔ ابتداء ً اسلام میں اسلامی تعلیم کے ماتحت ان پر سختی نہ کی جاتی تھی لیکن جوں جوں اسلامی تعلیم کا اثر مسلمانوں کے دلوں سے کم ہوتا گیا مسلمانوں میں سختی پیدا ہوتی گئی اور اسلامی حکومتوں کے دشمنوں پر تعذیب بڑھتی گئی۔
غرض اس آیت کا جہاں غلبۂ اسلام سے تعلق ہے اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ مسلمانوں کا غلبہ تین سو سال سے ایک ہزار سال تک رہے گا اور ایسا ہی ہؤا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ درمیان میں عارضی طور پر ترکوں کی ایک رَو آئی جس نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا مگر وہ بھی کچھ عرصہ کے بعد مسلمان ہو کر دب گئے اور اسلام کو ہی غلبہ حاصل رہا۔ اس صورت میں یہی نہیں کہ اسلام کی ترقی اور کفر کی بربادی کی اس آیت میں خبر دی گئی ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسلام کو جو غلبہ حاصل ہو گاوہ ایک ہزار سال تک چلتا چلا جائے گا۔ ایک ہزار سال کے غلبہ کے بعد کفر پھر سر اٹھائے گا اور مسلمانوں کا تنزّل شروع ہو جائے گا۔ چونکہ ہر مضمون کے لحاظ سے آیتوں کے معنے کئے جاتے ہیں اس لئے اسلام اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلبہ کے لحاظ سے اس کے معنے یہی ہوں گے۔ لیکن جب ہم ان آیات کو عذاب دوزخ کے متعلق قرار دیں گے تو اس صورت میں ہم یہ کہیں گے کہ حُقْب سے مراد زمانہ ہے اور اَحْقَاب سے مراد بہت لمبا زمانہ ہے۔
علاوہ ازیں قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دوزخ کا عذاب غیر منقطع نہیں اس لئے اَحْقَاب کو اس کے معنوں سے پھرانے کی اجازت نہ ہو گی۔ چنانچہ فرماتاہے اُمُّہٗ ھَاوِیَۃٌ(قارعہ) دوزخ دوزخیوں کی ماں کی طرح ہو گی جس طرح ماں کے رحم میں انسان کی تکمیل ہوتی ہے اسی طرح دوزخ میں دوزخیوں کی روحوں کی تکمیل کی جائے گی اور ظلمات ثلاثہ میں سے گزر کر آخر ایک دن وہ نئی روحانی پیدائش حاصل کر لیں گے (۲)د وسرے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ (اعراف ع ۹ ۹ ۱ ) میری رحمت نے ہر چیز کو ڈھانپا ہؤا ہے ۔ جب اللہ کی رحمت نے ہر چیز کو ڈھانپا ہؤا ہے تو دوزخیوں کو بھی اُسے اپنی رحمت سے ڈھانپنا چاہیئے اس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ آخر انسان نجات پا جائے گا (۳) تیسرے فرماتا ہے رَبَّنَا وَسِعْتَ کُلُّ شَیْ ئٍ رَّحْمَۃً وَّعِلْمًا (المومن ع ۱ ۶ ) اے ہمارے رب ہر چیز کا تو نے رحمت اور علم سے احاطہ کیا ہوا ہے۔ اگر اس کی آیت کی موجودگی میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی چیز بھی مخلوق میں سے ایسی ہے جس کا خدا کو علم نہیں تو یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ کوئی بھی چیز ایسی ہے جس کو خداکی رحمت ڈھانپ نہیں لے گی (۴) چوتھے فرماتا ہے خَالِدِیْنَ فِیْھَا مَادَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَآ ئَ رَبُّکَ ط اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ(ھود ع ۹ ۹ ) اور اُس میں اُس وقت تک رہیں گے جب تک آسمان اور زمین ہیں اِلَّا مَاشَآ ئَ رَبُّکَ مگر جو تیرا رب چاہے یعنی تیرا رب جس کو بخشنا چاہے بخش دے اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ تیر ا رب وہ بات ضرور کرے گا جس کا وہ ارادہ رکھتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ بخشش کر نے والا ہے بلکہ یہ بھی بتا دیا کہ اُس کی طرف سے بخشش ہو گی۔ (۵) اسی طرح سورۂ ھود میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّکَ وَلِذَالِکَ خَلَقَہُمْ (ھودع ۰ ۱ ) سوائے ان کے جن پر تیرے رب نے رحم کیا وَذَالِکَ خَلَقَھُمْ اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا ہے تا کہ اُن پر رحم کرے۔ جب ہر مخلوق کو خدا تعالیٰ نے رحم کے لئے پیدا کیا ہے تو یہ خیال کر لینا کہ وہ کسی کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں رہنے دے گا اس آیت کے بالکل خلاف ہے۔ ابن کثیر میں حضرت ابن عباسؓ سے روایت آتی ہے کہ لِلرَّحْمَۃِ خَلَقَہُمْ وَلَمْ یَخْلُقْہُم لِلْعَذَابِ یعنی اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو اپنی رحمت کے لئے پیدا کیا ہے عذاب کیلئے پیدا نہیں کیا۔ اور یہ لازمی بات ہے کہ جس چیز کے لئے کسی کو پیدا کیا گیا ہے وہ اسکو ضرور مل جانی چاہیئے (۶)پھر فرماتا فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْراً یَّرَہٗ (زلزال) جو شخص ایک ذرّہ بھر نیکی میں بھی حصہ لے گا اللہ تعالیٰ نے اس کی نیکی کے ایک ذرّہ کو بھی ضائع نہیں کرے گا اور وہ ضرور اس کا انجام دیکھے گا۔ یہ انجام وہ اسی طرح دیکھ سکتا ہے کہ پہلے اُسے گناہوں کی سزا دے دی جائے اور بعد میں اُسے معاف کر دیا جائے (۷) حدیث میں آتا ہے اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی للّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَقُوْلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِذَااَرَادَ عَبْدِیْ اَنْ یَّعْمَلَ سَیِّئَۃٍ فَلَا تَکْتُبُوْھَا عَلَیْہِ حَتَّے یَعْمَلَھَافَاِنْ عَمِلَھَا فَاکْتُبُوْا ھَابِمِثْلِھَاوَاِنْ تَرْکَھَا مِنْ اَجْلِیْ فَاکْتُبُوْھَا لَہٗ حَسَنَۃً وَاِذَااَرَادَ اَنْ یَّعْمَلُ حَسَنَۃً فَلَمْ یَعْمَلْھَا فَاکْتُبُوْھَا لَہٗ حَسَنَۃً فَاِنْ عَمِلْھَا فَاکْتُبُوھَا لَہٗ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا لِھَا اِلَی سَبْعِ مِأتِ ضِعْفٍ (بخاری مصری جلد رابع کتاب التوحید) یعنی ہر بدی کی سزا اُس کے برابر ہے اور ہر بدی جس کا خیال چھوڑ دیا جائے اس کے بدلہ میں نیکی لکھی جاتی ہے ہر نیکی جس کا انسان خیال کرے خواہ عمل نہ کرے اس کے بدلہ میں نیکی ہے اور ہر نیکی کا بدلہ دس سے سات سوگنے تک ہے۔ قرآن کریم میں بھی نیکی کا دس گنے سے زیادہ ثواب دیئے جانے کا وعدہ کیا گیا ہے جیساکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائۃُ حَبَّۃٍ وَاللّٰہُ یُضَاعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (البقرہ ع ۶۴ ۳ ۴) یعنی جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُن کے اس فعل کی حالت اُس دانہ کی حالت کی مشابہ ہے جو سات بالیں اُگائے اور ہر بال میں سو دانہ ہو اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے اس سے بھی بڑھا بڑھا کر دیتا ہے اور اللہ وسعت والا ہے اور بہت جاننے والا ہے۔ اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ بعض نیکیوں کا بدلہ سات سات سو گناہ بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے۔ چونکہ انسان میںکچھ نیکی بھی پائی جاتی ہے اس لئے نیکیوں کا شمار اگر اس حدیث اور قرآن کریم کی آیت کے مطابق کیا جائے تو عقل اس بات کو جائز قرار نہیں دیتی کہ کوئی انسان دائمی طور پر نجات سے محروم رہ جائے (نیز دیکھو تفسیر کبیر حصہ سوم ہود ع ۹ صفحہ ۲۵۳سے ۲۵۹تک)
لَایَذُوْقُوْنَ
(وہاں ان لوگوں کی یہ حالت ہو گی) کہ وہ نہ تو اس میں کسی قسم کی ٹھنڈک (محسوس کریں گے) ٹھنڈے پانی کے ( اس طرح انہیں ان کے اعمال) مطابق بدلہ(دیا جائے گا)۱۹؎
۱۹حل لغات
اَلْبَرْدُ: نَقِیْضَ الْحَرِّ۔ بَرْد کے معنے ٹھنڈک کے ہیں اَلْبَرْدُ اَیْضًا اَلنَّوْمُ۔بَرْد کے ایک معنے نیند کے بھی ہیں چنانچہ عرب کہتے ہیں اَلْبَرْدُ یَمْنَعُ الْبَرْدَ یعنی ٹھنڈک نیند کو روک دیتی ہے(اقرب) فتح البیان میں ہے کہ حسن ۔عطا اور ابن زید کے نزدیک بَرْد سے مراد راحت ہے۔
جَمِیْعًا: اَلْحَمِیْمُ: اَلْمَائُ الْحَارُّ۔حَمِیْم گرم پانی کو کہتے ہیں یہ لفظ اضداد میں سے ہے یعنی اپنے مخاطب معنے بھی ادا کرتا ہے چنانچہ اس کے معنے ٹھنڈے پانی کے بھی ہیں۔ نیز اَلْحَمِیْمُ کے معنے ہیں اَلْقَیْظُ ۔گرمی اَلْعَرْقُ پسینہ (اقرب)
غَسَّاق: اَلْغَسَّاقُ کے معنے اَلْمُنْطِنُ الْبَارِدُ اَلشَّدِیْدُ الْبَرْدِالَّذِیْ یُحْرِقُ مِنْ بُرْدِہٖ کَاِحْرَاقِ الْحَمِیْمِ سخت ٹھنڈی بدبودار چیز ہے اپنی ٹھنڈک سے ایسی ہی تکلیف دے جیسے کہ گرم پانی سے جلا دیتا ہے(لسان) مَایَقْطُرُ مِنْ جُلُوْدِ اَھْلِ النَّارِ وَصَدِیْدُھَمْ مِّنْ قَیْج وَنَحْوُہٗ وہ پیپ جو دوزخیوں کے اجسام سے نکلے گی اُس کو بھی غَسَّاق کہتے ہیں (اقرب)
وِفَاقًا: وِفَاق وَافَقَ کا مصدرہے اور وَافَقَ عَلَی الشَّیْ ئِ کے معنے ہیں ضِدُّ خَالَفَ کسی چیزکے مطابق آیا۔ اَلْرَفْقُ کے معنے ہیں اَلْمُطَابَقَۃُ بَیْنَ الشَّیْئَیْنِ وہ اشیاء کے درمیان پوری مطابقت (مفردات)پس جَزَآئً وِّفَاقًا کے معنے ہوںگے اعمال کے مطابق جزاء۔
تفسیر
لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا یہ طَاغِیْنَ کا دوسرا حال ہے۔ پہلا حال آیت لَابِثِیْنَ فِیْھَآ اَحْقَابًا میں بیان ہے۔ یعنی طاغیوں کا یہ حال بھی ہو گا کہ وہ نہیں چکھیں گے بَرْد اور نہ ہی شَرَاب اس حالت میں کہ وہ جہنّم میں ہوں گے جو ابن جریر نے معنے کئے ہیں کہ لَابِثِیْنَ فِیْھَآ اَحْقَابًا والی آیت لَا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا سے متعلق ہے اس کا مطلب یہ تھا کہ پھر عذاب کی نوعیت بدل جائے گی یہ معنے بالبداہت باطل ہیں۔ کیونکہ اس صورت میں آیت کے یہ معنے بنتے ہیں کہ اَحْقَاب کے بعد اُنہیں راحت بھی میسّر آجائیگی اور پینے کے لئے پانی بھی ملنا شروع ہو جائے گا۔ جب انہیں پانی بھی مل جائے گا اور راحت بھی میسّر آجائے گی تو پھر عذاب کس بات کا ہو گا۔ اگر خالی پینے کا ذکر ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ صرف پانی پینے کے بعد دُکھ رہ سکتا ہے مگر یہاں شَرَابًا کے ساتھ ہی بَرْدًا کا بھی ذکر آتا ہے اور بَرْدًا کے معنے نیند اور راحت کے بھی ہوتے ہیں۔ پسلَا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا کے معنے یہ ہوں گے کہ اَحْقَاب تک تو انہیں راحت نہیں ملے گی اور نہ پینے کے لئے پانی ملے گا مگر جب اَحْقَاب گزر جائیں گے تو پھر انہیں پینے کے لئے پانی بھی مل جائے گا اور نیند اور راحت کے سامان بھی میسّر آجائیںگے لیکن وہ رہیں گے دوزخ میں ہی۔ پس یہ معنے بالبداہت غلط اور باطل ہیں۔
دوسرے بَرْدًا وَلَا شَرَابًا میں بَرْدًا کو الگ بیان کیا گیا ہے اور شَرَابًا کو الگ بیان کیا گیا ہے جس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں بَرْدًا سے ٹھنڈا پانی مراد نہیں بلکہ کچھ اور مراد ہے اور وہ معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ انہیں راحت کے سامان بھی میسّر نہیں آئیں گے۔ چنانچہ بَرْد کے ایک معنی راحت کے بھی آتے ہیںچنانچہ لکھا اَلبَرْدُ: اَلرَّوْحُ وَالرَّاحَۃُ (فتح البیان)
جہاں تک قیامت کا تعلق ہیلَا یَذُوْقُوْنَ فِیْھَا بَرْدًا وَلَا شَرَابًا کے معنے ظاہر بھی کئے جا سکتے ہیں کہ وہاں اُن کے لئے راحت کا سامان نہیں ہو گااور نہ انہیں پینے کے لئے کوئی چیز ملے گی سوائے گرم پانی اور غَسَّاق کے۔ غَسَّاق کے معنے ہوتے ہیں سخت سرد پانی یا بد بودار پانی کے یا وہ پیپ جو زخموں سے بہتی ہے چنانچہ لُغت میں لکھا اَلغََسَّاقُ۔ اَلْعَنْتِیْنُ۔ اَلْبَارِدُالشَّدِیْدُالْبَرْدِ۔ وَمَا یَقْطُرُمِنْ جُلُوْدِاَھْلِ النَّارِ وَصَدِیْدُھُم مِنْ قَیْج وَ نَحْوُہٗ (اقرب) غَسَّاق کا لفظ بھی بتا رہا ہے کہ یہاں بَرد کے معنے راحت کے ہی ہیں کیونکہ غَسَّاق کے معنے ہیں سخت سرد۔ پس یہ کہنا کہ نہیں وہاں سردی نہیں لگے گی بالبداہت باطل ہو گیا کیونکہ غَسَّاق کے معنے ہی سخت سرد کے ہیں۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ دوزخیوں کو جو پانی ملے گاوہ سخت گرم ہو گا۔ اسی طرح اُنہیں زخموں کا دھودن یعنی اسکی پیپ دی جائے گی یا سخت بد بودار اور سڑا ہؤا پانی ملے گا۔ یا اتنا ٹھنڈا پانی دیا جائے گا جس سے ان کے دانت گرنے لگیں گے۔
جَزَآئٌ وِّفَاقًایعنی یہ جزا ہے جو اُن کے مناسب حال ہے۔ وِفَاقًا کے معنے ہوتے ہیں مُوَافِقًا لَلْاَعْمَالِ وہ جزا جو اُن کے اعمال سے مطابقت رکھتی ہو یعنی اُس دنیا میں بھی اُن کے اندر میانہ روی نہیں تھی اور چونکہ دُنیا میں میانہ روی کا وصف اُن کے اندر نہیں پایا جاتا تھا اس لئے اگلے جہان میں بھی انہیں ایسی ہی چیزیں ملیں گی جو حد درجہ گرم ہوں گی یا حد درجہ سرد ہوں گی یا چونکہ دنیا میں وہ سخت غصہ میں آجاتے تھے یا نکمے اور سُست ہو کر بیٹھ رہتے تھے ۔ میانہ روی کی عادت جو انسان کو کامیاب کرتی ہے ان کے اندر نہیں تھی اس لئے جہنّم کا عذاب بھی انہیں اسی صورت میں ہی ملے گا۔ کیونکہ سخت گرم پانی یا اُن کو پینے کے لئے ملے گاکہیں سخت سرد پانی اُن کو پینے کے لئے ملے گا۔ درمیانی پانی جو راحت بخشتا ہے انہیں جہنّم میں نظر نہیں آئے گا۔ اسلام اور کفر کے اخلاق میں یہی فرق ہے کہ اسلام میں میانہ روی کی تعلیم ہے لیکن اسلام کے علاوہ اور کسی مذہب میں میانہ روی کی تعلیم نہیں پائی جاتی۔ یہودیت کہتی ہے ’’جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ دانت کے بدلے دانت اور ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور پائوں کے بدلے پائوں۔ جلانے کے بدلے جلانا۔ زخم کے بدلے زخم اور چوٹ کے بدلے چوٹ ‘‘(خروج باب ۲۰آیت ۲۳تا ۲۵)عیسائیت کہتی ہے ’’جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے ‘‘ (متی باب۵ آیت ۳۸)گویا ایک میں گرمی ہی چلتی چلی جاتی ہے اور دوسرے میں سردی ہی سردی چلی جاتی ہے۔ پس ایسے اعمال کے بدلہ میں جزاء بھی ایسی ہوگی کسی کو گرمی ہی گرمی پہنچے گی۔لیکن اسلام اپنے تمام احکام میں میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ فرماتا ہے تم رحم کے موقع پر رحم کرو اور سزا کے موقع پر سزادو۔ چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے۔جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِثْلُھَا فَمَنْ عَفَاوَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الظَّالِمِیْنَ (الشوریٰ ع ۴ ۵ ) یعنی بدی کی سزا اُسی حد تک دینی جائزہے جس حد تک کہ ظالم نے طلم کیاتھا مگر جو ظلم کے مقابل پر عفو سے کام لے کر بشرطیکہ اس عفو سے اصلاح ہوتی ہو تو اُسے اپنے اس عفو کا بدلہ اللہ تعالیٰ سے ملے گا اور ضرور ملے گا۔
قرآن مجیداو۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کے متعلق اگر ان آیتوں کو لیا جائے تو پھر ان سے روحانی معنے کرتے چلے آئے ہیں۔ یعنی اسلام کے دشمنوں کو کبھی راحت نہیں ملے گی۔ اُن کے دلوں کو کبھی چین نہیں نصیب نہیں ہو گا وہ اسلام کے مقابلہ میں جب اپنی ناکامی دیکھیں گے تو اس بے چینی اور اضطراب کی حالت میںکبھی وہ اسلام کے مقابلہ میں بالکل مایوس ہو کر بیٹھ جائیں گے اور کبھی پاگلوں کی طرح اُٹھ کر حملہ کرنا شروع کر دیں گے حَمِیْمًاوَّ غَسَّاقًا والی حالت یہی ہوتی ہے کہ کبھی انسان جوش میں آکر پاگلوں کی طرح کام کرنے لگ جائے اور کبھی ہمت ہار کر بیٹھ جائے۔ یعنی دونوں حالتیں ایسی ہیں جو انسان کو کامیابی سے دُور رکھتی ہیں۔ نہ پاگلوں کی طرح حملہ کرنے والا جیت سکتا ہے اور نہ مایوسی کی حالت میں قوت عمل سے کام نہ لینے والاکبھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ لیکن فرماتا ہے جبا اس حالت میں پر اَحْقَاب گزر جائیں گے تو اس کے بعد ان کو ہوش آجائے گی اور وہ منظم طور پر مسلمانوں پر حملہ کرنا شروع کر دیں گے اُس وقت چونکہ مُسلمان اپنے بُرے اعمال کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کو بڑھا چکے ہوں گے اس لئے ایک طرف اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور دوسری طرف کفر کا منظم حملہ۔ جب یہ دو چیزیں مل جائیں گی تو پھر کفّار جیت جائیں گے۔
اِنَّھُمْ
وہ یقینا (کسی) محاسبہ کا ڈر (اپنے دلوں میں ) نہیں رکھتے تھے۔ ۲۰؎
۲۰؎حل لغات
لَا یَرْجُوْنَ: رَجَا سے مضارع منفی کا جمع مذکّر کا صیغہ ہے اور رَجَا الشَّیْ ئَ کے معنے ہیں اَمَّلَ بِہٖ اس کی امید رکھی۔ خَافَ۔ کسی چیز سے ڈرا (اقرب)پس کَانُوْالَایَرْجُوْنَ کے معنی ہوںگے (۱)وہ امید نہیں رکھتے (۲) وہ ڈرتے نہ تھے۔
اَلْحِسَابُ: کے معنے ہیں اَلْعَدُّ: شمار کرنا۔ گننا۔ (اقرب)
تفسیر
آخرت کے لحاظ سے اس کے معنے یہ ہوں گے کہ بعث بعد الموت پر چونکہ یقین نہیں تھا اس لئے وہ ایسے کام نہ کرتے تھے جو ان کو اگلی زندگی میں فائدہ پہنچانے والے ہوتے۔ اُن کاموں کی اصل غرض دنیوی حالات ہؤا کرتے تھے صحیح محرّک اُن کے قلب میں نہیں تھا اس لئے وہ نیکی کو نہیں پا سکتے یَرْجُوْنَ کے معنے خوف کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور امید رکھنے کے بھی۔ اور آخرت کے لحاظ سے یہ دونوں معنی چسپاں ہو سکتے لَایَرْجُوْنَ حِسَابًا وہ خوف نہیں کرتے تھے کہ ہمارے اعمال کی سزا ہم کو ملے گی یا وہ امید نہیں رکھتے تھے کہ اگر ہم نیک اعمال کریں گے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کا بدلہ ملے گا۔ اسلئے رَجَاء کا لفظ یہاں استعمال کیا گیا ہے قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وُہ ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جو ایک ہی وقت میں کئی معنوں میں مستعمل ہو جاتے ہیں۔ یہاں بھی رَجَاء کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جو دو معنوں کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی امید اور خوف۔ درحقیقت انسانی اعمال میں دو وجوہ سے ہی مراد ہوتی ہے یا تو اس وجہ سے خرابی پیدا ہوتی کہ بد اعمال کی سزا کا اُسے کوئی ڈر نہیں ہوتا اور یا اس وجہ سے خرابی ہوتی ہے کہ نیک اعمال کی جزاء کا اُسے یقین نہیں ۔ اِنَّھُمْ کَانُوْا لَایَرْجُوْنَ حِسَابًا یہ دونوں باتیں بیان کر دی گئی ہیں یہ بھی کہ وہ اس بات سے ڈرتے نہیں تھے کہ اُن کے اعمال کا محاسبہ ہوگا اور یہ بھی کہ وہ امید نہیں رکھتے تھے کہ اگر وہ نیکی کریں گے تو اس کا کچھ بدلہ ملے گا۔ دنیوی زندگی کے متعلق ا س آیت کو سمجھا جائے تب یہ دونوں معنے چسپاں ہوتے ہیں یعنی قرآن مجید اور محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے انہوں نے اس لئے پیدا نہیں کیا اور اس لئے وہ مغضوب اور مقہود بن گئے کہ اُنہیں اس امر کا ڈر نہ تھا کہ ان کو اُن کی بدیوں کی سزا ملے گی۔ وہ کہتے تھے کہ ہم کیوں بدیاں چھوڑ یں ہمیں کسی ڈر نہیں ہے۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی وہ اس امر کی بھی امید نہیں رکھتے تھے کہ انہیں نیک اعمال ک اچھا بدلہ ملے گا۔ اور اس وجہ سے نماز ،روزہ اور دوسری اسلامی قیود کی طرف اُن کا دل مائل نہیں ہوتا تھا۔
اسلام کے مقابلہ کے لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان آیات کا یہ مطلب ہے کہ اُن کے دلوں میں سخت بُغض اور کینہ ہو گا وہ پوری کوشش کریں گے کہ اسلام مٹ جائے اور وہ کسی خطرہ کی پرواہ نہیں کریں گے مگر ساتھ ہی لَایَرْجُوْنَ حِسَابًا وہ کامیابی کی امید نہیں رکھیں گے۔ اُن کے دلوں میں مایوسی پیدا ہو جائے گی اور وہ خیال کریں گے کہ اب کفر کو فتح حاصل نہیں ہو سکتی۔ اور جس شخص کے اندر مایوسی پیدا ہو جائے اس کی دو ہی صورتیں ہوتی ہیں یا تو پاگلوں کی طرح حملہ کرتا ہے یا پھر مایوس ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔
وَّکَذَّبُوْا
اور ہمارے نشانات کو سختی کے ساتھ جھٹلاتے تھے ۲۱؎اور ہم نے (تو) ہر ایک چیز کو (پوری ) ؎پوری طرح گن رکھا ہے ۲۲؎؎
۲۱؎حل لغات
کَذَّ بُوْا: کذَّبَ سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے اور کذَّبَ اَلْاَمْرَ تَکْذِیبًا وَّکِذَّابًا کے معنے ہیں اَنْکَرَہٗ وَجَحَدَہٗ کس چیز کا شدت سے انکار کیا۔ جھٹلایا(اقرب) پس کذَّبُوا کے معنے ہوں گے۔ انہوں نے جھٹلایا۔ انکار کیا۔
کِذَّاب:۔ کَذَّبَ کا مصدر ہے جس کے معنے جھٹلانے کے ہوتے ہیں۔
تفسیر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ ہمارے نشانوں کو سخت جھٹلایا کرتے تھے یعنی نشانوں کے جھٹلانے کی وجہ سے ایمان لانے کی طرف اُن کو کوئی توجہ نہیں تھی۔
کذَّبُوا بِاٰیٰتِنَا کِذَّابًا اگر شروع زمانہ کے کافروں کے متعلق سمجھا جائے تو اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ چونکہ یہ لوگ ہماری ان پیشگوئیوں کو کہ اسلام کو غلبہ حاصل ہوگا اور قیامت آئے گی نہیں مانتے تھے اس لئے گمراہ ہو گئے۔قیامت پر یہ معنی اس طرح چسپاں ہو سکتے ہیں کہ چونکہ وہ قیامت کے منکر تھے اس لئے اُن کی یہ حالت ہوئی اور اگر کلام الٰہی یا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مراد لئے جائیںتو پھریہ مطلب بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اُن نشانات کو نہ مانتے تھے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مراد لئے جائیں تو پھر یہ مطلب بنتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اُن نشانات کو نہ مانتے تھے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے۔ اسی طرح آیات سے مراد کلام الٰہی بھی ہو سکتا ہے۔ پس کذَّبُوا بِاٰیٰتِنَا کِذَّابًا کا یہ مطلب ہو گا کہ چونکہ کلام الٰہی سے اُن کی فطر ت کا جوڑ نہیں اس لئے وہ اس کا قطعی طور پر انکار کرتے ہیں۔
۲۱؎حل لغات
اَحْصَیْنَا: اَحْصِیْ سے متکلم مع الغیر کا صیغہ ہے۔ اور اَحْصِیَ الشَّیْ ئَ اِحْصَائً کے معنے ہیں عَدَّہُ کسی چیز کو گنا ہ اور شمار کیا (اقرب)پس اَحْصَیْنَہُ کے معنے ہوں گے۔ ہم نے اس کو گن لیا۔
کِتَابًا: اَحْصٰی کا مفعول مطلق بھی ہو سکتا ہے اور حال بھی۔ مفعول مطلق ہونے کی صورت میں اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ہم نے ہر چیز کو پوری طرح گن رکھا ہے۔ اور حال ہونے کے لحاظ سے اس کے یہ معنی ہوں گے اَحْصَیْنٰہُ حَالَ کَوْنِھَا کِتَابًا اَیْ مَکْتُوْبًا۔ یعنی ہم نے ہر چیز کو اس حال میں گن چھوڑا ہے کہ وہ لکھی ہوئی ہے۔ کیونکہ کِتَاب بمعنے مَکْتُوْب بھی آتا ہے۔
کتاب کے معنے ہیں۔ مَایُکْتَبُ فِیْہِ۔ وہ اوراق جن میں لکھا جاتا ہے۔ اَلْقَدَرُ ۔قدر ۔ اَلْحُکْمُ۔ حکم۔ اَلْفَرْضُ۔ اَلدَّوَاۃُ۔ دوات (اقرب)
تفسیر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے ہر چیز کا اچھی طرح اندازہ کر رکھا ہے یا ہر چیز کو ہم نے ایک اندازہ کی جگہ میں محفوظ کر رکھا ہے۔ مطلب یہ کہ وہ ایسی جگہ محفوظ ہیں جہاں سے کوئی چیز ضائع نہیں کر سکتی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کوئی انسانی عمل ایسا نہیں جو ضائع ہو جا تا ہو بلکہ ضرور کسی نہ کسی شکل میں محفوظ ہوتا ہے۔ ریڈیو کی ایجاد نے اس صداقت کو بہت بڑا ثبوت مہیا کر دیا ہے ہزاروں ہزار میل پر ایک شخص اپنی زبان سے کوئی لفظ نکالتا ہے تو فوراً ہم تک پہنچ جاتا ہے اور ہم گھر بیٹھے ہزاروں ہزار میل دور کی آواز اس طرح سُن لیتے ہیں جیسے وہ ہمارے پاس بیـٹھا باتیں کر رہا ہے۔ مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ کوئی تعجب نہیں اگر یہ علوم ترقی کرتے کرتے اس حالت کو پہنچ جائیں کہ گزشتہ زمانہ کی آوازوں کو بھی ریکارڈ کیا جاسکے۔ اگر کوئی ایسا آلہ نکل آئے تو ہو سکتا ہے ہم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ حدیثیں جو آج ہم کتابوں میں پڑھتے ہیںخُود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آوازمیں سُن لیں۔ یہ بات موجودہ زمانہ کی ایجادات کو دیکھتے ہوئے ناممکن نظر نہیں آتی۔ زمانہ بہت ترقی کر چکا ہے ممکن ہے آئندہ چل کر کوئی ایسا آلہ ایجاد ہو جائے اور گزشتہ زمانہ کو بھی اپنے کنٹرول میں لایا جاسکے۔ اس صورت میں ہمیں گزشتہ زمانہ کی آوازیںآسانی سے سُنائی دینے لگیں گی۔ ہم جس صدی کے جس سال کی بات سُننا چاہیں گے اُس صدی کے اُس سال پر اُس آلہ کو نصب کر دیں گے اور آوازوں کو سُننا شروع کر دیں گے کاش دنیا اس ترقی سے صداقت کی طر ف آجائے۔
فَذُوْقُوا
پس (اپنے اپنے اعمال کے مطابق) عذاب چکھو۔ اور ہم تم کو (عذاب کے بعد) ٭ عذاب ہی دیتے چلے جائیں گے۔۲۳؎
۲۳؎ حل لغات
اَلْعَذَابُ: اَلْعَذَاب کُّلُّ مَاشَقَّ عَلیَ الْاِنْسَانِ وَمَنَعَہٗ عَنْ مُرَادِہٖ عذاب کے معنے ہیں ہر وہ چیزجو انسان میں شاق گزرے اور حصول مراد سے اُسے روک دے۔ وَفِیْ الْکُلِّیَاتِ کُلُّ عَذَابٍ فِیْ الْقُراٰنِ فَہُوَا لتَّئِفَۃٌ فَاِنَّ الْمُرَادَالضَّرْبُ اور کلیات میں لکھا کہ لفظ عَذَاب سے مراد قرآن مجید میں ’’عذاب دینا‘‘ ہوتا ہے سوائے وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا کی آیت کے وہاں ظاہری سزا مراد ہے۔ (اقرب)
اَلْعَذَابُ ھُوَالْاِیْجَاجُ الشَّدِیْدُ۔ عذاب کے معنے ہیں سخت تکلیف دینا۔ فَالتَّعْدِیْبُ فِیْ الْاَصْلِ ھُوَ حَمْلُ الْاِنْسَانِ اَنْ یَّعْذِبَ اَیْ یَجُوْعَ وَیَسْھَرَ یعنی اگر مادہ کے لحاظ سے دیکھا جائے تو اُس کے معنے ہیںکسی کو بھوکا اور بیدار رکھنا۔ کیونکہ عَذَبَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں۔ اُس نے کھانا پینا ترک کر دیا۔ وَقِیْلَ اَصْلَہٗ مِنَ الْعَذَابِ: فَعَذَّبْنَہٗ اَیْ اَزَلْتُ عَذْبَ حَیٰوتِہٖ بعض نے کہا ہے کہ عذَاب عَذْبٌ سے نکلا ہے۔ جس کے معنے میٹھے پانی کی ہیں اور تَعْذِیْب کے معنے ہیں کہ اُسے زندگی کی حلاوت سے محروم کر دیا (مفردات) پس عَذَّبَ کے معنے ہیں کہ اُسے زندگی کی حلاوت سے محروم کر دیا (مفردات) پس عَذَاب کے معنے ہوئے (۱) تکلیف (۲) ایسی چیز جو زندگی کی حلاوت سے محروم کر دے۔
(۳)جو مقصود حیات سے محروم کر دے۔
تفسیر
مقہور قوموں کا دنیا میں یہی نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عذاب اُس سے ٹلے گا نہیںبلکہ مطلب یہ ہے کہ مقہور قومیں جب اپنی آزادی کے لئے کوشش کرتی ہیںتو وہ اور زیادہ عذاب میں مبتلہ ہو جاتی ہیںاور جب تک اُن کے غلبہ کا زمانہ نہیں آتاان کی ہر کوشش اپنے مقصد سے اور زیادہ دور کر دیتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس جنگ میں انگریز بار بار بلجیم اور فرانس والوں سے کہہ رہے ہیں کہ تم جلدی اُٹھنے کی کوشش نہ کرو۔ اگر تم جلدی اُٹھنے کی کوشش کرو گے اَور زیادہ مصیبت میں مبتلا ہو جائو گے چنانچہ جب بھی وہ اپنی آزادی کے لئے کوشش کرتے ہیں جرمن انہیں اور زیادہ تکلیفیں دینی شروع کر دیتے ہیں۔ پس فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا کا یہ مطلب ہے کہ جب تک اسلام کے غلبہ کا زمانہ ہے تمہاری کوششیں بیکار ہیں جب تک خاموشی سے بیٹھے رہو گے لیکن جب تہور سے کام لے کر مسلمانوں کے مقابلہ میں اُٹھو گے اُس وقت تم اپنا ہی نقصان کرو گیااسلام اور مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکو گے۔ قیامت کے لحاظ سے بھی یہ معنی ٹھیک ہیں۔ انسان پر جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اس کی تکلیف بڑھتی جاتی ہے پہلے دن بخار کی حالت اَور ہوتی ہے دوسرے دن اَور۔ اور جب بخار لمبا ہو جائے تو مریض کی حالت بالکل اَور ہو جاتی ہے۔ پس عذاب کا زمانہ جتنا لمبا ہوتا چلا جائے گا اُن کی تعذیب بھی بڑھتی چلی جائے گی۔
پس اس آیت سے یہ مراد نہیں کہ اُن کی نجات نہیں ہو گی بلکہ مراد یہ ہے کہ عذاب کے وقت وہ عذاب میں ہی ترقی کریں گے جوں جوں مرض بڑھتی ہے تکلیف بھی بڑھتی جاتی ہے اور ضعف بھی زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے لیکن اس خلاف کبھی عذاب برداشت کرنے کی عادت بھی بڑھ جاتی ہے مگر اُس کا علاج اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ بتا دیا ہے کہ جب اُنہیں عذاب کی عادت ہو جائے گی تو اُن کو نئی جلود دے دی جائیں گی۔
فَذُوْقُوْا فَلَنْ نَّزِیْدَکُمْ اِلَّا عَذَابًا کے دنیوی لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ مسلمان روز بروز ترقی کرتے چلے جائیں گیااور جوں جوں وہ ترقی کریں گے کفّار و مشرکین اُن کے مقابلہ میں روز بروز دبتے چلے جائیں گے۔
اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ
یقینا متقیوں کے لئے کامیابی مقدّر ہے ۲۴؎
۲۴؎حل لغات
مَفَازٌفَازَ کا مصدر بھی ہو سکتا ہے اور ضرف مکان کا صیغہ بھی۔ فَازَمِنْ (یَفُوْزُفَوْزًا) کے دو معنے ہوتے ہیں۔ ایک فَازَ مِنْ مَکْرُوْہٍ اور ایک فَازَ مِنْ مَّکْرُوْہٍ کے معنے ہوتے ہیں فَجَا یعنی وہ بُری بات سے بچ گیا اور فَازَا بِخَیْرٍ کے معنے ہوتے ہیں ظَفَرَ بِہٖ اچھی بات اس کو حاصل ہو گئی۔ (اقرب) مفردات میں ہے اَلْفَوْزُ: اَلظَّفَرُ بِالْخَیْرِ مَعَ حُصُوْلِ السَّلامَۃِ۔ یعنی کسی کا بہترین مقصود کو اس طرح پر پا لینا کہ وہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ رہے فَوْز کہلاتا ہے۔ (مفردات) پس اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ مَقَالًاکے معنے ہوئے (۱)کہ متقیوںکو کامیابی حاصل ہو گی یعنی وہ تمام قسم کی بھلائیوں کو پالیں گے اور تمام مصائب سے اُن کونجات مل جائے گی (۲)یہ کہ متقیوں کو یقینا خدا ایک قسم کا مقام عطا فرمانے والا ہے جہاں وہ مصائب سے نجات پا جائیں گے اور تمام قسم کی برکات اور کامیابیوں کو حاصل کرلیں گے۔ ایک مقام تو اُخروی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ وعدہ ہے کہ اس مقام میں نہ کسی قسم کا شر ہے اور نہ وہاں خیر کی کوئی کمی ہے بلکہ لَھُمْ مَا یَشَائُ وْنَ (الشوریٰ ع ۳ ۴ )یعنی جو کچھ وہ چاہیں گے اس میں اُن کو حاصل ہو جائیں گے۔ پس ایک تو وہ مقام ہے جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی بعث بعد الموت والی زندگی۔ ددسرے اس دنیا میں بھی دنیا سے یہ وعدہ ہوتا ہے وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ (الرحمن ع ۳ ۳ ۱ )کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے مقام سے ڈرتا ہے اُس کے لئے اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ جنت کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور اگلے جہان میں بھی وہ اس کے لئے جنت کے سامان پیدا کرے گا۔
تفسیر
مَیں بتا چکا ہوں کہ اس سورۃ میں غلبۂ اسلام کا بھی ذکر ہے اور قرآن کریم کے غلبہ کا بھی اس میں ذکر ہے پس اس میں پیشگوئی کی گئی ہے کہ مومنا ت کے لئے مکروہات سے نجات حاصل کرنے کے سامان پیدا ہو جائیں گے اور ان کوایسی جگہیں عنایت ہو ں گی جو مقام نجات یا مقام کامیابی کہلانے کی مستحق ہوں گی۔ یہ پیشگوئی ایسے وقت میں کی گئی تھی جب مسلمانوں کے لئے کسی قسم کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے یہ سورۃ مکّی ہے اور مکّی بھی ابتدائی زمانہ کی ہے۔ اُس وقت اسلام میں صرف دس بارہ آدمی شامل تھے اور ان کو کفار کی طرف سے ایسی ایسی تکالیف دی جاتی تھیں جن کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ غلام جو ابتدائی زمانہ میں مسلمان ہو گئے تھے کفّار مکّہ اُن کو تپتی ریت پر عرب جیسے گرم علاقہ میں لٹا دیتے اور جب اس کے نتیجہ میں بھی وہ اسلام سے بیزاری کا اظہار نہ کرتے تو تپتے ہوئے پتھر اُن کے سینہ پر رکھ دیتے بلکہ بعض دفعہ کوئی آدمی اُن کے سینہ پر چڑھ جاتا۔ وہاں عام طور پر بارشوں کے اثر سے اپنے مکانات کوبچانے کے لئے دروازوں کے آگے بڑے بڑے پتھر رکھ دیتے تھے۔ جن کو کھنگر کہتے ہیں تاکہ بارش کی وجہ سے دیواریں خراب نہ ہوں۔ کفّار مکہ کی عادت تھی کہ وہ مسلمانوں کو جب دکھ دیتے اور اُن کی ٹانگوں میں رسی باندھ کر مکّہ کی گلیوں میں گھسیٹتے تو ان کھنگروں پر سے بھی اُن کو گھسیٹتے ہوئے چلے جاتے اور اُن کے جسم لہو لہان ہو جاتے۔ ایک صحابی خباب بن ارتّ نے جو پہلے غلام تھے اور غلامی کی حالت میں اسلام قبول کرنے کی وجہ سے اُنہیں بڑی بڑی تکالیف دی گئی تھیں ایک دفعہ فتوحات کے زمانہ میں حضرت عمر ؓ نے اُن سے مشرکوں کی ایذادہی کے متعلق دریافت کیا تب انہوں نے اپنی پیٹھ سے کپڑا اُٹھایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ان کی پیٹھ کی کھال ایسی تھی جو عام انسانوں کی نہیں ہوتی۔ وہ دیکھ کر حیران ہوئے اور کہنے لگے کیا آپ کو یہ کوئی بیماری ہے؟ وہ کہنے لگے بیماری نہیں بلکہ پتھروں پر ہمیں گھسیٹا جاتا تھا اس کی وجہ سے زخم اور خراش ہو ہو کر میری پیٹھ کا چمڑا ایسا ہو گیا۔ (اسدالغابہ)
یہ حالات تھے جو مسلمانوں پر وارد ہورہے تھے اُدھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ حالت تھی کہ آپ باہر نکل کر نماز نہیں پڑھ سکتے تھے۔ حضرت اُم ہانی ؓ کے مکان میں آپ چند ساتھیوں کو لے کر جمع ہو جاتے۔ نماز پڑھتے اور دین کی باتیں کرتے۔ کھلے میدان میں آپکی نمازیں پڑھنا دین کی باتیں کرنا بالکل نا ممکن تھا۔ اسی طرح قرآن کریم کو باہر نکل کر پڑھنا یا اپنے صحن میں ہی بلند آواز سے پڑھنا۔ یہ بھی جُرم سمجھا جاتا تھا جب مصائب حد سے بڑھ گئے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہ ؓ آپ سے اجازت لے کر مکّہ مکرمہ سے باہر جانے شروع ہو گئے۔ ایک دفعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت کا ارادہ کیا۔ وہ اپنا سامان لے کر جارہے تھے کہ مکّہ کا ایک رئیس ابن الدغنہ انہیں ملا۔ اُس نے آپ سے پوچھا کہ آپ اسباب باندھ کر کہاں جارہے ہیں؟ اُنہوں نے کہا کہ چونکہ اس جگہ دین کی آزادی نہیں ہے اور میری قوم دشمنی کرتی ہے اس لئے میں مکّہ چھوڑ کر جارہا ہوں۔ اُس نے کہا وہ شہر کس طرح آباد رہ سکتا ہے جس میں سے آپ جیسے آدمی نکل جائے۔ میں آپ کا ضامن ہوں آپ باہر نہ جائیں۔ چنانچہ اُس نے اعلان کر دیا کہ (حضرت) ابو بکر ؓمیری حفاظت میں ہیں۔ اہل عرب میں بہت بڑی خوبی خود سری پائی جاتی تھی لیکن اس کے باوجود ان میں یہ خوبی تھی کہ جب کوئی شخص کسی دوسرے کو اپنی حفاظت اور پناہ میں لے لیتا تو پھر اُسے کوئی شخص تکلیف نہیں پہنچا سکتا تھا اور اگر کوئی پہنچانا چاہتا تودُوسرے اُسے روک دیتے کہ تم ایسا مت کرو یہ فلاں شخص کی حفاظت میں ہے۔ اُس نے بھی جب اعلان کر دیا کہ ابو بکرؓ میری حفاظت میں ہے تو حضرت ابو بکر ؓ اطمینان کے ساتھ مکّہ میں رہنے لگ گئے۔ ایک روز وہ اپنے صحن میں باہر نکل کر قرآن شریف پڑھ رہے تھے کہ اِ پر رقّت غالب آگئی اور اُن کے آنسو بہنے شروع ہو گئے۔ حضرت ابو بکر ؓ کے متعلق آتا ہے کَانَ رَجُلًا بَکاَّئً یعنی اُن کو قرآن شریف پڑھتے وقت بہت رقّت آجایا کرتی تھی اور وہ رو پڑتے تھے۔ اُن کے قرآن شریف پڑھنے کی آواز سُن کر بچے اور عورتیں اردگرد سے نکل کر وہاں جمع ہو جایا کرتی تھیں۔بچوں اور عورتوں میں خصوصیت سے یہ بات پائی جاتی ہے کہ جب اُنہیں کوئی نئی چیز نظر آئے تو دیکھنے کے لئے جمع ہو جاتے ہیں۔ اُن کے لئے قرآن شریف بالکل نیا کلام تھا اور جب کوئی بڑا آدمی رو رہا ہو تو لازمًا دوسروں کی توجہ پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اُنہوں نے اپنے دروازوں سے لگ کر قرآن شریف سُننا شروع کر دیا۔ نتیجہ ہؤا کہ جب قرآن کریم کی آواز اُن کے کانوں میں پڑی اُدھر حضرت ابو بکر ؓ کی رقّت اور اُن کے گریہ کو دیکھا تو محلہ کی عورتیں بھی متاثر ہونے لگیں اور اس طرح اس محلہ میں جس میں حضرت ابو بکر ؓ رہتے تھے اسلام کا چرچہ شروع ہو گیا اور عورتوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ تو بڑی اچھی باتیں ہیں۔ جب اُن کے خاوندوں کو علم ہؤا کہ ہماری عورتیں اس طرح متاثر ہو رہی ہیں تو وہ اس رئیس کے پاس گئے جس نے اپنی حفاظت میں لیا تھا اور کہا کہ آپ نے ابو بکر ؓ کو اپنی حفاظت میں لے کر یہ کیا مصیبت پید اکر دی ہے کہ ہماری عورتیں اور بچے قرآن سے متاثر ہوتے جا رہے ہیں اگر یہی حالت جاری رہی تو تمام محلہ مسلمان ہو جائے گا۔ پس یا تو اُسے سمجھائیں کہ وہ قرآ ن شریف بلند آواز سے نہ پڑھا کرے اور یا اپنی حفاظت واپس لے لیں۔ وہ رئیس حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ اس اس طرح کرتے ہیں جس پر محلہ والے سخت شکوہ کر رہے ہیں اور کہتے کہ اگر یہی طریق جاری رہاتو ہماری عورتیں اوربچے مسلمان ہو جائیں گے اس لئے آپ یہ کام چھوڑ دیں اور اندر بیٹھ کر قرآن شریف پڑھا کریں ورنہ مجھے اپنی حفاظت کو واپس لینا پڑے گا۔ حضرت ابو بکرؓ نے فرمایاکہ آپ اپنی حفاظت بے شک واپس لے لیں میں اللہ اور ا س کے رسول کی حفاظت میں رہنا پسند کرتا ہوں۔ (تاریخ خمیس جلد اول و بخاری مصری جلد دوم مناقب الانصار باب الہجرت) چنانچہ ابن الدغنہ وہاں سے آیا اور اُس نے اپنی حفاظت واپس لینے کا اعلان کر دیا۔ بعد میں حضرت ابو بکر ؓ کی رائے بھی ہجرت کے متعلق بدل گئی اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ جب آپ کو ہجرت کی اجازت ہو اُسوقت بھی آپ اپنے ساتھ لے چلیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس امر کو منظور فرما لیا۔ ان حالات میں مسلمان مکّہ کے اندر اپنی زندگی کے دن بسر کرتے تھے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر مکہ والوں کے مظالم کی مثالیں جمع کی جائیں تو وہ سینکڑوں کی تعداد میں نکل آئیں گی جن سے نہ صرف اُن مظالم کا پتہ لگ سکتا ہے جو اہل مکہ مسلمانوں پر کیا کرتے تھے بلکہ لوگوں کو یہ سبق بھی مل سکتا ہے جو اہل مکہ مسلمانوں پر کیا کرتے تھے بلکہ لوگوں کو یہ سبق بھی مل سکتا ہے کہ انہیں دین کی خاطر کس طرح قربانیوں سے کام لینا چاہیئے۔ اس حالت میں جب مسلمان انتہائی تکلیف میں اپنی زندگی بسر کر رہے تھے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا یقینا یقینا جو مسلمان اور مُتقی ہیں اُن کی مکروہات ہیں ایک دن دور ہو جائیں گی اور تکلیف دہ باتیں جو آج پیدا ہو رہی ہیںخدا اُن سب کو مٹا دے گا اور وہ جنگیں اُن کو حاصل ہوں گی جہاں مکروہات اُن کے قریب نہیں پھٹکیں گی۔ جہاں کامیابی اُن کے پائوں چومے گی اور جہاں آرام اور آسائش کے کے دروازے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے لئے کھول دیئے جائیں گے چنانچہ پہلے خدا نے حبشہ کو مَفَازبنایا۔ مسلمان وہاں ہجرت کرگئے اور اللہ تعالیٰ نے اُن کے لئے ہر قسم کے سامانِ راحت بہم پہنچا دیئے۔ یہ سورت چونکہ ابتدائی مکّی سورتوں میں سے ہے اس لئے حبشہ کی ہجرت سے بھی پہلے کی ہے۔ حبشہ کی ہجرت ۵ ن کے نصف میں ہوئی (کامل ابن اثیر) اور یہ سورۃ پہلے دو تین سال کی ہے پس اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا کے مطابق پہلا مقامِ فوز جو مسلمانوں کے لئے ظاہر ہؤا وہ حبشہ ہے۔چنانچہ حبشہ میں خدا تعالیٰ کی نصرت اور اس کی تائید کا کیسا زبردست نشان ظاہر ہؤا۔ دشمن نے چاہا کہ حبشہ پہنچ کر بھی مسلمانوں کو مبتلائے آلام کرے اور اُنہیں اس ملک میں بھی آرام اور چین سے نہ رہنے دے۔ مگر وہ خدا جس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ متّقیوں کو ہر قسم کے مکروہات سے بچا کر ایسے مقام پر لے جائے گا جو اُن کے آرام وسکون کا موجب ہو گا اُس نے کفّارِ مکّہ کو اپنی کوشش میں ناکام کیا اور مسلمان اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق حبشہ میں نہایت آرام اور عزّت کے ساتھ رہے۔ چنانچہ تاریخوں میں آتا ہے جب مسلمان حبشہ کی طرت ہجرت کر کے گئے تو عمرو بن العاص کا ایک اور رئیس عبداللہ ابن ابی ربیعہ دونوں حبشہ گئے۔ ان کو مکّہ والوں نے اس غرض کے لئے مقرر کیا تھا کہ تم جائو اور حبشہ کے بادشاہ سے یہ عرض کرو کہ یہ لوگ ہمارے بھاگے ہوئے غلام ہیں اگر آپ ان کو پنا ہ دیں گے تو ہمارے تعلقات آپ سے اچھے نہیں رہیں گے۔ یہ لوگ حبشہ گئے اور اپنے ساتھ وہ بڑے بڑے تحفے لے گئے جو اُن کی قوم کے لوگوں نے بادشاہ اور اُس کے وزراء اور پادریوں وغیرہ کے لئے دئیے تھے اور کہا تھا کہ یہ تحفے بادشاہ کو دینا۔ یہ وزراء کے سامنے پیش کرنا اور یہ پادریوں وغیرہ کو دینا۔ چنانچہ یہ لوگ بڑی شان کے ساتھ حبشہ پہنچے اور ہر ایک کے سامنے انہوں نے تحائف پیش کئے پہلے تو بادشاہ نے بڑا اعزاز کیا مگر جب انہوں نے تجویز پیش کی کہ یہ لوگ ہمارے ملک سے بھاگے ہوئے ہیں ان کو ہمارے ساتھ واپس بھیج دیا جائے اس کے سفارش بادشاہ کے وزراء نے بھی کی۔ مگر بادشاہ نے کہا۔ کہ جب تک مُسلمانوں کو بلا کر اُن کے حالات دریافت نہ کرلے وہ کسی کو اپنے ملک سے نہیں نکال سکتا۔ چنانچہ بادشاہ نے مسلمانوں کو بلوایا اور پوچھا کہ آپ لوگوں کے کیا عقائد ہیں؟ تب مسلمانوں کے نمائندہ جعفر بن ابی طالب نے قرآن کریم کی چند آیات پڑھیں جن میں اسلامی عقائد کا ذکر آتا تھا اور یہ بھی کہ مسلمان حضرت مسیحؑ کے متعلق کیا عقیدہ رکھتے ہیں بادشاہ نے وہ آیات سے سُن کر کہا میں تو ان عقائد میں کوئی بری بات نہیں دیکھتا۔ دوسرے دن پھر دونوں سردار قریش دربار میں آئے اور کہا۔ اے بادشاہ! یہ مسلمان مسیح کی ہتک کرتے ہیں تب اُس نے مسلمانوں کو طلب کیا اور اُن کا جواب سُننے پر دربار میں اُس نے ایک تنکا اُٹھایا اور اُسے اُٹھا کر کہنے لگا جو کچھ ان لوگوں نے حضرت مسیح ؑکے متعلق بیان کیا ہے مَیں اُس سے ایک تنکے کے برابر بھی مسیح کو زیادہ نہیں سمجھتا اُن کا وہی رتبہ سمجھتا ہوں جو انہوں نے بیان کیا ہے۔ اِس پر اُس کے درباری بہت چیں بچیں ہوئے۔ لیکن بادشاہ نے کہا کہ جب میرا باپ مرا تھا مَیں بچہ رہ گیا تھا۔ تم لوگوں نے میرے چچا کے ساتھ مل کر چاہا کہ اس حکومت پر قبضہ کر لو۔ تب خدا نے اپنے فضل سے مجھے طاقت بخشی اور اُس نے تم کو شکست دے کر مجھے اس تخت پر بٹھا دیا۔ جس خدا نے مجھ کو اس بیکسی کی حالت میں بادشاہت کے تخت پر بٹھا دیا اور میرے دشمنوں کو ناکام ونامراد کیا اُس خدا کی نصرت پر مجھے آج بھی یقین ہے اور آج جب مُجھے اُس نے طاقت بخشی ہے مَیں بے شرمی نہیں کر سکتا کہ اُس کے مظلوم بندوںکی مدد نہ کروں۔ اگر تم سارے اُس کو برا بھی منائو تب بھی مَیں اُن کو یہاں سے نہیں نکالوں گا۔ چنانچہ سردارانِ قریش نے جو تحفے لائے تھے ان کو وہ واپس کر دیئے گئے اور وہ ناکام ونامراد لوٹے (تاریخ خمیس جلد اوّل)غرض اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا (یعنی متقیوں کو کامیابی اور نجات کا مقام ملنے والا ہے)کا نہایت ہی شاندار نظارہ صحابہ ؓ نے وہاں دیکھا اور انہوں نے اس خدائی وعدہ کو پورا ہوتے ہوئے وہاں دیکھ لیا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایسی جگہ دے گاجہاں مکروہات سے یہ لوگ نجات پا جائیں گے اور آرام اور راحت کو دیکھیں گے۔ پھر دوسرا نظار ہ اس کا مدینہ میںنظر آیا جبکہ مسلمان وہاں گئے اور اللہ تعالیٰ نے مدینہ کے لوگوں کی توجہ پھیر دی۔ ابتداء میں صرف چند لوگ مکہ میں حج کے لئے آئے تھے کہ انہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خبر پہنچی اور وہ آ پ پر ایمان لے آئے ۔دوسرے سال بعض اور لوگ مدینہ کے حاجیوں میں سے لے آئے۔ اور انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں تیسرے سال ایک وفد ۷۶آدمیوں پر مشتمل بھیجا جس نے یہ اقرار کیا کہ مدینہ میں آپ پر اور آپ کے ساتھیوں پر اگر کوئی دشمن حملہ کرے گاتو ہم اُس سے لڑیں گے اور آپ کی حفاظت کریں گے۔ چنانچہ اس معاہد ہ کے مطابق رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ ؐکے صحابہ مدینہ میں تشریف لے گئے (ابن ہشام) حبشہ میں جو لوگ ہجرت کر کے گئے تھے وہ بھی اس دوران واپس آ کر مدینہ پہنچ گئے۔ اس لے وہ صحابہ ہجرتَین کہلاتے ہیں یعنی دو ہجرتیں کرنے والے۔ کیونکہ انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی اور مدینہ کی طرف بھی۔ پھر مدینہ کے لوگوں نے جس جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور مہاجرین کی حظاظت کی یہ تاریخ کا ایک شاندار ورق ہے اَور قرآن کریم کی اس پیشگوئی کی صداقت کا ایک زبردست ثبوت ہے کہ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا یقینا ہم متقیوں کو وہ جگہ دیں گے جہاں وہ مکروہات سے بچ جائیں گے اور کامیابیوں کا منہ دیکھیں گے۔ چنانچہ پہلا مَفَازَ اللہ تعالیٰ نے حبشہ کو بنایا اور مَفَاز اللہ تعالیٰ نے مدینہ کو بنایا۔ ابتدائی سالوں کی تمام اسلامی تاریخ اسی آیت کی تشریح ہے۔ حبشہ کا سفر اور مدینہ کے ابتدائی ایام کی تاریخ سب کی سب اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا والی پیشگوئی کے پورا ہونے کا ایک نہایت ہی روشن اور زبردست ثبوت ہے۔
دوسرے معنے اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا کے یہ ہیں۔ کہ متقیوں کوہم کامیاب و بامراد کریں گے۔ یہ معنے بھی مدینہ منوّرہ میں پورے ہوئے۔ اور پھر صرف مدینہ منوّرہ ہی نہیں بلکہ مدینہ منوّرہ کے بعد سارا عرب اور پھر ساری وسطی دنیا اس پیشگوئی کی صداقت کا ایک نشان تھی کہ کس کس طرح یہ لوگ با مراد ہوئے اور کس کس طرح انہوں نے کامیابیاں حاصل کیں۔ ہر قوم جو اُن کے مقابلہ میں اُٹھی اُسے شکست ہوئی۔ ہر وہ طاقت جو مسلمان سے ٹکرائی وہ ذلیل ہوئی۔ قیصر وکسریٰ کے خزانے فتح ہوئے اور وہ ان مسلمانوں کو ملے۔ مدینہ منورہ ایک چھوٹی سی بستی تھی جہاں گھر میں باامن طور پر رہنے کا کوئی سامان نہ تھا۔ چنانچہ اسی لئے مسلمان یہود سے مختلف معاہدات کرتے رہے تاکہ وہ غداری نہ کریں اور مسلمانوں کے ضعف کا موجب نہ بنیں۔ مگر وہ چھوٹی سی بستی ایک دن ساری دنیا کا مرکز بن گئی۔ اگر مدینہ منورہ سے کوئی حکم نکلتا تھا تو ساری دُنیا کانپ اُٹھتی تھی۔ اور وہ سمجھتی تھی کہ اس حکم کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ پھر مدینہ منورہ وہی بستی تھی جہاں ایک دن قیصر و کسریٰ کے خزائن آئے اور مسلمانوں میں تقسیم ہوئے یہاں تک کہ اسی مدینہ میں کسریٰ کے سونے کے کنگن ایک صحابی سراقہ بن مالکؓ کے ہاتھوں میں پہنائے گئے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک دفعہ ہجرت کے سفر میں اُن سے کہا تھا میں تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دیکھتا ہوں۔ جب کسریٰ کی حکونت تباہ ہوئی اور اُس کے سونے کے کنگن مدینہ میں آئے تو حضرت عمرؓ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے جبری طورپر اس صحابی کے ہاتھ میں سونے کے کنگن ڈالے(اصابہ جلد ۳) اب کجا مدینہ منورہ جو ایک چھوٹی سی بستی تھی اور کجا کسریٰ کے سونے کے کنگن جو ایک غریب صحابی کے ہاتھوں میں پہنائے گئے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ مَفَازَ کا لفظ ہلاکت سے نجات کی جگہ کے معنوں کی رُو سے تو حبشہ اور مدینہ پر صادق آتا ہے لیکن دوسرے معنوں یعنی کامیابی کے معنوں کی رُو سے مدینہ ہی مَفَازثابت ہؤا۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایاتھا کہ اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا تو اس کے معنے یہ تھے کہ میں تم کو مدینہ دینے والا ہوں جو مقام فوز ہے اور اس آیت میں گو ہجرت اُولیٰ کی بھی پیشگوئی تھی مگر زیادہ وضاحت اور شان سے ہجرت ثانیہ کی پیشگوئی تھی۔
ایک یورپین مصنف مدینہ کی اس حالت کو دیکھ کر ایسا متاثر ہؤا کہ وہ اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ تم کچھ کہہ لو تم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اس کے ساتھیوں کو۔ لیکن میں تو جب یہ بات دیکھتا ہوں کہ مدینہ میں ایک چھوٹی سی مسجد میں جس پر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی ہوئی ہے تو جب بارش ہوتی ہے تو اس میں سے پانی ٹپک پڑتا ہے نماز پڑھتے ہیں تو اُن لوگوں کے گھٹنے اور ماتھے کیچڑ سے لت پت ہو جاتے ہیں۔ اُس مسجد میں ننگی زمین پر بیٹھے ہوئے ایسے آدمی جن کے نہ سروں پر ٹوپیاں ہیں نہ اُن کے تن پر لباس ہے دنیا کو فتح کرنے کے مشورہ کر رہے ہیں ا ور وہ اس یقین اور وثوق کے ساتھ یہ باتیں کرتے ہیں کہ گویا دنیا کو فتح کرنا ان کے لئے معمولی بات ہے کیونکہ اُن کے نزدیک یہ خدا کا وعدہ ہے جو کبھی ٹل نہیں سکتا۔ اور پھر وہ ایسا ہی کر کے دکھا دیتے ہیں۔ تو اس بات کو دیکھ کر میرا دل یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ مَیں ان کو جھوٹا اور فریبی کہوں تو اِنَّ لَلْمُتَّقِیْنَ مَفَازًا میں جو پیشگوئی کی گئی تھی کہ مسلمانوں کو یہ مقام ملے گا جو ان کی کامیابیوں اور فتوحات کا مرکز ہوگا۔ پہلے وہ انہیں مکروہات سے نجات دلائے گا اور پھر اُن کی کامیابیوں اور فتوحات سے حصہ دے گا۔ اس پیشگوئی کا نظارہ مدینہ منورہ سے بڑھ کراور کہیں نظر نہیں آسکتا۔ مدینہ منورہ سے بڑھ کر اور کوئی مقام ایسا نظر نہیں آتا جو ایسا مرکز ہو جیسے مدینہ اسلام کا مرکز بنا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ لنڈنؔ اور برلنؔ اور پٹسؔبرگ وغیرہ بھی بڑے بڑے مرکز ہیں ان کے مقابلہ میں مدینہ کی مرکزی حیثیت کس طرح پیش کی جا سکتی ہے مگر وہ کہنے والا یہ نہیں سمجھتا کہ یہ مقامات وہ ہیں جنہیں پہلے سے طاقت حاصل تھی۔ مگر مدینہ وہ مقام تھا جسے کوئی طاقت حاصل نہیں تھی مگرپھر بھی وہ ساری کامیابیوں کا مرکز بن گیا اور اس زمانہ کی پیشگوئی کے مطابق بنا جب مسلمانوں کے لئے سر چھپانے کی جگہ بھی نہ تھی۔
حَدَآئِقَ
(یعنی) باغات اور انگور ۲۵؎
۲۵؎ حل لغات
حَدَآئِق: حَدِیْقَہٌ کی جمع ہے اور اَلْحَدِیْقَۃُ کے معنے ہیں اَلْبُسْتَانُ یَکُوْنُ عَلَیْہِ حَائِطٌّ وہ باغ جس کے ارد گرد دیوار ہو (اقرب)
اَعْنَاب: عِنْبٌ کی جمع ہے اور عِنْبٌ کے معنے انگور کے ہوتے ہیں یعنی انگور کے پھل کو عربی زبان میں عِنْبٌ کہتے ہیںاور کَرَمٌ انگور کی بیل کو کہا جاتا ہے لیکن عِنْبٌ انگور کو اس وقت کہا جاتا ہے جبکہ وہ تازہ ہو اگر وہ خشک ہو جائے تو اُسے زَبِیْب کہتے ہیں (اقرب) نیز عِنْبٌ سے ہی شراب بنتی ہے۔ دراصل کسی چیز کا جب کسی دوسری چیز میں کوئی غالب اثر پایا جائے تو اُس کانام بعض دفعہ اُسی کے نام پر رکھ دیتے ہیں ۔ عِنْب سے چونکہ خَمْر بنتی ہے اس لئے عربی زبان میں عِنَب کے ایک معنے خَمَر کے بھی کئے جاتے ہیں۔
تفسیر
حَدَائِق بدل ہے مَفَازًا کا۔ لیکن میرے نزدیک یہ بدلِ کُل نہیں بلکہ بدل اشتمال ہے یعنی کچھ جُزئیات اس کی بتائی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ متقیوں کو جو مَفَازَا حاصل ہو گا اس کی کچھ تشریحات ہم تم کو بتاتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ متقیوں کو حَدَائِق یعنی باغات ملیں گے۔ حَدَائِق حَدَیْقَۃٌ کی جمع ہے اوریہ حدیقے مکہ میں نہیں ہوتے مدینہ میں ہی ہوتے ہیں گویا ان الفاظ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نقشہ کھینچ دیا کیونکہ حَدَائِق مدینہ میں ہی ہؤا کرتے ہیں۔ بعد میں بے شک ساری دنیا ہی مسلمانوں کے لئے حَدِیْقہ بن گئی۔ لیکن جہاں تک ظاہری الفاظ کا سوال ہے یہ نقشہ مدینہ پر ہی چسپاں ہوتا ہے۔ لُغت کے لحاظ سے حَدِیْقہ اُس باغ کو کہا جاتا ہے جس کے اردگرد دیوار ہو (اقرب) اور مدینہ میں اس کا عام رواج تھا۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر یہ آیت نازل ہوئی کہ لَنْ تَنَالُو الْبِرَّ حتّٰی تُنفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ(آل عمران ع ۰ ۱ ۱ ) تو ابو طلحہ ؓانصاری نے سب سے پہلے اپنا حََدِیْقہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ مجھے اَحَبُّّ المال یہ حدیقہ ہے (بخاری مصری جلد سوم کتاب التفسیرو ترمذی جلد دوم کتاب التفسیر) اسی طرح حضرت ابوھریرہ ؓ کی آیت میں آتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دفعہ بعض اصحاب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ اچانک حضور اُٹھ کر چلے گئے جب آنے میں دیر ہوگئی تو میرے دیر ہو گئی تو میرے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اتنی دیر کیوں لگا دی ہے ایسا نہ ہو کہ کہ کسی دشمن نے آپ کو نقصان پہنچایا دیا ہو۔چنانچہ میں آپ کی تلاش میں انصار کے ایک حَدِیْقہکی طرف چلا گیا۔ معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُس حَدِیْقہم کا پھاٹک بند کر لیا تھا۔ کیونکہ حضرت ابو ھریرہ کہتے ہیں جب مجھے اس باغ کے اندر جانے کااور کوئی راستہ نہ ملاتو میں اُس کی نالی میں سے اندر داخل ہؤا جیسے لُومڑ کسی تنگ جگہ میں سے اندر داخل ہوتا ہے (مسلم کتاب الایمان) غرض حَدَائِق کا رواج مدینہ میں والوں میں زیادہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس پیشگوئی کے مطابق جو مقامِ فوز مسلمانوں کو ملنے والا ہے اس کی علامت یہ ہے کہ اس میں حَدَائِق ہوں گے اور اس میں اَعْنَاب بھی ہوں گے۔
حَدَائِق کہہ کر بتا یا کہ اُن کا اپنا علاقہ ہو گا اور اُس پر اُنہیں قبضہ تامّہ حاصل ہو گا۔ کیونکہ حَدِیْقہ وہی ہوتا ہے جو دوسروں سے الگ ہو۔ اگر حَدِیْقہ کے اردگرد دیوار نہ ہو تو شبہ رہتا ہے کی اِس سرحدکونسی ہے اور اُس کی سرحد کونسی ہے۔ پس جب مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے حَدَائِق کے لفظ کا استعمال فرمایا تو اگر اس سے وہ ساری حکومت مراد لی جائے جو مسلمانو ں کو ملنے والی تھی ا ور یہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی آئندہ حکومت کا نام اسی جگہ حَدِیْقہ رکھا ہے تب اس کے معنے یہ ہوں گے کہ مسلمانوں کی حکومت نہایت منظم ہوگی اور اس کی سرحدیں بہت مظبوط ہوں گی جیسے باغ کے اردگرد دیواریں ہوتی ہیں۔ اور وہ ان دیواروں کی وجہ سے محفوظ ہوتا ہے اسی طرح مسلمانوں کی حکومت منظم ہوگی اور اس کی سرحدیں مظبوط ہوں گی۔ اسی کے متعلق قرآن کریم نے دوسری جگہ ان الفاظ میں توجہ دلائی ہے یَآاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمِنُوْااصْبِرُوْاوَصَابِرُوْا وَرَابِطُوْا (آل عمران ع ۰ ۲ ۱ ۱ )کہ اے ایماندار صبر سے کام لو۔ اور دشمن سے بڑھ کر دکھائو اور سرحدوں کی نگرانی رکھو یعنی مسلمان حکومت کو چاہیئے کہ وہ اپنی سرحدوں کو مضبوط رکھے اور وہاں حفاظت اور نگرانی کے لئے اپنی فوجوں کو مقرر کرے تا کہ اسلامی علاقہ محفوظ رہے اور غیر اسلامی حکومت کو یہ جرأت نہ ہو کہ وہ اسلامی حکومت پر حملہ کرے۔
حَدَائِق کے لحاظ سے ہی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اِنَّ لِکُلِّ مَلِکٍ حَمِیً اَلَا حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہُ کہ ہر بادشاہ کی ایک رَکھ ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رَکھ اُس کے محارم ہیں۔ آپ نے فرمایا جو شخص بادشاہ کی رکھ کے قریب اپنے جانور کو چراتا ہے وہ بھی غلطی کرتا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کسی وقت اُس کا جانور با دشاہ کی رَکھ میں چلا جائے اور وہ نقصان اُٹھائے (بخاری کتاب الایمان باب فضل من استبر الدینہٖ) پس ایک معنے اس کے یہ ہوں گے کہ مومن اپنے اعمال کی حد بندی کر تا ہے اورحلال اور حرام میں امتیاز کرتا ہے اور چونکہ متقی کا کام یہ ہوتا ہے کہ حلال اور حرام میں تمیز کرے اور اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں کا نام جو وہ مومنوں کو دے گا حَدِیْقہ رکھ دیا۔ یعنی جس طرح اُس نے فرق کیااور خدا کی رضا کے لئے حلال اور حرام میں امتیاز روا رکھا اسی طرح خدا مومن اور غیرمومن میں امتیاز کرے گا اور اُسے انعام کے طور پر حَدَائِق عطا فرمائے گا اوراس نسبت سے کہ سچا تقویٰ انسان کے لئے غذا کا بھی کام دیتا ہے اور پھل کا بھی کام دیتا ہے اور نشۂ محبت الٰہی بھی پیدا کرتا ہے اس کا نام اَعْنَابرکھ دیا کیونکہ اتّقا میں ساری شرطیں ہوتی ہیں ۔ ایک طرف وہ مومن کی روحانی غذا ہوتا ہے جس سے وہ خدا کا روحانی قرب حاصل کرتا ہے۔ دوسرے جسے سچا تقویٰ میسر آجاتا ہے وہ آئندہ ایک لمبے زمانہ تک دنیا میں تبدیلی پیدا کرنے کا موجب بن جاتا ہے جیسے ذخیرہ خور غذا دیر تک رہتی اور انسان کے کام آتی ہے اسی طرح تقویٰ ایک لمبے زمانہ تک دنیا کے کام آتا ہے گویا ایک طرف وہ انسان کو اپنی ذات کے لئے تازہ بتازہ پھل کاکام دیتا ہے اور دوسری طرف آئندہ کے لیئے بھی ذخیرہ کا کام دیتا ہے۔ چنانچہ اسی بناء پر حضرت دائود علیہ السلام فرماتے ہیں میں نے صادق کو ترک کرتے ہوئے اور اس کی نسل میں سے کسی کو ٹکڑے مانگتے نہیں دیکھا (زبور ۳۷ آیت ۲۵) گویااِتقا کیا ہے ایک ذخیرہ خور غذا ہے جو نہ صرف اس کو فائدہ پہنچاتی ہے بلکہ اس کی آئند ہ آنیوالی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے پھر تقویٰ محبت الٰہی پیدا کرنے کا بھی موجب ہے جیسے عِنَب میں سے شراب نکلتی ہے اسی طرح تقویٰ کے ذریعہ محبت الٰہی پیدا ہوتی ہے جیسے شراب پی کر انسان مست ہو جاتا ہے اور اُسے خیر وشر کی پروا نہیں رہتی۔ نہ اسے کسی نقصان سے ڈر آتا ہے اور نہ کسی خیر کے حصول کی خواہش اُس کے دل میں رہتی ہے محض ایک مستی ہوتی ہے جو شراب کی وجہ سے اُس کے دل میں رہتی ہے محض ایک ہستی ہوتی ہے جو شراب کی وجہ سے اُس کے دماغ میں پیدا ہو جاتی ہے اور وہ نہ کسی خوف سے کام کرتا ہے اور نہ کسی لالچ سے۔ ایک رستہ ہوتا ہے جس پر وہ نشہ کی حالت میں چل پڑتا ہے۔ اسی طرح جب کسی شخص کے دل پر محبت الٰہی غالب آجائے تو اس نشہ میں وہ ایسا چُور ہو جاتا ہے کہ نہ وہ دوزخ کے ڈر کے مارے خدا سے تعلق رکھتا ہے اور نہ جنت کی لالچ اُسے نیکیوں پر آماد کرتی ہے۔ ڈر اور لالچ کی قسم کے تمام احساسات اُس کے دل سے مٹ جاتے ہیں اور وہ خدا سے محض خدا کی رضا کے لئے محبت کرتا ہے گویاوُہ یہ نہیں چاہتا کہ میں دوزخ سے بچ جائوں وہ یہ نہیں چاہتا کہ میں جنت میں داخل ہو جائوں بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہو جائے۔ پس تقویٰ بھی ایک مستی پیدا کر دیتا ہے جیسے اَعْنَاب سے جو خمر تیارہوتی ہے وہ انسان کو مست بنا دیتی ہے۔ حضرت جنید بغدادی ؒ سے ایک دفعہ سوال کیا گیا کہ آپ جب اللہ تعالیٰ سے ملیں تو اُسے کیا کہیں گے انہوں نے کہا کہ میں تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے یہ کہوں گا کہ خدایا مجھے نہ جنت کی خواہش ہے نہ دوزخ کا خوف ہے۔ مَیں تو یہ چاہتا ہوںکہ تُو مجھے جہاں بھی رکھنا چاہتا ہے وہاں رکھ دے۔ اگر دوزخ میں ڈالنا چاہتا ہے تو دوزخ میں ڈال دے اور اگر جنت میں لے جانا چاہتا ہے تو جنت میں لے جا۔ مجھے تو تیری رضا کی ضرورت ہے (تذکرۃ الاولیاء) یہ مستی کی ہی علامت ہے نہ اچھی بات کی خواہش رہے اور نہ بُری بات کا ڈر ہے۔ ایک ہی غرض سامنے رہے کہ میرا محبوب مجھ سے راضی ہو جائے۔ غرض اَعْنَابًا کا ذکراس لحاظ سے کیا گیا ہے کہ اَعْنَاب ہی وہ پھل ہے کہ پینے کے کام بھی آتا ہے اور میوہ کے کام بھی آتا ہے اور خشک کرکے غذا کے طور پر بھی استعمال ہوتا ہے۔ پس اسے خاص طو ر پر قرآ ن کریم نے مثال کے طور پر چُنا ہے یہ بتا نے کے لئے کہ ایمان کی بھی یہی مثال ہوتی ہے کہ وہ بشاشت بھی بخشتا ہے وہ لذت بھی بخشتا ہے اور وہ طاقت بھی بخشتا ہے۔ اسی طرح یہ تینوں چیزیں تقویٰ میں بھی پائی جاتی ہیں کہ وہ غذا بھی ہے۔ وہ ذخیرہ خور غذا بھی ہے اور وہ عشق الٰہی بھی پیدا کرتی ہے یعنی خمر والی حالت بھی اس میں پائی جاتی ہے مگر خمر تو انسان کی عقل پر پرد ہ ڈال دیتی ہے یہ وہ نشہ ہے جو عقل کو تیز کرتا ہے۔ البتہ یہ مشابہت ضرورپائی جاتی ہے کہ جس طرح خمر انسان کو مست بنا دیتی ہے اسی طرح تقویٰ اور ایمان کی وجہ سے انسان اللہ تعالیٰ کی محبت میں مست ہو جاتا ہے۔
وَّکَوَاعِبَ
اور ہم عمر نوجوان عورتیں ۲۶؎
۲۶؎ حل لغات
کَوَاعِب: کَاعِبَۃٌ کی جمع ہے اور کَاعِبَۃٌ کے معنے ہوتے ہیں اَلنَّاھِدُ جوان لڑکی (اقرب)
اَتْرَابٌ: تِرْبٌ کی جمع ہے اور تِرْبٌ اس کو کہتے ہیں جو کسی کا ہم عمر ہو۔ اکثر استعمال اس کا مؤنث میں ہوتا ہے۔
کہتے ہیں ھَذِہٖ تِرْبُ فُلَانَۃٍ اِذَاکَانَتْ عَلٰی سِنِّھَا (اقرب)یہ فلاں عورت کی تِربْ ہے جبکہ وہ اس عور ت کی ہم عمر ہو۔ پس کَوَاعِب کے معنے ہوئے۔ نوجوان عورتیں۔ اور اَتْرَاب کے معنے ہوئے۔ ہم عمر عورتیں۔ کیونکہ عربی زبا ن کے لحاظ سے اَتْرَابًا میں مرد اور عورت کا مقابلہ نہیں ہوتا یعنی یہ مطلب نہیں ہوتا کہ فلاں مرد کے ہم عمر عورت۔ بلکہ اَتْرَاب کے معنے ہوتے ہیں آپس میں ہم عمر عورتیں یعنی اَتْرَاب میں ہم عمر ہونے کے جو معنے ہیں اُن کی نسبت عورتوں کے لحاظ سے ہے یعنی عورت عورت کی ہم عمر ہو۔ مردوں اور عورتوں میں یہ نسبت نہیں۔ چنانچہ تاج العروس میں سیوطی کا قول ہے:۔
’’اَلْاَتْرَابُ: اَلْاَنْسَانُ۔ لَا یُقَالُ اِلَّا لِلْاِنَاثِ وُیُقَالُ لِلذُّکُوْرِ اَلْاَسْنَانُ وَالْاْقْرَانُ وَاَمَّا اُللدِّاتُ فَاِنَّہٗ یَکُوْنُ للذُّکُوْرِوَلْاِنَاثِ وَقَدْ اَقَرَّہُ اَئِمَّۃُاللِّسَانِ عَلٰی ذَالِکَ‘‘ (تاج)
یعنی عربی زبان میں جب مردوں کی ہم عمری کا ذکر ہو تو اَقْرَان اور اَسْنَان کا ذکر کرتے ہیں۔ اور جب عورتوں کی آپس میں ہم عمری کا ذکر ہو تو اَتْرَاب کہتے ہیں او ر مؤنث و مذکر دونوں کا ہو تو لِدَات۔ چنانچہ تما ائمہ لغت اس بات کی تائید کرتے ہیں پس کَوَاعِبَ اَتْرَابًا کے معنے ہوئے آپس میں ہم عمر جوان عورتیں۔
تفسیر
اس آیت میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ قوم میں کام کی حقیقی روح تبھی پیدا ہوتی ہے جب ایک حد تک اُن میں خیالات کا اور جوش کا اور ہمت کاتوازن قائم ہو۔ کسی قوم میں اگربعض لوگ بڑے شاندار کارنامے سر انجام دینے والے ہوں اور باقی لوگ اس معیار کے نہ ہوں تو وہ قوم کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔ بڑی کامیابی کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ قوم کا عام معیارِ اخلاق ایک ہو۔ اگر قوم کا ایک فرد آسمان پر ہو اور دوسرا زمین پر تو وہ کبھی اپنی قوم کے لئے اتنے مفید ثابت نہیں ہو سکتے جتنے مفید وہ ساٹھ ستر فیصدی افراد ہو سکتے ہیں جو مثلاًایک ایک گز زمین سے اُونچے ہوں کیونکہ وہ گو آسمان والے کے مقابلہ میں بہت نیچے ہوں گے مگر سب کا معیار یکساں ہوگا۔ اگر دس افراددو دو فٹ بھی اُونچے ہوں تو وہ اُن دس افراد سے زیادہ مفید ہوں گے جن میں سے ایک آسمان پر ہو اور ایک زمین پر۔ پسکَوَاعِبٌ اَتْرَابًا میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیاہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ ایسی برکتیں دے گا کہ جب وہ مقام مفاز میں پہنچیں گے تو ان کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہوگی کہ ان کی عورتوں کا دینی معیا ربھی اُونچا ہو جائے گا اور پھر وہ اس معیا ر میں ایک دوسری کے برابر ہوں گی۔ غرض پسکَوَاعِب میں اُن کے معیار کے اونچا ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یعنی عورتوں کا دینی معیا ر اونچا ہو گااور سب میں جوش اور جوانی اور بلندی پائی جائے گی۔ اور اَتْرَابٌ سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اُن کی ترقی قومی ترقی ہوگی انفرادی نہیں۔ یعنی سب میں جوش ایک دُوسرے سے ملتا جلتا پایا جائے گا۔ یہ نہیں کہ چند عورتوں میں توجوش وخروش بے انتہاء ہواور باقی اپنے فرض سے غافل ہوں بلکہ سب عورتوں میں ملتا جُلتا دینی جوش پایا جائے گا اور وہ سب کی سب دین کی ترقی کے لئے تیار رہیں گی چنانچہ اسلامی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو کثرت سے ایسی عورتوں کی مثالیں نظر آتی ہیں جنہوں نے جنگوں میں بہت بڑی جرأت اور ہمت کا ثبوت دیا۔ مہاجرین کی بیویوں کو ہم دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی ہمیں یہ شان نظر آتی ہے اور انصار کی بیویوں کو ہم دیکھتے ہوںتو اُن میں بھی ہمیں یہ شان نظر آتی ہے اور انصار کی بیویوں کو بیویوں کو دیکھتے ہیں تو اُن میں بھی ہمیں یہ شان نظر آتی ہے ۔ ہزارہا عورتیں ایسی ہیں جن کا تاریخوں میں ذکر آتا ہے اور جنہوں نے مختلف مواقع پر کَوَاعِب اَتْرَابًا ہونے کی ایسی شان دکھائی کہ آجکل کے مرد بھی اُن کے مقابلہ میں ہیچ نظر آتے ہیں۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کَوَاعِب کا لفظ استعمال فرمایا ہے جو جسمانی اور روحانی دونوں حالتوں پر دلالت کرتا ہے مگر ایسے لفظ کے لانے میں حکمت یہ تھی کہ یہاں وہ مضمون بیان کئے جارہے تھے ایک وہ مضمون تھا جس کا قیامت سے تعلق تھا اور ایک وہ مضمون تھا جس کا اس دنیا سے تعلق تھا۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایسا لفظ استعمال فرمایا جو دونوں مقامات پر چسپاں ہو سکتا ہے قیامت کے معنے اگر لئے جائیں تب بھی یہ لفظ ٹھیک ہے کیونکہ جنت میں ہر آدمی جوان ہونے کی حالت میں داخل کیا جائے گا۔ حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک بوڑھی عورت آئی۔ معلوم ہوتا ہے اُسے بے وقت بات کرنے کی عادت تھی اُس نے آتے ہی آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل کرے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غالباً اور گفتگو میں مصروف تھے اِس لئے اُسے مذاقًا مختصر طور پرجو اب دیا۔ کہ جنت میں کوئی بوڑھی عورت نہیں جائے گی۔ وہ یہ سنتے ہی رونے اور چیخنے چِلّانے لگی اور اس حالت میں واپس ہو گئی۔آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ ؓمیں سے کسی کو بُلا کر فرمایا کہ جائو اس کو کہو میرا وہ مطلب نہیں تھا جو اُس نے سمجھا ہے بلکہ میرا مطلب تو یہ تھا کہ جنت میں جو بھی داخل کئے جائیں گے سب جوان ہو کر جائیں گے بڑھاپے کی حالت میں نہیں جائیں گے۔ (شمائل ترمذی)
اور واقعہ میں وہ مقام جو دائمی سرور کا ہے وہاں اگر بڑھاپے کی حالت میں کوئی شخص چلا جائے تو جنت دوزخ سے بد تر بن جائے۔ آدمی تو ساٹھ اسی سو سال تک بوڑھا ہو جاتا ہے اگر اسی طرح اس کا بڑھاپا بڑھتا چلا جائے تو دس بیس ہزار سال میںتو وہ ایس ذلیل چیز بن جائے گا کہ اس کا لذت اٹھا نا تو الگ رہا۔ وہ شاید ایک گیند کی شکل میں تبدیل ہوجائے گا۔ پس جنت کی یہ ایک ضروری شرط ہے کہ وہاں سب جوان کر کے داخل کئے جائیںگے اور ہمیشہ اسی حالت میں رکھے جائیں گے۔ اسی طرح جنت کے لحاظ سے انسان کے جو ساتھی ہوں گے یعنی بیوی بچے وہ بھی سب جوان ہوں گے لیکن جب ہم اس آیت کو دنیا پر چسپاں کریں تو پھر کَوَاعِب کے معنے ایسی عورتوں کے ہوں گے جو حوصلہ اور جرأت اور بہادری کے لحاظ سے جوان ہوں۔ کَوَاعِب کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ وہ جسمانی لحاظ سے جوان ہوںگی کیونکہ اگر یہ معنے لئے جائیں تو پھر اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ کَوَاعِبَ کے یہ معنے ہوں گے اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ کَوَاعِبَ فِیْ الْاِبْتِدَائِ یعنی متقیوںکو شروع میں جوان بیویاں ملیں گی لیکن بعد میں بوڑھی ہو جائیںگی اور یا پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ متقیوں کا یہ فرض ہے کہ وہ جوان عورتوں سے شادیاں کریں اور جب وہ بوڑھی ہونے لگیں تو انہیں طلاق دے دیا کریں کیونکہ اُس وقت وہ کَوَاعِبنہیں رہ سکتیں اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ متقیوں کو جو عورتیں ملیںگی وہ کبھی بوڑھی نہیں ہوں گی مگر یہ تینوں صورتیں غلط ہیںاور انسان کو مجبور کرتی ہیں کہ اس جگہ روحانی معنے لے جسمانی کیونکہ یہاں زمانہ نہیں بتایا گیا کہ وہ فلاں عمر میں جوان ہوں گی اور فلاں عمر میں نہیں بلکہ بتا یا یہ گیا کہ وہ ہمیشہ کَوَاعِب رہیں گی۔ پس لازمًااس کے معنے جوان ہونے کے نہیں بلکہ حوصلہ اور ہمت کے لحاظ سے جوان ہونے کے ہیں۔ پھر بتایا کہ وہ نہ صرف ہمت اور عزم اور ارادہ کے لحاظ سے جوان ہوںگی بلکہ وہ اَتْرَاب بھی ہوںگی یعنی ساری عورتیں یکساں جوان ہوں گی۔ ساری عورتیں یکساں بلند ہمت ہوں گی اور ساری عورتیں یکساں حوصلہ مند ہوں گی۔ یہ ایک بہترین انعام ہے جو کسی قوم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتا ہے کہ جیسے اُس قوم کے مردوں میں جوش ہو ویسا ہی اُس قوم کی عورتوں میں جو ش ہوں۔ جیسی چند عورتیں بہادر اور دلیر اور قوم کیلئے قربانی کا مادہ اپنے اندر رکھنے والی ہوں ویسی ہی تمام عورتیں بہادر اور دلیر اور قربانی کا مادہ رکھنے والی ہوں بلکہ ایک سے ایک بڑھ کر ہو۔ یہ حقیقی انعام ہے جس سے قومیں ترقی کیا کرتی ہیں۔ دنیا میں انسان کو بُزدلی کی طرف لے جانے والی عورت ہی ہوتی ہے مرد دین کے لئے باہر جانا چاہتا ہے تو عورت اس کے سامنے کھڑی ہوجاتی ہے اور کہتی ہے تم مجھے کہاں چھوڑ کر جارہے ہو تمہارے بغیر میرا کون سا سہارا ہے۔ پھر وہ کبھی بچوں کو اس کے سامنے لاتی ہے اور کہتی ہے اِن بچوں کو کون پوچھے گا۔ اس پر مرد کا دل بے چین ہو جاتا ہے لیکن جب عورت اس کی ہمت بندھاتی ہے جب وہ اسے جرأت اور دلیری کا سبق دیتی ہے۔ جب وہ کہتی ہے کہ شاباش جائو اور خدا کے دین کا کام کرو تو مرد کا دل بڑھ جاتا ہے اور وہ پوری بے فکری سے دینی ذمہ واریوں کو ادا کرنے میں مشغول ہو جاتا ہے۔ پس ضروری ہے کہ عورتیں دینی لحاظ سے بلند معیار پر قائم ہوں اور سب میں دین کا یکساں جوش اور قربانی کی یکساں روح پائی جاتی ہو۔
اس جرأت اوربہادری کا نمونہ جن عورتوں نے دکھایا ان کی مثالوں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔ انہوں نے اسی رُوح سے کام لیتے ہوئے بعض دفعہ اپنے مردوں سے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر تم میدان جنگ سے بھاگوگے تو پھر ہمارے پاس نہ آنا۔ تاریخوں میں آتا ہے کہ جنگ یرموک میں یکدم عیسائی لشکر نے کثیر تعداد اور بھاری سامان کے ساتھ حملہ کیا تو اسلامی لشکر مقابلہ کی تاب نہ لا کر وقتی طور پر پیچھے ہٹنے پر مجبور ہؤا۔ اُس وقت مسلمان عورتوں نے خیمے توڑ کر اُن کی لکـڑیاں ہاتھوں میں سنبھال لیں اور مسلمان سپاہیوں کے گھوڑوں کے مونہوں پر مار مار کر ان کو واپس دشمن کے لشکر کی طرف لوٹا دیا۔ ان عورتوں میں سے ایک ہند بن عتبہ بن ربیعہ بھی تھی جو کسی زمانہ میں اسلام کی شدید ترین دشمن رہ چکی تھی۔ مسلمان پیچھے ہٹنے والے سپاہیوں میں ا بو سفیان اس کا خاوند بھی شامل تھا اور معاویہ اس کا بیٹا بھی۔ چنانچہ جب لشکر بھاگتا ہؤا واپس پہنچا تو ابو سفیان جو لشکر کے اس حصہ کا سردار تھا اُس کی بیوی ہند نے اس کے گھوڑے کو خیمے سے مار کر واپس کیا اور کہا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت میںتو پیش پیش ہوتا تھا اب اسلام قبول کر کے میدان جنگ سے کیوں بھاگتا ہے۔ تمہار ا تو یہ فرض ہو نا چاہئیے کہ تم نے اسلام کی شرک کی حالت میں مخالفت کی تھی اس کو دھو ڈالو اور اپنی جان پر کھیل جائو۔ چنانچہ اُس نے اور باقیوں سپاہیوں نے جب یہ نظارہ دیکھا تو کہا کہ واپس لوٹو۔ دشمن کی تلواروں سے عورتوں کے ڈنڈے زیادہ سخت ہیں۔ یہ سُن کر لشکر واپس لوٹا اور آخر دشمن پر فتح پائی۔
(فتوح الشام حالات جنگ یرموک)
پس کَوَاعِب کے مطابق اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایسا لشکر دیا جو دوسری قوموں کے مردوںسے بھی بالا تھا اور پھر ان عورتوں میں سے ایک سے بڑھ کر ایک ہی تھی۔ یہ نہیں کہ حضرت عائشہ ؓ تو بہادر ہوں اور حضرت زینب ؓ نہ ہوں یا حضرت زینب تو بہادر ہوں مگر اسماء بنت ابی بکرؓ بہادر نہ ہوں بلکہ حضرت عائشہ ؓ بھی کَوَاعِبَ اَتْرَابًا کا مصداق تھیں اور حضرت زینب ؓؓبھی کَوَاعِبَ اَتْرَابًا کامصداق تھیں اور اسماء بنت ابی بکرکَوَاعِبَ اَتْرَابًا کا مصداق تھیں بلکہ ہم تو دیکھتے ہیں ہند جیسی عورت جو کسی زمانہ میں شدید دشمنِ اسلام رہ چکی تھی اس میں بھی یہ روح کام کر رہی تھی اور انہوں نے ایسی قربانیاں کیںجن کی کوئی حد ہی نہیں۔ اسی جنگ کا یہ واقعہ ہے کہ عیسائی لشکر کی طرف سے جب مسلمانوں پر بہت زیادہ دبائو پڑاتو مقابلہ کرتے کرتے اسلامی لشکرکی طرف سے جب مسلمانوں پر بہت زیادہ زورپڑا تو مقابلہ کرتے کرتے اسلامی لشکر بالکل تھک گیا۔ ایک رات اسلامی لشکر کے کمانڈر انچیف جو حضرت ابو عبیدہ تھے چکّر لگانے کے لئے نکلے تو انہوں نے دیکھا کہ اسلامی لشکر کے اردگرد دو آدمی پھر رہے ہیںط اُنہیں شبہ پیدا ہؤا کہ دشمن کے آدمی جاسوس کے طور پر نہ آئے ہوںچنانچہ وہ آگے بڑھے اور انہوں نے آواز دی کہ تم کون ہو!اس پر حضرت زبیر ؓ آگے بڑھے اُن کے ساتھ اُن کی بیوی اسماء بنت ابی بکر بھی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ آج مسلمان چونکہ سخت تھکے ہوئے تھے اس لئے میں اور میری بیوی دونوں پہرہ کے لئے نکل کھڑے ہوئے (فتوح الشام۔ حالات جنگ یرموک)
کَوَاعِبَ اَتْرَابًا کی کیسی شاندار مثال ہے اور کس طرح ان مثالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ ؓ کی عورتوں میں بھی وہی جزبۂ فدا کاری پایا جاتا تھا جو خود صحابہ کے اندر موجود تھا۔ پھر یہ نہیں کہ یہ جز بہ کسی خاص خاندان کی عورتوں سے مخصوص ہو بلکہ ہر عورت اسی جزبہ سے سرشار تھی اور یہی روح اُس میں کام کرتی دکھائی دیتی تھی ورنہ دنیا کے لحاظ سے کَوَاعِب کے اور معنی بنتے ہی نہیں۔ جوان لڑکی پانچ سات سال میں ہی جوانی کی عمر گزار دیتی ہے اور وہ پھر کَوَاعِب میں شامل نہیں رہتی۔ مگر یہاں یہ بتایا گیا ہے کہ متقیوں کو ایسی عورتیں ملیں گی جو کَوَاعِب ہی رہیں گی۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں روحانی معنے مراد ہیںجسمانی نہیں۔ بے شک اگلے جہاں کے لحاظ سے جسمانی معنے ہی ٹھیک ہیں کیونکہ جنت میں اگر بوڑھے داخل ہوں یا بڑھاپا آ جائے تو پھر جنت جنت نہیں رہتی۔ لیکن جب ہم اس آیت کو دنیا پر چسپاں کریں گے تو اس کے معنے ایسی عورتوں کے ہوں گے جو جوانی والی طاقتیںا پنے اندر رکھتی ہوںکیونکہ دنیا میں انسانی جسم بہرحال ندھال ہو جاتا ہے۔ اور عمر کی زیادتی کے ساتھ بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ لیکن روحانی طاقتیں اگر انسان ان کو ترقی دینا چاہے تو کمز ور نہیں ہو سکتیں۔ پس بڑی بات یہ ہے کہ قوم کی عورتیںکَوَاعِبَ اَتْرَابًا کی مصداق ہوں۔ کَوَاعِب کا لفظ ذاتی جوانی پر دلالت کرتا ہے اَور اَتْرَاب کا لفط قومی جوانی پر دلالت کرتا ہے۔ اَتْرَاب کا لفظ بھی بتا رہا ہے کہ اس جگہ روحانی معنے ہی زیادہ موزون ہیں کیونکہ جنّت کے متعلق اَتْرَاب کے لفظ میں کوئی حکمت نہیںہو سکتی۔ یہ لفظ دنیا سے ہی تعلق رکھتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہی قوم ترقی کر سکتی ہے جس کی ساری عورتوں کا دینی معیاربلند ہو۔ وہ جواں ہمت اور حوصلہ مند ہوں۔ وہ مصائب اور مشکلا ت کی پرواہ کرنے والی نہ ہوں۔ وہ دین کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنے والی ہوںوہ جرأت اور بہادری کی پیکر ہوں اور اپنے اخلاص اور اپنے جوش اور اپنی محبت سے مردوں کے پیچھے نہ ہوں۔ یہ معنے ایسے لطیف ہیں کہ میرے نزدیک اپنی ذات میں اس بات کے مستحق ہیںکہ ان معنوں کو بار بار بیان کیا جائے۔ ان پر زور دیا جائے اور انہیں اپنی تقریر وتحریر میں بتکرار لایاجائے تا معلوم ہو کہ اسلام عورتوں کو کس بلند مقام پر پہنچانا چاہتا ہے اور عورتوں میں بھی دینی روح ترقی کرے۔ اگلے جہاں میں اگر ساری عورتیں ایک ہی عمر کی ہوں تو اس میں کوئی خاص لطف کی بات نہیں۔ وہ غرض کَوَاعِب کہہ کر پوری ہو سکتی تھی۔ اَتْرَاب کا لفط زائد طور پر لانا بتا رہا ہے کہ یہ بات خصوصیت سے اس دنیا میں تعلق رکھنے والی ہے۔
وَّکَاْسًادِھَاقًا
اور چھلکتے ہوئے پیالے ۲۷؎نہ تو وہ اِن (جنتوں) میں باتیں سنیں گے اور نہ (ایک دوسرے کو) جھٹلانے والا کام ۲۸؎
۲۷؎ حل لغات
اَلْکَاْسُ: اَلْاِنَائُ یُشْرَبُ فِیْہِ ۔ وہ برتن جس میں کوئی چیز پی جاتی ہے۔ وَقِیْلَ مَادَامَ اَلشَّرَابُ فِیْہِ وَاِلَّا فَھِیَ زُجَاجَۃٌ وَاِنَائُ وَقَدْحٌ اور بعض کہتے ہیں کہتے ہیں کہکَاْسٌ پینے کے برتن کو اس وقت کہیں گے جبکہ اس میں پینے کی چیز بھی موجود ہووگرنہ خالی برتن عربی زُبان میں زُجَاجَۃ اور اِنَاء اور قَدْح کہلاتا ہے۔ لفظ کَاْسٌمؤنث ہے (اقرب)
دِھَاق کا لفظ جب کَاْس کے لئے آئے تو اس کے معنے بھرے ہوئے کے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں اَلدِّھَاقُ مِنَ الْکُؤُوْسِ: اَلْمُتَلِئَۃُ (اقرب) تو کَاْسًا دِھَاقًا کے معنے ہوئے اُنہیں ایسے ملیں گے جو لبالب بھرے ہوں گے۔
تفسیر
پہلے اللہ تعالیٰ نے اَعْنَاب کا ذکر کر کے فرماتاتھا جن سے شراب بنتی ہے۔ اب یہ بتا یا کہ وہ مذکورہ بالا شرابِ معرفت میں اتنے متوالے ہوں گے کہ ان کا نشہ کبھی ختم نہ ہو گا اور نہ ان کی طبیعتوں میں کہیں سیری حاصل انہیں ہو گی۔ ایک پیالہ ختم ہو گا تو دوسرا پینا شروع کر دیں گے دوسرا پیالہ ختم ہو گا تو تیسر اشروع کر دیں گے یعنی ایک قربانی لیں گے تو دوسری کے لئے تیار ہو جائیں گے۔ دوسری قربانی کریں گے تو تیسری کے لئے تیار ہو جائیںگے گویا محبت الٰہی کا پیالہ وہ سیر ہو کر زمین پر رکھیںگے ہی نہیں۔ ہر وقت اُن کا پیالہ بھرا ہؤا رہے گا اور عشق الٰہی کے نشہ میں انہیںقربانی کی ایسی عادت پڑ جائے گی کہ کسی موقع پر بھی اُن کی طبیعت میں سیری نہیں ہوگی اور چونکہ اگلے جہاں کی لذتیں روحانی ہوں گی گو یہ بھی صحیح ہے کہ ان کی ایک جسمانی شکل بھی ہو گی مگر بہرحال چونکہ اصلی لذت روحانی ہو گی اس لئے جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ ان کو ایسے پیالے ملیں گے جو ہمیشہ بھرے رہیں گے اُن میں کبھی کمی نہیں آئیگی تو ان الفاظ کو جہاں اگلے جہا ں پر چسپاں کیا جاتاہے وہاں اس کے معنے یہ بھی ہوں گے کہ ان کے دل محبت الٰہی سے ہمیشہ لبریز رہیں گے۔قربانی ان کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹائے گی بلکہ ہر قربانی کے بعد ان کا دل چاہے گا کہ ہم اور قربانی کریں اور اپنے عشق کا مظاہر ہ کریںاور جب وہ دبارہ اپنے عشق کا مظاہر ہ کریں گے تو ان کے دلوں میں خواہش پیدا ہو گی کہ ہم اپنے عشق کا اب تیسرا مظاہر ہ کریں اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔
۲۸؎تفسیر
چونکہ اللہ تعالیٰ نے محبت الٰہی کی مشابہت شراب سے دی تھی اور شراب میں بعض نقائص ہوتے ہیںاس لئے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی ذکر فرما دیا کہ گو وہ شراب کی طرح محبت الٰہی کے نشہ میں سرشار ہوں گے مگر ہمارا اس سے یہ مطلب نہیں کہ شراب کے نقائص بھی ان میں پائے جاتے ہوں گے۔ شراب کی خرابی یہ ہے کہ اُس میں لغو بہت ہوتا ہے اسی طرح اُس میں تکذیب ہوتی ہے یعنی شرابی لغو اور فضول باتیںبھی کرتے ہیں۔ اور آپس میں لڑتے جھگڑتے بھی ہیں مگر لَایَسْمَعْوْنَ فِیْھَالَغْوًا وَّلَاکِذَّابًا وہ نہ اس میں کوئی لغو بات سنیں گے اور نہ تکذیب کی کوئی بات سنیں گے۔ لغو سے مراد بکواس اور بیہودہ باتیں ہیں۔ مجھے یاد میں ایک دفعہ اپنے گھر میں ٹہل رہا تھاجب میں ٹہلتے ٹہلتے اس دیوار کے پاس پہنچا جو گلی کی طرف ہے تو مجھے اس وقت ایک آدمی کی آواز سُنائی دی جو دوسرے شخص کا نام لے کر کہہ رہا تھا سندرسنگھیا پکوڑے کھانے این یعنی سندر سنگھ کیا پکوڑے کھائو گے۔ تھوڑی دیرکے بعد اُس نے پھر یہی فقرہ کہا۔کچھ دیر گزری تو پھر مجھے یہی آواز آئی مگر دوسری طرف سے کوئی جواب نہیں ملتا تھا۔ میں نے دیوار پر سے جھانکا تو مجھے نظر آیا کہ مسجد اقصیٰ کے پاس جو موڑ ہے جہاں نظارتوں کے دفاتر ہیں وہ ایک شخص ٹیک لگائے شراب کے نشہ کی حالت میں یہ فقرہ دہراتا چلا جا رہا ہے اور اُس کا مخاطب ساتھی اُس وقت تک وہاں تک پُہنچ چکا تھا جہاں اُم طاہر کا مکان ہے یعنی کہنے والے کے پچاس گز کے فاصلہ پر۔ مگر وہ یہی کہتا جا رہا تھاکہ سندر سنگھ پکوڑے کھانے ہیں۔اس طرح وہ کتنی ہی دیر وہاں پر بیٹھا یہ فقرہ دُہراتا رہا حالانکہ دُوسرا شخص اُس وقت تک غالباً دوسرے گائوں تک پہنچ چکا ہوگا۔
غرض شراب میں ایک بہت بڑا نقص ہے کہ انسان لغو باتیں کرنے لگ جاتا ہے۔ دُوسرا نقص اس میں یہ ہے کہ اس کے پینے والا دوسرے سے لڑنے جھگڑنے اور اُسے گالیاں دینے لگ جاتا ہے۔ کِذَّابًا کَذَّبَ کا مصدر ہے اور اس کے معنے ایک دوسرے کو جھٹلانے کے ہوتے ہیں۔ ایک کہتا ہے تُو نے یہ کہا تھا ۔ دوسرا کہتا ہے مَیں نے یہ نہیں کہا تھامیں نے تو وہ بات کہی تھی۔ اس وجہ سے اُسی شرابی کا ذکر کر کے قرآن کریم فرماتا ہے لَایَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا وَّلَاکِذَّابًا جنت کی نعماء خواہ شراب کے پیالوں میں ملیں۔ خواہ عشق الٰہی کی شراب کے پیالے ان کو پلائے جائیں۔ اس شراب کی یہ خصوصیت ہے کہ اس میں لغو نہیں ہو گا اورنہ کِذّاب ہو گا۔ لغو سے انسان کا وقت ضائع ہوتا ہے اِسی لئے شراب پی کر انسان ایسی باتوںکی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جو وقت کو ضائع کرنے والی ہوتی ہیں۔ مثلاًجؤا عام طور پرشراب پی کر ہی کھیلا جاتا ہے۔ لیکن لغو نہ ہونے سے اولؔ وقت ضائع نہیں ہوتا۔ دومؔ ذہن کام کے سوادوسرے امور کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور توجہ کے قیام سے ترقی جلد جلد ہوتی ہے۔ جب انسان لغو امور کی طرف توجہ کرتا ہے تو چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنا وقت ضائع کر دیتا ہے اور توجہ کا اجتماع پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن جہاں لغو نہ ہو وہاں اجتماع توجہ خوب ہوتا ہے اور کام کی چیزوں کی طرف توجہ رہتی ہے۔ اورچونکہ اس کی عادت میں بات داخل ہو جاتی ہے کہ وہ کام کی طرف توجہ کرے۔ لغو کاموں میں حصہ نہ لے۔اس لئے اس کے اندر غور اور فکر کی قوت بڑھ جاتی ہے اور ہر بات کی طرف توجہ کرنے کی اُسے عادت پیدا ہو جاتی ہے۔ تیسراؔ فائدہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں ہر حصہ کام اور ہر حصّہ قوم مفید ضرورت میں لگ ر ہا ہوتا ہے جب انسان لغو نہیں کرے گا تو لازماً وہی کام کرے گا جو ضروری ہو گا اور جس کا مفید نتیجہ نکل سکے گا اور جب ساری قوم ایسے ہی کاموں میں حصہ لے گی جن کے مفید نتائج نکل سکتے ہوں تو قومی ترقی جلد جلد ہو گی۔ پس لغوؔ کی طرف توجہ نہ کرنے کے تین فوائد ہیں۔ اولؔ اس کے نتیجہ میں وقت ضائع نہیں ہوتا دومؔ ذہنوں میں مقاصدکی طرف توجہ کرنے کی عادت پیدا ہوتی ہے سومؔ اُو پر کی دو باتوں کے نتیجہ میں قوم جلد جلد ترقی کی طر ف قوم جلد جلد قوم ترقی کی طرف قدم اُٹھاتی ہے۔
وَلَا کِذَّابًا: پھر شراب سے لڑائی جھگڑا پیدا ہو جاتا ہے مگر یہ وہ نشۂ محبت ہے جس میں لڑائی اور جھگڑے کی کوئی صورت میں نہیں بلکہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کی تائید اور تصدیق کرنے والا ہی ہوگا۔ کِذَّاباور تَکْذِیْب بھی قومی قومی ترقی کی جڑ کو لغو کی طرح کاٹنے والی چیز ہے جو شخص دوسرے کی تکذیب نہیں کرتا لازمی بات ہے کہ وہ حسن ظنّی کرے گا تو لازمی بات ہے کہ اس کے نتیجہ میں دلوں کو اطمینان حاصل ہو گا۔ساری خرابی بدظنی سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر انسان بد ظنی سے کام لینے لگے تو وہ یہ بھی خیال کر سکتا ہے کہ میری بیوی نے کھانے میں زہر نہ ملا دیا ہو۔ لیکن اگر اس طرح انسان خیال کرنے لگے تو یہ دنیا ہی دوزخ بن جائے۔ اسی طرح اور بیسیوں معاملات ہیں جن میں حسن ظنی سے کام لینا پڑتا ہے اور اگر انسان شکوک وشبہات میں مبتلا رہے تو اس کے معاملات میں بیسیوں خرابیاں پیدا ہو جائیں۔ لیکن جب لڑاء جھگڑا نہ ہو اور کاموں کی بنیاد حسن ظنی پر ہو تو دل کو اطمینان رہتا ہے اور یہ ایک بہت بڑی قومی نعمت ہے جو حسن ظنی سے حاصل ہوتی ہے۔ پھرا سکا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قومی تعاون حاصل ہوتاہے جب انسان حسن ظنی سے کام لے گا تونیکی کے کاموں میں وہ دوسروں کی مدد بھی کرے گا اور ان کے تعاون کو بھی قدر کی نگا ہ سے دیکھے گا اور اسی طرح ایک دوسرے کے تعاون سے قوم میں ترقی کی راہ پیدا ہو گی اگر انسان یہ خیا ل کرے کہ فلاں شخص تو میرا دشمن ہے تو اس کے بعد وہ اس کی مدد کے لئے کھڑا نہیں ہوسکتا لیکن اگر وہ بدظنی نہ کرے اوریہی سمجھے کہ میرا دوست ہے تو مشکلا ت کے وقت وہ اس کی مدد کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ پس حسن ظنی کا دوسرا فائد ہ یہ ہے کہ قومی تعاون کی رُوح اس سے ترقی کرتی ہے۔ تیسرے حسن ظنی کے اقدام عمل کے وقت یہ خوف نہیں ہوتا کہ دوسرے الزام لگا کر میری سکیم کو ناکام بنا دیں گے۔ بلکہ وہ دوسروں پرحسن ظنی کرتے ہوئے ہر خطرہ کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے مثلاً کوئی شخص مصیبت میں مبتلا ہو اور یہ سمجھے کہ اس کے ہمسائے فوراً اس کی مصیبت دور کرنے کے لئے خطرہ میں کود پڑیں گے تو جس دلیری سے وہ مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہو گا اس دلیری سے وہ شخص کھڑا نہیں ہو سکتا جو سمجھتا ہے کہ نامعلوم میرے ہمسائے اور میرے دوست میری مدد کریں گے یا نہیں۔ پس حسن ظنی کی وجہ سے اقدام عمل کے وقت زیادہ دلیری پیدا ہو جاتی ہے اور انسان قوم کی خاطرہربڑی سے بڑی قربانی کے لئے تیار رہتا ہے۔
غرض یہ تین فوائد ہیں جو حسن ظنی سے حاصل ہوتے ہیں دوسری جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا لَغْوٌ فِیْھَا وَلَا تَاْثِیْمٌ نہ جنت میں لغو ہوگا نہ ایک دوسرے پر گناہ کا الزام لگانا (الطور ع ۱ ۳ )اس جگہ تَاثِیْمٌ کی جگہ کِذَّاب کالفظ رکھ دیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ کَذَّاب اور تَاثِیْم ایک ہی چیز ہیں۔ کِذَّاب کے معنے ہوتے ہیں ایک دوسرے کی تکذیب کرنا اور تَاثِیْم کے معنے ہوتے ہیں ایک دوسرے پر الزام لگانا۔ پس یہ دونوں لفظ ہم معنی ہیں۔(۱)ایسی عطا جو کافی ہو گی (۲) ایسی عطا جو حساب میں ہو۔
ع حِسَابًا صفت ہے عَطَائً کی اور عَطَائً مفعول مطلق ہے جَزَائً کا جس کا عامل مخدوف ہے۔
تفسیر
یہ تیرے رب کی طرف سے بطور جز ا ہو گا اور یہ عَطَائً حِسَابًا ہوگی عَطَائً کا لفظ جَزَائً کے لئے مفعول مطلق کے طور پر استعمال ہؤا ہے یعنی ایسی جزاء ہو گی جو حساب کے مطابق ہو گی۔ حساب کے مطابق جزاء ہونے سے بظاہر اس امر پر زور معلوم ہوتا ہے کہ وہاں حساب سے زیادہ جزاء نہیں ہو گی حالانکہ قرآن کریم کی بعض دوسری آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا رحیمؔ ہے اور انسانی اعمال سے بہت زیادہ جزاء دیتا ہے۔ پس بظاہر یہ بات اُن آیات کے خلاف نظر آتی ہے کہ ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ مومنوں کو ان کے کام سے زیادہ جزاء دیں گے اور دوسری جگہ فرما دیا کہ حساب کے مطابق جز اء ہو گی۔
اس کے متعلق یاد رکھنا چاہیئے کے حساب کے معنے حساب کے مطابق کے علاوہ اور بھی ہوتے ہیںچنانچہ حساب کے ایک معنے گننے کے بھی ہوتے ہیںاور کافی کے بھی ہوتے ہیں (اقرب) یعنی ایسی چیز جس سے ضرورت پوری ہو جائے پس عَطَائً حِسَابًا کا یہ مطلب ہؤاکہ ایسی عطا جس سے انسان کی ہر ضرروت پوری ہو جائے ۔ چنانچہ ابن کثیر لکھتے ہیں کَافِیًا وَافِیًا سَالِمًا کَثِیْراً کے معنے یہ ہیں کہ جو کچھ ملے گاوہ کافی ہو گا بلکہ ضرورت سے زیادہ ہو گا اور سالم ہوگا یعنی کسی قسم کانقص اُس میں نہیں ہوگا۔ کَثِیْراً اور وہ پھر بہت ہوگا۔ چنانچہ وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں تَقُوْلُ الْعَرَبُ اَعْطَا فِیْ فَاَحْسَبَنِیْ اَیْ کَافَانِیْ یعنی اہل عرب کہتے ہیں اَعْطَا فِیْ فَاَحْسَبَنِیْ اور اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس شخص نے مجھے اتنا دیا کہ میری سب ضرورتوں کو پورا کر دیا۔ پھر کہتے ہیں وَمِنْہُ حَسْبِیَ اللّٰہُ اَیِ اللّٰہُ کَافِیَّ اس سے حَسْبِیَ اللّٰہ نکلاجس کے معنے یہ ہیں کہ اللہ میرے لئے کافی ہے۔ لیکن حِسَابًا کے اس جگہ ایک اور معنی بھی ہیں اور وہ یہ کہ انہیں ایسی عطا ملے گی جو حساب میں پہلے ہی موجود تھی یعنی مومن جانتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھ کو یہ یہ جزا ملے گی کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھ کو بتا یا ہؤا ہے کہ اس کی طرف سے فلاں فلاں نعمتیں ملیں گی۔ گویا یہاں حِسَابًا کے یہ معنے ہوں گے کہ ایسی عطا جوپہلے ہی حساب میں آئی ہوئی تھی جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پیشگوئیوں میںذکر کیا ہؤا تھا اور جس کے متعلق مومن یہ امید رکھتا تھا چونکہ خدا نے اپنی پیشگوئیوں میں اس کا ذکر کیا ہؤا ہے اس لئے ضروری ہے کہ یہ باتیں ایک دن پوری ہوں اور کافر بھی علم رکھتا تھا کہ مسلمانوں کے متعلق یہ یہ باتیں بیان کی گئی ہیں۔ پس چونکہ اس عطا کے ساتھ ایک پیشگوئی کا بھی تعلق تھا جس پر مومن بھی ایمان رکھتا تھا اور کافر کو بھی اس کاعلم تھا اس لئے عَطَائً کے ساتھ حِسَابًا کا لفظ بڑھا دیا۔ میرے نذدیک عَطَائً حِسَابًا سے مراد وہی عطا ہے جو حساب میں آچکی تھی یعنی جس کا ذکر ہو چکا تھا جس کا مومن کو بھی علم تھا اور کافر کو بھی علم تھا یہاں عَطَاء کی تعداد مراد نہیں بلکہ اس سے عَطَاء کے ملنے کا وعدہ مراد ہے۔ جیسے کہتے ہیں فلاں چیز تو محسوب ہو چکی ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ چیز ہمارے ریکارڈ میں آچکی ہے۔ اسی طرح عَطَائً حِسَابًا کا یہ مطلب ہے کہ وہ سرکاری دیوان میں لکھی ہوئی عطاء ہو گی جس کی پہلے سے پیشگوئی موجود تھی اور جس کا دوست کو بھی علم تھا اور دشمن کو بھی علم تھا۔
رَبِّ السَّمٰوٰتِ
(تیرے اس رب کی طرف سے جو) آسمانوںاور زمین اور ان دونوں کے درمیان جو کچھ ہے ان سب کا رب ہے (اور) بے حد کرم کرنے والا ہے۔ وہ اس کے حضور میں بلا اجازت بات کرنے کی طاقت نہیں رکھیں گے۔ ۳۰؎
۳۰؎ حل لغات
خِطَابًا: خِطَاب خَاطَبَ کا مصدر ہے۔ کہتے ہیں خَاطَبَہٗ بِالْکَلَامِ مُخَاطَبَۃً وَخِطَابًا۔ کَالَمَہُ یعنی اس سے آمنے سامنے ہو کر با ت کی (اقرب) پس خِطَاب کے معنے ہوں گے آمنے سامنے ہو کر بات کرنا۔
تفسیر
پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا جَزَآئُ مِّنْ رَبِّکَ کہ یہ تیرے رب کی طرف سے جزا ہے اور جزاء رحیمیّت کی علامت ہوتی ہے یعنی جزا اُسی کو ملتی ہے جو کام کرتا ہے پس پہلے تو فرمایا تھا کہ جَزَائً مِّنْ رَّبِّکَ مگر آگے اَلرَّحْمٰن کا لفظ استعمال فرما دیا جو صفت رحمانیت پر زور دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور بتاتا ہے کہ اُس ذات کی طرف سے تمہیں یہ جزا ملے گی جو رحمن ہے۔ یہاں سوال پیداہوتا ہے کہ رحمن اس کو کہتے ہیں جو بغیر کام کے بدلہ دے اور جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ میں یہ بتایا گیا کہ جزاء کام کے بدلہ میں ہو گی کیونکہ جزاء صفتِ رحیمیت کے تابع ہے صفتِ رحمانیت کے تابع نہیں۔ پس سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے صفت رحیمیت کے نتیجہ میں جزاء قرار دے کرآگے صفت رحمانیت کا کیوں ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے متعلق یہ امر بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ یہاں اَلرَّحْمٰن کا لفظ لانے میں دو حکمتیں ہیں ایک تویہ کہ رحمن کالفظ لا کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو کچھ دیا ہے صفت رحیمیت کے ماتحت دیا ہے مگر وہ صرف رحیم ہی نہیں بلکہ رحمن بھی ہے۔ جب صفتِ رحیمیت کے ماتحت اس نے تمہیں یہ یہ کچھ دے دیا ہے تو تم خود ہی سمجھ لو گے کہ وہ کیا انعام ہو گا جو صفت رحمانیت کے ماتحت تمہیں ملے گا وہ تو لازمًااس سے بہت بڑا انعام ہو گا کیونکہ وہ کسی کام کے بدلہ میں استحقاق کے طور پر نہیں ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ اپنی صفت رحمانیت کے ماتحت تمہیں اپنے اس انعام سے حصہ دے گا۔ گویا وہ خدا جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے جس نے اپنی صفت رحیمیت کے ماتحت تمہیں اپنی نعمتوں سے حصہ دیا اُس کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ رحمن ہے جب رحیمیت کے ماتحت اس نت تمہیں ایسی عطا دے دی جو تمہاری تمام ضروریات پر حاوی ہے بلکہ تمہاری ضرورتوں سے بھی زائد ہے تو اس کی صفت رحمانیت کے ماتحت آنیوالے انعامات کا اندازہ بھی کب کر سکتے ہو۔ گویا یہ نہ سمجھو کہ یہ ہمارا آخری انعام ہے بلکہ یہ انعام تو صرف رحیمیت کے نتیجہ میں تمہیں حاصل ہؤا ہے صفتِ رحمانیت کے ماتحت جو انعام ملے گا وہ تو بہت ہی زیادہ ہو گا۔
دوسرےؔ رحمن کا لفظ لا کر اس طر ف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ گو ہم اس کے لئے جز اء کا لفظ بولتے ہیں مگر درحقیقت بات وہی ہے جو غالب نے اپنے شعر میں کہی کہ
جان دی۔ دی ہوئی اُسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہؤا
فرمایا ہمارا یہ احسان ہے کہ ہم اس کے لئے جز اء کا لفظ استعمال کر رہے ہیں ورنہ تم نے جو کچھ کیا وہ تو ہمارے فضلوںکا طبعی نتیجہ تھا اُس میں تمہاری کیا قابلیت تھی اگر ہم قرآن کریم نازل نہ کرتے۔ اگر ہم اپنے کلام تمہیں اپنی ہدایت کی راہیں نہ بتاتے تو تم کس طرح وہ مقامات حاصل کر سکتے جو آج تمہیں حاصل ہیں۔ یہ قرآن ہی تھا جس نے محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو رسالت کے بلند ترین مقام پر پہنچا دیا۔ یہ قرآن ہی تھا جس نے ابو بکر کو ابو بکر ؓ۔ عمر کو عمرؓ۔ عثمان کو عثمانؓ اور علی کو علیؓ بنایا۔ بے شک ان لوگوں نے بڑی قربانیاں کیں۔ بے شک ان لوگوں نے دین کی بڑی خدمتیں کیں مگر یہ سب ہماری صفتِ رحمانیت کا نتیجہ تھا۔ یہ سب قرآن کا نتیجہ تھا۔ پس گوہم تمہارے لئے جزاء کا لفظ استعمال کر رہے ہیں مگر اس بات کو بھول نہ جاناکہ یہ محض ہماری صفت رحمانیت کا نتیجہ ہے جیسا کہ قرآن کریم میں دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلرَّحْمٰنُ عَلَّمَ الْقُرْاٰنَ (الرحمن ع ۱ ۱ ۱ ) کہ اگر رحمن خدا کی طرف سے قرآن نازل نہ ہوتا۔ اگر اس کی طرف سے تم پر یہ علوم اور معارف کھولے نہ جاتے تو تم کو وہ مقام کبھی حاصل نہ ہو سکتا جس پر تم آج پہنچے ہوئے ہو۔
رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس رب کی طرف سے تم کو یہ جزاء ملے گی وہ آسمان و زمین اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے۔ پس وہ جس پر مہربان ہویہ سب کُچھ اُسے بخش سکتا ہے گویا بخشش کی وسعت کے امکان کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔
لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا۔ ان کو اختیار نہیں ہے اُس سے خطا ب کرنے کا ۔ یا اُس سے خطاب کرنے کی وہ طاقت نہیں پاتے۔ دنیا میں بعض کام ایسے ہوتے ہیں جن میں ایک شخص دوسرے پر زور دے کر اُس سے اپنی بات منوالیتا ہے یا اگر بات نہ منوائے تو اس پر زور ضرور ڈالتا ہے مثلاً زیدؔ بکرؔسے بات کرتا ہے۔ اب خواہ بکر زیدؔ کی بات کو مانے یا نہ مانے زیدؔ اس خطاب کر لیتا ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ہستی ایسی ہے کہ اس جہان میں بھی اور اگلے جہان میں بھی وہ لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا کی شان رکھتی ہے یعنی اُس سے خطاب کرنے پر کوئی انسان مقدرت نہیں رکھتا۔ دنیا میں تو انسان کو خدا تعالیٰ پر جو ایمان ہوتا ہے وہ ہوتا ہی ایمان بالغیب ہے اس لئے اس میں خطاب کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن آخرت میں بھی یہی کیفیت ہو گی کہ کوئی انسان اس کی اجازت کے بغیر اُس سے گفتگو کرنے کی مقدرت نہیں رکھے گا۔ یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا خطاب نہیںکہلاتا کیونکہ خطاب کے معنے ہوتے ہیںآمنے سامنے ہو کر بات کرنا اور اس طرح خدا تعالیٰ سے بالمشافہ گفتگو کرنے کی کسی انسان میں طاقت نہیں ہے اگلے جہان میں بھی ایسا ہی ہو گاجس کو اجازت ہو گی بولے گا اور جس کو اجازت نہیں ہو گی نہیں بولے گا۔ اور درحقیقت لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا سے مراد ہی یہ ہے کہ یہ چیز اختیار نہیں ہو گی ورنہ یہ مراد نہیں کہ ایسا ہوگا ہی نہیں۔ لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا میں اللہ تعالیٰ کی صفتِ رحمانیت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اس سے پہلے اَلرَّحْمٰن کا لفظ اللہ تعالیٰ نے استعمال کیا تھا جس میں اس امر کی طرف اشارہ تھا کہ یہ ہمارا احسان ہے کہ ہم نے تم پر اپنا کلام نازل کیا ورنہ کسی انسانی عمل کے نتیجہ میں کلامِ الٰہی نازل نہیں ہؤا کرتا۔ پس رحمن کے لفظ میں جو اشارہ تھا کہ ہماری صفتِ رحمانیت کے نتیجہ میں ہی محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ا ٓئے اگر ہم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہ بھیجتے اور اگر قرآن ہماری طرف سے نازل نہ ہوتا تو تمہیں یہ ترقیات بھی نصیب نہ ہوتیں اور نہ ہماری طرف سے تمہیں کوئی جز اء ملتی۔ پس یہ جزاء جو تمہیں مل رہی ہے درحقیقت نتیجہ ہے خدائی کلام کا۔ مگر لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا۔ کسی انسان میں اُسے خطاب کرنے کی طاقت نہیں وہ آپ جب فضل نازل کرنا چاہے نازل کر دیتا ہے انسانی مقدرت اور کوشش کا اس میں دخل نہیں ہوتا۔ گویا رَبِّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ و مابَیْنَہُمَا الرَّحْمٰنِ لَا یَمْلِکُوْنَ مِنْہُ خِطَابًا میں رحمن کا لفظ جو بظاہر زائد لایا گیا تھا اس کی وجہ بیان کر دی کہ تمہارے بس اور طاقت کی یہ بات نہیںتھی کہ تم اس قدر ترقی کر جاتے۔ تم نے جو کچھ ترقی کی ہے کلام الٰہی کے عمل کے نتیجہ میں کی ہے اور کلام الٰہی اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا نتیجہ ہوتا ہے زور سے اُسے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔
یَوْم یَقُوْمُ الرُّوْحُ
(یہ اس دن ہو گا ) جس دن کہ روح کامل اور فرشتے صف باندھ کر کھڑے ہوں گے (اور) وہ بات نہ کر سکیں گے سوائے اس کے جسے رحمان (خدا) نے اجازت دی ہو گی۔ اور وہ (مناسب موقع) ٹھیک ٹھیک بات کہے گا۔۳۱؎
۳۱؎ حل لغات
اَلرُّوْحُ: اَلرُّوْح اَلْ اور رُوْح کا مجموعہ ہے۔ اَلْ مختلف اغراض کے لئے کسی لفظ پر داخل کیا جاتا ہے۔ اِن اغراض میں سے ایک یہ غرض بھی ہے کہ یہ بتایا جائے کہ جس لفظ پر اَلْ داخل ہؤا ہے وہ فرد اپنے افراد میں سے کامل ہے چنانچہ کہتے ہیں اَنْتَ رَجَلُ یعنی مرد کے کمالات کو اگر دیکھا جائے تو اس کی تعریف تجھ پر ہی صادق آتی ہے۔ باقی مردوں میں کچھ نقص ہیں۔ یہاںاَلرُّوْحُ میں اَلْ کمال کے اظہار کے لئے لایا گیا ہے اور مراد یہ ہے کہ ارواح میں سے کامل روح۔
اَلصَّوَابُ: اَللَّائِقُمناسب۔ اَلْحَقُّ پکی بات۔ ضِدُّالْخَطَائِ درست بات (اقرب)
تفسیر
یَوْمَ یَقُوْمُ ظرف ہو سکتا ہے لَا یَمْلِکُوْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلَآئِکَۃّ صَفًا یا لَایَتَکَلَّمُوْنَ یَوْمَ یَقَوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُصَفًا میں نے جو معنے کئے ہیں اس کے لحاظ سے یَوْمَ یَقَوْمُ الرُّوْحُ والی آیت لَایَتَکَلَّمُوْنَ سے زیادہ تعلّق رکھتی ہے گو لَایَمْلِکُوْنَ سے بھی اس کا تعلق ثابت ہے۔ بہرحال میرے معنوں کے رُو سے اگر اس آیت کو لَا یَتَکَلَّمُوْنَ کے ساتھ لگایا جائے تو زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فر ماتا ہے یَوْمَ یَقَوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًا جس دن روح بھی اور ملائکہ بھی صف باندھ کر کھڑے ہوں گے۔ یہاں روح کے متعلق سوال پیدا اہوتا ہے کہ کیا چیز ہے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ اس سے ارواح بنی آدم مراد ہیں۔ حسن ؔاور قتادہؔ کہتے ہیں کہ اس سے بنو آدم مراد ہیں۔ شعبی اور سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ اس سے مراد جبریل ہے اور وہ نَزَلَ بِہٖ الرُّوْحُ الْاَمِیْن ُ(الشعرآء ع ۱ ۱ ۵ ۱ ) سے استدلال کرتے ہیں گویا مفسّرین کے نزدیک روح سے مراد جبریل ہے بعض نے یہ معنے بھی کئے ہیں گو یہ بالکل لغو ہیں کہ اس سے مراد انسانوں کے سوا کوئی اور جنس ہے مگر یہ بالکل لغو بات ہے جب قرآن سے ایسی بات ثابت نہ ہو اُسے پیش کرنا خلاف عقل ہے۔ لیکن باقی معنی ایسے ہیں جو اس آیت پر چسپاں کئے جا سکتے ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓکے قول سے اتنی بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ وہ اگلے جہاں کی زندگی کو ا سی جسم کے ساتھ نہیں سمجھتے تھے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ انسانی جسم فنا ہو جاتے ہیںاور ارواح انسانی کو اگلے جہان میں زندگی دی جاتی ہے اسی لئے انہوں نے معنے یہ کئے ہیں کہ اس سے ارواح بنی آدم مراد ہیں۔ لیکن حسن اور قتادہ کہتے ہیںکہ اس سے بنو آدم مراد ہیں گویاوہ اس بات کے قائل تھے کہ زندگی اسی مادی جسم کے ساتھ ہو گی۔ یہ بھی ایک اختلاف ہے جو مسلمانوں میں دیر سے چلا آ رہا ہے کہ یہی جسم دوبارہ زندہ ہو گا یا کوئی اور جسم ہو گا۔ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہاں جسم توضرور ہو گا مگر وہ ایک روحانی جسم ہو گایہ موجودہ جسم نہیں ہو گا۔ یہ جسم مٹی میں مل کر فنا ہو جائے گا البتہ اس کے کسی باریک حصہ کو لے کر جسے درحقیقت روحانی حصہ ہی کہنا چاہئیے اللہ تعالیٰ اُسے نشوونما دینا شروع کر دے گااور اُسے انسان کا جسم بنا دے گا۔ انسان اپنے ذہن میں اس جسم کا ایک تسلسل سمجھے گا اور یقین رکھے گا کہ میں وہی آدمی ہوں جو دنیا میں ہؤا کرتا تھا مگر وہ جسم اور ہو گا۔حضرت ابن عباسؓ کے قول سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی یہی سمجھتے تھے کہ اگلے جہان میں ہر انسان کو رُوحانی جسم ملے گا کیونکہ وہ رُوح سے ارواح بنی آدم مراد لیتے ہیں صرف بنو آدم مراد نہیں لیتے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خود قتادہ کو جو اُن کے شاگرد تھے یہ شبہ پیدا ہؤا ہے کہ میرے اُستاد تو ارواح بنی آدم مرادلے رہے ہیں اور اس طرح اُن کے اپنے عقیدے سے وہ اختلاف رکھتے ہیں۔ چنانچہ قتادہ کہتے ہیں ھَذَا مَاکَانَ یُخْفِیْہٖ ابْنُ عَبَّاسٍ کا مطلب درحقیقت بنو آدم سے ہی تھا مگر انہوں نے اسے لفظوں میں چھپا دیا۔ حالانکہ اُن کو اخْفا کی کیا ضرورت تھی۔ معلوم ہوتا ہے ابن عباس کا یہی عقیدہ تھا کہ جو شخص مرجا تا ہے اس کا جسم فنا ہو جاتا ہے زندگی صرف روح ملتی ہے۔ بہرحال یہ سارے معنے وہ ہیں جو اگلے جہان پر ہی چسپاں ہوتے ہیں اس جہان پر چسپاں نہیں ہوتے۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں اس سورۃ میں غلبۂ قرآن۔ غلبۂ اسلام اور قیامت تینوں چیزوں کا ذکر ہے اور تینوں چیزیں مراد لی جا سکتی ہیں لیکن یہ معنے تینوں مقامات پر چسپاں نہیں ہوتے۔ بے شک قیامت پر چسپاں ہو جائیں گے مگر غلبۂ قرآن یا غلبۂ اسلام پر چسپاں نہیں ہو تے۔بے شک قیامت پر چسپاں ہو جائیں گے مگر غلبۂ قرآن یا غلبۂ اسلام پر چسپاں نہیں ہو سکیں گے۔ اس لئے اب میں وہ معنے بتاتا ہوں جو اس دنیا پر چسپاں ہو جاتے ہیں اور اگلے جہان پر بھی چسپاں ہو جاتے ہیں اور وہ معنے یہ ہیںکہ میں اَلرُّوحُ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روحِ کامل مراد لیتا ہوں اور یَوْم سے مراد قیامت کا وہ دن لیتا ہوں جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شفاعت فرمائیں گے اور یہ معنے ایسے ہیں جن کی قرآن اور حدیث دونوں سے تصدیق ہوتی ہے۔ حدیثوں سے صاف پتہ لگتا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں پر سخت گھبراہٹ طاری ہو گی اُس وقت آپ فرماتے ہیں کہ میں خدا کے سامنے جا کر لوگوں کی شفاعت کروں گا پس روح سے مراد اس جگہ محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روح کامل ہے۔ تو آیت یَوْمَ یََقَوْمُ الرُّوحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًا کے معنے ہوں گے جس دن کھڑی ہو گی روحِ کامل اور کھڑے ہوں گے ملائکہ صف باندھ کر۔ لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اس وقت کوئی نہیں بولے گا اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ سوائے اس کے جسے خدا اجازت دے گا اور کہے گا کہ تُو لوگوں کی شفاعت کر سکتا ہے۔ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ کے الفاظ بھی بتا رہے ہیں کہ یہاں شفاعت کا ہی ذکر ہو رہا ہے کیونکہ شفاعت ہی ایک ایسی چیز ہے جو اذن سے ہو گی اور وہی لوگ شفاعت کریں گے جنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اجازت ملے گی۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں جب قیامت کا دن آئے گا فَیَشْفَعُ النَّبِیُِّوْنَ وَالْمَلٰئِکَۃُ وَالْمُؤْمِنُوْنَ فَیَقُوْلُ الْجَبَّارُ بَقِیَتْ شَفَاعَتِیْ (بخاری کتاب التوحید )کہ انبیاء بھی شفاعت کریں گے اور ملائکہ بھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ انبیاء نے بھی شفاعت کر لی۔ ملائکہ نے بھی شفاعت کر لی مومنوں نے بھی شفاعت کر لی۔ اب صرف میں باقی رہ گیا ہوں۔ چنانچہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں آئے گی اور بہت سے لوگ دوزخ سے نجات پا جائیں گے۔
یہ اعتراض کرنا کہ اگر یہاں شفاعت کا ذکر ہے تو پھ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا اور لوگوں کی شفاعت کا کیوں ذکر نہیں۔ درست نہ ہو گا۔ کیونکہ جب بادشاہ کا ذکر کر دیا جائے تو اس کے وزراء اور سکرٹریوں وغیرہ کا ذکر اس میں شامل ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے تابع ہوتے ہیں۔ جب یہ کہہ دیا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قیامت کے دن لوگوںکی شفاعت فرمائیں گے تو باقی انبیاء اور شہدا ء اور صلحاء وغیرہ کا اسی میں ذکر آگیا کیونکہ جب روح کامل کا ذکر کر دیا گیا تو دوسری ارواح جو اس سے نچلے درجہ کی ہیں اُن کا ذکر اسی میں خود آگیا اسی طرح گزشتہ انبیاء کی روحیں بھی اَلرُّوْحُ میں شامل سمجھی جائیں گی۔ پس لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ نے صاف بتا دیا کہ یہاںشفاعت کا ہی ذکر ہے اور شفاعت جس روح نے کرنی ہے وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہی رُوح ہے اور اَلرُّوْحُ سے مراد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں۔
اس دنیا میں بھی ایسا ہی ہؤا۔ محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی روح جب کھڑی ہوئی تو ملائکہ آپ کے ساتھ تھے۔ اس لحاظ سے اس آیت کو اسلامی جنگوں کے متعلق بھی سمجھا جائے گااور مراد یہ ہو گی کہ جب دشمنوں کے مقابلہ کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نکلیں گے تو فرشتوں کی فوج صف باندھ کرآپ کے ساتھ ہو گی اور وہ آپ کی مدد کریں گے چنانچہ قرآن کریم میں یُعْدِدْکُمْ رَبُّکُمْ بِخَمْسَۃِ اٰلَافٍ مِّنَ الْمَلَآئِکَۃِ مُنْزَلِیْنَ (آل عمران ع ۳ ۱ ۴ ) کے الفاظ آتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ نے بعض جنگوں میں پانچ پانچ ہزار ملائکہ کے لشکر کے ساتھ مسلمانوں کی مدد کی۔ ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یَوْمَ یَقَوْمُ الرُّوْحُ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًا سے خاص طور پر فتح مکّہ کی طر ف اشارہ سمجھا جائے گا۔ وہ وقت ایسا تھا کہ جیسے ایک غالب بادشاہ سے مغلوب قوم ڈرتی ہے اسی طرح مشرکین مکہ ڈرتے اور کانپتے ہوئے آپ کے سامنے پیش ہوئے اُن کے اندر یہ طاقت ہی نہیں تھی کہ وہ بول سکیں۔ سوائے اس کے رحمن خدا کے حکم سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے انہیں بولنے کی اجازت ملتی۔ اس میں کیا شک ہے کہ جہاں تک انسانی انصاف کا سوال ہے کفّار مکّہ سخت سزا کے مستحق تھے مگر رحمن خدا نے ان کے لئے بخشش کا فیصلہ محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سنا دیا تھا جب کفار مکہ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کہا کہ ہم سے وہی سلوک کرو جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تو انہوں نے اس سبق کو دُہرایا جو رحمن نے قرآ ن کریم میں ان کو دیا تھا کہ ہم نے محمدؐ کو مثل یوسف بنایا ہے اور جب محمد رسول اللہ صلعم نے معاف فرما دیا تب بھی رحمن کے حکم کو ہی دُہرایا۔
پھر تیسرے معنوں کے لحاظ سے اس میں غلبۂ اسلام کی طرف بھی اشارہ ہے اور مراد یہ ہے کہ یَوْمَ یَقَوْمُ الرُّوْحُ جس دن ہمارا رسول محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تم پر فتح حاصل کر کے کھڑا ہو گا وَالْمَلٰٓئِکَۃُ صَفًا اور ملائکہ اس کے ساتھ صف باندھے کھڑے ہوںگے۔ یہاں ملائکہ سے ہم فرشتے مراد نہیں لیں گے بلکہ مراد یہ لیں گے کہ ایسے لوگوں کی جماعت آپ کے ساتھ ہو گی جو ملائکہ صفت کے ہوں گے۔ اسلام کی منظم حکومت دنیا میں قائم ہو جائے گی اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم براہ راست دنیا سے خطاب کریں گے لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ اُس وقت ہی بولے گا جسے خدا کی طرف سے بولنے کی اجازت ہو گی یعنی محمد رسول اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دربار میں بولنے والے ایسے ہوں گے جن کو خدا نے اجازت دی ہو گی کہ وہ بولیں۔ وَقَالَ صَوَابًا اور وہ جو بھی مشورہ دیں گے بالکل صحیح ہو گا۔ گویا محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی جماعت ملے گی جس کی بڑی خوبی یہ ہو گی کہ وہ تب بولے گی جب خُدا اُسے حکم دے گا وہ کوئی کام خدا کے حکم کے بغیر نہیں کرے گی۔ جو کچھ کہے گی اور جو کچھ کرے گی خدا کے حکم کے مطابق کرے گی ۔ باقی لوگوں کا یہ حال ہے کہ وہ خدا کی اجازت کی طرف نہیں دیکھتے بلکہ اپنی نفسانی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔ خدا نے نہیں کہا کہ رنڈیوں کا ناچ دیکھو مگر وہ رنڈیوں کا ناچ دیکھتے ہیں۔ خدا نے نہیں کہا کہ بیحودہ اور گندے گانے سنو مگر وہ اپنی ساری لذّت انہی گندی گانوں میں سمجھتے ہیں۔ خدانے نہیں کہا کہ لغو قصّے کہانیوں میں اپنا وقت گزارو۔ مگروہ اپنا اکثر وقت ایسی ہی گندی کتابوں اور ناولوں میں کے پڑھنے میں صرف کر دیتے ہیں۔ گویا وہ جو کچھ کرتے ہیںخدا کے اذن کے بغیر اور اس کے منشاء کے خلاف کرتے ہیں۔ مگر محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ ایسی جماعت دے گا جس کے افراد اُس وقت بولیں گے جب خُدا اُن سے کہے گا کہ بولو۔ اس کے بغیر وہ کوئی بات نہیں کریں گے وَقَالَ صَوَابًا اور پھر وہ سچے مشورے دینے والے اور خوشامدی نہیں ہوں گے گویا ان آیات میں دربار محمدؐی کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ اِس اِس طرح ہو گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس دن ہمارے رسول کی روح کھڑی ہوئی اور روح کے کھڑے ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ دنیا پر غالب آگئی۔ گویا قیام سے مراد ظاہری قیام نہیں بلکہ دُنیا پر غالب آنا اور اُسے اپنے زیرِنگیں کر لینا ہے۔ فرمایا جس دن یہ کامل روح کھڑی ہو جائے گی اور ملائکہ اس کے ساتھ صف باندھے ہوں گے لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا وہ لوگ جو اس کے ساتھی ہوں گے اُن کی یہ خصوصیت ہو گی کہ وہ نہیں بولیں گے جب تک خدا اُن کو بولنے کے لئے نہ کہے۔ وہ اُسی وقت بولیں گے جب خدا کی طرف سے ان کو بولنے کا حکم ہو گا اور اُسی قدر بولیں گے جس قدر بولنے کا خدا انہیں حکم دے گا۔ وہ لغو اور بیحودہ باتیں محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں نہیں کریں گے قرآن کریم میں بعض اور جگہ بھی اس کے متعلق اور اس کی ہدایت کے مطابق کریں گے قرآن کریم میں بعض اور جگہ بھی اس کے متعلق اشارے پائے جاتے ہیں۔ مثلاًایک جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَائَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ (المائدہ ع ۴ ۱ ۴ ) اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے لغو سوالات سے صحابہ کو روک دیا کہ یہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس کے آداب کے خلاف ہے۔ اور فرمایا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو جن پوچھنا پسند نہیں کرتا بلکہ ایسی ہی باتیں پوچھو جن کا پوچھنا تمہارا خدا پسند کرتا ہے۔ لَا یَتَکَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَہُ الرَّحْمٰنُ وَقَالَ صَوَابًا صحابہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں وہی باتیں پوچھیں گے جن باتوں کی انہیں خدا کی طرف سے اجازت ہے۔ اور جب بھی بولیں گے صحیح اور درست مشورہ دیں گے۔ اُن کے مشوروں میں منافقت نہیں ہو گی۔ وہ کسی خود غرضی کے ماتحت کوئی مشورہ پیش نہیں کریں گے بلکہ وہ جو کچھ کہیں گے بالکل صحیح اور درست ہو گا اور جو مشورہ دیں گے وہ سچا مشورہ ہو گا۔ اُن کے نفس کی کسی خواہش کا اُس میں دخل نہیں ہو گا۔
ذٰلِکَ الْیَوْمُ
یہ دن ہو کر رہنے والا ہے۔ پس (تم میںسے) جو (شخص) چاہے اپنے رب کے پاس (اپنا) ٹھکانہ بنا لے ۳۲؎ ہم نے تم کو ایک قریب (ز مانہ میں آنیوالے) عذاب سے یقینا ہوشیار کر دیا ہے۔ جس دن کہ انسان اُس کو دیکھ لے گا جو اس کے ہاتھوں نے آگے بھیجا ہو گااور کافر (اُس دن) کہہ اُٹھے گا اے کاش! (کاش) مَیں مٹی ہوتا ۳۳؎
۳۲؎حل لغات
مَاٰبَ کے لئے دیکھو حل لغات سورۃ النّباء ۱۷؎
اَلْحَقُّ: کے معنے ہیں اَلْاَمْرُ الْاَمْرُ الْمَقْضِیُّ فیصلہ شدہ بات۔ اَلْمَوْجُوْدُ الثَّابِتُ ایسی چیز جو موجود اور ثابت ہو (اقرب)
تفسیر
ذَلِکَ الْیَوْمُ الْحَقُّ یہ دن آکر رہنے والا ہے ۔ حَقّ کے معنے ہوتے ہیں وَاقع۔ ثَابت۔ فَمَنْ شَآئَ اتَّخَذَاِلٰی رَبِّہٖ مَاٰبًا۔پس جو چاہے اپنے رب کو مَاٰب بنا لے۔ مَاٰب کے معنے ہوتے ہیں وہ چیز جس کی طرف انسان بار بار لوٹ کر جاتا ہے چونکہ اسلام خدا کو مومن کا معشوق قرار دیتا ہے اس لئے فرمات ہے کہ اگر تم اپنے دعویٰ ٔ عشق میں صادق ہو تو پھر تمہارا یہ کام ہے جب تم دنیا کے کاموں سے فارغ ہو جائو خدا کو مَاٰب بنائو اور اُسی سے اپنی محبت اور عشق کا اظہار کرو۔ دوسری جگہ اسی مضمون کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ فَاِذَافَرَغْتَ فَانْصَبْ وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ (الانشراح) کہ جب تم دنیا کے دھندوں سے فارغ ہو جائو تو پھر خدا کی طرف ہی رغبت کرو اور اُسی کو اپنا مَاٰب بنائو۔ اُسی کی طرف جائو اور بار بار جائو۔ مثلاً انسان کو ئی کتاب لکھ رہا ہے تو اِدھر فقرہ ختم ہؤااور اُدھر اُس کی زبان سے نکلے سُبحان اللہ۔یا ایک شخص کھانا کھا رہا ہوتو اِدھر لقمہ چباتا جائے اور اُدھر سُبحان اللہ سُبحان اللہ کہتا جائے گویا اُس کا مَاٰب صرف خدا ہی ہو اور کسی طرف اُس کی حقیقی توجہ نہ ہو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس طرف بھی اشارہ فرماتا ہے کہ چونکہ وہ دن آنیوالا ہے جس میں اسلام کو چاروں اطراف غلبہ حاصل ہو جائے گا اس لئے کئی لوگوں کے دلوں میں یہ خواہش پید اہو گی کہ ہم کو بھی اس عزت میں سے کچھ حصہ مل جائے ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتاہے کہ اگر تمہاری سچے دل سے خواہش ہے کہ تم بھی ان کامیابیوں میں حصہ لو اور تمہیں بھی کوئی مقام حاصل ہو جائے تو ہماری نصیحت ہے کہ تم اپنے رب کو مَاٰب بنا لو۔ اور لوٹ لوٹ کر خدا کی طرف جائو۔ تمہیں کام سے ذرابھی فراغت نصیب ہو۔ تو تمہارا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول ہو جائو۔ اُس سے اپنی محبت بڑھائو۔ اُس کی طرف دوڑدوڑ کر جائو اور اُس کو اپنی جائے پناہ قرار دو۔ صرف پانچ وقت کی نماز میں اور تیس دن کے روزے انسان کے کام نہیں آتے بلکہ ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ رہنا اور انسان کا بار بار اس کی طرف لوٹنا۔ یہ چیز جو انسان کے کام آیا کرتی ہے۔
۳۳؎حل لغات
اَنْذَرْکُمْ اَنْذَرَ سے متکلم مع الصغیر کا صیغہ ہے اور اَنْذَرَہُ بِالْاَمْرِ کے معنے ہوتے ہیں اَعْلَمَہٗ وَحَذَّرَہُ مِنْ عَوَاقِبِہِ قَبْلَ حَلُوْلَہٖ کسی خطر ے سے اسکو اگاہ کیا اور خطرے کے آنے سے پیشتر ہی اُس کے بُرے انجاموں سے خبردار کر دیا (اقرب) پس اَنَْذَرْنٰکُمْ کے معنے ہوں گے کہ ہم نے عذاب قریب کے آنے سے پیشتر ہی اس سے اور اس کے انجاموں سے خبردار کر دیا ہے۔
تفسیر
فرماتا ہے ہم نے تمہیں عذابِ قریب سے ڈرا دیا ہے۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں اسلام اور قرآن کا غلبہ بھی مراد ہے صرف اگلا جہاں مراد نہیں۔ کیونکہ یہاں ایک بات سے دوسری بات کا نتیجہ نکالا گیا ہے۔ فرماتا ہے ہم نے عذابِ قریب سے تمہیں ڈرا دیا ہے۔ جو ثبوت ہو گا اس بات کا کہ عذابِ ابعید بھی آنیوالا ہے۔
یَوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ مَاقَدَّمَتْ یَدَاہُ: یَوْمَ عَذَابًا کا بدل ہے۔ پس اس جملہ کے یہ معنے ہیں کہ ہماری مراد اس سے وہ عذاب ہے جس دن انسان اپنے کاموں کے نتائج کو دیکھ لے گا۔ دیکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اتفاقی طور پردیکھ لے گابلکہ مراد یہ ہے کہ اُس پر اپنی ناکامی واضح ہو جائے گی۔ وہ دیکھ لے گا کہ اس نے اپنے کئے کا بدلہ پا لیا۔ مسلمان جیت گئے اور اُن کے دشمن ذلیل اور رُسوا ہو گئے چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غالب آنے کے ساتھ کفّار نے بھی اپنا انجام دیکھ لیا اور مومنوں نے بھی اپنے انعامات دیکھ لئے۔ یہاں تک کہ ابو قحافہ کے بیٹے ابو بکر ؓ نے اس کے نتیجہ میں بادشاہت کا مقام حاصل کر لیا ورنہ ابو بکر ؓ کی حیثیت کیا تھی۔ مکّہ کے ایک تاجر سے بڑھ کر اُن کی حیثیت نہ تھا مگر کُجا مکّہ کے ایک تاجر جسے مکّہ ریاست بھی حاصل نہیں تھی اور کُجا یہ کہ وہ ساری وسطی دنیا کے بادشاہ بن گئے۔ جب وہ بادشاہ ہوئے تو ایک شخص اُن کے والد ابو قحافہ کے پاس دوڑا دوڑا گیا۔ ابو قحافہ اُن کے والد کی کنیت تھی اور وہ اُن دنوں میں مکّہ میں تھے۔ چونکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فوت ہو چکے تھے اِس لئے تمام مسلمانوں میں گھبراہٹ تھی کہ اب نا معلوم کون مسلمانوں کا بادشاہ بنتا ہے۔ وہ دوڑا دوڑا وہاں پہنچا اور کہنے لگا کہ ابو بکر بادشاہ ہو گئے ہیں۔ اُن کے والد نے یہ بات سُنی تو کہنے لگے کون ابو بکر؟ گویا اُن کو یہ خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہ بادشاہ بننے والا اُن کا بیٹا ہو سکتا ہے۔ اُس نے کہا کہ وہی جو تمہارا بیٹا ہے اَور کون۔ انہوں نے سوال کرنا شروع کیا۔ فلاں قبیلہ نے مان لیا ؟ کیا فلاں قبیلہ نے مان لیا؟ جب اُس نے سب سوالوں کا جواب اثبات میں دیا تو وہ کہنے لگے کیا بنو ہاشم نے بھی مان لیا ہے؟ وہ کہنے لگا کہ بنو ہاشم نے بھی مان لیا ہے۔ اِس پر حضرت ابو بکر ؓ کے والد کہنے لگے اللہ! اللہ!محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے رسول تھے جن کے اثر کے نیچے ابو قحافہ کے بیٹے کو عرب کے قبائل اور سرداروں نے بادشاہ تسلیم کر لیا۔غرض یَوْمَ یَنْظُرُ الْمَرْئُ مَاقَدَّمَتْ یَدَاہُسے اسی طرف اشارہ تھا کہ ہر اِک اپنے اپنے کام کے مطابق نتیجہ دیکھ لے گا۔ چنانچہ لوگوں نے دیکھ لیا کہ رؤساء عرب ذلیل و رسواء ہو گئے اور ابو قحافہ کے بیٹے کی بنو ہاشم اور بنو عبدالمطلب نے بھی اطاعت اختیار کر لی۔
اگلے جہاں کے لحاظ سے وَیَقُوْلُ الْکَافِرُ یَالَیْتَنِیْ کُنْتُ تُرَابًا کے یہ معنے ہوں گے کہ کافر عذاب کو دیکھ کر حسرت کے ساتھ کہے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا اور اس عذاب کو نہ دیکھتا۔ اور اس جہاں کے لحاظ سے اس کے یہ معنے ہیں کہ کاش میں مٹی میں ہوتا اور اس ندامت اور شرمندگی کی ذلّت سے بچ جاتا جو مجھے دیکھنی نصیب ہوئی۔ چنانچہ مسلمانوں کی شوکت کے زمانہ میں کفّار کی یہی حالت ہوئی۔مکّہ کے وہ بڑے بڑے رؤسا اور سردار جو نہایت حقارت کے ساتھ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے والوں کو مکّہ کی گلیوں میں گھسیٹا کرتے تھے جب دیکھتے ہوں گے کہ وہ معمولی غلام جن کو ہم خاطر میں بھی نہ لاتے تھے جن کی تحقیر ہمارا دن رات کام تھا اور جن کو مٹانے کی ہم نے بڑی کوششیں کی وہ ہم پر غالب آچکے ہیں اور ہم اُن کے سامنے معمولی غلاموں کی طرح کھڑے ہیں تو اُن کے دلوں میں کیا کیا حسرتیں پیدا ہوتی ہوں گی اور کس طرح وہ اپنے دلوں میں بار بار کہتے ہوں گے کہ کاش ہم اس سے پہلے مر کر فنا ہو چکے ہوتے اور اس شرمندگی اور ذلّت کو دیکھنے سے بچ جاتے۔ حضرت عمرؓ ایک دفعہ اپنے زمانۂ خلافت میں مکّہ تشریف لائے تو شہر کے بڑے بڑے رؤسا جو مشہور خاندانوں میں سے تھے اُ ن کے ملنے کے لئے آئے۔ انہیں خیال پیدا ہؤا کہ حضرت عمر ؓ ہمارے خاندانوں سے اچھی طرح واقف ہیں اس لئے اب جب کہ وہ خود بادشاہ ہیں ہمارے خاندانوں کا بھی پوری طرح اعزاز کریں گے اور ہم پھر اپنی گم گشتہ عزت کو حاصل کر سکیں گے۔ چنانچہ وہ آئے اور انہوں نے اپنی باتیں شروع کر دیں ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ حضرت عمرؓ کی مجلس میں حضرت بلالؓ آگئے۔ تھوڑی دیر گزری تو حضرت خبابؓ آگئے اور اسی طرح یکے بعد دیگرے اول الایمان غلام آتے چلے گئے۔ یہ وہ لوگ تھے جو ان رئوسا یا اُن کے اباء کے غلام رہ چکے تھے اور جن پر وہ اپنی طاقت کے زمانہ میں شدید ترین مظالم کیا کرتے تھے حضرت عمرؓ نے ہر غلام کی آمد پر اُس کا استقبال کیا اور رئوسا سے کہا آپ ذرا پیچھے ہو جائیں اور اُن کو آگے بیٹھنے کے لئے جگہ دے دیں حتیٰ کے وہ نوجوان رئوسا جو آپ سے ملنے آئے تھے ہٹتے ہٹتے دروازہ تک جا پہنچے۔ اُس زمانہ میں کوئی بڑے بڑے ہال تو ہوتے نہیں تھے ایک چھوٹاسا کمرہ ہو گا اور چونکہ وہ سب ان میں سما نہیں سکتے تھے اس لئے اُن کو پیچھے ہٹتے ہٹتے جوتیوں میں جا بیٹھنا پڑا۔ جب مکّہ کے وہ رئوسا جوتیوں میں جا پہنچے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح ایک کے بعد ایک مسلمان غلام آیا اور اُس کو آگے بٹھانے کے لئے اُن کو پیچھے ہٹنے کا حکم دیا گیا تو اُن کے دل کو سخت چوٹ لگی۔ خدا تعالیٰ نے بھی اُس وقت کچھ ایسے سامان پیدا کر دئے کہ یکے بعد دیگرے کئی ایسے مسلمان آ گئے جو کسی زمانہ میں کفّارکے غلام رہ چکے تھے۔ اگر ایک بار ہی وُہ رئوسا ہٹتے تو اُن کو احساس بھی نہ ہوتا مگر چونکہ بار بار اُن کو پیچھے ہٹنا پڑا اس لئے وہ اس بات کو برداشت نہ کر سکے اور اُٹھ کر باہر چلے گئے۔ باہر نکل کر وہ ایک دوسرے سے شکایت کرنے لگے کہ دیکھو کہ آ ج ہماری کیسی ذلّت اور رسوائی ہوئی ہے۔ ایک ایک غلام کے آنے ہم کو پیچھے ہٹایا گیا۔ یَہاں تک کہ ہم جوتیوں میں جا پہنچے۔ اس پر اُن میں سے ایک نوجوان بولا اس میں کس کا قصور ہے عمرؓ کا کوئی قصور نہیں۔ یہ ہمارے باپ دادا کا ہی قصور تھا جس کی آج ہمیں سز ا ملی۔ کیونکہ خدا نے جب اپنا رسول مبعوث فرمایا تو ہمارے باپ دادا نے مخالفت کی ان غلاموں نے اُس کو قبول کیا اور ہر قسم کی تکالیف کو خوشی سے برداشت کیا اس لئے آج اگر ہمیں مجلس میں زلیل ہونا پڑا تو اس میں عمرؓ کا کوئی قصور نہیں ہمارا اپنا قصور ہے۔ اس کی یہ بات سُن کر دوسرے کہنے لگے ہم نے تو مان لیا کہ یہ ہمارے باپ دادا کا قصور کا نتیجہ ہے مگر کیا اس ذلّت کے داغ کو دُور کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں؟ اس پر سب نے آپس میں مشورہ کیا کہ ہماری سمجھ میں تو کوئی بات نہیں آتی چلو حضرت عمرؓ سے ہی پوچھیں کہ کیا علاج ہے۔ چنانچہ وہ حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور کہنے لگے آج جو کچھ ہمارے ساتھ ہؤا ہے اُس کو آپ بھی خوب جانتے ہیں۔ حضرت عمرؓ فرمانے لگے معاف کرنا میں مجبور تھا کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو رسول کریم کی مجلس میں معزز تھے۔ اس لئے میرا فرض تھا کہ میں اُن کی عزت کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں یہ ہمارے ہی قصور کا نتیجہ ہے لیکن آیااس عار کو مٹانے کا بھی کوئی ذریعہ ہے؟ ہم لوگ تو اس کا اندازاہ بھی نہیں لگا سکتے کہ اُنہیں مکّہ میں کس قدر رسوخ حاصل تھا لیکن حضرت عمرؓ اُن کے خاندانی حالات کو خُوب جانتے تھے۔ آپ مکہ میں پیدا ہوئے اور مکہ میں ہی بڑے ہوئے اس لئے آپ جانتے تھے کہ ان نوجوانوں کے باپ دادا کس قدر عزت رکھتے تھے۔ آپ جانتے تھے کہ کوئی شخص ان کے سامنے آنکھ اٹھانے کی بھی جرأت نہیں کر سکتا تھا۔ اور آپ جانتے تھے کہ اُنہیں کس قدر رُعب اور دبدبہ حاصل تھا۔ جب انہوں نے یہ بات کہی تو حضرت عمرؓ کے سامنے ایک ایک کر کے یہ تمام وقعات آگئے اور آپ پر رقّت طاری ہو گئی۔ اُس وقت غلبۂ رقّت کی وجہ سے بول بھی نہ سکے صرف آپ نے ہاتھ اُٹھایا اور شمال کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ شمال میں یعنی شام میں بعض اسلامی جنگیں ہو رہی ہیں اگر تم ان جنگوں میں شامل ہو جائو تو ممکن ہے اس کا کفّارہ ہو جائے چنانچہ وہ وہاں سے اٹھے اور جلد ہی ان جنگوں میں شامل ہونے کے لئے چل پڑے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ اُن میں سے ایک شخص بھی زندہ واپس نہیں آیا سب اسی جگہ شہید ہو گئے اور اس طرح انہوں نے اپنے خاندانوں کے نام پر سے داغِ ذلّت کو مٹا دیا۔ یہ لوگ تو مخلص تھے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لا چکے تھے جب اُن کا یہ حال تھا تو سمجھ لو کہ کفّار کا کیا حال ہو تا ہو گا۔ وہ کس طرح ان حالات کو دیکھ دیکھ کر کُڑھتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ ہائے ہم مٹ جاتے۔ ہم مر کر فنا ہو چکے ہوتے مگر یہ دن ہمیں دیکھنا نصیب نہ ہوتا۔ جب وہی لوگ جن کو وہ گلیوں میں گھسیٹا کرتے تھے جن کے سینوں پر وہ بڑے بڑے گرم پتھّر رکھ کر انہیں اسلام سے پھرانے کی کوشش کرتے تھے۔ جن کو مارتے مارتے اور گالیاں دیتے اور ہر قسم کے دُکھ پہنچایا کرتے تھے فتح مکہ کے دن گھوڑے دوڑاتے ہوئے آئے ہوں گے اور یہ لوگ اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھ رہے ہوں گے کہ کہیں ان لوگوں کی ہم پر نظر نہ پڑ جائے۔ تو کس طرح اُن کی عزتیں خاک میں ملتی ہوئی نظر آتی ہوں گی۔ کس طرح بار بار اُن کی زبان سے یہ نکلتا ہو گا کہ کاش ہم اس سے پہلے مر کر فنا ہو چکے ہوتے اور اپنی ذلّت کا یہ دن نہ دیکھتے۔ غرض ابتدائی ایام اسلام میں ہی اللہ تعالیٰ نے وہ سارا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا جو آئندہ زمانہ میں اسلام اور مسلمانوں کا ہونے والا تھا۔ ابھی وہ بہت سے لوگ زندہ تھے۔ جنہوں نے اس نقشہ کو ایک مجنون کی بڑ سے وقعت نہ دی تھی کہ خدا کی بات پوری ہو گئی اور ان لوگوں نے اپنی آنکھوں سے اس نقشہ کے مطابق پیدا ہوتے ہوئے حالات دیکھ لئے۔
سُوْرَۃُ الْغَاشِیۃِ مَکِّیَّۃٌ
سورۃ غاشیہ۔ یہ سورۃ مکّی ہے ۱؎
اور اس کی بسم اللہ کے علاوہ چھبیس آیات ہیں اور ایک رکوع ہے
۱؎ اس سورۃ کا نام غاشیہ ہے اور یہ سورۃ بغیر کسی اختلاف کے مکّی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ اور حضرت عبداللہ بن زبیرؓ دونوں سے مروہ ہے کہ یہ سورۃ مکّہ میں نازل ہوئی تھی اور چونکہ کوئی اور روایت اس کے خلاف نہیں اس لئے اس سورۃ کے مکّی ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
مسند احمد بن حنبل اور مسلم اور سُنن نسائی اور سُنن ابودائود اور ابن ماجہ میں نعمان بن بشیرؓ سے روایت آتی ہے کہ رسول کریم ﷺ جمعہ اور عیدین کی پہلی رکعت میں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی اور دوسر ی میں سورۃ الغاشیہ پڑھا کرتے تھے بلکہ اگر دونوں نمازیں جمع ہو جاتی تھیںیعنی کبھی عیدالفطر اور جمعہ اکٹھے ہو جاتے یا عیدا لضحٰی اور جمعہ اکٹھے ہو جاتے تب بھی آپ دونوں نمازوں میں یہ دونوں سورتیں پڑھا کرتے تھے۔
پادری ویری لکھتے ہیں کہ اس سورۃ کے نزول کا زمانہ چوتھے سال نبوت کے قریب ہے کیونکہ اس کے مضامین ایسے ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ مسلمانوں پر کفار کے مظالم یا تو شروع ہو گئے تھے یا شروع ہونے والے تھے۔ نولڈکے NOLDEKEجرمن مصنّف ہے اُس کا بھی یہی خیال ہے اور چونکہ صحابہؓ کی رائے بھی جو قطعی طور پر آپس میں ملتی ہے اس رائے کے موافق ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ یہ سورۃ اتنا عرصہ پہلے نازل ہوئی ہے کہ یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے ابتدائی زمانہ میں نازل ہونے کے خلاف کوئی بات کہی جا سکتی ہو اِس لئے ہمیں اس سورۃ کے متعلق کسی بات کی تردید کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔
اس کے مضامین ایسے ہی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ دشمن اپنی دشمنی کو شروع کرنے والا ہے۔ اس میں ایسی دشمنی کا اظہار نہیں جو عملًا رونما ہو چکی ہو لیکن اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ لوگ منصوبہ بازیاں کر رہے ہیں تاکہ مسلمانوں پر سختیاں کریں اور مسلمان حیران ہیں کہ اب ہمارا کیا بنے گا۔ پس یوروپین مصنّفین کا استدلال غلط نہیں کہ یہ سورۃ ابتدائی زمانہ کی ہے بلکہ اسلامی روایات کے مطابق درست معلوم ہوتا ہے۔
اِس سورۃ اور سورۃ الاعلیٰ کو رسول کریم ﷺ کا جمعہ اور عیدین میں پڑھنا اور بالالتزام پڑھنا اور اتنا تعہد کرنا کہ اگر دونوں نمازیںجمع ہو جائیں تب بھی آپ دونوں میں التزامًا یہ سورتیں پڑھا کرتے تھے بتاتا کہ اسلام کی اجتماعی زندگی کے ساتھ یہ دونوں سورتیں گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ سورۃ الاعلیٰ کا جوڑ تو نظر ہی آتا ہے کہ اُس میں قرآن کریم کے قولِ فصل ہونے کے لحاظ سے بحث کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح اسلام اپنے انتہائی کمال کو پہنچ جائے گا۔ اس ضمن میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسلام کو ایسے خادم مل جا ئیں گے جو قرآن کے حافظ ہوں گے۔ اسی طرح اس کی حفاظت کے متعلق اور کئی قسم کی غیر معمولی تحریکات دنیا میں جاری ہو جائیں گی۔ گویا سورۃ الاعلیٰ اسلامی ترقی اور دین کی اشاعت۔ اُس کے ماننے والوں کی زیادتی اور مسلمانوں کے غلبہ پر دلالت کرتی تھی اور سورۃ الغاشیہ میں گو وہ مضمون نہیں مگر اس میں بھی یہ بات ضرور پائی جاتی ہے کہ کافروں کے اسلام کے خلاف اُٹھنے اور زور لگانے کا اس میں اشارہ کیا گیا ہے اور مومنوں کا ان کے مقابلہ میں کامیاب ہونا اشارۃً بیان کیا گیا ہے مگر چونکہ ابھی اسلام کے ابتدائی ایام تھے اور خواہ مخواہ کفار کا بھڑکانہ مقصود نہیں تھا اس لئے جنگ اور مقابلے کا اللہ تعالیٰ صریح الفاظ میں ذکر نہیں کرتا بلکہ ایسے الفاظ میں ذکر کرتا ہے جو ٹھیس لگانے والے نہ ہوں۔ جس طرح دشمن نے کھلے طور پر مخالفت کا اظہار نہیں کیا تھا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بھی کھلے طور پر یہ ذکر نہیں کیا کہ مسلمان لڑیں گے اور کفار کو مغلوب کریں گے صرف نتیجہ کا ذکر کر دیا ہے کہ اسلام کے خلاف مخالفین کچھ کوششیں کریں گے لیکن وہ اسلام کو گزند پہنچانے میں ناکام رہیں گے اور آخر مسلمانوں کو اپنے مخالفین پر غلبہ حاصل ہو جائے گا۔ گویا صاف الفاظ میں اس سورۃ میں لڑائی کا ذکر نہیں کیا صرف اشارۃً ذکر کیا ہے تاکہ اس وقت جب کہ مخالفین اسلام نے کھلے طور پر حملہ نہیں کیا تھا اس قسم کی باتوں کی وجہ سے اسلام کی طرف سے ابتداء نہ سمجھی جائے اور یہ خیال نہ کیا جائے کہ کفار کو انہوں نے بھڑکا دیا ہے۔
اس سورۃ کا مضمون بھی اجتماعی کاموں پر دلالت کرتا ہے۔ چنانچہ اس سورۃ میں ایک مجموعۂ افراد کا ذکر کرتے ہوئے پیشگوئی کی گئی ہے کہ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَاعِمَۃٌ لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ۔ ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے صرف رسول کریم ﷺ کی ترقی کی خبر نہیں دی بلکہ جماعت مسلمہ کی ترقی کی بھی خبر دی ہے اِسی طرح وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌمیں اجتماعی طور پر کفار کے متعلق خبر دی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں ناکام رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح سورۃ الاعلیٰ رسول کریم ﷺ کے زمانہ اور آخری زمانہ یعنی ہر دو زمانون کے متعلق ہے اور یہ سورۃ بھی ان دونوں زمانوں کے حالات بیان کرتی ہے۔ چونکہ ان دونوں سورتوں کا مضمون ایسا ہے جو شروع زمانۂ اسلام سے آخر زمانۂ اسلام سے تعلق رکھنے والا تھا۔ اس لئے رسول کریم ﷺ ہمیشہ جمعہ اور عیدین میں بالالتزام اِن دونوں سورتوں کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ جمعہ اور عیدین جو اجتماع کے مواقع ہیں اُن میں رسول کریم ﷺ کا اِن دونوں سورتوں کا تلاوت کرنا بتاتا ہے کہ جب بھی مسلمان اجتماعی طاقت پکڑنے کی طرف متوجہ ہوں گے اور جب بھی خدا تعالیٰ مسلمانوں کی کمزوری کو دُور کرنے لگے گا اُس وقت یہ دونوں سورتیں اپنے مطالب کے لحاظ سے ظاہر ہو جائیں گی۔
سورۃ الاعلیٰ میں یہ بات واضح کی گئی تھی کہ مُسلمانوں کی ترقی اُس وقت ہو گی جب قرآن کریم کے معارف اور اُس کے علوم ظاہر کرنے والا مامور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے گا۔ گویا مسلمانوں کی ترقی کبھی بھی دنیوی ذرائع سے نہیں ہو گی بلکہ مامورین پر ایمان لانے والے اور ان کی ہدایات پر چلنے کے ذریعہ ہو گی جیسا کہ سَنُقْرِئُکَ فَلَا تَنْسٰٓی کے الفاظ اس پر شاہد ہیں کہ قرآن کریم کے کے خدّام جو بُھولے ہوئے قرآن کو پھر واپس لائیں گے اُن کے ذریعہ ہی مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عزت کو حاصل کر سکیں گے۔ آج جو مسلمان سیاسی ذرائع سے ترقی حاصل کرنا چاہتے ہیں اُن کو سورۃ الاعلیٰ کے مضامین کی طرف توجہ کرنی چاہئیے۔ اب اس سورۃ میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب بھی اسلام کی ترقی ہو گی تلواروں کے سایہ کے نیچے ہو گی۔ کبھی کوئی مامور ایسا نہیں آ سکتا جس کے آنے پر دُنیا اُس کا خوشی سے استقبال کرے اور کہے ’’جی آئیاں نوں‘‘ یا ’’بھلے آئے‘‘ یا ’’برسروچشم‘‘بلکہ جب بھی کوئی مامور آئے گا وُجُوْۂ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ کی حالت رونما ہو گی اور ضرور اس کی مخالفت ہو گی اس مخالفت کے بغیر کسی روحانی سلسلہ کی ترقی کا امکان بالکل ناممکن ہے۔ اگر حضرت مسیح ناصریؑ جیسا کہ مسلمان سمجھتے ہیں کسی وقت آسمان سے اُتر آئیں تو اُن کے زمانہ میں وُجُوْۂ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ کی کوئی صورت نہیں ہو سکتی۔ لوگ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جائیں گے اور اُن کے حلقۂ غلامی میں شامل ہو جائیں گے کیونکہ فرشتے اُن کے ساتھ ہوں گے اور کسی کو انکار کی جرأت نہیں ہو سکے گی۔ مگر الٰہی سُنت کے ماتحت ایسا کبھی نہیں ہو سکتا ضروری ہے کہ ہر الٰہی سلسلہ کی مخالفت ہو اور مخالفت کے بعد اُس کو ترقی نصیب ہو۔ غرض اِن دونوں سورتوں سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام کو ہمیشہ شدید مخالفت کے بعد ترقی ہوتی ہے پس یہ دونوں سورتیں مضامین کے لحاظ سے آپس میں گہرا تعلق رکھتی ہیں۔
اس سورۃ کا سورۃ الاعلیٰ سے ایک قریبی تعلق ہے جو بحر محیط کے مصنّف نے بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں نار اور آخرت سے ڈرانے کا حکم تھا اور اس سورۃ میں دوزخ و جنت کا ذکر کیا گیا ہے مگر اصل تعلق وہی ہے جو میں نے بیان کیا ہے کہ ان ہر دو سورتوں میں اسلام کی ترقی کے دو اصول بیان کئے گئے ہیں۔ سورۃ الاعلیٰ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب بھی مسلمانوں کا تنزّل ہو گا قرآن کریم کے بھولنے سے ہو گا اور جب بھی مسلمانوں کی ترقی ہو گی ایسے شخص کے ذریعہ ہو گی جو قرآن کو آسمان سے واپس لائے گا گویا ایسے مامور تو آئیں گے جو بُھولے ہوئے قرآن کو یاد کرائیں گے مگر ایسے مامور نہیں آ سکتے جو نئی شریعت لائیںاور سورۃ الغاشیہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی دَور اول میں ہو یا دَور آخر میں ہمیشہ ایسے ماموروں کے ذریعہ ہو گی جن کی شدید مخالفت ہو گی مگر بالآخر وہ جیت جائیں گے جیسا کہ وُجُوْۂ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ میں بتایا ہے۔ پس مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئیے کہ اُن کی ترقی ہمیشہ مامورین پر ایمان لانے اور ساری دنیا سے لڑائی جھگڑا مول لینے کے بعد ہو گی۔ ایسا وجود کوئی نہیں آ سکتا جِسے لوگ آپ ہی مان لیں۔ پس آسمان سے کسی مامور کے اُترنے کا خیال بالکل خلافِ قرآن ہے۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
ھَلْ اَتٰکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃ
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں)
کیا تجھے (دنیا پر) چھا جانے والی (مصیبت) کی بھی خبر پہنچی ہے؟ (یا نہیں)۲؎
۲؎حل لغات
ھَلْ جب فعل سے پہلے آئے تو اس کے معنے قَدْ کے ہوتے ہیں لیکن عام طور پر ھَلْ تصدیق ایجابی کے لئے ہوتا ہے یعنی عام معنے اس کے ایسے سوال کے ہیں جس کے جواب میں تصدیق کا مطالبہ ہوتا ہے سوائے اس کے کہ اس کے بعد اِلَّا آ جائے اُس وقت اُس کے معنے نفی کے ہو جاتے ہیں۔ پس آیت کے معنے تو یہ ہوں گے کہ کیا حدیثِ غاشیہ آ پہنچی یا نہیں یعنی آ پہنچی ہے اور یا پھر یہ معنی ہوں گے کہ وہ ضرور آ پہنچی ہے۔
حَدِیْثٌ کے معنے خبر کے ہوتے ہیں (اقرب)
غَاشِیَۃٌ: غَاشِیْ کا مؤنث ہے اور اس کے معنے ہیں ڈھانکنے والی چیز۔ نیز غَاشِیَۃٌ قیامت کا بھی نام ہے کیونکہ اُس میں اس قدر ڈر اور خوف اور صدمہ کی باتیں ہوں گی کہ اُن کی وجہ سے وہ انسانی دماغ پر چھا جائے گی۔ (اقرب) جب کبھی کوئی بڑا حادثہ ہوتا ہے باقی سارے حالات انسان کے دل میںمحو ہو جاتے ہیں۔ قیامت چونکہ ایک بڑا بھاری حادثہ ہو گا اور قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ اُس وقت ہر شخص دوسرے کو بُھول جائے گا یہاں تک کہ ماں اپنے بچہ کو بھول جائے گی اور قیامت کا خیال باقی تمام خیالات پر مستولی اور غالب آ جائے گا اس لئے قیامت کو بھی غَاشِیَۃ کہا جاتا ہے اور غَاشِیَۃ جہنم کی آگ کو بھی کہتے ہیں (اقرب) کیونکہ اس کا عذاب کامل ہے۔ عام عذاب ایسے ہوتے ہیں کہ اُن میں کوئی نہ کوئی پہلو عذاب سے بچا ہؤا ہوتا ہے۔ ایک طرف سے اگر دُکھ پہنچ رہا ہوتا ہے تو دوسری طرف سے سُکھ بھی پہنچ رہا ہوتا ہے۔ اگر کسی ایک بچہ مر جائے تو اُس کا دوسرا بچہ اُس کے سامنے کھیل رہا ہوتا ہے یا کسی کا باپ مرے تو اس کی ماں اُس کے پاس موجود ہوتی ہے یا دوسرے بھائی۔ عزیز اور رشتہ دار پاس ہوتے اور اس غم میں بھی تسکین کا ایک پہلو پایا جاتا ہے۔ یا کسی کو مال کا نقصان پہنچا ہے تو دوسری طرف سے کوئی فائدہ پہنچ جاتا ہے غرض دنیوی عذاب سب ایسے ہیں کہ ایک طرف سے اگر عذاب آتا ہے تو اُس کے ساتھ ہی کوئی نہ کوئی سکھ کا پہلو بھی ہوتا ہے مگر جہنم کے عذاب کو غاشیہ اس لئے کہتے ہیں کہ وہ کامل عذاب ہو گا اور اُس میں سکھ کا کوئی پہلو نہیں ہو گا۔ اور غاشیہؔ زبردست مصیب کو بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ کہتے ہیں تَاْتِیْہٖ غَاشِیَۃٌ مِنْ عَذَابَ اللّٰہِ اَیْ نَائِبَۃٌ تَغْشَاہُ۔ یعنی اُس پر ایسی مصیبت نازل ہو گی جو اُس کو ڈھانپ لے گی (اقرب) اور غَاشِیَۃ پیٹ کی بیماری کو بھی کہتے ہیں۔ اور غَاشِیَۃ کے معنے ایسی جماعت کے بھی ہیں جو سوال کے رنگ میں یا کوئی اور فائدہ اُٹھانے کے لئے انسان کے پیچھے پڑی رہے۔ (اقرب) سوالیوں کو اس لئے غاشیہ کہتے ہیں کہ وُہ بُری طرح پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ نوکروں چاکروں کو بھی غاشیہ ب کہتے ہیں کیونکہ وہ بھی آقا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اُس کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ اسی طرح وہ دوست جو ایک دوسرے سے ملنے کے لئے گھروں پر آتے ہیں وہ بھی غاشیہؔ کہلاتے ہیں (اقرب)
تفسیر
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ الٰہی عذابوں میں سے ایک عذاب خاص طور پر غاشیہ کہلانے کا مستحق ہے جو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بھی آیا اور مسیح موعودؑ کے زمانہ کے لئے بھی اس کی پیشگوئی تھی۔ سورہ ٔ دُخان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَارْتَقِبْ یَوْمَ تَاْتِی السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنِo یَّغْشَی النَّاسَ ط ھٰذَاعَذَابٌ اَلِیْمٌ (الدخان ع ۱ ۴ ۱) یعنی تو انتظار کر اُس دن کا جب آسمان پر دُھواں ہی دُھواں چھا جائے گا اور سارے انسانوں کو اپنے اندر ڈھانپ لے گا یہ عذاب ہے جو نہایت ہی دردناک ہو گا۔ چنانچہ رسول کریم ﷺ کو جب مکّہ والوں نے سخت دُکھ دیا تو آپ نے اس پیشگوئی کے ماتحت دعا کی کہ اَللّٰھُمَّ اَعِنِّیْ عَلَیْھِمْ بِسَبِّحْ کَسَبْحٍ یُوْسَفَ (بخاری جلد ۳ کتاب تفسیر القرآن) اَے خدا ان لوگوں نے مجھے سخت تنگ کر لیا ہے تُو میری اُن سات سالوں سے مدد فرما جن سات سالوں سے تُو نے حضرت یوسف علیہ السلام نے کی تھی چنانچہ اس دعا کے نتیجہ میں اُس زمانہ میں شدید قحط پڑا۔ بارشیں رُک گئیں اور اس قدر تباہی آئی کے مکّہ والوں نے ابو سفیان کو خاص طور پر رسول کریم ﷺ کی طرف بھیجا اور کہا کہ آ پ کی قوم قحط کی وجہ سے برباد ہو گئی آپ دعا کریں کہ اُن کی یہ حالت بدل جائے (بخاری کتاب تفسیر القرآن تفسیر سورۃ دخان) گویا جس طرح فرعون نے حضر موسٰیؑ کی طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنے سفیر بھیجے تھے اسی طرح مکّہ والوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں اپنا سفیر بھیجا اور درخواست کی اس قحط کے دور ہونے کے متعلق دعا فرمائی جائے چنانچہ آپ نے دعا کی اور اللہ نے اُس قحط کو دُور کر دیا۔ تو غاشیہؔ سے مراد وہ عذاب دُخان بھی ہے جس کا ذکر سورۃ دُخان میں کیا گیا ہے۔ اِس دخانِ مبین کے عذاب کی مسیح موعودؑ کے زمانہ کے لئے بھی پیشگوئی کی گئی ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جو الہامات نازل ہوئے اُن میں ایک الہام یہ بھی ہے کہ یَوْمَ تَاْتِ السَّمَآئُ بِدُخَانٍ مُّبِیْنٍ وَتَرَی الْاَرْضَ یَوْمَئِذٍ خَامِدَۃً مُّصْفَرَّۃً (تذکرہ صفحہ ۵۹۴)
غرض علاوہ اور عذابوں کے جن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسّلام کے الہامات میں اشارہ کیا گیا ہے قحط کے عذاب کی خبر بھی آپ کے الہامات میں موجود ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس زمانہ میں لوگوں پر شدید تنگی اور مصیبت کے سال آئیں گے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے زمانہ میں علاوہ عام قحطوں کے جنگوں کی وجہ سے جو قحط پڑے ہیں وہ ایسے شدید ہیں کہ اُن کی مثال پہلے زمانوں میں نہیں ملتی۔ دنیا میں ایک ایک سال کے قحط پڑتے ہیں تو تباہی آ جاتی ہے مگر یہاں قحطوں کے یہ حالت ہے کہ بعض اقوام ایسی ہیں کہ جنہوں نے چھ چھ سال پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا۔ ۱۹۴۲ء کے شروع میں جب قحط کی تکلیف شروع ہوئی اور غلّہ کی سخت قلّت ہو گئی تو مَیں اُن دنوں میں سندھ میں تھا مجھے وہاں قادیان سے اطلاع ملی کہ یہاں اوّل تو گندم ملتی ہی نہیں اور اگر ملتی ہے تو اُس کی روٹی کالی پکتی ہے میرے نزدیک تو اس گندم سے پکی ہوئی روٹیاں جانوروں کے کھانے کے قابل بھی نہیں تھی مگر لوگ اِن ایام میں مجبوراً وہی کھاتے رہے۔ بنگال میں یہ حالت ہو گئی کہ ایک یتیم لڑکی جو ایک احمدی نے پرورش کے لئے رکھی ہوئی ہے بتاتی ہے کہ میں اور واقعات تو بھول گئی ہوں مگر مجھے اتنا یاد ہے کہ لو مُردوں کی ہڈیاں لے کر کھا جاتے تھے بعض جگہ پر ثابت ہؤا ہے کہ عورتوں نے اپنے بچہ زبح کر کے کھا لئے۔ یہ کیسا خطرناک قحط ہے کہ دس لاکھ آدمی سے زیادہ چند مہینوں میں ہی بھوک کی وجہ سے مر گیا اور یہ دس لاکھ بھی گورنمنٹ کا اندازہ ہے ورنہ پبلک کا اندازہ یہ ہے کہ بنگال میں بیس لاکھ آدمی قحط کی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں حالانکہ بیس لاکھ آدمی جنگ کے قریبًا چھ سالہ عرصہ میں ہلاک نہیں ہوئے پھر وہ زمانہ ہے جس میں ریل موجود ہے۔ موٹریں موجود ہیں۔ لاریاں موجود ہیں۔ نہریں چل رہی ہیں اور سامان خورد ونوش نہایت آسانی کے ساتھ ایک مقام سے دوسرے مقام پر پہنچایا جا سکتا ہے باوجود سامانوں کی اس قدر فراط کے ایک سال میں بیس لاکھ آدمی بھوک کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔ اگر یہ قحط کسی ایسی جگہ پر پڑتا جہاں کھانے پینے کا سامان کسی صورت میں بھی پہنچایا نہ جا سکتا تو شائد ایک آدم بھی نہ بچتا اور سب کے سب ہلاک ہو جاتے۔ ہزارہا آدمی ایسے ہیں جو بنگال سے نکل کر پنجاب اور سرحد میں آ بسے ہیں اور انہوں نے یہ خیال کر لیا ہے کہ اب شائد قیامت تک بنگال میں قحط ہی رہے گا۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان میں سے کوئی زندہ نہیں رہا اس لئے ہم گھبرا کر وہاں سے نکل آئے ہیں اب ہم نے واپس جا کر کیا کرنا ہے۔ بعض واقعات ایسے ہیں۔ کہ ایک بھوک سے تڑپتے ہوئے بچہ کو اٹھا کر لایا گیا اور اُسے دُودھ پلایا گیا تو دُودھ کے اندر جاتے ہیں وہ بچہ ہلاک ہو گیا۔ دراصل لمبے فاقہ کی وجہ سے معدہ میں زہر پیدا ہو جاتا ہے اور جب دُودھ یا کوئی اور غذا اندر جاتی ہے تو انسان ہلاک ہو جاتا ہے۔
پس ھَلْ آتٰکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ کے یہ معنے ہیں کہ کیا تمہیں معلوم ہے یا نہیں کہ غاشیہ کہلانے والی مصیبت بھی آنے والی ہے۔ ھَلْ چونکہ عام طور پر تصدیق ایجابی کے لئے آتا ہے اس لئے اس کے معنے یہ ہوں گے کہ کیا حدیث غاشیہ آ پہنچی کہ نہیں یعنی آ پہنچی ہے۔ لیکن ھَلْ جب فعل سے پہلے آئے تو کبھی قَدْ کے معنے بھی دیتا ہے اس لحاظ سے آیت یوں ہو گی قَدْ اَتٰکَ حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃِ لو اب مخالفتیں تیز ہونے والی ہیںاس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب کی خبریں آ رہی ہیں یا اے محمد ﷺ ہم نے تیری طرف حَدِیثُ الْغَاشِیَۃ بھیج دی۔ دشمن اب شرارت میں بڑھنے والا ہے اس لئے ہم نے بھی عذاب کی خبریں دینی شروع کر دی ہیں اور غاشیہ کے معنے چونکہ اُس شخص کے بھی ہوتے ہیں جس کے پاس کثرت سے لوگ آئیں اس لئے حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃ کے معنے فتوحات کے بھی ہو سکتے ہیں اور معنے یہ ہوں گے کہ چاروں طرف سے لوگوں کے وفود تیرے پاس آئیں گے۔ گویا درمیانی زمانۂ مخالفت کو چھوڑ دیا جائے اور آخری نتیجہ بیان کر دیا کہ تیرے پاس وفود آئیں گے۔ ان معنوں کے لحاظ سے حَدِیْثُ الْغَاشِیَۃ سال وفود کی خبر دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کفار سے جنگ ہو گی۔ تُو اس جنگ میں جیت جائے گا اور پھر چاروں طرف سے لوگوں کے وفود تیرے پاس آئیں گے دُنیا دشمن اُن کو دیکھ دیکھ کر جل مرے گا اور مومن بہت بڑی ترقیات حاصل کریں گے۔
وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ
اُس دن (جب وہ مصیبت چھا جائے گی) کچھ چہرے اُترے ہوئے ہوں گے (وہ) محنت کر رہے ہوں گے (اور) اور تھک کر چور ہو رہے ہوں گے(لیکن محنت انہیں کوئی فائدہ نہ دے گی)۳؎
۳؎حل لغات
وُجُوْھٌ: وَجْہٌ کی جمع ہے اور وَجْہٌ کے اصل معنے تو چہرے کے ہوتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی اس کے کئی معنے ہوتے ہیں چنانچہ ایک معنے سَیِّدُ الْقَوْمِ کے ہوتے ہیں یعنی قوم کا سردار۔ پھر وَجْہٌ کے معنے اس انسان کے بھی ہوتے ہیں جو عزت اور وجاہت رکھتا ہو (اقرب) چنانچہ کہتے ہیں رَجُلٌ وَجْہٌ اور مرادی یہ ہوتی ہے ذُوْجَاہٍ یعنی فلاں آدمی بڑی عزت اور وجاہت والا ہے پس وُجُوْہٌ کے معنے ہوئے کچھ لوگ جو معزز سمجھے جاتے ہیں یا کچھ لوگ جو قوم کے سردار ہیں۔
خَاشِعَۃٌ: خَشَعَ سے اسم فاعل مؤنث کا صیغہ ہے اور خَشَعَ لَہٗ خُشَوْعًا کے معنے ہوتے ہیں ذَلَّ وَ تَطَاْمَنَ اُس سے دب گیا۔ اُس کے ماتحت ہو گیا یا اُس کے سامنے جھکنا پڑا۔ اور خَشَعَ بِبَصَرِہٖ کے معنے ہوتے ہیں غَضَّہٗ اُس نے اپنی آنکھیں نیچی رکھیں۔ اور خَشَعَ بَصَرُہٗ کے معنے ہوتے ہیں اِنْکَسَرَ اُس کی نظر جھک گئی یعنی ذلّت اور رسوائی کی وجہ سے انسان نے آنکھ اونچی نہ کی۔ اور خَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ کے معنے ہیں سَکَنَتْ وَذَلَّتْ وَخَضَعَتْ آوازیں دب گئیں اور خدا تعالیٰ کے سامنے ذلّت اور اقرارِ اتباع پر مجبور ہو گئیں (اقرب) پس وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ کے معنے ہوئے اُس دن کچھ سردارانِ قوم ہوں گے یا کچھ لوگ ہوں یا کچھ کچھ وجاہت والی ہستیاں ہوں گی جو بالکل ذلیل ہو جائیں گی اور اُن کی آوازیں دب جائیں گی۔
نَاصِبَۃٌ: نَصَبَ سے اسم فاعل مؤنث کا صیغہ ہے اور نَصَبَہُ الْھَمُّ کے معنے ہوتے ہیں اَتْعَبَہٗ تم نے اس کو تھکا دیا۔ اور نَصَبُ فُلَانُ نِ الشَّیْئَ کے معنے ہوتے ہیں وَضَعَہٗ وَضْعًا ثَابِتًا کَنَصْبِ الرُّمْحِ وَالْبِنَائِ وَالْھَجَرِ یعنی کسی چیز کو مضبوطی سے گاڑ دیا جیسے نیزہ گاڑا جارتا ہے یا بنیاد کو مضبو ط بنایا جاتا ہے یا پتھر کو عمارت میں مضبوطی سے پیوست کر دیا جاتا ہے۔ وَدَفَعَہٗ ضِدٌّ نیز یہ لفظ اضداد میں سے ہے اور اس کے معنے بلند کرنے کے بھی ہوتے ہیں اور نَصَبَ السَّیْرَ کے معنے ہوتے ہیں دَفَعَہٗ اَوْھُوَ اَنْ یَّسِیْرَ طُوْلَ یَوْمِہٖ سَیْرًا لَیِّنًا اُس نے سیر کو بلند کیا یعنی خوب تیزی سے سفر کیا یا آہستہ آہستہ سارا دن سفر کرتا رہا۔ گویا اس کے دونوں معنے ہیں۔ یہ بھی معنے ہیں کہ خوب گھوڑا دوڑایا اور یہ بھی معنے ہیں کہ آہستہ آہستہ دیر تک سفر کرتا دچلا گیا۔ اور نَصَبَ بِفُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیں عَادَاہُ اُس سے دشمنی کی اور نَصَبَ لَہٗ الْحَرْبَ کے معنے ہوتے ہیں وَضَعَھَا اُس کے خلاف لڑائی کی اور نَصَبَ الْعَلَمَ کے معنے ہوتے ہیں رَفَعَہٗ وَاَقَامَہٗ مُسْتَقْبِلًا بِہٖ اس نے جھنڈے کو اپنے سامنے کھڑا کیا۔ اور نَصَبَ الشَّجَرَۃَ کے معنے ہوتے ہیں غَرَسَھَا فِی الْاَرْضِ اُس نے زمین میں درخت گاڑا اور نَصَبَ السُّلْطَانُ فُلَانًا کے معنے ہوتے ہیں وَلَّا ہٗ مَنْصَبًا اس کو بادشاہ کے منصب پر مقرر کیا اور نَصَبَ الشَّرَّ بِفُلَانٍ کے معنے ہوتے ہیں اَشَرْتَ عَلَیْہِ بِرَاْیٍ لَایَعْدِلُ عَنْہُ کہ تُو نے ایسی رائے اُن کو دی جس سے وہ اِدھر اُدھر نہ ہو سکا (اقرب) پس عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ کے معنے ہوئے عمل کرنے والی جماعت یا اعلان جنگ کرنے والی یا اپنی بنیادوں کو مضبوطی سے گاڑ دینے والی یا لمبے لمبے سفر کرنے والی یا اپنی دشمنیوں کا اظہار کرنے والی یا عہدوں پر مقرر کرنے والی یا اپنے جھنڈوں کو اونچا کرنے والی یا نیزہ گاڑنے والی جماعت (اقرب)
خَاشِیَۃ کے معنے چونکہ عام مشکلات اور مصائب کے بھی ہیں جن میں وہ لڑائیاں بھی شامل ہیں جو کفار سے ہوئیں۔ اس لحاظ سے عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ کے یہ معنے ہوں گے کہ اب مخالفینِ اسلام تمہارے خلاف منصوبے کرنے والے ہیں اور اُن بغضوں اور کینوں کو جن کو وہ اپنے دلوں میں چھپائے بیٹھے تھے ظاہر کرنے والے ہیں۔
تفسیر
یہ بتایا جا چکا ہے سورۃ غاشیہ کا نزول رسول کریم ﷺ کے دعویٰ ٔنبوّ کے چوتھے سال کے قریب ہؤا ہے اور یہی وہ سال ہے جس میں کفّار مکّہ کی طرف سے منظّم رنگ میں ایذاء دہی کا سلسلہ شروع ہؤا۔ ابتداء میں تو لوگ رسول کریم ﷺ کے دعویٔ نبوت کو سُنتے تو کہتے۔ ہائے ہائے بیچارہ پاگل ہو گیا ہے (نعوذ باللہ من ذالک) اس طرح آپ کو مجنون اور پاگل کہہ کر وہ اپنے دل کا غصّہ نکال لیتے تھے مگر جب کچھ لوگوں نے رسول کریم ﷺ کو مان لیا خصوصًا نوجوان طبقہ میں سے ایک بااثر حصّہ آپ کی بیعت میں شامل ہو گیا جن میں حضرت عثمانؓ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ خاص طور پر قابل ذکر ہیں تو کفار میں اسلام کے خلاف سخت جوش پیدا ہو گیا۔ اُن کے دلوں میں اسلام کی مخالفت کا جوش پیدا کرنے والی دو چیزیں تھی ایکؔ غلاموں کا اسلام میں شامل ہونا۔ دوسرےؔ رؤسا میں سے بعض نوجوانوں کا رسول کریم ﷺپر ایمان لے آنا۔ حضرت عثمانؓ۔ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ ایسے خاندانوں میں سے تھے جو مکّہ کے رؤسا شمار ہوتے تھے۔ جب یہ لوگو ایمان لے آئے تو وہ لوگ جو رسول کریمﷺ کو پاگل کہا کرتے تھے اُن لوگوں نے طعنہ دینا شروع کر دیا کہ کیا یہ پاگل ہو گیا ہے یہ تو تمہارے گھروں میں سے نوجوانوں کو اپنی طرف کھنچ کر لے گیا ہے اور تم اسی خیال میں مست ہو کہ پاگل ہے ہمارا کیا بگاڑ سکتا ہے۔ اسی طرح جب غلام مسلمان ہوئے اور کفار مکہ نے اُن کے مُنہ سے یہ باتیں سننی شروع کہ بتوں کی پرستش بالکل بیحودہ بات ہے اُن میں رکھا ہی کیا ہے وہ تو کسی کو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں نہ نقصان۔ یہ تو باتیں اُن کے لئے بالکل ناقابلِ برداشت ہو گئیں۔ کیونکہ اوّل تو ان کے بتوں کو بُرا بھلا کہا جاتا تھا اور پھر کہنے والے وہ تھے جو ان کے غلام تھے۔ یہ حالا ت تیسرے سال کے بعد پیدا ہونے لگ گئے تھے چنانچہ اسلام کی ترقی کو دیکھ کر انہوں نے علی الاعلان کہنا شروع کر دیا کہ اب مذاق ہو چکا۔ اب ہم ان باتوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔ہمارے ہاں بھی جب آپس میں مذاق ہو تو معمولی مذاق دوسرا شخص برداشت کرتاجاتا ہے لیکن جب یہ بات بڑھنے لگے تو وہ کہہ دیتا ہے کہ اب حد ہو گئی اب اس کے بعد اگر کوئی مذاق کیا تو میں تم سے لڑ پڑوں گا۔ اسی طرح تیسرے سال کے بعد کفّار مکہ نے کہنا شروع کر دیا کہ ہم اِن باتوں کو مذاق سمجھتے تھے مگر اب تو حد ہو گئی اب یہ باتیں ہمارے لئے ناقابلِ برداشت ہو گئی ہیں چنانچہ اُنہوں نے اپنے بغضوں اور شرارتوں کا اعلان کر دیا۔ پس اُن کے اس اعلان کی ہی خبر خدا تعالیٰ نے وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ میں دی ہے کیونکہ نَاصِبَۃٌ کے ایک معنے افسر مقرر کرنے کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لئے اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ وقت آ رہا ہے جبکہ رسول کریم ﷺ کی مخالفت میں مکّہ والے کمانڈر اور افسر مقرر کریں گے اور یہ لوگ پورا زور لگائیں گے کہ اسلام نہ پھیلے۔ چنانچہ پیشگوئی کے مطابق مخالفین نے مخالفت کے جھنڈے گاڑ دئے اور مقابلہ کے لئے اُتر آئے۔
پھر جن الفاظ میں مخالفین کی خبر دی ہے وہ ایسے ہیں کہ ان سے مخالفت کی تفصیل اور اُس کا انجام بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ پہلے عَامِلَۃٌ کہا اور پھر عَامِلَۃٌ میں انفرادی طور پر مکّہ والوں کے مخالفت کرنے کا ذکر تھا مگر اس کے بعد نَاصِبَۃٌ کا لفظ استعمال کیا اور نَاصِبَۃٌ میں قومی طور پر مخالفت کرنے کا ذکر ہے اور اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اب مکہ والے صرف انفرادی طور پر نہیں بلکہ قومی طور پر اجتماعی رنگ میں بھی مخالفت کریں گے اور اپنے میں سے بعض کو افسر مقرر کریں گے تاکہ ایک تنظیم کے ماتحت وہ مسلمانوں سے لڑیں اور اُن کو دِق کریں۔
پھر نَاصِبَۃٌ کے ایک معنے چونکہ تھکنے والی جماعت کے بھی ہیں۔ گویا آیت کے اس حصّہ میں مخالفت کے انجام کی طرف اشارہ کر دیا کہ اہالیانِ مکّہ مخالفت میں پوری محنت صرف کریں گے مگر اس کے نتیجہ میں اُن کو کوئی خوشی نہیں پہنچے گی۔ محنت کریںگے لیکن نتیجہ تھکان ہی تھکان نکلے گا آرام و راحت میسّر نہیں آئے گی۔
تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً
وہ (سخت گرم اور) بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہوں گے۴؎
۴؎حل لغات
حَامِیَۃٌ: حَمِیَ سے ہے اور حَمِیَتْ النَّارُ کے معنے ہوتے ہیں اِشْتَدَّ حَرُّھَا آگ نہایت تیزی کے ساتھ بھڑک اٹھی (اقرب) پس حَامِیَۃٌ کے معنے ہوں گے کہ مخالف جماعتیں بھڑکتی آگ میں داخل ہوں گی۔ ساری آگیں ایک قسم کی نہیں ہوتی ہے اور بعض کم گرم۔ یہاں تک کہ بعض آگیں ایسی ہوتی ہیں کہ لوگ ننگے پائوں صرف پائوں کو کیچڑ لگا کر اُن کے اُوپر سے گزر جاتے ہیں اور اُنہیں کوئلوں کی گرمی محسوس نہیں ہوتی۔ مگر فرماتا ہے کہ وہ آگ جس میںمخالفین داخل ہوں گے وہ نَارًا حَامِیَۃ ہو گی یعنی ایسی آگ جو اپنی تیزی اور اپنی گرمی میں انتہاء پر پہنچ چکی ہو گی۔
تفسیر
فرماتا ہے یہ مخالفت چاہے انفرادی ہو یا قومی مخالفین کی تباہی کا مؤجب ہو گی اور بجائے اس کے کہ مخالف لوگ امن و آرام پائیں یا اُنہیں عزّت اور کامیابی حاصل ہو یہ اُس آگ میں داخل ہوں گے جو سخت گرم ہو گی اور بھڑکنے میں تیز ہو گی یعنی مسلمان ترقی کر جائیں گے اور مخالفین اپنے منصوبوں میں ناکام و نامراد رہیں گے اور آگ میں جلیں گے۔
تُسْقٰی
انہیں اُبلتے ہوئے چشمہ سے (پانی) پلایا جائے گا۵؎
۵؎حل لغات
عَیْنٌ کے عربی زبان میں بہت سے معنے ہیں ان معنوں میں سے ایک چشمہ کے ہیں اور دوسرے معنے بادل کے ہیں (اقرب) اس آیت میں چونکہ تُسْقٰی کا لفظ استعمال ہؤا ہے اس لئے عَیْنٌ سے مراد چشمہ یا بادل ہی ہو سکتا ہے۔
اٰنِیَۃٌ: اَنٰی ریَاْنِی اَنْیًا وَاِنِّی وَاَنَائً سے ہے اور اَنَی کے معنے ہوتے ہیں دَنٰی وَقَرُبَ وَحَضَرَ۔ وہ قریب ہو گیا اور سامنے آ گیا۔ جب پانی کے متعلق یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے معنے ہوتے ہیں اِنْتَھٰی حَرُّہٗ۔ کہ پانی سخت گرم ہو گیا (اقرب) جیسے آگ کے متعلق کہتے ہیں حَمِیَتِ النَّارُ یعنی آگ سخت بھڑک اُٹھی اِسی طرح پانی کے لئے جب یہ لفظ استعمال کیا جائے تو اس کے معنے ہوتے ہیں وہ تیز گرم ہو گیا۔ پس تُسْقٰی مِنْ عرَیْنٍ اٰنِیَۃٍ کے یہ معنے ہوئے کہ اُنہیں اَیسے چشمے سے پانی پلایا جائے گا جو نہایت تیز گرم ہو گا یا ایسے بادلوں سے اُن پر پانی برسے گا جو نہایت شدید گرم ہوں گے اور اُن کو جُھلس کر رکھ دیں گے۔
تفسیر
انسان پیتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ پیاس بجھے اور پیاس ہمیشہ ٹھنڈا پانی بجھاتا ہے۔ لیکن یہاں یہ ذکر ہے کہ اُن کو سخت کَھولتا ہؤا گرم پانی پلایا جائے گا۔ گرم پانی انسان دو ہی حالتوں میں پیتا ہے یا تو اُس وقت جب بیمار ہو اور علاج کے لئے اُسے گرم پانی پینا پڑے اور یا اُس وقت جب ٹھنڈا پانی اُسے میسّر نہ آئے اور مجبوراً گرم پانی پینا پڑے۔ (گو اس زمانہ میں لوگوں میں چائے کا طریق مروج ہو گیا ہے جو گرم بھی ہوتی ہے اور پیاس بجھانے کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے مگر وہ درحقیقت ایک غذ اہے پانی کا قائمقام نہیں) پس گرم پانی پینے کا ذکر فرما کر اس طرف اشارہ کیا ہے کہ وہ ہر آرام سے محروم ہو جائیںگے یا یہ اُن کی روحانی امراض کو دُور کرنے کے لئے اُنہیں ابتلائوں میں ڈالا جائے گا اور ایسے گرم چشمہ سے اُن کو پانی پلایا جائے گا جس کی گرمی انتہا درجہ تک پہنچی ہوئی ہو گی۔ یعنی پانی پینے کی جو اصل غرض ہوتی ہے کہ انسانی جسم پر تروتازگی آئے وہ اُن کو حاصل نہیں ہو گی۔ دُنیا میں دو قسم کی چیزیں ہیں۔ ایک تو ایسی ہیں تو نضارت اور تروتازگی پیدا کرتی ہیں اور ایک ایسی ہوتی ہیں جو موٹاپا پیدا کرتی ہیں۔ اِن میں سے ایک مقصد غذا سے اور دوسرا مقصد پانی سے حاصل ہو جاتا ہے۔ پانی پینے سے تروتازگی حاصل ہوتی ہے اور غذا کھانے سے بھوک دور ہوتی اور جسم فربہ ہوتا ہے۔ کفار کے متعلق بتایا کہ اُن کو یہ دونوںباتیں حاصل نہیں ہوں گی۔ نہ اُن کے اندر تازگی پائی جائے گی۔ اور نہ اُن کے جسم پر گوشت چڑھے گا یعنی اُن کے دل بھی مُرجھا جائیں گے اور اُن کے جسم بھی مُرجھا جائیں گے۔
کھولتا ہؤا چشمہ آخرت میں تو ہو گا ہی دنیا میں کھولتے ہوئے چشمہ سے مراد وہ چیز ہوتی ہے جس سے دل کو آگ لگ جائے۔ مطلب یہ ہے کہ کفار کو ایسے مصائب پہنچیں گے اور ایسے حالات میں سے وہ گزریں گے کہ اُن کے دل جائیں گے۔ یہ عَیْنٍ اٰنِیَۃ ہی تھا کہ اُن کی اولادیں مسلمان ہو گئیں اور جس مذہب کو مٹانے کے لئے کھڑے ہوئے تھے اسی مذہب میں اُن کے بیٹے شامل ہو گئے۔ جب وہ اپنی اولادوں کو اسلام میں شامل دیکھتے ہوں گے تو کس طرح اُن کے دل جلتے ہوں گے ہم کیا چاہتے تھے اور کیا ہو گیا۔ ہمارے ہاں بھی محاورہ کے طور پر کہا جاتا ہے کہ میں تو غم کے گھونٹ پی رہا ہوں۔ گویا غم کی چیزوں کو بھی پینے سے مشابہت دی جاتی ہے۔ عربی زبان میں بھی غم کے گھونٹ پینا محاورہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ پس فرماتا ہے اُن کو گرم اور تیز گھونٹ پلائے جائیں گے یعنی ایک طرف اُن کی اولادیں اور دوسری طرف غلام مسلمان ہونے لگ جائیں گے جس کا اُن کو شدید صدمہ پہنچے گا۔ قرآن کریم میں اس حقیقت کو دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے اَوَلَمْ یَرَوْا اَنَّا تَاْتِیَ الْاَرْضَ نَنْقُصُھَا مِنْ اَطْرَافِھَا (الرعد ع ۲ ۲ ۱) یعنی یہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ ﷺ پر غالب آ جائیں گے۔ آپؐ کے دین کو مٹا دیں گے اور مسلمانوں کو شکست دے دیں گے کیا اِن اندھوں کو یہ بات نظر نہیں آتی کہ ہم زمین کو اُس کے کناروں سے چھوٹا کرتے چلے آ رہے ہیں اِدھر اسلام میں داخل ہو رہے ہیں اور اُدھر نوجوان اسلام قبول کر رہے ہیں جب غلام اور نوجوان دونوں اِسلام میں داخل ہو گئے ہیں تو پیچھے سوائے بُڈھوں کے کون رہ جائے گا۔ یہ بُڈّھے چند سالوں میں مَر کر فنا ہو جائیں گے اور ان کی نسلیں اسلام میں شامل ہو جائیں گی۔ دنیا میں طاقت کے یہی دو ذرائع ہوتے ہیں ایکؔ غلام جو ہاتھ ہوتے ہیں اور دوسری آئندہ نسلیں جو جڑ ہوتی ہیں۔ جب اُن کے پاس نہ ہاتھ رہے اور ن جڑ تو درمیان کا ٹنڈ کیا کرے گا۔
غرض اس آیت میں اللہ تعالیٰ اسلام کی ترقی کی خبر دیتے ہوئے فرماتا ہے اِن کفار کو عَیْنٍ اٰنِیَۃ یعنی گرم چشمہ سے گھونٹ پینے پڑیں گے اور یہ ایسی خبریں سُنیں گے جن سے ان کے سینے جلنے لگ جائیںگے ہم دیکھتے ہیں کہ واقعہ میں اگر کوئی شخص کسی مذہب کو سچے دل سے قبول کرتا ہے تو اس کی اولاد کا اس سے پھرنا اس کے لئے انتہائی طور پر دُکھ کا موجب ہوتا ہے عقلی طور پر اگر اولا دمذہب سے منحرف ہو جاتی ہے تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں، مذہب کے معاملہ میں جبر سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا اگر اُن کا مخالف ہو سکتا ہے تو دوسرے لوگوں کی اولادیں بھی اپنے باپ دادا کی مذہب سے انحراف اختیار کر سکتی ہیں مگر جہاں کوئی اور قائم مقام نہ ہو اور وہ اولاد جس سے انسان کی امیدیں وابستہ ہوں اپنے باپ دادا کے مذہب کو ترک کر دے تو یہ ایک ایسا تلخ گھونٹ ہے جس کا پینا انسانی طاقتِ برداشت سے بالکل باہر ہوتا ہے۔
حدیبیہ کے مقام پر جب رسول کریم ﷺ کفّار سے صلح کی شرائط طے کرنے لگے تو اُس وقت کفار کی طر ف سہیل ابن عمرو نمائندہ تھے۔ اسی اثناء میں کہ ابھی شرائط صلح طے ہی ہو رہی تھیں کہ اس کا بیٹا ابوجندل ایسی حالت میں وہاں آ پہنچا کہ اس کے پائوں بیڑیاں پڑی ہوئیں تھیں (ابن ہشام) اور اُس نے آتے ہی کہا یا رسول اللہ ﷺ مَیں مسلمان ہوں اور آپ پر ایمان لا چکا ہوں۔ گھر میں تو اس کا باپ اُسے مارپیٹ کر غصّہ نکال لیتا ہو گا مگر اُس وقت جب اُسی کا لڑکا جسے اُس نے زنجیروں میں جکڑ کر گھر میں قید کیا ہؤا تھا لڑکھڑاتا اور گرتا پڑتا وہان پہنچا ہو گا اور اس نے کہا ہو گا کہ یا رسول اللہ میں آپ پر ایمان لا چکا ہوں تو اُس وقت اُس کا کیا حال ہؤا ہو گا۔ میں سمجھتا ہوں اُس کے لئے اٹھنا مشکل ہو گیا ہو گا اور وہ کہتا ہو گا کہ کاش اس وقت زمین پھٹ جائے تو مَیں اس میںسما جائوں۔ ایسے نازک وقت میں اُس کے اپنے بیٹے کا کفر سے اسی طرح برأت کا اظہار کرنا اُس کے لئے کتنا تلخ گھونٹ تھا جو اُسے پینا پڑا۔
اسی طرح ابوجہل کا واقعہ میںنے کئی دفعہ بیان کیا ہے۔ وہ جنگ بدر میں دو نوجوان لڑکوں کے ہاتھ سے مارا گیا اور آخری وقت اُس نے یہی کہا کہ مجھے اور تو کوئی صدمہ نہیں مگر افسوس ہے کہ میں دو انصاری لڑکوں کے ہاتھ سے مارا گیا ہوں۔
غرض اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار ایسے حالات میں سے گذریں گے کہ اُن کو بڑے بڑے تلخ گھونٹ پینے پڑیں گے۔
میں نے شروع میں بتایا ہے کہ یہ سُورۃ دونوں زمانوں کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ اسلام کے ابتدائی زمانہ کے ساتھ بھی اور موجودہ زمانہ کے ساتھ بھی۔ تُسْقٰی مِنْ عَیْن اٰنِیَۃٍ میں کفار کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو خبر دی گئی تھی وہ اس زمانہ میں بھی بڑی صفائی کے ساتھ پوری ہوئی ہے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسّلام کے شدید مخالف تھے اور اُن کی ساری عمر آپ کی مخالفت کرتے گزر گئی۔ انہوں نے ایک دفعہ بڑی تعلّی کے ساتھ کہا تھا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو اونچا کیا تھا اور اب میں ہی اُن کو نیچے گرائوں گا۔ مگر اس کے بعد انہوںنے حضرت مرزا صاحب کو کیا گرانا تھا خود ہی ذلیل ہوتے گئے یہاں تک کہ اُن کے دو بیٹے بھاگ کر قادیان میں میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ہمارا باپ اتنا بے غیرت ہے کہ وہ ہمیں کہتا ہے کہ ہم کسی یتیم خانہ میں داخل ہو جائیں۔ وہ ہمیں ہر وقت مارتا پیٹتا ہے اور ہم سے ذلیل کام لیتا ہے اب ہم اُس کے پاس نہیں رہنا چاہتے۔ میں نے اُن دونوں کا وظیفہ لگا دیا اور انہیں قادیان میںتعلیم دلائی۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ اس میں بڑی ذلّت ہے اُن کو قادیان سے نکال دیں۔ مگر مَیں نے کہا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ میرے پا س مدد کے لئے آئیں اور مَیں اُن کو نکال دُوں۔ اس کے بعد وہ دونوں احمدی ہو گئے۔ اور آخر مولوی صاحب زور دے کر اُن کو واپس لے گئے مگر پھر بھی اُن سے اَیسا سلوک کیا کہ اُن میں سے ایک تو مر گیا ہے مگر دوسرا عیسائی ہو گیا اور اب تک زندہ ہے اور ریاست میسور میں کاروبار کرتا ہے وہ کہتا ہے کہ میں دل سے تو احمدی ہوں مگر روزی کے لئے مذہب تبدیل کیا ہؤا ہے۔ یہ کتنا تلخ گھونٹ تھا جو مولوی محمد حسین بٹالوی کو پینا پڑا۔ وہ شخص جس نے کہا تھا کہ میں نے ہی مرزا صاحب کو اونچا کیا تھا اور اب میں ہی اُن کو نیچے گرائوں گا اُن کے اپنے لڑکے ہمارے پاس مدد کے لئے آئے۔ اور انہوں نے کہا کہ ہمارا باپ ہم کو مارتا ہے پیٹتا ہے اَور کھانے کے لئے روٹی تک نہیں دیتا۔ کہتا ہے کہ یتیم خانے میں داخل ہو جائو میرے پاس تمہارے لئے کچھ نہیں۔ چنانچہ ہم نے اُن کی مدد کی اور اپنے مدرسہ میں رکھ کر تعلیم دلائی پس یہ واقعہ مولوی محمد حسین صاحب کے لئے کتنا تلخ گھونٹ تھا جو اُن کو پینا پڑا۔
اسی طرح ایک اور مشہور مخالف جو ہمارے شدید مخالفوں کا سردار ہے اُس کے بیٹے پر ایک مقدمہ درج ہؤا۔ جس مجسٹریٹ کے پاس وہ مقدمہ گیا اتفاق سے وہ احمدی تھا۔ وہ احمدی مجسٹریٹ مجھ سے ملنے کے لئے آئے تو انہوں نے ذکر کیا کہ فلاں مخالف کے لڑکے کا مقدمہ میرے پاس ہے اور وہ اس کے متعلق بڑی سفارشیں بھجوا رہا ہے کہ اُسے چھوڑ دیا جائے۔ میں نے انہیں کہا کہ اگر آپ اُسے جائز طور پر چھوڑ سکتے ہیں تو ضرور چھوڑ دیں تا کہ اس کے باپ کو شرم محسوس ہو کہ مَیں تو جماعت احمدیہ کی مخالفت کرتا رہا مگر احمدی مجسٹریٹ نے میرے بچے کو رہا کر دیا۔ یہ ایسا احسان ہو گا جو ساری عمر اس کی آنکھیں نیچی رکھے گا۔ اس لئے جائز طور پر اور قانون کی مناسب تشریح سے اگر آپ اس کو چھوڑ سکتے ہیں تو ضرور چھوڑ دیں۔
اسی طرح میں جب حج کے لئے گیا تو ہمارے ایک رشتہ دار جو ہمارے نانا جان مرحوم کی ہمیشرہ کے بیٹے تھے اور اس لحاظ سے ہمارے ماموں تھے اور ساتھ ہی ایک اور شخص جو بھوپال کے رہنے والے تھے اور نواب جمال الدین خاں صاحب کے نواسے تھے اور جن کا نام خالدؔ تھا ہمارے خلاف سخت شورش کر دی اور لوگوں کو یہ کہہ کر بھڑکانا شروع کر دیا کہ یہ لوگ کفر پھیلاتے ہیں اور ساتھ ہی مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی کو (جو اس سال حج کو گئے تھے) مباحثہ کے لئے آمادہ کرنا شروع کیا اور ان کی غرض یہ تھی اس طرح اُن کا اعلان کثرت سے ہو گا اور مباحثہ ہؤا تو یہ لوگ جوش میں آ کر انہیں قتل کر دیں گے گورنمنٹ کو انہوں نے یا اُن کے ساتھیوں نے توجہ دلائی کہ ان کے خلاف فوری کاروائی کرے اور اس فتنہ کو بڑھنے سے روکے لیکن ہمیں ان کی اس اشتعال انگیزی کا علم نہ تھا۔ میں ایک دن ایک عرب مولانا عبدالستار کبتی کو شریفِ مکّہ کے بیٹوں کے استا د تھے تبلیغ کرنے کے لئے گیا۔ وہ بہت ہی شریف الطبع آدمی تھے عقیدۃً وہابی تھے مگر اپنے آپ کو وہابی ظاہر نہیں کرتے تھے بلکہ حنبلی ظاہر کرتے تھے انہوںنے باتوں باتوں میں اپنے متعلق خود ہی بتایا کہ میں ہوں تو اہلحدیث لیکن یہاں اہلحدیثوں کو چونکہ لوگ سخت نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اس لئے اپنے آپ کو ظاہر نہیں کرتا۔ تعلیم کا کام بھی مفت اس لئے کرتا ہوں تا کہ شریف کے خاندان کی امداد حاصل رہے۔ اس پوزیشن میں ہونے کی وجہ سے کوئی شخص میرے خلاف شرارت کی جرأت نہیں کر سکتا۔ آدمی بڑے شریف تھے میں اُن کو کافی دیر تک تبلیغ کرتا رہا۔ جاتی دفعہ حضرت خلیفہ اوّل رضی اللہ عنہ نے مجھے ایک کتاب کے متعلق فرمایا تھا کہ اُس کا عرب ممالک سے پتہ لگانا۔ اُنہیں بھی کتابوں کا شوق تھا میں نے اُن سے اس کتاب کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ یہ کتا ب میرے پاس تو نہیں لیکن حلبؔ کے کتب خانہ میں موجود ہے۔ جب مَیں تبلیغ سے فارغ ہؤا تو وہ کہنے لگے آپ نے مجھے تو تبلیغ کر لی ہے اور آپ کی باتیں بھی معقول ہیں لیکن میرے سوا اور کسی کو تبلیغ نہ کریں ورنہ آپ کی جان کی خیر نہیں۔ لوگ بہت جوش میں ہیں اگر آپ نے تبلیغ کی تو خطرہ ہے کہ آپ پر کوئی شخص حملہ نہ کر بیٹھے یا حکومت ہی آپ کو قید نہ کر دے۔ میں نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ کو معلوم نہیں آپ کے خلاف بعض لوگوں نے یہاں اشتہار شائع کیا ہے اور لوگ سخت جوش میں بھرے ہوئے ہیں۔ میں نے کہا کس نے وہ اشتہار شائع کروایا ہے؟ تو انہوں نے کہا ایک تو اس اشتہار کے محرک فلاں مولوی صاحب ہیں۔ میں نے کہا وہ تو میرے ماموں ہیں۔ اور کون صاحب ہیں؟ انہوں نے کہا دوسرے بھوپال کے ایک رئیس جن کا نام خالدؔ ہے۔ اِن دونوں نے آپ کے خلاف اشتہار دیا ہے یا دلوایا ہے اور اگر لکھا ہے کہ اگر انہیں اپنے دعاوی کی صداقت پر یقین ہے تو مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے مباحثہ کر لیں۔ مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی بھی اُن دنوں میں وہی تھے اور ہمارے ماموں کا یہ خیال تھا کہ مکّہ میں چونکہ باقاعدہ حکومت کوئی نہیں اس لئے اگر مباحثہ ہؤا تو لوگ انہیں مار ڈالیں گے اور اس طر ح ایک کانٹا نکل جائے گا۔ مولانا عبدالستار کبتی فرمانے لگے میں نے مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی سے کہا ہے کہ کہیں جوش میں مباحثہ نہ کر بیٹھنا کیونکہ یہاں احمدیوں کی اتنی مخالفت نہیں جتنی کہ جتنی وہابیوں کی ہے اس لئے لوگوںکو کیوں خواہ مخواہ اپنے مخالف اشتعال دلاتے ہو۔ احمدیوں کے خلاف کسی اشتعال آیا یا نہ آیا تمہارے خلا ف تو لوگ ضرور بھڑک اٹھیں گے اس لئے وہ شاید اس ڈر سے مقابلہ نہ کریں کہ کہیں شورش زیادہ نہ ہو جائے مگر آپ کسی اور کو اب تبلیغ نہ کریں ایسا نہ ہو کہ آپ کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔ میں نے کہا آپ کس طرف سے زیادہ خطرہ سمجھتے ہیں؟ انہوں نے ایک عالم کا نام لیا کہ اُسے تو بالکل تبلیغ نہ کرنا۔ میں نے کہا کہ میں تو اسے ایک گھنٹہ تبلیغ کر کے آ رہا ہوں۔ وہ حیران ہو کر بولے پھر کیا ہؤا؟ میں نے کہا کہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ غصّہ اور جوش کی حالت میں کہہ دیتے تھے کہ نہ ہوئی تلوار ہمارے قبضہ میں ورنہ تمارا سر اُڑا دیتا۔ غرض وہ ہمارے ماموں اور بھوپال کے رئیس ہمارے خلاف لوگوں کو خوب بھڑکاتے رہے لیکن ادھر حج ختم ہؤا اور اُدھر مکّہ میں ہیضہ پُھوٹ پڑا جو اتنا شدید تھا کہ لوگ گلیوں میں مُردوں کو پھینک دیتے تھے دفن کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا تھا یہ دیکھ کر نانا جان گھبرا گئے اور انہوں نے کہا کہ ہمیں جلدی واپس چلنا چاہئیے۔ چنانچہ ہم نے واپسی کی تیاری شروع کر دی اور آخری ملاقات کے لئے نانا جان صاحب مرحوم اپنی بہن اور بھانجہ سے ملنے کے لئے اُن کے مکان پر گئے میں بھی ساتھ تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک جنازہ پڑا ہے لوگ جمع ہیں اور تدفین کی تیاری ہو رہی ہے۔ نانا جان نے ان لوگوں سے پوچھا کہ یہ کس کا جنازہ ہے؟ لوگوں نے ہمارے ماموں کا نام لیا کہ اُن کا انتقال ہو گیا ہے ۔ منٰیؔ سے واپس آئے تھے کہ ہیضہ کا حملہ ہو گیا اور تھوڑی دیر میں ہی فوت ہو گئے۔ ایک کا تو یہ حال ہؤا۔
جب ہم جدّہ پہنچے تو جدّہ کے انگریزی قنصل خانہ میں بھی ہمارے ننھیال کے رشتہ دار ہیڈ کلرک تھے۔ بھوپا ل کے جس رشتہ دار کا میں نے ذکرکیا ہے وہ تو نانا جان مرحوم کے رشتہ داروںمیں سے تھے اور یہ نانی اماں صاحبہ مرحومہ کے رشتہ داروں میں سے تھے۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ ہمارے جتنے رشتہ دار نانا جان کی طرف سے تھے وہ بالعموم مخالف تھے اور جتنے نانی اماں کی طرف سے تھے وہ بالعموم محبت کرنے والے تھے (مگر اب حالات وہ نہیں رہے) یہ غالبًا اُن کی خالہ کے لڑکے تھے اور ہم سے محبت کرتے تھے۔ جہاز چونکہ کم تھا اور لوگ جلدی واپس ہونا چاہتے تھے اس لئے ٹکٹ ملنے میں سخت دشواری تھی۔ ہم نے اُن سے کہا کہ ٹکٹوں کا جلدی انتظام کر دیں تاکہ ہم پہلے جہاز میں واپس ہو سکیں۔ انہوں نے جہاز ران کمپنی کے دفتر میں مجھے بٹھا دیا اور اس کی کھڑکی کے قریب بیٹھ گیا۔ یہ کھڑکی بہت اونچی تھی اور وہاں ہاتھ بمشکل اونچا کر کے پہنچ سکتا تھا۔ اتنے میں ایک نوجوان دُبلے پتلے سفید رنگ کے تھے اُس کھڑکی کے نیچے آئے اُنہوں نے مجھے بیٹھے دیکھ کر خیال کیا کہ شاید کمپنی کا ملازم ہوں چنانچہ مجھ سے پوچھنے لگے کہ آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں؟ میں نے کہا آپ کا اس سے کیا مطلب؟ انہوں نے کہا میرا مقصد یہ ہے کہ کیا آپ کمپنی میں کام کرتے ہیں؟ مَیں نے کہا مَیں تو کمپنی میں کام نہیں کرتا۔ کہنے لگے تو کیا کمپنی سے کوئی اور تعلق ہے؟ میں نے کہا کہ میرا کمپنی سے کسی قسم کا تعلق نہیں۔ وہ کہنے لگے پھر آپ کمپنی کے دفتر میں بیٹھے کیوں ہیں؟ مَیں نے کہا میرے ایک عزیز مجھے یہاں بٹھا گئے ہیں اور وہ خود ٹکٹوں کی خرید کا انتظام کر رہے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ ہمارا قافلہ تیس تیس عورتوں اور مردوں پر مشتمل ہے اور اس وقت سخت مصیبت کا سامنا ہے مگر ہمیں سب سے زیادہ فکر عورتوں کا ہے ہیضہ کی وجہ سے عورتیں تو پاگل ہو رہی ہیں اگر آپ دس بارہ ٹکٹ خرید دیں تو ہم عوروتوں کو یہاں سے نکال دیں مردوں کے ساتھ جو گزرے گی گزر جائے گی۔ میں نے کہا عورتیں اکیلی کس طرح جائیں گی؟ اس پر وہ کہنے لگے اگر آپ دو چار اور ٹکٹ لے دیں تو کچھ مرد بھی اُن کے ساتھ جا سکیں گے اور آپ کی یہ بڑی مہربانی ہو گی۔ مَیں نے کہا کہ ٹکٹوں کی خرید کے ساتھ میرا کوئی تعلق نہیں مگر مَیں کوشش کرتا ہوں۔ وہ فوراً پیچھے پلٹ کر گئے اور واپس آ کر ایک تھیلی روپوں کی انہوں نے مجھے پکڑا دی۔ جب میرے وہ عزیز اُس کمرہ میں آئے تو میں نے اُن سے کہا ماموں اِن لوگوںکی حالت بہت قابلِ رحم ہے آپ ان کو بھی ٹکٹ لا دیں۔ وہ اُس وقت کسی بات پر چڑھے ہوئے تھے کہنے لگے کیا میں کوئی ایجنٹ ہوں کہ ٹکٹ لاتا پھروں۔ مَیں نے کہا یہ رحم کا معاملہ ہے آپ ضرور کوشش کریں اور اگر آپ اُن کے لئے نہیں تو کم از کم میری خاطر ہی کچھ ٹکٹ لا دیں وُہ بڑبڑاتے ہوئے واپس دفتر چلے گئے اور میں نے سمجھا کہ یہ کچھ مدد نہ کر سکیں گے مگر تھوڑی ہی دیر میں وہ غالبًا سترہ ٹکٹ لے کر واپس آئے اور میرے ہاتھ میں ٹکٹ پکڑا دئیے۔ میں نے وہ ٹکٹ اور باقی روپے کھڑکی میں سے اُن صاحب کو پکڑا دیئے۔ اور وہ لے کر چلے گئے شاید دوسرے ہی دن جب مَیں جہاز پر سوار ہونے کے لئے گیا تو مجھے کچھ دیر ہو گئی تھی جہاز چلنے ہی والا تھا وُہ نوجوان جہاز کے دروازہ پر ہی مجھے ملے اور کہنے لگے آپ نے اتنی دیر لگا دی جلدی کریں جہاز تو چلنے والا ہے۔ چنانچہ انہوں نے مزدوروں پر زور دے کر جلدجلد میرا اسباب جہازمیں اسباب جہاز میں رکھوایا اور پھر بڑی ممنونیت کا اظہار کیا کہ آپ نے بڑا احسان کیا جو ہمیں ٹکٹ لے دئے ورنہ ہمارا سوار ہونا بالکل ناممکن تھا۔ میں نے کہا آپ کی تعریف؟ کہنے لگے میرا نام خالد ہے اور نواب جمال الدین خان صاحب کا نواسہ ہوں۔ اب سوچو کہ وہ صاحب جو مکّہ میں بحث مباحثہ ڈال کر مروانے کے موجب ہو رہے تھے جب اُنہیں میرے نام کا پتہ لگا ہو گا تو وہ کس قدر شرمندہ ہوئے ہوں گے۔ کہ میں نے اُن سے کیا سلوک کرنا چاہا تھا اور انہوں نے مجھ سے کیا سلوک کیا۔ چنانچہ اس کے بعد انہوںنے جہاز پر کبھی مخالفت نہیں کی بلکہ بھوپال کی جماعت کی یہ رپورٹ ہے کہ وہ جماعت کے دوستوں کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے بعد سارے سفر میں وہ میرے ممنون احسان رہے اور اصرار کرتے رہتے تھے کہ اُن کے ساتھ کھانا کھایا جائے یا چائے پی جائے۔ تو اللہ تعالیٰ ایسے ہی حالا ت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے تم کو ایسے ایسے مواقع ملیں گے کہ ان کفار کو گرم گرم پانی کے گھونٹ پینے پڑیں گے۔ جب رسول کریم ﷺ کو کفّار مکّہ نے یہ کہلا کر بھیجا ہو گا کہ آپ ہمارے لئے دعا کریں کہ قحط دُور ہو جائے یا جب آپ ایک فاتح کی صورت میں مکّہ میں داخل ہوئے اور آپ نے کفار سے کہا کہ بتائو اب تم سے کیا سلوک کیا جائے اور انہوں نے کہا کہ ہم سے وہی سلوک کیا جائے جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا۔ تو اس وقت ان کو تلخ گھونٹ پینا پڑا ہو گا۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ اُن کی زبانیں خشک ہو ہو کر تالُو سے لگ جاتی ہوں گی کہ ہمیں کیسا ذلیل ہونا پڑا اور کس طرح اسلام کی فوقیت کا اعتراف کرنا پڑا۔
لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ
اُنہیں سوکھے شبرق گھاس کے سوا اور کوئی کھانا نہیں ملے گا وہ نہ تو اُنہیں موٹا کرے گا اور نہ بھوک (کی تکلیف) سے بچائے گا ۶؎
۶؎ حل لغات
اَلضَّرِیْعُ: اَلضَّرِیْعُ نَبَاتٌ رَتْبُہٗ یُسَمّٰی شِبْرَقًا وَیَابِسُہٗ ضَرِیْعًا لَاتَقْرُبُہٗ دَابَّۃٌ لِخُبْثِہٖ۔ یعنی ضریع گھاس کی ایک قسم ہوتی ہے جب تک وہ گھاس تازہ رہے اُسے شبرق کہتے ہیں اور جب سوکھ جائے تو ضریعؔ کہتے ہیں ضریع ایسی گندی چیز ہوتی کہ جانور بھی اس کو نہیں کھاتے ۔ اسی طرح ضریعؔ ایسی گھاس کو بھی کہتے ہیں جو سمندر کے کنارے اُگ آتا ہے مگر چونکہ نہایت گندہ اور بد بو دار ہوتا ہے لوگ اسے کاٹ کر پانی میں بہا دیتے ہیں۔ اسی طرح ہر درخت کی سُوکھی ٹہنی یا سُوکھے پتوں کو بھی ضریعؔ کہتے ہیں۔ اسی طرح سڑے ہوئے پانی میں ایک بوٹی ہوتی ہے اس کبھی ضریع کہتے ہیں۔ (اقرب) لغت والوں نے جو اس کی تشریح کی ہے اُس سے میں سمجھتا ہوں کہ غالبًا اس سے کائی مراد ہے کیونکہ وہ لکھتے ہیں نَبَاتٌ فِی الْمَآئِ الْاَجَنِ لَہٗ عُرُوْقٌ لَاتَصِلُ اِلَی الْاَرْضِ سڑے ہوئے پانی میں ایک بوٹی ہوتی ہے جس کی جڑیں زمیں میں نہیں جاتیں پانی میں رہتی ہیں یہ ساری چیزیں ایسی ہیں جن میں کوئی غذائیت نہیں ہوتی اور جنہیں انسان چھوڑ جانور بھی نہیں کھاتے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ کہ اُن کے سوائے ضریع کے اور کوئی کھانا نہیں ملے گا۔
تفسیر
علّامہ زمخشری لکھتے ہیں اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ ان کوکوئی کھانا نہیں ملے گا کیونکہ ضریع کوئی کھانا نہیںہے لیکن بحر محیط والوں نے اس پر بڑی عمدہ جرح کی ہے وہ لکھتے ہیں کہ یہ درست نہیں۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ ضریع کھانا ہو یا نہ ہو مگر جس کو کھانے کے لئے کچھ نہیں ملتا وہ اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کھا ہی لیتا ہے خواہ عام حالات میں وہ چیز کھانے کے ناقابل ہی کیوں نہ ہو۔ جب اللہ تعالیٰ نے اس کے بعد صاف طور پر فرما دیا ہے کہ لَا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ تو یہ کیوں کہتے ہو کہ اُن کو کھانا نہیں ملے گا۔ قرآن کریم کا اسلوبِ بیان اور اُس کے الفاظ واضح کر رہے ہیں کہ ان کو کھانے کے لئے ضریع دیا جائے گا یعنی وہ ایسے ذلیل ہو جائیں گے کہ ایسی چیزیں کھانے پر مجبور ہوں گے جن جانور بھی نہیں کھاتے۔ مطلب یہ ہے کہ ان کو ایسی ایسی ذلّتیں اور رسوائیاں پہنچیں گی جن کو ادنیٰ ادنیٰ انسان بھی برداشت نہیں کر سکتے۔ فتح مکّہ کے بعد کئی آدمی جنگلوں میں بھاگ کر چلے گئے تھے اور وہیں مر گئے۔ پھر بعض لوگ تھے جو بڑی بڑی تلخیاں برداشت کرنے کے بعد مکّہ میں واپس آئے اور انہوں نے رسول کریم ﷺ سے معافی مانگی جس پر رسول کریم ﷺ نے اُنہیں معاف فرما دیا۔ جب رسول کریم ﷺ نے مکّہ فتح کر لیا تو وہ لوگ جو کہا کرتے تھے کہ ہم مسلمانوں کو تباہ کر دیں گے۔ اُن کو کچل کر رکھ دیں گے۔ اُن کو مٹا دیں گے جب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہوں گے کہ مسلمان غلام اُن کے حاکم اور سردار بنے ہوئے ہیں تو خواہ وہ اعلیٰ درجہ کا کھانا ہی کیوں نہ کھاتے ہوں مگر وہ انہیں ضریع سے محسوس نہیں ہوتا اور وہ اُن کے انگ میں نہیں لگتا ہو گا۔ یہ ضروری نہیں کہ ضریع سے مراد یہاں حقیقتًا شبرق گھاس ہی ہو بلکہ آگے جو تشریح کی گئی ہے کہ لَا یُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ وہ کھانا نہ اُن کو موٹا کرے گا اور نہ اُن کی بھوک کو دُور کرے گا یہ اُن کی بدحواسی کی حالت کو ظاہر کر رہا ہے۔ پس بالکل قرین قیاس ہے کہ ضریع کا ذکر استعارۃً ہے۔
وہ روزانہ دیکھتے تھے کہ مسلمان ترقی کر رہے ہیں اور ہم شکست کھاتے جا رہے ہیں۔ پھر ہر لڑائی میں اُنہیں خبریں پہنچتی تھیں کہ آج فلاں رئیس مر گیا ہے۔ آج فلاں سردار مر گیا ہے یا آج فلاں قوم مسلمانوں سے مل گئی ہے اور فلاں قوم نے بھی اسلام قبول کرلیا ہے۔ یہ خبریں اُن کے لئے اس قدر پریشان کن۔ اس قدر تکلیف دہ اور اس قد ر غم و الم میں مبتلا کرنے والی تھیں کہ واقعہ میں اچھی سے اچھی غذائیں کھا کر بھی وہ اُن کے انگ میں نہیں لگ سکتی تھیں۔ الغرض لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ لَّایُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ اور اسی طرح تُسْقٰی مِنْ عَیْنٍ اٰنِیَۃ میں اسلام کی ترقیات کے متعلق زبردست پیشگوئی کی گئی ہے۔
عیسائی مصنّف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سورۃ ابتدائی ایام کی ہے جب کہ ابھی رسول کریم ﷺ کے دعویٔ نبوّت پر ابھی صرف تین چار سال گزرے تھے یہ کتنا بڑا نشان ہے کہ اُن ابتدائی ایام میں ہی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ ان کفار سے جنگ ہو گی۔ قحط کی سُورت میں اُن پر عذاب نازل ہو گا۔ وہ انفرادی کوششیں بھی اسلام کو مٹانے کے لئے کریں گے اور اجتماعی کوششیں بھی اسلام کے خلاف کریں صرف کریں گے چنانچہ عَامِلَۃٌ نَاصِبَۃٌ میں اسلام کو اسی رنگ میں چیلنج دیا گیا تھا جس رنگ میں حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے دشمنوں کو دیا کہ یَاقَوْمِ اِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَّقَامِیْ وَتَذْکِیْرِیْ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَعَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ فَاجْمِعُوْآ اَمْرِکُمْ وَشُرَکَآئَ کُمْ ثُمَّ لَایَکُْنْ اَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّۃً ثُمَّ اقْصُوْآ اِلَیَّ وَلَا تُنْظِرُوْنِ (یونس ع ۸ ۳ ۱)یعنی اے میری قوم اگر تمہیں میرا مرتبہ اور اللہ تعالیٰ کے نشانون کے ذریعہ تمہیں فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دلانا ناگوار گزرتا ہے تو پھر بے شک میرے مقابلہ میں نکل آئو۔ اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کر لَو اور ہر لحاظ سے مجھے مٹانے کے لئے متحد ہو جائو پھر دیکھو کہ کون ہے جو کامیاب ہوتا ہے اور کون ہے جو ناکامی کا منہ دیکھتا ہے۔ بالکل اسی رنگ میں اللہ تعالیٰ اس جگہ فرماتا ہے کہ کفار اپنی تمام طاقتوں کو مجتمع کر لیں گے وہ افسر اور کمانڈر مقرر کر کے مسلمانوں کے خلاف اعلان جنگ کریں گے مگر نہ اُن کے کمانڈر اُن کے کام آئیں گے‘ نہ اُن کے جیوش اُن کو فتح دلائیں گے‘ نہ اُن کے افسر اُن کو کامیابی تک پہنچائیں گے اور نہ اُن کے منصوبے مسلمانوں کو نقصان پہنچا سکیں گے۔ چنانچہ باجود اس کے کہ وہ بڑے بڑے ماہر اور تجربہ کار افسر چُن چُن کر مقرر کرتے تھے وُہ افسر مسلمانوں کے مقابلہ میں ہمیشہ شکست کھا کر واپس آتے ۔
غور کرو اورسوچو کہ کیسے نازک وقت میں اسلام کی ترقی کی یہ عظیم الشان خبر دی گئی تھی کہ یہ لوگ تو الگ رہے ان کے سردار بھی مسلمانوں کے مقابلہ میں کچھ نہیں کر سکتے۔ اُس وقت ظاہری حالات کے لحاظ سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ مسلمان اپنے گھروں سے باہر نکل کر نمازیں پڑھ سکیں گے فتح و غلبہ تو دُور کی بات ہے مگر ایسی حالت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خبر دی گئی کہ مسلمان کامیاب ہوں گے۔ دشمن ناکام ہو گا اور نہ اُنہیں تیز گرم پانی کے گھونٹ بار بار پینے پڑیں گے۔ مسلمانوں کی مظلومیت اور اُن کی کمزوری اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ جنگ احزاب تک یہ حالت تھی جس کا حدیثوں میں ذکر آتا ہے اور قرآن کریم میں بھی اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ منافق مسلمانوں کو طعنے دیتے تھے کہ تمہیں پاخانہ پھرنے کو تو جگہ نہیں ملتی اور فتح کی خبریںسُنائی جا رہی ہیں۔ یہ غلبہ کی پیشگوئی چوتھے سال بعد نبوت میں کی گئی ہے اور ہجرت کے پانچویں سال تک مسلمانوں کی کمزوری کی یہ حالت تھی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ پس اتنا لمباعرصہ پہلے اسلام کے غلبہ اور مسلمانوں کی شان و شوکت کے متعلق خبر دے دینا یقینا کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا۔
غرض لَیْسَ لَھُمْ طَعَامٌ اِلَّا مِنْ ضَرِیْعٍ لَّایُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ میں بتایا گیا ہے کہ اُن کھانا اور اُن کا پینا اُن کے لئے عذاب بن جائے گا اور غم اور مصیبت اُن پر نازل ہو گی۔ گویا استعارۃً یہ ویسا ہی کلام ہے جیسے ایک شاعر کہتا ہے
؎ خُون دل پینے کو اور لختِ جگر کھانے کو
یہ غذا ملتی ہے لیلیٰ تیرے دیوانے کو
پانی پئیں گے اور وہ آگ معلوم ہو گا خواہ ٹھنڈا پانی پئیں لیکن وہ اُن کے گلے میں پھنسے گا اور انہیں جلائے گا جیسے غم اور مصیبت میں لوگ پانی پیتے ہیں تو وہ اُن کے گلے میں پھنستا ہے۔ دُودھ دے دو۔ عمدہ سے عمدہ کھانا دے دو۔ اچھی سے اچھی غذائیں کھلاتے جائو اُن کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ غم سے انسان اور زیادہ دُبلہ ہو جاتا ہے پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مخالفینِ اسلام پر اس قدر مصائب و مشکلات آئیں گی۔ اس قدر ان کی عزتوں پر حملے ہوں گے۔ خاندانی حملے ہوں گے کہ اُن کو تلخی کے گھونٹ پینے پڑیں گے اور لخت جگر کھانے کو ملیں گے۔ ٹھنڈا پانی پئیں گے لیکن وہ اُن کے منہ میں آبلے ڈال دے گا۔ عمدہ سے عمدہ کھانے کھائیں گے لیکن وہ اُنہیں اتنا نفع نہیں دیں گے جتنا خشک پتّے یا شبرق گھاس اونٹ کو نفع دیتے ہیں۔
روایتوں میں آتا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مخالفین نے کہا کہ ہمارے اونٹ تو ضریع کھا کر موٹے ہوتے ہیں اس پر بعض مفسریں کہتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ ضریع اُونٹ کا کھانا تھا اور وہ اُس کے کھانے سے موٹا ہوتا تھا دوسرے مفسروں نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یا تو اُن کی یہ بات غلط تھی اور یا پھر خدا نے لَّایُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ میں ایک قید لگا دی ہے کہ اُن کو ایسا ضریع ملے جو نہ موٹا کرے اور نہ بھوک کو دُور کرے گا وہ ضریع اُن کے اُونٹوں کو موٹا کرتا ہو گا لیکن کفار کو وہ ضریع ملے گا جو لَّایُسْمِنُ وَلَا یُغْنِیْ مِنْ جُوْعٍ کا مصداق ہو گا۔
مجھے تعجب آتا ہے کہ مفسّرین اس بحث میں پڑے ہی کیوں ہیں۔ اگر تو اس آیت میں یہ ذکر آتا کہ لَیْسَ لِجَمَالِھِمْ یا لَیْسَ لِاَبَالِھِمْ کہ اُن کے اونٹوں کو سوائے اس کے کوئی کھانا نہیں ملے گا تب تو یہ بحث بھی ہوتی کہ ضریع جانور کو موٹا کرتا ہے یا نہیں لیکن یہاں تو آدمیوں کا ذکر ہے اونٹوں کا ذکر نہیں اگر کوئی جابر بادشاہ سزا کے طور پر کسی ملزم کے متعلق کہے کہ فلاں شخص کے آگے بھوسہ ڈالو تو کیا وہ شخص اور اُس کے دوست خوش ہوں گے اورکہیں گے کہ بھوسہ کھانے سے تو بیل موٹا ہو جاتا ہے اگر اس کے آگے بھوسہ ڈالا گیا ہے تو کیا حرج ہے۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ بھوسہ بیل کو موٹا کرتا ہے کسی انسان کے متعلق اگر یہ کہا جائے گا کہ اُس کے آگے بھوسہ ڈالو تو اُس میں اس کی ذلّت ہو گی عزّت افزائی نہیں ہو گی اور نہ کوئی یہ کہے گا کہ اسے وہ غذا دی گئی ہے جو موٹا کرتی ہے۔
شہاب الدین غوری نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو ایک جنگ میں پرتھوی راج کے مقابلہ میں اُس کے لشکر کے بعض سپاہی بھاگ اُٹھے۔ شہاب الدین غوری نے بھاگنے والوں کے متعلق حکم دیا کہ اُن کے منہ پر توبڑا باندھ کر اور اُس میں چنے ڈال کر اُن سے کہا جائے کہ یہ چنے کھائو۔ چنانچہ اُن کے منہ پر توبڑے باندھے گئے اور اُن میں چنے ڈال دئے گئے یہ بتانے کے لئے کہ یہ لوگ جانوروں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ اب کیا کوئی معقول آدمی کہہ سکتا ہے کہ وہ سپاہی اس پر بڑے خوش ہوئے وہ ہوں گے اور کہتے ہوں گے کہ دانہ تو اچھے گھوڑے یا اچھے گدھے کو ڈالا جاتا ہے اگر ہمیں بھی دانہ ڈال دیا گیا تو کیا ہؤا۔ پس میں تو سمجھ ہی نہیں سکا کہ اس بحث کے معنے ہی کیا ہوئے۔ پھر یہ بحث بالکل لغو ہے کہ ضریع اونٹ کو فائدہ دیتا ہے یا نہیں۔ اوّل لغت والے لکھتے ہیں کہ لَاتَقْرُبُہٗ دَابَّۃٌ لِخُبْثِہٖ۔ اُس کے گند اور خرابی کی وجہ سے جانور بھی اُس کو نہیں کھاتا۔ لیکن اگر وہ کھاتا بھی ہے تب بھی مکّہ والوں نے اگر یہ بات کہی تو یقینا انہوں نے اپنے جانور ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ اگر کسی آدمی کو یہ کہا جائے کہ تمہیں جانور کا کھانا ملے گا تو کیا وہ یہ کہے گا کہ مجھے بے شک دے دو کیونکہ جانور اس کے کھانے سے موٹا ہوتا ہے۔ پس مفسرین کا اس بحث میں پڑ جانا کہ ضریع اونٹ کو موٹا کرتا ہے یا نہیں بالکل لغو بات ہے۔ قرآن نے ابوجہلؔ اور عتبہؔ اور شیبہؔوغیرہ کا ذکر کیا ہے کہ ان کو ضریع ملے گا اونٹوں کا یہ ذ کرنہیں کیا کہ یہ بحث کی جائے کہ اونٹ تو اس کے کھانے سے موٹے ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی کے ہاں کوئی چوڑھا بھی بطور مہمان اور وہ اُ س کے سامنے بھوسہ ڈال دے یا تازہ بتازہ گھاس لا کر رکھ دے جس کے کھانے سے بیل اور بھینسیں موٹی ہوتی ہیں تو وہ خوش نہیں ہو گا بلکہ اُسے اپنی انتہائی ہتک سمجھے گا۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ یہاں آدمیوں کا ذکر کر رہا ہے تو اس بحث کا مطلب ہی کیا ہؤا کہ ضریع اونٹ کو موٹا کر دیتا ہے۔ بادب ان مفسرین سے کہتا ہوں کہ یہاں آدمیوں کی بات ہو رہی ہے جانوروں کی نہیں۔ اگر مکّہ والوں نے ایسا کہا تھا تو یقینا انہوں نے اپنے جانور ہونے کا ثبوت دیا تھا آپ کو اُن کا جواب دینے کی فکر نہ کرنی چاہئیے۔
وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ
کچھ (اور) چہرے اُس دن خوش بخوش ہوں گے۷؎
۷؎ حل لغات
نَاعِمَۃٌ: نَعَمَ سے اسم فاعل مؤنث کا صیغہ ہے اور نَعَمَ الرَّجُلُ کے معنے ہیں رَفِہَ۔ وہ خوشحال اور آسودہ حال ہو گیا۔ اور جب نَعَمَ عَیْشُہٗ کہیں تو معنے ہوتے ہیں طَابَ وَلَانَ وَاتَّسَعَ۔ یعنی اس کی زندگی عمدہ ہو گئی اور کسی تکلیف کا سامنا اُسے نہ کرنا پڑا۔ اور ہر چیز اُسے بافراغت ملنے لگی (اقرب) بحر محیط کے مصنّف نے نَاعِمَۃٌ کے معنے حسن و نضارت والے کے کئے ہیں اور پھر لکھا ہے کہ نَاعِمَۃٌ کے معنے مُتَنَعِّمَۃ کے بھی ہوتے ہیں یعنی یہ معنے بھی ہیں کہ اُن میں حُسن اور نضارت اور تازگی پائی جائے گی اور اُن کے چہرے خوبصورت ہوں گے اور یہ بھی معنے ہیں کہ اُنہیں بڑی بڑی نعمتیں حاصل ہوں گی (محیط)
تفسیر
پہلی آیت میں وُجُوْہ کا ذکر تھا جن کی صفت یہ تھی کہ وہ عَامِلَۃ اور نَاصِبَۃ تھے یعنی محمد ﷺ کے مقابلہ میں یا آنے والے ماموروں کے مقابلہ میں خوب عمل کرنے والے اور تھکا دینے والی محنت کرنے والے تھے انفرادی رنگ میں بھی اور اجتماعی رنگ میںبھی۔ مگر اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ باوجود ان کے انفرادی اور اجتماعی مقابلوں کے یہ نہیں ہو گا کہ خدا کا رسول دب جائے یا اکیلا رہ جائے بلکہ اُس کی جماعت بڑھتی چلی جائے گی اور وہ جماعت ایسی ہو گی جو دنیا میں عزت اور کامیابی حاصل کرنے والی ہو گی چنانچہ انہی کا ذکر وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ میں کیا گیا ہے۔
سردارانِ کفار کو وُجُوْہ اس لئے کہا گیا تھا کہ وہ ابتداء میں وُجُوْہ تھے گو بعد میں خَاشِعَۃ ہو گئے اور جو لوگ گر جائیں۔ لوگوں کی نگاہ میں ذلیل ہو جائیں۔ اُن کی آواز میں کوئی اثرنہ رہے اور وہ غم والم کی آگ میں ہر وقت جلتے رہیں وہ وُجُوْہ نہیں رہتے۔ پس اُن کا نام وُجُوْہ اُن کی ابتدائی حالت کی وجہ سے رکھا گیا تھا کیونکہ شروع میں وہ واقعہ میں سرداران قوم میں سے تھے بڑی عزت اور وجاہت رکھتے تھے۔ مگر مسلمانوں کا نام وُجُوْہٌ اُن کی انتہاء کی وجہ سے رکھا گیا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کام وہی اچھا ہوتا ہے جس کا انجام اچھا ہو۔ کافر وُجُوْہ بن کر اٹھے اور خَاشِعَۃ بن کر رہ گئے۔ مگر مومن گری ہوئی حالت سے اُٹھے اور وُجُوْہ بن گئے۔ ہر قسم کی عزّت، رُتبے اور درجے اُن کو حاصل ہو گئے۔ چنانچہ دیکھ لو کفار کی کیا حالت ہوئی اور مومن کس حالت کو پہنچ گئے۔ ابو جہل بڑا ذوالوجاہت تھا مگر مرا کس حالت میں؟ ایسی حالت میں کہ پندرہ پندرہ برس کے دو انصاری لڑکوں نے اُس کو جنگ بدر میں مار گرایا۔ اس کے مقابلہ میں حضرت ابوبکرؓ مکّہ کے ایک معمولی تاجر تھے مگر جب رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد مسلمانوں نے اُن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اُنہیں اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا تو مکّہ میں بھی کسی نے یہ خبر پہنچا دی۔ ایک مجلس میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے حضرت ابو بکرؓ کے والد بھی اُن میں موجود تھے کہ کسی نے کہا کہ مدینہ سے خبر آئی ہے رسول کریم ﷺ فوت ہو گئے ہیں۔ لیکن لوگوں نے پوچھا پھر کیا ہؤا؟ اُس نے بتایا کہ مسلمانوں نے ایک شخص کو خلیفہ مقرر کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے ۔ انہوں نے پوچھا کس کے ہاتھ پر بیعت کی گئی ہے؟ اُس نے جواب دیا ابو بکرؓ کے ہاتھ پر۔ حضرت ابوبکرؓ کے والد جو اسی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے یہ سن کر کہنے لگے کس ابوبکر کے ہاتھ پر؟ یعنی اُن کے ذہن میں بھی یہ نہیں آ سکتا تھا کہ میرے بیٹے ابوبکرؓ کو بادشاہ تسلیم کر لیا جائے گا اُس نے کہا ابن ابی قحافہ۔ یعنی تمہارے بیٹے کے ہاتھ پر بیعت کی گئی ہے۔ انہوں نے ایک ایک خاندان اور قبیلہ کا نام لے کر پوچھنا شروع کیا کہ انہوں نے بھی بیعت کر لی ہے؟ اور اُس نے جواب دیا کہ ہاں۔ تب بے اختیار ہو کر وہ بولے کہ اَشْھَدُ اَنْ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَاَشْھَدُ اَنَّ مّحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ حالانکہ وہ پہلے ہی مسلمان تھے اُن کے کلمہ طیبہ پڑھنے معنے ہی یہ تھے کہ یہ بھی ثبوت ہے اس بات کا کہ اسلام سچّا ہے۔ ورنہ یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ ابوقحافہ کے بیٹے کے ہاتھ پر تمام قبائل عرب بیعت کر لیتے۔ غرض اسلام کی بدولت ایک شخص ادنیٰ حالت سے ترقی کرتا ہے اور اِس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ باپ کو یقین نہیں آتا کہ اُسے یہ مقام حاصل ہو گیا ہے حالانکہ لوگ اپنے بیٹوں کے متعلق بڑے وسیع اندازے لگایا کرتے ہیں۔ کئی لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہمارا بیٹا لائق ہے اور جب پوچھا جائے کیا لیاقت ہے؟ تو کتاب کتاب فر فر پڑھ لیتا ہے۔ اُن کے ایک معمولی کتاب کو پڑھ لینا بھی بہت بڑے علم کا ثبوت ہوتا ہے خواہ وہی اپنی زبان کے اشعار ہی ہوں یا خواہ فر فر بھی نہ پڑھتا ہو وہ کہیں گے یہی کہ ہمارا بیٹا بڑا لائق ہے کتاب کو فر فر پڑھ لیتا ہے۔ پس حضرت ابوبکرؓ کے باپ کے نزدیک اُن کے بیٹے کی سب سے زیادہ قدر ہونی چاہئیے تھی مگر اُن کے باپ کی حالت یہ ہے کہ اُنہیں یقین تک نہ آیا کہ اُن کے ہاتھ پر مسلمانوں نے بیعت کر لی ہے۔ پس ابوجہل بڑا ہو کر چھوٹا ہو گیا اور ابو بکر چھوٹا ہو کر بڑا ہو گیا۔ یہی مفہوم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس الہام میں کیا گیا ہے کہ ’’کئی چھوٹے ہیں جو بڑے کئے جائیں گے‘‘ (تذکرہ صفحہ ۴۹۶) گویا ایک کی ابتداء بڑے ہونے سے ہوئی اور انتہا چھوٹے ہونے پر ہوئی اور ایک کی ابتداء چھوٹے ہونے سے ہوئی اور انتہا بڑے ہونے پر ہوئی۔ ایک کا وُجُوہٌ نام رکھا گیا ہے۔ ابتداء کی وجہ سے اور دوسرے کا وُجُوہٌ نام رکھا گیا ہے انتہاء کی وجہ سے ورنہ ایک ملک کے وہ دونوں سردار نہیں ہو سکتے تھے وہ تو ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ پس اس جگہ یہی بتایا گیا ہے کہ اے آنحضرت ﷺکا مقابلہ کرنے والو! تم آج وُجُوہٌ ہو کل خَاشِعَۃ ہو جائو گے۔ مسلمان آج گرے ہوئے ہیں کل وُجُوہٌ بن جائیں گے۔
پھر وُجُوہٌ کے ساتھ نَاعِمَہ کا لفظ بڑھا دیا اور نَاعِمَۃ کے دو معنے بتائے جا چکے ہیں۔ حُسن و نضارت والے اور یہ بھی کہ وہ مُتَعِّمَۃ ہوں گے۔ یعنی بڑی بڑی نعمتیں اُن کو حاصل ہوں گی۔ ذاتی طور پر بھی وہ کمال رکھیں گے اور ماحول کے لحاظ سے بھی کمال رکھیں گے جہاں اُن کو ذاتی طور پر بھی وہ نعمتیں حاصل ہوں گی وہاں اللہ تعالیٰ اُن کو بیرونی نعمتیں بھی عطا کرے گا۔ ظاہری معنوں کے لحاظ سے یہ مراد ہو گی کہ وہ حسین۔ خوبصورت اور صاحب اموال ہوں گے اور روحانی لحاظ سے یہ معنے ہوں گے کہ وہ متقی اور صاحب علوم ہوں گے یعنی متقی بھی ہوں گے اور علومِ روحانیہ بھی اُن کو حاصل ہوں گے۔ اپنی ذات میں بھی کامل عرفان اور استغناء اُن کو حاصل ہو گا اور اُن کے پاس ایسے علوم اور اموال بھی ہوں گے جو دوسروں کو سکھا سکیں اور دے سکیں۔ حُسن ایک ذاتی چیز ہے اور مال ایسی چیز ہے جو دوسرے کو دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح تقویٰ ایسی چیز ہے جو انسان کسی کونہیں دے سکتا لیکن علم ایسی چیز ہے جو دوسرے کو دے سکتا ہے۔ پس بتایا کہ جیسے ظاہری لحاظ سے حُسن اور مال دونوں نعمتیں اُن کو حاصل ہوں گی اسی طرح باطنی لحاظ سے تقویٰ بھی اُن میں پایا جائے گا اور علم بھی اُن کو عطا ہو گا۔ ظاہری لحاظ سے وُجُوہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ اُس پر حسین نظر آ رہے ہوں گے بظاہر یہ سمجھنا مشکل معلوم ہوتا ہے کسی خاص وقت کوئی شخص حسین کس طرح ہو جائے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جس کے ساتھ محبت کا تعلق ہو وہ بہت ہی خوبصورت دکھائی دیتا ہے اور اس آیت میں اسی طرف اشارہ ہے کہ بوجہ ذاتی تقویٰ اور احسان کے وہ لوگوں کے محبوب ہو جائیں گے اور خواہ اُن کی شکل کیسی ہی ہو وہ لوگوں کو حسین نظر آئیں گے جیسے ہر باپ کو اپنا بیٹا اور ہر بیٹے کو اپنا باپ حسین نظر آتا ہے۔
حضرت عمرو بن العاصؓ مسلمان ہونے سے پہلے اسلام کے شدید مخالف تھے جب وہ وفات پانے لگے تو سخت گھبرا رہے تھے کہ مَیں اللہ تعالیٰ کو کیا منہ دکھائوں گا۔ اُن کے بیٹے نے کہا آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ کو تو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بڑی بڑی خدمتوں کے مواقع ملے ہیں انہوں نے کہا ہاں رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں بے شک خدمتوں کے مواقع ملے تھے مگر آپ کے بعد جن حالات میں سے ہم گزرے ہیں اُن کو دیکھتے ہوئے ڈر آتا ہے کہ نامعلوم اللہ تعالیٰ ہم سے کیا معاملہ کرے۔ پھر کہنے لگے رسول کریم ﷺ کا کوئی حُلیہ مجھ سے پوچھے تو میں نہیں بتا سکتا آپ کے متعلق مجھ پر دو زمانے گزرے ہیں ایک وقت تو وہ تھا جب رسول کریم ﷺ نے دعویٰ کیا ا ور مجھے اس دعویٰ اس قدر نفرت پیدا ہوئی کہ میں نے اُس دن کے بعد آپ کی شکل کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ پہلے تو آپ سے کوئی زیادہ واقفیت ہی نہیں تھی کہ شکل یاد ہوتی۔ دعویٰ کے بعد یہ حالت ہو گئی کہ آپ سامنے آ رہے ہوتے تو میں اپنی آنکھیں نیچی کر لیتا کہ نعوذ باللہ میں آپ کی شکل کو نہ دیکھ لوں۔ اس کے بعد جب اس کے بعد جب مجھے ایمان نصیب ہؤا تو رسول کریم ﷺ کا مجھے وہ جلال، وہ حُسن اور وہ نور نظر آیا کہ اس کے بعد مجھے جرأت ہی نہیں ہوئی کہ آپ کے چہرہ پر نظر ڈال سکوں۔ چنانچہ آج اگر مجھ سے کوئی شخص رسول کریمﷺ کا حُلیہ دریافت کرے تو میں اُسے نہیں بتا سکتا۔ کیونکہ کفر کی حالت میں آپ کی شکل سے زیادہ بد صورت مجھے کوئی اور شکل نظر نہیں آتی تھی اور ایمان کی حالت میں آپ کی شکل سے زیادہ خوبصورت مجھے کوئی اور شکل نظر نہیں آتی تھی اس لئے دونوں حالتوں میں مَیں آپ کو دیکھ نہ سکا۔ گویا کفر کی حالت میں آپ کے جلال اور آپ کے حُسن کو برداشت کرنے کی طاقت نہ رکھنے کی وجہ سے نہ دیکھ سکے۔
حقیقت یہی ہے کہ ایک چیز کو انسان بعض حالات میں اچھا اور بعض حالات میں بُرا سمجھنے لگ جاتا ہے اور محبت یا نفرت کی وجہ سے شکلیں بھی بدل جاتی ہیں۔ ہم نے بیسیوں میاں بیوی کی لڑائیاں دیکھی ہیں پہلے وہ ایک دوسرے کے عاشقِ زار ہوتے ہیں اور میاں سمجھتا ہے کہ خدا نے مجھے دنیا کی حسین ترین بیوی عطا فرمائی ہے مگر جب لڑائی ہو جاتی ہے تو خاوند کہتا ہے کہ اس کی شکل ہی اتنی بُری ہے کہ دیکھنے کے قابل ہی نہیں۔ غرض نَاعِمَۃٌ کے اگر ظاہری معنے لئے جائیں تو وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَاعِمَۃٌ کا مفہوم یہ ہو گا کہ وہ ایسے مقبولِ جہاں ہو جائیں گے کہ لوگوں کو حسین نظر آنے لگ جائیں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ لوگوں کو حسین نظر آنے لگ جائیں گے۔ یہ ضروری نہیں کہ اُن کی شکلیں بھی حسین ہوں بلکہ وہ دنیا کو حسین اور خوبصورت معلوم ہونے لگ جائیں گے۔ جب وہ دنیا کے محسن ہوں گے‘ جب وہ خدمت خلق کرنے والے ہوں گے‘ جب وہ یتامیٰ سے حُسنِ سلوک کرنے والے ہوں گے، جب وہ غریبوں سے ہمدردی کرنے والے ہوں گے، جب وہ گرے ہوئے لوگوں کو اٹھانے والے ہوں گے تو وہ لوگ دنیا کو دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ خوبصورت اور اچھے نظر آنے لگ جائیں گے اور دوسرے لوگوں کے چہرے اُن کے مقابلہ میں اُنہیں حسین نظر نہیں آئیں گے۔ پس اگر ہم اس کے ظاہری معنے لیں تب بھی وہ صحیح ہوں گے مگر اس طرح نہیں کہ اُن کی شکلیں خوبصورت ہو جائیںگی بلکہ جیسے محاورہ کے طور پر کہتے ہیں پرنالہ چلتا ہے اِسی طرح اس کا یہ مطلب ہو گا کہ وہ اپنے احسان کی وجہ سے حسین نظر آنے لگ جائیں گے۔ جب اُن میں احسان کا مادہ ہو گا ، جب جب اُن میں نیکی ہو گی، جب اُن میں عفّت ہو گی، جب اُن میں حُسنِ سلوک کا جزبہ ہو گا تووُہ لوگوں کو بے انتہاء پیارے لگنے لگ جائیں گے پس وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ میں صحابہ کے یا مومنوں کے اخلاق فاضلہ کی طرف اشارہ ہے یعنی ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور حسنِ سلوک کی خُدا ان کو توفیق عطا فرمائے گا کہ وہ دنیا کی نگاہ میں بڑے خوبصورت اور حسین نظر آئیں گے اور اگر اس سے تقویٰ اور علم مراد ہو تو وہ ظاہر ہی ہے اس کی تشریح کی ضرورت نہیں۔
لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ
اپنی (سابقہ) کوششوں پر مطمئن ہوں گے ۸؎
۸؎ تفسیر
دنیا میں بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان دوسرے سے حسنِ سلوک کرتا ہے مگر وہ اپنے کئے پر خوش نہیں ہوتا جیسے ریاء والا ہوتا ہے کہ وہ بعض دفعہ ہزاروں لاکھوں روپیہ بھی چندہ میں دے دیتا ہے اور لوگ اُسے دیکھ کر کہتے ہیں سبحان اللہ واہ واہ اس نے کتنی بڑی قربانی کا نمونہ دکھایا مگر اس کا دل اندر سے خون ہو رہا ہوتا ہے یا وہ دکھاوے کے لئے صدقہ کرتا ہے تو لوگ اس کی تعریف کرتے ہیں مگر اُس کی جان اندر سے ہلکان ہو رہی ہوتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ مَیں نے اپنے روپے کو ضائع کیا ہے۔ تو صرف ظاہر میں تعریف کا ہو جانا اور لوگوں کی نگاہ میں حسین بن جانا کافی نہیں ہوتا بلکہ اپنی نگاہ میں بھی حسین بننا ضروری ہوتا ہے۔ لوگوں کی نگاہ میں تو ایک ریاکار بھی حسِین ہو جاتا ہے مگر وہ اپنے دل میں جل رہا ہوتا ہے کہ مَیں تباہ ہو گیا۔ لیکن فرماتا ہے وہ ایسے کامل وجود ہوں گے کہ اُن میں یہ نقص نہ ہو گا۔ چنانچہ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَاعِمَۃٌ لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ کا اگر ہم معنوی لحاظ سے ترجمہ کریں تو یوں ہو گا کہ کچھ چہرے ایسے ہوں گے کہ ایک دن آئے گا جب کہ وہ دنیا کی نگاہ میں حسین ہو جائیں گے لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ اور اپنی نگاہ میں حسین ہوں گے اور وہ اپنے کئے پر خوش ہوں گے اُن میں یہ احساس نہیں ہو گا کہ ہم نے لوگوں کے لئے قربانی کر کے اپنے پر ظُلم کیا ہے بلکہ وہ جس قدر خدمات سرانجام دیں گے، جس قدر قربانیں کریں گے، جس قدر احسانات کریں گے اُن کے دل اور زیادہ خوش ہوں گے۔ گویا ایمان اور اخلاص اور محبت باللہ سے اُن کے قلوب اس طرح پُر ہوں گے کہ صرف لوگ ہی اُن کو دیکھ کر خوش نہیں ہوں گے بلکہ وہ خود بھی اپنے کاموں کو دیکھ کر خوش ہوں گے۔ یہ ویسی ہی بات ہے جیسے محاورہ کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر مجھے پھر موقع ملے تو مَیں پھر بھی یہی کام کروں گا۔ بعض دفعہ ایک انسان ایک کام تو کر لیتا ہے مگر بعد میں اپنے کئے پر نادم اور پشیمان ہوتا ہے اور اُس کی ضمیر اُسے ملامت کرتی ہے چنانچہ جب اُسے کہا جائے کہ کیا اب جب کہ تم وہ کام کر چکے ہو اور وہ موقع گذر چکا ہے کیا تمہارے دل کو اطمینان ہے کہ تم نے جو کچھ کیا تھا درست کیا تھا؟ تو وہ بسا اوقات کہتا ہے کہ نہیں۔ میں اپنے کام پر نادم ہوں اور مجھ اعتراف ہے کہ میں نے درست کام نہیں کیا۔ لیکن اگر اُس کے ضمیر کو تسلی ہوتی اور وہ اپنے بیان میں سچ سے بھی کام لیتا ہے تو وہ کہتا ہے اگر میں پھر انہی حالات میں ڈالا جائوں تو میں پھر بھی یہی کام کروں گا یعنی باوجود اس کے کہ زمانہ گزر چکا ہے میرے دل کو اس قدر اطمینان ہے کہ اگر پھر ویسے ہی حالات پیدا ہوں تو میں پھر وہی کام کروں گا۔
دنیا میں ہر چیز کو دو نقطہ ہائے نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ بعض دفعہ ماضی سے استقبال کی طرف دیکھا جاتا ہے اور بعض دفعہ حال سے ماضی کی طرف دیکھا جاتا ہے۔ یہ الگ الگ نقطہ ہائے نگاہ ہوتے ہیں۔ کبھی ہم ماضی سے مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں تو ایک چیز ہمیں اچھی معلوم ہوتی ہے مگر وہ استقبال ماضی میں بدل جاتا ہے اور ہم غور کرتے ہیں تو وہ فعل ہمیں بُرا محسوس ہونے لگتا ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم ماضی سے مستقبل کے نتیجہ کو دیکھتے ہیں اُس وقت بھی وہ ہمیں اچھا معلوم ہوتا ہے اور جب وہ وقت گزر جاتا ہے نتائج روشن ہو جاتے ہیں اور ہم حال سے ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تب بھی ہمیں وہ کام اچھا معلوم ہوتا ہے۔ جو کام اعلیٰ درجے کا ہو اُس کی علامت یہی ہے کہ اُسے ماضی سے استقبال کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تب بھی وہ اچھا معلوم دے اور جب حال سے ماضی کی طرف دیکھا جائے تب بھی وہ اچھا معلوم دے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ مسلمان ماضی کے مقام پر کھڑے ہو کر جب استقبال کی طرف دیکھیں گے تب بھی اُن کو وہ اعمال جن کے کرنے کا انہوں نے تہیّہ کیا ہے خوبصورت نظر آئیں گے اور جب وہ اِن کاموں کو کر چکیں گے اور مستقبل کے مقام پر کھڑے ہو کر ماضی کی طرف دیکھیں گے تب بھی اُن کو وہ اعمال خوبصورت نظر آئیں گے گویا آگے اور پیچھے دونوں طرف اُن کے حُسن ہی حُسن ہو گا۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے گھوڑا خریدنے والے کبھی اس کو سامنے کی طرف سے دیکھتے ہیں اور کبھی اس کو پیچھے کی طرف سے دیکھتے ہیں۔ بعض جانور سامنے سے تو خوبصورت معلوم ہوتے ہیں مگر وہ پیچھے سے بدصورت نظر آتے ہیں اور بعض پیچھے کی طرف سے خوبصورت نظر آتے ہیں اور سامنے سے بدصورت نظر آتے ہیں۔ اچھا جانور وہی ہوتا ہے جو سامنے سے بھی اچھا نظر آئے اور پیچھے کی طرف سے بھی اچھا نظر آئے۔ انسانی اعمال کی بھی یہی دو حالتیں ہوتی ہیں بعض دفعہ ایک کام کرنے کے بعد بھی اچھا معلوم ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایک کام کرنے سے پہلے خوبصورت نظر آتا ہے اور کرنے کے بعد بُرا معلوم ہوتا ہے اور بعض دفعہ ایک کام کرنے سے پہلے بُرا معلوم ہوتا ہے اور کرنے کے بعد اچھا۔ اگر کوئی کام کرنے سے پہلے بھی اچھا نظر آئے اور کرنے کے بعد بھی اچھا نظر آئے تو وہی کام قابلِ قدر ہوتا ہے جیسے حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی جنگ میں شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہو کر فرمایا جو کچھ مجھ سے مانگنا چاہتے ہو مانگو تمہاری ہر خواہش پوری کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اگر انہوں نے اعلیٰ وجہ البصیرت شہادت کو قبول نہ کیا ہوتا تو وہ کہتے ہے کہ اے خدایا میری خواہش یہ ہے کہ تُو مجھے زندہ کر دے میں نے بے وقوفی کی جو جنگ میں شامل ہؤا اور مارا گیا اب تُو مجھے پھر زندہ کر دے تا کہ میں اپنے بیوی بچوں کے پاس جائوں مگر انہوں نے یہ نہیں کہا کیونکہ انہوں نے جب شہادت کو مستقبل کے اُفق میں دیکھا تھا تب بھی یہ نتیجہ نکالا تھا کہ یہ اچھی چیز ہے اور جب اس درجہ کو پالیا اور ماضی کی طرف نگاہ دوڑاتے ہوئے اپنی شہادت کو دیکھا تو اس وقت بھی انہوں نے یہی نتیجہ نکالا کہ یہ اچھی چیز ہے چنانچہ انہوں نے کہا یا اللہ میرا دل یہ چاہتا ہے کہ تُو مجھے زندہ کر دے تا کہ میں پھر تیری راہ میں شہید ہو جائوں (ترمذی ابواب التفسیر) گویا مرنے کے بعد بھی انہوں نے اپنی شہادت کو اچھی نگاہ سے دیکھا۔ تو کام شروع کرنے سے پہلے اور اُس کے ختم ہونے کے بعد دونوں نقطۂ نگاہ سے دیکھنے کے نتیجہ میں کسی کام کی حقیقی خوبی ظاہر ہوتی ہے اور لِّسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ میں اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے جہاں لوگ اُن کو حسین پائیں گے وہ اپنے آپ کو بھی حسین پائیں گے یہ نہیں ہو گا کہ وہ بعد میں کہیں ہم نے بہت بُرا کیا بلکہ کام کرنے سے پہلے بھی وہ اپنے اعمال کو اچھا سمجھتے تھے اور کام کرنے کے بعد بھی اُن کو اپنے اعمال خوبصورت نظر آئیں گے۔ اپنے آپ کو حسین پانے کے معنے اس متکبّرانہ خیال کے نہیں جو ہر بیوقوف میں پایا جاتا ہے کہ ہم چومن دیگرے نیست کی مرض میں مبتلا ہوتا ہے یہ حالت تو نہایت خراب اور دل کی بیماری پر دلالت کرتی ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ سچے غور وفکر اور نتائج اعمال دیکھ کربھی وہ اپنے اعمال کو اچھا پائیں گے اور یہ مقام کامل کا مقام ہوتا ہے۔
فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ
بلند (وبالا) جنت میں (رہ رہے) ہوں گے۹؎
۹؎تفسیر
فرماتا ہے جب وہ لوگوں کی نگاہوں میں خوبصورت ہو جائیں گے اور اپنی نظروں میں بھی وہ حسین دکھائی دیں گے۔ جب وہ ماضی سے استقبال کی طرف دیکھیںگے تب بھی وہ ان افعال پر خوش اور مطمئن ہوں گے جن کے کرنے کا انہوں نے ارادہ کیا ہے اور جب وہ حال سے ماضی کی طرف نگاہ دوڑائیں گے تب بھی انہیں اپنے افعال پر اطمینا ن ہو گا۔ پس دنیا کی رائے بھی اُن کے متعلق اچھی ہو گی اور اُن کی اپنی رائے بھی اپنے متعلق اچھی ہو گی بلکہ یوں کہو کہ انعامات چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ملتے ہیں اور سب تعریفیں اُس کی طرف سے آتی ہیں اس لئے خدا کی رائے بھی اُن کے متعلق اچھی ہو گی پبلک کی رائے بھی اُن کے متعلق اچھی ہو گی اور اُن کی اپنی رائے بھی اپنے متعلق اچھی ہو گی اور یہی انسانی اعمال کے تین اہم ترین حصے ہیں یعنی انسان کا اپنی ذات سے معاملہ، انسان کا بنی نوع انسان سے معاملہ اور انسان کا خدا تعالیٰ سے معاملہ۔ اپنی ذات سے اُن کا معاملہ ایسا ہو گا کہ اُن کی اپنی رائے اپنے متعلق اچھی ہو گی۔ بنی نوع انسان سے اُن کا معاملہ ایسا ہو گا کہ پبلک کی رائے اُن کے متعلق اچھی ہو گی اور خدا تعالیٰ سے اُن کا معاملہ ایسا ہو گا کہ خد اتعالیٰ کی رائے اُن کے متعلق اچھی ہو گی۔ جب یہ تینوں تعریفیں کسی کو حاصل ہو جائیں تو اس میں کیا شبہ ہے کہ وہ فِیْ جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ کا مصداق ہوتا ہے۔ لوگوں میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لوگ اُس کے پاس ایک پیسہ تک نہ ہو۔ اُس کے کپڑے پھٹے پُرانے ہوں لیکن وہ خود اپنے نفس میں بھی اپنے آپ کو بلند پاتا ہے دنی نہیں پاتا بلکہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اخلاقی لحاظ سے بلند مرتبہ دیا ہے ذلیل لوگوںمیں مجھے شامل نہیں کیا۔ اور لوگ بھی اس کی عزت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
پُرانے زمانہ میں شاید جَنَّۃٍ عَالِیَۃٍ کا مفہوم پوری طرح سمجھا نہ جاتا ہو مگر اس زمانہ میں اس کا مفہوم سمجھنا بالکل آسان ہے کیونکہ ہینگنگ گارڈنز (HANGING GARADENS)دنیا میں پائے جاتے ہیں اور بمبئی میں بھی کئی ایسے باغات ہیں مَیں اوائل عمر میں ایک دفعہ بمبئی گیا وہاں مجھے بتایا گیا کہ یہاں ہینگنگ گارڈنز ہیں۔ مجھے خیال ہؤا کہ شاید کھمبوں میں گملے لٹکا کر باغات بنائے گئے ہوں گے یا کسی چٹان پر جو آگے بڑھی ہو گی اور ہوا میں معلّق نظر آتی ہو گی۔ مگر جب مجھے کوئی ایسا باغ وہاں نظر نہ آیا تو میں نے کسی سے پوچھا کہ لوگ تو کہتے تھے یہاں ہینگنگ گارڈنز ہوتے ہیں مگر مجھے تو کوئی نظر نہیں آیا۔ اِس پر اُس نے بتایا کہ ہینگنگ گارڈنز تو ابھی آپ دیکھ آئے ہیں تب مجھے پتہ لگا کہ ہینگنگ گارڈن کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لٹکا ہؤا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ اونچی چوٹی پر ہے اور چونکہ لوگ نیچے ہوتے ہیں اور باغات چوٹی پر ہوتے ہیں۔ اس لئے اُن کو ہینگنگ گارڈنز کہا جاتا ہے یعنی بلند اور اونچے باغات۔ اسی طرح فرماتا ہے مومن ایسے باغات میں ہوں گے جو اونچے اور بلند ہوں گے۔ جنتؔ کے معنے سایہ دار جگہ کے ہیں اور عالیہؔ کے معنے بلند کے ہیں۔ جو چیز سایہ دار ہو اُس کے اندر کی چیزیں لوگوں کو نظر نہیں آتیں اور جو چیز بلندی پر ہو اُس پر دھوپ پڑتی ہے سایہ دار نہیں رہ سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جن باغات کا ہم ذکر کرتے ہیں اُن کے اندر دونوں قسم کی خوبیاں پائی جائیں گی جہاں تک شہرت اور عزت کا سوال ہے وہ عالیہؔ ہوں گے اور جہاں تک اُن کی نیکیوں اور خوبیوں کا سوال ہے وہ سایہ دار ہوں گے یعنی لوگوں کی نظریں بھی اُن کی طرف اُٹھیں گی اور پھر وہ تمازت اور دھوپ کا شکار بھی نہیں ہوں گے بلکہ ہر وقت سایۂ رحمتِ الٰہی کے نیچے رہیں گے ورنہ اکثر لوگ بلندی پر پہنچ کر ننگے ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل کا سورج بجائے اُن کے نفع مند ہونے کے اُن کے جلانے کا موجب ہو جاتا ہے۔
لَّا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً
وہ اس میں کوئی لغو بات نہ سنیں گے۱۰؎
۱۰ ؎حل لغات
لَاغِیَۃٌ کے معنے ہیں اَللَّغْوُ یعنی لغو اور بیحودہ بات۔ کہتے ہیں کَلِمَۃٌ لَاغِیَۃٌ اَیْ فَاحِشَۃٌ۔ کَلِمَۃٌ لَاغِیَۃٌ ایسے کلمہ کو جو فحش اور بُرا ہو وَمِنْہُ لَاتَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃُ اَیْ کَلِمَۃً ذَاتَ لَغْوٍ اور لَاتَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً کے یہ معنے ہیں کہ تُو اس میں کوئی فحش اور بُری بات نہیں سنے گا یا وہ چہرے اس میں لغو بات نہ سُنیں گے (اقرب)
تفسیر
دنیا میں انسان دو ہی طرح بُری باتیں سُنتا ہے یا تو اس طرح کہ وہ خود کج رَو ہوتا ہے اور لوگوں سے لڑتا رہتا ہے اس کے نتیجہ میں لازمی طور پر اُسے لَاغِیَۃ سُننا پڑے گا اور یا پھر دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس سے لڑتے ہیں اور وہ لَاغِیَۃ سنتا ہے۔ اپنا کہا انسان تب مانتا ہے جب وہ لوگوں سے خوش نہ ہو اور لوگوں سے لَاغِیَۃ سُنتا ہے جب لوگ اُس سے خوش نہ ہوں مگر فرماتا ہے وہ لوگ ایسے ہوں گے کہ لَاغِیَۃ نہیں سنیں گے یعنی وہ لوگوں سے خوش ہوں گے اور لوگ اُن پر خوش ہوں گے اُن میں رحم ہو گا، اُن میں ہمدردی ہو گی، اُن میں پردہ پوشی کی عادت ہو گی، اُن میں حسنِ سلوک کا جزبہ ہو گا، اُن میں محبت ہو گی، اُن میں خلوص ہو گا اور اس وجہ سے وہ لوگوں سے لڑیں گے نہیں اور نہ اُن کو گالیاں دیں گے جیسے رسول کریم ﷺ کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ نہ سبّابؔ تھے اور نہ لقان۔ نہ گالیاں دیتے تھے اور نہ لوگوں پر لعنتیں ڈالتے تھے۔ جب انسان کا مزاج چڑچڑا ہو جاتا ہے یا بخیل اور ضدّی ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں سے لڑتا ہے اَور گالی گلوچ دیتا ہے چنانچہ بعض لوگوں میں یہ نقص ہوتا ہے کہ کسی کام کے لئے لوگ اُن کے پاس جائیں تو وہ شور مچا دیتے ہیں کہ یہ بدبخت ہر وقت پیچھے پڑے رہتے ہیں کسی وقت چھوڑتے بھی نہیں۔ لیکن اگر کوئی سخی ہوتا ہے، حُسن سلوک کرتا ہے، لوگوں سے محبت کے ساتھ پیش آتا ہے تو اپنے منہ سے لغو بات نہیں سنتا اور اگر وہ حسن سلوک میں کامل ہو اور اس کے ساتھ ہی اُسے طاقت اور غلبہ بھی حاصل ہو تو وہ اور لوگوں سے بھی لَاغِیَہ نہ سننے میں مسلمانوں کی طاقت اور اُن کی قوت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ دنیا میں ایسے کمینے لوگ بھی پائے جاتے ہیںکہ خواہ اُن سے کس قدر حسنِ سلوک کیا جائے وہ بُرا بھلا کہنے سے باز نہیں آتے۔ ہماری جماعت کو ہی دیکھ لو۔ ہم کس قدر لوگوں سے سلوک کرتے ہیں اور ان کی بہتری کی کوششیں کرتے ہیں مگر سب سے زیادہ گالیاں ہمیں ہی ملتی ہیں۔ تو بعض لوگ ایسے گندے ہو جاتے ہیں کہ کسی حالت میں بھی نیش زنی سے باز نہیں آتے۔ جس طرح اقرب کا یہ کا م ہوتا ہے کہ وہ نیش زنی کرتا ہے اسی طرح بعض لوگ شیاطین کے ورغلانے سے اتنے گندے ہو جاتے ہیں کہ اپنے نفع اور نقصان کو بھی نہیں دیکھتے اور خدا سے آنیوالے اپیغام کی پوری مخالفت کرتے خواہ اس کو پیش کرنے والے کتنی ہمدردی اور اور محبت سے کام لے رہے ہوں۔ لیکن اگر الٰہی جماعت کو حکومت اور غلبہ میسّر آجائے تو پھر وہی لوگ بوٹ چاٹنے لگ جاتے ہیں۔ پس لَا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً میں مسلمانوں کی حکومت کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو ایسا غلبہ حاصل ہو جائے گا کہ اُن کے مقابلہ میں کوئی شخص بُری بات کہنے کی جرأت نہیں کرے گا اسی طرح لَاتَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً میں مسلمانوں کے اخلاق کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے جس طرح لِسَعْیِھَا رَاضِیَۃٌ میں تین باتوں کا ذکر کیا گیا تھا۔ مسلمانوں کا اپنے نفس سے سلوک، مسلمانوں کا بنی نوع انسان سے سلوک اور مسلمانوں کا خدا تعالیٰ سے سلوک۔ اور بتایا گیا تھا کہ وہ تینوں لحاظ سے کامل ہوں گے۔ اِسی طرح لَا تَسْمَعُ فِیْھَا لَاغِیَۃً میں اوّل تو اُن کے اخلاق کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ بخیل اور حریص نہیں ہوں گے کہ اگر اُنہیں لوگوں سے حسنِ سلوک کرنا پڑے تو وہ گالیاں دینے پر اُتر آئیں یا اُن کے مزاج میں چڑچڑاپن نہیں ہو گا کہ لوگ اُنہیں بُرا بھلا کہیں بلکہ وہ لوگوں کے محسن ہوں گے، منعم ہوں گے، معلّم ہوں گے اور لوگ اُن کی تعریف کریں گے۔ لیکن کمینے انسان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ دونوں حالتوں میں لڑتا ہے اُس پر احسان کرو تب بھی لڑتا ہے گویا اُس کی حالت کُتّے کی طرح ہوتی ہے کہ اِنْ تَحْمِلْ عَلَیْہِ یَلْھَتْ اَوْتَتْرُکْہُ یَلْھَثْ (اعراف ع ۲ ۲ ۲ ۱) دونوں حالتوں میں زبان نکالے کتّے کی طرح پیچھے پڑا رہتا ہے۔ ایسا انسان اسی صورت میں خاموش ہوتا ہے جب اُس کے مدمقابل کو حکومت اور غلبہ میسّر آ جائے۔ پس فرماتا ہے مسلمانوں کو غلبہ مل جائے گا اور کوئی صورت لَاغِیَۃ سننے کی نہیں رہے گی دشمنانِ دین جو احسان فراموش ہیں وہ غلبہ کی وجہ سے تعریف کریں گے اور یہ خود نیک طبیعت ہونے کی وجہ سے کسی سے بدگوئی نہیں کریں گے اس لئے لغو اُن کو سُنائی ہی نہیں دے گا۔
۱۱؎تفسیر
مومن جس جنّت میں رہیں گے اُس میں ایک جاری چشمہ ہو گا۔ اگلے جہان میں تو یہی ہو گا ہی۔ اس کے متعلق کسی تفصیل کی ضرورت نہیں۔ نہ میں نے اُسے دیکھا اور نہ کسی اَور نے یہ ایک ایمانی معاملہ ہے۔ لیکن دنیا کے لحاظ سے یہ معنے ہیں کہ وہ ایسے علوم اپنے ورثہ میں چھوڑیں گے اَور ایسے سلوک بنی نوعِ انسان سے کریں گے جن کا اثر عرصۂ دراز تک چلتا چلا جائے گا۔ کچھ لوگوں کا احسان صرف وقتی ہوتا ہے لیکن کچھ لوگوں کا احسان صدقۂ جاریہ کا رنگ اپنے اندر رکھتا ہے مثلاً کسی غریب کو ایک پیسہ دے دینا یہ بھی احسان ہے مگر جب وہ اُس پیسے سے روٹی خرید کر کھا لیتا ہے تو اس احسان کا دائرہ ختم ہو جاتا ہے لیکن ایک احسان یہ ہے کہ کسی دین کی باتیں سکھائی جائیں یا اخلاقی لحاظ سے اعلیٰ تربیت دی جائے یہ احسان بڑا وسیع ہے یا مثلاً کسی کو کوئی پیشہ چلانے کے لئے مدد دے دینا یا اُسے اپنا پیشہ چلانے کے لئے روپیہ سے امداد کرنا یا ہتھیار وغیرہ خرید ینا یہ اور قسم کا احسان ہے پہلی قسم کا صدقہ ختم ہو گیا مگر یہ صدقہ صدقۂ جاریہ ہے فِیْھَا عَیْنٌ جَارِیَۃٌ سے یہی مراد ہے کہ اُن کے صدقات صدقاتِ جاریہ ہوں گے اور ان کے احسان بنی نوع انسان سے محدود نہیں ہوں گے یا معمولی اور چھوٹے درجہ کے نہیں ہوں گے۔ بلکہ ایسے ہوں گے جو عرصۂ دراز تک چلتے چلے جائیں گے۔ جیسے رسول کریم ﷺ سے صحابہؓ نے علم لیا۔ اور پھر اُسے دنیا میں اس طرح پھیلایا کہ عَنْ فُلَانٍ عَنْ فُلَانٍ کے ایک لمبے سلسلہ کے ماتحت وہ اگلی نسلوں تک پہنچ گئے۔ اگلوں نے اگلوں تک یہاں تک کہ وہ سارے علوم ہم تک پہنچ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام میں یہ خوبی بدرجۂ اتم رکھی ہوئی تھی کہ وہ علوم کے خزانے صرف اپنے تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ دوسروں تک عَیْنٌ جَارِیَۃٌ بن کر پہنچا دیتے تھے۔ لوگوں کے پاس علم ہوتا ہے تو وہ اُس کو بند کر لیتے ہیں مگر صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ ایک صحابیؓ سے ایک دفعہ کسی نے کوئی بات پوچھی۔ اُس نے جواب دیا کہ مجھے تو یہ بات معلوم نہیں لیکن اگر مجھے معلوم ہوتی اور میری گردن پر کوئی شخص تلوار رکھ کر کہتا کہ اب تجھے قتل کرنے لگا ہوں تو مَیں اس کی تلوار چلنے سے پہلے جلدی جلدی بتا دیتا کہ رسول کریم ﷺ سے مَیں نے فلاں فلاں بات سُنی ہوئی ہے۔ یہ عَیْنٌ جَارِیَۃٌ ہی تھے کہ کسی جگہ ٹکتے نہیں تھے بلکہ بہتے چلے جاتے تھے۔ پھر عَیْنٌ جَارِیَۃٌ میں یہ خبر بھی دی گئی تھی کہ صحابہؓ اور اُن کے شاگرد دُور دُور تک نکل جائیں گے صرف عرب میں محدود نہیں رہیں گے۔ چنانچہ دیکھ لو مسلمان عرب سے نکلے اور دُنیا کے دُور دراز ممالک تک پھیل گئے یہاں تک وہ چینؔ بھی گئے اور انہوں نے اسلام پھیلایا۔ انطاکیہؔ میں بھی گئے اور اسلام پھیلایا۔ سپینؔ میں بھی گئے اور اسلام پھیلایا۔ غرض وہ دنیا کے کناروں تک نکل گئے اور دنیا میں علوم کے دریا انہوں نے بہا دئے۔ جس طرح جاری چشمہ کا پانی دُور دُور کی زمین کو سیراب کر دیتا ہے اسی طرح مسلمان ٹھہرتے نہیں تھے بلکہ اپنے علوم سے دنیا کو مستفیض کر تے چلے جاتے تھے۔ یہی خوبیاں ہیں جو جیتنے والی اقوام میں مخصوص ہیں۔ ہماری جماعت کو سوچنا چاہئیے کہ کیا ہم میں یہ خوبیاں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔ حکومت کا حصہ تو اپنے وقت پر آئے گا لیکن سوال یہ ہے کیا باقی خوبیاں ہم نے اپنے اندر پیدا کر لی ہیں؟ کیا ہم اپنی نظر میں، لوگوں کی نظر میں اور پھر خدا تعالیٰ کی نظر میں ہر قسم کے نقائص سے پاک ہیں؟ کیا ہمارے اخلاق ہر قسم کے نقائص سے پاک ہیں؟ کیا ہمارے اخلاق اس قسم کے ہیں کہ ہم نہ اپنی زبان سے لَاغِیہ سنتے ہیں اور نہ لوگوں کی زبان سے لَاغِیہ سُنتے ہیں؟ اور کیا ہماری کوششیں یہی ہوتی ہیں کہ عَیْنٌ جَارِیَۃٌ کی طرح ہم جو بات بھی سُنیں اُسے دوسرے لوگوں تک پہنچا دیں یا ہم صرف واہ واہ اور سبحان اللہ کہنے کے لئے سُنتے ہیں؟ صحابہؓ کی یہ حالت تھی کہ وہ رات اور دن تعلیم میں لگے رہتے تھے اور پھر جو کچھ سیکھتے اپنے سینوں میں ہی نہ رکھتے بلکہ لوگوں تک پہنچا دیتے۔ گویا وہ ایک جاری چشمہ تھا جو دنیا کو سیراب کرتا تھا۔ کتنی زبردست خواہش دوسروں تک علوم پہنچانے کی ہے جو اُس صحابی کے دل میں پائی جاتی تھی جس نے کہا اگر تلوار میری گردن ہر چل رہی ہوتی تو اُس وقت میری خواہش یہ ہوگی کہ اگر رسول کریم ﷺ کی کوئی بات مجھ سننے سے رہ گئی ہو تو مَیں اُسے جلدی جلدی بیان کر دُوں۔ یہی خوبی ہماری جماعت کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئیے اور اپنے علوم کے لحاظ سے عَیْنٌ جَارِیَۃٌ ثابت کرنا چاہئیے۔
فِیْھَا سُرُرٌمَّرْفُوْعَۃٌ
(اور) اس میں اونچے تخت (بھی) رکھے ہوں گے۱۲؎
۱۲؎حل لغات
سُرُرٌ: سَرِیْرٌ کی جمع ہے اور سُرُرٌ کی بجائے اَسِرَّۃٌ بھی جمع کے طور پر استعمال ہوتا ہے اس کے معنے تخت کے ہوتے ہیں خصوصًا یہ لفظ بادشاہ کے تخت کے لئے بولا جاتا ہے چنانچہ کہتے ہیں ذَالَ عَنْ سَرِیْرِہٖ وہ اپنے سر پر سے ہٹ گیا اور مراد یہ ہوتی ہے کہ ذَہبَ عِزُّہٗ نِعْمَتُہٗ اُس کی عزّت اور دولت جاتی رہی سُمِّیَ بِہٖ لِاَنَّ مَنْ جَلَسَ عَلَیْہِ مِنْ اَھْلِ الرِّفْعَۃِ وَالْجَاہِ یَکُوْنُ مَسْرُوْرًا سریر کا لفظ اس لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ مالدار اور جاہ وجلال کے مالک تخت پر بیٹھتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں۔ پس چونکہ اس مقام کا حصول دل میں سرور پیدا کرتا ہے اس لئے تخت کا نام بھی سریر ہی رکھ دیا گیا (اقرب)
مَرْفُوْعَۃٌ: رَفَعَ سے ہے اور رَفَعَہٗ کے معنے ہوتے ہیں اُس نے کسی چیز کو بلند کیا (اقرب) یہ بلندی خواہ اونچا بنانے کے لحاظ سے ہو جیسے کہتے ہیں اونچا بنایا گیا اور خواہ اونچا کرنے کے لحاظ سے ہو جیسے کسی چیز کو اُٹھا کر اُونچا کر دیا جاتا ہے۔ دونوں رنگ میں اس لفظ کا استعمال ہو جاتا ہے۔ مثلاً کہتے ہیں دیوار اونچی ہے اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ لمبی چلی جاتی ہے اور قامت کے اعتبار سے بلند ہے یا کہتے ہیں چھت اونچی ہے اور مراد یہ ہوتی ہے کہ زمین ہو یا فاصلہ کی کوئی زیادتی دونوں پر رفع کا اطلاق پاتا ہے۔ پس مَرْفُوْعَۃٌ کے معنے ہوں گے اُونچے کئے ہوئے۔ بلند کئے ہوئے۔
تفسیر
اس آیت کے ایک معنے یہ ہیں کہ وہ بلند شان والے ہوں گے۔ کیونکہ سُرُر کے ساتھ مَرْفُوْعَہ ہونا زیادہ شان اور عزت پر دلالت کرتا ہے۔ لیکن اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ وہ بلند رکھے گئے ہوں گے گویا دونوں قسم کی خوبیاں اُن میں پائی جاتی ہوں گی۔ مومنوں کی یہ شان بھی ہو گی کہ وہ نیک اعمال میں ترقی کرتے چلے جائیں گے اور دوسروں سے نیکی میں بلند قامت ہونے کی کوشش کریں گے اور وہ اس لحاظ سے بھی مَرْفُوعَہ ہوں گے کہ خُدا تعالیٰ اُن کو اپنی طرف اٹھا لے گا۔ گویا جہاں تک اُن کا انسانوں سے واسطہ ہے وہ دوسرے بنی نوع انسان سے بلند قامت ہوں گے اور نیکی اور تقویٰ کے لحاظ سے اس قدر فائق ہوں گے کہ اُن میں اور عام لوگوںمیں کوئی نسبت ہی نہیں ہو گی اور جہاں تک خدا تعالیٰ کا تعلق ہے وہ باقی انسانوں کے مقابل پراُن سے الگ قسم کا سلوک کرے گا اور وہ انہیں مقرب بنا لے گا۔
اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو جو بادشاہتیں ملیں گی وہ بالکل الگ قسم کی ہوں گی وہ اس جہان کی بادشاہتوں کی طرح نہیں ہوں گی بلکہ مَرْفُوعَۃ ہوں گی۔ اُن کے کے تخت آسمان پر رکھے جائیں گے چنانچہ دیکھ لو مسلمان بادشاہ تو ہوئے مگر انہوں نے دنیوی طور پر بادشاہت سے فائدہ اُٹھایا؟ حضرت ابوبکرؓ تمام عالمِ اسلام کے بادشاہ تھے مگر اُن کو کیا ملتا تھا۔ پبلک کے روپیہ کے وہ محافظ تھے مگر خود اس روپیہ پر کوئی تصرّف نہیں رکھتے تھے۔ بے شک حضرت ابو بکرؓ بڑے تاجر تھے مگر چونکہ ان کو کثرت سے یہ عادت تھی کہ جونہی روپیہ آیا خدا تعالیٰ کی راہ میں دے دیااس لئے ایسا اتفاق ہؤا کہ جب رسول کریم ﷺ کی وفات ہوئی اور آپ خلیفہ ہوئے تو اس وقت آپ کے پاس نقد روپیہ نہیں تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی دن آپ نے کپڑوں کی گٹھڑی اُٹھائی اور اسے بیچنے کے لئے چل پڑے۔ حضرت عمرؓ رستہ میں ملے تو پوچھا کیا کرنے لگے ہیں؟ انہوں نے کہا آخر میں نے کچھ کھانا تو ہؤا اگرمَیں کپڑے نہیں بیچوںگا تو کھائوں گا کہاں سے۔ حضرت عمرؓ نے کہا یہ تو نہیں ہو سکتا اگر آپ کپڑے بیچتے رہے تو خلافت کا کام کون کرے گا؟ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ اگرمیں یہ کام نہیں کروں گا تو پھر گزارہ کس طرح ہو گا؟ حضر ت عمرؓ نے کہا کہ آپ بیت المال سے وظیفہ لے لیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں یہ تو برداشت نہیں کر سکتا۔ بیت المال پر میرا کیا حق ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا جب قرآن نے اجازت دی ہے کہ دینی کام کرنے والوں پر بھی روپیہ صرف ہو سکتا ہے تو آپ کیوں نہیں لے سکتے۔ چنانچہ اس کے بعد بیت المال سے اُن کا وظیفہ مقرر ہو گیا مگر اُس وقت کے لحاظ سے وہ وظیفہ صرف اتنا تھا جس سے روٹی کپڑے کی ضرورت پوری ہو سکے۔ پھر حضرت عمررضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے اُن کو بھی ہم دیکھتے ہیں کہ بالکل سادہ زندگی بسر کرتے تھے۔ خلفاء میں سے صرف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس دولت تھی مگر آپ چونکہ بہت سخی تھے اس لئے جو کچھ پاس ہوتا بالعموم تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ لوگ اُن پر یہ اعتراض بھی کرتے تھے کہ آپ نے فلاں کو مال دیا ہے۔ فلاں کو مال دیا ہے آپ جواب دیتے کہ تم کو اس سے کیا۔ میرا اپنا روپیہ ہے میں جہاں چاہوں خرچ کروں تم اس میں دخل دینے والے کون ہو۔ تو کوئی فائدہ بھی خلفاء نے بیت المال سے نہیں اُٹھایا بلکہ تمام کا تمام روپیہ انہوں نے لوگوں کے فائدہ کے لئے اپنی نگرانی میں صرف کیا۔
غرض مسلمانوں کے تخت دوسروں کی نسبت بلند تھے۔ دنیا کے بادشاہ قومی خزانہ کو اپنا خزانہ سمجھتے ہیں اور وہ اس پر پورا پورا تصرّف رکھتے ہیں آج پبلک اور بادشاہتوں میں یہی جنگ جاری ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ تم روپیہ رعایا کے لئے خرچ کرو اور وہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارا روپیہ ہے ہم جس طرح چاہیں گے خرچ کریں گے۔
پس اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اسلامی حکومت کا نقشہ کھینچا ہے اور بتایا ہے کہ اُن کے تخت مَرْفُوْعَۃ ہوں گے وہ لوگوں کے فائدہ کے لئے حکومت کریں گے گویا نام کے بادشاہ ہوں گے مگر حقیقتًا زمین کے بادشاہوں سے بہت بلند مقام پر ہوں گے۔ وہ خزانوں کو اپنے خزانے نہیں سمجھیں گے بلکہ مُلک اور قوم کی مِلک تصور کریں گے۔ یہی اسلامی حکومت کے معنے ہیں اُس میں خزانہ کسی فرد کا نہیں ہوتا قوم بحیثیت مجموعی اُس خزانہ کی مالک ہوتی ہے میں نے دیکھا ہے بعض غیر احمدی جو ہماری جماعت کو بھی عام پیروں فقیروں کی جماعت کی طرح سمجھتے ہیں مجھے خط لکھتے ہیں کہ آپ بڑے مالدار ہیں آپ ہمیں اتنے ہزار یا اتنے لاکھ دے دیں۔ مَیں انہیں جواب دیتا ہوں کہ میرے پاس جو مال آتا ہے وہ میرا نہیں سلسلہ کا ہوتا ہے میں اسے مرضی کے مطابق خرچ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔ غرض وہ لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ میں بھی کسی قانون کے ماتحت ہوں اور اُس قانون کو توڑ کر بیت المال کے روپیہ کو خرچ کرنے کا حق نہیں رکھتا اُنہیں بہت سمجھایا جاتا ہے کہ مجھے خزانہ پر کلی اختیار نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے مجھے بھی بعض قوانین کے ماتحت رکھا ہے مگر ان کی سمجھ میں یہ بات نہیں آتی اور وہ یہی خیال کرتے ہیں کہ مَیں بُخل کی وجہ سے اُن کی مدد نہیں کرتا۔ یہ حالت بتاتی ہے کہ مسلمان اسلامی تعلیم سے آج کل کس قدر دُور چلے گئے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان امراء مغضوب ہیں جبکہ گزشتہ ایام میں مسلمان امراء اور بادشاہ نہ صرف اپنوں کے محبوب تھے بلکہ غیروں کے بھی محبوب تھے۔ کیونکہ وہ حکومت کے روپیہ کو ملک اور خصوصًا غرباء کی ترقی کے لئے خرچ کرتے تھے اور امراء بھی اپنے اموال کو ایک الٰہی امانت سمجھتے تھے اور اُسے عیاشی پر نہیں بلکہ رفاہِ عامہ کے کاموں پر خرچ کرتے تھے۔
وَّاَکْوَابٌ مَّوْضُوْعَۃٌ
اور آب خورے دھرے ہوں گے۱۳؎
۱۳؎حل لغات
اَکْوَابٌ: آبخوروں کو کہتے ہیں اور مَوْضُوْعَۃٌ وَضَعَ سے ہے جس کے معنے رکھنے کے ہوتے ہیں لیکن اس میں حَطَّ میں فرق ہے حَطَّ کے معنے محض رکھنے کے ہوتے ہیں اور وَضَعَ کے معنے مناسب طور رکھنے کے ہوتے ہیں قرآن کریم میں ہے وَالْاَرْضَ وَضَعَھَا لِلْاَنَامِ (الرحمن ع ۱ ۱ ۱) اس کے معنے یہ ہیں کہ زمین کو اس طرح بنایا کہ چارپایوں کو اس سے فائدہ پہنچے۔ اسی طرح فرمایا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَن مَّوَاضِعِہٖ (نساء ع ۷ ۲) یعنی مناسب محل سے بدل کر دوسری جگہ رکھ دیتے ہیں۔
تفسیر
اَکْوَابٌ مَوْضُوْعَۃٌٔ کے تین معنے ہو سکتے ہیں۔ آبخورے مومنوں کے پاس رکھے جائیں گے چونکہ آبخورے کا کسی کے پاس رکھنا پینے کے لئے ہوتا ہے اس لئے ان معنوں سے یہ استنباط بھی ہو گا کہ وہ بھرے ہوئے ہوں گے۔ دوسرےؔ اس کے یہ معنے ہیں کہ آبخورے اُن کے پاس ہی دھرے ہوں گے۔ تیسرےؔ معنے اس کے یہ ہیں کہ آبخورے چشموں کے پاس دھرے ہوں گے۔
اس آیت میں مسلمانوں کے قرب الٰہی اور ان کی سخاوت اور فیّاضی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ’آبخورے اُن کے پاس رکھے جائیں گے‘ کا ایک اشارہ اُن کے بھرے ہوئے ہونے کی طرف ہے پس اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اپنے انعامات کا جام لبا لب پلائے گا اور ہر وقت پلائے گا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ مومن فضل و احسان کے جام بھر کر اپنے پاس رکھیں گے تا جو آئے اُسے پلائیں۔ وہ علومِ آسمانی کے جام بھر بھر کر لوگوں کے سامنے پیش کریں گے اور کہیں گے لو جی یہ آبخورے پی لو۔ دوسرےؔ معنے اس سے یہ نکلتے ہیں کہ آبخورے مومنوں کے پاس ہی رکھے ہوں گے یعنی علومِ آسمانی کا حصول اُن کے لئے آسان کر دیا جائے گا ادنیٰ کوشش سے وہ رُوح کی پیاس بجھا سکیں گے تیسرےؔ معنے اس کے یہ ہیں کہ آبخورے چشموں کے پاس دھرے ہوں گے یعنی دعوتِ عامہ ہو گی جو چاہے پِئے۔ گویا:۔
اوّلؔ۔ اُن کے سینوں کو علومِ آسمانی سے پُر کیا جائے گا۔
دومؔ۔ اُن کا علم اور عرفان لوگوں کے لئے اس قدر وسیع ہو گا کہ کسی کو مانگنے کی ضرورت نہیں ہو گی۔
سومؔ۔ وہ آبخوروں کو بھر بھر کر رکھتے چلے جائیں گے اور لوگوں سے کہیں گے آئو اور پی لو۔
چہارمؔ۔ اُن کے لئے آسمانی علوم کا حصول آسان کر دیا جائے گا۔
پنجمؔ۔ اُن کے فیوض کا دروازہ ہر ایک کے لئے کُھلا ہو گا جو چاہے اس سے فائدہ اُٹھائے
وَّنَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ
اور سہارے لینے والے تکئے قطاروں میں رکھے ہوئے ہوں گے۱۴؎
۱۴؎حل لغات
نَمَارِق: نُمْرُقٌ اور نُمْرُقُہ کی جمع ہے اور یہ لفظ تینوں طرح آ جاتا ہے نُمْرُقٌ۔ نَمْرُقٌ اور نِمْرُقٌ۔ نَمَارِق اُن چھوٹے چھوٹے تکیوں کو کہا جاتا ہے جو ٹیک لگانے کے لئے پیچھے رکھے جاتے ہیں (اقرب) ایک گائو تکیہ ہوتا ہے جو متمدّن ممالک میں صرف وہاں لگاتے ہیں جہاں قوم کا سردار بیٹھا ہو لیکن نَمَارِق اُن چھوٹے چھوٹے تکیوں کو کہتے ہیں جو دیواروں کے ساتھ ساتھ تمام اہل مجلس کے لئے رکھے جاتے ہیں اور جو بھی آتا ہے اُس تکئے سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتا ہے۔
تفسیر
اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مسلمان سارے کے سارے معزّز ہوں گے یہ نہیں کہ اُن میں سے صرف ایک شخص کے پیچھے گائو تکیہ ہو اور باقی تکیوں کے بغیر ہوں بلکہ ہر شخص کے پیچھے ایک ایک تکیہ ہو گا یعنی اللہ تعالیٰ قوم کی قوم کو معزز اور باعظمت بنا دے گا اور خوبی اگر کامل طور پر ملی ہے تو محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کو۔ افسوس ہے کہ ابھی ہمارے اندر بھی کئی لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو کو دینی علوم حاصل کرنے کا کائی شوق نہیں۔ جو قرآن کریم کے علوم سے بہت حد تک ناواقف ہیں اور جن کے دلوںمیں یہ احساس بھی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ قرآن کریم کو سمجھنے اور اس کے علوم کو سیکھنے کی کوشش کریں۔ قادیان میں سینکڑوں ایسے آدمی ہیں جو کبھی اُس مجلس میں باقاعدگی نہیں آتے جس میں مَیں بیٹھتا ہوں۔ اگر آئیں تو وہ باتوں کو یاد رکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر وہ خود یاد رکھیں تو دُوسروں کو سنانے کی کوشش نہیں کرتے۔ یہ محمد رسول اللہ ﷺ کی ذات ہی تھی جن کو ایسی باکمال جماعت ملی جس نے آپ کی باتوں کو سُنا، اُن پر عمل کیا اور پھر اُسے دوسروں لوگوں تک پہنچایا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری جماعت میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہیں جو صحابہؓ کی طرح دین کی ہر بات کو سیکھنے اس پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہاں سب کے سب ایسے تھے یہ ایک ایسی خوبی اور کمال ہے جس پر ہر قوم کو رشک کرنا چاہئیے اور اپنے آپ کو اُن جیسا بنانے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اسی خوبی کا اللہ تعالیٰ نے زیر تفسیر آیت میں ذکر کیا ہے اور بتایا ہے مسلمانوں میں یہ نہیں ہو گا کہ ایک شخص گائو تکیہ لگا کر بیٹھا ہؤا ہو اور باقی لوگ اُس کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوں بلکہ تمام افراد کو عزت حاصل ہو گی، تمام افراد کو وجاہت حاصل ہو گی، تمام افراد کو عظمت حاصل ہو گی اور تکیے سب کے پیچھے ہوں گے کسی ایک فرد کے پیچھے بڑا سا تکیہ نہیں ہو گا۔
وَّزَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ
اور فرش پیچھے بچھے ہوئے ہوں گے ۱۵؎
۱۵؎حل لغات
زَرَابِیُّ کے معنے نَمَارِق کے بھی ہوتے ہیں اور فرش کے بھی۔ زَرَابِیُّ کا واحد زِرْابِیٌّ بھی ہوتا ہے اور زَرْبِیَّۃٌ بھی (اقرب)
مَبْثُوْثَۃٌ: بَثَّ سے اسم مفعول کا صیغہ ہے اور بَثَّ کے معنے کسی چیز کو پھیلانا (مفردات) اور مَبْثُوثَۃٌ کے معنے ہوں گے پھیلائے ہوئے۔
تفسیر
زَرَابِیُّ مَبْثُوثَۃٌ کے یہ معنے ہیں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہر ملک میں عزت بخشے گا اور ہر قوم کے لوگ اُن کو اپنی آنکھوں پر بٹھائیں گے۔ نَمَارِقُ مَصْفُوْفَۃٌ کے معنے تو یہ تھے کہ اُن کے ہر فرد کو عزت کے مقام پر بٹھایا جائے گا یعنی ساری کی ساری قوم معزّز ہو گی یہ نہیں ہو گا کہ کوئی ایک فرد معزز ہو اور باقی لوگ ذلیل ہوں بلکہ ہر ایک پیچھے تکیہ لگا ہؤا ہو گا۔ اب زَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ میں یہ بتاتا ہے کہ اُن کی دُنیا کے کونہ کونہ اور زمین کے گوشہ گوشہ میں عزت کی جائے گی زَرْبِیَّۃ کے معنے جیسا کہ بتائے جا چکے ہیں فرش کے ہوتے ہیں پس زَرَابِیُّ مَبْثُوْثَۃٌ کے یہ معنے ہوں گے کہ مسلمانوں کے لئے ہر جگہ فرش بچھے ہوئے ہوں گے اللہ تعالیٰ اُن کو ہر جگہ عزت دے گا اور ہر مقام پر اُن کی وجاہت کا لوگوں پر اثر پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ نَمَارِق کے لئے مَصْفُوْفَۃ کا لفظ استعمال کیا ہے مَصْفُوْفَۃ کے معنے ہوتے ہیں صف میں رکھے ہوئے اور مَصْفُوْفَۃ کہنے سے مطلب یہ تھا کہ جب مسلمان مجالس میں حاضر ہوں گے سب کے سب عزت کے مقام پر بیٹھیں گے ان میں سے کوئی ذلیل نہیں ہو گا۔ لیکن زَرَابِیُّ میں کسی خاص مجلس کا ذکر نہیں بلکہ عام ذکر ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ جہاں جائیں گے لوگ اُن کے رستہ میں فرش بچھائیں گے۔ اُن کا استقبال کر یں گے۔ اُن سے عزت کے ساتھ پیش آئیں گے اور چاہیں گے کہ وُہ اُن کے گھروں میں رہیں اور اس طرح اُن کے لئے برکت کا باعث بنیں۔
لوگ عمومًا ظاہر پر مرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ استقبال وہی ہوتا ہے جب بڑی بڑی قالینیں بچھائی جائیں، شاندار دروازے بنائے جائیں، رنگ برنگ کی جھنڈیاں لگائی جائیں اور ظاہری لحاظ سے نمائش کی جائے حالانکہ اصل استقبال قالین بچھانا نہیں بلکہ آنکھوں کا فر شِ راہ کرنا ہے۔ ایک شاعر نے کہا ہے ع
حضرتِ واعظ جو آئیں دیدہ و دل فرشِ راہ
پس لوگوں کے دیدہ و دل کا فرشِ راہ ہونا ہی اصل عزّت کی علامت ہے اور اسی کی طرف زَرَابِیُّ مَبْثُوثَۃٌ میں اشارہ کیا گیا ہے اس سے مراد ظاہری زَرَابِیُّ نہیں۔ ان ظاہری زَرَابِیُّ کی تو صحابہ کو پرواہ بھی نہیں تھی۔
جب ایران کے بادشاہ کے دربار میں صحابہؓ گئے تو وہ اپنے نیزوں کی اَنّی اُسے کے بڑے بڑے قالینوں میں چبھوتے چلے جاتے تھے ایرانی دلوں میں کہتے تھے کہ یہ کیسے بد تہذیب ہیں کہ انہوں نے ہزاروں روپیہ کی قالینیں نیزے مار مار کر خراب کر دیں مگر اُنہیں اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ جب بادشاہ کے سامنیب پیش ہوئے تو اُس نے صحابہؓ سے کہا کہ تم کیا جانو کہ سیاست کیا چیز ہوتی ہے بہتر یہ ہے کہ روپیہ لے لو اور واپس چلے جائو ناحق اپنی جانیں کیوں ضائع کرتے ہو۔ اُس کا خیال تھا کہی عرب روپے لے کر خوش ہو جائیں گے اور لڑائی کا خیال ترک کر دیں گے۔ اُس نے اُن کی جو قیمت لگائی اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ بیرونی اقوام اہلِ عرب کے متعلق کیسے ذلیل اندازے لگایا کرتی تھیں۔ معلوم ہوتا ہے عرب اُس زمانے میں ایسے ہی لالچی اور اور حریص ہوتے ہوں گے ورنہ اُن کے متعلق ایسا اندازہ کیوں لگاتا۔ اُس نے حکم دیا کہ ہر سپاہی کو ایک ایک اشرفی اور ہر سوار کو دو دو اشرفی دی جائے۔ صحابہؓ نے اُسے کہا اب دو صورتوں میں سے ایک صورت ہے یا ہماری موت یا تمہاری موت۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ اسلام جنگ شروع ہو جانے کے بعد کفر سے صلح کرے۔ یہ سُن کر بادشاہ کو غُصّہ آیا۔ اُس نے مٹی کا ایک بورا بھروایا اور مسلمانوں کے سردار سے کہا کہ آگے آئو۔ وہ آگے آئے تو اُس نے وہ بورا اُن کی پیٹھ پر لدوا دیا اور کہا کہ اِ س مٹی کے بورے کے سوا اب تمہیں کچھ نہیں مل سکتا۔ ساتھی صحابہؓ کا خیال تھا کہ سردار مٹی کے بورے کو اُٹھانے سے انکار کر دے گا اور کہے گا کہ میں اس ہتک کو برداشت نہیں کر سکتا۔ مگر انہوں نے آگے بڑھ کر مٹی کا بورا اپنی پیٹھ پر رکھوا لیا جو اُن کے ساتھیوں کو بہت بُرا لگا مگر انہوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہ کی بورا اُٹھایا اور زور سے ایک نعرہ لگایا کہ اپنے ساتھیوں سے کہا آ جائو بادشاہ نے خود ایران کی زمین ہمارے حوالے کر دی ہے۔ مشرک تو ہوتا ہی وہمی ہے یہ سنتے ہی بادشاہ کا رنگ زرد ہو گیا اُس کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور اُس نے درباریوں سے کہا جلدی جائو اور اُن کو پکڑ کے لے آئو مگر وہ گھوڑوں پر سوار ہو کر اُس وقت دُور نکل چکے تھے اس لئے وہ ناکام واپس آئے۔ دیکھو یہ کیسی لطیف اور باموقع بات اُس صحابیؓ کو سوجھی باقی صحابہؓ کو اس کا خیال نہیں آیا وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہمارے سردار نے اچھا نہیں کیا جو مٹی کا بورا اٹھا لیا مگر جب اُس نے نعرہ لگا کر حقیقت ظاہر کی تب اُنہیں پتہ لگا کہ یہ کیسی لطیف بات تھی۔ پھر دیکھو صحابہؓ جس جگہ بھی گئے لوگوں نے اُن کا استقبال کیا۔ یوروشلم کا واقعہ ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے پہلے مسلمانوں نے اُسے فتح کر لیا مگر کچھ عرصہ بعد دشمن نے بڑے لشکروں سے اُس پر حملہ کر دیا اور مسلمانوں کو یوروشلم چھوڑ کر پیچھے ہٹنا پڑا۔ جب مسلمان لشکر واپس آنے لگا تو یوروشلم کے عیسائی روتے تھے حالانکہ اُس وقت مسلمانوں کا عیسائیوں سے مقابلہ تھا اور عیسائیوں کا اپنا مذہب بادشاہ یوروشلم پر قابض ہو رہا تھا مگر اس کے باوجود مسلمان لشکر کو شہر سے باہر تک چھوڑنے کے لئے آئے اور ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو پھر ہمارے ملک میں واپس لائے۔ تو دیکھو اُن کا اپنا ملک تھا۔ اپنی قوم مسلمانوں سے برسر جنگ تھی۔ مگر اُنہیں اپنے مذہب کی بادشاہت کے مقابلہ میں ایک غیر قوم کی حکومت اچھی لگتی تھی اور وہ دعائیں کرتے تھے کہ خدا مسلمانوں کو پھر ہمارے شہر میں واپس لائے۔
غرض بتایا کہ مسلمان جہاں جائیں گے لوگ اپنی آنکھیں فرشِ راہ کریں گے اور کہیں گے آئیے اور تشریف رکھئے۔ آخر وہ کون سی چیز تھی جس کی وجہ سے اسلام کو فتح حاصل ہوئی۔ اور مسلمان جہاں گئے پھیلتے چلے گئے اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمان منصف مزاج تھے اور وہ لوگوں کے حقوق کو غصب نہیں کرتے تھے۔ غصّہ سے تب انسان لڑتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ میرا نقصان ہو رہا ہے لیکن جب وہ سمجھتا ہو کہ ہمارے اپنے بادشاہ ظلم کرتے ہیں مسلمان آئیں تو انصاف کریں گے اُس وقت وہ دل سے نہیں لڑ سکتا بلکہ عزّت کے ساتھ پیش آتا ہے۔ پس فرماتا ہے کہ مسلمانوں کی حالت یہ ہو گی کہ وہ جدھر جائیں گے لوگ اپنی آنکھیں اُن کی راہ میں بچھائیں گے جس جگہ ٹھہریں گے لوگ تکئے لگائیں گے۔ اُن کے قدموں میں قالینیں بچھائیں گے جیسے گورنروں یا حاکموں کے استقبال کے موقع پر ہوتا ہے اور کہیں گے کہ ہمارے ہاں ہی ٹھہریئے اور آگے نہ جائیے۔
اَفَلَا نَنْظُرُونَ
کیا وہ اونٹوں کونہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح پیدا کئے گئے ہیں۔ اور آسمان کو (نہیں دیکھتے کہ) کس طرح اونچا کیا گیا ہے۱۶؎
۱۶؎ حل لغات
اِبِلٌ: کے معنے اونٹوں کے ہوتے ہیں لیکن بعض علماء ادب نے اس کے معنے بادل کے بھی کئے ہیں۔ امام راغب نے اپنی کتاب مفردات میں لکھا ہے کہ اس کے معنے اگر بادل کے ہیں تو یہ بھی استعارہ کے طور پر ہیں لُغت میں یہ معنے نہیں ہیں۔ گو بعض آئمہ نے حتٰی کہ کسائیؔ تک نے کہا ہے کہ اس کے معنے بادل کے ہیں۔ جیسا کہ صاحبِ محیط کہتے ہیں وَرُوِیَتْ عَنْ اَبِیْ عَمْرٍ وَاَبِیْ جَعْفَرٍ وَالْکَسَائِیِّ وَقَالُوْا اِنَّھَا السَّحَابُ عَنْ قَوْمٍ مِنْ اَھْلِ اللُّغَۃِ۔ لیکن لُغت کی کتب کو لکھنے والوں نے اِن معنوں کو تسلیم نہیں کیا۔ وہ یہی کہتے ہیں کہ لغت کے لحاظ سے اس کے حقیقی معنے اُونٹوں کے ہی ہیں۔ مَیں بھی پہلے اِس آیت میں اِبِل کے معنے اونٹوں کی بجائے بادل کے کیا کرتا تھا اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اگر اِبِل کے معنے یہاں اونٹوں کے ہی کئے جائیں تو پھر اِبِل اور سَمَاء میں جوڑ کیا ہؤا۔ اُس وقت بادل کے معنے زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتے تھے لیکن اب جو میں نے غور کیا تو یہی بات ٹھیک نکلی کہ اس آیت میں اِبِل کے معنے اونٹوں کے ہی ہیں۔ پہلے میں اس آیت میں صرف اِسی آیت کو سامنے رکھ کر غور کرتا رہا ہوں۔ لیکن اب جو میں نے ترتیبِ آیات کے لحاظ سے غور کیا تو مجھے معلوم ہؤا کہ اونٹوں کا سماء کے ساتھ تو جوڑ نظر آتا ہے مگر بادل کا کوئی جوڑ نہیں جیسا کہ مفردات والوں اور صاحبِ کشّاف نے لکھا ہے یہ درست معلوم ہوتا ہے کہ اِبِل کے معنے جن لوگوں نے بادل کے کئے ہیں فَعَلٰی تَشْبِیْہِ السَّحَابِ یعنی وہ اس وجہ سے کئے ہیں کہ اونٹ اس طرح اونچے نیچے چلتے ہیں۔ جس طرح بادل چلتا ہے۔ پس چونکہ اِبِل کو چلنے کے لحاظ سے بادلوں سے مشابہت ہوتی ہے اس لئے محاورہ میں اِبِل کا لفظ بادل کے لئے استعمال کیا جانے لگا ورنہ اِبِل کے اصل معنے بادل کے نہیں ہیں۔
تفسیر
اَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْo وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْ میں مضمون نیچے سے اوپر گیا ہے اور اگلی آیت یعنی وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْo وَاِلَی الْاَرْضِ کَیْفَ سُطِحَتْمیں مضمون اوپر سے نیچے آیا ہے۔ اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں دو الگ الگ مضمون بیان ہوئے ہیں۔ ایک مضمون میں نیچے سے اُوپر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور دوسرے مضمون میں اُوپر سے نیچے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ اگر اِن آیات میں دو الگ الگ مضمون تسلیم نہ کئے جائیں تو پھر اہل سماءؔ۔ جبالؔ اور ارضؔمیں کوئی بھی ترتیب نظر نہیں آتی۔ ترتیب کے لحاظ سے مدارج دو ہی طرح بیان کئے جا سکتے ہیں یا نیچے سے اُوپر کی طرف مضمون کے لے جایا جائے یا اُوپر سے نیچے کی طرف۔ اب اس آیت میں پہلے اُونٹوں کاذ کر ہے پھر سماءؔ کا۔ یہاں تک تو ترتیب درست ہے یعنی نیچے سے اوپر کی طرف مضمون لے جایا گیا ہے مگر اس کے بعد پہاڑوں کا ذکر ہے جو نہ سماءؔ سے اُونچے ہیں نہ اُن کے برابر۔ اور اس کے بعد زمین کا ذکر ہے جو پہاڑوں سے اونچی نہیں ہوتی۔
دوسری ترتیب یہ ہوتی ہے کہ اُوپر سے نیچے کی طرف آیا جائے مگر اس لحاظ سے بھی بات نہیں بنتی کیونکہ اونٹ جو چھوٹی چیز ہے اُسے پہلے ذکر کر دیا گیا ہے اور سماء جو بلند چیز ہے اُس کا بعد میں ذکر کیا گیا ہے گویا نہ یہ ترتیب بنتی ہے کہ اونٹ سب سے نیچا ہو۔ اُس سے اُونچا آسمان ہو۔ اُس سے اُونچا پہاڑ ہو اور اس سے اونچی زمین ہو اور نہ یہ ترتیب بنتی ہے کہ اونٹ سب سے اونچا ہے۔ آسمان اُس سے نیچا ہو۔ پہاڑ اُس سے نیچے ہوں اور زمین اُن سے نیچی ہو۔
کبھی کبھی ایک اور رنگ بھی ترتیب کے بیان میں استعمال کر لیا جاتا ہے وہ اس طرح کہ پہلے درمیانی چیز کا ذکر کر دیا جاتا ہے پھر اُن اشیاء کا ذکر کر دیا جاتا ہے جو اُس کے دائیں بائیں ہوں مگر یہاں ابلؔ کے بعد آسمان کا ذکر دیا گیا ہے۔ آسمان کے بعد پہاڑوں کا اور پہاڑوں کے بعد زمین کا۔ اگر چوٹی کی چیز کو پہلے بیان کر دیا جاتا اور اس کے بعد ایسی چیز کا نام لیا جاتا جو اُس سے کم اونچی ہیں تو خیر کوئی بات بھی تھی مگر بظاہر اس جگہ کوئی اصل بھی مدنظر نہیں رکھا گیا۔ نہ نیچے سے اوپر مضمون گیا ہے نہ اوپر سے نیچے کو مضمون گیا ہے اور نہ درمیان کی کسی چیز کا پہلے ذکر کر کے اس سے تعلق رکھنے والی چیزوں کا بعد میں ذکر کیا گیا ہے۔ پس یا تو اِن آیات کو بے ترتیب قرار دینا پڑے گا جو قرآن کریم کی شان کے خلاف ہے یا ان آیات کو دو الگ الگ مثالوں پر مشتمل قرار دینا ہو گا۔ جن میں سے ایک ہی نیچے سے اوپر کیطرف مضمون لے جایا گیا ہے اور دوسری میں اوپر سے نیچے کی طرف ایک مثال کے ذریعہ ابلؔ اور سماءؔ کی آپس میں کوئی نسبت بتائی ہے اور دوسری ـمثال کے ذریعہ جبالؔ اور ارضؔ کی آپس میں کوئی نسبت بتائی ہے۔ اور میرے نزدیک اِن آیات میں یہی آخری طریق استعمال ہؤا ہے۔ اِبِل کے معنے اس جگہ اُونٹوں کے ہی ہیں لیکن سَمَاء کے معنے اس جگہ آسمان کے نہیں بلکہ بادل کے ہیں جیسا کہ وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الرَّجْعِ (الطارق) میں سماء کے معنے بادل کے ہیں۔
اہل مکّہ کا طریق تھا کہ وہ ہمیشہ فخر ومباہات سے کام لیا کرتے تھے اور تکبّر میں مبتلا ہونے کی وجہ سے اپنی شان اور وجاہت کا بار بار ذکر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ہم ایسی شان والے۔ ہم اتنا بلند مرتبہ رکھنے والے۔ ہم ایسے اور ہم ویسے مسلمان بھلا ہمارے مقابلہ میں جیت سکتے ہیں۔ اس کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنی شانیں تو بیان کرتے ہو مگر تمہاری حالت بالکل اونٹوں کی سی ہے۔ اونٹ بے شک اونچا ہوتا ہے مگر جانتے ہو وہ ہمیشہ دوسرے کی سواری کے ہی کام آتا ہے بے شک اُس کی کوہان اُونچی ہوتی ہے، اس کا قد اونچا ہوتا ہے، اس کی ٹانگیں لمبی ہوتی ہیں، اُس کا جسم بڑا ہوتا ہے مگر اس کے باوجود ہمیشہ دوسروں کے نیچے رہتا ہے۔ اسی طرح تم خواہ اپنی کسی قدر شانیں بیان کرتے رہو۔ تمہیں وہ قویٰ ہی نہیں دیئے گئے کہ تم حکومت کر سکو۔ تم ہمیشہ اِسی قابل رہو گے کہ لوگ تمہاری گردنوں پر سوار ہو ں جیسے اونٹ بے شک اونچا ہوتا ہے مگر اونچا ہونے کے باوجود اُسے نیچا ہونا پڑتا ہے اور ایک دوسرا شخص اس کی پیٹھ پر سوار ہو جاتا ہے۔ پس تم اپنی خوبیاں خواہ کتنی گنتے جائو تم اس اِبِل کے مشابہ ہو اور اونٹ ہمیشہ سواری ہی دیتے ہیں۔ اُوپر چھانے والے بادل ہوتے ہیں اُونٹ نہیں ہوتے تم اونٹوں کی طرح ہمیشہ دوسروں کی سواری کا کام آتے رہے ہو کبھی دنیا پر تم نے حکومت نہیں کی۔ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ سماء ہیں پس تمہاری آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں۔ یہ بادلوں کیطرح دنیا پر چھا جانے والے ہیں اور تم خواہ کتنے اونچے ہو جائو بہرحال تمہاری پیٹھ پر دوسرے لوگ سوار ہوں گے چنانچہ عربوں کو دیکھ لو اُنہوں نے کئی صدیوں تک دنیا پر حکومت نہیں کی تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے اُن کی تاریخ محفوظ ہے اور اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں کے محکوم چلے آتے تھے کسی قسم کا غلبہ اُن کو حاصل نہیں ہؤا تھا لیکن وہی قوم جو پچیس سو سال پہلے بالکل ذلیل چلی آتی تھی جس کو ہر لحاظ ستے ادنیٰ قرار دیا جاتا تھا۔ جسے دنیا میں کوئی غلبہ حاصل نہ تھا اور جس کے افراد کو حکومت کا کوئی شعور نہیں تھا جب محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں آئی اور آپ کے دامن کو اُس نے چھؤاتو وہ دیکھتے ہی دیکھتے کہیں سے کہیں جا پہنچی اورد نیا کی فاتح اور حکمران بن گئی اور بادلوں کی طرح دنیا پر چھا گئی۔ پس آیت میں کفار کو اونٹوں سے مشابہت دی ہے کہ باوجود اونچا ہونے کے سواری کے کام آتے ہیں اور مسلمانوں کو بادلوں سے مشابہت دی ہے کہ نظر نہ آنے والے ذرّوں سے بنتا ہے اور آخر بلند ہو کر دنیا پر چھا جاتا ہے اور اُسے سیراب کر دیتا ہے۔
وَاِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ
اور پہاڑوں کو (نہیں دیکھتے) کہ کس طرح گاڑے ہوئے ہیں اور زمین کو (نہیں دیکھتے) کہ کس طرح ہموار کی ہوئی ہے۱۷؎
۱۷؎تفسیر
اس آیت میں دوسری مثال بیان کی گئی ہے جس کا مضمون اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے فرماتا ہے تم پہاڑوں کو دیکھو کہ وہ کسی طرح زمین میں گڑے ہوئے ہیں۔ دوسری جگہ پہاڑوں کا فائدہ اللہ تعالیٰ نے الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ وَجَعَلْنَا فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَعِیْدَبِھِمْ(الانبیاء ع ۳ ۳)ہم نے پہاڑ اس لئے بنائے ہیں کہ زمین ہل نہ جائے اور لوگ تباہ نہ ہو جائیں۔ زمین کی غیر ضروری حرکت کو پہاڑوں نے ہی روکا ہؤا ہے ورنہ زمین کی غیر ضروری حرکت کو پہاڑوں نے ہی روکا ہؤا ہے ورنہ بنی نوع انسان کا زمین میں قیام بالکل ناممکن ہو جاتا۔ اللہ تعالیٰ گزشتہ مضمون کے تسلسل میں کفار کو توجہ دلاتا ہے کہ تم اپنے دلوںمیں خیال کرتے ہو کہ یہ کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مسلمان غالب آ جائیں۔ اور مغلوب ہو جائیں۔ ہم طاقتور اور بڑی عزت اور شان رکھنے والے ہیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے ہم قوم اور ہمارے ہم مذہب ہم کو چھوڑ کر ان کے پیچھے دوڑنے لگ جائیں۔ مگر تمہارا یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے۔ تم بے شک اچھے ہو مگر تمہاری اور مسلمانوں کی حالت میں جو کچھ فرق ہے وہ اس سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں کو ہم نے اپنی مشیّت کے ماتحت پہاڑ بنایا ہے اور تم کو زمین بنایا ہے۔ زمین پہاڑوں کے ذریعہ ہی قائم رہتی ہے اگر پہاڑ نہ ہوں تو زمین بھی اس حالت میں نہ رہے۔ پس بے شک تم میں خوبیاں ہیں اس سے ہم انکار نہیں کرتے۔ جس طرح زمین میں بھی خوبیاں پائی جاتی ہیں اور کوئی شخص اُن خوبیوں سے انکار نہیں کر سکتا مگر زمین یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ اُسے پہاڑوں کی ضرور ت نہیںیا پہاڑوں کے بغیر بھی اُس کی زندگی قائم رہ سکتی۔ زمین کی زندگی پہاڑوں کے بغیر قطعی طور پر ناممکن ہے۔ اسی طرح اب جبکہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے پہاڑ بنا دیا ہے تمہارا فائدہ اسی میں ہے کہ زمین کی طرح اُن کے مقابلہ میں بِچھ جائو۔ جس طرح زمین پہاڑ کے مقابلہ میں بچھ کر ہی فائدہ اٹھاتی ہے اس کے بغیر نہیں اسی طرح تمہارا فائدہ اٹھاتی ہے اس کے بغیر نہیں اسی طرح تمہارا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ تم مسلمانوں کے مقابلہ میں کھڑے نہ ہو۔
اگر پہاڑ کی اونچائی کے لحاظ سے اس مثال کو مسلمانوں پر چسپاں کیا جائے تو پھر معنے یہ ہوں گے کہ مسلمانوں کی مثال پہاڑوں کی طرح ہے اور تمہاری مثال زمین کی طرح۔ ان مثالوں کی ذریعہ اب دنیا سے فتنہ و فساد دُور ہوں گے۔ بے شک زمین سرسبز و شاداب ہوتی ہے اور کئی قسم کی روئیدگیاں اس میں پیدا ہوتی ہیں مگر انہی پہاڑوں کے ذریعہ۔ کیونکہ وہی بادلوں کے برسنے کا ذریعہ بنتے ہیں اور وہی دریائوں کا منبع ہیں پس اب تمہاری ترقی مسلمانوں کے ساتھ وابستہ ہے اِن سے جُدا ہو کر تم سُکھ نہیں پا سکتے۔
فَذِکِّرْ اِنّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ
پس نصیحت کر کہ تُو تو صرف نصیحت کرنے والا ہے۱۸؎ تُو اِن (لوگوں) پر داروغہ (کے طور پر) مقرر نہیں ہے مگر جس نے پیٹھ پھیر لی اور کفر کا مرتکب ہؤا۱۹؎
۱۸؎تفسیر
فرماتا ہے جبکہ تمام ترقیات اور فوائد مسلمانوں کے ساتھ وابستہ ہیں۔ محمد رسول اللہ ﷺ کی اُمت میں شامل ہو کر ہی ہر قسم کی برکات کا حصول انسان کے لئے ممکن ہے خدا اُن کو بادلوں کی طرح دنیا پر چھا جانے والے اور پہاڑوں کی طرح زمین کے فتنہ و فساد کو دور کرنے والا اور ہر قسم کے فوائد لوگوں کو پہنچانے والا بنایا ہے تو پھر اے مسلمانو! تمہارا بھی فرض ہے کہ تم مخالفینِ اسلام کو سمجھائو اور اُنہیں کہو کہ وہ بھی اسلام کو قبول کر لیں اُونٹ بن کر اُنہوں نے کیا لینا ہے۔ اگر بننا ہے تو بادل بنیں اور پہاڑوں کی طرح دنیا کو فائد ہ پہنچائیں اور زمین کی طرح دوسری اقوام کے پائوں تلے روندے نہ جائیں۔
۱۹؎حل لغات
اَلْمُصَیْطِر: سین سے بھی لکھا جاتا ہے اور صاد سے بھی۔ اور اَلْمُصَیْطِر بھی ہے اور اَلْمُتَصَیْطِر بھی استعمال ہوتا ہے اور اس کے معنے ہیں الرَّقِیْبُ۔ اَلْحَافِظُ وَالْمُتَسَلِّطُ عَلَی الشَّیْئِ یَشْرُفُ عَلَیْہِ وَیَتَّعَھَّدُ اَحْوَالَہہٗ وَیَکْتُبُ عَمَلَہٗ وہ شخص جو کسی کی پوری نگرانی کرے اُس کی حالت کو دیکھتا رہے اور اُس کے اعما ل کو لکھتا رہے (اقرب) پس لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ کے یہ معنے ہوئے کہ خُدا نے تمہیں اُن پر مُصَیْطِر نہیں بنایا اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ سوائے اُس کے جو تولّی اخیتار کرتا اور کفار میں مبتلا رہتا ہے۔ یہاں اِلَّا استثناء منقطع کے معنے دیتا ہے متصل کے نہیں۔ یعنی تو کسی کا مصیطر نہیں اُن کا کبھی نہیں جو تولّی کریں گے اور باوجود سمجھانے کے کفر میں مبتلا رہیں گے اُن سے بھی تیرا واسطہ نہیں ہے۔ جن کے دلوں میں سعادت ہے انہی لوگوں نے تجھے ماننا ہے مگر نہ تجھے ماننے والوں پر مصیطر بنایا گیا ہے اور نہ انکار کرنے والوں پر اور تولّٰی اور کفر کرنے والوں پر مصیطر بنایا گیا ہے تیرا اُن سے کوئی واسطہ نہیں وہ اگر نہیں مانتے تو نہ مانیں اُن کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔
تفسیر
رسول کریم ﷺ کا مصیطر نہ ہونا دونوں لحاظ سے ہے مومنون کے لحاظ سے بھی اور کافروں کے لحاظ سے بھی۔ یعنی آپ نہ مومنوں کے لئے مُصَیْطِر ہیں اور نہ کفار کے لئے مُصَیْطِر ہیں۔ کفار کو اگر جبراً مذہب میں شامل کیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ وہ ظاہر میں تو مذہب قبول کر لیں گے لیکن دل میں منافق رہیں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ کہہ کر غیر مذاہب والوں کو جبراًاسلام میں شامل کرنے کی ممانعت فرما دی ہے اور بتایا ہے کہ ہم نے تمہیں اُن کا داروغہ مقرر نہیں کیا۔ اگر تم جبر سے کام لو گے تو اس سے نہ مومن کو فائدہ ہو گا نہ کافر کو۔ کافر کو تو اس لحاظ سے فائدہ نہیں ہو گا کہ اگر وہ تلوار کے ڈر سے مسلمان ہو بھی جائے تو بہرحال وہ منافق مسلمان ہو گا اور منافق کافر سے بد تر ہوتا ہے۔ مومنوں کو اس لئے فائدہ ہو گا کہ منافق اُن کی طاقت کو کمزور ہونے والے ہوں گے بڑھانے والے نہیں۔ مومنوں پر مصیطرؔ اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا ایسے ہی اعمال کے نتیجہ میں انسان کو حاصل ہو سکتی ہے جو دلی شوق اور رغبت سے کئے جائیں۔ جس شخص کے دل میں ذاتی طور پر خدا تعالیٰ کی محبت کا جوش نہیں، اُس کے احکام پر عمل کرنے کا ولولہ اس کے سینہ میں نہیں پایا جاتا وہ معرفت اور اخلاص کی راہوں سے بیگانہ ہے۔ اوہ اگر جبر کے ماتحت کوئی نیک کام کرے گا بھی تو اُ س کی رُوح کو پاکیزگی حاصل نہیں ہو گی اور خدا تعالیٰ کے حضور اس کے وہ اعمال قبولیت کی نگاہ سے نہیں دیکھیں جائیں گے اس لئے فرمایا کہ تمہیں لوگوں کا مصیطر بنا کر نہیں بھیجا گیا۔ جو شخص کفر کرے اور باوجود سمجھانے کے اپنے بداعمال سے باز نہ آئے اُسے ہمارے سپرد کر دو تمہارے جبر سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اور جو مسلمان ہے اُسے شوق اور رغبت کے ذریعہ سے نیکی میں بڑھائو تا کہ اُسے ایمان کا نفع حاصل ہو۔
یہاں بھی دیکھ لو اسلام اور رسول کریم ﷺ کے غلبہ کی کیسے کیسے لفظوں میں پیشگوئی کی گئی ہے۔ مکّی زندگی میں جبکہ اسلام کا ابتدا ء تھا اور کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں آ سکتا تھا کہ اسلام بہت بڑی طاقت حاصل کر لے گا یہاں تک کہ کفار کی گردنیں مسلمانوں کے قبضہ میں ہوں گی اور وہ اختیار رکھتے ہوں گے کہ اُن سے جو سلوک چاہیں کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِر یہ صاف بات ہے کہ مکّہ میں رسول کریم ﷺ کو کوئی ایسی طاقت حاصل نہیں تھی کہ آپ کو یہ کہا جاتا کہ تجھے ہم نے مصیطر بنا کر بھیجا۔ یہ آئندہ کے متعلق پیشگوئی کی گئی تھی اور اسلام کے غلبہ کی خبر دی گئی تھی ورنہ وُہ لوگ جن کو مکّہ میں کُھلے بندوں نماز پڑھنے کی بھی اجازت نہیں تھی اُن کو یہ کہنا کہ تمہیں زبردستی کسی کو مسلمان بنانے کی اجازت نہیں ایک مضحکہ خیز بات ہو جاتی ہے۔ یہ فقرہ صاف بتا رہا تھا کہ وہ دن آنے والا ہے جب کہ مسلمانوں کو اتنی طاقت حاصل ہو جائے گی کہ اگر وہ چاہیں تو زبردستی لوگوں کو مسلمان بنا سکیں گے مگر پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے بطور نصیحت فرما دیا کہ تم ایسا نہ کرنا۔
غرض لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍo اِلَّا مَنْ تَوَلّٰی وَکَفَرَ میں غلبۂ اسلام کی پیشگوئی پائی جاتی ہے۔ اور یہ بات ایسی ہے کہ عیسائی مصنّفین کو بھی کھٹکی ہے ہے چنانچہ ویریؔ اس آیت کے ماتحت لکھتا ہے آپؐ کے دل میں شروع سے ہی حکومت کے خیالات اُٹھ رہے تھے چنانچہ ابتدائی زمانہ میں ہی اس قسم کی آیات مکّہ والوں سُنانا بتا رہا ہے کہ انہوں نے شروع سے ہی حکومت کا نقشہ اپنے ذہن میں جمایا ہؤا تھا اور ویسے ہی خیالات دل میں پیدا ہوتے رہتے تھے مگر سوال یہ ہے کہ حکومت کے خیالات آخر کسی وجہ سے پیدا ہؤا کرتے ہیں بغیر کسی وجہ سے پیدا نہیں ہو سکتے۔ وہ شخص جو ماریں کھا رہا ہو، جو لوگوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنا ہؤا ہو، جو اتنی طاقت بھی نہ رکھتا ہو کہ باہر نکل کر خدا تعالیٰ کی عبادت کر سکے اُس کے دل میں حکومت کے خیالات پیدا ہی کس طرح ہو سکتے ہیں اور پھر خود ساختہ خیالات پورے کس طرح ہو سکتے ہیں۔
درحقیقت یہ ایک پیشگوئی تھی اور اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ گو اس وقت تمہاری کوئی حیثیت نہیں مگر ایک زمانہ میں تم کو ایسا غلبہ حاصل ہونیو الا ہے کہ تم جو چاہو گے کر سکو گے مگر دیکھنا جب تمہیں غلبہ میسّر آئے اُس وقت اِن لوگوں پر جبر نہ کرنا بلکہ اِن کو اپنے حال پر چھور دینا جو شخص ایمان لے آئے اُسے اپنے اندر شامل کر لینا اور جو تولّی اور کفر کرے اس کی پرواہ نہ کرنا۔
فَیُعَذِّبُہُ اللّٰہُ الْعَذَابَ الْاَکْبَرَ
اس کے نتیجہ میں اللہ اُسے بڑا عذاب دے گا۲۰؎ یقینا انہیں ہماری ہی طرف لوٹنا ہے پھر اُن سے حساب لینا بھی یقینا ہمارا ہی کام ہے۲۱؎
۲۰؎تفسیر
تولّی اور کفر کرنے والوں کو بہت بڑا عذاب دئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک بڑی ہدایت کا انکار کیا۔ سزا ہمیشہ جرم کے مطابق دی جاتی ہے معمول قصور ہو تو معمولی سزا دی جاتی ہے اور زیادہ قصور ہو تو زیادہ سزا دی جاتی ہے۔ ان کا جرم چونکہ معمولی نہیں ہو گا اس لئے اُنہیں سزا بھی غیر معمولی دی جائے گی کیونکہ انہوں نے اُس رسول کا انکار کیا جو تمام رسولوں سے بڑا ہے اور جس کی شریعت تمام شریعتوں سے بڑی تھی۔
۲۱؎ حل لغات
اِیَابٌَ: اٰبَ کا مصدر ہے اور اٰبَ کے معنے ہیں۔ لوٹا (اقرب) پس اِیَابٌ کے معنے ہوں گے۔ لوٹنا۔
تفسیر
اس آیت سے اس مضمون کو ختم کیا گیا ہے جو سورۃ الاعلیٰ سے شروع کیا گیا تھا اور بتایا گیا ہے کہ مومن کافر اپنے اپنے کام پورے کر کے مومن تسبیح کو بلند کر کے اور کافر کفر کی اشاعت کر کے آخر اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور دنیوی نتائج دیکھ کر اُخروی نتائج دیکھنے کے لئے خدا تعالیٰ کے حضور میں حاضر ہوں گے۔
سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ دونوں کے متعلق یہ امر بتایا جا چکا ہے کہ ان کا آپس میںگہرا ربط ہے اس کا ایک ثبوت اس امر سے بھی ملتا ہے کہ احادیث میں آتا ہے رسول کریم ﷺ جب سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی اور جب سورۃ الغاشیہ کی تلاوت کرتے کرتے اِنَّ اِلَیْنَآ۔ ثُمَّ اِنَُّ عَلَیْنَا حِسَابَھُم پر پہنچے تو فرماتے اَللَّھُمَّ حَاسِبْنِیْ حِسَابًا یَّسِیْرًا۔ ایک سورۃ کے شروع میں ایک فقرہ کا دُہرانا اور دوسری سورۃ کے آخر میں دوسرے فقرے کا دہرانا صاف طور پر بتا رہا ہے کہ رسول کریم ﷺ کے نزدیک یہ دونوں سورتیں مضمون کے اعتبار سے آپس میں جوڑ رکھتی ہیں اِسی لئے ایک سورۃ کی ابتداء میں دوسری سورۃ کے انتہا میں ایک فقرہ یہ بتانے کے لئے دُہراتے کہ جو مضمون سَبِّح اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی سے شروع ہؤا تھا وُہ اِنَّا اِلَیْنَا اِیَابَھُمْ۔ ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا حِسَابَھُمْ پر آ کر ختم ہو گیا ہے۔
سُوْرَۃُ الفَجْرِمَکِّیَّۃٌ
سورۂ فجر۔ یہ سورۃ مکّی ہے۱؎
اور بسم اللہ کے علاوہ اس کی تیس آیتیں ہیں اور ایک رکوع ہے
۱؎ یہ سورۃ مکّی ہے فتح البیان والے لکھتے ہیں ھِیَ مَکِّیَّۃٌ بِلَاخِلَافٍ فِی قَوْلِ الْجَمْھُوْرِ۔ جمہور علماء کے نزدیک اِ سکے مکّی ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔ ابن عباسؓ۔ ابن زبیرؓ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی یہی مروی ہے۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سورۃ الاعلیٰ۔ سورۃ الغاشیہ۔ سورۃ الفجر اور اس قسم کی بعض اور سورتوں کو عام طور پر فرض نمازوں میں پڑھنا زیادہ پسند فرمایا کرتے تھے۔ نسائی نے جابرؓ سے روایت کی ہے کہ حضرت معاذ بن جبلؓ ایک دفعہ نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک آدمی اُن کے ساتھ پیچھے سے آ کر شامل ہؤا۔ حضرت معاذؓ نے نماز لمبی شروع کر دی بعض روایتوں میں آتا ہے کہ انہوں نے سورۂ آل عمران یا سورۂ نساء کی تلاوت شروع کر دی تھی۔ جب نماز لمبی ہو گئی تو اُس نے نماز توڑ کر ایک دوسرے کونہ میں جا کر علیحدہ نماز شروع کر دی اور فارغ ہو کر چلا گیا۔ نماز کے بعد کسی شخص نے حضرت معاذؓ سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور کہا کہ آپ نماز پڑھا رہے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے آپ کے ساتھ نماز شروع کی مگر جب آپ نے نماز میں دیر لگا دی۔ تو وہ نماز توڑ کر علیحدہ ہو گیا اور ایک کونے میں نماز پڑھ کر چلا گیا۔ حضرت معاذؓ نے کہا وہ منافق ہو گا پھر انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی اس واقعہ کا ذکر کر دیا اور کہا یا رسول اللہ! میں نماز پڑھا رہا تھا کہ پیچھے فلاں شخص آ کر شامل ہؤا مگر جب نماز لمبی ہو گئی تو وہ نماز توڑ کر الگ ہو گیا اور علیحدہ نماز پڑھ کر چلا گیا۔ جب اُس شخص کو معلوم ہؤا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس میری شکایت گئی ہے تو وہ آپؐ کی خد مت میں حاضر ہؤا اور اُس نے کہا یا رسول اللہ مَیں آیا تو یہ نماز پڑھا رہے تھے مَیں ان کے ساتھ نماز میں شامل ہو گیا مگر انہوں نے نماز لمبی کر د۔ آخر ہم کام کرنے والے آدمی ہیں میری اونٹنی بغیر چارہ کے کھڑی تھی مَیں نے نماز توڑ کر مسجد کے ایک کونے میں اپنی نماز ختم کر لی اور پھر گھر جا کر اپنی اونٹنی کو چارہ ڈالا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ سُن کر حضرت معاذؓ پر ناراض ہوئے اور اُن سے فرمایا معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہو تمہیں سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی اور وَالشَّمْسِ وَضُحٰھَا اور وَالْفَجْرِ اور وَالَّیْلِ اِذَایَغْشٰی کے پڑھنے میں کیا تکلیف ہوتی تھی تم نے یہ سورتیں کیوں نہ پڑھیں اور لمبی سورتیں کیوں شروع کر دیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِن سُورتوں کو اوسط سورتوں میں قرار دیا ہے۔ خاص اوقات میں انسان بے شک لمبی سورتیں پڑھ لے یا تکلیف اور بیماری کی صورت میں چھوٹی سوتیں پڑھ لے۔ لیکن اوسط سورتیں یہی ہیں جن کو عام طور پر بالجہر نمازوں میں پڑھنا چاہئیے۔
اس سورۃ کی نسبت یوروپین مفسّرین کا خیال ہے کہ یہ ابتدائی سالوں کی ہے اور میرے نزدیک یہی درست ہے۔ نولڈکےؔ جرمن محقق اِسے سورۃ الغاشیہ کے معًا بعد کی قرار دیتا ہے اور غاشیہ کی نسبت یوروپین مفسّرین کی رائے میں پہلے بتا چکا ہوں کہ وہ اسے تیسرے اور چوتھے سال کے ملتے حصّوں کی قرار دیتے ہیں یعنی اُن کے نزدیک یہ سورۃ یا تیسرے سال کے آخری نصف میں نازل ہوئی ہے یا چوتھے سال کے پہلے نصف میں نازل ہوئی ہے یا چوتھے سال کے پہلے نصف میں نازل ہوئی ہے اور یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ اِن سورتوں میں مخالفت کی ابتداء کی طرف اشارہ کیا گیا ہے منظّم اور تفصیلی مخالفت کا اس میں ذکر نہیں بلکہ یہ بتایا گیا ہے کہ مخالفت ہونے والی ہے اور یہ وہی زمانہ تھا جو تیسرے سال کا آخری یا چوتھے سال کا شروع تھا۔ وہ تفصیلی مخالفت جس کا ذکر اُن سورتوں میں ہے جو مخالفت کے بعد اُتریں اُن کا ذکر یہاں نہیں۔
دوسریؔ بات یہ ہے کہ یہاں کفار کے وہ عیوب گنائے گئے ہیں جو اخلاقی، شرعی اور دینی ہوتے ہیں مثلًا یتامیٰ کی خبر گیری کیوں نہیں کرتے، مساکین کو کھانا کیوں نہیں کھلاتے۔ اس قسم کے عیوب ہر زمانہ میں ہی گنائے جاتے ہیں لیکن جب نبوت کی کھلی مخالفت شروع ہو اُس وقت زیادہ زور انکارِ نبوت کے جرم پر دیا جاتا ہے اور اس جرم کو باقی تمام جرائم کی اساس اور بنیاد سمجھا جاتا ہے اُس وقت تفصیلی جرائم کی طرف توجہ نہیں کی جاتی۔ جب تک لوگ نبی کی مخالفت نہیں کرتے اُس وقت تک اُن کے اور نقائص پر زور دیا جاتا ہے مثلًا انہیں کہا جاتا ہے کہ تم یتامیٰ سے حسنِ سلوک نہیں کرتے، بیوائوں کی خبر گیری نہیں کرتے، مساکین کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش نہیں آتے، اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے، بیوائوں کی خبر گیری نہیں کرتے، مساکین کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ پیش نہیں آتے، اللہ تعالیٰ کی عبادت نہیں کرتے۔ لیکن جب وہ مامور کی مخالفت کرتے ہیں تو سارا زور اس بات پر صرف کر دیا جاتا ہے کہ سب سے بڑا عیب تم میں یہ ہے کہ تم ایک نبی کے منکر ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان بالرسالت تمام اعمال صالحہ کے لئے ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے، جب لوگ نبی کو ماننے لگ جاتے ہیں تو اُن کی اخلاقی اصلاح آپ ہی آپ ہو جاتی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ کفار جب نبی کی مخالفت اُس کے دعویٰ کے متعلق زور شور سے شروع کر دیتے ہیں تو اُن کا یہ جرم باقی تمام جرائم سے بڑھ جاتا ہے کیونکہ سب نیکیاں نبیوں سے شروع ہوتی ہیں نبی کے انکار کا جرم سب نیکیوں کے انکار کا موجب ہوتا ہے اِس لئے اُس وقت زیادہ زور اِسی انکارِ نبوت کے جرم پر دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی اصلاح باقی سب باتوں میں اصلاح کروا سکتی ہے۔ مگر اس سے پہلے کہ عرصہ میں جب دعویٰ کا ابتداء ہوتا ہے تفصیلی نقائص کی طرف زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ یہ نہیں کہ بعد میں تفصیلات کا ذکر نہیں ہوتا۔ ذکر تو ہوتا ہے لیکن اُن پر زور کم دیا جاتا ہے کیونکہ ایک ہی اصلاح کے ساتھ سب امور کی اصلاح وابستہ ہونے سے تفصیلات کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔
ہم نے دیکھا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر لوگ ہمیشہ یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ آپ ان باتوں پر تو زیادہ زور دیتے ہیں کہ مجھے یہ الہام ہؤا ہے مگر اور امور کی طرف توجہ نہیں کرتے آپ اس کے جواب میں فرمایا کرتے تھے کہ سارے نقائص اور عیوب خدا تعالیٰ سے بُعد کے نتیجہ میں ہوتے ہیں۔ اگر لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ذات کے متعلق کامل یقین پیدا ہو جائے تو اُن سے گناہ سرزد نہ ہوں۔ میں لوگوں کے سامنے خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ الہامات اور اس کے نشانات ومعجزات کو بار بار اس لئے پیش کرتا ہوں کہ اُن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کے متعلق یقین پیدا ہو جائے جس دن اُن کے دلوں میں سچا یقین پیدا ہؤا اور انہوں نے مجھے مان لیا یہ عیوب آپ ہی آپ دُور ہو جائیں گے۔ غرض جب تک لوگ نبوت کی کھلی مخالفت نہیں کرتے جُزئیات کی طرف زیادہ توجہ دلائی جاتی ہے اور انہیں کہا جاتا ہے کہ تم میں یہ بھی نقص ہے وہ بھی نقص ہے۔ مگر جب وہ کھلے بندوں نبی کی مخالفت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں جب وہ کہتے ہیں ہم اس نبی کو اور اس نبی کے ماننے والوں کو کچل کر رکھ دیں گے اُس وقت اُن کے اُس نقص کو جو بنیادی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے کلام پر ایمان میں کمی، اُسے سامنے رکھ کر اس کی اصلاح پر زور دیا جاتا ہے اور اسی میں باقی تمام جزئیات کی اصلاح آ جاتی ہے۔
اس سورۃمیں بھی کفار کے تفصیلی گناہوں پر زیادہ زور دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ یتامیٰ کی طرف توجہ نہیں کرتے، مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے، اُن کے دلوں میں یہ حرص پائی جاتی ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ مال اپنے پاس جمع کر لیں۔ یہ نقائص اُن کے ایمان کی کمزوری پر دلالت کرتے ہیں اس کی اصلاح ہونی چاہئیے۔ اِن تفصیلات سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ سُورۃ اُس وقت کی ہے جب ابھی قومی طور پر مخالفت شروع نہیں ہوئی تھی اِسی لئے اِس میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے انکار پر اتنا زور نہیں دیا جتنا اعمال کی جزئیات پر زور ہے بالخصوص ایسے گناہوں پر جو اسلام کے مقابلہ کے وقت اسلام کی شوکت اور اُن کی تباہی کا موجب ہونے والے تھے یہ سورۃ یقینا ابتدائی ایام کی ہے اور چونکہ اس میں اشارۃً یہ ذکر آتا ہے کہ اب منظم مخالفت ہونے والی ہے اس لئے یہ سورۃ تیسرے سال کے آخر یا چوتھے سال کے بالکل ابتدائی حصہ کی ہے۔
ترتیبِؔ سُورۃ
ابوحیانؔ کہتے ہیں کہ سورہ غاشیہ میں وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ میں کچھ لوگوں کے متعلق ذکر کیا گیا تھا کہ وہ ذلیل اور رسواء ہوں گے۔ اب اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ اس سے مراد وہ لوگ ہیں جو یتامیٰ کی خبر گیری نہیں کرتے۔ مساکین کی طرف توجہ نہیں کرتے اور حریص اور لالچی ہیں۔ اسی طرح وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَاعِمَۃٌ میں ایک اور گروہ کا ذکر کیا گیا تھا جو اللہ تعالیٰ کے حضور عزّت پانے والا تھا اس سورۃ میں اُس کا ذکر یٰٓااَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُمْطَئِنَّۃُ ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً کے ذریعہ کیا گیا ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دونوں ذکر اس سورۃ میں موجود ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ان دونوں امور میں سے ایک کا تعلق وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ سے ہے اور دوسرے کا تعلق وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ سے ہے مگر یہ صرف قریبی تعلق ہے۔ یعنی پہلی سورۃ کے بعض مضامین اس سُورۃ کے بعض مضامین کا باہمی رابطہ ملتا ہؤا معلوم ہوتا ہے مگر مضمون کا وہ تسلسل جو ایک زنجیر کی طرح دونوں میں پایا جانا چاہئیے وہ انہوں نے نہیں بتایا۔ جہاں تک قریبی تعلق کا سوال ہے ابوحیان نے خوب کام کیا ہے اور وہ اکثر تعلقاتِ سور کے بارہ میں بڑی نگاہ رکھنے والے انسان ہیں بلکہ اس امر میں تمام پُرانے مفسّروں سے منفرد ہیں اور ممتاز بھی۔ مگر اس قریبی تعلق کے علاوہ قرآن کریم کی سورتوں اور آیتوں میں ایک مسلسل زنجیر معلوم ہوتی ہے جو دُور دُور رتک مضامین کی لڑی پروتی چلی جاتی ہے اور بالآخر سارے قرآن کریم کو ایک ہی ہار بنا کر رکھ دیتی ہے۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وحی کی مثال صَلْصَلَۃُ الْجَرْسِ سے دی ہے جس میں اس طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ جس طرح گھنٹی جھنکار میں ایک تسلسل ہوتا ہے اسی طرح ایک مربوط اور مسلسل الٰہی کلام ہوتا ہے اور چونکہ قرآن کریم وہ کلام ہے جو تمام الٰہی کلاموں میں سے تشبیہ دے کر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس امر کی طرف بھی اشارہ کر دیا کہ قرآن کریم کو بے ترتیب نہ سمجھنا یہ خدا تعالیٰ کی وحی ہے اور اس کا ہر حصہ پرویا ہؤا ہے۔ اس وسیع اور لمبے سلسلہ کی طرف علامہ ابو حیانؔ کی نظر نہیں گئی مگر پھر بھی اُن کی خدمت ترتیبِ قرآن کریم کے بارہ میں بہت قابل قدر اور قابلِ ستائش ہے جَزَاہُ اللّٰہُ اَحْسَنَ الْجَزَاء۔
جیسا کہ میں نے اُوپر بتایا ہے سورتوں کے باہمی تعلقات دو قسم کے ہؤا کرتے ہیں۔ ایک قریبی تعلق جس میں یہ مدنظر رکھا جاتا ہے کہ ای سورۃ کی آخری آیت کا مضمون دوسری سورۃ کی پہلی آیت سے ملا دیا جائے۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے سورۂ فاتحہ میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کہہ کر ہدایت کے متعلق دعا مانگی گئی تھی اس کے بعد سورۂ بقرہ شروع ہوئی تو ابتدا ہ میں ہی کہہ دیا گیا کہ الٓمٓ ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْہِ ھُدًی لِلْمُتَّقِیْنَ گویا سورۃ فاتحہ میں جو ہدایت طلب کی گئی تھی سورۂ بقرہ کے شروع میں اُس ہدایت کی نسبت بتا دیا کہ جو کچھ تم مانگ رہے تھے وہ یہ ہے اِس قسم کے تعلقات جو باہم سورتوں میں پائے جاتے ہیں قریبی تعلق کہلاتے ہیں۔ لیکن سورتوں کا ایک تعلق سارے مضمون کے لحاظ سے ہوتا ہے اور مسلسل ایک قسم کا مضمون کئی سورتوں میں چلتا چلا جاتا ہے۔ اس تعلق کے لحاظ سے اگر سورتوں پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا کہ بعض جگہ پانچ پانچ اور بعض جگہ دس دس سورتوں کا ایک گروپ ہوتا ہے اور اُن کا مضمون ایک زنجیر کے کے تسلسل کی طرح آپس میں ملتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ جو مضمون اس سورۃ کو چند پچھلی سورتوں کے مجموعہ کا ایک فرد بنا دیتا ہے اس کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ان چند سورتوں میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت دو زمانوں کے لحاظ سے بیان کی جا رہی ہے یہ مضامین سورۂ تکویر سے شروع ہیں اور ان میں بتا یا جا رہا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے محض اس زمانہ میں ہی ثبوت مہیا نہیں ہوں گے بلکہ جب بھی اسلام کمزور ہو گا اس صداقت کے ثبوت اللہ تعالیٰ کی طرف سے مہیّا کئے جائیں گے۔ اسی تسلسل میں سورۂ بروج میں بتایا گیا تھا آخری زمانہ میں دنیا کی خرابی کے وقت ایک بدر پیدا ہو گا مگر چونکہ اس سے یہ شبہ پیدا ہوتا تھا کہ نورِ محمدؐی گویا دنیا کو فائدہ دے گا مگر رہے گا اوجھل اور براہ راست نظر نہ آئے گا اِس لئے اس شبہ کا ازالہ سورۂ طارق میں کیا اور بتایا کہ آنے والا موعود دو الگ الگ نام رکھے گا بدرؔ بھی اور طارقؔ بھی یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جلا ل کو وہ براہ راست ظاہر کرے گا یہ نہیں ہو گا کہ کہ لوگ صرف سُن کر ایمان لائیں گے بلکہ وہ ایسی جماعت پیدا کرے گا جس کا خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق ہو گا اور وہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے انوار اور آپ کی برکات اپنی ذات میں مشاہدہ کریں گے۔ گویا سورۂ بروج میں مسیحیت موعودہ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اور سورۂ طارق میں مہدویت مبشرہ کی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔ پھر میں نے سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی اور سورۃ الغاشیہ کا آپس میں تعلق بتاتے ہوئے کہا ذکر کیا تھا کہ یہ دونوں سورتیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جمعہ اور عیدین کی نمازوں میں بالالتزام پڑھا کرتے تھے اور یہ دونوں سورتیں ایسی ہیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ترقی اور آنے والے موعود کی خبر یکجائی طور پر اپنے اندر رکھتی ہیں یا اگر ایک ٹکڑہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر آتا ہے تو بعد کے ٹکڑہ میں آنے والے موعود کا ذکر آتا کیا گیا ہے۔ یا مثال تو ایک ہی دی ہے مگر وہ مثال ایسی ہے جو وہاں بھی چسپاں ہو جاتی ہے اور یہاں بھی چسپاں ہو جاتی ہے گویا دو دھاری تلوار ہے جس سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے مخالفین پر بھی حجت تمام ہو جاتی ہے اور بعد میں پیدا ہونے والے مخالفین کے پر بھی حجت تمام ہو جاتی ہے۔ اسی سلسلہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ اِنَّہٗ یَعْلَمُ الْجَھْرَ وَمَایَخْفٰی میں بھی آنے والے موعود کی ضرورت بیان کی گئی ہے اور خبر دی گئی ہے کہ اس زمانہ میں قرآن کریم کا ظاہر تو باقی ہو گا مگر اُس کا مغز نہیں ہو گا۔ تب اُس موعود کے ذریعہ اللہ تعالیٰ قرآنی علوم کو دنیا میں پھر زندہ کرے گا اور پھر اُس کے مغز کو دنیا میں واپس لائے گا۔ اسی طرح وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ میں دونوں زمانوں کی مخالفت اور اسلام کی ترقی کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جب بھی اسلام پر کمزوری کا زمانہ آئے گا اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کمزوری کو دور کرنے کا سامان کیا جائے گا۔ اسلام اور مسلمانوں کی ترقی اگر ہو سکتی ہے تو اِسی ذریعہ سے، اس کے بغیر اُن کی ترقی کا کوئی ذریعہ نہیں۔ یہ مضمون ہے جو مسلسل کئی سورتوں سے چلا آ رہا ہے اور جس کی وجہ سے ہر سورۃ اپنے سے پہلی سورۃ سے بالکل مربوط نظر آتی ہے۔
وہ گہرا تعلق جو اس سورۃ کو پہلی سورۃ سے حاصل ہے یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں بتایا گیا تھا کہ اسلام کا مقابلہ کفّارِ مکّہ کریں گے اور ہر قسم کی تدابیر اسلام کے خلاف کریں گے لیکن کامیاب نہ ہوں گے بلکہ اُن کے مقابل پر مسلمان کامیاب ہوں گے۔ دوسرےؔ یہ بتایا تھا کہ آئندہ بھی اسلام پر جب کبھی خطرناک وقت آئے گا خدا تعالیٰ اسلام کی مدد کرے گا اور اُ س کے مخالف آخر شکست کھائیں گے۔ اس سورۃ میں اِس مضمون کی مزید وضاحت کی گئی ہے اور تفصیل بھی بیان کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ کے مصداق ہوں گے کس طرح عمل اور محنت کریں گے اور کس طرح اللہ تعالیٰ اُن وُجُوہ کو دنیا میں پیدا کرے گا جو نَاعِمَۃٌ تِسَعْیَھَا رَاضِیَۃٌ کے مصداق ہوں گے۔ ظاہر ہے کہ نبوت کے تیسرے سال میں تو یہ دونوں وُجُوْہ پوشیدہ تھے نہ خَشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ اور نہ نَاصِبَۃ پائے جاتے تھے کیونکہ منظم مخالفت ابھی کفارِ مکّہ نے شروع نہیں کی تھی اور نہ یہ پتہ تھا کہ نَاعِمَۃ وُجُوْہ کون ہوں گے اور کہاں سے آئیں گے کیونکہ مومنوں کی تعداد گنتی کے چند افراد پر مشتمل تھی۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں پیشگوئی فرماتا ہے کہ کفار کی مخالفت کیسا شدید رنگ اختیار کرے گی اور کس طرح مسلمانوں کی ترقی اور رفعت ہو گی۔ اسی طرح بعد میں جب خود مسلمان بگڑیں گے اور اسلام سے دور ہو جائیں گے تو اُس وقت خدا تعالیٰ کس رنگ میں اپنی اپنی نصرت ظاہر کرے گا۔
مَیں اس مقام پر اللہ تعالیٰ کی تائید کے ایک تازہ واقعہ کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا قرآن کریم کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں مضامین ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے القاء اور الہام کے طور پر مجھے سمجھائے ہیں اور میں اس بارہ میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا جس قدر ذکر کروں کم ہے۔ اُس نے کئی ایسی آیات جو مجھ پر واضح نہیں تھیں اُن کے معانی بطور وحی یا القاء میرے دل میں نازل کئے اور اس طرح اپنے خاص علوم سے اُس نے مجھے بہرہ ور کیا۔ مثال کے طور پر میں سورۂ بقرہ کی ترتیب کو پیش کرتا ہوں۔ میں ایک دن بیٹھا ہؤا تھا کہ یکدم مجھے القاء ہؤا کہ فلاں آیت اس کی کنجی ہے اور جب میں نے غور کیا تو اس کی تمام ترتیب مجھ پر روشن ہو گئی۔ اِسی طرح سورۂ فاتحہ کے مضامین مجھے القاء ً اور الہامًا اللہ تعالیٰ کی طرف سے رویاء میں بتائے گئے تھے۔ اس کے بعد خدا تعالیٰ نے میرا سینہ سورۂ فاتحہ کے حقائق سے لبریز فرما دیا۔ قرآن کریم کی ترتیبیں بیسیوں آیا ت کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور القاء مجھے سمجھائی گئی ہیں مثلًا سورۂ بروج اور سورۂ طارق کا یہ جوڑ کہ ان میں سے ایک سورۃ میں مسیحیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور دوسری سورۃ میں مہدویت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی اُن مضامین میں سے ہے جو لوگوں کی نگاہ سے مخفی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ اُن کو ظاہر فرما دیا اور مجھے وہ دلائل دئے جن سے میں اپنے اس استدلال کو پوری قوت کے ساتھ ثابت کر سکتا ہوں اور کوئی منصف مزاج اُن دلائل کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ عقلی طور پر اُسے بہرحال ماننا پڑے گا کہ میرا دعویٰ دلائل پرمبنی ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ کہہ دے کہ میں اِن دلائل کو تسلیم نہیں کرتا لیکن اُسے یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ میں نے جو دعویٰ کیا ہے اُس کے دلائل اور وجوہ موجود ہیں۔
غرض قرآن کریم کی کئی مشکل آیات کے معانی اللہ تعالیٰ نے اپنے القاء اور الہام کے ذریعہ مجھ پر منکشف فرمائے ہیں اور اس قسم کی بہت سی مثالیں میری زندگی میں پائی جاتی ہیں۔ اُنہی مشکل آیات میں سے میرے لئے ایک یہ سورۃ بھی تھی۔ میں جب بھی سوچتا اور غور کرتا مجھے اس کے معانی کے متعلق تسلّی نہیں ہوتی تھی بلکہ ہمیشہ دل میں ایک خلش سی پائی جاتی تھی اور مجھے بار بار یہ خیال پیدا ہوتا تھا کہ جو معانی بتائے جاتے ہیں وہ قلب کو مطمئن کرنے والے نہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مفسّرین نے بہت سے معانی کئے جو لوگوں کی نگاہ میں اس سورۃ کو حل کر دیتے ہیں مگر میری اپنی نگاہ میں وہ اطمینان بخش معانی نہیں تھے اور اس لئے ہمیشہ ایک بے چینی سی میرے اندر پائی جاتی تھی میں سوچتا اور غور کرتا مگر جو بھی معنے میرے ذہن میں آتے جن کو مزید غور کرنے کے بعد میں خود ہی ردّ کر دیتا کہ کہتا کہ یہ درست نہیں ہیں آخر بڑی مدتوں کے بعد ایک دفعہ جب میں عورتوں میں قرآن کریم کے آخری پارہ کا درس دینے لگا تو اس کا ایک حصّہ حل ہو گیا مگر پھر بھی جو حل ہؤا وہ صرف ایک حصّہ ہی تھا مکمل مضمون نہیں تھا جو معنے مجھ پر اُس وقت روشن ہوئے اُن سے چاروں کھونٹے قائم نہیں ہوتے تھے دو تو بن جاتے تھے مگر دو رہ جاتے تھے یہ حالت چلتی چلی گئی اور مجھے کامل طور پر اس کے معانی کے متعلق اطمینان حاصل نہ ہؤا۔
اب جو میں نے درس شروع کیا تو پھر یہ سورۃ میرے سامنے آ گئی اور میں نے اس پر غور کرنا شروع کر دیا۔ میں نے آخری پارہ کا درس جولائی جولائی ۱۹۴۴ء میں شروع کیا تھا اور ڈلہوزی میں اس کی ابتدا کی تھی اُس وقت سے لے کر اب تک کئی دفعہ میں نے اس سورۃ پر نظر ڈالی اور مجھے سخت فکر ہؤا کہ اس سورۃ کا درس تو قریب آ رہا ہے مگر اس کے معانی ترتیبِ سُور کے لحاظ سے مجھ پر روشن نہیں ہوئے۔ بار بار میں اس کو دیکھتا۔ اس کے مطالب پر غور کرتا اور کوئی مضمون میرے ذہن میں بھی آ جاتا مگر پھر سوچتے سوچتے میں اُس کو ناکافی قرار ددے دیتا غرض بیسیوں دفعہ مَیں نے اس سورۃ پر نگا ہ دوڑائی مگر مجھے اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی یہاں تک کہ سورۃ الغاشیہ کے درس کا وقت آ گیا اور مَیں نے اس کے نوٹ لکھنے لگا مگر اُس وقت بجائے غاشیہ پر نگاہ ڈالنے کے میری نظر بار بار آگے کی طرف نکل جاتی اور سورۃ الفجر میرے سامنے آ جاتی۔ غاشیہ کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ تو حل شدہ ہی ہے اور اگر کوئی اور مشکل آیت بھی ہوئی تو ترتیب میں آ کر وہ خودبخود حل ہو جائے گی۔ جس طرح ایک انسان جب گیند پھینکتا ہے تو اُسے پتہ ہوتا ہے کہ یہ گیند اتنی دُور جائے گا۔ اسی طرح جو شخص قرآن کریم کی تفسیر ترتیبِ آیات اور ترتیبِ سُور کو مدنظر رکھ کر کرتا ہے وہ سمجھ جاتا ہے کہ فُلاں آیت کے معنے فلاں بنیں گے مگر اس بات کو وہی شخص سمجھ سکتا ہے جس نے اپنی عمر اس فن میں صرف کر دی ہو۔ وہی جانتا ہے کہ نہر کا رُخ کس طرف ہے اور پانی کا بہائو کدھر ہے دوسرا شخص جسے قرآن پر اس رنگ میں غور کرنے کا موقع نہ ملا ہو وہ ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتا۔ جب میں سورۂ کہف کی تفسیر لکھ رہا تھا تو لَا تَقُوْلَنَّ لِشَیْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذَالِکَ غَدًا اِلَّا اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ (الکہف ع ۴ ۶ ۱)کے معنے میری سمجھ نہیں آتے تھے مگر تفسیر لکھتے وقت میں نے سمجھا میں صحیح ترتیب پر چل رہا ہوں جب میں اس آیت پر پہنچوں گا تو دیکھوں گا کہ اس کے کیا معنے بنتے ہیں چنانچہ ترتیبِ آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں تفسیر کرتا چلا گیا یہاں تک کہ میں اس آیت پر پہنچا تو اُس وقت یہ آیت اپنے معانی کے لحاظ سے یوں واضح ہو گئی کہ میں نے سمجھ لیا کہ اس کے سوا اس آیت کے اور کوئی معنی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ پہلی آیتیں مجبور کر کے اُن معنوںکی طرف لے جا رہی تھیں۔ لطیفہ یہ ہؤا کہ انگریزی ترجمۃ القرآن کے سلسلہ میں مولوی شیر علی صاحب کے نوٹ جب میرے پاس آئے تو اُن میں وہی معنے لکھے ہوئے تھے بلکہ ولایت میں لکھے تھے میں نے ملک غلام فرید صاحب سے پوچھا کہ مولوی صاحب نے یہ نوٹ اب کئے ہیں یا پہلے اسی طرح لکھے ہوئے تھے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ ولایت کے لکھے ہوئے ہیں میں نے کہا اگر یہ ولایت کے نوٹ ہیں تو پھر اس آیت کے یہ معنے ولایت میں کس طرح پہنچ گئے؟ میں تو اس آیت پر بڑا غور کرتا رہا تھا مگر اس کے معنے پندرھویں پارہ کی تفسیر لکھتے ہوئے میری سمجھ میں آئے تھے۔ اس پر انہوں نے بتایا کہ آپ نے جو درس ۱۹۲۲ء میں دیا تھا اُس میں یہی معنے بیان کئے تھے اور اُسی وقت کے نوٹوں سے مولوی صاحب نے یہ معنے درج کئے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ۲۲ء کا درس دیتے وقت جب میں اس آیت پر پہنچا تو خود بخود یہ آیت حل ہو گئی مگر چونکہ عین وقت پر حل ہوئی اس لئے میرے قرآن کریم کے حاشیہ پر وہ معنے نہ لکھے گے اور کچھ عرصہ کے بعد مجھے بُھول گئے۔ اب گو میں اُن معنوں کو بھول چکا تھا مگر جب ترتیب آیات کے لحاظ سے غو کرتے ہوئے میں اُس آیت پر پہنچا تو فوراً وہی معنی پر ذہن میں آ گئے۔ تو ترتیب کے لحاظ سے جو شخص آیات کے معنے کرنے کا عادی ہو وُہ اِدھر اُدھر جا ہی نہیں سکتا۔ وہ اُسی رَو اور اُسی نالی میں بَہ رہا ہوتا ہے جس کی طرف مضمون زبانِ حال سے اشارہ کر رہا ہوتا ہے۔
غرض جوں جوں سورۂ فجر کا درس قریب آتا گیا میرا اضطراب بھی بڑھتا چلا گیا۔ میں نے کہا جب اس سورۃ کے متعلق میری اپنی تسلی ہی نہیں ہوئی تو میں دوسروں کو کیسے مطمئن کر سکتا ہوں۔ مفسرین نے جو معانی بیان کئے ہیں وہ میں بیان کر سکتا تھا مگر جو ترتیب گزشتہ سورۃ سے میں بتاتا آ رہا ہوں اُس کے لحاظ سے چاروں کھونٹے قائم نہیں ہوتے تھے۔ پہلے خیال آیا کہ میں دوسروں کے معانی ہی نقل کر دوں کیونکہ اب یہ درس کتابی صورت میں چھپنے والا ہے کب تک میں اِن معانی کا انتظار کروں جو ترتیب کے مطابق ہوں شاید ترتیب کے مطابق اللہ تعالیٰ پھر کسی وقت کھول دے آخر پُرانے مفسروں نے کوئی نہ کوئی معنے اس آیت کے کئے ہیں۔ رازیؔ نے بھی ان کے معنے لکھے ہیں۔ بحرِ محیط والوں نے بھی معنے لکھے ہیں۔ حضرت خلیفۂ اوّل رضی اللہ عنہ نے بھی معنے کئے ہوئے ہیں اور اُن تمام معانی کو ملحوظ رکھ کر کچھ نہ کچھ بات بن ہی جاتی ہے مگر چونکہ میرا دل کہتا تھا کہ ترتیب آیات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ معانی پوری طرح باہم منطبق نہیں ہوتے مجھے اطمینان نہ ہؤا۔ یہاں تک کہ ۱۷ ماہ صلح ۱۳۲۴ ہش مطابق ۱۷جنوری ۱۹۴۵ء بروز بُدھ میں سُورۂ غاشیہ کا درس دینے کے لئے مسجد مبارک میں آیا۔ میں نے درس سورۂ غاشیہ کا دینا تھا مگر میں غور سورۂ فجر پر کر رہا تھا اِسی ذہنی کشمکش میں مَیں نے عصر کی نماز پڑھانی شروع کی اور میرے دل پر ایک بوجھ تھا لیکن خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ میں عصر کی نماز کے آخری سجدہ میں سر اُٹھا رہا تھا تو ابھی سر زمین سے ایک بالشت بھر اونچا آیا ہو گا کہ ایک آن میں یہ سورۃ مجھ پر حل ہو گئی۔ پہلے بھی کئی دفعہ ایسا ہؤا ہے کہ سجدہ کے وقت خصوصًا نماز کے آخری سجدہ کی حالت میں اللہ تعالیٰ نے بعض آیات کو مجھ پر حل کر دیا۔ مگر اس دفعہ بہت ہی زبردست تفہیم تھی کیونکہ وہ ایک نہایت مشکل اور نہایت وسیع مضمون پر حاوی تھی چنانچہ جب مَیں نے عصر کی نماز کا سلام پھیرا تو بے تحاشہ میری زبان سے اَلْحَمْدُ لِلّٰہ کے الفاظ بلند آواز سے نکل گئے۔
بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
وَالْفَجْرِ
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں)
(مجھے) قسم ہے (ایک آنیوالی) فجر کی اور دس راتوں کی اور ایک جنت کی اور ایک وتر کی اور (مذکورہ بالا راتوں کے بعد آنے والی) رات کی جب وہ چل پڑے۲؎
۲؎حل لغات
یَسْرِ: سَرَا کا مضارع ہے اور سَرٰی کے معنے ہیں۔ رات کو چلا (اقرب)پس وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کے معنے ہوں گے رات جب چل پڑے۔
تفسیر
پیشتر اس کے کہ میں وہ معانی بتائوں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے الہامی طور پر مجھے سمجھائے گے ہیں میں پہلے دوسرے لوگوں کے بیان کردہ معنے بتانا چاہتا ہوں تاکہ میری مشکلات کا دوستوں کو پتہ چل لگ جائے اور اُن کو معلوم ہو کہ میری مشکلات حقیقی مشکلات تھیں۔ اگر میں شرح صدر کے بغیر جو مجھے اب حاصل ہے اس کے معنی بتا دیتا تو میں اپنے نفس میں تسلی نہیں پا سکتا تھا۔ یہ مضمون میں چار آیات کے متعلق مشترک طور پر بیان کر رہا ہوں۔ یہ آیات یہ ہیں (۱) وَالْفَجْرِ (۲)وَلَیَالٍ عَشْرٍ (۳)وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ (۴)وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ
ان آیات میں چار قسمیں کھائی گئی ہیں اور قسم کے معنے شہادت کے ہوتے ہیں یہ مضمون تفصیل کے ساتھ پہلے آ چکا ہے اس کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں فجر کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں اسی طرح میں دس عظیم الشان راتوں کو شہاد ت کے طور پر پیش کرتا ہوں نیز میں شَفع اور وتر کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ شفعؔ اور وترؔ کے لفظ بتا رہے ہیں کہ ان میں سے کوئی چیز طاق ہے اور کوئی چیز جفت ہے کیونکہ وَتر طاق کو کہتے ہیں اور شفع جُفت کو۔ اسی طرح فرماتا ہے میں رات کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں جب وہ چلی جائے گی۔
اس جگہ چار قسمیں کھائی گئی ہیں سوال یہ ہے کہ ان سے مراد کیا ہے اور کسی چیز کو کس چیز کی شہادت کے لئے پیش کیا گیا ہے۔ فجر کی چیز ہے اور وہ کس امر کی شہادت دے رہی ہے۔ لَیَالٍ عَشْرٍ کیا چیز ہیں اور کون سی دس راتیں یہاں مراد ہیں اور وہ کس امر کے ثبوت کے لئے بطور شاہد پیش کی گئی ہیں۔ شفع اور وتر کیا چیز ہیں اور کون سی دس راتیں یہاں مراد ہیں اور وہ کس امر کے ثبوت کے لئے بطور شاہد پیش کی گئی ہیں۔ شفع اور وتر کیا چیز ہیں اور انہیں کسی بات کے ثبوت کے لئے پیش کیا گیا ہے اسی طرح رات جو جانے والی ہے کون سی ہے اور اُسے کس بات کے ثبوت کے لئے پیش کیا گیا ہے؟
الفجر
حضرت علیؓ۔ ابن عباسؓ۔ عکرمہ۔ مجاہد اور سدی کا قول ہے کہ فجر سے مراد معروف صبح ہے جو رات کے بعد آتی ہے (ابن کثیر)گویا صبح سے صبح ہی مراد لیتے ہیں مگر کہتے ہیں اس سے ہر صبح مراد نہیں بلکہ قربان کے دن سے پہلے جو صبح آتی ہے وہ مراد ہے اور وہ دس راتوں کی آخری فجر ہے کیونکہ عید دسویں تاریخ کو ہوتی ہے کو ہوتی ہے پس اُن کے نزدیک فجر سے مراد ذوالحجہ مہینہ کی دس راتوں کی آخری فجر ہے۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ فجر سے مراد وہ صبح کی نماز ہے جو دسویں ذوالحجہ کو پڑھی جاتی ہے یعنی عید کے دن کی صبح کی نماز۔ گویا یہ بھی انہی معنوں کی طرف گئے ہیں جو مسروق اور محمد بن کعب نے کئے ہیں صرف فرق یہ ہے کہ وہ اس سے ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کی فجر مراد لیتے ہیں اور یہ فجر کی نماز بھی مراد ہو سکتی ہے اور ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ فجر سے مراد سارا دن بھی ہو سکتا ہے اِن معنوں کی رُو سے بھی ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے صرف فرق یہ ہے کہ فجر سے پو پھوٹنے سے لے کر فجر سورج نکلنے تک کا وقت مراد نہیں لیا گیا۔ بلکہ پَو پھٹنے سے لے کر شام تک عید کا سارا دن مراد لیا گیا ہے یعنی عید کا سارا دن۔
لَیَالٍ عَشْرٍ
دوسرا سوال یہ ہے کہ دس راتوں سے کیا مراد ہے ابنِ عباس کا قول ہے کہ دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی راتیں ہیں عید سے پہلے کی۔ عبداللہ بن زبیرؓ۔ مجاہد اور کئی علماء سلف نے یہی بات کہی ہے۔ اسی طرح بہت سے بعد کے علماء کا بھی یہی قول ہے۔
ترمذی میں حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ مَا مِنْ اَیَّامٍ اَلْعَمَلُ الصَّالِحُ فِیْھِنَّ اَحَبُّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ ھٰذِہِ الْاَیَّامِ الْعَشْرِ (یعنی ذی الحجّہ) (ترمذی جلد اوّل ابواب الصوم باب ما جاء فی العمل فی ایّام العشر ) یعنی عملِ صالحہ کے لحاظ سے یوں تو جس دن بھی کوئی شخص نیکی کرے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اُس کا قرب حاصل کر سکتا ہے مگر وہ ایام جن میں نیکی کی خاص طور پر قدر کی جاتی ہے اور جن میں عمل صالح کرنا اللہ تعالیٰ کو خاص طور پر پسند آتا ہے اُن میں سے کوئی بھی دن اللہ تعالیٰ کو اتنا محبوب نہیں جتنا ان دس دنوں یعنی عشرہ ذی الحجہ میں نیک اعمال بجا لانا اُس کو پسند ہے۔ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ وَلَا الْجِھَادُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ؟ فَقَالَ وَلَا الْجِھَادُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ۔ لوگوں نے کہا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی ان دنوں کے کے اعمال سے اچھا نہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ جہاد فی سبیل اللہ بھی ان دنوں کے اعمال سے زیادہ اچھا نہیں۔ اِلَّارَجُلًا خَرَجَ بِنَفْسِہٖ وَمَالِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْجِعْ بِذَالِکَ مِنْ شَیْئٍ (ابن کثیر و ترمذی حوالہ مذکور) سوائے اس کے کہ کوئی شخص اپنی جان اور اپنا مال لے کر خد ا تعالیٰ کی راہ میں نکلے اور پھر مارا بھی جائے اور اس کا سارا مال بھی ضائع ہو جائے اُس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ اُس نے ایسا نیک عمل کیا جو اِن ایام کے اعمال صالحہ کے برابر ہے ورنہ اور کوئی عمل ان دس ایام کے اعمال کے برابر نہیں ہو سکتا۔
ابو جعفر ابن جریر کہتے ہیں کہ دس راتوں سے مراد محرم کی پہلی راتیں ہیں۔ ابو ظبیان حضرت ابن عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اِن سے مراد رمضان کی پہلی دس راتیں ہیں گویا لَیَالٍ عَشْرٍ کے متعلق تین خیالات پائے جاتے ہیں۔
۱۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد ذوالحجہ کی عید سے پہلے کی دس راتیں ہیں۔
۲۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد محرم کی پہلی دس راتیں ہیں۔
۳۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد رمضان کی پہلی دس راتیں ہیں۔
ابن الزبیر جابرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ دس سے مراد قربانی کے مہینہ کی دس راتیں ہیں (گویا یہ روایت انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچا دی کہ لَیَالٍ عَشْرٍ سے ذوالحجہ کی دس راتیں مراد ہیں) اور وترؔ یومِ عرفہ ہے۔ (کیونکہ وہ نویں دن ہوتا ہے) اور شفیع یومِ نحر ہے یعنی عید کا دن۔ یہ روایت امام احمد سے ابن کثیر نے نقل کی ہے۔ نسائی نے بھی یہ روایت محمد بن رافع اور عبدۃ بن عبداللہ سے نقل کی ہے جن دونوں نے زید بن الحباب سے سنا ہے۔ یہ وہی راوی ہیں جن سے براہ راست امام احمد نے روایت کی ہے۔ ابن حریر اور ابن ابی حاتم کی روایات بھی زید الحباب تک پہنچتی ہیں گویا چاروں کتب احادیث میں زید بن الحباب کی طرف یہ روایت منسوب ہے گویا نیچے کے راوی خواہ مختلف ہوں زید بن الحباب پر پہنچ کر روایت کا سلسلہ ایک ہو جاتا ہے اس لئے یہ روایت احاد میں سے ہے۔ ابن کثیر جو حدیث کے بہت بڑے عالم ہیں وہ اس روایت کو درج کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس حدیث کو مرفوع قرار دینے میں مجھے شبہ ہے یعنی اس روایت کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچانا یقینی معلوم نہیں ہوتا۔
شفع اور وتر
ابن عباس کا قول ہے کہ وترؔ یومِ عُرفہ ہے یعنی ذوالحجہ کا نواں دن جو حج کا دن ہے اور طاق ہے اور شفع یوم النحر ہے یعنی قر بانی کا دن جو دسواں ہے اور جُفت ہے۔ عکرمہ اور ضحاک کا بھی یہی قول ہے اور ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ وہ واصل بن سائب کہتے ہیں مَیں نے عطاء سے پوچھا کیا شفع والوتر سے مراد ہماری نماز وتر ہے؟ انہوں نے کہا وتر کی نماز مراد نہیں بلکہ شفع سے مراد یوم العرفہ ہے (مگر وہ نواں اور طاق ہے نہ کہ جُفت) اور وتر سے مراد یوم الاضحیہ کی رات ہے (اور یہ رات دسویں اور جُفت ہے نہ کہ طاق۔ معلوم ہوتا ہے کہ راوی سے اس میں غلطی ہو گئی ہے یا ابن کثیر سے نقل کرتے ہوئے غلطی ہو ئی ہے۔
ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے محمد بن عامر بن ابراہیم الاصبہانی نے روایت کی انہوں نے النعمان یعنی ابن عبدالسلام سے روایت کی کہ اُن سے مکّہ میں سعید بن عوف نے روایت کی میں نے ایک دفعہ عبداللہ بن زبیر کو تقریر کرتے سُنا (آپ کے ایام خلافت میں مکّہ مکرمہ کے مقام پر) تقریر کے دوران میں ایک شخص کھڑا ہؤا اور اُس نے کہا اے امیر المومنین (یزید کے وقت حضرت عبد اللہ بن زبیر نے اس کی بیعت سے انکار کر دیا تھا اور مکہ میں اپنی خلافت کا اعلان کر دیا تھا یہ اُس وقت کی بات ہے عبداللہ بن زبیر حضرت ابو بکر کے نواسے اور حضرت زبیر بن العوام کے فرزند تھے) شفع اور وتر کے متعلق مجھے کچھ سمجھائیے۔ حضرت عبداللہ بن زبیر نے جو علاوہ صحابی ہونے کے بہت عبادت گزار بزرگ تھے اور بہت سے لوگوں نے اُن کو پہلا مجدّد قرار دیا ہے اور بعض نے مہدی۔ انہوں نے جواب میں فرمایا۔ شفع سے مراد فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ہے اور وتر سے مراد مَنْ تَاَخَّرَفَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ ہے یعنی قرآن کریم میں جو یہ ذکر آتا ہے کہ جب تم حج کر چکو تو چاہے دو دن ٹھہر کر آ جائو یا تین دن۔ اس میں دو دن ٹھہر کر آنا شفع ہؤا۔ اور یہ جو فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص تیسرے دن بھی ٹھہرنا چاہے تو اُسے اجازت ہے یہ تیسرا دن وتر ہے۔ ابن جریر نے بھی یہ روایت حضرت عبداللہ بن زبیر سے نقل کی ہے۔
بخاری اور مسلم میں روایت ہے کہ ابوھریرہؓ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ننانونے نام ہیں یعنی سَو میں سے ایک کم جو شخص اُن کو خوب گن رکھے وہ جنت میں داخل ہو گا اور اللہ وتر ہے اور وتر کو پسند کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ بھی ایک ہے اور اُس نے اپنے نام بھی ننانوے رکھے ہیں اس حدیث کا اصل مطلب یہ ہے کہ صفاتِ الٰہیہ کا گہرا مطالعہ انسان کو حقیقی متقی بناتا ہے تقویٰ کے معنے بھی یہی ہوتے ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر لے جو شخص اللہ تعالیٰ کی ساری صفات کو اپنے مدنظر رکھے گا وہ کسی خوبی کو نظر اندا ز نہیں کر سکتا اور جو شخص ہر خوبی کو اپنے ساتھ رکھے گا اور ہر نیکی پر عمل کرے گا اُس کے یقینی جنتی ہونے میں کوئی شبہ ہی کیا ہو سکتا ہے۔
حسن بصری اور زید بن اسلم کہتے ہیں کہ تمام مخلوق یا شفع ہے یا وتر۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہاں مخلوق کی قسم کھائی ہے۔ مجاہدؔ سے بھی یہی مروی ہے اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ شفع اور وتر سے مخلوق مراد ہے کیونکہ کوئی جوڑا ہوتا ہے اور کوئی اکیلا۔ ابن عباسؓ عوفی ن ے روایت کی ہے کہ اللہ وتر ہے اور تم لوگ شفع ہو کیونکہ تم نر ومادہ ہوتے ہو اور خدا اکیلا ہے اس لئے تم شفع ہے اور خدا وتر ہے بعض نے کہا ہے کہ شفع سے مراد صبح کی نماز ہے اور وتر سے مراد شام کی نماز۔ ابن ابی حاتم نے مجاہد سے روایت کی ہے کہ شفع سے مراد جوڑا ہے اور وتر اللہ تعالیٰ ہے یعنی یہ جو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ اَنَّہٗ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْاُنْثٰی مِنْ نُّطْفَۃٍ اِذَا تُمْنٰی (النجم ع ۳ ۷)اسی کی طرف شفع میں اشارہ کیا گیا ہے۔
ابو عبداللہ مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ وتر ہے اور مخلوق شفع ہے کیونکہ وہ ذکر انثٰی ہورتی ہے۔ ابن ابی نجیع مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ پیدا کیا ہے جوڑا ہے اور اس سے آپ نے اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ وَمِنْ کُلِّ شَیْئٍ خَلقْنَا زَوْجَیْنِ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (الذاریات ع ۳ ۲) چونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر مخلوق کو جوڑے کی صورت میں پیدا کیا گیا ہے اس لئے شفع سے مراد مخلوق اور وتر سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔
قتادہ حسن بصری سے روایت کرتے ہیں کہ شفع اور وتر سے مراد عدد ہیں کہ وہ شفع اور وتر ہوتے ہیں مثلًا ایک وتر ہے دو شفع ہے تین وتر ہے چار شفع ہے اِسی طرح جس قدر عدد گنتے چلے جائو اُن میں سے ایک شفع ہو گا اور ایک وتر۔ پس اُن کے نزدیک شفع اور وتر میں اعداد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
ابن حریر نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کی ہے کہ عبداللہ زبیر جابر سیر روایت کرتے ہیںکہ میں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلمسے سُنا کہ اَلشَّفْعُ اَلْیَوْمَانِ وَالْوِتْرُ اَلْیَوْمُ الثَّالِثُ یعنی وہی جو ابن زبیر نے بیان کیا تھا کہ شفع میں فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ کی طرف اشارہ ہے اور وتر میں وَمَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ کی طرف۔ وہی بات اس روایت میں بیان کی گئی ہے۔ مگر یہ روایت خود اُن کی پہلی روایت کے خلاف ہے جس میں وہ یہ بیان کر چکے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ فرمایا کہ شفع یومِ نحر ہے اور وتر یومِ عرفہ۔
ابو العالیہ اور ربیع بن انس کہتے ہیں کہ اس سے مراد نماز ہے کہ اُس میں کوئی شفع ہوتی ہے اور کوئی وتر ہوتی ہے۔ مغرب کی فرض نماز وتر ہے اسی طرح وتر کی نماز اس میں شامل ہے لیکن باقی سب نمازیں شفع ہیں کیونکہ اُن میں کسی کی دود دو درکعت ہوتی ہیں اور کسی کی چار چار۔
امام احمد عمران بن حصین کہتے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ھِیَ الصَّلَوٰۃُ بَعْضُھَا وِتْرٌ اس سے مراد نماز ہے کیونکہ نماز شفع ہوتی ہے اور کوئی وتر۔ یہ تیسری روایت ہے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہے مگر یہ تیسری روایت بھی پہلی دونوں روایتوں کے خلاف ہے۔ یہی روایت ترمذی اور ابن جریر نے بھی دوسرے سلسلہ سے بیان کی ہے اسی طرح ابودائود نے بھی یہی روایت کی ہے (ابن کثیر)
وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ
ابن عباسؓ کہتے ہیں اس کے معنے یہ ہیں کہ جب رات چلی جائے۔اور ابن کثیر کہتے ہیں کہ اس سے مراد یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جب رات آئے اس طرح اقبال النہار اور باراللیل کی قسم ہو گئی۔ گویا ابن عباس کے نزدیک تو اس میں رات کے جانے کا ذکر ہے مگر ابن کثیر کے نزدیک اس میں رات کے آنے کا ذکر ہے۔ رات کے جانے کا ذ کر والفجر میں ہو چکا ہے۔ اُن کا مطلب یہ ہے کہ جب فجر کا ذکر پہلے آ چکا ہے اور فجر ہمیشہ رات کے جانے پر ہی ہوتی ہے تو پھر اسی بات کو وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کہہ کر کیوں دہرایا گیا ہے۔ چونکہ بلا وجہ کسی بات کو دہرانا لغو ہوتا ہے اور لغو بات قرآن کریم کی طرف منسوب نہیں کی ہو سکتی اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یَسْرِ سے مراد اس جگہ جانے کے نہیں بلکہ آنے کے ہیں۔ یَسْرِ کے معنے درحقیت چلے جانے کے ہوتے ہیں اور اس میں آنے کا مفہوم بھی شامل ہے اور جانے کا مفہوم بھی شامل ہے۔ مگر ہم قرآن کریم کی طرف کیوں ایسی بات منسوب کریں جو لغو ہو۔ جب وَالْفَجْرِ میں رات کے جانے کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے تو وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ میں پھر انہی معنوں کاتکرار درست نہیں ہو سکتا۔ پس اس کے معنے رات کے جانے کے نہیں بلکہ آنے کے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں قرآن کریم نے خود ہی دوسری جگہ فرمایا ہے وَالَّیْلِ اِذَا عَسْعَسَ وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفّسَ (التکویر ع ۱ ۶) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لیل اور صبح دونوں کی قسم کھا نا جائز ہے چنانچہ وَالْفَجْرِ میں رات کے جانے کی طرف اشارہ کر دیا اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ میں رات کے آنے کا ذکر کر دیدا ضحاک کے قول کا بھی یہی منشاء ہے وہ کہتے ہیں وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ اَیْ یَجْزِیْ۔ (نوٹ:۔ متذکرہ بالا تمام حوالجات ابن کثیر سے ماخوذ ہیں)
یہ مختلف بیانات ہیں جو اِن آیا ت کے متعلق تفاسیر میں نظر آتے ہیں اِن میں سے تین بیان رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف بھی منسوب کئے گئے ہیں۔
اوّلؔ یہ کہ شفع اور وتر سے ذی الحجہ کے ایام عرفہ اور نحر مراد ہیںَ
دومؔ یہ کہ شفع اور وتر سے حج کے بعد منیٰؔ سے واپسی کے ایام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ واپس آنا دوسرے دن بھی جائز ہے اور تیسرے دن بھی۔
سومؔ یہ کہ شفع اور وتر سے نماز مراد ہے کہ کوئی نماز شفع ہوتی ہے اور کوئی وتر۔
تینوں روایتوں کا اختلاف یہ بتاتا ہے کہ اِن روایتوں کو مرفوع کہنا بالکل غلط ہے آخر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شفع اور وتر کی تشریح میں یہ تینوں باتیں کس طرح کہہ سکتے تھے معلوم ہوتا ہے یہ رُواۃ کی اپنی رائے ہے۔ انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعض ذوالوجوہ حدیثوں سے یہ خیال کر لیا کہ شاید رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شفع اور وتر سے یہ مراد لی ہے چنانچہ کسی نے کوئی استنباط کر لیا اور کسی نے کوئی۔ پس یہ رُواۃ کی اپنی رائے ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف قطعی طور پر کسی مفہوم کو منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس کا ثبوت حضرت ابن عمرؓ کی ایک روایت سے بھی ملتا ہے۔ مسند احمد۔ نسائی اور حاکم میں حضرت طلحہ بن عبداللہ ذکر کرتے ہیں کہ میں اور ابو سلمہ بن عبدالرحمن حج میں ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمر کے پاس گئے انہوں نے ہمیں کہا کہ یوم عرفہ کی دوپہر کا کھانا ہمارے ہاں کھانا۔ میں نے اُن سے کہا جناب یہ دن جو ذوالحجہ کے ہیں یہی لَیَالَ عَشْرٍ ہیں۔ انہوں نے کہا تم کو کس نے بتایا۔ میں نے کہا بتانے کی کیا ضرورت ہے مجھے خود یقین ہے کہ اس سے مراد یہی دن ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے کہا اگر تمہیں یقین ہے تو کسی وقت میرے پاس آنا میں تمہارے یقین کو شک میں بدل دُوں گا۔ اس سے صریح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صحابہؓ سمجھتے تھے کہ ہم ان آیات کی تشریح میں جو کچھ کہتے ہیں ہماری ذاتی رائے ہے۔ کسی رائے پر حتمی طور پر یقین کر لینا درست نہیں ورنہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کوئی حدیث اس بارہ میں ہوتی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بتائے ہوئے مضمون کی نسبت یہ کیوں کہتے کہ میرے پاس آنا میں تمہارے یقین کو شک میں بدل دُوں گا۔
واقعہ یہی ہے کہ ذوالحجہ کے دس دنوں کی فضیلت کے متعلق کئی حدیثیں آئی ہیں مگر ایسی کوئی حدیث نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ قرآن کریم میں لَیَالٍ عَشْرِ کا جو ذکر آتا ہے اُس سے مراد یہی دن ہیں۔ اِن دنوں کی فضیلت سے ہم انکار نہیں کر تے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان دنوں کو بہت مبارک اور بہت بڑی اہمیت رکھنے والا قرار دیا ہے۔ مگر یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ کسی حدیث میں یہ ذکر آتا ہو کہ لَیَالٍ عَشْرِ سے مراد یہی ذوالحجہ ہیں۔
اب رہے لوگوں کے خیالات سو لَیَالٍ عَشْرِ کے متعلق چار خیالات لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔
۱۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے ذوالحجہ کی دس راتیں مراد ہیں۔
۲۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے محرّم کی دس راتیں مراد ہیں۔
۳۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد رمضان کی پہلی دس راتیں مراد ہیں۔
۴۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد رمضان کی آخری دس راتیں مراد ہیں۔
شفع اور وتر میں بھی بہت کچھ اختلاف ہے کچھ لوگ اس سے نماز مراد لیتے ہیں تو کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے مراد عدد ہیں۔ اگر شفع اور وتر سے مراد نماز لی جائے یا اعداد مراد لئے جائیں تو اُن کے ساتھ کوئی دس راتیں مخصوص نہیں ہو سکتیں حالانکہ یہاں شفع اور وتر سے پہلے دس راتوں کا ذ کر ہے۔ حضرت ابن عباسؓ کی اُس روایت سے استدلال کر کے جسے میں نے آخر میں بیان کیا ہے ایک حال کے مفسر نے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کے معنی لیلۃ القدر اور دوسری راتوں کے کئے ہیں یا رمضان کی ان دس راتوں میںسے پہلی رات کے۔ ان آراء پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اس بارہ میں کوئی امر ثابت نہیں۔ دوسرےؔ خود صحابہؓ میں بھی سخت اختلاف ہے اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ صرف اجتہاد پر تفسیر کی بنیاد رکھی گئی ہے صاحبِ شریعت سے کوئی امر ثابت نہیں اور پھر صحابہ کا اجتہاد بھی یقینی نہیں۔ ایک ایک صحابی نے دو دو تین تین معنے ایسے کئے ہیں جو آپس میں بالکل متضاد ہیں۔ کسی آیت کے دو دو بلکہ چا ر چار سو معنے کر لینا بھی بشرطیکہ وہ معنے ایک دوسرے کے متضاد نہ ہوں بلکہ مصدق ہوں بالکل جائز اور درست ہوتا ہے۔ لیکن ایسے معنے کرنا کہ اگر ایک معنے مانے جائیں تو دوسرے معنے ردّ کرنے پڑیں۔ دوسرے معنے تسلیم کئے جائیں تو تیسرے معنوں کو ناقابل قبول قرار دینا پڑے یہ اس امر کا ثبوت ہوتا ہے کہ خود معنے کرنے والے کے دل کو اطمینان نہیں ہوتا کبھی اس کا رجحان ایک مضمون کی طرف چلا جاتا ہے اور کبھی دوسرے معنوں کیطرف۔ کبھی وہ سمجھتا ہے کہ یہ معنے درست معلوم ہوتے ہیں اور کبھی خیال کرتا ہے کہ وہ معنے درست معلوم ہوتے ہیں۔ اسے اطمینان اور شرح صدر حاصل نہیں۔ پس صحابہؓ نے اس بارہ میں جو کچھ اجتہاد کیا وہ قطعی نہیں۔ چنانچہ ابن عمرؓ کا قول اس کا مصدّق ہے۔ آخر وہ بھی اس آیت کے معنے کرتے ہوں گے انہوں نے جب سنا کہ ایک شخص کہہ رہا ہے کہ یقینی اور قطعی طور پر لَیَالٍ عَشْرِ سے مراد ذوالحجہ کی دس راتیں ہیں تو اُنہیں حیرت ہوئی کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے اور کسی بناء پر اس مضمون کو یقینی سمجھ رہا ہے گو بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ اکثر علماء سلف کا یہی قول تھا کہ لَیَالٍ عَشْرِ سے ذوالحجہ کی دس راتوں سوا اور کوئی مراد نہیں مگر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کا طلحہ بن عبداللہ سے یہ کہنا کہ میرے پاس آنا میں تُمہیں شک میں ڈال دُوں گا بتاتا ہے کہ اس بارہ میں جو کچھ کہا جا رہا تھا محض اجتہاد تک محدود تھا۔ آخر حضرت عبداللہ بن عمرؓ دین کے منکر تو نہیں تھے کہ انہوںنے اُسے یہ کہا ہو کہ میں اسلام کی صداقت کے متلق تمہیں شکوک میں مبتلا کر دُوں گا۔ اُن کا مطلب یہی تھا کہ تم جو یہ خیال کر رہے ہو کہ لَیَالٍ عَشْرِ سے قرآن کریم نے یقینی طور پر ذوالحجہ کی دس راتوں کی طرف اشارہ کیا ہے یہ درست نہیں۔ اگر تمہیں اتنا ہی کامل یقین ہے تو میرے پاس آنا میں تمہیں شُبہ میں ڈال دوں گا۔ غرض ابنِ عمرؓ کا قول اس امر کا مصدق ہے کہ صرف اجتہاد پر اس آیت کی تفسیر کی بنیاد رکھی گئی تھی اسی طرح خود صحابہؓ اور تابعین کے شدید اختلافات بھی اس امر پر شاہد ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ایک شخص کہہ سکتا ہے کہ ہم نے مان لیا اس بارہ میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں مگر تم ان میں سے کسی ایک بات کو ترجیح دے دو اور اس جھگڑے کو نپٹا دو۔ آخر جب ہم نے اجتہاد سے ہی اس آیت کی تفسیر کرنی ہے تو ہم ان مختلف بیانات میں سے کسی ایک کو جس کی طرف لوگوں کا زیادہ میلان پایا جاتا ہے کیوں درست تسلیم نہیں کر لیتے اور کیوں سب کو ناقابل یقین سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ بے شک اختلافات ہیں لیکن اس اختلاف کو دور کرنے کا طریق یہ ہے کہ کسی ایک قول کو ترجیح دے دی جائے۔
میرے نزدیک بھی یہ صورت بالکل ممکن تھی کہ باوجود اختلافات کے ہم کسی ایک قول کو ترجیح دے دیتے ہیں اور دوسروں کو ردّ کر دیتے مگر مشکل یہ ہے کہ اس طرح بھی قرآن کریم کی یہ آیات حل نہیں ہوتیں۔ میں دیکھتا ہوں کہ سب سے زیادہ زور ذی الحجہ کی دس راتوں پر دیا گیا ہے مگر اس تاویل کے ساتھ فجر کی کوئی معقول تفسیر بیان نہیں کی گئی۔ اگر اللہ تعالیٰ نے صرف راتوں کا ذکر کیا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کے ساتھ ایک فجر کا بھی ذکر کیا ہوتا تو ہم کہہ سکتے تھے کہ اس سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کے ساتھ ایک فجر کا بھی ذکر کیا ہے جو اِن سے پہلے ہے۔ وہ فرماتا ہے وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ ہم شہادت کے طور پر فجر کو پیش کرتے ہیں اور ہم شہادت کے طور پر اُس فجر کے ساتھ دس راتوں کو پیش کرتے ہیں اگر ان دس راتوں سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہیں تو سوال یہ ہے کہ پھر فجر سے کون سی فجر مراد ہے اگر دس راتوں کی آخری فجر مراد ہے تو اُس میں کس بات کی شہادت مخفی ہے کون سا اہم امر شریعت سے تعلق رکھنے والا ایسا جو ذی الحجہ کی دسویں رات کی صبح کے ساتھ خصوصیت رکھتا ہے اور وُہ صبح خدا تعالیٰ کی قدرت یا اُس کے دین کی صداقت کی شہادت دیتی ہے۔ اور پھر اس میں کیا حکمت تھی کہ صبح آئی تو دس راتوں کے بعد لیکن اس کا ذکر دس راتوں سے پہلے کر دیا گیا۔ اگر صرف دس راتوں کا ذکر ہوتا تو ہمیں اُن کی بات تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہیں تھا ہم سمجھتے ہیں کہ ان دس راتوں کا خدا تعالیٰ نے اس لئے ذکر کیا ہے کہ یہ راتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ خدا تعالیٰ نے اُن سے ایک وعدہ کیا تھا جسے اُس نے پورا کیا اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کو زندگی بخشی اور اُس کے ذریعہ ہمیشہ کے لئے دنیا میں ایک نشان قائم کر دیا یہ واقعہ میں ایک بڑا بھاری نشان تھا اور اس نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں سے جو وعدے کیا کرتا ہے مخالف حالات کے باوجود وہ ان وعدوں کو پورا کرتا ہے اور انہیں دنیا میں عزت اور کامیابی عطا کرتا ہے۔ ابراہیمؑ نے خدا تعالیٰ پر توکل کیا اور اُس نے اپنے بیٹے کو اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک بے آب وگیاہ جنگل میں چھوڑ دیا۔ بظاہر اُس کی زندگی کا ایک لمحہ خطرہ میں تھا مگر اللہ تعالیٰ نے پیش از وقت بتا دیا کہ یہ قربانی ضائع نہیں جائے گی۔ مکّہ مرجعِ خلاق بنے گااور خدا تعالیٰ کے اس نشان کو قیامت تک یاد رکھا جائے گا۔ اگر اس واقعہ کی یادگار منائی جائے تو کوئی شبہ نہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے ایک زبردست ثبوت کی یادگار ہو گی اور اگر یہ واقعہ دُنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو کوئی احمق ہی ہو گا جو اس کا انکار کرے اور کہے کہ اس سے خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر نہیں ہوتا۔ پس اگر خالی لَیَالٍ عَشْرٍ کا ذکر ہوتا تو میرے لئے یہ بات حل شدہ تھی اور میں بغیر کسی ججھک کے کہہ سکتا تھا کہ ان سے مراد ذی الحجہ کی دس راتیں ہی ہیں کیونکہ یہ راتیں اس عظیم الشان قربانی کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کی لیکن مشکل یہ ہے کہ یہاں لَیَالٍ عَشْرٍ کے ساتھ وَالْفَجْرِ کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ اگر کہو کہ اس سے مراد کوئی فجر ہے تو پھر بتانا چاہئیے کہ وہ کون سی فجر ہے اور اگر کہو کہ لَیَالٍ عَشْرٍ میں اس آخری رات کی فجر ہے تو پھر بتانا چاہئیے کہ وہ کون سی فجر ہے اور اگر کہو کہ لَیَالٍ عَشْرٍ میں سے آخری رات کی فجر مراد ہے تو سوال یہ ہے کہ اس فجر میں کیا خصوصیت ہے کہ اس کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے اور پھر اس کا راتوں سے پہلے کیوں ذکر کیا گیا ہے۔ دس دنوں کی فضیلت تو سمجھ میں آ سکتی تھی کیونکہ انسان پہلے قربانی کا ارادہ کرتا ہے پھر اُس ارادہ کے مطابق سامان مہیّا کرتا ہے اور آخر وہ وقت آتا ہے جب وہ اُس قربانی کو ادا کر دیتا ہے اس نقطۂ نگاہ کے ماتحت بجائے یوم النحر کے اگر ہم سب کے سب دنوں کو مبارک کہہ دیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان دس راتوں کی آخری فجر میں کون سی ایسی بات پائی جاتی ہے جسے ہم کفار کے سامنے پیش کر سکیں اور اُن سے منوا سکیں کہ یہ فجر بھی خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا ایک زبردست نشان ہے مگر یہ بات نہ مفسرین نے بیان کی ہے اور نہ ہی میری سمجھ میں آتی ہے لَیَالٍ عَشْرٍ میں تو یقینا ایسان نشان ہے جسے بادلائل کفار کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے اور انہیں خدا تعالیٰ کی قدرت کا قائل کیا جا سکتا ہے مگر لَیَالٍ عَشْرٍ کے ساتھ فجر کا کوئی جوڑ نظر نہیں آتا۔
اِسی طرح مفسّرین نے لَیَالٍ عَشْرٍ کی تفسیر تو بیان کر دی مگریہ نہیں بیان کیا کہ اُن کے ساتھ وہ کون سے شفع اور وتر ہیں جو ایک نشان کا کام دیتے ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ شہادت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ آخر شفع اور وتر میں کون سی ایسی دلیل ہے جس سے خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت ملتا ہے یا جسے کسی نشان کی شہادت کے طور پر لوگوں کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا کہی دو دن پہلے چلے جائو یا تیسرے دن چلے جائو یہ ایک حکم تو ہے مگر نشان اور معجزہ تو نہیں یا اس سے خدا تعالیٰ کی کسی قدرت کا تو ثبوت نہیں ملتا اور محض حکم سے ایک کافر کیونکر سبق حاصل کر سکتا ہے یا کافر پر اس بات سے کیا حجت ہو سکتی ہے کہ ہم نے کہہ دیا ہے کہ چاہو تو دو دن ٹھہرو اور چاہو تو تین دن ٹھہرو۔ میں سمجھتا ہوں ایک بیوقوف سے بیوقوف کے سامنے بھی یہ بات بیان کی جائے تو وہ ہنس پڑے گا اور کہے گا کہ اس میں خدا تعالیٰ کی ہستی یا اُس کی قدرت کا کیا ثبوت ہے۔ آپ ہی کہہ دیا کہ دو دن ٹھہر کر آ جائو اور آپ ہی کہہ دیا کہ اگر چاہو تو تین دن ٹھہر کر آ جائو۔ اس میں کون سی ایسی بات ہے جس کی بناء پر قسم کھا کر اس کا ذکر کیا گیا ہے یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ نے معمولی طور پر شفعؔ اور وترؔ کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ فرمایا ہے میں قسم کھاتا ہوں شفع کی اور میں قسم کھاتا ہوں وتر کی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی شفع ہے جو کفار پر حجت تمام کرتا ہے اور کوئی وترؔ بھی جس سے الگ طور پر کفار حجت تمام ہوتی ہے یا شفع اور وتر دونوں مل کر حجت پوری کرتے ہیں مگر یہ تینوں باتیں ذوالحجہ کے کسی شفع یا وتر میں نہیں پائی جاتیں۔
پھر ایک اور اعتراض یہ پیدا ہوتا کہ مفسّرین جو معنے کرتے ہیں اور جن میں سے بعض رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلمتک پہنچ بھی جاتے ہیں اُن میں وتر کا پہلے ذکر آتا ہے اور شفع کا بعد میں۔ لیکن قرآن کریم میں شفع کا ذکر پہلے آتا ہے اور وتر کا بعد میں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کہ میں شفع کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں۔ اور شفع کے معنے کئے گئے ہیں دسویں ذی الحجہ کے اور وتر کے معنے کئے گئے ہیں نویں ذی الحجہ کے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ نو ۹ پہلے ہوتا ہے اور دس ۱۰ بعد میں ہوتا ہے یعنی وتر پہلے ہے اور شفع بعد میں۔ مگر قرآن نے شفع کا ذکر پہلے کیا ہے اور وتر کا بعد میں کیا ہے گر تو وَالْوَتْرِ وَالشَّفْعِ ہوتا تو یہ بات بن جاتی کہ وتر سے نویں ذی الحجہ مراد ہے اور شفع سے دسویں ذی الحجہ۔ مگر قرآن کریم نے شفع کا پہلے اور وتر کا بعد میں ذکر کیا ہے اور اس جگہ کوئی ایسی وجہ نہیں بتائی گئی جس کی بناء پر ہم اس ذکر کو آگے پیچھے کر سکیں اور کہہ سکیں کہ فلاں وجہ سے دسویں رات کا ذکر پہلے کیا گیا ہے اور نویں رات کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے۔ بعض لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ وزن ملانے کے لئے ایسا کیا گیا ہے مگر ہم یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کہ بلکہ قرآن کریم صرف وزن کی خاطر الفاظ کو آگے پیچھے کر دیتا ہے۔ اگر یہاں شفع اور وتر کا آگے پیچھے ذکر ہے تو ضرور اس کی وجہ ہونی چاہئیے اور وہ دلیل دینی چاہئیے جس کی بناء پر شفع کا پہلے اور وتر کے بعد میں ذکر کیا گیا ہے مگر ایسی کوئی دلیل مفسّرین کی طرف سے پیش نہیں کی گئی۔ اس کے علاوہ یہ سوال ہے کہ وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ سے کیا مراد ہے۔ اگر دس راتوں سے ذی الحجہ کی دس راتیں ہی مراد ہیں تو پھر یہ کون سی رات ہے جس کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہ چلی گئی۔ لیل سے مراد شام سے صبح تک کا وقت ہوتا ہے۔ جب لَیَالَ عَشْرٍ میں دس راتیں آ چکی تھیں تو یہ کون سی نئی رات ہے جو آگئی۔ چلی گئی کہہ لو دونوں صورتوں میں سوال پیدا ہوتا ہے۔ کہ یہ کون سی لیل ہے جس کا ذکر کیا جا رہا ہے یا دس راتوں میں سے کس خاص رات کی طرف اس میں اشارہ کیا گیا ہے اور جب یہ دس راتوں میں سے ایک ہی رات تھی تو کیوں وَلَیَالَ عَشْرٍ کے بعد شفع اور وتر کا ذکر کے اس رات کا ذکر کیا گیا ہے شفع اور وتر کو درمیان میں لا کر اُسے ان دس راتوں سے جن کا یہ حصہ ہے الگ کیوں کر دیا گیا ہے؟
پھر سوال یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے پہلے دس راتوں کا ذکر کیا گیا تھا تو اُن دس راتوں کے چلے جانے کا مضمون اس میں خود بخود آگیا تھا بلکہ فجر کا ذکر بھی آ چکا تھا جو اِن راتوں کے گزر جانے کی طرف اشارہ کر رہا تھا اس قدر وضاحت کے بعد دوبارہ وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کہنے کا کیا مطلب ہؤا۔ اگر کہو کہ اس کے معنے رات کے جانے کے نہیں بلکہ آنے کے ہیں یہ اور بھی لطیفہ ہے کہ دس راتیں آئیں گی اور گزر بھی جائیں گی مگر ان کا ذکر مکمل کر چکنے کے بعد ان کے بعد شفع اور وتر کے الفاظ کہہ کر ایام منٰی کا ذکر کر دینے کے بعد پھر ان کے اس میں پہلی رات کے آنے کا دوبارہ ذکر کرنا شروع کر دیا گیا۔ اگر اس پہلی رات کے آنے میں کوئی نشان تھا تو وہ دس راتوں کے بیان میں ذکر ہو چکا اور اگر دس راتوں میں کوئی نشان تھا تو شفع اور وتر کا ذکر کر کے اس نشان کے بیان کو ختم کر دیا گیا پھر نئے سرے سے پہلی رات کے ذکر کے کیا معنے ہوئے اگر کہا جائے کہ وہی فجر کا مضمون اس جگہ دُہرایا گیا ہے تو یہ بھی بتانا چاہئیے کہ وَالْفَجْرِ میں کون سی کمی رہ گئی تھی جسے وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ میں بیان کیا گیا ہے۔
پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اس سے ذی الحجہ کی پہلی رات مراد ہے تو پہلی رات کی فجر کو کیا ثابت کرتی ہے‘ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے پہلی رات کی فجر مراد ہو یا آخری رات کی۔ سوال یہ ہے کہ اُس رات کی خصوصیت کیا ہے جس کی وجہ سے اُس کا علیحدہ ذکر کیا گیا ہے اور ذوالحجہ کی پہلی یا آخری رات کی فجر میں کون سی ایسی بات پائی جاتی ہے جس سے کفار پر حجت تمام ہو سکتی ہے یا اللہ تعالیٰ کی قدرت اُن پر ظاہر ہو سکتی ہے؟ جب قسم شہادت کے لئے ہوتی ہے تو پہلی رات یا آخری رات کی فجر کس امر کی شہادت دیتی ہے؟ میںبتا چکا ہوں کہ اگر حج کی وجہ سے ان راتوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سچائی کا ثبوت قرار دیا جائے تو یہ ایک معقول بات ہو گی مگر پھر یہی سوال پیدا ہو گا کہ یہ تو مان لیا کہ یہ راتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی صداقت کا ثبوت ہیں مگر پہلی رات کی فجر کس بات کا ثبوت دیتی ہے اور پھر آخری رات کسی خاص امر کی شہادت دیتی ہے یا کس مضمون کو مکمل کرتی ہے؟ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ کسی کُلّ کے ذکر پر اس کے ٹکڑے کا مستقل طور پر الگ الگ شہادت دینا ضروری نہیں مگر جب کُل کے ذکر کے بعد یا پہلے بعض ٹکڑوں کا الگ ذکر کیا جائے تو پھر لازمًا اِن ٹکڑوں کے ذکر سے مزید شہادت کا حاصل ہونا ضروری ہو گا۔ لیکن وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کی کوئی خاص شہادت ان مفسرین نے بیان نہیں کی۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ چاروں مضمون الگ الگ شہادت نہیں رکھتے بلکہ مل کر ایک شہادت بنتے ہیں تو ہم اس کو بھی ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ حج کے ساتھ فجر اور شفع اور وتر اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ مل کر کیا شہادت پیش کرتے ہیں۔ اگر لَیَالَ عَشْرٍ کے ساتھ فجر کو نہ ملایا جاتا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے میں کیا کمی رہ جاتی۔ اگر شفع اور وتر کا ذکر نہ کیا جاتا کون سا امر مخفی رہ جاتا ہے یا وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کا ذکر نہ ہوتا تو دس راتوں کی شہادت اور اُن کے معجزہ میں کون سا نقص رہ جاتا ہے؟
ہم مانتے ہیں کہ بعض دفعہ دلیل کو نمایاں کرنے کے لئے اُس کے مختلف حصے کر دئے جاتے ہیں مگر ایسا تبھی کیا جاتا ہے جب اُن مختلف حصّوں پر زیادہ زور دے کر دلیل کو نمایاں اور روشن کرنا مقصود ہو۔ بلاوجہ ایک دلیل کے مختلف حصے نہیں کئے جاتے۔ اگر فجر اور شفع وتر اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کے مفہوم میں لَیَالَ عَشْرٍ کی بعض خصوصیات کا ذکر کیا جاتا تو ہمیں اس کو تسلیم کرنے میں کوئی عذر نہ ہوتا۔ ہم سمجھتے کہ گو فجر اور شفع اور وتر اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کا دس راتوں سے جن کا وہ حصّہ ہیں علیحدہ طور پر بھی ذکر کیا گیا ہے مگر اس ذکر کی غرض ان امور کی اہمیت کی طرف اشارہ کرنا ہے اور ان پر زور دینے کے لئے الگ بیان کیا گیا ہے مگر اس ذکر کی غرض ان امور کی اہمیت کی طرف اشارہ کرنا ہے اور ان پر زور دینے کے لئے الگ بیان کیا گیا ہے ورنہ اصولًا یہ تمام حصے دس راتوں میں ہی شامل ہیں اور ہر حصہ اُس دلیل کا ایک مفید اور ضروری حصہ ہے مگر افسوس تو یہ ہے کہ مفسرین کی طرف سے لَیَالَ عَشْرٍ کے جو معنے کئے جاتے ہیں اُن میں نہ فجر کا ذکر دلیل کا کوئی حصہ بنتا ہے نہ شفع اور وتر کا ذکر کوئی معنے رکھتا ہے اور نہ وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کو کوئی مفہوم ثابت ہوتا ہے گویا ایسے معنے کئے جاتے ہیں جو کسی صورت میں بھی آیاتِ قرآنیہ سے مطابقت نہیں رکھتے۔
دوسریؔ تو جیہ محرم کی راتوں کی ہے۔ اس میں بھی اگر تو صرف اتنا ہوتا کہ وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ توجیہ چسپاں ہو جاتی اور ہمیں اس تفسیر کو درست تسلیم کرنا پڑتا کیونکہ حدیث میں آتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں یہ وہ دن ہیں جن میںحضرت موسٰی علیہ السلام کو فرعون پر غلبہ ملا اور سمندر سے نجات حاصل ہوئی۔ اور اسی طرح کا ایک واقعہ میری اُمت میں بھی آئندہ زمانہ ہو گا (ترمذی ابواب الصوم باب ماقیل فی یوم عاشوراء )پس جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کا واقعہ ذی الحجہ کی دس راتوں پر چسپاں ہو سکتا ہے اسی طرح اگر وَالْفَجْرِ وَلَیَالِ عَشْرٍ میں حضرت موسٰی علیہ السلام کے اس عظیم الشان واقعہ کی طرف اشارہ سمجھا جائے تو کوئی بڑے سے بڑا معتبر بھی اس کی عظمت اور اہمیت سے انکار نہیں کر سکتا۔ اس صورت میں وَالْفَجْرِ سے محرم کی دسویں رات کی صبح مراد لی جائے گی اور لَیَالٍ عَشْرٍ سے محرم کی ابتدائی دس راتیں۔ کیونکہ ان دس راتوں میں سے کچھ وقت حضرت موسٰی علیہ السلام کا فرعون سے بحث کرنے میں گزرا ہو گا۔ کچھ وقت سامانِ سفر کو درست کرنے میں صرف ہؤا ہو گا اور اس لحاظ سے ان تمام راتوں کو ہی خدا تعالیٰ کا ایک نشان قرار دینا پڑے گا۔ بہرحال اگر صرف وَالْفَجْرِ وَلَیَالَ عَشْرٍ تک ہی آیت ہوتی تو ہم تسلیم کر لیتے کہ فجر سے مراد وہ فجر ہے جب حضرت موسٰی علیہ السلام مصر سے بنی اسرائیل کو ساتھ لے کر اور فرعون سمندر میں غرق ہؤا۔ اور وَلَیَالَ عَشْرٍ سے مراد محرم کی ابتدائی دس راتیں ہیں کیونکہ وہ سب کی سب خدا تعالیٰ کے لئے اس نشان کی مظہر ہیں کہ بنی اسرائیل نے موسٰیؑ کی پیروی میں فرعون کے مظالم سے نجات حاصل کی۔ مگر اس موقع پر بھی یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کا اس واقعہ سے کیا جوڑ ہؤا یہ بالکل تشنۂ تفسیر رہ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت موسٰی علیہ السلام کے واقعہ کی طرف اس میں اشارہ ہے تو وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ کے کیا معنے ہوئے اور محرم کی دس راتوں اور حضرت موسٰیؑ کے واقعہ سے اس کا کیا جوڑ ہے؟ اگر صرف فجر اور دس راتوں کا ذکر ہوتا تو عقلی طور پر ہم اس توجیہ کو تسلیم کرنے میں ہر گز وکوئی عذر نہ تھا جس طرح عقلی طور پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کے واقعہ پر ذوالحجہ کی دس راتیں یا یوام النحر کی فجر چسپاں ہو سکتی ہے اسی طرح عقلی طور پر حضرت موسٰی علیہ السلام کا یہ واقعہ بھی چسپاں ہو سکتا ہے۔ پس اگر صرف اتنی ہی آیت ہوتی تو کوئی شخص اس واقعہ کی اہمیت کا انکار نہیں کر سکتا تھا بلکہ ہر شخص کے نزدیک یہ شہادت ایک اہم شہادت ہوتی۔ ایک اہم قسم ہوتی اور فرعون بخش قسم ہوتی مگر اگلی دو آیتیں ہمیں اس طرف بھی جانے نہیں دیتیں۔
تیسری توجیہہ رمضان کی دس راتوں کی ہے اِس میں اول تو اختلاف ہے۔ بعض روایات میں پہلی دس اور بعض میں آخری دس راتوں کو ان کا مصداق قرار دیا گیا ہے مگر پہلی ہوں یا پچھلی سوال یہ ہے کہ رمضان کی راتیں کس امر کی شہادت دیتی ہیں۔ یہ سورۃ ابتدائی سالوں کی ہے اور اس پر قریبًا سب کا جو کوئی رائے رکھ سکتے ہیں اتفاق ہے لیکن رمضان کے روزے فرض ہوتے ہیں مدینہ میں۔ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ میں تشریف لائے ہیں تو اُس وقت تک رمضان کے روزے فرض نہیں ہوئے تھے دوسرا ماہ رمضان جو مدینہ میں آیا اُس وقت یہ روزے اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرض ہوئے (طبری) اب بتائو کہ کیا کوئی بھی معقول اس توجیہ کو مان سکتا ہے خواہ زمانۂ حال کا کوئی مفسّر ہو یا ماضی کا مجھے بتائے کہ کیا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرت کی کوئی دلیل ہے کہ لوگوں سے کہا جائے کہ ہم صداقت کے ثبوت کے طور پر یہ بات پیش کرتے ہیں کہ آج سے بارہ سال کے بعد ہم اپنے ساتھیوں سے کہیں گے کہ وہ رمضان کے روزے رکھا کریں۔ روزہ رکھنے کا حکم دینا تو انسان کے اپنے اختیار کی بات ہے ایک مفتری بھی اگر چاہے تو ایسا حکم اپنے ماننے والوں کو دے سکتا ہے۔ مسلیمہ کذّاب بھی ایک جھوٹی شریعت بنا سکتا تھا۔ دیکھنا تو یہ ہے کہ آیا جو بات پیش کی جا رہی ہے وہ کافروں کے لئے بھی حجت ہے یا نہیں؟
پھر عجیب بات ہے کہ اس توجیہ کو درست تسلیم کرنے کی صورت میں کفار کے سامنے حجت کے طور پر رمضان کی راتوں کو پیش کیا گیا ہے مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ حالت تھی کہ آپ اُن دنوں محرم کے پہلے دس دنوں کے روزے رکھا کرتے تھے کیونکہ ان ایام میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام کو فرعون سے نجات دی تھی۔ چونکہ اس واقعہ کی یادگار کے طور پر یہودی لوگ یہ روزے رکھا کرتے تھے اس لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی یہ روزے رکھتے تھے۔ جب رمضان کے روزوں کے احکام نازل ہو گئے تو آپ نے یہ روزے چھوڑ دئے۔ پس سوال یہ ہے کہ جو روزے ابھی فرض ہی نہیں ہوئے تھے اور جن کو نہ مسلمان جانتے تھے اور نہ کفار جانتے تھے اُن کے ذکر سے مسلمانوں نے کیا سمجھا۔ یا کافروں نے کیا سمجھا ہو گا۔ جب یہ روزے سورۃ الفجر کے نزول کے وقت فرض ہی نہیں تھے تو ان کی شہادت کیا اثر رکھتی تھی اور اِن سے کفار پر کیا حجت ہو سکتی تھی۔
ممکن ہے کہ کوئی شخص کہہ دے کہ بیشک رمضان کے روزے بارہ سال بعد مدینہ منورہ میں جا کر فرض ہوئے ہیں مگر اُن کا قبل ازوقت ذکر کرنا یا رمضان کی راتوں کی قسم کھانا قابل اعتراض امر نہیں۔ قرآن کریم نے خود متعدد مقامات پر آئندہ زمانوں میں ہونے والے واقعات کی قسم کھائی ہے مثلًا قرآن کریم نے یہ کہا ہے یا نہیں کہ اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ۔ ایک زمانہ آئے گا جب سورج کو لپیٹ دیا جائے گا یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مطابعت کو ترک کر دیا جائے گا یا انوارِمحمدیہ کا نزول بند ہو جائے گا یا سورج اور چاند کو گرہن لگے گا۔ پھر یہ واقعات رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی میں ہی رونما ہو گئے تھے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ یہ پیشگوئیاں بعد میں پوری ہوئیں لیکن اللہ تعالیٰ نے اِن بعد میں رونما ہونے والے واقعات کی خود قسم کھائی ہے۔ اسی طرح وَاِذَالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ میں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ ایک زمانہ میں ریل تار اور ریڈیو وغیرہ سے باہمی تعلقات ایسے ہو جائیں گے کہ گویا پاس بیٹھے ہیں۔ مگر یہ پیشگوئیاں ایک لمبے عرصہ گذر جانے کے بعد پوری ہوئیں۔ اسی طرح خواہ رمضان کے روزے بارہ سال بعد فرض ہوئے مگر اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ اور اِذَاالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ اور اِسی قسم کی اور متعدد پیشگوئیوں کی طرح رمضان کی راتوں کی بھی قسم کھائی جا سکتی تھی۔
اس سوال کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ بے شک آئندہ امور کی قسم قرآن کریم میں موجود ہے مگر وہ تمام واقعات ایسے ہیں جن سے علمِ غیب وابستہ تھا۔ درحقیقت وہ پیشگوئیاں ہیں جو آئندہ زمانہ کے متعلق کی گئی تھیں اور پیشگوئی ایسی چیز ہے جو بندے کے اختیار میں نہیں ہوتی۔ لیکن ایک پیر کا اپنے مرید کو کوئی حکم دے دینا اُس کے اپنے اختیار کی بات ہے اور اس میں ہر گز علمِ غیب کا کوئی حصّہ نہیں۔ مثلًا تحریک جدید کا ہماری جماعت میں ۳۴ء سے آغاز ہؤا ہے اگر مَیں اس تحریک کو شروع کرنے سے دو سال پہلے اعلان کر دیتا کہ ۳۴ء میں مَیں تحریک جدید جاری کروں گا اور جب ۳۴ء آتا تو تحریک جدید کو جاری کر کے کہتا کہ دیکھو یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا نشان ہے میں نے دو سال پہلے جو بات کہی تھی وہ پوری ہو گئی۔ تو ہر شخص ہنسنے لگ جاتا کہ اس میں نشان کی کون سی بات ہے۔ یہ تو اپنے اختیار کی چیز تھی کہ جب چاہا اپنے مریدوں کو حکم دے دیا اور جب چاہا نہ دیا۔ یا مثلًا میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ فلاں وقت میں سارے سات روزے رکھنے کے متعلق اعلان کر دوں گا اور جب وہ وقت آیا میں نے روزوں کے متعلق جماعت میں اعلان کر دیا۔ اب کیا میرا قبل وقت یہ کہنا کہ فلاں مہینہ میں روزے رکھنے کا حکم دوں گا اور پھر اُس مہینہ پر روزوں کا اعلان کر دینا اپنے اندر کوئی نشان رکھتا ہے کیا میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک معجزہ ہے جو ظاہر ہؤا یا ایک ایسا واقعہ ہے جس سے خدا کی ہستی کا ثبوت ملتا ہے۔ اسی طرح اگر رمضان کے روزوں کے متعلق کہہ دیا گیا تھا تو اس میں کون سی ایسی بات ہو گئی جس سے کافروں پر حجت تمام کی جا سکتی ہے۔ یہ تو ہمارا ایمان ہے کہ قرآن کریم میں جو کچھ لکھا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہؤا ہے مگر کافر تو اس بات کو نہیں مانتا وہ تو کہتا ہے کہ یہ سب باتیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود ہی اپنی طرف سے بنا کر لوگوں کے سامنے پیش کی ہیں اور جب کہ کفار قرآن کریم کو خدا تعالیٰ کا کلام مانتے ہی نہیں تو اُن کے سامنے یہ بات بطور حجت کس طرح پیش کی جا سکتی ہے کہ بارہ سال کے بعد رمضان کے روزے فرض کئے جائیں گے اور اُس کی دس راتیں بڑی اہمیت رکھیں گی۔ ایک مخالف کہہ سکتا ہے کہ خود ہی بارہ سال پہلے ایک سکیم شروع کر دی گئی اور پھر خود ہی اس کے مطابق اعلان کر کے کہہ دیا کہ خدا کا نشان ظاہر ہو گیا ہے۔ اس میںنشان کی کون سی بات ہے ایسا تو ہر شخص کر سکتا ہے۔ پس یہ بالکل غلط ہے کہ جس رنگ میں قرآن کریم نے آئندہ زمانہ میں رُونما ہونے والے واقعات کی قسم کھائی ہے اُسی رنگ میںرمضان کی راتوں کی قسم سمجھی جا سکتی ہے۔ رمضان کے روزوں کا حکم دینا بندے کا اختیاری فعل ہے چند سال پہلے ہی اپنی کسی سکیم کا اعلان کر دینا اپنے اندر کوئی نشان نہیں رکھتا لیکن آئندہ زمانوں میں رُونما ہونے والے واقعات کی خبر دینا جو انسان کے اختیار میں نہ ہوں یہ کام یقینا کسی انسان کا نہیں ہو سکتا۔ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی قسم کھائی گئی ہے وہاں ایسے ہی واقعات کے متعلق قسم کھائی گئی ہے جو آئندہ زمانہ میں رونما ہونے والے تھے اور جن پر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا آپ کی اُمت کو نہ کوئی اختیار حاصل تھانہ اختیار حاصل ہونا ممکن ہو سکتا تھا جو خُدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرت اور اس کے علم کا ایک زبردست نشان تھے مثلًا یہ کہا گیا کہ اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ۔ ایک زمانہ آئے گا جب سورج اور چاند کو گرہن لگے گا۔ اب بتائو کہ کیا سورج اور چاند کو گرہن لگانا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طاقت میں تھا؟یا اِذَاالنُّفُوْسُ زُوِّجَتْ میں جب ریل اور تار اور ڈاک کی ایجاد کی خبر دی گئی تھی تو کیا ان چیزوں کی ایجاد محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اختیار میں تھی؟ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ خبریں ایسی تھیں جن کو پورا کرنا کسی انسانی طاقت کا کام نہیں تھا بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ان کو پورا کر سکتا تھا اسی لئے اِن واقعات کو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔
غرض قسمیں اُنہی امور کے متعلق کھائی جاتی ہیں جو مستقبل سے تعلق رکھنے والی ہوں یا ہوں تو زمانۂ ماضی کی مگر اُن سے اللہ تعالیٰ کی طاقت اور اس کی قدرت کا اظہار ہوتا ہو۔
زمانۂ حال کے ایک مفسّر نے لکھا ہے کہ رمضان کی آخری دس راتوں کو بطور شہادت اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ ان میں روزے رکھ کر انسان کے تقویٰ اور اس کی روحانیت میں خاص طور پر ترقی ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کافر بھی مانتا ہے کہ روزہ سے تقویٰ بڑھتا ہے یا روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے ؟ وہ دس روزوں کا ہی نہیں بلکہ سارے روزوں کا بھی یہ نتیجہ تسلیم نہیں کرتا۔ سارے کیا اگر کوئی شخص پچاس سال بھی متواتر روزے رکھتا چلا جائے تو وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ ان روزوں سے اُس کی روحانیت میں اضافہ ہؤا ہو گا۔ پس جس بات کو وہ مانتا ہی نہیں اُسے بطور شہادت اُس کے سامنے کس طرح پیش کیا جا سکتا ہے؟وہ تو یہی کہے گا کہ یہ بالکل جھوٹ ہے روزوں سے روحانیت میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ پس قسمیں اُنہی واقعات کے متعلق کھائی جا سکتی ہیں جو مستقبل سے تعلق رکھتے ہوں اور جن سے اللہ تعالیٰ کی ایسی قدرت کا اظہار ہوتا ہو جو دشمنانِ دین کے لئے حجت ہو سکے اور یا پھر اُن واقعات پر قسمیں کھائی جاتی ہیں جو گو زمانۂ ماضی سے تعلق رکھتے ہوں مگر اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اُس کی قدرت کا نشان اُن سے ظاہر ہو چکا ہو۔ مثلًا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی۔ آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدے اور اللہ تعالیٰ کا ان وعدوں کو پورا کرنا یہ سب زمانۂ ماضی سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں مگر چونکہ تاریخی طور پر یہ باتیں ثابت ہیں دشمن ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس لئے انہیں دشمن کے سامنے بطور حجت پیش کیا جا سکتا ہے لیکن روحانی ترقی تو ایسی چیز ہے جو دوست کو بھی نظر نہیں آتی کجا یہ کہ اُسے دشمن کے سامنے پیش کیا جائے۔ پس یہ بات یہاں چسپاں ہی نہیں ہو سکتی کہ جس طرح آئندہ زمانہ میں ہونے والے واقعات کی قرآن کریم نے قسم کھائی ہے اسی طرح رمضان کی قسم کھائی ہے قرآن کریم میں قسم اُن واقعات کی کھائی گئی ہے جن سے علم غیب وابستہ تھا مثلًا سورج گرہن۔ عوام کی بیداری۔ بادشاہتوں کی تباہی۔ ان امور کے متعلق قبل ازوقت خبر یقینا خدا تعالیٰ کی قدرت کا ایک زبردست ثبوت ہے مگر رمضان کے روزے تو علمِ غیب اپنے اندر نہیں رکھتے ہر شخص اپنی جماعت کو ایک حکم دے سکتا ہے اور ایسا حکم اس کی سچائی کا ثبوت نہیں ہو سکتا۔ کفار کے نزدیک وہ خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فعل تھا اور عبادت کے طور پر اُس کی خبر مکّہ والوں کو پہلے دینے میں کوئی فائدہ نہیں تھا۔
غرض خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کے نشان کے طور پر وہی بات پیش کی جا سکتی ہے جو علمِ غیب اپنے اندر رکھتی ہو۔ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے زلزلۃ الساعۃ کی خبر دی۔ اب یہ ایسی خبر ہے جس کو پورا کرنا کسی انسان کے اختیار کی بات نہیں۔ اس خبر کو اگر خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرت کا ثبوت قرار دیا جائے تو یہ بالکل درست ہو گا۔ لیکن احکام کی قسم کھانے سے اُس کی قدرت کا کچھ اظہار نہیں ہوتا پس رمضان کی راتوں کی قسم چونکہ اپنے اندر کوئی علمِ غیب یا اظہارِ قدرت اپنے اندر نہیں رکھتی جیسے کہ مثلًا وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ کی قسمیں رکھتی ہیں۔ کہ ہیں تو ماضی کے امور۔ آئندہ کا علم اُن میں نہیں مگر ماضی کے علمِ غیب کے ظہور کا ثبوت ان میں موجود ہے جس کا دشمن انکار نہیں کر سکتا۔ یا مثلًا اِذَاالشَّمْسُ کُوِّرَتْ وَاِذَاالنُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ وَاِذَا الْجِبَالُ سُیِّرَتْ وغیرہ پیشگوئیاں ہیں کہ یہ سب کی سب اپنے اندر علمِ غیب رکھتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا ثبوت ہیں اس لئے وہ قسم فضول ہے اور قرآن کریم ایسی فضول قسموں سے بالا ہے۔
غرض لَیَالٍ عَشْرٍ میں واقعۂ ابراہیمی کی طرف اشارہ یا حضرت موسٰی علیہ السلام کی نجات کی طرف تو ایک معقول بات بن سکتی ہے۔ لیکن رمضان کی پہلی یا پچھلی راتوں کا ذکر ان آیات سے نکالنا اپنے اندر کوئی حکمت کی بات نہیں رکھتا۔ غیب کی خبریں خواہ ماضی میں پوری ہو چکی ہوں یا آئندہ پوری ہونے والی ہوں بے شک ایمان افزاء ہوتی ہیں مثلًا خدا تعالیٰ نے حضرت موسٰی علیہ السلام سے وعدہ کیا کہ میں تجھے اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ دوں گا اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کو پورا کر کے فرعون کو غرق کر دیا اور بنی اسرائیل کو اُس کے مظالم سے نجات دلا دی۔ اب گو یہ زمانۂ ماضی کا ایک واقعہ ہے مگر تاریخ میں یہ واقعہ ہے محفوظ ہے اور اسے دشمن کے سامنے بطور حجت پیش کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی یہ واقعہ کسی کے سامنے بیان کیا جائے گا خدا تعالیٰ کی ہستی کا ایک زندہ ثبوت ہے اُسے نظر آنے لگ جائے گا۔ بے شک حضرت موسٰی علیہ السلام فوت ہو گئے فلسطین پر جو حکومت قابض تھی وہ جاتی رہی۔ مگر باوجود اس کے آج بھی جب کسی ہندو یا سکھ کے سامنے ان واقعات کو پیش کیا جائے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ کہے گا خواہ موسٰیؑ مر گئے۔ فلسطین سے یہود کی حکومت مٹ گئی مگر اس کے باوجود یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور تاریخ اس کی سچائی پر شاہد ہے کہ موسٰیؑ نہایت ادنیٰ اور کمزور حالت میں تھے۔ بنی اسرائیل کی فرعون کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں تھی وہ جس طرح چاہتا اُن سے سلوک کرتا۔ ایسی کمزور اور ذلیل حالت میں اللہ تعالیٰ نے موسٰیؑ سے وعدہ کیا کہ میں تجھے کامیاب کروں گا۔ واقعات اُن کی کامیابی کے خلاف تھے مگر خدا نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ فرعون نے اپنی ساری طاقت اور اپنے سارے لشکر اور اپنے سارے سازوسامان کے باوجود ناکام ہؤا۔ ناکام و نامراد ہونے کی حالت میں مرا اور موسٰیؑ اپنے ساتھیوں سمیت خدا تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق کامیاب ہو گیا۔ یہ واقعہ خواہ ماضی کا ہے مگر تاریخی شہادت اس ماضی کو ایسا شاندار بنا دیتی ہے کہ آج بھی اس واقعہ کو پڑھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ اسی طرح ابرہیمؑ فوت ہو چکے جو پیشگوئیاں انہوں نے کی تھیں وہ قصّۂ ماضی بن چکیں مگر اس کے باوجود اُس ماضی کا بھی ایک ماضی تاریخ میں محفوظ ہے جب ہم اس گزشتہ ماضی میں جا کر اس واقعہ کو مستقبل کی نظر سے دیکھتے ہیں تو ہمیں خدا تعالیٰ کا ایک حیرت انگیز اور عجیب نشان نظر آتا ہے ہم محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کو زمانۂ حاضر میں کھڑے ہو کر نہیں دیکھتے اور ہم سوچتے ہیں کہ کیا اس قسم کی پیشگوئی کرنا ابراہیمؑ کے لئے ممکن تھا اُس وقت جب ہم تاریخ کی نلکی میں سے جھانکتے ہوئے ابراہیمؑ کے زمانہ تک پہنچتے ہیں۔ جب ہم ماضی سے مستقبل کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں توہمیں یہ ایک زبردست پیشگوئی نظر آتی ہے اور ہمارا دل اس یقین سے پُر ہو جاتا ہے کہ خدا کا ایک زندہ نشان ہے جو ابراہیم کے ذریعہ ظاہر ہؤا۔ تو بعض ماضی بھی خدا تعالیٰ کی قدرت کا ثبوت ہوتے ہیں کیونکہ اس ماضی کا بھی ایک ماضی تھا جب ہم گزشتہ ماضی میں کھڑے ہو کر مستقبل کو دیکھتے ہیں تو یہ ماضی ہمارے لئے ایک نشان بن جاتا ہے اور مستقبل تو ظاہری ہی ہے۔ جب ایک پیشگوئی پوری ہو جاتی ہے تو وہ ایک زندہ ثبوت ہوتی ہے خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی قدرت اور اس کے جلال اور اس کی عظمت کا۔ مگر رمضان کے روزوں کی جو ابھی نازل نہیں ہوئے تھے قسم کھانے سے ان فوائد میں سے جو قرآنی قسموں میں ہیں ایک فائدہ بھی پایا نہیں جاتا۔
اسی اصولی سوال کو نظرانداز کر دو تو پھر بھی سوال ہے کہ رمضان کی پہلی راتوں میں سے فجر کس امر کی شہادت دیتی ہے کہ اسے الگ کر کے بیان کیا ہے؟ پھر اس میں شفع اور وتر کا کیا سوال ہے کہ ان کا ذکر کیا گیا ہے؟ پھر وہ کون سی رات ہے جسے اِذَایَسْرِ کہا گیا ہے اور اس رات سے کیا شہادت نکلتی ہے؟ اور اگر آخری راتیں مراد ہیں پھر اَلْفَجْرِ سے کیا مراد ہے یعنی اگر پہلی دس راتیں مراد ہیں تو اَلْفَجْرِ سے کیا مراد ہے اور اگر آخری راتیں مراد ہے تو اَلْفَجْرِ سے کیا مراد ہے؟ اور اَلْفَجْرِ میں پہلی راتوں کی کسی فجر کا ذکر ہے یا آخری راتوں کی کسی فجر کا ذکر کیا ہے؟ آخری یا پہلی راتیں مراد لینا تو پھر بھی ایک معقول بات ہے۔ کیونکہ پہلے راتیں رمضان کے شروع کی ہیں اور دوسری راتیں رمضان کے اختتام کی۔ ایک کی یہ عظمت بیان کی جا سکتی ہے کہ اُن سے رمضان کا مبارک مہینہ شروع ہوتا ہے اور دوسری راتوں کی یہ عظمت بیان کی جا سکتی ہے کہ اُن پر رمضان کا اختتام ہوتا ہے اور اس وجہ سے وہ خاص اہمیت رکھتی ہے کہ اُس کی قسم کھائی گئی ہے اور جس سے دشمن پر حجت تمام کی جا سکتی ہے اور اُسے خدا تعالیٰ کی قدرت کا قائل کیا جا سکتا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس جگہ فجر سے لیلۃ القدر کی فجر مراد ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِ (سورۃ القدر ع ۱ ۲ ۲)لیلۃ القدر مطلعِ فجر تک ہوتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ لیلۃ القدر مبارک ہوتی ہے نہ کہ اس کی فجر۔ فجر کو تو وہ برکات ختم ہو جاتی ہیں پھر اُس وقت کی قسم کیوں کھائی گئی ہے؟ کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ جو مبارک چیز تھی یعنی لیلۃ القدر اس کا تو ذکر ہی نہیں کیا اور جس میں کوئی خاص بات نہ تھی یعنی فجر اُسے بیان کر دیا۔ حالانکہ اس سے کسی خاص مبارک وقت کی طرف اشارہ پایا ہی نہیں جاتا۔ پھر سوال یہ ہے کہ ان دس راتوں میں وتر کس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ وتر سے مراد یہاں لیلۃ القدر ہے کیونکہ لیلۃ القدر وتر رات میں آتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہاں وتر کے ساتھ شفع کابھی ذکر آتا ہے۔ یہاں صرف یہ نہیں کہا گیا کہ ہم ایک وتر کو شہادت کے طور پیش کرتے ہیں بلکہ وتر اور شفع دونوں کو اکٹھا بطور شہادت پیش کیا گیا ہے اگر وتر سے مراد رمضان کے آخری عشرہ کی وتر راتیں مراد ہیں اور شفع سے مراد آخری عشرہ کی جفت دس راتیں۔ تو شفع کے لحاظ سے پانچ راتیں مبارک ہوں گی یا کبھی دس کی بجائے صرف صرف نَو راتیں بھی ہو سکتی ہیں۔ بہرحال جب دس راتوں میں سے پانچ شفع اور پانچ وتر ہیں یا چار شفع اور پانچ وتر ہیں۔ تو یا تو شفع اور وتر سے ساری راتیں مراد ہوں گی اور یا پھر اُن میں سے کوئی ایک وتر اور ایک شفع مراد ہو گی۔ اگر یہ کہا جائے کہ وتر سے مراد صرف ایک وتر رات مراد ہے جو لیلۃ القدر ہوتی ہے تو شفع سے مراد بھی کوئی ایک ایسی جفت رات ہونی چاہیئے جو خاص حیثیت رکھنے والی ہو مگر شفع کے معنے کرتے وقت تو اُن پانچ راتوں کو لے لینا جو جفت ہوں یا چار راتوں کو لے لینا جو جفت ہوں یا چار راتوں کے لے لینا جو جفت ہوں اور وتر سے مراد صرف ایک رات لینا یہ کوئی معقول بات نہیں ہے۔
پھر یہ سوال بھی ہے کہ لیلۃ القدر تو وتر راتوںمیں سے ایک ہے لیکن وتر راتیں تو دس راتوں میں کئی آتی ہیں اُن کی قسم کیوں کھائی ہے یا کس قرینہ سے لیلۃ القدر کے سوا دوسری وتر راتوں کو خارج سمجھا جائے اور پھر شفع کی قسم کی کیا وجہ ہے اگر شفع بھی مبارک ہیں اور وتر بھی تو الگ بیان کرنے کی وجہ کیا تھی؟ لَیَالٍ عَشْرٍ میں اِن ساری راتوں کا ذکر آ چکا تھا۔ آخرشفع اور وتر سے یہی مراد لیا جائے گا کہ پانچ طاق راتیں اور پانچ جفت راتیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ ذکر تو لَیَالٍ عَشْرٍ میں پہلے ہی آ چکا ہے شفع اور وتر کے ساتھ جفت اور طاق راتوں کا الگ الگ ذکر کیوں کیا گیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے دس راتوں کی قسم کھا لی تو اُن میں وتر راتیں بھی آ گئی تھیں اور جفت بھی اُن کا علیحدہ ذکر کرنے کاکوئی فائدہ نہ تھا۔ پھر سب سے آخر میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ وَالَّیْلِ اِذَِایَسْرِ کیا شئے ہے لَیَالٍ عَشْرٍ میں تو دس راتیں سب آ گئی تھیں جو دراصل نو ہوتی ہی نہیں لیکن یہاں ایک گیارھویں رات کا بھی ذکر ہے۔ اگر اعتکاف مراد لو تو اُس کی بھی گیارہ راتیں کسی صورت میں نہیں ہوتیں یا دس بنیں گی یا نو ۹۔ ہاں بعض دفعہ بارہ دن ہو جاتے ہیں۔ غرض کوئی معنے آیاتِ قرآنیہ سے مطابقت نہیں کھاتے اور ہر ایک پر متعدد اور شدید اعتراضات وارد ہوتے ہیں۔
اب میں اپنے معنی بیان کرتا ہوں جو مجھے اللہ تعالیٰ نے یکدم سجدۂ آخری سے اُٹھتے ہوئے عصر کی نماز میں بُدھ کے دن سمجھائے۔
اِن آیات میں چار باتیں بیان ہوئی ہیں۔
اوّلؔ اَلْفَجْرِ دومؔ وَلَیَالٍ عَشْرٍ سومؔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ چہارمؔ وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ۔
اِن چاروں کی قسم دو طرح ہو سکتی ہے یا یہ سارے امور ایک ہی واقعہ کے چار اہم جزو ہیں۔ یعنی یا تو یہ کہنا پڑے گا کہ ان آیات میں صرف ایک واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے مگر اس ایک واقعہ کے چار اہم جزو الگ الگ بیان کر دئے گئے ہیں اور یہ صورت بالکل جائز ہے۔ میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ مفسّرین کے بیان کردہ معنوں کو ہم مان سکتے تھے بشرطیکہ چاروں باتیں آپس میں منطبق ہو جاتیں مگر چونکہ اُن کے پیش کردہ معانی پر تمام آیات پوری نہیں اُترتیں اس لئے ہم اُن کو تسلیم نہیں کر سکتے۔ بہرحال ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ کے چار اہم جزو ہوں اور یا پھر یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ چاروں الگ الگ واقعات ہیں اگر ثابت ہو جائے کہ والفجر اوسے اور واقعہ کی طرف اشارہ ہے وَلَیَالٍ عَشْرٍ سے اور واقعہ کی۔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ سے اور واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ سے اور واقعہ کی طرف۔ تو یہ بھی ایک معقول توجیہ ہو سکتی ہے اور ہم اسے تسلیم کر سکتے ہیں بشرطیکہ یہ چاروں اہم واقعات سے تعلق رکھنے والے امور ہوں اور آپس میں کوئی جوڑ اور کوئی تعلق رکھتے ہوں اور پھر ان کے متعلق یہ صورت تسلیم کی جا سکتی ہے کہ یہ دو یا تین مجموعے ہیں جن کو تسلیم کیا گیا ہے مثلًا ثابت کیا جائے کہ فلاں فلاں دو باتیں الگ بیان کی گئی ہیں اور فلاں فلاں دو باتیں الگ بیان کی گئی ہیں اور یہ چار الگ الگ واقعات نہیں بلکہ دو مختلف مجموعے ہیں۔ یا مثلًا ثابت کیا جائے کہ وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ میں ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ میں دوسرا اور وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ میں تیسرا۔ تو یہ بھی درست ہو سکتا ہے غرض یہ تینوں صورتیں ہو سکتی ہیں یا تو یہ سارے امور ایک ہی واقعہ کے چار اہم جزو ہیں کا چاروں الگ الگ واقعات ہیں یا دو یا تین مجموعے ہیں۔ سابق مفسرین نے ان کو ایک ہی واقعہ کے مختلف حصّے قرار دیا ہے اور انہوں نے کوشش کی ہے کہ ایک ہی واقعہ پر لَیَالٍ عَشْرٍ کو چسپاں کریں۔ اُسی کو شفع کا مصداق قرار دیں اور اسی کو وتر قرار دیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ذہن اس طرف گیا ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ کے مختلف حصّے ہیں جیسے محرم کی راتیں اور اُس کی فجر اور اس کی نمازیں یا ذی الحجہ کے ایام اُس کی راتیں اور بعض دن اور فجر۔ یا رمضان کی راتیں اُس کی کوئی فجر اور بعض راتیں۔ غرض اس امر میں اتفاق ہے کہ یہ ایک ہی واقعہ کے مختلف پہلو ہیں۔ مگر جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں بیان کردہ تفسیریں سارے پہلوئوں پر مشتمل ثابت نہیں ہوتیں اور کوئی حقیقت باہرہ اُن سے ظاہر نہیں ہوتی۔
میرے نزدیک فجر چونکہ ایک بیان ہوئی ہے اور راتیں دس بیان ہوئی ہیں حالانکہ دس راتوں کی دس فجریں ہوتی ہیں اور راتوں کی دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے دس راتوں کا ذکر ہے درمیان میں شفع اور وتر کا ذکر ہے اور آخر میں پھر ایک رات کا ذکر ہے اس لئے میرے نزدیک صحیح مضمون پر پہنچنے کے لئے ہم سب سے زیادہ اس امر پر غور کرنے سے مدد مل سکتی ہے کہ یہاں فجر ایک بیان ہوئی ہے اور راتیں دس بیان کی گئی ہیں۔ پھر ان دس راتوں کے بعد کوئی واقعہ شفع اور وتر کا ہے پھر کسی اور رات کا ذکر کیا گیا ہے جو چلی گئی۔ گویا دو فجروں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک فجر وہ ہے جس کا دس راتوں کے ساتھ تعلق ہے پھر شفع اور وتر کا کوئی واقعہ ہے اور پھر ایک رات کا ذکر ہے جو دُور ہو گئی یعنی اس کے بعد پھر ایک اور فجر طلوع ہو ہو گیا۔ اگر ہمیں کسی ایسے واقعہ کا علم حاصل ہو جائے جس میں یہ سب باتیں پائی جائیں اور وہ واقعہ ایسا ہو کہ ان تمام حصّوں پر پوری طرح چسپاں ہو جاتا ہو تو دوست اور دشمن کوئی بھی اس کی صحت سے انکار نہیںکر سکتا۔ پس ان آیات میں پہلے دس راتیں بیان ہوئی ہیں جن کے ساتھ فجر کا تعلق ہے۔ پھر شفع اور وتر کا ذکر ہے اور پھر ایک رات کے چلے جانے کا۔ جس کے یہ معنے ہیں کہ یہاں رات پر زور دینا مدنظر نہیں بلکہ رات کے دُور ہو جانے پر زور دینا مدنظر ہے لَیَالٍ عَشْرٍ میں رات پر زور دینا مقصود تھا۔ مگر وَالَّیْلِ اِذَایَسْرِ میں رات کے چلے جانے پر زور دینا مقصود ہے۔
چونکہ دنیا میں کوئی دس راتیں ایسی نہیں ہوتیں جن کی ایک فجر ہو اور کوئی دس راتیں ایسی نہیں ہوتیں جن کے بعد شفع اور وتر کا کوئی واقعہ ہو اور کوئی شفع اور وتر کا واقعہ ایسا نہیں ہوتا جس کے بعد ایک رات ہواس لئے لازمًا تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس جگہ جن راتوں کا ذکر کیا گیا ہے اُن کا مادی سورج چڑھنے اور ڈوبنے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور ایک رات سے مراد بھی کوئی ایسی رات نہیں جس میں سورج ایک طرف چڑھتا ہے اور دوسری طرف نکل جاتا ہے کیونکہ دس راتوں کے بعد ایک فجر نہیں ہوتی۔ اور نہ دس راتوں اور ایک رات کے درمیان کوئی شفع اور وتر ہوتا ہے پس یہاں ظاہری راتیں کسی صورت میں مراد نہیں ہو سکتیں۔ بلکہ عقلًا تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ اس جگہ رات اور فجر کے الفاظ استعارۃً استعمال ہوئے ہیں نہ کہ حقیقی معنوں میں۔ کیونکہ ظاہری راتیں ایسی نہیں ہوتیں جن کے بعد ایک فجر ہو۔ کوئی ظاہری دس راتیں ایسی نہیں ہوتیں جن کے بعد شفع اور وتر کا کوئی واقعہ ہو۔ اور کوئی ظاہری ایک رات ایسی نہیں ہوتی جس کے بعد فجر ہی فجر رہے۔
پھر راتوں کے ذکر میں یہ فرق پایا جاتا ہے کہ لَیَالٍ عَشْرٍ میں تورات کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے مگر ایک رات کے ذکر میں اُس رات کے جانے اور دن کے نکل آنے پر زور دیا گیا ہے۔
الغرض میرے نزدیک اس آیت کی ترتیب یوں بنتی ہے۔ دس راتیں ؔ ۱ پھر ایک فجر ؔ ۲ اور اس کے بعد شفع ؔ ۳ اور وتر کا کوئی واقعہ اور پھر ایک رات ؔ ۴ اور پھر ایک طویل فجر۔ گویا اس واقعہ میں دس راتوں کے بعد ایک فجر اور اس کے بعد ایک شفع وتر کا واقعہ اور اس کے بعد ایک رات اور یک لمبی فجر کا ذکر ہے۔ پہلی فجر کو دس راتوں سے پہلے اس لئے بیان کیا گیا ہے (حالانکہ فجر رات کے بعد ہوتی ہے) کہ یہ امر واضح تھا کہ رات سے پہلے فجر نہیں ہوتی بلکہ بعد میں ہوتی ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ فجر کا ذکر پہلے اور راتوں کا ذکر بعد میں کرنے کی وجہ کیا ہے؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ فجر کے لفظ میں ایک خوشخبری تھی اور دنیا میں یہ ایک عام طریق ہے کہ جب ہم اپنے کسی دوست سے کسی ایسے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں جو تکلیف دہ ہو لیکن اُس کا انجام اچھا ہو تو ہم اُس کے خوش انجام کا ذکر پہلے کر دیتے ہیں اور غم انگیز حصہ کو بعدمیں بیان کرتے ہیں تا اُسے زیادہ صدمہ نہ ہو۔ مثلًا اگر ہمارا کوئی دوست بیمار ہو اور کوئی شخص اس کی تیمارداری کے لئے جائے اور اس بیمار کی حالت پہلے سے اچھی ہو اور وہ آ کر پہلی بیماری کی تفصیل شروع نہیں کر دے گا بلکہ مثلًا یوں کہے گا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اچھے ہیں بیچ میں تو خطرہ پیدا ہو گیا تھا۔ یہ نہیں ہوتا کہ وُہ پہلے تفصیلی حالات بیماری کے سنانے لگ جائے اور اس کی خیریت کے متعلق بعد میں جا کر خبر دے۔
چنانچہ اُحدؔ کے موقع پر جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شہادت کی خبر لوگوں میںمشہور ہوئی اور مدینہ سے عورتوں اور بچوں کا ایک گروہ اُحد کے میدان کی طرف چل پڑا تو اُس وقت اسلامی لشکر واپس آ رہا تھا ایک عورت بے تابانہ آگے بڑھی اور اس نے ایک مسلمان سپاہی سے دریافت کیا بتائو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ اُس نے بجائے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خیریت کی خبر اُسے دے یہ جواب دیا کہ تمہارا خاوند اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ اُس نے کہا میں تم سے اپنے خاوند کی خبر دریافت نہیں کر رہی پہلے یہ بتائو کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے؟ اور جب اُس نے کہا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خیریت سے ہیں تو عورت خوشی سے بول اٹھی کہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خیریت سے ہیں تو پھر مجھے اپنے کسی غم کی پرواہ نہیں ہے تو دیکھ لو اُس عورت نے خوشی کی خبر پہلے سننی چاہی اور غم کی بعد میں۔ اس نے سمجھا کہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندہ ہیں تو میرا دل اس خوشی کی خبر کی وجہ سے اور صدمات کو برداشت کر سکتا ہے لیکن اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم زندہ نہیں تو پھر میرا دل کسی صدمہ کو برداشت نہیں کر سکتا۔ توقاعدہ یہی ہے کہ جب خوشی اور غم کسی خبر کا جزو ہوں تو پہلے خوشی کی خبر سنائی جاتی ہے تا کہ غم کی خبر زیادہ تکلیف دہ نہ دے۔ پس چونکہ خوشی کی خبر پہلے بیان کی جانی تبشیر کے موقع ہر زیادہ مناسب ہوتی ہے اس لئے بجائے یوں کہنے کے ہم دس راتوں اور اُن کے بعد کی فجر کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں۔ اگر پہلے ہی دس راتوں کا تو مسلمان اس خبر کو سن کر کانپ اٹھتے اور سخت غم اور فکر میں مبتلا ہو جاتے کہ نہ معلوم اب کیا بننے والا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بجائے یہ فرمانے کے کہ ہم دس راتوں اور اُن کے بعد کی فجر کو بطور شہادت پیش کرتے ہیں یہ کہہ دیا کہ ہم فجر اور اُس سے پہلے آنے والی دس راتوں کو بطور شہادت پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد ہونے والے ایک شفع اور وتر کے واقعہ کو اور پھر اس کے بعد رات کے چلے جانے کے بعد یعنی صبح کو بطور شہادت پیش کرتے ہیں گویا بات تو وہی رہی مگر مومنوں کے دلوں کو تسلی ہو گئی کہ کسی خاص فکر کی ضرورت نہیں آخر نتیجہ ہمارے حق میں ہی نکلے گا چنانچہ اس خبر کو لَیَالٍ عَشْرٍ سے شروع کرنے کی بجائے وَالْفَجْرِ سے شروع کیا اور مسلمانوں کو بتایا کہ اب جو خبر آ رہی ہے اس سے یہ نہ سمجھنا کہ آخری نتیجہ تمہارے حق میں خراب نکلے گا۔ آخری نتیجہ بہرحال اچھا ہو گا اور اس کو ہم اُن راتوں کے ذکر سے پہلے ہی بیان کر دیتے ہیں تا کہ تمہارے دل مطمئن رہیں اور اس خبر سے پریشان نہ ہوں۔
پس یہاں رات کا لفظ حقیقی معنوںمیں استعمال نہیں کیا گیا بلکہ استعارۃً استعمال کیا گیا ہے کیونکہ کوئی ظاہری دس راتیں ایسی نہیں ہوتیں جن کی ایک فجر ہو ہاں استعارۃً راتوں کی ایک فجر ہو سکتی ہے۔ بہرحال یہ چار واقعات ہیں جن کا سورۂ الفجر کی ان چار آیات میں ذکر آتا ہے۔ پہلے یہ خبر دی گئی ہے کہ دس راتیں آئیں گی پھر یہ خبر دی گئی ہے کہ ان دس راتوں کے بعد فجر آئے گی پھر یہ خبر دی گئی ہے کہ ایک شفع اور وتر کا واقعہ ہو گا اور پھر یہ خبر دی گئی ہے کہ ایک رات جو چلی جائے گی۔
ہمیں دیکھنا چاہئیے کہ وہ کون سے واقعات ہیں جن کا ان آیات میں ذکر آتا ہے۔ اگر ہم قیاسات سے کام لیں اور محض عقلی ڈھکونسلوں تک اپنے آپ کو محدود رکھیں تو یقینا ہم کسی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے اور ہم اُسی رَو میں بہتے چلے جائیں گے جس رَو میں سابق مفسرین بہ گئے۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اِن واقعات کو قرآن کریم سے ثابت کریں۔ ہم ان واقعات کو اسلامی تاریخ سے ثابت کریں۔ ہم ان واقعات کو مہتم بالشان واقعات سے ثابت کریں اور ہم اعلیٰ وجہ البصیرت اس بات کو بیان کر سکیں کہ یہ واقعات ہیں جن کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے‘ جو اسلام کی سچائی سے گہرا تعلق رکھتے ہیں‘ جن میں قرآنی ترتیب پوری طرح پائی جاتی ہے اور جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے لئے بطور ثبوت اور حجت کفار کے سامنے پیش کئے جا سکتے ہیں۔ اگر ایسے واقعات ہمیں قرآن کریم سے مل جائیں، اسلامی تاریخ سے مل جائیں، ترتیب آیات پر وہ پورا اتریں پھر اسلام اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا بھی زندہ ثبوت ہوں تو یقینا انہی واقعات کی طرف ان آیات میں اشارہ سمجھا جائے گا۔
مَیں نے اس سورۃ پر سوچا اور سوچا مگر آخر معًا القاء اس کا حل مجھے ملا۔
مَیں یہ بتا چکا ہوں کہ دس راتوں کا ذکر محلًّا پہلے ہے ذکراً دوسرے نمبر پر ہے اور میں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ یہ دس راتیں عام راتیں نہیں بلکہ استعارۃً ان کو راتیں کہا گیا ہے۔ پھر مَیں یہ بھی بتا چکا ہوں کہ یہ سورۃ تیسرے سال کے آخر میں نازل ہوئی ہے جب ابھی منظّم مخالفت اسلام کی شروع نہیں ہوئی تھی۔ جب ابھی مسلمانوں کو کچلنے اور ان کو تباہ وبرباد کرنے کے منصوبے اجتماعی طور پر کفار نے شروع نہیں کئے تھے۔ وہ انفرادی طور پر تو اذیّت پہنچانے کی کوشش کرتے تھے مگر اکثر ایسے تھے جو اسلام کو مذاق میں اڑا دیتے تھے۔ وہ مسلمانوں کو پاگل اور مجنون کہہ کر خاموش ہو جاتے اور سمجھتے کہ یہ چند سر پھرے لوگ ہیں انہوںنے ہمارا کیا بگاڑ لینا ہے خود ہی چند دنوں تک خاموش ہو جائیں گے۔ عملی مخالفت جو انہوں نے بعد میں ایک تنظیم کے ماتحت کی اور جس میں مُسلمانوں کو بڑے بڑے دکھ پہنچائے گئے وہ ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ قریبًا تین سو سال رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعویٔ نبوت پر گذر چکے تھے کہ اُس وقت خدا تعالیٰ نے اس سورۃ کو نازل کیا اور مسلمانوں کو بتایا کہ اب تمہاری شدید مخالفت ہونے والی ہے۔ مصائب اور تکالیف کی بھیانک راتیں تم پر چھا جانے والی ہیں۔ ایک کے بعد رات آئے گی مگر کامیابی کی کوئی شعاع تمہیں نظر نہیں آئے گی اور یہ سلسلہ ممتد ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ پورے دس سال تمہیں ان مصائب اور مشکلات کا تختۂ مشق بننا پڑے گا۔ اب غور کر لو یہ بات کس حیرت انگیز طور پر پوری ہوئی۔ تیسرے سال کے آخر میں یہ سورۃ نازل ہوتی ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تیرہ سال تک مکہ میں رہے ہیں۔ پہلے تین سال مخالفت نہیں ہوئی لیکن اس کے بعد مکّہ والوں نے شدید ترین مخالفت شروع کر دی۔ تیرہ میں سے تین سال نکال دو تو باقی ٹھیک دس سال رہ جاتے ہیں جن میںمسلمان کفار کا تختۂ مشق بنے رہے اور یہی وہ دس سال تھے جن کی لَیَالٍ عَشْرٍ میں خبر دی گئی تھی اور جن کو مشکلات اور مصائب کے ہجوم کی وجہ سے استعارۃً رات قرار دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم نے جو تمہیں عَامَلَۃٌ نَاصِبَۃٌ میں خبر دی تھی کہ اب یہ لوگ منظم مخالفت شروع کرنے والے ہیں وہ وقت آ پہنچا ہے۔ مصائب کا ایک شدید دَور تم پر اور تمہارے ساتھیوں پر آنے والا ہے‘ تاریک ترین راتیں، انتہائی بھیانک راتیں، جسم کو کپکپا دینے والی راتیں، لرزہ بر اندام کر دینے والی راتیں، ایک نہیں، دو نہیں، تین نہیں، مسلسل دس راتیں آئیں گی اور تم کو اور تمہاری قوم کو سخت مصیب دیکھنا پڑے گی مگر اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پیشتر اس کے کہ ہم ان تاریک راتوں کی خبر دیںپہلے ہی تمہیں یہ خوشخبری سنا دیتے ہیں کہ ان راتوں کے بعد فجر آنے والی ہے، بیشک مخالفت ہو گی اور شدید ہو گی مگر انجام بہرحال اچھا ہو گا۔ اسلام پھیلے گا، مسلمان غالب آئیں گے، اور مشکلات کے بادل دس سال گزرنے کے بعد پھٹ جائیں گے اور فجر ظاہر ہو جائے گی۔
چنانچہ ٹھیک چوتھے سال مکّہ والوں نے اسلام اور مسلمانوں کی منظم شروع کر دی اور مسلمانوں پر تاریک راتیں چھا گئیں۔
یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ یہ سورۃ تیسرے سال کے آخر پر یا چوتھے سال کے شروع کی ہے اور مکہ والوں کی طرف منظم مخالفت چوتھے سال میں شروع ہوئی ہے اسلامی تاریخ اس پر متفق ہے کے اور یوروپین مصنّف بھی گو اسلام کے دشمن ہیں مگر تاریخی اعتبار سے یہ گواہی دینے پر مجبور ہوئے ہیں چنانچہ میور لکھتا ہے۔
"It was not however till three or four yeaars of his ministry had elapsed that any general opposition to Muhammad was organised."
یعنی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت آپ کے دعویٰ کے تین چار سال بعد تک منظم صورت میں ظاہر نہیں ہوئی۔ آرگنائزڈ اور منظم مخالفت جس میں تمام قوم آپ کے خلاف کھڑی ہو گئی اور چھوٹوں بڑوں سب نے مل کر اسلام کو مٹانا چاہا وہ دعویٰ کے ابتدائی تین چار سالہ دَور میں نظر نہیں آتی۔
آرگنائزڈ مخالفت جیسا کہ نَاصِبَۃٌ کی تشریح میں بتایا جا چکا ہے یہ ہوتی ہے کہ باقاعدہ افسر مقرر کئے جاتے ہیں۔ مختلف لیڈر کھڑے کئے جاتے ہیں اور اُن سب سے کہا جاتا ہے کہ تم نے مل کر حملہ کرنا ہے اس قسم کی منظم مخالفت میور کے نزدیک ابتدائی تین چار سالوں میں شروع نہیں ہوئی۔
پھر لکھتا ہے:۔
Even after he had begun publicty to summon his fellow citizens to the faith, and his followers had mulltiplied the people did not gainsay his doctrine.
’’اس وقت کے بعد بھی کہ آپ نے اعلانیہ اہلِ شہر کو دعوت دینی شروع کی اور باوجود اس کے کہ آپ پر ایمان لانے والے بڑھنے لگ گئے تھے لوگ آپ کی بات کی تردید کی ضرورت نہ سمجھتے تھے۔‘‘
یہ خیال ہو سکتا تھا کہ جب چند آدمی آپ کو مان چکے تھے اور آپ کے دعویٰ کو تسلیم کر چکے تھے تو بہرحال لوگوں میں آپ کے خلاف جوش پیدا ہو چکا ہو گا بالخصوص اس وجہ سے کہ آپ نے لوگوں میں وعظ شروع کر دیا تھا اور لوگوں کو اپنے مذہب کی تلقین شروع کر دی تھی۔ مگر میور لکھتا ہے یہ خیال درست نہیں باوجود اس کے کہ انہوں نے لوگوں کو اعلانیہ اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کرد ی تھی اور اُن کے ماننے والوں کی تعداد بڑھنے لگی تھی لوگ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم ان کو کچل دیں گے یا ان کے مذہب کو مٹا دیں گے۔ بلکہ
They would only point at him slieghtingly as he passed and say there goeth the follow from among the children of Abdul Muttalib to speak unto the
people about the heavens.
وہ ان کی طرف حقارت اور نفرت سے دیکھتے ہوئے کہتے دیکھو وہ عبدالمطّلب کی اولاد میں سے ایک شخص جا رہا ہے جو آسمان کی خبریں لوگوں کو سناتا ہے۔ مگر تیسرے سال کے آخر پر یا چوتھے سال کے شروع میں انہوں نے اسلام کی آرگنائزڈ مخالفت کا فیصلہ کیا۔
ریورنڈ ویری لکھتے ہیں:۔
This would be Neoldeke has it about the fourth tyear ow his ministry at Mekkah.
محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کھلی اور منظم مخالفت جو مکہ میں ہوئی وہ جیسا کہ نولڈکے کا خیال ہے تیسرے سال کے آخر یا چوتھے سال کے شروع میں ہوئی ہے۔
پھر دیکھو سورۂ فجر کی نسبت لکھتے ہیں:۔
He (Noeldeke) however regards it as early Mekkah and in his chronolodgical table places it immediately after chapter LXXX VIII.
یعنی نولڈکے اس سورۃ کے ابتدائی مکّی سورتوں میں شمار کرتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ غاشیہ کے معًا بعد نازل ہوئی ہے اور غاشیہ کے متعلق یہ بتا چکا ہے کہ اس کا نزول چوتھے سال کے قریب ہؤا ہے جب کہ مسلمانوں پر کفار مکہ کے مظالم شروع ہونے والے تھے۔
غرض یوروپین اور مسلمان مؤرخ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سورۃ چوتھے سال کے قریب نازل ہوئی ہے اور یہی وہ سال ہے جس میں کفار مکہ کی طرف سے منظم مخالفت کا آغاز ہؤا اور انہوں نے مسلمانوں کو شدید ترین مصائب میں مبتلا کرنا شروع کر دیا۔ میور تسلیم کرتا ہے کہ ابتدائی تین سالوں میں مسلمانوں کی کوئی قابلِ ذکر مخالفت نہیں تھی۔وہ مسلمانوں کودیکھتے اور استہزاء سے کام لے کر گذر جاتے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تبلیغ کرتے دیکھتے تو حقارت سے کہتے کہ یہ پاگل ہے جو لوگوں کو آسمان کی باتیں سُنا رہا ہے۔ مگر چوتھے سال کے شروع میں جیسا کہ وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ خَاشِعَۃٌ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ میںخبر دی گئی تھی انہوں نے کھلی اور منظم مخالفت شروع کر دی۔ اسلام کو مٹانے کے لئے اُن کو چھوٹے اور بڑے سب متحد ہو گئے اور انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہم مسلمانوں کو کچل کر رکھ دیں گے۔
غرض تاریخی شہادتیں اس بات پر متفق ہیں کہ مسلمانوں پر منظم ظلم چوتھے سال میںشروع ہؤاہے یعنی ہجرت سے دس سال بعد پہلے۔ اور یہ سورۃ تو اسی زمانہ میں نازل ہوئی ہے۔ پس دس سالوں میں ظلم وتعدّی کے اُن دس سالوں کی خبر دی گئی ہے جن میں انسانیت اور شرافت کا مکّہ والوں نے جنازہ نکال دیا تھا اور منظم ظلم کرنے شروع ہونے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ اب مکّہ والے عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ بننے والے ہیں، اُن کی طرف سے ظلم وستم کا بازار گرم ہونے والا ہے اور وہ اسلام کے خلاف اپنا پورا زور صرف کرنیو الے ہیں۔ انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی۔ اور یہ مظالم برابر دس سال تک چلے جائیں گے کہ ہر ایک سال ایک رات کی طرح ہو گا جس میں امید کی کوئی شعاع لوگوں کو نظر نہیں آئے گی مگر آخر ان دس راتوں کے گزرنے کے بعد جو انتہائی دکھ اور تکلیف کی راتیں ہوں گی اللہ تعالیٰ فجر کو طلوع کرے گا یعنی مصائب اور تکالیف کی یہ راتیں کٹ جائیں گی اور ایک نیا دَور مسلمانوں کی ترقی کا شروع ہو جائے گا۔
یہ فجر اس طرح ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے کسی نہ کسی رنگ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کی خبر مدینہ میں پہنچا دی۔ یہودی لوگ مشرکین سے کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں میں ایک آنے والے موعود کی خبر پائی جاتی ہے اور آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عنقریب آنے والا ہے جب وہ آئے گا تو دنیا میں خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کر دے گا اور لوگ اس کے معنے یہودیت کی حکومت سمجھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ اُس موعود کے آنے پر ہمیں حاصل ہو جائے گی کیونکہ خدا تعالیٰ کے منشاء کا اُن کو علم نہیں تھا ۔ چونکہ مشرکین یہود سے بالعموم اس قسم کی باتیں سنتے رہتے تھے اور یہود اُن سے تعلیم اور مال میں بھی زیادہ تھے گو تعداد کے لحاظ سے مشرکین زیادہ تھے اس لئے جب اُن کے کان میں یہ خبر پہنچی کہ مکّہ میں ایک شخص ظاہر ہؤا ہے جو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا ہے تو اُن کے دلوں میں یہ خیال گزرا کہ اگر وہ سچاہؤا اور وہی ہؤا جس کا یہود ذکر کیا کرتے تھے تو پھر کیا ہو گا۔ ایسا نہ ہو کہ یہود اس پر ایمان لا کر ہم سے سبقت لے جائیں اور حکومت پر قبضہ کر لیں۔ یہودی اُن سے کہا کرتے تھے کہ ہم اُس موعود کے آنے پر جب بادشاہت حاصل کر لیں گے تو تمہاری خوب خبر لیں گے۔ اِن باتوں کو سنتے رہنے کی وجہ سے قبائل مدینہ کو آنے والے کا خاص خیال رہتا تھا جب انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کی خبر سُنی تو فوراً خیال آیا کہ اگر یہ مدعی سچا ہے تو ایسا نہ ہو کہ یہود اُسے ہم سے پہلے مان لیں۔ اُن میں سے بعض لوگ مکّہ حج کے لئے گئے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ملے آپ کی باتیں سُن کر آپ کی صداقت کا انہیں یقین ہو گیا اور وہ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسلام میں داخل ہو گئے۔ پھر اَور لوگ آئے۔ پھر اَور لو گ آئے یہاں تک کہ ایک کافی لوگ مدینہ کے لوگوں کی اسلام میں داخل ہو گئی۔ اس پر بعض نے کہا کہ مکّہ والے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قدر نہیں کرتے کیوں نہ ہم اُن کو اپنے پاس بُلوا لیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں اپنا وفد بھیجا اور عرض کیا کہ آپ ہمارے ہاں تشریف لے آئیں ہماری قوم قریبًا سب کی سب مسلمان ہونے کے لئے تیا ر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے اجازت دے گا تو مَیں ہجرت کر کے آ جائوں گا۔ اس پر بعض نے کہا ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ جب آپ کو غلبہ عطا فرمائے تو آپ واپس اپنے وطن میں آ جائیں۔ آپ نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا۔ آخر خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہجرت کی اجازت دی اور آپ مدینہ میں تشریف لے گئے۔ یہ ہجرت وہی فجر ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر کیا گیا ہے اور جس سے اسلام کے سورج کا طلوع ہؤا۔ اور جس سے اسلامی سال آج تک چل رہا ہے اور قیامت تک چلے گا۔ اسی ہجرت کا ذکر اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ یوں فرمایا رَبِّ اَدْخِلْنِیْ مُدْخَلَ صِدْقٍ وَّاَخْرِجْنِیْ مُخرَجَ صِدْقٍ وَّاجْعَلْ لِّیْ مِنْ لَّدُنْکَ سُلْطَانًا نَّصِیْراً (بنی اسرائیل ع ۹ ۹)دیکھو یہاں ہجرت سے زیادہ خوشخبری یعنی داخلۂ مکّہ کا ذکر پہلے کیا ہے اور ہجرت کا ذکر جو زمانًا مقدم ہے بعدمیں کیا ہے۔ اسی طرح مکّہ والوں کے دس سالہ مظالم کے مقابلہ پر ہجرت ایک نعمت تھی اُس کا ذکر پہلے کیا ہے اور دس راتوں کا زمانًا مقدم تھیں بعد میں ذکر کیا ہے۔ ہجرت کا ذکر قرآن کریم میں کئی جگہ کیا گیا ہے۔ جس طرح وہ دس تکالیف کے سال اسلامی تاریخ میں ایک اہم جگہ رکھتے ہیں اسی طرح ہجرت بھی ایک اہم جگہ رکھتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یَآاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اِنْ تَتَّقُوااللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ ط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِo وَاِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَیَقْتُلُوْکَ اَوْیَخْرِجُوْکَ ط وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَo (الانفال ع ۴ ۸ ۱) فرماتا ہے مومنو! اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اگر تم اختیار کرو گے تو وہ تمہاری کامیابی کے بیسیوںرستے پیدا کر دے گا۔ تمہاری کوتاہیوں کو دُور کر دے گا اور تمہاری کمزوریوں پر پردہ ڈال دے گا اور اللہ بڑے فضلوں والا ہے۔ چنانچہ تمہارے سامنے اس کی ایک مثال پیش کرتے ہیں تاکہ تمہیں یہ خیال نہ ہو کہ یہ محض قیاسی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑے فضلوں والا ہے سواے ہمارے رسول تم بھی یاد کرو ہمارا خدا کیسا وفادار خدا ہے۔ کتنی بڑی طاقتوں اور قدرتوں کا مالک خدا ہے۔ جب تمہارے متعلق کفار نے مختلف منصوبے شروع کر دئے تھے اور اُن منصوبوں سے اُن کی غرض یہ تھی کہ اے ہمارے رسول! تھے قتل کر دیں یا تجھے اپنے گھر سے باہر نکال دیں۔ یہ تین تدبیریں تھیں جن کا تیرے خلاف انتظام کیا جا رہا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ تجھے قید کر دیں۔ وہ چاہتے تھے کہ تجھے قتل کر دیں وہ چاہتے تھے کہ تجھے اپنے شہر سے نکال دیں۔ یہ مطلب نہیں کہ بیک وقت وُہ اِن تینوں تدبیروں پر عمل کرنا چاہتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ اُن میں سے بعض ایسے تھے جنہوں نے دورانِ مشورہ میںیہ رائے دی کہ اس شخص کا معاملہ حد سے بڑھ گیا ہے اور مدینہ کے لوگ بھی اس پر ایمان لگ گئے ہیں اگر یہ اسی طرح ترقی کرتا چلا گیا تو ہمارے لئے یہ بات نہایت خطرناک ہو گی۔ بہتر یہ ہے کہ اسے قید کر دیا جائے تاکہ نہ یہ لوگوں سے مل سکے اور نہ اپنی تبلیغ کو پھیلا سکے۔ دوسروں نے کہا کہ یہ مناسب نہیں اگر ہم نے اسے قید کر دیا تو اس کے رشتہ داروں اور ماننے والوں کو جب اس کا پتہ چلا تو وُہ جوش میں آ کر لڑنے پر آمادہ ہو جائیں گے اور اس طرح قوم میں فساد ہو گا اس لئے ہمارے نزدیک بہتر یہ ہے کہ اس کو قتل کر دیا جائے تاکہ یہ جھگڑا ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے اور اس کے رشتہ دار بھی یہ سمجھ کر کہ اب تو ہمارا عزیز مارا ہی جا چکا ہے اب قوم سے لڑائی مول لینے کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ تو واپس آ نہیں سکتا۔ صبر سے کام لیں بعض اور لوگوں نے کہا کہ قتل کرنا مناسب نہیں اس کے قتل پر شور مچ جائے گا اور بالکل ممکن ہے کہ بنو ہاشم بدلہ لینے کے لئے ہم سے لڑائی شروع کر دیں اور جیسا کہ بعض دوسروں کا خیال ہے کہ صبر کر کے بیٹھ جائیں واقع میں ایسا نہ ہو پس بہتر یہ ہے کہ اسے مکّہ سے نکال دیا جائے۔ وہ لوگ جو اخراج کی تدبیر کے خلاف تھے انہوں نے کہا کہ یہ کوئی اچھی تجویز نہیں۔ ہمارا مشن تو اس کے مشن کو ناکام کرنا ہے۔ اگر یہ باہر جا کر اپنی باتوںکو پھیلانے لگ گیا تو تمام عرب تمہارے خلاف ہو جائے گا۔ غرض مختلف تجاویز پیش ہوئیں کسی پر کوئی اعتراض ہوتا اور کسی پر کوئی۔ مگر آخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اصل علاج یہی ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قتل کر دیا جائے پس چونکہ انہوں نے تین تجویز کی تھیں اس لئے قرآن کریم نے بھی ان تینوں تجویزوں کا ذکر کر دیا۔ پہلے تثبیتؔ کا ذکر کیا پھر قتلؔ کا ذکر کیا پھر اخراج کا ذکر کیا۔
دیکھو اس جگہ جو بڑی چیز تھی اللہ تعالیٰ نے اس کا درمیان میں ذکر کیا ہے اور قید اور جلاوطنی جو اُس سے کم درجہ کی چیزیں تھیں اُن کو دائیں بائیں رکھ دیا ہے یہ وہی ترتیب ہے جس کا میںاَفَلَا یَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَیْفَ خُلِقَتْo وَاِلَی السَّمَآئِ کَیْفَ رُفِعَتْo کی تفسیر میں ذکر کر چکا ہوں کہ بعض دفعہ ایک بڑی چیز کو درمیان میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس سے چھوٹی چیزوں کو دائیں بائیں۔ گو یہ کلام مثلّث کی شکل کا ہو تا ہے دو مشورے جو ادنیٰ تھے اُن کو خدا تعالیٰ نے دائیں بائیں بیان کر دیا ہے اور جو زیادہ سخت اور چوٹی کا مشورہ تھا اُسے درمیان میں رکھ دیا۔ بہرحال آخری فیصلہ انہوں نے یہی کیا کہ آپ کو قتل کر دیا جائے۔ قید کرنا یا آ پ کو مکّہ سے باہر نکال دینا مناسب نہیں اس میں زیادہ خطرات ہیں اگر جھگڑا ختم کرنا ہے تو اس کا طریق یہی ہے کہ حملہ کر کے آپ کو مار ڈالا جائے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اُن کا آخری فیصلہ قتل کا ہی تھا مگر قرآن کریم نے ان کے تینوں مشوروں کا ذکر کیا ہے جس کی حکمت میں آگے چل کر بیان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اُن تینوں مشوروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ انہوں نے تین منصوبے کئے خواہ آخر میں قتل پر ہی متفق ہو گئے اور میں نے بھی ان کے مقابلہ میں تین تدبیریں کیں بعض نے کہا تھا کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر دینا چاہئیے۔ بعض نے کہا تھا کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قتل کر دینا چاہئیے اور بعض نے کہا تھا کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جلاوطن کر دینا چاہئیے۔ خدا تعالیٰ نے اُن کی تدبیروں کو سُنا اور اُس نے کہا بہت اچھا میں تم سے یہ تینوں کام کروائوں گا اور پھر تمہیں اِن تینوں کاموں میں ناکام ونامراد کرا کے دکھا دوں گا۔ تم قتل کا منصوبہ کرو گے اور ذلیل و رسوا ہو گے۔ تم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر و گے اور ذلیل ورسوا ہو گے۔ فرض کرو وُہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قتل کا منصوبہ کرتے اور اس میں کامیاب ہو جاتے گو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو قتل نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ آپ شرعی نبی تھے اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت آپ کے ساتھ تھی۔ لیکن بغرضِ محال اگر وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جاتے اور اس کے بعد بنوہاشم بدلہ لینے کے لئے جنگ شروع کر دیتے اور کفار میں بڑے بڑے لوگ مارے جاتے تو وُہ لوگ جنہوں نے قید یا جلاوطن کرنے کا مشورہ دیا تھا خوش ہوتے اور کہتے ہم نہیں کہا تھا کہ تم اسے قتل نہ کرو تم نے ہمارا مشورہ نہ مانا اور یہ نقصان اٹھایا۔ یا فرض کرو وہ آپ کو مکہ سے نکال دیتے تو وہ لوگ جنہوں نے کہا تھا کہ آپ کو جلاوطن نہیں کرنا چاہئیے خوش ہوتے اور کہتے ہم نے نہیں کہا تھا کہ اس کو جلاوطن نہ کیا جائے یہ لوگوں کو اپنی جادو بیانی سے متاثر کر لے گا تم نے ہماری بات نہ مانی اور نقصان اُٹھایا۔ یا فرض وہ آپ کو قید کر دیتے اور آپ کے رشتہ دار اور متبع آپ کو رہا کرانے کے لئے خانہ جنگی شروع کر دیتے اور کسی طرح چھڑا لیتے تو جو اس تجویز کے خلاف تھے خوش ہوتے اور کہتے ہم نے نہیں کہا تھا کہ تم اسے قید نہ کرو تم نے اسے قید کیا اور نقصان اٹھایا۔ پس چونکہ ہر شخص اپنی اپنی تدبیر کی کامیابی کے متعلق بعد میں دعویٰ کر سکتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان تینوں کا ذکر کر دیا اور فرمایا ہم نے تم سے یہ تینوں کام کروا دئے تا کہ تم میں سے کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ اس کا مشور ہ صحیح تھا، اس کی رائے صائب تھی اور اس کی تجویز درست تھی۔ ہم نے ان تینوں تجاویز پر تجھ سے عمل کروا کے یہ ثابت کر دیا کہ تم ان تینوں باتوں میں جھوٹے تھے چنانچہ قتل کی تدبیر میں وہ اس طرح ناکام ہوئے کہ جب وہ فیصلہ کے بعد رات کو آپ کے مکان کے اردگرد جمع ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ نشان دکھایا کہ باوجود اس کے کہ آپ کے قتل کے لئے آپ کے دروازہ پر مختلف قبائل کے مسلّح نوجوان کھڑے تھے اور انہوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہر قبیلہ کا ایک ایک آدمی اس قتل میں شریک ہوتا کہ یہ خون قریش کے متفرق قبائل پر پھیل جائے اور بنو ہاشم کو یہ جرأت نہ ہو کہ وہ ساری قوم کے ساتھ لڑیں پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے سارے سامان پیدا کر دئے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رات کے وقت اُن کے پاس سے نکل گئے اور انہیں خبر تک نہ ہوئی کہ جس شخص کے قتل کے لئے وہ اکٹھے ہوئے ہیں وہ گھر سے جا چکا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے گھر سے نکلتے وقت حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لٹا دیا تھا (چارپائی کا رواج نہیں اُن دنوں نہیںتھا بلکہ اب تک بھی مکہ میں چارپائی کا عام رواج نہیں۔ بعض روایات میں غلطی سے یوں بیان ہؤا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ کو اپنی چارپائی پر لٹا دیا) جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رات کے وقت اُن لوگوں کے پاس سے گذرے تو اُن میں سے بعض نے آپ کو دیکھا بھی مگر انہوں نے خیال کر لیا کہ یہ کوئی اور شخص ہے جو شاید آپ سے ملنے کے لئے آیا ہو گا اور اب واپس جا رہا ہے اس کی وجہ یہی تھی کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہایت دلیری کے ساتھ باہر نکلے تھے اور آپ کی طبیعت پر زرا بھی خوف نہیں تھا۔ انہوں نے سمجھا کہ اتنی دلیری سے آپ اس وقت باہر نکلنے کی جرأت کہاں کر سکتے ہیں یہ ضرور کوئی اور آدمی ہے جو آپ سے ملنے کے لئے آیا ہو گا۔ اس کے بعد انہوں نے دروازہ کی دراڑ میں سے اندر جھانکا یہ اطمینان کرنے کے لئے کہ کہیں آپ باہر تو نہیں نکل گئے تو انہوں نے ایک آدمی کو سویا ہؤا دیکھا اور خیال کیا کہ یہی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ غرض ساری رات وہ آپ کے مکان کا پہرہ دیتے رہے پھر جب مناسب وقت سمجھا تو اندر داخل ہوئے اور شاید انہیں جسم سے شک پڑ گیا کہ یہ جسم آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نہیں۔ انہوں نے منہ سے کپڑا اٹھا کر دیکھا یا شایدمنہ ننگا تھا۔ بہرحال انہیں معلوم ہؤا کہ سونے والے حضرت علیؓ ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں۔ تب انہیں معلوم ہؤا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سلامتی کے ساتھ جا چکے ہیں اور اُن کے لئے اب سوائے ناکامی کے کچھ باقی نہیں رہا۔
غرض انہوں نے آپ کے قتل کا منصوبہ کیا مگر معجزانہ طور پر انہیں ناکام و نامراد ہونا پڑا۔ اُس وقت یقینا لو گ جو کہتے تھے کہ انہیں قید کرو کہتے ہوں گے کہ ہم نہ کہتے تھے چوری قتل کا خیال چھوڑ دو باقاعدہ مکّہ کی مجلس میں فیصلہ کر کے اسے قید کر دو یہ زیادہ اچھا ہے۔ تم نے ہماری بات نہ مانی اور یہ نتیجہ دیکھا۔ ضرور ہے کہ قتل کو ناپسند دکرتے ہوئے اس کے کسی رشتہ دار نے اُنہیں خبر کر دی ہو گی اور وہ بچ نکلے۔ کچھ اور لوگ کہتے ہوںگے ہم نے جو کہا تھا اسے جلاوطن کر دو، قتل کا منصوبہ نہ کرو، تم نے ہمارے مشورے کو ردّ کر دیا اور یہ دن دیکھا کہ سارے قبائل کو شرمندہ اور ناکام ہونا پڑا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ وہ اگر یہ تدابیر کر رہے تھے تو ہم بھی خاموش نہیں تھے ہم نے بھی فیصلہ کر دیا تھا کہ ایک ایک تدبیر میں ہم ان کفار کو ناکام کریں گے۔ چنانچہ قتل کی تدبیر کر کے انہوں نے دیکھ لیا وہ ناکام ہوئے۔ اُن کی تدابیر سب باطل ثابت ہوئیں اور خدا تعالیٰ کا فیصلہ غالب آیا۔
یہ وہ فجر تھی جس کا دس تاریک راتوں کے بعد علاج ہؤا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی ہجرت کی اجازت دے دی اور باوجود اس کے کہ کفار آپ کے دروازے پر قتل کے لئے کھڑے تھے آپ نے خدا تعالیٰ کی حفاظت میں مکّہ کو چھوڑا اور مدینہ تشریف لے گئے اور یہ قتل کا منصوبہ آپ کو نقصان پہنچانے کی بجائے آپ کے لئے ایک معجزہ کے ظہور کا موجب ہؤا۔ یہ پہلی خبر تھی جس سے مسلمانوں کے دل خوش ہوئے ورنہ اُن کے دل کفار کے مظالم کو دیکھ دیکھ کر ہر وقت دُکھتے رہتے تھے اور بسااوقات وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض بھی کرتے کہ یا رسول اللہ آپ یہاں سے ہجرت کر کے کہیں اَور تشریف لے جائیں۔ مگر آپ یہی فرماتے کہ جب تک خدا تعالیٰ کا حکم نہ ملے میں اس بارہ میںکچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن کئی اور مسلمان ان راتوں کے مصائب سے تنگ آ کر مکہ چھوڑ کر چلے گئے اور گو اُن کو حبشہ اور مدینہ میں آرام میسّر آ گیا تھا اور کفار کے مظالم سے وہ بچ گئے تھے مگر اُن کے دل ہر وقت دُکھتے رہتے تھے کہ نہ معلوم ہمارا آقا کس حال میں ہو گا اور دشمن آپ سے کیا سلوک کر رہا ہوگا۔ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہجرت کی خبر ان کو پہنچی تو وہ پہلی رات آرام کی نیند سوئے اور اُن کے دل مطمئن ہوئے کہ اب ہمارا آقا دشمن کے حملوں سے محفوظ ہو گیا ہے۔ یہ ہجرت طلوع آفتاب کی ایک شعاع تھی جسے قرآن کریم میں فجر کے لفظ سے بیان کیا گیا تھا اور جو ظاہر کر رہی تھی اب عنقریب کوئی آسمانی تغیّر ہونے والا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ان دس راتوں کی فجر کے بعد شفع اور وتر کا بھی کوئی واقعہ ہؤا ہے یا نہیں۔ اِس غرض کے لئے جب ہم قرآن پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ایک شفع اور وتر کے واقعہ کا بھی اُس میں ذکر پایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مدینہ کے کمزور مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ھُمَا فِی الْغَارِ اِذْیَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَاج فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْھَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی ط وَکَلِمَۃُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا وَاللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (التوبہ ع ۶ ۲ ۱) فرماتا ہے اگر تم ہمارے رسول کی مدد نہ کرو گے تو اس کا نقصان تمہیں خود ہی ہو گا۔ ہمارا رسول تو ہماری حفاظت میں ہے اور ہم خود اُس کی ہر موقع پر نصرت اور تائید کرنے والے ہیں کیا تمہیں اس واقعہ کا علم نہیں جب کافروں نے اُسے مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور جب وہ اکیلا نہیں بلکہ اپنے ساتھ ایک اور شخص کو لے کر مکہ سے نکلا اور غار میں آ کر چھپ گیا اور جب اُس نے دیکھا کہ میرا ساتھی گھبرا رہا ہے اس لئے نہیں کہ اُسے کوئی نقصان نہ پہنچ جائے بلکہ اس لئے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے تو اُس نے تسلّی دی او رکہا
لَا تَحْزَنْ اِنَ اللّٰہَ مَعَنَا
کہ غم مت کر ہم دو نہیں بلکہ ایک وتر بھی موجود ہے۔ وتر کی تشریح بھی خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کر دی ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ اِنَّ اللّٰہَ وَتْرٌ یُحِبُّ الْوَتْرَ۔ خدا تعالیٰ وتر ہے اور وتر کو ہی پسند کرتا ہے پس شفع کون تھا؟ شفع محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت ابو بکرؓ تھے اور وتر کون تھا؟ وتر خدا تعالیٰ تھا جو ان دو کے ساتھ تھا۔
غرض خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی تھی کہ اسلام اور مسلمانوں پر دس تاریک راتیں آئیں گی جن کے گزرنے پر ہم فجر طلوع کریں گے اور پھر اُس فجر کے کے واقعہ کے ساتھ ہی ایک اور معجزہ دکھائیں گے جس کے ساتھ ایک شفع اور ایک وتر کا تعلق ہو گا یہ وہ معجزہ تھا جو غارِ ثور میں ظاہر ہؤا اور جس نے یَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیرُ الْمَاکِرِیْنَ کی صداقت کو آفتاب نـصف النہار کی طرح روشن کر دیا۔ یہ امر بتایا جا چکا ہے کہ کفار نے ایک تدبیر کی تھی کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر لیا جائے قتل کی تدبیر میں تو وہ ناکام ہو چکے تھے مگر جن لوگوں نے قید کا مشورہ دیا تھا وہ ضرور اپنے مشورہ پر عمل کرتے ہوں گے اور کہتے ہوں گے اگر قید کر لیتے تو یہ ناکامی تمہیں نہ دیکھنی پڑتی۔ اللہ تعالیٰ نے کہا بہت اچھا تم قید کر کے بھی دیکھ لو پھر بھی خدا تعالیٰ تمہیں ناکام کرے گا چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت ابوبکر ؓ دونوں جب مکہ میں سے نکلے تو غارثور میں جا کر چھپ گئے۔ کفار کو جب علم ہؤا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کہیں باہر چلے گئے ہیں تو وہ تعاقب کرتے ہوئے غارثور کے منہ پر پہنچ گئے اور وہاں انہوں نے ڈیرہ ڈال دیا۔ کھوجی اُن کے ساتھ تھا اُس نے کہا بس یہیں نشانات پہنچتے ہیں۔ اور اگر یہاں نہیں تو پھر وہ آسمان پر چڑھ گیا ہے۔عرب لوگ کھوجیوں کی بات پر بڑا عتبار کرتے تھے اور وہاں کے کھوجی اپنے فن میں بہت ماہر ہؤا کرتے تھے۔ ہمارے ملک میں بھی ایسے کھوجی ہوتے ہیں جو بعض دفعہ چوری کا سُراغ لگا لیتے ہیں مگر ہمارے کھوجی بہت ادنیٰ ہوتے ہیں۔ عرب کھوجی وہاں کے خاص حالات کے ماتحت بہت اعلیٰ درجہ کی مہارت رکھتے تھے چنانچہ وہ کھوجی جسے مکہ والے ساتھ لے گئے تھے اُس نے صاف صاف کہہ دیا کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسی جگہ معلوم ہوتے ہیں۔ لوگوں نے کہا یہاں چُھپنے کی کون سی جگہ ہے؟ اُ س نے کہا اگر یہاں نہیں ہیں تو پھر آسمان پر چلے گئے ہیں۔ اُس کی یہ بات سُن کر سب ہنسنے لگے اور کہنے لگے کہ ہمارا کھوجی تو آج پاگل ہو گیا ہے کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی چھپنے کی جگہ ہے اس غار کے مُنہ پر درخت کی شاخیں جھکی ہوئی ہیں اور ان پر مکڑی کا جالا بنا ہؤا ہے اگر وہ اندر جاتے تو جالا ٹوٹ جاتا (یہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان تھا جو اس نے دکھایا۔ مکڑی منٹوں میں جالا تن لیتی ہے میں نے خُود اُسے ایک بڑا جالا دو تین منٹ میں بُنتے ہوئے دیکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا سامان کیا کہ مکڑی نے شاخوں پر جالا بن دیا ان لوگوں کا ذہن ادھر نہ گیا یہ جالا تھوڑی دیر میں ہی بنایا جا سکتا ہے۔
غرض کفار تو آپس میں گفتگو کر رہے تھے اورادھر چند گز کے فاصلہ پر ابوبکرؓ غار ثور میں گھبرا رہے تھے اس لئے نہیں کہ اُن کی زندگی کو خطرہ تھا بلکہ اس لئے کہ اُنہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فکر لاحق ہو گیا تھا ورنہ یہ خیال درست نہیں کہ انہیں اس وجہ سے فکر لاحق ہؤا کہ کہیں میں پکڑا نہ جائوں۔ حدیثوں میں ذکر آتا ہے انہوں نے خود اُس وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ! اگر میں مارا گیا تو دنیا میں صرف ایک آدمی مارا جائے گا اس سے زیادہ میری موت کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی لیکن یا رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اگر آپ مارے گئے تو اسلام مارا جائے گاا۔ جب حضرت ابوبکرؓ کی یہ گھبراہٹ پیدا ہوئی تو اس وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا
لَا تَحْزَنْ اِنَ اللّٰہَ مَعَنَا
غم مت کر خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صرف یہ نہیں فرمایا کہ اِنَّ اللّٰہَ مَعِی۔ آپ نے یہ بھی نہیں کیا کہ صرف اتنا کہہ دیتے کہ لَا تَحْزَنْ فکر کی کوئی بات نہیں بلکہ آپ نے ابوبکرؓ کو اپنے ساتھ شامل کیا اور فرمایا خدا تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔ پس ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے سورۂ فجر کے اِسی شفع اور وتر والے واقعہ کی طرف اشارہ کر دیا اور بتا دیا کہ وہ جو ہم نے خبر دی تھی کہ کوئی دو ہوں گے اور تیسرا وتر اُن کے ساتھ ہو گا وہ وعدہ ہم نے اُس وقت پورا کر دیا تھا اِذْھُمَا فِی الْغَارِ اِذ َیَقُوْلُ بِصَاحِبِہٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا جب وہ دونوں غار میں چھپے بیٹھے تھے اور جب ہمارا رسول اپنے ساتھی سے یہ کہہ رہا تھا کہ غم مت کر۔ ہم صرف دو نہیں بلکہ ایک خداجو وتر ہے ہمارے ساتھ ہے ورنہ ثَانِیَ اثْنَیْنِ کہنے کی اپنی ذات میں کوئی ضرورت نہیں تھی اس کے بغیر بھی یہ مضمون بیان ہو سکتا تھا کہ اگر تم مدد نہ کرو گے تو ہم اس کی مدد کریں گے۔ چنانچہ دیکھو غارثور میں ہم نے اس کی مدد کی یا نہیں ۔ مضمون کو بیان کرنے کے لئے صرف اسی قدر ذکر کافی تھا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْھُمَا فِی الْغَارِ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ الفاظ اس لئے استعمال فرمائے تا دنیا کو یہ بتائے کہ ہم نے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کہہ کر سورۂ فجر میں جو پیشگوئی کی تھی کہ طلوع فجر بعد یعنی مکہ سے ہجرت کرنے کے بعد ایک شفع اور وتر کا واقعہ ظاہر ہو گا وہ پیشگوئی ہماری پوری ہو چکی ہے فَاَنْزَلَ اللّٰہُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْہِ۔ جب وہ دو سے تین ہو گئے اور ابوبکرؓ کو پتہ لگا کہ ہم صرف دو نہیں بلکہ ایک تیسرا وتر بھی ہمارے ساتھ ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دل پر سکینت نازل کی۔ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَمْ تَرَوْھَا۔ بادشاہ اکیلا نہیں ہوتا بلکہ لشکر اُس کے ساتھ ہوتا ہے۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی عالم روحانی کے بادشاہ تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے وہ لشکر بھیجے جن کو دنیا کے لوگ نہیں دیکھ سکتے تھے۔ وَجَعْلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی۔ کفا ر نے کہا تھا کہ اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر لیا جاتا۔ اگر اس کو محبوس ومحصور کر لیا جاتا تویہ ناکامی نہ دیکھنی پڑتی۔ مگر خدا تعالیٰ نے اس تدبیر میں بھی اُن کو ناکام کیا۔ باوجود اس کے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غارثور میں بند تھے کفار وہاں پہنچ چکے تھے پھر بھی کفار کا کلمہ ہی ذلیل ہؤا۔ اُن کو ہی ناکام ونامراد واپس لوٹنا پڑا اور محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلمہ اونچا ہؤا۔ دیکھو یہ کتنا بڑا معجزہ ہے جو خدا تعالیٰ نے ظاہر کیا اور کتنا عظیم الشان نشان ہے جو اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ کفار نے تو یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر کے اُن کی آواز کو دبا دیں گے اُن کے کلمہ کو نیچے کر دیں گے مگر خدا تعالیٰ نے اِس قید کے نتیجہ میں اُن کی آواز کو اَور بھی اونچا کر دیا۔ وہ قید کر کے آپ کی آواز کو بند کرنا چاہتے تھے خدا تعالیٰ نے قید میں ڈال کر آپ کی آواز کو اور بھی بلند کر دیا اور اِس قید کے واقعہ میں ایک ایسا معجزہ دکھایا جو قتل کے منصوبے کو ناکام کرنے والے معجزہ کی طرح ہمیشہ کے لئے اسلام کی صداقت اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعویٰ کے ثبوت میں پیش ہوتا رہا ہے اور ہوتا رہے گا۔ اور غارثور کی قید محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذلّت کا موجب نہیں بلکہ ہمیشہ آپ کے کلمہ کے اعلاء کا موجب ہوتی رہے گی۔
دو تدبیروں میں تو کفار کو ناکامی ہو چکی تھی لیکن ابھی ایک تدبیر باقی تھی وہ لوگ جنہوں نے یہی مشورہ دیا تھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مکّہ سے باہر نکال دیا جائے کہہ سکتے تھے کہ ہمارے مشورے پر عمل نہ کیا گیا ورنہ اسلام کا خاتمہ ہو جاتا۔ خداتعالیٰ نے نہ چاہا کہ یہ حسرت بھی اُن کے دلوں میں باقی رہ جائے وہ آپ کو صحیح سلامت مکہ سے مدینہ لے گیا اور اس طرح اُس تیسرے گروہ کی بات بھی پوری ہو گئی کہ صحیح علاج یہ ہے کہ انہیں جلاوطن کر دیا جائے۔ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ پہنچے تو کفار نے اردگرد کے قبائل کو اکسانا اور بھڑکانا شروع کر دیا۔ کبھی خود چھاپے مارتے اور اس طرح مسلمانوں کو دق کرتے رہتے گویا ابھی ایک لیلؔ مسلمانوں کے لئے باقی تھی۔ مدینہ میں مسلمانوں کویہ تسلی ہو گئی تھی کہ ہمارا رسول محفوظ ہو گیا ہے لیکن ابھی کفار کے مظالم بند نہ ہوئے تھے بلکہ نئے سرے سے انہوں نے عرب قبائل کو اسلام اور مسلمانوںکے خلاف بھڑکانا شروع کر دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ گو دس راتوں کے گزرنے کے بعد روشنی کی ایک شعاع ظاہر ہو گئی ہے۔ ہجرت ہو چکی ہے اور شفع اور وتر کا واقعہ بھی رونما ہو چکا ہے مگر ایک رات باقی ہے۔ مشکلات کا ایک سال ابھی رہتا ہے اِ س ایک سال کے گذرنے کے بعد مسلمانوں کے لئے دوسری فجر چڑھا دی جائے گی۔ چنانچہ اس کا ذکر قرآن کریم میں یُوں آتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَمَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَومَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ ط وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo اِذْ اَنْتُمْ بِلْ عُدْوَۃِ الدُّنْیَا وَھُمْ بِالْعُدْوَۃِ الْقُصْوٰی وَالرَّکْبُ اَسْفَلَ مِنْکُمْ ط وَلَوْتَوَا عَدْتُّمْ لَاکْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیْعَادِ لا وَلٰکِنْ لِّیَقْضِیَ اللّٰہُ اَمْرًا کَانَ مَفْعُوْلًاoلا لِّیَھْلِکَ مَنْ ھَلَکَ عَنْ م بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰ مَنْ حَیَّ عَنْ م بَیِّنَۃٍ وَّیَحْیٰ مَنْ حَیَّ عَنْ م بَیِّنَۃٍ ط وَاِنَّ اللّٰہَ لَسَمِیْعٌ عَلِیْمٌoلا اِذْ یُرِیْکَھُمُ اللّٰہُ فِیْ مَنَامِکَ قَلِیْلًا ط وَلَوْاَرٰکَھُمْ کَثِیْرًا لَّغِشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاَمْرِ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ سَلَّمَ ط اِنَّہٗ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِo وَاِذْ یُرِیْکُمُوْھُمْ اِذِ الْتَقَیْتُمْ فِیْٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلًا کَانَ مَفْعُوْلَا ط وَاِلَی اللّٰہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُo (الانفال ع ۵ ۱) اِن آیات قرآنیہ میں جنگِ بدر کا تفصیل کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے اُسے فرقان قرار دیا ہے اور بتایا ہے کہ اس جنگ کے ذریعہ ہم نے مسلمانوں کی مشکلات کا خاتمہ کر دیا۔ اُن کی آخری رات کو بھی جو اُن پر چھائی ہوئی تھی دُور کر دیا اور اُن کے لئے روشن صبح کا طلوع ہو گیا۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ میں رات کے جانے کی خبر دی گئی تھی جس کے معنے یہ تھے کہ اس کے ایک رات گزرنے پر فجر ظاہر ہو جائے گی۔ اُدھر اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر کا فرقان نام رکھا ہے اور فرقان کے متعلق لغت میں لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں اَلصُّبْحُ۔ اَلسِّحْرُ (اقرب) پس وہ فتح کا دن جس کا وعدہ سورۂ فجر کی آیت وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ میں کیا گیا تھا کہ طلوعِ فجر کے بعد بھی ایک گیارہویں رات ابھی باقی رہ جائے گی جو آخر دور کر دی جائے گی آخر کار اللہ تعالیٰ کو اُس نے ہمیشہ کے لئے توڑ کر رکھ دیا۔ اب کفار میں سے کوئی شخص یہ کہنے کی طاقت نہیں رکھتا کہ اگر میرے مشورہ پر عمل کیا جاتا تو فائد ہ رہتا کیونکہ وہ تینوں تدابیر جو اسلام کو کچلنے کے لئے کی گئی تھیں اسلام اور مسلمانوں کی ترقی کا باعث بن گئیں۔
یہ ایک عجیب فجر تھی جو مسلمانوں کے لئے ظاہر ہوئی پہلی فجر تو وہ تھی جو دس راتوں کے بعد ظاہر ہوئی اور جس میں نور کی ایک شعاع مسلمانوں کو نظر آنے لگ گئی تھی مگر ابھی فجر کی صرف ایک لَوپیدا ہو ئی تھی کیونکہ ایک رات ابھی باقی تھی۔ جب وہ رات بھی گذر گئی اور گیارہ راتیں آ چکیں تو اللہ تعالیٰ نے یوم الفرقان ظاہر کر دیا جس میں عرب کی طاقت کو بالکل کچل دیا گیا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں پر اس کے بعد بھی مظالم ہوتے رہے اور انہیں کفار سے کئی لڑائیاں لڑنی پڑیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جنگ بدر نے کفار کی طاقت کو توڑ دیا تھا اور مسلمانوں کی شوکت اُن پر ظاہر ہو گئی تھی۔
جنگ بدر جسے قرآن کریم نے فرقان قرار دیا ہے اس کے متعلق بائبل میں بھی ایک پیشگوئی پائی جاتی ہے چنانچہ یعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۷ میں لکھا ہے ’’عرب کی بابت الہامی کلام۔ عرب کے صحرامیں تم رات کو کاٹو گے‘ اے دوانیوں کے قافلو‘ پانی لے کے پیاسے کا استقبال کرنے آئو‘ اے تیما کی سرزمین کے باشندو‘ روٹی لے کر بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو کیونکہ وَے تلواروں کے سامنے سے‘ ننگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدّت سے بھاگے ہیں کیونکہ خدا وند نے سمجھ کر یوں فرمایا۔ ہنوز ایک برس ہاں مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیر اندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا۔‘‘
یعیاہ نبی کے اس کلام میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ ہجرت کے زمانے پر ٹھیک ایک سال گزرنے کے بعد عرب میں ایک ایسی جنگ ہو گی جس میںقیدار کی ساری حشمت خاک میں مل جائے گی اور وہ جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر بھاگ جانے کا الزام لگاتے تھے اپنے لائو لشکر کی موجودگی میں پیٹھ دکھائیں گے اور وہ بھی ایسی حالت میں کہ کمانڈر اور اُن کے جرنیلوں کی لاشیں میدان جنگ میں پڑی رہ جائیں گی۔ اور آخر وادیٔ مکّہ اپنے جرنیلوں کو کھو کر اپنی اس شوکت کو بالکل کھو بیٹھے گی جو اس سے پہلے حاصل تھی۔ اِسی طرح قرآن کریم نے ایک گیارھویں رات کی خبر دے کر یہ پیشگوئی کی تھی کہ ہجرت کے پورے ایک سال کے بعد کفار کی ساری طاقت ٹوٹ جائے گی اور مسلمانوں کے لئے فتح اور کامرانی کی صبح ظاہر ہو جائے گی۔ چنانچہ عین ایک سال کے بعد جنگ بدر ہوئی جس میں کفار کے بڑے بڑے لیڈر مارے گئے اور مسلمانوں کو اُن پر نمایاں غلبہ حاصل ہؤا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکّہ سے ہجرت کے لئے دعویٰ نبوت کے تیرھویں سال ربیع الاول کے مہینہ میں نکلے تھے قاعدہ یہ ہے کہ سال بقیہ حصہ اُسی سال میں شمار ہوتا ہے نئے سال میں شمار نہیں ہوتا اس لحاظ سے بقیہ چھ ماہ تیرہ سالہ مدّت میں ہی شامل کرنے پڑیں گے ۔ ورنہ دراصل مکہ میں مسلمانوں پر منظم حملوں کا عرصہ ساڑھے نو سال بنتا ہے۔ دسویں سال ربیع الاول میں آپ ہجرت کے لئے چل پڑے تھے مگر عام معروف قاعدہ کے مطابقیہ نصف سال ہی مکّی زندگی کے تیرہ سالہ دَور میں شمار ہو گا اور نئے سال کا رمضان سے آغازسمجھا جائے گا۔ کیونکہ رمضان سے ہی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رسالت کا شروع ہو جاتا ہے۔
اب دیکھو لو مدینہ میں آنے کے بعد پہلے رمضان تک اس پیشگوئی پر دس سال کا آغاز ہؤا تھا۔ ایک سال گزرنے پر دوسرے سال ۱۷رمضان کو بدر کی جنگ ہوئی جس میں بڑے بڑے کفار مارے گئے اور اُن کے ظالمانہ حملوں کا خاتمہ ہو گیا وہ گیارہویں لَیْل جو مسلمانوں پر آئی ہوئی تھی ٹھیک ایک سال گزرنے کے بعد دور ہو گئی۔ اور مسلمانوں نے فتح و کامرانی کی صبح کو اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی تائید اور نصرت کے ساتھ دیکھ لیا۔
یہ ہے وہ مفہوم جو اِن آیات قرآنیہ کا اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا اور جس کا ایک ایک ٹکڑا اسلامی تاریخ اور قرآنی حوالوں سے ثابت ہے کوئی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ مسلمانوں پر دس تاریک راتیں آئیں اور پھر اُن تاریک راتوں کے گذرنے پر ہجرت کی صورت میں فجر کی ایک شعاع ظاہر ہوئی اس کے بعد شفع اور وتر کا واقعہ ہؤا اور آخر میں پھر ایک گیارہوں رات آئی جو اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق پورے ایک سال کے بعد گذر گئی اور قیدار کی ساری حشمت خاک میں ملا دی گئی اِس کے بعد بے شک جنگیں ہوئی ہیں مگر جنگِ بدرکے بعد کفار کا رعب بالکل مٹ گیا تھا اور اب وہ مسلمانوں کو ترنوالہ نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس حقیقت کابر ملا اظہار کرتے تھے کہ مسلمانوں کا مقابلہ کرنا آسان بات نہیں۔
پس اس پیشگوئی میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کے آئندہ حالات بیان کئے گئے ہیں اور وہ سارے واقعات جن کا اس جگہ پر ذکر ہے قرآن کریم میں نام لے کر بیان کر دئے گئے ہیں بلکہ آخری تین حصّے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ تو اکٹھے ایک ہی جگہ وَاِذْیَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَفْتُلُوْکَ اَوْیُخْرِجُوْکَ میں بیان کر دی گئی ہیں۔
میں اوپر بیان کر چکا ہوں کہ ترتیب تین قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ ترتیب ہوتی ہے جس میں مضمون نیچے سے اوپر کو جاتا ہے۔ دوسری ترتیب وہ ہوتی جس میں مضمون اوپر سے نیچے کی طرف آتا ہے اور تیسری ترتیب مثلّث کی سی ہوتی ہے کہ چوٹی کی بات کو درمیان میں بیان کر دیا جاتا ہے اور اس سے چھوٹی باتوں کو دائیں بائیں رکھ دیا جاتا ہے۔ میں نے بتایا تھا کہ لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ میں یہی مثلّث کی ترتیب پائی جاتی ہے کہ قتل جو سب سے اہم چیز تھی اُس کا اللہ تعالیٰ نے درمیان میں ذکر کر دیا اور اثبات اور اخراج جو اس سے ادنیٰ درجہ کی چیزیں تھیں اُن کو دائیں بائیں بیان کر دیا لیکن اس کے علاوہ مندرجہ بالا آیت میں ایک اور ترتیب بھی ہے جو سیدھی چلی جاتی ہے اور وہ یہ کہ اس جگہ کفار کے مشوروں کے لحاظ سے اثبات، قتل اور اخراج کا ذکر نہیں یعنی یہ مطلب نہیں کہ انہوں نے پہلے قید کا مشورہ کیا ہو پھر قتل کا اور سب سے آخر کا کیونکہ ان کا آخری فیصلہ قتل پر ہؤا تھا نہ کہ اخراج پر۔ بلکہ ان امور کا ذکر وقوعہ کی ترتیب کے لحاظ سے ہؤا ہے۔ مثلًا سب سے پہلے کفار رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مکان پر گئے اور انہوں نے رات کے وقت اُس کے اردگرد گھیرا ڈال لیا اور اپنے نقطۂ نگاہ سے انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قید کر لیا۔ اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے اثبات یعنی قید کا ذکر پہلے فرمایا ہے اِس کے بعد جب آپ ہجرت کے ارادہ سے اپنے مکان میں سے نکلے اور اُن کے پاس سے گزرے تو اُن کے لئے موقع تھا کہ وہ آپ کو قتل کر دیتے کیونکہ وہ اِسی نیت اور ارادہ کے ماتحت اکٹھے ہوئے تھے پس واقعات کے لحاظ سے چونکہ دوسرا نمبر قتل کے امکان کا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اثبات کے بعد قتل کا ذکر کر دیا اور بتایا کہ باوجود قتل کا ارادہ رکھنے کے وہ ناکام رہے اور آپ کے قتل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے بعد اخراج کا واقعہ ہؤا اور گو یہ اُن کے مظالم کی وجہ سے ہی ہؤا مگر جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ بیان فرمایا ہے کہ کَمَآ اَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ م بَیْتِکَ بِالْحَقِّ (الانفال ع ۱ ۵ ۱) یعنی آپ کو نکالنے والا دراصل خدا تعالیٰ تھا۔ اس لئے اگر آپ اُس وقت نہ نکلتے تو دوسرے وقت آپ کی جان محفوظ نہ ہوتی۔ آپ گئے اور غارِ ثور میں پناہ گزیں ہو گئے اُس وقت جب کفار تعاقب کرتے ہوئے غارثور تک پہنچے تو اُن کا ارادہ یہی تھا کہ آپ کو ڈھونڈ کر نکالا جائے مگر آپ وہیں سے بھی بچ کر نکل گئے اور اس طرح اثبات، قتل اور اخراج تینوں تدابیر میں اُن کو ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ یہ دوسرے معنے دوسرے درجہ پر ہیں ورنہ مَیں ترجیح پہلے معنوں کو ہی دیتا ہوں۔
اب پیشتر اس کے مَیں اس پیشگوئی کے دوسرے ظہور کو بیان کروں ایک سوال کا جواب دے دیتا ہوں جو بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتا ہے اور یہ کہ یہ معنے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں ہی صحابہؓ پر کیوں نہ کھل گئے تاکہ اس زمانہ کے کفار پر حجت تمام ہو جاتی؟
اس سوال کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ جہاں تک حجت کا سوال ہے آج بھی ان معنوں کو پیش کر کے منکرین اسلام پر حجت تمام کی جا سکتی ہے اور انہیں اسلام اور قرآن کی صداقت کا قائل کیا جا سکتا ہے۔ قرآن کسی ایک زمانہ کے لئے نہیں بلکہ ہر زمانہ کے لئے ہے۔ آج دنیا میں جو لوگ اسلام کے مخالف پائے جاتے ہیں جو پیشگوئیوں کے قائل نہیں۔ جو اسلام کو چھوٹا مذہب تصور کرتے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا انکار کرتے ہیں اُن کے سامنے بھی اگر ان پیشگوئیوں کو رکھا جائے تو یقینا یہ پیشگوئیاں اُن پر حجت ہوں گی اور اگر وہ انصاف اور دیانتداری سے کام لیں گے انہیں اسلام کی صداقت کا قائل ہونا پڑے گا۔ باقی رہا یہ سوال کہ یہ معنے پہلے کیوں نہ کھلے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہر زمانہ کے لحاظ سے مختلف قسم کے ہتھیار کام آیا کرتے ہیں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ جو ہتھیار اس زمانہ میں کام آ رہا ہو اُس کے متعلق یہ اصُول قرار دے دیا جائے کہ وہ پہلے زمانہ میں بھی ہونا چاہئیے تھا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں آپ کی کامیابی اپنی ذات میں اتنا بڑا نشان تھا کہ صحابہؓ کسی اور طرف توجہ ہی نہیں ہوتی تھی چنانچہ تاریخی شواہد اس بارہ میں موجو د ہیں۔ جب مکّہ فتح ہؤا تو ہندؔ (زوجہ ابوسفیان)کے خلاف سزا کا اعلان تھا۔ لیکن وہ چوری چھپے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں آئی اور آپ کی بیعت میں شامل ہو گئی۔ وہ چادر راوڑھ کر اور دوسری عورتوں میں شامل ہو کر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت کے لئے آ گئی تھی بیعت لیتے لیتے جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ کہو کہ ہم شرک نہیں کریں گی تو ہندؔ (زوجہ ابوسفیان) اس کو برداشت نہ کر سکی اُس کی طبیعت تیز تھی وہ فوراً بول اٹھی کہ یا رسول اللہ کیا ہم اب بھی شرک کریں گی۔ آپ اکیلے تھے اور ہم سب کے سب اکٹھے آپ کے مقابلہ میں کھڑے تھے اگر ان بُتوں میں کوئی بھی طاقت ہوتی تو کیا یہ ممکن تھا کہ باوجود اس کے کہ ساری قوم ہمارے ساتھ تھی پھر بھی ہمیں ذلیل ہونا پڑتا اور آپ سب کے مقابلہ میں کامیاب ہو جاتے۔ آپ کی اس کامیابی کو دیکھنے کے بعد اب کوئی شخص شرک کر ہی کس طرح سکتا ہے کہ آپ یہ اقرار لے رہے ہیں کہ ہم شرک نہیں کریںگی۔ تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے غلبہ اور آپ کی کامیابی کا اُس وقت اتنا اثر تھا کہ دوسری باتوں کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں ہوتی تھی۔ قرآن کریم تو ہر زمانہ کے لئے ہے اور یہ لازمی بات ہے کہ جب وہ ہر زمانہ کے لئے ہے تو ہر زمانہ میں اُس سے نئے سے نئے معارف نکلتے آئیں گے۔ یہی موٹی بات لے لو کہ شَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ (الاحقاف ع ۱ ۱)کے ماتحت بعد کے مفسرین تورات کی اُن پیشگوئیوں کو بیان کرتے ہیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق اُس میں موجود تھیں مگر خود صحابہؓ کا خیال ہی اس طرف نہیں گیا۔ وہ سمجھتے تھے ہمیں گزشتہ پیشگوئیوں کی ضرورت نہیں ہمارے لئے یہی دلیل آپ کی سچائی کی کافی ہے کہ آپ اکیلے اُٹھے، بے سروسامانی کی حالت میں اُٹھے، مخالف حالات میں اٹھے اور پھر ساری دنیا پر غالب آ گئے۔ لیکن جوں جوں زمانہ گزرتا گیا وہ نشان جو پہلے لوگوں کے دلوںمیں تلاش کیا جائے چنانچہ نئے نشانات کو قرآن کریم میں تلاش کیا جائے چنانچہ نئے نشانات کو قرآن کریم میںتلاش کیا جائے چنانچہ نئے نشانات تلاش کئے گئے اور پھر اُن پر زیادہ زور دیا جاتا رہا۔
پس بات یہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کو اس قسم کے دلائل کی ضرورت ہی نہیں تھی گو قرآن کریم میں اِن کا ذکر موجود تھا لیکن چونکہ ہمیں اس باگ کی ضرورت تھی کہ ہم اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے قرآن کریم میں سے نشانات تلاش کریں۔ اِس لئے جب ہم نے اِس نقطۂ نگاہ سے قرآن کریم پر غور کیا تو ہم پر نئے مطالب کھل گئے گویا پہلے لوگوں کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا ایک بیّن اور ظاہر اور واضح نشان یہ تھا کہ لوگوں نے آپ کو مارنا چاہا مگر مار نہ سکے، انہوں نے کچلنا چاہا مگر کچل نہ سکے، انہوں نے آپ کو مغلوب کرنا چاہا مگر آپ غالب آ گئے۔ اس عظیم الشان نشان کے بعد انہیں آپ کی صداقت کے متعلق کسی مزید دلیل کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح اسلام کی تعلیم یہودیت، مسیحیت،مجوسیت وغیرہ کے مقابلہ میں اتنی واضح اور اتنی شاندار تھی کہ وہ علیٰ وجہ البصیرت اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جس قسم کے انصاف اور عدل اور محبت اور بدیوں سے بچنے کے احکام اسلام میں پائے جاتے ہیں اور کسی مذہب میں نہیں پائے جاتے اس لئے ضرورت ہی نہیں سمجھتے تھے کہ اَور باتوں کی طرف توجہ کریں یا اسلام کی صداقت کے متعلق گزشتہ مذاہب کی پیشگوئیوں کو تلاش کریں۔ مفسرین نے یہ پیشگوئیاں لکھی ہیں مگر اُسی وقت جب اسلام عیسائی ممالک میں پہنچا چونکہ اُس وقت وہ دلائل جو مشرکین کے لئے بیان کئے جاتے تھے عیسائیوں کے لئے کافی نہیں تھے اس لئے انہوں نے کتبِ صادقہ سے پیشگوئیاں تلاش کرنی شروع کر دیں۔ اسی طرح قرآن کریم پر غور کر کے انہوں نے نئے نئے دلائل پیدا کئے چنانچہ بعد کی تفسیروںمیں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ اسی ضرورت کے ماتحت ہؤا ہے۔ بے شک کان موجود تھی مگر پہلے جس چیز کی ضرورت نہیں تھی وہ حکمت الٰہی کے ماتحت پوشیدہ رہی اور اُس وقت ظاہر ہوئی جب زمانہ کو اس کی ضرورت تھی۔
علوم کی ترقی میں ہمیشہ ایک قدم کے بعد دوسرا قدم اُٹھتا ہے اور وہ دوسروں قدم ہمیشہ آگے کی طرف اٹھتا ہے۔ پیچھے کی طرف نہیں جاتا۔ ایک ماں بچے کو اٹھا کر دس میل چلتی ہے لیکن باجود اس کے کہ ماں طاقتور ہوتی ہے اور بچہ کمزور، ماں کے پائوں میں چلتے چلتے چھالے پڑ جاتے ہیں پھر بھی اگر دس میل کے بعد بچہ دو قدم بھی چلے گا تو آگے ہی جائے گا پیچھے نہیں جائے گا۔ لیکن ہم یہ نہیں سکتے کہ وہ ماں سے بڑھ گیا۔ اسی طرح بعض دفعہ کم علم والاپہلوں سے زیادہ دلائل اخذ کر لیتا ہے کیونکہ علم ہمیشہ بڑھتا ہے اور قرآن کریم میں سے نئے سے نئے معارف ہر زمانہ کی ضرورت کے مطابق نکلتے رہتے ہیں۔ پس یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پر یہ معنے کیوں کُھلے۔
یہ سوال بھی بعض لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو سکتا ہے کہ وَلَیَالٍ عَشْرٍ کی بجائے وَاللَّیَالٍ عَشْرٍ کہنا چاہئیے تھا اسے نکرہ کیوں بیان کیا ہے۔ اس کا جواب انہوں نے یہ دیا ہے کہ جو بالکل درست ہے کہ خدا تعالیٰ نے اسے نکرہ کے طورپر اس لئے بیان کیا ہے تاکہ اُن لیالیؔ کی عظمت کی طرف اشارہ کیا جائے۔ عربی زبان میں تنوین کئی اغراض کے لئے آتی ہے۔ بعض دفعہ تنوین تنکیر کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور بعض دفعہ کسی چیز کی عظمت بیان کرنے کے لئے۔ عظمت سے یہ مراد نہیں کہ وہ چیز ضرور اچھی ہو بلکہ اچھی یا بُری چیز جس شق میں بھی کوئی چیز بڑی ہو اُس کے لئے تنوین آ جائے گی۔ مثلًا ظلم بڑا ہو یا انعام بڑا ہو تو دونوں کا تنوین سے ذکر کیا جائے گا۔ انہوں نے رمضان یا ذی الحجہ کی راتیں اس سے مرادس لی ہیں لیکن جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں اس سے یہ مراد نہیں بلکہ اس سے ظلم وہ دس مکّی مراد ہیں کیونکہ وہ بڑی عظمت اور شان رکھنے والی ہیں لیکن جیسا کہ میں ثابت کر چکا ہوں اس سے یہ مراد نہیں بلکہ اس سے ظلم کے وہ دس مکّی سال مراد ہیں جن کا احادیث سے پتہ لگتا ہے اور تاریخ بھی گواہ ہے ان دس سالوں میں مسلمانوں پر بڑے بڑے مظالم کئے گئے اور اُنہیں طرح طرح کے دُکھ دئے گئے یہاں تک کہ دو دفعہ صحابہؓ حبشہ کی طرف ہجرت کر کے گئے اور ایک دفعہ انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔ گویا علاقوں کے لحاظ سے دو اور تعداد کے لحاظ سے تین ہجرتیں اُنہیں کرنی پڑیں۔ پس چونکہ مظالم ہونے والے تھے اس لئے اُن کا نکرہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے یہ بتانے کے لئے کہ ان میں انتہا درجہ کا ظلم ہو گا۔
موجُودہؔ زمانہ کے متعلق پیشگوئی
میں نے بتایا تھا کہ گزشتہ سورتوں میں اکٹھی پیشگوئیاں چل رہی ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثتِ اولیٰ کے متعلق بھی اور بعثتِ ثانیہ کے متعلق بھی۔ سورۃ الفجر بھی اس سلسلہ کی اہم کڑی ہے اور جس طرح سورۂ غاشیہ اور بعض دوسری سورتوں میں اکٹھے حالات بیان کئے گئے ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثتِ اولیٰ کے بھی اور آپ کی بعثتِ ثانیہ کے بھی ۔ اسی طرح اس سورۃ میں دونوں زمانوں کے حالات اکٹھے بیان کر دئے گئے ہیں۔ پس یہ پیشگوئی صرف ایک زمانہ کے متعلق نہیں بلکہ دو زمانوں کے متعلق ہے اور اس زمانہ کا پتہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اخبار سے بھی ملتا ہے اور قرآن کریم کی آیت الٓمٓرٰ قف تِلْکَ اٰیَاتُ الْکِتٰبِ ط وَالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ الْحَقُّ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَایُؤْمِنُوْنَ (رعد ع ۱ ۷) میں بھی اس کے متعلق اشارہ پایا جاتا ہے۔
ابن اسحاق نے اور بخاری نے اپنی تاریخ میں نیز ابن جریر نے ابن عباس سے اور انہوں نے جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک دفعہ سورۂ بقرہ کی ابتدائی آیات تلاوت کر رہے تھے کہ ایک یہودی ابو یاسر اپنے ساتھیوں سمیت آپ کے پاس سے گزرا اور اُس نے سورۂ بقرہ کی ان آیا ت کو سُنا۔ وہ یہود کے علماء میں سے تھا ان آیات کو سنتے ہی وہ سیدھا گھر کی طرف روانہ ہؤا تا کہ وہ اپنے بھائی حُییی بن اخطب کو یہ واقعہ بتائے۔ تب اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ یہ یہ آیتیں مَیں نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنی ہیں اُس نے کہا کہ کیا تم نے خود اپنے کانوں سے سُنی ہیں یا کسی اور شخص سے؟ وہ کہنے لگا میں نے اپنے کانوں سے یہ آیتیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پڑھتے سُنا ہے۔ اُس نے کہا اچھا تم ابھی میرے ساتھ چلو۔ چنانچہ وہ سب کے سب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں آئے اور حُییی نے عرض کیا کہ میرا بھائی کہتا ہے کہ یہ آیتیں آپ کو الہام ہوئی ہیں مَیں یہ دریافت کرنے آیا ہوں کہ کیا یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آیتیں نازل کی ہیں؟ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہاں یہ آیتیں مجھ پر اللہ تعالیٰ نے نازل کی ہیں۔ انہوں نے کہا اگر یہ بات ہے تو پھر میرا معاملہ آسان ہو گیا آپ کا کلام ہے الٓمٓ۔سو ابجد کے لحاظ سے
الف کا ایک
لام کے ۳۰
میم کے ۴۰
کل ۷۱ سال بنے بالفرض اگر آپ کو غلبہ بھی ہؤا تو صرف ۷۱ سال رہے گا۔ اس عرصہ میں اگر ہمیں آپ کی غلامی کرنی پڑی تو معمولی بات ہے ۷۱ سال تک ہم تکلیفیں برداشت کر لیں گے اس کے بعد آپ کا غلب نہیں رہ سکتا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مجھے ایک اور الہام بھی ہؤا ہے۔ انہوں نے کہا۔ کیا؟ آپ نے فرمایا الٓمٓصٓ وہ کہنے لگے پھر بھی کیا ہؤا۔
الف کا ایک
لام کے ۳۰
میم کے ۴۰
ص کے ۴۰
کل ۱۶۱ سال بنے یہ بھی کوئی بڑی مدت نہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا مجھے الٓرٰ بھی الہام ہؤا ہے۔ یہ سن کر وہ پھر حساب لگانے لگے اور کہا کہ
الف کا ایک
لام کے ۳۰
ر کے ۲۰۰
کل ۲۳۱ سال بنے یہ بھی کوئی زیادہ معیاد نہیں ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا مجھے الٓمٓرٰ بھی الہام ہؤا ہے یہ سُن کر وہ اپنے ساتھیوں سے کہنے لگے کہ چلو یہ معاملہ تو کچھ مشتبہ ہو گیا ہے(فتح البیان مصری صفحہ ۲۴)
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کی تردید نہیں کی بلکہ ان کی باتوں کی تصدیق کرتے چلے گئے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف مقطعات میں علاوہ دوسری باتوں کے ایک یہ بات بھی پائی جاتی ہے کہ اُن میں ایسے واقعات کا بطور پیشگوئی ذکر ہے جو اسلام کو پیش آنے والے تھے خواہ وہ اچھے یا بُرے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں سورۂ رعد جو نہایت خطرناک خبروں پر مشتمل ہے اُس کی ابتداء الٓمٓرٰ سے کی گئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی ترقی کا زمانہ ۲۷۱ سال تک جانے والا تھا اور ۲۷۱ھ سے اسلام میں کوئی خاص تنزّل واقعہ ہونے والا تھا کیونکہ الٓمٓرٰ کے اعداد ابجد کے لحاظ سے ۲۷۱ ہیں
الف کا ایک
لام کے ۳۰
م کے ۴۰
ر کے ۲۰۰
چنانچہ میں نے جب اس حدیث کو دیکھا اور سورۂ رعد پر بھی غور کیا تو میں نے یہ تحقیق شروع کی کہ آیا ۲۷۱ھ میں یا اس کے قریب قریب کوئی خاص اور اہم واقعہ جس کا تعلق اسلامی تنزّل کے ساتھ ہو رونما ہؤا ہے یا نہیں کیونکہ بعض دفعہ کوئی واقعہ رونما تو کسی سال ہوتا ہے مگر اس کی بنیاد ایک ایک دو دو سال پہلے پڑنی شروع ہو جاتی ہے اس لحاظ سے میں نے غور کیا ہے کہ آیا۲۷۰ھ سے ۲۸۰ھ تک کوئی واقعہ ایسا ہؤا ہے یا نہیں جسے اسلامی تنزل کی بنیاد قرار دیا جا سکے۔ جب میں نے غور کیا اور اسلامی تاریخ کو دیکھا تو میری حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب ۲۷۰ھ یا ۲۷۲ھ یا ۲۷۴ھ میں نہیں بلکہ عین ۲۷۱ھ میں سپین کے بادشاہ نے پوپ سے معاہدہ کیا کہ وہ بغدادی حکومت کو تباہ کرنے کے لئے ساتھ دے گا۔ گویا ایک مسلمان بادشاہ نے ایک عیسائی بادشاہ سے معاہدہ کیا کہ وُہ اُس کے ساتھ مل کر اسلامی بادشاہ کا مقابلہ کرے گا اور اس کی حکومت کو تباہ کرے گا۔ اس کے بغداد رہ گیا تھا میں نے اس کی تاریخ کا مطالعہ کیا تو معلوم ہؤا کہ ۲۷۲ھ یا۲۷۳ھ میں بغداد کی حکومت نے قیصر روم سے معاہدہ کیا کہ وہ اس کے ساتھ مل کر سپین کی حکومت کو تباہ کرے گا۔
یہ دو واقعات ایسے خطرناک ہوئے جنہوں نے اسلام کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے کمزور کر دیا اور اسلام ترقی کا دَور اپنی شان اور عظمت کو کھو بیٹھا۔ اس سے پہلے مسلمان کے اتحاد کی یہ حالت تھی کہ قیصر روم نے جب حضرت علیؓ اور معاویہ کو آپس میں جنگ کرتے دیکھا تو اُس نے ارادہ کیا کہ میں مسلمانوں پر حملہ کر دوں۔ چونکہ رستہ میں معاویہ کی حکومت تھی اور بعد میں حضرت علیؓ کی حکومت آتی تھی۔ اس لئے جب حضرت معاویہؓ نے یہ بات سُنی تو انہوں نے قیصر روم کو کہلا بھیجا کہ ہماری آپس کی لڑائی سے تمہیں کسی غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئیے یاد رکھو اگر تمہارا لشکر آیا تو سب سے پہلا جرنیل جو علیؓ کی طرف سے تمہارے مقابلہ کے لئے نکلے گا وُہ میں ہوں گا یعنی صرف یہی نہیں کہ سب سے پہلے مَیں تمہارے ساتھ لڑوں گا بلکہ اُسی وقت مَیں اپنے ہتھیار ڈال دوں گا اور علیؓ کے ماتحت ہو جائوں گا۔ قیصر روم نے جب یہ بات سُنی تو وہ ڈر گیا اور اُس نے مسلمانوں پر حملے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اب یا تو مسلمانوں کی یہ حالت تھی کہ وہ باوجود آپس میں برسرِ پیکار ہونے کے دشمن کے مقابلہ میں متحد ہو جاتے تھے اور یا یہ زمانہ آیا کہ ۲۷۱ھ میں ایک اسلامی حکومت پاپائے روم سے اَور دوسری اسلامی حکومت قیصر قسطنطینیہ سے اس لئے معاہدہ کرتی ہے کہ دوسری اسلامی حکومت کو وہ عیسائیوں کے ساتھ مل کر مٹا دے اور اس کی طاقت کو کچل دے۔ انّاللہ وانّا الیہ راجعون۔ گویا انتہا درجہ کے تنزّل کی بنیاد ۲۷۱ھ میں پڑی۔ تب میں نے سمجھا کہ وہ نظریہ جو یہود کا تھا اور جس کی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تردید نہیں کی تھی وہ اپنے اندر حقیقت رکھتا تھا۔
پھر ہم دیکھتے ہیں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ (سجدہ ع ۱ ۲ ۲) جس طرح خدا تعالی کہ ہمیشہ سے یہ سنّت چلی آتی ہے کہ وہ آسمان سے لوگوں کی ہدایت کا انتظام کر کے اُسے دنیا میں بھیجتا اور اپنا ایک سلسلہ قائم فرماتا ہے اسی طرح وہ اب بھی کرے گا اور اسلام کو دنیا میں قائم کرے گا مگر پھر وہ سلسلہ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ قائم ہو گا آسمان پر اٹھنا شروع ہو گا ایک ایسے دن میں جو ہزار سال کے برابر ہو گا۔ اس آیت میں تنزّلِ اسلام کے ایک ہزار سالہ دَور کی خبر دی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہی اس دوران میں ایمان اور اسلام آسمان پر اٹھ جائے گا اور لوگوں میں بے دینی پھیل جائے گی۔پس ان پہلے معنوں کی رُو سے جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کے اعتبار سے کئے گئے ہیں لَیْل سے مراد ایک سال کا عرصہ تھا مگر دوسرے معنوں کے رُو سے لَیْل سے مراد ایک سال سے مراد ایک صدی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اسلام پر دس تاریک راتیں آئیں گی جن میں سے ہر رات ایک ایک سو سال کی ہو گی اور یہ سلسلہ برابر دس راتوں یعنی ایک ہزار سال تک چلتا چلا جائے گا۔
دیکھو یہ کیسی لطیف مشابہت ہے کہ جس طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں تین سال کے بعد ظلم وتعدّی کا ایک دَور آیا جو دس سال تک چلتا چلا گیا اسی طرح یہاں تین صدیوں کے بعد ایک اسلامی تنزّل کے دَور کی خبر دی گئی اور بتایا گیا کہ وہ دَور دس صدیوں یعنی ایک ہزار سال تک چلا جائے گا اور چونکہ یہ دَور ۲۷۱ھ سال سے شروع ہؤا ہے اس لئے ایک ہزار سال میں اگر ان ۲۷۱ھ سالوں کو ملایا جائے تو یہ ۱۲۷۱ھ سال بن جاتے ہیں یعنی قریبًا تیرہ صدیاں۔ پس تیرہ سو سال کے ایک زمانہ کا ذکر قرآن کریم سے ثابت ہو گیا ہے جن میں سے ۲۷۱ھ سال یا قریبًا تین صدیاں اسلام کی ترقی کی ہیں اور دس سو سال رات سے مشابہت رکھتے ہیں۔ پھر جس طرح وہاں دس راتوں کے بعد ایک فجر کے طلوع کی بشارت دی گئی تھی اسی طرح قرآن کریم میں ان دس راتوں کے بعد جن میں سے ہر رات سو سو سال کی بتائی گئی ہے۔ اسی مضمون کی طرف سورۂ سبا کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ وَمَآ اَرْسَلْنَاکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَo وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَاالْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَo قُلْ لَّکُمْ مِّیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّلَا تَسْتَقْدِمُوْنَo (سبا ع ۳ ۹)
پھر اس آیت کی تشریح سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہئیے کہ سورۂ احزاب میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خاتم النبیّین ہونے کا دعویٰ لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور بتایا گیا دتھا کہ آئندہ تمام فیوض رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے واسطہ سے ہی بنی نوع انسان حاصل کر سکیں گے براہ راست بغیر آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی غلامی کے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتے۔ یہ مضمون جو سورۂ احزاب میں تھا اُسی کا سورۂ سبا میں ذکر آتا ہے اور اس امر کا ثبوت دیا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ دنیا میں ایک مستقل نظام قائم کیا جائے گا۔ خاتم کے معنے یہ تھے کہ آپ سے الگ ہو کر کوئی فیضان نہیں ملے گا بلکہ آپ کی اطاعت اور غلامی میں رہ کر انسان الٰہی برکات اور فیوض سے متمتع ہو سکے گا۔ اس پر سوال پیدا ہوتا تھا کہ کیااس کے یہ معنے ہیں کہ نظامِ روحانی میں آپ نے لوگوں کو اعلیٰ مقامات کے حصول سے روک دیا ہے؟ اسی کا جواب سورۂ سبا میں اللہ تعالیٰ نے یہ دیا ہے کہ آپ نے نظام روحانی میں لوگوں کو اعلیٰ مقامات کے حصول سے نہیں روکا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہمیشہ ایسے نبی آتے رہیں گے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خدام اور آپ کے غلاموں میں سے ہوں گے چنانچہ فرمایا اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تیری نبوّت ختم ہونے والی نہیں بلکہ قیامت تک جاری رہے گی۔ اور اِس کا ثبوت یہ ہے کہ تُو قیامت تک لوگوں کے لئے بشیر و نزیر ہے جیسے کہ وَمَآ اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا کَآفَّۃً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّنَذِیْرًا ہم نے تجھے تمام انسانوں کے لئے خواہ وہ عرب ہوں، شامی ہوں، فلسطینی ہوں، یا اور کسی قوم کے ہوں۔ اِس صدی کے ہوں یا اگلی صدی کے سب کے لئے بشیر ونزیر بنا کر بھیجا ہے۔ یوں تو ہر نبی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہو اُس کو ماننا پڑتا ہے۔ موسٰی علیہ السلام گو ساری دنیا کے لئے مامور نہیں تھے اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ماننے والوں کو اُن پر بھی ایمان لانا پڑتا ہے لیکن فرماتا ہے ہم نے تجھے خالی اس لئے نہیں بھیجا کہ لوگ تجھ پر ایمان لائیں بلکہ تُو قیامت تک ہر زمانہ میں بشیر و نزیر ہو گا۔ موسٰیؑ بے شک نبی ہیں مگر وہ آج کوئی بشارت اور انذار نہیں کرر ہے اُن کے کوئی ایسے احکام نہیں چل رہے جن کے انکار کی وجہ سے لوگوں پر عذاب نازل ہو یا جن کو ماننے کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے انعامات کے مورد ہوں۔ ماننے کی وجہ سے فضل نازل ہوتا ہے اور انکار پر عذاب نازل ہونا اُس نبی کی وجہ سے ہوتا ہے جس کی نبوت جاری ہو۔ پس فرماتا ہے ہم نے تجھے لوگوں کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے مبعوث فرمایا ہے ایسی صورت میں کہ صرف نبوت پر ان کے لئے ایمان لانا ضروری نہیں بلکہ تُو اُن کے لئے بشیر ونزیر بھی ہو گا۔ جو لوگ تجھے مانیں گے اُن پر خداتعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے جو انکار کریں گے اُن پر خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہو گا۔ پھر فرماتا ہے وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ لیکن اکثر لوگ اِ س سے واقف نہیں۔ اس سے یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ لوگ ایمان نہیں لا رہے کیونکہ یہ تو صاف بات ہے کہ وہ ایمان نہیں لا رہے تھے اِس کے ذکر کا کوئی خاص فائدہ نہیں تھا اس کے معنے درحقیقت یہ ہیں کہ ہم نے ایک ایسی بات کہی ہے جس سے لوگ پہلے واقف نہیں تھے۔ پہلے لوگ صرف قومی اور وقتی نبیوں کے قائل تھے سوائے عیسائیوں کے ایک فرقہ کے جو ساری دُنیا کے لئے اور ہمیشہ کے لئے روحانی بادشاہت کا قائل تھا۔ لیکن باقی لوگوں میں سے کوئی بھی اِس بات کا قائل نہیں تھا۔ کیونکہ نبی آتے رہے اور اُن کی تعلیمیں منسوخ ہوتی رہیں۔ پس فرمایا کہ ہم تیرے متعلق ایک ایسا دعویٰ کر رہے ہیں جس سے لوگ واقف نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ایک نبی کے بعد جب بھی دوسرا نبی آتا ہے وہ پہلے نبی کی نبوت کو منسوخ کر دیتا ہے۔ ساری دُنیا کی طرف ایک نبی کا ہونا اور پھر ہر زمانے لئے ہونا یہ دو باتیں پہلے کسی نبی میں جمع نہیں ہوئیں۔ ہندو وید کو ہمیشہ کے لئے مانتے ہیں۔ مگر وہ ساری دُنیا کے لئے نہیں مانتے۔ شودروں کے متعلق کہتے ہیں کہ اگر وہ ویدوں کو سُن لیں تو سیسہ پگھلا کر اُن کے کان میں ڈالا جائے۔ زرتشتی خاموش ہیں۔ مگر اتنی بات بالکل واضح ہے کہ اُن کا مذہب ساری دُنیا کے لئے نہیں۔ یہودی ہیں وہ لوگ اب کہتے ہیں کہ اُن کی شریعت ہمیشہ کے لئے ہے۔ مگر یہ خیال آخری زمانہ میں اُن میں پیدا ہؤا ہے۔ پہلے اُن کا یہی خیال تھا کہ ایک اور شریعت آنے والی ہے۔ جیسا کہ استثنا ۱۸/۱۸ اور ۲/۳۳سے ظاہر ہے۔ اس کے بعد حضرت عیسٰی علیہ السلام آئے وہ بھی ساری دُنیا کے لئے نہیں تھے۔ مگر چونکہ وہ ایک ایسے زمانے میں آئے ہیں جب وہ وقت بالکل قریب آ رہا تھا جب کہ ساری دُنیا کے لئے ایک نبی بھیجا جائے اور حالات میں جلد جلد تغیّر ہو رہا تھا اس لئے عیسائیوں نے غلطی سے حضرت عیسٰی علیہ السلام کے متعلق یہ سمجھ لیا کہ وہی تمام دُنیا کے لئے بھیجا گئے ہیں۔ لیکن عیسائی اکثر النّاس نہیں ہیں اور خدا تعالیٰ نے یہ کہا ہے کہ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ کا اکثر حصّہ ایسا ہے جو اس عقیدے کا قائل ہی نہیں۔ وہ یہ مانتا ہی نہیں کہ ساری دُنیا کے لئے شریعت ہو اور پھر وہ شریعت ہمیشہ کے لئے ہو۔ یہ دونوں فرق چلتے چلے جاتے ہیں اور سوائے عیسائیوں کے دُنیا میں جس قدر مذاہب پائے جاتے ہیں اُن میں سے اکثر اس کے قائل نہیں۔ اور جو لوگ قائل ہیں وہ بہت ہی تھوڑے ہیں۔ اِس کے بعد فرماتا ہے وَیَقُوْلُوْنَ مَتٰی ھٰذَا الْوَعْدُ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔ یعنی وہ لوگ پوچھتے ہیں کہ جب یہ کہا گیا کہ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر زمانہ کے لئے ہیں اور ہر زمانہ کے لئے وہ بشیر اور نزیر ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ پھر بھی ایسے زمانے آتے رہیں گے جب دُنیا میں خرابی پیدا ہو گی اور آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بحیثیت بشیر اور نزیر کے دُنیا میںظاہر ہوں گے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ ایسا زمانہ کب آئے گا اور کب بحیثیت بشیر اور نزیر کے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دُنیا میں ظاہر ہوں گے۔
یہ امر واضح ہے کہ قیامت تک بشیر اور نزیر ہونے کے یہ معنے تو نہیں ہو سکتے تھے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر زمانہ میں اپنے جسدِ عنصری کے ساتھ واپس آئیں گے اور تبشیر وانذار کا کام سرانجام دیں گے بلکہ اس کے معنے یہ تھے کہ آپؐ کے اظلال دنیا میں پیدا ہوتے رہیں گے اور جب کی کوئی خرابی واقع ہو گی آپؐ کے اظلال بشیر و نزیر بن کر کھڑے ہو جائیں گے اور اس طرح برابر آپؐ کا وجود دُنیا میں ظاہر ہوتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ یہی جواب اس موقع پر پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے قُلْ مِیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّلَا تَسْقْدِمُوْنَ ہم اس کے لئے ایک دن کی معیاد سورۂ سجدہ میں مقرر کر چکے ہیں۔ یعنی ایک ہزار سال خرابی کا دَور گزرنے کے بعد محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ظہور ہو گا۔ اور آپؐ دوبارہ بشیر و نزیر بن کر دُنیا میں آ جائیں گے۔ پس قُلْ مِیْعَادُ یَوْمٍ لَّا تَسْتَاْخِرُوْنَ عَنْہُ سَاعَۃً وَّلَا تَسْقْدِمُوْنَ میں اُنہی دس تاریک راتوں کی طرف اشارہ ہے جو اسلام کے قریبًا تین سو سالہ دَور ترقی کے بعد مسلمانوں پر آئیں جو ایک ہزار سال تک ممتد چلی گئیں اور جب کا ذکر سورۂ سجدہ میں اِن الفاظ میں پایا جاتا ہے کہ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ۔
غرض تیرہ سو سال کے ایک زمانہ کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے جن میں سے دس سو سال تک کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ رات کے مشابہ ہوں گے اور ہر رات ایک ایک سو سال کی ہو گی اور اِس طرح دس راتیں یکے بعد دیگرے مسلمانوں پر آئیں گی۔
اِسی طرح قرآن کریم میں آتا ہے فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ وَالَّیْلِ وَمَا وَسَقَ وَالْقَمَرِ اِذَااتَّسَقَ لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ (الانشقاق ع ۱ ۹) جس طرح تم کہتے ہو اُس طرح نہیں بلکہ مَیں شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں شفق کو۔ پھر مَیں شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں رات کو اور اُس کو جسے وہ اپنے اندر جمع کر لیتی ہے اور پھر مَیں شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں چاند کو جب وہ تیرھویں رات کا ہو جاتا ہے۔ اِتِّسَاق کے معنے ہوتے ہیں تیرھویں رات کا چاند۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَلَآ اُقْسِمُ بِالشَّفَقِ یہ بات نہیں جو تم کہتے ہو۔ مَیں شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں جب سورج تو ڈوب جاتا ہے لیکن اُس کی سرخی رہ جاتی ہے۔ اِس میں کفّار کو بتایا کہ اِس وقت اسلام کو مغلوب کرنے کی کوششیں بالکل عبث ہیں اسلام غالب آئے گا اور تم اس کے مقابلہ میں خواہ کتنی کوششیں کرو کبھی کامیاب نہیں ہو سکو گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسلام ہمیشہ طاقتور رہے گا۔ جس طرح سورج ایک مقررہ وقت کے بعد ڈوب جاتا ہے اسی طرح اسلام پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب اس میں تنزّل کے آثار پیدا ہو جائیں گے۔ لیکن ابھی شفق کی سُرخی اس میں باقی ہو گی۔ بے شک دن کی روشنی نہیں رہے گی مگر رات کی تاریکی بھی اُس وقت نہیں ہو گی۔ ایک ملی جُلی کیفیت ہو گی۔ مسلمانوں کا غلبہ بھی ہو گا اور اُن میں ضُعف اور اضمحال بھی پیدا ہو چکا ہو گا۔ لیکن پھر اس کے بعد ہم رات کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور اُن سب چیزوں کو جنہیں رات اپنے اندر جمع کر لیتی ہے یعنی جو جو مصائب اور مشکلات رات کے اندر پائی جاتی ہیں وہ سب کی سب اُس رات میں اکٹھی ہو جائیں گی اور وہ تمام تارکیوں کو جمع کر کے ایک بھیانک صورت اختیار کر لے گی وَالْقَمَرِ اِذَااتَّسَقَ اس کے بعد ہم ایک چاند کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو تیرھویں رات کا ہو گا۔ یہ قرینہ صاف طور پر بتا رہا ہے کہ یہاں رات سے حقیقی رات مراد نہیں بلکہ استعارۃً رات کا ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ تیرہویں یا چودھویں رات کے چاند انتہائی تاریک رات کے بعد نہیں نکلتے بلکہ تاریک راتوں کے شروع ہونے سے پہلے یہ چاند نکلا کرتے ہیں۔ پس اگر لیل سے مراد یہاں اصلی رات ہوتی تو وَالَّیْلِ وَمَاوَسَقَ کے بعد قمر کا کوئی ذکر نہ ہوتا۔ کیونکہ مادی دُنیا میں اِس قسم کی تاریک رات کے بعد کبھی تیرہویں یا چودھویں کا چاند نہیں نکلا کرتا۔ یہ قرینہ بتا رہا ہے کہ اِس جگہ ظاہری رات کا ذکر نہیں ہو رہا بلکہ ایسی رات کا ذکر کیا جا رہا ہے جس کے انتہائی طور پر تاریک ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے قمر ظاہر ہؤا کرتا ہے۔
اِتِّسَاق کے معنے جیسا کہ اِس سورۃ کی تفسیر میں بتایا جا چکا ہے تیرہویں، چودھویں، پندرہویں، اور سولہویں رات کے چاند کے ہوتے ہیں۔ پس اِس آیت میں یہ خبر دی گئی ہے کہ جس طرح دن غائب ہوتا ہے اسی طرح اسلام کا حال ہو گا۔ اُس کا تنزّل ایک دم نہ ہو گا بلکہ آہستہ آہستہ وہ تنزّل کی طرف جائے گا۔ یہاں تک کہ اسلام کا سورج لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو جائے گا مگر اُس کی شفق باقی رہ جائے گی۔ اِس کے بعد شفق بھی جاتی رہے گی اور کامل تاریکی مسلمانوں پر چھا جائے گی۔ اس کے بعد ایک چاند نکلے گا جو تیرہویں رات میں ظاہر ہو گا اور سولہویں رات تک جائے گا۔ اور وہ تیرہویں تاریخ کا چاند اسلام کے تمام مصائب کا خاتمہ کر دے گا۔ اور یہ ترقی کا سلسلہ سولہویں صدی تک چلتا چلا جائے گا خدا تعالیٰ نے اس حقیقت کے اظہار کے لئے اِتِّسَاق کا لفظ بھی عجیب رکھا ہے۔ لغت میں لکھا ہے اِس کے معنے اُس چاند کے ہیں جو تیرہویں، چودہویں، پندرہویں رات کو ابتدا سمجھا جائے تو پندرہویں اور سولہویں رات اس چاند کے ظہور کی انتہائی راتیں سمجھی جائیں گی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے گو اسلام پر تنزّل کا زمانہ آئے گا مگر تیرہویں صدی میں چاند کا ظہور ہو جائے گا اور یہ تکلیف دہ زمانہ دُور ہو جائے گا۔ چنانچہ آگے فرماتا ہے لَتَرْکَبُنَّ طَبَقًا عَنْ طَبَقٍ تم طبق بہ طبق اور درجہ بدرجہ ان ساری حالتوں میں سے گزرو گے تم پر تاریکی کے دَور بھی آئیں گے اور روشنی کے بھی۔ غلبہ کے ایام بھی آئیں گے اور تنزّل کے دَور بھی۔ ابتدا میں تمہاری حالت شفق کے مشابہ ہو گی اِس کے بعد رات اپنی تمام تاریکیوں کو جمع کر کے بھیانک صورت اختیار کر لے گی۔ پھر اس کے بعد چاند نکلے گا جو تمام تاریکیوں کو پھاڑ دے گا اور اسلام کی مشکلات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اِ س سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہاں ظاہری راتیں مراد نہیں بلکہ باطنی راتیں مراد ہیں اور مسلمانوں کے تنزّل اور پھر اُن کی دوبارہ ترقی کا اِن آیات میں نقشہ کھینچا گیا ہے۔
اِسی طرح سورۂ بروج میں فرماتا ہے وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْبَرُوْجِ۔ یعنی ہم آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو بروج والا ہے۔ وَالْیَوْمِ الْمَوْعُوْدِ اور ہم شہادت کے طور پر یومِ موعود کو بھی پیش کرتے ہیں۔ علم ہیئت کے ماہرین بارہ ستاروں کے لئے بارہ بُرج قرار دیتے ہیں اِس لحاظ سے ذَاتِ الْبُرُوْج سے مراد وہ آسمان ہو گا جو بارہ بُرجوں والا ہے اور آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو بارہ بُرجوں والا ہے۔ اور پھر اِس کے ساتھ ہی یومِ موعود کو بھی پیش کرتے ہیں یعنی تیرہویں زمانہ کو۔ تیرہویں صدی میں اسلام کے احیاء کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مقدس انسان مبعوث ہونے والا ہے جس کی تشریح اگلی آیت میں ہی اِن الفاظ میں فرمائی کہ وَشَاھِدٍ وَّ مَشْھُوْدٍ وہ وجود گواہ بن کر آئے گا ایک اور وجود کے لئے جو مشہود ہو گا اور جس کی صداقت کی گواہی دی جائے گی۔ یعنی مسیح موعودؑ مبعوث ہو گا تاکہ وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت اور قرآن کریم کی سچائی کو گواہ ہو۔ اور اسلام کا زوال روبہ ترقی ہو۔ اِ س آیت سے بھی تیرہویںصدی میں ایک شاہد کے ظہور کا ثبوت ملتا ہے۔
اِسی طرح احادیث میں آتا ہے۔ خَیْرُکُمْ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَکُوْنُ بَعْدَھُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ ثُمَّ یَکُوْنَ بَعْدَھُمْ قَوْمٌ یَشْھَدُوْنَ وَلَا یُسْتَشْھَدُوْنَ وَیَخُوْنُوْنَ وَلَا یُؤْتَمَنُوْنَ وَیَنْظُرُوْنَ وَلَایَفُوْنَ وَیَظْھَرُ فِیْھِمْ السِّھَنُ۔ (بخاری جلد ۴ کتاب الرقاق باب ما یحذر من زھرۃ الدنیا والنّافس فیھا ) یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں سب سے بہتر میری صدی ہے پھر بعد کی اور پھر اُس کے بعد کی مگر اِس کے بعد ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو گواہی دیں گے تو لوگ کہیں گے تمہاری گواہی کا کیا اعتبار تم تو جھوٹ بولنے کے عادی ہو۔ کوئی شخص اُن کے پاس امانت رکھنے کے لئے تیار نہیں ہو گا۔ کیونکہ وہ سخت خائن اور بددیانت ہوں گے۔ اِسی طرح اُن کا حال یہ ہو گا کہ وہ نذریں مانیں گے تو اُن کو پورا نہیں کریں گے اور کھا کھار کر خوب موٹے ہو جائیں گے۔ دین کی رغبت اور قربانی کا جزبہ اُن کے دلوں میں نہیں رہے گا۔
ان سب آیات اور پیشگوئیوں کو ملانے سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تین صدی تک اسلام کی ترقی کا زمانہ ہو گا اس کے بعد دس صدیوں کا لمبا زمانہ اُس پر تنزل کا آئے گا۔ جیسا کہ مَیں پہلے بھی بتا چکا ہوں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وقت مقررہ پورے کا پورا ہی شمار ہو جب تک کہ کوئی خاص قرینہ نہ ہو بلکہ ایک سال کا اکثر حصّہ ایک سال اور ایک دن کا ایک کثیر حصّہ ایک دن اور صدی کا ایک کثیر حصّہ ایک صدی کہلا سکتا ہے۔ پس حدیث کی مقرر کردہ تین صدیوں کے جن کے بعد فتنہ فساد پھیل جانا ہے قرآن کریم کے دو سو اکہتر سالوں سے اختلاف نہیں۔ بلکہ ایک جگہ عرصہ زیادہ متعین کر دیا گیا ہے اور دوسری جگہ عربی الفاظ استعمال کر دئے گئے ہیں۔ الغرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْفَجْرِ وَلَیَالٍ عَشْرٍ کہ ہم اُس فجر کی اور اُن دس راتوں کی قسم کھاتے ہیں جو اُس فجر سے پہلے آئیں گی اور اِس سے مراد وہ ہزار سالہ دَورِ تنزّل اور دَورِ ضُعف ہے جو اسلام پر پہلی تین صدیوں کے بعد آیا اور ہر رنگ میں تنزّل آنا شروع ہؤا یہاں تک ساری تاریکیاں جمع ہو گئیں گویا جس طرح پہلے دَور کے متعلق ایک رات ایک سال کی قائم مقام تھی دوسری پیشگوئی میں ایک رات ایک صدی کی قائم مقام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِن تاریک راتوں کے بعد فجر کا زمانہ آئے گا اور تاریکی و ظلمت کے بادل آسمانِ روحانیت سے پھٹ جائیں گے۔ چنانچہ اِسی مناسبت سے مسیح موعودؑ کا ایک نام طارق رکھا گیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھی پہلا الہام وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق ہؤا۔ اور یہ الہام آپؐ کو آپؐ کے والد کی وفات کے وقت ہؤا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اِس کے معنے اُن کی وفات کے کئے ہیں کیونکہ اُن کی وفات رات کو ہوئی۔ مگر اِس کے معنے صبح کا ستارہ کے بھی ہوتے ہیں اور والد کی وفات کے وقت جب آپ کو فکر ہوئی کہ والد فوت ہو جائیں گے تو کیا ہو گا تو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تم تو طارق ہو اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور کو ظاہر کرنے والے ہو۔ پس تمہارے والد محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ اِس دنیوی والد کی وفات کا تم کو کیا غم ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ اَلمٓرٰ کے ابجدی اعداد کو اگر فیج عوج کے ہزار سال سے ملایا جائے اور پھر اِس سارے حساب کو عیسوی بنانے کے لئے اس میں ۶۲۱ سال وہ شامل کئے جائیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہجرت کے زمانہ تک سنہ عیسوی کے لحاظ سے بنتے ہیں تو عین وہ سنِ عیسوی نکل آتا ہے جس میں فجر طلوع ہؤا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دُنیا کے سامنے اپنا دعویٰ پیش فرمایا۔ اَلمٓرٰ کے اعداد ۲۷۱ ہیں اِس میں دس صدیاں شامل کی جائیں تو ۱۲۷۱ بن جاتا ہے پھر ۱۲۷۱ میں ۶۲۱ شامل کئے جائیں تو ۱۸۹۲ بن جاتے ہیں۔ اب اس میں دو یا تین سال ہمیں بہرحال نکالنے پڑیں گے کیونکہ اَلمٓرٰ سورۂ رعد میں آتا ہے جو مکّی سورۃ ہے اور ہجرت سے دو دتین سال پہلے نازل ہوئی تھی ۔ اب اگر دو سال نکال دیں تو ۱۸۹۰ رہ جاتے ہیں اور یہ وہی سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعویٰ کیا۔ اور اگر تین سال نکال دیں تو ۱۸۸۹ رہ جاتے ہیں اور یہ وہ سال ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے لوگوں سے بیعت لی۔
اِسی طرح اگر ہم ہجری سنہ کا حساب کریں اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیان فرمودہ تین صدیوں کو لَیَالٍ عَشْرٍ میں شامل کریں تو یہ ۱۳۰۰ بن جاتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے بالکل قریب یعنی ۱۳۰۸ہجری میں دعویٰ فرمایا ہے۔ اور سات یا آٹھ سال ایسا چھوٹا دہاکہ ہے کہ تیرہ صدیوں کے ذکر میں ان کو شمار ہی نہ سمجھا جائے گا۔
پھر اگر ہم ایک اور لحاظ سے دیکھیں تو اس سے براہین احمدیہ کی پیشگوئی نکل آتی ہے۔ براہین احمدیہ ۱۳۰۰ھ میں لکھی گئی اور ۱۳۰۲ہجری میں شائع ہوئی ہے اور یہ وہی سال ہے جس میں قرآنی پیشگوئی کے مطابق فجر کا طلوع مقدر تھا۔ گویا شمسی اور قمری دونوںلحاظ سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی اور رات کی تاریکیوں کو دُور کرنے کے لئے اُفقِ آسمان سے الطارقؔ کا ظہور ہو گیا۔
یہ کتنی زبردست پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے طلوعِ فجر کی تاریخیں تک بتا دی گئیں اور سینکڑوں سال پہلے اُن کا ذکر کر دیا گیا اور پھر اُس کے مصداق کو عین اُنہی تاریخوں میں اللہ تعالیٰ نے دُنی کی ہدایت کے لئے کھڑا کیا جو قرآن اور احادیث میں اُس کے ظہور کے لئے مقرر کی گئی تھیں۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایسا عظیم الشان نشان ہے جس پر غور کرنے سے اس کی ہستی اور قدرت پر زندہ ایمان پیدا ہوتا ہے اور ہر شخص جو تعصّب سے خالی ہو اُسے اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اسلام خدا تعالیٰ کا سچا مذہب ہے۔
اب رہا پیشگوئی کا تیسرا حصّہ یعنی وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ اِس کے دو معنے ہو سکتے ہیں ایک تو یہ شفع اور وَتر کا جو معاملہ ہو گا اُسے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئیے کہ اس آیت میں بعد کے وائو عطف کے ہیں اور مراد یہ ہے کہ ہم اِس کی بھی قسم کھاتے ہیں اور اُس کی بھی قسم کھاتے ہیں۔ لیکن وَالْفَجْرِمیں وائوؔ کو عاطفہ قرار دے سکیں۔ وَالْفَجْرِ دراصل اُقْسِمُ بِالْفَجْرِ ہے اور وائوؔ کو اُقْسِمُ کا قائم مقام بنایا گیا ہے لیکن اس کے بعد جتنے وائو ہیں سب اَلْفَجْرِ کے بعد جو امور مذکور ہوئے ہیں انہیں معطوف بنانے کے لئے آئے ہیں۔ اِس لحاظ سے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کے یہ معنے ہوں گے کہ ’’اور ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اُس معاملہ کو جو شفع اور وَتر کا ہے‘‘ جیسے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب غارِ ثور میں گئے تھے اور حضرت ابو بکرؓ آپ کے ساتھ تھے تو آپ نے فرمایا تھا لَا تَحْزَنْ اِنَ اللّٰہَ مَعَنَا غم مت کر خدا ہمارے ساتھ ہے اِسی طرح جب شاہِد و مشہود جمع ہو جائیں گے یعنی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوبارہ ظاہر ہوں گے اور آپ کا ایک خادم بھی جو آپ کا بُروز ہو گا ظاہر ہو گا تو وہ وقت بھی اسلام کے لئے نہایت سخت ہو گا اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے شاگرد سمیت گویا محصور ہو جائیں گے تب وَتر یعنی اللہ تعالیٰ پھر اس بات کو ثابت کرے گا کہ وہ اُن ساتھ ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ہے:۔
’’رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پناہ گزیں ہوئے قلعۂ ہند میں۔‘‘
(تذکرہ صفحہ ۴۶۶)
یعنی جس طرح پہلے کفار کے حملہ سے بچنے کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے غار ثور میں پناہ لی اور حضرت ابوبکرؓ آپ کے ساتھ تھے اِسی طرح آخری زمانہ میں آپ کی روحانیت کفر سے بچنے کے لئے قلعۂ ہند پناہ گزیں ہوئی ہے۔ اِس الہامِ الٰہی نے صاف بتا دیا کہ دوسری غارِ ثور ہندوستان میں ہونے والی ہے۔ پھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غارِ ثور میں پناہ لیں گے۔ پھر آپ کے ساتھ آپؐ کا ایک ساتھی ہوگا، اور پھر آپؐ اُسے فرمائیں گے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے وہ قید ہی کامیابی کا ذریعہ ہو جائے گی۔ پس وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس طرح پہلے غار ثور میں حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پناہ گزیں ہوئے تھے اِس آخری دَور میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مسیح موعودؑ کے ساتھ پناہ گزیں ہوں گے مگر اِس دفعہ غارِ ثور میں نہیں بلکہ قلعۂ ہند میں پناہ گزیں ہوں گے اور پھر خدا تعالیٰ ان کی معیّت کے لئے اپنی فرشتوں کی فوج کے ساتھ اُترے گا جس طرح کہ غار ثور کے وقت اُترا تھا۔
علاوہ ازیں وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کے ایک اور معنے بھی ہو سکتے ہیں اور یہی یہ کہ درمیانی عطف کو اَلْفَجْرِ کی طرف منسوب نہ کیا جائے بلکہ شفع کی طرف پھیرا جائے اِس صورت میں اِس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم قسم کھاتے ہیں شفع کی اور ہم قسم کھاتے ہیں وَتر کی بلکہ اِس کے معنے یہ لئے جائیں گے کہ ہم قسم کھاتے ہیں شفع کی اور اُس کے ساتھ تعلق رکھنے والی وَتر کی۔ گویا وَتر کی علیحدہ قسم نہیں کھائی بلکہ شفع اور وتر کو ملا کر اُن کی قسم کھائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایسے وجود کو ہم بطور شاہد پیش کرتے ہیں۔ اِس صورت میں اس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ مَیں اس شفع کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہوں جو ساتھ ہی وَتر بھی ہے۔ یعنی ایک جہت سے وہ شفع ہے اور ایک جہت سے وَتر ہے۔ اور یہ مطلب ہو گا کہ لَیَالٍ عَشْرٍ کے بعد جو فجر ظاہر ہو گی وہ ایسے وجود کے ذریعہ سے ہو گی جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا غیر ہوتے ہوئے پھر غیر کہلانے کا مستحق نہیں ہو گا۔ بظاہر وہ دوسرا ہو گا اور شفع کہلائے گا لیکن باوجود ایک دوسرا شخص ہونے کے اُس کے آنے سے دو نبی نہیں ہو جائیں گے وہ امام نہیں ہو جائیں گے بلکہ وہ ایک ایسا فنا فی الرّسل ہو گا کہ باوجود اُس کے آنے کے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک کے ایک ہی رہیں گے۔ یعنی وہ کہے گا
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
اور وہ کہے گا کہ مَنْ فَرَّقَ بَیْنِیْ وَبَیْنَ الْمُصْطَفٰی فَمَا عَرَفَنِیْ وَمَا رَاٰی۔ جس نے کہا کہ مَیں محمّد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے علیحدہ وجود ہوں۔ وہ الگ ہیں اور مَیں الگ فَمَا عَرَفَنِیْ وَمَارَاٰی اُس نے مجھے نہیں پہچانا بلکہ وہ تو گھمراہ ہو گیا۔
مجھے ایک دفعہ یہی مضمون خواب میں دکھایا گیا تھا۔ مقبرہ بہشتی کی طرف جاتے ہوئے مدرسہ احمدؐیہ اور بکڈپو کے درمیان سے جو گلی گزرتی ہے۔ اور جس کے آگے کنؤاں آ جاتا ہے یہاں پہلے ایک چھوٹا سا میدان تھا۔ اب تو وہاں کمرے بن چکے ہیں۔ مَیں نے رَویا میں دیکھا کہ اس میدان میں ایک کرسی بچھائی گئی ہے اور کسی نے کہا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ اتنے میں مَیں نے دیکھا کہ ایک طرف سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔ جب دوسری طرف مَیں نے نگاہ اٹھائی تو مَیں نے دیکھا اُس طرف سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تشریف لا رہے ہیں اور دونوں کے مُنہ اُس کرسی کی طرف ہیں۔ خواب میں مَیں سخت گھبراتا ہوں کہ یہ کیسی خطرناک غلطی ہوئی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی تشریف لا رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام بھی تشریف لا رہے ہیں لیکن کُرسی ایک ہے یہ تو بڑی ہتک امیز بات ہے مگر اُس وقت نہ مجھ سے اُٹھا جاتا ہے کہ مَیں دوڑ کر کوئی اور کُرسی لے آئوں اور نہ کسی اور کو یہ خیال آیا۔ اُس وقت میرا دل خوف سے دھڑک رہا ہے اور جوں جوں وہ قریب آ رہے ہیں میرا اضطراب بڑھتا چلا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دونوں کُرسی کے قریب پہنچ گئے۔ اُس وقت مجھے خیال آیا کہ اب شاید حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیچھے ہٹ جائیں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پیچھے نہ ہٹے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی آگے کی طرف بڑھے۔ اُ س وقت مجھے معلوم ہؤا کہ میرے دل کی حرکت بند ہو جائے گی مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی مَیں نے دیکھا کہ دونوں نے اپنے اپنے جسم کو ذرا سا ٹیڑھا کر کے کرسی پر بیٹھنے کی کوشش کی۔ اور اِس کے بعد اُن کے دھڑ ایک دوسرے میں داخل ہونے شروع ہو گئے۔ اور جب وہ کُرسی پر بیٹھ گئے تو دو نہیں بلکہ ایک ہی وجود نظر آنے لگا۔
یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ ہم تمہارے سامنے اُس شفع کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو شفع کے ساتھ وَتر بھی ہو گا۔ بظاہر دو ہوں گے لیکن درحقیقت وہ دو نہیں بلکہ ایک ہی وجود ہو گا۔
دوسرے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ایسا وجود ظاہر ہو گا جسے لوگ دو سمجھتے ہوں گے یعنی مہدی اور عیسٰی۔ لیکن وَتر ہو گا یعنی ایک ہی وجود کے یہ دو نام ہوں گے۔ اور باوجود شفع سمجھے جانے کے جب وہ ظاہر ہو گا تو وہ وَتر ثابت ہو گا۔ مَیں سمجھتا ہوں اِس قسم کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی۔ کہ لوگ دو مدعیوں کے امیدوار ہوں لیکن جب وقت آئے تو وہ موعود ایک ہی موعود ثابت ہوں۔ صرف یہی ایک زمانہ ہے جس میں لوگ کہتے تھے کہ ایک مسیحؑ ہو گا اور ایک مہدی ہو گا۔ مگر جب وہ آیا تو وَتر تھا یعنی پیشگوئیوں کے لحاظ سے دو کی خبر دی گئی تھی مگر حقیقت کے لحاظ سے وہ دو نہیں تھے بلکہ ایک ہی وجود کے دو مختلف نام تھے۔ یہی بات اِس آیت میں بیان کی گئی تھی کہ یہ دونوں نام ایک ہی وجود کے ہوں گے۔ اور باوجود شفع سمجھے جانے کے جب وہ ظاہر ہو گا تو وتر معلوم ہوگا۔ غرض اِ س صورت میںوَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ میں یہ بتایا گیا ہے کہ آنے والے کی دو حقیقتیں ہوں گی۔ ایک حقیقتِ شفع اور ایک حقیقتِ وتر۔ وہ ایک علیحدہ وجود ہو گا اس لئے بظاہر اسلام میں دو نبی نظر آئیں گے مگر چونکہ وہ فنا فی الرسول ہو کر یہ درجہ پائے گا اور اسلام پر ہی عمل کرے گااور اسی پر عمل کرائے گا۔ اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلمہ پڑھے گا اور وہی لوگوں سے پڑھوائے گا اس لئے دُوئی کوئی پیدا نہ ہو گی بلکہ اسلام میں ایک ہی نبی رہے گا دو نہ ہوں گے۔ کیونکہ دو تو اختلاف سے ہوتے ہیں۔ اتّحاد سے دو ایک ہو جاتے ہیں۔ اور دوسرے یہ کہ دو کاموں کی وجہ سے اُسے دو عہدے ملیں گے مگر درحقیقت وہ ایک ہی وجود ہو گا۔
پھر فرماتا ہے وَالَّیْلِ اِذَا یَسْرِ۔ اِس حصّہ آیت میں پھر ایک اور صدی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دس تاریک راتوں کے بعد کی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن کے معًا بعد اسلام کی ترقی نہ ہو گی وہ فجر تو اُ ن کے بعد ظاہر ہو جائے گی، شعاعِ نور نظر آ جائے گی اور لوگوں کی امیدیں بندھ جائیں گی مگر ابھی رات نہ جائے گی بلکہ ایک صدی کا ابھی وقفہ ہو گا۔ اب اگر ۱۸۹۰ کو فجر لے لو تو یہ ۱۹۹۰ تک چلتی ہے۔ آجکل ۱۹۴۵ء ہے اِس لحاظ سے چھیالیس ۴۶ سال ابھی اِس لیل میںباقی رہتے ہیں۔ اور اگر ہجری سال لے لو اور ۱۲۷۱ کو دس تاریک راتوں کا آخری سال قرار دیدو تو یہ صدی ۱۳۷۱ میں ختم ہوتی ہے۔ گویا اِس لحاظ سے لیل کے ختم ہونے میں صرف ۸ سال باقی رہتے ہیں۔ اور اگر صدی کا سر مراد لو اور ۱۴۰۰ھجری میں اِس لیل کا اختتام سمجھو تو اِس میں ۲۷ سال باقی رہتے ہیں۔ یہ تین مدتیں ہیں جو تین مختلف جہتوں میں پیدا ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اِن میں کون سی جہت حقیقی ہے اور کون سی غیر حقیقی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ تینوں جہتوں ہی حقیقی ہوں جیسے دس راتوں کی پیشگوئی کے بارہ میں مَیں نے بتایا تھا کہ آپ کے دعویٰ کے لحاظ سے ایک رنگ میں پیشگوئی پوری ہو جاتی ہے۔ بیعت کے لحاظ سے دوسرے رنگ میں اور براہین احمدیہ کی اشاعت کے لحاظ سے تیسرے رنگ میں۔ اِسی طرح ممکن ہے کہ جانے والی ایک رات کا ایک ظہور آٹھ سال بعد ہو یعنی ۱۹۵۲ء میں ایک ظہور ۲۷ سال بعد ہو یعنی ۱۹۸۱ء میں۔ ایک ظہور چھیالیس سال بعد ہو یعنی ۱۹۹۰ء میں۔ قمری لحاظ سے چونکہ ایک صدی میں تین سال کی کمی آ جاتی ہے اس لئے ۳۷ سالہ معیاد میں سے اگر تین سال نکال دیئے جائیں تو ۳۴ سال رہ جاتے ہیں۔ اِس لحاظ سے یہ لیل ۱۳۹۷ ہجری میں ختم ہو گی۔ گویا تین کی بجائے چار جہتیں ہو گئیں۔ چونکہ ابھی ایک پیشگوئی پوری نہیں ہو ئی اس لئے جتنے نقطۂ نگاہ سے بھی تعیین کی جا سکے ہمیں اُن سب کو مدنظر رکھنا چاہئیے۔ ایک نقطۂ نگاہ سے اس لیل کے کے جانے میں صرف آٹھ سال باقی رہتے ہیں۔ ایک نقطۂ نگاہ سے ۳۴ سال باقی رہتے ہیں۔ اور ایک نقطۂ نگاہ سے ۳۷ سال باقی رہتے ہیں اور ایک نقطۂ نگاہ سے ۴۶ سال باقی رہتے ہیں۔ اِس عرصہ میں یقینا دوبارہ اللہ تعالیٰ کسی جلوہ کے ساتھ یوم الفرقان ظاہر ہو اور کسی خاص شان کے ذریعہ احمدیت کو تقویت حاصل ہو گی۔ گو جیسا کہ بدرؔ کی جنگ میں آخری جنگ نہیں تھی اس کے بعد بھی لڑائیاں ہوتی رہیں۔ اسی طرح اس کے بعد بھی مخالفین سے ہماری لڑائیاں جاری رہیں گی۔ مگر بہرحال احمدیت کو اُس وقت تک ایسے رنگ میں غلبہ میسّر آ جائے گی کہ دشمن اُس کو محسوس کرنے لگ جائے گا۔ اسلام اور احمدیت کی کامل فتح تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تحریر فرمایا ہے تین سو سال کے عرصہ میں ہو گی۔ اِس کے بعد جو قومیں احمدؐیت میں شامل نہیں ہوں گی اُن کی حیثیت بالکل ایسی ہی رہ جائے گی جیسے آج کل یہود کی ہے۔ بہرحال وہ آخری ترقی خواہ کچھ لمبے عرصہ کے بعد ہو احمدؐیت کی ایک فتح یا آج سے ساٹھ سال بعد ہو گی یا آج سے ۳۴ سال بعد ہو گی یا آج سے ۳۷ سال بعد ہو گی یا آ ج سے ۴۶ سال بعد ہو گی۔ یا اِن سالوں کے لگ بھگ وہ فتح ظاہر ہو جائے گی کیونکہ پیشگوئیوں میں دن نہیں گنے جاتے بلکہ ایک موٹا اندازہ بتایا جاتا ہے۔ اور جیسا کہ مَیں نے بتایا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اِن چاروں اوقات میں چار مختلف قسم کی فتوحات ظاہر ہوں۔ پس اِن سب سالوں میں یا اِن سالوں کے لگ بھگ ضرور کسی نہ کسی رنگ میں احمدؐیت کو فتح حاصل ہو گی۔
فتح و نصرت کے نشانات قریب قریب عرصہ میں ظاہر ہونے سے یہ بھی فائدہ ہوتا ہے کہ مومنوں کے ایمان ساتھ کے ساتھ تازہ ہوتے رہتے ہیں۔ جیسے گھر سے بہ خیریت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سلامتی کے ساتھ نکل آئے تو مومنوں کو ایک خوشی پہنچی۔ جب غارِ ثور میں دشمنوں کے حملہ سے بچ گئے تو دوسری خوشی پہنچی۔ مدینہ پہنچے تو تیسری خوشی حاصل ہوئی ۔ بدر کی جنگ میں کفار کو شکست ہوئی تو خوشی پہنچی۔ اسی طرح ممکن ہے اللہ تعالیٰ اِن چاروں مدّتوں میں سے ہر مدّت کے اختتام پر فجر کی ایک لَو ظاہر کرتا رہے۔ اور اِ س طرح مومنوں کے ایمانوں کو تقویت دیتا رہے۔ اِسی رات کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے اشعار میں فرمایا ہے
؎ دن چڑھا ہے دشمنانِ دین کا ہم پر رات ہے
اے مرے سورج نِکل باہر کہ مَیں ہوں بے قرار
ھَلْ فِیْ ذٰلِکَ
کیا اس میں عقلمند کے لئے کوئی قسم ہے؟ (یانہیں)۳؎
۳؎حل لغات
حِجْرٌ کے معنے عقل کے ہیں (اقرب) اور ذِیْ حِجْرٍ کے معنے ہوئے عقلمند انسان۔
تفسیر
ھَلْ فِیْ ذٰلِکَ قَسَمٌ لِّذِیْ حِجْرٍ کے لفظی معنے تو یہ ہیں کہ کیا اِس میں قسم ہے عقلمند انسان کے لئے۔ یا کیا اِس میں شہادت ہے عقلمند انسان کے لئے۔ مگر ھَلْ سے یہ مراد نہیں کہ قسم ہے یا نہیں بلکہ ھَلْ کا سوال لفظ عربی زبان میں تصدیق کے لئے آتا ہے جیسے کہ اُردو میں کہتے ہیں کہ کیوں ایسا ہو گیا یا نہیں، اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسا ضرور ہو گیا ہے۔ پس چونکہ اِس جگہ ھَلْ کے لفظ سے سوال کیا گیا ہے اس کے یہ معنے نہیں کہ لوگو بتائو کے اس میں عقلمند کے لئے قسم ہے یا نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ کیا تم اِس سے انکار کر سکتے ہو کہ اِس میں عقلمند کے لئے قسم ہے۔ اور ہر عقلمند انسان کو سلام اور محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سچّا ہونے کی شہادت اِس دلیل میں مل جانی چاہئیے۔
لِذِیْ حِجْرٍ کے الفاظ صاف بتا رہا ہے کہ گزشتہ عظیم الشان نشانات کو پیش کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ اب تو عقلمند انسان کی سمجھ میں یہ آ جانا چاہئیے کہ جو کچھ دعویٰ کیا جا رہا ہے اُس کے دلائل بیّنہ اور براہینِ مقاطعہ موجود ہیں اور جب یہ ظاہر ہوں گے اُس وقت تمہیں ماننا پڑے گا کہ واقعہ میں خدا تعالیٰ نے عظیم الشان غیب کی خبریں دی ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ مرزا صاحب نے یونہی ایک دعویٰ کر دیا ہے اور بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ ایسے شخص کے دل میں یہ خیال کس طرح پیدا ہو گیا کہ وہ ۱۸۹۰ء میں ہی دعویٰ کرے یا آپؐ سے پہلے کسی کے دل میں یہ خیال کیوں پیدا نہ ہؤا کہ وہ ۱۸۹۰ء میں یہ دعویٰ کر دے۔ یہ تعدا د اور سال بہرحال ایک حد تک مخفی تھے۔ پھر پہلے لوگوں کے دلوں میں ان کا خیال کیونکہ پیدا نہ ہؤا اور کیوں آپؐ نے ہی اُس وقت دعویٰ کیا جس وقت پیشگوئیوں کے مطابق مدعی کھڑا ہونا ضروری تھا۔ پھر سوال یہ ہے کہ باقی لوگ کیوں کامیاب نہیں ہوئے اور آپ کیوں کامیاب ہو گئے۔ مہدی کا دعویٰ حضرت مرزا صاحبؑ سے پہلے اور بھی سینکڑوں لوگ کر چکے تھے پھر کیا وجہ ہے کہ وہ تو مِٹ گئے اور جس نے ۱۸۹۰ء میں دعویٰ کیا اُسے خدا نے طاقت عطا فرمائی۔ کیا یہ اِس بات کا ثبوت نہیں کہ اُس کا دعویٰ خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اتفاقی نہیں تھا۔ اگر اتفاقی ہوتا اور آپ کی کامیابی ظاہری جدّوجہد کا نتیجہ ہوتی تو بعض مدعیٔ مہدویت ایسے بھی ہوئے ہیں جنہوں نے ملک فتح کئے اور حکومت قائم کی اور گو وہ بعد میں تباہ ہو گئے مگر بہرحال اُن کے لئے ترقی پانے کے زیادہ مواقع تھے لیکن اِس ک باوجود ایک عارضی کامیابی کے بعد انہوں نے شکست کھائی اور اُن کا نام ہمیشہ کے لئے مٹ گیا۔ اس کے مقابلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کامیابی حاصل کرنے کے کوئی مواقع میسّر نہیں تھے لیکن اس کے باوجود آپؐ نے دُنیا پر فتح پائی۔
پھر ایک اور فرق یہ ہے کہ آپؑ نے اُنہی تاریخوں پر دعویٰ کیا جن تاریخوںکی قرآن کریم اور احادیث میں خبر دی گئی تھی مگر باقی لوگوں میں سے کسی نے آگے دعویٰ کر دیا اور کِسی نے پیچھے۔ گویا وہ سب کے سب ’’مِس فائر‘‘ کر گئے اور صرف آپ ہی ایسے ثابت ہوئے جنہوں نے ٹھیک وقت پر لوگوں کے سامنے دعویٰ پیش کیا۔ بابؔ نے دعویٰ کیا مگر اُس نے بہت پہلے دعویٰ کر دیا۔ اس کے بعد بہاء اللہ نے دعویٰ کیا مگر اس کا دعویٰ بھی پہلے ہؤا اور گو اُس نے کچھ زمانہ ایسا پایا جس سے یہ امر مشتبہ ہو سکتا تھا۔ مگر عین اس سے پہلے جبکہ مہدوت کی مخصوص علامت چاند اور گرہن نے ظاہر ہونا تھا وہ اِ س دُنیا سے چل بسا۔ گویا سب مدعی شہادت کے مواقع سے پہلے گزر گئے یا بعد میں پیدا ہوئے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایسے وقت میں دعویٰ فرمایا جب قرآن اور احادیث کی تمام پیشگوئیاں دتقاضا کر رہی تھیں کہ کوئی مدعی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہو اور وہ لوگوں کی اصلاح کا فرض سرانجام دے۔ لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحبؑ کو کون سی ترقی ایسی حاصل ہوئی ہے جس کی بناء پر ہم یہ یقین کر لیں کہ آپؑ اپنے دعویٰ میں سچے تھے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلؔ کوئی موعود ایسا نہیں گزرا جس کی ہر ملک میں جماعت ہو۔ ہماری جماعت ایسے ایسے ممالک میں قائم ہے جہاںسے چند سال پہلے ایک احمدؐی بھی نہیں تھا۔ اور جہاں اسلام کا نام بھی نہیں پہنچا تھا۔ پھر بڑی بات یہ ہے کہ احمدؐیوں کو وہاں وہاں کام کرنے کا موقع ملا ہے جہاں دوسرے مدعیوں کا ایک فرد بھی نہیں پہنچا۔ مثلاً مغربی افریقہ میں اس ملک کے رہنے والے لوگو ننگے پھرتے تھے۔ عِلم سے بے خبر تھے اور تہذیب وتمدّن سے قطعی طور پر نا آشنا تھے۔ جب احمدؐی مبلغین وہاں تبلیغ کے لئے گئے تو اُن کی وجہ سے ہزارہا لوگ انسانیت کے دائرہ میں شامل ہوئے اور انہوں نے بھی متمدن زندگی بسر کرنی شروع کر دی۔ درحقیقت اس قسم کے عملی کاموں سے ہی کسی قوم کی زندگی کا پتہ لگ سکتا ہے ورنہ خالی ٹریکٹ شائع کر دینے سے کچھ نہیں بنتا۔ ہماری جماعت کو خدا تعالیٰ کے فضل سے اِس قسم کا کام کرنے کی توفیق ملی ہے جس قسم کا کام کرنے کی دوسرے مدعیوں کی جماعتیں قطعًا کوئی مثال پیش نہیں کر سکتیں۔
ترقی کی ایک اور علامت جو قرآن کریم سے ثابت ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم میں تو پائی جاتی ہے لیکن دوسرے مدّعیوں کی جماعتیں اِس سے محروم ہیں وہ قوم کا ایک مرکز مجتمع ہوتا ہے تاکہ اُس کا شیرازہ منتشر نہ ہو اور وہ متحدہ طاقت سے دُنیا میں تبلیغ کرنے کا پروگرام جاری رکھ سکے۔ مثلًا بھائیوں کا اِس وقت تک کوئی مرکز نہیں لیکن جماعت احمدیہ کا قادیان مرکز ہے جہاں ہر سال ہزاروں لوگ آتے ہیں اور علمی اور روحانی لحاظ سے فائدہ اٹھا کر اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔ یہ وہ مرکز ہے جس کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو الہام ہؤا کہ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍِ عَمِیْقٍ (تذکرہ صفحہ ۴۸‘۴۹) تیری طرف دُور دُور سے اور اِس کثرت سے لوگ آئیں گے کہ سڑکوںمیں گڑھے پڑ جائیں گے۔ پھر آپؑ نے رویا میں قادیان کی ترقی کو دیکھا اور فرمایا:۔
’’ہم نے کشف میں دیکھا کہ قادیان ایک قادیان ایک بڑا عظیم الشان شہر بن گیا ہے اور انتہائی نظر سے بھی پرے تک بازار نکل گئے۔ اونچی اونچی دو منزل یا چو منزل یا اس سے بھی زیادہ اونچے اونچے چبوتروں والی دوکانیں عمدہ عمارت کی بنی ہوئی ہیں اور موٹے موٹے سیٹھ بڑے بڑے پیٹ والے جن سے بازار کو رونق ہوتی ہے بیٹھے ہیں اور اُن کے آگے جواہرات اور لعل اور موتیوں اور ہیروں روپوں اور اشرفیوں کے ڈھیر لگ رہے ہیں اور قِسم قِسم کی دوکانیں خوبصورت اسباب سے جگمگا رہی ہیں۔ یکّے ، بھگیایں، ٹم ٹم، فِٹن، پالکیاں، گھوڑے، شِکرمیں، پیدل اِس قدر بازار آتے جاتے ہیں کہ مونڈھے سے مونڈھا بِھڑکر چلتا ہے اور راستہ بمشکل ملتا ہے۔‘‘
(تزکرہ صفحہ ۲۹۳ و ۳۹۴)
یہ پیشگوئی ہے جو قادیان کی ترقی کے متعلق حضرت میسح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمائی ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو یہ خبر دی کہ لوگ اپنے وطنوں کو چھوڑ کر قادیان میں ہجرت کر کے آ جائیں گے (تزکرہ صفحہ ۵۱) چنانچہ اِن پیشگوئیوں کے مطابق قادیان خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہا ہے اور ہزارہا لوگ قادیان میں ہجرت کر کے آ چکے ہیں۔ اپنے وطن کو چھوڑ دینا اور مال و املاک کو ترک کر کے ایک دوسرے شہر میں محض خدا کی رضا کے لئے ہجرت کر کے چلے جانا بڑی بھار قربانی کی علامت ہوتی ہے۔ اور جس قوم میں یہ قربانی پائی جاتی ہو وہ کبھی مٹ نہیں سکتی۔ اِس کے مقابلہ میں عکہؔ اور بہجہؔ میں جا کر دیکھ لو بہائی لوگ بیٹھے مکھیاں مارتے رہتے ہیں اور کوئی شخص بَیرو نجات سے اُن کے پاس نہیں آتا۔ ہمارے آدمی سفر یورپ کے موقع پر وہاں گئے تو بہائی لوگ اُن کے پیچھے پڑ گئے کہ بہاء اللہ کی قبر کے انگور لے جائو۔ یہ بڑی برکت والے ہیں۔ گویا اُن کی حالت بالکل مجاوروں کی سی ہے اور وہی مشرکانہ رسوم وہاں پائی جاتی ہیں جو ہندوستان میں بعض قبروں پر پائی جاتی ہیں۔ پھر وہاں اُن کی ترقی کی جو حالت ہے اُس کا اندازہ اِس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب ہم عکّہ گئے تو جس سے پوچھیں کہ بہائیوں کا مرکز کہاں ہے تو وہ کہتے کہ ہمیں تو علم نہیں۔ اِس پر ہمیں بڑی حیرت ہوئی کہ ہم عکّہ میں بھی پہنچ گئے اور بہائیوں کے مرکز کا بھی ہمیں پتہ نہیں لگتا۔ آخر بڑی دیر کے بعد ایک شخص نے بتایا کہ آپ غلط سوال کر رہے ہیں بہائی اس علاقہ میں بہائیت کے نام سے نہیں بلکہ عجمیّت کے نام سے مشہور ہیں اور اُن کو سب لوگ یہاں عجمی کہتے ہیں۔ آپ عجمی کہہ کر دریافت کرتے تو کسی کو علم بھی ہوتا کہ آپ کِن لوگوں کا ذکر کر رہے ہیں۔ پھر اُس نے بتایا کہ یہ عجمی بھی عکّہ میں نہیں رہتے بلکہ تین چار میل پرے ایک جگہ بہجہؔ ہے وہ وہاں رہتے ہیں۔ چنانچہ ہم موٹر لے کر وہاں پہنچے اور بہائیوں کے حالات کا مشاہدہ کیا۔ اُس وقت ہمیں معلوم ہؤا کہ چونکہ بعض پیشگوئیوں میں عکّہ کا لفظ آتا تھا اس لئے انہوں نے عکّہ کو اپنا مرکز لکھنا شروع کر دیا حالانکہ عکّہ میں نہیں بلکہ اس سے بھی چار پانچ میل دُور رہتے تھے اور پھر باوجود اس کے کہ سالہاسال سے باب اور بہاء اللہ کا دعویٰ تھا پھر بھی اُن کی حالت یہ تھی کہ چار پانچ میل تک بھی لو گ اُن کو نہیں جانتے تھے اور یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی برکت سے یہ حالت ہے کہ کوئی شخص آپؐ کا نام لے دے فوراً لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ مرزا صاحبؑ کے ماننے والوں میں سے ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام پر احمدؐی بھی مرزائیؔ کہلانے لگ گئے ہیں اور یا پھر لوگ ہماری جماعت کے دوستوں کو مولوی کہتے ہیں جس کے معنے ہیں علم والے مگر عجمی کا لفظ عرب میں ہمیشہ کیلئے تحقیر کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور عربی زبان میں اس کے معنے ہوتے ہیں اَن پڑھ اور جاہل لوگ۔ پس اُنہیں تو اپنے علاقہ میں اَنْ پڑھ اور جاہل کہا جاتا ہے اور یہاں احمدؐیوں کو مولوی کہا جاتا ہے جس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ علم والے ہیں۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ترقی کا صحیح مقام ابھی ہماری جماعت کو حاصل نہیں ہؤا اور ہم نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے ساری دُنیا فتح کر لی ہے مگر ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات‘‘ ہمارا ایک مرکز ہونا، ہماری جماعت کا مختلف ممالک میں پھیل جانا، ہزاروں آدمیوں کا اپنے وطن چھوڑ کر قادیان میں ہجرت کے آ جانا اور ہمارا اپنی تعداد اور اپنے علم میں روز بروز بڑھتے جانا یہ اس امر کی علامات ہیں کہ ہم ایک دن ساری دُنیا کو انشاء اللہ فتح کر لیں گے۔ اِس وقت اگر قادیان کے محلّوں اور اُس کی پُرانی اور نئی آبادی کا جائزہ لیا جائے تو سوائے ہمارے کہ ہم قادیان کے اصل باشندے ہیں اور سوائے محلّہ ارائیاں میں رہنے والے چند لوگوں کے جن کی مجموعی تعداد کسی صورت میں بھی دو یا تین سو سے نہیں ہو گی باقی سب کے سب وہ لوگ ہیں جو باہر سے ہجرت کر کے قادیان آئے۔ مَیں سمجھتا ہوں سَو احمدؐیوں میںسے ڈیڑھ فیصدی قادیان کے اصل باشندے ہیں باقی سب کے سب وہ لوگ ہیں جو باہر سے آئے ہیں۔ پھر اِن باہر سے آنے والوں میں کوئی افغانستان سے آیا ہے کوئی برما سے آیا ہے کوئی مالابار سے آیا ہے کوئی سیلون سے آیا ہے کوئی سندھ سے آیا ہے وکوئی بنگال سے آیا ہے۔ اسی طرح بیسیوں علاقے ہیں جن جہاں کے رہنے والے قادیان میں پائے جاتے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ دیکھا جائے کہ قادیان میں کہاں کہاں سے لوگ آئے ہوئے ہیں تو اتنے مختلف مقامات سے آئے ہوئے لوگ ثابت ہوں گے کہ لاہور میں بھی اتنے مختلف مقامات کے لوگ موجود نہیں ہوں گے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں بلکہ بہت بڑی بات ہے اور اس الہام کی صداقت کا ایک زبردست صداقت کا ایک ثبوت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہؤا کہ یَاْتِیْکَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔ یَاْتُوْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍِ عَمِیْقٍ (تذکرہ صفحہ ۴۸‘۴۹) لوگ تیرے پاس دُور دُور سے آئیں گے۔ پھر خدا تعالیٰ نے جماعت احمدؐیہ کو شاخ درشاخ اِس طرح پھیلا دیا ہے کہ ہر قسم کے کارکن ہماری جماعت میں پائے جاتے ہیں۔ اگر ایک طرف زمیندار طبقہ ہے تو دوسری طرف تاجروں کا بھی ایک کثیر حصّہ ہماری جماعت میں موجود ہے۔ اِسی طرح عربی دان ہماری جماعت میں کثرت سے پائے جاتے ہیں تو انگریزی دان لوگوں کی بھی ہماری جماعت میں کمی نہیں ہے۔ غرض ہر طبقہ اور ہر شعبہ میں ہماری جماعت پھیل رہی ہیے۔ اور ہر قسم کے کارکن ہماری جماعت کو میسّر نہیں آ رہے ہیں مگر بہائیوں کو یہ بات نصیب نہیں۔ اُن میں چند خاص قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ اُن میں نہیں پائے جاتے جو اِس بات کی علامت ہے کہ اُن کی جماعت کو وسعت حاصل نہیں جو دُنیا پر چھا جانے والی جماعتوں کو حاصل ہؤا کرتی ہے۔ چند علمی رنگ میں بحثیں کرنے والے آدمیوں کا پیدا ہو جانا کِسی جماعت کے زندگی کے لئے کافی نہیں ہوتا بلکہ یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ قربانی اور ایثار کا مادہ اُن میں زیادہ سے زیادہ پایا جاتا ہو۔ وہ مرکز سے وابستگی رکھتے ہوں۔ اپنی تعلیم کی اشاعت کے لئے ہر مشکل کو برداشت کرنے والے ہوں اور یہ جزبہ اپنے دلوںمیں رکھتے ہوں کہ ہم مر جائیں گے مگر اُس کی تعلیم کو نہیںچھوڑیں گے جس کو لے کر ہم کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ جزبۂ قربانی اور ایثار و استقلال کا یہ مادہ ہماری جماعت میں تو پایا جاتا ہے مگربہائیوں میں اس قسم کی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔
پھر جس قسم کی اشاعت کی توفیق ہماری جماعت کے مبلّغوں کو ملی ہے اُن کو نہیں ملی۔ ہماری جماعت کے مبلّغ سارے جہان میں پھرتے اور لوگوں کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرتے ہیں مگر اُن کے اندر کوئی باقاعدہ تبلیغی نظام نہیں نہ اُن کے مبلّغ غیر ممالک میں جاتے ہیں اور نہ تبلیغی جزبہ اُن کے اندر پایا جاتا ہے۔ اِسی طرح جس قسم کا کام ہماری جماعت کر رہی ہے اُس قسم کے کام کی کوئی مثال بہائی اپنی جماعت کی طرف سے پیش نہیں کر سکتے۔ ہماری جماعت نے پسماندہ اقوام کو اُبھارنے اور ادنیٰ اقوام کو اونچا کرنے اور اُن میں تعلیم رائج کرنے اور انہیںمہذب اور متمدّن بنانے کے لئے جس قدر کوششیں کی ہیں اُن کا عشر عشیر بھی بھائیوں میں نہیں پایا جاتا۔
پھر تعداد کے لحاظ سے دیکھو تو اُن کی ہمارے مقابلہ میں کوئی نسبت نہیں۔ باوجود اِس کے کہ انہوں نے ہماری جماعت سے چالیس سال پہلے کام شروع کیا تھا پھر بھی اب تک صرف چند امراء کی وجہ سے اُن کو شہرت حاصل ہوئی ہے جو اُن کی جماعت میں شامل ہوئے۔ لوگوں کی اکثریت نے اُن کی طرف کوئی توجہ نہیں کی۔ اور اِن چند امراء کا بہائیت کی طرف میلان بھی کِسی قربانی کی وجہ سے نہیں ہؤا بلکہ اس وجہ سے ہؤا کہ امراء مذہبی پابندیوں کو سخت مصیبت سمجھتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا طریق نکل آئے کہ مذہب بھی رہے اور آزادی بھی ہاتھے سے نہ جائے۔ اِس خیال کے ماتحت اگر انہیں کسی مذہب میں آسانی نظر آتی ہے تو وہ اُس میںشوق سے شامل ہو جاتے ہیں۔ سمجھتے ہیں کہ ہم مذ ہب کے بھی پابند رہیں گے اور ہر قسم کے تعیّش سے بھی کام لیتے رہیں گے۔ بہائیت میں اس قسم کی کوئی پابندی نہیں وہ کہتے ہیں نماز جس کے پیچھے چاہو پڑھو اور جو چاہو کرو تمہیں کوئی باز پُرس نہیں ہو گی۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو بیک وقت مذہب اور آزادی سے ہمکنار رہنا چاہتے ہیں وہ اس مذہب میں شامل ہو جاتے ہیں۔
مَیں ولایت گیا تو ایک انگریز بہائی عورت مجھ سے ملنے کے لئے آئی اور کہنے لگی آپ بہاء اللہ کو کیون نہیں مانتے مَیں نے کہا تم قرآن میں نقص بتا دو تو پھر یہ سوال بھی ہو سکتا ہے کہ مَیں کسی اور مذہب کی طرف رجوع کروں ورنہ جب تک قرآن کریم میں کوئی نقص ثابت نہیں ہوتا مجھے کسی اور مذہب کی تعلیم کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے وہ کہنے لگی دیکھئے! قرآن کرم میں کتنا بڑا نقص ہے کہ اُس نے ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے۔ مَیں نے کہا بہاء اللہ نے خود ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے‘ وہ کہنے لگی یہ بات بالکل غلط ہے‘ بہاء اللہ نے قطعًا ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت نہیں دی۔ اُس کے ساتھ ایک اور عورت بھی تھی جو ایرانن تھی اور چھ ماہ کے قریب مرزا عباس علی کے پاس رہ کر آئی تھی۔ مَیں نے اُس انگریز عورت سے کہا تم اپنے ساتھ والی عورت سے پوچھو کہ یہ درست ہے یا نہیں۔اُس نے پوچھا تو وہ جواب دینے میں کچھ شرارت کر گئی کہنے لگی دو شادیوں کا ذکر تو آتا ہے مگر بہاء اللہ نے لکھا تھا کہ میرے کلام کی جو تشریح مرزا عباس علی کریں وہ درست ہو گی اور انہوں نے یہی تشریح کی ہے کہ ایک ہی شادی کرنی چاہئیے۔ مَیں نے کہا یہ بھی کوئی معقول بات ہے کہ دوشادیوں کا ذکر ہو اور کہا جائے کہ اِس سے مراد ایک ہی شادی ہے۔ انگریز عورت کہنے لگی جواب تو درست ہے کہ جب مرزا عباس علی نے تشریح کر دی اور کہہ دیا کہ ایک ہی شادی کرنی چاہئیے تو معاملہ ختم ہو گیا۔ مَیں نے کہا اچھا یہ بتائو بہاء اللہ نے عباس علی کو کہا تھا یا نہیں کہ تم لڑکے کی خاطر دوسری بیوی کر لو۔ اُس انگریز عورت نے کہا یہ بھی نہیں ہو سکتال۔ مَیں نے کہا اپنے ساتھ والی سے پُوچھو۔ اُس سے پُوچھا گیا تو وہ کہنے لگی کہا تھا مگر اُس نے مانا نہیں۔ مَیں نے کہا اُس نے بات نہیں مانی تو وہ نافرمان تھا اُس پر یہ الزام عائد ہوتا ہے۔ کہ اُس نے اپنے باپ کے حکم کو جو مظہرِ خدا تھا خلاف ورزی ک۔ اُس انگریز عورت نے کہا نہیں جب اُس نے انکار کر دیا تو بات صاف ہو گئی۔ بہاء اللہ نے خواہ کچھ لکھا ہو اُس نے انکار کر دیا تو پتہ لگ گیا کہ دوسری شادی جائز نہیں۔ مَیں نے کہا اچھا یہ بتائو کہ بہاء اللہ کی دو بیویاں تھیں یا نہیں۔ انگریز عورت نے پھر کہا ہر گز نہیں۔ مَیں نے کہا اپنی ایرانن بہن سے پُوچھو۔ اُس سے پوچھا گیا تو اُس نے کہا مجھ سے کیوں پوچھتی ہیں۔ مَیں کہا آخر تم وہاں رہ آئی ہو اور تمہاری ساتھن ناواقف ہے تمہارا تنا بتا دینے میں کیا حرج ہے کہ بہاء اللہ کی د و بیویاں تھیں یا نہیں۔ اُس نے کہا بات یہ ہے کہ دعویٰ سے پہلے اُس کی دو بیویاں تھیں لیکن دعویٰ کے بعد اُس نے ایک بیوی کو بہن قرار دے دیا تھا۔ انگریز عورت یہ سُن کر اچھل پڑی اور کہنے لگی دیکھئے دیکھئے!! جواب ہو گیا۔ مَیں نے کہا تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ بہاء اللہ خدائی کے مقام پر تھا اور بچپن سے اُسے غیب کا علم حاصل تھا، اگر بہاء اللہ کو علم تھا کہ مجھے اپنی ایک بیوی کو بہن قرار دینا پڑے گا تو اُس نے دوسری شادی ہی کیوں کی۔ انگریز عورت کہنے لگی نہیں جب اُس نے ایک کو بہن قرار دیا تھا تو یہ کافی تھا۔ مَیں نے کہا اچھا اِس ایرانن بہن سے پوچھو کہ بہن سے بچے پیدا کرنے بھی بہائی مذہب میں جائز ہیں۔ اگر نہیں تو دعویٰ کے بعد اُس بہن کے بطن سے بہاء اللہ کے ہاں اولاد کیوں پیدا ہو ئی تھی۔ اِس پر وہ انگریز عورت جوش سے کھڑی ہو گئی اور کہنے لگی آپ تو گالیاں دینے لگ گئے ہیں۔ مَیں نے کہا یہ گالیاں نہیں بلکہ حقیقت کا اظہار ہے۔ تم اِس سے پوچھو کہ دعویٰ کے بعد بہاء اللہ کے ہاں اُس دوسری عورت سے اولاد ہوئی ہے یا نہیں۔ اِس دفعہ ایرانن دیر تک خاموش رہی مگر آخر اُس نے تسلیم کرنا پڑا کہ دوسری بیوی سے دعویٰ کے بعد اُن کے ہاں اولاد ہوئی تھی۔ مَیں نے کہا اب آپ خود فیصلہ کر لیں کہ ہم قرآن کو کیوں مانتے ہیں اور بہاء اللہ کو اپنے دعویٰ میں کیوں سچّا تسلیم نہیں کرتے۔ بہاء اللہ کو ہم اسی صورت میں مان سکتے تھے جب قرآن کریم کے ذریعہ ہماری دینی ضرورت پوری نہ ہو سکتیں اور بہاء اللہ اس ضرورت کو پورا کر دیتے لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے اور اِدہر ایسی کوئی ایسی ضرورت بھی نہیں ہے جسے اسلامی شریعت نے پُورا نہ کیا ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ قرآنی شریعت کو ترک کیا جائے اور بھائی شریعت کو قابلِ قبول قرار دیا جائے۔
غرض بہائی شریعتِ اسلامی کو منسوخ قرار دیتے اور ایک نئی شریعت دُنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دُنیا میں اس لئے مبعوث ہوئے ہیں کہ آپؑ اسلام کو زندہ کریں اور شریعت کو دنیا میں زندہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے خود آپ کو الہامًا فرمایا کہ یُحْیِ الدِّیْنَ وَیُقِیْمُ الشَّرِیْعَۃً (تذکرہ صفحہ ۶۹)۔مسیح موعود ؑ اس لئے آیا ہے تاکہ وہ اسلام کو زندہ کرے اور شریعت کو دُوبارہ دنیا میں قائم کرے۔ آپ ؑ اس مقصد کو لے کرکھڑے ہوئے اور لاکھوں لوگوں کو اپنے ارگرد اکٹھا کر لیا۔ بہاء اللہ نے یہی کہا کہ اسلامی شریعت میں سے بہت سی باتوں کو یا منسوخ کر دیا یا اُن میں آسانیاں پیدا کر دیں۔ مگر پھر بھی لوگوں نے اس کو نہ مانا۔ بہائیوں کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے اُردو میں کہتے ہیں ’’شافعی سب کچھ معافی‘‘ اُن کا مذہب بھی اسی قسم کا ہے۔ اس قسم کی تحریک کو دُنیا میں چلانا اور بات ہے اور ساری دُنیا کی مخالفت کے باوجود بنی نوع انسان کی ساری زندگی بدلنا‘ اُن کی صبح بدلنا اُن کی شام بدلنا، اُن کا دن بدلنا اُن کی رات بدلنا، اُن کا ظاہر اُن کا باطن بدلنا، اُن کا مذہب بدلنا ان کی سیاست بدلنا، اُن کی تعلیم بدلنا اور اُن کا تمدّن بدلنا یہ وہ کام ہے جسے حقیقی کام کہا جا سکتا ہے اور وہ یہ کام ہے جو گزشتہ دو ہزار سال میں یا تو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا تھا یا اب اُن کے شاگرد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا ہے۔ پس ترقی کے جو آثار وہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں پائے جاتے ہیں۔ آپؑ ہی دینا کے مسیحؑ اور مہؑدی ہیں۔ آپ ؑ ہی اُن کے نجات دہندہ ہیں اور آپ ہی وہ موعود ہیں جو اُن تاریخوں میں ظاہر ہوئے جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بیان فرما دی تھیں یا قرآن کریم میں اُن کا ذکر آتا تھا۔
اَلَمْ تَرَکَیْفَ
کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرے رب نے عاد سے کیا (معاملہ) کیا۴؎
۴؎ تفسیر
اَلَمْ تَرَ قرآن کریم کا ایک محاورہ ہے اس سے روئتِ قلبی یا روئتِ علمی مراد ہوتی ہے روئت عین مراد نہیں ہوتی جیسے قرآن کریم میں ہی ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصْحٰبِ الْفِیْلِ (سورۃ الفیل ع ۱ ۰ ۲) کیا تُو نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل کے ساتھ کیا سلوک کیا حالانکہ اصحاب الفیل کے واقعہ کے بعد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پیدا ہوئے تھے اُس کے حالات آپؐ نے دیکھے نہیں تھے۔ پس معنے یہ ہیں کہ کیا تمہیں معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے اصحاب الفیل سے کیا کیا۔ اِسی طرح اَلَمْ تَرَکَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِعَادٍمیں بھی روئتِ علمی مراد ہے روئت عین مراد نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کیا تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے عاد سے کیا کیا اور کیا تُو اُن حالات سے نصیحت حاصل نہیں کرتا۔ یہاں تُو سے مراد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں بلکہ ہر انسان مخاطب ہے۔ بعض جگہ خطاب واحد کے صیغہ سے ہوتا ہے لیکن مراد ایک جماعت ہوتی ہے۔ یہاں بھی اَلَمْ تَرَ سے مراد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں بلکہ سارے مسلمان اور پھر ساری دُنیا مراد ہے۔ عاد ایک قبیلے کا نام تھا اس کا ذکر تفصیلی طور پر تفسیر کبیر جلد ۳ صفحہ ۲۰۲ نوٹ نمبر ۵۰ میں آ چکا ہے۔ یورپین لوگ کہتے ہیں کہ اس قبیلے کا وجود آثارِ قدیمہ سے نہیں ملتا۔ چنانچہ عرب کے جس قدر کھنڈرات کھودے گئے ہیں اور جس قدر آثار قدیمہ کا سراغ لگایا گیا ہے اُن میں عاد کا وجود کسی جگہ نہیں ملا۔ لیکن اُن کی یہ بات ثبوت اور دلیل کے طور پر تسلیم نہیں کی جا سکتی۔
اوّلؔتو اِس لئے کہ اُن کا پرانے کھنڈرات کو تلاش کرنا یہ معنے نہیں رکھتا کہ عرب کے سارے کھنڈرات انہوں نے تلاش کر لئے ہیں۔ عرب میں انگریزوں کو تو کوئی جانے ہی نہیں دیتا۔ باہر کے علاقوں میں جہاں اُن کا قبضہ ہے اُنہوں نے کچھ کھنڈرات تلاش کئے ہیں۔ لیکن اُن کھنڈرات میں عاد کے نشانات کا نہ ملنا یہ معنے نہیں رکھتا کہ انہوں نے سارے کھنڈرات کھود لئے ہیں اور اب کوئی بھی ایسا کھنڈر باقی نہیں رہا جسے تلاش کیا جا سکے۔ ہندوستان میں انگریز تین سو سال سے حکومت کر رہے ہیں۔ مگر ہندوستان کے سارے کھنڈرات وہ اب تک نہیں نکال سکے۔ تیس چالیس سال کی بات ہے کہ ٹیکسلہؔ میں اشوؔ کا کا شہر نکلا جو ہندوستان کے بہت بڑے بادشاہوں میں سے تھا اور اب تک پتہ نہیں چلتا تھا کہ اس کا مقام کہاں ہے۔ تیس چالیس سال ہوئے وہاں ایک مقام کو جو ’’شاہ دی ڈھیری‘‘ کہلاتا تھا کھودا گیا تو اشوؔ کا کے محلّات اور اُس کا شہر نکل آیا۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ اشوؔ کا صدر مقام کبھی بنگال میں بتاتے تھے۔ کبھی بہار میں اور کبھی کِسی اور جگہ۔ گویا اُس کے حالات اتنے مخفی تھے کہ لوگوں کو یہ بھی معلوم نہیں رہا تھا کہ وہ کہاں رہتا تھا۔ اتفاقیہ طور پر ایک مقام کو کھودا گیا تو اُس میں سے اشوؔ کا محلّات وغیرہ نِکل آئے۔ حالانکہ وہ ایک زمانہ میں سارے ہندوستان کا بادشاہ تھا۔
اسی طرح سندھ میں مجودھارو کے مقام پر جسے سندھی زبان میں ’’موہنجو ڈیرو‘‘ کہتے ہیں ایسے آثارِ قدیمہ برآمد ہوئے جن سے سندھ کی پُرانی تہذیب کا پتہ چلتا ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اشوکا کی تہذیب سے بھی پُرانی ہے۔ سندہیوں کو اِس کا کچھ پتہ نہیں تھا۔ اتفاقًا وہ جگہ کھودی گئی تو نیچے سے ایسے آثار نکل آئے جن کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ آج سے دس بارہ ہزار سال پہلے کے ہیں۔ قاعدہ یہ ہے جو بھی جگہ نکلے اُس کے متعلق کہہ دیا جاتا ہے کہ سب سے قدیم تہذیب کے آثار ہیں۔ تھوڑے ہی دن ہوئے جیکب آباد میں ایک جگہ نکلی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس سے بھی پُرانی ہے۔ پس ایک ایسی جگہ میں بھی جہاں صدیوں سے انگریزوں کی حکومت ہے جب وہ ابھی مکمل کھدائی نہیں کر سکے تو عرب کے متعلق یہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہاں اُس نے پورے طور پر کھدائی کر لی ہے۔ پس اوّل تو یہ دعویٰ کہ کھدائی میں عاد کا نام نہیں نکلا اگر صحیح ہو تو اس سے صرف اتنا پتہ چلتا ہے کہ جن کھنڈرات کی یورپین نے کُھدائی کی ہے اُن میں عاد کا نام نہیں نِکلا نہ یہ کہ عاد کا وجود تھا ہی نہیں۔ اگر چین میں بیٹھا ہؤا ایک شخص یہ کہہ دے کہ افریقہ کوئی نہیں تو اِس کے معنے صرف اتنے ہی ہوں گے کہ اُس نے افریقہ کو نہیں دیکھا نہ یہ کہ افریقہ کا کوئی وجود ہی نہیں۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے جب عادِارم سے فرمایا ہے تو اس سے پتہ لگتا ہے کہ عاد کسی ایک قبیلے کا نام نہیں بلکہ مجموعہ قبائل کا نام تھا اور کئی قسم کے عاد تھے اور جبکہ عاد مجموعۂ قبائل کا نام تھا تو جس قبیلے کی بھی حکومت ہو گی وہ اپنا نام لکھتا ہو گا مجموعے کا نہیں لکھتا ہو گا اس وجہ سے خیال کر لینا کہ پُرانے آثار میں عادِ ارم کا نام نہیں ایک مغالطہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو نام بھی کسی پُرانے عرب قبیلے کا نکلے گا اُسے عاد کے قبائل میں سے ہی قرار دینا پڑے گا۔ کیونکہ عربوں کے نزدیک ان کی پُرانی تہذیب عاد قوم کے مرہون منت تھی۔
تیسرا قطعی ثبوت یہ ہے کہ کہ یونانی جغرافیوں میں لکھا ہے کہ یمنؔ میں زمانہ مسیح سے قبل ایک قبیلہ حاکم تھا جس کا نام ’’ایڈرامی ٹائی‘‘ تھا۔ اور یہ لفظ صاف بتا رہا ہے کہ عادِ ارم کا بگڑا ہؤا ہے۔ یوروپین مصنّفوں نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ اس سے مراد عاد نہیں بلکہ حضر موت ہے مگر یہ خیال غلط ہے۔ اولؔ تو اس لئے کہ ’’ایڈرامی ٹائی‘‘ ایک قبیلے کا نام بتایا گیا ہے اور حضرموت شہر کا نام ہے دوسرے حضر موت کے لئے یونانی جغرافیوں میں ہی ایک علیحدہ لفظ موجود ہے۔ چنانچہ جس جغرافیہ میں ’’ایڈرامی ٹائی‘‘ کا ذکر آتا ہے اُسی جغرافیہ میں حضر موت کا نام ’’ایڈرا موٹی ٹائی‘‘ (ADRAMOTITAI) لکھا ہے اور حضر موت کا یہ نام یونانی اور لاطینی دونون کتب میں مذکور ہے معلوم نہیں یوروپین مصنفین نے ان دو فریقوں کے ہوتے ہوئے جب کہ ایک کا نام شہر کا ہے اَور دونوں کو ایک کس طرح قرار دے دیا۔ ’’ایڈرامی ٹائی‘‘ کا لفظ جو عادِ ارم کے متعلق آتا ہے اصل میں ’’ایڈرامی ٹائی‘‘ ہے ٹائی جو آخر میں آتا ہے وہ یونانی نام کی علامت ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ ایڈ عاد اور رامی ارم ہے اور اس نام سے ملتا ہؤا کوئی قبیلہ عرب کا سوائے عاد ارم کے نہیں ایک مشہور عیسائی مؤرخ اپنی تاریخ میں لکھتا ہے کہ عاد کے متعلق مؤرخوں کی سینکڑوں صفحوں کی کتابیں اُس سے زیادہ معلومات بیان نہیں کر سکیں جتنی معلومات قرآن کریم نے اپنے چند الفاظ میں بیان کر دئے ہیں۔ جس قدر قدیم روایات اس سلسلہ میں بیان کی جاتی ہیں اُن کو دیکھنے کے بعد انسان صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہے کہ پُرانی تاریخوں میں عاد ارم کے متعلق جس قدر باتیں بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب لغو اور فضول ہیں سوائے اُس حصّہ کے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے۔ یہ عیسائی مؤرخ شدید دشمنِ اسلام ہے مگر عاد ارم کی تاریخ کے متعلق قرآن کریم کی فضیلت کا اقرار کرنے پر مجبور ہو گیا (دیکھو العرب قبل الاسلام مصنفہ جرجی زیدان)
قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قبیلہ بہت طاقتور تھا چنانچہ اگلی آیت میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ یُخْلِقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ اس زمانہ تک اتنی طاقت کی کوئی قوم دنیا میں پیدا نہیں ہوئی تھی۔
قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ احقاف میں رہتے تھے۔ احقاف کے عرب میں دو علاقے ہیں ایک وہ علاقہ ہے جو جنوبی احقاف کہلاتا ہے یہ یمن سے شروع ہو کر صنعاء کے نیچے عدن سے اوپر مشرق کی طرف کو چلا گیا ہے پھر وہاں سے پھیلتا ہؤا شمال کی جانب کو نکل گیا ہے۔ دوسرا علاقہ شمالی احقاف ہے جو بصریٰ سے نیچے کی طرف عراق کے بیابان کے ساتھ ساتھ چلا جاتا ہے۔
غرض احقاف نے عرب کو گھیرا ہؤا ہے ایک نیچے احقاف ہیں اور ایک اوپر کے درمیان میں نجد اور حجاز کے علاقے ہیں۔
احقاف اُن ریت کے ٹیلوں کو کہتے ہیں جو اونچے نیچے خم کھاتے ہوئے گذر جاتے ہیں۔ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ یہ لوگ وہاں رہتے تھے جہاں اب احقاف ہیں۔ جیسا کہ فرماتا ہے اِذْکُرْ اَخَا عَادٍط اِذْاَنْذَرَقَوْمَہٗ بِالْاَحْقَافِ (الاحقاف ع ۳) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا زور شمالی اور جنوبی عرب میں تھا یا وہ علاقے جو شمالی اور جنوبی احقاف کہلاتے ہیں اُن میں ان لوگوں کا زور تھا۔ تاریخوں میں جو مختلف روایات آتی ہیں اُن سے پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ جنوب سے پھیل کر شمال میں چلے گئے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ثمود قوم جو عاد کا ایک قبیلہ تھی اس کے آخری دَور میں اس کی حکومت شمالی عرب اور جنوبی فلسطین میں تھی اور یہیں اس کے آثار ملتے ہیں۔ چنانچہ حجر بھی اُن کا ایک شہر ہے جو مدینہ ٔ منورہ اور تبوک کے درمیان ہے۔
یہ قوم حضرت نوح علیہ السلام کے بعد ہوئی ہے چنانچہ قرآن کریم میں اُن کے نبی کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ وَاذْکُرُوْآ اِذْجَعَلَکُمْ خُلْفَآئَ مِنْ م بَعْدِ قَوْمِ نُوْحٍ (الاعراف ع ۹) یعنی یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تم کو نوحؑ کی قوم کے بعد دنیا میں غلبہ عطا کیا۔ پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نوحؑ کے ساتھ براہ راست جس قوم کا تعلق تھا اورجس نے قوم نوحؑ کے بعد عرب میں غلبہ حاصل کیا وہ عاد لوگ تھے۔
تورات میں جو بابل کی تباہی کا ذکر ہے اور جو قومِ نوحؑ کی تباہی تھی معلوم ہوتا ہے اس تباہی کے بعد جو اقوام بابل سے نکل کر پھیل گئیں اُن میں سے ایک قبیلہ جس نے بعد میں ترقی کی اس کا نام عاد تھا۔ چنانچہ قرآن کریم میں حضرت ہود علیہ السلام اُن کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں وَزَادَکُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْطَۃً (الاعراف ع ۹) یہاں پیدائش کے معنے نسل کے بھی ہیں اور جسم کی بناوٹ کے بھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ قد آور جوان تھے اور اُن کی نسل نے خوب ترقی کرتی تھی۔ اس بناء پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ عمالقہ کی نسلیں جو عرب کے شمال میں تھیں وہ انہی لوگوں کے بقایا میں سے تھیں۔
پھر یہ بھی پتہ چلا کہ اس قبیلہ میں شرک کا مرض بھی کثرت سے تھا۔ چنانچہ حضرت ہود علیہ السلام کہتے ہیں یَاقَوْمِ اعْبُدُو االلّٰہَ مَالَکُمْ مِّنْْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ (الاعراف ع ۹) اے میری قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سور تمہارا کوئی معبود نہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ قوم شرک میں مبتلا تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بھی چونکہ شرک میں مبتلا تھی اس لئے معلوم ہوتا ہے وہی روایات ان میں بھی آ گئیں۔
پھر یہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں بناتے تھے چنانچہ اسی سورۂ فجر میں ان کو ذات العماء کہا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ و ہ لوگ بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنانے والے تھے۔
پھر قرآن کریم میںیہ بھی بتایا گیا ہے کہ اُن کی تباہی ایک آندھی سے ہوئی تھی جو سات راتیں اور آٹھ دن متواتر اُن پر چلتی رہی۔ اور پھر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ اس طرح تباہ و برباد کر دئے گئے کہ قومی طور پر اُن کا کوئی نشان باقی نہیں رہا چنانچہ فرماتا ہے فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰٓی اِلَّا مَسَاکِھُمْ (احقاف ع ۳) ان کی قوم کا نشان بالکل مٹ گیا ہے صرف اُن کی بڑی بڑی عمارتوں کے آثار باقی رہ گئے ہیں۔
دیکھو یہ بھی کیسی زبردست پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی۔ یوروپین مؤرخ اعتراض کرتے ہیں کہتے ہیں کہ ہمیں عاد کا کہیں نام نہیں ملتا اور وہ اتنا نہیں سوچتے کہ قرآن کریم نے خود کہہ دیا تھا کہ فَاَصْبَحُوْا لَا یُرٰٓی اِلَّا مَسَاکِھُمْ صرف عمارتیں نظر آئیں گی۔ اُن کا نام نظر نہیں آئے گا کیونکہ ہم نے اُن کا نام بالکل مٹا دیا ہے پس اگر انہوں نے یہ نئی تحقیق کی ہے کہ عاد کا نام آثار قدیمہ میں نہیں ملتا تو ہم کہتے ہیں اس سے بھی قرآن کریم کی صداقت ہی ثابت ہوتی ہیت کیونکہ قرآن کریم نے خود کہا تھا کہ آثار قدیمہ کی تلاش ور جستجو کے بعد اُن کی عمارتیں تو ٹوٹی پھوٹی تمہیں مل جائیں گی مگر اُن کا نام نہیں ملے گا۔ پس یہ جملہ قرآن کریم کو باطل کرنے والا نہیں بلکہ اس کی اَور بھی تائید کرنے والا ہے۔ عاد قوم کے بنی حضرت ہودؑ تھے ان کا ذکر قرآن کریم میں سترہ جگہ آیا ہے۔
(۱)ہود۔ اس میں چار جگہ نام آیا ہے۔ (۲)شعراء (۳) قمر (۴)فُصِّلَتْ (۵) اعراف (۶)فجر (۷)ذاریات (۸)ص (۹)ق (۱۰) توبہ (۱۱)ابراہیم (۱۲)حج (۱۳)مومن (۱۴) نجم (۱۵)فرقان (۱۶)عنکبوت (۱۷) احقاف ۔ سورہ ٔفُصّلت میں دو دفعہ اور ہود میں چار دفعہ ذکر آتا ہے اس طرح سارے قرآن کریم میں ان کا ۲۱ دفعہ ذکر کیا گیا ہے۔
میں ان قرآنی حالات کے متعلق ایک عیسائی مؤرخ کا قول پہلے بیان کر چکا ہوں کہ ان حالات سے زیادہ مکمل اور صحیح حالات ہمیں دنیا کی اور کسی تاریخ سے نہیں مل سکتے۔
اِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِ
یعنی (عاد) ارم سے جو بڑی بڑی عمارتوں والے تھے ۵؎ وہ جن کی مثل (اقوم) ان ملکوں میں پیدا ہی نہ کی گئی تھی ۶؎
۵؎حل لغات
اَلْعِمَادُ: ۔ کے معنے ہیں اَلْاَبْنِیَۃُ الرَّفِیْعَۃُ اونچی عمارتیں۔ اس کا مفرد عِمَادَۃٌ آتا ہے (اقرب) پس ذَاتِ الْعِمَادِ کے معنے ہوئے۔ بلند اور اونچی عمارتوں والا قبیلہ۔
تفسیر
اِرم عطفِ بیان ہے عاد کے بعد۔ اِرم کے متعلق تین مختلف خیالات پائے جاتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ارم قبیلے کا نام ہے اور یہاں ارم قبیلہ سے تعلق رکھنے والے عاد کا ہی ذکر کیا گیا ہے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ قبیلے کا نام نہیں بلکہ ایک شہر کا نام ہے۔ وہ لوگ بِعَادٍ اِرَمَ کی بجائے بِعَادِ اِرَمَ پڑھتے ہیں یعنی وہ عاد جو ارم جگہ کا رہنے والے تھے۔ بعض لوگوں نے کہا ہے کہ یہ ہے تو شہر کا نام مگر مراد ہے اِرَمَ صَاحِبِ ذَاتِ الْعِمَادِ یعنی ارم جو بڑی عمارتوں والے تھے۔
قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قبیلہ کے لوگ بڑی بڑی عمارتیں بنایا کرتے تھے چنانچہ سورۂ شعراء میں حضرت ہودؑ اُن کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں اَتَبْنُوْنَ بِکُلِّ رِیْحٍ اٰیَۃً تَعْبَثُوْنَ وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعٍ لَعَلَّکُمْ تَخْلَدُوْنَ (الشعراء ع ۷ ۱ ۱) یعنی تم لوگ ہر پہاڑی پر شاندار عمارتیں بناتے ہو اور بڑے بڑے کارخانے تیار کرتے ہو اور خیال کرتے ہو کہ تم حوادثِ روزگار سے ہمیشہ محفوظ رہو گے اور کبھی دنیا سے مٹ نہیں سکو گے۔ یہ اس قبیلہ کی ایک امتیازی خصوصیت تھی جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے۔
۶؎تفسیر
لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ سے مراد یہ ہے کہ اس قوم سے پہلے اور کوئی قوم اس جیسی طاقتور نہیں گزری۔ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر مختلف رنگ میں اس قسم کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کو دیکھ کر بعض لوگ اعتراض کر دیا کرتے ہیں کہ ساری قوموں یا سارے لوگوں کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اُن کی کوئی مثال نہیں پائی جاتی۔ ایک قوم تو ایسی ہو سکتی ہے جو بے مثال ہو لیکن ہر قوم کے متعلق کہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اُس جیسی پہلے کوئی قوم نہیں گزری۔ اس اعتراض کے متعلق یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ طاقت وقوت میں مقابلہ کبھی ایک ملک سے ہوتا ہے اور کبھی ایک قوم سے۔ اور کبھی ساری دنیا سے۔ اگر بالکل ابتدائی زمانہ ہو اور اُس وقت کسی قوم کے متعلق یہ کہا جائے کہ لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ تو اس سے مراد صرف یہ ہو گی کہ اُس سے پہلے اور کوئی قوم اتنی بڑی طاقت حاصل نہیں کر سکی اور اگر مختلف قومیں دنیا میں پھیل چکی ہوں اور مختلف ممالک ہیں مختلف قومیں حکومتیں کر رہی ہوں تو اُس وقت اس قسم کے الفاظ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں اس سے بڑی طاقت ور اور کوئی نہیں تھی گویا یہ الفاظ محض نسبتی ہوتے ہیں کلّی فضیلت مراد نہیں ہوتی۔ انسان کا اپنا فرض ہوتا ہے کہ وہ عقل سے کام لے اور صحیح معنوں کی تعیین کرے۔ ہاں ایمانیات کا معاملہ اس سے مختلف ہے وہاں ایسے قرائن بھی رکھ دئے جاتے ہیںجن سے اس نتیجہ پر پہنچنے میں آسانی ہو جاتی ہے کہ کسی جزوی فضیلت کا ذکر کیا جا رہا ہے یا کلّی فضیلت کا۔ مثلًا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سارے زمانوں کے لئے اور آپ قیامت تک آنے والے تمام لوگوں کے مطاع اور پیشوا ہیں یہ بات چونکہ ایمانیات سے تعلق رکھتی تھی اور ہر وہ شخص جو آپ کی اس فضیلت پر ایمان نہ لاتا روحانی لحاظ سخت مجرم اور گنہگار سمجھا جاتا۔ اِس لئے جہاں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عالمگیر بعثت کاذکر کیا گیا وہاں ایسے قرائن بھی رکھ دئے گئے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ سارے زمانوں اور سارے ملکوں کے لئے ہیں آپ کی نبوت سابق انبیاء کی طرح مختص الزمان نہیں ہے لیکن جہاں کسی قوم کی صرف ظاہری طاقت اور شوکت کا اظہار ہو وہاں معقول انسان کا فرض ہے کہ وہ خو اندازہ لگائے اور سوچے کہ یہ نسبتی الفاظ ہیں یا کلّی۔ جیسے قرآن کریم ہمیشہ ذومعانی الفاظ استعمال کرتا ہے لیکن عقلمند انسان دیکھ لیتا ہے کہی اس عبارت میں کون سے معنے چسپاں ہوتے ہیں اور کون سے نہیں۔ بسا اوقات چار میں سے دو معنے چسپاںہو سکتے ہیں۔ قرآن کریم صرف اُسی جگہ قرائن مرجّح رکھتا ہے جہاں معنوں میں ادنیٰ غلطی ایمان میں خرابی پیدا کر دیتی ہو۔ جیسے فرمایا تھا وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِق۔ اب طارق کے لفظ سے ایک شبہ پیدا ہو سکتا تھا جس کا مَآاَدْرٰکَ مَاالطَّارِقُ کہہ کر ازالہ کیا۔ کیونکہ طارق کے دو معنے ہیں ایک معنے ہیں رات میں آنے والا اور دوسرے معنے ہیں صبح کا ستارہ۔ چونکہ گزشتہ سورتوں سے ایک نبی کے آنے کی پیشگوئی بیان ہو رہی تھی اس لئے ضروری تھا کہ اس کی حیثیت پر روشنی ڈالی جاتی اور بتایا جاتا کہ اُس کی حیثیت رات میں آنے والے کی سی ہے یا صبح کے ستارے کی سی۔ سو اس کے بعد وَمَآاَدْرٰکَ مَاالطَّارِقُ النَّجْمُ الثَّاقِبُ کہہ کر بتا دیا کہ یہاں کوئی اور معنے مراد نہیں بلکہ صرف النَّجْمُ الثَّاقِبُ والے معنے مراد ہیں۔ یہ قرآن کریم کا دستور ہے کہ وہ جہاں معنوں کی تعیین کرنا چاہتا ہے مَااَدْرٰکَ کے الفاظ لے آتا ہے لیکن دوسرے مقامات پر انسان کو مختلف معنوں کی اجازت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے ہم تمہاری عقل پر اعتبار کرتے ہیں عقل سے کام لو اور صحیح معنے کرو۔ پس جہاں مختلف معانی سے کوئی خلل پیدا نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ بھی کوئی تعیین نہیں کرتا لیکن جہاں کسی خلل کا امکان ہو وہاں اللہ تعالیٰ اپنے مخصوص معنے بتا دیتا ہے جیسے اَلْقَارِعَۃُ مَاالْقَارِعَۃُ کے بعد النَّجْمُ وَمَآاَدْرَاکَ مَاالْقَارِعَۃُ کہہ کر بتا دیا کہ قارعہ کے اگرچہ لُغت میں کئی معنے ہیں لیکن ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اس جگہ اُن معنوں میں سے صرف فلاں معنے مراد ہیں دوسرے معنے کرنے جائز نہیں ہیں۔ غرض جہاں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی یا ایمانیات میں کوئی نقص واقعہ ہونے کا احتمال نہیں ہوتا قرآن کریم آیات کے معانی کو محاورۂ زبان اور عقل صحیح پر چھوڑ دیتا ہے۔
لَمْ یُخْلَقْ مِثْلُھَا فِی الْبِلَادِ میں بھی کوئی ایسی بات نہیں جس کی کسی خاص پیشگوئی یا ایمانیات پر زد پڑتی ہو اس لئے قرآن کریم نے عمومیت کے رنگ میں یہ ذکر کر دیا ہے کہ وہ لوگ بڑی طاقت والے تھے۔ اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اپنی عقل اور تاریخی معلومات کی بناء پر فیصلہ کریں کہ یہ بات اُس وقت کے زمانہ کے لحاظ سے کہی گئی ہے یا ساری دنیا کے لحاظ سے۔ عاد چونکہ بالکل ابتدائی زمانہ میں ہوئے ہیں اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہاں ساری دنیا کے مقابلہ میں ان کی فوقیت کا ذکر نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ بتانان مقصود ہے کہ اپنے زمانہ کے لحاظ سے یا عرب کے لحاظ سے اُن جیسی طاقتور قوم اور کوئی نہ تھی۔ یہ قرآن کریم کی ایک خاص خوبی ہے کہ اس میں کئی تشریحات کو انسانی عقل پر چھوڑا گیا ہے تا کہ دماغی انحطاط واقعہ نہ ہو۔ قرآن کریم لوگوں کو جاہل نہیں بناتا بلکہ جہاں کسی شبہ کا امکان ہو صرف اس کا ازالہ کرتا ہے اور جہاں ایمانیات میں کسی خطرہ کا امکان ہو اس کو پوری طرح ظاہر کر دیتا ہے تاکہ لوگ ٹھوکر نہ کھائیںاور اُن کا ایمان محفوظ رہے۔
وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ
اور کیا ثمود کے متعلق تجھے معلوم ہے ٭ وادی (القریٰ) میں پہاڑیوں کو کھودتے تھے۷؎
۷؎ حل لغات
جَابُوْا: جَابَ سے جمع کا صیغہ ہے اور جَابَ الثَّوْب (یَجُوْبُہٗ جَوْبًا) کے معنے ہوتے ہیں قَطَعَہٗ۔ اس نے کپڑے کو پھاڑا۔ اور جَابَ الصَّخْرَۃَ کے معنے ہوتے ہیں خَرَقَھَا۔ اس نے پتھر کو کھودا۔ وَمِنْہُ فِی الْقُرْاٰنِ وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوا الصَّخْرَ بِالْوَادِ اَیْ قَطَعُوْہُ وَاتَّخَذُوْہُ مَنَازِلَ یعنی قرآن کریم میں جو یہ آتا ہے کہ وَثَمُوْدَ الَّذِیْنَ جَابُوْا الصَّخْرَ بِالْوَادِ (اقرب) اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ پتھروں کو تراش کر یا اُن کو کاٹ کاٹ کر عمارتیں بناتے تھے گویا اس آیت کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ چٹانوں کو کاٹ کاٹ کر پتھر لاتے اور اپنے لئے پتھروں کی عمارتیں بناتے اور یہ بھی معنے ہو سکتے ہیں کہ وہ پتھریلی چٹانوں کو کاٹ کاٹ کر ان میں عمارتیں تیار کیا کرتے تھے۔
اَلصَّخْرُ: اَلصَّخْرَۃُ کی جمع ہے اور اَلصَّخْرَۃُ کے معنے ہیں اَلْحَجْرُ الْعَظِیْمُ الصُّلْبُ۔ ایسا بڑا پتھر جو سخت بھی ہو (اقرب) پس اَلَّذِیْنَ جَابُوْا لصَّخْرَ بِالْوَادِ کے معنے ہوئے وہ لوگ جنہوں نے پہاڑ کاٹ کر اور پتھر اکٹھے کر کر کے وادی میں اپنے مکان بنائے یا پہاڑی وادی میں انہوں نے پہاڑوں کو تراش تراش کر عمارتیں بنائیں۔
تفسیر
ثمود قوم کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ پہاڑوں کو تراش تراش کر اپنے لئے عمارتیں بنایا کرتی تھی۔ اس قوم کا دارالحکومت حجرؔ تھا جو مدینہ منوّرہ اور تبوک کے درمیان ہے اور اس وادی کو جس میں حجر واقع ہے وادیٔ قریٰ کہا جاتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب غزوۂ تبوک پر جا رہے تھے اور ہزاروں صحابہؓ آپ کے ساتھ تھے۔ چلتے چلتے راستہ میں حجر شہر آیا اور وہاں تھوڑی دیر کے لئے آپ نے پڑائو کیا۔ صحابہؓ نے دیکھا تو انہوں نے اپنے آٹے نکالے اور گوندھ کر کھانا پکانے لگ گئے۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اعلان فرمایا کہ یہ وہ مقام ہے جہاں خدا تعالیٰ کا عذاب نازل ہؤا تھا اس لئے یہاں کا پانی کوئی نہ پئے اور نہ کسی اَور مصرف میں لائے چنانچہ حدیث کے الفاظ ہیں۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَزَلَ الْحِجْرَ فِی عَزْوَۃِ تُبُوْکَ اَمَرَھُمْ اَنْ لَایَشْرَبُوْا مِنْ بِئْرِھَا وَلَا یَسْتَقُوْا مِنْھَا فَقَالُوْا قَدْ عَجِنَّا مِنْھا وَاسْتَقَیْنَا فَاَمَرَھُمْ اَنْ یَّطْرَحُوْا ذٰلِکَ الْعَجِیْنَ وَیُھْرِیْقُوْا ذٰلِکَ الْمَائَ (بخاری کتاب الانبیاء) یعنی آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غزوۂ تبوک کو جاتے ہوئے حجر مقام پر اُترے تو آپ نے صحابہ کو حکم دے دیا کہ نہ تو وہاں کے کنوئوں کا پانی خود پئیں اور نہ پینے کے لئے ساتھ لیں۔ تو لوگوں نے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ ہم نے تو اس پانی سے آٹے گوندھ لئے ہیں اور پانی بھی لے لیا ہے تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے گوندھے ہوئے آٹے کو پھینکوانے اور جمع شدہ پانی کو گرانے کا حکم دے دیا۔
دیکھو اللہ تعالیٰ کے انبیاء خدا تعالیٰ کے غضب سے کس قدر ڈرا کرتے ہیں۔ کہ باوجود اس کے کہ وہ لوگ مر گئے تھے جب پر غضب نازل ہؤا تھا اور وہ شہر اُجڑ گیا جو اُس غضب کا نشانہ بنا تھا۔ سالوں کے بعد سال اور صدیوں کے بعد صدیاں گذرتی چلی گئیں مگر اس قدر مدت دراز گزرنے کے باوجود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ حالت تھی کہ وہ آج بھی اس مقام پر خدا تعالیٰ کا غضب نازل ہوتے دیکھ رہے تھے آج بھی اس مقام پر خدا تعالیٰ کے فرشتوں کو *** کرتے دیکھ رہے تھے آپ نے اتنا بھی پسند نہ کیا کہ اُس جگہ کے پانی سے گندھا ہؤا آٹا صحابہ استعمال کریں۔ آپ نے فوراً حکم دیا کہ اپنے گندھے ہوئے آٹے کو پھینک دو، سواریوں پر چڑھ جائو اور فوراً اس مقام سے نکل جائو کہ یہ وہ مقام ہے جو خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنا تھا ۔ اسی طرح جہاں خدا تعالیٰ کی رحمت کا کوئی نشان نازل ہو انبیاء اُن مقامات کا نہایت ادب کرتے ہیں اور جب بھی ان جگہوں میں جاتے ہیں اُن کے دلوں پر خدا تعالیٰ کی خشیت طاری ہو جاتی ہے اور سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے وہ کسی اور طرف توجہ نہیں کرتے۔ اس کے مقابلہ میں لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ نہ خدا تعالیٰ کے غضب کے نشانات اُن کے دلوں میں اُس کی محبت پیدا کرتے ہیں۔ مثلًا مساجد خدا کا گھر کہلاتی ہیں اور مساجد وہ مقام ہیں جو خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے مخصوص ہیں مگر لوگ جب مسجد میں آتے ہیں تو ہزاہا قسم کی بکواس کرتے ہیں، آپس میں دنیوی معاملات پر لڑتے جھگڑتے ہیں، ایک دوسرے کو جوش میں گالیاں بھی دیتے ہیں، غیبت بھی کر لیتے ہیں اور انہیں بھی ذرا بھی یہ احساس نہیں ہوتاکہ وہ خدا کے گھر میں بیٹھ کر کس قسم کی شرمناک حرکات کر رہے ہیں۔ اُنہیں تو چاہئیے تھا کہ وہ جب تک مساجد میں رہتے اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اُن کی زبانیں تر رہتیںمگر وہ بجائے ذکر الٰہی کرنے کے دنیوی امور میں اپنے قیمتی وقت کو ضائع کر کے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کے مرتکب بن جاتے ہیں تم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خدا تعالیٰ کے غضب کے مقام کو کتنا بُرا جانا اور کس طرح اُس سے نفر ت کا اظہار کیا کہ گُندھا ہؤا آٹا پھنکوا دیا۔ اور یہ پسند نہ کیا کہ اُس آٹے کا ایک لقمہ تک کسی صحابی کے اندر جائے حالانکہ وہ ایام سخت تنگی کے تھے۔ صحابہ کی مالی اور اقتصادی حالت سخت کمزور تھی۔ خود صحابہ بیان کرتے ہیں کہ ہم بعض دفعہ کھجوروں کی گٹھلیاں کھا کھا کر گذارہ کیا کرتے تھے۔ اس تنگی کے باوجود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے منوں آٹا پھینکوا دیا اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہ کی کہ لشکر کیا بنے گا۔ اس غزوہ میں تین ہزار صحابی آپ کے ساتھ تھا۔ اگر فی کس ایک پائو آٹے کا بھی اندازہ لگایا جائے تو قریبًا آٹھ سو سیر یا بیس من کے قریب آٹا ایسے زمانہ میں جب اُن کے پاس کھانے پینے کے وافر سامان نہیں ہؤا کرتے تھے حُکمًا پھینکوا دیا گیا۔
یہ ہے خشیت جو لوگوں دل میں ہونی چاہئیے اور جس اسلام ہر مومن سے تقاضا کرتا ہے۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خود ہماری جماعت میں سے بعض لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب وہ مقبرہ بہشتی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مزار پر دعا کرنے کے لئے جاتے ہیں تو اُن میں سے بعض درختوں کا پھل توڑ کر کھانے لگ جاتے ہیں۔ گویا بجائے اس کے کہ مقبرہ بہشتی میں جا کر اُن کے دلوں میں خدا کا خوف پیدا ہواور دعا پر زور دیں کھانے پینے کا خیال اُن کے دل میں پیدا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح مساجد میں اس قسم کی باتیں ہوتی ہیںاور اس قدر شور بعض لوگوں نے مچایا ہؤا ہوتا ہے کہ تعجب آتا ہے کیوں ابھی تک لوگوں کو اتنی موٹی بات معلوم نہیں ہوئی کہ انہیں مساجد کا احترام کرنا چاہئیے اور لغو باتوں کی بجائے ذکر الٰہی میں اپنا وقت گزارنا چاہئیے۔
مومن کے ایمان کی سچی علامت یہی ہے کہ جب وہ کسی ایسے مقام سے گزرے جو خدا تعالیٰ کے کسی عذاب کو یاد دلانے والا ہو تو وہاں اُس کے اعضاء اور جوراح سے کسی قسم کی بیباکی ظاہر نہ ہوتی ہو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت اُس دل پر طاری ہواور وہ اُس عذاب کو اپنی آنکھوں سے اِس طرح دیکھ رہا ہو جس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حجر میں اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتے دیکھا۔ اسی طرح جب وہ مسجد میں آئے یا کسی ایسی جگہ جائے جہاں خدا تعالیٰ نے اپنا کوئی نشان ظاہر کیا ہو تو وہاں فضول اور لغو باتیں نہ کرے بلکہ ذکر الٰہی اور خدا تعالیٰ کی یاد کرے۔ نمازیں پڑھے دعائوں میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ سے زیادہ جذب کرنے کی کوشش کرے یا اگر باتیں ہی کرنی ہیں تو دین کی باتیں کرے۔ جیسے ہم اپنی مساجد میں جب بیٹھتے ہیں تو ہمیشہ دین کی باتیں کرتے ہیں یا ایسی دنیوی باتیں بھی کر لیتے ہیں جو دین سے تعلق رکھتی ہیں مگر یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ مساجد میں بیٹھ کر سودا سلف کی باتیں شروع کر دی جائیں یا گھر کے جھگڑے بیان ہونے لگ جائیںیا ایک دوسرے کی غیبت شروع ہو جائے یہ ساری باتیں سخت معیوب ہیں اور انسان کو خدا تعالیٰ کی نظر میں بنا دیتی ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اس نمونہ کو ہر وقت اپنے سامنے رکھو کہ آپ حجر مقام پر اُترے مگر تھوڑی دیر کے بعد گھبرا کر کھڑے ہو گئے اور صحابہؓ سے فرمایا کہ چلو یہاں سے یہ وہ مقام ہے جہاں خدا کا عذاب نازل ہؤا تھا۔
ثمود قوم کے نبی حضرت صالحؓ تھے۔ صالح عربی زبان کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صالح عربک کے ایک ہی نبی تھے۔ قرآن کریم سے یہ بھی پتہ لگتا ہے یہ لوگ عاد کے بعد ہوئے ہیں۔ چنانچہ فرماتا وَاذْکرُوْآ اِذْ جَعَلَکُمْ خُلَفَآئَ مِنْم بَعْدِ عَادٍ (الاعراف ع ۰ ۱ ۷ ا) اُس وقت کو یاد کرو جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں عاد کے بعد اُن کا قائم مقام بنایا۔ اس سے یہ بھی استدلال ہوتا ہے کہ عاد بھی عرب ہی تھے۔
آثار قدیمہ کی تلاش اور جستجو کے سلسلہ میں قوم ثمود کے کتبے بھی دستیاب ہوئے ہیں اور یوروپین لوگوں نے ان کتبوں کو تسلیم کیا ہے یہ کتبے عرب کے شمالی حصّوں سے ملے ہیں جس سے اُن عرب جغرافیہ نویسوں کی تائید ہوتی ہے جن کا یہ خیال ہے کہ ثمود قوم جنوب سے ہجرت کر کے شمال کی طرف آئی تھی یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ کچھ مصر کی طرف بھی بڑھے تھے۔ بہرحال قومِ ثمود عاد کے بعد ہوئی ہے اور جب کہ عاد کو نوحؑ کی قوم کا قائم مقام قرار دیا گیا ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حضرت نوحؑ بھی عرب کے کسی علاقہ میں ہی مبعوث ہوئے تھے اور پھر اس سے عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے کا بھی ایک ثبوت مل گیا۔
قرآن کریم دعویٰ کرتا ہے کہ ابتدائی زبان عربی تھی اور یہی زبان باقی تمام زبانوں کی اُم ہے یہ علیحدہ بات ہے کہ دشمن اس بات کو تسلیم نہ کرے لیکن قرآن کریم یہی کہتا ہے کہ ابتدائی نسل کی زبان عربی تھی۔ اس کا ثبوت اس امر سے بھی ملتا ہے کہ قرآن کریم حضرت نوحؑ کو آدم کے معًا بعد قرار دیتا ہے۔ اب اگر نوحؑ تک یہ سلسلہ پہنچ جائے اور ثابت ہو جائے کہ حضرت نوحؑ عربی نسل سے تعلق رکھتے تھے تو ساتھ ہی عربی زبان کے ام الالسنہ ہونے کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے۔
یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ قوم ثمود، عاد کی قائم مقام تھی اور عاد، نوحؑ کی قائم مقام تھی اور چونکہ ثمود اور عاد دونوں عربی اقوام ہیں اس لئے معلوم ہؤا کہ حضرت نوحؑ بھی عرب کے کسی علاقہ میں مبعوث ہوئے تھے اور تاریخ سے بھی حضرت نوحؑ کا مقام عراق میں ہی ثابت ہوتا ہے جب حضرت نوحؑ تک یہ زبان پہنچ گئی تو نوحؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وہ آدمؑ کے معًا بعد ہوئے بتاتا ہے کہ ابتدائے عالم کی زبان عربی تھی کیونکہ نسل انسانی کا آغاز عرب سے مانا جائے تو لازمًا اُس ملک کی زبان کو بھی اُم الالسنہ تسلیم کرنا پڑے گا بہرحال عرب اور اس کے متعلقہ علاقہ سے ابتدائے تہذیب کے وابستہ ہونے کا دعویٰ ان آیات سے مستنبط ہوتا ہے اور تاریخی واقعات اس دعویٰ کی تائید کرتے ہیں۔
ثمود کا ذکر قرآن کریم میں ۲۱ جگہ آیا ہے
(۱) ہود (۲) شعراء (۳) قمر (۴) ھآقہ (۵) شمس (۶) اسرائیل (۷) اعراف (۸) نمل (۹) فُصِّلت (۱۰) ذاریات (۱۱) توبہ (۱۲) ابراہیم (۱۳) حج (۱۴) مومن (۱۵) ص (۱۶) فرقان (۱۷) عنکبوت (۱۸) ق (۱۹) فجر (۲۰) بروج (۲۱)نجم
(ثمود اور صالحؑ اور اُن کے واقعہ کے لئے دیکھئے تفسیر کبیر جلد سوم صفحہ ۲۱۱ تا صفحہ ۲۱۷ نوٹ نمبر ۶۰ تا ۶۵)
وَفِرْعَوْنَ
اور فرعون (کے متعلق بھی تجھے معلوم ہے) جو پہاڑوں کا مالک تھا۔ (کیا تجھے) ان سب لوگوں کا (حال معلوم ہے) جنہوں نے شہروں میں سرکشی کی تھی۸؎
۸؎ حل لغات
اَوْتَادٌ وَتَدٌ کی جمع ہے اور وَتَدٌ اس کھونٹے یا لکڑی کے اُس کیلے کو کہتے ہیں جو دیوار یا زمین میں گاڑا جاتا ہے اَوْتَادُ الْاَرْضِ پہاڑوں کو کہتے ہیں اَوْتَادُ الْقَمِ دانتوں کو کہا جاتا ہے (اقرب) اس لحاظ سے آیت کے کئی معنے ہو جائیں گے یہ بھی کہ وُہ فرعون جو خیموں والا تھا۔ یا یہ کہ وہ فرعون جو پہاڑوں والا تھا یا بڑی بڑی عمارتوں والا تھا (بلند وبالا اور اونچی عمارت پر بھی وَتَد کا لفظ استعمال کر لیا جاتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد زمین میں نہایت گہری کھودی جاتی ہے)
طَغَوْا: طَغٰی سے جمع مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور طَغٰی کے معنے ہوتے ہیں اَسْرَفَ فِی الْمَعَاصِیْ والظُّلْمِ۔ کہ ظلم اور گناہوں میں حد سے بڑھ گیا (اقرب) پس طَغَوْا کے معنے ہوئے وہ ظلم اور گناہوں میں حد سے بڑھ گئے۔
تفسیر
اس آیت میں فرعون اور اس کی قوم کے تمدّن کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اس قوم کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ بڑی بڑی اونچی عمارتیں بنایا کرتی تھی۔ یہ لازمی بات ہے کہ جو بھی اونچ عمارتیں بنائی جائیں گی اس کی بنیاد باقی عمارات کی نسبت زیادہ گہری رکھنی پڑے گی چنانچہ قدیم مصری عمارتیں بہت بلند ہیں اہرام مصر اپنی بلندی اور شان دنیا میں اپنی نظیر آپ ہے۔
دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ وہ خیموں والا تھا۔ مراد یہ ہے کہ وہ ایک متمدن ملک کا بادشاہ تھا اُس میں آمدورفت کے لئے بڑی بڑی سڑکیں تھیں اور کشتیوں کے ذریعہ دُور دُور سفر ہو سکتا تھا اس وجہ سے بادشاہ ہمیشہ ملک میں دَورہ کرتا رہتا تھا۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ فرعون مصر کے وقت ملک بہت متمدّن ہو گیا تھا۔ وہاں ہر قسم کی سہولتیں لوگوں کو میسّر تھیں اور ان کی طرز رہائش بادیہ نشین لوگوں کی طرح نہیں رہی تھی بلکہ وہ لوگ بڑی بڑی عمارتیں بناتے تھے سڑکیں تیار کرتے تھے اور بادشاہ دورہ کر کے ملک کے حالات دیکھتا رہتا تھا۔ جن ملکوں میں عمارتوں کا رواج نہ ہو۔ اگر اُن کے بادشاہ کے متعلق کہا جائے کہ وہ ذِیْ الْاَوْتَاد تھا تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ گو وہ بادیہ نشین تھا مگر بڑی طاقت والا تھا۔ لیکن جب کسی شہر ی قوم کے متعلق ہم یہ الفاظ استعمال کریں گے تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ قوم متمدّن تھی۔ آمدورفت کے لئے ملک میں بڑی بڑی سڑکیں تھیں۔ اسی طرح دریا کے راستے کھلے تھے اور بادشاہ اور مختلف احکام کشتیوں کے زریعہ دَورے کرتے رہتے تھے۔
پھر اَوْتَاد کے معنے رؤسا کے بھی ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ صرف بادشاہ ہی نہیں تھا بلکہ شہنشاہ تھا۔ بڑے بڑے بادشاہ اور نواب اس کے ماتحت تھے اور وہ اپنی اپنی جگہ بادشاہ سمجھے جاتے تھے او ر لوگوں پر ان کی حکومت حاصل تھی۔
ذِیْ الْاَوْتَادِ کے ایک معنے جبل حکومت کے بھی ہیں اور فِرْعَوْنَ ذِی الْاَوْتَادِ کہہ کر بتایا گیا ہے کہ اَوْتَادُ الْاَرْضِ یعنی جبال بھی اس کے ماتحت تھے یعنی اُس کے زمانہ میں مصر کا پھیلائو بہت زیادہ تھا۔ یہاں تک کہ خرطوم وغیرہ کے علاقے یا ایبے سینیا کے کچھ علاقے جو اب مصر سے باہر ہیں وہ بھی اس کے ماتحت ہوتے تھے۔ چنانچہ پُرانے آثار اب اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ مصری حکومت کا دائرہ بہت وسیع تھا اور بعض پہاڑی علاقے بھی اُس کے اندر شامل تھے۔
فَاَکْثَرُوْا
جس کے نتیجہ میں انہوں نے ان (شہروں) میں بے حد فساد پیدا کر دیا تھا۹؎
۹؎تفسیر
یُوں تو ہر برائی قابلِ نفرت ہے مگر دو جوہ سے بُرائیاں نہایت بھیانک شکل اختیار کر لیتی ہیں ایکؔ اپنی کثرت کی وجہ سے۔ دوسرےؔ بڑے بڑے جرائم پر مشتمل ہونے کی وجہ سے۔ جب کسی قوم میں کثرت سے جرائم پائے جائیں اور پھر وہ جرائم ایسے ہوں جو نہایت سنگین ہوں اور بڑی بڑی خطرناک برائیوں پر مشتمل ہوں تو اس قوم کی تباہی اور بربادی کی ساعت تو بالکل ہی قریب آ جاتی ہے۔
اَکْـثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ کی آیت کو صرف فرعون اور اُس کی قوم پر بھی چسپاں کیا جا سکتا ہے۔ زیادہ مناسب یہی ہے کہ اَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ کو تینوں قوموں کے ساتھ لگایا جائے گو صرف فرعون اور اس کی قوم کے ساتھ بھی لگ سکتا ہے۔
فساد بڑے جرائم کے لئے بولا جاتا ہے اور اَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ کہہ کر اس آیت میں بتایا ہے کہ ان لوگوں نے بڑے بڑے جرم بھی کئے اور پھر کثرت سے کئے۔ مثلًا اِن اقوام میں شرک کی خطرناک وبا تھی اور پھر کثرت سے شرک پھیلا ہؤا تھا اور اگر شرک کے علاوہ اور جرائم بھی لئے جائیں تو معنے یہ ہوں گے کہ وہ شرک بھی کرتے تھے اور دوسری خرابیاں بھی اُن میںپائی جاتی تھیں۔ مثلًا ظلم کر لینا یا دوسروں کا حق مار لینا بہرحال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انہوں نے فساد کو انتہاء تک پہنچا دیا تھا۔
یہاں تین قوموں کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے عاد۔ ثمود اور فرعون کی قوم کو۔ عاد اور ثمود یہ دونوں قومیں عرب کی تھیں اور فرعون کی قوم مصر سے تعلق رکھتی تھی۔ یہ تین مثالیں اللہ تعالیٰ بلاوجہ بیان نہیں کیں بلکہ اس لئے بیان کی ہیں کہ یہاں دو زمانوں کی خبر دی گئی تھی۔ ایکؔ اُس زمانہ کی جس میں مکہ والوں کے مظالم کی وجہ سے مسلمانوں پر دس تاریک راتیں آنے والی تھیں اور ایکؔ زمانہ مسیح موعودؑ کی۔ پہلی لیالی کا موجب چونکہ عرب لوگ تھے اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی مثال اُن کے سامنے پیش کرتا ہے اور فرماتا ہے تمہارے ملک میں وہ بڑی بڑی حکومتیں گزر چکی ہیں ایک تمہارے جنوب میں تھی اور دوسری تمہارے شمال میں تھی۔ ان دونوں حالات پر غور کرو اور سوچو کہ جب ان لوگوں نے انبیاء کا مقابلہ کیا اور فسادات کو انتہاء تک پہنچا دیا تو اللہ تعالیٰ نے کس طرح اُن کا نام و نشان مٹا دیا۔ باجود اس کے کہ یہ قومیں بڑی طاقت رکھتی تھیں پھر بھی جب انبیاء کے مقابلہ میں کھڑی ہوئیں خدا تعالیٰ نے ان کو تباہ و برباد کر دیااور اُن کی طاقت اُن کے کچھ بھی کام نہ آئی۔ تمہاری تو اُن کے مقابلہ میں کوئی نسبت ہی نہیں پھر کیوں تم اُن کے حالات سے عبرت نہیں پکڑتے اور کیوں محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مقابلہ کر رہے ہو۔ اگر تم نے یہی طریق جاری رکھا تو جو سلوک ہم نے عاد اور ثمود سے کیا تھا وہ تمہارے ساتھ کریں گے۔ تم مت سمجھو کہ ان مظالم کے نتیجہ میں تم کامیاب ہو جائو گے جس طرح آج مسلمانوں پر تم مختلف قسم کے مظالم ڈھا رہے ہو اور تم نے اُن کے دنوں کو بھی رات بنا دیا ہے۔ اِسی طرح عاد اور ثمود نے بھی بڑی بڑی شرارتیں کی تھیں اور پھر حد سے زیادہ شرارتیں کی تھیں مگر پھر بھی وہ ناکام رہے حدیثوں سے پتہ لگتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا جرم کسی نبی کو قتل کرنا ہے ان لوگوں نے بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قتل کا ارادہ کیا جیسا کہ فرماتا ہے وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُتْبِتُوْکَ اَوْیَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ وَیَمْکُرُوْنَ وَیَمْکُرُ اللّٰہُ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ (انفال ع ۴ ۸ ۱)پھر مکّہ والے شرک میں بھی مبتلا تھے اور شرک وہ گناہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ظلم عظیم قرار دیا ہے جیسا کہ فرماتا ہے اِنَّا الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ (لقمان ع ۲ ۱ ۱) پھر اَکْثَرُوْا فِیْھَا الْفَسَادَ کے دوسرے معنوں کے مطابق کفّار مکّہ نے نہ صرف بڑے بڑے گناہوں کا ارتکاب کیا بلکہ مظالم کو انتہاء تک پہنچا دیا۔ جو شخص بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لایا انہوں نے اُس کو دکھ دینا شروع کر دیا بلکہ وہ تلاش کر کر کے مسلمانوں کو پکڑتے اور ان کو بڑی بے دردی سے مارتے پیٹتے اور مختلف رنگوں میں عذاب دیتے یہاں تک کہ کئی مسلمان بھاگ کر ایبے سینیا چلے گئے مگر اُن کا جوش پھر بھی نہ تھما اور حبشہ تک محض اس لئے گئے کہ مسلمانوں کو پکڑ کر واپس لائیں۔ اور اُن کو اپنے مظالم کا تختۂ مشق بنائے رکھیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے مکّہ والو! پہلی قومیں بھی تمارے ملک میں ایسی گزرچکی ہیں جنہوں نے فسادات کو انتہات تک پہنچا دیا تھا۔ تم یہ نہ سمجھو کہ تمہاری یہ سرکشی اور ظلم تمہارے حق میں مفید ہو گا۔ وہ قومیں بھی اسی خیال میں مبتلا رہی تھیں کہ ہم خوب ظلم ڈھا رہی ہیں مگر آخر ایک دن وہ تباہ وبرباد کر دی گئیں۔ اسی طرح تم ایک دن خدا تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بن جائو گے اور عاد اور ثمود کی طرح دنیا سے مٹ جائو گے۔
اس کے بعد فرعون کا ذکر کیا۔ میرے نزدیک اس میں مسیح موعودؑ کے زمانہ کی خبر ہے۔ میں ابھی تک تفصیل سے نہیں بتا سکتا کہ کیوں؟ مگر وہ باتیں میں بیان کر دیتا ہوں جن کی بناء پر کہا جا سکتا ہے کہ اس مثال کا مسیح موعودؑ کے زمانہ کے ساتھ کیا تعلق ہے اور وہ باتیں یہ ہیں۔ کہ اوّلؔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں کہ محرم کی دسویں رات ایک خاص شان اور عظمت رکھتی ہے کیونکہ اس دن میں خدا تعالیٰ نے موسٰیؑ کو فرعون سے نجات دی اور میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ میری اُمت کو اس دن ایک عذاب سے نجات ملے گی۔ گو بظاہر یہاں فرعون اور اس کے مظالم سے نجات کے الفاظ ہیں مگر ان میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس رنگ میں کوئی واقعہ آئندہ ہونے والا ہے۔ دوسریؔ دلیل یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام فرماتے ہیں مَیں نے
’’دیکھا کہ میں مصر کے دریائے نیل پر کھڑا ہوں اور میرے ساتھ بہت سے بنی اسرائیل ہیں اور میں اپنے آپ کو موسٰیؑ سمجھتا ہوں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم بھاگے چلے آتے ہیں نظر اٹھا کر پیچھے دیکھا تو معلوم ہؤا کہ فرعون ایک لشکر کثیر کے ساتھ ہمارے تعاقب میں ہے اور اس کے ساتھ بہت سامان مثل گھوڑے گاڑیوں رتھوں وغیرہ کے ہے اور ہمارے بہت قریب آ گیا ہے۔ میرے ساتھی بنی اسرائیل بہت گھبرائے ہوئے ہیں اور اکثر ان میں سے بے دل ہو گئے ہیں اور بلند آواز میں چلاّتے ہیں کہ اے موسٰیؑ ہم پکڑے گئے تو مَیں نے بلند آواز سے کہا
کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَھْدِیْن
اتنے میں مَیں بیدار ہو گیا اور زبان پر یہی الفاظ جاری تھے (تذکرہ صفحہ ۴۲۹) اسی طرح آپ کا ایک یہ بھی الہام ہے:۔
یَاْتِیْ عَلَیْکَ زَمَنٌ کَمِثْلِ زَمَنِ مُوْسٰی (تذکرہ صفحہ ۴۲۳)
کہ تجھ پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جو موسٰیؑ کے زمانہ کی طرح ہو گا۔ پس جبکہ حدیث میں اشارہ ہے کہ موسٰیؑ کی طرح ایک واقعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت میں ہونے والا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ اب تک کوئی ایسا واقعہ نہیں ہؤا۔ دوسری طرف خدا تعالیٰ کا وہ مامور جودہ زمانہ میں آیا، اُسے بتایا گیا کہی وہ موسٰیؑ ہے‘ فرعون اُس کا پیچھا کرے گا اس کے ساتھی گھبرا جائیں گے اور کہیں گے کہ اے موسٰیؑ ہم پکڑے گئے اُس وقت موسٰیؑ بلند آواز سے کہے گا کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَھْدِیْن ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا خدا میرے ساتھ ہے۔
اِن دو الہامات کے ساتھ اگر میرے اس رؤیا کو بھی ملا لیا جائے جو الفضل میں شائع ہو چکا ہے کہ میں ایک مکان میںٹھہرا ہؤا ہوں۔
’’اُس وقت میرے دل میں خیال آتا ہے کہ جس مکان میں ٹھہرا ہؤا ہوں حضرت موسٰیؑ نے بھی اسی میں پناہ لی تھی۔ ‘‘(الفضل جلد ۳۲ نمبر ۱۴۳ صفحہ۱ مورخہ ۲۰جون ۱۹۴۴)
تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ آئندہ کے متعلق ایک پیشگوئی ہے جو لَیَالِی عَشْر کے دوسرے ظہور میں گیارہویں رات یعنی انیسویں صدی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ پوری ہو گی اور موسٰیؑ کی مصر سے نجات کی قسم کا کوئی واقعہ جماعتِ احمدیہ کو پیش آئے گا۔
پس چونکہ یہاں مسیح موعود کا بھی ذکر تھا اس لئے جہاں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنون کے لئے عاد اور ثمود کی مثال دی وہاں مسیح موعود کے دشمنوں کے لئے فرعون کا واقعہ بطور مثال پیش کیا گیا۔
فِصِبَّ عَلَیْھِمْ
اس پر تیرے رب نے ان پر عذاب کا کوڑا برسایا۱۰
۱۰؎حل لغات
صَبَّ: صَبَّ الْمَآئَ کے معنے ہوتے ہیں۔ اُس نے پانی بہا دیا۔ صَبَّ لازم بھی ہے اور متعدّی بھی یعنی صَبَّ کے معنے بہانے کے بھی ہیں اور بہنے کے بھی ہیں۔
سَوْطٌ: کوڑے کوبھی کہتے ہیں اور سَوْطٌ کے معنے حصہ کے بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح سَوْطٌ جوہڑ کو بھی کہتے ہیں یعنی اُس نشیب دار زمین کو بھی سَوْطٌ کہا جا تا ہے جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے (اقرب)
تفسیر
اگر سَوْطٌ کے معنے کوڑے کے لئے جائیں تو صَبَّ عَلَیْھِمْ رَبُّکَ سَوْطٌ عَذَابٍ کے یہ معنے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ نے اُن کے اُوپر عذاب کے کوڑے برسا دئے۔ ہمارے ملک میں کوڑوں کے متعلق برسانے کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے وہی محاورہ یہاں استعمال کیا گیا ہے کہ اُن پر تیرے رب نے عذاب کے کوڑے برسانے شروع کر دئے جس طرح قطرہ کے بعد قطرہ گرتا ہے اسی طرح اُن پر عذاب کے بعد عذاب نازل ہو گا۔ اور انہیں ہوش ہی نہیں آئے گا۔ یہاں تک کہ وہ تباہ ہو جائیں گے۔
اگر سَوْط کے معنے حصہ کے کئے جائیں تو اِس آیت کے یہ معنے ہوں گے کہ اس قوم کا عذاب الٰہی میں جو حصہ مقدر تھا اس کے متعلق اُسے کہا جائے گا کہ لو اپنا سارا حصہ عذاب کا لے لو۔ تم نے ہمارے نبیّوں کو دکھ دیا تھا انہوں نے اپنا حصہ دکھوں میں سے لے لیا اور تم اپنا حصہ لو۔
اگر سَوْط کے معنے جوہڑ کے کئے جائیں تو آیت کا مفہوم یہ ہو گا کہ عذاب کا جوہڑ سارے کا سارا اُن پر الٹا دیا جائے گا۔ چونکہ سَوْط اُس نشیب دار زمین کو بھی کہتے ہیں جس میں پانی جمع ہو جاتا ہے اس لئے سَوْط کہہ کر اس طرف اشارہ کیا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے احکام نازل ہو کر اُن کا ذخیرہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ ایک دن سارے کا سارا جوہڑ اُن پر اُلٹا دیا جائے گا۔
اِنَّ رَبِّکَ
تیرا رب یقینا گھات میں (لگا ہؤا) ہے۱۱؎
۱۱؎تفسیر
فرماتا ہے تیرا رب مجرموںکی گھات میں رہتا ہے جب وہ اُن کو پکڑتا ہے تو اکٹھا پکڑتا ہے۔ کہتے ہیں سَو سُنار کی اور ایک لوہار کی۔ اسی طرح خدا تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ وہ ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے اور مجرم انسان سمجھتا ہے کہ مجھے میرے بُرے کاموں کی سزا نہ ملے گی۔ مگر آخر ایک دن ایسا آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُسے اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور اُسے تباہ وبرباد کر دیتا ہے۔ یہی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دشمنوں کے ساتھ سلوک ہو گا۔ ہم اُن کو ڈھیل دیں گے اور گیارہ سال تک دیتے چلے جائیں گے مگر آخر ایک دن آئے گا جب قیدار کی حشمت کو خاک میں ملا دیا جائے گا۔ اور مومنوں کے دکھ کو خوشی میں بدل دیا جائے گا۔ اِسی طرح اس پیشگوئی کے دوسرے ظہور کے وقت انیسویں صدی٭میں کوئی فرعون اتنا خطرناک ظلم کرے گا کہ جماعت پکار اٹھے گی۔ یٰمُوْسٰی اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَ اے موسٰی اب تو ہماری تباہی سر پر آ پہنچی۔ اب ہم کس طرح اس فرعون کے پنچۂ ظلم سے بچ نہیں سکتے اُس وقت جماعت کا جو بھی لیڈر ہو گا وہ موسٰیؑ کی طرح اپنے ساتھیوں کو کہے گا کَلَّا یہ بالکل غلط بات ہے کہ دشمن تمہیں تباہ و برباد کر دے گا۔ اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْن۔ میرے ساتھ میرا رب ہے اور وہ مجھے ہدایت دے دے گا۔
میں نے وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ کی تشریح کر تے ہوئے بیان کیا تھا کہ جب کفار غار ثور کے مُنہ پر پہنچ گئے اور حضرت ابوبکرؓ کو گھبراہٹ طاری ہوئی تو اُس وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِن الفاظ میں اُن کو تسلّی دی کہ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا یعنی غم مت کر ایک وتر بھی ہمارے ساتھ ہے۔ اسی طرح جماعت احمدیہ کسی فرعون کے مظالم کی وجہ سے سخت گھبرا اُٹھے گی اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جماعت احمدیہ کو روحانی طور پر اُس کے خلیفہ اور امام کی زبان سے کیونکہ وہ دو نہیں بلکہ ایک ہی وجود ہوں گے۔ جب کہ وہ غم وہم کے تمثیلی سمندر کے کنارے پر کھڑا ہو گا۔ یاممکن ہے کے مصر یا اور کسی ملک میں ایسے ہی حالات پیدا ہونے پر۔ اوپر واقعہ دریائے نیل کے کنارے پر یا اور کسی دریا کے کنارے پر بڑے جاہ وجلال سے فرمائیں گے کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَھْدِیْن کَلَّا کے معنے یہی ہیں کہ لَاتَحْزَنْ غم مت کرو اِنَّ مَعِیَ رَبِّی سَیَھْدِیْن میرے ساتھ میرا رب ہے یعنی ایک وتر بھی میرے ساتھ ہے۔ اور وہ اس لَیْل میں سے ہمیں نکال کر لے جائے گا۔
فَاَمَّا الْاِنْسَانُ
پس (ذرا دیکھو تو) انسا ن کی حالت (کو جو) یہ ہے کہ جب اس کارب اسے ازمائش میں ڈالتا ہے۔اور اس کی عزت کرتا ہے۔ اور اس پر ہر نعمت کرتا ہے۔ تو وہ کہتا ہے کہ (دیکھو میں ایسا ذی شان ہوںکہ) میرے رب نے (بھی) میری عزّت کی۔ اور جب اَزمائش میں ڈالتا ہے۔ اور اس کے رزق کو تنگ کرتا ہے۔ تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میری (بلاوجہ) بے عزتی کی۱۲؎
۱۲؎حل لغات
اِبْتَلَاہُ: کے معنے ہوتے ہیں اِخْتَبَرَہٗ۔ اس کی حقیقت کو ظاہر کیا اور اِبْتَلَی الْاَمْرَ کے معنے ہوتے ہیں عَرَفَہٗ۔ اس کو جان لیا۔ اصل میں یہ لفظ بَلِیَ یَبْلٰی ہے اور بَلَاہٗ یَبْلُوْہُ (بَلْوًَا) بھی استعمال کیا جاتا ہے بَلِی الثَّوْبُ کے معنے ہوتے ہیں خَلَقَ کپڑا پُرانا ہو گیا اور گھس گیا اور بَلَاہٗ (یَبْلُوْہُ بَلْوًا) کے معنے ہیں جَرَّبَہٗ وَاخْتَبَرَہُ۔ اس کا تجربہ کیا۔ اُس کی حقیقت کو ظاہر کیا اور اس کے اندرونہ کو معلوم کیا۔ مفردات والے لکھتے ہیں کہ بَلَوْتُہٗ کے معنے اِخْتَبَرْتُہٗ کے اس لئے ہیں کہ خواہ یہ لفظ بَلِیَ یَبْلٰی سے ہو یا بَلَاہٗ یَبْلُوْہُ بَلْوًا اسے دونوں صورتوں میں اس میںپُرانے ہونے کی حقیقت پائی جاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں بَلَوْتُہٗ: اِخْتَبَرْتُہٗ کَاَنّٰیِْ اَخْلَقْتُہٗ مِنْ کَثْرَۃِ اِخْتِبَارِیْ لَہٗ یعنی بَلَوْتُہٗ کے معنے اِخْتَبَرْتُہٗ ا س لئے جاتے ہیں کہ اس میں یہ مفہوم پایا جاتا ہے کہ مَیں نے اسے بار بار دیکھ کر پُرانا کر دیا ہے۔ اسی لئے ابتلاء کا لفظ ایسے امر کے متعلق استعمال کیا جاتا ہے جس کی انسان پوری طرح تحقیق کرے۔ جیسے انسان کپڑا خرید کر لاتا ہے تو عورتیں اس کپڑے کو ہاتھوں سے گھستی ہیں یہ دیکھنے کے لئے کہ اُس کی مایا کیسی ہے یا اُس کا رنگ اُترے گا کہ نہیں یہ بار بار دیکھنا اس لئے ہوتا ہے تاکہ رائے پختہ ہو جائے۔ اس بار بار کے فعل سے چونکہ چیز پرانی ہوتی ہے اس لئے بَلِیَ کا لفظ اسی حقیقت کے اشتمال کی وجہ سے بولا جاتا ہے (پنجابی میں بھی محاورہ ہے کہ یہ چیز تو میری ہنڈائی ہوئی ہے یعنی کثرت سے اس کا میرے ساتھ واسطہ معاملہ پڑا ہے اور میں اس کی حقیقت سے واقف ہوں) اسی طرح تَبْلُوْا کُلُّ نَفْسٍ مَااَسْلَقَتْ کے معنے ہیں تَعْرِفُ حَقِیْقَۃَ مَا عَمِلَتْ یعنی ہر شخص اپنے اعمال کی حقیقت کو جان لے گا۔ وُسُمِّیَ الْغَمُّ بَلَائً مِنْ حَیْثُ اَنَّہٗ یُبْلِی الْجِسْمَ۔ غم کو بھی اسی لئے بَلَاء کہتے ہیں کہ وُہ جسم کو دُبلا کر دیتا ہے اور اس کی طاقت کو کمزور کر دیتا ہے اسی طرح صاحب مفردات لکھتے ہیں سُمِّیَ التَکْلِیفَ بَلَائً مِنْ اَوْجُہٍ تکلیف کو بھی عربی میں بَلَاء کہتے ہیں اور اس کی کئی وجوہ ہیں اَحَدُھَا اَنَّ التَّکَالِیْفَ کُلَّھَا شَاقٌ عَلَی الْاَبْدَانِ۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جب تکلفیں آتی ہیں انسا پر ایک بوجھل کام آ پڑتا ہے اور اُن تکالیف کا س کے جسم پر اثر پڑتا ہے اس لئے ان کو بلا کہتے ہیں وَالثَّانِیْ اَلَّھَا اِخْتِبَارَاتٌ دوسرے اس لئے کہ جب انسا ن پر بوجھ پڑتا ہے تبھی اس کی حقیقت ظاہر ہوتی ہے۔ وہ شخص جسے کسی بڑی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا اُس کی بہادری کا کس طرح پتہ چل سکتا ہے یا جسے متواتر بوجھ اٹھانے کا موقع نہیں ملا اس کا استقلال کس طرح نظر آ سکتا ہے۔ یوں تو ہر شخص اپنے متعلق سمجھ لیتا ہے کہ میں بڑا واقف اور ماہر ہوں۔ لیکن اس کی واقفیت یا مہارت تب معلوم ہوتی ہے جب اُس پر کوئی بڑا بوجھ آ کر پڑتا ہے اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ حَتّٰی نَعْلَمَ الْمُجَاھِدِیْنَ مِنْکُمْ وَالصَّابِرِیْنَ (سورۃ محمد ع ۴ ۸) یعنی ہم تمہیں کئی تکلیفوں میں ڈالیں گے یہاں تک کہ تم میں سے مجاہدوں اور صابروں کو ممتاز کر کے دکھا دیں گے۔ وَالثَّالِثُ اَنَّ اخْتِبَارَ اللّٰہِ تَعَالٰی لِلْعِبَادِ تَارَۃً بِالمَسَارِّ لِیَشْکُرُوْا وَتَارَۃً بِالْمَضَارِّ لِیَصْبِرُوْا۔ تیسریؔ وجہ مفردات کے مصنّف یہ بتاتے ہیںکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے بندے کی حقیقت کو اس طرح ظاہر کیا جاتا ہے کہ کبھی اس کس خوشیاں پہنچائی جاتی ہیں تا کہ یہ دیکھا جائے کہ اُس میں شکر کا مادہ ہے یا نہیں اور کبھی اس کو تکالیف میں ڈالا جاتا ہے تاکہ یہ دیکھا جائے کہ اس میں صبر کا مادہ ہے یا نہیں فَصَارَتِ الْمِحْنَۃُ وَالْمِنْحَۃُ جَمِیْعًا بَلَائً فَالْمِحْنَۃُ مُقْتَضِیَۃُ لِلصَّبْرِ وَالْمِنْحَۃُ مُقْتَضِیَۃٌ لِلشُّکْرِ۔ پس ابتلاء اور تکالیف اور صبر ظاہر کرنے کا موجب بن جاتی ہیں اور انعامات کے جزبۂ شکر کو ظاہر کرنے کا موجب بن جاتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی انعام نازل ہوتا ہے اُس وقت انعام کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان شکر کرے اور جب اُسے ٹھوکر لگے تو اُس وقت مصیبت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ انسان صبر کرے وَالْقِیَامُ بِحُقُوْقِ الصَّبْرِ اَیْسَرُ مِنْ الْقِیَامِ بِحُقُوْقِ الشُّکْرِ پھر وہ وکہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے امتحان بذریعہ صبر لیا جاتا ہے اور انسان پر مختلف تکالیف اور مصیبتیں آتی ہیں تو یہ زیادہ آسان ہوتا ہے۔ مصیبتیں آتی ہیں تو وہ سمجھتا ہے اب تو یہ سر پر آ ہی پڑی ہیں ان کو برداشت کرنا چاہئیے اور کہتا ہے کہ جو مصیبت پڑگئی سو پڑ گئی اور اس وجہ سے وہ صبر سے کام لے لیتا ہے۔ لیکن جو شکر کے ذریعہ ابتلاء آتا ہے وہ نہایت خطرناک ہوتا ہے کیونکہ انسان کہتا ہے جو چیز میرے قبضہ میں آ گئی ہے اُس سے مَیں پوری طرح حظ اٹھا لوں اسی طرح وہ خداکو بھول جاتا ہے۔ صبر کے ساتھ ماضی کا تعلق ہے اور ماضی کو انسان بُھلا سکتا ہے لیکن انعام کا مستقبل کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اور مستقبل کو بھلانا بڑ ا مشکل ہوتا ہے اِسی لئے وہ کہتے ہیں کہ اصل ابتلاء وہ ہے جو انعام کے رنگ میں آتا ہے۔ مثلًا اللہ تعالیٰ کسی کو دولت دیتا ہے، کسی کو صحت دیتا ہے، کسی کو عزت دیتا ہے، کسی کو طاقت دیتا ہے، کسی کی حکومت دیتا ہے۔ یہ مختلف انعامات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کئے جاتے ہیں لیکن بسا اوقات انسان دولت اور عزت کے ملنے پر خدا تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ طاقت کے ملنے پر تکبّر میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ تجارت اور صنعت و حرفت یا زمیندارہ کے کام میں ترقی حاصل ہونے پر اپنے اموال کا غلط استعمال کرتا ہے، مقدمات میں روپیہ برباد کرتا ہے، غریبوں کی حق تلفی کرتا ہے، اِسی طرح اپنے ہاتھوں اپنی آنکھوں اور اپنے کانوں وغیرہ کا ناجائز استعمال کرتا ہے پس اس ابتلاء میں کامیاب اترنا زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ کوئی شخص مر جائے تو دوسرا سن کر کہہ دے۔ اِنّا لِلّٰہ وَاِنّا الیہ رَاجِعون۔ جب کسی شخص کو خدا تعالیٰ کی طرف سے دولت ملتی ہے تو اُس کا اپنے نفس کو عیاشی سے روکنا، اچھے کھانے اور اچھے پہننے سے روکنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ ابتلاء انعامی زیادہ مشکل ہوتے ہیں اور ان میں بہت کم لوگ کامیاب ہؤا کرتے ہیں۔ حضرت عمرؓ کا ایک قول بھی انہی معنوں میں پایا جاتا ہے وہ فرماتے ہیں بُلَیْنَا بِالضَّرَّآئِ فَصَبَرْنَا کہ ہماری اُمت پر اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی مصیبتیں ڈالیں لیکن ہم نے صبر سے کام لیا اور کوئی شخص ہم میں سے اُن مصیبتوں پر نہیں گھبرایا وَبُلِیْنَا بِالسَّرَآئِ فَلََمْ نَصْبِرْ لیکن پھر ہم پر خدا تعالیٰ نے انعامات والے ابتلاء وارد کئے۔ جب انعامی ابتلاء اللہ تعالیٰ نے ہم پر ڈالا تو کئی لوگ ہم میں سے صبر نہ کر سکے چنانچہ دیکھ لو صحابہؓ کی تکلیفوں کے زمانہ میں اُن میں سے ایک شخص بھی اپنے مذہب سے منحرف نہیں ہؤا۔ لیکن انعام کے زمانہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے معًا بعد بادشاہت اور خلافت کے جھگڑے میں سارا عرب مرتد ہو گیا سوائے مکّہ اور مدینہ کے ان لوگوں کے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہے تھے گو وہ مرتد ہونے والے صحابی نہ تھے لیکن بہرحال وہ قریب کے مسلمان تھے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی تائیدات اور اس کی نصرتوں کے نشانات دیکھے ہوئے تھے۔ لیکن باوجود اس کے کہ انہوں نے تازہ بتازہ نشانات دیکھے تھے سب کے سب مرتد وہ گئے۔ حدیثوں میں آتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے بعد صرف مکہ اور مدینہ ہی با جماعت نماز ہؤا کرتی تھی باقی ہر جگہ ارتداد کی وباء پھیلی ہوئی تھی سو حضرت عمرؓ فرماتے ہیں بُلِیْنَا بِ الضَّرَّآئِ فَصَبَرْنَا۔ ہم پر مصائب آئے۔ بڑی بڑی مشکلات آئیں مگر ہم نے جرأت دکھلائی، ہمت کا مظاہرہ کیا اور اُن مصائب سے ذرا بھی نہ گھبرائے وَبُلِیْنَا بِالسَّرَّآئِ فَلَمْ نَصْبِرْ لیکن جب خدا تعالیٰ نے انعام پر انعام۔ فتح پر فتح۔ نصرت پر نصرت اور دولت پر دولت دی تو تو ہماری جماعت سو فی صدی اس امتحان میں پاس نہ ہو سکی جس طرح پہلے پاس ہوئی تھی وَلِھٰذَا قَالَ مِیْرُ الْمُؤْمِنِیْنَ۔ اسی بناء پر پر امیرالمومنین کہتے ہیں (یہ یاد رکھنا چاہئیے کہ محاورہ میں امیر المومنین سے مراد صرف حضرت علیؓ ہوتے ہیں گو تمام خلفاء ہی امیرالمومنین ہیں لیکن بعض اسلامی مصنّفین میں چونکہ تفصیل رنگ پایا جاتا تھا اور وہ حضرت علیؓ کو اپنے درجہ میں باقی تمام خلفاء سے بڑا سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے یہ محاورہ بنا دیا کہ جب وہ امیرالمومنین کا لفظ استعمال کرتے تو اس سے مراد محض حضرت علیؓ ہی ہوتے۔ اس جگہ غالبًا حضرت علیؓ ہی مراد ہیں۔ وہ فرماتے ہیں) مَنْ وُسِّعَ عَلَیْہِ دُنْیَاہُ فَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّہٗ قَدٓ مُکِرَ بِہٖ فُھُوَ مَخْدُوْعٌ عَنْ عَقْلِہٖ یعنی جس کے لئے اس کی دنیا وسیع ہو جائے، اُسے ہر قسم کی آسائشیں اور سامان میسر آ جائیں، اُسے کثرت سے دولت مل جائے فَلَمْ یَعْلَمْ اَنَّہٗ قَدْ مُکِرَ بِہٖ اور اُسے یہ پتہ نہ لگے کہ اُسے ابتلا میں ڈالا جا رہا ہے گویا دولت بڑھنے، اور آسائش کے سامانوں میںزیادتی ہونے سے اُس کے دل میں یہ احساس پیدا نہ ہو کہ میرے لئے یہ آرام کی صورت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اس ذریعہ سے میرا امتحان لے رہا ہے تو فَھُوَ مَخْدُوْعٌ عَقْلِہٖ ایسا شخص یقینا پاگل ہے درحقیقت صحیح الدماغ انسان وہی ہے کہ جب مصائب ومشکلات ا ٓئیں تب بھی وہ سمجھے کہ خدا تعالیٰ میرا امتحان لے رہا ہے اور اگر اُسے انعامات ملے یا دولت کی فراوانی اُسے حاصل ہو جائے تب بھی وہ یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ میرا امتحان لے رہا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَۃً (الانبیاء ع ۳) ہم تمہارے ایمان کو آزمانے کے لئے کبھی ترقی دیں گے اور کبھی دکھ دیں گے۔ گویا حضرت علیؓ نے جو کچھ فرمایا وہ قرآن کریم سے ماخوذ تھا۔ قرآن کریم میں یہی مضمون بیان کیا گیا ہے کہ ابتلاء کے معنے عذاب کے ہی نہیں یعنی یہی نہیں کہ اگر کوئی موت واقع ہو جائے یا کوئی مالی نقصان پہنچ جائے تو یہ ابتلائی ہے بلکہ کسی کو مال و دولت کا مل جانا بھی ایک ابتلاء ہے۔ اور یہ بھی ویسا ہی خطرناک ہے جیسے ابتلائِ تکلیف خطرناک ہے اور دولت و عزّت کی فراوانی حاصل ہونا بھی ویسا ہی ڈر کا مقام ہے جیسے دولت و عزت کا چھینا جانا ڈر کا مقام ہے۔ اگر آج کسی شخص کی بھینس مر جائے، کل اُس کے گھر میں چوری ہو جائے، پر سوں اُس کا کتا مر جائے، اترسوں اس کا گھوڑا ہلاک ہو جائے، اگلے روز کسی عزیز کی موت ہو جائے تو اُس وقت اُس کے دل میں کتنی سخت گھبراہٹ پیدا ہو گئی۔ کئی کم ایمان والے بھی یہ حالت دیکھ کر سمجھنے لگ جائیں گے کہ ان ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف سے گناہوں کی سزا مل رہی ہے لیکن کسی کو سو روپیہ مل جائے، تیسرے دن تین سو روپیہ مل جائے، چوتھے دن مربع زمین مل جائے، پانچویں دن ایک گھوڑا انعام میں مل جائے، چھٹے دن گورنمنٹ کی طرف سے کوئی خطاب مل جائے تو اس کے دل کے کسی گوشہ میں بھی یہ خیال نہیں آئے گا کہ مَیں کہیں ہلاک نہ ہو جائوں کہیں یہ چیزیں میری بربادی کا باعث نہ بن جائیں حالانکہ جس طرح مصائب کے ہجوم کے وقت اُس کی ہلاکت اور گرنے کا امکان ہوتا ہے اسی طرح نعمتوں کے ملنے پر اُس کی ہلاکت اور گرنے کا امکان ہوتا ہے۔ جس طرح دو چیزیں خدا تعالیٰ کے عذاب کو قریب قریب کر کے دکھانے لگ جاتی ہیں اسی طرح بسا اوقات یہ چیزیں انسان کو اس لئے ملتی ہیں کہ پتہ لگایا جاتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے کیسا تعلق رکھتا ہے۔ درحقیقت دولت کمانا منع نہیں۔ بشرطیکہ وہ دین میں جارح نہ ہو۔ صرف دولت کے ساتھ محبت کرنا یا اس کا ناجائز استعمال منع ہے ورنہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کے ویسی ہی دولتیں تھیں جیسے آج کل بڑے بڑے امراء کے پاس ہوتی ہے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف کے متعلق تاریخوں میں آتا ہے کہ اُن کی وفات کے بعد اڑھائی کروڑ روپیہ کے برابر اُن کی جائیداد نکلی۔ اُس وقت کا اڑھائی کروڑ روپیہ آج کل کے تیس چالیس کروڑ روپیہ کے برابر بن جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اُن کا کھانا پینا ویسا ہی تھا جیسے عام مسلمانوں کا تھا وہ اپنی آمدنی کے متعلق کوشش کرتے تھے کہ اُسے خدا تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کر دیں۔ اُن کی اولاد نے ایسا کیا یا نہیں یہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے لیکن وہ اپنی زندگی میں بلادریغ خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا روپیہ خرچ کرتے رہتے تھے۔ تو کسی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کا ملنا بھی ایک آزمائش ہوتی ہے۔
پھر صاحب مفردات لکھتے ہیں وَاِذَا قِیْلَ اُبْتُلِیَ فُلَانٌ کَذَا وَابْلَاہُ فَذَالِکَ یَتَضَمَّنُ اَمْرَیْنِ یعنی جب یہ کہا جائے کہ فلاں شخص نے فلاں کا اس اس رنگ میں امتحان لیا تو اس کے دو معنے ہو سکتے۔ اَحَدَھُمَا تَعَرُّفُ حَالِہٖ وَالْوُقُوْفُ عَلٰی مَا یُجْھَلُ مِنْ اَمْرِہٖ۔ ایک تو یہ کہ اُس کا اندرونہ معلوم کیا اور جو حقیقت پوشیدہ تھی وہ ظاہر کی۔ دوسرے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اُس کے اندر نہ کو دنیا پر ظاہر کیا جائے خُبث ہو تو اُس کا خُبث ظاہر ہو جائے اور اگر نیکی ہو تو نیکی ظاہر ہو جائے۔ گویا ایک تو جاننے کا یہ مفہوم ہوتا ہے کہی ہمیں خود کسی چیز کی حقیقت کا علم ہو جائے۔ مگر ایک معنے یہ ہوتے ہیں کہ کسی دبی ہوئی چیز کو اُبھارنے دیا جائے اَور اس کی جودت یعنی اس کی خوبی اور اُس کے حسن کو یا اُس کی چیز کی ردأت کو ظاہر کر دیا جائے وَرّبَّمَا قُصِدَ بِہِ الْاَمْرَانِ۔ اور کبھی کبھی یہ دونوں باتیں مدنظر ہوتی ہیں۔ یعنی ابتلاءؔ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ مخفی حالت جاننا اور یہ بھی معنے بھی ہوتے ہیں کہ مخفی حالات کو ظاہر کرنے کا موقع دینا وَرُبَّمَا یُقْصَدُ بِہٖ اَحَدُھُمَا۔ اور کبھی صرف ایک ہی مراد ہوتی ہے یعنی کبھی صرف جاننا مراد ہوتا ہے اور کھبی صرف اس کا ظہور مراد ہوتا ہے فَاِذَا قِیْلَ فِی اللّٰہِ تَعَالٰی بَلٰی کَذَا اَوْاَبْلَاہُ فَلَیْسَ الْمُرادُ مِنْہُ اِلَّا ظُہُوْرُ جَوْدَتِہٖ وَرِدْأَتِہٖ۔ یعنی جب خدا تعالیٰ کے متعلق یہ لفظ بولا جائے اور کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے ابتلاءؔ میں ڈالا تو اس کے معنے جاننے کے نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے اندر نہ کو ظاہر ہونے کا موقعہ دیا۔ اگر گند تھا تو اُس گند کے ظاہر ہونے کا موقعہ پیدا کر دیا اور اگر اچھائی تھی تو اس کی خوبی کے ظاہر ہونے کا موقع پیدا کر دیا دُوْنَ التَّصَرُّفِ لِحَالَہٖ وَالْوُقُوْفِ عَلٰی یُجْھَلَ مِنْ اَمْرِہٖ۔ اس کے سوال کو جاننے کے معنے نہیں ہوتے اور اس کے پوشیدہ امر پر واقف ہونے کے معنے بھی نہیں ہوتے اِذْکَانَ اللّٰہُ عَلَّامَ الْغُیُوْبِ۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو جاننے والا ہے۔ اور اسے مزید جاننے کی ضرورت نہیں۔
ان معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آیت اِذَا مِا ابْتَلَہُ رَبُّہُ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَمَّہٗ فَیَقُوْلُ رِبِّیْٓ اَکْرَمَنِ کا یہ مفہوم ہو گا کہ انسان کی یہ حالت ہے کہ جب اس کا رب اس کے اخلاق کی یا اُس کے خیالات کی یا اس کے افکار کی یا اس کی طاقتوں کی اچھائی یا بُرائی کو ظاہر کرنا چاہتا ہے اس ذریعہ سے کہ اس کا اکرام کرتا ہے اور اُسے نعمتیں دیتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میرا اکرام کیا۔
خدا تعالیٰ کا طریق یہ ہے کہ جب وہ بندے کے اندرونی ایمان اور اس کے عقیدہ اور اس کے اخلاص کو ظاہر کرنا چاہتا تا اس شخص کو خود بھی پتہ لگ جائے اور دوسرے لوگوں کو بھی۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کو تو پتہ ہی ہوتا ہے تو وہ ایک تواس کا امتحان اس ذریعہ سے لیتا ہے کہ اُس کا اکرام کرتا ہے اور اُسے نعمتوں پر نعمتیں دیتا چلا جاتا ہے۔ اُسے کہیں سے روپیہ مل جاتا ہے، کسی تجارت میں نفع حاصل ہو جاتا ہے، کہیں دو دو بچے ایک ایک جانور دے دیتا ہے، کہیں اُس کے زمین کی پیدا وار میں ترقی ہو جاتی ہے، کہیں اُسے گورنمنٹ کی طرف سے کوئی خطاب یا عہدہ مل جاتا ہے۔ اُس وقت وہ کہتا ہے میرے رب نے مجھے عزّت دی لیکن وہ یہ جو کچھ کہتا ہے اس میں حقیقت نہیں ہوتی۔ مُنہ سے تو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے لیکن حقیقت موجود نہیں ہوتی۔ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی تو ہر جگہ ظاہر ہوتی۔ جیسے لمبے قد کا آدمی ایرانؔ میں پھرے گا تب وہ لمبا ہو گا۔ لیکن اگر وہ کسی جگہ لمبا نظر آتا ہے اور کسی جگہ چھوٹا۔ تو دو صورتوں میں سے ایک صورت ضرور ہو گی۔ یا تو دوسرے موقعہ پر کوئی اور آدمی ہو گا اور یا وہ کبھی اونچی ایڑی کا بُوٹ پہن لیتا ہو گا اور کبھی اُسے اتار دیتا ہو گا۔ بہرحال حالتِ مستقلہ ہی انسان کی، اصل بات ہوتی ہے۔ اگر حالت مستقلہ نہ ہو تو وہ بناوٹی اور مصنوعی طور پر اختیار کی ہوئی ہوتی ہے چنانچہ بندے کے شکر کے مصنوعی ہونے کا ثبوت یہ ہوتا ہے وَاَمَّآ اِذَا مَاابْتَلٰہُ فَقَدْرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَھَانَنِ۔ اور جب وہ دوسرے رنگ میں اُسے ابتلاء میں ڈالتا اور اُس کے اندر نہ کو ظاہر کرنا اور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے اُس کے رزق کو تنگ کر دیتا ہے (قَدَرَ عَلٰی عَیَالِہٖ کے معنے ہوتے ہیں ضَیَّقَ اُس نے عیال کا گزارا تنگ کر دیا) اور اُسے کے تقویٰ سے کام لے کر وُہ نیکی کو خدا کی طرف منسوب کرتا اور نقصان کو اپنی طرف۔ جب اُس پر کوئی بلا اور مـصیبت پڑتی ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میری اہانت کی اور اُس نے مجھے ذلیل کر دیا۔ یہ ثبوت ہوتا ہے اس بات کا انعام کے وقت اُس نے جو کچھ کہا تھا وہ بھی صرف اُس کے مُنہ کی ہی ایک بات تھی۔ حققیت اُس میں نہیں تھی۔ اِسی لئے قرآن کریم نے وہاں صرف یَقُوْلُ کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔
یاد رکھو کہ کفر کی بات مُنہ سے نکلی ہوئی ایک جرم ہے لیکن نیکی کی بات جب دل سے کہی گئی ہو قطعًا کوئی جرم نہیں مگر اس لئے کہ یہ شخص نیکی کی بات منافقت سے کہتا ہے اُس کی پہلی بات بھی جرم بن جاتی ہے اور کفر کی بات چونکہ دل سے نکلی ہوئی ہوتی ہے اس لئے وہ تو جرم ہوتی ہی ہے۔
تفسیر
اس آیت میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ انسان کو اپنی نعمتوں سے نوازتا اور اُس پر اپنے ابر کرم کی بارش برساتا ہے تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میرا اکرام کیا اور اگر وہ اپنی مشیت کے ماتحت اُس پر تنگی کے اوقات لے آئے اور اُس کے وسائل معاش کھلے نہ رہیں تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میری تذلیل کی۔ گویانیکی اور بدی دونوں کو وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے اور کہتا ہے میرے ساتھ اچھا سلوک بھی میرے اللہ نے کیا مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کہنا سخت غلطی ہے تم یہ مت کہو کہ عزت بھی خدا کی طرف سے ملتی ہے اور ذلت بھی خدا کی طرف سے ملتی ہے۔ نیک نتائج بھی وہی پیدا کرتا ہے اور بُرے نتائج بھی وہی پیدا کرتا ہے۔
لیکن دوسری جگہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہِ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ج وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَط قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِط فَمَالِ ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَایَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًاo (النساء ع ۱ ۱ ۸) یعنی جب ان کو کوئی خوشی کی خبر پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے یہ ویسی ہی بات ہے جیسے کہا گیا تھا کہ فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَامَا ابْتَلٰہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْْٓ اَکْرَ مَنِ۔ لیکن جب اُنہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتی بندوں کی کاروائیوں کی وجہ سے ہے۔ اور چونکہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسلمانوں کے حاکم ہیں اور وہی کفر کے مقابلہ میں تدابیر اختیار کرتے رہتے ہیں اس لئے نقصان ان کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ خرابی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بے تدبیری کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے فرماتا ہے۔ قُلْ۔ تُو اِن لوگوں سے کہہ دے کُلُّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ۔ تم بالکل جھوٹ بولتے ہوانعام بھی خدا کی طرف سے آتا ہے اور سزا بھی خُدا کی طرف سے آتی ہے۔ فَمَالَ ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَایَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًا۔ اس قوم کو کیا ہو گیا کہ یہ اتنی موٹی بات بھی نہیں سمجھتی کہ جو کچھ کرتا ہے خدا تعالیٰ کرتا ہے اس لئے تم یہ کہو کہ انعام بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور سزا بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ اب عجیب بات ہے کہ کافروں نے بھی تو یہی کہا تھا کہ عزّت اور ذلّت دونوںخدا کی طرف سے آتی ہیں۔ چنانچہ خود قرآن کریم نے اِن الفاظ میں اُن خیالات کا ذکر کیا کہ فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَامَا ابْتَلٰہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْْٓ اَکْرَ مَنِ وَامَّآ اِذَامَاابْتَلَاہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَھَانَنِ۔ جب اُس پ انعامات نازل ہوتے ہیں تو کہتا ہے رَبِّیْْٓ اَکْرَ مَنِ۔ میرے رب نے میری عزت کی اور جب اُس پر ایسی صورت میں ابتلاء وارد کرتا ہے کہ اُس کا رزق تنگ ہو جاتا ہے تو وہ کہتا ہے رَبِّیْٓ اَھَانَنِ۔ میرے رب نے میری اہانت کی۔ اب یہ بات تو وہی ہے جو سورۂ نساء میں بیان کی گئی ہے۔ مگر آیت زیر تفسیر میں تو یہ فرمایا ہے کہ تم ایسا مت کہو کہ نیکی بھی خدا کی طرف سے ہے اور بدی بھی خدا کی طرف سے ہے۔ مگر دوسرے مقام پر جب لوگوں نے یہ کہہ دیا کہ نیکی خدا کی طرف سے ہے اور بدی بندے کی طرف سے۔ تو اُن کو ڈانٹ دیا کہ یہ بڑی خطرناک بات ہے جو تم نے کہی۔ حقیقت یہ ہے کہ نیکی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بدی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے۔ گویا دونوں آیتوںمیں ایک نمایاں تضاد پایا جاتا ہے۔ ایک جگہ نیکی اور بدی دونوں کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا غلط قرار دیا گیا ہے اور دوسری جگہ نیکی اور بدی دونوں کا انتساب اللہ تعالیٰ کی طرف کیا گیا ہے۔
تیسری جگہ فرماتا ہے مَآ اَصَابِکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ (النساء ع ۱ ۱ ۸) جو نیکی تم کو پہنچے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ اور جو تکلیف تجھ کو پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے۔ حالانکہ سورۂ نساء کی پہلی آیت میں یہی بات کفار نے کہی تھی کہ نیکی کا ظہور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور تکلیف محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے۔ اور اس پر انہیں تنبیہ کی گئی تھی لیکن دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ نیکی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور بدی تمہاری طرف سے ۔
(۴) پھر فرماتا ہے مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْھَا وَمَارَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ (حمٰ سجدہ ع ۶ ۱) نیکی بھی انسان کے لئے ہے اس کی نفس کی طر ف سے آتی ہے اور بدی بھی اُسی کی طرف سے پیدا ہوتی اور اُس کی سزا اُسے مل جاتی ہے وَمَارَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ۔ تیرا رب لوگوں پر ظلم کرنے والا نہیں جو کچھ کرتے ہیں لوگ خود کرتے ہیں۔ اس جگہ بُرائی اور بھلائی دونوں کو بندہ کی طر ف منسوب کر دیا ہے۔
(۵) اسی طرح قارون جو حضرت موسٰی علیہ السلام کے زمانہ میں گزرا ہے اس کے متعلق سورۂ قصص میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے دعویٰ کیا اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ (قصص ع ۸ ۱ ۱) میں نے اپنے علم کے مطابق کام کیا اور مجھے اس کا نتیجہ مل گیا مگر اللہ تعالیٰ نے اُسے توبیخ کی اور فرمایا کہ وہ جھوٹ بولتا ہے اور خدا تعالیٰ پر افتراء سے کام لے رہا ہے۔ اب یہاں بظاہر ی ساری ہی باتیں اُلٹ گئیں اور جو کچھ بیان کیا گیا تھا اُن سب کی تردید کر دی گئی۔ جب بندے نے کہا کہ نیکی اور بدی دونوں خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں تو اللہ تعالیٰ نے کہا نہیں یہ بات غلط ہے۔ جب بندے نے کہا کہ نیکی خدا کی طرف سے اور بدی بندے کی طرف سے آتی ہے تو اللہ تعالیٰ نے کہا یہ بالکل غلط ہے۔ کُلُّ مِنْ عَنْدِ اللّٰہِ ہر بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے، نیکی بھی اُسی کی طرف سے آتی ہے اور بدی بھی اُسی کی طرف سے آتی ہے۔ مگر پھر ان دونوں کے خلاف یہ بات بیان کر دی کہ نیکی خدا کی طرف سے اور بدی بندے کی طرف سے آتی ہے۔ اور آخر میں کہہ دیا کہ نیکی اور بدی دونوں بندوں کی طرف سے پیدا ہوتی ہیں۔ سورۂ فجر میں تو فرمایا کہ عزت اور ذلّت دونوں تم نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیوں منسوب کیں اور سورۂ نساء میں فرما دیا کہ عزّت اور ذلّت دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ ایک کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا اور دوسری کو نہ کرنا درست نہیں۔ تیسرےؔ سورۂ نساء کی اگلی آیت میں ہی فرما دیا کہ عزت خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور ذلّت اپنے نفس سے۔ چوتھےؔ سورۂ حٰم سجدہ میں فرمایا کہ دونوں ہی انسان کی طرف سے ہیں۔ اب بظاہر یہ چار اختلاف ہیں اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سچ ہے؟ آخر چار ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔
(۱) یا تو نیکی اور بدی دونوں خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہوں۔
(۲)یا نیکی اور بدی دونوں انسان کی طرف سے ہوں۔
(۳)کا خیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو اور شر انسان کی طرف سے۔
(۴) یا شر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو ا ور خیر انسان کی طرف سے۔ پانچویں بات تو کوئی ہو ہی نہیں سکتی۔ قرآن کریم نے اس امر کو بھی ردّ کیا کہ دونوں انسانوں کی طرف سے ہیں اور اس امر کو بھی ردّ کر دیا کہ دونوں انسان کی طرف سے ہیں اور اس امر کو بھی کہ خیر خدا تعالیٰ کی طرف سے اور شر بندہ کی طرف سے اور اسے بھی ردّ کر دیا کہ شر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور خیر بندہ کی طرف سے۔ اس کا حل یہ ہے کہ یہ سب امُور الگ الگ زاویہ اور الگ الگ نقطۂ نگاہ کے ماتحت بیان کئے گئے ہیں اور اِن میںاختلاف نظر آ رہا ہے وُہ صرف زاویہ نگاہ کو سمجھنے کی وجہ سے ہے۔ جہاں کسی بات کو بیان کر کے اُس کی تردید کی گئی ہے وہاں اَور زاویہ نگاہ ہے اور جہاں اُس بات کی تصدیق کی گئی ہے وہاں اَور زاویہ نگاہ ہے اور زاویۂ نگاہ کے اختلاف اور نقطۂ نگاہ کے تغیر سے بہت کچھ تبدیل ہو جایا کرتا ہے۔ مثلًا ایک شخص کہتا ہے مجھے نبی جو کچھ کہے گا وہ میں کروں گا یا خلیفۂ وقت جو کچھ کہے گا اس پر عمل کروں گا یا امیر اور پریزیڈنٹ جو کچھ کہے گا وہی کروں گا۔ اب بظاہر یہ بڑی معقول بات ہے اور جو بھی سُنے گا اُسے درست قرار دے گا لیکن اگر گھر میں بیٹھے ہوئے کسی شخص کے سامنے روٹی کھائی جائے اور وہ کہے کہ میں اُس وقت تک روٹی نہیں کھائوں گا جب تک نبی یا خلیفہ یا امیر یا پریذیڈنٹ مجھے آ کر نہ کہے تو گو بات وہی ہے۔ مگر نقطۂ نگاہ کے بدل جانے اور اُس کے محل میں تبدیلی آ جانے کی وجہ سے ہم اُس کی ایک بات کو غلط کہیں گے اور دوسری بات کو ٹھیک کہیں گے یا اگر ایک شخص ہنگامی طور پر کسی چندے کی تحریک کرتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے کہ فلاں غرض کے لئے روپیہ دو اور وہ اسے کہتے ہیں کہ جب تک ہمارا امیر اس چندے میں حصہ لینے کی اجازت نہ دے یا جب تک مرکز کی طرف سے اس بارہ میں باقاعدہ اجازت حاصل نہ کر لی جائے ہم چندہ نہیں دے سکتے تو یہ بالکل صحیح بات ہو گی۔ اگر اس طرح لوگوں کو چندے لینے کی اجازت دے دی جائے تو مرکزی تحریکات کے لئے لوگوں کے پاس روپیہ نہیں رہ سکتا۔ لیکن اگر شخص کے پاس سکرٹری مال یا تحریک جدید کا سکرٹری چندہ کی وصولی کے لئے جائے اور وہ کہے کہ جب تک خلیفۃ المسیح کا میرے نام خط نہ لائو گے یا جب تک بیت المال مجھے نہ لکھے گا میں تمہیں چندہ نہیں دے سکتا تو ہر شخص اس کی بات کو غلط قرار دے گا۔ اگرچہ پہلے اسی بات کو صحیح سمجھا جا چکا ہے۔ وہ فقرہ ایک اَور نقطۂ نگاہ کے ماتحت کہا گیا تھا اور یہ فقرہ ایک اَور نقطۂ نگاہ کے ماتحت کہا گیا ہے۔ چونکہ زاویۂ نگاہ بدل گیا ہے اس لئے دونوں میں سے ایک بات کو ہم درست قرار دیں گے اور دوسری کو غلط۔ غرض زاویۂ نگاہ کی تبدیلی سے بہت بڑا فرق پیدا ہو جاتا ہے۔ مثلًا باپ کو جُوتی مارنا کتنا خطرناک جرم ہے لیکن فرض کرو باپ آگے بیٹھا ہے اور بیٹا پیچھے ہے اور بیٹے نے یہ دیکھا کہ ایک سانپ اس کے باپ کے کوٹ کا قمیص پر چڑھتا جا رہا ہے وہ عین اس کی گردن تک پہنچ گیا ہے وہ سمجھتا ہے اگر میں نے ایک منٹ کی بھی دیر کی تو سانپ اُسے کاٹ لے گا۔ ایسی صورت میں اگر وہ سانپ کو اپنے ہاتھ سے ہٹاتا ہے تو اُسے خطرہ ہوتا ہے کہ کہیں سانپ ہوشیا ر ہو کر میرے باپ کو کاٹ نہ لے۔ وہ اس کا علاج صرف یہی سمجھتا ہے کہ کسی جھٹکے کے ذریعہ اسے الگ کیا جائے اُس وقت جب وہ اپنے بائیں دیکھتا ہے تو اُسے سوائے بوٹ کے اور کوئی چیز نظر نہیں آتی۔ اُس وقت وہ یہ نہیں سوچے گا کہ میں اپنے ابّا جان کو بوٹ کس طرح ماروں بلکہ اگر اُسے بوٹ ملے گا تو بُوٹ اور اگر جُوتی ملے گی تو جُوتی سانپ پر زور سے مارے گا اورسمجھے گا کہ اگر میں نے بُوٹ یا جوتی نہ ماری تو میرے باپ کو زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔ اب دیکھو اس جگہ اُس نے اپنے باپ کو اُس نے جوتی ماری ہوگی مگر لوگ اُسے ملامت نہیں کریں گے کہ بڑا خبیث تھا اپنے باپ کو اُس نے جُوتی مار دی بلکہ ہر شخص اُس کی تعریف کرے گا اور کہے گا کہ بڑا عقلمند بیٹا تھا جس نے اپنے باپ کی جان بچا لی۔ اگر وہ ایسا نہ کرتا تو سانپ اُس کے باپ کو ضرور ڈس لیتا گویا ایک ہی فعل ایک جہت سے تو قابل مذمّت ہوتا ہے اور دوسری جہت سے قابل تعریف ہوتا ہے۔ فرض کرو کسی جگہ آگ لگی ہوئی ہو اور ایک شخص مصلّٰی بچھا کر نماز پڑھنے لگ جائے لوگ شور مچا رہے ہوں کہ پانی لائو اور یہ بیٹھا تسبیح ہاتھ میں لئے ذکر الٰہی کر رہا ہو تو لوگ یہ نہیں کہیں گے کہ یہ بڑا نمازی ہے خدا سے بڑی محبت رکھنے والا ہے بلکہ ہر شخص اس کی مذمت کرے گا حالانکہ نماز پڑھنی اچھی چیز ہے۔
غرض نقطۂ نگاہ اور محل کے بدلنے سے انسانی اقوال اور افعال کی حیثیت بھی بدل جاتی ہے۔
یہ بات کہ شر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور خیر بندے کی طرف سے، اس کو قرآن کریم نے کلّی طور پر ردّ کر دیا ہے۔ یہ جائز ہی نہیں کہ کوئی شخص یہ کہے کہ نیکی بندے کی طرف سے آتی ہے اور بدی خدا تعالیٰ کی طرف سے، یہ ہر زاویہ نگاہ سے بُری بات ہے اور اس کی کوئی نیک توجیہ ہو ہی نہیں سکتی۔
یہ کہ خیر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور شر بندہ کی طرف سے‘ اس کی تردید قرآن کریم نہیں کرتا بلکہ تائید کرتا ہے جیسا کہ سورۂ نساء میں فرماتا ہے مَآ اَصَابِکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ (النساء ع ۱ ۱ ۸) جو تجھے نیکی پہنچے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو شر پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے اِس کی تردید قرآن کریم نے کسی جگہ نہیں کی۔ بلکہ ہمیشہ اس کی تائید کی ہے اور جو بظاہر تردید معلوم ہوتی ہے وہ بھی تردید نہیں بلکہ تائید ہے۔ چنانچہ اس سے پہلی آیت میں جو کہا گیا ہے کہ وَاِنْ تُصِبْھُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہِ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ ج وَاِنْ تُصِبْھُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوْلُوْا ھٰذِہٖ مِنْ عِنْدِکَط قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِط فَمَالِ ھٰٓؤُلَآئِ الْقَوْمِ لَایَکَادُوْنَ یَفْقَھُوْنَ حَدِیْثًاo (النساء ع ۱ ۱ ۸) جب بھلائی آتی ہے تو کہتے ہیں یہ خدا کی طرف سے ہے اور جب بُرائی آتی ہے تو کہتے ہیں یہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے ہے حالانکہ دونوں خدا کی طرف سے ہیں۔ اس کا وہ مفہوم نہیں جو مَآ اَصَابِکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ فَمِنْ نَّفْسِکَ کا ہے بلکہ اس کا مفہوم بالکل اور ہے۔ درحقیقت اس آیت میںمنافقین کی اس شرارت کی تردید کی گئی ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی جس کی کوشش کا نتیجہ نکلے وہ کہتے تھے کہ یہ اتفاقًا ہے اس میں کسی الٰہی تائید یا آپ کی کسی اعلیٰ تدبیر کا دخل نہیں۔ مگر وہ الفاظ یہ استعمال کرتے تھے کہ ھٰذِہٖ مِنْ عَنْدِ اللّٰہِ۔ دراصل یہ ایک محاورہ ہے جو اُن لوگوں کے دلوں میں خدا تعالیٰ پر کامل ایمان نہیں ہوتا اتفاقی امور کے لئے ایجاد کیا ہؤا ہے اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ اُنہیں خدا تعالیٰ کی ذات پر یقین ہے اور وہ اس کام کو خدا تعالیٰ کی تائید کا نتیجہ سمجھتے ہیں بلکہ یہ محض رسمی رنگ کے الفاظ ہوتے ہیں جو ایمان پر دلالت نہیں کرتے بلکہ اس غرض کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں کہ اُسے اتفاق قرار دیا جائے۔ ہمارے ملک میں بھی اتفاقی امور کے متعلق اس قسم کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں چنانچہ جب کوئی واقعہ ہو تو لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ کام ’’رب سببی‘‘ ہو گیا یا ’’رب سببوں‘‘ فلاں چیز مل گئی ہے حالانکہ اُن کے دل میں ذرا بھی خدا تعالیٰ کا خوف اور اس کی خشیت نہیں ہوتی۔ ذرا بھی اُن کو اس بات پر یقین نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُن کو کامیابی عطا فرمائی ہے۔محض رسمی رنگ میں یہ الفاظ اُن کی زبان سے نکل جاتے ہیں۔ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ اتفاقیہ طور پر یہ کام ہو گیا ہے۔ پس یہ الفاظ اُن کے کسی ایمان پر دلالت نہیں کرتے بلکہ یہ ایک محاورہ ہے جو لوگوں کی زبان پر چڑھا ہؤا ہوتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ ایک مومن جب یہ الفاظ استعمال کرتا ہے تو اس کی مراد حقیقتًا یہ ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھ سے یہ نیک معاملہ کیا ہے لیکن ایک کافر یا منافق جب ان الفاظ کو استعمال کرتا ہے تو اس کی مراد صرف یہ ہوتی ہے کہ یہ کام محض اتفاق سے ہو گیا۔ اس سے زیادہ یہ الفاظ اس کے نزدیک اپنے اندر کوئی معنے نہیں رکھتے یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمائی ہے کہ منافقین کی حالت یہ ہے کہ جب اُنہیں کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں ھٰٓذِہٖ عِنْدِ اللّٰہِ ’’رب سببی‘‘ یہ بات ہو گئی یعنی اتفاقی طور پر ایسا ہو گیا ہے پس یہ محض رسمی الفاظ نہیں ہیں۔ چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ وہ نقصان کو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کرتے تھے جو بے ایمانی کی علامت تھی۔ اگر وہ نقصان کو اپنی طرف منسوب کرتے تو اور بات ہوتی مگر وہ نقصان کو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جو صاف طور پر ان کی بے ایمانی کی علامت ہے۔ اگر کہو کہ وہ نتائج کے لحاظ سے ہر کام کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر نا پسند کرتے تھے تو پھر سوال یہ ہے کہ نتائج تو سب کے سب خدا تعالیٰ ہی نکالتا ہے اور بُرے نتائج محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نکالتے ہیں۔ پس اگر انہوں نے نتائج کے اعتبار سے ایسا کہا تب بھی غلط ہے کیونکہ قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ کُلُّ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ اچھے نتائج بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں اور بُرے نتائج بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیدا ہوتے ہیں اس صورت میں اُنہیں اچھے اور برے دونوں نتائج خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرنے چاہئیے تھے مگر وہ اچھے نتائج محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کر دیتے تھے اور اگر انہوں نے اچھے اور بُرے نتائج کو بندے کے عمل کی طرف منسب کرتا ہے تو اچھے نتائبج پیدا ہوتے ہیں، بُرا عمل کرتا ہے تو بُرے نتائج پیدا ہوتے ہیں تو اس صورت میں اچھے اور بُرے دونوں نتائج محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب ہونے چاہئیے تھے۔ اگر احدؔ میں کسی غلطی کی وجہ سے بہت سے مسلمان مارے گئے تو آخر بد ر میں مٹھی بھر صحابہؓ کے ساتھ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کفار کے ایک بہت بڑے لشکر پر فتح بھی تو پائی تھی اگر وہ بندے کے فعل کو دیکھ رہے تھے کہ نیکی بھی محمد رسول صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے ہے۔ اور اگر وہ نتائج کے اعتبار کو ملحوظ رکھ کر بات کرتے تو کہتے کہ نیکی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بدی بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے مگر وُہ ان دونوں نقطۂ نگاہ کے خلاف یہ کہتے ہیں کہ نیکی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بدی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے آتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ منافقین ایسا کر ہی نہیں سکتے کہ نیکی اور بدی دونوں خدا تعالیٰ کی طرف سے منسوب کر دیں یا نیکی اور بدی دونوں محمد رسول اللہ وصلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کر دیں کیونکہ اُن کو غرض یہ تھی کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عزت دلوں سے کم کریں اگر وہ کہتے کہ نیک نتائج بھی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں اور بُرے نتائج بھی آپ کی وجہ سے پیدا ہو رہے ہیں تو لوگوں کے دلوںمیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت بدظنی نہ ہو سکتی کیونکہ زیادہ اچھے نتائج نکلتے تھے اور بہت کم خراب نکلتے تھے۔ سو ۱۰۰ میں سے اٹھانوے نتائج بہتر ہوتے اور صرف دو نتائج خراب نکلا کرتے تھے۔پس اگر وہ ایسا کہتے تو اُن کا کام نہ بنتا۔ لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بڑے عقلمند لیڈر ہیں کہ انہوں نے لڑائیوں میں اتنی دفعہ فتح پائی، اتنی دفعہ مالِ غنیمت لیا، اتنے لوگوں کو قید کیا، صر ف ایک دو فعہ لڑائی میں مسلمانوں کونسبتًا زیادہ نقصان پہنچ گیا تو یہ معمولی بات ہے ورنہ چالیس پچاس غزوات میں ہر جگہ ایسا ہی ہؤا کہ اگر آپ کا ایک آدمی مارا گیا تو دشمن کے دس آدمی مارے گئے۔ پس اگر وہ اچھے اور بُرے دونوں نتائج کو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کرتے تو یہ بات آپ کے درجہ اور شان کو بلند کرنے والی ہوتی اور ہر جگہ آپ کی تعریف ہوتی اور اگر وہ نتائج کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے اور کہتے کہ نیکی بھی خدا کی طرف سے ہے اور بدی بھی خدا کی طرف سے ہے تب بھی ان کا کام نہ بنتا اور وہ لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب نہ ہو سکتے۔ پس چونکہ ان کی غرض لوگوں کے ایمانوں پر ڈاکہ ڈالنا تھی اس لئے وہ نہ روحانی نقطۂ نگاہ لیتے تھے نہ مادی نقطۂ نگاہ۔ بلکہ اگر بھلائی آتی تو کہتے یہ اتفاق کی بات ہے اور اگر نقصان پہنچتا تو کہتے یہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وجہ سے ہؤا ہے۔ فلاں موقع پر بھی نقصان ہؤا تھا مگر محمد رسول اللہ ؐ پھر بھی نہ سمجھے اور قوم کو دوبارہ نقصان برداشت کرنا پڑا۔ پس اُن کا یہ اعتراض کسی فلسفہ پر مبنی نہیں تھا بلکہ محض شرارت اور فتنہ و فساد پر اس کی بنیاد تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کی تردید کی ورنہ یہ صحیح ہے کہ خرابی بندے کی غلطی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور انعام خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے مگر بندے سے مراد محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں بلکہ عام مسلمان ہیں جہاں جہاں مسلمانوں کو نقصان پہنچا محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کسی غلطی کی وجہ سے نہیں پہنچا بلکہ بعض جگہ مسلمانوں کے غلط اجہتاد کی وجہ سے جیسے اُحدؔ کی جنگ میں اور بعض جگہ کافروں اور کمزور مسلمانوں کی بُزدلی کی وجہ سے جیسے غزوۂ اُحدؔ کی جنگ میں اور بعض جگہ کافروں اور کمزور مُسلمانوں کی بزدلی کی وجہ سے جیسے غزوۂ حُسنین میں۔ لیکن منافق نہ روحانی نقطۂ نگاہ سے یہ بات کہتے تھے نہ مادی نقطۂ نگاہ سے۔ صرف شرارت سے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بدنام کرنے کے لئے ایسا کہتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُن کے قول کی تردید کر دی۔
اگر کہو کہ ادب کے مقام پر خیر خدا تعالیٰ کی طرف اور شر بندے کی طرف منسوب ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اُن کے دلوں میں ادب ہوتا تو اس صورت میں ان کو شر اپنی طرف یا اتفاق کی طرف منسوب کرنا چاہئیے تھا اور اُنہیں یوں کہنا چاہئیے تھا کہ ہم سے غلطی ہوئی جس کا یہ خمیازہ بھگتنا پڑا۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف وہ بدی کو منسوب نہ کرتے۔ ادب یہی ہوتا ہے کہ انسان غلطی اپنی طرف منسوب کرتا ہے اور خوبی اپنے افسر کی طرف۔ مگر وہ خوبی خدا تعالیٰ کی طرف اور بدی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ادب کے طور پر ایسا نہیں کہہ رہے تھے بلکہ محض شرارت اور فساد کی نیت سے ایسا کہتے تھے۔
اب راہ خیر کو اللہ تعالیٰ کی طرف اور شر کو اپنی طرف منسوب کرنا۔ اس دعوے کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز انسان کی بھلائی کے لئے پیدا کی ہے آگے کبھی اپنے فعل کی وجہ سے اور کبھی دشمن کے فعل کی وجہ سے وُہ انسان کے لئے بُری بات بن جاتی ہے۔ مثلًا خدا تعالیٰ نے سنکھیا اس لئے پیدا کیا ہے کہ اگر انسان کو بخار چڑھے تو وہ اس سے فائدہ اٹھائے یا کسی کو خون دست آ رہے ہوں تو ہومیو پیتھک ڈوز میں اُسے آرسنک دیا جائے تا کہ اُس کی پیچش دُور ہو جائے اور خون آنا بند ہو جائے یا سنکھیا خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا ہے کہ اگر کوئی کمزور شخص ہو اُس کے جسم میں خون کی کمی ہو۔ تو وہ سنکھیا استعمال کر کے اپنی کمیٔ خون اور جسم کی کمزوری کو دُور کر لے یا اگر اعصاب میں کمزوری پیدا ہو چکی ہو تو سنکھیا استعمال کر کے اعصاب میں کمزوری پیدا ہو چکی ہو تو سنکھیا استعمال کر کے اعصاب کو مضبوط بنا لیا جائے اسی طرح اَور بیسیوں فوائد ہیں جن کے لئے سنکھیا استعمال کیا جاتا ہے مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان خودکُشی کرنے کے لئے سنکھیا کھا لیتا ہے۔ کبھی جہالت سے بغیر ضرورت اور بغیر ڈاکٹری مشورہ کے ایسی چیزیں استعمال کر لیتا ہے جن میں سنکھیا پڑا ہؤا ہوتا ہے، کبھی دشمن اسے زہر دے دیتا ہے اور اس طرح وہ ہلاک ہو جاتا ہے۔ اب سنکھیا تو خدا تعالیٰ نے خیر کے لئے ہی پیداکیا تھا اُس کے اپنے غلط استعمال کی وجہ سے یا معالج کی بے احتیاطی کی وجہ سے یا دشمن کی شرارت کی وجہ سے وہ خیر اُس کے لئے شر بن جاتی ہے یا مثلًا خدا نے لوہا اس لئے بنایا ہے کہ لوگ گنڈاسے بنائیں اور اُس سے چارہ کتریں، چاقو تیار کریں اور اُس کی قلمیں اور پنسلیں تراشیں، چُھرے بنائیں اور اُن سے بکرے زبح کریں، کسیاں بنائیں اور اُن سے زمیں کھودیں، کُدالیں بنائیں اور اُن سے سخت پتھریلی زمینیں توڑیں، اسی طرح آرے تیار کریں اور لکڑیوں کو چیریں مگر ایک اَور شخص لوہا لے کر اپنے سر پر مارتا ہے اور مر جاتا ہے اب یہ فعل اس کا اپنا ہے اللہ تعالیٰ کا نہیں۔ اُس نے تو بہرحال انسان کے فائدہ کے لئے لوہا کو پیدا کیا تھا اِس لئے نہیں پیدا کیا تھا کہ وہ نقصان اُٹھائے یا اپنے آپ کو ہلاک کرے۔ پس چونکہ خدا تعالیٰ ہر چیز انسان کے فائدہ کے لئے پید اکی ہے اگر وہ نقصان اُٹھاتا ہے تو پانی غلطی کی وجہ سے۔ اس لئے ہر نیکی خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتی ہے اور ہر بدی بندے کی طرف منسوب ہوتی ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ جہاں تک نتائج کا سوال ہے یہ امر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ نتیجۂ شر بھی خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے اور نتیجۂ خیر بھی خدا تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے مگر الزام خدا تعالیٰ پر نہیں آتا اس لے کہ وہ فعل خدا تعالیٰ نے نہیں کیا بلکہ انسان نے کیا ہے۔ مثلًا فرض کرو ایک شخص نے مینار سے چھلانگ لگائی اور وہ مر گیا۔ اب بے شک خدا تعالیٰ نے اُس کا گوشت پوست بنایا تھا اگر وہ اونچی جگہ سے گرے تو مر جائے۔ اُس کے پھیپھڑے اُس نے بنائے تھے کہ اگر اُن پر چوٹ آئے تو وہ زخمی ہو جائیں مگر اس کے باوجود خدا تعالیٰ نے اُسے گرایا نہیں بلکہ وہ خود گرا ہے۔ پس جہاں تک نتائج کا سوال ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوں گے یہ کہا جائے گا کہ خدا تعالیٰ نے اُس کا گوشت پوست ایسا ہی بنایا تھا کہ اتنی اُونچی جگہ سے چھلانگ لگانے کے نتیجہ میں وہ مر جاتا مگر یہ نہیں کہا جائے گا کہ مینار سے اُسے خدا تعالیٰ نے گرایا ہے یا اس کا گوشت پوست کسی اور غرض کے لئے بنایا تھا کہ مینار سے چھلانگ لگائے اُس کا گوشت پوست کسی اور غرض کے لئے بنایا گیا تھا مگر بہرحال خدا تعالیٰ نے ایسا ہی گوشت پوست اُسے بخشا تھا جو بلند جگہ سے گرنے کے نتیجہ میں کچلا جائے اور انسان ہلاک ہو جائے مگر اس کے باوجود خدا تعالیٰ پر یہ الزام نہیں آئے گا کہ اُس نے ہلاک کیا۔ غرض جہان تک نتائج کا سوال ہے اچھے بُرے دونوں خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوں گے لیکن جہاں تک شر کے الزام کا سوال ہے وہ بندے پر عائد ہو گا لیکن فعلِ بد اور فعلِ خیر دونوں بندے کی طرف منسوب ہوں گے اچھا فعل بھی اُسی کی طرف منسوب ہو گا اوربُرا فعل بھی اُس کی طرف منسوب ہو گا۔ اور جہاں تک نتائج کا سوال ہے شر بھی خدا اتعالیٰ کی طرف سے ہے اور خیر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ جب ہم نتائج کے لحاظ سے کوئی بات کریں گے تو کہیں گے خدا تعالیٰ کی طرف سے خیر بھی آتی ہے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے شرم بھی آتی ہے لیکن جب یہ کہا جائے گا کہ بُرے اور اچھے کام کون کرتا ہے تو ہم کہیں گے چوری بھی بندہ کرتا ہے اور نماز بھی بندہ پڑھتا ہے اور جہاں تک سامانوں کے بالقویٰ یا بالفعل ظہور کا سوال ہے یعنی یہ سوال کہ انسان کے اندر قوتیں کس مقصد کے لئے رکھی گئی ہیں؟ اُس وقت جب بالقوّہ طاقتوں کا سوال ہو گا تو ہم کہیں گے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور جب اُن قوتوں کے بالفعل ظہور کا سوال ہو تو ہم کہیں گے کہ یہ بندے کی طرف سے ہیں اس لئے کہ جہاں تک طاقتوں اور قوتوں کا سوال ہے وُہ خیر ہی خیر ہیں اِس لئے ہم کہیں گے کہ وہ سب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں لیکن جہاں تک اُن قوتوں کے استعمال کا سوال ہے چونکہ بندے بُرے کام بھی کر لیتے ہیں اَور اچھے بھی۔ اس لئے اگر ا نسان اُن قوتوں کا بُرا استعمال کرے گا تو شر بندے کی طرف منسوب ہو گا اور اگر وہ اُن قوتوں کا نیک استعمال کرے گا تو چونکہ خدا تعالیٰ نے ہی اُن قوتوں کو نیکی کے لئے پیدا کیا ہے اس لئے وہ خیر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہو گا۔ پس نتائج کے اعتبار سے خیر اور شر دونوں بندے کی طرف سے ہیں بالقوہ طاقتوں کے لحاظ سے خیر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہو گا اور شر نہیں کیونکہ اُس نے کوئی چیز بُرے استعمال کے لئے پیدا ہی نہیں کی اور بالفعل ظہور سے خیر خدا تعالیٰ کی طرف اور شر بندے کی طرف منسوب ہو گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے اُن قوتوں کو کس شر کے لئے پیدا نہیں کیا تھا۔ غرض دونوں باتیں خدا تعالیٰ کرتا ہے اور دونوں باتیں بندہ کرتا ہے مگر اس کے باوجود شر بندے کی طرف منسوب ہوتا ہے اور خیر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے۔ یہاں انکار اُنہی معنوں میں کیا گیا ہے جو بُرے ہیں فرماتا ہے فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَاابْتَلٰہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ کہ جب انسان پر اس حقیقت کے اظہار کے لئے اللہ تعالیٰ اکرام وانعام کی بارش نازل فرماتا ہے تو وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خدا نے میرا اکرام کیا یعنی میں ایسا ہی تھا کہ خدا تعالیٰ مجھ سے یہ سلوک کرتا۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ نعمتیں مجھے اس لئے دی ہیں تا اِن کے ذریعہ میرا گند یا میری خوبی دنیا پر ظاہر کرے یا مجھے اس لئے دولت دی ہے کہ تا کہ لوگوں کو دکھائے کہ میرا ایمان اتنا مضبوط ہے یا نہیں کہ باوجود دولت ملنے کے میں تکبّر میں مبتلا نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کو پوری دیانتداری کے ساتھ کرتا رہتا ہوں بلکہ وہ سمجھتا ہے خدا مجھ پر عاشق ہو گیا ہے کہ اتنے بڑے انعام مجھے عطا کرتا جا رہا ہے گویا وہ خدا تعالیٰ کے اکرام اور اس کے انعام سے ایک غلط نتیجہ نکال لیتا ہے۔
وَاَمَّآ اِذَا مَاابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِذْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَھَانَنِ۔ اور اگر خدا تعالیٰ کسی وقت رزق کی تنگی سے اُس کی آزمائش کرتا ہے تو وہ یہ نہیں سمجھتا کہ خدا تعالیٰ اس ابتلاء کے ذریعہ میرے اندرونہ کو ظاہر کرنا چاہتا ہے وہ دنیا کو یا خود مجھے یہ دکھانا چاہتا ہے کہ مشکلات کو کس حد تک برداشت کرنے کی میرے اندر قوت پائی جاتی ہے اور قومی ضرورتوں کے وقت میں اچھا سپاہی ثابت ہو سکتا ہوں یا نہیں۔ وہ ان حکمتوں میں سے کسی حکمت کو نہیں سمجھتا بلکہ یہ شور مچانا شروع کر دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے بے عزت کر دیا۔ گویا دونوں موقعوں پر وہ ایک غلط نقطۂ نگاہ اختیار کر لیتا ہے اس لئے اس کی دونوں باتیں غلط ہوتی ہیں ورنہ حقیقت کے لحاظ سے یہ دونوں باتیں صحیح ہیں کہ کبھی اللہ تعالیٰ انسان کی اس رنگ میں ازمائش کرتا ہے کہ اس پر انعام و اکرام نازل کرتا ہے اور کبھی اس رنگ میں آزمائش کرتا ہے کہ اُسے مشکلاات اور مصائب اور تنگیٔ رزق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک سچا مومن دونوں حالتوں میں ثابت قدم رہتا ہے مگر کافر کی یہ حالت ہوتی ہے کہ انعام و اکرام کے وقت وہ کہتا ہے رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ خدا نے میرا اکرام کیا حالانکہ خدا تعالیٰ اس ذریعہ سے اس کا امتحان کیا حالانکہ خدا تعالیٰ اس ذریعہ سے اس کا امتحان لے رہا ہوتا ہے اور تنگیٔ رزق کے وقت وہ کہتا ہے رَبِّیْٓ اَھَانَنِ میرے رب نے مجھے ذلیل کر دیا حالانکہ اس ذریعہ سے وہ اُس کے اندرونہ کو بے نقاب کر رہا ہوتا ہے۔ گویا یہ دونوں ابتلائی مقام ہوتے ہیں جزاء و سزاء کے مقام نہیں ہوتے۔ جب اس پر انعامات کے رنگ میں بارش ہو رہی ہوتی ہے اُس وقت بھی وہ ابتلاء کے نیچے ہوتا ہے اور جب اُس پر تنگیٔ رزق کا دَور ہوتا۔ اُس وقت بھی وہ ایک ابتلاء کے نیچے ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ انعامات اُسے کسی اعلیٰ درجہ کے کام کی جزاء کے طور پر دئے جا رہے ہوں یا تنگیٔ رزق کسی جرم کی سزا کے طور پر اُس پر حاوی ہو دونوں حالتیں ابتلائی ہوتی ہیں اور دونوں حالتوں میں اُس کی حقیقت کو خود اُس کے نفس پر اور دوسرے لوگوں پر ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے۔
اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ کے انعامات اور اس کی طرف سے آنے والی تکالیف کے سلسلہ میں دو قسم کے مقام ہوتے ہیں ایک مقام ابتلائی ہوتا ہے اور ایک مقامِ جزا وسزا ہوتا ہے یعنی کبھی ابتلاء کے طور دُکھ وارد ہوتے ہیں۔ اسی طرح کبھی ابتلاء کے طور پر دُکھ وارد اور کبھی سزا کے طور پر مختلف تکالیف کے دَور آتے ہیں۔ اس جگہ صرف ابتلائی مقامات کا ہی ذکر کیا جا رہا ہے جزا و سزا والے مقام کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ انسان کو مجرم قرار دیتا ہے اور فرماتا ہے ہم اس امتحان لینے کے لئے اُسے انعامات دیتے ہیں تو وہ کہتا ہے میرے رب نے میرا اکرام کیا۔ گویا ان انعامات پر اس کا حق تھا اور خدا تعالیٰ کو یہی چاہئیے تھا کہ اس کا اکرام کرتا۔ وہ یہ نہیں سمجھتا کہ میں نے تو کوئی نیک کام کیا نہیں اور یہ کہ نعمتیں تو اس کے امتحان کا ایک ذریعہ ہیں۔ اس کے مقابلہ میں جب تکالیف کے ذریعہ اس کا امتحان لیا جاتا ہے تو وہ کہہ دیتا ہے ربِّیْٓ اھَانَنِ میرے رب نے میری ہتک کر دی۔ میرے مقام کو اُس نے نظر انداز کر کے اُس نے مجھے بے عزّت کردیا۔ اگر وہ یہ کہتا کہ میرے جرموں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی طرف سے مجھے یہ سزا ملی ہے یا بجائے اَھَانَنِ کہنے کے وہ کہتا ہے کہ عَذَّبَنِیْ میرے رب نے میرے گناہوں کی پاداش میں مجھے عذاب میں مبتلا کر دیا تو خواہ ابتلائی مقام ہونے کی وجہ سے اُس کی یہ بات بھی غلط ہوتی مگر پھر بھی وہ مجرم نہ بنتا مگر وُہ تو یہ کہتا ہے رَبِّیْٓ اَھَانَنِ میں اس بات کا مستحق تھا کہ مجھے عزت دی جاتی مگر میرے رب نے مجھے رسوا کر دیا۔
اصلی بات یہ ہے کہ ابتلائی صورتیں اور نگ کی ہوتی ہیں اور جزا سزا کی صورتیں اور رنگ کی ہوتی ہیں مثلًا ہر نبی کو خدا تعالیٰ عزت دیتا اور اُس کے مقاصد میں اُسے کامیابی عطا کرتا ہے اور کئی ایسے انبیاء ہیں جنہیں اُس نے علاوہ روحانی حکومت کے جسمانی باد شاہت بھی عطا کی۔ مثلًا حضرت موسٰیؑ۔ حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمان کے ہاتھ میں بادشاہت آئی مگر یہ بادشاہت ابتلاء کے طور پر نہیں تھی بلکہ انعام کے طور پر اُن کے کام کو تقویت پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی۔ یا مثلًا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بادشاہت نہ ملتی تو آپ قرآنی شریعت کو عملی رنگ میں کس طرح رائج کرتے پس آپ کو اور دوسرے انبیاء کو جو حکومت ملی وہ ایک ہتھیار کے طور پر تھی اور ضمنی چیز تھی ابتلاء نہیں تھا۔ ابتلاء ہمیشہ اس لئے آتا ہے کہ انسان کے اخلاق ظاہر کئے جائیں مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلمکے اخلاق تو پہلے ہی ظاہر تھے آپؐ نے سَرَّآء میں بھی خدا تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کیا اور ضَرَّاء میں بھی اس کی رضامند ی کی راہوں کو اختیار کیا۔ آپ کے پاس دولت آئی تو وہ آپ نے سب کی سب بنی نوع انسان کے فوائد کے لُٹا دی اور خود اس سے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس کے مقابلہ میں آپ پر مصائب بھی آئے۔ کئی قسم کے دُکھ بھی آپ کو برداشت کرنے پڑے مگر ہمیشہ آپ نے صبر سے کام لیا ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قبرستان کے پاس سے گزر ہے تھے کہ آپ نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ ایک قبر پر کھڑی رو رہی ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا۔ بی بی صبر کر۔ اُس نے کہا اگر تیرے بچے مرتے تو مَیں دیکھتی تُو کس طرح صبر کرتا۔ صبر کی نصیحت تُو اس لئے کر رہا ہے کہ میرا بچہ تھا تیرا بچہ نہیں تھا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس سے فرمایا۔ اے عورت میرے سات بچے مر چکے ہیں مگر میں نے ہر بچہ کی وفات پر صبر سے کام لیا ہے۔ یہ کہہ کر آپ چل پڑے بعد کسی نے اُسے بتایا کہ بدبخت تجھے پتہ بھی ہے کہ تجھے یہ بات کہنے والا کون تھا؟ اُس نے کہا مجھے تو پتہ نہیں۔ اُس نے کہا یہ تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تھے یہی سنتے ہی وہ آپ کے مکان پر آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں نے صبر کیا۔ آپ نے فرمایا اَلصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَۃِ الْاُوْلٰی۔ صبر تو ابتدائی حالت میں ہوتا ہے رو دھو کر صبر آ ہی جاتا ہے۔ غرض وہ حالتیں بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر آئیں جن میں انسان جزع فزع کرنے لگ جاتا ہے مگر آپ نے اُن حالات میں صبر کیا اور یہی کہا کہ ہم اس کی مشیّت پر راضی ہیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بیٹا ابراہیم جب فوت ہونے لگا تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُس وقت پاس موجود تھے اُس کی تکلیف اور کرب کو دیکھ کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ کسی نے کہا یا رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ بھی روتے ہیں آپ نے فرمایا آنکھ کا آنسو بہانا اَور ہے ورنہ ہمیں خدا تعالیٰ کے فعل پر کوئی اعتراض نہیں ہم سمجھتے ہیں کہ اُس نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے۔
تو ابتلاء اَور ہوتے ہیں اور جزاء اَور ہوتی ہے اور بعض جزائیں تو ایسی ہوتی ہیں جو اعلیٰ درجہ کے روحانی مقامات حاصل کرے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام کے طور پر ملتی ہیں جیسے حضرت سید عبدالقادر جیلانی صاحب فرماتے ہیں کہ میں اُس وقت تک کھانا نہیں کھاتا جب تک خدا مجھے نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر تجھے میری ذات کی قسم کہ یہ کھانا کھا اور میں کپڑا نہیں پہننا جب تک مجھے خدا نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر تجھے میری ذات ہی کی قسم کہ یہ کھانا کھا اور میں کپڑا نہیں پہنتا جب تک مجھے خدا نہیں کہتا کہ اے عبدالقادر تجھے میری ذات ہی کی قسم کہ یہ کپڑا پہن۔ یہ ابتلاء والا مقام نہیں بلکہ ایک روحانی عہدہ حاصل کرنے کا انعام ہے۔ ان لوگوں کو سَرَّآء اور ضَرَّآء میں سے گزار کر اللہ تعالیٰ اُن کے اخلاق اور اُن کے اندرونہ کو دنیا پر اچھی طرح ظاہر کر دیتا ہے اس لئے یہ ضرورت نہیں رہتی کہ اُن پر ابتلاء وارد کئے جائیں لیکن عام لوگوں کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ اُن کے دل پر کبھی گناہوں کی وجہ سے اتنا زنگ لگ جاتا ہے کہ نہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی فراخی کا اُن پر کوئی اثر ہوتا ہے اور نہ اس کی طرف سے آنے والی مشکلات اُن میں تغیرات پیدا کرتی ہیں۔ وہ اندھے پیدا ہوتے ہیں اور اندھے ہونے کی حالت میں ہی اس جہان سے گزر جاتے ہیں۔ ایسی ہی روحانی نابینائی رکھنے والوں کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ ابتلاء کے طور پر انہیں فراخی دیتا ہے تو وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں خدا نے ہماری قدر کی حالانکہ اُن کے اعمال ایسے نہیں ہوتے کہ اللہ تعالیٰ اُن پر انعام کرے۔ بسااوقات وہی دولت اور عزت اُن کو جہنم میں لے جانے کا باعث بن جاتی ہے اسی طرح جب اُن پر تنگی رزق کا دَور آئے تو کہنے لگ جاتے ہیں خدا نے ہمیں بے عزت کر دیا گویا دونوں حالتوں میں وہ اُس کی حکمتوں سے آنکھیں بند رکھتے اور روحانی موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں لوگوں کی اصل کیفیت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا گیا ہے فرماتا ہے وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا الِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنُطْعِمُ مَنْ لَّوْیَشَآئُ اللّٰہُ اَطْعَمَہٗٓ اِنْ اَنْتُمْ اِلَّا فِیْ ضَلَالٍ مُّبِیْنٍ (یٰس ع ۳ ۲) یعنی جب اُن سے یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دئے ہوئے سے دوسرے مستحقین پر خرچ کرو تو وہ مومنوں سے کہتے ہیں کہ کیا تم چاہتے ہو کہ ہم اُنہیں کھانا کھلائیں جنہیں خدا نے کھانا نہیں کھلایا حالانکہ وہ چاہتا تو انہیں خود رزق دے سکتا تھا۔ پس ہمیں یہ نصیحت کر کے کہ ہم ان کو دین جن کو خدا تعالیٰ نہیں دینا چاہتا تم ثابت کر رہے ہو کہ تم بڑے ہی گمراہ ہو۔
اس آیت نے زیر بحث کی تشریح کر دی ہے ان کفار کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ ہم مستحق انعامات ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ ہمیں دیتا ہے اور دوسرے لوگ مستحق نہیں اس لئے اُنہیں نہیں دیتا اور چونکہ خدا تعالیٰ کے فعل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ مستحق انعام نہیں اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ اُنہیں نہ دیں۔ یہ ظاہر ہے کہ جس کا یہ نقطۂ نگاہ ہو اُس کے دل میں انعام پر اللہ تعالیٰ کا شکر پیداس نہ ہو گا۔ اور اگر کوئی تکلیف آئے گی تو شکوہ پیدا ہو گا کہ خدا تعالیٰ نے ہمارا مناسب اعزاز نہیں کیا اور ہمارے درجہ کا خیال نہیں رکھا۔
کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْنَ
(یوں) ہر گز نہیں بلکہ تم (قصور وار ہو کہ)یتیم کی عزت نہیں کرتے۔ اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے۱۳؎ اور ورثہ کا مال سب کا سب (عیش میں) اڑا جاتے ہو۱۴؎
۱۳؎حل لغات
تَحَآضُّوْنَ: حَاضَّ سے جمع مخاطب کا صیغہ ہے اور حَاضَّہُ عَلَیْہِ کے معنے ہوتے ہیں حَثَّ کُلُّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا صَاحِبَہٗ۔ دو شخصوں میں سے ہر ایک نے دوسرے کو کسی کے کرنے کی رغبت دلائی (اقرب) پس لَا تَحٰٓضُّوْنَ کے معنے ہوں گے تم رغبت ہیں دلاتے۔
تفسیر
فرماتا ہے کَلَّا یوں نہیں تم خیال کرتے ہو کہ تم خاص طور پر دولت کے مستحق تھے اس لئے تم کو دولت ملی تھی اور خدا تعالیٰ کی دوسری مخلوق نہیں تھی اس لئے اُسے نہیں ملی اور یہ کہ جب تم کو ابتلائِ تکلیف آتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہارے حق میں بے انصافی ہوتی ہے بلکہ بات یہ ہے کہ تم کو دولت ملی تھی کہ تم غرباء پر خرچ کرو اور اس طرح ایک نیک برادری دنیا میں قائم ہو مگر بجائے اس کے تم نے تکبّر شروع کیا اور غریبوں کی خبر گیری ہی سے غفلت نہیں برتی بلکہ ان کو ذلیل بھی کیا کہ تم اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں مستحق نہیں ہو اور یتیموں کی عزّت نہ کی بلکہ اُنہیں ذلیل سمجھا اس لئے خدا تعالیٰ نے بھی تم کو ذلیل کیا اگر تم دولت ملنے پر یہ سمجھتے کہ خدا تعالیٰ نے یہ دولت اس لئے دی ہے کہ وہ دیکھے کہ تم یتیموں کی خبر گیری کرتے ہو یا نہیں اور تم ایک دوسرے کہتے ہو یا نہیں کہ خدا نے ہمیں روپیہ دیا ہے تو آئو غرباء کی خبرگیری کریں۔ ہم بھوکوں کو کھانا کھلائیں ہم ننگوں کا سردیوں میں ننگ ڈھانکیں۔ مگر جب اُس نے تمہیں نعمتیں دیں توبجائے اس کے کہ تم یہ سمجھتے کہ خدا تعالیٰ نے یہ نعمتیں ہمیں اِس لئے دی ہیں کہ لوگوں پر خرچ کی جائیں ان کی ضروریات کو پورا کریں اور اُن کے دکھوں کو دُور کریں تم نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ خدا کا ہمارے ساتھ کوئی خاص جوڑ ہے کہ اُس نے یہ نعمتیں ہمیں دی ہیں اَوروں کو نہیں دیں۔ تم نے یتیموں اور مسکینوں کی ذرا بھی پروا ہ نہ کی اور تم نے اپنے متعلق یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ ہم خدا کے خاص محبوب اور پیارے ہیں۔ کہ اُس نے ہمیں تو ان انعامات سے نوازا مگر دوسروں کو محروم رکھا بجائے اس کے کہ تم یہ سمجھتے کہ یتیموں کی پرورش اور مساکین کی خبر گیری کے لئے یہ نعمتیںدی گئی ہیں تم نے ان نعمتوں کو اپنا حق قرار دے کر ان کی طرف سے اپنی آنکھیں بالکل موند لیں اور ان کی ضروریات کے لئے ایک پیسہ خرچ کرنابھی روا نہ رکھا۔ تمہارے سامنے کئی یتیم بچے بھوک سے مرتے ہیں، کئی مساکین بھیک مانگتے اور دربدر ٹھوکریں کھاتے رہے مگر تم نے ان کی طرف ذرا بھی توجہ نہ کی بلکہ اسی خیال میں مست رہے کہ ہم بڑے آدمی ہیں۔
۱۴؎حل لغات
تُرَاثٌ: وَرِثَ کا مصدر ہے نیز اس کے معنے ہیں مَایَخْلِفُہُ الرَّجُلُ لِوَرَثَتِہٖ وہ مال جو آدمی اپنے وارثوں کے لئے چھوڑ جاتا ہے (اقرب)
لَمَّا: قَالَ الْفَرَّائُ اَیْ شَدِیْدًا وَفِی الصِّحَاحِ اَیْ نَصِیْبَہٗ وَنَصِیْبَ صَاحِبِہٖ۔ فرّاء کہتے ہیں کہ لَمًّا کے معنے شدیدکے ہیں اور آیت کا یہ مطلب ہے کہ تم سارے کا سارا مال کھا جاتے ہو یا وہ مال تمہارے قبضہ میں آتا ہے تو تم اُسے بالکل چٹ کر جاتے ہو اُ س میں سے کچھ باقی نہیں رہنے دیتے۔ لیکن صحاح میں یہ لکھا ہے کہ لمًّا کے معنے یہ ہیں کہ تم اپنا حصّہ بھی کھا جاتے ہو اور دوسروں کا حصہ بھی لینے پر اکتفا کرو بلکہ تم اپنا حصہ بھی چٹ کر جاتے ہو اور یتامٰی و مساکین یا دوسرے بھائیوں کا جو حصّہ ہو وہ بھی کھا جاتے ہو۔
تفسیر
فرماتا ہے تم اپنے اعمال کی طرف دیکھو کہ تمہاری شامتِ اعمال تمہارے لئے کیا رنگ پیدا کر رہی ہے۔ تم میں بجائے اس کے کہ کوئی نیک خلق پیدا ہوتا اور تم یتامیٰ اور مساکین کی خبرگیری کرتے تم نے دولت ملنے پر اسراف سے کام لینا شروع کر دیا اور اپنے روپیہ کو بالکل برباد کر دیا اس کے بعد بجائے اس کے کہ تم یہ سمجھتے کہ ہم اپنے گندے افعال کی وجہ سے اس غربت کو پہنچے ہیں اور خدا نے اس ذریعہ سے ہمیں ہوشیار کیا ہے اور آئندہ کے لئے نصیحت کر دی ہے کہ تمہیں اسراف نہیں کرنا چاہئیے بلکہ روپیہ کو محفوظ رکھنا چاہئیے تم نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ رَبِّیْٓ اَھَانَنِ ہماری تو عزت ہونی چاہئیے تھی مگر خدا تعالیٰ نے ہمیںرسوا کر دیا حالانکہ خدا تو تمہیں نعمتیں دیں اور اس لئے دیں کہ تم غریبوں پر خرچ کرو مگر تم نے روپوں کو اپنی جیب میں ڈالا۔ یتامیٰ ومساکین کی طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور شراب اور ناچ گانوں میں اپنی دولت کو برباد کرنا شروع کر دیا اور جب تمہاری دولت سب برباد ہو گئی تم یہ شور مچانے لگے کہ خدا نے ہمیں رسواء کر دیا۔ بجائے اس کے کہ ان تمام حالات کو تم اصل روشنی میں دیکھتے تم نے اُلٹا اُسے غلط رنگ دے دیا۔ کیا تمہاری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ تمہاری حالت کس قدر گر چکی ہے۔ کتنی کمینگی اور بے حیائی تم میں پیدا ہو چکی ہے تم یتیموں کا مال لیتے اور شیرمادر کی طرح ہضم کر جاتے ہو۔ تمہیں ورثہ مٰں بڑی بڑی جائدادیں ملتی ہیں، زمینیں ملتی ہیں، کوٹھیاں ملتی ہیں، روپیہ ملتا ہے مگر تم وہ تمام جائیداد عیاشی میں برباد کر دیتے ہو۔ باپ روپیہ کما کما کر تھک جاتا ہے اور تم صاحبزادے بن کر اُس کا سب مال اڑا دیتے ہو اور پھر یہ کہتے ہو لوگ ہماری عزت نہیں کرتے۔ وہ تمہاری کیوں عزت کریں جانتے ہیں کہ تمہارا بُرا حال ہے۔ بجائے اپنی جائیداد کو بڑھانے کے اور بجائے غریبوں کی خبرگیری کرنے کے تم میں سے کوئی اچھے کھانے کھانے لگ جاتا ہے، کوئی اچھے لباسوں پر اپنا روپیہ برباد کر دیتا ہے، کوئی شراب میںمشغول ہو جاتا ہے، کوئی ناچ گانوں میں اپنی عمر ضائع کر دیتا ہے، کوئی عیاشی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر زبانوں پر یہ شکوہ ہوتا ہے کہ لوگ ہماری عزت نہیں کرتے۔ ہم اتنے بڑے تھے، اتنے بڑے خاندان میں سے تھے، معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے۔ وہ حیران ہوتے ہیں اور پھر خود ہی کہتے ہیں کہ ’’کچھ اللہ تعالیٰ ولوںوگ گئی اے‘‘ یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس کی *** کی اور ہم آ پڑی ہے ورنہ ہماری عزت میں کیا شبہ تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تمہارا باپ مالدار تھا تو تمہیں اس سے بھی اونچی سیڑھی پر چڑھنا چاہئیے تھا اگر اُس نے ایک ہزار روپیہ کمایا تھا تو چاہئیے تھا کہ تم دس ہزار روپیہ کماتے اور بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے خرچ کرتے نہ کہ اس روپیہ کو تعیش میں برباد کر دیتے اور بھیک مانگنے لگ جاتے۔ تم نے خود اپنے نفس کی اہانت کی اور اپنے آپ کو لوگوں کی نگاہ میں گرا دیا اس لئے تم خدا تعالیٰ کی نظر سے بھی گر گئے۔ یا اگر تم پر تکلیف کی بعض گھڑیاں آئی تھیں تو اس لئے کہ تم ہوشیار ہو جائواور اپنی کوتاہیوں کا ازالہ کر لو۔ مگر تم اور بھی نیچے چلے گئے۔
چونکہ لَمًّا کے معنے دوسرے کا حصّہ لے لینے کے بھی ہیں اس لئے اس آیت میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان کو جو دولت ملتی ہے وہ صرف اُسی کا حصّہ نہیں ہوتا اس میں دوسرے بنی نوع انسان کا بھی حصّہ ہوتا ہے لیکن بعض لوگ اس دولت کو صرف اپنے نفس پر خرچ کر دیتے ہیں اور دوسروں کا حق کھا جاتے ہیں۔
وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ
اور تم مال سے بے انتہا محبت کرتے ہو۱۵؎
۱۵؎حل لغات
جَمًّا: اَلْجَمُّ کے معنے ہیں اَلْکَثِیْرُ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ بہت سی چیز (اقرب) نیز کہتے ہیں جَائُ وْاجَمًّا غَفِیْرًا معنے یہ ہوتے ہیں جَاؤُا بِجَمَاعَتِھِمْ۔ اَلشَّرِیْفُ وَالْوَضِیْعُ وَلَمْ یَتَخَلَّفْ اَحَدٌ وَکَانَ فِیْھِمْ کَثْرَۃٌ یعنی سب لوگ اکھٹے ہو کر آ گئے چھوٹے بھی اور بڑے بھی۔ کوئی بھی پیچھے نہ رہا اور اسی طرح لوگوں کی کثرت ہو گئی (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے تمہاری حالت یہ ہے کہ تم مال کو لپیٹ کر بیٹھ جاتے ہو خدا تعالیٰ نے تو تمہیں اس لئے مال دیا تھا کہ تم اِسے تجارت میں لگائو یا صنعت وحرفت کو فروغ دو یا غریبوں کی خبر گیری کرو مگر تم اُسے بند کر کے بیٹھ جاتے ہو۔
اسی طرح اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ تم مال سے ایسی محبت کرتے ہو کہ اچھے بُرے کی تمیز تم میں باقی نہیں رہی۔ تمہارے پاس حرام مال آتا ہے تو تم حرام لے لیتے ہو حلال آتا ہے تو حلال لے لیتے ہو۔ ادنیٰ چیز آتی ہے تو ادنیٰ لے لیتے ہو اعلیٰ چیز آئے تو اعلیٰ لے لیتے ہو۔ تمہیں صرف مال سے غرض ہوتی ہے اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ مال تمہیں ملا کہاں سے اور کس طرح سے۔
اوپر کی بات میں چار امور بیان کئے گئے ہیں۔ جو کفار میں پائے جاتے تھے اور یہی چار امور ایسے ہیں جن سے قومیں تباہ ہوتی ہیں۔
اوّلؔ یتامیٰ کی خبر گیری نہ کرنا۔ فرماتا ہے ان لوگوں کی حالت یہ ہے کہ جب اُنہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی انعام ملتا ہے تو کہتے ہیں ہم خدا کے حضور خاص شان رکھتے ہیں اور جب اُن پر اس رنگ میں ابتلاء وارد ہوتا ہے کہ ان کی مالی حالت ناقص ہو جاتی ہے اور اُن پر تنگدستی کے ایام آ جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں خدا نے ہماری اہانت کر دی۔ گویا دونوں صورتوں میں وہ عزت اپنی طرف منسوب کرتے ہیں۔ عزت آتی ہے تو کہتے ہیں ہمارا اکرام ہونا ہی چاہئیے تھا اور اگر اہانت آتی ہے تو کہتے ہیں ہماری تو عزت ہونی چاہئیے تھی خدا نے غلطی سے ہمیں ذلیل کر دیا۔ اللہ تعالیٰ ان امور کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ وہ بات درست نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ تمہاری تباہی کے سامان تمہارے اندر ہی موجود ہیں اور اُنہی کے ذیعہ سَوطِ عذاب نازل ہؤا کرتا ہے یعنی اندرونی طور پر بعض ایسی قوتیں ہوتی ہیں جو انسان کوتباہی کی طرف لے جاتی ہیں اور تباہی کے وہ سب موجبات تم میں پائے جاتے ہیں۔ اس لئے اگر تم پر تباہی نہ آئے تو اَور کس پر آئے۔ چنانچہ قومی تباہی کے چار بڑے بڑے اسباب بیان کئے گئے ہیں جن میں پہلا اور اہم سبب یتامیٰ کی خبر گیری نہ کرنا ہے۔ بظاہر یہ ایک روحانی اور دینی کام معلوم ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ ہے کہ قومی ترقی اور اس کے تنزّل کے ساتھ اس کا بڑا گہرا تعلق ہے۔ اگر یتامیٰ کی خبر گیری نہ کی جائے، اُن کی پرورش کو نظر انداز کر دیا جائے تو دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ دنیا میں بڑے بڑے کام قربانی کے چاہتے ہیں اور جب تک بڑی بڑی قربانیاں نہ ہوں اُس وقت تک بڑے بڑے کام بھی نہیں ہوتے۔ اور بڑی بڑی قربانیاں دوہی قسم کی ہوتی ہیں یا مالی یا جانی۔ مگرہم دیکھتے ہیں انسان اپنے لئے تکلیف بردازشت کر لیتا ہے لیکن جب اُسے خیال آتا ہے کہ میرے بال بچوں کا بنے گا تو بہت سے لوگ بُزدل بن جاتے ہیں اور قربانی کے میدان سے اپنے قدم پیچھے ہٹا لیتے ہیں۔ اگر کسی قوم میں یتامیٰ کی خبرگیری پوری طرح پائی جاتی ہو تو یہ ممکن ہی نہیں کہ جانی اور مالی قربانیوں کے وقت اس قوم کا ایک فرد بھی پیچھے رہے اور اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش نہ کرے بلکہ وہ ہنستا ہؤآگے بڑھے گا اور ہر قسم کے شدائد کو خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جائے گا۔ اگر لوگ روزانہ اپنی آنکھوںسے یہ نظارہ دیکھیں کہ فلاں شخص مر گیا تو اُس کے یتیم بچوں کو فلاں امیر لے گیا اور اُس نے اپنے بچوں کی طرح اپنے گھر میں رکھ لیا وُہ اُن میں اور اپنے بچوں میں کوئی فرق نہیں کرتا، وہ اُنہیں تعلیم دلا رہا ہے، اُنہیں اچھے کھانے کھلا رہا ہے، اُنہیں اچھا سے اچھا لباس پہنا رہا ہے تو جب بھی قربانی کا سوال ہو گا ہر شخص آگے بڑھے گا۔اور کہے گا اگر میری جان بھی جاتی ہے تو بے جائے مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ فلاں شخص مر گیا تھا اُس کے بچے فلاں قومی بھائی لے گیا اور اُس نے اُنہیں اپنے بچوں کی طرح پالنا شروع کر دیا۔ فلاں شخص مر گیا تو اُس کے بچے کو فلاں شخص لے گیا اور اُن کے اخراجاگ کا متکفّل ہو گیا اگر میں بھی مر گیا تو کیا ہؤا میرے بچوں کی قوم نگران ہو گی اور وہ مجھ سے زیادہ بہتر رنگ میں ان کی تربیت کا فرض سرانجام دے گی۔ یہ احساس اگر ہر فرد کے دل میں پیدا ہو جائے تو وہ جماعت کبھی مٹ نہیں سکتی۔ یہ جماعت کبھی بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہیں کر سکتی۔ قربانیوں سے ہچکچاہٹ محض اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم مر گئے تو ہمارے بچے خا ک میں مل جائیں گے اُن کا کوئی نگران نہیں ہو گا۔ اُن کا کوئی پرسان حال نہیں ہو گا۔ لوگ اُنہیں ڈانٹیں گے، اُن سے نوکروں کی طرح کام لیں گے، اُن کو بُوٹ کی ٹھوکروںسے ماریں گے، اُنہیں کھانے کے لئے سُوکھے ٹکڑے پہننے کے لئے پھٹے پُرانے کپڑا دیں گے اُن کے سروں سے محبت کا ہاتھ نہیں رکھیں گے، اُن کو پیار کی نگاہوں سے نہیں دیکھیں گے، اُنہیں بات بات پر نہ جھڑکیں گے، وہ روئیں گے تو انہیں چپ کرانے کی کوشش نہ کرو گے۔ اُنہیں ضرورتیں پیش آئیں گی تو وہ ان کو پورا نہیں کریں گے۔ یہ خیالات جب کسی شخص کے دل اور دماغ میں ہر حاوی ہوتے ہیں تو اُس کے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے اُس کا بدن کپکپا جاتا ہے اور وہ جان دینے سے گھبرا تا ہے اور اس میدان سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح مالی قربانی کا وقت آئے تو وہ گھبرا جاتا ہے اور اُسے اپنے بچوں کی پرورش کا خیال روپیہ کو بلادریغ خرچ نہیں کرنے دیتا۔ اپنی زندگی تو اُسے پرواہ نہیں ہوتی سمجھتا ہے جس طرح بھی ہو گا میں اپنے بچوں کی پرورش کر لوں گا۔ لیکن ساتھ ہی اُس کے دل میں یہ خیال بھی آ جاتا ہے کہ اگر مال لٹانے کے بعد میں مر گیا اور میرے بچوں کے لئے کوئی چیز باقی نہ رہی تو اُن کا بعد میں کیا حال ہو گا۔ اُس وقت اگر وہ سمجھتا ہے کہ قوم نے میرے بچوں کی پرورش نہیں کرنی تو وہ بُزدل بن جاتا ہے اور قربانی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔
حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ ڈر اُسے اِس بات کا ہوتا ہے کہ میری موت کے بعد میرے بچوں کا کیا حال ہو گا۔ یہ ایک جزباتی سوال ہے جو اس کے اندر کشمکش اور ہیجان پیدا کر دیتا ہے۔ اُس کے ارادوں میں تعطّل اور اُس کی خواہشات میں تعطّل اور اُس کی خواہشات میں جمود کی کیفیت رونما ہو جاتی ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ قوم کے کئی بچے یتیم ہیں مگر ان کی حالت یہ ہے وہ لوگوں کے دروازوں پر جا جا کر اپنے لئے آٹا مانگتے پھرتے ہیں یہ دیکھ کر وہ سمجھتا ہے اگر میں مر گیا تو میرا بچہ بھی کل اسی طرح بھیک مانگنے پر مجبور ہو گا۔ پھر وہ ایک اور نظارہ دیکھتا ہے تو اُس کا قلب اور بھی سہم جاتا ہے۔ وہ دیکھتا ہے چند یتیم آٹا مانگنے کے لئے کسی کے دروازہ پر آئے انہوں نے دستک دی اور کہا ہمیں آٹا دیا جائے۔ گھر وہ اُن کی آواز کو سنتا ہے تو بڑ بڑا کر کہنے لگ جاتا ہے اِ ن لوگوں نے تو ہمارے کان کھا لئے ہیں۔ روز آٹا روز آٹا۔ وہ یہ فقرہ سنتا ہے تو اُس میں اور بھی زیادہ بزدلی پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے اگر میں مر گیا تو میرا بچہ اوّل تو بھیک مانگنے پر مجبور ہو گا اور پھر لوگوں کا سلوک اُس سے یہ ہو گا کہ وہ تو آٹا مانگے گا اور لوگ اُسے کہیں گے تُو نے ہمارے کان کھا لئے۔ پھر وہ دیکھتا ہے کہ فلاں شخص مر گیا ہے تو اس کے یتیم بچے فلاں گھر میں برتن مانجھ مانجھ کر گزارا کر رہے ہیں۔ وہ اپنی نظر کو وسیع کرتا ہے اور اپنی قوت فکریّہ پر زور ڈالتا ہے۔ تو کہتا ہے جب میں مر جائوں گا میرے بچے سے بھی اس قسم کا کام لیا جائے گا۔ اِس پر اُس کی بُزدلی کا پارہ اور زیادہ اُوپر چڑھ جاتا ہے بلکہ اگر کوئی خود ہی یتیم پر ظلم کر رہا ہو تو بھی اُس میں بُزدلی آ جاتی ہے اور وہ سمجھتا ہے جو سلوک آج میں دوسروں کے یتیم بچوں سے کر رہا ہوں وہی سلوک میرے مرنے کے بعد لوگ میرے بچے کے ساتھ کریں گے۔ پس یاد رکھو یتیم کی خبر گیری کرنا صرف نیکی اور تقویٰ ہی نہیں بلکہ قوم کے کیرکٹر کو بلند کرنا اور اُسے قربانیوں پر زیادہ سے زیادہ دلیر بناتا ہے۔ جو قوم یتامیٰ سے حسن سلوک نہیں کرتی وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔
میں نے ایک دفعہ گھر میں نصیحت کی کہ یتامٰی سے ایسا سلوک ہی کرنا چاہئیے جیسے اپنے بچوں سے کیا جاتا ہے۔ اگر اس رنگ میں اُن سے سلوک نہیں کیا جاتا تو قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ تم نے کسی یتیم کی پرورش کی ہے میں نے کہا میں بعض یتامیٰ کا خرچہ خود دیتا ہوں مگر پھر بھی میری بعض بیویاں اُن سے اس طرح کام لیتی ہیں جس طرح نوکروں سے کام لیا جاتا ہے میں یہ نہیں کہتا کہ اُن سے بالکل کام نہ لیا جائے اگر اُن سے کام نہیں لیا جائے گا تو وہ آوارہ ہو جائیں گے میںصرف یہ کہتا ہوں کہ اُن سے ایسا ہی کام لیا جائے جو اپنے بچوں س بھی لے لیا جاتا ہے اور اگر کوئی کام ایسا ہو جو ہم اپنے بچوں سے کروانے کے لئے تیار نہ ہوں تو ہمیں وہ کام کسی یتیم سے بھی نہیں لینا چاہئیے۔ بہرحال میں نے گھر میں نصیحت کی کہ یہ روپیہ تو میں دیتا ہوں مگر کام کی ذمہ داری تم پر ہے تمہیں چاہئیے کہ ایسے رنگ میں اُن سے کام مت لو گویا وہ تمہارے نوکر ہیں۔ میری نصیحت کے بعد اُمّ طاہر مرحومہؓ نے ایک یتیم بچہ پالا بعد میں تو اُس کی حالت ایسی اچھی ثابت نہیں ہوئی مگر بہرحال انہوں نے اُس بچے کو اُسی طرح پالا جس طرح وہ اپنے بچوں کو پالتی تھیں اور انہوں نے کسی قسم کا فرق پیدا نہ ہونے دیا۔
اس بارہ میں نہایت ہی اعلیٰ نمونہ عزیزم مرزا مظفر احمدؐ نے دکھایا ہے جو میرے بھتیجے ہیں۔ بنگال کے وہ فاقہ زدہ لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں وہاں ہلاک ہوئے ہیں اُن میں سے ایک کی یتیم بچی لے کر انہوں نے پرورش شروع کی ہے اور اس عمدگی اور خوبی کے ساتھ وہ اُس کی پرورش کر رہے ہیں کہ اُس میں اور اُن کی اپنی لڑکی میں کوئی بھی فرق نظر نہیں آتا۔ وُہ اُس کو مار پیٹ لیتی ہے اور یہ اُس کو مار پیٹ لیتی ہے، دونوں کے بالکل ایک جیسے کپڑے ہوتے ہیں، ایک جیسا دونوں کھانا کھلاتے ہیں، ایک جیسی دونوں کو تعلیم دلاتے ہیں، اور ایک جیسی دونوں کی نگرانی رکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی لڑکی اُس لڑکی کو باجی کہتی ہے اور اُس کا احترام کرتی ہے اور یہی چیز ہے جسے یتیم کا پالنا کہتے ہیں۔ یتیم کا پالنا یہ نہیں کہ کسی کو گھر میں نوکر کے طور پر رکھ لیا، سارا دن اُس سے کام لیتے رہے، کھانے کو اُسے روکھی روٹی دیدی ، پہننے کے لئے پھٹا پُرانا کپڑا دیدیا، ذرا غلطی ہوئی تو گالیاں دینے لگ گئے یا تھپڑوں سے اُس کی مرمت شروع کر دی اور پھر یہ خیال کر لیا کہ ہم یتیم کی پرورش کر رہے ہیں اِس اسلامی اصطلاح میں قطعًا یتیم پروری نہیں کہا جاتا۔ یتیم پروری یہ ہے کہ انسان اپنے بچوں کی طرح دوسرے کے یتیم بچہ کو رکھے اور اپنے سلوک میں ذرا گھی فرق نہ آنے دے۔ محض کسی کو روٹی کھلا دینا اور بات ہے اور یتیم پروری اور چیز ہے۔ قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے وہ یہ ہے کہ کَلَّا بَلْ لَّا تُکْرِمُوْن الْیَتِیْمَ اے لوگو! تم یتیم کو کھا نا نہیں کھلاتے تھے اگر محض کھانے کا ذکر ہوتا تو یہاں اکرامؔ کا لفظ نہ ہوتا بلکہ اِطْعَام کا لفظ ہوتا۔ اکرام کا لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رکھا جانا صاف بتا رہا ہے کہ الٰہی منشاء یہ ہے کہ یتیموں کی ایسے رنگ میں پرورش کی جائے کہ اُن کا احترام مدنظر ہو یہ نہ ہو کہ صدقہ کے طور پران کو روٹی دی جا رہی ہو۔
میں نے قادیان میں ایک دفعہ یتیم خانہ بنایا تھوڑے دنوں کے بعد ہی مجھے پتہ لگا کہ اُن یتیموں سے سارا دن کام لیا جاتا ہے۔ کام لینا منع نہیں لیکن ہمیں اُن سے اتنا ہی کام لینا چاہئیے جتنا ہم اپنے بیٹے سے کام لیتے ہیں یہ نہ ہو کہ ہمارا بیٹا تو آرام سے بیٹھا رہے اور کام کا بوجھ یتیم پر ڈال دیا جائے محض اس لئے کہ اُس کا باپ زندہ نہیں اُس کی ماں زندہ نہیں اور وہ اب دوسروں لوگوں کے رحم پر ہے۔ اُسے بیٹوں کی طرح رکھا جائے، بیٹوں کی طرح اُس سے کام لیا جائے اور پھر اگر اُس میں اور اپنے بیٹے میں کبھی لڑائی ہو جائے تو بے شک یہ اُس کو مارپیٹ لے اَور وہ اُن کو مارپیٹ لے اس وقت ماں اُسے یہ نہ کہے کہ خبردار میرے بیٹے پر ہاتھ اٹھا یا تو تجھے مار مار کر سیدھا کر دوں گی۔ اگر اس طرح کسی یتیم کو رکھا جائے تو بے شک کسی غلطی پر اُسے مار بھی لیا جائے اس میں کوئی حرج نہیں آخر ہم اپنے بچے کو بھی بعض دفعہ مار لیتے ہیں۔ پھر اگر کسی یتیم کو اس کی کسی غلطی پر بالکل اس طرح جس طرح ہم اپنے بچوں کی اصلاح کے لئے اُنہیں مارتے ہیں اگر کبھی مار لیں تو اس میں کوئی حرج کی بات نہیں مگر بہرحال اس کی عزّت نظر انداز نہیں ہونی چاہئیے۔
قرآن کریم صرف یتامیٰ کو کھانا کھلا ضروری نہیں سمجھتا بلکہ فرماتا ہے قومی ترقی کے لئے یہ نہایت ضروری امر ہے کہ یتیم کو عزت سے رکھا جائے اگر یتامیٰ کا اکرام قوم میں نہیں پایا جاتا تو خواہ تم ہزارہا لوگوں سے کہو کہ جائو اور خدا کی راہ میں مر جائو۔ جائو اور اپنی جان کو قربان کر دو۔۔۔ وہ کہیں گے ہم چلے تو جائیں گے مگر ایسا نہ ہو کہ مر جائیں اور ہمارے بچوں کو تکلیف اٹھانی پڑے لیکن اگر وہ یہ دیکھیں کہ ہماری زندگی اور ہماری موت بچوں کی پرورش کے لحاظ سے برابر ہے ہمارے مرنے کے بعد بھی یہ اسی طرح رہیں گے بلکہ موجودہ حالت سے بھی ہزارہا گنا بڑھ کر ان کی پرورش کے سامان ہوں گے تو بے شک تم قوم کے ایک ایک فرد کو کٹواتے جائو، ایک ایک فرد کو مرواتے جائو کوئی ایک شخص بھی اپنے قدم کو پیچھے نہیں ہٹائے گا اور خوشی سے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کر دے گا س۔ غرض یہ ایک نہایت ہی عظیم الشان مسئلہ ہے اور جب تک کسی قوم کے افراد اس کو پوری طرح نہ سمجھ لیں وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔
دوسری بات خدا تعالیٰ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ وَلَا تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامٍ الْمِسْکِیْنِ تم آپس میں ایک دوسرے کو رغبت نہیں دلاتے کہ غریب آدمی کو کھانا کھلایا جائے۔
اگر غرباء کی خبر گیری نہ ہو تو قومی جنگوں میں کا میابی نہیں ہوتی اور سپاہی بہت کم ملتے ہیں کیونکہ دنیا میں غرباء زیادہ ہوتے ہیں اگر سپاہیوں اور لڑنے والوں کے ذہن میں یہ ہو کہ ہماری قوم ہماری محسن ہے۔ ہم بیمار ہوئے تو اُس نے ہمارا علاج کیا۔ ہمارے پاس کپڑے نہ تھے تو اُس نے ہمارے لئے کپڑے مہیا کئے۔ ہم بھوکے تھے تو اُس نے ہمارے لئے غلّہ مہیا کیا۔ ہم حاجتمند تھے تو اُس نے ہماری حاجات کو پورا کیا۔ تو گو کمینے اور رذیل لوگ بھی ہر قوم میں پائے جاتے ہیں مگر بہرحال جو شریف ہوں گے اور یہی طبقہ زیادہ ہوتا ہے وہ کہیں گے جب قوم نے ہمارے ساتھ یہ احسان کیا ہے وہ احسان کیا ہے تو آج ہم قومی ضرورت کے وقت کیوں پیچھے ہٹیں ہم آگے بڑھیں گے اور قوم کے لئے اپنی جانوں کو قربان کر دیں گے لیکن اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھوکے مرتے رہے مگر ہمیں کسی نے نہ پوچھا ہم ننگے پھرتے رہے مگر کسی نے ہمارا ننگ نہ ڈھانکا ہم بیمار ہوئے مگر کسی نے ہمارا علاج نہ کیا، ہم محتاج ہوئے مگر کسی نے ہماری احتیاج کو رفع نہ کیا۔ تو وہ کہیں گے ہمارے لئے قوم نے کیا کیا تھا کہ آج ہم اُس کے لئے قربانی کریں۔ وہ ہم سے بے اعتنائی کرتی رہی ہے آج ہم اُس سے بے اعتنائی کریں گے۔ پس غرباء کی خبر کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قربانی کا مادہ لوگوں کے دلوںمیں سے کم ہو جاتا ہے اور قومی جنگوں میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکتی۔
میں نے قادیان میں دیکھا ہے ہم کوشش کرتے ہیں کہ غرباء کی کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ ہم اُن کے لئے کپڑے مہیا کرتے ہیں، اُن کے لئے غلّہ مہیّاکرتے ہیں۔ ان کی روپیہ سے امداد کرتے ہیں، اُن کو طبّی امداد بہم پنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور حتی الامکان اُن کی تکالیف کو زیادہ سے زیادہ کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو باوجود اس سارے انتظام کے جماعت پر اعتراض کرتے رہتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں لوگوں کا کام صرف یہی ہے کہ اُن پر روپیہ خرچ کرتے چلے جائیں اُن پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ لیکن پھر بھی اکثریت ایسی ہے جو محسوس کرتی ہے کہ یہ جماعت ہمارے لئے قربانی کر رہی ہے اس لئے قومی ضرورتوں کے وقت ہمیں بھی دوسروں سے زیادہ قربانی کرنی چاہئیے۔ چنانچہ وہ لوگ خُود بھوکے ہوتے ہیں مگر جب کسی چندہ کی تحریک ہو مزدوری کر کے بھی اُس میں ضرور حصّہ لیتے ہیں اَور گو وہ اُس تحریک کے مخاطب نہیں ہوتے اور اُن پر کسی قسم کی ذمہ واری بھی نہیں ہوتی مگر چونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ قوم ہمارے لئے قربانی کرتی ہے اور ہماری ضروریات کا خیال رکھتی ہے اس لئے وہ بھی قربانی کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ قومی تحریکات میں حصہ دار بن جائیں۔ پس غرباء کی خبر گیری کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اگر قومی جنگ ہو جائے تو چونکہ قوم کی اکثریت غرباء پر مشتمل ہوتی ہے اس لئے قوم کو کثرت سے کام کرنے والے مل جاتے ہیں۔ ایک کروڑ پتی کی تلوار صرف ایک تلوار کا کام دے سکتی ہے لیکن جنگوںمیں ایک تلوار نہیں کروڑوں تلواروں کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ کروڑوں تلواریں اس وقت تک مہیّا نہیں ہو سکتیں جب تک کہ کروڑوں غرباء کے حقوق کا خیال نہ رکھا جائے اور ان کو پوری طرح مطمئن نہ کیا جائے۔ اگر مساکین کے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے تو یہ لازمی بات ہے کہ جب قوم پر کوئی مصیبت آئے گی شریف الطبع لوگوں میں یہ احساس پیدا ہو گا کہ قوم نے ہم پر احسان کیا تھا اب اُس پر مصیبت آئی ہے تو ہم اس کی مدد کریں۔ جیسے انگلستان امریکہ روس اور جرمنی وغیرہ ممالک میں موجودہ جنگ میں لاکھوں آدمی کام آئے اور انہوں نے اپنے آپ کو قوم کے لئے قربان کر دیا۔ اس کی وجہ درحقیقت یہی ہے کہ اِن قوموں میں غرباء کی پرورش کا احساس زیادہ پایا جاتا ہے ہندوستا ن میں لوب فوجی بنتے ہیں وہ یا تو اس لئے فوج میں بھرتی ہوتے ہیں کہ ان کے باپ دادا فوج میں کام کر چکے ہوتے ہیں اور یا پھر اس لئے جاتے ہیں کہ اُن کو بعد میں مربّعے مل جائیں۔ قومی احساس ہندوستانیوںمیں بہت کم ہوتا ہے۔
پھر اگر غرباء کے کھانے پینے کا خیال رکھا جائے تو اُن کے دلوں میں یہ احساس رہتا ہے کہ جو لوگ اپنے اموال میں ہماری ضروریات کا خیال رکھتے ہیں وہ فتوحا ت میں بھی ہمارا ضرورخیال رکھیں گے اور یہ بھی قوم کی ترقی کا ایک ذریعہ ہوتا ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ قومی اموال کی ترقی صرف امراء کو ہی نہیں بلکہ ہمیں بھی فائدہ پہنچائے گی۔ جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اموال میں غرباء کے حقوق اس لئے بیان کئے ہیں کَیْ لَایَکُوْنَ دُوْلَۃً م بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ (الحشر ع ۱ ۴)تا کہ تم روپیہ کو اس طرح استعمال نہ کرو کہ وہ دولتمندوں میں ہی چکر لگانے لگے بلکہ غرباء کو بھی روپیہ ملے۔ پس غرباء کی خبر گیری کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں جتنی قوم ترقی کرے گی اُتنا ہی ہمارا حصہ بڑھتا چلا جائے گا لیکن اگر ان کو حصہ نہ دیا جائے تو وہ کہتے ہیں ہمیں تو حصہ ملنا نہیں قومی اموال کی ترقی امراء کو ہی فائدہ دے گی اس لئے ہم اپنی جانوں کو کیوں ضائع کریں۔
تیسری چیز جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے وہ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا۔ کہ تمہیں باپ دادا سے مال ملا ہے مگر بجائے اس کے کہ تم اُسے ترقی دیتے اور اُسے اور بڑھانے کی کوشش کرتے تم نے اسے تباہ کرنا شروع کر دیا۔ غرض اسراف بھی قومی تنزّل کی ایک بہت بڑی علامت ہے اور اس کے دو بڑے نقصان ہوتے ہیں۔ اوّلؔ یہ کہ انسان میں نکمّا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ باپ دادا کی طرح اگر وہ کام کرتا تو نکمّا پن اس میں پیدا نہ ہوتا مگر وہ محنت کو صرف روٹی کمانے کا ذریعہ سمجھ لیتا ہے اور جب اُسے باپ دادا کی جائیداد پر قبضہ کر لینے کی وجہ سے روٹی مل جاتی ہے تو وہ کام نہیں کرتا۔ جس قوم میں ایسے آدمی پیدا ہو جائیں کہ وہ کوئی کام نہ کریں وہ اس جونک کی طرح ہوتے ہیں جو جسم کا خون چوس لیتی ہے اور اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کی زیادہ سے زیادہ مذمت کی جائے۔ اگر کسی قوم میں ہزاروں لوگ بھی کروڑ پتی ہوں لیکن وہ سب کے سب کام کر رہے ہوں اور اُن میں سے ایک شخص بھی ایسا نہ ہو جس کے اندر نکمّا پن پایا جاتا ہو تو وہ قوم کبھی تباہ نہیں ہوتی۔ لیکن اگر ایک کروڑ پتی بھی ایسا ہے جو باپ دادا کی جائیداد لے کر بیٹھ گیا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب مجھے کسی کام یا کسی محنت کی ضرورت نہیں محنت تو اس لئے کی جاتی ہے کہ روٹی ملے میرے پاس روٹی کا کافی سامان ہے کیوں محنت کروں تو اُس قوم کی تباہی کی بنیادی اینٹ وہ شخص اپنے ہاتھ سے رکھنے والا ہوتا ہے۔ پس محض کسی کروڑپتی کا قوم میں پایا جانا اس کی بربادی کی علامت نہیں کیونکہ گو وہ کروڑپتی ہو گا مگر نکمّا نہیں ہو گا بلکہ کام کر رہا ہو گا۔ نکمّا وہ ہے جو کہتا ہے کہ باپ کا ایک کروڑ روپیہ میرے پاس ہے مجھے اب محنت کی ضرورت نہیں۔ مجھے اب کام کی ضرورت نہیں میرے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ باپ کے روپیہ پر تصرّف رکھوں جس طرح جی میں آئے کروں۔ یوں تو انگلستان میں بھی کروڑ پتی پائے جاتے ہیں مگر وہ لوگ ایسے ہیں کہ باوجود کروڑ پتی ہونے کے محنت کرتے ہیں اور اپنے روپیہ کو برباد کرنے کی بجائے اُس سے کوئی نہ کوئی کارخانہ جاری کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پچاس، سو، دو سو یا ہزار آدمیوں کو مزدوری مل جاتی ہے اور وہ روپیہ قوم کی ترقی کے کام آتا رہتا ہے۔ بے شک وہاں بھی بعض ایسے لوگ ہیں جو بنکوں میں اپنا روپیہ جمع کر دیتے ہیں مگر زیادہ تر ایسے ہی لوگ ہیں جو اپنے روپیہ سے کارخانہ جاری کر دیتے ہیں یا بنکوں میں روپیہ جمع کر کے خود کسی سوسائٹی کے پریذیڈنٹ یا سیکرٹری بن جاتے ہیں اور اس طرح آنریری طور پر قومی خدمات سرانجام دیتے ہیں اس لئے وہ قوم تباہ نہیں ہوتی۔ اس جگہ ایسے لوگوں کا ذکر نہیں بلکہ نکمّے امراء کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تمہارا کام یہ ہے کہ تم اپنے باپ دادا کے روپیہ کو کھاتے رہتے ہو اور خود ساری عمر نکمّاپن میں گزار دیتے ہو جس قوم میں ایسے منحوس لوگ پیدا ہو جائیں وہ قوم کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ دوسرےؔ خواہ تم اچھا کہو یا بُرا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں وہ قوم میں ضرور عزت حاصل کر لیتے ہیں اور اس وجہ سے اُن سے اُتر کر اُن کی اولاد کو بھی کچھ نہ کچھ عزت قوم میں حاصل ہو جاتی ہے خواہ دنیا میں کتنی بغاوت ہو جائے، لوگ بالشوزم کے قائل ہو جائیں پھر بھی یہ بات کبھی مٹ نہیں سکتی کہ جب کوئی شخص قوم میں کوئی خاص اعزاز حاصل کر لیتا ہے تو کچھ نہ کچھ عزت اُس کی اولاد کو بھی مل جاتی ہے۔ یہ ایک فطرتی چیز ہے جس کو کوئی شخص بدل نہیں سکتا جس نے کوئی نمایاں کام کیا ہوتا ہے اُس کی اولاد خواہ مستحق ہو یا نہ ہو مگر بہرحال اُس عزت کا کچھ نہ کچھ حصہ اولاد کو بھی حاصل ہو جاتا ہے۔ اب یہ لازمی بات ہے کہ جب ایسے لوگوںمیں سُستی پیدا ہو جائے گی تو چونکہ بڑے خاندان ہی لیڈر ہوتے ہیں اُن کی سُستی کا قوم پر اثر پڑے گا کہ اس کا شیرازہ منتشر ہو جائے گا جب وہ لوگ جنہیں قوم میں عزت حاصل ہو جن کے ہاتھ میں لیڈری کی باگ ڈور ہو، باپ دادا کی جائیداد پر بیٹھے روٹیاں توڑ رہے ہوں تو یہ قدرتی بات ہے کہ اُس قوم میں لیڈر کم ہو جائیں گے۔ بے شک کچھ نئے لیڈر بن جاتے ہیں مگر کچھ باپ دادا کی عزت اور خاندانی وجاہت کی وجہ سے لیڈر سمجھے جاتے ہیں اگر اُن میں اس قسم کی سُستی پیدا ہو جائے تو ایک قسم کے لیڈر ہی رہ جائیں گے دوسری قسم کے لیڈر نہیں رہیں گے اور اس طرح قوم کے راہنما محدود ہو جائیں گے۔
چوتھی چیز محبتِ مال ہے۔ مال کی محبت حلال وحرام کا امتیاز اُڑا کر انسان کو ظلم کی طرف مائل کر دیتی ہے جس شخص کے دل میں انتہائی طور پر مال کی محبت ہو گی وہ حلال اور حرام میں کوئی امتیاز نہیں کرے گا۔ حلال ذریعہ سے مال آئے گا تو اُسے بھی لے لے گا، حرام ذریعہ سے مال آئے گا تو اُسے بھی لے لے گا اور جس شخص میں حلال کا امتیاز نہ رہے وہ ظلم پر امادہ ہو جاتا ہے اور جس قوم میں ظالم پیدا ہو جائیں اُس کا شیرازہ کبھی متحد نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک لازمی اور طبعی بات ہے کہ جب انتہائی طور پر مال کی محبت پیدا ہو گی حلال و حرام کی تمیز نہ رہے گی تو انسان ظلم سے دریغ نہیں کرے گا اور جب قوم میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں جن کو دوسروں کو لوٹنے میں مزا آتا ہو تو وہ قوم کبھی پنپ نہیں سکتی۔
دوسرےؔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم صنعتی ترقی سے محروم رہ جاتی ہے جس شخص کے دل میں مال کی شدید محبت ہو وہ بعض دفعہ روپیہ کو کام پر لگانے سے ڈرتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ شاید تجارت یا صنعت میں نقصان نہ ہو جائے بہتر یہی ہے کہ میں اس کو اپنے پاس محفوظ رکھوں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس کا مال بھی نہیں بڑھتا اور غرباء کے حقوق کا بھی اتلاف ہوتا ہے۔ فرض کرو دس ہزار روپیہ سے یہ ایک کارخانہ جاری کرتا اور بیس پچیس مزدور اُس کارخانہ میں کام کرنے والا ہوتا تو بیس پچیس خاندان اُس روپیہ سے پرورش پانے لگ جاتے۔ آگے ایک خاندان میں اگر پانچ پانچ آدمی بھی فرض کر لئے جائیں تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ اُس نے دس ہزار روپیہ خرچ کر کے سَو سوا سَو لوگوں کے لئے مزدوری مہیا کی۔ لیکن اگر وہ روپیہ خزانہ میں جمع کر دیتا ہے تو سَو سوا سَو آدمیوں کی روٹی ماری جاتی ہے۔ اسی طرح اگر قوم میں دس ہزار مالدار ہوں اور وہ اپنے روپیہ کو خزانہ میں محفوظ رکھیں تو لاکھوں لوگوں کی مزدوری ماری جائے گی اور صنعتی لحاظ سے قوم کو شدید نقصان پہنچے گا۔ پس دوسرا نقصان مال کی محبت کا یہ ہے کہ قوم صنعتی لحاظ سے ترقی سے محروم رہ جاتی ہے۔
تیسرا نقصان یہ ہے کہ حُبِّ مال کی وجہ سے قومی چندوں میں کمی آ جاتی ہے۔ جب بھی کوئی تحریک ہو مال کی محبت غالب آ جاتی ہے اور قومی تحریکات میں حصہ لینے کے لئے انسان تیار نہیں ہوتا۔
چوتھےؔ اس کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جن کے دلوں مال کی محبت ہوتی ہے وہ قومی ایثار کے وقت دشمن کے غلبہ سے ڈر کر غدّار بن جاتے ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ (آل عمران ع ۴ ۱ ۵) لڑائی میں کبھی ایک کا پلّہ بھاری ہو جاتا ہے اور کبھی دوسرے کا۔ اونچ نیچ ضرور ہوتی رہتی ہے ایسی حالت میں وہ شخص جس کے دل میں مال کی محبت ہوتی ہے اگر اُسے ذرا بھی یہ پتہ لگے کہ دشمن غالب آنے والا ہے تو وہ چوری چھپے دشمن کے ساتھ ساز باز شروع کر دیتا ہے اور اپنی قوم سے غدّاری کرتا ہے محض اس لئے کہ اس کا مال محفوظ رہے۔
حضرت خلیفہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر انگریز سُود رلے کر بھی لوٹتے ہیں تو سُود دے کر بھی لوٹتے ہیں پھر اس کے متعلق ایک واقعہ سُنایا کرتے تھے۔ آپ فرماتے اودھؔ کی اسلامی حکومت اس طرح تباہ ہوئی کہ پہلے انگریزوں نے لوگوں میں یہ تحریک شروع کر دی کہ اگر تم ہمارے بنک میں اپنا روپیہ جمع کرو تو تمہیں اڑھائی فیصدی نفع دیا جائے گا۔ یہ لالچ اتنا بڑا تھا کہ ان لوگوں نے اپنا تمام روپیہ کلکتہ کے انگریزی بنک میں جمع کرا دیا۔ عورتوں نے اپنے زیورات تک بیچ ڈالے اور روپیہ انگریزوں کے حوالے کر دیاکیونکہ اُنہیں آئندہ کے متعلق بڑی بڑی امیدیں دلائی گئی تھیں۔ اُنہیں کہا گیا تھا کہ تمہارا دس لاکھ روپیہ جمع ہؤا تو تمہیں پچیس ہزار روپیہ سود دیا جائے گااور پھر تمارا اصل مال بالکل محفوظ رہے گا جب تم مانگو گے روپیہ واپس دے دیا جائے گا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ مسلمانوں کا سارے کا سارا روپیہ کلکتہ کے انگریزی بنک میں جمع ہو گیا اس کے بعد انگریزی فوج نے حملہ کر دیا۔ لکھنؤ جو اودھؔ کی حکومت کا دارالسلطنت تھا وہاں کے بڑے بڑے سرداروں سے انگریزوں نے کہہ دیا کہ خبردار! تم میں سے کوئی شخص بادشاہ کو یہ خبر نہ پہنچائے کہ انگریزی فوج حملہ کے لئے آ رہی ہے اگر تم نے ایسا کیا تو تمہارا جو روپیہ بنک میں جمع ہے وہ ضبط ہو جائے گا۔ اُن غدّار افسروں نے ایسا ہی کیا۔ بادشاہ مرغ لڑوا رہا تھا اور کنچنیوں کے ناچ گانے میں مشغول تھا کہ ایک شخص بول اٹھا اور کہنے لگا کہ حضور سنا ہے انگریزی فوج آ رہی ہے وہ افسر جو اندرونی طور پر انگریزوں کے ساتھ ملے ہوئے تھے اُنہوں نے اُس کو ڈانٹنا شروع کر دیا اور بادشاہ سے کہا حضور کے اقبال کے سامنے انگریزوں کی کیا مجال ہو سکتی ہے یہ ایک بے وقوف شخص یوں ہی بول پڑا ہے۔ حضور کے آرام اور مزے کا وقت تھا مگر اس نے سارا مزہ خراب کر دیا انگریزوں کی کیا مجال ہے کہ وہ حضور کی شاہی کو نقصان پہنچا سکیں۔
غرض بادشاہ کو انہوں نے ناچ گانوں اور مرغوں کے لڑوانے میں ہی مشغول رکھا اور انگریزی فوج لکھنؤکے اندر داخل ہو گئی الغرض محبتِ مال قوم میں غدّاری پیدا کر دیتی ہے اس لئے اگر کوئی قوم ترقی کرنا چاہے تو اُسے اپنے افراد کے قلوب میں سے مال کی محبت کو مٹا دینا چاہئیے اس کے بغیر وہ حقیقی اور پائدار ترقی حاصل نہیں کر سکتی۔
چونکہ یہاں کفار کا ذکر تھا اور اُنہیں یہ بتایا جا رہا تھا کہ تم تباہ ہو جائو گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اِن آیات میں یہ مضمون بیان کیا کہ تمہاری تباہی کے سامان مہیا کہیں باہر سے نہیں آئیں گے بلکہ تمہارے اندر ہی تمہاری بربادی کے سامان موجود ہیں۔ لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قوم کا ہر فرد جانتا ہے کہ اگر میں لڑائی میں مارا گیا تو مجھ سے بڑھ کر شفیق باپ میرے بچوں کے لئے موجود ہے۔ مسکین جانتا ہے ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو طاقت ملی تو مجھے کھانا ملے گا، مجھے کپڑا ملے گا، مجھے بیماری کے وقت علاج میسر آئے گا اور مجھے فتوحات میں برابر کا حصہ ملے گا۔ باپ دادا سے ورثہ حاصل کرنے والا جانتا ہے کہ میں نے اپنے مال کو تلف نہیں کرنا بلکہ اِسے قومی کاموں پر صرف کرنا اور اُسے پہلے سے بھی زیادہ بڑھانا ہے تاکہ قوم کا قدم ترقی کی طرف بڑھے تنزل کی طرف نہ جُھکے۔ اور اگر کسی کے پاس مال ہے تو اس سے محبت نہیں رکھتا۔ چندے کے وقت سارے کا سارا مال لے آتا ہے اور پھر اس بات کی احتیاط رکھتا ہے کہ اُس کے مال میں کوئی حرام پیسہ نہ آ جائے جب ترقی کی تمام علامات محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے ساتھیوں میں پائی جاتی ہیں اور تنزل کی تمام علامات تم میں موجود ہیں تو تمہیں یہ خیال ہی کس طرح کر سکتے ہو کہ تم غالب آ جائو گے اور مسلمان مغلوب ہو جائیں گے۔ بے تعداد کے لحاظ سے تم زیادہ ہو مگر بہت سی چڑیاں باز پر فتح حاصل نہیں کر سکتیں۔ تم میں سے ہر شخص وہ ہے جو یتامیٰ کی خبرگیری نہیں کرتا اور اسلئے وہ انتہائی طور پر بُزدل اور ڈرپوک ہے۔ تم میں سے ہر شخص وہ ہے جو غرباء کی اعانت کرتا اس لئے تمہیں قومی جنگوں کے وقت کبھی کامیابی نہیں ہو سکتی۔ تم میں سے ہر شخص وہ ہے جسے اپنے باپ دادے سے جب ورثہ میں روپیہ ملتا ہے تو وُہ اُسے عیاشی میں برباد کر دیتا ہے۔ تم میںسے ہر شخص وُہ ہے جس کے دل میں مال کی انتہائی محبت پائی جاتی ہے اور اس وجہ سے جب قوم کے لئے مال کی ضرورت ہو تم میں سے کوئی شخص روپیہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ جب تمہاری یہ حالت ہے اور مسلمانوں کی وہ حالت تو یہ لازمی بات ہے کہ مسلمان جیتیں گے اور تم ہارو گے۔
یہی چیز ہے جو ہماری جماعت کے افراد کو اپنے مدنظر رکھنی چاہئیے۔ اگر ہماری جماعت ترقی کرنا چاہتی ہے تو ضروری ہے کہ وہ یہ چار باتیں اپنے اندر پیدا کرلے اور پوری مضبوطی کے ساتھ اُن پر قائم رہے۔ اگر ہمارے مبلّغ اور ہمارے معلّم اور ہمارے صدر اس بات کو مدنظر رکھیں کہ ہم نے یتامیٰ کی خبر گیری کرنی ہے ہم نے ان کو صرف کھانا ہی نہیں کھلانا بلکہ اُن کا اکرام کرنا ہے، اگر وہ سمجھیں کہ ہم نے مساکین کو کھانا پینے کے لحاظ سے ہر قسم کی تکالیف سے محفوظ رکھنا ہے، اگر وہ خیال رکھیں کہ ہم نے لوگوں میں کام کرنے کی عادت پیدا کرنی ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم میں سے کوئی شخص اپنے باپ دادا کی جائیداد لے کر بیٹھ جائے اور خود کام نہ کرے اگر ایک شخص کروڑ پتی بھی ہے مگر وہ صرف اپنے باپ دادا کی جائیداد پر بیٹھا ہؤا ہے خود کوئی کام نہیں کرتا تو قوم کو اس کی ذرا بھی عزت نہیں کرنی چاہئیے اُس کے متعلق یہ نہیں کہنا چاہئیے کہ وہ بڑا رئیس ہے بلکہ اُسے چوہڑوں اور چماروں سے بھی زیادہ ذلیل اور بد ترسمجھنا چاہئیے۔ اسی طرح قوم میں کوئی شخص ایسا ہو جو مال سے محبت رکھتا ہو تو جماعت کو سمجھ لینا چاہئیے کہ یہ وہ شخص ہے جو کسی وقت ہمارے لئے غدّار ثابت ہو گا اور جب بھی اسے موقع ملے گا روپیہ کے ڈر کے مارے دشمن سے مل جائے گا۔ اگر یہ چار باتیں تم اپنے اندر پیدا کر لو تو چاہے تمہارے دشمن لاکھ ہوں، کروڑ ہوں، دس کروڑ ہو وہ کروڑ یا دس کروڑ چڑیاں ہوں گی اور تم اُن کے مقابلہ میں باز ہو گے۔
کَلَّآ اِذَادُکَّتِ
خبردار! جب زمین کا ہلا کر ہموار کر دی جائے گی اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے اُس کے ساتھ صف باندھے ہوں گے۱۵؎ اور اُس دن جہنم (قریب) لائی جائے گی اُس دن انسان نصیحت حاصل کرے گا مگر اب اُس کے لئے (نفع مند) نصیحت کہاں۱۶؎
۱۵؎حل لغات
دُکَّتْ۔ دَکَّ سے مجہول مؤنث کا صیغہ ہے اور دَکَّ الْاَرْضَ کے معنے ہیں سَوّٰی صَعُوْدَھَا وَھُبُوْطَھَا وَکَسَرَ حُفْرَتَھَا بالتُّرَابِ وَسَوّٰھَا یعنی زمین کے اونچے نیچے کو برابر کر دیا ّذ(اقرب) دُکَّتْ الْاَرْضُکے معنے ہوں گے جب زمین ہموار کر دی جائے گی۔
تفسیر
فرماتا ہے کَلَّا تم میں یہ باتیں نہیں ہیں لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی جماعت میں یہ سب باتیں پائی جاتی ہیں۔ تم خوب یاد رکھو جب زمین کو ہلایا جائے گا اور وہ وقت آئے گا جس کی اِذَازُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَھَا (زلزال) میں خبر دی گئی ہے اور خدائی فیصلے کا دن آ جائے گا۔ اُس دن خدا اپنے فرشتوں کی صف کے ساتھ آئے گا یا خدا آئے گا اور فرشتے صفیں باندھے کھڑے ہوں گے اور یہ بھی کہ خدا فرشتوں کی صفوں کے ساتھ آئے گا۔
۱۶؎تفسیر
اَلْاِنْسَانُ سے مراد وہ انسا ن ہے جس کا اُوپر ذکر آ چکا ہے اور جس کے متعلق بتایا جا چکا ہے کہ وہ یتامیٰ کی خبر گیری نہیں کرتا۔، مساکین کو کھانا نہیں کھلاتا۔ باپ دادا کا مال برباد کر دیتا ہے اور مال سے بے جا محبت کرتا ہے فرماتا ہے اُس دن وہ انسان جس میں یہ چار خصلتیں پائی جاتی ہوں گی وہ چاہے گا کہ اپنی اصلاح کرے اپنی قوم کو منظّم کرے۔ا پنے شیرازپ کو متحد کرے اور قومی تباہی سے محفوظ رہے مگر اَنّٰی لَہٗ الذِّکْرٰی قومی کیرکٹر سالہاسال کی محنت کے بعد پیدا ہوتے ہیں یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اِدھر خیال آیا اور اُدھر قومی کیرکٹر کا رُخ بدل جائے۔ اکرامِ یتیم کی عادت کسی جماعت میں ایک دن میں پیدا نہیں ہو سکتی بلکہ چالیس پچاس بلکہ سو سال کی جدوجہد کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ یہی حال محبتِ مال کا ہے کہ وہ ایک دن میں نہیں بلکہ مدتوں کی کوششیں صفائی قلب کا موجب بنتی ہیں۔ پس فرماتا ہے اَنّٰی لَہُ الذِّکْرٰی اب اصلاح کا کہاں موقع ہے یہ چیزیں تو ایک لمبے عرصہ کے بعد پیدا ہوتی ہیں اور تمہارا وہ عرصہ گذر گیا اب تم ہلاکت کے کنارے پر کھڑے ہو اب اصلاح اور درستیٔ احوال کا کون سا موقع ہے۔
یَقُوْلُ یٰلَیْتَنِیْ قَدَّمْتُ
اور کہے گا کاش میں نے اپنی (اس) زندگی کے لئے کچھ آگے بھیجا ہوتا۱۷؎ پس اُس دن اُس (یعنی خدا) کے عذاب جیسا کوئی عذاب نہ دے گا اور نہ اُس کی گرفت جیسی کوئی گرفت کرے گا۱۸؎ اے نفسِ مطمئنّہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ (اس حال میں کہ تُو اُسے)پسند کرنے والا بھی (ہے) اور اس کا پسندیدہ بھی (ہے)۱۹؎
۱۷؎تفسیر
اُس دن اُسے اِس امر پر افسوس ہو گا کہ کاش میں اعلیٰ اخلاق پیدا کر کے اپنی جماعت کو مضبوط کرتا مگر اُس دن کی خواہش نفع نہیں بخش سکتی وہ وقت اُس کی تباہی کا ہو گا۔
۱۸؎حل لغات
یُوْثِقُ: اَوْثَقَ سے مضارع کا صیغہ ہے اور اَوْثَقَہٗ فِی الْوِثَاقِ کے معنے ہوتے ہیں قَدَّہٗ بِہٖ اس کو رسّہ میں یا کسی اور باندھنے والی چیز میں جکڑ دیا (اقرب) پس لَایُوْثِقُ وَثَاقَہٗٓ اَحَدٌ کے معنے ہوں گے اُس جیسا کوئی نہیں باندھے گا۔
تفسیر
فرماتا ہے جس طرح تم نے ایسے ایسے عذاب ہماری جماعت کو دئے جن کی مثال نہیں ملتی اِسی طرح ہم تمہیں بھی اُس دن ایسا عذاب دیں گے جس کی مثال نہیں ملتی اِسی طرح ہم تمہیں بھی اُس دن ایسا عذاب دیں گے جس کی مثال نہیںملتی اور جس طرح تم نے مومنوں کو کوئی قسم کی قیدوں میں ڈالا تھا اُسی طرح ہم بھی تمہیں قید میں ڈالیں گے۔ قید سے مراد یہاں صرف قید نہیں بلکہ کاموں سے الگ الگ کر دینا یا اور کئی رنگ میں اُن کو جکڑ کر تکالیف پہنچانا بھی اس میں شامل ہے۔ فرماتا ہے جس طرح تم نے ہمارے مامور کی جماعت کو باندھ باندھ کر دُکھ دئے تھے اسی طرح ہم تم کو ایسا باندھیں گے کہ کبھی کسی کو نہ باندھا ہو گا۔
۱۹؎تفسیر
نفس مطمئنّہ سے مراد وہ نفس ہے جس میں اوپر کی بیان کردہ چاروں خوبیاں پائی جاتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ جس قوم میں یہ چار خوبیاں پیدا ہو جائیں وہ ہر قسم کے تنزل اور ادبار کے خوف سے مطمئن ہو جاتی ہے۔ جب یتیم پروری کا مادہ قوم کے ہر فرد کے دل میں پیدا ہو جائے انہیں اپنی موت سے کیا گھبراہٹ پیدا ہو سکتی ہے یا جب مساکین کی خبرگیری کا احساس ہر شخص کے دل میں پیدا ہو جائے اور وہ ایک دوسرے کو اس کی تحریک کرتے رہتے ہوں تو قومی جنگوں کے وقت انہیں کیا خطرہ ہو سکتا ہے۔ مساکین جن کا بوجھ قوم اٹھا رہی ہو گی آگے بڑھیں گے اور ہر قسم کی تکلیف کو خوشی سے برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے وہ سمجھیں گے کہ جب قوم ہمارا خیال رکھتی ہے، ہمارے لئے کھانا مہیا کرتی ہے، ہمیں کپڑے پہناتی ہے، ہماری ضروریات کو پورا کرتی ہے تو اب ہمارا فرض ہے کہ ہم قومی مصیبت میں اُس کا ہاتھ بٹائیں اور اس کی عزت کو برقرار رکھنے میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔ یا جب اسراف کی عادت قوم کے کسی فرد کو نہیں ہو گی تو نکمّا پن اُن میں کس طرح پیدا ہو سکتا ہے۔ اُن کو خواہ لاکھوں کی جائیداد مل جائے اُنہیں محنت سے کوئی عار نہیں ہو گی اور جن لوگوں کو محنت سے عار نہ ہو جو کہ کروڑ پتی ہونے باوجود خود کماکر کھانے کے عادی ہوں یا روپیہ کو قومی ضروریات پر صرف کرتے ہوں اُن کا وجود قوم کے لئے ترقی کا ہی باعث ہو سکتا ہے تنزل کا باعث نہیں ہو سکتا۔ یا جب اُن کے دلوں میں مال کی محبت نہیں ہو گی تو غدّاری کرنے والے لوگ اُن میں کس طرح پیدا ہو سکتے ہیں اور اُنہیں اپنے متعلق گھبراہٹ کیا ہو سکتی ہے وہ قوم یقینا مطمئن ہو گی جان کی قربانی کا سوال آئے گا تو لوگ کہیں گے ہمیں اپنی جانوں کی پرواہ نہیں۔ ہماری قوم یتیموں کی پرورش کرے گی۔ اگر مال کی قربانی کا سوال آئے گا تو لوگ کہیں گے ہمیں اپنے مالوں کی پرواہ نہیں۔ ہماری قوم وہ جو اپنے مساکین کا خیال رکھتی ہے اس لئے ہم ہر خطرہ سے گے نیاز ہو کر قربانی کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکنے کے لئے تیار ہیں اور ہمیں اپنے عواقب سے پوری طرح اطمینان ہے۔
قومی ترقی کا یہی نکتہ اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے یَآاَیَّتُھَا النّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ اے نفس مطمئنّہ یعنی پہلاانسان تو وہ تھا جس میں یہ چار خصلتیں موجود تھیں مگر تُو وہ ہے جس میں یہ چاروں خوبیاں پائی جاتی ہیں اِس لئے تھے نفسِ مطمئنّہ حاصل ہے اِرْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکَ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً اے میرے بندے تو نے دنیا میں رہ کر وہ کام کر لیا ہے جس کیلئے میں نے تجھے پیدا کیا تھا اس لئے تُو بھی خوش ہے کہ میں نے کام کر لیا اور ہم بھی خوش ہیں کہ تُو نے کام کر لیا۔ تُو ہم سے خوش ہے اور ہم تجھ سے خوش ہیں۔
فَادْخُلِیْ
پھر (تمہارا رب تمہیں کہتا ہے کہ) میرے (خاص) بندوں میں داخل ہو جا۲۰؎ اور (آ) میری جنت میں بھی داخل ہو جا۲۱؎
۲۰؎تفسیر
فرماتا ہے اب تو ہمارے بندوں میں داخل ہو جا یعنی جس طرح انسان اپنے ماتحت افراد یا اپنی مملوکہ اشیاء کی حفاظت کرتا ہے اسی طرح اب تجھ پر حملہ کرنا مجھ پر حملہ کرنا ہے۔ تجھے دُکھ دینا میری غیرت کو بھڑکانہ ہے۔ تو میرے غلاموں میں داخل ہو گیا ہے اب کسی کی مجال نہیں کہ وہ تجھ پر ہاتھ ڈال سکے۔ اگر اس کے بعد بھی کسی شخص نے تجھ کو غلام بنانا چاہا تو چونکہ تُو میرا غلام ہے اس لئے مَیں خود اُس سے لڑوں گا اور اُسے اس اہانت کی سزا دُوں گا۔
۲۱؎تفسیر
دنیا میں لوگ غلاموں سے بڑی بڑی خدمتیں لیتے اور اُنہیں کئی قسم کے عذابوں میں مبتلا رکھتے ہیںمگر فرماتا ہے جو میرا غلام بن جائے میں اُسے اپنی جنت میں لے جاتا ہوں۔ تو چونکہ میرا غلام بن گیا ہے اس لئے اے میرے بندے آ اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
سُوْرَۃُ الْبَلَدِ مَکِّیَّۃٌ
سورۃ البلد۔ یہ سورۃ مکّی ہے۱؎
اور اس کی بسم اللہ کے علاوہ بیس آیات ہیں اور ایک رکوع ہے۔
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے (شروع کرتا ہوں)
۱؎سورۃ البلد کے متعلق حضرت ابن عباسؓ اور ابن زبیرؓ کہتے ہیں کہ یہ سورۃ مکّی ہے۔ لطف یہ ہے کہ مسیحی مصنّفین میں سے پادری ویری تک کہتے ہیں۔ تغلیط کے خطرہ بغیر اس اطمینان اور یقین کے ساتھ کہ ہم کِسی غلطی کا ارتکاب نہیں کر رہے۔ نہ تاریخی واقعات کے خلاف ہم کِسی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہم کہہ سکتے ہیں۔ کہ یہ پہلے سال کی ہے۔ گویا وُہ اس کے ابتدائی ہونے پر اتنے مصرہیں کہ اسے نہ صرف ابتدائی مکّی سورتوں میں شمار کرتے ہیں۔ پہلے سال کی نازل شدہ بتاتے ہیں۔ اگر ایسا ہو تو اس کا مضمون اور بھی معجزانہ ہَے۔ مگر میرے نزدیک اس سورۃ کا مضمون اور معجزانہ ہَے۔ مگر میرے نزدیک اس سورۃ کا ان مضامین سے تعلق ہے جن مضامین کی پہلے تین سورتیں گزر چکی ہیں اور جو تیسرے یا چوتھے سال بعد نبوت کی ہیں۔ اس بناء پر یہ سورۃ بھی میرے نزدیک تیسرے سال کے آخر یا چوتھے سال کے پہلے چند ماہ کی ہے اور پہلی سورتوں کے زمانہ کی ہی ہے۔
اِس سورۃ کا تعلق پہلی سورتوں میں سے یہ ہے کہ پہلی سورتوں میں ظلم کے ابتدا کی خبر دی گئی تھی۔ اور یہ بتایا گیا تھا کہ مُسلمانوں کے خلاف کفار کی طرف سے منظّم کوششیں شروع ہونے والی ہیں۔ پھر یہ بتایا تھا کہ وُہ کوششیں بڑی تکلیف دہ ہوں گی۔ اور یک لمبے عرصہ تک (جو دس سال تک ممتد ہو گا) یہ کوششیں جاری رہیں گی۔ پھر اس کے ازالہ کی صورت پیدا ہو گی۔ اس کے بعد پھر کچھ تکلیف ہو گی مگر صرف کچھ عرصہ تک رہے گی۔ اس کے بعد فجر کا طلوع شروع ہو جائے گا۔ اب اس سورۃ میں اللہ تعالیٰ ظلم کے مقام کو واضح کرتا ہے۔ اسی طرح ظلم کی بعض اور تفصیلات کو بیان کرتا ہے۔ اور بتاتا ہے کہ یہ ظلم مکّہ میں ہی شروع ہو گا۔ ہو سکتا تھا کہ چونکہ اسوقت تک مسلمانوں پر ظلم نہیں ہؤا تھا۔ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہؓ کے رشتہ دار مکّہ میں موجود تھے۔ یہ خیال کر لیا جاتا۔ کہ لیالی عشر کی پیشگوئی کا جو ظہور ہونے والا ہے ممکن ہے اس رنگ میں ہو۔ کہ بعض اور علاقوں میں اسلام پھیلے۔ اور وہاں مسلمانوں پر مظالم شروع ہو جائیں۔ اِس خیال کی ایک وجہ یہ تھی۔ کہ مکّہ سے باہر بھی اکّے دکّے لوگوں نے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور ذہن اس طرف جا سکتا تھا کہ ممکن ہے عرب کا کوئی اور حصہ ہو جس میں ان مظالم کا آغاز ہونے والا ہو۔ یا کوئی اور لوگ ہوں جن کو مصائب و آلام کا تختۂ مشق بنایا جانے والا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ میں ایسے شبہات کی دتردید کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ یہی مکّہ جس میں تم رہتے ہو جس میں تمہارے عزیز اور رشتہ دار موجود ہیں۔ اور جس میں کفار کی طرف سے مظالم شروع ہونے کا تمہارے دلوںمیں خیال تک بھی پیدا نہیں ہوتا۔ اسی مکّہ میں ان کی طرف سے یہ افعال ہوں گے۔ اور اسی شہر میں تم پر مظالم کے تیر برسائے جائیں گے۔
لَآاُقْسِمُ
نہیں (نہیں ایسا نہیں جیسا تم سمجھتے ہو) مَیں تو قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۲؎
۲؎تفسیر
لا کے متعلق نحوی لکھتے ہیں کہ فِیْہِ وَجْھَانِ اَحْدُھُمَا ھِیَ زَائِدَۃً کَمَا فِیْ قَوْلَہٖ تَعَالٰی لِئلًا یَعْلَمَ یعنی اس آیت میں جو لا آتا ہے اس کے متعلق دو باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ زائدہ ہے جیسے قرآن کریم میں ہی آتا ہے لِئَلًا یَعْلَمَ تا کہ وُہ نہ جانے اور مراد یہ ہے کہ وُہ جان لے۔
اِس جگہ یاد رکھنا چاہئیے کہ زائدہ سے اردو والا زائد مراد نہیں۔ اردو میں زائد کے اور معنے ہوتے ہیں۔ اور عربی میں نحویوں کے نزدیک زائد کے اور معنی ہوتے ہیں۔ اور عربی میں نحویوں کے نزدیک زائد بالکل اور معنے رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک زائد کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ یہ لفظ اپنے لغوی معنوں میں استعمال نہیں ہؤا۔ بلکہ صرف مضمون کی تاکید کے معنی دیتا ہے۔ پس نحوی جب کسی لفظ کے متعلق یہ کہیں کہ وُہ زائد ہے تو اس سے ان کی مراد صرف اتنی ہوتی ہے۔ کہ لغت کے لحاظ سے جن معنوں میں عام طور پر یہ لفظ استعمال ہؤا کرتا ہے۔ ان معنوں میں یہ استعمال نہیں ہؤا بلکہ تاکید کے معنے دیتا ہے۔ عربی زبان کی یہ خصوصیّت ہے کہ وُہ کئی قسم کے فلسفیانہ نکمّے اپنے اندر رکھتی ہے۔ چنانچہ یہ قاعدہ ایک فلسفیانہ نکتے اپنے اندر رکھتی ہے۔ چنانچہ یہ قاعدہ ایک فلسفیانہ اصل کے ماتحت بنایا گیا ہے انسانی فطرت میں یہ داخل ہے کہ جب عام رسم ورواج کے خلاف کوئی بات کہی جائے تو انسان کی توجہ ادھر پھر جاتی ہے۔ مثلًا بچے کو بعض دفعہ باتوں باتوں میں انسان کہہ دیتا ہے۔ ’’او شریر‘‘ اب ہر شخص جانتا ہے۔ کہ اس وقت ایس گالی دینا مدنظر نہیں ہوتا۔ بلکہ صرف اس کی چالاکی کا اظہار مدنظر ہوتا ہے۔ مگر اس کے لئے شریر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کے معنے صرف اتنے ہوتے ہیں کہ تیرے افعال میں ایک حدّت اور تیزی ہوتی پائی جاتی ہے۔ یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وُہ حدّت اور تیزی اعلیٰ اخلاق یا صحیح مذاق کے خلاف ہو۔ اسی طرح ماں کے سامنے بعض دفعہ بچہ ایسے انداز سے آتا ہے۔ کہ وہ سمجھتی ہے اب یہ ضرور مجھ سے کوئی چیز مانگے گا وہ اسے دیکھتی ہے اور مسکراتے ہوئے کہتی ہے ’’شریر‘‘ اب اس کے یہ معنے نہیں ہوتے کہ تُو بہت بڑا ہے۔ بلکہ اس کے معنی صرف اتنے ہوتے ہیں کہ مَیں جانتی ہوں۔ تم میری محبت کو کھینچ رہے ہو۔ اور چاہتے ہو کہ میرے جزبات میں ہیجان پیدا کر کے چیز حاصل کر سکو۔ اور یہ بات بُری نہیں بلکہ فطرت کے عین مطابق ہے۔ انسان روزانہ دعائیں مانگتا ہے۔ اور عجیب عجیب رنگ میں خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے رحم کو حرکت میں لانے کی کوشش کرتا ہے۔ کبھی کہتا ہے خدایا میں نے فلان کام محض تیری رضا کے لئے کیا تھا۔ اگر وُہ کام تیری نگا ہ میں پسندیدہ ہے اور تو جانتا ہے کہ میری نیت اور ارادہ اس کام کو کرنے سے محض یہ تھا کہ تیری رضا اور خوشنودی مجھے حاصل ہو جائے۔ کوئی اور غرض میرے سامنے نہیں تھی۔ تو اے میرے رب اس نیکی کے عوض میری فلاں حاجت کو پُورا فرما دے۔ کبھی خیال کرتا ہے۔ کہ اگر میں اپنی مسکنت اور غربت خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کروں گا تو اس کا رحم جوش میں آ جائے گا۔ اور اس کا فضل میری مشکل کشائی کا موجب بن جائے گا۔ چنانچہ اس خیال کے آنے پر وُہ اپنے عجز اور اپنی بیکسی کو خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور کہتا ہے خدایا میرا تو تیرے سوا کوئی والی اور مدد گار نہیں۔ میں اکیلا ہوں۔ میں بے کس اور بے بس ہوں۔ میری تیرے سوا اور کسی پر نظر نہیں۔ اگر تو مجھ پر رحم نہیں کرے گا۔ تو اور کون کرے گا۔ تو میری مدد فرما اور میری مشکلات کو دُور کر۔ کیونکہ تیرے سوا میرا کوئی ناصر اور مدد گار نہیں۔ اب یہ چالاکی نہیں ہے۔ نہ اسے شرارت اور بددیانتی کہتے ہیں۔ بلکہ ہر شخص جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو کھینچنے اور اس کے رحم کو جوش میں لانے کے لئے ایسے الفاظ کا استعمال اثر رکھتا ہے۔ چنانچہ ایک ماں جب اپنے بچے کو شریر کہتی ہے اس وقت اسے غضب نہیں آتا۔ بلکہ مزہ آتا ہے۔ اور اس کا جی چاہتا ہے کہ وہ اسے چمٹا لے کہ یہ کتنا ہوشیار ہے اور اس نے اپنے مقصد کو کس عمدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ تو فطرت انسانی میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ کبھی کوئی بُری بات بظاہر متضاد کہی جاتی ہے اور اس سے مراد دوسرے کی توجہ کو کھنچنا ہوتا ہے۔
پنجابی زبان میں بعض دفعہ ایسے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ جن کا مفہوم ان کے ظاہر کے خلاف ہوتا ہے۔ مثلاً بعض دفعہ باتیں کرتے ہوئے ایک شخص دوسرے سے کہہ دیتا ہے ’’چھڈ وی‘‘ یعنی مجھے چھوڑو بھی۔ حالانکہ اس نے اسے پکڑا نہیں ہوتا۔ نہ اس کا خود یہ مطلب ہوتا ہے کہ تُو نے مجھے کیوں نہ پکڑ رکھا ہے۔ مجھے چھوڑو تا کہ مَیں جا سکوں بلکہ یہ ایک طریق ہے جو شدت سے دوسرے کو کسی بات سے روکنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح نحوی کہتے ہیں کہ جب کسی بات کی طرف دوسروں کی توجہ مبذول کرنا ہو اور منشاء یہ ہو کہ تاکید کی جائے۔ تو الٹ بات کہہ دی جاتی ہے۔ حالانکہ مفہوم اور ہوتا ہے جیسے اں بعض دفعہ اپنے بچہ کو شریر کہہ دیتی ہے۔ مگر اس کا منشاء یہ نہیں ہوتا کہ کِسی ناراضگی کا اظہار کرے۔ بلکہ وہ اپنی محبت کے اظہار کے لئے یہ لفظ استعمال کرتی ہے۔ اور وُہ جانتی ہے کہ جتنی محبت ’’شریر‘‘ لفظ کہہ کر ظاہر ہو سکتی ہے۔ اتنی محبت کسی پیار کے لفظ سے ظاہر نہیں ہو سکتی۔ گو وُہ اسے کہتی ’’شریر‘‘ ہے مگر اس کے چہرے کی بناوٹ اس کے ہونٹوں کی حرکت اور اس کی آنکھوں کی چمک ظاہر کر رہی ہوتی ہے کہ وہ محبت میں گھلی جا رہی ہے۔
غرض لا کے متعلق نحوی کہتے ہیں کہ یہ زائدہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ اسل معنوں میں استعمال نہیں ہؤا۔ بلکہ محض مضمون کی تاکید کے لئے استعمال ہؤا ہے۔ بلکہ اور معنوں کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا ’’نہیں‘‘ ’’نہیں‘‘ یہ الفاظ ایسے ہیں کہ انسان ان کو سنتے ہی حیران ہو جاتا ہے۔ اور فوراً اس کی توجہ پھر جاتی ہے۔ کہ یہ ’’نہیں‘‘ ’’نہیں‘‘ کیوں کہا جا رہا ہے۔ اگر صرف اُقْسِمُ سے آیت کا آغاز کیا جاتا ہے۔ اور لا کا استعمال نہ کیا جاتا۔ تو اُقْسِمُ کے بعد لوگوں کی توجہ پیدا ہوتی۔ اور وُہ سوچتے کہ ان کے سامنے کونی سی شہادت رکھی جا رہی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی فرما دیا کہ لا ’’نہیںنہیں‘‘ اور باتوں کو چھوڑو اور ہم جو کچھ کہہ رہے ہیںاسے سنو۔ اس ’’نہیں نہیں‘‘کو سنتے ہی ہر شخص فوراً متوجہ ہو جاتا ہے ۔ اور وُہ چاہتا ہے کہ میں معلوم کروں کہ کیا بات ہے اور نہیں نہیں کس بات پر کہا جا رہا ہے۔ گویا لوگوں کی توجہ کو جذب کرنے اور ان پر اصل حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے اُقْسِمُ کی بجائے لا سے اس سورۃ کا آغاز کیا۔ تاکہ اُقْسِمُ کے بعد توجہ پیدا نہ ہو۔ بلکہ اس سے پہلے لا کے سنتے ہی ہر شخص متوجہ ہو جائے۔ بعض نحویوں نے کہا ہے کہ یہ لا زائدہ نہیں بلکہ معنے رکھتا ہے۔ اور پھر وہ اس کی دو قسمیں کرتے ہیں اَحَدُھُمَا ھِیَ نَفْیٌ لِلْقَسَمِ بِھَا کچھ لوگ تو کہتے ہیںکہ یہ نفیٔ قسم کے معنوںمیں ہے۔ یعنی لَآ اقْسِمُ بِھَذَا الْبَلَدِ کے معنے یہ ہیں کہ ہم اس شہر کی قسم نہیں کھاتے۔ مگر چونکہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ قسم کی نفی یہاں کیوں کی گئی ہے۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ یہاں قسم نفی اس لئے کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم جو بات کہتے ہیں وہ اتنی صاف اور واضح ہے کہ اس کے لئے کِسی قسم کی ضرورت نہیں۔ وَالَّثَانِیْ اَنَّ لَا رَدٌّلِکَلَامٍ مُقَدَّرٍ لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ لا ایک کلام مقدّر کا رد ہے۔ یعنی کوئی اعتراض ہے جس کا لا کے ذریعہ رد کیا گیا ہے۔ یہ مقدر کلام دو طرح نکلتا ہے۔ ایک آیت کے مفہوم سے اور ایک پہلی سورۃ کے مضمون سے یعنی یا تو یہ مقدر کلام آیت کے مفہوم سے نکلے گا۔ اور یا پھر مقدر کلام آیت کے کے مفہوم سے نکلے گا۔ اور یا پھر مقدر کلام وہ ہو گا۔ جس کا پہلے ذکر آ چکا ہے۔ چنانچہ اِس سورۃ میں انہوں نے مقدر کلام پہلی سورۃ کے مضامین سے اخذ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس لا کا مفہوم یہ ہے کہ پہلی سورۃ میں جو باتین تمہاری طرف سے پیش کی گئی ہیں وُہ بالکل غلط ہیں اصل بات اور ہے۔ اور یا ہماری طرف سے بیان کردہ پہلی باتوں کے خلاف جو لوگ اعتراضات کر رہے ہیں وہ غلط ہیں اور ہم ان کی تردید کرتے ہیں بہرحال انہوں نے لا کو ایک کلام مقدّر کا ردّ قرار دیا ہے۔ اور کلام مقدر انہوں نے اس جگہ اَنْتَ مُفْتَرٍ نکالا ہے۔ یعنی ان لوگوں کا قول یہ ہے کہ وہ کفار جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کہا کرتے تھے کہ تو مفتری ہے۔ ان کا ردّ اس جگہ کیا گیا ہے۔ اور اصل آیت یوں ہے لا اَنْتَ لَیْسَ بِمُفْتَرٍ نہیں نہیں یہ بات غلط ہے کہ تُو مفتری ہے۔ تو مفتری نہیں بلکہ ہمارا سچا رسول ہے۔ اور ہم اس بات کی شہادت کے طور پر اس مکّہ شہر کو پیش کرتے ہیں۔
میرے نزدیک لا اَنْتَ مُفْتَرٍ کے جواب میں نہیں بلکہ اسی مضمون کے جواب میں ہے جو پہلی سورتوں کے جواب میں بیان کیا گیا ہے۔ یعنی مخالفین نے پانے ذہن میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی جماعت کی تباہی کے منصوبے سوچنے شروع کر دئے تھے۔ اور گو ابھی تک انہوں نے ان منصوبوں کو ظاہر نہیں کیا تھا۔ مگر ان کے اذہان میں یہ بات بڑھتی جا رہی تھی۔ کہ اسلام کو کچلنے اور اس کی ترقی کو روکنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔ اور چونکہ انہوں نے مخفی منصوبے کئے تھے میرے نزدیک ان کے ان مخفی خیالات کو قرآن کریم نے بھی ایک اخفا کے رنگ میں پیش کیا ہے۔ اور لا کہہ کر ایسے رنگ میں ان کو ظاہرکیا ہے۔ کہ کفار کو اشاروں میں بتا دیا جائے کہ ہمیں تمہارے ان منصوبوں کا علم ہے مگر تم یاد رکھو کہ اپنے ان منصوبوں میں تم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ یہ طریق اللہ تعالیٰ نے سورۂ الغاشیہ سے ہی اختیار کیا ہے۔ چنانچہ پہلے یہ خبر دی۔ کہ کچھ عَامِلَۃٌ نَّاصِبَۃٌ بننے والے ہیں۔ پھر سورۃ الفجر میں خبر دی۔ کہ مسلمانوں پر دس تاریک راتیں آنے والی ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ اس جگہ ابھی کفار کے ارادوں کو ظاہر نہیں کرتا۔ صرف صرف اشاروں اشاروں میں ان کا ذکر آتا ہے۔ ظاہر ہے اس لئے نہیں کرتا کہ دشمنوں نے بھی ابھی کھلم کھلا مخالفت شروع نہیں کی تھی۔ صرف مخفی منصوبے اسلام کے خلاف کر رہے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے بھی مخفی رنگ میں ان کے منصوبوں کا ذکر کر دیا۔ اگر ان باتوں ظاہر کر دیا جاتا۔ تو سمجھا جاتا کہ مسلمانوں نے ابتدا کی ہے۔ اور انہوں نے خود کفار کو برانگیختہ کیا ہے پس چونکہ اللہ تعالیٰ ابھی کفار کے منصوبوں کو کھلے طور پر ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اِس لئے اس نے کہہ دیا لَا نہیں نہیں۔ یعنی میں بتاتا تو نہیں۔ مگر تمہارے دل میں جو کچھ ہے میں اس کی نفی کرتا ہوں اور تمہیں بتاتا ہوں کہ ویسا نہیں ہو گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اشاروں اشاروں میں وہ بات بھی بیان کر دی۔ مگر ایسی زبان میں کہ جسے ہر شخص نہیں سمجھ سکتا تااشتعال بھی پیدا نہ ہو۔ اور تابعد میں کوئی شخص یہ بھی نہ کہہ دے کہ قرآن کریم نے یونہی کہہ دیا تھا کہ ہم سمجھ گئے ہیں۔ کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان ایک بات کو نہیں سمجھتا مگر کہہ دیتا ہے کہ میں سمجھ گیا ہوں۔ مگر واقعہ یہ ہوتا ہے کہ وُہ سمجھا نہیں ہوتا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی تشریح کر دی۔ اور بتا دیا کہ ہم کیا سمجھے ہیں۔ لیکن ایسی عبارت میں اس کو بیان کیا۔ کہ بات بھی ہو جائے اور وُہ یہ بھی نہ کہہ سکیں کہ قرآن کریم نے ان کو اشتعال دلایا ہے کہ کفار مسلمانوں کے متعلق بدا رادے رکھتے ہیں۔ اس بات کا ثبوت کفار کے ارادوں کا ہمیں پتہ لگ گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آیت کے اگلے حصہ میں دیا ہے جس کی تشریح اپنے موقع پر آئے گی۔
لَا اُقْسِمُ قرآن کریم میں آٹھ جگہ استعمال ہؤا ہے۔ (۱-۲) سورۂ قیامۃ میں دو جگہ (۳)بلد (۴)واقعہ (۵)حاقہ (۶)معارج (۷)تکریر (۸)انشقاق میں اور یہ سب کی سب مکّی سورتیں ہیں۔
قرآن کریم میں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو بطور شہادت کے پیش کیا ہے۔ وہاں عمومًا وائو سے قسم کھائی ہے۔ اور جہاں لَا استعمال کیا ہے۔ وہاں اُقْسِمُ کا لفظ ظاہر کیا ہے۔ وَالسَّمَآئِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ۔ وَالسَّمَآئِ وَالطَّارِقِ وغیرہ میں وائو کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اُقْسِمُ کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ لیکن جہاں لَا کے استعمال کے بعد غیر اللہ کی قسم کھائی گئی ہے وہاں لَا کے بعد اُقْسِمُ کا لفظ آیا ہے وائو سے قسم نہیں کھائی۔ جیسا کہ اوپر کی سورتوں میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ صرف ایک جگہ ہے جہاں لَا آیا ہے مگر اُقْسِمُ کا لفظ ظاہر نہیں کیا گیا۔ بلکہ وائو سے ہی قسم کھائی ہے۔ اور وُہ آیت یہ ہے فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْ اَنْفُسِھِمْ حَرَجَاً مِمَّا قضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْماً (النساء ع ۹ ۶)اِس جگہ لَا وَرَبِّکَ فرمایا ہے اُقْسِمُ نہیں فرمایا۔ لیکن اس آیت کا فرق دوسری قسم کی آیتوں سے یہ ہے کہ ان میں قسم غیر اللہ کی کھائی گئی تھی۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی گئی ہے۔ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُقْسِمُ زور دینے کے لئے اور لَا کے معنوں کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے جب خدا تعالیٰ کا نام لیا گیا۔ جیسا کہ فَلَا وَرَبِّکَ لَایُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ میں آتا ہے۔ تو اس جگہ وائو کافی سمجھی گئی اور اُقْسِمُ کو ظاہر نہیں کیا۔ لیکن جہاں خدا تعالیٰ کا نام نہیں لیا گیا۔ وہاں اُقْسِمُ کا لفظ ضرور لایا گیا ہے اس لئے کہ خدا تعالیٰ کے نام کے متعلق تو ہر شخص جانتا ہے۔ کہ اس کی قسم کا کھائی جاتی ہے۔ لیکن غیر اللہ کے متعلق نہیں جانتا۔ کہ اس کی قسم کھائیء جاتی ہے۔ پس لَا سے چونکہ نفی ہوتی تھی اُقْسِمُ کو ظاہر کر دیا گیا۔ تا قسم کی نفی سمجھ لی جائے۔
وَاَنْتَ حِلٌّ
اس حال میں کہ تو اس شہر میں (ایک فاتح کی صورت میں) اترنے والا ہے۳؎
۳؎حل لغات
حِلٌّ کے معنے تو اس علاقہ کے ہیں مَاجَاوَزَا الْحَرَمَ مِنْ اَرْضِ مَکَّۃَ جو حرم سے باہر کا ہے۔ مکّہ مکرمہ حرم کہلاتا ہے اور وہاں کسی شکار کا مارنا یا درخت کا کاٹنا بالکل منع ہے۔ لیکن چند میلوں کے بعد یہ چیزیں جائز ہو جاتی ہیں۔ یا مثلًا لڑائی حرم میں منع ہے لیکن حرم سے باہر منع نہیں۔ غرض جو علاقہ مکّہ کے اردگرد کی مقررہ حدود کے اندر کا ہے۔ وہ حرم کہلاتا ہے۔ اور اس میں جنگ کا شکار اور درختوں کاٹنا منع ہے۔ لیکن حرم سے باہر یہ چیزیں جائز ہیں۔ اسی وجہ سے بیرونی علاقہ کو حِلٌّ کہتے ہیں۔ اور اندرونی علاقہ کو حرم۔ اسی طرح اس کے ایک معنے حلال کے بھی ہیں۔ یعنی یہ حرام کی ضد بھی ہوتی ہے۔ وَالْحِلُّ: اَلْغَرَضُ الْذِیْ یُرْعٰی اِلَیْہِ۔ اور حِلّ اس ہدف کو بھی کہتے ہیں جس کی طرف تیر پھینکے جاتے ہیں وَالْاِسْمُ مِنْ تَحْلِیْلِ الیَمِیْنِ اور حل اور تحلیل ۔یمین کا اسم بھی ہے۔ یعنی قسم کو کسی ذریعہ سے کفارہ دے کر توڑ دینا۔ چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک عورت سے جس نے یہ قسم کھائی تھی کہ مَیں اپنے غلاموں کو آزاد نہیں کروں گی۔ فرمایا حِلًّ اُمَّ فُلَانٍ اَیْ تَحلَّلْ فِیْ یَمِیْنِکَ۔ اے عورت تو کفارہ دے دے۔ اور قسم پر قائم نہ رہ۔ کیونکہ یہ بُری قسم ہے۔ وَالْحّلُ۔ اَلنَّازِلُ بِالْمَکَانِ اور کسی مکان میں عارضی طور پر اترنے والے کو بھی حِلّ کہتے ہیں قَالَ الْحَرِیْرِیُّ مَادُمْتُ حِلًّا بِھَذَا الْبَلَدِ اَیْ نَازِلًا اور حریری کہتے ہیں کہ مَادُمْتُ حِلًّا کے معنی یہ ہیں کہ جب تک مَیں اس شہر میں ہوں (اقرب) گویا حِلٌّ کے پانچ معنے ہوئے اوّل وہ علاقہ جو حرم سے باہر کا ہے دوم۔ حلال۔ سوم ۔ ہدف۔ چہارم۔ قسم کو کفارہ کے ذریعہ توڑنا۔ پنجم کِسی جگہ پر اترنا۔
تفسیر
اَنْتَ حِلٌّ بِھَذَا لْبَلَدِ کے متعلق علامہ زمخشری لکھتے ہیں کہ یہ جملہ معترضہ ہے جو درمیان میں آ گیا ہے لیکن بحر محیط والے کہتے ہیں کہ یہ جملہ حالیہ ہے۔ میرے نزدیک جہاں تک متبا درالی الذہن معنوں کا سوال ہے اِن معنوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہاں وائو حالیہ ہی زیادہ قرینِ قیاس معلوم ہوتی ہے۔ مگر اِس کے یہ معنے نہیں کہ اس حال میں تو مکّہ شہادت ہے لیکن اس کے بغیر کسی روحانی امر کو شہادت مکّہ مکرمہ پیش نہیں کرتا۔ حقیقت یہ ہے کہ کوئی حال تو اس قسم کا ہوتا ہے کہ وہ کسی شہادت کو موجب نہیں ہوتا۔ لیکن بعض جگہ حال اس شہادت کا موجب نہیں ہوتا۔ لیکن بعض جگہ حال اس شہادت کو دوہرا رنگ دے دیتا ہے۔ اور ایک ہی چیز دو یا دو سے زائد باتوں کے لئے بطور شہادت پیش ہو جاتی ہے۔ گویا پہلے تو وہ صرف ایک چیز کی شہادت کا موجب ہوتی ہے۔ مگر اس حال کے ساتھ مل کر دوہری شہادت کا موجب بن جاتی ہے۔ پس بِھَذَا الْبَلَدِ کا حال وَاَنْتَ حِلٌّ بِھَذَا الْبَلَدِ کو قرار دینا گویا یہ معنی رکھتا ہے کہ شہادت کے طور پرمکّہ کو اس حال میں پیش کیا جاتا ہے جو یہاں بیان کیا گیا ہے مگر اس کے یہ معنے ہر گز نہیں ہیں کہ دوسری صورت میں وُہ کوئی نشان نہیں بلکہ یہ حال مزید شہادت کا موجب ہے۔ ورنہ اِس سے کون انکار کر سکتا ہے کہ مکّہ وہ شہر ہے جس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانۂ کعبہ کی بنیادیں استوار کیں۔ اور اس نشان عظیم کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے تمام عرب کا مرجع بنا دیا۔ پھر مکہ مکرمہ وہ شہر ہے جس میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پیدائش سے بھی پہلے اللہ تعالیٰ نے یہ عظیم الشان نشان دکھایا۔ کہ ابرہہ اپنے لشکر سمیت اس پر حملہ آور ہؤا۔ تو خدا تعالیٰ نے اسے اور اس کے لشکر تباہ و برباد کر دیا۔ اسی طرح چاہ زمزم خدا تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان تھا۔ جو مکّہ مکرمہ میں پایا جاتا تھا۔ پھر صفا اور مروہ خدا تعالیٰ کے ایک بہت بڑے نشان کی زندہ یادگاریں تھیں جن کو دیکھ کر انسان کا ایمان تازہ ہوتا تھا۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھتا تھا۔ جو اس نے حضرت اباہیم علیہ السلام سے ان کی اولاد کے بڑھنے کے متعلق کئے۔ غرض مکہ مکرمہ میں اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کے بغیر بھی اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان تھا جس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ ہر وہ شخص جس کے دل میں ایک ذرّہ بھی ایمان ہو جو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کو دیکھنے والی آنکھ رکھتا ہو جو روحانی بینائی سے محفوظ ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ مکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے پہلے بھی ابراہیمی نشانات کی وجہ سے ایک ممتاز مقام تھا۔ اور وہ اپنی ذات میں خدا تعالیٰ کے وجود کا ایک زندہ گواہ تھا۔ پس لَآ اُقْسِمُ بِھَذَا الْبَلَدِ وَاَنْتَ حِلٌّٔ بِھَذَا الْبَلَدِ کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اِس حال کے بغیر مکّہ کوئی نشان نہیں تھا۔ یا وُہ خدا تعالیٰ کی ہستی کی کوئی شہادت اپنے اندر نہیں رکھتا تھا بلکہ اس حال کے بغیر مکہ کوئی نشان نہیں تھا۔ یا وُہ خدا تعالیٰ کی ہستی کی کوئی شہادت اپنے اندر نہیں رکھتا تھا۔ بلکہ اس حال کے معنی یہ ہیں کہ وہ مقدس مقام ہے جس میںعلاوہ اور نشانات کے یہ بھی ایک عظیم الشان نشان پایا جاتا ہے کہ وَاَنْتَ حِلٌّٔ بِھَذَا الْبَلَدِ تُو اِس شہر میں حِل ہے جب تک مکہ اس حال میں متصف نہیں ہؤا تھا۔ اس کا نشان اپنی ذات میں اتنا اہم نہیں تھا جنتا اب ہو جائے گا۔ اس لئے کہ پہلے مکہ مکرمہ اور بات کے ثبوت کے لئے تھا اور اب مکہ مکرمہ اور بات کے ثبوت کے لئے پیش آنے والا ہے پہلے مکہ مکرمہ ثبوت تھا اس بات کا کہ حضرت ابراہیمؑ کے نبی تھے یا حضرت اسمٰعیل خدا کے نبی تھے۔ لیکن اب یہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا کے نبی ہیں وَاَنْتَ حِلٌّٔ بِھَذَا الْبَلَدِ کے بغیر مکہ صرف ان نشانات کا شاہد تھا جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ وابستہ تھے۔ لیکن اب یہ ان نشانات کا بھی شاہد ہو گا۔ جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے ساتھ وابستہ ہوں گے۔ پس اس حال نے مکہ کو نیا رنگ دے دیا ہے۔ پہلے مکہ صرف ابراہیمؑ یا اسماعیل ؑ کی صداقت کا ثبوت تھا۔ اور اب یہ ثبوت ہو گا اِس بات کا کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ اور دُنیا کی کوئی طاقت ان کو اپنے مقصد میں ناکام نہیں کر سکتی۔ پس اس حال کا یہ مطلب نہیں کہ مکّہ صرف اِس حال میںشہادت ہے پہلے بطور شہادت اسے پیش نہیں کیا گیا۔ بلکہ اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کہہ کر اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ہم اس وقت اسے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت میں ثبوت میں پیش کر رہے ہیں۔
اگر اس نقطۂ نگاہ کو لیا جائے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو کچھ نشانات دکھائے خدا تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت سے دکھائے تھے۔ اِس وجہ سے مکّہ مکرمہ خدا کے وجود کا ایک ثبوت تھا۔ تو پھر یہ اکٹھا ثبوت بن جائے گایعنی مکّہ حضرت ابراہیم علیہما السلام کی صداقت کا بھی ثبوت ہو گا۔ اور مکہ اس بات کا بھی ثبوت ہو گا کہ خدا موجود ہے کیونکہ حضرت ابراہیمؑ اور اسمٰعیل علیہما السلام کی صداقت کا بھی ثبوت ہو گا۔ اور مکہ اس بات کا بھی ثبوت ہو گا کہ خدا موجود ہے کیونکہ ابراہیمؑ یا حضرت اسمٰعیلؑ نے جو کچھ کیا خدا تعالیٰ کے حکم سے کیا۔ پس جہاں نشانات اور پیشگوئیوں نے حضرت ابراہیمؑ اور اسمٰعیل علیہما السلام کی صداقت کا ثبوت دُنیا کے سامنے پیش کیا۔ وہاں خدا تعالیٰ کی ہستی کا ایک زندہ ثبوت بھی لوگوں کے سامنے پیش کر دیا اس لحاظ سے وَاَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کے یہ معنے ہوں گے کہ مکہ مکرمہ پہلے بھی خدا تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت تھا۔ مگر اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اب تیرے آنے سے یہ ثبوت اور بھی نمایاں ہو گا۔ کیونکہ تیرے آنے سے خدا تعالیٰ کی طاقتوں اور اس کی قدرتوں کا دنیا میں غیر معمولی ظہور ہو گا۔ اور ایسے ایسے نشانات ظاہر ہوں گے جو دنیا نے اِس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔
حِلٌّٔ کے مختلف معانی جو اوپر بیان کئے جا چکے ہیں ان کے لحاظ سے پہلے معنی وَاَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کے یہ ہوئے کہ ہم اس شہر کو پہلے بیان کردہ مضمون کی تائید میں ایسی حالت میں شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ اس شہر میں تجھ کو حلال سمجھا گیا ہے۔ یا سمجھا جانے والا ہے۔ یعنی مکہ مکرمہ کو حرم سمجھا جاتا ہے۔ اور جو کام باہر جائز ہیں وہ یہاں جائز نہیں۔ اور جو باہر جائز ہیں وہ یہاں اور بھی شدت سے ناجائز ہیں۔ لیکن اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم نے جو کہا تھا کہ لیالی عشر آنے والی ہیں۔ اس کے متعلق ہم مزید تجھے یہ خبر دیتے ہیں کہ یہ دس تاریک راتیں مکہ مکرمہ میں ہی آنے والی ہیں۔ پہلے صحابہؓ سمجھتے ہوں گے کہ خواہ مشرکینِ مکہ اسلام کے کس قدر خلاف ہوں۔ اور توحید سے کتنی ہی منافرت کیوںنہ رکھتے ہوں۔ بہرحال وہ مکہ میں ہمیں کوئی دکھ نہیں پہنچا سکتے کیونکہ ان کا اپنا مذہب ہے یہی ہے۔ کہ باہر تو منع ہے ہی مگر حرم میں قتل و خونریزی اور دنگا فساد اور بھی سختی سے منع ہے۔مگر اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ باوجود اس کے کہ مکہ والوں کا مذہب یہی ہے کہ مکہ میں لڑائی جائز نہیں۔ مکہ والوں کا مذہب یہی ہے کہ مکہ میں فتنہ برپا کرنا اور لوگوں کو تکالیف میں مبتلا کرنا جائز نہیں پھر بھی اَنْتَ حِلٌّٔ بِھَذَا الْبَلَدِ مکہ کی حرمت تیری اور تیرے ساتھیوں کی حفاظت نہیں کر سکے گی۔ وُہ حرمت تمہیں ان کے حملوں سے بچا نہیں سکے گی۔ بلکہ تم اس جگہ حلال سمجھے جائو گے۔ بے شک یہاں ہر شے کا مارنا ناجائز سمجھتا جاتا ہے یہاں تک کہ شکار تک کا مارنا جائز نہیں۔ مگر اس مکہ میں اسی شہر کے رہنے والے اور مکہ کی حرمت اور اس کی تقدیس کا عقیدہ رکھنے والے تجھے اور تیرے مریدوں کو اب ہر قسم کی ایذا دیں گے۔ اور حرم اور اس کی حرمت کا کچھ بھی پاس نہیں کریں گے۔
دُوسرے معنوں کے لحاظ سے اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کے یہ معنے ہوں گے کہ تُو اس میں ہر تیر کا نشانہ بننے والا ہے یعنی یہی نہیں کہ تمہاری عزت یا تمہارا مال ان کے ہاتھ میں محفوظ نہیں ہو گا بلکہ ہر قسم کے مظالم تم پر توڑے جائیں گے۔ ایک ہوتا ہے ظُلم اور ایک ہوتا ہے ہر قسم کا ظلم۔ ظلم اپنی ذات میں ہی بُری چیز ہے۔ لیکن ہر قسم کی برائیوں کا ظلم جو شخص اختیار کر لے۔ اور تمام قسم کی برائیوں کے ارتکاب پر کمر بستہ ہو جائے۔ اس سے زیادہ بُرا اور کون شخص ہو سکتا ہے۔ اس جگہ نہ صرف مشرکین مکہ کے مظالم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ ہر قسم کے مظالم کا ہدف مسلمانوں کو بنائیں گے اور جو بھی تیر ان کے ہاتھوں سے چھوٹے گا اس کا اولین نشانہ مسلمانوں کے سینے ہوں گے۔ حِلٌّ کے معنے جیسا کہ حل لغات میں بتایا جا چکا ہے اس ہدف کے ہوتے ہیں جو تیروں کے نشانہ کے لئے بنایا جاتا ہے۔ پس معنی یہ ہوئے کہ اب ہر قسم کے تیروں کا ہدف بن جائو گے جو بھی تیر آئے گا تمہاری طرف آئیگا۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سلسلہ سے پہلے بھی علماء کو کفر بازی کا شوق تھا۔ اور برابر ان کے اندر یہ مشغلہ پایا جاتا تھا کہ کبھی سنیوں نے وہابیوں پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ اور کبھی وہابیوں نے سنّیوں کو کافر قرار دے دیا۔ کبھی اہلحدیث دیوبندیوں کے خلاف اٹھے اور ان پر کفر کا فتویٰ دے دیا کبھی اہلحدیث دیوبندیوں کے خلاف اٹھے اور ان پر کفر کا فتویٰ عائد کر دیا۔ اور کبھی دیوبندیوں نے دوسرے مسلمان فرقوں کو کافر اور مرتد کہہ کر اپنے دل کو خوش کر لیا۔ مگر جب سے اللہ تعالیٰ نے احمدیت کو قائم کیا ہے مسلمانوں کی طرف سے جو بھی تیر آتا ہے احمدیوں کی طرف آتا ہے۔ نہ سنی شیعوں پر کفر کا فتویٰ لگاتے ہیں۔ نہ شیعہ سنّیوں کو ملحد اور زندیق کہتے ہیں۔ بلکہ سب کے سب خواہ وہ سنّی ہوں شیعہ ہوں۔ اہلحدیث ہوں اور احمدیت کے خلاف متفقہ طور پر کھڑے ہیں۔ اور انہوں نے ہر تیر کا نشانہ ہماری جماعت کو بنایا ہؤا ہے۔ درحقیقت جس شخص کے متعلق قوم میں یہ احساس پیدا ہو جائے۔ کہ یہ طاقت پکڑتا جا رہا ہے۔ اور ایک دن یہ ہمارے زور کو کچل دے گا۔ اس کے خلاف ساری قومیں اپنے اختلاف کو بھول کر متحد ہو جاتی ہیں اور متحدہ عزائم سے اس کو مٹانے کی کوشش میں مصروف ہو جاتی ہیں۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمائی ہے کہ اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ ہر قسم کے مظالم جو پہلے مکہ والوں نے کبھی نہ کئے ہوں گے اور جو مکہ نے کبھی دیکھے بھی نہ ہوں گے وہ اب تم پر اور تمہاری جماعت پر نازل ہوں گے۔ بے شک مکہ والوں میں اختلاف بھی ہے پارٹیاں بھی ہیں جتھے بھی ہیں۔ مگر تیری مخالفت کی وجہ سے ان کی تمام جتھ بندیاں ختم ہو جائیں گی۔ وہ سب کے سب اکٹھے ہو جائیں گے اور اس ایک مقصد پر سب متفق ہو جائیں گے کہ تجھ پر اور تیرے ساتھیوں پر مظالم کے تیر برسائے جائیں۔ا ور ہر قسم کی تکالیف جو وہ پہنچا سکتے ہوں پہنچائیں۔ یہ بھی کتنی زبردست پیشگوئی ہے کہ نہ صرف مظالم کی طرف بلکہ ان مظالم کے انواع کی طرف بھی اشارہ کر دیا گیا ہے۔
تیسرے معنی اس آیت کے یہ ہوں گے کہ تو اس مقام پر عارضی طور پر اترنے والا ہے یعنی اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہم نے لیالی عشر کی پیشگوئی میں مکہ والوں کے جن مظالم کی خبر دی ہے۔ ان کے نتیجہ میں تجھ کو یہاں سے ہجرت کرنی پڑے گی۔ اور پھر اس کے بعد فاتح کی صورت میں تو اس جگہ واپس آ ئے گا۔ مگر یہاں رہے گا نہیں بلکہ عارضی قیام کے بعد واپس چلا جائے گا۔ گویا لیالی عشر اور وَالفجر دونوں کی یہاں تشریح کر دی۔ اور پھر گیارہویں رات کے بعد فجر کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے۔ یہ قرآن کریم کا کیسا کمال ہے کہ اس نے ایک مختصر سے فقرہ میں دو زبردست پیشگوئیاں بیان کر دی ہیں۔ الف: ہجرت کی۔ باء:فتح مکہ کی۔ اور جس طرح اَنْتَ حِلٌّ م کے الفاظ میں لیالی عشر کی تشریح کر دی تھی۔ اسی طرح کے بعد کی فجر کو بھی واضح کر دیا اور بتا دیا۔ کہ ہم ان کے بعد فجر کو بھی واضح کر دیا اور بتا دیا کہ ہم ان مصائب اور مشکلات کے نتیجہ میں تجھ کو مکہ سے لے جائیں گے۔ مگر پھر تجھے کامیاب و کامران حالت میں اس شہر میں واپس لائیں گے۔
چوتھے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ تیرے لئے اس مقام میں حلت کی صورت پیدا کی جانے والی ہے یعنی مکہ کا احترام ایسا تھا جیسا کہ کوئی شخص کسی کام کے نہ کرنے پر قسم کھا لیتا ہے۔ لیکن جس طرح ایک جائز بات اگر حرام ہو جائے تو قسم کا کفارہ دے کر اس کام کو کر لینا جائز ہے۔ اسی طرح چونکہ مکہ والوں نے اپنی شرارتوں سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیا ہے۔ اس لئے ہم تجھے قسم کا کفارہ دینے والے کی طرح اس ممنوع بات کی اجازت دینے والے ہیں اور اس حرام امر کو تیرے لئے حلال کرنے والے ہیں پس تو اللہ تعالیٰ کی اجازت سے مکہ پر حملہ کرے گا گویا یہ بتایا ہے کہ تجھے اور تیرے ساتھیوں کو مکہ میں حلال سمجھنے کے نتیجہ سمجھنے میں اب ان پر بھی حملہ کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اگر یہ ظلم نہ کرتے تو ہم شائد محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو صلحًا اس شہر میں لاتے۔ چونکہ انہوں نے بلد اللہ الحرام کو حلال بنا لیا۔ اس لئے کچھ وقت کے لئے ہم بھی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے اس شہر کو حلال کر دیں گے۔ اور پھر جو ان کو ذلت ورسوائی ہو گی۔ اس کے ذمہ وار یہ لوگ خود ہوں گے۔ گویا صرف یہی نشان نہیں ہو گا کہ تو اس شہر میں کامیاب وکامران واپس آئے گا بلکہ تیرے لئے کچھ وقت تک مکہ کو حلال کر دیا جائے گا۔ اور اہل مکہ کو ان کے مظالم کی وجہ سے شدید رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پانچویں معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ تو اس مقصود ہے ہر ارادہ کا کیونکہ مجازاً ہدف کا لفظ مقصود کے لئے بھی بولا جاتا ہے۔ اور اسعارۃً اس کے ایک معنے مرجع ہونے کے بھی ہیں۔ جیسے رمی کے معنی تیر پھینکنے کے ہیں اسی طرح رمی کا لفظ استعارہ کے طور پر ان اشاروں کے لئے بھی بولتے ہیں۔ جو کسی مامور کے ظہور سے پہلے کئے جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے۔ کہ اس شہر کی تقدیس کے لئے جو حالات ظاہر ہوتے رہے ہیں۔ جیسے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام میں مکہ میں آنا۔ عربوں کا غیر معمولی رجوع۔ مکہ کا شہر بن جانا۔ اس کو فتنوں سے پاک رکھنا۔ اسے دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھنا۔ اسے غیر مذاہب کے اثر سے بچانا۔ یہ سب باتیں اس شہر کے لئے حاصل تھیں۔ کہ تُو اس شہر میں ظاہر ہونے والا تھا۔ مگر مکہ والوں کی عجیب حالت ہے وہ یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ مکہ کو عظمت حاصل ہے مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی کہ جس غرض کے لئے مکہ کو عزت دی گئی ہے وہ کیا ہے اور اس کی وہ مخالفت کر رہے ہیں۔ بے شک مکہ بڑی عظمت کی چیز ہے۔ مگر اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ ہم مکہ کو ہی اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ تُو ہی اس شہر کا مقصود ہے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر آج تک جو انگلی بھی اٹھ رہی تھی وہ تیری طرف ہی اٹھ رہی تھی۔ واقعات کا ہر اشارہ تیری طرف تھا۔ اور ہر نشان تیری طرف ہی بنی نوع انسان کی راہنمائی کر رہا تھا۔ مگر تو جو اس شہر کا مقصود ہے جب ظاہر ہو گیا تو مکہ والے تیرے مخالف ہو گئے۔ حالانکہ تُو ہی وہ شخص تھا جس کے لئے واقعات کا ایک لمبا سلسلہ ہم نے پیدا کیا۔
اب اس آیت کے تفصیلی طور پر یوں معنے ہوں گے کہ ہم مکہ کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جس میں کئی قسم کے دردناک مظالم مسلمانوں پر ہونے والے ہیں یعنی ہم نے جو ـظلم اور منظّم سازشوں کے ذکر کئے ہیں خو د مکہ ہی اس بات کا ثبوت دیدیگا۔ اور باوجود اس کے کہ مکہ والوں کا یہ عقید ہ ہَے۔ کہ حرم میں شکار تک مارنا جازئز نہیں۔ حرم میں کسی انسان کو قتل کرنا جائز نہیں۔ حرم میں دنگا فساد جائزنہیں۔ پھر بھی وہ تجھے اور تیرے مریدوں کو اس مکّہ میں ہر قسم کے ایذائیں دینگے اور انہیں حرم اور اس کی تقدیس کا کچھ بھی خیال نہیں رہے گا۔ یہ واقعہ میں ایک حیرت انگیز چیز تھی۔ جو صحابہؓ کو دیکھنی پڑی صحابہؓ کے لئے کفار کی مارپیٹ اتنی حیرت انگیز نہیں تھی۔ جتنی حیرت انگیز ان کے لئے یہ بات تھی کہ ہمیں مکہ میں مارا جاتا ہے۔ یہ بات انسانی فطرت میں داخل ہے کہ جب اسے غیر متوقع طور پر کسی کی طرف سے کوئی تکلیف پہونچے۔ تو وہ اسے غیر معمولی طور پر محسوس کرتا ہے۔ اور اس تکلیف سے بہت زیادہ اذیت پاتا ہے۔ قصہ مشہو ر ہے کہ منصور کے متعلق بادشاہ نے حکم دے دیا کہ انہیں پھر پتھرائو کیا جائے۔ لوگ انہیں پتھر مارنے لگ گئے۔ مگر منصورباالکل خاموش رہے۔ اور انہوں نے اس سخت تکلیف کے باوجود اف تک نہ کی۔ اسی دوران میں شبلی وہاں سے گزرے جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ منصور کو پتھر ما رہے ہیں۔ تو انہوں نے گلاب کا ایک پُھول اٹھایا۔ اور منصور کو مارا۔ جب گلاب کا پھول ان کے جسم سے لگا تو وُہ چلّا اٹھے لوگوں نے ان سے کہا کہ عجیب بات ہے ہمارے پتھروں سے تو آپ کو کوئی تکلیف نہ ہوئی۔ اور آپ خاموش رہے۔ لیکن شبلی نے گلاب کا ایک پھول مارا تو آپ چلّا اٹھے۔ یہ کیا بات ہے انہوں نے کہا تمہارے پتھر مجھے پھول معلوم ہوتے ہیں لیکن شبلی کا پھول مجھے پتھر معلوم ہؤا۔ یعنی اس سے مجھے امید نہیں تھی۔ کہ وہ مُجھے مارے گا۔ اور گو اس ن ے مجھے پھول ہی مارا مگر چو نکہ غیر متوقع پر اس کی طرف سے ایسا فعل ہؤا اس لئے اس کا پھول مجھے پتھر کی طرح آ کر چبھا۔ اور اس نے مجھے سخت تکلیف پہنچائی۔ اسی طرح مکہ وہ مقام تھا جہاں کے رہنے والوں کا عقیدہ یہ تھا کہ یہاں کسی پر ظلم کرنا سخت گناہ ہے۔ کسی کو مارنا سخت گناہ ہے۔ کسی کو پٹنا سخت گناہ ہے کسی سے لڑائی کرنا جائز نہیں۔ مکہ ایک مقدس مقام ہے اس کی تقدیس اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ یہاں اس قسم کی وحشیانہ حرکات کا قطعًا ارتکاب نہ کیا جائے۔ چنانچہ سالہاسال سے اس عقیدہ پر ان کا عمل تھا۔ مکہ کی عظمت اور اس کی جنت حرمت کو پوری طرح ملحوظ رکھا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ قبائل جو حرم کی حدود سے باہر آپس میں دست و گربیان رہا کرتے تھے۔ جو ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے تھے۔ جو تلواروں سے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹ رہے ہوتے تھے۔ وُہ جب حرم کی حدود میں آتے۔ تو ان کی لڑائیاں ختم ہو جاتیں۔ وہ ایک دوسرے کے دشمن ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے والے شانہ بشانہ اور کندھا بہ کندھا لَبَّیْکَ اَللَّھُمَّ لَبَّیْکَ کہتے ہوئے مکہ کا طواف کرتے۔ اور اس کے گلی کوچوں میں گھومتے ہوئے نظر آتے۔ کسی کی مجال نہیں تھی۔ کہ وُہ حرم میں کسی کو غضب آلودنگاہوں سے دیکھ سکے۔ مگر اس مکّہ میں اس حرم کی حدود میں یہی عقیدہ رکھنے والے ایک دن اسلام اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت میں اس قدر جوش اور غیظ و غضب سے بھر گئے کہ انہوں نے متحدہ طور پر فیصلہ کر لیا۔ کہ مسلمانوں کو قتل کر دو۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دو۔ کہ یہ حرم ہے یا حرم سے باہر کا علاقہ ہے۔ مکہ والوں کا حدود حرم میں مسلمانوں کے متعلق یہ فیصلہ ان کے لئے ایسا ہی حیرت انگیز تھا۔ جیسے منصورکے لئے شبلی پھول حیرت انگیز تھا۔ وہ ان پتھروں کی امید تو کرتے ہی تھے۔ مگر ان کے واہمہ اور گمان میں بھی یہ نہیں آ سکتا تھا کہ شبلی پھول بھی ان پر پھینکنے کی جرأت کرے گا۔ اس لئے جب شبلی نے پھول مارا تو وہ گلاب ایک پھول تھا۔ ان کو پتھروں کی بوچھاڑ سے زیادہ سخت معلوم ہؤا۔ اور اس کی اذیّت نے ان کو پریشان کر دیا۔ اسی طرح طائف وغیرہ میں مسلمانوں کو مارا جاتا۔ یا ان کو مختلف قسم کے دکھوں میں مبتلا کیا جاتا۔ تو مسلمانوں کے لئے یہ بات ہر گز قابل تعجب نہ ہوتی۔ وُہ سمجھتے کہ یہ باتیں تو انبیاء کی جماعتوں کو پیش آیا کرتی ہیں مگر وہ سمجھتے تھے کہ کفار کے عقیدہ کے مطابق مکہ مکرمہ میں ایسی بات نہیں ہو سکتی۔ اس لئے انہیں سخت حیرت ہوئی۔ کہ مکہ میں کفار نے مسلمانوں کو مظالم کا تختۂ مشق بنانا شروع کر دیا۔ حالانکہ مکہ والے ابراہیمؑ کے زمانہ سے مکہ کی تقدیس اور اس کی حرمت کے قائل چلے آتے تھے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کا درمیانی عرصہ چھ سو سال کا ہے۔ اور حضرت عیسٰی اور حضرت موسٰی علیہما السلام کا درمیانی زمانہ ۱۳ سوسال کا ہے۔ یہ ۱۹ سو سال ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت موسٰی علیہ السلام سے بھی چھ سو سال پہلے ہوئے ہیں۔ انیس سو سال یہ اور چھ سوا سال وہ ۲۵ سو سال ہو گئے۔ گویا اڑھائی ہزار سال سے یہ اعتقاد ان کے اندر قائم چلا آ رہا تھا۔ کہ یہاں کسی کو مارنا پیٹنا سخت گناہ ہے۔ کسی کی جان لینا سخت گنا ہ ہے کسی پر ظلم کرنا سخت گناہ ہے۔ اتنے لمبے عرصہ کے عقیدہ کے بعد کس کو یہ امید ہو سکتی تھی کہ یہ قوم ایک دن مسلمانوں پر یکدم ٹوٹ پڑے گی۔ اور ان کی عورتوں اور ان کے بچوں ان کے غلاموں اور اور ان کے آزادوں پر دانت پیستے ہوئے انہیں حدود حرم میں مظالم کا نشانہ بنانا شروع کر دے گی۔ یہ امید کسی شخص کو بھی نہیں تھی۔ مگر م ہؤا یہی کہ مکہ والوں نے اپنے تمام اعتقادات کو پس پشت ڈال دیا۔ اور مسلمانوں کو مکہ میں اپنے مظالم کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
دوسرے معنے اس آیت کے یہ ہیں کہ تُو اس شہر میں ہر تیر کا نشانہ بنے گا۔ یعنی ہر قسم کے مظالم تم پر اور تمہاری جماعت پر توڑے جائیں گے۔ یوں تو دنیا میں کبھی رحم دل بھی جوش میں آکر دوسرے کو سزا دینے پر آمادہ وہ جاتے ہیں۔ اور کبھی جوش پیدا ہونے کی وجہ سے وقتی طور پر انسان کسی وحشیانہ حرکت کا بھی ارتکاب کر لیتا ہے لیکن تعذیب جو مارنے سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ اس کا امکان ایسے لوگوں سے جو ۲۵ سو سال سے ایک خاص قسم کا عقیدہ رکھتے چلے آ رہے ہوں بہت ہی بعید اور دورازقیاس تھی اور کوئی شخص یہ امید نہیں کر سکتا تھا۔ کہ مکہ والوں کی طرف سے ہر قسم کے مظالم کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قبل ازوقت فرما دیا۔ کہ تم مت خیال کرو۔ کہ یہ قوم تم پر ظلم نہیں کرے گی۔ یہ وہ قوم ہے جو ہر قسم کے مظالم کا دروازہ تم پر کھول دے گی۔ اور ہر قسم کے تیروں تمہیں ہدف بنا دے گی۔ جو تیر بھی اٹھے گا اس کا نشانہ مسلمانوں کے سینے ہوں گے۔ اور جو ظلم بھی توڑا جائے گا م مسلمانوں پر توڑا جائے گا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کی صداقت کفار مکہ نے اپنے مظالم کے ذریعہ روزروشن کی طرح ظاہر کر دی۔
دنیا میں ظلم ہوتے ہیں مگر دشمنوں کی طرف سے اگر مذہبی بناء پر کوئی مخالفت ہو تو زیادہ تر علماء مخالف ہوتے ہیں۔ ماں باپ اور ماں بھائی وغیرہ مذہبی اختلاف کے وقت زیادہ مخالف نہیں کرتے۔ بلکہ اگر کسی کا بچہ کسی اور مذہب میں شامل ہو جائے تو ماں باپ کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس کی بھی ایک رائے ہے۔ اور ہماری بھی ایک رائے ہے ہم نہیں جانتے کہ سچ کیا ہے۔ یا زیادہ سے زیادہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے بچے کی یہ غلطی ہے کہ اس نے دوسرا مذہب اختیار کر لیا۔ لیکن غلطیاں دنیا میں کسی سے نہیں ہوتیں۔ گویا عام طور پر مذہبی اختلاف پر مظالم ڈھانے کی بجائے لوگ اپنے بچوں اور اپنے بھائیوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اور ان کی طرف سے کئی قسم کے عذرات اور حیلے بہانے شروع کئے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں فرمایا کہ ہر قسم کے تیر تم پر چلائیں جائیں گے۔ یعنی ماں تمہاری ماں نہیں رہے گی باپ تمہارا باپ نہیں رہے گا۔ اور تمہیں ہر قسم کے مظالم کا نشانہ بنایا جائے گا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں مسلمانوں پر صرف دینی علماء نے ظلم نہیں کئے۔ کاہنوں نے ظلم نہیں کئے۔ بتوں کے پچاریوں نے ظلم نہیں کئے۔ بلکہ ہر ایک نے ظلم کئے ہیں۔ حتیٰ کہ ماں باپ نے بھی ظلم کئے ہیں۔
ایک نوجوان جو ابھی پوری طرح بالغ نہیں ہؤا تھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لے آیا۔ ماں نے غصہ میں آ کر اس کے برتن الگ کر دئیے۔ اور کچھ مدت تک دیکھا۔ کہ اس پر کوئی اثر ہوتا ہے یا نہیں۔ مگر اس پرکوئی اثر نہ ہؤا۔ اسے ماں باپ نے بہتیرا سمجھایا۔ اور جب وہ زبانی سمجھانے سے باز نہ آیا تو اسے مارا پیٹا۔ مگر وہ نوجوان گھر سے نکلا۔ اور چند دن مکہ میں کئی قسم کی تکالیف اٹھانے کے بعد حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلا گیا۔ جب سورۂ نجم والے واقعہ کی خبر حبشہ میں پہنچی یا جیسا کہ میری تحقیق ہے۔ سورۂ نجم والے واقعہ کا منصوبہ بنا کر مکہ والوں نے اس کی خبر حبشہ میں پہنچائی۔ تو کئی مسلمان یہ خبر سن کر حبشہ سے واپس آ گئے۔ انہی میں وہ نوجوان صحابی بھی تھا۔ وُہ اپنے گھر گیا اور اس نے سمجھا کہ شاید اب ان کا غصہ ختم ہو چکا ہو گا۔ اس کے ماں باپ نے بڑے جو ش سے اس کا استقبال کیا۔ اُسے اپنے گلے لگایا اور پیار کیا اور سمجھا کہ اب یہ جو ہمارے گھر آیا ہے۔ تو شاید اسلام سے توبہ کر کے آیا ہے اور اس نوجوان نے خیال کیا کہ میری کئی مہینوں کی جدائی اور مکہ کو چھوڑ کر چلے جانے کا میرے ماں باپ پر یہ اثر ہؤا ہے۔ کہ ان دل نرم ہو گئے ہیں۔ اور ان میں بھی رحم کے جزبات پیدا ہو گئے ہیں۔ مگر ابھی وہ بیٹھا ہی تھا کہ ماں نے اُسے کہا کہ شکر ہے کہ تیری آنکھیں کھلیں۔ اور تجھے معلوم ہؤا ہے کہ تُو نے اس صابی (نعوذ باللہ من ذالک)سے تعلق پیدا کر کے اچھا کام نہیں کیا تھا۔ اب میری یہ نصیحت ہے کہ اُ س صابی (نعوذ باللہ من ذالک) کے پاس کبھی نہ جانا۔ وُہ لڑکا اُسی وقت کھڑا ہو گیا۔ اور اس نے کہا اے میرے ماں تُو میری ماں ہے اور اے میرے باپ تو میرا باپ ہے۔ لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے میں ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں اور اس راہ میں کسی بڑی سے بڑی مشکل کی بھی مَیں پرواہ نہیں کر سکتا اگر محمدرسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق پھر کوئی ایسا لفظ تم نے اپنی زبان سے نکالا تو نہ تم میری ماں ہو اور نہ تم میرے باپ ہو۔ انہوں نے کہا اچھا اگر یہ بات ہے تو پھر تُوبھی ہمارا بیٹا نہیں۔ یہ سُنتے ہی وُہ اپنے گھر سے باہر نکل گیا۔ا ور پھر ساری عمر اس نے اپنے ماں باپ کی صورت نہیں دیکھی۔ اب دیکھو یہ تیر تو چلے پر کہاں سے؟ اس جگہ سے تِیر چلے جہاں سے انسان آخری وقت میں بھی تیر چلنے کی امید نہیں رکھتا۔ اور ان ہاتھوں سے چلے جو عام طور پر تیر چلانے کی بجائے دوسروں کے تیر اپنے ہاتھوں پر لیا کرتے ہیں اور چلنے والے تیروں کے درمیان خود آ کر کھڑے ہو جایا کرتے ہیں۔
یہ تو ماں باپ کے سلوک کا ایک نظارہ تھا۔ اب چچا کے سلوک کا ایک نظارہ دیکھ لو۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ایک چچا ابو لہب تھا۔ اور بھی آپ کے بعض چچا تھے مگر بجائے اس کے کہ وُہ آپ کی مشکلات میں آپ کا ساتھ دیتے وُہ خود دوسروں کو انگیخت کیا کرتے۔ اور ان کورسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف اکساتے رہتے تھے۔ اور تیر تو الگ رہے یہی تیر کیا کم ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دو بیٹیاں رقیہ اور ام کلثوم ؓ آپ کے چچا ابو لہب کے دو بیٹوں سے بیاہی ہوئی تھیں۔ دعویٰ نبوت کے بعد اس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت کی وجہ سے اپنے بیٹوں کا بلایا۔ اور ان سے کہا اگر تم میرے ساتھ رہنا چاہتے ہو تو اپنی بیویوں کو طلاق دے دو۔ انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دونوں بیٹیوں کو طلاق دے دی۔ گویا نازک سے نازک جزبات کو توڑے کے بھی آپ کے رشتہ داروں نے پرواہ نہ کی۔ وہ بھی ایک چچا ہی تھا۔ جس نے آپ کو پالا۔ اور آپ کی پرورش کی۔ اور وُہ بھی ایک چچا تھا جس نے آپ کا مقابلہ کیا اور آپ کو شدید سے شدید دکھ دیا۔ یہاں تک کہ آپ کو دو لڑکیوں کو بلاوجہ طلاق دلا دی۔ پھر دوست ہوتے ہیں اور ان میں بڑی گہری دوستی ہوتی ہے۔ مگر جس نے اسلام قبول کر لیا۔ اس کے تمام دوست اس سے بچھڑ گئے۔ عرب لوگ دوستیوں کو بہت بنانے والے تھے۔ اور وُہ ضرورت پر ایک دوسرے کے لئے جانیں بھی قربان کر دیا کرتے تھے۔ مگر محمد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف اتنا بغض مکہ والوں کے دلوں میں پیدا ہو گیا تھا کہ انہوں نے اپنی تمام دوستیوں کو قطع کر کے رکھ دیا اور بڑے بڑے گہرے دوست ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے۔ عثمان بن مظعون مکہ کے ایک رئیس کے لڑکے تھے۔ اسلام لانے پر طرح طرح کے مظالم ان پر ہوئے۔ آخر ہجرت کے ارادہ سے گھر سے نکلے۔ راستہ میں ا ن کے والد کا ایک گہرا دوست ملا۔ اس نے پوچھا کہاں جا رہے ہو۔ عثمان نے کہا مکہ والوں کے ظلم سے تنگ آ کر ہجرت کر رہا ہوں اس رئیس کی آنکھوں میں یہ سن کر آنسو آ گئے۔ عثمان کو گلے لگا لیا اور کہا کہ میرے دوست کا بیٹا مکہ چھوڑے۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ تو آج سے میری پناہ میں ہے۔ چنانچہ واپس آ کر خانۂ کعبہ میں اپنی حفاظت کا اعلان کر دیا۔ مکہ والے ایک دوسرے کی پناہ کا بڑا لحاظ کرتے تھے لوگوں نے اس رئیس کی وجہ سے عثمان کو دکھ دینا چھوڑ دیا۔ اس سال حج کے موقعہ پر تمام عرب کے لوگ منیٰ میں جمع ہوئے۔ لبید شاعر اپنے شعر سنا رہے تھے۔ کہ انہوں نے ایک شعر پڑھا۔
اَلَاَکُلُّ شَئٍی مَاخَلَا اللّٰہِ بَاطِلٌ
عثمان نے یہ سُن کر صَدَقْتَ کے لفظ کہے یعنی تع نے سچ کہا ہے۔ لبید جو اس وقت عرب کے سب سے بڑے شاعر سمجھے جاتے تھے۔ ایک نوجوان سے اپنے کلام کی تصدیق سن کر آگ بگولہ ہو گئے۔ اور کہا کہ کیا لبید کو ایک بچہ سے اپنے شعر کی تصدیق کروانے کی ضرورت ہے۔ مکہ والو تمہارے اخلاق کو کیا ہو گیا۔ اس پر لوگ غصہ سے عثمان کی طرف لپکے۔ اور انہیں بولنے سے سختی سے منع کیا۔ اس کے بعد لبید نے دوسرا مصرعہ پڑھا
وَکُلُّ نَعِیْمٍ لَا مَحَالَۃَ زَائِلٌ
یعنی ہر نعمت ضرور زائل ہو جائے گی۔ عثمان نے کہا کَذَبْتَ نَعِیْمُ الْجَنَّۃِ لَا یَزُوْلُ یعنی تو غلط کہتا ہے۔ جنت کی نعمتیں ضائع نہ ہوں گی۔ اس پر تو لبید سخت غصہ میں آ گئے۔ اور کہا کہ اب مَیں شعر نہیں پڑھتا۔ اس پر نوجوان عثمان کی طرف لپکے۔ ایک شخص نے شدت غیظ سے ایک گھونسا تان کر عثمان کی آنکھ میں مارا۔ کہ ڈھیلے کا پانی بہہ گیا۔ اور آپ کانے ہو گئے۔ وُہ رئیس جس نے پناہ دی تھی اٹھا اور کہا کہ بیوقوف تو نے کیا کیا کہ اپنی آنکھ ضائع کروا لی۔ عثمان نے کہا کہ تُو اپنی پناہ گھر رکھ۔ تو کہتا ہے کہ مَیں نے ایک آنکھ ضائع کر دی۔ میری دوسری آنکھ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں جانے کو بیتاب ہے۔ اب دیکھو کس طرح مکہ میں دوستیاں دھری کی دھری رہ گئیں۔ اور اسلام کے جرم میں کوئی دوست بھی کسی مسلمان کے کام نہ آیا۔ بلکہ وہ سارے رشتہ دار اور دوست اور قریبی تعلقات رکھنے والے جرم سے انسان کو ہمیشہ مہرو وفا کی امید ہوتی ے جن سے محبت اور پیار کی امید ہوتی ہے۔ جن سے دکھ اور مصیبت کی گھڑیوں میں جن سلوک کو ہمدردی کی امید ہوتی ہے۔ انہی لوگوں نے اپنے ہاتھوں سے اسلام کی مخالفت میں اپنے عزیزوں پر تیر چلائے۔ یہاں تک کہ بعض جگہ خاوندوں نے اپنی بیویوں کو چھوڑ دیا۔ اور بیویاں اپنے خاوندوں سے الگ ہو گئیں۔ ماں باپ نے اپنے بچوں سے قطع تعلق کر لیا۔ اور بچوں نے اپنے ماں باپ کو چھوڑ دیا۔ پھر یہ نہیں کہ صرف ایک رنگ کا عذاب ان کو دیا گیا ہو۔ بلکہ ہر نوعیت اور ہر قسم کے مظالم ان پر توڑے گئے۔ پتھروں پر ان کو گھسیٹا گیا۔ جلتی ہوئی ریت پر ان کو لٹایا گیا۔ مکہ کی گلیوں جہاں بڑے بڑے کھردرے اور نوک دار پتھر ہوتے تھے۔ ان کی ٹانگوں میں رسیاں باندھ کر اس طرح گھسیٹا جاتا جیسے کسی مردہ جانور کو مارا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کا تمام جسم لہولہان ہو جاتا۔ پھر بسا اوقات ان کو زد وکوب کیاجاتا۔ ان کے سینہ پر بڑے بڑے وزنی پتھر رکھ کر انہیں مجبور کیا جاتا۔ کہ وُہ توحید سے منحرف ہو جائیں۔ کئی لوگ ایسے تھے جن کو نیزے مار مار کر ہلاک کیا گیا۔ یہاں تک کہ بعض مسلمان عورتوں کی شرمگاہوںمیں انہوں نے نیزے مار کر ان کو ہلاک کیا۔ ان کے پائوں میں بیڑیاں ڈالی گئیں انہیں گندی سے گندہ اور غلیظ سے غلیظ گالیاں دی گئیں۔ ان کو مکہ سے نکالا گیا۔ اور ان کو ہلاک کرنے کے لئے نہایت ظالمانہ اور گندے طریقوں کو اخیتار کیا گیا۔ بعض دفعہ مسلمان مردوں کی ایک ٹانگ ایک اونٹ سے اور دوسری ٹانگ دوسرے اونٹ سے باندھ دیتے۔ اور پھر ان اونٹوں کو مخالف اطراف میں دوڑا دیتے۔ اور اس طرح ان کو ہلاک کر کے اپنے دلوں کو خوش کرتے۔ غرض کوئی نوعیت ظلم کی ایسی نہیں تھی جس سے مکہ والوں نے کام نہ لیا ہو۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَنْتَ حِلٌّ بِھَذَا الْبَلَدِ کہ اے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو اس مکہ میں ہر قسم ے تیروں کا ہدف بنے گا۔ ہر ہاتھ خواہ وہ باپ کا ہو یا ماں کا ہو یا چچا کا ہو یا کسی اور عزیز رشتہ دار کا ہو۔ تیرے مقابلہ میں اٹھنے والا ہے۔ اور ہر قسم کا تیر ان کی طرف سے چلنے والا ہے۔
پھریہ بھی کتنی عظیم الشان پیشگوئی ہے۔ اور کتنی لطیف تفیسر ایک مختصر سے فقرہ میں لیالی عشر کی فرما دی۔ کہ ایک دن آنے والا ہے جبکہ تو اس مقام پر اترے گا جو اسی وقت ممکن ہو سکتا تھا۔ کہ آپ پہلے مکہ چھوڑ کر جائیں۔ پس اترے گا کا مختصر لفظ استعمال کر کے ہجرت کی طرف بھی اشارہ کر دیا۔ اور بتایا کہ ظلموں کے بعد تجھے اس شہر سے ہجرت کرنی پڑے گی اس زمانہ کے لحاظ سے یہ بھی کتنی عجیب اور حیرت انگیز بات تھی۔ مکہ کے لوگوں کی معاش کا ذریعہ صرف باہر سے آنے والے لوگوں کی آمد پر تھا۔ اور وُہ محض مجاوروں کا ایک شہر تھا۔ ان کا کام یہ تھا کہ وُہ لوگوں کو اپنی طرف بلائیں۔ ان کا یہ کام نہیں تھا کہ وہ مکہ سے لوگوں کو نکالیں۔ اس زمانہ میں کون کہہ سکتا تھا کہ یہ مجاور ایک دن رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ سے نکال دیں گے۔ یقینا جہاں تک انسانی قیاسات کا سوال ہے کسی شخص کے وہم اور گمان میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی تھی۔ کہ مکہ والے جو مجاوروں کی حیثیت رکھتے ہیں اور جن کی زندگی کا تعلق ہی اس بات سے ہے کہ باہر سے لوگ مکہ میں آتے رہیں۔ وُہ ایک دن اسلام کی مخالفت میں اس قدر اندھے ہو جائیں گے۔ کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو اس امر پر مجبور کر دیں گے۔ کہ وہ مکہ کو چھوڑ دیں۔ اور کسی اور شہر میں چلے جائیں۔ مگر اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت بتا دیا کہ آج یہ حالات تمہیں ناممکن دکھائی دیتے ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ مکہ والے ایسا کہاں کر سکتے ہیں۔ مگر یقینا سمجھو کہ وہ دن آنے والا ہے جب تمہیں مکہ کو چھوڑنا پڑے گا۔ مگر مکہ صرف اسی قدر نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی ہم تمہیں یہ خبر بھی دیتے ہیں کہ اس کے بعد ایک دن وُہ بھی آئے گا جب پھر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس شہر میں آئیں گے اور اس مکہ کو جس میں وہ صرف اپنے ایک ساتھی کے ساتھ نکلے تھے دس ہزار صحابہ سمیت فتح کر لیں گے چنانچہ فرمایا وَاَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ کہ اے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو اس شہر میں اترنے والا ہے۔ یہ لازمی بات ہے کہ آپ اس شہر میں اس صورت میں آسکتے تھے جب آپ کو پہلے اس شہر سے نکالا جاتا۔ گویا ایک ہی فقرہ میں ہجرت کی بھی خبر دے دی۔ اور فتح مکہ کی بھی خبر دے دی۔ اس طلوع فجر کی بھی پیشگوئی کر دی۔ جو لیالی عشر کے بعد ظاہر ہونے والی تھی۔ اور اس دوسری فجر کی بھی پیشگوئی کر دی۔ جو گیارھویں رات کے بعد ظاہر ہونے والی تھی۔ اور جس کا آغاز بدر سے ہؤا۔ اور جس کا اتمام فتح مکّہ پر ہؤا۔
پھر یہ بتایا گیا ہے کہ ان کے ظلموں کا نتیجہ ان کے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔ کیونکہ اگر یہ ظلم نہ کرتے۔ تو شائد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہم صلح کے ساتھ اس شہر میں لاتے۔ مگر چونکہ انہوں نے ظلم کیا ہے اور بلد اللہ الحرام کو حلال کیا ہے اس لئے کچھ وقت کے لئے ہم محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تلوار کے زور سے اس شہر میں داخل ہونے کی اجازت دیں گے۔ اور پھر جو ان کی ذلت و رسوائی ہو گی اس کے وہ خود ذمہ وار ہوں گے۔
پھر یہ بتایا کہ تُو اس شہر میںکا مقصود ہے۔ یعنی پیشگوئیاں شروع دن سے جب سے کہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل علیہماالسلام نے خانۂ کعبہ کی بنیاد ڈالی تیری طرف اشارہ کر رہی تھیں۔ اور اسی وقت سے یہ خبر دے دی گئی تھی کہ ایک عظیم الشان نبی آنیو الا ہے جس کا کام یہ ہو گا کہ وُہ تلاوت آیات کرے گا۔ا ور تزکیۂ نفوس کرے گا۔ اور کتاب اور حکمت سکھائے گا جیسا کہ حضرت ابراہیمؑ کی خانہ کعبہ کی بنیاد اونچی کرنے کے وقت کی دعا سے معلوم ہوتا ہے۔ جو سورۂ بقرہ ع ۵ ۱ ۵ ۱ میں ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ وَابْعَثْ فِیْھُمْ رَسُوْلًا مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ یعنی اے خدا مکہ کے رہنے والوں میں رسول مبعوث فرما۔ جو تیری آیات ان لوگوں پر پڑھے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے۔ اور انہیں پاک کرے۔ پس آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے ہی یہ پیشگوئی تھی۔ اور آپ ہی اس شہر کے مقصود تھے۔ اس لئے فرمایا کہ جب اس شہر کی بنیاد محض تیرے لئے رکھی گئی تھی۔ تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وُہ مقصود پُورا نہ ہو جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس کارخانۂ عالم کو قائم کیا تھا۔ اس مقصد کو پُورا ہونا تو نہایت ضُروری ہے۔ چنانچہ شروع سے ہی جب یہ بنیاد ابھی ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کا مکہ میں آنا۔ عربوں کا رجوع۔ اِس شہر کا فتنوں سے پاک رکھنا اور غیر مذاہب کے اثرات سے اس کا محفوظ رہنا یہ ساری باتیں آخر کس لئے تھیں۔ اِسی لئے تو تھیںَ کہ تُو اس شہر کا مقصود تھا۔ اور اللہ تعالیٰ چاہتا تھا کہ دُنیا میں تیری بعثت ہو۔ مکہ ایک بے آب وگیاہ وادی میں تھا۔ کوئی مہذب قوم اس کے اردگرد نہیں رہتی تھی۔ بلکہ وُہ ظالم اور ڈاکو جو کسی قانون کے ماتحت نہیں تھے اس کے چاروں طرف بستے تھے۔ ان کا دن رات کام یہی تھا کہ وُہ آپس میں لڑتے رہیں۔ اور کشت وخون کا بازار گرم رکھیں۔ مگر ایسے ظالم اور ڈاکو بھی جب لڑتے ہوئے مکہ کے سامنے آتے تو ان کی تلواریں جھک جاتیں اور وُہ کہتے کہ یہ وہ مقام ہے جہاں لڑائی جائز نہیں۔ پھر عرب لوگ وُہ تھے جو اپنا گزارہ نہائت تنگی سے کرتے۔ انہیں کھانے پینے کے سامانوں کے لحاظ سے کسی قسم کی آسائش اور سہولت میسر نہیں تھی۔ مگر جب ذی الحجہ کے دن آتے۔ تو وہ اپنے اُونٹوں پر کجاوے کسّے اور بے آب و گیاہ میدانوں اور بیابانوں میں اپنے اونٹوں کو ایڑیاں مارتے ہوئے مکہ میں آتے۔ اور حج بیت اللہ کے فرض کو سرانجام دیتے۔ پھر مکہ وہ شہر تھا جسے خدا نے ہر قسم کی آفات سے بچایا۔ اور جب بھی کوئی دشمن اس پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو ناکام کیا۔ ابرہہ آیا۔ اور وُہ اس ارادہ سے آیا کہ وہ اس شہر میں کو تباہ کر دے گا۔ وُہ خانۂ کعبہ کو گرا دے گا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ابرہہ کے تمام ارادوں اور اس کی تدابیر کو خاک میں ملا دیا۔ اور آسمانی عذاب کا اسے نشانہ بنایا۔ یہ خدا تعالیٰ کا کیسا زبردست نشان ہے۔ جو اس نے مکہ کی حفاظت کے سلسلہ میں دکھایا۔ اور دُنیا پر ثابت کر دیا کہ بیت اللہ کا مَیں محافظ ہوں کہ کوئی اور محافظ نہیں ہے۔ ابرہہ یمن کا گورنر تھا۔ا ور حبشہ کے بادشاہ کی طرف سے مقرر تھا۔ عرب میں اگر کوئی آباد اور اچھا علاقہ ہے تو وُہ یمن کا ہی ہے۔ بڑا زرخیز علاقہ ہے۔ زراعت بھی اچھی ہوتی ہے۔ اور پھل بھی وہاں کثرت سے ہوتے ہیں۔ ایسے آباد علاقہ اور سب سے طاقتور علاقہ کا گورنر جو بہت بڑی فوجوں کا مالک تھا دس ہزار لشکر کے ساتھ آیا اور اِس ارادہ اور نیت سے آیا۔ کہ مَیں مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا۔ مگر خدا تعالیٰ نے اس لشکر میں چیچک کی وبا پیدا کر دی۔ اور حبشی جو اس کی فوج میں شامل تھے۔ وہ ایک ایک کر کے ہلاک ہونے لگ گئے۔ حبشی لوگوں میں چیچک کا مرض نہائت مہلک ہؤا کرتا ہے۔ اگر کسی حبشی کو یہ مرض ہو جائے تو اس کی موت یقینی ہوتی ہے۔ دنیا میں مختلف امراج مختلف قوموں سے تعلق رکھتی ہیں۔ چیچک کا مرض حبشیوں کے لئے نہایت خطرناک ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک شخص اچھا بھلا ہوتا ہے ہل ہاتھ میں لئے اپنی زمین کی طرف جا رہا ہوتا ہے کہ راستہ میں اسے کوئی دوست ملتا ہے۔ اور اس سے پوچھتا ہے۔ سنائو کیسا حال ہے۔ وہ کہتا ہے اچھا ہے۔ صرف کچھ پیچش لگ گئی ہے۔ لیکن انگریز کو ذرا بھی پیچش ہو فوراً اس کا دل ڈر جاتا ہے۔ اور وہ خیال کر لیتا ہے کہ اب میری موت قریب آ پہونچی ہے۔ غرض مختلف امراض کا صرف افراد سے ہی نہیں بلکہ مختلف قوموں سے بھی تعلق ہوتا ہے۔ اور جب کسی قوم میں اس کا مخصوص مرض پیدا ہو جائے۔ تو وُہ قوم تباہ ہونی شروع وہ جاتی ہے۔ حبشیوں کے لئے چیچک بڑا جان لیوا مرض ہے۔ وُہ اس کا نام بھی سُن لیں تو اُن کے اوسان خطا ہو جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے۔ کہ ابرہہ کے لشکر میں چیچک کا مرض پیدا ہو گیا۔ اور سب میں ایک کھلبلی پیدا ہو گئی۔ یوں مکہ کو فتح کرنا ان کے لئے کوئی مشکل نہیں تھا۔ وُہ سازوسامان اور اسلحہ سے آراستہ تھے۔ اور مکہ والے بالکل نہتّے تھے۔ وُہ ایک باقاعدہ فوج کا مقابلہ کس طرح کر سکتے تھے۔ مگر خدا تعالیٰ نے ان میں وُہ مرض پیدا کر دیا۔ جس کے نام سے ہی حبشیوں کی جان نکل جاتی ہے۔ چنانچہ اِدھر مرض پیدا ہؤا۔ اور ادھر انہوں نے ہتھیار رکھ دئے۔ کہ اب ہمارا خاتمہ قریب ہے۔ چنانچہ اس کے بعد ان میں موتیں شروع ہو گئیں۔ اور سارے لشکر میں بھاگڑ مچ گئی۔ یہ قدرتی بات ہے کہ جب ایک شخص بھاگتا ہے۔ تو دوسرے کے دل میں کبھی بھی کمزوری پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ جب لشکر کا ایک حصہ سراسیمہ اور پریشان ہو کر بھاگا۔ تو دوسرے حصّہ کے اوسان بھی خطا ہو گئے۔ اور اس نے بھی بھاگنا شروع کیا۔ نتیجہ یہ ہؤا کہ یمن میں پہونچے سے پہلے پہلے اس کے لشکر کا بہت بڑا حصّہ برباد ہو گیا۔ اور جس مقصد کے لئے وہ مکہ پر حملہ آور ہؤا تھا۔ خدا تعالیٰ نے اس میں اسے غائب وخاسر اور ناکام مراد رکھا۔
اللہ تعالیٰ ان تمام واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ کہ لوگوں کو سوچنا چاہئیے کہ آخر ہم یہ باتیں کیوں رہے تھے۔ جو ابراہیمؑ نے کی۔ کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھُمْ رَسُوْلًا مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیْمُ (البقرہ ع ۵ ۱ ۵ ۱) اب یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ جو اس شہر کا اصل مقصود تھا جس کے لئے اڑھائی ہزار سال سے مکہ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ جب وہ ظاہر ہو جائے تو خدا اس کی طرف توجہ نہ کرے۔ پس فرماتا ہے لَآ اُقْسِمُ بِھَذَا الْبَلَدِ وَاَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلَدِ ہم شہادت کے طور پر اس شہر کو پیش کرتے ہیں۔ اس حالت ہونے کی صورت میں مکہ کی جو قیمت ہے۔ وُہ تیرے غیر مقصود ہونے کی صورت میں ہر گز نہیں۔ مکہ کی عظمت اور اس کا جلال محض تیری وجہ سے ہے۔ اب اس آیت کے معنے یوں ہوں گے کہ
(۱)ہم مکہ کو شہادت کے طور پیش کرتے ہیں جس میں مسلمانوں پر کئی قسم کے مظالم ہونے والے ہیں۔ یعنی ہم نے گزشتہ سورتوں میں مخالفین اسلام کی جن منظّم سازشوں کا ذکر کیا ہے۔ یہ مکہ خود ان سازشوں کا ثبوت بہم پہنچا دے گا۔ یہ نہیں کہ کہا جا سکتا۔ کہ مخالفت تو قیاسی امر ہے۔ جو مدعی بھی کھڑا ہوتا ہے۔ لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ تو نہیں ہوتا کہ اس کی باتوں کو سنتے ہی لوگ فوراً ایمان لے آئیں۔ اور کسی قسم کی مخالفت نہ کریں جب بھی کوئی ایسا مدعی کھڑا ہوتا ہے جو دوسروں کے عقائد ۔۔۔۔۔۔کے خلاف کوئی بات پیش کرتا ہے۔ لوگ اس کی مخالفت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس لئے یہ کہنا کہ میری مخالفت ہو گی۔ اور مسلمانوں کو تکالیف پہنچائی جائینگی۔ یہ پیشگوئی کس طرح بن گیا یہ تو ایک قیاسی امر تھا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قیاس کر لیا ہو گا۔ کہ چونکہ مکہ والوں کے سامنے مَیں نے ایک نئی بات پیش کی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ مکہ والے مخالفت بھی کریں۔ اس کو پیشگوئی کس لحاظ سے قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو ہر مدعی کو مخالفت نصیب نہیں ہوتی۔ دنیا کے متعلق انسانی ارادے بے شک مخالفت پیدا کر دیتے ہیں۔ مگر الہام کے نازل ہونے کا دعویٰ کرنا یہ کوئی ایسی چیز نہیں جو ضرور مخالفت پیدا کرے۔ مثلاً اگر کوئی شخص اِس ارادہ سے کھڑا ہو جائے کہ وُہ دُوسرے کے گھر پر قبضہ کر لے گا تو دوسرا شخص اس سے ضرور لڑے گا۔ لیکن اگر وُہ یہ کہے گا کہ مجھے الہام ہوتا ہے تو دوسرے کو غصّہ نہیں آئے گا۔ وہ زیادہ سے زیادہ سمجھے گا کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ جو ایسی باتیں کہتا ہے تو یہ بات بالکل غلط ہے کہ جو بھی مدعی الہام دُنیا میں کھڑا ہو ضرور اس کی مخالف ہوتی ہے۔ مجھے ایک دفعہ ظہیر الدین ارورپی نے جو مصلح موعود ہونے کا مدعی تھا بڑے جوش سے لکھا کہ مَیں اتنے عرصہ سے آپ کے خلاف اشتہار اور ٹریکٹ وغیرہ شائع کر رہا ہوں مگر آپ ان میں سے کسی کا جواب ہی نہیں دیتے۔ مَیں یہ نہیں کہتا کہ آپ مجھے مان لیں۔ مگر یہ کیا بات ہے کہ آپ بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور مخالفت بھی نہیں کرتے۔ اگر آپ اور کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم مخالفت ہی کریں خاموش کیوں بیٹھے ہیں۔ مَیں نے اسے جواب میں لکھا کہ مخالفت بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نصیب ہوتی ہے اور یہ بھی سچائی کی ایک علامت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا کہ تمہارے اندر یہ علامت بھی پائی جائے۔ اس لئے خواہ تم کتنی ہی خواہش رکھو کہ لوگ تمہاری مخالفت کریں تمہیں یہ مخالفت نصیب نہیں ہو سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ خیال بالکل غلط ہے کہ جو مدعی بھی کھڑا ہو لوگ اس کے مخالف ہو جاتے ہیں۔ مخالفت بھی آسانی سے حاصل نہیں ہوتی۔ بلکہ یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے چنانچہ دیکھ لو احمدیت کی مخالفت ہر ملک میں ہوئی لیکن بہائیت کی مخالفت اس طرح نہیں ہوئی۔ صرف باہیوں کی مخالفت ایران میں ان کی سیاسی چالوں کی وجہ سے ہوئی۔ حالانکہ وہ لوگ قرآن کو منسوخ قرار دیتے ہیں اور بہاء اللہ کی شریعت اس کی بجائے لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مُسلمان یہ سب باتیں دیکھتے اور جانتے ہیں۔ مگر اس کے باوجود وہ بہائیوں کی کوئی مخالفت نہیں کرتے۔ بلکہ ان کو اپنے گلے لگاتے ہیں۔ لیکن جہاں تک احمدیت کا ذکر آ جائے وہاں فوراً مخالفت کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ پس اول تو یہ بات ہی غلط ہے کہ مخالفت ایک قیاسی امر تھا۔ اور ضروری تھا کہ لوگ آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اور آپ کے ساتھیوں کو تکالیف میں مبتلا کرتے۔ دُوسرے سوال یہ ہے کہ اگر یہ قیاس ہی تھا تو نبوت کے دعویٰ کے تین سال کے بعد کیوں پیدا ہؤا۔ شروع شروع میں ہی یہ قیاس کیوں نہ کر لیا گیا کہ مکہ والوں کی طرف سے اسلام کی شدید مخالفت ہو گی۔
پھر ایک اور بات یہ ہے کہ ایک مخالفت وہ ہوتی ہے جو انسان خود کرواتا ہے۔ مثلاً کسی شخص نے ارادہ کیا کہ وہ دُوسرے کی بھینس چوری کرے۔ یا اس نے ارادہ کیا کہ وُہ دوسرے کے گھر پر قبضہ کر لے۔ اب وہ اپنے ارادہ کا علم رکھتے ہوئے دوسرے کو قبل از وقت خبر دے دے۔ کہ فلاں شخص فلاں دن مجھ سے لڑے گا۔ تو یہ ہر گز پیشگوئی نہیں ہو گی۔ کیونکہ یہ فساد اس کے نفس کی طرف سے ہے۔ اور وُہ اپنے ارادوں کو جانتے ہوئے کہہ سکتا ہے کہ فلاں فلاں شخص میرے ساتھ لڑائی کریں گے۔ لیکن اگر اس کی طرف سے صلح کے سامان ہو رہے ہوں محبت اور پیار کی تعلیم دی جا رہی ہو تو ایسی حالت میں کسی مخالفت کے متعلق قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ پس مخالفت خود اکسا کر لانا اور شے ہے۔ اور امن پسند ہونے کے باوجود لوگوں کا مخالفت کرنا اور امر ہے۔ کسی کے گھر پر تم قبضہ کر لو۔ تو وُہ ضرور لڑے گا۔ اور اس قسم کے فساد کی تم اپنے ارادہ کو جانتے ہوئے قبل از وقت خبر بھی دے سکتا ہو۔ مگر تم اپنے گھر میں بیٹھے ہو۔ اور کوئی دوسراشخص آ کر قبضہ کر لے۔ تو تم کو اس کا کیا علم ہو سکتا ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے دشمنوں کا مقابلہ ایسا ہی تھا۔ آپ صلح و آشتی کا پیغام دیتے تھے اور مخالفین مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے تھے۔
آخروہ کون سی چیز تھی۔ جو آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعویٰ کے تین سال بعد مُسلمانوں میں زائد طور پر ہو گئی تھی۔ اور جس کی بناء پر انہوں نے مخالفت کرنا ضروری سمجھا۔ نمازیں وہ پہلے ہی پڑھا کرتے تھے نیکی اور تقویٰ کی وہ پہلے بھی ترغیب دیا کرتے تھے۔ وہ پہلے بھی یہی کیا کرتے تھے کہ خدا ایک ہے اور وہی انسان کا مددگار ہے۔ اس پر بنی نوع انسان کو توکل رکھنا چاہئیے۔ اور اسی سے اپنی حاجات مانگنی چاہئیں۔ وہ پہلے بھی یہی کہا کرتے تھے کہ کفر بُری چیز ہے اور اسلام سچا مذہب ہے۔ پس کون سی وُہ زائد بات تھی جس پر مکہ والوں کو جوش آ سکتا تھا یا انہیں جوش میں آنا چاہئیے تھا۔ یقینا جہاں تک اعتقادات کا سوال ہے مسلمانوں میں کوئی زائد چیز ایسی پیدا نہیں ہوئی جس پر ان کو تین سال کے بعد غصّہ پیدا ہؤا۔ اور انہوں نے مسلمانوں کو مبتلائے آلام کرنا شروع کر دیا۔ پس تین سال کے بعد اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں کی مخالفت کی خبر دینا اس لئے نہیں تھا کہ مسلمانوں کے مذہب یا ان کے اعتقادات کا کفار مکہ کو پہلے علم نہیں تھا۔ بلکہ اس لئے تھا کہ اب یہ مسلمانوں کو ایسی ترقی حاصل ہو رہی تھی۔ کہ کفار یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ اب ہمارے لئے یہ ایک مستقل خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور اس کا ازالہ ضروری ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو ایسی طاقت دے دینا جس سے کفار کو اپنے لئے حقیقی خطرہ نظر آنے لگ گیا۔ یہ کس کا کام تھا۔ اس کا جواب سوائے اس کے کچھ نہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا کام تھا کسی انسان کا کام نہیں تھا۔ بلکہ ایک آسمانی خبر تھی۔ جو علم غیب پر مشتمل تھی۔ اور جس کی صداقت کی انہوں نے اپنے اعمال سے تصدیق کر دی۔
دوسرے معنوں کے رُو سے شہادت یہ ہو گی۔ کہ تُو اس میں ہر تیر کا نشانہ بنے گا۔ اب یہ ایک مبالغہ امیز امر نہیں۔ بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہر قسم کے ظلم ہوئے (۱)آپ کو عبادت سے روکا گیا (۲)مارا پیٹا گیا (۳)گالیاں دی گئیں (۴)تعلقات باہمی سے روکا گیا (۵)تبلیغ سے روکا گیا (۷)صحابہؓ کو پتھروں پر گھسیٹا گیا (۸)ہجرت سے روکا گیا۔ لوگ مارتے ہیں تو کہتے ہیں نکل جائو۔ مگر یہاں مارتے بھی تھے اور نکلنے بھی نہیں دیتے تھے۔ چنانچہ بعض صحابہ ان مظالم سے تنگ آ کر چوری چھپے حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے۔ تو مکہ کے بعض بڑے بڑے رؤسا نجاشی کے پاس پہنچے اور اسے کہا کہ یہ ہمارے غلام ہیں جو ہمارے ملک سے بھاگ کر یہاں آ گئے ہیں۔ ان کو واپس کیا جائے گویا ان کی سکیم یہی تھی۔ کہ ہم مسلمانوں کو نہ مکہ میں آرام سے رہنے دیں گے اور نہ ان کو باہر جانے دیں گے۔ (۹)عورتوں کو شرمناک طریقوں سے مارا گیا (۱۰)جھوٹے الزامات لگائے گئے کبھی پاگل کہا گیا کبھی خود غرض کہا گیا۔ کبھی جھوٹا کہا گیا۔ کبھی عزت کا متلاشی کہا گیا۔ غرض کوئی تیر نہ تھا جو مکہ والوں نے آپ پر نہ چلایا ہو۔
تیسرے معنے یہ تھے کہ تو اس شہر میں سے جا کر پھر اترنے والا ہے۔ یعنی یہ شہر دو زبردست ثبوت اسلام کی صداقت کے پیش کرے گا۔ اوّل محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہجرت کا۔ اور پھر آپ کے واپس آنے کا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ محال تھے۔ مکہ والے اس سورۃ کے نزول کے وقت میں یا آپ کو ناقابل التفات سمجھتے تھے۔ یا آپ کو ایک قابل احترام وجود سمجھتے تھے۔ دونوں حالتوں میں آپ کے اخراج کا کوئی خیال بھی نہ کر سکتا تھا۔ خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا نکالا جانا اس قدر ناممکن نظر آتا تھا کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پہلا الہام ہؤا۔ اور آپ گھبراہٹ اور اضطراب کی حالت میں گھر تشریف لائے تو آپ نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اس واقعہ کا ذکر کیا۔ وہ آ پ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو ان کے چچا زاد بھائی اور بائیبل کے بہت بڑے عالم تھے اور ان سے ان الہامات کا زکر کیا۔ ورقہ بن نوفل نے خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی حالات دریافت کئے۔ اور آپ نے وہ تمام واقعہ تفصیل کے ساتھ سنایا۔ جو غارِ حرا میں آپ کے ساتھ گزرا تھا۔ ورقہ بن نوفل آپ کی گفتگو سننے کے بعد کہنے لگے۔ اس پر تو وہی فرشتہ نازل ہؤا ہے جو موسٰی پر نازل ہؤا تھا۔
یہاں ضمنی طور پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ ورقہ بن نوفل عیسائی تھے اور صحف مقدسہ کا اکثر مطالعہ رکھا کرتے تھے۔ اگر وُہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بھی ویسی ہی شریعت کا بانی سمجھتے جس قسم کی شریعت کے بانی حضرت موسٰی علیہ السلام تھے تو وُہ قطعًا یہ کہتے کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسٰی علیہ السلام پر نازل ہؤا تھا۔ بلکہ وُہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کا نام لیتے۔ اور کہتے کہ تم پر کوئی فرشتہ نازل ہی نہیں ہو سکتا۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام آ چکے۔ اور وہی دنیا کے آخری نجات دہندہ تھے۔ اب ان کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا مگر وُہ سنتے ہیں تو یہ کہتے ہیں۔ وھَذَا النَّامُوْسَ الَّذِیْ اُنْزِلَ عَلٰی مُوْسٰی یعنی یہ تو وہی فرشتہ ہے جو موسٰی نبی پر وحیٔ آسمان لایا تھا۔ پھر انہوں نے کہا لَوْ کُنْتَ جَذَعاً اِذْیُخْرِجُکَ قَوْمُکَ کاش میں اس وقت قوی اور طاقتور ہوتا جب تیری قوم تجھ کو مکہ سے نکال دے گی۔ اگر مجھ میں طاقت اور ہمت رہی۔ اور اگر میں اس وقت زندہؤا تو اَنْصُرُکَ نَصْراً مُؤذَّراً میں اپنی پوری ہمت اور اپنی پُوری طاقت کے ساتھ تیری مدد کروں گا۔ ورقہ بن نوفل کی یہ بات رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لئے اتنی عجیب تھی کہ آپ اس کو سن کر حیران رہ گئے۔ چنانچہ باوجود اس کے کہ آپ کو الہام ہو چکا تھا آپ نے حیرت سے کہا اَوَ مُخْرِجِیَّ ھُمْ کیا مکہ کے لوگ مجھ کو نکال دیں گے۔ یعنی میرے جیسا پُرامن اور صلح پسند انسان جو ہر قسم کے حقوق کو ادا کرنے والا ہے۔ اسے مکہ کے لوگ کس طرح نکال سکتے ہیں۔ میری ان سے کوئی دشمنی نہیں۔ مَیں ان کا کبھی بد خواہ نہیں ہؤا۔ میری ان سے کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ پھر اس مکہ میں میرے رشتہ دار اور دوست موجود ہیں۔ ان سب باتوں کے ہوتے ہوئے یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وُہ مجھے مکہ میں سے نکال دیں۔ دنیامیں اگر لوگ کسی کو نکالتے ہیں تو دشمنی کی وجہ سے مگر میری تو کسی سے دشمنی نہیں ہے۔ کیا میرے جیسے پُرامن کو بھی یہ لوگ نکال دیں گے۔ اور اگر نکال دیں گے تو کیا جرم ہو گا۔ اور کون سا قصور ہو گا۔ جس کی وجہ سے میں اس مکہ سے نکالا جائوں گا۔ کتنے مختصر مگر گہرے معانی رکھنے والے وہ الفاظ ہیں۔ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس موقعہ پر استعمال فرمائے ہیں۔
اَوْ مُخْرِجِیَّ ھُمْ بظاہر ایک چھوٹا سا فقرہ ہے مگر محمد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قلبی کیفیات کی ایک وسیع دنیا ان الفاظ میں آباد ہے۔ اگر ایک طرف ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دل کس قدر صلح اور آشتی اور محبت کے جزبات سے لبریز تھا۔ تو دوسری طرف ان الفاظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وجود خود مکہ والوں کی نگاہ میں اس قدر محبوب تھا کہ ظاہری حالات کے لحاظ سے یہ بالکل ناممکن نظر آتا تھا کہ وہ آپ جیسے کسی انسان کو مکہ میں سے نکال سکیں گے۔ مگر پھر ہؤا یہی کہ انہوں نے باوجود آپ کی صلح پسندی کے اور باوجود آپ کے پُرامن ہونے کے آپ کو مکہ سے نکال دیا۔ اور خدا کی بات پوری ہوئی۔ لوگ کہتے ہیں کہ مخالف حالات کو دیکھ کر بعض دفعہ قبل از وقت ایک رائے کا اظہار کر دیا جاتا ہے۔ اور اس کا نام پیشگوئی رکھ لیا جاتا ہے۔ میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں وُہ اس پیشگوئی پر غور کریں۔ اور سوچیں کہ کیا عالم الغیب خدا کے سوا کوئی انسان اپنی فطرت سے یہ بات کہہ سکتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک دن مکہ میں سے ہجرت کرنی پڑے گی۔ اور لوگوں کو تو جانے دو۔ خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہیں سمجھتے تھے۔ اور آپ حیران ہوتے تھے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے۔ کہ مَیں مکہ میں سے نکالا جائوں۔ اور جس امر کو آپ نہ سمجھتے تھے اسے کوئی دوسرا کیا سمجھ سکتا تھا۔ مگر باوجود اس کے کہ آپ کی اپنی نگاہ میں یہ بات ناممکن تھی۔ مگر مکہ والوں کے حالات کے لحاظ سے یہ بات ناممکن نظر آتی تھی۔ پھر بھی خدا کی بات پوری ہوئی۔ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایک لمبے عرصہ کے شدید مظالم کے نتیجہ میں مکہ سے ہجرت کرنی پڑی۔
اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا مکہ میں واپس آنا ایسا ناممکن نظر آتا تھا۔ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکہ کو چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ اس وقت کون شخص خیال بھی کر سکتا تھا کہ رات کی تاریکی میں مکہ سے دو بھاگنے والے ایک دن دس ہزار لشکر جرار اپنے ساتھ لئے فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوں گے۔ اور مکہ کے بڑے بڑے سردارمسلمانوں کے رحم وکرم پر ہوں گے کہ وہ جیسا چاہیں ان سے سلوک کریں۔ اس وقت کون ان باتوں کو اپنے وہم و گمان میں بھی لا سکتا تھا۔ اَور کون کہہ سکتا تھا کہ وُہ کفار جو آج خوش ہو رہے ہیں جو اس خیال میں پھولے نہیں سماتے کہ وہ اسلام کی شوکت کو مٹانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کی آنکھوں کے سامنے صرف چند سال کے عرصہ کے اندر وہی شخص جسے مکہ سے نکالا گیا تھا دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں واپس آئے گا۔ اور بڑے بڑے جاہ و جلال کے ساتھ فرمائے گا کہ اے مکہ والو! بتائو اب مَیں تم سے کیا سلوک کروں۔ اور وُہ جواب یہ دیں گے۔ کہ وہی سلوک کریں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا۔ ہجرت کے وقت زیادہ سے زیادہ بعض لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہوتا ہو گا کہ افسوس ہم آپ کو مار نہ سکے۔ اور بعض لوگ یہ کہتے ہوں گے کہ چلو اچھا ہؤا خس کم جہاں پاک (نعوذ باللہ من ذالک) ہماری نگاہوں سے تو وُہ اوجھل ہؤا۔ اب ہمیں اس سے کیا غرض کہ وُہ زندہ ہے یا نہیں۔ ہم نے اسے اپنے شہر سے تو نکال دیا۔ اس وقت کوں خیال کر سکتا تھا۔ کہ وہی لوگ جو آج یہ کہہ رہے ہیں کہ چلو اچھا ہؤا ہمیں چھٹی مل گئی۔ ایک بلا اور مصیبت سے چھٹکارا ہؤ۔ انہی لوگوں میں وُہ ایک فاتح جرنیل کی حیثیت میں واپس آئے گا۔ اور پھر کون یہ خیال بھی کر سکتا تھا۔ کہ وُہ اتنی جلدی واپس آئے گا۔ کہ لوگوں کے لئے نہ صرف اس کی واپسی بلکہ جلد واپسی حیرت انگیز ہو گی۔ واقعہ میں اگر غور کیا جائے تو یہ ایک عظیم الشان نشان ہے جس سے خدا تعالیٰ کی ہستی اور اس کی طاقت و جبروت کا نقشہ انسانی آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ مکہ سے رات کی تاریکی میں دور بھاگنے والے بھاگے اور اس حالت پر بھاگے کہ انہیں اپنی جان خطرہ میں گھری ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اور کفار نے یہ ارادہ کیا ہؤا تھا کہ ان کی کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔ مگر پھر آٹھ سال کے بعد اسی مکہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک فاتح کی حیثیت میں واپس آئے۔ آٹھ سال میں تو ایک ڈاکو بھی پُوری طرح تیار نہیں ہوتا۔ مگر یہاں یہ خبر دی گئی تھی کہ آٹھ سال کے اندر محمدر سول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جو صرف ایک ساتھی کے ساتھ مکہ سے رات کے وقت بھاگے تھے۔ اور جن کو زندہ یا مردہ پکڑلانے پر انعام مقررتھا۔ وُہ آٹھویں سال مکہ میں داخل ہوں گے۔ کہ قیدار کی ساری حشمت تباہ ہو چکی ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہؤا۔ اور آپ اللہ تعالیٰ کیا تائید اور اس کی نصرت کے ساتھ اسلام کی فتح کا جھنڈا اڑاتے مکہ میں داخل ہوئے اور یہ پیشگوئی بڑی شان کے ساتھ پوری ہوئی کہ اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلدِ (اَشْھَدُ اَنْ لَآاِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ)
دیکھو یہاں کس طرح ابتدائی زمانہ میں ہی فجر کے معنی بھی کر دئیے یعنی ہجرت اور ایک ہی وقت میں دُوسری کامل جو بدر سے شروع ہوئی۔ اور فتح مکہ پر مکمل ہوئی۔ اس کا بھی ذکر کر دیا۔ کہ دوسرا ثبوت مکہ ہماری باتوں کی درستی کا اس طرح دے گا کہ تُو اس شہر میں پھر نازل ہو گا اور پھر اللہ تعالیٰ کا جلال اور اس کی قدرت کا ایک عظیم الشان نشان تیرے ذریعہ سے مکہ میں نظر آنے لگ جائے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بات کو شہادت کے طور پر پیش کرتا ہے کہ یہ مکہ ایک لمبے عرصہ سے محفوظ چلا آتا تھا۔ جب لوگ بت پرست اور دین سے غافل تھے۔ اس وقت بھی اللہ تعالیٰ نے ابرہہ سے اس کی حفاظت کی۔ مگر اب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھوں سے قہراً فتح ہو گا۔ اور نہ صرف محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا داخلہ آپ کی سچائی کا ثبوت ہو گا بلکہ قہراً داخلہ دوسری دلیل مہیا کرے گا کہ اگر خدا تعالیٰ ان ساتھ نہیں تو ان کو مکہ میں قہراً داخل ہونے کی اس نے کیوں اجازت دی۔ گویا علاوہ داخلہ کی پیشگوئی کے پُورا ہونے کے یہ مزید دلیل ہو گی۔ اس ا مر کی کہ آپ سچّے ہیں جو بات ابرہہ کو نصیب نہ ہوئی۔ وُہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نصیب ہو گئی۔ ابرہہ آیا تو خدا تعالیٰ نے اسے اپنے عظیم الشان لشکر سمیت تباہ کر دیا۔ اور اسے مکہ میں داخل نہ ہونے دیا۔ لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر مکہ کی طرف آئے تو خدا نے آپ کو اپنے لشکر سمیت مکہ میں داخل کر دیا۔
یہ امر یاد رکھنا چاہئیے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نہ صرف مکہ میں داخلہ ایک پیشگوئی کوپورا کرنے والا ہے بلکہ آپ کا تلوار کے زور سے مکہ میں داخل ہونا ایک دوسری پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہے۔ اگر بالفرض مکہ والے آپ سے کہتے کہ آپ اپنے شہر میں واپس آ جائیں اور آپ واپس آ جاتے تو اس سے صرف ایک پیشگوئی پوری ہوتی۔ مگر آپ کا داخلہ دو پیشگوئیوں کو پورا کرنے کا مؤجب بنا۔ یعنی نہ صرف آپ مکہ میں داخل ہو ئے۔ بلکہ الٰہی پیشگوئی کے مطابق مکہ کی حرمت کو توڑتے ہوئے اس میں داخل ہونے کی دنیا کی گزشتہ ۲۵ سو سال کی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ کوئی شخص تلوار کے زور سے مکہ کو فتح کرنے میں کامیاب ہؤا ہو۔ ابرہہ آیا اور اس نے تلوار کے زور سے مکہ میں داخل ہونا چاہا مگر خدا نے اُسے تباہ کر دیا۔ لیکن فرماتا ہے اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلدِ اے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تیرے لئے اس شہر کو حلال کر دیا گیا ہے۔ اور تیرے ذریعہ اس شہر کو تلوار کے زور سے فتح کیا جائے گا۔ مکہ والوں کا یقین ہے کہ کوئی شخص تلوار کے زور سے اس شہر کو فتح نہیں کر سکتا۔ مگر ہمارا تم سے نہ صرف یہ وعدہ ہے کہ ہم تجھے واپس لائیں گے بلکہ یہ بھی وعدہ ہے کہ ہم تلوار کے زور سے واپس لائیں گے تا کہ مکہ والوں کا جو یہ عقیدہ ہے کہ کوئی شخص تلوار سے مکہ کو فتح نہیں کر سکتا وہ تیرے ذریعہ سے باطل کر دیا جائے۔ مگر نہ اس لئے کہ مکہ کو حفاظت حاصل نہیں بلکہ اس لئے کہ جس نے مکہ کی حفاظت کی تھی وہ بھی میں تھا۔ اور جو تلوار کے زور سے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس شہر میں لایا وہ بھی میں ہی ہوں۔
پانچویں یہ بتایا کہ اس شہر کو ہم اوپر کی باتوں کے لئے بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ جب کہ تُو اس شہر کی بنیاد کا مقصود ہے یعنی ایسی حالت میں کہ مکہ کا مقصود تُو ہے۔ ہم اسے شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور دُنیا کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جب کہ شروع دن سے ظہور محمدی مکہ مکرمہ کے قیام کا موجب تھا۔ تو اب یہ لوگ کس طرح خیال کر سکتے ہیں کہ صدیوں سے ایک مقصد کی طرف دنیا کو لاتے ہوئے عین جب اس مقصد کو پُورا کرنے کا وقت آیا۔ تو اللہ تعالیٰ اسے بھلا دے گا۔ اور اس مقصد کا ساتھ چھوڑ دے گا۔ اگر خدا نے اس وقت مکہ کو لوگوں کا مرجع بنا دیا۔ جس مکہ کا تاج اس کے سَر پر نہیں تھا۔ اگر خدا نے اس وقت مکہ کو ہر طرف سے مہیا کیا۔ جب مکہ کا تاج اس کے سر پر نہیں تھا۔ اگر خدا نے اس وقت مکہ کو بڑا شہر بنایا۔ جب مکہ کا تاج اس کے سر پر نہیں تھا۔ اگر خدا نے اس وقت مکہ کو بڑا شہر بنایا۔ جب مکہ کا تاج اس کے سر پر نہیں تھا۔ اور اگر خدا نے اس وقت مکہ کو ہر قسم کی لڑائیوں سے محفوظ رکھا۔ جب مکہ کا تاج اس کے سر پر نہیں تھا۔ تو اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو جو مکہ کا مقصود اور سرتاج ہے میرے آنے کے بعد اب یہ نشانات کس طرح مٹ سکتے ہیں۔ یہ نشانات اور بھی ظاہر ہوں گے۔ا ور آئیندہ رونما ہونے والی پیشگوئیاں نہ صرف تیری صداقت کا ایک زندہ نشان ہوں گی۔ بلکہ خود مکہ ان پیشگوئیوں کے ذریعہ اور عزت پائے گا۔ اور خدا تعالیٰ کے کلام کے لئے دنیا کے سامنے ایک زبردست شہادت مہیا کرے گا۔ کیونکہ تُو مقصود ہے مکّہ کا۔ تو سرتاج ہے مکہ کا۔ اور تیری طرف ہی ہزارہا سال کے تاریخی واقعات کی انگلی اشارہ کر رہی تھی۔ اب تیرے آنے کے بعد خدا تعالیٰ کے نشانات کا ایسا ظہور ہو گا۔ جو دنیا میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہؤا۔ غرض ایک مختصر سے فقرہ میں اللہ تعالیٰ نے لیالی عشرکی بھی تشریح کر دی۔ اور پھر دوسری فجر کی بھی تشریح کر دی اور پھر اس دوسری فجر کی بھی تشریح کر دی جو گیارہویں رات کے اختتام تک پر جنگ بدر سے شروع ہوئی اور جس انتہا فتح مکہ پر ہؤا۔ ان لوگوں کے لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہؓ کا مکہ کی فتح کے لئے آنا کتنی حیرت و استعجاب کی بات تھی۔ اس کا کچھ اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ مکہ کے لوگ اس امید میں بیٹھے تھے کہ کہ ابو سفیان محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلمسے ایک نیا معاہدہ کر کے آ رہا ہے۔ وہ رات کو اس امید میں سوئے کہ ابو سفیان ہمارے لئے امن کا پیغام لا رہا ہے۔ مگر آدھی رات کے وقت جب کہ وہ میٹھی نیند سو رہے تھے۔ ابوسفیان گھوڑا دوڑاتے ہوئے مکہ میں داخل ہؤا۔ اور بلند آواز سے پکارنا شروع کر دیا کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دس ہزار صحابہ سمیت مکہ کی طرف بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ مگر مَیں ان سے یہ رعائت لے کر آیا ہوں کہ جو شخص اپنے گھر کا دروازے بند کرے گا۔ اور ان کے مقابلہ کے لئے باہر نہیں نکلے گا اسے کچھ نہیں کہا جائے گا۔ لیکن جو شخص گلیوں میں پھرے گا یا تلوار لے کر مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گا وُہ اپنی جان کا آپ ذمہ دار ہو گا۔ اب کجا تو یہ حالت تھی کہ وہ مکہ والوں کی طرف سے صلح کا سفیر بن کر گیا تھا۔ اور کجا یہ حالت ہے کہ جب وُہ واپس آیا تو ایسی حالت میں کہ اس نے اپنی قوم سے کہا۔ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا لشکر فاتحانہ طور پر مکہ میں داخل ہو رہا ہے۔ مَیں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ میں تمہارے لئے بعض مراعات لے کر آیا ہوں۔ اور پھر اس نے ان مراعات کا ان الفا ظ میں اعلان کیا کہ جو شخص اپنے گھر کے دروازے بند کر کے بیٹھ رہے گا۔ اس کی جان کی بخشی کی جائے گی۔ لیکن اگر کوئی باہر نکلا یا اس نے مسلمانوں کا مقابلہ کیا تو وہ اپنی جان کا آپ ذمہ وار ہو گا۔ چنانچہ ایک طرف سے خالدؓ اپنی فوجوں سمیت مکہ میں داخل ہوئے۔ دوسری طرف زبیر اور سعد بن عبادہ اپنے دستے لے کر بڑھے۔ اور تیسری طرف سے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بغیر کسی لشکر کے بغیر کسی جاہ وحشم کے اکیلے مکہ میں داخل ہوئے۔ آپ کا اکیلا مکہ میں داخل ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ مکہ والے جانتے تھے کہ یہ اکیلا داخلہ لشکر سمیت داخلہ سے ہزارہا گنا زیادہ شاندار ہے۔ کیونکہ آپ اکیلے تھے۔ مگر زبانِ حال سے مکہ والوں کو کہہ رہے تھے۔ کہ دیکھو گو میں لشکر کے بغیر مکہ میں داخل ہو رہا ہوں۔ مگر آج مجھے نظر بد سے دیکھنے کی تم میں جرأت نہیں ہے۔ میرے دائیں اور بائیں خدا تعالیٰ کے فرشتے حفاظت کے لئے کھڑے ہیں۔ اور مَیں توبہ کا پیغام لے کر تمہاری طرف آ رہا ہوں۔ اب چاہو تو توبہ قبول کر کے خدا تعالیٰ کی فوج میں شامل ہو جائو اور چاہو تو ان فرشتوں کی تلوار کا شکار ہو جائو۔ جو دائیں طرف سے بھی مکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اور بائیں طرف سے بھی مکہ میں داخل ہو رہے ہیں۔
وَوَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ
اور باپ کی بھی اور بیٹے کی بھی (قسم کھاتا ہوں)۴؎
۴؎حل تفسیر
حضرت ابن عباسؓ نے کہا ہے کہ وَالِدٍ وَمَاوَلَدَ سے مراد سب جاندار ہیں۔ یعنی میں اس بلد کو بھی پیش کرتا ہوں۔ اور تمام جانداروں کو بھی بطور شہادت پیش کرتا ہوں مجاہد کہتے ہیں کہ اس سے مراد آدم اور ان کی ساری اولاد ہے یعنی مَیں اس بلد کو پیش کرتا ہوں۔ اور مَیں تمام دُنیا کے باپ اور اس کی اولاد یعنی تمام بنی نوع انسان کو بھی بطور ثبوت پیش کرتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد تمام صلحا اور ان کی اولادیں ہیں۔ یعنی مَیں اس بلد الحرام کو بھی جس کا مقصود تُو ہے۔ یا جس میں تُو اترنے والا ہے۔ یا جسے تیرے لئے حلال کیا جانے والا ہے اس کو بھی بطور شہادت کے پیش کرتا ہوں۔ اور تمام صلحاء اور ان کی اولادوں کو بھی بطور شہادت کے پیش کرتا ہوں۔ بعض کہتے ہیں کہ اس سے نوح اور ان کی اولاد مراد ہے۔ ابو عمران الحوفی کہتے ہیں کہ اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی سب اولاد مراد ہے۔ طبری اور مادردی کا قول ہے کہ وَالِد سے مراد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ اور مَاوَلَدَسے مراد آپ کی امت ہے کیونکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں اَنَا لَکُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ میرا تعلق تم سے ایسا ہی ہے جیسے باپ کا اپنی اولاد سے ہوتا ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھَاتُھُمْ (احزاب ع ۱ ۷ ۱) رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔ جب وُہ مائیں ہوئیں تو وہ شخص جس کے تعلق کی وجہ سے وُہ ہماری مائیں بنی ہیں بدرجہ اولیٰ ہمارا باپ ہؤا۔ پس قرآن کریم نے بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو والد قرار دیا ہے۔ اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود بھی فرماتے ہیں کہ اَنَا لَکُمْ بِمَنْزَلَۃِ الْوَالِدِ میرا تعلق تم سے ایسا ہی ہے جیسے باپ کا اپنی اولاد سے ہوتا ہے۔
بحر محیط والے لکھتے ہیں کہ آپ کے مقام کی قسم کھانے کے بعد آپ کی اور آپ کی امت کی قسم اظہار شرف کے لئے کھائی گئی ہے ۱؎ میں قسم کے بارے میں بتا چکا ہوں کہ قسم سے مراد محض شہادت ہوتی ہے اور غرض اس کی یہ ہوتی ہے کہ ان چیزوں کو ان مخصوص حالات میں یا عام حالات میں ہم بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ بعض دفعہ عام حالات مراد ہوتے ہیں۔ اور مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان چیزوں کے حالات سے جو سبق ملتا ہے اُسے ہم بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں کہ ہمارا دعویٰ صحیح ہے لیکن کبھی ان چیزوں کے مخصوص حالات مراد ہوتے ہیں۔ جیسے یہاں فرمایا کہ ہم اس مکہ کو بطور شہادت تو پیش کرتے ہیں مگر ایسے حالات میں کہ اَنْتَ حِلٌّ م بِھَذَا الْبَلدِ یہ کہنا کہ قسم اکرام کے لئے کھائی گئی ہے۔ یہ بالکل عبث بات ہے۔ دنیا میں کبھی کوئی شخص عزت کے لئے قسم نہیں کھاتا۔ کیا یہ بھی کوئی کہا کرتا ہے کہ چونکہ میرے دل میں تمہاری عزت ہے اس لئے مَیں یہاں قسم کھاتا ہوں۔ یہ نہ عربی کا محاورہ ہے اور نہ کسی اور زبان کا۔ صرف اس لئے کہ مفسرین کی سمجھ میں قسم کی حقیقت نہیں آئی۔ انہوں نے یہ کہہ دیا کہ قسم اکرام کے لئے کھائی گئی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم میں جس کا بھی ذکر آئے گا خواہ وہ ذکر کسی شہادت کے لئے آئے یا کسی نیکیوں کی یادگار کے طور پر آئے۔ اس کا اکرام ہو جائے گا مگر یہ ایک ضمنی بات ہے قسم اکرام کے لئے نہیں کھائی جاتی۔ ہاں جب قسم کھائی جاتی ہے۔ تو اگر وہ اچھی بات کے لئے ہو ہو تو اس چیز کا اکرام بھی ہو جاتا ہے۔ مگر مقصد اکرام نہیں ہوتا۔ اکرام اس کا ایک طبعی نتیجہ ہوتا ہے۔
میرے نزدیک وَالِدٍ وَمَاوَلَدَ کے معنی (اول) حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کے ہیں۔ قرآن کریم سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ خانۂ کعبہ اور مکہ مکرمہ کا تعلق خصوصیت کے ساتھ حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیلؑ علیہما السلام کے ساتھ ہے۔ اور جب ایک چیز کو بغیر تعیین کے بیان کیا گیا ہو تو لازمًا سب سے مقدم حق انہی وجودوں کا ہے جن کا تعلق اس مضمون سے ہو۔ جو وہاں بیان ہو رہا ہو۔ چونکہ وَالِدٍ وَّ مَاوَلَدَ سے پہلے ذکر مکہ مکرمہ کا ہے۔ اس لئے لازمًا ہمیں ایسے ہی وَالِد اور مَوْلُوْد کی تلاش کرنی ہو گی۔ جن کا مکہ سے خاص تعلق ہو۔ اب ہمیں خود قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ علیہ السلام نے خانۂ کعبہ کی بنیاد رکھی اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کو مکہ میں لا کر بسایا۔ اور خدا تعالیٰ سے دُعا کی۔ کہ وُہ اسے ایک شہر بنا دے۔ یہاں دُور دُور سے لوگ کھچے چلے آئیں۔ ان کو رزق میسر آئے۔ پھر یہ شہر امن والا ہو۔ اور خدا تعالیٰ کا ذکر کرنیو الے اور اس کے نام پر اپنی زندگیاں قربان کرنے والے شہر میں پیدا ہوں۔ یہ دُعا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی۔ اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر کی۔ پھر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے جوان ہونے سے پہلے جب وُہ اپنے بچے ہی تھے ان کو مکہ مکرمہ میں لا کر چھوڑ دیا۔ اور ایسی حالت میں چھوڑا جبکہ وہاں کھانے پینے کا کوئی سامان نہ تھا۔ محض خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اس کے وعدوں پر یقین رکھتے ہوئے انہوں نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ایک بے آب وگیاہ وادی میں لا کر بسا دیا۔ پس اگر کوئی وَالِد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانۂ بعثت سے پہلے کا مکہ سے تعلق رکھنے والوںمیں سے لوگوں کے ذہن میں آ سکتا ہے تو وُہ صرف حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانۂ بعثت سے پہلے اگر کس ولد کی طرف انسانی ذہن منتقل ہو سکتا ہے تو وُہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ہیں۔ یہ ایک ایسا کُھلا اور بیّن امر ہے کہ اگر کوئی شخص قرآن مجید کا منکر ہو تو وُہ بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت سے پہلے اگر کوئی باپ اور بیٹا مکہ مکرمہ سے خاص طور پر تعلق رکھتے تھے تو وُہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام ہی تھے اور جب یہ ایسی نمایاں بات ہے تو جس باپ اور بیٹے کا یہاں ذکر ہے۔ ان کی تعیین کرنے میں ہمارے لئے کیا مشکل ہے۔جب بغیر کسی تعیین کے لئے ایک لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے دو ہک مفہوم ہوتے ہیں یا تو وُہ کلّی طور پر عام ہوتا ہے اور یا اتنا نمایاں ہوتا ہے کہ اس لئے کسی تعیین کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ مثلًا جب ہم دن کا لفظ استعمال کریں گے تو اس سے یا تو ہر دن مراد ہو گا اور یا ایسا دن مرا دہو گا جو ہماری زندگیوں پر ایسا نمایاں اثر رکھتا ہو کہ خود بخود انسانی ذہن اس دن کی طرف چلا جاتا ہو۔ ہر فصیح زبان میں یہی طریق رائج ہے۔ کہ جب نکرہ استعمال کیا جائے یا تو اس سے مراد وُہ تمام افراد ہوں گے جو اس میں آ سکتے ہوں اور یا ان افراد میں سے وُہ خاص وجود جو اتنا خاص ہو کہ اس کے لئے کسی تعیین کی ضرورت نہ ہو۔ اس کے لئے نکرہ آئے گا۔ اس کے خلاف کوئی اور معنی کرنے کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہو سکتے ہمارے ملک کی عورتیں جب اپنی زندگی کے خاص دن کا ذکریں تو بغیر تعیین کے کہہ دیتی ہیں۔ اودن نہیں بھلدا۔ یعنی وُہ دن نہیں بُھولتا۔ اور مراد یہ ہوتی ہے کہ وُہ دن میری زندگی میں اتنا اہم ہے کہ میرے سب جاننے والے صرف اشارہ سے اسے سمجھ سکتے ہیں۔
وَالِدٍ وَّمَالَدَ کے یہ معنے کرنے کے اس سے صلحا اور ان کی اولاد مراد ہے۔ یا نوح اور ان کی اولاد مراد ہے۔ یہ سب عقل کے خلاف معنے ہیں۔ اور ایک نکرہ کا وجود برداشت نہیں کر سکتا۔ لیکن جہاں تک حضرت ابراہیمؑ اور ان کے بیٹے کا تعلق ہے (میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری اولاد مراد نہیں لیتا۔ بلکہ مَا وَلَدَ سے صرف حضرت اسمٰعیل علیہ السلام مراد لیتا ہوں) اس حد تک کوئی شخص اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ مکہ کی بنیاد انہوں نے رکھی۔ پس جنہوں نے مکہ بنایا ہے جنہوں نے خانۂ کعبہ کی بنیادوں کو استوار کیا ہے اگر ہم ان کا نام نہیں لیتے اور بغیر تعیین کے مکہ کے ذکر میں باپ بیٹے کے الفاظ سے ان کا ذکر کر دیتے ہیں تو ہرعقلمند انسان سوائے ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کے کِسی اور شخص کا نام اپنے ذہن میں لا ہی نہیں سکتا۔ ہمارے ملک میں عام لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ’’او مدینے والیا‘‘ اب جہاں تک مدینے میں رہنے والوں کا سوال ہے۔ اس میں لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ اس وقت بسر چکے ہیں۔ اور ان الفاظ سے یہ تعیین نہیں ہوتی کہ کہنے والے نے کس کا ذکر کیا ہے۔ آیا اس سے مدینے کا ہر شخص مراد ہے یا مدینہ کا کوئی خاص شخص مراد ہے۔ مگر باوجود اس کے کہ الفاظ میں کسی کی تعیین نہیں ہوتی جب کوئی شخص یہ الفاظ استعمال کرتا ہے کہ ’’او مدینے والیا‘‘ ’’اومدینے والیا‘‘ تو ہر شخص کا ذہن فوری طور پر اس امر کی طرف منتقل ہو جاتا ہے کہ اس سے مراد مدینہ کا ہر شخص نہیں۔ بلکہ اس سے مراد مدینہ کا وُہ مقدس انسان ہے جس سے مدینہ کی عزت حاصل ہوئی۔ اب دیکھ لو یہ الفاظ ہمارے ملک میںروزانہ استعمال کئے جاتے ہیں۔ پنجابی شعراء جب نعت کہتے ہیں تو انہی الفاظ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب کرتے ہیں۔ مگر کبھی ان الفاظ کے متعلق کسی شخص کے دل میں شبہ پیدا نہیں ہوتا۔ وہ کبھی نہیں کہتا کہ یہ تو نکرہ ہے۔ اور اس سے مدینے کا ہر شخص مراد ہو سکتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ گو یہ نکرہ ہے۔ مگر اس سے مراد معرفہ ہے۔ جس سے زیادہ مدینہ کے ذکر میں اور کسی کو تعیین حاصل نہیں۔ پس جس طرح روزانہ کہا جاتا ہے ’’او مدینے والیا‘‘ اور اس سے مراد محمد درسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات ہوتی ہے۔ اسی طرح مکہ کے ساتھ جب بھی ایک باپ اور بیٹے کا ذکر آئے گا لازمًا اس سے مراد حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل علیہما السلام ہی ہوں گے۔ اور کوئی نہیں ہو گا۔ پھر یہ بھی ایک غور کرنے والی بات ہے کہ یہاں باپ اور بیٹے کو ملا کر ان کو اکٹھا ذکر کرنے کیا معنے تھے۔ خالی باپ یا بیٹے کا ذکر کیوں نہیں کیا گیا۔ اسی لئے ایک باپ اور ایک بیٹا دونوں وجود ایسے تھے جنہوں نے مل کر خانۂ کعبہ بنایا۔ اس کی تعبیر کی۔ اور پھر ان دونوں سے آئیندہ کے لئے ایک سلسلہ ہدایت قائم ہؤا ہے۔ وُہ خالی باپ کا فعل نہیں تھا۔ خالی بیٹے کا فعل نہیں تھا۔ بلکہ ایک باپ اور ایک بیٹے کا مشترکہ فعل تھا۔ جو انہوں نے مل کر سر انجام دیا۔ اسی لئے قرآن کریم نے صرف باپ یا صرف بیٹے کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ باپ اور بیٹے دونوں کاذ کر کیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں جو واقعہ اپنی تمام جزئیات کے ساتھ اس آیت پر چسپاں ہوتا ہو ہمیں تفسیر کرتے ہوئے پہلا حق اسی کو دینا چاہئیے۔
اس لحاظ سے آیت کے یہ معنے ہوں گے۔ کہ ہم اس شہر کو اس حالت میں کہ تُو اس میں حِلٌّ ہے۔ شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اور اسی طرح اس شہر کی بنیاد رکھنے والے ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو بھی بطور شہادت پیش کرتے ہیں۔ کس امر کی شہادت کی؟ یا وہ دونوں کیا شہادت دیتے ہیں؟ اس کے متعلق مفسرین کہتے ہیں۔ کہ قسم کا جواب لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍمیں بیان ہؤا ہے جو آگے آئے گا۔ کہ ہم نے انسان کو کَیْد میںپیدا کیا ہے۔ میرے نزدیک یہ درست ہے۔ جہاں تک عربی زبان کا تعلق ہے۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍایک بڑا قطعی اور یقینی جواب اسی قسم کا ہے لیکن جہاں تک ساری آیات کا تعلق ہے میرے نزدیک یہ دُوسرا جواب ہے۔ پہلا جواب وہی ہے جو پہلی سورتوں میں بیان ہؤا۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قسم سے پہلے لَا کا لفظ استعمال کیا جائے۔ تو اس کا کوئی نہ کوئی قرینہ ہونا چاہئیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لا کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ اظہار نہیں کیا کہ کس چیز کا انکار کیا گیا ہے۔ مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ فصیح کلام میں لا کے اظہار کے لئے ضرور کوئی قرینہ ہونا چاہئیے۔ اور قریبی قرینہ یہی ہوتا ہے۔ کہ ماسبق کی طرف اشارہ سمجھا جائے۔ پس جس کی طرف لا کا اشارہ سمجھا جائے گا۔ اسی کی طرف قسم کا بھی اشارہ سمجھا جائے گا۔ میرے نزدیک لَا اُقْسِمُ کے لحاظ سے ایک جواب قسم محذوف ہے۔ اور دُوسرا جواب جو اس کے ساتھ تعلق رکھنے والا ہے۔ اور جسے تائیدی طورپر پیش کیا جا سکتا ہے۔ وہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍہے۔ گویا یہ جواب قسم تو ہے مگر ثانوی جواب ہے۔ اصل جواب نہیں۔ اصل جواب وہی ہے جو پہلے بیان ہو چکا ہے۔ اور چونکہ وُہ بیان ہو چکا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے حذف کر دیا۔ اس لحاظ سے معنی یہ ہوں گے کہ ہم شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اس شہر کو ایسی حالت میں جبکہ تُو اس میں حِلٌّ ہے۔ اور ہم وَالد ابراہیمؑ اور وَلَدَ اسمٰعیل کو بھی اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ کہ ہم نے اسمٰعیل کو بھی اس بات کی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ کہ ہم نے پہلی آیتوں میں جو یہ باتیں بیان کی ہیں کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سخت مخالفت ہو گی۔ یہاں تک کہ اسے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا جائے گا۔ مگر آخر وُہ کامیاب ہو جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس شہر میں اس کو واپس لائے گا۔ یہ ساری باتیں ہو کر رہیں گی۔ اسی طرح یہ بھی ہماری قسم کا جواب ہے کہ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ ہم نے انسان کو کبد میں پیدا کیا ہے(آگے جب مضمون آئے گا تو اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے گا) پس یہ مزید عقلی دلیل ہو گی جو سابق شہادت کے لئے بطور تائیدی گواہ کے سمجھی جائے گی۔ لیکن اگر اسی کو جواب قسم سمجھا جائے گا۔ تو پھر ہم کو یہ سمجھنا ہو گا کہ لَا نے اس دعویٰ کو ردّ کر دیا جس کا لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ سے استنباط ہوتا ہے۔ کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں ہم کو سہولت اور آرام سے بغیر کسی قسم کی قربانی کے ہر ترقی مل جائے گی۔ اور ہمیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ عدم اکرام ضعیف اور عدم تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ وغیرہ حالات سے معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس بات کو رد کرتا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ یہ بات درست نہیں۔ کہ سہولت اور آرام سے قومی ترقی حاصل ہو جائے گی۔ اور تمہیں کچھ نہیں کرنا پڑے گا۔ اخلاقی اور مذہبی اور سیاسی ذمہ داریوں سے مونہہ موڑ کر ترقی نہیں ملتی بلکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہی اس طرح کیا ہے۔ کہ وہ محنت اور مشقت سے ترقی کرتا ہے۔ چنانچہ ہم اس بات کی دلیل کے طور پر مکہ کو پیش کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں کہ تُو اس میں حِلٌّ ہے۔ اور ہم ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو بھی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ان آیات کے ایک حصہ کی تشریح اوپر گزر چکی ہے اور بتایا جا چکا ہے۔ کہ لغت کے لحاظ سے حِلٌّ کے کئی معنی ہیں۔ ان سب معنوں کے لحاظ سے مکہ اس بات کا ایک یقینی ثبوت ہے۔ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا ہے۔ اسی طرح لَیَالٍ عَشْرٍ کی تشریح کرتے ہوئے بتایا جا چکا ہے۔ کہ مشرکین مکہ کی تکالیف کی کیا نوعیت ہو گی۔ اور وُہ کس کس رنگ میں مُسلمانوں کو مبتلائے آلام کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ بات بھی بتائی جا چکی ہے کہ فجر کا ظہور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کس رنگ میں ہو گا۔ اور کس طرح کفار کی طاقت کو توڑا جائے گا۔ ان تمام واقعات سے جواب قسم خود بخود نکل آیا۔ کہ مکہ والوں کے ظلم اور ان کی تعدی اس بات کی متقاضی ہے کہ خدا تعالیٰ مکّہ سے محمد رسول اللہ کو پہلے نکال لے جائے اور پھر فاتح کی حیثیت سے واپس لائے۔ اور اس طرح ثابت کرے کہ ہم نے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجا ہے۔ وہ ہماری طرف سے ہے۔ اور وُہ ضرور جیت کر رہے گا۔ اب اس کے بعد فرماتا ہے وَوَالِدٍ وَّمَاوَلَدَ ہم ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو بھی شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی شہادت اس لحاظ سے ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی بنیاد رکھتے وقت جبکہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ان کے ساتھ شامل تھے۔ یہ دُعا کی تھی کہ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْھُمْ رَسُوْلًا مِنْھُمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیَاتِکَ وَیُعَلِّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْھِمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیْمُ (البقرہ ع ۵ ۱ ۵ ۱) گو ولد کی شہادت کا یہاں ذکر نہیں۔ مگر یہ صاف ظاہر ہے کہ جب وہ دونوں مل کر کام کر رہے تھے۔ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ دُعا کر رہے تھے۔ تو لازمًا اس دُعا کے وقت وُہ اکیلے نہیں تھے۔ بلکہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔ جیسا کہ رَبَّنَا کے لفظ سے بھی ظاہر ہے۔ پھر اس لحاظ سے بھی یہ بات واضح ہے کہ جب انہوں نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کی اور اس موقع پر اللہ تعالیٰ سے بڑی بڑی دعائیں کیں۔ تو ان دعائوں کے معنے یہی تھے کہ انہوں نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام اور ان کی اولاد کے متعلق دُعائیں کی ہیں۔ چنانچہ وُہ خود فرماتے ہیں۔ رَبَّنَا اِنِّیْْٓ اَسْکَنْتُ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ بِوَادٍ غَیْرِ ذِیْ زَرْعً عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیْمُوْا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْعِدَۃُ مِّنَ النَّاسِ تَھْوِیْٓ اِلَیْھِمْ وَارْزُقْھُمْ مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّھُمْ یَشْکُرُوْنَ (ابراہیم ع ۶ ۸ ۱) یعنی اے میرے رب مَیں نے اپنی اولاد کو ایک وادیٔ غیر ذی زرع میں لا کر بسایا ہے۔ محض اس لئے کہ وہ تیری عبادت کریں۔ اور تیرے دین کی خدمت میں اپنی عمر بسر کر دیں تُو اپنے فضل سے لوگوں کے قلوب کو ان کی طرف پھیر دے اور انہیں اپنے پاس سے رزق دے۔ تا کہ یہ تیرے شکر گزار بندے بنیں۔ پس اول تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک رسول کی بعثت کی متعلق جو دعائیں کیں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام ان دُعائوں میں شامل تھے۔ کیونکہ انہوں نے اکٹھے خانۂ کعبہ کی تعمیر کی تھی۔ دُوسرے وہ ان دُعائوں میں اس لحاظ سے بھی شریک تھے۔ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اسمٰعیلؑ کی نسل سے ہی ان وعدوں کے پورا ہونے کی دُعا کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وَلَد دونوں کی اکٹھی شہادت کا اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ذکر کیا ہے۔ اور فرمایا ہے کہ ہم اس بات کی شہادت کے طور پر کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول ہیں۔ والد اور ولد کو تمہارے سامنے پیش کرتے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کی نسل میں سے ایک رسول بعثت کے متعلق اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کی تھیں۔ اگر وُہ دُعائیں اب تک پُوری نہیں ہوئیں۔ تو بتائو ابراہیم تمہارے نزدیک جھوٹا ہؤا یا نہیں۔ پھر اسمٰعیل کی طرف دیکھ کہ اس نے ایک بہت بڑی قربانی کی۔ اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وادیٔ غیر ذی زرع میں بس کر اپنی جان کو ہلاک کرنے کے لئے تیار ہوں۔ وُہ خدا کی خاطر مرنے کے لئے تیار ہو گیا۔ اس نے اپنے اوپر ایک بہت بڑی موت وارد کر لی۔ محض اس لئے کہ خدا کے وعدے اس متبرک مقام کی نسبت اس کی نسل کے ذریعہ سے پورے ہو جائیں۔ اب اگر وُہ شخص پیدا نہیں ہؤا۔ جو اس مکہ کا مقصود ہے۔ تو بتائو اسمٰعیل جھوٹا ہؤا یا نہیں۔ جھوٹی قُربانی ہی ایک ایسی چیز ہے۔ جو کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرتی۔ ورنہ سچی قربانی اپنا پھل ضرور پیدا کرتی ہے۔ پس اگر اسمٰعیل نے سچی قربانی کی تھی اور تم بھی اس قُربانی کی عظمت سے انکار نہیں کر سکتے۔ تو تمہیں اس بات کو تسلیم کرنا چاہئیے۔ اس طرح اگر تم ایک ایسے کامل انسان کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہو۔ جو ابراہیمی دُعا کے نتیجہ میں اسمٰعیل نسل میں سے پیدا ہؤا ہے۔ تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تمہارے نزدیک ابراہیمؑ کی قربانی بھی نعوذ باللّٰہ مردود تھی۔ اگر اس کے اندر قربانی کرتے وقت تقویٰ ہوتا۔ تو کس طرح ممکن تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کے تقویٰ کو ضائع کرتا۔ اور اس کی قربانی کو ردّ کر دیتا۔ بہرحال دونوں میں سے ایک بات ضروری ہے۔ یا تم تسلیم کرو کہ ابراہیمؑ کی دُعا نعوذ باللّٰہ ضائع چلی گئی۔ اور اسمٰعیلؑ کی قربانی دنیا میں کوئی نتیجہ نہ پیدا کر سکی۔ اور یا پھر یہ تسلیم کرو کہ ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ دونوں ن سچی قُربانی کی تھی۔ اور دونوں کی قربانی میں پھل کا تقاضا کرتی تھی۔ وُہ دنیا میں پیدا ہو گیا ہے۔ کیونکہ اس طویل عرصہ کے بعد وہی اس مقام کا دعویدار ہے۔
پہلی بات کو تسلیم کرنے کی صورت میں تمہیں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسمٰعیل دونوں کو جھوٹا قرار دینا پڑتا ہے۔ لیکن اگر دُوسری بات مان لو۔ تو پھر بے شک تم ان کے سچے ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہو۔ مگر تمہاری تو یہ حالت ہے کہ تم ان کو سچا بھی کہتے ہو۔ا ور پھر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی جھٹلاتے ہو۔ جو اس دُعا کا نتیجہ ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی۔ اور اس قربانی کا پھل ہیں جو حضرت اسمعیل علیہ السلام نے کی۔ اگر تم ان کو جھوٹا کہتے ہو تو تمہیں ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو بھی جھوٹا کہنا پڑے گا۔ اور اگر تم ابراہیمؑ اور اسمعیل کو سچا مانو۔ تو پھر تمہیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت پر بھی ایمان لانا پڑے گا۔ بہرحال یہ دونوں آپس میں لازم و ملزوم باتیں ہیں۔ اگر محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے ثابت ہوں۔ تو ابراہیمؑ بھی سچے ثابت ہوتے ہیں۔ اور اگر محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے ثابت نہ ہوں۔ تو ابراہیمؑ بھی سچے ثابت نہیں ہوتے۔ اور اسمٰعیل نے اپنے آپ کو قربانی کے لئے پیش کیا تھا۔ اس وقت خدا نے کہا تھا کہ چونکہ اس نے میرے حکم پر اپنے آپ کو مرنے کے لئے پیش کر دیا ہے۔ اس لئے میں اسے وہ روحانی اولاد عطا کروں گا۔ جو ساری دنیا کو زندہ کر دے گی۔ اور میں اس موت کے بدلے اس کے سارے خاندان کو حیاتِ ابدی بخشوں گا۔ اب اگر خاص نیت اور ارادہ سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے اپنے آپ کو پہلے ظاہر میں قربان ہونے کے لئے پیش نہیں کیا۔ا ور پھر مکہ میں بسائے جانے کے وقت پیش نہیں کیا۔ تو ان کی نسل میں اس قسم کا بچہ پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ لیکن اگر انہوں نے سچی قُربانی کی تھی۔ تو ضرور تھا کہ ان کی نسل سے وُہ سلسلہ چلتا۔ جو دنیا کو زندگی بخشتا۔ پس بہرحال محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سچائی کے ساتھ ابراہیمؑ اور اسمٰعیل کی سچائی وابستہ ہے۔ اور یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں کفار مکہ کے سامنے وَالِدٍ وَّمَا وَلَدَ کے الفاظ میں رکھتا ہے۔ کہ تم ابراہیمؑ کو بھی سچا مانتے ہو۔ اور اسمٰعیل کو بھی۔ مگر یہ کیسی عجیب بات ہے کہ تم اس شخص کو جھٹلا رہے ہو جس کی سچائی کے ساتھ ابراہیمؑ اور اسمٰعیل کی سچائی وابستہ ہے۔ تم یہ مانتے ہو کہ ابراہیمؑ نے ایک رسول کے لئے دُعا کی تھی۔ مگر جب اس دُعا کے نتیجہ میں وُہ رسول تم میں مبعوث ہو گیا تو تم اس کو جھٹلا رہے ہو۔ تم یہ تو مانتے ہو کہ اسمٰعیلؑ نے جب قربانی کی تو خدا تعالیٰ نے اس کی اولاد کے بارہ میں ابراہیمؑ سے وعدے کئے۔ اور کہا کہ اس کی نسل سے ایک ایسا انسان پیدا ہو گا۔ جو دنیا کی مزکی ہو گا۔ مگر جب وُہ روحانی فرزند ظاہر ہو گیا۔ تو تم نے اس کا انکار کر دیا۔ اب بظاہر تم نے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انکار کیا۔ اور تم نے اسمٰعیل کا بھی انکار کیا۔ کیونکہ یہ وہ شخص ہے جس کی صداقت پر یہ دونوں انبیاء گواہ ہیں۔ ابراہیم گواہ ہیں۔ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے ہیں اور اسمٰعیل گواہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سچے ہیں۔ اور تم نے جو طریق اس کی مخالفت میں اختیار کر رکھا ہے۔ وہ اس مقصد کے بالکل خلاف ہے۔ جس کو پُورا کرنے کے لئے ابراہیمؑ نے دعائیں کیں۔ اور جس کے ظہور کے لئے اسمٰعیل نے قربانی کی۔
ممکن ہے اس موقعہ پر کسی شخص کے دل میں یہ سوال پیدا ہو کہ مکہ والے اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت کرتے تھے تو اس لئے نہیں کہ وُہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یا حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے مقصد کا پورا ہونا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی مخالفت صرف اس لئے تھی کہ وُہ اپنے متعلق یہ یقین رکھتے تھے کہ ہم نے اپنے وجود کے ذریعہ اسمٰعیل قُربانی کو بے نتیجہ نہیں رہنے دیا۔ ہم لات۔ مناۃ اور عزیٰ کی پرستش اس لئے کرتے ہیں۔ کہ یہی ابراہیمؑ کا مقصد تھا۔ یا ہم اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مخالفت کرتے ہیں تو اس لئے کہ ہم سمجھتے ہیں ابراہیمؑ نے اپنی دعا میں اللہ تعالیٰ سے جن باتوں کی خواہش ظاہر کی تھی۔ وہ ساری کی ساری باتیں ہمارے زریعہ سے پوری ہو چکی ہیں۔ اس لئے اب یہ ضرورت نہیں۔ کہ کوئی شخـص آئے اور اپنے آپ کو ابراہیمی دُعا کا نتیجہ یا اسمٰعیلی قربانی کا مقصود قرار دے۔ ابراہیم نے جو دُعائیں کیں۔ وہ ہمارے ذریعہ سے پوری ہو چکی ہیں اور اسمٰعیل نے جس مقصد کے لئے قربانی کی تھی وُہ بھی ہمارے وجود کے ذریعہ حاصل ہو چکا ہے۔ ہم اس مقصد کی طرف جا رہے ہیں۔ جو ابراہیم اور اسمٰعیل کا مقصد تھا۔ اور انہی عقائد کو ہم نے اختیار کیا ہؤا ہے۔ جو ان کے عقائد تھے۔ اس لئے گو یہ عقائد بُرے نظر آئیں۔ تمہیں لات اور مناۃ اور عزّیٰ کی پرستش بُری دکھائی دے۔ مگر ہمارے نزدیک جب ابراہیم اور اسمٰعیل دونوں کی یہی تعلیم تھی۔ یہی مقصد بعثت تھا۔ تو ہم پر اس بات کا کیا اثر ہو سکتا ہے۔ کہ ہم نے ابراہیمی دُعا کو عبث قرار دے دیا ہے۔ یا اسمٰعیلی قربانی کے مقصد کو نظر انداز کر دیا ہے۔
اس اعتراض کے متعلق یاد رکھنا چاہئیے کہ اس کے دو جواب ہیں پہلا جواب تو یہ ہے کہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ مکہ کے لوگ لات اور مناۃ اور عزّہ وغیر کی پرستش کرتے تھے۔ مگر ان میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں تھا جو یہ کہتا ہو کہ ابراہیمؑ بتوں کی پرستش کرتا تھا۔ یا اسمٰعیلؑ بتوں کی پرستش کرتا تھا۔ یہ خدا نے ایک عجیب ثبوت رکھا ہؤا تھا۔ کہ ان کو کبھی جرأت ہی نہیں ہوئی تھی کہ وہ ابراہیم اور اسمٰعیل کو بھی شرک میں ملوث کریں اور چونکہ وُہ اپنے عقائد کی رُو سے یہ باتیں ان کی طرف منسوب نہیں کرتے تھے۔ اس لئے وُہ مسلمانوں کے سامنے اس بات کو پیش ہی نہیں کر سکتے تھے کہ ہم جس تعلیم پر قائم ہیں وہ ابراہیمی اور اسمٰعیلی مقصد کو پُورا کرنے والی ہے۔ کیونکہ وہ خود ان کو شرک میں ملوث نہیں سمجھتے تھے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ بے شک مذہب ایک ایسی چیز ہے جو زیر بحث ہوتی ہے۔ اورا س میں بہت کچھ اختلافات پیدا ہو جاتے ہیں۔ لیکن اور مذہبی اختلافات کو نظر کرتے ہوئے اس حقیقت سے بھی کبھی اغماض نہیں کیا جا سکتا۔ کہ وُہ لوگ اس بات کے قائل تھے کہ خانہ کعبہ کی بنیاد کے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک دُعا کی تھی اور وُہ دعا بہرحال پوری ہونی چاہئیے۔ مگر جو کچھ اس وقت مکہ کہ حالت تھی۔ اس کے لحاظ سے وُہ قطعی طور پر ایک منٹ کے لئے بھی یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ مکہ کا وجود ابراہیمی دُعا کا مصداق ہے۔ کیونکہ دُعا یہ تھی کہ خدا مکہ کو ساری دنیا کا مرجع بنا دے۔ وہ مذہبی لحاظ سے تو کہہ سکتے تھے کہ ہم سچے ہیں۔ وُہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ ہم اگر شرک کرتے ہیں اگر لات اور مناۃ اور عزّیٰ کی پرستش کرتے ہیں۔ تو اچھا کرتے ہیں۔ مگر کیا مکہ والے یہ بھی کہہ سکتے تھے۔ کہ عرب ساری دنیا کا مرکز ہے۔ اور ابراہیمؑ کی دُعا پوری ہو چکی ہے۔ ان کو نظر آ رہا تھا کہ یہ خانہ ابھی خالی ہے۔ اور مکہ کو ابھی تک وُہ اعزازحاصل نہیں ہؤا جس کے لئے ابراہیمؑ نے خانۂ کعبہ کی تعبیر کے وقت دعا کی تھی۔ وہ دنیاوی طور پر معمولی حیثیت کے لوگ جن کو عرب میں کوئی خاص عزت حاصل نہیں تھی۔ کجا یہ کہ بیرونی دنیا کی نگاہ میں ان کو کوئی خاص اعزاز حاصل ہوتا ان کا اپنے آپ کو دنیا کی نگاہ میں ان کو کوئی خاص اعزاز حاصل ہوتا ان کا اپنے آپ کو ابراہیم اور اسمٰعیل کی دعا کا مصداق قرار دینا تو بڑی بات ہے۔ وہ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ عرب پر ہی انہیں کوئی دبدبہ اور حکومت حاصل ہے۔ پس انہیں یہ تسلیم کرنا پڑتا تھا کہ روحانی لحاظ سے ابھی مکہ کی عظمت اور اس کی شان وشوکت میں اضافہ ہونے والا ہے ابھی خلا باقی ہے جس نے پُر ہونا ہے۔ ابھی اس نے دنیا جہان کا مرکز بننا ہے۔ ابھی اسے یہ اعزاز حاصل ہونا ہے کہ دنیا کے چاروں طرف سے لوگ یہاں آئیں۔ یہ عظمت مکہ کو پہلے کہاں حاصل تھی۔ بے شک عرب لوگ حج کے لئے مکہ میں آتے تھے۔ مگر دنیا کے چاروں اطراف سے ہر ملک اور ہر علاقہ کے لوگ مکہ میں نہیں آتے تھے۔ وہ ایک ملک کا مرکز تو کہلا سکتا تھا۔ مگر ساری دنیا کا مرکز نہیں تھا۔ حالانکہ ابراہیمی دُعا یہ تھی کہ خدا اسے دنیا کا مرکز بنا دے۔ خدا اس میں تمام عالم کے اطراف سے لوگوں کو کھینچ کھینچ کر لائے اب کجا مکہ کی وہ حالت اور کجا ابراہیم علیہ السلام کی یہ دُعا صاف ظاہر ہو رہا تھا۔ کہ ابھی مکہ اپنے اصل اعزاز سے بہت پیچھے تھا۔ ابراہیمؑ کی دُعا ابھی پوری ہونے والی تھی اسمٰعیلؑ کی قُربانی ابھی پھل دینے والی تھی۔ جب اسے ساری دنیا کا مرکز قرار دیا جانے والا تھا۔ پس مکہ والے یہ کہہ ہی نہیں سکتے تھے کہ ابراہیمؑ کی دعا پوری ہو چکی ہے۔ وہ جانتے تھے کہ بے شک حج کے لئے عرب لوگ مکہ میں آ جاتے ہیں مگر بیرونی دنیا کی نگاہ میں انہیں کوئی اعزاز حاصل نہیں چنانچہ اس کے متعلق خود تاریخی شہادات بھی موجود ہیں۔ جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ عرب والوں کو کیسی تحقیر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا تھا۔
جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قیصر کو تبلیغی خط لکھا اور وُہ اسے پہونچا تو وہ اس خط کو پڑھ کر خاص طور پر متاثر ہؤا اور اس نے درباریوں سے کہا کہ اس خط کا لکھنے والا بڑا دلیر انسان معلوم ہوتا ہے۔ لوگوں سے پتہ لگانا چاہئیے کہ یہ کون ہے کیا دعویٰ کرتا ہے اور اس کے ساتھ کیا کیا واقعات گزرے ہیں۔ اگر مکہ کے کوئی آدمی یہاں آئے ہوئے ہیں تو ان کو میرے دربار میں پیش کیا جائے۔ تاکہ مَیں ان سے اس خط کے لکھنے والے کے حالات دریافت کروں۔ اتفاق کی بات ہے اللہ تعالیٰ نے چونکہ مکہ والوں پر حجت تمام کرنی تھی۔ ابوسفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ لوگوں نے اسے بادشاہ کے دربار میں پیش کر دیا۔ ابوسفیان وہ شخص تھا جو مکہ کا کمانڈر تھا۔ اہل مکہ کا سردار تھا۔ وہ قیصر کے دربار میں پیش کیا گیا۔ مگر اس طور پر نہیں کہ مقابل کی حکومت کا کوئی بادشاہ آیا ہو۔ اس طور پر بھی نہیں کہ کسی چھوٹی حکومت کا سردار آیا ہو۔ اس طور پر بھی نہیں کہ مقابل کی کسی حکومت کا کوئی جرنیل آیا ہو۔ بلکہ اس طور پر اسے قیصر کے سامنے پیش کیا گیا جس طرح ایک مجرم کو بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ ابوسفیان پیش ہؤا تو بادشاہ نے بعض دوسرے لوگوں کو جو اس کے ساتھ تھے کہا کہ میں اس سے بعض سوالات کروں گا۔ اگر یہ ان سوالات کا سچ سچ جوا ب دے تو تم چپ رہنا لیکن اگر کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے جھوٹ بولے تو فوراً مجھے بتانا کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے۔ یہ کیسی ذلت ہے۔ جو قیصر کے دربار میں پہنچتے ہی ابوسفیان کو پہونچی یہ وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو مکہ کا بادشاہ سمجھتا تھا۔ یہ وُہ شخص ہے جسے قوم نے منتخب کر کے اپنا لیڈر بنایا ہؤا تھا۔ یہ وہ شخص ہے جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقابلہ میں اپنی قوم کے لیڈر کے طور پر پیش ہوتا تھا۔ یہ وہ شخص ہے جس کو مکہ سے تعلق رکھنے والے عربوں نے اکٹھے ہو کر اپنا رئیس منتخب کیا ہؤا تھا۔ یہ قیصر کے دربار میں پیش ہوتا ہے۔ تو وُہ یہ تسلیم نہیں کرتا کہ یہ کسی بالمقابل حکومت کا بادشاہ ہے۔ قیصر یہ بھی تسلیم نہیں کرتا۔ کہ یہ کسی ریاست کا مالک ہے۔ قیصر یہ بھی تسلیم نہیں کرتا کہ یہ کسی فوج کا کمانڈر ہے۔ کیونکہ وہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا کہ عرب کوئی بالمقابل حکومت ہے۔ وُہ یہ سب ماننے کے لئے تیار نہیں تھا۔ کہ عرب کوئی ریاست ہے۔ وہ یہ ماننے کے لئے تیار نہیں تھا کہ عرب کوئی منظم قوم ہے جس کا کمانڈر ابوسفیان ہے وہ اسے تخت پر نہیں بٹھاتا۔ وہ اسے کرسی پر نہیں بٹھاتا۔ اسے کسی چیز پر نہیں بٹھاتا۔ اسے کسی چیز پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ بلکہ اسے اپنے سامنے کھڑا ہونے کا حکم دیتا ہے۔ اور وُہ اسے صرف ایک معمولی تاجر کی حیثیت دیتا ہے۔ یہ تو قیصر کا ابوسفیان اور اس شہر کے متعلق فیصلہ ہے۔ جس کا وُہ نمائندہ تھا۔ مگر ابوسفیان کا اپنا فیصلہ اس سے بھی عجیب تر ہے جب ابو سفیان سے مجرموں والا سلوک ہؤا۔ تو اس نے ایک لفظ بھی بطور احتجاج کے نہیںکہا۔ اگر وہ مکہ کو ایک حکومت قرار دیتا اور اپنے آپ کو واقعی ایک حکومت کا سردار کہتا تو وہ احتجاج کرتا اور کہتا کہ میں ایک حکومت کا رئیس ہوں مجھے اپنے برابر جگہ دو۔ مگر وہ خاموشی سے اس ذلت کو برداشت کر لیتا ہے۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ جب قیصر کے دربار میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خط پیش ہؤا۔ اور اس نے لوگوں کو بتایا کہ مجھے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے لکھا ہے کہ میں اس پر ایمان لے آئوں۔ بتائو اس بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے۔ تو ابوسفیان محض اس خط کے لکھنے سے ہی مرعوب ہو گیا اور اس نے ساتھیوں سے کہا لَقَدْ اَمِرَ اَمْرَ ابْنُ اَبِیْ کَبْشَۃَ کہ محمد (رسول اللہ) تو بہت بڑا ہو گیا ہے اس نے قیصر کو خط لکھ دیا ہے۔ اور وہ اس خط کی طرف توجہ دے رہا ہے۔ یہ اس کی حیثیت ہے کہ وہ ایک قوم کا بادشاہ ہے اور پھر اس بات پر حیران ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قیصر کو خط لکھ دیا۔ اگر حقیقی بادشاہ ہوتا تو اس لئے اس میں تعجب کی کون سی بات تھی۔ کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے قیصر کو خط لکھ دیا ہے۔ اگر کہو کہ اس نے خط لکھنے کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے یہ الفاظ کہے تھے کہ قیصر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خط سے متاثر ہؤا تھا۔ تو بہرحال اس سے بھی پتہ لگ سکتا ہے کہ مکہ والے اپنی کیا شان سمجھتے تھے۔ اگر تو وُہ خط لکھنے سے متاثر ہؤا ہے۔ تو یہ بہت ہی گھٹیا بات ہے۔ اور اگر وہ اس بات سے متاثر ہؤا ہے کہ ہم تو بالکل معمولی تھے۔ ہماری دنیا کی نگاہ میں کوئی عزت نہیں تھی۔ اب محمدصلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایک ایسا شخص پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے قیصر بھی مرعوب ہونے لگ گیا ہے۔ تو یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ مکہ والے تسلیم کرتے تھے کہ ابھی ابراہیمی دُعا پوری نہیں ہوئی بلکہ ابراہیم کی دُعا پوری ہو چکی ہوتی۔ اور اگر عرب ما نتے کہ مکہ ساری دنیا کی نگاہ میں ایک غیر معمولی عظمت رکھتا ہے۔ تو کیا ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کی دُعا پوری ہو جانے کا وہی یہی ثبوت پیش کرتے۔ کہ ہمارا بادشاہ ابوسفیان قیصر کے دربار میں پیش ہؤا۔ اور اس سے یہ سلوک ہؤا۔ یا کیا عتبہ اور شیبہ اور دوسرے بڑے بڑے عمائد اپنی عزت اور اقتدار کا کوئی ثبوت پیش کر سکتے تھے۔
اہل عرب کو دنیا کی نگاہ میں جو عزت حاصل تھی۔ اس کا اندازہ تو اسی سے ہو جاتا ہے۔ کہ ایران کے بادشاہ نے مسلمانوں کے حملہ کے وقت اسلامی لشکر کو یہ پیشکش کی تھی۔ کہ ایک ایک اشرفی لے لو اور واپس چلے جائو۔ وہ سمجھتا تھا۔ کہ عرب کے لوگ ایسے ذلیل ہیں کہ ایک ایک اشرفی دے کر ان کو خریدا جا سکتا ہے۔ یہ ایران کے بادشاہ کے عربوں کے متعلق مکہ والوں کے اخلاق کودیکھ کر اندازہ تھا۔ اور قیصر کا جو سلوک تھا وہ ابو سفیان والے واقعہ سے ظاہر ہے۔ وہ قیصر کے دربار میں پیش ہؤا۔ تو اس نے ایک تاجر سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہ سمجھی جسے ضرورت کے موقعہ پر جھوٹ بولنے سے بھی عار نہیں ہوتا۔ بلکہ ابوسفیان کی حیثیت تو اتنی بھی ثابت نہیں ہوئی۔ جتنی مولوی محمد حسین بٹالوی کی۔ اس نے مسٹر ڈگلس سے عدالت میں کہا تھا کہ مجھے کرسی ملنی چاہئیے۔ مگر ابوسفیان کے مونہہ سے اتنا بھی نہ نکلا۔ کہ مجھے کرسی دو۔ کیونکہ وُہ جانتا تھا کہ اگر میں نے کرسی کا مطالبہ کیا تو مجھے جوتیاں مار کر نکال دیا جائے گا۔ اب بتائو کیا وہ ان واقعات کو پیش کر کے کہہ سکتے تھے کہ ابراہیمؑ اور اسمٰعیل کی دُعا کا یہ ظہور ہے۔ وُہ جانتے تھے کہ یہ دُعا ابھی پُوری ہونے والی ہے۔ اور مکہ کو ابھی وہ اعزاز حاصل نہیںہؤا۔ جس کا ابراہیمی دعا میں ذکر آتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ ان کی ایک دُعا تھی جس کو تم بھی تسلیم کرتے ہو۔ تم بتائو کہ آخر وہ دُعا گئی کہاں۔ اس دُعا کے مطابق جو اس وقت مدعی کھڑا ہؤا ہے تم اس کے متعلق کہتے ہو کہ وہ جُھوٹا ہے۔ تو پھر اس دُعا کو پورا کون کرے گا۔ اور وُہ کون ہو گا۔ جو والد اور ولد کی دعائوں کا مصداق ہو گا۔ تم اس کے سوا اور کوئی وجود ایسا پیش نہیں کر سکتے۔ جو ان دعائوں کے نتیجہ میں ظاہر ہونے کا اعلان کر رہا ہو۔ پس ابراہیمؑ اور اسمٰعیلؑ کی دُعائوں میں بڑا بھاری ثبوت ہیں اس بات کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے اور راستباز رسول ہیں۔
دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ہم گزشتہ زمانہ کے ایک واقعہ کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں۔ اور ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے کا واقعہ ہے۔ تم اس واقعہ کو غور کرو۔ اور دیکھو کہ اس کو کس طرح ایک بے آب و گیاہ جنگل میں خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت پھینک دیا گیا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے بچایا۔ اور پروان چڑھایا۔ اور ایک بڑی نسل کا باپ بنایا۔ اسی طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اگر آپ کے رشتہ دار مکہ سے نکال دیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کی اسی طرح مدد کرے گا۔ جس طرح اسمٰعیل علیہ السلام کی اس نے مدد کی تھی۔
وُہ لوگ جو بائیبل کا مطالعہ رکھتے ہیں جانتے ہیں کہ بائیبل اس نظریہ کو پیش کرتی ہے۔ کہ حضرت ہاجرہ جو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی والدہ تھیں۔ ان سے سارہ کی لڑائی ہوئی۔ اور اس نے ناراض ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے مطالبہ کیا۔ کہ ہاجرہ اور اس کے بیٹے اسمٰعیل کو اپنے گھر سے نکال دو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے الٰہی اشارات اس کی تائید میں پائے۔ چنانچہ ماں اور بیٹے دونوں کو گھر سے نکال کر مکہ کی وادی میں لا کر چھوڑ گئے۔ وہ جگہ جہاں ان کو رکھا گیا۔ وہاں کھانے کا کوئی سامان نہ تھا۔ پینے کا کوئی سامان نہ تھا۔ رہائش کے لئے کوئی جگہ نہ تھی۔ وہاں ایک دُوسرے سے ملنے کے لئے کوئی آبادی نہیں تھی۔ ایک سنسان اور ویران جنگل میں جہاں نہ پانی کا ایک قطرہ تھا اور نہ غذا کا ایک دانہ۔ کھلے آسمان کے نیچے خدا پرتوکل کرتے ہوئے وُہ دو کمزور اور نحیف و ناتواں جانوں کو چھوڑ گئے۔ اوراس لئے چھوڑ گئے کہ خدا نے ان سے کہا تھا کہ وہ ایسا کریں۔ جب انہوں نے خدا کے لئے یہ قُربانی کی تو خدا نے بھی آسمان پر ان کی اس قُربانی کو قبول فرمایا۔ اور اس نے رفتہ رفتہ وہاں ایک شہر آباد کر دیا۔ پھر خدا نے اس مقام کو یہ عظمت دی کہ وُ ہ لوگوں کا مرجع بن گیا۔ بیت اللہ کی اس میں تعمیر ہوئی۔ اور اسے ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ یہ شرف بخشا گیا کہ اس امن و امان کا مرکز قرار دیا گیا۔ اس واقعہ کو پیش کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دن تم بھی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے شہر میں اسی طرح نکال دو گے جس طرح سارہ نے ہاجرہ اور اسمٰعیل کو نکالا تھا۔ مگر ہم کو بھی قسم ہے ابراہیمؑ اور اپنے بیٹے اسمٰعیل کی۔ کہ جس طرح وہاں ایک ویران اور سنسان جنگل کو ہم نے ایک عظیم الشان شہر کی شکل میں تبدیل کر دیا تھا۔ اور پھر ہم نے اسے یہاں تک عظمت دی کہ بلد الحرام قرار دے دیا۔ اسی طرح جس گائوں میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہجرت کر کے جائیں گے اس گائوں کو بھی ہم شہر بنا دیں گے اور پھر اس شہر کو بھی یہ عظمت دیں گے۔ کہ اسے مکہ کی طرح بلد الحرام قرار دیں گے پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مجھے اس باپ کی قسم ہے جس نے اپنی بیوی کے کہنے پر اپنے بیٹے کو نکالا۔ وہ بیٹا ایسی حالت میں نکلا۔ جبکہ وہ بے کس بے زر اور بے پَر تھا۔ کوئی اس کا یار اور مددگار نہیں تھا۔ مگر خدا نے اسے رفتہ رفتہ بہت بڑی طاقت کا مالک بنا دیا۔ تم بے شک محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنے شہر میں سے نکال دو۔ مگر یاد رکھو پھر مکہ منفرد عزت رکھنے والا شہر نہیں رہے گا۔ بلکہ اسی قسم کی عزت والا ایک اور شہر اس کے مقابل میں کھڑا کر دیا جائے گا۔ چنانچہ دیکھ لورسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مکہ میں سے نکالا گیا۔ مگر آخر آپ کو وُہ عظمت حاصل ہوتی کہ آپ نے ایک دن سب لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا اے لوگو جس طرح ابراہیمؑ کے ذریعہ مکہ مکرمہ کو ایک خاص اعزاز بخشا گیا تھا میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدینہ کو بھی وہی اعزاز عطا کیا گیا ہے۔ جس طرح مکہ میں جان کی عزت کی جاتی ہے اسی طرح مدینہ میں جان کی عزت کی جائے۔ جس طرح وہاں درخت کاٹنے جائز نہیں۔ اسی طرح مدینہ میں بھی درختوں کا کاٹنا جائز نہیں۔ جس طرح وہاں فتنہ وفساد اور قتل و خونریزی کی سخت ممانعت ہے۔ اسی طرح مدینہ میں بھی فتنہ وفساد اور قتل و خونریزی کی سخت ممانعت ہے۔ غرض وہ تمام باتیں جو مکہ کے متعلق تھیں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ منورہ پر بھی عائد کر دیں۔
آخر یہ بھی غور کرنے والی بات ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مدینہ کو حرم بنانے کا اختیار کس نے دیا تھا۔ بعض لوگ اعتراض کرتے ہوئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ایسا حکم دینا خدا کا کام تھا۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ اختیار نہیں تھا۔ کہ خود بخود ایسا حکم دے دیتے۔ ان نادانوں کو یہ معلوم نہیں۔ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو قرآن کریم کا وہ گہرا علم بخشا گیا تھا۔ جو دُنیا میں اور کسی شخص کو عطا نہیں کیا گیا۔ آپ نے مدینہ منورہ کے متعلق جو حکم دیا۔ وہ اسی آیت سے ماخوذ تھا کہ لَآ اُقْسِمُ بِھَذَا الْبَلَدِ وَاَنْتَ حِلٌّٔ بِھَذَا الْبَلَدِ وَوَالِدٍِ وَّمَاوَلَدَ میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کو بسانے والے کی۔ اور میں قسم کھاتا ہوں اس بیٹے کی جو اس شہر میں آ کر بسا تھا۔ بے شک تم محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس شہر میں سے نکال دو۔ مگر یاد رکھو جس شہر میں وہ جائے گا۔ اس شہر کو مکہ کا قائمقام بنا دیا جائے گا۔ اور اُسے وہی عزتیں دی جائیں گی جو اس شہر کو حاصل ہیں۔ مکہ اپنے اس اعزاز میں منفرد نہیںرہے گا۔
تیسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ وَوَالَدٍ وَّمَا وَلَدَ سے مراد رسول کریمصلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی امت ہے۔ اور یہ فرمایا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی جماعت اس بات پر شاہد ہے کہ خدا تعالیٰ اسلام کو ترقی دینے والا ہے۔ جس طرح اس بلد الحرام سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نکلنا اور پھر بڑی شان و شوکت کے ساتھ اس میں واپس آنا اس بات کا ثبوت ہو گا۔ کہ جو باتیں اس کی طرف پیش کی جا رہی ہیں۔ بالکل درست ہیں۔ اسی طرح خود رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی امت اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہو گی۔ کہ ان لوگوں کو کوئی قوم مٹا نہیں سکتی۔ دنیا میں دو قسم کی شہادت ہوتی ہے۔ ایک اندرونی اور ایک بیرونی۔ بیرونی شہادت پھر دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک مادی اور ایک روحانی۔ مادی شہادت تو یہ ہے۔ کہ ایک شخص کے ساتھ کئی ہزار کا لشکر ہو۔ لڑائی کا سازوسامان ان کے پاس موجود ہو۔ اطاعت کا مادہ سب میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہو۔ ایسے انسان کو دیکھ کر ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ ضرورت ہوتی ہے۔ وہ سب اس کے پاس موجود ہیں۔ روحانی شہادت یہ ہوتی ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کی طرف سے کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور وہ اپنی کامیابی کے متعلق اللہ تعالیٰ سے علم پا کر پیشگوئیاں کرتا ہے۔ جو لوگ مومن ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ شخص بہرحال جیت جائے گا۔ کیونکہ خدائی وعدے اس کے ساتھ ہیں۔ لیکن ایک شہادت اندرونی ہوتی ہے۔ جسے انگریزی میں اِنْ ٹَرِن زِکْ ویلیو INSTRINSIC VALUE کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں ’’ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات وہ بظاہر کمزور اور بے حقیقت نظر آتے ہیں۔ لیکن ان کے اندر ایسے اوصاف اور ایسی قابلیتیں پائی جاتی ہیں۔ اور ان کی اخلاقی طاقت ایسی زبردست ہوتی ہے کہ باوجود ان کے کمزور ہونے کے لوگ یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کہ ان لوگوں کے مقابل پر کوئی قوم ٹھہر نہیں سکتی۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک تو طرف اسلام کی ترقی کے متعلق پیشگوئیاں بیان کیں اور فرمایا کہ تم خواہ کچھ کہو۔ لیکن ہم یوں کہتے ہیں ۔ یا ابراہیمؑ نے یہ پیشگوئی کی تھی۔ جو بہرحال پوری ہو گی۔ اور دوسری طرف فرمایا ہم نہ صرف ان پیشگوئیوں کو پیش کرتے ہیں جو لیالی عشر میں اور ان لیالی کے گزرنے کے بعد پوری ہو کر اس بات کا ثبوت ہوں گی کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دعویٰ سچا ہے۔ بلکہ ہم اس کی صداقت اور راستبازی کا اور اس کے دنیا پر ایک دن غالب آ جانے کا تمہارے سامنے ایک اندرونی ثبوت بھی پیش کرتے ہیں کہ تم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے اتباع کو دیکھ لو ان کے اندر جو اوصاف پائے جاتے ہیں کیا یہ ہارنے والے لوگوں کے اندر اپائے جاتے ہیں۔ یا غالب آنے والے لوگوں کے اندر موجود ہوتے ہیں۔ گویا عشروَالِدا ور مَاولد میں اللہ تعالیٰ نے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کی جماعت کی کیرکٹر کو پیش کیا ہے۔ اور فرمایا ہے تم ان لوگوں کے کیرکٹر سے اپنا کیرکٹر ملا کر دیکھو۔ تمہارا کیرکٹر تو وُہ ہے جو ان الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ کَلَّا بَلْ لَا تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ وَلَا تَحَاضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمَاً وَتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمَّاً اور یہ بات واضح ہے کہ اس کیرکٹر والے کبھی جیت نہیں سکتے۔ اب بتاتا ہے کہ اس وَالِد اور مَاوَلَد کے اندر جو کیرکٹر پائے جاتے ہیں۔ اس کیرکٹر کے مالک کبھی ہار نہیں سکتے۔ تمہارا کیرکٹر تو یہ تھا کہ یتیم کو پوچھنا نہیں۔ مسکین کو کھانا نہیں کھلانا۔ جائدادیں آئیں۔ تو اُن کو لٹا دینا۔ یا مال سے اتنی محبت رکھنا کہ ضرورت پر بھی اس کو خرچ نہ کرنا اور انتہائی بخل سے کام لینا۔ یعنی ایک طرف تو تمہارے بعض حصۂ قوم میں اتنا اسراف پایا جاتا ہے۔ کہ باپ دادا کی جائدادیں آتی ہیں۔ تو وہ ان کو تباہ کر دیتا ہے۔ اور دوسری طرف تم سے کچھ لوگوں کے اندر ایسا بخل پایا جاتا ہے کہ مال آئے تو اسے بند کر کے رکھ لیتے ہیں۔ گویا کچھ تو ایسے ہیں جو اپنے مال کو بے مصر ف خرچ کرتے ہیں۔ اور کچھ وُہ افراد ہیں۔ جو بامقصد بھی صرف نہیں کرتے یہ چار قسم کی صفات جس قوم میں ہوں۔ تم خود ہی غور کرو۔ کہ آیا وُہ قوم کبھی جیت سکتی ہے ۔ اس کے مقابل میں تم اس باپ اور اس کے بیٹوں کو دیکھو۔ یہاں گو نام بنام ایک ایک صفت کا ذکر نہیں کیا گیا۔ مگر تقابل میں صاف ظاہر ہے کہ جن بُرائیوں کا ذکر دشمنوں کے بارہ میں کیا گیا ہے۔ انہی کے مقابل کی نیکیاں ان لوگوں میں پائے جانے کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے۔ چونکہ کفار کی برائیاں یہ بیان کی تھیں۔ کہ وُہ یتامٰی کی طرف توجہ نہیں کرتے۔ مساکین کو کھانا نہیں کھلاتے۔ اسراف میں مبتلا رہتے ہیں۔ یا اتنے بخل سے کام لیتے ہیں۔ کہ ضرورت حقہ پر بھی روپیہ خرچ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اس جگہ انہی چار عیبوں کے مقابل کی خوبیوں کے متعلق دعویٰ کیا گیا ہے۔ کہ وہ اس باپ اور اس کی اولاد میں پائی جاتی ہیں۔ ان میں اکرام یتیم بھی پایا جاتا ہے۔ ان میں مساکین کی پرورش کا جزبہ بھی موجود ہے۔ وہ اسراف بھی نہیں کرتے۔ اور ضرورت پر اپنے مالوں کو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرانے سے دریغ بھی نہیں کرتے۔ چنانچہ رسول کریمصلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ گھبرائے۔ کہ یہ کہیں میرا امتحان نہ ہو۔ تو اسی حالت میں آپ حضرت خدیجہؓ کے پاس آئے اور ان سے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلٰی نَفْسِیْ مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہو گیا ہے۔ حضرت خدیجہ نے یہ سنتے ہی بلاتکلف بغیر سوچنے اور بغیر کسی فکر و تردّد سے کام لینے کے نہائت اطمینان کے ساتھ کہا کَلَّا وَاللّٰہِ مَا یخُزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتَصِلُ الرِّحْمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِی الطَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلٰی نَوَائِبِ الْحَقِّ (بخاری باب کیف کان بدء الوحی) خدا کی قسم۔ خدا کبھی آپ کو ذلیل نہیں کر سکتا۔ کیونکہ آپ وہ ہیں جو صلہ رحمی کرتے ہیں۔ آپ وہ ہیں جو سچائی سے کام لیتے ہیں۔ آپ وُہ ہیں جو لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں۔ آپ وُہ ہیں جنہوں نے تمام معدوم اخلاق کو اپنے اندر پیدا کیا ہؤا ہے۔ آپ وُہ ہیں جو مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اور آپ وُہ ہیں جو حق کی راہ میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں۔ آپ جیسے انسان کو اللہ تعالیٰ کس طرح ضائع کر سکتا ہے۔ اب دیکھ لو حضرت خدیجہ نے جو باتیں بیان فرمائی ہیں اِن سب میں وہ اخلاق آ گئے جو کفار کے اندر موجود نہیں تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ تَقْرِی الضَّیْفَ آپ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اس میں یہ بات آ گئی۔ آپ کے اندر مال کی ایسی محبت نہیں تھی کہ آپ اسے بند کر کے بیٹھ رہتے۔ بلکہ ہر جائز ضرورت پر آپ اسے خرچ کر دیتے تھے۔ پھر انہوں نے ایک خوبی ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔ کہ تَحْمِلُ الْکَلَّ۔ آپ لوگوں کے بوجھ بٹاتے ہیں۔ اس میں یتامٰے اور مساکین بھی شامل ہیں۔ کیونکہ جو شخص کسی کام کے قابل نہ ہو۔ وُہ دوسروں کے لئے ایک بوجھ ہوتا ہے۔ یتیم کسی کام کے قابل نہیں ہوتا بوجہ اپنی کم سنی کے اور مسکین بھی کسی کام کے قابل نہیں ہوتا بوجہ فقدان روپیہ کے بے شک اس میں اور باتیں بھی شامل ہیں۔ مگر اکرام یتیم اور مساکین پروری دونوں بہرحال تَحْمِلُ الْکَلَّ میں شامل ہیں۔ پھر جط محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لوگوں کی ضروریات کے لئے روپیہ خرچ کیا کرتے تھے۔ تو یہ لازمی بات ہے کہ جو شخص روپیہ خرچ کرنے والا ہو وہ کنجوس نہیں ہو سکتا پس بخل کی بھی نفی آ گئی۔ پھر اسراف بھی جاتا رہا۔ کیونکہ حضرت خدیجہ فرماتی ہیں۔ تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وہ اخلاق جو قوم میں سے مٹ چکے ہیں۔ ان کو دوبارہ اپنی قوم میں واپس لا رہے ہیں۔ گویا وہ سب اخلاق جن کو آپ کی قوم کھو چکی تھی۔ وہ آپ کے ذریعہ دوبارہ حاصل ہو رہے ہیں۔ اس سے یہ نتیجہ خود بخود نکل آیا۔ کہ محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مسرف نہیں تھے۔ پس حضرت خدیجہؓ کی گواہی اپنی ذات میں اس بات کا ایک قطعی اور یقینی ثبوت ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اندر وہ سب اوصاف و کمالات پائے جاتے تھے جو ایک ترقی کرنے والے وجود کے اندر پائے جانے ضروری ہیں۔
وَالِد کے بعد وَلَد کا ذکر آتا ہے۔ ان کے اخلاق اور اُن کی قربانیوں کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ ان کے اخلاق اور اُن کی قربانیوں کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ تو حیرت آتی ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے کے بعد انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا۔ کہ وطن کی قربانی یتامٰے کی خبر گیری مساکین کی پرورش۔ دینی ضروریات کے لئے روپیہ صرف کرنا یہ سب خوبیاں ان کے اندر اپنی پوری شان کے ساتھ موجود تھیں۔ چنانچہ ان کے اخلاق اور ان کی قربانیوں کا یہ ایک زندہ ثبوت موجود ہے۔ کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے وطنوں کو قربان کر دیا۔ اپنے رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لیا۔ اور ہر قسم کی موت کو اپنے اوپر خوشی سے وارد کر لیا۔ اور ہر قسم کی موت کو اپنے اوپر خوشی سے وارد کر لیا۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ والد اور مَاوَلَدَ دونوں پیش کرتا ہے۔ اور بتاتا ہے کہ ان اوصاف کی موجودگی میں تم یہ کس طرح کہہ سکتے ہو۔ کہ یہ لوگ نہیں جیتیں گے پیشگوئیوں کے متعلق تو تم یہ کہہ سکتے ہو کہ جب وہ پوری ہوں گی تو دیکھا جائے گا۔ مگر یہ چیز تو تمہارے سامنے موجود ہے۔ تم ہر وقت دیکھ سکتے ہو۔ کہ تم میں کیسے اخلاق پائے جاتے ہیں۔ اور مسلمانوں میں کس قسم کے اخلاق پائے جاتے ہیں۔ تمہارے اخلاق اس بات کا ثبوت ہیں کہ تم لوگ ہارنے والے ہو۔ اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کی جماعت کے اخلاق اس بات کا ثبوت ہیں۔ کہ وہ لوگ جیتنے والے ہیں۔
بطور تنزل اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں۔ کہ وَوَالدٍ وَمَاوَلَدَ سے آدم اور اس کی تمام اولاد مراد لی جائے۔ اور آیت کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ ہم محمدر سول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کے ثبوت میں تمام بنی نوع انسان کو بطور شہادت کے پیش کرتے ہیں۔ تم دیکھ لو کہ نوعِ انسانی میں سے کچھ لوگ عزت پانے والے ہوتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ذلت پانے والے ہوتے ہیں۔ عزت پانے والوں میں جو خوبیاں موجود ہوتی ہیں وہ سب کی سب محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے ساتھیوں میں پائی جاتی ہیں۔ اور ذلت پانے والوں میں جو بُرائیاں موجود ہوتی ہیں۔ وُہ سب کی سب تم میں پائی جاتی ہیں۔ اب تم خود ہی سوچ سکتے ہو کہ ذلت کس کے حصہ میں آئے گی۔ اور فتح کس کے حصہ میں۔ اس صورت میں وَالدٍ وَّ مَا وَلَدَ سے مراد دنیا کے تمام باپ اور تمام اولادیں ہوں گی۔ یعنی تم اس دنیا پر غور کرو۔ لوگوں کے حالات پر تدبر کرو۔ ترقی و تنزل کے وجوہ پر نظر غائر ڈالو۔ تمہیں معلوم ہو گا کہ بعض خرابیاں باپ سے پیدا ہوتی ہیں اور بعض خرابیاں اولاد سے پیدا ہوتی ہیں۔ لیکن محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کی جماعت میں یہ دونوں باتیں نہیں پائی جاتیں۔ نہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں وہ خرابیاں ہیں جو باپ میں موجود ہوتی ہیں۔ اور آئیندہ نسل کو تباہ کر دیتی ہیں۔ نہ ان کے صحابہؓ میں وہ خرابیاں ہیں جو اولاد میں موجود ہوتی ہیں۔ اور وُہ باپ دادا کے نام کو ڈبو دیتی ہیں۔
پھر دنیا میں ترقی و تنزل کے حالات پر غور کرنے سے ان کی چار وجوہ معلوم ہوتی ہیں۔ یا تو باپ قابل ہوتا ہے۔ لیکن بیٹا ناقابل ہوتا ہے۔ اور بیٹا قابل ہوتا ہے۔ یا باپ اور بیٹا دونوں ناقابل ہوتے ہیں یا باپ اور بیٹا دونوں قابل ہوتے ہیں۔ گویا یا تو دونوں قابل ہوں گے۔ یا دونوں ناقابل ہوں گے۔ یا بیٹا قابل ہو گا۔ اور باپ ناقابل ہو گا اور بیٹا قابل۔ ان چاروں صورتوں میں جب بیٹا قابل ہوتا ہے اور باپ ناقابل ہوتا ہے۔ تو کبھی بیٹا اپنے باپ کے اثر کو قبول کر لیتا ہے اور کبھی نہیں کرتا۔ اور آگے نکل جاتا ہے۔ کبھی باپ تو قابل ہوتا ہے۔ لیکن بیٹا قابل ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں کبھی باپ کو ناکامی ہوتی ہے۔ اور کبھی تربیت سے وہ اپنے بیٹے کو درست رک لیتا ہے۔ لیکن کبھی دونوں ناقابل ہوتے ہیں۔ اور کبھی دونوں قابل ہوتے ہیں۔ جب باپ قابل ہو۔ اور بیٹا ناقابل۔ تو تربیت سے اس کے نقص کو دُور کیا جا سکتا ہے۔ گو بعض دفعہ یہ نقص دُور نہیں بھی ہوتا۔ جب باپ اور ناقابل ہو اور بیٹا قابل۔ تو وہ کبھی باپ کے اثر کو مٹا کر کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور کبھی کسی پیدا کردہ الجھنوں میں دب کر خود بھی ہلاک ہو جاتا ہے۔ لیکن جب دونوں ناقابل ہوں تو اس وقت ترقی کا کوئی راستہ نہیں کھلتا۔ لیکن جب دونوں قابل ہوں۔ تو اس وقت ان کا ترقی سے محروم رہنا ناممکن ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو دیکھ لو۔ باپ وُہ ہے جو اپنے اندر ساری خوبیاں جمع رکھتا ہے۔ اور بیٹے وہ ہیں جو ہر وقت اس کی اطاعت میں مشغول رہتے ہیں۔ اور جو بھی حکم ملے اس پر فوری طور پر عمل کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ تکالیف برداشت کرتے ہیں مشکلات میں سے گزرتے ہیں۔ مگر یہ پسند نہیں کرتے۔ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مونہہ سے کوئی بات نکلے۔ تو وہ اس کے سننے سے محروم رہیں۔ اور اس پر عمل کرنے میں پیچھے رہیں۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ کا واقعہ اس کی ایک شاندار مثال ہے۔ انہوں نے بہت بعد میں اسلام قبول کیا تھا۔ بیس سال رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دعویٰ پر گزر چکے تھے۔ کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بیعت میں شامل ہوئے۔ اور اس کے تین سال بعد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وفات پا گئے۔ وُہ چونکہ جانتے تھے۔ کہ بیس سال گزر چکے ہیں اور مجھے اسلام میں داخل ہونے کی بہت بعد میں توفیق ملی ہے۔ اس لئے جب انہوں نے بیعت کی تو اپنے دل میں یہ عہد کر لیا کہ اب میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دروازہ سے ہلوں گا نہیں سب لوگ اپنی جھولیاں بھر چکے ہیں۔ صرف میں خالی ہاتھ ہوں۔ اگر میں نے ان ایام کو بھی ضائع کر دیا۔ تو مجھے کیا ملے گا۔ چنانچہ اس عہد کے بعد وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دروازہ پر بیٹھ گئے اور کچھ ایسے بیٹھے کہ ایک منٹ کے لئے بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھوں سے اوجھل ہونا انہیں ایک بلا اور عذاب معلوم ہوتا۔ وہ ہر وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس بیٹھے رہتے۔ سوائے اس کے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم گھر میں چلے جائیں۔ کیونکہ وہاں پردہ ہؤا کرتا تھا۔ چونکہ وہ ہر وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دروازہ پر ہی بیٹھے رہتے تھے۔ اور وُہ ڈرتے تھے کہ اگر میں اِدھر اُدھر ہؤا تو ایسا نہ ہو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مونہہ سے کوئی بات نکلے اور میں اسے نہ سن سکوں۔ اس لئے بسا اوقات انہیں کئی دن کا فاقہ آ جاتا۔ اور پھر شدت بھوک اور ضعف سے یہاں تک حالت ہو جاتی کہ زمین پر گر جاتے ۔ لوگ سمجھتے کہ ان کو مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور وہ عرب کے دستور کے مطابق اس کے علاج کے لئے ان کے سر پر جوتیاں مارنے لگ جاتے۔ جب اسلامی فوجوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے کسریٰ کو شکست دی۔ تو وُہ رومال جس کو کسر نے اپنے ہاتھ میں لے کر دربار شاہی میں تخت پر بیٹھا کرتا تھا۔ مال غنیمت میں تقسیم ہو کر حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آیا۔ ایک دفعہ وہ رومال ان کے ہاتھ میں تھا کہ انہیں کھانسی اٹھی بلغم آیا۔ اور انہوں نے اس رومال میں اس بلغم کو تھوک دیا۔ اور پھر کہا بَخِّ بَخِّ اَبُوھُرَیْرَۃَ واہ واہ ابو ہریرہ تیری بھی عجیب شان ہے کہ کسریٰ کا رومال تیرے ہاتھ میں ہے۔ اور تُو اس میں بلغم تھوک رہا ہے۔ لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا اس سے کیا مطلب۔ اس پر انہوں نے واقعہ سنایا۔ اور بتایا کہ جب میں نے اسلام قبول کیا۔ تو میں نے یہ عہد کر لیا کہ چونکہ میں بہت بعد میں شامل ہؤا ہوں اس لئے اب میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت کو چھوڑوں گا نہیں۔ اور آپ کے دروازہ پر ہی بیٹھا رہوں گا۔ خواہ مجھے کتنی تکلیف ہو۔ چنانچہ خدا نے مجھے اس عہد پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ مگر میری حالت یہ تھی۔ کہ بعض دفعہ مجھ پر سات سات وقت کا فاقہ آ جاتا۔ اور پھر ضعف کی وجہ سے مجھے غشی کا دورہ ہو جاتا۔ صحابہؓ سمجھتے کہ مجھے مرگی ہو گئی ہے۔ عربوں میںر واج تھا۔ کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہوتا۔ تو وُہ اس کے سر پر جوتیاں مارتے اور سمجھتے کہ یہ اس مرض کا علاج ہے۔ اور اس طرح مریض کو ہوش آ جاتا ہے۔ وُہ کہتے ہیں جب مَیں ہوش میں ہوتا تو میرے سَر پر بھی اس خیال کے ماتحت جوتیاں ماری جاتیں حالانکہ مجھے اندر سے ہوش ہوتا تھا۔ لیکن ضعف اس قدر غالب ہوتا تھا کہ بول نہیں سکتا تھا۔ مگر آج یہ حالت ہے کہ کسریٰ کا رومال میرے ہاتھ میں ہے۔ اور میں اس میں اپنا بلغم تھوک رہا ہوں۔
اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ کیسی تربیت یافتہ کیسی بااخلاق کیسی سمجھدار اور کیسی قربانی کرنے والی اولاد اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا کی تھی۔ اور اس میں علم سیکھنے کا مادہ کس قدر اور انتہائی طور پر پایا جاتا تھا۔
غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کامیابی کے اصول کے جتنے راستے دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ سب کے سب اس باپ اور بیٹوں کو حاصل ہیں۔ اس لئے تمہیں اس بات میں کبھی شبہ نہیں کرنا چاہئیے کہ تمہاری شکست اور ان لوگوں کی فتح بالکل قطعی اور یقینی ہے۔
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ
ہم نے یقینا انسان کو رہینِ محنت بنایا ہے۵؎
۵؎ حل لغات
اَلْکَبَدُ: اَلشِّدَۃُ والْمُشَقَّۃُ یعنی کبد سخت اور مشقت کو کہتے ہیں۔ اسی طرح کَبَدٌ: وَسْطُ الرَّمْلِ یعنی ٹیلے کے درمیانی حصہ کو بھی کہتے ہیں اور کَبَدٌ کے معنے وَسْطُ السَّمَائِ کے بھی ہیں۔ یعنی آسمان کے درمیان کو بھی کبد کہتے ہیں۔ اسی طرح کَبَدَ الرَّجُلُ کَبَداً کے معنے ہوتے ہیں۔ اَلِمَ مِنْ رَجْعِ کَبَدِہٖ وُہ درد جگر میں مبتلا ہو گیا (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے ہم نے انسان کو کبد میں بنایا ہے محاورہ کے الفاظ سے اس کے یہ معنے ہوں گے کہ ہم نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وُہ ہمیشہ تکلیف اور مشقت سے کام کرتا ہے۔ اسی طرح اس کے یہ بھی معنے ہیں کہ ہم نے انسان کو وسط سما میں بنایا ہے۔
پہلے معنوں کی رُو سے اللہ تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے ہم نے انسان کو ایسا بنایا ہے کہ وہ محنت کرنے پر مجبور ہے۔ یہ گویا ایک لازمی بات ہے۔ جس سے کوئی مفر نہیں۔ قدرت کا جو بھی کارخانہ ہے یا ہماری طرف سے جو قوتیں بھی بنی نوع انسان کو دی گئی ہیں۔ وہ لازمی طور پر اس بات کو ظاہر کرتی ہیں۔ کہ ہم نے انسان کو محنت و کوشش کے لئے پیدا کیا ہے۔ میرے نزدیک یہ دوسرا جواب قسم ہے یعنی محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سچائی اور ان کی راستبازی کا ثبوت صرف وہی نہیں جو ہم پہلے بیان کر چکے ہیں۔ بلکہط اس کے ساتھ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صداقت کا ایک یہ بھی ثبوت ہے۔ کہ ہم نے انسان کو ایسا بنایا ہے۔ کہ وہ محنت کرتا ہے۔ اور محنت کرنے پر مجبور ہے۔ یا وُہ خدا ہو کر رہے گا یا دُنیا کا۔ درمیان میں وہ لٹک نہیں سکتا۔ اور نہ درمیانی انسان کبھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ کامیابی یا عزت دو ہی طرح حاصل ہو سکتی ہے۔ یا تو انسان دنیا کا ہو رہے۔ اگر خدا بھول گیا ہے۔ تو دنیوی لحاظ سے محنت کرے۔ کوشش کرے۔ علم حاصل کرے۔ قربانی کرے۔ اور اس طرح دنیا میں عزت حاسل کرے۔ اور یا پھر یہ طریق ہے کہ وُہ خدا کا ہو جائے۔ اور دنیا کی محبت اپنے دل سے بالکل مٹا دے۔ اور دین کے لئے جدوجہدمیں لگ جائے۔ درمیانی راستہ اور کوئی نہیں۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ بغیر محنت دینی یا محنت دنیوی کے کوئی انسان عزت حاصل نہیں کر سکتا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلٰوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے۔ کہ ہمارے زمانہ میں تمام عزت خدا نے ہمارے ساتھ وابستہ کر دی ہے۔ اب عزت پانے والے یا ہمارے مرید ہوں گے۔ یا ہمارے مخالف ہوں گے۔ چنانچہ فرماتے ہیں مولوی ثناء اللہ صاحب کو دیکھ لو۔ وُہ کوئی بڑے مولوی نہیں۔ ان جیسے ہزاروں مولوی پنجاب اور ہندوستان میں پائے جاتے ہیں۔ ان کو اگر اعزاز حاصل ہے تو محض ہماری مخالفت کی وجہ سے۔ وُہ لوگ خواہ اس امر اقرار کریں یا نہ مگر واقعہ یہی ہے۔ کہ آج ہماری مخالفت میں عزت ہے یا ہماری ہماری تائید میں گویا اصل مرکزی وجود ہمارا ہی ہے اور مخالفین کو بھی اگر عزت حاصل ہوتی ہے تو ہماری وجہ ہے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے شہادت کے طور پر جن چیزوں کو پیش کیا ہے۔ ان کا وجود اس بات کا ایک اہم ثبوت ہے۔ کہ ہم نے انسان کو محنت ومشقت سے کام لینے والا بنایا ہے۔ یہ مکہ جس میں تو رہتا ہے جس میں تجھے حلال سمجھا جانے والا ہے۔ جس میں تجھے ہر تیر کا نشانہ بنایا جانے والا ہے جس میں تیری جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں سمجھی جائے گی۔ یہ ہمارے اس دعویٰ کا ثبوت ہے اس لئے کہ تجھے مارنے اور تباہ کرنے کی وہ جتنی بھی کوشش کریں گے ان میں انہیں ناکامی ونامرادی حاصل ہو گی۔ اور انہیں آخر اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ کہ ان کی کوشش اور کارنامے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ ان کی یہ ناکامی اپنی ذات میں اس بات کا ثبوت ہو گی کہ انسان کو ہم نے ایسا ہی بنایا ہے۔ کہ سچی محنت کے بغیر وُہ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ ان کی مخالفتیں بالکل سطحی ہیں۔ اور ان کی کوششیں بالکل عبث۔ کیونکہ وہ حقیقی قربانی سے کام نہیں لے رہے وہ سمجھتے ہیں جو بڑا بننے والا ہو اس کو مار دینا چاہئیے۔ حالانکہ مارنے سے کیا بنتا ہے۔ بڑا انسان تب بنتا ہے جب وہ قربانی سے کام لے۔ مگر تمہاری یہ حالت ہے۔ تم یتیموں کو پوچھتے نہیں۔ تم مسکینوں کو کھانا نہیں کھلاتے۔ تم اپنے مالوں کو قومی اور ملی مفاد کے لئے قربان نہیں کرتے۔ تمہیں جائدادیں ملتی ہیں تو تم انہیں تباہ برباد کر دیتے ہو۔ گویا جس قدر بنیادی کام ہیں اور جو محنت و مشقت اور قربانی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو تم سرانجام نہیں دیتے۔ا ور جو شخص ان کاموں کو کرنے لگے۔ اسے مارنے کے لئے دوڑ پڑتے ہو اس سے کیا بن سکتا ہے۔ تم یاد رکھو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خواہ تم مارنے کی کتنی بھی کوشش کرو وہ کبھی نہیں مرے گا۔ بلکہ تم ہی مرو گے۔ اور یہ ثبوت ہو گا اس بات کا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام تر عزت قربانی میں رکھی ہے۔ جب کوئی شخص اپنے جگر کا خون کر کے آگے بڑھنا چاہے۔ تو اللہ تعالیٰ اسے عزت دے دیتا ہے۔ لیکن وہ جو سہل ترین راستہ پر چلنے کی کوشش کریں جو قربانیوں میں حصہ لینے سے دل چرائیں۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ پس فرمایا تم اپنا روشن مستقبل کس طرح مانتے ہو جب کہ تم کبد والی حالت ہی نہیں۔ کبد والی حالت تو تقاضا کرتی ہے۔ کہ انسان باخدا کا ہو کر رہے۔ یا دنیا کا۔ مگر تم نہ خدا کے ہو نہ دنیا کے۔ نہ تم میں مذہب ہے نہ قومی اخلاق ہیں۔ اور جب حالت یہ ہے تو تمہارا مستقبل کس طرح ہو سکتا ہے۔
اس آیت کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں۔ کہ ہم نے انسان کو وسط سماء میں پیدا کیا ہے۔ سماء سے مراد وہ بلند اخلاق ہوں گے۔ جو انسان کے روحانی ارتقاء کے لئے ضروری ہیں۔ اور وسط کے معنی تو ہر شخص جانتا ہی ہے پس لَقَدْ خَلَقْنَا الاِنْسَانَ فِیْ کَبَدٍ کے معنے یہ ہوئے کہ کامل انسان وہی ہوتا ہے۔ اور بااخلاق وہی کہلا سکتا ہے جس کے اندر اعتدال موجود ہو۔ اور وسطی اخلاق اس کے اندر پائے جائیں۔ گویا اول اس کا سماء سے تعلق اس کے اندر پائے جائیں۔ گویا اول اس کا سماء سے تعلق ہو۔ اور پھر اس کے اخلاق وسطی رنگ کے ہوں وہ ایک طرف جھکا ہؤا نہ ہو۔ وسط سماء میں پیدا کرنے کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں۔ کہ جب تک اس کا شرعی اور قدرتی قواعد سے تعلق نہ ہو گا۔ کامیاب نہیں ہو سکتا۔ دونوں کا پورا کرنا ضروری ہے۔ یعنی جب تک اس میں اعتدال نہ ہو گا۔ کامیاب نہیں ہو سکے گا۔
اَیَحْسَبُ اَنْ لَّنْ
کیا وُہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس پر کسی کا زور نہ چلے گا۔۶؎ وُہ کہتا ہے کہ میں نے تو ڈھیروں ڈھیر مال لٹا دیا ہے۷؎
۶؎تفسیر
یہاں وہ انسان مراد نہیں جسے خدا تعالیٰ نے کبد والی حالت میں پیدا کیا ہے۔ بلکہ یہاں انسان سے مراد اس کا ناقص وجود ہے۔ فرماتا ہے کیا گمان کرتا ہے وہ شخص جو ظاہر میں تو انسان کہلاتا ہے۔ مگر حقیقت میں انسانیت سے بہت دُور۔ اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقابل میں کھڑا ہے۔ کہ خواہ وہ کبد کے مقام کو چھوڑ بیٹھے۔ اور شرعی اور دنیوی دونوں قواعد سے بے نیاز ہو کرکام کرے۔ پھر بھی اس پر کوئی تنگی نہیں آئے گی یہ بالکل غلط ہے اور ہم نے انسان کو فِی کَبَد کے مقام پر پیدا کیا ہے۔ مگر وہ اول تو اخلاق کو چھوڑ بیٹھتا ہے۔ اور پھر اگر اس میں کوئی پہلو اخلاق نما پایا جاتا ہے۔ تو وہ غلو کی صورت اختیار کر کے ایک بدی بن جاتا ہے مثلاً ضرورت حقہ پر مال خرچ کرنا۔ یتامیٰ و مساکین کی خبر گیری کرنا یہ اخلاق سے تعلق رکھنے والے افعال ہیں۔ مگر وُہ اس رنگ میں مال خرچ نہیں کرتا۔ بلکہ جو کچھ آتا ہے اسراف سے کام لے کر تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ اس مقام پر کھڑے ہو کر بھی کیا وہ سمجھتا ہے کہ میرے اوپر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی تنگی نہیں آ سکتی۔ کوئی تباہی اور بربادی مجھ پر مسلط نہیں ہو سکتی۔ جو شخص ایک غلط مقام پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اور جس مقام کے لئے اسے پیدا کیا گیا تھا۔ اسے بھول جاتا ہے۔ وہ کس طرح سمجھ سکتا ہے کہ الٰہی گرفت سے وہ بچ جائے گا۔ لازمًا وہ اپنی اس بے اعتدالی کے نتیجہ میں ایک دن تکلیف میں مبتلا ہو گا۔ مصیبت میں گرفتار ہو گا۔ اور خدا کے فضل کی بجائے اس کا عذاب اپنے اوپر نازل ہوتے دیکھے گا۔
۷؎ حل لغات
لُبَدٌ کے معنے ہوتے ہیں۔ کَثِیْرٌ لَا یُخَافُ قَتَادَہٗ کَاَنَّہٗ الْتَبَدَ بَعْضُہٗ عَلٰی بَعْضٍ۔ اتنا زیادہ مال کہ اس کے ختم ہونے کا خوف نہ ہو۔ گویا وہ ایک ڈھیر کے اوپر دوسرا ڈھیر ہے (اقرب)گویا لبد کے معنے ہیں ڈھیروں ڈھیر مال۔
تفسیر
کہتا ہے تم یہ کیا کہتے ہو کہ میں نے مال خرچ نہیں کیا۔ میں نے تو ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے۔ اور لوگ اس بات کے گواہ ہیں مگر تم یہ کہہ رہے ہو کہ میں نے کوئی مال خرچ ہی نہیں کیا۔
۸؎تفسیر
فرماتا ہے کیا وہ خیال کرتا ہے کہ نہ اوپر خدا اس کے افعال کو دیکھنے والا ہے۔ نہ بندے اس کے اعمال پر نظر رکھتے ہیں۔ اور وُہ جو کچھ کہے گا اسے دوست تسلیم کر لیا جائے گا۔ خدا تو انسان کا دل دیکھتا ہے۔ کیونکہ دل کی درستی بھی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیا ہے۔ مگر کیا خدا نہیں جانتا کہ اس نے ڈھیروں ڈھیر مال خرچ کیوں کیا ہے۔ یا کیا بندے نہیں جانتے۔ کہ اس نے اتنا روپیہ کیوں صرف کیا ہے۔ فرماتا ہے تو نے بیشک اپنا مال خرچ کیا ہے۔ مگر سوال تو یہ ہے کہ تو نے اپنا مال کس جگہ پر خرچ کیا ہے۔ ہم مان لیتے ہیں کہ تم نے اپنا سارا مال لٹا دیا ہے۔ لیکن اگر تم ان لوگوں میں سے ہو۔ جو تَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلاً لَّمًّا وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبّاً جَمَاً کے مصداق ہیں۔ تو بتائو تم اللہ تعالیٰ کے حضور کون سی فضیلت پا سکتے ہو۔ یا کم از کم بنی نوع انسان کی نگاہ میں ہی تمہیں کون سا مقام حاصل ہو سکتا ہے۔ نہ خدا تم کو فضیلت دے گا۔ اور نہ بندے تمہارا ادب کریں گے کیونکہ خدا بھی جانتا ہے اور اس کے بندے بھی جانتے ہیں کہ تم نے نے محض نام آوری کے لئے محض جاہ طلبی اور شہرت کے لئے یہ سب کچھ کیا۔ تمہیں بعض دفعہ جوش آ جاتا ہے۔ تو تم سو سو اونٹ ایک ایک دن ذبح کر دیتے مگر سوال یہ ہے کہ ان اونٹوں کے ذبح کرنے کا کیا فائدہ تھا۔ جب کہ یتیم بھوکے مرتے رہے۔ اور تم نے انہیں کھانا نہ کھلایا۔ مساکین ننگے پھرتے رہے اور تم نے انہیں کپڑا نہ پہنایا۔ حاجت مند پریشان رہے۔ اور تم نے ان کی حاجات کو پورا نہ کیا۔ اگر تمہارے دل میں بنی نوع انسان کی کچھ بھی محبت ہوتی۔ اور اگر ان کے فقر و فاقہ کی مصیبت تمہارے دل کو کچھ بھی متاثر کرتی۔ تو بجائے اس کے کہ ایک ایک دن میں تم سو سو اونٹ ذبح کر دیتے۔ تم ان کی امداد کے لئے یہ طریق اختیار کرتے کہ ایک اونٹ ذبح کیا۔ اور ان کو کھلا دیا۔ پھر کوئی اونٹ ذبح کیا۔ اور ان کو کھلا دیا۔ اس طرح تم تین بلکہ چھ ماہ تک اپنی اس امداد کے سلسلہ کو ممتد کر دیتے۔ مگر تمہارے مدنظر تو یہ بات تھی کہ لوگوں میں تمہاری شہرت ہو۔ لوگ دور دور سے اونٹوں پر سوار ہو کر تمہاری دعوت میں شریک ہونے کے لئے آئیں اور جب لوگ ان سے پوچھیں کہ آج تم کہاں جا رہے ہو تو وہ بتائیں کہ فلاں امیر کے ہاںدعوت ہے۔ اس نے آج سو اونٹ ذبح کئے ہیں۔ اس دعوت میں شمولیت کے لئے ہم جا رہے ہیں۔ جب تمہارے مدنظر جاہ طلبی اور لوگوں میں اپنی عزت کو بڑھانا اور دور دور تک مشہور ہونا تھا۔ تو بتائو خدا تمہاری کیوں قدر کرے۔ یا بنی نوع انسان تمہارا کیوں احترام کریں۔ کیا لوگ اندھے ہیں کہ وہ اتنی موٹی بات کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ کہ تم نے جو کچھ کیا ہے ان کی خاطر نہیں کیا بلکہ اپنے نفسوں کی خاطر کیا ہے۔ یا کیا خدا تمہارے دلوں کی نیتوں سے آگاہ نہیں۔ اور وہ نہیں جانتا کہ تمہارے پیش نظر کیا مقصد تھا۔ پس فرمایا اَیَحْسَبُ اَنْ لَّمْ یَرہٗٓ اَحَدٌ کیا یہ لوگ گمان کرتے ہیں۔ کہ انہیں نہ خدا دیکھتا ہے اور نہ اس کے بندے دیکھتے ہیں۔ وہ مال تو عزت طلبی کے لئے خرچ کر رہا ہے۔ شہر ت کے حصول کے لئے برباد کر رہا ہے۔ اور توقع یہ رکھتا ہے کہ لوگ مجھے اپنا محسن سمجھیں۔ آخر لوگ اسے کیوں سمجھیں کیا وُہ اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ رہا ہے دنیا کے لئے کر رہا ہے۔ کیونکہ وُہ مال اس طرح خرچ نہیں کرتا۔ کہ اس کے خرچ سے زیادہ سے زیادہ آدمیوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ اور جب واقعہ یہی ہے تو پھر خدا اور اس کے بندوں کی نگاہ میں اس کی کیا عزت ہو سکتی ہے۔
اَلَمْ یَجْعَلْ لَّہٗ عَیْنَیْنِ
کیا ہم نے اس کے لئے دو آنکھیں نہیں پیدا کیں۔ اور زبان بھی اور دو ہونٹ بھی۹؎
۹؎ تفسیر
فرماتا ہے اس امر کو بھی اچھی طرح یاد رکھو کہ تمہارا معاملہ خدا کے ساتھ ہے۔ اور خدا تعالیٰ سچے عذر کو ضرور قبول کر لیتا ہے۔ اگر تمہارا سچا عذر ہوتا تو اللہ تعالیٰ تمہیں یقینا تباہ نہ کرتا۔ اور وُہ سچا عذر یہی ہوتا ہے کہ انسان کی آنکھیں نہ ہوں۔ اور اسے کچھ دکھائی نہ دیتا ہو۔ یہ لازمی بات ہے کہ جس کی آنکھوں میں بینائی نہیں ہو گی۔ اس کے سامنے اگر کوئی گڑھا آئے گا۔ تو وہ ضرور اس میں گِر جائے گا۔ مگر کوئی شخص ایسا نہیں ہو گا۔ جو اسے یہ کہے کہ خبیث کیوں تو اس گڑھے سے بچ کر نہ چلا۔ ہر شخص کہے گا کہ جب اس کی آنکھیں ہی نہیں تھیں تو اگر یہ گڑھے میں گر گیا ہے تو معذور ہے۔ یا اگر ایک شخص راستہ بھول گیا ہے مگر وُہ گونگا ہے لوگوں سے یہ دریافت نہیں کر سکتا۔ کہ سیدھا راستہ کون سا ہے۔ تو کوئی شخص اُسے ملامت نہیں کرے گا کہ تُو راستہ لوگوں سے پوچھ کر کیوں نہ چلا۔ ہر شخص سمجھے گا۔ کہ یہ معذور تھا۔ یہ کسی سے راستہ پوچھ نہیں سکتا تھا۔ یا اگر کسی کی آنکھیں بھی ہوں۔ زبان بھی موجود ہو۔ مگر کوئی راستہ بتانے والا نہ ہو۔ اور وُہ چلتے چلتے شیروں کی کچھار میں پہونچ جائے۔ یا ہاتھیوں کی وادی میں چلا جائے۔ اور شیر اس کو پھاڑ ڈالیں۔ یا ہاتھی اس کو مسل ڈالیں۔ تب بھی وُہ معذور سمجھا جائے گا۔ لوگ کہیں گے کہ اس کی آنکھیں تو تھیں جن سے راستہ دیکھ سکتا۔ زبان بھی تھی جس سے کام لے کر لوگوں سے رستہ دریافت کر سکتا مگر چونکہ اُسے کوئی صحیح راستہ بتانے والا نہیں ملا اس لئے وہ ٹھوکر کھا کر کہیں کا کہیں پہنچ گیا۔
بہرحال وُہ معذور اسی صورت میں سمجھا جا سکتا ہے۔ جب وہ بوجہ آنکھیں اور زبان نہ ہونے کے رستہ دیکھنے یا دریافت کرنے سے معذور ہو۔ یا رستہ بتانے والا کوئی شخص موجود نہ ہو۔ مگر ان تمام جائز اور صحیح اور معقول عذرات کے باوجود دنیا کا قانون اسے عواقب سے بچا نہیں سکتا۔ ایک انسان اندھا ہوتا ہے۔ اور وُہ دن کے وقت یا رات کی تاریکی میں کسی گڑھے میں گر جاتا ہے۔ وُہ اس گرنے میں معذور ہوتا ہے۔ مگر کوئی مادی قانون اس گڑھے میں سے گرنے سے بچاتا نہیںَ یا ایک گونگا ہوتا ہے اور وُہ راستہ پوچھ نہیں سکتا۔ اس کے نتیجہ میں وُہ ایک غلط راستہ پر چل پڑتا ہے۔ وُہ اپنی اس غلطی میںقطعی طور پر معذور ہوتا ہے۔ مگر مادی دنیا کا قانون اُسے راستہ بھولنے کی سزا سے نہیں بچا سکتا یا ایک شخص کی آنکھیں بھی ہوتی ہیں۔ اس کی زبان بھی موجود ہوتی ہے مگر اُسے کوئی راستہ بتانے والا نظر نہیں آتا۔ اور وُہ ٹھوکر کھا کر شیر کی کچھار میں پہونچ جاتا ہے۔ اب بے شک وُہ اپنے اس فعل میں معذور ہوتا ہے۔ مگر نیچر کا قانون اسے تکلیف سے نہیں بچا سکتا۔ یہ نہیں ہوتا کہ نیچر اُسے شیر کی کی کچھار سے پرے پھینک دے۔ یا دھکے دے کر ہاتھیوں کے حملہ سے اسے بچائے لیکن فرمایا روحانی معاملہ اور رنگ کا ہوتا ہے۔ اس میں عذر قبول کیا جاتا ہے۔ ایک اندھا ہوتا ہے۔ اس میں عذر قبول کیا جاتا ہے۔ ایک اندھا گرتا ہے۔ تو وہ باوجود معذور ہونے کے وُہ گڑھے میں گرنے کی تکلیف سے نہیں بچتا۔ ایک گونگا راستہ نہیں پائے گا۔ تو باوجود معذور ہونے کے وُہ راستہ میں ٹھوکر کھانے کی تکلیف سے نہیں بچتا۔ ایک شخص آنکھیں بھی رکھتا ہے۔ اور زبان بھی رکھتا ہے اور زبان بھی مگر چونکہ اسے راستہ بتانے والا کوئی نہیں ملتا۔ وُہ شیروں کی کچھار میں پہونچ جاتا ہے۔ اور باوجود معذور ہونے کے اس کی یہ معذوری اُسے موت کے پنجہ سے نہیں بچا سکتی۔ لیکن فرمایا ہم اس قسم کے تمام حقیقی عذرات کو قبولہ کر لیا کرتے ہیں۔ اگر لوگ روحانی آنکھوں سے معذور ہوتے۔ تو ہم کہتے کہ وُہ معذور تھے انہیں کوئی سزا نہ دی جائے۔ اگر لوگ رُوحانی امور میں گویائی کی طاقت نہ رکھتے تو ہم بھی قرار دیتے۔ کہ وُہ معذور ہیں انہیں عذاب نہ دیا جائے۔ اگر کوئی ہادی نہ آتا۔ تب بھی ہم لوگوں کو معذور قرار دیتے۔ پس اے مکہ والو اگر تم میں کوئی ایسا قانون موجود نہ ہوتا۔ جو تمہیں ہدائت اور راستی کی طرف لاتا۔ اور تم اِدھر اُدھر ویسے ہی بھٹک رہے ہوتے۔ جیسے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آنے سے پہلے بھٹک رہے تھے۔ تو ہم کہتے مکہ بلد الحرام ہے۔ اس کے رہنے والے ہماری نگاہ میں معذور ہیں۔ ان کو ہماری طرف سے کوئی ہدایت نہیں ملی۔ ان کو کوئی سزا نہ دی جائے۔ مگر تمہاری حالت تو یہ ہے کہ تمہاری آنکھیں بھی موجود ہیں۔ تمہاری زبان بھی موجود ہے۔ تمہارے سامنے ایک ترقی کا راستہ بھی موجو د ہے۔ تمہیں اس ترقی کے راستہ پر چلانے والا بھی موجود ہے۔ اور تم پھر بھی گمراہی کو اختیار کئے ہوئے ہو۔ ان حالات میں تم خود ہی غور کرو۔ کہ تم عذاب الٰہی سے کس طرح بچ سکتے ہو۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہلاکت سے بچنے کے تین ذرائع بتائے ہیں۔ اوّلؔ آنکھیں دیکھنے کے لئے دومؔ۔ زبان اور ہونٹ پوچھنے کے لئے سومؔترقی کار استہ یعنی کامیابی کیلئے یہ تین چیزیں ضروری ہوتی ہیں۔مقصد صحیح ہو اور ترقی کا موجب بن سکے آنکھوں سے دیکھ کر کام کرے۔ اور نہ معلوم ہو سکے تو پوچھے۔ پھر ان کے لئے کیا مشکل ہے۔ کہ ترقی کر جاتے۔ آنکھیں خدا تعالیٰ نے دیکھنے کو دی تھیں۔ زبان خدا تعالیٰ نے پوچھنے کو دی تھی۔ صرف راستہ غائب تھا۔ سو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے وُہ راستہ جو اوپر لے جاتا ہے۔ دکھا دیا۔ اس کے بعد ان کا کیا عذر رہ جاتا ہے۔
زبان کے ساتھ ہونٹوں کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اسلئے کیا ہے۔ کہ ہونٹ ہوا کو روکتے ہیں۔ اور انسانی آواز بلند کرتے ہیں۔ جس شخص کے دانت نکل جائیں۔ وہ اونچی آواز سے نہیں بول سکتا۔ میرا صرف ایک دانت نکلا ہؤا ہے۔ مگر جب تقریر کر رہا ہوتا ہوں تو مجھے بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ اس خلا میں سے پھونک نکل جاتی ہے۔ اور کسی کسی لفظ کا تلفظ صحیح طور پر ادا نہیں ہوتا۔ حضرت خلیفۂ اول رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے۔ کہ لوگ موٹے ہونٹوں کو ناپسند کرتے ہیں مگر میرے لئے تو موٹے ہونٹ خدا تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت کا موجب بن گئے ہیں۔ میرے دانت سب گر چکے ہیں۔ مگر موٹے ہونٹوں کی وجہ سے مَیں اب بھی خوب اونچی آواز سے بول سکتا ہوں۔ تو فرمایا ہم نے انسان کو بولنے کے لئے زبان دی۔ اور پھر ہم نے اُسے ہونٹ بھی دیئے۔ تاکہ اگر سامع اس کے قریب نہ ہو۔ تو وہ دُور تک اپنی آواز پہنچا سکے۔
وَھَدَیْنٰہُ النَّجْدَیْنِo
اور (پھر) ہم نے اسے (دینی ودنیوی) دونوں راستے بتا دیئے ہیں۱۰؎
۱۰؎تفسیر
نَجْدٌ کے معنے پہاڑی راستہ کے ہوتے ہیں۔ لیکن مفسرین نے اس سے بُرائی اور بھلائی کا راستہ مراد لیا ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباسؓ اور ابن مسعودؓ دونوں نے کہا ہے کہ اس جگہ نَجْدَیْنِ سے خیر اور شر دو راستے مراد ہیں اور آیت کا مطلب یہ ہے۔ کہ ہم نے انسان کو بھلائی کا راستہ بتا دیا۔ اور بُرائی کا راستہ بھی بتا دیا۔ مگر اُس نے اچھے راستے کو اختیار نہیں کیا۔
میری رائے یہ ہے کہ یہاں نَجْدَیْنسے بھلائی اور بُرائی کے راستے مراد نہیں۔ بلکہ دینی اوردنیوی ترقی کے راستے مراد ہیں۔ شر کا راستہ اونچا نہیں کہلا سکتا۔ کیونکہ نہ اس کے اختیار کرنے میں کوئی تکلیف ہوتی ہے۔ اور نہ اس پر چل کر کوئی عزّت ملتی ہے۔ اور راستہ اونچا انہی دو سبب سے کہلاتا ہے۔ اس پر چڑھنے میں تکلیف ہو۔ یا اس پر چڑھ کر صحیح عزّت ملے۔ پس یہاں نَجْدَیْن سے خیر اور شر مراد نہیں۔بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم نے انسان کی ترقی کے لئے دونوں قسم کے راستے کھول دئیے ہیں اس کی دینی ترقی کے راستے بھی کھول ہوئے ہیں اور اس کی دنیوی ترقی کے راستے بھی کھولے ہوئے ہیں۔ اور یہ دونوں راستے ہم نے محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ذریعہ کھولے ہیں۔ جو لوگ آپ پر سچے دل سے ایمان لائیں گے اور اسلام کے تمام احکام کی خلوصِ دل کے ساتھ اتباع کریں گے۔ انہیں نہ صرف روحانی ترقی حاصل ہو گی۔ اور اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے خدا تعالیٰ ان سے خوش ہو گا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ ا نہیں دنیوی نعماء سے بھی متمتع فرمائے گا چنانچہ دیکھ لو محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کو صرف دین ہی نہیں ملا۔ بلکہ دنیا بھی ملی۔ اور آخر حکومت کی باگ ڈور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں دے دی۔ یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے۔ کہ آج تم محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے والوں کو دیکھتے ہو۔ تو حقارت کی ہنسی ہنستے ہوئے کہتے ہو۔ کہ چند بیوقوف نوجوان ہیں جو اس پر ایمان لے آئیں ہیں۔ مگر تم نہیں جانتے کہ یہی نوجوان جن کو تم بے وقوف قرار دے رہے ہو۔ جن کو تم نہائت ذلیل اور حقیر وجود سمجھتے ہو۔ ایک دن محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے کی برکت سے دُنیا کے بادشاہ بن جائیں گے۔ اور دینی اور دنیوی دونوں ترقیات کے راستے ان کے لئے کھل جائیں گے۔ چنانچہ ایک دن آیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدہ کے مطابق صحابہؓ کو بادشاہت دے دی۔ اور اس طرح دونوں نجد ان کو مل گئے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہارے لئے بھی اسلام کی اتباع میں دینی اور دنیوی دونوں ترقیات تھیں۔ اخلاقی راستہ پر چل کر خدا تعالیٰ کا خوش ہونا اور قوم کی خدمت کی وجہ سے شیرازہ بندی اور سیاست کی مضبوطی کا حاصل ہونا۔ دونوں قطعی اور یقینی امور تھے۔ مگر باوجود اس کے کہ ہم نے تمہیں آنکھیں دی تھیں۔ تمہیں زبان دی تھی۔ تمہارے سامنے اسلام کے ذریعہ دینی اور دنیوی ترقیات کا ایک بہت بڑا میدان تیار کیا تھا۔ پھر بھی تم نے اس راستہ کو اختیار نہ کیا۔ جو تمہیں کامیابی کی منزل کی طرف لے جاتا ہے۔ بلکہ تم اسی راستہ کی طرف جھکے رہے۔ جو ہلاکت و تباہی وبربادی کا تھا۔
فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَo
(مگر) وہ پھر بھی چوٹی پر نہ چڑھا۱۱؎
۱۱؎ حل لغات
اِقْتِحَامُ کے معنے نتائج سے بے فکر ہو کر اور عواقب کو نظر انداز کر کے کسی کام میں مشغول ہو جانے کے ہوتے ہیں۔ چنانچہ لغت میں لکھا اِقِتْحَمَ الْعَقَبَۃَ: رَمٰی نَفْسَہٗ فِیْھَا بِشِدَّۃٍ وَمُشَقَّۃٍ۔ کسی کھائی میں داخل ہونے کے لئے یا کسی معاملہ میں اپنے آپ کو کسی سختی میں ڈال دیا۔ اِسی طرح تَحَمَ فِی الْاَمْرِ کے معنے ہوتے ہیں۔ رَمٰی بِنَفْسِہٖ فِیْہِ فَجْأَۃً بِلَا رَوِیَّۃٍ بغیر سوچنے کے جس طرح پروانہ شمع پر جا گرتا ہے۔ اِسی طرح مقصد کے حصول کے لئے وُہ دیوانہ وار کھڑا ہو گیا۔ (اقرب)
اَلْعقَبَۃُ: مَرْقیً صَعْبٌ مِنَ الْجِبَالِ وَالطَّرِیْقُ فِیْ اَعْلَاھَا۔ عقبہ کے معنے گھاٹی کے ہوتے ہیں۔ نیز اس کے معنی اس راستہ کے ہوتے بھی ہوتے ہیں جو پہاڑ کی چوٹی پر ہو۔ (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بعثت کے ذریعہ ہم نے عرب کی ترقی کے ایسے سامان پیدا کر دئیے تھے کہ نہ صرف انہیں خدا مل جاتا بلکہ وصال صنم بھی میسر آ جاتا۔ اگر ایک طرف خدا تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کر کے وہ روحانی مدارج کی انتہائی بلندیوں پر پہنچ جاتے۔ تو دوسری طرف اپنی شیرازہ بندی اور سیاست کی مضبوطی کی وجہ سے حکومت بھی حاصل کر لیتے۔ ان کو تو چاہئیے تھا کہ جس طرح پروانے شمع پر گر نثار ہو جاتے ہیں اسی طرح وہ شمع محمد پر اپنی جانیں قربان کر دیتے۔ اور خدا تعالیٰ کے حضور سجدات شکر بجا لاتے۔ کہ اس نے کتنا بڑا احسان کیا۔ کتنا بڑا انعام نازل کیا۔ کس طرح زمین سے اٹھا کر انہیں عرش پر پہونچا دیا۔ وُہ اگر سوچتے اور غور کرتے ۔ تو ان کی زبانیں اللہ تعالیٰ کے احسانات اور اس کے انعامات کے ذکر سے تر رہتیں۔ اور یہ تصور کر کے ہی اپنے بخت بیدار پھولے نہ سماتے۔ کہ اللہ ! اللہ پچیس سو سال سے جس موعود کا انتظار کیا جا رہا تھا۔ جس کے انتظار میں گن گن کر گھڑیاں گزاری جا رہی تھیں جو اس مکہ کی بنیاد کا مقصود اور ابراہیمی اور اسمٰعیلی دعائوں کا پھل تھا۔ وُہ آج ہماری آنکھوں کے سامنے رونما ہو گیا ہے ا ب ہمارا فرض ہے کہ ہم عواقب کو نظرانداز کر کے دیوانہ کھڑے ہو جائیں۔ اور اس کے پسینہ کی جگہ اپنا خون بہانے کے لئے تیار ہیں۔ اگر وُہ ایسا کرتے۔ تو انہیں دین بھی مل جاتا۔ اور انہیں دنیا بھی مل جاتا۔ وُہ روحانی مملکت کے بھی حصہ دار بنتے۔ اور جسمانی بادشاہت بھی ان کے قدموں پر آ گرتی۔ مگر افسوس وُہ چوٹی کی چڑھائی سے ڈر گئے جس طرح ایک کمزور اور نحیف انسان پہاڑ بلند پر چڑھنے سے گھبراتا ہے۔ وُہ سمجھتا ہے کہ اگر مَیں نے چڑھنے کی کوشش کی تو مجھے تھکان ہو جائے گی۔ میرا سانس پھول جائے گا اور وُہ ڈر کر نیچے ہی بیٹھ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے۔ اسی طرح یہ لوگ بھی ہمت ہار کر بیٹھ گئے۔ اور اس ترقی کی طرف نہ دیکھا۔ جو اوپر لے جاتی تھی۔ صرف چڑھائی کے خطرہ سے ڈر گئے۔ اور محنت و مشقت کرنے سے اجتناب کیا۔ اور عیاشی کا راستہ جو سہل نظر ایا۔ اُسے اختیار کر لیا۔
اب اگلی آیت میں بتاتا ہَے۔ کہ ہم نے جو یہ کہا ہے کہ انہیں بلندی کا ایک راستہ بتایا گیا تھا۔ مگر یہ اس کی چوٹی پر نہ چڑھے۔ اس سے ہمارا کیا مطلب ہے۔
وَمَآ اَدْرٰکَ
اور تجھے کس نے بتایا ہے۔ کہ چوٹی کیا (اور کسی چیز کا نام) ہے۔ (چوٹی پر چڑھنا غلام کی)گردن چھڑانا ہے۔۱۲؎
۱۲؎حل لغات
فَکٌّ کے معنے کھول دینے کے ہوتے ہیں۔ پس فَکٌّ رَقَبَۃٍ کے معنے ہوئے گردن آزاد کرنا۔ یعنی کسی غلام کو آزاد کرانے میں مدد دینی۔
تفسیر
اِس آیت کے دو معنے ہیں۔ ایک تو یہ کہ انہیں چاہئیے تھا وُہ غلام آزاد کروانے کی کوشش کرتے۔ اگر یہ ان غلاموں کو جوان کے پاس ہیں آزاد کروانے کی کوشش کرتے تو یہ خود بھی قومی لحاظ سے آزادی حاصل کر سکتے تھے۔ مگر یہ الٹا غلامی کو اور بھی رائج کرنے لگیں گے۔ اور مسلمانوں پر ظلم ڈھانے لگ جائیں گے۔ درحقیقت غلاموں کی آزادی کا اسلام نے شروع سے ہی اس لئے حکم دیا ہے کہ قومی ترقی کے لئے قوموں کا آزاد کرنا نہائت ضروری ہوتا ہے۔ مساوات قائم کئے بغیر اور چھوٹوں بڑوں کا امتیاز مٹائے بغیر دنیا میں کبھی کوئی قوم ترقی نہیں کیا کرتی۔ جب تک یہ راستباز دنیا میں نظر آتا رہے گا۔ کہ ایک چھوٹا ہے اور ایک بڑا۔ اس وقت تک دنیا حقیقی ترقی نہیں کر سکتی۔ کبھی کوئی پائدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ جب تک دنیا میں یہ فتنے موجود رہیں گے۔ اور جب تک ان کے انسداد کے لئے متحدہ مساعی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔ اس وقت تک ترقی کی تمام تدابیر بیکار ثابت ہوں گی۔ اسی امتیاز کا نتیجہ غلامی ہے۔ جس کی بیخ کنی اسلام کا اولین مقصد ہے۔ اور جس کے خلاف وہ شروع دن سے اپنی آواز بلند کر رہا ہے اگر ان امتیازات کو قائم رہنے دیا جائے۔ تو بڑے آدمی اپنے لئے اور عزت چاہتے ہیں۔ پھر اور عزّت کے طلبگار ہوتے ہیں۔ پھر اور عزت کا حصول ان کو بے قرار رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن ایسا آتا ہے جب وہ اپنے سوا کسی اور کو بڑا سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے۔
مَیں نے دیکھا ہے ہندوستان کے ایک بہت بڑے لیڈر ہیں۔ مَیں ان کا نام نہیں لیتا۔ ان کے دماغ میں یہ خیال سمایا ہؤا ہے کہ ان بڑا لیڈر اور کوئی نہیں۔ یہی دُھن انہیں آٹھوں پہر رہتی ہے اور اپنی بڑائی اور اعزاز کا خیال انہیں ہر وقت دامنگیررہتا ہے۔ ایک دفعہ شملہ میں ہندوستان کے بڑے بڑے لیڈروں کی ایک مجلس منعقد ہوئی۔ مجھے بھی تار دے کر بُلایا گیا۔ گاندھی جی نے اس وقت مرن برت رکھا ہؤا تھا۔ اور انہو ں نے کہا تھا کہ اگر ہندو مسلم اتحاد نہ ہؤا تو مَیں بھوکا مر جائوں گا چونکہ یہ بڑا بھاری مسئلہ تھا۔ سارے ہندوستان سے مختلف اقوام کے لیڈر شملہ میں جمع ہوئے۔ مَیں سمجھتا ہوں ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب ہو گی۔ کوئی بمبئی سے آیا۔ کوئی مدراس سے۔ کوئی سی پی سے۔ کوئی بنگال سے۔ کوئی بہار سے کوئی اڑیسہ سے۔ کوئی سرحد سے۔ کوئی ریاستوں سے۔ غرض ایک اچھا خاصہ اجتماع ہندوستان کے تمام لیڈروں کا شملہ میں جمع ہو گیا۔ جب ان لیڈر صاحب نے اتنا بڑا مجمع دیکھا۔ تو چونکہ انہیں صرف اپنی لیڈرری کو ظاہر کرنے کی عادت تھی۔ کسی اور لیڈر کو لیڈر سمجھنا وُہ اپنی ہتک سمجھتے تھے۔ اس لئے جب وُہ تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو مَیں نے دیکھا کہ وہ بار بار کہتے کہ ایسے اہم مسائل کے متعلق کبھی ہجوم فیصلے نہیں کیا کرتے۔
WE LEADERS OF LEADERS
جو کچھ کہیں گے وہی آخری اور قطعی فیصلہ ہو گا۔ یعنی ہم جو راہنمائوں کے راہنما ہیں اصل کام ہمارا ہے۔ اتنے زیادہ لیڈروں کا کام نہیں کہ اکٹھے ہو کر فیصلہ کر دیں۔
غرض میں نے دیکھا کہ اُن پر یہ امر بڑا گراں گزرا۔ کہ اتنی تعداد میں لوگوں کو کیوں لیڈر قرار دیا گیا۔ حالانکہ وہاں کسی ایک قوم کے لیڈر جمع نہیں تھے۔ بلکہ ہندوئوں سکھوں اور مسلمانوں سب کے نمائیندے تھے۔ جس طرح افراد کا دماغ بعض دفعہ اس رنگ میں بگڑ جاتا ہے۔ اسی طرح بعض دفعہ قوموں میں بڑائی شروع ہو جاتی ہے۔ اور پھر ان کی تسلی نہیں ہوتی۔ جب تک کہ تمام قوموں کو اپنے مقابلہ میں غلام اور اچھوتوں سے بھی بد تر قرار نہ دے دیں۔
ابھی چند دن ہوئے اخبارات میں بڑا شور اٹھا کہ پہلے تو اقبال جیسے لوگوں کو علامہ لکھا جاتا تھا۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ ہر وُہ آدمی جو اردو بھی صحیح پڑھ نہیں سکتا۔ اس کے نام کے ساتھ علامہ لکھ دیا جاتا ہے۔ چنانچہ لدھیانہ میں ایک جلسہ ہؤا تو ہر مقرر کے نام کے ساتھ لکھا گیا کہ یہ فلاں علامہ تھے اور وُہ صحیح طور پر اردو بھی نہیں جانتے تھے۔ اس قسم کی وباء کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ جو لوگ واقعہ میں علامہ ہوتے ہیں۔ ان کے لئے کوئی اور لفظ تجویز نہیں کیا جاتا ہَے۔ اور دوسروں کو ان کے مقابل میں گرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اس طرح نہ صرف منافرت کی ایک وسیع خلیج چھوٹوں اور بڑوں میں حائل ہو جاتی ہے۔ بلکہ ذہنیتیں اس قسم کی ہو جاتی ہیں۔ کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں۔ کہ ہم بڑے ہیں۔ اور باقی لوگ ہمارے غلام ہیں۔
ہم جب بچے تھے۔ تو مَیں اور میر محمد اسحٰق صاحب مرحوم نے حضرت خلیفۂ اول رضی اللہ عنہ سے پڑھنا شروع کیا۔ استاد کا یوں بھی دلوں میں زیادہ اعزاز ہوتا ہے۔ مگر حضرت خلیفۂ اول رضی اللہ عنہ کو تو جماعت میں بھی ایک خاص پوزیشن حاصل تھی اس وقت جب بھی یہ بات کہی جاتی کہ مولوی صاحب نے یہ کہا ہے تو اس سے مراد یا حضرت خلیفۂ اول رضی اللہ عنہ ہؤا کرتے تھے۔ یا حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مراد ہؤا کرتے تھے۔ جب بھی کسی نے کہنا مولوی صاحب نے یہ بات کہی ہے۔ تو سننے والا کہتا کون مولوی صاحب۔ اور وُہ کہتا حضرت خلیفہ اولؓ یا کہتا مولوی صاحب نے یہ بات کہی ہے۔ اور سننے والا کہتا کہ کون مولوی صاحب تو وُہ کہتا مولوی عبدالکریم صاحب۔ چند دن تک میر محمد اسحق صاحب یہ سنتے رہے۔ مگر ایک دن ان کو بڑا غصہ آیا۔ کہ یہ کیا بات ہے کہ یہ مولوی صاحب اور وُہ بھی مولوی صاحب اِن کا نام آئے ۔ تب بھی لوگ کہتے ہیں مولوی صاحب نے یہ کہا۔ اور اُن کا نام آئے تب بھی لوگ کہتے ہیں کہ مولوی صاحب نے یہ کہا۔ یہ بالکل غلط طریق ہے۔ آئیندہ مولوی عبدالکریم صاحب کی کوئی بات ہو گی تو میں کہوں گا مولوی صاحب نے یہ کہا ہے۔ اور خلیفۂ اولؓ کی کوئی بات ہو گی تو میں کہوں گا چولوی صاحب نے یہ کہا ہے۔ گویا انہوں نے امتیاز کا یہ نرالا طریق نکالا۔ کہ ایک کو مولوی صاحب کہا جائے۔ اور دوسرے کو چولوی صاحب کہا جائے یہ ہے تو بچپن کی ایک حماقت۔ لیکن واقعہ یہی ہے کہ جب کسی کو کوئی خاص اعزاز حاصل ہو جائے تو اس کے مقابل میں دوسروں کو کہا جاتا ہے کہ تم چھوٹے درجہ کے ہو۔ پھر ان کو اور چھوٹا کیا جاتا ہے۔ پھر اور چھوٹا کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ مکمل غلام بن جاتے ہیں۔ پس غلام کی آزادی درحقیقت قوم کی آزادی ہے۔ یہ دس یا بارہ آدمیوں کا سوال نہیں۔ بلکہ قوم کا کیرکٹر تبھی بلند ہوتا ہے جب غلط اصول پر قائم شدہ امتیازات کو مٹا دیا جائے۔ اسی طرح خدا کی خوشنودی بھی اسی وقت حاصل ہوتی ہے جب غلاموں کو آزاد کیا جائے۔ یا غلاموں کو آزاد کرانے کی سرگرم کوشش کی جائے۔
فَکٌ رَقَبَۃٍ کے دُوسرے معنی غلط عقائد کی اصلاح اور رسم و رواج کی پابندیوں کو توڑ دینے کے بھی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کفار کی نسبت فرماتا ہے اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِرَبِّھِمْ وَاُوْلٰٓئِکَ الْاَغْلَالُ فِیْٓ اَعْنَاقِھِمْ (رعد ع ۱ ۷) یہ وُہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے رب کا کفر کیا۔ اور جن کی گردنوں میں اغلال پڑے ہوئے ہیں۔ اس جگہ کفر اور شرک کے معنون میں اغلال کا لفظ استعمال ہؤا ہے۔ اور بتایا گیا ہے کہ یہ وہ طوق ہے جنہوں نے ان کی گردنوں کو خم کیا ہؤا ہے۔ اسی طرح یہود کی نسبت فرماتا ہے۔ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلَالَ الَّتِیْ کَاَنْتَ عَلَیْھِمْ (اعراف ع ۹ ۱ ۹) ہمارا یہ رسول ان کے اِصر کو دور کرتا ہے۔ اور ان کے اغلال کو کاٹتا ہے۔ ان ہر دو آیات سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ فَکٌ رَقَبَۃٍ کے معنے جہاں غلام آزاد کرنے کے ہیں۔ وہاں غلط عقائد رسم و رواج کی سختیاں۔ جھوٹے نظام جو ظالم سرداروں کو سَر پر بٹھا دیں۔ جیسے احبار وجابر بادشاہ جن کی وجہ سے قوم اپنی گردن اوپر نہ اٹھا سکے۔ وُہ بھی اس میں شامل ہے۔ پس فَکٌ رَقَبَۃٍ کے معنے یہ ہوئے کہ ہم تو ان کو غلامی سے آزاد کرانے لگے تھے۔ مگر ان کو اپنے اغلال توڑنے کی ہمت نہ پڑی۔ انہوں نے غلاموں کو آزاد کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے قوم ادنیٰ طبقہ کو ابھارنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے رسم و رواج کو چھوڑنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے جھوٹے عقائد کو ترک کرنے کی کوشش نہیں کی۔ اور اس طرح وہ تباہی و بربادی کے گڑھے میں ہی گرے رہے۔
اَوْ اِطْعٰمٌ فِیْ یَوْمٍ
یا بھوک کے دن کھانا کھلانا ہے۱۳؎
۱۳؎حل لغات
سَغَبَ الرَّجُلُ سَغْباً وسُغُوباً وسَغْباً وَسَغَابَۃً وَمَسْغَبَۃً (اقرب) کے معنے ہیں جَاع وہ بھوکا رہا (اقرب)پس مَسْغَبَۃٌ کے معنے بھوکے رہنے کے ہوئے۔
تفسیر
فرماتا ہے اگر اس کے اندر یتامٰی و مساکین کی حقیقی محبت ہوتی اور وُہ ان ک تکالیف کو دُور کرنے کا صحیح احساس اپنے اندر رکھتا تو اس کا فرض تھا کہ وُہ بھوک والے دن ان کو کھانا کھلاتا۔ یعنی قحط میں ان کی خبر گیری کرتا یا فقر وفاقہ میں ان کے لئے غلّہ وغیرہ مہیا کرتا۔ یہ مان لیا کہ وہ سو سو اونٹ ایک ایک دن میں ذبح کرتا رہا ہے۔ مگر ہم تو یہ کہتے ہیں وہ بے موقعہ ذبح کرتا رہا ہے۔ اور ان کو ذبح کرنے کا موقع یہ تھا۔ کہ وُہ یتامیٰ ومساکین کے لئے ان کو ذبح کرتا۔ اور ان کا گوشت ان میں تقسیم کر دیتا۔ یا خود پکا کر ان کو دعوت دے کر ان کی بھوک کو دُور کرتا۔ یہاں فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ کے الفاظ اسی حکمت کے ماتحت لائے گئے ہیں۔ کہ پہلے یہ ذکر آ چکا تھا۔ کہ وُہ نام ونمود کے لئے جاہ طلبی اور شہرت کے حصول کے لئے اپنا روپیہ صاف کر دیتا ہے۔ اس سے خیال پیدا ہو سکتا تھا کہ ممکن ہے وہ یتامیٰ ومساکین کو بھی کھلا دیتا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس شبہ کا ازالہ کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ وُہ روپیہ تو خرچ کرتا تھا۔ اپنے اونٹوں کو بھی ذبح کرتا تھا۔ مگر بھوک والے دن نہیں۔ یعنی جب بھوکوں کو ضرورت ہوتی تھی۔ وُن ان کو ذبح نہیں کرتا تھا۔ بلکہ جب اپنی شہرت کا جنون اس کے سر پر سوار ہو جاتا۔ تو سو سو اونٹ ایک ایک دن میں ذبح کر دیتا۔ حالانکہ اگر حقیقی ضرورت کو مدِّنظر رکھ کر وُہ کام کرتا۔ تو دوستوں کی دعوت کے لئے صرف ایک اونٹ ذبح کرتا۔ اور ننانوے اونٹ یتامیٰ و مساکین کے لئے رکھ دیتا۔ تاکہ ان کو فاقہ کی مصیبت پیش نہ آتی۔ پس چونکہ اس نے قومی ضرورت کو مدنظر نہیں رکھا۔ اور اپنے مال کو بے موقعہ خرچ کر کے ضائع کر دیا۔ اس لئے ہماری نگاہ میں وُہ کِسی تعریف کا مستحق نہیں۔ نہ اس قابل ہے کہ لوگ اس کو احترام کی نظر سے دیکھیں۔
یَّتِیْمًا ذَا مَقْرَبَۃٍ
یتیم کو جو قریبی ہو۱۴؎
۱۴؎تفسیر
یہاں یتیم کے ساتھ مَقْرَبَہ کے الفاظ کا اضافہ اس لئے کیا گیا ہے۔ کہ قرابت والا یتیم بہرحال انسان کو اپنے پاس رکھنا پڑتا ہے۔ اور اس کے خوردونوش کی ذمہ داری یا تعلیم اور لباس وغیرہ کے اخراجات انسان کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ یہ الگ امر ہے کہ کوئی شخص ان اخراجات کو طوعًا برداشت کرے۔ یا کرہًا مگر بہرحال خاندانی ذمہ داریاں تقاضہ کرتی ہیں۔ کہ انسان اپنے قرابت دار یتیم کا خیال رکھے۔ مگر فرمایا تمہاری تو یہ حالت ہے کہ تم ایسے یتیم کو بھی کھانا نہیں کھلاتے۔ جو تمہارا قریبی رشتہ دار ہوتا ہے۔ جو اس بات کا ثبوت ہے کہ تمہاری حالت خطرناک حد تک گر چکی ہے۔
اس آیت کے یہ معنے نہیں۔ کہ قریبی یتیم کو تو کھانا کھلانا چاہئیے۔ مگر دُوسرے کو نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ کسی اور یتیم کی پرورش تو الگ رہی۔ تم سے اس بات کی بھی خبر نہیں کی جا سکتی۔ کہ تم اپنے قریبی یتیموں کی خبرگیری کرو گے۔ اور ان کی ضرُوریات کا خیال رکھو گے۔ جب ایک قریبی ذمہ داری سے تم اس قدر لاپرواہ ہو۔ تو دُور کی ذمہ داری کو پورا کرنے کی طرف تمہاری توجہ ہی کہاں ہو سکتی ہے۔
اَوْمِسْکِیْنًا
یا مسکین کو جو زمین پر گرا ہؤا ۱۴؎a
پھر (چوٹی پر چڑھنا یہ تھا۔ کہ ان کاموںکے علاوہ) یہ ان میں سے بن جاتا جو ایمان لائے۔ اور (جنہوں نے) ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کی۔ اور ایک دُوسرے کو رحم کرنے کی نصیحت کی۱۵؎
a۱۴؎تفسیر
مِسْکِیْناً ذَامَتْربَۃٍ کے لفظی معنی تو یہ ہیں۔ کہ وُہ مسکین جو خاک افتادہ ہو مگر اس کے مفہوم دو ہیں۔
اوّلؔ۔ ایسا غریب جو مالی لحاظ سے بالکل ادنیٰ اور ذلیل حالت میں ہو۔ ہماری زبان میں بھی کہتے ہیں۔ فلاں شخص تو مٹی میں مل گیا ہے۔ یعنی اس کی نہایت ہی قابل رحم حالت ہے۔
دوسراؔ مفہوم اس کا یہ ہے کہ ایسا مسکین جو مالی کمزوری کے ساتھ جسمانی طور پر بھی ایسا کمزور اور بیمار ہو کہ چل پھر نہ سکتا ہو۔ گویا اس میں اتنی طاقت بھی نہیں رہتی۔ کہ وہ امیروں کے دروازہ تک پہونچ کے سوال کر سکے۔ کمزوری اس قدر بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ وہ زمین پر لیٹا ہؤا ہوتا ہے۔ اور کوئی اس کا پُرسان حال نہیں ہوتا۔ یا اتنا کمزور ہو جاتا ہے۔ کہ مانگنے کی طاقت بھی نہیں رکھتا۔ جس شخص کے دل میں ایسے مساکین کے متعلق بھی رحم کا جزبہ پیدا نہ ہو۔ جو بالکل کنگال ہو چکے ہوں یا ساتھ ایسے بیمار بھی ہوں۔ کہ مانگنے کی سکت نہ رکھتے ہوں۔ وہ خدا سے کیا فضل مانگ سکتا ہے۔ اور بندے اس کی کیا عزت کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مشکلات کے وقت ان لوگوں سے بھی کام کی امید کی جاتی ہے۔ جو عام طور پر معذور سمجھے جاتے ہوں۔ مگر پھر بھی کچھ لوگ ایسے ضرُور ہوتے ہیں۔ جن کا بوجھ انسان کو اٹھانا پڑتا ہے جیسے اپنے قریبی یتیم اور بالکل ناکارہ انسان جن سے کمائی کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔ مگر یہ ان لوگوں کی پرورش سے بھی مصائب کے وقت غافل ہوتا ہے۔ حالانکہ مصائب کے وقت ہی انسانی اخلاق کا تجربہ ہوتا ہے۔
۱۵؎تفسیر
ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا الخ کہہ کر بتایا ہے۔ کہ خالی نیک اعمال کافی نہیں۔ بلکہ یہ بھ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ ایمان بھی ہو۔ اور قوم میں نیکی پیدا کرنے کا جزبہ بھی ہو۔ اس جگہ ایمان سے عام ایمان مراد نہیں۔ بلکہ ایمان ان اعمال خیر کے متعلق ایمان مراد ہے۔ جن کا ذکر اوپر ہو چکا ہے۔ اور مراد یہ ہے کہ ان اعمال پر کاربند ہونے کے علاوہ دل میں یہ یقین ہو کہ یہ اعمال ضروری ہیں منافقانہ رنگ میں ان پر عمل نہ کرتا ہو۔ کیونکہ منافقانہ عمل میں ایسا جوش کبھی پیدا نہیں ہوتا۔ کہ کماحقہ ان کو بجا لاسکے۔ سچی بشاشت اُسی عمل کے ساتھ پیدا ہوتی ہے جس کے ضرُوری اور درست ہونے پر انسان کو یقین بھی ہو۔
دُوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ اگر خلوص سے یہ لوگ اُن اعمال کو بجا لاتے تو انہیں تقویٰ نصیب ہوتا۔ اور اس کے نتیجہ میں اُن کو ایمان نصیب ہو جاتا۔ گویا ثُمَّ کے معنے ’’اس کے ساتھ ہی‘‘ کے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور پھر کے بھی۔ اور یہ دونوں معنے لغت کے لحاظ سے ثابت ہیں۔ کہ یہ نیک اعمال بھی کرتے اور ساتھ ہی مومن بھی ہوتے۔ یعنی بغیر اس عمل کے اچھا ہونے پر یقین ہو نے کے عمل کا مل نہیں ہوتا۔ منافقت جڑوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اور اگر ثُمَّ کے معنے ’’اس کے بعد‘‘ کے کئے جائیں تو اس کے یہ معنے ہوں گے۔ کہ یہ نیک اعمال کرتے۔ اور ان کے بعد مومن بن جاتے۔ یعنی ان اعمال کا نتیجہ یقینا یہ نکلتا۔ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان بھی ان کو مل جاتا۔ کیونکہ نیک نیتی کے ساتھ کیا ہؤا عمل ایمان کی طرف لے جاتا ہے۔
رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے حکیم بن حزام نے جو نبوت کے دعویٰ سے پہلے آپ کے دوست تھے۔ آپؐ سے پوچھا۔ کہ کفر میں جو صدقہ وخیرات میں نے کیا تھا وہ ضائع گیا؟ آپ نے فرمایا اَسْلَمْتَ عَلٰی مَا سَلَفَ مِنْ خَیْرٍ (بخاری جلد چہارم کتاب الادب باب من وصل رحمۃ فی الشرک ) ضائع کیوں گیا۔ اسی عمل کے نتیجہ میں تو تم کو دولت اسلام حاصل ہوئی۔
پھر فرماتا ہے وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ پہلے مومنوں کے مطابق اس جملہ کے یہ معنے ہوں گے کہ اگر ان اعمال کے ساتھ ساتھ انہیں ان اعمال کی خوبیوں پر ایمان بھی نصیب ہوتا۔ اَور یہ لوگ خود ہی وہ اعمال نہ بجا لاتے۔ بلکہ دُوسروں کو بھی اُن کے استقلال کے ساتھ بجا لانے کا دیتے۔ اور رحم کرنے کی تلقین کرتے رہتے۔ تو ان کے لئے بابرکت ہوتا۔ تَوَاصَوْا کے معنے بار بار تاکید کرنے کے ہیں۔ اور صبر کے معنے اس جگہ استقلال سے کام کرنے کے ہیں۔ اور مَرْحَمَۃ کے معنے رحم کے ہیں۔
دوسرے معنوں کے رُو سے اس جملہ کے یہ معنے ہوں گے کہ ان کے نیک اعمال کے بعد انہیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے کی توفیق ملتی۔ اور نیکی کا جزبہ اتنا قوی ہو جاتا۔ کہ اب تو یہ لوگ ظلم کرتے ہیں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لا کر یہ خود ظلم شو ق سے برداشت کرتے۔ اور دوسروں کو ظلم کو صبر سے برداشت کرنے کی تلقین کرتے رہتے۔ باوجود ظلموں کو برداشت کرنے کے اپنے دشمنوں پر بھی رحم کرتے۔ اور دُوسرے دوستوں کو بھی نصیحت کرتے کہ دشمن کے ظلم پر غصہ میں نہ آئو۔ بلکہ باوجود اس کے ظلم کے پھر بھی رحم سے کام لو۔
اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ
یہی لوگ تو برکت والے ہوں گے۱۶؎ اور جنہوں نے ہماری آیتوں کا کفر کیا وُہ نحوست والے ہوں گے۱۷؎ ان پر بھٹی کی آگ (کی سزا) نازل ہو گی۱۸؎
۱۶؎تفسیر
مَیْمَنَۃ کے معنے برکت کے بھی ہیں اور مَیْمَنَۃ کے معنے دائیں کے بھی ہوتے ہیں۔ (اقرب) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ قیامت کے دن جن لوگوں کے دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دیا جائے گا۔ وُہ عزت پائیں گے اور جنت کے حقدار ہوں گے۔ اس مناسبت سے اَصْحَابُ الْمَیْمَنَۃ کے دونوں معنے ہو سکتے ہیں۔ یہ بھی کہ وُہ لوگ جن میں اوپر کی باتیں پائی جائیں۔ اور وُہ احکامِ الٰہی پر عمل کریں۔ وہ قیامت کے دن ان لوگوں میں شامل ہوں گے۔ جن کے دائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دیا جائے گا۔ اور یہ بھی معنے ہو سکتے ہیں۔ کہ ایسے لوگ ہی اللہ تعالیٰ کی برکات کو حاصل کرتے ہیں۔ جو احکامِ الٰہیہ کی متابعت کو خوشی سے قبول کرتے ہیں۔
۱۷؎حل لغات
مَشْئَمَۃٌکے معنے بائیں کے بھی ہوتے ہیں۔ اور مَشْئَمَۃٌ نحوست کو بھی کہتے ہیں۔ (اقرب)
تفسیر
پہلی آیت کی طرح اس آیت کا بھی ایک تو یہ مفہوم ہے۔ کہ جو لوگ احکامِ الٰہیہ کا انکار کریں گے۔ وُہ قیامت کے دن ان لوگوں کی صف میں کھڑے کئے جائیں گے۔ جن کے بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال دیا جائے گا۔ اور ایک معنے یہ ہیں کہ ایسے لوگ اپنے نفس اور اپنی قوم کے لئے سخت منحوس ہیں۔ ناکامی ان کے شامل حال رہے گی۔
۱۸؎حل لغات
اَلْمُؤْصَدُ کے معنے ہیں۔ اَلْمُطْبَقُ وَالْمُغْلَقُ بند کی ہوئی چیز (اقرب) پس نَارٌ مُؤْصَدَۃٌ کے معنے ہوں گے۔ ایسی آگ جو بند کی گئی ہو۔
تفسیر
پہلے لوگ شائد نَارٌ مُؤْصَدَۃ کی حقیقت کو پُوری طرح نہ سمجھتے ہوں۔ مگر باوجود زمانہ کے لوگوں کے لئے اس کی حقیقت کو سمجھنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ کیونکہ نئے علوم نے واضح کر دیا ہے کہ سخت ترین آگ وہ ہوتی ہے جس پر چاروں طرف سے دروازے بند کر دئیے جائیں۔ بھٹی کی آگ اسی لئے تیز ہوتی ہے کہ اُسے چاروںطرف سے بند کر کے صرف ایک چھوٹا سا سوراخ رکھ لیا جاتا ہے جو آگ اس طرح بھڑکائی جائے وُہ اس قدر تیز ہوتی ہے۔ کہ سب کچھ جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔
اللہ تعالیٰ اِس آیت میں کفار کے انجام کا ذکر کرتا ہے۔ اور بتاتا ہے۔ کہ آج تو یہ لوگ اسلام کے مقابل میں کھڑے ہیں۔ اَور مُسلمانوں کو سخت سے سخت اذیتیں پہنچانے کے درپے ہیں۔ مگر وُہ یاد رکھیں ایک دن وُہ ایسی آگ میں ڈالے جائیں گے۔ جو چاروں طرف سے بند ہو گی۔ اور جو انہیں جلا کر راکھ کر دے گی۔ یعنی اسلام اور مسلمانوں کے مقابلہ میں کفار مکہ ایسے تباہ ہوں گے کہ ان کا نشان تک باقی نہیں رہے گا۔ چنانچہ دیکھ لو وُہ کیسے تباہ ہوئے کہ لات اور منات اور عُزّیٰ کی پرستش کرنے والا آج ساری دنیا میں کوئی ایک وجود بھی نظر نہیں آتا۔ خُدا نے ان کو اپنے عذاب کی چکّی میں اس طرح پیسا اور اپنے غضب کا ان کو ایسا نشانہ بنایا۔ کہ دُنیا میں ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہا۔
سُوْرَۃُ عَبَسَ مَکِّیَّۃٌ
وَّھِیَ اثْنَتان
یہ سورۃ عبس۔ یہ سورۃ مکّی ہے
اور اس کی بسم اللہ کے بغیر بیالیس آیتیں اور ایک رکوع ہے ۱؎
۱؎ سورۃ عبس مکّی سورۃ ہے اور بہت ہی ابتدائی سورتوں میں سے ہے۔ یوروپین مصنّفین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ابتدائی مکّی سورۃ ہے چنانچہ نلولڈک NOLDEKEجرمن مستشرق ابتدائی زمانہ کی بھی ابتدائی سورتوں میں اس کو شامل کرتاہے۔ میور MUIRبھی اِسے اُن پہلی سورتوں میں سے قرار دیتا ہے جنہیں کفار پر ظاہر کیا گیا یعنی پہلی چند سورتوں کے متعلق مستشرقین کا خیال ہے کہ اُن کا اعلان اُن سورتوں کے وقت ہی نہیں ہؤا بلکہ کچھ عرصہ بعد ہؤا۔ پس میور کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی چند سورتوں کے بعد یہ نازل ہؤئی۔
اس سورۃ کا پہلی سورۃ کے ساتھ ایک تو قریبی تعلق ہے اور ایک سارے مضمون کے لحاظ سے۔ قریبی تعلق تو یہ ہے کہ پچھلی سورۃ کی آخری آیت میں یہ مضمون تھا کہ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ یَّخْشٰھَا۔ کہ ڈرانا اسی کو مفید ہو سکتا ہے جو یَوْمَ الْحِسَاب یا انجامِ اعمال سے ڈرتا ہو۔ یَخْشٰھَا کی ضمیر سَاعَۃٌ کی طرف جاتی ہے اور ہم سَاعَۃٌ کے دونوں معنے کرتے ہیں۔ حیات بعد الموت بھی اور غلبۂ قرآن بھی۔ پس اس میں ن دونوں باتوں کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ اِنَّمَآ اَنْتَ مُنْذِرُ یَّخْشٰھَا۔ جو شخص حیات بعد الموت سے خوف رکھتا ہو یا اپنے انجام کے سے ڈرتا ہو کہ جو اعمال میں کر رہا ہوں اُن کے نتیجہ میں تو اسلام جیتتا نظر آتا ہے اور میں ہارتا دکھائی دیتا ہوں اُس شخص کو یہ انداز مفید ہو سکتا ہے چنانچہ اسی لحاظ سے اب اس سورۃ میں ذکر فرماتا ہے کہ اُن لوگوں کی طرف زیادہ توجہ کرو جو حق کو غور سے سُننے کے شائق ہیں اور حق کی قبولیت کا استحقاق اپنے اندر رکھتے ہیں۔ حق کی قبولیت کا ستحقاق کئی طرح سے ہوتا ہے۔ اوّلؔ اعمال سے یعنی ایک شخص کے اندر جہاں تک اُس کا ایمان ہے خشیۃ اللہ پائی جاتی ہے یا سنجیدگی پائی جاتی ہے اور دین کی باتوں کو غور سے سُنتا ہے اور یا پھر قومی استحقاق اسی طرح ہوتا ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے انبیاء آتے ہیں بالعموم ادنیٰ اور غریب طبقہ کے لوگ اُن کی طرف آتے ہیں گویا انبیاء کی بعثت پر نوّے فی صد احتمال یہ ہو گا کہ غرباء جلدی دین سیکھیں گے۔ اگر کسی نبی کی جماعت زیادہ تر امراء کی طرف توجہ رکھے گی تو وہ اپنے دائرہ ترقی کو محدود کر دے گی۔ بے شک امراء بھی آتے ہیں مگر نسبت سے کم۔ اس فرق کو بھی قرآن کریم نے کئی جگہ بیان فرمایا ہے۔
مضمون کے لحاظ سے اس کا پہلی سورۃ سے یہ تعلق ہے کہ پہلی سورۃ اور اس سے بھی پہلی سورۃ میںیہ بیان کیا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کی ترقی مقدر کی ہے اور اس کے ذرائع بھی بتائے گئے تھے جو یہ تھے۔ وَلنَّازِعَاتِ غَرْقًا۔ وَّالنَّاشِطَاتِ نَشْطًا۔ وَالسَّابِحَاتِ سَبْحًا۔ فَالسَّابِقَاتِ سَبْقًا۔ فَالْمُدَبِّرَاتِ اَمْرًا۔ اب یہ بتاتا ہے کہ جس طرح ساعت کا علم اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا وہؤا ہے کہ وہ کب ظاہر ہو گی۔ اسی طرح اس بات کا علم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہؤا ہے کہ وہ کب ظاہر ہوگی۔ اسی طرح اس بات کا علم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہؤا ہے کہ وہ کن لوگوں کے ہاتھ سے ظاہر ہو گی۔ اسی طرح اس بات کا علم بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس رکھا ہؤا ہے کہ وہ کن لوگوںکے ہاتھ سے ظاہر ہو گی اور وہ نَازِعَات اور نَاشِطَات اور سَابِحَاتِ اور سَابِقَات اور مَدَبِّرَات والے کون لوگ ہوں گے مطلب یہ کہ وہ لوگ جو قوموں میں بڑے ہوشیار اور کام کرنے والے دکھائی دیتے ہیں۔ ہماری یہ مراد نہیں کہ تمہیں وہ لوگ مل جائیں گے کیونکہ ہو سکتا تھا کہ یہ خیال کر لیا جاتا کہ وَالنَّازِعَات سے فلاں فلاں آدمی مراد ہیں یا فلاں فلاں کام کرنے والے مراد ہیںیا فلاں فلاں بڑے آدمی مراد ہیں اور اس طرح قیاس کر لیا جاتا کہ یہ شخص اس اس سے مراد ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسا نہیں ہے جس طرح خدا تعالیٰ نے ساعت کا علم اپنے پاس رکھا ہؤا ہے اسی طرح نَازِعَات بننے والی روحیں اور نَاشطَات اور سَابِحَات اور سَابِقَات اور مُدَبِّرَات بننے والی روحیں بھی خدا تعالیٰ کے علم میں ہی ہیں تم اُن کے متعلق کیوں قیاس نہیں کر سکتے۔ تم ظاہر میں سمجھو گے کہ فلاں فلاں شخص قابل ہیں لیکن درحقیقت وہ اندرونی طور پر قابل نہیں ہوں گے۔ یہ علم بھی سَاعَۃ کی طرح خدا تعالیٰ نے اپنے پاس ہی رکھا ہؤا ہے گویا اَلنَّازِعَات کے مستحق لوگ خدا تعالیٰ کے علم میں ہیں وقت پر وہ اُن کو لاتا جائے گا خود اُن کی جستجو کرنا مفید نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کی سُنّت ہے کہ وہ اپنے سلسلہ کو اُن لوگوں کی معرفت ترقی نہیں دیتا جو پہلے سے جانے بوجھے ہوتے ہیں بلکہ اُن کے ذریعہ سے ترقی دیتا ہے جو کلّی طور پر اُس دین سے عزت پاتے ہیں جن کی نسبت یہ کہا جائے کہ دین نے اُن سے عزت پائی وہ سچے دین کے قابل نہیں۔ سچے دین کے قابل وہی ہوتا ہے جس کے متعلق کہا جائے کہ دین سے اُس نے عزت پائی۔ نبی کے زمانہ میں اُس کے اَتباع خدا تعالیٰ کی طرف اشارہ نہیں کرتے کہ لوگو! اُس کو مان لو۔ بلکہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ لوگو یہ وہ ہیں جن کو میں خدمت دین کے لئے چُنتا ہوں۔ پس اس سورۃ میں اَلنَّازِعَات کی جماعتکی تشریح کی گئی ہے اور اُن کے انتخاب کا طریقو بتایا گیا ہے جو یہ ہے کہ وقت پر اللہ تعالیٰ اُن کو خود ظاہر کر دے گا۔ چنانچہ اسلام کی تاریخ کو دیکھ لو جتنے لوگ چُنے گے وہ وہی ہیں جن کی صداقت اور نیکی کا دشمن معترف تھا۔ لیکن اس زمانہ کے ماحول کے مطابق اگر دنیا کو کہا جاتا کہ اس کام کے لئے آدمی چُنو تو وہ کبھی اُن کو نہ چنتی۔ لیکن گو اُن کے اندر مخفی قابلیتیں تھیں لیکن ایک مبہم خیال سے زیادہ لوگ ان کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔ آخر مکّہ والے ابو بکرؓ کی قابلیت کے تو قائل تھے مگر سرداری کے لئے انہوں نے ابو جہل،عتبہ اور شیبہ کو ہی چنا ہؤا تھا۔ کیونکہ ابو بکرؓ کے اندر وہ ایک مبہم نیکی پاتے تھے۔ ظاہری قابلیتیں ان کو عتبہ، شیبہ اور ابو جہل میں ہی نظر آتی تھیں۔ اسی طرح عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، عبداللہ بن مسعودؓ، زیبرؓ اور طلحہؓ وغیر ہم میں سے ایک بھی نہ تھا جس کو قوم نے اپنی سرداری کے لئے منتخب کیا ہو۔ اسی طرح یمن میں مثلاً ابوموسیٰ اشعری ایمان لائے اور یہود میں عبداللہ بن سلام ایمان لائے۔ مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر اُن کی قومیں منتخب کرتیں تو وہ انہی لوگوں کو کرتیں۔ یقینا وہ دوسروں کو کرتیں لیکن اِس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ایک مبہم اقرار اُن کی نیکی کا لوگوں کے دلوں میںضرور موجود تھا۔
غرض یہ لوگ ایسے تھے کہ قوم میں کسی تغیر کا پیدا کرنا ان سے متوقع نہیں ہو سکتا تھا۔ مگر تغیر پیدا انہوں نے ہی کیا اور جن سے تغیر متوقع ہو سکتا تھا وہ محروم رہ گئے۔ پس یہ ایک نہایت ہی اہم معاملہ قومی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس مضمون پر اس سورۃ میں خاص طور پر بحث کی گئی ہے کہ جب قوموں پر تغیر کا زمانہ آتا ہے تو اصل قابلیتیں دب جاتی ہیں اور جھوٹی قابلیتیں ابھرتی ہیں لوگوں کے مزاج کچھ ایسے بگڑ جاتے ہیں کہ حقیقی نیکی کو وہ پسند نہیں کرتے اور مظاہرے اور بناوٹ اور قوم کی رگ پہچاننے کو وہ زیادہ قدر کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں وہ اس شخص کو آگے نہیں آنے دیتے جو حقیقی لیڈر ہو۔ بلکہ اُسے آگے لاتے ہیں جو نام کا تو لیڈر ہو لیکن واقعہ میں قومی رسومات اور عادات کے پیچھے چلنے والا اس لئے زمانۂ ظلمت کی اصلاح کے لیڈر کا چننا لوگوں کے لئے ناممکن ہوتا ہے کیونکہ ان کی فطرتیں مسخ اور غلامانہ بن چکی ہوتی ہیں جو اس نیک جدّت کو بھی جو رسم ورواج کے خلاف ہو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتیں پس اس انتخاب کا حق اللہ تعالیٰ اپنے قبضہ میں رکھتا ہے کیونکہ خدا کی نظر دلوں پر ہوتی ہے صرف منہ کی باتیں وہ پسند نہیں کرتا۔ ایک عام انسان تو کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ لوگ لائق ہیں تو آگے کیوں نہیں آتے لیکن خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ اُن کا آگے نہ آنا حالات کے ناسازگار ہونے کی وجہ سے ہے۔ قوم کے حالات ہی گندے ہو جاتے ہیں اور اس گندی زمین میں کوئی پاکیزہ درخت اُگ ہی نہیں سکتا اور جب تک اس زمین سے اُن کو نہ اکھاڑا جائے وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتے۔ اسی کی طرف سورۂ نازعات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ قابل تو یہ ہیں مگر زمین خراب ہے اس زمین میں یہ اُگ نہیں سکتے۔ اب ہم ایک نئی زمین ان لوگوں کے لئے پیدا کریں گے تب اُن کی قابلیتیں تمہیں نظر آنے لگ جائیں گی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد حضرت ابو بکرؓ خلیفہ ہوئے۔ جب مکّہ میں یہ خبر اُس جگہ پہنچی جہاں اُن کے والد بیٹھے ہوئے تھے تو انہوں نے مدینہ سے آنے والے ایک آدمی سے پوچھا کہ سُنائو مدینہ کا کیا حال ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ انہوں نے ایک آدمی کی بیعت کر لی۔ انہوں نے کہا کہ کس آدمی کی؟ وہ کہنے لگا ابوبکرؓ کی۔ انہوں نے حیرت سے پوچھا کون ابوبکرؓ؟ اُس نے جواب دیا ابن ابی قحافہ۔ کہنے لگا کون ابو قحافہ؟ اُس نے کہا کہ تم۔ پھر انہوں نے مختلف خاندانوں کے نام لے کر پوچھا کہ کیا انہوں نے بیعت کر لی ہے؟جب اُس نے بتایا کہ انہوںنے بیعت کر لی ہے تو وہ کہنے لگا بنو ہاشم کا کیا حال ہے۔ کیا انہوں نے بھی بیعت کر لی؟ اُس نے کہا ہاں۔ پھر انہوں نے بعض اور قبائل کے متعلق پوچھا اُس نے یہی جواب دیا کہی اُنہوں نے بھی بیعت کر لی ہے۔ ابو قحافہ ظاہر میں تو اسلا م لے آئے تھے لیکن ابھی پورے طور پر اُن کے دل میں ایمان داخل نہیں ہؤا تھا جب انہوں نے یہ باتیں سُنیں تو تھوڑی دیر تک خاموش سر جھکائے بیٹھے رہے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ گویا یہ دن اُن کے ایمان کی صفائی کا تھا جس میں اُن کو اسلام کی سچائی کے متعلق حقیقی بصیرت حاصل ہوئی۔ اُن کے ذہن میں یہ کبھی خیال بھی نہیں آیا تھا کہ کوئی دن ایسا بھی آسکتا ہے جب ابوبکرؓ کو عرب کے سارے قبائل اپنا خلیفہ اور بادشاہ مان لیں گے اور یہ بات بھی ٹھیک ہے جس ابو بکرؓ کو انہوں نے پالا تھا اور جس نگاہ سے انہوں نے ابو بکر ؓ کو دیکھا تھا وہ ابو بکر واقعہ میں اُس وقت اس عظیم الشان منصب کے قابل نہیں تھا۔ مگر اُس کی وجہ یہ تھی کہ اُنہیں اس مٹی میں گایا جا رہا تھا جس سے اُن کو کوئی مناسبت نہ تھی۔ جب خدانے زمین بدل دی اور وہ زمین اس پودے کے مناسب حال ہو گئی تب ابوبکرؓ کی روح کا پودا ابھرااور اُس نے نشوونما پاتے پاتے ایک بہت بڑے درخت کا رنگ اختیار کر لیا۔ یہ بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے آم کشمیر لگا تو وہ نہیں اُگیں گے۔ اور اگر سیب کا درخت پنجاب میں بو دو تو وہ کبھی اچھا پھل نہیں دے گا۔ نیک روحوں کے لئے بھی مناسب حال پودے کی ضرورت ہوتی ہے اور زمین کے لئے مناسب حال پودے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کفر کی زمین میں عتبہؔ شیبہؔاور ابوجہلؔ ہی بڑھ سکتے تھے۔ ابو بکر سر نہیں اٹھا سکتے تھے اور ایمان کی زمین میں ابو بکر ہی بڑھ سکتے تھے۔ عتبہ ،شیبہ اور ابوجہل سر نہیں اٹھا سکتے تھے۔ وہ اس زمین میں جھاڑیوں سے بھی زیادہ ذلیل نظر آتے تھے بلکہ جھاڑیاں تو کیا اُن کی گھاس پُھونس جیسی حیثیت بھی نہ تھی۔ اسی مضمون کی طرف اس سورۃ میں اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تم کو وہ روحیں نظر نہیں آتیں جنہوں نے دین کی اشاعت کا کام سرانجام دینا ہے اور جن کے ہاتھوں پر اسلام کا غلبہ مقدر ہے۔ اِسی لئے تم پوچھتے ہو کہ وہ روحیں آئیں گی کہاں سے جو نَازِعَات۔ نَاشِطَات۔ سَابِقَات۔ سَابِحَات اور مُدَبِّرَات ہوں گی اور روحوں کو چُنے گا کون؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم چُنیں گے اور کون چُنے گا۔ بے شک آج وہ روحیں تم کو نظر نہیں آئیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہاری زمین ناسازگار ہے۔ تمہارے باغ میں وہ نیکی کے پودے تو لگے ہوئے ہیں مگر زمین کے مناسب حال نہ ہونے کی وجہ سے وہ سُوکھ رہے ہیں۔ جب ہم ان پودوں کو اس زمین سے اکھیڑ کر اصل زمین میں بوئیں گے تو اُس وقت تم دیکھو گے کہ وہ کتنے شاندار درخت بنتے ہیں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِo
عَبَسَ وَتَوَلّٰٓیo
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا بار بار رحم کرنے والا ہے (پڑھتا ہوں)
(کیا) چیں بجییں ہو گیا اور مُنہ موڑ لیا؟ (صرف) اس بات پر کہ اُس کے پاس (ایک) نابینا (جسے واقف لوگ جانتے ہیں) آیا؟ ۲؎
۲؎حل لغات
عَبَسَ فُلَاَنٌ وَجْھَہٗ کے معنے ہوتے ہیں قطَّبَہٗ۔ اُس نے ناراضگی کا اظہار کرنے کے لئے ماتھے پر شکن ڈال لئے (اقرب) اور تَوَلَّی عَنْہُ کے معنے ہوتے ہیں اَعْرَضَ عَنْہُ وَتَرَکَہٗ۔ اس سے اعراض کیا اور اُس سے توجہ کو ہٹا لیا (اقرب)
تفسیر
کہا جاتا ہے کہ عبداللہ بن اُم مکتوم ایک دفعہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں تشریف لائے۔ یہ اس وقت تک مسلمان ہو چکے تھے یا اگر ظاہری طور پر انہوں نے بیعت نہ کی ہو تو بہرحال رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لا چکے تھے۔ جب یہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے تو اُس وقت آپ کے پاس عتبہ و شیبہ (ربیعہ کے دونوں بیٹے جو مکّہ کے لیڈروں میں سے تھے) ابو جہل اور عباس ابن عبدالمطلب اور امیہ بن خلف اور ولید بن مغیرہ بیٹھے ہوئے تھے اَور ان کو بڑے شوق سے تبلیغ کر رہے تھے کہ شاید یہ مان جائیں تو اُن کے ذریعہ سے باقی مکّہ والے بھی اسلام میں داخل ہو جائیں باتیں ہو ر ہی تھیں کہ عبداللہ بن ام مکتوم آئے اور انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اَقْرِئْنِیْ وَعَلِّمْنِیْ مِمَّا عَلَّمَکَ اللّٰہُ تَعَالٰی کہ مجھے قرآن کریم پڑھائیے اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے وہ بھی مجھے بھی سکھائیے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ جس پر انہوں نے دو تین بار اسی بات کو دُہرایا چنانچہ لکھا ہے وَلَمْ یَعْلَمْ تَشَاغُلَہٗ بِالْقَوْمِ یعنی اُن کو علم نہ ہؤا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دوسروں سے باتیں کر رہے ہیں۔ فَکَرِہَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم قَطْعَہُ لِکَلَامِہٖ وَ عَبَسَ وَاَعْرَضَ عَنْہُ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کے قطع کلام کو ناپسند فرمایا اور آپ کے ماتھے پر شکن پڑے اور آپ نے اُن سے اعراض کر لیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے توبیخ نازل ہوئی (کشاف) چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بعد میں اُن کو بلا کر اُن کی عزت افزائی کی اور اُن سے باتیں کیں اور اس کے بعد جب کبھی وہ آپ کے پاس آتے آنحضرت صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کے لئے چادر بچھاتے اور انہیں بیٹھنے کے لئے کہتے (فتح البیان)
یہ واقعہ ہے جو اس سورۃ کا شانِ نزول بتا یا جاتا ہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک اندھے کو حقیر جانا اور یہ سمجھ کر کہ وہ معمولی اور غریب آدمی ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ اور بڑے بڑے خاندانوں کے لوگ جو اس وقت آپ کے پاس موجود تھے اُن کی طرف ہی آپ نے اپنی توجہ رکھی اور یہ سمجھا کہ مشہور خاندانی لوگوں کی طرف توجہ رکھنا زیادہ مفید ہو سکتا ہے ایک اندھے اور غریب کی طرف توجہ کی کیا ضرورت ہے۔
اس روایت کے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ عبداللہ بن ام مکتوم کون تھا۔ عبداللہ بن ام مکتوم حضرت خدیجہؓ کے بھائی تھے یعنی اُن کے ماموں کے بیٹے تھے اُن کے نام اور نسب کے متعلق قریب کے ناموں میں اختلاف ہے مگر قوم کے لحاظ سے سب اس بات پر متفق ہیں کہ بنی عامر بن لُؤَیِّ میں سے تھے۔ اُن کا نام اور نسب نامہ بعض عبداللہ بن شریح بن مالک بن ربیعۃ الفہری بتاتے ہیں اور بعض عبداللہ بن عمرو بن قیس ابن زائدہ بن الاعصم بتاتے ہیںاور بعض اُن کا نام ہی عمرو بن قیس ابن زائدہ بتاتے ہیں (روح المعانی) یہ ابن ام مکتوم کیوں کہلاتے ہیں اس کے متعلق زمخشری نے لکھا ہے کہ اُم مکتوم اُن کی دادی کا نام تھا۔ لیکن ابن عبدالبرّ اور دوسرے مؤرخین کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے اُن کے نزدیک یہ اُن کی والدہ کی کنیت ہے اور ان کا اصل نام عاتکہ بنت عامر بن مخزوم تھا۔ اُن کی کنیت ام مکتوم اس لئے تھی کہ یہ پیدا ہی اندھے ہوئے تھے اس لئے ان کی کنیت ام مکتوم پڑ گئی یعنی اندھے کی ماں۔ بعض مؤرخین یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ اندھے پیدا نہیں ہوئے تھے کچھ دیر تک اُن کی آنکھیں سلامت رہیں مگر بعد میں کسی وجہ سے اُن کی بینائی جاتی رہی۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے دو دفعہ اُن کو مدینہ کا امیر بھی مقرر فرمایا۔ اس شجرۂ نصب کو تفصیل کے ساتھ بیان کرنے میں میری غرض یہ ہے کہ یہ کہنا کہ وہ حقیر آدمی تھے اور اُن کی طرف رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی توجہ مفید نہیں ہو سکتی تھی ان واقعات سے بالبداہت غلط ثابت ہوتا ہے اس لئے ان کی والدہ اور والد دونوں زبردست قبائل میں سے ہیں۔ اور یہ ایک ایسی عورت کے بھائی ہیں جس کی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دل میں انتہاء درجہ کی عزّت تھی کہ اُن کی وفات کے سالوں بعد حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکو اُن پر شک آجاتا تھا۔ حضرت عائشہ ؓ خود بیان کرتی ہیں کہ جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تکرار اور تواتر کے ساتھ حضرت خدیجہؓ کا ذکر فرماتے تو میں بعض دفعہ بے تاب ہو کر کہتی یا رسول اللہ! آپ اُس بڑھیا کا ذکر چھوڑ دیں گے بھی یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے بہت بہتر عورتیں دے دی ہیں؟ اُس وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کے جواب میں فرماتے عائشہ! تم کو معلوم نہیں خدیجہؓ کے اندر کئی خوبیاں تھیں اور اس نے میری ایک لمبے عرصہ تک کیسے خدمت کی۔ پس حضرت خدیجہؓ کے بھائی اور ماں باپ دونوں کی طرف سے زبردست خاندانوں کے فرد کی عظمت صرف نابینا ہونے کی وجہ سے تو نہیں کی جا سکتی تھی۔ آخر تبلیغ زبان سے کی جاتی ہے آنکھوں سے تو نہیں کی جاتی۔ پس یہ کہنا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ سمجھا کہ ایک حقیر اندھا آدمی میرے پاس آیا ہے میں بڑے بڑے لوگوں کو چھوڑ کر ایسے غریب اور معمولی آدمی کی طرف کیوں توجہ کروں یا بالبداہت واقعات سے غلط ثابت ہوتا ہے۔ پھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کو دو دفعہ مدینہ کا سردار مقرر کیا اور یہ سردار مقرر کرنا محض لحاظ کے طور پرنہیں ہو سکتا تھا بلکہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کو سردار مقرر فرمایا تو اس لئے کہ ان میں امارت کی قابلیت تھی اور اس لئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ سمجھتے تھے کہ عرب ان کی خاندانی عظمت کو جبکہ انہیں اپنا سردار تسلیم کرنے میں کوئی تکلیف محسوس نہیں کریں گے ۔کیونکہ عرب کے دستور کے مطابق کوئی ایسا شخص امیر مقرر نہیں کیا جا سکتا جس کا خاندانی لحاظ سے لوگوں پر اثر نہ ہوتا۔ اسی وجہ سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جب بھی امیر مقرر کیا ہمیشہ انہی لوگوں کو کیا جو خاندانی لحاظ سے عظمت وشہرت کے مالک ہوتے تھے اور جن کے متعلق یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ لوگوں کو اُن کی اطاعت سے کوئی گریز نہیں ہوگا۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد امیر مقرر فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ عربوں میں نسلی تعصب اس قدر بڑھا ہؤا تھا کہ وہ ادنیٰ اقوام یا بے اثر لوگوں کی امارت کو تسلیم ہی نہیں کر سکتے تھے۔ یہ تو بہت لمبے عرصہ کے بعد اسلام نے ان کے دلوں سے یہ بات دُور کی ورنہ شروع شروع میں یہ بالکل ناممکن تھا کہ وہ کسی ایسے آدمی کی امارت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جاتے جو خاندانی طور پر اثر نہ رکھتا ہو۔ پس یہ سمجھنا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ایک حقیر آدمی آیا اور آپ نے اُس کی طرف محض اُس کی غربت اور عدم عزّت کی وجہ سے توجہ نہ کی بالبداہت باطل ہے اور یہ اتنا موٹا مضمون ہے کہ تعجب آتا ہے کہ مسلمانوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتا حالانکہ بعض دشمنانِ اسلام کی سمجھ میں آگیا ہے چنانچہ نولڈکے NOLDEKEجو مشہور جرمن مستشرق ہے وہ یہ واقعہ لکھ کر کہتا ہے کہ یہ بالکل جھوٹا واقعہ ہے عبداللہ بن ام مکتوم کا شجرہ نصب بتا رہا ہے کہ وہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھا۔اور اس لئے یہ بات اس کے متعلق ہر گز نہیں ہو سکتی گویا اُس کا ذہن بھی اِدھر چلا گیا کہ یہ واقعہ یہاں چسپاں نہیں ہوتا۔ حالانکہ اگر یہ بات درست ہوتی تو اُس کو خوش ہونا چاہئیے تھا کہ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس سے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہتک ہوتی ہے مگر وہ کہتا ہے یہ بات واقعہ کے بالکل خلاف ہے اور اسے ان آیات پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔ میرے نزدیک علاوہ اس شہادت کے پانچ اور امور ایسے ہیں جن کی وجہ سے ہر شخص کو ماننا پڑتا ہے کہ یہ واقعہ اس رنگ میں یہاں چسپاں نہیں ہوتا۔
(۱) پہلی وجہ یہ ہے کہ ابن مکتوم اندھے تھے بہرے تھے۔ یا تو یہ کہا جاتا کہ ابن مکتوم بہرے تھے اور چونکہ بہرے ہونے کی وجہ سے وہ باتوں کو سُن نہیں سکتے تھے اس لئے اُن کو پتہ نہیں لگا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بعض لوگوں سے مصروف گفتگو ہیں اور چونکہ اُن کو اپنے بہرے پن کی وجہ سے اس بات کا علم نہیں ہو سکا اس لئے انہوں نے آتے ہی سوال کر دیا۔ اگر ثابت ہو جائے تو پھر ابن مکتوم پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا۔ کیونکہ عدمِ علم کی حالت میں کسی بات کو انسان سے سرزد ہو جانا اُسے موردِ الزام قرار نہیں دے سکتا لیکن تاریخ سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ وہ بہرے تھے۔ چنانچہ بعض مفسرین کو بھی یہ اعتراض سوجھا ہے کہ جب ہم اس واقعہ کو بیان کر رہے ہیں تو ہر شخص یہ کہے گا کہ قصور ابن مکتوم کا ہے جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بات کر ر ہے تھے تو انہوں نے بیچ میں دخل کیوں دے دیا۔ آخر ہر شخص جانتا ہے کہ جب دوسرے سے گفتگو کی جا رہی ہو تو اُس وقت کوئی شخص دخل دے دے اور کلام کو قطع کرنے کی کوشش کرے تو وہ تہذیب اور شائشتگی کے خلاف حرکت کا مرتکب سمجھا جاتا ہے اور اُسے کیس صورت میں بھی اپنے فعل میں حق بجانب نہیں سمجھا جا سکتا پس جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بعض اور لوگوں سے گفتگو کر رہے تھے اور عبدا للہ بن اُم مکتوم نے اس میں دخل دے دیا اور آپ کی بات کو قطع کرنا چاہا تو ایسی صورت میں عبداللہ بن م مکتوم ہی زجر کے قابل تھا کہ اُس نے خلافِ تہذیب ایک حرکت کا ارتکاب کیا۔ بہرحال یہ ایک اعتراض ہے جو مفسرین کو بھی سوجھا ہے اور انہوں نے اس کا جواب دینے کی بھی کوشش کی ہے مگر وہ جواب ایسا کمزور ہے کہ اُسے پڑھ کر حیرت آتی ہے کہ مفسرین نے یہ کیا کہہ دیا چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شاید ان لوگوں کو کان میں تبلیغ کر رہے تھے جس کی آواز عبداللہ بن مکتوم کو نہیں پہنچی۔ مگر یہ بالکل ہنسی کے قابل بات ہے کہ سات آدمی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں موجود ہوں اور ان سات آدمیوں کو آپ کان میں تبلیغ کر رہے ہوں اور ایسی ہلکی آوا زسے کوئی پاس کا شخص بھی اُس کو سُن نہ سکے دُنیا کی کوئی عقل اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتی اور احمق سے احمق انسان بھی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا کہ سات آدمی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آئیں اور اُن سات آدمیوں کو بجائے کھلے طور پر تبلیغ کرنے کے آپ ہر ایک کو کان کے ساتھ اپنا منہ لگا رہے ہوں اور اُسے تبلیغ کر رہے ہوں۔ بات یہ ہے کہ فطرت خود بولتی ہے کہ سچائی کیا ہے خواہ اس پر کس قدر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔ بہرحال اگر عبداللہ بن مکتوم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں اس وقت بولے جب آ پ دوسروں کو تبلیغ کر رہے تھے تو ملز ابن مکتوم تھے اور اُن کا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ اس وقت بولتے۔ اور اگر انہوں نے سُنا نہیں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تبلیغ کر رہے ہیں تو پھر ثابت کرنا چاہیئے کہ وہ بہرے تھے لیکن تاریخ تو یہ بتاتی ہے کہ وہ اندھے تھے یہ نہیں بتاتی کہ وہ اس کے ساتھ بہرے بھی تھے۔ اور جب وہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی گفتگو سُن رہے تھے۔ جب انہیںمعلوم تھا کہ اس وقت مکہ کے بڑے بڑے رئوساء کو تبلیغ کی جا رہی ہے تو وہ بولے کیوں؟ اُن کااس موقع پر بولنا بتا رہا ہے کہ قصور ابن مکتوم کا ہی تھا اور یہ بات تو عقل کے بالکل خلاف ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بات کر رہے ہوں اور ابن مکتوم نے اُس کو سنا ہی نہ ہو۔ جیسے مفسرین نے ایک بے بنیاد توجیہہ کی ہے بہرحال جرم ابن مکتوم کا ثابت ہوتا ہے مگر بتایا یہ جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈانٹ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پڑی۔ اسی مشکل کی وجہ سے مفسرین نے عجیب قیاس کیا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کو کان میں تبلیغ کر رہے تھے حالانکہ یہ تبلیغ کا موقع کسی کی بیوی کا جھگڑا نہیں تھا کہ اس کے متعلق کان میں کچھ کہنے کی ضرورت ہوتی تاکہ دوسرا شخص اُسے سُن نہ لے۔ خدا اور رسول کی باتیں تھیں۔ اسلام کی اشاعت کا کام تھا۔ توحید کی تعلیم تھی۔ مگر یہ بتایا جاتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بڑی آہستگی سے عتبہ اور شیبہ کے کان کے ساتھ اپنا منہ لگا کر کہہ رہے تھے کہ دیکھو اللہ ایک ہے۔ اللہ نے ہی سب دنیا کو پیدا کیا ہے۔ بُتوں میں کچھ نہیں رکھا۔ انہیں چھوڑ دو اور توحید کا اقرار کرو۔ دنیا کا کوئی بھی معقول انسان اسے تسلیم نہیں کر سکتا بلکہ جس شخص کے سامنے یہ بات پیش کی جائے وہ ہنس پڑے گا کہ جیسی جاہلانہ بات کہی جا رہی ہے۔
(۲) دوسرے اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب نہیں دیا تو آپ نے عین ثواب کا کا م کیا اُن پر اعتراض کیسا؟ آپ بڑے بڑے رئوساء کو تبلیغ کر رہے تھے۔ اُن پر اسلام کی حقیقت واضح کر رہے تھے۔ اُن کو خدا اور اُس کے رسول کی طرف بُلا رہے تھے۔ ایسی حالت میں ایک شخص نے آپ کے کلام کو قطع کرنا چاہا اور موقع اور محل کو نظرانداز کر کے تہذیب وشائشتگی کے اصول کے بالکل خلاف ایک بات پیش کر دی تو اُس وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اگراس بات کا جواب نہیں دیا تو آپ نے بالکل درست کیا۔ قرآن کریم میں کوئی آیت ایسی نہیں جو ہمیں اس فعل سے روکتی ہو بلکہ آج ہماری مجلس میں کوئی ایسی حرکت کرے تو باوجود عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی والی آیت کے نازل ہونے کے ہم آج بھی اس سے وہی سلوک کریں گے جو عبداللہ بن ام مکتوم سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کیا۔ میں اگر قرآن کریم کا درس دے رہا ہوں اور کوئی شخص درمیان میں مجھے آکر کہے کہ اس درس کو چھوڑئیے اور میری فلاں بات کا جواب دیجئے۔ تو کیا میں اُس وقت درس چھوڑ دوں گا اور اس کی بات کی طرف متوجہ ہو جائوں گا۔یا اُس سے اعراض کروں گا کہ اُس نے موقع اور محل کو نظر انداز کر کے سلسلہ کلام کو قطع کرنا چاہا؟ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسے موقع پر اعراض کرنا ہی ضروری ہوتا ہے۔ا گر درمیان میں کوئی شخص دخل دے دے تو اس سے بات کا تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ طبائع پر جو اثر ہو رہا ہوتا ہے وہ جاتا رہتا ہے۔ دلیل بھول جاتی ہے اور دخل دینے والے کی بدتہذیبی کا اثر پڑتا ہے۔ پس ایسی حالت میں ضروری ہوتا ہے کہ اس بات کی طرف توجہ نہ کی جائے۔ کیا کوئی شخص اس بات کو جائز قرار دے سکتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ثبوت پیش کر رہے ہوتے اور ابن مکتوم کے دخل دینے پر اُسے سورۂ نَازِعَات کا درس شروع کر دیتے اور جب گھنٹہ بھر گزر جاتا تو پھر اُن لوگوں سے کہتے کہ لواب بقیہ آدھی دلیل تم بھی سن لو؟ دنیامیں جاہل سے جاہل اور احمق سے احمق انسان بھی ایسی حرکت نہیں کرتا مگر یہ لوگ محض اس بات کی وجہ سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو موردِ الزام قرار دیتے ہیں۔ اور بتاتے ہیں کہ آپ کو تبلیغ چھوڑ کر ابن مکتوم کی طرف متوجہ ہو جانا چاہئیے تھا اور تہذیب وتمدن کے تمام اصول کو بالائے طاق رکھ دینا چاہئیے تھا۔ گویا یہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس کو ایک ایسا رنگ دینا چاہتے تھے جسے دنیا میں کہیں بھی معقول قرار نہیں دیا جاتا۔
(۳) تیسرے اندھے کی بات کو ناپسند کر کے اُس پر تیوری چڑھانا اور مُنہ پھیر لینا یہ تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اعلیٰ درجہ کے اخلا ق کا ثبوت ہے۔ اس پر تو آپ کی تعریف ہونی چاہئیے تھی نہ یہ کہ توبیخ نازل ہوتی۔ ایک اندھا شخص آتا ہے وہ ایک غیرمعقول بات کرتا ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس کو ڈانٹتے نہیں تا کہ اُس کا دل میلا نہ ہو صرف اُس کے بار بار دخل دینے کی وجہ سے آپ کے ماتھے پر شکن آجاتے ہیں لیکن پھر بھی آپ کوئی آپ کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکلتے آپ چاہتے تھے کہ اُس کا دل نہ دُکھے مگر دُوسری طرف وہ ایسی بات کر رہا تھا جو سراسر غیر معقول تھی۔ ایسی حالت میں آپ حیران تھے کہ میں کیا کروں؟ ادھر میں بات کو نہیں چھوڑ سکتادوسری طرف اگر اس کو ڈانٹتا ہوں تو اس کا دل میلا ہوتاہے اب میں کیا کروں۔ ایسی حالت میں بہترین طریق جو ایک انسان اختیار کر سکتا ہے وہ یہی ہے کہ وہ مُنہ پھیر لے اور اس طرح دونوں باتیں ہو جائیں سلسلہ کلام بھی نہ رُکے اور دوسرے شخص کے دل کو بھی صدمہ نہ پہنچے۔ چنانچہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ماتھے پر شکن پڑے اور آپ نے اُس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔ مُنہ پھیرنے میں حکمت یہ تھی کہ آپ چاہتے تھے مجھے غصہ پیدا نہ ہواگر عبداللہ بن اُم مکتوم میرے سامنے ہو گاتو ممکن ہے غصہ کی حالت میں میرے مُنہ سے کوئی بات نکل جائے۔ چنانچہ آپ نے تیوری چڑھائی جس کو اندھا نہیںدیکھ سکتا تھا اور پھر اُس سے مُنہ پھیر لیا تاکہ اس کے متعلق زیادہ غصہ پیدا نہ ہو اور زبان سے کوئی ایسا لفظ نہ نکلے جس سے اُس کے دل کو صدمہ ہو پس آپ کا یہ فعل تو ایسا تھا کہ اس پر عرش سے خدا تعالیٰ کی طرف سے تعریف آنی چاہئیے تھی نہ یہ کہ ڈانٹ پڑتی؟ اور کہا جاتا کہ آپ نے اچھا کام نہیں کیا۔ پھر اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یہ طریق اختیار نہ کرتے تو مفسّرین کو بتانا چاہئیے تھا کہ آپؐ کیا کرتے اور وہ کون سا دوسرا قدم تھا جو آپ تمام اخلاقی پہلوئوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے اٹھا سکتے تھے۔ مگر وہ کوئی دوسرا طریق نہیں بتا سکتے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے نزدیک بھی یہی طریق تھا جو اس موقعہ پر اختیار کیا جا سکتا تھا۔ اگر اس واقعہ سے کچھ پتہ چلتا ہے تو وہ یہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تیوری چڑھائی اور آپ کو ابن مکتوم کی بات بُری لگی لیکن آپ نے اُسے کوئی جواب نہ دیا۔ صرف زائد بات یہ کی کہ جب آپ نے دیکھا کہ وہ باز نہیں آتا تو آپ کو یہ خیال پیدا ہؤا کہ ایسا نہ ہواُسے اپنے سامنے بیٹھے دیکھ کر غصہ میں میرے منہ سے کوئی بات نکل جائے۔ آپ نے اس کی طرف اپنا مُنہ پھیر لیا تا کہ وہ نظر نہ آئے اور نہ اس کے متعلق طبیعت میں زیادہ جوش پیدا ہو اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق پر دلالت کرتی ہیں۔
(۴)چوتھے ابن اُم مکتوم خود ایک بڑے خاندان کے فرد تھے۔ اس لئے ان کو حقیر سمجھنے کے کوئی معنے نہیں۔ لیکن اگر فرض بھی کر لو کہ وہ حقیر تھے تو اُن کے متلعق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کی غربت کی وجہ سے ان کی طرف کوئی توجہ نہ کی۔ کیونکہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم غرباء کی طرف خاص طور پر توجہ کیا کرتے تھے اور کبھی کسی شخص کو محض اُس کے غریب ہونے یا اس کے ادنیٰ طبقہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے تحقیر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے تھے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مکّہ کی زندگی میں آپ غلاموں کی تبلیغ کرتے اور بعض دفعہ گھنٹہ گھنٹہ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹہ اُن کے پاس کھڑے رہتے اور انہیں محبت اور پیار کے ساتھ اسلام کی باتیں پہنچاتے حالانکہ وہ نہایت ادنیٰ طبقہ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے۔ چنانچہ دو عیسائی غلاموں کے متعلق تاریخ میں ذکر آتا ہے کہ وہ نہایت شوق سے انجیل پڑھا کرتے تھے جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن کے اندر یہ مذہبی جو ش پایا تو آپ بہت خوش ہوئے اور آپ نے سمجھا کہ یہ لوگ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا جائے ۔ چنانچہ آپ اُن کے پاس جاتے اور بڑی بڑی دیر تک اُن کے پاس بیٹھے رہتے وہ عیسائی غلام آہن گری کا کام کرتے تھے۔ لوہے کوٹتے جاتے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کے پاس کھڑے ہو کر انہیں تبلیغ کرتے رہتے۔ پس وہ شخص جو گلیوں میں ادنیٰ ادنیٰ درجہ کے لوگوں کے پاس کھڑا ہو جاتا تھا۔ جو غلاموں کو کئی کئی گھنٹہ تبلیغ کرتا رہتا تھا۔ جو غریب اور معمولی طبقہ کے لوگوں سے ملنے میں اپنی کوئی ہتک محسوس نہیں کرتا تھا۔ اُس کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کی طرف محض اس لئے متوجہ نہ ہؤا کہ وہ غریب آدمی تھا۔ جو شخص غلاموں کے ساتھ برسرِ بازار گفتگو کرنے سے گھبراتا تھا اور جو شخص اُن کو تبلیغ کرنے میں اپنی کوئی ہتک محسوس نہیں کرتا تھا اُس کے لئے یہ شرم کی بات نہیں تھی کہ وہ ابن مکتوم سے بات کر لیتا بشرطیکہ اخلاق اس بات کی اجازت دیتے۔
(۵) پانچواں ردّ اس کا یہ ہے کہ اگر یہ توبیخ تھی اور اگر اس آیت کے ذریعہ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نعوذباللہ ڈانٹا گیا تھا تو پھر چاہئیے تھا کہ آپ اپنے رویّہ کو بدل لیتے کیونکہ ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس واقعہ کے بعد ابن ام مکتوم کو بلایا اور اُسے کہا کہ بتائو تم مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہو تمہاری خاطر تو خدا نے مجھے ڈانٹا ہے۔ پس اگر یہ واقعہ درست ہے تو اس کے بعد لازمی طور پر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا سابق طریقِ عمل بدل لینا چاہئیے تھا اور آئندہ یہ دستورِعمل بنا لینا چاہئیے تھا کہ جب بھی کوئی شخص آپ کی بات میں دخل دیتا آپ فوراً اس کی طرف متوجہ ہو جاتے اور اپنے سلسلۂ کلام کو منقطع کر دیتے۔ مگر ہمیں تاریخ سے ایسے واقعات نظر آتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بعد میں بھی اپنا یہی طریق عمل رکھا۔ چنانچہ بخاری میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آیا حضور اُس وقت مجلس گفتگو فرما رہے تھے اُس نے آپ کے کلام میںدخل دیتے ہوئے ایک سوال کیا مگر آپ نے اُس کا جواب نہیں دیا اور اپنی بات میں مشغول رہے یہاں تک کہ صحابہ کہتے ہیں ہم نے سمجھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم شاید خفا ہو گئے ہیں۔ جب آپ بات ختم کر چکے تو آپ نے فرمایا کہ سائل کہاں ہے؟ اور پھر آپ نے اُس کے سوال کا جواب دیا (بخاری جلد اول کتاب العلم باب منْ سُئِلَ عِلْمًا وَھُوْ مُشْتَغِلٌ فِی حَدِیْثِہٖ فاتّم الحدیث ثم اجاب السائل) گویا وہ طریق جو ابن مکتوم کے واقعہ کے وقت آپ نے اختیار کیا تھا وہی طریق بعد میں بھی آپ نے جاری رکھا اور جب بھی کوئی شخص نے آپ کی گفتگو کے دوران میں دخل دے کر آپ سے کوئی سوال کرنا چاہا آپ نے کبھی اس کا جواب نہیں دیا جب تک اپنی بات کوختم نہیں کر لیا۔ اور یہ طریق وہ ہے جو نہ صرف مکّہ مکرمہ میں بلکہ مدینہ منورہ میں بھی آپ نے جاری رکھا۔ بلکہ جیسا کہ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے آپ کا عام طریق ہی یہ تھا کہ جب تک بات ختم نہ کر لیتے کسی دوسرے شخص کے سوال کا جواب نہ دیتے اور یہی شرفاء کا طریق ہے۔ پس اگر واقعہ میں یہ توبیخ ہوتی تو پھر چاہئیے تھا کہ اِن آیات کے نزول کے بعد رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس جب بھی کوئی شخص بات کرتا اور جس حالت میں کرتا آپ فوراً اس کا جواب دینا شروع کر دیتے اور سمجھتے کی میں اُس غلطی کا اعادہ نہ کروں جو ایک دفعہ مجھ سے ہو چکی ہے۔ لیکن آپ نے کبھی اپنے طریق کو نہیں بدلا۔ اور جب آپ نے وہی رویّہ رکھا جو ابن مکتوم کے واقعہ کے وقت تھا تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ توبیخ کس بات پر تھی اور کس بات سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو روکا گیا تھا؟ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا عمل تو ثابت کررہا ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخر تک عَبَسَ وَتَوَلّٰی والی بات پر ہی عمل کیا اور جب بھی کوئی شخص آپ کی بات میں دخل دیتا آپ اُسے پسند نہ فرماتے۔ کیونکہ تداخل سے تسلسل ٹوٹ جاتا ہے۔ اثر جاتا رہتا ہے۔ بات پوری نہیں ہوتی اور مضمون کے کئی پہلو ذہن سے نکل جاتے ہیں۔ پس اگر اس واقعہ کو درست تسلیم کیا جائے تو اس کے معنے ہوں گے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نعوذ باللہ ڈانٹ بھی پڑی مگر پھر بھی آپ نہ مانے۔
میں اِن دلائل کے بیان کرنے سے پہلے ذکر کر چکا ہوں کہ روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ عبداللہ بن ام مکتوم کے حالات بتاتے ہیں کہ وہ کوئی ذلیل یا حقیر آدمی نہیں تھے۔ بیشک وہ اندھے تھے لیکن آخر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خاندان میں سے تھے حضرت خدیجہؓ کے ماموں زاد بھائی تھے اور باپ اور ماں کی طرف سے بھی مشہور خاندانوں میں سے تھے۔ اس خاندانی اثر کیو جہ سے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور حضرت خدیجہؓ کے تعلقات کی وجہ سے اُنہیں آپ کا مقرب ہونا چاہئیے تھا اور جیسا کہ واقعات ثابت کرتے ہیں وہ آپ کے مقرب ہی تھے۔ چنانچہ بعد میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا انہیں دو دفعہ اپنے بعد مدینہ کا امیر کرنا اسی بات کا ثبوت ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دل میں ان کا احترام پایا جاتا تھا اور آپ اُن کے خاندانی اثر کے قائل تھے۔ پس یہ دلیل بھی اس واقعہ کے غلط ہونے کا ایک بیّن ثبوت ہے۔
میرے نزدیک ان آیات میں ہی خدا تعالیٰ نے ایک حل رکھ دیا ہے جس کی طرف مفسّرین نے توجہ نہیں کی۔ اُن کا ذہن ادھر گیا ہے مگر وہ اس کی اَور توجیہیں کرتے رہے ہیں۔ اور وہ حل یہ ہے کہ ان آیات کی بناوٹ اور ان کی ترتیب پر ہمیں غور کرنا چاہئیے۔ یہ آیات اس طرح ہیں عَبَسَ وَتَوََلّٰٓی اَنْ جَآئَ ہُ الْعَمٰی۔ وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَکّٰٓی۔ اَوْیَذَّکَّرُ فَنَنْفَعَہٗ الذِّکْرٰی۔ اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی۔ فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی۔ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی وَاَمَّا مَنْ جَآئَکَ یَسْعٰی۔ وَھُوَیَخْشٰی۔ فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی۔ اِن آیات عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی اَنْ جَآئَ ہُ الْعَمٰی۔تین غائب کے صیغے ہیں۔ یعنی کسی نے عَبُوْس اختیار کیا۔ کسی نے تَوََلّٰٓی کی اور کسی کے پاس اَعْمٰی آیا۔ لیکن آگے فرماتا ہے وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی تجھ کو کس نے بتایا کہ اس کے متعلق یہ امید کی جا سکتی تھی کہ وہ تزکیہ حاصل کر لے گا۔ یہاں غائب کی بجائے مخاطب کا صیغہ آگیا۔ اسی طرح اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی۔ فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی۔ میں مخاطب کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے گویا یہاں کچھ غائب کے صیغے ہیں اور کچھ مخاطب کے صیغے ہیں ان غائب اور مخاطب کے صیغوں کے متعلق چار ہی صورتیں ہیں۔ (۱) یا تو ہم غائب اور مخاطب دونوں کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق سمجھیں۔ یعنی یا تو ہم یہ سمجھیں کہ عَبَسَ بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہے اور مَایُدْرِیْکَ بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہے اور یا ہم یہ سمجھیں کہ عَبَسَ بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علاوہ کسی اور کے متلعق ہے اور مَایُدْرِیْکَ بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علاوہ کسی اور کے متعلق ہے (۳) اور یا پھر ہم یہ سمجھیں کہ عَبَسَ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہے اور مَا یُدْرِیْکَکسی اور کے متعلق ہے اور مَایُدْرٖیْکَ کسی اور کے متعلق ہے (۴)اور یا پھر ہم یہ سمجھیں کہ عَبَسَ کسی اور کے متعلق ہے اور مَایُدْرِیْکَ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہے۔ یہ چار صورتیں ہیں جو بن سکتی ہیں اور ہمیں یہ تعیین کرنا ہے کہ اِن چاروں میں سے اصل بات کیا ہے۔ پہلے ہم اس بات کو لے لیتے ہیں کہ یہاں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر ہی نہیں اور مَایُدْرِیْکَ بھی غیر سے تعلق رکھتا ہے مگر اس طرح چونکہ آیات کے معنے بالکل غیر معقول ہو جاتے ہیں اس لئے ہمیں ان می پڑنے کی ضرورت نہیں۔ روایات نہایت تواتر سے ابنِ مکتوم کا قصہ بیان کرتی ہیں اور جس قصہ کو اِتنے تواتر اور تکرار کے ساتھ مختلف کتب میں بیان کیا جائے وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ بہرحال ماننا پڑتا ہے کہ کوئی واقعہ ہؤا ضرور ہے۔ اگر ہم عَبَسَ اور مَایُدْرِیْکَ دونوں کسی غیر کے متعلق قرار دیں تو اسے قصّہ کو سرے سے جھوٹا کہنا پڑتا ہے اور یہ بات بظاہر ناممکن ہے۔ ہم احادیث اور تاریخ دونوں میں اس واقعہ کا تکرار کے ساتھ ذکر پاتے ہیں اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ عَبَسَ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق نہیں بلکہ کسی اور کے متعلق ہے۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ہم عَبَسَ بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق سمجھ لیتے ہیں اور مَایُدْرِیْکَ میں بھی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مخاطب سمجھ لیتے ہیں۔ مگر پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ضمائر کو کیوں بدلا۔ پہلے اُس نے عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی کیوں کہا اور پھر اُس نے مَایُدْرِیْکَ میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کیوں مخاطب کیا؟ مفسّرین اس موقعہ پر بیان کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے عَبَسَ وَتَوََلّٰٓی میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا لحاظ کر کے غائب کے صیغے استعمال فرمائے اگر مخاطب کے صیغے استعمال کئے جاتے ہیں تو آپ کو زیادہ تکلیف ہوتی اس لئے خدا تعالیٰ نے یہ خیال کر کے کہ آپ کو بُرا نہ لگے عَبَسْتَ وَتَوَلَّیْتَ اَنْ جَآئَ کَ الْاَعْمٰی نہیں فرمایا بلکہ عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی اَنْ جَآئَ ہُ الْعَمٰی فرمایا۔ پھر ذرا اعتاب کم ہو گیا تو مَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی سے آپ کو خطاب شروع کر دیا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اگلی آیتوں میں عتاب زیادہ ہے کم نہیں ہے۔ اور عَبَسَ وَتَوََلّٰٓی میں تو عتاب ہے ہی نہیں۔ جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ ایک اندھے کے سامنے عَبُوْس اور تَوََلّٰٓی سے کام لینا ہر گز کوئی ایسا فعل نہیں ہے جس سے اس کی دلآزاری ہو اور نہ یہ فعل ایسا ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی عتاب نازل ہونے کا امکان ہو۔ بلکہ یہ تو آپ کے اعلیٰ اخلاق کا ایک ثبوت تھا۔ پس یہ عجیب بات ہے کہ جہاں عتاب نہیں تھا وہاں اُس نے غائب کے صیغے استعمال کئے اور جہاں بہت زیادہ عتاب تھا وہاں اُس نے مخاطب کے صیغے استعمال کرنے شروع کر دئے۔ آخر یہ کتنے سخت الفاظ ہیں کہ اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی۔ فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی۔ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی وَاَمَّا مَنْ جَآئَکَ یَسْعٰی۔ وَھُوَیَخْشٰی۔ فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی۔ کہ جوشخص مستغنی ہے تو اُس کی طرف پوری توجہ دیتا ہے حالانکہ تجھ پر کوئی اعتراض نہیں اگر وہ پاک نہ ہو اور جو تیری طرف دوڑتا آتا ہے اور وہ ڈرتا بھی ہے تُو اس سے بے رغبتی ظاہر کرتا ہے۔ کیا یہ عبوس اور تولّی سے کم خطرناک الفاظ ہیں؟ پس جہاں واقعہ میں توبیخ کا موقع تھا وہاں تو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کے صیغے استعمال کر دئے جہاں توبیخ کا کوئی موقع ہی نہیں تھا بلکہ تعریف کا موقع تھا وہاں اس نے وہاں اس نے غائب کے صیغے رکھ دئے۔ گویا تعریف کو تو نظر انداز کر دیا اور توبیخ کے پہلو کو نمایاں کر دیا۔ پس یہ توجیہہ جو مفسّرین کی طرف سے کی جاتی ہے بالکل غلط ہے اور ان کے معنوں کو تسلیم کرتے ہوئے ضمائر کے بدلنے کی کوئی وجہ نہیں نظر آتی۔
اب وہی صورتیں رہ جاتی ہیں جن میں سے پہلی یہ ہے کہ عَبَسَ وَتَوَلّٰی ہم کسی غیر کے متعلق سمجھیں اور مَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَکّٰی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق قرار دیں۔ مگر اس صورت میں جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں یہ مشکل پیش آتی ہے کہ ہمیں اس واقعہ کا انکار کرنا پڑتا ہے جو ابن مکتوم کے متعلق احادیث اور تاریخ کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ واقع ایسا ہے جس کا اس قدر شہادت کے بعد کسی صورت میں بھی انکار نہیں کیا جا سکتا متواتر تاریخ کی کتابوں میں اس واقعہ کو دہرایا گیا ہے اور صحاح ستہ کی بعض کتب میں بھی یہ واقع پایا جاتا ہے (ترمذی ابواب التفسیر) پس اگر ہم عَبَسَ وَتَوَلّٰی کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق نہ سمجھیں تو ایک بہت بڑے تاریخی واقعہ کو غلط قرار دینا پڑتا ہے۔ حالانکہ تاریخی ثبوت اُس وقت ردّ نہیں کیا جا سکتا جب تک کوئی ویسا ہی اہم ثبوت اس کی تردید نہ کر دے۔ اب صرف چوتھی صورت ہی رہ جاتی ہے کہ عَبَسَ وَتَوَلّٰی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق سمجھیں اور مَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی کا خطاب کسی اور سے قرار دیں۔ اور میرے نزدیک یہی صورت ایسی ہے جس سے اس مشکل کا حل ہو سکتا ہے اس طرح قصّہ پر جوز پڑتی ہے وہ دُور ہو جاتی ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مقام پر بھی کوئی اعتراض واقع نہیں ہو سکتا۔ پس میرے نزدیک عَبسَ وَتَوَلّٰی رسول کریم کے متعلق ہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ابن مکتوم کا واقعہ بالکل صحیح ہے کیونکہ تواتر اور تکرار سے یہ واقعہ مختلف کتب میں بیان کیا گیا ہے اور ہم بغیر کسی قطعی اور یقینی ثبوت کے جو تاریخی شہادت بھی اپنے اندر رکھتا ہو اس واقعہ کو ردّ نہیں کر سکتے۔ بہرحال ابن مکتوم آئے اور اُس وقت آئے جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کفار مکّہ کے بڑے بڑے رئوسا کو تبلیغ کر رہے تھے۔ اُنہیں یہ دیکھ کر جوش پیدا ہؤا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اِن کفار پر اپنے قیمتی وقت کو کیوں ضائع کر رہے ہیں۔ دنیا میں مختلف طبائع ہوتی ہیں اور وہ اپنے اپنے رنگ میں خیالات کا اظہار کر دیتی ہیں۔ میں نے احمدیوں میں بھی دیکھا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جب اُنہیں معلوم ہو کہ کسی شدید دشمن کو تبلیغ کی جا رہی ہو تو وہ اُس وقت برداشت نہیں کر سکتے۔ اور وہ کہتے ہیں جانے بھی دو یہ مُردہ لوگ ہیں یہ مُنہ لگانے کے قابل نہیں یہ تو دوزخ کی آگ میں جلنے والے ہیں ان پر اپنا وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ گویا دشمن کو دیکھ کر اُس کی طبیعت میں ایسا جوش پیدا ہوتا ہے کہ وہ یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ اُن سے باتیں کی جا رہی ہیں۔ اُن کا نقطۂ نگاہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ تو جہنم کا ایندھن ہیں اِسی مخالفت کی حالت میں مریں گے اور خدا کے غضب کے مستحق ہوں گے انہیں تبلیغ کرنا۔ خدا اور اس کے رسول کی باتیں سمجھانا اپنے وقت کو ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عبداللہ بن ام مکتوم کی طبیعت بھی ایسی ہی ہو گی۔ جب وہ وہاں پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم عتبہ اور شیبہ اور ابو جہل اور امیہ اور ولید وغیرہ کو تبلیغ کر رہے ہیں تو اُن کا جوش بھڑک اٹھا اور ان کے دل میں یہ خیال پیدا ہؤا کہ یہ خبیث دشمن جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دن رات گالیاں دینے والے ہیں آپ کی مجلس میں آ کر کیوں بیٹھے ہیں یہ تو جہنم کی آگ کے مورد ہیں ان کا خدا اور اس کے رسول کی باتوں سے کیا تعلق ہے اور ان پر اپنے وقت کو ضائع کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ اُ ن کے دل کے خیالات تھے اور انہی کے خیالات کے نتیجہ میں انہوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باتوں میں دخل دینا شروع کر دیا کہ یا رسول اللہ! آپ عتبہ اور شیبہ اور ابوجہل وغیرہ کو اسلام کی باتیں کیوں بتا رہے ہیں اَقْرِئْنِیْ وَعَلِّمْنِیْ مِمَّا عَلَّمَکَ اللّٰہُ تَعَالٰی۔ ان کو دفع کریں اور میری طرف آپ توجہ کریں۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اُن کا اس طرح دخل دینا سخت ناگوار گزرا کہ باہر سے مہمان آئے ہوئے ہیں میں اُن سے گفتگو کر رہا ہوں اور میرا ہی ایک مرید حد سے تجاوز ہوتا جا رہا ہے اور ایسا رویّہ اختیار کر رہا ہے جو ان مہمانوں کی دلآزاری اور دلشکنی کا موجب ہے۔ اور گو انہوں نے اس وقت کافر کو گالی نہیں دی مگر بہرحال جب انہوں نے کہہ دیا کہ آپ میری طرف توجہ کریں تو اس کے معنے یہ تھے کہ ان لوگوں کو دفع کریں یہ تو اسلام کے شدید دشمن ہیں انہوں نے اسلام کے احکام کو کہاں ماننا ہے۔ مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سمجھتے تھے کہ یہ لوگ خواہ مانیں یا نہ مانیں میرا فرض ہے کہ میں ان کے کا نوں تک تمام باتیں پہنچا دُوں اور خدا کے حضور بری الزمہ ہو جائوں۔ غرض عبداللہ بن ام مکتوم نے اپنے جوش میں ایک ایسی حرکت کی جو عقل اور تہذیب کے بالکل خلاف تھی۔ جب رسول کریم ان کو تبلیغ کر رہے تھے تو اُن کا کوئی حق نہیں نہیں تھا کہ وہ یہ سمجھ لیتے کہ ان کو تبلیغ بے فائدہ ہے آپ کو چاہئیے کہ اُن کو چھوڑ کر میری طرف توجہ کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ لوگ بعد میں واقع میں جہنمی ہی ثابت ہوئے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان نہیں لائے مگر اُس وقت تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہی فرض تھا کہ آپ آنیوالے مہمانوں کی عزت کریں۔ اور ان کی طرف توجہ کریں اور اُن سے عزت واحترام کے ساتھ باتیں کریں۔ لیکن عبداللہ بن اُم مکتوم کے دل میں خدا تعالیٰ کے احکام کا وہ ادب نہیں ہو سکتا تھا جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دل میں تھا۔ اور نہ اُن کو اکرامِ ضعیف کا اس قدر احساس ہو سکتا تھا جتنا کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس کا احساس تھا خصوصًا اندھے میں تو یہ احساس بہت کم ہوتا ہے چونکہ اسے کچھ نظر نہیں آتا اس لئے دوسروں کو بھی کھری کھری سُنا دیتا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی کہتے ہیں کہ اگر کھری کھری بات سُننی ہوں تو کسی اندھے سے جا کر سُن لو۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ چونکہ اندھے کو نظر نہیں آتا اس لئے اُسے بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی۔ کہ لوگوں پر اس کا کیا اثر ہو رہا ہے۔ غرض عبداللہ بن مکتوم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں آئے اور جب انہوں نے دیکھا کہ آپ اشد ترین دشمن کفار کو تبلیغ کر رہے ہیں تو اُن کی طبعیت میں سخت جوش پیدا ہؤا اور سول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ آپ ایسا کیوں کر رہے ہیں اور اُن سے یہ بھی نہیں کہہ سکتے تھے کہ تم یہاں سے نکلو تمہارا یہاں کیا کام؟ آخر انہوں نے سوچ کر یہی کہنا شروع کر دیا کہ یارسول اللہ! اَقْرِئْنِیْ وَعَلِّمْنِیْ مِمَّا عَلَّمَکَ اللّٰہُ تَعَالی اور اس کو بار بار دُہرایا اُن کی یہ بات رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پسند نہ آئی۔ دوسری طرف آپ یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ اُن کا دل ٹوٹے اس لئے اُس وقت آپ نے عبوس اور تولّی سے کام لیا۔ آپ نے خیال فرمایا کہ آخر کہ کفار کے رئوسا کیا کہیں گے کہ یہ مسلمان ایسے تہذیب سے ناآشنا ہیں کہ آداب مجلس کا بھی خیال نہیں رکھتے اور یہ بھی نہیں دیکھتے کہ کوئی شخص اُن کے پاس اُن کی باتیں سُننے کے لئے آیا ہؤا ہے۔ خواہ وہ منافقت سے آئے تھے۔ خواہ دل میں وہ آپ کی باتوں کو جھوٹا ہی کہتے جاتے تھے مگر چونکہ وہ ظاہر یہ کرتے تھے کہ ہم اسلام کی باتیں سننے کے لئے آئے ہیں اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سمجھتے تھے کہ ان کو تبلیغ کرنا ضروری ہے اس لئے آپ نے ابن اُم مکتوم کی دخل اندازی پر عبوس کیا اور تولّی کی۔ اس واقعہ کی طرف ان آیا ت میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عَبَسَ وَتَوَلّٰی ہمارے رسول نے عبوس کیا اور تولّٰی کی۔ اَنْ جَآئَ ہُ الْاَعْمٰی اس موقع پر آپ کے پاس ایک اندھا آیا۔ اَلْاَعْمٰی کا لفظ بھی بتلاتا ہے کہ یہاںکسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اَلْاَعْمٰی سے کوئی خاص اندھا مراد ہے۔ اگر اس جگہ اندھے کی تعریف کرنے کا موقع ہوتا اور یہ کہنا ہوتا کہ اُس اندھے کی طرف کیوں توجہ نہیں کی گئی یا اُس اندھے نے جو فعل کیا تھا وہ بڑا قابل تعریف تھا تو بجائے اَلْاَعْمٰی کہنے کے اس کا نام لیا جاتا اور کہا جاتا کہ فلاں شخص آیا مگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عبوس اور تولّٰی سے کام لیا۔ لیکن اس جگہ چونکہ زد ایک اندھے پر پڑتی تھی اس لئے اس کا نام نہیں لیا گیا اور اَلْاَعْمٰی کہہ کر اشارہ کر دیا کہ یہاں ایک خاص واقعہ کا ہم ذکر کر رہے ہیں۔ اس وجہ سے اَلْاَعْمٰی کے ساتھ اَلْ لگا دیا۔ اللہ تعالیٰ کا اَلْاَعْمٰی کہنا بتا رہا ہے کہ اس واقعہ کی زد میں اُس اعمیٰ پر ہی پڑتی تھی تبھی اُس کا نام نہیں لیا گیا۔ ورنہ اگر یہ تعریف کا موقع ہوتا تو اللہ تعالیٰ ضرور نام لیتا۔ اور کہتا کہ عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی اَنْ جَآئَ ہُ عَبْدُاللّٰہِ ابْنُ اُمِّ مَکْتُوْمٍ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں کیا۔ اِدھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق صرف عَبَسَ وَتَوَلّٰی کے الفاظ رکھ دئے کیونکہ ان دونوں میں آپ کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی تعریف کی گئی ہے۔
میرے نزدیک واقعہ یہ ہے کہ عبداللہ بن اُمّ مکتوم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں آئے اور انہوں نے ایسے رنگ میں سوال کیا جو دوسروں کی دلشکنی کا باعث تھا اور پھر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کلام بھی قطع ہوتا تھا۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُن پر اپنی ناراضگی کو ظاہر نہیں ہونے دیا۔ صرف اتنا ہؤا کہ آپ نے ماتھے پر تیوری چڑھائی۔ اور اُس کی طرف سے مُنہ پھیر لیا اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جن کو ایک اندھا شخص دیکھ نہیں سکتا جب رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی باتیں جاری رکھیں اور عبداللہ بن اُم مکتوم کی طرف کوئی توجہ نہ کی تو وہ غُصّہ میں اُٹھ کر چلے گئے۔ ممکن انہوں نے بعض اور لوگوں کے پاس بھی اس بات کو بیان کیا ہو اور ممکن ہے جن کے پاس انہوں نے اس واقعہ کا ذکر کیا ہو ان کی طبیعت بھی اسی قسم کی جوش والی ہو اور ان کے دل میں خیال پیدا ہؤا ہو کہ یہ بات اچھی نہیں ہوئی۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ہماری طرف توجہ کرنی چاہئیے یہ خبیث دشمن کون ہیں جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں آکر بیٹھ جاتے ہیں اور آپ کے وقت کو ضائع کرتے ہیں۔ پس عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر کیا گیا ہے اور مَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی میں عبداللہ بن ام مکتوم کی طرح کے خیالات رکھنے والے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے اس رسول نے ایک اندھے کے بیجا دخل دینے پر عبوست کی اور بڑے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے ثبوت دیا اور ہمارے رسول نے صرف تولّٰی کی اور بڑے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا ثبوت دیا تا کہ غصّہ اور ناراضگی کی حالت میں بات بڑھ نہ جائے۔ ٭
وَمَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ
اور (اے رسول) کون سی بات تجھے(اس پر)آگاہ کر سکتی ہے کہ وہ ضرور پاک ہو جائے گا یا (موجبات عبرت کو) یاد کرے گا تو (یہ) یاد کرنا اُسے نفع بخش دے گا۔ ۳؎٭
۳؎ حل لغات
مَایُدْرِیْکَ:۔ یُدْرِیْکَ یُدْرِیْ اور ک سے مرکب ہے۔ یُدْرِیْ اَدْرِیْ کا مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے اور کاف ضمیر کا ہے۔ اَدْرٰی کے معنے ہیں اَعْلَمَہُ۔ اُس کو بتایا (اقرب) یُدْرِیْکَ کے معنے ہوں گے اس نے تجھ کو بتایا ہے؟ نیز عرب لوگ جب کہتے ہیں مَایُدْرِیْکَ تو بسا اوقات مراد یہ ہوتی ہے کہ مَاتَدْرِیْ یعنی تو نہیں جانتا۔ تجھے اس کا علم نہیں؟
یَزَّکّٰی اصل میں یَتَزَّکّٰی ہے تاء کا زاء میں ادغام کر دیا گیا اور یَتَزَّکّٰی سے یَزَّکّٰی ہو گیا۔ تَزَکّٰی فُلَانٌ کے معنے ہوتے ہیں۔ صَارَزَکِیًا وہ پاک ہو گیا (اقرب) اور یَتَزَکّٰی کے معنے ہوں گے۔ وہ پاک ہو جاتا ہے۔ اور لَعَلّہٗ یَتَزَّکّٰی کے معنے ہوں گے اُس کے لئے ممکن ہے کہ وہ ہدایت پا جائے۔
یَذَّکَّرُ:۔ یَذَکَّرُ اصل میں یَتَذَکَّرُ ہے۔ تَاء کو ذال میں ادغام کر دیا
گیا۔ اور یَذَکَّرُ ہو گیا۔ یَتَذَکَّرُ تَذَکَّرَ سے مضارع واحد مذکر غائب کا صیغہ ہے۔ اور تَذَکَّرُ الشَّیْئَ کے معنے ہیں حَفِظَہُ ذِھْنِہٖ کسی چیز کو اپنے ذہن میں محفوظ کر لیا۔ اور جب تَذَکَّرَ مَا کَانَ قَدْ نَسِیَ کہیں تو معنے ہوں گے فَطِنَ بِہٖ کسی بھولی ہوئی بات کو یاد کر لیا۔ (اقرب) پس یَتَذَکَّرُ کے معنے ہوں گے۔ کسی نصیحت والی بات کو ذہن میں وہ مخفوظ کر لے (۲) یا کسی نصیحت والی بُھولی ہوئی بات کو یاد کر لے۔
تفسیر
اس آیت کے صاف معنے یہ ہیں کہ تجھ کو کس نے بتایا کہ وہ شخص ہدایت پا جاتا۔ مگر مفسّرین اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ تجھ کو کس نے بتایا کہ وہ ہدایت نہ پاتا۔ پھر وہ کہتے ہیں مَایُدْرِیْکَ الگ جملہ ہے اور لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی الگ جملہ ہے۔ گویا اس کے معنے وہ اس رنگ میں کرتے ہیں کہ مَایُدْرِیْکَ تجھے کس نے بتایا کہ وہ ہدایت نہ پاتا لَعَلّہٗ یَزَّکّٰی شاید وہ ہدایت پا جاتا۔ حالانکہ اس آیت کے صاف معنے یہ ہیں کہ تجھے کس نے بتایا کہ وہ شخص ضرور فائدہ اٹھاتا۔ یہاں یُدْرِیْکَ سے مراد وہ خیال ہو گا جو بعض مسلمانوں کے دل میں اُس وقت پیدا ہؤا یا ہو سکتا تھا۔
پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے معترض تجھے کس نے بتایا ہے کہ اگر عبداللہ بن ام مکتوم کی طرف توجہ کی جاتی تو وہ ضرور فائدہ اٹھاتا۔ آخر لوگ مرتد ہو بھی ہو جاتے ہیں اور باوجود ایمان کے بڑے بڑے دعووں کے اُن پر بعض دفعہ ایسا وقت بھی آجاتا ہے جب اُن کی تمام کوششیں ایمان کے خلاف صرف ہونے لگ جاتی ہیں۔ پس جب حالت یہ ہے اور تغیّرات کے مختلف دور آتے رہتے ہیں تو تمہارے پاس کون سا ذریعہ ایسا ہے جس سے تمہیںپتہ لگ گیا کہ فلاں شخص کی طرف توجہ کرنا زیادہ مفید تھا۔ انبیاء کا مقام بیشک ایسا ہوتا ہے کہ جب وہ کسی شخص سے کوئی بات کہیں تو خواہ وہ کیسے ہی اہم کام میں مشغول ہو اور خواہ اس کو ترک کرنا کتنا ہی تکلیف دِہ ہو اس کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو ترک کر دے اور نبی کی بات سننے کی طرف متوجہ ہو جائے اور درحقیقت یہی ایمان کی علامت ہے خدا کے رسول کی آواز کے بعد کسی انسان کا کوئی حق نہیں رہتا کہ وہ دوسرے امور کی طرف متوجہ رہے۔ پس مقامِ نبوت رکھنے والا انسان یا اُس کا نائب اگر کسی شخص کو اپنی طرف متوجہ کرے اور وہ شخص مثلاً اُس وقت کسی کو تبلیغ کر رہا ہو تو خواہ قطع کلامی کو لوگ بدتہذیبی سمجھیں اس کا فرض ہو گا کہ وہ تبلیغ کو بند کر دے اور خدا کے رسول اور اس کے نائب کی بات سننے کی طرف متوجہ ہو جائیج۔ اگر ابن ام مکتوم تبلیغ کر رہے ہوتے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُن کو بلاتے تو اُن کا فرض تھا کہ وہ تبلیغ کو چھوڑ دیتے اور اس کی پرواہ نہ کرتے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو اس کی تہذیب کے خلاف سمجھا جائے گا۔ مگر عبداللہ بن ام مکتوم کو یہ مقام حاصل نہیں تھا کہ اگر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو وہ اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تو آپ اُس کی طرف ضرور متوجہ ہوجاتے اور دوسروں کو تبلیغ چھوڑ دیتے۔ یہ بھی ایک قیاس تھا کہ اگر کفار کی طرف توجہ کی گئی تو ان کو فائدہ نہ ہوگا۔ اور یہ بھی ایک قیاس تھا کہ اگر عبداللہ بن ام مکتوم کی طرف توجہ کی جاتی تو اُسے فائدہ ہوتا۔ قطعی اور یقینی بات نہیںتھی اور جب یہ دونوں قیاسی باتیں تھیں تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرض تھا کہ اخلاق جس بات کی تائید میں تھے اس کو اختیار کرتے اور جس بات کی اخلاق اجازت نہیں دیتے اس کی طرف توجہ نہ کرتے اسی وجہ سے عبداللہ بن ام مکتوم کی طرف تو توجہ نہ کی اور کفار کی طرف ہی تمام توجہ رکھی۔ پس مَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰی میں یہ بتایا گیا ہے کہ اے معترض تُو جو کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے غلطی کی تجھے کس نے بتایا ہے کہ اُم مکتوم کے لئے تزکیہ حاصل کرنا ممکن تھا دوسرے کے لئے نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اُس نے بعد میں تزکیہ حاصل کر لیا مگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کیا پتہ تھا کہ کل اس کا کیا انجام ہو گا اور یہ ہدایت پر قائم رہے گا یا نہیں۔ بہرحال جب خدا نے کہا ہے کہ جو شخص تمہارے گھر میں آئے تم اس کا احترا م کرو اور جب خدا نے یہ کہا ہے کہ جو بات مقدم ہو اُس کو مقدم رکھو اور جو مؤخر ہو اس کو مؤخر رکھو تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقدم کو مؤخر اور مؤخر کو مقدم کس طرح کر سکتے تھے؟ اور کس طرح فیصلہ کر سکتے تھے کہ عبداللہ بن ام مکتوم کی طرف اگر توجہ کی گئی تو وہ ضرور پاک ہو جائے گا۔ یَتَذَکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرِیٰ یا یہ بھی کس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو معلوم ہو سکتا تھا کہ اگر اُسے کچھ نصیحت کی باتیں بتائی گئیں تو وہ اُن سے فائدہ اٹھا لے گا؟ ممکن ہے کوئی شخص کہہ دیتا کہ اگر زیادہ نہ سہی تو عبداللہ بن ام مکتوم کچھ تو فائدہ اٹھا لیتے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں اس بات کا بھی کیا علم ہو سکتا ہے کہ وہ فائدہ اٹھاتا یا نہ اٹھاتا؟ یہ بھی ایک الگ قیاس ہے اور وہ بھی ایک قیاس ہے۔ اور جب دو قیاس جمع ہو گئے تو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُس قیاس کو ترجیح دے دی جس کے ترجیح دینے سے اکرامِ ضیعف میں بھی کوئی نقص واقع نہیں ہو سکتا تھا۔ اور خدا تعالیٰ کا یہ قانون بھی پورا ہو جاتا تھا کہ مقدم کو مقدم اور مؤخر کو مؤخر کر رکھو۔
اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰے
(کیا) جو شخص (حق سے) بے پرواہی کرتا ہے۔ (اس کی طرف) تو تُو خوب توجہ کرتا ہے؟ حالانکہ تجھ پر ل(اس وجہ سے) کوئی الزام نہیں کہ وہ پاک نہ ہو گا۔ ۴؎
۴؎حل لغات
اِسْتَغْنٰی غَنِیَ سے باب استفعال ہے۔ غَنِیَ غِنًا کے معنے ہوتے ہیں۔ وہ مالدار ہو گیا۔ اور اِسْتَغْنٰی کے معنے ہوں گے۔ اُس نے چاہا کہ وہ مالدار ہو جائے۔ نیز اِسْتَغْنٰی عَنْہُ بِہٖ کے معنے ہوتے ہیں اِکْتَفٰی اُس نے ایک چیز کے مل جانے سے دوسری سے لاپرواہی کی (اقرب) پس اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی کے معنے ہوں گے وہ جو مال کا طالب ہے (۲) وہ جو لاپرواہی کرتا ہے۔
تَصَدّٰی لَہٗ اصل میں تَتَصَدّٰی ہے جو تَصَدّٰی کا مضارع ہے۔ تَصَدّٰی لَہٗ کے معنے ہیں تَعَرَّضَ وَھُوَالَّذِیْ یَسْتَشْرِفُہٗ نَاظِرًااِلَیْہِ۔ کسی چیز کے سامنے آیا۔ اور شوق سے اسکو دیکھا۔ اور تَصَدّٰی لِلْاَمْرِ کہیں تو اس کے معنے ہوں گے رَفَعَ رَاْسَہُ اِلَیْہِ اپنا سر اس کی طرف توجہ کے لئے اٹھایا (اقرب) پس تَصَدّٰی کے معنے ہوں گے۔ تُو اس کے سامنے آتا ہے (۲) تُو اس کی طرف توجہ دیتا ہے۔
تفسیر
یہاں عام انسانوں کی حالت بیان کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرنے والوں کا اپنا حال بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ ان کی اپنی حالت یہ ہوتی ہے کہ وہ بڑے لوگوں کی طرف تو توجہ کرتے ہیں لیکن چھوٹے درجہ کے آدمیوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ گویا رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرنے والوں کو ان کی اپنی حالت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ اے معترض! تو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ کہتا ہے کہ جو مستغنی ہوتا ہے اس کی طرف وہ زیادہ توجہ کرتے ہیں اور جو غریب اور معمولی درجہ کا آدمی ہوتا ہے اس کی طرف وہ کوئی توجہ نہیں کرتے۔ حالانکہ اے معترض تُو جو کچھ کہہ رہا ہے یہ تیری اپنی حالت ہے اور تیرا ذاتی رویّہ واقعہ میں ایسا ہی ہے کہ تو اُمراء کی طرف توجہ کرتا ہے اور غرباء کو نظر انداز کر دیتا ہے مگر تُو اپنی اس حالت کو محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے اور جو الزام خود تجھ پر عائد ہوتا ہے وہ تُو محمد صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر لگا رہا ہے۔ تُو اپنے حالات پر غور کر اور دیکھ کہ کیا یہ سچ نہیں کہ اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی جو شخص امیر ہوتا ہے تیری ساری توجہ کا وہ مرکز بن جاتا ہے تَصَدّٰی دراصل تَتَصَدّٰی ہے وَمَا عَلَیْکَ اَلَّایَّذَّکّٰی حالانکہ تجھ پر اس بات کی کوئی ذمہ داری نہیں کہ کون شخص ہدایت پاتا ہے اور کون نہیں پاتا۔ تمہیں خدا تعالیٰ کے قانون کا احترام مدنظر رکھنا چاہئیے اور جو کچھ خدا کہے کہ کافر سے بات کرو دتو تم کافر سے بات کرو۔ مگر تم عمدًااور ارادتًا اُنہی کی طرف توجہ کرتے ہو جو امراء میں شامل ہوتے ہیں حالانکہ یہ صرف خدا کو ہی پتہ ہے کہ کس نے نَازِعَات میں سے بننا ہے اور کس نے نَاشِطَات میں سے بننا ہے۔ تمہارا کام یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقرّرہ قوائد ہیں اُن پر عمل کرو۔ خدا تعالیٰ نے اکرام ضیعف کا حکم دیا ہے تم اکرامِ ضیعف کو ملحوظ رکھو۔ خدا تعالیٰ مقدم کو مقدم اور مؤخر کو مؤخر رکھنے کا حکم دیا ہے تمہارا ہے کہ تم بھی ایسا ہی کرو اور بات کو نظر انداز نہ کر دو کہ فلاں امیر ہے ور فلاں غریب۔ مگر تمہاری حالت یہ ہے کہ تم امراء کی طرف توجہ رکھتے ہو اور پھر کہتے یہ ہو کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ایسا کرتے تھے حالانکہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تو جو کچھ کیا خدائی منشاء کے مطابق کیا۔ اس کے احکام کو انہوں نے ملحوظ رکھا۔ اس کے اوامر کو انہوں نے تسلیم کیا اور اُس کے قوانین کو نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ مگر تم بجائے اپنی حالت پر غور کرنے کے یہ نقص محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کر رہے ہو۔ حالانکہ انہوں نے جو کچھ کیا بالکل بجا اور درست کیا۔
۵؎ حل لغات
یَسْعٰی سَعٰی سے مضارع کا صیغہ ہے اور سَعٰی کے معنے ہیںتَصَدَ اُس نے ارادہ کیا۔ اور جب سَعٰی الرَّجُلُ کہیں تو معنے ہوں گے مَشَی وَعَدَا یعنی وہ دوڑ کر چلا (اقرب) پس یَسْعٰی کے معنے ہوں گے وُہ دوڑ کر آتا ہے (۲)وہ قصد کرتا ہے۔
تَلَھّٰی اصل میں تَتَلَھّٰی سے مضارع ہے اور تَتَلَھّٰی کے معنے ہیں تَتَشَاغَلُ تو ایک طرف سے توجہ ہٹا کر دوسرے کی طرف متوجہ ہوتا ہے (لسان)
تفسیر
اس آیت میں خدا تعالیٰ نے کسی خاص واقعہ کی طرف اشارہ نہیں کیا مگر اس سے اتنا ضرور پتہ چلتا ہے کہ یہ آیت ابن مکتوم والے واقعہ پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ ابن مکتوم تو اندھے تھے وہ دوڑتے ہوئے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس کس طرح آسکتے تھے۔ پھر ابن مکتوم تو اتنے دلیر آدمی تھے کہ مکّہ کے بڑے بڑے رئوسا بیٹھے ہیں اور وہ آتے ہی وہ اُن کو ڈانٹنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ خدا اور رسول کے دشمن یہاں بیٹھے ہی کیوں ہیں۔ یہ تو مُردہ لوگ ہیں ان کی طرف توجہ کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے مگر یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَھُوَ یَخْشٰی ساتھ ہی دوڑتا بھی ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کا عبداللہ ابن ام مکتوم والے واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس میں بھی درحقیقت لوگوں کے اندرونی اخلاق کا ایک عام نقشہ کھینچا گیا ہے اور رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرنیوالوں کو جواب دیا گیا ہے کہ تم ہمارے رسول پر کیا اعتراض کرتے ہو تمہاری تو اپنی حالت یہ ہے کہ تمھارے پاس اگر کوئی غریب شخص دوڑا دوڑا آئے تو تم اُس کی طرف منہ بھی نہیں کرتے لیکن اگر کوئی امیر آجائے تو صرف اتنی ہی بات پر خوش ہو جاتے ہو کہ وہ امیر تمہارے پاس چل کر آیا ہے اور تم اس پر خوشی سے اپنے جامہ سے اپنے جامہ میں پُھولے نہیں سماتے۔ پس یہ تمہاری اپنی حالت ہے ہمارا رسول ایسا نہیں۔ ہمارے رسول کے متعلق کہ کہنا کہ وہ امیروں کی طرف زیادہ توجہ کرتا ہے اور غرباء کو نظر انداز کر دیتا ہے صریح ظلم ہے۔ ہاں تمہاری حالت یہی ہے اور ہم اس کو تسلیم کرتے ہیں چنانچہ واقعہ میں اگر دُنیا پر غور کر کے دیکھا جائے تو لوگوں کے دلوں میں اس بات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ کسی امیر شخص سے اُنہیں گفتگو کرنے کا موقع مل جائے مگر اللہ تعالیٰ کے انبیاء ان باتوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام ایک دفعہ لاہور یا امرتسر کے سٹیشن پر تھے کہ پنڈت لیکھرام بھی وہاں پہنچے اور اس نے آپ کو سلام کیا۔ چونکہ پنڈت لیکھرام آریہ سماج میں بہت بڑی حیثیت رکھتے تھے اس لئے جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ تھے وہ بہت خوش ہوئے کہ لیکھرام آپ کو سلام کرنے کے لئے آیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ان کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں کی اور یہ سمجھ کر کہ شاید آپ نے دیکھا نہیں کہ پنڈت لیکھرام صاحب سلام کر رہے ہیں آپ کو اس طرف توجہ دلائی گئی تو آپ نے بڑے جوش سے فرمایا کہ اسے شرم نہیں آتی کہ میرے آقا کو گالیاں دیتا ہے اور مجھے سلام کر تا ہے۔ گویا آپ نے اس بات کی ذرا بھی پَرواہ نہ کی کہ لیکھرام آیا ہے لیکن عام لوگوں کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی یہی ہوتی ہے کہ کسی بڑے رئیس یا لیڈر سے اُن کو ملنے کا اتفاق ہو جائے۔ چنانچہ جب کوئی ایسا شخص اُن کے پاس آتا ہے وہ بڑی توجہ سے اُس سے ملتے ہیں لیکن اگر کوئی غریب شخص اُن کے پاس آ جائے تو وہ پرواہ بھی نہیں کرتے۔
اللہ تعالیٰ معترضین کو اُن کے اس نقص کی طرف توجہ دلاتا ہے اور بتاتا ہے کہ اَمَّا مَنْ جَآئَ کَ یَسْعٰی وَھُوَ یَخْشٰی فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی۔ تمہاری اپنی حالت یہ ہے کہ جو شخص تمہارے پاس دوڑتا ہؤا آئے اور ساتھ ہی وہ اللہ تعالیٰ کی خشیت بھی اپنے دل میں رکھتا ہو لیکن امارت اس میں نہ ہو تم اُس سے غافل رہتے ہو۔ پس وہ لوگ جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اُن کو زجر کیا ہے کہ تم ہمارے رسول پر کیا اعتراض کرتے ہو جائو اور اپنے اخلاق کو دیکھو۔ تمہاری حالت یہ ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی بڑا آدمی آ جائے تو تم اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتے ہو۔ اس کیطرف تم اپنی تمام توجہ صرف کر دیتے ہو لیکن اگر کوئی مسکین اور غریب آدمی آ جائے تو تُم اس سے منہ پھیر لیتے ہو اور اُس سے بات تک کرنا گوارا نہیں کرتے۔ تمہارا اعتراض آخر کیا ہے یہی کہ عبداللہ بن ام مکتوم رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آیا اور آپ نے اس کیطرف توجہ نہ کی حالانکہ اُس وقت آپ کا اس کی طرف توجہ نہ کرنا ہی ضروری تھا۔ اُس نے مجلس میں آکر ایک نامناسب حرکت کی خلافِ اخلاق حرکت کی۔ خلافِ اخلاق حرکت کی اور وہ یقینا اسی بات کا مستحق تھا کہ اس کی طرف توجہ نہ کی جاتی مگر تم اس پر اعتراض کر رہے ہو اور تمہاری اپنی حالت یہ ہے کہ تم امیروں کی طرف ہی توجہ رکھتے ہو غریبوں کو اپنی خاطر میں ہی نہیں لاتے۔
غرض اُن چاروں باتوں میں سے جن کو میں تفصیل کے ساتھ اوپر بیان ہو چکا ہوں اِس موقع پر ایک ہی بات چسپاں ہوتی ہے۔ میرے نزدیک عَبَسَ وَتَوَلّٰٓے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہی ہے اور میرے نزدیک ایک اندھے کے آنے پر عبوس اور تولّی اختیار کرنا اعلیٰ درجہ کا قابلِ تعریف فعل ہے اور یہ آیت بھی آپ کے اخلاق کی تعریف کے لئے نازل ہوئی ہے مذّمت کے لئے نازل نہیں ہوئی۔ مذمّت والے معنے کر کے آیت کی ترغیب قائم ہی نہیں رہتی مَیں نے بتایا ہے کہ ان آیات میں غائب کے صیغے شروع ہوئے ہیں اور تھوڑی دیر کے بعد ہی مخاطبہ کے صیغے شروع ہو جاتے ہیں۔ صیغوں کی ی تبدیلی کسی حکمت کے بغیر نہیں ہوسکتی اور وہ حکمت یہی ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کی گئی ہے اور پھر کفار یا بعض نا تربیت یافتہ مسلمانوں کے دلوں میں اِس واقعہ سے جو وساوس پیدا ہوئے تھے یا ہو سکتے تھے اُن کا ازالہ کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا یہ فعل اللہ تعالیٰ کے منشاء اور اُس کے احکام کے بالکل مطابق تھا آپؐ پر اعتراض کرنے والوں کی اپنی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ اُمراء اور غرباء میں تفاوت کرتے ہیں۔ وہ بڑوں اور چھوٹوں میں امتیاز روا رکھتے ہیں مگرہمارا رسول ایسا نہیں ہے پس عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعریف کرنے کے بعد وَمَایُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی میں معترضین کو مخاطب کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تمہارا اعتراض بالکل بیحودہ ہے تمہیں کون سا یقینی علم اِس بات کا ہے کہ ابن مکتوم کی طرف اگر توجہ کی جاتی تو وہ ضرور فائدہ اٹھاتا یا تمہیں کون سا الہام ہؤا ہے کہ ابن ام مکتوم کا فائدہ اٹھانا زیادہ قرینِ قیاس تھا۔ صرف تمہارا قیاس ہی ہے کہ اس کی طرف توجہ کرنا زیادہ بہتر تھا۔ اور جب یہ صرف قیاس تھا کسی یقینی اور قطعی علم پر اِس کی بنیاد نہیں تھی تو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مقدم کو مقدم رکھا اور اکرامِ ضیعف کے حکم کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیا اور ابن ام مکتوم کی دخل اندازی پر ایسے رنگ میں اظہار ناراضگی کیا جس سے اندھے کو کوئی خاص تکلیف نہیں ہو سکتی تھی۔ پس آپ نے جو کچھ کیا بالکل درست کیا۔ لیکن اے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرنے والو! تمہارے اپنے اخلاق یہی ہیں مگر تم الزام ہمارے رسول پر لگا رہے ہو۔ انبیاء ؑ پر الزام لگانا یا اُن پر کوئی بے جاء اعتراض کرنا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے متعلق بہت بڑی غیرت رکھتا ہے۔ اسی غیرت کا مظاہرہ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ کیا ہے اور فرمایا ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کرتے ہو لیکن واقعہ یہ ہے کہ یہ کمزوری خود تمہارے اندر پائی جاتی ہے اور تمہارے اپنے اخلاق ایسے ہیں۔
مَیں نے دیکھا ہے بیسیوں دفعہ منافق مجھ پر کئی قِسم کے اعتراض کرتے ہیں مَیں اُن کے جواب میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ یہ اعتراض تو صحیح ہیں مگر مجھ پر نہیں بلکہ خود تم پر پڑتے ہیں کیونکہ تمہارے اپنے اعمال بتا رہے ہیں کہ تم میں یہ خرابیاں پائی جاتی ہیں۔ یہی طریق اللہ تعالیٰ نے اس جگہ اختیار کیا ہے کہ جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ بعض لوگ غریبوں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اُمراء کی طرف توجہ کر لیتے ہیں یہ تو بالکل صحیح اور درست ہے مگر محمّد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایسا نہیں کیا بلکہ معترضین کے اندر بیشک یہ کمزوری پائی جاتی ہے اور ہم اِن کی اس کمزوری کو تسلیم کرتے ہیں۔ گویا ایک طرف اللہ تعالیٰ نے اس اعتراض کو صحیح قرار دے دیا اور دوسری طرف محمّد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض کیا جاتا تھا اُس کو غلط قرار دے دیا اور مسلمانوں کو نصیحت کر دی کہ کہ مسلمانوں میں سے جدید العہد کفار میں سے بعض لوگ چونکہ خود اُن کے اندر یہ نقائص پائے جاتے ہیں اِس لئے وہ اِن نقائص کو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف منسوب کرنے میں حرج نہیں سمجھتے۔ تمہیں اِ ن باتوں سے بچنا چاہئیے اور رسول کے متعلق مقامِ ادب پر کھڑا ہونا چاہئیے۔
اگر روایتوں کو نظر انداز کر دیا جائے تب تو آسانی سے اِن آیات کے یہ معنے کئے جا سکتے ہیں کہ عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی کافر کی نسبت ہے اور مراد یہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس جب رئوسا مشرکین بیٹھے ہوئے تھے ایک اندھا آیا اور اُس نے کچھ سِیکھنا چاہا اس پر ایک کافر سردار نے عبوست کا اظہار کیا۔ اور مُنہ پھیرلیا۔ گویا اِس امر کو کہ آپؐ کے پاس ایک اندھا سیکھنے آیا ہے ایک حقیر امر سمجھا اور اس پر حقارت کا اظہار مُنہ پھیر لینے سے کیا۔ اس پر فرماتا ہے اے عبوست اور تولّٰی کرنے والے! تجھے کیا معلوم ہے یہ شخص تو تزکیہ حاصل کرے گا یا نصیحت سُنے گا اور اُس سے فائدہ اٹھائے گا اور بطور دوست اور شاگرد ایسا ہی آدمی مفید ہوتا ہے اور عقلمند ایسے ہی انسان کی عزّت کرتے ہیں۔باقی رہا مالدار اور ظاہری ترقی یافتہ سوائے محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس غرباء کے آنے پر ناک بھوں چڑھانے والے تُو تو ایسے ہی آدمی کی طرف لپکتا ہے اور اُسی کی طرف توجہ کرتا ہے۔ اور تجھے اس کا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ وہ پاک ہوتا ہے یا بدکار ہوتا ہے تجھے تو اس سے غرض ہے کہ وہ مالدار اور دولتمند ہو پھر کسی اور شے کی پرواہ نہیں۔ اور دوسرا شخص جو تیری طرف دوڑتا ہے (یعنی سوالی یا حاجتمند) اور اس کا دل ڈر رہا ہوتا ہے کہ یہ بڑا آدمی ہے میری بات بھی سُنتا ہے یا نہیں۔ تُو نہ اس کو اپنی عنایت کا امیدوار سمجھ کر اس کی قدر کرتا ہے اور نہ اُس کی مسکینی اور دھڑکتے ہوئے دل کا خیال کرتا ہے اور اُسے کہہ دیتا ہے ہمیں فرصت نہیں اور سمجھتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اندھوں اور پاہجوں کی طرف توجہ کرنا اُ س کے ادنیٰ ہونے کی علامت ہے اور تیرا مالداروں کی صحبت کا متلاشی ہونا تیرے بڑے ہونے کی علامت ہے۔ مگر یہ امر درست نہیں کیونکہ قابلِ توجہ وہی ہے جس کی اصطلاح اور پاکیزگی کی امید کی جائے۔ پس محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فعل مستحسن ہے اور تیرا ناک بُھوں چڑھانا واجب ہے۔ اِن آیات میں بتایا ہے کہ اسلام کے آئندہ سپاہی امراء سے نہیں چُنے جائیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ اُن کا انتخاب اُن ارواحِ طیّبہ سے کرے گا جو صداقت کا ماننے اور پاکیزگی کو حاصل کرنے کی تڑپ رکھتی ہیں۔ گویا اَلنَّازِعَات اَلنَّاشِطَات وغیرہ ارواح جن کا اُوپر ذکر ہؤا تھا ان کی نسبت بتاتا ہے کہ اُن کی جستجو مالداروں اور رئوسا میں نہ کرو اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ کہیں اور دبکی بیٹھی ہیں اللہ تعالیٰ ہی اُن کو چُنے گا۔
کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکَرَۃٌ
(ایسا) ہر گز نہیں (الزامات غلط ہیں) یقینا یہ (قرآن)تو ایک نصیحت ہے پس جو چاہے اسے اپنے ذہن میں مستحضر کر لے ۶؎
۶؎ تفسیر
اُن معنوں کے لحاظ سے جن کو اوپر بیان کیا جا چکا ہے کَلَّآ کا لفظ اس کمزور انسان کے متعلق سمجھا جائے گا جس نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق شبہ کیا اور اپنے دل میں بعض ایسے وساوس کو آنے دیا جو اعلیٰ درجہ کے ایمان کے خلاف تھے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَلَّآ ہر گز یوں بات نہیں جس طرح تم خیال کرتے ہو اِنَّمَا تَذْکِرَۃٌ یہ چیز جو ہماری طرف سے آئی ہے یہ تو ایک نصیحت کے طور پر ہے یعنی قرآن کریم خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نصیحت نامہ کے طور پر نازل ہے اور اُس کے نزول سے ہماری غرض یہ ہے کہ دُنیا کے تمام لوگ ہدایت پائیں پس جبکہ اس کتاب کی غرض لوگوں کو ہدایت کے رستہ پر قائم کرنا ہے تو بنی نوع انسان میں سے جس شخص کے قلب کو بھی اِس ہدایت سے مناسبت ہو گی وہ اس کو ضرور قبول کرے گا کیونکہ جب یہ چیز اُسی زمین میں پنپ سکتی ہے جو اس کے مناسب حال ہو تو وہ لوگ جو اُس سے مناسبت نہیں رکھتے ہوں گے وہ اس کی طرف آئیں گے ہی نہیں۔ اور جو لوگ اُس سے مناسبت رکھتے ہوں گے اور خود بخود آ جائیں گے اُن کو چننے اور انتخاب کرنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہو سکتا ہے۔ مَیں نے جیسا کہ شروع میں بیان کیا تھا سورۂ نازعات کے متعلق یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ یہ نَازِعَاتاور نَاشِطَات بننے والی روحیں آئیں گی کہاں سے! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے دل میں یہ سوال کیوں پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں کہاں سے آئے ہیں کہاں سے آئیں گے جب ہم نے خود ان لوگوں کو چُننا ہے او ر جب ان کا انتخاب ہمارے ہاتھوں میں ہے تو تمہیں اس کے متعلق کسی فکر کی ضرورت نہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ نَازِعَات اور نَاشِطَات بننے والی قابلیتوں کے حامل کون کون لوگ ہیں اور آیا وہ اُمراء میں ہیں یا غُرباء میں یا اُمراء اور غُرباء دونوں میں ہیں۔ ہم اُن کے ذاتی اوصاف سے آگاہ ہیں۔ ہمیں اُن کی مخفی قابلیتوںکا علم ہے اور ہم جانتے ہیں کہ کسی میں کیا کیا خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے ہم خود ان عظیم الشان امور کی سرانجام دہی کے لئے قابلیّتیں رکھنے والے نفوس کو کھینچ کھینچ کر لائیں گے قطع نظر اِس کے کہ ایسے نفوس اُمراء میں ہوں یا غرباء میں۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت عثمانؓ اسلام میں داخل ہوئے جو مکّہ کے مالدار خاندان میں سے تھے اور طلحہؓ اور زبیرؓ بھی اسلام میں داخل ہوئے جو چوٹی کے رئیس خاندانوں میں سے تھے گو اُس وقت قوم کے منتخب لیڈر نہ تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ دولت اپنے ساتھ نہیں لائے لیکن حضرت عثمان اپنے ساتھ دولت بھی لائے۔ گویا امراء اور معزّز خاندانوں میں سے جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے مناسب حال پایا اُن کو کھینچ لایا اور جن غرباء میں سے اسلام کے مناسب حال دیکھا اُن کو غرباء میں سے کھینچ لایا۔
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ہماری جماعت کے ایک دوست تھے شیخ غلام احمد صاحب مرحوم اُن کو اپنے متعلق تصوّف میں دخل رکھنے کا خاص خیال تھا اور وہ سمجھتے تھے کہ تصوّف کے متعلق جو اُن کانظریہ ہے وہی سب دُنیا کا ہونا چاہئیے۔ ایک دفعہ وہ مجھ سے ملے اور کہنے لگے بتائیے آپ کو غریب اچھے لگتے ہیں یا امیر اچھے لگتے ہیں۔ میں نے پہلے تو اُن کو ٹالنا چاہا مگر جب بار بار اصرار کے ساتھ انہوں نے یہ سوال کیا تو میں نے اُنہیں کہا کہ مجھے نہ امیر اچھے لگتے ہیں نہ غریب اچھے لگتے ہیں نہ امیر بُرے لگتے ہیں نہ غریب بُرے لگتے ہیں۔ میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ جہاں تک خدا تعالیٰ کے کام کا تعلق ہے اس کو سرانجام دینے کے لئے وہ میرے ساتھ کسی امیر کو وابستہ کرتا ہے یا کسی غریب کو وابستہ کرتا ہے۔ اگر میرے کام کے لئے وہ ایک غریب کو چُنتا ہے تو وہی مجھے اچھا لگتا ہے اور اگر میرے کام کے لئے وہ ایک امیر کو چُنتا ہے تو وہی مجھے اچھا لگتا ہے میں تو اللہ تعالیٰ کے اشارہ کی طرف نگاہ رکھتا ہوں کہ وہ کس آدمی کو کام کے لئے میرے ساتھ وابستہ کر رہا ہے۔ اگر امیر ہوتو مجھے اس امیر سے محبت ہو جاتی ہے اور اگر غریب ہو تو مُجھے اُس غریب سے محبت ہو جاتی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ کی یہ سُنّت ہے کہ وہ اپنے کام کے لئے امیروں کو بھی چُنتا ہے اور غریبوں کو بھی چُنتا ہے مگر اکثر وہ غریبوں میں سے چُنتا ہے اور اگر کوئی امیر چُنا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے نہیں کہ خاندانی لحاظ سے اللہ تعالیٰ اس کو آگے لانا پسند کرتا ہے بلکہ اس وجہ سے کہ ذاتی قابلیتوں کے لحاظ سے و ہ اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اُسے آگے لایا جائے مگر چونکہ خاندانی عظمت کو جوہر بھی اُس کے ساتھ ہوتا ہے اس لئے نبی کی جماعت میں وہ عزت پا جاتا ہے۔
یہ مضمون جو اللہ تعالیٰ اس آیت میں بیان فرما رہا ہے کہ کَلَّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ۔ یہ قرآن تو ایک نصیحت کی کتا ب ہے جو چاہے اِسے پڑھے اور جو چاہے اس سے فائدہ اٹھا لے۔ اس میں نبی کا کوئی واسطہ نہیں۔ خدا تعالیٰ نے مختلف لوگوںکی طبائع اس کے مطابق بنا دی ہیں اور آہستہ آہستہ اس سے فائدہ اٹھاتے چلے جائیں گے ان کے رستہ میں کوئی چیز روک نہیں بن سکتی اگر امیر کو اس کے ساتھ قلبی مناسبت ہے تو اس امیر کو روکا نہیں جا سکتا اور غریب کو اس کے ساتھ قلبی مناسبت ہے تو اُس غریب کو نہیں روکا جا سکتا۔ فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ یہ خیال کر لینا کہ دین صرف غریبوں کے لئے ہی ہے کسی طرح سے درست نہیں ہو سکتا۔ دین غریبوں کے لئے بھی ہے اور دین امیروں کے لئے بھی ہے جو چاہے خدا تعالیٰ کے دین میں داخل ہو کر فائدہ اٹھا لے اور اللہ تعالیٰ کے قریب میں بڑھ جائے ہم نے کسی کو روکا ہؤا نہیں۔ یہی فقرہ ہے جو میں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب کے راستوں کو محدود نہیں کیا۔ اُس نے اپنے فرشتوں کو اعلیٰ درجہ کے روحانی مدارج پر اس لئے نہیں کھڑا کر دیا کہ اب کسی کو آگے مت بڑھنے دو۔ خدا تعالیٰ کے قرب کے راستے کُھلے ہیں اور کُھلے رہیں گے یہاں تک کہ اگر کوئی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بھی زیادہ اللہ تعالیٰ کے قرب بڑھنا چاہے تو بڑھ سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہی تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی روک نہیں اگر کوئی بڑھ سکتا ہے تو بڑھ کر دکھا دے۔ مگر جب کسی نے اب تک رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑھ کر نہیں دکھایا اور نہ آئندہ دکھا سکتا ہے تو گو حقیقت یہی ہو گی کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سب سے افضل ہیں مگر کہا یہی جائے گا کہ خدا تعالیٰ نے جبراً آپ کو اس مقام پر نہیں پہنچایا اور نہ اُس نے زبردستی طور پر دوسروں کو بڑھنے سے روکا۔ خدا تعالیٰ کے قرب کے راستے کھلے ہیں اور اگر کوئی شخص بڑھنا چاہے تو بڑھ سکتا ہے۔ یہی مضمون اللہ تعالیٰ نے اس جگہ بیان فرمایا ہے کہ فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ ہماری طرف سے کوئی روک نہیں قرآن تو ساری دنیا کے لئے ہے۔ امیر کے لئے بھی ہے اور غریب کے لئے بھی ہے۔ عالم کے لئے بھی ہے اور جاہل کے لئے بھی ہے۔ کالے کے لئے بھی ہے اور گورے کے لئے بھی ہے۔ مشرقی کے لئے بھی ہے اور مغربی کے لئے بھی ہے۔ جو چاہے اس سے فائدہ اٹھا لے۔
اِنَّھَا میں ھَا کی ضمیر ہدایت اور موعظت کی طرف جاتی ہے گویا اَنَّھَا تَذْکِرَۃٌ کے معنے یہ ہیں کہ اِنَّ الْھَدَایَۃَ الَّتِیْ جَآئَ تْ مِنَ اللّٰہِ تَذْکِرَۃٌ فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ اَیِ الْقُرْاٰنَ۔ پس جو چاہے اس کلام سے جو ہم نے نازل کیا ہے فائدہ اٹھا لے۔ ھَا کی ضمیر دونوں طرف کی جا سکتی ہے ذِکْریٰ کی طرف بھی جس کا اوپر ذکر آچکا ہے اور قرآن کی طرف بھی۔ مگر اگلی آیات میں چونکہ خصوصیت سے قرآن کریم کا ذکر کیا گیا ہے اس لئے وہی مراد ہے اور ا س امر کو ظاہر کرنے کے لئے ایک جگہ مؤنث کی ضمیر یعنی ھَا کو استعمال کر دیا اور آگے ذَکَرَہٗ میں مذکّر کی استعمال کر کے بتا دیا کہ مراد قرآن کریم ہے ہاں اس کی صفت تذکیر کی طرف خاص طور پر توجہ دلانا مقصود ہے اس لئے اس کی طرف مؤنث کی ضمیر پھیری گئی ہے۔
ایک نیا نکتہ
آیات مذکورۃ الصدر کے ایک اور لطیف معنے بھی ہو سکتے ہیں۔ اور انہی کے مطابق میں نے ترجمہ کیا ہے اور وُہ معنے یوں ہیں کہ اس جگہ کلام طنزیہ ہے جیسے کہ ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ذُقْ اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ (دخان ع ۳ ۶ ۱ ) یعنی یہ جہنم کا کھانا کھا تُو تو بہت ہی طاقتو ر اور معزز تھا اور نہ معزز تھا یہ سب تیرے نفس کا فریب تھا اگر تُو اپنے خیال کے مطابق ہوتا تو آج تجھ کو جہنم کی ذلیل غذائیں کیوں کھانی پڑتیں۔ صاحب کشاف کہتے ہیں کہ یہ آیت ھزء اور تہکم کی قسم سے ہے یعنی دشمن کے قول کی بظاہر تصدیق کی گئی ہے لیکن اصل میں اس کی تردید مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمہارا یہ قول بالکل خلاف عقل ہے۔ دوسری زبانوں میں بھی یہ قول بالکل خلاف عقل ہے۔ دوسری زبانوں میں بھی یہ کلام تنزیہ استعمال ہوتا ہے چنانچہ اُردو میں بھی گرکوئی شخص کسی کا دوست ہو اور ہمیشہ اس کی خیر خواہی کرتا رہا ہو اور وہ دوسرا شخص کسی موقعہ پر اس کی طرف کوئی ایسی بات منسوب کر دے جو خیر خواہی کے خلاف ہو تو وہ دوست اُسے جواب میں کہتا ہے ’’ہاں ہاں کیوں نہیں میں تمہارا دشمن جو ہؤا۔‘‘ اور مراد اس کی یہ ہوتی ہے کہ مَیں تو تمہارا دوست ہوں اور ہمیشہ تمہاری خیر خواہی کرتا رہا ہوں تم ایسا الزام مجھ پر کس طرح لگا سکتے ہو۔ غرض مدّنظر تو تردید ہوتی ہے لیکن ظاہر میں انسان اس قول کی تائید کرتا ہے۔ ذُقْ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْکَرِیْمُ(دخان ع ۳ ۶ ۱ ) میں بھی یہی طریق کلام استعمال کیا گیا ہے۔ دشمن کہا کرتا تھا کہ میں عزیز وکریم ہوں اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نعوذباللہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ہم اُسے دوزخ میں ڈالیں گے اور اُسے کہیں گے لو یہ عذاب چکھو اس لئے کہ تم عزیز و کریم ہو اور مطلب اس کا یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو عزیز وکریم کہنے میں جھوٹے تھے۔ اگر تم عزیز وکریم ہوتے تو یہ عذاب تمہیں کیوں دیا جاتا۔ اسی رنگ کا کلام میرے نزدیک اس سورۃ میں بھی ہے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس ایک دفعہ ایک اندھا آیا۔ اُس نے بے موقع بات کی اور آپ کے چہرہ پر نا پسندیدگی کے آثار ظاہر ہوئے۔ لیکن آپ نے اپنی ناپسندیدگی کو دبانے کے لئے اس کی طرف سے مُنہ پھیر لیا۔ کفار تو مومنوں میںپھوٹ ڈلوانے کی ہمیشہ کوشش کیا ہی کرتے ہیں۔ جب کفار کو اس واقعہ کا علم ہؤا اور کیوں نہ علم ہوتا کہ خود کفار ہی کی موجودگی میں یہ واقعہ ہؤا تھا تو کفار نے اسلام کو نقصان پہنچانے کے لئے اِس ساواقعہ سے ناجائز فائدہ اٹھایا اور یہ مشہور کرنا شروع کیا کہ محمّد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے ایک غریب ساتھی کی بڑی ہتک کی ہے صرف اس لئے کہ وہ غریب تھا جب آپؐ کے پاس شرفاء بیٹھے تھے اس کے آنے پر آپؐ ناراض ہو گئے۔ اور اس ذریعہ سے مسلمانوں کے دلوں میں تذبذب اور شبہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اللہ تعالیٰ نے اُن کے اِس اعتراض کی کمزوری اور لغویّت ظاہر کرنے کے لئے ھزء اور تحکم کے رنگ میں اس اعتراض کا ذکر کرتا ہے اور فرماتا ہے عَبَسَ وَتَوَلّٰٓی اَنْ جَآئَ ہُ الْاَعْمٰی ہمارے رسول نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا صرف اتنی سی بات پر کہ ابنِ مکتوم اُس کے پاس آیا۔ اور مطلب یہ ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق ظاہر ہیں اور دوست ودشمن اُن سے واقف ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت ہی غر باء کے ساتھ رہتی تھی اور غرباء کی جماعت ہی آپؐ کے اردگرد بیٹھی تھی جو شخص غلاموں کی آزادی اور غریبوں، بیوائوں، یتیموں اور مسکینوں کی ترقی کے لئے رات دن مشغول رہتا ہو اس پر یہ الزام لگانا کہ صرف اس وجہ سے کہ ایک اندھا اس کے پاس آیا تھا اُس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا۔ کوئی عقلمند اِس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔ پس یہ الزام خود ہی اپنی ذات میں تردید کر رہا ہے۔ جیسے کہتے ہیں آفتاب آمد دلیلِ آفتاب۔ سورج کا نِکلنا ہی سورج ہونے کی دلیل ہوتی ہے۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف اِس امر کا منسوب کرنا ہی اِس الزام کا کافی جواب ہے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں۔ پھر وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی کہہ کر اس کی تردید کو دلیل عقلی سے بھی مکمل کر دیااور فرمایا کہ اندھے یا سوجاکھے کا سوال نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس بات کا کیا علم ہو سکتا تھا کہ کون سا شخص ہدایت پائے گا اور کون سا نہیں۔ کون ہدایت پر قائم رہے گا اور کون پھسل جائے گا۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تو دوسری شریعت کے پابند ہیں اور غیب کے علم میں دخل اندازنی پسند نہیں کرتے۔ غیب کا علم خدا کے پاس ہے اور وہی جانتا ہے کہ جو لوگ آخر کافر نظر آتے ہیں وہ مرتے وقت کیا ہوں گے۔ ہماری شریعت کا ظاہری حکم یہی ہے کہ جو شخص ہم سے بات کر رہا ہو ہم پہلے اُس کی طرف توجہ کریں اور بعد میں آنیوالا اپنے موقع کا انتظار کرے۔ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شریعت کے اس حکم پر عمل کیا اور خدا کے حکم کو پورا کر دیا۔ غیب کا آپ کو علم نہیں تھا کہ آپ کہہ سکتے کہ کس کو تبلیغ کرنا وقت کو ضائع کرنا ہے اور کس کو تبلیغ کرنا وقت کو صحیح طور پر استعمال کرنا ہے ایک وقت وہ تھا کہ بلالؓ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اسلام کے لئے تکلیفیں اٹھا رہا تھا۔ جلتی ریت پر اُس کو لٹایا جاتا۔ کُھردرے پتھروں پر اس کو گھسیٹا جاتا اور نوجوان اُس کے ننگے سینہ پر چڑھ کر کُودتے تا کہ اُسے اسلام سے پھرا دیں اور عمرؓ محمّد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مارنے کے لئے تلوار لئے پھرتے تھے لیکن بعد کے واقعات نے بتایا۔ بے شک بلالؓ کا انجام بہت ہی اچھا ہؤا مگر جس مقام کو عمرؓ پہنچے بلالؓ تو نہیں پہنچے۔ پس محض اس لئے کہ کوئی شخص اُس وقت کافر تھا اور کوئی دوسرا شخص اُس وقت مسلمان تھا اُس کو بناء قرار دیتے ہوئے شریعت کا ظاہری حکم محمّد رسول صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کِس طرح توڑ سکتے تھے۔ آپٖٖؐ کو کیا معلوم تھا کہ وہ ظاہر میں کافر نظر آنے والے لوگ آئندہ کیا بننے والے تھے۔ چنانچہ بعض روایات میں آتا ہے کہ اُن میںحضرت عباسؓ بھی تھے۔ اور ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ابنِ اُمّ مکتوم عباسؓ کے درجہ کو نہیں پہنچے۔ حضرت عباسؓ سے جو شوکت اسلام کو پہنچی اور خلفائِ اسلام ان کی زندگی میں جس طرح اُن کا مشورہ لیتے اور اس پر عمل کرتے تھے اور اُن کے عالی مقام پر شاہد ہے۔ پس وَمَا یُدْرِیْکَ لَعَلَّہٗ یَزَّکّٰٓی اَوْ یَذَّکَّرُ فَتَنْفَعَہُ الذِّکْرٰی میں خدا تعالیٰ نے عام طریق استدلال سے بھی اِس اعتراض کو ردّ کر دیا ہے پھر اَمَّا مَنِ اسْتَغْنٰی فَاَنْتَ لَہٗ تَصَدّٰی کہہ کر اسی قسم کے تہکم والے کلام کی طرف دوبارہ رجوع کیا اور کفار کا یہ بقیہ اعتراض دُہرایا کہ لو جی جو محمّد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف توجہ نہیں کرتا اُس کی طرف بوجہ اُس کے عالی مرتبہ ہونے کے آپؐ بڑی توجہ کرتے ہیں۔ اِس اعتراض کو بھی ھزء اور تہکم کے طور پر اِس طرح دُہرایا گیا ہے گویا اِس اعتراض کی صِحّت کو قبول کر لیا گیا ہے بعینہٖ اسی طرح جس طرح وہ شخص جس کا انصاف ظاہر ہو معترض کے جواب میں کہتا ہے۔ ہاں ہاں مَیں تو ظالم ہوں ہی لیکن اس اعتراض کے دُہرانے کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ مرے وجود کی طرف اِس اعتراض کا منسوب ہونا ہی اِس کے غلط ہونے کا ثبوت ہے۔ اِس جگہ اِس اعتراض کے نقل کرنے سے بھی یہ مراد ہے کہ ایسا ہر گز نہیں۔ چنانچہ پہلے اعتراض کی طرح یہاں بھی بعد میں اس اعتراض کے ردّ کرنے کی عقلی دلیل فرما دی اور فرمایا کہ وَمَا عَلَیْکَ اَلَّا یَزَّکّٰی یہ اعتراض ہی بالبداہت غلط ہے۔ تیرے متعلق یہ کہنا خلافِ عقل بات ہے۔ اگر یہ لوگ سمجھ سے کام لیں تو ان کومعلوم ہو سکتا ہے کہ اُن کفار کا جو مجلس میں بیٹھے تھے ہدایت پانا یا نہ پانا نہ تیرے اختیار میں ہے نہ تیرے سپُرد ہے۔ گویا پہلی آیات میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ ابنِ مکتوم کا ہدایت پر مرنا تیرے علم کی بات نہیں اور اِ س آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اِن کفار کے ہدایت نہ پانے پر تجھ سے کوئی باز پُرس نہ ہونی تھی پھر کس ذاتی غرض سے تُو نے ابنِ مکتوم کی طرف توجہ نہ کی اور کس فائدہ کی وجہ سے تُو نے کفار کی طرف توجہ کی نہ تو ابن اُم مکتوم کی طرف توجہ نہ کرنے میں تیرا کوئی فائدہ تھا۔ اور نہ اُن کفّار کی طرف توجہ کرنے میں تیرا کوئی فائدہ تھا پس اِن واقعات کی موجودگی میں ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس واقعہ کی وجہ کچھ اور ہی تھی۔ (وہ وجہ وہی تھی جو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں یعنی شریعت کے ظاہری احکام کی پابندی)
اس کے بعد فرماتا ہے وَاَمَّا مَنْ جَآئَ کَ یَسْعٰی۔ وَھُوَ یَخْشٰی فَاَنْتَ عَنْہُ تَلَھّٰی یہ بھی کفار کا ہی قول ہے اور بطور ھزء اور تحکم اِسے یوں بیان کیا گیا ہے واقعہ ہے اور مطلب یہ ہے کہ کفار یہ بھی کہتے ہیں کہ جو شخص تیری طرف دَوڑتا ہؤا آتا ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے اس کی طرف سے محمد (صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ) بے اعتنائی کرتے ہیں چونکہ یہ ھزء اور تحکم کے طور پر عبارت ہے اس لئے اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ میرے اِن معنوں کا قطعی اور یقینی ثبوت اِس بات سے مِلتا ہے کہ اِن آیات کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَلَّا اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ اور کَلَّا کے معنے ہوتے ہیں جو پہلی بات کہی گئی ہے وہ غلط ہے اب یہ صاف بات ہے کہ پہلی جو بات کہی گئی ہے وہ وہی اعتراض ہیں جو دشمنوں کی طرف سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر کئے گئے ہیں یعنی آپؐ نے ایک اندھے کے معاملہ میں بداخلاقی سے کام لیا اور بعض دولت مندوں کی طرف زیادہ توجہ کی۔ یہ عجیب بات نہیں کہ خدا تعالیٰ نے جس بات کی تردید کرے ہم اس کی تصدیق کریں۔ کَلَّا کے لفظ نے بتا دیا ہے کہ یہ سب اعتراضات غلط ہیں۔ پس جتنی باتیں پہلے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اعتراض والی بیان ہوئی ہیں وہ بطور ھزء اور تہکم کے بیان کی گئی ہیں اور ظاہر الفاظ تو تصدیق کے ہیں لیکن اصل مراد انکار ہے جیسا کہ اس طریقِ کلام کا قاعدہ ہے۔
کَلَّا کے معنے یہی ہؤا کرتے ہیں کہ اس سے پہلے جو بات مذکور ہو اس کلام سے سختی سے ردّ کیا جاتا ہے۔ چنانچہ کلیات ابی البقاء میں لکھا ہے قَالَ عَمْرُوْبْنُ عَبْدِ اللّٰہِ اِذَا سَمِعْتَ اللّٰہَ یَقُوْلَ کَلَّا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ کَذَبْتَ یعنی عمر بن عبداللہ فرماتے ہیں جب تم خدا کے کلام میں کَلَّا کا لفظ پڑھو تو سمجھ لو کہ اُس کے معنے یہ ہیں کہ پہلی باتوں کا کہنے والا جھوٹا ہے۔ پس کَلّآ اِنَّھَا تَذْکِرَۃٌ کے معنے یہ ہوئے کہ پہلے جو اعتراضات بیان کئے گئے ہیں وہ جھوٹے ہیں اور ان کے جھوٹے ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ قرآن کریم ایک نصیحت کی کتاب ہے کافر کو سُنانا بھی محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرض ہے اور مومن کو سُنانا بھی محمد رسول اللہ کا فرض ہے۔ پس اگر آپ قرآن شریف کفار کو سُنا رہے تھے تو ایک مومن کو یہ حق حاصل نہیں تھا کہ وہ درمیان میں بولتا۔ اور اگر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس بات کا جواب نہیںدیا تو بالکل ٹھیک کیا۔
مغنی اللبیب میں کَلَّا کے متعلق بحث کرتے ہوئے لکھا ہے عِنْدَ سِیْبَوَیْہِ وَاَکْثَرِ الْبَصرِیِّیْنَ حَرْفٌ مَعْنَاہُ الرَّوْعُ وَالزَّجْرُ لَا مَعْنَی لَھَا عِنْدَھُمْ اِلَّا ذَالِکَ حَتّٰی اِنَّھُمْ یُجِیْزُوْنَ اَبَدًا اَلْوَقْفُ عَلَیْھَا وَالْاِبْتِدَائُ بِمَا بَعْدَ ھَا وَحَتّٰی قَالَ جَمَاعَۃٌ مَتٰی سَمِعْتَ کَلَّا فِیْ سُوْرَۃٍ فَاحْکُمْ بِاَنَّھَا مَکِّیَۃٌ لِاَنَّ فِیْھَا مَعْنَی التَّھدِیْدِ وَالْوَعِیْدِ وَاَکْثَرَ الْعَتُوِّ کَانَ بِھَا۔ یعنی سیبویہ اور خلیل اور مبرّداور زجاج اور اکثر بصری کہتے ہیں کہ اس کے معنے زجر اور تردید کے ہوتے ہیں۔ اُن لوگوں کے نزدیک اس کے سوا کَلَّا کے اور کوئی معنے ہی نہیں ہیں یہاں تک کہ وہ لوگ اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہمیشہ کَلَّا کے لفظ پر وقف کر لینا اور مابعد کے فقرہ کو ایک نیا جملہ فرض کر لینا چاہئیے۔ اور ان میں سے ایک جماعت تو یہاں تک کہتی ہے کہ جب کسی سورۃ میں کَلَّا کا لفظ آئے تو سمجھ لو کہ وُہ مکّی ہے کیونکہ اس لفظ کے معنوں میں ڈرانے اور دھمکی دینے کا مفہوم پایا جاتا ہے اور زیادہ تر یہ لفظ مکّی سورتوں میں اترا ہے کیونکہ اکثر شرارتیں اور زیاتیاں مکّہ میں ہی ہؤا کرتی تھیں اس پر صاحبِ مغنی نے بے شک اعتراض کیا ہے کہ قرآن شریف میں جو یہ آتا ہے کہ یَاَیُّھَا الْاِنْسَانُ مَاغَرَّکَ بِرَبِّکَ الْکَرِیْمِ الَّذِیْ خَلَقَکَ فَسَوَّاکَ فَعَدَ لَکَ۔ فِیْٓ اَیِّ صُوْرَۃٍ مَّا شَآئَ رَکَّبَکَ۔ کَلَّا بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ (الانقطار ع ۱ ۷ ) اس میں کوئی تہدید یا وعید نظر نہیں آتا مگر یہ اعتراض بالبداہت باطل ہے اس لئے کہ قرآن کریم نے خود ہی بتا دیا ہے کہ کَلَّا کے لفظ سے پہلے اعتراض ہی مراد تھا کیونکہ فرماتا ہے بَلْ تُکَذِّبُوْنَ بِالدِّیْنِ تم جزاء سزا کو جھٹلاتے ہو جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیات میں ان لوگوں کا ردّ تھا جو سزاء کے منکر تھے اور انہی کی تردید کی جار ہی تھی۔ تو کَلَّا میں وعید اور تہدید مراد نہیں ہو گی تو کیا پیار مراد ہو گا؟
غرض بڑے بڑے نحویوں اور ادیبوں کی نگاہ میں کَلَّا کا لفظ منکرین اور مخالفین کے لئے استعمال ہوتا ہے اور تہدیدی اور وعید اس میں شامل ہوتی ہے۔ پس کَلَّا اِنَّھَا مَّذْکِرَۃٌ سے معلوم ہؤا کہ پہلے اقوال خدا تعالیٰ کے مصدقہ نہیں بلکہ منکروں اور دشمنانِ اسلام کے ہیں جن کو ردّ کیا گیا ہے تبھی تو ہر اعتراض کے بعد اللہ تعالیٰ اُن کی تردید کرتا ہے اگر واقعہ اسی طرح ہوتا اور یہ الزام دہ ہوتے جن کی خدا تعالیٰ تصدیق کرتا ہے تو پھر ان آیات کے بعد کَلَّا کے استعمال کے کیا معنے تھے؟ پھر تو یہ کہنا چاہئیے تھا کہ یہ الزام بالکل سچے ہیں۔ پس پہلے الزام بیان کرنا اور پھر کَلَّا کہنا بتاتا ہے کہ یہ الزام دشمنوں کی طرف سے غلط طور پر لگائے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں محض ھزء اور تہکم کے رنگ میں اُن کا ذکر کیا ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہمارے رسول کو یوں کہا جاتا ہے۔ مگر یہ بالکل جھوٹ ہے وہ ایسا نہیں بلکہ ان تمام الزامات سے پاک ہے۔
فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ
(وہ قرآن ایسے) صحیفوں میں ہے (جو) عزت والے ہیں بلند شان (اور) پاک ہیں (لکھنے والوں اور دُور دُور) سفر کرنے والوں کے ہاتھوں میں (ہیں) (ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں جو) معزز ہیں اور اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہیں۔ ۷؎
۷؎ حل لغات
مُکَرَّمَۃٌ کَرَّمَ سے ہے اور کَرَّمَ کے معنے ہوتے ہیں عَظَّمَ وَنَزَّہٗ اس کی بڑائی بیان کی اور اس کو عیوب سے منزّہ قرار دیا (اقرب) اور مُکَرَّمَۃٌ کے معنے ہوئے مَعَظَّمَۃٌ وَمُنَزَّھَۃٌ عَنْ کُلِّ خَطَائٍ وَنَقْصٍ یعنی وہ جن کی عظمت بیان کی جاتی ہے اور جن کو تمام نقائص خرابیوں اور عیوب سے مبرّا قرار دیا جاتا ہے۔
مَرْفُوْعَۃٌ رَفَعَ سے ہے اور رَفَعَہُ (رَفْعًا) کے معنے ہوتے ہیں ضِدُّ وَضَعَہٗ اس کو اوپر کیا۔ بلند کیا۔ اور جب رَفَعَ اِلَی السُّلْطَانِ (رُفْعَانًا) کہیں تو معنے ہوں گے قَرَّبَہٗ کہ اس کو بادشاہ کا قرب بنا دیا (اقرب)
مُطَھَّرَۃٌ طَھَرَ سے ہے اور طَھَرَہٗ کے معنے ہوتے ہیں جَعَلَہٗ ھِرًا۔ اُس کو پاک قرار دیا (اقرب)
سَفَرَۃٌ۔ اَلسَّافِرُ کی جمع ہے اور اس کے دو معنے ہوتے ہیں۔ ایک تو مسافر کے۔ ان معنوں میں اس کا کوئی فعل نہیں آتا۔ دوسرے اس کے کاتب کے ہوتے ہیں (اقرب)
کَرَامٌ۔ کَرِیْمٌ کی جمع ہے اور اس کے معنے معزز اور بزرگ لوگوں کے ہیں (اقرب) کبھی کبھی لفظ کَرِیْم ایسے سخی آدمی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو لوگوں کو بہت ہی نفع پہنچائے اور کَرِیْم اُس چیز کو بھی کہتے ہیں جو اپنی جنس میں بہترین ہو چنانچہ عرب کہتے ہیں اَلْکَرِیْمُ مِنْ کُلِّ قَوْمٍ اور ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ مَا یَجْمَعُ فَضَائِلَہُ کہ فلاں شخص ساری قوم میں سے کریم ہے یعنی ساری قوم کی خوبیاں اس میں پائی جاتی ہیں۔ اقرب کے مؤلف لکھتے ہیں ’’اَلْکَرِیْمُ مَنْ یُّوْصِلُ النَّفَعَ بِلَا عِوَضٍ فَالْکَرْم ھُوَ اِفَادَۃُ مَا یَنْبَغِیْ لَا لعِوَضٍ‘‘ کریم ایسے شخص کو کہتے ہیں جو لوگوں کو نفع پہنچائے اور کسی سے معاوضہ کی خواہش نہ کرے (اقرب) پس کَرَام کے معنے ہوں گے (۱)سخی (۲)بزرگ (۳)قوم میں سے بہترین (۴)ایسے لوگ جنہیں لوگوں کو بلا معاوضہ فائدہ پہنچانے کا جنون ہو۔
بَرَرَۃٌ جمع ہے اَلْبَرُّ وَالْبَارُّ کی جو کہ بَرَّ سے اسم فاعل کا صیغہ ہے۔ اور بَرَّ وَالِدَہٗ کے معنے ہیں اَحْسَنَ الطَّاعَۃَ اِلَیْہِ وَرَفَقَ بِہٖ وَتَحَرّٰی مَحَابَّہٗ وَتَوَفّٰی مَکَارِہَہٗ (اقرب) کہ اُس نے اپنے والد کی پوری اطاعت کی اور اُس کے ساتھ نرمی سے پیش آیا اور اس کی خوشنودی کے ذرائع کو تلاش کیا اور اُن پر عمل کیا اور ہر ایک اُس بات سے بچا جو اُس کے والد کو ناراض کر دے۔
تفسیر
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ قرآن ایسے صحیفوں میں ہے جو مُکَرَّمَۃ ہیں مَرْفُوْعَہ ہیں اور مَطَھَّرَہ ہیں۔ اس جگہ یہ امر یاد درکھنا چاہئیے کہ اللہ تعالیٰ نے صُحْف کا لفظ استعمال نہیں کیا۔ اِس میں درحقیقت قرآن کریم کو سورتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت الگ الگ ٹکڑوں میں نازل ہوئی ہیں بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان مختلف ٹکڑوں کو آپس میں یوں ہی جوڑ دیا گیا ہے کسی خاص حکمت کو مدنظر نہیں رکھا گیا مگر قرآن نہ صرف اُن کے علیحدہ علیحدہ نزول کو بلکہ اُن کے علیحدہ علیحدہ وجود کو تسلیم کرتا ہے اور ہر سورۃ کو ایک صحیفہ قرار دیتا ہے۔ گویا صُحُف کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ قرآن کریم کی ہر سورۃ اپنی ذات میں ایک علیحدہ اور مستقل مضمون رکھتی ہے ورنہ وہ صحیفہ نہیں کہلا سکتی تھی۔
دوسرےؔ صُحف کہہ کر اُس امر کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے جس کا صُحُفِ اِبْرَاھِیْمَ وَمُوْسٰی (الاعلیٰ ع ۱ ۲ ۱ ) کے الفاظ میں ذکر آتا ہے یعنی صُحُف کہہ کر اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ صحف سابقہ کی تمام اعلیٰ درجہ کی اخلاقی اور روحانی تعلیموں کو جو انسانی سابقہ کی تمام اعلیٰ درجہ کی اخلاقی اور روحانی تعلیموں کو جو انسانی فطرت کے مناسب حالب تھیں اس قرآن میں جمع کر دیا گیا ہے گویا کتاب تو ایک ہی ہے مگر اس میں تمام انبیاء کے صحیفے جمع ہیں اسی لئے اُس کے لئے جمع کا لفظ لایا گیا اور صحیفہ کی بجائے صحف کہا گیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کو بھی صحف اِسی لئے کہا گیا ہے کہ اُس میں آپؐ سے پہلے تمام انبیاؑء کی تعلیمیں جمع تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفہ کو بھی اسی لئے صحف کہا گیا کہ اُس میں نوحؑ اور بعض دوسرے انبیاؑء علیہ السلام کے صحیفے جمع تھے۔ اور پھر قرآن کو بھی صحف کہا گیا کیونکہ قرآن کریم وہ کتاب ہے جس نے آدمؑ سے لے کر رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک آنے والے تمام انبیاؑء کے صحف کو بھی اپنے اندر جمع کر لیا اور کوئی تعلیم ایسی نہیں رہی جس کی بنی نوع انسان کو ضرورت ہو اور اس کا قرآن کریم میں ذکر نہ آتا ہو۔ گویا جس طرح رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو خاتم الانبیاء کہا گیا اِن معنوں میں کہ آپؐ کے وجود میںتمام انبیاؑء سابقین جمع ہو گئے تھے اسی طرح آپؐ کی کتا ب کو صحف کہا گیا کیونکہ اس میں تمام انبیائِ سابقین کے صحیفوں کو جمع کر دیا گیا تھا درحقیقت کوئی نبی دُنیا میں ایسا نہیں آیا جو اپنے ساتھ کوئی نہ کوئی صحیفہ نہ لایا ہو (مگر اس کے معنے یہ نہیں کہ وہ شریعت جدیدہ لایا یا احکام جدیدہ لایا۔ صحیفہ سے مراد ایک پیغامِ حقیقت ہے جو اُس وقت کے مناسب حال ہو) اِسی وجہ سے قرآن کریم میں صُحفِ ابراہیم کا ذکر ہے۔ حالانکہ وہ حامل شریعتِ جدیدہ نہ تھے۔ حضرت نوحؑ کے تابع تھے جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے اِنَّ مِنْ شِیْعَتِہٖ لَا بَرٰھِیْمَ (صافات ع ۳ ۷ )آدمؑ مبعوث ہؤا تو وہ اپنے ساتھ پہلا صحیفہ لایا۔ اس کے بعد اگر نوحؑ دوسرا نبی ہؤا ہے تو نوحؑ کا صحیفہ صحیفتین کہلائے گا کیونکہ اس میں آدمؑ کا بھی صحیفہ تھا اور نوحؑ کا بھی صحیفہ تھا۔ پھر جوں جوں انبیاء آتے گئے وہ اپنے سے پہلے آنے والے انبیاء کی تعلیموں کو بھی حامل رہے یہاں تک کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مبعوث ہوئے اور آپؐ کو جو کتاب دی گئی اُس میں تمام پہلے انبیاء کے صحیفوں کو شامل کر دیا گیا۔ اس لئے کوئی کتاب ایک صحیفہ نہیں بلکہ کئی صحف کا مجموعہ ہے اِسی لئے قرآن نے اس کے لئے فِیْ صُحُفٍِ مُّکَرَّمَۃٍ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں۔ یہ ایسی ہی بات ہے جیسے اِذَاالرُّسُلُ اُقِّتَتْ (المرسلات ع ۱ ۱ ۲ )کہہ کر مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی بعثت کی طرف اشارہ کر دیا حالانکہ آنے والا صرف ایک رسول تھا مگر چونکہ اس کی رسالت میں گزشتہ تمام انبیاء کی رسالت بھی شامل ہو جانی تھی اور وہ ہر گزشتہ نبی کا بروز ہونے والا تھا اُسے رسول کی بجائے رُسل کہا گیا۔ یہی وہ بات ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں ذکر کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جَرِیُّ اللّٰہِ فِیْ حُلَلِ الْاَنْبِیَائِ اللہ کا جری جو تمام انبیاء کا لباس پہن کر اس دُنیا میں آیا ہے۔ اسی طرح قرآن کریم ایک صحیفہ نہیں بلکہ وہ مجموعہ ہے اُن تمام تعلیموں کا جو گزشتہ انبیاء کو دی گئیں اور پھر وہ مجموعہ ہے اُ س زائد تعلیم کا بھی جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر نازل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرَۃٍ یہ قرآن ایسے صحف میں ہے جو مکّرمہ ہیں۔ مرفوعہ اور مطّہرہ ہیں۔ یہاں ایک لطیف قرآنی ترتیب کا منظر پیش کیا گیا ہے کہ ایک طرف تو قرآن کریم کی یہ تین صفات بیان کی گئی ہیں (۱)مُکَرَّمَۃ (۲)مَرْفُوْعَۃ (۳)مَطَھَّرَۃ اور دوسری طرف وہ لوگ جنہوں نے واملینِ قرآن بننا تھا اُن کی بھی تین صفات بیان کی گئی ہیں۔ (۱)سَفَرَۃ(۲)کَرَام(۳)بَرَرَۃ
قرآن کریم کی پہلی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ مُکَرَّمَۃ کے معنے عربی زبان میں مُعَظَّمَۃٌ وَمُنَزَّھَۃٌ عَنْ کُلِّ خَطَائٍ وَنَقْصٍ کے ہوتے ہیں یعنی ہر قسم کی خرابی اور نقص سے پاک۔ گویا پہلی بات قرآن کریم کے متعلق یہ بتائی گئی ہے کہ وہ بزرگ کتا ب ہے اور دُنیا میں اس کی عزت کی جائے گی۔
یہ ایک قاعدہ ہے کہ دُنیا میں جو بھی الہامی کتاب موجود ہے اس کی عزت اِس کتاب کو ماننے والے لوگوں کو دلوں میں پائی جاتی ہے لیکن اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض کتابوں کو زیادہ عزت حاصل ہوتی ہے اور بعض کو کم عزت حاصل ہوتی ہے اور جب ہر الہامی کتاب کی اس کے ماننے والے عزت کرتے ہیں تو قرآن کریم کو خاص طور پر مُکَرَّمَہ کہنا اِس امر کی طرف اشارہ کرتا تھا کہ یہ وہ کتاب ہے جس کی اور تمام الہامی کتابوں سے زیادہ عزت کی جائے گی۔ کیونکہ وہ کتاب جس کی پہلے عزت کی جاتی ہو جب اُس کے متعلق کہا جائے کہ وہ مُکَرَّمَہ ہے تو لازمًا اس کے یہ معنے ہوں گے کہ اس کی عزت نسبتی طور پر دوسری کُتب سے بہت زیادہ کی جائے گی۔ چنانچہ دیکھ لو دُنیا میں کوئی کتاب ایسی نہیں جس کی عزت قرآن کریم سے بڑھ کر کی جاتی ہو۔ اِس کتاب کو لوگ حفظ کرتے ہیں۔ یہ کتاب نمازوں میں پڑھی جاتی ہے۔ اور پھر اس کتاب پر عمل کرنے والی قو م دُنیا میں موجود ہے اور کوئی کتاب ایسی نہیں جس پر عمل کرنے والی قوم دُنیا میں موجود ہو۔ ویدؔ پر عمل کرنے والے کہیں نظر نہیں آتے۔ تورات پر عمل کرنے والے بہت شاذونادر دکھائی دیتے ہیں اور جو لوگ عمل کرتے ہیں ان کا عمل اِس قسم کا ہوتا ہے جسے پنجابی میں ’’اَدھ پچدّھ‘‘ کہتے ہیں یعنی کِسی بات پر عمل کیا اور کسی پر نہ کیا۔ انجیل تو عملی لحاظ سے بالکل ختم ہے ابھی گزشتہ دنوں انگلستان میں پادریوں نے انجیل کی تعلیم کے خلاف یہ فتویٰ دے دیا تھا کہ عورتیں ننگے سر گرجا گھر میں جا سکتی ہیں۔ ہمارے مبلغ مولوی جلال الدّین شمس ؔ نے اُن کو پکڑا کہ تم یہ کیا فتویٰ دے دیا تمہاری انجیلی تعلیم تو اس کے مخالف ہے۔ مگر انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہوں نے کہہ دیا شریعت شریعت *** ہے جب شریعت اُں کے نزدیک *** بن گئی تو اُس پر عمل کرنے کی تحریک اُن کے دلوں میں کس طرح پیدا ہو سکتی ہے۔ صرف قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جس پر اس تنزّل کے زمانہ میں بھی عمل کیا جاتا ہے۔ ہم خواہ غیر احمدیوں کو کچھ کہیں اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ لاکھوں کروڑوں مسلمان آج بھی نظر آتے ہیں جن کے دلوں میں یہ جزبہ پایا جاتا ہے کہ وہ قرآن پر عمل کریں اور خواہ کس قدر کوئی بے عمل ہو اُس کے دل کے اندرونی گوشوں میں یہ خواہش موجود ہوتی ہے کہ مَیں قرآن پر عمل کروں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کروں۔ یہ تو اِ س زمانۂ تنزّل کا حال ہے۔ اپنے دَور میں تو قرآن کریم پر وہ عمل ہؤا ہے جس کی کوئی حد ہی نہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ پر قرآن نے حکومت کی اور ایسی شاندار حکومت کی جس کی مثال دُنیا کی تاریخ میں اور کہیں نظر نہیں آتی۔
دوسرے معنے مُکَرَّمَہ کے مُنَزَّھَۃ عَنْ کُلِّ خَطَائٍ وَنَقْصٍ کے ہوتے ہیں کہ وہ چیز ہر قسم کی خرابی اور نقص سے پاک ہو۔ یہ خوبی بھی قرآن کریم میں پائی جاتی ہے کہ اِس میں کوئی غیر بات داخل نہیں۔ اَور تو اَور قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کسی قول کو بھی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی حدیث ایسی ہو جو صحاح ستّہ میں سے ہر حدیث کی کتاب میں آتی ہو اور ہر محدّث اس حدیث کی صحت پر متفق ہو تو پھر بھی قرآن کریم میں اُس حدیث کو درج نہیں کیا جا سکتا پس خدا نے قرآن کریم کو ایسا بنایا ہے کہ وہ تمام قسم کی غیر باتوں سے پاک ہے یہاں تک کہ ہم دیکھتے ہیں دشمن کو بھی یہ تسلیم کئے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا کہ قرآن کریم ہر قسم کی انسانی دست بُرد سے پاک ہے۔ میور جیسا شدید دشمن اسلام بھی جو قرآن پر جگہ جگہ اعتراض کرتا ہے جب اس مقام پر پہنچتا ہے تو اُسے سوائے یہ کہنے کے اور کوئی چارہ نہیں رہتا کہ قرآن جس شکل میں آج سے ساڑھے تیرہ سو سال پہلے تھا اسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ وہ اپنی کتاب میں ایک جگہ اس امر پر بحث کرتا ہے اور کہتا ہے فلاں پادری نے یہ کہا ہے اور فلاں پادری نے یہ لکھا ہے مگر وہ ان سب دلائل کو ردّ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ سچی بات یہ ہے کہ قرآن کریم متعلق ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جس شکل میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ قرآن دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اُسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ لولڈکے NOLDEKEمشہور جرمن مستشرق بھی قرآن کی اس خوبی کا اعتراف کرتا ہے اور باجود دشمن ہونے کے اُس نے بھی تسلیم کیا ہے کہ قرآن پر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ وہ انسابی دستبرد کا شکا ر ہو گیا۔ نولڈکے NOLDEKEاسلام کا دشمن ہے مگر تمام مستشرقینِ یورپ میں سب سے زیادہ تحقیق اُس نے کی ہے اور میں نے دیکھا ہے بعض دفعہ صحیح حقیقت پر اُس کی غضب کی نظر پڑتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے اُس نے بڑے سچے طور پر قرآن پر غور کیا تھا۔ وہ بھی اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ میں یہ قطعًا مان نہیں سکتا کہ قرآن میں کوئی اور بات داخل کر دی گئی ہو اور وہ اسی طرح دوسرے لوگوں کے دخل سے پاک ہے جس طرح محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں پاک تھا وہ کہتا ہے تم بے شک یہ کہہ لو کہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ قرآن بنایا مگر تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس قرآن میں کوئی تبدیلی ہو گئی۔ جس طرح وہ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ میں تھا اُسی طرح وہ اس زمانہ میں بھی ہے۔ پس یہ قرآن مُکَرَّمَہ ہے یعنی ہر قسم کی خطاء لفظی ومعنوی سے پاک ہے۔ اور دنیا کی کوئی کتاب اس خوبی میںقرآن کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
اس کے مقابلہ میں حاملین قرآن کی جو صفات بیان کی گئی ہیں اُ ن میں سے پہلی صفت سَفَرَۃ ہے گویا مُکَرَّمَۃ کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے سَفَرَۃ کو رکھا ہے اور بتایا ہے کہ اس کی بزرگی کا ذریعہ اللہ تعالیٰ سَفَرَۃ کو بنائے گا۔ سَفَرَۃ کے معنے یا مسافر کے ہوتے ہیں یا پھر کاتب کے ہوتے ہیں۔ پہلے معنوں کے لحاظ سے اس میں اشارہ کیا گیا ہے کہ قرآن دنیا میں یکدم پھیل جائے گا کیونکہ وہ اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا جو مسافر ہوں گے۔ مطلب یہ کہ مسلمان اس کو لے کر نکل جائیں گے اور دنیا کے کونہ کونہ میں اس کی تعلیم کو پہنچا دیں گے۔ چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وفات کے معًا بعد کچھ صحابہ ایران میں چلے گئے۔ کچھ افغانستان میں چلے گئے کچھ چین کی طرف نکل گئے۔ کچھ جز ائر کی طرف چلے گئے اور اس طرح ایک طرف چین کے انتہائی کناروں تک اور اس طرح ایک طرف چین کے انتہائی کناروں تک اور دوسری طرف الجزائر تک رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ کی زندگی میں ہی قرآن کریم پھیل گیا۔ گویا جتنی معلومہ دنیا تھی اُس میں قرآن کی تعلیم صحابہ کے ہاتھ سے پھیل گئی بلکہ بعض ممالک کے لوگ اب تک اس بات کے مدعی ہیں کہ صحابہؓ کی لائی ہوئی قرآن کی کاپیاں اُن کے پاس موجود ہیں۔ توفرماتا ہے بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ یہ قرآن اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا جو بڑے سفر کرنے والے ہوں گے اور اس طرح قرآن کی اشاعت کا کام سرانجام دیں گے۔
سَفَرَۃ کے ایک معنے چونکہ کاتب کے بھی ہیں اس لئے بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ کہہ کر قرآن کریم کے لکھنے کی طرف اشارہ کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ قرآن اُن لوگوں کے ہاتھ میں جائے گا جو کاتب ہوں گے اور یہ قرآن صرف زبانوں پر ہی نہیں رہے گا بلکہ فوراً ضبط تحریر میں آجائے گا۔ پس اس آیت سے صحابہؓ کے زمانہ میں ہی قرآن کریم کا لکھا جانا ثابت ہوتا ہے۔ دشمن اعتراض کرتا ہے کہ قرآن کریم بعد میں لکھا گیا حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ جس قوم کے ہاتھ میں ہم یہ قرآن دیں گے وہ اسے فوراً لکھ لے گی صرف زبانوں پر اسے نہیں رہنے دے گی۔ عیسائی قرآن کریم کے متعلق ہمیشہ یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ قرآن کو بہت بعد میں لکھا گیا حالانکہ اُس کی اپنی کتاب انجیل کے متعلق تاریخ سے یہ امر ثابت ہے کہ وہ ایک ۱۸۰سو اسی سال کے بعد لکھی گئی۔ اسی طرح موسیٰ علیہ السلام کی طرف جن باتوں کو منسوب کیا جاتا ہے وہ بھی بہت بعد میں لکھی گئیں مگر قرآن کریم وہ کتاب ہے کہ جہاں اسے زبانی یاد کیا جاتا تھا وہاں یہ ایسے لو گوں کے ہاتھ میں بھی تھا جو سَفَرَۃ تھے اسے فوراً لکھ لیتے تھے۔ چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ صحابہ اکرامؓ کی موجودگی میں ہی سارا قرآن لکھا گیا تھا۔
اس میں اس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ قرآن کی دنیا میں عزت کی جائے گی کیونکہ وہ بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ ہو گا۔ جو تعلیم کسی ایک ملک میں محدود ہو گی لازمًا اُس کا اکرام اَور رنگ کا ہو گا۔ پس قرآن سفر کرنے والے لوگوں کے ہاتھ میں ہو گا اس قرآن کریم بھی ساری دنیا میں ہو گی۔ کسی ملک میں نہیں ہو گی۔ پھر سَفَرَۃ کے معنے خالی لکھنے کے نہیں ہوتے بلکہ اس کے مادہ میں انکشاف کے معنے بھی پائے جاتے ہیں پس بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ کہہ کر اس امر کی طرف بھی اشارہ کیا گیا کہ اُسے ایسے لکھنے والے لکھیں گے جو اس کے مطالب کو واضح کریں گے اور اس کے اخلاق کو کھولیں گے گویا بِاَیْدِیْ سَفَرَۃ کے معنے ہوئے کہ قرآن اُن لوگوں کے ہاتھوں میں ہو گا جو اس کی تفسیریں کرنے والے ہوں گے۔ اس کے حقائق کو واضح کرنے والے ہوں گے اور اس کی پوشیدہ اور متعلق باتوں پر سے پردہ اٹھانے والے ہوں گے اور اس طرح قرآن نہ صرف خطاء لفظی سے پاک ہو گا بلکہ خطاء معنوی سے بھی پاک ہو گا۔
سَفَرَۃ چونکہ مُکَرَّمَۃ کے مقابل میں سے ہے اس لئے اس آیت کا مطلب یہ ہؤا کہ قرآن کریم کو ماننے والے اس کی بڑی عزّت کریں گے اور نہ صرف خود عزّت کریں گے بلکہ ساری دنیا میں پھیل کر عزّت کرائیں گے۔ تیسری طرف اس قرآن کو محفوظ رکھیں گے اور اس طرح قرآن کی عزّت میں اور اضافہ ہو گا۔ جیسے میں میور (MUIR)اور نولڈکے (NOLDEKE) کے متعلق بتایا ہے کہ باوجود شدید دشمن اسلام ہونے کے وہ اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ قرآن پوری طرح محفوظ ہے۔ پس قرآن کے ضبط تحریر میں آجانے کی وجہ سے اس کے اعزاز میں اَور بھی اضافہ ہو گیا یہاں تک کہ دشمن بھی اس اعزاز کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکے۔
پھر قرآنی معارف کی تشریح کے لحاظ سے بھی اس کی تکریم میں غیر معمولی اضافہ ہؤا کیونکہ قرآن کی نہ صرف ظاہری حیثیت قائم رہی بلکہ اس کی معنوی حیثیت بھی قائم رہی۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں قرآن دیا جو اس کے اغلاق کو کھولنے والے اور اس کے مطالب کی وضاحت کرنے والے تھے۔ اس میں اس امر کی طرف بھی اشارہ تھا کہ قرآن کی بولی دنیا میں بولی جائے گی یہ زبان زندہ رہے گی اور اس کے مضامین کو حل کرنے کے لئے لوگوں کو کسی قسم کی دقّت پیش نہیں آئے گی۔
دوسری صفت اللہ تعالیٰ نے مَرْفُوْعَۃٌ بیان فرمائی ہے۔ رَفَعَ کے معنے ہوتے ہیں اونچا کیا۔ یعنی ذلّت نہ کی بلکہ اعزاز کیا۔ اس کے مقابلہ میں صحابہؓ کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ کرَامٌ ہوں گے اور کِرَامٌ کے معنے بزرگ کے ہوتے ہیں اس جگہ قرآن کے متعلق مَرْفُوْعَۃٌ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں مَرْفُوْعَۃٌ کے معنے ذی شان ہونے کے ہیں۔ یہ بات ظاہری لحاظ سے بھی قرآن کریم کے متعلق پائی جاتی ہے۔ چنانچہ دیکھ لو قرآن کی اُمت محمدؐیہ کبھی نیچا نہیں رکھتی ہمیشہ اُسے اُونچی جگہ پر رکھا جا تا ہے بلکہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کو نیچے رکھ دے تو سب مسلمان اس سے لڑنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں کہ تم نے قرآن کریم کی ہتک کی۔ پس ظاہر میں بھی یہ معنے قرآن کریم پر چسپاں ہو جاتے ہیں کیونکہ مسلمان جس طرح قرآن کو اُنچا رکھتے ہیں دُنیا کی کوئی عالمگیر قوم اپنی الہامی کتاب کی اس طرح عزت نہیں کرتی۔ درحقیقت اور کوئی عالمگیر قوم اپنی کتاب کو اونچا رکھنے کی عادی ہی نہیں۔ نہ عیسائی انجیل کو اونچا رکھتے ہیں نہ یہودی تورات کو اونچا رکھتے ہیں۔ یہ شرف صرف قرآن کریم کو ہی حاصل ہے کہ مسلمان اس کو اونچی جگہ پر رکھتے ہیں۔ اس کو نیچے رکھنا وہ برداشت ہی نہیں کر سکتے۔
مَیں نے بتایا تھا کہ قرآن کریم کی تین صفات جو اِس جگہ بیان کی گئی ہیں وہ حاملینِ قرآن کریم کی تین صفات کے مقابل میں رکھی گئی ہیں اور وہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ان میں سے ایک چیز دوسری چیز کا سبب ہے چنانچہ دیکھ لو قرآن مَکْرَّمَۃ ہو گیا اس لئے وہ سَفَرَۃ کے ہاتھ میں تھا جو اُسے دُنیا کے مختلف مُلکوں میں پھیل گئے اور سَفَرَۃ۔ مُکَرَّم ہو گئے اس لئے کہ اُن کے ہاتھوں میں وہ کتاب تھی جو بڑی عزت والی تھی۔ گویا یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے لازم ملزوم تھیں۔ یہ جوش جو کسی شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ مَیں اس چیز کو اپنے ہاتھ میں لیکر باہر نکل جائوں اسی لئے پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس چیز کو مُکَرَّمَۃ سمجھتا ہے اور اُسے یقین ہوتا ہے کہ اس چیز کو پھیلانا میری عزت کا موجب ہے مگر جب وُہ اسے پھیلا دیتا ہے تو اس کا طبعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خود بھی مکرّم بن جاتا ہے کیونکہ وہ ایسی چیز کو پھیلاتا ہے جو تکریم رکھنے والی ہوتی ہے۔ گویا قرآن کا مُکَرَّم ہونا سَفَرَۃ کی وجہ سے تھا اور سَفَرَۃ کا مُکَرَّم ہونا قرآن کی وجہ سے تھا۔ قرآن مسلمانوں کی عزت کا باعث ہؤا۔ اور مسلمان قرآن کی عزت کو بڑھانے کا باعث ہوئے جیسے ایک مشینری چکّر کھاتی چلی جاتی ہے اُسی طرح ایک قرآن نے صحابہؓ کو اونچا کیا اور دوسری طرف صحابہؓ نے قرآن کو اونچا کیا۔ صحابہؓ قرآن کی عزت بڑھانے کا موجب ہوتے تھے اور قرآن صحابہؓ کی عزت بڑھانے کا موجب ہوتا تھا۔
دوسری صفت قرآن کریم کی مَرْفُوْعَۃ بتائی کہ وہ بڑی ذی شان کتاب ہے۔ا ب یہ لازمی بات ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی ذی شان چیز ہو گی وہ ضرور کِرَامٌ بن جائے گا۔مگر دوسری طرف جس چیز کی کِرَامٌ عزت کریں وہ بھی ذی شان اور معزز ہو جاتی ہے چنانچہ دیکھ لو جب کوئی معزز آدمی کسی کی عزت کرے گا لوگ کہیں گے کہ معلوم ہوتا ہے یہ شخص بڑی عزت والا ہے کیونکہ فلاں معزز آدمی نے اس کی عزت کی تھی۔ پس وہ اس کی عزت کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اور جب وہ معزز بن کر پھر دوسرے کی عزت کرے گا تو اس کی شہرت میں بھی اضافہ ہو گا کہ اسے فلاں معزز آدمی عزت کی نگا ہ سے دیکھتا ہے۔ گویا یہ ایک سِلسلہ ہے جو مشینری کی طرح چکّر کھاتا چلا جاتا ہے۔ جو لوگ خود کسی چیز کے اوصاف سے ذاتی طور پر واقف نہ ہوں وہ اگر اُس چیز سے متاثر ہوتے ہیں تو اُسی وقت جب وہ دیکھیں گے کہ کوئی بڑاآدمی جس کا اُس کے دل میں احترام موجود ہے اُس چیز کی تعریف کر ر ہا ہے یہ دیکھ کر وہ خود بھی اُس کے مدّاح بن جاتے ہیں۔ اب جو قرآن کریم پر ایمان رکھتے تھے وہ تو اُس کی عزت کرتے ہی تھے مگر ایک عیسائی کے نزدیک قرآن کریم کی عظمت کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ روم کے بادشاہ کو بھی اس کی عظمت کا احساس ہے اور وہ کہتا ہے یہ بہت بڑی کتاب ہے جسے عمرؓ جیسا عظیم الشان انسان مانتا ہے حالانکہ عمرؓ کیوں بڑے بنے اسی لئے کہ انہوں نے قرآن پر عمل کیا۔ گویا ایک طرف روما کا بادشاہ یہ کہے گا کہ قرآن بڑی کتاب ہے جس کو عمرؓ جیسا انسان مانتا ہے اور دوسری طرف عمرؓ کی حقیقت کو جاننے والا یہ کہے گا کہ قرآن بڑی کتاب ہے کیونکہ اس کو ماننے والا عمرؓ ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اِس قدر بڑا بن گیا۔ غرض جب سچّی باتیں ایک دوسرے کے مقابل میں آجاتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ وہ ایک دوسرے کو اُبھارتی چلی جاتی ہیں۔ اِسی لئے فرمایا کہ قرآن مَرْفُوْعَۃ ہے یعنی بڑی ذی شان کتاب ہے اور اس کے ذی شان ہونے کا ثبوت یہ ہو گا کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے عزت پاتے چلے جائیں گے اور جب وہ عزت پا جائیں گے تو پھر قرآن کو ایک نئی عزت حاصل ہو گی کیونکہ لوگ کہیں گے کہ اِس کتاب کو تو بڑے بڑے آدمی مانتے ہیں پھر یہ بات دوبارہ چکّر کھائے گی کہ قرآن کریم کی نئی حاصل کر دہ عزت کی وجہ سے کچھ اور لوگ اس کا عملی تجربہ کرنے کی طرف متوجہ ہوں گے اور اس کی اتباع سے عزّت پائیں گے اور پھر اور لوگ ان کی عزّت کو دیکھ کر قرآن کریم کی عزّت کے قائل ہوںگے اور اِسی طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جائے گا۔ قرآن لوگوں کو کرام بنائے گا اور لوگ قرآن کو مرفوعہ بنائیں گے گویا پہلے مُکَرَّمَہ کے ذریعہ سے قرآن کریم کی ذاتی عزت بتائی پھر مَرفُوْعَۃ کے ذریعہ سے بتایا کہ قرآن مسلمانوں کو کِرَامٌ بنا دے گا اور وہ اسے مَرْفُوْعَہ بنا دیں گے۔ مسلمان سارے عالم پر چھا جائیں گے اور اس طرح پھر دوسری قسم کی عزّت قرآن کریم کو ملے گی یعنی بادشاہوں کا محبوب ہونے کے سبب سے سب دُنیا میں مَرْفُوْعَۃ ہو جائے گا کہ سب اسے اپنے سروں پر رکھیں گے۔
تیسری صفت قرآن کریم کی مُطَھَّرَۃ بیان کی گئی ہے اور مُطَھَّرَۃ کے معنے پاکیزہ کے ہوتے ہیں اس کے مقابل میں بَرَزَۃ کو رکھا گیا ہے جو بَرَّ سے ہے اور بَرَّ کے معنے ہوتے ہیں اَحْسَنَ الطَّاعَۃَ اِلَیْہِ وَرَفَقَ وَتَحَدَّی مَحَابَّہٗ وَتَوَفّٰی مَکَارِہَہٗ کہ اس کی پوری اطاعت کر۔ اُس کے ساتھ رفق کیا۔ اور اُس کی اچھی چیزوں کو خوب شوق سے حاصل کیا یا اُس کی طرف توجہ سے کام لیا اور اس کی ناپسندیدہ باتوں سے بچا۔ یہ کتنا چھوٹا لفظ ہے مگر اس کے اندر کتنے وسیع معنے ہیں اور کس طرح اس ایک لفظ میں ہی حاملین قرآن کے اوصاف کو بیان کر دیا گیا ہے۔ اس لحاظ سے بَرَرَۃ کے معنے یہ ہوئے کہ وہ قرآن کی پوری اطاعت کرنے والے ہوں گے۔ اُس کے ساتھ اپنا تعلق رکھنے والے ہوں گے۔ جو چیزیں اُس نے پسند کی ہیں اُن کو وہ پُورے زور سے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے اور جن چیزوں سے اُس نے منع کیا ہے اُن سے وہ پُورے زور سے بچیں گے۔
قرآن کریم کے متعلق مُطَہَّرَۃ اور صحابہ کے متعلق بَرَرَۃ کا لفظ استعمال کر کے اللہ تعالیٰ نے اِس طرف اشارہ کیا ہے کہ قرآن کریم اپنے اندر کوئی ایسی بات نہیں رکھتا جو فطرتِ انسانی کے خلاف ہو۔ تمام باتیں جو فطرتِ انسانی کو اُبھارنے والی ہیں وہ اُس کے اندر موجود ہیں اور تمام باتیں جو فطرتِ انسانی کو بگاڑنے والی ہیں اُن سے وہ پاک ہے۔ اِس وجہ سے وہ لوگ جو اس کتاب سے تعلق رکھنے والے ہوں گے وہ بھی ایسے ہی ہوں گے کہ اس کی ساری باتوں پر عمل کریں گے اور اُن ساری باتوں سے بچنے کی کوشش کریں گے جن سے قرآن کریم نے روکا ہے۔ غرض بَرَرَۃ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ مومن اپنا پُورا زور اِس بات پر صرف کریں گے کہ قرآن کریم نے جن باتوں پر عمل کرنے کا حکم دیا ہے اُن پر عمل کریں اور وہ پُورا زور اس بات پر صرف کریں گے کہ قرآن کریم جن باتوں سے منع کیا ہے اُن سے مجتنب رہیں اور اِس طرح وہ بَرَرَۃ ہوں گے یعنی اس کے سے مجتنب رہیں اور اس طرح وہ بَرَرَۃ ہوں گے یعنی اس کے نتیجہ میں کامل متقی بن جائیں گے۔ جب انسان اِس مقام پر نہیںہوتااور وہ اِسی شش و پنج میں مبتلا رہتا ہے کہ مَیں قرآن کریم کی بات کو مانوں یا نہ مانوں تو وہ بَرَرَۃ میں شامل نہیں سمجھا جا سکتا۔ اور نہ وہ قرآن کا مُطَھَّرسمجھنے والا قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ اگر وہ قرآن کریم کو مُطَھَّر سمجھتا اور یقین رکھتا کہ قرآن کریم نے ہر وہ تعلیم دی ہے جس کی فطرتِ انسانی کو پیاس ہے اور ہر اُس بات سے روکا ہے جو فطرت کو مسخ کرنے والی ہے تو وہ اس کے احکام پر عمل بھی کرتا اور اُس کے نواہی سے بچنے کی کوشش کرتا مگر جب وہ ایسا نہیں کرتا اس کے معنے یہی ہوتے ہیں کہ نہ وہ قرآن کے مطہر ہونے پر ایمان رکھتا ہے اور نہ وہ اپنے آپ کو بَرَرَۃ میں شامل کرنا چاہتا ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مُطَھَّرَۃ کے مقابل میں بَرَرَۃ رکھا یہ بتانے کے لئے کہ ان دونوں میں نسبت پائی جاتی ہے۔
جب قرآن پر عمل کرنے کے نتیجہ میں لوگ بَرَرَۃ بن جائیں گے تو قرآن کو نئے سرے سے مطہر بنائیں گے اس لئے کہ جب انسان نیکو کار ہو گا۔ قرآن پر عمل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کے احکام کو مدنظر رکھے گا تو یہ لازمی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس پر روحانی فیوض کا نزول ہو گا کیوں کہ جب انسان نیکیوں میں حصّہ لیتا اور اللہ تعالیٰ کے قرب میںبڑھنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے فیوض نازل ہوتے ہیں۔ جب بَرَرَۃپر قرآن کریم پر عمل کرنے کے نتیجہ میں فیوض نازل ہوں گے تو وہ ان فیوض کو قرآن کریم کی طرف منسوب کریں گے اور اس طرح قرآن کریم کو ایک نئے رنگ کی طہارت حاصل ہو جائے گی جیسے قرآن کریم تو پہلے ہی مطہر تھا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کس نے بَرَرَۃ میں سے بنایا تھا؟اسی قرآن نے گویا قرآن نے مسیح موعودؑ کو پاک کیا اور مسیح موعودؑ نے قرآن کی طہارت کے پوشیدہ اوصاف کو ظاہر کیا۔ حضرت مسیح موعود عیلہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت سے پہلے لوگ قرآن کریم کی طرف کئی قسم کی غلط باتیں منسوب کیا کرتے تھے مگر آپ نے اُن تمام غلط عقائد اور غلط تعلیمات کا باطل ہونا ثابت کر دیااور اس طرح قرآن کو مطہر بنا دیا۔ جب آپ نے قرآن کو مطہر بنایا تو یہ لازمی بات تھی کہ اس کے نتیجہ میں آپ کی نیکیوں میں اَور بھی اضافہ ہو جاتا پس قرآن کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ مطہر ہے اُس پر عمل کرنے والے بَرَرَۃ میں شامل ہو جاتے ہیں اور بَرَرَۃ میں شامل ہونے والے پھر قرآن کو مطہر کرتے ہیں اور قرآن پھر اُن کو نیکیوں میں بڑھاتا ہے اور اس طرح یہ سلسلہ چلتا چلا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا امور سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کلام کی عظمت کسی ظاہری سامان کی محتاج نہیں بلکہ قلوب کی صفائی کے ساتھ قرآن کریم کی عظمت قائم ہوتی ہے۔ گویا بتایا گیا ہے کہ اس قرآن کی عظمت قائم ہوتی ہے۔ گویا بتایا گیا ہے کہ اس قرآن سے وہی لوگ فائدہ اٹھائیں گے جو نیک ہوں مگر وہ لوگ فائدہ نہیں اٹھا سکتے جو نیک نہیں ہیں۔ اور جب یہ بات ہے تو پھر یہ کوئی سوال ہی نہ رہا کہ ظاہر میں فلاں شخص بڑا ہے اور فلاں شخص چھوٹا۔ فلاں شخص عالم ہے اور فلاں شخص جاہل۔کیونکہ یہاں ظاہری بڑائی علم یا ظاہری علم یا ظاہری عزّت کا کوئی سوال نہیں۔ قرآن ایسے ہاتھوں میں ترقی کرے گا جو سَفَرَۃ ہوں گے۔ کِرَامٌ ہوں اور بَرَرَۃ کے اوصاف اپنے اندر رکھتے ہوں گے خواہ وہ ظاہری طور پر بڑوں میں سے ہوں یا چھوٹوں میں سے۔ امیروں میں سے ہوں یا غریبوں میں سے۔ چنانچہ مکّہ کے چوٹی کے خاندانوں میں سے بھی اللہ تعالیٰ نے کئی لوگوں کو خدمت کی توفیق دی اور غرباء میں سے بھی کئی لوگوں نے اسلام کی شاندار خدمات سرانجام دیں۔ چنانچہ دیکھ لو حضرت علیؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت حمزہؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت عمرؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے۔ حضرت عثمانؓ چوٹی کے خاندان میں سے تھے اس کے مقابل زیدؓ اور بلالؓ اور سمرہؓ اور خُبابؓ۔ صُہیبؓ۔ عامرؓ۔ ابوفکیہہؓ چھوٹے سمجھے جانیوالے۔ گویا بڑے لوگوں میں سے بھی قرآن کریم کے خادم چُنے گے اور چھوٹے لوگوں میں سے بھی۔ پس فرماتا ہے تمہارا یہ سوال بالکل غلط ہے کہ یہ لوگ آئیں گے کہاں سے؟ اسی طرح تمہارا یہ خیال بھی غلط ہے کہ فلاں شخص ہی دین کے قابل ہے اور فلاں نہیں۔ یہ معاملہ قلوب سے تعلق رکھتا ہے ظاہر سے نہیں۔ اور اس وجہ سے ہم ان لوگوں کا خود انتخاب کریں گے۔ قرآن کریم میں وہ تمام چیزیں ہیں جو اچھے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہیں اور اگر کسی شخص کو قرآن کریم کی خوبیاں نہیں کھینچ سکیں تو وُہ یقینا اس زمانہ میں حقیقی بڑائی حاصل کرنے کا مستحق ہی نہیں۔
قُتِلَ الْاِنْسَانُ
انسان ہلاک ہو وہ کیسا ناشکرا ہے ۸؎
۸؎ حل لغات
قُتِلَ قَتَلَ سے مجہول کا صیغہ ہے اور قَتَلَ اللّٰہُ الْاِنْسَانَ کے معنے ہیں لَعَنَہُ اللہ نے اُس پر *** کی (اقرب) پس قُتِلَ الْاِنْسَانُ کے معنی ہوں گے۔ اس انسان پر *** ہو۔
تفسیر
جس قسم کا لطیف نقشہ قرآن کریم کی خوبیوں اور اُس کے کمالات کا اوپر کی آیات میں اللہ تعالیٰ نے کھینچا ہے اس کی مناسبت سے فرماتا ہے قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہٗ۔ یہ منکر انسان جو قرآن کریم سے اعراض کرنے والا اور اُس کے احکام سے تَلّھِی اختیار کرنے والا ہے کتنا بڑا ناشکر گزار انسان ہے اس کے سامنے ایک ایسا عظیم الشان کلام پیش کیا جا رہا ہے جو مکّرمہ ہے جو مرفوعہ اور مطہرہ ہے اور جو نہ صرف آپ ہی پاک ہے بلکہ اس کے اندر یہ خصوصیت بھی موجود ہے کہ جو شخص اس کو ہاتھ لگا لے وہ بھی پاک ہو جاتا ہے گویا جیسے سنگ پارس کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ جس چیز سے چُھو جائے سونا بن جاتی ہے اسی طرح یہ قرآن ایسی کتاب ہے کہ نہ صرف خود اعزاز رکھنے والی ہے بلکہ جو لوگ اس پر عمل کرتے ہیں وہ بھی معزز بن جاتے ہیں جب یہ ایسی عظیم الشان کتاب ہے تو قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہٗ۔ اس قرآن سے اعراض کرنے والا انسان ہلاک ہو وہ کتنا بڑا نا شکرا ہے قرآن اس کے سامنے تھا اور اس کے لئے موقع تھا کہ وہ اس کے احکام پر عمل کر کے سَفَرَۃ میں سے بن جاتا۔ کِرَامٌ میں سے بن جاتا۔ بَرَرَہ میں سے بن جاتا۔ اگر قرآن کے اندر صرف ذاتی خوبیاں ہوتیں تو کوئی شخص کہہ سکتا تھا کہ مجھے تو وہ خوبیاں اس کلام میں نظر نہیں آئیں مگر قرآن کی خوبیان وہ ہیں جو صرف ذاتی نہیں بلکہ متعدی ہیں اور دوسروں کے اندر بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔ پس یہ انسان کیسا ناشکرا ہے کہ ہم نے تو اسے بڑھانے اور ترقی دینے کا سامان کیا مگر وہ اُلٹا اس کلام سے دُور بھاگتا ہے۔
مِنْ اَیِّ شَیْئٍ
(وہ غور تو کرے) کہ کس چیز سے خدا نے اُسے پیدا کیا ہے نطفہ سے (پیدا کیا ہے) (پہلے تو)اُسے پیدا کیا پھر اس کے لئے (ترقی کا ایک) اندازہ مقرر کیا۔ پھر (اس کے) راستہ کو (آسان بنایا) خوب ہی (اُسے) آسان بنایا ۹؎
۹؎ تفسیر
آخر وہ یہ تو سوچے کہ ہم نے اُس کی پیدائش کس طرح کی ہے اور کن اعلیٰ اور اغراض کے لئے اُسے دُنیا میں بھیجا ہے۔ قرآن کریم کا یہ ایک عجیب وصف ہے کہ ایک طرف تو وہ اپنی شان کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہمیں تمہاری کوئی پرواہ نہیں۔ اگر تم مانو گے تو تمہارا اپنا فائدہ ہو گا اور اگر انکار کرو گے تو تمہارا اپنا نقصان ہو گا۔ مگر دوسری طرف جس طرح ماں کے دل میں اپنے بچہ کے متعلق رحم اور محبت کے جزبات پیدا ہو جاتے ہیں اسی طرح قرآن کریم میں پیدا ہو جاتے ہیں اور پھر محبت اور پیار سے اُن کو راہ راست پر لانے کی کوشش کرتا ہے۔ماں بھی اسی طرح کرتی ہے جب بچہ اس کا کہنا نہیں مانتا تو وہ ناراض ہو کر کہتی ہے کہ میرا کیا ہے میں نے تو تمہارے فائدہ کے لئے یہ بات کہی تھی مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی وُہی پھر اُسے پُچکار کر کہنا شروع کر دیتی ہے کہ بچے کھانا کھا لے۔ اور اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح بچہ اس کی بات مان لے۔ اسی طرح قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآاَکْفَرَہٗ میں اللہ تعالیٰ نے استغناء ظاہر کیا تھا کہ انسان ہلاک ہو جائے وہ کتنا بڑا ناشکر ا ہے قرآن جیسی کتاب اس کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور وہ پھر بھی تَلَھِّی اور اعراض سے کام لیتا ہے مگر یہ کہنے کے معًا بعد فرما دیا مِنْ اَیِّ شَیْئٍ خَلَقَہٗ۔ مِنْ نُّطْفَۃٍ۔ گویا انسان کو پچکارنا شروع کر دیا کہ کسی طرح وہ اُس کی طرف واپس آجائے۔ فرماتا ہے کیا انسان اس بات پر بھی غور نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ اُسے کس طرح پیدا کرتا ہے مِنْ نُّطْفَۃٍ وہ اسے ایک چھوٹے سے قطرہ سے پیدا کرتا ہے اور پھر پیدا کرنے کے بعد اُس نے اُسے چھوڑ نہیں دیا بلکہ فَقَدَّرَہٗ اس کا اندازہ مقرر کیا قَدَّرَہٗ کے متعلق مفردات والا لکھتا ہے کہ اَشَارَۃٌ اِلٰی مَا اَوْ جَدَہٗ بِالْقُوَّۃِ فَیَظْھَرُ حَالًا فَحَالًا اِلَی الْوُجُوْدِ بِالصُّوْرَۃِ کہ وہ مخفی قوتیں جو خدا تعالیٰ نے انسان میںرکھی ہیں اور جن کو موقع موقع پر انسان ظاہر کرتا چلا جاتا ہے اُن کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے گویا خَلَقَہٗ فَقَدَّرَہٗ کے معنے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور پھر اس میں ایسی طاقتیں اور قوتیں رکھیں جو ہر موقع و محل کے مطابق اس سے ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔ جیسا کامن ہوتا ہے ویسی ہی قوتیں اس سے ظاہر ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔ گویا ایک وسیع ترقی کا میدان اللہ تعالیٰ نے اُس کے لئے پیدا کیا ہے۔ ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ اِدھر اُس نے انسان کے لئے ترقی کا ایک وسیع میدان پیدا کیا ہے اور اُدھر اس کے اندر ایسا مادہ رکھ دیا ہے کہ جب بھی کوئی اہم موقع اُس کے سامنے آئے اس کے مطابق اس کی اندرونی قابلیتیں اُبھر کر سامنے آجاتی ہیں اور اُسے کوئی قربانی بھی دوبھر محسوس نہیں ہوتی۔ پس ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ایسا مادہ پیدا کر دیا ہے کہ اگر وہ اپنی طبیعت پر ذرا بھی بوجھ ڈال لے تو ہر کام اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے اور وہ بڑی بڑی دشوار گزارگھاٹیاں آسانی سے عبور کر جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ عادت بُری چیز ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے عادت بھی ہمارے فضلوں میں سے ایک فضل ہے۔ اور جب کسی کام کی عادت انسان کو ہو جائے تو پھر اس کام کے کرتے وقت کوئی دِقّت محسوس نہیں ہوتی۔ پس کسی کام کی عادت ہو جانا ایک خوبی ہے بشرطیکہ اس عادت کا استعمال کسی بُرے موقع پر نہ ہو۔ پس فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ۔ انسان کو پیدا کرنے اور اس کے اندر ترقی کی قابلیتیں رکھنے کے بعد ہم نے اُس کا راستہ آسان کر دیا۔ نماز پڑھنا پہلے انسان کو بڑا دوبھر معلوم ہوتا ہے مگر کچھ دن باقاعدگی اور التزام سے نمازیں پڑھنے کے بعد ایسی عادت ہو جاتی ہے کہ نمازون کا پڑھنا بالکل آسان معلوم ہونے لگتا ہے۔ روزے رکھنے لگیں تو پہلے مشکل معلوم ہوتے ہیں لیکن جب روزوں کی عادت ہو جائے تو پھر محسوس بھی نہیں ہوتا کہ یہ بھی کوئی مشکل کام ہے۔ یہی حال صدقہ و خیرات اور دوسری نیکیوں کا ہے۔ جن لوگوں کو صدقہ و خیرات کی عادت ہو جائے ہم نے دیکھا ہے کہ جب تک وہ روزانہ کچھ نہ کچھ صدقہ کرنہ لیں انہیں چین ہی نہیں آتا۔ عربوں کو اس بات کی عادت تھی کہ وہ کھانا کھاتے وقت کسی اَور کو اپنے ساتھ ضرور شامل کر لیا کرتے تھے اور پھر یہ عادت رفتہ رفتہ ایسی پختہ ہو گئی کہ جب تک وہ کسی اَور کو اپنے ساتھ دسترخوان پر نہیں بٹھا لیتے تھے وہ کھانا نہیں کھا سکتے تھے اور تلاش کر کر کے دوسروں کو بھی اپنے کھانے میںشریک کرتے تھے۔ تو فرماتا ہے ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ بظاہر انسان کے سامنے قربانی ایک بہت بڑا وسیع میدان ہے مگر اس کے ساتھ ہی فطرتِ انسانی میں ہم نے یہ مادہ رکھ دیا ہے کہ جب وہ عمل کرنا شروع کر دے تو بجائے اس کے کہ کام بوجھل محسوس ہو وہ اُسے آسان معلوم ہونے لگتا ہے اور اس کی طرف اُسے دلی رغبت پیدا ہو جاتی ہے چنانچہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی اور دوسری کے بعد تیسری نیکی میں وہ حصہ لینا شروع کر دیتا ہے۔ اگر عادت نہ ہوتی تو ایک نیکی کا کام بھی سرانجام دینا اس کے لئے مشکل ہوتا مگر چونکہ رفتہ رفتہ کاموں کی عادت ہوتی چلی جاتی ہے اس لئے انسان کاموں سے گھبراتا نہیں بلکہ اُن میں ایک لذّت اور سُرور محسوس کرتا ہے۔ پہلے وہ نماز پڑھتا ہے تو اُسے نماز کی عادت ہو جاتی ہے پھر روزے رکھتا ہے تو اُسے روزوں کی عادت ہو جاتی ہے۔ پھر صدقہ وخیرات میں حصہ لیتا ہے تو اُسے صدقہ و خیرات کی عادت ہو جاتی ہے اس طرح وہ ایک ایک نیکی کو فتح کرتا چلا جاتا ہے اور آگے بڑھنا اس کے لئے بالکل آسان ہو جاتا ہے۔
ثُمَّ اَمَاتَہٗ
پھر (عمر کے طبعی کے بعد) اُسے ماردیا پھر اُسے (موعود) قبر میں رکھا ۱۰؎٭
۱۰؎ تفسیر
فرماتا ہے اس کے بعد ہم نے اُس کو وفات دی یعنی ہمارا طریق یہ ہے کہ اس کے بعد ہم اُس کو وفات دے دیتے ہیں۔ یہاں خدا تعالیٰ نے موت کو اپنے احسان کے طور پر پیش کیا ہے چنانچہ دیکھ لو اِن آیات میں ہر جگہ خدا تعالیٰ نے اپنے احسانات کا ذکر کیا ہے فرماتا ہے مِنْ اَیِّ شَیْئٍ خَلَقَہٗoط مِنْ نُّطْفَۃٍ ط خَلْقَہٗ فَقَدَّرَہٗoلا ثُمَّ السَّبِیْلَ یَسَّرَہٗ۔یہ سب احسانات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے شمار کرائے ہیں۔ اِسی ذیل میں فرماتا ہے ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ۔ پس اماتت کو بھی یہاں احسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ فرماتا ہے جب انسان نیکیوں میں حصہ لیتا ہے اور مسلسل حصہ لیتا چلا جاتا ہے تو آخر ایک وقت ایسا آتا ہے جب ہم کہتے ہیں اب تم نے بڑی محنت اُٹھا لی آئو ہم تم کو پنشن دیتے ہیں۔ گویا موت کیا ہے ایک پنشن ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملتی ہے۔ دنیا میں لوگوں کو پنشن ملتی ہے تو وہ گورنمنٹ کے ممنون ہوتے ہیں مگر فرماتا ہے یہ عجیب نادان ہیں کہ ہم ان کو پنش دیتے ہیں تو لوگ رونا شروع کر دیتے ہیں۔ فَاَقْبَرَہٗ جب انسان کو ہم موت دیتے ہیں تو اس کے بعد اُسے قبر میں داخل کرتے ہیں۔ اَقْبَرَہٗ کے معنے ہیں جَعَلَ لَہٗ قَبْرًا یُذفَنُ فِیْہِ (اقرب) کہ اُس کے لئے ایک قبر مقرر کی جس میں وہ دفن کیا جاتا ہے اور یہ بھی اس کے معنے ہو سکتے ہیں کہ جَعٔلَہٗ مِمَّنْ یُقْبَرَ اُسے اُن لوگوں میں سے بنایا جن کے لئے قبر میں داخل ہونا مقدّر ہے اور اَقْبَرَ الْقَوْمَ کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اَمَرَ اَنْ یُّقْبَرَ قَتِیْلُھُمْ (اقرب) اُس نے حکم دیا کہ اُن مقتولوں کو قبروں میں دفن کیا جائے۔ پس اَقْبَرَہٗ کے معنے ہوئے قبر میں اس کو داخل کیا یا قبر میں داخل ہونے کا حکم دیا اُس کیلئے قبروں میں داخل ہونے کا نظام جاری کیا۔ گویا یا تو اس کے معنے یہ ہوںگے کہ جَعَلَ لَہٗ قَبْرًا یُدْفَنُ فِیْہِ اور اس کے معنے ہوں گے جَعَلَہٗ یُدْفَنُ فِیْہِ اور یا اس کے معنے ہوں گے جَعَلَہٗ مِمَّنْ یُقْبَرُ کہ ہم نے اس کو ایسا بنایا کہ اس کو قبر میں ضرور داخل ہونا پڑتا ہے۔ اب اگر فَاَقْبَرَہٗ کے معنے یہ لئے جائیںکہ جَعَلَ لَہٗ قَبْرًا یُدْفَنُ فِیْہِ یعنی ہر انسان قبر میں داخل کیا جاتا ہے تو یہ معنے اس لحاظ سے یہاں چسپاں نہیں ہوں گے کیونکہ دنیا میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جو قبروں میں دفن نہیں ہوتے۔ اور اگر وہ معنی لئے جائیں جو اَمَرَ اَنْ یُّقْبَر قَتِیْلَھُمْ سے ظاہر میں تو وہ بھی یہاں چسپاں نہیں ہو سکتے۔ پس میرے نزدیک اَقْبَرَہٗ کے معنے اس جگہ یہی مناسب ہیں کہ جَعَلَہٗ مِمَّنْ یُّقْبَرُ یعنی ہم نے اس کو ایسا بنایا ہے کہ وہ قبر میں داخل کیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک دلیل ہے جو پچھلی دلیل کے ایک حصہ اور ٹکڑہ کے طور پر اس جگہ بیان ہوئی ہے۔ اَقْبَرَہٗ کے معنے خالی مٹی میں دفن کئے جانے کے ہوں تو یہ الفاظ دلیل کا حصہ نہیں بن سکتے۔
وہ معنے جو عام طور پر ہماری طرف سے اس آیت کے کئے جاتے ہیں کہ اس آیت میں اُس قبر کا ذکر ہے جو عالمِ برزخ میں ہر انسان کو ملتی ہے وہ بھی درست ہیں مگر دشمن کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک ڈھکوسلہ ہے ہمیں تو نظر نہیں آتا کہ اگلے جہان میں ہر مرنے والے کو قبر میں داخل کیا جاتا ہے اس لئے ہم تمہاری اس بے دلیل بات کو کس طرح مان سکتے ہیں اور میرے نزدیک جبکہ یہ ایک دلیل ہے جو گزشتہ دلیل کے جزو کے طور پر بیان ہوئی ہے تو بہرحال اَقْبَرَہٗ کا کوئی حصّہ دنیا میں بھی نظر آنا چاہئیے۔ جو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ ہم اس کے معنے یہ کریں کہ جَعَلَہٗ مِمَّنْ یُّقْبَرُ یعنی انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھ دیا ہے کہ وہ اپنے مردے کو قبر میں داخل کرے۔ اگر بعض لوگ اپنے مُردوں کو جلاتے ہیں تو درحقیقت وہ بھی اسی لئے جلاتے ہیں کہ وہ پسند نہیں کرتے کہ اُن کے مُردے سڑتے گلتے رہیں اسی لئے وہ ان کو جلا کر راکھ کر دیتے ہیں۔ جو لوگ اپنے مُردے جانوروں کو کھلا دیتے ہیں وہ بھی اسی لئے کہ اُن کے نزدیک مردہ کا احترام یہ تقاضا کرتا ہے کہ ایسا کیا جائے۔ گویا مُردوں کی عزت اور اُن کا احترام کرنا انسانی فطرت میں داخل ہے اور یہی معنے فَاَقْبَرَہٗ کے ہیں کہ کوئی انسان اپنے مُردے کی ہتک برداشت نہیں کر سکتا باوجود اس کے کہ وہ ایک بے جان لاشہ ہوتا ہے فطرتِ انسانی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتی کہ اُسے یونہی پھینک دیا جائے بلکہ ہر انسان خواہ وُہ کسی مذہب و ملّت سے تعلق رکھتا ہو اُس کا مناسب اعزاز کرے گا اور اپنے اپنے رنگ میں جو سلوک مناسب ہو گا اُس سے کرے گا۔ اور یہ وہی وہ بات ہے جس میں انسان دوسرے جانداروں سے ممتاز ہے ورنہ اگر کھانے کو لو۔ تو انسان بھی کھاتا ہے اور جانور بھی کھاتا ہے۔ سونے کو لو تو انسان بھی سوتا ہے اور جانور بھی مرتا ہے۔ آگے یہ فرق ہو جاتا ہے کہ جانوروں میں یہ مادہ نہیں کہ وہ دوسرے جانوروں کی لاشوں کو دفنائیں لیکن کوئی انسان اپنے مردوں کو ایسی طرز پر نہیں رکھتا جس سے ان کے اعزاز میں فرق آئے۔ یہ مردے کا اعزاز اور اُس کا احترام جو انسانی فطرت میں داخل ہے بتاتا ہے کہ انسانی زندگی موت پر ختم نہیں ہو جاتی۔ اگر انسان کی زندگی اُس کی موت پر ختم ہے تو پھر اُس کے جسم کا احترام کون سا رہا یا اُس کے اعزاز کی ضرورت ہی کیا ہے اس صورت میں بیشک اُسے میدان میں پھینک دیا جائے کوئی حرج نہیں ہو گا۔ لیکن فطرتِ انسانی میں اس مادہ کا ہونا کہ مُردے کی عزت کی جائے اور اس کی عظمت میں کوئی فرق نہ آئے اس بات کی دلیل ہے کہ زندگی موت کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتی۔ فرماتا ہے ہم تمہارے سامنے اس فطری دلیل کو پیش کرتے ہیں۔ تم اپنے مردہ کی لاش کو تحقیر کے ساتھ پھینکتے نہیں بلکہ اس کا مناسب احترام کرنا ضروری سمجھتے ہو۔ اگر اس آئندہ زندگی کا کوئی امکان نہیں تو تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ مردے کا مناسب احترام کیا جائے۔ خواہ تم اپنے مُردوں کو بجلی سے جلا دو خواہ لکڑیوں کے اغبار میں رکھ کر آگ لگا دو۔ خواہ خاص مقام پر رکھ کر سدھائی ہوئی چیلوں اور گِدھوں کو کھلا دو۔ بہرحال تم اپنے مُردوں سے وہ معاملہ نہیں کرتے جو جانور کرتے ہیں ایک کُتّا مر جاتا ہے تو دوسرے کُتوں کو خیال بھی نہیں آتا کہ اس کے ساتھ کوئی خاص سلوک کریں وہ اُسی طرح پڑا رہتا ہے یہاں تک کہ گل سڑ جاتا ہے۔ اسی طرح اگر انسانی زندگی اُس کی موت پر ختم تھی تو پھر چاہئیے تھا کہ لوگ اپنے مردوں کو یونہی پھینک دیتے مگر وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے رنگ میں اس کا مناسب اعزاز کرتے ہیں پس فرماتا ہے ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ ہم انسان کوموت دیتے ہیں۔ اور پھر اُس کے رشتہ داروں کے دلوں میں ایسی حس پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ اس کی لاش کو یوں ہی نہیں پھینک دیتے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں اگر ہم نے ایسا کیا تو مردہ کی عزت اور احترام میں فرق آئے گا۔ یہ دلیلِ فطرت پیش کر کے اللہ تعالیٰ بتاتا ہے کہ جب مرنے کے بعد بھی تم عزت کے قائل ہو اور لاش کی عزت کرنا اپنے لئے ضروری سمجھتے ہو تو اس سے معلوم ہؤا کہ مرنے کے بعد کی زندگی کا تمہارے دلوں میں بھی احساس موجود ہے گویا یہ احساس ادنیٰ ہے مگر بہرحال یہ ادنیٰ احساس تمہاری روح کو اس اہم امر کی طرف متوجہ کرنے کے لئے کافی ہے کہ آخر وجہ کیا ہے کہ تمہارے دلوں میں مردہ کے احترام کا جزبہ پایا جاتا ہے۔ تمہارے دلوں میں اس جزبہ کا نمایاں طور پر پایا جانا اور دنیا میں کسی انسان کا بھی اپنے مردہ کی لاش کی ہتک گوارا نہ کر سکنا اس بات کا ثبوت ہے کہ زندگی موت کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتی بلکہ کوئی اور حیات ہے جس کا اس موت سے آغاز ہوتا ہے اور انسان نہیں چاہتا کہ اس زندگی کے کوچہ میں داخل کرتے وقت محض اس خیال سے کہ یہ جسم تو مُردہ ہو چکا ہے اس کی عزت میں کوئی فرق آنے دے۔
ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ
پھر جب چاہے گا اُسے دوبارہ اٹھا کھڑا کرے گا ۱۱؎(ایسا) ہر گز نہیں (جو تم سمجھتے ہو) (دیکھتے نہیں کہ) ابھی تک جو اسے حکم ملا تھا اُس نے اُسے پورا نہیں کیا ۱۲؎
۱۱؎ حل لغات
اَنْشَرَاللّٰہُ الْمَیِّتَ کے معنے ہوتے ہیں اَحْیَاہَ۔ اللہ تعالیٰ نے مردہ کو زندہ کیا (اقرب) پس اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ کے معنے ہوں گے جب وہ چاہے گا اُسے زندہ کرے گا۔
تفسیر
فرماتا ہے کہ تم کو ان ساری باتوں سے نتیجہ نکال لینا چاہئیے کہ جب خدا چاہے گا تم کو دوبارہ زندہ کر دے گا۔ ورنہ یہ تمام سلسلۂ پیدائش ہی لغو اور بے معنی قرار دینا پڑتا ہے آخر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اتنا بڑا کارخانہ جاری کرے اور پھر اس کے اندر کوئی غرض اور حکمت کام نہ کر رہی ہو۔ وہ انسان کو پیدا کرتا ہے ایک ایسی چیز سے جو نہایت ہی ذلیل ہے پھر ادنیٰ حالت سے ترقی دیتے دیتے اُسے اعلیٰ درجہ کے مقامات تک پہنچا دیتا ہے۔ اُس کے اندر ایسی قوتیں رکھتا ہے جو غیر محدود ہیں اور جوں جوں ترقی کے سامان ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں اُس کے مقابلہ میں اُس کی اندرونی قوتیں بھی رُونما ہونی شروع ہو جاتی ہیں پھر نہ صرف انسان کے اندر اس نے مختلف قسم کی قوتیں پیدا کی بلکہ عادت کے ذریعہ وہ اُس کے کاموں میں بشاشت پیدا کر دیتا ہے اور جب اسی طرح ترقی کرتے کرتے انسان اپنے کمال کو ہؤپہنچ جاتا ہے تو تم یہ خیال کرتے ہو کہ اس کے بعد روح کو فنا کر دیا جاتا ہے حالانکہ اتنے بڑے کام کے بعد انعام ملنے کا حق ہوتا ہے نہ یہ کہ انعام تو کوئی نہ دیا جائے اور روح کو ابدی طور پر فنا کر دیا جائے۔ پھر جب انسان مر جاتا ہے تو تمہاری فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ پیدا کیا ہؤا ہوتا ہے کہ تم اپنے مردہ کی عزت کرو چنانچہ تم اپنے اپنے طریق کے مطابق احترام کے ساتھ اُسے اپنے گھر سے جُدا کرتے ہو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد بھی تم کسی عزت کے قائل ہو اور تمہارا یہ فعل اس بات پر گواہ ہے کہ زندگی موت پر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ ثُمَّ اِذَا شَآئَ اَنْشَرَہٗ ایک اور حیات انسان کا انتظار کر رہی ہوتی ہے۔ اور وہ جب چاہے گا انسان کو زندہ کر دے گا۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ تم اور تو ساری باتیں مانتے چلے آتے ہو مگر یہاں آکر انکار کر دیتے ہو۔ گویا تسلیم کرتے ہو کہ انسان کی پیدائش بغیر کسی حکمت کے نہیں ہوئی۔ اس کا ادنیٰ حالت سے ترقی کر کے اعلیٰ درجہ تک کی حالت تک پہنچنا۔ اس کے اندر ترقی کی وسیع قابلیتوں کا رکھا جانا۔ اس کے سامنے ترقیات کا ایک وسیع میدان ہونا اور پھر اُن ترقیات کے مطابق انسانی قوتوں کا اُبھر آنا اور پھر عادت کے ذریعہ اس کے اندر بشاشت کا پیدا ہونا اور پھر جب وہ مر جائے تو تمہارا اپنے مردہ کی لاش کا احترام کرنا یہ سب امور اس بات کی ایک کھلی دلیل ہیں کہ مرنے کے بعد بھی کوئی زندگی ہے۔ مگر تمہاری عجیب حالت ہے کہ تم اور تو سب باتوں کو مانتے چلے آتے ہو مگر ان باتوں کو جو طبعی نتیجہ ہے اُس کو تسلیم کرنے سے نشوز کرتے ہو۔
۱۲؎ تفسیر
فرماتا ہے کَلَّا ہر گز نہیں لَمَّا یَقْضِ مَآاَمَرَہٗ اُس نے اب تک وہ کام نہیں کیا جس کا اُسے حکم دیا گیا تھا۔ لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ میں اسی طرف اشارہ ہے جس طرف مَایُدْرِیْکَ لَعَلَہٗ یَزَّکّٰٓی میں اشارہ کیا گیا تھا اور جس کا قُتِلَ الْاِنْسَانُ مَآ اَکْفَرَہٗ میں بھی ذکر تھا۔ کہ انسان کے لئے موقعہ تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے قرب میں بڑھے اور اپنی عاقبت کو سنوار لے مگر اب تک اس نے اپنے اس فرض ادا نہیں کیا۔ اُس کے لئے روحانی ترقیات حاصل کرنے کا بہت بڑا موقع تھا اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے قرب کا میدان کُھلا تھا مگر افسوس کہ اس نے اپنے اس فرض کو کماحقہٗ اب تک سرانجام نہیں دیا۔ یہی وہ چیز ہے جس پر آجکل بار بار زور دے رہا ہوں اور جماعت کو توجہ دلا رہا ہوں کہ وہ آئندہ نسلوں تک اِس امانتِ روحانی کو پہنچانے کے لئے اس قدر تن دہی اور اس قدر جانکاہی سے کام لے کہ شیطان ہمیشہ کے لئے مایوس ہو جائے اور کفر کے غلبہ کا دنیا میں کوئی امکان نہ رہے۔ آج تک کسی اُمت نے اپنی نسل کو شیطانی حملوں سے محفوظ رکھنے پر زور نہیں دیا اگر ہماری جماعت اس فرض کو سرانجام دے لے تو یقینا یہ ایک بے مثال کام ہو گا اور اس کی نظیر اَور کسی اُمّت میں نہیں مل سکے گی۔ اللہ تعالیٰ اسی نکتہ کی طرف توجہ دلاتا ہے اور افسوس کے ساتھ فرماتا ہے کہ لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ ہم نے انسان کو جو حکم دیا تھا اس کو اب تک اُس نے ادا نہیں کیا۔ فرداً فرداً لوگوں نے اپنی اصلاح کی بہت کوششیں کی ہیں مگر قوم کی قوم کو اُبھار کر ترقی کے میدان میں اس طرح بڑھاتے چلے جانا کہ پھر اس کے گرنے کا کوئی امکان نہ رہے اور شیطان اُس کو ورغلانے سے مایوس ہو جائے یہ کام اَیسا ہے جس کی طرف ابھی تک توجہ نہیں کی گئی رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت پر چونکہ مُختلف دَور آتے ہیں اس لئے ممکن ہے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دَوروں میں سے کوئی دَور ایسا بھی آجائے جس میں اس غرض کی ادائیگی ہو سکے جس کا کَلَّا لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ میں ذکر کیا گیا ہے۔ اب تک الگ الگ کوششیں کر کے اُن کے نتائج کو دیکھا جا چکا ہے صحابہؓ نے تیس سال کوشش کی مگر پھر اُن کی نسلوں میں کمزوری پیدا ہو گئی اور نیکی کا تسلسل جاتا رہا۔ اب ہمارے لئے موقع ہے کہ ہم اس کام کو سرانجام دینے کے کوشش کریں تاکہ قومی طور پر اسلام دنیا میں اس طرح قائم ہو جائے کہ پھر اس کے گرنے کا امکان ہی نہ رہے۔ یہ کام ایسا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہؤا۔ انفرادی رنگ میں بے شک بہت کوششیں ہوئیں مگر قومی طور پر اسلام کی برتری کی ایسی کوشش نہیں کی گئی کہ نیکی کا تسلسل قائم رہتا اور اسلام کے گرنے کا کبھی خطرہ پیدا نہ ہوتا۔ پس کَلَّا لَمَّا یَقْضِ مَآ اَمَرَہٗ میں اسی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب تک انسان نے وہ بات نہیں کی جس کا ہم نے اسے حکم دیا تھا۔
اس کے ایک اور معنے بھی ہو سکتے ہیں اور وہ یہ کہ انسانی قوتیں جس مقامِ عظیم کو حاصل کر سکتی ہیں اب تک انسان نے اُس مقام کو حاصل نہیں کیا پس تم کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ ابھی موعود کا ادیان آنا باقی ہے جس سے انسانی ترقی کا آخری مقام وابستہ ہے او ر بجائے اس کے کہ نبی کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیغام کو حقارت سے دیکھا جائے اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ کرنی چاہئیے۔
مَّتَاعًا لَّکُمْ
( یہ سب) تمہارے اور تمہارے جانوروں کے فائدہ کے لئے (کیا گیا ہے) ۱۳؎
۱۳؎ تفسیر
چاہئیے کہ انسان اپنے کھانے کی طرف دیکھے اور غور کرے کہ ہم اس کی جسمانی پرورش کے لئے کیا کچھ کرتے ہیں۔ ہم نے اس کے لئے آسمان سے پانی برسایا پھر ہم نے زمین کو اس کی خاطر پھاڑا۔ ہم نے اُس میں سے دانے نکالے اور انگور پیدا کئے اور قضب پیدا کیا۔ لُغت میں لکھا ہے کہ اَلْقَضْبُ کُلُّ شَجَرَۃٍ طَالَتْ وَسَبَطَتْ اَغْصَانُھَا وَالْقَتُّ۔ وَالْقَتُّ: اَلْفِصْفَصَۃُ الْیَابِسُ وَالْفِصْفِصَۃُنَبَاتٌ تَعْلُفُہُ الدَّوَاتُ وَھِیَ تُسَمَّی بِذَالِکَ مَادَامَتْ رَطْبَۃً فَاِذَاجَفَّتْ زَالَ عَنْھَا اِسْمُ الْفِصْفِصَۃِ وَسُمِّیَتْ بِالْفَتِّ حَبُّھَا نَحْوُ الْکَرْسَنَّۃِ لَکِنْ فِیْہِ طَوْلٌ (اقرب)قضبؔ کہتے ہیں ہر ایسے درخت کو جو اونچا بھی ہو اور اس کی شاخیں بھی اردگرد پھیلی ہوئی ہوں۔ جانور اس کو شوق سے کھاتے ہیں خصوصًا اونٹ ایسے درخت کی طرف بہت رغبت سے جاتا ہے۔ اسی طرح قتؔ کو بھی قضب کہتے ہیں اور قَتّ نِصْفِصَۃ کو کہتے ہیں یہ ایک روئیدگی ہے جس کو جانور کھاتے ہیں جب تک تازہ رہے فِصْفِصَۃ کہتے ہیں اور جب سُوکھ جائے تو اس کو قَتّ کہتے ہیں۔ اس کا دانہ کرسنّہ کی طرح کا ہوتا ہے مگر اس سے کسی قدر لمبا ہوتا ہے (کرسنّہ گندنے کو کہتے ہیں جسے پنجابی میں بھوکاٹ کہا جاتا ہے) پھر فرماتا ہے ہم نے زیتون نکالا اور کھجوریں پیدا کیں اور باغات پیدا کئے منڈیروں والے۔ ایسے باغات غُلْبًا جو بڑے گھنے ہیں۔ غُلب اُس چیز کو کہتے ہیں جو مُلْتَفٌّ یعنی لپٹی ہوئی ہو۔ پس حَدَائِقَ غُلْبًا کے معنے یہ ہوئے کہ ہم نے ایسے باغات پیدا کئے ہیں جن کی شاخیں ایک دوسرے سے لپٹی ہوئی ہیں یعنی بڑے گھنے ہیں۔ اسی طرح ہم نے میوے پیدا کئے ہیں اور پھر چارہ بھی پیدا کیا ہے۔ اَبٌّ اُن تمام چیزوں کو کہتے ہیں جن کو انسان نہیں کھاتا اور نہ اُن کو بوتا ہے۔ قدرتًا زمین میں سے اُگ آتی ہیں اور جانور اُن کو کھاتے ہیں چنانچہ لکھا ہے اَلْاَبُّ کُلُّب مَا یُنْبِتَ الْاَرْضُ مِمَّا لَا یَاْکُلُہٗ النَّاسُ وَلَا یَزْرَعُوْنَہٗ (فتح البیان)
مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْ۔ ان تمام چیزوں کو ہم نے تمہارے اَنْعام کے لئے بھی۔ قرآن کریم کے بعض مقامات ایسے ہیں جو لفظی رنگ میں ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اسی قسم کی مشابہت اس جگہ بھی پائی جاتی ہے چنانچہ یہی مضمون سورۂ نازعات میں بھی تھا مگر اور رنگ میں۔ وہاں فرمایا تھا ئَ اَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَآئُ بَنٰھَاo رَفَعَ سَمْکَھَا فَسَوّٰھَاo وَاَغْطَشَ لَیْلَھَا وَاَخْرَجَ ضُحٰھَاo وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذَالِکَ دَحٰھَاo اَخْرَجَ مِنْھَا مَآئَ ھَا وَمَرْعٰھَاo وَالْجِبَالَ اَرْسٰھَاo مَتَاعًا لَّکُمْ وَلْاِنْعَامِکُمْ اس سورۃ میں بھی اسی طرح کی چیزیں گنائی ہیں کہ فَلْیَنْظُرِ الْاِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖٓo اَنَّا صَبَبْنَا الْمَآئَ صَبًاo ثُمَّ شَقَقْنَا الْاَرْضَo فَاَنْ م بَتْنَا فِیْھَا حَبًّاo وَّعِنَبًا وَّقَضْبًاo وَّزَیْتُوْنًا وَّ نَخْلًاo وَّحَدَائِقَ غُلْبًاo وَّاَبًّاo مَّتَاعًا لَّکُمْ وَالْاِنَعَامِکُمْ فرق صر ف یہ ہے کہ سورۂ نازعات میں زیادہ تر آسمانی چیزوں کو پیش کیا گیا تھا۔ گو زمینی چیزوں کا بھی اس میں ذکر تھا مگر اصل مقصد نظام سماوی کو پیش کرنا تھا لیکن اس جگہ نظام ارضی کو خصوصیت سے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ گویا پچھلی سورۃ میں اُس وسیع نظام کی طرف اشارہ کیا گیا تھا جو آسمان اور زمین دونوں پر حاوی ہے مگر اس سورۃ میں اُس مخصوص نظام کی طرف اشارہ ہے جو زمین کی روئیدگی پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے۔ وہاں خدا تعالیٰ نے اس طرف اشارہ کیا تھا کہ جس طرح زمین پر آسمان کا وجود ضروری ہے اور بغیر آسمانی نظام کے زمینی نظام قائم نہیں ہو سکتا اسی طرح تمہارے لئے بھی ایک روحانی بلندی کی ضرورت ہے۔ اگر تم یہ خیال کرو کہ اس رُوحانی بلندی کے بغیر تم نظام ارضی کو قائم کر سکو گے تو یہ تمہاری غلطی ہو گی جس طرح آسمان کے بغیر زمین کا وجود عبث ہے اسی طرح روحانی نظام کے بغیر جسمانی نظام عبث اور بیکار ہوتا ہے یہاں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسانی فطرتوں میں سے بعض ایسی ہیں جو قرآن کریم سے مناسبت رکھتی ہیں اور بعض ایسی ہیں جو قرآن کریم سے کوئی مناسبت نہیں رکھتیں۔ وہ فطرتیں جو قرآن کریم سے مناسبت رکھتی ہیں وہ آپ ہی آپ اس طرف آجائیں گی اور جو اس سے مناسبت نہیں رکھتیں وہ اس طرف توجہ بھی نہیں کریں گی۔ پس سورۂ نازعات میں اور مضمون تھا اور اس سورۃ میں اور مضمون ہے۔ وہاں آسمان کا ذکر کلام الٰہی کے نزول کی ضرورت پر روشنی ڈالنے کے لئے پیش کیا گیا تھا اَور یہاں یہ بتایا ہے کہ بعض طبائع جو اس تعلیم سے مناسبت رکھتی ہیں وہ دوڑتی ہوئی اس طرف آجائیں گی اور جن کے قلب میں اس سے کوئی مناسبت نہیں ہو گی وہ اس سے دُور رہیں گے جیسے زمین کو دیکھ لو کہ اس میں سے دانے بھی اُگتے ہیں۔ انگور بھی پیدا ہوتے ہیں۔ درخت بھی پیدا ہوتے ہیں۔ زیتون بھی پیدا ہوتا ہے۔ کھجور یں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ باغات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ میوے بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اور چارہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ ان میں سے کوئی چیز ایسی ہے جسے انسان مُنہ مارتا ہے اور کوئی چیز ایسی ہے جسے جانور مُنہ مارتا ہے۔ یہی انسانی طبائع کا حال ہے۔ جو قرآن کریم کے مناسب حال ہیں وہ اس طرف آجائیں گے اور جو کفر کے مناسب حال ہیں وہ اُس طرف چلی جائیں گی۔ گویا فطرتیں خود بخود بول اٹھیں گی اُن کے مناسب حال کون سی چیز ہے۔ جیسے انگور ہوں تو اُن کی طرف انسان جائے گا اونٹ نہیں جائے گا لیکن اگر کیکر کا درخت ہو تو اس کی طرف اونٹ جائے گا انسان نہیں جائے گا۔ تو فرماتا ہے انسان نے بیشک ابھی تک قرآن پر عمل نہیں کیا مگر وہ مجبور ہے جس دن قرآن کریم کی روئیدگیاں ظاہر ہوئیں اور اس کا حُسن دنیا میں چمکا تم دیکھ لو گے کہ مناسب حال فطرتیں اس کی طرف دوڑتی ہوئی آئیں گی۔ اب تو یہ لوگ تمہیں تھوڑے سے نظر آتے ہیں مگر پھر وہ گروہ در گروہ اور جوق در جوق لوگ اس مذہب میں داخل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ چنانچہ مثال دیتے ہوئے فرماتا ہے۔ تم دنیا میں دیکھ لو۔ کچھ دانےؔ۔ انگورؔ۔ زیتونؔ۔ کھجورؔ۔ باغاتؔ۔ اور میوےؔ ہوتے ہیں اور کچھ جھاڑیاں اورچارہ وغیرہ ہوتا ہے۔ تم اُن چیزوں کی طرف چلے جاتے ہو جو تمہارے مناسب حال ہیں اور جانور اُن چیزوں کی طرف چلے جاتے ہیں جو اُن کے مناسب حال ہیں۔ اسی طرح جو نیک فطرتیں ہیں وہ قرآن کریم کی طرف آجائیں گی اور جو بد فطرتیں ہیں وہ کفر کی طرف چلی جائیں گی۔
یہ عجیب بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن چیزوں کا تو زیادہ تر ذکر کیا ہے جو انسانوں کے کھانے کے کام آتی ہیں چنانچہ چھ جگہ انسانوں کے کام آنے والی چیزوں کا ذکر کیا اور دو جگہ جانوروں کے کام آنے والی چیزوں کا۔ اس میں اِس طرف اشارہ ہے کہ قرآن زیادہ آدمی کھینچ لے گا اور کفر اپنی طرف کم آدمی کھینچے گا۔ چنانچہ جانور کے لئے تو صرف قُضِبٌ اور اَبٌ کا ذکر کیا مگر انسان کے لئے حَبًّا وَعِنَبًا وَّزَیْتُوْنًا وَّنَخْلًا وَّحَدَآئِقَ غُلْبًا وَّ فَاکِھَۃً اتنی چیزوں کا ذکر کر دیا یہ بتانے کے لئے کہ قرآن کی طرف لوگوں کا رجوع زیادہ ہو گا اور کفر کی طرف کم۔ پس فرماتا ہے یہ سوال ہی غلط ہے کہ اسلام کا غلبہ کس طرح ہو گا۔ فطرتیں اپنی مناسب حال ہیں اور وہ اس کیطرف آجائیںگی۔ جیسے حبؔ اور عنبؔ اور زیتونؔ اور نخلؔ اور حدائقؔ اور فاکھتہ کی طرف انسان جاتے ہیں اور جو فطرتیں کفر کے مناسب حال ہیں وہ اُس کی طرف چلی جائیںگی جیسے جانور قضب اور اَبّ کی طرف جاتے ہیں۔ انگوروں اور کھجوروں کی طرف نہیں جاتے۔
فَاِذَا جَآئَ تِ لصَّآخَّۃُo
پھر (یہ بھی تو سوچو کہ) جب اکھاڑنے والی (مصیبت) آئے گی جس دن کہ انسان اپنے بھائی سے (دُور) بھاگے گا اور (اسی طرح) اپنی ماں اور اپنے باپ سے اور اپنی بیوی اور بیٹوں سے (بھی) اس دن ہر ایک آدمی کی حالت ایسی ہو گی کہ وہ اُسے اپنی (ہی) طرف اُلجھائے رکھے گی ۱۴؎
۱۴؎ حل لغات
اَلصَّآخَۃُ: صخَّ سے اسم فاعل کا مؤنث صیغہ ہے۔ اور صَخَّ الصَّوْتُ الْاُذُنَ کے معنے ہوتے ہیں اَصمَّھَا۔ اتنے زور کی آواز آئی کہ اُس نے کان پھاڑ دیا اور اُسے بہرہ کر دیا (اقرب) اَلصَّآخَۃُ کے معنے ہیں صَیْحَۃُ تُصِمُّ لِشَدَّتِھَا۔ ایسے زور کی آواز جو کانوں کو بہرہ کر دے نیز اس کے معنے ہیں اَلدَّوھِیَۃُ سخت مصیبت (اقرب)
تفسیر
فرماتا ہے جب وہ کان پھاڑنے والی آواز آجائے گی یَوْمَ یَفِرُّالْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ جس دن کہ آدمی اپنے بھائی سے بھاگے گا وَاُمِّہٖ اور اپنی ماں سے بھاگے گا وَاَبِیْہِ اور اپنے باپ سے بھاگے گا وَصَاحِبَتِہٖا ور اپنی بیوی سے بھاگے گا وَبَنِیْہِ اور اپنے بیٹوں سے بھاگے گا۔ لِکُلِّ امْرِیئٍ مِّنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۔ اُس دن انسان کے حالات ایسے ہوں گے کہ وہ گردوپیش کی طرف دیکھ نہ سکے گا اور دوسری طرف وہ توجہ ہی نہ کرے گا۔ قیامت کے دن تو لوگوں کی ایسی حالت ہو گی ہی۔ صحابہؓ کے حالات پر غور کر کے دیکھو جس وقت قرآن کا نزول ہؤا کس طرح دنیا نے اپنی آنکھوں سے نظّارہ کا مشاہدہ کیا کہ باپ نے بیٹے کو چھوڑ دیا بیٹے نے باپ کو چھوڑ دیا۔ ماں بیٹی سے الگ ہو گئی اور بیٹی ماں سے الگ ہو گئی۔ بھائی بھائی سے جدا ہو گیا اور دوست دوست سے علیحدہ ہو گیا ۔ یَوْمَ یُفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ وَاَبِیْہِ وَصَاحِبَتِہٖ وَبَنِیْہِ بھائی بھائی کو چھوڑ کر محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس آگیا۔ خاوند اپنی بیوی کو چھوڑ کر اور بیوی اپنے خاوند کو چھوڑ کر۔ باپ اپنے بیٹے سے الگ ہو کر اور بیٹا اپنے باپ سے الگ ہو کر۔ ماں اپنی بیٹی کو چھوڑ کر اور بیٹی اپنی ماں سے علیحدہ ہو ک۔ دوست اپنے دوست کو چھوڑ کر اور رشتہ دار اپنے رشتہ دار سے علیحدہ ہو کر محمد رسول اللہ کے حلقۂ اطاعت میں آگئے اور انہوں نے کسی دنیوی محبت کی خدا اور اس کے رسول کی رضاء کے مقابلہ میں پرواہ نہ کی۔ لِکُلِّ امْرِیئٍ مِّنْھُمْ یَوْمَئِذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْہِ۔ اور پھر وہ اسلام اور قرآن کی محبت میں ایسے محو ہو گئے کہ وہ دُنیا اور اس کی دلچسپیوں کو بالکل بھول ہی گئے۔ تاریخ اسلام کے صفحات پر صحابہؓ کرام کی اس قربانی کتنی ہی واضح مثالیں موجود ہیں مگر میں اس جگہ صرف دو مثالیں بیان کر دیتا ہوں جن کا میں پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کر چکا ہوں۔ ایک نوجوان جو اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا وہ مسلمان ہو گیا۔ اُس کے ماں باپ نے اُسے کئی قسم کی تکلیفیں دینی شروع کیں یہاں تک کہ اس کے برتن الگ کر دئے مگر وہ اسلام کو ترک کرنے پر آمادہ نہ ہؤا آخر کچھ عرصہ کے بعد وہ مکّہ سے ہجرت کر کے چلا گیا۔ کچھ مدت گزرنے کے بعد وہ پھر مکّہ میں واپس آیا جس پر اُس کے ماں باپ اُسے بڑے شوق اور محبت سے ملے۔ انہوں نے سمجھا کہ یہ اسلام سے توبہ کر چکا ہے اور بیٹے نے یہ سمجھا کہ یہ میرے بعد اسلام کی دشمنی کو ترک کر چکے ہیں اور اس لئے مجھ سے محبت سے مل رہے ہیں اور اب اپنے افعال پر پچھتاتے ہیں۔ کچھ دیر کے بعد ماں باپ نے کہا بیٹا ہم تو تمہیں پہلے بھی یہی نصیحت کیا کر تے تھے کہ اس صابی کی طرف مت جائو۔ اُن کا اشارہ صابی کے لفظ سے رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات کی طرف تھا۔ گویا اس رنگ میں انہوں نے اپنی خیر خواہی جتانی شروع کر دی کہ ہم تو تمہیں پہلے ہی کہا کرتے تھے کہ اسلام میں داخل ہو کر تم نے بڑی غلطی کی۔ اب اچھا ہؤا جو اسلام کو چھوڑ کر پھر ہم میں شامل ہو گئے ہو۔ اُس نوجوان نے جب یہ بات سُنی تو وہ اُسی وقت کھڑا ہو گیا اور کہا ماں!تم میری ماں ہو اور باپ! تم میرے باپ ہو مگر محمدرسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے زیادہ مجھے اور کوئی پیارا نہیں۔ میں نے یہ سمجھا تھا کہ تمہارے دل میں رحم پیدا ہو چکا ہے اور تم اپنے افعال پر پشیمان ہو لیکن میرا خیال غلط نکلا۔ اگر تمہارا میرے ساتھ ملنا اسی شرط سے وابستہ ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو چھوڑ دُوں تو یہ ناممکن بات ہے۔ محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرے باپ ہیں اور محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میری ماں ہیں۔ یہ کہہ کر وہ وہاں سے اٹھا اور پھر اُس نے مرتے دم تک اپنے ماں باپ کو نہیں دیکھا۔ پھر اس عورت کے واقعہ پر غور کرو جو مدینہ کی رہنے والی تھی جو جنگ اُحد میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی شہادت کی خبر سُن کر دیوانہ وار اپنے گھر سے نکل کھڑی ہوئی تھی اور جب اُسے یکے بعد دیگرے بتایاگیا کہ تیرا باپ اس جنگ میں مارا گیا ہے۔ تیرا خاوند اس جنگ میں مارا گیا ہے تیرا بھائی اس جنگ میں مارا گیا ہے تو اُس نے کہا کہ میں تم سے یہ نہیں پوچھتی کہ میرے باپ اور میرے خاوند اور میرے بھائی کا کیا حال ہے میں تم سے یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلے اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا کیا حال ہے اور جب اس کو بتایا گیا کہ آپ تو خدا تعالیٰ سے بخیریت ہیں تو اُس کے مُنہ سے بے اختیار نکلا کہ آپ خیریت سے ہیں تو پھر کوئی مصیبت ایسی نہیں ہو سکتی جو نا قابل برداشت ہو۔ غرض یَوْمَ یُفِرُّ الْمَرْئُ مِنْ اَخِیْہِ وَاُمِّہِ وَاَبِیْہِ کا نظارہ ہمیں صحابہ کرام میں نظر آتا ہے۔ اس کے بالقابل کفار میں بھی ایسا جوش تھا کہ بھائی بھائی پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتا اور باپ بیٹے کو قتل کرنے کے لئے دوڑتا۔ چنانچہ جب جنگ ہوئی تو اس میں بھائی بھائی کو مارنے کے لئے آگے بڑھتا تھا اور اپنے رشتہ داری تعلقات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتا تھا یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک جنس نہیں ہیں بلکہ وہ الگ الگ جنسیں ہیں۔ مومن ہے تو وہ کہتا تھا میرا کافر سے کوئی واسطہ نہیں میرا وہی دوست ہے جو مومن ہے۔ اور کافر ہے تو وہ کہتا تھا میرا مومن سے کوئی واسطہ نہیں۔ میرا وہی دوست ہے جو کافر ہے۔ یہی وہ صَاخَّۃ کی علامت ہے جو سچے مذہب کی آمد پر ظاہر ہؤا کرتی ہے اور جس کے بعد کسی قسم کی مداہنت یا کسی قسم کی منافقت برداشت نہیں کی جا سکتی۔ کفر اور ایمان میں ایک بیّن اور کُھلا کُھلا امتیاز ہو جاتا ہے۔ لیکن جھوٹے مذہب کے درمیان یہ بات نہیں ہوتی۔ اسی طرح اُس قوم میں بھی یہ امتیازی علامت نہیں رہ سکتی۔ جو جھوٹے مذہب کا حصہ بن جائے جیسے غیر مبائعین ہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعلیم کے خلاف غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے۔ اُن سے رشتہ داری تعلقات قائم کر لیں گے اور اس میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے حالانکہ خدا کی آواز صاخّہ ہوتی ہے اور جب وہ بلند ہوتی ہے تو بھائی کو اپنے بھائی سے اور رشتہ دار کو اپنے رشتہ دار سے جُدا ہونا پڑتا ہے۔
وُجُوْہٌ یَّوْمَئِذٍ مُّسْفِرَۃٌ
کچھ (لوگوں کے) چہرے اُس دن روشن ہوں گے ہنستے ہوئے خوش بخوش ۱۵؎
۱۵؎ حل لغات
مُسْفِرَۃٌ کے معنے ہیں مُضِیْئَۃٌ مُشْرِقَۃٌ۔ روشن اور چمکنے والی۔ چنانچہ اَسْفَرَ الصُّبْحُ کے معنے ہوتے ہیں اَضَائَ وَاَشْرَقَ۔ صبح روشن ہو گئی اور اس کی سفیدی پھیل گئی۔ اور اَسْفَرَ وَجْہُہٗ کے معنے ہوتے ہیں۔ حَسُنَ وَاَشْرَقَ کہ اس کا چہرہ خوبصورت ہو گیا اور روشن ہو گیا (اقرب) پس فرماتا اُس دن کچھ چہرے ایسے ہوں گے جو بڑے خوبصورت ہوں گے۔ بڑے روشن اور چمکدار ہوں گے۔
مُسْتَبْشِرَۃٌ۔ اِسْتَبْشَرَ سے ہے اور اِسْتَبْشَرَ کے معنے خوش ہونے کے بھی ہوتے ہیں۔ (لسان) پس مُسْتَبْشِرَۃٌ کے معنے یہ ہیں کہ وہ بڑے خوش ہوں گے اور انہیں بڑی خوشخبریاں مل رہی ہوں گی۔ کہ ابھی اور فتح آنے والی ہے اور غلبہ ملنے والا ہے اور نصرت نازل ہونے والی ہے۔
تفسیر
فرماتا ہے مومن اور کافر چونکہ دو الگ الگ گروہ ہیں اس لئے ان سے ہمارا سلوک بھی الگ الگ ہو گا جو لوگ ہمارے احکام پر ایمان لائے ہیں ان کو ہم اپنے انعا مات سے حصہ دیں گے اور جنہوں نے انکار کیا ہے ان کو اپنے عذاب سے حصہ دیں گے۔ چنانچہ فرماتا ہے اس دن کچھ چہرے ایسے ہوں گے جو روشن ہوںگے اور خوبصورت ہوں گے ہنس رہے ہوں گے اور خوش ہوں گے اور اللہ تعالیٰ سے بشارتیں حاصل کر رہے ہوں گے۔ جیسا کہ حل لغات میں بتایا گیا ہے مُسْتَبْشِرَۃٌ دو معنے رکھتا ہے خوش ہونے کے اور خوشخبری حاصل کرنے والے کے بھی۔ تو مومنوں کو ہر دو امور حاصل ہوں گے۔